Language: UR
مکرم مربی صاحب نے بہت محنت سے جماعت احمدیہ کے تعارف کے حوالہ سے ضروری معلومات اور اساسی تفصیلات پر مشتمل قریباً ایک ہزار صفحات کی یہ کتاب مرتب کی جس نے جماعت احمدیہ عالمگیر کے بابرکت نظام کا مکمل ڈھانچہ قارئین کے لئے سمجھنا آسان کردیا ہے۔ مختلف ابواب میں تقسیم اس کتاب کے مطالعہ سے انسان گلشن احمدیت کی کیاریوں کی سیر کرتے ہوئے مختلف گلہائے خوش رنگ و بو سے استفادہ کرنے لگتا ہے۔ جماعتی ترقیات کا احاطہ کرنا ایک محال امر ہے ، اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ جماعت کی صد سالہ تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہوئے ان اداروں، نظاموں اور منصوبوں سے قارئین کو متعارف کروادیا جائے جن سے جماعت کا تابناک حال اورروشن مستقبل سمجھنا کسی قدر آسان ہوجائے۔ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن مطبوعہ 1996ء سے لیکر ایڈیشن 2011ء تک ہونے والی ترقیات اور اضافوں کو بھی شامل اشاعت کرکے مرتب نے کتاب کو مختصر انسائیکوپیڈیا کی شکل دے دی ہے۔
(صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے ) جماعت احمدیہ کا تعارف (جدید ایڈیشن)
i انتساب میرے پیارے والد ماجد محترم ملک ولی محمد صاحب ( آف ہجکہ شریف نزد بھیرہ تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا) کے نام جن کو اللہ تعالیٰ نے جوانی میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور جن کی بدولت مجھے پیدائشی احمدی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور جن کی تربیت اور شدید خواہش کے نتیجہ میں اس عاجز کو اپنی زندگی وقف کر کے احمدیت کے ایک ادنی خادم کی حیثیت سے بطور مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ تھوڑی بہت خدمت کی توفیق مل رہی ہے.الحمد للہ علی ذالک میری یہ عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے والد ماجد کو میری زندگی وقف کرنے کا اجر عظیم عطا فرمائے.آپ کے درجات بلند فرمائے ، آپ کو جنت الفردوس کے اعلیٰ مقامات میں جگہ عطا فرمائے اور آپ کی نیک خواہشات کی تکمیل کی مجھے تو فیق عطا فرمائے.اور آخر دم تک احمد بیت کی خدمت کی توفیق عطافرما تار ہے.آمین ثم آمین
:= پیش لفظ مسیح وقت اب دنیا میں آیا خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی کے اُن کو ساقی نے پلا دی فسبحان الذي اخزى الاعادي اللہ تعالیٰ کے احسانوں پرواری واری جائیں جس نے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر یہ حسین کتاب شائع کرنے کی توفیق عطا کی.یہ کتاب ”جماعت احمدیہ کا تعارف“ کے نام سے بشرا سامنے آئی ہے.مربی صاحب نے اس حسین انداز میں جماعت احمد یہ عالمگیر کا پس منظر پیش کیا ہے کہ پڑھ کر دل عش عش کرنے لگتا ہے.موعود اقوام عالم حضرت مسیح موعود ( آپ پر ہمیشہ سلامتی ہو ) کی آمد کی پیش خبریاں، قرآن پاک، احادیث مبارکہ، دیگر مذاہب کی مقدس کتب اور نیز بزرگان امت کے اقوال کے ذریعہ سے بیان کی ہیں.اور چودھویں صدی میں ظہور امام مہدی کے بعد آپ کی صداقت کے لئے روز روشن کی طرح واضح آسمانی اور زمینی نشانات بیان کئے ہیں.قدرت ثانیہ کے دور میں جماعت احمد یہ عالمگیر کے بابرکت نظام کا مکمل ڈھانچہ سامنے رکھ دیا ہے.اس عظیم دور کی عظیم الشان عمارت میں داخل کر کے گلشن احمد کی مکمل سیر کروا دی ہے.گلشن احمد کی ہر کیاری، ہر روش تر و تازہ پھولوں کی خوشبو سے معطر ہے.اللہ تعالی اس گلشن باغ و بہار کے نظام نو کو رہتی دنیا تک قائم ودائم رکھے اور ہمیشہ ہمیش اپنی رحمتوں اور فضلوں کے ٹھنڈے سایوں میں رکھے.آمین ثم آمین
iii
iv افتتاح جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک سو سال سے کچھ زائد عرصہ گزر چکا ہے اور یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی نئی سے نئی منازل طے کر رہی ہے اور ہر آنے والا دن جماعت کو عالمگیر سطح پرنی وسعتیں عطا کر رہا ہے اور قرآنی وعدہ کے موافق جماعت احمدیہ کی زمین چاروں اطراف بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہے اور بعض ممالک میں يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا کے مناظر بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں.ان حالات میں اس بات کی بڑی شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی ایسی کتاب تیار ہو جس میں جماعت کا ابتدائی تعارف تفصیل کے ساتھ یکجائی صورت میں پیش کیا گیا ہوتا کہ نئے آنے والے احباب جماعت اس سے استفادہ کرتے ہوئے جماعت کے ماضی سے بھی واقفیت حاصل کریں اور جماعت کا حال بھی ان کو معلوم ہو اور جماعت کا مستقبل بھی ان پر روشن ہو.اس کتاب میں موصوف نے جماعت احمدیہ کے قیام کے پس منظر سے لے کر جماعت احمدیہ کے مستقبل تک بڑے عمدہ انداز میں اور ضروری تفصیل کے ساتھ جماعت کا تعارف پیش کیا ہے.اور جماعت سے متعلق تمام ضروری تعارفی معلومات جمع کر دی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب جہاں نئے احمدی بھائیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت
V زیادہ مفید ہوگی وہاں پرانے احمدیوں کے علم میں بھی گرانقدر اضافہ کرنے کا موجب ہوگی.خصوصیت سے عزیز نو جوانوں اور طلباء کے لئے بہت مفید ثابت ہوگی.فَجَزَاهُ اللَّهُ تَعَالیٰ اَحْسَنُ الْجَزَاء
vi عرض حال اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی دی ہوئی توفیق سے خاکسار نے ۱۹۹۶ء میں ”“ کے موضوع پر ایک کتاب مرتب کی تھی جسے لجنہ اماءاللہ کراچی نے شائع کیا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس کتاب کو بہت پسند کیا گیا.جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ یہ کتاب جماعت احمدیہ کے تعارف کے پیش نظر جماعت احمدیہ کی مرکزی ویب سائٹ alislam.org پر بھی موجود ہے.یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل تھی اور اس کے ۳۵۰ صفحات تھے.اس کتاب کو مرتب کرتے وقت یہ کوشش کی گئی تھی کہ اس کتاب میں جماعت احمدیہ کے عقائد اور نظام جماعت کے متعلق بنیادی ضروری معلومات فراہم کر دی جائیں نیز ۱۹۹۶ء تک قائم ہونے والے تمام بڑے بڑے اور اہم جماعتی ادارہ جات، شعبہ جات ، ذیلی تنظیموں اور تمام بڑی بڑی اور اہم بابرکت تحریکات کا مختصر مگر جامع طور پر تعارف کروا دیا جائے.اسی طرح جماعت احمدیہ کے آغاز سے لے کر اس کتاب کی اشاعت تک ہر شعبہ میں جماعتی ترقیات کے کوائف اور اعداد و شمار شامل کر دیئے جائیں.تا کہ ایک ہی کتاب میں جماعت احمدیہ کا تمام پہلوؤں سے تعارف حاصل ہو سکے.الحمد للہ کہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والے بیسیوں افراد کی طرف سے جو تبصرے اور تاثرات موصول ہوئے ان سے محسوس ہوا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی.الحمد للہ علی ذالک خاکسار نے جب یہ کتاب جماعت احمدیہ کے ایک جید عالم، پسندیدہ مقر ر محتر راور مورخ احمدیت حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی خدمت میں پیش کی تو حضرت مولانا نے اس وقت اس کتاب کی فہرست مضامین اور پھر کچھ ورق گردانی کرنے کے بعد فرمایا کہ.ما شاء اللہ آپ نے تو یہ جماعت احمدیہ کا ایک چھوٹا سا انسائیکلو پیڈیا تیار کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر عطا فرمائے.آمین اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ کی انعامی سکیم کے تحت خاکسار کا تحریر کردہ ایک انعام یافتہ مقالہ بعنوان: حضرت مسیح موعود کے چیلنج اور مخالفین کا رد عمل ونتائج و اثرات
vii افادہ عام کے لئے شائع کیا گیا تو اس کی ایک کاپی خاکسار نے حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی خدمت میں ارسال کی.جس پر حضرت مولانا کا درج ذیل تبصرہ پر مبنی خط موصول ہوا:.جزاکم اللہ ثم جزاکم اللہ.آپ کی نظر کرم سے آئمکرم کا انعام یافتہ مقالہ حضرت مسیح موعود کے چیلنج زیور طبع سے آراستہ ہونے کے بعد باعث اعزاز اور اضافہ عرفان کا موجب بنا.آپ کی پہلی معرکتہ الآراء کتاب آج ہی مطالعہ کر رہا تھا.دونوں علمی مقابلہ جات پر مبارک صد مبارک 66 اس خط میں خاکسار کی جس پہلی معرکۃ الآراء کتاب کا ذکر کیا ہے وہ یہی کتاب ” ہی تھی.کیونکہ مذکورہ بالا مقالہ کی اشاعت سے پہلے خاکسار کی یہی کتاب تھی جو خاکسار نے حضرت مولانا کی خدمت میں پیش کی تھی.الحمد للہ علی ذلک.میرے ایک معزز اور انتہائی قابل احترام دوست مکرم مبارک احمد طاہر صاحب جن کو تقریباً ۵ ارسال تک افریقہ میں بطور ٹیچر اور بطور مبلغ سلسلہ عالیہ احمد یہ خدمات بجالانے کی توفیق ملی.اور اب سیکرٹری مجلس نصرت جہاں ربوہ کے عہدہ پر فائز ہیں انہوں نے اس کتاب کے مطالعہ کے بعد یہ تجویز دی کہ اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کروا کر بیرون ملک تمام جماعتی تعلیمی اداروں میں شامل نصاب ہونا چاہیئے.“ کی خاکسار کے نزدیک سب سے بڑی اور اہم خوبی یہ تھی کہ اس میں دیئے گئے تمام حوالہ جات ماسوائے چند ایک نایاب پرانے اخبارات و رسائل و کتب کے دیگر تمام حوالہ جات خاکسار نے خود اصل مآخذ سے چیک کئے تھے اور اس سلسلہ میں پنجاب پبلک لائبریری لاہور سے بھی استفادہ کیا گیا.اور دوسری بڑی خوبی اس کتاب کی یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کا بنیادی تعارف حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی کتاب اپنوں اور غیروں کے لئے کافی تھی بالخصوص نو مبائعین اور جماعت احمدیہ کی نئی نسل کے لئے یہ کتاب بہت ہی مفید قرار پائی.فالحمد لله على ذلك اب یہ کتاب ایک عرصہ سے نایاب ہو چکی تھی جبکہ اس کتاب کی ڈیمانڈ بدستور جاری تھی.اس کتاب کے حصول کے لئے مجھے متعدد ٹیلیفون اور پیغامات موصول ہوئے.چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر اس کتاب کا نیاء ایڈیشن شائع کرنے کا پروگرام بنا لیکن نئے ایڈیشن کی اشاعت کے سلسلہ میں یہ فیصلہ ہوا کہ اب نئے ایڈیشن میں ۱۹۹۶ء کے بعد اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ کے نئے قائم ہونے والے تمام ادارہ جات ،شعبہ جات، بابرکت تحریکات کا تعارف نیز جماعت کی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقیات پر مبنی تازہ کوائف اور اعداد و شمار بھی شامل کئے جائیں.
viii پس الحمد للہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی سرانجام دہی کے ساتھ ساتھ اب ۳۱ جولائی ۲۰۱۰ ء تک update کے ساتھ یہ کتاب مکمل کرنے کی توفیق ملی ہے.الحمد لله على ذلك ” کے اس نئے ایڈیشن کی چند خوبیاں حسب ذیل ہیں:.ا.پہلے ایڈیشن میں املاء، نفسِ مضمون یا تاریخی لحاظ سے جو چند غلطیاں اور کمیاں رہ گئی تھیں ان کی اس ایڈیشن میں تصحیح اور تکمیل کر دی گئی ہے.۲.پہلے ایڈیشن میں سہوا ایا کسی بھی وجہ سے جن اہم جماعتی ادارہ جات کا تعارف رہ گیا تھا مثلاً جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ ، مدرسۃ الظفر اور مدرسۃ الحفظ وغیرھا کا تعارف بھی اس کتاب میں شامل کر دیا گیا ہے.۳.۱۹۹۶ء کے بعد قائم ہونے والے تمام جماعتی ادارہ جات، شعبہ جات اور بابرکت تحریکات کا تعارف بھی اس کتاب میں شامل کر دیا گیا ہے.۴.جماعت احمدیہ کے آغاز سے ۳۱ جولائی ۲۰۱۰ ء تک تمام شعبہ جات میں جماعتی ترقیات سے متعلق تازہ کوائف اور اعداد و شمار درج کئے گئے ہیں.-۵.اس ایڈیشن میں درج ذیل مزید ابواب کا اضافہ بھی کیا گیا ہے.ا.خدمت خلق کے جماعتی ادارہ جات اور احمد یہ ایسوسی ایشنز.ii.اہم جماعتی کتب و مرکزی اخبارات و رسائل کا تعارف.iii.جماعت احمدیہ کی اہم شخصیات کا تعارف.۶.جن جماعتی شعبہ جات، ادارہ جات اور بابرکت تحریکات کے متعلق جماعتی نگرانی میں شائع شدہ مستند مواد یا اعداد و شمار جماعتی اخبارات و رسائل مستند کتب میگزین، پمفلٹس ، ہینڈ بلز اور فولڈ رز وغیرہ سے مل گیا ہے ان کے علاوہ دیگر تمام شعبہ جات کے نگران، افسران صیغہ جات یا متعلقہ کارکنان سے خود مل کر معلومات حاصل کر کے اور ان کی تصدیق کرنے کے بعد اس کتاب میں شامل کی گئی ہیں.ے.بعض اہم ادارہ جات کے متعلق تیارہ شدہ مواد متعلقہ ادارہ کے سر براہ کو چیک کروانے اور ان کی منظوری و تصدیق کے بعد شامل کتاب کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مذکورہ بالا خصوصیات کے پیش نظر جماعت احمدیہ کے تعارف کا یہ نیاء ایڈیشن بقول حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت اب واقعی’ جماعت احمدیہ کامختصر انسائیکلو پیڈیا کہلانے کا مستحق بن چکا ہے.جس میں جماعت احمدیہ کے مخصوص
ix عقائد اور نظام جماعت اور جماعتی ڈھانچہ سے متعلق تقریباً تمام بنیادی معلومات یکجائی طور پر فراہم کر دی گئی ہیں.اس صورت حال پر جتنا بھی خدا تعالیٰ کا شکر بجالاؤں کم ہے.آخر پر خاکسارا اپنے ان تمام کرم فرما، بزرگوں، علماء کرام، سربراہان اداره جات و افسران صیغہ جات اور کارکنان کا نہ دل سے ممنون اور شکر گزار ہے.جن کی راہنمائی اور تعاون سے یہ کتاب اپنی تکمیل کو پہنچی ہے.اسی طرح خاکسار بطور خاص ان تمام مصنفین سلسلہ اور مضمون نگاروں کا بھی شکر گزار ہے جن کی کتب اور مضامین سے خاکسار نے اس سلسلہ میں کسی بھی طور پر کوئی استفادہ کیا ہے.ایسی کتب و اخبارات ورسائل کے حوالے اس کتاب میں ساتھ ساتھ دے دیئے گئے ہیں.اس کتاب کے مرتب کرنے میں چونکہ سینکڑوں کتب اور اخبارات ورسائل سے استفادہ کیا گیا ہے لہذا فردا فردا شکر یہ ادا کرنا مشکل ہے.یہاں پر خاکسار اس امر کی وضاحت کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ قبل ازیں خاکسار کی جتنی بھی چھوٹی بڑی کتب شائع ہو چکی ہیں ان سے خاکسار نے قطعاً کوئی مالی منفعت حاصل نہیں کی اور نہ ہی اس کتاب یا آئندہ کسی کتاب یا مضمون سے کوئی مالی منفعت حاصل کرنے کا ارادہ ہے.میری کتب کے نفع یا نقصان کا تمام تر تعلق ناشر کے ساتھ ہوتا ہے.البتہ میری یہ ضرور کوشش ہوتی ہے کہ اپنی کتاب کسی ایسے ناشر کے ذریعہ شائع کرواؤں جو مالی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر محض جماعت کی ایک علمی خدمت سمجھتے ہوئے میری کتب شائع کروائے.الحمد للہ کہ اب تک اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی ہے.خاکسار کا ان کتب و مضامین سے لکھنے کا مقصد محض اپنے علمی ذوق کی تسکین اور جماعت کی علمی طور پر خدمت کرنا ہے.إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ - آخر پر اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ جہاں یہ کتاب احمدی احباب بالخصوص نوجوان نسل اور نو مبائعین کے لئے جماعتی معلومات اور تعارف کے لحاظ سے مفید ثابت ہو وہاں دوسروں کی ہدایت اور راہنمائی کا ذریعہ بھی ثابت ہو.(اللهم آمین) خاکسار
X مندرحات باب اول جماعت احمدیہ کے قیام کا پس منظر.باب دوم مختصر سوانح مہدی دوراں.باب سوم جماعت احمدیہ کا قیام.باب چهارم جماعت احمدیہ کے عقائد.باب پنجم جماعت احمدیہ کا نظام خلافت.باب ششم صد را منجمن احمدیہ.دیگر اہم ادارہ جات.باب نهم با برکت تحریکات.باب دہم جماعتی خدمت خلق کے ادارے اور احمد یہ ایسوسی ایشنز.جماعت کی ذیلی تنظیمیں.باب یاز دہم اہم جماعتی کتب و مرکزی اخبارات ورسائل.باب دوازدهم اہم جماعتی شخصیات.باب سیزدهم جماعت احمدیہ کی مخالفت.باب چہاردہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت.باب پانزدهم جماعت احمد یہ اغیار کی نظر میں اور جماعت احمدیہ کا مستقبل
جماعت احمدیہ کی ویب سائٹ اگر کوئی دوست جماعت احمدیہ کے متعلق مزید کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ درج ذیل ویب سائٹ کے ذریعہ معلومات حاصل کر سکتا ہے.جماعت احمدیہ کی طرف سے انٹرنیٹ پر ویب سائٹ www.alislam.org کے نام سے موجود ہے جہاں لنک ہو کر استفادہ کیا جاسکتا ہے.انگریزی ویب سائٹ کے علاوہ عربی، چینی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ویب سائٹس موجود ہیں.
نمبر شمار 1 انتساب.2 پیش لفظ.3- افتتاحیه 4.عرض حال.فہرست مضامین فہرست عناوین 5.مندرجات.6.جماعت احمدیہ کی ویب سائٹ 7.فہرست مضامین.8.تمہید.صفحہ نمبر i ¡¡ iv vi Xi X ۱ تا ۲۶ 301 باب اول جماعت احمدیہ کے قیام کا پس منظر 1.از روئے قرآن کریم.2- از روئے حدیث.از روئے بائیل.-4 از روئے دیگر مذاہب کی کتب مقدس.5 موعود اقوام عالم اور چودھویں صدی.6..وقت تھا وقت مسیحانہ کسی اور کا وقت.-7 غیر مسلم اکابرین اور ایک مصلح کا انتظار.دعوی موعودا قوام عالم.7 18 • 0 0 21 1 9 9 10 17 19
نمبر شمار فهرست عناوین باب دوم سوانح حضرت مہدی دوراں 1.مختصر سوانح مہدی دوراں.2.حضرت اماں جان ( حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ).3.مبشر اولاد.-4.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.5.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.-6- حضرت مرزا شریف احمد صاحب.7.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ.8.حضرت سیدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ 9 کتب حضرت مسیح موعود کا عمومی تعارف.ا.روحانی خزائن.۲.ملفوظات.۳.مجموعہ اشتہارات.۴.مکتوبات احمد.10.فہرست کتب روحانی خزائن.11 - حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تحریرات کے چند نمونے.ا.زندہ خدا.۲.زندہ رسول.۳ قرآن کریم.صفحہ نمبر 25 31 32 32 32 34 37 38 الا انه انا لا اله الله الله لام له چ ج ث ج چن چن چی ما این 40 41 44 44 45 45 49 49 51 52 ۴.اسلام.54
91 86 89 89 8 92 85 85 83 NZ W2223 77 69 73 75 66 64 66 63 57 56 559 صفحہ نمبر فهرست عناوین 12- وفات حضرت مسیح موعود.13 - حضرت بانی سلسلہ غیروں کی نظر میں.باب سوم جماعت احمدیہ کا قیام -1 جماعت احمدیہ کے قیام کی ضرورت.2 اعلان بیعت.3.بیعت اولیٰ کے الفاظ.4.شرائط بیعت.5.جماعت احمدیہ کیلئے حضرت بانی سلسہ احمدیہ کی نصائح.6.جماعت احمدیہ میں شمولیت کی ضرورت.7.قادیان کا تعارف.8.ربوہ کا تعارف.1.ہمارے عقائد.2 بعض اختلافی مسائل.باب چهارم جماعت احمدیہ کے عقائد ا.مسئلہ وفات و حیات مسیح علیہ السلام - ۲.مسئلہ ظہور امام مهدی و نزول مسیح موعود..چاند اور سورج گرہن کے عظیم الشان نشان.نمبر شمار
نمبر شمار فهرست عناوین صفحہ نمبر ii.ڈش انٹینا کی ایجاد.97 99 ۳.مسئلہ امکان نبوت.۴.مسئلہ وحی والہام.3.جماعت احمدیہ اور لاہوری احمد یوں میں فرق.4.لاہوری احمدی اور جماعت احمدیہ کے عقائد میں اختلاف.103 109 110 ا.پہلا اختلاف.حضرت مسیح موعود کی جانشین صدر انجمن احمد یہ یا شخصی خلافت؟ - 110 ۲.دوسرا اختلاف.حضرت مسیح موعود کا مقام نبی کا تھایا کوئی اور؟.۳.تیسرا اختلاف.حضرت مسیح موعود پر ایمان لانا ضروری ہے یا نہیں؟.۴.چوتھا اختلاف.پسر موعود سے مراد کون ہے؟.5 جماعت احمدیہ کے بعض تاریخی دن.۱۲۱ ؍ ربیع الاول.۲.یوم مسیح موعود..یوم خلافت.۴.یوم مصلح موعود ۵.پیشگوئی مصلح موعود.باب پنجم جماعت احمدیہ کا نظام خلافت -1 خلافت احمدیہ کے قیام کا پس منظر.2 خلافت راشدہ اور خلافت احمدیہ میں مماثلت.3.خلافت کو قدرت ثانیہ نام دینے کا فلسفہ.112 113 115 116 116 117 118 119 119 123 125 126
نمبر شمار 4.قدرت ثانیہ کا ظہور.فهرست عناوین 5.جماعت احمدیہ میں خلیفہ کے انتخاب کا طریق.ا.انتخاب خلافت کے متعلق ایک ضروری ریزولیوشن.۲ مجلس انتخاب خلافت میں اراکین کا اضافہ.مجلس انتخاب خلافت کا دستور العمل.۴.بنیادی قانون.7.موجودہ قواعد انتخاب خلافت..انتخاب خلافت اولی.و.حضرت خلیفہ مسیح الاول کے مختصر سوانح حیات.ا.کتب حضرت خلیفہ اسیح الاول.۲.ملازمت سے فراغت اور قادیان میں ہجرت.۳.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی وفات.۴.حضرت خلیفہ اول کا مقام.۵.غیروں کی آراء..خلافت اولی کے شیریں ثمرات.ے.دور خلافت اولی میں ترقیات کی چند جھلکیاں.10.خلافت ثانیہ کا ظہور.11.حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے مختصر سوانح حیات.ا.انتخاب خلافت ثانیہ.۲.اولاد..آخری بیماری اور وفات.صفحہ نمبر 127 128 132 132 133 135 135 139 141 142 142 143 144 145 147 147 148 149 152 153 154
نمبر شمار ر فهرست عناوین -۲ تصانیف حضرت خلیفہ انبیع الثانی ۵.قومی و ملی خدمات.۶.جماعت کے نام ایک وصیت.ے.خلافت ثانیہ کے شیریں ثمرات..دور خلافت ثانیہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں.12.خلافت ثالثہ.13.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا عہد خلافت.ا.انتخاب خلافت ثالثہ.۲.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے مختصر حالات زندگی..خلافت ثالثہ کے شیر میں ثمرات.۴.حضور کی وفات.۵.دور خلافت ثالثہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں.14 خلافت رابعہ - ا.حضرت خلیفہ المسیح الرابع کے مختصر حالات زندگی.۲.خلافت رابعہ کے شیریں ثمرات.۳ علمی خدمات.۴.سب سے بڑا کارنامہ.۵.خلافت رابعہ میں نفوذ احمدیت.۶.حضور کی وفات.ے.خلافت رابعہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں.15.عہد خلافت خامسہ.صفحہ نمبر 154 156 158 159 160 162 163 163 163 165 165 166 171 171 172 172 173 174 174 174 177
نمبر شمار و ا إِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُورُ.۲.انتخاب خلافت خامسہ.فهرست عناوین ۱۳ مجلس انتخاب خلافت سے خطاب.۴.حضرت خلیفہ امسیح الخامس کا پہلا خطاب.۵.حضرت خلیفہ امسیح الخامس کے حالات و خدمات قبل از خلافت.۶.خلافت خامسہ کے شیر میں ثمرات.ے.دور خلافت خامسہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں.16.حضرت مسیح موعود کی جانشین شخصی خلافت یا صدرانجمن احمدیہ.ا شخصی خلافت کا ثبوت از روئے قرآن.۲ شخصی خلافت از روئے حدیث.۳.خلافت کے مسئلہ پر صحابہ کا تعامل اور اجماع.-۴- حضرت مسیح موعود کی شہادت خلافت کے متعلق.۵.حضرت صاحب کی دوسری شہادت خلافت کے متعلق.۶.جمہوریت سے بھی خلافت کا ثبوت.ے.نظام خلافت پر اجماع..ایک فیصلہ کن سوال.شخصی خلافت پر سب سے بڑی شہادت.17.عہد حفاظت نظام خلافت.18.نئی صدی کا عظیم عہد.صفحہ نمبر 177 178 178 179 180 182 183 188 188 190 191 192 193 193 193 195 195 196 198
صفحہ نمبر 201 201 202 203 203 204 205 208 209 211 211 212 212 218 219 220 220 221 نمبر شمار 1 - انجمن احمدیہ کا قیام.2.کمیٹی محاسبہ و مال.3.انتظامی کمیٹی.4.مشترکہ کمیٹی.5.صیغہ پرائیویٹ سیکرٹری.6.صدر صدر انجمن احمد سیہ.7 - نظارت علیاء.8- نظارت دیوان.9- نظارت اصلاح وارشاد.فهرست عناوین باب سم صدر انجمن احمدیہ 10.ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد مقامی.11.ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد ( تعلیم القرآن و وقف عارضی).12.ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد برائے رشتہ ناطہ.13- تعارف شعبہ رشتہ ناطہ اور بعض توجہ طلب امور.14.ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد برائے دعوت الی اللہ.15- نظارت تعلیم.16- نظارت بیت المال آمد.17- نظارت بیت المال خرچ.18- نظارت صدقات و وظائف.
فهرست عناوین صفحہ نمبر 222 223 224 226 226 227 228 228 229 230 231 231 231 232 232 232 232 233 234 237 238 نمبر شمار -19- نظارت تصنیف و اشاعت.20- نظارت افتاء.21- نظارت امور عامہ.22- نظارت صحت.23- نظارت امور خارجہ.24 - نظارت بہشتی مقبرہ.25- نظارت ضیافت.26- نظارت تعمیرات.27- نظارت جائیداد و املاک.28- نظارت صنعت و تجارت.29- نظارت زراعت.30.شعبہ آڈٹ.31.شعبہ محاسب.32.صیغہ خزانہ.33.شعبہ ترتیب ریکارڈ.34.شعبہ کمپیوٹر.35.منصوبہ بندی کمیٹی.36.مجلس مشاورت.37- مجلس مشاورت کے قواعد وضوابط.38.مقامی انجمنیں.39.قواعد انتخابات مقامی عہدیداران.
فهرست عناوین صفحہ نمبر 241 242 242 242 242 243 243 243 247 247 252 253 258 262 263 266 267 268 نمبر شمار 40.جماعت احمدیہ کا نظام.41.چندہ جات کا نظام.ا.چندہ عام.۲.چندہ وصیت.۳.چندہ جلسہ سالانہ ۴.چندہ تحریک جدید.۵.چندہ وقف جدید.۶.دیگر چندہ جات.1.دارالقضاء کا قیام.باب ہشتم دیگر اہم ادارہ جات 2.دارالقضاء کا نظام.3 بہشتی مقبرہ کا قیام.-3 4.خلافت لائبریری..5.دارالضیافت (لنگر خانہ).6.بیت الکرامہ.7.جامعہ احمد یہ ربوہ.ا.کوائف جامعات.۲ تعلیمی نصاب.۳.لائبریری جامعہ احمدیہ سینیئر سیکشن.
نمبر شمار ۴.کمپیوٹر لیب.۵.واقعہ صلیب سیل.مجلس ارشاد.ے.مجلس علمی طلباء.مجلس علمی اساتذہ.۹.ٹیوٹوریل گروپس.۱۰.شعبہ کھیل.ا.ہائیکنگ.8.ریسرچ سیل.9.ریسرچ سیل کی تنظیم نو.10 مدرسة الحفظ - 11.حفاظ کرام کا ریکارڈ.فهرست عناوین 12- عائشہ دینیات اکیڈمی و مدرسة الحفظ ربوہ برائے طالبات.13 - صد سالہ جشن تشکر نمائش.14 - جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ.15.جلسہ سالانہ کے متعلق غیروں کے تاثرات.16- نظام جلسہ سالانہ.17.نظام جلسہ سالانہ کے شعبہ جات.18.جلسہ سالانہ کی مختلف نظامتیں.ا.ناظم معائنہ.۲.ناظم تنقیح حسابات.صفحہ نمبر 269 270 270 270 271 271 272 272 273 274 275 277 278 280 281 285 288 289 290 290 291
۱۲ نمبر شمار فهرست عناوین صفحہ نمبر ۳.ناظم طبی امداد.۴.ناظم اشاعت.۵.ناظم عمومی.۶.ناظم معلومات وفوری امداد.ے.ناظم استقبال.۸.ناظم مکانات.۹.ناظم پرالی.۱۰.ناظم صفائی.ا.ناظم روشنی.۱۲.ناظم تعمیرات.291 291 291 292 292 292 293 293 293 293 ۱۳.ناظم حاضری ونگرانی.۱۴.ناظم پختہ سامان وظروف گلی.۱۵.ناظم بازار.۱۶.ناظم سپلائی.۱۷.ناظم محنت.۱۸.ناظم گوشت.۱۹.ناظم آب رسانی.۲۰.ناظم ریز ور نمبر.۲۱.ناظم ریز رو نمبر ۲.۲۲.ناظم اجراء پر چی و خوراک.۲۳.ناظم تصدیق پر چی خوراک.294 294 294 295 295 296 296 296 296 297 297
صفحہ نمبر 297 297 298 298 299 299 299 300 302 302 303 305 306 309 309 311 312 312 313 ۱۳ نمبر شمار ۲۴.ناظم نقل و حمل.۲۵.ناظم لنگر خانہ.۲۶.ناظم مہمان نوازی.۲۷.ناظم تربیت.۲۸.ناظم ایندھن وسوئی گیس.فهرست عناوین ۲۹.ناظم مہمان نوازی مستورات.۳۰.ناظم لنگر پر ہیزی.۳۱.ناظم خدمت خلق.19.ایم ٹی اے.ا.ایم ٹی اے کی نئی شاخیں..ایم ٹی اے کے غیر معمولی اثرات.20.فضل عمر فاؤنڈیشن.ا.انعامی سکیم برائے علمی مقابلہ جات.۲.لندن کے انڈیا آفس لائبریری سے ریسرچ پروگرام.فنڈز کے مصارف.م فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت ہونے والا کام.21.ناصر فاؤنڈیشن.22.طاہر فاؤنڈیشن.23.نور فاؤنڈیشن.
صفحہ نمبر 317 321 322 323 325 327 329 330 331 331 333 334 341 344 347 350 ۱۴ نمبر شمار فهرست عناوین باب ہشتم خدمت خلق کے بعض ادارے اور احمد یہ ایسوسی ایشنز 1 - فضل عمر ہسپتال ربوہ.2.طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ.-3 نور العین دائرة الخدمة الانسانية ربوہ.4.بلڈ بینک ربوہ.5.ادارہ دار الصناعة - 6.دار الصناعۃ کا احیاء نو.7.طاہر ہومیو پیتھک ہسپتال وریسرچ انسٹیٹیوٹ ربوہ.8- ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس ربوہ.9.نصرت جہاں ہو میو پیتھک کلینک ربوہ.10.ہیومینیٹی فرسٹ.11.احمد یہ میڈیکل ایسوسی ایشن پاکستان.12.انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز (IAAAE).13.احمدی بلائینڈ زایسوسی ایشن پاکستان.14.ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز پاکستان.15 - احمد یہ ہومیو پیتھک میڈیکل ریسرچ ایسوسی ایشن پاکستان.16.آل پاکستان احمدی ٹیچرز ایسوسی ایشن.
صفحہ نمبر 355 355 355 357 358 368 368 369 370 370 370 370 371 371 372 372 373 373 ۱۵ نمبر شمار 1.تحریک جدید.ا.تحریک جدید کیا ہے؟.۲.ایک الہی تحریک.فهرست عناوین باب نهم با برکت تحریکات ۳.تحریک جدید کے اغراض و مقاصد.۴.مطالبات تحریک جدید.۵ تحریک جدید انجمن احمدیہ کا نظام.۶ مستقبل دفتر کا قیام اور اس کے پہلے انچارج.ے.فنانشل سیکرٹری کا تقرر.تحریک جدید کی رجسٹریشن.۹.بیرونی ممالک کی تبلیغ تحریک جدید کے دائرہ عمل میں.۱۰.مجلس تحریک جدید کا قیام.۱۱.خصوصی ممبران کا تقرر.۱۲ تقسیم ہند اور تحریک جدید.۱۳ تحریک جدید کی پاکستان میں رجسٹریشن.۱۴.ربوہ میں دفاتر تحریک جدید کی عمارت.۱۵.چندہ تحریک جدید.۱۶.دفاتر تحریک جدید.۱۷ تحریک جدید انجمن احمدیہ کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ.
نمبر شمار ۱۸ مجلس تحریک جدید - ۱۹.محاسبہ کمیٹی.۲۰.انتظامی کمیٹی.فهرست عناوین ۲۱ - صدر تحریک جدید انجمن احمد یہ.۲۲.وکالت علیاء.۲۳.وکالت تعمیل و تنفیذ.۲۴.وکالت دیوان.۲۵.وکالت تبشیر.۲۶ مبلغ کے فرائض وذمداریاں.۲۷.وکالت مال اول.صفحہ نمبر 373 374 375 375 375 376 376 377 ۲۸.وکالت مال ثانی.۲۹.وکالت مال ثالث.۳۰.وکالت تصنیف.۳۱.وکالت تعلیم.۳۲.وکالت اشاعت.۳۳.وکالت وقف نو.۳۴.وکالت صنعت و تجارت.۳۵.وکالت زراعت.۳۶.نصرت جہاں سکیم.۳۷.صیغہ امانت تحریک جدید.۳۸.صیغہ کمیٹی آبادی.379 381 382 385 385 386 387 388 389 389 390 391 391
صفحہ نمبر 392 393 396 398 398 399 401 403 403 403 404 404 405 406 406 406 406 407 407 408 409 ۱۷ نمبر شمار ۳۹- آل فری ۴۰ شعبه متخصص فهرست عناوین ۴۱.تحریک جدید کی برکات اغیار کی نظر میں.۴۲- تحریک جدید کا شاندار مستقبل.2.تحریک وقف جدید.ا تحریک وقف جدید کی اہمیت.۲.شعبہ معلمین وقف جدید.۳.دعوت الی اللہ.۴ طبی سہولیات.۵- فضل عمر فری ہومیوڈسپنسری ربوہ.۶ - المہدی ہسپتال مٹھی.ے.طاہر ہسپتال نگر پارکر.۸ وقف جدید کا مالی نظام.۹.وقف جدید کی مدات.۱۰.انجمن وقف جدید کا نظام.۱۱.دفتر وقف جدید کا قیام.۱۲.رجسٹریشن اور ابتدائی ممبران.۱۳.وقف جدید کے پہلے انسپکٹر.۱۴.بورڈ آف ڈائریکٹر ز مجلس وقف جدید.۱۵.مال کمیٹی.۱۶.انتظامیہ کمیٹی.۱۷.وقف جدید کی نظامتیں.
۱۸ نمبر شمار ا.نظامت ارشاد.ii.نظامت مال.iii.نظامت دیوان.iv.شعبہ آڈٹ.۱۸.مدرسۃ الظفر وقف جدید.فهرست عناوین ا.دس ہزار معلمین کی ضرورت.i معلمین کے اوصاف.iii معلمین کی تیاری.iv.مدرسۃ الظفر کا قیام.۷.داخلہ معلمین کلاس.vi.نصاب معلمین کلاس.vii.ذہنی و جسمانی تربیت.viii.وظیفہ.ix.اقامت الظفر.x عملی تربیت.Xi - مدرسة الظفر واقامۃ الظفر ربوہ کی نئی عمارت xii - تحریک وقف جدید کو مضبوط کرو.3.تحریک وقف نو.تحریک وقف نو کی برکات.4.نصرت جہاں تحریک.نصرت جہاں کے شیریں ثمرات.صفحہ نمبر 409 409 409 409 410 411 411 413 413 413 414 414 414 414 414 415 415 416 418 421 423
صفحہ نمبر 426 427 428 430 430 435 436 438 439 439 440 441 442 443 444 445 446 447 ۱۹ نمبر شمار 5- بیوت الحمد تحریک.6 کفالت یتامی تحریک.7.سیدنا بلال فنڈ تحریک.8.مریم شادی فنڈ تحریک.9.مصیبت زدگان کیلئے تحریکات.فهرست عناوین باب دہم جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیمیں 1.لجنہ اماءاللہ کا قیام.2.ناصرات الاحمدیہ کا قیام.لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا مختصر تعارف.4- ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم.لجنہ اماءاللہ کے چندہ جات.5.خدام الاحمدیہ کا قیام.ا.خدام الاحمدیہ کا نظام.۲.خدام الاحمدیہ کے عہدیداران.۳.خدام الاحمدیہ کا مالی سال.6.انصار اللہ کا قیام.ا.مجلس انصار اللہ کا قیام.مجلس انصاراللہ کے عہدیداران.۳.مجلس انصاراللہ کے شعبہ جات.
صفحہ نمبر 447 448 450 451 451 451 452 452 452 455 455 456 458 460 460 461 462 462 نمبر شمار ۴.انصار اللہ کا مالی نظام.7- اطفال الاحمدیہ کا قیام.اطفال احمدیہ کی تنظیم.8.ذیلی تنظیموں کے عہد.ا.انصار اللہ کا عہد.۲.خادم کا عہد.۳.اطفال الاحمدیہ کا عہد.۴.عہد لجنہ اماءاللہ.۵.ناصرات الاحمدیہ کا عہد.فهرست عناوین باب یاز دہم اہم جماعتی کتب و مرکزی اخبارات و رسائل کا تعارف 1.جماعت احمدیہ کی اہم کتب کا تعارف.ا تفسیر القرآن حضرت مسیح موعود ۲- حقائق الفرقان.تفسیر کبیر ۴.۷۰۰ احکام خداوندی.۵.حدیقہ الصالحین.۶.سیرۃ خاتم النبین.ے.اسوہ انسان کامل.۸.سیرت صحابہ رسول.
صفحہ نمبر 463 463 464 464 465 465 466 466 467 468 468 469 469 470 470 471 471 472 473 473 ۲۱ ۹.سیرت حضرت مسیح موعود.۱۰.حیات طیبہ.ا.تذکرہ.۱۲.حیات نور.فهرست عناوین ۱۳ - مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین.۱۴.سوانح فضل عمر.۱۵.حیات ناصر جلد نمبر ۱.۱۶.ایک مرد خدا.۱۷.سیرۃ سوانح حضرت اماں جان.۱۸.سیرت وسوانح سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ.۱۹.تین سو تیرہ اصحاب صدق وصفا.۲۰.شیخ نجم اور آپ کے شاگرد.۲۱.حیات قدسی مع برکات احمدیہ.۲۲ - تحدیث نعمت.۲۳.ہستی باری تعالی.۲۴.سیر روحانی.۲۵.دعوۃ الامیر.۲۶.الہام عقل علم اور سچائی.۲۷.اسلام اور عصر حاضر کے مسائل.۲۸.سلسلہ احمدیہ.نمبر شمار
۲۲ نمبر شمار ۲۹.مضامین بشیر جلد اول.۳۰ تبلیغ ہدایت.فهرست عناوین ۳۱.مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب.۳۲.پاکٹ بک.۳۳.احمدی تعلیمی پاکٹ بک.۳۴ تفہیمات ربانیہ.۳۵ تحقیق عارفانہ.۳۶.خلفا و احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات.۳۷.حضرت مسیح موعود کے چیلنج اور رد عمل ونتائج و اثرات.۳۸.نظام خلافت اور خلافت احمدیہ کے سوسال.2.جماعت احمدیہ کے مرکزی اخبارات و رسائل کا تعارف.ا.اخبار الحکم.۲.البدر.۳.ماہنامہ ریویو آف ریلیجنز.۴.ماہنامہ تشخیز الاذہان.۵.روزنامہ الفضل.۶ - الفضل انٹر نیشنل لندن.ے.ماہنامہ مصباح ربوہ.۸.ماہنامہ خالد ربوہ.۹.ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.۱۰.ماہنامہ تحریک جدیدر بوہ.صفحہ نمبر 474 475 475 476 477 478 479 480 480 481 483 483 485 486 490 492 500 501 504 507 508
صفحہ نمبر 511 511 512 520 523 524 527 528 530 531 533 536 539 543 543 545 547 ۲۳ نمبر شمار فهرست عناوین باب دوازدهم جماعت احمدیہ کی اہم شخصیات 1.ایک پیشگوئی کا پورا ہونا.2 فہرست ۳۱۳.اصحاب صدق وصفاء.3.دس جلیل القدر صحابہؓ.ا.حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی.۲.حضرت سید حامد شاہ صاحب آف سیالکوٹ..حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی.۴.حضرت سردار نواب محمد علی خان صاحب.۵.حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحب بھیروی..حضرت قاضی امیرحسین صاحب بھیرہ.ے.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب..حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی.۹.حضرت مولانا شیر علی صاحب.۱۰.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب 4.دس عظیم علماء سلسلہ.ا.حضرت حافظ مولا نا روشن علی صاحب.۲.حضرت سید سرور شاہ صاحب.۳.حضرت میر محمد اسحق صاحب.شہید -
۲۴ نمبر شمار فهرست عناوین ۴.حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب.۵.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ۶.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب.ے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب..حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری.۹.حضرت ملک سیف الرحمن صاحب.۱۰.حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب.5.بعض ابتدائی مبلغین.ا.واعظین سلسلہ کا تقرر.۲.حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب.۳.حضرت صوفی غلام محمد صاحب.۴.حضرت مفتی محمد صادق صاحب.۵.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر.محترم مولانا ظہور حسین صاحب بخارا.ے.حضرت مولانا رحمت علی صاحب.۸ محترم مولاناحکیم فضل الرحمن صاحب.۹ محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب.۱۰- محترم مولانا نذیر احمد علی صاحب.محترم مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری.۱۲- محترم مولانانسیم سیفی صاحب.صفحہ نمبر 553 554 556 558 559 560 562 565 565 566 567 569 570 570 571 572 573 573 574 574
صفحہ نمبر 574 575 575 576 577 582 582 584 586 587 589 590 592 592 596 600 605 606 ۲۵ نمبر شمار فهرست عناوین ۱۳ محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب.۱۴- محترم قریشی محمد افضل صاحب.۱۵- محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب.۱۶ محترم مولانا محمد منور صاحب.6 بیرونی ممالک کے پہلے مبلغین کی فہرست.7.دس دیگر معروف شخصیات.ا.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب.۲.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد.۳.حضرت مولانا شیخ محمد احمد مظہر صاحب ایڈووکیٹ.۴.حضرت مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ..مکرم مولانا عمری عبیدی صاحب.مکرم ملک عبدالرحمن خادم صاحب ایڈووکیٹ.ے.مکرم الحاج سرمد سنگھاٹے صاحب.مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (ایم.ایم.احمد )..مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب.۱۰.مکرم میجر جنرل افتخارحسین جنجوعہ صاحب ہلال جرات.باب سیزدهم جماعت احمدیہ کی مخالفت 1 - جماعت احمدیہ کی مخالفت.-2.فہرست شہدائے احمدیت.
۲۶ نمبر شمار ایک قابل رشک واقعہ.فهرست عناوین 4.۱۹۸۴ء کا ظالمانہ آرڈینینس اور مقدمات کی تفصیل.باب چہار دہم جماعت احمدیہ کی الہی تائید ونصرت 1.سے اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنادی ( جماعتی ترقی کی بعض جھلکیاں).2 تراجم قرآن کریم.- تراجم قرآن کے متعلق غیروں کے تاثرات.باب پانزدهم جماعت احمد یہ اغیار کی نظر میں و جماعت احمدیہ کا 1.جماعت احمدیہ کا مستقبل.مستقبل صفحہ نمبر 625 627 633 635 639 641 645
1 احمدیت کسی سیاسی یا کسی دنیوی تحریک کا نام نہیں بلکہ یہ خالصتاً ایک دینی جماعت ہے جو منہاج نبوت پر قائم ہوئی ہے اور اس کے پیش نظر صرف اور صرف بنی نوع انسان کی روحانی تعلیم و تربیت ہے.اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا جس کے تحت بعض روایات کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے.بالآ خر یہ سلسلہ ہمارے پیارے نبی حضرت خاتم الانبیاءمحمد مصطفے ﷺ کے بابرکت وجود پر اپنے کمال کو پہنچا.آپ سے پہلے تمام انبیاء کا دائرہ کار زمانی و مکانی اور قومی لحاظ سے محدود تھا.مگر آنحضرت عیﷺ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ آپ تمام انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے اور جو شریعت قرآن کریم کی شکل میں آپ کو عطا کی گئی اس میں قیامت تک کے پیدا ہونے والے تمام مسائل کاحل موجود ہے.اب یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے خاتم النبین ہونے اور قرآن کریم کے قیامت تک قابل عمل رہنے کے باوجود کسی مسیح یا مہدی کے ظہور کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس سوال کا جواب درج ذیل احادیث کی روشنی میں بآسانی سمجھا جا سکتا ہے:.عَنْ عَلِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِكُ أَنْ يَّاتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْأَسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ مَسَاجِدُ هُمُ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الهُدى عُلَمَاءُ هُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ رَوَاهُ البيهقي في شعب الايمان.(مشكوة كتاب العلم الفصل الثالث ص ۳۸ کنز العمال ص۴۳/۶) حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا.الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا.اس زمانہ کی مسجد میں بظاہر آباد تو نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے.یعنی تمام خرابیوں کا وہی سر چشمہ ہوں گے.عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
2 وَسَلَّمَ : لَيَاتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَدٌ وَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَّصْنَعُ ذَلِكَ وَ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَ سَبْعِينَ مِلَّةً وَ تَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِى النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً ، قَالُوا: مَنْ هِيَ يَارَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَ أَصْحَابِي.(ترمذی کتاب الايمان باب افتراق هذه الامة ص ۸۹/۲ جامع الصغير ص۱۱۰/۲ مصرى) (ابن ماجه کتاب الفتن باب افتراق الامم ص ۲۸۷) حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری امت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے جن میں ایسی مطابقت ہوگی جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی بد بخت اپنی ماں سے بدکاری کا مرتکب ہوا تو میری امت میں سے بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا.بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی.لیکن ایک فرقے کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے.صحابہ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کونسا ہے تو حضور نے فرمایا.وہ فرقہ جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل پیرا ہو گا.عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال: لَتَتَّبِعُنَ سُنَنَ مِنْ قَبْلِكُمْ شِبُرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا ذِرَاعًا حَتَّى لَوْدَخَلُوا حُجْرَ ضَبْ تَبِعْتُمُوهُمْ: قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارِي، قَالَ: فَمَنْ؟ (بخارى كتاب الاعتصام والسنة باب قَولِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنٌ مَنْ كَانَ قَبْلِكُمْ) حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم لوگ اپنے سے پہلی اقوام کے طور طریقوں کی اس طرح پیروی کرو گے کہ سر موفرق نہ ہو گا اس طرح جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کی طرح اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھوں کی طرح ہوتا ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر بالفرض وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم بھی ان کی پیروی کرو گے.ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا آپ کی مراد یہود اور نصاری سے ہے فرمایا اور کون؟ مندرجہ بالا احادیث کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ امت محمدیہ پر ایک ایسے دور کا آنا مقدر تھا جسے روحانی لحاظ سے دور خزاں کا نام دیا جا سکتا ہے.ایسے حالات کے پیش نظر ضرور تھا کہ ایک مصلح کا ظہور بھی ہوتا جس کی بعثت قرآن و حدیث اور بزرگان سلف کے اقوال سے بھی ثابت ہے.
3 پس جب وہ تمام حالات و واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجہ میں اس موعود کا ظہور مقد رتھا تو ایسے حالات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کی ایک گمنام بستی قادیان سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ کو مبعوث فرمایا.آپ نے جس جماعت کی بنیاد رکھی یہ وہی موعود جماعت ہے جس کی طرف آیت وَاخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوبِهِمُ (سورۃ جمعہ ) میں اشارہ کیا گیا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا مسیح وقت دنیا میں آیا خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا مبارک وہ اب ایمان لایا صحابة مجھ کو ނ پایا وہی کے اُن کو ساقی نے پلا دی فسب ـان الذى زاى الاعــ ادی در مشین اردو) آج خدا کے فضل سے یہ جماعت دنیا کے ۱۹۸ ممالک میں نفوذ کر چکی ہے.اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب تمام دنیا پر احمدیت کا جھنڈا لہرائے گا.اس وقت ایک خدا ایک رسول اور ایک قبلہ ہو گا.تب ایک نیا آسمان ہوگا اور نئی زمین ہوگی.یہی وہ عظیم صداقت ہے جسے آئندہ صفحات میں عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کیا گیا ہے.
5 باب اول جماعت احمد یہ کے قیام کا پس منظر
7 قرآن کریم ا وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم.(سورة الجمعة : ۴) اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی (وہ اسے بھیجے گا ) جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.(بخاری کتاب التفسير سورة جمعة و مسلم ) عَنْ أَبِي هُرَيْرَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جَلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ فَلَمَّا قَرَأَ : وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ، قَالَ رَجُلٌ مَّنْ هَؤُلَاءِ يَارَسُوْلَ اللهِ، فَلَمْ يُرَاجِعُهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَأَلَهُ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ اَوْ ثَلَاثًا قَالَ وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَالَ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الْأَيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ مِّنْ هَؤُلَاءِ.حضرت ابو ہریرۃ " بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی.جب آپ نے اس کی آیت وَ آخِرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم پڑھی.جس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان صحابہ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے.تو ایک آدمی نے پوچھا.یا رسول اللہ ! یہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے.حضور نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا.اس آدمی نے دو یا تین دفعہ یہی سوال دہرایا.راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان ہم میں بیٹھے تھے.آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا.اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اٹھ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اس کو واپس لے آئیں گے.( یعنی آخرین سے مراد بنائے فارس ہیں جن میں سے مسیح موعود ہوں گے اور ان پر ایمان لانے والے صحابہ کا درجہ پائیں گے.) ۲- هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه.(الصف: ١٠) وہی خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ وہ اس ( دین ) کو تمام ادیان پر غالب کر دے.اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:.ذلِكَ عِندَ نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَحِينَ تَصِيرُ الْمِلَّةُ وَاحِدَةً.“ (ابن جرير جلد ۲۸ ص (۵۳
8 جائے گا.یعنی ادیان باطلہ پر دین حق کا کامل غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ہوگا.جب صرف ایک ہی دین باقی رہ اہل تشیع کی معروف حدیث کی کتاب ” بحار الانوار‘ میں اس آیت کے متعلق لکھا ہے :.ایس آیه نیز درباره قائم آل محمد است ( بحارالانوار جلد ۳ ص ۲۵۶ باب پنجم ) یعنی یہ آیت آل محمد کے القائم یعنی امام مہدی کے بارہ میں نازل ہوئی ہے.شیعہ اصحاب کی معتبر كتاب غاية المقصود “ جلد ۲ ص ۱۲۳ میں اسی آیت سے متعلق لکھا ہے:.مراد از رسول در بین جا امام مهدی موعود است یعنی اس آیت میں جو رسول موعود ہے اس سے مراد امام مہدی ہے.حضرت مولانا محمد اسمعیل شہید فرماتے ہیں :.ظاہر است کہ ابتدائے ظہور دین در زمان محمد وقوع آمده و تمام آن دست حضرت مہدی واقع خواهد گردید (منصب امامت: ص ۵۶) یعنی یہ بات ظاہر ہے کہ دین کے غلبہ کی ابتداء حضرت نبی کریم ہے کے وقت میں شروع ہوئی اور اس کی تکمیل حضرت مہدی کے ہاتھ سے ہوگی.حدیث ا- عَنْ حُذَيْفَةَ ابْنِ يَمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَضَتْ اَلْفْ وَمِائَتَان وَأَرْبَعُونَ سَنَةً يَبْعَثُ اللهُ الْمَهْدِى.(النجم الثاقب جلد ۲ ص ۲۰۹) حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ۲۴۰ ۱ سال کے بعد اللہ تعالیٰ مہدی کو مبعوث کرے گا.۲- فَسَدَ الدِّينُ وَلَا يُصْلِحُهُ إِلَّا الْمَهْدِى.ينا بيع المودة جز ۲ صفحه ۸۳) امت پر ایک ایسا دور آئے گا کہ دین میں بگاڑ آ جائے گا جسے مہدی کے سوا کوئی اور دور نہ کر سکے گا.(بحار الانوار جلد ۱۳ ص ۱۷) -- يُقِيمُ النَّاسَ عَلَى مِلَّتِى وَ شَرِيعَتِي.مہدی لوگوں کو میرے دین اور میری شریعت پر قائم کرے گا.- يَقُومُ بِالدِّينِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ كَمَا قُمْتُ بِهِ فِی اَوَّلِ زَمَانِ.(ينابيع المودة جزثالث ص ۱۶۵) امام مهدی آخری زمانہ میں دین کو اس طرح قائم کرے گا جس طرح میں ابتدائی زمانہ میں اسے قائم کر رہا ہوں.
9 بائیل عہد نامہ قدیم میں دجالی فتنہ اور اس کی اصلاح کے لئے مبعوث ہونے والے ایک مامور من اللہ کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے:.بہت سے لوگ پاک کئے جائیں گے اور سفید کئے جائیں گے اور آزمائے جائیں گے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور وہ مکروہ چیز جو خراب کرتی ہے قائم کی جائے گی ایک ہزار دو سو نوے دن ہوں گے سیلہ مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار تین سو پینتیس روز تک آتا ہے.“ دانی ایل باب ۱۲ آیت ۱۰ تا ۱۲ پرانا عہد نامہ سٹیم پر لیس ۱۹۰۸، ص۸۶۴) دیگر مذاہب کی مقدس کتب دیگر مذاہب کی مقدس کتب میں بھی آخری زمانہ میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی اصلاح کے لئے ایک موعود کی بعثت کے متعلق پیشگوئیاں ملتی ہیں.ہندو مذہب کی رو سے شری کرشن جی مہاراج کلکی اوتار نیکیوں کی حفاظت گنہگاروں کی سرکوبی اور دھرم کی امامت کے لئے ظاہر ہوں گے.چنانچہ ہندو مذہب کی ایک مقدس کتاب ”شریمد بھا گوت“ میں لکھا ہے:.سو ہے راجہ جب کلجگ کے آخر میں بہت سے پاپ ہوتے رہیں گے تو نارائن جی خود دھرم کی رکھشا کی خاطر سنبھل دیش میں کلنکی اوتار دھارن کریں گے.“ سکھ مذہب کی مقدس کتاب جنم ساکھی میں لکھا ہے :.شریمد بھاگوت بارہواں اسگند ص ۶۲۳) لے:.الہامی کتب میں عموماً دن سے مراد سال ہوتے ہیں.پس مسیح موعود کا ظہور اس پیشگوئی کے مطابق تیرہویں صدی ہجری میں بنتا ہے.چنانچہ دانیال نبی کی اس پیشگوئی کے مطابق عیسائی دنیا میں ۱۸۶۸ء میں مسیح کی آمد ثانی کا انتظار شروع ہوا.اور بڑے بڑے حساب دان اور منجمین نے اس پیشگوئی کی بنا پر یکے بعد دیگرے مختلف تاریخیں بیان کیں جن کا مفصل ذکر مسٹر جے بی ڈمبل بی کی مشہور کتاب "The Appointed Time یعنی موعود وقت مطبوعہ لنڈن ۱۸۹۶ء میں موجود ہے.چنانچہ اس پیشگوئی کے بالکل عین مطابق ۱۲۹۰ھ بمطابق ۱۸۷۳ء میں حضرت بانی سلسلہ شرف مکالمہ ومخاطبہ پاچکے تھے.
10 تاں مردا نے پچھیا.گروجی ! کبیر بھگت جیہا کوئی ہور بھی ہوئیا ہے سری گرونانک آکھیا.مردانیاں ! اک جھیٹا ہوسی پر اساں تو پچھاں سو برس توں بعد ہوسی.پھر مردانے پچھیا.جی کیہڑے تھا ئیں.اتے ملک وچ ہوسی.تاں گرو جی نے کہیا.وٹالہ دے پر گنے وِچ ہوسی“.جنم ساکھی وڈی بھائی بالا والی ص ۲۵۱ مطبوعہ مفید عام پریس لاہور ) مہاتما بدھ کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کے شاگرد خاص آنند نے مبارک بدھ سے کہا:.”جب تو چلا جائے گا، ہم کو کون تعلیم دے گا مبارک بدھ نے جواب دیا.صرف میں ہی اکیلا بدھ نہیں ہوں، جو دنیا میں آیا ہوں.اور میں آخری بھی نہیں ہوں گا.میں تم کو سچائی سکھانے کو آیا تھا.اور سچائی کی اشاعت ہوگی تب تھوڑے دنوں کے واسطے بھرم کے بادل روشنی کو دھند لی کر دیں گے اور مناسب وقت میں دوسرا بدھ پیدا ہو گا اور وہ تم پر اس سچائی کا اظہار کرے گا جس کی میں نے تعلیم دی ہے.آنند نے پوچھا ہم اس کو کس طرح پہچانیں گے.مبارک بدھ نے کہا.میرے بعد جو بدھ آوے گامیتر یہ کے نام سے مشہور ہوگا.یعنی وہ جس کا نام خود ”مہربانی ہوگا.“ ( کلیان دهرم ص ۳۷۳ باب ۹۶ - آیت ۱۲ تا۱۵.مترجمه شوبرت لعل در من ایم.اے) موعودا قوام عالم کا ظہور اور چودہویں صدی امت محمدیہ کے کئی بزرگوں نے امام مہدی کے ظہور کے زمانہ کی تعیین بھی کر دی.جو چودہویں صدی کا ابتدائی حصہ بنتا ہے.حضرت شاہ عبدالعزیز نے تحفہ اثنا عشریہ میں اور حضرت شاہ اسمعیل شہید نے اربعین فی احوال المہدیبین ص ۱۳ میں لکھا ہے کہ:.بارہ سو ہجری کے بعد مہدی کے ظہور کا انتظار کرنا چاہئے.“ اہل تشیع کی کتاب غایۃ المقصو دجلد ۲ ص ۸۱ میں بھی ہے کہ :.66 چودھویں صدی میں امام مہدی علیہ السلام کے مبعوث ہونے کا انتظار ہوگا.“ نواب نورالحسن خان بھو پالوی لکھتے ہیں:.دو جان لینا چاہئے کہ چودھویں صدی کے سر پر ان کا ظہور ہو گا.“ علاقہ ملتان میں صوفی بزرگ شیخ محمد عبدالعزیز پہاروی کا یہ شعر زبان زد خلائق ہے :.( حج الكرمه ص ۳۹۵)
11 درسن عاشی ہجری ہجری قران خواہد بود خواهد بود از پئے مہدی و دجال نشاں یعنی ۱۳۱۱ھ میں دو نشان ( سورج و چاند گرہن ) ظاہر ہوں گے اور یہ دو نشان بچے مہدی اور جھوٹے دجال کے درمیان امتیاز کریں گے.نواب نورالحسن خان صاحب بھو پالوی لکھتے ہیں :.66 اسی حساب سے ظہور مہدی علیہ السلام کا تیرھویں صدی پر ہونا چاہئے تھا.مگر یہ صدی پوری ہو گئی تو مہدی نہ آئے اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آتی ہے اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ ماہ گزر چکے ہیں شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل ورحم وکرم فرمائے.چار چھ سال کے اندر مہدی ظاہر ہو جا نہیں.“ ( اقتراب الساعة ص ۲۲۱) مشہور صوفی وادیب جناب خواجہ حسن نظامی سجاده نشین درگاه شریف حضرت نظام الدین اولیاء دہلی نے بلاد عربیہ کی سیاحت کے بعد لکھا:.ممالک اسلامیہ کے سفر میں جتنے مشائخ اور علماء سے ملاقات ہوئی میں نے ان کو امام مہدی کا بڑی بے تابی سے منتظر پایا.شیخ سنوسی کے ایک خلیفہ سے ملاقات ہوئی انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسی ۱۲۳۰ھ میں امام مدوح ظاہر ہو جائیں گے.“ اہلحدیث ۲۶ جنوری ۱۹۱۲ء) حضرت شاہ محمد حسین صابری کی طرف سے ۱۸۵۶ء میں پہلی بار حقیقت گلزار صابری اشاعت پذیر ہوئی اس میں حضرت امام مہدی کے ظہور کی تعین کی گئی ہے.چنانچہ لکھا ہے:.طرح طرح کے فتنے ہفت اقلیم میں ظہور میں آویں گے اور ۱۳۰۰ھ کے بعد ۱۴۰۰ھ سے یہ امر بطون سے مرتبہ ظہور میں آویں گے.“ پھر لکھا ہے:.(حقیقت گلزار صابری ص ۱۵۴) در جمیع مکتوبات خطاب کو حضرت امام مہدی کے تفویض کر دے گا اور زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ۱۴۰۰ھ کے قریب ہو گا.“ (حقیقت گلزار صابری ص ۳۶۹) بزرگان امت کے ان تمام اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ امام مہدی کا ظہور چودھویں صدی میں ہی مقدر تھا.یہی وجہ ہے کہ وہ تمام علامات اور نشانیاں جو امام مہدی کے دعوی سے قبل ظاہر ہونی تھیں پوری ہو گئیں اور ہر طرف بڑی شدت سے ایک مصلح اور مہدی کا انتظار ہورہا تھا.
12 وقت تھا وقت مسیحانہ کسی اور کا وقت عصر حاضر میں انسانیت کے گم کردہ راہ قافلے نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے برگزیدوں اور فرستادوں کی تعلیم کو فراموش کر دیا اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے عوام سے لے کر علماء تک کے سبھی طبقے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو بلا تفریق امت مرحومہ کے مرثیہ خواں نظر آتے تھے اور بزرگان حال وقال کہہ رہے تھے کہ جو تاریکی چھٹی صدی عیسوی میں جہالت نے پھیلائی تھی جبکہ اسلام کا ظہور ہوا تھا ویسی ہی روحانی تاریکی اور ظلمت آج پھر پوری شدت سے عود کر آئی ہے.اخلاق و تمدن، معیشت واقتصاد اور عقائد روحانیت کا کوئی ایسا خوفناک مرض نہیں جو انسانیت کو لاحق نہ ہو.خاص طور پر احادیث مذکورہ میں جو نقشہ آنحضرت ﷺ نے امت محمدیہ کا کھینچا ہے وہ من و عن پورا ہو گیا اس صورتحال کا نقشہ ایک معروف عالم دین جناب نواب صدیق حسن خان صاحب ان الفاظ میں کھینچتے ہیں :.اب اسلام کا صرف نام قرآن کا صرف نقش باقی رہ گیا ہے.علماء اس امت کے بدتر ان کے ہیں جو نیچے آسمان کے اور اوپر زمین کے ہیں.انہی سے فلتے نکلتے ہیں اور انہی کے اندر پھر کر جاتے (اقتراب الساعة ص ۱۲) ہیں.اس حقیقت کا اعتراف رسالہ اہلحدیث میں بھی کیا گیا ہے:.افسوس ہے ان مولویوں پر جن کو ہم ہادی، رہبر، ورثة الأنبياء سمجھتے ہیں.ان میں یہ نفسانیت اور شیطنت بھری پڑی ہے تو پھر شیطان کو کس لئے برا بھلا کہنا چاہئے.“ ( رسالہ اہلحدیث ۱۷ نومبر ۱۹۱۱ء) پھر اسی رسالہ اہلحدیث میں امت محمدیہ میں پیدا ہونے والے انتشار کا ذمہ دار بھی علماء کو ٹھہرایا گیا ہے:.هَلْ أَفْسَدَ النَّاسَ إِلَّا الْمُلُوكُ * وَعُلَمَاءُ سُوءٌ وَرُهْبَا نُهَا یعنی.کیا بادشاہوں، علماء سوء اور رہبان کے سوا کسی اور چیز نے لوگوں کو خراب کیا ہے.“ (رسالہ اہلحدیث کے جنوری ۱۹۱۲ء) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.اگر نمونہ یہود خواہی کہ بینی علماء سوء کہ طالب دینا باشد (الفوز الکبیر ص۱۰) یعنی اگر یہود کا نمونہ دیکھنا ہو تو علماء سوء کو دیکھ لوجو دنیا کے پیچھے پڑ چکے ہیں.
13 شاعر مشرق علامہ سر محمد اقبال امت محمدیہ کی حالتِ زار کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہے کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود ہم وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلماں بھی ہو مسجدوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے صاحب اوصاف حجازی نہ رہے پھر فرمایا:.یعنی وہ مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا سیدابوالاعلی مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مسلمانوں کے بارے میں لکھا:.ی انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق و باطل کی تمیز سے آشنا ہیں.نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے.باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آ رہا ہے.(سیاسی کشمکش حصہ سوم ص ۱۳۰) مولوی سیدا بوحسن ندوی صاحب نے لکھا:.اسلام عیسائیت کی طرح چند اعتقادات اور چند رسوم کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے.“ (سیرت سید احمد شہید ص ۲۳ مطبوعه ۱۹۴۱ء) مشہور خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اپنی ایک تقریر میں کہا:.”ہمارا اسلام ، ہم نے اسلام کے نام پر جو کچھ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ تو صریحی کفر ہے.ہمارے دل دین کی سمجھ سے دور، ہماری آنکھیں بصیرت سے نا آشناء کان سچی بات سننے سے گریزاں سے بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
14 میں کیمونزم سے کیوں ٹکراؤں وہ کونسا اسلام ہے جس پر کیمونزم ضربیں لگا رہا ہے.ہمارا اسلام ہے.بتوں ނ تجھ کو تمنا خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے یہ اسلام جو تم نے اختیار کر رکھا ہے کیا یہی اسلام ہے جو نبی نے سکھلایا تھا.کیا ہماری رفتار و گفتار اور کردار میں وہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا تھا؟ یہ روزے اور نماز میں جو ہم میں سے بعض بعض پڑھتے ہیں ان کے پڑھنے میں ہم کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ جو مصلی میں کھڑا ہے وہ قرآن سنانا نہیں جانتا اور جو سنتے ہیں وہ نہیں جانتے کیا سن رہے ہیں اور باقی تمیں گھنٹے ہم کیا کرتے ہیں میں کہتا ہوں کہ گورنری سے لے کر گدا گری تک مجھے ایک بات ہی بتلاؤ جو کہ قرآن اور اسلام کے مطابق ہو پھر میں کیمونزم سے کیوں لڑوں....ہمارا تو سارا نظام کفر ہے قرآن کے مقابلہ میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے.قرآن صرف تعویز کے لئے اور قسم کھانے کے لئے ہے.“ ( آزاد و دسمبر ۱۹۴۹ء) جناب شورش کا شمیری ایڈیٹر رسالہ 'چٹان لاہور لکھتے ہیں:.اس وقت مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ایک زوال پذیر قوم کی تمام نشانیاں انہوں نے قبول کر رکھی ہیں.ایک قوم کی حقیقی روح اس کی معنوی زندگی ہے اگر کسی قوم میں معنوی زندگی نہ رہے تو وہ قوم بدیر یا سور عملاً مردہ ہو جاتی ہے.روسی ترکستان کو یہی حادثہ پیش آیا.( چٹان ۹ / اگست ۱۹۶۳ء) اسی طرح جناب شورش صاحب علماء زمانہ کے بارے میں رقمطراز ہیں:.وو جتنا نقصان ہمارے علما محترم کی اکثریت نے اسلام کو پہنچایا اتنا شدید نصرانیت اور مجوسیت کے اجتماعی حملے نے بھی نہ پہنچایا ہو گا.لوگ مرتد اس لئے ہورہے ہیں کہ ان کے لئے اسلام میں دلکشی نہیں رہی لوگ اس لئے مرتد ہورہے ہیں کہ جو لوگ مسند رسول کے وارث ہیں اور جنہوں نے اپنے ناموں کے ساتھ خطابات حسنہ کا ایک انبار لگارکھا ہے ان کے اعمال و افعال عامتہ الناس کو مرتد کر رہے ہیں.“ (رسالہ چٹان لاہورے ستمبر ۱۹۶۴ء) رسالہ تائید اسلام اچھرہ لاہور لکھتا ہے:.چودھویں صدی کا زمانہ تھا فتنے ہر طرف ٹوٹ رہے تھے یہ وہی زمانہ ہے کہ جس کے متعلق خواجہ ہر دو عالم فخر الاولین والآخرین پیشگوئی فرما گئے تھے کہ آسمان کے نیچے سب سے زیادہ اشرار الناس علماء سوء ہوں گے.فرمایا مِنْهُمْ تَبْدَءُ الفِتْنَةُ وَ فِيهِمُ تعود.ان شریروں ہی سے فتنہ شروع ہوگا پھر قیامت میں و بال اس کا کم بختوں پر ہی عائد ہوگا.( تائید اسلام اچھرہ لا ہورص۱۲.۲۸ ستمبر ۱۹۲۸ء) دور
15 رسالہ معارف اسلام لا ہور جو اہل تشیع کا تر جمان ہے.لکھتا ہے:.”سب سے بڑی مشکل یہ کہ وہ حیح تعلیم اسلام کہاں سے ملے؟ اسلام میں اتنے فرقے ہو گئے ہیں کہ اگر کوئی شخص تعلیم اسلام کی تلاش کرنے نکلے تو ڈر ہے کہ کہیں پہلا ہی قدم دلدل میں نہ پھنس جائے.اب ہمیں جناب رسول خدا کا کہنا یاد آیا کہ جس نے صحیح امام زمانہ کی معرفت حاصل نہ کی وہ کافر مرا“ مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں: ؎ تعارف اسلام نومبر دسمبر ۱۹۶۴ ء ص ۱۱) رہا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی ایک مغربی مفکر لو تھرپ سٹاڈر ڈا ٹھارویں صدی عیسوی میں دنیائے اسلام کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتا ہے:.مذہب بھی دیگر امور کی طرح پستی میں تھا.تصوف کے طفلانہ تو ہمات نے خالص اسلامی توحید پر پردہ ڈال دیا تھا.مسجد میں ویران اور سنسان پڑی تھیں.جاہل عوام ان سے بھاگتے تھے اور تعویذ گنڈے میں پھنس کر فقیروں اور دیوانے درویشوں پر اعتقاد رکھتے تھے اور ان بزرگوں کے مزاروں پر زیارت کو جاتے جن کی پرستش بارگاہ ایزدی میں شفیع اور ولی کے طور پر کی جاتی...قرآن کریم کی تعلیم نہ صرف پس پشت ڈال دی گئی بلکہ اس کی خلاف ورزی بھی کی جاتی تھی.یہاں تک کہ مقامات مقدسہ بد اعمالیوں کے مرکز بن گئے تھے.فی الجملہ اسلام کی جان نکل چکی تھی اور اگر محمد پھر دنیا میں آتے تو وہ اپنے پیروؤں کے ارتداد اور بت پرستی پر بیزاری کا اظہار فرماتے.“ (اقبال نامہ ص ۴۶۱) جناب مولوی شکیل احمد صاحب سہسوانی نے ۱۳۰۹ھ میں اسلام کی حالتِ زار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: دین حق کا اب زمانے سے مٹا جاتا ہے نام قهر ہے اے میرے اللہ ! ہوتا کیا ہے الغیب ہے آئینہ ہے حال کیا کہوں ملت اسلام کا نقشہ کیا ہے رات دن فتنوں کی بوچھاڑ ہے بارش کی طرح گر ہو تیری صیانت تو ٹھکانہ کیا ہے الحق الصريح فی حیاة امسیح ص ۱۳۳ مطبوعہ ۱۳۰۹ھ ) اس حقیقت کا صرف زبانی ہی اعتراف نہیں کیا گیا بلکہ اصلاح احوال کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے
16 آنے والے کسی مصلح اور فرستادے کا بھی بڑی شدت سے انتظار ہو رہا تھا.جس طرح قحط سالی کے ایام میں نگاہیں آسمان کی طرف لگ جاتی ہیں اسی طرح ایک موعود اقوام عالم کا انتظار ہو رہا تھا اور عصر حاضر کے تمام مسلم اور غیر مسلم اکابرین، دانشور، سکالرز اور علماء کی کتب اور ارشادات و ملفوظات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ وقت تھا جس میں ایک موعود اقوام عالم کی بعثت کی ضرورت تھی اور تمام بزرگ اور علماء اسی نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ اب اس بگاڑ کی اصلاح سوائے مامور من اللہ کے اور کوئی بھی نہیں کر سکتا.چنانچہ جناب مولوی سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب بانی جماعت اسلامی نے عام لوگوں کے شدت انتظار کا ذکر ان الفاظ میں کیا.فرماتے ہیں:.لوگ امامت دین کی تحریک کے لئے کسی ایسے مرد کامل کو ڈھونڈتے ہیں جو ان میں سے ایک ایک کے تصور کمال کا مجسمہ ہو، دوسرے الفاظ میں یہ لوگ دراصل کسی نبی کے طالب ہیں اگر چہ زبان سے ختم نبوت کا اقرار کرتے ہیں.“ اخبار ” مسلمان ۲۸ فروری ۱۹۴۳ء) امام الہند جناب مولانا ابوالکلام آزاد اپنے زمانہ میں امام مہدی کے لئے شدید انتظار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.اگر ان میں سے کسی بزرگ کو چند لھوں کے لئے قوم کی حالت زار پر بھی توجہ بھی ہوتی تھی تو یہ کہہ کر خود اپنے معتقدین کے دلوں کو تسکین دے دیتے تھے کہ اب ہماری اور تمہاری کوششوں سے کیا ہو سکتا ہے.اب تو قیامت قریب ہے اور مسلمانوں کی تباہی لازمی.سارے کاموں کو امام مہدی کے نکلنے کی انتظار میں ملتوی کر دینا چاہئے.اس وقت ساری دنیا خود بخود مسلمانوں کے لئے خالی ہو جائے گی.“ ( تذکر طبع دوم ص ۱۰) مشہور عالم مولاناسیدابوالحس على ندوی معتمد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو د کن عربی اکیڈمی دمشق لکھتے ہیں :.مسلمانوں پر عام طور پر یاس و نومیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا.۱۸۵۷ء کی جدو جہد کے انجام اور مختلف دینی و عسکری تحریکوں کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقہ کار سے انقلاب حال اور اصلاح سے لوگ مایوس ہو چلے تھے اور عوام الناس کی بڑی تعداد کسی مرد غیب کے ظہور اور ملہم اور مؤید من اللہ کی آمد کی منتظر تھی کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ تیرھویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے.مجلسوں میں زمانہ آخر کے نوشتوں اور واقعات کا چرچا تھا.“ جناب اکبرالہ آبادی اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں: ؎ ( قادیانیت ص ۱۷)
17 آنے والے عجب انداز عجب شان سے آ نئے اعجاز دکھانے نئے سامان ހނ T تیرا جلال جو تکلیف نہ فرمائے گا پیکر مهدی موعود میں کون آئے گا (ماخوذ از الفضل قادیان ۲۹ جنوری ۱۹۳۷ء) شرف الشعراء جناب صوفی صدیقی میرٹھی امام مہدی کی ضرورت کا ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں :.یا حبیب سُن لیجئے خدا کے واسطے آئے ہیں ہم داستان غم سنانے کے لئے حضرت عیسی نہ آئے اب تو پھر کب آئیں گے مذہب اسلام کا سکہ ظلم جمانے کے لئے و استبداد کی یا شاہ! بس حد ہو چکی اب تو رہبر کی ضرورت ہے زمانہ کے لئے مولوی نبی بخش نامی ایک صاحب نے شیعہ رسالہ ” برہان بابت ماہ نومبر ۱۹۱۲ء کے صلے پر امام مہدی عیاں ہمیں صبر کو مخاطب کر کے کہا:.روز خلق کو ہے انتظار دکھا جلوه السلام کی نہیں غیبت بارگراں ہماری دعا ہے ہو ظاہر تمہارا غیر مسلم صبح نشان و مصلح السلام مسا السّلام اکابرین اور ایک صبح کا انتظار اک دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کے غیر مسلم پیروکار ایک مصلح اور مامورمن اللہ کی آمد کا بشدت انتظار کر رہے تھے.ہندوؤں کے مشہور اخبار ” تیج دہلی نے ۱۸ اگست ۱۹۳۰ء کی اشاعت میں بھگوان کرشن آؤ“ اور
18 ”ہندوستان کو سری کرشن کی بڑی ضرورت ہے“ کے عنوان سے لکھا:.بھگوان کرشن کی جنم کی مہابھارت کے زمانہ سے بھی زیادہ ضرورت ہے.گزشتہ ایک ہزار برس سے ہندوستان میں آفتیں نازل ہوئیں ان کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی لیکن بیسویں صدی میں سوشل زوال اور پولیٹیکل گراوٹ انتہائی حالت کو پہنچ چکی ہے اور بھگوت گیتا میں بھگوان کا وعدہ سچا ہے تو اوتار کی سب سے زیادہ ضرورت آج کل ہے.اس لئے بھگوان کرشنا آؤ.جنم لو.دنیا سے ناپاکی دور کرو.دھرم پھیلاؤ ( منقول از الامان دیلی ۲۳ راگست ۱۹۳۰ء) اخبار ”ہندو میں ۷ اراپریل ۱۹۳۰ء کو ایک نظم شائع ہوئی: اب وقت مسیحائی.“ ہے گوکل کے گوالے بیمار تیرے نزع میں لیتے ہیں سنبھالے وعدہ پر تیرے زندہ ہیں ابتک تیرے شیدائی کیا دیر ہے آغوش محبت میں بٹھا لے یورپ کے مشہور پروفیسر میکنزی اپنی (Introduction to socialogy) میں لکھتے ہیں:.کامل انسانوں کے بغیر سوسائٹی معراج کے کمال پر نہیں پہنچ سکتی اور اس غرض کے لئے محض عرفان اور حقیقت آگاہی کافی نہیں بلکہ ہیجان اور تحریک کی قوت بھی ضروری ہے جسے یوں کہنا چاہئے کہ یہ معمہ حل کرنے کے لئے ہم نور و حرارت دونوں کے محتاج ہیں.غالباً عہد حاضر کے معاشرتی مسائل کا فلسفیانہ فہم و ادراک بھی وقت کی اہم ترین ضرورت نہیں ہمیں معلم بھی چاہئے اور پیغمبر بھی ہمیں آج رسکن یا کارلائل یا ٹالسٹائی جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ضمیر کو زیادہ تشد داور سخت گیر بنانے اور فرائض کے دائرے کو زیادہ وسیع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں غالباً ہمیں ایک مسیح کی ضرورت ہے.“ ( بحوالہ مکاتیب اقبال ص ۴۶۲-۴۶۴ مرتبہ شیخ عطاء اللہ ایم.اے) یورپ کا ایک مفکر سیاح مارس انڈس ایک مستقبل کی تلاش میں“ کے عنوان پر لکھتا ہے:.دمشق، بیروت، بغداد، مکہ، تہران، قاہرہ اور ان کے ساتھ لنڈن اور واشنگٹن بھی ایک پیغمبر کے انتظار میں ہیں.جو سماجی مقصد اور اصلاح کا جھنڈا لئے ہوئے عیسی کی طرح کا شتکار کو صرف یہ کہہ کر ہوش میں لائے کہ جاگ ! جاگ!! اور طاقت کا مظاہرہ کر “ 66 ( بحوالہ رسالہ نگار جنوری فروری ۱۹۵۱ء)
19 دعویٰ موعود اقوام عالم مذکورہ حقائق اور شہادتوں سے عیاں ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کے پیروکار سبھی اپنی اپنی مقدس کتابوں کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک مصلح کی آمد کا انتظار کر رہے تھے.یہود کو بھی ایک مسیح کی انتظار تھی جس نے دور آخر میں ظاہر ہونا تھا.مسلمان بھی ایک امام مہدی کی راہ دیکھ رہے تھے.ہند و کرشن کی آمد کے منتظر تھے اور بدھ مت کے ماننے والے بڑھا کے نئے روپ میں ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے تھے.لیکن خدائی نوشتوں کے مطابق مقدر کیا تھا کہ تمام ملتوں کا موعود ایک ہی وجود کی صورت میں ظاہر ہو جو حضرت خاتم النبین ﷺ کا امتی اور پیرو کار ہو جس کا مقصد بعثت تمام بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کے آخری دین اور مکمل ضابطہ حیات اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنا تھا.اس تمام صورت حال کے پیش نظر اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ موعودا قوام عالم کون ہے اور اس کے مشن کو آگے بڑھانے والی جماعت کونسی ہے؟ جبکہ زمانہ بزبان حال پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ : ہم مریضوں کی ہے تمہی نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے بالآ خر زبان خلق نقارہ خدا بن گئی اور رحمت خداوندی نے جوش مارا اور ایک ہادی برحق کو اصلاح خلق کے لئے مامور کر دیا گیا اور ہندوستان کی ایک گمنام بستی سے یہ آواز بلند ہوئی:.میں وہ پانی ہوں جو اُترا آسماں سے وقت پر میں ہوں وہ نُورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار کیوں عجب کرتے ہو گر میں آ گیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا وم بھرتی ہے بادِ بہار پھر فرمایا وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا یہ آواز خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ ، عشق رسول میں سرشار اور بنی نوع انسان کے ہمدرد
20 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تھی.جن کو خدا تعالیٰ نے اس عظیم مشن کے لئے مامور فرمایا.چنانچہ آپ نے اپنے مشن کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.اگر تم ایماندار ہو تو شکر کے سجدات بجالاؤ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء گزر گئے اور بے شمار روحیں اس شوق میں سفر کر گئیں وہ وقت تم نے پالیا اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے.میں اس کو بار بار بیان کروں گا کہ میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا تادین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے.“ اسی طرح فرمایا: ” خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پاکر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تاوہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.سو اے حق کے طالبو! سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں اسلام کے لئے آسمانی مدد کی ضرورت تھی.کیا ابھی تک تم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ گزشتہ صدی میں جو تیرہویں صدی تھی کیا کیا صدمات اسلام پر پہنچ گئے اور ضلالت کے پھیلنے سے کیا نا قابل برداشت زخم ہمیں اٹھانے پڑے کیا ابھی تک تم نے معلوم نہیں کیا کہ کن کن آفات نے اسلام کوگھیرا ہوا ہے کیا اس وقت تم کو یہ خبر نہیں ملی کہ کس قدر لوگ اسلام سے نکل گئے کس قدر عیسائیوں میں جاملے کس قدر د ہر یہ اور طبعیہ ہو گئے اور کس قدر شرک اور بدعت نے تو حید اور سنت کی جگہ لے لی اور کس قدر اسلام کے رد کے لئے کتابیں لکھی گئیں اور دنیا میں شائع کی گئیں سو تم اب سوچ کر کہو کہ کیا اب ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس صدی پر کوئی ایسا شخص بھیجا جاتا جو بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتا اگر ضرور تھا تو تم دانستہ نعمت الہی کو دمت کرو اور اس شخص سے منحرف مت ہو جاؤ جس کا آنا اس صدی پر اس صدی کے مناسب حال ضروری تھا اور جس کی ابتداء سے نبی کریم نے خبر دی تھی اور اہل اللہ نے اپنے الہامات اور مکاشفات سے اس کی نسبت لکھا تھا ذرہ نظر اٹھا کر دیکھو کہ اسلام کو کس درجہ پر بلاؤں نے مجبور کر لیا ہے اور کیسے چاروں طرف سے اسلام پر مخالفوں کے تیر چھوٹ رہے ہیں اور کیسے کروڑ ہا نفسوں پر اس زہر نے اثر کر دیا ہے یہ عملی طوفان یہ عقلی طوفان یہ فلسفی طوفان پی کر اور منصوبوں کا طوفان، بی فسق و فجور کا طوفان سیہ لالچ اور طمع دینے کا طوفان یہ اباحت اور دہریت کا طوفان یہ شرک و بدعت کا طوفان جو ہے ان سب طوفانوں کو ذرہ آنکھیں کھول کر دیکھو اور اگر طاقت ہے تو ان مجموعہ کلوفانات کی کوئی پہلے زمانہ
21 میں نظیر بیان کرو اور ایمانا کہو کہ حضرت آدم سے لے کر تا ابد اس کی کوئی نظیر بھی ہے اور اگر نظیر نہیں تو خدا تعالیٰ سے ڈرواور حدیثوں کے وہ معنی کرو جو ہو سکتے ہیں..آئینہ کمالات اسلام ص ۲۵۱ تا ۲۵۴) 66 فرمایا:.بذریعہ وحی الہی میرے پر تبصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس امت کے لئے ابتداء سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور آسمانی مائدہ کو نئے سرے سے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم ﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ( تذكرة الشهادتين ص۴۷۳) ہوں.“ خیر پر یہ بھی واضح ہو کہ میرا اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا محض مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں تینوں قوموں کی اصلاح منظور ہے.اور جیسا کہ خدا نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا ہے ایسا ہی میں ہندوؤں کے لئے بطور اوتار کے ہوں اور میں عرصہ بیس برس سے یا کچھ زیادہ برسوں سے اس بات کو شہرت دے رہا ہوں کہ میں ان گناہوں کے دور کرنے کے لئے جن سے زمین پر ہوگئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانی حقیقت کے رو سے میں وہی ہوں.یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں ہے بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوؤں کے لئے کرشن ہے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے.میں جانتا ہوں کہ جاہل مسلمان اس کو سن کر فی الفور یہ کہیں گے کہ ایک کافر کا نام اپنے اوپر لے کر کفر کو صریح طور پر قبول کیا ہے لیکن یہ خدا کی وحی ہے جس کے اظہار کے بغیر میں رہ نہیں سکتا اور آج یہ پہلا دن ہے کہ ایسے بڑے مجمع میں اس بات کو میں پیش کرتا ہوں کیونکہ جولوگ خدا کی طرف سے ہوتے ہیں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے.“ (لیکچر سیالکوٹ ص۳۳)
22
23 باب دوم سوانح حضرت مہدی دوراں
24
25 مختصر سوانح مهدی دوراں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا نام حضرت مرزا غلام احمد صاحب تھا.آپ کے والد صاحب کا نام مرزا غلام مرتضی صاحب ، دادا کا نام حضرت مرزا عطا محمد صاحب.اور پڑدادا کا نام مرزا گل محمد صاحب تھا.آپ کی والدہ کا نام حضرت چراغ بی بی صاحبہ تھا.آپ ایک نہایت معزز مغل خاندان کی برلاس شاخ سے تعلق رکھتے تھے.اس خاندان کا امتیازی لقب مرزا ہے.یہی وجہ ہے کہ اس خاندان کے تمام افراد کے ناموں سے پہلے مرزا کا لفظ لکھا جاتا ہے.اس خاندان کے ایک بزرگ مرزا ہادی بیگ صاحب سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں بابر بادشاہ کے عہد حکومت میں اپنے وطن خراسان کو چھوڑ کر قریباً دو سو آدمیوں سمیت ہندوستان آگئے اور دریائے بیاس کے قریب آباد ہو گئے.یہاں پر انہوں نے ایک گاؤں کی بنیاد رکھی جس کا نام اسلام پورہ رکھا.یہ گاؤں بعد میں اسلام پور قاضی ما جبھی کے نام سے مشہور ہوا.رفتہ رفتہ لوگ صرف قاضی ما جبھی کہنے لگے.پھر ماجھی کا لفظ بھی اڑ گیا اور قاضی رہ گیا.آہستہ آہستہ قاضی سے قادی اور پھر قادی سے قادیان ہو گیا.قادیان لاہور سے شمال مشرق کی طرف قریبا ستر میل کے فاصلہ پر ہندوستان کے صوبہ مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں واقع ہے یہی وہ مقدس بستی ہے جہاں پر جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ء کو پیدا ہوئے.جب آپ کی عمر چھ سات سال کی ہوئی تو ایک استاد آپ کو پڑھانے کے لئے مقرر کیا گیا جس سے آپ نے قرآن کریم اور اس زمانہ کے رواج کے مطابق فارسی کی چند کتابیں پڑھیں.بعد میں دو اور اساتذہ سے آپ فارسی اور عربی پڑھتے رہے.طب کی بعض کتب آپ نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں جو کہ بہت بڑے حکیم بھی تھے اس تعلیم کے نتیجہ میں آپ کو عربی اور فارسی کا کچھ ابتدائی علم حاصل ہو گیا اس سے زیادہ آپ نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی.تعلیم با قاعدہ طور پر آپ نے کسی استاد سے بھی حاصل نہیں کی البتہ اپنے طور پر دینی کتابیں پڑھتے رہتے تھے اور قرآن مجید کا مطالعہ کرنے اور اس پر غور کا تو آپ کو شروع سے ہی بہت شوق تھا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا بچپن بہت ہی سادہ اور پاکیزہ تھا.آپ کی سادہ، پاکیزہ اور نیک عادتوں کا دیکھنے والوں پر گہرا اثر ہوتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ جبکہ آپ ابھی بچہ ہی تھے ایک بزرگ مولوی غلام رسول صاحب نے جو کہ خود بھی ولی اللہ تھے آپ کے سر پر محبت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ:.اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑ کا نبوت کے قابل ہے.( بحوالہ حیات طیبہ ص ۱۴)
26 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے.کہ شروع ہی سے آپ محبت الہی سے سرشار تھے.چنانچہ آپ کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے سیرۃ المہدی جلد اول میں تحریر فرماتے ہیں :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس روحانی پیوند کا جس عجیب و غریب رنگ میں آغاز ہوا اس کا تصور ایک صاحب دل انسان میں وجد کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود کا جوانی کا عالم تھا جبکہ انسان کے دل میں دنیوی ترقی اور مادی آرام و آسائش کی خواہش اپنے پورے کمال پر ہوتی ہے اور حضور کے بڑے بھائی صاحب ایک معزز عہدہ پر فائز ہو چکے تھے اور یہ بات بھی چھوٹے بھائی کے دل میں ایک گونہ رشک یا کم از کم نقل کا رجحان پیدا کر دیتی ہے ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود کے والد صاحب نے علاقہ کے ایک سکھ زمیندار کے ذریعہ جو ہمارے دادا صاحب سے ملنے آیا تھا حضرت مسیح موعود کو کہلا بھیجا کہ آجکل ایک ایسا بڑا افسر برسراقتدار ہے جس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں اس لئے اگر تمہیں نوکری کی خواہش ہو تو میں اس افسر کو کہہ کر تمہیں اچھی ملازمت دلا سکتا ہوں.یہ سکھ زمیندار حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہمارے دادا صاحب کا پیغام پہنچا کر تحریک کی کہ یہ ایک بہت عمدہ موقع ہے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے.حضرت مسیح موعو نے اس کے جواب میں بلا توقف فرمایا.حضرت والد صاحب سے عرض کر دو کہ میں ان کی محبت اور شفقت کا ممنون ہوں مگر ” میری نوکری کی فکر نہ کریں میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں.یہ سکھ زمیندار حضرت دادا صاحب کی خدمت میں حیران و پریشان ہو کر واپس آیا اور عرض کیا کہ آپ کے بچے نے تو یہ جواب دیا ہے کہ میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں“.شاید وہ سکھ زمیندار حضرت مسیح موعود کے اس جواب کو اس وقت اچھی طرح سمجھا بھی نہ ہو گا.مگر دادا صاحب کی طبیعت بڑی نکتہ شناس تھی کچھ دیر خاموش رہ کر فرمانے لگے کہ اچھا غلام احمد نے یہ کہا ہے کہ میں نوکر ہو چکا ہوں تو پھر خیر ہے اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا.اور اس کے بعد کبھی کبھی حسرت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ سچا رستہ تو یہی ہے جو غلام احمد نے اختیار کیا ہے ہم تو دنیا داری میں الجھ کر اپنی عمریں ضائع کر رہے ہیں.مگر باوجود اس کے وہ شفقت پدری اور دنیا کے ظاہری حالات کے ماتحت اکثر فکر مند بھی رہتے تھے کہ میرے بعد اس بچہ کا کیا ہوگا ؟ اور لازمه بشری کے ماتحت حضرت مسیح موعود کو بھی والد کے قرب وفات کے خیال سے کسی قدر فکر ہوا.لیکن اسلام کا خدا بڑ اوفا دار اور بڑا قدرشناس آتا ہے.چنانچہ قبل اس کے کہ ہمارے دادا صاحب کی آنکھیں بند ہوں خدا نے اپنے اس نوکر شاہی کو 66
27 جس نے اپنی جوانی میں اس کا دامن پکڑا تھا اس عظیم الشان الہام کے ذریعہ تسلی دی کہ:.الَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ 66 د یعنی اے میرے بندے تو کس فکر میں ہے؟ کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں.“ حضرت مسیح موعود.اکثر فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقات قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ یہ الہام اس شان اور اس جلال کے ساتھ نازل ہوا کہ میرے دل کی گہرائیوں میں ایک فولادی میخ کی طرح پیوست ہو کر بیٹھ گیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں میری کفالت فرمائی کہ کوئی باپ یا کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست کیا کر سکتا تھا؟ اور فرماتے تھے کہ اس کے بعد مجھ پر خدا کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ ناممکن ہے کہ میں ان کا شمار کرسکوں.“ (سیرت المہدی جلد اول) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوئی سے پہلے کی پاکیزہ زندگی کے متعلق کئی غیروں کی شہادتیں ملتی ہیں.چنانچہ مشہور اہلحدیث لیڈ ر مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ اشاعۃ السنہ حضرت اقدس کی شہرہ آفاق تصنیف براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے آپ کے متعلق لکھتا ہے :.مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (واللہ حسیبہ ) شریعت محمدیہ پر قائم و پر ہیز گار وصداقت شعار ہیں.“ (رسالہ اشاعتہ السنہ جلد نمبر ۷ ص ۶) مشہور صحافی جناب منشی سراج الدین صاحب بانی ”زمیندار“ اخبار لا ہور نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے حق میں اپنی چشم دید گواہی دی کہ:.ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا عوام سے کم ملتے تھے.۱۸۷۷ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے یہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی ان دنوں میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محود مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے.“ (اخبار ”زمیندار ۱۸ جون ۱۹۰۸ء) جناب مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں:.کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بلحاظ اخلاق و عادات اور کیا بلحاظ خدمت و حمایت دین مسلمانان ہند میں ان کو ممتاز و برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا.“ (اخبار وکیل امرتسر ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء) آپ کی پہلی شادی ۱۸۵۱ء میں آپ کے ماموں کی بیٹی ”حرمت بی بی صاحبہ سے ہوئی.اس بیوی
28 سے دو بیٹے پیدا ہوئے :.ا.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب.۱۸۵۳ء تا ۱۹۳۱ء ۲.حضرت مرز افضل احمد صاحب.۱۸۵۵ء تا ۱۹۰۴ء آپ کی دوسری شادی ۱۸۸۴ء میں اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے خاص الہام کے ماتحت دہلی کے ایک مشہور سادات خاندان کی ایک معزز اور پاکباز خاتون ” حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ سے ہوئی.اس بیوی سے دس بچے پیدا ہوئے جن میں سے پانچ بچے تو کم عمری میں ہی فوت ہو گئے.باقی پانچ بچوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں:.ا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء تا ۸ نومبر ۱۹۶۵ء ۲.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ۲۰ /اپریل ۱۸۹۳ تا ۲ ستمبر ۱۹۶۳ء ۳.حضرت مرزا شریف احمد صاحب ۲۴ مئی ۱۸۹۵ ء تا ۲۶ / دسمبر ۱۹۶۱ء ۴.حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ - ۲ مارچ ۱۸۹۷ ۳۰ مئی ۱۹۷۷ء ۵.حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ.۲۵ جنوری ۱۹۰۴ء تا ۶ رمئی ۱۹۸۶ء ۱۸۷۶ء تک آپ کی زندگی بالکل ذاتی رنگ رکھتی تھی مگر اس کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ پبلک میں آنا شروع کیا یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہئے کہ خدا کی تقدیر آپ کو دنیا کی اصلاح کے لئے زاویہ گمنامی سے نکال کر شہرت کے میدان کی طرف کھینچنے لگی.یہ وہ دور تھا کہ جب اسلام پر ہر طرف سے حملے ہورہے تھے اور ساری دنیا کا یہ حال ہو رہا تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن کی بظاہر خوشگوار ہوائیں جہاں جہاں سے بھی گزرتی تھیں دہریت اور مادیت کا بیج بو جاتی تھیں اور یہ زہر بڑی سرعت کے ساتھ ہر قوم وملت میں سرایت کرتا جارہا تھا.ان خطرات کو حضرت مسیح موعود کی تیز اور دور بین آنکھ نے دیکھا اور آپ کی اکیلی مگر بہادر روح اس مہیب خطرہ کے مقابلہ کے لئے بے قرار ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی.آپ کی سب سے پہلی تصنیف جو براہین احمدیہ کے نام سے موسوم ہے اور چار جلدوں میں ہے اس مرکب حملہ کے جواب میں لکھی گئی تھی.اس کتاب میں خصوصیت سے الہام کی ضرورت اور اس کی حقیقت.اسلام کی صداقت اور قرآن کی فضیلت.خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم کی وسعت.خدا کی خالقیت اور اس کی مالکیت پر نہایت لطیف اور سیر کن بحثیں ہیں اور ساتھ ہی اپنا ملہم ہونا ظاہر کر کے اپنے بہت سے الہامات درج کئے گئے ہیں جن میں سے بہت سے الہام آئندہ کے متعلق عظیم الشان پیشگوئیوں پر مشتمل ہیں.غرض یہ اس پانیہ کی کتاب ہے کہ متفقین نے اسے بالا تفاق اس زمانہ میں اسلامی مدافعت کا شاہکار قرار دیا ہے.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی جو فرقہ اہلحدیث کے نامور لیڈر تھے اور بعد
29 میں حضرت بانی سلسلہ کے خلاف سب سے پہلے کفر کا فتویٰ لگانے والے بنے انہوں نے اپنے رسالے اشاعتہ السنہ میں براہین احمدیہ کار یو یو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:.”ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی.اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے.“ اشاعۃ السنہ جلد نمبر ۷ ص ۶ بابت سال ۱۸۸۴ء) ابھی براہین احمدیہ کی تصنیف جس کے چار حصے ۱۸۸۰ء تا ۱۸۸۴ء میں شائع ہوئے مکمل نہیں ہوئی تھی کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مارچ ۱۸۸۲ء میں وہ تاریخی الہام ہوا جو آپ کی ماموریت کی بنیاد تھا.اس الہام میں خدا تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا :.يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيْكَ.مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى الرَّحْمَانُ عَلَّمَ الْقُرآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَ (بَانُهُمْ.وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.( براہین احمدیہ حصہ سوم ) یعنی.اے احمد! اللہ نے تجھے برکت دی ہے.پس جو دارتو نے دین کی خدمت میں چلایا بلکہ دراصل خدا نے چلایا ہے.خدا نے تجھے قرآن کا علم عطا کیا ہے تا کہ تو ان لوگوں کو ہوشیار کرے جن کے باپ دادے ہوشیار نہیں کئے گئے اور تا مجرموں کا راستہ واضح ہو جاوے.لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا کی طرف سے مامور کیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں.آپ نے اپنی زندگی میں آریوں اور عیسائیوں پادریوں کے دین حق پر حملوں کے دفاع اور قرآن کریم کی روح پرور تعلیم کی اشاعت کی خاطر ۸۰ سے زائد کتب تصنیف فرما ئیں اور باوجود محدود وسائل کے دنیا میں دین حق کی اشاعت فرمائی.اخبار ” صادق الاخبار ڈیواری (بہاول پور ) نے حضرت مسیح موعود کی وفات پر لکھا:.”مرزا صاحب نے اپنی زور تقاریر اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچر اعتراضات کے داندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے.اور ثابت کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کماحقہ ادا کر کے خدمت اسلام میں کوئی ( بحوالہ تشحید الاذہان جلد نمبر صفحه ۳۸۲ - ۱۹۰۸ء) دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.“ علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ نے لکھا:.
30 وو مرحوم ایک مانے ہوئے مصنف اور مرزائی (احمدی) فرقہ کے بانی تھے آپ کی پیدائش ۱۸۴۰ء۱۸۳۹٫ء میں ہوئی آپ نے علوم شرقیہ میں کمال حاصل کیا.اپنی زندگی کے آخری دن تک کتابوں کے عاشق رہے اور دنیوی پیشوں سے پر ہیز کرتے رہے.۱۸۷۴ء تا ۱۸۷۶ ء عیسائیوں، آریوں، برہموؤں کے خلاف شمشیر قلم خوب چلایا.آپ نے ۱۸۸۰ء میں تصنیف کا کام شروع کیا.آپ کی پہلی تصنیف ( براہین احمدیہ ) اسلام کے ڈیفینس میں تھی جس کے جواب کے لئے آپ نے دس ہزار روپے کا انعام رکھا.آپ نے انیسویں صدی کے لئے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا.۱۸۸۹ء میں بیعت لینی شروع کی.آپ نے اپنی تصنیف کردہ اتنی کتابیں پیچھے چھوڑیں جن میں سے ہیں عربی زبان میں ہیں بے شک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا.“ علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ ۱۹۰۸ء بحوالہ تشحید الا ذہان جلد ۳ نمبر ۸ صفحه ۳۲۲.۱۹۰۸ء) حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے مشہور لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی“ کے متعلق اخبار جنرل وگوہر آصفی کلکتہ نے جلسہ مذاہب عالم لا ہور ۱۸۹۶ء کے اختتام پر لکھا:.حق تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر اس جلسہ میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے رو برو ذلت و ندامت کا قشقہ لگتا ہے.مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچالیا.بلکہ اس کو مضمون کی بدولت فتح نصیب ہوئی.“ ( اخبار جنرل وگو ہر آصفی کلکته مورخ ۲۴ / جنوری ۱۸۹۷ء صفحه ۷ )
31 حضرت اماں جان حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت اماں جان ۱۸۶۵ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کے گھر پیدا ہوئیں.آپ کی پیدائش کے بعد آپ کے والد صاحب کی پانچ ہزار کی جائیداد بغیر کسی قسم کی تکلیف کے مل گئی جس کی آمدنی پندرہ روپے ماہوار تھی.آپ کے والد صاحب نے آپ کا نام نصرت جہاں بیگم صاحبہ رکھا.آپ کی پیدائش کے بعد پانچ بچے پیدا ہوئے لیکن فوت ہو گئے.پھر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ۱۸۸۱ء میں پیدا ہوئے ، ان کے بعد پھر پانچ بچے پیدا ہو کر فوت ہوئے.پھر ۱۸۹۰ ء میں حضرت میر محمد الحق صاحب پیدا ہوئے.پانچ سال کی عمر میں آپ کی تعلیم گھر میں قرآن اور اردو سے ہوئی اور خود حضرت میر صاحب نے آپ کو تعلیم دی اور آپ کی تربیت خالصتہ پاکیزہ ماحول میں ہوئی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ کبھی تو حضرت میر صاحب نے ایک نسخہ منگوالیا.پھر دعا کے لئے بھی خط لکھتے رہے ایک دفعہ لکھا ” دعا کریں خدا مجھے ایک نیک اور صالح داماد عطا کرے“ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو الہام بھی ہوا لہذا حضور نے اپنی طرف سے تحریک کر دی اور یہ تحریک کچھ تر ڈد کے بعد منظور ہو گئی اس طرح ۱۸۸۴ء میں آپ حضرت اقدس کے عقد میں آگئیں.یہ شادی اللہ تعالیٰ کی خاص منشاء اور حضور ﷺ کی پیشگوئی یتزوج و یو لدله یعنی مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کی اولا د ہوگی، کے مطابق ہوئی اور آپ ہی کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس علیہ السلام کو عظیم الشان اولا د عطا فرمائی.آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے وعدوں کے مطابق فرزند اس بی بی سے عطا کئے ہیں.جو شعائر اللہ میں سے ہیں اس واسطے اس کی خاطر داری ضروری ہے آپ کے بچوں کی تربیت کرنے کے اصول یہ تھے کہ ا.بچے پر ہمیشہ اعتبار کرنا ۲.جھوٹ سے نفرت پیدا کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کو جتنے لوگوں نے بھی قریب سے دیکھا.مثلاً حضرت اماں جان کے دونوں بھائی ، آپ کی اولاد، بہوئیں اور خادمائیں وغیرہ سب کا یہ کہنا ہے کہ یہ دونوں عام میاں بیوی کی طرح نہ تھے.آپ دونوں میں کبھی آپس میں جھگڑا نہ ہوتا.کسی بات پر لڑائی نہ ہوتی.اُدھر حضور حضرت اماں جان کی ہر بات مانتے پیار اور احسان کا سلوک کرتے تو ادھر حضرت اماں جان بھی حضور کی چھوٹی سے
32 چھوٹی ناپسند کا خیال رکھتیں.کھانا بھی اکثر خود پکاتیں یا پھر سامنے بیٹھ کر اپنی نگرانی میں پکوا تیں.آپ کے دوسرے کاموں میں بھی اس طرح آپ کا ہاتھ بٹا تیں جیسے کوئی دوست کا کام کر رہا ہے.حضور علیہ السلام حضرت اماں جان کو تم کہہ کر بلاتے اور اردو زبان جو کہ اماں کی زبان تھی اس میں باتیں کرتے.کبھی کبھی پنجابی بھی بول لیا کرتے.حضرت اماں جان بھی آپ کو عزت سے حضور یا حضرت صاحب کہ کر بلایا کرتیں.غرض یہ جوڑا بے مثال تھا اور آپس کی محبت ایسی تھی جو عام دیکھنے میں نہیں آتی.موسم سرما کی آمد پر نئی رضائیاں بنوا کر غریبوں میں تقسیم کرتیں.بہت مہمان نواز تھیں اور بیوہ عورتوں کی خبر گیری کرتیں.آپ کی وفات ۲۲ اپریل ۱۹۵۲ء میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.(ماخوذ از کامیابی کی راہیں شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ) مبشر اولاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاں حضرت اماں جان کے بطن سے جن بچوں کی پیدائش ہوئی ، وہ مبشر اولاد کہلاتی ہے.کیونکہ ان تمام بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی پیدائش کی بشارت دے دی تھی.ان بچوں کی تعداد دس تھی.جن میں سے پانچ بچے صغرسنی میں ہی وفات پاگئے.جبکہ پانچ بچوں نے لمبی عمر پائی.جن کی تفصیل حسب ذیل ہے.ا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ مسیح الثانی آپ کا تفصیلی تعارف اس کتاب کے باب نمبر ۵ جماعت احمد یہ کانظام خلافت میں دیا گیا ہے.۲.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے عظیم الشان الہی بشارات کے مطابق حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی پیدائش ہو چکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک عظیم فرزند کی بشارت دی گئی.جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں شائع فرمایا.اس الہام کے الفاظ یہ تھے:.يَأْتِي قَمَرُ الْآنِيَاءِ وَامْرُكَ يَتَاتَّى يُسِرُّ اللَّهُ وَجْهَكَ وَيُنِيرُ بُرْهَانَكَ سَيُولِدُ لَكَ الْوَلَدُ وَ يُدْنِي مِنْكَ الْفُضْلُ.( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۶)
33 یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہو جائے گا.خدا تیرے منہ کو بشاش کرے گا.اور تیرے برھان کو روشن کر دے گا.اور تجھے ایک بیٹا عطا ہو گا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا.اس الہام کی اشاعت کے چند ماہ کے بعد ۲۰ / اپریل ۱۸۹۳ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت ہوئی.وہ اس نشان کے پورا ہونے پر اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار تحریر فرمایا جو پنجاب پریس سیالکوٹ سے شائع ہوا.اس میں آپ نے مذکورہ بالا پیشگوئی کا ذکر کر کے تحریر فرمایا.سو آج ۲۰ اپریل ۱۸۹۳ءکو وہ پیشگوئی پوری ہوگئی.یہ تو ظاہر ہے کہ انسن کو خود اپنی زندگی کا اعتبار نہیں.چہ جائیکہ یقینی اور قطعی طور پر یہ اشتہار دیوے کہ ضرور عنقریب اس کے گھر میں بیٹا پیدا ہوگا.خاص کر ایسا خص جو اس پیشگوئی کو اپنے صدق کی علامت ٹھہراتا ہے.اور تحدی کے طور پر پیش کرتا ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۳۲۳) اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بشا رات کے مطابق آپ کی شاندار صلاحیتیں شروع ہی سے نمایاں ہو کر سامنے آ رہی تھیں.ابھی آپ کی عمر اٹھارا برس کی بھی نہیں تھی کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے آپ کو صدر انجمن کا ممبر نامز دفرمایا.اور اس کے ساتھ باقاعدہ طور پر آپ نے خدمت دین کا آغاز فرمایا اور وفات تک کامل وفا کے ساتھ خدمت اسلام پر کمر بستہ رہے.شروع ہی سے آپ کی طبیعت خدمت دین اور دینی علوم کے حصول کی طرف اتنی مائل تھی کہ جب آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے تو جلد ہی آپ کی قابلیت کی وجہ سے سب آپ کا احترام کرنے لگ گئے.مگر آپ نے کالج کو اس لئے الوداع کہہ دیا کہ قادیان میں حضرت خلیفۃ اسح الاول کی خدمت میں حاضر ہو کر قرآن کریم کے درس میں شامل ہو سکیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول پہلے دن میں دو مرتبہ قرآن کریم کا درس دیتے تھے لیکن اب آپ نے دن میں تین مرتبہ درس دینا شروع فرما دیا.خلافت ثانیہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب روز و شب خدمت دین پر کمر بستہ ہو گئے.صدرانجمن احمدیہ کی مختلف نظارتوں کے فرائض ہوں، یا صدر انجمن احمدیہ کے قوانین کی تدوین ہو، ہجرت کا پُر آشوب دور ہو یا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی علالت کے نازک دور میں نگران بورڈ کی صدارت، آپ ہر موقع پر اپنے عظیم بھائی کے دست و بازو بن کر خدمت دین پر کمر بستہ نظر آتے تھے.آپ کی خدمات صرف انتظامی میدان تک محدود نہیں تھیں.آپ ایک بلند پایہ محقق اور مصنف بھی تھے.آپ کی تحریر میں ہر بات دلیل اور حوالہ کے ساتھ لکھی ہوتی تھی.مخالفین کے اعتراضات کا جواب اس جامع اور مدلل طریق پر دیتے کہ کوئی بھی پہلو اس گرفت سے باہر نہ رہتا.آپ نے ۳۲ تصانیف تحریر فرما ئیں.جس وقت آپ نے سیرت خاتم النبین یہ تحریر فرمائی ، اس دور میں مستشرقین کی طرف سے آنحضرت ﷺ کی مبارک زندگی پر بہت سی کتب شائع کی جارہی تھیں.ان
34 میں سے اکثر تعصب سے آلودہ تھیں اور آپ پر طرح طرح کے اعتراضات کئے جارہے تھے.آپ نے تمام تاریخی حقائق کو اس خوبصورتی سے پیش کیا کہ، وہ تمام اعتراضات دھواں ہو کر اڑنے لگے.اسی طرح جب آپ نے محسوس فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کے صحابہ ایک ایک کر کے اس عالم فانی سے رخصت ہورہے ہیں تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روایات جمع فرمائیں اور یہ روایات سیرت المہدی کے نام سے پانچ جلدوں میں شائع ہوئیں.یہ کتاب آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک قیمتی خزانہ ہے.تمام تر مصروفیات کے باوجود آپ احباب جماعت سے ذاتی تعلقات رکھتے اور ان کی تربیت کے لئے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے کوشاں رہتے.باوجود تمام علم اور خدمت دین کے اور باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک موعود بیٹا ہونے کے آپ انکسار اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا ایک نمونہ تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیماری کے ایام میں آپ کا مبارک وجود احمدیوں کے لئے ایک سہارا تھا.اور حضور کی بیماری میں آپ کے فرائض میں پہلے سے بھی بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا.آپ نگران بورڈ کے صدر بھی تھے اور نگران بورڈ کے فیصلوں کے واجب العمل ہونے کے لئے ضروری تھا کہ آپ کی رائے اس فیصلے کے حق میں ہو.اور جب بیماری کی وجہ سے حضور کے لئے مجلس مشاورت کی صدارت کر نا ممکن نہ رہا تو حضور کے حکم کے تحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اس ذمہ داری کو ادا فرماتے رہے.خواہ جماعت میں کوئی تربیتی مسئلہ ہو یا بیرونی مخالفین کی ریشہ وانیوں کا سد باب کرنا ہو، آپ با وجود کمزوری صحت کے مستعدی سے ان فرائض کو ادا فرماتے.آپ نے مورخہ ۲ ستمبر ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ عظیم مبشر فرزند اپنی تمام عمر خدمت سلسلہ میں گزار کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں تدفین ہوئی.(استفاده از سلسلہ احمدیہ حصہ دوم ص ۵۹۵ تا ۵۹۷ مرتبہ ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب) حضرت مرزا شریف احمد صاحب الہی منشاء کے مطابق جب حضرت مسیح موعود کی شادی حضرت اماں جان سے ہوئی تو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس شادی سے ہونے والی اولاد کے متعلق اور بالخصوص ایک عظیم الشان فرزند کی بابت عظیم الشان خوشخبریاں عطا کی گئی تھیں.اس مبارک شادی کے ہونے والے ہر بچے کی پیدائش سے قبل اس کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہامات سے نوازا گیا تھا.ان مبارک وجودوں میں سے ایک حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا وجود بھی تھا.آپ مورخہ ۲۴ مئی ۱۸۹۵ء کو پیدا ہوئے.آپ کی پیدائش سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بابت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی تھی اور آپ کے متعلق یہ الہامات ہوئے تھے.
35 ا.عَمَّرَهُ اللهُ عَلَى خِلَافِ التَّوَقُع ( تذکر ص ۷۰۹ ایڈیشن چهارم ۲۰۰۴ء) اللہ تعالیٰ اس کو خلاف توقع عمر دے گا.۲ - أَمَّرَهُ اللهُ عَلَى خِلَافِ التَّوقع ( ( تذکر ص ۷۰۹ ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء) اللہ تعالیٰ اس کو خلاف توقع صاحب امر کرے گا -٣- مُرَادُكَ حَاصِلٌ ( تذکرہ ص ۷۰۹ ایڈیشن چهارم ۲۰۰۴ء) تیری مراد حاصل ہو جائے گی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں.ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ بادشاہ آیا.دوسرے نے کہا ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے.ایک مرتبہ آپ نے عالم کشف میں حضرت مرزا شریف صاحب کے متعلق کہا' اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں.( تذکره ص ۵۸۴ - ۴۰۵ ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء) حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے خدائی الہامات کے مطابق بہت شاہانہ مزاج پایا تھا.تقسیم ملک کے بعد جب ہجرت کی وجہ سے مالی لحاظ سے تنگی کا زمانہ تھا ، اس وقت بھی آپ بوجھوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر ضرورت مند کی مدد فرماتے.مردانہ شجاعت آپ کی طبیعت کا ایک نمایاں وصف تھا.آزادی سے قبل جب احرار نے کچھ انگریز حکام کے تعاون سے جماعت کے خلاف شورش بر پا کی ، اس وقت حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت اور شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے صدر انجمن میں نظارت خاص کے نام سے ایک نظارت قائم فرمائی اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو اس کا ناظر مقررفرمایا.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل آپ کے شامل حال تھا.آپ کی بیدار مغزی اور حسن تدبیر سے احرار کی چالیں نا کام ہونے لگیں.دشمن نے آپ کو اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور ایک شخص حنیفا نے آپ پر لاٹھی سے حملہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ محفوظ رہے.۱۹۵۳ء کے فسادات میں بھی آپ کو گرفتار کیا گیا.آپ نے ہمیشہ اس قسم کے حالات کا مردانہ شجاعت کے ساتھ سامنا کیا.آپ کچھ عرصہ فوج میں بھی رہے اور احمد یہ ٹیریٹوریل فورس کا نظم ونسق بھی آپ کے سپر درہا.آپ کی وفات کے بعد ناظر اعلیٰ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب نے ایک مرتبہ فرمایا کہ صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس کے دوران جب کسی معاملہ پر بحث ہوتی تو ہم خیال کرتے کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب اس معاملہ میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے.مگر جب ہم اپنی اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہوتے تو آپ سر بلند فرماتے اور ایسی مختصر مگر مدل رائے کا اظہار فرماتے کہ ہم سب حیران رہ جاتے اور ان کی رائے قبول کی
36 جاتی.بڑی سے بڑی فائل پیش ہوتی.آپ اسے سنتے اور ایسا مدلل فیصلہ تحریر فرماتے کہ یوں معلوم ہوتا کہ ایک ایک صفحہ آپ کے ذہن میں مستحضر ہے.جب نو وارد مربیان دفتر آتے تو آپ ان سے دینی معاملات پر گفتگو فرماتے اور ان کی قابلیت اور کردار کے متعلق رائے قائم فرما لیتے اور بعد میں ظاہر ہونے والے واقعات اس رائے کی حرف بحرف تصدیق کرتے تھے.آپ کو غریبوں سے بہت ہمدردی تھی.عسر ہو یا یسر ہو آپ اپنی مالی حالت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ضرورت مندوں کی مددفرماتے.راہ چلتے چلتے کسی کو ضرورت مند محسوس کر کے اس کے ہاتھ میں ایک خطیر رقم پکڑا دینا آپ کا معمول تھا.گو آپ نظام کے بہت قائل تھے مگر اپنے ماتحتوں کی تکلیف آپ کو بے تاب کر دیتی تھی اور آپ اسے دور کرنے کے لئے کوشاں ہو جاتے.آپ کو شکار کا بہت شوق تھا.ایک مرتبہ آپ ریاست کپورتھلہ میں شکار کرنے کی غرض سے تشریف لے گئے.دیر ہو جانے کی وجہ سے آپ کو ایک گاؤں میں رات گزارنی پڑی.اسی رات ، جس گھر میں آپ ٹھہرے تھے، ان کا بچہ گم گیا اور باوجود تلاش کرنے کے نہ ملا.آپ کو خیال گزرا کہ انہیں یہ خیال نہ آئے کہ میری آمد کی وجہ سے وہ بچے کا خیال نہ کر سکے اور وہ گم گیا.اس پر آپ نے خاص توجہ سے خدا سے دعا کرنی شروع کی.دعا کی حالت میں غنودگی میں آپ کو دکھایا گیا کہ ایک بوڑھا شخص ایک بچے کو لے کر آ رہا ہے.آپ نے گھر والوں کو اسی وقت اطلاع دی کہ ایک بوڑھا شخص بچے کو گھر لے کر آئے گا.صبح جب آپ کی روانگی کا وقت ہوا تو ابھی بچہ گر نہیں پہنچا تھا.اس پر آپ نے پھر دعا کی کہ میں اس حالت میں گھر والوں کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا.اے باری تعالیٰ میرے ہوتے ہوئے اس بچے کو گھر پہنچا دے.تھوڑی ہی دیر میں ایک معمر شخص ، گمشدہ بچے کو لے کر آ گیا اور گھر والوں نے خوشی خوشی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو رخصت کیا.آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود کو الہاماً بتایا گیا تھا کہ آپ کو خلاف توقع عمر ملے گی.جن دنوں میں طاعون زوروں پر تھی ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو شدید بخار ہو گیا.اور بیہوشی شروع ہوگئی اور بظاہر مایوس کن علامات ظاہر ہونی شروع ہو گئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے خیال آیا کہ اگر چہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگرلڑ کا ان دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اس پاک وحی کی تکذیب کریں گے جو اس نے فرمایا انـى أحـافـظ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ یعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا.جب حضرت مسیح موعود دعا کے لئے کھڑے ہو گئے تو معاوہ حالت میسر آ گئی جو استجابت دعا کی ایک کھلی کھلی نشانی ہے.ابھی حضور نے تین رکعت پڑھی تھی کہ کشفا دکھایا گیا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب بالکل تندرست
37 ہیں.جب کشفی حالت ختم ہوئی تو دیکھا کہ آپ ہوش کے ساتھ چار پائی پر بیٹھے ہیں اور پانی مانگتے ہیں.نماز ختم کر کے حضرت مسیح موعود نے بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام ونشان نہیں ہے.اس کے بعد کئی ایسے مواقع پیدا ہوئے کہ آپ کی زندگی کو خطرہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق آپ کو خلاف توقع عمر دیتا چلا گیا.تا ہم آپ مورخہ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۱ء کی صبح کور بوہ میں وفات پا کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے.وفات کے وقت آپ ناظر اصلاح وارشاد تھے.آپ کی بہشتی مقبرہ قطعہ خاص میں تدفین ہوئی.حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر مورخہ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو ” پسر موعود“ کی پیشگوئی پر مبنی جو اشتہار شائع فرمایا تھا اس میں ایک عظیم فرزند کی پیشگوئی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بشارت دی تھی کہ :.تیرا گھر برکتوں سے بھرے گا اور میں دینی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ میں سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا.تیری نسل بہت ہوگی (تذکرہ صفحہ ۱۴۳) اس الہام کی ایک مظہر حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ بھی تھیں آپ مورخہ ۲ / مارچ ۱۸۹۷ء کو ( قمری لحاظ سے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ) منگل سے پہلی رات کے نصف اول میں پیدا ہوئیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے متعلق یہ بشارت بھی دی کہ تُنْشَا فِي الْحِلْيَةِ یعنی وہ زیور میں نشو ونما پائے گی.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۱۷) پھر ۱۹۰۱ء میں حضور علیہ السلام کو اس دختر نیک اختر کے بارے میں یہ بھی الہام ہوا کہ ” نواب مبارکہ بیگم (احکم جلد نمبر ۴ صفحه ۳ مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۰۱ء) المختصر یہ کہ آپ حضرت مسیح موعود کی مبشر اولاد تھیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ حضور کو سب کچھ پہلے سے بتا رہا تھا کہ وہ لمبی عمر پائیں گی.خوش بخت ہوں گی.زیورات میں پلیں بڑھیں گی نواب کے لقب سے موسوم ہوں گی.دین کے ساتھ دنیا کی نعمتیں بھی فراخی سے انہیں ملیں گی.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نہایت ذہین و فہیم تھیں.تھوڑے ہی عرصے میں قرآن کریم ناظرہ روانی سے پڑھنے لگیں.آپ نے ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن کریم ناظرہ ختم کر لیا تھا اور دُہرا بھی لیا تھا.اس کے بعد قرآن کریم با ترجمہ بھی پڑھ لیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود نظم ”محمود کی آمین میں فرماتے ہیں.
38 اوران کے ساتھ کی ہے ایک دختر وہ نیک اختر کچھ پانچ کی ہے کلام اللہ کو پڑھتی ہے فرافر خدا کا فضل اور حمت سراسر آپ نے کی سکول سے با قاعدہ طور پر تعلیم حاصل نہیں کی تھی البتہ حضرت پیر منظورمحمد صاحب سے تقریباً تین سال کی عمر میں اردو اور انگریزی کی ابتدائی تعلیم یعنی لکھنا پڑھنا سیکھنا شروع کیا اور بہت جلداردو و انگریزی لکھناو پڑھنا سیکھ لیا.آپ نے عربی اور فارسی بھی گھر پر ہی سیکھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ بہت علم دوست خاتون تھیں.نیز آپ بلند پایہ شاعرہ بھی تھیں.آپ کا کلام’د عدن“ کے نام سے شائع شدہ ہے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا رشتہ خدائی بشارتوں کے بموجب حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے ساتھ طے پایا.آپ کے نکاح کا اعلان حضرت حافظ حکیم مولوی نور الدین صاحب نے مورخہ ۷ار فروری ۱۹۰۸ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں مبلغ ۵۶ ہزار روپے مہر موجل کے عوض کیا.آپ کا رخصتانہ انتہائی سادگی کے ساتھ مورخہ ۱۴ مارچ ۱۹۰۹ء کو قادیان میں ہوا.آپ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمدہ تربیت سے ایک مثالی بیوی ثابت ہوئیں.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ہاں۲ بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مورخہ ۲-۲۳ مئی ۱۹۷۷ء کی درمیانی شب انی سال کی عمر پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں ہزاروں مخلصین کی دعاؤں کے ساتھ مورخہ ۲۳ مئی کو دفن ہوئیں.اللَّهُمَّ نَورُ مَرْقَدَهَا وَارْفَعُ دَرَجَتِهَا.حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت سیدہ نواب لمتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے آخری وجود تھیں.آپ کی ولادت با سعادت مورخہ ۲۵ جون ۱۹۰۴ء کو ہوئی.آپ کی پیدائش بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے موصولہ بشارت کے مطابق ہوئی.جس سے آپ کا بابرکت وجود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ثابت ہوا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کومئی ۱۹۰۴ء میں الہام ہوا ” دخت کرام (البدر ۱۶/ ۱۸ مئی ۱۹۰۴ صفحہ۱) چنانچہ اس الہی بشارت کے مطابق آپ کی ولادت ہوئی.حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۱۸ میں ان کو اپنی صداقت کا چالیسواں نشان قرار دیا.حضرت سیدہ موصوفہ کا نکاح حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کے ساتھ جو حضرت نواب محمد علی
39 خان صاحب کی پہلی بیگم صاحبہ سے دوسرے صاحبزادے تھے مورخہ ۷/ جون ۱۹۱۵ء کومسجد اقصی قادیان میں مبلغ پندرہ ہزار روپے مہر پر ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ہدایت کے مطابق خطبہ نکاح حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیلی نے پڑھا.جو اس تقریب سعید میں لاہور سے مدعو کئے گئے تھے اور مورخہ ۲۳ فروری ۱۹۱۷ء کو آپ کی شادی کی مبارک تقریب عمل میں آئی.حضرت سیدہ موصوفہ کے بطن سے تین فرزند اور چھ صاحبزادیاں پیدا ہوئیں.حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بہت خوبیوں کی مالک تھیں.آپ انفاق فی سبیل اللہ میں بہت نمایاں تھیں.آپ کو ۱۹۶۲ء میں یورپ کا دورہ کرنے کا موقع ملا.اس دوران آپ کو بیت محمود زیورچ سوئٹزر لینڈ کا سنگ بنیاد رکھنے کی بھی توفیق ملی.اس کے علاوہ آپ کے اس دورہ سے یورپ کی جماعتوں نے بہت زیادہ برکات حاصل کیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صلبی اولا د مبارکہ کی آخری نشانی پیارے آقا کی دخت کرام، حضرت اماں جان کی لخت جگر حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ مورخہ ۶ رمئی ۱۹۸۷ء کو بوقت تین بجے دوپہر اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں.انا للہ وانا الیہ راجعون حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نوراللہ مرقدھا کی ذات گرامی آخری نشانی تھی بابرکت اولاد کی کہ جس کے ساتھ براہ راست وعدوں کا خزانہ تھا.آخری تبرک تھا اس پیارے امام کا ، کہ جس کے شیدائی برکت کے حصول کیلئے ٹوٹے پڑتے تھے.آخری کرن تھی اس جلیل القدر ہستی کی ، جس کی ایک جھلک پا کر لاکھوں پروانے قربان ہو ہو جاتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ارشاد کے مطابق آپ کی نماز جنازہ وفات کے اگلے روز مورخہ سے مئی ۱۹۸۷ء بروز جمعرات بوقت ۵ بجے بعد نماز عصر حضرت مولوی محمد حسین صاحب سبز پگڑی والے نے پڑھائی.اس کے بعد قطعه خاص بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی اور حضرت مولوی صاحب نے ہی تدفین مکمل ہونے کے بعد دعا کروائی.آپ کی نماز جنازہ اور تدفین میں پاکستان بھر سے ۳۰ ہزار کے قریب مردوزن نے شمولیت کی.اللَّهُمَّ نَوْرُ مَرْقَدَهَا وَارْفَعُ دَرَجَتِهَا.
40 کتب حضرت مسیح موعود کا عمومی تعارف حضرت مسیح موعود کی ایک علامت یہ بیان فرمائی گئی کہ :.يَفِيضُ الْمَالَ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ ( بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی ) یعنی مسیح موعود مال تقسیم کرے گا مگر اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ملے گا.اس پیشگوئی میں مال سے مراد کوئی روپیہ پیسہ یا سونا چاندی نہیں تھا بلکہ یہاں مال سے مراد در اصل علمی خزائن تھے جن کو حضرت مسیح موعود نے تقسیم کرنا تھا.اسی لئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ : وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے مذکورہ علمی اور روحانی خزائن کو بڑی کثرت سے تقسیم کیا جس کا اعتراف غیر بھی کئے بغیر نہ رہ سکے.یہ روحانی خزائن آپ کے متبعین کے لئے روحانی زندگی کا عظیم اور گرانقدر سرمایہ ہیں.آپ کی کتب کے مطالعہ سے قرآن کریم اور احادیث پاک کو سمجھنے میں بہت زیادہ مددملتی ہے کیونکہ یہ کتب الہی تائید اور راہنمائی سے لکھی گئی ہیں جیسا کہ آپ خود تحریر فرماتے ہیں.وو یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائید الہی سے لکھے گئے ہیں.میں ان کا نام وحی و الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں.“ سر الخلافہ.روحانی خزائن جلد 8 ص 415) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود کی تالیفات و تحریرات اس قدر عظمت اور افادیت کی حامل ہیں کہ غیر بھی ان کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کتب کے مطالعہ کے بغیر دعوت الی اللہ، اور دین حق کی نشاۃ ثانیہ ناممکن امر ہے.اور یہ کتب خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور روحانی میدان میں ترقی کرنے کا ذریعہ ہیں.لہذا ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ کثرت سے حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ کرے.اس مضمون کے ذریعہ اختصار کے ساتھ کتب حضرت مسیح موعود کا مجموعی طور پر تعارف کروانا مقصود ہے.تاکہ ان کے مطالعہ کے سلسلہ میں کچھ راہنمائی حاصل ہو جائے.حضرت مسیح موعود کی تحریرات اور ارشادات و فرمودات کو درج ذیل چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.1 - کتب (روحانی خزائن ) 2.ملفوظات (ارشادات )3 مجموعہ اشتہارات 4 مکتوبات
41 1 - روحانی خزائن حضرت مسیح موعود کی تحریر کردہ تمام کتب کا سیٹ ”روحانی خزائن“ کے نام سے موسوم ہے جو 23 جلدوں پر مشتمل ہے ان جلدوں میں سن تالیف و تصنیف کے لحاظ سے کتب کو ترتیب دیا گیا ہے.روحانی خزائن کے سیٹ کی ہر جلد میں شامل تمام کتب کا پہلے تعارف اور انڈیکس دیا گیا ہے جن کی مدد سے متعلقہ کتاب کے نفس مضمون کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے نیز انڈیکس کی مدد سے حسب ضرورت کسی حوالہ یا مضمون کو آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے.تعداد کتب: روحانی خزائن کے سیٹ میں شامل کتب کی تعداد 83 ہے.اگر براہین احمدیہ حصہ دوم، سوم، چہارم اس طرح ازالہ اوہام حصہ دوم، نور الحق حصہ دوم، نور القرآن حصہ دوم نیز اربعین نمبر 2 نمبر 3 نمبر 4 کو الگ الگ کتاب شمار کیا جائے تو پھر یہ تعداد 91 بنتی ہے.تعداد صفحات: 23 جلدوں پر مشتمل روحانی خزائن کے سیٹ میں تمام کتب کے کل صفحات گیارہ ہزار سے زائد بنتے ہیں.ذیل ہیں.عربی کتب: حضرت مسیح موعود نے بعض کتا ہیں فصیح و بلیغ عربی زبان میں تصنیف فرمائی ہیں جو درج 1 - کرامات الصادقین 2- تحفہ بغداد - 3- حمامۃ البشری -4 - نورالحق حصہ اول 5 - نورالحق حصہ دوم.6.سرالخلافہ.7.حجتہ اللہ.8 انجام آتھم.9 من الرحمن 10 نجم الھدی.11.لجنہ النور.12.حقیقت المہدی - 13 - سیرۃ الابدال - 14 - اعجاز اسیح - 15 - اتمام الجنۃ.16.مواہب الرحمن.17.خطبہ الہامیہ.18.الھدی والتبصر ۃ لمن برگی.- - بعض کتب کا کچھ حصہ عربی زبان میں تصنیف کیا گیا ہے.مثلاً الاستفتاء در حقیقت حقیقۃ الوحی“ کا ہی حصہ ہے.اسی طرح التبلیغ بھی دراصل ” آئینہ کمالات اسلام کا ہی حصہ ہے.مگر بعض دفعہ ان کو الگ طور پر کتابی شکل میں بھی شائع کیا گیا ہے.یہی وجہ ہے کہ ان کو بھی عربی کتب کی تعداد میں شامل کر لیا گیا ہے.نفس مضمون کے لحاظ سے تقسیم مشتمل ہیں.حضرت مسیح موعود کی بعض کتب تو بعض معین مضامین پر مبنی ہیں مگر بعض کتب متنوع مضامین پر مشتم وہ کتب جن کا نفس مضمون کسی خاص مذہب، فرقہ یا کسی مخصوص مسئلہ سے متعلق ہے ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے.
42 عیسائیت : حضرت مسیح موعود کی بعثت کے وقت ہندوستان اور عام دنیا میں عیسائیت بہت زیادہ متحرک اور فعال تھی.اور اہل حق کو سب سے زیادہ عیسائیت کا سامنا تھا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کتب میں تقریباً سب سے زیادہ عیسائیت کو ہی زیر بحث لایا گیا ہے.ویسے تو حضرت مسیح موعود نے اپنی درجنوں کتب میں ان کے عقائد کا رد فرمایا ہے تا ہم درج ذیل وہ کتب ہیں.جن کا مرکزی مضمون ہی عیسائیت ہے.1 - جنگ مقدس 2.کتاب البریہ 3.چشمہ مسیحی 4.انجام آتھم.5.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب 6.انوار الاسلام -7 ضیاء الحق -8 تحفہ قیصریہ 9.ستارہ قیصریہ 10 - نجم الھدی 11 - حجتہ الاسلام 12.اتمام الجنتہ 13.سچائی کا اظہار 14 نور الحق حصہ اول 15 - البلاغ 16 - نور القرآن حصہ دوم 17 - تجلیات الہیہ.ان کے علاوہ بھی جزوی طور پر متعدد کتب میں عیسائیت پر بحث ملتی ہے.ہندو اور سکھ ازم: حضرت مسیح موعود کی بعثت کے وقت دین حق کو عیسائیت کے بعد دوسرے نمبر پر بعض ہندو فرقوں کی طرف سے مزاحمت اور مقابلہ کا سامنا تھا.ہندو فرقوں میں سے آریہ دھرم، سناتن دھرم، بر ہمو سماج اور سکھ مت کے متعلق حضور نے متعدد کتب تالیف فرما ئیں.ان کتب میں ان فرقوں کے عقائد کا بطلان ثابت کرتے ہوئے رد فرمایا ہے.جن میں سے درج ذیل کتب زیادہ قابل ذکر ہیں.1.پرانی تحریریں 2.سرمہ چشم آریہ -3- شحنہ حق.4.ست بچن 5.سناتن دھرم 6.آریہ دھرم 7.قادیان کے آریہ اور ہم 8.چشمہ معرفت 9.پیغام صلح 10 نسیم دعوت 11 - استفتاء.حضرت مسیح موعود کی کتب میں اختلافی مسائل میں سے سب سے زیادہ وفات مسیح کے مسئلہ پر بحث کی گئی ہے.تا ہم وہ کتب جن کا مرکزی اور اصل موضوع ہی حضرت مسیح کی طبعی وفات اور ہجرت ہے درج ذیل ہیں.ان میں سے سب سے زیادہ نیم اور مفصل کتاب ازالہ اوہام ہے.1 - ازالہ اوہام حصہ اول و حصہ دوم - 2 - فتح اسلام - 3 - توضیح مرام.4 مسیح ہندوستان میں.5 الحق مباحثہ دہلی.6 - الحق مباحثہ لدھیانہ - 7 - تحفہ بغداد.8.حمامۃ البشری.9.آسمانی فیصلہ.10.راز حقیقت.11.اتمام الجنہ.صداقت مسیح موعود : ویسے تو حضرت مسیح موعود کی ہر کتاب آپ کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے.مگر وہ کتب جن کو آپ نے بطور خاص اپنی صداقت کے دلائل پرمبنی تحریر فرمایا ہے.یا جن کا عقلی ونقلی لحاظ سے مضمون آپ کی صداقت پر دلالت کرتا ہے ان میں سے زیادہ قابل ذکر درج ذیل کتب ہیں.
43 - آسانی فیصلہ 2 - نشان آسانی- 3- تحفہ گولڑو یہ.4.اربعین 5- سراج منیر - 6- تریاق القلوب 7- نزول اسے.8.حقیقۃ الوجی.9.نور الحق حصہ دوم.10.اسلامی اصول کی فلاسفی.11.اعجاز احمدی.12.اعجاز مسیح - 13 - دافع البلاء 14 - کرامات الصادقین.15.تحفہ غزنویہ.16.حجتہ اللہ.17.انجام آتھم.18 - تحفہ الندوہ.19 - لجتہ النور.ظہور امام مہدی : یہ بھی ایک ایسا موضوع ہے جس سے متعلق حضرت مسیح موعود نے اپنی بہت ساری کتب میں بحث فرمائی ہے.جن میں سے درج ذیل کتب کا بنیادی اور اصل موضوع اور نفس مضمون یہی ہے.1 - ضرورة الامام -2- حقیقۃ المہدی-3- نشان آسمانی.4.شہادۃ القرآن.5.نورالحق حصہ دوم.مسئلہ نبوت: حضرت مسیح موعود کی 1901ء کے بعد کی اکثر تحریرات میں مسئلہ نبوت پر بحث کی گئی ہے.مگر سب سے زیادہ اہم رسالہ ایک غلطی کا ازالہ ہے.یہ کتاب بطور خاص مسئلہ نبوت کے متعلق تحریر کی گئی ہے.جس میں حضرت مسیح موعود نے نبی کی تعریف، نبوت کی اقسام حقیقت نبوت اور اپنے دعوئی پر بحث فرمائی ہے.مسئلہ جہاد : یوں تو مسئلہ جہاد پر بھی حضور نے متعدد کتب میں بحث کرتے ہوئے حقیقت جہاد پر روشنی ڈالی ہے.تاہم آپ کی کتاب ” گورنمنٹ انگریزی اور جہاد میں صرف اور صرف اسی مسئلہ کی حقیقت بیان کی گئی ہے.اسی طرح نورالحق حصہ اول میں بھی جہاد کے موضوع پر خصوصی بحث کی گئی ہے.مغربی فلسفہ کا رد: حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب آئینہ کمالات اسلام“ اور ”برکات الدعا میں بطور خاص مغربی فلسفہ کا ردفرمایا ہے.موازنہ بین المذاہب: مختلف مذاہب میں سے عیسائیت اور ہندو ازم کا دین حق کے ساتھ درج ذیل کتب میں بطور خاص موازنہ کیا گیا ہے.1.براہین احمدیہ ہر چہار حصص.2.پرانی تحریریں.3.سرمہ چشم آریہ.4.چشمہ معرفت.5.کشتی نوح.6.معیار المذاہب.متفرق کتب: مذکورہ بالا کتب کے علاوہ تمام کتب مختلف اور متفرق مضامین پر مبنی ہیں جن میں سے زیادہ اہم براہین احمدیہ حصہ پنجم اور کشتی نوح ہیں.چیلنج پرمبنی کتب: حضرت مسیح موعود نے درج ذیل کتب کا رد لکھنے یا ان کے مقابلہ پر کتب لکھنے پر ہزاروں روپے کے انعامی چیلنج دیئے ہیں.مگر آج تک کسی کو بھی مقابلہ کی تو فیق نہیں مل سکی.1.براہین احمدیہ ہر چہار ص.- 10000 روپے
44 2 - سرمہ چشم آریہ - / 500 روپے.کرامات الصادقین -/1000 روپے.4 - نورالحق -/5000 روپے.5.اعجاز احمدی - 10000 روپے.6.اتمام الجنہ -/1000 روپے.7 - تحفہ گولڑویہ -/500 روپے.8.سرالخلافہ -/27 روپے.9.اعجاز اسیح -/500 روپے ان کے علاوہ درج ذیل کتب کے بالمقابل کتاب لکھنے یار د لکھنے پر اپنا جھوٹا ہونا تسلیم کر لینے کے وعدہ پر مبنی چیلنج دیئے.1- اعجاز المسیح.2.حجتہ اللہ.3 - الھدی والتبصرة لمن سری.2 ملفوظات حضرت مسیح موعود کی مذکورہ کتب کے علاوہ حضور نے مختلف مواقع پر جو خطبات و تقاریر، فرمودات اور ارشادات فرمائے.ان کو بھی رفقاء کرام محفوظ کرتے رہے.جو ساتھ ساتھ اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے.بعد میں ان کو کتابی صورت میں شائع کر دیا گیا.ملفوظات کے پہلے ایڈیشن کی 10 جلدیں تھیں.جواب نئے ایڈیشن میں 5 جلدوں میں شائع شدہ ہیں.3.مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود نے اپنی زندگی میں مختلف اغراض اور ضروریات کے پیش نظر کسی تحریک تلقین ، تجویز وضاحت یا چیلنج پر بنی مختلف اوقات میں اشتہارات شائع کئے.جن کو بعد میں تبلیغ رسالت“ کے نام سے کتابی صورت میں افادہ عام کیلئے 10 جلدوں میں اور پھر مجموعہ اشتہارات کے طور پر تین جلدوں میں شائع کیا گیا.
45 4 _ مکتوبات احمد حضرت مسیح موعود نے اپنی زندگی میں مختلف احباب کو جو خطوط تحریر فرمائے.ان کو افادہ عام کے لئے بعد میں کتابی صورت میں شائع کر دیا گیا.مکتوبات کی جلدوں کی تعداد 7 ہے.ان مکتوبات میں بھی ہمارے لئے بہت زیادہ علمی و روحانی تسکین کے سامان موجود ہیں.لہذا ان کا مطالعہ بھی ہمارے لئے ضروری ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود کے ان روحانی اور علمی خزائن سے کما حقہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین روحانی خزائن فہرست کتب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی گراں قدر تصنیفات، جو آپ نے خدا کی محبت اور عشق رسول میں ڈوب کر تحریر کی ہیں.کی فہرست درج ذیل ہے:.نمبر شمار نام کتب سن اشاعت صفحات ایک عیسائی کے تین سوالات کے جواب پرانی تحریریں ۱۸۷۶ء ۴۰ ١٨٧٩ء ۴۴ براہین احمدیہ.حصہ اول ۱۸۸۰ء ۴ براہین احمدیہ حصہ دوم ۱۸۸۰ء براہین احمدیہ - حصہ سوم ۱۸۸۲ء ۶ براہین احمدیہ حصہ چہارم ۱۸۸۴ء ۵۲ ۸۰ ۱۸۰ ۳۶۱ سرمه چشمه آریہ مارچ ۱۸۸۶ء ۲۷۶ ۱۲۳ ۲۴ ۴۸ ۱۸۸۷ء یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ۱۸۹۰ء شحنه حق سبز اشتہار فتح اسلام ۹ 1.
۵۲ ۲۲۲ ۳۱۴ ۱۱۵ 122 ۴۳ ۵۶ ۶۷۸ ۴۵ ۱۲ ۲۱۱ ۱۰۴ ۳۳ ۱۲۳ ۱۱۳ ۱۸۶ ۸۶ لا ۱۲۵ ۱۲۳ ۷۵ ١٨٩٠ء ۱۸۹۱ء ۱۸۹۱ء جولائی ۱۸۹۱ء اکتوبر ۱۸۹۱ء دسمبر ۱۸۹۱ء مئی ۱۸۹۲ء ۹۳-۱۸۹۲ء اپریل ۱۸۹۳ء مئی ۱۸۹۳ء مئی ۱۸۹۳ء مئی ۱۸۹۳ء ۱۸۹۳ء جولائی ۱۸۹۳ء ۱۸۹۳ء ١٨٩٣ء فروری ۱۸۹۴ء مئی ۱۸۹۴ء جون ۱۸۹۴ء جولائی ۱۸۹۴ء 46 ۱۲ توضیح مرام ازالہ اوہام حصہ اول ۱۳ ازالہ اوہام حصہ دوم ۱۴ الحق مباحثہ لدھیانہ ۱۵ الحق مباحثہ دہلی ۱۶ آسمانی فیصلہ ۱۷ نشان آسمانی ۱۸ آئینہ کمالات اسلام بركات الدعاء سچائی کا اظہار حجة الاسلام ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ جنگ مقدس ۲۳ شہادت القرآن ۲۴ تحفہ بغداد ۲۵ کرامات الصادقین ٢٦ حمامة البشرى ۲۷ نورالحق حصہ اول ۲۸ نور الحق حصہ دوم ۲۹ اتمام الحجة ۳۰ سر الخلافہ انوار الاسلام ۳۲ منن الرحمن ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء مئی ۱۸۹۵ء ضیاء الحق مئی ۱۸۹۵ء ۳۳
۴۲ ۸۳ ۳۴ ۱۰۸ ۲۰۲ ۱۳۸ ۳۴۷ ۱۰۲ ۳۲ = ۳۲ ۳۲ Δ ۴۸ ۳۶۶ 33 ۴۸ ۱۴۹ ۲۵ ۴۸ 37 ۲۰۰ 1+6 47 ۳۴ نور القرآن حصہ اول ۳۵ نور القرآن حصہ دوم ۳۶ | معیار المذاہب ۳۷ آریہ دھرم ۳۸ است بچن ۳۹ اسلامی اصول کی فلاسفی انجام آتھم ( رسائل اربعہ ) ۴۱ ۴۲ سراج منیر استفتاء ۴۳ حجة الله ۴۴ تحفہ قیصریہ ۴۵ جلسه احباب ۴۶ محمود کی آمین ۱۵ جون ۱۸۹۵ء ۲۰ دسمبر ۱۸۹۵ء ۱۸۹۵ء نومبر ۱۸۹۵ء ۱۰نومبر ۱۸۹۵ء دسمبر ۱۸۹۶ء ١٨٩٦ء ۲۴ مارچ ۱۸۹۷ء ۱۲ مئی ۱۸۹۷ء اماچ ۱۸۹۷ء ۲۷ مئی ۱۸۹۷ء ۲۸ جون ۱۸۹۷ء ۷ جون ۱۸۹۷ء ۴۷ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ۲۲ جون ۱۸۹۷ء ۲۴ جنوری ۱۸۹۷ء ۱۸۹۸ء اکتوبر ۱۸۹۸ء ۴۸ کتاب البریه ۴۹ البلاغ ضرورت الامام ۵۱ ۵۲ ۵۳ حجم الهدی ۲۰ نومبر ۱۸۹۸ء راز حقیقت ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء كشف الغطاء ۲۷ دسمبر ۱۸۹۸ء ۵۴ ایام الصلح یکم اگست ۱۸۹۸ء ۵۵ حقیقت المهدی ۵۶ سیح ہندوستان میں ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء اپریل ۱۸۹۹ء
۱۸ ۴۰۰ ۶۲ ۳۳۴ ۱۴۰ ۳۴ ۳۰۴ ۱۲ ۲۸ ۳۲ ۲۴۲ ۱۶ 1+1 ۱۴۴ ۱۰۴ 17 ۱۲۸ ۲۱ ۲۴ اگست ۱۸۹۹ء ١٨٩٩ء ١٩٠٠ء 48 ۵۷ ستاره قیصریہ ۵۸ تریاق القلوب ۵۹ تحفه غزنویه ۶۰ ۶۱ رونداد جلسه دعا ۲ فروری ۱۹۰۰ء خطبہ الہامیہ ۶۲ الجبة النور گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ۶۴ تحفہ گولڑویہ ۶۵ اربعین (۴ جلدیں) اعجاز امسیح ۶۷ ایک غلطی کا ازالہ ۶۸ دافع البلاء الْهُدَى وَالْتَبْصِرَةُ لِمَنْ يَرَى ۷۰ نزول مسیح ۱۱ راپریل ۱۹۰۰ء ١٩٠٠ء ۲۳ مئی ۱۹۰۰ء جولائی ۱۹۰۰ء ۱۵ر دسمبر ۱۹۰۰ء ۲۳ فروری ۱۹۰۱ء ۵ نومبر ۱۹۰۱ء اپریل ۱۹۰۲ء ۱۲ جون ۱۹۰۲ء اگست ۱۹۰۲ء اے کشتی نوح ۷۲ تحفة الندوة ۷۳ اعجاز احمدی ۷۴ ریویو بر مباحثہ بٹالوی چکڑالوی ۷۵ مواہب الرحمن نسیم دعوت ۷۷ سناتن دھرم ۷۸ تذكرة الشهادتين ۷۹ سیرت الا بدال ۵/اکتوبر ۱۹۰۲ء ۶ اکتوبر ۱۹۰۲ء ۱۲ نومبر ۱۹۰۲ء ۲۷ نومبر ۱۹۰۲ء ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ء ۲۸ فروری ۱۹۰۶ء ۸ مارچ ۱۹۰۳ء ۶ اکتوبر ۱۹۰۳ء ۱۴ دسمبر ۱۹۰۳ء
49 ۸۰ : ΔΙ پر لاہور لیکچر سیالکوٹ احمدی و غیر احمدی میں فرق ۸۳ بیچر لدھیانہ ۸۴ الوصیت ۸۵ چشمه مسیحی تجلیات الهیه ۸۷ قادیان کے آریہ اور ہم ۸۸ براہین احمدیہ حصہ پنجم ۸۹ حقیقة الوحی ۹۰ چشمه معرفت ۹۱ پیغام صلح ۳ ستمبر ۱۹۰۴ء ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۴ء ۲۷ / دسمبر ۱۹۰۵ء ۴ نومبر ۱۹۰۵ء ۲۰ دسمبر ۱۹۰۵ء ۹ / مارچ ۱۹۰۶ء ۱۵ مارچ ۱۹۰۷ء ۲۰ فوری ۱۹۰۷ء فروری ۱۹۰۵ء ١٩٠٦ء جنوری ۱۹۰۸ء مئی ۱۹۰۸ء ۵۴ ۴۶ ۶۱ ۵۰ ۳۴ ۶۰ ۲۴ ۴۴ ۵۲۸ ۷۲۰ ۴۳۶ ۶۴ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تحریرات کے چند نمونے زنده خدا اللہ جل شانہ کا حسن، اس کی ذات اور صفات کی خوبیاں یہ ہیں کہ وہ خیر محض ہے اور مبدا ہے جمیع فیضوں کا اور مصدر ہے تمام خیرات کا اور جامع ہے تمام کمالات کا اور مرجع ہے ہر ایک امر کا اور موجد ہے تمام وجودوں کا اور علت العلل ہے ہر یک مؤثر کا جس کی تاثیر یا عدم تا ثیر ہر یک وقت اس کے قبضہ میں ہے.اور واحد لاشریک ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور اقوال میں اور افعال میں اور اپنے تمام کمالوں میں اور از لی اور ابدی ہے اپنی جمیع صفات کا ملہ کے ساتھ.بڑا ہی نیک اور بڑا ہی رحیم ، باوجود قدرت کا ملہ سزا دہی کے، ہزاروں برسوں کی خطائیں یکدم کے رجوع میں بخشنے والا، بڑا ہی حلیم اور بردبار اور پردہ پوش کروڑ ہا نفرت کے کاموں اور مکر وہ گنا ہوں کو دیکھنے والا پھر جلد نہ پکڑنے والا...اس نے ہر یک خوبصورت چیز پر اپنے حسن کا پر تو ڈالا ہے اگر آفتاب ہے یا ماہتاب یا وہ
50 سیارے جو چمکتے ہوئے نہایت پیارے معلوم ہوتے ہیں یا خوبصورت انسانوں کے منہ جو دلکش اور ملیح دکھائی دیتے ہیں یا وہ تازہ اور تر بتر اور خوشنما پھول جو اپنے رنگ اور ی اور آب و تاب سے دلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں یہ سب در حقیقت ظلی طور پر اس حسن لا زوال سے ایک ذرہ کے موافق حصہ لیتے ہیں وہ حسن ظن اور وہم اور خیال نہیں بلکہ یقینی اور قطعی اور نہایت روشن ہے جس کے تصور سے تمام نظریں خیرہ ہوتی ہیں اور پاک دل اس کی طرف کھینچتے ہیں.“ آئینہ کمالات اسلام ص ۱۶۰-۱۶۱) کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عمل خریدنے کے لئے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں کس دف سے بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.“ (کشتی نوح ص ۴۴) اس کی قدرت و حکمت ہر جگہ اور ہر چیز میں موجود ہے اور اس کی حفاظت جو ہر یک چیز کے شامل حال ہے اس کی عام خالقیت پر گواہ ہے اس کی حکیمانہ طاقتیں بے انتہا ہیں.کون ہے جو ان کی تہ تک پہنچ سکتا ہے.اس کی قادرانہ طاقتیں عمیق در عمیق ہیں کون ہے جو ان پر احاطہ کر سکتا ہے ہر یک چیز کے اندراس کے وجود کی گواہی چھپی ہوئی ہے ہر ایک مصنوع اس صانع کامل کی راہ دکھلا رہا ہے موجود بوجود حقیقی، وہی ایک رب العالمین ہے اور باقی سب اس سے پیدا اور اس کے سہارے سے قائم اور اس کی قدرتوں کے نقش قدم ہیں“.(سرمه چشم آریہ ص ۳) نظم زنده خدا کس قدر ظاہر ہے نُور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا تھا نشاں اس میں جمال یار کا کیونکہ کچھ کچھ
51 اس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرح دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا چشمه خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشا ہے تری چمکار کا اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک تو نے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ ہے شور محبت عاشقان زار کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص سکتا کون پڑھ ہے سارا دفتر ان اسرار کا ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا جاں کھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا زنده رسول (سرمه چشمه آری ص ۴، در مشین اردو) ”وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا آفتاب میں نہیں تھاوہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولی سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی ام لیتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام ص ۱۳۸ - ۱۳۹) ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مرسلوں کا سرتاج.جس کا نام محمد مصطفی واحد مجتبی ﷺ ہے جس کے زیر سایہ دس ا دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزاروں برس تک نہیں مل سکتی تھی.“ (سراج منیر ص ۸۰)
52 نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفے.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.“ (کشتی نوح ص ۲۸) زندہ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیشوا وہ ہمارا جس نام اس کا ہے ہیں پیمبر لیک نور ہے سارا محمد دلبر مرا یہی ہے اک دوسرے سے بہتر از خُدائے برتر خیر الورای یہی ہے ہے پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر اس پر ہر اک نظر ہے بدر الدجی یہی ہے پہلے تو رہ میں ہارے پار اُس نے ہیں اتارے میں جاؤں اُس کے وارے بس ناخدا یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے طیب و امیں ہے اس کی ثنا یہی ہے اُس نور فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں پر وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے سب ہم نے اس سے وہ تو خدایا پایا شاہد ہے جس نے حق دکھایا وہ لقا یہی ہے قرآن کریم ( قادیان کے آریہ اور ہم ص ۵۴.درنتین اردو) میں اپنے دل کو قرآن کریم اور اس کے دقائق معارف اور نکات کی طرف مائل پا تا تھا اس نے مجھے محبت کی وجہ سے اپنا گرویدہ بنالیا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ وہ مجھے مختلف اقسام کے معارف
53 اور قسم قسم کے پھل دیتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوں گے اور نہ انہیں مجھ سے ہٹایا جائے گا اور میں نے دیکھا ہے کہ قرآن کریم ایمان کو مضبوط کرتا اور یقین میں زیادتی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قسم وہ ایک لاثانی موتی ہے اس کا ظاہر بھی نور ہے اور اس کا باطن بھی نور ہے اور اس کے ہر لفظ اور ہر کلمہ میں نور ہے وہ ایک روحانی جنت ہے جس کے خوشے نہایت قریب ہیں اور اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں ہر ثمر سعادت اس میں پایا جاتا ہے اور ہر شعبہ اس سے حاصل کیا جا سکتا ہے اس کے سوا محض خشک کانٹوں پر ہاتھ مارنا ہے اس کے فیض کے گھاٹ نہایت خوشگوار ہیں.پس پینے والوں کو مبارک ہو.میرے اندر اس کے ایسے نور ڈالے گئے ہیں کہ انہیں کسی اور طریق سے حاصل کرنا میرے لئے مشکل تھا اور اللہ تعالیٰ کی قسم اگر قرآن کریم نہ ہوتا تو میری زندگی کا کوئی مزہ نہ ہوتا میں نے اس کے حسن کو ہزاروں یوسفوں سے زیادہ دیکھا ہے.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ ص ۵۴۵ ترجمه از عربی ) کیا باعتبار فصاحت و بلاغت کیا باعتبارتر تیب مضامین کیا باعتبار تعلیم باعتبار کمالات تعلیم.کیا باعتبار ثمرات تعلیم.غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا اعجاز ثابت ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی.(الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۳ء) زنده کتاب.قرآن مجید نور فرقاں ہے جو سب ٹوروں اجلی نکلا پاک وہ جس انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا چشمه اصلی نکلا نا گہاں غیب یا الہی! تیرا فرقاں کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں وہ لئے عرفان کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا
54 پہلے مجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا پھر جو سوچا ایسا چمکا ہے ہے فرقاں ہر اک لفظ مسیحا نکلا اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ ثور وہ نیر بیضا نکلا صد زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دُنیا میں جن کا اس نُور کے ہوتے بھی دل اعمی نکلا ( براہین احمدیہ حصہ سوئم ص ۴ ۲۷) اسلام اسلام چیز کیا ہے خدا کے کے لئے فنا ترک رضائے خویش پنے مرضی خُدا المسيح الموعود ) اسلام کی فتح حقیقی اس میں ہے کہ جیسے اسلام کے لفظ کا مفہوم ہے اسی طرح ہم اپناو جود خدا تعالیٰ کے حوالے کر دیں اور اپنے نفس اور اس کے جذبات سے بکلی خالی ہو جائیں اور کوئی بت ہوا اور ارادہ اور مخلوق پرستی کا ہماری راہ میں نہ رہے اور بکی مرضیات الہیہ میں محو ہو جائیں اور بعد میں اس کے وہ لقا ہم کو حاصل ہو جائے جو ہماری بصیرت کو ایک دوسرا رنگ بخشے اور ہماری معرفت کو ایک نئی نورانیت عطا کرے اور ہماری محبت میں ایک جدید جوش پیدا کرے اور ہم ایک نئے آدمی ہو جائیں.اور ہمارا وہ قدیم خدا بھی ہمارے لئے نیا خدا ہو جائے.یہی فتح حقیقی ہے.“ (اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء تبلیغ رسالت جلداول) ”سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں.اور اعزاز دین حق کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں.( دین حق ) کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا یہی موت ہے جس پر دین حق کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.“ (فتح اسلام ص ۱۵ تاص اے )
55 ( دین حق ) کے معنی اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصت اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد تو فیق سے وابستہ ہیں بجالا وے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی ( آئینہ کمالات اسلام ص ۵۸) کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.“ اسلام زندہ دین اسلام نہ بھاگو راہ ھدای یہی ہے اے سونے والو جاگو شمس الضحی یہی ہے مجھ کو قسم خُدا کی جس نے ہمیں بنایا اب آسماں کے نیچے دین خدا یہی ہے باطن پر منکر ہیں جن کے اس دیں سے ہیں وہ اے اندھیرے والو دل کا دیا یہی ہے دنیا کی سب دکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں آخر ہوا ثابت دار الشفاء یہی ہے سب خشک ہو گئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے ہر طرف میں نے دیکھا بستاں ہرا یہی ہے شربت دنیا میں اس کا ثانی کوئی نہیں ہے پی لو تو اس کو یارو! آب بقا یہی ہے اسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن دشمن بلا یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم ص ۵۴ در مشین اردو)
56 وفات آپ اپنے روحانی مشن کے لحاظ سے انتہائی کامیاب زندگی گزار کر ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل لاہور میں وفات پا کر اس دارفانی سے کوچ کر کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے.اور ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو قادیان ضلع گورداسپور میں بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی.انالله وانا اليه راجعون.جناب مولانا ابوالکلام آزاد ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر حضور کی وفات پر ”موت عالم“ کے عنوان سے رقمطراز ہیں:.وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر اور زبان جادو.و شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تارا لجھے ہوئے تھے جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تمہیں برس تک زلزلہ اور طوفان بنارہاجوشور قیامت ہوکر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اٹھ گیا.مرزا غلام احمد قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے.ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو، ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بہت بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہیں مجبور کرتی ہے کہ اس احسان کا کھلم کھلا اعتراف کیا میرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابل پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو.“ جائے.(اخبار وکیل امرتسر ۳۰ رمئی ۱۹۰۸ء)
57 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ غیروں کی نظر میں جناب مولانا ابوالنصر غلام بین برادر مولانا ابوالکلام آزاد.اپریل ۱۹۰۵ء میں قادیان تشریف لائے اور واپسی پر اپنے تاثرات اخبار وکیل امرتسر میں بدیں الفاظ میں شائع فرمائے.” میرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے آنکھوں میں خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے.طبیعت منسکر مگر حکومت خیز ، مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا برد باری کی شان نے انکساری کی کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے.گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا متبسم ہیں.رنگ گورا ہے بالوں کو حنا کا رنگ دیتے ہیں.جسم مضبوط اور محنتی ہے.سر پر پنجابی وضع کی سفید پگڑی باندھتے ہیں پاؤں میں جراب اور دیسی جوتی ہوتی ہے.عمر تقریباً ۶۶ سال کی ہے.مرزا صاحب کے مریدوں میں میں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں خوش اعتقاد پایا.“ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف نے فرمایا:.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی حق پر ہیں اور اپنے دعوی میں راست باز اور صادق ہیں اور آٹھوں پہر اللہ تعالیٰ حق سبحانہ کی عبادت میں مستغرق رہتے ہیں.اور اسلام کی ترقی اور دینی امور کی سر بلندی کے لئے دل و جان سے کوشاں ہیں میں ان میں کوئی مذموم اور فتیح چیز نہیں دیکھتا.اگر انہوں نے مہدی اور عیسی ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ بھی ایسی بات ہے جو جائز ہے.“ (اخبار وکیل امرتسر ۱۹۰۵ء) اشارات فریدی جلد نمبر ۳ ص ۱۷۹انترجمه از فارسی) چودھری افضل حق صاحب صدر جمیعت الاحرار رقمطراز ہیں:.آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا جس میں تبلیغی جس مفقود ہو چکی تھی.سوامی دیانند کی مہذب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہوگی.مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ہاں ایک دل ( حضرت مسیح موعود مراد ہیں.ناقل ) مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا.ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا اور اپنی جماعت میں اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام جماعتوں کے لئے نمونہ ہے.(فتنہ ارتداداور پولیٹیکل قلابازیاں ص ۴۶)
58 وو خواجہ حسن نظامی دہلوی صاحب کا بیان اخبار ” منادی میں یوں شائع ہوا:.مرزا غلام احمد صاحب اپنے وقت کے بہت بڑے فاضل بزرگ تھے.آپ کی تصانیف کے مطالعہ اور آپ کے ملفوظات کے پڑھنے سے بہت فائدہ پہنچ رہا ہے اور ہم آپ کے تبحر علمی اور فضیلت و کمال کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے.“ (اخبار منادی ۲۷ فروری ۴ مارچ ۱۹۳۰ء) مولوی عبد الماجد صاحب دریا آبادی لکھتے ہیں :.”مرزا صاحب تو بہر حال اپنے تئیں مسلمان اور خادم اسلام کہتے ہیں اور مسیحیوں، آریوں ہلحدوں کے جواب میں سینکڑوں ہزاروں صفحے لکھ گئے ہیں.( اخبار سچ ،بحوالہ پیغام صلح ۲۲ جنوری ۱۹۲۶ء) اخبار ” جیون نت میں دیو سماج کے سیکرٹری نے لکھا:.وہ اسلام کے مذہبی لٹریچر کے خصوصیت سے عالم تھے، سوچنے اور لکھنے کی اچھی طاقت رکھتے 66 تھے.کتنی ہی بڑی بڑی کتابوں کے مصنف تھے.“ (بحوالہ البدر ۲ جولائی ۱۹۰۸ء) شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے بعض انگریزی مضامین میں حضرت اقدس کی زندگی میں صاف صاف لکھا کہ:.آپ جدید ہندی مسلمانوں میں سب سے بڑے دینی مفکر ہیں.“ نواب محسن الملک: انڈین انکوائری جلد ۲۹ ستمبر ۱۹۰۰ ء ص ۲۳۷ بحوالہ الفرقان جون ۱۹۵۵ء) آپ سرسید مرحوم کے سیاسی جانشین اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے جنرل سیکرٹری تھے.حضور کی خدمات کو سراہتے ہوئے ۲ اکتوبر ۱۸۹۵ء کو بمبئی سے مندرجہ ذیل مکتوب لکھا:.در حقیقت دینی مباحثات و مناظرات ( میں ) جو دل شکن اور جیسی دردانگیزی با تیں لکھی اور کہی جاتی ہیں وہ دل کو نہایت بے چین کرتی ہیں اور اسے ہر شخص کو جسے ذرا بھی اسلام کا خیال ہو گا روحانی تکلیف پہنچتی ہے.خدا آپ کو اجر دے کہ آپ نے ایک دلی جوش سے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہا ہے.یہ کام بھی آپ کا منجملہ اور بہت سے کاموں کے ہے جو آپ مسلمانوں کے بلکہ اسلام کے لئے کرتے ہیں.“ ( الحکم ۷ /اگست ۱۹۳۴ء ص ۹) شمس العلماء سید میر مہدی حسن مرحوم استاد علامہ اقبال:.اپنے ایک مکتوب میں حضور کے زمانہ قیام سیالکوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.
59 اردنی تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہو جا تا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں." پھر ایک ملاقات میں چشم پر آب ہو کر فرمایا:.( بحوالہ سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۲۷۰) افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی.ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کر سکتا.ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی بلکہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی کبھی آتے ہیں.“ علامہ اپنے ایک بیان میں لکھتے ہیں :..( الحکم ۷ اراپریل ۱۹۳۴ء ص ۳) آپ عزلت پسند اور پارسار اور فضول ولغو سے مجتنب اور محتر ز تھے.“ نیز لکھا:.کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے.بیٹھ کر کھڑے ہو کر ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار و قطار رویا کرتے تھے.ایسی خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.“ 66 (سیرت المہدی حصہ اول ص ۲۷۰-۲۷۲)
60
61 باب سوم جماعت احمدیہ کا قیام
62
63 جماعت احمدیہ کے قیام کی ضرورت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بعثت کے مقاصد عالیہ کے حصول کا پروگرام عالمگیر ہونے کے علاوہ زمانہ کے لحاظ سے قیامت تک پھیلا ہوا تھا.لہذا ایک ایسی جماعت کی ضرورت تھی جو نسلاً بعد نسل اپنی جان، مال اور وقت کی مسلسل قربانیاں دے کر غلبہ دین حق کی مہم کو آگے بڑھانے کی جدو جہد قیامت تک جاری رکھتی.ایسا ہی پیشگوئی میں بھی مقدر تھا.قَالَ رَسُولُ اللهِ عِصَابَةٌ تَغُرُرُ الْهُدَ وَهِيَ تَكُونُ مَعَ الْمَهْدِي اِسْمُهُ أَحْمَدُ.رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي تَارِيخه.النجم الثاقب حصه دوم ص ۱۳۴ ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ایک جماعت ہندوستان میں لڑے گی.اور وہ مہدی کے ساتھ ہوگی جس کا نام احمد ہو گا.یہ روایت امام بخاری نے اپنی تاریخ میں درج کی ہے.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ حَزْءِ الزُّبَيْدِي قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ يَخْرُجُ نَاسٌ مِّنَ الْمَشْرِقِ فَيُوَطِئُونَ لِلْمَهْدِي يَعْنِي سُلْطَائِهِ.(ابن ماجه باب خروج المهدی) حضرت عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت علی نے فرمایا: مشرق سے کچھ لوگ ظاہر ہوں گے جو مہدی علیہ السلام کی راہ ہموار کریں گے یعنی اس کی ترقی اور اس کے غلبہ کیلئے کوشش کریں گے.قَالَ النَّبِيُّ يَخْرُجُ الْمَهْدِيُّ مِنْ قَرْيَةٍ يُقَالُ لَهَ كَدْعَهِ وَيُصَدِّقُهُ اللَّهُ تَعَالَىٰ وَيَجْمَعُ أَصْحَابَهُ مِنْ أَقْصَى الْبَلَادِ عَلَى عِدَّةِ اَهْلِ بَدْرٍ ثَلَاثِ مِائَةِ وَثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلاً وَمَعَهُ صَحِيفَةٌ مَحْتُومَةٌ فِيْهَا عَدَدُ اَصْحَابِهِ بِأَسْمَائِهِمْ وَبَلَادِهِمْ وَ خِلالِهِمْ.(جواهر الاسرار - قلمی مصنفہ حضرت شیخ علی بن حمزہ بن علی الملک الطوسی) ارشادات فریدی جلد ۳ ص۰ ۷ مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ ۱۳۳۰ھ ) صاحب جواہر الاسرار لکھتے ہیں کہ اربعین میں یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.” مہدی ایک ایسے گاؤں سے مبعوث ہو گا جس کا نام ”کدعہ ہوگا.اللہ تعالیٰ اُس کی تصدیق میں نشان دکھائے گا.اور بدری صحابہ کی طرح مختلف علاقوں کے رہنے والے تین سو تیرا جلیل القدرصحابہ اسے عنایت فرمائے گا جن کے نام اور پتے ایک مستند کتاب میں درج ہوں گے.(حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ۳۱۳ صحابہ کے نام اور پتے کتاب انجام آتھم میں محفوظ ہیں.ناقل ) لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ اَوْرِجَالٌ مِنْ هؤلاء.(بخاری کتاب التفسير سورة جمعه )
64 یعنی اگر ایمان ثریا ستارے پر چلا گیا تو ان (فارسی النسل ) لوگوں میں سے ایک آدمی یا بعض لوگ اس کو دوبارہ واپس لائیں گے.پس مندرجہ بالا تمام روایات کے پیش نظر ضروری تھا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اس مشن کی تکمیل کے لئے صحابہ کے رنگ میں رنگین ایک جماعت قائم کرتے جو آپ کی وفات کے بعد بھی اس سلسلہ کو جاری رکھتی.چنانچہ اس سلسلہ میں خود بانی سلسلہ نے فرمایا:.یہ ایک ایسا مبارک زمانہ ہے کہ فضل اور جو الہی نے مقرر کر رکھا ہے کہ یہ زمانہ پھر لوگوں کوصحابہ کے رنگ میں لائے گا.“ اسی طرح اپنے ایک منظوم کلام میں فرمایا : وقت (تحفہ گولر و یه ص ۱۳۲) مسیح دنیا میں آیا خدا نے عہد دن ہے دکھایا ایمان وہ 3, เป صحاب مجھ کو پایا اگرد مبارک ހނ وہی کے ان کو ساقی نے پلا دی فَسُبَحُ انَ الَّذِي أُخْرَى الْأَعَادِي اعلان بیعت (در مشین اردو) چھ مخلصین کے قلوب میں برسوں سے یہ تحریک جاری تھی کہ حضرت اقدس بیعت لیں مگر حضرت اقدس ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ ”لَستُ بِمَا مُورٍ “ (یعنی میں مامور نہیں ہوں ) چنانچہ ایک دفعہ آپ نے میر عباس علی صاحب کی معرفت مولوی عبد القادر صاحب کو صاف صاف لکھا کہ اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تفویض الی اللہ غالب ہے اور چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں.لیکن یکم دسمبر ۱۸۸۸ءکو تبلیغ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں آپ نے تحریر فرمایا:.میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچانا چاہتا..ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان کچی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کے راہ
65 سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کو چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں.پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ وہ میری طرف آدیں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کے بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا.بشرطیکہ وہ ربانی شرائط پر چلنے کے لئے دل و جان سے تیار ہوں.یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچادیا ہے.اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے:.إِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا الَّذِيْنَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ.“ یعنی جب تو عزم کرے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے تحت ( نظام جماعت کی کشتی تیار کر جولوگ تیرے ہاتھ پر بیعت کریں گے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہو گا.“ (اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ ص ۲ تبلیغ رسالت جلد اول ص ۱۴۵) حضرت اقدس کے اشتہار پر جموں، خوست، بھیرہ، سیالکوٹ، گورداسپور ، گوجرانوالہ، پٹیالہ، جالندھر، مالیر کوٹلہ ،انبالہ، کپورتھلہ اور میرٹھ وغیرہ اضلاع سے متعد مخلصین لدھیانہ پہنچ گئے.بیعت اولیٰ کا آغاز لدھیانہ میں (حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب کی روایت کے مطابق ) ۲۰ رجب ۱۳۱۰ھ بمطابق ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت صوفی احمد جان کے مکان واقعہ محلہ جدید میں ہوا.وہیں بیعت کے تاریخی ریکارڈ کے لئے ایک رجسٹر تیار ہوا جس کی پیشانی پر یہ لکھا گیا:.وو بیعت تو بہ برائے حصول تقوی وطہارت رجسٹر میں ایک نقشہ تھا جس میں نام، ولدیت اور سکونت درج کی جاتی تھی.(سیرت المہدی حصہ اول ص ۷۶ ۷۷ روایت نمبر ۹۲ طبع ثانی ۱۹۳۵ء) حضرت اقدس بیعت لینے کے لئے مکان کی ایک کچی کوٹھڑی میں (جو بعد میں دار البیعت“ کے نام سے موسوم ہوئی ) بیٹھ گئے اور دروازے پر حافظ حامد علی صاحب کو مقرر فر مایا اور انہیں ہدایت دی کہ جسے میں کہتا جاؤں اسے کمرہ میں بلاتے جاؤ.چنانچہ آپ نے سب سے پہلے حضرت مولانا نورالدین صاحب کو بلوایا.حضرت اقدس نے مولانا کا ہاتھ کلائی پر سے زور سے پکڑا اور لمبی بیعت لی.ان دنوں بیعت کے الفاظ یہ تھے:.
66 بیعت اولیٰ کے الفاظ جو سید نا حضرت مسیح موعود نے خوداپنے قلم سے لکھے بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَده و نصلّى على رسوله الكريم آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے تو بہ کرتا ہوں جن میں میں مبتلا تھا اور اپنے سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کی لذات پر مقدم رکھوں گا اور اشتہار کی دس شرطوں پرحتی الوسع کار بند رہوں گا اور میں اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں.اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبّى اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلَّ ذَنْبٍ وَّاتُوبُ إِلَيْهِ وَاَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهُ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَريكَ لَهُ وَاَشَهدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِى فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ.» سیرت المہدی حصہ اول ص ۷۷ - ۷۸ طبع ثانی ۱۹۳۵ء) شرائط بیعت سلسلہ عالیہ احمدیہ اشتہار تکمیل تبلیغ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء تحریر فرموده حضرت مسیح موعود و مہدی معہود اول:.بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.دوم :.یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتارہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگر چہ کیسا ہی جذ بہ پیش آوے.سوم :.یہ کہ بلا ناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتارہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے
67 پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر در دو بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا.چہارم :.یہ کہ عام خلق اللہ کو عموما اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.جم:.یہ کہ ہر حال رنج و راحت اور عسر اور پیسر اور نعمت اور بلاء میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.م:.یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستورالعمل قرار دے گا.ہفتم : یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم :.یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.تم :.یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا دا د طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دہم :.یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.پہلے روز چالیس احباب نے بیعت کی اس طرح ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو با قاعدہ طور پر جماعت احمدیہ کی بنیا درکھی گئی.پھر ۱۹۰۱ء میں حضور نے ایک اشتہار کے ذریعہ اپنی جماعت کا نام ”مسلمان فرقہ احمدیہ تجویز فرمایا.ایسا ہونا بالکل ایک الہی تصرف تھا.اس لئے کہ امت محمدیہ میں بے شمار ایسے صاحب رؤیا وکشوف بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر بانی سلسلہ احمدیہ کی بعثت اور آپ کے ذریعہ قائم ہونی والی جماعت کی طرف اشارے کر دیئے.چنانچہ دنیائے اسلام کے جلیل القدر بزرگ حضرت ملاعلی قاری شارح
68 مشکوۃ شریف میں تہتر فرقوں والی مشہور عالم حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:.فَتِلْكَ اثْنَانِ وَسَبْعُونَ فِرْقَةً كُلُّهُمْ فِى النَّارِ وَالْفِرْقَةُ النَّاحِيَةُ هُمُ اَهْلُ السُّنَّةِ الْبَيْضَاءِ الْمُحَمَّدِيَّةِ وَالطَّرِيقَةِ النَّقِيَّةِ الْاحْمَدِيَّةِ.(شرح مشكوة ص (۲۴۸) یعنی آخری زمانہ میں امت محمدیہ کے تہتر فرقوں میں سے نجات یافتہ گروہ اہل سنت کا صرف وہ فرقہ ہوگا جو مقدس طریقہ احمد یہ پر گامزن ہوگا اور انشاء اللہ وہ وقت قریب ہے بلکہ وہ دیکھو منزل کے نشان جب خدا تعالیٰ کی ہدایت ساری دنیا میں اسی نجات یافتہ فرقہ احمدیہ کے ذریعہ پھیل کر رہے گی.حضرت امام ربانی مجد دالف ثانی فرماتے ہیں:.واقول قولاً عجبالم يسمعه احدوما اخبره مخبر باعلام الله سبحانه والهامه تعالی ایامی بفضله و کرمه آنکه بعد از هزار و چند سال از زمان رحلت آن سرور عليه و على آله الصلواة والتحیات زمانی می آید که حقیقت محمدی از مقام خود عروج فرماید و بمقام حقیقت کعبه متحد گردد این زمان حقیقت محمدی حقیقت احمدی نام باید.66 (رساله مبدا و معادص ۴۸ از امام ربانی مجد دالف ثانی) میں ایک عجیب بات کہتا ہوں کہ جو اس سے پہلے نہ کسی نے سنی اور نہ کسی بتانے والے نے بتائی جو اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے فضل و کرم سے صرف مجھے بتائی اور صرف مجھ پر الہام فرمائی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ آں سرور کائنات علیہ وآلہ الصلوۃ والتحیاۃ کے زمانہ رحلت سے ایک ہزار روپے اور چند سال بعد ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرمائے گی اور حقیقت کعبہ کے مقام میں رسائی پاکر اس کے ساتھ متحدہ ہو جائے گی اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہو جائے گا.امام مہدی احمدیت کی روحانی سلطنت کے علمبر دار ہوں گے.يَظْهَرُ صَاحِبُ الرَّايَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ وَالدَّوْلَةِ الْاَحْمَدِيَّةِ.(ينابيع المودة الجزو الثالث ص ٥٨) امام مہدی محمدی جھنڈے اور احمدی حکومت کے حامل کے طور پر ظاہر ہوں گے.
69 جماعت احمدیہ کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نصائح ”اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو خدا ہمیں اور تمہیں ان باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کا وقت تم پر ہے اسی سنت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے ہر ایک طرف سے کوشش ہوگی کہ تم ٹھوکر کھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سننی پڑیں گی اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے اور کچھ آسمانی ابتلاء بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ.سو تم اس وقت سن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو یا گالی کے مقابل پر گالی دو.کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے.اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے.سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی.“ وو (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ ص ۵۴۶ - ۵۴۷) یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جوز مین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوائی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جوا خیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور تو میں بنی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جولوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں
70 جن کا قدم صدق کا قدم ہے.“ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۹) نا انصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو.حق کو قبول کر لو اگر چہ ایک بچہ سے اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤ تو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو.سچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے:.فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلِ النُّوُرِ.جو چیز قبلۂ حق سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بت ہے سچی گواہی دوا گر چہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یا دوستوں پر ہو.چاہئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.باہم بخل اور کینہ اور حسد اور بغض اور بے مہری چھوڑ دو اور ایک ہو جاؤ.قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں.ایک تو حید و محبت و اطاعت باری عز اسمہ.دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ ص۵۵۰) سچائی اختیار کرو.سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں کیا انسان اس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے کیا اس کے آگے بھی مکاریاں پیش جاتی ہیں.“ (روحانی خزائن جلد۳- ازالہ اوہام ص۵۵۰) ”سواے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گو یا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو ہر ایک جو ز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو یقیناً یا درکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہو.ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا.ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے.سو خبر دار ر ہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ.زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے.جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں.اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا.سو تم اس کو مت چھوڑو اور ضرور ہے کہ تم دکھ دیئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ.سو ان صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو تم خدا کی آخری جماعت ہوسودہ نیک عمل
71 دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو.“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۱۵) تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشا.سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں.خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے.بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.خائن اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.اور ہر ایک جو اس کے نام کے لئے غیرتمند نہیں.اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا گڑوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے ہر ایک ناپاک آنکھ اس سے دور ہے.ہر ایک نا پاک دل اس سے بے خبر ہے.وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گا.وہ جو اس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا.وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا.تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے.تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر بھی رحم ہو.تم سچ سچ اس کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہو جاوے.“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۱۲-۱۳) میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خدا وند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی روح سے بولتا ہوں.ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اس کو دیوانہ کر دے اور اس کے بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دیدے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ وحشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ وحشمت خدا نے ہی اس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے
72 اور اس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے یہ نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ ص۴۰۲) بدظنی ایک سخت بلا ہے جو ایمان کو ایسی جلدی جلا دیتی ہے جیسا کہ آتش سوزاں خس و خاشاک کو اور وہ جو خدا کے مرسلوں پر بدظنی کرتا ہے خدا اس کا خود دشمن ہو جاتا ہے اور اس کی جنگ کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور وہ اپنے برگزیدوں کے لئے اس قدرغیرت رکھتا ہے جو کسی میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی.میرے پر جب طرح طرح کے حملے ہوئے تو وہی خدا کی غیرت میرے لئے برافروختہ ہوئی.“ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۱۷ حاشیہ) ”میں سچ کہتا ہوں کہ بدظنی بہت سی بری بلا ہے جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے اور صدق اور راستی سے دور پھینک دیتی ہے اور دوستوں کو دشمن بنا دیتی ہے.صدیقوں کے کمال حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان بدظنی سے بہت ہی بچے اور اگر کسی کی نسبت کوئی سو ظن پیدا ہو تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے تا کہ اس معصیت اور اس کے برے نتیجہ سے بچ جاوے جو اس بدظنی کے پیچھے آنے والا ہے اس کو کبھی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہئے.یہ بہت ہی خطر ناک بیماری ہے جس سے انسان بہت جلد ہلاک ہو جاتا ہے.(ملفوظات جلد اول ص۳۷۲) اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقوی حاصل نہیں ہو سکتا اور نفسانی جذبات کو بکلی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو.دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو وہ درد جس سے خدا راضی ہو اس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضب الہی ہو.اس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے.اگر تم صاف دل ہو کر اس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مددکرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۷) لباس التقویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے.یعنی ان کے دقیق در دقیق
73 پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے.“ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ ص۲۱۰) جماعت احمدیہ میں شمولیت کی ضرورت حضرت بانی سلسلہ کا مشن اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہے.اس عظیم الشان مقصد کیلئے آنے والے موعود کی تائید و نصرت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے.اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ:.فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الْتَّلْجِ فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِى.(ابن ماجہ ابواب الفتن.باب خروج المهدی) یعنی اے مسلمانو! جب تمہیں اس کا علم ہو جائے تو فوراً اس کی بیعت کرو خواہ تمہیں برف پر سے گھٹنوں کے بل جانا پڑے کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہوگا.وَعَلَى رَأْسِهِ مَلَكٌ يُنَادِى هَذَا الْمَهْدِيُّ خَلِيْفَةُ اللَّهِ فَاتَّبَعُوهُ.ينابيع المودة جز ثالث ص ۰۸ از شیخ سلیمان ابن الشیخ ابراهیم ) مہدی کی حمایت میں خدا تعالیٰ کے فرشتے کھڑے ہوں گے جو لوگوں کے دلوں میں الہام کر کے انہیں مہدی کے متبعین میں شامل ہونے کی تحریک کریں گے.عَنْ سَبِيعِ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرِّ كَمَا كَانَ قَبْلَهُ شَرٌّ؟ قَالَ : نَعَمُ ، قُلْتُ : فَمَا الْعِصْمَةُ مِنْهُ؟ قَالَ: السَّيْفُ أَحْسِبُ، قَالَ : قُلْتُ : ثُمَ مَاذَا ، قَالَ : ثُمَّ تَكُونُ دُعَاةُ الضَّلَالَةِ.قَالَ : إِنْ رَأَيْتَ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةَ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ فَالْزَمُهُ وَاِنْ نُهِكَ جِسْمُكَ وَأُخِذَ مَالُكَ.( مسند احمد بن حنبل ص۴۰۳) حضرت سبیع حضرت حذیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ کیا ان بھلے دنوں کے بعد برے دن بھی آئیں گے جس طرح پہلے برے دن تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں.میں نے عرض کیا اس فتنہ سے بچنے کی کیا صورت اختیار کی جائے گی.آپ نے فرمایا تلوار ! یعنی جنگ کا حربہ استعمال کیا جائے گا.میں نے عرض کیا نتیجہ کیا نکلے گا؟ فرمایا.دلی کدورت کے باوجود صلح کی سطحی کوششیں کی جائیں گی.میں نے عرض کیا.پھر کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ کھڑے ہوں گے ایسے حالات میں اگر زمین میں اللہ کا کوئی خلیفہ دیکھو تو تم اس کی متابعت و مصاحبت اختیار کر واگر چہ اس وجہ سے تمہارا جسم لہولہان کر دیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے.
74 حُذَيْفَةَ ابْنَ الْيَمَانِ يَقُولُ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ وَ كُنتُ أَسأَلَهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدرِكَنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرِّفَجَاءَ نَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرِّ قَالَ نَعَمُ قُلْتُ وَ هَلْ بَعْدَ ذلِكَ الشَّرِ مِنْ خَيْرٍ قَالَ نَعَمُ وَ فِيْهِ دَخَنٌ قُلْتُ وَمَا دَخَنُهُ قَالَ قَوْمٌ يَهِدُونَ بِغَيرِ هُدى تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ قُلْتُ فَهَلْ بَعْدَ ذلِكَ الْخَيْر مِنْ شَرِّ قَالَ نَعَمُ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيْهَا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفَهُمْ قَالَ هُمُ مِنْ جَلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِالْسِنَتِنَا قُلَتُ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ قَالَ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمُ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ قَالَ فَاعْتَزِلُ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنَّ تَعُضُّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَ الْمَوْتُ وَ اَنْتَ عَلى ذلِكَ (صحیح بخاری کتاب الفتن.باب كيف الامرا ذالم تكن جماعة) ترجمہ : حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ لوگ آنحضرت ﷺ سے بھلی باتوں کے بارہ میں پوچھا کرتے اور میں برائی (فتنے اور فساد ) کے بارے میں پوچھا کرتا اس ڈر سے کہ کہیں اس میں گرفتار نہ ہو جاؤں.ایک دن میں نے کہا یا رسول اللہ ہم لوگ جاہلیت اور خرابی میں گرفتار تھے پھر اللہ تعالیٰ یہ بھلائی ہم پر لے آیا (اسلام کی توفیق دی ) اب اس بھلائی کے بعد کیا پھر برائی پیدا ہوگی.آپ نے فرمایا.ہاں.میں نے پوچھا پھر اس برائی کے بعد پھر بھلائی ہو گی.آپ نے فرمایا.ہاں.مگر اس میں دھواں ہوگا.میں نے عرض کیا دھواں کیا بات؟ آپ نے فرمایا ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ( پورا پورا ) میری سنت پر نہیں چلیں گے ان کی کوئی بات اچھی ہوگی اور کوئی بری تو انہیں پہچان لینا اور ان سے بیزاری کا اظہار کرنا.میں نے پوچھا پھر اس بھلائی کے بعد برائی ہوگی.آپ نے فرمایا.ہاں اس وقت دوزخ کی طرف بلانے والے دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے جو کوئی ان کی بات مانے گا بس وہ اس دوزخ میں جھونک دیں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ان لوگوں کی صفت کو بیان کریں ( تا کہ ہم انہیں پہچان لیں ) آپ نے فرمایا یہ لوگ بظاہر تو ہماری جماعت یعنی مسلمانوں میں سے ہوں گے ہماری ہی زبان بولیں گے.میں نے کہا یا رسول اللہ اگر میں یہ زمانہ پاؤں تو کیا کروں.آپ نے فرمایا.ایسا کر کہ مسلمانوں کی جماعت اور امام کے ساتھ رہ.میں نے کہا اگر اس وقت جماعت نہ ہو امام نہ ہو.فرمایا تو پھر ایسا کر کہ ان تمام فرقوں سے الگ رہ ( جنگل میں دور دراز چلا جا ) اگر وہاں کچھ کھانے کو نہ ملے تو خواہ کسی درخت کی جڑ مرنے تک چباتارہ ( تو یہ تیرے حق میں بہتر ہوگا )
75 قادیان کا تعارف قادیان دارالامان جو کہ جماعت احمد یہ عالمگیر کا مرکز مدام ہے ہندوستان کے ایک ضلع گورداسپور میں واقع ہے.یہ لا ہور سے ۷۰ میل (یعنی ۷ ۱۲۰ کلومیٹر ) گوشہ شمال و مشرق میں واقع ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جدا مسجد میں سے ایک بزرگ جو علم و فضل اور تفقہ فی الدین میں کمال رکھنے کے علاوہ تقویٰ طہارت کو بھی اپنا شعار رکھتے تھے سمر قند سے ہجرت کر کے یہاں آئے.ان کے ساتھ دوسو آدمی ان کے توابع خدام اور اہل وعیال میں سے تھے.حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب کو اسلام سے بہت محبت تھی.یہی بات یہاں آ کر اپنے آباد کردہ قصبہ میں بھی ملحوظ رکھی اور اس قصبہ کا نام اسلام پور رکھا.چونکہ یہ علاقہ جس میں مرزا ہادی بیگ نے اپنے رہنے کے لئے یہ گاؤں آباد کیا ماجھا کہلاتا تھا اس لئے یہ نام آہستہ آہستہ اسلام پور ماجھا میں بدل گیا.اور ماجھا اسے شاید اس لئے کہا جاتا تھا کہ ماجھ ہندی زبان میں بھینس کو کہتے ہیں اور اس علاقہ میں بھینسیں کثرت سے پائی جاتی تھیں.اسلام پور آہستہ آہستہ ارد گرد کے سارے علاقے کا صدر مقام بن گیا اور یہیں صدر عدالت یعنی دار القضاء تھا اس لئے لوگوں نے اس کا نام اسلام پور قاضی ماجھی مشہور کر دیا.چونکہ زبان محاورہ اور اختصار پسند ہوتی ہے اس لئے رفتہ رفتہ لوگ اسلام پور کو چھوڑ کر کچھ عرصہ تک اس کو قاضی ما جبھی کہتے رہے.پھر امتدادزمانہ نے قاضی ماجھی کے بجائے صرف قاضی نام باقی رہنے دیا.اور چونکہ ض کے تلفظ میں اہل ہند و پنجاب دال سے کام چلاتے ہیں اس لئے قاضی کی بجائے قادی ہو گیا.پھر اس سے بگڑ کر قادیان بنا اور آجکل اسی جگہ کو قادیان کہتے ہیں.یه قصبه ۳۳ طولانی خط استواء میں واقع ہے.مرزا ہادی بیگ صاحب کی ہندستان آمد کے متعلق کوئی صحیح تاریخ نہیں ملتی.لیکن یہ امر ثابت ہے کہ بابر بادشاہ کے عہد حکومت میں اس خاندان کے بزرگ ہندوستان پہنچے اور سرلیپل گریفن کی تحقیقات کے مطاق یہ ۱۵۳۰ء کا واقعہ ہے.بلا شبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور سے پہلے بہت کم لوگ اس کو دنیا میں جاننے والے تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توسط سے یہ قصبہ ساری دنیا کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام "يَاتِيكَ مِنْ كُلّ فَجَ عَمِيقٍ “ اپنی پوری شان و شوکت سے پورا ہو رہا ہے.66
76 تقسیم ہندوستان کے بعد بعض مجبوریوں کے باعث مرکز جماعت قادیان سے ربوہ ضلع جھنگ اب ضلع چنیوٹ شفٹ کرنا پڑا لیکن جیسا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.ربوہ میں آجکل ہے جاری نظام اپنا پر قادیاں رہے گا مرکز مدام اپنا قادیان ہمیشہ جماعت احمدیہ کا حقیقی مرکز رہے گا.ہر سال جلسہ سالانہ قادیان منعقد کیا جاتا ہے جس میں شرکت کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ بیرون ملک سے بھی بہت سے احباب تشریف لاتے ہیں.اور مقدس مقامات کی زیارت سے اپنی روحانیت میں اضافہ کرتے ہیں.مقدس مقامات میں ایک عظیم فضیلت بہشتی مقبرہ کو حاصل ہے جہاں ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقبرہ ہے.اسی طرح حضرت خلیفتہ اسح الاول نو راللہ مرقدہ اور بعض دیگر جید رفقاء کے مقابر بھی ہیں.اس کے علاوہ گلشن احمد ، بیت اقصیٰ ، بیت المبارک اور مینارة امسیح بھی زیارت کے لائق مقامات ہیں.مہمانوں کی رہائش و طعام کے لئے دار الضیافت بھی قائم ہے جہاں ہر سال سینکڑوں مہمان آتے ہیں.(ماخوذ از کامیابی کی راہیں چہار حصص ص ۲۴۰،۲۳۹) ہندو پاک کے مشہور صاحب قلم جناب نیاز فتحپوری صاحب مدیر ” نگار لکھنؤ جولائی ۱۹۶۰ء میں ایک روز کے لئے قادیان تشریف لے گئے.واپسی پر انہوں نے اپنے مؤقر رسالہ ”نگار“ میں ” چند گھنٹے قادیان میں کے زیر عنوان مندرجہ ذیل تاثرات رقم فرمائے:.۲۸.۲۹ جولائی وہ ساعتیں جو میں نے قادیان میں بسر کیں میری زندگی کی وہ گھڑیاں تھیں.جن کو 66 میں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا.“ مزید لکھا:.”حیات انسانی کا ہر لمحہ زندگی کا ایک نیا درس، نیا تجربہ اپنے ساتھ لاتا ہے.اگر زندگی نام صرف سانس کے آمدوشد کا نہیں.بلکہ آنکھ کھول کر دیکھنے اور سمجھنے کا بھی ہے.اور ان چند ساعتوں میں جو کچھ میں نے یہیں دیکھا وہ میری زندگی کا اتنا دلچسپ تجربہ تھا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں پچاس سال پیچھے ہٹ کر وہی زندگی شروع کرتا جو قادیان کی احمدی جماعت میں مجھے نظر آئی.لیکن حیف صد حیف کہ مادیر خبر دار شدیم.اب زندگی میں سب سے پہلے پہلی مرتبہ احمدی جماعت کی جیتی جاگتی تنظیم و عمل دیکھ کر میں ایک جگہ ٹھٹھک کر رہ گیا ہوں.اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی زندگی کے اس نئے تجر بہ واحساس کو کن الفاظ میں ظاہر کروں.“
77 ربوہ کا تعارف ۱۹۴۷ء کو قیام پاکستان کے وقت احمدیوں کو اپنے دائگی مرکز قادیان سے ہجرت کرنا پڑی.پاکستان ہجرت کے بعد حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ فوراً قادیان کی طرز پر جماعت احمدیہ کا ایک نیا مرکز قائم کیا جائے.جہاں قادیان اور ہندوستان کے دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے احمدی احباب آباد ہوسکیں اور نظام سلسلہ چل سکے.حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ نئے مرکز کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہاں پاکستان پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے.یعنی ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ فورا ایک مرکز بنایا جائے.“ ( خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۴۹ء) اس مرکز کے لئے زمین کی تلاش کا کام حضور نے چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ کے سپرد کیا.انہوں نے مختلف جگہوں کا سروے کیا اور حضور کور پورٹ پیش کی جس میں چند جگہیں نئے مرکز کے لئے تجویز کیں.حضور نے اپنی ایک رویا جو آپ نے ۱۹۴۱ء میں دیکھی تھی کی بناء پر دریائے چناب کے کنارے پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو مرکز کے لئے پسند فرمایا اور ۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو حضور نے اس نئے مرکز کا افتتاح فرمایا:.قادیان سے ہجرت کے بعد پاکستان آکر ربوہ جیسی عظیم الشان بستی آباد کر لینا اور جماعت احمدیہ کا دوباره مرکز تعمیر کر لینا حضرت مصلح موعود کا بہت بڑا کارنامہ ہے، جماعت لٹ لٹا کر پاکستان آئی تھی قادیان کے احمدی جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے.حضور نے تھوڑے سے عرصے میں ہی ربوہ کی زمین حکومت سے حاصل کر کے ۲۰ستمبر ۱۹۴۸ء کو یہاں پر جماعت احمدیہ کے نئے مرکز کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم الشان بستی قائم کر کے دکھا دی.ربوہ کا قیام حضور کا ایک بے نظیر کارنامہ ہے دیگر مسلمان لاکھوں کی تعداد میں بھارت سے ہجرت کر کے آئے تھے ان کی تنظیمیں بھی موجود تھیں مگر کسی کو اس طرح کی بستی آباد کرنے کی توفیق نہ ملی.سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ کی تعمیر کے وقت پاکستان بھر کے بڑے بڑے اخباروں کے نمائندگان کو ربوہ کی مجوزہ جگہ دیکھنے کی دعوت دی اور ربوہ کا مجوزہ نقشہ دکھاتے ہوئے تفصیلات سے آگاہ کیا.اس موقع پر لاہور کے مشہور کالم نویس با باوقار انبالوی مرحوم نے اپنے اخبار روز نامہ ”سفینہ میں لکھا کہ:.
78 گزشتہ اتوار کو امیر جماعت احمدیہ نے لاہور کے اخبار نویسوں کو اپنی نئی بستی ربوہ کا مقام دیکھنے کی دعوت دی اور انہیں ساتھ لے کر وہاں کا دورہ کیا.اس دورے کی تفصیلات اخباروں میں آچکی ہیں ایک مہاجر کی حیثیت سے ربوہ ہمارے لئے سبق ہے ساٹھ لاکھ مہاجر پاکستان آئے لیکن اس طرح کہ وہاں سے بھی اجڑے اور یہاں بھی کسمپرسی نے انہیں منتشر کئے رکھا یہ لوگ تھے.رب العلمین کے پرستار اور رحمہ سے للعلمین کے نام لیوا.مساوات واخوت کے علمبر دار لیکن اتنی بڑی مصیبت بھی انہیں یکجا نہ کر سکی اس کے برعکس ہم اعتقادی حیثیت سے احمدیوں پر ہمیشہ طعنہ زن رہے ہیں لیکن ان کی تنظیم ، ان کی اخوت اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کی حمایت نے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا قادیان تعمیر کرنے کی ابتداء کر دی.مہاجرین ہو کر وہ لوگ بھی آئے جن میں ایک ایک آدمی خدا کے فضل سے ایسی بستیاں بسا سکتا تھا لیکن ان کا رو پیدان کی ذات کے علاوہ کسی غریب مہاجر کے کام نہ آسکار بوہ ایک اور نقطہ نظر سے بھی ہمارے لئے محل نظر ہے وہ یہ کہ حکومت بھی اس سے سبق لے سکتی ہے اور مہاجرین کی بستیاں اس نمونے پر بسا سکتی ہے.اس لئے ربوہ عوام اور حکومت کے لئے ایک مثال ہے اور زبان حال سے کہ رہا ہے کہ لمبے چوڑے دعوے کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور عملی کام کرنے والے کچھ دعویٰ کئے بغیر کر دکھاتے ہیں.“ ( بحواله الفضل ۹ تا ۱۳/ نومبر ۱۹۴۸ء) ربوہ کا نام صدرانجمن احمدیہ کے اجلاس میں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے تجویز کیا.جو بالاتفاق منظور ہو گیا.۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو وجود میں آنے والا شہر ربوہ آج جماعت احمدیہ کا مرکز ہے.یہ شہر سرگودھا سے لائکپور حال فیصل آباد جانے والی شاہراہ پر ان دونوں بڑے شہروں کے عین وسط میں واقع ہے.آغاز میں ربوہ میں پانی سبزہ اور آبادی کا نام ونشان نہ تھا اور یہ وہ مقام تھا کہ یہاں سے گزرتے ہوئے لوگ خوف محسوس کیا کرتے تھے.لیکن آج اس شہر میں میٹھا پانی اور کئی قسم کے پھل پھول اور سبزہ موجود ہے اور اس شہر کی آبادی پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے.ربوہ میں تمام مرکزی دفاتر صدرانجمن احمد یہ تحریک جدید انجمن احمد یہ وقف جدید انجمن احمد یہ اور ذیلی تنظیموں کے مرکزی دفاتر کے علاوہ ربوہ میں ایک بڑی مرکزی لائبریری موجود ہے جسے خلافت لائبریری کہتے ہیں.معیاری تعلیمی ادارے ، ڈاکخانہ، کور بیئر سروسز، بینک، بازار، سپورٹس کمپلیکس ، سوئمنگ پول کھیلوں کے میدان فضل عمر ہسپتال، طاہر ہو میو پیتھک ہسپتال اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ( جو پاکستان میں دل کے بہترین ہسپتالوں میں سے ہے ) بھی شہریوں کی سہولت کے لئے یہاں موجود ہے.ربوہ کے ہر محلہ میں بیوت الذکر موجود ہیں جہاں لوگ پانچ وقت باجماعت نماز میں ادا کرتے ہیں.یہاں کی بڑی جامع ( بیت ) کا نام بیت اقصیٰ ہے جہاں لوگ نماز جمعہ ادا کرتے ہیں.( بیت ) مبارک وہ
79 بابرکت ( بیت ) ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار خلفاء اور متعد در فقاء نے نمازیں ادا کی ہیں.ربوہ وہ مقدس مقام ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار خلفاء کے شب و روز گزرے.نیز ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ولادت با سعادت اسی شہر میں ہوئی.ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود کے دو خلفاء، حضرت اماں جان، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک اولا داور چھ سو کے قریب رفقاء اور سینکڑوں فرشتہ سیرت اور برگزیدہ وجود مدفون ہیں.حضرت مصلح موعودر بوہ کے متعلق فرماتے ہیں.یہ کبھی و ہم نہ کرنا کہ ربوہ اجڑ جائے گا.ربوہ کو خدا تعالیٰ نے برکت دی ہے ربوہ کے چپے چپے پر اللہ اکبر کے نعرے لگے ہیں.ربوہ کے چپے چپے پر محمد ﷺ پر درود بھیجا گیا ہے.خدا تعالیٰ اس زمین کو کبھی ضائع رہے محمد نہیں کرے گا جس پر نعرہ تکبیر لگے ہیں اور محمد رسول اللہ علیہ پر در دو بھیجا گیا ہے.یہ بستی قیامت تک خدا تعالیٰ کی محبوب بہتی رہے گی اور قیامت تک اس پر برکتیں نازل ہوں گی اس لئے یہ کبھی نہیں اجڑے گی، کبھی تباہ نہ ہو گی.بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا میں کھڑا کرتی رہے گی.انشاء اللہ تعالی “ رہے کعبہ کی بڑھائی کا ربوه ریوہ کو پہنچتی رہیں دعا گو رہیں کعبہ کی دعائیں (ماخوذ از کامیابی کی راہیں چہار حصص ص ۲۴۱ تا ۲۴۳)
80
81 باب چهارم جماعت احمدیہ کے عقائد
82
83 ہمارے عقائد حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں.”ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ.ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں، جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی ﷺ خاتم النبین وخیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے، اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور نہ کم ہوسکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجاب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا منی یا کسی ایک حکم کی تبدیل یا تغیر کر سکتا ہو.اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے.“ (روحانی خزائن جلد ۳ ازالہ اوہام ص ۱۷۰،۱۶۹) اسی طرح فرمایا:.”اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سید نا حضرت محمد مصطفی ہے.اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجسادحق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لاالہ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اور اسی پر مریں.اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں.اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہلسنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے.اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے.“ (روحانی خزائن جلد ۱۴.ایام الصلح ص ۳۲۳) ”اے تمام وہ لو گو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذ ہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی
84 وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد علی ہے.(روحانی خزائن جلد ۱۵- تریاق القلوب ص ۱۴۱) ہمارا مذہب کیا ہے حضرت خلیفۃ ابیح الاول نو راللہ مرقدہ فرماتے ہیں:.ہمارا مذ ہب کیا ہے؟ مختصر اعرض ہے:.أَشْهَدُ اَنْ لَّا لَهُ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ..اللہ تعالی تمام صفات کا ملہ سے موصوف اور ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے.اپنی ذات میں یکتا اور صفات میں بے ہمتا، اپنے افعال میں کین گمان اور اپنے تمام عبادات میں وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ.۲.ملائکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ان پر ایمان لا بد ہے.۳.تمام کتب الہیہ.۴.تمام رسولوں اور نبیوں ۵.حضرت محمد ملی المکی والمدنی محمد بن عبد اللہ.خاتم النبیین رسول رب العالمین ہیں اور آپ پر جو کتاب نازل ہوئی.کیا معنی اس پر اور ان تمام چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے.قرآن کریم بلاتحریف و تبدیل و کمی و زیادتی کے اسی ترتیب موجود پر ہم کو حضرت نبی کریم سے پہنچا.- تقدیر کا مسئلہ حق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام اشیاء جو ہیں اور جو ہوں گی اور جو ہو چکیں سب کا اتم و اکمل طور پر علم ہے جزئیات کا بھی وہ عالم ہے.نیکی کا ثمرہ نیک اور بدی کا نتیجہ بد ہوتا ہے.جیسا کوئی کرتا ہے ویسا ہی پاتا ہے.يَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ.ے.بعد الموت نفس کو بقا ہے.قبر سے لے کر حشر ، نشر ، صراط جہنم، بہشت کے واقعات جو کچھ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ، سب صحیح ہیں.۸.صحابہ کرام کو ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معاویہ ومغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک کسی کو برانہیں کہتے اور نہ دل میں ان کی نسبت بداعتقاد ہیں.اہل بیت کو بدل اپنا محبوب و پیارا یقین کرتے ہیں.تمام بیبیاں حضرت نبی کریم کی حضرت عائشہ وخدیجہ سے لے کر اور تمام خاندان نبوت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور امام حسن سبط اکبر اور امام حسین سبط اصغر شہید کربلا اور ان کی والدہ بتول زہرہ النساء اہل الجنہ سب کو اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ گر وہ بدل یقین کرتے ہیں.صلوة الله و سلام عليهم اجمعين.اقتباس از مکتوب بنام ایڈیٹر رسالہ ” البیان ۷ استمبر ۱۹۰۸ء)
85 بعض اختلافی مسائل ا.مسئلہ وفات وحیات مسیح وفات وحیات مسیح کا مسئلہ دنیا کے تین بڑے مذاہب کے درمیان دلچسپی کا باعث ہے.یہود، عیسائی اور مسلمان.اس بارہ میں مختلف خیالات رکھتے ہیں.یہود کا مسلک یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر مار کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسیح نعوذ باللہ جھوٹے تھے کیونکہ تورات میں یہ لکھا ہے کہ جھوٹا نبی ضرور کاٹھ پر چڑھایا جاتا ہے.اس کے برعکس عیسائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر جان دی.لیکن وہ صلیب پر سے اترنے کے بعد دوبارہ جی اٹھے اور ان کی یہ قربانی قیامت تک کے لئے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوگئی اور مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح آسمان پر زندہ بجسد و العنصری موجود ہے آسمان پر جانے کا سبب یہ امر بنا کر جب یہود حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب دینے کے لئے گرفتار کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص قدرت سے حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور اس کی شبیہ گرفتار کرنے والے ایک یہودی سپاہی کو دے دی.یہودیوں نے اسے ہی حضرت عیسی سمجھ کر صلیب پر چڑھا دیا.اس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو یہودیوں کے بدارادہ سے بچا لیا.اس وقت سے حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر موجود ہیں اور آخری زمانہ میں امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے آسمان سے نازل ہوں گے.جبکہ جماعت احمد یہ اس عقیدہ کو صحیح تسلیم نہیں کرتی.کیونکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی نقلاً وعقلاً وفات ثابت ہے.وفات مسیح از روئے قرآن مجید ا.وَإِذْ قَالَ اللهُ بِعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَ أُمِّيَ الهَيْنَ مِنْ دُون الله ط قَالَ سُبْحَنَكَ مَايَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَالَيْسَ لِي بِحَقِط إِنْ كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ، تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِى وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ طَ إِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمُ إِلَّا مَا اَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُ وَ اللَّهَ رَبِّي وَ رَبَّكُمُ وَكُنتُ عَلَيْهِمُ شَهِيدًا مَّا دُمُتُ فِيهِمُ ، فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ، وَ اَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌه (المائدہ:۱۱۷.۱۱۸) ترجمہ:.اور جب کہا اللہ نے اے عیسی بن مریم! کیا تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو
86 معبود بناؤ.خدا کے سوا.تو عیسی نے کہا.پاک ہے تو ناممکن تھا میرے لئے کہ میں کہوں.جس کا مجھے کوئی حق نہ تھا.اگر میں نے ایسا کیا ہو تو تجھے معلوم ہی ہوگا.تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے.اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے یقینا تو غیوں کو خوب جاننے والا ہے.میں نے ان سے نہیں کہا.مگر وہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا.کہ عبادت کرو اللہ کی.جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے.اور میں ان پر نگران تھا.جب تک میں ان میں موجود رہا.پس جب تو نے مجھے وفات دی تو تو ہی ان پر نگران تھا.اور تو ہی ہر چیز پر نگران ہے.استدالال:- اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسی سے بطور حکایت ذکر کر کے فرماتا ہے.فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ یعنی قیامت کو خدا تعالیٰ عیسی سے پوچھے گا کہ کیا تو نے اپنی قوم کو یہ علیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے مانا کرو تو وہ جواب دیں گے کہ جب تک میں اپنی قوم میں تھا میں ان کو یہی تعلیم دیتا رہا کہ خدا ایک ہے اور میں اس کا رسول ہوں اور پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو مجھے اس کے بعد ان کے عقائد کاعلم نہیں.اس آیت میں حضرت عیسی اپنی وفات کا صاف اقرار کرتے ہیں.اور اس میں یہ بھی اقرار ہے کہ میں دنیا میں واپس نہیں گیا.کیونکہ اگر وہ دنیا میں واپس آئے ہوتے تو پھر اس صورت میں قیامت کے دن یہ کہنا جھوٹ تھا کہ مجھے اپنی امت کی کچھ بھی خبر نہیں کہ میرے بعد انہوں نے کونسا طریق اختیار کیا کیونکہ اگر یہ عقیدہ صحیح ہے کہ وہ قیامت سے پہلے دنیا میں واپس آئیں گے اور عیسائیوں سے لڑائیاں کریں گے تو پھر قیامت کے دن انکار کر کے یہ کہنا کہ عیسائیوں کے بگڑنے کی مجھ کو کچھ خبر نہیں سراسر جھوٹ ہوگا.نعوذ باللہ ٢- مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ : قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ طَ أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُم ( آل عمران: ۱۴۵) عَلَى أَعْقَابِكُمْ.ترجمہ: نہیں ہیں محمد ( ﷺ ) مگر اللہ کے رسول.ان سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں.اگر وہ مر جائیں یا قتل ہوں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے؟ استدلال: اس آیت کریمہ میں سب نبیوں کے گزر جانے سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے آنے والے تمام رسول وفات پاچکے ہیں.کوئی ان میں سے زندہ نہیں.افَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ میں گزرنے کے دو طریق ہی بیان کئے گئے ہیں.موت اور قتل کیا جانا.آیت وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ میں حضرت عیسی
87 علیہ السلام کی صلیب یا بذریعہ قتل موت کی نفی کی گئی ہے.پس ان کے لئے طبعی موت پانا ثابت ہوا.اگر وہ زندہ ہوتے تو قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کے بعد إِلَّا عِیسی کہہ کر ان کا استثناء کیا جاتا.تا یہ استدلال ہوسکتا کہ وہ زندہ ہیں اور ان کے سوا باقی نبی گزر چکے ہیں.٣- قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا (بنی اسرائیل:۹۴) ترجمہ :.(اے رسول!) تو کہہ دے.میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں.استدلال :.کفار نے آنحضرت ﷺ سے یہ معجزہ مانگا کہ جب تک تو ہماری آنکھوں کے سامنے آسمان پر جا کر کوئی کتاب نہ لائے جیسے ہم خود پڑھ لیں اس وقت تک ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے.خدا تعالیٰ نے کفار کے اس مطالبے کے جواب میں فرمایا:.قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلا یعنی اے رسول ! تو یہ کہ کہ میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں.اور کسی بشر کے لئے آسمان پر جسم عنصری کے ساتھ جانا قانون قدرت کے خلاف ہے.اگر آنحضرت علیہ جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر نہیں جاسکتے تو حضرت عیسی علیہ السلام جسم خاکی کے ساتھ کیسے آسمان پر چلے گئے.اگر یہ تسلیم کر لیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسد خاکی کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں تو پھر ماننا پڑے گا وہ بشر انسان نہیں تھے بلکہ ان میں اٹو ہیت کی صفات پائی جاتی تھیں.جس سے عیسائیت کو تقویت پہنچتی ہے.پس اس آیت کریمہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے عقیدہ کا رد ہوتا ہے.اور یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی دیگر انبیاء کی طرح وفات پاگئے ہیں.وفات یح از روئے حدیث ا.عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوَفِّيَ فَيْهِ لِفَاطِمَةَ اَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُنِى الْقُرْآنَ فِى كُلَّ عَامٍ مَرَّةً وَإِنَّهُ عَارِضَنِي الْقُرْآنَ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَ أَخْبَرَنِى أَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةَ سَنَةٍ وَلَا أَنِّي إِلَّا ذَاهِبًا عَلَى رَأْسِ السِّتِينَ.( کنز العمال جلد ۶ ص۱۹۰) ترجمہ:.ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض میں جس صلى الله میں آپ کی وفات ہوئی.حضرت فاطمہ سے فرمایا.کہ جبریل ہر سال ایک مرتبہ میرے ساتھ قرآن کریم دہراتے تھے اور اس سال انہوں نے دو دفعہ میرے ساتھ قرآن دہرایا ہے اور انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ ہر
88 نبی اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر ضرور زندہ رہا ہے.اور انہوں نے مجھے یہ بھی خبر دی ہے کہ عیسی بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے اور میں اپنے آپ کو نہیں سمجھتا مگر صرف ساٹھ سال کے سرے پر جانے والا.۲- لَوْ كَانَ مُوسَى وَ عِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِى.(تفسیر ابن کثیر جلد ۲ ص ۲۴۶ بر حاشيه تفسير فتح البيان اليواقيت والجواهر مصنفه عبدالوهاب الشعرانی” ص ۲۰٫۲) - ترجمہ :.اگر موسیٰ اور عیسی دونوں زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا.وفات مسیح اور اقوال بزرگان امت جماعت احمدیہ کے علاوہ امت محمدیہ کے بے شمار بزرگ وفات مسیح کو تسلیم کرنے والے ہیں.ا.شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ سرمحمد اقبال صاحب فرماتے ہیں:.”جہاں تک میں نے اس تحریک کی منشاء کو سمجھا ہے احمدیوں کا یہ اعتقاد کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی اور رجعت مسیح گویا ایسے شخص کی آمد ہے جو روحانی حیثیت سے اس کا مشابہ ہے.اس خیال سے یہ تحریک معقولی رنگ رکھتی ہے.“ (خطبات مدارس) ۲.مولانا ابوالکلام مرحوم.ڈاکٹر انعام اللہ خاں صاحب سالاری کے ایک استفسار مرقومه ۶ / اپریل نہیں ہوتا.“ ۱۹۵۶ء کے جواب میں لکھتے ہیں :.وفات مسیح کا ذکر خود قرآن مجید میں ہے.مرزا صاحب کی تعریف اور برائی کا سوال ہی پیدا ( ملفوظات آزاد مر تبہ محمد اجمل خالص ۱۲۹ مطبوعہ مکتبہ ماحول کراچی ) سرسید احمد خاں صاحب اپنی تفسیر میں وفات مسیح پر تفصیل سے بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :.اب ہم کو قرآن مجید پر غور کرنا چاہئے کہ اس میں کیا لکھا ہے.قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے.پہلی تین آیتوں سے حضرت عیسی علیہ السلام کا طبعی موت سے وفات پانا ظاہر ہے.مگر چونکہ علماء اسلام نے یہ تقلید بعض فرق نصاری کے قبل اس کے کہ قرآن پر غور کریں یہ تسلیم کر لیا تھا.کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے.اس لئے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تعلیم کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے." ( تفسیر احمدی مصنفہ سرسید احمد خان جلد ۲ ص ۴۸) علامہ محمد عنایت اللہ المشرقی (بانی خاکسارتحریک) اپنی مشہور تصنیف ” تذکرہ میں تفصیل سے وفات پر تاریخی شہادت پر بحث کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں:.
89 اس میں یہ عبرت انگیز سبق موجود ہے کہ حضرت عیسی کی موت بھی اس سنت الہی کے مطابق ہوئی جس کے بابت قرآن نے کہا ہے لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا ( تذکرہ جلد اول ص ۱۶.۷ ارح) غلام احمد پرویز صاحب ایڈیٹر ماہنامہ طلوع اسلام نے وفات مسیح پر اپنی تصانیف میں سیر حاصل بحث کی ہے.شعلہ مستور میں آپ لکھتے ہیں:.تصریحات بالا سے یہ حقیقت سامنے آگئی کہ قرآن کریم نے کس طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے اس خیال اور باطل عقیدہ کی تردید کر دی ہے کہ حضرت مسیح کو صلیب دیا گیا تھا.باقی رہا عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ آپ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے تو قرآن سے اس کی تائید نہیں ہوتی.بلکہ اس میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے دوسرے رسولوں کی طرح اپنی مدت عمر پوری کرنے کے بعد وفات پائی.شعله مستور شائع کرده اداره طلوع اسلام کراچی ص۸۰) مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے وفات مسیح کا تو کھلے طور پر اقرار نہیں کیا.لیکن وہ رفع جسمانی پر بھی یقین نہیں رکھتے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں:.قرآن کی رو سے زیادہ مطابقت اگر کوئی طرز عمل رکھتا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ رفع جسمانی کی تصریح سے بھی اجتناب کیا جائے اور موت کی تصریح سے بھی.بلکہ مسیح علیہ السلام کے اٹھائے جانے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کا ایک غیر معمولی ظہور سمجھتے ہوئے اس کی کیفیت کو اسی طرح مجمل چھوڑ دیا ہے.“ ( مولانا مودودی پر اعتراضات کا عملی جائزہ حصہ اول ص ۱۶۹) وفات مسیح پر صحابہ کرام کا اجماع آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلے جو اجماع ہوا اور جس میں شریک سب کے سب افراد صحابہ کرام تھے.وہ اجماع وفات مسیح پر ایک قطعی دلیل ہے.آنحضرت ﷺ کی وفات صحابہ کے لئے ایک نا قابل برداشت صدمہ تھا.اور ان میں سے بعض فرط محبت سے اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے.چنانچہ حضرت عمر ان صحابہ میں سے تھے جو آنحضرت عے کو وفات یافتہ تصور ہی نہیں کر پاتے تھے.چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا:.مَامَاتَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَمُوتُ حَتَّى يَقْتُلَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ.“ صلى الله ( در منشور جلد ۴ ص ۳۱۸) یعنی آنحضرت ﷺ وفات نہیں پائیں گے جب تک اللہ تعالی منافقین کو قتل نہیں کر دیتا.اس نازک
90 موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر کو کھڑا کیا.آپ نے تمام غمزدہ صحابہ کرام کو ایک جگہ جمع کیا.منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا.اور صحابہ کرام کو عموماً اور حضرت عمرؓ کو خصوصاً مخاطب کر کے فرمایا:.أَيُّهَا الرَّجُلُ إِرْبَعُ عَلَى نَفْسِكَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْمَاتَ اَلَمْ تَسْمَعُ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ وَقَالَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قِبْلِكَ الْخُلْدَ افَانُ مِتَّ فَهُم الْخَلِدُونَ ثُمَّ أَتَى الْمِنْبَرَ فَصَعِدَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ايُّهَا النَّاسُ..ثُمَّ تَلاَ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ 66 در منثور جلد ۴ ص (۳۱۸ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ.ترجمہ :.اے شخص! اپنے آپ پر قابورکھ.یقینا رسول اللہ وہ وفات پاگئے ہیں.کیا تم نے قرآن کریم کی یہ آیت نہیں سنی - إِنَّكَ مَيِّتٌ وَ إِنَّهُمْ مَيِّتُونَ - ) کہ تو بھی مرنے والا ہے اور یہ بھی مرنے والے ہیں ) اور اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی.کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تو تو وفات پائے اور وہ ہمیشہ زندہ رہیں.اس کے بعد حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول الخ.کہ محمد (ﷺ) صرف اللہ کے رسول ہیں.ان سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں.اگر آپ وفات پا جائیں یا قتل ہوں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے.“ بخاری شریف میں اس واقع کا ذکر یوں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر نے فرمایا :.أَمَّا بَعْدُ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدُمَاتَ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمُ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَيَى لَا يَمُوتُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَىٰ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ.(بخارى كتاب المغازی باب مرضى النبي) تم میں سے جو محمد ﷺ کی عبادت کرتے ہیں تو وہ سن لیں کہ محمد ﷺے وفات پاگئے ہیں اور جو تم میں سے اللہ کی عبادت کرتے تھے تو اللہ زندہ ہے اور وہ نہیں مرتا.پھر آپ نے فرمایا.کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں ہیں محمد مگر ایک رسول ان سے پہلے رسول گزر چکے ہیں.“ بخاری میں آتا ہے کہ یہ آیت جب حضرت عمر اور صحابہ نے سنی تو انہیں یوں محسوس ہوا کہ یہ آج نازل ہوئی ہے.اور انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی آنحضرت ﷺ ایک بشر تھے.ایک رسول تھے اور بشری تقاضے کے ماتحت آج تک جتنے رسول آئے وہ جب تمام وفات پاگئے تو آنحضرت ﷺ کیوں فوت نہیں ہو سکے.حضرت ابوبکر کا اس آیت پر استدلال کرنا صاف دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک تمام انبیاء گزشتہ بشمول حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.اگر واقعہ یہ ہوتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام باوجود محض رسول
91 ہونے کے اس وقت تک زندہ ہوتے یا صحابہ کرام انہیں زندہ سمجھتے تو ان کے سامنے یہ آیت قابل استدلال ہی نہ ہوتی اور وہ صحابہ جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے صدمہ سے دل برداشتہ تھے.وہ ضرور بول اٹھتے کہ جب عیسی علیہ السلام رسول ہو کر اب تک زندہ ہیں.تو آنحضرت ﷺ کا وفات پانا کیونکر ضروری ٹھہر اگر کسی صحابی کا اعتراض مروی نہیں.پس ثابت ہوا کہ اس وقت تمام صحابہ کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام وفات پانے والوں میں سے ہیں.مسئلہ ظہور امام مهدی و نزول مسیح موعود مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ آخری زمانہ میں امت محمدیہ کی ہدایت و راہنمائی کیلئے حضرت امام مہدی علیہ السلام ظاہر ہوں گے اور نیز یہ کہ اسی دوران حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے وہ زمین پر چالیس سال تک حکومت کریں گے.اس کے بعد قیامت آئے گی.اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ کا یہ موقف ہے کہ جس مہدی کے ظہور کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ ظاہر ہو چکے ہیں.اور وہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ہیں.اسی طرح جماعت احمد یہ یہ بھی عقیدہ رکھتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے مراد امت محمدیہ میں سے ایک شخص کا ظہور ہے جو اپنی صفات اور حالات کے لحاظ سے حضرت عیسی علیہ السلام سے مشابہت رکھتا ہوگا.اور یہ مراد نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام خود بنفس نفیس بعد وفات دوبارہ آئیں گے.کیونکہ نھیں صریح سے ان کی وفات ثابت ہے.اور فوت شدہ شخص کا قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں واپس آنا قر آنی تعلیم کے منافی ہے.چنانچہ امت کے کئی بزرگوں نے نزول مسیح کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کے موقف کی تائید کی ہے.قَالَتْ فِرْقَةٌ الْمُرَادُ مِنْ نُزُولِ عِيسَى خُرُوجُ رَجُلٍ يَشْبَهُ عِيسَى فِي الْفَضْلِ وَالشَّرْفِ كَمَا يُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَيْرِ مَلَكٌ وَ لِلشَّرِيرِ شَيْطَانٌ تَشْبِيْهَا بِهِمَا وَلَا يُرَادُ الاعْيَانُ ( خریدة العجائب ص ۲۶۳ طبع دوم از سراج الدین ابن ابی حفص عمر بن الوردی ) ترجمہ:.ایک گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسٹی کے نزول سے مراد ایسے شخص کا ظہور ہے جو کہ فضل و شرف میں عیسی سے مشابہ ہوگا.جیسا کہ ایک نیک شخص کو فرشتہ کہ دیا جاتا ہے اور ایک برے شخص کو شیطان کہہ دیا جاتا ہے.اس سے مراد تشبیہ ہوتی ہے.حقیقی فرشتہ اور شیطان مراد نہیں ہوتے.تفسیر عرائس البیان میں بھی نزول مسیح ابن مریم سے مراد کوئی دوسرا وجو دلیا گیا ہے.چنانچہ لکھا ہے:.وَجَبَ نُزُولُهُ فِي آخِرِ الزَّمَان بِتَعَلُّقِهِ بِبَدَنِ آخَرَ.(تفسیر عرائس البیان جلد ۱ ص ۲۶۲ مطبع نول کشور)
92 یعنی آخری زمانہ میں مسیح ابن مریم کے نزول سے مراد اس کا کسی دوسرے بدن کے ساتھ ظہور ہے.جماعت احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اور مثیل ابن مریم ایک ہی وجود کے دو صفاتی نام ہیں.جیسا کہ ابن ماجہ کی اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے.لَا الْمَهْدِى إِلَّا عِيسَى بْنَ مَرْيَمَ.(ابن ماجه) یعنی عیسی بن مریم کے سوا کوئی مہدی نہیں.رہا یہ سوال کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے امام مہدی ہونے کا کیا ثبوت ہے اس سلسلہ میں ان علامات اور نشانیوں کا جائزہ لینا ہو گا جو حضرت امام مہدی علیہ السلام سے متعلق آنحضرت نے بیان فرمائی ہیں.ان تمام علامات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے.پہلی قسم ان روایات کی ہے جو امام مہدی کے ظہور سے پہلے پوری ہوئی تھیں.اور دوسری قسم ان علامات کی ہے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی اپنی زندگی میں پوری ہونی تھیں یا آپ کی وفات کے بعد ظاہر ہونی تھیں.جہاں تک ان علامات کا تعلق ہے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے ظاہر ہونی تھیں ان کے پورا ہونے سے متعلق ہم جماعت احمدیہ کے قیام کا پس منظر کے باب میں کئی شہادتیں لکھ چکے ہیں.لہذا دوبارہ ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.وہ علامات جن کا تعلق امام مہدی علیہ السلام کے دعویٰ کے بعد زمانہ سے ہے ان میں سے چند نشانات کا اس جگہ ذکر کر دیتے ہیں.چاند اور سورج گرہن کا عظیم الشان نشان حضرت امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کے لئے ظاہر ہونے والے نشانات میں سے دو بہت عظیم الشان نشان ” سورج اور چاند گرہن کے ہیں.جن کا ذکر قرآن و حدیث کے علاوہ دیگر مذاہب کی کتب میں بھی ملتا ہے.جس حدیث میں ان دونوں نشانات کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی ہے اس کے عربی الفاظ یہ ہیں:.إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْاَرِضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكِسَفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ.(سنن دار قطنی جلد ۲ ص ۶۵ باب صفة صلواة الخسوف) ترجمہ:.یعنی ہمارے مہدی کی صداقت کے لئے دو نشان ظاہر ہوں گے جب سے زمین و آسمان بنے یہ نشان کسی اور کے لئے ظاہر نہیں ہوئے.ان نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی موعود کے زمانہ میں رمضان
93 کے مہینہ میں چاند کو اس کی پہلی رات میں اور سورج کو اس کے درمیانی دن میں گرہن لگے گا.اور یہ دونوں نشانات جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے ہیں کسی کی صداقت کے لئے ظاہر نہیں ہوئے.قرآن کریم میں بھی ان دونوں نشانوں کا ذکر ملتا ہے.فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُه وَ خَسَفَ الْقَمَرُه وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُه (سورة القيامة : ۸ تا ۱۰) یعنی جس وقت آنکھیں پتھرا جائیں گی اور چاند گرہن ہوگا.اور سورج اور چاندا کٹھے کئے جائیں گے.یعنی سورج کو بھی گرہن لگے گا.انجیل میں بھی ذکر ہے کہ جب مسیح علیہ السلام کی دوبارہ آمد ہوگی تو اس کی صداقت کے لئے سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا.چنانچہ لکھا ہے:.بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گ جیسے بجلی پورب سے گوند کر پچھتم تک دکھائی دیتی ہے.ویسے ہی ابن مریم کا آنا ہوگا.فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند روشنی نہ دے گا.....اور متی باب ۲۴ نیا عہد نامہ ص۳۴-۳۵.۱۹۰۸ء) کئی مسلمان علماء اور بزرگوں نے اپنی کتب میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے: علامہ بیہقی نے اپنی کتاب ”سنن بیہی ، میں.علامہ ابن حجر مکی نے اپنی کتاب ” فتاوی حدیثیہ ہیں.نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب ” حج الکرامہ میں شاہ رفیع الدین صاحب نے اپنی کتاب ” قیامت نامہ اور علامات قیامت میں.حضرت مجددالف ثانی نے اپنی کتاب ” مکتوبات امام ربانی میں.حافظ محمد لکھو کے صاحب نے اپنی کتاب احوال الآخرت میں.مولوی محمد رمضان صاحب نے اپنی کتاب ”آخری گت میں.نعمت اللہ شاہ ولی نے اپنی کتاب ”اربعین میں یہ حدیث بیان کی ہے.ملتان کے بزرگ عبدالعزیز پہاروی صاحب نے تو سال کا بھی تعین کر دیا ہے کہ ۱۳۱۱ھ ہجری میں ہوگا.اس حدیث میں درج ذیل چار شرائط بیان کی گئی ہیں جن کے مطابق ظاہر ہونے والا چاند اور
94 سورج گرہن حضرت امام مہدی کی صداقت کا نشان ہوگا.ا.مذکورہ گرہن لگنے کے وقت امام مہدی موجود ہوگا.۲.یہ دونوں نشان ماہ رمضان میں ظاہر ہوں گے.لگے گا.۳.چاند کو اس کی مقررہ گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ یعنی ۱۳ / تاریخ رات کو گرہن لگے گا.۴.سورج کو اس کی مقررہ گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی تاریخ یعنی ۲۸ تاریخ دن کو گرہن یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کا ایک وقت میں جمع ہونا سوائے اللہ تعالیٰ کی خاص نقد میر اور تصرف کے ہرگز ممکن نہیں.اس لئے ان تمام شرائط کے ساتھ چاند اور سورج کو گرہن لگنا امام مہدی کی صداقت کا قطعی ثبوت ہے.چنانچہ چودہویں صدی ہجری کے اویں سال ۱۳۱۱ھ میں ان تمام شرائط کے ساتھ سورج اور چاند گرہن کا نشان ظاہر ہوا.ا.چاند گرہن ۱۳ / رمضان المبارک ۱۳۱۱ھ عیسوی کیلنڈر کے مطابق ۲۱ / مارچ ۱۸۹۴ء کو ہوا.۲.سورج گرہن ۲۸ رمضان المبارک ۱۳۱۱ھ عیسوی کیلنڈر کے مطابق ۶ را پریل ۱۸۹۴ء کو ظاہر ہوا.جب یہ دونوں نشان ظاہر ہوئے تو اس وقت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے سوا دنیا میں کوئی امام مہدی ہونے کا دعویدار موجود نہ تھا.آپ نے اس نشان کو اپنی صداقت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا.آپ نے فرمایا:.یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا علم فلکیات کے ماہرین نے چاند سورج گرہن کے ۱۰۰ سالہ ریکارڈ پر مشتمل امریکہ اور یورپ سے جو کتابیں شائع کی ہیں ان میں ۱۸۹۴ء بمطابق ۱۳۱۱ھ کے اس عظیم الشان گرہن کا نہ صرف ذکر موجود ہے بلکہ انہوں نے نقشہ کے ذریعہ اس گرہن کے وسیع علاقوں کو بھی ظاہر کیا ہے.اسی طرح اس زمانہ کے اخبارات نے بھی اس واقعہ اور نشان کا ذکر کیا ہے.چنانچہ سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنے ۷ مارچ ۱۸۹۴ء کے پرچہ میں چاند گرہن کا ذکر کیا ہے.اسی طرح اخبار ” سراج الاخبار نے اار جون ۱۸۹۴ء کی اشاعت میں یہ تسلیم کیا ہے کہ ۱۳ / رمضان المبارک کو چاند گرہن اور ۲۸ / رمضان کو سورج گرہن واقع ہوا ہے.اس زمانہ کے بعض بڑے بڑے مسلمان علماء نے بھی اس نشان کے پورا ہونے کی گواہی دی.چنانچہ
95 نواب صاحب آف بہاول پور کے پیر اور جنوبی پنجاب کے مشہور بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف نے بھی فرمایا کہ حدیث نبوی کے مطابق یہ گرہن واقع ہو چکا ہے.( اشارات فریدی جلد ۳ ص ۷۱ ) پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حافظ محمد لکھو کے والے نے اپنی کتاب ”احوال الآخرۃ میں اس پیشگوئی کا ذکر کیا تھا.جب یہ گرہن ہو چکے تو ۱۸۹۹ء میں احوال الآخرہ کے نام سے ایک اور کتاب شائع ہوئی.جس میں چاند سورج گرہن واقع ہونے کا بڑے زور وشور سے ذکر کیا گیا.اس کے دو پنجابی اشعار یہ ہیں: ؎ چن سورج نوں گرہن لگے گا وچہ رمضان مہینے زمینے ظاہر جدوں محمد مہدی ہوسی و چه تیراں سوتے یاراں سن وچ ایہہ بھی ہو بھی ہو گئی پوری گرہن لگا چن سورج تائیں جیونکر امر حضوری احوال الآخرة ص۰ ۵ مصنفہ مولوی دلپذ یر صاحب بھیروی) حضرت امام مہدی علیہ السلام چونکہ موعود اقوام عالم تھے.اور ۱۸۹۴ء میں ظاہر ہونے والا چاند اور سورج گرہن کا نشان تمام دنیا سے نظر نہیں آسکتا تھا اور یہ بھی ضروری تھا کہ گرہن دنیا کے دونوں حصوں میں بسنے والے لوگ دیکھ سکیں تا کہ بعد میں کسی حصہ کے لوگوں کو اعتراض کا موقع نہ ملتا اس لئے اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ انتظام فرما دیا کہ چونکہ امام مہدی حضرت بانی سلسلہ احمد یہ صاحب قادیانی دنیا کے مشرقی خطہ میں موجود تھے اس لئے پہلے یہ نشان ۱۸۹۴ء میں دنیا کے مشرقی علاقوں میں نظر آیا ار پھر ۱۸۹۵ء میں یہ گرہن ان تمام شرائط کے ساتھ دوسری مرتبہ دنیا کے مغربی ملکوں یعنی یورپ اور امریکہ میں ظاہر ہوئے.عیسوی کیلنڈر کے مطابق یہ تاریخیں مندرجہ ذیل تھیں:.چاند گرہن سورج گرہن ۱۱/ مارچ ۱۸۹۵ء بمطابق ۱۳ ماه رمضان ۱۳۱۲ ء ھ ۲۶ مارچ ۱۸۹۵ء بمطابق ۲۸ ماه رمضان ۱۳۱۲ء ان گر ہنوں کے وقت قادیان میں رمضان کی ۱۳؎ اور ۲۸ تاریخیں تھیں جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں.اس دوسری دفعہ کے گرہن کا اشارہ بھی ایک حدیث میں موجود ہے.حضور ﷺ نے فرمایا :.إِنَّ الشَّمْسَ تَنْكَسِفُ مَرَّتَيْنِ فِي رَمَضَانَ.(مختصر تذکرہ قرطبی ص ۱۲۸) یعنی رمضان میں دو دفعہ سورج گرہن ہوگا.حضرت بانی سلسلہ نے اس نشان کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ چیلنج دیا کہ اگر کوئی ثابت کر دے کہ اس سے قبل کسی مہدی ہونے کے مدعی کے زمانہ میں یہ گرہن مقررہ تاریخوں میں ہوئے ہیں اور اس نے ان نشانوں کو
96 اپنی صداقت کے لئے پیش کیا ہے تو میں ایک ہزار روپیہ اس شخص کو انعام دوں گا.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ اپنی کتاب نورالحق حصہ دوم میں یہ چیلنج لکھتے ہیں کہ :." کیا تم اس کی نظیر پہلے زمانوں میں سے کسی زمانہ میں پیش کر سکتے ہو کیا تم کسی کتاب میں پڑھتے ہو کہ کسی شخص نے دعویٰ کیا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور پھر اس زمانہ میں رمضان میں چاند اور سورج کا گرہن ہوا.جیسا کہ اب تم نے دیکھا.پس اگر پہنچانتے ہوتو بیان کرو.اور تمہیں ہزار روپے انعام ملے گا.اگر ایسا کر دکھاؤ.پس ثابت کرو اور یہ انعام لے لو.اور میں خدا تعالے کو اپنے اس عہد پر گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو.اور خدا سب گواہوں سے بہتر ہے.اور اگر تم ثابت نہ کرسکو اور ہرگز ثابت نہ کرسکو گے تو اس آگ سے ڈرو جو مفسدوں کے لئے طیار کی گئی ہے.“ نورالحق حصہ دوم.روحانی خزائن جلد نمبر ۸ ص۲۱۲) ” اور ہمیں اس بات سے بحث نہیں کہ ان تاریخوں میں کسوف و خسوف رمضان کے مہینہ میں ابتدائے دنیا سے آج تک کتنی مرتبہ واقع ہوا ہے.ہمارامد عا صرف اس قدر ہے کہ جب سے نسل انسان دنیا میں آئی ہے نشان کے طور پر یہ خسوف صرف میرے زمانہ کے لئے واقع ہوا ہے اور مجھ سے پہلے کسی کو یہ اتفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تو اس نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور دوسری طرف اس کے دعوے کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقرر کردہ تاریخوں میں خسوف کسوف بھی واقع ہو گیا ہو اور اس نے اس کسوف خسوف کو اپنے لئے ایک نشان ٹھہرایا ہو.اور دار قطنی کی حدیث میں یہ تو کہیں نہیں ہے کہ پہلے کبھی کسوف خسوف نہیں ہوا.ہاں یہ تصریح سے الفاظ موجود ہیں کہ نشان کے طور پر یہ پہلے بھی کسوف خسوف نہیں ہوا کیونکہ لَمْ تَكُونَا کا لفظ مونث کے صیغہ کے ساتھ دار قطنی میں ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ایسا نشان کبھی ظہور میں نہیں آیا.اور اگر یہ مطلب ہوتا کہ کہ کسوف خسوف سے پہلے کبھی ظہور میں نہیں آیا تو لفظ لَمْ يَكُونَا.مذکر کے صیغہ سے چاہئے تھا نہ کہ لَمُ تَكُونَا کہ جو مؤنث کا صیغہ ہے جس سے صریح معلوم ہوا ہے کہ اس سے مراد آیتین ہے یعنی دو نشان کیونکہ یہ مونث کا صیغہ ہے.پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ پہلے بھی کئی دفعہ خسوف کسوف ہو چکا ہے اس کے ذمہ یہ بار ثبوت ہے کہ وہ ایسے مدعی مہدویت کا پتہ دے جس نے اس کسوف خسوف کو اپنے لئے نشان ٹھہرایا ہو اور یہ ثبوت یقینی اور قطعی چاہئے اور یہ صرف اس صورت میں ہوگا کہ ایسے مدعی کی کوئی کتاب پیش کی جائے جس نے مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور نیز یہ لکھا ہو کہ خسوف کسوف جو رمضان میں دار قطنی کی مقرر کردہ تاریخ کے موافق ہوا ہے وہ میری سچائی کا نشان ہے.غرض صرف خسوف کسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہوا ہو اس سے بحث نہیں.نشان کے طور پر ایک مدعی کے وقت صرف ایک دفعہ ہوا ہے اور حدیث نے ایک مدعی مہدویت کے وقت میں اپنے مضمون کا وقوع ظاہر کر کے اپنی صحت اور سچائی کو ثابت کر دیا.(روحانی خزائن جلد ۲۳- چشمه معرفت ص ۲۲۹ ۲۳۰ حاشیه )
97 ڈش انٹینا کی ایجاد امام مہدی کے متعلق پرانے صحیفوں میں بیان فرمودہ پیشگوئیوں اور علامات میں سے ایک علامت کا تعلق سیٹلائٹ اور ڈش انٹینا کی ایجاد اور ان کے ذریعہ نشر ہونے والے جماعت احمدیہ کے پروگرام ہیں.چنانچہ بزرگان امت کی پیشگوئیوں میں یہ ذکر ہے کہ امام مہدی کا ایک منادی ایک مقام سے خطاب کرے گا اور تمام دنیا میں اسے دیکھا اور سنا جائے گا.حضرت علیؓ نے فرمایا:.جب امام مہدی آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اہل مشرق و مغرب کو جمع کر دے گا.“ حضرت شاہ رفیع الدین فرماتے ہیں:.وو (ينابيع المودة جلد ٣.۳ ص ۹۰) بیعت کے وقت آسمان سے ان الفاظ میں آواز آئے گی.هَذَا خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِى فَاسْتَمِعُو لَهُ وَاَطِيْعُوا کہ یہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہے اس کی بات غور سے سنو اور اس کی اطاعت کرو.اور اس آواز کو اس جگہ کے تمام خاص و عام سنیں گے.“ حضرت امام باقر کا قول ہے:.66 ( ترجمه قیامت نامه ص ۱۰) امام مہدی کے نام پر ایک منادی کرنے والا آسمان سے منادی کرے گا اس کی آواز مشرق میں بسنے والوں کو بھی پہنچے گی اور مغرب میں رہنے والوں کو بھی.یہاں تک کہ ہر سونے والا جاگ اٹھے گا.“ المهدى الموعود المنتظر عند علماء اہل السنۃ والا مامیه ص ۲۸۴) ข حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:.”ہمارے امام قائم جب مبعوث ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے گروہ کے کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کو بڑھا دے گا.یہاں تک کہ یوں محسوس ہوگا کہ امام قائم اور ان کے درمیان کا فاصلہ ایک برید یعنی ایک سٹیشن کے برابر رہ گیا ہے.چنانچہ جب وہ ان سے بات کریں گے تو وہ انہیں سنیں گے اور ساتھ دیں گے.جبکہ وہ امام اپنی جگہ پر ہی ٹھہرا رہے گا.“ (مهدی موعود ترجمه بحار الانوار جلد ۳ ص ۱۱۱۸
98 حضرت امام جعفر صادق" کا ہی دوسرا قول ہے کہ :.مومن امام مہدی کے زمانہ میں مشرق میں ہوگا اور اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مغرب میں ہے اور جو مغرب میں ہوگا وہ اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مشرق میں ہے.“ انوار نعمانیہ کے مصنف لکھتے ہیں:.( نجم الثاقب جلد اص (۱۰۱) امام مہدی کے زمانہ میں اس کے ماننے والوں کی قوت سامعہ اور باصرہ اتنی تیز کر دی جائے گی کہ اگر متبعین ایک ملک میں ہوں گے اور امام دوسرے ملک میں تو وہ امام کو دیکھ لیں گے اس کا کلام سن سکیں گے اور اس سے آزادی سے بات چیت کر سکیں گے.“ ( تحذير المسلمين ص ۷۰ ) یہ تمام پیشگوئیاں امام مہدی کے زمانہ میں مواصلاتی سیاروں کے ذریعہ دور و دراز ملکوں میں عالمگیر رابطوں کی خبر دے رہی ہیں.اور بڑے واضح طور پر سیٹلائٹ اور ڈش انٹینا کے ذریعہ نشر ہونے والے پروگراموں کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ یہ تمام پیشگوئیاں روز روشن کی طرح ہمارے زمانہ میں پوری ہو رہی ہیں.۱۹۹۲ء کے آغاز سے حضرت مرز اغلام احمد صاحب قادیانی بانی جماعت احمد یہ اور مدعی مہدویت کے چوتھے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے خطبات و تقاریر لندن سے مواصلاتی سیاروں کے ذریعہ تمام دنیا میں براہ راست نشر ہورہے ہیں.اور آج خدا کے فضل سے ساری دنیا میں براہ راست نشر ہورہے ہیں.اور آج خدا کے فضل سے ساری دنیا میں رہنے والے احمدی ٹی.وی پر انہیں دیکھتے اور سنتے ہیں.آج تمام اسلامی اور غیر اسلامی دنیا میں یہ امتیازی علامات سوائے جماعت احمدیہ کے اور کسی کو میسر نہیں.حضرت امام جماعت احمدیہ کے خطبات اور دیگر تقاریر اسلام اور قرآن کی سچی تصویر ہیں.اور تمام دنیا میں ان کے ذریعہ دین حق کی تبلیغ کی جارہی ہے.ہر خطبہ جمعہ سے پہلے نشر ہونے والی اذان آسمان سے اترتی ہے اور ہوا کی لہروں پر سوار ہو کر دنیا کے کونے کونے میں پھیلتی ہے اور تمام عالم میں اللہ کی توحید اور رسول کریم ہ کی رسالت کی منادی کرتی ہے.ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار
99 مسئله امکان نبوت جماعت احمدیہ کا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ آنحضرت علیہ قرآن مجید کی سورۃ احزاب کے مطابق خاتم النبین ہیں.اور یہ وصف اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف آپ کو ہی ملا ہے.ختم نبوت کا انکار جماعت احمدیہ پر الزام ہے.جس کی تغلیط حضرت بانی سلسلہ کے وہ سینکڑوں حوالہ جات کرتے ہیں جن میں آپ نے آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین قرار دیا ہے.چنانچہ آپ نے اپنی جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا:.ا.عقیدہ کی رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک ہے اورمحمد ﷺ اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے.اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی.“ (کشتی نوح ص ۱۵-۱۶).اور لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرت ﷺ کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوت کا دعوی کرے.مگر یہ نبوت آنحضرت ﷺ کی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پر ظاہر کی جائے.اور آنحضرت کی سچائی دکھلائی جائے.“ مندرجہ بالا حوالہ جات میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جس قسم کی نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کی تائید (چشمہ معرفت ص ۳۲۵) تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ بھی کرتی ہے:.اگر چہ اس امر سے انکار نہیں کیا جاتا کہ مرزا غلام احمد نے نبی کا لفظ اپنے لئے استعمال کیا ہے.لیکن یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ لفظ ایک خاص معنی میں استعمال کیا ہے اور وہ اصطلاحی مفہوم کے اعتبار سے نبی نہ تھے.یعنی وہ اللہ کی طرف سے کوئی ایسا پیغام نہ لائے تھے جس سے سابقہ پیغام کی تنسیخ ، ترمیم یا ایزادی لازم آتی ہو.اور ان کا دعویٰ تشریعی نبوت کا نہیں بلکہ کل یا بزوری نبوت کا ہے.“ رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۹۸) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ آپ نے اس نبوت کا ہرگز دعوی نہیں کیا جو علماء یا دیگر مخالفین جماعت مراد لیتے ہیں.بلکہ یہ نبوت کی ایک ایسی قسم ہے جو صرف آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع اور آپ کی محبت میں فنا ہونے کی صورت میں مل سکتی ہے.جس کی تصدیق قرآن و حدیث اور بزرگان امت کے اقوال سے ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم کی سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ مِنَ النَّبِيِّينَ
100 وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًاه ذلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ وَ كَفَى بِاللَّهِ عَلَيْمًاه (نساء : رکوع 9) ترجمہ:.جولوگ اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں.صدیقوں ، شہداء اور صالحین میں اور یہ لوگ بہت ہی اچھے رفیق ہیں.یہ فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ بہت جاننے والا ہے.استدلال :.اس آیت میں آئندہ نبی، صدیق، شہید اور صالح بننے کے لئے اللہ اور آنحضرت علی کی اطاعت کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے.جس کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت ،صدیقیت ، شہادت اور صالحیت کی چاروں نعمتیں آپ کی اطاعت سے وابستہ ہیں.اور نبی ،صدیق، شہید اور صالح بننے کے لئے آپ کی اطاعت شرط ہے.ختم نبوت سے مراد بھی یہی ہے کہ نبوت کے تمام کمالات آنحضرت مے پر ختم ہو گئے ہیں اور اب آپ کی اتباع اور پیروی کے بغیر براہ راست آئندہ کوئی نبوت کا مقام نہیں پاسکتا.احادیث: آنحضرت ﷺ نے اپنے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر نزول آیت خاتم النبین کے ۵ سال بعد فر مایا:.لَوْعَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صِدِّيقًا نِبِيّاً.(ابن ماجه ص ۱۱۰) اگر ابراہیم زندہ رہتے تو ضرور نبی ہوتے.ایک دسری حدیث میں لکھا ہے:.أَبُو بَكْرٍ أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيِّ.(كنوز الحقائق في.ديث خير الخلائق ص ٦/٢) ابوبکر اس امت میں سب سے افضل ہیں بجز اس کے کہ کوئی نبی امت میں پیدا ہو.اس حدیث کو علامہ جلال الدین سیوطی الجامع الصغیر میں نقل کرتے ہیں:.أَبُو بَكْرِ خَيْرُ النَّاسِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيِّ.(الجامع الصغير السيوطى ص ۵) ابوبکر سب سے بہتر ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو.اقوال بزرگان امت:.حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:.
101 قُولُوا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ.(در منثور جلد ۵ ص ۱۰۴) خاتم النبیین تو کہومگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا.دوسری جگہ یہ روایت اس طرح نقل کی گئی ہے:.قُولُو إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ.(تکمله مجمع البحار جلد ۴ ص ۸۵) اے لوگو! آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین تو کہو مگر یہ نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.حضرت عائشہ کے نزدیک ختم نبوت سے یہی مراد تھی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نئی شریعت والا یا مستقل نبوت والا نبی نہیں ہو سکتا.ہاں مگر ایسا نبی ہو سکتا ہے جس کا امکان سورۃ نساء میں موجود ہے.اسی لئے مطلقاً لا نَبيَّ بَعْدَہ کہنے سے روک دیا.حضرت محی الدین ابن عربی کا ارشاد ہے:.إِنَّ النَّبوَّةَ الَّتِي اِنْقَطَعَتْ بِوُجُودِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ نُبُوَّةُ التشريع لَا مُقَامُهَا فَلَا شَرُعَ يَكُونُ نَاسِخًا لِشَرْعِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم وَلَا يَزِيدُ فِي حُكْمِهِ وَهذَا مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنَّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلاَ رَسُوْلَ بَعْدِى وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي يَكُونُ عَلَى شَرْعٍ يُخَالِفُ شَرْعِى بَل إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِي (فتوحات مکیه جلد ۲ ص ۹۳) ترجمہ:.وہ نبوت جو آنحضرت علی ہے کے وجود باجود پر منقطع ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے.مقام نبوت بند نہیں ہوا.اب کوئی شریعت نہ ہوگی جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.یا آپ کی شریعت میں کسی حکم کا اضافہ کرے اور یہی معنی ہیں آنحضرت علیہ کے اس قول کے کہ اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ ایسا کوئی نبی نہیں ہوگا.جو میری شریعت رکھتا ہو.بلکہ جب بھی کوئی نبی ہوگا.تو میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا.أَمَّا الْحَدِيثُ لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِى بِاطِلٌ وَلَا أَصْلَ لَهُ.نَعَمُ وَرَدَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَمَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ وَلَا يَحُدُثُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ يَنسَخُ شَرُعَهُ.66 الاشاعة في اشراط الساعة ص ٢٢٦) 66 یعنی حديث لا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِى باطل اور بے اصل ہے.ہاں حدیث میں لانبی بعدی “ وارد ہے اور اس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آئندہ کوئی ایسا نبی پیدا نہیں ہوگا جو ایسی شریعت لے کر آئے جو
102 آنحضرت ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے.ایسا ہی حضرت امام عبدالوہاب شعرانی کا ارشاد ہے:.اعْلَمُ أَنَّ النبوَّةَ لَم ترتَفِعُ مُطْلِقًا بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم وَإِنَّمَا اَرْتَفَعَتْ نُبُوَّةُ التَّشْرِيعِ فَقَط.(اليواقيت والجواهر جلد ۲ ص ۳۵) یعنی جان لو کہ مطلق نبوت بند نہیں ہوئی صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے.نیز فرمایا:.فَقَوْلُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَبِيَّ بَعْدِى وَلَا رَسُولَ بَعْدِى أَيْ مَاثَمَّ مَنْ يُشَـ بَعْدِي شَرِيعَةً خَاصَّةً.(اليواقيت والجواهر جلد دوم ص ۳۵) یعنی آنحضرت ﷺ کے قول "لا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُول“ سے مراد یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص شریعت خاصہ کے ساتھ تشریعی نبی نہیں ہوگا.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں:.خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ اى لا يُوجَدُ بَعْدَهُ مَنْ يَّامُرُهُ اللهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّشْرِيع عَلَى النَّاسِ.(تَفْهِيمَات ص ۵۳) ترجمہ: (آنحضرت ) پر نبی ختم ہو گئے.یعنی اب اللہ تعالیٰ کسی کو نئی شریعت کے ساتھ مامور نہیں کرے گا.“ لائے گا.“ نواب نور الحسن خان صاحب جو نواب صدیق حسن خان صاحب کے بیٹے ہیں.فرماتے ہیں:.ہاں لَا نَبِيَّ بَعْدِی آیا ہے.جس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی شرع ناسخ نہ (اقتراب الساعة ص ١٦٢) ان تمام حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ ختم نبوت سے مراد کوئی نئی شریعت لانے والا یا کوئی مستقل نبی نہیں ہوسکتا.ہاں ایسا نبی ہو سکتا ہے جو آنحضرت ﷺ کی امت سے ہو اور آپ کی اتباع کے نتیجہ میں مقام نبوت حاصل کرے.پس حضرت مرزا صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ نبوت سے مراد صرف اسی قدر ہے کہ آپ کو یہ مقام اور منصب آنحضرت ﷺ کی محبت میں فنا ہونے کے نتیجہ میں ملا ہے.اور ایسا ہونا نا جائز نہیں جیسا کہ قرآن وحدیث اور بزرگان امت کے اقوال سے ثابت کیا جا چکا ہے.
103 مسئلہ وحی والہام جماعت احمدیہ اور عام مسلمانوں کے درمیان جن مسائل کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے.ان میں سے ایک ”وحی والہام کا مسئلہ ہے.اس بارہ میں عام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت عے کے بعد وحی والہام کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے.اور اب قیامت تک خدا تعالیٰ کی اپنے پیاروں کے ساتھ ہمکلام ہونے کی صفت موقوف ہوگئی ہے.اس کے برعکس جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ: وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار جماعت احمد یہ اپنے اس موقف کی تائید میں جو عقلی و نقلی دلائل پیش کرتی ہے ان میں چند دلائل پیش کئے جاتے ہیں :.قرآن مجید.وَإِذَ سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.(بقرہ:۱۷۸) فَلْيَسْتَجِيبُولِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُون.ترجمہ:.اور (اے رسول ) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں ( تو تو جواب دے کہ ) میں (ان کے پاس ہی ہوں.میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں.سو چاہئے کہ وہ ( دعا کرنے والا بھی ) میرے حکم کو قبول کریں.اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.“ اس آیت کریمہ میں خدا تعالیٰ اپنی ہستی کی دلیل ہی اپنے کلام کو پیش کر رہا ہے.اس کے بالمقابل قرآن کریم کے دوسرے کئی مقامات پر بتوں کا اس صفت سے عاری ہونا ان کے باطل ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے:.ا.لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءِ يَنْطِقُونَ.(انبياء : ٦٦) اور ان (مشرکین ) نے کہا کہ (اے ابراہیم ) تو تو جانتا ہے کہ یہ ( بت ) تو بولا نہیں کرتے..٢ أَفَلا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعَ إِلَيْهِمُ قَوْلاً.(طه :٩٠) مگر کیا وہ خود نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا.٣ - اَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا - (الاعراف: ۴۹)
104 کیا انہوں نے اتنا نہ سوچا کہ وہ نہ تو ان سے کوئی معقول بات کرتا ہے اور نہ انہیں کوئی ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے.مندرجہ بالا آیات سے ظاہر ہے کہ جو خدا کلام کرنے کی صفت سے عاری ہو چکا ہے وہ زندہ خدا کہلانے کا حقدار نہیں.جبکہ خدا تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہے اور اس کی تمام صفات ازلی و ابدی ہیں.پس ثابت ہوا کہ ایسا عقیدہ جس سے خدا تعالیٰ کی عالی شان میں نقص ما نالا زم آتا ہے.درست نہیں.٢.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلِئِكَةُ إِنْ لَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُو بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (حم سجده : ۳۱) ترجمہ:.وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے.پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدہ پر قائم ہو گئے ان پر فرشتے اتریں گے یہ کہتے ہوئے کہ ڈرو نہیں اور کسی پچھلی غلطی کا غم نہ کرو اور اسی جنت کے ملنے سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا.استدلال :.اس آیت کریمہ میں فرشتوں کے نزول کے لئے تنزل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو فعل مضارع کا صیغہ ہے.جس میں حال اور مستقبل دونوں زمانے پائے جاتے ہیں.پس آیت کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ جو خدا ماضی میں فرشتوں کے ذریعہ اپنے نیک بندوں سے ہمکلام ہوتا تھا اور وہ خدا اب بھی وحی والہام کی صورت میں کلام کرتا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات دائمی ہیں.احادیث ا.لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ قَبْلِكُمُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلِّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءً فَإِنْ يَّكَ فِي أُمَّتِي اَحَدٌ فَعُمَرُ.(بخارى كتاب المناقب باب ماجاء فی مناقب عمر) ترجمہ :.تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ گزرے ہیں جو نبی تو نہیں تھے مگر اس کے باوجود خدا تعالیٰ ان سے ہمکلام ہوتا تھا.اگر میری امت میں ایسے (خوش نصیب ) ہوئے ہیں تو ان میں سے ایک عمر بھی ہوگا.“ آنحضرت ﷺ کی یہ بات سچی ثابت ہوئی.حضرت عمرؓ کے کئی الہام احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں.حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو ایرانیوں کے خلاف جنگ کے دوران لکھا کہ : ” مجھے القاء ہوا کہ تمہارے مقابلے میں دشمن کو شکست ہوگی.( الوثائق العباسیه فرمان بنام سعد بن ابی وقاص ۳۰۳)
القاء الہام ہی کی ایک قسم ہے.105 ۲.آنحضرت ﷺ کے وصال پر صحابہ و قمیض کے ساتھ ہی غسل دینے کی وحی ہوئی تھی.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب صحابہ آنحضرت ﷺ کے کپڑے اتار کر غسل دینے لگے تو ان میں سے بعض نے آنحضرت عمل کے کپڑے اتار کر غسل دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کی اس سلسلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہو گیا.اسی دوران اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند کی حالت طاری کر دی ( یعنی کشفی حالت طاری ہوگئی ) پھر ان کو گھر کے ایک کونے سے آواز سنائی دی جس کے متعلق ان کو علم نہ ہو سکا کہ یہ آواز کس کی ہے.وہ کلام یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کو قمیض سمیت غسل دیا جائے.چنانچہ صحابہ نے قمیض سمیت غسل دیا.“ (بحواله سیرت ابن هشام القسم الثاني جز رابع ص ٦٦٢) اس حدیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کو آنحضرت ﷺ کو نسل دینے کے سلسلہ میں الہام ہوا.اقوال بزرگان امت امت مسلمہ کے اکثر علماء بھی اس عقیدہ کی تائید کرتے ہیں کہ آنحضرت کے بعد بھی سلسلہ وحی والہام جاری ہے.چنانچہ نمونہ کے طور پر ذیل میں چند حوالے درج کئے جاتے ہیں :.حملہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ:.اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ.یہ مقربین ہی کی علامت ہے اور اس قرب کی خصوصیتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فرشتے ایسے شخص کو پکارتے ہیں جس طرح کہ مریم کو پکارا تھا.“ ( تفہیمات الہیہ جلد ۲ ص ۱۲۳) امام رازی اپنی کتاب تفسیر کبیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ :.ملائکہ انسانوں کی روحوں میں الہاموں کے ذریعہ سے اپنی تاثیر نازل کرتے ہیں.اور یقینی کشفوں ( تفسیر کبیر جلد نمبر ۷ ص ۳۷۰) کے ذریعہ سے ان پر اپنے کمالات ظاہر کرتے ہیں.“ مولانا داؤ دصاحب غزنونی کے والد مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی اپنی کتاب "اثبات الالهام وَالْبَيْعَةُ ، ص ۱۴۸ میں لکھتے ہیں :.مسئلہ الہام حلت و حرمت کا مسئلہ نہیں جو اس کا ثبوت صحابہ اور تابعین سے ضرور ہونا چاہئے.بلکہ حضرت آدم سے لے کر اس دم تک اگر کسی نے بھی دعوئی نہ کیا ہو اور آج ایک شخص متقی ، صالح دعوی کرے کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور مجھے غیب سے آواز آتی ہے تو پھر اس کو سچا جانیں گے.اور حکم شریعت تمام اہل اسلام پر
لازم ہے کہ اس کو سچا سمجھیں...106 حمد حضرت مولانا روم فرماتے ہیں کہ:.خلق نفس از و سوسه خالی شود مہمان وحی اجلالی شود (مثنوی دفتر سوم ص ۱۰) یعنی اللہ تعالی کامل انسانوں کو نفس وسوسہ سے پاک فرما دیتا ہے.اور ان کے اوپر وحی الہی نازل ہوتی رہتی ہے.تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے:.قرآن کریم میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكِلَّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيا أَوْمِنُ وَّرَاءِ حِجَاب - ( شوری : ۵/۶) اس میں خدا تعالیٰ نے عام ذکر کیا ہے.نبی کا ذکر نہیں کیا.اس لئے نبیوں کے ساتھ وحی مخصوص نہیں بلکہ سابق زمانے میں مریم اور اہم موسیٰ کی مثال موجود ہے کہ وہ نبیہ نہیں تھیں.اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کیا اور ہماری امت میں محدیثین امت سے بھی یہی سلوک ہوگا.اور ان پر وحی نازل ہوگی.( تفسیر روح المعانی زیر آیت مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلَّمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْياً جز ۱۳ ص ۹۵۵) نواب نور الحسن خان صاحب ابن نواب صدیق حسن خان صاحب مصنف حجج الکرامہ ہندوستان کے اہلحدیث کے مسلمہ لیڈر فرماتے ہیں:.حديث لا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِی بے اصل ہے.ہاں لا نَبِيَّ بَعْدِی آیا ہے.اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرح ناسخ لے کر نہ آئے گا.بيه حديث كه اِنَّ جِبْرَئِيلَ لا يَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضِ بَعْدَ مَوتِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بے اصل ہے.حالانکہ کئی احادیث میں آنا جبرئیل کا ثابت ہے.(۱) جیسے وقت مرنے کے طہارت پر.(۲) شب قدر میں.(۳) دجال کے روکنے کومکہ،مدینہ سے، الی غیر ذالک.(اقتراب الساعة ص ۱۶۳ ۱۶۲) بزرگان امت پر سلسله وحی والہام امت محمدیہ میں بہت سارے ایسے بزرگ اور اولیاء گزرے ہیں جن کے الہامات ثابت ہیں:.
107 ا.حضرت امام ابو حنیفہ رات کی عبادت کے وقت یہ آواز سنتے تھے:.”اے ابو حنیفہ ! تو نے میری خدمت کو خالص کیا.اور میری معرفت کو کمال تک پہنچایا.اس لئے میں تجھے اور تیری سچی اتباع کرنے والوں کو بخش دوں گا.“ ۲.حضرت امام شافعی کو الہام ہوا:.يَا مُحَمَّدَ عَلَيْكَ بِالْفِقْهِ وَدَعِ الشِّعُرَ.یعنی غور و فکر تم پر لازم ہے اور شعر و شاعری کو چھوڑو.(روح البیان جلد اص۱۴۴) مشاہیر اسلام جلد ۲ ص ۱۸۲).مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کے الہامات کو اگر جمع کیا جائے تو ایک بڑی کتاب بن سکتی ہے.صرف نمونہ کے طور پر ان کے بعض الہامات نقل کئے جاتے ہیں:.(i) أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (سوانح عمری مولوی عبد اللہ غزنوی ص ۴۶) (ii) أَنْتَ مِنّي وَأَنَا مِنْكَ فَلَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنُ (سوانح عمری مولوی عبد اللہ غزنوی ص ۴۶) (iii) أَنَا جَلِيسُكَ وَاَنِيْسُكَ فَلَا تَحْزَنُ.سوانح عمری مولوی عبد اللہ غزنوی ص ۳۶) ۴.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:.اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی اور فرمایا.میں تجھے وہ طریقہ دوں گا جو ان تمام طریقوں میں جو اس وقت رائج ہیں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ تک پہنچانے میں قریب ہوگا اور سب سے زیادہ مضبوط ہوگا.“ درج ذیل بزرگوں کے الہام ثابت ہیں:.ا.حضرت اویس قرنی ۲.حضرت خواجہ حسن بصری ۳.حضرت مالک بن دینار ۴.حضرت حبیب عجمی ۵.حضرت رابعہ بصری ۶.حضرت ابرہیم بن ادھم ے.حضرت ذوالنون مصری.حضرت بایزید بسطامی ۹ - حضرت محمد علی حکیم الترمذی (تفہیمات الہیہ جلد نمبر اص ۴۵) تذکرة الاولیاء اردوص ۲۰۱۸ تذکرۃ الاولیا ء اردو ص ۳۰ تذکرۃ الاولیاء اردوص ۳۶ تذکرۃ الاولیا ء اردوص ۴۷ تذکرۃ الاولیا ء اردو ص ۵۳ تذکرۃ الاولیا ء اردو ص ۸۴ تذکرۃ الاولیا ءار دوص ۹۸ تذکرۃ الاولیاء اردوص ۱۱۴۱۱۳، ۱۱۹،۱۱۶ تذکرة الاولیا ء اردوص ۲۵۲
۱۰.حضرت جنید بغدادی ۱۱.حضرت ابوالحسن خرقانی 108 تذکرۃ الاولیا ء اردوص ۲۲۱ تذکرۃ الاولیا ء اردوص ۲۸۷ ۱۲.حضرت عبدالوہاب شعرانی لطائف المنن الکبری جلد نمبر اص۶۲ ۱۳.حضرت شیخ احمد سر ہندیؒ مقامات امام ربانی ص ۶۵ ۱۴.حضرت سید احمد بریلوی سوانح احمدی ص ۱۱ ۱۵.حضرت سید عبدالقادر جیلانی تذکرہ اولالیاء اردوص ۲۴۸ ۲۴۷ ان کے علاوہ بھی امت میں بیسیوں صاحب الہام بزرگ گزرے ہیں.حضرت امام مہدی پر جبریل کا نزول امت محمدیہ کے بہت سارے بزرگوں کے ایسے اقوال موجود ہیں جن میں حضرت امام مہدی علیہ السلام پروحی والہام بذریعہ جبریل تسلیم کیا گیا ہے.ا.” مہدی الہام کے ذریعہ شریعت کی باریکیاں سمجھ کے لوگوں تک پہنچائے گا.“ ( قول محی الدین ابن عربی - اسعاف الراغبین ص ۱۴۵).جبریل ان پر وحی حقیقی لے کر نازل ہوگا.‘ ( اسعاف الراغبین ص ۱۴۷) " نَعَمُ يُوحَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَحُيِّ حَقِيقِي كَمَا فِي حَدِيثٍ مُسْلِمٍ.(روح المعانی جلده ص۶۵) ہاں حضرت امام مہدی پر مسلم کی حدیث کے مطابق وحی حقیقی نازل ہوگی.۴ وحی میشود با دو پس عمل میکند بوحی با مرخدای تعالی می.( النجم الثاقب جلد نمبر ا ص ۶۶) اور (امام مہدی ) پر وحی ہوگی اور وہ اللہ کے حکم سے اس وحی کے مطابق عمل کرے گا.آخر پر ہم صرف دو عقلی دلیلیں دینا چاہتے ہیں:.ا.اگر وحی والہام کا دروازہ بند ہے تو پھر امام مہدی کو کیسے معلوم ہوگا کہ وہ امام مہدی ہے.اگر خدا بتائے گا.تو اسی بتانے کا نام ہی تو وحی والہام ہے.۲.حیات مسیح کا عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی اپنی بعثت ثانیہ کے وقت لوگوں کو قرآن کی تعلیم سکھائیں گے جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام تو صاحب انجیل ہیں اور ان کی زبان عبرانی یا آرامی تھی.پھر اس کے باوجود قرآن کا علم کیسے حاصل کریں گے ؟ اگر خدا سے تو پھر وحی والہام کا سلسلہ جاری ماننا پڑے گا.
109 جماعت احمدیہ اور لاہوری احمدیوں میں فرق حضرت خلیفہ امسیح الاول کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ نے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کو خلیفہ المسح الثانی تسلیم کرتے ہوئے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی لیکن جماعت کے کچھ افراد ( جن میں سے مکرم مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.مکرم خواجہ کمال الدین صاحب ایل.ایل.بی اور مولوی صدرالدین صاحب وغیرہ زیادہ نمایاں تھے ) نے حضرت صاحبزداہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو خلیفہ اسیح الثانی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.اور قادیان کو چھوڑ کر لاہور منتقل ہو گئے.وہ لوگ جنہوں نے حضرت مصلح موعود اور کے ہاتھ پر بیعت نہ کی (جس کی وجہ سے وہ غیر مبائعین کہلائے ) انہوں نے مکرم مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو اپنا امیر بنالیا اور اپنا مرکز لاہور میں قائم کر لیا.غیر مبائعین کے لاہور میں اپنا مرکز قائم کرنے کی وجہ سے ہی وہ لاہوری احمدی یالا ہوری جماعت کے طور پر معروف ہوئے.نیز ان غیر مبائعین لاہوریوں نے لاہور سے اپنا ایک رسالہ پیغام مصلح جاری رکھا ہوا تھا جس میں اپنے خیالات اور عقائد کا اظہار کرنا شروع کر دیا اس وجہ سے لا ہوری احمد یوں کو پیغامی بھی کہا جانے لگا.یہ تو تھی لاہوری احمدی جماعت (غیر مبائعین، پیغامی جماعت ) کا قیام اور وجہ تسمیہ.اب ذیل میں وہ وجہ بیان کی جاتی ہے جس کی بناء پر ان لوگوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا جو کچھ اس طرح پر ہے.در اصل مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے کچھ دیگر ساتھی اور ہم خیال و ہمنوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد نظام خلافت کے قائم ہونے کے خلاف تھے.ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ان کی جانشین شخصی خلافت ہونے کی بجائے صدر انجمن احمد یہ ہی جانشینی کا کر دار ادا کرے گی.دراصل یہ لوگ جدید تعلیم یافتہ تھے اور مغربی دنیا کے اثرات ان کے ذہنوں اور مزاجوں پر چھائے ہوئے تھے اور مغربی طرز حکومت اور جمہوریت سے یہ لوگ کافی متاثر ہوئے ہوئے تھے.اور شخصی خلافت کے حق میں نہیں تھے.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جماعت نے متفقہ طور پر حضرت حافظ حکیم مولانا نورالدین صاحب بھیروی کوخلیفہ اسیح چن لیا تھا.اور خلیفہ اسیح کے طور پر آپ کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لی تھی.حضرت خلیفتہ مسیح الاول کا مقام ومرتبہ کچھ ایسا تھا کہ یہ لوگ بھی آپ کو خلیفتہ امسیح تسلیم کرتے ہوئے آپ کی بیعت کرنے پر مجبور ہو گئے.اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کی بیعت کر لی.لیکن کچھ عرصہ بعد اندر ہی اندر اپنے خیالات اور سوچ کا اظہار کرنا شروع کر دیا.جن کی اطلاع حضرت خلیفہ امسیح الاول
110.کو بھی مل گئی.چنانچہ آپ نے قادیان میں مقیم تمام احد یوں کو مسجد مبارک میں اکٹھا کر کے اس سلسلہ میں بڑی ولولہ انگیز اور جذباتی تقریر فرمائی.جس میں خلیفہ اسیح کے مقام و مرتبہ پر روشنی ڈالی اور مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کو دوبارہ بیعت کرنے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ اس وقت ان لوگوں نے معذرت کرتے ہوئے تجدید بیعت کی اور وقتی طور پر خاموشی اختیار کر لی.لیکن چونکہ ذہنی طور پر وہ نظام خلافت کے حق میں نہ تھے بلکہ جمہوریت پسند تھے اس لئے حضرت خلیفہ اسی الاول کی آخری بیماری کے دوران یہ لوگ دوبارہ Active ہو گئے.اور اندر ہی اندر اپنے ہم خیالوں سے رابطے اور مشورے کرنے شروع کر دیئے.جب حضرت خلیفہ اسی الاول کی وفات ہو گئی تو اس وقت یہ لوگ کھل کر سامنے آ گئے اور انتخاب خلافت کی کھل کر مخالفت کی.ان لوگوں کو کافی سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر سب کوششیں بے سود ثابت ہوئیں.بالآ خر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا بطور خلیفہ اسیح الثانی انتخاب عمل میں آیا گیا اور جماعت کی غالب اکثریت نے آپ کی بیعت کر لی جبکہ ان لوگوں نے آپ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور قادیان کو چھوڑ کر لاہور منتقل ہو گئے اور وہاں مولوی محمد علی صاحب کو اپنا امیر مقرر کر کے ایک الگ جماعت کی بنیا درکھ دی اور لاہور کو اپنا مرکز قرار دیا.اسی وجہ سے یہ لوگ لاہوری احمدی کہلانے لگے.لا ہوری جماعت کے قائم ہونے کی اصل وجہ تو اوپر بیان ہو چکی ہے اب ذیل میں ان کے دیگر خیالات اور نظریات کا بھی تعارف کروایا جاتا ہے.لاہوری احمدی اور جماعت احمدیہ کے عقائد میں اختلافات ا.پہلا اختلاف : لا ہوری جماعت ( غیر مبائعین ، پیغامی ) کا پہلا عقیدہ جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین صدر انجمن احمد یہ ہے نہ کہ شخصی خلافت.اس سلسلہ میں اس کتاب کے اگلے باب نمبر جماعت احمدیہ کا نظام خلافت کے تحت زیر عنوان ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین شخصی خلافت یا انجمن میں مفصل بحث کر دی گئی ہے جس میں قرآن و حدیث اور دیگر عقلی ونقلی دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین شخصی خلافت ہے یا صدرانجمن کی باڈی ہے.اس بحث کا مطالعہ کرنے سے اصل حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی.لہذا اس موقع پر اس سلسلہ میں مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.البتہ حضرت مسیح موعود کے رسالہ الوصیت سے کچھ عبارت پیش کی جاتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کی جانشین شخصی خلافت کو ہونا تھا نہ کہ صدر انجمن
111 احمدیہ کی جنرل باڈی.چنانچہ حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا ہے.اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی.اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسی مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا.جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ" کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا.سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر د یوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن جب میں جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے.اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور
112 ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانیہ کے انتظار میں اکھٹے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ ص ۲۰۴ تا ۲۰۸) ۲.دوسرا اختلاف:.لا ہوری جماعت اور جماعت احمد یہ عالمگیر میں یہ ہے کہ لاہوری احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف مجدد، امام مہدی اور مسیح موعود تسلیم کرتے ہیں مگر آپ کے منصب نبوت کو تسلیم نہیں کرتے.حالانکہ خلافت ثانیہ کے قیام تک لاہوری جماعت سے تعلق رکھنے والے تمام علماء و سکالرز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امتی نبی تسلیم کرتے تھے.جماعتی اخبارات و رسائل اور لٹریچر میں مذکورہ بالا لاہوری عمائدین کی ایسی تحریرات موجود ہیں جن میں انہوں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منصب نبوت کو تسلیم کیا ہوا ہے.لیکن جونہی ان لوگوں نے نظام خلافت سے علیحدگی اختیار کی اور لاہور میں اپنی ایک الگ جماعت کی بنیاد رکھی تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نبوت کے مقام پر فائز ہونے سے انحراف اختیار کر لیا اور اسی طرح منصب نبوت تسلیم کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے دیگر مسائل میں بھی تبدیلی پیدا کر لی جن کا آگے ذکر آئے گا.حضرت مسیح موعود کے منصب نبوت سے انکار میں حکمت :.حضرت مسیح موعود کے منصب نبوت پر فائز ہونے کے عقیدہ سے انکار میں حکمت دراصل یہ تھی کہ امت مسلمہ کی ایک بھاری تعداد حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو چودھویں صدی کا مجدد اور امام مہدی تسلیم کرنے کیلئے تو تیار تھی مگر آپ کے منصب نبوت کو ماننے کے لئے یا اس کو سمجھنے کے لئے تیار نہ تھی.تو ان لا ہوری احمدیوں نے اس صورتحال کے پیش نظر اپنے اس عقیدہ میں تبدیلی کر لی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں.تا کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف مجدد اور امام مہدی تسلیم کرتے ہیں وہ سب ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور اس طرح ہماری اقلیت اکثریت میں بدل جائے گی.حالانکہ ان کی یہ سوچ محض ایک خام خیالی
113 ثابت ہوئی اور ان کو اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی کیونکہ اللہ تعالی کی تائید ان کے ساتھ نہ تھی اور وہ اصل حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے اس کو چھپا رہے تھے.پس جماعت احمدیہ اور لاہوری احمد یوں میں عقائد کے لحاظ سے دوسرا اختلافی مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منصب نبوت پر فائز ہونایا نہ ہونا ہے.۳.تیسرا اختلاف: جماعت احمدیہ اور لاہوری احمدیوں کے درمیان تیسرا اختلافی مسئلہ یہ ہے کہ لاہوری احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانا یا آپ کی بیعت کرنا ضروری نہیں سمجھتے اور اس عقیدہ کے اختیار کرنے کی وجہ بھی صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام نبوت سے انکار ہی تھی.کیونکہ قرآن کریم اور احادیث کی رو سے صرف نبی پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے.نبی کے علاوہ کسی بھی روحانی منصب پر فائز شخص پر نجات کے لئے ایمان لانا ضروری نہیں ہے.لہذا چونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام نبوت سے انکار کیا تھا اس لئے مسئلہ کفر و اسلام میں بھی تبدیلی کرنا ان کے لئے ضروری ہو گیا.اس کے برعکس جماعت احمد یہ چونکہ مسیح موعود کے مقام نبوت کو مانتی اور تسلیم کرتی ہے اس لئے قرآن کریم اور احادیث کی رو سے نجات کے لئے ان پر ایمان لانا ضروری سمجھتی ہے.کیونکہ ان کا دعویٰ ایک امتی نبی کا تھا نہ کہ محض ایک امام مہدی یا مجد دوقت کا.جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود اپنی کتاب ”ایک غلطی کا ازالہ میں اپنے دعویٰ نبوت کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.اور اگر بروزی معنوں کے رو سے بھی کوئی شخص نبی اور رسول نہیں ہوسکتا تو پھر اس کے کیا معنی ہیں کہ اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم - سویا درکھنا چاہئے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں ہے.اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا.اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہئے.تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنی اظہار امر غیب ہے.اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنی عبرانی میں اس لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نا با سے مشتق ہے جس کے یہ معنی ہیں.خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا.اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے.یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیرھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پا کر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں.اور جب کہ خدا تعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے
114 ہیں.تو میں کیونکر رد کروں یا اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں.مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کر ن لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے.اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں.ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی.جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے.اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا مجھ سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوئی یہ وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ“ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفے ﷺ پر اپنا کلام نازل کیا تھا.میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی ہے اور آسمان نے بھی.اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ میں خلیفہ اللہ ہوں.مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا.اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے.میں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے.کوئی نہیں جو میرے مقابل پر ٹھہر سکے.کیونکہ خدا کی تائید ان کے ساتھ نہیں.اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سواب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا اور میرا یہ قول د من نیستم رسُول و نیاورده ام کتاب اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفے ہی ہے.اس واسط کوملحوظ رکھ کر اور اس میں ہوکر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں.یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی.اور اس طور سے خاتم النبین کی مہر محفوظ رہی.کیونکہ میں نے انعکاسی اور ظلی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا.اگر کوئی شخص اس وحی الہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اسکی حماقت ہے.کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی.ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ ص ۱۰۹ تا ۱۱۱)
115 لہذا آپ کے بحیثیت نبی ہونے کے جماعت احمدیہ کے نزدیک آپ پر ایمان لانا ضروری ہے.جبکہ لاہوری احمدی مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانا ضروری نہیں سمجھتے.چوتھا اختلاف:.چوتھا اختلاف جماعت احمد یہ عالمگیر اور لاہوری احمدیوں میں یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء والی پسر موعود کی پیشگوئی جماعت احمد یہ مبائعین کے نزدیک اپنی کمال شان میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسی الثانی کے بابرکت وجود میں پوری ہو چکی ہے جبکہ لاہوری احمدیوں کے نزدیک یہ پیشگوئی ابھی تک پوری نہیں ہوئی اور ان کے نزدیک اس پیشگوئی کا مصداق پسر موعود آئندہ کسی زمانہ میں پیدا ہو گا.حالانکہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء والی پیشگوئی کے شائع ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر پسر موعود کی ولادت کے سلسلہ میں یہ بھی پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ موعود بٹا 9 سال کے عرصہ کے اندر اندر پیدا ہوگا لیکن اس کے باوجود غیر مبایعین اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ پسر موعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی ہی ہیں.آپ نے اللہ تعالیٰ سے بشارت پا کر ۱۹۴۴ء میں مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا.مذکورہ بالا تمام اختلافی مسائل کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے دیگر عقلی و نقلی دلائل کے علاوہ صرف یہی ایک معیار کافی ہے کہ جماعت احمد یہ مبائعین آج خدا کے فضل سے دنیا کے تقریباً دوفنڈ ممالک میں نفوذ کر چکی ہے اور اس کی تعداد کروڑوں میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے چندوں کی آمدار بوں روپوں میں داخل ہو چکی ہے جبکہ اس کے مقابل پر لاہوری غیر مبائعین احمدیوں کی تعداد دن بدن ختم ہورہی ہے.اور اب آخری شب کے چراغ کی طرح صرف نیم مردہ حالت میں ٹمٹا رہے ہیں.اور کہا جاسکتا ہے کہ عملاً یہ جماعت ختم ہو چکی ہے.
116.جماعت احمدیہ کے بعض تاریخی دن اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَذَكِّرُهُمُ بِأَيْمِ اللهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لايتِ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورِه (ابراہیم :) یعنی اور انہیں اللہ کے دن یاد کرا.یقیناً اس میں ہر بہت صبر کرنے والے اور بہت شکر کرنے والے کیلئے بہت سے نشان ہیں.مذہبی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دن دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ دن جن میں اللہ تعالیٰ اتمام حجت کے بعد منکرین و مکذبین پر عذاب نازل کرتا ہے اور دوسرے وہ دن جن میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں اور جو ایمان لانے کے نتیجہ میں بزدلی نہیں دکھاتے بلکہ صبر اور شکر کا مظاہرہ کرتے ہیں.اور ان کے قدم متزلزل نہیں ہوتے پر اپنے انعامات نازل کرتا ہے.یہاں پر اللہ تعالیٰ کے بعض ایسے دنوں کا تذکرہ کرنا مقصود ہے جن کا جماعت احمدیہ کی تاریخ کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.اور یہ وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود و مہدی معہود پر ایمان لانے کے نتیجہ میں غیر معمولی انعامات نازل کئے ہیں.جو درج ذیل ہیں.۱۲-۱؍ ربیع الاول اسلامی مہینوں میں سے ربیع الاول کا مہینہ، بالخصوص اس مہینہ کی ۱۲ تاریخ اسلام اور احمد بیت کی تاریخ میں بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتی ہے.یہ وہ مبارک دن ہے جس دن سرور کونین محسن، انسانیت ، رحمۃ اللعلمین ، خاتم النبیین اور فخر الانبیاء حضرت محمد مصطفی احمد محبتی ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی جس کے نتیجہ میں تاریخ انسانیت پر چھانے والے بادل چھٹنے لگے.اور روحانی لحاظ سے تاریکی نور میں بدلنے لگی.جس کا ذکر حضرت مسیح موعود ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:.وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گذرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.“ برکات دعا.روحانی خزائن جلد نمبر ۶ ص ۱۰-۱۱)
117 پس اس پہلو سے یہ دن مذہبی تاریخ میں سب سے زیادہ اہم اور مبارک ہے.کیونکہ اس دن اس عظیم ہستی کی پیدائش ہوئی جس کے لئے یہ کائنات تخلیق کی گئی.یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی اس دن کو ہر لحاظ سے اولیت اور فوقیت حاصل ہے.اور جماعت احمد یہ اس دن کو خالصۂ روحانی اور دینی جوش و جذبہ سے منانے کا اہتمام کرتی ہے.اور اس روز جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر میں ہر جگہ سیرۃ النبی ﷺ کے موضوع پر جلسے، سیمینارز اور اجلاسات منعقد کئے جاتے ہیں.اور اس دن کا آغاز نماز تہجد سے ہوتا ہے اور ہر فرد جماعت اس روز زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی کوشش کرتا ہے.اور جلسوں ، سیمینار اور اجلا سات میں آنحضرت ﷺ کا عظیم مقام ، آنحضرت ﷺ کے بنی نوع انسان بلکہ پوری کائنات پر احسانات اور آپ میے کی سیرۃ طبیہ کے مختلف پہلوؤں پر تقاریر ، لیکچرز اور درس دیئے جاتے ہیں.اور اس روز آنحضرت ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا ذکر کر کے ہر احمدی آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی اور تقلید کرنے کا عزم نو کرتا ہے.پس یہ دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ اہم ہے.یوم سیح موعود آنحضرت ﷺ نے اپنے بعد آخری زمانہ میں بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت اور دجال کے فتنوں سے امت مسلمہ کو محفوظ رکھنے اور بچانے کے لئے ایک مسیح موعود و مہدی مسعود کی پیشگوئی کی تھی.اور اس کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی تھی کہ اس کے ہاتھ میں ایک کتاب ہوگی جس مین اس پر ایمان لانے والے۳۱۳ صحابہ کے نام درج ہوں گے.اور نیز امت محمدیہ کو اس پر ایمان لانے اور اس کی جماعت میں شامل ہونے کی تحریک اور تلقین بھی فرمائی تھی.اور اس سلسلہ میں یہاں تک فرمایا تھا کہ خواہ تمہیں برف کے تو دوں پر سے گھٹنوں کے بل چل کر جانا پڑے آپ اس صورتحال کے باوجود اس تک پہنچنا اور اس پر ایمان لانا اور اس کی جماعت میں شامل ہونا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کے لئے ایک جماعت تشکیل دیں.پس اس الہی منصوبہ کے پیش نظر اشاعت اسلام اور بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مورخہ ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو اس جماعت کی بنیاد رکھی.جس کا تفصیلی ذکر باب نمبر ہ میں گذر چکا ہے.پس اسی پس منظر کے تحت ہر سال اس دن کو یوم مسیح موعود کے نام سے منایا جاتا ہے.اور اس دن کا آغاز بھی باجماعت نماز تہجد سے ہوتا ہے.اور اس روز جماعت احمدیہ
118 کے قیام کی مناسبت سے جلسے، سیمینارز اور اجلاسات تمام جماعتہائے احمد یہ عالمگیر میں منعقد کئے جاتے ہیں جن میں جماعت احمد یہ کے قیام کی غرض و غایت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیدا کردہ روحانی انقلاب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے.اور اس روز تمام احمدی حقیقی احمدی بننے کا عہد نو کرتے ہیں.پس اس لحاظ سے یہ دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ۱۲ ؍ ربیع الاول کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے.یوم خلافت اللہ تعالیٰ کے انبیاء جن مقاصد کے تحت مبعوث ہوتے ہیں.ان مقاصد کو ان کی وفات کے بعد جاری رکھنے کے لئے نظام خلافت قائم کیا جاتا ہے.کیونکہ انبیاء تو محض ایک تخمریزی کرنے آتے ہیں اور اس تخمریزی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے پودے یعنی انبیاء علیھم السلام کی قائم کردہ جماعت کی روحانی آبیاری کے لئے خلفاء کا سلسلہ جاری کیا جاتا ہے.جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ مَا كَانَتْ نَبُوَّةً قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهَا خِلَافَةٌ (الجامع الصغير لليسوطى الجز الثانی صفحه ۲۶ ۱ مطبوعه مصر سن ۱۳۰۶ هجری) ترجمہ : یعنی کوئی نبی نہیں گذرا جس کے بعد نظام خلافت جاری نہ ہوا ہو.پس اسی حقیقت اور ضرورت کے پیش نظر احادیث صحیحہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ امت محمدیہ میں بھی آخری دور میں اسی طرح کی کامل خلافت راشدہ کا قیام مقدر تھا جس طرح کی اسلام کے دور اول میں قائم ہوئی تھی.جس کا ذکر مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۴ ص ۲۷۲ کی اس حدیث ثم تَكُونُ الْخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ میں کیا گیا تھا.پس اللہ تعالیٰ کے پروگرام اور مشیت کے تحت جب مورخہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی اگلے ہی روز مورخہ ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو خلافت احمدیہ کا قیام عمل میں آ گیا.پس اسی مناسبت اور پس منظر کے تحت اس دن کو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ”یوم خلافت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.اور ہر سال اس دن کو خصوصی طور پر منایا جاتا ہے.اس دن کا آغاز بھی باجماعت نماز تہجد سے کیا جاتا ہے.اور اس روز بھی تمام جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر میں یوم خلافت کے عنوان سے جلسے، سیمنارز اور اجلاسات منعقد کئے جاتے ہیں.جن میں نظام خلافت کی ضرورت و اہمیت، اغراض و مقاصد اور برکات وثمرات کا تذکرہ کیا جاتا ہے.نیز
119 اس روز خلفائے سلسلہ کی پاکیزہ سیرت کے مختلف پہلوؤں پر تقاریر کی جاتی ہیں.اور خلافت احمدیہ کی برکات بیان کی جاتی ہیں.اور اس روز جہاں خلافت احمدیہ سے وفاداری ، کامل اطاعت اور تعلق مضبوط کرنے کا عہد نو کیا جاتا ہے وہاں اس سلسلہ کے ہمیشہ قائم و دائم رہنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگی جاتی ہیں.پس اس پس نظر کے تحت اس دن کو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے.اور اس دن کو روحانی و دینی جوش و جذبہ سے منایا جاتا ہے.يوم مصلح موعود رض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۴ء کو دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں سے تعلق رکھنے والوں کو اسلام کی صداقت کے لئے نشان نمائی کی دعوت دی تھی.جس پر قادیان کے بعض سرکردہ آریوں اور ہندوؤں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی نشان دکھانے کی خواہش ظاہر کی.جس پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوشیار پور میں چالیس روز تک چلہ کشی کرنے کا پروگرام بنایا.اس چالیس روزہ چلہ کشی اور دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی صداقت کے لئے جس نشان کی نوید دی تھی وہ ایک غیر معمولی صفات کے حامل بیٹے کی ولادت تھی.جس میں کم و بیش ۵۲ صفات پائی جانی تھیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہوشیار پور میں تنہائی میں چلہ کشی کرنے کے بعد ہوشیار میں ہی مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں اس پسر موعود کی کم و ہیں باون صفات اور خوبیاں بیان کی گئی تھیں.اور فرمایا کہ یہ فرزند 9 سال کے عرصہ کے اندراندر پیدا ہوگا.پیشگوئی مصلح موعود میں پسر موعود کی بیان فرمودہ صفات درج ذیل ہیں.وو پیشگوئی مصلح موعود و تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گاوہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے.وہ نوراللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف
120 کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الاول والآخر مظهر الحق و العلاء كَانَّ الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رُستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وکان امرا مقضیا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۱-۱۲) پس اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے بعد ۳ سال کے اندراندر مورخه ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کووه موعود فرزند پیدا ہو گیا.جوان تمام صفات کا حامل ثابت ہوا.جو اس پیشگوئی میں بیان کی گئی تھی.اس اعتبار سے یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت بنی نیز آنحضرت ﷺ کی صداقت کا ثبوت بنی کیونکہ آپ نے آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والے مسیح موعود و مہدی معہود کی علامات میں سے ایک علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ یعنی مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کے ہاں اس شادی کے نتیجہ میں اولا دبھی ہوگی.اس پیشگوئی میں نہ کسی عام شادی کا ذکر کیا گیا ہے اور نہ کسی عام اولاد کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ اس میں ایک خاص شادی اور خاص اور مبشر اولاد کا ذکر کیا گیا ہے.پس اس پہلو سے یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا بھی نشان اور ثبوت بنی کیونکہ آپ نے یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ سے خبر پا کر شائع فرمائی تھی.چنانچہ اس پیشگوئی کا پورا ہونا آپ کے من جانب اللہ ہونے اور مامور من اللہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے.پس اس پس نظر کے تحت پیشگوئی مصلح موعودؓ کے شائع کرنے کا دن خصوصی اہمیت کا حامل ہے.یہی وجہ ہے کہ مورخہ ۲۰ فروری کے دن کو ہر سال خصوصی طور پر منایا جاتا ہے.اور اس دن کا آغاز بھی باجماعت نماز تہجد سے ہوتا ہے.اور اس روز تمام جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر میں پیشگوئی مصلح موعود کی مناسبت سے جلسے، سیمینارز اور اجلاسات منعقد کئے جاتے ہیں.جن میں پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر اور حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت یا پیشگوئی میں بیان فرمودہ مختلف اوصاف پر تقاریر کی جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ یہ دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یوم مصلح موعود کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.
121 باب پنجم جماعت احمدیہ کا نظام خلافت
122
123 خلافت احمدیہ کے قیام کا پس منظر احادیث صحیحہ سے مسئلہ خلافت کے متعلق یہ واضح حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ امت محمدیہ کے آخری دور میں بھی اسی طرح کی کامل خلافت راشدہ کا قیام مقدر تھا جس طرح کی اسلام کے دور اول میں قائم ہوئی تھی.امت محمدیہ کے آخری حصہ کو بھی آنحضرت ﷺ نے نہایت بابرکت قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا:.مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرَ لَا يُدْرَى الخِرُهُ خَيْرٌ أَمْ أَوَّلُهُ.مظاہر جدید شرح مشکوۃ شریف جلد ۵ ص ۹۱۳ ، باب امت محمدیہ کا بیان دارالاشاعت اردو بازار کراچی) یعنی میری امت کی مثال اس بارش کی ہے جس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا آخری حصہ زیادہ مفید اور باعث خیر ہے یا پہلا حصہ زیادہ مفید اور باعث خیر ہے.پھر اسی حدیث کے آخر میں فرمایا ہے کہ وہ امت کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں میں ہوں اور آخر میں مسیح موعود ہوگا.اس آخری دور اسلام کے بارے میں مزید خوشخبری دی کہ:.إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ لَهُمُ مِثْلُ أَجْرِ أَوَّلِهِمْ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقَاتِلُونَ أَهْلَ الْفِتَنِ.مظاہر جدید شرح مشکوۃ شریف جلد ۵ ص ۹۱۶ ، باب امت محمدیہ کا بیان دارالاشاعت اردو بازار کراچی) اس امت کے آخری حصہ میں ایسی جماعت ہوگی جن کو صحابہ کی طرح اجر ملے گا.وہ امر بالمعروف کرنے والی ہوگی اور نہی عن المنکر کرے گی.اس جماعت کے لوگ تمام اہل فتن کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دیں گے.ظاہر ہے کہ یہ جماعت مسیح موعود ہی کی جماعت ہے اور اس کیلئے دوسری احادیث میں خلافت علی منہاج النبوت کی دائی نعمت کے پانے کی بھی خوشخبری دی گئی ہے.جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان والی معروف حدیث مبارکہ میں امت محمدیہ کو مطلع کر دیا تھا کہ میرے وصال کے فوراً بعد ایک دور خلافت راشدہ کا ہوگا اور متعدد خلفاء ہوں گے جو میرے مشن کی تکمیل کے لئے بر پاکئے جائیں گے.آپ نے حکم دیا کہ سب مسلمان ان خلفاء کی اطاعت کریں.ان کے احکام کو مانیں اور ان کی تحریکات پر لبیک کہیں.پھر درمیانی صدیوں کی خرابیوں کا ذکر کرنے کے بعد نبی اکرم علیہ نے خلافت علی منہاج النبوۃ والی معروف حدیث میں نہایت واضح رنگ میں فرمایا تھا:.ثُمَّ تَكُونُ الخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ.(مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۲۷۳)
124 یعنی آخری زمانہ میں امت محمدیہ میں پھر خلافت راشدہ کا دور آئے گا.شارحین حدیث نے بالا تفاق لکھا ہے کہ خلافت علی منہاج النبوۃ کی پیشگوئی مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ سے متعلق ہے.یعنی خلافت راشدہ کا یہ دور اس زمانہ میں شروع ہوگا.چنانچہ حضرت سید محمد اسمعیل شہید نے اپنی مشہور کتاب ” منصب امامت میں خلافت علی منہاج نبوت کے سلسلہ میں تحریر فرمایا ہے:.امامت تامہ کو خلافت راشدہ ، خلافت علی منہاج نبوت اور خلافت رحمت بھی کہتے ہیں.واضح ہو کہ جب امامت کا چراغ شیشہ خلافت میں جلوہ گر ہوا تو نعمت ربانی بنی نوع انسان کی پرورش کے لئے کمال تک پہنچی اور کمال روحانیت امی رحمت ربانی کے کمال کے ساتھ نور علی نور آفتاب کی مانند چم کا“.منصب امامت ص ۷۹.ایڈیشن دوم ۱۹۶۹ء) آنحضرت ﷺ کی مذکورہ بالا پیشگوئی کے مطابق خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے وو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں فرمایا:.چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو کہ تمام دنیا کے وجودوں سے اشراف و اولی ہیں، ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سواسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے.شہادت القرآن روحانی خزائن جلد ۶ ص۳۵۳) جب ۱۹۰۵ء کے آخر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو قَرُبَ اَجَلُكَ الْمُقَدَّر یعنی تیری وفات کا وقت قریب آ گیا ہے کا الہام ہوا.تو آپ نے ساری جماعت کو بطور وصیت فرمایا :.سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر د یوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.میں خدا
125 کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا ہوں اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے“.پھر تھوڑا آگے چل کر فرمایا کہ:.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۶،۳۰۵) خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا ہوں سو تم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص۳۰۶) اور دعاؤں پر زور دینے سے.اس وصیت کے ساتھ جماعت کو یہ خوشخبری بھی سنائی:.تم خدا کے ہاتھ کا بیج ہو جو دنیا میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک درخت ہو جائے گا.(رساله الوصیت.روخانی خزائن جلد ۲ ص ۳۰۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس وصیت کے مطابق دنیا میں جو تو حید کا قیام ہونا تھا اور جماعت احمدیہ نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی جو منازل طے کرنی تھیں وہ ان مقدس وجودوں کے ذریعہ ظہور پذیر ہونا تھی جو خلافت علی منہاج نبوت پر فائز ہونے تھے.پس قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا وصیت کے مطابق ضرور تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جماعت احمدیہ میں قدرت ثانیہ کے رنگ میں نظام خلافت جاری ہوتا.جو خدا کے فضل سے مورخہ ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء سے جاری ہے جس کی برکت سے جماعت احمدیہ آج دنیا کے ۱۹۸ ممالک میں نفوذ کر چکی ہے اور رشد و ہدایت کا یہ سلسلہ منشاء النبی کے مطابق اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے.الحمد للہ علی ذالک.خلافت راشدہ اور خلافت احمدیہ میں مماثلت حضرت شاہ اسمعیل شہید اپنی کتاب ” منصب امامت میں خلافت راشدہ کی تعریف اور وجہ تسمیہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.
126 خلیفه راشد وہ شخص ہے جو منصب امامت رکھتا ہو اور سیاست ایمانی کے معاملات اس سے ظاہر ہوں.جو اس منصب تک پہنچا وہی خلیفہ راشد ہے.خواہ زمانہ سابق میں ظاہر ہوا خواہ موجودہ زمانے میں ہو.خواہ اوائل امت میں ہو خواہ اس کے آخر میں...اور اسی طرح یہ بھی نہ سمجھ لینا چاہئے کہ لفظ ” خلفائے راشد خلفائے اربعہ کی ذات سے خصوصیت رکھتا ہے کہ اس لفظ کے استعمال سے انہی لوگوں کی ذات متصور ہوتی ہے.منصب امامت ص ۱۳۷.ایڈیشن دوم نقوش پریس لاہور ) پس اس تعریف کی رو سے خلافت احمدیہ بھی ” خلافت راشدہ ہی ہے کیونکہ آخری زمانہ میں قائم ہونے والی خلافت کے لئے ہی خلافت علی منہاج النبوۃ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور آخری زمانہ میں قائم ہونے والی خلافت علی منہاج النبوۃ سے مراد خلافت احمدیہ ہی ہے.کیونکہ آخری زمانے کی قرآن کریم اور احادیث میں بیان فرمودہ تمام آیات و علامات پوری ہو چکی ہیں.لہذا یہی آخری زمانہ ہے اور خلافت احمد یہ ہی قیامت سے ماقبل قائم ہونے والی خلافت علی منہاج النبوت ہے.پس خلافت احمد یہ بھی خلافت راشدہ ہی ہے.خلافت کو قدرت ثانیہ نام دینے کا فلسفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلافت کو قدرت ثانیہ کے نام سے کیوں موسوم فرمایا؟ اس کی وضاحت میں حضرت مصلح موعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ:.”نبی کی دو زندگیاں ہوتی ہیں ایک شخصی اور ایک قومی اور اللہ تعالی ان دونوں زندگیوں کو الہام سے شروع کرتا ہے.نبی کی شخصی زندگی تو الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ تھیں یا چالیس سال کا ہوتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تو مامور ہے.نبی کی قومی زندگی الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ وفات پاتا ہے تو کسی بنی بنائی سکیم کے ماتحت اس کے بعد نظام قائم نہیں ہوتا بلکہ یکدم ایک تغیر پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس نظام کی طرف متوجہ کر دیتا ہے.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا نام قدرت ثانیہ رکھا ہے.خلافت راشدہ ص ۶۲۶۱ - تقریر حضرت مصلح موعود ۱۹۳۹ء.انوار العلوم جلد ۱۵ شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)
127 قدرت ثانیہ کا ظہور وفات حضرت مسیح موعود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات سے قبل آپ کو متعدد ایسے الہامات ہوئے جن میں آپ کی وفات کے وقت کے قریب ہونے کے اشارے پائے جاتے تھے.چنانچہ انہیں الہامات کے پیش نظر آپ نے ۱۹۰۵ء میں رساله الوصیت تحریرفرما کر جماعت کو بعض نصائح فرما ئیں.نیز اپنے بعد قدرت ثانیہ کے ظہور کی نوید سنائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے تقریباً ایک ماہ قبل حضرت اماں جان کے علاج کے سلسلہ میں مورخہ ۲۹ را پریل کو لا ہور تشریف لے گئے.جہاں آپ نے جناب خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ایل ایل بی کے مکان پر قیام فرمایا.وہاں قیام کے دوران حضور ”پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف تھے کہ مورخہ ۲۰ مئی ۱۹۰۸ء کو آپ کو یہ الہام ہوا کہ:.الرَّحِيْلُ ثُمَّ الرَّحِيْلُ وَالْمَوْتُ قَرِيبٌ.یعنی کوچ کا وقت آ گیا ہے.ہاں کوچ کا وقت آگیا ہے اور موت قریب ہے.( بدر جلد ۷ ص ۲۲) یہ الہام اپنے اندر کسی تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا تھا.بالآخر مورخہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو بروز منگل صبح ساڑھے دس بجے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقا اور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.(بحوالہ سلسلہ احمدیہ ص ۱۸۴- از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.شائع کردہ شعبہ تالیف و تصنیف قادیان) تجهیز و تکفین و تدفین حضور کی وفات کے معابعد تجہیز وتکفین کی تیاری کی گئی اور جب غسل وغیرہ سے فراغت ہوئی تو تین بجے بعد دو پہر حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول نے لاہور کی جماعت کے ساتھ خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں نماز جنازہ ادا کی.اور پھر شام کی گاڑی سے حضرت مسیح موعود کا جنازہ بٹالہ پہنچایا گیا.جہاں سے راتوں رات روانہ ہو کر مخلص دوستوں نے اپنے کندھوں پر اسے صبح کی نماز کے قریب بارہ میل کا پیدل سفر کر کے قادیان پہنچایا.قادیان پہنچ کر آپ کے جنازہ کو اس باغ میں رکھا گیا جو بہشتی مقبرہ کے ساتھ ہے اور لوگوں کو اپنے محبوب آقا کی آخری زیارت کا موقع دیا گیا اور حضرت حافظ حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی
128 کی بیعت خلافت کے بعد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ متصل بہشتی مقبرہ میں ایک آم کے درخت کے نیچے ہوئی تھی حضرت خلیفہ امسیح الاول نے حضرت مسیح موعود کے باغ کے ملحقہ حصہ میں تمام حاضر الوقت احمدیوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نماز جنازہ ادا کی.نماز کے بعد چھ بجے شام کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم اطہر کو مقبرہ بہشتی کے ایک حصہ میں دفن کیا گیا.اور آپ کے مزار مبارک پر پھر ایک آخری دعا کر کے آپ کے غمزدہ رفیق اپنے گھروں کو واپس لوٹے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى مَطَاعِهِ مُحَمَّدٍ وَبَارَكُ وَسَلَّم.از سلسله احمد یه ص ۱۸۶ تا ۱۸۸ - از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے شائع کردہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان) جماعت احمدیہ میں خلیفہ کے انتخاب کا طریق انتخاب خلافت کے طریق سے متعلق سب سے پہلے یہ بات یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ جیسا کہ دوسرے دنیاوی امور میں اسلام کا طریق ہے اس معاملہ میں بھی اسلام نے صرف ایک اصولی تعلیم دی ہے اور تفصیلات کے تصفیہ کو ہر زمانہ اور ہر ملک اور ہر قوم کے حالات پر چھوڑ دیا ہے اور دراصل اس قسم کے معاملات میں یہی طریق عقلمندی اور میانہ روی کا طریق ہے کہ صرف اصولی ہدایت پر اکتفاء کی جاوے اور تفصیلات میں دخل نہ دیا جاوے.کیونکہ اگر ایسا نہ ہو اور حالات کے اختلاف کا لحاظ رکھنے کے بغیر ہر زمانہ میں ہر قوم پر ایک ہی ٹھوس غیر مبدل اور تفصیلی قانون جاری کر دیا جاوے تو ظاہر ہے کہ قانون شریعت رحمت کی بجائے ایک زحمت ہو جاوے.اور ہدایت کی بجائے ضلالت کا سامان پیدا کر دے.پس اسلام نے کمال دانشمندی کے ساتھ اس معاملہ میں صرف اصولی ہدایت دی ہے جو تفصیلات کے مناسب اختلاف کے ساتھ ہر قسم کے حالات پر یکساں چسپاں ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ میں حسب حالات اور حسب موقع انتخاب کے مختلف طریق اختیار کئے گئے.حضرت ابو بکر کا انتخاب تھوڑے اختلاف اور بحث و تمحیص کے بعد انصار و مہاجرین نے متفقہ طور پر کیا.(بخاری و مسلم وغيره عن ابن عمر بحواله تلخيص باب فی ذکر خلفاء الراشدين) اور حضرت عمر کا انتخاب حضرت ابو بکر نے اپنی زندگی میں ہی صحابہ کبار کے مشورہ سے بطور نامزدگی کر دیا تھا.پھر حضرت عثمان کا انتخاب صحابہ کی ایک چھ رکنی کمیٹی نے مل کر کیا جسے حضرت عمر نے اپنی زندگی میں مقرر
129 کر دیا تھا.حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی کا انتخاب صحابہ کی ایک بھاری اکثریت کے اتفاق سے عمل میں آیا.پس خلفاء راشدین کے انتخاب میں کوئی ایک طریق انتخاب نظر نہیں آتا.اس لئے انتخاب خلافت کے لئے حسب حالات کوئی مناسب طریق اپنا یا جا سکتا ہے اور حسب ضرورت پہلے کے مقررہ قواعد وضوابط میں تبدیلی اور کمی و بیشی ممکن ہو سکتی ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ میں بھی انتخاب خلافت کے قواعد وضوابط میں حسب حالات تبدیلیاں ہوتی رہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول کا انتخاب تو تمام جماعت کی متفقہ رائے اور مشورہ سے عمل میں آیا.جبکہ خلافت ثانیہ کے انتخاب کے وقت بعض افراد نے نظام خلافت کے تعلق میں اختلاف کیا.مگر جماعت کی بھاری اکثریت نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو خلیفہ تسلیم کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر لی.نظام خلافت کے حوالے سے بعض غیر مبائعین کے اختلاف اور بالخصوص حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی ذات کے حوالے سے غلط پروپیگنڈا کے پیش نظر اپنی علالت کے دوران حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۱۸ء میں اپنے بعد انتخاب خلافت کے لئے درج ذیل ہدایات ارشاد فرمائیں.حضرت امیر المومنین پر آخر ۱۹۱۸ء انفلوئنزا کا اتنا شدید حملہ ہوا کہ حضور نے ۱۹ را کتوبر ۱۹۱۸ء کو وصیت بھی لکھ دی جس میں اپنے بعد انتخاب خلیفہ کے لئے گیارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی نامزدفرما دی.اس اہم وصیت کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسول الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ میں مرزا محمود احمد ولد حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر ایسی حالت میں کہ دنیا اپنی سب خوبصورتیوں سمیت میرے سامنے سے ہٹ گئی ہے بقائمی ہوش و حواس رو بروان پانچ گواہوں کے جن کے نام اس تحریر کے آخر میں ہیں اور جن میں سے ایک خود اس تحریر کا کاتب ہے جماعت احمدیہ کی بہتری اور اس کی بہبودی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ وصیت کرتا ہوں کہ اگر میں اس کا غذ کی تحریر کو اپنی حین حیات میں منسوخ نہ کروں تو میری وفات کی صورت میں وہ لوگ جن کے نام اس جگہ تحریر کرتا ہوں ایک جگہ پر جمع ہوں جن کے صدر اس وقت نواب محمد علی خاں صاحب ہوں گے اور اگر کسی وجہ سے وہ شامل نہ ہوسکیں ( گواگر حد امکان میں ہوتو میرا حکم ہے کہ وہ اس میں شامل ہوں ) تو پھر یہ جمع ہونے والے لوگ آپس کے مشورے سے کسی شخص کو صدر مقرر
130 کریں پہلے صدر جلسہ سب کے رو برو بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھ کر خدا کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اس معاملہ میں رائے دے گا اور کسی قسم کی نفسانیت کو اس میں دخل نہ دے گا.پھر وہ ہر ایک نامز دشدہ سے اس قسم کی قسم لے اور سب لوگ صدر جلسہ سمیت اس بات پر حلف اٹھا ئیں کہ وہ اس معاملہ کے پر بعد یہ سب لوگ فردا فردا اس بات کا مشورہ دیں کہ جماعت میں سے کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کی جاوے تا کہ وہ جماعت کے لئے خلیفہ اور امیر المومنین ہو صدر جلسہ اس بات کی کوشش کرے کہ سب ممبروں کی رائے ایک ہو.اگر یہ صورت نہ ہو سکے تو سب لوگ جن کے نام اس کا غذ پر لکھے جاویں گے رات کو نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کریں کہ خدایا تو ہم پر حق کھول دے.دوسرے دن پھر جمع ہوں اور پھر حلف اٹھا ئیں اور پھر اسی طرح رائے دیں.اگر آج کے دن بھی وہ لوگ اتفاق نہ کر سکیں تو ۳/۵ را ئیں جس شخص کے حق میں متفق ہوں.اس کی خلافت کا اعلان کیا جاوے لیکن اعلان سے پہلے یہ ضروری ہوگا کہ حاضر الوقت احباب سے نواب صاحب یا ان کی جگہ جوصدر ہو اس مضمون کی بیعت لیں کہ وہ سب کے سب ان لوگوں کے فیصلہ کو بصدق دل منظور کریں گے اور اس بیعت میں وہ لوگ بھی شامل ہوں جن کے نام اس کاغذ پر لکھے جائیں گے اس کے بعد اس شخص کی خلافت کا صدر اعلان کرے جس پر ان ممبروں کا حسب قواعد مذکورہ بالا اتفاق ہو.بشرطیکہ وہ شخص ان ممبروں میں سے جو صدر جلسہ ہو اس کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کرے ( جو بیعت کہ میری ہی سمجھی جائے گی اور اس شخص کا ہاتھ میرا ہاتھ ہو گا) کہ میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی بتائی ہوئی تعلیم اسلام پر میں یقین رکھوں گا اور عمل کروں گا اور دانستہ اس سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوں گا.بلکہ پوری کوشش اس کے قیام کی کروں گا روحانی امور سب سے زیادہ میرے مدنظر ر ہیں گے اور میں خود بھی اپنی ساری توجہ اسی طرف پھیروں گا اور باقی سب کی توجہ بھی اسی طرف پھیرا کروں گا اور سلسلہ کے متعلق تمام کاموں میں نفسانیت کا دخل نہیں ہونے دوں گا اور جماعت کے متعلق جو پہلے دو خلفاء کی سنت ہے اس کو ہمیشہ مدنظر رکھوں گا اس کے بعد وہ سب لوگوں سے بیعت لے اور میں ساتھ ہی اس شخص کو وصیت کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کے پرانے دوستوں سے نیک سلوک کرے.نئیوں سے شفقت کرے امہات المومنین خدا کے حضور میں خاص رتبہ رکھتی ہیں.پس حضرت ام المومنین کے احساسات کا اگر اس کے فرائض کے رستہ میں روک نہ ہوں احترام کرے.میری اپنی بیبیوں اور بچوں کے متعلق اس شخص کو یہ وصیت ہے کہ وہ قرضہ حسنہ کے طور پر ان کے خرچ کا انتظام کرے جو میری نرینہ اولا د انشاء اللہ تعالیٰ ادا کرے گی.بصورت عدم ادائیگی میری جائیداد اس کی کفیل ہوان کو خرچ مناسب دیا جائے عورتوں کو اس وقت تک خرچ دیا جائے جب تک وہ اپنی شادی کر لیں بچوں کو اس وقت تک جبکہ وہ اپنے کام کے قابل ہو جائیں.اور بچوں کو دنیوی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں
131 دلائی جاوے کہ وہ آزاد پیشہ ہو کر خدمت دین کر سکیں.جہاں تک ہو سکے لڑکوں کو حفظ قرآن کرایا جاوے.باقی حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی وصیتیں میں پھر اس شخص کو اور جماعت کو یاد دلاتا ہوں.جو کام حضرت مسیح موعود نے جاری کئے ہیں کسی صورت میں ان کو بند نہ کیا جاوے ہاں ان کی صورتوں میں کچھ تغیر ہوتو ضرورتوں کے مطابق خلیفہ کو اختیار ہے اس قسم کا انتظام آئندہ انتخاب خلفاء کے لئے بھی وہ شخص کر دے.اللہ تعالیٰ اس شخص کا حافظ حامی اور ناصر ہو اس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ دین کی ظاہری تعلیم سے واقف نہیں تو اس کو حاصل کرے دعاؤں پر بہت زور دے ہر بات کرتے وقت پہلے سوچ لے کہ آخر انجام کیا ہوگا ؟ کسی کا غصہ دل میں نہ رکھے خواہ کسی سے کسی قدر ہی اس کو ناراضگی ہو.اس کی خدمات کو کبھی نہ بھلائے.ان لوگوں کے اسماء جن کو میں خلیفہ کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے مقرر کرتا ہوں.یہ ہیں:.(۱) نواب محمد علی خان صاحب.(۲) ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.(۳) مولوی شیر علی صاحب.(۴) مولوی سید سرور شاہ صاحب.(۵) قاضی سید امیر حسین صاحب.(۶) چوہدری فتح محمد صاحب سیال.(۷) حافظ روشن علی صاحب.(۸) سید حامد شاہ صاحب.(۹) میاں چراغ دین صاحب.(۱۰) ذوالفقار علی خاں صاحب.اگر بیرونی لوگ شامل نہ ہو سکیں تو پھر یہیں کے لوگ فیصلہ کریں.خلیفہ وہی شخص ہو سکتا ہے جو قادیان میں رہے جو خود نماز میں پڑھائے.یہ ضروری ہدایت یا درکھی جائے کہ یہ لوگ اس بات کا اختیار رکھیں گے کہ اپنے میں سے کسی شخص کو انتخاب کریں یا کسی ایسے شخص کو جس کا نام فہرست میں شامل نہیں ایک نام اس میں اور زیادہ کر دیا جاوے.میاں بشیر احمد صاحب بھی اس میں شامل ہیں.والسلام.اگر صدر جلسہ خو خلیفہ تجویز ہو تو جوالفاظ خلیفہ کی بیعت کے لئے رکھے گئے ہیں ان کا وہ خود حلفیہ طور پر مجلس میں اقرار کرے.خدا کے فضلوں کا انکار کوئی نہیں کر سکتا.خلیفہ خدا بناتا ہے.پس اس شخص کو جس کے لئے لوگ متفق ہوں خلافت سے انکار نہیں کرنا چاہئے.ہاں مشورہ دینے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ یسے شخص کو منتخب کریں کہ وہ قادیان کا ہی ہو کر رہ سکے اور جماعت کراسکتا ہو.والسلام واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ( دستخط ) خاکسار مرزا محمود احمد دستخط خاکسار شیر علی عفی عنہ بقلم خود کا تب تحریر ہذا.۱/۱۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء.دستخط فتح محمد سیال بقلم خود دستخط خاکسار مرزا بشیر احمد بقلم خود ۱۹/۱۰/۱۸ - دستخط محمد سرور شاہ بقلم خود ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء.دستخط خلیفہ رشید الدین ایل.ایم.ایس بقلم خود ۱۹ را کتوبر ۱۹۱۸ء.(نوٹ ) یہ کاغذ مولوی شیر علی صاحب کی تحویل میں رکھا جاوے اور اس کی نقل فورا شائع کر دی جاوے.( دستخط ) مرز امحموداحمد“.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں دوسرے ہی روز یہ وصیت دفتر ترقی اسلام کے میگزین پریس قادیان سے
132 شائع کر دی گئی.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۴ نیا ایڈیشن صفحہ نمبر ۲۰۹ تا ۲۱۱) اس کے بعد دسمبر ۱۹۵۶ء میں حضور نے دوبارہ فتنہ خلافت کے پیش نظر مذکورہ بالا قواعد میں ترمیم فرمائی اور اپنی ہدایات کی روشنی میں علماء سلسلہ کی ایک کمیٹی مقرر کر کے ازسرنو انتخاب خلافت کے قواعد وضع کروائے.جنہیں مجلس شوری میں ریزولیشن کی صورت میں پیش کر کے ممبران شوری کی تائید حاصل کی گئی.یہ ریزولیوشن حسب ذیل ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم انتخاب خلافت کے متعلق ایک ضروری ریزولیوشن تمہید :.سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ۱۹۵۶ء کے موقعہ پر آئندہ خلافت کے انتخاب کے متعلق یہ بیان فرمایا تھا کہ پہلے یہ قانون تھا کہ مجلس شوری کے ممبران جمع ہو کر خلافت کا انتخاب کریں.لیکن آجکل کے فتنہ کے حالات نے ادھر توجہ دلائی ہے کہ تمام ممبران شوری کا جمع ہونا بڑا لمبا کام ہے.ہوسکتا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر منافق کوئی فتنہ کھڑا کر دیں.اس لئے اب میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ جو اسلامی شریعت کے عین مطابق ہے کہ آئندہ خلافت کے انتخاب میں مجلس شوری کے جملہ ممبران کی بجائے صرف ناظران صدر انجمن احمد یہ ممبران صدر انجمن احمدیہ، وکلاء تحریک جدید، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زندہ افراد جن کی تعداد اس غرض کے لئے اس وقت تین ہے.یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب میاں عبداللہ خان صاحب) جامعتہ المبشرین کا پرنسپل، جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمد بیل کر فیصلہ کیا کریں.مجلس انتخاب خلافت کے اراکین میں اضافہ جلسہ سالانہ ۵۶ ء کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے علماء سلسلہ اور دیگر بعض صاحبان کے مشورہ کے مطابق مجلس انتخاب خلافت میں مندرجہ ذیل اراکین کا اضافہ فرمایا:.ا.مغربی پاکستان کا امیر اور اگر مغربی پاکستان کا ایک امیر مقرر نہ ہو تو علاقہ جات مغربی پاکستان کے امراء جو اس وقت چار ہیں.
133 ۲ مشرقی پاکستان کا امیر.۳.کراچی کا امیر ۴.تمام اضلاع کے امراء ۵.تمام سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں.گو انتخاب خلافت کے وقت امیر نہ ہوں.(ان کے اسماء کا اعلان صدرانجمن احمد یہ کرے گی ).۶.امیر جماعت احمدیہ قادیان ۷ ممبران صدر انجمن احمد یہ قادیان ۸ تمام زنده صحابه کرام کو بھی انتخاب خلافت میں رائے دینے کا حق ہوگا.(اس غرض کے لئے صحابی وہ ہوگا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہو اور حضور کی باتیں سنی ہوں اور ۱۹۰۸ء میں حضور علیہ السلام کی وفات کے وقت اس کی عمر کم از کم بارہ سال کی ہو.صدرانجمن احمد یہ تحقیقات کے بعد صحابہ کرام کے لئے سرٹیفیکیٹ جاری کرے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی ) ۹.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین صحابیوں میں ہر ایک کا بڑالڑ کا انتخاب میں رائے دینے کا حقدار ہوگا بشرطیکہ وہ مبائعین میں شامل ہو.(اس جگہ صحابہ اولین سے مراد وہ احمدی ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۱ ء سے پہلے کی کتب میں فرمایا ہے (ان کے ناموں کا اعلان بھی صدرانجمن احمد یہ کرے گی ) ۱۰.ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کا کام کیا ہو اور بعد میں تحریک جدید نے کسی الزام کے ماتحت انہیں فارغ نہ کر دیا ہو.( ان کو تحریک جدید سرٹیفیکیٹ دے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی ) 11.ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمد یہ جنہوں نے پاکستان کے کسی صوبہ یا ضلع میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کام کیا ہواور بعد میں ان کو صدرانجمن احمدیہ نے کسی الزام کے ماتحت فارغ نہ کر دیا ہو.(انہیں صدرا انجمن احمد یہ سرٹیفیکیٹ دے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی ) مجلس انتخاب خلافت کا دستور العمل یدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مندرجہ بالا جملہ اراکین مجلس انتخاب خلافت کے کام کے لئے حسب ذیل دستور العمل منظور فرمایا ہے:.الف مجلس انتخاب خلافت کے جو اراکین مقرر کئے گئے ہیں.ان میں سے بوقت انتخاب حاضر افراد انتخاب کرنے کے مجاز ہوں گے.غیر حاضر افراد کی غیر حاضری اثر انداز نہ ہوگی اور انتخاب جائز ہوگا.ب انتخاب خلافت کے وقت اور مقام کا اعلان کرنا مجلس شوری کے سیکرٹری اور ناظر اعلیٰ کے ذمہ ہوگا.ان کا فرض ہوگا کہ موقع پیش آنے پر فوراً مقامی اراکین مجلس انتخاب کو اطلاع دیں.بیرونی جماعتوں کو تاروں کے ذریعہ اطلاع دی جائے.اخبار الفضل میں بھی اعلان کر دیا جائے.
134 ج.نئے خلیفہ کا انتخاب مناسب انتظار کے بعد چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ہونا چاہئے.مجبوری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ تین دن کے اندر انتخاب ہونالازمی ہے.اس درمیانی عرصہ میں صدرانجمن احمد یہ پاکستان جماعت کے جملہ کاموں کو سر انجام دینے کی ذمہ دار ہوگی.د.اگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں نئے خلیفہ کے انتخاب کا سوال اٹھے تو مجلس انتخاب خلافت کے اجلاس کے وہ پریذیڈنٹ ہوں گے.ورنہ صدرانجمن حد یہ اور تحر یک جدید کے اس وقت کے سینیئر ناظر یا وکیل اجلاس کے پریذیڈنٹ ہوں گے.(ضروری ہے کہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید فوری طور پر مشترکہ اجلاس کر کے ناظروں اور وکلاء کی سینیارٹی فہرست مرتب کر لے ) ھ - مجلس انتخاب خلافت کا ہر رکن انتخاب سے پہلے یہ حلف اٹھائے گا کہ:..میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین میں سے خارج کیا گیا ہو یا اس کا تعلق احمدیت یا خلافت احمدیہ کے مخالفین سے ثابت ہو“.جب خلافت کا انتخاب عمل میں آجائے تو منتخب شدہ خلیفہ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ لوگوں سے بیعت لینے سے پہلے کھڑے ہو کر قسم کھائے کہ :.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف ہیں باطل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کی پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لئے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا“.ز.اوپر کے قواعد کے مطابق صحابہ اور نمائندگان جماعت جن میں امراء اضلاع سابق وحال بھی شامل ہیں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زیادہ ہو جائے گی.ان میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کی تعداد اتنی قلیل رہ جاتی ہے کہ منتخب شدہ ممبروں کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی.ہاں خلیفہ وقت کا انتخاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد اور جماعت کے ایسے مخلصین میں.ہو سکے گا جو مبائعین ہوں اور جن کا کوئی تعلق غیر مبائعین یا احرار وغیرہ دشمنان سلسلہ احمدیہ سے نہ ہو ( یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس وقت تک ایسے مخلصین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے )
135 بنیادی قانون ضروری نوٹ :.سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آئندہ کے لئے انتخاب خلافت کے لئے مذکورہ بالا اراکین اور قواعد کی منظوری کے ساتھ بطور بنیادی قانون کے فیصلہ فرمایا ہے کہ:.آئندہ خلافت کے انتخاب کے لئے یہی قانون جاری رہے گا سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوریٰ میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوریٰ کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے.مجلس علماء کی یہ تجو یز درست ہے ( دستخط ) مرزا محموداحمد خلیفۃ السیح الثانی ۲۰_۳۵۷ مجلس علماء سلسلہ احمدیہ ۱۸-۳۵۷ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۱۹ صفحه ۱۶۹ تا ۱۷۲) مجلس انتخاب خلافت کا ہر رکن انتخاب سے پہلے یہ حلف اٹھاتا ہے:.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین سے خارج کیا گیا ہو یا اس کا تعلق احمدیت یا خلافت احمدیہ کے مخالفین سے ثابت ہو.حضرت خلیفہ المسیح الثالث اور حضرت خلیفہ المسیح الرابع کے انتخابات مذکورہ بالا قواعد کی روشنی میں ہی ہوئے.جبکہ ۱۹۸۴ء میں پاکستان کے مخصوصی جماعتی حالات کے پیش نظر خلافت احمد یہ لندن برطانیہ منتقل ہو گئی.تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے مخصوص حالات کے پیش نظر ان قواعد میں بعض تبدیلیاں فرمائیں اور آئندہ خلیفہ وقت کے انتخاب کے لئے بعض مزید ہدایات وضع فرمائیں.جن کی روشنی میں خلافت خامسہ کا انتخاب عمل میں آیا.موجودہ قواعد انتخاب خلافت مذکورہ بالاقواعد میں ترمیمات کے بعد موجودہ قواعد انتخاب خلافت حسب ذیل ہیں:.۱۹۸۴ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کو ہجرت کر کے لندن جانا پڑا اس وقت حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اگر ان حالات میں انتخاب خلافت کا وقت آ جائے تو مخالف احمدیت عناصر اس کارروائی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اس لئے
136 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ارشاد پر انتخاب خلافت کا ادارہ پاکستان سے باہر منتقل کر دینے کی عملی شکل کے بارہ میں مشورہ پیش کرنے کے لئے لاہور میں ایک خصوصی مجلس شوری کا اجلاس بلایا گیا.یہ جلس شوری اسی مسئلہ پر غور کرنے کے لئے بلائی گئی تھی.اس مجلس شوری کی رپورٹ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کی گئی.اس پر حضور نے بعض اور پہلوؤں پر غور کرنے کے لئے لندن میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی.اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ حضور کی خدمت میں پیش کی.اس کے بعد پاکستان اور بیرون پاکستان بعض اور صائب الرائے احباب سے مشورہ لیا گیا.بعض اور تجاویز پر غور کرنے کے لئے حضور نے ناظر صاحب اعلیٰ صدرانجمن کو ہدایت فرمائی کہ ممبران صدر انجمن احمد یہ پاکستان تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان اور مجلس وقف جدید پاکستان اور بعض امراء اور صائب الرائے احمدیوں پر مشتمل ایک مجلس شوری برائے انتخاب خلافت کا اجلاس منعقد کیا جائے.چنانچہ یہ اجلاس ۱۰ را کتوبر ۱۹۸۵ء کو پاکستان میں منعقد ہوا.اور اس مشاورت کی سفارشات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی خدمت میں بجھوائی گئیں.متذکرہ بالا طریق پرغور وفکر اور مشوروں اور دعاؤں کے بعد ۱۹۵۷ء کے منظور شدہ قوانین میں مندرجہ ذیل ترامیم منظور کی گئیں.ممبران مجلس انتخاب خلافت میں وکلا تحر یک جدید کے علاوہ مبران تحریک جدید ، وممبران وقف جدید کو بھی شامل کیا گیا.۱۹۵۷ء میں یہ قاعدہ بنا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے اولین صحابہ یعنی وہ جن کا ذکر حضرت مسیح موعود نے 19ء سے پہلے کی کتب میں فرمایا ہے وہ اگر فوت ہو چکے ہوں تو ان کا بڑا لڑکا اس مجلس کا ممبر ہوگا بشرطیکہ وہ جماعت احمد یہ مبائعین میں شامل ہو.ان ناموں کا اعلان صدر انجمن احمد یہ کرے گی.اس قاعدہ میں اب یہ ترمیم کی گئی کہ صدر انجمن احمد یہ ان ناموں کا اعلان حضرت خلیفہ اسیح کی منظوری سے کرے گی.۱۹۵۷ء میں بننے والے قوانین میں جو مر بیان اور مبلغین شامل کئے گئے تھے اس میں یہ ترمیم کی گئی کہ مبلغین اور مربیان کی اس قدر تعداد جو مجلس انتخاب کی کل تعداد کا پچیس فیصد ہو مجلس انتخاب کے رکن ہوں گے.اس غرض کے لئے صدر انجم احمد یہ اور تحریک جدید مشتر کہ اجلاس میں مبلغین اور مربیان کی سنیارٹی لسٹ تیار کریں گے اور مذکورہ تعداد میں ایسے سینئر ترین مبلغین کی فہرست حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں پیش کریں گے.اس فہرست میں کسی ایسے مربی یا مبلغ کا نام پیش نہیں کیا جائے گا جسے کسی الزام کے تحت فارغ کیا گیا ہو.یہ اضافہ بھی قواعد میں کیا گیا کہ تمام ملکی امراء بحیثیت امیر جماعت ملک اس مجلس کے رکن ہوں گے.مقام انتخاب کے متعلق یہ ترمیم کی گئی کہ تا اطلاع ثانی انتخاب خلافت ربوہ کی بجائے اسلام آباد یو.کے میں ہوگا.ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ ربوہ اگر انتخاب خلافت کے موقع پر یو کے میں موجود نہ ہوں تو ان کی عدم
137 موجودگی میں ناظر اعلیٰ کے فرائض ادا کرنے کے لئے تین ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مقرر کئے گئے.یہ ترمیم بھی منظور کی گئی کہ اگر کسی اشد مجبوری کی وجہ سے انتخاب خلافت تین دن کے اندر نہ ہو سکے تو صدر انجمن احمد یہ اس بات کی مجاز ہوگی کہ وہ تین دن کے اندر انتخاب کی شرط کو نظر انداز کر دے.اگر ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ ربوہ اس موقع پر یو کے پہنچ جائیں تو نظارت علیا کے جملہ اختیارات انہیں کے پاس ہوں گے.لیکن اگر وہ یو کے نہ پہنچ سکیں تو جوایڈیشنل ناظر اعلی لندن میں موجود ہوں گے وہ یہ فرائض ادا کریں گے.اور اس دوران صدر انجمن احمدیہ کے جو اراکین لندن میں موجود ہوں گے ان پر مشتمل انجمن جماعت احمدیہ کے جملہ امور کی نگران ہوگی.اور اس دوران صدر انجمن احمدیہ کے جو ممبران پاکستان میں موجود ہوں گے اور ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ موجود پاکستان اور جملہ جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر لندن میں موجودایڈیشنل ناظر اعلیٰ اور ممبران صدر انجمن احمد یہ موجود لندن کے جملہ فیصلہ جات کو من و عن تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے.یو کے میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات ایڈیشنل صدرصد رانجمن احمدیہ کی زیر صدارت ہوں گے.اور اس غرض کے لئے مکرم صاحبزادہ مرزا مظفراحمد صاحب کو ایڈیشنل صدر صدر انجمن احمد یہ مقرر کیا گیا.یہ بھی قرار پایا کہ ناظران اور وکلاء کی سنیارٹی لسٹ کی منظوری حضرت خلیفتہ امیج ایدہ اللہ سے حاصل کی جائے گی.سیکر یٹری مجلس شوری مجلس انتخاب خلافت کا بھی سیکریٹری ہوتا ہے.اس کے متعلق یہ قاعدہ منظور کیا گیا کہ تا اطلاع ثانی مکرم عطاء المجیب راشد صاحب اس مجلس کے سیکریٹری ہوں گے اور اگر وہ اس موقع پر لندن میں موجود نہ ہوں تو جو بھی عملاً حضور کے پرائیویٹ سیکریٹری کے فرائض سرانجام دے رہا ہو وہ سیکریٹری کے فرائض ادا کرے گا.سیکریٹری مجلس شوری بحیثیت سیکریٹری شوری ووٹنگ ممبر نہیں ہوں گے.حضور نے یہ تجویز بھی منظور فرمائی کہ ہر وہ شخص جس نے کسی وقت نظام جماعت کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ لیا ہو یا جو اسے لوگوں کے ساتھ ملوث رہا ہواس کا نام انتخاب خلافت کے لئے پیش نہیں ہو سکے گا.صدر انجمن احمد یہ ایسے افراد کے ناموں کی فہرست تیار کر کے حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ سے اس کی منظوری حاصل کرے گی.انتخاب خلافت حاضر اراکین کی سادہ اکثریت سے ہوگا اور جس کے حق میں سب سے زیادہ آراء ہوں گی وہی منتخب خلیفہ ہو گا.اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہوگا.اور تمام افراد جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر منتخب خلیفہ کی بیعت کریں گے.۲۳ نومبر ۱۹۸۵ کوحضرت خلیفۃ المسیح کے دستخطوں سے ایک سرکلر جاری ہوا اوران ترمیم شدہ قوانین کوختمی حیثیت حاصل ہو گئی.
138 1999ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح کی بیماری شروع ہوئی تو حضور نے بعض احتمالات کے پیش نظر ان قواعد میں بعض ترامیم کی ضرورت محسوس کی.چنانچہ چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید اور مکرم مرزا خورشید احمد صاحب ناظر امور خارجه صدرانجمن احمدیہ ( جوان دنوں لندن آئے ہوئے تھے ) نے حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی ہدایات کے مطابق بعض ترامیم مرتب کیں اور پھر حضور کی ہدایات کے مطابق ان مجوزہ ترامیم کو صدرا انجمن احمد یہ پاکستان تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان اور وقف جدید انجمن احمد یہ پاکستان کے اراکین پر مشتمل شوری کو مشورے کے لئے بھجوایا گیا.اس کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ قواعد انتخاب خلافت کا اکثر حصہ تو اسی طرح برقرار رہے گا جو ۱۹۸۵ء میں کچھ ترامیم کے بعد منظور کیا گیا تھا لیکن اب ان میں مندرجہ ذیل ترامیم کی جائیں گی جو فوری طور پر نافذ العمل ہوں گی.۱۹۸۵ء میں یہ ترمیم کی گئی تھی کہ تا اطلاع ثانی انتخاب خلافت ربوہ کی بجائے اسلام آباد یو کے میں ہوگا.اب یہ ترمیم کی گئی کہ تا اطلاع ثانی یہ انتخاب مسجد فضل لندن یو کے میں ہوگا.ی ترامیم بھی منظور کی گئیں کہ اگر انتخاب خلافت لندن میں ہوتو ایڈیشنل ناظر اعلی مقیم لندن کا فرض ہوگا کہ جب تک ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ لندن نہ پہنچے تو وہ جملہ فرائض ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی ہدایات کے مطابق ان کی نمائندگی میں ان کے اٹارنی کے طور پر ادا کرے.اگر کسی اشد مجبوری کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ انتخاب خلافت تین دن کے اندر اندر نہیں ہو سکتا تو صدرانجمن احمد یہ یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہو گی اور اس درمیانی عرصہ میں صدرانجمن احمد یہ جماعت کے جملہ کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ دار ہوگی.بیرون پاکستان مقیم کچھ احباب کو حضور نے صدرانجمن احمد یہ کامبر مقررفرمایا تھا.اس ضمن میں حضور نے یہ قاعدہ منظور فرمایا کہ اگر انتخاب خلافت لندن میں ہو تو انگلستان میں موجود صدر انجمن احمدیہ کے اراکین پر مشتمل انجمن کا فرض ہو گا کہ جب تک صدر انجمن احمدیہ کے اراکین لندن نہ پہنچیں وہ اپنے جملہ فرائض صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی نمائندگی میں صدر انجمن پاکستان کی ہدایات کے مطابق ان کے اٹارنی کے طور پر ادا کرے.انگلستان میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات صدر صدر انجمن احمد یہ یا ایڈیشنل صدر صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی صدارت میں ہوں گے.اگر وہ انگلستان میں موجود نہ ہوں تو صدارت کے اختیارات ناظر اعلیٰ صد را مجمن احمد یہ پاکستان کو اور ان کی عدم موجودگی میں یہ اختیارات ایڈیشنل ناظر اعلیٰ کو حاصل ہوں گے.حضور نے بعض ترامیم کی نشاندہی فرمائی جو اس احتمال کے پیش نظر کہ اگر انتخاب خلافت کا موقع لندن میں پیش آئے حضور نے ارشاد فرمایا کہ اگر انتخاب خلافت ربوہ میں ہو تو بعض ترامیم منسوخ ہو جائیں گی.(بحوالہ سلسلہ احمدیہ حصہ دوم صفحه ۵۳۰ تا ۵۳۹)
139 انتخاب خلافت اولی جماعت احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر متفقہ طور پر جس طریق پر اجماع کیا وہ خلافت راشدہ کا طریق تھا.اس کے مقابل پر پیری مریدی یا بادشاہی کے فرسودہ نظام کو بھی رد کر دیا گیا اور دنیاوی جمہوریت کے اس نظام کو بھی ٹھکرا دیا گیا جو مغربی فلسفہ کی پیداوار ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضور کے وصال کے بعد آپ کی تدفین سے پہلے جب آپ کی نعش مبارک بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لئے لائی گئی تو جماعت کے برسر آوردہ لوگوں نے باہم مشورہ سے نئے امام کی جانشینی کے مسئلے پر غور کرنا شروع کیا.مکرم خواجہ کمال الدین صاحب نے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحب کی وفات سے دو چار روز پہلے رویا میں یہ دکھایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب آپ کی جانشینی کریں گے.بزرگان جماعت اور انجمن کے سرکردہ ممبروں میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ منتخب کرنے کے بارہ میں رائے ظاہر کی.تمام احباب جماعت کی نظریں پہلے ہی اس بزرگ اور عاشق صادق غلام پر پڑ رہی تھیں.چنانچہ بلا توقف ہر ایک نے آپ کے حق میں رائے دی.البتہ مولوی محمد احسن صاحب سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی مشورہ کر لینا ضروری ہے.چنانچہ جب آپ سے مشورہ لیا گیا تو آپ نے نہایت شرح صدر سے اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت مولانا سے بڑھ کر کوئی نہیں اور خلیفہ ضرور ہونا چاہئے اور حضرت مولانا ہی خلیفہ ہونے چاہئیں ورنہ اختلاف کا اندیشہ ہے اور حضرت اقدس کا ایک الہام ہے کہ اس جماعت کے دو گروہ ہوں گے ایک کی طرف خدا ہوگا“.( اصحاب احمد جلد دوم ص ۵۸۹ طبع اول ۱۹۵۲ء ) حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اکابرین جماعت نے جب متفقہ طور پر یہ درخواست کی کہ وہ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو آپ نے ایک نہایت پر از معرفت تقریر فرمائی جس میں جماعت کو تو حید کا سبق دے کر الہی خوشخبریوں کے پورا ہونے کے فلسفہ کے بارہ میں کچھ فرمایا اور پھر اپنے امام منتخب ہونے سے متعلق اپنے دلی جذبات اور خیالات کا ان الفاظ میں اظہار فرمایا :.” میری پچھلی زندگی پر غور کر لو.میں کبھی امام بننے کا خواہشمند نہیں ہوا.مولوی عبدالکریم مرحوم امام الصلوۃ بنے تو میں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تئیں سبکدوش خیال کیا تھا.میں اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے میں دنیا میں ظاہر داری کا خواہشمند نہیں.میں ہرگز ایسی باتوں کا
140 خواہشمند نہیں.اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.اس خواہش کے لئے میں دعائیں کرتا ہوں.قادیان بھی اسی لئے رہا اور رہتا ہوں اور رہوں گا.میں نے اس فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہوگی.اسی لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے..اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو کہ بیعت بک جانے کا نام ہے“.آخر میں آپ نے ارشاد فرمایا:.اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی.اگر یہ تمہیں منظور ہو تو طوعاً و کرہاً اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں.وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں.ان میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے ، واعظین کے بہم پہنچانے اور ان امور کو جو وقتا فوقتا اللہ میرے دل میں ڈالے، شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات، دینی مدرسے کی تعلیم میری مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا ہوگی اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اٹھاتا ہوں جس نے فرمایا:.وہ مرچکی.“ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ.یا درکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں جس کا کوئی رئیس نہیں ( الحکم ۶ جون ۱۹۰۸ء ص ۸، ۷ ) اس تقریر کے بعد بیک زبان حاضرین نے بآواز بلند یہ عہد کیا کہ ہم آپ کے تمام احکام ما نہیں گے.آپ ہمارے امیر ہیں اور مسیح موعود کے جانشین.چنانچہ اس اقرار کے بعد الحاج حضرت حکیم نورالدین خلیفہ امسیح الاول نے جملہ حاضرین سے جن کی تعداد بارہ سوتھی.بیعت خلافت کی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک نیا دن طلوع ہوا.یہ دن قدرت ثانیہ کا دن تھا جس نے تا ابد جماعت احمدیہ کے ساتھ رہنا تھا اور جس کی خوشخبری حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو دی تھی.(بحوالہ سوانح فضل عمر جلد ا ص ۱۸۱ تا۱۸۳.شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) پس اس طرح مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۲۷۳ کی مذکورہ بالا حدیث کے مطابق امت محمدیہ میں ایک بار پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام عمل میں آیا.جس نے قیامت تک جاری وساری رہنا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی بیعت کامل اتحاد کے ساتھ ہوئی جس میں ایک منفرد آواز بھی خلاف نہیں اٹھی اور نہ صرف افراد جماعت نے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان نے آپ کی خلافت کو تسلیم کیا بلکہ صدرانجمن احمدیہ نے بھی ایک متحدہ فیصلہ کے ماتحت اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کے مطابق حضرت الوی نورالدین صاحب کو حضرت مسیح موعود کا خلیفہ منتخب کیا گیا ہے اور ساری جماعت کو آپ کی بیعت کرنی چاہئے.اعلان خواجہ کمال الدین سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ بحوالہ الحکم ۲۸ مئی ۱۹۰۸ء والبدر۲ جون ۱۹۰۸ء)
141 حضرت خلیفہ المسیح الاول کے مختصر سوانح حیات قدرت ثانیہ کے مظہر اول آسمان احمدیت کے روشن ستارے، کمالات روحانیہ کے جامع ، صفات نورانیہ کے خزانہ، معارف قرآنیہ کے چشمہ رواں ، شمع مہدویت کے پروانے ،صدیقی جمال کے مظہر، فاروقی جلال کے آئینہ حاجی الحرمین سید نا حضرت حافظ حکیم مولانا نورالدین صاحب بھیروی خلیفتہ امسیح الاول ۱۸۴۱ء میں پاکستان کے ایک قدیم اور تاریخی شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد محترم کا نام حضرت حافظ غلام رسول صاحب اور والدہ ماجدہ کا نام نور بخت تھا.آپ کا سلسلہ نسب بتیس واسطوں کے ساتھ حضرت عمر فاروق تک اور والدہ ماجدہ کا سلسلہ نسب حضرت علی تک پہنچتا ہے.اس لحاظ سے آپ فاروقی بھی ہیں اور علوی بھی.آپ کا خاندان بہت علم دوست اور دیندار تھا.دن رات قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ اس خاندان میں جاری تھا.آپ نے قرآن کریم اپنی ماں کی گود میں ہی پڑھا تھا.آپ شروع سے ہی غضب کا حافظہ رکھتے تھے حتی کہ آپ کو اپنا دودھ چھڑانا بھی یاد تھا.آپ بچپن میں تیرا کی کے بہت شوقین تھے.آپ کو بچپن ہی سے کتابوں کے ساتھ بہت محبت تھی.جب بڑے ہوئے تو دینی علم حاصل کرنے کے لئے لاہور، رام پور، دہلی لکھنو اور بھوپال وغیرہ میں مقیم رہے.نیز حصول علم کی خاطر ۶۵ ۱۸۶۶ء میں آپ مکہ اور مدینہ میں بھی تشریف لے گئے.ڈیڑھ برس وہاں رہ کر دینی علوم حاصل کئے اور حج کا شرف حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے اور بھیرہ میں قرآن مجید و احادیث کے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کر دیا.ساتھ ہی آپ نے مطلب بھی شروع کر دیا.طب میں آپ کی شہرت اتنی بڑھی کہ دور دراز کے لوگ آپ کی خدمت میں علاج کے لئے حاضر ہوتے تھے.حتی کہ کشمیر کے مہاراجہ کی درخواست پر آپ وہاں تشریف لے گئے اور ایک عرصہ تک خاص شاہی طبیب کے طور پر دوبار جموں وکشمیر سے وابستہ رہے.اس عرصہ میں آپ مطب کے علاوہ ریاست میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے بھی کوشاں رہے اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا.۱۸۸۵ء میں حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود کا ایک اشتہار پہلی بار پڑھا.اس کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ حضور کی زیارت کے لئے قادیان پہنچ گئے اور حضور پر پہلی نظر ڈالتے ہی حضور کی صداقت کے قائل ہو گئے.یہ آپ کی حضور کے ساتھ پہلی ملاقات تھی.اس ملاقات کے بعد آپ ہمیشہ کے لئے حضور کے جانثار خادموں میں شامل ہو گئے.جب ۱۸۸۹ء میں بمقام لدھیانہ پہلی بار بیعت ہوئی تو آپ نے سب سے پہلے
142 نمبر پر بیعت کرنے کا فخر حاصل کیا.۱۸۹۰ء میں جب حضور نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو پھر بلا تامل حضرت ابو بکر کی طرح آپ حضور کے دعوی پر ایمان لے آئے.حضرت مولوی صاحب کی پہلی شادی تمیں برس کی عمر میں بمقام بھیرہ مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی عثمانی کی صاحبزادی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ سے ہوئی.آپ کی یہ اہلیہ ۱۹۰۵ء میں وفات پاگئی.اس اہلیہ کے بطن سے بیٹے اور 2 بیٹیاں پیدا ہوئیں.مگر ایک بیٹی حفصہ اور دوسری امامہ بڑی بڑی عمر کی تھیں.باقی بچے کم عمری میں ہی فوت ہوئے.آپ کی دوسری شادی ۱۸۸۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک پر لدھیانہ میں حضرت صوفی احمد جان صاحب کی صاحبزادی حضرت صغری بیگم صاحبہ سے ہوئی.ان کی وفات ۱۹۵۵ء میں بمقام ربوہ ہوئی.ان کے بطن سے بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی کتب حضرت خلیفہ اسیح الاوّل آپ نے ۸۸-۱۸۸۷ء میں حضرت مسیح موعود کی تحریک پر عیسائیت کے رد میں ایک کتاب «فصل الخطاب“ شائع فرمائی.پھر ۱۸۹۰ء میں حضور کی زیر ہدایت پنڈت لیکھرام کی کتاب ” تکذیب براہین احمدیہ کے جواب میں ” تصدیق براہین احمدیہ لکھی.اسی طرح ایک مرتد آریہ دھرم پال ( سابق عبد الغفور ) نے ” ترک اسلام “ نامی ایک کتاب لکھی جس کے جواب میں آپ نے ایک مفصل کتاب ”نورالدین کے نام سے تصنیف فرمائی.۱۹۰۴ء میں آپ نے ایک رسالہ بعنوان ابطال الوہیت مسیح عیسائیت کے رد میں تصنیف فرمایا.اسی طرح لڑکوں اور لڑکیوں کو مسائل نماز سے عام فہم الفاظ میں واقف کرنے کے لئے جنوری ۱۹۰۶ء میں دینیات کا پہلا رسالہ تالیف فرمایا.جو بہت مقبول ہوا.ملازمت سے فراغت اور قادیان میں ہجرت ۱۸۹۲ء میں ریاست جموں و کشمیر سے آپ کی ملازمت کا سلسلہ جو ۱۸۸۶ء میں قائم ہوا تھا ختم ہو گیا.آپ نے ریاست میں قرآن کریم کے درس و تدریس اور تبلیغ دین حق کا جو سلسلہ شروع کر رکھا تھا وہی اس ملازمت کے خاتمہ کا موجب ہوا.مہاراجہ رنبیر سنگھ کی وفات پر اس کے جانشین مہاراجہ پرتاپ سنگھ اور اس کے چند درباری اسلام سے اور حضرت مولوی صاحب سے خاص بغض و تعصب رکھتے تھے.چنانچہ انہوں نے آپ کو ملازمت سے فارغ کر دیا.آپ وہاں سے واپس اپنے وطن بھیرہ تشریف لے آئے جہاں پر آپ نے وسیع پیمانے پر ایک شفا خانہ قائم کرنے کا ارادہ کیا اور عالی شان مکان کی تعمیر شروع کروادی.
143 ۱۸۹۳ء میں جبکہ مکان کی تعمیر ابھی جاری تھی آپ کسی کام کے لئے لاہور تشریف لے گئے وہاں پر آپ کو حضرت مسیح موعود کی زیارت کا خیال آیا.چنانچہ آپ قادیان تشریف لے گئے.حضور نے فرمایا اب تو آپ ملازمت سے فارغ ہیں.یہاں رہیں.حضرت مولوی صاحب نے سمجھا کہ دو چار روز اور ٹھہر لیتا ہوں.ایک ہفتہ بعد حضور نے فرمایا آپ اکیلے یہاں رہتے ہیں اپنی بیویوں کو بھی یہیں منگوالیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے دونوں بیویوں کو بلالیا.پھر ایک دن حضور نے فرمایا.آپ کو کتابوں کا شوق ہے اپنا کتب خانہ بھی یہیں منگوا لیں.چنانچہ کتب خانہ بھی بھیرہ سے قادیان آ گیا.چند دنوں کے بعد حضور نے فرمایا.مولوی صاحب! اب آپ وطن کا خیال چھوڑ دیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ” میں نے وطن کا خیال ایسے چھوڑ دیا کہ کبھی خواب میں بھی وطن نہیں دیکھا“.قادیان میں ہجرت کے بعد کئی لوگوں نے آپ کو لاہور یا امرتسر میں جا کر شفاخانہ کھولنے کی تحریک کی لیکن آپ نے اپنے آقا کے قدموں میں ہی رہنا پسند کیا.یہیں پر دن رات دین کی خدمت کرنے میں مصروف رہے اور ہر وقت حضرت مسیح موعود کی ہدایت اور حکم کی تعمیل کرنے کے لئے تیار رہتے.مریضوں کو دیکھتے.قرآن وحدیث کا درس دیتے نمازیں پڑھاتے.وعظ و نصیحت کرتے.حضور کی کتب کے پروف پڑھنے اور حوالے نکالنے کا کام کرتے تھے.جب کالج جاری ہوا تو اس میں عربی پڑھاتے تھے.جب صدر انجمن احمد یہ قائم ہوگئی تو حضرت مسیح موعود نے آپ کو اس کا پریذیڈنٹ مقرر فرما دیا.پھر غرباء کی امداد اور ہمدردی کا بھی ہمیشہ خیال رکھتے.غرض قادیان آ کر حضرت مولوی صاحب نے اپنی زندگی دین کے لئے بالکل وقف کر دی.صبح سے شام تک اسی میں مصروف رہتے.پہلے حضرت مسیح موعود کے مکانات کے قریب ہی اپنا کچا مکان تعمیر کرا کے اس میں رہائش اختیار کر لی.بیماروں کے علاج سے جو آمدنی ہوتی اس کا بھی زیادہ تر حصہ چندہ کے طور پر حضور کی خدمت میں پیش کر دیتے یا تیموں اور غریبوں کی پرورش میں صرف کر دیتے تھے.حضرت خلیفہ اول کی وفات حضرت خلیفہ اول چند ماہ بیمار رہنے کے بعد ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو جمعہ کے دن سوا دو بجے بعد دو پہر قادیان میں وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون ط ۱۴/ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی منتخب ہو جانے کے بعد آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد ہزاروں احمدیوں نے دین حق کے، قرآن مجید کے، آنحضرت ﷺ کے اور حضرت مسیح موعود کے اس عاشق صادق کو جو اپنے اندر بے نظیر خوبیاں رکھتا تھا اور عمر بھر دین کی خدمت کرتا رہا.بہشتی مقبرہ قادیان میں حضرت مسیح موعود کے مزار کے پہلو میں دفن کر دیا.
144 حضرت خلیفہ اول کا مقام حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول بہت بزرگ انسان تھے.آپ کو سب سے پہلے بیعت کرنے اور پھر ہر حالت میں حضرت مسیح موعود کا ساتھ دینے کی توفیق ملی.خدا اور رسول کی محبت کے علاوہ انہیں قرآن مجید سے خاص عشق تھا، بیماری ہو یا صحت ہو، ہر حالت میں قرآن مجید کا ذکر اور اس کا درس ہی ان کی روح کی غذا تھی.حضرت مسیح موعود کے ہر حکم کی پوری اطاعت کرتے تھے.جب حضور کی طرف سے کوئی بلاوا آتا تو جس حالت میں بھی ہوتے فوراً بھاگ کر حضور کی خدمت میں پہنچنے کی کوشش کرتے.حتی کہ جوتی سنبھالنے اور پگڑی پہنے کا بھی انہیں خیال نہ رہتا.ایک دفعہ حضور دہلی میں تھے وہاں سے حضور کا پیغام حضرت مولوی صاحب کو قادیان میں ملا کہ آپ فوراد بلی آجائیں.حضرت مولوی صاحب اس وقت اپنے مطب میں بیٹھے تھے.جب پیغام ملا تو وہیں سے اور اسی حالت میں روانہ ہو گئے.نہ سفر کیلئے کوئی سامان لیا اور نہ کرایہ کا ہی انتظام کیا.کسی نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ گھر جا کر سامان بھی نہ لیں اور اتنے لمبے سفر پر خالی ہاتھ روانہ ہوجائیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.جب حضور کا حکم ہے کہ فوراً آ جاؤ تو میں ایک منٹ بھی یہاں ٹھہر نا گناہ سمجھتا ہوں.خدا تعالی کی قدرت دیکھو کہ جب آپ گاڑی پر روانہ ہونے کے لئے بٹالہ کے ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو ایک امیر آدمی کی بیوی بیمار تھی جس کے علاج کے لئے اسٹیشن پر حاضر ہو گیا اس نے دہلی تک کا ٹکٹ بھی خرید دیا اور ایک معقول رقم بھی آپ کی خدمت میں پیش کر دی.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا حضور کی اطاعت کرنے کا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل کرنے میں کیسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ تھا.آپ کی انہی خوبیوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود نے آپ کی تعریف میں یہ فارسی شعر کہا کہ خوش بودے اگر هر یک ز اُمت نوردیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقیں بودے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہی اچھا ہو اگر میری قوم اور جماعت کا ہر فردنور دین بن جائے.مگر یہ بھی ہوسکتا ہے جبکہ ہر ایک دل نور دین کی طرح یقین کے نور سے بھر جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب صدر انجمن احمدیہ کا قیام فرمایا تو حضرت مولوی صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا اور ساتھ یہ ارشاد فرمایا کہ:.مولوی صاحب کی ایک رائے انجمن کی سورائے کے برابر جھنی چاہئے.
145 اسی طرح ایک موقع پر آپ کے بارہ میں حضور نے فرمایا کہ:.(نورالدین ) میرے ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتے ہیں جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے.( ترجمہ از عربی عبارت مندرجہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ ص ۵۸۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی صاحب کو اپنا سب سے محبوب اور سب سے مخلص اور اعلیٰ درجہ کا صدیق دوست قرار دیا اور ان کی قربانیوں اور ان کے نمونہ کو قابل رشک قرار دیتے ہوئے یہ لکھا کہ:.وہ اپنے اخلاص، محبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں میں اول نمبر پر ہیں.(حمامة البشری ترجمه از عربی ص ۱۶ روحانی خزائن جلد۷ ) غیروں کی آراء امیرالمومنین سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الاول مسلمہ طور پراپنے علم عرفان اور تقویٰ کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد سب سے بلند اور سب سے ممتاز مقام رکھتے تھے.علم ومعرفت کے بحر بیکراں اور ولایت و کرامت کی چلتی پھرتی تصویر، آپ کو دیکھ کر بزرگان سلف کے کارناموں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی.وہ لوگ بھی جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ماموریت تسلیم کرنے میں عمر بھر تامل رہا.آپ کو نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے.آپ کی بزرگی اور علمیت و قابلیت کے دل سے قائل تھے.ایک مرتبہ کسی نے سرسید مرحوم سے خط و کتابت کے دوران پوچھا کہ جاہل علم پڑھ کر عالم بنتا ہے اور عالم ترقی کر کے حکیم ہو جاتا ہے حکیم ترقی کرتے کرتے صوفی بن جاتا ہے مگر جب صوفی ترقی کرتا ہے تو کیا بنتا ہے؟ سرسید مرحوم نے جواب دیا کہ جب صوفی ترقی کرتا ہے تو نورالدین بنتا ہے.مولانا عبید اللہ صاحب سندھی جو ولی اللہ فلسفہ کے داعی تھے محض حضرت خلیفہ اول سے ملاقات و استفادہ کے لئے قادیان تشریف لائے تھے اور حضور کے اسلوب تفسیر سے بہت متاثر ہوئے.چنانچہ ان کی تفسیر میں اس کی گہری جھلک نظر آئی ہے اور احمدیت کے خیالات و افکار کا عکس بھی ان کی تفسیر سے دکھائی دیتا ہے.ڈاکٹر محمد اقبال صاحب سے قانون شریعت کے مختلف مسائل سے راہنمائی کے سلسلہ میں خط و کتابت جاری رہتی تھی.ایک مرتبہ ان کو اپنی ایک بیوی کے بارے میں شبہ ہوا کہ چونکہ وہ اسے طلاق دینے کا ارادہ کر چکے تھے مبادا شرعاً طلاق ہو چکی ہو.جس پر انہوں نے مرزا جلال الدین صاحب کو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بھیجا کہ مسئلہ پوچھ آؤ.آپ نے فرمایا کہ طلاق نہیں ہوئی لیکن اگر آپ کے دل میں کوئی شبہ اور وسوسہ ہو تو دوبارہ نکاح کر لیجئے.چنانچہ ڈاکٹر اقبال نے اس فتویٰ کے مطابق دوبارہ اس خاتون سے نکاح پڑھوالیا.
146 مولا نا محمد علی جوہر، نواب وقار الملک، مولانا ابوالکلام آزاد، مولوی ظفر علی خان ، علامہ شبلی نعمانی، نواب محسن الملک ، مولوی عبدالحق صاحب حقانی مفسر دہلوی، خواجہ حسن نظامی اور دوسرے مسلمہ مسلمان لیڈر آپ کی عظمت شان اور جلالت مرتبت اور تبحر علمی کے دل سے قائل تھے اور اسلامی رسائل میں آپ کی دینی رائے کو بڑی وقعت دی جاتی تھی.ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چغتائی لاہور کی چشم دید شہادت ہے کہ حضرت ایک مرتبہ چیف کورٹ پنجاب میں کسی گواہی کے سلسلہ میں تشریف لائے جب حضور کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو تین جج تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے.آپ کے علمی فیض کا حلقہ بہت وسیع تھا اور آپ کے شاگردوں کی تعداد جنہوں نے آپ سے علوم پڑھے بیشمار ہے.علوم دینیہ کے علاوہ آپ کا شمار چوٹی کے طبیبوں میں ہوتا تھا اور پورے ملک میں آپ کی دھوم مچی ہوئی تھی.یہ بھی ایک روایت ہے کہ کوئی انگلستان میں بغرض علاج گیا تو ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ ہندوستان میں جا کر مولوی حکیم نورالدین صاحب سے علاج کروائیں.ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چغتائی (لاہور) کی روایت ہے کہ آپ کبھی لاہور تشریف لاتے تو آپ کے گرد ہند و مسلمان اور سکھ دور ونزدیک سے ہجوم کر کے آ جاتے بازار میں چلتے تو لوگ حضرت کے پاؤں پکڑ لیتے اور اپنے مریضوں کے لئے دوا طلب کرتے.حضرت حکیم صاحب قبلہ نے ہزاروں روپیہ کی دوائیں اپنی جیب سے خرچ کر کے ضرورت مندوں میں مفت تقسیم کر دیں.حضرت کے دل میں خدمت خلق کا بے پناہ جذبہ تھا.نیز لکھتے ہیں ”حضرت حکیم صاحب ۱۹۱۳ء میں بیمار ہوئے تو جناب مسیح الملک حکیم حافظ اجمل خان صاحب دہلوی، حکیم عبد العزیز خان صاحب لکھنوی، حکیم غلام حسین حسنین صاحب کشوری خود عیادت کے لئے قادیان تشریف لائے.حکیم فقیر محمد صاحب چشتی، حکیم مولوی سلیم اللہ خان صاحب حکیم سید عالم شاہ صاحب حکیم مفتی محمد انور صاحب ہاشمی، حکیم فیروز الدین صاحب وغیرہ وغیرہ حضور کا نام بڑی عزت و احترام سے لیا کرتے تھے اور حضرت کو حضرت استاذی المکرم کہا کرتے تھے.عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب "مسلم ثقافت ہندوستان میں“ کے صفحہ ۳۰۰ ،۳۰۱ پر لکھتے ہیں.”آپ کی حذاقت کا شہرہ نزدیک و دور پھیل گیا اور آپ ہندوستان کے چند منتخب اطباء میں شمار ہونے لگے.آپ بھیرہ چھوڑ کر قادیان چلے گئے اور بقیہ عمر درس و تدریس علاج معالجہ اور پرورش غرباء میں بسر کر دی.آپ آل انڈیا ویدک اینڈ یونانی طبی کانفرنس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اعزازی ممبر اور رکن خصوصی بھی تھے.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد سوم نیا ایڈیشن ص ۶۳۴، ۶۳۵)
147 خلافت اولی کے شیریں ثمرات حضرت خلیفہ مسیح الاول کا ۶ سالہ بابرکت عہد خلافت اور آپ کے کار ہائے نمایاں تاریخ خلافت احمدیہ کا ایک بہت ہی دلکش، ایمان افروز اور سنہری باب ہے اور خلافت احمدیہ کی عظیم الشان اساس ہے.آپ کا عہد خلافت سید نا حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت سے کمال مشابہت رکھتا ہے.جس کی تفصیل میں جانا اس کتاب میں ممکن نہیں لہذا نمونہ کے طور پر چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں.حضرت خلیفہ اول کا زمانہ صحابہ کرام کے زمانہ کی یاد دلاتا تھا.قرآن کریم ، حدیث شریف اور دوسرے دینی علوم کے پڑھنے کا جماعت میں ایک زبر دست ولولہ تھا.جو بے نظیر عشق دین حضرت خلیفہ اول کے دل میں موجزن تھا اس نے اہل قادیان کے دلوں میں ایک چنگاری روشن کر رکھی تھی اور اس کا ایک زبر دست اثر بیرونجات کی جماعتوں پر بھی تھا.قادیان اور قادیان سے باہر کے لوگ برابر دین کا علم سیکھنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور یہ بات بالخصوص قادیان کی رونق اور نیک شہرت کا باعث تھی اور اس بات نے افراد جماعت میں دینداری، دیانتداری اور پرہیز گاری پیدا کر دی تھی.حضرت خلیفہ اول اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دین کا اثر ہمارے تمام معاملات میں نظر آنا چاہئے.چنانچہ قادیان کے لوگوں میں خصوصاً اور باہر کی جماعتوں میں عموماً احکام دین کی پابندی کا بہت شوق تھا اور دوسری بات جس پر آپ بڑا زور دیا کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ایک مسلمان ہر معاملہ کے متعلق جناب النبی میں گرے اور دعا کرتار ہے اور اس بات پر آپ زور دیتے کبھی تھکتے ہی نہ تھے.جس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑے تو ایک طرف رہے چھوٹے بچے بھی رو رو کر دعائیں کرتے تھے اور جماعت میں عام طور پر یہ یقین تھا کہ مومنوں کی دعائیں خدا تعالی سنتا ہے اور اس ذریعہ سے ہر تکلیف دور ہو سکتی ہے.(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۳ ص ۲۰۲ ۶۰۳) دور خلافت اولی میں ترقیات کی چند جھلکیاں بیت المال کے مستقل صیغہ کا قیام.( جون ۱۹۰۸ء) قادیان میں پہلی پبلک لائبریری کی بنیاد.( جون ۱۹۰۸ء ) واعظین سلسلہ کا با قاعدہ تقر ر ( جولائی ۱۹۰۸ء) مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ( یکم مارچ ۱۹۰۹ء)
148 قادیان سے اخبار نور کا اجراء سکھوں میں دعوت الی اللہ کے لئے.(اکتوبر ۱۹۰۹ء) دین حق پر اعتراضات کے رد کی خاطر انجمن ارشاد کا قیام.( آخر ۱۹۰۹ء) قادیان سے اخبار الحق کا اجراء.(۷ جنوری ۱۹۱۰ء) حملا بيت الذکر نور کی بنیاد ( ۵ مارچ ۱۹۱۰ء) قادیان سے رسالہ احمدی کا اجراء (جنوری ۱۹۱۱ء) انجمن انصار اللہ کا قیام حضرت سید نامحمود کے ذریعہ ( فروری ۱۹۱۱ء) تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیاد.( ۲۵ جولائی ۱۹۱۲ء) رسالہ احمدی خاتون کا اجراء.( ستمبر ۱۹۱۲ء) حضرت سید نا محمود کی زیر ادارت اخبار الفضل جاری ہوا.(۱۸ جون ۱۹۱۳ء ) حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب بغرض دعوت الی اللہ سفر انگلستان روانگی ۲۵ جولائی ۱۹۱۳ء واپسی ۲۹ مارچ ۱۹۱۶ء) حمد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا سفر مصر و شام.روانگی ۲۶ جولائی ۱۹۱۳ ء وا پسی مئی ۱۹۱۹ء ) خلافت ثانیہ کا ظہور قدرت ثانیہ کے مظہر اول حضرت حافظ حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی فایده امسیح الاول مورده ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو بقضائے الہی وفات پاگئے.آپ نے وفات سے پہلے اپنے جانشین کے متعلق ان الفاظ میں وصیت کی.میرا جانشین متقی ہو.ہر دلعزیز ، عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک، چشم پوشی اور درگزر کو کام میں لاوے.میں سب کا خیر خواہ تھاوہ سب کا خیر خواہ رہے.قرآن و حدیث کا درس جاری رہے.(مرقاة الیقین فی حیات نور الدین ص ۸ از اکبر شاہ نجیب آبادی ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ ء کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب فرزند دلبند گرامی ارجمند، مظہر الاول والآخر، مظہر الحق والعلا، رحمت اور فضل اور قربت کا نشان فتح و ظفر کی کلید، الہی نوشتوں اور پیش خبریوں کے جلو میں بطور خلیفہ اسیح الثانی مسند خلافت پر متمکن ہوئے.
149 افق احمدیت پر خلافت کا ایک چاند غروب ہوا تو ایک اور چاند طلوع ہوا.اسی طرح روشن اور چمکتا ہوا اور نور آسمانی سے جگمگاتا ہوا.جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الاول نے آسمان احمدیت کو روشن کئے رکھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اس موقع پر بڑے دلنشین انداز میں احمدیت کے ایک رخصت ہوتے ہوئے خلیفہ کو الوداع اور ایک قدم رنجہ فرماتے ہوئے خلیفہ کو خوش آمدید کہتے ہیں.”اے جانے والے تجھے تیرا پاک عہد خلافت مبارک ہو کہ تو نے اپنے امام ومطاع مسیح کی امانت کو خوب نبھایا اور خلافت کی بنیادوں کو ایسی آہنی سلاخوں سے باندھ دیا کہ پھر کوئی طاقت اسے اپنی جگہ سے ہلا نہ سکی.جا! اور اپنے آقا کے ہاتھوں سے مبارک باد کا تحفہ لے اور رضوان یار کا ہار پہن کر جنت میں ابدی بسیرا کر اور اے آنے والے! تجھے بھی مبارک ہو کہ تو نے سیاہ بادلوں کی دل ہلا دینے والی گرجوں میں مسند خلافت پر قدم رکھا اور قدم رکھتے ہی رحمت کی بارشیں برسادیں.تو ہزاروں کا نپتے ہوئے دلوں میں سے ہو کر تخت امامت کی طرف آیا اور پھر ایک ہاتھ کی جنبش سے ان تھراتے ہوئے سینوں کو سکینت بخش دی.آ! اور ایک شکور جماعت کی ہزاروں دعاؤں اور تمناؤں کے ساتھ ان کی سرداری کے تاج کو قبول کر.تو ہمارے پہلو سے اٹھا ہے مگر بہت دور سے آیا ہے.آ! اور ایک قریب رہنے والے کی محبت اور دور سے آنے والے کے اکرام کا نظارہ دیکھے.( سلسلہ احمدیہ ص ۳۲۴- شائع کردہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان) حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے مختصر سوانح حیات حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی مورخ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء بروز ہفتہ قادیان میں پیدا ہوئے.آپ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی حرم ثانی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے بطن سے حضور کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے.آپ کی ولادت با سعادت الہی بشارتوں کے مطابق ہوئی.جو ہستی باری تعالیٰ ، آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے.آنحضرت ﷺ نے حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کی علامات میں سے ایک علامت یہ بتائی تھی کہ: يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ.(مشکوۃ باب نزول عیسی) یعنی وہ خدا تعالیٰ کی منشاء خاص سے ایک شادی کرے گا جس سے اس کے ہاں غیر معمولی خصوصیات کی حامل اولاد ہوگی.اس حیثیت پاک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام مبشر اولاد بالعموم اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی بالخصوص مراد اور مصداق ہیں.پھر آپ کا وجود اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کرنے کا موجب بنا جو جماعت احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے مشہور
150 ہے.جو ہوشیا پور میں چالیس روز تک چلہ کشی کرنے کے نتیجہ میں آپ نے خدا تعالیٰ سے پا کر مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو اخبار ریاض ہند میں شائع فرمائی تھی.جس میں آپ کے سوانح کا خاکہ آپ کی ولادت سے تین سال قبل اللہ جل شانہ نے اپنے ان الفاظ میں بیان فرما دیا تھا.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت اور غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند - مظهر الاول والآخر.مظهر الحق والعلا.كان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وکان امر امقضیا“.اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء بحوالہ اخبار ریاض ہندا مرتسر مورخه ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے وجود میں یہ پیشگوئی اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی.پیشگوئی میں جو جو علامتیں بتائی گئی تھیں ہم سب گواہ ہیں کہ وہ سب پوری ہوگئیں.الحمدللہ حضرت مسیح موعود نے آپ کی پیدائش پر ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہوئے حضور نے دس شرائط بیعت کا اعلان فرمایا اور پھر کچھ عرصہ بعد۱۸۸۹ء میں ہی بمقام لدھیانہ پہلی بیعت کا آغاز کیا گیا.گویا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی پیدائش اور جماعت احمدیہ کا آغاز ایک ہی وقت میں ہوئے.جب حضرت خلیفہ ثانی تعلیم کی عمرکو پہنچے تو مقامی سکول میں آپ کو داخل کرا دیا گیا مگر طالب علمی کے زمانہ میں چونکہ آپ کی صحت خراب رہتی تھی اس لئے آپ کو تعلیم سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی.یہی وجہ ہے کہ جب دسویں جماعت کے امتحان تک پہنچے جو کہ اس زمانہ میں یونیورسٹی کا پہلا امتحان تھا تو آپ فیل ہو گئے.بس آپ نے سکول کی تعلیم یہاں تک حاصل کی.تعلیم کے زمانہ میں جب آپ کے استاد حضرت مسیح موعود سے آپ کی تعلیمی حالت کا ذکر کرتے تو حضور فرمایا کرتے تھے کہ اس کی صحت اچھی نہیں ہے.جتنا یہ شوق سے پڑھے اسے پڑھنے دو زیادہ زور نہ دو.دراصل اس میں اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت تھی.اگر آپ تعلیم میں ہوشیار ہوتے اور ظاہری ڈگریاں حاصل کرتے تو لوگ خیال کرتے کہ آپ کی قابلیت شاید ان ڈگریوں کی وجہ سے ہے مگر اللہ تعالیٰ تو خود
151 آپ کا استاد بنا چاہتا تھا اس لئے ظاہری تعلیم آپ حاصل ہی نہ کر سکے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کے مطابق خود آپ کو ظاہری و باطنی تعلیم دی.چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ کسی علم میں بھی دنیا کا کوئی عالم آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جب آپ ذرا بڑے ہوئے تو آپ کے دل میں خدمت دین کا خاص شوق پیدا ہو گیا.چنانچہ آپ نے ایک انجمن تفعید الا ذہان“ کے نام سے قائم کی اور اس نام کا ایک رسالہ بھی جاری کیا اور اس طرح تحریری اور تقریری مشق کا سلسلہ شروع کر دیا.جو جماعت کے لئے بہت مفید ثابت ہوا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی آپ کو حضرت خلیفہ اول نے اپنی خاص تربیت میں لے لیا.چنانچہ قرآن شریف اور حدیثوں کی بعض کتابیں آپ نے حضرت مولوی صاحب سے پڑھیں اور آپ نے ان کی صحبت اور فیض سے بہت فائدہ اٹھایا.۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو جب حضرت مسیح موعود وفات پاگئے.اس وقت آپ انیس برس کے تھے.آپ نے حضور کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ عظیم الشان عہد کیا کہ الہی اگر سارے لوگ بھی حضرت مسیح موعود کی جماعت کو چھوڑ دیں تو پھر بھی میں اپنے عہد پر قائم رہوں گا اور حضرت مسیح موعود جس مقصد کے لئے مبعوث ہوئے تھے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا.اس عہد کے بعد ستاون برس تک حضور زندہ رہے.آپ کی زندگی کا ایک ایک دن اس امر کا گواہ ہے کہ آپ نے جو عہد کیا تھا اسے کس شان سے پورا کر دکھایا.۱۹۱۱ء میں آپ نے حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے ایک انجمن انصار اللہ کے نام سے قائم فرمائی اور اس کے ذریعے تبلیغ و تربیت کے کئی کام کئے.۱۹۱۲ ء میں آپ نے حج کیا.۱۹۱۳ء میں اخبار الفضل“ جاری کیا.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں آپ نے کئی تبلیغی سفر بھی کئے.جن میں آپ کی تقریروں کو لوگ خاص طور پر بہت پسند کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت آپ ابھی بچہ ہی تھے لیکن حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی آپ نے جماعت میں پیدا ہونے والے اس فتنہ کے ابتدائی آثار کو بھانپ لیا تھا جو خلافت کے منکرین کی طرف سے بہت ہی آہستہ آہستہ ظاہر ہورہے تھے.آپ کا یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپ کی باریک نظر نے آنے والے خطروں کو محسوس کر لیا اور معلوم کر لیا کہ یہ لوگ خلافت کے منکر ہو کر احمدیت کی خصوصیات اور برکات کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں.چنانچہ باوجود اس کے کہ آپ کی ان لوگوں کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی مگر آپ صحیح راستہ پر ڈٹے رہے.آپ نے بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت اس فتنہ سے بڑی حد تک بچی رہی.حالانکہ یہ فتنہ پیدا کرنے والے لوگ وہ تھے جو کہ جماعت
152 میں ذی علم اور تجربہ کار سمجھے جاتے تھے.وہ خود کو صدرانجمن کے مالک سمجھتے تھے اور حضور کو کل کا بچہ کہہ کر پکارا کرتے تھے.مگر دیکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ بالآخر یہی کل کا بچہ کامیاب رہا.انتخاب خلافت ثانیه جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے.حضرت خلیفہ اول مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد دو پہر فوت ہوئے تھے.وہ جماعت پر ایک بہت ہی نازک وقت تھا.ایک طرف حضرت خلیفہ اول کی جدائی کا غم تھا اور دوسری طرف منکرین خلافت کے فتنہ کا خوف تھا جو ہر خلص احمدی کو بیتاب کر رہا تھا.اور وہ بیقراری کے ساتھ دعاؤں میں مصروف تھا.نماز عصر کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک بہت درد سے بھری ہوئی تقریر فرمائی جس میں آپ نے فرمایا کہ دوستوں کو بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی مدد فرمائے اور صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق دے.دوسرے دن خلافت کا انکار کرنے والوں کو سمجھانے کی ایک آخری کوشش کی گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے انہیں یہاں تک کہا کہ اگر خلافت سے انکار نہ کریں تو ہم خدا کو حاضر و ناظر جان کر وعدہ کرتے ہیں کہ اگر کثرت رائے سے آپ لوگوں میں سے کوئی خلیفہ منتخب ہو جائے تو ہم سچے دل سے اسے قبول کریں گے لیکن یہ لوگ اپنی ضد پر اڑے رہے.مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں ہی ایک رسالہ چھاپ کر تیار کر رکھا تھا جسے حضور کی وفات ہوتے ہی کثرت سے جماعت میں تقسیم کر دیا گیا.اس پرو پیگنڈا کی وجہ سے انہیں امید تھی کہ جماعت ان کی باتوں کو ضرور مان لے گی.اس لئے وہ اپنی باتوں پر اڑے رہے.آخرم امارچ کو نماز عصر کے بعد سب احمدی جو دو ہزار کی تعداد میں دور و نزدیک سے آئے ہوئے تھے مسجد نور قادیان میں جمع ہوئے.سب سے پہلے حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت خلیفتہ اسیح الاول کی وصیت پڑھ کر سنائی.جس میں آپ نے اپنا جانشین مقرر کرنے کی نصیحت فرمائی تھی.وصیت پڑھنے کے ساتھ ہی ہر طرف سے لوگوں کی آوازیں حضرت میاں صاحب، حضرت میاں صاحب ( مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) بلند ہونے لگیں.حضرت مسیح موعود کے پرانے صحابی حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی نے کھڑے ہو کر تقریر کی.آپ نے خلافت کی ضرورت واضح کرنے کے بعد فرمایا کہ میری رائے میں حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب ہر طرح سے خلیفہ اسیح بنے کے اہل ہیں.اس لئے ہمیں ان کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے.اس کی ہر طرف تائید کی گئی اور لوگوں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ ہماری بیعت لی جائے.مولوی محمد علی صاحب نے جو منکرین خلافت کے لیڈر تھے، کچھ کہنا چاہالیکن لوگوں نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ جب آپ خلافت ہی کے منکر ہیں تو
153 ہم کس طرح آپ کی بات سننے کے لئے تیار ہوں؟ لوگ چاروں طرف سے ٹوٹے پڑتے تھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا خدا کے فرشتے لوگوں کو پکڑ پکڑ کے بیعت کے لئے تیار کر رہے ہیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کچھ تامل کیا مگر آخر لوگوں کے اصرار پر حضور نے بیعت لینی شروع کر دی.جو لوگ قریب نہیں آسکتے تھے انہوں نے اپنی پگڑیاں پھیلا کر اور ایک دوسرے کی پیٹھوں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کے الفاظ دہرائے.بیعت کے بعد لمبی دعا ہوئی جس میں سب پر رقت طاری تھی.دعا کے بعد حضور نے درد سے بھری ہوئی تقریرفرمائی.جس میں آپ نے فرمایا کہ گو میں بہت ہی کمزور انسان ہوں مگر خدا تعالیٰ نے مجھ پر جو ذمہ داری ڈال دی ہے مجھے یقین ہے کہ خدا اس کے ادا کرنے کی توفیق مجھے عطا فرمائے گا.آپ سب لوگ متحد ہو کر اسلام اور احمدیت کی ترقی کی کوشش میں میری مدد کریں.اس تقریر سے سب لوگوں کے دلوں میں ایک خاص اطمینان پیدا ہو گیا.مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جب دیکھا کہ جماعت نے ان کی بات نہیں مانی تو وہ حسرت کے ساتھ اس مجمع میں سے اٹھ کر چلے گئے اور پھر چند دن کے بعد مستقل قادیان چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور وہاں پر انہوں نے اپنے ساتھیوں کی الگ انجمن قائم کر لی.شروع شروع میں انہوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ بہت تھوڑے لوگ خلافت کے ساتھ ہیں.مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی ناکامی کو محسوس کر لیا اور اقرار بھی کر لیا کہ جماعت احمدیہ کی بہت بھاری اکثریت خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہو چکی ہے اور ہم انہیں ورغلانے میں ناکام رہے ہیں.الحمد للہ علی ذالک! اولاد حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی تھی کہ:.تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا“.اس الہام کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی نسل کو واقعی بہت بڑھایا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ذریعہ تو یہ الہام خاص طور پر پورا ہوا کیونکہ للہ تعالیٰ نے آپ کو ۱۳ بیٹے اور ۹ بیٹیاں عطا فرمائیں اور پھر یہ اولاد دین کی خاص خدمت کرنے والی ثابت ہوئی.آپ کے دو صاحبزادے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحب جماعت کے تیسرے اور چوتھے خلیفہ ہوئے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا فرماتا ہے.
154 آخری بیماری اور وفات ۱۹۵۵ء میں سفر یورپ سے آنے کے بعد گو حضور کو ایک حد تک آرام محسوس ہوتا تھا اور حضور نے نمازیں پڑھانی، خطبات دینے اور خلافت کے دیگر ضروری کام بھی سرانجام دینے شروع کر دیئے تھے مگر اصل بیماری ابھی موجود تھی.اسی حالت میں حضور نے تفسیر صغیر جیسا اہم کام شروع کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ زیادہ کام کرنے کی وجہ سے حضور پھر زیادہ بیمار ہو گئے.۱۹۵۸ء میں بیماری کا دوبارہ حملہ ہوا.ہر ممکن علاج ہوتا رہا.ملک کے قابل ترین ڈاکٹروں کے علاوہ بیرونی ملکوں کے ڈاکٹروں کو بھی دکھایا گیا اور ان سے مشورے کئے جاتے رہے مگر بیماری بڑھتی ہی چلی گئی اور حضور کمزور ہوتے گئے.حتی کہ آخر وہ وقت بھی آگیا جس کا تصور بھی کوئی احمدی نہیں کرنا چاہتا تھا یعنی مورخہے اور ۸/ نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی رات کو ۲ بجکر ۲۰ منٹ پر قریب ے ے سال کی عمر میں حضور ہمیں داغ جدائی دے کر اپنے مولائے کریم کے پاس جاپہنچے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ حضور کی وفات پر احمدیوں کی جو حالت ہوئی اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا لیکن سچا مومن ہر حالت میں خدا کی رضا پر راضی رہتا ہے.جب خدا کی یہ سنت ہے کہ جو شخص بھی اس دنیا میں آتا ہے.آخر وہ یہاں سے رخصت ہو جاتا ہے.تو حضور نے بھی آخر اس دنیا سے رخصت ہونا ہی تھا سو آخر وہ وقت آ گیا اور حضور ہم سے رخصت ہو گئے اگلے دن مورخہ ۹ نومبر کو ساڑھے ۴ بجے سہ پہر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی.نماز جنازہ میں پاکستان کے ہر حصہ سے آئے ہوئے قریباً ۵۰ ہزار احمدی شامل ہوئے جو کہ اپنے پیارے آقا کی وفات کی خبر سنتے ہی دیوانہ وار اپنے مرکز میں پہنچ گئے تھے.نماز جنازہ سے پہلے سب احباب نے اپنے پیارے امام کا آخری دیدار کیا.نماز جنازہ کے بعد آپ کو مقبرہ بہشتی ربوہ میں حضرت اماں جان کے مزار کے پہلو میں امانتا دفن کر دیا گیا.تصانیف حضرت خلیفہ اسیح الثانی پیشگوئی مصلح موعود میں آپ کے بارہ میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“.حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں پیشگوئی کے یہ حصے بھی اپنی کمال شان سے پورے ہوئے.آپ کی غیر معمولی ذہانت ، فراست اور ظاہری و باطنی علوم کی وسعت کا غیر بھی اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے.چنانچہ جب حضور نے ۱۹۲۴ء میں یورپ کا سفر اختیار کیا تو اس سفر کے دوران دمشق کے قیام کے موقع پر اخبار العمران
155 نے اپنی ۱۰ را گست ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں بعنوان ” مہدی دمشق میں لکھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ :.”جناب احمد قادیانی صاحب ہندوستان میں مہدی کے خلیفہ اپنے بڑے بڑے مصاحبین سمیت جو آپ کی جماعت کے بعض بڑے بڑے علماء ہیں دارالخلافہ میں تشریف لائے.ابھی آپ کے دارالخلافہ میں تشریف لانے کی خبر شائع ہی ہوئی تھی کہ بہت سے علماء و فضلاء آپ کے ساتھ گفتگو کرنے اور آپ کی دعوت کے متعلق آپ سے مناظر و مباحثہ کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں پہنچ گئے.اور انہوں نے آپ کو نہایت عمیق ریسرچ رکھنے والا عالم اور سب مذاہب اور ان کی تاریخ و فلسفہ کا گہرا مطالعہ رکھنے والا شریعت الہیہ کی حکمت و فلسفہ سے واقف شخصیت پایا.حضرت مصلح موعود کی تالیف و تصنیفات کی تعداد تقریباً اڑھائی صد ہے.جن کی تفصیل سوانح فضل عمر کی جلد ۴ ص ۴۷۲ تا ۴۹۶ پر دیکھی جاسکتی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیفات کا دائرہ نہایت وسیع ہے.آپ نے اخلاقیات اور روحانیات کے مختلف پہلوؤں پر بصیرت افروز کتب لکھیں اور آپ ہی کے عقدہ کشا قلم نے عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے پیچیدہ مسائل کی گرہیں بھی کھولی ہیں.آپ شاعر اور ادیب بھی تھے اور مترجم و مفسر قرآن بھی.نیز آپ اعلیٰ درجہ کے مقر ر اور خطیب تھے.آپ کی تقریریں اور خطبات بھی منظم و مرتب کتابوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ کی زندہ جاوید اور دل آویز تصانیف سرچشمہ علم و عرفان ہیں.جو موجودہ و آئندہ نسلوں کیلئے قیامت تک مشعل راہ کا کام دیں گی.حضور خود فرماتے ہیں :.وہ کون سا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا.مسئله نبوت، مسئله کفر، مسئله خلافت، مسئله تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف، اسلامی اقتصادیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرے وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون نہیں تھا.مجھے خدا نے اس خلافت را شده ص ۲۵۵،۲۵۴) خدمت کی توفیق دی.“ ذیل میں نمونہ کے طور پر حضور کی صرف چند کتب کے نام پیش ہیں:.ا تفسیر کبیر ۲ تفسیر صغیر ۳.دعوۃ الامیر ۴ تحفۃ الملوک، ۵.حقیقۃ النبوۃ ،۶.سیر روحانی، ۷.انقلاب حقیقی، - فضائل القرآن، ۹.احمدیت کا پیغام، ۱۰.کلام محمود، اا.احمدیت یعنی حقیقی اسلام ،۱۲.ہندوستان کے سیاسی مسائل کا حل، ۱۳.ہستی باری تعالی، ۱۴.ملا لگتہ اللہ ۱۵.دیباچہ تفسیر القرآن ، ۱۶.احمدیت کا پیغام ۱۷.تقدیر الہی ، ۱۸.خلافت را شده ۱۹.نظام نو ۲۰.اسلام کا اقتصادی نظام،۲۱.عرفان الہی.
156 قومی وملی خدمات حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایک مذہبی جماعت کے لیڈر تھے.اس لئے آپ ملک کے سیاسی معاملات میں حصہ لینا پسند نہیں کرتے تھے.لیکن چونکہ آپ کے دل میں مسلمانوں کے لئے بہت ہی ہمدردی تھی اور ملکی معاملات کا مسلمانوں پر بھی اثر پڑتا تھا.اس لئے آپ نے کئی نازک اور ضروری مواقع پر بڑی عمدگی کے ساتھ مسلمانوں کی راہنمائی اور مدد کی مثلاً ۱.۱۹۲۱ء میں مسلمانوں میں تحریک ہجرت شروع ہوئی بعض مسلمان لیڈروں نے یہ تحریک کی کہ چونکہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت ہے جو کہ کافر ہیں اس لئے اس ملک سے ہجرت کر کے مسلمانوں کو افغانستان چلے جانا چاہئے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ یہ تحریک ناکام ہوگی اور یہ مسلمانوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ تحریک ناکام ہوگئی اور ہجرت کرنے والے سخت نقصان اٹھا کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے.۲.ہندوؤں کی طرف سے متواتر ایسی کتابیں شائع ہوتی رہتی تھیں جن میں آنحضرت ﷺ کی شان میں سخت تو ہین کی جاتی تھی اور مسلمانوں کے دل دکھائے جاتے ہیں.اس کی وجہ سے کئی جگہ ہندو مسلم فساد بھی ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک ایسا قانون بنوانے کی کوشش کی جس سے کوئی شخص مذہبی پیشواؤں کی بے عزتی نہ کر سکے.چنانچہ حضور کی کوشش سے حکومت نے ایک ایسا قانون بنایا جس میں مذہبی پیشواؤں کی عزت کی حفاظت کرنے کی کوشش کی گئی تھی.۳.ہندو ملک میں ہر جگہ چھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے مسلمان نقصان اٹھاتے تھے.پھر مسلمانوں میں باہمی اختلاف بھی بہت تھے جن کی وجہ سے وہ متحد ہو کر ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یہ دیکھا تو مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی اور یہ تجویز پیش کی کہ خواہ عقائد کے لحاظ سے مسلمانوں میں آپس میں کتنا ہی اختلاف ہو لیکن سیاسی میدان میں جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اسے سیاسی لحاظ سے مسلمان ہی سمجھنا چاہئے اور سب کو متحد ہو کر ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.۴.۱۹۲۸ء میں آپ نے سیرۃ النبی کے جلسوں کی تحریک فرمائی یعنی سال میں ایک بار کوئی تاریخ مقرر کر کے اس میں جلسے کرنے کا پروگرام بنایا گیا ان جلسوں میں آنحضرت ﷺ کی سیرت پر مسلمانوں سے اور شریف غیر مسلموں سے تقریریں کرائی گئیں.یہ تحریک بہت بابرکت ثابت ہوئی اس کی وجہ سے کئی غیر مسلموں کے دلوں میں جو تعصب تھاوہ دور ہو گیا.اور انہیں آنحضرت کی سیرت کا علم ہو کر آپ کے ساتھ عقیدت پیدا ہوئی.
157 ۵.۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۱ء تک انگریزوں کی حکومت نے ہندوستان کے آئین میں تبدیلیاں کرنے اور حکومت میں ہندوستانیوں کو شریک کرنے کے سلسلہ میں کئی کوششیں کیں.اس سلسلہ میں کئی کانفرنسیں ہوئیں جن میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے نمائندوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کی پوری پوری کوشش کی.کئی کتابیں لکھیں ہندوستان کے سیاسی مسائل کاحل وغیرہ.چنانچہ مسلمان نمائندوں نے جن میں چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل تھے.حضور کی ہدایت اور تجویزوں سے بہت فائدہ اٹھایا اور کئی خطروں سے مسلمانوں کو محفوظ کر لیا.4 کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے مگر وہاں ایک غیر مسلم راجہ کی حکومت تھی جومسلمانوں پر بہت ظلم کرتی تھا اور ہر رنگ میں انہیں وہاں دباتی چلی آتی تھی.جب یہ مظالم حد سے بڑھ گئے تو حضرت خلیفتہ انسیح الثانی کے دل میں کشمیری مسلمانوں کے لئے بہت ہی ہمدردی پیدا ہوئی چنانچہ آپ نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا.آپ کی تحریک سے کشمیری مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی اور انہوں نے سردھڑ کی بازی لگا کر اپنی آزادی کی تحریک شروع کی جس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان کی راہنمائی فرمائی.ہندوستان کے بڑے بڑے مسلمان لیڈروں نے مل کر ۱۹۳۱ء میں ایک کمیٹی بنائی جس کا نام تھا آ انڈیا کشمیر کمیٹی اس میں ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم اور دوسرے کئی بڑے بڑے مسلمان لیڈر شامل ہوئے اس کمیٹی کا صدر حضرت خلیفہ مسیح الثانی کو بنایا گیا.اس کمیٹی نے حضور کی راہنمائی میں بہت کامیابی حاصل کی.کشمیر کے ہندو راجہ کو کئی ایسے حق مسلمانوں کے دینے پڑے جن سے وہ پہلے محروم چلے آتے تھے.چنانچہ کشمیر کے بڑے بڑے مسلمان لیڈر جن میں شیخ محمدعبداللہ بھی شامل تھے.حضرت اقدس سے قادیان جا کر ملتے رہے اور انہوں نے زبانی اور تحریری بھی یہ اعتراف کیا کہ حضور نے عین وقت پر کشمیری مسلمانوں کی بہت بھاری مدد کی ہے.جب مخالفین نے یہ دیکھا کہ احمدی مسلمانوں میں بہت ہی مقبول ہورہے ہیں اور سب بڑے بڑے مسلمان لیڈر ہر ضروری مسئلہ میں امام جماعت احمدیہ سے مشورہ کرتے ہیں اور پھر اس مشورہ پر عمل بھی کرتے ہیں تو حسد کی وجہ سے ان کا براحال ہو گیا انہوں نے کشمیر کمیٹی میں بھی احمدی اور غیر احمدی کا سوال کھڑا کر دیا اور ہر جگہ لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑکانے لگے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان کی شرارتوں کو دیکھا تو آپ نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا.مگر اس استعفیٰ کے باوجود کشمیری مسلمانوں کی آخری وقت تک مدد کرتے رہے.ے.جب ملک کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تو اس وقت بھی حضرت اقدس نے مسلمانوں کے مفاد کے لئے بہت سے اہم کام سرانجام دیئے.قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم ہندوستانی مسلمانوں کے اختلاف دیکھتے ہوئے لندن چلے گئے تھے اور وہاں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی.حضرت اقدس نے اپنے نمائندے کے ذریعے
158 انہیں تحریک کی کہ آپ کو ہندوستانی مسلمانوں کی راہنمائی کے لئے واپس وطن آجانا چاہئے.چنانچہ قائد اعظم واپس تشریف لے آئے اور آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مسلمانوں کو جمع کرکے پاکستان حاصل کرنے کی جدو جہد شروع کی جسے خدا تعالیٰ نے کامیابی عطافرمائی.۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم کے وقت کئی ایسے نازک وقت آئے جبکہ بظاہر معمولی سی غلطی کے نتیجہ میں مسلمانوں کو بہت نقصان کا خطرہ تھا.ایسے نازک موقعوں پر بھی حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے قائد اعظم کی پوری پوری مدد کی اور پاکستان قائم کرنے کی جدوجہد میں حصہ لیا.جماعت کے نام وصیت پہلے ۱۹۴۷ء میں ہجرت کے موقع پر اور پھر ۱۹۵۸ء میں اپنی بڑھتی ہوئی بیماری کو مدنظر رکھ کر حضور نے وصیت کے رنگ میں جماعت کے نام کئی پیغام تحریر فرمائے جنہیں پڑھنا اور یاد رکھنا بہت ضروری ہے.صرف ایک پیغام کا ایک حصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے جو حضور نے اگست ۱۹۴۷ء میں ہجرت کے موقع پر تحریر فرمایا تھا.احباب کو چاہئے کہ اسے بار بار پڑھیں.اسے یاد رکھیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں.حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدم کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے.سلسلہ کا جھنڈا نیچانہ ہو.اسلام کی آواز پست نہ ہو.خدا کا نام ماند نہ پڑے.قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ اور خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کراؤ زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میں ہوتے رہیں...خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو.صداقت تمہارا زیور ، امانت تمہارا حسن اور تقویٰ تمہارا لباس ہو.خدا تمہارا ہو اور تم اس کے ہو.آمین! (الفضل اانومبر ۱۹۶۵ء) کریمانہ اے عمر تیرے اوصاف یاد آ کے بناتے ہیں ہر روح کو دیوانه ڈھونڈیں تو کہاں ڈھونڈیں پائیں تو کہاں پائیں سلطان بیاں تیرا انداز خطیبانہ قدرت نے جو بخشا تھا اک نور سکوں دل کو آنکھوں او جهل ہے وہ نرگس مستانه (مبارک احمد عابد )
159 خلافت ثانیہ کے شیریں ثمرات ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق مخلصین جماعت احمدیہ کی دردمندانہ دعاؤں کے ساتھ مسند خلافت پر متمکن ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود کی پُر در داور مقبول دعاؤں کا عظیم ثمرہ تھے.آپ کا وجود قبولیت دعا کا ایک زندہ اور مجسم معجزہ تھا.دعاؤں کے ساتھ آپ کو ایک عجیب نسبت تھی.دعاؤں نے آپ کو خلعت وجود بخشا دعائیں ہی آپ کا سرمایہ حیات رہیں.حضرت مصلح موعودؓ کو خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی نہایت مشکل اور صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر مشکل وقت میں اپنے خاص فضل اور رحم کا سہارا دیا اور خطر ناک سے خطرناک وادی سے آپ اپنی جماعت کو نہایت کامیابی اور کامرانی سے بچاتے ہوئے فتح و نصرت کی نئی منازل کی طرف بڑھتے چلے گئے.دوست تو الگ رہے اولوالعزمی کے اس پیکر کو وہ مشاہیر بھی خراج تحسین پیش کئے بغیر نہ رہ سکے جو دوستوں کے زمرہ میں بھی شامل نہ تھے.چنانچہ خواجہ حسن نظامی شدید مخالفانہ حالات میں آپ کے ثبات قدم سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں کہ:.مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان سے کام کر کے اپنی مغلی جوانمردی کو ثابت کر دیا.لاریب آپ نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان سے کام کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک ”صاحب شکوہ اور اولوالعزم مرد تھے جس کے سر پر خدا کا سایہ تھا.خلافت ثانیہ کا مبارک دور ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو شروع ہوا اور ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کوختم ہوا.گویا خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ دور تقریباً باون سال تک جاری رہا اس عرصہ میں حضور نے اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے اتنے کارنامے سرانجام دیئے اور ان کے اتنے عظیم الشان نتائج نکلے کہ اس کتاب میں ان کو گنوانا بھی ممکن نہ ہوگا.لیکن میں یہاں پر آپ کے دور خلافت میں رونما ہونے والے اہم حالات و واقعات اور ترقیات سلسلہ کی کچھ جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں.
160 دور خلافت ثانیہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں ۱۲ اپریل ۱۹۱۴ء کو پہلی مجلس شوری کا انعقاد ہوا.دسمبر ۱۹۱۶ء کو مینارہ اسیح کی تکمیل ہوئی.اپریل ۱۹۱۴ء میں احمد یہ مشن لندن کا قیام عمل میں آیا.۱۹۱۵ء میں سیلون اور ماریشس میں احمد یہ مشن کا قیام ہوا.۱۹۱۶ء میں پہلے پارہ انگریزی ترجمہ کی اشاعت ہوئی.یکم جنوری ۱۹۱۹ء کو صدرانجمن احمدیہ میں مختلف نظارتوں کا قیام ہوا.۱۹۲۱۲ء میں امریکہ وافریقہ میں دعوت الی اللہ کا آغاز ہوا.۱۹۲۲ء میں مجلس مشاورت کا باقاعدہ آغاز ہوا.۲۵ دسمبر ۱۹۲۲ء میں لجنہ اماءاللہ کا قیام عمل میں آیا.۱۹۲۳ء مسجد اقصیٰ قادیان کی توسیع عمل میں آئی.۱۳ جولائی ۱۹۲۴ء کو پہلا سفر یورپ اختیار فرمایا اور ۱۹ اکتوبر کو بیت الفضل لندن کی بنیاد رکھی.۱۹۲۵ء میں محکمہ قضاء کا اجراء ہوا.۱۹۲۵ء میں انڈو نیشیا مشن کا قیام عمل میں آیا.۱۹۲۶ء میں احمدی مستورات کے جلسہ سالانہ اور رسالہ مصباح کا اجراء ہوا.۲۲ مئی ۱۹۲۶ء کو قصر امامت کی بنیاد رکھی گئی.۲۰ مئی ۱۹۲۸ء کو جامعہ احمدیہ کا افتتاح ہوا.۱۹۲۸ء کو نصرت گرلز سکول کا اجراء ہوا.۱۷ جون ۱۹۲۸ء کو سیرۃ النبی کے جلسوں کا آغاز ہوا.۲۵ جولائی ۱۹۳۱ء کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے./اکتوبر ۱۹۳۲ء کو آپ کی تحریک پر پورے ہندوستان میں پہلا یوم دعوت منایا گیا.۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا اجراء ہوا.۳۱ جنوری ۱۹۳۸ء کو مجلس خدام الاحمد یہ ومجلس اطفال الاحمدیہ کا قیام ہوا.فروری ۱۹۳۹ء کو نا صرت الاحمدیہ کا قیام ہوا.
۱۹۴۰ ہجری شمسی تقویم کا آغاز ہوا.161 ۲۶ جولائی ۱۹۴۰ء کو مجلس انصاراللہ کی بنیاد رکھی گئی.۱۹۴۳ء کو افتاء کمیٹی کا قیام عمل میں آیا.۲۸ جنوری ۱۹۴۴ء کو قادیان میں پہلی دفعہ مصلح موعود ہونے کا دعویٰ فرمایا.۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کالج قادیان کا احیاء ہوا.* ۱۹۴۵ء میں یورپ اور دیگر ممالک میں وسیع پیمانے پر تبلیغ اسلام کرنے کی غرض سے مبلغین اسلام کے ایک بڑے وفد کی روانگی ہوئی.۱۹۴۵ء میں فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا.۱۹۴۶ء میں دنیا کی آٹھ مشہور زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی تکمیل عمل میں آئی.۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو نئے مرکز ربوہ کا افتتاح فرمایا.19 ستمبر ۱۹۴۹ء کور بوہ میں حضرت مصلح موعود کی مستقل رہائش شروع ہوئی.۳۱ مئی ۱۹۵۰ء کو مندرجہ ذیل مرکزی عمارات کاربوہ میں افتتاح ہوا.قصر امامت، دفا تر صدرانجمن احمدیه، دفاتر تحریک جدید، دفتر لجنہ اماءاللہ تعلیم الاسلام ہائی سکول.۱۴۳ جون ۱۹۵۱ء کو جامعہ نصرت کا افتتاح ہوا.م ۱۵ را پریل ۱۹۵۲ء مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے دفتر کا افتتاح فرمایا.۲۶ جون ۱۹۵۳ء کو تعلیم الاسلام کالج کا سنگ بنیا درکھا گیا.۱۹۵۵ء میں حضور نے دوسرا سفر یورپ اختیار فرمایا.۱۹۵۶ء میں فضل عمر ہسپتال ربوہ کا سنگ بنیا درکھا گیا.۱۹۵۷ء میں تفسیر صغیر کی اشاعت ہوئی.۲۸ دسمبر ۱۹۵۷ء کوتحریک ”وقف جدید کا اعلان کیا گیا.۱۹۵۹ء میں قرآن کریم کے جرمنی ترجمہ کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت ہوئی.
162 خلافت ثالثه قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب انتہائی کامیاب زندگی گزار کرے اور ۸/ نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی رات کو وفات پاگئے.آپ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند اکبر حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب (ایم.اے آکسن ، ۱۹۰۹ء تا ۱۹۸۲ء) ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو بطور خلیفہ اسیح الثالث منصب خلافت پر فائز ہوئے.آپ کا وجود بھی خدائی بشارتوں کا حامل تھا.پہلی بشارت :.حضور کو القاء کیا گیا کہ ۱۹۶۵ء سے قربانیوں کے ایک عہد جدید کا آغاز ہونے والا ہے اس امر کا ثبوت کہ اس نئے عہد سے مراد خلافت ثالثہ ہے واضح طور پر یہ ہے کہ حضور کو ۱۹۴۴ء میں بذریعہ رویا یہ دکھایا گیا کہ آپ کی مزید عمرا کیس ” تک ہوگی (الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۴۴ء ) اس کے علاوہ حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء میں نئی پیدائش سے بیعت مراد لی.چنانچہ فرمایا :.بیعت کا وقت تو نہایت سنجیدگی کا وقت ہوتا ہے.یہ تو نئی پیدائش کا وقت ہوتا ہے“.(ص۱۸) وو دوسری بشارت :.حضرت مصلح موعودؓ کو جناب الہی کی طرف سے یہ الہامی بشارت دی گئی کہ آپ کے وصال پر ” جماعت میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہوگی ( تفسیر کبیر العلق ص۱۸۹).بالفاظ دیگر پوری جماعت بالا تفاق خلافت ثالثہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی جیسا کہ یہ روح پرور نظارہ پوری دنیا نے دیکھا.تیسری بشارت :.حضور نے ۲۶ ستمبر ۱۹۰۹ء کو ایک خط میں رقم فرمایا کہ:.مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا“.(الفضل ۱/۸اپریل ۱۹۱۵ء) خداتعالی کی قادر نہ تجلیات ملاحظہ ہوں کہ پاکستانی پر یس نے حضرت خلیفتہ امسح الثالث کے الثالث کے خلیفہ منتخب ہونے کی خبر دیتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی ” ناصر الدین ہی لکھا.(نوائے وقت ۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء ص ا ، امروزه انومبر ۱۹۶۵ء ص ۶)
163 حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا عہد خلافت انتخاب خلافت ثالثه انتخاب خلافت کے لیے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ے اپنی زندگی میں ہی مجلس مشاورت میں جماعت کے نمائندوں کے مشورہ سے ایک مجلس انتخاب خلافت قائم فرما دی تھی اور اس کے قواعد بنا دیے تھے.چنانچہ حضور کی وفات پر مورخہ ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو ساڑھے سات بجے شب بعد نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں اس مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس زیر صدارت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ منعقد ہوا.پہلے سب ممبروں نے قاعدے کے مطابق خلافت سے وابستگی کا حلف اٹھایا.اس کے بعد حضرت خلیفہ ثانی کے بڑے صاحبزادے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو خلیفتہ اسیح الثالث منتخب کیا اور پھر سب ممبروں نے اسی وقت آپ کے دست مبارک پر بیعت کی.اس کے بعد آپ نے مختصر خطاب فرمایا اور پھر اس وقت جتنے احباب باہر موجود تھے انداز پانچ ہزار) ان سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح جماعت احمد یہ پھر ایک ہاتھ پر جمع ہوگئی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے مختصر حالات زندگی حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب مورخہ ۱۶ نومبر ۱۹۰۹ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.بچپن سے آپ حضرت اماں جان کی خاص تربیت میں رہے.۷ ارا اپریل ۱۹۲۲ء کو جبکہ آپ کی عمر صرف تیرہ برس کی تھی.آپ نے قرآن مجید مکمل طور پر حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی تھی.قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب سے عربی اور اردو کی تعلیم حاصل کرتے رہے.اس کے بعد آپ دینی علم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.جولائی ۱۹۲۹ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے امتحان مولوی فاضل پاس کیا.اس کے بعد آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا.پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۳۴ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی.اگست ۱۹۳۴ء کو حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ آپ کی شادی ہوئی.ستمبر ۱۹۳۴ء کو آپ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی ہدایت کے مطابق انگلستان تشریف لے گئے.اس موقع پر حضور نے آپ کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا:.میں تم کو انگلستان...اس لئے بھیجو رہا ہوں کہ مغرب کے نقطہ نظر کو سمجھو تمہارا کام یہ ہے کہ تم (دین
164 حق ) کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے لئے سامان جمع کرو.انگلستان کے قیام کے دوران آپ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اشاعت دین حق میں مصروف رہے.لندن میں آپ نے ایک رسالہ بھی الا سلام کے نام سے جاری فرمایا.آپ نومبر ۱۹۳۸ء کو کامیابی کے ساتھ واپس تشریف لائے.یورپ سے واپس تشریف لا کر پہلے آپ جامعہ احمدیہ کے پروفیسر رہے اور پھر ۱۹۳۹ء میں آپ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل مقرر ہوئے.فروری ۱۹۳۹ء سے لے کرا کتوبر۱۹۴۹ ء تک آپ مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر رہے اور پھر نومبر ۱۹۵۴ء تک آپ اس کے نائب صدر رہے کیونکہ صدارت کے عہدے پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی خود فائز تھے.آپ کے عہد میں خدام الاحمدیہ نے نمایاں اور شاندار ترقی کی.مئی ۱۹۴۴ء سے لے کر نومبر ۱۹۶۵ء تک ( تا خلافت ) آپ تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل رہے.۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء کو آپ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے.۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران جب مارشل لاء نافذ ہوا تو آپ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں.۲۸ مئی ۱۹۵۳ء کو آپ رہا ہوئے.۱۹۵۴ء میں آپ کو مجلس انصار اللہ کا صدر بنادیا گیا.آپ کے ذریعہ سے اس تنظیم کو ایک نئی زندگی حاصل ہوگئی.مئی ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے آپ کو صدرا مجمن احمدیہ کا صدر مقرر فرمایا.چنانچہ انتخاب خلافت تک آپ اس حیثیت سے بھی جماعت کا نہایت اہم کام سرانجام دیتے رہے.۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی وفات پر آپ خلافت ثالثہ کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وہ بشارت پوری ہوئی جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو اللہ تعالیٰ نے دی تھی.حضور نے ۲۶ ستمبر ۱۹۰۹ء کو یہ تحریر فرمایا تھا کہ:.مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ میں تجھے ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا.اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا“.( تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۳۲۰) خلافت ثالثہ کا ظہور بھی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہایت کامیاب اور مبارک رہا.آپ کے دور خلافت کی پیشگوئی بھی آج سے ہزاروں سال قبل سے چلی آتی ہے.چنانچہ اسرائیل کی مشہور حدیث طالمود میں آج سے ہزاروں سال قبل یہ بتایا گیا تھا کہ جب مسیح فوت ہو جائے گا تو اس کی بادشاہت پہلے اس کے بیٹے اور پھر اس کے پوتے کو ملے گی.چنانچہ خلافت ثالثہ کے ذریعہ یہ پیشگوئی لفظ بلفظ پوری ہوگئی.آپ کی اولاد میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.جبکہ آپا طاہرہ صدیقہ آپ کی حرم ثانی ہیں.
165 خلافت ثالثہ کے شیریں ثمرات خلافت ثالثہ کا بابرکت عہد سترہ سال تک رہا.اس سترہ سالہ دور میں بھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے کئی نشان ہم دیکھ چکے ہیں جو اس خلافت میں جاری ہونے والی بابرکت تحریکوں کے ذریعہ ظاہر ہوئے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات پر جماعت کے تمام افراد جس طرح خلافت ثالثہ کے ذریعے ایک ہاتھ پر جمع ہو گئے وہ احمدیت کی صداقت اور خلافت احمدیہ کی سچائی کا ایک نشان ہے.آپ نے جماعت کو یہ عظیم ماٹو دیا:."Love For All Hatered For None" آپ نے براعظم افریقہ، یورپ اور امریکہ کے کئی کامیاب دورے کئے.براعظم افریقہ میں احمدیت کا پیغام جس شان سے آپ کے بابرکت دور میں پھیلا وہ ایک عظیم درخشندہ باب ہے.خدا تعالیٰ کے اذن سے جاری کردہ نصرت جہاں سکیم بہت ہی بابرکت ثابت ہوئی.سینکڑوں بیوت الذکر تعلیمی ادارے اور ہسپتال قائم ہوئے اور ان میں احمدی مبلغین ، اساتذہ اور ڈاکٹر ز نے عظیم الشان خدمات سرانجام دیں.حضور کی وفات ماہ جون ۱۹۸۲ء کے ابتدائی ایام میں جبکہ حضور اسلام آباد میں مقیم تھے.حضور کو اچا نک دل کے عارضہ کا شدید حملہ ہوا ہرممکن علاج کیا گیا لیکن خدا کی مشیت غالب آئی اور حضور ۹ جون ۱۹۸۲ء کی رات کو ۳ ۷ برس کی عمر میں اسلام آباد، پاکستان میں انتقال فرما کر محبوب حقیقی سے جاملے.اناللہ وانا الیہ راجعون آپ کا جنازہ اسلام آباد سے ربوہ لایا گیا جہاں پر ۱۰ جون ۱۹۸۲ء کو حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے نماز جنازہ پڑھائی.جس میں پاکستان اور بیرون ممالک سے آئے ہوئے ہزار ہا احباب شامل ہوئے.نماز جنازہ کے بعد آپ کا جسد عصری مقبرہ بہشتی ربوہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے مزار کے پہلو میں سپردخاک کر دیا گیا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کی اچانک وفات کا المناک سانحہ جماعت احمدیہ کے لئے ایک بہت بڑا غیر معمولی صدمہ تھا.مگر جماعت نے دینی تعلیم کے مطابق اسے نہایت صبر کے ساتھ برداشت کیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے اتحاد و اتفاق کو قائم رکھا اور حضرت خلیفتہ اسیح الرابع کے وجود میں قدرت ثانیہ کا چوتھا مظہر عطا کر کے اپنے وعدہ کے مطابق جماعت کے خوف کو امن و سکینت میں بدل دیا.الحمد للہ علی ذلک حسن و جمال کے پیکر اور مسکراہٹوں کے اس سفیر کے بابرکت دور خلافت میں ہونے والی ترقیات اور آپ کے عظیم کارناموں کی چند جھلکیاں پیش ہیں.
166 دور خلافت ثالثہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں ۷ دسمبر ۱۹۶۵ء کو حضور نے تحریک فرمائی کہ کوئی احمدی رات کو بھوکا نہ سوئے اور امراء جماعت کو اس کا ذمہ دار قرار دیا.۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء کو حضور نے خدام کو ماٹو دیا ” تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں.۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء کو فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کا اعلان فرمایا.جماعت سے ۲۵لاکھ روپے کا مطالبہ کیا.اسی جلسہ پر حضور نے وقف بعد ریٹا رمنٹ کی تحریک بھی فرمائی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئی کے مطابق گیمبیا کے سرایف ایم سنگھاٹے نے اسی سال حضور سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا کپڑا اطلب کیا جو انہیں بھجوایا گیا.۴ فروری ۱۹۶۶ء کوتحریک تعلیم القرآن کا اعلان فرمایا.۱۸ مارچ ۱۹۶۷ء کو تحر یک وقف عارضی کا اعلان.۲۲۶ را پریل ۱۹۶۶ء کو تحریک جدید کے دفتر سوم کے اجراء کا اعلان حضور نے فرمایا کہ یہ دفتر یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے جاری شدہ سمجھا جائے گا تا کہ حضرت مصلح موعود کے دور کی طرف منسوب ہو.4 مئی ۱۹۶۶ء کو ڈنمارک میں جماعت احمدیہ کی پہلی البیت‘ کا سنگ بنیاد کو پن ہیگن میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے رکھا.خدا کا یہ گھر صرف احمدی مستورات کے چندہ سے تعمیر ہوا.9 ستمبر ۱۹۶۶ء کو بدرسوم کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا.۷ اکتو بر ۱۹۶۶ء کو وقف جدید دفتر اطفال کا قیام عمل میں آیا.۱۳ را کتوبر ۱۹۶۶ءکودفاتر صدرانجمن احمدیہ کے نئے بلاک کی بنیا درکھی.۲۸ اکتوبر ۱۹۶۶ ء کو البیت الاقصیٰ کا سنگ بنیا درکھا.جنوری ۱۹۶۷ء کو اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ ایک لاکھ کی تعداد میں شائع ہوا.را پریل ۱۹۶۷ء کو فضل عمر فاؤنڈیشن نے علمی تصانیف پر ۵ ہزار روپے کے انعامات دینے کا اعلان کیا.۸ تا ۱۰ جولائی ۱۹۶۷ء کو دورہ یورپ (مغربی جرمنی.۱۱ تا ۱۴ جولائی سوئٹزر لینڈ.۱۴ تا ۱۶ جولائی ہالینڈ.۱۶ تا ۲۰ جولائی مغربی جرمنی.۲۱ تا ۲۶ جولائی ڈنمارک.۲۱ جولائی بیت النصرت کو پن ہیگن (ڈنمارک) کا افتتاح - ۲۸ جولائی وانڈ زورتھ ٹاؤن ہال لندن میں حضور کا خطاب بعنوان ”امن کا پیغام اور ایک انتباہ.) ۱۹۶۷ء میں حضور نے اپنا یہ الہام بیان فرمایا ” میں تینوں ایناں دیاں گا کہ تورج جاویں گا“.
167 فروری ۱۹۶۸ء کو کینیڈا میں با قاعدہ جماعت کا قیام ہوا.۱۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے لئے امریکن فاؤنڈیشن کی طرف سے ایٹم کے پرامن استعمال کے انعام کا اعلان ہوا.مئی ۱۹۶۹ء کو کنڈے نیویا کے مربی سلسلہ مکرم کمال یوسف صاحب کا دورہ آئس لینڈ جس سے وہاں پہلی دفعہ دین حق کی اشاعت ہوئی.استمبر ۱۹۶۹ء کو حضور نے احمد یہ ہال کراچی میں سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات زبانی یاد کرنے کی تحریک فرمائی.۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو حضور نے خلافت لائبریری ربوہ کا سنگ بنیادرکھا.۲۱ فروری ۱۹۷۰ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب عالمی عدالت انصاف کے صدر منتخب ہوئے.یکم اپریل تا جون ۱۹۷۰ء کو حضور کا دورہ یورپ و مغربی افریقہ ( ۵/اپریل.سوئٹزرلینڈ.دوران قیام البیت الحمودز یورک کا افتتاح.۹ را پریل.مغربی جرمنی.۱ تا ۱۷ را پریل نائیجیریا صدر نائیجیریا یعقو بوگوون سے ملاقات اور ابادان یو نیورسٹی سے خطاب ۲۶ را پریل.دورہ غانا.۲۰ را پریل صدرغانا سے ملاقات ۲۱ / اپریل.احمد یہ مشن ہاؤس کماسی کی دو منزلہ عمارت کا افتتاح ۲۷ تا ۲۹ را پریل - آئیوری کوسٹ - ۱/۲۹اپریل تا یکم مئی لائبیریا ۲۹ اپریل.صدر لائبیریا ٹب مین سے ملاقات حکیم تا مئی.گیمبیا یہ مئی صدر گیمبیا داؤ د جوارا سے ملاقات.اسی ملک میں آپ پر نصرت جہاں سکیم القاء ہوئی.حمد ۵ تا ۴ امئی.سیرالیون.4 مئی وزیر اعظم سیرالیون سے ملاقات د.امئی.”بو میں سیرالیون کی مرکزی احمد یہ عبادت گاہ کا سنگ بنیا درکھا.۲۳ مئی محمود ہال (لندن) کا افتتاح ۲۴ مئی.بیت الفضل لندن میں نصرت جہاں سکیم کا اعلان ۲۵ مئی تا یکم جون.پہلا دورہ پین یکم جون کولندن واپسی ) ۱۲ جون ۱۹۷۰ء کور بوہ میں نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریک کا اعلان.19 جون ۱۹۷۰ء کوحد یفتہ المبشرین کے قیام کا اعلان.۱۲ جولائی ۱۹۷۰ء کو نصرت جہاں آگے بڑھو پروگرام کا اعلان فرمایا.
168 ۳۰ را گست۱۹۷۰ء کو ورلڈ احمد یہ میڈیکل ایسوسی ایشن کا قیام فرمایا اور صدر مکرم کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کو مقرر فرمایا.۱۴ مارچ ۱۹۷۱ ء کو احمد یہ دارالذکر جکارتہ کا افتتاح ہوا.اکتو برا ۱۹۷ء کو حضور نے خلافت لائبریری کا افتتاح فرمایا.یکم مارچ ۱۹۷۲ء کو اہل ربوہ کے لئے کھیلوں اور جسمانی ورزش کا انتظام کرنے کے لئے حضور نے مجلس صحت کے قیام کا اعلان فرمایا.۱۹۷۲ء کو حضور نے البیت الاقصیٰ ربوہ کا افتتاح فرمایا.دسمبر ۱۹۷۲ء کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تفسیر سورہ آل عمران وسورة النساء کی اشاء ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء کو حضور نے ربوہ کو سرسبز و شاداب بنانے کے لئے شجر کاری کی تحریک فرمائی اور دس ہزار درخت لگانے کی سکیم کا اعلان فرمایا.نومبر ۱۹۷۳ء کو حضور نے مجلس انصار اللہ کی صف اول اور صف دوم کے قیام کا اعلان فرمایا.۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء کو حضور نے جلسہ سالانہ پر صد سالہ جوبلی منصوبہ کا اعلان فرمایا.فروری ۱۹۷۴ء کو حضور نے صد سالہ جو بلی کے دعاؤں پر مشتمل روحانی منصوبہ کا اعلان فرمایا.۲۰ فروری ۱۹۷۴ء کو حضور نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت تعمیر ہونے والے گیسٹ ہاؤس کی بنیا درکھی.غیر ملکی مہمانوں کے لئے تعمیر ہونے والا یہ سب سے پہلا گیسٹ ہاؤس ہے.۲۶ را گست ۱۹۷۴ء کو جمہوریہ داھومی کے دارالحکومت پور وٹو نو دو میں پہلی احمد یہ عبادت گاہ کا افتتاح ہوا.۵ استمبر ۱۹۷۴ء کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بیان فرمودہ تفسیر سورۃ مائدہ تا توبہ کی اشاعت.۱۹۷۴ء میں یوگنڈا کی زبان میں ترجمہ وتفسیر قرآن کی اشاعت ہوئی.۵/اگست تا ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۵ء کو حضور نے سفر یورپ اختیار فرمایا.اس دورے میں حضور انگلستان، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے ، اسی دوران ۲۴، ۲۵ اگست جماعت احمدیہ انگلستان کے ااویں جلسہ سالانہ سے اختتامی خطاب فرمایا.انگلستان کے سالانہ جلسہ میں امام وقت کی شمولیت کا یہ پہلا موقع تھا.۲۷ستمبر ۱۹۷۵ء کو حضور نے گوٹن برگ ( سویڈن ) میں صدسالہ جو بلی منصوبہ کے تحت تعمیر ہونے والے پہلے بیت الذکر ناصر کا سنگ بنیا درکھا.۲۷ دسمبر ۱۹۷۵ء کو جلسہ سالانہ پر حضور نے پوری قوم اور جماعت کے قابل طلباء کی بیرونی ممالک میں
169 اعلیٰ تعلیم کے لئے ۶ وظائف کا اعلان فرمایا.ان میں سے انگلستان، امریکہ، کینیڈا اور انڈونیشیا نے ایک ایک اور غانا نے دود و وظائف کی ذمہ داری قبول کی.۲۰ / اگست ۱۹۷۶ء کو بیت ناصر گوٹن برگ ( سویڈن ) کا افتتاح فرمایا.۲۶ راگست ۱۹۷۶ء ناروے، ۲۹ اگست ڈنمارک، یکم ستمبر جرمنی ، ستمبر سوئٹزرلینڈ ، ۲۱ ستمبر ہالینڈ ، ۴ ستمبر لندن (انگلستان) ۱۵ ستمبر تا ۱۷ اکتو بر انگلستان کی احمدی جماعتوں کا تفصیلی دورہ کیا.دسمبر ۱۹۷۶ء کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تفسیر سورۃ یونس تا کہف شائع ہوئی.اسی سال یورو با زبان میں نائیجیریا سے ترجمہ قرآن شائع ہوا.۲۳ مئی ۱۹۷۷ء کو مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کا پہلا سالانہ اجتماع.مئی ۱۹۷۷ء کو کینیڈا میں احمد یہ بیت الذکر کی تعمیر کیلئے زمین خریدی اور مشن ہاؤس کا قیام عمل میں آیا.۲ ۳ ۴ جون ۱۹۷۸ء کو لندن میں کسر صلیب کا نفرنس منعقد ہوئی حضور نے ۴ جون کو اختتامی خطاب فرمایا.برٹش کونسل آف چرچز کی دعوت اور حضور کا چیلنج.۲۵ جولائی تا اکتوبر ۱۹۷۸ء حضور کا دورہ یورپ.( ناروے، ۳۱ جولائی سویڈن ،۳ راگست ڈنمارک، ۸/اگست مغربی جرمنی ، ۱۹ / اگست لندن ۱۱ /اکتوبر ربوہ میں واپسی.) ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء کو ایران میں شہنشاہیت کے خاتمہ سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی یہ پیشگوئی ایک پھر پوری ہوئی.” تزلزل در ایوان کسری فتاد ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء کو احمد یہ مشن ہاؤس کیلگری (کینیڈا) کا افتتاح ہوا.9 مارچ ۱۹۷۹ء کو قرطبہ (سپین) میں نئے مشن کا قیام عمل میں آیا.۱۵ اکتوبر ۱۹۷۹ء کو ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبل پرائز دینے کا اعلان کیا گیا.نومبر ۱۹۷۹ء کو ہانگ کانگ سے ایک ہزار اور امریکہ سے ۲۰ ہزار کی تعداد میں انگریزی ترجمہ قرآن کی اشاعت ہوئی.۱۰ دسمبر ۱۹۷۹ء کو ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے نوبل پرائز وصول کیا.۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء کو حضور نے جماعت کو سائنسی میدان میں بلندیوں پر پہنچانے کے لئے عظیم منصوبے کا اعلان کیا.۱۹۷۹ء کو وظائف کمیٹی کا قیام عمل میں آیا.صدر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مقرر ہوئے ۱۹۷۹ء کو غانا سے انگریزی ترجمہ قرآن ۱۰ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا.
170 اس سال سپین اور ناروے میں بیوت الذکر کی زمین خریدی گئی.امریکہ میں الا کھ قرآن کے نسخے پھیلانے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس پر عمل درآمد ہوا.ے مارچ ۱۹۸۰ء کو حضور نے تحریک فرمائی کہ ہر گھر میں تفسیر صغیر اور تفاسیر بانی سلسلہ احمدیہ کا ہوناضروری ہے.۱۳ جون ۱۹۸۰ء کو ادائیگی حقوق طلباء کے تحت تقسیم تمغہ جات کی پہلی تقریب منعقد ہوئی.۲۶ جون تا ۲۶ راکتو بر ۱۹۸۰ء کو چار براعظموں کے ۱۳ ممالک کا دورہ فرمایا.(خلاصہ:.۲۹ جون مغربی جرمنی.۱۲ جولائی سوئٹزر لینڈ.۱۴ جولائی آسٹریا.۱۹ جولائی ہالینڈ.۲۳ جولائی ڈنمارک.۲۸ جولائی سویڈن.۳۱ جولائی ناروے.یکم اگست.بیت النور اوسلو (ناروے) کا افتتاح فرمایا.۴ راگست ہالینڈ.۷ اگست انگلستان.۱۸ اگست نائیجیر یا ۲۴ را گست غانا.۲۴ اگست.غانا کے صدرمملکت سے ملاقات یہ ستمبر کینیڈا.استمبر امریکہ ۲۳ستمبر انگلستان.۳۰ ستمبر.مانچسٹر اور ھڈ رز فیلڈ میں احمدیہ مشنوں کا افتتاح.۲ اکتوبر.بریڈ فورڈ میں احمدیہ مشن کا افتتاح.۹ را کتوبر ۱۹۸۰ء کو۷۰۰ سال بعد سپین میں تعمیر ہونے والے بیت الذکر بشارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا حمید ۱۰ نومبر ۱۹۸۰ء کو جاپان کے شہر نا گویا میں احمد یہ سنٹر کی خرید عمل میں آئی.۲۵ را پریل ۱۹۸۱ ء کو حضور نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری اور کچھ دنوں بعد دار السلام النصرت کی دو منزلہ عمارت کا سنگ بنیا درکھا.9 اکتوبر ۱۹۸ء کوٹو کیو میں مشن ہاؤس کا افتتاح ہوا.یکم نومبر ۱۹۸ء کو جماعتی تنظیموں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے مجلس توازن کے قیام کا اعلان ہوا.۲۷ دسمبر کو حضور نے جماعت کو ستارہ احمدیت عطا فرمایا.۲۳ مارچ ۱۹۸۲ء کو حضور نے دفتر صد سالہ احمد یہ جو بلی کا سنگ بنیا درکھا.اس کا نام بیت الاظہا ر ہے.۲۳ مارچ ۱۹۸۲ء کو گیمبیا کے صدر داؤ دا جوار ا نے کنگانگ میں احمدیہ ہسپتال کے نئے حصہ کا سنگ بنیاد رکھا.مئی ۱۹۸۲ء کو ساسبری (زمبابوے) میں مشن ہاؤس کے لئے زمین کی خرید عمل میں آئی.۶ جون ۱۹۸۲ء کو افریقہ کے ملک ٹوگو میں جماعت کے پہلے بیت الذکر کی تعمیر ہوئی.
171 خلافت رابعه حضرت خلیفہ امیج انالسٹ کی وفات کے بعدہ اجون ۱۹۸۲ء کوحضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بطور خلیفہ اسح الرابع منصب خلافت پر فائز ہوئے.حضرت خلیفة مسح الرابع کا ظہور بھی الہی بشارتوں کے تحت ہوا.چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے ایک موقع پر بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر انکشاف کیا ہے کہ:.”خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا اور میں پھر کسی شرک کے زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے آؤں گا جس کے معنے یہ ہیں کہ میری روح ایک زمانہ میں کسی اور شخص پر جو میرے جیسی طاقتیں رکھتا ہوگا نازل ہوگی اور وہ میرے نقش قدم پر چل کر دنیا کی اصلاح کرے گا“.حضرت خلیلی امسیح الرابع سے مختصر حالات زندگی کے (الفضل ۱۹ فروری ۱۹۵۶ء) حضرت خلیفۃ امسیح الرابع حضرت مصلح موعود کے فرزند تھے.آپ ۱۸دسمبر ۱۹۲۸ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.۱۹۴۴ء کو میٹرک کا امتحان پاس کیا.اسی سال آپ کی والدہ محترمہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ جو خاندان سادات میں سے تھیں وفات پاگئیں.گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی اور پھر پرائیویٹ طور پر بی اے پاس کیا.۱۹۴۹ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ۱۹۵۳ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی.۱۹۵۵ء میں حضرت مصلح موعود کے ہمراہ یورپ تشریف لے گئے.اور لندن کے سکول آف اور مینگل سٹڈیز میں تعلیم حاصل کی.جہاں سے اکتوبر ۱۹۵۷ء میں واپس آئے اور پھر دینی خدمات میں ہمہ تن مصروف ہوگئے.۱۹۵۹ء میں آپ کی شادی محترمہ سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ بنت مرزا رشید احمد صاحب کے ساتھ ہوئی.نومبر ۱۹۵۸ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو وقف جدید کی تنظیم کا ناظم ارشاد مقرر فرمایا.آپ نے بیحد محنت کی جس کے نتیجے میں اس تنظیم نے تیز رفتاری سے ترقی کی.نومبر ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۶ء تک آپ نائب صدر مجلس خدام الاحمد ی ر ہے.۱۹۶۰ء کے جلسہ سالانہ پر پہلی مرتبہ خطاب فرمایا اور اس کے بعد تاحیات خطاب فرماتے رہے.۱۹۶۱ء میں افتاء کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے.۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۹ء تک صدر مجلس خدام الاحمدیہ رہے.۱۹۷۰ء میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے.۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں جماعت کا مؤقف بتانے والی ٹیم کے ممبر تھے.۱۹۷۹ء میں آپ صدر مجلس انصاراللہ مقرر ہوئے.خلیفہ
172 منتخب ہونے تک اس عہدہ پر فائز رہے.آپ کی اولا د چار بیٹیاں ہیں.خلافت رابعہ کے شیریں ثمرات خلافت رابعہ کا دور روز اول سے ہی ایک عظیم الشان انقلاب انگیز دور ثابت ہوا اور اس دور کا عنوان ”دعوت الی اللہ تھا.آپ نے ”بیوت الحمد ربوہ “ اور ”دار الیتامی پاکستان اور بیرون پاکستان بنوانے کا شاندار منصوبہ تیار کیا.علاوہ ازیں حضور کی طرف سے متعدد تحریکیں وقتاً فوقتاً ہوتی رہیں اور خدائی تائیدات اور نصرت الہی کے شاندار مظاہر اہل دنیا کی نظروں کے سامنے آتے رہے.جماعت کے خلاف بڑھتی ہوئی پابندیاں دراصل اس امر کا ثبوت ہیں کہ ہم اپنی منزل کی طرف زیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں.علمی خدمات حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی ذات والا صفات ظاہری اور باطنی علوم کا سمندر تھی آپ کو حصول علم کا بے پناہ شوق تھا.جدید ترین سائنسی علوم کے متعلق آپ کی معلومات حیرت انگیز تھیں اور آپ قرآن کریم کی روشنی میں ان علوم کا محاکمہ کرنے پر قادر تھے.دنیا اور خصوصاً جماعت کو ان علوم سے بہرہ ور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو تقریر اور تحریر کا بادشاہ بنایا تھا.آپ ایک قادر الکلام شاعر اور ادیب سحر طراز مقرر اور خطیب تھے.آپ کے ایک ہزار کے قریب خطبات جمعہ ریکارڈڈ ہیں.ان میں سے اکثر سلسلہ وار مضامین پر مشتمل ہیں اور اسلامی علوم کا بے پناہ خزانہ ہیں.ان علوم کی دوسری نہر مجالس عرفان کے ذریعہ جاری ہوئی.یہ ہزار ہا مجالس اردو اور انگریزی میں ہیں.جن کے تراجم کئی زبانوں میں رواں نشر ہوتے رہے.لقاء مع العرب پروگرام ۴۰۰ گھنٹوں پر مشتمل ہے.اردو کلاس، چلڈرن کلاس، اطفال، لجنہ ، جرمن، بنگلہ احباب سے ملاقات کے سینکڑوں پروگراموں نے ان علوم کو سمیٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے.آپ نے سینکڑوں تحریری پیغامات دیئے.سینکڑوں خطوط اپنے ہاتھ سے لکھے.ہر پیغام اور خط ادب کا بھی ایک شہ پارہ ہے اور ایک بلند پایہ ادیب لفظ لفظ جلوہ نمائی کرتا ہے.دنیا کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی مسائل پر آپ کی بے مثال رہنمائی نے آپ کی ذات اور جماعت کو دنیا بھر میں ایک نئی عزت اور وقار عطا کیا.
173 ربوہ اور لندن کے جلسہ ہائے سالانہ کے علاوہ جرمنی، کینیڈا اور امریکہ سمیت درجنوں ممالک کے سالانہ جلسوں پر آپ کے طویل مگر سحر انگیز خطابات آپ کے بے مثال اور نا قابل فراموش تھے ہیں.آپ کی شاعری سچائی کے ساتھ عشق الہی اور محبت رسول میں گوندھی ہوئی ہے.دلوں میں کھب جانے والی اور سینوں میں گھر کرنے والی جس کے بعض شعروں پر غیر بھی سر دھنتے ہیں.آپ کے درس القرآن اور قرآن کلاسز علوم قرآنی کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر ہیں.حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی تالیفات حسب ذیل ہیں :.ا.مذہب کے نام پر خون ۱۹۶۲ء.۲.ورزش کے زینے ، ۱۹۶۵ء.۳.احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ، ۱۹۶۸ء.۴.آیت خاتم النبین کا مفہوم اور جماعت احمدیہ کا مسلک ، ۱۹۶۸ء.۵.سوانح فضل عمر حصہ اول، ۱۹۷۵ء.۶.سوانح فضل عمر حصہ دوم ۱۹۷۵ء.۷.ربوہ سے تل ابیب تک ،۱۹۷۶ء.۸.وصال ابن مریم ، ۱۹۷۹ء.۹.اہل آسٹریلیا سے خطاب اردو اور انگریزی ۱۹۸۳ء.۱۰.مجالس عرفان ۸۴-۱۹۸۳ء کراچی، ۱۹۸۹ء.اا.سلمان رشدی کی کتاب پر محققانہ تبصرہ ، ۱۹۸۹ء.۱۲ حیج کا بحران اور نظام جہان نو، ۱۹۹۲ء.۱۳-Islam's Response to Contemporary Issues ۱۹۹۲ء.۱۴.ذوق عبادت اور آداب دعا ۱۹۹۳ء.۱۵- Christianity A Journey from Facts to Fiction ۱۹۹۴ء.۱۶.زھق الباطل ۱۹۹۴ء.۱۷.کلام طاہر (کراچی)، ۱۹۹۵ء.۱۸.حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ (کراچی)، ۱۹۹۵ء.۱۹.Revelation, Rationality, Knowledge and Truth ، ۱۹۹۸ ء.۲۰.قرآن کریم کا اردوترجمہ،۲۰۰۰ء.۲۱.بیشمار خطبات ولیکچرز سب سے بڑا کارنامہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ جماعت کی عالمی وحدت اور منصب خلافت کا استحکام تھا.آپ نے ہر فتنے کو کچلا ، ہر وسو سے کی بیخ کنی کی ہر رنگ میں اس مضمون کو اس طرح کھولا کہ دنیا کی سازشوں کے باوجود آپ نے اپنی امانت نہایت شاندار طریق سے اگلے خلیفہ کے سپر د کر دی.استفاده از الفضل انٹر نیشنل ۸ تا ۴ ار ا گست ۲۰۰۳ مضمون مولانا عبدالسمیع خان صاحب و احمدیت کی مختصر تاریخ مرتبہ مکرم شیخ خورشید احمد صاحب)
174 خلافت رابعہ میں نفوذ احمدیت ۱۹۸۲ء میں خلافت رابعہ کے آغاز کے وقت جماعت ۸۰ ممالک میں قائم تھی.۲۰۰۳ء میں حضور کی وفات کے وقت جماعت ۱۷۵ ممالک میں قائم ہو چکی تھی.مختلف ممالک میں نئی جماعتوں کے قیام میں غیر معمولی اور حیرت انگیز اضافہ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ۸۵-۱۹۸۴ء میں ۲۸ نئی جماعتیں قائم ہوئی تھیں.ہجرت کے ۱۹ سالوں میں دنیا بھر میں ۳۵۲۵۸ نئی جماعتیں قائم ہوئیں.حضور کی وفات حضور کی انتھک محنتوں اور کاوشوں نے ان کی صحت پر برا اثر ڈالا تا ہم آپ کام کام اور کام میں مگن رہے بالآخر ۱۹ اپریل ۲۰۰۳ کو یہ بچوں اور بڑوں کا محبوب آقا جماعت کو سوگوار چھوڑ کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گیا.حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی نماز جنازہ ۲۳ اپریل بروز بدھ پڑھائی.آپ کے جسد اطہر کو اسلام آباد ٹلفورڈ انگلستان میں سپردخاک کر دیا گیا.انا للہ وانا اليه راجعون اے خدا کے مقدس خلیفہ، اے ہمارے محبوب رہنما !! اللہ اور اس کے رسول اور مسیح موعود کا تجھ پر سلام.احمدیت کے گلی کوچے گلشن اور پھول پھل ہمیشہ تیرے ممنون احسان اور تیرے لئے دعا گور ہیں گے.خلافت رابعہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں جولائی ۱۹۸۲ ء کو دورہ یورپ کے لئے روانگی ہوئی.• ارستمبر کو بیت بشارت سپین کا افتتاح فرمایا.۲۹ اکتوبر ۱۹۸۲ء کو بیت اقصیٰ ربوہ میں بیوت الحمد منصوبہ کا اعلان فرمایا.۱۵ دسمبر ۱۹۸۲ء کو امریکہ کے لئے پانچ نئے مشن ہاؤسز اور بیوت الذکر کی تحریک فرمائی.۲۵ دسمبر ۱۹۸۲ء کو مرکزی مجلس صحت کا قیام عمل میں آیا.۲۸ جنوری ۱۹۸۳ء کو تحریک دعوت الی اللہ کا اعلان فرمایا.ا ا ا ا پریل ۱۹۸۳ء دار الضیافت کے جدید بلاک کی توسیعی منزل کی بنیاد رکھی.اگست ۱۹۸۳ء حضور انور کا دورہ مشرق بعید و آسٹریلیا.بیت الہدی آسٹریلیا کا سنگ بنیا درکھا.۲۰ جولائی ۱۹۸۴ء سے ۷ امئی ۱۹۸۵ء تک حکومت پاکستان کے قرطاس ابیض کے جواب میں خطبات کا سلسلہ جو زھق الباطل“ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں.
175 ۱۴ مارچ ۱۹۸۶ء اسیران اور شہداء کے لواحقین کے لئے ”سیدنا بلال فنڈ“ کی تحریک جاری فرمائی.۲۰ ستمبر ۱۹۸۶ ء بیت السلام کینیڈا کا سنگ بنیا درکھا.۳ را پریل ۱۹۸۷ء کو وقف نو کی عظیم الشان تحریک کا اعلان فرمایا.یکم اگست ۱۹۸۷ء نائیجیریا کے دو بادشاہوں کو حضرت مسیح موعود کے کپڑوں کا تبرک عنایت فرمایا.جنوری ۱۹۸۸ء میں حضور انور کا مغربی افریقہ کے ممالک کا پہلا دورہ عمل میں آیا ۱۰ جنوری ۱۹۸۸ء کو تمام جماعت کی نمائندگی میں حضور انور نے تمام معاندین کو مباہلہ کا چیلنج دیا.اگست ۱۹۸۸ء میں حضور کا مشرقی افریقہ کے ممالک کا پہلا دورہ عمل میں آیا.۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کوصد سالہ جشن تشکر کا آغا ز فرمایا.جولائی ۱۹۸۹ ء کو حضور انور کا دورہ مشرق بعید عمل میں آیا.۳ نومبر ۱۹۸۹ء کو تمام ممالک میں ذیلی تنظیموں کے صدر صاحبان کا اعلان.۱۰ نومبر ۱۹۸۹ء کو Friday the 10th کا رویا پورا ہوا اور دیوار برلن گرا دی گئی.۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء کو پانچ بنیادی اخلاق کی تحریک فرمائی.دسمبر ۱۹۹۱ء کو حضور انور کا تاریخی سفر قادیان.۱۰۰ ویں جلسہ سالانہ میں شرکت اور خطابات.۳۱ جنوری ۱۹۹۲ء کو حضور انور کا خطبہ جمعہ پہلی بار مواصلاتی سیارے کے ذریعہ براعظم یورپ میں دیکھا اور سنا گیا.جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۲ء سے براہ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا.۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء کو حضور کے خطبات چار براعظموں میں نشر ہونے شروع ہوئے.۱۷ اکتوبر ۱۹۹۲ء کو بیت الذکر ٹورانٹو کا افتتاح فرمایا.۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء کو پہلی عالمی بیعت ۲ لاکھ افراد کی سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اس کے بعد ۲۰۰۲ ء تک علی الترتیب لاکھ لاکھ، ۶ ،لاکھ ،۳۰لاکھ ،۵۰لاکھ، ایک کروڑ ، چار کروڑ ، ۸ کروڑ اور دوکروڑ افراد نے بیعت کی.۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء کو ماریشس میں خطبہ اور ایم ٹی اے کی نشریات ۱۲ گھنٹے کرنے کا اعلان.۱۹۹۳ء میں عالمی درس القرآن کا آغاز فرمایا.ے جنوری ۱۹۹۴ء سے ایم ٹی اے کا باقاعدہ آغاز ہوا.۷ جنوری ۱۹۹۴ء کو بیت الرحمن میری لینڈ امریکہ اور ایم ٹی اے ارتھ سٹیشن امریکہ کا افتتاح فرمایا.۲۴ فروری ۱۹۹۹ء کو حضور انور نے ۳۰۵ گھنٹے کی کلاسز کے ذریعہ ایم ٹی اے پر ترجمۃ القرآن کا دور مکمل فرمایا.۲۰۰۰ء میں حضور انور کا تاریخی دورہ انڈونیشیا عمل میں آیا.
176 ۲۱ فروری ۲۰۰۳ء کو غریب بچیوں کی شادی کے لئے مریم شادی فنڈ“ کی آخری تحریک فرمائی.ہجرت کے بعد بیرون ممالک میں ۳۰۶۵ انٹی بیوت الذکر کا اضافہ اور ۹۸۵ نئے مشن ہاؤسز بنے.خلافت رابعہ میں ۵۶ زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ مکمل ہوا.نیز سو سے زائد زبانوں میں منتخب تراجم کروائے گئے.۱۹۸۴ء کے بعد یعنی حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی لندن ہجرت کرنے کے بعد ۸۴ ممالک میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.
177 عہد خلافت خامس إِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُورُ اے مسرور ! یقیناً میں تیرے ساتھ ہوں تاریکی شب کا فور ہوئی سب گھور اندھیر انور ہوا دن امن و امان کے پھر پلٹے اور خوف کا عالم دور ہوا تاریکی شب کافور ہوئی سب گھور اندھیرا نور ہوا اب اوج افق اک تارا جو پانچ کناری چپکا ہے اس دور میں دوسری قدرت کا پانچواں پاک ظہور ہوا خاص عطاء ربی ہے ہم اہل وفا، اہل اللہ ہر قلب پر جلوه گر ہو کر مامور ابن منصور ہوا اب تھام لو لو اس کو اے لوگو جو حبل اللہ اتر آئی مانند عروة الوقى یہ عہد کمال فتح دست مسرور ہوا ظفر جو اب اسلام پہ ہے آیا اس عہد میں دنیا دیکھے گی پھر کفر کو چکنا چور ہوا مکرم مبارک احمد ظفر صاحب.ایڈیشنل وکیل المال لندن بحوالہ احمدیہ گزٹ کینیڈا مئی و جون ۲۰۰۳ء)
178 انتخاب خلافت خامسه حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی تقریباً ۲ سال کے انتہائی کامیاب و با مراد اپنا عہد خلافت گزار کر مورخہ ۱۹ را پریل ۲۰۰۳ء کو ہمیں انتہائی غمزدہ اور سوگوار چھوڑ کر لندن میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.انا لله وانا اليه راجعون اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ عطافرمائے.(آمین ) حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی نا گہانی وفات کے چوتھے روز مورخ ۲۲ اپریل ۲۰۰۳، کوحضرت خلیفہ المسیح الرابع کی ہدایات کی روشنی میں بیت الفضل لندن میں مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید کی زیر صدارت انتخاب خلافت کا اجلاس منعقد ہوا.جس میں اللہ تعالیٰ نے حسب وعده وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِم اَمُنًا کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ابن حضرت مرزا منصور احمد صاحب مرحوم و مغفور کو خلعت خلافت پہنا کر ہمارے خوف کو امن میں بدل دیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ ابدی قانون دنیا نے ایک دفعہ پھر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.آپ کا انتخاب اور آپ کی تائید الہی ہستی باری تعالیٰ اور احمدیت کی سچائی کا ایک زبردست اور نا قابل تردید ثبوت ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی غیر معمولی تائید و نصرت کے متعلق پہلے سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما بتادیا تھا کہ اِنِّی مَعَكَ يَا مَسْرُور یعنی اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کمال شان سے خلافت خامسہ کے وجود میں پورا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اور ازدیاد ایمان کا باعث بن رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین کا ثبوت بن رہا ہے.اس طرح ایک دفعہ پھر احمدیت کا قافلہ ایک یم سپہ سالا کی راہنمائی میں اپنے سفر کی طرف رواں دواں ہو گیا ہے.الحمدللہ علی ذالک.حضرت خلیفہ اسیح الخامس کا مجلس انتخاب خلافت سے خطاب حضور انور نے فرمایا:." آج جس کام کے لئے یہاں مجھے لایا گیا ہے قطع اس کاعلم نہیں.حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ تعالیٰ کے علم و عرفان کو آپ سنتے رہے، دیکھتے رہے.خاکسار میں تو کسی بھی قسم کا علم نہیں ہے.بہر حال یہاں کیونکہ قواعد میں کسی قسم کی معذرت کی اجازت نہیں اس لئے خاموشی سے اس کو قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے.آپ لوگوں سے یہ درخواست ہے کہ اگر خدا کو حاضر ناظر جان کر اس یقین کے ساتھ خاکسار یہ فریضہ ادا
179 کر سکتا ہے خاکسار کو اس مقصد کے لئے ، اس کام کے لئے مقرر کیا ہے تو آپ سے درخواست ہے میری مدد فرما ئیں دعاؤں کے ذریعے.نہایت عاجز انسان ہوں، دعاؤں کے بغیر یہ سلسلہ چلنے والا نہیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ آپ لوگوں کے لئے دعا کر سکوں.جوعہد بھی کیا ہے اس پر پورا اتر سکوں اور آپ لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ دعاؤں سے، دعاؤں سے، بہت دعاؤں سے میری مدد کریں.اب حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے الفاظ میں ہی ایک فقرہ اور کہتا ہوں کہ میری گردن اب خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.براہ راست خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اللہ تعالیٰ مجھے محض اور محض اپنے فضل سے ان کاموں کو کرنے کی توفیق عطا فرمائے (الفضل ۵ دسمبر ۲۰۰۳ء) جواس کی رضا کے کام ہوں.آمین.حضرت خلیفہ ایسیح الخامس کا پہلا خطاب عام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پہلی بیعت عام سے قبل مختصر سا خطاب فرمایا جو ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست تمام دنیا میں نشر کیا گیا.حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.احباب جماعت سے صرف ایک درخواست ہے کہ آجکل دعاؤں پر زور دیں، دعاؤں پر زور دیں، دعاؤں پر زور دیں.بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت فرمائے اور احمدیت کا یہ قافلہ اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں رہے.(آمین) (روز نامه الفضل مورخ ۱/۲۴ پریل ۲۰۰۳ء ) اس کے بعد حضور نے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی نماز جنازہ پڑھائی اور نماز جنازہ کے بعد ٹلفورڈ اسلام آباد لندن میں حضور کی امانیا تدفین عمل میں آئی.یہ تمام کارروائی MTA کی برکت سے تمام دنیا نے براہ راست دیکھی اور سنی اور مذہب کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ نظارہ دیکھنے میں آیا کر تمام دنیا میں بسنے والے کروڑوں احمدیوں نے براہ راست کسی خلیفہ کی بیعت کی.اس موقع پر حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کے لئے آپ کے عظیم الشان کارنامہ ایم ٹی اے کی اہمیت و فیضان کے باعث آپ کے درجات کی بلندی کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلیں.اللهُمَّ اغْفِرُهُ وَارْحَمْهُ وَادْخِلُهُ فِي أَعْلَى عِلِييُنَ.اس طرح تقدیر الہی کے مطابق ایک چاند غروب ہوا تو دوسرا چاند طلوع ہو گیا.اور خلافت کا بابرکت سلسہ حسب سابق جاری وساری ہو گیا.اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے.اور اس کی برکات سے ہمیں کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
180 حضرت خلیفہ اسیح الخامس کے حالات و خدمات قبل از خلافت حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۵ ستمبر ۱۹۵۰ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مرحوم و محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ کے ہاں ربوہ میں پیدا ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑپوتے ،حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نواسے ہیں.تعلیم الاسلام ہائی سکول سے میٹرک اور تعلیم الاسلام کا لج ربوہ سے بی اے کیا.۱۹۶۷ء میں ساڑھے سترہ سال کی عمر میں نظام وصیت میں شمولیت فرمائی.۱۹۷۶ء میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم ایس سی کی ڈگری ایگریکلچرل اکنامکس میں حاصل کی.۳۱ جنوری ۱۹۷۷ء کو آپ کی شادی مکرمہ سیدہ امتہ السبوح بیگم صاحبہ مدظلہا بنت محترمہ صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ مرحومہ اہلیہ مکرم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب سے ہوئی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی مکرمہ صاحبزادی امۃ الوارث فاتح سلمھا اللہ اہلیہ مکرم فاتح احمد ڈاہری صاحب نواب شاہ سندھ اور ایک بیٹے مکرم صاحبزادہ مرز اوقاص احمد سلمہ اللہ سے نوازا.۱۹۷۷ء میں زندگی وقف کر کے نصرت جہاں سکیم کے تحت اگست ۱۹۷۷ء میں غانا تشریف لے گئے.غانا میں ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۵ء تک بطور پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول سلا گا ۲ سال، ایسار چر۴ سال اور پھر ۲ سال احمد یہ زرعی فارم ٹمالے شمالی غانا کے مینجر رہے.آپ نے غانا میں پہلی بار گندم اگانے کا کامیاب تجربہ کیا.۱۹۸۵ء میں پاکستان واپسی ہوئی اور تحریک جدید ربوہ ۷ امارچ ۱۹۸۵ء سے نائب وکیل المال ثانی کے طور پر تقرر ہوا.۱۸ جون ۱۹۹۴ء کو آپ کا تقرر بطور ناظر تعلیم صدرانجمن احمد یہ میں ہو گیا.• استمبر ۱۹۹۷ء کو آپ ناظر اعلیٰ صد را منجمن احمد یہ وامیر مقامی مقرر ہوئے اور تا انتخاب خلافت اس منصب جلیلہ پر مامور رہے.اگست ۱۹۹۸ء میں صدر مجلس کار پرداز مقرر ہوئے.بحیثیت ناظر اعلیٰ آپ ناظر زراعت کی خدمات بھی بجالاتے رہے.۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۷ ء تک چیئر مین ناصر فاؤنڈیشن رہے.اسی عرصہ میں آپ صدر تزئین کمیٹی ربوہ بھی تھے.آپ نے گلشن احمد نرسری کی توسیع اور ربوہ کی سرسبز و شاداب بنانے کے لئے ذاتی طور پر بے حد کوشش کی اور جملہ امور کی نگرانی فرمائی.۱۹۸۸ ء سے ۱۹۹۵ء تک ممبر قضاء بورڈ رہے.
181 خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ میں سال ۱۹۷۶ء ۱۹۷۷ء میں مہتم صحت جسمانی ۱۹۸۴ء ۱۹۸۵ء میں مہتم تجنید ، سال ۱۹۸۵ء- ۱۹۸۶ء سے ۶۸۹-۸۸ ء تک مہتمم مجالس بیرون اور ۱۹۸۹ء-۱۹۹۰ء میں نائب صدر خدام الاحمدیہ پاکستان رہے.مجلس انصاراللہ پاکستان میں قائد ذہانت و صحت جسمانی ۱۹۹۵ء اور قائد تعلیم القرآن ۱۹۹۵ء-۱۹۹۷ء رہے.۱۹۹۹ء میں ایک مقدمہ میں اسیر راہ مولی رہنے کا اعزاز بھی حاصل کیا.۳۰ /اپریل کو گرفتار ہوئے اور • امئی کو باعزت طور پر رہا ہوئے.۲ اپریل ۲۰۰۳ء کولندن وقت کے مطابق ۱۱:۴۰ بجے رات آپ کے بطور خلیفہ لمسیح الخامس ہونے کا اعلان ہوا.اس وقت آپ کی عمر تقریباً ۵۳ سال تھی.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور صحت میں بہت برکت ڈالے اور اشاعت اسلام کے کاموں میں روح القدس کی خاص تائیدات سے نوازے اور آپ کی سیادت و قیادت میں احمدیت کا قافلہ شاہراہ غلبہ اسلام پر مضبوط قدموں کے ساتھ اور تیزی سے رواں دواں رہے.آمین رب العالمین.( بحوالہ احمدیہ گزٹ کینیڈ امئی جون ۲۰۰۳ء) نور خلافت دل تھے ظلمت رنجور ނ تاج امامت سر " ہے صبح ہوئی پھر چمکا نور عرش آنے لگی صدا نور خلافت در فکن قدرت ثانی سایه معک یا مسرور نصرت حق کا لملل ہے ہے ہوا ظہور ی معک یا مسرور انی معک یا مسرور کیسے کیسے پڑے بجوگ آقا طاہر کا تھا سوگ نے تسلی دی کہہ کر غم کر دیا دور نی معک یا مسرور نافلہ لایا ہے پھر جام پورے ہوں گے سب الہام سانچ کو آنچ نہیں ہوتی مہدی کا پھیلے گا نور معک یا مسرور بدلی دن میں کالی رات وہ اللہ کے دیں کا امین
182 پوری ہوئی خدا کی بات کر کے دعاؤں کی تلقین ایم ٹی اے سے صدا آئی نور یقین اتارا ایسا زخمی دل کو ملا ہر اک قلب ہوا مسحور سرور ی معک یا مسرور انی معک یا مسرور ہے مہدی کے دل کا نور اللہ عمر میں برکت دے ابن شریف شریف این منصور پورے سارے کام کرے آتے ہی ہر دل بول اٹھا اس کی دید سے ہو دل شاد رو بلا ہو دشمنی دور تیرا بھی شاہد منصور انی معک یا مسرور معک یا مسرور شاہد منصور ( بحواله الفضل ۲۶ فروری ۲۰۰۴ء) خلافت خامسہ کے شیریں ثمرات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پہلے دن سے ہی حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے اری فرمود تمام تعلیمی تربیتی اور بی پروگراموں کوتسلسل کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے.اس طرح آپ بہت جلد حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کی جدائی کے غم اور خوف سے جماعت کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے اور ایک دفعہ پھر خلافت کی برکت کہ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا (نور: ۵۶) یعنی وہ مومنوں کے خوف کو امن میں تبدیل کر دے گا کے نظارے دیکھے.آپ کی بابرکت خلافت کے روز اول سے ہی خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت الہی کے شاندار مظاہر اہل دنیا دیکھتی چلی آرہی ہے.آپ کا انتخاب اور آپ کی تائید الہی خلافت احمدیہ کی حقانیت اور دوام کا منہ بولتا ثبوت ہے.حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آغاز خلافت سے ہی زیادہ تر توجہ جماعت کی اندرونی تربیت اور نظام جماعت کی مضبوطی کی طرف دے رہے ہیں.اس لحاظ سے یہ دور ” جماعتی تعلیم و تربیت“ کا دور کہا جاسکتا ہے.خلافت رابعہ کا دور اگر دعوت الی اللہ کا اور جلالی دور تھا تو خلافت خامسہ کا دور تر بیتی اور
183 جمالی دور ہے.جماعت احمدیہ پر تیز بارش کی طرح نازل ہونے والے خدا تعالیٰ کے فضل دراصل اس امر کا ثبوت ہیں کہ ہم خلافت کی برکت سے اپنی منزل مقصود کی طرف بڑی سرعت سے گامزن ہیں.الحمد للہ علی ذالک.اب خلافت خامسہ کے اس مختصر عرصہ میں خلافت کی برکت سے جماعت احمدیہ پر نازل ہونے والے خدا کے فضلوں کی چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے اس نے بہر صورت بڑھنا، پھیلنا اور پھلنا ہے اور کوئی نہیں جو اس کی ترقی کی راہ میں حائل ہو سکے.دور خلافت خامسہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں پہلی بار ایم ٹی اے کی برکت سے تمام جماعت احمد یہ عالمگیر نے براہ راست کسی خلیفہ کی بیعت کی.مورخہ ۴ جولائی ۲۰۰۳ء کو ایم ٹی اے سیٹ تھری کی نشریات کا آغاز ہوا.مورخہ ۷ ستمبر ۲۰۰۳ء کو کینیڈا میں پہلے جامعہ احمدیہ کا افتتاح ہوا.مورخہ ۱۷ اکتو بر ۲۰۰۳ء کو احمدی ڈاکٹر ز کو وقف کرنے کی تحریک فرمائی.جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۳ء کے موقع پر طاہر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان فرمایا.مورخہ ۲.اکتوبر ۲۰۰۳ء کو مغربی یورپ کی سب سے بڑی بیت الذکر بیت الفتوح کا افتتاح حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ کے ذریعہ فرمایا.مارچ واپریل ۲۰۰۴ء میں مغربی افریقہ کے ممالک غانا، نائیجیریا، بورکینا فاسو اور بین کا دورہ کیا اور اس دوران ۲۱ بیوت الذکر کا افتتاح فرمایا.مورخہ ۲۰۰۴ء کونور فاؤنڈیشن قائم فرمایا.مئی ۲۰۰۴ء کو جلسہ سالانہ ہالینڈ کا افتتاح فرمایا.جون کے آخری عشرہ میں کینیڈا کا دورہ کیا.جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۴ء کے اختتامی خطاب میں ۲۰۰۸ ء تک لازمی چندہ جات ادا کرنے والوں کی ۵۰ فیصد تعداد کو نظام وصیت میں شامل کرنے کی تحریک فرمائی.۲۵ اگست ۲۰۰۴ ء کو بیت الحبیب کیل جرمنی کا افتتاح فرمایا.نتلی ستمبر ۲۰۰۴ء میں سوئٹزر لینڈ اور تقسیم کا دورہ کیا.یکم اکتو بر۲۰۰۴ء کو بیت مبارک برمنگھم برطانیہ کا افتتاح فرمایا.
184 ۵ نومبر ۲۰۰۴ء کو تحریک جدید دفتر پنجم کا اعلان فرمایا.دسمبر ۲۰۰۴ء کے آخری عشرہ میں فرانس کا دورہ کیا.۲۰۰۴ء میں قادیان اور ربوہ پاکستان کے علاوہ گھان میں تیسرے مدرستہ الحفظ کا قیام عمل میں آیا.جنوری ۲۰۰۵ء کے آغاز میں سپین کا دورہ کیا.مورخہ ۱۷ اپریل ۲۰۰۵ء کو دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ربوہ پاکستان میں نورالعین بلڈ وآئی بنک کا افتتاح عمل میں آیا.مورخه ۱۷ اپریل ۲۰۰۵ء کو مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیرانتظام اہل ربوہ کی سہولت کے لئے ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس کا افتتاح ہوا.م اپریل مئی ۲۰۰۵ء میں مشرقی افریقہ کے ممالک، کینیا، تنزا ینہ اور یوگنڈا کا دورہ کیا.مورخہ ۲۷ مئی ۲۰۰۵ء کو حضور نے مئی ۲۰۰۸ ء میں صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی منانے کا اعلان فرمایا.اس موقع پر احباب جماعت نے مبلغ دس کروڑ پاؤنڈ کی رقم حضور کی خدمت میں اشاعت اسلام کے لئے پیش کرنے کا وعدہ فرمایا.حضور نے اس سلسلہ میں بہت زیادہ دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی.نیز حضور نے اس تعلق میں بعض خاص دعائیں روزانہ با قاعدگی کے ساتھ پڑھنے کی تحریک فرمائی اور ایک روحانی پروگرام بھی جماعت کو دیا جس میں دعاؤں کے علاوہ روزانہ دونوافل اور ہر ماہ کے آخر پر ایک نفلی روزہ رکھنا بھی شامل تھا.اس منصوبہ کے تحت مئی ۲۰۰۸ ء تک جماعت نے کئی علمی اور عملی کام کرنے کا پروگرام بنایا.جن پر عملدرآمد ہورہا ہے.۲۰۰۵ء کے آغاز میں فرانس اور سپین کا دورہ کیا.جون ۲۰۰۵ء کے آخری عشرہ میں کینیڈا کا دورہ کیا.۱۱ جون ۲۰۰۵ ء کووینکوور بیت الذکر کینیڈا کا سنگ بنیا درکھا گیا.۱۸ جون ۲۰۰۵ ستمبر کوکیلگری بیت الذکر کینیڈا کا سنگ بنیا درکھا.مورخه ۱۶ تا ۸ استمبر ۲۰۰۵ء کو پہلی دفعہ سویڈن میں سکینڈے نیوین ممالک کا مشتر کہ جلسہ ہوا.جس میں حضور نے بھی شرکت فرمائی.۱۴ را کتوبر ۲۰۰۵ء کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات و کشمیر میں قیامت خیز زلزلہ کے باعث متاثرین کی بھر پور امداد کی تحریک فرمائی.ا نومبر ۲۰۰۵ء کو بیت الناصر ہارٹلے پول برطانیہ کا افتتاح فرمایا.
185 دسمبر ۲۰۰۵ء کے پہلے عشرہ میں ماریشس کا دورہ کیا.۱۵دسمبر ۲۰۰۵ ء تا ۵ دسمبر ۲۰۰۶ ء قادیان بھارت کا دورہ فرمایا اور جلسہ سالانہ قادیان ۲۰۰۵ء کو رونق بخشی.اپریل ۲۰۰۶ ء میں ملائشیا ، سنگا پور بنی اور آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان کا دورہ کیا.مئی ۲۰۰۶ ء میں جماعت احمدیہ جرمنی کی ذیلی تنظیموں کے مشترکہ اجتماع کے سلسلہ میں حضور جرمنی تشریف لے گئے.مورخه ۲ ۳۰ جون ۲۰۰۶ء کو حضور انور نے جاپان کا دورہ فرمایا.۱۲ جون ۲۰۰۶ء کو حضور نے بیلجیم کا دورہ فرمایا.۲۱ اگست ۲۰۰۶ ء کو جرمنی کا دورہ فرمایا.۳ دسمبر ۲۰۰۶ء کو جامعہ احمدیہ یو کے کے نئے بلاک اور بیت الذکر کا افتتاح فرمایا.۱۵ دسمبر ۲۰۰۶ء کو حضور نے احمدی ڈاکٹر ز کو وقف کرنے کی خصوصی تحریک فرمائی.حضور انور نے ۲۲ دسمبر ۲۰۰۶ تا ۳ جنوری ۲۰۰۷ بیلجیم و جرمنی کا دورہ فرمایا.۲۳ دسمبر ۲۰۰۶ء کو حضور نے بیت بشیر جرمنی کا افتتاح فرمایا.۲۳ دسمبر ۲۰۰۶ء کو ہی سٹاڈ گاؤ جرمنی کی بیت کا سنگ بنیا درکھا.۲۴ دسمبر ۲۰۰۶ء کو جماعت آسٹریلیا کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.۲۸ دسمبر ۲۰۰۶ء کو ایم.ٹی.اے کے ذریعہ حضور انور نے پہلی دفعہ جرمنی سے جلسہ سالانہ قادیان کو براه راست مخاطب ہوتے ہوئے خطاب فرمایا.۲۹ دسمبر ۲۰۰۶ ء کو حضور نے روڈ گاڈ جرمنی کی بیت کا سنگ بنیاد رکھا.۲۹ دسمبر ۲۰۰۶ء کو بیت السلام جرمنی کا افتتاح فرمایا.خلافت خامسہ کی برکت سے لندن سے گیارہ میل کے فاصلے پر دوسو آٹھ ایکڑ زمین مبلغ ۲۵ لاکھ پونڈ میں خریدنے کی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو توفیق دی جس کا نام حضور نے حدیقۃ المہدی تجویز فرمایا.۲۰۰۶ء سے جلسہ سالانہ برطانیہ اسی جگہ منعقد ہو رہا ہے.۲ جنوری ۲۰۰۷ء کو حضور انور نے بیت خدیجہ برلن جرمنی کا سنگ بنیاد رکھا.۳ تا ۷ جنوری ۲۰۰۷ ء کو حضور انور نے ہالینڈ کا دورہ فرمایا.۲۰ مئی ۲۰۰۷ء کو جماعت احمدیہ البانیہ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.۲۷ تا ۲۹ جولائی ۲۰۰۷ء کو جلسہ سالانہ برطانیہ منعقد ہوا.
186 ۱۸ اگست ۲۰۰۷ء کو حضور دورہ یورپ (فرانس، ہالینڈ اور جرمنی ) کیلئے تشریف لے گئے.۳۱ اگست تا ۲ ستمبر ۲۰۰۷ء کو جلسہ سالانہ جرمنی منعقد ہوا.مورخه ۲۹ مارچ ۲۰۰۸ء کو بیت الفتوح مورڈن لندن میں خلافت جو بلی امن کانفرنس پر خطاب فرمایا.مورخه ۱۵ تا ۱۲۰ اپریل ۲۰۰۸ء کوحضور نے خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے سلسلہ میں مغربی افریقہ کا دورہ فرمایا.۱۷ تا ۱۹ اپریل ۲۰۰۸ء کو گھانا میں خلافت جو بلی کا جلسہ منعقد ہوا جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی.۲۱ تا ۱۲۵ اپریل ۲۰۰۸ء کو حضور انور نے بیٹن کا دورہ فرمایا.۲ تا ۴ مئی ۲۰۰۸ء کو نائجیر یا میں خلافت جو بلی کا جلسہ منعقد ہوا.ماہ مئی میں دنیا کی تمام جماعتوں میں خلافت جو بلی کی مناسبت سے جلسے منعقد کئے گئے.۲۷ مئی ۲۰۰۸ ء کو پوری دنیا میں خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی بہت ایمانی جوش و جذبہ سے منائی گئی.مورخه اجون ۲۰۰۸ء کوکوئین الزبتھ کا نفرنس سنٹر لندن میں صدسالہ خلافت جو بلی کے سلسلہ میں تقریب سے خطاب فرمایا.مورخہ ۱۶ جون تاے جولائی دورہ امریکہ وکینیڈا کیا.مورخہ ۴ جولائی ۲۰۰۸ ء کو بیت النور کیلگری کا افتتاح فرمایا.ه مورخه ۱۳ اگست تا ۲۶ اگست ۲۰۰۸ء کو دورہ بابت شمولیت جلسہ سالانہ جرمنی فرمایا.مورخه ۱۴ اگست ۲۰۰۸ ء کو بیت الکریم سٹاڈے جرمنی کا افتتاح فرمایا.ه مورخه ۱۶ اگست ۲۰۰۸ء کو بیت السمیع ہنوور جرمنی کا افتتاح فرمایا.مورخه ۱۷ اگست ۲۰۰۸ء کو خلافت جو بلی یورپین ٹورنامنٹ میں شمولیت فرمائی.مورخه ۱۹ اگست ۲۰۰۸ء کو بیت انوار روڈ گاؤ جرمنی کا افتتاح فرمایا.مورخ ۲۰ اگست ۲۰۰۸ء کو جامعہ احمدیہ فرینکفرٹ جرمنی کا افتتاح فرمایا.مورخه ۲۱ اگست ۲۰۰۸ء کو بیت القمر WeilDeStadt جرمنی کا افتتاح فرمایا.۵ اکتوبر ۲۰۰۸ء کواحمدی طلباء کو ریسرچ اور سائنس کے میدان میں آگے بڑھنے کی تحریک فرمائی.مورخه ۱۸ اکتوبر تا۱۹ اکتوبر ۲۰۰۸ء دورہ فرانس، ہالینڈ ، جرمنی اور تیجیم کیا.مورخه ۱ را کتوبر ۲۰۰۸ء کو بیت مبارک پیرس فرانس کا افتتاح فرمایا.مورخه ۱۶ را کتوبر ۲۰۰۸ ء کو بیت خدیجہ برلن جرمنی کا افتتاح فرمایا.
187 مورخه ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو برطانیہ کے ہاؤس آف پارلیمنٹ میں منعقدہ تقریب سے تاریخی خطاب فرمایا.مورخہ سے نومبر ۲۰۰۸ ء کو بیت المہدی بریڈ فورڈ انگلستان کا افتتاح فرمایا.مورخہ ۸ نومبر ۲۰۰۸ ء کو بیت العافیت شیفیلڈ برطانیہ کا افتتاح فرمایا.مورخه ۲۲ نومبر تا ۵ دسمبر ۲۰۰۸ء کو بھارت کا دورہ فرمایا.مورخہ ۲۵ نومبر ۲۰۰۸ء کو بیت القدوس کالی کٹ بھارت کا افتتاح فرمایا.مورخه ۲۹ نومبر ۲۰۰۸ کانارکولم صوبہ کیرالہ بھارت میں ۵ بیوت الذکر کا افتتاح فرمایا.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت دور خلافت میں جماعت احمد یہ گھانا نے اکراسے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پر وینیا شہر کے قریب جماعتی ضروریات کے لئے ۴۶۰ ایکٹر زمین کا قطعہ خریدا جس کا حضور انور نے ”باغ احمد نام تجویز فرمایا.۲۰۰۸ء میں جماعت احمد یہ گھانا کا خلافت جو بلی جلسہ سالانہ اسی زمین میں منعقد ہوا.جماعت احمد یہ کینیڈا نے نئی جلسہ گاہ کے لئے ۲۰۰۸ء میں خلافت خامسہ کی برکت سے مبیپل انٹاریو سے قریبا ۳۰ کلومیٹر فاصلہ پر واقع قصبہ بریڈ فورڈ میں ۲۵۰ ایکٹر قطعہ زمین خریدا جس کا نام حضور انور نے حدیقہ احمد“ تجویز فرمایا.۲۰۰۸ء میں روحانی خزائن کے کمپیوٹرائز ڈایڈیشن کی پہلی اشاعت ہوئی.مورخہ 2 مارچ ۲۰۰۹ء کو بیت الرحمن گلاسگو کا افتتاح عمل میں آیا.مورخه ۲۱ مارچ ۲۰۰۹ء کو بیت الفتوح لندن میں چھٹی سالانہ امن کا نفرنس میں حضور انور نے خطاب فرمایا.مورخہ ۲۴ تا ۲۶ جولائی ۲۰۰۹ء کو برطانیہ کا۴۳ واں جلسہ سالانہ منعقد ہوا.حمد مورخه ۱۰ تا ۱۹ اگست ۲۰۰۹ء کو دورہ جرمنی و ہالینڈ فرمایا.مورخہ ۱۴ تا ۱۶ اگست ۲۰۰۹ء کو جرمنی کا ۳۴ واں جلسہ سالانہ منعقد ہوا.مورخه ۲۹ مارچ تا ۲ اپریل ۲۰۱۰ء کو سپین کا دورہ فرمایا اور جماعت احمد یہ سپین کے ۲۵ ویں جلسہ سالانہ میں شرکت فرمائی.مورخه ۱۹ جون ۲۸ جون ۲۰۱۰ کو بلیجیم ،جرمنی اور ہالینڈ کا دورہ فرمایا.مورخه ۲۵ تا ۲۷ جون ۲۰۱۰ء کو جماعت احمد یہ جرمنی کا ۳۵ واں جلسہ سالانہ منعقد ہوا.مورخہ ۳۰، ۳۱ جولائی و یکم اگست ۲۰۱۰ء کو حدیقہ المہدی ہیمپشائر لندن میں انگلستان کا ۴۴ واں جلسہ سالانہ منعقد ہوا.
188 مورخه ۱۴ ستمبر تا ۲۰ ستمبر ۲۰۱۰ء کو آئر لینڈ کا دورہ فرمایا اور ۷ استمبر کو آئر لینڈ میں پہلی بیت الذکر ٹالوے کا سنگ بنیا د رکھا.خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں قرآن مجید کا ۴ انٹی غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ شائع ہوا.خلافت خامسہ کی برکت سے 2409 بیوت الذکر کا اضافہ ہوا.خلافت خامسہ کی برکت سے 4196 نئی جماعتوں کا اضافہ ہوا.خلافت خامسہ کی برکت سے 1246 نئے مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا.خلافت خامسہ میں 2987382 نئی بیعتیں ہوئیں.خلافت خامسہ کی برکت سے ۳۱ جولائی ۲۰۱۰ء تک ۲۳ نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہوا.اللہ تعالیٰ خلافت خامسہ کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے.(آمین) حضرت مسیح موعود کی جانشین شخصی خلافت یا صدر انجمن احمدیه جماعت احمد یہ مبائعین اور لاہوری احمدی یعنی غیر مبائعین کے درمیان سب سے بڑا اختلافی مسئلہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد رسالہ الوصیت کے مطابق شخصی خلافت کی قائل ہے جبکہ لاہوری احمدی یعنی غیر مبائعین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت قائم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ جماعت کے تمام معاملات اور امور کی نگران کسی شخصی خلافت کی بجائے انجمن معتمدین ہونی چاہئے.مگر اس مسئلہ کا حل خود خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (نور: ۵۶) یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بھی اسی طرح کے خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے لوگوں میں بنائے.اس آیت سے دو باتیں ثابت ہوئیں.ایک تو یہ کہ مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ ویسے ہی خلیفے بنائے گا جیسے پہلوں میں بنائے.اب اگر پہلی امتوں میں نبیوں کے بعد انجمنیں بنتی تھیں تو اب بھی انجمن ہی خلیفہ ہوگی اور اگر پہلی قوموں میں شخص واحد نبی کا قائم مقام ہوتا رہا تو اب بھی شخص واحد ہی قائم مقام ہوگا.پس سوال یہ ہے کہ کیا پہلے کسی نبی کا خلیفہ بھی انجمن بھی ہوئی ہے؟ کبھی نہیں.حضرت موسیٰ کا خلیفہ بھی ایک ہی شخص ہوا.پس ضرور تھا کہ نبی کریم ﷺ کا خلیفہ بھی
189 صلى الله الله ایک ہی شخص ہوتا اور مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ بھی ایک ہی شخص ہوتا نہ کہ انجمنیں.کیونکہ لفظ گمانے اس مسئلہ کو بالکل صاف کر دیا ہے اور آیت هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ الله وَ يُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينَ.وَاخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهُمُ (سورہ جمعہ (4-3) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح نبی کریم ہے کے بعد خلافت ہوئی.اسی طرح مسیح موعود کے بعد ہوگی.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمانوں کی تربیت رسول کریم وقت کریں گے.ایک ابتداء اسلام میں.ایک آخری زمانہ میں.پس مسیح موعود کے کام کو ان کے کام سے مشابہت دے کر اللہ تعالیٰ نے بتادیا ہے کہ آخری زمانہ بھی اول زمانہ کے مشابہ ہو گا.پس ضرور ہے کہ آج بھی اسی طرح خلافت ہو جس طرح رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تھی.اسی طرح قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله (آل عمران رکوع ۱۷) یعنی تو معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لے لیا کر.لیکن جب تو عزم اور ارادہ مصم کر لے تو پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اپنے عزم و منشا کے مطابق کام کر.اس آیت میں بھی خلافت کا مسئلہ صاف کر دیا گیا ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ آیت میری امت پر ایک رحمت ہے اور جو اس پر عمل کر کے مشورہ سے کام کرے گا وہ کامیاب ہوگا.اور جو بلا مشورہ کام کرے گا وہ ہلاک ہوگا اور اس طرح آنحضرت ﷺ نے بتا دیا ہے کہ یہ آیت آپ کے ساتھ مخصوص نہیں.بلکہ آپ کے بعد بھی اس پر عملدرآمد جاری رہے گا.پس شاور کے لفظ سے جس میں ایک آدمی کو مخاطب کیا گیا ہے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد صرف ایک شخص خلیفہ ہوگا اور وہ لوگوں سے مشورہ لینے کے بعد جو بات خدا اس کے دل میں ڈالے اس پر عمل ہوگا اور لوگوں کے مشورہ پر چلنے کا پابند نہیں ہوگا.کیونکہ دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ یہ آیت اصل میں آپ کے بعد کے حکام کیلئے ہے.پس خلافت قرآن کریم سے ثابت ہے اور آیت استخلاف اور آیت مشاورۃ اس مسئلہ کا فیصلہ کر دیتی ہیں.اسی طرح جب بنی اسرائیل نے اپنے ایک نبی سے اپنے اوپر ایک حاکم مقرر کرنے کی درخواست کی تو ان کے لئے کوئی انجمن نہ مقرر کی گئی بلکہ ان کے نبی نے یہ کہا کہ اِنَّ اللهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا خدا نے تجھ پر طالوت کو بادشاہ بنایا ہے.جس پر اس وقت بھی چند لوگوں نے کہا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ اگر جمہوریت خدا تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہوتی تو ایک انجمن مقرر کی جاتی نہ بادشاہ.اگر کہو کہ اس وقت زمانہ اور تھا اور اب اور ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرما چکا ہے کہ امت محمدیہ کی خلافت امت بنی اسرائیل کی خلافت کے مطابق ہوگی.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے.خلافت طالوت کے متعلق یہ بات بھی قابل غور ہے کہ طالوت کا حکم قطعی قرار دیا گیا ہے اور جولوگ طالوت کے احکام کو مانتے تھے.انہیں کو مومن
190 کہا ہے اور آیت استخلاف میں بھی خلفاء کے منکرین کو فاسق کہا ہے جیسا کہ فرمایافَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ خلفاء کے کا فر فاسق ہوں گے.یہ مسئلہ بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ حضرت آدم کو بھی خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا.اور اس وقت جمہوریت کو قائم نہیں کیا تھا اور ان کے وجود پر ملائکہ نے اعتراض بھی کیا مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اِنِّی أَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُونَ پھر ملائکہ نے تو اپنے اعتراض سے رجوع کر لیا.لیکن ابلیس نے رجوع نہ کیا اور ہمیشہ کے لئے ملعون ہوا.پس خلافت کا انکار کوئی چھوٹا سا انکار نہیں.شیطان جو اول الکافرین ہے وہ بھی خلیفہ کے انکار سے ہی کافر بنا تھا.اب دیکھنا یہ ہے کہ کون ملائکہ میں سے بنتا ہے اور کون ابلیس کا بھائی بنتا ہے.مندرجہ بالا حوالجات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ قرآن شریف سے شخصی خلافت ثابت ہے نہ کہ جمہوری اور قدیم سے اللہ تعالیٰ کی سنت یہی چلی آئی ہے کہ وہ نبی کے بعد ایک شخص کو خلیفہ بناتا ہے اور اس کے بعد دوسرے کو نہ یہ کہ چند آدمیوں کو ایک ہی وقت میں خلیفہ بنا دیتا ہے.شخصی خلافت کا ثبوت حدیث سے احادیث سے ثابت ہے کہ خلیفہ کا وجود ضروری ہے اور آنحضرت نے بھی جمہوریت کو نہیں قائم کیا بلکہ خلافت کو قائم کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کو وصیت کی کہ میرے بعد اختلافات پھیلیں گے مگر تم میرے خلفاء کی سنت پر عامل ہونا اور انہیں کے طریق پر چلنا.اوصیکم بتقوى الله والسمع والطاعة وان كان عبدا حبشيـا فـانـه مـن يعش منكم بعدى فيرى اختلافا كثيرًا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين من بعدى تمسكوا بها و عضوا عليها بالنواجذ اياكم ومحدثات الامور (ترمذی کتاب العلم باب الاخذ والسنة) میں تمہیں تقوی اللہ کی ہدایت کرتا ہوں اور اطاعت وفرمانبرداری کی.خواہ تم پر حبشی غلام ہی سردار کیوں نہ ہو.کیونکہ میرے بعد جو زندہ رہیں گے اور جلدی ہی دیکھیں گے کہ بہت اختلاف ہو جائے گا.پس تم میری اور میرے خلفاء کی جوراشد اور مہدی ہوں گےسنت کو مضبوط پکڑنا اور دانتوں میں زور سے دبائے رکھنا.یعنی چھوڑ نا نہیں اور نئی نئی باتیں جو نکلیں ان سے بچنا.اس حدیث میں رسول کریم نے اپنی امت کو خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے.اس حدیث سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم کے قائم مقام ایک ایک آدمی ہوں گے بلکہ یہ بھی کہ ان کے اعمال ایک سنت نیک ہوں گے جن پر چلنا مومن کا فرض ہے اور ان کے خلاف چلنا ضلالت ہے.ایک اور حدیث بھی ہے جس میں رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.اگر دو خلیفے ہوں تو ایک کو قتل کر دینا چاہئے.اذا بويع لخلیفتین
191 فاقتلوا الآخر منهما (مسلم) جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو جو بعد میں ہوا سے قتل کر دو.پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم نے ایک ہی خلیفہ تجویز کیا ہے اور جمہوریت کو قطعا پسند نہیں کیا.اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ حدیث میں حضرت عباس کی نسبت یہ دعا آئی ہے کہ واجـعـل الـخـلافـة بـاقـيـة فـي عقبہ.اس کی اولاد میں خلافت کا سلسلہ جاری رکھ.خلفاء اربعہ کی خلافت کے آسمانی اور خدائی ہونے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ رسول کریم نے حضرت عثمان کو فرمایا.انـه لعل الله يقمصک قمیصا فان ارادوک علی خلعه فلا تخلعه لهم (ترمذی) یعنی خدا تعالیٰ تجھے کرتہ پہنائے گا.اور لوگ اسے اتارنا چاہیں گے.مگر تم اسے ہرگز نہ اتارنا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا سلسلہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوا.کیونکہ رسول کریم نے یہ فرمایا ہے کہ خدا تجھے کر نہ پہنائے گا.نہ یہ کہ لوگ پہنائیں گے.خلافت کو خدا کی طرف منسوب کیا ہے.اگر جمہوریت اسلام میں ہوتی.تو آنحضرت یہ فرماتے کہ لوگ تجھے کرتا پہنانا چاہیں گے لیکن تم انکار کر دیجیو.اور کہہ دیجیو کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے.اور تعلیم اسلام کے خلاف.اس لئے میں خلیفہ نہیں بنتا.مگر آپ نے فرمایا کہ خدا پہنائے گا اور لوگ اتارنا چاہیں گے.مگر تم جمہوریت کا ذرا خیال نہ کر لو.اور یہ کر نہ نہ اتار یو.پس صاف معلوم ہوا کہ خلافت ہی اسلام کے احکام کے ماتحت ہے نہ جمہوریت.اس جگہ یہ بات خاص طور پر یاد رکھنی چاہئے کہ باوجود یکہ حضرت عثمان کی خلافت کا فیصلہ ایک مجلس شوریٰ کے ذریعہ قرار پایا تھا مگر پھر بھی آنحضرت سے حضرت عثمان سے فرماتے ہیں کہ قمیص خلافت کا پہنانے والا خدا تعالیٰ ہوگا نہ کہ مجلس شوری.اسی طرح حدیث میں ہے کہ ایک عورت رسول کریم کے پاس آئی اور آپ سے کچھ سوال کیا.آپ نے اسے فرمایا کہ پھر آنا.اس نے کہا کہ اگر میں آؤں اور آپ نہ ہوں یعنی آپ فوت ہو چکے ہوں.آپ نے فرمایا کہ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر سے کہیو.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے علم میں آپ کے بعد خلافت شخصی تھی (جس کو آپ نے بھی حکم قرار دیا.اور اپنا قائم مقام نہ صرف تسلیم فرمایا بلکہ خود بتا دیا) نہ جمہوریت.ورنہ یوں فرماتے کہ میرے بعد انجمن کے پاس آئیو.جو میرے قائم مقام ہو.نیز احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم جب کبھی کسی سفر یا غزوہ پر جاتے تھے تو مدینہ میں کسی ایک شخص کو اپنا خلیفہ بن جاتے تھے.خلافت کے مسئلہ پر صحابہ کا تعامل اور اجماع قرآن وحدیث کے بعد اجماع صحابہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.وَالسَّابِقُونَ
192 الاَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِاِحْسَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ.اور مہاجرین و انصار سے سابق اور اول صحابہ اور جو پوری طرح ان کی اتباع کریں.اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صحابہ کی اتباع ہی پر خدا راضی ہو سکتا ہے اور صحابہ کا اجماع دوم اس بات پر ہوا ہے کہ رسول کریم کا اس سے پہلا اجماع قائم مقام کوئی خلیفہ ہونا چاہئے اور سب صحابہ نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر حضرت عمرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی.پھر حضرت عثمان کے ہاتھ پر.پھر حضرت علیؓ کے ہاتھ پر کل صحابہ کا ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھ پر بغیر اختلاف کے بیعت کرتے جانا ثابت کرتا ہے کہ سب اس بات پر متفق تھے اور کسی جماعت صحابہ کا انکار مسئلہ خلافت پر ثابت نہیں.بلکہ سب مقر تھے.پس صحابہ کے اجماع کے خلاف فتوی دینے والا خدا تعالیٰ کی رضا کیونکر حاصل کر سکتا ہے.صحابه وكلهم اجمعون خلافت کے مسئلہ پر ایمان لائیں اور اپنی ساری عمر اس پر عامل رہیں اور خدا ان کی اتباع کو اپنی رضا کا موجب قرار دے.اور آج چند اشخاص اٹھ کر کہیں کہ شخصی خلافت مراد نہیں اسلام میں جمہوریت ہے.حضرت مسیح موعود کی شہادت خلافت کے متعلق حضرت اقدس نے حمامۃ البشری میں یہ حدیث درج فرمائی ہے.ثم يسافر المسيح الموعود او خليفة من خلفائه الى ارض دمشق اس حدیث کو نقل کر کے حضرت صاحب نے خلافت کے مسئلہ پر دو گواہیاں ثبت کر دی ہیں ایک تو نبی کریم کی گواہی کہ مسیح موعود کے بھی خلیفے ہوں گے اور دوسری اپنی گواہی کیونکہ آپ نے اس حدیث کو قبول کیا ہے پس آپ نے اپنے بعد جو کچھ ہونے والا تھا.اس کا اظہار اس حدیث کے درج کر دینے سے اپنی وفات سے قریباً پندرہ سال پہلے کر دیا تھا کہ میرے بعد خلیفے ہوں گے.اگر خلیفوں کا ہونا خلاف اسلام ہوتا یا آپ کے بعد خلفاء کا وجود حضرت صاحب کے یا اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ہوتا تو آپ کبھی یہ نہ فرماتے کہ احادیث سے ثابت ہے کہ مسیح یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ شام کو جائے گا اگر کوئی کہے کہ گو آپ نے خلیفہ کا شام جانا قبول فرمایا ہے مگر یہ تو نہیں فرمایا کہ وہ خلیفہ میری مرضی کے مطابق ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس کی نسبت خلفائہ لکھا ہے یعنی مسیح موعود کے خلیفوں میں سے ایک خلیفہ.پس اگر وہ غاصب یا ظالم ہوگا جو جمہوریت کا حق دبا کر خلیفہ بن جائے گا تو اس کا نام آپ اپنا خلیفہ نہ رکھتے بلکہ فرماتے کہ اس کی امت میں سے ایک جابر بادشاہ.دوسرے یہ کہ آپ نے اس خلیفہ کو ایک ایسی پیشگوئی کا پورا کرنے والا بتایا ہے جو خود آپ کی نسبت ہے اور فرمایا کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا مسیح موعود اس پیشگوئی کو پورا کرے گا یا اس
193 کا خلیفہ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خلیفہ اس کا سچا جانشین ہوگا ورنہ وہ مسیح موعود کا قائم مقام ہوکر ایسی پیش گوئی کو پورا کرنے والا کیونکر ہو سکتا ہے.حضرت صاحب کی دوسری شہادت خلافت کے متعلق آپ کا یہ الہام ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اس الہام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کے بعد جمہوریت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ آپ کی جماعت میں بادشاہ ہوں گے اور یہی زبر دست اور طاقتور ہوں گے کیونکہ اگر آپ کے بعد پارلیمنٹوں کی حکومت تھی اور بادشاہت آپ کے اصول کے خلاف تھی تو الہام بدیں الفاظ ہونا چاہئے تھا.پارلیمنٹیں تیرے دین پر چلیں گی“ بادشاہوں کے نام سے معلوم ہوتا ہے.یہ امر بھی خلافت سے وابستہ ہے.جمہوریت سے بھی خلافت ثابت ہے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انجمن کا ہی فتویٰ درست اور صحیح ہے پھر بھی خلافت ثابت ہے کیونکہ حضرت صاحب کی وفات کے بعد کل احمدی جماعت کا پہلا اجماع خلافت کے مسئلہ پر ہی ہوا تھا اور کیا غریب اور کیا امیر کیا صدرانجمن احمدیہ کے مبر اور کیا عام احمدی سب نے بالا تفاق بغیر تر دو انکار کے بلکہ اصرار اور الحاح سے حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ تسلیم کیا اور عاجزانہ طور سے آپ سے خلیفہ ہونے کی درخواست کی جس سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے اور یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ جمہوریت کے فیصلہ کے مطابق بھی خلافت ثابت ہے کیونکہ جمہور نے خود خلافت کا اقرار کیا پس اگر جمہوریت بھی ثابت ہو جائے تب بھی انجمن نے بغیر کسی ممبر کے انکار کے خلافت کو قبول کر لیا ہے اور اس طرح بھی جمہوریت کا خاتمہ ہوجاتا ہے.نظام خلافت پر اجماع سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر شاہد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد سب سے پہلا اجماع ، قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت ہی پر ہوا اور رسالہ الوصیت کے مطابق ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مولانا نورالدین بھیروی رضی اللہ عنہ خلیفہ اول منتخب ہوئے.اس موقعہ پر حضرت مولانا نور الدین کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی گئی جس پر جناب مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر سیدمحمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور دوسرے بہت سے عمائد انجمن کے دستخط
ثبت تھے.اس درخواست میں یہ لکھا تھا کہ:.194 اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں اعلم اور اتنی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہے اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر خوش بودے اگر چه هر یک ز امت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے، کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.( بدر ۲ جون ۱۹۰۸ء) علاوہ از میں جناب خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدرانجمن احمدیہ نے انجمن کے جملہ ممبران کی طرف سے تمام بیرونی احمدیوں کی اطلاع کے لئے حسب ذیل بیان جاری کیا.حضور علیہ السلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشوره معتمدین صدر انجمن احمد یه موجوده قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود علیہ السلام به اجازت حضرت ام المومنین کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سوتھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین الشریفین جناب حکیم نورالدین سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.معتمدین میں سے ذیل کے احباب موجود تھے.مولنا حضرت سید محمد احسن صاحب صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب نواب محمد علی خاں صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، خلیفہ رشید الدین صاحب اور خاکسار خواجہ کمال الدین“.جناب خواجہ صاحب نے اس اطلاعی بیان میں یہ بھی تحریر فرمایا: - کل حاضرین نے جن کی تعداد او پر دی گئی ہے بالا تفاق خلیفہ اسی قبول کیا یہ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامت خلیفتہ امسیح والمہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر بیعت کریں“.( بدر ۲ جون ۱۹۰۸ء)
195 بھی مانوں گا“.محترم خواجہ صاحب نے بعد ازاں یہ بھی تسلیم کیا کہ ” جب میں نے بیعت ارشاد کی...یہ بھی کہا کہ میں آپ کا حکم بھی مانوں گا اور آنے والے خلیفوں کا حکم لیکچراندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب ص ۶۹.۷ دسمبر ۱۹۱۴ء) تلخیص از رساله خلافت احمد یہ از انجمن انصار اللہ قادیان سن 1913ء) ایک فیصلہ کن سوال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک بار قادیان میں خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ:.اس مسئلہ کے متعلق ایک سوال ہے جو ہماری جماعت کے دوستوں کو یا درکھنا چاہئے اور ہمیشہ ان لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ یہی لوگ جو آج کہتے ہیں کہ الوصیت سے خلافت کا کہیں ثبوت نہیں مانتا ان لوگوں نے اپنے دستخطوں سے ایک اعلان شائع کیا ہوا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول کی بیعت کے وقت انہوں نے کیا.پس جماعت کے دوستوں کو ان لوگوں سے یہ سوال کرنا چاہئے اور پوچھنا چاہئے کہ تم ہمیں الوصیت کا وہ حکم دکھاؤ جس کے مطابق تم نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی.اس کے جواب میں یا تو وہ یہ کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ بولا اور یا یہ کہیں گے کہ الوصیت میں ایسا حکم موجود ہے اور یہ دونوں صورتیں ان کے لئے کھلی شکست ہیں“.الفضل ۲۱ شہادت، اپریل ۱۹۴۰ / ۱۳۱۹ ش ص ۶ خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعودؓ ) شخصی خلافت پر سب سے بڑی شہادت حضرت مسیح موعود کے بعد آپ کی جانشین شخصی خلافت پر سب سے بڑی دلیل خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے.نظام خلافت سے وابستہ جماعت مبائعین کا موازنہ غیر مبائعین سے کر کے بآسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کس کے ساتھ ہے.نظام خلافت سے وابستہ لوگوں کے ساتھ یا منکرین خلافت کے ساتھ.جماعت احمد یہ مبائعین آج خدا کے فضل اور خلافت کی برکت سے ۱۹۱۸ ممالک میں نفوذ کر چکی ہے.جبکہ غیر مبائعین کی حالت ایسے ہی ہے جیسے آخری شب کا چراغ ہوتا ہے.جس کی زندگی چند لمحوں کی مہمان ہوتی ہے.آخر پر ہم ایک غیر کی شہادت پیش کرتے ہیں جس سے جماعت احمدیہ مبائعین کی ترقی روز روشن کی طرح عیاں ہے.
196 قاہرہ کے شدید مخالف احمدیت اخبار الفتح کو بھی لکھنا پڑا کہ:.میں نے بغور دیکھا تو قادیانیوں کی تحریک حیرت انگیز پائی.انہوں نے بذریعہ تحریر و تقریر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے.اور مشرق و مغرب کی مختلف ممالک واقوام میں بصرف زرکثیر اپنے دعوی کو تقویت پہنچائی ہے.ان لوگوں نے اپنی انجمنیں منظم کر کے زبر دست حملہ کیا ہے اور ایشیاو یورپ، امریکہ اور افریقہ میں ان کے ایسے تبلیغی مراکز قائم ہو گئے ہیں جو علم و عمل کے لحاظ سے تو عیسائیوں کی انجمنوں کے برابر ہیں لیکن تاثیرات و کامیابی میں عیسائی پادریوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں.قادیانی لوگ بہت بڑھ چڑھ کر کامیاب ہیں.کیونکہ ان کے پاس اسلام کی صداقتیں اور پُر حکمت باتیں ہیں.جو شخص بھی ان کے حیرت زدہ کارناموں کو دیکھے گا وہ حیران و ششدر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کس طرح اس چھوٹی سی جماعت نے اتنا بڑا جہاد کیا ہے جسے کروڑوں مسلمان نہیں کر سکے.صرف وہی ہیں جو اس راہ میں اپنے اموال اور جانیں خرچ کر رہے ہیں.اگر دوسرے مدعیان اصلاح اس جہاد کے لئے بلائیں یہاں تک کہ ان کی آواز میں بیٹھ جائیں اور لکھتے لکھتے ان کے قلم شکستہ ہو جائیں تب بھی عالم اسلام میں ان کا دسواں حصہ بھی اکٹھا نہ کرسکیں گے.جتنایہ تھوڑی سی جماعت مال و افراد کے لحاظ سے خرچ کر رہی ہے.(الفتح ۲ جمادی الثانی ۱۳۵۱ھ ) عہد حفاظت نظام خلافت ۱۹۵۹ء کے سالانہ اجتماع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تاریخی عہد لیا جس کے الفاظ یہ ہیں.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا الله اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ ﷺ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولا د در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے.تا کہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اَللهُمَّ مِينَ اللَّهُمَّ مِينَ اللَّهُمَّ مِينَ.
197 اور اس عہد کے متعلق آپ نے یہ ارشاد بھی فرمایا کہ یہ عہد متواتر چار صدیوں بلکہ چار ہزار سال تک جماعت کے نواجوانوں سے لیتے چلے جائیں اور جب تمہاری نئی نسل تیار ہو جائے تو پھر اسے نہیں کہ وہ اس عہد کو اپنے سامنے رکھے اور ہمیشہ اسے دہراتی چلی جائے اور پھر وہ نسل یہ عہد اپنی تیسری نسل کے سپرد کر دے اور اس طرح ہر نسل اپنی اگلی نسل کو اس کی تاکید کرتی چلی جائے.اسی طرح بیرونی جماعتوں میں جو جلسے ہوا کریں ان میں بھی مقامی جماعتیں خواہ خدام کی ہوں یا انصار کی یہی عہد دہرایا کریں.یہاں تک کہ دنیا میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے اور اسلام اتنا ترقی کرے کہ دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائے“.( الفضل ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۹ء) حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اپنے ایک پیغام میں جماعت کو اس بارہ میں یاد دہانی کروائی.فرمایا.اسلام، احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کے لئے آخر دم تک جد و جہد کرنی ہے اور اس کیلئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے.یہ اتنا بڑا اور عظیم الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اترنا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے“.(ماہنامہ الناصر جر منی جون تا ستمبر ۲۰۰۳ ص۱)
198 نئی صدی کا عظیم عہد از حضرت خلیفہ اسیح الخامس اید والله تعالی برموقع صدسالہ خلافت احمد یہ جو بلی مورخہ ۲۷ مئی ۲۰۰۸ء اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمدا عبده و رسوله آج خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ ﷺہ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کیلئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحوں تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضہ کی تکمیل کیلئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول ﷺے کیلئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچارکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کیلئے آخری دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللهم آمين اللهم آمين، اللهم آمین
199 باب ششم صدر انجمن احمدیہ
200
201 انجمن احمدیہ کا قیام بہشتی مقبرہ کی آمد کی حفاظت.اسے فروغ دینے اور خرچ کرنے کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک انجمن بنائی جس کا نام انجمن کار پردازان مصالح بہشتی مقبره تجویز فرمایا.یہ انجمن کوئی دنیوی یا جمہوری طرز کی انجمن نہیں تھی.بلکہ ان اموال کی حفاظت اور توسیع اور اشاعت دین حق کی غرض سے بنائی گئی تھی.جو نظام الوصیت کے نتیجہ میں جماعت کو عطا ہونے والے تھے.جماعت کے بعض احباب کے مشوروں کے نتیجہ میں بہشتی مقبرہ والی انجمن کو قانونی وسعت دے کر دوسرے جماعتی اداروں کو بھی اس کے ساتھ شامل کر دیا گیا.اور ۱۹۰۶ء میں اس کا نام ”صدر انجمن احمد یہ رکھا گیا.جس کا دائرہ کار جماعتی وسعت اور ترقی کے ساتھ ساتھ وسعت اختیار کرتا گیا.چنانچہ اندرون ملک کی جماعتی ، انتظامی، تربیتی اور تعلیمی و اصلاحی اغراض کو پورا کرنے کا فریضہ خلیفہ وقت کی ہدایات کے ماتحت موجودہ صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ کے سپرد ہو گیا.اس انجمن کے دفاتر کی شاندار عمارت کا سنگ بنیاد جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ۳۱ مئی ۱۹۵۰ء کو اپنے دست مبارک سے رکھا.اور ۱۹ نومبر ۱۹۵۷ء کو اس عمارت کا افتتاح فرمایا.صدر انجمن احمدیہ کے کئی شعبہ جات اور کمیٹیاں ہیں.بعض شعبہ جات کے لئے نظارت کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں.ان تمام شعبہ جات، کمیٹیوں اور نظارتوں کا تعارف قواعد وضوابط صدر انجمن احمد یہ مطبوعہ نومبر ۲۰۰۱ء کی روشنی میں تحریر کیا جاتا ہے.کمیٹی محاسبه و مال ا.صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت ایک کمیٹی ہے.جس کا نام کمیٹی محاسبہ ومال ہے.( قاعدہ نمبر ۵۷).اس کمیٹی کا کام مالی و حسابی معاملات میں صدر انجمن کومشورہ دینا ہوتا ہے اور کوئی ایسا معاملہ جو مالی یا حسابی ہو اور جس کا بجٹ پر اثر پڑتا ہو اس کمیٹی کی رائے کے بغیر صدر انجمن احمد یہ میں پیش نہیں ہو سکتا.اس کمیٹی کے کام کی تفصیل یہ ہے.( قاعدہ نمبر ۵۸) الف:.سالانہ بجٹ آمد و خرچ کے متعلق مشورہ دینا.
202 ب:.ہر ایسے معاملہ میں مشورہ دینا جس سے خزانہ پر بار پڑتا ہو لیکن منظور شدہ بجٹ میں سے کوئی رقم پیشگی منظور کرنا اس سے مستفی ہوتا ہے.ج:.اخراجات پر نگاہ رکھنا اور مالی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے بر وقت اس کے متعلق صدر انجمن احمد یہ میں رپورٹ کرنا.د: ہر قسم کے مشترکہ محکمانہ فارم تجویز کرنا.ھ :.آمد و خرچ کے حساب و کتاب رکھنے کا طریق تجویز کرنا.و.دیگر ہر قسم کے مالی و حسابی کام کے متعلق مشورہ دینا..اس کمیٹی کے چار ممبر ہوتے ہیں.ناظر بیت المال خرچ، ناظر بیت المال آمد، محاسب اور آڈیٹر.اس کمیٹی کا صدر ناظر بیت المال خرچ اور سیکرٹری محاسب ہوتا ہے.قورم تین ممبران کا ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۵۹) ۴.ناظر بیت المال خرچ یا اس کے قائمقام کی عدم موجودگی میں ناظر بیت المال آمد کمیٹی محاسبہ و مال کے اجلاس کی صدارت کرتا ہے.( قاعدہ نمبر ۶۰) ۵.اس کمیٹی کو تمام مشورہ طلب امور میں صرف مالی و حسابی نگاہ سے رائے دینے کا اختیار ہوتا ہے.انتظامی پہلو سے دخل نہیں دے سکتی.( قاعدہ نمبر ۶۱).کمیٹی کا فرض ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسا حسابی و مالی معاملہ اس کے نوٹس میں آئے جس میں سلسلہ کے مفاد میں رائے دینی مناسب ہو تو وہ از خود اپنی رائے صدر انجمن احمدیہ کو ارسال کر سکتی ہے.( قاعدہ نمبر ۶۲) انتظامی میٹی ا.صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت ایک کمیٹی ہوتی ہے.جس کا نام انتظامیہ کمیٹی ہوتا ہے.اس کمیٹی کا کام انتظامی امور میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے مفوضہ معاملات میں مشورہ دینا ہوتا ہے مثلاً استقلال کارکنان ، رخصت کارکنان ، نئی آسامی کا قیام وغیرہ.( قاعدہ نمبر ۶۳) ۲.اس کمیٹی کے درج ذیل ممبران ہوتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۶۴) ا.ناظر دیوان (صدر) ۲.ناظر تعلیم ۳.ناظر امور عامه ۳.اس کمیٹی کے ذمہ ان دیگر امور کے بارہ میں بھی رپورٹ کرنا ہوتا ہے جو صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۶۵)
203 مشترکہ کمیٹی ۱.صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے مرسلہ ایسے معاملات جن میں مالی و انتظامی پہلوز برنخور لائے جانے ہوں مشتر کہ کمیٹی میں پیش ہوتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۶۶) ۲ مشتر کہ کمیٹی کمیٹی محاسبہ ومال اور انتظامیہ کمیٹی پر مشتمل ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۶۷) ۳.مشترکہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت ناظر دیوان کرتا ہے.( قاعدہ نمبر ۶۸) صیغہ پرائیویٹ سیکرٹری ا.حضرت خلیفہ المسیح کے دفتر کے کام کو چلانے اور بیعت کنندگان کا ریکارڈ رکھنے اور ان کے اسماء شائع کرانے اور آپ کی ڈاک کا جواب دینے اور اس کا ریکارڈ رکھنے اور آپ کے ارشاد کے ماتحت ہر قسم کی امدادی رقوم کی تقسیم کا انتظام کرنے اور اسی قسم کی دیگر خدمت سرانجام دینے کے لئے جو خلیفتہ امسیح اس سے لینا پسند فرمائیں، ایک صیغہ ہے.جس کا انچارج پرائیویٹ سیکرٹری کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۶۹) ۲.پرائیویٹ سیکرٹری کی پوزیشن ناظر اعلیٰ کے تعلق کے ضمن میں ایک ناظر کی سی ہوتی ہے مگر وہ ناظر نہیں کہلا تا اور نہ ہی وہ صدر انجمن احمدیہ کا نمبر ہوتا ہے.پرائیویٹ سیکرٹری اس حد تک ناطر اعلی کی نگرانی کے ماتحت ہوتا ہے.جس حد تک ناظران اس کے ماتحت ہیں.( قاعدہ نمبر ۷۰ ) ۳.پرائیویٹ سیکرٹری کو اپنے صیغہ میں وہی اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو ناظر ان کو اپنے اپنے صیغہ میں حاصل ہوتے ہیں سوائے اس کے کہ ان قواعد کے ماتحت کسی حصہ میں اس کے اختیارات محدود کر دیئے گئے ہوں.( قاعدہ نمبر اے ).پرائیویٹ سیکرٹری کے صیغہ کے معاملات دیگر نظارتوں کی طرح ناظر اعلیٰ کی وساطت سے صدر انجمن احمدیہ میں پیش ہوتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۷۲ ) ۵- صدر.صدر انجمن احمد یہ اور ناظر اعلیٰ کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کا معائنہ کریں یا کسی دفتری اطلاع کے مہیا کئے جانے کا مطالبہ کریں اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کا کوئی ریکارڈ باستثناء اس ریکارڈ کے جسے حضرت خلیفہ اسیح نے مخصوص طور پر صدر صدرانجمن احمد یہ اور ناظر اعلیٰ سے بھی بصیغہ راز رکھنے کا حکم دیا ہوصدر.صدرانجمن احمد یاور ناظر اعلی سےمخفی نہیں رکھا جاتا.قاعدہ نمبر۷۳).اگر کوئی شخص کسی ناظر کے فیصلہ کے خلاف خلیفہ اسیح کے پاس اپیل کرے تو پرائیویٹ سیکرٹری کا
204 فرض ہوتا ہے کہ وہ بلا تاخیر معاملہ خلیفہ مسیح کی خدمت میں پیش کرے.قاعدہ نمبر۷۴ ) ے.ان معاملات کے علاوہ جن میں خلیفہ اسیح کے اپنے دستخط ضروری ہوں (مثلاً ناظران، نائب ناظران اور افسران صیغہ کا تقرر، برطرفی، تبدیلی، تنزلی سزا وغیرہ کے معاملات، موجودہ قواعد کی تبدیلی یانٹے قواعد کا اجراء، بجٹ اور مجلس مشاورت کے فیصلہ جات کی منظوری ، قضائی فیصلہ جات اور دیگر اصلی اور اہم معاملات ) پرائیویٹ سیکرٹری کا معین طور پر خلیفہ امسیح کی طرف منسوب کر کے کسی بات کا لکھنا خلیفتہ امسیح کا ارشاد سمجھا جاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۷۵ ).جن امور میں ناظران کے لئے ناظر اعلیٰ کی ہدایت یا فیصلہ واجب التعمیل ہے ان میں ناظر اعلیٰ کی ہدایت یا فیصلہ پرائیویٹ سیکرٹری کے لئے واجب التعمیل ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر۶).پرائیویٹ سیکرٹری کے رخصت پر جانے کی صورت میں ناظر اعلیٰ خلیفتہ مسیح کی ہدایت کے مطابق قائم مقام پرائیویٹ سیکرٹری مقرر کرتا ہے.( قاعدہ نمبر۷۷ ) ۱۰.پرائیویٹ سیکرٹری مجلس مشاورت کا سیکرٹری ہوتا ہے اور مجلس مشاورت کے انعقاد کے جملہ انتظامات اس کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ جو فیصلہ جات خلیفہ اسیح مجلس مشاورت میں فرمائیں ان کی ایک باقاعدہ اور مصدقہ نقل مشاورت کے بعد دو ہفتہ کے اندر اندر ناظر اعلی کی خدمت میں بھجوائے تاکہ وہ صدرانجمن احمدیہ میں ریکارڈ کروا کے مختلف صیغہ جات سے ان کی تعمیل کروائے نیز پرائیویٹ سیکرٹری کا فرض ہوتا ہے کہ عرصہ دوماہ کے اندر ان کو چھاپ کر شائع کر دیا کرے.( قاعدہ نمبر ۷۸) ا.پرائیویٹ سیکرٹری کا فرض ہوتا ہے کہ مجلس مشاورت کے اجلاس کے بعد چار ماہ کے اندر اندر مجلس مشاورت کی رپورٹ کی تدوین واشاعت کا انتظام کرے.( قاعدہ نمبر ۷۹ ) صدر صدر انجمن احمد به ا.صدر انجمن احمدیہ کا ایک صدر ہوتا ہے جسے خلیفہ مسیح نامز فر ماتے ہیں اور وہ اس عہدہ پر اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک خلیفہ اسیح اسے عہدہ پر رکھنا پسند فرمائیں.( قاعدہ نمبر ۸۰) ۲.صدر صدر انجمن احمدیہ کا فرض ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۸) الف: حسب ضرورت صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس معمولی، غیر معمولی اور انفارمل منعقد کروائے.ب :.اجلاس سے قبل ممبران حاضر ربوہ کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دے.ج:.اجلاس کے لئے ایجنڈا کی تیاری کروائے.
205 د اپنی صدارت میں ایجنڈا پیش کر کے فیصلے کروائے اور ان کا ریکارڈ رکھے.۳.فیصلہ جات صدر انجمن احمدیہ کی نقول حسب قواعد متعلقہ دفاتر کو مہیا کر نا صدر کے دفتر کا کام ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۸۲) قائم مقام ناظر اعلی مقرر کرنے کیلئے خلیفتہ اسی سے منظوری حاصل کرنا.صدر،صدر انجمن احمد یہ کے ذمہ ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۸۳) ۵- اگر صدر صدر انجم احمد یہ کوآن ڈیوٹی یا رخصت پر جانا ہو تو وہ خلیفہ اسی کی منظوری سے جا سکتا ہے اور خلیفہ ایسی ہی صدر کا قائمقام مقرر فرماتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۸۴).ہنگامی صورت میں صدر.صدر انجمن احمدیہ کی عدم موجودگی میں ناظر اعلیٰ بطور صدر کے اور ناظر اعلیٰ کی عدم موجودگی میں صدر بطور ناظر اعلیٰ کام کرتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۸۵) ۷.صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کئے جانے والے مقدمات صدر کی طرف سے دائر کئے جاتے ہیں جسے صدر حسب ضابطہ اس امر کیلئے مقرر کرے.صدر کسی بھی افسر یا صدر انجمن احمدیہ کے کارکن کو اپنا نمائندہ یا ایجنٹ مقرر کر سکتا ہے.( قاعدہ نمبر ۸۶) ۸- صدرانجمن احمدیہ کا شعبہ آڈٹ انتظامی لحاظ سے صدر سے متعلق ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۸۷) ۹.صدر.صدر انجمن احمدیہ کے ذمہ ان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفتہ امسیح کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۸۸) نظارت علیاء ا.صدر انجمن احمدیہ کے مختلف صیغہ جات کے کام کی نگرانی اور ان میں بیجہتی اور تعاون پیدا کرنے کے لئے ایک نظارت علیاء ہے جس کا انچارج ناظر اعلیٰ کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۸۹) ۲.ناظر اعلی تمام نظارتوں کے کام اور ان صیغہ جات کے کام جوکسی نظارت کے ماتحت نہیں ہیں نگران ہوتا ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ نظارتوں کے کام میں وحدت اور یکرنگی اور تعاون قائم رکھے.اور صدرانجمن احمدیہ کے تمام کاموں کے متعلق عمومی طور پر ذمہ دار ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۹۰).ناظر اعلیٰ کا فرض ہوتا ہے کہ اپنی اور ناظران اور افسران صیغہ جات کے کام کی ماہوار رپورٹ بتوسط صدرانجمن احمد یہ خلیفتہ اسیح کی خدمت میں پیش کیا کرے.( قاعدہ نمبر ۹) ۴.ناظر اعلیٰ کا یہ فرض ہوتا ہے کہ خلیفہ اسیح کے احکام سے ناظران یا افسران صیغہ جات کو مطلع کرے
206 اور اس بات کی نگرانی کرے کہ ان احکام کی تعمیل کی جاتی ہے.ناظر اعلیٰ کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ خلیفہ امسیح کی تحریری یا تقریری ہدایات کے علاوہ جو صدر انجمن احمد یہ یا صدر.صدر انجمن احمد یہ بیا ناظر اعلیٰ کو خاص طور پر مخاطب کر کے جاری کی جائیں یا جو مجلس مشاورت میں آپ منظور فرما ئیں آپ کے عام خطبات و نقار بر وغیرہ میں جو احکام وارشادات اور ہدایات کارکنان سلسلہ یا نظام سلسلہ کے متعلق ہوں ان کو بھی نوٹ کرتا ہے صیغہ جات متعلقہ کو پہنچائے اور اس بات کی نگرانی کرتا ہے کہ صیغہ جات متعلقہ نے خلیفتہ امیج کی ہدایات کی تعمیل کر دی ہے.خلیفہ اسیح کی ہدایات وارشادات کا باقاعدہ ریکارڈ دفتر ناظر اعلیٰ میں رکھا جانا ضروری ہوتا ہے اور ان ہدایات میں سے اصولی ہدایات یا جن کو قواعد میں شامل کرنے کا حکم دیا گیا ہو، کو صدر انجمن احمد یہ میں پیش کر کے قواعد کی صورت میں جاری کیا جاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۹۳) ۶.ناظر اعلیٰ جب چاہے تمام مرکزی دفاتر کا معائنہ کر سکتا ہے اور ہر دفتر کو جملہ ریکارڈ معائنہ کے لئے ناظر اعلی کو پیش کرنا ضروری ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۹۴) ے.ناظر اعلیٰ کے معائنہ کے اس حصہ کی نقل صدر انجمن احمد یہ میں پیش کی جانی ضروری ہوتی ہے جو کسی اہم نقص یا اصلاح کے متعلق ہو یا ایسے اہم امور کے متعلق ہو جن کا صدرانجمن احمدیہ کے نوٹس میں آنا ضروری ہو.( قاعدہ نمبر ۹۵).ناظر اعلیٰ کو یہ حق ہوتا ہے کہ جو اطلاع مناسب سمجھے ناظران صیغہ جات سے جو کسی نظارت کے ماتحت نہیں طلب کرے اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ ناظر اعلیٰ کی طرف سے مطالبہ ہونے پر ہر قسم کی مطلوبہ اطلاع اس کے سامنے پیش کر دیں.( قاعدہ نمبر ۹۶) ۹.ناظر اعلیٰ کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب وہ یہ دیکھے کہ کوئی ناظر یا ایسا افسر صیغہ جو کسی نظارت کے ماتحت نہیں ہے ایسا کام کرنے لگا ہے کہ جو اس کی رائے میں مفاد سلسلہ کے خلاف ہے تو وہ اسے اس کام کے کرنے سے روک دے اور ایسے ناظر یا افسر کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ناظر اعلیٰ کے روکنے پر اس کام سے رک جائے.لیکن اگر ناظر اعلیٰ کے حکم کے متعلق اسے کوئی اعتراض ہو تو اس اعتراض کے پیش کئے جانے پر ناظر اعلیٰ کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کے قریب ترین اجلاس میں اس معاملہ کو پیش کرے اور پھر صدر انجمن احمدیہ کے فیصلہ کے مطابق عملدرآمد کیا جاوے.لیکن جب تک صدرا انجمن احمد یہ فیصلہ نہ کرے ناظر اعلیٰ کا حکم جو کسی کام سے رک جانے سے متعلق ہو، بہر حال واجب التعمیل ہوتا ہے.سوائے اس کے کہ صدر.صدرانجمن احمدیہ ناظر اعلیٰ کے حکم کی تعمیل کو صدرانجمن احمدیہ کے فیصلہ تک روک دے.( قاعدہ نمبر ۹۷) ۱۰.ناظر اعلی کو حق ہوتا ہے کہ سلسلہ کے مفاد میں جو ہدایات یا احکامات مناسب سمجھے کسی ناظر یا افسر
207 صیغہ کو جوکسی نظارت کے ماتحت نہیں جاری کرے.لیکن اگر اس ناظر یا افسر صیغہ کو ناظر اعلیٰ کی ہدایات یا احکامات پر اعتراض ہوتو وہ اپنا اعتراض ناظر اعلیٰ کے سامنے پیش کرے.اگر ناظر اعلیٰ اس اعتراض کو زیر غور لانے کے بعد بھی اپنی ہدایات یا احکامات کی تعمیل پر اصرار کرے تو متعلقہ ناظر یا افرصیغہ کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ناظر اعلیٰ کی ہدایات یا احکامات کی تعمیل کرے.البتہ اس ناظر یا افسر صیغہ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ناظر اعلیٰ کی ہدایات یا احکامات اور اپنے اعتراض کو بتوسط ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ میں بھجوائے اور پھر صدر انجمن احمد یہ جو فیصلہ کرے اس پر عملدرآمد ہو.ایسی صورت میں صدر صدر انجمن احمدیہ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو ناظر اعلیٰ کی ہدایات یا احکامات پر عملدرآمد صدرانجمن احمدیہ کے فیصلہ تک مؤخر کر دے.لیکن مندرجہ ذیل امور کے متعلق ناظر اعلیٰ کی ہدایات بہر حال جملہ ناظران و افسران صیغہ جات کے لئے جو کسی نظارت کے ماتحت نہیں واجب التعمیل ہوتی ہیں.( قاعدہ نمبر ۹۸) الف: کسی ناظر یا افسر صیغہ کوکسی مشورہ کے لئے اپنے پاس بلا نا.ب: کسی تقریب پر صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت محکموں اور دفتروں کو رخصت دینا.ج:.دفاتر کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات مقرر کرنا.: یہ طالبہ کرنا کہ کوئی ناظر یا افرصیغہ کی امرمیں اپنا عذر یا جواب یا درخواست پذیر یعہ تحریر پیش کرے.: کسی ناظر یا افرصیغہ کے رخصت پر جانے کی صورت میں بمنظوری خلیفہ اسیح قائمقام مقرر کرنا.ربوہ سے باہر اپنے محکمانہ کام کی انجام دہی کے لئے آن ڈیوٹی جانے پر کسی کو انچارج مقرر کرنا.و :.دو ناظروں میں کسی بات میں اختلاف ہو جانے پر کہ یہ کام کس نظارت کے دائرہ عمل میں آ سکتا ہے فیصلہ کرنا.ف: کسی ناظر ، نائب ناظر اور افسر صیغہ کو رخصت اتفاقیہ دینا.ح:.ناظران و نائب ناظران و افسران صیغہ جات رخصت یا آن ڈیوٹی ربوہ سے باہر جانے کی اجازت بتوسط ناظر اعلیٰ خلیفہ اسیح لیتے ہیں..ناظر اعلیٰ کا فرض ہوتا ہے کہ خلیفہ مسیح کے نذرانہ کا معاملہ پانچ سال بعد لازماً حسب ضرورت اس سے قبل مجلس مشاورت میں پیش کرے.( قاعدہ نمبر ۹۹) ناظر اعلی کو اختیار ہوتا ہے کہ مقامی جماعتوں کے کام کی نگرانی اور ان کے حالات سے باخبر رہنے کے لئے اور ان سے رابطہ قائم کرنے کے لئے ناظر ان کے دورہ جات کا با قاعدہ پروگرام مرتب کروائے اور ان کی نگرانی کرے کہ ایسے دورے بروقت کئے جائیں.اور ایسے دورہ جات پر جانے والے ناظران سب نظارتوں
208 کی نمائندگی کرتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۱۰۰) ناظر اعلیٰ کا فرض ہوتا ہے کہ مختلف نظارتوں اور صیغہ جات سے ان کے صیغہ کے کام کی سالانہ رپورٹیں مالی سال کے شروع میں دوماہ کے اندراندر منگوا کر اپنے انتظام میں طبع کرائے.( قاعدہ نمبر ۱۰) ناظر اعلیٰ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ مقامی.حلقہ وار ضلع وار.علاقہ وار.صوبہ وار.ملک وار ( جیسی بھی صورت ہو ) حسب قواعد عہدہ داران کے انتخابات اپنی نگرانی میں کروائے اور ان کی منظوری سے اطلاع دے.( قاعدہ نمبر ۱۰۲) علیاء کمیٹی بھی اسی نظارت کے تحت کام کرتی ہے.ناظر اعلی کے ذمہ ان دیگر فرائض کی بجا آوری ہوتی ہے جو خلیفہ اسیح کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.( قاعدہ نمبر۱۰۳) نظارت دیوان ا.سلسلہ کے فرائض دربارہ صدر انجمن احمدیہ کے انتظامی شعبہ جات کے عملہ کی بھرتی کا حسب قواعد انتظام کرنے کے لئے ایک نظارت دیوان ہے اور اس کا انچارج ناظر دیوان کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۰۴) ۲.ناظر دیوان کا فرض ہوتا ہے کہ صدرانجمن احمدیہ کی ضرورت کے مطابق اس کے انتظامی شعبہ جات کے لئے کارکنان اور واقفین زندگی کے حصول کے لئے تحریک کرے اور جو درخواستیں آئیں ان میں سے حسب قواعد انتخاب کروائے.( قاعدہ نمبر ۱۰۵) ۳.ناظر دیوان کا فرض ہوتا ہے کہ اگر صد را مجمن احمدیہ اپنا کوئی کارکن عاریہ کسی دوسرے ادارے مثلاً انجمن احمد یہ تحریک جدید، انجمن احمد یہ وقف جدید کو دے یا کسی ادارہ کا کوئی کارکن عاریۂ صدرانجمن احمدیہ کے کام کے لئے لے تو اس کے حقوق کی تعین و تحفظ کے لئے حسب منظوری صدر انجمن احمدیہ تحریری معاہدہ کرے ( قاعدہ نمبر ۱۰۶) ۴.ناظر دیوان کا فرض ہوتا ہے کہ جملہ کارکنان کی سروس بکوں کی مکمل نقول رجسٹر کی صورت میں رکھے اور اس امر کی نگرانی کرتا رہے کہ یہ ریکارڈ تا تاریخ تقریر مکمل رہے.ہرصیغہ کے کارکنان کی سروس بکیں متعلقہ صیغہ جات میں رہتی ہیں.( قاعدہ نمبر ۱۰۷) ۵.جملہ صیغہ جات کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے صیغہ جات کے عملہ کی ترقی.سزا یا رخصتوں کے متعلق جو بھی فیصلہ کریں اس کی ایک نقل ناظر دیوان کو بھی بھجوائیں.( قاعدہ نمبر ۱۰۸) ۶.ناظر دیوان کا فرض ہوتا ہے کہ جملہ کارکنان صدر انجمن احمدیہ کی کیڈرلسٹیں ہر وقت مکمل رکھے.( قاعدہ نمبر ۱۰۹)
209 ے.ناظر دیوان کا فرض ہوتا ہے کہ حسب قاعدہ اس بات کا انتظام کرے کہ صیغہ جات کی باہمی رضا مندی سے محررین کا تبادلہ اس طرح ہوتا رہے کہ کوئی محرر عام حالات میں تین سال سے زائد عرصہ کے لئے ایک دفتر میں نہ رہے اور اگر باہمی رضا مندی سے ایسا نہ ہو سکے تو اپنی تجاویز صدر انجمن احمد یہ میں پیش کر کے فیصلہ حاصل کرے.( قاعدہ نمبر ۱۱۰).ناظر دیوان کا فرض ہوتا ہے کہ کارکنان کی تقرری، تبادلہ اور سزا کے متعلق صدر انجمن احمدیہ کے فیصلہ جات کی تعمیل کروائے.( قاعدہ نمبر ۱۱) ۹- نظارت دیوان کے ذمدان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفة المسیح کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۱۱۲) نظارت اصلاح وارشاد ا.سلسلہ کے فرائض متعلق اصلاح و ارشاد ادا کرنے کیلئے ایک نظارت اصلاح وارشاد قائم ہے.جسے عرف عام میں اصلاح وارشاد مرکز یہ کہتے ہیں اور اس کا انچارج ناظر اصلاح وارشاد کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۱۳) ۲.نظارت اصلاح وارشاد کا یہ کام ہوتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو یعنی اپنی انتہائی طاقت کے ساتھ تمام اکناف عالم میں بصورت احسن اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے پہنچانے کا انتظام کرے.اس کا فرض ہوتا ہے کہ تبلیغ کے بہترین ذرائع دریافت کرے اور ان سے کام لے کر دنیا کے ہر حصہ میں اسلام واحمدیت کی اشاعت کی تدابیر اختیار کرے حتی کہ دنیا کا کوئی انسان اسلام اور احمدیت کی تبلیغ سے باہر نہ رہ جاوے اور حتی الوسع ہر جماعت اور ہر گروہ اور ہر فرد کے اعتراضات اور شکوک کے ازالہ کا انتظام کیا جائے.اسی طرح جماعت کی دینی اور اخلاقی تربیت کا کام بھی اس نظارت سے متعلق ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۱۴) ۳.نظارت اصلاح وارشاد کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے کل وقتی ورضا کار مربیان اور معلمین کے ذریعہ قاعدہ نمبر ۱۴۴ میں مذکور فرائض سرانجام دے اور احباب جماعت میں اصلاح و ارشاد کا شوق اور ولولہ قائم رکھے.( قاعدہ نمبر ۱۱۵) ۴.مربی سلسلہ کے اپنے حلقہ کارکردگی میں وہی فرائض ہوں گے جو کہ نظارت کے قاعدہ نمبر ۱۱۴ ۱۱۸ ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۴ - ۱۲۶ میں درج ہیں.( قاعدہ نمبر ۱۱۶) ۵.بوقت ضرورت تربیتی اور تبلیغی جلسے و مذاکرے وغیرہ منعقد کروانا اور ان کا انتظام کرنا بھی اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۱۷)
210.ہر قسم کے مخالفانہ لٹریچر سے اطلاع رکھنا اور اس کا جواب دینا یاد دلانا بھی اس نظارت کے فرائض میں داخل ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۱۸) ے.جلسہ سالانہ ربوہ کے پروگرام کا تیار کرنا اور اپنی نگرانی میں اس پر عمل کرانا اور جلسہ کے وقت میں جلسہ گاہ و اسٹیج کا انتظام بھی اسی نظارت کے سپر د ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۱۹).اگر احمدیوں میں کوئی باہمی تنازعہ پیدا ہو یا تنازعہ کا اندیشہ ہو تو اصلاحی رنگ میں اس کے سدباب کی تدابیر اختیار کرنا اس نظارت کے ذمہ ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۲۰) ۹.احمدیوں کو نماز.روزہ زکوۃ.حج وغیرہ کی طرف متوجہ رکھنا اور ان کی طرف رغبت پیدا کرانا اور ان کی سستی کو دور کرنے کی کوشش کرنا.اسی طرح جماعت میں بد معاملگی اور بد عادات اور بدرسوم اور خلاف شریعت امور کے مٹانے کی کوشش کرنا اس نظارت کے سپر دہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۲۱) ۱۰.جماعت کو اعمال صالحہ بجالانے اور تقویٰ و طہارت میں ترقی کرنے کی طرف متوجہ کرتے رہنا بھی اس نظارت کے ذمہ ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۲۲).آئندہ نسل کی دینی اور اخلاقی حفاظت کی تدابیر اختیار کرنا بھی اس نظارت کے ذمہ ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۲۳) ۱۲ اختلافی اور عملی مسائل سے جماعت کو واقف کرانا اور صحیح عقائد کی تعلیم دینا اور اس سلسلہ میں جماعت کی نگرانی رکھنا بھی اس نظارت کے سپر د ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۲۴) ۱۳.مساجد کا انتظام بھی اس نظارت سے متعلق ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۲۵) ۱۴.احمدیوں کی دینی اور اخلاقی حالت کا علم رکھنا اور انہیں دینی اور اخلاقی تعلیم سے واقف رکھنے کے لئے ذرائع اختیار کرنا بھی اس نظارت کے سپر د ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۲۶) ۱۵.مقامی جماعتوں میں درس قرآن کریم و حدیث و کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کا انتظام کرنا اور ان میں افراد جماعت کا مناسب طریق پر امتحان لینے کا انتظام کرنا اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۲۷) ۱۶ - مربی اور امیر رصدر جماعت باہمی تعاون سے کام کرتے ہیں.مربی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی رپورٹ ماہانہ کارگزاری کی ایک نقل امیر ضلع کو دے.انتظامی معاملات میں مربی دخل نہیں دے سکتے.مربی کے کاموں میں امیر اصدر جماعت دخل نہیں دے سکتے.صرف مشورہ دے سکتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۱۲۹) ۱۷.جماعتوں میں ڈش لگوانا اور احباب اور مہمانوں کو وہاں لانا اور اس امر کی نگرانی جماعتوں میں
211 دشیں صحیح کام کرتی ہیں اور درست طور پر استفادہ وغیرہ نظارت اصلاح وارشاد کی ذمہ داری ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۱۳۰) ۱۸.نومبائعین کی تربیت کرنا انہیں جماعتی نظام کا حصہ بنانا.مالی نظام میں شامل کرنا وغیرہ بھی اس نظارت کی ذمہ داری ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر (۱۳) اصلاحی کمیٹی اسی نظارت کے ماتحت کام کرتی ہے.۱۹.نظارت اصلاح ارشاد کے ذمہ ان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفتہ المسیح کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۱۳۲) ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد مقامی اس نظارت کا کام بھی اصلاح وارشاد کا ہی ہے.انتظامی طور پر کام میں بہتری لانے کیلئے درج ذیل اضلاع کا الگ یونٹ بنایا گیا ہے.مذکورہ بالا تمام کام اس نظارت کے تحت سرانجام پاتے ہیں.ا.سرگودھا.۲.خوشاب.۳.ٹو بہ ٹیک سنگھ.۴.جھنگ.۵.فیصل آباد.۶.شیخوپورہ.۷.گوجرانوالہ.۸.نارووال.۹.سیالکوٹ.۱۰.حافظ آباد.۱۱.ننکانہ صاحب ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد ( تعلیم القرآن ووقف عارضی) ا.سلسلہ کے فرائض دربارہ تعلیم القرآن و وقف عارضی کے ادا کرنے کے لئے ایک نظارت اصلاح و ارشاد (تعلیم القرآن و وقف عارضی ہے اور اس کا انچارج ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد ( تعلیم القرآن و وقف عارضی ) کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر۱۳۳) ۲.اس نظارت کا فرض ہوتا ہے کہ احمدی مرد و زن کو قرآن مجید ناظرہ پڑھنے اور ترجمہ سیکھنے اور حتی المقدور قرآن مجید کے حقائق و معارف سیکھنے کی ترغیب دلائے.( قاعدہ نمبر ۱۳۴) ۳.اس نظارت کا فرض ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی صحت تلفظ کے ساتھ تلاوت کے لئے کلاسز کا اہتمام کرے اور ایسے اساتذہ تیار کئے جائیں جو دیگر احباب کو بھی قرآن مجید صحت تلفظ کے ساتھ تلاوت کرنا سکھا سکیں.( قاعدہ نمبر ۱۳۵) ۴ فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کی نگرانی و انتظام کرنا بھی اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۳۶) ۵.اس نظارت کا فرض ہوتا ہے کہ واقفین عارضی کے حصول کا انتظام کرے.ان کے وفود بنا کر مناسب
212 مقامات کا تعین کرے اور جماعتوں میں بھجوائے.وفود سے اس عرصہ میں پیش آنے والے تجربات و مشاہدات کی رپورٹیں حاصل کرے.ان رپورٹوں میں اگر کوئی قابل ذکر امرکسی دوسری نظارت کے متعلق ہو تو اس کی اطلاع کرے.( قاعدہ نمبر ۱۳۷) ۲- نظارت اصلاح وارشاد ( تعلیم القرآن و وقف عارضی ) کے ذمدان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفتہ اسیح کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۱۳۸) ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد برائے رشتہ ناطہ یہ شعبہ پہلے نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے ساتھ منسلک تھا مگر اپریل ۲۰۰۵ء میں اسے الگ نظارت کا درجہ دے دیا گیا.ا.یہ نظارت احباب جماعت کی رشتہ ناطہ کے سلسلہ میں راہنمائی اور مدد کرتی ہے.اور فریقین میں رابطے کا انتظام کرتی ہے.۲.نیز شریعت اور نظام جماعت کے مطابق رشتے ناطے قائم کرنے میں احباب جماعت کو تلقین اور ان کی راہنمائی کرتی ہے..اس کے علاوہ نکاح فارم کا ریکارڈ بھی اس نظارت کے ذمہ ہوتا ہے.اور حسب ضرورت افراد جماعت کو میرج سرٹیفیکیٹ مہیا کرتی ہے.اور ایمبیسوں کی طرف سے بھجوائے گئے نکاح فارموں اور میرج ٹیفیکیٹس کی تصدیق کرتی ہے.اس سلسلہ میں نظارت رشتہ ناطہ کی طرف سے شائع کردہ ایک مضمون پیش کیا جاتا ہے.تعارف شعبہ رشتہ ناطہ اور بعض توجہ طلب امور رشتہ ناطہ کے کام کا آغاز خود حضرت مسیح موعود کے مبارک اور مقدس ہاتھوں سے ہوا.آپ نے اس کے آغاز کے وقت بذریعہ اشتہار یہ اعلان فرمایا.چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم اور اس کی بزرگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہو رہی ہے.اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ان کے باہمی اتحاد کے بڑھانے کے لئے اور نیز ان کو اہل اقارب کے بداثر اور بدنتائج سے بچانے کے لئے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاح کے بارے میں کوئی احسن انتظام کیا جائے اس لئے میں نے انتظام کیا ہے کہ آئندہ خاص میرے
213 ہاتھ میں مستور اور مخفی طور پر ایک کتاب رہے جس میں اس جماعت کی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام لکھے رہیں اور اگر کسی لڑکی کے والدین اپنے کنبہ میں ایسی شرائط کا لڑکا نہ پاویں جو اپنی جماعت کے لوگوں میں سے ہو اور نیک چلن اور نیز ان کے اطمینان کے موافق لائق ہو.ایسا ہی اگر ایسی لڑکی نہ پاویں تو اس صورت میں ان پر لازم ہوگا کہ وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس جماعت میں سے تلاش کریں.اور ہر ایک کو تسلی رکھنی چاہئے کہ ہم والدین کے بچے ہمدرداور غمخوار کی طرح تلاش کریں گے اور حتی الوسع یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی جو تلاش کئے جائیں اہل رشتہ کے ہم قوم ہوں.اور یا اگر یہ نہیں تو ایسی قوم میں سے ہوں جو عرف عام کے لحاظ سے باہم رشتہ داریاں کر لیتے ہوں.اور سب سے زیادہ یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی نیک چلن اور لائق بھی ہوں اور نیک بختی کے آثار ظاہر ہوں.یہ کتاب پوشیدہ طور پر رکھی جائے گی اور وقتا فوقتا جیسی صورتیں پیش آئیں گی اطلاع دی جائے گی.اس لئے ہمارے مخلصوں پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کی ایک فہرست اسماء ( ناموں کی ایک فہرست ) بقید عمر و قومیت بھیج دیں تا وہ کتاب میں درج ہو جائے.( مجموعہ اشتہارات.جلد سوم صفحہ 51,50) حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.وو 66 یہ حضرت مسیح موعود کی طرف سے ایک اعلان تھا.اسی کے تحت اب یہ شعبہ رشتہ ناطہ مرکز میں بھی قائم ہے، تمام دنیا میں بھی قائم ہے.پاکستان میں پہلے شعبہ رشتہ ناطه نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے تحت کام کر تا رہا ہے.اپریل 2005ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسے باقاعدہ ایک نظارت کا درجہ دے دیا اور اس کا نام نظارت اصلاح وارشا درشتہ ناطہ تجویز فرمایا.اس کے پہلے ناظر محترم سید محمود احمد شاہ صاحب مقرر ہوئے.موجودہ ناظر محترم راجہ نصیر احمد صاحب ہیں.نظارت اصلاح وارشاد رشتہ ناطہ کے بنیادی طور پر دو شعبے ہیں.1.رشتہ ناطہ 2.رجسٹریشن ا.رشتہ ناطہ ایسے لڑکے اور لڑکیاں جن کے والدین اپنے بچوں اور بچیوں کے رشتہ کے سلسلہ میں نظام جماعت سے مدد لینا چاہیں، اُن کی سہولت کے لیے نظارت اصلاح وارشا در شتہ ناطہ کی طرف سے انہیں ایک کوائف فارم مہیا کیا جاتا ہے.جس میں لڑ کے رلڑکی کا نام، ولدیت، عمر تعلیم اور قوم وغیرہ سے متعلق معلومات پوچھی جاتی ہیں.
214 والدین کی طرف سے مہیا کئے گئے تمام کوائف کا کمپیوٹر میں اندراج کیا جاتا ہے.کوائف وغیرہ بصیغہ راز رکھے جاتے ہیں.رشتہ کی خواہشمند فیملیوں کے لیے ان کے مطلوبہ کوائف یعنی عمر تعلیم ، قوم ، علاقہ وغیرہ کے لحاظ سے رشتے تجویز کیے جاتے ہیں.ضائع نہ ہو.رشتہ ناطہ کے سلسلہ میں فریقین کو تجاویز کوریئر سروس کے ذریعہ بھجوائی جاتی ہیں تا کہ وقت اور ڈاک کا رشتہ ناطہ کے کام میں تیزی لانے کے لیے حسب ضرورت فریقین سے بذریعہ فون بھی رابطہ کیا جاتا ہے.(اس لیے کوائف بھیجوانے والے افراد اپنا فون نمبر ضرور درج فرمائیں) رابطے کے جدید ذرائع مثلاً فیکس اور E-mail کو بھی استعمال کیا جاتا ہے.بیرونی ممالک سے اکثر کوائف بذریعہ فیکس یا E-mail موصول ہوتے ہیں.بیرون ممالک میں رہنے والے احباب جماعت کو رشتہ کی تجاویز بتوسط ایڈیشنل وکالت تبشیر لندن فیکس کی جاتی ہیں.رابطہ کیلئے نظارت اصلاح و ارشاد رشتہ ناطہ کے فون اور فیکس نمبر ز.نیز E-mail ایڈریس درج ذیل ہیں.فون نمبرز :.6214276-6212477/047-047 -047 فیکس نمبر : 6213298-047 اور E-mail ایڈریس: rishta.nata@gmail.com ہے نظام جماعت کے متعلق راہنمائی کے لیے حضرت خلیفہ امسیح الرابع فرماتے ہیں:.رشتوں کی تجویز میں جماعت محض راہنمائی اور تجویز کرے گی اپنی تسلی کرنا فریقین کا کام ہوگا.جماعت کسی قیمت پر بھی وہ کردار ادا نہیں کرے گی جس میں رشتہ کی نا کامی کی ذمہ داری نظام جماعت پر عائد ہو.جماعتی نظام مشورہ دے.کوائف پیش کرے.معلومات مہیا کرنے میں مدد دے“.( مجلس مشاورت 1983ء) ۲.رجسٹریشن سپرد ہے.رشتہ ناطہ کے علاوہ نکاح فارموں کی رجسٹریشن اور میرج سرٹیفیکیٹ وغیرہ کا کام بھی نظارت ھذا کے ہدایات برائے رجسٹریشن و میرج سر ٹیفکیٹ رجسٹریشن : اعلان نکاح کے بعد تین ماہ کے اندر اندر نظارت اصلاح وارشاد رشتہ ناطہ ربوہ میں
215 رجسٹریشن کروائی جائے.رجسٹریشن کے لئے نکاح فارم دفتر میں لانے سے قبل غور سے چیک کر لئے جائیں تا کہ کسی کمی یا غلطی کی صورت میں وقت ضائع نہ ہو.رجسٹریشن کے لئے چار اصل پر توں کا دفتر میں لانا ضروری ہے.رجسٹریشن کے بعد دو پرت دفتر میں محفوظ رہیں گے اور دو پرت فریقین کو واپس کر دیے جائیں گے.نکاح فارم پُر کرنے سے متعلق ہدایات نکاح فارم آپ کی اہم دستاویز ہے اس لئے اس کو انتہائی احتیاط سے پر کریں.لڑکے اور لڑکی کے کوائف نام ولدیت اور تاریخ پیدائش وغیرہ برتھ سرٹیفیکیٹ / شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے مطابق درج کریں.تحریر صاف اور خوشخط ہو.اعلان نکاح سے مناسب وقت پہلے نکاح فارم مکمل کر لیں تا کہ اگر نکاح فارم میں کوئی کمی یا خامی پائی جائے تو درستی کے لئے وقت کی گنجائش ہو.1.ولایت: اپنے متعلقہ خانے میں Tick V کا نشان لگا ئیں.نکاح فارم کے چار اصل پرت مکمل کرنے ضروری ہیں.ولایت نکاح کا پہلا حق باپ کو حاصل ہے.اگر باپ نہ ہو تو یہ فریضہ بھائی یا کوئی اور عزیز انجام دے گا.جیسا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود کے درج ذیل ارشاد میں بیان فرمایا گیا ہے.اب دیکھو کہ یہ کس قدر انصاف کی بات ہے کہ جیسا کہ (-) نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اس کا باپ یا بھائی یا اور کوئی عزیز ہو خودبخود اپنا نکاح کسی سے کرلے ایسا ہی یہ بھی پسند نہیں کیا کہ عورت خود بخود مرد کی طرح اپنے شوہر سے علیحدہ ہو جائے“.(چشمہ معرفت.روحانی خرائن جلد 23 صفحہ 289) اگر کسی موقعہ پر ولایت کے سلسلہ میں کوئی مسئلہ در پیش ہو تو اعلان نکاح سے قبل نظارت اصلاح وارشاد رشتہ ناطہ سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے.2 وکالت اگر ولی نکاح کے موقع پر خود حاضر نہ ہو سکتا ہو تو اپنی طرف سے کسی کو وکیل مقرر کر دے لیکن ولی کے خانے میں خود ولی کے ہی دستخط ہوں گے ( گواہ بھی اسی جگہ کے ہوں جہاں ولی موجود ہے ) جس کیلئے فارم پر جگہ مقرر ہے نیز لڑ کا بھی اگر نکاح کے موقع پر خود حاضر نہ ہوسکتا ہوتو اپنی طرف سے کسی کو وکیل مقرر کر سکتا ہے.اس کے لئے بھی فارم پر جگہ مقرر ہے.
3- گواه: 216 لڑکی کے دو گواہ ولی کے علاوہ ہونے چاہئیں.نیز دیگر تمام گواہ بھی عاقل بالغ ہوں اور قریبی ہوں تا بوقت ضرورت آسانی سے دستیاب ہو سکیں.4.مہر: حضرت مصلح موعود نے مہر کی تعین کے متعلق لڑکے کی چھ ماہ سے ایک سال تک کی آمد کا مشورہ دیا ہے.فارم پر حق مہر الفاظ اور اعداد دونوں صورتوں میں لکھا جائے.اگر ادا ئیگی بصورت زیور ہو تو تفصیل میں کانٹے ، ہار، چوڑیاں وغیرہ کی تعداد اور وزن لکھیں.جزوی ادائیگی کی صورت میں ادا شدہ رقم اور بقیہ رقم درج کریں.ایک استثنائی پہلو سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کی روشنی میں بعض انتظامی امور کو مد نظر رکھتے ہوئے جماعتی طور پر اس بات کی پابندی کروائی جاتی ہے کہ یو کے سے جولڑ کے پاکستان میں آ کر نکاح کرتے ہیں ان کا حق مہر کم از کم دس ہزار پونڈ ہو، کینیڈین لڑکے کے لئے حق مہر کی رقم کم از کم دس ہزار کینیڈین ڈالر ہو اور جرمن لڑکے کے لیے مہر کی رقم کم از کم سات ہزار یورو ہو.5 تصدیق لڑکا اورلڑ کی جہاں جہاں رہائش رکھتے ہوں اسی جماعت یا حلقے کے صدر صاحب/ امیر صاحب کی تصدیق کروائیں.تصدیق کیلئے دستخط اور مہر ضروری ہیں.لڑکے یا لڑکی کے بیرون ملک ہونے کی صورت میں متعلقہ ملک کے نیشنل امیر کی تصدیق ضروری ہے نہ یہ کہ جہاں ان کا آبائی گھر وغیرہ ہے وہاں سے تصدیق کرائی جائے.اگر لڑکا یا لڑکی نکاح کے وقت پاکستان میں موجود ہوں تب بھی ان کی تصدیق ان کے متعلقہ ملک کے امیر صاحب کی طرف سے ہونی ضروری ہے.یادر ہے کہ بیرون ملک لوکل صدر جماعت کی نہیں بلکہ نیشنل امیر صاحب کی تصدیق ( دستخط مع مہر ) مطلوب ہے.(صرف جرمنی کے نیشنل سیکرٹری رشتہ ناطہ کے دستخط ہوتے ہیں.) 6.نکاح ثانی اگر لڑکے یا لڑکی کا نکاح اول نہ ہو تو طلاق یا خلع کی صورت میں مصدقہ طلاق نامہ اضلع نامہ نکاح کے ساتھ لگانا ضروری ہے.( تصدیق ہدایت نمبر 5 کے مطابق کروائیں) یاد رہے کہ خلع کی کارروائی قضاء یا عدالت کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے.قضاء کے فیصلے کی صورت میں امور عامہ کا تنفیذ شدہ فیصلہ ضروری ہے اور جس تاریخ کولڑ کا طلاق نامہ پر دستخط کرے، اُسی تاریخ سے عدت شمار ہوگی.( رخصتی کی صورت میں عدت تین ماہ ہوتی ہے)
217 7.ربوہ میں نکاح ربوہ میں نکاح پڑھے جانے کی صورت میں نظارت اصلاح وارشا درشتہ ناطہ سے قبل از نکاح منظوری لینا ضروری ہے اور لڑکی کے ولی اور دونوں گواہوں کا دفتر میں آنا ضروری ہے.نیز بیت المبارک ربوہ میں نکاح پڑھوانے کی صورت میں مکرم ومحترم امیر صاحب مقامی سے تحریری اجازت حاصل کرنا بھی ضروری ہے.مصدقہ نقل کا حصول نظارت ہذا میں رجسٹریشن کے بعد صرف لڑکا یا لڑکی ( نیز لڑکی کا ولی ) ہی نکاح فارم کی مصدقہ نقل حاصل کرنے کے مجاز ہیں.اس کے لئے ناظر صاحب اصلاح و ارشا درشتہ ناطہ کے نام صدر صاحب کی تصدیق کے ساتھ درخواست آنی چاہئے.اگر خود وصول نہ کر سکتے ہوں تو وصول کنندہ کے نام مصدقہ مختار نامہ بھجوانا ضروری ہے.میرج سرٹیفکیٹ کا حصول نظارت اصلاح وارشاد رشتہ ناطہ کا شائع کردہ ” میرج سرٹیفکیٹ سپیلنگ فارم پر کر کے نظارت ہذا سے میرج سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے.سپیلینگ فارم میں احتیاط سے وہی سپیلنگ درج کیے جائیں جو مستند ڈاکو منٹس میں درج ہیں.بیرون ملک سے پاکستان تشریف لانے والے احباب بیرون ملک سے پاکستان تشریف لانے والے والدین اگر پاکستان میں اپنی بیٹی اور بیٹے کا نکاح کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا چاہئے.جو فیملی اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کے لئے پاکستان آئے نکاح فارم مکمل کر کے نیشنل امیر صاحب کی تصدیق کروا کر ساتھ لائے یہاں پر نکاح فارم پر کرنے اور فیکس پر تصدیق کروانے سے فیملیز کو امیگریشن کے لئے اور نظارت رشتہ ناطہ کو انتظامی لحاظ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.اکثر ممالک کی بعض ایمبیسیاں ایسے نکاح قبول نہیں کرتیں جس میں لڑکی اور لڑکے کی جانب سے وکیل مقرر کر کے نکاح کر لیا جاتا ہے.ایسی صورت میں قانونی تقاضے پورے کرنے کے لئے دونوں کا پاکستان آنا اور لڑکے کا ایجاب وقبول کے وقت خود حاضر ہونا ضروری ہے.نکاح فارموں پر دستخطوں کا خاص خیال رکھا جائے اور تاریخوں میں فرق نہیں ہونا چاہئے.مثلاً لڑکے یا لڑکی نے جس تاریخ کو دستخط کئے ہیں گواہوں کو بھی اسی تاریخ کو دستخط کرنے چاہئیں.لڑکے اور اس
218 کے گواہوں کے دستخط کی تاریخ یکساں ہونی چاہیئے اسی طرح لڑکی اور اس کے دونوں گواہوں کے دستخط کی تاریخ یکساں ہونی ضروری ہے.دوسری شادی کے لئے ضروری ہے کہ اگر ان کا کیس عدالت میں ہے تو پہلے وہاں سے فیصلہ ہونا ضروری ہے.صرف جماعتی فیصلہ کافی نہیں.اس قسم کے نکاح بھی قبول نہیں کئے جار ہے.قانونی مشکلات کی وجہ سے بچیاں پاکستان میں بیٹھی رہتی ہیں.تنازعات پیدا ہوتے ہیں.امراء کیلئے ہدایات امراء ممالک کو تصدیق کرتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.بچے یا بچی کی عمر کا خیال رکھا جائے جن کی عمر 18 سال سے کم ہو ان کی تصدیق نہ کی جائے.فارم تصدیق کرنے سے قبل اچھی طرح تسلی کر لیا کریں کہ ملکی قوانین کے مطابق اس میں کوئی روک نہ ہوا اور جس کی تصدیق کی جارہی ہو اس کے مکمل کوائف فارم میں موجود ہوں.نوٹ : ہر لحاظ سے مکمل اور تصدیق شدہ فارم پر ہی نکاح پڑھا جائے.کسی امر میں کوئی مسئلہ در پیش ہو تو نظارت اصلاح وارشا درشتہ ناطہ سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے.( بحوالہ روزنامه الفضل ربوه مورخه ۲۴ دسمبر ۲۰۱۰ ص ۳) ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد برائے دعوت الی اللہ ا.سلسلہ کے فرائض دربارہ دعوت الی اللہ کے ادا کرنے کے لئے ایک نظارت اصلاح وارشاد (دعوت الی اللہ ) ہے اور اس کا انچارج ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد ( دعوت الی اللہ ) کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر۱۳۹) ۲.اس نظارت کے ذمہ دعوت الی اللہ کا کام منظم کرنا اور داعیان الی اللہ کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچانا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۴۰) ۳.اس نظارت کے ذمہ داعیان الی اللہ کی تربیت و رہنمائی کرنا اور ان کی مساعی کو باشمر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۴۱) ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد برائے دعوت الی اللہ کے ذمہ ان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفہ اسی کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.( قاعدہ نمبر۱۴۲)
219 نظارت تعلیم ا.سلسلہ احمدیہ کے فرائض دربارہ تعلیم کے ادا کرنے کے لئے نظارت تعلیم ہے اور اس کا انچارج ناظر تعلیم کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۴۳) ۲.صدر انجمن احمدیہ کی تمام درسگاہیں اور ہوٹل مقامی و بیرونی اس نظارت کی نگرانی میں ہوتے ہیں.علاوہ اس کے جماعت کی عام تعلیم اور علمی تربیت کا انتظام بھی اس نظارت کے سپر دہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۴۴).اس نظارت کا فرض ہوتا ہے کہ تمام احمدی مردوں، عورتوں، لڑکوں اور لڑکیوں کی دینی اور دنیوی تعلیم کے متعلق مناسب تجاویز دریافت کر کے جہاں تک ممکن ہو ان کو عمل میں لائے اور اس بات کی کوشش کرے کہ جماعت احمدیہ کا ایک معتد بہ حصہ ہمیشہ ضروری شعبہ جات میں اعلی تعلیم تک پہنچتار ہے.( قاعدہ نمبر ۱۴۵) ۴.طلباء کی رہنمائی کرنا بھی اس نظارت کے فرائض میں شامل ہے.( قاعدہ نمبر ۱۴۶) ۵.افراد و طلباء سلسلہ کی دینی تعلیم کے متعلق مناسب کورس و کتب تجویز کر کے نظارت تصنیف و اشاعت کی اعانت سے تیار کرائے.( قاعدہ نمبر ۱۴۷) مستحق ہونہار طلباء کوتعلیمی وظیفہ یا قرضہ حسنہ دینا اس نظارت کے فرائض میں سے ہوتا ہے.نظارت تعلیم تعلیمی قرضہ حسنہ کی واپسی میں نظارت بیت المال خرچ سے تعاون کرے.( قاعدہ نمبر ۱۴۸) ے.اس نظارت کا فرض ہوتا ہے کہ تعلیم کو اس قدر عام کرے کہ ہر احمدی لڑکا اور لڑکی کم از کم میٹرک ضرور کرے.( قاعدہ نمبر ۱۴۹).جب تک سلسلہ میں اپنی یو نیورسٹی کا کوئی نظام قائم نہیں ہوتا اس وقت تک یونیورسٹی کے فرائض و اختیارات نظارت تعلیم کو حاصل ہوتے ہیں.یعنی سلسلہ کے لٹریچر کے پیش نظر تعلیمی قابلیت کے معیار اور ان کے مدارج مقرر کرنا، نصاب تعلیم مقررکرنا، امتحانات کا انتظام کرنا اور سندات دینا اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۵۰) ۹- نظارت تعلیم کے ذمدان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفۃ المسیح کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۱۵۱)
220 نظارت بیت المال (آمد ) ا.سلسلہ احمدیہ کے فرائض در باره تشخیص چندہ جات وتحصیل اموال و دیگر متعلقہ امور کے ادا کرنے کے لئے ایک نظارت بیت المال آمد ہے جس کا انچارج ناظر بیت المال (آمد ) کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۵۲) ۲.ہر قسم کے چندوں اور دیگر آمد نیوں کی تشخیص اور تحریک اور تحصیل کا انتظام کرنا اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر۱۵۳).اس نظارت کا فرض ہوتا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کی کل مالی ضروریات کے پورا کرنے کی تدابیر اختیار کرے.( قاعدہ نمبر ۱۵۴) ۴.زکوۃ وصدقات کی تحریک و وصولی کا انتظام بھی اس نظارت کے سپر دہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۵۵) ۵.تمام صاحب نصاب احمدی افراد کے ذاتی کھانہ زکوۃ دفتر نظارت بیت المال (آمد ) میں مکمل رکھے جاتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۱۵۶) - صدرانجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ آمد پورا کرنے کی ذمہ داری اس نظارت پر ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۱۵۷) ے.ضروری ہوتا ہے کہ جملہ جماعتی چندہ جات صدر انجمن احمدیہ کی مطبوعہ رسید بک پر وصول کئے جائیں اور کسی شخص سے رسید دئیے بغیر کوئی چندہ نہ وصول کیا جائے اور چندہ دینے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ صدرانجمن احمدیہ کی مطبوعہ رسید حاصل کر کے ہی چند ادا کرے.( قاعدہ نمبر ۱۵۸) ۸ - نظارت بیت المال ( آمد) کے ذمہ ان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفہ امسیح کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۱۵۹) جماعتی چندہ جات کی پڑتال کے لئے نظارت بیت المال کے تحت انسپکٹر ز کام کرتے ہیں.نظارت بیت المال (خرچ) ا.سلسلہ کے فرائض دربارہ سالانہ بجٹ آمد و خرچ صدر انجمن احمد یہ کی تیاری اور اس کی منظوری کا حصول اور اس کے مطابق اخراجات کی نگرانی نیز قرضہ جات کی ادائیگی اور واپسی کیلئے ایک نظارت ہے جس کا نام نظارت بیت المال ( خرچ) ہے اور اس کا انچارج ناظر بیت المال ( خرچ ) کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۶۰) ۲.قواعد وضوابط اور گنجائش کے مطابق قرض جات کی منظوری حاصل کرنا اور ان کی واپسی کیلئے ضروری
221 کارروائی کرنا اس نظارت کے سپر د ہوتا ہے.متعلقہ کھانہ جات مکمل رکھنا اور متعلقہ صیغہ جات کو اطلاع دینا بھی اس نظارت کا فرض ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۶) ۳.صدر انجمن احمدیہ کے مختلف صیغہ جات کے اخراجات پر فی الجملہ نظر رکھنا اور اس بات کو دیکھتے رہنا کہ خرچ آمد سے تجاوز نہ کرے اور اگر کرے تو اس کے بالمقابل آمد کی صورت تجویز کرنا اور اس بارے میں بوقت ضرورت صدرانجمن احمد یہ میں رپورٹ کرنا بھی اس نظارت کا فرض ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۶۲) ۴.ناظر بیت المال ( خرچ) کو اختیار ہوتا ہے کہ جملہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ کے حساب کتاب کا جس وقت چاہے معائنہ کرے اور ضروری معلومات حاصل کرے اور حسب ضرورت افسران صیغہ جات کو توجہ دلائے اور صدرانجمن احمدیہ کے علم میں لائے.( قاعدہ نمبر ۱۶۳) ۵.جماعتوں کو مقامی اور ضلعی اور صوبائی گرانٹ دینے سے متعلق ضروری امور سرانجام دینا اس نظارت کے ذمہ ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۶۴) ۶.نظارت بیت المال ( خرچ) کے ذمہان دیگر فرائض کی بجا آور بھی ہوتی ہے جو خلیفۃ المسیح کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۱۶۵) نظارت صدقات و وظائف ا.سلسلہ کے فرائض درباره صدقات و وظائف و مالی امداد کے لئے ایک نظارت ہے جس کا نام نظارت صدقات ووظائف ہوتا ہے.اور اس کا انچارج ناظر صدقات ووظائف کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۶۶) ۲- نظارت صدقات و وظائف کا یہ کام ہوتا ہے کہ جماعت کے مستحقین کے لئے حسب گنجائش و حسب قواعد منظور شده مناسب وظائف کا انتظام کرے نیز یتامی و بیوگان کی امداد کا انتظام کرنا بھی اس نظارت کے ذمہ ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۶۷) ۳ مستحقین کی وقتی اور اتفاقی امداد بھی اسی نظارت کے سپر د ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۱۶۸) - وظائف قرضہ حسنہ کی واپسی میں نظارت بیت المال ( خرچ) سے مناسب تعاون کرنا بھی اس نظارت کے سپر د ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۶۹) ۵- نظارت صدقات و وظائف کے ذمدان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوگی جوخلیفہ المسیح کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۱۷۰) نوٹ: یہ شعبہ فی الحال نظارت بیت المال خرچ کے ساتھ منسلک ہے.ابھی تک یہ نظارت الگ قائم نہیں کی گئی.
222 نظارت تصنیف و اشاعت ا.سلسلہ احمدیہ کے فرائض دربارہ تصنیف و اشاعت کے لئے ایک نظارت ہے جس کا نام نظارت تصنیف واشاعت ہے.اور اس کا انچارج ناظر تصنیف واشاعت کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ا۱۷) صلى الله ۲.قرآن کریم ، احادیث نبوی ﷺ اور ان کے تراجم نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کرام کی جملہ تصانیف و ملفوظات کی اشاعت اس نظارت کے ذمہ ہوتی ہے.اسی طرح اسلام اور احمدیت کی تائید میں کتب و رسائل واشتہارات اور اخباروں اور رسالوں میں مناسب مضامین کی اشاعت بھی اس نظارت کے فرائض میں سے ہے.( قاعدہ نمبر۱۷۲).اس نظارت کا فرض ہوتا ہے کہ ہر قسم کی کتب و رسالہ جات واشتہارات وغیرہ جو اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی تائید میں یا اس کے خلاف شائع ہوں ان کو بہم پہنچائے اور محفوظ رکھے اور حسب ضرورت ان کا جواب کتب، رسالہ جات، اشتہارات یا اخبارات کے ذریعہ دے.( قاعدہ نمبر ۱۷۳) ۴.اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی تائید میں علمی تحقیق اور اس کی اشاعت کا انتظام اس نظارت کے ذمہ ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۷۴) اس نظارت کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ میں تصنیفی مذاق پیدا کرے اور جماعت کے مناسب افراد سے قلمی خدمت لینے کا انتظام کرے.( قاعدہ نمبر ۱۷۵) ۵.اس نظارت کا فرض ہے کہ وہ کسی مستقل تصنیف کے شروع کرنے سے قبل صدر انجمن احمدیہ سے منظوری اور ہدایات حاصل کرے.( قاعدہ نمبر ۱۷۶) ۶.ادارہ مخزن الکتب العلمیہ اس نظارت کے ماتحت ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۷۷) ے.سلسلہ احمدیہ کے اخبارات ورسائل کی نگرانی اس نظارت کے ذمہ ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۱۷۸) نظارت تصنیف و اشاعت یہ نگرانی کرتی ہے کہ جماعت کے کسی فرد یا ادارہ کی طرف سے کوئی تصنیف بغیر منظوری نظارت تصنیف واشاعت شائع نہ ہو.( قاعدہ نمبر ۱۷۹) ۹.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کی حفاظت و تدوین اور اشاعت اس نظارت کے ذمہ ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۱۸۰) ۱۰.صدر انجمن احمدیہ انجمن احمد یہ تحریک جدید اور انجمن احمد یہ وقف جدید کی طرف سے شائع ہونے والی کتب قاعدہ نمبر ۷۹ سے متقی ہوں گی لیکن قبل از اشاعت ان کا نظات تصنیف و اشاعت کے علم میں لانا
223 ضروری ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۸۱) ۱۱.نظارت تصنیف و اشاعت کے تحت ایک شعبہ سمعی و بصری بھی قائم ہے.( قاعدہ نمبر ۱۸۲) ۱۲.ایم ٹی اے انٹر نیشنل کی ضروریات کے پیش نظر پروگرام کی تیاری اس شعبہ کی ذمہ داری ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۱۸۳).ایم ٹی اے انٹر نیشنل سے نشر ہونے والے پروگرام حسب ضرورت ریکارڈ کر کے محفوظ کرنا اور جماعتوں کو مہیا کرنا اس شعبہ کے سپر دہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۸۴) ۱۴.سلسلہ کی ذیلی تنظیموں و ضلعی و مقامی جماعتوں کو ایم ٹی اے کی ضروریات کے پیش نظر دینی.علمی ادبی.معلوماتی اور تفریحی پروگرام تیار کرنے کی تحریک اور رہنمائی کرنا اس شعبہ کی ذمہ داری ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۱۸۵) ۱۵.نظارت تصنیف و اشاعت کے ذمہ ان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفتہ امسیح کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۱۸۶) نظارت افتاء ۱.سلسلہ کے فرائض دربارہ افتاء کے لئے ایک نظارت ہے جس کا نام نظارت افتاء ہے.( قاعدہ نمبر ۱۸۷) ۲- نظارت افتاء کا یہ کام ہوتا ہے کہ فقہی مسائل کے متعلق استفتاء پر فتوی جاری کرے.( قاعدہ نمبر ۱۸۸) ۳.الف:.اس نظارت کے ماتحت خلیفۃ المسیح کی منظوری سے ایک یا ایک سے زیادہ اشخاص کو مفتی مقر رکیا جاتا ہے.نیز ایک مجلس افتاء قائم کی جاتی ہے جس کے اراکین کا اعلان سال بسال خلیفتہ امسیح کی طرف سے ہوا کرتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۸۹) ب :.انتظامی امور انجام دینے کے لئے ناظم دار الافتاء مقرر ہوتا ہے.مقرر شدہ مفتیان سلسلہ احمدیہ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو فتویٰ دینے کی اجازت نہیں ہوتی.( قاعدہ نمبر ۱۹۰) ۵.جو امور قرآن وسنت اور حدیث سے ثابت ہوں یا جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ موجود ہو.مفتی سلسلہ:.( قاعدہ نمبر۱۹۱)
224 الف:.استفتاء پر اس فیصلہ کے مطابق فتوی دیتا ہے.ب:.جس امر میں اجتہاد کی ضرورت ہو اور وحدت رکھنی بھی لازمی ہو ایسے امر کے متعلق مجلس افتاء اجتماعی غور کے بعد فتوی تیار کرتی ہے.ج: مجلس افتاء جوفتوئی تیار کرتی ہے ان کا اجراء خلیفہ مسیح کی توثیق کے بعد ہوتا ہے.دار القضاء ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتی.۶.نظارت افتاء کا فرض ہوتا ہے کہ تمام فتاویٰ کا با قاعدہ ریکارڈ اور حسب ضرورت ان کی اشاعت کا انتظام کرے.( قاعدہ نمبر ۱۹۲) ے.انتظامی لحاظ سے صیغہ افتاء کا تعلق نظارت علیا سے ہوتا ہے اس صیغہ سے متعلق ناظر والے حقوق صدر صدر انجمن احمدیہ کو حاصل ہوتے ہیں.( قاعدہ نمبر۱۹۳).دار الافتاء کے ماتحت عملہ کی سالانہ ترقیوں اور دیگر معاملات جن کا تصفیہ ناظر ان کے اختیار میں ہے کا فیصلہ ناظم دارالافتاء باتفاق رائے ناظر اعلی کرتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۹۴) ۹- نظارت افتاء کے ذمدان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفہ امسیح کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۱۹۵) نوٹ :.فی الحال اس نظارت کا کام صیغہ افتاء کی صورت میں قائم ہے.نظارت امور عامه ا.سلسلہ کے فرائض درباره اندرونی معاملات و متفرق امور کے لئے نظارت امور عامہ ہے اور اس کا انچارج ناظر امور عامہ کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱۹۶) ۲.نظارت امور عامہ کے سپر د جماعت کے اندرونی معاملات مثلاً احتساب.معاشی استحکام.انتظام حصول ملازمت و دیگر ذرائع روزگار - نظم وضبط - حفاظت.خدمت خلق.رفع تنازعات.تنفیذ فیصلہ جات قضاء اور حصول اطلاعات وغیرہ ہوتے ہیں.( قاعدہ نمبر۱۹۷).اس نظارت کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ حفاظت خلیفتہ المسیح وشعائر سلسلہ احمدیہ کا خصوصیت کے ساتھ انتظام کرے.( قاعدہ نمبر ۱۹۸) ۴.جماعت کی دنیاوی ترقی کے لئے ایسے ذرائع کا سوچنا جو ان کی انفرادی اور اجتماعی حالت کے لئے مفید ہوں اور ان پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کرنا اور تمام ایسے کام جود نیاوی طور پر فائدہ مند ہوں ان کی فہرست
225 تیار کرتے رہنا اور تمام قسم کی ملازمتیں اور کام اور پیشے جو افراد جماعت کے لئے مفید ہوں ان کی فہرست تیار کرنا اور ان کے حاصل کرنے کے لئے احمدیوں میں تحریک کرنا اور مناسب طور پر ان کی مدد کرنا اور وہ پیشے جو زیادہ تر جماعت کی دینی و دنیاوی ترقی کے باعث ہوں ان کی فہرست تیار کرنا اور ذہنی مناسبت کے مطابق افراد جماعت کو ایک انتظام اور مناسب تقسیم کے ماتحت ان کے سیکھنے کی طرف متوجہ کرنا یہ سب کام نظارت امور عامہ سے متعلق ہوتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۱۹۹) ۵.سلسلہ سے متعلق وہ تمام امور جو کسی دوسری نظارت یا صیغہ کے سپردنہیں وہ اس نظارت سے متعلق سمجھے جاتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۲۰۰) ۶.نظارت امور عامہ صرف ایسے امور میں دخل دینے کا اختیار رکھتی ہے جو انتظامی نوعیت کے ہوں اور سلسلہ کے حقوق سے متعلق ہوں.تنازعات کی صورت میں فریقین کی باہمی رضا مندی سے جھگڑوں کو دور کروانا اور صلح صفائی کروانا اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے لیکن قضائی معاملات کا نظارت ہذا کو فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا.باہمی تصیفہ میں ناکامی کی صورت میں نظارت ثالثی طریق یا قضا کے ذریعہ معاملات طے کروانے کا مشورہ دے سکتی ہے.( قاعدہ نمبر ۲۰۱) ے.ناظر امور عامہ کو کسی رنگ میں بھی قاضی بنے کا اختیار نہیں ہوتا.یعنی اس کو صرف ایسے کاموں میں دخل دینے کا حق ہوتا ہے جو انتظامی ہوں اور افراد کے حقوق سے تعلق نہ رکھتے ہوں بلکہ سلسلہ کے حقوق سے تعلق رکھتے ہوں.اس کو ہر گز کسی شخص معاملہ میں سزا دینے کا حق نہیں ہوتا.یہ قضاء کا کام ہے.اس کا کام قضاء کے فیصلوں کی تنفیذ تک محدود ہے.( قاعدہ نمبر ۲۰۲).جن باہمی تنازعات میں تصیفہ کرانا بذمہ نظارت امور عامہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کا تصفیه جلد از جلد کروادے.( قاعدہ نمبر ۲۰۳).جلسہ سالانہ کے موقع پر بی انتظام ناظر امور عامہ کے سپرد ہوتا ہے جو بذریعہ فضل عمر ہسپتال یا جس طرح نظارت امور عامہ مناسب خیال کرے سرانجام دیا جاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۰۴) ۱۰.مرکز سلسلہ میں زمین، دوکان، مکان کی خرید و فروخت یالیز پر یا کرایہ پر حاصل کرنے یا مستقل رہائش اختیار کرنے یا کاروبار کرنے کے لئے اس نظارت کی اجازت ضروری ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۲۰۵) ۱۱.نظارت امور عامہ کے ذمہ ان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفہ امسیح کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۲۰۶)
226 نظارت صحت ا.سلسلہ کے فرائض درباره حفظان صحت اور انسداد و علاج بیماری کی ادائیگی کے لئے ایک نظارت ہے جس کا نام نظارت صحت ہے اور اس کا انچارج ناظر صحت کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۰۷) ۲.اس نظارت کے سپرد سلسلہ کے شفاخانوں اور حفظان صحت و صفائی وغیرہ کا انتظام ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۰۸) ۳.اس نظارت کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ افراد سلسلہ کی جسمانی صحت اور تندرستی کے وسائل سوچے اور مناسب تدابیر اختیار کرے.( قاعدہ نمبر ۲۰۹) ۴- نظارت صحت کے ذمہ ان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفۃ المسیح کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۲۱۰) نوٹ:.اس نظارت کا کام فی الحال نظارت امور عامہ کے سپرد ہے.نظارت امور خارجه ا.سلسلہ کے فرائض دربارہ تعلقات خارجہ کی ادائیگی کے لئے نظارت امور خارجہ ہے اور اس کا انچارج ناظر امور خارجہ کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۱) ملکی حکومت اور غیر از جماعت انجمنوں اور مجالس کے ساتھ حسب حالات رابطہ کرنا اس نظارت کی ذمہ داری ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر۲۱۲) ۳.حکومت کے ساتھ مناسب تعاون کی طرف بوقت ضرورت تحریک کرنا اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۱۳) ۴.اگر کسی جگہ احمد یوں یا دیگر مسلمانوں کو تکلیف ہو تو حکومت متعلقہ سے خط و کتابت کرنا اور اس کے دور کرنے کے لئے تمام ضروری اور ممکن ذرائع استعمال کرنا اور دیگر قوموں اور جماعتوں سے احمدیوں کے تعلقات کے متعلق ہر قسم کا ضروری انتظام کرنا بھی اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۱۴) ۵- نظارت امور خارجہ کے ذمہ ان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفہ امسیح کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۲۱۵)
227 نظارت بہشتی مقبره ا.سلسلہ کے فرائض دربارہ انتظام وصایا اور بہشتی مقبرہ کے لئے ایک نظارت ہے جس کا نام بہشتی مقبرہ ہے.( قاعدہ نمبر ۲۱۶) بہشتی مقبرہ اور وصایا کے متعلق ہر قسم کے انتظام کے لئے مرکز سلسلہ میں ایک مجلس ہوتی ہے جس کا نام مجلس کار پرداز مصالح قبرستان ہوتا ہے.بہشتی مقبرہ کے صیغہ کے لئے مجلس کار پرداز مصالح قبرستان کو ناظر صیغہ سمجھا جاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۱۷) مجلس کار پرداز کے ممبر تعداد میں کم از کم پانچ ہوتے ہیں جن میں سے کم سے کم ہمیشہ ایسے دو نمبر رہنے چاہئیں جو علم قرآن و حدیث سے بخوبی واقف ہوں اور تحصیل علم عربی رکھتے ہوں اور سلسلہ احمدیہ کی کتابوں کو یا در کھتے ہوں.( قاعدہ نمبر ۲۱۸) مجلس کار پرواز کے ممبران کا تقرر بمطوری خلیفہ ایسی ہوا کرتا ہے.ممبران کی نامزدگی کا معاملہ صدر مجلس کار پرداز ہر سال کے شروع میں حضرت خلیفتہ اسیح کی خدمت میں پیش کرتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۱۹) ۵.اس مجلس کا صدر.صدرانجمن احمدیہ کا وہ ممبر ہوتا ہے جسے حضرت خلیفہ اسی مقرر فرماتے ہیں.قاعدہ نمبر ۲۰۲۰) مجلس کار پرداز کا ایک سیکرٹری ہوتا ہے جس کا تقرر صدرانجمن احمد یہ بمنظوری خلیفہ اسیح کرتی ہے جو اس کے دفتری اور انتظامی امور کی نگرای کرتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۲۱).مجلس کار پرداز کے اجلاس میں صدر یا سیکرٹری کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے.اگر کسی اجلاس کے وقت اس مجلس کا صدر کسی وجہ سے غیر حاضر ہو تو حاضر ممبران مجلس میں اپنے میں سے کسی ممبر کو اجلاس کے لئے صدر بنا سکتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۲۲۲) بہشتی مقبرہ میں موصیان کی تدفین خلیفہ مسیح کی اجازت سے ہوتی ہے اور خلیفتہ امسیح کی مرکز سے غیر موجودگی کی صورت میں یہ اجازت ناظر اعلیٰ سے حاصل کی جاتی ہے.( قاعدہ نمبر ۲۲۳) به تشخیص جائیداد مجلس کار پرداز مصالح قبرستان کے زیر انتظام ہوتا ہے.جوقواعد وصیت منظور شعبہ کردہ خلیفہ اسیح کے مطابق عمل درآمد کرتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۲۴) ۱۰.قواعد وصیت منظور کردہ خلیفتہ اسیح پر عمل درآمد کرنا اور کروانا مجلس کار پرداز کی ذمہ داری ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۲۲۵)
228 ۱۱.نظارت بہشتی مقبرہ کے ذمدان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفہ المسیح کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۲۲۶) نظارت ضیافت سلسلہ کے فرائض دربارہ انتظام مہمانان کے لئے ایک نظارت ضیافت ہے.اس کا انچارج ناظر ضیافت کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۲۷) سلسلہ کے مہمانوں کی رہائش اور خوردونوش وغیرہ کا انتظام نیز جلسہ سالانہ کا انتظامی کام اس نظارت کے سپر د ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۲۸) افسر جلسہ سالانہ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ صدر انجمن احمدیہ کی سب پیشگیوں کا حساب ۲۸ فروری تک صاف کر دے خواہ اس کے لئے اسے جلسہ سالانہ کی بچی ہوئی اجناس اگر کوئی ہوں اس وقت سے قبل فروخت ہی کیوں نہ کرنی پڑیں.( قاعدہ نمبر ۲۲۹) لنگر خانہ کا انتظام بھی اس نظارت کے سپر دہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۳۰) اس نظارت کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ مہمانوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق نظارت تعلیم و نظارت اصلاح و ارشاد کے ساتھ خاص طور پر تعاون کرے.( قاعدہ نمبر ۲۳۱) نظارت ہذا کا یہ بھی فرض ہوتا ہے.اگر کوئی مشتبہ مہمان آئے تو اس پر نگاہ رکھے اور اس کے متعلق نظارت امور عامہ کو اطلاع دے اور اس سے خاص طور پر تعاون کرے.( قاعدہ نمبر ۲۲۳۲) نظارت ضیافت کے ذمہ ان دیگر امور کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفتہ اسیح کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۲۳۳) نظارت تعمیرات سلسلہ کے فرائض دربارہ تعمیرات وغیرہ کے لئے ایک نظارت ہے جس کا نام نظارت تعمیرات ہوتا ہے.اور اس کا انچارج ناظر تعمیرات کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۳۴) سلسلہ کی ضروریات کے لئے جس قدرنئی عمارتیں پل اور راستے وغیرہ بنانے کی ضرورت پیش آوے یا موجودہ عمارتوں کی مرمت وغیرہ ہو سب اس نظارت کے متعلق ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۲۳۵) اس نظارت کا فرض ہوتا ہے کہ عمارات سلسلہ کی دیکھ بھال اور نگرانی کرے اور عمارات کے مکمل کوائف
229 ایک رجسٹر میں ریکارڈ کرے.نیز ان کی ایک مکمل فہرست مع نقشہ جات منظور شدہ لوکل باڈی اپنے دفتر میں محفوظ رکھے.ہر نقشہ کی ایک نقل نظارت جائیداد اور خزانہ میں بھی محفوظ کرائے.نیز ہر عمارت پر گاہے بگا ہے مرمت کے کام کا بھی ریکارڈ رکھے.( قاعدہ نمبر ۲۳۶) تعمیراتی سامان کی خرید اور سٹور کا با قاعدہ ریکارڈ رکھنے اور تکمیل کے بعد بچا ہوا سامان نظارت جائیداد کے حوالے کرنے کی ذمہ داری بھی اس نظارت کی ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۲۳۷) نظارت تعمیرات کے ذمہ ان دیگر فرائض کی بجا آوری ہوتی ہے جو خلیفہ المسیح کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۲۳۸۰) نوٹ :.فی الحال اس نظارت کا کام نظامت جائیداد کے ماتحت ہوتا ہے.نظارت جائیداد واملاک ا.سلسلہ کے فرائض دربارہ جائیداد و املاک کے لئے ایک نظارت ہے جس کا نام نظارت جائیداد و املاک ہے.اس کا انچارج ناظر جائیداد و املاک کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۳۹) ۲.صدر انجمن احمدیہ کی تمام جائیداد منقوله ( باستناء نقدی) وغیر منقولہ کا ہر قسم کا انتظام اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۴۰) نوٹ :.وہ جائیداد جو کسی دوسری نظارت کے استعمال میں ہے وہ بدستور اسی نظارت کے انتظام میں رہتی ہے.البتہ نظارت جائیداد اس کے متعلق عمومی نگرانی رکھتی ہے.۳.صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد سے متعلق ہر قسم کے مقدمات کی پیروی اس نظارت کے سپرد ہوتی ہے اور جائز ہوتا ہے کہ پیروی مقدمات اور دیگر متعلقہ کا رروائی کے لئے صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے کوئی شخص بطور مختار عام یا مختار خاص مقرر کیا جاوے.( قاعدہ نمبر ۲۴۱) ۴.جائیداد وصدر انجمن احمدیہ کا خواہ وہ کسی نظارت کے استعمال میں ہو ایک مکمل ریکارڈ رکھنا اس نظارت کا فرض ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۴۲) ۵ - حسب ضرورت صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد فروخت کرنے ،ٹھیکہ پر دینے اور لینے، کرایہ پر دینے اور لینے ، رہن رکھنے اور لینے، بیع کرنے یا کسی اور طرح منتقل کرنے یا حاصل کرنے کا انتظام بھی زیر ہدایات صد را مجمن احمد یہ نظارت جائیداد کے ماتحت ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۴۳)
230 ۶.ناظر جائیداد کو یہ حق یا اختیار ہرگز نہیں ہوتا کہ انجمن کی کوئی جائیدادصدرانجمن احمدیہ کی واضح اور صریح منظوری کے بغیر فروخت یار بہن یا کسی اور طرح منتقل کرے.( قاعدہ نمبر ۲۴۴) ۷.ناظر جائیداد، صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے کسی شخص یا اشخاص یا کمیٹی وغیرہ سے کوئی سودا کرے تو اس کے لئے ضروری ہوتا کہ وہ مقامی امیر یا امراء سے اس کے متعلق مشورہ کر لے اورصدرانجمن احمد یہ سے اس کی منظوری حاصل کرے.( قاعدہ نمبر ۲۴۵).جملہ مساجد جماعت احمدیہ، مربی ہاؤسز ، دفاتر ، مہمان خانے مرکز میں ہوں یا بیرون از مرکز کی دستاویزات کی تکمیل و حفاظت عمارات کی دیکھ بھال و نگرانی اس نظارت کی ذمہ داری ہوتی ہے.البتہ مقامی انجمنوں کی عمارات کی تعمیر ومرمت پر خرچ کرنا مقامی انجمنوں کی ذمہ داری ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۲۴۶) ۹ - نظارت جائیداد و املاک کے ذمہ ان فرائض کی بجا آوری بھی ہوگی جو خلیفتہ امسیح کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۲۴۷) نوٹ :.فی الحال جائیداد و املاک کے لئے کوئی علیحدہ نظارت قائم نہیں ہے.اس لئے اس صیغہ کا کام ایک ناظم کے سپر د ہے جو ناظم جائیداد کہلاتا ہے.یہ صیغہ بیت المال خرچ کے ماتحت ہے.نظارت صنعت و تجارت ا.سلسلہ کے فرائض دربارہ صنعت و تجارت کے لئے ایک نظارت ہے جس کا نام نظارت صنعت و تجارت ہے اور اس کا انچارج ناطر صنعت و تجارت کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۴۸) ۲.صنعت و تجارت کی ترقی کے وسائل معلوم کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے جماعت میں تحریک کرنا اور اس کے متعلق ضروری معلومات کا مہیا کرنا.احمدی تاجروں اور صنعت کاروں کا باہم رابطہ کروانا یہ سب کام اس نظارت کے سپر د ہوتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۲۴۹) ۳- نظارت صنعت و تجات کے ذمدان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جو خلیفتہ اسی کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۲۵۰) نوٹ :.فی الحال یہ نظارت بھی نظارت امور عامہ کے ساتھ منسلک ہے.اور اس شعبہ کا نگران ناظر امور عامہ ہی ہوتا ہے.
231 نظارت زراعت ا.سلسلہ کے فرائض دربارہ زراعت کے لئے ایک نظارت ہے جس کا نام نظارت زراعت ہے اور اس کا انچارج ناظر زراعت کہلاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۱ ۲۵) ۲.جماعت کی زرعی ترقی سے متعلق ہر قسم کا کام اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے.احباب جماعت کو زرعی ترقی کے بارہ میں مشورہ دینا اور ضروری معلومات مہیا کرنا اور زمیندار احباب کا حسب ضرورت رابطہ کروانا اس نظارت کے سپرد ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۵۲) صدر انجمن احمدیہ کی زرعی اراضیات کی نگرانی اور ترقی کے لئے کوشش کرنے کا کام بھی اس نظارت کے سپر دہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۲۵۳) ۴.اس نظارت کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ صدر انجمن احمد یہ میں منظوری کے لئے پیش کرے اور سال کے اختتام پر گوشواره آمد و خرچ بھی پیش کرے.( قاعدہ نمبر ۲۵۴) ۵- نظارت زراعت کے ذمدان دیگر فرائض کی بجا آوری بھی ہوتی ہے جوخلیفہ اسی کی طرف سے اس کے سپر د کئے جائیں.( قاعدہ نمبر ۲۵۵) شعبہ آڈٹ یہ شعبہ صدر انجمن احمدیہ کے تمام حسابات کی جانچ پڑتال کرتا ہے.آڈیٹر اس شعبہ کا انچارج ہوتا ہے.آڈیٹر کا دفتر قطعی طور پر خود مختار ہوتا ہے اور کسی افسر کے ماتحت نہیں ہوتا.یہ شعبہ صرف مالی امور کے ضمن میں نظارت بیت المال کے ماتحت ہوتا ہے اور انتظامی معاملات میں صدر صدرانجمن احمدیہ کے احکامات کا پابند ہوتا ہے.شعبه محاسب دفتر محاسب صدر انجمن احمدیہ کے تمام شعبہ جات کے آمد وخرچ کا حساب رکھتا ہے.اس شعبہ کا انچارج محاسب کہلاتا ہے.اس دفتر کے توسط سے ہی انجمن احمدیہ کے خزانہ یا پاکستان یا دیگر ممالک میں ماسوائے ہندوستان کے کسی قابل اعتماد بنک یا بنکوں میں روپیہ جمع کروایا جا سکتا ہے.یہ رقم انجمن کے قواعد کے مطابق برآمد کی جاتی ہے.
232 صیغه خزانه صدر انجمن احمدیہ میں جماعتی رقوم اور احباب جماعت کی امانتوں کا حساب و کتاب رکھنے کیلئے ایک علیحدہ شعبہ صیغہ امانت و خزانہ بھی قائم ہے.شعبہ ترتیب ریکارڈ یہ شعبہ 2003ء میں قائم ہوا.اور اس شعبہ کا کام صدر.صدر انجمن احمدیہ کے دفتر کے ریکارڈ کو ترتیب دینا اور محفوظ کرنا ہے.اس کا انچارج نائب ناظر ہوتا ہے.شعبہ کمپیوٹر کمپیوٹر عصر حاضر کی سب سے زیادہ اہم اور ضروری ایجاد ہے.یہی وجہ ہے کہ جولائی 2000ء میں یہ شعبہ قائم کیا گیا.جس کا ایک نگران مقرر ہے.جس کا کام صدر انجمن احمدیہ کے تمام شعبہ جات کے کام کی نوعیت وضرورت کے مطابق پروگرام بنانا اور تمام شعبہ جات کے کام کو کمپیوٹرائزڈ کرنا ہے.منصوبہ بندی کمیٹی حضرت خلیفہ المی رحمہ اللہ تعالی نے ۱۹۸۳ء میں یہ میٹی قائم فرمائی تھی، جس کے قیام کا مقصد دعوت الی اللہ کی تمام ضروریات اور ذرائع مہیا کرنا ہے.
233 مجلس مشاورت قرآن کریم نے مثالی اسلامی معاشرہ کا تصور پیش کرتے ہوئے جو مختلف راہنما اصول بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک باہمی مشورہ کا اصول بھی ہے.جیسا کہ فرمایا:.وَامْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ.(سورۃ شوری ۳۹ ) اس مشورہ کے امر کو جماعت احمدیہ میں ایسے رنگ میں قائم کرنا جو صحیح دین حق کی اقدار کے عین مطابق ہو اور افراط و تفریط سے پاک ہو.قیام جماعت احمدیہ کے اولین اغراض و مقاصد میں شامل ہے.چنانچہ حضرت اقدس بانی سلسلہ اہم امور میں صائب الرائے احباب سے مشورہ لینے کی سنت پر ہمیشہ کار بند ر ہے.اور وقتاً فوقتاً عند الضرورت کبھی انفرادی طور پر اور کبھی اجتماعی طور پر احباب جماعت سے مشورہ لینے کا انتظام فرمایا.اجتماعی مشاورت کا یہ سلسلہ با قاعدہ سالانہ صورت میں جاری نہیں کیا گیا تھا.بلکہ خلافت ثانیہ کے آغاز تک ایسی مجلس حسب ضرورت بلائی جاتی رہی.لیکن ۱۹۲۲ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے پہلی مرتبہ با قاعدہ طور پر سالانہ مجلس مشاورت کا نظام قائم فرمایا.مجلس شوری کا قیام خالصہ ایک مذہبی حیثیت رکھتا ہے.اور دنیوی پارلیمینٹوں اور ہم شکل مجالس کو اس روحانی ادارے سے سوائے ظاہری مشابہت کے اور کوئی نسبت نہیں ہے.مجلس شوری کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.”سب سے پہلے میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مجلس جس کو پرانے نام کی وجہ سے کارکن کانفرنس کے نام سے یاد کرتے رہے ہیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے وَأَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمُ اپنے معاملات میں مشورہ لے لیا کریں.مشورہ بہت مفید اور ضروری چیز ہے اور بغیر اس کے کوئی مکمل نہیں ہوسکتا.اس مجلس کی غرض کے متعلق مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی اغراض جن کا جماعت کے قیام اور ترقی سے گہرا تعلق ہے ان کے متعلق جماعت کے لوگوں کو جمع کر کے مشورہ لیا جائے تا کہ کام میں آسانی پیدا ہو جائے.یا ان احباب کو ان ضروریات کا پتہ لگے جو جماعت سے لگی ہوئی ہیں تو یہ مجلس شوری ہے.“ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء ص ۴) مجلس مشاورت کا سال بھر میں ایک اجلاس ہوتا ہے جو عموماً مارچ یا اپریل میں منعقد ہوتی ہے.اس میں تمام مقامی جماعتوں کے بذریعہ انتخاب منتخب ہونے والے نمائندے شامل ہوتے ہیں.نمائندگان کی
234 تعداد میں مختلف حالات کے پیش نظر ترمیم ہوتی رہتی ہے.منتخب نمائندوں کے علاوہ تمام جماعتوں کے امراء بحیثیت اپنے عہدے کے اس مجلس کے ممبر ہوتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود کے رفقاء کو بھی بحیثیت رفیق نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے.علاوہ ازیں مرکزی تنظیمات کو بھی مجلس مشاورت میں بحیثیت عہدیدار مختلف شعبوں کی نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے اور یہ طریق بھی مسلسل جاری ہے کہ خلیفہ وقت منتخب نمائندگان کے علاوہ ایسے اہل علم وفن دوستوں اور بزرگوں کو بھی براہ راست دعوت بھیجتے ہیں جن کی شمولیت خلیفہ اسیح کے نزدیک کسی پہلو سے مفید ہو سکتی ہے.مجلس مشاورت کے قواعد وضوابط ۱- مجلس مشاورت سے مراد وہ مجلس شوریٰ ہے جسے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اہم کاموں کے متعلق مشورہ لینے کے لئے اور خصوصاً بجٹ کے متعلق جماعت احمدیہ کی رائے معلوم کرنے کے لئے خلیفہ اسی وقتا فوقتا طلب فرمائیں.اس مجلس کے ممبران مقامی جماعتوں کے نمائندے، ناظران صیغہ جات ہمبران صدر انجمن احمدیہ، سیکرٹری مجلس کار پرداز مصالح قبرستان، ایسے صیغہ جات کے افسران جو کسی نظارت کے ماتحت نہیں ، دیگر محکمانہ نمائندے نیز انجمن احمد یہ تحریک جدید، انجمن احمد یہ وقف جدید، مجالس انصاراللہ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ کے نمائندے ، اور ایسے زائد اصحاب ہوتے ہیں جنہیں خلیفہ اسیج اس غرض کے لئے منظور یا نامزد فرمائیں.( قاعدہ نمبر ۳۱) ۲.مجلس مشاورت میں صدر انجمن احمدیہ کے نمائندوں کی تعداد ۳۰، انجمن احمد یہ تحریک جدید کے نمائندوں کی تعداد۲۳ اور انجمن احمد یہ وقف جدید کے نمائندوں کی تعداد 9 ہوتی ہے.نیز مجلس انصاراللہ جلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے نمائندوں کی تعداد کا تعین حسب منظوری خلیفتہ اسیح ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۳۲).مستورات مجلس مشاورت کی نمائندہ ہوتی ہیں.جن کی تعداد کا تعین و منظوری کی کارروائی بذریعہ صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان ہوتی ہے.نمائندہ مستورات کے لئے ضروری ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۳۳) الف: مخلص مبائع اور صائب الرائے ہواور سلسلہ کی طرف سے زیر تعزیر نہ ہو.ب:.شعائر اسلامی کی پابند ہو.ج:.برسر روزگار اور آمد ہونے کی صورت میں لازمی چندہ ادا کرتی ہواور بقایا دار نہ ہو.۴.پرائیویٹ سیکرٹری خلیفتہ اسی مجلس مشاورت کے سیکرٹری ہوتے ہیں.مجلس مشاورت کا انعقا داور جملہ انتظامات پرائیویٹ سیکرٹری کی ذمہ داری ہوتی ہے.( قاعدہ نمبر ۳۴)
235.سیکرٹری مجلس مشاورت کا فرض ہوتا ہے کہ نمائندگان کی تعداد کا معاملہ ہر پانچ سال کے بعد مجلس مشاورت میں پیش کیا کرے.( قاعدہ نمبر ۳۵) ۶.صدر انجمن احمد یہ انجمن احمد یہ تحریک جدید، انجمن احمد یہ وقف جدید اور دیگر ذیلی انجمنیں جن کا ذکر قاعدہ نمبر ۳۲ میں ہے ان کے محکمانہ نمائندوں کی فہرستیں اپنے اپنے صدرصاحبان کی منظوری اور وساطت سے پرائیویٹ سیکرٹری کو بھیجی جایا کرتی ہیں.صدر صاحبان اپنی اپنی مجالس کے مشورہ سے فہرست خلیفہ امسیح کی منظوری کے لئے بھجواتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۳۷) مجلس مشاورت کا کام ان امور میں مشورہ دیتا ہے جن میں خلیفہ اسے اس سے مشورہ طلب فرما ئیں.اس کا کوئی مشورہ جب تک کہ خلیفہ مسیح اسے منظور کر کے جاری نہ فرمائیں واجب التعمیل نہیں ہوتا.( قاعدہ نمبر ۳۸).مجلس مشاورت کے نمائندگان کے انتخاب کے وقت حسب ذیل امور کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۳۹) الف : مخلص مبائع احمدی اور صائب الرائے ہواور سلسلہ کی طرف سے زیرتعزیر نہ ہو.ب:.باقاعدہ چندہ دیتا ہو.باقاعدہ چندہ دینے سے مراد ہے کہ چندہ عام اور چندہ حصہ آمد کا چھ ماہ اور چندہ جلسہ سالانہ کا ایک سال سے زائد کا بقایا دار نہ ہو.د:.ضروری ہوتا ہے کہ ضلع کے نمائندگان مشاورت کا ایک چوتھائی حصہ ۳۰ سال سے کم عمر نمائندگان پر مشتمل ہو.۹ نمائندگان مجلس مشاورت کی نمائندگی مجلس مشاورت کے اگلے سالانہ اجلاس تک قائم رہتی ہے.( قاعدہ نمبر ۴۰) ۱۰ مجلس مشاورت کے لئے کسی مقامی جماعت یا ذیلی تنظیم کی طرف سے کوئی ایسا شخص نمائندہ نہیں ہوسکتا جے خلیفہ ایسے کی منظوری حاصل نہ ہویا صدر جم احمد یہ یا انجمن حمدیہ تحریک جدید یا انجمن احمد یہ وقف جدید یا کسی اور مرکزی انجمن جو بعد میں کارکن بنی ہو.البتہ خلیفہ مسیح کی اجازت سے ایسا ہوسکتا ہے.نیز انجمنوں کے کسی ایسے کارکن کو جو مجلس مشاورت کا نمائندہ مقرر ہو ان جملہ انجمنوں کے کام پر جرح کرنے کی اجازت نہیں ہوتی.( قاعدہ نمبر ۴۱) ۱۱.جو نمائندہ بغیر کسی معقول وجہ یا مجبوری کے مجلس مشاورت کے اجلاس اور سب کمیٹی میں شریک نہ ہو اس کا نام مجلس مشاورت میں پیش ہوتا ہے اور اگر پھر بھی یہ سلسلہ جاری رہے تو ایسے شخص کو تین سال تک مجلس مشاورت
236 کا نمائندہ ہونے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے.( قاعدہ نمبر ۴۲) ۱۲.انجمنوں کے نمائندوں کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ انجمنوں کی پیش کردہ رائے کے خلاف اظہار کریں نہ ان کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ انجمنوں کی تجویز میں کوئی ترمیم یا اصلاح پیش کریں ان کو ہر معاملہ میں اپنی انجمن کی رائے کے مطابق چلنا ہوتا ہے اور اس کے خلاف ووٹ دینے کا حق نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی ان کی ذاتی رائے انجمنوں کی رائے کے خلاف ہو تو ووٹ دیتے وقت غیر جانبدار رہ سکتے ہیں.نیز نمائندوں کو انجمنوں کے بارے میں سوالات کرنے کا حق بھی نہیں ہوتا.( قاعدہ نمبر ۴۳ ) ۱۳.صدر انجمن احمدیہ کے نمائندگان اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ مجلس مشاورت میں کسی معاملہ میں صدر انجمن احمدیہ کی قائم کردہ رائے کے خلاف اظہار رائے نہ کریں سوائے اس کے کہ کسی خاص معاملہ میں صدرا مجمن احمد یہ اجازت دے.دیگر مرکزی انجمنوں پر بھی یہی قاعدہ حاوی ہوتا ہے.قاعدہ نمبر۴) ۱۴.جو فیصلہ جات خلیفہ امسح مجلس مشاورت کی سفارشات پر صادر فرما ئیں ان کے متعلق ضروری ہوتا ہے کہ وہ بغرض اطلاع و تحمیل ہفتہ کے اندر صدر انجمن احمدیہ میں ریکارڈ کئے جائیں اور پھر صدرانجمن احمدیہ کی اطلاع اور ایسی تفصیلی ہدایات کے ساتھ جو صدر انجمن احمد یہ جاری کرنا چاہے بغرض لتحمیل صیغہ جات متعلقہ میں ارسال کئے جایا کریں.( قاعدہ نمبر ۴۵) الف:.ضروری ہوتا ہے کہ مجلس مشاورت کے فیصلہ جات کی تعمیل کی رپورٹ متعلقہ ناظران آئندہ اجلاس میں پڑھ کرسنائیں.ب:.بجٹ میں دوران سال اضافہ جات کی رپورٹ سیکرٹری مجلس مشاورت پڑھ کر سنائیں.۱۵.کسی افسر صیغہ کی طرف سے اگر کوئی تجویز مجلس مشاورت میں پیش ہونے کے لئے ناظر صیغہ کے پاس آئے تو وہ اگر چہ متفق نہ ہو تو بھی افسر صیغہ کے اصرار کی صورت میں ایسی تجویز کوصدرانجمن احمد یہ میں ضرور بھجوائیں البتہ صدر انجمن احمد یہ اس تجویز سے متفق نہ ہو تو روک سکتی ہے بشرطیکہ جس اجلاس میں فیصلہ ہو افر صیغہ کو بلوا کر اسے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے.اگر صدرانجمن احد یہ کا فیصلہ اس کے خلاف ہو تو اسے خلیفہ مسیح کے پاس بواسطہ صدر انجمن احمد یہ اپیل کا حق ہوتا ہے.اسی طرح اگر ناظر کی کسی تجویز کو صدر انجمن احمد یہ باوجود اس کا موقف سننے کے مجلس مشاورت میں پیش ہونے سے روکنے کا فیصلہ کرے تو ناظر کو خلیفہ مسیح کے پاس بواسطه صدرانجمن احمد یہ اپیل کا حق ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۴۶) ۱۶ مجلس مشاورت کی بجٹ سب کمیٹی میں عند الضرورت کسی بھی ناظر یا اس کے نمائندہ کو وضاحت کے لئے طلب کیا جا سکتا ہے.( قاعدہ نمبر ۴۷ )
237 ۱۷.بجٹ سب کمیٹی مجلس مشاورت جہاں پیش کردہ بجٹ میں کمی کی سفارش کر سکتی ہے وہاں اسے اضافہ کی سفارش کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۴۸) ۱۸ کسی مقامی انجمن یا سلسلہ کے کسی ادارہ کی طرف سے جو تجاویز مجلس مشاورت میں پیش ہونے کے لئے آئیں وہ صدر انجمن احمدیہ کی رائے کے ساتھ خلیفتہ امسیح کی خدمت میں پیش ہوتی ہیں.اگر ان میں سے کوئی تجویز خلیفہ امسیح کی منظوری سے مجلس مشاورت میں پیش کرنی مناسب نہ سمجھی جائے تو اسے صرف مجلس مشاورت میں پڑھ کر سنا دیا جاتا ہے.لیکن ان پر کوئی بحث نہیں ہوسکتی.( قاعدہ نمبر ۴۹) ۱۹.مقامی انجمن کا کوئی ممبر اپنی طرف سے کوئی تجویز مجلس مشاورت میں پیش کرنے کے لئے براہ راست بھجوانے کا مجاز نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی تجویز مقامی انجمن میں پیش کرتا ہے اور اگر مقامی انجمن کی اکثریت اسے مجلس مشاورت میں پیش کرنے کے حق میں ہو تو مقامی انجمن کا صدر یا امیر اسے سیکرٹری مجلس مشاورت کو بھجواتا ہے.( قاعدہ نمبر۵۰) مقامی انجمنیں ہر ایسی جگہ پر جماعت احمدیہ کے کچھ افراد پائے جاتے ہیں وہاں مقامی سطح پر صدر انجمن احمد یہ کے تحت مقامی سطح پر ایک انجمن قائم ہوتی ہے.ہر مقامی جماعت میں جماعت کے جملہ امور کی نگرانی کے لئے امیر یا صدر مقرر ہوتا ہے.اسی طرح مرکزی نظارتوں کے فرائض سرانجام دینے کے لئے ایک عہدہ دار مقرر ہوتا ہے جو اس صیغہ کا سیکرٹری کہلاتا ہے.یہ عہدہ دار نظارت متعلقہ کی ہدایات کے ماتحت اپنے اپنے حلقہ میں کام کرتے ہیں.امیر ، صدر اور دیگر عہدیداران کا تقرر بذریعہ انتخاب تین سال کی مدت کے لئے ہوتا ہے.ہر تین سال کے بعد جملہ عہد یداران کا نئے سرے سے انتخاب ہوتا ہے.امیر اور نائب امیر کی منظوری خلیفہ وقت دیتے ہیں جبکہ صدر و سیکر ٹریان اور دیگر عہدیداران کی منظوری صدرانجمن احمد یہ دیتی ہے.مقامی انجمن کی مجلس منتظمہ ( مجلس عاملہ ) کے درج ذیل ممبران ہوتے ہیں:.امیر یاصدر، نائب امیر یا نائب صدر، جنرل سیکرٹری ،سیکرٹری اصلاح وارشاد، سیکرٹری تعلیم ،سیکرٹری امور عامه، سیکرٹری امور خارجہ، سیکرٹری وصایا، سیکرٹری مال، سیکرٹری تالیف و تصنیف ، سیکرٹری ضیافت ،سیکرٹری جائیداد، سیکرٹری زراعت ، سیکرٹری رشتہ ناطہ، امام الصلوۃ ، سیکرٹری تحریک جدید ، سیکر ٹری وقف جدید ، سیکرٹری وقف نو اور سیکرٹری دعوت الی اللہ.
238 مندرجہ بالاسیکرٹریان کے علاوہ درج ذیل عہدیداران بھی مجلس عاملہ کے رکن ہوتے ہیں.قاضی.محاسب.امین - آڈیٹر اور زعیم انصارالہ اور قائد باز میم مجلس خدام الاحمدیہ.اور مربی سلسلہ.مقامی سطح پر انجمنوں کے قیام کے علاوہ حلقہ ضلع صوبہ اور ملکی سطح پر بھی انجمنیں قائم ہوتی ہیں.لیکن یہ تمام انجمنیں جماعت احمدیہ کے مرکزی نظام انجمن احمدیہ کی ہدایات کے ماتحت کام کرتی ہیں.قواعد انتخابات مقامی عہدیداران ا.جن عہدیداران کا انتخاب کروایا جاتا ہے وہ درج ذیل ہیں.ا.صدر ، ۲.سیکرٹری اصلاح و ارشاد،۳.سیکرٹری تعلیم ، ۴.سیکرٹری امور عامه، ۵.سیکرٹری صنعت و تجارت ، ۶.سیکرٹری وصایا، ۷.سیکرٹری مال، ۸.اسسٹنٹ سیکرٹری مال، ۹.سیکرٹری جائیداد، ۱۰.امام الصلوۃ ، ۱۱.سیکرٹری وقف نو ۱۲.سیکرٹری تحریک جدید ۱۳.سیکرٹری وقف جدید نوٹ : سیکرٹری وصایا کا موصی ہونا ضروری ہے.۲.مندرجہ ذیل عہدوں کے لئے انتخاب نہ کروایا جائے بلکہ ان عہدوں کے لئے مناسب حال موزوں افراد صدر جماعت کی سفارش کے ساتھ بھجوائے جائیں.۱.سیکرٹری دعوت الی اللہ ۲.سیکرٹری تعلیم القرآن.۳.سیکرٹری تربیت نو مبائعین.۴.سیکرٹری رشتہ ناطہ ( قاعدہ نمبر ۳۱۹).الف :.مقامی عہدیداران کا انتخاب مقامی جماعت کی کثرت رائے سے ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۳۳۱) ب : کورم کا تعین شامل بجٹ کل افراد کی تعداد میں سے مستورات طالب علم اور زیر تعزیر افراد کی تعداد منہا کر کے باقی ماندہ چندہ دہندگان بشمول بقایہ داران کی کل تعداد پر ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۳۱۳) ج: کورم کل رائے دہندگان کا نصف ہوتا ہے.لیکن اگر پہلے اجلاس میں با قاعدہ تحریر اطلاع کے باوجود کورم پورا نہ ہو تو دوسرے اجلاس کا کورم ایک تہائی ہوتا ہے.( قاعدہ نمبر ۳۳۱) ۴.مندرجہ ذیل اشخاص کو انتخاب کے اجلاس میں حصہ لینے کا حق نہیں ہوتا.الف: ایسا شخص جس کے ذمہ حسب تشریح قاعدہ نمبر ۳۴۱ بغیر منظوری مرکز بقایا چلا آتا ہو.اور وہ اسے ادانہ کر رہا ہو.ب: مستورات.ج: اٹھارہ سال سے کم عمر بچے.
239 د جو افرا د سلسلہ کی طرف سے زیر تعزیر ہوں اور معافی کو تین سال پورے نہ ہوئے ہوں.ھ : جن افراد کو مالی تعزیر ہوئی ہو اور معافی کو تین سال پورے نہ ہوئے ہوں.ر: ایسے افراد جو اپنا مرکزی چندہ مقامی نظام جماعت کو توڑ کر علیحدہ طور پر مرکز میں بھجوانے پر مصر ہوں.ذا ایسے بالغ طالب علم جن کے اخراجات کا انحصارا اپنے والدین یا سر پرستوں پر ہو.( قاعدہ نمبر ۳۲۹) ۵.مندرجہ ذیل اشخاص کو بطور عہد یدار منتخب نہیں کیا جائے گا.صدرانجمن احمدیہ کے ناظران، نائب ناظران اور افسران صیغہ جات اسی طرح تحریک جدید کے وکلاء، نائب وکلاء اور افسران صیغہ جات اور وقف جدید کے ناظم اور نائب ناظم کسی بھی مقامی عہدہ کے لئے منتخب نہیں ہو سکتے.اسی طرح قاضی بھی کسی اور عہدہ کے لئے منتخب نہیں ہو سکتے.( قاعدہ نمبر ۳۱۰) الف: قاعدہ نمبر ۳۲۹ کے تحت جو ووٹ دینے کے اہل نہ ہوں.ب: لازمی چندہ جات کے بقایا کی ادائیگی نہ کرنے کی اجازت حاصل کرنے والے ج : حسب قاعدہ قواعد وصیت نمبر ۲ے جس موصی کی وصیت صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے منسوخ کر دی جائے.د: جماعتی یا ذیلی تنظیموں کے چندہ جات کی رقم ذاتی مصرف میں لانے والے.نوٹ : ایسے افراد کے نام رقم کی واپسی و معافی کے تین سال بعد تک کسی عہدہ کیلئے پیش نہیں ہو سکتے.نوٹ نمبر۲ : کسی تعزیر کی معافی ایک بار ہوتی ہے.دوبارہ تعزیر کی صورت میں کبھی بھی عہد یدار نہیں بن سکتا.۶.رعایتی شرح حاصل کرنے والے احباب عہدیدار نہیں بن سکتے.تاہم ووٹ دینے کے حق دار ہوتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۳۴۵) ے.لازمی چندہ جات کے ایسے بقایا دار جنہوں نے بقایا کی معافی حاصل کی ہے پانچ سال تک با قاعدگی کے ساتھ لازمی چندے ادا کئے ہوں تو عہدیدار منتخب یا مقرر ہو سکتے ہیں.( قاعدہ نمبر ۳۴۴) - کسی سرکاری ملازم کو کسی صورت میں بھی سیکرٹری اصلاح و ارشاد و سیکرٹری امور عامہ مقرر نہ کیا جائے.( قاعدہ نمبر ۳۲۴) 9.انتخاب میں حاضر افراد کا ووٹ دینا لازمی ہوتا ہے.غیر جانبدار رہنے کی اجازت نہیں ہوتی.( قاعدہ نمبر ۳۲۸) ۱۰.ہر عہدہ کی اہمیت اور فرائض کے مناسب حال اس کے لئے عہد یدار کا انتخاب ہونا چاہئے.اور دوستوں کو رائے دیتے ہوئے اہلیت کے سوال کو ہر صورت میں مقدم رکھنا چاہئے محض نام کے طور پر عدیم الفرصت یا سست غیر مخلص یا نا اہل یا کسی رنگ میں برانمونہ رکھنے والے اشخاص کو منتخب نہیں کرنا چاہئے.( قاعدہ نمبر ۳۱۷)
240 ا.بوقت انتخاب اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایک سے زیادہ عہدے ایک ہی شخص کے سپرد بجز خاص مجبوری کے نہ کئے جائیں.تاکہ کثرت کار کی وجہ سے سلسلہ کے کاموں میں کوئی حرج اور نقص واقع نہ ہو.اور زیادہ سے زیادہ دوست کام کی تربیت حاصل کر سکیں.( قاعدہ ۳۱۸) ۱۲.اگر کسی جماعت کو کسی شعبہ کا کوئی عہدیدار منتخب نہیں ہوتا تو اس شعبہ کے کام کی ذمہ داری صدر یا امیر پر ہوتی ہے.مناسب ہے کہ ہر عہدہ کا انتخاب کیا جائے.( قاعدہ نمبر ۳۰۵) ۱۳.چندہ دہندگان سے مراد وہ احباب ہیں جو اپنا چندہ با قاعدگی کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور جن کے ذمہ چندہ عام و چندہ حصہ آمد کا چھ ماہ سے زائد عرصہ کا بقایا نہ ہو.اور چندہ جلسہ سالانہ کا ایک سال سے زائد عرصہ کا بقایا نہ ہو.( قاعدہ نمبر ۳۴۱) ۱۴.اگر کسی بقایا دار نے اپنی کسی رقم کی ادائیگی کے متعلق ادارہ سے مہلت حاصل کر لی ہو.تو اس شرط سے اس وقت تک مستفی ہوتا ہے جب تک اس نے مہلت لے رکھی ہو.( قاعدہ نمبر۳۵۳) ۱۵- فهرست انتخاب پر صدر اجلاس کے علاوہ دو ایسے دوستوں کے دستخط ہونے بھی لازمی ہوتے ہیں جن کے نام کسی عہدہ کے لئے پیش نہ ہوئے ہوں مگر انتخاب کی کارروائی میں موجود رہے ہوں.( قاعدہ نمبر۳۵۳) ۱۶ منتخب شدہ عہد یداران کے مکمل پتہ جات مع ولدیت ضرور درج فرما ئیں.نیز منتخب شدہ موصی احباب کے وصیت نمبر بھی درج فرمائیں.۱۷ منتخب عہدیداران کے متعلق مقامی سیکرٹری مال کی یہ تصدیقی رپورٹ شامل ہو کہ وہ حسب قواعد بقایا دار نہیں ہیں.۱۸.قرآن مجید ناظرہ عہدیداران کے لئے کم از کم معیار قرار دیا جائے.۱۹.اگر کسی امیر یا کسی اور دوسرے مقامی عہدیدار کے انتخاب کے متعلق یہ شکایت موصول ہو اور یہ شکایت تحقیقات پر درست ثابت ہوئی ہو کہ اس میں کسی کے حق میں پرو پیگنڈہ کیا گیا ہے تو اس انتخاب کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے.اور پروپیگنڈہ کرنے والوں سے سختی سے باز پرس کی جاسکتی ہے.اور دوبارہ انتخاب کے وقت انہیں اس اجلاس میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.( قاعدہ نمبر ۳۲۴) ۲۰.پراپیگنڈہ میں ہر ایسا عمل داخل ہوتا ہے جس میں جماعت کے افراد یا کسی فرد پر کسی طریقہ سے کسی خاص شخص کے حق میں یا خلاف رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.البتہ صدر اجلاس کی اجازت سے مجلس انتخاب میں مجوزہ افراد کے حق میں مناسب الفاظ میں مختصر تقریر کی جاسکتی ہے.مگر کسی شخص کے خلاف تقریر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی.( قاعدہ نمبر ۳۲۵)
241 جماعت احمدیہ کا نظام جماعت کے نظام کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ سلسلہ احمد یہ منہاج نبوت پر قائم ہے اس لئے اصولی رنگ میں اس کا وہی نظام ہے جو ہر الہی سلسلہ کا ہوا کرتا ہے اور وہ نظام یہی ہے کہ جب خدا تعالیٰ ایک نبی کے ذریعہ کسی سلسلہ کی بنیا د رکھتا ہے تو اس کے بعد وہ جب تک مناسب اور ضروری سمجھتا ہے اس نبی کے متبعین میں سے اس کے خلفاء قائم کر کے اس سلسلہ کو ترقی دیتا ہے ان خلفاء کو جملہ اہم امور میں جماعت سے مشورہ لینے کا حکم ہوتا ہے.مگر چونکہ ان کا اصل سہارا خدا کی نصرت پر ہوتا ہے اس لئے وہ اس مشورہ کے پابند نہیں ہوتے بلکہ جس طرح خدا ان کے دل پر ڈالتا ہے جماعت کے کام کو چلاتے ہیں.دراصل خلفاء کو اپنے روحانی منصب کی وجہ سے یہ حکم ہوتا ہے کہ ہر بات میں خدا کی طرف نظر رکھیں اور اس کی مدد پر بھروسہ کریں.گویا ان کا مقام تو کل کا مقام ہوتا ہے.لیکن اگر انہیں مشورہ کا پابند کر دیا جائے اور وہ دوسروں کی رائے پر چلنے کے لئے مجبور ہوں تو اس پابندی اور اس مجبوری کے ساتھ ہی تو کل کا خیال دھواں ہو کر اڑ جاتا ہے.اسی لئے قرآن شریف نے تو کل کو مشورہ کے مقابل پر رکھ کر بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مشورہ تو ضرور لو مگر آخری فیصلہ خدا کی نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے خود کرو تا کہ توکل کے مقام پر قائم رہ سکو.بہر حال خلفاء جماعت کے مشورہ کو قبول کرنے کے پابند نہیں ہوتے مگر خود ان کا حکم جماعت کے لئے واجب التعمیل ہوتا ہے.پس مختصر طور پر تو یہی جماعت احمدیہ کا نظام ہے اور ہمارے نظام کا مستقل حصہ صرف اسی حد تک محدود ہے اور اس سے زیادہ نہیں.لیکن جس طرح ہر سلسلہ تفصیلات میں اپنا الگ الگ رستہ قائم کر لیتا ہے.اس طرح بعض تفصیلی امور میں جماعت احمدیہ میں بھی بعض طریق قائم ہو چکے ہیں اور انہیں شامل کر کے جماعت احمدیہ کا موجودہ نظام مندرجہ ذیل صورت میں سمجھا جا سکتا ہے.ا.اول خلیفہ وقت ہے جو جماعت کے نظام کا مستقل اور مرکزی نقطہ ہے اور اس قید کے ساتھ کہ وہ کوئی حکم شریعت اسلامی اور اپنے نبی متبوع کی ہدایات کے خلاف نہیں دے سکتا.( اور ایسا ہونا ممکن ہی کہاں ہے) اسے کلی اختیارات حاصل ہیں.۲.دوسرے صدر انجمن احمد یہ ہے جو سلسلہ کے کاموں کو چلانے کے لئے خلیفہ وقت کے ماتحت ایک مرکزی اور انتظامی انجمن ہے جس کے ممبر مختلف صیغوں کے انچارج ہوتے ہیں اور ناظر کہلاتے ہیں مگر خلیفہ وقت کے حکم سے ایسے ممبر بھی مقرر ہو سکتے ہیں جن کے پاس کسی صیغہ کا چارج نہ ہو.۳.تیسرے مجلس مشاورت ہے جو صدرانجمن کے مقابل پر یعنی اس کے متوازی ایک مشیر انجمن ہے.
242 اس مجلس کا عموماً سال میں ایک دفعہ اجلاس منعقد کر سکتا ہے.یہ مجلس صدرانجمن احمد یہ کے ماتحت نہیں.بلکہ ای طرح براہ راست خلیفہ وقت سے تعلق رکھتی ہے.جس طرح صدر انجمن احمد یہ رکھتی ہے.گویا صدر انجمن احمد یہ ایک انتظامی انجمن ہے.اور مجلس مشاورت گویا ایک رنگ میں مجلس وضع قوانین کی قائم ہے.مگر یہ مشابہت صرف ایک جزوی مشابہت ہے ورنہ حقیقتہ مجلس مشاورت کو یہ پوزیشن حاصل نہیں ہے.۴.چوتھے مقامی انجمنیں ہیں جو ہر شہر یا قصبے میں ( بعض صورتوں میں ضلع وار اور صوبہ وار اور ملک وار انجمنیں بھی ہیں ) جہاں جہاں احمدی پائے جاتے ہیں قائم ہیں.یہ انجمنیں انتظامی لحاظ سے صدر انجمن احمد یہ کے نظام کا حصہ ہیں اور اپنے اپنے محدود حلقہ میں صدر انجمن احمد یہ والے فرائض سرانجام دیتی ہیں.مگر ایک کام ان کا یہ بھی ہے کہ اپنے اپنے حلقہ میں سے مجلس مشاورت کے لئے نمائندے منتخب کر کے بھجوائیں.( ملخص سلسله احمد یه ص ۴۲۹ تا ۴۳۱ ) چندہ جات کا نظا سلسلہ کے چندہ جات کا یہ انتظام ہے کہ ہر احمدی سلسلہ کی خدمت اور اعانت کے لئے اپنی مالی حیثیت کے مطابق چندہ دیتا ہے.چندے کی کئی قسمیں ہیں.صدر انجمن احمدیہ کا مالی سال یکم جولائی سے شروع ہو کر ۳۰ جون کو اختتام پذیر ہوتا ہے.چندہ عام یہ چندہ ہر کمانے والے احمدی پر واجب ہے اس چندہ کی شرح ایک آنہ فی روپیہ یعنی ۱۶ ۱۷ مقر ر ہے.چندہ وصیت یہ چندہ صرف ایسے شخص یا افراد پر واجب ہوتا ہے جو بہشتی مقبرہ کے انتظام کے ماتحت سلسلہ کے حق میں وصیت کریں.اس چندہ کی شرح آمد کے ۱/۱۰ حصہ سے لے کر ۳ را حصہ تک ہے.اس چندہ کے علاوہ وصیت کرنے والے کو اسی شرح سے اپنی جائیداد کے حصہ کی بھی صدرانجمن کے حق میں وصیت کرنا ہوتی ہے.ہوتا ہے.چنده جلسه سالانه چندہ جلسہ سالانہ جو سال میں ایک مہینہ کی آمد کا پندرہ فیصدی دینا ہوتا ہے.اور سالانہ آمد کا ۱/۱۲۰حصہ
243 چندہ تحریک جدید اس چندہ سے تحریک جدید کے کاموں کو چلایا جاتا ہے اس مد کا معیاری وعدہ حسب ضرورت مختلف اوقات میں مختلف مقرر ہوتا رہا ہے.لیکن اب تحریک جدید کے کام میں غیر معمولی وسعت، اضافے اور ضرورت کے پیش نظر معیاری وعدہ مالی وسعت اور استطاعت کے مطابق ہوتا ہے.چنده وقف جدید ۱۹۵۸ء سے لے کر ۱۹۸۴ء تک چندہ وقف جدید کی کم از کم شرح بارہ روپے سالانہ تھی جبکہ ۱۹۸۴ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے چندہ وقف جدید کی کم از کم شرح ختم کر دی اور فرمایا کہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق چندہ وقف جدید ادا کیا جائے.دیگر متفرق چندہ جات ان با قاعدہ چندوں کے علاوہ بہت سے خاص چندے بھی ہیں جو وقتی اور خاص ضروریات کے لئے جمع کئے جاتے ہیں.اور یہ بھی بعض اوقات اچھے بھاری ہوتے ہیں.چندہ امانت برائے تربیت، سیدنا بلال فنڈ ، مریم شادی فنڈ ، کفالت بیتا می فنڈ، چندہ بیوت الحمد سکیم، کوئی اہم زیرتعمیر پروجیکٹ وغیرہ.جو چندہ بھی مرکز میں آتا ہے وہ صدر انجمن کے خزانے میں ایک مستقل اور ذمہ دار افسر کی نگرانی میں رہتا ہے.جس کے ماتحت ایک خاص عملہ کام کرتا ہے اور خزانہ میں روپیہ کا ادخال اور پھر خزانے سے روپیہ کی برآمدگی با قاعدہ تحریری طریق پر عمل میں آتی ہے.اور ہر چیز کا پوراپورار یکارڈ رکھا جاتا ہے.
244
245 باب ہفتم دیگر اہم ادارہ جات
246
247 دار القضاء جماعت احمدیہ کے اندرونی تنازعات کے فیصلہ کے لئے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے ۱۹۱۹ ء میں صیغہ قضاء کی بنیاد ڈالی جس میں سلسلہ کے عالم باعمل اور معاملہ فہم لوگ بطور قاضی مقرر کئے گئے.ایسے احباب جو قاضی اول کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کے خواہاں ہوں.ایسی اپیلوں کی سماعت کے لئے دارالقضاء میں بورڈ قائم ہیں.اور آخری اپیل حضرت خلیفہ اسیح کے پاس ہوتی ہے.حکومتی عدالتوں میں صرف ایسے تنازعات پیش ہوتے ہیں جو یا تو محض دیوانی حقوق کا رنگ رکھتے ہوں اور یاوہ حکومت وقت کے ماتحت قابل دست اندازی پولیس نہیں سمجھے جاتے.اس صیغہ کے قیام سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اول تو گویا گھر کا فیصلہ گھر میں ہی ہو جاتا ہے اور سرکاری عدالتوں میں روپیہ اور وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا.دوسرے جو نا گوار اثرات اخلاقی لحاظ سے قانونی عدالتوں کی فضا میں پیدا ہو سکتے ہیں ان سے جماعت کے لوگ محفوظ ہو گئے.تیسرے بعض اوقات مقدمات کے نتیجہ میں جو ایک صورت پارٹی بندی کی پیدا ہونے لگتی ہے اس کا خطرہ جا تا رہا.جماعت کے دشمنوں نے اس صیغہ کے قیام پر بہت شور مچایا ہے کہ گویا جماعت احمدیہ نے ایک نئی حکومت قائم کر لی ہے اور لوگوں کے لئے سرکاری عدالتوں میں جانے کا رستہ بند کر دیا گیا ہے.اور حکومت کو بھی طرح طرح کی رپورٹوں سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی.مگر سمجھدار طبقہ محسوس کرتا ہے کہ یہ ایک بہت مفید نظام ہے جس میں ایک طرف تو حکومت اس بات کو پسند کرتی ہے کہ لوگ آپس میں خود فیصلہ کر لیا کریں.اور دوسری طرف جماعت کے اندرونی تنازعات کے تصفیہ کا ایک بہت سہل اور عمدہ اور ستا رستہ نکل آیا ہے.جماعت کے اس نظام میں دو خصوصتیں ہیں.اول یہ کہ صیغہ قضا کے تمام مقدمات شریعت دین حق کے مطابق تصفیہ پاتے ہیں.دوسرے یہ کہ اس میں اہل مقدمہ سے کوئی فیس چارج نہیں کی جاتی بلکہ ہر مقدمہ سلسلہ کے خرچ پر مفت کیا جاتا ہے کیونکہ یہی قدیم سے دین کا طریق ہے.( از سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۶۴، مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) دار القضاء کا نظام حضرت خلیفہ مسیح الثانی لمصلح الموعود نے اپنے عہد مبارک میں جماعت کے انتظامی ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور یکم جنوری 1919ء کو با قاعدہ طور پر مختلف صیغہ جات قائم فرمائے.اس اعلان میں قضاء کے قیام کا ذکر بھی تھا مگر 17 جنوری 1919ء کے اخبار ”الحکم سے پتہ چلتا ہے کہ اس نئے نظام کے حوالے سے حضرت
248 خلیفتہ امسح الثانی 1918ء میں ہی ایک جامع اور مکمل خاکے کا اعلان کر دیا تھا.( بحوالہ اخبار الحکم 7 جنوری 1919ء صفحہ 7,5) تا ہم صیغہ قضاء کا با قاعدہ طور پر قیام یکم جنوری 1919ء کو ہی قرار دیا گیا ہے.صیغہ قضاء کے قیام کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی قضاء کیلئے مکرم قاضی امیر حسین صاحب مکرم مولوی فضل دین صاحب اور مکرم میر محمد اسحق صاحب کو مقر رفرما دیا.شروع میں قضاء کا طریق کار یہ تھا کہ قاضی اول کے فیصلہ کے خلاف مرافعہ اولیٰ میں دو قاضی صاحبان اپیل کی سماعت کرتے تھے جن کا تقرر انچارج محکمہ قضاء کرتا تھا.مرافعہ اولیٰ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی سماعت خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی کیا کرتے تھے.مورخہ 20 /اکتوبر 1939ء کو حضور نے اپیلوں کی سماعت کیلئے ایک بورڈ قائم فرمایا اور بورڈ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی اجازت نہ تھی مگر حضور نے مورخہ 13 جون 1942ء کو ایک ارشاد میں بورڈ کے فیصلہ کے خلاف بورڈ کی اجازت سے حضور کے پاس اپیل کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی.چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے درج ذیل ارشاد فر مایا کہ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اپلیں سننے کیلئے جو بورڈ مقرر کیا گیا ہے ان کے فیصلے میں شرعی احکام کی بناء پر نظر ثانی کرنے اور ان کو ترمیم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.جہاں ایسی صورت موجود ہو تو فریق مقدمہ بورڈ کے پاس میرے پاس اپیل کرنے کے لئے درخواست کرے اگر بورڈ اجازت دے تو ایسی اپیل میرے پاس با قاعدہ ہو سکے گی.لیکن اگر بورڈ اجازت نہ دے تو اس حکم کا بطور استصواب میرے پاس اپیل ہو سکے گی مگر اس میں فریقین کے حاضر ہونے کی اجازت نہ ہو گی صرف ایک دفتری استصواب ہو گا.پھر اگر اجازت ہوتو اپیل با قاعدہ ہو سکے گی.“ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی بیماری تک یہی طریق جاری رہا.بیماری کے ایام میں حضور نے مورخہ 66 28 نومبر 1955ء کو درج ذیل ارشاد فرمایا.”میری طاقت نہیں کہ مقدمات کو سنوں.وہی فیصلہ آخری ہوگا جو بورڈ قضاء کا ہوگا.میں تفسیر کا کام کر رہا ہوں.وقت بھی نہیں اور صحت بھی ابھی نہیں.جس کو اعتراض ہو وہ عدالتوں میں جاسکتا ہے.“ (رجسٹر نمبر 3 صفحہ 1) مورخہ 25 /اکتوبر 1956ء کو دوبارہ مکرم ناظم صاحب دارالقضاء کی چٹھی پر مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے اطلاع بھجوائی کہ ابھی حضور کی صحت اس قابل نہیں ہوئی کہ مقدمات کو سن سکیں اس لئے حسب سابق بورڈ کا ہی فیصلہ آخری ہوگا.لیکن حضور نے اس امر کو پسند کیا کہ حضور کی جگہ آئندہ بورڈ کا فل بنچ ایسے
249 معاملات کی سماعت کیا کرے لیکن یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ ایسا کرنے کی وجہ سے زیادہ نہ ہوا کرے اور معاملات کا جلد فیصلہ کر دیا جایا کرے.“ ( دستخط عبدالرحمن پرائیویٹ سیکرٹری خلیفہ المسح الثانی) حضرت خلیت اسی الثانی اللہ تعالی آپ سے راضی ہو ) کی وفات تک یہ طریق جاری رہا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے مورخہ 30 اپریل 1966 ء کو درج ذیل ارشاد فر ما یا." حضرت مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی آخری چندہ سالوں میں اپنی بیماری کی وجہ سے بورڈ قضاء کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی سماعت نہ فرماتے تھے اس لئے بورڈ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا تھا مگر اب بورڈ قضاء کے ہر فیصلے کی اپیل میرے پاس ہو سکے گی خواہ معیاد بیل گزر چکی ہو.جس کا فیصلہ میں خود کروں گا.“ (رجسٹر نمبر 5 صفحہ 5) حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے عہد مبارک میں کچھ قضائی فیصلہ جات فرمائے جن کی کچھ فائلیں دفتر دارالقضاء میں محفوظ ہیں.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے مورخہ 7 جولائی 1982ء کو بورڈ قضاء کے متعلق درج ذیل ہدایات فرمائیں.1.خلیفہ وقت کا یہ حق ہے کہ جس کیس میں چاہے بورڈ قضاء کے فیصلہ کے خلاف اپیل سن سکے سوائے اس کے کہ وہ خود پارٹی ہو.لیکن عام دستور یہ ہوگا.2.اگر بورڈ قضاء تین ممبروں پر مشتمل ہو تو ان کے فیصلہ کے خلاف اپیل بورڈ قضاء ہی سن سکے گا.لیکن اس مرتبہ اپیل سننے والے منصفین کی تعداد پانچ ہوگی.3.اگر بورڈ قضاء پانچ مہروں پر مشتمل ہو اور ان کا فیصلہ متفقہ ہوتو اس فیصلہ کے خلاف کوئی اپیل خلیفہ وقت کو پیش نہیں کی جائے گی.4.اپیل سننے والے بورڈ کی تشکیل صدر بورڈ قضاء کریں گے.5.اگر بورڈ قضاء کے ممبران میں اختلاف پایا جاتا ہو تو اس بات کے فیصلہ سے پہلے کہ خلیفہ وقت اپیل سنے گا یا نہیں وہ فیصلہ کے دلائل اور وجہ اختلاف سے آگاہی حاصل کرے گا جس کے بعد اپیل کو سنے یا نہ سننے کا فیصلہ کرے گا.6.جب تک کوئی خلیفہ اس طریق کو نہ بدلے یہی طریق جاری رہے گا.(رجسٹر نمبر 4 صفحہ 21) اس وقت مرکزی دارالقضاء میں قضاء کی تشکیل کچھ یوں ہے.
250 1 - قاضی اول.(جن کا تقرر ناظم دارالقضاء کرتے ہیں ) 2 مرافعہ اولی.دو قاضی صاحبان ( جن کا تقرر ناظم دارالقضاء کرتے ہیں) 3.بورڈ مرافعہ ثانیہ تین ممبران ہوتے ہیں ایک صدر دو ممبران (جن کا تقر رصد ر قضاء بور ڈ ممبران بورڈ میں سے کرتے ہیں ) 4.بورڈ مرافعہ عالیہ : اس کا تقرر بھی صد ر قضاء بورڈ کرتے ہیں (ایک صدر باقی ممبران) بورڈ مرافعہ عالیہ کا فیصلہ اگر اختلافی ہو تو اس کی اپیل دارالقضاء کے ذریعہ حضور کی خدمت میں صدر صاحب بورڈ قضاء پیش کرتے ہیں.اگر فیصلہ متفقہ ہو اور کوئی فریق نظر ثانی کی درخواست دائر کرے تو بورڈ فیصلہ کنندہ کے پاس ہی پیش ہوتی ہے.ایک بورڈ دوسرے بورڈ کے فیصلہ کو منسوخ نہیں کر سکتا.بہت سے بیرونی ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے قضاء کا نظام مستحکم ہو چکا ہے.جو خلیفہ المسیح کی زیر نگرانی اپنے فرائض بجالا رہا ہے.تاہم قواعد کی رو سے ان کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں مرکزی دارالقضاء ربوہ میں دائر ہوتی ہیں.بیرون ممالک میں قضاء کا جو نظام قائم ہے اس کے لئے قواعد تحریک جدید میں باقاعدہ قواعد موجود ہیں.بیرون ممالک میں صرف دو مراحل ہیں قاضی اول اور مرافعہ اولیٰ.اس کے بعد اپیل مرافعہ عالیہ کے لئے مرکزی دارالقضاء ربوہ میں دائر ہوتی ہے.جبکہ مرکزی دارالقضاء میں چار مراحل ہیں قضاء اول ، مرافعہ اولیٰ ، مرافعہ ثانیہ اور مرافعہ عالیہ.ہالی معاملات کے مقدمات درجہ بدرجہ مرافعہ عالیہ تک پہنچتے ہیں جبکہ خلع کے مقدمات کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مورخہ 17 فروری 1946ء کو ارشاد فرمایا تھا.آئندہ ضلع کے ہر مقدمہ کی اپیل براہ راست پیش کی جایا کرے.“ (رجسٹر نمبر 2 الف صفحہ 103) اس لئے ضلع کے مقدمات میں یہ اپیلیں بورڈ مرافعہ عالیہ میں پیش ہوتی ہیں جبکہ بورڈ مرافعہ عالیہ کے اختلافی فیصلہ کی صورت میں اپیل خلیفہ اسیح کی خدمت میں پیش ہوتی ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 15 دسمبر 2010ء کو آئندہ کیلئے قضاء کے قواعد میں درج ذیل قاعدہ کا اضافہ فرمایا ہے.قضاء میں آنے والے ہر مقدمہ کے فریقین سے آئندہ باضاطہ قانونی ثالثی نامہ لکھوایا جائے گا.اگر وہ ثالثی نامہ نہ لکھیں تو انہیں سرکاری عدالت میں جانے دیا جائے اور آئندہ ایسے اشخاص کے کسی مقدمہ کی قضاء میں سماعت نہ کی جائے.“
251 اس وقت ممبران بورڈ قضاء مرکزیہ کی تعداد 21 ہے.اس وقت دار القضاء میں 24 مرکزی قاضی صاحبان اپنے فرائض انجام دینے کی توفیق پارہے ہیں.قاضی صاحبان کے علاوہ عائلی معاملات میں لوگوں کی مدد کے لئے 7 مربیان اور ایک معلم وقف جدید بطور نمائندہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں.فیملی کیسز کے علاوہ دیگر معاملات میں سرکاری وکلاء لوگوں کی معاونت کے لئے قضاء میں پیش ہوتے ہیں.تاہم کسی بھی وکیل کے لئے ضروری ہے کہ وہ قضاء میں پیش ہونے سے قبل مکرم صدر صاحب بورڈ قضاء مرکزیہ سے اس کی اجازت حاصل کرے جس کا با قاعدہ ایک طریق کار ہے.یہ منظوری ناظم دارالقضاء کے دستخطوں سے جاری کی جاتی ہے.یکم جنوری 2006ء سے دارالقضاءر بوہ میں رجسٹرڈ ہونے والے کیسز کا جملہ ریکارڈ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے جس کو روزانہ کی بنیادوں پر اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے.الحمد للہ علی ذالک استفاده از انعام یافتہ مقالہ بعنوان : حضرت مصلح موعود کے قضائی فیصلے ” مرتبہ مکرم محترم نصیر احمد چوہدری صاحب مربی سلسله قاضی و نائب ناظم دارالقضاء ر بوه) تنفيذ : دارالقضاء کے فیصلہ پر عملدرآمد بذریعہ نظارت امور عامہ کروایا جاتا ہے.جب کسی مقدمہ کا فائنل فیصلہ ہو جاتا ہے اور فریقین کے لئے مزید کسی بھی سطح پر اپیل کرنے کا حق باقی نہیں رہتا.یا کوئی فریق اپیل کے حق کے باوجود اپیل کرنا نہیں چاہتا.تو اس مقدمہ کے فیصلہ پر عملدرآمد کیلئے فریقین میں سے کوئی ایک فریق دار القضاء میں متعلقہ مقدمہ کے فیصلہ پر عملدرآمد کے لئے تحریر درخواست پیش کرتا ہے.جس پر دارالقضاء متعلقہ مقدمہ کے فیصلہ کو بغرض تنفیذ نظارت امور عامہ کی طرف بھجوا دیتی ہے اور پھر نظارت امور عامہ اس فیصلہ کے مطابق فریقین سے عملدرآمد کرواتی ہے.دارالقضاء کے فیصلہ پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں متعلقہ فریق کو تعزیر ہوسکتی ہے.لہذا دار القضاء کے فیصلہ پر فریقین کیلئے عملدرآمد کرنا ضروری ہوتا ہے.
252 بہشتی مقبرہ کا قیام ۱۹۰۵ء کے آخر میں حضرت بانی سلسلہ کو اپنی وفات سے متعلق بڑی کثرت سے الہامات شروع ہو گئے.چنانچہ سب سے پہلے ۱۸ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو آپ نے دیکھا کہ آپ کے سامنے ایک برتن میں مصفی اور ٹھنڈا را پانی پیش کیا گیا.جو بقدر دو یا تین گھونٹ کے تھا.اور اس کے ساتھ ہی آپ کو الہام ہوا.”آب زندگی یعنی یہ تیری بقیہ زندگی کا پانی ہے.اس کے بعد الہام ہوا.قَلَّ مِبْعَادُ رَبّک یعنی تیری زندگی کی میعاد تھوڑی رہ گئی ہے.اور اس کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا.” خدا کی طرف سے بہت اداسی چھا گئی.“ پھر ۲۹ نومبر ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا.قَرُبَ اَجَلُكَ الْمُقَدَّرُ وَلا نَبْقِى لَكَ مِنْ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا.یعنی تیری مقد روفات کا وقت قریب آ گیا اور ہم تیرے پیچھے کوئی رسوا کرنے والی بات نہیں رہنے دیں گے پھر ۱۴ دسمبر ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا.جَاءَ وَقْتُكَ وَنَبْقِي لَكَ الْآيَاتُ الْبَيِّنَاتُ “ یعنی تیر ا وقت آن پہنچا ہے.اور ہم تیرے پیچھے تیری تائید میں روشن نشانات قائم رکھیں گے.اسی طرح اور بھی بہت سے الہامات ہوئے جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب آپ کی وفات کا وقت بالکل قریب آ گیا ہے.اس پر آپ نے رسالہ الْوَصِيَّة“ کے عنوان سے ایک وصیت لکھ کر شائع فرمائی اور اس میں ان سارے الہامات کو درج کر کے اس بات کو ظاہر کیا کہ اب میری وفات کا وقت قریب آ گیا ہے.اور آپ نے اپنی تعلیم کا خلاصہ بیان کر کے جماعت کو نصیحت فرمائی.کہ وہ آپ کے بعد آپ کی لائی ہوئی تعلیم پر قائم رہے اور درمیانی ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی سنت اللہ کے ماتحت ضروری ہوتا ہے.اور آپ نے لکھا کہ نبی کا کام صرف تخم ریزی تک محدود ہوتا ہے.پس میرے ذریعہ سے یہ تخم ریزی ہو چکی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی.اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.آپ نے یہ بھی لکھا کہ بسا اوقات ایک نبی کی وفات ایسے وقت میں ہوتی ہے جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے اندر رکھتا ہے اور مخالف لوگ ہنسی اور ٹھٹھا اور طعن و تشنیع سے کام لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس اب یہ سلسلہ مٹ گیا.اور بعض کمزور مومن بھی ڈگمگانے لگتے ہیں.تب خدا تعالیٰ اپنی دوسری قدرت کو ظاہر فرماتا ہے اور خلفاء کے ذریعہ بظاہر گرتی ہوئی عمارت کو اپنی طاقت اور نصرت کا ثبوت دیتا ہے اور دشمن کی خوشی خاک میں مل جاتی ہے.اس کے علاوہ حضرت بانی سلسلہ نے اپنی اس وصیت میں خدا کے حکم سے جماعت کے لئے ایک خاص
253 مقبرہ کی بھی تجویز فرمائی.جس کا نام آپ نے بہشتی مقبرہ رکھا.دراصل اس مقبرہ کے متعلق آپ کو کئی سال پہلے سے رویا ہو چکا تھا.اور آپ کو بتایا گیا تھا کہ جماعت کے خاص مخلصین کے لئے جو خدا کی نظر میں بہشتی ہیں.ایک علیحدہ قبرستان ہونا چاہئے تاکہ وہ ایک یادگار ہو اور بعد میں آنے والی نسلیں اسے دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ کریں.اور آپ اس عرصہ میں اس کے جائے وقوعہ اور زمین وغیرہ کے بارے میں غور فرماتے رہے تھے.لیکن حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی وفات ہوئی اور خود آپ کو اپنی وفات کے بارے میں بھی کثرت کے ساتھ الہامات ہوئے تو آپ نے اس تجویز کے متعلق عملی قدم اٹھایا اور قادیان سے جنوبی جانب اپنے باغ کے ساتھ ایک قطعہ اراضی تجویز کر کے اس میں اس مقبرہ کی بنیاد قائم کی.اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو جنہیں عارضی طور پر ایک بکس میں دوسری جگہ دفن کر دیا گیا تھا.اس نئے مقبرہ کی طرف منتقل کر دیا گیا.اس مقبرہ کے قیام کے وقت آپ نے خدا سے الہام پا کر اس مقبرہ میں دفن ہونے کے لئے چند شرطیں بھی لگا دیں.جو حسب ذیل ہیں :.ا.اول یہ کہ اس مقبرہ میں دفن ہونے والا ایک سچا اور مخلص مومن ہو جو متقی ہواور محرمات سے پر ہیز کرنے والا ہر قسم کے شرک اور بدعت سے پاک ہو.۲.دوم یہ کہ وہ اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے اپنی جائیداد کا کم از کم دسواں حصہ اور زیادہ سے زیادہ تیسرا حصہ پیش کرے اور اس بارے میں ایک باقاعدہ وصیت کر کے اپنے مال کا یہ حصہ سلسلہ کے نام پر لکھ دے.مگر آپ نے تصریح کی کہ کوئی شخص کسی قسم کی جائیداد نہ رکھتا ہو تو پھر صرف شرط اول کافی ہوگی.بشرطیکہ یہ ثابت ہو کہ ایسا شخص اپنی زندگی کو دین کے لئے وقف رکھتا تھا.خلافت لائبریری تاریخ احمدیت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بڑی نمایاں نظر آتی ہے کہ افراد جماعت میں ہمیشہ سے علمی تحقیق کا ذوق رہا ہے.یہی وجہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر بڑی کثرت سے لائبریریوں کے قیام کی طرف رجحان رہا ہے.قادیان دارالامان میں بھی ایک مرکزی لائبریری قائم تھی.اسی شوق کے پیش نظر حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے ۱۹۵۲ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ آئندہ کے لئے صدر انجمن احمدیہ کی مرکزی لائبریری اور حضور کی لائبریریوں کو یکجا کیا جائے.چنانچہ اسی ہدایت کے مطابق مئی ۱۹۵۲ء میں مرکزی سطح پر اس لائبریری کا قیام عمل میں آیا.شروع شروع میں یہ لائبریری حضور کی ہدایت کے مطابق پرائیویٹ
254 سیکرٹری کے تین کمروں میں منتقل کی گئی.بعد میں اس امر کی بڑی شدت سے ضرورت محسوس کی گئی کہ ربوہ میں ایسی لائبریری تعمیر کی جائے جس سے عوام الناس کے علاوہ طلباء بھی بھر پور استفادہ کرسکیں.چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر ۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے خلافت لائبریری کا سنگ بنیا درکھا جس کا ۱۳ راکتو برا ۱۹۷ء کو افتتاح ہوا.اس موقع پر حضور نے فرمایا:.یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ ہیں تبلیغ دین حق ، مخالفوں کے اعتراضات کے جواب ، تربیت، یہ سب کام لائبریری سے ہی تعلق رکھتے ہیں.“ لائبریری کی تعمیر، فرنیچر اور دیگر تمام ضروریات کے اخراجات فضل عمر فاؤنڈیشن نے ادا کئے.لائبریری کے انتظامات کو چلانے کیلئے ایک کمیٹی مقرر ہے.اس کمیٹی کے حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے درج ذیل فرائض متعین فرمائے ہیں:.لائبریری کی جملہ مالی اور انتظامی امور کی تمام تر ذمہ داری اس کمیٹی پر ہوگی.جس طرح کمپنیوں کے بورڈ کام کرتے ہیں اسی طرح یہ کمیٹی کام کرے.بجٹ بنائے.سب کمیٹیوں کا تقرر کرے.انتظام کو احسن رنگ میں چلانے کے لئے تجاویز زیر غور لائے اور ان سب امور پر عمل درامد کی ذمہ دار ہو.لائبریرین اس کمیٹی کے ممبر ہوں گے اور کمیٹی کے تمام فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کے پابند اور کمیٹی کے سامنے جواب دہ ہوں گے.کمیٹی اپنے اجلاسات کی رپورٹیں آخری منظوری کے لئے مجھے بھجوادیا کرے گی.“ ریز ولیشن صدرا انجمن احمد یه ۵ غ - م مورخه ۳ را گست ۱۹۸۳ء) خلافت لائبریری انتظامی لحاظ سے صدرانجمن احمد یہ کے تحت ہے.اس لائبریری میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کتب ہیں.لائبریری میں کتب کی ترتیب بین الاقوامی ڈی.ڈی سی سسٹم کے تحت مضامین کے اعتبار سے کی گئی ہے.ترتیب اوپن شیلف ہے.یعنی قارئین کو کتب تک براہ راست رسائی حاصل ہے جہاں سے اپنی پسند کی کتب تلاش کر سکتے ہیں.لائبریری میں ڈکشنری کیٹلاگ بنایا گیا ہے.مصنف ، عنوان اور مضمون کے تحت تین کارڈ بنائے جاتے ہیں.ہر کتاب کے کیٹا لاگ کے لئے ALA کیٹلاگنگ رولز کو مدنظر رکھا جاتا ہے.لائبریری سے دو کتب پندرہ یوم کے لئے ایشو کی جاتی ہیں.مطالعه کنندگان:.قارئین کو لائبریری میں مطالعہ کی سہولت حاصل ہے.مستورات کے لئے الگ جگہ کا انتظام کیا گیا ہے.اور طلباء اور ریسرچ کرنے والوں کے لئے ریسرچ سیل بنائے گئے ہیں.اخبارات کے مطالعہ کے لئے الگ جگہ پر انتظام کیا گیا ہے.جہاں پر پندرہ کے قریب روزانہ اخبارات آتے ہیں.اور
255 اوسطاً روزانہ تین صد افراد مطالعہ کے لئے تشریف لاتے ہیں.رسائل کے لئے الگ کمرہ میں انتظام کیا گیا ہے.جہاں پر تقریباً سو ہفتہ وار ماہانہ اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں رسائل آتے ہیں.ٹیکسٹ بگس سیکشن : - حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ۱۹۸۱ء میں طلباء وطالبات کے لئے اس سیکشن کا اجراء فرمایا.جہاں پر ایم.اے.ایم ایس سی میڈیکل اور انجینئر نگ کے طلباء کو کورس کی کتب مہیا کی جاتی ہیں.اس سیکشن میں کتب کی تعداد ۸۳۸۹ ہے جبکہ ۱۸۲ اطلباء وطالبات اس سیکشن کے ممبر ہیں.یہاں سے طلباء کو ایک وقت میں چار کتب دو ماہ کے لئے جاری کی جاتی ہیں اور دوسرے طلباء کو ضرورت نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ جاری کر دی جاتی ہیں.بچوں کا سیکشن:.حضرت خلیفہ امسیح الثالث فرماتے ہیں:.بچوں کے لئے مثلاً بعض اچھی کہانیاں ہیں جو ان کے اخلاق کو خراب کرنے والی نہ ہوں.سنوار نے والی ہوں یہ بھی بڑی مفید چیز ہے.بچوں کا اپنا سیکشن علیحدہ ہو سکتا ہے.دراصل یہ معاملہ ذرا سوچ کر طے کرنے والا ہے.ابھی تک تو میرے ذہن میں نہیں کہ ہماری جماعت میں ایسے دوست ہیں جن کے اس قسم کے دماغ ہوں اور وہ بچوں کے لئے مفید کتابوں کا انتخاب کر سکیں لیکن یہ ایک اہم ضرورت ہے کہ ہر عمر کے بچے دماغ کے لئے علیحدہ کہانی چاہئے.“ اسی طرح حضرت خلیفہ مسیح الرابع حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے فرمایا:.بچوں کے لئے باہر کی دنیا سے بھی جدید کتب حاصل ہونی چاہئیں.جن میں بہترین تصویروں کے ساتھ عام معلومات مہیا کی جاتی ہیں.“ ارشادات حضرت مرزا طاہر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ ۸۲-۱۱-۳۰) بچوں کے مطالعہ کے لئے الگ سیکشن قائم ہے اس میں اردو، انگریزی کی ۱۵۶۸۳ کتب ہیں جبکہ ۵۲۱۸ بچے اس سیکشن کے ممبر ہیں اوسطاً روزانہ ایک صد بچے اس سیکشن سے کتب حاصل کرتے اور مطالعہ کے لئے تشریف لاتے ہیں.فروری ۱۹۸۹ ء میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب امام جماعت احمد یہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں جگہ کی کمی کے باعث اس سیکشن کی نئی عمارت کے لئے لکھا گیا.حضور نے جواب میں تحریر فرمایا :.بچوں کے لئے بے شک لائبریری کے ساتھ والی جگہ پر ریڈنگ روم بنا ئیں.اجازت ہے.لیکن
256 بچوں کے شوق کو جلا دینے کی خاطر ان کے لئے مفید اور معلوماتی ویڈیوز کا بھی انتظام ہونا چاہئے اس سے ان کا علم بھی بڑھے گا اور دلچسپی ہوگی.میں خود بھی یہاں سے بچوں کے لئے ویڈیوز کے بارہ میں پتہ کروارہا ہوں.ملنے پر بھجوا دی جائیں گی.“ ارشاد حضور فروری ۱۹۸۹ء) حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں لائبریری میں ویڈیو پروگرام شروع کر دیا گیا ہے.فوٹوسٹیٹ :.لائبریری میں موجود پرانے جماعتی اخبارات و رسائل کو ان کی خستہ حالت کے پیش نظر فوٹوسٹیٹ کے ذریعہ محفوظ کرنے کے لئے کام ۱۹۸۱ء میں شروع کیا گیا تھا شروع میں یہ کام بازار سے کروایا جاتا رہا.۱۹۸۳ء میں لائبریری کے لئے نئی فوٹوسٹیٹ مشین خریدی گئی.اس وقت تک مسودات و تحریرات حضرت اقدس کے تین سیٹ ، کتب حضرت بانی سلسلہ ایڈیشن اول مکمل دو سیٹ.اصل اشتہارات بانی سلسلہ کے علاوہ الحکم ۱۸۹۷ء تا ۱۹۴۳ء (مکمل) بدر ۱۹۰۳ء تا ۱۹۱۳ء (مکمل ) ریویواردو و انگریزی ۱۹۴۷ء تک.تفخیذ الاذہان ۱۹۰۶ ء تا ۱۹۲۱ء (مکمل) الفصل ۱۹۱۳ء تا ۱۹۵۲ء.رجسٹر روایات ۱۳ عدد دو۲ سیٹ مکمل فوٹوسٹیٹ ہو چکے ہیں.: یمینیشن مشین کے ذریعہ پرانے اخبارات و رسائل کے اوپر پلاسٹک چڑھا کر محفوظ کیا جاتا ہے.لائبریری میں یہ کا م ۱۹۸۳ء میں شروع کیا گیا.اب تک درج ذیل کام ہو چکا ہے.کتب حضرت بانی سلسلہ ایڈیشن اول مکمل سیٹ.اصل اشتہارات حضرت بانی سلسلہ.الحکم ۱۸۹۷ء تا ۱۹۴۳ء (مکمل) - البدر ۱۹۰۳ء تا ۱۹۱۳ء (مکمل) ریویو انگریزی ، اردو ۱۹۴۷ء تک - تشحیذ الا ذہان ۱۹۰۶ء تا ۱۹۲۱ء (مکمل) الفضل ۱۹۱۳ء تا ۱۹۴۰ء.جلد بندی:.لائبریری میں جلد بندی کا انتظام ہے جہاں پر جلد بندی کا تمام ساز و سامان میسر ہے.حال ہی میں رنگ بائنڈنگ (Ring Binding) کی ایک مشین خریدی گئی ہے.جبکہ قبل ازیں کتب کے اوپر پلاسٹک کور چڑھانے کے لئے بھی ایک مشین خریدی گئی تھی.مائیکروفلم:.سلسلہ کے پرانے اخبارات کو فوٹوسٹیٹ اور یمینیشن کے علاوہ اب اس تمام مواد کو مائیکر وفلم کے ذریعہ محفوظ کیا جار ہا ہے.نایاب تحریرات اور قلمی نسخے :.(۱) خلافت لائبریری میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی چند کتب کے اصل مسودات بھی محفوظ ہیں.نیز پہلا رجسٹر بیعت ۱۸۸۹ء خود نوشتہ کا پی الہامات حضرت بانی سلہ خود نوشته رجسٹر متفرق یادداشتیں.حضور کے زیر استعمال بخاری شریف اور تعطیر الا نام ( جن پر حضور کے
257 نوٹس ہیں ) محفوظ ہیں.نیز خطوط حضرت بانی سلسلہ بنام حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحب جن کی تعداد اڑسٹھ ہے محفوظ ہیں.پہلا خط ۱۸۸۴ء کا ہے.(۲) حضرت فضل عمر کے مختلف مضامین کی تحریرات کے علاوہ اہم کتب کے مسودات اور خطبات کے اصلاح شدہ مسودات محفوظ ہیں.(۳) لائبریری میں ۱۵۳ نایاب قلمی نسخے محفوظ ہیں جن میں سے اکثر حضرت مولانا نورالدین صاحب نے اپنے شوق سے ایک کثیر رقم خرچ کر کے حاصل کئے تھے.تصاویر :.لائبریری کے اس سیکشن میں اکثر وہ نایاب تصاویر ہیں جو کہ ائمہ جماعت احمد یہ لائبریری میں محفوظ کرنے کی غرض سے ارسال کرتے رہے.گزشتہ سالوں میں اس سیکشن میں رفقاء حضرت اقدس کی تصاویر شامل کی تھیں.علاوہ ازیں اہم جماعتی تصاویر حاصل کر کے ریکارڈ مکمل کیا گیا ہے.۱۹۸۸ء میں ہندوستان سے مختلف مقدس مقامات کی تصاویر حاصل کی گئیں.اخبارات و رسائل :.لائبریری میں جو اخبارات ورسائل آتے ہیں انہیں پڑھ کر جماعت کے متعلق خبروں کے تراشتہ جات تیار کر کے محفوظ کئے جاتے ہیں.یہ کام گذشتہ سو سال سے جاری ہے.حضرت بانی سلسلہ کے محفوظ کردہ چند تراشہ بھی لائبریری میں موجود ہیں.نیز پرانے اخبارات کو با قاعدہ فائل کیا جاتا ہے.اور بعد میں اس کی جلد بندی کروائی جاتی ہے.جلد بندی کے بعد الگ سیکشن میں ترتیب سے رکھا جاتا ہے.جہاں قارئین حوالہ جات کے سلسلہ میں ان سے استفادہ کرتے ہیں.لائبریری میں نایاب اخبارات و رسائل مثلاً ریاض الہند ، منشور یہ محمدی.اشاعۃ السنہ، اہل حدیث ، ترجمان القرآن کے اکثر فائل بھی محفوظ ہیں.احباب جماعت سے درخواست ہے کہ سلسلہ کا نایاب لٹریچر جو کہ اکثر گھروں میں موجود ہے اور مناسب ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے بوسیدہ ہورہا ہے اسے خلافت لائبریری میں دے دیں.اوقات کار : موسم سرما صبح ۷۴۵ تا نماز مغرب.موسم گرما صبح سے تا نماز مغرب کارکن دو شفٹوں میں کام کرتے ہیں.لائبریری ممبر شپ :.لائبریری کے موجود ممبران کی تعداد ۵۴۶۱ ہے.ربوہ میں رہائش پذیر احمدی احباب لائبریری کے ممبر بن سکتے ہیں.واحباب ممبر شپ درج ذیل ہیں :.سیکیورٹی قابل وایسی: ۲۰۰ روپے
258 سالانہ فیس ممبر شپ : ۷۵ روپے طلباء فیس ممبر شپ :.۱۵ روپے بچوں کی فیس :.۲۰ روپے جماعتی کارکنان سے سیکیورٹی نہیں لی جاتی بلکہ ادارہ جات کے افسران کی سفارش اور ضمانت پر ممبر بنایا جاتا ہے اور صرف سالانہ فیں.۷۵۷ روپے لی جاتی ہے جبکہ دیگر احباب کے لئے ممبر شپ کارڈ پر صدران حلقہ جات کی تصدیق کروائی جاتی ہے.لائبریری میں کتب و رسائل مخطوطات کی تعداد :.خلافت لائبریری میں اس وقت تک ایک لاکھ پچاس ہزار (۱,۵۰۰۰۰) کتب اور اخبارات و رسائل کی تعداد پچاس ہزار (۵۰٫۰۰۰) اور مخطوطات کی بشکریہ انچارج صاحب خلافت لائبریری ربوہ ) تعداد تین صد (۳۰۰) ہے.دار الضافیت (لنگر خانہ) حضرت بانی سلسلہ نے اپنی کتاب ”فتح اسلام میں اشاعت اسلام کے لئے جن پانچ شاخوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں تیسری شاخ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.چنانچہ منجملہ ان شاخوں کے تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کر نیوالے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنے والے ہیں جو اس آسمانی کارخانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں.یہ شاخ بھی برابر نشو و نما میں ہے اگر چہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں نہایت سرگرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ ان سات کے برسوں میں ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر ان میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور ان کے مشکلات حل کر دیئے گئے اور ان کی کمزوری کو دور کر دیا گیا.اس کا علم خدا تعالیٰ کو (روحانی خزائن جلد ۳ فتح اسلام ص ۱۱ تا ۱۵) ہے.یہی وہ عظیم مقصد تھا جس کی خاطر لنگر خانہ حضرت مسیح موعود کا قیام عمل میں آیا.تاکہ حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے مرکز میں آنے والوں کی رہائش اور کھانے کے سلسلہ میں دقت محسوس نہ ہو.حضرت مسیح موعود کی سیرت کا یہ پہلو بڑا نمایاں نظر آتا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے اپنی کتاب ”سلسلہ احمدیہ میں حضرت مسیح موعود
259 علیہ السلام کی مہمان نوازی سے متعلق تحریر فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود کی طبیعت نہایت درجہ مہمان نواز تھی.اور جو لوگ جلسہ کے موقعہ پر یا دوسرے موقعوں پر قادیان آتے تھے خواہ احمدی ہوں یا غیر احمدی وہ آپ کی محبت اور مہمان نوازی سے پورا پورا حصہ پاتے تھے اور آپ کو ان کے آرام اور آسائش کا از حد خیال رہتا تھا.آپ کی طبیعت میں تکلف بالکل نہیں تھا اور ہر مہمان کو ایک عزیز کے طور پر ملتے تھے اور اس کی خدمت اور مہمان نوازی میں دلی خوشی پاتے تھے.اوائل زمانہ کے آنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی مہمان آتا تو آپ ہمیشہ اسے مسکراتے ہوئے چہرہ سے ملتے.مصافحہ کرتے.خیریت پوچھتے.عزت کے ساتھ بٹھاتے گرمی کا موسم ہوتا تو شربت بنا کر پیش کرتے.سردیاں ہوتیں تو چائے وغیرہ تیار کروا کے لاتے.رہائش کی جگہ کا انتظام کرتے اور کھانے وغیرہ کے متعلق مہمان خانہ کے منتظمین کو خود بلا کر تا کید فرماتے کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.“ ایک دوسری روایت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے سیرۃ طیبہ ص ۶۹ میں یہ تحریر فرماتے ہیں :.ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو ر ہنے والے تو چکوال کے تھے مگر راولپنڈی میں دوکان کیا کرتے تھے.انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان آیا.سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہور ہی تھی.میں شام کے وقت قادیان پہنچا تھا.رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گذرگئی اور قریباً بارہ بجے کا وقت ہو گیا تو کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی.میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود کھڑے تھے.ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی.میں حضور کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا.کہیں سے دودھ آ گیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں.آپ یہ دودھ پی لیں.آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی اس لئے یہ دودھ آپ کے لئے لے آیا ہوں سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسوائد آئے کہ سبحان اللہ کیا اخلاق ہیں! یہ خدا کا برگزیدہ صیح اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پاتا ہے اور کتنی تکلیف اٹھاتا ہے!!“ اس واقعہ سے آپ کے جذ بہ مہمان نوازی کا کسی قدرا ندازہ ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں مہماں جو کر کے اُلفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت
260 پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سُبح دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا ہی بے ہے یہ روز کر مبارک سُبح ان ( محمود کی آمین از در مشین اردو) مہمان نوازی کے تعلق میں مولانا ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی مولانا ابوالنصر مرحوم کے قادیان جانے کا ذکر بھی اس جگہ بے موقعہ نہ ہوگا.وہ ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان تشریف لے گئے.بہت زیرک اور سمجھدار بزرگ تھے.قادیان سے واپس آ کر انہوں نے ایک مضمون لکھا جس میں مولانا ابوالنصر فرماتے ہیں:.میں نے کیا دیکھا.مرزا صاحب سے ملاقات کی اور ان کا مہمان رہا.مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکر یہ ادا کرنا چاہئے اکرام ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا.مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے.آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے.طبیعت منکسر مگر حکومت خیز.مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا.برد باری کی شان نے انکسار کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے.گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا متبسم ہیں.مرزا صاحب کے مریدوں میں میں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں بہت خوش اعتقاد پایا..مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ادنی نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کے متواتر نوازشوں پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقعہ دیا کہ ہم آپ کو اس وعدہ پر (واپس جانے کی اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام 66 میں جس شوق کو لے کر گیا تھا اسے ساتھ لایا اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے.“ (اخبار وکیل امرتسر بحوالہ احکم ۲۴ مئی ۱۹۰۵ء) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی.جو ممتاز رفقاء میں سے تھے.اور انہیں مسیح موعود کے قرب کی صحبت کا بہت لمبا موقعہ میسر آیا تھا.وہ بیان فرماتے تھے کہ :.ایک دفعہ گرمی کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعود کے اہل خانہ لدھیانہ گئے ہوئے تھے.میں حضور
261 کو ملنے اندرون خانہ گیا.کمرہ نیا نیا بنا تھا اور ٹھنڈا تھا.میں ایک چار پائی پر ذرا لیٹ گیا اور مجھے نیند آگئی.حضور اس وقت کچھ تصنیف فرماتے ہوئے ٹہل رہے تھے.جب میں چونک کر جا گا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود میری چارپائی کے پاس نیچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے.میں گھبرا کر ادب سے کھڑا ہو گیا.حضرت مسیح موعود نے بڑی محبت سے پوچھا.مولوی صاحب! آپ کیوں اٹھ بیٹھے؟ میں نے عرض کیا.حضور نیچے لیٹے ہوئے ہیں.میں اوپر کیسے سوسکتا ہوں؟ مسکرا کر فرمایا.آپ بے تکلفی سے لیٹے رہیں.میں آپ کا پہرہ دے رہا تھا.بچے شور کرتے تھے تو میں انہیں روکتا تھا.تا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے.اللہ اللہ ! شفقت کا کیا عالم تھا !!".(سیرة مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ص ۳۶) حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی راویت کرتے ہیں :.ایک دفعی منی پور آسام کے دور دراز علاقہ سے دو ( غیر احمدی) مہمان حضرت مسیح موعود کا نام سن کر حضور کو ملنے کے لئے قادیان آئے اور مہمان خانہ کے پاس پہنچ کر لنگر خانہ کے خادموں کو اپنا سامان اتارنے اور چارپائی بچھانے کو کہا.لیکن ان خدام کو اس طرف فوری توجہ نہ ہوئی.اور وہ ان مہمانوں کو یہ کہ کر دوسری طرف چلے گئے کہ آپ یکہ سے سامان اتاریں چار پائی بھی آ جائے گی.ان تھکے ماندے مہمانوں کو یہ جواب ناگوار گزرا اور وہ رنجیدہ ہوکر اسی وقت بٹالہ کی طرف واپس روانہ ہو گئے.مگر جب حضور کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو حضور نہایت جلدی ہی ایسی حالت میں کہ جوتا پہنا بھی مشکل ہو گیا.ان کے پیچھے بٹالہ کے رستہ پر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے چل پڑے.چند خدام بھی ساتھ ہو گئے.اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ میں بھی ساتھ ہولیا حضور اس وقت اتنی تیزی کے ساتھ ان کے پیچھے گئے کہ قادیان سے دو اڑھائی میل پر نہر کے پل کے پاس انہیں جالیا اور بڑی محبت اور معذرت کے ساتھ اصرار کیا کہ واپس چلیں اور فرمایا آپ کے واپس چلے جانے سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے.آپ یکہ پر سوار ہو جائیں میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا.مگر وہ احترام اور شرمندگی کی وجہ سے سوار نہ ہوئے اور حضور انہیں اپنے ساتھ لے کر قادیان واپس آگئے اور مہمان خانہ میں پہنچ کر ان کا سامان اتارنے کے لئے حضور نے اپنا ہاتھ یکہ کی طرف بڑھایا مگر خدام نے آگے بڑھ کر سامان اتار لیا.اس کے بعد حضور ان کے پاس بیٹھ کر محبت اور دلداری کی گفتگو فرماتے رہے اور کھانے وغیرہ کے متعلق بھی پوچھا کہ آپ کیا کھانا پسند کرتے ہیں اور کسی خاص کھانے کی عادت تو نہیں؟ اور جب تک کھانا نہ آ گیا حضور ان کے پاس بیٹھے ہوئے بڑی شفقت کے ساتھ
262 باتیں کرتے رہے.دوسرے دن جب یہ مہمان واپس روانہ ہونے لگے تو حضور نے دودھ کے دو گلاس منگوا کر ان کے سامنے بڑی محبت کے ساتھ پیش کئے اور پھر دو اڑھائی میل پیدل چل کر بٹالہ کے رستہ والی نہر تک چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ گئے اور اپنے سامنے یکہ پر سوار کرا کے واپس تشریف لائے.“ ( اصحاب احمد جلد۴) اس عظیم خلق کے نتیجہ میں لنگر خانہ حضرت مسیح موعود کی بنیاد رکھی گئی لنگر خانہ کی تاریخ کا مطالعہ غیر معمولی ایمانی تروتازگی کے سامان مہیا کرتا ہے.اس تمام تاریخ کا نقشہ حضرت بانی سلسلہ اپنے ایک عربی شعر میں بیان کرتے ہیں.لفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكُلِ صِرُتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْاَهَالِـ ( آئینہ کمالات اسلام ) یعنی ایک زمانہ تھا کہ دوسروں کے دستر خوان سے بچے ہوئے ٹکڑے میری خوراک ہوا کرتے تھے.مگر آج خدا کے فضل سے میرے دستر خوان پر خاندانوں کے خاندان پل رہے ہیں.اس وقت خدا کے فضل سے دار الضیافت میں نارمل حالت میں۸۷۰ مہمانوں کو ٹھہرانے کی گنجائش ہے.ہنگامی حالات میں ایک ہزار تک مہمانوں کے قیام کا انتظام کیا جاسکتا ہے.روزانہ اوسطاً ساڑھے بارہ صد مہمان کھانا کھاتے ہیں.مہمانوں کے علاوہ روزانہ کافی تعداد میں غرباء کو فری کھانا مہیا کیا جاتا ہے.جماعت کے جملہ اجتماعی پروگراموں کے موقع پر قیام و طعام کے تمام انتظامات دارالضیافت کی انتظامیہ کے تحت انجام پاتے ہیں.مہمانوں کی مہمان نوازی کے علاوہ کئی شعبے دارالضیافت کے ساتھ منسلک ہیں.بيت الكرامه بیت الکرامہ بھی دارالضیافت کا ہی ایک حصہ ہے جس میں ایسے ضعیف و ناتواں بزرگوں کو مستقل ٹھہرایا گیا ہے جن کا کوئی بھی وسیلہ نہیں اور نہ خود اپنا گزارہ چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں.پہلے بیت الکرمہ میں صرف بے سہارا مرد حضرات کو ٹھہرایا جاتا تھا.مگر اب بے سہارا مستورات کو ٹھہرانے کے لئے ایک الگ بلڈنگ تعمیر ہو چکی ہے جس میں ایسی ضرورت مند مستورات کو ٹھہرانا شروع کر دیا گیا ہے.
263 جامعہ احمد یہ ربوہ جامعہ احمد یہ وہ عظیم دینی درس گاہ ہے جس سے تربیت پانے والے واقفین زندگی تعلیمی، تربیتی اور تبلیغی غرضیکہ ہر محاذ پر گرانقدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ تمام مقاصد کما حقہ پورے ہو رہے ہیں جن کے پیش نظر یہ ادارہ قائم ہوا.اس کے قیام کا پس منظر اور مختصر تاریخ یہ ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور حضرت حافظ برہان الدین صاحب جہلمی کی وفات نے حضرت مسیح موعود کی توجہ کو اس طرف مبذول کیا کہ جماعت میں کوئی ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ مرنے والے علماء کی جگہ لینے کے لئے دوسرے لوگ تیار ہوں جو سلسلہ احمدیہ کی خدمت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں.چنانچہ دسمبر ۱۹۰۵ء میں قادیان جلسہ سالانہ کا اجتماع ہوا تو آپ نے اس موقعہ پر نہایت در دانگریز تقریر فرمائی جس میں اپنی اس تجویز کو پیش کیا اور فرمایا.کہ موجودہ انگریزی مدرسہ یعنی تعلیم الاسلام ہائی سکول ہماری اس مخصوص ضرورت کو پورا نہیں کرتا اس لئے ایسی درس گاہ کی ضرورت باقی رہتی ہے جس میں دینی علوم کی تعلیم دی جائے.اور ایسے علماء پیدا کئے جائیں جو اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے پوری طرح واقف ہوں اور علم کے علاوہ تقریر وتحریر میں بھی اعلیٰ ملکہ رکھیں اور انہیں انگریزی اور حسب ضرورت سنسکرت وغیرہ بھی پڑھائی جائے اور دوسرے مذہب کی تعلیم بھی دی جائے.اور کسی قدر سائنس بھی سکھائی جائے اور اس کے ساتھ آپ نے یہ بھی تحریک فرمائی کہ جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کریں تا کہ انہیں مناسب تعلیم دلا کر کام میں لگایا جا سکے.اس موقعہ پر آپ نے یہ بھی ذکر فرمایا کہ ابھی جماعت میں تربیت کے لحاظ سے بہت کچھ اصلاح اور ترقی کی ضرورت ہے اور فرمایا کہ گو خدا کے وعدں پر نظر رکھتے ہوئے.مجھے ہر طرح سے امید اور ڈھارس ہے کہ خدا ساری کمیوں کو خود پورا فرمادے گا مگر بظاہر صورت جماعت کی موجودہ حالت اس بچہ کی سی نظر آتی ہے جس نے ابھی چند دن ہی دودھ پیا ہو اور اس کی ماں فوت ہو جائے.“ (اخبار الحکم جنوری.فروری ۱۹۰۶ء) حضور کی اس سوز وگداز سے بھری ہوئی تقریر کے بعد بہت سوچ و بچار اور مشوروں کے نتیجہ میں ۱۹۰۶ء کی ابتداء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ ایک دینیات کی علیحدہ شاخ زائد کر دی گئی.جس میں عربی اور دینیات کی اعلی تعلیم کے علاوہ دوسرے مذاہب کے متعلق بھی تعلیم دی جاتی تھی.اور ساتھ ہی دوسری زبا نہیں مثلاً انگریزی اور سنسکرت وغیرہ بھی پڑھائی جاتی تھیں اور کسی حد تک سائنس کی تعلیم بھی دی جاتی اور ساتھ ساتھ تقریر و تحریر کی مشق بھی کروائی جاتی تھی.حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ۱۹۰۸ء میں دینیات کی شاخ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول سے کاٹ کر
264 ایک مستقل مدرسہ کی صورت میں قائم کر دی گئی جسے مدرسہ احمدیہ کہا جانے لگا اور یہی وہ درس گاہ ہے جو مختلف مراحل میں سے گزرتے ہوئے ۱۹۵۷ء سے جامعہ احمدیہ کی صورت میں قائم ہے.اس درس گاہ میں قرآن شریف،حدیث ، فقہ، بنیادی سائنس، کلام، تاریخ اسلام ، تاریخ احمدیت ، موازنہ مذاہب عالم اور مختلف زبانوں انگریزی، عربی، اردو بعض غیر ملکی زبانوں کی بھی تعلیم دی جاتی ہے.اس درسگاہ کا سرکاری محکمہ تعلیم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک خالص قومی درس گاہ ہے جس کی غرض و غایت دین کے عالم اور دین کے مربی پیدا کرنا ہے.علمی اور ذہنی اور روحانی تعلیم کے ساتھ ساتھ العقل الصحيح في الجسم الصحیح کے پیش نظر جسمانی تربیت بھی دی جاتی ہے اور اس کے لئے با قاعدہ وقت مقرر ہے جس میں پی.ٹی کے علاوہ مختلف کھیلیں کھیلی جاتی ہیں.جن میں بیڈمنٹن ، فٹ بال، والی بال، رنگ اور ایتھلیٹکس وغیرہ شامل ہیں.ان ڈور گیمز میں ٹیبل ٹینس اور کیرم بورڈ کا انتظام بھی ہوٹل میں موجود ہے.جامعہ احمدیہ سے سینکڑوں کی تعداد میں تعلیم یافتہ مربیان و مبلغین جماعت کے ہر شعبہ میں خدمت بجالا رہے ہیں.اور قربانی کی ایسی مثالیں قائم کر رہے ہیں جو تاریخ احمدیت کا ایک سنہری باب ہے.یہ ادارہ خدا کے فضل سے اس منشاء اللہ کوعملی جامہ پہنانے میں دن رات مصروف عمل ہے:.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ.(آل عمران) یعنی تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خیر کی طرف دعوت دینے والی ہو.اور نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرنے والی ہو.جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل مربیان نے جو خدمت دین حق کی اعلی مثالیں قائم کی ہیں ان میں سے صرف چند جھلکیاں نقل کر رہے ہیں:.انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا میں لکھا ہے:.جماعت کا وسیع تبلیغی نظام ہے.نہ صرف ہندوستان میں بلکہ مغربی افریقہ، ماریشس اور جاوا میں بھی اس کے علاوہ برلن، شکاگو اور لنڈن میں بھی ان کے تبلیغی مشن قائم ہیں.ان کے مبلغین نے خاص کوشش کی ہے کہ یورپ کے لوگ اسلام قبول کریں.اور اس میں ان کو معتد بہ کامیابی بھی ہوئی ہے.ان کے لٹریچر میں اسلام اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جونو تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے باعث ش ہے اور اس طریق پر نہ صرف غیر مسلم ہی ان کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں.بلکہ ان مسلمانوں کے لئے بھی یہ تعلیمات کشش کا باعث ہیں جو مذہب سے بے گانہ ہیں یا عقلیات کی رو میں بہہ گئے ہیں.ان کے مبلغین ان حملوں کے دفاع بھی کرتے ہیں جو عیسائی مناظرین نے اسلام پر کئے ہیں.“ (انسائیکلو پیڈیا آف برٹینی کا مطبوعہ ۱۹۵۱ء ص ۷۱۱ - ۷۱۲ )
265 66 پروفیسر یوسف رحیم صاحب چشتی مدیر رسالہ ”ندائے حق نے اپنے رسالہ کی اشاعت جولائی ، اگست ۱۹۵۹ء میں مقالہ اختتامیہ علمائے کرام کی خدمت میں“ کے عنوان سے شائع کیا.جس میں وہ لکھتے ہیں:.” یہ ایک نہایت تلخ اور بغایت المناک حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا کے کسی اسلامی ملک میں کوئی ایسا مدرسه یا ادارہ قائم نہیں ہے جہاں غیر مسلموں کو اسلام سے روشناس کرانے کے لئے نئے مبلغین تیار کئے جاتے ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانان عالم کے دفاع سے تبلیغ اور اشاعت اسلام کا خیال بالکل نکل چکا ہے.“ انگلینڈ اور امریکہ میں آئے دن مذہبی مجالس منعقد ہوتی رہتی ہیں.مگر ان جلسوں میں اسلام کی نمائندگی احمدی حضرات کرتے ہیں.تبلیغ کی اشاعت سے آپ (علماء) کی بے اعتنائی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ آج بلادِ مغرب میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں تبلیغ کے میدان پر احمدی حضرات قابض ہیں.یورپ اور امریکہ کے علاوہ ان کے مبلغین ان علاقوں اور جزیروں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہے ہیں جن کا نام بھی ہمارے عربی مدارس کے اکثر طلباء نے نہ سنا ہوگا.مثلاً منجی ، ماریشس ،ٹرینیڈاڈ، سیرالیون اور نائیجیر یا وغیرہ.میں نے بہت سے مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ آج اسلام کی تبلیغ ہی احمدی کر رہے ہیں.ہمارے علماء تو اس طرف متوجہ ہی نہیں ہوئے.انگلستان میں آکسفورڈ ، کیمرج اور دوسری درس گاہوں میں جو مسلمان تعلیم حاصل حاصل کر رہے ہیں وہ انہیں احمدی مبلغین کو اپنے جلسوں میں اسلام پر تقریریں کرنے کے لئے مدعو کرتے رہتے ہیں.اور اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان ان کو اسلام کا خادم اور نمائندہ یقین کرتے ہیں.اور ان کی خدمات کے معترف رہتے ہیں.“ مولانا ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر زمیندار اخبار.باوجود یکہ معاند احمدیت تھے.اس کے باوجود انہوں نے ۱۳ مارچ ۱۹۳۶ء کو مسجد خیر الدین امرتسر میں تقریر میں کہا:.احرار یو! کان کھول کر سنو! تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.مرزا محمود کے پاس قرآن ہے قرآن کا علم ہے.تمہارے پاس کیا خاک دھرا ہے.تم میں بھلا ہے کوئی جو قرآن کے سادہ حروف بھی پڑھ سکے.تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا.مرزا محمود کے ساتھ ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے ایک اشارے پر اس کے پاؤں میں نچھاور کرنے کو تیار ہے.مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں.مختلف علوم کے ماہر ہیں.دنیا کے ہر ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے.“ ایک خوفناک سازش ۱۹۶ مصنفہ مولوی مظہر علی اظہر )
266 پہلے تو صرف قادیان بھارت اور ربوہ پاکستان میں ہی جامعہ احمدیہ کے ادارے تھے جہاں جماعت کے مبلغین تیار کئے جاتے تھے.ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم سے پیشتر بیرون ہندوستان واقفین جامعہ احمدیہ سے تعلیم کے حصول کے لئے قادیان آیا کرتے تھے.مگر پارٹیشن کے بعد غیر ملکی طلباء جامعہ احمد یہ ربوہ پاکستان میں آیا کرتے تھے.لیکن ۱۹۸۴ء میں اینٹی احمد یہ آرڈینینس کے بعد پاکستان کی حکومت نے جامعہ احمد یہ ربوہ سے تعلیم کے حصول کے لئے پاکستان آنے والے احمدی طلباء کو ویزے دینے سے انکار کر دیا.جس کے بعد غیر ممالک سے جامعہ احمد یہ ربوہ میں تعلیم کے حصول کے لئے آنے والے طلباء کا سلسلہ بند ہو گیا.لیکن اللہ تعالیٰ کا چونکہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ سے وعدہ تھا کہ:.د میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کے مطابق اب درج ذیل متعدد ممالک میں جامعہ احمدیہ قائم کرنے کے سامان پیدا فرما دیئے ہیں.اور مخالفین و معاندین احمدیت کے سارے ارادے خاک میں ملا دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان تمام جامعات میں تادم تحریر تعلیم حاصل کرنے والے واقفین کی تعداد ۲ ہزار سے کچھ زائد ہو چکی ہے.اور جامعہ احمدیہ کینیڈا سے امسال تیار ہونے والے۱۳ مربیان کا پہلا گروپ فارغ التحصیل ہو کر میدان عمل میں قدم رکھ چکا ہے.الحمد للہ علی ذلک نمبر شمار نام کوائف جامعات شهر تاریخ تاسیس مدت کورس | تعداد طلباء جامعہ احمدیہ قادیان قادیان ١٩٠٦ء سات سالہ ۳۰۰ جامعہ احمدیہ (سینئر سیکشن پاکستان ربوه ١٩٤٧ء پانچ سالہ جامعہ احمدیہ (جونیئر سیکشن) پاکستان ربوہ جامعہ احمدیہ غانا ۴ جامعہ احمدیہ انڈونیشیاء جامعہ احمدیہ نائیجیریا ستمبر ۲۰۰۱ء دوساله 227 ۴۰۸ اکرافو ١٩٦٦ء تین ساله ۱۰۳ جکارتہ ١٩٧٣ء تین ساله اے الارو ۱۹۷۴ء چارسالہ جامعہ احمدیہ تنزانیہ موروگورو ۱۹۸۴ء چار سالہ ۵۹ ۴۵
۵۷ 11 ۱۵ ۴ ۷۵ V 267 ۹ جامعہ احمدیہ سیرالیون جامعہ احمدیہ کینیا جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش بو ۱۹۸۷ء تین ساله نیروبی ۱۹۹۷ء تین ساله ڈھاکہ ۲۰۰۲ء سات سالہ ۱۰ جامعہ احمدیہ کینیڈا ٹورانٹو ۲۰۰۳ء تین ساله 11 جامعہ احمدیہ ملائیشیا کوالا لمپور ۲۰۰۴ء سات سالہ ۱۲ | جامعہ احمدیہ یو کے لندن ۲۰۰۵ سات سالہ ۱۳ | جامعہ احمدیہ سری لنکا پیالہ ۲۰۰۶ء چار ساله ۱۴ | جامعہ احمدیہ جرمنی فرینکفرٹ ۲۰۰۸ء سات سالہ مذکورہ بالا تمام جامعات میں ایک ہی کورس پڑھایا جا رہا ہے.تعلیمی نصاب ( بحوالہ ریکارڈ وکالت تعلیم تحریک جدید ربوہ ) جامعہ احمد یہ ربوہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے سات سال کا عرصہ مقرر ہے.جبکہ داخلہ کیلئے میٹرک پاس ہونا اور عمر زیادہ سے زیادہ ۱۷ ہونی چاہئے.جامعہ احمدیہ کی سات کلاسز کے نام ترتیب وار درجه محمد ه ، درجه اولی ، درجہ ثانیه، درجہ ثالثہ، درجہ رابعہ، درجہ خامسہ اور درجہ سادسہ ہیں.درجہ محمد ہ اور درجہ اولیٰ جامعہ احمدیہ جونیئر میں پڑھائی جاتی ہیں.جبکہ درجہ ثانیہ تا درجہ سادسہ جامعہ احمدیہ سینئر میں پڑھائی جاتی ہیں.جامعہ احمدیہ سینئر و جونیئر کی مختلف کلاسوں میں کئی مضامین پڑھائے جاتے ہیں.جن میں قرآن کریم صحت تلفظ کے علاوہ با تر جمہ پڑھایا جاتا ہے.نیز قرآن کریم مکمل با ترجمہ پڑھانے کے بعد قرآن کریم کی تفسیر بھی پڑھائی جاتی ہے.اس سلسلہ میں کتب تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور تفسیر کبیر حضرت مصلح موعود کی تمام جلدیں کورس میں شامل ہیں.ان کے علاوہ بعض عربی تفاسیر جن میں تفسیر بیضاوی اور تفسیر کشاف کے کچھ حصے بھی درسا پڑھائے جاتے ہیں.قرآن کریم کے علاوہ احادیث کی بعض کتب بھی پڑھائی جاتی ہیں.جن میں مختلف احادیث کا ایک مختصر مجموعہ منہاج السالکین ، اسی طرح ریاض الصالحین نیز مشکوۃ شریف کے بعض حصے جامع ترمذی اور بخاری شریف نیز مشکوۃ شریف کے بعض حصے جامع ترمذی اور بخاری شریف درساً پڑھائی جاتی ہیں.ان کے علاوہ صحاح ستہ کی دیگر کتب صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ سنن نسائی اور سنن ابوداؤ دلازمی
268 مطالعہ میں شامل ہیں جو طلباء نے خود پڑھنی ہوتی ہیں اور نوٹس تیار کرنے ہوتے ہیں.علم الکلام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے علاوہ خلفاء سلسلہ کی اہم کتب نیز جماعت کے بعض نامور علماء کی بعض مشہور کتب اور اسی طرح سلسلہ کے بزرگوں کے علاوہ بعض نئے اور پرانے مصنفین کی کتب کا مطالعہ کروایا جاتا ہے.اور جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمان فرقوں کے درمیان اختلافی مسائل کلاس میں پڑھائے جاتے ہیں.بہائیت بھی علم الکلام کے تحت پڑھائی جاتی ہے.موازنہ مذاہب عالم کے مضمون کے تحت عیسائیت، یہودیت ، ہند وازم ،سکھ ازم، اور بدھ ازم کے علاوہ دیگر تمام مذاہب جن میں شنٹو ازم کنفیوشس ازم ، لامہ مت اور تامہ مت بھی پڑھائے جاتے ہیں.زبانوں میں انگریزی، عربی، فارسی اور اردو زبانیں پڑھائی جاتی ہیں.علاوہ ازیں عربی ادب کی مشہور نظم و نثر کی کتب کے بعض حصے پڑھائے جاتے ہیں.اسی طرح عربی قواعد صرف ونحو ) بھی پڑھائے جاتے ہیں.فقہ کے مضمون میں عبادات، معاملات اور دیگر بنیادی ضروری تمام مسائل پڑھائے جاتے ہیں.طلباء میں حسن خطابت کا جو ہر پیدا کرنے کیلئے عربی، انگریزی اور اردو زبانوں میں تقاریر کی مشق بھی کروائی جاتی ہے.جامعہ احمدیہ میں جنرل نالج بھی پڑھایا جاتا ہے.اس تعلق میں احمدی و غیر احمدی دینی و دنیوی سکالرز سے گاہ بگاہ لیکچر بھی دلوائے جاتے ہیں.چھٹے سال میں جامعہ کے تمام طلباء سے کسی علمی موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھوایا جاتا ہے.لائبریری جامعہ احمدیہ سینئر سیکشن ابتدائی طور پر جامعہ کی کوئی لائبریری نہیں تھی.1930ء میں نظارت تعلیم نے یہ کوشش کی کہ طلباء جامعہ احمدیہ صادق لائبریری سے فائدہ اٹھا سکیں.یہ لائبریری حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی کتب پر مشتمل تھی جو انہوں نے صدر انجمن احمد یہ کوعطیہ عنایت کی تھیں.اس کے علاوہ اس لائبریری میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الاول کا کتب خانہ بھی تھا.جامعہ احمدیہ قادیان کی لائبریری کے لئے پنجاب یونیورسٹی سے بھی خط و کتابت کر کے گرانٹ منظور کروائی گئی جس میں سے 50 روپے 1930ء میں وصول ہوئے.اس طرح 31-1930 میں جامعہ احمدیہ
269 کی با قاعدہ لائبریری بن گئی.اس دور میں درج زیل اخبارات اور رسائل جامعہ احمدیہ کی لائبریری میں طلباء کے مطالعہ کے لئے منگوائے جاتے تھے.اخبارات : انقلاب، الفضل، قادیان سه روزه ، اخبار پیغام صلح ہفتہ وار، اخبار ام القری عربی روزانہ.رسائل: رسالہ ادبی دنیا ماہوار رسالہ عالمگیر ماہوار، ریویو آف ریلیجنز قادیان ماہوار، معارف ماہوار رسالہ میگزین ہائی سکول ماہوار.(رپورٹ مجلس شوری ۱۹۳۰ صفحه ۲۱۲، رپورٹ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۰ء تا۱۹۳۲ء) لائبریری کی یہ ابتدائی حالت تھی.اس لئے علمی کتب کی سخت ضرورت محسوس ہوتی تھی.کیونکہ صدر انجمن احمدیہ سے جو امداد لائبریری کے لئے ملتی تھی اس سے بصد مشکل...کی کتب ہی پوری کی جاتی تھیں.۳۳ ۱۹۳۲ء میں رسالہ ادبی دنیا، نیرنگ خیال، معارف جبکہ اخبار الفضل، انقلاب، اہلحدیث امرتسر، پیغام صلح منگوائے جاتے تھے.طلباء روزانہ باقاعدہ طور پر اخبار بینی کرتے تھے.اور کلاس کے طلباء مخالفین کے اعتراضات جوان اخباروں میں کئے جاتے تھے کے جوابات دیتے تھے.(رپورٹ صدرانجمن احمد یہ ۳۵ ۱۹۳۴ء) قیام پاکستان کے بعد جامعہ احمدیہ کے ساتھ ساتھ لائبریری بھی نئے سنگ میل طے کرتی رہی.اس لائبریری میں بطور انچارج لائبریری مکرم حمید احمد خالد صاحب ایم.اے ۳۰ سال سے زائد عرصہ خدمات بجا لاتے رہے.آپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مارچ ۱۹۹۸ء سے مکرم احمد طاہر مرزا صاحب مربی سلسلہ (MLSC پنجاب یونیورسٹی لاہور ) بطور انچارج لائبریری خدمات بجالا رہے ہیں.خدا کے فضل سے جامعہ کی لائبریری میں اب انداز ۳۵,۰۰۰ سے زائد کتب ہیں.اور ۳۰ سے زائد رسائل و جرائد اور اخبارات اردو عربی اور انگریزی زبان میں آتے ہیں.ستمبر ۲۰۰۶ء سے لائبریری جامعہ کی پرانی بلڈنگ سے نئے اکیڈیمک بلاک کی بالائی منزل پر منتقل ہو چکی ہے.کمپیوٹر لیب طلباء جامعہ احمدیہ کوجدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے جامعہ احمدیہ میں ۱۸ فروری ۲۰۰۴ ء کو کمپیوٹر لیب کا قیام عمل میں آیا اور مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے تشریف لا کر اس لیب کا افتتاح فرمایا.اس وقت اس لیب میں 9 کمپیوٹر موجود ہیں جن سے طلباء و اساتذہ استفادہ کرتے ہیں.اسی طرح انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود ہے.
270 واقعه صلیب سیل حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیب سے نجات پانے اور کشمیر کی طرف ہجرت پر جملہ تحقیقات کو ایک جگہ مہیا کرنے کے علاوہ اس تحقیق کو مزید آگے بڑھانے اور نیز تحریک آزادی کشمیر میں جماعت احمدیہ کے کردار کو اجاگر کرنے کے لئے مکرم و محترم سید میر محمود احمد صاحب ناصر کی درخواست پر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جامعہ احمد یہ ربوہ میں ۳۱ اکتو بر ۲۰۰۴ء کو واقعہ صلیب سیل کی منظوری عنایت فرمائی.اس سیل میں تین کل وقتی ممبران مکرم مظفر احمد چوہدری صاحب، مکرم عبدالرحمن صاحب، مکرم سید عمران احمد شاہ صاحب کام کر رہے ہیں.ایک استاد جامعہ مکرم محمد نصیر اللہ صاحب ممبر ہیں.واقعہ صلیب سیل میں قبر مسیح اور واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی ہجرت کے بارے میں انتہائی اہم تحقیقات ہورہی ہیں.مجلس ارشاد یہ مجلس طلباء جامعہ احمدیہ میں علمی ، ادبی ذوق اور ان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں کو ترقی دینے کیلئے قائم کی گئی ہے.اس مجلس کے تحت مختلف اوقات میں علماء سلسلہ اور مختلف علوم وفنون کے ماہرین کو جامعہ میں مدعو کیا جاتا ہے اور ان سے لیکچر دلوائے جاتے ہیں.اس مجلس کے زیر انتظام مختلف تقریبات مثلاً جلسه سیرت النبی ہے جلسه یوم سیح موعود، جلسہ یوم خلافت، جلسہ یوم مصلح موعود وغیرہ کا انتظام کیا جاتا ہے.اس مجلس کے ممبران طلباء ہوتے ہیں اور نگران، اساتذہ جامعہ میں سے ہوتا ہے.مجلس علمی طلباء یہ مجلس طلباء جامعہ احمدیہ کی ذہنی تعلیمی استعدادوں میں اضافہ اور مسابقت کی روح قائم کرنے کیلئے قائم کی گئی ہے.یہ مجلس سارا سال مختلف علمی مقابلے منعقد کرواتی ہے اور اعزاز پانے والے طلباء کو سالانہ تقریب تقسیم انعامات میں انعامات سے نوازا جاتا ہے.اس کے علاوہ اس مجلس کے تحت قرآن کوئز ، روحانی خزائن کوئز ، خطبات امام جیسے اہم پروگرام ہو چکے ہیں.مجلس علمی جامعہ احمدیہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جب روحانی پروگرام کا اعلان فرمایا تو مجلس علمی جامعہ احمدیہ نے سب سے پہلے اس پر لبیک کہتے ہوئے جامعہ میں خلافت جو بلی کوئز کا آغا ز کیا.
271 مجلس علمی اساتذہ حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۷ اگست ۲۰۰۷، کو پرنسپل جامعہ احمدیہ کو جامعہ کے اساتذ کی اپنی مجلس علمی کے قیام کی ہدایت فرماتے ہوئے فرمایا:.دو جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کی اپنی ایک مجلس علمی ہو جس میں اساتذہ باری باری مختلف موضوعات پر علمی اور تحقیق لیکچر دیں بعض اہم پرانی یا نئی چھپنے والی کتب پر مضامین یا ان کا خلاصہ تیار کر کے باقی اساتذہ کے سامنے پیش کریں.اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ” فریاد درد“ میں کتب کی جو فہرست دی ہے اس سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے.“ ( ریکارڈ جامعہ احمدیہ ) چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر فوراً اس مجلس کا قیام عمل میں آیا اور اس کا پہلا اجلاس ۱٫۲۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو ایوان محمود میں ہوا اور مکرم محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب نے اپنا لیکچر ” قرآنی مضامین کی ترتیب کی جھلکیاں پیش کیا.اور اس طرح مجلس علمی اساتذہ کے اجلاسات کی ابتداء ہوئی.اس مجلس کا پندرہ ایام کے بعد ایک اجلاس ہوتا ہے.اس مجلس کے پہلے اجلاس کے بارے میں حضور انور نے اپنے مکتوب بنام پرنسپل صاحب ۱٫۳۰ کتوبر ۲۰۰۷ء میں تحریر فر مایا:.مجلس علمی اساتذہ کے پہلے اجلاس منعقد ہ ۲۲ /اکتوبر کی رپورٹ میں نے پڑھ لی ہے ماشاء اللہ یہ ایک مفید سلسلہ ہے اس سے جہاں اساتذہ کا علمی معیار بلند ہو گا وہاں مسائل پر غور و فکر اور تحقیق کا شوق بھی بڑھے گا اللہ تعالیٰ جامعہ کے تمام اساتذہ کو اسی جذبے کے ساتھ اسے آگے بڑھانے کی توفیق دے اور ہمیشہ انہیں اپنے اوقات کو مفید بنانے کی توفیق عطا فرما تارہے اللہ آپ کے ساتھ ہو.آمین (ریکارڈ جامعہ احمدیہ ) ٹیوٹوریل گروپس حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۷اراگست ۲۰۰۷ء کو پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ :.جامعہ میں کلاس وائز ٹورٹو ریل گروپس بنائے جائیں.جن کی میٹنگ درجہ رابعہ تک ہر ہفتے ایک بار ہوا کرے.جس دن یہ میٹنگ ہوگی اس دن جامعہ میں آدھا دن پڑھائی اور آدھا دن ان ٹیوٹوریل میٹنگز کیلئے ہوگا.اس میں ایک گھنٹہ ٹیسٹس سننے کے لئے رکھا جائے اور ایک گھنٹہ ٹیوٹرز کے لئے ہو کہ وہ اس میں کسی نہ کسی
272 موضوع پر اپنا کوئی علمی اور تحقیقی مضمون تیار کر کے لائیں اور اسے طلباء کے سامنے پیش کریں.آخر پر سوال و جواب ہوں.اس کے علاوہ ہر میٹنگ میں ۳/۴ طلباء کو بھی کچھ Topics دیں جن پر وہ ریسرچ کر کے لائیں اور میٹنگ میں پیش کریں.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں ہفتہ بھر کا حاصل مطالعہ پیش کیا جائے.اس کے لئے ٹیوٹر سمیت سب طلباء بھی تیاری کر کے آئیں اور میٹنگ میں ہی ہر دفعہ ۴٫۵ طلباء کو Pick کر کے ان سے حاصل مطالعہ سنا جائے اور اس پر سوال و جواب بھی ہوں.یہ کلیہ علمی ٹیوٹوریل ہو گا.ہر ٹیوٹوریل کے لئے اساتذہ کا ایک پینل ہوگا جو اس میں بیٹھے گا.ہر کلاس کا ایک مستقل انچارج ہوگا.اس کے ساتھ پینل میں دو اور اساتذہ ہوں گے جو بدلتے رہیں گے.پینل کے اساتذہ کی یہ تبدیلی مقالہ کے مضمون کے لحاظ سے ہوگی.درجہ خامسہ اور سادسہ میں طلباء کے ٹیوٹوریل گروپس کی بجائے سیمینار ہوا کریں اور ان میں وہ مختلف موضوعات پر تحقیق کر کے لیکچر دیں اور سوال و جواب ہوں.یہ مضمون ہلکی پھلکی تحقیق پر مبنی نہ ہوں بلکہ گہری تحقیق اور ٹھوس مطالعہ کے ساتھ تیار ہونے چاہئیں.ان کی تیاری کے لئے طالب علم کو ایک مہینے کا وقت دیا جائے.اس کے علاوہ Assignments دی جائیں جن کا ساتھی طلباء کے سامنے پڑھنا ضروری نہیں بلکہ استاتذہ ان کا 66 ( ریکارڈ جامعہ احمدیہ ) جائزہ لیں.“ چنانچہ حضور انور کے ارشاد کے مطابق ہر ایک کلاس کا ایک ٹیوٹوریل گروپ تشکیل دیا گیا اور ان نگران اساتذہ کا تقرر کیا گیا.الحمد للہ ہر جمعرات کو ان گروپس کا اجلاس ہوتا ہے.شعبہ کھیل جامعہ کے تمام طلباء کے لئے فٹ بال، والی بال، باسکٹ بال، بیڈ منٹن ٹیبل ٹینس، رنگ میں سے کسی کھیل میں ہر روز شامل ہونا ضروری ہوتا ہے.نیز سال بھر میں دس کلو میٹر تیز پیدل چلنا، کراس کنٹری اور سائیکل ریس کے مقابلہ جات بھی ہوتے ہیں.طلباء جامعہ احمدیہ کو ورزشی مقابلہ جات کے لئے چار گروپس بسالت، شفقت، عدالت اور قناعت میں تقسیم کیا گیا ہے.ہر گروپ پر ایک استادنگران مقرر ہوتا ہے.۱ اجتماعی اور ۱۳ انفرادی مقابلہ جات کے پہلے ابتدائی راؤنڈ کرائے جاتے ہیں اور برتری حاصل کرنے والے دو گروپس کے مابین فائنل مقابلے ہوتے ہیں جن کا ہر سال سہ روزہ پروگرام تشکیل دیا جاتا ہے.ہائیکنگ تعطیلات موسم گرما میں طلباء کے متعدد گروپس ہائیکنگ کے لئے جاتے ہیں.عام طور پر یہ گروپس نیلم
273 ویلی، سیرن ویلی ، کاغان ویلی، چترال، گلگت، سکردو، پاس وغیرہ میں جاتے ہیں.ایک گروپ عموماً ۸ سے • اطلباء پر مشتمل ہوتا ہے.ایک نگران استاد بھی طلباء کے ساتھ جاتا ہے.(بحوالہ مجلہ جامعہ احمدیہ سینئر سیکشن ۱۷۲ تا۱۷۹ء) ریسرچ سیل حضرت خلیفہ اصبح الرابع نے ۱۹۸۴ء میں اپنے عہد خلافت کے آغاز میں ہی مکرم ملک سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کو ارشاد فرمایا کہ وہ جامعہ کے اساتذہ اور سینئر طلباء پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کریں جو ضروری تحقیق کا کام کیا کرے.اور اس کو ریسرچ سیل کا نام عطا فرمایا.چنانچہ مکرم ملک صاحب کی زیر نگرانی یہ کام شروع ہوا.ابتداء میں اس کے ممبران حسب ذیل تھے.ا.مکرم حافظ مظفر احمد صاحب ۲.مکرم را نا تصور احمد صاحب ۳.مکرم سید مبشر احمد ایاز صاحب، ۵ مکرم خلیل احمد تنویر صاحب ۵- مکرم عبدالسمیع خان صاحب - مکرم عبد المومن طاہر صاحب سے مکرم منیر احمد جاوید صاحب ۸ مکرم نصیر احمد قمر صاحب ۹- مکرم خواجہ ایاز احمد صاحب ۱۰.مکرم چوہدری ظفر اللہ خان طاہر صاحب ۱۱.مکرم مبشر احمد کاہلوں صاحب ۱۲.مکرم عبد الماجد طاہر صاحب ۱۳.مکرم منیر احمد منور صاحب ۱۴.مکرم ظہیر احمد خان صاحب ۱۵.مکرم مشہود احمد ظفر صاحب ۱۲.مکرم محمد احمد راشد صاحب ۱۷.مکرم فضیل عیاض احمد صاحب ۱۸ مکرم نصیر احمد انجم صاحب ۱۹.مکرم حمید احمد خالد صاحب ۱۹۸۴ء میں مکرم ملک صاحب کے بوجہ بیماری کینیڈا جانے کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے ارشاد پر مکرم حافظ مظفر احمد صاحب استاد جامعہ احمدیہ اس سیل کے نگران مقرر ہوئے اور پھر ان کے صدر انجمن میں ناظر بننے کے بعد مکرم ومحترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب پرنسپل جامعہ احمد یہ ریسرچ سیل کے نگران مقرر ہوئے.اراکتو بر۱۹۴ء میں تخریج حوالہ تغیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ کے کام کو ریسرچ سیل کے حوالہ فرماتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے فرمایا ”جامعہ احمدیہ سے ان کے سینئر طلباء کو شاہد کے مقالہ کے متبادل کے طور پر ریسرچ کا کام دیا جایا کرے اور اس کام کو جامعہ کو سنبھالنا چاہئے.چنانچہ یہ کام جامعہ کے سپر د ہوا.مکرم میر صاحب کی زیر نگرانی مکرم ملک داؤ د احمد صاحب مرحوم مربی سلسلہ کل وقتی کارکن ریسرچ سیل تھے اور مکرم رضوان احمد خالد صاحب استاد جامعہ احمدیہ مکرم میر صاحب کی معاونت کرتے تھے.۲۵ /اپریل ۲۰۰۲ء کو ملک داؤ د احمد صاحب کی شہادت کے بعد مکرم منصور احمد نور الدین کل وقتی کارکن ریسرچ سیل مقرر ہوئے.آپ تخریج حوالہ جات اور دیگر کام سرانجام دیتے تھے.
274 ریسرچ سیل کی تنظیم نو حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۵ جولائی ۲۰۰۵ ء کو اپنے ایک خط میں ریسرچ سیل کو مزید فعال بنانے کے لئے تفصیلی ہدایات سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ: ریسرچ سیل کے نگران پرنسپل جامعہ احمدیہ مکرم و محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب ہوں گے.جامعہ احمد یہ سینئر سیکشن کے صدران شعبہ اور جونیئر سیکشن کے بعض اساتذہ اس سیل کے ممبران ہوں گے.بیرون ممالک سے صاحب علم احباب بھی اس سیل کے اعزازی ممبران ہوں گے.چند مربیان اس کے کل وقتی کارکن ہوں گے.اور ان کے علاوہ مکرم مولانا حافظ مظفر احمد صاحب، مولانا دوست محمد شاہدصاحب،مولانا سلطان محمودانور صاحب، مکرم عبدالسمیع خان صاحب، مکرم سید مبشر احمد ایاز صاحب اس کے ممبران ہوں گے.“ بعد ازاں حضور انور نے مکرم سید مبشر احمد ایاز صاحب کا مستقل تقرریسرچ سیل میں فرمایا.حضور انور نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ریسرچ سیل کی اپنی لائبریری ہو.چنانچہ حضور کی ہدایات کے مطابق ریسرچ سیل سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر کی زیر نگرانی جامعہ احمدیہ سینئر سیکشن کی پرانی عمارت کی بالائی منزل کے مشرقی حصہ میں کام کر رہا ہے.اس وقت ریسرچ سیل میں جامعہ احمدیہ جونیئر وسینئر کے بعض اساتذہ اور اعزازی ممبران کے علاوہ ۱۵ سے زائد ا مربیان سلسلہ کل وقتی کارکنان کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے ہیں.اس کے علاوہ پاکستان، قادیان ، لندن، جرمنی ، کینیڈا اور امریکہ سے بیس کے قریب احباب ریسرچ سیل کے اعزازی ممبران کے طور پر ریسرچ سیل کے ساتھ خدمات بجالا رہے ہیں.الحمد للہ ریسرچ سیل کی اپنی ایک نہایت عمدہ لائبریری قائم ہو چکی ہے اور اس میں تقریباً تین ہزار حوالہ جاتی کتب ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی براہ راست نگرانی و ہدایات اور شفقت و عنایات کی بدولت ریسرچ سیل اس وقت مختلف علمی تحقیقات کے علاوہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وخلفاء سلسلہ اور تفسیر کبیر کے حوالہ جات کی تخریج ، حوالہ جات ومطلوبہ مواد کی فراہمی ، بلیو گرافی ماسٹر پرا جیکٹ آف احمدیہ لٹریچر کے تحت احمدیت کی ابتداء سے لے کر آج تک جتنی بھی کتب یا اخبارات و رسائل یا مقالہ جات کسی بھی احمدی کی طرف سے لکھے جاچکے ہیں وہ سارا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے.نیز ریسرچ سیل Religions and Science ویب سائٹ کا اہتمام جیسے اہم اور بنیادی نوعیت کے کام سر انجام دے رہا ہے.اب ریسرچ سیل انتظامی لحاظ سے نظارت اشاعت والتصنیف صدرانجمن احمد یہ ربوہ کے ماتحت ہے.
275 مدرسة الحفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دلی خواہش تھی کہ کوئی ایسا انتظام ہو جس کے ماتحت لوگ قرآن کریم حفظ کریں.چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے ایک مرتبہ آپ سے عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایک حافظ قرآن مقرر کیا جائے جو قرآن مجید حفظ کرائے.آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”میرا بھی دل چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ جو چاہے گا کرے گا“.تاریخ احمدیت ، جلد چہارم ، صفحہ ۱۷۷) حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے یہ تحریک فرمائی تھی کہ قرآن کریم کا چھ چا اور اس کی برکات کو عام کرنے کے لئے جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں.سید نا حضرت مسیح موعود کی دلی تمنا کی تکمیل کے لئے حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ کی تحریک کے نتیجہ میں خلافت ثانیہ کے آغاز میں ۱۹۲۰ء سے قبل حافظ کلاس کی ابتداء ہوچکی تھی.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث ) نے اسی کلاس سے ۱۷ / اپریل ۱۹۲۲ء کو تیرہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا.آپ کے ساتھ بارہ طلباء اس حافظ کلاس میں شامل تھے.اس وقت مکرم حافظ سلطان حامد صاحب ملتانی حافظ کلاس کے استاد تھے.(بحوالہ قادیان گائید صفحہ ۹۱) ( جماعت احمدیہ میں مدرستہ الحفظ کا آغاز انتہائی بابرکت تھا جس کی پہلی کلاس میں وہ طالب علم بھی تھا جسے خدا تعالیٰ نے مسند خلافت پر متمکن فرمایا ) ۱۹۳۲ء میں مکرم حافظ سلطان حامد صاحب ملتانی کی وفات کے بعد مکرم حافظ کرم الہی صاحب آف گولیکی ضلع گجرات اس کلام کے معلم مقرر ہوئے.بعد ازاں ۱۹۳۵ء سے حافظ کلاس مدرسہ احمدیہ کے زیر انتظام مکرم حافظ شفیق احمد صاحب کی نگرانی میں جاری رہی اور قیام پاکستان کے بعد احمدنگر اور بعد ازاں بیت مبارک ربوہ میں منتقل ہو گئی.۱۹۶۹ء میں حافظ صاحب موصوف کی وفات کے بعد کچھ عرصہ مکرم حافظ محمد یوسف صاحب اس کلاس کو پڑھاتے رہے.جون ۱۹۶۹ء میں یہ سعادت مکرم حافظ قاری محمد عاشق صاحب کے حصہ میں آئی.محترم قاری صاحب کی سرکردگی میں اس درس گاہ نے باقاعدہ ایک مدرسہ کی شکل اختیار کر لی.یہ مدرسہ پہلے جامعہ احمدیہ کے کواٹرز کے ایک کمرے میں قائم رہا پھر طلباء کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی تو یہ کلاس بیت حسن اقبال (جامعہ احمدیہ ) میں منتقل ہو گئی.بعد ازاں حافظ کل اس کو طبیہ کالج کی عمارت واقع دار النصر غربی میں منتقل کر دیا گیا.
276 مورخہ ۴ فروری ۱۹۷۶ء کو مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ نے حافظ کلاس کا نام تبدیل کر کے مدرسۃ الحفظ رکھا.مکرم قاری محمد عاشق صاحب ہی مدرستہ الحفظ کے نگران اور انچارج رہے.طلباء کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تعداد بھی بڑھتی رہی.بعض اساتذہ کچھ عرصہ کے لئے پڑھاتے رہے.مدرسۃ الحفظ ربوہ کی نئی عمارت کی تعمیر کے لئے پرانی عمارت کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا تو مدرستہ الحفظ کو جون ۲۰۰۰ء تک تقریباً ایک سہال جلسہ سالانہ کے لئے بنائی گئی بیرکس ( دار النصر غربی ) میں منتقل کر دیا گیا.جون ۲۰۰۰ ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے مدرسۃ الحفظ کا مکمل انتظام نظارت تعلیم صدرانجمن احمد یہ ربوہ کے سپر د کیا گیا.نئے انتظامات کے تحت مدرسہ کو نصرت جہاں اکیڈمی ربوہ کے ساتھ واقع عمارت راولپنڈی گیسٹ ہاؤس میں منتقل کیا گیا، جہاں پر یہ ایک مستقل علیحدہ ادارے کی صورت میں قائم ہوا.مدرسۃ الحفظ ربوہ میں قرآن کریم حفظ کرنے کے لئے تین سال اور دہرائی کے ئے مزید چھ ماہ کا کورس مقرر ہے.پہلے سال آٹھ ، دوسرے سال دس اور تیسرے سال بارہ پارے حفظ کرنے ہوتے ہیں.حفظ مکمل کرنے کے بعد دو مرتبہ دوہرائی کروائی جاتی ہے.دو مرتبہ دوہرائی کے بعد حافظ قرآن طلبا کا امتحان پہلے ادارے میں لیا جاتا ہے.اور بعد میں Examiner External امتحان لیتے ہیں.امتحان پاس کرنے والے طلباء کو مدرسہ کی سالانہ تقریب اسناد کے موقع پر تکمیل حفظ کی سند دی جاتی ہے.طلبا میں تدریسی شوق اور مقابلے کی روح پیدا کرنے کے لئے معیار سے زیادہ حفظ کرنے والوں کو ہر ماہ انعامی وظائف دئے جاتے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے.معیار کے مطابق ۱۰۰ روپے، معیار سے زائد حفظ کرنے پر ۲۰۰ سے ۵۰۰ روپے تک انعامی وظائف وو دیئے جاتے ہیں.سال ۲۰۰۷ ء سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت مدرسۃ الحفظ کے طلباء کو ہر سال رحمۃ للعالمین ایوارڈ دیئے جانے کی منظوری عنایت فرمائی تھی.یہ ایوارڈ اول ، دوم اور سوم آنے والے ان طلباء کو نقد رقم کی صورت میں دیا جاتا ہے جنہوں نے دوران سال کم عرصہ میں حفظ کیا ہو اور اس کے علاوہ دہرائی ، ابتدائی اور فائنل ٹیسٹ میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہوں.اول انعام کے لئے مبلغ ۲۵ ہزار روپے، دوم کے لئے مبلغ ۱۵ ہزارروپے، جبکہ سوم کے لئے مبلغ ، اہزار روپے کی رقم مقرر کی گئی ہے.مدرسۃ الحفظ میں تدریسی لحاظ سے طلباء کو چھ احزاب میں تقسیم کیا گیا ہے جن کے نام درج ذیل ہیں.ا.احمد حزب.۲.نور حزب ۳- محمود حزب ناصر حزب.۵.طاہر حزب.۶.دو ہرائی کلاس.مدرسۃ الحفظ میں اس وقت ۱۴۰ طلباء کی گنجائش ہے.بیرون ربوہ سے آنے والے طلباء کے لئے ہوٹل
277 میں ۵۳ طلباء کی گنجائش موجود ہے.ہوٹل کے طلبا کے لئے نماز فجر کے بعد آدھا گھنٹہ اور نماز عشاء کے بعد دو گھنٹے سٹڈی ٹائم ہوتا ہے.تدریسی اوقات کار چھ گھنٹے ہوتے ہیں جس میں طلبا اپنے سبق ، گزشتہ سات دنوں کے اسباق اور منزل ( حفظ کئے ہوئے پاروں کی بالترتیب دوہرائی ) سناتے ہیں.تمام طلباء کا ہفتہ وار اور ماہانہ جائزہ لیا جاتا ہے.مدرسۃ الحفظ کے طلباء کے لئے علمی، ذہنی اور روحانی تعلیم کے ساتھ جسمانی تربیت بھی دی جاتی ہے اور با قاعدہ کھیل کا وقت مقرر ہے.طلبا کے مطالعہ کے لئے مدرسہ میں ایک لائبریری قائم کی گئی ہے جس میں سیرت تعلیم و تربیت، اخلاقیات اور معلومات پر مشتمل کتب و رسائل رکھے گئے ہیں.سمعی و بصری کے تحت تلاوت قرآن کی سی ڈیز (CDs) اور آڈیو ٹیسٹس رکھی گئی ہیں.حفاظ کرام کا ریکارڈ خدا تعالیٰ کے فضل سے مارچ ۱۹۵۷ء سے جون ۲۰۰۰ ء تک ۱۸۷، جبکہ جولائی ۲۰۰۰ ء تک ۲۶۴ طلباء نے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی.اس طرح کل ۴۵۱ طلباء مدرسۃ الحفظ سے قرآن کریم مکمل حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں.(اس سے پہلے کے حفاظ کا معین ریکارڈ معلوم نہیں ہو سکا.ناقل ) ان حفاظ میں پاکستان اور بیرون پاکستان کے طلبا بھی شامل ہیں.بیرون ملک سے آنے والے طلباء میں نائیجیریا، غانا، کینیڈا، نجی، یوگنڈا ، ماریشس اور سیرالیون سے طلبا حفظ قرآن کی سعادت پاچکے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادارہ کو ترقیات سے نوازے.اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کو علوم قرآن کا حامل اور اس کی تعلیمات پر عامل بنائے.آمین (ماخوذ از روزنامه الفضل ۹ دسمبر ۲۰۰۲ء صفحه ۳ ۴ رالفضل ۱۳دسمبر ۲۰۰۷ صفحه الفضل ۲ دسمبر ۲۰۱۰ء صفحه ۲) ۲ دسمبر ۲۰۰۰ کو برطانیہ میں مدرسۃ الحفظ قرآن عمل میں آیا جس میں ٹیلی فون اور جز وقتی کلاسوں کے ذریعہ بچوں کو قرآن کریم حفظ کروایا جاتا ہے.اس کا نام ”الحافظون رکھا گیا ہے.“ ( بحواله الفضل روزنامه الفضل ۳ دسمبر ۲۰۰۸، صفحه ۱۳۹) اس کے علاوہ قادیان (بھارت)، غانا، نائیجیر یا اور کینیڈا میں جامعہ احمدیہ کے ساتھ مدرسۃ الحفظ قائم ہیں.
278 عائشہ دینیات اکیڈمی و مدرسۃ الحفظ برائے طالبات عائشہ دینیات اکیڈمی ربوہ کا قیام 17 / مارچ ۱۹۹۳ء کو عمل میں آیا.اس کے قیام کا واحد مقصد احمدی بچیوں کو زیادہ سے زیادہ خدمت قرآن اور حصول تعلیم قرآن اور تعلیم دین کے مواقع فراہم کرنا ہے.یہ ادارہ نظارت تعلیم صدر انجمن احمدیہ کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے.اس ادارہ کے ۲ شعبے ہیں.اول: مدرسه الحفظ طالبات: جس میں ہر سال کلام پاک حفظ کرنے کا شوق اور اہلیت رکھنے والی بچیوں کو قواعد وضوابط کے تحت داخلہ دیا جاتا ہے.ادارہ میں ۶۰ طالبات کی گنجائش ہے.ان طالبات کو تین مختلف احزاب میں تقسیم کیا جاتا ہے جنہیں تین اساتذہ کرام قرآن کریم حفظ کرواتی ہیں.حفظ کے لئے زیادہ سے زیادہ تین سال کا عرصہ مقرر ہے.حفظ مکمل کرنے کے بعد ہر طالبہ چوتھے حزب یعنی دہرائی والی کلاس میں چلی جاتی ہے جہاں قرآن کریم کی دو دہرائیاں کروائی جاتی ہیں.دہرائیاں مکمل کرنے کے بعد ادارہ کی سینئر ٹیچر طالبات سے ٹیسٹ لیتی ہیں.ٹیسٹ کے تسلی بخش ہونے پر طالبات کا فائنل ٹیسٹ دلوایا جاتا ہے جو کہ مکرم پرنسپل صاحب مدرستہ الحفظ طلباء لیتے ہیں.کامیابی پر نظارت تعلیم کی طرف سے طالبہ کو حافظہ کی سند دی جاتی ہے.بیرون از ربوہ طالبات بھی مدرسہ الحفظ میں داخلہ لیتی ہیں لیکن چونکہ فی الحال ادارہ کا ہوٹل نہیں ہے.اس لئے ایسی طالبات کو اپنی رہائش کا خود انتظام کرنا پڑتا ہے.طالبات کو مکرم جناب ناظر صاحب تعلیم کی طرف سے انتظام کے تحت بریک میں روزانہ ریفرشمنٹ کے لئے دودھ کے ساتھ بسکٹ، انڈے نیز موسمی پھل دیئے جاتے ہیں.اسی طرح طالبات کی قابلیت کو اجاگر کرنے اور ان کو محنت اور شوق کی ترغیب دلانے کے لئے نظارت تعلیم کی طرف سے انعامی وظیفہ مقرر کیا گیا ہے جو کہ ماہانہ کارکردگی پر دیا جاتا ہے.دوئم :.عائشہ دینیات کلاس: اس کے اجراء کی وجہ یہ تھی کہ شروع سے ہی جماعت کے تعلیمی اداروں میں یعنی گرلز سکول اور کالج میں دینیات کا مضمون لازمی رہا.ہر طالبہ کے لئے ضروری تھا کہ وہ اس میں کامیابی حاصل کرے اس کے بغیر بورڈ، یو نیورسٹی کے امتحان کے لئے داخلہ نہیں بھجوایا جاتا تھا نتیجتاً میٹرک پاس کرنے کے ساتھ ہی ہر طالبہ قرآن کریم
279 کا سادہ ترجمہ سیکھ لیتی تھی نیز نصاب میں شامل کتب حضرت مسیح موعود بھی پڑھ لیتی تھی جس کے علوم تا زندگی مشعل راہ بنتے ہیں اس طرح بی اے کا امتحان دینے سے پہلے ترجمۃ القرآن از تفسیر صغیر واحادیث اور دین کے علوم سے بھی آراستہ ہو جاتی تھیں.مگر ۱۹۷۲ء میں جماعتی تعلیمی اداروں کو قومیائے جانے کے بعد طالبات کو اداروں کے اندر اس تعلیم سے محرومی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.مارچ ۱۹۹۳ء میں نظارت تعلیم کے تحت اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان اور حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ ربوہ کی رہنمائی میں عائشہ دینیات کلاس کا قیام عمل میں آیا.عائشہ دینیات کلاسز کا کورس دو سالوں پر محیط ہے.جس کے لئے نظارت تعلیم سے منظورشدہ مجوزہ نصاب مقرر ہے.جو کہ ترجمۃ القرآن از تفسیر صغیر صحیح تلفظ قرآن کریم ، مقررہ نصاب حفظ قرآن، کتب احادیث، تاریخ اسلام، تاریخ احمدیت ، کلام حضرت مسیح موعود اور کتب علماء کرام سلسلہ احمدیہ، کے ساتھ ساتھ عربی گرائمر ، عربی بول چال نیز قصیدہ کے حفظ پر مشتمل ہے.نصاب دو سال میں چار سمیسٹر ز کی صورت میں مکمل کروایا جاتا ہے.ہر سمیسٹر مکمل ہونے پر فائنل امتحان لیا جاتا ہے اور طالبات کو ہر سمیسٹر کی الگ سنددی جاتی ہے.داخلہ کے لئے کم از کم تعلیمی معیار میٹرک ہے.اس کے علاوہ ایف.اے.بی اے اور ایم.اے، ایم.ایس سی طالبات بھی داخل ہو کر دینی تعلیم حاصل کر کے علم میں اضافہ کرتی ہیں.ارشاد نبوی کے مطابق علم کا حصول بچپن سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک جاری رہنا چاہیئے اس لئے دینیات کلاس میں داخلہ کے لئے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے.شادی شدہ خواتین بھی داخلہ لے کر استفادہ کر سکتی ہیں.دینیات کلاس میں داخلہ فیس ۲۰ روپے اور ماہانہ فیس • اروپے ہے.
280 صد ساله جشن تشکر نمائش ربوه مورخه ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کو جماعت احمد یہ عالمگیر کے قیام پر سو۱۰۰ سال مکمل ہونے پر جماعت احمدیہ عالمگیر نے صد سالہ جشن تشکر جو بلی منائی.صد سالہ جو بلی کے پروگرام میں ایک منصوبہ یہ بھی تھا کہ اس موقع کی مناسبت سے ایک عظیم الشان نمائش کا انتظام کیا جائے جو جماعت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ کے اہم حالات و واقعات کی عکاسی کرتی ہو.چنانچہ اس منصوبہ کے تحت یہ نمائش ۱۹۸۹ء میں دفتر الفضل ربوہ کے کمپاؤنڈ میں جدید پریس کی نئی بلڈنگ میں مستقل طور پر منعقد کی گئی.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نایاب انفرادی اور اجتماعی گروپس کی صورت میں فوٹو گرافس کے علاوہ ابتدائی ۳۱۳ صحابہ کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں.نیز سلسلہ کے کئی جلیل القدر بزرگوں، مبلغین، علماء سلسلہ اور دیگر اہم شخصیات کی تصاویر بھی مع تعارف سجائی گئی ہیں.اسی طرح اس نمائش میں اب تک اردو زبان کے علاوہ دیگر جن زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم ہو چکے ہیں.ان تمام زبانوں میں تراجم کے نسخے بھی رکھے گئے ہیں.اسی طرح اب تک دنیا کے جن ممالک میں احمدیت کا نفوذ کر چکی ہے ان کو World Map پر نمایاں کر کے دکھایا گیا ہے.نیز قرآن کریم کی منتخب آیات اور منتخب احادیث کے دیگر منو از بانوں میں تراجم کی کاپیاں بھی موجود ہیں.دنیا کے بڑے بڑے تمام ممالک جن میں احمدیت نفوذ کر چکی ہے وہاں جماعت احمدیہ کی مساجد کی تصاویر بھی اس نمائش میں شامل کی گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء سلسلہ کے تبرکات بھی اس نمائش کا سب سے قیمتی سرمایہ اور زینت ہیں.غرض یہ نمائش دعوت الی اللہ کے نکتہ نظر سے بہت مفید ہے.جس میں تصویری زبان میں جماعت احمد یہ عالمگیر کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ کی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقیات کی کچھ جھلکیاں دکھائی گئی ہیں.
281 جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۸۲ء میں ماموریت کا پہلا الہام ہوا.اس کے معا بعد آپ کو درج ذیل تین الہامات ہوئے.یہ تینوں الہامات بھی ۱۸۸۲ء کے ہیں.لیکن ان کا ذکر یہاں اس لئے کرنا مقصود ہے کہ ان الہامات کا جلسہ سالانہ سے تعلق ہے وہ تین الہام اس طرح ہیں.اول : يَاتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَا تُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (روحانی خزائن جلد نمبر ص ۲۶۲) یعنی تیرے پاس دور دراز سے لوگ آویں گے اور تیری امداد کے لئے تجھے دور دراز سے سامان پہنچیں گے حتی کہ لوگوں کی آمد اور اموال و سامان کے آنے سے قادیان کے راستے گھس گھس کر گہرے ہو جائیں گے.“ یہ الہام اس وقت کا ہے جبکہ قادیان میں کسی کی آمد و رفت نہیں تھی اور قادیان کا دور افتادہ گاؤں دنیا کی نظروں سے بالکل محجوب و مستور تھا مگر حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی لوگوں نے اس الہام کو پورا ہوتے دیکھ لیا اور ہنوز اس الہام کی تکمیل کا سلسلہ جاری ہے اور نہ معلوم اس کی انتہاء کن عجائبات قدرت کی حامل ہوگی.دوسرے اور تیسرے الہام کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب سراج منیر میں اس طرح فرماتے ہیں:.براہین کے صفحہ ۲۴۲ میں مرقوم ہے وَلَا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمُ مِنَ النَّاسِ اور اس کے بعد الہام ہوا.وَوَسِعُ مَكَانَک یعنی اپنے مکان کو وسیع کر لے.“ اس پیشگوئی میں صاف فرما دیا کہ وہ دن آتا ہے کہ ملاقات کرنے والوں کا بہت ہجوم ہو جائے گا.یہاں تک کہ ہر ایک کا تجھ سے ملنا مشکل ہو جائے گا.پس تو اس وقت ملال ظاہر نہ کرنا.اور لوگوں کی ملاقات سے تھک نہ جانا.سبحان اللہ یہ کس شان کی پیشگوئی ہے اور آج سے سترہ برس پہلے اس وقت بتلائی گئی ہے کہ جب میری مجلس میں شاید دو تین آدمی آتے ہوں گے اور وہ بھی کبھی کبھی.اس سے کیسا علم غیب خدا کا ثابت ہوتا ہے.“ (سراج منیر روحانی خزائن جلد ۲ ص ۷۳ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت احمدیہ کی تعلیم و تربیت ، دعوت الی اللہ اور دیگر کئی دینی مقاصد کے پیش نظر ۱۸۹۱ء میں جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی.یہ جلسہ مورخہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء کو مسجد اقصی قادیان میں منعقد ہوا.جس میں صرف ۷۵ اصحاب شریک ہوئے.اس جلسہ میں حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحب نے
282 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحریر کردہ مضمون ” آسمانی فیصلہ پڑھ کر سنایا.جس میں مخالف مولویوں کو چار شرائط کے ساتھ مقابلہ کی دعوت دی.مگر کوئی مخالف آپ کے مقابل پر کھڑا نہ ہو سکا.اس کے بعد ۱۸۹۱ء میں ہی مذکورہ بالا آسمانی فیصلہ شائع ہوا.تو اس کے ساتھ ہی ۳۰ دسمبر ۱۸۹۱ء کو حضور نے تمام جماعت کو ایک اشتہار کے ذریعہ اطلاع دی کہ آئندہ ہر سال دسمبر کے آخری ہفتہ میں ۲۷.۲۸.۲۹ دسمبر کو جماعت کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا کرے گا.اور اس اشتہار میں جلسہ کی اغراض و مقاصد کا ذکر کیا.اور ان برکات کا ذکر کیا جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں.جلسہ کے متعلق اس پہلے اشتہار میں حضور نے جلسہ کے متعلق بارها امور بیان کئے.جو حسب ذیل ہیں:.ا.تمام خلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے یہ غرض ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولا کریم اور رسول مقبول ﷺ کی محبت دل پر غالب آ جائے.اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے.جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.۲.اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے.تا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہواور یقین پیدا ہوکر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے.سو اس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے.کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہوکر پھر ملاقات کی پروانہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی.۳.چونکہ ہریک کے لئے باعث ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آ سکتا کہ وہ صحبت میں آ کر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے آوے.کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں.لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں.جس میں تمام مخلصین اگر خدا چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قو یہ تاریخ مقرر پر حاضر ہوسکیں.۴.میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ دسمبر سے ۲۹ دسمبر تک قرار پائے یعنی آج کے دن کے بعد ۳۰ دسمبر ۱۸۹۱ء ہے آئندہ اگر ہماری زندگی میں ۲۷ دسمبر کی تاریخ آ جاوے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آجانا چاہئے.۵.اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.اور ان دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہ
283 ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی انہیں بخشے..اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال میں جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا.ے.اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا.اس جلسہ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی..اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جلشانہ کوشش کی جائے گی.۹.اور اس روحانی سلسلہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے..اور کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑ اسرمایہ خرچ سفر کے لئے ہر روز یاماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلا دقت سرمایہ سفر میسر آ جاوے گا.گویا یہ سفر مفت میسر ہو جائے گا.ا.اور بہتر ہوگا کہ جو صاحب احباب میں سے اس تجویز کو منظور کریں وہ مجھ کو ابھی بذریعہ تحریر خاص کے اطلاع دیں تا کہ ایک علیحدہ فہرست میں ان تمام احباب کے نام محفوظ رہیں کہ جو حتی الوسع والطاقت تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے کے لئے اپنی آئندہ زندگی کے لئے عہد کر لیں اور بدل و جان پختہ عزم سے حاضر ہو جایا کریں.بجز ایسی صورت کے کہ ایسے مواقع پیش آجائیں گے جن میں سفر کرنا حد اختیار سے باہر ہو جائے.۱۲.اور اب جو ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء کو دینی مشورہ کے لئے جلسہ کیا گیا.اس جلسہ پر جس قد ر ا حباب محض اللہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے.خدا ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہر یک قدم کا ثواب ان کو عطا فرما دے.آمین ثم آمین جب آئندہ جلسہ کے دن قریب آگئے تو ے دسمبر ۱۸۹۲ء کو پھر اشتہار شائع فرمایا اس اشتہار میں آپ نے بیان فرمایا :.۲۷-۱ دسمبر ۱۸۹۲ء کو مقام قادیان میں اس عاجز کے محبوں اور مخلصوں کا ایک جلسہ منعقد ہوگا اس جلسہ کے اغراض سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے.اور ان کی
284 معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو.“ ۲.پھر اس ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے.“.جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں.کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں اور ہراساں ہیں.۴.سولازم ہے کہ اس جلسہ پر جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لاویں جو زادراہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں ادنی ادنیٰ حرجوں کی پرواہ نہ کریں.خدا تعالیٰ مخلصوں کو ہر یک قدم پر ثواب دیتا ہے اور اس کی راہ میں کوئی محنت اور صعوبت ضائع نہیں ہوتی.اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کرو.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا اور نہ نیچر کے تفریط پسند اور اوہام پرست مخالفوں کا ، نہ خوارق کا انکار کرنے والے باقی رہیں گے اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالف قرآن روایتوں کو ملانے والے اور خدا تعالیٰ اس امت وسط کے لئے بین بین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا.وہی راہ جس کو قرآن لایا تھا.وہی راہ جو رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کو سکھلائی تھی.وہی ہدایت جو ابتداء سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے.یہی ہوگا.ضرور یہی ہوگا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے.مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے“.ے.اور اس اشتہار کے آخر پر تحریر فرمایا:.’بالآخر میں دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہر ایک صاحب جو اس لہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کرے.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرمادے.اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل درحم ہے اور تا اختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشا، یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو
285 ہے.آمین ثم آمین.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید و افسر جلسہ سالانہ ربوہ پاکستان اپنی ایک تقریر کے آخر پر جلسہ سالانہ کے فوائد اور جلسہ کے دنوں میں کثرت سے دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان فرمودات کی روشنی میں ہمارا یہ جلسہ باہمی تعارف پیدا کرنے کا ذریعہ ہے.باہمی محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے.شامل ہونے والوں کی علمی ترقی ، ان حقائق و معارف کے ذریعہ جو کہ جلسہ میں بیان کئے جائیں گے، کا ذریعہ ہے.اور ان کی دینی معلومات کو بڑھانے والا ہے.دعائیں کرنے کا موقع ہے انسانیت کے لئے ، جس کو بہت سے خطرات درپیش ہیں.جسمانی تباہی بھی سر پر منڈلا رہی ہے.اور گمراہی نے ہر قسم کی بے راہ رویوں اور زیادتیوں نے تو روحانیت کا بیڑا ہی ڈبو دیا ہے.دنیا پر انسان اور انسانیت ہماری دعاؤں کے سب سے زیادہ محتاج ہیں.پھر دعا ئیں ان کے لئے بھی جو فوت ہو چکے ہیں.اور ان کے لئے بھی جو زندہ ہیں.اپنوں کے لئے دعائیں کرنے کا موقع ہوتا ہے اور دوسری قوموں کی فلاح اور ان کی ہدایت کے لئے بھی دعا ئیں کرنے کا موقع ہوتا ہے.ذاتی حاجات کے لئے بھی دعائیں کرنے کا موقع اور قومی حاجات کے لئے بھی دعائیں کرنے کا موقع ہوتا ہے.جو لوگ بار بار بین الاقوامی مرکز یا قومی مرکز میں نہیں آ سکتے.ان کے سال میں ایک دفعہ مرکز میں آنے کا موقع ہوتا ہے.ہر شامل ہونے والا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان دعاؤں سے حصہ پاتا ہے جو حضور نے اس جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کیں.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا.اس جلسہ کے اور بھی روحانی فوائد ہیں جو جلسہ کی بنیا در کھتے وقت سامنے نہیں تھے لیکن وقتا فوقتا ظاہر ہوتے رہیں گے.“ ( بحوالہ احمد یہ گزٹ اگست و نومبر ۲۰۰۰ء) جلسہ سالانہ کے متعلق غیروں کے تاثرات اس جلسہ کی روح رواں نیکی اور تقویٰ کا فروغ ہے جو اس کی نس نس میں رچ بس چکا ہے.یہ جلسہ عام معمولی جلسوں اور میلوں کی طرح نہیں ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت ہے.اس کی گواہی ان غیر متعصب روحوں سے حاصل کریں جو ان جلسوں میں شامل ہوتی رہی ہیں.ایسی گواہیاں ہزاروں میں ہیں تا ہم نمونے کے طور پر چند ایک پیش ہیں.
286 ایک سکھ سردار دھرم است سنگھ صاحب پرنسپل خالصہ پر چارک وڈیالہ تر نتارن ۳۷، ۳۸ء کے سالانہ جلسوں میں شریک ہوئے اور اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا:.کرسمس کے ایام میں جبکہ لوگ بکثرت دریاؤں ، پہاڑوں، عمارتوں دوسری بے جان چیزوں اور بے معنی نظاروں کو دیکھنے پر اپنا وقت ، پیسہ اور قوت عمل ضائع کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کے بعض مخصوص بندے قادیان کو بھاگتے ہیں تا ان بابرکت مسرتوں سے لطف اندوز ہوسکیں جو تمام مذاہب کے نیک اور مخلص لوگوں کے لئے آئندہ زندگی میں مقدر ہیں.میں نے جماعت احمدیہ کے دو سالانہ جلسے یعنی ۳۷ و ۳۸ ء کے دیکھے ہیں.وہاں میں نے خوبی ہی خوبی دیکھی ہے.میں نے کسی کو تمباکو نوشی کرتے ،فضول بکواس کرتے لڑتے جھگڑتے ، بھیک مانگتے ، عورتوں پر آواز کستے ، دھوکا بازی کرتے ، لوٹتے اور لغوطور پر ہنستے نہیں دیکھا.شرابی ، جواری، جیب تر اش، اس قسم کے بدمعاش لوگ قادیان کی احمدی آبادی میں قطعاً مفقود ہیں.یہ کوئی معمولی اور نظر انداز کرنے کے قابل خصوصیت نہیں.کیا یہ بات اس وسیع براعظم کے کسی اور مقدس شہر میں نظر آسکتی ہے؟ یقینا نہیں.میں بہت مقامات پر پھرا ہوں اور پورے زور کے ساتھ ہر جگہ یہ بات کہنے کو تیار ہوں کہ بجلی کے زبردست جینر یٹر کی طرح قادیان کا مقدس وجود اپنے بچے متبعین کے قلوب کو پاکیزہ علوم منور کرتا ہے اور قادیان میں احمدیوں کی قابل تقلید زندگی اور کامیابی کا راز یہی ہے.“ (الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۳۹ء) اقدام ، لاہور کے نامہ نگار نے ۱۹۵۲ء کے جلسہ میں شرکت کی اور اپنے مضمون میں ربوہ کا تعارف کرانے کے بعد لکھا:.ہر سال دسمبر کے آخر میں یہاں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوتا ہے.پاکستان کے کونے کونے سے احمدی یہاں کھچے چلے آتے ہیں اور وہ چہل پہل ہوتی ہے کہ اس خاموش بستی کے ذرے ذرے میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور کثرت اثر دہام سے گردو غبار کے بادل اٹھ اٹھ کر دور دراز سے گزرنے والے راہگیروں کو اپنی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہتے.اس مرتبہ جہاں ہزاروں احمدی عقیدہ ربوہ میں آ جمع ہوئے تھے وہاں مجھ جیسا سیدھا سا دا مسلمان بھی جا برا جمان ہوا.میرا خیال تھا کہ انتہائی شدید مخالفت کے باعث اب اس جماعت کے حوصلے پست ہو چکے ہوں گے اور اس مرتبہ جلسہ پر وہ رونق نہیں ہوگی جو ہمیشہ سننے میں آتی ہے لیکن مجمع دیکھ کر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی.جب میں وہاں پہنچا تو جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد جلسہ کا افتتاح کرنے کے لئے جلسہ گاہ میں پہنچ چکے تھے اور اپنی تقریر کے ابتدائی فقرے زبان سے ادا
287 فرمارہے تھے.جلسہ گاہ ہر قسم کے شان و شکوہ سے بالکل عاری تھی.ایک معمولی سی حد بندی کے وسیع احاطے میں خوش پوش لوگ ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے ہوئے تھے.بیٹھنے کے لئے دریوں تک کا انتظام نہ تھا.مٹی پر مٹی ہی کے رنگ کی پرالی پھیلی ہوئی تھی جس پر مرزا صاحب کے ہزاروں مرید بے تکلف بیٹھے ہمہ تن گوش بنے جلسہ سن رہے تھے.“ (اقدام لاہور ۵ جنوری ۱۹۵۳ء) د تنظیم پشاور کا نامہ نگار ۱۹۵۳ء کے جلسہ کے متعلق لکھتا ہے:.”ہم نے عرسوں میں بھی شرکت کی ہے.تقریریں سنی ہیں.قوالیاں سنی ہیں.حسب مراتب مہمان نوازیاں دیکھی ہیں لیکن جو علی تجاویز عملی کار کر دگی عملی تڑپ عملی نقل وحرکت عملی ولولہ ایک چھوٹی سی جماعت احمدیہ کے اندر ہے وہ ہم نے کے جم غفیر میں بھی نہیں دیکھا.“ ( تنظیم، پشاور ۴ جنوری ۱۹۵۴ء) ۱۹۵۵ء کے جلسہ سالانہ میں لاہور کے ایک غیر از جماعت دوست اقبال شاہ صاحب بھی شامل ہوئے اور انہوں نے مندرجہ ذیل تأثرات رقم فرمائے :.ہم اگر تعصب کے جامہ کو اتار کر بغور مشاہدہ و مطالعہ کریں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ صحیح اسلام کی جھلک ربوہ میں ملتی ہے.مثلا ربوہ میں نماز کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے.آجکل کے مسکرات وسینما وغیرہ نہایت سختی سے منع کئے گئے ہیں حتی کہ سگریٹ نوشی کو بھی بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے...میں نے ایک چیز کا بغور مشاہدہ کیا کہ ہوٹل والے گاہکوں کے پیسوں کا حساب نہیں رکھتے تھے ان کا کہنا تھا کہ یہاں کوئی بے ایمانی نہیں کر سکتا.جس قدر کھاؤ خوداپنا حساب کر دو.چنانچہ میں نے دیکھا کہ کوئی گاہک بھی ایک پیسہ کی بھی بے ایمانی نہیں کرتا تھا اور سب اپنی اپنی جگہ مطمئن تھے.اس موقع پر ہزاروں کی تعداد میں مستورات بھی شرکت کرتی ہیں.پردہ میں رہتے ہوئے آزادی کے ساتھ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتی ہیں اور مردوں کے دوش بدوش چلتی پھرتی نظر آتی ہیں.مستورات کے جلسہ کا الگ انتظام اور پروگرام ہوتا ہے.(الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۵۶ء) ۱۹۸۴ء سے جماعت احمدیہ کے مرکزی جلسہ سالانہ کور بوہ پاکستان میں منعقد کرنے پر حکومت پاکستان نے پابندی لگا رکھی ہے.لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب خدا کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں سالانہ جلسے منعقد ہورہے ہیں.خلافت احمدیہ کے ۱۹۸۴ء میں لندن منتقل ہونے کی وجہ سے اب انگلستان کے جلسہ سالانہ کو مرکزی جلسہ سالانہ ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے.جس میں ہر سال پوری دنیا سے ہزاروں احمدی شامل ہو کر اس روحانی اجتماع سے فیضیاب ہوتے ہیں.الحمد للہ علی ذلک
288 نظام جلسه سالانه حضرت مسیح موعود کو دعوئی ماموریت کے زمانہ میں الہام ہوا وسع مکانک“ اس میں اشارہ تھا کہ مہمانوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے.ایک اور الہام ہوا وَلَا تَسْتَمْ مِنَ النَّاسِ یعنی لوگوں سے اکتا نا نہیں اس الہام میں بھی اسی طرف اشارہ تھا کہ اب لوگ حضور کے پاس کثرت سے آئیں گے.چنانچہ بہت جلد مہمانوں کی آمد کا سلسلہ کثرت سے شروع ہو گیا ہے.۱۸۸۹ء میں سلسلہ بیعت کا آغاز ہوا اور جماعت کی بنیاد رکھ دی گئی تو مہمانوں کی آمد میں اور بھی اضافہ ہو گیا.۱۸۹۱ء میں پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.اس طرح نظام جلسہ کی بنیاد پڑی.شروع میں تو سب انتظامات حضرت مسیح موعود اور حضرت اماں جان کی ذات میں مرکوز تھے.ابتدائی جلسوں میں مہمانوں کے ایک حصہ کی رہائش بھی حضور کے گھر میں ہوتی تھی.بعد میں کام کے پھیلاؤ کے نتیجہ میں جلسہ پر مہمانوں کے قیام و طعام ، ان کی خبر گیری اور ان کے آرام کا خیال رکھنے کا کام ایک الگ شعبہ کی شکل اختیار کر گیا جس کا نام صیغہ جلسہ سالانہ کے طور پر مشہور ہوا اور کسی ایک شخص کو اس صیغہ کا انچارج مقر ر کیا جانے لگا جو جماعت میں ”افسر جلسہ سالانہ کے نام سے شہرت رکھتا ہے.افسر جلسہ سالانہ اپنی معاونت کیلئے بعض افراد کا انتخاب کرتے اور ان میں کاموں کو تقسیم کر لیتے ہیں.افسر جلسہ سالانہ کی نگرانی میں اور اس کی زیر ہدایت یہ ٹیم جلسہ کے انتظامات کو سنبھالتی ہے.افسر جلسہ کا رابطہ مسلسل خلیفہ وقت سے ہوتا ہے.ان سے ہدایت لیتا اور جلسہ کے کاموں کی پیش رفت سے باخبر رکھتا ہے.جلسہ کے نظام نے بتدریج ترقی کی اور وسعت اختیار کی.اس نظام کا ارتقاء اپنی ذات میں ایک الگ مضمون ہے جس کو اس وقت بیان کرنا مد نظر نہیں.اس مضمون کا بڑا مقصد جلسہ کے نظام کی کسی قدر تفصیلات کا تعارف ہے.اس تعارف کے لئے (حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت سے پہلے ) آخری جلسہ سالانہ ۱۹۸۳ء جور بوہ میں منعقد ہوا، اس کے ڈیوٹی چارٹ کو مد نظر رکھا گیا ہے.جلسہ سالانہ تو دسمبر میں ہوتا ہے.لیکن افسر جلسہ سالانہ سال کے شروع میں ہی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی منظوری لے لیتا ہے.اس منظوری کی ان اصحاب کو اطلاع دی جاتی ہے جو افسر جلسہ سالانہ کی زیر ہدایت اپنے اپنے شعبہ یا نظامت کی سکیم تیار کرتے ہیں.افسر جلسہ چھان پھٹک کے بعد اس سکیم کی منظوری دیتے ہیں.سکیم میں ہر ناظم اپنے کام کی تفصیل اور اس کو انجام دینے کے ذرائع کے ساتھ ساتھ اپنے شعبہ پراٹھنے والے اخراجات کا اندازہ بھی دیتا ہے اور اپنے شعبہ کے بجٹ کی پیشگی منظوری حاصل کرتا ہے.بعض خصوصی معاملات میں بعض شعبوں کی سکیموں کے لئے افسر جلسہ سالانہ کے ساتھ نائب افسران
289 جلسہ اور بعض دوسرے اصحاب جن کو مشورہ کے لئے بلایا جائے مل کر غور و خوض کے بعد سکیموں کی منظوری دیتے ہیں.افسر جلسہ اور ناظمین کا جلسہ کے کام کے متعلق باہمی مشورہ دراصل سارا سال جاری رہتا ہے.جلسہ کے قریب جا کر یعنی دو تین ماہ پہلے افسر جلسہ کی زیر ہدایت جلسہ کے سب ناظمین ، جن کی تعداد موجودہ دور میں پچاس کے لگ بھگ ہے، کے اجتماعی اجلاسات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جن کا مقصد باہمی افہام و تفہیم ، آپس میں رابط اور انتظامیہ کا ایک دوسرے کی سکیموں کو سمجھنا اور جن کاموں میں شعبوں کا اشتراک ہوتا ہے ان کے بارہ میں افہام و تفہیم کرنا ہوتا ہے.اس عرصہ میں جہاں افسر جلسہ اور دوسرے ناظمین اپنی اپنی جگہ نائب ناظمین اور معاونین کے ساتھ الگ مسلسل میٹنگز کر رہے ہوتے ہیں.ناظم کام کی تفصیلات اپنے سب ساتھیوں کو سمجھاتا ہے اور ان میں تقسیم کار کرتا ہے.اس طرح باہمی افہام وتفہیم کی فضا استوار ہوتی ہے.ناظمین کی اجتماعی میٹنگ میں ناظمین ، افسر جلسہ اور دوسرے ناظمین کو اپنے کام کی پیش رفت سے بھی آگاہ کرتے ہیں.اگر کہیں کوئی کام پیچھے رہ رہا ہو تو اس کی نشاندہی ہو جاتی ہے اور کمی کا بر وقت ازالہ ہو جاتا ہے.اجلاسات کا سلسلہ ایک نہایت برادرانہ فضا میں منعقد ہوتا ہے اور بڑی بشاشت کے ساتھ مشورے دیئے جاتے ہیں ، قبول کئے جاتے ہیں یا رد کئے جاتے ہیں.جلسہ کی سب نظامتیں جلسہ سے قبل اپنا پنا دفتر بناتی ہیں جس کے لئے ان کو کوئی کمرہ دے دیا جاتا ہے.کمرہ نہ ہو تو خیمہ مہیا کر دیا جاتا ہے.جلسہ شروع ہونے سے چار دن پہلے حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ جلسہ کے انتظامات کا معائنہ فرماتے ہیں.اس معائنہ کے ساتھ جلسہ کے سب دفاتر چوبیس گھنٹے کے لئے کھل جاتے ہیں جن میں ہمہ وقت کارکنان موجود رہتے ہیں.اسی دوران مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور کارکنان انتظامی امور کی سرانجام دہی کے ساتھ مہمانوں سے مسلسل ملاقات کر کے پیش آمدہ مسائل میں ان کی مدد اور راہنمائی کرتے رہتے ہیں نظام جلسہ سالانہ کے شعبہ جات (۱) افسر رابطہ: جلسہ کے دوران تین بڑے انتظامات چل رہے ہوتے ہیں اور ان کے تین الگ الگ افسر ہوتے ہیں.افسر جلسہ سالانہ، افسر جلسہ گاہ اور افسر خدمت خلق.ان تینوں کے تحت چلنے والے انتظامات کو آپس میں مربوط رکھنے کے لئے حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ ایک افسر رابط مقرر فرماتے ہیں.بالعموم ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ کو ہی حضور کی طرف سے افسر رابطہ مقرر کیا جاتا ہے.
290 (۲) نائب افسران جلسه افسر جلسہ اپنی صوابدید پر مناسب تعداد میں نائب افسر مقرر کر کے حضور ایدہ اللہ سے منظوری حاصل کرنے کے بعد ان نائب افسر جلسہ میں تقسیم کار کرتا ہے.اس تقسیم کار کے تابع نائب افسران جلسہ، افسر جلسہ سالانہ کے کام کی معاونت کرتے ہیں.۱۹۸۳ء کے جلسہ سالانہ میں چار نائب افسران تھے.ا.ایک نائب افسر جلسہ کے سپر دمہمان نوازی کے انتظامات کی نگرانی تھی.جہاں جماعتی عمارات میں یا کیمپنگ گراؤنڈز میں مہمان ٹھہراتے ہیں ان کے قیام و طعام اور دوسرے متعلقہ امور کی نگرانی اس نائب افسر جلسہ کے ذمہ ہوتی ہے.مہمان نوازی کا انتظام مختلف نظامتوں میں تقسیم ہوتا ہے.ہر ناظم کے ماتحت کئی قیام گاہیں ہوتی ہیں.ہر قیام گاہ کا ایک مہمان نواز ہوتا ہے جس کے ساتھ معاونین کی ٹیم ہوتی ہے.ان تمام انتظامات کی نگرانی اس نائب افسر جلسہ کے سپر د ہوتی ہے.نظامت نقل و حمل اور ٹرانسپورٹ کے جملہ انتظامات کی نگرانی بھی اسی نائب افسر جلسہ کے سپر د ہوتی ہے.۲.دوسرے نائب افسر جلسہ سالانہ کھانے کی تیاری اور لنگروں پر نگران ہوتے ہیں.۳.تیسرا نائب افسر ٹیکنیکل امور کی ذیل میں آنے والی نظامتوں (مثلاً نظامت سوئی گیس، نظامت ٹیکنیکل امور ) کی نگرانی کرتا ہے.۴.چوتھا نا ئب افسر جلسہ دفتر جلسہ کا نگران ہوتا ہے اور افسر جلسہ سالانہ کے ساتھ مل کر بقیہ نظامتوں کی نگرانی کرتا ہے.نوٹ : اب کام کے پھیلاؤ اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر نائب افسران کی تعداد ۸ ہوگئی ہے.جن کے درمیان جلسہ سالانہ کے تمام کام اور شعبہ جات تقسیم کئے گئے ہیں.( ناقل ) جلسہ سالانہ کی مختلف نظامتیں مختلف اہم کاموں کی انجام دہی کے لئے الگ الگ نظامتیں مقرر ہیں.ہر نظامت کا سر براہ ناظم کہلاتا ہے.مثلاً ناظم سپلائی وغیرہ.ان نظامتوں کا الگ الگ تعارف اور ناظمین کے فرائض اختصار کے ساتھ ذیل میں درج ہیں.(۱) ناظم معائنہ ناظم معائنہ کا فرض ہے کہ جلسہ سالانہ کے جملہ انتظامات مثل لنگروں، قیامگاہوں، طعامگاہوں اور دیگر انتظامات کا معائنہ کریں.جہاں کوئی کمی یا خرابی نظر آئے اس کی اطلاع افسر جلسہ کو دیں.ناظم معائنہ کا کام
291 صرف افسر جلسہ کو اطلاع دینا ہے.وہ از خود کسی انتظام میں کسی قسم کی مداخلت کے مجاز نہیں ہوتے.(۲) ناظم تنقیح حسابات ناظم تنقیح حسابات کا فرض ہے کہ وہ جلسہ کیلئے خریدی گئی مختلف اجناس اور ان کے خرچ و استعمال اور جلسہ کے بعد بچی ہوئی اشیاء کے حسابات کو چیک کریں اور اپنی رپورٹ افسر جلسہ کو پیش کر دیں.ناظم تنقیح حسابات کو کوئی انتظامی اختیارات حاصل نہیں ہوتے.(۳) ناظم طبی امداد ناظم طبی امداد کا فرض ہے کہ مہمانوں کی طبی ضروریات کا خیال رکھیں.اس سلسلہ میں ضروری ہے کہ :.جہاں مہمان ٹھہرے ہوں وہاں طبی مراکز قائم کریں، مریضوں کے معائنہ کے لئے ڈاکٹر مقرر کریں اور ادویہ وغیرہ کا انتظام کریں.مختلف جماعتوں کے احمدی ڈاکٹرز سے رابطہ کریں اور جلسہ کے دوران مہمانوں کی طبی ضروریات پوری کرنے کے لئے ان کی خدمات حاصل کریں.ایمر جنسی کے لئے ایمبولینس کا انتظام کریں.نوٹ :.ربوہ میں فضل عمر ہسپتال ۲۴ گھنٹے کھلا رہتا ہے.ہسپتال کا سارا عملہ ناظم طبی امداد کی مددکرتا ہے.(۴) ناظم اشاعت ناظم اشاعت کا فرض ہے کہ جلسہ کے جملہ انتظامات کے سلسلہ میں :.مختلف قسم کی سٹیشنری تیار کر کے ہر نظامت کو مہیا کریں.سٹیشنری میں ہر قسم کے فارم، بروشر اور بیجز وغیرہ شامل ہیں.(۵) ناظم عمومی ناظم عمومی کا فرض ہے کہ جلسہ کے تمام انتظامات جیسے قیامگاہوں اور لنگروں وغیرہ کے اندر حفاظتی انتظامات کریں.اس غرض کے لئے وہ جماعتوں سے رضا کار معاونین حاصل کر سکتے ہیں.
292 (۶) ناظم معلومات و فوری امداد ناظم معلومات وفوری امداد کا فرض ہے کہ:.مہمانوں کو ہر قسم کی معلومات مہیا کریں.حمد مہمانوں کو در پیش مشکلات میں ان کی فوری مدد کریں.گمشدہ بچگان کو تلاش کر کے ان کے والدین تک پہنچائیں.گمشدہ اشیاء کی بایاز بی کے لئے مناسب کوشش کریں.(۷) ناظم استقبال والوداع ناظم استقبال کا فرض ہے کہ:.انتظام کریں.ائر پورٹ، ریلوے سٹیشن اور بس سٹینڈ پر مہمانوں کے استقبال کا انتظام کریں اور ضروری امداد مہیا کریں.متعلقہ محکموں سے رابطہ کر کے مہمانوں کے سفر کے لئے سپیشل ریل گاڑیوں اور بسوں وغیرہ کا جلسہ کے لئے آنے اور واپس جانے والوں کو ان کے سفر کے بارہ میں معلومات مہیا کریں اور اس سلسلہ میں ضروری امداد فراہم کریں.ائر پورٹ ، ریلوے سٹیشن اور بس سٹینڈ پر اترنے والے مہمانوں کے لئے ان کی جائے رہائش تک پہنچنے کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کریں نیز اسی طرح ان کی واپسی کا انتظام کریں.ناظم مکانات کا فرض ہے کہ:...☆ ☆ (۸) ناظم مکانات مہمانوں کی قیام گاہوں کا نقشہ تیار کر کے شائع کریں.جماعتی اداروں ، خیموں اور انفرادی کمروں میں، جو جماعت کے دوست مہمانوں کیلئے پیش کریں، مہمانوں کی رہائش کا انتظام کریں.☆ جماعتوں اور علیحدہ انفرادی رہائش کا مطالبہ کرنے والے مہمانوں کو جلسہ سے قبل اور بعد الاٹمنٹ ان کی رہائش کے بارے میں اطلاع کریں.
293 (۹) ناظم پر الی ناظم پرالی کا فرض ہے کہ اجتماعی قیامگاہوں اور گھروں میں جہاں جہاں مہمان فرش پر سوتے ہیں بستروں کے نیچے بچھانے کے لئے پر الی مہیا کریں.حضرت مسیح موعود کا ارشاد ہے کہ جلسہ پر آنے والے مہمان موسم کے مطابق بستر ہمراہ لائیں.نوٹ : Matress، دریوں اور کارپٹس یا ایسا ہی کوئی اور ملتا جلتا انتظام بھی اسی ذیل میں آتا ہے.ناظم صفائی کا فرض ہے کہ :.انتظام کریں.☆ (۱۰) ناظم صفائی وقارعمل کے ذریعہ گلیوں ، جلسہ گاہ اور قیامگاہوں میں روزانہ صفائی کا انتظام کریں.مناسب تعداد میں براہ راست یا کسی کنٹریکٹر کے ذریعہ خاکروبوں اور صفائی کرنے والوں کا صفائی کے انتظامات کی نگرانی کریں.عارضی بیوت الخلاء اور غسلخانوں کی تعمیر کا انتظام کریں.(۱۱) ناظم روشنی ناظم روشنی کا فرض ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر.لنگروں، دفاتر ، جلسہ گاہ، قیام گاہوں اور راستوں وغیرہ میں روشنی کا خاطر خواہ انتظام کریں.بجلی کے محکمہ سے حسب ضرورت بجلی کے عارضی کنکشن حاصل کریں.ی روشنی کے انتظام کو احسن طور پر چلانے کیلئے مناسب طور پر الیکٹریشنز کا انتظام کریں.اگر ضرورت ہو تو جز یٹر وغیرہ کا انتظام کریں.(۱۲) ناظم تعمیر ناظم تعمیر کا فرض ہے کہ جلسہ سے قبل جلسہ کی ضروریات کے پیش نظر کی جانے والی تعمیرات مکمل کروائیں.
294 (۱۳) ناظم حاضری و نگرانی ناظم حاضری ونگرانی کا فرض ہے کہ جلسہ کے تمام انتظامات کے لئے حسب ضرورت منتظمین و معاونین مہیا کریں.اس سلسلہ میں جماعتوں سے رابطہ کر کے رضا کاروں کی فہرستیں حاصل کریں.جماعتوں کو تحریک کریں کہ افراد جماعت اپنی خدمات افسر جلسہ سالانہ کو پیش کریں.تمام رضا کاروں کو ان کی جائے ڈیوٹی کے متعلق اطلاع کریں.اپنے ساتھ رضا کاروں کا ریز رو گروپ رکھیں تا کہ ہنگامی صورت حال میں جہاں بھی ضرورت پڑے رضا کار بھجواسکیں.تمام نظامتوں میں جملہ کا رکنان کی ( صبح و شام ) حاضری کا ریکارڈ رکھیں.(۱۴) ناظم پخته سامان وظروف گلی ناظم پختہ سامان وظروف گلی کا فرض ہے کہ جلسہ کے سٹور کو چیک کر کے جلسہ سے قبل قابل مرمت اشیاء کی مرمت کرائیں.ضرورت کے مطابق پختہ برتنوں یا Disposable برتنوں کا انتظام کریں.پختہ برتن اور کچے برتن (Disposable) لنگروں اور قیامگاہوں کے مہمان نوازوں کو حسب ضرورت مہیا کریں.جلسہ کے بعد پختہ سامان واپس حاصل کرنے کا انتظام کریں.( جہاں سے سامان حاصل کیا گیا ) (۱۵) ناظم بازار ناظم بازار کا فرض ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر عارضی بازار لگانے کے لئے جگہ کا انتخاب کریں.انتخاب کے بعد اس جگہ بازاروں اور دوکانوں کا نقشہ تیار کریں.دلچسپی رکھنے والوں کو عارضی دکانیں الاٹ کریں.مختلف اشیاء صرف کی قیمتیں مقرر کر کے نگرانی رکھیں کہ دکاندار مقررہ قیمتوں پر چیزیں فروخت
کرنے کی پابندی کر رہے ہیں.295 حمد جلسہ کے اوقات میں بازار بند کروانے کا انتظام کریں.بازار سے تعلق رکھنے والے تمام امور نظم وضبط وغیرہ کی نگرانی کریں.ناظم سپلائی کا فرض ہے کہ:.(۱۶) ناظم سپلائی جلسہ کے موقع پر جلسے سے کافی پہلے مہمانوں کی متوقع تعداد کا اندازہ تیار کریں.م اس متوقع تعداد کے مطابق جس مقدار میں اجناس خرید کرنا مطلوب ہو اس کا اندازہ تیار کریں.م اندازے کے مطابق اجناس ( گندم، دالیں ، مصالحے، آلو وغیرہ) بروقت اور مناسب مقدار میں خر خرید کردہ اجناس کو ضرورت کے مطابق مختلف لنگروں میں رکھوائیں.لنگروں کے لئے اور مرکزی سٹور کے لئے سٹور کیپر ز مقرر کریں.حمد سٹور کیپر کو اجناس کے سٹور کا چارج دیں.جلسہ کے دوران اور جلسہ کے بعد ان سٹورز کے حسابات چیک کریں.ایک مرکزی سٹور قائم کریں جس میں ریزرو اجناس رکھیں اور دوران جلسہ کسی جگہ کسی جنس کی کمی ہونے پر مطلوبہ جنس مہیا کریں.جلسہ سالانہ کے بعد سٹور میں بچی ہوئی اشیاء فروخت کریں.ناظم محنت کا فرض ہے کہ:.(۱۷) ناظم محنت کھانے کی تیاری اور جلسہ کے دوسرے سب کاموں کیلئے مختلف قسم کی لیبر مہیا کریں.حصول لیبر کے لئے مختلف ٹھیکیداروں سے ٹھیکے کریں.جلسہ کے دوران لیبر کے متعلق جملہ امور کی نگرانی کریں.خصوصاً یہ دیکھیں کہ ٹھیکیدار ٹھیکوں کے مطابق لیبر مہیا کرتے ہیں اور ان سے کام کروار ہے ہیں.
296 ناظم گوشت کا فرض ہے کہ:.(۱۸) ناظم گوشت جلسہ کے موقعہ پر ہر روز جلسہ کے لنگروں کو مطلوبہ مقدار میں گوشت مہیا کریں.جلسہ کے موقعہ پر گوشت مہیا کرنے کیلئے بعض دفعہ مارکیٹ سے جانور خریدنے کا سوال بھی ہوتا ہے اس کا انتظام کریں.جانوروں کے ذبح کرنے اور گوشت کی کٹائی وغیرہ کا انتظام کریں.حسب ضرورت اس سلسلہ میں ٹھیکیداروں سے ٹھیکہ کریں.(۱۹) ناظم آب رسانی ناظم آب رسانی کا فرض ہے کہ پورا اطمینان حاصل کریں کہ:.پانی کی سپلائی سٹوریج اور لنگر خانوں، طعام گاہوں ، بیوت الخلاء اور غسل خانوں کی صفائی تسلی بخش طور پر ہورہی ہے.ٹیوب ویلز ٹھیک حالت میں ہیں.حسب ضرورت واٹر ٹینکرز اور گاڑیوں کا انتظام عاریہ اور کرایہ پر کریں.واٹر سپلائی کے لئے مقامی میونسپلٹی کا تعاون حاصل کریں.کی نگرانی رکھیں کہ آگ وغیرہ لگنے کی صورت میں کافی مقدار میں پانی میسر ہے.(۲۰) ناظم ریز رو نمبرا ناظم ریز رو نمبرا کا فرض ہے کہ اندرون ملک سے آنے والے غیر از جماعت معززین کے قیام کا انتظام کریں (۲۱) ناظم ریز رو نمبر ۲ ناظم ریز رونمبر ۲ کا فرض ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں کے قیام وطعام کا انتظام کریں.ان مہمانوں کے ساتھ گائیڈ اور ترجمان مہیا کرنے کا انتظام کریں.ان مہمانوں کی دوسری ضروریات اور سہولتوں کا خیال رکھیں.
297 (۲۲) ناظم اجراء پر چی خوراک ناظم اجراء پر چی خوراک کا فرض ہے کہ لنگر خانوں سے کھانا حاصل کرنے کیلئے پر چی خوراک جاری رکھیں.یہ پر چی ” ناظم تصدیق پر چی خوراک کی طرف سے جاری کردہ کارڈ پر اندراج کے مطابق جاری کی جاتی ہے.ید صبح و شام کے کھانے کی الگ الگ پرچی جاری کی جاتی ہیں.ہر لنگر کے ساتھ اجراء پر چی کا ایک دفتر ہوتا ہے جہاں سے تصدیق پر چی خوراک کا کارڈ دکھا کر خوراک کی پر چی حاصل کی جاسکتی ہے.(۲۳) ناظم تصدیق خوراک پرچی ناظم تصدیق پر چی خوراک کا فرض ہے کہ دونوں وقت ( صبح و شام ) اس بات کی تصدیق کریں کہ کسر رہائش گاہ پر کتنے مہمان مقیم ہیں.نظامت اجراء پر چی خوراک کے سنٹر ناظم تصدیق پر چی خوراک کی تصدیق کے مطابق پرچی خوراک جاری کرتے ہیں.ناظم تصدیق پر چی جلسہ سے قبل ہر دفتر کو تصدیق کے یہ کارڈ مہیا کر دیتے ہیں.ناظم تصدیق پرچی مختلف حلقوں کے لئے الگ الگ مصدق مقرر کر سکتے ہیں.جو ان کی نمائندگی میں تصدیق کا کام کریں.(۲۴) ناظم نقل و حمل ناظم نقل و حمل کا فرض ہے کہ جلسہ کے نظام کی ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کریں مثلاً لنگروں سے کھانا حاصل کر کے اجتماعی قیام گاہوں میں پہنچانا.اجناس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا وغیرہ.ناظم لنگر خانہ کا فرض ہے کہ:.(۲۵) ناظم لنگر خانہ افسر جلسہ سالانہ کی طرف سے دی گئی تعداد کیلئے دونوں وقت کھانا تیار کرائیں اور آمد پر چی خوراک
298 کے مطابق اس کو مقررہ وقت پر تقسیم کریں.لنگر خانوں کی تعداد حسب ضرورت ایک سے زیادہ ہوسکتی ہے.لنگر خانہ اپنی ذات میں بہت سے انتظامات کا مجموعہ ہے جن کا کسی قدر خلاصہ حسب ذیل ہے:.(۱) انتظام آٹا گندھائی (۲) انتظام روٹی پکوائی (۳) انتظام سالن پکوائی (۴) انتظام تقسم روٹی (۵) انتظام تقسیم سالن (۶) انتظام پہرہ گیٹ لنگر (۷) انتظام پہر لنگر (۸) انتظام سٹورا جناس کھانے پکانے کیلئے ناظم کے آرڈر پر لنگر کا سٹور کیپر روٹی اور سالن پکانے والوں کو اجناس مہیا کرتا ہے.(۲۶) ناظم مہمان نوازی ناظم مہمان نوازی کا فرض ہے کہ اجتماعی قیام گاہوں میں مہمانوں کے قیام وطعام کا انتظام کریں.ایک نظامت کے ماتحت ایک سے زائد قیامگاہیں ہوسکتی ہیں.مہمانوں کے لئے لنگر خانہ سے دونوں وقت کھانا حاصل کرنا اور دونوں وقت مہمانوں کو کھانا کھلانا.قیامگاہوں کے ساتھ پانی، صفائی، روشنی کے انتظامات کے سلسلہ میں متعلقہ ناظمین سے رابطہ رکھنا اور انتظامات کروانا.نوٹ : قیام گاہوں کے لئے مختلف گروپس بنا کر ان کی نگرانی کے لئے مختلف علاقوں میں ایک سے زیادہ ناظم مہمان نوازی بھی مقرر کئے جاسکتے ہیں.(۲۷) ناظم تربیت ناظم تربیت کا فرض ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر تربیت سے متعلق امور کی نگرانی کریں.جیسے:.باجماعت نماز کی ادائیگی جدید حسن اخلاق کا مظاہرہ ہی ایک دوسرے کو ملنے پر السلام علیکم کہنا ہیں پروگرام جلسہ میں شرکت اور تقاریر سننے کی تحریک کرنا ہے جہاں تک ممکن ہو نماز تہجد کی ادائیگی اور دعاؤں میں وقت گزارنے کی تحریک کرنا.(۲۸) ناظم ایندھن وسوئی گیس ناظم ایندھن وسوئی گیس کا فرض ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر کھانا پکانے کیلئے ایندھن وغیرہ حسب ضرورت مہیا کریں.یہ ایندھن کہیں لکڑی کی صورت میں کہیں کوئلہ کی صورت میں اور کہیں گیس کی شکل میں ہوسکتا ہے.
299 ہیں :.(۲۹) ناظم مہمان نوازی مستورات ناظم مہمان نوازی مستورات کا فرض ہے کہ مستورات کی قیام گاہوں پر ساری ضروریات مہیا کریں.ان قیامگاہوں کے اندر تمام انتظام لجنہ اماءاللہ کی صدر کی زیر نگرانی ہوتا ہے.قیامگاہوں کے باہر ناظم مہمان نوازی مستورات نے مندرجہ ذیل امور خاص طور پر سر انجام دینے (۱) دونوں وقت کھانا پہنچانا (۲) پانی مہیا کرنا (۳) روشنی کا انتظام (۴) صفائی کا انتظام (۵) رہائش کے لئے مارکیز وغیرہ لگوانا (۶) حفاظت کا انتظام (۷) زنانہ قیام گاہوں کے گیٹس پر رضا کاروں کی ڈیوٹی لگانا جواندر سے عورتوں کی طرف سے آنے والے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے موجود ہیں.زنانہ قیامگاہوں کا اندرونی نظام صدر لجنہ اماءاللہ کی سربراہی میں انجام پاتا ہے.وہ اپنے ماتحت ناظمه، انچارج دفتر، رپورٹر، نگران دوکانات، ناظمہ طبی امداد اور انسپکٹرس مقرر کرتی ہیں.صدر لجنہ ، مستورات کی ہر قیامگاہ کے لئے الگ ناظمہ مقرر کرتی ہیں جس کے ماتحت اجراء پرچی، تقسیم خوراک، آب رسانی، روشنی ، سٹور اور استقبال کیلئے الگ کارکنات انچارج مقرر کرتی ہیں.اسی طرح زنانہ جلسہ گاہ کی الگ منتظمہ مقرر کی جاتی ہے جس کے ساتھ جملہ انتظامات کے لئے ٹیم مقرر کی جاتی ہے.ٹیم میں مندرجہ ذیل کاموں کی الگ الگ انچارج مقرر ہوتی ہیں.(۱) سٹیج سیکرٹری (۲) تقسیم سٹیج ٹکٹ (۳) رپورٹر (۴) اندرون جلسه (۵) بیرون جلسه (۶) تعداد شماری (۷) صفائی (۸) آب رسانی (۹) گمشدہ بچگان (۱۰) سٹال (۱۱) طبی امداد و غیره جلسہ سالانہ کے موقعہ پر لجنہ اماءاللہ اپنا دفتر بھی کھولتی ہے جس کی ایک منتظمہ جلسہ کے ایام کے لئے مقرر کی جاتی ہے.ساتھ ہی مصباح کا دفتر بھی کھولا جاتا ہے.اسی طرح لجنہ کے تحت مختلف قسم کی دستکاریوں کی نمائش کا بھی انتظام کیا جاتا ہے.(۳۰) ناظم لنگر پر ہیزی ناظم لنگر پر بیزی کا فرض ہے کہ: ان مہمانوں کے لئے پر ہیزی کھانا تیار کرائیں جو دوران جلسہ بیمار پڑ جائیں اور عام مہیا کی جانے والی خوراک استعمال نہ کر سکتے ہوں.
300 (۳۱) ناظم خدمت خلق جلسہ کے موقعہ پر ٹریفک اور حفاظت سے متعلق جملہ امور کی انجام دہی اسی نظامت کے سپر د ہوتی ہے.اس نظامت کے افسر اعلیٰ کو افسر خدمت خلق کہتے ہیں.اختتامی کلمات جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مہمانوں کی خدمت کی توفیق پانا ہر کارکن کیلئے در حقیقت بڑی خوش نصیبی ہے.ہمیں اس کی دل سے قدر کرنی چاہئے.اپنی زندگی میں جلسہ سالانہ کے دنوں میں یہ خدمت سید نا حضرت مسیح موعود نے خود انجام دی.گویا جو کام حضور کیا کرتے تھے وہی خدمت بجالانے کی ہمیں توفیق مل رہی ہے.حقیقت میں یه خدمت خوش نصیبی اسی صورت میں ہوگی جب یہ دیکھنے کے بغیر کہ کیا کام سپر د ہوا ہے اسے پورے خلوص، سنجیدگی ، انہاک اور بھر پور صلاحیت کے ساتھ سرانجام دیا جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے.(الحشر : ۱۰) یعنی مومنوں کی پہچان یہ ہے کہ تہی دست و تنگ حال ہونے کے باوجود ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنے وجودوں پر ترجیح دیتے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود کے ارشادات ہماری راہنمائی کرتے ہیں.ان میں سے تین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ان ارشادات کا لب لباب یہ ہے کہ کسی مہمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے.کارکن اس بات کا خیال رکھیں کہ ہر ایک سے کشادہ پیشانی سے پیش آئیں.ہر ایک کو ٹھہرانے کا انتظام کریں.ہر ایک کے لئے کھانے کا انتظام کریں.کوئی بھوکا نہ رہے.(۱) ۲۵ دسمبر ۱۹۰۳ء کو جب کہ جلسہ سالانہ کے لئے بیرونجات سے بہت سے مہمان قادیان آئے ہوئے تھے حضور نے مہتم لنگر خانہ حضرت میاں نجم الدین صاحب کو بلا کر فرمایا:.”دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں.اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الا کرام جان کر تو اضع کرو.سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو.تم پر میرا احسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو.ان سب کی خدمت کرو.اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کرو.( ملفوظات جلد سوم صفحه ۴۹۲ ) (۲) مہمان کی تواضع کے متعلق آپ نے فرمایا:.ولنگر کے مہتم کو تاکید کر دی جاوے کہ ہر ایک شخص کی احتیاج کو مدنظر رکھے مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اسے خیال نہ رہتا ہو اس لئے کوئی دوسرا شخص یا د دلا دیا
301 کرے.کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دستکش نہ ہونا چاہئے کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے ناواقف آدمی ہیں تو یہ ہمارا حق ہے کہ ان کی ہر ایک ضرورت کو مدنظر رکھیں.بعض وقت کسی کو بیت الخلاء کا ہی پتہ نہیں ہوتا اسے سخت تکلیف ہوتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھا جاوے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۱۷) (۳) مہمانوں کے انتظام مہمان نوازی کی نسبت ذکر ہوا.اس پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا :.” میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتارہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے.مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذراسی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۲۹۲) اختتام جلسہ سالانہ پر ایک کارکن کی ڈیوٹی ختم نہیں ہو جاتی.تمام انتظامات کو سیمٹنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ جلسہ سے پہلے ان کی تیاری.اس لئے تمام انتظامات کو سمیٹنے پر بھی بھر پور توجہ ضروری ہے.اپنی ڈیوٹی کے سلسلہ میں جو سامان وغیرہ لیا گیا ہوا سے پوری احتیاط سے واپس کرنا ہوتا ہے تا کہ کسی قسم کا کوئی نقصان نہ ہو.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تمام کارکنوں اور رضا کاروں کے حق میں وہ دعائیں پوری فرمائے جو حضرت مسیح موعود نے جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے حق میں کی ہیں.آمین نوٹ :.جلسہ سالانہ کے نظام کے متعلق یہ مضمون مکرم ومحترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید و افسر جلسہ سالانہ پاکستان کا تحریر کردہ ہے جو روز نامہ الفضل سالانہ نمبر مورخہ ۲۷ دسمبر ۲۰۰۲ ء ص ۹ تا ۱۲ پر شائع شدہ ہے.
302 ایم ٹی اے (MTA) ے جنوری ۱۹۹۴ء کو خطبہ جمعہ سے ایم ٹی اے کی باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا.ہر احمدی جو خلیفہ وقت سے دوری کا درد محسوس کر رہا تھا.ان نشریات سے بہت خوش ہوا.گویا حضور گھر گھر آگئے.ایم ٹی اے جہاں بڑوں کے لئے علم میں اضافے اور سکون کا باعث بنا وہاں بچوں کی تربیت اور خلافت سے وابستگی کا ذریعہ بھی بنا.۱۹۹۴ء میں جماعت احمد یہ امریکہ اور کینیڈا کی مشترکہ کوششوں سے ارتھ اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا.۱۹۹۵ء میں انٹرنیٹ پر احمد یہ ویب سائٹ قائم ہوئی.یکم اپریل ۱۹۹۶ ء سے چوبیس گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا.جولائی ۱۹۹۶ گلوبل ہیم کے ذریعے نشریات جاری ہوئیں.1999ء میں ڈیجیٹل نشریات کا آغاز ہوا.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو یہ ایک عظیم الشان امتیاز عطا فرمایا ہے کہ جنوری ۱۹۹۳ء سے مسلسل سیٹلائٹ کے ذریعہ ساری دنیا میں دینی پروگرام نشر کئے جا رہے ہیں جو ڈش انٹینا کے ذریعہ ٹیلی ویژن پر دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں.M.T.A پر چومیں گھنٹے ایک درجن سے زائد زبانوں میں پانچوں براعظموں میں ڈیجیٹل نشریات پہنچائی جا رہی ہیں.اور بیت الفتوح لندن سے بھی Live پروگرام دکھائے جارہے ہیں.یہ نشریات موبائل فون پر بھی دستیاب ہیں.ایم ٹی اے پر جو نئے پروگرام ہیں یوٹیوب پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں.ایم ٹی اے پر جو نئے پروگرامز شروع ہوئے ہیں ان میں اردو میں راہ ہدی اور تاریخی حقائق ، انگریزی میں فیتھ میٹرز (Faith Matters) اور رئیل ٹاک (Real Talk) اور بنگلہ، ڈچ، اور عربی کے پروگرامز ہیں ان پروگراموں کا اللہ کے فضل سے بہت فائدہ ہورہا ہے.ایم ٹی اے کی نئی شاخیں ایم ٹی اے کے ذریعہ مواصلاتی فتوحات کے تذکرہ میں اس کی نئی شاخوں کا ذکر بھی ضروری ہے.۲۳ جون ۲۰۰۳ ء سے ایم ٹی اے کی نشریات 3 Asia Sat پر شروع ہوگئی ہیں اور دنیا کے آخری جزیرہ تاد یونی میں بھی واضح سگنل موصول ہونے لگے.۲۲ اپریل ۲۰۰۴ء سے ایم ٹی اے کے دوسرے چینل MTA الثانیہ کا اجراء ہوا.۲۳ مارچ ۲۰۰۶ء کو ایم ٹی اے کے نئے آٹو...براڈ کاسٹ سسٹم کا افتتاح ہوا.• جولائی ۲۰۰۶ء کو انٹرنیٹ پر ایم ٹی اے کی نشریات شروع ہوگئیں.۲۳ مارچ ۲۰۰۷ء کو ایم ٹی اے العربیہ کا اجراء ہوا.اس چینل نے عرب دنیا میں ایک ہلچل مچادی ہے
303 اور جس شان سے دین حق کا دفاع کر رہا ہے اس سے سعید روحوں کی بھر پور توجہ ہورہی ہے.ان نشریات میں تلاوت قرآن کریم، ترجمه، تفسیر ، احادیث نبویہ کے تراجم و تشریح، حضرت امام جماعت احمدیہ کے خطبات جمعہ، مجالس سوال و جواب، سیرۃ کے پروگرام، سائنسی پروگرام، زبانیں سکھانے کے پروگرام صحت سے متعلق پروگرام، کھانے پکانے کے بارے میں پروگرام، گیمز کے پروگرام، تفریحی مقامات کی سیر کے پروگرام وغیرہ شامل ہیں.اور یہ تمام پروگرام عریانی سے پاک اسلامی تعلیمات کے عین مطابق پیش کئے جاتے ہیں.MTA کے یہ مقدس پروگرام ساری دنیا میں جہاں افراد جماعت کی تربیت کے لئے بے انتہاء مفید ثابت ہور ہے ہیں وہاں دعوت الی اللہ کے لئے بھی غیر معمولی طور پر موثر ثابت ہورہے ہیں.ایم ٹی اے کے غیر معمولی اثرات خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایم ٹی اے کے جو غیر معمولی اثرات دنیا میں ظاہر ہورہے ہیں ان کا عتراف جماعت احمدیہ کے شدید مخالفین کو بھی ہے.چند اعترافات نمونہ کے طور پر پیش ہیں :.۱.مولوی شاہ احمد نورانی مرحوم ( چیئر مین سپریم کونسل جمیعت العلماء پاکستان ) یورپ اور امریکہ میں قادیانیت اسلام کے بیڈ روم میں داخل ہوگئی ہے“.(روزنامہ نوائے وقت ۲ فروری ۲۰۰۸) ۲.مولوی منظور احمد چنیوٹی: پانچ لاکھ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے قادیانی جماعت نے TV چینل لیا ہوا ہے.۲۴ گھنٹے TV چلتا ہے.ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں.ہماری اسلامی حکومتوں کی توجہ بھی اس طرف نہیں ہے.(ہفت روزہ وجود کراچی جلد۲-۲۲ تا ۲۸ نومبر ۲۰۰۰، شماره ۴۷ صفحه ۳۱).جناب عبدالحق صاحب.بھریا روڈ سندھ : " قادیانی ٹیلی ویژن پاکستان کے گھر گھر میں داخل ہو چکا ہے.قرآن مجید کی تلاوت اور تفسیر ، درس حدیث ، حمد ونعت اور تمام قوموں کے قادیانیوں خصوصاً عربوں کو بار بار پیش کر کے قادیانی ہماری نوجوان نسل کے ذہن پر بری طرح چھا رہے ہیں.اس طرح ہمارے بزرگان کرام کی پچھلے سو سال کی مساعی پر پانی پھرتا نظر آ رہا ہے.لوگ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ سفید داڑھی اور صلى الله پگڑی والا شخص جو تمام اسلامی عقائد کا اقرار کرتا ہے.حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بار بار اپنا آقا کہتا ہے اور ان کی سیرت کے حسین تذکرے کرتے ہوئے رو پڑتا ہے کافر کیسے ہو سکتا ہے.مضمون بعنوان علماء اسلام سے گزارش از عبد الحق صاحب الاعتصام ۲۴ جنوری ۱۹۹۷ صفحہ ۱۷-۱۸)
304 ۴.سیف اللہ سپراء صاحب : ” قادیانی تو ڈش سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.ان کا راہنما مرزا طاہر احمد ڈش پر پوری دنیا میں قادیانیوں کو باقاعدگی سے خطاب کرتا رہتا ہے.“ ( مضمون بعنوان بھارتی پرو پیگنڈا کا موثر جواب.از سیف اللہ سپراء.روزنامہ نوائے وقت لاہور ستمبر ۱۹۹۷ء اشاعت خاص صفحہ آخر ) ۵.قاضی محمد اسلم صاحب سیف فیروپوری: روز نامہ جنگ نے اپنے صفحہ آخر پر یہ خبر لگائی کہ مرزا طاہر احمد کا خطاب سیارے کے ذریعے چار براعظموں میں ٹیلی کاسٹ کیا گیا.آسٹریلیا، افریقہ، یورپ، ایشیا.ہمارا عالمی روحانی اجتماع عرفات کے میدان میں حج کے موقع پر ہوتا ہے تو حج کی پوری کیفیات اور حرکات و سکنات سیارے کے ذریعے بعض ایشیائی اور افریقی ملکوں تک بمشکل پہنچائی جاتی ہیں.کسی ملک کے سر براہ کی تقریر یا خطاب سیارے کے ذریعے دنیا بھر میں کبھی ٹیلی کاسٹ نہیں کیا گیا.مختلف ممالک میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اور قد آور سر براہ موجود ہیں ان کی تقریریں اور بیانات بھی پریس کے ذریعے پھیلائے جاتے ہیں.سیارے کے ذریعے کبھی ٹیلی کاسٹ نہیں کئے گئے.ہمارے ملک میں دو بڑی قومی سیاسی جماعتیں موجود ہیں.پاکستان مسلم لیگ جس کے سربراہ جناب محمد خان جونیجو ہیں.پاکستان پیپلز پارٹی جن کی قائد بنت بھٹو مسٹر بے نظیر زرداری ہیں.یہ دونوں جماعتیں باری باری ملک کی حکمران رہتی ہیں.ان دونوں لیدڑوں کی تقریر میں آج تک نہ ٹیلی کاسٹ کی گئیں اور نہ ہی دوسرے ملکوں میں انہیں پہنچایا گیا.میاں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم اور قائد ایوان ہیں.صدر پاکستان غلام اسحاق خان چیف آف سٹاف جنرل آصف نواز جنجوعہ ہیں ان کے خیالات ، خطابات اور تقریر میں بھی آج تک سیارے کے ذریعے ٹیلی کاسٹ نہیں کی گئیں.کیونکہ سیارے کے ذریعے ٹیلی کاست کر کے دور دراز کے ممالک تک اپنے خیالات پہنچا نا بہت مہنگا کام ہے جو ہمارے جیسے غریب ملک کی بساط سے باہر ہے“.مضمون عنوان دینی جماعتوں کے لئےلمحہ فکریہ ہفت روزہ اہل حدیث لا ہورا امبر ۱۹۹۲ صفحہ۱۱) ۶.مولوی محمد اکرم اعوان: "میں قادیانیوں کا انٹرویو پڑھ رہا تھا تو وہ کہنے لگے کہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے لیکن آج ہم اس TV چینل کی بدولت ہر شخص کے گھر کے اندر موجود ہیں.جہاں اس کے بچے بچیاں، بیوی، بہو، بیٹیاں بیٹھی ہیں وہاں ہم بھی بات کر رہے ہیں.ہمارا چینل وہاں پہنچ رہا ہے.بڑی غضب کی بات کی اس نے.وہ انگریزی جملہ اس طرح تھا.We are in every bedroom یعنی ہر گھر کے انتہائی اندر کے کمرے تک ہماری رسائی ہوگئی ہے.اے کاش ہم سائنس سے ڈرنے کی بجائے اسے اپناتے“.( مضمون بعنوان سائنس اور اسلام.از مولانا محمد اکرم اعوان.ماہنامہ المرشد لاہور دسمبر ۱۹۹۵ء صفحہ ۱۳)
305 ے.جناب زاہد ملک: یورپ کے ایک ملک سے قادیانیوں نے STN کی طرز پر ایک TV اسٹیشن کرائے پر لے رکھا ہے.جس پر ۲۴ گھنٹے اسلام کے نام پر اپنے مسلک کی ترویج اور فروغ کے لئے انگریزی ، ہسپانوی، اٹالین، فرانسیسی ، جرمن، عربی اور اسپرانٹو جیسی عالمی زبانوں میں نشریات پیش کی جاتی ہیں.ساری دنیا میں الیکٹرانک میڈیا، لٹریچر اور عقلی سائنسی دلائل کے ذریعے اسلام کے نام پر جتنا کام مرزائی اور قادیانی کر رہے ہیں اتنا ہم مسلمانوں نے سوچا بھی نہیں“.علماء کرام سے غیر مسلموں کے دس سوال.روز نامہ اساس ۲۴ مارچ ۱۹۹۷ء) ۸.سہ ماہی الشعر یہ گوجرانوالہ: ”قادیانیت کی تبلیغ اب سیٹلائٹ کے ذریعہ ہر گھر کے بیڈ روم میں داخل ہوگئی ہے.( مضمون پاکسان شریعہ کونسل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی.سہ ماہی الشریہ گوجرانوالہ.اکتوبر۱۹۹۶ء جلدے شمارہ نمبر صفحه ۸۳) ۹.حافظ عبدالوحید : اس وقت ایک مستقل TV اور ریڈیو اسٹیشن قائم کیا جا چکا ہے.جس سے ۲۴ گھنٹے قادیانیت کا تبلیغی مشن جاری رہتا ہے.پڑھا لکھا طبقہ اسی ذریعہ سے خاص طور پر گمراہ کیا جارہا ہے“.(اداریہ حافظ عبدالوحید ہفت روزہ الاعتصام جلد ۵۲ - شماره ۵-۱۱فروری ۲۰۰۰ء) ۱۰.ابوبکر بلوچ.حیدر آباد: چند روز قبل اپنے قادیانی دوست کے ساتھ ( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) ان کے امام مرزا طاہر احمد کا خطاب بذریعہ سیٹلائٹ دیکھنے کا موقع ملا.قادیانی جماعت کا سر براہ بڑے فکر سے اعلان کرتا ہے چشم عالم نے یہ نظارہ آج سے قبل نہیں دیکھا کہ ۳۰ لاکھ افراد ایک سال میں کسی مذہب میں داخل ہوئے ہوں.قادیانیوں کی روز افزوں ترقی لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا قادیانی مذہب میں داخل ہونا اور دنیا کا قادیانیت کی طرف بڑھتا ہوا میلان اس بات کی علامت معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی طرف کھڑا ہے.“ ( مضمون بعنوان ۳۰ لاکھ افراد کا کفر ایک لمحہ فکریہ.از ابوبکر بلوچ.ماہنامہ دفاع کراچی.جلدا شماره ۳۰ اگست ۹۷ صفحه ۴۰) ( بحوالہ فولڈر بعنوان: ایم ٹی اے کے عظیم الشان اثرات شائع کردہ منصوبہ بندی کمیٹی ) فضل عمر فاؤنڈیشن حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خلافت کا ۵۲ سالہ دور ایک سنہری دور ہے.آپ کے دور خلافت میں جماعت کو عظیم الشان ترقی ملی.احباب جماعت کے دلوں میں اپنے پیارے امام کی بے پناہ محبت تھی.حضور کی
306 وفات نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو پھر سے ایک نیا خلیفہ عطا فرمایا.حضرت خلیفۃ أیح الثالث کو خلافت کی ذمہ داری عطا کی گئی.آپ نے لوگوں کے دکھے ہوئے دلوں کے باعث اور لوگوں کی حضرت فضل عمر سے بے پناہ محبت کے پیش نظر حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی تجویز جلسه سالانہ ۱۹۶۵ء کے اختتامی اجلاس میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان فرمایا.فضل عمر فاؤنڈیشن کا سب سے اہم مقصد حضرت فضل عمر کے خطبات اور تقاریر کومحفوظ کرنا ہے دوسرا کام ان کو کتابی شکل میں شائع کرنا ہے.چنانچہ اس ادارہ کے قیام سے ہی بڑی تیزی سے یہ کام شروع ہو گیا.الفضل اور سلسلہ کے دوسرے رسائل و جرائد سے حضرت فضل عمر کے خطبات و تقاریر کو ڈھونڈ کر ان کو کتابی شکل دینے کے لئے تیار کیا گیا.چنانچہ خطبات محمود کے نام سے حضرت مصلح موعود کے فرمودہ خطبات نکاح ، عیدین اور خطبات جمعہ کو کتابی شکل میں ڈھالا جا رہا ہے.ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے انتظام و انصرام کے لئے ایک بورڈ آف ڈائر یکٹر ز مقرر ہے جن کی منظوری حضرت خلیفہ اسیح دیتے ہیں.اور دفتری معاملات سیکرٹری فضل عمر فاؤ نڈیشن کے سپر د ہیں.انعامی سکیم برائے علمی مقالہ جات حضرت فضل عمر کو علمی اور تحقیقی کاموں میں خاص دلچسپی تھی.یہی وجہ ہے کہ حضرت فضل عمر کے خطبات و تقاریرکا زیادہ تر موضوع کوئی اہم علمی مسئلہ ہوتا تھا.اس مقصد کے پیش نظر فضل عمر فاؤنڈیشن نے ایک ہمہ گیر علمی واد بی تحریک کا آغاز کیا تحقیق و جستجو اس تحریک کا طرہ امتیاز ہے.حضرت فضل عمر ادبی و علمی اور دینی فلسفہ سے مکمل ہم آہنگی کی غرض سے جماعت کو مختلف موضوعات پر بھر پور توجہ دینے کے لئے تیار کرنا چاہتے تھے تا کہ اہل جماعت میں تحقیق و جستجو کے اسرار ورموز سے آگاہی کے ساتھ ساتھ جماعت کے لئے مفید اور نافع تحقیقی و علمی مقالے میسر آ سکیں.جن مین سے اس غرض کے لئے اہل قلم حضرات کی علمی کاوشوں کو مدنظر رکھ کر فاؤنڈیشن نے انعامی رقم مختص کی تا کہ اہل قلم حضرات کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ان میں جماعت کے لئے مفید مضامین لکھنے کا اشتیاق بڑھے اور جماعت کی علمی تصانیف میں اضافہ ہو سکے.چنانچہ انہی خطوط پر سوچ بچار اور غور و خوض کے بعد ۱۹۶۶ء میں ایک لائحہ عمل وضع کیا گیا.جس کے زیر اہتمام انعامی مقابلہ تصانیف منعقد کروایا گیا.اور فاؤنڈیشن کی طرف سے پانچ انعامات مقرر کئے گئے.پہلا انعام : بنیادی اسلامی عقائد مثلاً ہستی باری تعالی.صفات الہیہ.ضرورت نبوت.معیار
307 شناخت نبوت، دعا، قضاء وقدر معجزات، بعث بعد الموت، بهشت و دوزخ ، ضرورت شریعت وغیرہ.دوسرا انعام :.اسلامی عبادات اور اسلامی اخلاق کا کوئی پہلو.تیسرا انعام:.تاریخ مذاہب، تاریخ انبیاء سابقہ، تاریخ اسلام کسی ملک میں اسلام پھیلنے کی تاریخ، تاریخ احمدیت ، صحابہ یاکسی ممتاز مسلمان کی تاریخ وسیرت وغیرہ.چوتھا انعام :.اسلامی اقتصادیات مثلاً بینکنگ اور سود.نظام بیمہ.لیبر اور متعلقہ وسائل، تجارتی کمپنیوں کا نظام، انڈسٹری، بین الاقوامی تجارت ، ان مضامین پر اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالنے کے علاوہ وہ رائج الوقت نظام کے ساتھ موازنہ شامل ہو کسی دنیوی علم کی ترقی کے لئے مسلمانوں کی تحقیق اور ترقی میں ان کا حصہ وغیرہ.پانچواں انعام :.کوئی علمی موضوع جو مذکورہ شقوں میں شامل نہ ہو.ابتداء میں صرف مذہبی نوعیت کے مقالہ جات لکھے جاتے رہے.مگر وقت کے ساتھ ساتھ سائنسی مضامین بھی شامل کئے گئے.ہر اس مقالہ نگار کو انعام دیا جاتا ہے.جس میں مقابلہ نگار نے تحقیقی رنگ میں کاوش کی ہو.اس انعامی مقابلہ میں اردو کے علاوہ تمام ملکی اور غیر ملکی بین الاقوامی زبانیں شامل کی گئی ہیں.تاکہ غیر ملکی احمدی بھی اس میں شامل ہو سکیں.چنانچہ اب تک انعام یافتگان میں تین غیر ملکی مقالے بھی شامل ہیں.یہ مقالے مغربی جرمنی اور امریکہ سے موصول ہوئے.اب تک مجموعی طور پر.۷۶۵۰۰ روپے کی رقم بصورت انعام کامیاب مقالہ نگار حضرات کو دی جا چکی ہے.۲۰۱۰ ء تک کل ۱۲۵ مقالہ جات موصول ہوئے جن میں سے ۳۶ مقالہ جات کو انعام کا حقدار قرار دیا گیا.جن کے اسماء درج ذیل ہیں:.ا.حروف و اعداد کے اسرار.سید سجاد احمد صاحب ربوہ ۲.ابن مریم.چوہدری ہادی علی صاحب مربی سلسلہ ۳.حضرت بانی سلسلہ مسلم ہندوستان اور انگریز.جمیل احمد بٹ صاحب تنزانیہ ۴.زندہ خدا کا زندہ نشان.دین محمد صاحب شاہد مربی سلسلہ ۵.اسماءالانبیاء.شیخ عبدالقادر صاحب محقق لاہور ۶.سمندر اور اس کے عجائبات.پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب ۷.قرآن کریم اور مستشرقین.شیخ عبد القادر صاحب محقق لاہور ۸.راز حقیقت.گیانی عباداللہ صاحب ۹.گورونانک جی کا حج کعبہ.گیانی عباداللہ صاحب
308 ۱۰.ایک درویش صفت بادشاہ.گیانی عباداللہ صاحب 1 - The discovery of Salmon's Gold Mines داؤ د عبدالمالک صاحب یو ایس اے ۱۲..Advent of Promised Maseeh سید حسنات احمد صاحب راولپنڈی A introduction to the treasure house of Islam-r سید حسنات احمد صاحب راولپنڈی ۱۴.عیسائیوں اور مسلمانوں میں کشمکش کی تاریخ.قریشی محمد اسد اللہ صاحب مربی سلسلہ ۱۵.مسلم سلاطین ہند کے متعلق جبری اشاعت اسلام.حافظ محمد اسحق صاحب خلیل سوئٹزر لینڈر ۱۶.اسلام کا وراثتی نظام.پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب ربوہ ۱۷.معبود حقیقی.مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری ۱۸ مسیح الدجال اور یا جوج و ماجوج کا ظہور.قریشی محمد اسد اللہ صاحب کا شمیری ۱۹ - Je la FlankoDela prufto.ڈاکٹر عبدالباری.فرینکفورٹ ۲۰.حضرت مریم بنت عمران.شیخ عبد القادر صاحب محقق لاہور ۲۱.ضرورت نبوت.قریشی محمد عبد اللہ صاحب مربی سلسلہ ۲۲-The Glimpses of the Holy Prophet سید حسنات احمد صاحب راولپنڈی ۲۳.غلبہ اسلام اور سکھ مت.گیانی عباداللہ صاحب ۲۴-.Ahmadiyya theology.عبدالسلام صاحب میڈیسن ۲۵.فیضان نبوت.مولانا مبشر احمد صاحب را جیکی ۲۶.انکشاف حقیقت.گیانی عباداللہ صاحب ۲۷.ویدک دھرم اور دین اسلام.گیانی عباداللہ صاحب ۲۸.سیرت حضرت عمرؓ.مولانا غلام باری سیف صاحب ۲۹.قرآن.بائیبل اور تاریخ.شیخ عبدالقادر محقق صاحب ۳۰.عالمگیر برکات مامورزمانہ.عبدالرحمن مبشر صاحب ۳۱.فتاویٰ حضرت مصلح موعود.سید شمس الحق صاحب ۳۲.مباہلہ.حافظ مظفر احمد صاحب ۳۳.ام المومنین حضرت عائشہؓ.مولانا غلام باری سیف صاحب
309 ۳۴.احمدیت.روس میں انقلابات مکرم مولانا محمد اسمعیل منیر صاحب مبلغ سلسلہ (مرحوم) ۳۵.حضرت مسیح موعود کے چیلنج رد عمل و نتائج و تاثرات.مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ (خاکسار مؤلف کتاب هذا) ۳۶.حضرت مصلح موعودؓ کے قضائی فیصلے.مکرم نصیر احمد چوہدری صاحب نائب ناظم دار القضاء.( بمطابق ریکار ڈ فضل عمر فاؤنڈیشن ) لنڈن کے انڈیا آفس لائبریری سے ریسرچ پروگرام اس انعامی سکیم کے علاوہ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے لٹریری کمیٹی اس غرض سے تشکیل دی ہوئی ہے کہ وہ جماعت کی علمی ترقی کے لئے تجاویز پیش کرے.اس کمیٹی کی ایک تجویز یہ بھی تھی کہ لنڈن کے انڈیا آفس لائبریری سے اسلام اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق نوٹ تلاش کر کے جمع کئے جائیں.اور ان سے استفادہ کے لئے مناسب اقدام کئے جائیں.بورڈ آف ڈائریکٹر نے مکرم پروفیسر عطاء الرحمن صاحب غنی کولندن بھجوانا منظور کیا تھا.مکرم پروفیسر صاحب نے ۱۹۸۲ء میں انڈیا آفس اور دیگر مقامات سے ریکارڈ کا مطالعہ کر کے ضروری نوٹ جمع کئے اور اپنی مفصل رپورٹ پیش کر دی.جس پر حضور نے ایک کمیٹی مقررفرما کر اسے ہدایت فرمائی کہ وہ ساری رپورٹ غور کر کے اور دس روزہ کارروائی کی رپورٹ حضور کی خدمت میں پیش کیا کرے.مذکورہ کمیٹی مکرم ناظر صاحب تصنیف، مکرم وکیل التصنیف صاحب اور مکرم خاں بشیر احمد صاحب رفیق (سیکرٹری ) پر مشتمل تھی.مکرم پروفیسر صاحب کی رپورٹ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پیش ہونے پر بورڈ نے مزید فیصلہ کیا کہ بھارت میں موجو دمواد سے بھی معلومات جمع کی جائیں اور امریکہ کی مشی گن اور مسوری یو نیورسٹی سے بھی یہ ریسرچ کی جائے.ان ہر سہ مزید مراکز سے معلومات حاصل کرنے کے لئے حضور نے ارشاد فرمایا کہ وکیل التصنیف صاحب اصحاب میں سے موزوں دوستوں سے استفادہ کریں جنہوں نے علمی خدمات کے لئے اپنے نام پیش کئے ہیں.(از ریکارڈ فضل عمر فاؤنڈیشن ) فنڈز کے مصارف فضل عمر فاؤنڈیشن کا ایک اہم حصہ فلاحی کاموں کے لئے فنڈز مہیا کرنا ہے اس تحریک کے قیام کے
310 ساتھ ہی حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے جلسہ سالانہ ۱۹۶۵ء کے موقع پر فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.میں دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی پہلی تمام مالی قربانی پر قائم رہتے ہوئے اور ان میں سے کسی قسم کی کمی کئے بغیر بشاشت قلب کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر اس فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں اور ساتھ ہی دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ اس فنڈ کو با برکت کرے اور اس کے اچھے نتائج کا ثواب حضرت فضل عمر کو بھی اور ہمیں بھی پہنچائے.“ (الفضل ۶ مئی ۱۹۶۶ء) خدا کے فضل و کرم سے جماعت نے حسب سابق اس بابرکت تحریک میں دل کھول کر حصہ لیا ہے.او رابتداء میں ہی کئی لاکھ کا فنڈ جمع ہو گیا.رفاہی کاموں کے لئے استعمال کی جانے والی عمارتوں کی تعمیر کے لئے فنڈ مہیا کرنا فضل عمر فاؤنڈیشن کے مقاصد میں شامل ہے.چنانچہ اب تک اس فاؤنڈیشن کے فنڈ پر تعمیر ہونے والی عمارات کی تفصیل حسب ذیل ہے:.ا.سرائے کے فضل عمر :.ربوہ میں اپنی نوعیت کا منفر د گیسٹ ہاؤس احاطہ تحریک جدید کی جانب نہایت ہی خوبصورت اور دیدہ زیب عمارت کی شکل میں موجود ہے.اس گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد ۲۰ فروری ۱۹۷۴ء کو یوم مصلح موعود کے موقع پر رکھا گیا.فاؤنڈیشن نے اس کی تعمیر کے لئے لاکھ روپے صرف کئے.اس گیسٹ ہاؤس کا حقیقی مقصد بیرون ملک سے آنے والے نمائندہ وفود کا قیام و طعام ہے.اس میں جدید طرز کی سہولیات مثلاً.اے سی، گیز راور قدرتی گیس کے ہیٹرز نصب ہیں اور اعلی قسم کا فرنیچر استعمال کیا گیا ہے.۲.خلافت لائبریری:.خلافت لائبریری کی تعمیر کے جملہ اخراجات فضل عمر فاؤنڈیشن نے ادا کئے اس کے علاوہ دیگر اخراجات مثلاً فرنیچر ، بجلی کا سامان اور دیگر ضروریات کے لئے جدید آلات بھی فراہم کئے.لائبریری کے (Extention block) کے لئے فضل عمر فاؤنڈیشن نے مزید ۸ لاکھ فنڈ مہیا کئے.اس بلاک نے اس لائبریری کی گنجائش کو دو گنا کر دیا..مترجم ہو تھے:.۱۹۸۰ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر مختلف زبانوں میں تراجم سنانے کے لئے جو بوتھ قائم کئے گئے ان پر آنے والے جملہ اخراجات فاؤنڈیشن نے ادا کئے.جو ایک لاکھ سے زائد تھے.۴.متفرق امور : ایک جدید طرز کی فوٹوسٹیٹ مشین جس پر ۸۵-۱۹۸۴ء کے عرصے میں ۸۰ ہزار روپے خرچ آئے.فاؤنڈیشن نے یہ خرید کر جامعہ احمد یہ ربوہ کو بطور عطیہ دی.اس سے جامعہ احمدیہ کو اپنے
311 فرائض کی سرانجام دہی میں سہولت پیدا ہوگئی.فاؤنڈیشن نے امام بی بی ٹرسٹ بھی قائم کر رکھا ہے جس کے تحت تعلیمی وظائف دیئے جاتے ہیں.جماعت ہشتم میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء وطالبات کو ماہانہ مبلغ ۲۵ روپے وظیفہ دیا جاتا ہے.یہ ٹرسٹ کیپٹن ڈاکٹرمحمد رمضان صاحب مرحوم نے اپنی والدہ محترمہ امام بی بی صاحبہ کے نام پر قائم کیا تھا.موصوف نے دس ہزار روپے فاؤنڈیشن کو بطور عطیہ دیئے.اس قابل ستائش اور مستحسن قدم کو ہر طبقہ کے لوگوں نے سراہا.چنانچہ فاؤنڈیشن نے بالآخر اس ٹرسٹ کو دائمی حیثیت دے کر مستحق طلباء کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مالی اعانت کے سلسلے میں تعمیری قدم اٹھایا.اس فلاحی کام پر سالانہ بارہ صدرو پے صرف ہوتے ہیں.فاؤنڈیشن نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی مبارک تحریک بیوت الحمد“ کے تعمیراتی فنڈ میں ایک لاکھ روپے بطور عطیہ دیئے ہیں.قرآن مجید کی عالمی اشاعت کے سلسلہ میں فاؤنڈیشن نے مبلغ سولہ ہزار روپے دیئے ہیں.روٹی پکانے کے لئے لگائی جانے والی مشینوں کے لئے بھی فاؤنڈیشن نے فنڈ دیا ہے.(بمطابق ریکارڈ فضل عمر فاؤنڈیشن) فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت ہونے والا علمی کام فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت اب تک ہونے والے علمی کام کی تفصیل حسب ذیل ہے.ا.انوار العلوم :.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی کی کتب، مضامین، مختلف مواقع پر دیئے گئے لیکچر اور تقاریر کو انوار العلوم“ کے نام سے کیا جارہا ہے.اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جولائی ۱۹۵۰ ء تک حضرت مصلح موعود کی کتب ،مضامین لیکچرز اور تقاریر کو انوار العلوم کی ۲۱ جلدوں میں شائع ہوچکی ہیں.دیگر تقریباً 9 جلدوں کی تیاری و اشاعت و طباعت کا کام بڑی تیزی سے ہو رہا ہے.اس طرح امید ہے کہ انوار العلوم کی جلدوں کی تعداد ۳۰ تک پہنچ جائے گی.انشاء اللہ العزیز ۲.خطبات محمود :.حضرت مصلح موعودؓ کے ۱۹۱۴ ء سے دسمبر ۱۹۳۷ء تک خطبات کی اب تک ۱۸ جلدیں شائع ہو چکی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے.خطبات محمود جلد اول.خطبات عید الفطر.خطبات محمود جلد دوم.خطبات عید الاضحی
خطبات محمود جلد سوم.خطبات نکاح 312 خطبات محمود جلد چہارم تا اٹھارہ.خطبات جمعہ خلاف علی منہاج النبوة :- حضرت مصلح موعودؓ کی نظام خلافت کے تعلق میں تمام کتب، تقاریر، مضامین اور لیکچرز کو یکجائی صورت میں ۳ جلدوں میں شائع کیا جا چکا ہے.جن کے لئے ” خلافت علی منہاج النبوۃ نام تجویز کیا گیا ہے.مجلس شوریٰ کے خطابات :.حضرت مصلح موعودؓ کے مجلس شوری میں فرمودات اور خطابات و تقاریری۱۹۴۳ء تک دوجلدوں میں شائع ہو چکے ہیں.۵.سوانح فضل عمر:.حضرت مصلح موعود کی سیرت و سوانح پر منی کتاب "سوانح فضل عمر پانچی جلدوں میں شائع ہو چکی ہے.پہلی دو جلدیں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع کی تالیف کردہ ہیں.بقیہ تین جلد میں مکرم مولا نا عبدالباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ کی تالیف کردہ ہیں.آجکل فضل عمر فاؤنڈیشن کے سیکرٹری مکرم ناصر احمد شمس صاحب مربی سلسلہ ہیں.جو اس فاؤنڈیشن کو بڑی محنت اور خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء ناصر فاؤنڈیشن حضرت خلیق اصبع الثالث کی یاد میں حضرت طلیقہ اصبع الرابع نے ناصرفا ؤ نڈیشن قائم فرمائی جس کی غرض و غایت جماعت احمدیہ میں تعلیم کی ترقی اور بہبود ہے.اس فاؤنڈیشن کو نظارت تعلیم سے وابستہ کیا گیا ہے اور اس کے چیئر مین بالعموم ناظر تعلیم ہوتے ہیں.اس فاؤنڈیشن کے تحت نصرت جہاں اکیڈمی ربوہ (انگلش میڈیم بوائز و گرلز سیکشن نیز اردو میڈیم ) کے تعلیمی ادارہ جات قائم ہیں.طاہر فاؤنڈیشن حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۰۳ء کے موقع پر دوسرے دن کے خطاب میں اس ادارے کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے اس ادارے کے درج ذیل مقاصد بیان فرمائے.
313 مختلف لوگوں نے توجہ دلائی ہے خود بھی خیال آیا کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی جاری فرمودہ تحریکات ہیں اور غلبہ اسلام کے لئے آپ کے مختلف منصوبے تھے.آپ کے خطبات ہیں ، تقاریر ہیں ، مجالس عرفان ہیں.ان کی تدوین اور اشاعت کا کام ہے.تو یہ کافی وسیع کام ہے جس کے لئے الگ ادارہ کے قیام کی ضرورت ہے.تو کافی سوچ کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ایک ادارہ ظاہر فاؤنڈیشن کے نام سے قائم کیا جائے اور اس کے لئے انشاء اللہ ایک مجلس ہوگی ، بورڈ آف ڈائریکٹر ہوگا، جو کہ ہمیں ممبران پر مشتمل ہوگا اور اس کی ایک سب کمیٹی لندن میں بھی ہوگی.کیونکہ دنیا میں مختلف جگہوں میں پھیلے ہوئے ، مختلف زبانوں کے کام ہیں اور جہاں تک فنڈ ز کا تعلق ہے مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ تینوں مرکزی انجمنیں مل کر یہ فنڈ مہیا کریں گی لیکن کچھ لوگوں کی بھی خواہش ہو گی تو اس میں کوئی پابندی نہیں ہے جو کوئی اپنی خوشی سے، اپنی مرضی سے اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں، ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ، ان کو اجازت ہوگی، دے سکتے ہیں اس میں چندہ.تو دعا کریں جو کمیٹی بنے گی اس کو اللہ تعالیٰ کام کرنے کی توفیق بھی دے اور ہر لحاظ سے وہ کام جو حضور کی تحریکات کے ہیں جو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ان کو مکمل کرنے کی توفیق ملے.“ (الفضل انٹر نیشنل ۱۹ ستمبر ۲۰۰۳ء) اس ادارے نے تادم تحریر حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ ۱۹۸۸ء تک چھ ، جلدیں شائع کی ہیں.اسی طرح خطبات عید ین اور حضور کی قبلاز خلافت کی تمام تقاریر و کتابی شکل میں شائع کر دیا ہے نیز حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے شہدائے احمدیت کے تمام خطبات کو شہدائے احمدیت“ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیا ہے.نور فاؤنڈیشن سید نا حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بی ادارہ ۲۰۰۵ء میں قائم فرمایا جس کے قیام کا مقصد حضرت خلیفہ امسیح الاول کی یاد میں کتب احادیث نبوی کا اردو تر جمہ کرنا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس شعبہ کے تحت اب تک صحاح ستہ کا ابتدائی اردو ترجمہ کا کام مکمل ہو گیا ہے.جس کی نظر ثانی کا کام بڑی تیزی سے ہورہا ہے.نور فاؤنڈیشن کے تحت اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحیح مسلم کی ۸ جلد میں معہ ترجمہ شائع ہو چکی ہیں جبکہ نویں جلدز بر طبع ہے.اس طرح اس ادارے کے تحت شمائل ترمذی کے حصہ کا بھی اردو ترجمہ شائع ہو چکا ہے.الحمد للہ علی ذلک
314
315 باب ہشتم خدمت خلق کے بعض ادارے اور احمد یہ ایسوسی ایشنز
316
317 فضل عمر ہسپتال ربوہ حضرت بانی سلسلہ احمد یہ اپنے منظوم فارسی کلام میں اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.مرا مطلوب و مقصود و تمنا خدمت خلق است ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسم ہمیں راہم یعنی میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش خدمت خلق ہے.یہی میرا کام، یہی میری ذمہ داری، یہی میرا فریضہ اور یہی میرا طریقہ ہے.یہی وجہ ہے کہ مخلوق خدا سے ہمدردی اور ان کی مصیبتوں کو دور کرنا جماعت احمدیہ کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے.چنانچہ شرائط بیعت میں شامل ہے کہ:.عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے گا.“ ہمدردی بنی نوع انسان کے سلسلہ میں ہی حضرت بانی سلسلہ تحریر فرماتے ہیں کہ:.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہر اوے اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے.اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ بیٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چار پائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں.اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی مدد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سو رہوں بعد اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں.اور اگر میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کوئی سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے.“ شہادت القرآن ص ۹۹-۱۰۰) حضرت مفتی محمد صادق صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودا کثر فرمایا کرتے تھے کہ:.”ہمارے بڑے اصول دو ہیں.اول خدا کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور دوسرے اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا.“ (ذکر حبیب ص۱۸۰)
318 یہی وہ تعلیم تھی جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ نے جذبہ ہمدردی سے سرشار ہوکر سب سے زیادہ توجہ خدمت خلق کی طرف دی.چنانچہ خدمت خلق جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے.مخلوق خدا سے ہمدردی کا ایک طریق بیماروں کی دیکھ بھال ان کی عیادت و تیمار داری انہیں ہر ممکن علاج مہیا کرنا اور صحت یابی کے مراحل طے کرنے میں ان کو مدد دینا.آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ بیمار کا علاج ضرور کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لئے شفاء رکھی ہے.پس اگر بیماری کی صحیح دوامل جائے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے بیمار تندرست ہو جاتا ہے.یوں بسا اوقات ایک فرد کی زندگی کو بچانے کے نتیجہ میں شفا پانے والا ساری انسانیت کو زندہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے.چنانچہ اسی مقصد کے تحت جماعت احمدیہ نے محض خدمت خلق کے جذبہ سے کئی بڑے بڑے ہسپتال اور بنیادی طبی مراکز قائم کر رکھے ہیں.اس سلسلہ میں براعظم افریقہ نے غیر معمولی حصہ پایا ہے.پاکستان میں بھی خاص طور پر نگر پارکر سندھ اور دیگر کئی مقامات پر جماعت احمد یہ طبی مراکز قائم کر کے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں علاج معالجہ سے محروم اور دکھی انسانیت کی زندگیوں کو بچانے میں دن رات مصروف عمل ہے.فض عمر ہسپتال کا نام جماعت اور غیر جماعت دوستوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں.یہ ہسپتال حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ امسیح الثانی کی خاص توجہ سے ۲۰ فروری ۱۹۵۶ء میں قائم ہوا اور حضور کے نام ہی سے منسوب ہے جو ساڑھے سینتیس کنال رقبہ پر پھیلا ہوا ہے.اس ہسپتال کو قائم کرنے کی بنیادی غرض انسانیت کی بلا تمیز رنگ ونسل اور مذہب وملت خدمت بجالانا ہے.اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے دن رات یہ ہسپتال ترقی کی منازل طے کر رہا ہے.اور خلافت کی خاص توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع ” نے آغا ز خلافت ہی سے ہسپتال کی ترقی کے لئے ذاتی دلچسپی لی.اور اپنی ہدایات اور راہنمائی سے نوازا.اسی سلسلہ میں حضور نے برموقع جلسہ سالانہ ۱۹۸۳ء میں فرمایا :.خواہش یہ ہے اور دعا یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا ہسپتال بہترین ہسپتال ہو.کارکنوں کے اخلاق کے لحاظ سے بھی اور کردار کے لحاظ سے بھی کہ وہ اپنے مریضوں کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں اور دوا پر انحصار نہ کرنے والے ہوں.اس لحاظ سے غریب کی گہری ہمدردی پائی جاتی ہے.اس لحاظ سے بھی کہ فنی ماہرین بھی یہاں چوٹی کے ہوں.“ ( الفضل ۱۲ را پریل ۱۹۸۴ء) یہ بات درست ہے کہ مادی وسائل کے لحاظ سے یہ ہسپتال بہت معمولی حیثیت رکھتا ہے.مگر یہ ہم دعوی کر سکتے ہیں کہ کارگزاری اور شفایابی کے لحاظ سے مثالی ہسپتالوں سے کسی طرح کم نہیں.احمد یہ ہسپتالوں اور طبی مراکز کو دیگر ہسپتالوں کی نسبت جو ممتاز حیثیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ احمدیہ
319 ہسپتالوں کے کارکن جس جذ بہ ہمدردی کے تحت اپنی زندگیاں وقف کر کے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے مریضوں کے لئے درد دل سے دعائیں کرنے والے ہوتے ہیں اور دوا کی نسبت دعا پر زیادہ یقین رکھتے ہیں.یہی وہ راز ہے جس کے باعث احمد یہ ہسپتال اور احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں خدا نے شفار کھی ہے.پوری دنیا میں بنیادی طور پر ہسپتال بیماروں کے علاج کے لئے ہی بنائے جاتے ہیں مگر اکثر ہسپتال اس بنیادی مقصد کے علاوہ پیسہ کمانے کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں.امریکہ میں کئی ہسپتال نان پرافٹ آرگنائزیشن (یعنی بغیر منافع کمائے ) چلاتی ہیں مگر وہاں بھی ہسپتال چلانے کا اکثر بوجھ مریضوں کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے.اسی طرح ہمارے ملک میں اور دوسرے ترقی پذیر ممالک میں اکثر سرکاری ہسپتال ہوتے ہیں جن کا خرچ سرکار برداشت کرتی ہے.مگر اس کے برعکس فضل عمر ہسپتال کو چلانے کے لئے ایک کثیر رقم صدر انجمن احمد یہ خرچ کرتی ہے.اور مخیر احمدی حضرات بھی اس کی اعانت کے لئے دل کھول کر عطیات دیتے ہیں.اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سالوں فضل عمر ہسپتال پر تقریباً کئی کروڑ روپے خرچ ہوئے جو مریض علاج کا خرچ بالکل برداشت نہیں کر سکتے ان کا علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے.اور جن لوگوں میں جتنی استطاعت ہوتی ہے وہ اس کے مطابق بخوشی ادا ئیگی کر سکتے ہیں.ترقی یافتہ ممالک میں جتنے بھی ہسپتال کا میابی سے چل رہے ہیں ان ہسپتالوں کی کارکردگی کا ڈھانچہ دو بڑے شعبوں میں تقسیم ہوتا ہے.ا.انتظامیہ.۲.طبی شعبہ جات انتظامیہ: فضل عمر ہسپتال کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے انتظامی شعبہ جات کی مؤثر نگرانی کے لئے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے ۱۹۸۷ء میں ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ منظور فرمایا.انتظامیہ کے سپر دفضل عمر ہسپتال سے متعلق ہدایات اور پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا روز مرہ کی ضروریات پورا کرنا اور ہسپتال کے آمد وخرچ کا حساب رکھنا شامل ہے.کسی بھی ہسپتال کو احسن طریق پر چلانے کے لئے اس کا مالیاتی نظم ونسق کامیابی کی کنجی ہوتا ہے.اس سلسلہ میں ہسپتال کی موجودہ انتظامیہ نے اس شعبہ میں کئی اصلاحات کر کے ایک مالیاتی حکمت عملی کا عمدہ نظام وضع کیا جس میں بجٹ کا طریق کار.بجٹ کی منصوبہ بندی، وصولی کا طریق کار اور دیگر نظام حسابات کو قائم کرنا.اس سارے نظام کو قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علاج معالجے کے اعلیٰ معیار کے ساتھ اس پر اٹھنے والے اخراجات کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کرے.
320 طبی شعبہ جات:.طبی شعبہ جات کے ذمہ مریضوں کو تمام طبی سہولتوں کی فراہمی ہے.ہسپتال عملہ میں یورپ کے تربیت یافتہ سپیسٹ شامل ہیں اور تمام عملہ محض خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے فرائض بجالاتا ہے.اس شعبہ میں کام کرنے والوں کا ماٹو آمد نہیں بلکہ خدمت اور دعا ہے.خدا کے فضل سے علاج معالجے کے سلسلہ میں بنیادی طبی ضروریات کافی اچھی کوالٹی میں موجود ہیں.تا ہم ترقی اور اصلاح کی گنجائش تو ہر وقت ہی رہتی ہے مگر اصل مقصد تو یہ ہے کہ کم سے کم خرچ کر کے بہترین نتائج حاصل ہوں.کلینیکل لیبارٹری: کسی بھی ہسپتال میں ایک اچھی لیباٹری کا ہونا نہایت ضروری ہے.ایک اچھی لیبارٹری ہسپتال کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے.اگر لیبارٹری بروقت اور درست رزلٹ دے گی تو ڈاکٹر ز کو بیماریوں کی تشخیص کے لئے کافی حد تک ممد و معاون ہوگی.ایک اچھی لیبارٹری میں نئی اور اعلی قسم کی مشینیں موجود ہوں ان کو چلانے کے لئے اعلیٰ تربیت یافتہ عملہ جوکہ لیبارٹری ٹیکنیشن اور لیبارٹری اسٹنٹ پر مشتمل ہو.پھر اس لیبارٹری کی عمارت ، صفائی اور باقی ساز وسامان کس قسم کا ہے.ان تمام پہلوؤں سے فضل عمر ہسپتال کی لیبارٹری کی کارکردگی خدا کے فضل سے تسلی بخش ہے.اس لیبارٹری میں روزانہ اوسطاً ۲۰۰ کے قریب (Sapmles) ٹسٹ کے لئے آتے ہیں.اکثر ٹیسٹ کی رپورٹ اگر نمونہ دیا جائے تو دو پہر تک تیار ہو جاتا ہے.البتہ کلچر ٹیسٹ کے لئے تو کم از کم ۲۴ سے ۴۸ گھنٹے کا وقت لازمی درکار ہوتا ہے.یہ دیکھنے کے لئے کہ اس لیبارٹری کے دیئے ہوئے ریزلٹ کتنے (Reliable) ہیں.ان کو شوگر ، یورک ایسڈ اور پروٹین کے مختلف نمونے دیئے گئے اور یہی نمونے لا ہور اور کراچی کی مشہور لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروائے گئے.ان تمام کے رزلٹ ایک جیسے ہی تھے.۲۰ فروری ۲۰۰۳، کوفضل عمر ہسپتال میں زبیده بانی ونگ کا افتتاح ہوا جو خواتین کے علاج کے لئے بہت عمدہ اور جدید ترین سہولیات سے مرصع ہے.
321 طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے نام مبارک سے منسوب اور سید نا حضرت خلیفتہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زریں ہدایات کے تحت تعمیر ہونے والا طا ہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ احاطہ فضل عمر ہسپتال ربوہ میں قائم ہے جو چھ منزلوں پر مشتمل ہے اور ایک لاکھ ۲۰ ہزار ۴۵۷ مربع فٹ مسقف حصہ پر پھیلا ہوا ہے.اس کا شعبہ آؤٹ ڈور ۵ ستمبر ۲۰۰۷ ء سے مریضوں کے لئے کھولا گیا.یکم اکتوبر ۲۰۰۷ء سے انڈور (Indoor) مریضان اور ایمر جنسی شعبہ کا آغاز ہوا.۱۵ نومبر ۲۰۰۷ء سے ڈائیگناسٹک اینڈ انٹرویشنل پروسیجرز یعنی اینجیو گرافی ، انجیو پلاسٹی اور پیس میکر کے تحت ہونے والے آپریشنز کی تعداد اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زائد ہوچکی ہے.پاکستان کے چند بڑے دل کے ہسپتالوں میں شمار ہونے والے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ نے اتنے کم وقت میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور صرف ترقی کی منازل ہی طے نہیں کیں بلکہ معیاری آلات اور سامان کی وجہ سے پاکستان بھر میں بہت جلد شہرت حاصل کر چکا ہے.اسی لئے پاکستان کے دور ونزدیک کے چھوٹے بڑے شہروں سے مریض یہاں آتے ہیں اور شفا پا کر جاتے ہیں.یہ تمام کامیابی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل ، حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں، براہ راست نگرانی ، اس پراجیکٹ کیلئے مالی قربانی کرنے والوں اور محترم پروفیسر ڈاکٹر میجر جنرل (ر) محمد مسعود الحسن نوری صاحب ( پاک فوج کے مشہور ماہر امراض قلب و تمغہ امتیاز ملٹری ایڈ منسٹر طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ اور ان کی ٹیم کی دن رات انتھک محنت اور لگن کی وجہ سے ہے.سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ امریکہ کے موقع پر اپنے اختتامی خطاب فرموده ۲۲ جون ۲۰۰۸ء میں طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کا ذکر فرمایا.حضور انور نے فرمایا طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ کی تعمیر میں جماعت احمدیہ امریکہ نے ۶۰ فیصد سے زیادہ مالی قربانی میں حصہ لیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے.یہ ہسپتال ضرورت مندوں اور مستحقین کے لئے بنایا گیا ہے.اسی طرح حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۰۹ء کے موقع پر طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کی کارکردگی اور اس ہسپتال کے لئے ڈاکٹر ز کو وقف کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.’اس حوالے سے میں احمدی ڈاکٹروں کو ایک یہ تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں جو پاکستان میں بھی
322 ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں کہ اگر وہ وقت دے سکتے ہیں بلکہ اگر نہیں بھی دے سکتے تو قربانی کے جذبے کے تحت کچھ عرصے کے لئے اپنے آپ کو ظاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے پیش کریں.طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ میں بڑا اچھا کام کر رہا ہے.اردگرد کے علاقے میں احمدیوں اور غیر احمدیوں میں اس کی بڑی ساکھ ہے.بلکہ ایسے ایسے معجزانہ کیسز ان کے ہوتے ہیں کہ ڈاکٹر ز حیران ہوتے ہیں کہ اتنے اچھے رزلٹ تو آ ہی نہیں سکتے.جب سے یہ شروع ہوا ہے.یعنی ۱۸ ماہ میں ان کے پاس ۶۵ ہزار مریض آئے اور ے ہزار ۵۰۰ ان کے پروسیجر ز ہوئے ہیں.انٹر ویشنل پروسیجر ز۱۷۵۰، ۱ ینجیو پلاسٹی ۵۰۰ اور بائی پاس آپریشنز ۱۲۵.لیکن ڈاکٹروں کی اور پیرا میڈیکل سٹاف کی وہاں بہت کمی ہے گو پیرا میڈیکل سٹاف کی کمی تو کسی نہ کسی طریقہ سے ٹریننگ دے کے ،شارٹ کورسز کرا کے پوری کر رہے ہیں لیکن ڈاکٹروں کو میں تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ مغربی ممالک سے چاہے وہ تین تین مہینے کے لئے جائیں اور پاکستان کے ڈاکٹر کم از کم تین سال سے چھ سال تک کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں.اتنا زیادہ بوجھ ہے کہ جو موجودہ ۱۵،۱۴ ڈاکٹر ز کا سٹاف ہے ان کو بعض دفعہ صبح سے لے کر رات عام حالات میں بھی ۷، ۸ بجے تک کام کرنا پڑتا ہے اور جب پروسیجر ز ہورہے ہوں تو بعض دفعہ ڈاکٹر ز صاحبان جو سپیشلسٹ ہیں وہ رات کے دو، دو بجے تک کام کرتے رہتے ہیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جب سے ربوہ میں یہ ہسپتال شروع کیا گیا ہے یہ اہل ربوہ اور اردگرد کے علاقے کے لئے ہے ایک تو آپ کے پروفیشن میں ترقی ہوگی اور دوسرے خدمت خلق اور خدمات انسانیت جس کے لئے اس پروفیشن کو ایک احمدی ڈاکٹر کو اختیار کرنا چاہئے اس کو بھی آپ پورا کرنے والے بھی ہوں گے.اس لئے احمدی ڈاکٹر ز ، خاص طور پر کارڈیالوجسٹ ، ہارٹ سرجن اور انستھیز یا والے اپنے آپ کو طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے پیش کریں.(الفضل ۳ را گست ۲۰۰۹ء) اللہ تعالیٰ اس ہسپتال کو حضور انور کی اس خواہش کے مطابق خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور جملہ خدمت کرنے والوں کو احسن جزا عطا فرمائے.آمین 66 نورالعین دائرة الخدمة الانسانیہ ربوہ اس ایسوسی ایشن کی بنیاد نومبر ۲۰۰۰ ء میں رکھی گئی.اس ایسوسی ایشن کا بنیادی مقصد کار نیا ( آنکھ کے بیرونی پردے کی بیماری کا شکار نابینا افراد کو بینائی فراہم کرنا ہے.کیونکہ ہمارے ارد گرد ایسے بے شمار افراد
323 موجود ہیں جن کی آنکھ کا تمام اندرونی نظام تو درست ہے لیکن کسی بیماری یا چوٹ کی وجہ سے ان کی آنکھ کا بیرونی پر دہ یعنی کا رنیا متاثر ہو جاتا ہے.ایسے افراد کو اگر صحت مند کار نیا مل جائے تو ان کی آنکھیں دوبارہ روشن ہو سکتی ہیں.دنیا کے بعض ممالک مثلاً سری لنکا میں وفات کے بعد کا رنیا عطیہ (Donate) کرنے کا تصور موجود ہے جبکہ پاکستان میں کارنیا عطیہ (Donate) کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے.محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو یہ توفیق مل رہی ہے کہ نور آئی ڈونرز ایسوسی ایشن و آئی بنگ کے تحت احباب جماعت کو عطیہ چشم کی وصیت کے ذریعے آئی ڈونر بنایا جاتا ہے اور وفات کے بعد حاصل شده صحت مند کار نیا مستحق نابینا افراد کو پیوند کر دئے جاتے ہیں.نور آئی ڈونرز ایسوسی ایشن کے تحت اب تک ۱۵۰۰۰ سے زائد احباب جماعت عطیہ چشم کی وصیت کر کے با قاعدہ آئی ڈونرز بن چکے ہیں.گزشتہ چار سالوں میں کارنیا کی پیوند کاری کے۱۰۰ سے زائد آپریشنز ہو چکے ہیں جن کے مجموعی نتائج تسلی بخش ہیں.ربوہ برانچ کے علاوہ نور آئی ڈونرز ایسوسی ایشن کی پاکستان بھر میں کل ۲۶ برانچز ہیں جو مرکز کی زیر نگرانی کام کر رہی ہیں.اب تک ۵ برانچز لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی ، سرگودھا اور جھنگ سے بھی کا دنیا حاصل کئے جاچکے ہیں.نور آئی ڈونرز ایسوسی ایشن کا ابتدائی دفتر ایوان محمود میں مرکز عطیہ خون کی پرانی عمارت کی بیسمنٹ میں قائم کیا گیا تھا جواب الحمد للہ اس کی عمارت میں منتقل ہو گیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس نئی عمات کا نام از راہ شفقت ” نورالعین دائرۃ الخدمة الانسانیة عطافرمایا ہے.موجودہ عمارت فضل عمر ہسپتال کے سامنے واقع ہے.اس کی عمارت میں ایک گراؤنڈ فلور ہے.جس میں درج ذیل دفاتر ہیں.مرکز عطیہ خون تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا سنٹر ۲ عدد لیبارٹریز ڈاکٹر انچارج آفس ) ایڈمن آفس جنریٹر روم (KV.50) بلڈ بینک ربوہ انتظارگاه حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی اجازت سے خدام الاحمدیہ پاکستان نے پہلے ۲ جولائی ۱۹۴ء کو حاطہ بیت المہدی گولبازارر بوہ میں مرکز عطیہ خون قائم کیا.بعد ازاں احاطہ ایوان محمود میں اس کار خیر کے لئے ایک مستقل عمارت تعمیر کرنے کی توفیق پائی.پھر کام میں مزید وسعت پیدا ہوگئی.
324 اب یہ بلڈ بینک "نور العين دَائِرَةُ الخِدْمَةِ الْإِنْسَانِيَةَ“ کی عمارت میں قائم ہے.بلڈ بینک کی خدمات بلڈ بنک کے تحت درج ذیل کام کئے جاتے ہیں :.متقابل کی بنیاد پر خون مہیا کرنا.کوالٹی کا خیال رکھنا.خون کی سکریننگ کر کے صحت مند خون مہیا کرنا Hepatitis VDRL,HIV, B,C(سفلس ) کے لئے بلڈ سکرینگ کی جاتی ہے) بلڈ پروڈکٹس بنائی جاتی ہیں.ایک ہول بلڈ یونٹ سے درج ذیل پروڈکٹس بنائی جاتی ہیں.اس کے لئے انٹر نیشنل سٹینڈرڈ کی مشینری خرید لی گئی ہے.( یہ سارے کام الحمد للہ شروع ہو چکے ہیں ) Packed Red Cells Platelets پیلے ذرات (Plasma) پلازمہ ( پانی والا حصہ ) کرائیو پریسپیٹ (Cryoprecipitete) Packed Red Cells سے واشنڈ سرخ ذرات بنائے جاتے ہیں اور پلازمہ سے Cryoprecipitete بنائے جاتے ہیں جو کہ ہیموفیلیا کے مریضوں کے کام آتے ہیں.اس طرح اب ہم ان پروڈکٹس کی وجہ سے تھیلیسما اور ہیموفیلیا کے مریضوں کا علاج کرسکیں گے اور ساتھ ساتھ ان پروڈکٹس کے حوالہ سے مختلف ضروریات بھی پوری کر سکتے ہیں.تھیلیسمیاو ہیموفیلیا کے مریضوں کے لئے مندرجہ ذیل سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں.(۱) فری ٹرانسفیوژن کی سہولت (۲) فری علاج کی سہولت پیتھالوجی لیبارٹری میں ایمر جنسی ٹیسٹوں کے علاوہ تقریباً سارے روٹین ٹیسٹ کئے جاتے ہیں.مثلاً T.F.T ( تھائیراڈ فنکشن ٹیسٹ) Hepatitis اور ایڈز کے ٹیسٹ بھی کئے جاتے ہیں.L.F.T (لیورفنکشن ٹیسٹ).یوریا Urea Creatinine یورک ایسڈ لیول ASOTR.A Factor کولیسٹرول Cholestrol شوگر کے ٹیسٹ CBC Urine.Re Stool/Re وغیره
325 ادارہ دار الصناعة کا قیام سیدنا حضرت مصلح موعود نے نوجوانوں میں صنعت و حرفت کا شوق پیدا کرنے کے لئے محلہ دارالبرکات قادیان میں دار الصناعۃ کا کارخانہ قائم کیا.جس میں لکڑی ، لو ہے اور چمڑے کا کام سکھایا جا تا تھا.جب ابتدائی انتظامات مکمل ہو گئے تو ۲ مارچ ۱۹۳۵ء کو حضور انور بنفس نفیس تشریف لے گئے.اس موقع پر حضور انور نے اپنے ہاتھ سے زندہ لے کر خود اپنے دستِ مبارک سے لکڑی صاف کی اور آری سے اس کے دو ٹکڑے کر کے سیکھنے والے بچوں کے دل میں خود کام کرنے کے جذبہ کی عزت کو بڑھایا اور ثابت کیا کہ اپنے ہاتھوں سے کوئی کام کر نا ذلت نہیں بلکہ عزت کا موجب ہے.اس سلسلے میں مکرم مولوی عبد الرحمان صاحب انور تحریر فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار مکرم مولوی عبد الله بو تالوی مرحوم ان دنوں سپر نٹنڈنٹ دار الصناعۃ تھے انہوں نے اس برادہ اور سختی کو محفوظ کر لیا تھا اور ایک شیشے کے فریم میں رکھ کر فریم پر یاد گار افتتاح دار الصناعة لکھ کر دفتر میں لٹکا دیا تھا کہ بعد میں آنے والے نوجوانوں کے لئے بھی سبق کا موجب ہو.لیکن ۱۹۴۷ء کے بعد وہ فریم قادیان ہی میں رہ گیا.(الفضل ۱۶ فروری ۲۰۰۶ء) دار الصناعۃ کے قیام کے لئے حضرت مصلح موعود جس طرح کوشش فرما رہے تھے.اس کی ایک ہلکی سی جھلک مکرم مولوی عبد الرحمن انور صاحب کے الفاظ سے ملاحظہ فرمائیے.آپ لکھتے ہیں.حضور انور نے اپنے اس نظریہ کا کئی دفعہ اظہار فرمایا تھا کہ آدمی کے لئے کسی کام کے سیکھنے سے کلی طور پر معذوری کا اظہار نامناسب ہے.ہر کام براہ راست یا بالواسطہ سرانجام دیا جا سکتا ہے.چنانچہ عملی صورت ایک دفعہ یہ ہوئی کہ کانگریس کے زیر اہتمام و ٹھل نگر علاقہ بمبئی میں اخبارات میں ایک صنعتی نمائش کے انتظام کے لئے بہت پراپیگنڈہ تھا.ان دنوں دار الصناعة کے ضمن میں صنعتی معلومات حاصل کرنے کی غرض سے حضور نے خاکسار کو اس نمائش کے دیکھنے کے لئے ارشاد فرمایا اور خاکسار کے ساتھ دو گریجویٹ واقفین زندگی مکرم چوہدری خلیل احمد ناصر صاحب اور مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کو بھجوایا تا کہ اگر وہاں لیڈروں سے ملنے کا موقع ہو یا صنعتی نمائش کے موقع پر ترجمان کی ضرورت ہو تو اس سے کام لیا جاوے.“ (ماہنامہ خالد جولائی ۱۹۷۰ ء ص ۱۹) مکرم پروفیسر مبارک احمد انصاری صاحب اس ادارہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.حضور کو ہمیشہ یہ خیال رہتا کہ لوگ بریکارنہ رہیں.اگر تعلیم حاصل نہ کر سکے ہوں تو کوئی نہ کوئی پیشہ حرفت وغیرہ کا ضرور اپنا ئیں جس کے ذریعہ روزی کمائیں اس غرض سے حضور نے قادیان میں ایک ادارہ کی بنیا د رکھی
326 جس کا نام دار الصناعة تجویز کیا.یہ ادارہ ایک وسیع و عریض دو منزلہ عمارت میں قائم کیا گیا جو حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب مربی مغربی افریقہ کی ملکیت تھا اور محلہ دار الفضل میں واقع احمد یہ فروٹ فارم کے قریب تھا احمد یہ فروٹ فارم کا انتظام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے سپرد تھا.اس فارم میں قسم ہا قسم کے قلمی آموں کے درخت تھے.جن کا پھل ہر سال نیلام ہو کر بڑے بڑے شہروں کو جاتا تھا.میرے نانا حضرت مولوی محمد عبد اللہ بوتالوی جو حضرت مسیح موعود کے رفیق تھے جب محکمہ نہر کی ملازمت سے ریٹائر ہوکر قادیان آگئے تو حضور نے ان کو دار الصناعت کے ہوٹل کا سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا.دار الصناعۃ میں جو کام سکھائے جاتے تھے وہ تین طرح کے تھے.ایک شعبہ میں بوٹ سازی کا کام سکھایا جاتا تھا.جس کے لئے ایک ماہر کاریگر کو آگرہ یا کانپور سے ٹرینگ دینے کی غرض سے بلا یا گیا تھا.جن کا نام خوشحالی رام تھا.بہت بامذاق آدمی تھے.طرز اور رہن سہن پور بیوں والا تھا.قدرے نیچے کو جھکی ہوئی بڑی بڑی مونچھیں.جسم دبلا پتلا ناریل کا حقہ یا چلم پیتے تھے.چونکہ یہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اس لئے اکثر مجھے سے اپنے بیٹے گھاسی رام کو خط لکھوایا کرتے تھے.یہ نام عجیب ہونے کی بنا پر یادر ہا.دوسرے شعبہ میں لکڑی کا کام سکھانے کا انتظام تھا.اس شعبہ کے انچارج میاں نذیر احمد صاحب تھے جو لکڑی کے بہت اچھے کاریگر تھے.جب ۱۹۵۴ء میں ربوہ میں تعلیم الاسلام کالج کی عمارت تعمیر ہوئی تو لیبارٹریوں کی میزیں، فرنیچر اور لکڑی کا دوسرا کام انہیں کی زیر نگرانی کیا گیا.میاں نذیرمحمد صاحب بریمپٹن کے سابق پریذیڈنٹ منور احمد میاں صاحب کے والد محترم تھے.دار الصناعۃ کے لکڑی کے شعبہ میں بڑھیوں کے عمومی کام کے علاوہ فرنیچر کی تیاری کا کام بھی سکھا یا جا تا تھا اور وہاں نہایت اعلیٰ درجہ کا فرنیچر تیار ہوتا تھا.جس کی تیاری میں دیار ہشیشم اور ساگوان کی لکڑی استعمال کی جاتی تھی.تیسرے شعبہ میں لوہے کا کام سکھایا جاتا تھا اور اس کے دو حصے تھے.ایک میں عام لوہار کا کام اور دوسرے میں چاقو بنانے سکھائے جاتے تھے.چاقوؤں والے حصہ کے انچارج صوفی محمد رفیق صاحب تھے جو فیروز پور کے چاقوؤں کے مشہور کارخانہ مستری چراغ دین اینڈ سنز میں بھی کام کرتے رہے تھے.آپ محمد سعید احمد صاحب انجینئر لاہور کے والد محترم اور تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے اردو کے پروفیسر اور شاعر مبارک احمد عابد صاحب کے چچا تھے.اسی دار الصناعۃ کے ذکر میں ایک واقعہ کا بیان دلچسپی سے خالی نہ ہوگا اور وہ واقعہ یوں ہے کہ ایک روز جب میں دار الصناعۃ میں گیا تو وہاں میں نے سرخ و سفید ایک خوش شکل لڑکے کو دیکھا جو مجھ سے تین چار سال بڑا معلوم ہوتا تھا.اس نے بہت عمدہ قسم کا لباس پہن رکھا تھا جو اس پر بہت بیچ رہا تھا.اس کے ہاتھ کی انگلی سے
327 خون بہہ رہا تھا جس کو بند کرنے کے لئے دوسرے ہاتھ سے دبا رکھا تھا.زخم کی وجہ کوئی تیز دھار آلہ تھا کسی نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو اس نے عجیب لہجہ میں جواب دیا کہ انگل وڈھی گئی، مجھے اس کا لہجہ بہت عجیب لگا جو اس کی شکل اور لباس سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا تھا.میں کبھی اس کے چہرہ اور لباس کی طرف دیکھتا اور کبھی اس کے لہجہ کی طرف توجہ دیتا.مجھے دونوں میں کوئی مطابقت نہ دکھائی دی.مجھے اس وقت تو کچھ علم نہ تھا کہ یہ لڑکا کون ہے البتہ یہ راز مجھ پر بہت بعد میں اس وقت کھلا جب پارٹیشن کے بعد میں تعلیم الاسلام کالج لاہور میں تعلیم پا رہا تھا اور ایک روز ہمارے کالج میں محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب جو اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی کے شعبہ کے صدر تھے ایک لیکچر دینے تشریف لائے.انہیں دیکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ یہ تو وہی لڑکا ہے جس نے کہا تھا.انگل وڈھی گئی.بعد میں اس بات کا بھی علم ہوا کہ محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب، حکیم فضل الرحمن صاحب کے بھانجے ہیں جن کی ملکیتی عمارت میں دار الصناعۃ قائم کیا گیا تھا.میں نے دوسری اور تیسری جماعت قادیان سے پاس کی.چوتھی اور پانچویں جماعت فیروز پور سے اور چھٹی جماعت میں پھر قادیان آ گیا.جب داخلہ کی غرض سے میں اپنے والد صاحب کے ساتھ ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہاں ہیڈ ماسٹر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب جو بعد میں خلیفہ اسیح الثالث ہوئے موجود تھے.جنہوں نے مجھے داخلہ دیا.غالباً اس وقت وہ وہاں قائم مقام ہیڈ ماسٹر کے طور پر کام کر رہے تھے.کچھ عرصہ بعد سکول کے اصل ہیڈ ماسٹر حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی جن کا شمار ۳۱۳ رفقاء میں ہوتا ہے نے ہیڈ ماسٹر کا چارج لے لیا اور اپنی ریٹائر منٹ تک وہاں ہیڈ ماسٹر رہے.دار الصناعة کا احیائے نو یہ اللہ تعالیٰ کا سراسر فضل و احسان ہے کہ سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۱۹۳۵ء میں قادیان کی مبارک بستی میں نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھانے اور مفید شہری بنانے کے لئے جس ادارہ کی بنیاد رکھی تھی.مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کو از سرنو اس کے آغاز کی توفیق ملی ربوہ میں بے روزگار خدام کو ہنر سکھانے کے لئے کسی مستند ادارے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی.جس کی سفارشات چار سال قبل مرکزی مجلس شورای نے بھی سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی خدمت میں پیش کی تھی.اس پر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (جب آپ ناظر اعلیٰ تھے ) تو آپ کی خواہش پر ایک ادارے کا قیام عمل میں لائی.جس کی منظوری سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے عطا فرمائی اور از راہ شفقت اس ادارے کا نام دار الصناعة تجویز فرمایا.یہ ادارہ قومی اور موجودہ فی ضروریات کے عین مطابق علمی اور فنی تقاضوں کو مدنظر
328 رکھتے ہوئے قائم کیا گیا ہے.یہ بات بھی آج کے جدید دور میں نہایت واضح ہے کہ ملک کی ترقی ٹیکنیکل تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن نہیں اور حصول تعلیم خصوصی بنیادوں پر اس لئے ضروری ہے کہ ملک سے پسماندگی، غربت اور بے روزگاری کو ختم کیا جا سکے اور مجموعی طور پر عوام کا معیار زندگی بلند کیا جا سکے.اس لئے اس امر کی شدت سے ضرورت ہے کہ درسی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل تعلیم کے حصول کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے.ادارہ دار الصناعۃ کے درج ذیل مقاصد ہیں.ا.بے روز گار افرادکو نہ صرف ہنر سکھانا بلکہ باعزت روزگار کے حصول میں ممکن حد تک مددفراہم کرنا.۲.بڑھتی ہوئی فوری ضرورت کے لحاظ سے پروفیشنلز مہیا کر ناجو ملک کی قومی صنعتی اور معاشی ترقی میں بھر پور کردار ادا کریں.۳.بے کار افراد کو کار آمد اور مفید شہری بنا کر معاشرہ کا ایک اہم فرد بنانا اور اس کے ساتھ ساتھ آنے والے اوقات اور آئندہ نسلوں کو مکمل تربیت و ہنر اور اعلیٰ مہارت سے آراستہ کر کے ان کو ملکی ترقی کیلئے فعال بنانا.۴.بڑھتے ہوئے قومی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے فنی اور تکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا.۵.طلباء کو اعلی معقول اور مناسب آدمی کے حصول کے ذریعے اپنے خاندان اور ملک وقوم کی بہتر طور پر خدمت بجالانے کے اہل بنانا.مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی بھر پور کوشش ہے کہ ادارہ دارالصناعۃ میں جماعت احمدیہ کے فارغ التحصیل نوجوان یا ایسے نوجوان جو اپنی تعلیم کسی بھی وجہ سے جاری نہیں رکھ سکے.انہیں مختلف ٹریڈز میں فنی تربیت دے کر اس قابل بنایا جا سکے کہ کوئی نو جوان بیکار نہ رہے اور ادارے سے فارغ ہونے کے بعد زینہ بہ زینہ کامیابیاں حاصل کرتا رہے.کلاسز کا آغاز اس ادارہ نے فوری ضرورت کے تحت ایک عمارت ( فیکٹری ایریا ) ربوہ میں کرایہ پر حاصل کر کے کام کا آغاز کیا اور ۱۵ فروری ۲۰۰۴ ء سے با قاعدہ آٹو مکینیک کی کلاس شروع ہوئی جبکہ مئی ۲۰۰۴ ء سے آٹو الیکٹریشن، جنرل الیکٹریشن ، کوکنگ اور کارپینٹر کی کلاس کا اجراء ہوا.(رساله خالد نومبر ۲۰۰۴ ء ص ۳۵) مورخه ۱۹ستمبر ۲۰۰۴ء کو شام ۷۳۰ بجے دار الصناعة ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا.جس میں آٹو مکینک کی پہلی کلاس میں کامیاب ہونے والے طلباء میں سندات تقسیم کی گئیں یہ نہ صرف پاکستان بلکه بیرون از پاکستان بھی ملازمت کے حصول میں محمد ہوں گی.1-AM کے فائنل امتحان میں ۴۳ طلباء شامل ہوئے.جن میں سے ۴۰ طلباء کامیاب قرار پائے.یوں پہلی کلاس کا نتیجہ ۹۳% فیصد رہا.
329 اس ادارہ میں بعض ایسے ٹریڈ ز سکھانے کا کام جاری ہے.جس کی معاشرے میں بہت مانگ ہے نیز انم (Income) کا بہت بڑا ذریعہ ہے.اس امر کے پیش نظر دار الصناعة ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ میں آج کل پلمبنگ ، آٹو مکینک ، آٹو الیکٹریشن، جنرل الیکٹریشن ریفریجریشن وائر کنڈیشننگ اور ووڈورک کی صبح اور شام کی کلاسز جاری ہیں آٹو مکینک کے طلباء کی عملی تربیت کے لئے فائرسٹیشن بلڈنگ میں دار الصناعہ آٹو ورکشاپ قائم کی گئی ہے.جس میں تجربہ کار ماہرین کی زیر نگرانی مختلف ادارہ جات کی گاڑیوں کے علاوہ پرائیویٹ گاڑیوں کی مرمت بھی کی جاتی ہے.ٹف ٹائلز بنانے کا ایک پلانٹ بھی ادارہ کے تحت محلہ دار الفضل میں لگایا گیا ہے جو مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے تحت تعمیر ہونے والی عمارات کے علاوہ تجارتی بنیادوں پر نہایت اعلیٰ معیار کی ٹائل بنا کر سپلائی کر رہا ہے.اب تک اس ادارہ سے ۷۰۰ سے زائد طلباء مختلف کورسز مکمل کر کے فارغ ہو چکے ہیں.جن میں سے اکثر سے زائد برسر روزگار ہو چکے ہیں اور مزید نو جوان نئی کلاسز میں کورس کر رہے ہیں ربوہ کے روحانی ماحول میں ہنر سیکھنے کے ساتھ ساتھ تربیتی پہلوؤں پر بھی نظر رکھی جاتی ہے.جو ہمارا بنیادی مقصد ہے دار الصناعۃ میں شامل کلاسز میں وقت کی مناسبت سے نماز عصر، مغرب اور عشاء باجماعت ادا کی جاتی ہیں.اس ادارہ کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کے لئے محلہ دار الفضل میں 10 کنال اراضی حاصل کی جا چکی ہے.جس میں سے دو کنال صدر انجمن احمدیہ، چار کنال وقف جدید اور بقیہ چار کنال مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے خریدی ہے.جس پر انشاء اللہ مستقبل میں دار الصناعۃ کی ایک وسیع وعریض عمارت تعمیر کی جائے گی اسی عمارت میں بیرون از ربوہ طلباء کی رہائش کے لئے ہوٹل کا بھی انتظام ہوگا.دعا کی درخواست ہے کہ خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے ادارہ کو ترقیات سے نوازے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خواہش کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین ) طاہر ہومیو پیتھک ہسپتال وریسرچ انسٹیٹیوٹ ربوہ مورخه ۲ مارچ ۲۰۰۰ ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے طاہر ہومیو پیتھک اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے قیام کی منظوری دیتے ہوئے صدر صاحب خدام الاحمدیہ پاکستان کو تحریر فرمایا کہ:.در مجلس خدام الاحمدیہ خدمت خلق کے تحت ہو میو پیتھی کے فروغ کے لئے جس وسیع منصوبے کا ارادہ رکھتی ہے میں اس کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں.بہت نیک کام ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائے.لوگ شفاء پائیں.“ (بحوالہ ماہنامہ خالد جولائی ۲۰۰۵ء)
330 یہ ادارہ پہلے کئی سال تک بیت الصادق محلہ دار العلوم غربی ربوہ میں کام کرتا رہا ہے.ظاہر ہومیو پیتھک ہاسپٹل اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تعمیر کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے دارالرحمت ربوہ میں چھ کنال آٹھ مرلے پر مشتمل قطعہ عنایات فرمایا.اس پر تعمیر ہونے والی عمارت بیسمنٹ سمیت چار منزلوں پر مشتمل ہوگی.اس میں دو بڑے ویٹنگ رومز، استقبالیہ، رجسٹریشن سیکشن، ریکارڈ روم اور OPD کے علاوہ کلینیکل لبارٹریز بھی ہوں گی.نیز چار وارڈز ، ICU ، پرائیویٹ رومز کے علاوہ ریسرچ لیبارٹریز، میوزیم اور جدید ساؤنڈ سسٹم کے ساتھ ایک بڑا کانفرنس ہال ہو گا.دیگر سہولیات میں لفٹ ، ایئر کنڈیشننگ اور بجلی کے متبادل انتظام کے لئے ہیوی جنریٹر بھی شامل ہیں.۷ار اپریل کی شام ساڑھے پانچ بجے طاہر ہومیو پیتھک ہسپتال وریسرچ انسٹیٹیوٹ واقع دارالرحمت کا سنگ بنیاد مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلی و امیر مقامی نے اینٹ رکھ کر دعا کے ذریعہ کیا.خدا کے فضل سے طاہر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں گزشتہ پانچ سالوں میں اب تک ۲۰ نئی ادویات تیار ہو چکی ہیں جن کی وسیع پیمانے پر پر دونگ اور تجربات جاری ہیں.ادویات کی بڑے پیمانے پر تیاری کے لئے ایک جدید فارمیسی بھی بنائی جارہی ہے.نیز ایک ہومیو پیتھک کالج بھی اس نئی عمارت میں قائم کیا جائے گا.مارچ ۲۰۰۷ ء کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 4 سالوں میں پاکستان بھر اور باقی دنیا سے آنے والی پانچ لاکھا کیاسی ہزار پانچ سوتر بین مریضوں کا بلا و معاوضہ علاج کیا گیا.ان میں ربوہ اور پاکستان کے دیگر ۱۹۸ شہروں سے آنے والے چار لاکھ چھیالیس ہزار چار سو پچاس اور ۴۰ مختلف ممالک سے آنے والے پانچ ہزار چار سو پچپن مریض شامل ہیں.مریضوں کو بذریعہ کوریئر سروس ادویات بھجوانے کا بھی کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا.ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس ربوہ ناصر فائر اینڈ ریسیو سروس کا قیام بھی خدمت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے.اس سروس کا بنیادی مقصد ربوہ اور گردونواح کے مقامات پر آتشزدگی یا دیگر حادثات کے مواقع پر فائر فائٹنگ اور ریسکیو ورک کی خدمات مہیا کرنا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے تحت مورخہ ۱۹ اگست تاے ستمبر ۲۰۰۰ء کو پہلی فائٹنگ کلاس کا انعقاد ہوا.نومبر ۲۰۰۰ء میں یہ فائر سروس تنظیمی طور پر فعال ہوئی.فائر سروس کا ابتدائی دفتر ایوان محمود میں مرکز عطیہ خون کی عمارت کی بیسمنٹ میں قائم کیا گیا جواب الحمدللہ نئی دو منزلہ عمارت میں منتقل ہو گیا ہے.جس میں استقبالیہ، سٹنگ لاؤنج، سپرنٹنڈنٹ آفس، فائر فائٹرز کے لئے ایک کلاس روم، گیسٹ روم، ریسٹ روم، پیچ فائر ٹرکس
331 کے لئے ہال اور ایک سٹور بنایا گیا ہے.ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس کے پاس اس وقت تین عدد فائر ٹرکس اور فائر فائٹنگ اور فرسٹ ایڈ کا ضروری سامان موجود ہے.عملے میں ایک فائر سپرنٹنڈنٹ، پانچ فائر مین، چار ڈرائیور ایک اکاؤنٹنٹ اور ایک مددگار کے علاوہ چھ دوسرے کا رکن بھی شامل ہیں.جبکہ ۴۰ سے زائد رضا کار فائر فائٹر ز آن کال ہوتے ہیں.اکتو بر ۲۰۰۳ء میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس فائر سروس کا نام ”ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس رکھنے کی منظوری مرحمت فرمائی.فائر سٹیشن کے ساتھ خوبصورت سکوائش اور ٹینس کورٹس کے علاوہ ایک ہیلتھ کلب «فضل عمر بھی بنایا گیا ہے.تمام رضا کار فائر فائٹر ز آن کال ہوتے ہیں.کسی آتشزدگی کے واقعہ کی اطلاع ملتے ہی فوری طور پران فائر فائٹرز سے رابطہ کر کے دفتر فائٹنگ ٹیم مطلوبہ مقام پر بلوالی جاتی ہے.اس کے علاوہ یہ فائر فائٹر ز دیگر اہم مواقع اور جماعتی تقاریب پر بھی ڈیوٹی دیتے ہیں.(بحوالہ ماہنامہ خالد جولائی ۲۰۰۵ ص ۳۵.۳۶) نصرت جہاں ہو میو پیتھک کلینک ربوہ لجنہ اماءاللہ ربوہ نے حضور کی اجازت سے ہومیو پیتھک کلینک قائم کیا جس کا باقاعدہ افتتاح ۲۰ دسمبر ۱۹۹۶ء کو ہوا.یہ عمارت احاطہ دفا تر لجنہ اماءاللہ ربوہ پاکستان کے احاطہ میں واقع ہے.جہاں علاج مکمل طور پر فری ہوتا ہے.۱۹ فروری ۲۰۰۳ ء کو اس کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس وقت تک ایک لاکھ سے زیادہ مریض استفادہ کر چکے تھے.ان مریضوں میں سے ایک بڑی تعداد غیر از جماعت کی ہوتی ہے.اس کلینک کا افتتاح ۱۶ را پریل ۲۰۰۵ ء کو ہوا.ہیومینیٹی فرسٹ کا قیام ( الفضل ۲۹ مارچ ۲۰۰۳ء) (الفضل ۲۷ اپریل ۲۰۰۵ء ) حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۲۸ / اگست ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن میں جماعت احمدیہ کے زیر انتظام خدمت خلق کی ایک عالمی تنظیم قائم کرنے کا اعلان فرمایا.حضور نے فرمایا اب وقت آ گیا ہے کہ جماعت احمد یہ عالمگیر سطح پر ریڈ کر اس وغیرہ کی طرز پر خدمت خلق کی ایک ایسی تنظیم بنائے جو بغیر رنگ ونسل کے امتیاز کے انسانوں کی خدمت کرے.اس میں صرف احمد یوں کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے شریف النفس انسانوں کو شامل کیا جائے گا اور سب کی مالی مدد سے اس کو چلایا جائے گا.(الفضل ۳۰ راگست ۱۹۹۲ء) چنانچہ ۱۹۹۳ء میں ہیومینیٹی فرسٹ کے نام پر ایک بین الاقوامی تنظیم کا قیام عمل میں آیا.جواب تک ۳۵
332 ممالک اور یو این او کے کئی اداروں میں رجسٹر ہو چکی ہے.( الفضل ، امئی ۲۰۰۵ء) اس نے یورپ، افریقہ اور برصغیر کے آفت زدہ علاقوں میں خدمات کا آغاز کیا.دنیا بھر میں آسمانی آفات کے موقعہ پر ریلیف کیمپ قائم کئے.افریقہ میں مستقل بنیادوں پر تعلیم کے فروغ ، غربت کے خاتمہ اور طبی میدان میں خدمات کا سلسلہ جاری ہے.حضور نے ۳۰ مئی ۱۹۹۷ ء کے خطبہ میں یہ بھی تحریک فرمائی کہ احمدی خدمت خلق کرنے والی عالمی تنظیموں کے ممبر بنیں.ہیومینیٹی فرسٹ کی خدمات گزشتہ چند سال میں ہیومینیٹی فرسٹ نے جو شاندار کارنامے انجام دیئے ہیں ان کا صرف خلاصہ پیش کیا جاتا ہے.ا.جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید کا علاقہ ۲۰۰۴ ء میں سونامی کے تباہ کن طوفان کا نشانہ بنا.اس میں خدمات سرانجام دیں.برطانیہ میں انڈو نیشین ایمبیسی نے سرکاری طور پر ہیومینیٹی فرسٹ کو امداد جمع کرنے اور انڈونیشیا بھجوانے کا کام سپر د کیا.۲.آغاز ۲۰۰۵ ء میں گیانا کے سیلاب میں خدمات.۳- اگست ستمبر ۲۰۰۵ء میں امریکہ میں قطرینہ اور ریٹا نامی سمندری طوفانوں نے تباہی مچائی.۴.۱۹۹۹ ء میں ترکی کے زلزلہ زدگان لئے خدمات.۵.بھارت کے صوبہ گجرات میں زلزلہ زدگان کی مدد.۶ پاکستان میں ۱/۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلہ میں خدمات.۷.سیرالیون ۱۹۹۱ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی سے متاثر ہونے والوں کیلئے امدادی خدمات.۱۹۹۳-۸ ء بوسنیا کی جنگ اور مہاجرین کے لئے خدمات.۹.گیمبیا میں ۱٫۲۸ یکٹر پر مشتمل تعلیمی ادارہ کا قیام.طلباء کو وظائف.۱۰.بورکینا فاسو، سیرالیون بینن ،گھانا اور گیمبیا میں کمپیوٹر کی تعلیم کے مراکز کا قیام ، عورتوں کو سلائی کی تربیت اور سلائی مشینوں کی تقسیم.۱۱.برطانیہ اور افریقہ میں ایک خاندان کی نگہداشت پروگرام کے تحت خدمات.۱۲.افریقہ میں آنکھوں کے علاج کی سہولت.سیرالیون میں ایک ہزار افراد کا علاج.
333 ۱۳.مغربی افریقہ کے دور دراز علاقوں میں واٹر پمپس کا کام کیا جا رہا ہے.۱۴.پاکستان میں ۲۰۱۰ ء میں سیلاب زدگان کی خدمات.(تفصیل کے لئے الفضل ۲۰ ستمبر ۲۰۰۶ء) ( بحوالہ خلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات ص ۴۶۲ یا ۴۶۳) احمد یہ ایسوسی ایشنز احمد یہ میڈیکل ایسوسی ایشن پاکستان آج سے ۱۰۲ سال پہلے میڈیکل پروفیشنلز اور اطباء کی ایسوسی ایشن سید نا حضرت مسیح موعود کے مبارک دور میں قائم ہو چکی تھی.مورخہ ۲ مارچ ۱۹۰۸ ء کو سب سے پہلی احمد یہ میڈیکل ڈاکٹر ز اور اطباء کی تنظیم " مجلس اطباء و احمد یہ ڈاکٹر ان جماعت احمدیہ کے نام سے قائم ہوئی.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اس آرگنا ئزیشن کے پہلے صدر مقرر کئے گئے.اس کی پہلی میٹنگ میں مندرجہ ذیل احباب شامل ہوئے.حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب لا ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ڈاکٹر مرزا الیعقوب بیگ صاحب ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب ڈاکٹر فیض قادر صاحب حکیم محمد حسین قریشی صاحب حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی ا حکیم محمد حسین صاحب بلب گڑھ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب (خلیفہ مسیح الاول ) نے ۲۰ روپے کی خطیر رقم اس آرگنا ئز یشن کے لئے بطور عطیہ عنایت فرمائی.آپ بوجوہ اس میٹنگ میں شامل نہ ہو سکے تھے.ورلڈ احمد یہ میڈیکل ایسوی ایشن کا احیاء نو ہوا.لیکن بعض وجوہات کی بناء پر یہ اپنی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکی.۱۹۸۹ء میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اس ایسوسی ایشن کے احیاء کا ارشاد فرمایا اور محترم
334 پروفیسر ڈاکٹرمسعودالحسن نوری صاحب کو AMA پاکستان صدر مقر فرمایا.بعدہ فروری ۲۰۰۷ء میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب کو اس ایسوسی ایشن کا جنرل سیکرٹری مقرر فرمایا جس سے اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ ایسوسی ایشن دوبارہ متحرک اور فعال ہو چکی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ میڈیکل ایسوسی ایشن نے پہلا کنونشن مورخہ ۱۸ اپریل ۲۰۰۷ء کو منعقد کیا تھا.جس میں ۴۴۴ خواتین و حضرات نے شرکت کی.اس کنونشن کو کامیاب بنانے کے لئے نظارت امور عامہ نے بھر پور تعاون کیا.ایسوسی ایشن کا مکمل فرنشڈ مرکزی دفتر طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کی چوتھی منزل پر موجود ہے.مورخہ ۲۲ جون ۲۰۰۷ ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایسوسی ایشن کا دستور منظور فرمایا.خدا تعالیٰ کے فضل سے ضلعی سطح پر اب تک ۳۵ چیپٹر ز قیام عمل میں آچکے ہیں.AMA کی مرکزی کمیٹی کی میٹنگ ۲۷ جنوری ۲۰۰۸ء کو طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس میں ۲۵ چیپٹرز کے ۳۹ ممبرز نے شرکت کی.انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز IAAAE ایسوسی ایشن کا باقاعدہ آغاز حضرت خلیفہ امسح الثالث نے بیت بشارت (سپین) کا جب سنگ بنیاد رکھا اور وہاں الحمراء کامل اور دیگر عالیشان مساجد جو قرون اولیٰ میں بنی تھیں دیکھیں اور واپس تشریف لا کر مرکز میں جماعت کے بعض انجینئر زاور آرکیٹکٹس کو بلوایا اور باقاعدہ طور پر انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز کی تنظیم اکتوبر ۱۹۸۰ء میں فرمائی.اس طرح اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے احمدیوں کو با قاعدہ خدمت کا موقع فراہم کیا گیا اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو اس ایسوسی ایشن کو منظم کرنے کا کام سونپا گیا اور آپ کو ہی اس تنظیم کا نگران (Patron) مقرر کر دیا گیا.حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے ہی پہلی مجلس عاملہ حضرت خلیفتہ امسح الثالث سے منظور کروائی جس کے چیئر مین مکرم انجینئر افتخار علی قریشی صاحب مقرر ہوئے.ایک کمیٹی کے ذریعہ آپ نے لائحہ عمل
335 (Constitution) بھی بنوایا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے منظوری حاصل کی.مرکز کے علاوہ جلد ہی پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں لوکل چیپٹر معرض وجود میں آگئے.۱۹۸۱ء کے جلسہ سالانہ ربوہ پر دوسرے روز بعد نماز مغرب وعشاء آپ نے پہلی مجلس عاملہ کا با قاعدہ انتخاب کروایا.جس کی منظوری خلیفہ وقت نے عطا فرمائی.یہ مجلس عاملہ تین سال کے لئے منظور ہوئی تھی یعنی ۸۴ ۱۹۸۲ ء کے لئے.اس وقت دیگر شعبوں کی بھاری ذمہ داریوں کے علاوہ آپ صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ بھی تھے چنانچہ آپ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد آپ ہی کی ہدایت کے مطابق کافی عرصہ صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ اور ( بعدۂ صدر مجلس انصاراللہ پاکستان ) اس ایسوسی ایشن کے سرپرست مقرر ہوتے رہے چنانچہ محترم چوہدری حمید اللہ صاحب ۱۹۸۲ء سے ۲۰۰۰ ء تک نگران رہے اس کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نگران مقرر ہوئے اور ا۲۰۰ء سے ۲۰۰۳ ء تک نگران رہے اس کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب چھ سال تک نگران رہے.جس کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے محترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید کو۲۰۱۰ء سے نگران مقرر فرمایا ہے.ایسوسی ایشن کے اغراض و مقاصد یہ خالصہ پروفیشنل اور غیر سیاسی ایسوسی ایشن ہے جس کے اہم مقاصد یہ ہیں.ا.دین کو تقویت دینا اور آرکیٹکچر اور انجینئر نگ کے پیشہ کو ترقی دینا.۲.سائنسی انکشافات کو قرآن کریم کی روشنی میں پرکھنا اور نئی ایجادات کو قرآنی صداقتوں سے ہم آہنگ کرنا.۳.جماعت کی بڑھتی ہوئی فنی ضروریات آرکیٹکچر اور انجینئر نگ کے شعبہ جات میں پوری کرنا.۴ تحقیق کرنا اور ریسرچ پیپر لکھنا اور اس قسم کی دیگر تنظیموں کے ساتھ علم کا تبادلہ کرنا.۵ آرکیٹکچر اور انجینئر نگ کے طلباء کو پیشہ ورانہ منصوبہ بندی میں راہنمائی فراہم کرنا اور دیگر پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں معاونت کرنا..ایسوسی ایشن کے ارکین کو جدید علوم اور اصول فن سے متعارف کروانا اور خوداعتمادی اور شجاعت اور ہمت پیدا کرنا تا کہ وہ اپنے فن اور ذاتی طرز عمل میں امتیاز پیدا کرسکیں.ے.اراکین میں حوصلہ، انتہائی فکر ومحبت اور وقف کی روح پیدا کرنا نیز دیانتداری اور صداقت اور محنت کو شعار بنانا اور پیشہ ورانہ اور ذاتی معاملات میں اللہ تعالیٰ سے نور اور راہنمائی حاصل کرنے کا شعور بیدار کرنا.
336 ایسوسی ایشن کی رکنیت ایسوسی ایشن کی ممبر شپ کے لئے احمدی انجینئر زیا آرکیٹکٹس کے پاس کم از کم انجینئر نگ یا آرکیٹکچر کی چار سالہ ڈگری یا ۲/۳ سالہ ڈپلومہ ہونا ضروری ہے جو کسی قومی یا بین الاقوامی یونیورسٹی یا انسٹی ٹیوشن سے ہو جن کا منظور شدہ ہونا ضروری ہے.ڈگری یا ڈپلومہ جس ٹریڈ (Trade) میں کیا ہوتا ہے اسی ٹریڈ میں رجسٹریشن ہوتی ہے.ابھی تک انجینئر نگ کی جن ٹریڈز میں رجسٹریشن ہوئی ہے وہ یہ ہیں ترے.آرکیٹیکچر - ii.سول - lilil الیکٹریکل - iv مکینیکل.۷- ایگریکلچر ہیلر جی ، کان کنی ، پٹرولیم ، - iii.ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں کی ایک ہی کیٹیگری ہے.تاہم ڈپلومہ میں آرکیٹیکٹس ،سول اور متفرق کی الگ الگ کیٹیگری ہے مجھے آرکیٹکچر اور انجینئر نگ کے طلباء کے لئے وابستہ ممبر بننے کی گنجائش ہے.اسی طرح اعزازی ممبرز کے لئے بھی لائحہ عمل میں شق رکھی گئی ہے.امتیازی حیثیت رکھنے والے سائنسدان یا ٹیکنالوجسٹ اس ایسوسی ایشن کے اعزاز کی ممبر بن سکتے ہیں جو ایسوسی ایشن کے اغراض و مقاصد کے حصول میں بھی ممد و معاون ہو سکتے ہیں.ہیڈ کوارٹر اور ریجنل چیپٹرز IAAAE کا ہیڈ کوارٹر ربوہ میں ہے اور چیئر مین اور بعض مرکزی ارکین عاملہ ربوہ میں ہی مقیم ہیں.دیگر اراکین عاملہ دوسرے شہروں سے سہ ماہی اجلاس عاملہ میں عمو مار بوہ میں اکٹھے ہو جاتے ہیں.پاکستان کے لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد، راولپنڈی، ربوہ ، مظفر گڑھ ( کوٹ ادو) ، ملتان، گوجرانوالہ ،سرگودھا، بہاولپور، حیدر آباد، واہ ٹیکسلا، فیصل آباد ، منڈی بہاؤالدین ، چکوال اور ساہیوال شہروں میں ایسوسی ایشن کے لوکل چیپٹر ز قائم ہیں علاوہ ازیں یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، انڈیا، انڈونیشیا، نائیجیر یا اور بعض اور ملکوں میں بھی ایسوسی ایشن کے ریجنل چیپٹر قائم ہیں اور ہر ایک ریجنل چیئر مین کی اپنی اپنی عاملہ ہے.کینیڈا میں تو ریجنل چیپٹر کے علاوہ لوکل چیپٹر بھی قائم کر لئے گئے ہیں.انگلستان کے جلسہ سالانہ ۲۰۰۳ء پر حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر مکرم وکیل اعلیٰ صاحب نے یورپ کے ریجنل چیئر مین کا نیا انتخاب کروایا تھا.غرض خدا کے فضل سے ایسوسی ایشن کا انتظامی ڈھانچہ قائم ہو چکا ہے.
337 ٹیکنیکل میگزین کی اشاعت ۱۹۸۹ء میں صد سالہ جو بلی کے موقع پر سوویٹر سے آغاز کیا گیا پھر تقریباً سالانہ بنیادوں پر ٹیکنیکل میگزین کی اشاعت کا اہتمام ہورہا ہے.بعض سالوں میں بوجوہ نانخے بھی ہوئے تا ہم ۲۰۱۰ ء تک میگزین شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں.ان رسائل میں حضرت خلیفہ اسیح کے ایسوسی ایشن کے بارہ میں ارشادات اور ہدایات کے علاوہ مختلف النوع ٹیکنیکل مضامین، رپورٹس، اور اس سلسلہ میں نادر تصاویر کی اشاعت شامل ہے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی طرف سے مسلسل پذیرائی کے خطوط ایسوسی ایشن کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں.آپ نے خواہش فرمائی تھی کہ میگزین کا یہ سلسلہ خوب سے خوب تر ہو کر جاری رہے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.۰۳.۲۰۰۲ء کا میگزین جو شائع ہوا وہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے نام سے منسوب کیا گیا تھا اور کئی نادر مضامین اور تصاویر پر مشتمل تھا.اسی طرح صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی کے موقع پر ۲۰۰۸ء میں ایک خاص سووینئر شائع کیا گیا.تحقیق اور بالیدگی اغراض و مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تحقیق اور بالیدگی ہے.اس سلسلہ میں ایک تو انجینئر ز ملک لال خان صاحب اور منیر احمد فرخ صاحب اور ایوب احمد ظہیر صاحب کے ذریع ٹیلی مواصلات کے شعبہ میں نہایت اہم کام ہوا.جو رواں تراجم کے سنانے کے لئے ڈیزائن اور آلات کی ساخت و تنصیب تھی جو ہر جلسہ سالانہ پر غیر ملکی وفود کے لئے نظر آتا ہے آغا ز تو اس ٹیم کے ذریعہ ہی ہوا تھا.لیکن ۲۰۰۰ء سے اس کے منتظم اعلیٰ منیر احمد فرخ صاحب (امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع اسلام آباد ) ہیں.ایک شعبہ Slipforming کا ہے جس کے ماہر مکرم انجینئر منیر احمد خان صاحب ہیں جو پاکستان میں کئی بلند و بالا چمنیاں اور Silos بنا کر اپنا لوہا منوا چکے ہیں.استے گھروں کے ماڈل پر انجینئر ز میجر بشیر احمد طارق اور میجر نواز منہاس صاحب حضرت خلیفہ المسح الرابع سے جلسہ سالانہ ۱۹۸۳ء پر انعام لے چکے ہیں.ملک وسیم احمد صاحب.صدر لاہور چیپٹر ) نے الیکٹریکل پینلز اور سونچ گیئر میں کام کیا ہے.اسلام آباد میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کمپیوٹر سنٹر کا قیام ہے جس کی ابتدائی سرمایہ کاری کے لئے رقم حضرت خلیفۃ امسیح الرابع نے منظور فرمائی.انجینئر صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب شہید نے ربوہ میں کمپیوٹر کا
338 نظام جاری کیا ( آپ بنیادی طور پر الیکٹریکل انجینئر تھے اور پھر امریکہ سے کمپیوٹر انجینئر نگ کی.آپ IAAAE کے Executive Member بھی تھے ) علوم کا تبادلہ ں سلسلہ میں کراچی چیپٹر نے اہم کام کیا ہے اپنے اجلاس میں انسٹیٹیوٹ آف انجینئر ز پاکستان کے صدر انجینئر آئی اے عثمانی صاحب کو مدعو کیا جنہوں نے یکم مئی ۱۹۹۷ء کو خطاب فرمایا.ایسے ہی لاہور چیپٹر نے بھی ایک بار اس کا اہتمام کیا.سالانہ کنونشن کئی سالوں سے ربوہ پاکستان میں ایک روزہ سالانہ کنونشن ہوتا ہے.جس میں ریسرچ پیپرز پڑھنے کے علاوہ مختلف انجینئر ز تبادلہ خیال کرتے ہیں اور اپنے تجربات بتاتے ہیں.اس کے کنویئر آرکیٹیکٹ مکرم رفیق احمد ملک صاحب رہے اور ان کے بعد یہ کام انجینئر نوید اطہر شیخ صاحب کرتے رہے تھے اس کے بعد فرائض مکرم انجینئر جہانگیر شفیع صاحب سرانجام دیتے رہے.امسال یہ ذمہ داری آرکیٹیکٹ خالد باجوہ صاحب اور آرکیٹیکٹ قاسم احمد صاحب نے نبھائی ہے.اس کنونشن کے دوران ہی سہ سالہ انتخاب ہوتا ہے اور سرپرست انجینئر ز اینڈ آرکیٹش صاحب بھی خطاب فرماتے ہیں.گروپ فوٹو بھی ہوتا ہے اور انڈسٹریل نمائش بھی لگتی ہے.نیز ایک پورا روز نو جوان انجینئر ز اور طالب علموں کی نقار بر وغیرہ کے لئے مقرر ہوتا ہے.ویب سائٹ کا قیام www.iaaae.com حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے ایسوسی ایشن کی اپنی ویب سائٹ کا قیام ۲۰۰۶ء میں عمل میں آیا.اس میں تعارف ، قیام، ممبر شپ، پبلیکشن ، News and events اور مختلف بین الاقوامی چیپٹرز کے پیجز ہیں.IAAAE کی بعض خدمات کا تذکرہ جیسا کہ اغراض و مقاصد میں بیان کیا گیا ہے انجینئر نگ کے شعبہ میں جماعتی ضروریات پوری کرنے
339 کے لئے بعض قابل ذکر خدمات یہ ہیں.مختلف زبانوں میں رواں ترجمہ کے لئے سسٹم کا ڈیزائن آلات کی ساخت اور تنصیب اور مسلسل بالیدگی.اس کا آغاز جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۸۰ء سے دوزبانوں میں انگریزی اور انڈونیشین سے ہوا اور اب خدا کے فضل سے درجن زبانوں میں جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ، جرمنی ، اور دیگر ملکوں میں Simultaneous Interpretaon system سے استفادہ کیا جاتا ہے.آلات بہت ارزاں رقم پر ساخت کئے جاتے رہے ہیں.دارالضیافت اور نگر خانہ حضرت میں موعودر بوہ میں روٹی پلانٹ کی بالیدگی اور بعد میں یو کے میں جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفہ ایح الرابع نے خود از راہ شفقت اس خدمت کا ذکر جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۸۲ء پر فرمایا.قصر خلافت اور پرائیویٹ سیکرٹری بلڈنگز میں انٹر کام سسٹم کی تنصیب، علاوہ ازیں جماعتی دفتروں میں بھی انٹر کام لگائے گئے ہیں.جنریٹرز کی تنصیب اس کے علاوہ ہے.جامعہ احمدیہ میں مٹی لینگو یج لیب پر کام کیا گیا.مر ریکلچرل ضروریات پوری کرنے کے لئے مرکز میں مختلف عمارتوں اور مہمان خانوں کے ڈیزائن اور تعمیرات کی نگرانی جیسے کاموں میں آرکیٹکٹس اور انجینئر ز نے خدمت کی توفیق پائی.بعض کام یہ ہیں.بیت المبارک اور بیت اقصیٰ کی توسیع و تزئین.مختلف گیسٹ ہاؤس ، سوئمنگ پول، لجنہ ہال، دارالضیافت جدید بلاک.یه فضل عمر ہسپتال کی توسیع.طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کی تعمیر * سرائے مسرور کی تعمیر.دار الضیافت واٹر سپلائی.توسیع دارالضیافت.ربوہ دارالیمن محلہ میں سوئی گیس اور واٹر سپلائی.دارالا کرام کی تعمیر.بیوت الحمد کواٹرز اور بیوت الحمد پارک کی تعمیر.انٹرنیشنل جامعہ احمدیہ کا وسیع منصو بہ.یورپین چیپٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے مندرجہ ذیل جماعتی کاموں میں ٹیکنیکل معاونت کی.بیت الفتوح کمپلیکس.افریقہ میں Water life اور سولر انرجی Solar Energy گلاسگو مشن کی درستگی اور مرمت.بيوت الذکر اور مشن ہاؤسز، طوالو، سپین، ہالینڈ، جرمنی تحکیم ، نیو دہلی ، کینیڈا، امریکہ، گیمبیا، سویڈن، ڈنمارک، آسٹریلیا، گوئٹے مالا اور برمنگھم.
340 گھانا میں دو بیوت الذکر اور پرنٹنگ پریس.قادیان میں مقامات مقدسہ کی درستگی اور حفاظت خلافت جو بلی ۲۰۰۸ء کے موقع پر قادیان میں خلافت جو بلی Monoment کی تعمیر اور قادیان کی مختلف عمارات کی تعمیر ونگرانی.ارا جلسہ سالانہ ۲۰۱۰، ہو.کے کے موقع پر حضور انور نے احمد یہ انڈر ٹائل ایسوسی ایشن آف آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز کے ذریعہ ہونے والے کام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.کینیڈا چیپٹر ز کی خدمات گیمبیا افریقہ میں دس سولر سسٹم کی تنصیب د بریڈ فورڈ کینیڈا میں Wind Mill اور سولر سسٹم کی تنصیب کیلگری کی مسجد کا ڈیزائن.سکاٹون مسجد کا ڈیزائن احمدیہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئر ز کے ذریعہ اللہ کے فضل سے گھانا، بین ، نائیجیریا، مالی، گیمبیا، سیرالیون، اور برکینا فاسو میں ۶۰ مقامات پر بجلی فراہم کی جاچکی ہے اور سولر سسٹم لگایا جا چکا ہے.برکینا فاسو اور سیرالیون میں مزید ۲۵، ۲۵ سولر سسٹم بھجوا دیئے گئے ہیں.اس کے علاوہ ایک ہزار ۵۰۰ سولر لینٹر چھ ملکوں میں بھجوائی گئی ہیں.افریقہ کے ممالک میں اب تک ۴۸۵ واٹر ہینڈ پمپس لگائے گئے ہیں.اس کے علاوہ مشن ہاؤسز کی تعمیر اور نقشے اور مختلف کام بھی یہ آرٹیکٹس ایسوسی ایشن کر رہی ہے اور کچھ ماڈل ویلج بنانے کا بھی ان کا پروگرام ہے.پہلا ماڈل ولیج برکینا فاسو میں مہدی آباد کے نام سے بنایا جارہا ہے.موجودہ مجلس عاملہ IAAAE پیٹرن.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید.چیئر مین.مکرم انجینئر قریشی افتخار علی صاحب.وائس چیئر مین.مکرم انجینئر منیر احمد فرخ صاحب.وائس چیئر مین.مکرم آرکیٹیکٹ قاسم ابراہیم صاحب.جنرل سیکرٹری.مکرم انجینئر شیخ حارث احمد صاحب.جوائینٹ سیکرٹری مکرم ڈپلومہ انجینئر وسیم احمد طاہر صاحب.فنانشل سیکرٹری.مکرم انجینئر سید تنویر مجتبی صاحب.آڈیٹر.مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب.
341 ممبر ( سول ).مکرم انجینئر نو ید اطہر شیخ صاحب.ممبر (الیکٹریکل ).مکرم انجینئر طارق محمود صاحب.ممبر (مکینیکل ) مکرم انجینئز لیب احمد ظہیر صاحب.ممبر ( ڈپلومہ آرکیکٹس ) - مکرم بشیر الدین کمال صاحب.ممبر ( ڈپلومہ سول ).مکرم راجہ ناصر احمد صاحب.ممبرز ( متفرق انجینئر نگ ) مکرم انجینئر جلال الدین صادق صاحب.مکرم انجینئر چوہدری نعمت اللہ صاحب مبرمکینیکل مکرم حفیظ الرحمن صاحب.ممبر ( آرکیٹیکٹ ).مکرم آرکیٹیکٹ ظفر احمد قاضی صاحب.احمدی بلائینڈ زایسوسی ایشن پاکستان ( مجلس نابیناء) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجلس نابینا ربوہ پاکستان ۱۹۸۷ء میں قائم ہوئی.جس کے قیام کا بنیادی مقصد احمدی نابینا احباب کی تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود تھا.نیز ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا اور معاشرے کا فعال اور مفید وجود بنانا تھا.آنکھوں جیسی عظیم نعمت سے محروم ہونے اور دیگر اور بہت ساری مشکلات اور مسائل کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجلس نابینا ان تمام مقاصد کے حصول میں بڑی کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہے اور آج خدا کے فصل سے مجلس نا بینا پاکستان احمدی نابینا حضرات کے لئے ایک سایہ دار چھت اور تعلیمی وتربیتی اکیڈمی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے.اور اس مجلس کی برکت سے احمدی نابینا حضرات صف اول کے شہری کی طرح زندگی گزار رہے ہیں.الحمد للہ مکرم پروفیسر چوہدری خلیل احمد صاحب (مرحوم) مکرم حافظ محمد ابراہیم عابد صاحب مربی سلسلہ نیز مکرم حافظ محموداحمد ناصر صاحب مربی سلسلہ اس مجلس کے بانی کارکنان میں سے ہیں.مکرم پروفیسر چوہدری خلیل احمد صاحب اس مجلس کے پہلے صدر تھے جو تاحیات صدر مجلس نابینا پاکستان رہے.اسی طرح مکرم حافظ محمد ابراہیم عابد صاحب مربی سلسلہ اس مجلس کے پہلے جنرل سیکرٹری ہیں.اور اب بھی بطور جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں.اور فی الحقیقت مکرم حافظ محمد ابراہیم عابد صاحب ہی اصل میں اس مجلس کے روح رواں ہیں.جن کی محنت، کوشش اور دلچسپی سے یہ مجلس بڑی کامیابی سے اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے.اور اس مجلس کے ذریعہ سے پاکستان بھر کے احمدی نابینا حضرات کو ہر لحاظ سے فائدہ پہنچ رہا ہے.خواہ وہ فائدہ تعلیم وتربیت سے تعلق رکھتا ہے یا فلاح و بہبود سے.غرض یہ مجلس احمدی نابینا حضرات کے لئے بہت مفید ثابت ہو رہی ہے.
342 مجلس نابینار بوہ کی مساعی پر مبنی رپورٹس کا ایک حصہ گاہ بگاہ جماعتی و قومی اخبارات میں شائع ہوتا رہتا ہے.نیز ایم.ٹی.اے پر بھی بعض پروگرام نشر ہوتے رہتے ہیں.مگر مجلس کی کوششوں اور کامیابیوں پر مبنی ایک بہت بڑا حصہ بوجوہ شائع کروانا ممکن نہیں ہوتا.موجوده مجلس عامله صد ر ایسوسی ایشن.مکرم حافظ محموداحمد ناصر صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ نائب صدر اول مکرم حافظ نورالزمان صاحب نائب صدر دوم مکرم حافظ مبارک احمد صاحب معلم اصلاح وارشاد مرکزیہ جنرل سیکرٹری.مکرم حافظ محمد ابراہیم عابد صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ سیکرٹری نشر واشاعت.مکرم محمد الیاس اکبر صاحب سیکرٹری رابطہ.مکرم حافظ نورالزمان صاحب خازن ومحرر.مکرم عبدالحمید خلیق صاحب بیناء معاون.مکرم محمود احمد خورشید صاحب قارئین کی دلچسپی کے لئے ذیل میں بلائینڈز ایسوسی ایشن پاکستان کی ایک سالانہ رپورٹ کارگزاری بطور نمونہ پیش خدمت ہے.جو روزنامہ الفضل ربوہ میں درج ذیل عنوان سے شائع ہوئی.تقسیم انعامات و اختتامی تقریب سالانہ تعلیمی تربیتی وفتنی کلاس مجلس نابینا پاکستان بفضل اللہ تعالیٰ مورخه ۲۰ جون تا ۳۰ جون ۲۰۰۹ مجلس نا بینا پاکستان کور بوہ میں گیارہ روز تعلیمی، تربیتی وفنی کلاس منعقد کرنے کی توفیق حاصل ہوئی.جس کا باقاعدہ افتتاح مورخہ ۲۰ جون کو صبح ۸:۳۰ بجے مجلس انصار اللہ مقامی ربوہ کے ہال میں منعقد ہوا.افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی مکرم چوہدری مطیع الرحمن صاحب نائب ناظر امور عامہ تھے.جن کے خطاب اور دعا کے ساتھ کلاس کا افتتاح ہوا.سالانہ تربیتی کلاس میں مختلف جماعتی ادارہ جات کے احباب نے تشریف لا کر اپنے اپنے شعبہ کے بارہ میں مفید معلومات فراہم کیں.کلاس میں بنیادی دینی معلومات کے ساتھ علمی و ورزشی مقابلہ جات بھی کروائے
343 گئے.علمی مقابلہ جات میں دینی و عام معلومات، حفظ قرآن، حفظ احادیث، مقابلہ تلاوت نظم، تقریر، بیت بازی، مشاہدہ معائنہ اور ورزشی مقابلہ جات میں لمبی چھلانگ کلائی پکڑ نا لمبا سانس ، الٹی گنتی گناه شخصی شناخت، میوزیکل چیئر ز، رسہ کشی نیز رسہ کشی نابینا VS مہمانان اور ثابت قدمی کے مقابلہ جات شامل ہیں.دوران کلاس ایک محفل مشاعرہ کا انعقاد ہوا.اس مشاعرہ کے صدر مکرم لیق احمد صاحب عابد ایڈیشنل وکیل المال اول تحریک جدیدر بوہ تھے.اسی طرح بیوت الحمد پارک ربوہ میں ایک پکنک بھی منائی گئی.کلاس کی اختتامی تقریب مورخہ یکم جولائی ۲۰۰۹ء کو ایوان ناصر میں بعد نماز عصر منعقد ہوئی.جس میں ممبران مجلس کے علاوہ دیگر معزز مہمانان نے بھی شرکت کی.اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی مکرم مرزا محمد الدین ناز صاحب ایڈیشنل ناظر تعلیم القرآن و وقف عارضی تھے.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد مکرم محمدمحمود طاہر صاحب مربی سلسلہ نے یکم جولائی ۲۰۰۸ء تا ۳۰ جون ۲۰۰۹ء کے دوران مجلس نابینا پاکستان کواحمدی نابیناؤں کی تعلیم، تربیت، فلاح و بہبود اور تفریح کے لئے جو کام کرنے کی توفیق ملی اس کی مختصر رپورٹ پیش کرتے ہوئے صلى الله بتایا کہ دوران سال اہم جماعتی دنوں کی مناسبت سے ۵ تقاریب جلسه سیرة النبی ، جلسہ یوم مسیح موعود، یوم خلافت، یوم مصلح موعود اور عید ملن پارٹی منعقد کی گئیں.قومی تہواروں کی مناسبت سے پروگرام یوم پاکستان، یوم آزادی، یکم جنوری ، یکم مئی ۳ دسمبر اور یوم معذوراں کے پروگرام قابل ذکر ہیں.نیز ۱۵ اکتوبر کو سفید چھڑی کی مناسبت سے ایک خصوصی تقریب بھی منعقد کی گئی.مورخہ ۳۱ مئی کو خلافت لائبریری میں رنگ بہاراں پروگرام ترتیب دیا گیا جس میں نابینا حضرات نے خلفاء سلسلہ کے ساتھ اپنی حسین یادوں کو پیش کیا.ربوہ میں موجود بزرگان سلسلہ کے ساتھ صحبت صالحین کے نکتہ نظر سے ۱۲ اجتماعی ملاقاتوں کے پروگرام عمل میں لائے گئے.مجلس کی طرف سے دوران سال روز نامہ الفضل ربوہ میں ۳۵ /اعلانات ور پورٹس شائع کروائی گئیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ۳۵ خطوط اور فیکسز ارسال کی گئیں.مجلس نابینار بوہ کی نمائندگی کرتے ہوئے مرکز اتحاد نا بینا فیصل آباد کے سالانہ اجلاس میں ۲۵ رکنی وفد شامل ہوا.اسی طرح جھنگ کی مجلس عاملہ کی ۲ سہ ماہی میٹنگز میں ۲ رکنی وفد شامل ہوتا رہا.خلافت لائبریری کے بلائنڈ زسیکشن میں روزانہ اوسط کے اراکین استفادہ کرتے رہے جبکہ مجلس نابینا کی ہفتہ وار میٹنگ میں اوسطاً حاضری ۱۵ سے ۲۰ تک رہی.عیدین کے مواقع پر نظارت امور عامہ اور بعض دیگر مخیر حضرات کے تعاون سے نقدی، ۵ ۸سوٹ ،۱۲ جوڑے جوتے اور ۱۳۰ را فراد میں اشیاء خورونوش اور راشن تقسیم کیا گیا.قربانی کا گوشت بھی تقسیم کیا گیا.ضرورت مند اور مستحق اراکین کی مالی معاونت کی جاتی رہی.غریب بچیوں کی شادی ، بیوہ ، یتامی اور معذور افراد کے لئے ۶۰ ہزار روپے دیئے گئے، اسی طرح مکان کی تعمیر کیلئے بھی حسب توفیق مالی مدد کی
344 گئی.فضل عمر ہسپتال و طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے تعاون سے نابینا مجلس اور ان کے بیوی بچوں کا فری علاج کروانے میں ۲۵ /افراد کو مدددی گئی.رپورٹ کے بعد مکرم مہمان خصوصی نے مقابلہ جات میں پوزیشنز حاصل کرنے والے اراکین مجلس میں انعامات اور گھڑیاں تقسیم کیں اور اپنے اختتامی خطاب میں مجلس نابینا ربوہ کے تمام اراکین کو اپنے آپ کو معاشرے کا مفید ،مستعد اور فعال رکن بننے سے متعلق قیمتی نصائح سے نوازا.اختتامی دعا کے بعد تمام شرکاء کی خدمت میں ریفریشمنٹ پیش کی گئی جبکہ بعد نماز مغرب مدعووین کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا.جس میں اہم جماعتی اداروں کے نمائندگان نے بھی شرکت کی.اختتام پر مکرم حافظ محمد ابراہیم صاحب جنرل سیکرٹری نے تمام مہمانوں اور منتظمین کا شکر یہ ادا کیا.آخر پر دعا ہے کہ خدا تعالیٰ مجلس نابینا پاکستان کو بہتر سے بہتر پروگرام پیش کرنے اور خلیفہ وقت کی تو قعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (بحوالہ روزنامه الفضل اامئی ۲۰۰۹ ص۲) ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز پاکستان بیسویں صدی کی ایجادات میں سے کمپیوٹر ایک ایسی ایجاد ہے جس نے انسانی زندگی اور دستورالعمل پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے.کمپیوٹر سے پہلے کی انسانی زندگی اور اس کے مقبول عام ہونے کے بعد کی انسانی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے.کمپیوٹر کے ذریعہ دنیا کے تمام کاموں میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے چاہے اس کا تعلق زراعت سے ہو یا انڈسٹری سے تعلیم سے ہو یا معاشیات سے.اب کوئی دنیاوی کاروبار اس کے صحیح استعمال کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.اس لئے ضروری ہے کہ افراد جماعت اور جماعتی ادارے بھی اس منفرد ایجاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اپنے کاموں میں بہتری لائیں.جماعت میں کمپیوٹر کے استعمال کی باقاعدہ تحریک سیدنا حضرت خلیفہ لمسیح الرابع نے ۱۹۸۲ء میں IAAAE کے سالانہ کنونشن کے موقع پر فرمائی تھی.لیکن حضور کی ہجرت کی وجہ سے پاکستان میں تو اس کی طرف توجہ نہ دی جاسکی لیکن لندن میں چونکہ عموماً کمپیوٹر کا استعمال ہو رہا تھا اس لئے آہستہ آہستہ جماعتی کاموں میں کمپیوٹر کا استعمال ہونا شروع ہو گیا.۱۹۸۵ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے تحریک فرمائی کہ کمپیوٹر پر اردو نستعلیق لکھائی کے لئے احمدی وقف کریں اور اس طرح پر یس کے کاموں میں جماعت نے کمپیوٹر سے فائدہ اٹھانا شروع کیا.حضور کے دور خلافت میں جماعت نے مغربی ممالک میں غیر معمولی ترقی کا آغاز کیا اور ساتھ ساتھ
345 جدید ایجادات کا استعمال بھی جماعتی کاموں میں ہونے لگا.اس لحاظ سے جماعت ہائے احمد یہ کینیڈا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سب سے پہلے افراد جماعت کی تجنید اور چندہ جات کے حساب کا باقاعدہ کمپیوٹرائنز ڈریکارڈ رکھنا شروع کیا اور پھر مختلف جماعتوں میں اس کا استعمال ہونا شروع ہوا.حضور کی ہدایات پر جماعت کے مرکزی دفاتر واقع ربوہ پاکستان میں بھی ایک مشتر کہ شعبہ کمپیوٹر قائم کیا گیا جس کا انچارج مکرم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کو بنایا گیا اور اس شعبہ کے سپر دصدر انجمن احمد یہ پاکستان اور تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان کے جملہ کاموں کو کمپیوٹرائز کرنے کا کام ہوا.۱۹۹۳ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب جلسہ سالانہ یو کے میں شمولیت کے لئے لندن گئے اور وہاں انہوں نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع سے درخواست کی کہ ایک ایسی ایسوسی ایشن بنانے کی اجازت دی جائے جو ان طلباء اور پروفیشنلز پر مشتمل ہو جو کمپیوٹر سائنس یا انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں.چنانچہ حضور نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس طرح ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز (AACP) کی بنیاد رکھی گئی.اس سے پہلے کمپیوٹر پروفیشنلز IAAAE میں ہی شامل ہوتے تھے.AACP کی منظوری کے بعد کمپیوٹر پروفیشنلز کو اکٹھا کرنے ، ان سے رابطہ رکھنے اور ایسوسی ایشن کے انتظامی Structure کو قائم کرنے کا اہم کام تھا.مختلف رسائل میں اشتہارات دینے پر ۳۶ کمپیوٹر پروفیشنلز نے رابطہ کیا.اس کے نتیجہ میں ایسوسی ایشن کے ممبران کی پہلی میٹنگ یکم دسمبر ۱۹۹۵ء کو دارالضیافت ربوہ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت مکرم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب نے کی.اس میٹنگ میں ایسوسی ایشن کے لئے آئین (Constitution) مرتب کیا گیا.اس آئین کو مکرم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی خدمت اقدس میں منظوری کے لئے بھجوایا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے آئین کی منظوری عطا فرمائی اور مکرم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کو ایسوسی ایشن کا پیٹرن مقرر فرمایا.۶ ستمبر ۱۹۹۶ء کو ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا.یہ اجلاس خلافت لائبریری ربوہ میں منعقد ہوا اور اس میں ۴۲ ممبران شامل ہوئے.اس انتخاب کے نتیجہ میں مکرم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب چیئر مین منتخب ہوئے اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” نے آپ کے انتخاب کی منظوری عطا فرمائی.۱۹۹۶ء سے لے کر تقریباً ہر سال ایسوسی ایشن کو سالانہ کنونشن منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے.ملکی حالات کی وجہ سے ایک دو سال یہ کنونشن منعقد نہیں ہو سکا اور اسی طرح سالانہ ٹیکنیکل میگزین بھی ایسوسی ایشن کی طرف سے شائع ہوتار ہا ہے.۱۹۹۹ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی شہادت کے بعد سیدنا حضرت خلیفہ المسح الرابع"
346 نے مکرم سید طاہر احمد صاحب ( ناظر تعلیم ) کو ایوسی ایشن کا پیٹرن مقرر فرمایا اور مکرم سید عزیز احمد صاحب کو چیئرمین ف چیئر مین مقرر فرمایا.۲۰۰۱ء سے مکرم سید غلام احمد فرخ صاحب کو چیئر مین مقرر فرمایا.اور مکرم سید عزیز احمد صاحب کو وائس چیئر مین مقررفرمایا.پاکستان میں اس وقت 4 شہروں میں مقامی مجالس قائم ہیں.یعنی ربوہ، لاہور، کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی اور واہ کینٹ.یہ مقامی مجالس اپنے اپنے علاقہ میں طلباء اور کمپیوٹر پروفیشنلز کی راہنمائی اور رابطے کے لئے مختلف پروگرام ترتیب دیتی ہے.اس کے علاوہ ایسوسی ایشن کی ایک Mailing List بھی ہے جس میں ۵۰۰ سے زائد ممبران شامل ہیں اور وہ مندرجہ ذیل عناوین کے تحت ایک دوسرے سے رابطہ رکھ سکتے ہیں.1- IT Job Posting 2-IT Job Requests 3- Technical Queries 4- Information & Knowledge Sharing 5- Student Counseling 6- Career Couseling 7- Announcments کچھ عرصہ سے مقامی مجلس مختلف ٹیکنیکل موضوعات پر پروفیشنل ورکشاپس منعقد کروا رہی ہیں.جس سے ممبران کے علم میں ترقی اور بہتر روزگار کے مواقع پیدا ہورہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایسوی ایشن کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کی بیان فرمودہ " ترجمۃ القرآن کلاسز کی آڈیو کو MP3 فارمیٹ میں DVDS اور CDS کی صورت میں احباب جماعت کے استفادہ کے لئے پیش کیا.۲۰۰۳ ء سے Best Chapter کی شیلڈ بھی بنوائی گئی ہے اور بالترتیب مندرجہ ذیل مجالس اس انعام کی حقدار قرار پائیں.۱-۲۰۰۳ء ربوه ۲_۲۰۰۴ء ۲۰۰۵۳ء کراچی اور لاہور کراچی
347 ۴.۲۰۰۶ء ۵.۲۰۰۷ء کراچی ربوه حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر اب ریاست ہائے متحدہ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز کا قیام عمل میں آ گیا ہے.آخر پر خاکساراس ایوی ایشن کے متعلق معلومات مہیا کرنے پر مکرم سید غلام احمد فرخ صاحب چیئر مین ایوسی ایشن آف کمپیوٹر پروفیشنلز پاکستان اور مکرم کلیم احمد قریشی صاحب جنرل سیکرٹری کا شکر یہ ادا کرتا ہے.احمد یہ ہومیو پیتھک میڈیکل ریسرچ ایسوسی ایشن پاکستان ہومیو پیتھک ایسوسی ایشن کا قیام:.ربوہ میں ہومیو پیتھک ایسوی ایش کا قیام حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء وقف جدید میں فضل عمر ہو میو پیتھک ریسرچ ایسوسی ایشن کے نام سے غالباً ۶۴ ۱۹۶۳ء میں کیا تھا.جس کے حضور نے خود عہدیدار مقررفرمائے تھے.حضور نے مکرم پروفیسر محمدابراہیم ناصر صاحب کو اس ایسوسی ایشن کا پہلا صدر مقر فرمایا اور مکرم ہومیوڈاکٹر ناصر احمد صدیقی صاحب کو فنانس سیکرٹری مقررفرمایا تھا.حضور خود اس ایسوسی ایشن کے سر پرست اعلیٰ تھے.یہ ایسوسی ایشن ہومیو پیتھی کی ترقی و ترویج کے لئے حضور کی راہنمائی اور سر پرستی میں کام کرتی رہی.۱۹۸۷ء میں ربوہ میں پی.ایچ.ایم.اے( پاکستان ہومیو پیتھک میڈیکل ایسوسی ایشن ) ربوہ برانچ کا قیام ہوا جس کا مکرم ہومیوڈاکٹر ناصر احمد صدیقی صاحب کو صدر مقرر کیا گیا.اس دوران ربوہ میں مورخہ ۷ار اپریل ۱۹۸۷ء کو ایوان محمود میں ایک عظیم الشان سیمینار منعقد ہوا جس میں پاکستان کے مایہ ناز ہومیوڈاکٹر زقریباً ۳۰ کی تعداد میں شامل ہوئے.اس سیمینار کے انعقاد کی باقاعدہ طور پر نظام جماعت سے اجازت لی گئی تھی.اس کے بعد مکرم ہومیوڈاکٹر ناصر احمد صدیقی صاحب، مکرم ہومیوڈاکٹر راجہ نذیر احمد ظفر صاحب، ہومیو ڈاکٹر مکرم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب اور ہومیو ڈا کٹر مکرم صوفی علی محمد صاحب نے باہمی مشاورت سے نظارت امور عامہ کی منظوری سے احمد یہ میڈیکل ریسرچ ایسوسی ایشن پاکستان کا قیام عمل میں لائے.مورخہ یکم مئی ۱۹۸۷ء کو نظارت امور عامہ کے مقرر کردہ نمائندہ مکرم مولانا محمد صدیق صاحب مرحوم سابق انچارج خلافت لائبریری کی زیر صدارت نئے عہدیداران کا انتخاب عمل میں لایا گیا.جس کے مطابق مکرم ہومیوڈاکٹر
348 راجہ نذیر احمد ظفر صاحب کو صدر ایسوسی ایشن منتخب کیا گیا.اس کے بعد اگلے سال مکرم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب کو صدر مقرر کیا گیا.پھر ان کے بعد مکرم ہومیو ڈاکٹر ناصر احمد صدیقی صاحب کو ۲۰۰۱ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے صدر مقرر کیا گیا.اگلے سال ۲۰۰۲ء میں دوبارہ مکرم ہومیوڈاکٹر ناصر احمد صدیقی صاحب کو ہی صدر منتخب کیا گیا.احمد یہ ہومیو پیتھک میڈیکل ریسرچ ایسوسی ایشن پاکستان کی کارکردگی اس ایسوسی ایشن کے قیام کے بعد ہو میو پیتھی کی تنظیم کو استوار کیا گیا.پاکستان بھر سے ہومیو ڈاکٹرز سے رابطہ کیا گیا.ملک گیر شہرت کے حامل ڈاکٹر ز صاحبان کے علمی اور طبی لیکچرز اور سیمینارز کروائے گئے.ان سیمیناروں کی رونق افزوں شکل سے اہالیان ربوہ ، دیگر شہروں کے احمدی حضرات کے اندر ایک نیا ولولہ اور رجحان ہومیو پیتھک طریق علاج کی طرف پیدا ہوا.بے شمار احمدی حضرات و خواتین نے ہومیو پیتھک کالجوں میں داخلے لے کر ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے کورس مکمل کئے.ہومیو پیتھک سیمینارز :.مذکورہ بالا ولولہ انگیز اور نامی گرامی سیمیناروں کی مختصر رپورٹس قارئین کی دلچسپی کی خاطر پیش ہیں.ا.مورخه ۹ فروری ۲۰۰۲ بوقت ۳ بجے دوپہر دار الضیافت میں ایک مختصر سیمینار ہوا جس میں روز نامہ الفضل کے صحافی حضرات ، ہمبران عاملہ، ہومیوڈاکٹر ز ، حاضرین کو ظہرانہ پیش کیا گیا.ہومیو پیتھی کے اغراض و مقاصد بیان کئے گئے.۲.مورخہ ۱۲ اپریل ۲۰۰۲ء کو جمعہ کے بعد نصرت جہاں اکیڈمی کے ہال میں ایک نہایت دلچسپ سیمینارز مرض ہیپاٹائٹس پر ہوا.۱۸۰ حاضرین تھے جس میں ڈاکٹر ضیاء اللہ سیال صاحب ہارٹ سپیشلیسٹ ، چوہدری نذیر احمد صاحب نائب ناظر زراعت مہمان خصوصی نیز ہومیوڈاکٹر مکرم ناصر احمد صدیقی صاحب کے لیکچرز ہوئے.مورخہ ۶ مئی ۲۰۰۲ء بروز سوموار ۳ کے بعد دو پہر دار الضیافت میں دلچسپ طبی سوال و جواب پر مبنی مجلس ہومیو پیتھی ہوئی مکرم محترم ڈاکٹر عبد الخالق صاحب ایم بی بی ایس فضل عمر ہسپتال ربوہ نے ملیریائی
349 صورتحال پر حاضرین کو جدید معلومات سے متعارف کروایا.ہومیوڈاکٹر مکرم ناصر احمد صدیقی صاحب نے ملیریا کے موضوع پر مضمون پڑھا.۵۱ حاضرین نے استفادہ کیا.۴ مورخه ۸/اگست ۲۰۰۲ ء بروز جمعرات ۲ بجے دوپہر ایک علمی نشست بعنوان امراض جلد ہوئی جس میں مکرم ڈاکٹر مبین الحق خانصاحب ماہر امراض جلد اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر فواد احمد راتھر نے اکوپنکچر طریق علاج پر روشنی ڈالی اور سوالات کے جوابات دیئے.۴۹ حاضرین تھے.۵ مورخه ۱۷۱۴اکتوبر ۲۰۰۲ بروز سوموار ۲ بجے دو پہر ایک علمی نشست دارالضیافت میں مرض تھیلاسیمیا پر ہوئی مکرم ڈاکٹر نوید احمد صاحب بلڈ بنک ربوہ نے ۵۲ حاضرین کو معلومات سے آگاہ فرمایا.۶.ایسوسی ایشن ہذا کے تمام پروگرامز سیمیناروں میں حضور کی جاری فرمودہ با برکت تحریک ہومیو پیتھی کے تمام نسخہ جات، کتاب ہو میو پیتھی کے قیمتی اقتباسات سے روشناس کر کے پروگرام کے باقی حصے شروع کئے جاتے رہے..مورخه ۲۶ ستمبر ۲۰۰۲ء بروز جمعہ ۳۰-۲ پر دارالضیافت میں ہومیو ڈاکٹر مکرم ناصر احمد صدیقی صاحب نے ایک علمی سوال و جواب کا پروگرام منعقد کیا.مورخہ ۱/۲۵ کتو بر۲۰۰۲ء بروز جمعہ نماز جمعہ کے بعد نصرت جہاں اکیڈمی ربوہ ہال میں ایک علمی نشست ہوئی.جس کے مہمان خصوصی مکرم محمد محمد طاہر صاحب مربی سلسلہ اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل تھے، ہومیو پیتھک ڈاکٹر ناصر احمد صدیقی صدر ایوسی ایشن نے متوازن غذا اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر عبدالباسط قمر صاحب نے گردہ اور پستہ کی پتھری پر لیکچر دیئے ۲۰۰ حاضرین نے استفادہ کیا.۹.یکم نومبر ۲۰۰۲ء کو ہومیو پیتھک میڈیکل کالج چنیوٹ کے سیمینار میں ربوہ کے تین ہومیو پیتھک ڈاکٹرز نے شمولیت کی جن میں ہومیو پیتھک ڈاکٹر محمود احمد صاحب، ہومیوڈاکٹر فواد احمد صاحب اور اس سیمینار میں مکرم ناصر احمد صدیقی صاحب صدر احمد یہ ہومیو پیتھک ایسوسی ایسن نے بھی تقریر کی.۱۰.مورخہ 9 فروری ۲۰۰۳ء بروز اتوار عاملہ ایسوسی ایشن کی ایک میٹنگ مکرم محترم ناظر امور عامہ کے دفتر میں ہوئی جس میں کار کردگی کا جائزہ لیا گیا.۱۱.مورخہ ۴ / اپریل ۲۰۰۳ء بروز جمعہ نماز جمعہ کے بعد ایک سیمینار نصرت جہاں اکیڈمی ربوہ کے ہال میں ہوا جس میں ہائی بی پی ،شوگر، گردوں کا ناکارہ ہو جانا نیز یور یمیا پر مکرم ڈاکٹر ضیاء اللہ سیال صاحب نے مؤثر لیکچر دیا.مکرم ہومیوڈاکٹر مبارک احمد صاحب نے محمد ابراہیم فلورملز کی جانب سے اعزازی سرٹیفیکیٹ چھپوا کر ایسوسی ایشن کو دیئے جو حاضرین میں بانٹے گئے.ہومیو ڈاکٹر فواد احمد صاحب کی طرف سے بلڈ پریشر پر
350 معلوماتی چارٹ ، ہندل سپورٹس کالج روڈ ربوہ کی طرف سے ایس اللہ کے سٹکر ، احمد شاہی دیسی داوخانہ کی طرف سے تمام حاضرین کو اصلاح خون کے دیسی کپسول گفٹ دیئے گئے.۱۲.مورخه ۳ فروری ۲۰۰۳ ء بروز سوموار اڑھائی بجے دار الضیافت میں جدید پیتھالوجی کے مطابق تشخیص کے موضوع پر سیمینار ہوا جس میں بلڈ ٹیسٹ N.R.اٹسٹ دل کے بائی پاس والو گرافٹنگ، جدید مشینری سے معزز مہمان ڈاکٹر محمد عامر خان صاحب پیا تھالوجسٹ فضل عمر ہسپتال ربوہ نے ۵۳ حاضرین کولیکچر دیا.۱۳.مورخه ۱۶ دسمبر ۲۰۰۲ ء بروز سوموار دار الضیافت میں معزز مہمان خصوصی ڈاکٹر محمد اشرف صاحب سرجن فضل عمر ہسپتال ربوہ نے بعنوان سرجری لیکچر دیا.۶۳ حاضرین نے استفادہ کیا.۱۴.مورخہ ۲۷ دسمبر ۲۰۰۲ء کو نصرت جہاں اکیڈمی کے ہال میں سیمینار بعنوان سگریٹ نوشی کے نقصانات پر اور دل کے عوارض پر مہمان خصوصی ڈاکٹر ضیاء اللہ سیال صاحب ڈپ کارڈ نے دلچسپ حوالہ جات سے اور ہومیوڈاکٹر ناصر احمد صدیقی صاحب صدر ایسوسی ایشن نے سگرٹ اور تمباکو کے نقصانات پر لیکچرز دیئے.۱۵.ایک سیمینار دارالضیافت میں اڑھائی بجے منعقد ہوا جو انتہائی دلچسپی کا باعث اور انتہائی اہم تھا جس میں مکرم محترم ڈاکٹر محمد مسعود الحسن نوری صاحب نے ہارٹ کی امراض پر شاندار معلوماتی لیکچر دے کر سامعین کو احتیاطی تدابیر پیش فرمائیں.۱۶.مورخہ ۱۹ اکتوبر بروز جمعہ بعد نماز جمعہ اکیڈمی ہال میں ایک علمی نشست بعنوان گلہڑ ( گائٹر ) مکرم محترم ڈاکٹر ولی محمد صاحب ساغر سابق پروفیسر سرجری فیصل آباد منعقد ہوئی.۱۷.اسی طرح اکیڈمی ہال میں ایک اور شاندار علمی نشست ہوئی جس میں مکرم ڈاکٹر مبارک احمد شریف صاحب مریم ہسپتال ربوہ اور ڈاکٹر محمود احمد ساجد صاحب میڈیکل سپیشلسٹ فیصل آباد نے موثر ترین خطابات فرمائے.یہ خطابات تپدق کے موضوع پر مورخہ ۱۸ / مارچ ۲۰۰۲ء کو دیئے گئے یہ تپدق کے موضوع کا کامیاب ترین سیمینار تھا.اس میں اعزازی شمولیت سیمینار کی استاد بھی حاضرین کو دی گئیں.(بحوالہ ریکارڈ ہو میو پیتھک ایسوسی ایشن) آل پاکستان احمدی ٹیچر زایسوسی ایشن احمدی ڈاکٹرز، انجینئرز اینڈ آرکیٹیکٹ ، کمپیوٹر پروفیشنلز، ہومیوڈاکٹر ز اور احمدی بلائینڈز ایسوی ایشنز کے قیام کے بعد اب آل پاکستان احمدی ٹیچر زایسوسی ایشن بھی قائم ہو چکی ہے.مورخه ۱ارا پریل ۲۰۱۰ء کو احمدی ٹیچر ز کا ایوان محمود ہال ربوہ میں پہلا کنونشن ہوا.جس میں عہد یداران کا
351 انتخاب ہوا.ان عہد یداران کی تفصیل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری کے بعد حسب ذیل ہے.پیٹرن.مکرم سید طاہراحمد صاحب ناظر تعلیم صد را مجمن احمد یہ ربوہ پاکستان چیئر مین.ملک ملک خالد احمد زفر صاحب کھوکھر.وائس چیئر مین.مکرم داکٹر عبدالکریم خالد صاحب.جنرل سیکرٹری.مکرم ملک طارق محمود صاحب.فنانس سیکرٹری.مکرم معروف احمد سلطان صاحب.آڈیٹر مکرم مجید احمد بشیر صاحب.درج ذیل تین نمائندے کالج کی طرف سے مقرر ہوئے.مکرم محمد نواز احمد صاحب ، مکرم ظفر عباس تارڑ صاحب، مکرمہ طیبہ چیمہ صاحبہ سیکنڈری سیکشن کی طرف سے نمائندہ محترمہ آنسه نیم صاحبہ پرائمری سیکشن کی طرف سے نمائندہ محترمہ ناہید طارق صاحبہ اس ایسوسی ایشن کے قیام کا مقصد احمدی ٹیچرز کے درمیان رابطہ اور Co-ordination ہے.اور تعلیمی میدان میں احمدی ٹیچر ز اور طلباء کو آگے بڑھنے کی ترغیب دلانا اور اپنے اپنے تجربات سے ایک دوسرے کو مستفید کرنا ہے.تاکہ تعلیم کے میدان میں احمدی اسا تذہ اور ٹیچر زنمایاں کردار ادا کرسکیں.(بحوالہ ریکار ڈ آل پاکستان ٹیچر زایسوسی ایشن)
352
353 باب نهم با برکت تحریکات
354
355 تحریک جدید تحریک جدید ایک الہی تحریک ہے جسے حضرت مصلح موعود نے خدا تعالیٰ کی خاص مشیت اور اس کے القاء سے جاری فرمایا.یہ ایک انقلاب انگیز تحریک تھی جس کے ذریعے اکناف عالم میں توحید الہی کے قیام اور اشاعت دین حق کی مضبوط بنیاد ڈال دی گئی.اور جماعت احمدیہ کی دینی اور اشاعتی سرگرمیوں میں اس تحریک سے ایک نئے باب کا آغاز ہوا.اس تحریک کی بنیاد ۱۹۳۴ء میں رکھی گئی جبکہ جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفین کی ریشہ دوانیوں اور ایذاء رسانیوں نے تند و تیز طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی.اور جماعت کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے لئے ایک طرف احراری تحریک اپنے نقطہ عروج پر تھی.تو دوسری طرف اس وقت کی انگریز حکومت کے بعض اعلیٰ افسران بھی ان کی پشت پناہی کر رہے تھے اور اس سازش میں برابر کے شریک تھے.تحریک جدید ہے کیا؟ حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.پس تحریک جدید کیا ہے؟ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عقیدت کی یہ نیا ز پیش کرنے کے لئے ہے کہ وصیت کے ذریعہ تو جس نظام کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.اس کے آنے میں ابھی دیر ہے.اس لئے ہم تیرے حضور اس نظام کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کے ذریعہ پیش کرتے ہیں...غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آئی ہے مگر اس کے لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے گویا وہ نظام اس کے مسیح کے لئے ایک ایلیاہ نبی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا ظہور مسیح موعود کے غلبہ والے ظہور کے لئے بطور ارہاص کے ہے.ہر شخص جو تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے، وصیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہر شخص جو نظام وصیت کو وسیع کرتا ہے.وہ نظام کو کی تعمیر میں مدد دیتا ہے.“ ایک الہی تحریک (نظام نوصفحه ۱۳۰،۱۲۹) تحریک جدید کی سکیم کا نافذ ہونا خدا کی ازلی تقدیروں میں سے تھا ، احراری شورش تو محض ایک بہا نہ تھی.جیسا کہ وہ پہلے سے اس کے متعلق کئی بشارتیں دے چکا تھا.تحریک جدید کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ کشف بھی پورا ہو گیا جس میں حضور کو غلبہ دین حق کے لئے پانچ ہزار سپاہیوں پر مشتمل
356 ایک روحانی فوج دی گئی.چنانچہ حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.وو کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں.ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے.تب میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا.تب میں نے اس دوسرے کی طرف رخ کیا.جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے.وہ میری اس بات کو سن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا.تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر چہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں.اس وقت میں نے یہ آیت پڑھ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ عَلَيْتَ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللهِ پھر وہ منصور مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ خوشحال ہے مگر خدائے تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اس کے پہچاننے سے قاصر رکھا.لیکن امید رکھتا ہوں کہ کسی دوسرے وقت دکھایا جائے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۹ حاشیه) اس کشف کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کے افراد کو بھی تحریک جدید کے بابرکت ہونے کی نسبت بشارتیں ملیں.بیسیوں رویا و کشوف اور الہامات اس تحریک کے بابرکت ہونے کے متعلق لوگوں کو ہوئے.بعض کو رویا میں رسول کریم ﷺ نے بتایا کہ یہ تحریک بہت مبارک ہے اور بعض کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ یہ تحریک بابرکت ہے اور بعض کو الہامات ہوئے کہ یہ تحریک بہت مبارک ہے.غرض یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کے بابرکت ہونے کے متعلق بیسیوں رویا و کشوف اور الہامات کی شہادت موجود ہے.پس حقیقت یہی ہے کہ احرار کو تو خدا تعالیٰ نے ایک بہانہ بنا دیا کیونکہ ہر تحریک کے جاری کرنے کے لئے ایک موقعہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب تک وہ موقعہ میسر نہ ہو جاری کردہ تحریک مفید نتائج پیدا نہیں کر سکتی.ورنہ اس تحریک کو خدا تعالیٰ نے جاری کرنا ہی تھا.تحریک جدید براہ راست خدا تعالی کی نازل کردہ تحریک تھی جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے قلب مبارک پر ایسے رنگ میں یکا یک القاء ہوئی کہ دنیا کی روحانی فتح کی سب منزلیں اپنی بہت سی تفصیلات و مشکلات کے ساتھ حضور کے سامنے آ گئیں اور مستقبل میں لڑی جانے والی دین حق اور کفر کی جنگ کا ایک جامع نقشہ آپ کے دماغ میں محفوظ کر دیا گیا.اس کا تذکرہ خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے متعدد بار فرمایا.بطور مثال چند فرمودات درج ذیل ہیں.
357 وو ا میرے ذہن میں یہ تحریک بالکل نہیں تھی.اچانک میرے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تحریک نازل ہوئی.پس بغیر اس کے کہ میں کسی قسم کی غلط بیانی کا ارتکاب کروں میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ تحریک جدید جو خدا نے جاری کی ، میرے ذہن میں یہ تحریک پہلے نہیں تھی.میں بالکل خالی الذہن تھا.اچانک اللہ تعالیٰ نے یہ سکیم میرے دل پر نازل کی اور میں نے اسے جماعت کے سامنے پیش کر دیا.پس یہ میری تحریک نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ تحریک ہے.“ ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ نومبر ۱۹۴۲ء مطبوعه الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۴۲ء) یہ مت خیال کرو کہ تحریک جدید میری طرف سے ہے.نہیں بلکہ اس کا ایک ایک لفظ میں قرآن کریم سے ثابت کر سکتا ہوں اور ایک ایک حکم رسول کریم ﷺ کے ارشادات میں دکھا سکتا ہوں پس یہ خیال مت کرو کہ جو میں نے کہا ہے وہ میری طرف سے ہے بلکہ یہ اس نے کہا ہے جس کے ہاتھ میں تمہاری جان ہے.میں اگر مر بھی جاؤں تو وہ دوسرے سے یہی کہلوائے گا اور اس کے مرنے کے بعد کسی اور سے.بہر حال چھوڑے گا نہیں جب تک تم سے اس کی پابندی نہ کرالے.“ ( خطبه جمعه فرموده ۱۳دسمبر ۱۹۳۵ء الفضل ۲۱ ؍ دسمبر ۱۹۳۵ء) تحریک جدید کے اغراض و مقاصد دعوت الی اللہ اور تربیت تحریک جدید کے اجراء کی دو بنیادی اغراض اور مقاصد تھے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۱۸/ نومبر ۱۹۳۸ء میں فرمایا:.وو تبلیغ اور تعلیم وتربیت دو نہایت ہی اہم کام ہیں اور انہی دونوں کاموں کو تحریک جدید میں مدنظر رکھا گیا ہے.“ تبلیغ : اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں توحید کا قیام اور دین حق کی اصل تعلیم کی اشاعت کی جائے.لوگوں کے سامنے دین حق کی صحیح اور خوبصورت تصویر پیش کی جائے.تا تمام دنیا تک حضرت محمد مصطفی ﷺ کا پیغام پہنچ سکے اور وہ آپ کے جھنڈے تلے آکر نجات پائیں.یعنی اس مقصد کو حاصل کیا جاسکے جس کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود کو مبعوث کیا گیا تھا.تربیت : اس سے مراد یہ ہے کہ احباب جماعت کی ایسے رنگ میں تربیت کی جائے کہ دنیا میں اسلامی تمدن کو قائم کیا جائے.احباب جماعت اپنی زندگی کو اس نمونہ کے مطابق ڈھالیں جس کو صحابہ نے پیش کیا.اسی طرح اپنی زندگی گزاریں اور انہی کی طرح ہر وقت ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہیں.کیونکہ قربانیوں کے بغیر قو میں
358 ترقی نہیں کیا کرتیں.قربانیاں قوموں کی سانس ہوتی ہیں جب تک وہ قائم رہتی ہیں قوم زندہ رہتی ہے اور ترقی کرتی چلی جاتی ہے اور جب قربانیاں نہیں رہتیں تو تو میں بھی نہیں رہا کرتیں.پس ان قربانیوں کیلئے جماعت کی ایسے رنگ میں تربیت کرنا کہ وہ ماحول پیدا ہو جائے جو قربانیاں کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے.ان دو مقاصد کے حصول کے لئے ضرورت تھی.ا.آدمیوں کی ۲.روپے کی ۳.عزم واستقلال کی ۴.دعاؤں کی اس کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک جدید کی سکیم پیش کی جس میں آپ نے احباب جماعت سے مختلف اوقات میں مختلف مطالبات کئے.انہی چیزوں کے مجموعے کا نام تحریک جدید ہے.یہ ایک ضابطہ حیات ہے.تحریک جدید دراصل قربانی ہی کا دوسرا نام ہے.حضرت مصلح موعودؓ تحریک جدید کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.وو تمام لوگوں تک پہنچنے کے لئے ہمیں آدمیوں کی ضرورت ہے، ہمیں روپیہ کی ضرورت ہے، ہمیں عزم اور استقلال کی ضرورت ہے اور ہمیں ان دعاؤں کی ضرورت ہے، جو خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیں اور انہی چیزوں کے مجموعہ کا نام تحریک جدید ہے.تحریک جدید کو اس لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ہمارے پاس ایسی رقم جمع ہو جائے ، جس سے خدا تعالیٰ کے نام کو دنیا کے کناروں تک آسانی اور سہولت سے پہنچا دیا جائے.تحریک جدید کو اس لئے جاری کیا گیا ہے تا کہ کچھ افراد ایسے میسر آجائیں، جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے وقف کر دیں اور اپنی عمریں اس کام میں لگادیں.تحریک جدید کو اس لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ وہ عزم اور استقلال ہماری جماعت میں پیدا ہو، جو کام کرنے والی جماعتوں کے اندر پایا جانا ضروری ہوتا ہے....تو تحریک جدید سے میری غرض جماعت میں صرف سادہ زندگی کی عادت پیدا کرنا نہیں.بلکہ میری غرض انہیں قربانیوں کے تنور کے پاس کھڑا کرنا ہے.“ (خطبہ جمعہ فرموده ۲۷ نومبر۱۹۴۴، مطبوعه الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۴۲ء) ( بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ حضرت مصلح موعوددؓ نمبر ماہ مئی، جون، جولائی ۲۰۰۹ صفحه ۲۷۱ تا ۲۷۴ از میگرم خالد محمودالحسن بھٹی صاحب وکیل الدیوان تحریک جدیدر بوہ ) مطالبات تحریک جدید حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے تحریک جدید کے تحت جماعت سے مختلف اوقات میں مختلف مطالبات کئے جن کی کسی قدر تفصیل حسب ذیل ہے جو مطالبات تحریک جدید کہلاتے ہیں.
359 ا.سادہ زندگی اس زمانہ میں مالی قربانی کی بہت ضرورت ہے اس لئے سب مرد اور عورتیں اپنی زندگی کوسادہ بنائیں اور اخراجات کم کر دیں تا کہ جس وقت قربانی کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے وہ تیار ہوں.قربانی کے لئے صرف تمہاری نیت ہی فائدہ نہیں دے سکتی جب تک تمہارے پاس سامان بھی مہیا نہ ہوں...پیس اگر سامان مہیا نہ ہوں تو ہم وہ قربانی کسی صورت میں بھی پیش نہیں کر سکتے جس کی ہمیں خواہش ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سادہ زندگی اختیار کرے تا کہ وقت آنے پر وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے تقریر فرموده ۲۶ مئی ۱۹۳۵ء مطبوعه الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۵ء) سامنے پیش کر سکے.“ ۲.امانت فنڈ ’ جماعت کے مخلص افراد کی ایک جماعت ایسی نکلے جو اپنی آمد کا ۱۷۵ سے ۱٫۳ حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے لئے تین سال تک بیت المال میں جمع کرائے.“ ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ نومبر ۱۹۳۴ء الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۴ء) ۳.دشمن کے گندے لٹریچر کا جواب دشمن کے مقابلہ کے لئے اس وقت بڑی ضرورت ہے کہ وہ جو گندالٹر پچر ہمارے خلاف شائع کر رہا ہے اس کا جواب دیا جائے یا اپنا نقطہ نگاہ احسن طور پر لوگوں تک پہنچایا جائے.“ (خطبه جمعه فرموده ۱۵/ نومبر ۱۹۳۵ء الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۳۵ء) ۴ تبلیغ بیرون ہند ”مذہبی سلسلے ضرور ایک وقت دنیا کے تو پچانوں کی زد میں آتے ہیں اور وہ کبھی ظلم وستم کی تلوار کے سایہ کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے.پس ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مختلف ممالک میں ان کی شاخیں ہوں تا کہ اگر ایک جگہ وہ ظلم وستم کا تختہ مشق ہوں تو دوسری جگہ ان کی امن کے ساتھ ترقی ہو رہی ہو ان کا مذہبی لٹریچر دشمن کی دست برد سے محفوظ رہے.جو شخص بھی اس سلسلہ کو ایک آسانی تحریک سمجھتا ہے اسے اس امر کیلئے تیار ہونا پڑے گا اور جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتا.وہ حقیقت میں اس سلسلہ کو نہیں سمجھتا.غرض سلسلہ احمدیہ کسی جگہ بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ سکتا اس لئے جب تک ہم سارے ممالک میں اپنے لئے جگہ کی تلاش نہ کریں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳۰ نومبر۱۹۳۴، مطبوعه الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۴ء)
360 ۵ تبلیغ کی خاص سکیم میں مالی حصہ وو.....جماعت سے قربانی کا پانچواں مطالبہ یہ ہے کہ تبلیغ کی ایک سکیم میرے ذہن میں ہے جو 66 دوست اس میں بھی مالی لحاظ سے حصہ لے سکتے ہوں وہ لیں.“ تبلیغی سروے ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ نومبر ۱۹۳۴ء مطبوعه الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۴ء) میں یہ چاہتا ہوں کہ وقف کنندگان سائیکلوں پر سارے پنجاب کا دورہ کریں اور اشاعت سلسلہ کے امکانات کے متعلق مفصل رپورٹیں مرکز کو بھجوائیں مثلاً یہ کہ کس علاقہ کے لوگوں پر کس طرح اثر ڈالا جاسکتا ہے کون کون سے بااثر لوگوں کو تبلیغ کی جائے تو احمدیت کی اشاعت میں خاص مددمل سکتی ہے کس کس گاؤں کے لوگوں کی کس کس جگہ کے احمدیوں سے رشتہ داریاں ہیں کہ ان کو وہاں بھیج کر تبلیغ ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ نومبر ۱۹۳۴ء مطبوعه الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۴ء) کروائی جائے.“ ے.وقف رخصت سرکاری ملازمین جن کی تین ماہ کی رخصتیں جمع پڑی ہوں یا قریب کے زمانہ میں جمع ہونے والی ہوں اور وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے ان رخصتوں کو وقف کر دیں.پھر ہم انہیں جہاں چاہیں تبلیغ کے لئے بھیج دیں.ان کے متعلق میری سکیم یہ ہے کہ ان کو ایسی جگہ بھیجیں جہاں احمدی جماعتیں نہیں.ان کو وہاں بھیج دیا جائے جہاں ان کی ملازمت کا واسطہ اور تعلق نہ ہو...وہ اپنا خرچ آپ برداشت کریں ہم اس بات کو مدنظر رکھیں گے کہ انہیں اتنی دور بھیجا جائے کہ ان کے لئے سفر کے اخراجات برداشت کرنے مشکل نہ ہوں.اگر کسی کو اور جگہ بھیجا گیا تو کسی قدر بوجھ اخراجات سفر کا سلسلہ برداشت کرلے گا اور باقی اخراجات کھانے پینے پہنے کے وہ خود برداشت کریں ان کو کوئی تنخواہ نہ دی جائے گی نہ کوئی کرایہ ، سوائے اس کے جسے بہت دور بھیجا جائے.“ وقف زندگی وو ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ را پریل ۱۹۴۰ء الفضل ۳ رمئی ۱۹۴۰ء) تم سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا اور جوا کیلا حقیقی مطالبہ ہے وہ تمہاری جان کا مطالبہ ہے نہ صرف تمہیں اس مطالبہ کو پورا کرنا چاہئے بلکہ ہر وقت یہ مطالبہ تمہارے ذہن میں مستحضر رہنا چاہئے.
361 کیونکہ اس وقت تم میں جرات و دلیری پیدا نہیں ہو سکتی جب تک تم اپنی جان کو ایک بے حقیقت چیز سمجھ کر دین کے لئے اسے قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار نہ ہو.“ ۹.وقف رخصت موسمی ( خطبه جمعه فرموده ۱۱ جنوری ۱۹۳۵ء الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۵ء) اپنی زندگیوں کو خدمت دین کے لئے وقف کرو اور سال میں سے مہینہ دو مہینے یا تین مہینے تبلیغ کے لئے دو تا انہیں ایک دو یا تین ماہ کے لئے مختلف مقامات پر تبلیغ کے لئے بھیجا جا سکے جس قدر ملازم، زمیندار تاجر اور پیشہ ور اور جنہیں چھٹیاں مل سکتی ہیں، میں ان سب کو تحریک کرتا ہوں کہ ایک دو یا تین ماہ جتنا عرصہ کوئی دے سکے تبلیغ کے لئے دیں...پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی چھٹیوں کو تبلیغ کے لئے وقف کر دیں.“ ( تقریر فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۳۵، مطبوعه الفضل ۱۴/ مارچ ۱۹۳۶ء) ۱۰.صاحب پوزیشن لیکچر دیں وو......جو دوست لیکچر دینے کی قابلیت رکھتے ہیں اور اپنے عہدہ یا کسی علم وغیرہ کے لحاظ سے لوگوں میں پوزیشن رکھتے ہوں.یعنی ڈاکٹر ہوں ، وکلاء ہوں یا اور ایسے ہی معزز کاموں پر یا ملازمتوں پر ہوں.جن کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں ایسے لوگ اپنے آپ کو پیش کریں یا مختلف مقامات کے جلسوں میں مبلغوں کے سوا ان کو بھیجا جائے اور ان سے تقریریں کرائی جائیں کیونکہ تقریر کرنے والا اگر کوئی وکیل یا ڈاکٹر یا کوئی عہدیدار ہو تو لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ اس جماعت کے سب افراد میں خواہ وہ کسی طبقہ کے ہوں دین سے رغبت اور واقفیت پائی جاتی ہے اور خواہ ان کے منہ سے وہی باتیں نکلیں جو مولوی بیان کرتے ہیں.مگر ان کا اثر بہت زیادہ ہوگا.“ ۱۱.ریز ورفنڈ وو ( خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۳۵ء الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۵ء)....موجودہ حالات اور بعض مجبوریوں کی وجہ سے ضروری ہے کہ ہمارا ایک مستقل ریزرو فنڈ ہو.جس کی آمدنی سے مستقل اخراجات چلائے جائیں اور ہنگامی کاموں کے لئے چندہ ہو.اخلاقی لحاظ سے بھی.یعنی جماعت کی اخلاقی حالت کو محفوظ رکھنے نیز کام کی وسعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ ایک مستقل ریز روفنڈ قائم کیا جائے.تحریک جدید کے متعلق میرا یہی خیال ہے کہ اس کے مستقل اخراجات ریز روفنڈ کی آمد سے ادا کرنے کا انتظام کیا جائے اور چندوں کا ایک ایک پیسہ
362 ہنگامی کاموں پر خرچ ہو.تاہر ایک شخص کو نظر آ سکے کہ تحریک کے کاموں پر کیا خرچ ہورہا ہے.اس لئے 66 ایسے اتار چڑھاؤ سے تبلیغی کاموں کو محفوظ کرنے کے لئے میں نے ایک ریز روفنڈ کی تجویز کی.“ خطبه جمعه فرموده ۷ افروری ۱۹۳۶ء) ۱۲.پنشنرز اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کریں وو میں تحریک کرتا ہوں کہ بیسیوں آدمی جو پنشن لیتے ہیں اور گھروں میں بیٹھے ہیں خدا نے ان کو موقعہ دیا ہے کہ چھوٹی سرکار سے پنشن لیں اور بڑی سرکار کا کام کریں.یعنی دین کی خدمت کریں.بیسیوں ایسے لوگ ہیں جو پنشن لیتے ہیں اور جنہیں اپنے گھروں میں کوئی کام نہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں.“ ۱۳.طلباء کو تعلیم کے لئے مرکز بھیجیں وو ( خطبه جمعه فرموده ۳۰ / نومبر ۱۹۳۴ء مطبوعه الفضل ۹ دسمبر ۱۹۳۴ء) ایک مطالبہ قادیان میں تعلیم کیلئے بچوں کو بھجوانے کا ہے...باہر کے دوست اپنے بچوں کو قادیان کے ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ میں جس میں چاہیں تعلیم کے لئے بھیجیں.میں عرصہ سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے مرکزی سکولوں میں باہر سے دوست کم بچے بھیج رہے ہیں.ایسے لوگ اپنے بچوں کو پیش کریں جو اس بات کا اختیار دیں کہ ان کے بچوں کو ایک خاص رنگ اور خاص طرز میں رکھا جائے.“ ( خطبه جمعه فرموده ۳۰ نومبر ۱۹۳۴ء مطبوعه الفضل ۹؍ دسمبر ۱۹۳۴ء) ۱۴.صاحب حیثیت لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں جماعت سے مشورہ کریں بعض صاحب حیثیت لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں ان سے میں وو کہوں گا کہ بجائے اس کے کہ بچوں کے منشاء اور خواہش کے مطابق ان کے متعلق فیصلہ کریں یا خود 66 اپنے دوستوں سے مشورہ کریں، وہ اپنے لڑکوں کے مستقبل کو سلسلہ کے لئے پیش کردیں.“ ( خطبه جمعه فرموده ۳۰ / نومبر ۱۹۳۴ء مطبوعه الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۳۴ء) ۱۵.بے کا رد نیا میں نکل جائیں خود کھا ئیں اور کھا ئیں تبلیغ کریں وو پندرھواں مطالبہ جو جماعت سے بلکہ نوجوانان جماعت سے یہ ہے کہ وہ نوجوان جو گھروں میں پریکار بیٹھے روٹیاں توڑتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض بتارہے ہیں انہیں چاہئے کہ وطن
363 66 چھوڑ دیں اور نکل جائیں.( خطبہ جمعہ فرموده ۳۰ / نومبر ۱۹۳۴ء مطبوعه الفضل ۹/ دسمبر ۱۹۳۴ء).اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں وو...احباب جماعت کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.سادہ کھائیں، سادہ کپڑا پہنیں، دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں، کوئی احمدی بیکار نہ رہے.اگر کسی کو جھاڑو دینے کا کام ملے تو وہ بھی کر لے اس میں بھی فائدہ ہے.بہر حال کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیئے.ہر شخص کوشش کرے کہ وہ بریکار نہ رہے.“ ۱۷ بے کار نہ رہیں جو کام بھی ملے وہی کریں خطبه جمعه فرموده ۲۹ نومبر ۱۹۳۵ء) میں نے بارہا کہا ہے کہ بے کا رمت رہو اور کام کرو...میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید تمہیں اس وقت تک کامیاب نہیں کر سکتی جب تک رات دن ایک کر کے کام نہ کرو....میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ محنت کی عادت ڈالو، بے کاری کی عادت کو ترک کردو، فضول مجلسیں بنا کر گہیں ہانکنا اور بکواس کرنا چھوڑ دو.حقہ اور دیگر ایسی لغو عادتوں میں وقت ضائع نہ کرو اور کوشش کرو کہ زیادہ سے زیادہ کام کر سکو ( خطبه جمعه فرموده ۲۲ جنوری ۱۹۳۷ء مطبوعه الفضل ۳ فروری ۱۹۳۷ء) ۱۸.مرکز میں مکان بنا ئیں وو باہر کے دوست قادیان میں مکان بنانے کی کوشش کریں.جوں جوں قادیان میں احمدیوں کی آبادی بڑھے گی ، ہمارا مرکز ترقی کرے گا اور غیر عنصر خود بخود کم ہوتا جائے گا.ہر مکان جو قادیان میں بنتا ہے وہ احمدیت کو زیادہ مضبوط کر دیتا ہے.تم قادیان میں مکان بنا کر صرف اپنی جائیداد نہیں بناتے بلکہ اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی جائیداد بھی بڑھاتے ہو.ہر اینٹ جو تمہارے مکان میں لگائی جاتی ہے، وہ صرف تمہارے مکان کو ہی مضبوط نہیں کرتی بلکہ سلسلہ اور اسلام کو بھی مضبوط کرتی ہے.“ ۱۹.دعا وو ( خطبه جمعه فرموده ۱۰ جنوری ۱۹۳۶ء) ایک اور چیز باقی رہ گئی ہے جو سب کے متعلق ہے گوغر باء اس میں زیادہ حصہ لے سکتے ہیں د نیوی سامان خواه کسی قدر کئے جائیں آخر دنیاوی سامان ہیں اور ہماری ترقی کا انحصار ان پر نہیں بلکہ ہماری ترقی خدائی سامان کے ذریعہ ہوگی اور یہ خانہ اگر چہ سب سے اہم ہے مگر اسے میں نے آخر میں
364 رکھا ہے اور وہ دعا کا خانہ ہے.وہ لوگ جو ان مطالبات میں شریک نہ ہوسکیں اور ان کے مطابق کام نہ کرسکیں وہ خاص طور پر دعا کریں کہ جو لوگ کام کر سکتے ہیں خدا تعالیٰ انہیں کام کرنے کی توفیق دے اور ان کے کاموں میں برکت ڈالے....پس وہ لوگ جو مجبوری اور معذوری کی وجہ سے کسی مطالبہ کو پورا کرنے میں حصہ نہیں لے سکتے، میں نے ایسی تجویز بتائی ہے کہ اس میں وہ سب شریک ہو سکتے ہیں اور یہ سب سے اعلیٰ اور ضروری تجویز ہے.“ 20.اسلامی تمدن کا قیام وو ( خطبه جمعه فرموده ۳۰ نومبر ۱۹۳۴ء مطبوعه الفضل ۹ دسمبر ۱۹۳۴ء) ہر جگہ تمام دوستوں کو اکٹھا کر کے ان سے پھر عہد لیا جائے کہ وہ اسلامی تمدن اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے اور احیائے دین اور قیام شریعت کر کے اپنی بنیادوں کو مضبوط کریں گے تا قلیل سے قلیل عرصہ میں وہ تمدن قائم ہو جائے جس کو دین حق قائم کرنا چاہتا ہے اور جس کو قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے.“ 21 قومی دیانت کا قیام وو ( خطبه جمعه فرموده ۱۴ جنوری ۱۹۳۸ء الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۳۸ء صفحه ۷ ) اخلاقی لحاظ سے اصولی صداقتیں چار ہیں دیانت ،صداقت ہمحنت اور قربانی.اور اگر یہ چار تم اپنے اندر پیدا کر لو یقیناً تم کامیاب ہو سکتے ہو.“ ( خطبه جمعه فرموده ۱۴ جنوری ۱۹۳۸ء الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۳۸ صفحه ۸) 22.عورتوں کے حقوق کی حفاظت وو عورتوں کے حقوق برابر دیئے جائیں اور ان کا خاص خیال رکھا جائے خصوصا جب کہ ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان کے احساسات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے.لہذا یا تو دوسری شادی نہ کی جائے اور اگر کی جائے تو پورا انصاف کرے.“ 66 23.راستوں کی صفائی وو اپنے ہاتھوں سے کام کر کے تمام راستوں کو فراخ اور سیدھا کیا جائے اور اونچی نیچی جگہوں کو ہموار کیا جاوے اور گندگی کو دور کیا جاوے تاکہ دیکھنے والا دیکھتے ہی سمجھ لے کہ احمدی جماعت کا محلہ یا گاؤں ہے.
365 ۲۴.احمد یہ دارالقضاء کا قیام وو سوائے ان مقدمات کے کہ جن کے متعلق قانون کہتا ہے کہ ان کو عدالتوں میں لے جانا ضروری ہے باقی سب مقدمات کا فیصلہ شریعت کے مطابق کیا جائے اور اس ضرورت کے لئے جماعت میں پنچائتیں اور بورڈ بن جائیں“.۲۵.وقف اولاد وو اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی نسل بڑھے اور پھیلے اور اسے اور اس کی نسلوں کو عزت ملے تو اس کا طریق یہ ہے کہ اپنی اولاد کو دین کی راہ میں قربان کر دے.یہ ایک ایسا گر ہے کہ ہمارے دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہے.اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی نسلیں دنیا پر چھا جائیں اور ہزاروں سال تک ان کا نام عزت کے ساتھ زندہ رہے تو وہ اسوہ ابراہیمی پر عمل پیرا ہوں.“ وو ( خطبہ عید الاضحیه فرموده ۹ / جنوری ۱۹۴۱ء الفضل ۷ ار جنوری ۱۹۴۱ء) ۲۶.وقف جائیداد و آمد.....جب اللہ تعالیٰ نے اب اسلام کی فتح کی ایک بنیادرکھ دی ہے تو یقیناً اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالی اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے ہم سے نئی قربانیوں کا مطالبہ کرنے والا ہے.ساری جماعت بیشک چندے دیتی ہے اور بہت دیتی ہے، قربانیاں کرتی ہے اور بہت کرتی ہے.مگر یہ قربانیاں اسلام کی اشاعت کے لئے کافی نہیں.پس میں تجویز کرتا ہوں اور اس تجویز کے مطابق سب سے پہلے میں اپنے وجود کو پیش کرتا ہوں کہ ہم میں سے کچھ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے اپنی جائیدادوں کو اس صورت میں دین کے لئے وقف کر دیں کہ جب سلسلہ کی طرف سے ان سے مطالبہ کیا جائے گا انہیں وہ جائیداد اسلام کی اشاعت کے لئے پیش کرنے میں قطعا کوئی عذر نہیں ہوگا.“ ۲۷.حلف الفضول ( خطبه جمعه فرموده ۱۰/ مارچ ۱۹۴۴ء مطبوعه الفضل ۱۴ / مارچ ۱۹۴۴ء ) : در حقیقت یہ اس زمانہ کی اہم نیکی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں بالخصوص امیر لوگ غریبوں کو لوٹتے ہیں اور اس لوٹنے میں راحت محسوس کرتے ہیں.شاید اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے.یہ عہد کریں کہ ہم کسی کا حق نہیں ماریں گے اور جہاں پتہ لگے گا کہ کوئی کسی کا حق مار رہا ہے ہم وہاں جا پہنچیں گے اور خواہ کوئی ہم سے پوچھے یا نہ پوچھے ہم ضرور اس میں دخل
366 دیں گے کہ اس کا حق ملنا چاہئے.اسی طرح ہماری جماعت کے چند افراد یہ عہد کر لیں کہ ہم دیانت و امانت کو قائم کریں گے اور جہاں پتہ لگے گا کہ کسی کی حق تلفی ہورہی ہے.چاہے کوئی پوچھے یا نہ پوچھے ہم چودھری بن کر جا پہنچیں گے اور کوشش کریں گے کہ مظلوم کا حق دلایا جائے.“ ( خطبه جمعه فرموده ۱۴ جولائی ۱۹۴۴ء مطبوعه الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۴۴ء) ان مطالبات میں درج ذیل تین مطالبات نمایاں ہیں :.ا تبلیغ دین کے لئے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں.۲.احمدی ایک خاص چندہ میں حصہ لیں جس کے ذریعہ دین حق کی بیرونی ممالک میں اشاعت کی جائے گی.اس چندہ کو چندہ تحریک جدید کہتے ہیں.تمام احمدی سادہ زندگی اختیار کریں.حتی الامکان ایک کھانا کھائیں.سادہ لباس پہنیں وغیرہ.ان باتوں کی اصل غرض یہ تھی کہ ہم اپنے اخراجات کو کم کر کے زیادہ سے زیادہ رقم جمع کر کے چندہ میں دے سکیں.مخلصین جماعت نے جس والہانہ انداز میں اپنے محبوب امام کی آواز پر لبیک کہا وہ جماعت کے اخلاص کا ایک غیر معمولی نمونہ تھا.حضور نے احباب جماعت سے ستائیس ہزار روپے کا مطالبہ کیا تھا جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی.مگر حضور کی دعاؤں سے مخلصین جماعت نے ستائیس ہزار روپے کی بجائے ایک لاکھ دس ہزار روپے پیش کر دئے.جماعت کی اس غیر معمولی قربانی کے جذبہ نے اپنے تو اپنے دشمنان احمدیت کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا.چنانچه مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی صدر مجلس احرار نے ۲۳ اپریل ۱۹۳۵ء کو ایک تقریر کے دوران تحریک جدید کی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:.” جہاں ہم میاں محمود کے دشمن ہیں وہاں ہم اس کی تعریف بھی کرتے ہیں.دیکھو اس نے اپنی جماعت کو جو ہندوستان میں ایک تنکے کی مانند ہے کہا کہ مجھے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ چاہئے.جماعت نے ایک لاکھ دے دیا.اس کے بعد گیارہ ہزار کا مطالبہ کیا تو اسے دگنا تگنا دے دیا.“ (الفضل ۲۶ / اپریل ۱۹۳۹ء) مالی قربانی کے علاوہ دوسرے مطالبات پر بھی افراد جماعت نے جس جذبہ اطاعت کے ساتھ اپنے پیارے امام کی آواز پر لبیک کہا وہ تاریخ احمدیت کا ایک سنہری باب ہے.حضور کے مطالبہ پر کہ بے کارنو جوان باہر غیر ممالک میں نکل جائیں.کئی نوجوان اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور نامساعد حالات کے باوجود
367 غیر ممالک میں پہنچ گئے.درجنوں تعلیم یافتہ نو جوانوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر دیں.اور بیرونی ممالک میں پہنچ کر نہایت ہی قلیل گزارہ پر اشاعت دین حق میں مصروف ہو گئے.پھر حضور نے اپنے مطالبات میں سب سے پہلے مطالبہ سادہ زندگی گزارنے کا بھی کیا تھا.جو ہماری تہذیب و تمدن کی عمارت میں بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے.جماعت کے مخلصین نے اس مطالبہ کے مطابق کھانے ، لباس ، علاج اور سینما وغیرہ کے بارہ میں اپنے پیارے امام کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا.کھانے میں تکلفات یکسر ختم کر دیئے.بعض نے دو دو، تین تین سال تک کوئی نیا کپڑا نہ بنوایا.چنانچہ امرتسر سے چھپنے والے رنگین اخبار کے سکھ ایڈیٹر ارجن سنگھ عاجز نے کہا کہ:.احمدیوں کا امام ان کی گھریلو زندگی پر بھی نگاہ رکھتا ہے اور وقتاً فوقتاً ایسے احکام صادر کرتا ہے جن پر عمل کرنے سے خوشی کی زندگی بسر ہو سکے.میں یہاں ان کے امام کے چند احکام کا ذکر کرتا ہوں.جن سے اندازہ ہو سکے گا کہ یہ جماعت کیوں ترقی کر رہی ہے.امام جماعت نے حال ہی میں جو پروگرام اپنے پیروؤں کے سامنے رکھا ہے ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ ہر بڑے یا چھوٹے امیر یا غریب کے دستر خوان پر ایک سے زیادہ کھانا نہ ہو.یہ حکم طبی اور اقتصادی پہلوؤں سے پر کھنے کے بعد شاندار نتائج کا ذمہ دار ثابت ہو سکتا ہے.یوں تو ہر ایک ریفارمر اور عقلمند اپنے پیروؤں کو اس قسم کا حکم دے سکتا ہے لیکن کو نسار یفار مرہے جو دعویٰ سے کہہ سکے کہ اس کے سو فیصدی مرید اس کے ایسے حکم کی پوری تعمیل کرنے کے لئے حاضر ہوں گے.صرف امام قادیان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ایسے مریدوں نے جن کے دستر خوان پر درجنوں کھانے ہوتے تھے اپنے امام کے حکم کے ماتحت اپنے رویہ میں فوری تبدیلی کر لی ہے.اور آج کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ کوئی احمدی اپنے امام کے اس آرڈر کی خلاف ورزی کر رہا ہو (سیر قادیان ص ۷ ۱ تا ۲۰ بحواله تاریخ احمدیت جلد ہشتم ص ۴۱ - ۴۲) 66 پس یہ تحریک بہت ہی بابرکت ہوئی اس کی وجہ سے دنیا کے بہت سے ممالک میں تبلیغی مشن قائم ہوئے.لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کیا.کئی زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے ہوئے.جماعت میں قربانی اور اخلاص کی ایک لہر پیدا ہوگئی.چندہ تحریک جدید نے ایک مستقل شکل اختیار کر لی.چنانچہ یہ چندہ جس کا ابتدائی مطالبہ صرف ساڑھے ستائیس ہزار روپے تھا اب خدا کے فضل سے اس کا بجٹ کروڑوں میں ہوتا ہے.وقف کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے بہت سے نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کر کے حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے.وقف کرنے والے خوش نصیب اصحاب میں سے چند نو جوانوں کو بیرونی ممالک میں بھجوانے کے لئے منتخب فرمایا.یہ مجاہدین جن کو تحریک جدید کا ہر وال دستہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا حسب ذیل ہیں:.
368 ا.مولوی غلام حسین ایاز صاحب ۲.چوہدری عبد الغفور صاحب ۳.چوہدری محمد اسحق صاحب سیالکوٹی صوفی عبد القدیر نیاز صاحب ۵.حافظ مولوی عبد الغفور جالندھری صاحب ۶.چوہدری حاجی احمد خاں ایاز صاحب ۸ - مولوی رمضان علی صاحب ے.محمد ابراہیم ناصر صاحب ۹.ملک شریف احمد صاحب آف گجرات ۱۰.مولوی محمد دین صاحب ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۸ص۷۴ ) اور اب تک جو ۱۹۸ ممالک میں حضرت مسیح و مہدی موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں قائم ہو چکی ہیں.ان کے قیام میں زیادہ حصہ مجاہدین تحریک جدید کونصیب ہوا ہے.الحمدللہ علی ذالک.تحریک جدید کی برکات کی دیگر مفصل تفصیل اس کتاب کے باب نمبر ۱۴ میں دی گئی ہے.تحریک جدید انجمن احمدیہ کا نظام تحریک جدید جیسی عظیم الشان اور عالمی تحریک کے دفتر کا آغاز نہایت مختصر صورت اور بظاہر معمولی حالت میں ہوا.شروع میں اس کے لئے کوئی مستقل عمارت نہیں تھی.حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی منظوری سے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری قادیان کا ایک کمرہ مخصوص کیا گیا.تحریک جدید کے سب سے پہلے واقف زندگی کارکن مرزا محمد یعقوب صاحب تھے جن کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے نومبر ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کے مختلف مطالبات پر لبیک کہنے والوں اور زندگی وقف کرنے والوں کی فہرست تیار کرنے کا کام سپر دفرمایا تھا.مستقل دفتر کا قیام اور اس کے پہلے انچارج تحریک جدید کے دفتر کا مستقل صورت میں قیام آخر جنوری ۱۹۳۵ء میں ہوا جبکہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مولوی عبد الرحمن صاحب انور بوتالوی کو انچارج تحریک جدید مقر فر مایا اور قصر خلافت قادیان کے ایک کمرہ میں جو چوبی سیڑھیوں سے ملحق تھا دفتر تحریک جدید قائم کیا گیا جوکئی سال تک دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے اس کمرہ ہی میں رہا.بعد ازاں جب کام وسعت اختیار کر گیا تو حضرت سید ناصر شاہ صاحب کے ایک حصہ مکان میں بیرونی مشنوں اور تجارتی شعبہ کا دفتر کھول دیا گیا.مگر جب یہ جگہ بھی ناکافی ثابت ہوئی تو حضرت شاہ صاحب کے مکان سے متصل زمین میں تحریک جدید کی اپنی مستقل عمارت تعمیر کی گئی.جہاں ۱۹۴۷ء تک تحریک جدید
369 مولوی کے مختلف شعبے مصروف عمل رہے.جناب مولوی عبدالرحمن صاحب انور ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۶ ء تک تحریک جدید کے انچارج رہے." صاحب موصوف نے گیارہ بارہ سال سوائے وکالت مال کے کام کے سارا کام اکیلے کیا.وہ ابتدائی تنظیم کی حالت تھی.کام میں تنوع نہ تھا لیکن ذمہ داری کا کام تھا.اور مولوی صاحب نے اپنی استطاعت کے مطابق اچھا نبھایا.“ جیسا کہ مجلس تحریک جدید نے ۱۲ مارچ ۱۹۵۱ء کو اپنی ایک مخصوص قرار داد ( ب /۲۶۷) میں آپ کی خدمت کا اقرار کیا.فنانشل سیکرٹری کا تقرر جہاں تک تحریک جدید کے مالی مطالبات سے متعلق کام کا تعلق تھا تو یہ خدمت سید نا حضرت مصلح موعودہؓ نے ۲۴ نومبر ۱۹۳۴ء سے چودھری برکت علی خاں صاحب کو سپر دفرمائی اور ان کو فنانشل سیکرٹری مقرر کیا.چودھری برکت علی صاحب اس عہدہ پر قریباً ربع صدی تک فائز رہے.اور یکم اپریل ۱۹۵۸ء کو ریٹائر ڈ ہوئے.بعد میں یہ عہدہ وکیل المال“ کے نام سے موسوم ہوا.تحریک جدید کی رجسٹریشن ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو تحریک جدید کی رجسٹریشن ہوئی اور اس تاریخ سے اس کا پورا نام 'تحریک جدید انجمن احمدیہ رکھا گیا.تحریک جدید کے آرٹیکلز اینڈ میمورنڈم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے مرتب کئے.بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ابتدائی ممبر یہ مقرر ہوئے.۱.مولوی عبد الرحمن صاحب انور انچارج دفتر تحریک جدید قادیان.۲.مولوی بہاؤ الحق صاحب ایم.اے وکیل الصنعت والحرفت تحریک جدید قادیان.۳.خواجہ عبد الکریم صاحب.بی.ایس سی وکیل التجارت تحریک جدید قادیان.۴.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان.۵.مولوی عبد المغنی صاحب وکیل التبشیر (برائے ممالک ایشیاء وافریقہ تحریک جدید قادیان ۶.خان بہادر نواب چودھری محمد دین صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر.ے.شیخ بشیر احمد صاحب بی.اے، ایل ایل بی ایڈووکیٹ لاہور.ازاں بعد کچھ وقفہ سے حضور کے ارشاد سے ان ڈائر یکٹروں میں درج ذیل اصحاب کا اضافہ کیا گیا..مولانا جلال الدین صاحب شمس وکیل التبشیر (برائے ممالک یورپ وامریکہ ) تحریک جدید قادیان
370 ۹.چودھری برکت علی خاں صاحب وکیل المال تحریک جدید قادیان.۱۰.حضرت مولوی ذوالفقار علی صاحب وکیل الطباعة تحریک جدید قادیان بیرونی ممالک کی تبلیغ تحریک جدید کے دائرہ عمل میں فروری ۱۹۴۵ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بیرون ہند کے جملہ مشن تحریک جدید کے سپر دفرما دیئے جس کے مطابق ۱۴ فروری ۱۹۴۵ء کو صدرانجمن احمد یہ قادیان نے حسب ذیل ریزولیوشن پاس کیا:.رپورٹ ناظر صاحب اعلیٰ کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ تحریک کے مدارس اور مشن جو ہندوستان میں ہیں اپنے انتظام میں لے لے اور فلسطین ، انگلستان اور امریکہ کے مشن تحریک جدید کے سپر د کر دے.“ اخراجات کی تقسیم کی یہ صورت ہو کہ صدر انجمن احمد یہ بیرون ہند کے مذکورہ بالا مشنوں کا منظور شدہ بجٹ بعد وضع اخراجات سکول و مشن ہائے تحریک جدید جو صدر انجمن کو ملیں گے نکلوا کر تحریک جدید کو دے دیا کرے.جوں جوں ان ( فلسطین، انگلستان و امریکہ ) کے علاقوں کی آمد بڑھتی جائے گی اس قدر انجمن ان اخراجات سے آزاد ہوتی جائے گی.“ ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر ۱۰۴۸ اطبع اول) مجلس تحریک جدید کا قیام حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے حکم سے ۷ امئی ۱۹۴۷ کو مجل تحریک جدید کا قیام عمل میں آیا جس کا کام تحریک جدید سے متعلق امور پر باہمی مشورہ سے فیصلے کرنے اور ان کو حضور کی خدمت میں منظوری کیلئے بھجوانا تھا.۱۶ مارچ ۱۹۴۷ء کو حضرت اقدس کے حکم سے اس مجلس تحریک جدید انجمن احمدیہ کے صدر مولوی جلال الدین صاحب سمس اور سیکرٹری مولوی عبدالرحمن صاحب انور تجویز کئے گئے.خصوصی ممبران کا تقرر حضرت خلیفہ المسح الثانی نے ۳۰ را گست ۱۹۴۷ء کو تحریک جدید کے بعض خصوصی ممبران مقرر کرتے ہوئے ہدایت دی کہ :.میں یکم مارچ ۱۹۴۸ ء تک مولوی نورالحق صاحب، چوہدری محمد شریف صاحب پلیڈ منٹگمری ، مرزا مظفر احمد آئی.سی.ایس ، مولوی سیف الرحمن صاحب، مولوی محمد صدیق صاحب فاضل ساکن قادیان اور سر
371 محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو تحریک جدید انجمن احمدیہ کے ممبر مقرر کرتا ہوں.ان کے اختیارات دوسرے ممبروں کے مطابق ہوں گے.اور ان کا کورم حقیقی کو رم سمجھا جائے گا.خاکسار مرزا محمود احمد ۳۰-۸-۴۷ تقسیم ہند اور تحریک جدید ۱۹۴۷ء میں جماعت کے کثیر حصہ کو مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے پاکستان میں پناہ گزین ہونا پڑا.یہ زمانہ تحریک جدید کے لئے بہت صبر آزما تھا کیونکہ تقسیم ملک کی وجہ سے نظام درہم برہم ہو چکا تھا.ان حالات میں تحریک جدید کے دفا تر نہایت کسمپرسی کے عالم میں جو دھامل بلڈنگ لاہور میں قائم کئے گئے تھے.آمد میں یکا یک کمی واقع ہوگئی.اور اخراجات بے تحاشہ بڑھ گئے اور بیرونی مشنوں کو امداد دینے کا سلسلہ بھی وقتی طور پر معطل ہوگیا.مگر تحریک جدید کے مجاہدین نے اس موقعہ پر غیر معمولی صبر وقتل اور وفا شعاری کا ثبوت دیا اور بیرونی مشن بھی جلد ہی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے.تحریک جدید کی پاکستان میں رجسٹریشن پاکستان میں ۱۹ فروری ۴۸.۱۹۴۷ء کو ۱۸۶۰ء کی دفعہ ۲۱ کے تحت تحریک جدید کی رجسٹریشن ہوئی اور اس کا پورا نام "تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان“ رکھا گیا.اس کا دائرہ عمل سوائے ہندوستان کے بقیہ تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے.تحریک جدید انجمن احمدیہ کے سر پرست اعلیٰ حضرت خلیفتہ امسیح بنفس نفیس ہوتے ہیں.تحریک جدید کا کام مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر شعبہ کا ایک انچارج مقرر ہے جو وکیل“ کہلاتا ہے.متعلقہ شعبے کا وکیل اپنی وکالت کے جملہ امور کا نگران اور ذمہ وار ہوتا ہے.فروری ۱۹۵۰ء میں حضرت خلیفہ اسیح نے اپنے قلم مبارک سے تحریک جدید کے مختلف شعبوں کیلئے ایک مفصل دستورالعمل تجویز فرمایا.اس وقت حسب ذیل وکالتیں قائم کی گئیں.وکالت مال.وکیل المال اول ۲ وکیل المال ثانی ۳.وکالت جائیداد وکالت دیوان ، وکالت تعلیم ، وکالت تجارت ، وکالت صنعت ، وکالت قانون ، وکالت تبشیر وکالت اشاعت.
372 قبل ازیں مجلس مشاورت میں صرف صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ پیش ہوتا تھا مگر ۱۹۵۱ء سے تحریک جدید کا مطبوعہ بجٹ بھی پیش کیا جانے لگا.ربوہ میں دفاتر تحریک جدید کی عمارت کی تعمیر ربوہ میں سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس مئی ۱۹۵۰ء کو دفاتر تحریک جدید کی مستقل عمارت کی بنیاد رکھی اور ۱۹ نومبر ۱۹۵۳ء کو اس کا افتتاح ہوا.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر ۸ ص ۵۱ تا ۵۸ طبع اول ) اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اب ربوہ پاکستان میں تحریک جدید کی پہلی عمارت پرانی اور نا کافی ہونے کی وجہ سے گرا کر اس کی جگہ ایک عظیم الشان، دلکش اور پائیدارنی عمارت تیار ہو چکی ہے.جو عصر حاضر کے تمام تر تقاضوں کے مطابق ہے.اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہے.یہ عالیشان اور دیدہ زیب عمارت انشاء اللہ ایک لمبے عرصہ تک کافی ہوگی.الحمد للہ علی ذلک عظیم الشان عمارت مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید کی کی زیر نگرانی تعمیر کی گئی.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء چنده تحریک جدید چندہ تحریک جدید کی شرع مختلف ادوار میں حسب ضرورت مختلف مقرر ہوتی رہی ہے.لیکن اب تحریک جدید کے کام کی غیر معمولی وسعت اور ضرورت کے پیش نظر اس کا معیاری وعدہ مالی وسعت اور استطاعت کے مطابق ہونا ضروری ہے.تحریک جدید کا مالی سال یکم نومبر سے شروع ہو کر ۳۱ اکتو بر کو اختتام پذیر ہوتا ہے.دفاتر تحریک جدید دفتر تحریک جدید سے مراد شاملین تحریک جدید کی زمانی لحاظ سے تقسیم ہے.یعنی ایک مخصوص عرصہ میں تحریک جدید کی مالی قربانی میں شامل ہونے والے ایک دفتر میں شمار ہوں گے جبکہ کسی دوسرے مخصوص عرصہ میں شامل ہونے والے کسی اور دفتر میں شمار ہوں گے.اب تک دفاتر تحریک جدید کی تعدادہ ہو چکی ہے.ایک دفتر کا کا عرصہ تقریباً 19 سال ہے.تحریک جدید کا جب آغاز ہوا تو یہ عرصہ تین سال کے لئے تھی.پھر مزید ہفت سالہ دور کا اضافہ کر دیا گیا.یعنی نومبر ۱۹۳۴ء تک تحریک جدید کا دفتر اول کہلاتا ہے.نومبر ۱۹۴۴ء کو جب پہلے دور کا اختتام ہونے لگا تو
373 حضرت مصلح موعود نے اس کو مزید 19 سال کے لئے بڑھا دیا اور اس عرصہ کو دفتر کا نام بھی خود حضرت مصلح موعود نے دیا.غرض دفتر اول و دوم کے آغاز کا اعلان خود حضرت مصلح موعود نے فرمایا.دفتر سوم کے آغاز کا اعلان نومبر ۱۹۶۵ء کو حضرت خلیفہ اسیج الثالث نے فرمایا.دفتر چہارم کے آغاز کا اعلان حضرت خلیفہ اسح الرائع نے نومبر ۱۹۸۵ء کو فرمایا اور دفتر پنجم کے آغاز کا اعلان حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نومبر ۲۰۰۴ء کو فرمایا.دفتر اول:.اس تحریک کا آغاز ۱۹۳۴ء میں ہوا.ابتدا اس تحریک میں شامل ہونے والے خوش نصیب دفتر اول میں شمار کئے جاتے ہیں.نمبر شمار ۴ دفتر ابتدائی سال رواں سال اول یکم نومبر ۱۹۳۴ء ۷۵ دوم یکم نومبر ۱۹۴۴ء سوم یکم نومبر ۱۹۶۵ء ۴۴ چهارم یکم نومبر ۱۹۸۵ء ۲۴ یکم نومبر ۲۰۰۴ء تحریک جدید انجمن احمدیہ کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ اب تحریک جدید انجمن احمد یہ ربوہ کا انتظامی ڈھانچہ کچھ اس طرح پر ہے.جو کتاب بعنوان :.Rules and Regulations of Tahrik Jadid Anjuman 2008 Ahmadiyya کی روشنی میں پیش کیا جارہا ہے.مجلس تحریک جدید ا مجلس تحریک جدید وہ تمام فرائض سرانجام دیتی ہے جو حضرت خلیفہ اسیح کی طرف سے اس کے سپرد ۱- کئے جاتے ہیں.اسی طرح مجلس تحریک جدید وہ تمام اختیارات استعمال کر سکتی ہے جو خلیفتہ اسیح کے نمائندہ کے طور پر اسے تفویض کئے جائیں.2.آجکل مجلس تحریک جدید کے فرائض و اختیارات حسب ذیل ہیں.
374 ا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی تعمیل میں ساری دنیا میں اشاعت اسلام کی کوشش کرنا.۲.دنیا کے مختلف حصوں میں جماعت ہائے احمد یہ کا قیام عمل میں لانا.۳.تمام دنیا میں جماعت کے افراد کی بہبود، بہتری تعلیم اور روحانی تربیت کے لئے انتظام کرنا.۴.مبلغین تیار کر کے مختلف ممالک میں ان کا تقرر کرنا اور مختلف ممالک میں جہاں مناسب ہو جا معہ احمدیہ کا قیام عمل میں لانا.۵.مختلف ممالک میں جہاں بھی مناسب ہو سکول ، کالج، ہسپتال کلینکس اور میڈیکل سنٹرز قائم کرنا.۶.قوم، رنگ، نسل اور عقیدہ کے امتیاز سے بالاتر ہو کر تعلیم کے فروغ کے لئے سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز کھولنا.ے.اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مختلف چندہ جات اور عطا یا اکٹھے کرنے کا انتظام کرنا..جماعت کے مشنز اور دیگر اداروں کی راہنمائی، کنٹرول ،نگرانی اور انتظامی امور سرانجام دینا.۹.ایسے تمام اقدامات کرنا جوسوشل تعلیمی، کلچرل ، اخلاقی ، خیراتی اور روحانی مقاصد کیلئے کوشش کرنا.۱۰.وکالت مال ثانی کے تیار کردہ سالانہ آمد وخرچ کے بجٹ پر غور کرنا اور اپنی سفارشات کو خلیفہ اسیح کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش کرنا.ا.مختلف جماعتوں کی طرف سے آمد وخرچ کے بجٹ مناسب کاروائی کے بعد خلیفۃ المسیح کی خدمت میں بغرض منظوری بھجوانا.۱۲ مجلس کو حسب ضرورت مختلف قواعد وضوابط بنانے کا اختیار ہوتا ہے.محاسبہ کمیٹی مجلس تحریک جدید کے ماتحت ایک ذیلی کمیٹی مقرر کی گئی ہے جو محاسبہ کمیٹی کہلاتی ہے.اس کمیٹی کے ہم ممبران ہوتے ہیں.ا.وکیل التبشیر ۲.وکیل المال ثالث ۳.آڈیر تحریک جدید ۴.وکیل المال ثانی.وکیل المال ثانی اس کمیٹی کے صدر ہوتے ہیں.اس کمیٹی کے فرائض حسب ذیل ہیں:.ا تحریک جدید کے مالی معاملات میں تحریک جدید کو مشورے دینا.۲.اس کمیٹی کی رائے اور سفارش کے بغیر مجلس تحریک جدید میں کوئی ایسا مالی معاملہ نہیں رکھا جاسکتا جو
375 بجٹ پر اثر انداز ہوتا ہو..اس کمیٹی کا ایک کام یہ بھی ہوتا ہے کہ آمد وخرچ کے معاملات میں مجلس تحریک جدید کومشورہ دے نیز تحریک جدید کے اخراجات اور مالی معاملات پر نظر رکھے اور ضرورت سمجھے تو اپنی تجاویز اور مشاہدات کو مجلس تحریک جدید میں پیش کرے..یہ کمیٹی صرف ان مالی معاملات میں اپنا مشورہ اور رائے دے سکتی ہے جو اس کی طرف بھجوائے گئے ہوں.یہ کمیٹی متعلقہ معاملات کے انتظامی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتی.۵.یہ کمیٹی جب کبھی مالی معاملات میں بے ضابطگی دیکھے اور اس پر اپنی رائے دینی ضروری سمجھے تو کمیٹی بغیر پوچھے بھی اپنی رائے بھجواسکتی ہے.انتظامی کمیٹی انتظامی کمیٹی مجلس تحریک جدید کی ایک ذیلی کمیٹی ہوتی ہے اس کمیٹی کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ ا.ملازمین کی رخصتوں اور نئی آسامیوں کے بارہ میں اپنی رائے دے.۲.اس کمیٹی کے مندرجہ ذیل عہد یدارن ممبران ہوتے ہیں.وكيل التعليم ، وکیل وقف نو اور وکیل المال ثالث ، وکیل الدیوان اس کمیٹی کے صدر ہوتے ہیں.صدر تحریک جدید انجمن احمد به تحریک جدید کا پریذیڈنٹ 'صدر تحریک جدید کہلاتا ہے.جسے خلیفہ اسیح مقرر کرتے ہیں.اور جب تک خلیفہ اسیح چاہیں 'صدر تحریک جدید اپنے عہدے پر کام کرتا رہتا ہے.صدر تحریک جدید مجلس تحریک جدید کی میٹنگ بلواتا اور اس کی صدارت کرتا ہے.تحریک جدید انجمن احمدیہ کے شعبہ جات کیلئے وکالت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جیسے وکالت تبشیر ، وکالت دیوان ، وکالت تعلیم وغیرہ اور وکالت کا نگران وکیل “ کہلاتا ہے جیسے وکیل الدیوان ، وکیل التبشیر اور وكيل التعلیم وغیرہ تحریک جدید انجمن احمد یہ ربوہ میں آجکل درج ذیل وکالتیں قائم ہیں.وکالت علياء وکالت علیاء کے فرائض حسب ذیل ہیں.
376 ا.وکالت علیاء کا نگران وکیل اعلی کہلاتا ہے.وکالت علیاء کے کاموں میں تحریک جدید کے تمام شعبہ جات کی نگرانی اور ان میں باہمی ربط اور ہم آہنگی کو پیدا کرنا ہے.اسی طرح وکالت علیاء کے سپر دان تمام شعبہ جات کی بھی نگرانی ہوتی ہے جو عمومی طور پر کسی دوسری وکالت کے ماتحت نہیں ہوتے.-۲- تحریک جدید انجمن احمدیہ سے متعلق تمام معاملات کا جائزہ اور نگرانی بھی وکالت علیاء کے فرائض میں شامل ہے..وکیل اعلیٰ صاحب وقتا فوقتا تحریک جدید کے تمام شعبہ جات کے نگرانوں کو ان ہدایات اور احکام کی روشنی میں جو خلیفتہ اسے براہ راست اس کے ذریعہ یا اپنے خطبات کے ذریعے تحریک جدید سے متعلق دیں، کی یاد دہانی کرواتے رہتے ہیں.نیز وکیل اعلیٰ صاحب اس بات کی نگرانی بھی کرتے ہیں کہ متعلقہ شعبہ نے ان ہدایات اور احکامات کی کما حقہ پیروی کی ہے یا نہیں.۴.وکیل اعلیٰ صاحب کے فرائض میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ وہ خلیفتہ امیج کی تمام ہدایات کا ریکارڈ رکھیں جو بطور ایک قاعدے یا مستقل حکم یا تا اطلاع ثانی حکم کے زمرے میں ہوں مجلس تحریک جدید کے سامنے پیش کریں.مجلس تحریک جدید کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ ان ہدایات کا تعمیل کے نقطۂ نظر سے با قاعدہ ریکارڈ رکھے.۵.وکیل اعلیٰ صاحب جماعتی عہد یدار ان کے انتخابات جولو کل سطح پر یا ملکی سطح پر ہورہے ہوں ان کا قواعد کے مطابق انعقاد کروانے کی نگرانی کرتے ہیں..وکالت علیاء کے سپر دان تمام ہدایات اور احکام کی تمیل وتفیذ کروانا ہوتا ہے جوخلیفتہ اسی کی طرف سے اسے وقتاً فوقتاً دیئے جاتے ہیں.وکالت تعمیل و تحفيذ ا.وکالت تحمیل و تنفیذ ایسے تمام پروگراموں اور منصوبوں پر عمل درآمد کرواتی ہے جن کی منظوری خلیفہ امسیح نے عنایت فرمائی ہو اور جو تحریک جدید کے مختلف شعبہ جات کے سپرد ہوں.۲.اسی طرح وکالت تعمیل و تنفیذ ان تمام فرائض کو بجالاتی ہے جو وقتافوقت خلیفہ مسیح کی طرف سے اس کے سپرد کئے جاتے ہیں.وکالت دیوان ا.وکیل الدیوان مجلس تحریک جدید کے سیکرٹری کے فرائض بھی بجالاتا ہے.وکیل الدیوان سیکر ٹری مجلس
377 تحریک جدید ہونے کی وجہ سے صدر تحریک جدید کی طرف سے بلائی جانے والی تمام میٹنگز کی اطلاع کرواتا ہے اور مجلس تحریک جدید کی تمام کارروائی کا ریکارڈ رکھتا ہے.نیز مجلس تحریک جدید کے فیصلہ جات کی نقول خلیفہ اسی کی منظوری کے بعد تمام وکالتوں نیز متعلقہ شعبہ جات کومہیا کر ناوکیل الدیوان کے فرائض شامل ہوتا ہے.۲- تحریک جدید کے کارکنان کا تقرر و تبادلہ نیز تمام کارکنان کا سروس کا ریکار ڈرکھنا.۳.احباب جماعت کو اسلام احمدیت کی خاطر زندگی وقف کرنے کی تحریک کرنا.۴.وکالت دیوان میں تمام مبلغین اور واقفین زندگی کا سروس ریکارڈ رکھنا ( جس میں تقر ر سے لے کر ریٹائر منٹ تک تمام ریکارڈ ہوتا ہے ) وکالت دیوان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے.۵.قواعد وضوابط کے مطابق تحریک جدید کے تمام کارکنان اور واقفین کی تقرری ہٹرانسفر اور ریٹائرمنٹ سے متعلق کارروائی کرنا.اگر تحریک جدید کا کوئی کارکن عارضی طور پر دوسرے ادارے میں کام کیلئے درکار ہو یا کسی دوسرے ادارے کا کارکن عارضی طور پر تحریک جدید میں کام کے لئے درکار ہو.تو اس 'Deputation' کیلئے شرائط وضوابط وضع کرنا اور مجلس تحریک جدید سے ان کی منظوری لینا.ے.تحریک جدید کے تمام کارکنان سے متعلق فیصلہ جات کو لاگو کروانا..حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشادات کی روشنی میں تحریک جدید اور اس کے مطالبات کی بھر پور اشاعت کا انتظام کرنا بھی وکالت دیوان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے.۹.علاوہ ازیں وکالت دیوان حضرت خلیفہ اسیح کی طرف سے ملنے والے جملہ احکامات اور ارشادات کو بجالاتی ہے.وکالت تبشیر وکالت تبشیر کے درج ذیل فرائض ہیں.ا.تمام دنیا میں اسلام اور احمدیت کے پیغام کی اشاعت کے لئے انتظام کرنا.جماعت کی مذہبی اور روحانی تعلیم و تربیت کی نگرانی کا انتظام کرنا تمام دنیا میں اسلام اور احمد بیت کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور اعتراضات کا جواب دینے کا انتظام کرنا اس وکالت کے فرائض میں شامل ہے.۲.جماعت کی بیوت الذکر ہمشن ہاؤسز اور نما سنٹر ز کے قیام اور ان کے انتظامی امور کی نگرانی کرنا.اسی طرح قرآن کریم ، حدیث اور کتب حضرت مسیح موعوڈ کے دروس کا انتظام کروانا، تربیتی کلاسز
378 اور ریفریشر کورسز کا انعقاد کروانا نیز تعلیم القرآن اور وقف عارضی سکیم کا نفاذ تمام دنیا میں یقینی بنانا بھی اس وکالت کے سپر د ہوتا ہے.۴.ہر ملک میں سیمینارز کا انعقاد، ہر ملک میں نیشنل سطح پر جماعتی جلسوں کا انعقاد کروانا اسی طرح تمام دنیا کی جماعتوں کو مرکزی جلسے کی کارروائی سے آگاہ کرنا نیز تمام دنیا کے احمدی احباب تک حضرت خلیفہ ایح کے خطبات وخطابات پہنچانے کا انتظام کروانا.۵- تحریک جدید انجمن احمدیہ کی طرف سے مجلات اور رسائل کو شائع کرنا نیز جماعت کے خلاف ہونے والے منفی پرو پیگنڈا پر نظر رکھنا اور اس کے مناسب جواب کا انتظام کرنا.۶.بیرونی ممالک میں رشتہ ناطہ، امور عامہ اور امورخارجہ کی نگرانی کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل ہوتا ہے..تمام مبلغین اور معلمین سلسلہ وکالت تبشیر کے تحت کام کرتے ہیں.وکالت تبشیر انہیں میدان عمل میں بھجواتی ہے اور اس امر کی نگرانی کرتی ہے کہ وہ احباب جماعت میں تبلیغ کے جذبے کو ابھارنے کے لئے کوشش کریں.۸.وکالت تبشیر اس امر کی کوشش کرتی ہے کہ تمام احباب جماعت عملی طور پر مبلغ بن جائیں.نیز یہ وکالت احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کیلئے مناسب انتظامات کرنے کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے.۹.وکالت تبشیر نومبائعین کی تعلیم و تربیت کے لئے مناسب انتظامات کرتی ہے تا کہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ کیا جائے اور باقاعدہ نظام جماعت کا حصہ بنایا جائے.۱۰.وکالت تبشیر وکیل اعلیٰ صاحب کے مشورے سے مرکزی مربیان کی مختلف ممالک میں تقرری کیلئے خلیفہ المسیح کی خدمت میں تجاویز پیش کرتی ہے اور بعد منظوری انہیں متعلقہ ملک میں بھجوانے کا انتظام کرتی ہے.ا.وکیل التبشیر کو ضرورت پڑنے پر مبلغین اور معلمین کی تقرری اور انہیں کام سے ہٹانے کے فیصلہ کا اختیار ہوتا ہے.۱۲.وکالت تبشیر خلیفہ مسیح کی طرفسے جو کام اسے وقافو قا تفویض کیا جاتا ہےاسے بجالاتی ہے.۱۳.حضرت خلیفہ امسیح نے ایک ایڈیشنل وکیل التبشیر بھی مقرر فرمائے ہوئے ہیں جو کہ لنڈن میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں.ایڈیشنل وکیل التبشیر کے ذمہ ان تمام امور کی بجا آوری ہے جو انہیں حضرت خلیفہ اسی کی طرف سے تفویض کیئے جائیں.
379 مبلغ کے فرائض وذمہ داریاں ۱.ایک مبلغ سلسلہ کو اپنی زندگی اسلامی شریعت کے مطابق گزارنی چاہئے.۲.ایک مبلغ کا کام تمام جماعت کو تبلیغ کے کام کے لئے تیار کرنا اور تربیت کرنا ہوتا ہے.اس مقصد کے حصول کے لئے اس کو داعیان الی اللہ کی ایک ٹیم تیار کرنی ہوتی ہے جو اس کے سپر د علاقے کے مختلف حصوں میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچائے.مبلغ کا کام ہے کہ وہ ان داعیان الی اللہ کو اس رنگ میں تیار کرے کہ وہ بطور داعیان الی اللہ اپنا سارا کام خود کرسکیں.مبلغ کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اس کے ریجن کے تمام احمدی داعیان الی اللہ بن جائیں.مبلغ کے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ لوکل سطح پر مبلغین اور معلمین کی تعداد ضرورت کے مطابق ہو.۴ مبلغ کو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ کے بارے میں سوچنے میں گزارنا چاہئے.۵ مبلغ کو چاہئے کہ وہ نیشنل امیر یا پریذیڈنٹ کو اپنے حلقے کی لٹریچر کی ضروریات سے آگاہ کرے اور اس مقصد کے حصول کے لئے نیشنل امیر صاحب رصدر صاحب کی مدد بھی کرے.مبلغ کو چاہئے کہ جس ملک میں اس کی تقرری ہو اس کے سماجی تعلیمی ، مذہبی، سیاسی اور اقتصادی حالات سے پوری واقفیت رکھتا ہو.ے.مبلغ کو چاہئے کہ وہ جماعتی روایات کی پاسداری کرے.اسے چاہئے کہ اس امر کا جائزہ لے کہ جماعت میں کوئی ایسی رسم راہ نہ پکڑے جو اسلامی تعلیم جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، خلفاء اور مرکز کی ہدایت ہے، کے خلاف نہ ہو، اس کے علاوہ مبلغ کو چاہئے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام احباب جماعت خلیفہ اسیح کا خطبہ ضرور سنیں.مبلغ کو چاہئے کہ وہ احباب جماعت کو نماز کی ادائیگی ، روزہ رکھنے، زکوۃ دینے اور حج کرنے کی تلقین کرے.ان تمام معاملات میں کمزوری کی صورت میں اس کے تدارک کی کوشش کی جائے.مبلغ کو چاہئے کہ وہ جماعت میں سے بددیانتی ، جھوٹ ، غلط لین دین اور بری رسم کے خاتمہ کی کوشش کرے.مبلغ کو چاہئے کہ وہ احباب جماعت کو نیکی اور تقویٰ اپنانے کی تلقین کرے.اور جماعت کی اخلاقی حالت سے آگاہ رہے اور اس امر کا جائزہ لے کہ جماعت کی مناسب تعلیم وتربیت ہو.مبلغ کو چاہئے کہ وہ اس امر کو خصوصیت کے ساتھ یقینی بنائے کہ تمام احباب جماعت کو نماز با تر جمہ آتی ہو.
380 مبلغ کو چاہئے کہ وہ نومبائعین کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کرے نیز اس بات کو یقینی بنائے کہ نو مبائعین اپنے فرائض کو بخوبی سمجھنے والے ہوں.مبلغ کو چاہئے کہ وہ قرآن کریم ، حدیث ، ملفوظات حضرت مسیح موعود کے درس کا انتظام کرے.مبلغ کو چاہئے کہ وہ تعلیم القرآن کا ضرور انتظام کرے اور جہاں اس کا قیام ہو وہاں پر تعلیم القرآن کلاس کا اجراء کرے.اسی طرح مبلغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے ریجن میں تعلیم القرآن کلاسز کا انعقاد باقاعدگی سے ہو.تعلیم القرآن کلاس کے مقاصد درج ذیل ہیں.(الف) احباب جماعت کو قرآن کریم ناظرہ سکھانا.(ب) احباب جماعت کو ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم سکھانا.(ج) قرآن کریم ناظرہ اور ترجمہ سکھانے کے لئے اساتذہ تیار کرنا.مبلغ کو چاہئے کہ وہ احباب جماعت کو تمام مذہبی رسوم بجالانے کی تربیت دے.۱۳ مبلغ کو چاہئے کہ وہ حکمت اور نرمی سے احباب جماعت کے باہمی لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ کرنے میں ان کی مدد کرے.۱۴.مبلغ کو ہمیشہ جماعتی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینی چاہئے.۱۵ مبلغ کو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہونا چاہئے اور کسی بھی صورت جانبداری کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے.مبلغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ جماعت میں نظم وضبط اور اتحاد ہر صورت قائم رہے.۱۶.مبلغ کو اپنے سوشل تعلقات کو بڑھانا چاہئے.۱۷.مبلغ کو چاہئے کہ وہ اسلام اور احمدیت کے خلاف پروپیگنڈا مہم سے پوری طرح باخبر ہو.نیز اس کا جواب بھی دے.اسی طرح اس کو مختلف طبقات میں جماعت سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کا بھی ازالہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.۱۸ مبلغ کو حسب ضرورت معاملات تبلیغی اور تربیتی سیمینارز منعقد کروانے چاہئیں.اور میڈیا کو بھر پور طریقے سے استعمال میں لانا چاہئے.۱۹ مبلغ کو ذاتی فوائد کے لئے ہر قسم کے کاروبار اور پیشے سے اعراض کرنا چاہئے.۲۰ مبلغ کو کسی نئے ملک میں جانے سے پہلے وہاں کے حالات سے اپنے آپ کو باخبر کرنا چاہئے.۲۱.مبلغ کو احمدیت کے مشن کے ساتھ مخلص ہونا چاہئے.اور کسی ایسے کام کا حصہ نہیں بنا چاہئے جو جماعت کی بدنامی کا باعث بن سکتا ہو.نیز اسے امیر دمشنری انچارج کی مکمل اطاعت کرنی چاہیئے.
381 ۲۲.مبلغ کو باقاعدگی سے پندرہ روزہ کار کردگی کی رپورٹ یا جیسے بھی مرکز کی ہدایت ہو، مشنری انچارج کی معرفت مرکز میں بھجوانی چاہئے.نیز اس کی ایک کاپی امیر کو بھی بھجوانی چاہئے.۲۳ مبلغ کو چاہئے کہ جس ملک میں کام کر رہا ہو وہاں کی مقامی زبان سیکھے اور اس میں مہارت حاصل کرے.وکالت مال اول ا.وکالت مال اول تحریک جدید کے مطالبات کو جیسا کہ حضرت خلیفہ مسیح بیان فرما ئیں پاکستان کی تمام جماعتوں تک پہنچاتی ہے..وکالت مال اول کے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہر فر د جماعت کو تحریک جدید کی مالی قربانی میں شامل کرے.تا کہ دنیا بھر میں اشاعت اسلام کی خاطر منصوبوں کے لئے فنڈ زمہیا ہوسکیں.۳.تحریک جدید کا مالی سال یکم نومبر سے شروع ہو کر اگلے سال ۳۱ اکتوبر کو ختم ہوتا ہے وکالت مال اول حضرت خلیفتہ اسیح کی طرف سے نئے سال کے اعلان کے بعد تمام احباب جماعت سے نئے سال کے لئے ان کے وعدے حاصل کرتی ہے.یہ کام ہر سال ۳۱ جنوری تک مکمل کر لیا جا تا ہے.والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے ایسے بچوں کی طرف سے چندہ تحریک جدید ادا کریں جو ابھی تک صاحب روز گار نہیں.تا کہ بچے روز اول سے تحریک جدید کے مالی جہاد میں شامل ہوں.۴.وکالت مال اول اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ احباب جماعت ہر سال ۳۱ را کتوبر تک اپنے وعدہ جات ادا کر دیں.۵.تحریک جدید کا اجراء ۱۹۳۴ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا.بعد میں خلفاء نے مختلف وقتوں میں نئی نسلوں کو اس قربانی میں شامل کرنے کے لئے مختلف دفاتر، یعنی' Phases‘ کے اجراء کا اعلان فرمایا.وکالت مال اول ہر دفتر کا علیحدہ ریکارڈ رکھتی ہے.مستقبل میں بھی اگر حضرت خلیفتہ اسیح کسی دفتر کا اعلان فرمائیں گے تو یہ وکالت اس کا بھی ریکارڈ رکھے گی..وکالت مال اول دفتر اول کے تمام کھاتوں کو از سرنو جاری کرتی ہے.اس مقصد کے لئے وکالت مال فوت شدہ ممبران کے رشتہ داروں اور ورثاء سے رابطہ کرتی ہے.تا کہ وہ فوت شدہ ممبران کی طرف سے چندہ تحریک جد یدا دا کر سکیں.ے.وکالت مال اول قواعد کے مطابق پاکستان کی جس مجلس میں سیکرٹری تحریک جدید کی ضرورت ہو وہاں سیکر ٹری تحریک جدید مقرر کرواتی ہے.
382.وکالت مال اول کے سپرد یہ کام بھی ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی جماعتوں کو مسجد فنڈ میں با ادائیگی کرنے کی طرف توجہ دلائیں تا کہ بیرون پاکستان مساجد کی تعمیر ہو سکے.۹.وکالت مال اول کے فرائض میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں دیگر ایسی تمام مالی تحریکات کو کامیاب بنائے جو تحریک جدید سے متعلق ہوں اور حضرت خلیفہ اسی وقتا فوقتا ان کا اعلان فرما ئیں.۱۰.خلیفہ مسیح کی طرف سے جو کام وقتا فوقتا اس وکالت کے سپر د کئے جائیں.وکالت انہیں بجالانے کی پابند ہے.وکالت مال ثانی ا.وکالت مالی ثانی بیرون از پاکستان دنیا کے دوسرے تمام ممالک میں تحریک جدید اور اس کے مطالبات جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح ان مطالبات کو بیان کریں جماعت تک پہنچاتی ہے.۲.وکالت مال ثانی پاکستان سے باہر کی جماعتوں کو تحریک جدید کی کامیابیوں سے آگاہ کرنے کا انتظام کرتی ہے.۳.وکالت مال ثانی پاکستان سے باہر کی جماعتوں کے احباب جماعت کی آمد کا جائزہ لے کر اس آمد کے مطابق اس پر چندے کی ادائیگی کو یقینی بناتی ہے چاہے یہ چندے لازمی ہوں یا طوعی.۴.وکالت مال ثانی پاکستان سے باہر کی جماعتوں اور مشن ہاؤسز کے لئے اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے بھی کام کرتی ہے.۵- وکالت مال ثانی تحریک جدید کا سالانہ بجٹ ( آمد وخرچ کا گوشوارہ ) تیار کر کے اسے مجلس تحریک جدید میں پیش کرتی ہے.۲.وکالت مال ثانی حضرت خلیفہ المسیح کی منظوری کے بعد پاکستان میں تحریک جدید اور پاکستان سے باہر متعلقہ جماعتوں کو رقم فراہم کرتی ہے.ے.وکالت مال ثانی اس بات کی نگرانی کرتی ہے کہ جماعتوں کا خرچ ان کے منظور شدہ بجٹ سے نہ بڑھے.بجٹ سے زائد خرچ کرنے کی صورت میں مرکز کی پیشگی منظوری ضروری ہوتی ہے.وکالت مال ثانی اس امر کی بھی نگرانی کرتی ہے کہ کل خرچ آمد سے نہ بڑھے..وکالت مال ثانی تمام بیرونی ممالک کے افراد جماعت کے سالانہ بجٹ اور وعدہ جات بابت چندہ عام، چندہ وصیت، اور چندہ جلسہ سالانہ کا جائزہ بھی لیتی ہے.اسی طرح وکالت مال ثانی چندہ تحریک جدید
383 اور وقف جدید کے وعدہ جات حاصل کرنے کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے.۹.ہر ملک کا سالانہ بجٹ (آمد وخرج) جو کہ شوری میں تجویز ہو شنل امیرر پریذیڈنٹ کی طرف سے وکالت مال ثانی کو بھیجا جاتا ہے.جو اس کا مکمل جائزہ لینے کے بعد حضرت خلیفہ امسیح کی خدمت میں پیش کرتی ہے.تمام بجٹ ہر سال مئی کے مہینے سے قبل مرکز میں پہنچنے ضروری ہوتے ہیں.۱۰.معین شدہ بجٹ سے زیادہ خرچ کرنے یا کسی ایسے کام پر خرچ کرنے کی صورت میں جو پہلے سے بجٹ کی کسی مد کے تحت نہیں اس کی مرکز سے پیشگی منظوری حاصل کرنی ضروری ہوتی ہے.ایسی صورت میں واضح طور پر تحریر ہونا کہ ضرورت کیوں پیش آئی اور یہ فنڈ ز کی موجودہ صورت حال کیا ہے ، ضروری ہوتا ہے.ا.ہر جماعت کے افراد اپنی لوکل جماعت میں چندہ ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں.سوائے اس کے کہ ( مرکز ) انہیں کہیں اور چندہ ادا کرنے کی ہدایت کرے.۱۲.ہر موصی فرد جماعت پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنی آمد کا ۱۶ / ا چندہ عام کی جگہ چندہ وصیت ادا کرے.چندہ وصیت (حصہ آمد) کی شرح موصی کی وصیت کے مطابق ۱۰ را سے ۱٫۳ تک ہو سکتی ہے.۱۳.ہر موصی قواعد وصیت کے مطابق اپنی جائیداد پر حصہ جائیداد ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے.حصہ جائیداد موصی کی وفات پر وصول کیا جاتا ہے تاہم اگر موصی چاہے تو اپنی وفات سے قبل بھی حصہ جائیداد ادا کر سکتا ہے.ایسی صورت میں موصی کو با قاعدہ طور پر مجلس کار پرداز سے بتوسط وکالت مال ثانی سے اجازت لینی ہوتی ہے.۱۴.چندہ جلسہ سالانہ بھی لازمی چندہ جات میں شامل ہے.یہ سال میں صرف ایک بار ادا کیا جاتا ہے اور اس کی شرح کل آمد کا ۱۲۰ را ہوتا ہے.۱۵.وکالت مال ثانی کے فرائض میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ وہ زکوۃ فطرانہ، عید فنڈ، صدقہ اور دیگر ادائیگیاں جو فوقتا فوقتا حضرت خلیفہ اسیح کی تحریکات کے نتیجے میں ہوں، کو جمع کرنے کا انتظام کرے.۱۶.چندہ تحریک جدید ، یہ چندہ طوعی ہے.تحریک جدید کا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے اور ۳۱ اکتوبرکو ختم ہوتا ہے.اس کی کوئی معین شرح نہیں ہے.ہر فر د جماعت اپنی مرضی سے جتنی ادا ئیگی چاہے اس کا وعدہ کر سکتا ہے.تاہم یہ وعدہ جات افراد جماعت کی مالی حیثیت کے مطابق ہونے چاہئیں.بالغ ممبران اور والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے ماتحت بچوں اور دیگر افراد کی طرف سے اس فنڈ میں ادا ئیگی کریں تا کہ بچہ اور دیگر افراد جماعت بھی اس تحریک میں شامل ہوں.نوٹ :.اگر چہ چندہ تحریک جدید طلوعی چندہ ہے.تاہم جب کوئی اس میں شامل ہو کر ادا ئیگی کا وعدہ کر لیتا ہے تو اس وعدے کی ادائیگی فرض ہو جاتی ہے.اور جو احباب وعدہ پورا نہ کر سکیں ان سے آئندہ نیا وعدہ نہیں
384 لیا جاتا.۱۷.وکالت مال ثانی تحریک جدید دفتر اول کے مجاہدین کے ورثاء کو مسلسل اس امر کی یاد دہانی کرواتی رہتی ہے کہ وہ اپنے فوت شدہ عزیزوں کی طرف سے چندہ تحریک جدید ادا کریں.۱۸.وقف جدید کی بنیاد ۱۹۵۷ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے رکھی.اس تحریک کا مقصد دنیا کے مختلف ممالک کے دیہاتی علاقوں میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کرنا ہے.تمام دنیا میں افراد جماعت اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں.اس قربانی کو چندہ وقف جدید کہا جاتا ہے.وکالت مال ثانی پاکستان سے باہر کی تمام جماعتوں سے چندہ وقف جدید جمع کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے.وقف جدید کے مالی سال کا آغاز یکم جنوری سے ہوتا ہے.اس تحریک میں حصہ لینے کیلئے چندہ کی کوئی معین شرح نہیں ہوتی.نوٹ: نمبر ۱۶ کے تحت دیا گیا نوٹ چندہ وقف جدید پر بھی لاگو ہوتا ہے.۱۹.وکالت مال ثانی تمام دنیا کی جماعتوں کو مالی قربانی اور تحریک سے متعلق حضرت خلیفہ المسیح کے ارشادات پہنچانے کا انتظام کرتی ہے.۲۰.بیرون پاکستان وکیل المال ثانی مرکزی محاسب ( اکاؤنٹنٹ جنرل ) کے طور پر کردار ادا کرتا ہے.اور آمد اور خرچ کے ریکار ڈ اور مالی معاملات سے متعلقہ امور کی نگرانی کرتا ہے اور اس سلسلہ میں حضرت خلیفتہ اسیح کو معمولات فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے.۲۱.اس وکالت میں نظام وصیت کے لئے ایک الگ شعبہ قائم ہے.یہ شعبہ بیرون پاکستان افراد جماعت کو نظام وصیت سے متعارف کرواتا ہے اور نئے افراد جماعت کو اس نظام میں شمولت کی تحریک کرتا ہے.اس شعبہ کا انچارج ایک نائب وکیل المال ہوتا ہے جو بیرون پاکستان تمام موصیان سے ان کی وصایا کے متعلق اس وکالت کی نمائندگی میں خط و کتابت کرتا ہے.اس وکالت کے فرائض میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ وہ تمام جماعتوں میں وصیت کے قواعد کی روشنی میں مجلس موصیان قائم کرے.اور اس بات کا اہتمام کرے کہ ہر موصی وصیت کے قواعد وضوابط سے آشنا ہو.اور اپنی مقامی جماعت اور اس وکالت سے منسلک اور رابطہ رکھے.۲۲.یہ وکالت دیگر تمام وہ ذمہ داریاں بھی سرانجام دیتی ہے جو اس وکالت کے مفاد میں خلیفہ امسیح کی طرف سے اس کے سپرد کی جاتی ہے.۲۳.حضرت خلیفہ ایسیح نے لنڈن میں بھی ایک ایڈیشنل وکیل المال ثانی مقرر کیا ہوا ہے جو ان تمام فرائض کو سرانجام دیتا ہے جو اسے حضرت خلیفہ امسیح کی طرف سے تفویض کئے جاتے ہیں.
385 وکالت مال ثالث ا.اس وکالت کا کام پوری دنیا میں تحریک جدید انجمن احمدیہ کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی نگرانی اور دیکھ بھال ( مرمت ) ہے.نیز یہ وکالت ایسی تمام جائیداد کا مکمل ریکارڈ رکھتی ہے.۲.یہ وکالت حسب ضرورت تحریک جدید کی جائیداد کی فروخت، قرضہ برائے خرید مکان یا لیز یا دیگر منتقلی کا انتظام کرتی ہے.اسی طرح خرید اور ھبہ شدہ جائیداد کے قبول کرنے ، لیز اور تحریک جدید کے حق میں منتقلی کے فرائض سرانجام دیتی ہے.۳.تحریک جدید کی کسی بھی جائیداد کی فروخت، قرضہ برائے خرید مکان، لیز بی منتقلی حضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت کے بعد ہوتی ہے.۴.یہ وکالت تحریک جدید انجمن احمدیہ کے محاسب کے طور پر بھی کام کرتی ہے اس مقصد کے لئے یہ تحریک جدید کے آمد و خرچ کے حسابات تیار کرتی ہے اور ماہنامہ وسالانہ Statement of Account (اکاؤنٹ کی رپورٹ ) تیار کرتی ہے.۵- نیز وکالت مال ثالث حضرت خلیفہ امیج کو تحریک جدید کی رقوم کے بارہ میں مطلع رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے.۲.علاوہ ازیں یہ کالت ہر وہ کام سرانجام دیتی ہے جوخلیفہ مسیح کی طرف سے اس کے سپر د ہو.وکالت تصنیف ا.اس وکالت کا کام قرآن کریم اور کتب احادیث کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کا انتظام کروانا ہے..یہ وکالت حضرت مسیح موعود ، خلفاء سلسلہ اور جماعت احمدیہ کے دیگر سکالرز کی کتب کے مختلف زبانوں میں تراجم کرواتی ہے..یہ وکالت مرکز اور ساری دنیا کی جماعتوں میں نئی پیدا ہونے والی ضروریات کے مطابق تازہ لٹریچر تیار کرواتی ہے.یہ وکالت ساری دنیا میں شائع ہونے والے اخبارات ورسائل پر نظر رکھتی ہے یہ دیکھنے کے لئے کہ ان میں خلاف تعلیمات سلسلہ و عقائد کوئی بات شائع نہ ہو.۵.یوکالت ساری دنیا میں شائع شدہ لٹریچر کو جمع رکھتی ہے اور اس کا ریکارڈ رکھتی ہے خواہ وہ اسلام
386 احمدیت کے حق میں ہو یا خلاف ہو.علاوہ ازیں یہ وکالت یہ کوشش بھی کرتی ہے کہ مؤثر رنگ میں جماعت کے خلاف شائع شدہ لٹریچر اور پرو پیگنڈے کا مؤثر ترین انداز میں جواب شائع کروائے..یہ وکالت اس بات کے لئے بھی اقدام کرتی ہے کہ افراد جماعت میں مضامین لکھنے کی مہارت پیدا ہو.ے.یہ وکالت ہر اس لٹریچر کے شائع ہونے سے پہلے منظوری دیتی ہے جو کسی احمدی یا کسی جماعت کی طرف سے اشاعت کے لئے تیار کیا جاتا ہے.۸.حضرت خلیفتہ اسیح کی طرف سے دیگر تفویض کردہ تمام امور کوسرانجام دیتی ہے.۹.حضرت خلیفہ اسی نے لنڈن میں ایڈیشنل وکیل التصنیف کا تقر بھی فرمایا ہے جولندن میں موجود ہے.جو حضرت خلیفہ اسی کی طرف سے تفویض کردہ تمام امور سر انجام دیتے ہیں.وکالت تعلیم ۱- وکیل التعلیم بیرون از پاکستان جماعتوں کے تعلیمی معاملات پر نظر رکھتا ہے.۲.یہ وکالت ماسوائے براعظم افریقہ بیرون پاکستان جماعت کے تعلیمی اداروں کو چلاتی ہے.۳.جامعہ احمد یہ ربوہ اور بیرون پاکستان تمام جامعات احمد یہ اس وکالت کے تحت کام کرتے ہیں.۴.یہ وکالت احمدی نوجوانوں کو اپنی زندگیاں وقف کر کے جامعہ احمدیہ اور مدرسۃ الحفظ میں تو حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور حسب قواعدان کی درخواستوں پر کارروائی کرتی ہے.۵.یہ وکالت ساری دنیا میں جماعت کے عمومی تعلیمی معیار کو بلند رکھنے پر نظر رکھتی ہے.۶.یہ وکالت افراد جماعت کی مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے بارہ میں منصوبہ بندی کرتی ہے.ے.یہ وکالت تمام افراد جماعت مرد و خواتین نیز لڑکے اور لڑکیوں کا مذہبی اور دنیوی لحاظ سے ممکنہ حد تک معیار بلند کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور اس کا کام اس بات پر بھی نظر رکھنا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ان تمام منصوبوں پر عمل درآمد ہو.یہ وکالت اس بات کا بھی خیال رکھتی ہے کہ جماعت کا ایک مناسب حصہ مختلف میدانوں میں تعلیم حاصل کرے.یہ وکالت اس بات کی بھی کوشش کرتی ہے کہ جماعت کے تمام مردوزن اس حد تک تعلیم یافتہ ہوں کہ کم از کم لکھ پڑھ سکیں.۹ - تاوقتیکہ جماعت ایک مستقل یو نیورسٹی قائم کرے وکالت تعلیم اس کا کر دار ادا کرتی ہے.اس مقصد
387 کیلئے یہ وکالت مذہبی علم اور موازنہ مذاہب کا علم حاصل کرنے کے لئے مختلف سطح کے معیار مقرر کرتی ہے.اس مقصد کے لئے یہ مناسب نصاب تیار کرتی ہے.۱۰.علاوہ ازیں مذکورہ بالا تمام کاموں کے علاوہ یہ وکالت ہر وہ کام سرانجام دیتی ہے جو خلیفہ المسیح کی طرف سے اس کے سپرد کیا جاتا ہے.نوٹ :.فی الوقت افریقہ میں تمام تعلیمی اداروں ماسوائے جامعہ احمدیہ کی نگرانی یا انتظام کا کام مجلس نصرت جہاں تحریک جدید کے سپرد ہے.وکالت اشاعت ا.اس وکالت کا کام قرآن کریم اور احادیث کے مختلف زبانوں میں تراجم شائع کرنا ہے.۲.نیز اس کا یہ کام بھی ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود اور خلفاء سلسلہ اور احمدیت کے سکالرز کی کتب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر شائع کرے.۳.یہ وکالت مرکز سے تحریک جدید کا ترجمان ماہنامہ تحریک جدید بھی شائع کرتی ہے.۴.اس کا کام ساری دنیا کی جماعتوں کو مرکز سے روز نامہ الفضل اور دیگر رسائل سمیت شائع شدہ لٹریچر بھجوانا بھی ہے.۵.وکیل التصنیف صاحب کی طرف سے منظور شدہ لٹریچر کی اشاعت بھی اس وکالت کا کام ہوتا ہے.۶.یہ مختلف جماعتوں کو جماعتی لٹریچر دوبارہ شائع کرنے کی اجازت دیتی ہے.ے.یہ مختلف ممالک سے کتب کی ضروریات کا جائزہ حاصل کر کے اس کی روشنی میں مطلوبہ تعداد میں کتب کی اشاعت کرتی ہے..یہ وکالت اس بات کا انتظام بھی کرتی ہے کہ مرکز کی طرف سے یا دوسری جماعتوں کی طرف سے شائع شدہ لٹریچر مہیا کرے.۹ - پی وکالت اس بات کی نگرانی بھی کرتی ہے کہ ہر جماعت میں جماعتی لٹریچر کی نمائش قائم کی جائے.۱۰.یہ اس بات کی بھی نگرانی کرتی ہے کہ ساری دنیا کی بڑی بڑی جماعتوں میں لائبریریاں قائم کی جائیں.نیز یہ اس بات کی نگرانی بھی کرتی ہے کہ ساری دنیا کی بڑی بڑی جماعتوں میں جہاں بھی ممکن ہو مخزن کتب قائم کرے.11.اس کا کام ساری دنیا میں شائع شدہ لٹریچر کاریکارڈ رکھنا بھی ہوتا ہے.
388 ۱۲.اس کا کام یہ بھی ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح کی طرف سے وقتاً فوقتاً جو بھی ذمہ داریاں اس کے سپرد کی جائیں ان کو سرانجام کرے.۱۳.حضور خلیفہ امسیح نے لندن میں ایڈیشنل وکیل الاشاعت کا تقر ربھی کیا ہوا ہے جن کا کام حضرت خلیفہ امسیح کی طرف سے تفویض کردہ تمام ذمہ داریوں کو سرانجام دینا ہے.وکالت وقف نو ا.یہ وکالت حضرت خلیفہ مسیح کے خطبات جمعہ، خطابت اور دیگر ہدایات وغیرہ موجودہ اور آئندہ دی جانے والی ہدایات کی روشنی میں وقف نو سکیم کی غرض وغایت کی جماعت کو یاد دہانی کرواتی رہتی ہے.۲.یہ وکالت واقفین نو کا تمام ریکارڈ محفوظ رکھتی ہے..یہ وکالت واقفین نو کی جسمانی، ذہنی تعلیمی، اخلاقی اور روحانی ترقی کی نگرانی کرتی ہے.اور خلیفہ مسیح کی ہدایات پر عملدرآمد کی تدابیر اختیار کرتی رہتی ہے..یہ وکالت، واقفین نو کو ایسی راہنمائی مہیا کرنے کا انتظام و انصرام کرتی رہتی ہے جس سے وہ جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات میں اپنا کردار ادا کر سکیں.۵.یہ وکالت، واقفین نو کو مختلف زبانیں سیکھنے کی ترغیب دلاتی ہے نیز ان کو مختلف زبانیں سکھانے کا انتظام بھی کرتی ہے..یہ وکالت اس لحاظ سے عموماً جائزہ لیتی رہتی ہے کہ تمام جماعتوں میں واقفین نو کے لئے سیکرٹریان کا تقرر کیا جائے جو واقفین نو بچوں اور ان کے والدین کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھیں اور مرکز کو واقفین نو کی ترقی کے متعلق گاہ بگاہ مطلع کرتے رہیں.ے.یہ وکالت نظام جماعت کے علاوہ ذیلی تنظیموں اور مبلغین و مربیان سے بھی واقفین نو کی کارگزاری بہتر بنانے کے سلسلہ میں مدد لیتی رہتی ہے..یوکالت واقفین نو کی تعلیم و تربیت کے لئے مناسب نصاب تیار کرتی اور شائع کرتی ہے اور مختلف عمروں کے واقفین کے لئے الگ الگ نصاب تیار کرتی ہے.۹.وکالت وقف نو اس بات پر بھی نظر رکھتی ہے کہ واقفین نو پنجوقتہ باجماعت نمازوں کی ادائیگی میں پابندی اختیار کریں.۱۰.یہ وکالت اس بات کی بھی کوشش کرتی رہتی ہے کہ واقفین نوقرآن کریم صبح روزانہ باترجمہ تلاوت
389 کرنے کی پابندی اختیار کریں..یہ وکالت ایسی تمام ذمہ داریاں بھی سرانجام دیتی ہے جو اس کے سپر دو قافو قا خلیفہ المسیح کی طرف سے تفویض کی جاتی ہے.۱۲.حضرت خلیفہ امسیح نے لندن میں مرکزی سطح پر ایک انچارج وقف نو کا تقر بھی کر رکھا ہے جو حضرت خلیفہ امسیح کی طرف سے واقفین نو کے متعلق سپرد کئے جانے والے تمام امور سرانجام دیتے ہیں.وکالت صنعت و تجارت ا.یہ وکالت جماعت کے احباب کو اس بات کی ترغیب دلاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ صنعت و تجارت میں حصہ لیں.نیز یہ ایسے لوگوں کو ضروری معلومات اور راہنمائی بھی مہیا کرتی ہے.۲.یہ وکالت مختلف ممالک کے احمدی کاروباری حضرات اور صنعتکاروں کا آپس میں تعارف اور رابطہ کرواتی ہے..اس کے علاوہ یہ کل ہروہ کا سرانجام دی ہے جوخلیفہ اسی کی طرف سے اس کے سپرد کیا جاتا ہے.وکالت زراعت ا.زراعت کے میدان میں جماعت احمدیہ کی ترقی اس کی طرف ترغیب دلانا وکیل الزراعت کی ذمہ داری ہوتی ہے.۲.وکیل الزراعت جماعتی زمینوں اور زرعی فارمز کی نگرانی کا ذمہ دار ہوتا ہے.۳.یہ وکالت تحریک جدید انجمن احمدیہ کے زرعی فارمز کے سالانہ آمد وخرچ کا بجٹ ضروری کارروائی کے بعد مجلس تحریک جدید میں پیش کرتی ہے.مجلس تحریک جدید میں ایک سب کمیٹی ہوتی ہے جو زراعت کمیٹی کہلاتی ہے.یہ کمیٹی چار ممبران پر مشتمل ہوتی ہے..وکیل الزراعت ii وکیل المال ثانی ii وکیل المال ثالث iv.وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید.وکیل اعلیٰ اس کمیٹی کے چیئر مین ہوتے ہیں..اس کمیٹی کے فرائض اور کام حسب ذیل ہیں:.ا.زرعی فارمز سے متعلق امور سے مجلس تحریک جدید کو مشورہ دینا.
390 ii تحریک جدید کے زرعی فارمز کے آمد و خرچ کے بجٹ سے متعلق مجلس تحریک جدید کو مشورہ دینا.۶.علاوہ ازیں اس کمیٹی کا کام ایسے تمام امور سرانجام دینا ہے جو جماعت کے مفاد میں ہوں نیز حضرت خلفہ اسی وقتا فوقت جو بھی ہدایات دیں ان پر عملدرآمد کرنا اور کروان بھی اس کمیٹی کے فرائض میں شامل ہوتا ہے.وقتافوقت نصرت جہاں سکیم ۱ مجلس نصرت جہاں تحریک جدید انجمن احمد یہ ربوہ کا ایک شعبہ ہے.نصرت جہاں سکیم پر عملدرآمد کے لئے ایک کمیٹی مقرر ہے جو مجلس نصرت جہاں کہلاتی ہے.یہ کمیٹی درج ذیل ممبران پر مشتمل ہے.ا.وکیل اعلیٰ صاحب (چیئر مین ) مکرم سیکرٹری مجلس نصرت جہاں.ممبر ۳.مکرم وکیل المال ثانی صاحب.ممبر ۴.دو ایسے میڈیکل آفیسرز جن کو نصرت جہاں سکیم کے تحت کچھ عرصہ خدمت کر نیکی تو فیق مل چکی ہو.اسی طرح دو ایسے اساتذہ جن کو نصرت جہاں سکیم کے تحت کچھ عرصہ خدمت کرنے کی توفیق مل چکی ہو.2.مذکورہ بالا کمیٹی حضرت خلیفتہ اسیح کی نگرانی اور راہنمائی میں کام کرتی ہے.اس کے روز مرہ کے معاملات سیکرٹری مجلس نصرت جہاں ربوہ سرانجام دیتا ہے.مجلس نصرت جہاں کے ممبران اور سیکرٹری نصرت جہاں کا تقرر حضرت خلیفہ اسیح فرماتے ہیں.وہ تمام ممالک جہاں یہ سکیم کام کر رہی ہے وہاں ایک نصرت جہاں بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے.ہر ملک کا نصرت جہاں بورڈ درج ذیل ممبران پر مشتمل ہوتا ہے.ا نیشنل امیر صاحب.(چیئرمین) ۲ نیشنل سیکرٹری فنانس..دو واقف زندگی ڈاکٹر ز جو مجلس نصرت جہاں کے تحت متعلقہ ملک میں خدمت کر رہے ہوں.۴.دو ایسے واقف زندگی اساتذہ جو مجلس نصرت جہاں کے تحت متعلقہ ملک میں خدمت سرانجام دے رہے ہوں.۵ نیشنل مجلس عاملہ کا ایک ممبر جس کی مکرم امیر صاحب.یا مکرم صدر صاحب نے سفارش کی ہو.اس بورڈ کی منظوری ہر سال حضرت خلیفہ اسیح سے لینی ہوتی ہے.کسی ملک کا نصرت جہاں بورڈ اگر مناسب سمجھے تو اپنی سفارشات نصرت جہاں سکیم کے بارہ میں مرکز کو
بھجوا سکتا ہے.391 3 سیکرٹری مجلس نصرت جہاں کے درج ذیل فرائض اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں.A.سیکرٹری نصرت جہاں ساری دنیا میں احمدی ڈاکٹرز اور اساتذہ کو مجلس نصرت جہاں کے تحت خدمت سر انجام دینے کی ترغیب دیتا ہے.نوٹ :.ہر شخص کے لئے کم از کم تین سال کے لئے وقف کرنا ضروری ہے.وہ لوگ جو اپنی اہلیہ کے ساتھ وقف پر جاتے ہیں وہ کم از کم 5 سال کے لئے وقف کرتے ہیں.ڈاکٹر ز اور اساتذہ زندگی بھر کا وقف بھی پیش کر سکتے ہیں.B.وہ تمام واقف زندگی ڈاکٹر ز اور اساتذہ کا ریکارڈ رکھتا ہے.C وکیل اعلیٰ کی اجازت سے وہ ڈاکٹر ز اور اساتذہ کے انتخاب کیلئے مجلس نصرت جہاں کا اجلاس کرواتا ہے.D.وہ مختلف ممالک میں ڈاکٹر ز اور اساتذہ کو بھجوانے کا انتظام کرتا ہے..حسب ضرورت مختلف ممالک کے طبی اداروں میں میڈیکل کے آلات و سامان بھیجوانے کا انتظام کرتا ہے.F.وہ تمام امور سرانجام دیتا ہے جو وقتا فوقتاً حضرت خلیفہ اسیح کی طرف سے تفویض کئے جائیں.صیغه امانت تحریک جدید مطالبات تحریک جدید میں دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ احباب جماعت اپنی آمد کا ۱٫۵ سے ٫۳ا حصہ تک سلسلہ کے مفاد کیلئے تین سال تک امانت فنڈ میں جمع کروائیں.تا کہ یہ رقوم جماعت کے کام آ سکیں اور جماعت کی مالی حالت مضبوط ہو اور وہ اقتصادی لحاظ سے ترقی کرے.صیغہ امانت میں تحریک جدید کا سارا چندہ اور روپیہ جمع ہوتا ہے اور اس کی آمد اور ادائیگی کا حساب رکھا جاتا ہے.جماعت کے مختلف ادارہ جات اور ذیلی تنظیموں کے کھاتہ جات حتیٰ کہ صدر انجمن احمدیہ کی بعض امانتیں بھی یہاں کھلی ہوئی ہیں.غرضیکہ افراد جماعت ، جماعتی ادارہ جات اور چندہ تحریک جدید کی نقد امانتیں اس صیغہ میں جمع ہوتی ہیں اور جمع رہتی ہیں اور حسب ضرورت یہاں سے ان کی ادائیگی بھی ہوتی ہے.انتظامی لحاظ سے اس صیغہ کا نگران افسر امانت کہلاتا ہے.صیغہ میٹی آبادی صیغہ کمیٹی آبادی کا کام سلسلہ کی تمام زمین بشمول ربوہ کے متعلق ہر قسم کی معلومات فراہم کرنا اور اپنے
392 پاس ان کا ریکارڈ رکھنا ہوتا ہے.علاوہ ازیں نقشہ جات پلاٹس اور پلاٹس کی نشاندہی.نقشہ جات کی تصدیق کرنا اور ان کی مکمل جانچ پڑتال کرنا اس کمیٹی کا کام ہے.نیز خریدار کے متعلق تشخیص اور منتقلی وغیرہ کا کام بھی اس صیغہ کے ذریعہ انجام پاتا ہے.انتظامی لحاظ سے یہ صیغہ وکیل اعلیٰ تحریک جدید کے ماتحت ہے اس کمیٹی کے چار ممبر ہوتے ہیں.ا.ناظر اعلی.۲.وکیل اعلیٰ تحریک جدید.۳.ناظر امور عامہ.۴.سیکرٹری کمیٹی آبادی آڈیٹر تحریک جدید انجمن احمدیہ کے جملہ حسابات کی جانچ پڑتال کے لئے ایک آڈیٹر مقرر ہے جو قطعی طور پر خود مختار ہوتا ہے.لیکن انتظامی معاملات میں صدر تحریک جدید کے احکامات کا پابند ہوتا ہے.شعبه تخصص حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی دور اندیش نگاہوں نے اگلی صدی میں جماعت احمدیہ پر پڑنے والی ذمہ داریوں کو بھانپتے ہوئے الہی تفہیم کے تحت 3 اپریل 1987ء کو بیت الفضل لندن میں خطبہ جمعہ کے دوران تحریک وقف نو کا اعلان فرمایا.اس بابرکت تحریک کے نتیجہ میں سینکڑوں احمدی بچوں کا جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کا امکان بلکہ یقین تھا.اس بابرکت تحریک میں شامل ہونے والے بچوں کا پہلا گروپ 2002ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخل ہونا تھا.لہذا طلبا جامعہ احمدیہ کی تعداد میں کئی گنا اضافہ نیز جماعت کی دیگر علمی میدانوں میں بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر مختلف مضامین میں سپیشلسٹ مربیان تیار کرنے کی غرض سے ستمبر 1992ء میں وکالت علیا تحریک جدید ربوہ کے زیر انتظام ایک شعبہ تخصص قائم کیا گیا.ابتداء یہ شعبہ دارالواقفین ربوہ کی عمارت میں قائم کیا گیا اور اس شعبہ کے پہلے نگران مکرم سید میرم احمد صاحب مرحوم کو مقرر کیا گیا.آپ کی وفات کے بعد مکرم ڈاکٹر سید جلید احمد صاحب کو اس شعبہ کا نگران مقرر کیا گیا جبکہ آج کل مکرم مولانامحمد اعظم اکسیر صاحب مربی سلسلہ اس شعبہ کی نگرانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں.مکرم ثاقب کامران صاحب مربی سلسلہ آپ کے نائب اور مکرم مولانا صدیق احمد منور صاحب آپ کی معاونت کر رہے ہیں.اب تک اس شعبہ کے تحت سو سے زائد مربیان کرام متعدد مضامین میں تخصص مکمل کر کے دنیا کے مختلف ممالک میں قائم جامعات اور دیگر علمی شعبہ جات میں علمی اور انتظامی خدمت بجالا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خاکسار کو اسی شعبہ کے تحت علم الکلام میں تخصص کرنے کی توفیق ملی ہے.مسعود
393 تحریک جدید کی برکات اغیار کی نظر میں مشہور مسلم مؤرخ وادیب جناب شیخ محمد اکرم صاحب ایم.اے احمد یہ جماعت کی تبلیغی کوششیں صرف انگلستان تک محدود نہیں.بلکہ انہوں نے کئی دوسرے ممالک میں بھی اپنے تبلیغی مرکز کھولے ہیں دنیا کے مسلمانوں میں سب سے پہلے احمدیوں اور قادیانیوں نے اس حقیقت کو پایا کہ اگر چہ آج اسلام کے سیاسی زوال کا زمانہ ہے لیکن عیسائی حکومتوں میں تبلیغ کی اجازت کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک ایسا موقعہ بھی حاصل ہے جو مذہب کی تاریخ میں نیا ہے اور جس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے.یہ خیال قوم کے مح نظر کو بلند کر کے ایک نئی روحانی زندگی کا باعث ہوگا.لیکن اس کے ایک حصے کی عملی تشکیل سب سے پہلے احمدیوں نے کی.“ پروفیسر یوسف سلیم چشتی ایڈیٹر رسالہ ندائے حق 66 ( موج کوثر ص ۲۰۳) آج بلا د مغرب میں ہی نہیں ساری دنیا میں تبلیغی میدان پر احمدی حضرات قابض ہیں.یورپ اور امریکہ کے علاوہ ان کے مبلغین ان علاقوں اور جزیروں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہے ہیں جن کا نام بھی ہمارے عربی مدارس کے اکثر طلباء نے نہیں سنا ہوگا.مثلاً ماریشس، نجی ٹرینیڈاڈ، سیرالیون اور نائیجیر یا وغیرہ “ ( ندائے حق، جولائی، اگست ۱۹۵۹ء) علامہ نیاز فتح پوری ایڈیٹر "نگار" ” جب قادیان اور ربوہ میں صدائے اللہ اکبر بلند ہوتی ہے تو ٹھیک اس وقت یورپ، افریقہ، ایشیا کے ان بعید تاریک گوشوں کی مسجدوں سے بھی یہی آواز بلند ہوتی ہے.جہاں سینکڑوں غریب الدیار احمدی خدا کی راہ میں دلیرانہ قدم بڑھاتے ہوئے چلے جارہے ہیں.“ نیز فرمایا:.(ماہنامہ نگار ستمبر ۱۹۶۰ء) احمدی جماعت کی کامیابیاں اس درجہ واضح و روشن ہیں کہ اس سے ان کے مخالفین بھی انکار کی جرأت نہیں کر سکتے.اس وقت دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں ان کی تبلیغی جماعتیں اپنے کام میں مصروف نہ ہوں اور انہوں نے خاص عزت و وقار حاصل نہ کر لیا ہو.پھر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ
394 کامیابیاں بغیر انتہائی خلوص و صداقت کے آسانی سے حاصل ہو سکتی تھیں.کیا یہ جذ بہ خلوص وصداقت کسی جماعت میں پیدا ہو سکتا ہے.اگر اسے اپنے ہادی و مرشد کی صداقت پر یقین نہ ہو اور کیا وہ ہادی و مرشداتنی مخلص جماعت پیدا کرسکتا تھا.اگر وہ خود اپنی جگہ صادق ومخلص نہ ہوتا.بہر حال اس سے انکار ممکن نہیں کہ مرزا صاحب بڑے مخلص انسان تھے اور یہ محض ان کے خلوص کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی بے عمل جماعت میں عملی زندگی کا احساس پیدا ہوا، اور ایک مستقل حقیقت بن گیا..دمید دانه و بالید و آشیانه نگه شده (ماہنامہ نگار لکھنو ۱۹۵۹ء) جناب مولانا ظفر علی خاں ظفر اخبار "زمیندار لاہور ہم مسلمانوں سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں اپنے دین مقدس کو پھیلانے کے لئے کیا جدو جہد کر رہے ہیں.ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان آباد ہیں.کیا ان کی طرف سے ایک بھی تبلیغی مشن مغربی ممالک میں کام کر رہا ہے؟ گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں.کیا ندوۃ العلماء، دیو بند، فرنگی محل اور دوسرے عملی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ بھی تبلیغ و اشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں.“ جناب ایڈیٹر صاحب ہندوستان ٹائمنر کلکتہ رقمطراز ہیں اخبار زمیندار لا ہور دسمبر ۱۹۲۶ء) احمد یہ جماعت بین الاقوامی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کی شاخیں یورپ اور ایشیا کے مختلف ممالک افریقہ اور شمالی اور جنوبی امریکہ کے متفرق حصوں اور آسٹریلیا میں پھیلی ہوئی ہے.ہر جگہ اس کے ماننے والے اپنی مخصوص تعلیم اور تبلیغی سرگرمی کے لئے ممتاز اور نمایاں ہیں.“ روز نامہ نوائے وقت لاہور :.(ہندوستان ٹائمنر کلکتہ ۱۹۵۱ء) افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی جماعت بطور مشنری کا کام کر رہی ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہے.“ (۲ / اپریل ۱۹۶۰ء)
395 انسائیکلو پیڈیا برٹیز کا :- جماعت احمدیہ کا ایک وسیع تبلیغ نظام.نہ صرف ہندوستان میں بلکہ مغربی افریقہ، ماریشس اور جاوا میں بھی.اس کے علاوہ برلن شکا گو اور لندن میں بھی ان کے تبلیغی مشن قائم ہیں.ان کے مبلغین نے خاص کوششیں کی ہیں کہ یورپ کے لوگ اسلام قبول کریں اور اس میں انہیں معتد بہ کامیابی بھی ہوئی ہے.ان کے لٹریچر میں اسلام کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جو نو تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے باعث کشش ہے اور اس طریق پر نہ صرف غیر مسلم ہی ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں بلکہ ان مسلمانوں کے لئے بھی یہ تعلیمات کشش کا باعث ہیں جو مذہب سے بے گانہ ہیں یا عقلیات کی رو میں بہ گئے ہیں.ان کے مبلغین ان حملوں کا دفاع بھی کرتے ہیں جو عیسائی مناظرین نے اسلام پر (انسائیکلو پیڈ برٹین کا مطبوعہ ۱۹۴۷ جلد ۲ ص ۷۱۲۷۱۱ ) کئے ہیں.“ ”ہماری زبان علی گڑھ نے لکھا:.موجودہ زمانہ میں احمدی جماعت نے منظم تبلیغ کی جو مثال قائم کی ہے وہ حیرت انگیز ہے.لٹریچر، مساجد و مدارس کے ذریعہ سے یہ لوگ ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے دور دور گوشوں تک اپنی کوششوں کا سلسلہ قائم کر چکے ہیں.جس وجہ سے غیر مسلم جماعتوں میں ایک گونہ اضطراب پایا جاتا ہے.کاش دوسرے لوگ بھی ان کی مثال سے سبق لیتے “ (ہفت روز ”ہماری زبان علی گڑھ ۲۳ دسمر ۱۹۵۸ء) تحریک جدید کا شاندار مستقبل (۱) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عالم رویا میں دکھایا گیا کہ.ایک بڑا بحر ذخار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح پیچ کھاتا ہے مشرق کو جا رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا ہے.“ وو (۲) حضرت مصلح موعود اس کے متعلق فرماتے ہیں:....یاد رکھو کہ یہ تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس لئے وہ اسے ضرور ترقی دے گا اور اس کی راہ میں جو روکیں ہوں گی ان کو بھی دور کر دے گا اور اگر زمین سے اس کے سامان پیدا نہ ہوں گے تو آسمان سے خدا تعالیٰ اس کو برکت دے گا...( خطبه جمعه فرموده ۲۴ نومبر ۱۹۳۹ء الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۳۹ء)
396 (۳) تحریک جدید کے عظیم الشان نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.وو تم اگر تحریک جدید پر عمل شروع کر دو تو آج یا کل پرسوں نہیں جب خدا تعالیٰ کی مرضی ہوگی تمہاری قوم کو ضرور بادشاہت مل جائے گی.“ خطبه جمعه فرموده ۴ / دسمبر ۱۹۳۶ء الفضل ۱۲؍ دسمبر ۱۹۳۶ء) (۴) یہ دراصل اس عظیم الشان روحانی انقلاب کا ایک منظر ہے جو مستقبل میں جلد یا بدیر تحریک جدید کے ذریعہ سے رونما ہونے والا ہے اور جس کے نتیجہ میں تحریک جدید کی پانچیز اری فوج کا لاکھوں تک پہنچنا اور پھر دنیا کے مغربی نظاموں کی جگہ اسلام کے نظام نو کی تعمیر مقدر ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک بار بالصراحت فرمایا تھا.”جب ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ اللہ کے نام کو دنیا میں پھیلائیں گے اور اسلام کے جلال اور اس کی شان کے اظہار کے لئے اپنی ہر چیز قربان کر دیں گے تو ہمیں ان تبلیغی سکیموں کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت ہوگی اس کو پورا کرنا بھی ہماری جماعت کا ہی فرض ہے.حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ اسلام کرنے کے لئے ہمیں لاکھوں مبلغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے.جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتا ہوں تو بسا اوقات سارے جہان میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے میں مختلف رنگوں میں اندازے لگاتا ہوں.کبھی کہتا ہوں کہ ہمیں اتنے مبلغ چاہئیں اور کبھی کہتا ہوں اتنے مبلغوں سے کام نہیں بن سکتا اس سے بھی زیادہ مبلغ چاہئیں.یہاں تک کہ بعض دفعہ نہیں ہیں لاکھ تک مبلغین کی تعداد پہنچا کر میں سو جایا کرتا ہوں.میرے اس وقت کے خیالات کو اگر ریکارڈ کیا جائے تو شاید دنیا یہ خیال کرے کہ سب سے بڑا شیخ چلی میں ہوں.مگر مجھے اپنے خیالات واندازوں میں اتنا مزہ آتا ہے کہ سارے دن کی کوفت دور ہو جاتی ہے.میں کبھی سوچتا ہوں کہ پانچ ہزار مبلغ کافی ہوں گے.پھر کہتا ہوں پانچ ہزار سے کیا بن سکتا ہے دس ہزار کی ضرورت ہے پھر کہتا ہوں دس ہزار بھی کچھ چیز نہیں.جاوا میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے سماٹرا میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے.چین اور جاپان میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے.پھر میں ہر ملک کی آبادی کا حساب لگاتا ہوں اور پھر کہتا ہوں یہ مبلغ بھی تھوڑے ہیں اس سے بھی زیادہ مبلغوں کی ضرورت ہے یہاں تک کہ بیس ہیں لاکھ تک مبلغوں کی تعداد پہنچ جاتی ہے.اپنے ان مزے کی گھڑیوں میں میں نے ہیں ہیں لاکھ مبلغ تجویز کیا ہے.دنیا کے نزدیک میرے یہ خیالات ایک واہمہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو چیز ایک دفعہ پیدا ہو جائے وہ مرتی نہیں جب تک اپنے مقصد کو
397 پورا نہ کرے.لوگ بے شک مجھے شیخ چلی کہہ لیں مگر میں جانتا ہوں کہ میرے ان خیالات کا خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ فضا میں ریکارڈ ہوتا چلا جا رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب اللہ تعالیٰ میرے ان خیالات کو عملی رنگ میں پورا کرنا شروع کر دے گا.آج نہیں تو آج سے ساٹھ یا سوسال کے بعد اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ ایسا ہوا جو میرے ان ریکارڈوں کو پڑھ سکا اور اسے توفیق ہوئی تو وہ ایک لاکھ مبلغ تیار کر دے گا.پھر اللہ تعالیٰ کسی اور بندے کو کھڑا کر دے گا جو مبلغوں کو دولاکھ تک پہنچا دے گا.پھر کوئی اور بندہ کھڑا ہو جائے گا جو میرے اس ریکارڈ کو دیکھ کر مبلغوں کو تین لاکھ تک پہنچا دے گا.اس طرح قدم بقدم اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لے آئے گا جب ساری دنیا میں ہمارے ہیں لاکھ مبلغ کام کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے حضور ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے.اس سے پہلے کسی چیز کے متعلق امید رکھنا بے وقوفی ہوتی ہے.میرے یہ خیال بھی اب ریکارڈ میں محفوظ ہو چکے ہیں اور زمانہ سے مٹ نہیں سکتے.آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں میرے یہ خیالات عملی شکل اختیار کرنے والے ہیں.“ الفضل ۲۸ اگست ۱۹۵۹ء صفحہ ۶.۷ تقریر فرموده ۲۸ /اگست ۱۹۴۵ء)
398 تحریک وقف جدید تحریک وقف جدید حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیہ اسیح الثانی کی بابرکت تحریکات میں سے ایک بہت ہی اہم اور مبارک تحریک ہے جو ۱۹۵۷ء میں القاء الہی کے تحت آپ نے جاری فرمائی.اس عظیم تحریک کے مقاصد عالیہ میں سے ایک بڑا مقصد دیہاتی سطح پر احباب جماعت کی تعلیم و تربیت تھا.جیسا کہ حضرت خلیفة اصبح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ وقف جدید کے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.یہ تحریک بنیادی طور پر دو اغراض سے جاری کی گئی.پہلی غرض تو یہ تھی کہ پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں چونکہ یہ ممکن نہیں تھا کہ ہر جگہ ایک مربی کو تعینات کیا جائے.اس لئے خصوصا نئی نسل میں تربیت کی کمزوری کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے نہ صرف نئی نسلوں میں بلکہ تقسیم ہند کے بعد نوجوان بھی کئی قسم کی معاشرتی خرابیوں کا شکار ہوئے اور بنیادی طور پر دین کے مبادیات سے بھی بعض صورتوں میں وہ غافل ہو گئے.چنانچہ حضرت فضل عمر نے بشدت یہ محسوس کیا کہ جب تک کوئی ایسی تحریک نہ جاری کی جائے جس کا تعلق خالصتاً دیہاتی تربیت سے ہواس وقت تک دیہاتی علاقوں میں احمدیت کے مستقبل کے متعلق ہم بے فکر نہیں ہو سکتے چنانچہ حضور نے جب اس تحریک کا آغاز فرمایا تو اولین ممبران وقف جدید میں خاکسار کو بھی مقرر فرمایا.اور ابتدائی نصیحتیں جو مجھے کیں ان میں ایک تو دیہاتی تربیت کی طرف توجہ دینے کے متعلق ہدایت تھی.اور دوسرے ہندوؤں میں دعوت الی اللہ کی خاص طور پر تاکید کی گئی تھی.“ الفضل.خطبہ جمعہ ۲۷ دسمبر ۱۹۸۵ء) تحریک وقف جدید کی اہمیت بانی وقف جدید حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اس با برکت تحریک کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں کپڑے بیچنے پڑیں میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا.اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے تو خدا تعالیٰ ان لوگوں کو الگ کر دے گا جو میرا ساتھ نہیں دے رہے اور میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اتارے گا.پس میں اتمام حجت کے لئے
399 ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں تا کہ مالی امداد کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو اور وقف کی طرف بھی لوگوں کو ۵) جنوری ۱۹۵۷ء مجموعه خطبات وقف جدید ص ۶) توجہ ہو.“ حضور کے اس ارشاد پر احباب جماعت نے اپنے اپنے رنگ میں اخلاص کا اظہار کیا.ان مخلصین میں سے ایک مکرم ملک صاحب خان صاحب نون مرحوم مغفور نے عرض کیا کہ حضور! اگر کوئی ایسی ضرورت پیش آئی تو پہلے ہم اپنے مکان کپڑے پچیں گے اور بعد میں آپ کی باری آئے گی.حضرت فضل عمر نے ایک دوسرے موقع پر وقف جدید کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.یہ تحریک (وقف جدید ) جس قدر مضبوط ہو گی اس قدر خدا تعالیٰ کے فضل سے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ ہوگا.کیونکہ جب کسی کے دل میں نور ایمان داخل ہو جائے تو اس کے اندر مسابقت کی روح پیدا ہو جاتی ہے.اور وہ نیکی کے ہر کام میں حصہ لینے کیلئے تیار (۳) جنوری ۱۹۶۲ ء از مجموعه خطبات وقف جدید ص ۹۶) 66 ہو جاتا ہے." اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا:.پس میں احباب جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی طرف پوری توجہ دیں اور اس کو کامیاب بنانے میں پورا زور لگائیں اور کوشش کریں کہ کوئی فرد جماعت ایسا نہ رہے جو صاحب استطاعت ہوتے ہوئے اس چندے میں حصہ نہ لے.“ (الفصل ۱۲ فروری ۱۹۶۰ء) شعبه معلمین وقف جدید وقف جدید کا بنیادی مقصد دیہاتی سطح پر احباب جماعت کی تعلیم و تربیت اور دعوت الی اللہ ہے اس کے لئے حضرت مصلح موعود نے وقف کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.”اب میں ایک نئے قسم کے وقف کی تحریک کرتا ہوں میں نے اس سے قبل ایک خطبہ جمعہ ( ۹ر جولائی ۱۹۵۷ء ) میں بھی اس کا ذکر کیا تھا.اور اس وقت بہت سے لوگوں نے بغیر تفصیلات سنے اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا.میں نے ان کو کہہ دیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور میں نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اس نئے وقف کی تفصیلات بیان کر دیں.تو ان تفصیلات کوسن کر اگر تم میں ہمت پیدا ہوئی تو پھر تم اپنے آپ کو پیش کر دینا.میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لے کراچی تک ہمارے معلمین کا جال پھیلا دیا
400 جائے اور تمام جگہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر یعنی دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہمارا معلم موجود ہو اور اس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہو.یا دوکان کھولی ہوئی ہو اور وہ سارا سال اس علاقہ کے لوگوں میں رہ کر کام کرتا رہے.گو یہ سکیم بہت وسیع ہے.مگر میں نے خرچ کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے.ممکن ہے بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں.مگر بہر حال ابتداء دس واقفین سے کی جائے گی.اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی..(روز نامه الفضل ۱۶ / فروری ۱۹۵۸) حضور انور کی اس مبارک تحریک کے نتیجہ میں خدمت دین کا شوق اور جذ بہ رکھنے والے کئی نوجوانوں نے زندگیاں وقف کرتے ہوئے اپنے آپ کو پیش کر دیا.چنانچہ حضور انور نے ابتداء میں صرف معلمین کے ذریعہ تعلیم و تربیت کا کام شروع کرنے کی ہدایت فرمائی.جس کی تعمیل میں معلمین کے لئے ایک تربیتی کلاس کا کی انعقاد کیا گیا اور بہت جلد ان درویشوں کا ایک گروہ عملی جدو جہد کے واسطے تیار ہو گیا.اور یکم فروری ۱۹۵۸ء کو دعاؤں کے ساتھ 4 معلمین کا پہلا قافلہ سوئے منزل روانہ ہوائے.جو حسب ذیل ہیں.(۱) مکرم احسان الہی صاحب (۲) مکرم محمد یوسف صاحب (۳) مکرم رشید احمد طارق صاحب لاکھا روڈ (۴) مکرم منیر احمد محمود صاحب (برائے لیہ ) (۵) مکرم مبارک احمد صاحب (۶) مکرم رشید احمد طیب صاحب برائے بہاولپور (بحوالہ ریکارڈ دفتر وقف جدید ) اور آج خدا کے فضل سے سینکڑوں کی تعداد میں معلمین پاکستان کے طول وعرض میں تعلیم و تربیت اور دعوت الی اللہ کا کام سرانجام دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں.جس کے نتیجہ میں جماعتوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے تعلیم و تربیت اور اصلاح وارشاد کے سلسلہ میں معلمین سے استفادہ کیا.اور ہزاروں کی تعداد میں احمدی بچے اور بچیاں تعلیم القرآن اور دیگر بنیادی دینی معلومات کے زیور سے مرصع ہو کر پروان چڑھ چکے ہیں.معلمین وقف جدید نے خاص طور پر تھر اور نگر پار کر جیسے دور دراز اور انتہائی پسماندہ علاقہ میں سسکتی ہوئی انسانیت کی قابل قدر خدمات بجالانے کی سعادت حاصل کی ہے.فالحمد للہ علی ذالک.اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صرف پاکستان میں ۳۴۵ معلمین وقف جدید خدمت سلسلہ سر انجام دے رہے ہیں اسی طرح ہندوستان میں بھی سینکڑوں معلمین تعلیم و تربیت اور دعوت الی اللہ کا کام سرانجام دے رہے ہیں.تحریک وقف جدید کی اہمیت کا انداز اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس تحریک کے بانی حضرت مصلح موعود نے ہزار معلمین کی ضرورت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:.
401 اب میں تحریک جدید اور وقف جدید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.تحریک جدید کو قائم ہوئے ۳۵ سال ہو چکے ہیں.لیکن وقف جدید کو قائم ہوئے ابھی ایک سال ہوا ہے.وقف جدید میں شامل ہونے والوں کی درخواستیں برابر چلی آ رہی ہیں.مگر ابھی یہ تعداد بہت کم ہے.وقف جدید میں شامل ہونے والے لوگ کم از کم ایک ہزار ہونے چاہئیں.اگر دس ہزار ہوں تو اور بھی اچھا ہے.اگر ہماری جماعت کے زمیندار اپنی آمد میں بڑھا ئیں تو وقف جدید کے چندے بھی بڑھ جائیں گے.اور وہ مزید آدمی رکھ سکیں گے.“ ( الفضل ۳ را پریل ۱۹۵۹ء) دعوت الی اللہ وقف جدید کے مقاصد عالیہ میں دوسرا بڑا مقصد دعوت الی اللہ کا تھا.یہ مقصد بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ساتھ ساتھ پورا ہورہا ہے.حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.وو مجھے بتایا گیا ہے کہ وقف جدید کے ماتحت اب اچھوت اقوام تک بھی دین حق کا پیغام پہنچانے کا کام شروع کر دیا گیا اور اس کے امید افزاء نتائج پیدا ہورہے ہیں.“ الفضل ۵ جنوری ۱۹۶۲ء) حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے احباب جماعت کے نام ایک پیغام میں وقف جدید کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.’وقف جدید ابھی ۸ سالہ بچہ ہی ہے مگر اس قلیل عرصہ میں بھی بہت بابرکت تحریک ثابت ہوئی ہے.وقف جدید کے ماتحت جہاں بھی کام شروع کیا گیا ہے بہت مفید نتائج نکلے ہیں.“ (الفضل ۶ جنوری ۱۹۶۶ء) حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے جلسہ سالانہ ۱۹۶۵ء کے موقع پر کارکنان وقف جدید کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.”وقف جدید کے کارکن بہت اچھا کام کر رہے ہیں اشاعت دین حق کے لئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے جذبہ.وقف جدید والوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ اشاعت دین حق کے لئے اتنی علم کی ضرورت نہیں جتنا یہ امر ضروری ہے کہ انسان میں جذ بہ موجود ہو.حقیقت یہ ہے کہ وہ اس بارہ میں بعض ( مربیان) سے بھی بڑھ گئے ہیں.“ (الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۶۶ء )
402 حضرت خلیفتہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۷ دسمبر ۱۹۸۵ء کو خطبہ جمعہ ارشادفرماتے ہوئے وقف جدید کے مقاصد اور ان کے پورا ہونے کے سلسلہ میں سندھ کے ہندوؤں میں دعوت الی اللہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.شروع میں چند سال ہمیں کوشش کے باوجود پھل نہیں ملا ان علاقوں میں کئی مسائل تھے جن سے نبٹنا ہمارے بس کی بات نہیں تھی.اجنبیت بھی تھی اور ( لوگوں ) کی طرف سے ان سے اچھا سلوک نہ ہونے کی وجہ سے بھی دین حق سے دوری پائی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ جمود ٹوٹا.نفرت دور ہوئی اور محبت و پیار کے سلوک کے نتیجہ میں توجہ پیدا ہوئی اور ان میں تیزی سے دین حق پھیلنا شروع ہو گیا...ان کے خصوصی حالات کی وجہ سے عیسائی ان کو اپنا شکار سمجھتے تھے چنانچہ انہوں نے وقف جدید کے کام شروع کرنے سے قبل وہاں عیسائیت کا جال پھیلا دیا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے معلمین وقف جدید کی کوششوں سے حیرت انگیز فضل فرمایا اور عیسائیوں کے کلیہ وہاں سے پاؤں اکھڑ گئے.متعدد دیہات میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین حق قائم ہو گیا.‘ ضمیمہ انصار اللہ جنوری ۱۹۸۶ء) حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں وقف جدید کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.”ہندوستان میں وقف جدید قائم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہی ہے.حیدر آباد کے اردگرد اور پنجاب میں قادیان کے مضافات میں جو بیسیوں نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں وہاں زیادہ تر خدمت کی توفیق وقف جدید کو مل رہی ہے لیکن ایک علاقہ تشنہ ہے اور وہ ہے شدھی کا پرانا کارزار....ان علاقوں میں دوبارہ مذہبی طور پر شدھی کی تحریک چلا دی گئی ہے اس لئے ہندوستان کی وقف جدید کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ باقی علاقوں کے علاوہ پرانے شدھی کے علاقوں کی طرف بھی توجہ کریں.ہندوستان میں واقفین کی تعداد بہت تھوڑی ہے.اور مالی لحاظ سے بھی کمزوری ہے.مالی لحاظ سے تو میں نے پیغام بھیجا ہے کہ آپ دعوت الی اللہ کا پروگرام بنا ئیں.اللہ تعالیٰ سلسلے کی ضرورت کو پورا فرمائے گا.“ ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۸۵ء از ضمیمہ انصار اللہ جنوری ۱۹۸۵ء) چنانچہ حضور انور نے ہندوستان میں دعوت الی اللہ کے اسی منصوبہ کے پیش نظر اپنے اس خطبہ جمعہ میں وقف جدید کو عالمگیر حیثیت عطا فرما دی.تا کہ بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندہ وقف جدید سے ہندوستان میں دعوت الی اللہ کے منصوبہ کو عملی جامع پہنایا جا سکے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہندستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران کروڑوں کی تعداد میں حاصل ہونے والے پھلوں میں تحریک وقف جدید کا بھی اہم کردار ہے.
403 طبی سہولیات تحریک وقف جدید کے لئے وقف کرنے والے نو جوانوں کو تعلیم وتربیت کے دوران طبی اور ہومیو پیتھی طریق علاج کی تعلیم بھی دی جاتی ہے تا معلمین روحانی بیماریوں کے علاج کے ساتھ ساتھ جسمانی بیماریوں کا علاج کر کے بھی دکھی انسانیت کی خدمت بجالا سکیں.جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۸ء کے موقع پر فرمایا کہ:.اگر جماعت وقف جدید کی طرف توجہ کرے تو اس سے نہ صرف ہم ملکی جہالت کو دور کر سکیں گے بلکہ بیماریوں کو دُور کرنے میں ہم ملک کی مدد کر سکیں گے.کیونکہ وقف جدید کے معلم تعلیم کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ بھی کرتے ہیں اور اس سے ملک کی بیماریوں کو دور کرنے میں مددل رہی ہے.“ (الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۵۹ء) چنانچہ خدمت خلق کے اس میدان میں بھی وقف جدید انجمن احمدیہ کی خدمات قابل قدر ہیں.اللہ کے فضل و کرم سے معلمین کی اکثریت اپنے فرائض منصبی کے ساتھ طبی میدان میں بھی گرانقدر خدمت سرانجام دے رہی ہے.فضل عمر فری ہومیوڈسپلنری ربوہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے وقف جدید کی نگرانی کی ذمہ داری سنبھالنے کے معابعد دفتر وقف جدیدر بوہ میں فضل عمر فری ہو میو ڈسپنسری قائم فرمائی اور خلافت کے منصب پر متمکن ہونے تک خود مریضوں کو دیکھ کر مفت علاج کرتے رہے.یہ ڈسپنسری اب بھی خدا کے فضل سے بدستور جاری ہے اور اس سے روازنہ سو سے زائد مریض مشورہ اور دوائی مفت حاصل کرتے ہیں.المحدی ہسپتال مٹھی اللہ کے فضل سے وقف جدید صوبہ سندھ بالخصوص تھر پار کر جیسے پسماندہ علاقہ میں سکتی انسانیت کی بہت ہی غمخوار ثابت ہو رہی ہے اس علاقہ میں بنی نوع انسان کے روحانی علاج کے ساتھ ساتھ جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہو رہا ہے.معلمین وقف جدید کے ذریعہ ہومیو پیتھی طریق علاج اور طب یونانی طریق
404 علاج کے علاوہ ۱۹۹۶ ء سے مٹھی علاقہ تھر پارکر سندھ میں مجلس انصاراللہ پاکستان کے تعاون سے تعمیر ہونے والے المہدی ہسپتال کے ذریعہ ایلو پیتھی طریق علاج سے دکھی لوگوں کا علاج کیا جا رہا ہے اللہ کے فضل و کرم سے المھدی ہسپتال شفایابی اور حسن انتظام کے لحاظ سے ایک مقام حاصل کر چکا ہے.گورنمنٹ کے بڑے بڑے افسران اور اکثر علاقے کے وڈیرے اور بڑے زمیندار بھی اس ہسپتال سے علاج کروانا پسند کرتے ہے.اور آنکھوں کے آپریشن کے سلسلے میں کیمپ لگائے جاتے ہیں.طاہر ہسپتال نگر پارکر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مورخہ ۱۷۵اپریل ۲۰۰۹ ء سے نگر پارکر صوبہ سندھ پاکستان میں وقف جدید پاکستان کے تحت ایک عظیم الشان ہسپتال دکھی انسانیت کی خدمت کر رہا ہے.یہ ہسپتال لجنہ اماءاللہ کے تعاون سے تعمیر ہوا.اس ہسپتال کا نام حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے طاہر ہسپتال تجویز فرمایا ہے.وقف جدید کا مالی نظام تحریک وقف جدید کے تحت ہونے والے تعلیمی، تربیتی اور دعوت الی اللہ کے کاموں کی مالی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود نے چندہ وقف جدید بھی مقرر فرمایا.آپ نے اس وقت کے حالات کے پیش نظر چندہ کی شرح کم از کم 4 روپے سالانہ مقررفرمائی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے عہد خلافت میں وقف جدید کے چندہ کی شرح بڑھا کر کم از کم ۱۲ روپے سالانہ مقرر فرما دی.اس کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۸۴ء میں چندہ وقف جدید کی کم از کم شرح کو ختم کر دیا اور فرمایا کہ جتنی کسی کی استطاعت ہے وہ اس کے مطابق چندہ وقف جدید ادا کر کے اس بابرکت تحریک میں شامل ہو.وقف جدید کا مالی سال یکم جنوری سے شروع ہو کر اس دسمبر کو تم ہوتا ہے.۱۹۸۵ء تک اس تحریک کا دائر ہ صرف پاکستان اور ہندوستان تک محدود تھا لیکن ۱۹۸۶ء سے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے چندہ وقف جدید کو تمام ممالک میں جاری فرما دیا.اب خدا کے فضل سے یہ تحریک بھی عالمگیر حیثیت حاصل کر چکی ہے.جس کی طرف حضرت مصلح موعود کے ذیل کے ارشاد میں اشارہ ملتا ہے:.ممکن ہے کہ بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں.“ (۱۶ فروری ۱۹۵۸ء)
405 چند وقف جدید کی مدات ا.چند وقف جدید بالغان جماعت کے تمام بالغ افراد (لجنہ ، انصار، خدام) اپنے اخلاص اور استطاعت کے مطابق چندہ وقف جدید ادا کرتے ہیں.مگر غیر معمولی اور مسابقت کی روح رکھنے والے ایسے احباب جو کم از کم ایک ہزار روپیہ سالانہ یا اس سے زائد ادا کرتے ہیں وہ صف اول کے معاونین خصوصی کہلاتے ہیں.اسی طرح ایسے احباب جو پانچ صد روپے سے لے کر ایک ہزار روپے تک سالانہ ادا کرتے ہیں وہ معاونین خصوصی صف دوم کہلاتے ہیں.۲.دفتر اطفال :.حضرت خلیفۃ الثالث نے ۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو دفتر اطفال کا اعلان فرمایا اور آپ نے پندرہ سال تک کی عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کو اس میں شامل ہونے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ اطفال الاحمدیہ، ناصرات الاحمدیہ اور سات سال سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں نے بھی اپنے پیارے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے جیب خرچ اور اپنی عیدی اپنے امام کے حضور پیش کر دی.بلکہ بعض والدین نے تو اپنے ہونے والے بچوں کیطرف سے بھی چند وقف جدید ادا کیا.شخصی مجاہدات اور نھے مجاہدین :.وہ احمدی بچیاں اور وہ احمدی بچے جو سالانہ کم از کم دوصد روپے معلمین یا اس سے زیادہ ادا کرتے ہیں ان کا شمار بھی مجاہدات اور ننھے مجاہدین میں ہوتا ہے.امداد نگر پارکر:.علاقہ تھر اور نگر پار کر جہاں غربت و پسماندگی اپنی انتہائی حدود کو چھورہی ہے وقف جدید نے ایسے دور دراز علاقہ میں بھی پہنچ کر مشکلات اور تکالیف کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے خدمت کے متعدد میدانوں میں قربانی اور اخلاص و فدائیت کے سنہری کارنامے سرانجام دیئے ہیں.الحمد للہ علی ذلک.احباب جماعت سے درخواست ہے کہ اس مد میں بھی تھوڑا بہت چندہ حسب استطاعت اورا کر کے ضرور شمولیت فرما ئیں.۵.قیام مراکز :.وقف جدید کی ضروریات کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تحریک فرمائی کہ بعض جماعتیں یا بعض لوگ انفرادی طور پر وقف جدید کے ایک سنٹر کا سارا خرچ یا نصف یا کچھ حصہ وقف جدید کو ادا کریں.اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ زمیندار اس سلسلہ میں کم از کم دس ایکڑ زمین وقف کریں.چنانچہ اس تحریک پر کئی جماعتوں اور انفرادی طور پر احباب نے لبیک کہتے ہوئے اپنی دس ایکڑ یا کم و بیش زرعی اراضی وقف جدید کے لئے پیش کر دی.فجز اھم اللہ احسن الجزاء.خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دس ایکڑ اپنی ذاتی زمین وقف جدید کو عطا فرمائی.مخلصین جماعت کے لئے آج بھی موقع ہے کہ وہ بذریعہ زمین یا نقدی حضور کی اس بابرکت تحریک پر لبیک کہہ کر عنداللہ ماجور ہوں.
406 انجمن وقف جدید کا نظام دفتر وقف جدید کا قیام سید نا حضرت خلیفہ المسی الثانی الصلح الموعود نے تحر یک وقف جدید کے باضابطہ اعلان کے ساتھ ہی اس کے عملی کام کا آغاز فرما دیا اور ۹ جنوری ۱۹۵۸ء کو مکرم سید منیر احمد صاحب باہری سابق مجاہد برما کو انچارج وقف جدید مقرر کرتے ہوئے با قاعدہ دفتر کھولنے کی ہدایت فرمائی اور بطور کلرک فضل الرحمن صاحب نعیم (ابن مکرم ماسٹر عبدالرحمن صاحب اتالیق) کی منظوری دی.چنانچہ اسی روز وقف جدید کا دفتر ، پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے احاطہ میں قائم ہو گیا اور انہوں نے حضور کی براہ راست نگرانی میں کام شروع کر دیا.دفتری ریکارڈ کے مطابق وقف جدید کا پہلا ریزولیوشن ۱۳ / جنوری ۱۹۵۸ء کو ہوا.رجسٹریشن اور ابتدائی ممبران حضور انور نے انجمن وقف جدید کے حسب ذیل ممبران مقرر فرمائے :.ا.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.۲.مولوی عبد الرحمن صاحب انور.۳.چوہدری محمد شریف صاحب فاضل سابق مجاہد بلاد عر بیہ.۴.مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب.۵.سید منیر احمد صاحب باہری (سیکرٹری مجلس و انچار ج دفتر ) - ۶ - حضرت شیخ محمداحمد مظہر صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ ضلع لائکپور (فیصل آباد ) صدرے.خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ۲۱ جنوری ۱۹۵۸ء کو یہ انجمن باقاعدہ رجسٹر ہو گئی اور مندرجہ بالا اصحاب ہی اس کے ڈایکٹر مقرر ہوئے.حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو ۲۱ ۱۷ کتوبر ۱۹۵۸ء کو ناظم دعوت الی اللہ و ناظم تعلیم اور ناظم ارشاد مقررفرمایا.وقف جدید کے پہلے انسپکٹر وقف جدید کے سب سے پہلے انسپکٹر ارشاد ۵ فروری ۱۹۵۸ء کوز میر ریزولیوشن نمبر ۲۱ مکرم صوفی خدا بخش صاحب عبد ز یروی بی.اے ہمنشی فاضل مقرر کئے گئے.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر ۲۰ ص ۲۰ تا ۲۲ طبع اول)
407 بورڈ آف ڈائریکٹرز ( مجلس ) وقف جدید انجمن احمدیہ ا.بورڈ آف ڈائریکٹرز ، وقف جدید انجمن احمد یہ کے نام سے موسوم ہوتا ہے.۲.اراکین کی تقرری ایک سال کیلئے ہوتی ہے.اور اگر ان کی تقرری سال کے دوران ہو تو تقرری سال کے بقیہ حصہ کے لئے ہوتی ہے.۳.مجلس کے اراکین بلحاظ منصب اور ایسے کوئی دوسرے اراکین ، جن کی تقرری خلیفہ امسیح کریں.انجمن کے ڈائریکٹر ز ہوتے ہیں اور بورڈ آف ڈائر یکٹر زان پر مشتمل ہوتا ہے.۴.بورڈ آف ڈائریکٹر کے صدر کی نامزدگی خلیفہ مسیح کرتے ہیں جو ان کی صوابدید کے تابع اس عہدہ پر فائز رہتا ہے.۵.ڈائریکٹرز یا اراکین کی تقرری ، عہدہ پر فائز رہنا یا کسی ایک کی بجائے یا دوسرے کا مقرر کیا جانا خلیفہ المسیح سے قطعی اور غیر محدود اختیارات کے تحت ہوتا ہے.۶.بورڈ کے فیصلہ جات کثرت رائے سے ہوتے ہیں تاہم صدر کو نامنظور کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے.اگر صد راس اختیار کا استعمال عمل میں لائے اور بورڈ کی اکثریت ایسا چاہے تو اس معاملہ میں حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں استصواب کرتا ہے.جن کا فیصلہ قطعی ہوتا ہے اور انجمن کے لئے واجب التعمیل ہوتا ہے اور انجمن میں ووٹوں کی برابری کی صورت میں جس طرف کو صدر کی تائید حاصل ہو وہ اکثریت متصور ہوتی ہے.ے.بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اختیارات و فرائض موجود الوقت خلیفہ اسے متعین کرتے ہیں جن کو بورڈ ۸.ان کے نمائندہ کی حیثیت سے بجالاتے ہیں.۸.بورڈ آف ڈائریکٹر ز سالانہ بجٹ بلا واسطہ یا احمد یہ جماعت کی ایسا نمائندہ کمیٹی کے واسطہ سے جو کبھی اس غرض کیلئے مقرر کی جائے خلیفہ اسیح کی منظوری کیلئے تیار کرتا ہے.۹ تمام امور میں خلیفتہ امسیح کا فیصلہ، بورڈ آف ڈائریکٹرز کے لیے قطعی اور واجب التعمیل ہوتا ہے.( بحوالہ ریکارڈ دفتر وقف جدید انجمن احمد یہ ربوہ پاکستان ) مال کمیٹی ا.وقف جدید انجمن احمدیہ کے ماتحت ایک کمیٹی ہوتی ہے.جس کا نام مال کمیٹی ہے.
408 ۲.اس کمیٹی کا کام مالی و حسابی معاملات میں وقف جدید انجمن احمد یہ کومشورہ دینا اور کوئی ایسا معاملہ جو مالی یا حسابی ہو اور جس کا بجٹ پر اثر پڑتا ہو اس کمیٹی کی رائے کے بغیر صدرانجمن احمد یہ میں پیش نہیں ہوسکتا.اس کمیٹی کے کام کی تفصیل حسب ذیل ہے.الف.سالانہ بجٹ آمد و خرچ کے متعلق مشورہ دینا.ب.ہر ایسے معاملہ میں مشورہ دینا جس سے خزانہ پر بار پڑتا ہو لیکن منظور شدہ بجٹ میں سے کوئی رقم پیشگی منظور کرنا اس سے مستثنیٰ ہوتا ہے.ج.اخراجات پر نگاہ رکھنا اور مالی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے بر وقت اس کے متعلق وقف جدید انجمن احمدیہ میں رپورٹ کرنا.د.ہر قسم کے مشترکہ محکمانہ فارم تجویز کرنا.ھ.آمد و خرچ کے حساب و کتاب رکھنے کا طریق تجویز کرنا.و.دیگر ہر قسم کے مالی و حسابی کام کے متعلق مشورہ دینا..اس کمیٹی کو تمام مشورہ طلب امور میں صرف مالی و حسابی نگاہ سے رائے دینے کا اختیار ہوتا ہے.انتظامی پہلو سے دخل نہیں دے سکتی..کمیٹی کے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسا حسابی و مالی معاملہ اس کے نوٹس میں آئے جس میں سلسلہ کے مفاد میں رائے دینی مناسب ہو تو از خود اپنی رائے وقف جدید انجمن احمدیہ کو ارسال کر سکتی ہے.انتظامیہ کمیٹی ا.وقف جدید انجمن احمدیہ کے ماتحت ایک کمیٹی ہوتی ہے جس کا نام انتظامیہ کمیٹی ہے اس کمیٹی کا کام انتظامی امور میں وقف جدید انجمن احمدیہ کی طرف سے مفوضہ معاملات میں مشورہ دینا ہوتا ہے.مثلاً استقلال کارکنان ، رخصت کارکنان ،نئی آسامی کا قیام وغیرہ.۲.اس کمیٹی کے ذمہ ان دیگر امور کے بارہ میں بھی رپورٹ کرنا ہوتا ہے جو وقف جدید انجمن احمدیہ کی طرف سے اس کے سپرد کئے جائیں.(بحوالہ ریکارڈ دفتر وقف جدید انجمن احمد یہ ربوہ پاکستان )
409 وقف جدید کی نظامتیں صدر انجمن احمد یہ کا کوئی شعبہ نظارت کہلاتا ہے.اور تحریک جدید کا کوئی شعبہ وکالت کہلاتا ہے ان کے بالمقابل وقف جدید کا کوئی شعبہ نظامت کہلاتا ہے.جس کا نگران ناظم کہلاتا ہے.اس وقت تک صرف درج ذیل تین نظامتیں ہیں.نظامت ارشاد وقف جدید کے تحت تیار ہونے والے معلمین کی تعلیم و تربیت اور میدان عمل میں کام کرنے والے معلمین کے کام کی نگرانی اور لٹریچر وغیرہ کی تیاری و اشاعت کا کام اسی نظامت کے تحت انجام پاتا ہے.نظامت مال چندہ وقف جدیدا کٹھا کرنا.وقف جدید کا بجٹ تیار کرنا.اسی طرح وقف جدید کی جملہ ضروریات کے اخراجات اسی نظامت کے تحت ہوتے ہیں.نیز نئی عمارات کی تعمیر و توسیع بھی اسی نظامت کے تحت ہوتی ہے.نظامت دیوان اس نظامت کے ذمہ حسب ضرورت نئے کارکنان کی بھرتی اور فراغت کرنا.سروس بکس کی تیاری اور دیگر تمام ریکارڈ تیار کرنا.نیز وقف جدید کے جملہ کا رکنان کی چھٹیوں کا ریکار ڈرکھنا اس نظامت کے ذمہ ہے.اسی طرح ریٹائر ڈ کارکنان کی پینشنز کا کام بھی اس نظامت کے سپر د ہے.شعبہ آڈٹ آڈیٹر کا کام تمام اخراجات کی جانچ پڑتال کرنا ہے.اور تمام اخراجات کو بجٹ کے اندر رکھنے کی نگرانی کرتا ہے.
410.مدرسة الظفر وقف جدید حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے دیہاتی سطح پر احمدی احباب کی تعلیم و تربیت اور دعوت الی اللہ کی غرض سے القاء الہی کے تحت دسمبر ۱۹۵۷ء میں وقف جدید جیسی بابرکت تحریک جاری فرمائی.اس بابرکت تحریک کے ذریعہ آپ کراچی سے خیبر تک معلمین کا ایک جال پھیلانا چاہتے تھے.چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر آپ فرماتے ہیں:.”اب میں ایک نئے قسم کے وقف کی تحریک کرتا ہوں.میں نے اس سے قبل ایک خطبہ جمعہ ( ۹ جولائی ۱۹۵۷ء) میں بھی اس کا ذکر کیا تھا.میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لے کر کراچی تک ہمارے معلمین کا جال پھیلا دیا جائے.اور تمام جگہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر یعنی دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہمارا معلم ہو..پس جماعت کے دوستوں سے میں کہتا ہوں کہ وہ جتنی قربانی کر سکیں اس سلسلہ میں کریں اور اپنے نام اس سکیم کے لئے پیش کریں.اگر ہمیں ہزاروں معلم مل جائیں تو پشاور سے کراچی تک کے علاقہ کو ہم دینی تعلیم کے لحاظ سے سنبھال سکتے ہیں.اور ہر سال دس دس ہیں ہیں ہزار اشخاص کی تعلیم و تربیت ہم کر سکیں گے.بہر حال دوست اس سکیم کو نوٹ کر لیں اس کے لئے اپنے نام پیش کریں.اور اس سلسلہ میں اگر کوئی مفید بات ان کے ذہن میں آئے تو اس سے بھی اطلاع دیں.“ مزید فرمایا:.گو یہ سکیم بہت وسیع ہے مگر میں نے خرچ کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے.ممکن ہے بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں.مگر بہر حال ابتداء دس واقفین سے کی جائے گی اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی.“ (الفضل ۱۶ فروری ۱۹۵۸ء) حضرت مصلح موعود کے ان فرمودات سے اس تحریک کی اہمیت اور برکات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.نیز اس تحریک کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کس قدر زیادہ واقفین کی ضرورت ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ خاص فضل ہے کہ حسب سابق اس تحریک پر بھی خدمت دین کا شوق اور جذب رکھنے والے
411 نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کر کے اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہا.چنانچہ ان واقفین کے انٹرویو اور انتخاب کا کام شروع کر دیا گیا.اور منتخب احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے پہلی کلاس جاری کر دی گئی اور اس طرح بہت جلد ان درویشوں کا ایک قافلہ عملی جدوجہد کے واسطے تیار ہو گیا اور یکم فروری ۱۹۵۸ء کو دعاؤں کے ساتھ معلمین کا پہلا قافلہ سوئے منزل روانہ ہوا.ان معلمین اور بعد میں آنے والے واقفین نے بنیادی ضروریات زندگی کے لئے بھی تھوڑے الاؤنس سے گزارہ کیا.اپنے اپنے مراکز میں بالعموم اور نگر پارکر جیسے انتہائی پسماندہ علاقہ میں بالخصوص جہاں پینے کا پانی بھی بمشکل دستیاب ہوتا ہے اور اس پانی کا پینا بھی بہت بڑی قربانی ہے مشکل حالات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سکتی انسانیت کی خدمت کی.اور اللہ کے فضل وکرم سے بہت عمدہ نتائج سامنے آئے.دس ہزار معلمین کی ضرورت اگر چه اب معلمین کی تعداد خدا کے فضل سے پہلے سے بڑھ چکی ہے اور پاکستان میں اس وقت معلمین کے سنٹرز کے ذریعہ تقریباً سات ۷۰۰ سو سے زائد دیہات معلمین سے استفادہ کر رہے ہیں.تاہم اس تحریک کی وسعت اور افادیت و اہمیت کے بالمقابل واقفین کی موجودہ تعداد بالکل ناکافی ہے.اندازہ فرمائیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۹ء میں دس ہزار تک واقفین بڑھانے کا ارشادفرمایا.آپ فرماتے ہیں.”اب میں تحریک جدید اور وقف جدید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں تحریک جدید کو قائم ہوئے ۳۵ سال ہو چکے ہیں.لیکن وقف جدید کو قائم ہوئے ابھی ایک سال ہوا ہے.وقف جدید میں شامل ہونے والوں کی درخواستیں برابر چلی آرہی ہیں.مگر ابھی یہ تعداد بہت کم ہے.وقف جدید میں شامل ہونے والے لوگ کم از کم ایک ہزار ہونے چاہئیں.اگر دس ہزار ہوں تو اور بھی اچھا ہے.اگر ہمارے زمیندار اپنی آمد میں بڑھا ئیں تو وقف جدید کے چندے بھی بڑھ جائیں گے.اور وہ مزید آدمی رکھ سکیں گے.“ (الفضل ۳ را پریل ۱۹۵۹ء) معلمین کے اوصاف تحریک وقف جدید کے اجراء سے قبل 9 جولائی ۱۹۵۷ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے اس نئے وقف کے لئے جس قسم کے واقفین کی ضرورت ہے، کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.
412 میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں.وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں.تاکہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ (دینی) تعلیم دینے کا کام کر سکیں.وہ مجھ سے ہدائتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں.ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں ہے.لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے اور آج بھی اس میں پشتوں کی ضرورت ہے.سہر وردیوں کی ضرورت ہے اور نقشبندیوں کی ضرورت ہے اگر یہ لوگ آگے نہ آئے اور حضرت معین الدین صاحب چشتی ، حضرت شہاب الدین صاحب سہروردیؒ اور حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج جیسے لوگ پیدا نہ ہوئے تو یہ ملک روحانیت کے لحاظ سے بھی ویران ہو جائے گا.بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ ویران ہو جائے گا.جتنا مکہ مکرمہ کسی زمانہ میں آبادی کے لحاظ سے ویران تھا.پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کریں.“ (الفضل یکم اگست ۱۹۵۷ء خطبہ عید الاضحی و جولائی ۱۹۵۷ء) مذکورہ بالا اوصاف کے علاوہ ایک معلم میں جن خصوصیات کا موجود ہونا ضروری ہے ان کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث فرماتے ہیں:.ایک تو آج میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرتا ہوں اور دوسرے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس اعلان کا یہ مطلب نہیں کہ بس میں نے آواز اٹھائی اور وہ آواز اخبار میں چھپ گئی.لوگ خاموش ہو گئے.اور سو گئے بلکہ سال نو کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دل میں یہ احساس پیدا ہو کہ نیا سال آ رہا ہے مختلف زاویوں اور پہلوؤں سے نئی ذمہ داریوں اور نئی قربانیوں کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے لاسکیں.ان میں سے ایک ذمہ داری وقف جدید کی ہے اس ذمہ داری اپنے سامنے رکھیں.جتنے روپے کی ہمیں ضرورت ہے وہ مہیا کریں اور بطور معلمین جتنے آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہے.ہمیں دیں اور مخلص واقف دیں خدا تعالیٰ کی محبت رکھنے والے اور اس کی خاطر تکلیف برداشت کرنے والے اس کے عشق میں سرشار ہو کر اس کے نام کو بلند کرنے والے مسیح موعود پر حقیقی ایمان لانے کے بعد اور آپ کے مقام کو پوری طرح سمجھنے کے بعد جو ایک احمدی کے دل میں ایک تڑپ پیدا ہونی چاہئے کہ تمام احمدی اس روحانی مقام تک پہنچیں جس مقام تک حضرت مسیح موعود لے جانا چاہتے تھے.اس تڑپ والے واقفین ہمیں وقف جدید میں چاہئیں.(الفضل مورخہ ۴ را پریل ۱۹۶۷ء) 66
413 اسی طرح ایک دوسرے موقع پر فرمایا:.’مال کے علاوہ ایک بڑی ضرورت معلمین کی ہے.ایسے معلم جو واقعہ میں اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کرنا چاہیں ایسے معلم نہیں جو یہ سمجھیں کہ دنیا میں کسی اور جگہ ان کا ٹھکانہ نہیں چلو وقف جدید میں جا کر معلم بن جائیں.سمجھدار دعا کرنے والے، خدا اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے حضرت مسیح موعود نے جو تفسیر القرآن بیان کی ہے.اس سے دلی لگاؤ رکھنے والے اسے پڑھنے والے اسے یادرکھنے والے اور خدمت کا بے انتہا جذبہ رکھنے والے جس کے دل میں خدمت خلق کا جذ بہ نہیں وہ معلم نہیں بن سکتا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ دنیوی لحاظ سے یا دینی لحاظ سے ہم اپنے بھائی کو جو کچھ بھی دیتے ہیں وہ خدمت کے جذبہ کے نتیجہ میں دیتے ہیں.اس کے بغیر ہم دے بھی نہیں سکتے.“ (الفضل، انومبر ۱۹۶۷ء) معلمین کی تیاری ابتداء میں حضرت مصلح موعود نے وقف کرنے والوں کے لئے کوئی زیادہ تعلیم کی شرط نہ لگائی بلکہ پرائمری پاس تک واقفین کو بھی لینا منظور فرمایا جنہیں مرکز میں رکھ کر تعلیمی و تربیتی لحاظ سے ٹریننگ دی جاتی تھی.اللہ کے فضل سے دنیوی لحاظ سے معمولی تعلیم رکھنے والے ان واقفین نے میدان عمل میں قابل رشک خدمات سرانجام دیں.مدرسة الظفر کا قیام معلمین وقف جدید کی تعلیم و تربیت کے لئے قائم کردہ کلاس آہستہ آہستہ خدا کے فضل سے اب ایک پورے ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے اور حضور انور کی منظوری سے ایک طالب علم کو م سالہ کورس کروایا جاتا ہے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس ادارے کو مدرستہ الظفر “ کا نام عطا فرمایا ہے اللہ ا سے فتح و نصرت وظفر کا موجب بنائے.آمین داخلہ معلمین کلاس معلمین کلاس وقف جدید میں داخلہ کے لئے مناسب عمر اور صحت و تندرستی کے ساتھ ساتھ کم از کم میٹرک پاس ہونا ضروری ہے.نیز قرآن کریم ناظرہ صحت کے ساتھ پڑھنا اور عمر کے اعتبار سے بنیادی دینی معلومات سے واقفیت ضروری ہوتی ہے.ان تمام امور کا جائزہ لینے کے لئے وقف جدید کا باقاعدہ ایک بورڈ
414 مقرر ہے جو انٹرویو میں امیدواروں کا جائزہ لے کر داخلہ کا فیصلہ کرتا ہے.نصاب معلمین کلاس وقف جدید کے تحت معلمین کی تعلیم و تربیت کا دورانیہ تین سال پر مبنی ہے.جو طلباء کمزور ہوں انہیں محمد ہ میں ایک سال زائد لگوایا جاتا ہے.جس میں طلباء کا تعلیمی معیار بلند کرنے کے لئے با قاعدہ نصاب مقرر ہے.جس میں قرآن کریم ناظرہ اور مکمل باترجمہ پڑھایا جاتا ہے.اس کے علاوہ بنیادی عربی قواعد (صرف ونحو ) روز مره پیش آمدہ فقہی مسائل، علم الکلام میں حضرت مسیح موعود کی بعض کتب بھی پڑھائی جاتی ہیں نیز احادیث اور انگریزی زبان بھی پڑھائی جاتی ہے.اور بنیادی اخلاقی مسائل اور عام طور پر پیش آنے والے مسائل کے جوابات لکھائے جاتے ہیں.اسی طرح کتب سیرت و تواریخ بھی پڑھائی جاتی ہے.اور بنی نوع انسان کی خدمت بجالانے کے لئے ہو میو پیتھی سے بھی متعارف کروایا جاتا ہے.ذہنی و جسمانی تربیت جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے روزانہ نماز عصر تا مغرب کھیل کا وقت مقرر ہے.جس میں ہر طالب علم کے لئے حصہ لینا ضروری ہے.تفریح اور جنرل نالج کے نقطہ نظر سے ہر سال دو پلنکس منائی جاتی ہیں اور ملک کے خوبصورت شمالی علاقہ جات کی سیر اور ہائیکنگ کروائی جاتی ہے.وظیفہ تعلیم کے در ان طلبہ کو وظیفہ دیا جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کھانے پینے اور دیگر چھوٹی موٹی ضروریات بآسانی پوری کر سکتے ہیں.اقامة الظفر معلمین کلاس کے ہوٹل کا نام حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے اقامتہ الظفر عطا فرمایا ہے اور چھوٹے پیمانے پر خدا کے فضل سے اقامتہ الظفر کا کام شروع کر دیا گیا ہے.تاہم معلمین کلاس کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے پیش نظر مدرستہ الظفر “ اور ”اقامۃ الظفر “ کے تدریسی اور رہائشی بلا کس کے علاوہ ان ڈور اور آؤٹ ڈور گیمز کے لئے گراؤنڈز بنائے جانے کی اشد ضروت محسوس کی جا رہی ہے اور اس کی مستقبل قریب میں عملاً ضرورت ہوگی جو منصوبہ میں شامل ہے.
415 عملی تربیت تعلیمی عرصہ کے دوران تمام طلبہ کو تربیت کے لئے مختلف جماعتوں میں بھجوایا جاتا ہے اس طرح جہاں وہ تعلیمی وتربیتی امور بجالاتے ہیں اس طرح جماعتیں ان سے مستفید ہوتی ہیں وہاں طلبہ کی عملی تربیت بھی ساتھ ساتھ ہوتی ہے.علاوہ ازیں ہفتہ میں دو پیریڈز تقاریر کی مشق کروانے کیلئے رکھے ہوئے ہیں.طلباء کو پہلے سے علمی و تربیتی نوعیت کے عناوین دے دیئے جاتے ہیں.طلباء تیاری کر کے ان پیریڈز میں تقاریر کرتے ہیں.اس طرح طلباء میں تقاریر کرنے کی مشق بھی ہوتی ہے اور تحقیق کرنے اور مضمون نویسی کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے.گزشتہ صفحات میں وقف جدید کے تحت تیار ہونے والے معلمین کے متعلق تقریبا تمام بنیادی ضروری معلومات کا ذکر کر دیا گیا ہے.پس ایسے نوجوان جو خدمت دین کا جذبہ اور شوق رکھتے ہیں وہ آگے بڑھیں اور اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کریں.اس سلسلہ میں دفتر وقف جدید میں خود تشریف لا کر یا بذریعہ خط و کتابت مزید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں.مدرسة الظفر واقامۃ الظفر کی نئی عمارت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے معلمین وقف جدید کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ضروریات کے پیش نظر ڈگری کالج ربوہ کے بالمقابل کوٹ وساوا کے پاس ۹.ایکٹر زمین میں مدرسۃ الظفر و اقامۃ الظفر اور اساتذہ و کارکنان مدرسۃ الظفر کیلئے کوارٹرز کی تعمیر کا کام بڑی تیزی سے جاری ہے.جو انشاء اللہ آئندہ دوسال کے اندر اندر مکمل ہونے کی امید ہے.الحمد للہ علی ذالک.تحریک وقف جدید کو مضبوط کرو بانی تحریک حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا! میں آپ لوگوں کو برابر تحریک کرتا رہا ہوں کہ وقف جدید کو مضبوط بنانا ضروری ہے لیکن اب تو کام کی وسعت کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے پس جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو مالوں میں ترقی دی ہے وہاں آپ کو سلسلہ کی ترقی کیلئے بھی دل کھول کر چندہ دینا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ وقت
416 کی آواز کوسنیں.خدا کرے کہ آپ آسمان کی آواز کو سنیں.خدا کرے کہ آپ آسمان کی آواز کوسنیں اور زمین کی آواز کوسنیں تا آپ کو سرفرازی نصیب ہو.(الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۵۹ء) نیز فرمایا! وقف جدید کو مضبوط کرو.ہمت کرو.خدا برکت دے گا.دین حق کو دنیا کے کناروں تک پھیلا..وقف جدید کا کام بہت پھیل رہا ہے دوستوں کو چاہئے کہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اللہ تعالیٰ توفیق دے اور کام میں برکت دے.آمین ( وقف جدید کے چھٹے سال پر روح پرور پیغام ۲۰ نومبر ۱۹۶۲ء) تحریک وقف نو حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی دور رس نگاہوں نے اگلی صدی میں احمد بیت پر پڑنے والی ذمہ داریوں کو بھانپتے ہوئے البی تفہیم کے نتیجہ میں ۱/۳ اپریل ۱۹۸۷ء کو بیت الفضل لندن میں خطبہ جمعہ کے دوران اس با برکت تحریک کا اعلان فرمایا.اس موقعہ پر اس تحریک کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:.صلى الله اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے جہاں ہم دعوت الی اللہ کے ذریعہ روحانی اولا د بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں ہم اپنے آئندہ دو سالوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو خدا کی راہ میں ابھی سے وقف کر دیں..یہ تحریک میں اس لئے کر رہا ہوں تا کہ آئندہ صدی میں واقفین بچوں کی ایک عظیم الشان فوج ساری دنیا سے تیار ہورہی ہے.اور محمد رسول اللہ یہ کے خدا کی غلام بن کے اگلی صدی میں داخل ہورہی ہو.ہم چھوٹے چھوٹے بچے خدا کے حضور تحفہ کے طور پر پیش کر رہے ہوں.اس وقف کی شدید ضرورت ہے کیونکہ آئندہ نو سالوں میں اسلام نے جس کثرت سے ہر جگہ پھیلنا ہے اس کے لئے لاکھوں تربیت یافتہ غلام چاہئیں.ایسے واقفین زندگی چاہئیں جو خدا کی راہ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام ہوں.ہر طبقہ زندگی سے کثرت کے ساتھ واقفین چاہئیں.ہر ملک سے واقفین زندگی چاہئیں.غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے.احمدیت کی اگلی صدی میں واقفین زندگی کی اشد ضرورت ہے.جماعت کے ہر طبقہ سے لکھوکھہا کی تعداد میں واقفین زندگی آنے چاہئیں جن کو دراصل ہم خدا کے حضور اس نیت کے ساتھ تحفہ کے طور پر پیش کر رہے ہوں کہ ان کی صلاحیتوں سے بعد ازاں اگلی صدی کے لوگوں نے فائدہ اٹھانا ہے تو یہ ایک تحفہ ہے جو ہم نے اگلی
417 صدی کو دینا ہے اس لئے جن کو بھی توفیق ہے وہ اس تحفے کے لئے تیار ہو جا ئیں.اس کی طرف خدا تعالیٰ نے یہ توجہ دلائی کہ میں احباب سے یہ تحریک کروں کہ وہ یہ عہد کریں کہ آئندہ دو سال کے اندر جس کو بھی جو اولا دنصیب ہوگی وہ اسے خدا کے حضور پیش کر دے....اگر اس طرح دعائیں کرتے ہوئے لوگ ان دو سالوں میں اپنے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو وقف کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ایک بہت ہی حسین اور بہت ہی پیاری نسل ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہوئے خدا کی راہ میں قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ( خطبه جمعه را پریل ۱۹۸۷ ء بیت فضل لندن ) ابتداء میں یہ تحریک دو سال کے لئے تھی.ان دو سالوں میں پیدا ہونے والے بچے اس بابرکت تحریک میں شامل ہونے کی سعادت پاسکتے تھے.لیکن بعد میں بہت سارے لوگوں کی خواہش پر اس عرصہ میں مزید دو سال کی توسیع کر دی گئی.چنانچہ اس توسیع کا اعلان کرتے ہوئے حضورانور نے فرمایا:.د لیکن جس طرح بعض دوستوں کے خطوط سے پتہ چل رہا ہے.وہ خواہش رکھتے ہیں لیکن یہ سمجھ کر کہ اب وقت نہیں رہا وہ اس خواہش کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے ان کے لئے اور مزید تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے جن تک ابھی یہ پیغام ہی نہیں پہنچا میں اعلان کرتا ہوں کہ وقف نو میں شمولیت کے لئے مزید دو سال کا عرصہ بڑھایا جاتا ہے.اور فی الحال یہ عرصہ دو سال کے لئے بڑھایا جارہا ہے.تا کہ خواہش میں دوست اس پہلی تحریک میں شامل ہو جائیں ورنہ یہ تحریک تو بار بار ہوتی ہی رہے گی.لیکن خصوصاً وہ تاریخی تحریک جس میں انگلی صدی کے لئے واقفین بچوں کی پہلی فوج تیار ہو رہی ہے.اس کا عرصہ آئندہ دو سال تک بڑھایا جا رہا ہے.اس عرصہ میں جماعتیں کوشش کر لیں اور جس حد تک بھی ممکن ہو، یہ فوج پانچ ہزار تو ضرور ہو جائے اس سے بڑھ ( خطبه جمعه فرموده ۰ افروری ۱۹۸۹ء بمقام بیت فضل لندن) جائے تو بہت ہی اچھا ہے.“ حضور نے اس تحریک میں پانچ ہزار واقفین نو کی خواہش ظاہر فرمائی تھی لیکن اس کے بالمقابل جماعت نے خدا کی دی ہوئی توفیق سے اس وقت تک تقریباً ۴۱۲۲۰ ہزار بچے وقف کئے ہیں.اس کے علاوہ کئی غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں نے شادی کے بعد پیدا ہونے والے بعض بچوں کو بھی اس بابرکت تحریک میں شامل کرنے کی خصوصی اجازت لے رکھی ہے.تحریک وقف نو میں شامل بچوں کی خصوصی تعلیم و تربیت کی نگرانی اور راہنمائی کے لئے حضور انور نے تحریک جدید انجمن احمد یہ کے تحت وکالت وقف نو قائم فرمائی ہے.واقفین نو کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی تعلیم و تربیت کے جملہ امور اس وکالت کے زیر انتظام انجام پا رہے ہیں.اور ہر جماعت میں ان بچوں کی
418 نگرانی کے لئے سیکرٹری وقف نو کا تقرر کیا گیا ہے.وکالت وقف نو کے پاس تمام واقفین نو کا مکمل ریکارڈ محفوظ ہے اور تمام بچوں کے والدین سے وکالت کا براہ راست رابطہ ہے.ہر جماعت میں با قاعدگی سے واقفین نو کا ماہانہ اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں بچوں کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جاتا ہے اور والدین کو بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں خصوصی ہدایات دی جاتی ہیں.تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ان بچوں کا میڈیکل چیک اپ کروایا جاتا ہے.اگر کوئی بچہ جسمانی لحاظ سے کمزور نظر آئے تو وکالت وقف نو کے تحت خصوصی علاج معالجے کا انتظام کیا جاتا ہے.ربوہ میں موجود بچوں کو بعض غیر ملکی زبانیں سکھائی جا رہی ہیں.واقفین نو سے متعلقہ جملہ امور میں وکالت وقف نو سے راہنمائی اور تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے.۳۱ جولائی ۲۰۱۰ ء تک واقفین نو کی کل تعداد ۴۱۲۲۰ ہے جن میں سے ۲۶۵۳۷ واقفین نو بچوں کی تعداد ہے اور ۱۵۱۸۳ واقفین نو بچیوں کی تعداد ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب تک سینکڑوں کی تعداد میں واقفین نو بچے اور بچیاں، مربیان سلسلہ، ڈاکٹرز، انجینئر ز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں تعلیم مکمل کر کے اپنے آپ کو نظام جماعت کے سپرد کر کے خدمت سلسلہ کی توفیق پارہے ہیں.الحمدللہ علی ذالک تحریک وقف نو کی برکات ا.اس مبارک تحریک سے پہلے زیادہ تر واقفین غریب اور متوسط طبقہ سے آتے رہے.جبکہ اس تحریک کے نتیجہ میں ہر طبقہ سے واقفین میسر آگئے ہیں.۲.واقفین نو کی خصوصی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں کئی نسلوں کو محفوظ کر لیا گیا ہے..جب یہ بچے خصوصی تعلیم و تربیت کے بعد میدان عمل میں آئیں گے تو زندگی کے ہر شعبہ میں ایک انقلاب برپا ہو جائے گا.انشاء اللہ..اس تحریک کی برکت سے کئی بے اولاد والدین اولاد کی نعمت سے فیضیاب ہو گئے.اس تعلق میں یہاں نمونہ کے طور پر چند ایمان افروز واقعات نقل کر رہے ہیں جو دفتر تحریک وقف نو کے ریکارڈ سے حاصل کئے گئے ہیں :.
419 الف.مکرمہ محترمہ ناصرہ پروین صاحبہ دارالبرکات ربو لکھتی ہیں.وو میری شادی کو دس سال ہو چکے تھے مگر کوئی اولاد نہ تھی میں نے لاہور میں ایک لیڈی ڈاکٹر صاحبہ سے علاج شروع کروایا.ایک سال تک علاج کے بعد اس نے کہ دیا کہ میں نے بہت علاج کیا ہے مگر تمہارے ہاں اولاد کا ہونا مشکل نظر آتا ہے.اس کے چند ماہ بعد میرے خاوند کی ملازمت کے سلسلے میں چنیوٹ ٹرانسفر ہوگئی.میں نے وہی ٹیسٹوں کے رزلٹ وغیرہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ فضل عمر ہسپتال ربوہ کو دکھائے اور علاج شروع کر دیا.انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ علاج کے دوران حضور کو با قاعدگی سے خط لکھوں گی.دعا کروں گی، صدقہ دوں گی.اور تحریک وقف نو میں شمولیت کی نیت ضرور کروں گی.میں نے فورا نیت کر لی اور علاج کے دو تین ماہ بعد ہی خدا تعالیٰ نے مجھ پر اپنا فضل کر دیا.میں نے وقف نو کی شمولیت کے لئے پیارے آقا کی خدمت میں بھی لکھا جس کا جواب واقف کی منظوری کی شکل میں اگست میں آ گیا.اور مباہل احمد دسمبر میں پیدا ہوا.اس کا نام بھی پیارے آقا کی طرف سے اس کی پیدائش سے ۱۵ دن پہلے پہنچ گیا.اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے حضور کی دعاؤں اور تحریک وقف نو کی بدولت شادی کے ۱۲ سال بعد مباہل احمد عطا کیا.جس کی پیدائش تحریک وقف نو کی برکت بن گئی.(ب) مکرم و محترم قریشی فیروز محی الدین صاحب سویڈن سے لکھتے ہیں:.”میرے بیٹے عزیزم قریشی فائق محی الدین صاحب آف حلقہ النور سوسائٹی کراچی کے ہاں یکے بعد دیگرے تین بچیاں پیدا ہوئیں.انہیں اولاد نرینہ کی بھی خواہش تھی.میں نے وقف نو میں حصہ لینے کی پُر زور تحریک کی.اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے اور بہو و توفیق بخشی.دونوں نے خوب خوب دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے عاجز بندوں کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشی اور اس مبارک تحریک کے نتیجے میں بارہ سال کے بعد چاندسا بیٹا عطا فرمایا.جس کا حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حامد محی الدین نام تجویز فرمایا “ ( ج ) مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں :.”خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے خاکسار کو ۱۶ اکتوبر ۱۹۸ء کو پہلے اور ۲۰ ستمبر ۱۹۸۳ء کو دوسرے بیٹے سے نوازا.دونوں بچے فاطمہ ہسپتال سرگودھا میں آپریشن سے ہوئے اس کے بعد سال سے کوئی اولا د نہ تھی.جب حضرت خلیفۃ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وقف نو کی تحریک فرمائی تو خاکسار نے پیارے آقا کی خدمت میں اس نیت، خواہش کے ساتھ خط لکھا کہ خدا تعالیٰ ہمیں اس مبارک تحریک میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے.
420 دلی تمنا یہ بھی تھی خدا تعالیٰ ہمیں اب بیٹی کی نعمت سے نوازے چنانچہ دوسرے بیٹے کی ولادت کے دس سال بعد اللہ تعالیٰ نے ۱۶ جولائی ۱۹۹۳ء کو بروز جمعتہ المبارک ہمیں بیٹی عطا فرمائی.یہ بچی بغیر آپریشن نارمل صورت میں پیدا ہوئی اور پہلے بچوں کی پیدائش کے موقع کی نسبت اس دفعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بہت سی مشکلات اور پریشانیوں سے بھی محفوظ رکھا.یہ سب سراسر اس الہی تحر یک وقف نو کی برکات کا ہی نتیجہ تھا.“ (د) محمد قاسم صاحب ساکن نصرت آباد فارم ڈاکخانہ فضل شمبھر ضلع میر پور خاص سندھ لکھتے ہیں :.میرا بیٹا عزیزم طارق محمود سلمہ اللہ اور اس کی اہلیہ نے اپنے ہاں پہلے متوقع ہونے والے بچے کو وقف نو میں حضور ایدہ اللہ کی خدمت میں پیش کرنے کی نیت کی ہوئی تھی.جب یہ بچہ پیدا ہوا از راہ شفقت حضور نے بچے کا نام ساجد محمود تجویز فرمایا.اور حوالہ نمبر ۴۳۳۲-A کے تحت بچے کا وقف منظور فر مایا.الحمد للہ ابھی بچہ سات آٹھ ماہ کی عمر کا تھا کہ اچانک بخار کی حالت میں اس کی ٹانگیں ٹیڑھی اور مافوج ہو گئیں.عام خیال پولیو کا ہی تھا.جب صبح اچانک یہ واقعہ نمودار ہوا.میرا بیٹا طارق محمود کے دل کو شدید صدمہ پہنچا.اس کا یہ پہلا پہلا بچہ تھا.اس کا اپانچ ہوناوہ برداشت نہ کر سکا.وہ الگ تھلگ گھر کے ایک کونہ میں فرش پر بیٹھا صدمہ سے پورزا روز ار رورہا تھا.حالت تو میری بہت غیر تھی.مگر گھر میں سر براہ ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے جذبات پر مکمل کنٹرول رکھنا پڑا.اور سب کو صبر اور دعا کی تلقین کرتارہا.اس موقع پر طارق محمد کو تسلی دیتے ہوئے غیر ارادی طور پر میری زبان سے جو کلمات نکل گئے وہ یہ تھے:.بیٹا طارق تو کیوں فکر مند ہے.تو نے تو یہ بچہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر دیا ہے.اب یہ تیرا نہیں رہا.بلکہ خدا کا ہو گیا پس خدا اسے ناکارہ نہیں رہنے دے گا وہ ضرور اس کی حفاظت فرمائے گا.اور اسے تندرستی عطا کرے گا.تمہیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں.“ حضور کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی بدولت مسلسل سال بھر ماہر ڈاکٹروں کی توجہ اور علاج معالجہ سے بچہ اب تندرست ہو چکا ہے.اور اس کی ٹانگیں خدا کے فضل سے اب بالکل نارمل حالت میں ہے.الحمد للہ میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ بچہ پر جواللہ تعالیٰ کا فضل و احسان نازل ہوا ہے وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کی وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ بچہ خدا کے دین کے لئے وقف تھا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آئندہ بھی اسے اور ہم سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور خدمت دین کی توفیق عطا فرما تار ہے.آمین (ھ) یہ واقعہ ۲۷ اپریل ۱۹۹۰ء کی درمیانی رات کو تقریباً ۲ بچے پیش آیا.ہوا یوں کہ ہم چاروں یعنی میں میری بیوی فوزیہ طاہر میری بیٹی شاہدہ نصرت اور بیٹا شاہد احمد واقف نو اپنے کمرے میں سورہے تھے کہ اچانک چھت ہمارے اوپر آ گری.اور ہم چاروں ملبے کے نیچے دب گئے.
421 اتفاق سے اس دن عید کا دوسرا دن تھا.جس کی وجہ سے میرے بھائی بھی عید کی وجہ سے گھر پر آئے ہوئے تھے.جب انہوں نے چھت گرنے کی آواز سنی تو وہ فوراًہماری مدد کو آئے اور دروازہ توڑ کر ہمارے کمرے میں داخل ہوئے اور ہم چاروں کو ملبے کے نیچے سے نکالا.میری بیٹی شاہدہ نصرت جو کہ اس وقت ساڑھے چار سال کی تھی اس کو کافی زخم آئے.اس کو فوری طور پر فضل عمر ہسپتال لے جایا گیا.لیکن پھر تھوڑی دیر بعد ہی وہ اپنے مولا حقیقی سے جامی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مجھے اور میری بیوی کو بھی کچھ زخم آئے جو کہ بہت معمولی سے تھے.شاہد احمد واقف نو جو کہ اس وقت صرف دس ماہ کا تھا اس کو چند خراشیں آئیں.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے معجزانہ طور پر ہم تینوں کو محفوظ ( محمد طاہر دار العلوم غربی مکان نمبر ۲ رار بوہ.بحوالہ ریکارڈ دفتر وقف نوتحریک ) رکھا.الحمد للہ نصرت جہاں تحریک یہ تحریک ایک الہی تحریک تھی.جو حضرت خلیفہ المسیح الثالث کو ۱۹۷۰ء کو دورہ مغربی افریقہ کے دوران القاء ہوئی.اور ۲۴ مئی ۱۹۷۰ء کو بیت الفضل لندن میں حضور نے باقاعدہ طور پر اس تحریک پر اعلان فرمایا.اس موقع پر حضور نے فرمایا کہ:.گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے میری دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کرو.اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتائج (الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ ص ۷ ) نکلیں گے.“ اس با برکت تحریک کے نام اور پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بشارت دی کہ حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا کے ذریعہ ایک بڑی بنیاد حمایت دین کی ڈالے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا.اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخمریزی ہوئی ہے دنیا پھیلا دے گا.میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل
422 کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.“ تریاق القلوب ص ۱۴۸.۱۴۹ ایڈیشن ۱۹۲۲ء) اسی نسبت سے تفاؤل کے طور پر حضور نے اس تحریک کا نام نصرت جہاں رکھا.حضور نے فرمایا کہ ہم انشاء اللہ اس فنڈ کے ذریعہ ایسے طبی مراکز اور تعلیمی ادارے قائم کریں گے جو حقیقی غمخواری اور بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوں گے.اسی غرض سے حضور نے اس تحریک کا نام ” نصرت جہاں رکھا.جس سے بہتر کوئی نام نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس کا مقصد ہی نصرت جہاں ہے.حضور نے پہلی دفعہ ایک لاکھ پونڈ کی تحریک فرمائی.جبکہ جماعت نے خدا کے فضل سے لاکھ پونڈ پیش کر دیئے.خدا تعالیٰ نے حضور کو پہلے ہی سے یہ خبر دی تھی کہ وہ اپنی تائید سے نوازے گا.چنانچہ حضور نے فرمایا کہ:.”انگلستان میں میں نے دوستوں سے کہا تھا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا.کیونکہ خدا نے شروع خلافت میں مجھے بتا دیا تھا کہ میں تینوں ایناں دیاں گا کہ تو رج جاویں گا.( الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ء ص ۱۱) پھر فرمایا کہ:.مجھے یہ فکر نہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا کیونکہ خدا نے شروع میں بتادیا.مجھے یہ فکر ہے اور تمہیں بھی ہونی چاہئے.اس لئے دعائیں کرو اور کرتے رہو کہ اے خدا ہم تیرے عاجز بندے تیرے حضور یہ حقیر قربانیاں پیش کر رہے ہیں تو اپنے فضل اور رحم سے ان قربانیوں کو قبول فرما.اور تو ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل فرما.سعی مشکور ہو.ہماری وہ سعی نہ ہو جو ہمارے منہ پر مار دی جائے.اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال ہم اس کے حضور پیش کرتے ہیں.اس کا احسان ہے کہ وہ ہماری طرف سے قبول کر لیتا ہے.“ (الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ ء ص ۸) خدا تعالیٰ کے فضل سے نصرت جہاں کے پروگرام میں غیر معمولی کامیابی کے سامان پیدا فرمائے.مالی قربانی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ز اور ٹیچر ز صاحبان نے اپنے اپنے اوقات کو محض اللہ پیش کیا اور پیش کر رہے ہیں.اس با برکت تحریک کے اعلان کے چھ ماہ بعد پہلا شیر میں ثمر اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا.اور ستمبر ۱۹۷۰ء کو غانا میں نصرت جہاں اکیڈمی کا قیام عمل میں آ گیا.پھر یکم نومبر ۱۹۷۰ء کو غانا میں کو کونو کے مقام پر پہلا ہسپتال قائم ہو گیا الحمد للہ علی ذالک.گویا پہلے سکول اور پہلے ہسپتال کا اعزاز اہل غانا کے حصہ میں آیا.
423 دسمبر ۱۹۷۲ ء تک جب ابھی اس سکیم کو جاری ہوئے صرف دو سال کا عرصہ ہوا تھا.کہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے مغربی افریقہ میں ۱۴ ، ہسپتال اور ۹ ہائر سیکنڈری سکول قائم ہو گئے.یہ کامیابی اتنی عظیم تھی کہ اپنوں اور غیروں سب نے اس پر تعجب کا اظہار کیا.اس تحریک کے مغربی افریقہ میں شریں ثمرات کا ایک جائزہ حسب ذیل ہے:.نصرت جہاں کے شیریں ثمرات تعداد تعلیمی وطبی ادارہ جات طبی ادارے تعلیمی ادارے نمبر نام تعداد تعداد ڈاکٹرز پرائمری شمار ملک ادارے مرکزی + لوکل سکولز سکولز سیکنڈری تعداد مرکزی اساتذہ 1 غانا 1.سیرالیون گیمبیا لائبیریا 3 نائجیر یا ۶ آئیوری کوسٹ L کانگو بور کینیا فاسو ۹ +1 " ۱۲ بینن کینیا تنزانیہ یوگنڈا ٹوٹل 1 L ۴۰۰ ۰+۱۴ ++12 ++0 1 1 ++ 1+7 +1 ۳+۰ ۱۲ ۱+ ۴ ۲+۲ 1 ++1 +۱ +1 ۷۰ ۵۹۷ 11+M ۳۹ ۵۳ ۴
424 نصرت جہاں سکیم کو اللہ تعالیٰ نے ہر پہلو سے غیر معمولی برکات وثمرات سے نوازا.طبی اداروں کو دیکھا جائے تو جماعت احمدیہ کے طبی اداروں سے کہیں بڑھ کر اعلیٰ قسم کے ہسپتال موجود تھے.چونکہ یہ ایک الہی منصوبہ تھا اس لئے اس نے احمدی ڈاکٹروں اور اساتذہ کو بے پناہ خدمت کے جذ بہ سے سرفراز فرمایا اور احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں غیر معمولی شفار کھ دی.ایمان کی زیادتی کے لئے غیروں کے تاثرات کے چند نمونے پیش کئے جار ہے ہیں.غانا (مغربی افریقہ) کے اخبار "PIONEER" اور "THE GHANAIAN TIME" نے احمد یہ ہسپتال اسکورے (غانا) کے انچارج ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب کی پاکستان کو روانگی ملتوی کرنے کی جماعت احمدیہ سے اپیل کرتے ہوئے یہ خبر شائع کی کہ:.ضلع اسکورے کی بہبود اور منصوبہ بندی کمیٹی نے اپنے یکم جولائی ۱۹۷۳ء کے ریزولیوشن کے ذریعہ درخواست کی ہے ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب نے گزشتہ اڑھائی سال میں مقامی حالات کے متعلق جو وسیع معلومات اور اہم تجربہ حاصل کر لیا ہے اس کی وجہ سے وہ ہماری ساری قوم کے لئے ایک نہایت ہی مفید وجود ثابت ہورہے ہیں.ڈاکٹر صاحب موصوف احمد یہ ہسپتال میں صرف غانا کے باشندوں کی خدمت ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہمسایہ افریقہ ملک مثلاً آئیوری کوسٹ، نائیجیریا اور ٹوگو کے لوگ بھی ان سے کامیاب علاج کروا ر ہے ہیں.مکرم ڈاکٹر مجتبی صاحب کا یہ شاندار ریکارڈ قابل فخر ہے.کہ اس عرصہ میں انہوں نے ۲۵۰۰ میجر آپریشن کئے ہیں جن میں سے ایک بھی نا کام نہیں ہوا.“ (الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۷۳ء ص ۶) جولائی ۱۹۷۱ء احمد یہ ہیلتھ سنٹر بواجے بو( سیرالیون) کے افتتاح کے موقع پروزیر صحت سیرالیون نے فرمایا:.ملک میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے سلسلہ میں احمدیہ مشن نے جو قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں.خود ایک معلم و مدرس کی حیثیت سے میں ان میں بہت دلچسپی لیتا رہا ہوں.اور اب وزیر صحت کی حیثیت سے یہ امر میرے لئے از حد خوشی کا موجب ہے اور میں اس پر ممنونیت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا.کہ جماعت احمدیہ نے اپنی بے لوث خدمات کے دائرہ کو صحت اور طب سے متعلق قومی پروگرام کے خاطر خواہ نفاذ تک ممتد کر دیا ہے.یہ ایک بین ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ جماعت دوسروں کے لئے خدمت کے جذبہ سے سرشار ہے.میری وزارت نے آپ لوگوں کی مساعی کی ہر ممکن رنگ میں تائید وحمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے.(بحوالہ افضل جولائی ۱۹۷۱ ص۱) اا نائیجیریا میں احمدیہ ہائر سیکنڈری سکول کے افتتاح کے موقع پر افتتاحی تقریب میں صدارت کے فرائض 66
425 ایجوکیشن کمشنر جناب الحاج ابراہیم نے ادا فرمائے.آپ نے جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہتے ہوئے فرمایا:.جماعت احمد یہ وہ پہلی مسلم تنظیم ہے جس نے اعلی تعلیم کے ادارے قائم کرنے میں ہمارے لئے نہایت شاندار مثال قائم کر دکھائی ہے.“ ( بحوالہ الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۷۱ ء ص۱) صدر جمہوریہ سیرالیون ڈاکٹر سائیکا پی سٹیونس نے ۲ دسمبر ۱۹۷۱ء کو احمد یہ سیکنڈری سکول کا معائنہ کرتے ہوئے فرمایا:.میں سب سے پہلے جماعت احمدیہ کا جو یہ کام تعلیم کے میدان میں کر رہی ہے شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں.اس جماعت نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طبی میدان میں بھی ہماری مدد کرنی شروع کی ہے.میں ان تمام گرانقدر خدمات کے لئے جماعت احمدیہ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.“ ( بحواله الفصل ۳ مارچ ۱۹۷۲ء ص۳) گیمبیا کے صحت و تعلیم اور سماجی بہبود کے وزیر آنریبل الحاج گار با جا ہم پا نے ماریشس کے دورے کے دوران جماعت احمدیہ کے استقبالیہ میں شرکت کی اور فرمایا:.”میرے ملک (یعنی گیمبیا) میں جماعت احمدیہ کا قیام اور اس کی ترقی کی تاریخ دنیا میں ہر مسلمان کے لئے انتہائی خوشی اور مسرت کا باعث ہے.میں اس امر کا اظہار کرنے میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح (الثالث) کی گیمبیا میں تشریف آوری کا ہی ایک ثمرہ ہے کہ ہم خدمت خلق کے میدان میں جماعت احمدیہ کی عظیم رفاہی سرگرمیوں سے متمتع ہورہے ہیں.اگر دیکھا جائے تو یہی حقیقی اسلام ہے.“ ( بحواله الفضل ۳ مئی ۱۹۷۲ء ص ۲) نائیجیریا کے صدر شیخو شگاری صاحب نے دسمبر ۱۹۷۴ء میں اپنے ایک پیغام میں فرمایا:.میں نے بنظر غائر دیکھا ہے اور یہ امر میرے لئے باعث سکون ہے کہ جماعت احمدیہ تبلیغ اسلام، سکولوں اور شفاخانوں کے قیام کے میدان میں بدستور بڑے ثبات کے ساتھ ترقی پذیر ہے.اس جہت میں جماعت کی مساعی انتہائی قابل تعریف ہے اور دوسری تمام رضا کارانہ طور پر کام کرنے والی تنظیموں کے لئے باعث تقلید ہیں.میری انتظامیہ ایسے تمام نائیجیرین لوگوں کی جو اچھا صح نظر رکھتے ہیں.اور با ہمی کوششوں سے نئے سکول ہسپتال اور دیگر رفاعی خدمات سرانجام دینا چاہتے ہیں ان کی پورے طور پر حمایت کرتی ہے.“ (الفضل ۳ مارچ ۱۹۸۰ء ص ۴) لائبیریا ( مغربی افریقہ ) کے قصبہ سانولے میں نصرت جہاں کے تحت احمد یہ کالج کے متعلق محکمہ تعلیم کے علاقائی نگران مسٹر ونر نے ۵ جون ۱۹۷۴ء کو معائنہ کے بعد ریمارکس دیئے:.
426 ۵ جون کو جماعت احمد یہ لائیبیریا کی شاخ سانولے کو دیکھنے کا موقع ملا.میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ سکول اپنے اغراض و مقاصد اور اپنی تنظیم کے پیش نظر تاریک و تاراندھیرے میں روشنی کا مینار ثابت ہوگا.میں سمجھتا ہوں سکول کا پلان جیسا کہ لائبریرین سٹار میں شائع ہوا ہے.جاری رہا تو ہمارے بچے صحت مند اور ٹھوس تعلیم حاصل کر سکیں گے.اور اس طرح بہت سی زندگیاں ضائع ہونے سے بچ جائیں گی.انشاءاللہ ) ( بحواله الفضل ۵/اکتوبر ۱۹۷۴ء ص ۶) خدا تعالیٰ نے اس تحریک میں غیر معمولی برکت ڈالی ہے جس کا اظہار نہ صرف اپنوں بلکہ غیروں نے بھی کیا.جماعت احمد یہ افریقن بھائیوں کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہے.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اس تحریک کو ساری دنیا میں جہاں جہاں ضرورت ہے پھیلانے کا ارشاد فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس تحریک کو دنیا میں احسن رنگ کے ساتھ خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین بیوت الحمد تحریک اسپین میں سات سو سال بعد تعمیر ہونے والی پہلی بیت الصلوۃ جس کا نام البیت بشارت ہے جو کہ چین کے ایک شہر پیڈ رو آباد میں تعمیر کی گئی ہے، کے افتتاح سے واپسی پر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۴ اکتوبر ۱۹۸۲ء کو بیت الاقصیٰ ربوہ میں خطبہ جمعہ کے دوران اس مالی تحریک کا اعلان فرمایا.آپ نے اس موقع پر فرمایا:.اس سلسلہ میں مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا مضمون بھی سمجھا دیا جس کا اب میں یہاں اعلان کرنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ کہ اللہ کا گھر بنانے کے شکرانے کے طور پر خدا کے غریب بندوں کے گھروں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.اس طرح یہ کہ حمد کی عملی شکل ہوگی.ایک دوسرے موقع پر آپ نے فرمایا:.میں چاہتا ہوں کہ جلسہ جو بلی تک ہم کم از کم ایک کروڑ روپے کی لاگت سے مکان بنا کر غرباء کو مہیا کر دیں.“ یہ تحریک خدائے ذوالمجد والعطاء کے فضلوں کی منادی بن گئی اور سرسبز و شاداب درختوں میں گھری ہوئی پر مشتمل بیوت الحمد کا لونی اس تحریک کا شیریں ثمر ہے.نیز ۱۲ فلیٹ نما کوارٹرز بن چکے ہیں اور ۱۸ فلیٹ نماز کوارٹرز زیر تعمیر ہیں.مکانوں کے علاوہ وہاں بہت عمدہ معیار کا پرائمری سکول.ڈسپنسری اور خدا کا ۱۰۰ مکانوں پر
427 گھر تعمیر کیا گیا ہے.ہر مکان خدا کے فضل سے کم و بیش ڈیڑھ لاکھ کی مالیت سے تعمیر ہوا ہے.علاوہ ازیں 20 مستحقین کو ایک کروڑ چورانوے لاکھ بیاسی ہزار دوصد چونسٹھ (۱,۹۴۸۲۲۶۴) روپے کی جزوی امداد اس کے علاوہ ہے.نیز والدین کی شفقت سے محروم بچوں کیلئے ”دار الاکرام کے نام سے ایک وسیع وعریض ہوٹل کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیوت الحمد تحریک کے متعلق تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.کئی احمدی جب اللہ کے فضل سے اپنے گھر بناتے ہیں تو اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں.بعض نے اپنا بڑا قیمتی گھر بنایا تو بوت الحمد کے ایک مکمل گھر کا خرچ بھی ادا کیا.تو اگر تمام دنیا کے احمدیوں کے مکان خرید نے یا بنانے پر کچھ نہ کچھ اس مد میں دینے کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تو کئی ضرورت مند غریب بھائیوں کا بھلا ہو سکتا ہے.“ ( خلفاء احمدیت کی تحریک اور ان کے شیریں ثمرات ص ۵۶۱) کفالت یتامی تحریک خدا کے فضل سے جماعت کا با قاعدہ قیام ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کوعمل میں آیا اور ۱۹۸۹ء میں جماعت کو قائم ہوئے ایک سو سال ہوئے.خوشی کے اس بابرکت موقع پر جماعت کی ترقیات کے شکرانے کے طور پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دیگر تحریکات کی طرح یتامی کی پرورش اور خبر گیری کے لئے جماعت کے سامنے تحریک کفالت یکصد یتامیٰ بھی پیش کی.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ابتدائی طور پر جماعت ایک سو یتیم بچوں کی پرورش اور کفالت کا انتظام کرے گی ابتدائی مراحل کا کام مکمل ہونے کے بعد حضور رحمہ اللہ کی منظوری سے ۱۹۹۱ء میں کمیٹی کفالت یکصد یتامیٰ کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا.ایسے بچے جن کے باپ فوت ہو جائیں.لڑ کے نابالغ اور بے روزگار ہوں یا بالغ ہوں اور طالب علم ہوں لڑکیاں غیر شادی شدہ ہوں.اور ان سب کے گزر اوقات کے لئے ذرائع آمد نہ ہوں.ایسے تمام مستحق افراد کی اطلاع جماعتی نظام کے تحت دی جاتی ہے.یا وہ خود رابطہ کرتے ہیں.یا دفتر خود اپنے ذرائع سے مستحق گھرانوں کے بارہ میں معلومات حاصل کرتا رہتا ہے معلوم ہونے پر دفتر کی طرف سے ایک کوائف فارم بھجوایا جاتا ہے.پھر یتامی کمیٹی کی طرف سے مستحق فیملی کے حالات کے مطابق ان کے گزراوقات کے لئے ایک رقم مختص کر دی جاتی ہے.جو ہر ماہ فیملی کو بذریعہ منی آرڈر بھجوائی جاتی ہے.اس کے علاوہ عیدین کے موقع پر تحفہ بطور عیدی بھجوایا جاتا ہے.
428 نیز یتیم بچوں کی شادی کے موقع پر امداد بطور شادی دی جاتی ہے.اس کے علاوہ علاج معالجہ، مکان کی تعمیر ومرمت، اور بے روز گاریتامی کے کاروبار کے سلسلہ میں بھی معاونت کی جاتی ہے.یتیم بچوں کی تعلیم کے مکمل اخراجات ادا کئے جاتے ہیں.اور بعض گھرانوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہنگامی اخراجات بھی کمیٹی کی طرف سے ادا کئے جاتے ہیں کفالت یتامیٰ کے لئے کسی دفتر کی طرف سے کوئی مخصوص فنڈ نہیں ہے.اس کی آمد کا ذریعہ صرف اور صرف تحائف کی وہ رقم ہے جو صاحب ثروت احباب الفضل میں اعلان پڑھ کر بھجواتے ہیں.ایک یتیم بچے یا بچی کے تعلیمی اور دیگر اخراجات کا اندازہ خرچ.۱۰۰۰ روپے سے.۵۰۰۰ روپے ماہانہ ہے.بچوں کی کفالت کا ذمہ لینے والے احباب ایک یا ایک سے زائد بچوں کے اخراجات کا وعدہ کرتے ہیں.جس کی ادائیگی یکمشت یا ماہ بماہ کرتے رہتے ہیں اور ان کی ادا کی ہوئی رقم با قاعدہ ان کے نام ان کے کھانہ میں درج ہوتی رہتی ہے.اس کے علاوہ بھی بہت سے احباب وقتا فوقتا ایک خاص رقم اس مد میں بھجواتے رہتے ہیں ابتداء میں ایک سو یتامی کی پرورش کے لئے کمیٹی کفالت یکصد یتامی کا قیام عمل میں آیا تھا.لیکن اب ۴۰۰ گھرانوں کے ۲۵۰۰ سے زائد یتیم بچے کمیٹی کفالت یکصد یتامی کے زیر کفالت ہیں.جن کے ماہانہ اخراجات تقریباً ۲۵لاکھ روپے ہیں.سیدنا بلال فنڈ تحریک الہی جاعتوں کے ساتھ ابتلاء کا تعلق ایک لازمی تعلق ہے اور زندہ جماعتیں ابتلاؤں کے وقت گھبرایا نہیں کرتیں اور نہ ہی ابتلاء کے ایام میں اپنے زخمیوں ، اسیروں اور جان کا نذرانہ دینے والوں سے منہ موڑا کرتی ہیں.اس عظیم الشان حقیقت کے پس منظر میں سید نابلال فنڈ کی تحریک کا آغاز ہوا.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے فرمایا:.الہی جماعتوں کی زندگی کی ضمانت اس بات میں ہے کہ ان کی قربانی کرنے والوں کو اپنے پسماندگان کے متعلق کوئی فکر نہ رہے اور یہ حقیقت اتنی واضح اور کھلی کھلی ہے کہ ہر ایک کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ ہم بطور جماعت کے زندہ ہیں اور بطور جماعت کے ہمارے سب دکھ اجتماعی حیثیت رکھتے ہیں.اگر کسی جماعت میں یہ یقین پیدا ہو جائے تو اس کی قربانی کا معیار عام دنیا کی جماعتوں سے سینکڑوں گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے.“ آپ نے سیدنا بلال فنڈ میں حصہ لینے والوں کے لئے فرمایا:.”جو شخص اس میں حصہ لے گا وہ اس بات کو اعزاز سمجھے گا کہ مجھے جتنی خدمت کرنی چاہئے تھی اتنی نہیں 66 کی...اس لحاظ سے سب باتیں سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے اور آج اس تحریک کا اعلان کرتا ہوں.“ (خطبه جمعه ۴ ۱ مارچ ۱۹۸۶ء)
429 اس تحریک میں حضور نے اپنی طرف سے دو ہزار پاؤنڈ دینے کا اعلان فرمایا نیز بتایا کہ انگلستان کی جماعت کے ایک دوست پہل کر گئے ہیں کہ باقی تو اس کی بابت مشورے دیتے رہے لیکن انہوں نے ایک ہزار پاؤنڈ کا چیک بھجوا دیا.۹ جون ۱۹۷۶ء کو خطبہ عید الفطر میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے فرمایا کہ سیدنا بلال فنڈ کی تحریک میں نے کی تھی.جماعت نے والہانہ لبیک کہا.کئی اسیران کو اس فنڈ سے امداد دی گئی مگر انہوں نے اسے واپس بلال فنڈ میں دے دیا اس لئے مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح جماعت کی محبت کا تحفہ ان کو پہنچاؤں.پھر فرمایا:.قرآن کریم کی اشاعت کے اس پروگرام کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرا دل کھول دیا اور ایک بہت ہی پیارا خیال میرے دل میں پیدا ہوا کہ سیدنا بلال فنڈ سے ایک سوز بانوں میں ساری دنیا کو قرآن کریم کا یہ تحفہ پیش کیا جائے اور یہ سارے اسیر اور یہ سارے راہ مولیٰ میں تکلیف اٹھانے والے لازماً اس میں شامل ہو جائیں گے ان کی طرف سے دنیا کو یہ تحفہ ہو گا اس سے بہتر جواب ان کے اوپر مظالم کا اور الہی جماعتیں دے ہی نہیں ( خطبات طاہر عیدین ص ۶۰ ) سکتیں.66 سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودا جون ۲۰۱۰ء میں فرماتے ہیں.ایک ضروری امر کی وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں.مجھ سے بعض جماعتوں کی طرف سے بھی پوچھا جا رہا ہے کہ شہداء فنڈ میں لوگ کچھ دینا چاہتے ہیں تو یہ رقم کس مد میں دینی ہے؟ اسی طرح بعض دوست مشورے بھی بھجوا ر ہے ہیں کہ شہداء کے لئے کوئی فنڈ قائم ہونا چاہئے.یہ ان کی لاعلمی ہے.شہداء کے لئے فنڈ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت رابعہ سے قائم ہے جو سیدنا بلال فنڈ“ کے نام سے ہے اور میں بھی اپنے اس دور میں ایک عید کے موقع پر اور خطبوں میں دو دفعہ بڑی واضح طور پر اس کی تحریک کر چکا ہوں.اس فنڈ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے شہداء کی فیملیوں کا خیال رکھا جاتا ہے، جن جن کو ضرورت ہو ان کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور اگر اس فنڈ میں کوئی گنجائش نہ بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ان کا حق ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ ان کا خیال رکھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ہم ان کا خیال رکھتے رہیں گے.تو بہر حال ”سیدنا بلال فنڈ“ قائم ہے جو لوگ شہداء کی فیملیوں کے لئے کچھ دینا چاہتے ہوں اس میں دے سکتے ہیں.“ 66 ( روزنامه الفضل ۲۰ جولائی ۲۰۱۰ء)
430 مریم شادی فنڈ تحریک سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۲۱ فروری ۲۰۰۳ء بمقام مسجد فضل لندن انگلستان میں غریب بچیوں کی شادی کے انتظامات کیلئے ایک فنڈ قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جن کی بیٹیاں بیاہنے والی ہیں اور انہیں مدد کی ضروت ہے حسب توفیق اپنی طرف سے بھی کچھ ان کو پیش کرتا ہوں اگر میرے اندر اتنی توفیق نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالی کی جماعت غریب نہیں ہے بہت روپیہ ہے جماعت کے پاس ان کی بیٹیاں خیر و خوبی کے ساتھ اپنے گھروں کو روانہ ہوں.“ (الفضل ۲۹ / اپریل ۲۰۰۳ء ) حضور کی اس تحریک پر جماعت نے والہانہ لبیک کہا اور صرف ایک ہفتہ میں ایک لاکھ نو ہزار سے زائد پاؤنڈ ا کٹھے ہو گئے.بعض خواتین نے اپنے زیور پیش کر دیئے.اس فنڈ کا نام آپ کی والدہ ماجدہ کے نام پر مریم شادی فنڈ رکھا گیا اور حضور نے فرمایا ”امید ہے کہ یہ فنڈ بھی ختم نہیں ہوگا اور ہمیشہ غریب بچیوں کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جا سکے گا.(الفضل ۶ مئی ۲۰۰۳ء) مصیبت زدگان کے لئے تحریکات ان اصولی اور دائی تحریکات کے علاوہ آپ نے حسب حالات خطہ ہائے ارض کے مصیبت زدگان کے لئے امداد کی تحریکات فرما ئیں.مثلاً ۹ نومبر ۱۹۸۴ء.افریقہ کے قحط زدگان کے لئے.۱۷ اکتوبر ۱۹۸۶ء.ایلسلواڈور کے زلزلہ زدگان اور یتامیٰ کے لئے.۱۸ جنوری ۱۹۹۱ء.افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک کے لئے.۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ ء.لائبیریا کے مہاجرین کے لئے.۳۰ اکتوبر ۱۹۹۲ء.صومالیہ کے قحط زدگان کے لئے.۲۹ جنوری ۱۹۹۳ء.بوسنیا کے آفت زدگان کے لئے.۱۹۹۲ء میں بوسنیا کی جنگ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے جماعت نے غیر معمولی خدمت کی توفیق پائی.ان کے اہل خانہ کی تلاش کے لئے حضور نے احمد یہ ٹیلی ویژن پر خصوصی پروگرام نشر کر وائے نیز بوسنیا کے جہاد میں احمدیوں کو حتی الوسع حصہ لینے کی تحریک فرمائی.
431 ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۲ء کو حضور نے بوسنیا کے یتیم بچوں کی امداد اور ۱۹ فروری ۱۹۹۳ء کو بوسنین خاندانوں سے مؤاخات قائم کرنے کی تحریک فرمائی.جنوری ۱۹۹۵ء میں جاپان کے شہر کو بے میں زلزلہ آیا جس میں حضور کے ارشاد کے تابع جماعت نے شاندار خدمات سرانجام دیں.اسی طرح اگست ۱۹۹۹ء میں ترکی اور ۲۰۰۱ ء میں بھارت میں زلزلہ کے موقعہ پر جماعت نے ہر قسم کی امداد میں حصہ لیا.(بحوالہ خلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات ص۴۶۲) ۱۴ اگست ۲۰۰۵ء کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات و کشمیر میں قیامت خیز زلزلہ کے باعث متاثرین کی بھر پور امداد کرنے کی تحریک.جون ۲۰۱۰ء میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے دوران سیلاب زدگان کی ہر لحاظ سے کرنے کی تحریک.سے مدد
432
433 باب دہم جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیمیں
434
435 جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیمیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی کی روحانی بصیرت اور خدا داد فکر و فراست نے یہ ضروری سمجھا کہ اصل مقصود کو پانے کے لئے پہلے افراد جماعت کو اندرونی طور پر منظم کرناضروری ہے.چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر آپ نے مسند خلافت پر فائز ہوتے ہی افراد جماعت کی تنظیمی لحاظ سے تربیت کرنی شروع کر دی.اور سب سے پہلے عورتوں کی تعلیم و تربیت اور تنظیم کی طرف توجہ دی.کیونکہ عورتیں کسی بھی قوم کا اہم جز و شمار ہوتی ہیں.بلکہ بعض لحاظ سے ان کا کام مردوں سے بھی زیادہ ذمہ داری کا رنگ رکھتا ہے.کیونکہ قوم کا آئندہ بوجھ اٹھانے والے نو نہال انہیں کی گودوں میں پرورش پاتے ہیں.پس آپ کی دور بین نگاہ نے جماعت کی ترقی کے لئے ضروری سمجھا کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ کی جائے.تا کہ وہ جماعت کے نظام کا ایک کارآمد حصہ بن سکیں.چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لئے آپ نے عورتوں کی تربیت شروع کر دی.ان میں اسلام اور احمدیت کی خاطر قربانی کا جذبہ پیدا کیا.اور ان کی تعلیم کی طرف توجہ دی.اور مستورات میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ مردوں سے قربانی میں کسی طرح بھی کم نہیں.لے :.اور آپ نے فرمایا کہ: ”اگر تم ۵۰ فی صد عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.“ (بحوالہ لجنہ کیلئے دینی و تربیتی پروگرام ص۱) لجنہ اماءاللہ کا قیام حضرت مصلح موعود نے ۲۵ دسمبر۱۹۲۷ء کو با قاعدہ طورپر لجنہ اماءاللہ ی تنظیم کی بنیاد رکھی.احمدی عورتوں نے آپ کی قیادت میں ترقی کی جو منازل طے کیں اس کی تفصیل بڑی دلچسپ اور احباب جماعت کے لئے بہت ہی حوصلہ افزا ہے.عورتوں کے خصوصی تعلیمی اداروں کا قیام.جامعہ نصرت کے ذریعہ کالج کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام جس میں دینی تربیت کا پہلو بہت نمایاں تھا.پھر لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے ذریعہ مختلف دست کاریوں کی تربیت عورتوں کی علیحدہ علیحدہ کھیلوں کا انتظام ان میں مباحثوں اور تقاریر کا ذوق و شوق پیدا کرنا.مضمون نگاری کی طرف انہیں توجہ دلانا ان کے لئے علیحدہ اخباروں اور رسالوں کا اجراء اور جلسہ سالانہ میں عورتوں کے علیحدہ اجلا سات میں خواتین مقررین کا عورتوں کو خود خطاب کرنا.ہر قسم کی تعلیمی سہولتیں اس رنگ میں مہیا کرنا کہ غریب سے غریب احمدی بچی بھی کم از کم بنیادی تعلیم سے محروم نہ رہے.
436 ناصرات الاحمدیہ کا قیام ۱۹۲۸ء سے لجنہ اماء اللہ کی زیر نگرانی چھوٹی بچیوں کی بھی ایک مجلس قائم کی گئی.جس کا نام بعد میں حضرت فضل عمر نے ”ناصرات الاحمدیہ " رکھا.اس مجلس میں سات سے پندرہ سال کی عمر کی بچیاں بطور ممبر شامل ہوتی ہیں جو اپنے عہدیدار خود چنتی ہیں اور لجنہ اماءاللہ کی زیر نگرانی اپنے الگ الگ اجتماعات منعقد کرتی ہیں اور دوسری علمی اور دینی دلچسپیوں میں حصہ لیتی ہیں.ابتدائے عمر سے ہی بچیوں میں دینی اور علمی شوق پیدا کرنے کے لحاظ سے یہ مجلس بہت مفید کام کر رہی ہے.شروع سے بچیوں کی تربیت اس انداز میں کی جاتی ہے کہ بڑی ہو کر جب وہ لجنہ اماءاللہ کی ممبر بنیں تو اپنے تجربہ اور تربیت کی بناء پر مجلس کی بہترین کارکن ثابت ہوں.خلاصہ کلام یہ کہ ان ذیلی تنظیموں کے ذریعہ ہندوستان کی پسماندہ عورت ایک ادنیٰ مقام سے اٹھ کر ایک ایسے بلند مقام پر فائز ہو گئی جسے دنیا کے سامنے اسلام کی عظمت کے نمونہ کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے اور بعض اور امور میں وہ دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ اور آزاد ممالک کی عورتوں کے لئے بھی ایک مثال بن گئی.حضرت بانی لجنہ اماءاللہ کی خلافت کے آخری ایام میں ایک موقعہ پر جب ربوہ کی مردم شماری کی گئی تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ اگر چہ مردوں میں سے ایک معمولی تعداد نا خواندگان کی بھی پائی گئی.لیکن عورتیں خدا کے فضل سے سو فیصدی خواندہ نکلیں.کئی لڑکیوں نے مولوی فاضل کے امتحان بھی پاس کئے جن میں سے ایک لڑکی مولوی فاضل کے امتحان میں پنجاب بھر میں اول رہی.الغرض ان کاموں میں تو وہ اس قدر جوش اور شوق دکھاتی ہیں کہ مردوں کو رشک آنے لگتا ہے.اور مالی قربانی میں بھی ان کا قدم ہمیشہ پیش پیش رہا.بہت سارے خدا کے گھر اور بعض دیگر سلسلہ کی عمارات صرف مستورات کے چندوں سے تعمیر کی گئیں.کئی مواقع پر بہت ساری ممبرات لجنہ نے اپنے زیورات تک اتار کر پیش کر دیئے.اب تو خدا کے فضل سے جماعت کی تعداد اور وقار پہلے سے بہت بڑھ چکے ہیں.جب ابھی ابتدائی دور تھا اور جماعت ہر لحاظ سے نسبتا کمزور غیر معروف تھی اس وقت بھی جماعتی تنظیموں کا بنظر غور جائزہ لینے والوں نے اس تنظیم میں عظمت کے ایسے آثار دیکھے تھے جن کا نوٹس لئے بغیر نہ رہ سکے.تحریک سیرت کے مشہور لیڈر مولانا عبدالمجید قریشی نے اپنے اخبار "تنظیم ، میں لکھا:.لجنہ اماءاللہ قادیان احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے.اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجلس قائم کی گئی ہے.اور اس طرح پر ہر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اٹھتی ہے.خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے.اس انجمن نے تمام خواتین کو سلسلہ کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے.
437 عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ اور مخلص اور مربوط ہوتا ہے.عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھتی ہیں.لجنہ اماءاللہ کی جس جس قدر کار گزاریاں اخبار میں چھپ رہی ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے.کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پُر جوش ہوں گی.اور احمدی عورتیں اس چمن کو تازہ دم رکھیں گی جس کا مرور زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سرسبزی سے محروم ہونالازمی تھا.“ اخبار تنظیم امرتسر ۲۸ اکتوبر۱۹۲۶ء ص ۶۵ بحوالہ تاثرات قادیان ص۱۷۳- از مکرم ملک فضل حسین صاحب طبع اول) لجنہ اماءاللہ کے زیر انتظام ایک ماہنامہ رسالہ مصباح بھی شائع ہورہا ہے جس میں لجنہ اور ناصرات الاحمد یہ کی تعلیم و تربیت سے متعلق علمی اور تربیتی مضامین لکھے جاتے ہیں.اس رسالہ کے ذریعہ لجنہ اور ناصرات کو اپنی قلمی صلاحیتوں کو چمکانے کا موقع ملتا ہے.اس رسالہ کو پڑھ کر ایک آریہ سماجی اخبار ” تیج کے ایڈیٹر نے لکھا:.” میرے خیال میں یہ اخبار اس قابل ہے کہ ہر ایک آریہ سماجی اس کو دیکھے.اس کے مطالعہ سے انہیں احمدی عورتوں کے متعلق یہ غلط فہمی کہ وہ پردہ کے اندر بند رہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کر سکتیں فی الفور دور ہو جائے گی.اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورتیں باوجود اسلام کے ( نعوذ باللہ.ناقل ) ظالمانہ حکم کے طفیل پردہ کی قید میں رہنے کے کس قدر کام کر رہی ہیں.اور ان میں مذہبی اخلاص اور تبلیغی جوش کس قدر ہے.ہم استری سماج قائم کر کے مطمئن ہو چکے ہیں.لیکن ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ با قاعدہ انجمنیں ہیں اور جو وہ کام کر رہی ہیں اس کے آگے ہماری استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے.مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ احمدی خواتین ہندوستان، افریقہ ، عرب مصر، یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں.ان کا مذہبی احساس اس قدر قابل تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہئے.چند سال ہوئے ان کے امیر نے ایک مسجد کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگادی کہ یہ صرف عورتوں کے چندہ سے ہی پوری کی جائے.چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن ہزار روپیہ جمع ( بحوالہ تاثرات قادیان ۲۳۰-۲۳۱) کر دیا.“ بلا شبہ اس تنظیم کا روشن ماضی اور درخشندہ حال ایک خوش آئند مستقبل کا پتہ دیتے ہیں.اور ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب خلفائے سلسلہ کی روحانی قیادت کے تابع مستورات کی بیدانجمن دنیا بھر کی سب دوسری خواتین کی انجمنوں سے زیادہ وقیع اور وسیع اور طاقتور اور حقوق نسواں کی سب سے زیادہ اور سچی علمبر دار بن جانے کے ساتھ ساتھ خدمت دین کے لئے بھی نمایاں ہوتی چلی جائے گی.یہ بات محض خوش فہمی نہیں بلکہ حقائق کا رخ اور جماعت احمدیہ کا کردار بتارہا ہے کہ لازماً ایک دن ایسا ہو کر رہے گا.
438 لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا مختصر تعارف الجنہ اماء الله احمدی مستورات روحانی تنظیم ہے.ہر احمدی خاتون جس کی عمر پندرہ سال سے زائد ہو اس کی تنظیم کی رکن ہوتی ہے.ہر ایسی جماعت جہاں کم از کم تین احمدی مستورات ہوں وہاں لجنہ قائم ہوسکتی ہے.ہر وہ جماعت جس مین تین سے کم مستورات ہوں وہاں پر یہ نظیم قائم نہیں ہو سکتی البتہ وہ لجنہ اماءاللہ کی ممبر بن سکتی ہیں.جن کے نام مرکزی لجنہ کے رجسٹر میں درج ہوتے ہیں.ہر وہ مقام جہاں پر یہ نظیم قائم ہے وہاں پر لجنہ اماءاللہ کی نگران اعلیٰ ”صدر لجنہ“ کہلاتی ہے.اور صدر لجنہ کی عاملہ کی رکن سیکرٹری“ کہلاتی ہے.مجلس کے پروگرام کو آسان اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے کام کو متعدد شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے.مرکز میں صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ کی مدد کے لئے مندرجہ ذیل عہدے داران مقرر ہیں.(۱) نائب صدر اول.(۲) نائب صدر دوم (۳) جنرل سیکرٹری.(۴) نائب جنرل سیکرٹری.(۵) سیکرٹری تعلیم.(۶) سیکرٹری تربیت.(۷) سیکرٹری خدمت خلق.(۸) سیکرٹری مال.(۹) سیکرٹری ناصرات.(۱۰) سیکرٹری دستکاری (۱۱) سیکرٹری اشاعت.(۱۲) سیکرٹری تحریک جدید (۱۶) سیکرٹری صحت جسمانی (۱۷) ناظمہ جلسہ سالانہ.(۱۸) اعزازی ممبرات یا ضلعی اور مقامی سطح پر صدر لجنہ اپنی مدد کے لئے حسب ضرورت مذکورہ شعبوں کے مطابق عاملہ ترتیب دے سکتی ہے.جس کی منظوری مرکزی صدر لجنہ سے حاصل کی جاتی ہے.صدر لجنہ مقامی کا تقرر بذریعہ انتخاب عمل میں آتا ہے جس کی منظوری مرکزی صدر لجنہ دیتی ہیں.مقامی سطح پر لجنہ کا تقرر تین سال کے لئے ہوتا ہے.صدر لجنہ دو دفعہ سے زیادہ صدر منتخب نہیں ہو سکتی.سوائے اس کے کہ مرکز سے خصوصی اجازت حاصل کی جائے.در به مرکزی کا تقر بھی بذریعہ انتخاب ہوتا ہے جس کی منظوری حضرت خلیفہ مسیح دیتے ہیں.لجنہ کے کام کی عمومی نگرانی اور دیکھ بھال کے لئے ضلعی سطح پر بھی صدر لجنہ کا تقرر ہوتا ہے جسے صدر لجنہ مرکز یہ نامزد کرتی ہے.ا صدر اور ضلع و مقامی اپنی مجلس کی ما باند ر پورٹ کارگزاری مرکز میں بھجوانے کی پابند ہوتی ہیں.
439 صدر لجنہ مرکز یہ لجنہ کے جملہ امور کی ذمہ دار اور خلیفہ وقت کو جواب دہ ہوتی ہے.اسی طرح مقامی سطح پر بھی صدر لجنہ اپنے حلقہ کے جملہ امور کی ذمہ دار اور جواب دہ ہوتی ہے.(ملخص از لجنہ اماءاللہ کے لائحہ عمل کی روشنی میں ) ناصرات الاحمدیہ کی تند ا.ناصرات الاحد یہ لجنہ اماءاللہ کی ذیلی تنظیم ہے.۸ سے ۱۵ سال تک کی عمر کی احمدی بچیاں اس تنظیم کی رکن ہوتی ہیں.۲.عمر کے لحاظ سے ناصرات کے تین معیار مقرر کئے گئے ہیں.ہوتی ہے.ا.آٹھ تا دس سال کی عمر کی بچیاں معیار سوم میں شمار ہوتی ہیں.۲.گیارہ تا تیرہ سال تک کی عمر کی بچیاں معیار دوم میں شمار ہوتی ہیں.۳.چودہ پندرہ سال تک کی عمر کی بچیاں معیار اول میں شمار ہوتی ہیں.۳.ناصرات الاحمدیہ کی نگران اعلیٰ سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ کہلاتی ہے.جو کہ لجنہ اماءاللہ کی رکن سیکرٹری ناصرات اپنی سہولت اور مدد کے لئے ناصرات میں سے مناسب اور مستعد بچیوں پر مبنی مجلس عاملہ ترتیب دے سکتی ہے.۴.ہر مجلس جہاں کم از کم تین ناصرات ہوں وہاں ناصرات کی تنظیم قائم ہونی چاہئے.۵.ناصرات کے لئے الگ طور پر تعلیمی و تربیتی لائحہ عمل مقرر ہوتا ہے.جس کے مطابق سیکرٹری ناصرات کام کرواتی ہے.۶.سیکرٹری ناصرات اپنی مجلس کی ماہانہ رپورٹ کارگزاری بذریعہ صدر لجنہ مقامی مرکز میں بھجوانے کی یا بند ہوتی ہے.لجنہ کے چندہ جات ہر لجنہ کم از کم ایک روپیہ ماہانہ چندہ نمبری ادا کرتی ہے.جبکہ کمانے والی اور صاحب جائیداد لجنہ شوری اجتماع ۱۹۸۲ء کے فیصلہ کے مطابق ۱۰۰ را شرح کے مطابق ماہوار چندہ ممبری ادا کرتی ہے.لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کا مالی سال یکم نومبر سے لے کر ۳۰ ستمبر تک محسوب ہوتا ہے.
440 چندہ سالانہ اجتماع کم از کم دو روپے سالانہ فی ممبر ہے.چندہ ممبری ناصرات ہر بچی کے لئے ۵۰ پیسے ماہوار مقرر ہے.جبکہ چندہ ناصرات اجتماع ۵۰ پیسے فی ممبر سالانہ ہے.چندہ وقف جدید ہر بچی کے لئے ایک روپیہ ماہوار مقرر ہے.بمطابق لائحہ عمل لجنہ اماءاللہ پاکستان ص ۱۸) خدام الاحمدیہ کا قیام حضرت مصلح موعود نے اللہ تعالیٰ کی مشیت خاص کے تحت غلبہ دین حق کے لئے جن عظیم الشان تنظیموں کی بنیاد رکھی.ان میں سے نہایت اہم اور مستقبل کے اعتبار سے نہایت دور رس نتائج کی حامل تنظیم مجلس ”خدام الاحمدیہ ہے.جس کا قیام ۳۱ / جنوری ۱۹۳۸ء کو ہوا.حضور کو اپنے عہد خلافت کی ابتداء سے ہی احمدی نوجوانوں کی تنظیم و تربیت کی طرف ہمیشہ توجہ رہی.کیونکہ قیامت تک اعلائے کلمتہ اللہ اور غلبہ دین حق کے لئے ضروری تھا کہ ہر نسل پہلی نسل کی پوری قائمقام ہو اور جانی و مالی قربانیوں میں پہلوں کے نقش قدم پر چلنے والی ہو.اور ہر زمانے میں جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کی تربیت اس طور پر ہوتی ہے کہ وہ دین حق کا جھنڈا ابلند رکھیں.حضرت مصلح موعود نے اس مقصد کے لئے وقتا فوقتا مختلف انجمنیں قائم فرما ئیں مگر ان سب تحریکوں کی جملہ خصوصیات مکمل طور پر مجلس خدام الاحمدیہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئیں اور حضرت صاحب کی براہ راست قیادت غیر معمولی توجہ اور حیرت انگیز قوت قدسی کی بدولت مجلس خدام الاحمدیہ میں تربیت پانے کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو ایسے مخلص ایثار پیشہ دردمند دل رکھنے والے انتظامی قابلیتیں اور صلاحیتیں رکھنے والے مدبر دماغ میسر آگئے جنہوں نے آگے چل کر سلسلہ احمدیہ کی عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آئندہ بھی ہم خدا سے یہی امید رکھتے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ ہر نسل میں ایسے لوگ پیدا کرتا چلا جائے گا.اس تنظیم کے پروگرام میں منجملہ دیگر امور کے مندرجہ ذیل باتیں زیادہ نمایاں ہیں:.اول :.خدمت خلق.یعنی خدام الاحمدیہ کے ہرمبر کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح معنوں میں ملک وقوم کا خادم بنائے.اور خادم بن کر رہے.اور اس کا فرض یہ مقرر کیا گیا ہے.کہ وہ اپنے ممبروں میں خدمت خلق کے جذ بہ کو ترقی دے.دوم :.لوگوں کے دلوں میں اس احساس کو پیدا کرنا اور ان میں اس کی عملی تربیت دینا کہ کوئی کام بھی
441 انسان کی شان سے بعید نہیں اور یہ کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا انسان کیلئے موجب عزت ہے نہ کہ باعث خجالت.سوم :.جماعت کے ناخواندہ لوگوں کی پرائیویٹ تعلیم کا انتظام کرنا تا کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جوان پڑھ ہو.بلکہ ہر احمدی تعلیم کے اقل معیار کو پہنچ جائے.اور اس غرض کے لئے لوگوں کی آنریری خدمات لے کر رات کے پرائیویٹ مدارس وغیرہ قائم کرنا.سوخدا کے فضل سے یہ سارے کام ” خدام الاحمدیہ کے ذریعہ بخوبی سرانجام پارہے ہیں.حضرت مصلح موعود نے خدام الاحمدیہ کے لئے یہ مائو مقرر فرمایا ہے:.قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوسکتی.خدام الاحمدیہ کا نظام رکنیت:.اس تنظیم میں پندرہ سال سے زائد عمر سے لے کر چالیس سال تک کی عمر کے ہر مبائع احمدی کا شامل ہونا لازمی ہوتا ہے.اس تنظیم کا ہر رکن خادم کہلاتا ہے.مجلس:.ہر اس مقام پر جہاں ایک سے زائد خدام موجود ہوں یا ایک خادم اور دو اطفال ہوں وہاں مقامی مجلس خدام الاحمدیہ قائم ہونی ضروری ہوتی ہے.حلقہ :.اگر قیادت کا حلقہ بہت وسیع ہو یا خدام کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ اکٹھی تنظیم مشکل ہو تو اس مجلس کے علاقہ کو مناسب حلقوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے.تا کہ کام میں آسانی پیدا ہو.حزب:.ہر مجلس میں حسب حالات کم و بیش دس اخدام پر مشتمل حزب بنا کر اس پر ایک نگران مقرر کر دیا جاتا ہے.تا کہ ہر خادم سے رابطہ میں آسانی رہے.کوئی بھی خادم خواہ وہ کسی عہدہ پر فائز ہے وہ حزب کی تقسیم سے باہر نہیں ہوتا.در حقیقت حزب تنظیم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے.شعبہ جات : مجلس خدام الاحمدیہ کا کام مندرجہ ذیل شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے:.(۱) اعتماد (۲) تجنید (۳) تربیت (۴) اصلاح وارشاد (۵) تعلیم (۶) خدمت خلق (۷) مال (۸) تحریک جدید (۹) وقار عمل (۱۰) صنعت و تجارت (۱۱) صحت جسمانی (۱۲) اشاعت (۱۳) اطفال (۱۴) محاسبہ(۱۵) امور طلباء(۱۶) عمومی.
442 عہد یداران مجلس خدام الاحمدیہ میں درج ذیل عہدے معروف ہیں:.صدر مجلس:.مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس اطفال الاحمدیہ کے جملہ امور کے نگران اعلیٰ صدر مجلس خدام الاحمد یہ کہلاتا ہے.جس کا تقرر بذریعہ انتخاب حضرت خلیفہ اسیح کی منظوری سے ہوتا ہے.صدر مجلس مقررہ دستور اساسی اور حضرت خلیفتہ اسیح کی ہدایات کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے.مرکز میں صدر مجلس کی مدد کیلئے اس کی ایک عاملہ ہوتی ہے.عاملہ کا رکن مہتم کہلاتا ہے.صدر اپنی عاملہ کے اراکین کو نامزد کر کے حضرت خلیفہ اسیح سے منظوری حاصل کرتا ہے.صدر کا انتخاب دو سال کے لئے ہوتا ہے.ایک صدر مجلس ۴۰ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے متواتر تین بار منتخب ہوسکتا ہے.قائد علاقہ وضلع :.صدر مجلس کی طرف سے ملک کے ہر ڈویژن اور ضلع کی مجالس کی عمومی نگرانی کے لئے ایک نمائندہ مقرر ہوتا ہے جس کا تقرر بذریعہ نامزدگی ہوتا ہے.جو بالترتیب قائد علاقہ اور قائد ضلع کہلاتا ہے.ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقہ وضلع کی مجالس کا جائزہ لیتے رہیں کہ وہ مرکزی ہدایات کی تعمیل کر رہی ہیں.نیز ست مجالس کو بیدار کرتے رہیں.قائد علاقہ وضلع بھی صدر مجلس کی منظوری سے حسب ضرورت اپنی مدد کیلئے مجلس عاملہ مقرر کر سکتا ہے.قائد مجلس :.ہر مقامی مجلس کا سربراہ قائد مجلس کہلاتا ہے جس کا تقرر بذریعہ انتخاب وصدر مجلس کی منظوری سے ہوتا ہے.قائد مجلس کا انتخاب دو سال کے لئے ہوتا ہے.ایک قائد زیادہ سے زیادہ دو دفعہ منتخب ہوسکتا ہے.قائد مجلس کی مدد کے لئے مرکز کی طرح مقامی سطح پر ایک مجلس عاملہ ہوتی ہے.جس کا رکن ناظم کہلاتا ہے.ہر ناظم اپنے اپنے شعبہ کی نگرانی کا ذمہ دار ہوتا ہے.ہر قائدا اپنی مجلس کی ماہانہ کارگزاری کی رپورٹ صدر مجلس کو بھجوانے کا پابند ہوتا ہے.
443 زعیم حلقہ:.ہر حلقہ کی مجلس کا نگران زعیم کہلاتا ہے.جس کا تقرر بذریعہ انتخاب ہوتا ہے جس کی منظوری صدر مجلس دیتا ہے.زعیم کا انتخاب ایک سال کے لئے ہوتا ہے اور ایک زعیم زیادہ سے زیادہ چار دفعہ منتخب ہوسکتا ہے.ہر زعیم اپنے حلقہ کی کارگذاری کی ماہانہ رپورٹ بذریعہ قائد صدر مجلس کو بھجوانے کا پابند ہوتا ہے.زعیم کی مدد کے لئے بھی اپنے حلقہ کی سطح پر ایک مجلس عاملہ ہوتی ہے جس کا رکن منتظم کہلاتا ہے.زعیم اپنی عاملہ کے ممبران کو خود نامزدکرتا ہے اور ان کی منظوری صدر مجلس دیتا ہے.سائق: ایک حزب کا نگران سائق کہلاتا ہے.ہر سائق کا فرض ہوتا ہے کہ وہ قائد مقامی اور زعیم کی ہدایات کے مطابق اپنے حزب کے جملہ خدام سے مکمل رابطہ رکھے اور جملہ شعبہ جات کے پروگرام کو کا میاب بنانے کی کوشش کرے.سائق کا نظام جتنامستحکم ہوگا اتنی مجلس فعال اور بیدار ہوگی.خدام الاحمدیہ کا مالی سال مجلس خدام الاحمدیہ کا مالی سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے اور اس راکتو بر کوختم ہوتا.ہوتا ہے.چندہ مجلس:.تنظیمی پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے ایک چندہ مقرر ہے جو چندہ مجلس کہلاتا ہے.برسر روزگار خدام سے ان کی ماہوار آمد پر ایک فی صد یعنی ایک پیسہ فی روپیہ ماہوار مقرر ہے.طلباء کے لئے ایک روپیہ ما ہوار چند مجلس مقرر ہے.چندہ سالانہ اجتماع:- ہر خادم کم از کم اڑھائی روپیہ سالانہ چندہ برائے سالانہ اجتماع ادا کرتا ہے لیکن ایک سو سے زائد آمد رکھنے والے خدام اپنی ایک ماہ کی آمد کا اڑھائی روپیہ فی صد کے حساب سے سالانہ چندہ اجتماع ادا کرتے ہیں.
444 انصار اللہ کا قیام سید نا حضرت مصلح موعود کی راہنمائی اور نگرانی میں ۱۹۲۲ء سے عورتوں کی تربیت کے لئے لجنہ اماءاللہ اور ۱۹۳۸ء سے نوجوانوں کی تربیت کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیمیں قائم تھیں.اور بہت جوش و خروش سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی تھیں اور ان کی وجہ سے جماعت میں خدمت دین کا ایک خاص ماحول پیدا ہو چکا تھا.مگر ایک تیسرا طبقہ ابھی باقی تھا جو اپنی پختہ کاری، لمبے تجربہ اور فراست کے اعتبار سے اگر چہ سلسلہ احمدیہ کی بہترین خدمات بجالا رہا تھا.مگر کسی مستقل تنظیم سے وابستہ نہ ہونے کے باعث قوم کی اجتماعی تربیت میں پورا حصہ نہیں لے سکتا تھا.حالانکہ اپنی عمر اور تجربہ کے لحاظ سے قومی تربیت کی ذمہ داری براہ راست اسی پر پڑتی تھی.علاوہ ازیں خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کے اندر خدمت دین کے جوش کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے بھی ضروری تھا.کہ جب جوانی کے زمانہ کی دینی ٹریننگ کا دور ختم ہو اور وہ عمر کے آخری حصہ میں داخل ہوں.تو وہ دوبارہ ایک تنظیم ہی کے تحت اپنی زندگی کے بقیہ ایام گزار ہیں.اور زندگی کے آخری سانس تک دین کی نصرت و تائید کے لئے سرگرم عمل رہیں.حضور کو مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیادر کھتے وقت بھی اس اہم ضرورت کا شدید احساس تھا.مگر حضور چاہتے یہ تھے کہ پہلے خدام الاحمدیہ کی رضا کارانہ تنظیم کم از کم قادیان میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے تو بتدریج کوئی نیا عملی قدم اٹھایا جائے چنانچہ دو اڑھائی سال کے بعد جبکہ یہ مجلس حضور کی تجویز فرمودہ لائینوں پر چل نکلی اور نوجوانوں نے رضا کارانہ طور پر حضور کے منشاء مبارک کے مطابق کام کرنے کا پوری طرح اہل ثابت کر دکھایا.تو ۲۶ جولائی ۱۹۴۰ء کو حضور نے مجلس انصار اللہ کو قائم فرما دیا.اور اس موقع پر حضور نے مجلس انصار اللہ کی نسبت بعض ہدایات بھی دیں.جن کا تذکرہ حضور کے اپنے الفاظ میں مناسب ہوگا.فرمایا:.چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں.ان کے لئے بھی لازمی ہوگا.کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں.اگر مناسب سمجھا گیا تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں تین دن یا کم و بیش اکٹھے بھی لئے جاسکتے ہیں.مگر بہر حال تمام بچوں ، بوڑھوں اور نو جوانوں کا بغیر کسی استثناء کے قادیان میں منظم ہو جانا لازمی ہے.“
445 رکنیت:.مجلس انصار اللہ کا قیام (الف) سلسلہ عالیہ احمدیہ سے وابستہ ہر وہ فرد جس کی عمر چالیس سال سے زائد ہو اس مجلس کا رکن ہوتا ہے.مجلس انصار اللہ کا رکن ناصر کہلاتا ہے جس کی جمع انصار ہے.(ب) انصار اللہ کے اراکین کی دو صفیں ہوتی ہیں:.صف اول :.پچپن سال سے زائد عمر کے انصار پر مشتمل ہوتی ہے.صف دوم :.چالیس سال سے پچپن تک کی عمر کے انصار پر مشتمل ہوتی ہے.مجلس عامہ:.انصار اللہ کی وہ مجلس یا تنظیم جس کا ہر ناصر رکن ہوتا ہے.مجلس عامہ کہلاتی ہے.مجلس عامہ درج ذیل سطح پر قائم ہوسکتی ہے.عالمگیر.ملک.علاقہ ضلع.مقام اور حلقہ کی سطح پر.مجلس عاملہ:.جہاں بھی مجلس قائم ہوتی ہے وہاں پر اس سطح پر ایک مجلس عاملہ قائم ہوتی ہے.اس مجلس کارکن صرف وہی ناصر ہوسکتا ہے جس کے پاس کوئی عہدہ ہو.مجلس عاملہ درج ذیل سطح پر قائم ہوسکتی ہے.مرکز ، ملک ، علاقہ یا ضلع ، مقام اور حلقہ.مرکزی سطح پر عاملہ کا رکن قائد کہلاتا ہے.ملکی سطح پر عاملہ کا رکن معتمد کہلاتا ہے.علاقہ یا ضلع کی سطح پر عاملہ کا رکن نائب ناظم کہلا تا ہے.مقامی سطح پر عاملہ کا رکن منتظم کہلاتا ہے.حلقہ کی سطح پر عاملہ کا رکن نائب زعیم کہلاتا ہے.
446 عہد یداران مجلس انصار اللہ کے عہدیداران کے لئے درج ذیل عہدے مخصوص ہیں:.مرکزی سطح پر مجلس انصاراللہ کا نگران اعلیٰ صدر مجلس کہلاتا ہے.جس کا تقرر بذریعہ انتخاب ہوتا ہے.سوائے اس کے کہ حضرت خلیفتہ اسیح کسی کو صدارت کے لئے خود نامزد فرما دیں.صدر مجلس کا انتخاب دو سال کے لئے ہوتا ہے.مجلس انصار اللہ کے لائحہ عمل کو کامیابی سے بروئے کارلانے کی ذمہ داری صدر مجلس پر ہوتی ہے.صدر مجلس متواتر تین بار سے زائد صدارت کے عہدہ کے لئے منتخب نہیں ہوسکتا.سوائے اس کے کہ حضرت خلیفۃ اسیح کسی کو قاعدہ سے مستثنیٰ قرار دیں.نائب صدر صف دوم نائب صد رصف دوم.صدر کی عمومی نگرانی میں صف دوم کے انصار کی تنظیم کرتا ہے.نائب صدر صف دوم کے فرائض و اختیارات صدر مجلس کی طرف سے تفویض کردہ فرائض و اختیارات کی حد تک ہوتے ہیں.نائب صدر دوم کا تقرر بذریعہ انتخاب ہوتا ہے.انتخاب کا طریق اور شرائط وہی ہوں گی جو صدر مجلس کے انتخاب کے لئے ہوتی ہے.نائب صدر صف دوم کی عمرسنتالیس سال سے زائد نہیں ہونی چاہئے.نائب صدر صف دوم اپنی کارگزاری کی رپورٹ ہر ماہ صدر مجلس کو پیش کرتا ہے ناظم اعلیٰ ملک ناظم اعلی ملک اپنے ملک کی جملہ مجالس کے جملہ امور کا ذمہ دار ہوتا ہے اور مرکزی ہدایات کی تعمیل اس کا فرض ہوتا ہے.ناظم اعلی ملک کا تقرر بذریعہ انتخاب تین سال کے لئے ہوتا ہے جس کی منظوری صدر مجلس دیتا ہے.ناظم علاقہ ضلع ناظم علاقہ ضلع کا تقرر بذریعہ نامزدگی ہوتا ہے جو صدر مجلس کرتے ہیں.ناظم علاقہ رضلع کا تقرر ایک سال کے لئے ہوتا ہے.ناظم علاقہ ضلع اپنے علاقہ رضلع کی مجالس کے جملہ امور کا نگران ہوتا ہے.اور مرکزی ہدایات کی تعمیل کرانا اس کا فرض ہوتا ہے.علاقہ ضلع کی سطح پر ناظم کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو ملکی سطح پر ایک ناظم اعلیٰ کو حاصل ہوتے ہیں.
447 زعیم اعلیٰ مقامی سطح پر مجلس انصار اللہ کا نگران زعیم اعلیٰ کہلاتا ہے.جس کا کام اپنے حلقہ کی سطح پر مرکزی ہدایات کی تعمیل کرنا اور حلقہ کی دیگر مجالس سے تعمیل کرانا اس کا فرض ہوتا ہے.زعیم اعلیٰ کا تقرر بذریعہ انتخاب تین سال کے لئے ہوتا ہے.صدر مجلس زعیم اعلیٰ کی منظوری دیتے ہیں.اپنے حلقہ کی سطح پر زعیم اعلیٰ کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو ایک ناظم ضلع کو حاصل ہوتے ہیں.زعیم حلقہ اگر مقامی مجلس انصار اللہ کئی حلقوں پر مشتمل ہو تو ایک حلقہ کا نگران زعیم حلقہ کہلاتا ہے.جو اپنی مجلس کے انصاراللہ جملہ امور کا ذمہ وار ہوتا ہے.اور مرکزی ہدایات پر عمل کرانا اس کا فرض ہوتا ہے.اپنے حلقہ کی سطح پر زعیم حلقہ کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو ایک زعیم اعلیٰ کو حاصل ہوتے ہیں.زعیم حلقہ کا تقرر بذریعہ انتخاب ۳ سال کے لئے ہوتا ہے جس کی منظوری صدر مجلس دیتا ہے.سائق کم و بیش دسن انصار پر ایک سائق مقرر ہوتا ہے جو زعیم اور زعیم اعلیٰ کی ہدایات اور پروگرام پر اپنے حزب کے انصار سے عمل کرا تا ہے.اور ہر ناصر سے رابطہ کا ایک ذریعہ ہوتا ہے.شعبہ جات مجلس انصار اللہ کا کام درج ذیل شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے:.(۱) عمومی (۲) تربیت (۳) تعلیم القرآن (۴) اصلاح وارشاد (۵) مال (۶) تعلیم (۷) ذہانت و صحت جسمانی (۸) اشاعت (۹) تحریک جدید (۱۰) وقف جدید (۱۱) ایثار ( خدمت خلق، وقار عمل ) - (۱۲) تجنید.(۱۳) آڈٹ.انصار اللہ کا مالی نظام ا.انصار اللہ کا مالی سال یکم جنوری سے ۳۱ دسمبر تک شمار ہوتا ہے.۲.ہر رکن مجلس انصاراللہ کو اپنی آمد کا ایک فی صد کی شرح سے ماہوار چندہ مجلس ادا کر نالازمی ہے.
448.چندہ سالانہ اجتماع بھی ہر ناصر پر ۲ را فی صد کی شرح سے ادا کرنا ضروری ہوتا ہے.۴.چندہ اشاعت بھی ہر ناصر کو ادا کرنا ضروری ہے جس کی شرح آجکل علی الاقل پانچ روپے مقرر ہے.اطفال الاحمدیہ کا قیام اطفال الاحمدیہ نئی تنظیم کے قائم کرنے کا ارشاد حضور نے اولاً ۱۵ را پریل ۱۹۳۸ء کو بیت الاقصیٰ قادیان میں خطبہ جمعہ کے دوران بایں الفاظ فرمایا:.’اصل چیز یہ ہے کہ اچھی عادت بھی ہواور علم بھی ہو مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب عادت کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور علم کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے.عادت کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہوتا ہے اور علم کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے.پس خدام الاحمدیہ کی ایک شاخ ایسی بھی کھولی جائے جس میں پانچ چھ سال کے بچوں سے لے کر ۱۵.۶ سال کی عمر تک کے بچے شامل ہو سکیں.یا اگر کوئی اور حد بندی تجویز ہو تو اس کے ماتحت بچوں کو شامل کیا جائے.بہر حال بچوں کی ایک الگ شاخ ہونی چاہئے.اور ان کے الگ نگران مقرر ہونے چاہئیں.مگر یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ ان بچوں کے نگران نوجوان نہ ہوں بلکہ بڑی عمر کے لوگ ہوں.نماز کے بغیر دین کوئی چیز نہیں اگر کوئی قوم چاہتی ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں میں (دینی) روح قائم رکھے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوم کے ہر بچہ کو نماز کی عادت ڈالے اسی طرح سچ کے بغیر اخلاق درست نہیں ہو سکتے.جس قوم میں سچ نہیں اس قوم میں اخلاق فاضلہ بھی نہیں.اور محنت کی عادت کے بغیر سیاست اور تمدن کوئی چیز نہیں.جس قوم میں محنت کی عادت نہیں، اس قوم میں سیاست اور تمدن بھی نہیں.گویا یہ تین معیار ہیں، جن کے بغیر قومی ترقی نہیں ہوتی..ہر مقام کے احمدی نوجوان جہاں خود خدام الاحمدیہ میں شامل ہوں وہاں سات سے پندرہ سال تک عمر کے بچوں کے لئے مجلس اطفال الاحمدیہ قائم کریں.“ اس طرح حضرت مصلح موعود نے ان نھی منی احمدی کلیوں کو جنہوں نے آگے چل کر باغ احمد کے خوش رنگ اور خوبرو پھول بننا تھا.اور دنیا کو اپنے روحانی رنگ و بُو سے معطر کرنا تھا ایک مالا میں پرو دیا.اور اس طرح ابتداء سے ہی ان کی اخلاقی ، روحانی، جسمانی، ذہنی اور علمی تربیت کا سلسلہ جاری فرما دیا.گویا تنظیم خدام الاحمدیہ کا ہی ایک حصہ ہے مگر اپنے پروگراموں میں بالکل آزاد ہے.تو یہ ایک چھوٹی سی دنیا مگر اپنے نظام اور لائحہ عمل کے لحاظ سے بالکل مکمل ہے.جماعت کی اس تنظیم کی بدولت ہی آج دنیا میں یہ تاثر قائم ہو چکا ہے کہ کبھی کوئی احمدی بچہ دلائل کے میدان میں مغلوب نہیں ہوسکتا.
449 قصر احمدیت کی ان چاروں دیواروں کو مکمل کرنے کے بعد فرمایا :.”ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے.تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانا ہے.تمام دنیا کو دین اور احمدیت میں داخل کرنا ہے.مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سرانجام نہیں دیا جا سکتا.جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا بوڑھے ہوں اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے.اور اس لائحہ عمل کے مطابق دن رات عمل نہیں کرتے جوان کے لئے تجویز کیا گیا ہے.جب ہم تمام افراد کو ایک نظام میں منسلک کر لیں گے تو اس کے بعد ہم بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف کامل طور پر توجہ کر سکیں گے.اس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور اطفال الاحمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں.“ (الفضل اارا کتوبر ۱۹۴۴ء) 66 ایک اور موقع پر فرمایا:.سلسلہ کے روحانی بقاء کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کی تحریکات جاری کی ہوئی ہیں اور یہ تینوں ضروری ہیں ان کو معمولی نہ سمجھیں.حالات ایسے ہیں کہ جب تک دودو تین تین آدمیوں کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کا انتظام نہ کیا جائے کام نہیں ہو سکتا ہمیں اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں کہ دوسرے ان کا اقرار کرنے پر مجبور ہوں.اور پھر تعداد بھی بڑھانی چاہئے.اگر گلاب کا ایک ہی پھول ہو اور وہ دوسرا پیدا نہ کر سکے تو اس کی خوبصورتی سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.فتح تو آئندہ زمانہ میں ہوتی ہے.اور معلوم نہیں کب ہو.لیکن ہمیں کم از کم اتنا تو اطمینان ہونا چاہئے کہ ہم نے اپنے آپ کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ دنیا احمدیت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتی.احمدیت کو دنیا میں پھیلا دینا ہمارے اختیار کی بات نہیں لیکن ہم اپنی زندگیوں کا نقشہ ایسا خوبصورت بنا سکتے ہیں کہ دنیا کے لوگ بظاہر اس کا اقرار کریں یا نہ کریں.مگران کے دل احمدیت کی خوبی کے معترف ہو جائیں.اور اس کے لئے جماعت کے سب طبقات کی تنظیم نہایت ضروری ہے.“ تنظیمی اعتبار سے جماعت احمدیہ نے دنیا پر جو اثرات مرتب کئے ان کا ذکر اپنے الفاظ میں کرنے کی بجائے غیروں کی چند آرا نقل کر رہا ہوں:.جناب مولانامحمد علی جو ہر صاحب نے ایک موقعہ پر فرمایا:.ناشکر گزاری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور اس کی منتظم جماعت کا ذکر ان سطور
450 میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں.اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گیندوں میں بیٹھ کر خدمت اسلام کے بلند بانگ اور در باطن بیچ دعاوی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہوگا.“ ہمدرد ۲۶ ستمبر ۱۹۲۷ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۵ ص ۶۱۴ ) مسلم سٹینڈرڈ لنڈن کے سابق ایڈیٹر ملک عبد القیوم صاحب بارایٹ لاء نے ایک حقیقت افروز بیان میں فرمایا کہ:.سلسلہ احمدیہ نے اپنے تبلیغی نصب العین کو ایک ادارے کی صورت دے کر ایک منظم کوشش بنا دیا.اس منظم کار کردگی کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے مبلغین گزشتہ ربع صدی کے دوران میں ایشیاء، افریقہ اور امریکہ میں متعدد ادارے قائم کر کے اعلائے کلمۃ الحق کر رہے ہیں.“ ( بحوالہ مرکز احمد بیت ، قادیان.‘ ص ۴۵۷ مرتبہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ) اطفال الاحمدیہ کی تنظیم ہر وہ جگہ جہاں پر سات سال تا پندرہ سال کی عمر کے دو سے زیادہ احمدی بچے ہوں وہاں پر مجلس اطفال الاحمدیہ کا قیام ضروری ہے.اس تنظیم کارکن طفل کہلاتا ہے.مجلس اطفال الاحمدیہ مجلس خدام الاحمدیہ کی نگرانی میں کام کرتی ہے.لیکن اطفال الاحمدیہ کے لئے الگ لائحہ عمل مقرر ہوتا ہے.ہر مجلس میں ناظم اطفال اور ہر حلقہ میں منتظم اطفال کا تقر رضروری ہے.ان کے علاوہ انصار یا خدام میں سے بڑی عمر کے موزوں دوست مربی اطفال کے طور پر مقرر ہوتا ہے.جو اپنے اپنے حلقہ میں مجوزہ لائحہ عمل کے مطابق اطفال کے کام کی نگرانی کرتے ہیں.مجلس اطفال الاحمدیہ کا پروگرام مندرجہ ذیل شعبوں میں تقسیم ہوتا ہے جن کی نگرانی کے لئے حسب ضرورت اطفال میں سے موزوں مندرجہ ذیل عہد یداران مقرر کئے جاسکتے ہیں:.(۱) سیکرٹری عمومی (۲) سیکرٹری تجنید (۳) سیکرٹری تربیت (۴) سیکرٹری تعلیم (۵) سیکرٹری مال (۶) سیکرٹری وقف جدید (۷) سیکرٹری وقار عمل (۸) سیکرٹری صحت جسمانی (۹) سیکرٹری خدمت خلق (۱۰) سیکرٹری صنعت و تجارت (۱۱) سیکرٹری اشاعت.
451 ہر طفل کے لئے چندہ مجلس ماہوار ۵۰ پیسے اور سالانہ ۶ روپے ہے.اور چندہ اجتماع ہر طفل کے لئے سالانہ دورو پے مقرر ہے.اور ان کا مالی سال بھی خدام الاحمدیہ کی طرح یکم نومبر تا ۳۱ را کتوبر تک ہوتا ہے.ذیلی تنظیموں کے عہد ہر ذیلی تنظیم کے لئے ایک عہد مقرر ہے.جسے اس تنظیم کے جملہ ممبران اپنے اجتماعات اور اجلاسات کے موقع پر بیک زبان ہو کر تین مرتبہ کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد دہراتے ہیں.ذیل میں ہم تمام ذیلی تنظیموں کے عہد نقل کر رہے ہیں :.انصار اللہ کا عہد اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.میں اقرار کرتا ہوں کہ دین حق اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کے لئے انشاء اللہ تعالیٰ آخر دم تک جدو جہد کرتا رہوں گا.اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہوں گا.نیز میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا.إِنْشَاءَ اللهُ تعالى خادم کا عہد اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.میں اقرار کرتا ہوں کہ دینی ، قومی اور ملی مفاد کی خاطر میں اپنی جان مال ، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا.اسی طرح خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہوں گا.اور خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا.“ إِنْشَاءَ اللهُ تعالى
452 اطفال الاحمدیہ کا وعدہ اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.میں وعدہ کرتا ہوں کہ دین حق اور احمدیت قوم اور وطن کی خدمت کے لئے ہر دم تیار رہوں گا.ہمیشہ سچ بولوں گا، کسی کوگالی نہیں دوں گا.اور حضرت خلیفتہ اسیح کی تمام نصیحتوں پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.إِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَى عہد لجنہ اماءاللہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنی جان و مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گی اور سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی اور خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہوں گی.إِنْشَاءَ اللهُ تعالى ناصرات الاحمدیہ کا عہد اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ.میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب، قوم اور وطن کی خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہوں گی.اور سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی.انْشَاءَ اللهُ تعالى
453 باب یاز و هم اہم جماعتی کتب و مرکزی اخبارات ورسائل
454
455 جماعت احمدیہ کی اہم کتب کا تعارف حضرت مسیح موعود علیہ السام نے اپنی کتاب فتح اسلام ص ۱۲ پر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی پانچ شاخوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.چنانچہ منجملہ ان شاخوں کے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اس عاجز کے سپرد کیا گیا ہے.اور وہ معارف و دقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خدا تعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں.اور انسانی تکلف سے نہیں بلکہ روح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کر دیئے گئے.“ (فتح اسلام ص ۱۲ روحانی خزائن جلد نمبر۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا عمومی تعارف باب دوم میں گزر چکا ہے نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی فہرست بھی قبل ازیں باب دوم میں شامل کر دی گئی ہے.دراصل اس بات میں شامل تمام کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور تحریرات و فرمودات کی ہی خوشہ چیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلا کے سلسلہ تالیف و تصنیف کا ہی ایک تسلسل ہے.ا تفسیر القرآن حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اصل غرض اور بنیادی مقصد قرآن کریم کی اشاعت اور قرآن کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا تھا.یعنی قرآن کریم میں بیان فرمودہ ضابطہ حیات کے مطابق بنی نوع انسان کو زندگی گزارنے کی طرف دعوت دینا اور تلقین کرنا تھا.کیونکہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسائل اور سوالات کا حل اس کامل اور مکمل کتاب میں موجود ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر مسئلے اور ہر معاملے کوحل کرنے کی بنیاد قرآن کریم پر رکھی ہے.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے با قاعدہ طور پر کوئی تفسیر کی کتاب نہیں لکھی تاہم اپنی ۸۵ سے زائد کتب میں تمام مسائل اور امور کو قرآن کریم کی روشنی میں بیان فرمایا ہے اور جو قرآن کریم کے حقائق و معارف آپ نے بیان فرمائے اس کی مثال گزشتہ چودہ سو سال میں نہیں ملتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب، تقاریر، ملفوظات، لیکچرز، مباحثے، اشتہارات ، مکتوبات غرضیکہ آپ کی ہر ایک تحریر اور قول جو تحریری طور پر محفوظ ہو چکا ہے، میں جہاں کہیں بھی قرآن کریم کی کسی آیت
456 ی کوئی تغیر یا تشریح بیان فرمائی ہے یاکسی مسلہ کا استنباط قرآن کریم کی روشنی میں کیا ہے یا قرآن کریم کی کسی آیت کا کوئی نکتہ بیان کیا ہے.اس کو یکجا کر کے ادارۃ المصنفین ربوہ پاکستان نے درج ذیل آٹھ جلدوں میں شائع کر دیا ہے.جلد اول.سورۃ فاتحہ مکمل صورت میں یا اس کی کسی آیت کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں کہیں بھی کوئی تفسیر و تشریح یا کسی آیت کے محاسن بیان کئے ہیں ان تمام کو جلد اول میں یکجائی طور پر بحوالہ شائع کیا گیا ہے.جلد دوم.اس جلد میں سورۃ بقرہ یا اس سورۃ کی کسی آیت کی بیان فرمودہ تفسیر و تشریح یکجا کر دی گئی ہے.جلد سوم.یہ جلدسورۃ آل عمران تا سورۃ النساء کی آیات کی تفسیر پر مشتمل ہے.جلد چہارم.یہ جلد سورۃ مائدہ تا سورۃ توبہ کی آیات تفسیر و تشریح پر مشتمل ہے.جلد چہارم.یہ جلد سورہ مائدہ تا سورۃ توبہ پر مشتمل ہے.جلد پنجم.اس جلد میں سورۃ یونس تا سورۃ کھف کی آیات کی تفسیر شامل ہے.جلد ششم.اس جلد میں سورۃ مریم تا سورۃ عنکبوت کی آیات کی تفسیر و تشریح شامل ہے.تم.یہ جلد سورہ روم تا سورۃ ڈرایت پر مشتمل ہے.جلد ہشتم.یہ جلد سور الطور تا سورۃ الناس کی آیات کی بیان فرمودہ تشریح وتفسیر پرمشتمل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے لئے حکم و عدل بنا کر مبعوث کیا ہے اس لئے کسی بھی مسئلہ کو بیان کرنے کیلئے یا کسی بھی سوال کا جواب دینے کیلئے ہمیں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قرآن کریم کی متعلقہ آیت کی بیان فرمودہ تفسیر اور تشریح اور استنباط کو اولیت دینی چاہئے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر القرآن کی ان جلدوں کا اکثر مطالعہ کرتے رہنا چاہئے.-۲ حقائق الفرقان مکرم سید عبدائی شاہ صاحب ناظر اشاعت ربوہ نے حقائق الفرقان کا پیش لفظ لکھے ہوئے تحریر فرمایا کہ.حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نورالدین خلیفہ اسیح الاول کو خد تعالی کی آخری کتاب قرآن کریم سے جو غیر معمولی عشق اور اس کے علوم کے ساتھ جو فطری مناسبت تھی اس کا ذکر امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی متعدد تصانیف میں فرمایا ہے.حضور فرماتے ہیں :.میں نے کسی کے دل میں اس طرح قرآن کریم کی محبت نہیں پائی جس طرح آپ کا دل فرقان حمید کی محبت سے لبریز ہے.(اردو تر جمه آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۸۶)
457 آپ کی فطرت کو رب جلیل کے کلام سے کمال مناسبت ہے.قرآن کریم کے بے شمار خزائن اس شریف نوجوان کو ودیعت کئے گئے ہیں.( صفحه ۵۸۷) آپ کو قرآن کریم کے دقائق معرفت اور باریک نکات کے استخراج اور فرقان حمید کے حقائق کے خزائن پھیلانے کا عجیب ملکہ حاصل ہے.( آئینہ کمالات اسلام صفحه ۴ ۵۸) اسی طرح آپ کی تصانیف کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.جو شخص قرآن کریم کے عمیق مطالب کو حل کرنے اور رب جلیل کی کتاب کے اسرار جاننے کا ارادہ رکھتا ( آئینہ کمالات اسلام ص ۵۸۴) ہو اسے چاہئے کہ آپ کی کتب کا مطالعہ کرے.آپ کو قرآن کریم سے جو محبت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ خود فرماتے ہیں:.مجھے قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں لگتی.ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ان سب میں مجھے خدا بدر ۱۸ جنوری ۱۹۱۲ء) کی ہی کتاب پسند آئی.“ قرآن میری غذا، میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے اور میں جب تک اس کو کئی بار مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا مجھے آرام اور چین نہیں آتا.( ترجمۃ القرآن شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ص ۴۶) اور فرمایا کرتے تھے:.”خدا تعالیٰ مجھے بہشت اور حشر میں نعمتیں دے تو میں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں گا تا کہ حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں ، پڑھاؤں اور سنوں.“ تذکرہ المہدی جلد اول ص ۲۴۶) آپ نے ساری عمر قرآن کریم کے علوم کے اکتساب میں گذاری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر جب آپ ہجرت کر کے قادیان دارلامان تشریف لائے تو اس دن وفات تک نہایت یکسوئی اور نہایت با قاعدگی کے ساتھ قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے میں اپنی زندگی کے اوقات صرف فرمائے.قادیان میں رمضان المبارک کے خصوصی درس کے علاوہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی اور آپ کی وفات کے بعد بھی سارا سال قرآن کریم کا باقاعدگی سے درس دیتے تھے.ہزاروں صلحاء نے آپ کے درسوں.اکتساب فیض کیا.آپ کے درس القرآن کے سلسلہ میں حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر فرماتے ہیں:.” حضرت اقدس علیہ السلام بار بار مجھے فرمایا کرتے تھے کہ حضور مولوی نورالدین صاحب کی تفسیر قرآن آسمانی تفسیر ہے.صاحبزادہ صاحب! ان سے قرآن پڑھا کرو اور ان کے درس قرآن میں بہت بیٹھا کرو اور سنا کرو.اگر تم نے دو تین سیپارہ بھی حضرت مولوی صاحب سے سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا ނ
458 مادہ اورتفسیر کرنے کا ملکہ ہو جائے گا.یہ بات مجھ سے حضرت اقدس علیہ السلام نے شاید پچاس مرتبہ کہی ہوگی.“ (تذکرہ المہدی جلد اول صفحه ۲۴۴) یہ محض اللہ تعالی کا خاص فضل تھا کہ حضرت خلیفہ المسح الاول کے ان درسوں کا خلاصہ سلسلہ کے اخبارات بدر اور احکام میں ساتھ کے ساتھ آئندہ کے لئے محفوظ ہوتا چلا گیا.علوم ومعارف کا یہ قیمتی خزانہ اخبارات کی فائلوں میں منتشر اور نایاب کتب کے صفحات میں بند تھا اور ٹی نسل کے لئے اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.چنانچہ خلیفہ امسیح الرابع حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی تعمیل میں ان گراں بہا دفینوں کو باہرنکال کر از سرنو مرتب کیا گیا اور انکم اور بدر میں شائع شدہ نوٹس کے علاوہ تفخیذ الاذہان کے شماروں.حضرت خلیفہ اسیح الاول کی جملہ تصانیف.خطبات جمعہ وعیدین.خطبات نکاح اور تقاریر سے اس نادر تفسیری مواد کو الگ کر کے جمع کیا گیا اور پھر اسے ترتیب دے کر احباب کی ( حقائق الفرقان جلد اول پیش لفظ ) خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے.مشتمل ہے.حقائق الفرقان درج ذیل چار جلدوں پر سے ا.جلد اول.اس جلد میں سورۃ فاتحہ، سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران کی آیات کی تفسیر و تشریح پر مبنی ہے.۲.جلد دوم.یہ جلد سورۃ النساء، سورۃ المائدہ سورۃ الانعام،سورۃ الاعراف سورۃ توبہ ،سورۃ یونس، سورۃ ہود،سورة يوسف سورة الرعد سوة ابراہیم ، سورة الحجر سورۃ النحل اور سورۃ بنی اسرائیل، پر مشتمل ہے..جلد سوم.یہ جلد سورۃ الکھف ، سورۃ مریم ، سورۃ طہ سورۃ الانبياء،سورۃ الحج سورة المومنون ،سورة النور، سورة الفرقان،سورة الشعراء، سورة النمل، سورة القصص ، سورة العنكبوت، سورة الروم، سورة السجده، سورة الاحزاب، سورۃ سبا، سورة فاطر سورة يسٹین ،سورة الصفت ، سورة ص سورة الزمر سورة المؤمن ، سورة حم السجده سورة الشورى ،سورة الزخرف ،سورۃ الدخان سورة الجاثية ،سورۃ الاحقاف سورۃ محمد اور سورۃ الفتح پرمشتمل ہے.۴.جلد چہارم.یہ جلد سورۃ الحجرات تا سورۃ الناس پر مشتمل ہے.پس قرآن کریم کی کسی سورۃ یا آیت کا مضمون سمجھنے کے لئے حقائق الفرقان میں بیان فرمودہ تفسیر و تشریح کا مطالعہ بہت راہنما اور مفید ثابت ہوسکتا ہے.تفسیر کبیر تفسیر کبیر کا تعارف کرواتے ہوئے مکرم سید عبدالحئی شاہ صاحب ناظر اشاعت تحریر فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مامور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو
459 ایک عظیم نشان رحمت مصلح موعود کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اسے علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.نیز فرمایا کہ: "کلام اللہ کا مرتبہ اس سے ظاہر ہوگا.“ ( ناقل ) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ امسیح الثانی الصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی تصنیف لطیف تفسیر کبیر اس مذکورہ خدائی بشارت کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہے.یہ تفسیر قدیم وجدید قرآنی علوم کا ایک بیش بہا خزانہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق ظاہر فرمایا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا ہے کہ اس تفسیر کا بہت سا مضمون میرے غور کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا مطالعہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ، آنحضرت علی اور آپ کے آل و اصحاب رضوان اللہ علیہم کی محبت اور اسلام کے تابندہ مستقبل کے متعلق بصیرت عطا کرتا ہے.ضور کی تحریرفرمود تفسیر کی پہلی جلد کتابی شکل میں ۱۹۴۰ء میں منظر عام پر آئی تھی اور اب تک اس کی گیارہ جلدیں شائع ہو چکی ہیں عرصہ دراز سے علوم و معارف کا یہ بیش بہا خزانہ نایاب تھا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خصوصی توجہ اور ہدایات کی روشنی میں یہ مجموعہ دس جلدوں کے ایک سیٹ کی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے.اور مطالعہ اور تحقیق کرنے والے قارئین کی سہولت کے لئے ہر جلد کے آخر میں ایک مبسوط کلید مضامین نیز اسماء، جغرافیائی مقامات اور حل لغات کے مکمل انڈیکس شامل اشاعت کئے جار ہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس تفسیر کی اشاعت کو دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کرنے کا موجب بنائے.“ ( تفسیر کبیر جلد اول بعنوان عرض ناشر ) تفسیر کبیر درج ذیل دس جلدوں پر مشتمل ہے.ا.جلداول.سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرہ کے رکوع نمبرا تارکوع نمبر ۹ تک کی تفسیر پر مشتمل ہے.۲.جلد دوم.سورۃ البقرہ کے رکوع نمبر ۱۰ تا آخری رکوع کی تفسیر پر مشتمل ہے.۳.جلد سوم.یہ جلد سورۃ یونس تا سورۃ ابراہیم کی تفسیر پرمشتمل ہے.۴.جلد چہارم.اس جلد میں سورۃ الحجر، سورۃ انحل ، سورۃ بنی اسرائیل اورسورۃ الکہف کی تفسیر شامل ہے.۵- جلد پنجم.یہ جلد سورۃ مریم ،سورۃ طہ اور سورۃ الانبیاء کی تفسیر پر مشتمل ہے.۶.جلد ششم.یہ جلد سورة الحج سورۃ المومنون ،سورۃ النور اور سورۃ الفرقان کی تفسیر پر بنی ہے..جلد ہفتم.یہ جلد سورة الشعراء سورة النمل سورۃ القصص اور سورۃ العنکبوت کی تفسیر پر مشتمل ہے.جلد ہشتم:.یہ جلدسورۃ النباء تاسورۃ البلد پارہ نمبر ۳۰ کی تفسیر پرمشتمل ہے.۹- جلد نم.یہ جلد پارہ نمبر ۳۰ کی سورۃ الشمس تا سورۃ الھمزہ کی تفسیر پر مبنی ہے.
460 ۱۰.جلد دہم.یہ جلد پارہ نمبر ۳۰ کی سورۃ الفیل تا سورۃ الناس کی تفسیر پر مشتمل ہے.۴ ۷۰۰ احکام خداوندی مرتبہ: مکرم مولانا حنیف احمد محمود صاحب نائب ناظر اصلاح وارشاد مرکزیہ صفحات: ۶۱۶ سن اشاعت:.جولائی ۲۰۰۵ء ناشر: لجنہ اماءاللہ اسلام آباد وو نفس مضمون :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب کشتی نوح میں تحریر فرمایا ہے کہ:.جو شخص قرآن کریم کے سات سو احکام میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے سے بند کرتا ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی روشنی میں اس کتاب میں قرآن کریم کے سات سواحکام یکجا کر دئے گئے ہیں تا کہ احباب جماعت ان تمام احکامات پر عمل پیرا ہو سکیں.پس اس کتاب کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے.نیز ہر فرد جماعت کو اس کا گاہ بگاہ مطالعہ کرتے رہنا چاہئے اور ان احکام خداوندی پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش جاری رہنی چاہئے.لہذا یہ کتاب بہت مفید ہے ۵- حديقة الصالحين مرتبہ :.حضرت ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسله و پرنسپل جامعہ احد بی ربوہ پاکستان صفحات:.۹۶۱ سن اشاعت:.جون ۱۹۶۷ ء ایڈیشن اول ناشر:.نظامت ارشاد وقف جدیدر بوہ پاکستان نفس مضمون:.یہ کتاب احادیث نبوی کا ایک نہایت دلکش مجموعہ ہے جس میں منتخب احادیث کی کل تعدادا ہے جن میں سے تقریباً ۴۵۰ احادیث منتخب احادیث کا ایک معروف اور مقبول عام مجموعہ "ریاض الصالحین سے اخذ کی گئی ہیں اور بقیہ دیگر کتب احادیث مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم ، ترمذی، مسنداحمد، دارقطنی اور کنز العمال سے براہ راست لی گئی ہیں.اس کتاب میں احادیث کا ترجمہ نہایت ہی سلیس اور بامحاورہ ہے.
461 انتخاب میں بالخصوص ایسے مختلف مسائل سے متعلق احادیث جو مسلمانوں میں مابہ النزاع ہیں اکٹھی کر دی گئی ہیں تاکہ ان کے مختلف پہلوؤں پر یکجائی نظر ڈالتے ہوئے قارئین کو صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں آسانی ہو.تربیت اور اصلاح معاشرہ کے نکتہ نظر سے حتی الامکان ایسی اخلاقی تعلیم پر مشتمل احادیث کو منتخب کیا گیا ہے جو اپنی تاثیر اور روحانی لطافت کے اعتبار سے ایک نمایاں شان رکھتی ہیں.اس کتاب میں آنحضرت کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر منی بہت ساری احادیث شامل کی گئی ہیں.اسی طرح آخری زمانہ کے فتنوں ، ظہور امام مہدی ونزول مسیح جیسے مسائل پر بھی مختلف احادیث کو یکجا کر دیا گیا ہے اس اعتبار سے یہ کتاب درس و تدریس اور ذاتی مطالعہ کے لحاظ سے انتہائی مفید ہے.٦- سيرة خاتم النبيين" مصنف:.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے صفحات: ۸۴۶ سن اشاعت:.حصہ اول ۱۹۲۰ء.حصہ دوم ۱۹۳۱ء.حصہ سوم ۱۹۴۹ء آخری ایڈیشن ۱۹۹۶ء اب اس کتاب کے تینوں حصے ایک ہی جلد میں شائع کئے جاچکے ہیں.ناشر: اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ اسلام آباد یو.کے نفس مضمون :.یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آنحضرت ﷺ کی سیرت پر مبنی جملہ کتب میں سے سرفہرست ہونے کا مقام رکھتی ہے.اس کتاب کا دیگر سیرت کی کتب میں سے ایک بہت نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ کتاب بیک وقت آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ تاریخ اسلام کی کتاب بھی کہلانے کی مستحق ہے.اور اس کتاب کی ایک اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں آنحضرت ﷺ کی ذات پر ہونے والے مختلف اعتراضات کے علاوہ اسلامی تعلیمات پر ہونے والے مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات بھی بڑی عمدگی سے دیئے گئے ہیں.پہلے یہ کتاب تین مختلف جلدوں میں وقفے وقفے کے بعد شائع ہوتی رہی.لیکن اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ اسلام آباد یو.کے نے ۱۹۹۶ء میں مذکورہ تینوں جلدوں کو ایک ہی جلد میں شائع کر دیا ہے.خاکسار کی نظر میں آنحضرت کی سیرت پر مبنی اس سے زیادہ عمدہ کوئی کتاب نہیں.
462 ے.اسوہ انسان کامل مصنف:.مکرم مولانا حافظ مظفر احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد مقامی ربوہ پاکستان تعداد صفحات : ۷۰۸ سن اشاعت: ۲۰۰۴ء ناشر: مصطفی اکیڈمی لاہور نفس مضمون :.دراصل یہ کتاب آنحضرت کی سیرت طیبہ کے متعلق ہے.جس میں آنحضرت کا مختصر سوانحی خاکہ اور آنحضرت کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق کے مضامین کے علاوہ آنحضرت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مبنی روایات کو مختلف عناوین کے تحت بڑی خوبصورتی اور حسن ترتیب سے جمع کر دیا گیا ہے.آنحضرت کی سیرت طیبہ کے مطالعہ کے لحاظ سے یہ کتاب بھی بہت عمدہ اور مفید ہے.۸.سیرت صحابہ رسول مصنف: مکرم حافظ مظفر احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد مقامی ربوہ پاکستان صفحات: ۵۷۲ سن اشاعت: طبع اول مارچ ۱۹۹۳ء طبع دوم.دسمبر ۲۰۰۹ء ناشر: نظارت اشاعت صدرانجمن احمد یہ ربوہ نفس مضمون :.آنحضرت نے فرمایا کہ اَصْحَابِی گا النَّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کرو گے تم ہدایت پاؤ گے.پس اس نکیۂ نظر سے اس کتاب کا مطالعہ قارئین کیلئے بہت ہی مفید ثابت ہو سکتا ہے اور کامیابی کی راہوں پر قدم مارنے کی توفیق ملتی ہے.اس کتاب میں انحضرت کے ۵۰ جلیل القدر صحابہ کی زندگی کے انتہائی ایمان افروز حالات و واقعات اور سیرت کا تذکرہ کیا گیا ہے.لہذا یہ کتاب ہر احمدی کے زیر مطالعہ رہنی چاہئے.
463 ۹.سیرت حضرت مسیح موعود مصنف :.حضرت مولانا شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب صفحات :.یہ کتاب چار جلدوں میں ہے جن کے کل صفحات ۶۳۹ ہیں.سن اشاعت: طبع اول مورخہ ۱۹۲۴ء ناشر :.احمد وجودی مشتمل ؟ اس کتاب کا حصہ اول حضرت مسیح موعود کی شکل مبارک ولباس و طعام اور مذاق طبیعت پرست حصہ دوم.عیادت و تعزیت ، اخوت وخلت اور جو دوسخاو احسان وعطا پر مشتمل ہے.حصہ سوم.حضرت مسیح موعود کی جودوسخا، بے تکلف اور سادہ زندگی ، خدام کے ساتھ حسن سلوک.حصہ چہارم.کا مسودہ گم ہو جانے کی وجہ سے شائع نہیں ہو سکا.نفس مضمون :.یہ کتاب حضرت مسیح موعود کے شمائل و عادات اور اخلاق کے تذکرہ پر مشتمل ہے.حصہ پنجم.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و شمائل ” دعاؤں کے آئینہ میں پر مبنی ہے.یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے مطالعہ کے لحاظ سے بہت عمدہ اور مفید ہے.۱۰.حیات طیبہ مصنف:.حضرت شیخ عبدالقادر صاحب مرحوم سابق ( سوداگرمل ) صفحات: ۳۷۹ سن اشاعت: - ۱۹۵۹ طبع اوّل ناشر: حکیم مولوی عبداللطیف شاہد صاحب گجراتی نفس مضمون : حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے اس کتاب کی اشاعت پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:.یہ کتاب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لٹریچر میں ایک بہت عمدہ اضافہ ہے.غالباً ایک جلد میں حضرت مسیح موعود کی اس قدر جامع اور مرتب سوانح عمری اس وقت تک نہیں لکھی گئی.واقعات کی حتی المقدور تحقیق و تدقیق اور ترتیب اور موقعہ بموقعہ مناسب تبصرہ جات نے اس کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ کر دیا ہے.اور ضروری فوٹو بھی شامل ہیں.کتاب کا مطالعہ کرنے والا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بلند و بالا شخصیت
464 اور تبلیغ اسلام کے لئے ان کی والہا نہ جدو جہد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.طباعت بھی اچھی ہے.میرے خیال میں یہ کتاب اس قابل ہے کہ نہ صرف جماعت کے دوست اسے خود مطالعہ کریں.بلکہ غیر از جماعت اصحاب میں بھی اس کی کثرت کے ساتھ اشاعت کی جائے.ا.تذکرہ سن اشاعت:.پہلا ایڈیشن ۱۹۳۵ء ، دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۵ء تیسرا ایڈیشن ۱۹۶۹ء اور چوتھا ایڈیشن ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا.صفحات: ۶۹۴ (چوتھا ایڈیشن) ناشر: نظارت تالیف و تصنیف جماعت احمدیہ قادیان و نظارت اشاعت ربوه نفس مضمون :.یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جملہ الہامات رؤیا وکشوف کا مجموعہ ہے.اس کتاب کا مطالعہ حضرت مسیح موعود کی صداقت پر یقین کامل پیدا کرتا ہے.جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور رویا وکشوف کا روز روشن کی طرح پورا ہونا دیکھتے ہیں تو دل خدا کی حمد سے بھر جاتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے من جانب اللہ معمور ہونے پر کامل یقین ہو جاتا ہے.پس اس کتاب کا مطالعه از دیا دایمان کے لئے بہت مفید ہوسکتا ہے.۱۲.حیات نور مصنف:.مکرم مولا نا عبدالقادر صاحب مربی سلسله ( سابق سود گر مل ) صفحات : ۷۸۶ سن اشاعت : ۱۹۶۳ طبع اول ناشر: مکرم شیخ عبدالہادی زاہد صاحب نفس مضمون:.یہ کتاب حضرت حافظ حکیم مولانا نورالدین صاحب بھیروی خلیفہ المسیح الاول کی سیرت وسواخ پر مبنی ہے.جس کا مطالعہ انتہائی روح پرور اور ایمان افروز ہے.
465 ۱۳.مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین مصنف: مکرم اکبر شاہ خان نجیب آبادی صاحب صفحات : ۳۱۷ سن اشاعت:.آخری ایڈیشن ۱۹۶۲ء ناشر : الشركة الاسلامیہ میٹر بوہ نفس مضمون :.حضرت خلیفتہ اسیح الاول ، حاجی الحرمین حکیم مولانا نورالدین صاحب نے اپنے کچھ حالات زندگی برصغیر کے مشہور مصنف جناب اکبر شاہ نجیب آبادی کو وقتا فوقتا اپنی یادداشت سے لکھوائے تھے.یہ دلچسپ اور ایمان افروز واقعات مرقاۃ الیقین فی حیات نور الدین“ کے نام سے شائع ہوئے.پس یہ کتاب حضرت خلیفہ اسیح الاول کے ایمان افروز حالات و واقعات پر مشتمل ہے.اس کا مطالعہ بہت ہی روح پرور اور روحانی پیاس بجھانے کا باعث ہوسکتا ہے.۱۴.سوانح فضل عمر مصنفین :.جلد اول و دوم حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع جلد سوم، چهارم و پنجم مرتبہ مکرم مولانا عبدالباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ صفحات :.جلد اول ۳۵۸ + جلد دوم ۱۳۸۴ جلد سوم ۳۹۸+ جلد چهارم ۵۴۵+ جلد پنجم ۵۶۷ کل صفحات ۲۲۵۲ سن اشاعت: - جلد اول دسمبر ۱۹۷۵ء.جلد دوم طبع اول ۱۹۸۸ء ناشر: فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ نفس مضمون :.جلد اول میں پیشگوئی مصلح موعود اور اس کا مذہبی پس منظر، احمدیت کا تعارف،حضرت مصلح موعود کی پیشگوئی کے مطابق ولادت، بچپن اور جوانی، حضرت مسیح موعود کی وفات، عہد خلافت اولیٰ میں آپ کی خلافت اولیٰ سے محبت اور اطاعت کا قابل تقلید نمونہ ، حضرت خلیفہ اسیح الاول کی وفات کے بعد فتنہ انکار خلافت کا مقابلہ جیسے مضامین پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے.جلد دوم میں عہد خلافت ثانیہ کا آغاز ، منکرین خلافت کا مقابلہ، نظام جماعت کا استحکام اور ۱۹۲۲ء تک دیگر حالات و واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے.
466 جلد سوم میں درج ذیل حالات و واقعات بیان کئے گئے ہیں.ذیلی تنظیموں کا قیام، سفر یورپ ۱۹۲۴ء، خدمت قرآن، جنگ عظیم دوم، آل انڈیا کشمیر کمیٹی تحر یک جدید اور وقف جدید کا قیام اور دعوی مصلح موعودؓ.جلد چہارم میں حضرت مصلح موعود کی کامیاب و کامران زندگی کے اہم ادوار پر روشنی ڈالی گئی ہے.جن میں جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ء کا انعقاد، قادیان سے ہجرت، نئے مرکز ربوہ کی تعمیر ملی خدمات اور بین الاقوامی فورم پر لبنان، عراق اور انڈو نیشیا کی آزادی کے لئے جماعت احمدیہ کی خدمات، مسئلہ فلسطین پر بروقت انتباہ اور جامع راہنمائی ، ہندوستان کی تحریک آزادی کے مختلف مراحل اور تقسیم برصغیر کے موقع پر پیش آنے والے اہم واقعات اور استحکام پاکستان کے لئے مفید را ہنمائی شامل ہیں.جلد پنجم میں آپ کی سیرت کی چند جھلکیاں پیش کی گئی ہیں.جن میں محبت الہی عشق رسول، قبولیت دعا، مخالفوں سے حسن سلوک، آپ کا علمی ذوق ، تربیت کے انداز ، خدمت خلق، محنت کی عادت، عائلی زندگی اور زندگی کے بعض دوسرے دریچے کھولے گئے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مصلح موعود کی سیرت طیبہ جماعت کے لئے روشنی کا ایک مینار ہے.لہذا سوانح فضل عمر کا مطالعہ ہر فرد جماعت کے لئے از حد ضروری اور مفید ہے.۱۵.حیات ناصر جلد نمبر ۱ مصنف: مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب صفحات: ۶۸۰ سن اشاعت: - اکتوبر ۲۰۰۰ء ناشر: نظارت اشاعت ربوہ نفس مضمون :.فی الحال یہ حیات ناصر کی پہلی جلد شائع ہو چکی ہے جس میں حضرت علیہ السبع الثالث کی سیرت و سوانح بڑی عمدگی سے پیش کئے گئے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی سیرت پر مبنی یہ ایک عمدہ کتاب ہے.اس کی جلد نمبر۲ کا مسودہ بھی تیار ہو چکا ہے.۱۶.ایک مرد خدا مصنفہ:.مسٹر آئن ایڈم سن آف برطانیہ صفحات: ۴۳۹ سن اشاعت:.اردو میں پہلی دفعہ اشاعت ۱۹۹۶ء میں ہوئی.
467 ناشر :.اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز اسلام آباد یو.کے.وجہ تالیف:.اس کتاب کے مصنف مسٹر آئن ایڈم من برطانیہ کے ایک مشہور صحافی ہیں اور متعدد کتب کے مصنف ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی انگلستان ہجرت کے معاً بعد مسٹر ایڈم سن کو حضور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.پہلی ملاقات میں ہی مسٹر ایڈم سن نے یہ فیصلہ کیا کہ حضور کے بارہ میں ایک کتاب لکھیں اور اسے اپنے طور پر شائع کر کے وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت کریں.چنانچہ حضور سے اجازت ملنے پر مسٹر ایڈ من سن نے اس کتاب پر کام شروع کر دیا اور دیگر مواد کے علاوہ حضور سے بھی متعد دانٹرویو کر کے حضور کی زندگی کے بارہ میں سوالات پوچھے.مسٹرایم سن عیسائی مذہب کے پیرو ہیں مگر حضور کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کتاب لکھتے وقت اپنے ذاتی عقائد کو پس پشت ڈال کر حضور کے خیالات اور نظریات کو نہایت عقیدت مندانہ انداز میں پیش کرنے میں انتہائی دیانتداری اور غیر جانبداری سے کام لیا.یہ کتاب انگریزی زبان میں A Man of" "God کے نام سے لکھی گئی تھی جو کہ تہیں ہزار کی تعداد میں شائع کی گئی.اس کا اردو ترجمہ مکرم پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب نے کیا.نفس مضمون :.اس کتاب میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے حالات زندگی اور پاکستان سے ہجرت کے واقعہ کی تفصیل لکھی گئی ہے.اس کتاب کے مطالعہ سے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی زندگی کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.۱۷.سیرۃ وسوانح حضرت اماں جان مصنفہ: مکرمہ پروفیسر سیدہ نیم سعید صاحبہ لاہور صفحات:.۸۱۵ سن اشاعت: مئی ۲۰۰۵ء ناشر: طبع اول مکرم طارق محمود پانی پتی صاحب طبع دوم مکرم موید ایاز صاحب زیرا انتظام لجنہ اماءاللہ لاہور نفس مضمون :.جیسا کہ اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے کہ اس کتاب میں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حرم حضرت مسیح موعود علیہ السلام المعروف حضرت اماں جان کی سیرت و سوانح پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے.اس کتاب کا مطالعہ ہر احمدی مردوزن کے لئے بہت ہی مفید ہو سکتا ہے بالخصوص احمدی خواتین کے
468 لئے ایک خاتون ہونے کے ناطے حضرت اماں جان کی سیرت و سوانح کا مطالعہ نہایت ضروری اور قابل تقلید ہے.بلکہ آپ کی مبارک زندگی احمدی خواتین کے لئے ایک آئیڈل خاتون سے کم نہیں ہے.لہذا ہر احمدی گھر میں اس کتاب کا ہونا ضروری ہے اور ہر احمدی خاتون کے لئے اس کا مطالعہ از بس ضروری ہے.۱۸.سیرت وسوانح سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه مصنفہ :.پروفیسرسیدہ نیم سعید صاحبہ لا ہور صفحات: ۲۷۴ سن اشاعت:.ناشر: شیخ طارق محمود پانی پتی زیر انتظام لجنہ اماءاللہ لاہور نفس مضمون :.یہ کتاب حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و سوانح پر مبنی ہے.یہ کتاب احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت ہی مفید ہے.لہذا تمام احمدی خواتین کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے.بالخصوص شادی سے قبل ہر بچی کو یہ کتاب پڑھانا نہایت ضروری ہے.۳۱۳ ۱۹.تین سو تیرہ اصحاب صدق وصفا مرتبہ: مکرم مولانا نصر اللہ خان ناصر صاحب مربی سلسلہ + مکرم عاصم جمالی صاحب صفحات: ۳۳۰ سن اشاعت:.ایڈیشن اول ۲۰۰۷ء ناشر: عبدالمنان کوثر صاحب زیرا نتظام مجلس انصار اللہ پاکستان نفس مضمون :.اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ابتدائی ۳۱۳ ایمان لانے والے صحابہ کرام کا مختصر تعارف کروایا گیا ہے.آنحضرت نے فرمایا تھا کہ اَصْحَابِي كَا النَّجومِ بِأَتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ.یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.تم میں سے جو بھی ان کی پیروی کرے گا وہ ہدایت پائے گا.پس آنحضرت کے اس ارشاد کی روشنی میں اس کتاب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کے نکتہ نظر سے بہت مفید ہے.
469 ۲۰.شیخ عجم اور آپ کے شاگرد مصنف:.حضرت سید میر مسعود احمد صاحب ابن حضرت سید میر محمد الحق صاحب صفحات : ۴۰۴ سن اشاعت: طبع اول ۲۰۰۳ء طبع دوم ۲۰۰۴ء طبع سوم ۲۰۰۵ء ناشر: مکرم عبدالمنان کوثر صاحب زیرا انتظام مجلس انصار اللہ پاکستان نفس مضمون:.یہ ایمان افروز کتاب جماعت احمدیہ کے دو ابتدائی علماء کرام اور صحابہ کرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہادتوں کے واقعات کی تفصیلات پر مبنی ہے.جن کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کو پہلے سے یہ الہام بھی ہوا تھا کہ شَاتَانِ تُذْبَحَان یعنی دو بکریاں زبح کی جائیں گی ان دو بکریوں سے مراد حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب شہید اول افغانستان اور دوسرے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کابل ہیں.جو رئیس اعظم خوست ملک افغانستان تھے.ان دونوں بزرگوں کو انتہائی دردناک طریق پر احمدیت قبول کرنے کی پاداش میں شہید کیا گیا.پس یہ کتاب ان دونوں بزرگوں کی شہادت پر مبنی واقعات پر مشتمل ہے.جن کا مطالعہ انتہائی رقت آمیز اور ایمان افروز ہے.۲۱.حیات قدسی مع برکات احمد یہ مصنف:.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی صفحات :.حصہ اول ۶۴ حصہ دوم ۹۶ حصہ سوم ۱۱۲ حصہ چہارم ۱۸۴ اور حصہ پنجم ۱۷۶ کل ۶۳۲ صفحات اشاعت:.حصہ اوّل ۲۰ جنوری ۱۹۵۱ء.حصہ دوم یکم ستمبر ۱۹۵۱ء.حصہ سوم جنوری ۱۹۵۴ء.حصہ چہارم اواخر ۱۹۵۴ء.حصہ پنجم ۲۰ مئی ۱۹۵۷ء میں شائع ہوا.ناشر :.حصہ اول، دوم باہتمام سیٹھ علی محمد اے الہ دین سکندر آباد حصہ سوم مکرم سیٹھ حد معین الدین صاحب چنت کنہ حیدر آباد.حصہ چہارم حکیم محمد عبداللطیف شاہد صاحب.حصہ پنجم.محمد عبداللہ صاحب سیکرٹری بہشتی مقبرہ قادیان نفس مضمون :.یہ کتاب حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی خود نوشت سوان عمر ی پر مبنی ہے.جو پانچ حصوں پر مشتمل ہے.
470 ا.پہلے حصہ میں حضرت مولوی صاحب کے خاندانی حالات اور عہد طفولیت اور قبولیت احمدیت کے بہت سے ایمان افروز واقعات پر شامل ہے.جو قارئین کے لئے از دیا دایمان کا باعث ہو سکتے ہیں.۲.دوسرے حصے کا نام المقالات القدسیہ ہے.جو آپ کی زندگی کے بہت سارے ایمان افروز واقعات پر مشتمل ہے.۳.تیسرے حصہ میں دعوت الی اللہ اور روحانی مذاکرات کا تذکرہ کیا گیا ہے.۴.چوتھے حصہ میں بھی حضرت مولانا کے تبلیغی دوروں اور ایمان افروز واقعات نیز قبولیت دعا کے واقعات درج ہیں.حضرت مولانا کی کئی نظمیں بھی درج ہیں.۵.حصہ پنجم حضرت مولا ناراجیکی صاحب کے علمی ، روحانی اور تبلیغی واقعات پر مبنی ہے.۲۲- تحدیث نعمت مصنف: حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب صفحات: ۷۵۱ آخری ایڈیشن سن اشاعت: - اشاعت اول ۱۹۷۱ء.اشاعت دوم دسمبر ۱۹۸۲ء.ناشر: مکرم اعجاز احمد صاحب - مکرم بشیر احمد صاحب نفس مضمون:.اس کتاب میں حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنے حالات زندگی قلمبند فرمائے ہیں.حضرت چوہدری صاحب ایک آئیڈل شخصیت کے حامل تھے.اس لئے ان کی زندگی کے حالات و واقعات ہر فرد بشر کے لئے راہنما اور قابل تقلید ہیں.خصوصاً وہ نوجوان جو ترقی پسند مزاج رکھتے ہیں.اس کتاب کا مطالعہ ان کے لئے بے حد مفید اور راہنمائی کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے.۲۳ ہستی باری تعالیٰ مصنف: سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ امسیح الثانی صفحات: ۱۹۰ سن اشاعت :.دسمبر ۱۹۲۴ طبع اول ناشر: فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ
471 نفس مضمون :.یہ حضرت مصلح موعودؓ کی ایک معرکتہ الآراء تقریر ہے جسے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے.جولوگ ہستی باری تعالیٰ کے متعلق اپنے دل میں کچھ شکوک وشبہات رکھتے ہیں ان کے لئے یہ کتاب بہت ہی راہنما اور مفید ہے.اس کتاب میں حضور نے بڑے ہی عمدہ عقلی نقلی دلائل سے ہستی باری تعالیٰ کو ثابت کیا ہے.۲۴.سیر روحانی مصقف :.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفه امسیح الثانی صفحات: ۸۰۶ سن اشاعت:.۲۰۰۵ء آخری ایڈیشن ناشر: فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ نفس مضمون :.یہ کتاب دراصل حضرت مصلح موعوددؓ کی بعض تقاریر کا مجموعہ ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۳۸ء تا ۱۹۵۸ء مختلف جلسہ ہائے سالانہ کے موقع پر ارشاد فرما ئیں.اس کتاب کی پہلی جلد ۱۹۳۸ء،۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۱ء کی تقاریر پرمشتمل ہے.ہے.تیسری جلد ۱۹۵۴۶۱۹۵۲ء تا ۱۹۵۸ء کی اب ان تینوں جلدوں کو فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ نے احباب جماعت کی سہولت کیلئے ایک ہی جلد میں دوسری جلد ۱۹۴۸ء،۱۹۵۰ ءاور ۱۹۵۱ ءولی تقارمشتمل ہے.شائع کر دیا ہے.حضرت مصلح موعود کی یہ تقاریر ” علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ کا بین ثبوت ہیں.ان تقاریر میں حضور کی سلطان البیانی کا بھی اظہار ہوتا ہے.اور یہ حقائق و معارف کے بیان کے ساتھ ساتھ عظیم المرتبت خطابت کا بھی شاہکار ہیں.ان پر کیف تقاریر کو پڑھ کر روح وجد میں آجاتی ہے.۲۵.دعوۃ الامیر مصنف :.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی صفحات: ۲۸۴ سن اشاعت:.پہلا ایڈیشن فارسی زبان میں شائع ہوا اس کے بعد متعد دا یڈیشن اردو میں شائع ہو چکے
472 ہیں.یہ ایڈیشن آٹھواں ہے.ناشر: الشركة الاسلامیہ لمیٹیڈر بوہ فس مضمون :.یہ کتاب حضرت مصلح موعودؓ نے امیر امان اللہ خان فرمانروائے افغانستان کے لئے اس زمانے میں بطور اتمام حجت بصورت مکتوبات تحریر فرمائی تھی.ے اس کتاب کا فارسی ترجمہ کروا کر امیر امان اللہ خان کو بھجوادیا گیا.یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن فارسی زبان میں ہی شائع کیا گیا تھا.بعد میں اردو زبان میں ۸ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.اس کتاب میں حضرت مصلح موعودؓ نے عقائد جماعت احمد یہ بیان فرماتے ہوئے معاندین سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تمام چیده و مایہ ناز اعتراضات کے ایسے مسکت اور تسلی بخش جوابات تحریر فرمائے ہیں جو حق پسند طالبان تحقیق کو مطمئن و مسرور اور معاندین کو مبہوت و مفرور بنا دینے والے ہیں اور نیز اس کتاب میں حضرت مسیح موعود کی صداقت پر بکثرت دلائل ساطعہ و براہین قاطعہ کے ساتھ ایسے دلکش و دل نشین پیرائے میں بالتفصیل بحث فرمائی گئی ہے جو آپ ہی اپنی نظیر ہے اس لحاظ سے یہ کتاب دعوت الی اللہ کے نکتہ نظر سے ایک خاص مقام اور اہمیت رکھتی ہے.پس یہ کتاب ہر احمدی کے نہ صرف گھر میں موجود ہونی چاہئے بلکہ ہر احمدی کو اس کتاب کا بار بار مطالعہ کرتے رہنا چاہئے.۲۶.الہام، عقل علم اور سچائی مصنف: حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ صفحات: ۶۲۵ سن اشاعت: - اردو تر جمہ ۲۰۰۷ء ناشر:.اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ اسلام آبادلندن نفس مضمون :.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی انگریزی زبان میں یہ معرکتہ الآراء اور عہد ساز کتاب "Revelation, Rationatity Knowledge and Truth" کا یہ اردو تر جمہ ہے اس کتاب کے مضامین کا اندازہ اس کتاب کے عنوان سے ہی بخوبی لگایا جاسکتا ہے.یہ تمام مضامین عصر حاضر میں یعنی مادیت کے دور میں بہت اہمیت اختیار کر چکے ہیں.اور لوگ دن بدن خدا تعالیٰ اور مذہب سے دور جارہے ہیں.اور ہستی باری تعالیٰ اور وحی والہام کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں.پس یہ کتاب مذہب کی ضرورت و اہمیت اور فلسفہ کو سمجھنے کے لئے ایک انتہائی مفید او قطعی ہے.ان مضامین کے متعلق کوئی اور کتاب اس کتاب کا مقابلہ نہیں کرسکتی.
473 ۲۷.اسلام اور عصر حاضر کے مسائل مصنف:.حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ صفحات: ۳۱۴ سن اشاعت: -English vrrsion ۲۰۰۵ء ناشر:.اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ اسلام آباد.یوں کے نفس مضمون:.یہ کتاب دراصل حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے انگریزی زبان میں Islam,s" "Response to Contemparary Issues کے عنوان سے لکھی تھی.جس کا اردو ترجمہ مکرم محمود احمد اشرف صاحب استاد جامعہ احمد یہ ربوہ نے عصر حاضر کے مسائل اور ان کا حل“ کے عنوان.کیا ہے.اس کتاب میں درج ذیل مضامین پر روشنی ڈالی گئی ہے.ا.مذاہب عالم کے مابین امن و آشتی اور ہم آہنگی.۲.معاشرتی امن.۳.معاشرتی اقتصادی امن.ނ ۴.اقتصادی امن.قومی اور بین الاقوامی سیاسی امن.۶.انفرادی امن.اس کتاب کے موضوع اور پھر مذکورہ بالا ذیلی عناوین سے اس کتاب کی اہمیت اور ضرورت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.۲۸.سلسلہ احمدیہ مصنفین :.جلد اول حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے جلد دوم و سوم مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب چائلڈ سپیشلت فضل عمر ہسپتال ربوہ صفحات:.جلد اول.۴۴۲.جلد دوم ۷۱۴.جلد سوم کل صفحات سن اشاعت :.جلد اول کا پہلا ایڈیشن دسمبر ۱۹۳۹ء میں.جلد دوم طبع اول ۲۰۰۸ء میں جلد سوم ابھی
474 زیر طبع ہے.امید ہے اس کتاب کی اشاعت تک یہ جلد بھی شائع ہو جائے گی.ناشر:.حصہ اول - نظارت تعلیم و تصنیف و قادیان.جلد دوم وسوم نظارت اشاعت ربوہ نفس مضمون :.اس عظیم الشان کتاب کی جلد اول حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے ۱۹۳۹ء میں خلافت ثانیہ کی سلور اور سلسلہ احمدیہ کے قیام کی گولڈن جوبلی کے موقع پر تصنیف فرمائی.جس میں ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء تا نومبر ۱۹۳۹ء سلسلہ عالیہ احمدیہ کی پچاس سالہ مختصر تاریخ رقم فرمائی گئی ہے.نیز جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قیام کی غرض وغایت اور سلسلہ عالیہ احمد یہ کے مستقبل کے متعلق سیر حاصل بحث کی گئی ہے.یہ جلد جماعت احمدیہ کے عقائد اور نظام جماعت کا تعارف حاصل کرنے کے لحاظ سے بے مثال کتاب ہے.سلسلہ احمدیہ کی جلد دوم و سوم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی منصوبہ کے تحت تصنیف کی ہیں.جلد دوم ۱۹۴۰ ء سے ۱۹۲۵ ء تک حضرت خلیفہ لمسیح الثانی کی وفات اور خلافت ثالثہ کے انتخاب تک کے اہم حالات و واقعات کی تفصیل پر مبنی ہے.جبکہ اس کتاب کی جلد سوم ۱۹۶۵ء تا ۱۹۸۲ء یعنی حضرت خلیفۃ مسیح الثالث کی وفات تک کے اہم حالات و واقعات پر مشتمل ہے.جس میں پہلی دفعہ ۱۹۷۴ء کی اینٹی احمد یہ تحریک کا پس منظر اور اس کے نتائج واثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے.نیز ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی کی کارروائی پر مفصل بحث کی گئی ہے.اور جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کے پس منظر میں اصل حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے.اس نکتہ نظر سے یہ کتاب بے حد مفید اور معلومات سے پُر ہے.۲۹ - مضامین بشیر جلد اول مرتبہ :.مکرم صاحبزادہ مرزا عدیل احمد صاحب صفحات: ۶۷۱ سن اشاعت: طبع اول ۲۰۰۷ء ناشر:.قائد اشاعت مجلس انصاراللہ پاکستان ربوہ نفس مضمون :.اس کتاب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کے ۱۹۱۳ء سے ۱۹۴۵ ء تک کے تمام تعلیمی و تربیتی مضامین کو یکجائی صورت میں شائع کیا گیا ہے.
475 یہ مضامین حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کے قلمی شاہکار ہیں.آپ کا اسلوب تحریر انتہائی سادہ مگر دلکش اور عام فہم ہوتا تھا.جیسا کہ ان مضامین کے مطالعہ سے ظاہر ہے.اور آپ کی دیگر تصنیفات اس پر گواہ ہیں.پس یہ کتاب تعلیمی وتربیتی نکتہ نظر سے بہت دلچسپ اور مفید ہے.۳۰ تبلیغ ہدایت مصنف:.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے صفحات: - ۲۹۹ آخری ایڈیشن سن اشاعت: طبع اوّل مورخه ۲۳ دسمبر ۱۹۲۲ء ناشر :- نظارت اشاعت ربوہ پاکستان نفس مضمون :.دعوت الی اللہ کے نکتہ نظر سے یہ کتاب بہت ہی مفید ہے.ہزاروں لوگ اس کتاب کو پڑھ کر احمد بیت کے نور سے فیض یاب ہوئے ہیں.اس کتاب میں اسلام میں مجددین کا سلسلہ، باوجود تعلیم مکمل ہونے کے مصلحوں کی ضرورت باقی ہے، آخری زمانہ میں خطرناک فتنوں کی پیشگوئی اور ان کا علاج ، حضرت مرزا صاحب کا دعوی، کسی مدعی کے دعوی کو جانچنے کا طریق، نزول مسیح اور ظہور امام مہدی ومسیح موعود کی علامات، مسیح موعود کے کام مسیح و مہدی کی علامات پر ایک اصولی نظر اور حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ نبوت جیسے اہم مضامین پر بڑی خوبصورتی اور عمدگی سے قرآن و حدیث کی رو سے روشنی ڈالی گئی ہے.پس یہ کتاب دعوت الی اللہ کے لئے بہت ہی عمدہ نتیجہ خیز او نفع رساں اور مفید ہے.۳۱.مضامین حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسمعیل صاحب مرتبہ: محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ کراچی صفحات:.جلد اول ۷۲۰ + جلد دوم ۵۵۹ کل صفحات : - ۱۲۸۹ سن اشاعت:.ناشر:.شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ کراچی
476 نفس مضمون :.یہ کتاب دراصل حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے جماعتی اخبارات ورسائل میں شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے.جلد اول میں حضرت ڈاکر سید میر محمد اسمعیل صاحب کے مختصر سیرت و سوانح ، حضرت ڈاکٹر صاحب کے متعلق بزرگان سلسلہ کے تاثرات اور آپ سے محبت و عقیدت پر مبنی منظوم کلام کے علاوہ درج ذیل موضوعات کے متعلق ۲۲۳ مضامین شامل کئے گئے ہیں.۱.توحید و اسلام پر ۱۰ مضامین، قرآن مجید کے تعلق میں ۳۴ مضامین ، آنحضرت کی سیرت طیبہ پر مبنی ۱۴۷ مضامین ، حضرت مسیح موعود کی سیرت طیبہ اور خاندان مسیح موعود سے متعلق ۸ مضامین، حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے متعلق ۲ مضامین نیز ۲۲ متفرق تعلیمی وتربیتی موضوعات پر مضامین شامل ہیں.اسی طرح جلد دوم میں ۴۴۷ مختلف علمی و تربیتی مضامین شامل کئے ہیں.نیز ۲۵.اہم علمی سوالات کے جوابات پر جو آپ نے مختلف مواقع پر دیئے یا مختلف جماعتی اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے اس میں شامل کئے گئے ہیں.اور اس جلد کے آخر پر حضرت خواجہ میر درد صاحب اور حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کا شجرہ نسب کا ذکر کیا گیا ہے.نیز اس باب میں آپ کی اولاد کی تفصیل اور آپ کی شائع شدہ کتب کا تعارف کروایا گیا ہے.پس یہ کتاب علمی، تربیتی ، اصلاحی، روحانی اور دینی لحاظ سے بہت مفید ہے اور ایک قلمی شاہکار ہے.۳۲.پاکٹ بک نام مصنف: مکرم ملک عبد الرحمن خادم صاحب بی.اے.ایل.ایل.بی.ایڈووکیٹ تعداد صفحات: ۷۵۱ آخری ایڈیشن سن اشاعت:.ایڈیشن اول دسمبر ۱۹۴۵ء.ایڈیشن دوم ۲۰ دسمبر ۱۹۵۲ء ناشر: صیغہ نشر واشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان نفس مضمون : دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں یہ ایک بہت ہی مفید کتاب ہے.در حقیقت یہ ایک مذہبی انسائیکلو پیڈیا ہے یعنی مکمل تبلیغی پاکٹ بک ہے جس میں تقریباً تمام اختلافی نوعیت کے مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے.خواہ ان مسائل کا تعلق غیر احمدی مسلمانوں سے ہے یا دیگر مذاہب مثلاً ہندوازم، عیسائیت، سکھ ازم اور بابی یا بہائی وغیرہ.اس کتاب میں عمومی طور پر درج ذیل مضامین پر روشنی ڈالی گئی ہے.ا.ہستی بار تعالیٰ کے حق میں دلائل.
477 ۲.دہریوں کے اعتراضات کے جوابات.۳.اسلام اور ویدک دھرم.۴.عیسائیت.۵- صداقت حضرت مسیح موعود از روئے بائبل.۶.سکھ ازم.بابی یا بہائی مذاہب.ے.شیعہ مذہب.وفات مسیح ناصری از روئے قرآن و احادیث اور اقوال بزرگان امت کی رو سے.۹ - تردید حیات مسیح ناصری.۱۰.مسئلہ امکان نبوت.ا.آنحضرت کے بعد مسئلہ وحی والہام کا جاری رہنا.۱۲.صداقت حضرت مسیح موعود از روئے قرآن، احادیث و دیگر عقلی ونقلی دلائل کی رو سے.۱۳.حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات.۱۴.حضرت مسیح موعود کی تحریرات پر اعتراضات کے جوابات.۱۵.حضرت مسیح موعود کی ذات پر اعتراضات کے جوابات.۱۶.احراریات.۱۷.حضرات انبیاء یھم پر غیر احمدی علماء کے بہتانات.۱۸.چار سوال اہل پیغام سے (لاہوریوں سے ).۱۹.حضرت مسیح موعود کی نبوت کے حق میں ثبوت از روئے قرآن ، احادیث و اقوال بزرگان امت.۲۰.حضرت مسیح موعود کی کتب سے چند اقتباسات.۳۳.احمدی تعلیمی پاکٹ بک مصنف:.حضرت قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائکپوری صفحات:.حصہ اول ۴۴۸.حصہ دوم - ۶۱۴ کل صفحات : ۱۰۶۲
478 سن اشاعت:.حصہ اوّل مارچ ۱۹۷۰ ء.حصہ دوم ۲۴ دسمبر ۱۹۷۰ء ناشر: مهتم نشر و اشاعت نظارت اصلاح وارشادصدرانجمن احمد یہ پاکستان.ربوہ نفس مضمون:.یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے.پہلے حصہ میں درج ذیل تین مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گی ہے اور ان مسائل سے متعلق اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں.ا.مسئلہ وفات و حیات مسیح ناصری علیہ السلام.مسئلہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام.۲.مسئلہ نبوت.اس کتاب کے دوسرے حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں، الہامات تحریرات اور آپ کی ذات سے متعلق تمام اعتراضات کے قرآن و حدیث اور کتب بزرگان امت کی روشنی میں بڑے ہی عمدہ جوابات دیئے گئے ہیں.اس کتاب کا مطالعہ داعیان الی اللہ کے لئے بہت ہی نفع رساں اور مفید ثابت ہوسکتا ہے.۳۴ - تفہیمات ربانیہ مرتبہ:.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ( مرحوم و مغفور ) تعداد صفحات: ۸۱۶ آخری ایڈیشن سن اشاعت: طبع اول دسمبر ۱۹۳۰ء بار دوم دسمبر ۱۹۶۴ء ناشر: مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب (امام بیت الفضل لندن ) وجہ تالیف: علماء دیوبند کی اعانت سے منشی محمد یعقوب صاحب پٹیالوی نے عشرہ کاملہ نامی کتاب اس دعوی کے ساتھ شائع کی تھی کہ وہ ایک لاجواب کتاب ہے.اسی بناء پر منشی صاحب موصوف نے اس کے جواب دینے والے کیلئے ایک ہزار روپیہ انعام کا بھی اعلان کیا تھا.چنانچہ اس کتاب کے جواب میں یہ کتاب لکھی گئی.نفس مضمون : اللہ تعالیٰ کے فضل سے عشرہ کاملہ اور تحقیق لاثانی و غیر ما کے جواب میں تفہیمات ربانیہ ایک جامع تصنیف ثابت ہوئی.اس میں مخالفین کے ہر اعتراض کا جواب دیا گیا ہے.مخالفین میں سے کسی کو آج تک جرات نہیں ہوئی کہ اس کتاب کا جواب لکھتا.سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے اس کتاب کے متعلق اس کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت پر جلسہ سالانہ ۱۹۳۰ء کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.اس کا نام میں نے تفہیمات ربانیہ رکھا ہے.(طباعت سے پہلے ) اس کا ایک حصہ میں نے پڑھا ہے
479 جو بہت اچھا تھا.اس کتاب کے لئے کئی سال سے مطالبہ ہو رہا تھا.کئی دوستوں نے بتایا کہ عشرہ کاملہ میں ایسا مواد ہے کہ جس کا جواب ضروری ہے.اب خدا کے فضل سے اس کے جواب میں اعلیٰ لٹریچر تیار ہوا ہے.دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کی اشاعت کرنی چاہئے.“ (الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۳۱ء) ۳۵ تحقیق عارفانه مصنف:.حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ صفحات:.۶۹۹ آخری ایڈیشن سن اشاعت: ۱۵ نومبر ۱۹۶۴ء ناشر :.صیغہ نشر واشاعت نظارت اصلاح وارشا در بوه وجہ تصنیف:.ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کیملپوری نے جماعت احمدیہ کے خلاف اک حرف محرمانہ کے نام سے ایک کتاب شائع کی تھی.اس کتاب کے جواب میں حضرت قاضی صاحب نے یہ کتاب بعنوان : تحقیق عارفہ تصنیف فرمائی.نفس مضمون :.اس کتاب میں جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے تمام اختلافی مسائل از قسم مسئله نبوت، وفات و حیات مسیح، ظهور امام مہدی اور مسئلہ وحی والہام پر روشنی ڈالی ہے.اور ان مسائل کے تعلق میں اک حرف محرمانہ میں تحریر کردہ تمام اعتراضات کے مبسوط اور مسکت جوابات تحریر فرمائے ہیں.اسی طرح اک حرف محرمانہ میں حضرت مسیح موعود کی تحریرات اور ذات کے حوالے سے کئے گئے تمام اعتراضات کے بہت ہی عمدہ رنگ میں قرآن و حدیث اور کتب بزرگان امت کی روشنی میں جوابات لکھے ہیں.اور اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ اس کتاب کا نام ” حرف محرمانہ کی بجائے ” حرف مجرمانہ زیادہ درست معلوم ہوتا ہے.بلکہ یہ کتاب اس نام کی مصداق ہے.لہذا اس کتاب کا مطالعہ داعیان الی اللہ کے لئے بہت راہنما اور مفید ثابت ہوسکتا ہے.
480 ۳۶.خلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات مصنف: مکرم مولانا عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر روز نامہ الفضل ربوہ صفحات : ۵۹۶ سن اشاعت : ۲۰۰۸ء ناشر:.خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی کمیٹی نفس مضمون:.یہ کتاب خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کی مناسبت سے تالیف کی گئی ہے.جس میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تمام خلفاء کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات پر روشنی ڈالی گئی ہے.یہ بہت ہی عمدہ اور ایمان افروز کتاب ہے.جس کا ہر گھر میں موجود ہونا ضروری ہے نیز ہر احمدی کے لئے اس کا مطالعہ بہت ضروری اور مفید ہے.۳۷.حضرت مسیح موعود کے چیلنج اور ردعمل ونتائج واثرات مرتبہ مبشر احمد خالد مربی سلسله ( خاکسار مؤلف کتاب هذا ) تعداد صفحات : ۴۱۸ سن اشاعت:.مارچ ۲۰۰۸ء ناشر:.حافظ عبدالحمید صاحب نفس مضمون :.دراصل یہ ایک انعام یافتہ مقالہ ہے جو فضل عمر فاؤنڈیشن کی انعامی سکیم کے تحت لکھا گیا اور انعام یافتہ قرار دیا گیا.اس مقالہ میں حضرت مسیح موعود کے مخالفین و معاندین کو دیئے گئے تمام علمی وروحانی چیلنج مختلف موضوعات کے تحت یکجا کر دیئے گئے ہیں.نیز جن چیلنجز کا مخالفین کی طرف سے کوئی رد عمل ظاہر ہوا اس کی تفصیل اور ان کے نتائج واثرات کو تحریر کر دیا گیا ہے.علم کلام اور دعوت الی اللہ کے نکتہ نظر سے یہ مقالہ بہت مفید ہے.اس مقالہ میں جملہ چیلنجوں کو درج ذیل ترتیب دی گئی ہے.
481 ذیلی عناوین.حصہ اوّل علمی چیلنج :.ا.وفات وحیات مسیح.۲.کتب نویسی.تفسیر نویسی.۴.کسوف وکوف کا نشان.۵.افترای علی اللہ.- قرآن کریم اور دیگر آسمانی کتب کا موازنہ.ے.عربی دانی..دیگر متفرق علمی چیلنج.حصہ دوم.روحانی چیلنج: ا.حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں.۲.نشان نمائی.۳.استجابت دعا.۴.مباہلہ.۵.دیگر متفرق روحانی چیلنج.۳۸.نظام خلافت اور خلافت احمدیہ کے سو سال مرتبہ: مبشر احمد خالد مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ (خاکسار مؤلف کتاب ہذا) صفحات: ۴۶۶ سن اشاعت:.دسمبر ۲۰۰۸ء ناشران : مکرم محمد احمد و مکرم محمد احسن (پسران چوہدری مختار احمد صاحب مرحوم ) مقیم جرمنی نفس مضمون :.جماعت احمد یہ عالمگیر نے ۲۰۰۸ء کو خلافت احمدیہ کے نو سال مکمل ہونے پر اللہ تعالیٰ
482 کے حضور شکرانہ ادا کرتے ہوئے اس سال کو مکمل دینی اور روحانی جوش و جذبہ سے منایا.اور اس سال جماعت نے بعض عظیم الشان تعلیمی وتربیتی پروگرام ترتیب دیئے.چنانچہ اسی پس منظر کے تحت یہ کتاب تحریر کی گئی جس میں نظام خلافت کے تقریباً تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے.مثلاً خلافت کے لغوی اور اصطلاحی معانی، خلافت کی اقسام، خلافت کے قیام کے اغراض و مقاصد ، خلافت کے قیام کی ضرورت واہمیت، خلافت کی برکات ، خلافت راشدہ کے قیام کا پس منظر اور اس کی مختصر تاریخ، خلفاء سلسلہ احمدیہ کے مختصر سوانح اور خلفاء خمسہ کے ادوار کے شیریں ثمرات ، خلافت احمدیہ کے نوا سالہ شیریں ثمرات پر طائرانہ نظر، جماعت احمدیہ میں فتنہ خلافت کی تاریخ، قواعد انتخاب خلافت ، خلافت سے دستبرداری اور معزولی ، خلافت شخصی یا انجمن، اور خلافت کے متعلق اہم سوالات کے جوابات نیز خلافت احمد یہ کے قیام کے متعلق سوالات کے جوابات ، خلافت کی برکات پر بنی، انظمیں اور آخر پر خلافت کی حفاظت کا عظیم الشان عہد جیسے مضامین پر اس کتاب میں روشنی ڈالی گئی ہے.الغرض یہ کتاب نظام خلافت سے متعلق تمام پہلوؤں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے.گو یا خلافت احمدیہ کا ایک چھوٹا سا انسائیکلو پیڈیا ہے.لہذا اس کتاب کا مطالعہ بھی احباب جماعت کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے.
483 جماعت احمدیہ کے مرکزی اخبارات ورسائل کا تعارف جماعت احمدیہ کے پہلے جلیل القدر صحافی حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اپنے اخبار الحکم کے پہلے شمارے میں صحافت کی اہمیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : اخبار ہی ایک ایسی شے ہے جو ملک اور اہل ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے.بشرطیکہ مناسب اور موزوں ( الحکم ۱/۸ کتوبر ۱۸۹۷ء ص ۲) طریق پر اس سے کام لیا جائے“.جماعت احمدیہ کے سب سے پہلے اخبار ”الحکم“ کا اجراء جماعت احمدیہ کے قیام پر آٹھ برس ہو رہے تھے اور ابھی تک جماعت اپنے اخبار سے محروم تھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مخلصین کو ایک عرصہ سے اس کا احساس تھا لیکن اقتصادی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے.آخر ایک لمبی کشمکش کے بعد اس سال کے آخر میں جماعت کے ایک باہمت اور پر جوش نو جوان حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کو ( جو اس وقت امرتسر میں رہتے تھے اور ایک کامیاب صحافی کی حیثیت سے ادبی حلقوں میں ان کے زور قلم کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی ) اس طرف پر زور تحریک ہوئی جس پر انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا.حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے اس عریضہ کا جواب دیا.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ”ہم کو اس بارہ میں تجربہ نہیں.اخبار کی ضرورت تو ہے مگر ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے.مالی بوجھ برداشت نہیں کر سکتی.آپ اپنے تجربہ کی بناء پر جاری کر سکتے ہیں تو کر لیں اللہ تعالیٰ مبارک کرے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب اس وقت بالکل تہی دست تھے.دوسری طرف آپ کے بعض دوست آپ کو سرکاری ملازمت میں لانے پر مصر تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کی دستگیری فرمائی اور الحکم“ جیسا بلند پایہ ہفت روزہ اخبار جاری کرنے میں کامیاب ہو گئے.66 اخبار ”الحکم کا پہلا پرچہ ۸/اکتوبر ۱۸۹۷ء کو شائع ہوا.یہ اخبار۱۸۹۷ء کے آخر تک ریاض ہند پریس امرتسر میں چھپتا اور امرتسر ہی سے شائع ہوتا تھا.مگر ۱۸۹۸ء کے آغاز میں یہ مرکز احمدیت میں منتقل ہو گیا.اور چند برسوں کے وقفہ کے ساتھ جولائی ۱۹۴۳ ء تک جاری رہا.الحکم کے دور ثانی میں زمام ادارت ان کے فرزند جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مجاہد مصر نے نہایت عمدہ رنگ میں سنبھال لی اور احکام کو اپنی زندگی کے آخری
لمحات تک زندہ رکھا.484 الحکم کے ابتدائی حالات کے بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب لکھتے ہیں.اگست ۱۸۹۷ء کو ہنری مارٹن کلارک نے ایک نالش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کر دی.میں نے اس مقدمہ کے حالات دوسرے جنگ مقدس کے نام سے لکھے.اس وقت مجھے سلسلہ کی ضروریات کے اعلان اور اظہار کے لئے اور اس پر جو اعتراضات پولٹیکل اور مذہبی پہلو سے کئے جاتے تھے ان کے جوابات کے لئے ایک اخبار کی ضرورت محسوس ہوئی.چنانچہ اکتوبر ۱۸۹۷ء میں الحکم جاری کر دیا.اس وقت گورنمنٹ پریس کے خلاف تھی اور موجودہ پریس ایکٹ اس وقت بھی قریب تھا کہ پاس ہو جاتا.تاہم ان مشکلات میں میں نے خدا پر بھروسہ کر کے امرتسر سے اخبار الحکم جاری کر دیا ۱۸۹۷ء کے آخر میں روزانہ پیسہ اخبار کے مکر را جراء کی تجویز ہو چکی تھی اور منشی محبوب عالم صاحب کی خواہش کے موافق میں نے پیسہ اخبار کے ایڈیٹوریل سٹاف میں جانا منظور کر لیا تھا.میرا خیال تھا کہ الحکم ہیڈ کوارٹر لا ہور بدل دینا چاہئے.اور محض اس خیال سے میں نے پیسہ اخبار کے ساتھ تعلق کرنا گوارا کر لیا تھا.مگر ۱۸۹۷ء کے دسمبر میں جب جلسہ سالانہ پر قادیان آیا تو یہاں ایک مدرسہ کے اجراء کی تجویز ہوئی اور اس کے لئے خدمات کے سوال پر میں نے اپنی خدمات پیش کر دیں اور اس طرح قدرت نے مجھے دیار محبوب میں پہنچا دیا.الحکم کے اجراء کے وقت مجھے بہت ڈرایا گیا تھا کہ مذہبی مذاق کم ہو چکا ہے اور احمدیت کے ساتھ عام دشمنی پھیل چکی ہے اس لئے الحکم کا میاب نہ قادیان میں ایڈیٹر الحکم جنوری ۱۸۹۸ء میں آ گیا اور پیسہ اخبار کے ساتھ جو جدید تعلق پیدا کرلیا گیا ہوگا.تھا اسے اور لاہور کے دیگر منافع کو قادیان پر قربان کر دیا اور الحمداللہ میں اس سودے میں نفع مند ہوں..قادیان میں اس وقت پریس کی سخت تکالیف تھیں.نہ پریس ملتا تھا نہ گل کش اور نہ کا تب اور نہ یہ لوگ قادیان آ کر رہنا چاہتے تھے.تاہم ایڈیٹر الحکم ان مشکلات کا مقابلہ کرتارہا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کو قدرت نے زود نویسی کا زبردست جو ہر ودیعت کر رکھا تھا جسے حضرت مسیح موعود کے فیض صحبت نے چار چاند لگا دیئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خواہ دربار شام میں ارشاد فرماتے یا سیر میں چلتے ہوئے گفتگو فرماتے آپ حضور کے ان ملفوظات وارشادات کو کمال برقی رفتاری سے قلمبند کر کے فوراً احکام میں شائع کر دیتے.الحکم کے ذریعہ سے حضور کی تازہ بتازہ وحی کی اشاعت کا بھی اس میں خاص اہتمام ہو گیا.اسی طرح مرکز کے کوائف اور بزرگان سلسلہ بلکہ سید نا حضرت مسیح موعود کے گراں قدر مضامین بھی چھپنے لگے.اور جماعت کے احباب گھر بیٹھے حضرت مسیح موعوڈ کے روحانی مائدہ سے لطف اندوز ہونے لگے.اس طرح یہ اخبار حضرت مسیح موعود کی کتب.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا مستند ترین ذخیرہ اور
485 جماعت کے ایک نئے دور کا سنگ میل بن گیا.۱۹۰۱ ء تک اخبار ” الحکم“ نے یہ بے مثال خدمت تنہا سرانجام دی.جو ایک غیر معمولی بات ہے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت کلمات اور الہامات مقدس کی نشر و اشاعت کی مقدس امانت کے اٹھانے میں اخبار البدر بھی شامل ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام الحکم اور بدر کو جماعت کے دو بازو کہ کر یاد فرمایا کرتے تے تے تھے.۱۹۳۴ء میں الحکم دوبارہ اجراء پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خاص طور پر ایک پیغام دیا.جس میں تحریر فرمایا.الحکم سلسلہ کا سب سے پہلا اخبار ہے.اور جو موقعہ خدمت کا اسے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری زمانہ میں بدر کو ملا ہے.وہ کروڑوں روپیہ خرچ کر کے بھی اور کسی اخبار کو نہیں مل سکتا.میں کہتا ہوں کہ الحکم اپنی ظاہری صورت میں زندہ رہے یا نہ رہے لیکن اس کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ 66 ہے.سلسلہ کا کوئی مہتم بالشان کام اس کا ذکر کئے بغیر نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تاریخ سلسلہ کا حامل ہے.“ ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر ا ص ۶۴۱ تا ۶۲۴۳ نیا ایڈیشن) اخبار ” البدر“ کا اجراء اس وقت تک مرکز سے صرف ایک اخبار الحکم“ شائع ہوتا تھا لیکن اس سال با بومحمد افضل صاحب آف مشرقی افریقہ اور ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر کی کوشش سے ۳۱ اکتو بر ۱۹۰۲ء سے دوسرا ہفت روزہ ”البدر کے نام سے جاری ہو گیا جس کا پہلا نمونہ کا پرچہ القادیان کے نام سے چھپا مگر اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے اس کا نام ” البدر تجویز فرمایا اور اس کے اجراء کی اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”ہماری طرف سے اجازت ہے خواہ آپ ایک سوپر چہ جاری کریں شاید اللہ تعالیٰ اس میں ہی برکت دے دے.“ البدر‘ کے مالک و مدیر محمد افضل صاحب اور مینجر منشی فیض عالم صاحب صابر تھے.محمد افضل صاحب موصوف نہایت اخلاص سے ادارت کی ذمہ داری ادا کر رہے تھے کہ ۲۱ مارچ ۱۹۰۵ء کو اچانک انتقال کر گئے.جس پر اخبار میاں معراج الدین صاحب عمر نے خرید لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مفتی محمد صادق صاحب کو جو ان دنوں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اخبار ” البدر کا ایڈیٹر مقررفرمایا اور ۳۰ مارچ ۱۹۰۵ء کو ایک خاص اعلان کے ذریعہ سے جماعت کو اطلاع دی کہ میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ منشی محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الہی سے فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آ گیا ہے یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن جوان صالح اور ہر ایک طور سے لائق جن کی خوبیوں کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی قائم
486 مقام منشی محمد افضل مرحوم ہو گئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا.خدا تعالیٰ یہ کام ان کے لئے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.آمین ثم آمین.حضرت اقدس کی یہ فراست حرف بحرف صحیح نکلی اور حضرت مفتی صاحب رضی اللہ عنہ کے زمام ادارت سنبھالتے ہی سچ مچ اخبار کی قسمت جاگ اٹھی اور اس کا نام اور دو پر چوں کے بعد تفاؤل کے طور پر بدر رکھا گیا.بدر دسمبر ۱۳ء تک باقاعدگی سے نکلتا رہا اور پھر بند ہو گیا.قریباً چالیس برس کے وقفہ کے بعد ۷/ مارچ ۱۹۵۳ء کو درویشان قادیان کی ہمت سے دوبارہ اس کا احیاء عمل میں آیا.موجودہ دور جدید میں اس کے پہلے ایڈیٹر مولوی برکات احمد صاحب را جیکی مقرر ہوئے.بعدہ یہ اخبار قادیان سے مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری کی ادارت میں شائع ہوتا رہا.( تاریخ وفات مولانامحمد حفیظ صاحب ۵ نومبر ۱۹۸۷ء) یہ اخبار اب بھی قادیان سے شائع ہورہا ہے.اخبار ” البدر بدر کی شاندار خدمات و اخبار الحکم کی طرح اخبار البدر" اور "بدر" نے بھی مسیح پاک علیہ السلام کے تازہ الہامات و ملفوظات، اکابر سلسلہ کے مضامین اور مرکزی خبروں کے بروقت جماعت تک پہنچانے میں شاندار خدمت سرانجام دی ہیں اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک باز والحکم کو اور دوسرا اسے قرار دیا کرتے اور فرمایا کرتے تھے یہ اخبار انکم و بدر ہمارے دو بازو ہیں.الہامات کو فور املکوں میں شائع کرتے ہیں اور گواہ بنتے ہیں.خلافت اولی کے زمانہ میں اس اخبار کو یہ بھاری خصوصیت بھی حاصل ہوئی کہ اس میں حضرت خلیفہ اسی الاول کا درس قرآن اور درس بخاری اور آپ کی ڈائری بھی ” کلام امیر" کے نام سے الگ الگ ضمیمہ کی شکل میں شائع تاریخ احمدیت جلد نمبر ۲ ص ۲۲۲٬۲۲۱ نیا ایڈیشن) ہوتی تھی.وو ریویو آف ریلیجز ( اردو اور انگریزی ) کا اجراء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے (۱۹۰۱ء) میں جس رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی تجویز فرمائی تھی وہ مولوی محمد علی صاحب کی ادارت میں انگریزی اور اردو ہر دو زبان میں جنوری ۱۹۰۲ء سے جاری ہو گیا.66 انگریزی رسالہ تو ابتداء سے کچھ عرصہ تک لاہور میں ہی شائع ہوتا رہامگر اردو ایڈیشن کا پہلا پر چہل ہور کے مطبع
487 فیض عام لاہور میں چھپا.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب تراب کے انوار احمد یہ پریس قادیان میں طبع ہونے لگا.وو ریویو کا اندرون ملک اور مغربی ممالک پر اثر شروع شروع میں رسالہ کے اکثر اردو مضامین حضور ہی کے لکھے ہوتے تھے اور بعض مضامین کے متعلق نوٹ لکھا کے راہنمائی فرماتے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی روحانی توجہ کی بدولت رسالہ کو اندرون ملک میں ہی نہیں مغربی ممالک میں بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی.اندرون ملک میں پہلے ہی سال اس سے متاثر ہو کر کئی سعید روحوں نے حق قبول کیا بلکہ مدراس کے ایک ہندو دوست رسالہ کا اپنی زبان میں ترجمہ سن کر حضرت اقدس کی زیارت کے شوق میں قادیان بھی پہنچے.علاوہ ازیں ملک کے اسلامی اخبارات نے اس پر تبصرے لکھے چنانچہ رسالہ ”البیان (لکھنو ) نے لکھا:.ریویو آف ریلیجنز ہی ایک ایسا پرچہ ہے جس کو خالص اسلامی پر چہ کہنا صحیح ہے.ہم نے اس کے کئی نمبر دیکھے اور ہم کو اس امر کے ظاہر کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ عربی میں ” المنار“ اور اردو میں ریویو آف ریلیچر سے بہتر پرچے کسی زبان میں شائع نہیں ہوتے مسلمانوں کو خوش ہونا چاہئے کہ ہندوستان میں ایک ایسا 66 رسالہ نکل رہا ہے جس کے زور دار مضامین پر علم وفضل کو ناز ہے.“ پھر لکھا کہ : ”ہندوستان کا بہترین اسلامی میگزین ہے“.رسائل کے علاوہ عوام نے بھی اس رسالہ کا بڑا خیر مقدم کیا.چنانچہ مٹر میبلین ( پالم پور ) نے لکھا:.مجھے 66 اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے تیرہ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مگر اب تک میں نے ایک بھی ایسی کتاب نہیں پڑھی جس میں اسلام کی حمایت اس قدر زور کے ساتھ کی گئی ہو جیسا کہ آپ کے شاندار پرچے ہیں.“ اخبار ”ملت‘ لاہور نے لکھا:.اب تک جتنے اعلیٰ اور بے نظیر مضامین رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ذریعہ مرزا صاحب کے اصول مناظرہ کے مطابق یوروپین لوگوں کی نظروں سے گزرے ہیں انہوں نے یورپ کی مذہبی دنیا میں ہلچل مچادی ہے اور پادریوں کے گروہ ماتم زدہ نظر آ رہے ہیں.ان مضامین نے کثیر التعداد یورپین لوگوں کو اسلام کے روحانی چشمہ سے سیراب کر دیا ہے اور ابھی اس کا فیض جاری ہے.“ مغربی ملکوں میں جن تک اسلام کی آواز پہنچانے کے لئے یہ رسالہ جاری ہوا تھا تین رنگ میں اس کا اثر ظاہر ہوا پہلا اثر یہ ہوا کہ یورپ اور امریکہ کے نو مسلم انگریزوں میں اسلام کے لئے نیا جوش اور نیاولولہ پیدا کیا.
488 اور قبل ازیں جو اپنے تئیں تنہا سمجھے بیٹھے تھے اب دلائل و براہین کی تازہ کمک پہنچنے پر ان کے حوصلے ریکا یک بلند ہو گئے اور انہوں نے اشاعت اسلام کی مہم تیز تر کر دی.اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لئے ذیل میں چند نو مسلموں کی آراء درج کی جاتی ہیں.ا.اخبار "کریسنٹ اور پول) انگلستان کے مشہور اسلامی پر چہ نے اس رسالہ پر ریویو کرتے ہوئے ۱۳ ستمبر ۱۹۰۳ء کے ایشوع میں لکھا.ریویو آف ریچن کا پرچہ دلچسپ مضامین سے بھرا ہوا ہے.ہمارے نبی ﷺ کی ذات پاک کے متعلق جو جاہل عیسائی الزام لگایا کرتے ہیں ان کی تردید میں ایک نہایت ہی فاضلانہ مضمون اس میں لکھا گیا ہے جس سے عمدہ مضمون آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرا.( ترجمہ ) ۲.امریکہ کے پہلے نو مسلم محمد الگزنڈ رسل وب (امریکہ ) نے لکھا:.میں یقین کرتا ہوں کہ یہ رسالہ دنیا میں مذہبی خیال کو ایک خاص صورت دینے کے لئے ایک نہایت زبر دست طاقت ہوگی اور یہ بھی یقین کرتا ہوں کہ آخر کار یہی رسالہ ان روکوں کو دور کرنے کا ذریعہ ہو گا جو جہالت سے سچائی کی راہ پر ڈالی گئی ہیں.( ترجمہ ) ۳ شیخ عبد اللہ کوئیم ( لور پول ) نے لکھا:.میں ریویو آف ریلیجنز کو پڑھ کر بہت ہی خوش ہوتا ہوں اور اس مقدس مذہب کی تائید میں اسے ایک نہایت ہی قیمتی تحریر سمجھتا ہوں.‘ ( ترجمہ ).دوسرا اثر مغربی ملکوں پر یہ ہوا کہ وہاں چوٹی کے غیر مسلم مفکروں اور ادیبوں تک اسلام کا پیغام پہنچا.ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا اور وہ اسلامی نظریات کے قریب آگئے اور انہیں اسلام کی صحیح تصویر سمجھنے میں کافی مدد ملی.مغرب میں اسلام کے لئے جو ایک شاندار فضا بدلی ہے اس میں اس رسالے کا بھی نمایاں حصہ ہے.چنانچہ مسٹر اے.آر.وب نے امریکہ سے لکھا:.اس رسالہ کے مضامین میں روحانی صداقتوں کی نہایت پر حکمت اور روشن تفسیر ہے.“ ۵.کونٹ ٹالٹسائے نے روس سے لکھا:.66 اس رسالہ کے خیالات بڑے وزنی اور سچے ہیں.“ - پروفیسر ہالٹما ایڈیٹر انسائیکلو پیڈ آف اسلام نے لکھا:.وو یہ رسالہ از حد دلچسپ ہے.“.ریویو آف ریویوز لندن نے لکھا:.یورپ اور امریکہ کے وہ لوگ جو محمد (ﷺ) کے مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کو چاہئے کہ
489 رسالہ ضرور منگائیں“.ریویو آف ریلیجز کا تیسرا اثر یہ ہوا کہ اس نے عیسائیت کے علمبرداروں میں ایک غیر معمولی جنبش پیدا کر دی.چنانچہ انگلستان کے اخبار ” چرچ فیملی (Church Family)‘ نے لکھا کہ مرزا غلام احمد صاحب کے پیدا کردہ لٹریچر کا جواب نہ دیا جائے وہ عیسویت کے خلاف ایسا حربہ لٹریچر کی شکل میں پیدا کر دیں گے کہ بائبل کا صفایا ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود کی طرف سے ریویو آف ریلیجز" کے بارے میں پیغام حضرت مسیح موعود کی طرف سے رسالہ کے بین الاقوامی اثر و نفوذ اور شہرت واہمیت کے پیش نظر حضرت اقدس نے اگلے سال کے وسط میں جماعت کے نام ایک پیغام دیا کہ اصل غرض خدا تعالیٰ کی میرے بھیجنے سے یہی ہے کہ جو جو غلطیاں اور گمراہیاں عیسائی مذہب نے پھیلائی ہیں ان کو دور کر کے دنیا کے عام لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا جاوے اور اس غرض مذکورہ بالا کو جس کو دوسرے لفظوں میں احایث صحیحہ میں کسر صلیب کے نام سے یاد کیا گیا ہے پورا کیا جائے.اس لئے اور انہی اغراض کے پورا کرنے کے لئے رسالہ انگریزی جاری کیا گیا ہے جس کا شیوع یعنی شائع ہونا امریکہ اور یورپ کے اکثر حصوں میں بخوبی مفید ثابت ہو چکا ہے اور بہت سے دلوں پر اثر شروع ہو گیا ہے بلکہ امید سے زیادہ اس رسالہ کی شہرت ہو چکی ہے اور لوگ نہایت سرگرم، شوق سے اس رسالہ کے منتظر پائے جاتے ہیں.لیکن اب تک اس رسالہ کے شائع کرنے کے لئے مستقل سرمایہ کا انتظام کافی نہیں.اگر خدانخواستہ یہ رسالہ کم تو جہی اس جماعت سے بند ہو گیا تو یہ واقعہ اس سلسلہ کے لئے ایک ماتم ہو گا.اس لئے میں پورے زور کے ساتھ اپنی جماعت کے مخلص جواں مردوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رسالہ کی اعانت اور مالی امداد میں جہاں تک ان سے ممکن ہے اپنی ہمت دکھلا دیں.“ نیز فرمایا: ”جو کوئی میری موجودگی اور میری زندگی میں میرے منشاء کے مطابق میری اغراض میں مدد دے گا امید رکھتا ہوں کہ وہ قیامت میں بھی میرے ساتھ ہوگا.پھر بعد اس کے وہ وقت آجائے گا کہ اگر ایک سونے کا پہاڑ بھی اس راہ میں خرچ کریں تو اس وقت کے ایک پیسہ کے برابر نہیں ہوگا.یہ ایک ایسا مبارک وقت ہے کہ تم میں وہ خدا کا فرستادہ موجود ہے جس کی صد ہا سال سے امتیں انتظار کر رہی تھیں.اور ہر روز
490 خدا تعالیٰ کی تازہ وحی تازہ بشارتوں سے بھری ہوئی نازل ہو رہی ہے اور خدا تعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دیا کہ واقعی اور حقیقی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا جو اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا.“ پھر آگے چل کر فرماتے ہیں:.اگر اس رسالہ کی اعانت کے لئے اس جماعت میں دس ہزار خریدار اردو یا انگریزی کا پیدا ہو جائے تو رسالہ خاطر خواہ چل نکلے گا.اور میری دانست میں اگر بیعت کرنے والے اپنی بیعت کی حقیقت پر قائم رہ کر اس بارے میں کوشش کریں تو اس قدر تعداد کچھ بہت نہیں بلکہ جماعت موجودہ کی تعداد بہت کم ہے.سواے جماعت کے سچے مخلصوا خداوند تمہارے ساتھ ہو.تم اس کام کے لئے ہمت کرو.خدا تعالیٰ آپ تمہارے دلوں میں القاء کرے کہ یہی وہ وقت ہمت کا ہے.“ ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر ۲ نیا ایڈیشن ص ۲۰۳ تا ۲۰۶) رسالہ " تشحید الاذہان کا اجراء یکم مارچ ۱۹۰۶ء سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ادارت میں ایک سہ ماہی رسالہ کا اجراء ہوا جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انجمن تشخیز الاذہان ہی کے نام پر تشخیز الاذہان رکھا.اس رسالہ کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد تھے.ا.اسلام کا نورانی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا.۲.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ نصائح جو گھر میں کہے جاتے ہیں شائع کرنا.۳.اسلام اور خصوصاً سلسلہ احمدیہ پر اعتراضات کا تہذیب کے ساتھ ردکرنا.۴.مشاہیر اسلام کی سوانح عمریاں درج کرنا.۵.مسائل شرعیہ کا اندراج تا ناواقف لوگ واقفیت حاصل کریں.۶.اس رسالہ سے کوئی مالی فائدہ ہرگز ہرگز مقصود نہیں ہوگا اور جو آمد بھی ہوگی اشاعت اسلام میں خرچ کی جائے گی.اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے پُر جوش خیر مقدم ریویو آف ریلیجنز کی طرح اس رسالہ کا بھی اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا.چنانچہ.ا.مولوی محمد علی صاحب ایڈیٹر ریویو نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا.
491 تشحید الاذہان قادیان سے سہ ماہی نکلنا شروع ہوا ہے جس کا پہلا نمبر یکم مارچ کو شائع ہو گیا ہے اس سلسلہ کے نوجوانوں کی ہمت کا نمونہ ہے.خدا تعالیٰ اس میں برکت دے.چندہ سالانہ ۱۲؎ (آنے) ہے.اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس کے صاحبزادہ ہیں اور پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کی قلم سے لکھا ہوا ہے.جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی مگر میں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بین دلیل کے پیش کرتا ہوں جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے.“ اس وقت صاحبزادہ کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے اور تمام دنیا جانتی ہے کہ اس عمر میں بچوں کا شوق اور امنگیں کیا ہوتی ہیں.زیادہ سے زیادہ ! کالجوں میں پڑھتے ہیں تو اعلی تعلیم کا شوق اور آزادی کا خیال ان کے دلوں میں ہوگا.مگر دین کی یہ ہمدردی اور اسلام کی حمایت کا یہ جوش جو اوپر کے بے تکلف الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ایک خارق عادت بات ہے.صرف اس موقعہ پر نہیں بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہر موقع پر یہ دلی جوش ان کا ظاہر ہو جاتا ہے.چنانچہ ابھی میر محمد اسحاق کے نکاح کی تقریب پر چند اشعار انہوں نے لکھے تو ان میں یہی دعا ہے کہ اے خدا تو ان دونوں اور ان کی اولادکو خادم دین بنا.برخوردار عبدالحی کی آمین کی تقریب پر اشعار لکھے تو ان میں یہی دعا بار بار کی ہے کہ اسے قرآن کا سچا خادم بنا ایک اٹھارہ برس کے نو جوان کے دل میں اس جوش اور امنگوں کا بھر جانا معمولی امر نہیں کیوں کہ یہ زمانہ سب سے بڑھ کر کھیل کود کا زمانہ ہے.اب وہ سیاہ دل لوگ جو حضرت مرزا صاحب کو مفتری کہتے ہیں اس بات کا جواب دیں کہ اگر یہ افتراء ہے تو یہ سچا جوش اس بچہ کے دل میں کہاں سے آیا ؟ جھوٹ تو ایک گند ہے پس اس کا اثر تو چاہئے تھا کہ گندہ ہوتا نہ کہ ایسا پاک اور نورانی جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی.اگر ایک انسان افتراء کرتا ہے تو اگر چہ وہ باہر کے لوگوں سے افتراء کو چھپا بھی لے مگر اپنے ہی بچوں سے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں چھپا نہیں سکتا.وہ اس کی ہر ایک حرکت اور سکون دیکھتے ہیں.ہر ایک گفتگوکو سنتے ہیں.ہر موقع پر اس کے خیالات کو ظاہر ہوتا ہوا دیکھتے ہیں.پس اگر افتراء ہو تو ضرور ہے کہ وہ افتراء کسی نہ کسی وقت اس کے اپنے بچوں یا بیوی پر ظاہر ہو جائے.اے بدقسمت لوگو! غور کرو! کیا مفتری کی اولاد جو اس کے افتراء کے زمانہ میں پرورش پائے ایسی ہوا کرتی ہے؟ کیا تمہارے دل انسانی دل نہیں جو ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتے اور ان بچے خیالات کا ان پر کچھ اثر نہیں ہوتا.کیوں تمہاری سمجھیں الٹی ہوگئی ہیں.غور کرو! کہ جس کی تعلیم اور تربیت کا یہ پھل ہے وہ کا ذب ہو سکتا ہے.اگر وہ کا ذب ہے تو پھر دنیا میں صادق کا کیا نشان ہے؟“ ۲.مولوی عبد اللہ العمادی نے لکھا.مارچ ۱۹۰۶ء سے یہ رسالہ قادیان ضلع گورداسپور سے ماہوار اردو میں شائع ہوتا ہے.جس غرض کے لئے یہ رسالہ جاری ہوا ہے وہ نہایت اہم ہے لیکن جس طرز پر اس کی ابتداء ہوئی ہے اس سے امید ہوتی ہے کہ
492 اپنے مقصد میں ضرور اس کو کامیابی ہوگی.مضامین زور دار ہیں اور بڑی قابلیت سے لکھے گئے ہیں.اس رسالہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایک پیشوائے مذاہب کے گھر سے شائع ہوتا ہے اور امام وقت کے صاحبزادے اس کو ایڈٹ کرتے ہیں.“.اخبار نیر اعظم ( مراد آباد ) نے لکھا.بلا مبالغہ اسلامی رسالوں میں ریویو آف ریلیچز کے بعد اس کا شمار کرنا چاہئے.مذہب اسلام کو اس کے اجراء سے بہت مدد ملے گی.“ روزنامه الفضل ۱۹۱۳ء میں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے مبارک ہاتھوں سے المفضل جاری ہوا.حضرت خلیفہ مسیح الاول نے اس کا نام " الفضل رکھا او ۱۸ جون ۱۹۱۳ ء کو اس کا پہلا پر چہ شائع ہوا.اس موقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خدا تعالیٰ کے حضور جو التجائیں کیں اور جن پاک ارادوں اور اعلیٰ عزائم کا اظہار فرمایا ان کا کسی قدر راندازہ ذیل کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے.بسم حضور نے لکھا.”خدا کا نام اور اس کے فضلوں اور احسانوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے اس سے نصرت و توفیق چاہتے ہوئے میں الفضل جاری کرتا ہوں.اپنے ایک مقتداء اور راہنما اپنے مولا کے پیارے بندے کی طرح اس برنا پائیدار میں الفضل کی کشتی کے چلانے کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور بصد بجز و انکسار یہ دعا کرتا ہوں کہ الله مجربها...اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اور اس کی برکت سے اس کا چلنا اور لنگر ڈالنا ہوتحقیق میرا رب بڑا بخشنے والا اور رحیم ہے.اے میرے قادر مطلق خدا اے میرے طاقتور بادشاہ اے میرے رحمن و رحیم مالک.اے میرے رب میرے مولا میرے ہادی.میرے رازق میرے حافظ میرے ستار میرے بخشنہار ہاں اے میرے شہنشاہ جس کے ہاتھوں میں زمین و آسمان کی کنجیاں ہیں اور جس کے اذن کے بغیر ایک ذرہ اور ایک پتہ نہیں ہل سکتا جو سب نفعوں اور نقصانوں کا مالک ہے.جس کے ہاتھ میں سب چھوٹوں اور بڑوں کی پیشانیاں ہیں جو پیدا کرنے والا اور مارنے والا ہے جو مار کے پھر جلائے گا اور ذرہ ذرہ کا حساب لے گا.جو ایک ذلیل بوند سے انسان کو پیدا کرتا ہے جو ایک چھوٹے سے بیج سے بڑے بڑے درخت اگاتا ہے ہاں اے میرے دلدار میرے محبوب خدا تو دلوں کا واقف ہے اور میری نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے.میرے پوشیدہ رازوں سے واقف
493 ہے.میرے حقیقی مالک، میرے متولی تجھے علم ہے کہ محض تیری رضا حاصل کرنے کے لئے اور تیرے دین کی خدمت کے ارادہ سے یہ کام میں نے شروع کیا ہے.تیرے پاک رسول کے نام کے بلند کرنے اور تیرے مامور کی سچائیوں کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے یہ ہمت میں نے کی ہے تو میرے ارادوں کا واقف ہے.میری پوشیدہ باتوں کا راز دار ہے.میں تجھی سے اور تیرے ہی پیارے چہرہ کا واسطہ دے کر نصرت و مددکا امیدوار ہوں“.پھر حضور نے لکھا:.”اے میرے مولا اس مشت خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی راستہ دکھا.لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل‘ سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں تک وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا“.الفضل ۱۸ جون ۱۹۱۳ء) الفضل ۱۹۱۳ء.۱۹۱۴ء میں الفضل کا پہلا پرچہ 2020 کے 4 صفحات پر نکلا اور ہفتہ وار شائع ہونے لگا.دسمبر ۱۹۱۳ء کے سالانہ جلسہ پر تین دن یعنی ۲۶، ۲۷، ۲۸ دسمبر اس کا روزانہ لوکل ایڈیشن شائع ہوا اور ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء تک الفضل کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ایڈیٹر ہونے کا فخر حاصل رہا.چنانچہ الفضل کے ٹائٹل پیج پر حضور کا اسم گرامی بحیثیت ایڈیٹرشائع ہوتارہا اور یکم دسمبر ۱۹۱۴ ء تک کے پرچہ پر پروپرائٹر پبلشر اور پرنٹر کے طور پر بھی حضور ہی کا نام لکھا جاتا رہا مگر جب خدا نے اپنی خاص مصلحتوں کے ماتحت آپ کو خلافت کے نہایت بلند اور عالی مرتبہ پر متمکن فرما کر آپ کا حلقہ عمل نہایت وسیع کر دیا اور آپ کی ذمہ داریوں میں بے حد اضافہ فرما دیا تو ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ ء سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نام بطور ایڈیٹر شائع ہونے لگا اور ۳ دسمبر ۱۹۱۴ ء کے پرچہ سے لفضل“ کا پرنٹ و پبلشر بنے کی سعادت حضور نے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو بخشی.جو سوائے اس وقفہ کے جبکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ساتھ ولایت گئے خدا تعالیٰ کے فضل سے تقسیم ہند تک اس منصب پر سرفراز رہے.چونکہ الفضل کو بہت بڑے اخراجات کا متحمل ہونا پڑا تھا اور اس کے اخراجات کے مقابلہ میں آمد بہت کم تھی.اس لئے ۱۷ جون ۱۹۱۴ء میں الفضل کی دوسری جلد شروع ہوئی تو اخبار کا سائز: 2020 کی بجائے کسی قدر کم یعنی 2018 کر دیا گیا.اس جلد کے ۲۷ اگست تک کے پرچوں پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نام بطور 26 4 4
494 ایڈیٹر چھپتا رہا.عملی طور پر یہ ذمہ داری حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے اٹھالی جو الفضل کے اجرا کے وقت سے ہی اس کے سٹاف کے ایک سرگرم رکن تھے.الفضل ۱۹۱۵ء میں حضرت قاضی صاحب موصوف کے سپرد چونکہ الفضل کی مینیجری کے علاوہ اور کام بھی تھا اور الفضل کا حلقه عمل روز بروز ز بروز وسیع ہوتا جارہا تھا.اس لئے ایک مستقل ایڈیٹر کی ضرورت محسوس کی گئی اور ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی کو جو ایک عرصہ تک مختلف اخبارات میں کام کر چکے تھے اور اس وقت دہلی میں کتابوں کی دکان کرتے تھے بلایا گیا.جنہوں نے جون ۱۹۱۵ ء میں الفضل کی ایڈیٹری کا کام سنبھال لیا.دم الفضل کے بہت بڑے اخراجات کے لئے چونکہ اس کی آمد کافی نہ تھی اور اڑھائی سال کے عرصہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی اپنے پاس سے قریباً پانچ ہزار روپے اس پر صرف فرما چکے تھے.ادھر حالات بھی کچھ پُرسکون ہورہے تھے.جماعت کا کثیر حصہ خلافت ثانیہ کی کامل اطاعت کا شرف حاصل کر چکا تھا.اس لئے اس احتیاط کے ساتھ کہ الفضل جتنے صفحات تین بار شائع ہونے کی صورت میں ہفتہ وار دیتا تھا.اتنے ہی دوبار شائع ہونے پر دے.اسے انومبر ۱۹۱۵ ء ء سے ہفتہ میں دو بار کر دیا گیا.لیکن جب سالانہ جلسہ قریب آیا تو ۸ دسمبر سے ۲۸ دسمبر تک عارضی طور پر ہفتہ میں تین بار کیا گیا.الفضل ۱۹۱۶ء میں ۱۲ جنوری ۱۹۱۶ء کو صحت کے کمزور ہونے کی وجہ سے ماسٹر احمد حسین صاحب الفضل کی ایڈیٹری کی ذمہ داری سے فارغ ہو گئے.اس کے بعد کچھ دن جناب مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل کے سپرد یہ کام ہوا اور پھر یہ ذمہ داری قاضی اکمل صاحب پر ڈالی گئی.4 جولائی ۱۹۱۶ ء تک یہی انتظام رہا.اس کے بعد یہ ذمہ داری جناب خواجہ غلام نبی صاحب کو سونپ دی گئی.جو ۱۹۱۶ ء سے لے کر ۱۹۴۶ء تک یعنی تمیں برس کے طویل عرصہ تک نہایت خوش اسلوبی سے الفضل کی ادارت کا نازک کام سرانجام دیتے رہے.۱۹۴۶ء میں آپ کے ریٹائر ہونے کے بعد مکرم جناب شیخ روشن دین صاحب تنویر بی اے ایل الفضل کے ایڈیٹر مقرر ہوئے.
495 الفضل ۱۹۱۷ء تا ۱۹۳۴ء جون ۱۹۱۴ء سے جون ۱۹۲۴ ء تک پورے دس سال الفضل 2018 پر چھپتا رہا اور جنوری ۱۹۱۶ء سے جون ۱۹۲۴ء تک ہفتہ میں دو بار شائع ہوتا رہا.۱۹۲۰ء میں جبکہ ہفتہ میں دو بار شائع ہو رہا تھا اسے روزانہ کرنے کی تحریک کی گئی.کئی مراسلات اس کے متعلق شائع کئے گئے.جولائی ۱۹۲۴ء میں خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ الفضل کو اس سائز پر شائع کیا جائے جس پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جاری کیا تھا اور جب حضور ولایت تشریف لے گئے تو اس۳ جولائی ۱۹۲۴ء سے ہفتہ میں تین بار شائع ہونے لگا.جو ۸ دسمبر ۱۹۲۵ء تک جاری رہا اور ۱۱ دسمبر ۱۹۲۵ء سے دو بار کر دیا گیا.آریوں کی طرف سے دل آزار کتاب کی اشاعت اور اس کے متعلق جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ کی وجہ سے جب اہل حق کے جذبات کو بے حد ٹھیس لگی اور ان میں سخت بے چینی پیدا ہوئی تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس کے اندمال کی طرف توجہ فرمائی اور ان ایام میں کچھ عرصہ کے لئے الفضل روزانہ کر دیا گیا.۱۹۲۹ء میں پھر ”الفضل“ کو مستقل روزانہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا.۸ نومبر ۱۹۲۹ء سے حجم میں چار صفحہ کے مزید اضافہ کے ساتھ ۱۶ صفحہ کا شائع ہونے لگا.۱۵ را پریل ۱۹۳۰ء کو ہفتہ میں چار بار شائع ہونے لگا.پھر ۳۰ مئی سے ہفتہ میں تین بار اور ے مارچ ۱۹۳۵ ء تک سہ روزہ ہی رہا.و الفضل‘۱۹۳۵ء تا ۱۹۴۷ء ۵ فروری ۱۹۳۵ء کو الفضل نے ترقی کی طرف ایک قدم بڑھایا.یعنی اس کے روزانہ کرنے کا اعلان کیا گیا.لیکن چونکہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب گورداسپور نے اجازت دینے میں غیر معمولی تاخیر کی.اس لئے ۸ مارچ ۱۹۳۵ء سے ”الفضل روزانہ کیا جاسکا.روزانہ الفضل‘ کا پہلا پرچہ ۸ مارچ کو چار صفحہ کا شائع ہوا.اس وقت تجویز یہ تھی کہ سہ روزہ الفضل، حسب معمول شائع ہوتار ہے اور تین دن چار صفحہ کا شائع ہو.لیکن چند ہی روز کے بعد یعنی ۲۶ مارچ ۱۹۳۵ء سے چار صفحہ کا پرچہ مستقل طور پر آٹھ صفحہ کا کر دیا گیا.چنانچہ اس وقت سے لے کر ۱۹۴۷ء تک ”الفضل روز نامہ کی حیثیت سے شائع ہوتا رہا.۱۹۴۷ء میں جب قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرنا پڑی اور جماعت احمدیہ کو بھی اپنا مرکز قادیان چھوڑنا پڑا تو الفضل قادیان کی بجائے لاہور سے شائع ہونا شروع ہوا.
496 ربوہ سے روز نامہ الفضل کی اشاعت قیام پاکستان کے بعد الفضل لاہور سے شائع ہوتا رہا جلسہ سالانہ ۱۹۵۴ء کے ایام میں لاہور سے ربوہ منتقل کر دیا گیا اور ا۳ دسمبر ۱۹۵۴ء سے ضیاء الاسلام پریس ربوہ میں چھپنے لگا.اس طرح الفضل قریباً سات برس کے بعد دوبارہ مرکز احمدیت سے نکلنا شروع ہوا.جس پر احباب جماعت نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے نام خصوصی پیغامات دیئے.حضرت مصلح موعود کے پیغام کا متن یہ تھا:.حضرت مصلح موعود کا پیغام آج ربوہ سے اخبار شائع ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ اس کاربوہ سے نکلنا مبارک کرے اور جب تک یہاں سے نکلنا مقدر ہے.اس کو اپنے صحیح فرائض ادا کرنے کی توفیق دے.اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے.جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے.اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اپنے اخبار کے مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کو ان امور پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.“ خاکسار مرز امحمود احمد (الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۵۴ء) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ”الفضل کا دور جدید “ کے عنوان سے لکھا:.لحمد لله ثم لحمد للہ کہ ایک لمبے وقفہ کے بعد الفضل پھر مرکز سلسلہ سے نکلنا شروع ہو گیا ہے غالباً تر تالیس سال کا عرصہ گزرا کہ سلسلہ احمدیہ کے مرکز قادیان سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ہاتھ سے الفضل کا اجراء ہوا.یہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول کا زمانہ تھا.اس کے بعد ہمارا یہ مرکزی اخبار خدا کے فضل سے مسلسل ترقی کرتا گیا.حتی کہ ملکی تقسیم کے دھکے کے نتیجہ میں الفضل کو بھی جماعت کی اکثریت کے ساتھ قادیان سے نکلنا پڑا.جس کے بعد حالات کی مجبوری کے ماتحت وہ لاہور سے شائع ہوتا رہا.یہ گویا اس کے لئے برزخ کا زمانہ تھا اب سات سال کے درمیانی زمانہ کے بعد الفضل پھر ربوہ یعنی مرکز سلسلہ نمبر 2 سے نکلنا شروع ہوا ہے.الفضل کے اس نئے دور میں تمام جماعت کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں اور ہر مخلص احمدی کے
497 دل سے یہ صدا اٹھ رہی ہے کہ مرکز سلسلہ کا یہ پودا جو گویا اب اپنے بلوغ کو پہنچ رہا ہے.بیش از بیش سُرعت کے ساتھ بڑھے اور پھیلے اور پھولے اور اس کے پھلوں سے لوگ زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوں.مگر اس تبدیلی کے نتیجہ میں جہاں جماعت کی یہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنے اس مرکزی اخبار کی اشاعت کی توسیع میں پہلے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور مرکز کی ان صحافتی تاروں کو اور بھی زیادہ وسیع اور مضبوط کر دے جو اسے افراد جماعت کے ساتھ باندھ رہی ہیں.وہاں الفضل کے عملہ کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ نہ صرف الفضل کو زیادہ سے زیادہ مفید اور دلکش بنائے بلکہ لاہور سے ربوہ کی طرف منتقل ہونے کے نتیجہ میں جو بعض مادی وسائل ( کی ) ترقی میں امکانی کمی آسکتی ہے اسے بیش از بیش توجہ اور کوشش کے ذریعہ کم نہ ہونے دے.اس زمانہ میں پریس کی اہمیت اور اس کے اثر کی وسعت ظاہر وعیاں ہے.سواب یہ جماعت اور عملہ الفضل کا مشتر کہ فرض ہے کہ وہ الفضل کو ہر جہت سے ترقی دے کر اسے ایک الہی جماعت کے شایان شان بنائے.وکان الله معنا اجمعين (خاکسار مرزا بشیر احمد ر بوه ۵۴-۱۲-۳۱) ( الفضل یکم جنوری ۱۹۵۵ء) الفضل ایک چراغ ہے ایڈیٹر روز نامہ الفضل نے ۲۹ دسمبر ۱۹۱۴ء کو الفضل کی خدمات اور توسیع اشاعت کی تحریک کرتے ہوئے اپنے اداریہ میں لکھا:.آپ کا الفضل ایک چراغ ہے اور چراغ بھی وہ جس کو خود مسیح موعود نے ایک رویا میں ملاحظہ فرمایا اور دیکھا کہ چند آدمی اندھیرے میں جارہے ہیں اور قریب ہے کہ وہ آگے آنے والے گڑھوں میں گر جائیں.اس وقت محمود ( ہمارے موجودہ امام الفضل کے سابق ایڈیٹر دوڑ کر ایک لیمپ اٹھالائے اور ان کو راستہ دکھایا.پس یاد رکھو کہ تاریکی کے وقت ہلاکت کا راستہ اختیار کرنے والوں کو جس ہاتھ نے روشنی دکھائی وہ الفضل کے ایڈ یٹ کا ہاتھ تھا اور جو لیمپ اس ہاتھ میں دیا گیا وہ یہی آپ کا الفضل تھا کیونکہ کہا گیا تھا کہ فضل اس کے ساتھ آئے گا پھر یہی لیمپ تھا جس نے نورالدین اعظم کی زندگی کا آفتاب غروب ہونے پر عین عالم تاریکی میں تذبذب اور غلطی خوردہ قوم کونور ہدایت کی روشنی دکھا کر سلامتی اور امن کے راستہ پر ڈالا یعنی یوں کہا جائے یہ الفضل ہی تھا جس نے خلافت کے حریفوں کے تمام وارد کئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے فضل عمر کے ہاتھ پر حبل اللہ پکڑنے والوں کی راہنمائی کی.اس لئے ہم پھر کہتے ہیں کہ الفضل اس فضل کا ہر اول ، ان برکات کا پیش خیمہ ہے جو موجودہ خلافت
498 کے لئے مقدر تھیں اور جن کا ظہور خدائے قادر و توانا کا بابرکت ہاتھ قریب مستقبل میں کرنے والا ہے اور یہ وہی چراغ ہے جو مسیح موعود نے اپنے محمود کے ہاتھ میں دیکھا.پس مومنو! اس فضل کی تائید کر کے فضل سے حصہ لو اور یاد رکھو کہ چراغ کے لئے تیل کی ضرورت ہے.لاریب خدا تعالیٰ اس چراغ کے لئے خود سامان کرے گا.لیکن خوش قسمت ہے وہ جو خدا کے جلائے ہوئے چراغ کی روشنی کو بحال بلکہ ترقی کرتا دیکھنا چاہتا ہے اور ہرممکن ذریعہ سے اس کی خبر گیری میں کوشاں ہوتا ہے.معاونین الفضل ! لوگوں نے چاہا کہ اس چراغ کو اپنے منہ کی پھونکوں سے گل کر دیں اور کسی نے اس کا نام الفصل کسی نے القبر رکھا کسی نے ایڈیٹر کوقتل کی دھمکی دی مگر خدا تعالیٰ نے والله متم نوره...کے ماتحت ان کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا.ان کی تمام کوششوں کو بے سود بے نتیجہ رکھا.ان کی تمام رسیوں کو عصائے موسیٰ کے ذریعہ پرزے پرزے کر دیا اور اس چراغ کی روشنی کو ترقی دی.اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیئے اور اس فضل کا ہاں خاص فضل کا اظہار کیا جس کا فضل عمر کے زمانہ میں آنا لکھا تھا اور الفضل کی تحریروں اور مضامین کو خاص روشنی بخش کر تاریک دلوں کو اس کے ذریعہ سے منور کیا.مکرم بھائیو! یہ ہے الفضل کی پوزیشن.یہ ہے اس کا درجہ اور یہ ہیں اس کی خدمات جو آج تک اس نے کی ہیں..پس آپ کا فرض ہے کہ فضل سے حصہ لینے کے لئے الفضل کی توسیع اشاعت کو ہر وقت (الفضل ۲۹ دسمبر ۱۹۱۴ء) مدنظر رکھیں.احباب جماعت اور الفضل سے استفادہ مکرم محمد ہارون شہزاد صاحب مربی سلسلہ تحریر فرماتے ہیں.خاکسار آجکل فیض آباد.میر پور خاص میں خدمت دین کی توفیق پارہا ہے.استفادہ الفضل کے متعلق عرض خدمت ہے کہ الفضل کا میں روز مطالعہ کرتا ہوں جب کلاس لینے کے لئے حلقہ میں جاتا ہوں تو وہ الفضل وہاں پر رکھ دیتا ہوں اور جو الفضل ان کے پاس موجود ہوتی ہے وہ ان سے لے کر ایک اور جگہ حلقہ میں جوال دیتا ہوں اور جو الفضل ان کے پاس پہلے دن کی ہوتی ہے وہ ان سے لے کر ایک اور گھر میں بھجواتا ہوں.اس طرح الفضل سے میرے علاوہ اور بھی کئی دوست فائدہ اٹھاتے ہیں.
499 الفضل کی برکت سے مکرم صوفی محمد اکرم صاحب کراچی سے لکھتے ہیں.مورخہ ۱۸ جون ۲۰۰۷ء کا الفضل کا شمارہ بذریعہ ڈاک موصول ہوا.جس کو دیکھنے سے یہ بات بھی علم میں آئی کہ الفضل کا آغاز بھی اسی تاریخ کو ۱۹۱۳ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا تھا.کراچی میں اخبار الفضل بذریعہ ڈاک عموما ۴ تا ۵ یوم میں مل جاتا ہے.بہر حال شکر ہے کہ مل جاتا ہے.اہل لاہور کی خوش قسمتی ہے کہ کسی بھی ہاکر سے تازہ الفضل روزانہ مل جاتا ہے.یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے جب خاکسار کی تعیناتی لاہور تھی.محکمہ محنت کا بڑا دفتر تو ا پر مال پر نہر کے پل کے ساتھ تھا جبکہ ہمارے شعبہ کا دفتر ۴.۵ کوٹھیاں آگے تھا.میں نے بڑے دفتر میں اخبار دینے والے ہاکر سے کہا کہ مجھے الفضل دے جایا کرو پہلے تو اس نے کہا کہ الفضل صرف ایک اتنی دور جا کر دینا مشکل ہے کیونکہ ہمیں ایک الفضل پر صرف ایک ٹیڈی پیسہ کمیشن ملتی ہے.ہا کر ادھیڑ عمر کا شریف انسان تھا.میں نے کہا الفضل شروع کرو اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا.اس نے وعدہ کیا اور دوسرے روز سے مجھے الفضل میرے دفتر میں آ کر دینا شروع کر دیا.یہ واقعہ ۱۹۷۰ ء والے الیکشن سے پہلے کا ہے.دفتر میں بھٹو صاحب کے چاہنے والے بہت تھے انہوں نے اسی ہاکر سے روز نامہ مساوات پہلے لگوائی اور پھر روزنامہ آزاد اور پھر ہفت روزہ شہاب بھی لگوالیا.کچھ دوسرے حضرات نے روزنامہ نوائے وقت.ندائے ملت اور مشرق اخبار لگوا لیا.تھوڑے دنوں بعد دفتر کا سرکاری اخبار پاکستان ٹائمنر بھی شروع ہو گیا.یہ تمام اخبارات دفتر شروع ہونے سے پہلے آ جاتے اور سب سے پہلے ہمارے دفتر کے ہیڈ جو کہ جناب ایس.اے نقوی صاحب (M.B.E) ( بی خان کے کزن ) کے پاس جاتے اور تمام دفتر میں گھوم گھما کر ا ابجے ہمارے پاس پہنچتے اور الفضل پر بھی نقوی صاحب کے دستخط ہوتے یعنی وہ بھی اس کو دیکھتے ضرور تھے.میں نے پھر ایک دن ہاکر سے بات کی.بتاؤ کہ اب کیا حال ہے.بہت خوش تھا.مجھے کبھی الفضل کا بل نہ پوچھتا اور میں جب بھی پیسے دیتا کہتا رہنے دیں.یہ سب کچھ الفضل کی برکت سے ہی ہے.واقعی الفضل کی برکات کئی رنگ میں ہم تک پہنچتی ہیں.الحمد للہ
500 عید کا تحفہ محتر مہ مبارکہ بیگم صاحبہ نارووال کو الفضل کے مطالعہ کا اتنا شوق تھا کہ شادی سے پہلے کم آمدنی کی وجہ سے الفضل دوسرے احمدی گھروں سے منگوا کر پڑھتی تھیں.جب آپ کا نکاح ہوا اور شوہر نے پہلی عید پر پسند کا تحفہ پوچھا تو انہوں نے الفضل لگوانے کی فرمائش کی.ان کے خاوند بھی نہایت عالم اور علم دوست تھے.انہوں نے آپ کے شوق کو ہوا دی اور ہمیشہ مطالعے کے لئے لٹریچر مہیا کیا.(ماہنامہ مصباح مارچ ۲۰۰۵ ء ص ۴۸) دین سے لگاؤ کا ثبوت مکرم رشید الدین صاحب اپنے والد چوہدری جلال الدین صاحب کے متعلق لکھتے ہیں.و نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق رشتہ طے کرتے وقت دینی پہلو کو ترجیح دیتے.ہمارے بہنوئی چوہدری محمد اعظم صاحب ( سابق ایم پی اے ) سمبڑیال کی طرف سے جب پیغام آیا تو ان کی دعوت پر محترم والد صاحب ان کے گاؤں چک ۱۲۱ شمالی ضلع سرگودھا گئے ( ان کی ان دنوں رہائش وہاں تھی.) فرماتے تھے کہ جب میں نے دیکھا کہ روز نامہ الفضل ان کے نام آ رہا ہے تو میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ یہ رشتہ ضرور کرنا ہے کیونکہ یہ دین اور سلسلہ احمدیہ سے لگاؤ کا ایک واضح ثبوت تھا.“ (میرے والدص ۵۸ - استفاده از روزنامه الفضل مورخه ۲۸ جون ۲۰۰۸ء) آجکل روز نامه الفضل ربوہ جماعتی لحاظ سے انتہائی حساس حالات میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب (ایڈیٹر روز نامہ الفضل ) بڑی حکمت عملی اور کامیابی سے چلا رہے ہیں.فجزاه الله احسن الجزاء الله الله تعالی آپ کی تائید و نصرت فرمائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے.آمین ) الفضل انٹرنیشنل اس ہفت روزہ اخبار کا پہلا شمارہ کے جنوری ۱۹۹۴ء کو لندن سے زیر ادارت چوہدری رشید احمد صاحب منظر عام پر آیا.بعد ازاں اس کے ایڈیٹر مکرم نصیر احمد قمر صاحب مقرر ہوئے.جن کی زیر ادارت یہ معیاری اخبار ترقی کے زینوں پر شب و روز رواں دواں ہے.اس اخبار کو یہ خاص اہمیت حاصل ہے کہ اس میں امام
501 جماعت احمدیہ کے روح پرور خطبات جمعہ ہفتہ وار خطابات اور مجلس عرفان شائع ہوتے ہیں.اس میں شائع ہونے والے مضامین نہایت عالمانہ تحقیق شدہ ، اور مسلم الثبوت ہوتے ہیں.تشخیذ الاذہان کی خدمات یہ رسالہ ابتداء میں سہ ماہی تھا مگر اگلے ہی سال ماہ وار کر دیا گیا اور قوم کی توقعات کے عین مطابق بہت جلد کامیاب رسالوں کی صف اول میں شمار ہونے لگا.اس زمانہ میں آپ کے زیر ادارت بڑے بڑے معرکۃ الاراء مضمون نکلے.۱۹۱۴ء میں تفخیذ الاذہان کے ایڈیٹر قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل آف گولیکی ضلع گجرات مقرر ہوئے جنہوں نے آٹھ سال تک ادارتی فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دئے.آخر مارچ ۱۹۲۲ء میں اسے ریویو آف ریلیچنر اردو میں مدغم کر دیا گیا.اور یہ رسالہ خدا کے فضل سے اب تک جاری ہے.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم...ماہنامہ مصباح ربوہ ۱۵ دسمبر ۱۹۲۶ء کو لجنہ اماءاللہ کی نگرانی میں ماہوار رسالہ ”مصباح“ جاری ہوا جس میں خواتین کی تربیت و تنظیم کو بہت تقویت پنچی.ابتداء میں رسالہ کا انتظام مرد کرتے تھے.مگرمئی ۱۹۴۷ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد پر اس کا پورا اہتمام مرکزی لجنہ اماءاللہ کوسونپ دیا گیا جس سے اس رسالہ کے علمی و دینی معیار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا.اور اب یہ جماعت کی مستورات کے واحد ترجمان کی حیثیت سے سلسلہ کی خدمت بجالا رہا ہے.تاریخ احمدیت جلد نمبر ۲۴ ص ۳۰۷ نیاء ایڈیشن ) رسالہ مصباح کا اجراء حقیقت میں احمدی مستورات کے لئے ایک خالصتہ زنانہ اخبار کا تخیل پیش کرنے والوں میں حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور ان کی اہلیہ محترمہ استانی سکینۃ النساء صاحبہ ممتاز حیثیت رکھتے ہیں.رسالہ مصباح جاری ہونے سے کچھ قبل مکرمہ استانی سکیۃ النساء صاحبہ نے مستورات سے بھر پور تعاون اور امداد کے لئے بایں الفاظ اپیل کی:.”اے احمدی جماعت کی پُر ہمت خاتو نو ! اور اے دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی بہنو! بشارت ہو کہ
502 ہمارے غمخوار اور خیر خواہ خلیفہ نے آپ کے لئے ہاں آپ کی نازک و پُر درد حالت پر رحم کھا کر آپ کے احساسات کو پُر درد حالت پر رحم کھا کر آپ کے احساسات کو پُر درد حالت پر رحم کھا کر آپ کے احساسات کو پُر لطف بنانے کے لئے ایک زنانہ اخبار جاری کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے.اب آپ پوری ہمت اور پورے جوش اور پورے استقلال سے اسے قدر دانی کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ لیں جس طرح مسجد لندن کے چندے میں بے مثل ہمت اور بے نظیر قربانی کا ثواب احمد یہ خواتین کو ملاحتی کہ دوسری ہمسایہ قوموں نے مثال کے طور پر اپنی مستورات میں اس محدود غریب قوم کی حقیر جنس کو پیش کیا اسی طرح ہاں ٹھیک اسی طرح سے اب اپنے اخبار کو فروغ دو.“ آخر کار ۱۵ دسمبر ۱۹۲۶ء کو اس کا پہلا پر چہ شائع ہوا.اس رسالہ کا نام ”مصباح رکھا گیا.مصباح کے پہلے پرچہ کے اداریہ میں لکھا کہ:.سلسلہ احمدیہ کے آرگن الفضل میں ایک عرصہ سے یہ تحریک ہو رہی تھی کہ عورتوں کے لئے الگ اخبار جاری کیا جائے.والحمدللہ کہ ہمارے امام حضرت خلیفتہ اسی الثانی نے صدر انجمن احمدیہ کو ایک اور خواتین کے لئے جاری کرنے کا ارشاد فر مایا اور اس کا نام ” مصباح کا مصباح چراغ کو کہتے ہیں جو تار یک گھروں میں اجالا کرتا ہےاور امیر سے لے کر ایک غریب کے گھر تک اس کی یکساں ضرورت ہوتی ہے اور اسی کی روشنی میں سب کا روبار ہوتا ہے.خدا کرے کہ ہمارا یہ اخبار مصباح بھی اسم با مسمی بن جائے اور یہ گھر گھر علم وفضل کی روشنی لے جائے.“ مصباح کے اسی پر چہ میں لجنہ کی طرف سے یہ بھی اعلان کیا گیا کہ دوسرے شہروں میں بھی بہنوں کو چاہئے کہ لجنہ قائم کریں اور جلسہ سالانہ کا پروگرام بھی مصباح کے اسی پر چہ میں شائع کیا گیا.مصباح کی سب سے پہلی خریدار اہلیہ عبدالحفیظ صاحب ویرووال ضلع امرتسر تھیں اور دسری اہلیہ با بوعلی محمد صاحب شہر فیروز پور تھیں.یہ اخبار دو بار یکم اور پندرہ کو نکلتا تھا.حجم سولہ صفحے اور سالانہ قیمت اڑھائی روپے تھی.ایک کٹر آریہ سماجی اخبار تیج کی رائے مصباح کے متعلق یہ تھی کہ:.”میرے خیال میں یہ اخبار اس قابل ہے کہ ہر ایک آریہ سماجی اس کو دیکھے.اس کے مطالعہ سے انہیں احمدی عورتوں کے متعلق جو یہ غلط نہی ہے کہ وہ پردہ کے اندر بند رہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کرتیں فی الفور دور ہو جائے گی اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورتیں باوجود اسلام کے ظالمانہ حکم کے طفیل پردہ کی قید میں رہنے کے کس قدر کام کر رہی ہیں اور ان میں مذہبی احساس اور تبلیغی جوش کس قدر ہے.ہم استری سماج قائم کر کے مطمئن ہو چکے ہیں لیکن ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ باقاعدہ انجمنیں ہیں اور جو وہ کام کر رہی
503 ہیں اس کے آگے ہمارے استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے.مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ احمدی عورتیں ہندوستان ، افریقہ ، عرب، مصر، یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں.ان کا مذہبی احساس اس قدر قابل تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہئے.چند سال ہوئے ان کے امیر نے ایک مسجد کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگا دی کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندے سے ہی پوری کی جائے چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن ہزار روپیہ جمع کر دیا.“ عورتوں کا یہ اخبار جو ۱۵ دسمبر ۱۹۲۶ء کو جاری ہوا ، شروع ۱۹۴۷ء تک جاری رہا.شروع میں پندرہ روزہ تھا بعد میں ماہوار ہو گیا.اس کے ایڈیٹر جناب قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل، جناب مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر، جناب خواجہ غلام نبی صاحب، جناب رحمت اللہ صاحب شاکر وغیرہ رہے اور جناب نذیر احمد صاحب افریقی صرف ۱۹۳۶ء میں.لجنہ اماءاللہ کی نگرانی میں نیا دور ۱۹۴۷ء کے شروع میں لجنہ اماءاللہ نے جس کا کام اب خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت وسیع ہو چکا تھا یہ فیصلہ کیا کہ لجنہ اماءاللہ اسپر چہ کو اپنی نگرانی میں لے لے اور اس کا تمام خرج خود برداشت کرے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے اجازت لے کر لجنہ مرکزیہ نے اس کا اعلان کر دیا.ابھی تین پرچے شائع ہوئے تھے کہ ملکی تقسیم ہونے کے بعد قادیان سے ہجرت کرنی پڑی.گولجنہ اماء اللہ کا دفتر تو عارضی طور پر رتن باغ لاہور میں قائم کر دیا گیا مگر مصباح کے احیاء کا معاملہ کچھ عرصہ کے لئے ملتوی رہا.ربوہ سے مصباح کا اجراء آخر ۱۹۵۰ء میں دوبارہ مصباح ربوہ سے جاری ہوا جو اپنی پوری شان سے الحمد للہ جاری ہے اور عورتوں کا واحد تر جمان ہے.اس کی پہلی مدیرہ عزیزہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ بنت جناب مولوی ابو العطاء صاحب تھیں جنہوں نے بڑی محنت اس رسالہ پر کی.باوجود کمزور صحت کے بڑی ذمہ داری سے اس رسالہ کو جاری رکھا.ان کی وفات کے بعد جو ۲۶ ستمبر ۱۹۶۰ء کو ہوئی امتہ الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ ملک سیف الرحمن صاحب اس کی مدیرہ نامزد ہوئیں جو لمبا عرصہ اس کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتی رہیں.جماعت کے جلسہ سالانہ ۱۹۲۶ء کے موقع پر خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب نے جو خطبہ استقبالیہ پڑھا اس میں بھی آپ نے عورتوں کے رسالہ مصباح کا ذکر فر مایا اور کہا:.
504 چھٹی نئی چیز اس سال کا نیا احمد یہ لٹریچر ہے جس میں سے دو کا ذکر خصوصیت سے کرنے کے قابل ہے.ایک تو سلسلہ کی مستورات کا اپنا اخبار مصباح ہے.“ نیز خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی جلسہ سالانہ پر ۲۷ / دسمبر کو تقریر کرتے ہوئے مصباح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اس سال دو نئے اخبار جاری کروائے ہیں.دوسرا اخبار شرطی ہے جو عورتوں میں ترقی کی روح پیدا کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے.یاد رکھو جب تک عورتوں میں ترقی کا احساس نہیں پیدا ہو گا تب تک مرد بھی پورے طور پر کام نہیں کر سکتے.“ 66 (بحوالہ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ص ۱۸۴ تا ۱۸۷) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ماہنامہ مصباح اب بھی بڑی کامیابی سے جاری ہے.ماہنامہ خالد ر بوه ۱۹۳۸ء میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی ( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) نے مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کا اعلان فرمایا اور اس کے بنیادی اغراض و مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے نو جوانوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوسکتی.نئی نسلیں جب تک اس دین اور ان اصول کی حامل نہ ہوں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے نبی اور مامور دنیا میں قائم کرتے ہیں اس وقت اس سلسلہ کا ترقی کی طرف کبھی بھی صحیح معنوں میں قدم (مشعل راه جلد اول طبع دوم ص:۴) نہیں اٹھ سکتا.“ نوجوانوں کی اصلاح کے اسی اہم ترین مقصد کے پیش نظر ایک ضرورت یہ بھی تھی کہ مجلس کا اپنا ایک رسالہ ہو، ہر چند کہ مجلس کے آغاز کے ساتھ ہی نشر و اشاعت کا عملی کام بھی شروع ہو چکا تھا.چنانچہ خدام الاحمدیہ مرکز یہ پاکستان کی مجلس شوری ۱۳۲۹، بهش ۱۹۵۰ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ مجلس کی طرف سے ساٹھ صفحے کا ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا جائے.ان دنوں مجلس کی مالی حالت اس کے گراں اخراجات کی متحمل نہ تھی اس لئے الطارق‘ نام سے ۳۶ صفحات کے ایک ماہوار سالہ کی تجویز ہوئی اور ۱۳۳۰ ہش ۱۹۵۱۷ء سے اس کے ڈیکلریشن کی جدو جہد شروع کر دی گئی.ابتدائی محکمانہ تحقیقات مکمل ہوئی تو عین آخری مرحلہ پر یہ اطلاع ملی کہ اسی نام کا ایک اور رسالہ بھی جاری ہے اور ضروری ہے کہ کوئی اور نام تجویز کیا جائے.مجلس مرکز یہ نے
505 سید نا حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں نئے نام کے لئے درخواست کی.حضور نے فرمایا ” خالد نام رکھ دیں.چنانچہ ۳۱ / امان ۱۳۳۱اہش / مارچ ۱۹۵۲ء کو خالد کے ڈیکلریشن کی درخواست دی گئی.کئی ماہ کی یاد دہانیوں اور دفتری پیچیدگیوں اور محکمانہ کارروائیوں کے بعد ۶ ستمبر ۱۹۵۲ءکو ڈیکلریشن کی باضابطہ منظوری ہوئی اور ساتھ ہی ایک ہزار روپیہ کی ضمانت کا مطالبہ بھی ہوا جس کے داخل کرانے کی آخری تاریخ ۱۶ ستمبر ۱۹۵۲ تھی.مجلس کے پاس اس قد ر و پریہ نہیں تھا بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ے ار ستمبر کورو پی کا انتظام ہوسکا لیکن جھنگ پہنچ کر معلوم ہوا کہ وقت پر ضمانت داخل نہ کرنے پر ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا ہے.اس پر دوبارہ درخواست دی گئی اور بالآ خر ۲ را کتوبر ۱۹۵۲ء کو ڈیکلریشن ملا اور زرضمانت داخل کرا دی گئی.اس طرح نہایت لمبی جد و جہد اور صبر آزما حالات میں سے گزرنے کے بعد اکتو بر۱۹۵۲ء میں رسالہ ” خالد “ جاری ہوا.خالد کے پہلے دو پرچے مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ، مولوی خورشید احمد صاحب شاد پروفیسر جامعہ احمدیہ اور مولوی محمد شفیع صاحب اشرف کے زیر ادارت چھپے.اس کے بعد مولوی غلام باری صاحب سیف مدیر مقرر ہوئے.مینجر کی خدمت شروع ہی میں سید عبدالباسط صاحب نائب معتمد مرکزیہ کے سپرد کی گئی.اداریہ کے علاوہ مشعل راہ ، جواہر پارے، روشن ستارے، ہماری مساعی دنیا کے کناروں تک، کوائف ربوہ اور اطفال الاحمدیہ اس کے مستقل فیچر قرار پائے.اس ابتدائی دور میں پہلے سال رسالہ ”خالد کو جوعلمی معاونین میسر آئے ان میں ملک سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ مفتی سلسلہ احمدیہ، مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، جناب حسن محمد خاں صاحب عارف نائب وکیل التبشیر ،مولوی نورالحق صاحب انور فاضل ( مبلغ امریکہ ) بھی شامل تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کے اجراء پر حسب ذیل پیغام سپرد قلم فرمایا:.بکوشید اے جواناں تا به دیں قوت شود پیدا بہار , رونق اندر روضه ملت شود پیدا مجھے مولوی غلام باری صاحب سیف معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ نے اطلاع دی ہے کہ ان کی مجلس مرکزیہ کے زیر انتظام ایک ماہوار رسالہ "خالد" نامی جاری ہو رہا ہے اور سیف صاحب نے جنہیں ”خالد“ کے نام کے ساتھ ایک اہم تاریخی جوڑ حاصل ہے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں بھی اس رسالہ کے پہلے نمبر کے لئے کوئی مختصر سا پیغام لکھ کر دوں جو جماعت کے نوجوانوں کی ہمتوں کو بڑھانے والا ہو اور ان میں کام کی روح پھونکنے والا ہو.سو مجھے اس پیغام کے لئے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ
506 فارسی شعر نظر آیا ہے جو میرے اس نوٹ کا عنوان ہے اور جس کا اردو زبان میں سلیس اور آزاد ترجمہ یہ ہے کہ اے احمدیت کے نوجوانو! دین کے رستہ میں اپنی کوششوں ، اپنی جدو جہد کو اس اخلاص اور اس ذوق و شوق اور اس جذبہ قربانی کے ساتھ جاری رکھو کہ تمہاری اس مجاہدانہ مساعی کے نتیجہ میں دین کو غیر معمولی مضبوطی حاصل ہو جائے اور اسلام کا باغ و مرغزار پھر دوبارہ ایک نئی رونق و بہار کے ساتھ مخالفوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے لگے.پس یہی وہ مقصد و منتہی ہے جو ہمارے نوجوانوں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.فاروق ہوں یا خالد اور قلم ہو یا سیف.سب اپنے اپنے میدان میں اور اپنے اپنے وقت پر اسلام اور صداقت کے خادم ہیں.صرف مومن کی نیت پاک وصاف ہونی چاہئے اور اس کے قلب میں سیمابی ولولہ، پھر اس کے آگے رستہ بالکل صاف ہے.كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ) یہ وقت خاص خدمت کا ہے کیونکہ احرار کی مخالفت نے جماعت کے لئے تبلیغ کا راستہ اس طرح کھول دیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح نہیں کھلا تھا.بے شک مخالفت بہت سخت اور اس کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن یہی وہ وقت ہے جبکہ سعید روحیں خواب غفلت سے بیدار ہو کر تحقیق کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ پورا ہورہا ہے کہ الہبی جماعتوں کے لئے مخالفت وہی کام دیا کرتی ہے جو ایک عمدہ کھیت کے لئے کھا دیتی ہے.پس اے عزیز و اور بھائیو!! زندگی کی ان قیمتی گھڑیوں کو غنیمت جانو.تمہیں کیا معلوم ہے کہ ماحول کا یہ زریں موقعہ کب بدل جائے یا تمہاری اپنی زندگی کا یہ دور کب ختم ہو جائے ؟ اسی لئے ہمارے آقا اور امام نے جہاں وہ شعر ارشادفرمایا ہے جو اس نوٹ کے عنوان میں درج ہے وہاں دوسری جگہ یہ انتباہ بھی فرمایا ہے کہ بے خیر بخدمت فرقاں کمر بند زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند اے اور اسی پر میں اپنا یہ مختصر پیغام کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کی جملہ نیک مساعی میں آپ کا حافظ و ناصر رہے.امین یا ارحم الراحمین والسلام خاکسار.مرزا بشیر احمد.ربوہ ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۵ اص ۴۱۳ تا ۴۱۵ ) ”ماہنامہ خالد خدا تعالیٰ کے فضل سے اب بھی جاری وساری ہے اور خدام الاحمدیہ کی تعلیم وتربیت میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے.الحمد للهِ عَلَى ذَلِكَ
507 ماہنامہ انصار اللہ ربوہ حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت میں ذیلی تنظیموں کا نظام قائم فرمایا.جس نے احباب جماعت کی علمی، روحانی اور اخلاقی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے.۴۰ سال سے بڑی عمر کے احباب کی تنظیم انصار اللہ کا قیام ۱۹۴۰ء میں ہوا.اس تنظیم کے اراکین کی تعلیم و تربیت اور تنظیمی مساعی کی اشاعت کے لئے ضرورت تھی کہ تنظیم کا اپنا علیحدہ رسالہ ہو.اس ضرورت کے تحت ۱۹۵۹ء کی مجلس شوریٰ میں یہ فیصلہ ہوا کہ مجلس انصاراللہ مرکز یہ ایک ماہوار رسالہ شائع کرے جس میں مجلس انصار اللہ کے متعلق پروگرام ، اخبار مجالس، ضروری ہدایات اور دینی و تربیتی مضامین شائع کئے جائیں اور فیصلہ ہوا کہ ہر مجلس کے لئے اس کی خریداری لازمی قرار دی جائے.اس فیصلہ کے مطابق نومبر ۱۹۶۰ء میں ایک ماہوار رسالہ کی اشاعت شروع ہوگئی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تجویز کے مطابق اس رسالہ کا نام ”انصار اللہ " رکھا گیا.ماہنامہ انصار اللہ کا اجراء حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے عہد صدارت میں ہوا.آپ اس میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے.محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو اس کے بعد ایک عرصہ تک آپ رسالہ انصار اللہ کا مسودہ ملاحظہ فرمایا کرتے تھے.نومبر ۱۹۶۰ء میں ماہنامہ انصار اللہ ربوہ کا پہلا شمارہ نکلا.رسالہ کے مدیر محترم مسعود احمد خان صاحب دہلوی، طابع و ناشر چوہدری محمد ابراہیم صاحب تھے اور یہ رسالہ ضیاء الاسلام پر لیس ربوہ سے شائع ہوا.رسالہ کی قیمت فی پر چہ آٹھ آنے اور سالانہ قیمت ۵ روپے مقرر ہوئی.پہلا شمارہ ۴۸ صفحات پر مشتمل تھا.رسالہ کے اولین کا تب منشی نورالدین صاحب خوشنویں تھے.رسالہ کے اداریہ میں رسالہ کے مقاصد اور اس میں شائع ہونے والے مواد کے بارہ میں معلومات دی گئیں تھیں.اداریہ کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام محرره ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۰ء شائع ہوا جو ماہنامہ انصار اللہ کے اجراء پر اس کے مقاصد پر روشنی ڈالنے والا تھا.پہلے شمارہ میں ارشادات و منظوم کلام حضرت مسیح موعود اور فرمودات حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے علاوہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ ) ، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب، شیخ محبوب عالم خالد صاحب، مولانا شیخ روشن دین صاحب تنویر اور محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے مضامین بھی شامل اشاعت تھے.اسی طرح پہلے شمارہ میں بچوں کے لئے ایک صفحہ بھی مخصوص کیا گیا تھا.اخبار مجالس میں انصار اللہ بلوچستان کے علاقائی اجتماع کی رپورٹ بھی شائع کی گئی تھی.(بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ اکتوبر ۲۰۱۰ء) یہ رسالہ اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے با قاعدگی کے ساتھ جاری ہے اور انصار اللہ کی تعلیم وتربیت میں اہم کردار دا کر رہا ہے.اور آجکل مکرم محمدمحمود طاہر صاحب شعبہ اشاعت و تصنیف صد را مجمن احمد یہ ربوہ اس
508 کے ایڈیٹر کے طور پر بخوبی فرائض سرانجام دے رہے ہیں.ماہنامہ رسالہ تحریک جدید یہ رسالہ وکالت اشاعت تحریک جدیدر بوہ کے تحت ۱۹۶۵ء میں جاری کیا گیا.جو آدھا انگریزی اور آدھا اردو زبان میں شائع ہوتا تھا.جس میں بیرونی مشن ہاؤسز اور مبلغین کی مساعی اور رپورٹس شائع ہوتی تھیں.اس رسالہ کے پہلے ایڈیٹر مکرم مولانانور محمد نیم سیفی صاحب تھے.بعض ناگزیر وجوہات کے پیش نظر ۱۹۹۱ء میں یہ ماہنامہ رسالہ بند ہو گیا تھا.مگر اب دوبارہ جنوری ۲۰۰۶ء سے ربوہ سے شائع ہورہا ہے.
509 باب دوازدہم جماعت احمدیہ کی اہم شخصیات ۱۰ جلیل القدر صحابہؓ ۱۰ عظیم علماء سلسله ۱۵.ابتدائی مبلغین ۱۰.قومی ہلی،سیاسی ،سماجی علمی شخصیات
510
511 دس جلیل القدر صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کا مختصر تعارف ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف انجام آتھم میں ایک اور پیشگوئی کا پورا ہون“ کے عنوان سے تحریر فرماتے ہیں : چونکہ حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے تین سو تیرہ اصحاب کا نام درج ہو گا.اس لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہو گئی.یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے اس سے اس امت مرحومہ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا کہ جو مہدویت کا مدعی ہوتا اور اس کے وقت میں چھاپہ خانہ بھی ہوتا.اور اس کے پاس ایک کتاب بھی ہوتی جس میں تین سو تیرہ نام لکھے ہوئے ہوتے.اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کام انسان کے اختیار میں ہوتا تو اس سے پہلے کئی جھوٹے اپنے تئیں اس کا مصداق بنا سکتے.مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی پیشگوئیوں میں ایسی فوق العادت شرطیں ہوتی ہیں کہ کوئی جھوٹا ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اور اس کو وہ سامان اور اسباب عطا نہیں کئے جاتے جو بچے کو عطا کئے جاتے ہیں.شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب جواہر الاسرار میں جو ۸۴۰ ء میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں.” در اربعین آمده است که خروج مهدی از قریه کدعه باشد - قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ الْمَهْدِى مِنْ قَرْيَةِ يُقَالُ لَهَا كَدْعَهِ وَيُصَدِّقُهُ اللَّهُ تَعَالَىٰ وَيَجْمَعُ أَصْحَابَهُ مِنْ أَقْصَى الْبِلادِ عَلَى عِدَةِ اَهْلِ بَدْرٍ بِثَلاثِ مِائَةٍ وَثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا وَمَعَهُ صَحِيفَةٌ مَحْتُومَةٌ (أَى مَطْبُوعَةٌ) فِيْهَا عَدَدَ أَصْحَابِهِ بِأَسْمَائِهِمْ وَبِلَادِهُم وَخَلَا لِهمُ یعنی مهدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے ( یہ نام دراصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے ) او پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ۳۱۳ ہوگا یعنی تین سو تیرہ ہوں گے اور ان کے نام بقید مسکن و خصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے.اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعوی کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سو تیرہ نام درج کر چکا ہوں اور اب دوبارہ اتمام حجت کے لئے تین سو تیرہ نام ذیل میں درج کرتا ہوں تا ہر یک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے حق میں پوری ہوئی ہے اور ہمو جب منشاء احدیت
512 کے بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحابہ خصلت صدق وصفا ر کھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضا کی راہوں میں ثابت کرے.شمار σ 66 خیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ا ا صفحه ۳۲۴-۳۲۵) فہرست ۳۱۳.اصحاب صدق وصفا اسماء اسماء حضرت منشی جلال الدین صاحب پینشنز سابق میر ۲ حضرت مولوی حافظ فضل دین صاحب کھاریاں منشی رجمنٹ نمبر ۱۲ موضع بلانی کھاریاں ضلع گجرات حضرت میاں محمد دین پٹواری بلانی کھاریاں ضلع گجرات حضرت میرزا امین بیگ صاحب معہ اہلبیت بہا لوجی جے یور حضرت منشی اروڑ ا صاحب کپورتھلہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ 1.ضلع گجرات حضرت قاضی یوسف علی نعمانی صاحب معہ اہلبیت تشام حصار حضرت مولوی قطب الدین صاحب حضرت میاں محمد خاں صاحب کپورتھلہ حضرت منشی عبدالرحمن صاحب کپورتھلہ 17 حضرت مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی رہتاس جہلم حضرت منشی فیاض علی صاحب کپورتھلہ ۱۲ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹ ۱۳ حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹ ۱۴ حضرت مولوی وزیرالدین صاحب کانگڑہ ۱۵ حضرت منشی گوہر علی صاحب جالندھر ۱۷ حضرت میاں نبی بخش صاحب رفوگر.امرتسر ۱۸ حضرت عبد الخالق صاحب رفوگر.امرتسر | عبد ۱۹ حضرت میاں قطب الدین خان صاحب مسگر امرتسر ۲۰ حضرت ابوالحمید صاحب حیدر آباد دکن ۲۱ حضرت مولوی حافظ حکیم نور دین صاحب معہ ہر ۲۲ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب ۲۳ دوز وجہ بھیرہ ضلع شاه یور امر و به ضلع مراد آباد حضرت مولوی حاجی حکیم فضل دین صاحب ۲۴ حضرت صاحبزادہ محمد سراج الحق صاحب جمالی نعمانی قادیانی سابق سرساوی معہ اہلبیت معہ ہر دوز وجہ بھیرہ
513 ۲۵ حضرت سید ناصر نواب صاحب دہلوی ۲۶ حضرت صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانوی معہ اہلبیت قادیانی حال قادیانی ۲۷ حضرت صاحبزادہ منظور محمد صاحب قادیانی ۲۸ حضرت حافظ مولوی احمد اللہ خاں صاحب قادیانی مع اہلبیت معہ اہلبیت ۲۹ حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا ۳۰ حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھواں صاحب معہ اہلبیت گورداسپور معہ اہلبیت حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھواں ۳۲ حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھواں گورداسپور گورداسپور معہ اہلبیت معہ اہلبیت ۳۳ حضرت میاں عبدالعزیز صاحب پٹواری حضرت منشی گلاب دین صاحب رہتاس جہلم سیکھواں گورداسپور معہ اہلبیت ۳۵ حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوئی ۳۶ حضرت میاں عبداللہ صاحب پٹواری سنوری ۳۷ حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب نو مسلم سابق لیس دفعدار رسالہ ۱۲ چھاؤنی سیالکوٹ ۳۸ جناب مولوی مبارک علی صاحب امام چھاؤنی سیالکوٹ ۳۹ حضرت میرزا نیاز بیگ صاحب کلانوری ۴۰ جناب میرزا یعقوب بیگ صاحب کلانوری ۴۱ حضرت میرزا ایوب بیگ صاحب ۴۲ جناب میرزا خدا بخش صاحب معہ اہلبیت کلانوری معہ اہلبیت جھنگ ۴۳ حضرت سردار نواب محمد علی خاں صاحب ۴۴ حضرت سید محمد عسکری خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ سابق اکسٹرا اسٹنٹ اللہ آباد ۴۵ حضرت میرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانه پیاله ۴۶ حضرت شیخ شہاب الدین صاحب لود یا نه ۴۷ حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب لودیا نہ حضرت منشی حمید الدین صاحب اود یا نه ۴۹ حضرت میاں کرم الہی صاحب لو دیا نہ ۵۰ حضرت قاضی زین العابدین صاحب خانپور ۵۱ حضرت مولوی غلام حسین صاحب رجسٹرار پشاور ۵۲ حضرت محمد انوار حسین خاں صاحب شاہ آباد ہر دوئی ۵۳ حضرت شیخ فضل الہی صاحب فیض اللہ چک ۵۴ حضرت میاں عبد العزیز صاحب دھلی ۵۵ حضرت مولوی محمد سعید صاحب شامی طرابلسی ۵۶ جناب مولوی حبیب شاہ صاحب خوشاب
514 ۵۷ حضرت حاجی احمد صاحب بخارا حضرت حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک ۵۹ | جناب شیخ نور احمد صاحب امرتسر ۶۰ حضرت مولوی جمال الدین صاحب سید واله حضرت میاں عبداللہ صاحب ٹھٹھہ شیر کا جھنگ ۶۲ حضرت میاں اسمعیل صاحب سرساوه ۶۳ حضرت میاں عبدالعزیز صاحب نو مسلم قادیان ۶۴ جناب خواجہ کمال الدین صاحب بی اے معہ اہل میت ۲۵ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور ۶۶ ۶۶ | حضرت شیر محمد خاں صاحب بکھر ضلع شاہپور ۲۷ حضرت منشی محمد افضل صاحب لاہور حال ممباسہ ۲۸ حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب گوڑیانی ملازم ممباسه ۶۹ حضرت میاں کریم الدین صاحب مدرس ۷۰ حضرت سید محمد آ ۷۰ حضرت سید محمد اسمعیل صاحب دہلوی طالب حال قادیان قلعہ سوبھا سنگھ ا حضرت بابو تا جدالدین صاحب اکونٹنٹ لاہور ۷۲ حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور ۷۳ حضرت شیخ نبی بخش صاحب لاہور ۷۴ حضرت منشی معراج الدین صاحب لاہور ۵ حضرت شیخ مسیح اللہ صاحب شاہجہانپور حضرت منشی چوہدری نبی بخش صاحب ۷۷ حضرت میاں محمد اکبر صاحب بٹالہ ۷۸ حضرت شیخ مولا بخش صاحب ڈنگہ گجرات و حضرت سیدامیر علی شاہ صاحب ۸۰ حضرت میاں محمد جان صاحب وزیر آباد 24 سارجنٹ سیالکوٹ حضرت میاں شادی خاں صاحب سیالکوٹ جناب میاں محمد نواب خان صاحب تحصیلدار جہلم ۸۳ جناب میاں عبداللہ خان صاحب برادر حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلم نواب خان صاحب جہلم ۸۵ حضرت شیخ غلام نبی صاحب راولپنڈی ۸۶ حضرت با بومحمد بخش صاحب ہیڈ کلرک چھاؤنی انبالہ ۸۷ حضرت منشی رحیم بخش صاحب میونسپل کمشنر او دهیانه ۸۸ حضرت منشی عبدالحق صاحب کرانچی والا لدھیانہ ۸۹ جناب حافظ فضل احمد صاحب لاہور ۹۰ حضرت قاضی امیر حسین صاحب بھیرہ ۹۱ حضرت مولوی حسن علی صاحب مرحوم بھاگلپور ۹۲ حضرت مولوی فیض احمد صاحب ۹۳ حضرت سید محمودشاہ صاحب مرحوم سیالکوٹ ۹۴ | حضرت مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین منی پور آسام
515 ۹۵ حضرت رحمن شاہ ناگپور ضلع چاندہ در ڈژه ۹۶ حضرت میاں جان محمد صاحب مرحوم قادیان ۹۷ حضرت منشی فتح محمد صاحب مع اہلبیت بزدار ۹۸ حضرت شیخ محمد صاحب یکی لیہ ڈیرہ اسمعیل خان 10+ ۹۹ | حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم لود یا نه حضرت منشی پیر بخش صاحب مرحوم جالندھر حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب نومسلم قادیان ۱۰۲ حضرت حاجی عصمت اللہ صاحب لودیانہ 1+1 ۱۰ حضرت میاں پیر بخش صاحب لود یا نه ۱۰۴ حضرت منشی ابراہیم صاحب لود یا نه ۱۰۵ حضرت منشی قمر الدین صاحب لودیا نه ۱۰۶ حضرت حاجی محمد امیر خاں صاحب سہارنپور ۱۰۷ حضرت حاجی عبد الرحمن صاحب مرحوم لودیا نہ ۱۰۸ | حضرت قاضی خواجہ علی صاحب لود یا نه ۱۰۹ حضرت منشی تاج محمد خاں صاحب لود یا نه حضرت سید محمد ضیاء الحق صاحب رو پڑ حضرت شیخ عبد الرحمن صاحب عرف شعبان کا بلی ۱۱۲ جناب خلیفہ رجب دین صاحب تاجر لاہور ۱۳ حضرت پیر جی خدا بخش صاحب مرحوم ڈیرہ دون ۱۱۴ حضرت حافظ مولوی محمد یعقوب خاں صاحب ڈیردون ۱۱۵ حضرت شیخ چراغ علی نمبر دار تھہ غلام علی ۱۱۶ جناب محمد اسمعیل غلام کبریا صاحب ۱۱۷ جناب احمد حسن صاحب فرزند رشید مولوی ۱۱۸ حضرت سیٹھ احمد صاحب عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا محمد احسن صاحب امروہی تاجر مدراس ۱۱۹ حضرت سیٹھ صالح محمد صاحب حاجی اللہ ۱۲۰ حضرت سیٹھ ابراہیم صاحب صالح محمد حاجی اللہ رکھا تا جر مدراس رکھا تا جر مدراس ۱۲۱ حضرت سیٹھ عبدالحمید صاحب حاجی ایوب ۱۲۲ حضرت حاجی مہدی صاحب عربی بغدادی حاجی اللہ رکھا تا جر مدراس نزیل مدراس ۱۲۳ حضرت سیٹھ محمد یوسف صاحب حاجی اللہ ۱۲۴ حضرت مولوی سلطان محمود صاحب رکھا تا جر مدراس میلا پور مدراس ۱۲۵ حضرت حکیم محمد سعید صاحب میلا پور مدراس ۱۲۶ حضرت منشی قادر علی صاحب میلا پور مدراس ۱۲۷ | حضرت منشی غلام دستگیر صاحب میلا پور مدراس ۱۲۸ حضرت منشی سراج الدین صاحب ترس کبیره ی مدراس
516 ۱۲۹ حضرت قاضی غلام مرتضی صاحب ۱۳۰ حضرت مولوی عبد القادر خان صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مظفر گڑھ حال پنشنر جمالپور لودیانه ۱۳۱ حضرت مولوی عبد القادر صاحب خاص لودیانه ۱۳۲ حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب مرحوم لاہور ۱۳۳ حضرت مولوی غلام حسین صاحب لاہور ۱۳۴ حضرت مولوی غلام نبی صاحب مرحوم خوشاب شاہ پور ۱۳۵ حضرت مولوی محمد حسین صاحب علاقہ ۱۳۶ حضرت مولوی شہاب الدین صاحب غزنوی کا بلی ریاست کپورتھلہ ۱۳۷ حضرت مولوی سید محمد تفضل حسین صاحب ۱۳۸ حضرت منشی صادق حسین صاحب مختار ا ٹاوہ اکسٹرا اسسٹنٹ علی گڑھ ضلع فرخ آباد ۱۳۹ | حضرت شیخ مولوی فضل حسین صاحب ۱۴۰ حضرت میاں عبدالعلی صاحب موضع عبدالرحمن ضلع شاہ پور احمد آبادی جہلم ۱۴۱ حضرت منشی نصیر الدین صاحب لونی حال حیدر آباد حضرت قاضی محمد یوسف صاحب قاضی کوٹ گوجرانوالہ ۱۴۳ حضرت قاضی فضل الدین صاحب قاضی کوٹ ۱۴۴ حضرت قاضی سراج الدین صاحب قاضی کوٹ حضرت شیخ کرم الہی صاحب کلرک ریلوے پٹیالہ ۱۴۵ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب فرزند رشید ۱۴۶ قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹ گوجرانوالہ ۱۴۷ حضرت میرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم سامانہ پٹیالہ ۱۴۸ حضرت میرزا ابراہیم بیگ صاحب مرحوم سامانہ پٹیالہ ۱۴۹ حضرت میاں غلام محمد صاحب مجہر الہ.لاہور ۱۵۰ جناب مولوی محمد فضل صاحب چنگا.گو جر خاں ۱۵۱ حضرت ماسٹر قا در بخش صاحب لودیا نہ ۱۵۲ حضرت منشی اللہ بخش صاحب لود یا نه ۱۵۳ حضرت حاجی ملا نظام الدین صاحب ۱۵۴ حضرت عطاء الہی غوث گڑھ.پٹیالہ ۱۵۵ حضرت مولوی نورمحمد صاحب مانگٹ.پٹیالہ ۱۵۶ حضرت مولوی کریم اللہ صاحب امرتسر ۱۵۷ حضرت سید عبدالہادی صاحب سولن.شملہ ۱۵۸ حضرت مولوی محمد عبد اللہ خان صاحب پٹیالہ ۱۵۹ جناب ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب پٹیالہ ۱۰ حضرت ڈاکٹر بوریخان صاحب قصور ضلع لاہور ۱۶۱ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ۱۶۲ ۱۶۲ جناب غلام محی الدین خان صاحب فرزند ڈاکٹر لا ہور حال چکراتہ بوڑیخان صاحب
517 ۱۶۳ حضرت مولوی صفدر حسین صاحب حیدر آباد دکن ۱۶۴ حضرت خلیفہ نور دین صاحب جموں ۱۶۵ حضرت میاں اللہ دتا صاحب جموں ۱۶۷ حضرت سید مهدی حسین صاحب علاقہ پٹیالہ ۱۶۶ ۱۶۸ حضرت منشی عزیز الدین صاحب کانگڑہ حضرت مولوی حکیم نو رمحمد صاحب موکل ۱۶۹ حضرت حافظ محمد بخش صاحب مرحوم کوٹ قاضی ۱۷۰ حضرت چوہدری شرف الدین صاحب کو ٹلہ فقیر جہلم ۱۷۱ حضرت میاں رحیم بخش صاحب امرتسر ۱۷۲ حضرت مولوی محمد افضل صاحب کملہ گجرات ۱۷۳ حضرت میاں اسمعیل صاحب امرتسری ۱۷۴ حضرت مولوی غلام جیلانی صاحب گبره ونواں جالندھر ۱۷۵ حضرت منشی امانت خان صاحب نادون.کانگڑہ ۱۷۶ حضرت قاری محمد صاحب.جہلم ۱۷۷ حضرت میاں کرم داد معہ اہلبیت.قادیان ۱۷۸ حضرت نوراحمد لودیانہ ۱۷۹ حضرت میاں کرم الہی صاحب لاہور ۱۸۰ حضرت میاں عبد الصمد صاحب نارووال ۱۸۱ حضرت میاں غلام حسین صاحب معہ اہلیہ.رہتاس ۱۸۲ حضرت میاں نظام الدین صاحب.جہلمہ ۱۸۳ حضرت میاں محمد صاحب ۱۸۴ حضرت میاں علی محمد صاحب جہلم ۱۸۵ حضرت میاں عباس خاں کہو ہار گجرات ۱۸۶ حضرت میاں قطب الدین صاحب کو ٹلہ فقیر جہلم ۱۸۷ حضرت میاں اللہ دتہ خان صاحب اڈیالہ جہلم ۱۸۸ حضرت محمد حیات صاحب چک جانی جہلم ۱۸۹ حضرت مخدوم مولوی محمد صدیق صاحب بھیرہ ۱۹۰ حضرت عبد المغنی صاحب فرزند رشید مولوی برہان الدین صاحب جہلمی قاضی کوٹ گوجرانوالہ ۱۹۱ حضرت قاضی چراغ الدین صاحب ۱۹۲ حضرت میاں فضل الدین صاحب قاضی کوٹ گوجرانوالہ ۱۹۳ حضرت میاں علم الدین صاحب کو ٹلہ فقیر جہلم ۱۹۴ حضرت قاضی میرمحمد صاحب کوٹ کھلیان ۱۹۵ حضرت میاں اللہ دتا صاحب نت.گوجرانوالہ ۱۹۶ حضرت میاں سلطان محمد صاحب نت.گوجرانولہ ۱۹۷ حضرت مولوی خاں ملک صاحب کہیوال ۱۹۸ حضرت میاں اللہ بخش صاحب علاقہ بند امرتسر ۱۹۹ حضرت مولوی عنایت الله مدرس مانانوالہ حضرت منشی میراں بخش صاحب گوجرانوالہ ۲۰۱ حضرت مولوی احمد جان صاحب مدرس گوجرانوالہ ۲۰۲ حضرت مولوی حافظ احمد دین چک سکندر.گجرات ۲۰۳ حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کہیوال.جہلم ۲۰۴ حضرت میاں مہر دین صاحب لالہ موسیٰ
518 ۲۰۵ حضرت میاں ابراہیم صاحب پنڈوری.جہلم ۲۰۷ | حضرت محمد جو صاحب.امرتسر ۲۰۹ حضرت منشی روشن دین صاحب ڈنڈوٹ.جہلم ۲۱۱ ۲۱۳ ۲۰۶ ۲۰۸ ۲۱۰ حضرت سید محمودشاہ صاحب فتح پور.گجرات حضرت منشی شاہ دین صاحب دینہ.جہلم حضرت حکیم فضل الہی صاحب.لاہور حضرت شیخ عبدالله د یوان چند صاحب کمپونڈر لاہور ۲۱۲ حضرت منشی محمد علی صاحب.لاہور | حضرت منشی امام الدین صاحب کلرک لاہور ۲۱۴ حضرت منشی عبدالرحمن صاحب لاہور ۲۱۵ حضرت خواجہ جمال الدین صاحب بی.اے ۲۱۶ حضرت منشی مولا بخش صاحب کلرک.لاہور لا ہور حال جموں ۲۱۷ حضرت شیخ محمد حسین صاحب مراد آباد.پٹیالہ ۲۱۸ حضرت جناب عالم شاہ صاحب کھاریاں.گجرات ۲۱۹ حضرت مولوی شیر محمد صاحب ہو جن.شاہپور ۲۲۰ حضرت میاں محمد اسحق صاحب او در سیر بھیرہ حال ممباسه ۲۲۱ حضرت میرزا اکبر بیگ صاحب.کلانور ۲۲۲ حضرت مولوی محمد یوسف صاحب.سنور ۲۲۳ | حضرت میاں عبدالصمد صاحب.سنور ۲۲۴ حضرت منشی عطا محمد صاحب.سیالکوٹ ۲۲۵ حضرت شیخ مولا بخش صاحب.سیالکوٹ ۲۲۶ حضرت سید فصلیت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر ڈنگہ ۲۲۷ حضرت منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر.۲۲۸ حضرت سید احمد علی شاہ صاحب.سیالکوٹ کورد اسپوره ۲۲۹ حضرت ماسٹر غلام محمد صاحب.سیالکوٹ ۲۳۰ حضرت حکیم محمد دین صاحب.سیالکوٹ ۲۳۱ ۲۳۳ حضرت میاں غلام محی الدین صاحب سیالکوٹ ۲۳۲ حضرت میاں عبدالعزیز صاحب.سیالکوٹ حضرت منشی محمد دین صاحب.سیالکوٹ ۲۳۴ حضرت منشی عبدالمجید صاحب او جله گورداسپور ۲۳۵ حضرت میاں خدا بخش صاحب بٹالہ حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب حاجی پور کپورتھلہ ۲۳۷ حضرت محمد حسین صاحب لنگیاں والی گوجرانوالہ ۲۳۸ جناب منشی زین الدین محمد ابراہیم انجینئر بمبئی ۲۳۹ حضرت سید فضل شاہ صاحب.لاہور ۲۴۰ حضرت سید ناصر شاہ صاحب اوور سیر اوڑی.کشمیر ۲۴۱ حضرت منشی عطا محمد صاحب چنیوٹ جھنگ ۲۲ حضرت شیخ نوراحمد صاحب جالندھر ۲۴۳ حضرت منشی سرفراز خان صاحب جھنگ ۲۴۴ حضرت مولوی سید محمد رضوی صاحب حیدر آباد مفتی فضل الرحمن صاحب معہ اہلیہ بھیره ۲۴۶ حضرت حافظ محمد سعید صاحب بھیرہ حال لندن ۲۴۵
519 ۲۴۷ حضرت مستری قطب الدین صاحب بھیرہ ۲۴۸ حضرت مستری عبد الکریم صاحب بھیرہ ۲۴۹ حضرت مستری غلام الہی صاحب بھیرہ ۲۵۰ حضرت میاں عالم دین صاحب بھیرہ ۲۵۱ حضرت میاں محمد شفیع صاحب بھیرہ حضرت میاں نجم الدین صاحب بھیرہ ۲۵۲ ۲۵۳ حضرت میاں خادم حسین صاحب بھیرہ ۲۵۴ حضرت بابو غلام رسول صاحب بھیرہ ۲۵۵ حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم بھیرہ ۲۵۶ حضرت مولوی سردار محمد صاحب لون میانی ۲۵۷ حضرت مولوی دوست محمد صاحب لون میانی ۲۵۸ حضرت مولوی حافظ محمد صاحب بھیرہ حال کشمیر ۲۵۹ حضرت مولوی شیخ قادر بخش صاحب احمد آباد حضرت منشی اللہ داد صاحب کلرک چھاؤنی شاہپور ۲۶۱ حضرت میاں حاجی وریام - خوشاب ۲۶۲ حضرت حافظ مولوی فضل دین صاحب.خوشاب ۲۶۳ حضرت سید دلدار علی صاحب بلہور کانپور ۲۶۴ حضرت سید رمضان علی صاحب کانپور ۲۶۵ حضرت سید جیون علی صاحب پلول حال الہ آباد { حضرت سید فرزند حسین صاحب چاند پور پلول حال اللہ آباد ۲۶۷ حضرت سید اہتمام علی صاحب موہر ونڈ الہ آباد ۲۶۸ حضرت حاجی نجف علی صاحب کڑہ محلہ الہ آباد ۲۹ حضرت شیخ گلاب صاحب کڑہ محلہ الہ آباد ۲۷۰ حضرت شیخ خدا بخش صاحب کٹرہ محلہ الہ آباد ۲۷۱ حضرت حکیم محمد حسین صاحب لاہور ۲۷۲ حضرت میاں عطا محمد صاحب.سیالکوٹ ۲۷۳ حضرت میاں محمد دین صاحب.جموں ۲۷۴ حضرت میاں محمد حسن صاحب عطار.لد ہیانہ ۲۷۵ حضرت سید نیاز علی صاحب بدایون حال را مپور ۲۷۶ حضرت ڈاکٹر عبدالشکور صاحب.سرسہ ۲۷۷ حضرت شیخ حافظ الہ دین صاحب بی اے جھاوریاں ۲۷۸ حضرت میاں عبدالسبحان.لاہور ۲۷۹ | حضرت میاں شہامت خاں.تادون ۲۸۰ حضرت مولوی عبدالحکیم صاحب دھارو وار علاقہ بمبئی ۲۸۱ حضرت قاضی عبد اللہ صاحب کوٹ قاضی ۲۸۲ حضرت عبدالرحمن صاحب پٹواری سنوری ۲۸۳ حضرت برکت علی صاحب مرحوم.تھہ غلام نبی ۲۸۴ حضرت شہاب الدین صاحب.تھہ غلام نبی ۲۸۵ حضرت صاحب دین صاحب تہاں.گجرات ۲۸۶ حضرت مولوی غلام حسن مرحوم.دینا نگر ۲۸۷ حضرت نواب دین صاحب مدرس.دینا نگر ۲۸۸ حضرت احمد دین صاحب.منارہ ۲۸۹ | حضرت عبداللہ صاحب قرآنی.لاہور حضرت کرم الہی صاحب کمپازیٹر.لاہور ۲۹۰
520 ۲۹۱ حضرت سید محمد آفندی.ترکی ۲۹۲ حضرت عثمان عرب صاحب.طائف شریف ۲۹۳ حضرت عبدالکریم صاحب مرحوم چمارو ۲۹۴ حضرت عبدالوہاب صاحب بغدادی ۲۹۵ حضرت میاں کریم بخش صاحب مرحوم مغفور ۲۹۶ حضرت عبدالعزیز صاحب عرف عزیز الدین ناسنگ من جمال پور ضلع لدھیانہ ۲۹۷ حضرت حافظ غلام محی الدین صاحب ۲۹۸ حضرت محمد اسمعیل صاحب نقشہ نویس کا لکا ریلوے ۲۹۹ | حضرت احمد دین صاحب چک کھاریاں ۳۰۰ حضرت محمد امین صاحب.کتاب فروش جہلم ۳۰۱ حضرت مولوی محمود حسن خان صاحب ۳۰۲ حضرت محمد رحیم الدین صاحب حبیب والہ مدرس ملازم پٹیالہ حضرت شیخ حرمت علی صاحب کراری.الہ آباد ۳۰۴ حضرت میاں نورمحمد صاحب غوث گڑھ.پٹیالہ ۳۰۳ حض ۳۰۵ حضرت مستری اسلام احمد صاحب بھیرہ ۳۰۶ حضرت حسینی خاں صاحب اللہ آباد ۳۰۷ حضرت قاضی رضی الدین صاحب اکبر آباد ۳۰۸ حضرت سعد اللہ خان صاحب الہ آباد حضرت مولوی عبد الحق صاحب ولد مولوی فضل ۳۱۰ حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب مرحوم محافظ دفتر حق صاحب مدرس سامانہ پٹیالہ پولیس.جہلم ۳۱۱ حضرت رجب علی صاحب پنشنز ساکن جیونسی کہنہ ۳۱۲ حضرت ڈاکٹر سید منصب علی صاحب پنشنزالہ آباد ضلع اللہ آباد ۳۱۳ حضرت میاں کریم اللہ صاحب سارجنٹ پولیس جہلم اب ذیل میں حضرت مسیح موعود کے دس جلیل القدر صحابہ کرام کا تعارف پیش کیا جارہا ہے.ا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ولادت: ۱۸۵۸ء.بیعت ۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء.وفات : ۱۱ را کتوبر ۱۹۰۵ء تعارف: حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ ۱۸۵۸ء میں سیالکوٹ میں چوہدری محمد سلطان صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.آپ نے سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی.بورڈ سکول سیالکوٹ میں فارسی مدرس کے
521 طور پر کام کیا.آپ کے مضامین رسالہ انوار الاسلام اور الحق سیالکوٹ میں شائع ہوتے تھے.عیسائیت کے منادوں سے مذاکرات کا آپ کو خاص ملکہ تھا.آپ کبھی کبھی اردو ، فارسی میں 'صافی مخلص سے شعر بھی کہتے تھے.حضرت اقدس کی بیعت : ۱۸۸۹ء میں حضرت اقدس کی بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا بیعت نمبر ۴۳ ہے.آپ کی والدہ حضرت حشمت بی بی صاحبہ کی بیعت ۷فروری ۱۸۹۲ء اور اہلیہ حضرت زینب بی بی صاحبہ کی بیعت بھی اسی روز کی ہے.اس سے قبل سرسید احمد خاں کی تحریرات سے متاثر تھے ۱۸۹۸ء میں سیالکوٹ چھوڑ کر قادیان تشریف لے آئے.قادیان میں ہجرت کرنے کے بعد آپ حضرت اقدس کی تائید میں مضامین لکھنے کے علاوہ خطبات، تقاریر اور لیکچر بھی دیتے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں:.جبی فی اللہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی : مولوی صاحب اس عاجز کے یک رنگ دوست ہیں اور مجھ سے ایک کچی اور زندہ محبت رکھتے ہیں اور اپنے اوقات عزیز کا اکثر حصہ انہوں نے تائید دین کے لئے وقف کر رکھا ہے.ان کے بیان میں ایک اثر ڈالنے والا جوش ہے.اخلاص کی برکت اور نورانیت ان کے چہرہ سے ظاہر ہے میری تعلیم کی اکثر باتوں سے وہ متفق الرائے ہیں.اخرویم مولوی نور دین صاحب کے انوار صحبت نے بہت سا نورانی اثر ان کے دل پر ڈالا ہے.66 (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۳) آسمانی فیصلہ، آئینہ کمالات اسلام، سراج منیر، تحفہ قیصریہ، کتاب البریہ اور اس کے علاوہ ملفوظات میں متعدد جگہ اپنے مخلصین ، جلسہ میں شریک احباب، چندہ دہندگان ، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پر امن جماعت کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے.آپ کی خدمات دینیہ : حضرت اقدس کا اسلامی اصول کی فلاسفی والا مضمون جلسه اعظم مذاہب عالم میں حضرت مولوی صاحب نے ہی پڑھ کر سنایا تھا.اس کے علاوہ خطبہ الہامیہ کو دوران خطبہ ساتھ ساتھ لکھتے رہے اور اس کا ترجمہ بھی کیا.حضرت اقدس کا لیکچر لاہور اور لیکچر سیالکوٹ بھی جلسہ عام میں پڑھنے کی سعادت آپ کو حاصل ہوئی.کتاب من الرحمن میں حضرت اقدس نے اشتراک الالسنہ میں جان فشانی کرنے والے مردان خدا کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے آپ کا ذکر فرمایا ہے.آپ کی متعدد تصانیف میں سے چند کتب کے نام درج ذیل ہیں (۱) الحق سیالکوٹ اکتوبر ۱۸۹۱ ءو نومبر دسمبر ۱۸۹۱ء (۲) القول الفصیح کی اشاعت حقیقی مثیل مسیح (۳) لیکچر گناه (۴) لیکچر موت (۵) بادی کامل
522 کی.(۶) ایام الصلح کا فارسی ترجمہ (۷) حضرت مسیح موعود جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے کیا اصلاح اور تجدید کی.ایک لیکچر (۸) سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۹) ضمیمہ واقعات صحیحہ (۱۰) اعجاز اسیح اور حضرت مسیح موعود اور پہر مہرعلی شاہ گولڑوی (۱۱) خطبات کریمیہ (۱۲) دعوۃ الی اللہ.ندوۃ العلماء کی طرف ایک خط (۱۳) خلافت را شده حصه اول (۱۴) خلافت راشدہ حصہ دوم المعروف فرقان.حضرت اقدس سے تعلق محبت : حضرت اقدس مسیح موعود سے آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار اپنے ایک خطبے میں فرمایا :.” میری روح امام کے لئے سرشار ہو کر یہ پاک ندیاں بہا رہی ہے اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ میں اس وقت خود حضرت اقدس کی زبان ہوں“ حضرت خلفیہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: ”مولوی صاحب کا تعلق سلسلہ سے اس قسم کا ہے کہ جماعت اسے بھلا نہیں سکتی.مسجد مبارک کے پرانے حصہ کی اینٹیں اب بھی ان کی ذمہ دار تقریروں سے گونج رہی ہیں.حضرت خلیفہ اول کا عشق اور رنگ کا تھا اور مولوی صاحب کا عشق اور رنگ کا.خطبہ نکاح ۱۲ جون ۱۹۴۵ء) وفات: آپ ذیا بیطس کے باعث بیمار ہوئے جس کی علامت کار بنکل ظاہر ہوئی.بیماری کے دوران حضرت اقدس کو الہام ہوا کہ :.وو روشتیر ٹوٹ گئے چنانچہ آپ اار اکتو بر ۱۹۰۵ءکو انتقال فرما گئے اور قادیان میں تدفین ہوئی.بہشتی مقبرہ کا قیام آپ کی وفات کے بعد ہوا.جہاں بعد میں آپ کی تدفین ہوئی.حضرت اقدس نے آپ کی وفات پر ایک طویل فارسی نظم تحریر کی.جس کے چند اشعار یہ ہیں:.کے تواں کردن شمار خوبی عبدالکریم آنکه جان داد از شجاعت بر صراط بر صراط مستقیم حامی دیں آنکہ یزداں نام او لیڈر نہاد عارف حق گنجینه دمین اسرار حق قویم صدق ورزید و بصدق کامل و اخلاص خویش مورد رحمت شد اندر درگه رب علیم
523 جنس نیگواں ایس چرخ بسیار آورد کم بزاید مادرے باس صفاء در در یتیم اے خدا بر تربت أو بارش رحمت بیار داخلش کن از کمال فضل در بیعت النعيم ( نقل از کتبه حضرت مولوی عبدالکریم) ترجمہ: عبدالکریم کی خوبیاں کیونکر گنی جا سکتی ہیں جس نے شجاعت کے ساتھ صراط مستقیم پر جان دی وہ جو دین اسلام کا حامی تھا اور جس کا خدا نے لیڈر نام رکھا تھا وہ خدائی اسرار کا عارف تھا اور دین متین کا خزانہ.اس نے صدق اختیار کر لیا تھا اور اپنے اخلاص اور صدق کامل کی وجہ سے رب علیم کی درگاہ میں رحمت کا مورد بن گیا تھا.اگر چہ آسمان نیکیوں کی جماعت بکثرت لاتا رہتا ہے مگر ایسا شفاف اور قیمتی موتی ماں بہت کم جنا کرتی ہے.اے خدا اس کی قبر پر رحمت کی بارش نازل فرما اور نہایت درجہ فضل کے ساتھ اسے جنت میں داخل کر دے.(نوٹ) تفصیلی حالات سیرت حضرت مولا نا عبد الکریم میں ملاحظہ فرمائیں.( بحواله ۳۱۳ اصحاب صدق وصفا ص ۴۰ تا ۴۳) ۲.حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹ ولادت ۱۸۵۹ء.بیعت ۲۹ سمبر ۱۸۹۰ء.وفات ۱۵نومبر ۱۹۱۸ء تعارف: حضرت سید میر حامد شاہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت حکیم میر حسام الدین رضی اللہ عنہ تھے.شمس العلماء سید میر مہدی حسن انہی کے بھائی تھے جو شاعر مشرق علامہ سر محمد اقبال کے استاد تھے.آپ کے دادا کا نام میر فیض (۱۷۹۵ء.۱۸۵۷ء) اور پردادا امیر ظہور اللہ تھے.جب حضرت اقدس ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف لائے تو انہی کے مکان پر فروکش ہوئے.۱۹۷۷ ء میں آپ نے سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور ڈی سی آفس میں ملازم ہو گئے.جموں کی کچہری میں بھی ملازمت کی.بیعت: آپ نے ابتدا ہی میں حضرت اقدس مسیح موعود کی بیعت کی تھی.رجسٹر بیعت کے مطابق آپ کی بیعت کا نمبر ۲۱۳ ہے.آپ کی اہلیہ حضرت فیروز بیگم صاحبہ کی بیعت سے فروری ۱۸۹۲ء کی ہے.بیعت کا نمبر ۲۴۶ ہے.دینی خدمات : آپ نظم و نثر اور تقریر میں کمال رکھتے تھے.آپ نے ہی علامہ سرمحمد اقبال مرحوم کو طالب علمی کے دوران احمدیت کا پیغام پہنچایا اور اس کا اظہار ایک منظوم کلام میں فرمایا.سیالکوٹ کے مشاعروں میں اپنے حسن کلام کی بدولت معروف تھے.
524 شمس العلماء سید میر مہدی حسن مرحوم حضرت میر صاحب کی پرہیز گاری اور تقویٰ کے معترف تھے.آپ کی کتب (1) لیکچر سیالکوٹ (۲) القول الفصل و مـاهـو بـالـهـزل (۳) جنگ مقدس کا فوٹو (۴) الجواب (۵) مسدس مسمی به احقاق حق (۶) واقعات ناگزیر (۷) سخن معقول (۸) دعوت دہلی (۹) کلام حامد (۱۰) رباعیات حامد (۱۱) جام عرفان (۱۲) گلزار احمد - کتاب القول الفصل کو حضرت چوہدری محمد بخش صاحب حضرت خلیفہ نورالدین اور حضرت حکیم فضل الدین نے مفت تقسیم کیا.حضرت اقدس مسیح موعود کی نظر میں آپ کا مقام : حضرت اقدس مسیح موعود آپ کے متعلق ازالہ اوہام میں تحریر فرماتے ہیں: سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی.یہ سید صاحب محب صادق اور اس عاجز کے ایک نہایت مخلص دوست کے بیٹے ہیں.جس قدر خدا تعالیٰ نے شعر اور سخن میں ان کو قوت بیان دی ہے وہ رسالہ قول الفصل کے دیکھنے سے ظاہر ہوگی.میر حامد شاہ کے بشرہ سے علامات صدق و اخلاص و محبت ظاہر ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اسلام کی تائید میں اپنی نظم و نثر سے عمدہ عمدہ خدمتیں بجالائیں گے.ان کا جوش سے بھرا ہوا اخلاص اور ان کی محبت صافی جس حد تک مجھے معلوم ہوتی ہے میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.مجھے نہایت خوشی ہے کہ وہ میرے پرانے دوست میر حسام الدین صاحب رئیس سیالکوٹ کے خلف رشید ہیں.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر ازالہ اوہام ، آسمانی فیصلہ، آئینہ کمالات اسلام، تحفہ قیصریہ، سراج منیر، کتاب البریہ اور حقیقۃ الوحی اور ملفوظات جلد پنجم میں کئی جگہ پر اپنے مخلصین ، جلسہ سالانہ کے شرکاء، چندہ دہندگان، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پُر امن جماعت کے ضمن میں فرمایا ہے.وفات: ۱۵ نومبر ۱۹۱۸ء کو آپ حرکت قلب بند ہونے سے انتقال فرما گئے.وفات کے وقت آپ کی عمر قریباً ۶۰ سال تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ہدایت پر جنازہ سیالکوٹ سے قادیان لایا گیا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی.(بحوالہ ۳۱۳ اصحاب صدق وصفا ۴۳ ۴۴) ۳.حضرت سید میر ناصر نواب صاحب دہلوی ولادت ۱۸۴۵ء.بیعت : ۱۸ جون ۱۸۹۱ء.وفات: ۱۹ ستمبر ۱۹۲۴ء تعارف: حضرت سیدنا میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کا خاندان صوفیاء کا خاندان تھا.جو مغل شہنشاہ شاہجہان کے زمانہ میں بخارا سے ہجرت کر کے ہندوستان وارد ہوا.پہلے بزرگ خواجہ محمد نصیر نقشبندی تھے جو حضرت بہاؤالدین نقشبندی کی اولاد میں سے تھے.اس خاندان میں مشہور صوفی حضرت خواجہ میر محمد ناصر
525 عندلیب پیدا ہوئے.جنہیں ایک بزرگ نے کشف میں ایک عظیم الشان بشارت دی کہ : ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی.اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی اور اس کا انجام مہدی موعود پر ہو گا.“ حضرت خواجہ صاحب نے اس عظیم الشان بشارت پر صوفیاء کے ایک نئے سلسلہ طریق محمدیہ کی بنیاد رکھی اور پہلی بیعت اپنے تیرہ سالہ بیٹے خواجہ میر درد سے لی.حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت خواجہ میر درد کے نواسے تھے.آپ کے والد گرامی کا نام حضرت میر ناصر امیر تھا.اس بشارت کا ظہور حضرت میر صاحب کی دختر سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شادی کے رنگ میں ہوا.حضرت اقدس سے تعلق: حضرت سید نامیر ناصر نواب امرتسر میں محکمہ نہر میں سب اور سیٹر ملازم ہوئے اور اس سلسلہ میں قادیان آنے کا موقع ملا اور حضرت اقدس مسیح موعود کے خاندان سے ابتدائی تعارف ہوا.مزید تعلق حضرت اقدس سے بعد میں آپ کی صاحبزادی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم (حضرت ام المومنین ) کے نکاح سے ہوا.حضرت اقدس سے نکاح ۱۸۸۴ء میں دہلی میں ہوا جو مشہور اہلحدیث عالم شیخ الملک مولانا نذیر حسین دہلوی نے پڑھا.اس وقت حضرت اقدس موعود علیہ السلام کی بالکل شہرت نہ تھی.حضرت اقدس نے جب براہین احمدیہ شائع فرمائی تو آپ نے بھی ایک نسخہ خریدا.آپ محکمہ انہار میں ملازمت کے سلسلہ میں مختلف علاقوں میں متعین رہے.بیعت : ۱۸۸۹ء میں حضرت اقدس نے ماموریت کا دعویٰ فرمایا اور لدھیانہ میں سلسلہ بیعت شروع ہوا تو کچھ توقف سے آپ نے ۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس کی بیعت کر لی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کی بیعت ۱۳۳ نمبر پر ہے.اس بیعت کے نتیجے میں آپ کو اپنے زمانہ اہلحدیث کے دوستوں مولوی محمدحسین بٹالوی اور شیخ نذیرحسین صاحب دہلوی سے تعلقات چھوڑنے پڑے.جن کے ساتھ مل کر آپ حضرت مسیح موعود کی ابتداء مخالفت بھی کرتے رہے تھے.بیعت سے قبل ۱۲/ اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ میں نے جو کچھ مرزا صاحب کو فقط اپنی غلط فہمیوں کے سبب سے کہا نہایت برا کیا اب میں تو بہ کرتا ہوں.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے اپنی کتاب ازالہ اوہام حصہ دوم میں صفحہ ۵۳۵ پر 66 فرمایا:.میر صاحب موصوف علاوہ رشتہ روحانی کے رشتہ جسمانی بھی اس عاجز سے رکھتے ہیں کہ اس عاجز کے خسر ہیں.نہایت یک رنگ اور صاف باطن اور خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اتباع کو سب چیز سے مقدم سمجھتے ہیں اور کسی سچائی کے کھلنے سے پھر اس کو شجاعت قلبی کے ساتھ بلا توقف قبول کر
526 لیتے ہیں.66 آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ میں شرکت اور چندہ دہندگان میں آپ کا ذکر موجود ہے.تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پُر امن جماعت میں آپ کا ذکر موجود ہے.نور القرآن نمبر ۲ میں حضرت اقدس کی خدمت میں رہنے والوں میں آپ کا ذکر بھی کیا گیا ہے.علاوہ مختلف اوقات میں حضرت اقدس کی ملفوظات میں بھی ذکر ملتا ہے.خدمات دینیہ : آپ کی تبدیلی پیالہ سے فیروز پور ہوئی جہاں سے پادری عبد اللہ آتھم کے رشتہ داروں نے آپ کا تبادلہ مردان کروا دیا.مردان سے آپ پینشن پا کر مستقل قادیان آسے.آپ حضرت اقدس مسیح موعود کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے.خدمتگار تھے.انجینئر تھے.مالی تھے.زمین کے مختار تھے.حضرت اقدس کے اکثر معجزات بچشم خود دیکھے.آپ کی خدمات میں مسجد نور، نور ہسپتال، دار الضعفاء وغیرہ کا قیام شامل ہے.حضرت میر صاحب شاعرانہ فطرت لے کر پیدا ہوئے تھے.ابتدائی زمانہ میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسے میں آپ نے ایک نظم پڑھی جس کا ایک شعر تھا.پھولوں کی گر طلب ہے تو پانی چمن کو دے جنت کی گر طلب ہے تو زر انجمن کو دے انجمن کو اس نظم کے وقت بہت سا روپیہ وصول ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے کلام کو پسند فرماتے تھے.آپ کی ایک نظم کو کتاب ” آریہ دھرم میں بھی درج فرمایا.اسی طرح ” جلسہ اعظم مذاہب میں بھی آپ کو نظم پڑھنے کا موقع ملا.سیرت المہدی میں آپ کی متعدد روایات درج ہیں.وفات:۱۹ ستمبر ۱۹۲۴ء کو جمعہ کے دن آپ کا انتقال ہوا.بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.آپ کے جدی خاندان میں آپ کی ایک بھانجی حضرت سیدہ شوکت سلطان صاحبہ کواحدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.اولاد آپ کی صاحبزادی حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں ) رضی اللہ عنہا، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل اور حضرت میر محمد اسحق تھے.اس طرح اس خاندان سادات کا حضرت اقدس کے خاندان کے ساتھ گہرا تعلق قائم ہوا بلکہ یہ ایک ہی خاندان ہو گیا.(بحوالہ ۳۱۳ اصحابه صدق و صفا ۶۳۶۲)
527 ۴.حضرت سردار نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ولادت یکم جنوری ۱۸۷۰ء.بیعت ۱۹ نومبر ۱۸۹۰ء.وفات، افروری ۱۹۴۵ء تعارف: حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ کے مورث اعلیٰ شیخ صدرالدین جلال آباد کے باشندہ تھے.شیروانی قوم کے پٹھان تھے جو ۱۴۶۹ء میں سلطنت بہلول لودھی کے زمانہ میں اپنے وطن سے ہندوستان میں آئے اور ایک قصبہ آباد کیا جس کا نام مالیر کوٹلہ ہے.آپ کے والد ماجد کا نام نواب غلام محمد خاں صاحب تھا.تعلیم: ابتدائی تعلیم چیفس کالج (انبالہ و لا ہور) سے حاصل کی.آپ ۱۸۸۷ء سے ۱۸۹۴ء تک محمدن ایجوکیشنل کانفرنس سے وابستہ رہے.اور آپ نے علی گڑھ کے مشہور سٹریجی ہال کی تعمیر میں پانچ صد و پہیہ چندہ دیا.حضرت اقدس سے تعلق اور بیعت : حضرت اقدس مسیح موعود سے خط و کتابت کا آغاز آپ کے استاد مولوی عبداللہ نخری کاندھلوی ( بیعت ہ مئی ۱۸۸۹ء) کی تحریک سے ہوا.حضرت نواب صاحب اپنے ایک خط میں حضرت اقدس مسیح موعود کو لکھتے ہیں.ابتداء میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے مؤید نہیں ہیں.بلکہ مخالفان اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں.مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا اور نہ انکار.پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے دعوے کئے ہیں.یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے.تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودیا نہ ملنے گیا تو اس وقت میری تسکین خوب ہو گئی اور آپ کو ایک با خدا بزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو بعد کی خط و کتابت نے میرے دل سے بلکلی دھویا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک شیعہ جو خلفائے ثلاثہ کی کسرشان کرے سلسلہ میں داخل ہوسکتا ہے.تب میں نے آپ کی بیعت کرلی.66 بیعت: رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت ۲۱۰ نمبر پر درج ہے.آپ نے ۱۹ نومبر ۱۸۹۰ء کو حضرت اقدس کی بیعت کا شرف حاصل کیا.حضرت اقدس سے رشتہ دامادی: آپ کے گھر روحانی بادشاہ کی بیٹی آئی اور آپ کا نکاح حضرت مسیح الزمان و مہدی دوراں کی مقدس صاحبزادی حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سے ہوا.
528 آپ کی نسبت الہام حضرت اقدس : حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسبت ایک الہام میں حجتہ اللہ کے نام سے یاد فرمایا.حضرت اقدس نے کتاب من الرحمن میں اشتراک السنہ میں جاں فشانی کرنے والے مردان خدا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ کا ذکر بھی فرمایا ہے.(نوٹ ) آپ کے تفصیلی حالات کا ذکر ”سیرت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب مصنفہ محترم ملک صلاح الدین مرحوم میں ہے.(بحواله ۳۱۳ اصحاب صدق وصفا ۸۶-۸۷) ۵- حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحب بھیروی ولادت: ۱۸۴۲ء.بیعت : ۱۸۹۱ء.وفات: ۸/اپریل ۱۹۱۰ء تعارف : حضرت حکیم مولوی فضل دین صاحب رضی اللہ عنہ بھیرہ کی ایک معزز خواجہ فیملی سے تعلق رکھتے تھے جو حضرت مولانا نورالدین صاحب (خلیفہ امسیح الاول) کے بچپن کے دوست تھے.آپ اکثر حضور کی خدمت میں قادیان حاضر ہوتے تھے.بیعت : آپ کی بیعت ۱۸۹۱ء کی ہے کیونکہ ازالہ اوہام کی تصنیف کے وقت آپ کے صدق و اخلاص اور مالی قربانی کا ذکر ہے.آپ کی ہر دو زوجہ نے بیعت کی.آپ کی اہلیہ حضرت فاطمہ صاحبہ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت میں ۰۳ انمبر پر ہے.آپ کی دوسری زوجہ حضرت مریم بی بی صاحبہ تھیں.خدمات دینیہ اور تعلق محبت : آپ سلسلہ کی خدمت دل کھول کر کرتے تھے.آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود کی خوشنودی حاصل تھی.ایک روز حکیم فضل الدین صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود سے عرض کیا کہ یہاں میں نکما بیٹھا کیا کرتا ہوں مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں وہاں درس قرآن کروں گا یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ میں حضور کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت ہوحضور نے فرمایا آپ کا بیکار بیٹھنا بھی جہاد ہے اور یہ بے کاری ہی بڑا کام ہے.غرض بڑے دردناک اور افسوس بھرے لفظوں میں نہ آنے والوں کی شکایت کی اور فرمایا یہ عذر کرنے والے وہی ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں عذر کیا تھا.اِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَة اور خدا تعالیٰ نے ان کی تکذیب کر دی.قادیان میں آپ نے مطبع ضیاء الاسلام قائم کیا جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتا بیں چھپتی تھیں.اس کے علاوہ مدرسہ احمدیہ کے سپرنٹنڈنٹ اور کتب خانہ حضرت مسیح موعود کے مہتم اور لنگر خانہ
529 حضرت مسیح موعود کا کام آپ کے سپر د تھا.حضرت اقدس کے چھ گروپ فوٹوز میں چار میں شامل ہونے کا آپ کو اعزاز ملا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس فتح اسلام میں فرماتے ہیں.وو حکیم صاحب مدوح جس قدر مجھ سے محبت اور اخلاص اور حسن ارادت اور اندرونی تعلق رکھتے ،، ہیں میں اس کے بیان سے قاصر ہوں وہ میرے بچے خیر خواہ اور دلی ہمدرد اور حقیقت شناس مرد ہیں...(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸) حضرت اقدس نے آپ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے ازالہ اوہام میں فرمایا :.حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نورالدین کے دوستوں میں سے ان کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت با اخلاص آدمی ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ان کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حب اللہ کی شرط کو بجالا رہے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دین کی حقانیت کے پھیلانے میں اس قدر وافر حصہ ملا ہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی حکیم نورالدین صاحب کو دیا گیا ہے وہ اس سلسلہ کے دینی اخراجات بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پر کوئی ان کا احسن انتظام ہو جائے چنانچہ فتح اسلام جس میں معارف دینیہ کی پنچ شاخوں کا بیان ہے انہیں کی تحریک اور مشورہ سے لکھا گیا تھا.ان کی فراست نہایت صحیح ہے.وہ بات کی تہ تک پہنچتے ہیں اور ان کا خیال ظنون فاسدہ سے مصفی اور مز کی ہے.رسالہ ازالہ اوہام کے طبع کے ایام میں دو سو رو پیدان کی طرف سے پہنچا اور ان کے گھر کے آدمی بھی ان کے اس اخلاص سے متاثر ہیں اور وہ بھی اپنے کئی زیورات اس راہ میں محض اللہ خرچ کر چکے ہیں.حکیم صاحب موصوف نے باوجودان سب خدمات کے جو ان کی طرف سے ہوتی رہتی ہیں.خاص طور پر پہنچ روپے ماہواری اس سلسلہ کی تائید میں دینا مقرر کیا.جزاهم الله خير الجزاء و احسن عليهم في الدنيا والعقبی.“ ازالہ اوہام میں معاونت اشاعت میں کئی سو روپے ہوئے مستقل چندہ دہندگان میں بھی آپ کا ذکر ہے.آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ میں ذکر ” بعض الانصار کے تحت حضرت حکیم صاحب کا نام درج فرمایا ہے اور جلسہ سالانہ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں کی فہرست میں نمبر ۲ پر آپ کا نام درج فرمایا اسی طرح تحفہ قیصریہ اور سراج منیر کتاب البریہ اور آریہ دھرم میں اپنی پر امن جماعت اور چندہ دہندگان میں ذکر فرمایا ہے.پھر انجام آتھم میں مباہلہ کے بعد ظاہر ہونے والے نشانات میں آپ کا ذکر فرمایا کہ 66 حکیم صاحب مال اور جان سے اس راہ میں ایسے ہیں کہ گویا محو ہیں.“ نور القرآن نمبر ۲ میں امام کامل کی خدمت میں مصروف احباب میں آپ کا ذکر ہے.
530 میں ہوئی.آپ کی ازدواجی زندگی : آپ نے تین شادیاں کیں لیکن آپ کے ہاں اولا د نہ تھی.وفات: آپ کی وفات ۱۸ اپریل ۱۹۱۰ء کو دوران سفر لاہور میں ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان (ماخوذ اخذ ۳۱۳ اصحاب صدق وصفا) -۶.حضرت قاضی امیر حسین صاحب بھیروی ولات: ۱۸۴۸ ء - بیعت : مئی ۱۸۹۳ء.وفات: ۲۴ / اگست ۱۹۳۰ء تعارف : حضرت قاضی امیر حسین رضی اللہ عنہ بخاری سید تھے.مغلوں کے عہد میں آپ کے آباء کو قاضی کا جلیل القدر عہدہ ملا تھا.حصول تعلیم کا آغاز جوانی کے عالم میں ہوا.اس سے قبل اپنے والد صاحب کے ساتھ گھوڑوں کی تجارت کرتے تھے.سہارن پور کے مدرسہ مظہر العلوم سے تعلیم کی تکمیل کی.جب واپس بھیرہ تشریف لائے تو محلہ قاضیاں میں اپنی خاندانی مسجد میں حدیث کا درس دیا کرتے تھے.حضرت خلیفتہ امسح الاول سے تعلق حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ ان دنوں بھیرہ میں تھے اور ان کی سخت مخالفت ہو رہی تھی.انہی دنوں آپ کی شادی حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب کی بھانجی سے ہوئی تھی.آپ نے مدرستہ المسلمین امرتسر میں ملازمت کا آغاز کیا.بیعت: مئی ۱۸۹۳ء میں جنگ مقدس (مباحثہ پادری عبد اللہ آتھم ) امرتسر کے دوسرے روز آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ میری دعوت منظور فرماویں حضرت نے آپ کی دعوت کو حضرت شیخ نوراحمد صاحب کی منظوری پر رکھا.حضرت قاضی صاحب نے دعوت کی حضرت اقدس نے منظوری دے دی.اس دعوت کے بعد حضرت قاضی صاحب نے بیعت کر لی.دینی خدمات: آپ امرتسر سے ملازمت چھوڑ کر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان آگئے.آپ کے شاگردوں میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (خلیفہ مسیح الثانی) اور حضرت میر محمد الحق شامل تھے.”جہیر الصوت‘ ہونے کے باوجود کلام الہی کی تلاوت آہستہ آہستہ کرتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاول آپ کی قرآن نہی کی اکثر داد دیتے تھے اور ان کے قرآنی نکات کی قدر کرتے تھے.آپ حضرت مسیح موعود کے عشق و محبت اور آپ کی اطاعت میں گداز تھے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو خدا تعالیٰ کی ایک آیت رحمت یقین کرتے تھے.آپ کے تلامذہ میں سے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آپ کے بعض علمی مضامین الحکم اور الفضل میں شائع ہوتے رہے.
531 حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ ۱۸۹۲ء میں شریک ہونے والوں میں نمبر ۶ پر نام درج ہے.حضرت مصلح موعود سے تعلق : حضرت خلیفہ مسیح الثانی مصلح الموعود سے آپ کا تعلق استاد کی حیثیت سے تھا.جس کا حضرت مصلح موعودؓ نے بھیرہ تشریف لے جانے پر یوں اظہار فرمایا:.بھیرہ ، بھیرہ والوں کیلئے ایک اینٹوں اور گارے یا اینٹوں اور چونے کا بنا ہوا شہر نہیں.بلکہ میرے استاد جنہوں نے مجھے نہایت محبت اور شفقت سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا اور بخاری کا بھی ترجمہ پڑھایا ان کا مولد ومسکن تھا.بھیرہ والوں نے بھیرہ کی رہنے والی ماؤں کی چھاتیوں سے دودھ پیا ہے اور میں نے بھیرہ کی ایک بزرگ ہستی کی زبان سے قرآن کریم اور حدیث کا دودھ پیا.پس بھیرہ والوں کی نگاہ میں جو قدر بھیرہ شہر کی ہے میری نگاہ میں اس کی اس سے بہت زیادہ قدر ہے.“ (روز نامه الفضل ۲۹ رنومبر ۱۹۵۰ء) حضرت مولانا شمس صاحب نے آپ کا نام ان معاصر علماء میں شامل کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی تھی.وفات: آپ نے ۲۴ راگست ۱۹۳۰ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.(ماخوذ از ۳۱۳ اصحاب صدق وصفا ) ے.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ولادت: ۱۸۶۶ء.بیعت : ۲ جنوری ۱۸۹۲ء.وفات: یکم جولائی ۱۹۲۶ء تعارف: حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین رضی اللہ عنہ کا حسب ونسب حضرت ابو بکر سے جاملتا ہے.یہ خاندان خلیفہ بدیع الدین کی سرکردگی میں ہندوستان آیا خاندان کا کچھ حصہ مبئی میں اور باقی کا لا ہور ٹھہرا.آپ کے والد ماجد خلیفہ حمید الدین صاحب انجمن حمایت اسلام لاہور کے بانیوں میں سے تھے.خلیفہ حمید الدین صاحب کی رہائش اندرون موچی گیٹ لاہور تھی.آپ ہی کے وقت انجمن حمایت اسلام کے تعلیمی ادارے قائم ہوئے.آپ انجمن کے صدر رہے.وفات کے بعد آپ کو اسلامیہ کالج لاہور میں دفن کیا گیا.تعلیم : حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب حافظ قرآن تھے.سکول کی تعلیم کے بعد آپ نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تعلیم پائی.اس خاندان کی خصوصیت یہ تھی کہ سب لڑکے اور لڑکیاں حافظ قرآن تھے.آپ نے زمانہ طالب علمی میں ینگ مین محمدن ایسوسی ایشن کی بنیا درکھی.
532 بیعت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر ۳/ جنوری ۱۸۹۲ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۱۸۷ نمبر پر درج ہے.خدمت خلق : لاہور اور آگرہ کے میڈیکل کالج میں پروفیسر رہے.ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان آگئے تھے اور نور ہسپتال میں کئی سال تک انچارج کے طور پر کام کیا.آپ اپنے پیشہ سے اس قدر مخلص تھے کہ ایک دفعہ رات بارہ بجے ایک شخص اپنی بیوی کی تشویشناک حالت کے لئے دوائی لینے آیا آپ اس کی کیفیت کے پیش نظر اس کے ساتھ ہو لئے.خود دوائی دی اور بتایا کہ اسے ایک گھنٹے بعد دوبارہ دورہ پڑے گا.باہر کہیں جانوروں کی جگہ انتظار کرتے رہے ٹھیک گھنٹہ بعد دوبارہ دوائی دینے کے لئے گئے.اس وقت خاتون کی حالت خراب تھی.آپ نے دوائی دی اور اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر ازالہ اوہام ، آئینہ کمالات اسلام، سراج منیر، کتاب البریہ، تحفہ قیصریہ میں اپنے مخلصین چندہ دہندگان اور جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شامل ہونے والوں میں کیا ہے.حضرت اقدس نے آپ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت اخلاص دیا ہے.ان میں اہلیت اور زیر کی بہت ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ان میں نور فراست بھی ہے.“ آپ کی بڑی بیٹی رشیدہ المعروف محمودہ بیگم صاحبہ کی شادی ۱۹۰۳ء میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے ہوئی.جو بعد میں ام ناصر کے نام سے معروف ہوئیں.”اب ان کو قربانی کی ضرورت نہیں : سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی امصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی قربانی کے بارہ میں ۱۹۲۶ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمایا:.اُن کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب ( بانی سلسلہ احمدیہ ) نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپ مقدمہ گورداسپور میں ہو رہا تھا اور اس میں روپیہ کی سخت ضرورت تھی.حضرت صاحب نے دوستوں کو تحریک کی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں.لنگر خانہ تو دو جگہ پر ہو گیا ہے.ایک قادیان میں اور دوسرا گورداسپور میں.اس کے علاوہ اور مقدمہ پر خرچ ہو رہا ہے.لہذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں.جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن ان کو تنخواہ تقریباً ۴۵۰ رو پے ملی تھی وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضور کی خدمت میں بھیج دی.ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ تو گھر کی
533 ضروریات کے لئے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح کہتا ہے کہ دین کے لئے ضرورت ہے.تو پھر اور کس کے لئے رکھ سکتا ہوں.غرض ڈاکٹر صاحب تو دین کے لئے قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہیں کہنا پڑا کہ اب ان کو مالی قربانی کی ضرورت نہیں.“ اولاد: آپ کے بیٹے بیٹیوں اور ان کی اولاد کی تعداد ۲۰۰ سے زائد ہے جو مختلف ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے.آپ کی دوازدواج تھیں.اہلیہ اول حضرت عمدہ بیگم سے نو بیٹے بیٹیاں تھیں.جن میں سے حضرت رشیدہ بیگم (المعروف حضرت محمودہ بیگم شیده ام ناصر ) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے عقد میں آئیں.کرنل تقی الدین اور مکرم خلیفہ علیم الدین صاحب انہی کی اولاد تھے.اہلیہ ثانی حضرت مراد خاتون سے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں محترم خلیفہ صلاح الدین صاحب اور خلیفہ منیر الدین صاحب ( پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ء کے شہید ستارہ جرات ) ان کی اولاد تھے.خلیفہ صلاح الدین مرحوم کے بیٹے خلیفہ صباح الدین مرحوم سابق نائب ناظر ضیافت، خلیفہ فلاح الدین اور خلیفہ رواح الدین لندن میں انہی کی نسل سے ہیں.(ماخوذ از ۳۱۳ اصحاب صدق وصفا ) - حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی.ولادت : ۱۸۳۰ء.بیعت : ۲۰ جولائی ۱۸۹۲ء.وفات ۳۰ دسمبر ۱۹۰۵ء تعارف: حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام مولوی بین صاحب تھا.آپ کی قوم لکھی تھی.آپ للیانی نزد چک سند ر ضلع گجرات کے رہائشی تھے (بوریا نوالی میں زرعی زمین تھی) وہاں سے جہلم شہر میں آگئے جہاں آپ امام الصلوۃ تھے.آپ پچیس سال کی عمر میں دہلی میں تشریف لے گئے.ظاہری اور باطنی علم کی جستجو : آپ نے مولوی سید نذیر حسین دہلوی سے علم حدیث حاصل کیا.۱۸۵۶ء میں واپس جہلم آکر تحریک اہلحدیث کے پُر جوش کارکن کے طور پر کام کرتے رہے.زبان میں بہت اثر تھا.آپ طبیب بھی تھے.لوگوں میں خاصی عزت و شہرت تھی.جہلم ، گجرات، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں اہلحدیث مکتب فکر کے محرک تھے اور اس کی اشاعت کرتے رہے.آپ کو ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علم کی بھی جستجو رہتی تھی ( کئی سال حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی کی صحبت سے فیض اٹھایا بعد ازاں حضرت پیر صاحب کوٹھہ شریف ” کی مریدی اختیار کی لیکن روحانی تسکین حاصل نہ ہو سکی.حضرت اقدس سے تعلق اور بذریعہ الہام را ہنمائی: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ پڑھ کر زیارت کا شوق پیدا ہوا اور یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ شخص آئندہ کچھ بننے والا ہے اس لئے اسے دیکھنا
534 چاہئے.اس ارادہ سے ۱۸۸۶ء میں قادیان پہنچے لیکن حضرت اقدس ہوشیار پور میں مقیم تھے.آپ بھی ہوشیار پور گئے اور خادم کے ذریعہ اطلاع بھجوائی.جب خادم اندر گیا تو الہام ہوا کہ جہاں آپ نے پہنچنا تھا پہنچ گئے ہیں اب یہاں سے مت ہیں.خادم نے واپس آ کر معذرت کی اس وقت فرصت نہیں.اس لئے پھر کسی وقت تشریف لائیں.حضرت مولوی صاحب کے جواب سے مطلع کیا.اس وقت حضور کو الہام ہوا کہ مہمان آئے تو اس کی مہمان نوازی کرنی چاہئے.جس پر حضور نے خادم کو جلدی سے دروازہ کھول کر مہمان کو اندر لے کر آنے کا حکم دیا.جب حضرت مولوی صاحب اندر ملاقات کے لئے گئے تو حضور بڑی خندہ پیشانی سے ملے اور فرمایا ابھی الہام ہوا ہے حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ مجھے بھی الہام ہوا تھا کہ یہاں سے مت ہیں.جہاں پہنچنا تھا آپ پہنچ گئے.حضرت مولوی صاحب تمام دینی علوم تفسیر حدیث فقہ نحو وغیرہ کے معتبر عالم تھے.طب یونانی میں خاص ملکہ تھا.اردو، فارسی ، عربی ، پشتو کے ماہر اور تقریر وتحریر میں یکتائے روزگار تھے.حضرت اقدس کی بیعت کا شرف پانا: حضرت مولوی صاحب چند روز ہوشیار پور رہے.آپ کا تعارف مرزا اعظم بیگ ہوشیار پوری سے ہوا جو ان دنوں وہاں مہتمم بندوبست تھے.مولوی صاحب وہاں حضرت اقدس کے معمولات کا مشاہدہ کرتے رہے.حضرت اقدس سے بیعت کی درخواست کی لیکن حضور نے انکار فرما دیا کہ ابھی بیعت لینے کا حکم نہیں ملا اور بعد ازاں آپ نے ۲۰ جولائی ۱۸۹۲ء کو بیعت کی اور رجسٹر بیعت میں آپ کا نام ۴۸ نمبر پر درج ہے.(رجسٹر بیعت مطبوعه تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۶۲) دینی خدمات: بیعت کر لینے کے بعد حضرت مولوی صاحب کثرت سے قادیان جاتے اور روحانی چشمہ سے سیراب ہو کر واپس لوٹتے.قادیان میں زائرین کو دعوت الی اللہ کرتے اور کتب کی طباعت کے کام میں مدد دیتے اور پروف کی تصیح کرتے.ایک مرتبہ حضرت اقدس نے مولوی صاحب کو خطبہ کے لئے ارشاد فرمایا.آپ نے پنجابی زبان میں خطبہ دیا جسے لوگوں نے پسند کیا اور بہت سے لوگوں نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی.حضرت اقدس سے عاشقانہ تعلق فدائیت: حضرت اقدس کے عشق میں گداز تھے.حضرت اقدس سیر کر کے جب واپس آتے تو آپ آگے بڑھ کر حضور کی نعلین مبارک اپنے کندھے والی چادر ( پر ناں ) سے صاف کرتے.مستری نظام الدین صاحب سیالکوٹی سنایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب کا اخلاص جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا.جب حضرت اقدس سیالکوٹ گئے اور سڑک پر آ رہے تھے کسی عورت نے کھڑکی سے حضور پر راکھ ڈالی.حضور آگے نکل چکے تھے.اس لئے راکھ مولوی صاحب کے سر پر پڑی.اس سے مولوی
535 صاحب وجد میں آگئے اور محویت کے عالم میں پنجابی میں کہا پا اے مائے پا یعنی اے محترمہ! اور راکھ ڈالو ( تا کہ حق کے راستہ میں اس قسم کے سلوک سے میں پوری طرح لطف اندوز ہوسکوں.) سیالکوٹ میں ایک موقع پر حضرت اقدس کی رہائش گاہ پر واپس آتے ہوئے آپ بڑھاپے کے باعث پیچھے رہ گئے تو بعض شریروں نے آپ کی بے عزتی کی بلکہ پکڑ کر مٹی گوبر وغیرہ منہ میں ٹھونس دیا تو آپ پر پھر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور فرمایا واہ بر ہانا ایہ نعمتاں کیتھوں“ یعنی برہان الدین یہ نعمتیں روز روز اور ہر شخص کو کہاں نصیب ہوتی ہیں.آپ کے شاگرد: علم حدیث میں آپ کے بہت سے شاگرد ہوئے جن میں حضرت مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی، حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کھیوال اور حضرت مولوی محمد قاری صاحب معروف تھے.آپ کی وفات: آپ کی وفات سے قبل حضرت اقدس مسیح موعود کو الہام ہوا دو شہتیر ٹوٹ گئے؟“ انہیں دنوں حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی اور حضرت مولوی برہان الدین جہلمی کی وفات ہوئی.آپ کی وفات ۳ دسمبر ۱۹۰۵ء کو ہوئی اور آپ کی تدفین جہلم کے قبرستان میں ہوئی.مدرسہ احمدیہ کی بنیا دان ہر دوعلماء کی وفات کے بعد ان کی یاد میں اور نئے علماء پیدا کرنے کے لئے رکھی گئی.حضرت اقدس کی کتب میں تذکرہ : حضرت اقدس نے حضرت مولوی صاحب کی وفات پر فرمایا ان کو ایک فقر کی چاشنی تھی.قریباً بائیس برس سے میرے پاس آیا کرتے تھے.پہلی دفعہ آئے تو میں ہوشیار پور میں تھا.اس جگہ میرے پاس پہنچے.ایک سوزش اور جذب ان کے اندر تھا اور ہمارے ساتھ ایک مناسبت رکھتے تھے.“ آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ کے شرکاء میں آپ کا بھی ذکر فرمایا ہے.سراج منیر، تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں چندہ مہمان خانہ جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.اسی طرح ملفوظات میں مختلف رنگ میں بھی بار باذکر ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا خدمت حضرت اقدس میں مصروف احباب میں ( بحواله ۳۱۳اصحاب صدق وصفاص ۱۳۰ تا ۱۳۲) نام درج ہے.
536 ۹.حضرت مولانا شیر علی صاحب پیدائش: ۲۴ / نومبر ۱۸۷۵ء.بیعت: ۱۸۹۷ء.وفات: ۱۳/ نومبر ۱۹۴۷ء پیدائش و آبائی وطن : حضرت مولانا شیر علی صاحب مورخہ ۲۴ نومبر ۱۸۷۵ء کوضلع سرگودھا کے ایک چھوٹے سے گاؤں اور جماں تحصیل بھلوال میں پیدا ہوئے.آپ رانجھا قوم سے تعلق رکھتے تھے.جو قریش کے خاندان کی ایک شاخ ہے.آپ کا آبائی وطن موضع ” چاوہ متصل بھیرہ تھا جو تحصیل بھلوال میں ہی واقع ہے.آپ کے دادا مولوی غلام مصطفیٰ صاحب کی شادی چونکہ پڑھیار قوم میں ہوئی تھی اس لئے انہوں نے اپنی لڑکی کو زمین اور مکان وغیرہ دے کر حضرت مولانا شیر علی صاحب کے والد ماجد حضرت مولوی نظام الدین صاحب کو اپنے پاس ہی بلا لیا.جہاں آپ نے مستقل سکونت اختیار کر لی.چنانچہ حضرت مولانا شیر علی صاحب نے اور جماں میں ہی جنم لیا اور بچپن کی معصوم زندگی کے پر سکون ایام اسی گاؤں کی آزاد فضاؤں میں بسر کئے.والدین : حضرت مولانا صاحب کے والد بزرگوار اپنے گاؤں میں عالم دین کی حیثیت سے نہایت قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے چنانچہ ان کی علمی برتری ، تقومی ، طہارت اور صحیح اسلامی روح ایسے اوصاف تھے جن کے باعث ان کا نہ صرف اپنے علاقہ پر اثر و رسوخ تھا بلکہ ارد گرد کے قصبات میں بھی آپ کے پسندیدہ فضائل اور علمی تقویٰ کا بہت چرچا تھا.تعلیم : ابتدائی دینی تعلیم حضرت مولوی صاحب نے اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی.اس کے بعد آپ اپنے بڑے بھائی حضرت حافظ عبدالعلی صاحب کے ساتھ بھیرہ ہائی سکول میں داخل ہوئے جو ادرحماں“ سے تمہیں میل کے فاصلہ پر واقع ہے.آپ نے پرائمری بھیرہ ہائی سکول میں پاس کی.آپ کا شمار سکول کے بہت ہی لائق اور قابل طلباء میں ہوتا تھا.علم کی منزلیں شوق در شوق اور اعزاز وا کرام کے ساتھ طے کرتے ہوئے آپ نے ۱۸۹۵ء میں انٹرنس کا امتحان نمایاں کامیابی سے پاس کیا.اس کے بعد حضرت مولوی صاحب کو ایف سی کالج لاہور میں داخل کروا دیا گیا.چنانچہ ۱۸۹۷ء میں آپ نے بی اے کے امتحان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے پنجاب بھر میں ساتویں پوزیشن حاصل کر کے نمایاں کامیابی حاصل کی.قبول احمدیت : ان دنوں احمدیت کا پنجاب کے طول و عرض میں کافی چرچا ہورہا تھا.حضرت مولوی صاحب چونکہ اس سے قبل خود بھی حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کی صحبت میں رہ کر احمدیت سے روشناس ہو چکے تھے نیز کبھی کبھی حضرت خلیفہ اول کے اپنے وطن ملوف بھیرہ آنے پر ان سے بھی روحانی فیوض حاصل کرتے.علاوہ ازیں آپ کے ایک چا مکرم مولوی حکیم شیر محمد صاحب ( جو عربی فارسی کے عالم اور بڑے
537 پایہ کے حکیم تھے ) اور اپنے علاقے میں انصاف کے باعث جانے پہچانے اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے نے حضرت خلیفہ امسیح الاول سے تعلق اور تحقیق کے باعث احمدیت قبول کر کے ۳۱۳ صحابہ میں شمولیت کا شرف حاصل کیا اور قبولیت احمدیت کے نقطہ نظر سے آپ کے خاندان کے بانی تھے ان کے نیک اعمال کا پر تو بھی آپ پر پڑتا تھا.اس لئے اس مسلسل مذہبی ماحول سے حضرت مولوی صاحب کا قلب سلیم اثر پذیر ہوئے بغیر نہ رہ سکا.پس یہی وجہ تھی کہ میٹرک سے قبل ہی احمدیت کے گہرے اثرات آپ کے رگ و پے میں سرایت کر چکے تھے.بی.اے کر چکنے کے بعد جب آپ کا شعور کافی بیدار ہو چکا تھا اور علمی لحاظ سے بھی آپ تکمیل کی منازل طے کر چکے تھے.صرف ایک جذبہ آپ کے دل کی گہرائیوں میں کارفرما تھا اور صرف ایک پاک خواہش ہی آپ کے دل کو جھنجھوڑ رہی تھی کہ کسی طرح قادیان پہنچ کر مہدی آخر الزمان کی ملاقات کی سعادت حاصل کریں.چنانچہ آپ ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت اقدس کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کر کے مستقل طور پر حضور کے روحانی مطب میں زیر علاج ہو گئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آپ کی سادگی، نیک مزاجی علمی قابلیت اور سلامت طبعی کے باعث آپ سے بہت محبت ہوگئی.یہی وجہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب بھی اس گوہر مقصود کے مل جانے پر ایک عاشق صادق کی طرح آپ کے مقدس دامن کے ساتھ وابستگی میں فخر محسوس کرنے لگے.حضرت مولوی صاحب نے خود احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے والد صاحب کو بھی احمدیت قبول کرنے کی تحریک کی.جس کے نتیجے میں آپ کے والد صاحب نے بھی تقریباً 9 سال کی تحقیق و تدقیق کے بعد احمدیت قبول کر لی.ڈپٹی کمشنر کی پیشکش : جب آپ نے اعلیٰ نمبروں سے لاہور میں B.A پاس کیا تو حکومت کی طرف سے آپ کی نمایاں کامیابی کی وجہ سے آپ کو ڈپٹی کمشنر بنانے کی پیشکش کی گئی مگر آپ نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور زندگی وقف کر کے قادیان حاضر ہو گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ نے جو فیض پایا وہ پھر مدتوں کئی نسلوں نے آپ سے پایا.جی کی پیشکش: ایک دفعہ آپ کے والد محترم قادیان میں تشریف لائے ہوئے تھے کہ حضرت مولوی صاحب کی قابلیت اور غیر معمولی ذہانت کی بناء پر آپ کو نجی کی پیشکش کی گئی مگر آپ نے اس پاک جذبہ کے تحت کہ مباداوالد صاحب یہ چٹھی پڑھ کر مجھے وہاں جانے کیلئے مجبور کریں ان کو اطلاع دیئے بغیر فوراً چھٹی کو پھاڑ دیا.حضرت مسیح موعود کا ایک کشف آپ کے تقوی وطہارت، نیکی اور بزرگی کا اندازہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کشف سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے چنانچہ آپ نے فرمایا:.
538 میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام ” شیر علی“ ہے.اس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی.اور ہر بیماری اور کو تاہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے اور ایک مصفانور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا اس کو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنادیا ہے اور یہ عمل کر کے پھر وہ شخص غائب ہو گیا اور میں اس کشفی حالت سے بیداری کی طرف منتقل ہو گیا.‘ ( تریاق القلوب صفحہ ۹۹۵) خدمات سلسلہ : آپ کی خدمات سلسلہ ہر نوع کی ہیں آپ مدرسہ تعلیم الاسلام کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے اور آپ نے ریویو آف ریلیجنز کی ادارت کے فرائض بھی سر انجام دیئے اور نظارت تالیف میں آپ عرصہ تک بطور ناظر کام کرتے رہے.آپ کا ہر کام ہی ایک شاندار کام تھا.مگر آپ کا آخری اور سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ للہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کے مکمل کرنے کی توفیق ملی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی جب کبھی سفر پر جاتے تو عموماً امیر مقامی اپنے بعد حضرت مولانا مرحوم کو ہی مقررفرماتے تھے.چنانچہ ۱۹۲۴ء کے سفر یورپ میں بھی حضرت مولوی صاحب ہی امیر مقامی مقرر ہوئے تھے حضرت مولوی صاحب کی علمی قابلیت اور اخلاص کا اندازہ حضرت مصلح موعود کے اس اقتباس سے بھی لگایا جاسکتا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ۱۹۲۶ء کے جلسہ سالانہ میں جہاں سلسلہ احمدیہ کے بعض ناظروں کی قربانیوں کا ذکر فرمایا وہاں حضرت مولوی شیر علی صاحب کے متعلق ذیل کے الفاظ ارشاد فرمائے.پھر مولوی شیر علی صاحب ہیں ان کو اب ۲۰۰ روپیہ ملتے ہیں.ایک تو ان کی انگریزی کی قابلیت وہ چیز ہے جو اردو میں نہیں.اس کے علاوہ یہ قابلیت ان میں ہے کہ وہ مضمون پر حاوی ہو جاتے ہیں ان کے مضمون پڑھنے والے دوستوں نے دیکھا ہوگا کہ وہ کس طرح مضمون کی باریکیوں تک جا پہنچتے ہیں اور کوئی پہلو اس کا باقی نہیں چھوڑتے پھر جب وہ یہاں ملازم ہوئے ہیں ان کا نام منصفی کیلئے جا چکا تھا.“ (الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۲۷ء) وفات و تدفین حضرت مولانا شیر علی صاحب مورخه ۱۳ نومبر ۱۹۴۷ء کو لاہور میں وفات پا کر اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں اور ہمیشہ کیلئے اپنی نیک یادیں اور پاک نمونہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے.انا للہ و انا اليه راجعون.( استفاده از نجم الہدی سوانح حضرت مولانا شیر علی صاحب مرتبہ رقیه بیگم بقا پوری صاحبہ )
539 ۱۰.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید پیدائش :۱۸۵۳ء.بیعت : ۱۸ نومبر ۱۹۰۲ء.شہادت ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف کا وطن، خاندان اور پیدائش حضرت صاحبزادہ افغانستان کے صوبہ پکتیا کے علاقہ خوست کے رہنے والے تھے.ان کے گاؤں کا نام سید گاہ ہے جو دریائے شمال کے کنارہ پر آباد ہے.پکتیا میں چندن گاؤں آپ کی ملکیت تھے.زرعی اراضی کا رقبہ سولہ ہزار کنال تھا.اس میں باغات اور پن چکیاں بھی تھیں.اس کے علاوہ ضلع بنوں میں بھی بہت سی زمین تھی.آپ کے والد صاحب کا نام سید محمد شریف تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہما اشجرہ نسب تو جل کر ضائع ہو گیا لیکن میں نے اپنے بزرگوں سے سنا کہ ہم حضرت سید علی ہجویری المعروف به دا تا گنج بخش کی اولاد ہیں.ہمارے آباء دہلی کے بادشاہوں کے قاضی ہوتے تھے.خاندان کی ایک بڑی لائبریری تھی جس کی قیمت نو لاکھ روپیہ بتائی جاتی ہے.جب ہمارے بزرگوں نے حکومت میں عہدے حاصل کر لئے تو ان کی توجہ کتب خانہ کی طرف نہ رہی اور یہ کتا میں ضائع ہو گئیں.میرا اپنا یہ حال ہے کہ جائیداد چونکہ مجھے ورثہ میں ملی ہے اس لئے اسے رکھنے پر مجبور ہوں ورنہ میرا دل دولت کو پسند نہیں کرتا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ صاحبزادہ صاحب کی عمر ۵۰ سال تھی.حضور فرماتے ہیں : ” قریباً پچاس برس کی عمر تک تنعم اور آرام میں زندگی بسر کی تھی.روز نامہ الفضل ۷ انومبر ۱۹۳۲ء ص ۹) حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۳ء میں ہوئی اس طرح ان کا سن پیدائش ۱۸۵۳ء بنتا ہے.تحصیل علم کے سفر : حضرت صاحبزادہ سید محد عبداللطیف نے ہندوستان میں مندرجہ ذیل مقامات پر علوم مروجہ کی تعلیم حاصل کی :.امرتسر لکھنو، دیو بند اور ضلع پشاور.ان جگہوں پر ان کا مجموعہ قیام کئی سال رہا.حضرت صاحبزادہ عربی، فارسی ، پشتو اور ار دوز بائیں جانتے تھے.وجاہت اور بلند علمی وروحانی مقام: سید نا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام فرماتے ہیں: ”وہ امیر کابل کی نظر میں ایک برگزیدہ عالم اور تمام علماء کے سردار سمجھے جاتے تھے.“ (رسالہ شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ دوم ص ۶۴)
540 اسی طرح فرمایا: ” یہ بزرگ معمولی انسان نہیں تھا بلکہ ریاست کابل میں کئی لاکھ کی ان کی اپنی جاگیر تھی اور انگریزی علمداری میں بھی بہت سی زمین تھی اور طاقت علمی اس درجہ تک تھی کہ ریاست نے تمام مولویوں کا ان کو سردار قرار دیا تھا.وہ سب سے زیادہ عالم علم قرآن اور حدیث اور فقہ میں سمجھے جاتے تھے.اور نئے امیر کی دستار بندی کی رسم بھی انہی کے ہاتھ سے ہوتی تھی...ریاست کابل میں پچاس ہزار کے قریب ان کے معتقد اور ارادتمند ہیں.جن میں سے بعض ارکان ریاست بھی تھے.غرض یہ بزرگ ملک کا بل میں ایک فرد تھا.اور کیا علم کے لحاظ سے اور کیا تقومی کے لحاظ سے اور کیا جاہ اور مرتبہ کے لحاظ سے اور کیا خاندان کے لحاظ سے اس ملک میں اپنی نظیر نہیں رکھتا تھا اور علاوہ مولوی کے خطاب کے صاحبزادہ اور اخون زادہ اور شاہزادہ کے لقب سے اس ملک میں مشہور تھے اور شہید مرحوم ایک بڑا کتب خانہ حدیث اور تفسیر اور فقہ اور تاریخ کا اپنے پاس رکھتے تھے اور نئی کتابوں کے خریدنے کے لئے ہمیشہ حریص رہتے تھے اور ہمیشہ درس کا شغل جاری تھا اور صد ہا آدمی ان کی شاگردی کا فخر حاصل کر کے مولویت کا خطاب پاتے تھے.لیکن با ایں ہمہ کمال یہ تھا کہ بےنفسی اور انکسار میں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فائی الہ نہ ہو یہ مرتبہ نہں پا سکتا.ہر ایک شخص کسی قدر شہرت اور علم سے محجوب ہو جاتا ہے اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھنے لگتا ہے اور وہی علم اور شہرت حق طلبی سے اس کو مانع ہو جاتی ہے.مگر یہ شخص ایسا بے نفس تھا کہ باوجود یکہ ایک مجموعہ فضائل کا جامع تھا مگر تب بھی کسی حقیقت حقہ کے قبول کرنے سے اس کو اپنی علمی ور عملی اور خاندانی وجاہت مانع نہیں ہو سکتی تھی.“ (شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ دوم ص ۱۹) حضرت صاحبزادہ صاحب کو کسی مصلح کے ظہور کا انتظار تھا: سید احمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب بڑے محقق انسان تھے.آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ زمانہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس وقت کوئی مصلح مبعوث کیا جائے.مولوی شان محمد صاحب سے روایت ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ، حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ اور علامات کا ذکر فرمایا کرتے تھے.فرماتے تھے زمانہ تو یہی ہے اب دیکھو خدا تعالیٰ کسے مامور کرتا ہے.بعض دفعہ یہ بھی فرماتے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے دانتوں کے درمیان کچھ فاصلہ ہوگا پھر مسکرا کر کہتے کہ فاصلہ تو میرے دانتوں کے درمیان بھی ہے مگر پتہ نہیں خدا کو کیا منظور ہے.آپ یہ باتیں اپنی خاص مجلسوں میں اپنے خاص خاص شاگردوں سے کیا کرتے تھے.66 ( شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول ص ۶) مولوی عبداللطیف صاحب کی شہادت کا درد ناک واقعہ : حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.
541 ۱۹۰۳ء میں جماعت احمدیہ کو ایک نہایت دردناک واقعہ پیش آیا جو سلسلہ کی تاریخ میں ایک یاد گار رہے گا.اور وہ یہ کہ ۱۹۰۲ء کے آخر میں افغانستان کے علاقہ خوست کے ایک معزز رئیس مولوی عبداللطیف صاحب حضرت مسیح موعود کا نام سن کر قادیان میں آئے اور آپ کی بیعت سے مشرف ہو گئے.یہ صاحب افغانستان کے بڑے علماء میں سے تھے اور دربار کابل میں ان کی اتنی عزت تھی کہ امیر حبیب اللہ خان کی تاجپوشی کی رسم انہوں ہی ادا کی تھی.اور ان کے شاگردوں اور معتقدوں کا حلقہ بہت وسیع تھا.انہوں نے کئی ماہ تک قادیان میں قیام کیا اور حضرت مسیح موعود کی صحبت سے بہت فائدہ اٹھایا اور اس عرصہ میں ان کا ایمان اتنا ترقی کر گیا کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ عشق کی سی کیفیت پیدا ہو گئی.جب وہ کئی ماہ کے قیام کے بعد اپنے وطن میں واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود کے پاؤں پر گر کر زار زار روئے اور کہنے لگے کہ مجھے نظر آ رہا ہے کہ مجھے اس دنیا میں اس مبارک چہرہ کی زیارت پھر نصیب نہیں ہوگی.جب وہ کابل میں پہنچے تو امیر حبیب اللہ خان کے دربار میں ایک شور پڑ گیا کہ یہ شخص کافر اور مرتد ہوکر آیا ہے اور جہاد کا منکر ہے اور اگر وہ تو بہ نہ کرے تو اس سزا کا مستحق ہے کہ اسے قتل کر دیا جاوے.مولوی عبداللطیف صاحب نے انہیں سمجھایا کہ میں ہرگز مرتد یا کافر نہیں ہوں بلکہ اسلام کا خادم اور فدائی ہوں اور اسلام کے متعلق پہلے سے بہت زیادہ محبت اور اخلاص رکھتا ہوں.ہاں میں نے حضرت مسیح موعود کے دعوئی کو سچا مان کر آپ کو قبول کیا ہے اور یہ ایک حق جسے میں چھوڑ نہیں سکتا اور میں جہاد کا منکر نہیں ہوں البتہ چونکہ اسے زمانہ میں جہاد کی ضرورت نہیں اور وہ حالات موجود نہیں جن میں اسلام نے تلوار کا جہاد جائز رکھا ہے اس لئے میں موجودہ زمانہ میں جہاد بالسیف کا قائل نہیں ہوں.غرض علماء کے ساتھ مولوی صاحب کی بہت بحث ہوئی مگر کابل کے علماء اپنی ضد پر قائم رہے اور بالآخر انہوں نے متفقہ طور پر مولوی صاحب کو مرتد قرار دے کر ان کے قتل کا فتویٰ دیا.اس پر امیر حبیب اللہ خان نے مولوی صاحب کو سمجھایا کہ اس وقت ضد اچھی نہیں اور مخالفت کا بہت زور ہے بہتر ہے کہ آپ اپنے عقائد سے توبہ کا اعلان کر دیں.مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے جس بات کو خدا کی طرف سے حق سمجھ کر یقین کیا ہے اسے نہیں چھوڑں گا اور میں اپنی جان کو بچانے کے لئے اپنے ایمان کو ضائع نہیں کر سکتا.اس پر علماء کے دباؤ کے نیچے آ کر امیر نے مولوی صاحب کے قتل کا حکم دے دیا.اور قتل کے طریق کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ زمین میں ایک گڑھا کھود کر مولوی صاحب کو اس گڑھے میں کمر تک دفن کر دیا جائے اور پھر ان پر پتھروں کی بارش برسا کر انہیں ہلاک کر دیا جائے.چنانچہ شہر سے باہر کھلے میدان میں یہ انتظام کیا گیا.اور کابل کے سب علماء اور رؤساء اور خود امیر اور دوسرے لوگ اس جگہ جمع ہوئے.جب مولوی صاحب کو کمر تک زمین میں دفن کر دیا گیا اور صرف او پر کا دھڑ باہر رہا تو امیر کا بل پھر آگے بڑھ کر مولوی
542 صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ اب بھی وقت ہے اگر آپ تو بہ کر لیں تو علماء کا جوش دب جائے گا.مگر مولوی صاحب نے سختی کے ساتھ انکار کیا اور کہا میں کسی قیمت پر بھی اپنے ایمان کو ضائع نہیں کروں گا.اور اب میری صرف اس قدر درخواست ہے کہ تم جلدی کرو تا کہ جو پردہ مجھے جنت سے جدا کر رہا ہے وہ درمیان سے اٹھ جاوے.اس پر امیر نے پتھراؤ کا حکم دیا جس پر اس زور سے پتھر بر سے کہ دیکھتے ہی دیکھتے پتھروں کا ایک پہاڑ کھڑا ہو گیا اور اس عاشق مسیح کی روح اپنے ابدی ٹھکانہ میں پہنچ گئی.جب حضرت مسیح موعود کو اس واقعہ کی اطلاع پہنچی اور ساتھ ہی یہ خبر بھی ملی کہ اس سے قبل مولوی عبداللطیف صاحب کے ایک شاگرد مولوی عبد الرحمن صاحب کو بھی کابل میں شہید کیا گیا تھا تو آپ کو بہت صدمہ پہنچا مگر اس جہت سے خوشی بھی ہوئی کہ آپ کے ان دو خلصین نے ایمان کا ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا ہے جو صحابہ کے زمانہ کی یاد کو تازہ کرتا ہے.چنانچہ آپ نے اس واقعہ شہادت کے متعلق ایک کتاب ”تذکرہ الشہادتین لکھ کر شائع فرمائی اور اس میں بتایا کہ وہ الہام جو خدا نے کئی سال ہوئے آپ پر نازل کیا تھا کہ دو بے گناہ بکرے ذبح کئے جائیں گے وہ ان دو شہادتوں سے پورا ہوا ہے.اس کے بعد افغانستان میں احمدیوں پر سخت مصائب کا زمانہ شروع ہو گیا اور ان میں سے بہت لوگ اپنے وطن سے بھاگ کر قریب کے انگریزی علاقہ میں آگئے اور بعض قادیان میں ہجرت کر آئے اور ان لوگوں کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں.اور جو لوگ پیچھے ٹھہرے وہ چھپ چھپ کر اور اپنے ایمان کو خفی رکھ کر ٹھہرے مگر ساتھ ہی مولوی عبداللطیف صاحب کی شہادت نے کابل میں ایک بیج بھی بود یا اور بعض سعید طبیعتوں میں یہ جستجو پیدا ہوگئی کہ اس سلسلہ کے حالات معلوم کریں جس کے ایک فرد نے اپنے ایمان کی خاطر اس دلیری کے ساتھ جان دی ہے چنانچہ کچھ عرصہ کی خاموشی کے بعد پھر اندر ہی اندر احمدیت کا درخت بڑھنا شروع ہوا.اور اب افغانستان کے مختلف حصوں میں ایک کافی جماعت پائی جماعتی ہے.مگر اب تک بھی یہ لوگ کھل کر ظاہر نہیں ( سلسلہ احمدیہ ص ۱۴۰ تا ۱۴۲) ہو سکتے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی شہادت پر فرمایا:.” اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے.“ تذكرة الشہا دتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۰)
543 دس عظیم علما ء سلسلہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.”خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.“ تجلیات الہید روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ ص ۴۰۹) ذیل میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرقہ کے سینکڑوں علماء میں سے صرف دس علماء کرام کا مختصر تعارف کروایا جارہا ہے.جو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کے مذکورہ بالا وعدہ کے مصداق بنے.اور جنہوں نے واقعی علم ومعرفت کے میدان میں اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے تمام مخالفین کا منہ بند کر دیا.ا.حضرت حافظ مولا نا روشن علی صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب تقریباً ۱۸۸۱ء میں رنمل ضلع گجرات میں پیدا ہوئے.آپ رنمل ضلع گجرات کے مشہور پیروں کے خاندان میں سے تھے.آپ کے بھائی ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم اپنے خاندان میں سے پہلے احمدی ہوئے.ان کی تحریک و تبلیغ سے باقی تینوں بھائی بھی حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے.حافظ صاحب قرآن حفظ کر کے غالبا ۱۹۰۰ ء میں قادیان آئے.اور حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ سے تمام دینی اور عربی علوم کی تحصیل کی.آپ کا حافظہ بے نظیر تھا.صفحوں کے صفحے صرف ایک دفعہ سن کر قریباً دوبارہ سنا سکتے تھے.آپ کو بلا مبالغہ ہزاروں شعر عربی کے حفظ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قصائد کے قصائد زبانی سنادیتے تھے.آپ کی صرف ایک آنکھ میں بینائی تھی.مگر کتاب نہ پڑھ سکتے تھے.اس لئے تمام علوم سن سن کر تحصیل کئے.آپ نہایت خوش آواز قاری تھے کیونکہ غیر احمدی بھی ہمارے تبلیغی جلسوں میں آپ کی آواز سے مسحور ہو جاتے تھے.آپ کا ذہن نہایت صافی تھا.عربی کے تمام مروجہ علوم میں آپ کامل تھے.اور بلاشبہ نورالدین اعظم کے شاگرد اعظم تھے.آپ نہایت زندہ دل واقعہ ہوئے تھے.جس مجلس میں آپ ہوتے.ہر مذاق کے لوگ آپ کی باتوں سے محظوظ ہوتے.کسی مذہب وملت کا آدمی ہو.اس سے
544 نہایت عمدگی سے گفتگو فرما سکتے تھے.گفتگو نہایت مدلل فرماتے.استدلال نہایت وزن دار ہوتا.آپ جو مضمون سمجھاتے.نہایت مفید معلومات سے پر ہوتا تھا.تقریر میں آپ احمدی جماعت میں بلا استثناء سب سے نمایاں حیثیت رکھتے تھے.بلا مبالغہ آپ نے ہزاروں تقریریں فرمائیں.سینکڑوں مباحثے کئے بیسیوں دفعہ خدا کی بزرگ کتاب کا پورا درس دیا.ہزاروں لوگ آپ کے علم سے مستفید ہونے والے ہیں.برسوں تک ہر رمضان میں شدید گرمیوں میں روزہ رکھ کر آپ ایک پارہ کا روزانہ درس دیتے رہے.اور وہ بھی اس طرح کہ پہلے پارہ پڑھ لیا کرتے تھے.پھر بلا تامل ترجمہ بیان کرتے.پھر ضروری مطالب بیان فرماتے.قرآن مجید کے قریباً سب سے زیادہ عالم تھے.اور صرف عالم ہی نہیں.بلکہ نہایت متقی اور باعمل عالم تھے.آپ کا کیریکٹر قابل نمونہ اور ملامت اور اعتراض کے دھبوں سے صاف تھا وذلك فضل الله يوته من يشاء آپ سے بہت لوگ اپنے خانگی معاملات میں مشورہ لیتے.اور آپ پوری توجہ سے نہایت صائب مشورہ دیتے تھے.بیسیوں لوگوں کے تنازعات آپ نے دور فرمائے.آپ کو خدا نے قبولیت بھی عطا فرمائی تھی.سب احمدی بچے.جوان، بوڑھے آپ سے محبت رکھتے تھے.اور دل و زبان سے آپ کی خوبیوں کے قائل تھے.آپ نہایت بے شر تھے.کسی سے جھگڑا نہ تھا.طبیعت نہایت مستغنی، کسی سے لالچ نہ تھا.آپ وجیہہ اور بارعب تھے.آپ پر رویائے صالحہ اور کشف کا دروازہ بھی کئی مرتبہ کھولا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت نورالدین اعظم کو چھوڑ کر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد کوئی حادثہ حافظہ صاحب مرحوم کی وفات کے حادثہ جیہا نہیں ہوا.آپ نے ہندوستان کے قریباً تمام علاقوں میں تبلیغی دورے کئے.ہندستان کے علاوہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے ہمراہ آپ شام و مصر اور ممالک یورپ تک ہو آئے تھے.ملک شام میں آپ کی تقریروں اور مباحثوں کی دھوم مچ گئی تھی.آپ سلسلہ عالیہ کے مفتی تھے.قاضی بھی رہے تھے مکرم مولوی جلال الدین صاحب و مولوی ابوالعطاء صاحب اور دوسرے نوجوان مبلغین آپ کی تعلیم و تربیت کے رہین منت تھے.آپ نہ صرف خود عالم و مبلغ تھے.بلکہ عالم ومبلغ گر بھی تھے.وفات کے وقت آپ جامعہ احمدیہ کے پروفیسر تھے.ذہین حافظ اور قادر الکلام تھے.آپ وقت کے بڑے پابند تھے.باقاعدہ گھڑی رکھتے اور ہر کام کے موقعہ پر گھڑی دیکھتے.باوجود انگریزی دان نہ ہونے کے پھر بھی انگریزی خوانوں کے مذاق کے مطابق ان سے گفتگو نہایت عمدگی سے کرتے تھے.۱۹۱۴ء کے اختلاف کے موقعہ پر بہت سی روحوں کے حق پر قائم رہنے کا ثواب خدا چاہے تو آپ کو ہو گا.آپ مذہبی میدان میں غیر مبائع ، غیر احمدی، آریہ سکھ ، عیسائی اور سناتنی غرض ہر مذہب کے لوگوں سے گفتگو اور مباحثہ کر سکتے تھے.
545 آپ کا درس قرآن کریم اور وعظ بینظیر ہوتا تھا.سفر میں آپ بہت نرم اور با اخلاق رہتے.آپ کے ہمراہی آپ سے خوش رہتے اور آپ باوجود معذور ہونے کے نہایت چوکس رہ کر سفر کرتے.ریل کے ٹائم ٹیبل اور بہت سے ریلوے قواعد سے آپ واقف تھے.آپ انگریزی قطعاً نہ پڑھے ہوئے تھے مگر گفتگو میں جو لفظ انگریزی استعمال کرتے.وہ ٹھیک طور پر کرتے.انگریزی خوانوں کا مضحکہ نہ بنتے.سنا ہے کہ ولایت میں آپ انگریزی کے ایک دولفظ اور دو تین ہاتھ کے اشاروں کی امداد سے بعض انگریزوں سے مذہبی گفتگو کر لیتے تھے اور یہ نہایت ہی ذہانت کی دلیل ہے.آپ نہایت حاضر جواب تھے.آپ کی مجلس میں کوئی رنجیدہ نہ رہ سکتا تھا.آپ کسی مذاق کے لوگوں کی مجلس میں بھی کبھی بارگراں نہیں ہوئے.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر دس بارہ سال تک آپ کا مضمون صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام رکھا جاتا.مگر ہر دفعہ نئے انداز اور نئے معیاروں سے آپ نے اس مضمون کو بیان کر کے سامعین کو بے حد محظوظ کیا.ہمیشہ آپ کا وقت ایک باقاعدہ ٹائم ٹیبل کے ماتحت صرف ہوتا تھا.کبھی آپ نے فضول وقت ضائع نہیں کیا.آپ نہایت محنتی تھے.باوجود بدن کے فربہ ہونے کے سفروں میں نہایت جفاکش تھے.آپ نہایت عابد تھے.اپنے شاگردوں سے بہت بے تکلف اور نہایت محبت وشفقت سے پیش آتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے قریباً ہر سفر میں آپ بطور عالم ہمراہ جایا کرتے تھے.نظارتوں کے قائم ہونے سے قبل سے لے کر آپ صدر انجمن احمد یہ کے آخر تک مجلس شوری کے ممبر تھے.آپ عربی میں فی البدیہ نہایت فصیح و بلیغ تقریر کر سکتے تھے.فارسی میں بخوبی گفتگو فرماتے تھے.تصوف سے خاص مذاق تھا.آپ نے مورخہ ۲۳ جون ۱۹۲۹ء کو ۴۸ سال کی عمر میں وفات پائی.روزنامه الفضل مورخہ ۲۸ جون ۱۹۲۹ء ص ۷.۸) ۲.حضرت علامہ مولوی سید سرور شاہ صاحب حضرت مولوی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں.تھے.آپ کے والد ماجد کا نام سید محمد محسن صاحب تھا.آپ کے پڑدادا سید زین العابدین صاحب تھے.جو ضلع ہزارہ میں مدفون ہیں.سید زین العابدین صاحب کے بھائی شاہ محمد غوث صاحب ایک مشہور بزرگ تھے.ان کا مزار لاہور میں دہلی گیٹ کے باہر ہے.حضرت مولوی صاحب تیرہ سال کی عمر میں ہی تحصیل علم کی خاطر اپنے وطن ہزارہ سے عازم سفر ہو گئے.
546 صرف ونحو کا علم آپ نے یکے بعد دیگرے تین اساتذہ سے حاصل کیا.ان تینوں کا نام عبدالکریم تھا.علوم منطق و فلسفه مولوی غلام احمد صاحب اول مدرس مدرسہ نعمانیہ لاہور سے پڑھا.مفتی سلیم اللہ صاحب لاہوری سے طب پڑھی.اس کے بعد آپ دیو بند تشریف لے گئے.اور وہاں علوم حدیث کی تعلیم حاصل کی.تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ کچھ عرصہ سہارن پور میں مدرسہ مظاہر العلوم میں مدرس رہے.پھر آپ پشاور مشن کالج میں عربی کے پروفیسر متعین ہوئے.آپ پشاور میں ہی تھے جب کہ آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر ملازمت ترک کر دی.اور قادیان رہائش اختیار کر لی.قادیان میں حضور علیہ السلام کی مقدس صحبت میں رہ کر حقیقی علم سے یہاں تک استفادہ کیا کہ آپ مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جلیل القدر عہدہ پر فائز ہو گئے.آپ نے قریباً اسی برس عمر پائی.آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کے استاد ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے.حضرت مولوی صاحب اپنے علم اپنے زہد و اتقاء، اپنے عشق و محبت سلسلہ احمدیہ اور اپنی قربانیوں کے لحاظ سے ایک بے مثال وجود تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا.اور دنیا و آخرت میں خاص فضلوں کا وارث بنایا.آپ سے علم دین سیکھنے والوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے اور یہ فیض عمیم حضرت مولوی صاحب مرحوم کے درجات کو ہمیشہ بلند کرتا رہے گا.۱۹۰۲ء میں جب حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کو معہ چند ساتھیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے موضع مدضلع امرتسر میں ایک مباحثہ کے لئے بھیجا اور پھر اسی مباحثہ کے حالات کی بناء پر حضور نے تائید ایزدی رساله اعجاز احمدی انعامی دس ہزار روپیہ شائع فرمایا.اس رسالہ میں حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے:.فانزل من رب السماء سكينة على صحبتي والله قد كان ينصر واعطاهم الرحمن من قُوَّةِ الوغى وايديهم روح امين فابشروا فكان ثناء الله مقبول قومه و مناتَصَدَّى لِلتَّخَاصِمٍ سَروَر كان مقام البحث كان كاجمة به الذئب يعوى والغضنفريذء ود.ترجمہ: پس میرے اصحاب پر آسمان سے تسلی نازل کی گئی.اور خدامد د کر رہا تھا اور خدا نے ان کو قوت لڑائی کی دے دی اور روح القدس نے ان کو مدد دی.پس وہ خوش ہوئے.اور ثناء اللہ اپنی قوم کی طرف سے مقبول تھا.اور ہماری طرف سے مولوی سید محمد سرور شاہ پیش ہو گئے.گو یا مقام بحث ایک ایسے بن کی طرح تھا جس میں ایک طرف بھیڑ یا چیختا تھا اور ایک طرف شیر غراتا تھا.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ پاکیزہ کلمات ہمیشہ کے لئے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے روحانی وعلمی بلند مقام کو بیان کرتے رہیں گے.اور اس سے زیادہ ایک احمدی حضرت مولوی صاحب مرحوم ( اعجاز احمدی ص ۴۰-۴۱)
547 کی کیا تعریف کر سکتا ہے.اتنے مسلسل لمبے عرصہ تک اور پورے استقلال و تن دہی سے دینی خدمات بجالانا حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ نے جو شاندار کام کیا ہے وہ رہتی دنیا تک تاریخ احمدیت میں زریں حرفوں میں نقش رہے گا.خلافت ثانیہ کی ترقیات اور خلافت ثانیہ کے دشمنوں کی ناکامی و نامرادی کے ایمان افروز نظاروں کے دیکھنے کے بعد حضرت مولوی صاحب کا وصال ہوا ہے.بیسیوں مبلغین سلسلہ نے ابتدائی ایام سے حضرت مولوی صاحب مرحوم سے شرف تلمذ حاصل کیا.اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بارے میں ہر طرح سے خوشی عطا فرمائی.آپ کے تفسیری حقائق و معارف اپنے اندر ایک خاص رنگ رکھتے تھے.حضرت مولوی صاحب کو امام ہمام سید نا حضرت مصلح موعود سے جو عشق و محبت تھی.جو رابطہ قلبی حاصل تھا.وہ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا.حضور کے ہر ارشاد کی حرفی تعلیم کو آپ لازمی جانتے تھے.اور یہی روح اپنے حلقہ احباب میں پیدا کرتے تھے.عشق میں چوں چراں کا سوال ہی نہیں ہوتا.اور یہ نظارہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی زندگی کا طرہ امتیاز ہے.سفر و حضر میں اپنے محبوب آقا کی مجلس میں شرکت اور آپ کے دلنواز کلام کا سننا آپ کا اہم ترین مقصد ہوتا تھا.اور بڑھاپے کے باوجود راہ خدا میں قربانی کے لحاظ سے جوانوں سے ہر رنگ میں آگے تھے.اخلاص اور تقویٰ کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں.جفاکشی اور محنت میں بھی آپ جوانوں سے بڑھ کر تھے.آخری دنوں تک مطالعہ فرماتے رہے.اور تدریس کا شغل جاری رکھا.آپ نے مورخہ ۴ جون ۱۹۴۷ء کو فات پائی.۳.حضرت میر محمدالحق صاحب حضرت میر محمد اسحق صاحب ۱۸۹۰ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے.جہاں آپ کے والد محترم میر ناصر نواب صاحب ملازم تھے.آپ کی والدہ محترمہ کا نام سید بیگم صاحبہ تھا.زندہ رہنے والے ایک بہن اور دو بھائیوں سے آپ چھوٹے تھے.اللہ تعالیٰ نے تینوں میں سے پہلے صرف چون برس کی عمر میں انہیں اپنے پاس بلا لیا.تاہم آپ نے عشق رسول علم ، سیرت حسن سلوک اور خدمت سلسلہ کی وہ حسین یادیں چھوڑی ہیں جنہوں نے انہیں زندہ جاوید کر دیا.کہتے ہیں کہ مشہور صوفی بزرگ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ کی لحد پر کھڑے ہو کر ایک مجذوب نے یہ شعر پڑھے اور پھر اس کے بعد کسی نے اس مجذوب کو نہیں دیکھا.وہ شعر یہ تھے :.وا اسفا على فراق قوم هم المصابيح والحصون
548 وَ المدن والمزن والرواسي والخير والامن والسكون لَمُ تتغيّر لنا الليالي حتّــى تــوقــاهـم الـمـنـون فكلّ جمر لنا قلوب فكـلّ مــالـنـاعيـون ترجمہ:.ہائے افسوس ان لوگوں کی جدائی پر یہ چراغ راہ تھے یہ حصن حصین تھے.ان سے شہر آباد تھے.یہ رحمت خداوندی کے ابر تھے.یہ بلند پہاڑ تھے.یہ بھلائی ، امن اور سکینت کا باعث تھے.جب موت نے ان کو آلیا.دن بدل گئے.اب دل انگارے ہو چکے ہیں اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے.حضرت میر صاحب کی وفات پر خلیفہ وقت حضرت مصلح موعود نے اسی گھر میں جہاں حضرت میر صاحب نے آخری سانس لیا تھا.مغرب کی نماز کے بعد حضرت میر صاحب کی مثال حضرت حسن بصری اور اور جنید بغدادی سے دی.آپ نے فرمایا.اسی طرح ایک کے بعد ایک زمانہ کے لوگ گزرتے چلے گئے اور جب سارے گزر گئے تو کسی وقت عالم اسلام کے لئے حسن بصری اور جنید بغدادی کی وفات ایسے ہی صدمہ کا باعث تھی.جیسے صحابہ کے لئے آنحضرت ﷺ کی وفات.مگر یہ احساس نتیجہ تھا اس بات کا کہ حسن بصری اور جنید بغدادی جیسے لوگ مسلمانوں میں بہت شاذ پیدا ہوتے تھے.اور ساری امت ہی حسن اور جنید ہوتی تو وہ درد اور چھن جو ان بزرگوں کی وفات پر بلند ہوئیں.یوں بلند نہ ہوتیں.“ (الفضل ۱۹؍ مارچ ۱۹۴۴ء ) آپ کے جان و تن عشق رسول کی خوشبو تھی جو حمد مصطفے ﷺ کا حقیقی عاشق تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم دین سے بہرہ ور کیا تھا.آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے متعلق بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی تفقہ عطا کرتا ہے.حضرت میر صاحب کو جنہوں نے سنا ہے اور جنہوں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی جھولی اس خیر سے بھری تھی.صلى الله عشق رسول عليه آنحضرت فردا نفسی ونفوس العالمین نے فرمایا.تم میں سے کوئی اس وقت تک حقیقی مومن نہیں بن سکتا.جب تک خدا کا رسول اسے اس کے ماں باپ اولا داور سب جہان سے زیادہ عزیز نہ ہوں.( بخاری کتاب الایمان ) اور حضرت میر محمد الحق صاحب ان عشاق رسول میں سے تھے جن کا ذکر اس حدیث میں ہے.
549 خدمت سلسلہ اور علم ان کی روح کی غذا تھی.وہ جب تک جئے.خدا اس کے رسول اور خدمت سلسلہ کے لئے جئے.انہوں نے ساری زندگی زہد میں گزاری اور آخری سانس تک آپ نے اس عہد کو نبھا یا جو بیعت کے وقت ہم میں سے ہر ایک کرتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.“ خود نوشت سوانح اب میں آپ کے سوانح جو خود آپ نے رقم فرمائے درج کرتا ہوں.یہ حالات جامعہ کے سالنامہ ۱۹۳۰ء میں پہلی بار شائع ہوئے :.”میری پیدائش ۱۸ ستمبر ۱۸۹۰ء کو بمقام لدھیانہ ہوئی.جہاں حضرت والد صاحب مرحوم سرکاری ملازم تھے.غالبا ۱۸۹۴ء کے بعد سے مستقل سکونت قادیان میں ہے.قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کے دار میں تھا.بچپن سے اٹھارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود کے روز وشب کے حالات مشاہدہ میں آئے اور اب تک تقریباً اسی طرح ذہن میں محفوظ ہیں.گورداسپور، بٹالہ، لاہور، سیالکوٹ اور دہلی کے سفروں میں ہمرکاب ہونے کا فخر حاصل ہے.آخری بیماری کی ابتداء سے وصال تک حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کے پاس رہا.حضور نے متعدد مرتبہ مجھ سے لوگوں کے خطوط کے جوابات لکھوائے.حقیقۃ الوحی کا مسودہ مختلف جگہ سے فرماتے گئے اور میں لکھتا گیا.روزانہ سیر میں آپ کے ساتھ جاتا.اور جانے کے اہتمام مثلاً قضاء حاجت وضو کا انصرام اور ہاتھ میں رکھنے کی چھڑی تلاش کر کے دینے سے سینکڑوں دفعہ مشرف ہوا.آپ کی کتابوں میں بیسیوں جگہ میرا ذکر ہے.آپ کے بہت سے نشانوں کا عینی گواہ ہوں اور بہت سے نشانوں کا مورد بھی ہوں.جن دنوں حضور باہر مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے.دونوں وقت میں بھی شریک ہوتا تھا.مجھے یاد ہے.ہم عربی میں اسقـنـى الـمـاء کہہ کر پانی مانگا کرتے تھے.بچپن میں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ حضور نے مغرب وعشاء اندر عورتوں کو جماعت سے پڑھائیں اور میں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا.عورتیں پیچھے کھڑی ہوتیں.غالباً میں پیدائشی احمدی ہوں.نہایت چھوٹی عمر سے اب تک حضور کے دعاوی پر ایمان ہے.آپ کے وصال کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب کو دل سے صدیق اکبر اور سچا خلیفہ تسلیم کیا.حضرت خلیفہ اول سے بچپن سے نہایت بے تکلفی اور محبت و پیار کا تعلق تھا.ان کی وفات پر سچے دل سے صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو
550 خلیفہ ثانی سمجھتا ہوں.باقاعدہ اور بے قاعدہ مولوی عبد الکریم صاحب ، حافظ روشن علی صاحب، مولوی سرورشاه صاحب، مولوی محمد اسمعیل صاحب اور حضرت خلیفہ اول سے عربی علوم پڑھنے کی کوشش کہ.۱۹۱۰ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.۱۹۱۲ء میں صدر انجمن احمد یہ قادیان کی ملازمت میں داخل ہوا.جامعہ احمدیہ کے قیام سے قبل مدرسہ احمدیہ میں مدرس تھا.اب جامعہ احمدیہ میں پڑھاتا ہوں.اس ملازمت کے علاوہ بعض اور کام بھی خلافت ثانیہ میں سلسلہ کے سرانجام دینے کی کوشش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود کے وجود سے جو شرف حاصل ہوئے وہ اس لئے لکھے ہیں کہ ابتداء ایسی اچھی ہے.پڑھنے والے دعا کریں کہ انتہاء بھی ایسی ہی اچھی ہو.عروسی بود نوبت ما تمت اگر بر نکوئی بود خاتمت خدمت سلسلہ حضرت میر صاحب مدرس مدرسہ احمدیہ.استاذ الجامعہ قاضی سلسله ناظر دعوت و تبلیغ ، ناظر بیت المال، ناظر ضیافت - ممبر صدر انجمن احمدیہ، صدر مجلس ارشاد، افسر جلسہ سالانہ کے جلیل القدر عہدوں پر متمکن رہے.اور جس محکمہ میں آپ کا تقرر ہوا.آپ نے اس میں ایک نئی زندگی پیدا کر دی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کی انتظامی صلاحیتوں سے بہرہ ور فرمایا تھا.آپ سخت محنتی اور انتھک انسان تھے.جن لوگوں نے قادیان دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت میر صاحب جن دنوں دارالانوار میں رہتے تھے.گرمیوں، سردیوں میں جامعہ احمد یہ جو قادیان کے ایک طرف تھا، پیدل جاتے تھے.آپ وقت کی بہت پابندی فرماتے.ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ ۱۹۳۷ء میں جب شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو جماعت سے نکالا گیا.تو جامعہ احمدیہ سے آپ کا تبادلہ بطور ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ کیا گیا.مدرسہ احمدیہ کی آخری دو کلاسوں کو حدیث ، فقہ جس میں علم میراث بھی تھا.اور منطق آپ خود پڑھاتے تھے.آپ کی آمد سے قبل مدرسہ کی عمارت کچی تھی.آپ نے اس عمارت کے باہر کی طرف پکی اینٹیں لگوا کر اسے غلافی بنوایا اور اس پر سرخ رنگ کروا کر مدرسہ کی ہیئت ہی بدل دی.مدرسہ کے اوپر ایک چوبارہ تھا جوان دنوں اردور یو یو کا دفتر تھا.اس کی دیوار جو جامعہ کی طرف تھی اس پر خوش خط یہ دعا لکھوادی.”اے ہمارے قادر مطلق خدا تو ہمیں عالم باعمل بنا دے.اے ہمارے بچے بادشاہ تو ہمیں دنیا کے
551 تمام فکروں سے فارغ البال کر کے صرف اپنی عبادت اور اپنی مخلوق کے لئے وقف فرما دے.آمین ہم ہیں تیرے عاجز بندے.(اساتذہ وطلباء مدرسہ احمدیہ قادیان) انداز تدریس جن لوگوں نے آپ سے پڑھا ہے.وہ جانتے ہیں کہ آپ کا انداز تدریس ایسا تھا.کہ مشکل سے مشکل علوم اور مسائل کلاس میں ہی یاد ہو جاتے.ایک بار حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب نے جامعہ احمدیہ کے ایک ہونہار طالب علم اور مشہور مناظر مولانا محمد سلیم صاحب سے پوچھا.حضرت میر صاحب کیسا پڑھاتے ہیں تو بے ساختہ مولانا محمد سلیم نے کہا:.و بس یوں سمجھ لیجئے کہ سبق میں جان ڈال دیتے ہیں.“ قادر الکلام مقرر حضرت میر صاحب خود ایک قادر الکلام مقرر تھے.وہ مد مقابل کو اس طرح گھیر تے تھے جس طرح شکاری شکار کوگھیرتا ہے.شفیق استاد طلباء کے لئے آپ بمنزلہ شفیق باپ کے تھے.وہ طلباء کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے.ایک بار مدرسہ احمدیہ کا ایک طالب علم بیمار ہو گیا.اس کے منہ پر بہت ورم تھا.حضرت میر صاحب اپنے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ اور اس کے لئے رس لے کر آئے.سردیوں میں خیال رکھتے کہ طلباء کے پاس سردی سے بچاؤ کے لئے مناسب انتظام ہے یا نہیں.آپ کے عہد میں کوئی غریب طالب علم اس لئے تعلیم سے محروم نہ ہو سکتا تھا کہ فیس ادا نہیں کر سکتا یا کتابیں خرید نہیں سکتا.کئی غریب طالب علموں کو اپنے گھر میں اپنی اولاد کی طرح رکھ کر پڑھایا.اور آج وہ سلسلہ کی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں.مولوی عبد اللطیف صاحب ستکو ہی سیکرٹری اصلاح و ارشاد جماعت لاہور نے مجھے بتلایا کہ ایک بار مالی تنگی کی وجہ سے میں مدرسہ احمدیہ سے چلا گیا.حضرت میر صاحب کو علم ہوا تو میرے گاؤں ست کو ہہ میں آدمی بھیجا کہ اسے کہو وہ واپس آ جائے میں سارا انتظام کروں گا.
552 حضرت مسیح موعود کے رویا اور الہام میں آپ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی شادی کے متعلق رویا میں بتلایا گیا کہ پیر منظور محمد صاحب موجود قاعدہ میسر نا القرآن کی صاحبزادی صالحہ بیگم صاحبہ سے آپ کا عقد ہو رہا ہے.چنانچہ اس رڈیا کے مطابق ۱۹۰۶ء میں آپ کا نکاح مسجد اقصیٰ میں حضرت مولانا نورالدین صاحب نے پڑھا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تشریف فرما تھے.اس موقعہ پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی نے ایک نظم بھی لکھی جو کلام محمود میں درج ہے.ایک الہام جو آپ کی بیماری میں دعا کرنے پر ہوا وہ یہ تھا:.سَلامٌ قولاً مِنْ رَّبِّ الرَّحِيم آپ فرمایا کرتے تھے یہ الہام بھی میرے متعلق ہے ” خدا اس کو پنج بار ہلاکت سے بچائے گا.“ چنانچہ آپ پر پانچ بڑی بیماریاں آئیں جن سے آپ کو اللہ نے وعدہ کے مطابق شفادی.مقدس گھرانہ چونکہ آپ کو ایک لمبا عرصہ حضرت مسیح موعود کے الدار‘ میں رہنے کا شرف نصیب ہوا.آپ کی پیدائش پر آپ کی والدہ آپ کو دودھ نہ پلا سکتی تھیں.اس لئے بڑی بہن حضرت اماں جان نے آپ کو اپنا دودھ پلایا.اس لئے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رضاعی بیٹے بھی تھے.اس لئے اس مقدس گھرانے میں آپ حضرت مسیح موعود کے بیٹوں کی ہی طرح رہتے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت ذہانت عطا کی تھی.حضرت خلیفتہ اسیح الاول نے ایک روز آپ کی ذہانت اور حذاقت کا ذکر کرے ہوئے فرمایا:.کوئی قابل سے قابل آدمی بھی اگر قرآن کریم پر اعتراض کرے تو میں اسے دومنٹ میں خاموش کر سکتا ہوں.مگر میر محمد الحق صاحب جب مجلس میں بیٹھے ہوں تو میں بہت احتیاط کرتا ہوں.“ (سیرت حضرت ام المومنین جلد نمبر ۲ ص ۳۶۵) اس گھرانہ کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ میر صاحب میں عشق رسول ﷺ علم قرآن وحدیث ، مسکینوں کی خبر گیری ، سادگی ، انکساری اور بے نفسی کے وصف بہت نمایاں تھے اپ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۴۴ء کو وفات پا کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.
553 ۴.حضرت مولوی غلام رسول را جیکی صاحب حضرت مولانا صاحب مرحوم ۱۸۷۷ء اور ۱۸۷۹ کے بین بین بھادوں کے موسم میں پیدا ہوئے تھے.آپ موضع را جیکے ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی پیدائش سے قبل خواب میں دیکھا تھا کہ گھر میں ایک چراغ روشن ہوا ہے.جس کی روشی سے سارا گھر جگمگا اٹھا ہے.آپ نے ۱۸۹۷ء میں بذریعہ خط بیعت کی اور اس کے دو سال بعد ۱۸۹۹ء میں قادیان حاضر ہوکر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.بیعت کے بعد علی الخصوص آپ کے علم و عرفان اور تعلق باللہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی غیر معمولی برکت بخشی.اور آپ کو روحانی نعماء سے اس قدر حصہ وافر عطا کیا کہ آپ آسمان روحانیت کا ایک درخشندہ ستارہ بن کر نصف صدی سے زائد سے بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لانے کا وسیلہ بنے رہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو عرفان کے ساتھ ساتھ الہام اور رویاء و کشوف کی نعمت سے اس قدر نوازا تھا اور اپنے تقوی وطہارت اور زہد و ارتقاء کی وجہ سے آپ کی دعا ئیں جناب الہی میں اس قدر مقبول تھیں.اور پھر خدمت سلسلہ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے غیر معمولی رنگ میں عطا فرمائی تھی کہ بجاطور پر آپ انصار دین کے اس مقدس زمرہ میں شامل تھے جن کی خبر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس الہام میں دی تھی کہ ینصرک رجال نوحی اليهم من السماء.اس لحاظ سے آپ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان تھے.اور آپ کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ اور فیض رسانی کے ثبوتوں میں سے ایک زندہ درخشندہ ثبوت تھا.یوں تو آپ سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کے بعد شروع ہی سے تبلیغ حق میں بے انتہا سرگرم واقع ہوئے تھے اور آپ کی زندگی ہمہ وقت میدان تبلیغ میں ہی بسر ہو رہی تھی لیکن سلسلہ عالیہ احمدیہ کے با قاعدہ مبلغ کے طور پر آپ نے خلافت اولے کے زمانہ میں کام شروع کیا.اور پھر قریباً نصف صدی تک ایسے ایسے عظیم الشان تبلیغی کارنامے سرانجام دیئے کہ جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے.اور آنے والی نسلیں آپ کی یاد پر محبت وعقیدت کے پھول نچھاور کرتی رہیں گی.آپ نے اپنے تبلیغی تجارب اور زندگی میں پیش آنے والے غیر معمولی واقعات کو اپنی معرکۃ الاراء تصنیف ”حیات قدسی میں محفوظ فرما دیا ہے.آپ نے اپنی زندگی میں آریوں عیسائیوں اور غیر از جماعت علماء سے صدہا نہایت درجہ کامیاب مناظرے کئے.ہزاروں کی تعداد میں معرکہ آلارا لیکچر دیئے.اور اردو اور عربی میں نہایت اہم علمی موضوعات پر بے شمار قیمتی مضامین رقم فرمائے جو سلسلہ کے جرائد و رسائل اور اخبارات میں شائع ہوئے.آپ کی عربی دانی نہ صرف جماعت میں بلکہ جماعت سے باہر بھی غیر از جماعت اہل علم حضرات کے نزدیک مسلم تھی.آپ کے عربی قصائد منقوطہ وغیر منقوطہ نے
554 آپ کی عربی دانی اور علم لدنی کا سب سے لوہا منوالیا تھا.آپ کے آقاسید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے جن کے فیض صحبت سے آپ نے بہت کچھ پایا اور آپ کے علم و عرفان کو جلاء نصیب ہوئی ۸/ نومبر ۱۹۴۰ء کو خطبہ جمعہ میں آپ کے علم و فضل اور تبحر علمی کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو حسب ذیل سند قبولیت عطا فرمائی:.میں سمجھتا ہوں کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی مگر بعد میں جیسے یک دم کسی کو پستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان کو قبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ دلوں پر اثر کرنے والی اور شبہات و وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے گزشتہ دنوں میں شملہ گیا تو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی یہاں آئے اور انہوں نے ایک جلسہ میں تقریر کی جو رات کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی تقریر کے بعد ایک ہندو ان کی منتیں کر کے انہیں اپنے گھر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمارے گھر چلیں آپ کی وجہ سے ہمارے گھر میں برکت نازل ہوگی.“ 66 (خطبه جمعه فرموده ۱۸ نومبر ۱۹۴۰ء) آپ کی بزرگی زہد و اتقاء اور خدمات جلیلہ کے اعتراف کے طور پر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فروری ۱۹۵۷ء میں آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا مستقل ممر مقررفرمایا چنانچہ اس وقت سے اپنی وفات تک آپ صدرانجمن احمدیہ کے نمبر چلے آ رہے تھے علاوہ ازیں آپ افتاء کمیٹی کے بھی رکن تھے.آپ نے مورخہ ۱۵ر دسمبر ۱۹۶۳ءکو وفات پائی.۵.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس حضرت مولانا نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مقرب صحابی حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی کے فرزند جلیل تھے بلکہ آپ کو خود بھی صحابی ہونے کا فخر حاصل تھا.آپ جماعت کے نامور مبلغ اور مجاہد تھے آپ جماعت احمدیہ کی پہلی با قاعدہ مبلغین کلاس کے چار طلباء میں سے ایک تھے.آپ نے عنفوان شباب میں ہندوستان کے طول و عرض میں پیغام احمدیت پہنچایا.جون ۱۹۲۵ء میں آپ شام تشریف لے گئے جہاں ۱۹۲۸ء تک باوجود نا مساعد ملکی حالات کے کامیاب طور پر کام کیا.آپ نے وہاں احمد یہ مشن کی بنیا درکھی.دسمبر ۱۹۲۷ء میں ایک بد بخت نے آپ پر خنجر سے حملہ کر کے آپ کو شدید طور پر زخمی کر دیا.اور بعد میں فرانسیسی حکومت نے آپ کو دمشق سے نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ آپ سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم پر حیفا فلسطین تشریف لے گئے جہاں آپ نے ایک اور نئے مشن کی بنیاد ڈالی.اور اپریل ۱۹۳۱ء میں پہلی
555 احمد یہ مسجد کہا بیر کی بنیا درکھی.فروری ۱۹۳۶ء میں آپ کو انگلستان بھجوایا گیا.جہاں آپ درد صاحب کی واپسی پر ۹ رنومبر ۱۹۳۸ء کو امام مسجد فضل لندن مقرر ہوئے.جنگ عظیم ثانی کے دوران لندن میں شدید بمباری اور نامساعد حالات میں جب کہ مشن کے قریب بھی بم گر رہے تھے، آپ پیغام حق پہنچاتے رہے.آپ نے دنیا کی نامور ہستیوں تک پیغام احمدیت پہنچایا.چنانچہ بشپ آف گلاسٹر.شاہ جارج ششم اور کنگ پیٹر آف یوگوسلاویہ کو تبلیغ کی.قیام لنڈن کے دوران آپ کی نگرانی میں دنیا کی سات بڑی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم ہوئے آپ جب لندن تشریف لے گئے تو اپنے پیچھے نو بیاہتا دلہن کو چھوڑ گئے اور دس سال سے زائد عرصہ باہر رہ کر قربانی کا ایک بلند معیار قائم کیا.آپ میں اللہ تعالیٰ نے مناظرہ کا عظیم ملکہ ودیعت فرمایا تھا.ہندوستان میں قیام کے دوران آپ نے متعدد مناظرے غیر احمد یوں عیسائیوں اور آریوں سے کئے.قیام دمشق کے دوران آپ نے پادری الفریڈ نیلسن سے جو وہاں کے تمام مشنوں کے انچارج تھے ” کیا مسیح ناصری صلیب پر فوت ہوئے تھے“ کے موضوع پر کامیاب مناظرہ کیا جس کے نتیجہ میں محرک مناظر مکرم منیر اکھنی صاحب احمدیت میں داخل ہو گئے قیام لندن کے دوران آپ مسٹر گرین سے ہائیڈ پارک میں ایک سال تک مناظرہ کرتے رہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے قوت استدلال سے بھی نمایاں حصہ عطا فرمایا تھا.آپ جماعت کے متبحر اور جید عالم تھے.آپ نے تقاریر اور تحریرات کے ذریعہ جماعت کی تبلیغی اور تربیتی بیش بہا خدمات انجام دیں.پنجاب میں ۱۹۵۳ء کے فسادات کی تحقیقاتی عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے دن رات کی محنت شاقہ کے بعد جماعت کا موقف واضح کرنے اور کیس تیار کرنے میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علالت کے دوران آپ نے خطبات جمعہ وعیدین پڑھنے اور جماعت کی تربیت کا جو کام کیا وہ آپ کا عظیم کا رنامہ تھا.اس کے علاوہ آپ نے تین درجن کے قریب کتب بھی تصنیف کیں.جو آپ کے بعد آپ کی یادگار ہیں.آپ کی انہی خدمات کی بناء پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو "خالد" کا خطاب بھی عطا فر مایا.وذالك فضل الله يوته من يشاء - سلسلہ کا لٹریچر عام کرنے کے لئے جب الشرکۃ الاسلامیہ کا قیام عمل میں لایا گیا.آپ اس کے پہلے مینجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور تا حیات نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ یہ کام کرتے رہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب و ملفوظات کو سیٹ کی صورت میں شائع کرنا اور پھر ان کے مضامین کے لحاظ سے مفصل انڈیکس تیار کرنا آپ کا عظیم کارنامہ ہے.آپ کو جماعت کے بعض انتظامی کام کرنے کا بھی موقع ملا.تعمیر ربوہ کے ابتدائی ایام میں قائم مقام
556 ناظر اعلیٰ کی خدمات بجالاتے رہے.ایک لمبے عرصے تک آپ مجلس کار پرداز بہشتی مقبرہ کے صدر رہے ۱۹۶۲ میں آپ کو ناطر اصلاح وارشاد مقرر کیا گیا.اس عہدہ پر آپ وفات تک سرفراز رہے.ہجرت کے وقت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی قادیان سے واپسی کے بعد قادیان کی جماعت کے امیر مقرر ہوئے جماعت احمد یہ ربوہ کے بھی ایک لمبے عرصے تک جنرل پریذیڈنٹ رہے.حضرت مصلح موعود اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ اپنی موجودگی میں اکثر آپ کو مرکز میں امیر مقامی مقر فرماتے رہے ان کاموں کے علاوہ آپ بورڈ آف قضا اور افتاء کمیٹی کے ممبر تھے.انجمن احد یہ اور ادارۃ المصنفین کے ممبر ہونے کا بھی آپ کو شرف حاصل تھا.غرض آپ نے نہایت قابل فخر اور قابل رشک کام کی زندگی گزاری.آپ نے مورخہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو وفات پائی.۶.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حضرت شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے.ابتدائی ایام رعیہ ضلع سیالکوٹ میں گزارے جہاں آپ کے والد بزرگوار حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابہ میں سے تھے ) بہ سلسلہ ملازمت متعین تھے.۱۹۰۳ء میں تعلیم کے لئے آپ کو قادیان بھجوایا گیا جس کی وجہ سے آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کرنے اور حضور کی مقدس صحبت سے فیضان حاصل کرنے کا موقع میسر آ گیا.۱۹۰۸ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا.اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے موقعہ پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایماء پر آپ نے خدمت دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کا عہد کیا.پھر آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے لیکن دو سال بعد سید نا حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر آپ کالج کی تعلیم چھوڑ کر قادیان آگئے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر بزرگان سلسلہ سے شرف تلمذ حاصل کیا.۱۹۱۳ء میں آپ عربی کی اعلی تعلیم کے حصول کے لئے مصر تشریف لے گئے کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد آپ بیروت اور عرب تشریف لے گئے جہاں پر نہایت قابل اساتذہ آپ کو میسر آ گئے.معمولی تعلیم کے بعد سات ماہ تک ایک ترکی رسالہ میں بھی آپ کو کام کرنے کا موقعہ ملا.پھر آپ بیت المقدس گئے صلاح الدین ایوبیہ کالج میں پروفیسر متعین ہو گئے.جہاں پر آپ کو تاریخ ادیان انگریزی اور اردو پڑھانے کا موقع ملا کچھ عرصہ آپ سلطانیہ کالج کے وائس پرنسپل بھی رہے مئی ۱۹۱۹ء میں آپ واپس وطن تشریف لے آئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیر ہدایت ۱۹۲۰ء میں آپ صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ منسلک ہو کر خدمت سلسلہ بجالانے لگے.
557 چنانچہ اس کے بعد اپنی آخری بیماری تک آپ نے مسلسل سلسلہ عالیہ احمدیہ کی گراں قدر خدمات سرانجام دیں.آپ صدر انجمن احد یہ میں ناظر دعوت وتبلیغ، ناظر تعلیم وتربیت ، ناظر تجارت، ناظر تالیف وتصنیف، ناظر امور خارجه اور ایڈیشنل ناظر اعلیٰ کے عہدوں پر فائز رہے اور اس طرح ایک لمبے عرصے تک حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک معتمد رفیق کار کی حیثیت سے مختلف محکموں میں آپ کو نہایت قابل قدر کام کرنے کی توفیق ملی.اس اثناء میں جماعت کے خلاف کئی خطرناک فتنے بپا ہوئے اور جماعت پر بہت سے نازک دور آئے لیکن ہر مرحلہ پر حضرت شاہ صاحب نے نہاہت کامیابی کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کیا.اور حضور رضی اللہ عنہ کی خوشنودی حاصل کی.۶۲۵ ،۲۶ء میں آپ کو بلا د عربیہ میں بطور مبلغ بھی کام کرنے کا موقعہ ملا.از حد مصروفیت کے باوجود علمی میدان میں بھی آپ نے جماعت کی بہت سی خدمات سرانجام دیں.چنانچہ آپ کی چوبیس کے قریب تصنیفات شائع ہو چکی ہیں.جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کی تقاریر بھی ایک خاص رنگ رکھتی تھیں اور بہت پسند کی جاتی تھیں.۱۹۲۶ء میں صحیح بخاری کا ترجمہ اور شرح لکھنے کا کام آپ کے سپر د کیا گیا.آپ بڑے شوق اور محنت سے کرتے رہے چنانچہ اس وقت تک شرح کے آٹھ جزو شائع ہو چکے تھے.مسلمانان کشمیر جدو جہد آزادی میں بھی آپ کو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیر ہدایت گراں قدر خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے وقت آپ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں چنانچہ اکتو بر ۱۹۴۷ء سے جنوری ۱۹۴۸ء تک آپ قید رہے قیام پاکستان کے وقت آپ کو سیاسی لحاظ سے بھی مسلمانوں کی خدمت کرنے کا بہت موقع ملا.جب پاکستان میں مرکز ربوہ قائم ہوا تو یہاں کے ابتدائی دور میں بھی جب کہ بہت سی مشکلات در پیش تھیں.ایک عرصہ تک آپ کو بطور امیر مقامی اور بطور ناظر کام کرنے کا موقع ملا یکم جون ۵۴ء کو آپ صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے لیکن اس کے بعد پھر آپ کو ناظر امور خارجہ متعین کر دیا گیا.چنانچہ اس حیثیت سے آپ ۶۲ ء تک جب کہ فالج کی وجہ سے آپ شدید بیمار ہو گئے کام کرتے رہے گویا ۱۹۰۸ء میں آپ نے خدمت دین کا جو عہد کیا تھا اسے آخر تک نہایت عمدگی کے ساتھ نبھانے کی آپ کو توفیق ملی.ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء حضرت شاہ صاحب رؤیاء کشوف اور مستجاب الداعوات بزرگ تھے.کئی مواقع پر اللہ تعالیٰ نے رؤیا کشوف کے ذریعے آپ کی رہنمائی اور اپنی بشارتوں سے آپ کو نوازا.نماز تہجد با قاعدہ ادا کرتے تھے قرآن کریم سے غایت درجہ محبت تھی اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گہرا مطالعہ تھا.عربی اور اردو کے بلند پایہ ادیب تھے.غرض بہت سی خوبیوں کے حامل تھے ایک لمبے عرصہ تک تنظیمی تربیتی تبلیغی اور علمی میدان میں سلسلہ کی گراں بہا خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.آپ نے مورخہ ۶ ارمئی ۱۹۶۷ء کو وفات پائی.
558 ข.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ۱۴/ اپریل ۱۹۰۴ء کو ضلع جالندھر کے ایک گاؤں کر یہا (نزد کریام ) میں پیدا ہوئے آپ کے والد محترم کا اسم گرامی حضرت میاں امام الدین صاحب تھا جنہیں ۱۹۰۲ء میں احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کے والد صاحب نے آپ کے ماموں حضرت ڈاکٹرمحمد ابراہیم صاحب کی تحریک پر آپ کو قادیان کے مدرسہ احمدیہ میں داخل کروایا جہاں پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت سید میر محمد الحق صاحب رضی اللہ عنہ جیسے جلیل الشان بزرگوں اور جید استادوں کے زیر سایہ آپ کو علمی اور روحانی ترقی کے انمول مواقع میسر آئے.اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ زمانہ طالب علمی ہی میں سلسلہ کی تقریری اور تحریری خدمات میں حصہ لینے لگے اور حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے.۱۹۲۴ء میں آپ نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۲۷ء میں آپ نے سلسلہ کا با قاعدہ مبلغ بننے کی توفیق پائی.۱۹۳۱ء میں بٹالہ ضلع گورداسپور کے ایک جلسہ میں آپ کو حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی نمائندگی کرنے کا فخر حاصل ہوا جبکہ حضور رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے سند نیابت لکھ کر انہیں عطا فرمائی.تمصله اوائل عمر سے ہی آپ کو بہت سے اہم مناظرات میں اسلام اور احمدیت کی نمائندگی میں حصہ لینے کی توفیق ملی چنانچہ آپ نے متعدد مشہور عیسائی اور ہند ومخالفین اسلام سے بڑے معرکہ کے کامیاب مناظرے کئے اور ملک کے طول و عرض میں تشریف لے جا کر بکثرت تبلیغی دورے کئے اور جلسوں میں کامیاب تقاریر فرمائیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحریری میدان میں بھی نمایاں خدمات کی توفیق دی.اوائل عمر ہی سے سلسلہ کے اخبارات میں مضامین تحریر کرنے شروع کئے جن کا سلسلہ وفات تک جاری رہا.کم و بیش ۳۰ تصانیف فرمائیں جن میں تفہیمات ربانیہ، تجلیات رحمانیہ، القول المین کی تفسیر خاتم النبین ، مباحثہ مصر، مباحثہ راولپنڈی، مباحثہ مہت پورہ بہائی تحریک پر تبصرہ اور وحی و الہام کے متعلق اسلامی نظریہ جیسی جامع اور ضخیم کتب بھی شامل ہیں.تحریری میدان میں آپ کی ایک اہم خدمت ماہنامہ الفرقان کا اجراء ہے جو آپ نے قادیان سے جاری فرمایا اور ۲۵ برس متواتر آپ کی ادارت اور ذاتی نگرانی میں سلسلہ کی اہم تبلیغی اور علمی خدمات بجالاتا رہا ہے.حضرت مولوی صاحب کو چار پانچ سال تک بلا عر بیہ میں تبلیغ حق کا موقع بھی ملا جہاں سے آپ نے عربی رسالہ ”البشری جاری فرمایا.ملک میں اہم تبلیغی خدمات کے علاوہ آپ جامعہ احمدیہ و جامعتہ المبشرین کے پرنسپل اور تعلیم الاسلام کالج کے لیکچرار بھی رہے.سالہا سال تک مجلس کار پرداز کے صدر اور مجلس انصاراللہ
559 کے نائب صدر بھی رہے اور ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد ( تعلیم القرآن ) کی حیثیت میں بھی اہم انتظامی اور دینی خدمات کی توفیق ملی اور خدمت کا یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا حتی کہ وفات سے صرف ایک دن قبل بھی دفتر تشریف لے جا کر کام کرتے رہے.۱۹۷۳ء کو سفر انگلستان کا اور ۱۹۷۶ء میں سفر ایران کا بھی آپ کو موقع ملا.الغرض حضرت مولوی صاحب کی قلمی، لسانی تبلیغی، تربیتی اور تنظیمی خدمت کا ریکارڈ بہت شاندار ہے.آپ کو یہ فخر بھی حاصل ہوا کہ ۱۹۵۶ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی الصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ عنہ اور محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی آپ کو بھی خالد کے لقب سے سرفراز فرمایا اللہ تعالیٰ ان تینوں بزرگوں کو بہت بہت بلند درجات عطا فرمائے.آمین.آپ مورخہ ۳۰ مئی ۱۹۷۷ء کو وفات پا کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے..حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب مولوی فاضل ، منشی فاضل ، ایف.اے انگلش ۳ رستمبر ۱۸۹۸ء کو پیدا ہوئے.آپ کے والد محترم کا نام حضرت قاضی محمد حسین صاحب جو کہ صحابی تھے.آپ کی آبائی سکونت کورووال تحصیل وضلع سیالکوٹ تھی.بعد ازاں قادیان محلہ دار العلوم میں آپ کی رہائش رہی.آپ نے دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کی غرض سے اپنی زندگی ۱۹۳۸ء میں وقف کی.اس سے پہلے آپ لائل پور حال ( فیصل آباد ) میں ایک سکول میں بطور مدرس متعین رہے.یکم مئی ۱۹۳۸ء کو صدرانجمن احمد یہ میں آپ کی تقرری بطور معلم علوم شرقیہ کی گئی.اس عہدہ پر چند سال خدمات سرانجام دینے کے بعد ۱۹۴۰ء میں جامعہ احمدیہ میں عربی ادب کے لیکچرار مقرار ہوئے.۲ جنوری ۱۹۴۲ء کو نظارت دعوت تبلیغ میں بطور مبلغ خدمات انجام دیں.۱۴ اپریل ۱۹۴۴ء کو مدرسہ احمدیہ تعیناتی ہوئی یہاں سے چند روز بعد یکم مئی ۱۹۴۴ءکو تعلیم الاسلام کالج میں دینیات ، فارسی اور اردو کے لیکچرار کی حیثیت سے خدمات انجام دینا شروع کیں.۱۹۴۵ء میں آپ کی خدمات نظارت تعلیم کے حوالے کر دی گئیں اور ۷ استمبر ۱۹۴۵ء کو آپ جامعہ احمدیہ میں پڑھانے لگ گئے.اس حیثیت میں کافی عرصہ خدمات بجالاتے رہے.اور مئی ۱۹۵۵ء میں جامعہ احمدیہ کے پرنسپل مقرر ہوئے.۱۹۵۷ء میں آپ کی خدمات نظارت اصلاح وارشاد کے سپرد ہوئیں.۱۹۶۶ء میں آپ ناظر اصلاح و ارشاد مقرر ہوئے اور اس کے بعد ناظر اشاعت لٹریچر و تصنیف مقرر ہوئے اور ۸۲ سال کی عمر میں وفات پانے تک اسی عہدہ جلیلہ پر فائز تھے.
560 حضرت قاضی صاحب متبحر عالم تھے سالہا سال تک درس القرآن اور درس حدیث دیتے رہے.ہر قسم کے دینی علوم میں بڑا گہرا مطالعہ اور ٹھوس علمی شعور رکھتے تھے.جماعت کے اختلافی عقائد کے بارے میں خصوصاً ان کا مطالعہ بہت دور رس اور گہرا تھا.قریباً ہر سال جلسہ سالانہ پر تقریر فرماتے تھے.لوگ نہایت ذوق و شوق سے ان کی تقاریر سنتے تھے تحقیق اور مطالعہ کا نچوڑ ان کی قریباً نصف صد کتب ہیں.ان کی بعض کتب کا ترجمہ بنگالی اور انگریزی میں ہو چکا ہے.آپ نے مورخہ ۷ ستمبر ۱۹۸۰ء کو ۸۲ سال کی عمر میں وفات پائی.۹.حضرت ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ حالات زندگی حضرت ملک سیف الرحمان صاحب ۱۱ نومبر ۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے.ان کے والد بزرگ کا نام ملک دوست محمد تھا.آپ موضع کھونکہ ڈاکخانہ سوڈھی جے والی تحصیل خوشاب ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے.احمدیت قبول کرنے سے قبل آپ نے کاوہ ضلع کیمپلپور میں صرف و نحو پڑھی.ادب وفقہ کی تعلیم تمن ضلع کیمپلپور سے حاصل کی.اس کے بعد جامعہ عباسیہ بہاولپور، مدرسہ نظامیہ حیدر آباد دکن دار العلوم رحیمیہ لاہور، مدرسه فتحپوری دہلی مدرسہ امینیہ دہلی ، نیز دیوبند اور سہارنپور کے مشہور دینی اداروں سے دینی تعلیم حاصل کی.قبول احمدیت آپ کا وجود ۱۹۳۴ء میں برپا ہونے والی جماعت احمدیہ کے خلاف احرار شورش کا حسین اور شیریں پھل تھا اس شورش کے دوران آپ نیلہ گنبد لاہور کی مسجد سے احمدیت کے خلاف تقریریں کیا کرتے تھے اور علماء میں شامل تھے.احمدیت کے خلاف مہم تیز ہوئی تو آپ کو احمدی لٹریچر پڑھنے کا موقعہ ملا.طبیعت سعید اور فطرت نیک تھی تھوڑا عرصہ مطالعہ کیا اور ۱۹۳۶ء میں احمدیت کی آغوش میں آئے اور دنوں اور ہفتوں میں ایمان اور اخلاص میں وہ بے مثال ترقی کی کہ بہتوں کو پیچھے چھوڑ گئے.مارچ ۱۹۳۹ء میں آپ نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کر دی.اس سے قبل احمدی ہونے کے بعد آپ نے قادیان سے پرائیویٹ مولوی فاضل کیا اس کے بعد مدرسہ احمدیہ میں صرف ونحو اور ادب و معانی کے مضامین پڑھانے پر مامور ہوئے.وقف زندگی کرنے کے بعد حضرت فضل عمر نے فرمایا کہ خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھائیں.چنانچہ فصول اکبری وغیرہ صرف ونحو کی کتب پڑھاتے رہے.اور اپنا مطالعہ بھی جاری رکھا.اس کے بعد سید نا حضرت امام جماعت
561 کی زیر ہدایت آپ کی تعلیم کا ایک نیا دور شروع ہوا.اس میں ضلع ہزارہ سے ایک عالم دین مولوی سکندر علی صاحب منگوائے گئے اور ان سے فقہ اور اصول فقہ پڑھی.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سے تفسیر پڑھی.اس کے ساتھ ہی حضرت فضل عمر کے صاحبزادگان اور دوسرے واقفین کو مختلف مضامین پڑھاتے رہے.اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے دہلی، سہارنپور، اور لاہور میں مختلف ماہرین سے فقہ اور اصول فقہ کی تکمیل کی.اس کے ساتھ ہی فلسفہ میں صدر اور منطق میں بحر العلوم کی تدریس جاری رکھی.مارچ ۱۹۴۷ء میں قادیان واپس آئے.تقسیم کے بعد جب عارضی مرکز لاہور میں بنا تو کچھ دیر ناظر ضیافت رہے.مفتی سلسلہ کے طور پر تقرر جماعت احمدیہ کے مفتی سلسلہ کے عہدے پر حضرت مولانا محمد سرور شاہ صاحب فائز تھے۳/ جون ۱۹۴۷ء کو ان کی وفات ہوئی.ان کے بعد حضرت امام جماعت احمدیہ (الثانی) کے حکم کے تحت آپ مفتی سلسلہ مقرر ہوئے.یہ تقرری آپ کی وفات کے دن تک قائم رہی.یکم مئی ۱۹۵۰ء میں آپ کو جامعتہ المبشرین کا پرنسپل مقرر کیا گیا.بعد میں پروفیسر جامعہ کے طور پر بھی کام کرتے رہے.جنوری ۱۹۵۸ء میں آپ کا تبادلہ ادارۃ المصنفین میں ہوا.اور اکتوبر ۱۹۵۸ء میں بطور پروفیسر جامعہ احمدیہ آپ کی تقرری عمل میں آئی.حضرت میر داؤ د احمد صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ کی وفات ۱۹۷۳ء میں ہوئی.اس کے بعد آپ کو پہلے قائمقام اور پھر مستقل پرنسپل جامعہ احمدیہ مقرر کیا گیا.اس وقیع عہدے پر آپ نے دس سال تک خدمات سرانجام دیں.آپ نے مورخہ ۲۵ را کتوبر ۱۹۸۹ء کوکینیڈا میں وفات پائی.حضرت ملک صاحب جماعت احمدیہ میں علم و دانش کا ایک باب تھے.ان کے شاگردوں کی بڑی وسیع تعداد جماعت احمدیہ کے مخلص مربیان کی صف میں شامل ہو کر خدمات دین بجالا رہی ہے.حضرت ملک صاحب نہایت بے نفس خاموش طبع ، سادہ مزاج درویش صفت بزرگ تھے.نہایت متقی دیندار اور اپنے شاگردوں میں بے حد مقبول تھے.جماعت احمدیہ کے علم کلام پر بہت گہری نظر تھی.دینی امور پر ان کی رائے اس درجہ اہم اور حرف آخر سمجھی جاتی تھی کہ ۱۹۴۷ء سے لے کر وفات تک آپ مفتی سلسلہ کے انتہائی وقیع عہدے پر فائز رہے.اس دوران آپ نے نہایت محنت عرق ریزی اور گہرے مطالعے سے سینکڑوں فتاویٰ حضرت امام جماعت احمدیہ کی منظوری سے جاری کئے اور پیچیدہ اور اہم دینی مسائل کے بارے میں اپنی اہم آراء کا اظہار کیا.حضرت ملک صاحب کی یہ ایک ایسی بے نظیر اور تاریخی خدمت ہے جس کا اعتراف ہمیشہ کیا
جاتا رہے گا.562 رض حضرت ملک صاحب کا ایک اور اہم کارنامہ حدیثوں کا مجموعہ مرتب کرنا ہے جوحدیقہ الصالحین کے نام سے شائع شدہ ہے.بعد میں آپ نے اس پر نظر ثانی کی اور کئی اہم حدیثوں کا اضافہ کیا.اس کے علاوہ ان کی متعدد نہایت قیمتی اور اہم کتب شائع ہو چکی ہیں.-۱۰ مکرم و محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مورخہ ۳ رمئی ۱۹۲۷ء کو اپنے آبائی قصبہ پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ حال حافظ آباد میں پیدا ہوئے.آپ کے خاندان میں احمدیت کی نعمت حضرت میاں محمد مراد صاحب حافظ آبادی جیسے اہل کشف کے ذریعہ میسر آئی.تاہم اس قصبہ میں جماعت احمدیہ کا نورسیدنا حضرت مسیح موعود کے ابتدائی زمانہ میں ہی پہنچ گیا تھا.حضرت منشی عنایت اللہ صاحب نائب مدرس پنڈی بھٹیاں ۱۴ اگست ۱۸۹۲ء کو داخل سلسلہ ہوئے.محترم مولانا صاحب کے والد مکرم حافظ محمد عبداللہ صاحب نے ۱۹۳۳ء کو حضرت مصلح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب ۱۹۳۵ء میں مدرسہ احمد یہ قادیان میں داخل ہوئے.۱۹۴۴ء میں جامعہ احمدیہ میں تعلیم کا آغاز کیا.۱۹۴۶ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں تیسرے نمبر پر آئے.مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا جس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ اسے لندن مشن کے سیکرٹری کے طور پر بھجوانے کا انتظام کیا جائے.یہ معاملہ ابھی ابتدائی مرحلہ میں تھا کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ نے عرض کیا کہ اس طالب علم کا رجحان علم کلام کی طرف ہے اس لئے ہندوستان کے لئے زیادہ موزوں ہو سکتا ہے.چنانچہ حضور نے سلسلہ کے مفاد کی خاطر اس مشورہ کو شرف قبولیت بخشا.آپ کو مہتم اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور ماہنامہ خالد کا دسمبر ۱۹۵۴ء سے اکتوبر ۱۹۵۶ء تک نائب مدیر اور نومبر ۱۹۵۶ء تا اپریل ۱۹۵۷ء نیز ۱۹۶۰ء سے جون ۱۹۶۲ء تک مدیر کے فرائض ادا کرنے کی توفیق ملی.آپ نائب قائد اشاعت مجلس انصار اللہ مرکز یہ بھی رہے.جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء کے اجلاس شبیہ میں آپ نے پہلی بار تقریر کی.صیغہ نشر و اشاعت نے اسے ۱۹۵۸ء کے شروع میں شائع کیا اور حضرت مصلح موعود نے مجلس شوری ۱۹۵۸ء میں اس کا بطور خاص ذکر فرمایا.آپ نے بطور قاضی سلسلہ خدمت کی.مجلس افتا اور ریسرچ سیل کے ممبر رہے.جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر ۱۹۷۶ء تا ۱۹۸۳ء آپ کو نقار یر کرنے کا موقع ملا جو شائع شدہ ہیں.جلسہ سالانہ انگلستان ۱۹۸۵ء میں
563 سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی ذرہ نوازی کی بدولت آپ کو صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی نمائندگی کی توفیق پائی.جلسہ میں شرکت کے علاوہ حضور انور کے خصوصی ارشاد کے مطابق سویڈن ، ناروے اور جرمنی کی جماعتوں کا دورہ بھی کیا اور سوال و جواب کی مجالس کا کامیاب انعقاد بھی عمل میں آیا.آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ترجمہ قرآن میں خدمت کی سعادت بھی حاصل ہوئی.۳ را پریل تا ۳ مئی 1990ء گوجرانوالہ سنٹرل جیل میں 9 دیگر احمدی احباب کے ساتھ آپ اسیر راہ مولی بھی رہے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے آپ کے فرزند مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب کارڈیالوجسٹ فضل عمر ہسپتال ربوہ کو ایک مکتوب میں فرمایا کہ شیر پنجرے میں بھی شیر ہی رہتا ہے.اللہ کے شیروں سے ملنے جاؤ تو میرا محبت بھر اسلام اور پیار دینا.۲۰ ویں صدی کے آخری عشرہ میں کیمبرج کے ایک عالمی ادارے انٹرنیشنل بلیو گرافیکل کی طرف سے احمدیت کے اس خادم کو مین آف دی ایئر ۱۹۹۲ ۱۹۹۳۶ء کا اعزاز دیا گیا.یہ اعزاز ایسی خاص علمی شخصیات کو دیا جاتا ہے جن کی صلاحیتوں ، کامیابیوں اور قیادت کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے.پاکستان کے تمام بڑے اور موقر اخبارات نے اس اعزاز کی خبریں دیں.محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے چار خلافتوں کا زمانہ پایا اور خلفاء کرام کے زیر سایہ خدمت کی توفیق پائی اور ان کی نوازشات اور التفات نیز خوشنودی حاصل کی.آپ کا خلافت سے عشق و محبت مثالی تھا.جب بھی خلیفہ امسیح کی طرف سے کسی کام کے سلسلہ میں کوئی ارشاد موصول ہوتا، جب تک اس کی مکمل تعمیل نہ کر لیتے کسی اور کام کرنے کو جائز نہ سمجھتے تھے.رات گئے تک خود اور اپنے رفقاء کو اس کام کے لئے مصروف رکھتے اور جب حوالہ جات اور ریسرچ کا مطلوبہ کام مکمل ہوجاتا تو آپ کو اطمینان نصیب ہوتا.آپ انتھک محنت کرنے والے بااصول شخصیت کے حامل تھے.اپنی عمر کے آخری ایام تک بیماری اور بڑھاپے کے باوجود با قاعدہ دفتر تشریف لا کر خدمت کا سلسلہ جاری رکھا.آپ پابندی وقت کا بہت خیال رکھتے تھے، اپنے ساتھیوں کو بھی وقت کی بچت کا درس دیتے رہتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ جو محہ گزر گیا وہ کسی بھی قیمت پر واپس نہیں آسکتا.دعوت الی اللہ کا آپ کو بہت شوق تھا، اپنے مدلل انداز تخاطب سے دوسروں کا منہ بند کرنے میں آپ کو خاص مہارت حاصل تھی ، ہر اعتراض کی جڑ تک بآسانی پہنچ جاتے تھے.دعوت الی اللہ کا بے پناہ شوق اور ولولہ آپ کو براہ راست اپنے والد سے ورثہ میں ملا تھا.آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو دنیا کے ہر موضوع کی کتب کا بھر پور مطالعہ تھا.آپ مطالعہ بہت
564 تیزی سے کرنے کے عادی تھے.اگر آپ کے سامنے کتابوں سے بھرا بکس بھی آجاتا تو دو تین دن میں پڑھ ڈالتے اور ہر قیمتی حوالہ اور مطلب کی بات کو ہر کتاب کے ٹائٹل کی پشت پر نوٹ بھی کر دیتے ، حوالوں کی کتب کا تلاش کرنا ، ان کو محفوظ رکھنا اور ان کو بر موقع استعمال کر کے دوسروں تک پہنچانے کا کام آپ نے بخوبی سرانجام دیا.اسی ذاتی شوق کی بنا پر آپ نے اپنے گھر میں قیمتی حوالہ جاتی کتب کی لائبریری بھی ترتیب دے رکھی تھی اور ایک ایک نایاب اور تاریخی کتاب کے حصول کے لئے آپ نے دور دراز کے سفر بھی گئے.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے ۱/۲۳ اکتوبر۱۹۸۲ء کو بیت مبارک ربوہ میں مجلس عرفان میں فرمایا: ”مولوی دوست محمد صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حوالوں کے بادشاہ ہیں.ایسی جلدی ان کو حوالہ ملتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ساتھ جب قومی اسمبلی میں پیش ہوئے تھے تو وہاں بعض غیر از جماعت دوستوں نے آپس میں تبصرہ کیا اور بعض احمدی دوستوں کو بتایا کہ ہمیں تو کوئی سمجھ نہیں آتی.ہمارے اتنے موٹے موٹے مولوی ہیں، ان کو ایک ایک حوالہ ڈھونڈنے کے لئے کئی کئی دن لگ جاتے ہیں لیکن ان کا پتلا د بلا سا مولوی ہے اور منٹ میں حوالے ہی حوالے نکال کر پیش کر دیتا ہے“.( روزنامه الفضل ااجون ۱۹۸۳ء) روز نامہ الفضل اور دیگر جماعتی رسائل و جرائد میں آپ کے متعدد تحقیقی مضامین شائع ہوتے رہتے تھے.روز نامہ الفضل میں ”عالم روحانی کے لعل و جواہر کے عنوان سے آپ نے مفید، کارآمد، نایاب اور قیمتی حوالہ جات ، واقعات اور معلومات پر مبنی ایک طویل سلسلہ جاری فرمایا جس کی ۶۳۰ اقساط اشاعت کے زیور سے آراستہ ہو چکی ہیں اور ابھی ان کی طرف سے موصولہ بہت سا مواد موجود ہے.جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم ، متبحر عالم، محقق، دانشور اور مؤرخ احمدیت محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مورخه ۲۶ اگست ۲۰۰۹ء کو صبح طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں بعمر ۸۲ سال اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.آپ نے ۶۳ سال سے زائد عرصہ جماعت احمدیہ کی خدمت کا شرف حاصل کیا.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعه فرموده ۲۸ / اگست ۲۰۰۹ء بمقام بیت الفتوح مورڈن لندن میں حضرت مولانا کے خصائل اور سیرت کے بعض نمایاں پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: میں سمجھتا ہوں کہ صرف مؤرخ احمدیت نہیں تھے بلکہ آپ تاریخ احمدیت کا ایک باب بھی تھے اور ایک ایسا روشن وجود تھے جو دین حق کی روشنی کو ہر وقت دنیا میں پھیلانے کے لیے کوشاں رہتا ہے.آپ کا بلا کا حافظ تھا بلکہ ایک مکمل انسائیکلو پیڈیا تھے.خلافت سے انتہا کا تعلق تھا، بہت بزرگ اور دعا گو تھے.“
565 بعض ابتدائی مبلغین واعظین سلسلہ کا تقرر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں انجمن کی طرف سے با قاعدہ کوئی واعظ تبلیغ - کے لئے مقرر نہ تھے مگر خلافت اولیٰ کے شروع میں ہی اس کی پوری شدت سے ضرورت محسوس ہوئی اور خود حضرت خلیفہ اسیح الاول کی طرف سے اس کی تحریک ہوئی.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے انجمن نے سب سے پہلے شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم کو اور بعد ازاں مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی، حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی اور حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو واعظ مقرر کیا ان کے بعد بعض اور واعظ مثلاً الہ دین صاحب فلاسفر بھی نامزد ہوئے.واعظ اول شیخ غلام احمد صاحب کے تقر رکا واقعہ ذرا تفصیل سے ذکر کرنا موجب دلچسپی ہو گا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے صدر انجمن احمد یہ میں درخواست بھیجی کہان کو واعظ مقرر کیا جائے صدرانجمن نے اپنے اجلاس منعقدہ ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء میں فیصلہ کیا کہ چونکہ تقر رواعظین حضرت خلیفہ اسیح کے ہاتھ میں ہے اس لئے شیخ یعقوب علی صاحب کو لکھا جائے کہ وہ تحریری درخواست حضرت امام کی خدمت میں بھیج دیں.حضرت خلیفہ امسیح نے اس کی منظوری دیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ بڑے شہروں کی نسبت زیادہ تر چھوٹے چھوٹے دیہات میں جانا چاہئے.اور تھوڑا تھوڑا دو دو تین تین میل کا سفر روز کریں اور اسباب اٹھوانے کے لئے ان کے پاس آدمی ہو.گاؤں کے لوگ مدد کر سکتے ہیں یا ٹو کر لیا کریں.مطلب یہ ہے کہ گاؤں کے لوگوں کو اللہ اکبر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی آواز پہنچ جائے اور موسم سرما کے ابتداء تک اس طرح آپ ایک ضلع کو ختم کر سکتے ہیں.( بدر ۳۰ / جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب یکم اگست ۱۹۰۸ء سے تبلیغ کے لئے روانہ ہوئے تھے اور اس پہلے دورہ میں امرتسر سے حیدر آباد تک جانے کا پروگرام تھا ان کے گھر کے اخراجات حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے برداشت کئے اور سفر خرچ انجمن کی طرف سے ملا.شیخ صاحب کے بعد مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی کا تقر عمل میں آیا.آپ پنجابی زبان کے مشہور شاعر بھی تھے.ان کو ابتداء جموں، پونچھ ، وزیر آباد، گوجرانوالہ وغیرہ کے شہروں اور دیہات میں بھجوایا گیا ان ابتدائی واعظین کے فرائض میں چندہ کی فراہمی اور نئی انجمنوں کا قیام بھی ہوتا تھا.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی بھی عہد خلافت کے اولین واعظوں میں سے تھے.آپ پنجابی زبان کے بڑے عمدہ واعظ تھے اور
566 زبان میں بڑی تاثیر تھی.اس زمانہ میں حافظ صاحب نے بڑا کام کیا ہے.حضرت مولانا راجیکی صاحب کا تقر ر خلیفہ اول کے حکم سے احمد یہ بلڈنگز لا ہور میں ہوا.جہاں آپ نے سلسلہ کی دھاک بٹا دی.علاوہ ازیں خلافت اولیٰ کے عہد میں آپ نے ملک کے طول و عرض میں بے شمار تقریریں کیں.بڑے بڑے معرکۃ الاراء مباحثے کئے اور متعدد جماعتیں قائم کیں جن کا کسی قدر تذکرہ اپنے (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۳ ص ۲۱۶، ۲۱۷) اپنے مقامات پر آئے گا.ا.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال مبلغ انگلستان حضرت چوہدری صاحب مرحوم سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نامور بزرگوں میں سے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو نصف صدی تک دین اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ایسی شاندار اور نمایاں خدمات بجالانے کی توفیق عطا فرمائی کہ جن پر آنے والی نسلیں فخر کرتی چلی جائیں گی اور اس طرح آپ کا نام تاریخ احمدیت میں ہمیشہ زندہ رہے گا.آپ ۱۸۸۷ء میں اپنے آبائی وطن جوڑا کلاں ضلع قصور میں پیدا ہوئے تھے.ابتدائی تعلیم کے بعد آپ اپنے والد حضرت چوہدری نظام الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی معیت میں قادیان تشریف لائے اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.۱۹۰۰ء میں جبکہ آپ پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے آپ کے والد صاحب محترم نے آپ کو تعلیم کیلئے قادیان بھیج دیا.چنانچہ اس کے بعد دسویں جماعت تک آپ نے وہیں تعلیم پائی.بعد ازاں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی.اے اور پھر علی گڑھ سے ایم.اے کی ڈگری لی.ابھی آپ ایف.اے میں تعلیم پارہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۷ء کے آخر میں فرمایا کہ اب سلسلہ کا کام بڑھ رہا ہے اس بات کی ضرورت ہے کہ بعض نو جوان دور و نزدیک تبلیغ کا کام کرنے کے واسطے اپنی زندگیاں وقف کریں.چنانچہ اس وقت جن خوش نصیب نو جوانوں کو حضور علیہ السلام کے اس ارشاد پر لبیک کہنے کی توفیق ملی ان میں حضرت چودھری صاحب مرحوم بھی شامل تھے.جب آپ کی درخواست حضور کی خدمت میں پیش ہوئی تو اس پر حضوڑ نے اپنے قلم سے منظور کا لفظ رقم فرما کر آپ کا وقف قبول فرمایا.چنانچہ ایم.اے پاس کرنے کے بعد جب آپ قادیان آئے اور ۱۹۱۳ء میں انگلستان میں احمدیہ مشن قائم ہوا جو بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کا پہلا با قاعدہ مشن تھا.تو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے پہلے مبلغ کے طور پور وہاں جانے اور مشن قائم کرنے کا خصوصی اعزاز آپ ہی کے حصے میں آیا.آپ جون ۱۹۱۳ء سے اپریل ۱۹۱۶ ء تک وہاں نہایت کامیابی کے ساتھ فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد واپس تشریف لے آئے اس کے بعد
567 اپریل ۱۹۱۹ ء میں آپ اعلائے کلمہ اسلام کی غرض سے دوسری مرتبہ انگلستان تشریف لے گئے.اور مئی ۱۹۲۱ء تک وہاں مقیم رہے.اس دوران میں آپ نے سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی زیر ہدایت خاص لندن میں جماعت کی طرف سے ایک قطعہ زمین خریدی جس پر بعد میں مسجد فضل لنڈن تعمیر ہوئی.انگلستان سے واپس آنے کے بعد آپ نے حضور رضی اللہ عنہ کی زیر ہدایت ملکانہ (بھارت کے صوبہ اتر پردیش کا ایک علاقہ ) میں امیر المجاہدین کی حیثیت سے وہ کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے کہ جن کے اپنے اور پرائے سب معترف ہیں.۱۹۲۴ء میں جب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی یورپ تشریف لے گئے تھے.اس وقت اس تاریخی سفر میں جن احباب کو حضور کے ہمراہ جانے کا شرف حاصل ہوا.ان میں محترم چوہدری صاحب مرحوم بھی شامل تھے.اس سفر میں حضور نے مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا.اس طرح آپ کو مسجد فضل لنڈن کی تعمیر کے دو ابتدائی مراحل قطعہ زمین کی خرید اور سنگ بنیا د ر کھے جانے کی تقریب میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی.بعد ازاں صدر انجمن احمد یہ میں سالہا سال تک ناظر دعوة وتبلیغ اور ناظر اعلیٰ کے ممتاز عہدوں پر فائز رہنے اور ہر دولحاظ سے نمایاں اور شاندار خدمات بجالانے کے بعد آپ کیکم اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ریٹائر ہوئے.آپ کے ریٹائر ہونے پر صدر انجمن احمدیہ نے باقاعدہ ایک ریزولیوشن کے ذریعے آپ کی نمایاں اور شاندار خدمات کا اعتراف کیا.اسی دوران ۱۹۴۶ء میں آپ پنجاب اسمبلی کے بھی رکن منتخب ہوئے اور اس حیثیت سے آپ نے مسلمانوں کی نمایاں خدمات سرانجام دیں.ملکی تقسیم کے وقت قادیان میں آپ گرفتار کر لئے گئے اور اس طرح آپ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں.ریٹائرڈ ہونے کے بعد ۱۹۵۴ء میں آپ دوبارہ ناظر اصلاح وارشاد مقرر ہوئے.اس وقت سے آپ اسی عہدہ پر فائز تھے.اس دوران میں بھی آپ کی خدمات جلیلہ کا ریکارڈ کچھ کم شاندار نہیں ہے آخر تک آپ مصروف عمل رہے.حتی کہ جس روز آپ کو دل کا دور پڑا اس روز بھی آپ نے با قاعدہ دفتر میں حاضر ہو کر کام کیا تھا.اس طرح بچپن سے لے کر آخری دم تک آپ کی عمر اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں ہی گزری اور آپ خدمت دین کا فریضہ بجالاتے ہوئے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہوئے نصف صدی کے اس عرصہ میں ہزاروں لوگوں کو آپ کے ذریعہ سے قبول حق کی توفیق ملی.آپ مورخہ ۲۸ فروری ۱۹۶۰ء کو وفات پا کر اپنے مولی حقیقی کے پاس حاضر ہو گئے.۲.حضرت صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس حضرت صوفی غلام محمد صاحب کی ولادت ۱۸۸۱ء میں ہوئی اور وفات اکتوبر ۱۹۴۷ء میں لاہور میں ہوئی اور اب آپ کی آخری آرام گاہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہے حضرت چوہدری رستم علی صاحب کی کفالت
568 میں آپ بچپن میں ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں پہونچ گئے آپ نے مرکز سلسلہ میں تعلیم حاصل کی آپ قرآن کریم کے حافظ اور عاشق تھے اور اپنے مخصوص اور وجد آفرین انداز جس میں حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب کی آواز کا رنگ پایا جاتا تھا.تلاوت قرآن کریم فرمایا کرتے تھے.آپ ماریشس کے تبلیغی مشن کے بانی تھے تقریباً بارہ سال تک اس جزیرہ میں مقدس فریضہ تبلیغ ادا کیا اور رستہ میں سیلون مشن کی داغ بیل بھی آپ کے ہاتھوں سے پڑی تعلیمی اعتبار سے آپ گریجوایٹ تھے.اور غالبا علی گڑھ یو نیورسٹی سے آپ نے بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی.زبان عربی سے بے انتہا محبت اور شغف تھا.فرانسیسی زبان کی تحصیل آپ نے جزیرہ ماریشس میں کی اور اس پر آپ کو کافی عبور تھا.آپ عبرانی زبان بھی جانتے تھے ماریشس میں تبلیغی فرائض ادا کرنے کے بعد آپ قادیان کے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں عربی اور دینیات کے استاد مقرر ہوئے.آپ نہایت محنت اور شغف سے تعلیم دیتے تھے قرآن کریم پڑھاتے ہوئے خوش الحانی سے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کرتے اور اس وقت آپ کی نیم وا آنکھوں میں وجدانی کیفیت نظر آتی.حضرت صوفی صاحب نے بڑی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا.آپ کو کلام پاک سے بے حد محبت اور عشق تھا.آپ نے اپنی اولاد کے نام بھی قرآن کریم کے مقدس الفاظ سے اخذ کئے اور منفر د نام رکھے اور جن آیات سے آپ نے اپنی اولاد کے نام مقتبس کئے وہ اپنے مکان کے دروازوں اور کھڑکیوں پر کنندہ کروائے...حضرت صوفی صاحب رضی اللہ تعالی سالہا سال تک محلہ دار الرحمت کی مسجد کے امام رہے اور اسی مسجد میں قرآن کریم اور حدیث کا درس دینے کی آپ کو لمبی مدت تک توفیق ملی.آپ کا مکان محلہ کے جنوب مغربی کونے پر تھا اور مسجد سے کافی مسافت پر تھا لیکن آپ با وجود بڑھاپے، کمزوری اور بھاری جسم کے باقاعدگی کے ساتھ مسجد پہنچتے تھے کئی سال تک آپ کو محلہ کی صدارت کے فرائض بھی ادا کرنے کی توفیق ملی.رمضان المبارک میں مسجد دار البرکات میں سالہا سال تک آپ نے نماز تراویح پڑھائی.ظہر کی نماز کا وقت چونکہ سکول کے اوقات میں آتا، اس لئے ظہر کی نماز آپ مسجد نور میں ادا فرماتے اور نماز کی امامت سے فارغ ہو کر تمام طلبہ اور اساتذہ کو قرآن کریم اور احادیث کی دعائیں سناتے اور یاد کراتے چنانچہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اس زمانہ کے اکثر طلباء کو آپ سے متواتر سنی ہوئی ادعیہ حفظ ہو گئیں جو ان کی آئندہ زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے جلسہ سالانہ اور مجلس مشاورت کے موقعہ پر بھی کئی سال تک آپ کو سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے ماتحت تلاوت قرآن کریم کی توفیق ملتی رہی.
569.حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ امریکہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام مفتی عنایت اللہ قریشی عثمانی تھا.آپ کی ولادت بھیر ضلع شاہ پور ( حال ضلع سرگودھا) میں ہوئی.آپ کی تاریخ ولادت اا جنوری ۱۸۷۳ء ہے.آپ نے ۳۱ جنوری ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت میں ۲۱۷ نمبر پر آپ کا نام درج ہے.قادیان میں مستقل رہائش و خدمات دینیہ ایک سرکاری عہدہ سے استعفیٰ دے کر آپ نے ۱۹۰۰ء میں قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی.حضرت مسیح موعود کی تحریک پر آپ نے لاہور میں ایک یہودی عورت تفاصہ (سیب) نامی کے ایک عزیز مسلمان سے عبرانی سیکھی.جو بعد میں احمدی ہو گیا.آپ پہلے مدرسہ احمدیہ میں استاد اور بعد ازاں ۱۹۰۳ء میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.۱۹۰۵ء میں بابو محمد افضل صاحب ایڈیٹر ” البدر کی وفات پر ایڈیٹر البدر مقرر ہوئے.حضرت اقدس نے آپ کی تقرری پر فرمایا: اطلاع ” میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ نشی محمد افضل صاحب مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر بقضائے الہی فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آ گیا ہے یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک بزرگ رکن جوان صالح اور ہر ایک طور سے لائق جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں یعنی محمد صادق صاحب بھیروی قائمقام محمد افضل مرحوم ہو گئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور حم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کا ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا یہ کام ان کے لئے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.آمین.خاکسار مرزا غلام احمد ریویو آف ریلیجنز اپریل ۱۹۰۵ء) پھر جب البدر به سبب طلب ضمانت کے بند ہوا تو آپ بنگال ڈرسیہ بیٹی احمد آباد نو میادی اور حدیر آباد میں مبلغ رہے.مارچ ۱۹۱۷ء میں خدمت دین کے لئے انگلستان تشریف لے گئے.جنوری ۱۹۲۰ء میں انگلستان سے امریکہ پہنچے اور لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی.آپ سیکر ٹری صدر انجمن احمدیہ، نائب امیر مقامی قادیان اور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ اسیح الثانی (مصلح موعودؓ ) بھی رہے.خلافت ثانیہ میں مسلمانان برصغیر کے حقوق کے سلسلہ میں خدمات کا موقع ملا.مورخ ۱۳ جنوری ۱۹۵۷ء کو آپ نے وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.
570 حضرت مولانا شمس صاحب نے آپ کا نام ان معاصر علماء میں دیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی تھی.۴.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ نائیجیریا آپ سرزمین افریقہ میں شمع احمدیت روشن کرنے والے پہلے مربی سلسلہ تھے.۱۸۸۳ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے.۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود کی بیعت سے مشرف ہوئے اور پھر قادیان میں فروکش ہوکر خدمت دینیہ کا سلسلہ شروع کیا.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے استاد کے علاوہ اور بھی عہدوں پر کام کیا.۱۵ جولائی ۱۹۱۹ ء کو حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کے ہمراہ انگلستان روانہ ہوئے اور پھر 9 فروری ۱۹۲۱ء کولندن سے مغربی افریقہ کے لئے تشریف لے گئے.۱۹ / فروری کو سرزمین سیرا لیوان پہنچے یہاں پیغام احمدیت پہنچانے کے بعد ۲۸ فروری کو گولڈ کوسٹ (غانا) کی بندرگاہ پر اترے.آپ کی دعوت الی اللہ سے فینٹی قبیلہ کے چیف مہدی آپاہ نے اپنے قبیلہ کے ہمراہ احمدیت میں شامل ہونے کا اعلان کیا.آپ کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کو قبول احمدیت کی سعادت ملی.۸/ اپریل ۱۹۲۱ء کو آپ نائیجیر یا روانہ ہو گئے.مشکل حالات میں قربانی کی توفیق ملی.مرکز سلسلہ قادیان میں رہنے کے علاوہ مختلف شہروں میں دعوت الی اللہ کا موقع ملا.قیام پاکستان کے بعد گوجرانوالہ آ گئے اورمئی ۱۹۴۸ء میں وفات پائی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ رفقاء میں مدفون ہیں.مکرم مولوی ظہور حسین صاحب مبلغ بخارا مولوی صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اولین باضابطہ مبلغین کلاس سے تین سالہ کورس پاس کرنے والے مبلغ تھے.آپ کے ساتھیوں میں محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس ، مولانا غلام احمد صاحب بدو ملی ، مولانا محمد شہزادہ خان صاحب مرحوم وغیرہ بزرگان شامل تھے.ان سب اولین مبلغین سلسلہ نے حضرت حافظ روشن علی صاحب سے تعلیم حاصل کی تھی.مولوی صاحب مرحوم مجلس خدام الاحمدیہ کے دس بانی ارکان میں سے تھے.جنہوں نے یکم جنوری ۱۹۳۸ء کو حضرت مصلح موعود کی خصوصی اجازت سے مجلس خدام الاحمدیہ کی داغ بیل ڈالی.نیز آپ ۳۹.۱۹۳۸ء کے عرصے میں مجلس کے نائب صدر رہے.گویا آپ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے پہلے نائب صدر تھے.تاریخ احمدیت جلد ہشتم ص ۴۴۷-۴۵۲)
571 مولوی صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک تاریخی مبلغ تھے.آپ کو ۱۹۲۴ ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود نے بخارا وغیرہ کے علاقے میں تبلیغ کے لئے بھیجا جہاں آپ کو قید کر لیا گیا.وہاں پر آپ تقریباً دو سال قید رہے اور قید خانوں کی سختیاں اٹھا کر بھی تبلیغ دین کا فریضہ ادا کیا اور کئی لوگوں کے قبول حق کا باعث بنے.آپ نے اس تبلیغ کی نہایت ایمان افروز رو داد آپ بیتی کے نام سے لکھی جو شائع ہو چکی ہے.بعد ازاں واپس آکر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت جاری رکھی.ارتداد کے خلاف جہاد میں خدمات انجام دیں.جامعہ احمدیہ کے پروفیسر رہے، پھر چیف انسپکٹر بیت المال رہے اور انچارج شعبہ رشتہ ناطہ کے فرائض بھی سرانجام دیئے.آپ نے بخارا کے علاقے میں جس جانفشانی سے تبلیغ دین کا فریضہ ادا کیا اس کا ذکر سید نا حضرت مصلح موعود نے تھے..لاہور میں پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق ہونے کے جلسہ میں ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۴ء کوفر مایا.مولوی ظہور حسین صاحب.......جب انہوں نے مولوی فاضل پاس کیا تو اس وقت لڑکے ہی میں نے کہا جاؤ گے تو پاسورٹ نہیں ملے گا.کہنے لگے بے شک نہ ملے.میں بغیر پاسپورٹ کے ہی اس ملک میں تبلیغ کے لئے جاؤں گا.آخر وہ گئے اور دو سال جیل میں رہ کر انہوں نے بتایا کہ خدا نے کیسے کام کرنے والے مجھے دیئے ہیں.خدا نے مجھے وہ تلوار میں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لمحہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں.خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تو وہ تیار ہیں.میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں.میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کود جانے کا حکم دوں تو وہ جلتے ہوئے تنوروں میں کود کر دکھا دیں.اگر خود کشی حرام نہ ہوتی.اگر خود کشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سو آدمی کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتا.“ الفضل ۱۸فروری ۱۹۸۵ء میں ص ۱۷ آخری کالم ) حضرت مولوی صاحب مورخہ 2 فروری ۱۹۸۲ء کو وفات پا کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.۶.حضرت مولانا رحمت علی صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا حضرت مولانا رحمت علی صاحب نے پچیس سال تک انڈو نیشیا میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ واشاعت کا سرفروشانہ جہاد کیا اور حق وصداقت کے ساتھ انڈونیشیا ( جزائر شرق الہند) میں ہزاروں فدائی و شیدائی پیدا کر دیئے.آپ مورخه ۱۲ را گست ۱۹۲۵ء کو قادیان سے انڈونیشیا کے لئے روانہ ہوئے.اور ستمبر ۱۹۲۵ء میں اس
572.ملک میں داخل ہوئے.انڈو نیشیا میں چار سال گزارنے کے بعد واپس قادیان تشریف لائے.قادیان میں چند ماہ گزارنے کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم سے ۱۹۳۰ء میں دوبارہ انڈونیشیا میں تشریف لے گئے.اس دفعہ 4 سال کی تبلیغی جدو جہد کے بعد ۱۹۳۶ء میں واپس عازم وطن ہوئے.۱۹۳۷ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سہ بارہ ارشاد کی تعمیل میں پھر انڈونیشیا چلے گئے.مگر اس دفعہ دو سال بعد ۱۹۳۹ء میں خلافت ثانیہ کے سلور جوبلی کے موقع پر واپس قادیان آگئے اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد چوتھی مرتبہ انڈو نیشیا کے لئے عازم سفر ہوئے.اس دفعہ تقریباً ۱۰ سال کے بعد ماہ مئی ۱۹۵۰ء میں وطن واپس تشریف لے آئے.اس طرح آپ کو تقریباً ربع صدی (۲۵) سال تک انڈو نیشیا میں دعوت و تبلیغ اور احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کا موقع ملا.اور آپ نے اپنے آپ کو ایک نہایت کامیاب و بامراد مبلغ ثابت کیا.جس کا اندازہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم رائے کی آپ کے بارہ میں اس تحریر سے ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح کی مردم شناس آنکھ نے مولوی رحمت علی صاحب کو منتخب کیا.مولوی صاحب مولوی فاضل تھے مگر سادہ مزاج رکھتے تھے اور بعض حلقوں میں خیال کیا جا تا تھا کہ شاید وہ اس نازک کام میں کامیاب نہ ہوسکیں مگر خدا کے فضل سے اور حضرت خلیفتہ امیج کی روحانی توجہ کے طفیل اس مشن نے حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی اور بعض لحاظ سے دوسرے سب مشنوں کو مات کر گیا.“ ( سلسلہ احمدیہ از قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظله العالی) حضرت مولوی رحمت علی صاحب ایک کامیاب مبلغ کے طور پر آخر دم تک خدمت سلسلہ بجا لاتے رہے.اور بالآ خر ۳۱ اگست ۱۹۵۸ء کو آپ اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب براعظم افریقہ جانے والے دوسرے مربی سلسلہ حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب ابن حضرت حافظ نبی بخش صاحب آف فیض اللہ چک نے عین جوانی میں اپنے آپ کو جماعتی خدمت کے لئے پیش کر دیا.حضرت مصلح موعود کے حکم پر ۲۳ فروری ۱۹۲۲ء کو گولڈ کوسٹ (غانا) بھجوایا گیا جبکہ ابھی آپ کی شادی بھی نہیں ہوئی.سات سال سے زائد عرصہ کے بعد ۱۹۲۹ء کو واپس آئے.پھر شادی کے اڑھائی سال بعد ۱۹۳۳ء میں دوبارہ مغربی افریقہ بھجوایا گیا ور تقریباً ۱۵ سال بعد واپس آئے تو بچے جوان اور اہلیہ بوڑھی ہو چکی تھیں.غانا کے بعد آپ نائیجیریا تشریف لے گئے.۱۹۴۷ء میں مرکز واپس آئے.افسر لنگر خانہ بھی رہے.۱۹۵۵ء میں وفات پائی.اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.
573 حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب ۱۰ فروری ۱۹۰۵ء کو رفیق حضرت مسیح موعود اور قادیان کے پہلے اسٹیشن ماسٹر حضرت بابو فقیر علی صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.بی ایس سی تک تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ عربی اور دینی تعلیم حاصل کی ۲۲ / اپریل ۱۹۲۹ء کو قادیان سے گولڈ کوسٹ (غانا) روانہ ہوئے.غانا میں انچارج مشن کے طور پر ۱۹۳۳ء تک خدمات سرانجام دیں.دوسری بار ۱۹۳۶ء کوغا نا گئے پھر اگلے سال سیرالیون مشن کھولنے کے لئے تشریف لے گئے.اور ۱۹۴۴ء تک سیرالیون رہے.۱۹۴۵ء میں رئیس المر بیان مغربی افریقہ کے طور پر ایک بار پھر میدان دعوت الی اللہ میں اترے.اور ۱۹۵۰ء میں واپس آئے.۱۹۵۴ء میں سیرالیون تشریف لے گئے.اور میدان عمل میں ہی ۱۹ رمئی ۱۹۵۵ء کو بو کے مقام پر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی.اور اسی شہر میں مدفون ہوئے.آپ پہلے مبلغ تھے جو افریقہ میں آسودہ خاک ہیں.۹ محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب ابن حضرت محمد الدین صاحب رفیق حضرت مسیح موعود۱۰ راکتو بر ۱۹۱۰ء کو شجاج آباد ملتان میں پیدا ہوئے.۱۹۳۱ء میں مولوی فاضل کیا اور ا ارنومبر ۱۹۳۴ء کو قادیان سے نیروبی کے لئے روانہ ہوئے.مشرقی افریقہ کے چاروں ممالک کینیا، یوگنڈا، ٹانگانیکا اور زنجبار کی آزادی تک آپ ان مشنوں کے انچارج تھے.آپ کا ایک کارنامہ سواحیلی زبان میں ترجمہ قرآن کی سعادت حاصل کرنا ہے.مشرقی افریقہ میں دو جماعتی اخبارات بھی جاری کئے.۱۹۶۲ء میں مرکز واپس آئے.مرکز میں آپ ناظر اصلاح وارشاد تعلیم القرآن، سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن ، سیکرٹری حدیقۃ المبشرین ، مبر مجلس وقف جدید بھی رہے.۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۸ ء جلسہ سالانہ پر تقاریر کا موقع ملا.۱۹۷۸ء سے۱۹۸۳ ء تک امیر ومشنری انچارج برطانیہ اور پھر امریکہ میں مشنری انچارج رہے.9 مئی ۲۰۰۱ء کو ۹۱ سال کی عمر میں امریکہ میں وفات پائی اور قطعہ خاص بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.۱۰- محترم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر مولانا نذیر احمد صاحب ۱۵ / اگست ۱۹۰۹ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.۱۹۳۰ء میں مولوی فاضل پاس کیا.۲ فروری ۱۹۳۶ء کو حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کے ہمراہ قادیان سے روانہ ہوئے.اور غانا میں
574 خدمات کا آغاز کیا.۱۹۴۶ء میں قادیان واپس آئے اور واپسی پر رشتہ کے دس سال بعد آپ کی شادی ہوئی.۱۹۴۹ء میں دوسری بار اور ۱۹۵۵ء میں تیسری بارغا نا گئے اور مجموعی طور پر ۲۳ سال غا نا میں رہے.مرکز سلسلہ میں رہ کر ناظم دار القضاء، وکیل التعلیم ہمبر مجلس تحریک جدید، نائب صدر تحریک جدید کے طور پر خدمات کی توفیق ملی.۲۳ فروری ۱۹۹۷ء کو ۷ ۸ سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہوئے.محترم مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری ۱۵ جون ۱۹۱۵ ء کو پیدا ہوئے.۱۹۳۸ء میں نائب امام بیت الفضل لندن مقرر ہوئے.۱۹۴۰ء میں مغربی افریقہ سیرا لیوان روانہ ہوئے.اور ۱۹۶۰ء تک سیرالیون اور غانا میں تعینات رہے.۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۳ء آپ کو ملائیشیا، سنگا پور اور جزائر فجی ء میں خدمات کی توفیق ملی.دو مجموعہ ہائے کلام نغمات صدیق اور دل کی دنیا کے نام سے شائع ہوئے اور ایک کتاب روح پرور یادیں“ کے نام سے میدان عمل کے ایمان افروز واقعات پر مشتمل ہے.یکم ستمبر ۱۹۸۴ء کو ۶۹ سال کی عمر میں وفات پائی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.۱۱- محترم مولانا نسیم سیفی صاحب محترم مولانا نسیم سیفی صاحب ۱۹۱۷ء میں حضرت ماسٹر عطا محمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.دادا اور نانا رفقاء حضرت مسیح موعود تھے.۱۹۴۴ء میں بی اے کرنے کے بعد زندگی وقف کی اور ۱۹۴۵ء تک امیر دمشنری انچارج اور پھر رئیس المربیان مغربی افریقہ بھی رہے.۱۹۷۷ ء تا ۱۹۷۹ ء امیر دمشنری انچارج سیرالیون رہے.نائیجیریا سے بھی اخبار نکالا.ماہنامہ تحریک جدید سن رائز اور روز نامہ الفضل کے ایڈیٹر رہے.قادرالکلام شاعر بھی تھے.۴۰ کے قریب کتب تصنیف فرما ئیں جوار دواور انگریزی زبان میں ہیں.شاعری بھی دونوں زبانوں میں کی.اسیر راہ مولیٰ بھی رہے.آپ کے خلاف ۲۰ سے زائد مقدمات بھی بنائے گئے.وکیل التعلیم ہمبر مجلس کارپرداز ہمبر جلس افتاء اور انصاراللہ مرکزی کی عاملہ کے مبر بھی رہے.9 مارچ ۱۹۹۹ء کو ۸ سال کی عمر میں وفات پائی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.۱۱ محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب ۱۲ جنوری ۱۹۱۳ء کو پیدا ہوئے.۱۹۳۸ء میں فلسطین پہنچے.بلاد عر بیہ میں مسلسل ۱۸ سال خدمات کی توفیق ملی.عربی رسالہ البشری کے ایڈیٹر رہے.۱۹۶۱ء میں گیمبیا جانے
575 والے پہلے مشنری کا اعزاز حاصل کیا آپ کے ذریعہ گیمبیا مشن کا قیام ہوا.آپ کے قیام کے دوران سر.ایف.ایم سنگھائے احمدی ہوئے جو کہ گیمبیا کے ۱۹۶۵ء میں آزادی ملنے پر قائم مقام اور پھر مستقل گورنر جنرل مقرر ہوئے.۱۹۶۶ ء میں انہیں حضرت مسیح موعود کے کپڑوں کا تبرک ملا اور بادشاہ تیرے کپڑوں.برکت ڈھونڈیں گے والی پیشگوئی پوری ہوئی.ނ آپ مختلف اوقات میں ۱۹۷۳ء تک گیمبیا میں رہے.حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے مقام نیم پرفائز مربیان میں آپ کو شمار کیا.مرکز سلسلہ میں مینیجر الفضل، ناظم دار القضاء،سیکرٹری مجلس نصرت جہاں ہمبر مجلس افتاء، استاد جامعہ احمدیہ اور زعیم اعلیٰ انصار اللہ ربوہ بھی رہے.کئی کتب کے مصنف تھے.۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء کو وفات پائی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.۱۴- محترم قریشی محمد افضل صاحب آپ ۲/ اگست ۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے.۱۹۳۴ء میں مولوی فاضل پاس کیا اور قادیان میں افضل بردارز حال گولبازار ربوہ ) کے نام سے اپنے بھائی کے ساتھ دوکان شروع کی.۱۹۴۵ء میں وقف کیا اور نائیجیریا بھجوائے گئے.آپ کو مختلف اوقات میں نائیجیریا، غانا، سیرالیون، آئیوری کوسٹ اور ماریشس میں بطور مربی اور مشنری انچارج رہ کر خدمت کی توفیق ملی.بیرون ممالک آپ کا عرصہ خدمت ۲۸ سال ہے اور یہ سارا عرصہ فیملی کے بغیر باہر مقیم رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مقام نعیم پر فائز مربیان میں آپ کا بھی تذکرہ فرمایا.اور بیبا مبشر کے نام سے یاد فرمایا.آپ ۱۹۹۰ء میں ریٹائر ہوئے.۱۹۵۱ء میں ۳۸ دن تک ارض حجاز میں اسیر رہے.ربوہ میں ایک مقدمہ C - ۲۹۸ کا بھی قائم ہوا.۲۱ نومبر ۲۰۰۲ ء کو ۸۸ سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.۱۵- محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب چار براعظموں میں خدمت کی توفیق پانے والے مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب ۲۵ ستمبر ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے.۱۹۴۶ء میں زندگی وقف کی.۱۹۵۱ء میں غانا بھجوائے گئے مختلف اوقات میں ۱۹۷۰ء تک مغربی افریقہ میں بطور مربی اور امیر و مشنری انچارج خدمات کی توفیق پائی.۱۹۷۷ء تا ۱۹۸۴ء امریکہ اور پھر جرمنی میں امیر و انچارج مربی خدمت کی سعادت حاصل کی.شرق اوسط میں خدمت کا موقعہ ملا.مرکز میں رہتے ہوئے سیکرٹری حدیقہ المبشرین ،سیکر ٹری مجلس نصرت جہاں، قائم مقام اور وائس پرنسپل جامعہ احمدیہ کے طور پر
576 بھی خدمات کی سعادت حاصل ہوئی.حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے مقام نعیم پر فائز مربیان میں آپ کا تذکرہ فرمایا.جنوری ۲۰۰۱ء کو ۷۹ سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.۱۶ محترم مولانا محمد منور صاحب آپ ۱۳ / فروری ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے.۱۹۴۲ء میں زندگی وقف کی.۱۹۴۸ء تا ۱۹۸۳ء مشرقی افریقہ کے ممالک تنزانیہ اور کینیا جبکہ مغربی افریقہ میں نائیجیریا میں خدمت کی توفیق ملی.انگریزی، فارسی ، سواحیلی اور مشرقی افریقہ کی لوکل زبانوں کے ماہر تھے.سواحیلی ترجمہ قرآن میں معاونت کی توفیق ملی.تنزانیہ سے نکلنے والے جماعتی اخبار کے سالہا سال ایڈیٹر رہے.تنزانیہ کی آزادی کے بعد تنزانیہ کے پہلے امیر و مشنری انچارج مقرر ہوئے.۱۸/ نومبر ۱۹۹۵ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.بیرونی ممالک کے پہلے مبلغین 6☑ مختلف ممالک میں پہلے مبلغین کی فہرست پیش کرنے سے قبل یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ دنیا کے جتنے ممالک میں جماعت احمدیہ کے مبلغین پہنچے ان میں سے کسی ملک کا پہلا مبلغ اسے ہی شمار کیا گیا ہے جس کے ذریعہ اس ملک میں احمدیت کا پیغام پہنچا.خواہ وہ مبلغ وہاں عارضی طور پر گیا تھا یا کسی دوسرے ملک میں جاتی دفعہ سفر کے دوران وہاں کچھ عرصہ کے لئے قیام کیا ہو جیسے کہ حضرت مولانا صوفی غلام محمد صاحب بی.اے ۱۹۱۵ء میں قادیان سے ماریشس کے لئے عازم سفر ہوئے مگر وہاں پہنچنے سے قبل ان کو سری لنکا میں بھی کچھ عرصہ قیام کر کے وہاں دعوت الی اللہ کرنے کا موقع ملا.مگر سری لنکا میں باقاعدہ مبلغ کے طور پر وہاں ۱۹۵۱ء میں مکرم مولانا محمد اسمعیل منیر صاحب مرحوم کو بھجوایا گیا.ایسی صورت میں سری لنکا کے پہلے مبلغ مکرم مولا نا حضرت صوفی غلام محمد صاحب کو ہی پہلا مبلغ شمار کیا گیا ہے.کیونکہ سری لنکا میں سب سے پہلے حضرت مولانا صوفی غلام محمد صاحب کے ذریعہ سے ہی احمدیت کا پیغام پہنچا.اسی طرح حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب کو انگلستان سے نائیجیریا کے لئے بھجوایا گیا.مگر آپ نائیجیریا پہنچنے سے پہلے کچھ کچھ عرصہ کے لئے سیرالیون اور گھانا میں بھی مقیم رہے اور وہاں پیغام پہنچایا اور بعد میں نائیجیریا میں پہنچے اس لئے سیرالیون اور گھانا کے پہلے مبلغ بھی حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب کو ہی قرار دیا گیا ہے.اسی طرح حضرت مولانا ظہور حسین بخارا صاحب ۱۹۲۴ء میں بطور مبلغ سلسلہ ازبکستان جو اس وقت
577 روس کے قبضہ میں تھا وہاں گئے.اس لئے روس اور بخارا کے پہلے مبلغ بھی جماعت احمدیہ کی تاریخ میں حضرت مولانا ظہور حسین صاحب بخارا کو ہی قرار دیا گیا ہے.مگر ۱۹۹۰ء میں جب بعض مقبوضہ ممالک روس کے قبضہ سے آزاد ہوئے تو دوبارہ روس اور آزاد ہونے والی سٹیٹس میں جن مبلغین کو وہاں بھجوایا گیا ان سٹیٹس میں سب سے پہلے جانے والے مبلغین کو ہی وہاں کا پہلا مبلغ شمار کیا گیا ہے.بینن میں سب سے پہلے احمدیت کا پیغام مکرم مولانا محمد بشیر شاد صاحب کے ذریعہ پہنچا جو اس وقت نائیجیریا میں مقیم تھے اسی طرح نائیجر میں پہلی بیعت مکرم مولانا محمد اجمل شاہد صاحب کے ذریعہ ہوئی جو اس وقت نائجیریا کے مشنری انچارج تھے اور گاہ بگاہ نائیجر جایا کرتے تھے.پس اس صورت حال میں مذکورہ ممالک میں سب سے پہلے جن مبلغین کے ذریعہ احمدیت کا نفوذ ہوا خواہ وہ مبلغین وہاں عارضی طور پر یعنی تبلیغی دورہ پر گئے تھے تو ان ممالک کے وہی پہلے مبلغ شمار کئے گئے ہیں.پس مذکورہ بالا اصول کے تحت ہی مختلف ممالک میں پہلے مبلغین کی فہرست تیار کی گئی ہے.تاکہ قارئین اس اصول کو مد نظر رکھ کر اس فہرست کا مطالعہ کریں.اور کوئی کنفیوژن پیدا نہ ہو.بیرونی ممالک کے پہلے مبلغین کی فہرست نمبر شمار نام ملک 1 ۴ ۶ ۹ 1.نام مبلغ انگلستان حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ایم.اے ماریشس حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے امریکہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب سیرالیون حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب گھانا حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب نائیجیریا حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب مصر جرمنی ایران حضرت محمود احمد عرفانی صاحب حضرت مولا نا مبارک علی بنگالی صاحب بی.اے حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب فرانس مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب سال ١٩١٣ء ۱۹۱۵ء ١٩١٩ء ۱۹۲۱ء ١٩٢١ء ١٩٢١ء ١٩٢٢ء ١٩٢٢ء ١٩٢٤ء ١٩٤٦ء ١٩٤٦ء
۱۹۲۴ء ۱۹۲۵ء ۱۹۲۵ء ۱۹۲۸ء ۱۹۲۸ء ۱۹۲۸ ۱۹۳۵ء ۱۹۳۵ ۱۹۳۵ء ۱۹۳۵ء ۱۹۳۴ء ۱۹۳۵ء ۱۹۳۵ء ۱۹۳۵ء ۱۹۳۵ء ۱۹۳۵ء 578 روس حضرت مولانا ظہور حسین صاحب انڈونیشیا حضرت مولوی رحمت علی صاحب شام حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب اسرائیل حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب فلسطین حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب سوڈان حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب جاپان مولانا عبدالقدیر نیاز صاحب ہانگ کانگ مولانا صوفی عبدالغفور صاحب سرینام مکرم رشید احمد اسحاق صاحب.مکرم مولوی محمد اسحاق ساقی صاحب مشرقی افریقہ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب ہنگری مکرم حاجی احمد خان ایاز صاحب مکرم حاجی احمد خان ایاز صاحب پولینڈ چیکوسلواکیہ مکرم حاجی احمد خان ایاز صاحب سنگاپور مکرم مولوی غلام حسین ایاز صاحب چین مکرم صوفی عبدالغفور صاحب برما مکرم مولا نا احمد خان نسیم صاحب سری لنکا حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے ارجنٹائن مکرم مولوی رمضان علی صاحب یوگوسلاویہ مکرم مولوی محمد دین صاحب مکرم مولوی محمد دین صاحب سپین البانية مکرم مولا نا محمد شریف گجراتی صاحب مکرم ملک محمد شریف صاحب ۱۹۳۵ ۱۹۱۵ء ١٩٣٦ء ١٩٣٦ء ١٩٣٦ء ١٩٣٧ء ١٩٣٧ء ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ₹ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ 71 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹
579 ۳۳ اردن مکرم مولانا رشید احمد چغتائی صاحب ۳۴ | لبنان مکرم مولانا رشید احمد چغتائی صاحب ۳۵ سوئٹزرلینڈ مکرم شیخ ناصر احمد صاحب ۳۶ آئیوری کوسٹ مکرم قریشی مقبول احمد صاحب ۳۷ عدن مکرم مولانا غلام احمد بشیر صاحب ۳۸ جنوبی افریقہ مکرم قاضی محمد عبد اللہ صاحب ۳۹ ہالینڈ مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب ۴۰ یورنیو ملائیشیا) مکرم مولوی محمد زہدی صاحب ۴۱ تنزانیہ مکرم مولا نا عبدالکریم شر ما صاحب ۴۲ سکاٹ لینڈ مکرم مولانا بشیر احمد آرچرڈ صاحب مکرم مولوی روشن دین احمد صاحب ۴۳ مسقط ۴۴ سری لنکا حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے ۴۵ ٹرینڈاڈ مکرم چوہدری محمد الحق صاحب مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب لائبیریا ۴۷ ڈنمارک مکرم کمال یوسف صاحب ۴۸ سویڈن مکرم کمال یوسف صاحب ۴۹ فلپائن مکرم بدرالدین صاحب ۵۰ | ناروے مکرم کمال یوسف صاحب مکرم مولانامحمد منور صاحب ۵۱ زیمبیاء ۵۲ سینیگال مکرم قریشی مقبول احمد صاحب ۵۳ نجی مکرم شیخ عبدالواحد صاحب ۵۴ لوگو مکرم مرز الطف الرحمن صاحب گی آنا مکرم مولانا بشیر احمد آرچرڈ ۱۹۴۵ء ١٩٤٦ء ١٩٤٦ء ١٩٤٦ء ١٩٤٦ء ١٩٤٦ء ١٩٤٧ء ۱۹۴۷ء ١٩٤٩ء ١٩٤٩ء ١٩٤٩ء ۱۹۱۵ء ۱۹۵۲ء ۱۹۵۴ء ۱۹۵۶ء ۱۹۵۶ء ۱۹۵۷ء ۱۹۵۸ء ۱۹۵۸ء ١٩٦٠ء ١٩٦٠ء ١٩٦٠ء ١٩٦٠ء
580 گیمبیا مکرم مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب فریج گنی مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب یوگنڈا مکرم صوفی محمد اسحق صاحب سباح مکرم بشارت احمد نسیم صاحب بینن مکرم مولانا محمد بشیر شاد صاحب برکینا فاسو مکرم قریشی محمد افضل صاحب آئس لینڈ مکرم کمال یوسف صاحب ترکی ملایا مکرم عبدالغفار صاحب بہاولپوری مکرم محمد صدیق امرتسری صاحب مڈغاسکر مکرم قریشی محمد اسلم صاحب کینیڈا مکرم سید منصور احمد بشیر صاحب فن لینڈ مکرم مولانا کمال یوسف صاحب بیجیم مکرم صالح محمد خان صاحب کانگو (زائرے) مکرم مولا نا صدیق احمد منور صاحب زمبابوے مکرم محمد بن صالح صاحب آسٹریلیا مکرم شکیل احمد منیر صاحب برازیل مکرم اقبال احمد نجم صاحب مالی طوالو مکرم مولا نا عمر معاذ صاحب مکرم رجو حافظ جبرائیل سعید صاحب آئرلینڈ مکرم مولانا رشید احمد ارشد صاحب گوئٹے مالا مکرم اقبال احمد نجم صاحب کولمبیا مکرم نصیر احمد درک صاحب کوریا مکرم محمد عبدالرشید یحیی صاحب ١٩٦١ء ١٩٦١ء ١٩٦٢ء ١٩٦٣ء ١٩٦٧ء ١٩٦٧ء ١٩٦٩ء ١٩٧٠ء ۱۹۷۲ء ۱۹۷۳ء ۱۹۷۷ء ١٩٨٠ء ۱۹۸۴ء ۱۹۸۴ء ۱۹۸۴ء ۱۹۸۵ء ۱۹۸۵ء ١٩٨٦ء ۱۹۸۸ء ۱۹۸۸ء ١٩٨٩ء ١٩٩٤ء ۱۹۹۵ء ۵۶ ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ۶۷ ۶۸ > ۶۹ 4.ง اے ง ۷۲ ۷۳ ۷۵ LL 2^
۷۹ ۸۰ ΔΙ ۸۲ ۸۳ ۸۴ 581 بوسنیا شارجہ مکرم وسیم احمد سروعه صاحب مکرم منصور احمد باجوہ صاحب گنی بساؤ مکرم حمید اللہ ظفر صاحب مکرم اقبال احمد جاوید صاحب ١٩٩٦ء ١٩٩٧ء ١٩٩٧ء ١٩٩٩ء كووو بلغاریہ مکرم طاہر احمد صاحب، مکرم محمد اشرف ضیاء صاحب نائیجر مکرم اکبر احمد طاہر صاحب ۲۰۰۰ ۲۰۰۲ء ۸۵ کانگو برازیل مکرم سعید احمد صاحب ۸۶ AL ساؤتومے مکرم رشید احمد طیب صاحب نیوزی لینڈ مکرم ماسٹر مبارک احمد صاحب آنریری مبلغ ۲۰۰۵ء ۲۰۰۲ء ١٩٨٧ء ۱۹۹۰ء میں رشیا کے ٹوٹنے کے بعد درج ذیل مقبوضہ اسٹیٹس کے آزاد ہونے کے بعد ان میں پہلے مبلغین درج ذیل ہیں ۸۸ ۸۹ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷ ازبکستان مکرم مرزا نصیر احمد صاحب لتھونیا روس مکرم اخلاق احمد انجم صاحب مکرم را نا خالد احمد صاحب تا تارستان مکرم مشہود احمد ظفر صاحب بیلہ روس مکرم حافظ سعید الرحمن صاحب قازقستان مکرم خواجہ مظفر احمد صاحب قرغیزستان مکرم ارشد محمود ظفر صاحب یوکرائن مکرم حافظ سعید الرحمن صاحب قزاقستان مکرم کا شف احمد عدیل صاحب تاجکستان مکرم محمود احمد انجم صاحب و مکرم سرفراز احمد باجوہ صاحب ١٩٩٢ء ١٩٩٢ء ١٩٩٣ء ١٩٩٣ء ١٩٩٤ء ۱۹۹۵ء ١٩٩٦ء 1999ء ۲۰۰۹ء ۲۰۰۹ء ( بحوالہ تاریخ احمدیت، سلسلہ احمدیہ حصہ دوم اور ریکارڈ دفتر تبشیر ربوہ )
582 دس قومی ، ملی ، سیاسی ، سماجی وعلمی شخصیات ا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حضرت اقدس مسیح موعود کے رفیق تھے.بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے.۱۹۶۲ء میں یونائیٹڈ نیشنز (UN) کی جنرل اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے.انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ( عالمی عدالت انصاف) کے حج کی حیثیت سے کام کیا.تحریک پاکستان میں خدمات سرانجام دیں.قائد اعظم محمد علی جناح کے با اعتماد ساتھی تھے.1947 ء سے 1954 ء تک پاکستان کے وزیر خارجہ رہے.آپ نے قرآن مجید، حدیث کی کتاب اور حضرت مسیح موعود کی کچھ کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا آپ سلسلہ کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتے.غریب طلباء اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے.آپ نے اپنی زندگی کے حالات پر مشتمل ایک کتاب تحدیث نعمت لکھی جو ایک مانی ہوئی تاریخی اہمیت کی حامل دلچسپ کتاب ہے.اس کے علاوہ بھی آپ کی تقاریر اور مضامین دینی و علمی لحاظ سے بلند درجے کے ہیں.یہاں یہ بتاناضروری ہے کہ عہد حاضر میں ملت اسلامیہ کی قانونی اور آئینی خدمات بجالانے کا جو عالمی فخر و امتیاز احمدیت کے اس بطل جلیل حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو حاصل ہوا وہ رہتی دنیا تک یاد گار رہے گا.موجودہ دور کی مسلم دنیا کی کوئی تاریخ مکمل نہیں قرار دی جاسکتی جب تک کہ اس میں آپ کے نا قابل فراموش کارناموں کا ذکر نہ کیا جائے.کشمیر، فلسطین، پاکستان ،مصر، شام، ایران، مراکش، تیونس، لیبیا، لبنان ،شرق الاوسط، الغرض عرب و عجم کے مسلم ممالک کے مسائل کی یو.این.او میں ترجمانی کا حق آپ نے اس شان کے ساتھ ادا کیا کہ اردن، شام، صومالیہ اور مراکش نے آپ کی شاندار اور مجاہدانہ خدمات کے اعتراف میں اپنے سب سے اعلیٰ نشان آپ کی خدمت میں پیش کئے اور پوری دنیا کی اسلامی صحافت میں آپ کے کار ہائے نمایاں کی دھوم مچ گئی.رسالہ 'طلوع اسلام مارچ ۱۹۴۸ء نے حضرت چوہدری صاحب کی اقوام عالم میں مسئلہ کشمیر کی کامیاب وکالت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:.حسن اتفاق سے پاکستان کو ایک ایسا قابل وکیل مل گیا جس نے اس کے حق وصداقت پر مبنی دعوے کو اس انداز سے پیش کیا کہ اس کے دلائل و براہین ، عصائے موسوی بن کر، رسیوں کے ان تمام سانپوں کو نگل گئے اور ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ اِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ( باطل بنا ہی اس لئے ہوتا ہے کہ حق کے مقابلہ میں میدان
583 چھوڑ کر بھاگ جائے.“ (ص۴) السید امین الحسینی مفتی اعظم فلسطین نے آپ کے نام مکتوب میں تحریر فرمایا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم آپ کی بیش بہا اسلامی خدمات کیلئے نہ دل سے ممنون ہیں.(ہفت روزہ لاہور ۱۹ براگست ۱۹۷۹ء) شاہ فیصل نے ۵ رمئی ۱۹۴۸ء کو سعودی مملکت کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے چوہدری صاحب کو مکتوب لکھا کہ جب سے مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ میں پیش ہوا ہے آپ نے جس تندہی اور خلوص سے اعلیٰ تعاون اور عالی ظرفی کا مظاہرہ فرمایا میں اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں.آپ کی اعلیٰ اقدار نے نہ صرف عربوں کے دلوں میں بلکہ اقصائے عالم کے تمام راستباز لوگوں کے دلوں میں خواہش پیدا کر دی ہے کہ وہ آپ کی مساعی جمیلہ کی دل سے قدر کریں.“ ہفت روزہ لاہور‘ ۱۹ / اگست ۱۹۷۹ء) السید عاصم الگیلانی سجادہ نشین درگاہ غوث اعظم السید عبدالقادر الگیلانی (بغداد) نے ۵/ جولائی ۱۹۴۸ء کو حضرت چودھری محمد مظفر اللہ خان صاحب کے نام مکتوب لکھا کہ :.آج مجھے یہ موقع بھی ملا کہ میں اپنے اور خاندان غوث الاعظم قدس ستر ہا کی طرف سے آپ کے اس جہاد عظیم کا تہ دل سے شکریہ ادا کروں جو محض اسلامی جذبے کے ماتحت.مجلس ام متحدہ کے سامنے ارض مقدس فلسطین کی حمایت میں آپ سے ظہور پذیر ہوا.(بحوالہ ' لاہور ۱۴اراگست ۱۹۷۶ء ص ۴) سعودی عرب کے وفد کے سینئر رکن فلسطینی عرب مسٹرغونی دیجانی نے لکھا:.”آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی نعمت بن کر آئے ہیں.جناب عالی! میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں آپ کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے کے لئے دلی جذبات کا اظہار کر سکوں.“ مصر کے ممتاز سیاسی لیڈ رالسید مصطفے مومن نے ایسوسی ائیڈ پریس آف پاکستان کو انٹرویو دیتے ہوئے ( جو پاکستان کے مختلف اخبارات میں ۲۴.۲۵ مئی ۱۹۵۱ء کو شائع ہوا ) کہا:.چوہدری محمد ظفر اللہ خان عالم اسلام میں ایک قابل رشک مقام رکھتے ہیں.انہیں مشرق وسطی میں بالخصوص مصر اور دوسرے ممالک میں ) بجاطور پر ایک عظیم ترین سیاستدان تسلیم کیا جاتا ہے.انہوں نے اقوام متحدہ میں تیونس ، مراکش، ایران اور مصر کی پُرزور حمایت کر کے اسلام کی ایسی خدمت کی ہے جو دوسرا کوئی لیڈر (بحوالہ لا ہور ا ا ر اکتوبر ۱۹۷۶ ء ص ۴) نہیں کر سکے گا.“ مصری سینیٹر جال حسینی نے ۲۴ جون ۱۹۵۲ء کے برقیہ میں کہا:.میں آپ کو مسلم ممالک کی خدمت کے لئے انتھک کوششوں کے سلسلہ میں دلی قدر دانی کا یقین دلاتا ہوں.عرب عوام کو آپ کے اسلام کے لئے جہاد کا کما حقہ علم ہے.(بحوالہ لاہور ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۶ء ص ۴)
584 ۲۰ جون ۱۹۵۰ء کو لیبیا کے تین رکنی وفد نے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات جلیلہ کے لئے پاکستان کا ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا :.پاکستان کے وزیر خارجہ نے لیبیا کے جذبات اور امنگوں کو اقوام متحدہ میں بے مثال طور پر پیش کیا ہے.یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج لیبیا آزادی کے دروازے پر کھڑا ہے (لیبیا یکم جنوری ۱۹۵۲ء کو آزاد ہو گیا.لیبیا پاکستان اور اس کے لائق صد احترام وزیر خارجہ کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا اور اس کے لئے ہمیشہ پاکستان کا ممنون احسان رہے گا.“ (بحوالہ لاہور، ۶ ستمبر ۱۹۷۶ ء ص ۴) عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام پاشا نے ایک بیان میں فرمایا :.ظفر اللہ خان اپنے قول اور اپنے کردار کی رو سے مسلمان ہیں.روئے زمین کے تمام حصوں میں اسلام کی مدافعت کرنے میں آپ کامیاب رہے اور اسلام کی مدافعت میں جو موقف بھی اختیار کیا گیا اس کی کامیاب حمایت ہمیشہ آپ کا طرہ امتیاز رہا.اسی لئے آپ کی عزت عوام کے دلوں میں گھر کر گئی اور مسلمانان عالم کے قلوب آپ کے لئے احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہو گئے.(بحوالہ اصحاب احمد جلدا اص۲۱۳) دمشق کے مشہور جریدہ الایام“ نے ۲۴ فروری ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:.ظفر اللہ خان وہ شخصیت ہیں جنہوں نے عرب ممالک کی ترجمانی کرنے میں اپنا انتہائی زور صرف کر دیا.آپ کا کام عربوں کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیش کے لئے آب زر سے لکھا جاتارہے گا.“ سابق وزیر اعظم پاکستان چودھری محمد علی صاحب نے کتاب ظہور پاکستان، ص ۴۴۵ میں تحریر فرمایا.عالم اسلام کی آزادی، استحکام، خوشحالی اور اتحاد کے لئے کوشاں رہنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مستقل مقصد ہے.حکومت پاکستان کا ایک اولین اقدام یہ تھا کہ مشرق وسطی کے ملکوں میں ایک خیر سگالی وفد بھیجا گیا.پاکستان نے فلسطین میں عربوں کے حقوق کو اپنا مسئلہ سمجھا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان اس کے فصیح ترین ترجمان تھے.علاوہ ازیں انڈونیشیا، ملایا، سوڈان، لیبیا، تیونس، مراکش، نائیجیریا اور الجزائر کی آزادی کی مکمل حمایت کی گئی.( بحوالہ جماعت احمدیہ کی قومی اور ملی خدمات ص ۶ ۹ تا ۱۰۳) آپ نے ۱۹۸۵ء میں وفات پائی اور آپ کی بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں تدفین ہوئی.۲.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب در دایم.اے آپ ۱۹ جون ۱۸۹۴ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے.آپ کے والد حضرت مولوی قادر بخش صاحب سلسلہ کے نہایت مخلص اور قدیم بزرگوں میں سے تھے.جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ۳۱۳
585 اصحاب کبار میں شمولیت کا شرف حاصل تھا.آپ نے احمدیت کی آغوش میں تربیت پائی بچپن میں ہی آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کرنے اور آپ کے ارشادات سنے اور ان کو ذہن نشین کرنے کا موقع ملا.اور اس طرح آپ کو حضور علیہ السلام کے صحابہ میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا.صلى الله محترم در دصاحب مرحوم ان ممتاز اور قدیم خلصین جماعت میں سے تھے.جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں اپنی زندگی خدمت اسلام کے لئے وقف کی اور پھر وفات کے وقت تک اپنے اس عہد کو نہایت درجہ اخلاص و ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ اس شان اور خوبی سے نبھایا کہ جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی.جب ۱۹۲۴ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی تبلیغی اغراض کے تحت انگلستان تشریف لے گئے ، تو آپ کو وہاں حضور کی معیت میں جانے کا شرف حاصل ہوا.حضور کے واپس تشریف لے آنے کے بعد آپ انگلستان مشن کے مبلغ انچارج اور امام مسجد لندن کی حیثیت سے وہیں مقیم رہے اور نہایت کامیابی کے ساتھ فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد ۲۲ اکتوبر ۱۹۲۸ء میں دوبارہ انگلستان تشریف لے گئے اور وہاں پانچ سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے میں مصروف رہے.آپ نے وہاں اپنے دوران قیام میں اس خوش اسلوبی سے تبلیغ کا فریضہ ادا کیا کہ انگلستان کے علمی طبقے میں اسلام کا خوب چرچا ہوا.اور بالخصوص وہاں کا پریس اسلام اور ہادی اسلام حے کے اذکار مقدس سے گونج اٹھا.خدمات سلسلہ:.انگلستان سے واپس آنے کے بعد آپ صدرانجمن میں مختلف عہدوں پر فائز رہ کر خدمات سلسلہ بجالاتے رہے.ایک لمبا عرصہ آپ کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر کام کرنے کی سعادت میسر آئی.علاوہ ازیں تعلیم و تربیت امور عامہ اور امور خارجہ کے شعبوں میں آپ نے ناظر کی حیثیت سے نہایت گرانقدر خدمات سرانجام دیں نیز کچھ عرصہ آپ نے انگریزی ترجمۃ القرآن کا کام بھی کیا اور ایڈیشنل ناظر اعلیٰ کے فرائض بھی سرانجام دیئے.عرصہ دراز تک آپ ناظر امور خارجہ کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.حتی کہ وفات سے کچھ دیر قبل آپ دفتر میں مفوضہ فرائض کی سرانجام دہی میں مصروف تھے.اور کام کے دوران میں آپ کو ضعف کا شدید دورہ ہوا.جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے.اور دو گھنٹے کی مختصر علالت کے بعد جان جان آفرین کے سپرد کر دی.مسلمانان ہند کی خدمات : محترم در د صاحب مرحوم نے اپنی زندگی جہاں خدمت اسلام کے لئے وقف کئے رکھی.وہاں آپ نے مسلمانان ہند کی بھی کچھ کم خدمات سرانجام نہیں دیں.جب سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۹۳۱ء میں کشمیر کمیٹی کے صدر مقرر ہوئے.اور کشمیر میں آزادی کی مہم کا پوری شدت سے آغاز ہوا.تو اسی زمانے میں محترم درد صاحب مرحوم نے کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری کی حیثیت سے
586 مسلمانان کشمیر کی بیش بہا خدمات سرانجام دیں.ایک زمانے میں آپ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن کے طور پر بھی خدمات بجالاتے رہے پھر ۱۹۳۳ء میں جبکہ آپ انگلستان میں تھے.آپ نے وہاں قائد اعظم مسٹرمحمد علی جناح مرحوم سے متعد د ملاقاتیں کیں.اور انہیں ہندوستان واپس جا کر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا.چنانچہ قائد اعظم مرحوم نے واپس آنے سے قبل ۷ اپریل ۱۹۳۳ء کومسجد احمد یہ لندن میں عید الاضحیٰ کے موقعہ پر ہندوستان کے مستقبل کے متعلق تقریر فرمائی تو اس کے ابتداء میں محترم در دصاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.امام مسجد نے مجھے ترغیب دی.اور اسی ترغیب میں ان کی فصاحت و بلاغت نے میرے لئے کوئی راہ فرار نہیں چھوڑی.ان کی پُر زور تحریک کی وجہ سے میں سیاسی سٹیج پر کھڑا ہونے کے لئے مجبور ہوا ہوں.ان کے انگریزی الفاظ یہ تھے."The eloquent persuasion of th Imam left me no escape." ہماری ہجرت اور قیام پاکستان ص ۱۱) علمی ریسرچ اور تصنیفات: اللہ تعالیٰ نے آپ کو علمی ریسرچ کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا.چنانچہ دیگر تبلیغی اور دینی مصروفیات کے ساتھ علمی ریسرچ کا سلسلہ آخر دم تک جاری رہا.اور آپ نے متعدد کتب انگریزی اور اردو زبان میں تصنیف فرما ئیں.ان میں لائف آف احمد ، اسلامی خلافت ، مسلمان عورت کی بلندشان ، بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز خاص طور پر قابل ذکر ہیں.حضرت مولانا در دصاحب نے مورخہ ۷ دسمبر ۱۹۵۵ء کو۸۲ سال کی عمر میں وفات پائی اور اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.- حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مخلص اور فدائی رفیق حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے صاحبزادے تھے.حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر علم لسانیات.فلالوجی کے عالمی سطح کے ماہر تھے.آپ کی لگ بھگ ایک درجن کتب اس بارے میں شائع ہو چکی ہیں جن میں آپ نے عربی زبان کو تمام زبانوں کی ماں (ائم الالسنہ ) ثابت کیا ہے.اس ضمن میں آپ نے عربی کو جن زبانوں کی ماں ثابت کیا ہے ان میں نمایاں اور قابل ذکر انگریزی اور سنسکرت وغیرہ زبانیں ہیں.آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے فارسی زبان میں بھی مہارت رکھتے تھے.اس کے علاوہ ۳۰.۳۵ زبانوں کے بارے میں آپ اپنا تحقیقی کام مکمل کر چکے تھے.
587 حضرت شیخ صاحب ۱۹۴۹ء سے ۱۹۹۳ء عرصه ۴۴ سال تک ضلع لائل پور اور حال فیصل آباد کے امیر رہے تھے.۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی میں جماعت احمدیہ کا جو وفد پیش ہوا.اس میں حضرت خلیفۃ الثالث کے علاوہ جو چار بندگان احمدیت پیش ہوئے ان میں ایک آپ بھی تھے.حضرت شیخ صاحب پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے.ہمیشہ چوٹی کے وکلا میں شمار ہوتا تھا.احمدیوں کے علاوہ غیر از جماعت قانون دان طبقہ آپ کا بے حد احترام کرتا تھا.آپ نے کشمیر کمیٹی کے زیر اہتمام حضرت امام جماعت احمدیہ الثانی کی رہنمائی میں اہل کشمیر کی قانونی خدمات سرانجام دیں اور ایک اندازے کے مطابق آپ نے اپنی قانونی جنگ سے ۲۰۰ کے قریب کشمیریوں کو جیلوں سے رہا کروایا.حضرت شیخ صاحب نے شدھی کے محاذ پر بھی اہم خدمات انجام دیں.حضرت شیخ محمداحمد مظہر صاحب نے جماعتی سطح پر نہایت اہم اور تاریخی خدمات انجام دیں.آپ نہایت اہم جماعتی ادارے وقف جدید کے سالہا سال تک صدر رہے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی زندگی میں دو سال آپ نے جماعتی مجلس مشاورت کی صدارت بھی کی.آپ کو زندگی بھر جماعت کی بھر پور خدمت کی توفیق ملی.آپ مورخہ ۲۸ مئی ۱۹۹۳ء کو وفات پا کر اپنے مولیٰ کریم کے حضور حاضر ہو گئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.۴.حضرت مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ پیدائش اور ابتدائی حالات حضرت مرزا عبدالحق صاحب کی پیدائش جنوری ۱۹۰۰ء میں ان کے آبائی وطن جالندھر شہر میں ہوئی.ان کے والد بزرگوار کا نام قادر بخش صاحب تھا.بچپن میں ہی والدین کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے.والد صاحب کی وفات کے بعد اپنے سب سے بڑے بھائی بابوعبد الرحمن صاحب کے پاس شملہ میں رہے.آپ کے چچا اور بھائی کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی غلامی میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.۱۹۱۳ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب شملہ تشریف لے گئے.آپ کا قیام جاکھو میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر تھا.احباب جماعت کا وہاں آنا جانا تھا.حضرت مرزا عبدالحق صاحب بھی حاضر ہوئے.آپ پر حضرت صاحبزادہ کی شخصیت اور تقدس کا بہت گہرا اثر ہوا.آپ نے ۱۹۱۶ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو بیعت کا خط لکھا اور احمدیت میں شمولیت کی سعادت حاصل کی.
588 ۱۹۲۱ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ شملہ میں ملازم ہو گئے لیکن ڈیڑھ سال بعد ہی استعفی دے کر لاء کالج میں داخلہ لے لیا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے توجہ دلانے پر آپ نے قانون کا امتحان پاس کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم کے مطابق ۲ جنوری ۱۹۲۶ء کو آپ نے گورداسپور میں وکالت کی پریکٹس شروع کردی.حضرت مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ کے فضل سے چار خلفاء کے ساتھ عقیدت ومحبت کا تعلق تھا.مجالس شوریٰ میں شرکت جماعت احمدیہ کی مرکزی مجالس شوری میں شرکت کا حضرت مرزا عبدالحق صاحب کو ایک منفرد اعزاز حاصل ہے.جو کسی اور فرد جماعت کے حصے میں نہیں آیا.۱۹۲۲ء میں جب مجلس مشاورت کا آغاز ہوا تو آپ شملہ جماعت کے ممبر تھے وہاں سے آپ جماعتی نمائندہ کے طور پر شوری میں شامل ہوئے.اس کے بعد آ با قاعدگی سے مجالس شوری میں شرکت کرتے رہے.ایک دو سالوں کی مجالس شوری کے علاہ آپ کو اب تک ہونے والی تمام مجالس شوریٰ میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے.آپ کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے دور میں اور بعد میں بھی متعدد بار مجالس شوریٰ کی صدارت کا شرف حاصل ہوا.علمی وتحقیقی خدمات حضرت مرزا عبدالحق صاحب کو خدا تعالیٰ نے فہم قرآن اور تحقیق و تدقیق کا ملکہ عطا فرمایا تھا.جلسہ سالانہ کے موقع پر خطابات، تقاریر، مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہونے والے مضامین تحقیقی کتب جو ٹھوس علمی موضوعات پر مشتمل ہیں.آپ کی محنت کا نچوڑ ہیں.حضرت مرزا عبدالحق صاحب کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:.۱.تنویر القلوب.تین حصص ۲.صداقت حضرت مسیح موعود (اس کتاب کے متعلق ایک بزرگ نے حضرت مرزا عبدالحق صاحب کو لکھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میں نے یہ کتاب اپنے حضور قبول کر لی ہے.)۳.نزول وحی.۴.روح العرفان ۵.صفات باری تعالی ۶.بعث بعد الموت یا اخروی زندگی ے.انڈکس کتب حضرت مسیح موعود خطبہ الہامیہ تک.جہاد کی حقیقت ۹.نزول مسیح ۱۰.نوٹس قرآن کریم پر بنی غیر مطبوعہ قلمی نسخہ.آپ نے قرآن کے تفسیری نوٹس تحریر کر کے چھ جلدوں پر مشتمل ایک قلمی نسخہ تیار کیا جس پر آپ کی سالہا سال کی محنت صرف ہوئی جو آپ کے عاشق قرآن ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے.
589 آپ کو امیر ضلع گورداسپور و امیر ضلع سرگودها، امیر صوبہ پنجاب ہمبر صدر انجمن احمد یہ، فنانس کمیٹی کے ممبر ، صدر قضاء بورڈ ،صدر وقف جدید، صدر تدوین فقہ کمیٹی ، مجلس افتاء کے ممبر اور صدر کے عہدوں پر گرانقدار اور بھر پورخدمات کا موقع ملا.آپ نے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے حکم کے مطابق وکالت شروع کی.چند سال بعد آپ نے زندگی وقف کرنے کی درخواست کی لیکن حضور نے خط لکھا کہ آپ کی زندگی وقف ہے آپ فکر نہ کریں.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مرزا عبد الحق صاحب نے اپنی تمام عمر اعلی درجہ کے وقف زندگی کے طور پر خدمت سلسلہ میں گزاری اور آپ کو ۱۰۶ سال کی عمر میں بھی اس خدمت کی توفیق ملتی رہی.حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے مورخہ ۲۶ / اگست ۲۰۰۶ء کو بھمبر ۱۰۶ سال وفات پائی.اس طرح آپ کی جماعتی خدمات کا عرصہ ۸۴ سال بنتا ہے.اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.ایں سعادت بزور بازو تانه بخشد خدائے نیست بخشنده مکرم مولانا عمری عبیدی صاحب آپ کے والد کا نام عبیدی تھا.وہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی کہا کرتے تھے کہ مجھے ایک ایسا بیٹا دیا جائے گا جو خاندان کا شیر ہوگا.عمری عبیدی صاحب کی پیدائش ۱۹۲۴ء میں ہوئی.آپ ابھی سکول میں ہی تھے کہ آپ کو مشرقی افریقہ میں جماعت کے مبلغ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سے تعارف ہوا.اور آپ کی تبلیغ کے نتیجہ میں آپ نے ۱۹۳۷ء میں احمدیت قبول کی.تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی.کچھ عرصہ حکومت کی ملازمت کرنے کے بعد آپ نے زندگی وقف کر دی اور پھر سواحیلی ترجمہ قرآن کی نظر ثانی میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں.۱۹۵۳ء میں آپ دینی تعلیم کے حصول کے لئے ربوہ تشریف لے آئے.ربوہ میں آپ کو گزارے کے لئے بہت قلیل الاؤنس ملتا تھا.اس رقم میں آپ کتب خریدنے کا شوق پورا نہیں کر سکتے تھے.انہوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ ایک وقت کا کھانا ترک کر دیا اور کچھ عرصہ میں رقم جمع کر کے کتب خرید لیں.تقریباً دو سال کے بعد آپ کی وطن واپسی ہوئی.اور آپ نے ٹانگانیکا میں مبلغ کے طور پر کام شروع کیا.۱۹۶۰ء میں بعض مخصوص حالات کی وجہ سے جماعت نے انہیں ملکی سطح پر خدمات شروع کرنے کی اجازت دی.اور وہ دار السلام کے پہلے افریقن میئر منتخب ہوئے.۱۹۶۲ء میں آپ کو ٹا نگانیکا کے مغربی صوبے کار یجنل
590 کمشنر مقرر کیا گیا.آپ پارلیمنٹ کے مبر بھی منتخب ہوئے.آپ ایسے عمدہ مقرر تھے کہ ایک موقع پر ٹا نگانیکا کی پارلیمینٹ میں یہ بل پیش ہوا کہ جو ایشیائی اور یوروپی وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں انہیں بہت سے حقوق سے محروم کر دیا جائے.اکثریت کا جھکاؤ اس بل کی حمایت کی طرف ہو گیا.صدر مملکت نے پوری کوشش کی کہ ممبران اکثریت اس بل کی حمایت نہ کرے بلکہ استعفیٰ کی دھمکی بھی دی مگر سب بے سود.اس مرحلہ پر عمری عبیدی صاحب نے ایک گھنٹہ اس موضوع پر تقریر کی اور اس عمدگی سے دلائل پیش کئے کہ جب رائے شماری کرائی گئی تو یہ قرار داد بری طرح مسترد کر دی گئی.ملکی سطح پر آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ایسے جو ہر دکھائے کہ جلد ہی ملک کے پہلے صدر جولیس نیریرے نے انہیں ملک کی کابینہ میں لینے کا فیصلہ کیا اور ۱۲ مارچ ۱۹۶۲ء کو آپ کو ملک کا وزیر انصاف مقرر کیا گیا.جب ٹانگانیکا اور زنجبار کا الحاق ہوا اور تنزانیہ کے نام سے نیا ملک وجود میں آیا تو آپ کو ثقافت اور Community Developpent کا وزیر مقرر کیا گیا.آپ باوجود نہایت مصروف ہونے کے نماز باجماعت کا اہتمام کرتے تھے.۱۹۶۴ء میں جماعت احمدیہ کو مکرم عمری عبیدی صاحب کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا.آپ کی وفات سے جہاں ایک طرف پوری دنیا کے احمدیوں کے دلوں کو صدمہ پہنچا وہاں یہ اپنے ملک تنزانیہ کے لئے بھی ایک عظیم نقصان تھا.استفاده از سلسلہ احمدیہ حصہ دوم ص ۶۰۱ ۶۰۲ از ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب) ۶.حضرت ملک عبدالرحمن خادم صاحب ایڈووکیٹ جماعت احمدیہ کی ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط تاریخ کے مطابق ہر قسم کے ادوار اور دنیا جہاں کے ہر حصہ میں جن خوش نصیب خادمان احمدیت کو دعوت الی اللہ کے میدان میں یادگا ر خدمات کی سعادت ملی.ان میں مرحوم محترم جناب ملک عبد الرحمن صاحب خادم بی.اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ امیر جماعت ہائے احمد یہ شہر وضلع گجرات کا اسم گرامی بہت نمایاں ہے.کالج کے زمانہ طالب علمی سے لے کر قانون کی پریکٹس کے دوران تا دم آخر پورے برصغیر کے میدان مناظرات میں آپ کا طوطی بولتا رہا.حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ کی زبان مبارک سے آپ کو خالد احمدیت“ کا خطاب ملا.وفات پر روز نامہ الفضل نے آپ کو احمدیت کے بہادر سپاہی اور سلسلہ کے دلیر اور نڈر مجاہد کے نام سے یاد کیا.ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن گجرات نے اپنی قراداد میں لکھا کہ:.ایک عالم ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ہے جو ہمہ گیر لیاقت اور تخلیقی صلاحیتوں کا حامل تھا.“ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۵۶ء تک آپ کو ہر سال جلسہ سالانہ پر خطاب کرنے کا اعزاز ملا.۱۹۴۰ء میں امیر
591 جماعت احمد یہ ضلع گجرات منتخب ہوئے.جماعتی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ کو ہمیشہ مثالی رنگ میں علمی وادبی ، ملکی و ملی اور سماجی و فلاحی خدمات کی توفیق ملتی رہی.آپ فی الواقع ایک مثالی داعی الی اللہ تھے.ایک کامیاب مناظر کی حیثیت سے آپ نے سرزمین پنجاب کے گوشے گوشے میں نہایت شاندار مناظرے کئے.۱۹۵۳ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں جماعت احمدیہ کے ایک وکیل کی حیثیت سے نہایت گرانقدر خدمات سرانجام دیں.آپ کی غیر معمولی قابلیت خصوصاً کتب قدیم کی تلاش و تجسس کے حوالہ سے فاضل جج صاحبان نے بر ملا تعریف کرتے ہوئے آپ کا شکریہ ادا کیا.ہفتہ وار لا ہور نے ایک متعصب مخالف احمدیت کا بھری بزم میں یہ اعتراف درج کیا ہے کہ :.66 ”اسلام پر اعتراض کا جواب دے کر خادم کا چہرہ یوں کھل اٹھتا ہے جیسے گلاب کا پھول.“ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات پر آپ کی مثال دیتے ہوئے اپنے تحریری نوٹ میں فرمایا:.پس اے وکیلو اور اے ڈاکٹر و اوراے تاجر و اور صناعو اور اے زمیندار و اور اے دوسرے پیشہ ورو! تم پر خادم مرحوم کی زندگی یقیناً ایک حجت ہے کہ تم دنیا کے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے بھی دین کا علم حاصل کر سکتے ہو اور دین کی خدمت میں زندگی گزار سکتے ہو؟“ سینتالیس سال کی مختصر عمر (۱۹۱۰ء تا ۱۹۵۸ء) میں آپ نے بلاشبہ حیرت انگیز اور معیاری خدمات جلیلہ کی توفیق پائی.مکمل تبلیغی پاکٹ بک آپ کا زندہ جاوید تاریخی کا رنامہ ہے.صرف سترہ اٹھارہ برس کی عمر سے ہی آپ نے پاکٹ بک ترتیب دینا شروع کی جو وقفہ وقفہ سے مفید اضافوں کے ساتھ چھپتی رہی.آخری ایڈیشن چھوٹی تقطیع کے بارہ سو صفحات پر مصنف کی اجازت سے محترم منشی محمد رمضان صادق مرحوم پوسٹل پنشنر گجرات نے شائع کیا.یہ مذہبی انسائیکلو پیڈیا ادیان عالم کے میدان کارزار میں یقینا ایک مؤثر و مجرب کارگر ہتھیار ہے.محترم خادم صاحب نے ۳۱ دسمبر ۱۹۵۷ء کو حرکت قلب بند ہونے سے لاہور میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہوئے.ع اے خدا بر تبت او ابر رحمت ہا بیار (استفاه از پاکٹ بک ملک عبدالرحمن خادم صاحب)
592 ے.مکرم الحاج سر محمد سنگھاٹے صاحب الحاج سر محمد سنگھاٹے صاحب اولین سربراہ مملکت ہیں جو سید نا حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مشہور پیشگوئی بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے“ کے ظاہری معنوں میں سب سے پہلے مظہر بنے.بحیثیت گورنر جنرل گیمبیا آپ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ اس پیشگوئی کا حوالہ دے کر آپ نے حضرت امام جماعت احمدیہ ( الثالث) سے یہ درخواست کی کہ مجھے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا کوئی کپڑے تبرک حاصل کرنے کی غرض سے ارسال فرمایا جائے چنانچہ حضور نے اس درخواست کو قبول فرماتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی قمیض میں سے ایک کپڑے کا ٹکڑا ان کو تبر کا ارسال فرمایا :.الحاج محمد سنگھاٹے کو دو مرتبہ حضرت امام جماعت احمدیہ ( الثالث ) سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.پہلی مرتبہ جب حضور یورپ کے دورہ پر تشریف لے گئے تو آپ کی ملاقات انگلستان میں ہوئی دوسری مرتبہ جب حضور افریقہ کے ممالک کے دورہ پر تشریف لے گئے تو الحاج محمد سنگھاٹے محبت اور اخلاص کے جذبے سے سرشار ہوکر حضور کے ساتھ ساتھ رہے.آپ کی وفات ۷ ارمئی ۱۹۷۷ء کو ہوئی.آپ ایک رات کی مختصر علالت ہی میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے.مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (ایم.ایم.احمد ) آپ حضرت مسیح موعود کے پوتے ، حضرت صاحبزادہ مرز بشیر احمد صاحب ایم.اے کے بیٹے اور حضرت مصلح موعودؓ کے داماد تھے.آپ عالمی شہرت رکھنے والے ماہر اقتصادیات تھے.آپ نے متحدہ ہندستان میں آئی سی ایس کے تحت اپنی ملازمت کا آغاز سول سروس کے ایک افسر کی حیثیت سے کیا.قیام پاکستان کے وقت آپ ڈپٹی کمشنر کے عہدہ پر فائز تھے.ایوب خان کی صدارت کے ابتدائی سالوں میں ایم ایم.احمد مغربی پاکستان کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری تھے.چونکہ صدر ایوب تعمیر و ترقی وطن کیلئے جو ہر قابل کی تلاش میں رہتے تھے اور ان کی اس جستجو تک تنگ نظری اور مذہبی تعصب کی رسائی نہ تھی.اس لئے ایم.ایم.احمد کی خدمات مرکزی حکومت کو سونپ دی گئیں.وہ وزارت خزانہ کے سیکرٹری مقرر ہوئے.آپ معاشیات و مالیات کے امور میں اتنے کامیاب ثابت ہوئے کہ صدر ایوب خاں نے انہیں منصوبہ بندی کمیشن کا ڈپٹی چیئر مین مقرر کر دیا.( چیئر مین خود صدر ہوا کرتے تھے ).
593 بیٹی خاں کے دور میں انہیں صدر پاکستان کا اقتصادی مشیر مقرر کیا گیا.یہ عہدہ مرکزی وزیر کے برابر تھا.اور یوں جناب ایم.ایم.احمد کی ذمہ داریوں اور مصروفیات میں گوناں گوں اضافہ ہو گیا.۱۹۷۱ء میں جب مشرقی پاکستان کے حالات بہت خراب ہونے لگے تو ملکی معیشت کو سنبھالنا ایک کوہ گراں تھا.لیکن ایم.ایم.احمد نے اپنے تجربے، لیاقت اور فراست کو کام میں لاتے ہوئے پنجسالہ منصوبے پر عمل درآمد جاری رکھا.اس بحران کے دوران وہ وحشت ناک وقت بھی آیا جب مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے ظالم دشمنان وطن نے ہندو غداروں اور ہندوستانی ایجنٹوں اور جاسوسوں کے ساتھ مل کر پاکستانی معیشت کو پوری طرح تباہ کرنے کا مکروہ منصو بہ بنایا اور مشرقی پاکستان کے بینکوں سے لکھوکھا روپے کے بڑے کرنسی نوٹ لوٹ لئے.مقصد یہ تھا کہ یہ ان گنت روپیہ بیرون ملک و ہند و افغانستان منتقل کر کے دوبارہ پاکستان میں داخل کیا جائے اور اونے پونے اشیائے صرف کو خرید کر ملکی معیشت کو تباہ اور نظام زندگی کو ملفوج کر دیا جائے.صدر کے اقتصادی مشیر اور ماہر مالیات جناب ایم.ایم.احمد نے سٹیٹ بینک کے گورنر اور دوسرے زمانے کے ساتھ مل کر دشمنان وطن کے اس فتنے کو ناکام و نامراد بنانے کی منصوبہ بندی کی.اور حکومت پاکستان کے فیصلے کے مطابق ۱۸ جون ۱۹۷۱ء کو پانچ سو روپے اور ایک نوا ر و پے والے کرنسی نوٹوں کو منسوخ کر دیا گیا.ملک کی معیشت اور روزمرہ زندگی کے نظام کیلئے یہ ایک انتہائی ضروری اور بروقت دانشمندانہ اقدام تھا.قومی اخبارات نے اس فیصلہ کی بہت تعریف کی.اور ۹ر جون کے اخبارات اس شہ سرخی کے ساتھ منظر عام پر آئے:.پانچ سو اور ایک سوروپے والے کرنسی نوٹوں کی قانونی حیثیت ختم کر دی گئی.“ روز نامہ پاکستان ٹائمنز لا ہور نے اپنی 9ر جون کی اشاعت میں کرنسی کی تنسیخ کے زیر عنوان اداریے میں لکھا:.و گزشته ماه صدرمملکت کے اس انکشاف کے بعد کہ تقریباً ساٹھ کروڑ روپے یا اس سے بھی زائد مشرقی پاکستان کے بینکوں سے لوٹ لئے گئے ہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ بڑی کرنسی کے نوٹوں کو منسوخ کر دیا جائے.کہ یہ اقدام معیشت کی خاطر لازم تھا.اس بات کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے.“ وو روزنامہ نوائے وقت (۱۴ جون ۱۹۷۱ء) کے صفحہ اول کی سرخی یوں تھی:.بڑے کرنسی نوٹوں کی منسوخی نے سمگلنگ ختم کرنے کا بہترین موقع پیدا کر دیا ”افغانستان کے سکھ اور ہند وسمگلروں کا کاروبار تباہ ہو گیا.“ نوائے وقت مورخہ ۲۵ / جون ۱۹۷۱ء کے صفحہ اول پر یہ رپورٹ شائع ہوئی:.لاہور.۲۴ / جون (چیف رپورٹر ) پاکستان کرنسی کے بڑے نوٹوں کی منسوخی سے حکومت بھارت کو کم
594 از کم پچاس کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے.بھارتی حکومت نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے پاکستانی سکے کے ایک سو اور پانچ سو کے مشرقی پاکستان سے لوٹے ہوئے نوٹ اپنے مداخلت کاروں سے خریدے تھے لیکن بھارت کی یہ سازش خود اس کے لئے زبردست مالی نقصان کا باعث بن گئی.اور پاکستانی بڑے نوٹوں کی منسوخی سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان دشمن اندرا حکومت کو اٹھانا پڑا.“ کالا روپیہ اور اب ” نوائے وقت“ کا ۱۸ جون ۱۹۷۱ء کا اداریہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے.زیر عنوان ” منسوخ نوٹ اور لکھا ہے:.پانچ سو اور ایک سوروپے کی مالیت کے نوٹوں کی تنسیخ کا بنیادی مقصد ملک و قوم کو مشرقی پاکستان کے بنکوں سے لوٹی اس کرنسی کے منفی اثرات سے محفوظ کرنا تھا جو نام نہاد بنگلہ دیس کے پجاریوں نے مغربی بنگال پہنچا دی تھی.اور جو مغربی بنگال سے افغانستان اور خلیج فارس کی مملکتوں کے راستے دوبارہ پاکستان سمگل ہونے لگی تھی.یہ مقصد کرنسی نوٹوں کی تنسیخ کے اعلان کے ساتھ ہی حاصل ہو گیا تھا.اس اقدام کا ملکی معیشت پر بھی خوشگوار اثر پڑا.اس اقدام سے افراط زر کو روکنے میں مددملی ہے اور ہم ایک بار پھر کرنسی کی قیمت کم کرنے کے جاں گسل مرحلہ سے بچ گئے ہیں.“ ایم ایم احمد کا پیش کردہ مثالی مرکزی بجٹ ۱۹۷۱ء.۱۹۷۲ء:.یہ بیان کیا چکا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں ملک کسی کٹھن اور پُر آشوب دور سے گزر رہا تھا.ملکی معیشت پر اندرونی و بیرونی دباؤ اور بوجھ نا قابل برداشت اور نا قابل بیان حد تک بڑھ رہا تھا.مشرقی پاکستان میں انتہائی دگرگوں حالت کے ساتھ ساتھ فوجی اخراجات کی زیادتی اور اپنوں اور بیگانوں کی یلغار نے ملک کو سخت پریشان حال کیا ہوا تھا.ان حالات کے باعث عوام و خواص کے اذہان پر ایک اچھا خاصا خوف طاری تھا.کہ نیا مرکزی بجٹ ۱۹۷۱ء.۱۹۷۲ء بھاری عوامی ٹیکس لے کر آئے گا.اور روزہ مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمت بہت چڑھ جائیں گی.لیکن ۲۶ جون ۱۹۷۱ ء کی سہ پہر قوم کے لئے دوہری خوشگوار حیرت لے کر آئی.پہلی یہ کہ صدر پاکستان کے اقتصادی مشیر جناب ایم ایم احمد نے اپنی بجٹ تقریر ( جو ریڈیو پاکستان سے بھی نشر ہوئی ) کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کیا ( جس کا ہمارے یہاں قطعا رواج نہیں تھا ) ( اور دوسری یہ کہ ایم ایم احمد کا تیار کردہ بجٹ ہمارے ملک کے روایتی کمر توڑ بجٹوں کی بجائے ایک سکون بخش اور خوشکن بجٹ تھا.۲۷/ جون ۱۹۷۱ء کے ملکی اخبارات میں اس بجٹ کی تفاصیل اور اس پر ان کا اظہار خیال شائع ہوا.(الف) ''پاکستان ٹائمز (لاہور) کی شہ سرخی تھی ” خود اعتمادی اور کفایت شعاری کا بجٹ.پاکستان
595 ٹائمنر کی اسی اشاعت کی دوسری خبر کی سرخی تھی.بجٹ تجاویز کے حقیقت پسندانہ ہونے کا خیر مقدم کیا گیا.تفصیل میں درج تھا:.” ہفتے کے روز جو بجٹ پیش کیا گیا اس کا لا ہور شہر میں بڑے اطمینان کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا.کیونکہ نے ٹیکسوں کے متعلق جو تجاویز رکھی گئی ہیں ان کا عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا.“ ڈان ( مورخہ ۲۸ جون ۷۱ء) میں بجٹ کے متعلق مختلف شخصیات کا اظہار خیال:- (۱) اسلام آباد یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر ایس اے ویس“ نے کہا ہے کہ بجٹ کا اعلان ہو جانے کے بعد ماضی کے برعکس عام استعمال کی قیمتوں میں بڑا ہوتری کا کوئی خدشہ نہیں.“ (۲) راولپنڈی کے ایوان صنعت و تجارت کے صدر شیخ خورشید احمد نے کہا ہے.یہ ایک حقیقت پسندانہ بجٹ ہے.جس کا صیح نظر ایک عادلانہ سوسائٹی ہے.اس کا مجموعی طور پر یہ اثر نکلے گا کہ قیمتوں میں اضافہ نہیں ہو گا.جیسا کہ ڈر تھا سوائے چند ایک اشیاء کے ایسا کہ تمباکو اور سوتی مصنوعات.“ (۳) لاہور میں گورنمنٹ پاکستان کے سابق اقتصادی مشیر ڈاکٹر انور اقبال قریشی نے کہا.یہ بجٹ زبر دست تعمیری غور و فکر کا نتیجہ ہے.یہ رسمی قسم کا بجٹ نہیں...انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ سب حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو مسٹر ایم.ایم احمد نے عمدہ کام کیا ہے.بجٹ کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے که مختلف پالیسیوں کو صحیح طور پر بروئے کار لایا جائے“ (۴) پاکستان جسٹس پارٹی کے صدر میاں منظر بشیر نے کہا.بجٹ کی سب سے خوش کن بات یہ ہے کہ عام آدمی کو اضافی بھاری بوجھ سے چھوٹ دی گئی ہے.روے کو ڈالر کے ساتھ منسلک کرنے کا فیصلہ مسٹر بھٹو کے دور میں حکومت کے ابتدائی سالوں میں عالمی منڈی کے دباؤ کی وجہ سے پاکستانی روپے پر بہت نقصان دہ اثر پڑا.اور پاکستانی روپئے کی قیمت کم کرنے پر پرزور اصرر ہونے لگا.ایسے نازک وقت میں جناب ایم ایم احمد جیسے تجربہ کار اور دانش مند ماہر مالیات نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ پاکستانی سکے کو برطانوی پاؤنڈ کی بجائے امریکی ڈالر سے منسلک کر دیا جائے اس طرح ہمارا روپیہ ایک بار پھر قدرو قیمت میں کم ( De value) ہونے سے بچ گیا اور پاکستان کی ساکھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم رہی.(تعمیر و ترقی پاکستان اور جماعت احمد یہ ۷۲ تا ۶ ۷ از پروفیسر را جانصر اللہ خان صاحب) آپ متقی ، دیندار اور مخلص خادم تھے.آپ ۱۹۸۹ء سے امریکہ کے امیر کے طور پر خدمات سرانجام پر
596 دے رہے تھے آپ نے ۲ جولائی ۲۰۰۲ ء کو امریکہ میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ پاکستان کے قطعہ خاص میں تدفین ہوئی.۹ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب جھنگ میں ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ء کو پیدا ہوئے.آپ نے میٹرک سے لے کرایم.اے تک یو نیورسٹی کے تمام امتحانات میں اول رہ کر ایک انتہائی غیر معمولی اوصاف اور قابلیت کے حامل طالب علم کی حیثیت سے منوایا.میٹرک اور بی.اے کے امتحانات میں تو آپ نے پنجاب یونیورسٹی میں اعلی ترین نمبر حاصل کر کے ایک ریکارڈ قائم کیا.بی.اے مضمون میں انہوں نے ہر مضمون میں الگ الگ ٹاپ کیا.یہ مضمون انگلش، انگلش لٹریچر ( برائے آنرز ) اور عملی ریاضی تھے.کیمبرج میں داخلہ:.کیمبرج جو کہ دنیا بھر کی اعلیٰ ترین درسگاہوں میں سے ایک ہے صرف انہی طلبہ پر اپنے دروازے کھولتی ہے جو غیر معمولی قابلیت اور ذہانت کا ثبوت دے چکے ہوں ڈاکٹر عبدالسلام ۱۹۴۶ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے کیمبرج روانہ ہو گئے.ڈاکٹر عبدالغنی تحریر فرماتے ہیں:.سلام کیمبرج میں روزانہ چودہ تا سولہ گھنٹے لگا تار کام کیا کرتے تھے ان کا مطالعہ بہت وسیع و عمیق تھا.وہ نہ صرف علوم ریاضی و طبیعات کا مطالعہ کرتے تھے بلکہ تاریخی کتب بھی ان کے زیر مطالعہ رہتی تھیں.خصوصاً تاریخ اسلام.اسلامی تہذیب و ثقافت ، تاریخ ہند اور تاریخ اقوام عالم یہاں انہوں نے اپنا تین سالہ Tripos ( کیمبرج میں آنرز ڈگری کا امتحان) دو ہی سالوں میں مکمل کر لیا.اور بغیر کسی مشکل کے Wrangler ( کیمبرج کا فرسٹ ڈویژن میں کامیاب آنرز گریجویٹ ) بن گئے.“ کتاب از ڈاکٹر عبدالسلام مصنفہ ڈاکٹر عبدالغنی ص ۳۸، ۳۹) سلام نے کیمبرج میں تعلیم کے دوران ریسرچ کا کام بھی جاری رکھا.چنانچہ انہیں ۱۹۵۰ء میں کیمبرج کی طرف سے طبیعات میں اعلی تحقیقی کام کرنے کے نتیجہ میں ستمھ پرائز دیا گیا.اسی سال انہوں نے کیمبرج سے پی.ایچ ڈی کی تعلیم بھی مکمل کر لی.ڈاکٹر عبد الغنی لکھتے ہیں :.کیمبرج سے رخصت ہوتے وقت انہوں نے اپنے نگران سے درخواست کی کہ وہ انہیں ایک سفارشی خط لکھ کر دے دیں کہ انہوں نے پی.ایچ ڈی کرنے کے دوران تسلی بخش طریقے سے اپنا کام سرانجام دیا ہے.
597 اس پر ان کے نگران نے کہا کہ تم مجھے یہ تصدیق نامہ لکھ کر دے دو کہ تم نے میرے ساتھ کام کیا ہے.“ (ص ۴۷) سبحان اللہ استاد اپنے شاگرد پر کس قدر نازاں اور اس کی نگاہ میں شاگرد کا کیا مقام و مرتبہ تھا.وطن واپسی کے بعد ۱۹۵۱ء میں پروفیسر عبد السلام کا تقرر اول گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر پنجاب یو نیورسٹی میں براہ راست شعبۂ ریاضی کی حیثیت سے ہوا.لیکن ۱۹۵۳ء کے فسادات نے ڈاکٹر عبدالسلام کو عجیب ذہنی کشمکش میں مبتلا کر دیا.ڈاکٹر عبدالغنی ان فسادات کے بارہ میں لکھتے ہیں :.ان مذہبی فسادات کا ذمہ دار ایک سیاستدان تھا جو وزارت خارجہ کی کرسی سے اس وقت کے وزیر خارجہ کو جو احمدی تھے (سرظفر اللہ ) ہٹانا چاہتا تھا.اس کی اس کوشش کے نتیجے میں پنجاب میں احمدیوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی تھی اور آئے دن فسادات ہونے لگے تھے.اس صورت حال نے سلام کو اور بھی تکلیف پہنچائی اور ان کے ذہن کو پراگندگی کا شکار بنا دیا.انہوں نے دیکھا کہ سیاستدان اور متعصب علماء کی انگیخت پر مسلمان مسلمانوں کے گھر جلا رہے تھے انہیں خاک و خون میں نہلا رہے تھے.اور ان کی مکمل بیخ کنی کے لئے پاگل ہوئے جارہے تھے.“ (ص۵۴) قدرت کے کارخانے عجیب ہیں.انہی دنوں پروفیسر عبدالسلام کو کیمبرج یونیورسٹی کی طرف سے لیکچر شپ کی پیشکش ملی.اور وہ جنوری ۱۹۵۴ء میں برطانیہ روانہ ہو گئے.بقول ڈاکٹر عبدالغنی عبدالسلام برصغیر ہندو پاک بلکہ اسلامی دنیا کے پہلے سائنس دان تھے جنہیں کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچرار کے عہدے کی پیشکش کی گئی تھی.‘ (ص۵۹) ڈاکٹر عبدالسلام کو سب سے زیادہ دلچپسی ریسرچ سے تھی.انہیں کیمبرج میں اس شوق کے لئے سازگار ما حول مل گیا.اب انہوں نے اعلی تحقیقاتی مضامین شائع کرنے شروع کر دیئے.کیمبرج میں قیام کے دوران انہوں نے اتنا ٹھوس تحقیقی وتحریری کام کیا کہ بقول ڈاکٹر عبدالغنی : ۱۹۵۶ء تک سلام دنیا کے چوٹی کے ماہر طبیعات کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے، (ص ۶۴) اب اللہ تعالیٰ نے پروفیسر عبدالسلام کو ایک اور کامیابی سے نوازا.وہ یہ ہے کہ کیمبرج کی لیکچر شپ ملنے کے تین سال بعد ۱۹۵۷ء میں اکتیس سال کی عمر میں پروفیسر عبدالسلام امپرئیل کا لج (لندن) کے فل پروفیسر بن گئے.امپیرئیل کالج میں سلام نے نظریات کی لگاتار برسات سے اس ادارے میں ایک نئی روح پھونکنی شروع کر دی.ان کے بے پناہ کارکردگیوں اور متاثر کن شخصیت کی بدولت امپیرئیل کالج برطانیہ اور یورپ میں ہائی انرجی تھیوریٹیکل فزکس کے لئے کام کرنے کا ایک خاص اور اہم مرکز بن گیا.اور امریکہ سمیت دنیا کے تمام حصوں سے متعدد ذہین ماہرین طبیعات اس جگہ کی طرف کھینچے چلے آنے لگے.(ص۷۰)
598 صدر پاکستان کی قدردانی امپیرئیل کالج لندن جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ تعلیمی اور سائنسی ادارے میں پروفیسر کے طور پر تقرر سے ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنی عظمت اور قابلیت کا لوہا اپنوں اور بیگانوں سب سے منوالیا تھا چنانچہ ۱۹۵۹ء میں حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ایجوکیشن کمیشن“ کا مشیر اور پاکستان ”سائنٹیفک کمیشن“ کا ممبر مقرر کیا.گویا ۱۹۵۹ء میں ڈاکٹر سلام کی اپنے وطن میں صحیح طور پر پذایرائی شروع ہوئی اور ان کی آواز اور بات کا وزن محسوس کیا جانے لگا.ان کو ملک کی سائنسی تعلیم و ترقی اور منصوبوں میں عمل دخل حاصل ہو گیا آئیے یہاں ذرا سا ان کی ملکی خدمات کا جائزہ لیں.الف.سائنسدانوں کی تربیت اور اعلیٰ تعلیم وو ڈاکٹر عبدالغنی کا کہنا ہے کہ پروفیسر سلام نے پاکستان میں جس کام کو اولیت دی وہ سائنس دانوں کی تربیت تھی.وہ اس وقت کی وزارت تعلیم کے فیڈرل سیکرٹری الیں.ایم شریف کو اس امر پر رضامند کرنے میں کامیاب ہو گئے.کہ طبیعات میں پوسٹ گریجویٹ سٹڈیز کے لئے چھ سالہ وظائف دینے کے لئے فنڈز قائم کئے جائیں.اس سکیم پر تین سال تک عمل درآمد ہوتا رہا.اور اس کی بدولت.......ہونہار طالب علموں نے برطانیہ سے پی.ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں.“ (ص۱۰۶) ب.میزائل ریسرچ ”میزائیل ریسرچ اور اس سے ملحقہ میدانوں میں ترقی کے لئے سلام نے خلاء اور بالائی فضا کی تحقیقی کمیٹی ”سیار کو“ کی بنیا درکھی.اور کچھ عرصہ تک اس کے چیئر مین بھی رہے.‘‘(ص ۱۰۸) ج.سوشل سائینسز کا میدان پروفیسر سلام پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو کتنا فروغ دینا چاہتے تھے.اور اپنے ملک کی معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے اپنے دل میں کیا جذبہ اور کیا تڑپ پاتے تھے اس کی عکاسی ان کے اس خطبے سے ہوتی ہے جو انہوں نے جنوری ۶۱ء میں ڈھاکہ کی انجمن ترقی سائنس پاکستان“ کے موقع پر دیا تھا ان کی تقریر کا موضوع تھا.ٹیکنالوجی اور پاکستان کی غربت کے خلاف جنگ“ یادر ہے.پروفیسر عبدالسلام نے یہ تقریر ۱۹۶ء میں ۳۵ سال کی عمر میں کی تھی.اسی سال وہ صدر پاکستان ( محمد ایوب خان) کے سائنسی مشیر مقرر ہوئے ۱۹۶۲ء میں انہیں سیکسوئل میڈل دیا گیا.جو برطانیہ کی سب سے بڑی سوسائٹی فزیکل سوسائٹی“ کا انعام تھا.
599 ڈائریکٹر بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی طبیعات (اٹلی) ڈاکٹر عبدالسلام کامیابیوں کے زینے متواتر طے کرتے چلے گئے یہاں تک کہ ۱۹۶۴ء میں جب کہ وہ سائنس کی دنیا میں ایک عبقری کی حیثیت سے مشہور ہو گئے تھے انہیں ٹریسٹ (اٹلی) میں انٹر نیشنل سنٹر فارتھیوریٹیکل فزکس ، کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا.اس سلسلہ میں ڈاکٹر عبدالسلام کی انتظامی صلاحیتوں اور کوششوں کو ڈاکٹر عبدالغنی یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں.سلام نے بے حد محنت.جذبۂ صادق اور بچی لگن کے ساتھ اس مرکز کو چلایا ہے.انہوں نے اپنی منفرد شخصیت وسیع اور گہری سائنسی دلچسپی تبحر علمی، ہر موضوع کو گرفت میں لینے کی بے پناہ صلاحیتوں ،علمی، اقتصادی، سیاسی اور مذہبی امور پر گرفت ( جن پر انہوں نے بڑی آسانی اور اتھارٹی سے لکھا ہے ) اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں دنیاؤں کے لوگوں کے بارے میں گہری اور صحیح واقفیت کی بدولت اپنے آپ کو اس ذمہ داری کا ہر طرح سے اہل ثابت کر دیا ہے اور وہ آج دنیا ئے سائنس کے متفقہ لیڈر ہیں.“ (ص ۸۵) یادر ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کے اس عظیم الشان کارنامے کی وجہ سے آپ کو ۱۹۶۸ء میں ایٹم برائے امن انعام دیا گیا اور اس موقع پر پڑھے جانے والے مضمون میں اعتراف کیا گیا کہ ”آپ نے ایک بڑی انتظامی ذمہ داری سنبھال کر اقوام عالم کی کوششوں اور خیالات کی راہنمائی کرنے اور انہیں ایک خاص نصب العین پر مرتکز کرنے میں مدد دی ہے.“ (ص ۸۵) ( بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان اور جماعت احمدیہ ص ۶۱ تا ۶۹ از پروفیسر راجا نصر اللہ خان صاحب) اسلامی دنیا کا پہلا نوبیل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام ڈاکٹر عبدالسلام کی لیاقت، عظمت اور سائنس کے میدان میں عزت وشہرت کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہوگا کہ ۱۹۷۹ء میں انہوں نے دنیا کے سب سے بڑا انعام نوبیل پرائز حاصل کیا.اس سے نہ صرف پاکستان کی عظمت و شہرت کو چار چاند لگے بلکہ پوری اسلامی دنیا کا سرفخر وانبساط سے اونچا ہو گیا.اس سلسلہ میں مختلف خبریں اور نوٹ ملاحظہ فرمائیں:.ا.انگریزی روزنامہ ڈان (کراچی) مورخہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۷۹ء کے صفحہ اول کی ایک نمایاں خبر کی سرخی پروفیسر سلام اور دو امریکنوں نے نوبیل پرائز حاصل کیا الف.سٹاک ہوم - ۱۵ / اکتوبر پاکستان کے پروفیسر عبدالسلام اور دو امریکنوں نے آج ۱۹۷۹ء کا
600 طبیعات کا نوبیل پرائز اپنے اس کارنامے کے نتیجہ میں جیت لیا جس کا تعلق ایسے میدان سے تھا جو آئن سٹائن کے لئے پریشان کن بنارہا.یعنی ایک مشترکہ قوت کی تلاش جس کے متعلق اسے گمان تھا کہ وہ ساری کائنات کو یکجا باندھے ہوئے ہے.ب.ڈان کی متذکرہ اشاعت کے ص ۱۲ پر بیان ہے.پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف فزکس کے ڈائریکٹر سلیم الزمان صدیقی نے ڈاکٹر عبد السلام کے اس سال طبیعات میں نوبیل پرائز جیتنے کو پوری قوم کا اعزاز قرار دیا.اے پی پی سے کراچی میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صدیقی نے کہا ڈاکٹر سلام کا یہ عظیم الشان اعزاز بڑی دیر سے متوقع تھا.“ ج.ڈان ( کراچی ) ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۹ء کا اداریہ بعنوان ”پاکستان کے لئے ایک اعزاز“ لکھا ہے.یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں کہ ”ابرٹ آئن سٹائن کی سوویں سالگرہ کے برس طبیعات کے تین سائنسدانوں کو تمام عالمی انعامات میں سے سب سے زیادہ قابل رشک ” نوبیل پرائز دیا گیا ہے جو ان کی ایسے میدان میں تحقیق کا نتیجہ ہے جس نے ان کے شہرہ آفاق پیشرو (آئن سٹائن.ناقل ) کو پریشان کئے رکھا.اور یہ بات کہ انعام جیتنے والوں میں سے ایک پروفیسر عبد السلام ہیں.اس ملک پاکستان کے لئے زبردست افتخار اور عزت کا باعث ہے.آپ کی ڈگریوں ، اعزازی ڈگریوں اور انعامات کی فہرست بہت طویل ہے جو دنیا کے کئی ممالک نے آپ کو پیش کئے.ٹریسٹ اٹلی میں فزکس کی تعلیم سے مخصوص ایک ادارہ قائم کیا درجن بھر کتب کے علاوہ ۲۵۰ سے زائد سائنسی مقالے تحریر کئے.انتہائی سادہ اور مخلص تھے.مالی قربانی کے عادی تھے.آکسفورڈ انگلینڈ میں ۲۱ نومبر ۱۹۹۶ء کو وفات پائی.اور بہشتی مقبرہ ربوہ پاکستان میں تدفین ہوئی.تعمیر وترقی پاکستان اور جماعت احمدیہ ص ۵۵ - ۵۶ از پروفیسر راجا نصر اللہ خان صاحب) ۱۰ مکرم میجر جنرل افتخار حسین جنجوعہ ہلال جرأت جنرل افتخار جنجوعہ پاکستانی افواج کے ان افسروں اور جانبازوں میں سے تھے جن کا نام امر ہو چکا ہے.آپ نے ۱۹۶۵ء کی جنگ میں رن کچھ محاذ پر وطن کا بے جگری کے ساتھ دفاع کرتے ہوئے جارح دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا.پورے محاذ کی کمان میجر جنرل ٹکا خان کر رہے تھے لیکن فی الحقیقت جس بریگیڈ نے اس محاذ پر سب سے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس کی کمان بر یگیڈ ئیر افتخار جنجوعہ کے ہاتھ میں تھی.بر یگیڈ ئیر افتخار جنجوعہ نے اس بے جگری اور جرأت کا مظاہرہ کیا کہ اپنی طاقت پر نازاں دشمن کو پیچھے
601 ہٹتے ہی بنی.افتخار جنجوعہ نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اگلی صفوں میں جنگ لڑی جس کے نتیجے میں وہ زخمی بھی ہو گئے.صدر پاکستان نے اس شجاعت و جرات کے اعتراف میں انہیں ہلال جرأت کا اعزاز دیا.۱۹۶۵ء کے بعد ۱۹۷۱ء میں بھی جنرل افتخار جنجوعہ نے اپنی بے مثال جرات و بہادری کا مظاہر کیا اور وطن پر جان قربان کر دی.چنانچہ میجر جنرل فضل مقیم خان نے اپنی کتاب ”پاکستان کا المیہ ۱۹۷۱ء میں آپ کو یوں خراج تحسین پیش کیا :- دسمبر ۱۹۷۱ء چھمب کے سیکٹر میں میجر جنرل افتخار خاں کی کمان میں ۲۳ ڈویژن کو جومشن سونپا گیا تھا اس کے مطابق اسے دریائے توی تک کا علاقہ دشمن سے صاف کرنا تھا.۱۲، اے کی بٹالین اپنے جواں ہمت اور پر عزم کمانڈنگ آفیسر کی کمان میں دریا عبور کرنے میں کامیاب ہوگئی........جس کا دفاع دشمن نے انتہائی مضبوطی سے کیا ہوا تھا.اس پر ہندوستان نے ہماری فوج پر زبردست گولہ باری شروع کر دی.گھمسان کی جنگ میں دونوں فوجوں کا زبردست جانی نقصان ہوا.بھارتی فوج اس زبر دست حملے کی تاب نہ لا کر بہ عجلت تمام پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی اور پسپا ہو کر افراتفری کے عالم میں راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اپنے پیچھے جنگی سازوسامان، اسلحہ کے ڈھیر، تقریباً ایک سکواڈرن کے برابر صحیح سالم ٹینک اور بہت سی گاڑیاں بھی چھوڑ گئی.منورا اور چھمب پر پاکستان کا پر چم لہرا دیا گیا.اس وقت تک یہ ڈویژن مسلسل جنگ کرتے کرتے بہت تھک چکا تھا.پھر بھی اس میں ایک ایسا شخص تھا جواب تک تازہ دم نظر آ رہا تھا اور وہ اس کا جنرل تھا.بلاشبہ ایسے پر جوش اور با ہمت جنرل کے لئے موجودہ قسم کی جنگی ذمہ داری ( دفاعی پوزیشن میں رہنے والی ) اس کی شخصیت کے مطابق نہ تھی.کیونکہ ایسے نڈر اور جوشیلے افسر کے لئے نچلا بیٹھنا ایک مشکل کام تھا.۱۰ر دسمبر کو جو ہیلی کو پڑ جنرل کو اگلے مورچوں کی طرف لے جار ہا تھا اسے ایک ناخوشگوار حادثہ پیش آیا اور پاکستان کے یہ بہت ہی اچھے جنرل ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئے.پاکستان کا المیہ ا۱۹۷ء ص ۲۸۲ تا ۲۰۸) جنرل افتخار کو آخری لمحات میں جب ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تو آپ نے جو آخری الفاظ کہے وہ یہ تھے.”میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ مجھے شہادت کا رتبدیل گیا.“ آپ کی انہی خدمات کے اعتراف میں چھمب کا نیا نام افتخار آباد رکھ دیا گیا.( بحوالہ روز نامہ الفصل مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۲۰۱۰ ص ۷ )
602
603 باب سیزدهم جماعت احمدیہ کی مخالفت
604
605 جماعت احمدیہ کی مخالفت حضرت بانی سلسلہ کے دعوئی مہدویت و مسیحیت کے ساتھ ہی آپ کی مخالفت شروع ہوگئی.اور مخالفت انبیاء کی تمام تاریخ دہرائی گئی.آپ کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے اور قتل کے منصوبے بنائے گئے.علماء نے آپ کے خلاف کفر والحاد کے فتوے صادر کر دیئے.بزرگان امت کی امام مہدی سے متعلق پیشگوئیاں حرف بحرف پوری ہوئیں.چنانچہ حضرت محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں:.إِذَا خَرَجَ هَذَا الْاِمَامُ الْمَهْدِى لَيْسَ لَهُ عَدُوٌّ مُبِينٌ إِلَّا الْفُقَهَاءُ خَاصَّةً.(فتوحات مکیہ جلد ۳ ص ۳۳۶) یعنی امام مہدی جب دنیا میں ظاہر ہوگا تو اس کے شدید مخالف اس زمانہ کے علماء ہوں گئے.جناب نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں :.علماء وقت گویند این مردخانه برانداز دین وملت ماست و بمخالفت برخیزند بحسب عادت خود هم بتکفیر و ( حج الكرامه ص۳۶۳) یعنی اس زمانہ کے علماء امام مہدی کے بارہ میں کہیں گے کہ یہ شخص ہمارے دین اور مذہب کے مخالف تضلیل کنند 66 ہے اور وہ اس کے دشمن ہو جائیں گے اور حسب عادت اس پر کفر و ضلالت کا فتویٰ لگائیں گے.ان پیشگوئیوں کے عین مطابق حضرت بانی سلسلہ پر کفر کے فتوے لگائے گئے اس طرح یہ فتوے آپ کی صداقت کو ظاہر کرنے کا باعث بنے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کے علاوہ آپ کے متبعین کو بھی ہر لحاظ سے ستایا گیا.ان کی مذہبی آزادی کو پامال کیا گیا.اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا.ان کے نفوس و اموال کو مباح قرار دے کر ان کو واجب القتل ٹھہرایا گیا.ظالمانہ طرز پر وہ شہید کئے گئے.اذیت ناک جسمانی سزائیں دی گئیں.دکانیں لوٹی گئیں.تجارتیں برباد کر دی گئیں.اور گھر جلا دیئے گئے.غرضیکہ مخالفت کا ہر وہ ذریعہ اختیار کیا گیا جس کا مقصد آپ کے پیغام اور آپ کی جماعت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف کئی باقاعدہ تحریکیں بھی چلائی گئیں جن میں ۱۹۳۴۷ء ،۱۹۵۳ء ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریکیں زیادہ مشہور ہیں.آخرالذکر تحریک کو اس وقت کی حکومت کی مکمل تائید اور سرگرم عمل حمایت حاصل تھی.حکومت نے جماعت کی ترقی روکنے اور احمد یوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کے لئے بہت سے ظالمانہ قوانین نافذ کئے جن میں ۱۹۸۴ء کا
606 اینٹی احمد یہ صدارتی آرڈینینس ۲۰ مشہور ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کو پاکستان میں اس طور پر غیر مسلم قرار دیا گیا کہ احمدیوں کی عبادتگاہیں مسمار اور مقفل کی گئیں.ہزاروں احمدیوں کو بے جا مقدمات میں جسمانی عقوبت ذہنی اذیت اور قید و بند کا نشانہ بنانے کے علاوہ بہت سے احمدیوں کو شہید کر دیا گیا.جن کے اسماء یہ ہیں :.شہدائے احمدیت ذیل میں ہم احمدیت کی پاداش میں تادم تحریر جام شہادت نوش کرنے والوں کی فہرست نقل کر رہے ہیں.اس یقین کے ساتھ کہ: خون شہیدانِ امت کا اے کم نظر رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا ہر شہادت تیرے دیکھتے دیکھتے پھول پھل لائیگی، پھول پھل جائینگی اور پھر ہمارے لئے یہ ارشاد خداوندی حرز جاں ہے :.وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ.(آل عمران : ۱۷۰) اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کو مردہ نہ کہو.وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو رزق دیا جاتا ہے.اس مضمون میں جن زندہ جاوید ہستیوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ان شہداء کی ایک فہرست ملاحظہ ہو.اس فہرست میں صرف ان شہداء کو شامل کیا گیا ہے.جن کو محض احمدیت کی پاداش میں مخالفین احمدیت نے قتل کیا.نمبر شمار اسماء شہداء کرام ا.حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب مقام تاریخ شہادت ۲.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کابل وسط ۱۹۰۱ء کابل ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء ۱۹۱۸ء ۱۹۱۸ء کابل ١٩١٨ء کابل ١٩١٨ء کابل ۳۱ اگست ۱۹۲۴ء ۳.صاحبزادہ محمد سعید جان ابن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید افغانستان شیر پور ۴.صاحبزادہ محمد عمر جانا بن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید افغانستان شیر پور ۵.حضرت سید سلطان صاحب شہید ۶.حضرت سید حکیم مظلوم صاحب ے.مولوی نعمت اللہ خاں صاحب
607 - شیخ احمد فرقانی صاحب ۹.مولوی عبدالعلیم صاحب شہید ۱۰.قاری نور علی صاحب شہید ا.قاضی محمد علی صاحب نوشہر وی شہید ۱۲.ولی داد خان صاحب شہید ۱۳ فضل داد خاں عمر ڈیڑھ ماہ پسر ولی داد خاں صاحب ۱۴.حاجی میراں بخش صاحب ۱۵.اہلیہ محترمہ حاجی میراں بخش صاحب ۱۶.صوبیدار خوشحال خاں صاحب ۱۷.شریف دو تسا صاحب ۱۸ جاید Jaid صاحب ۱۹.سورا Sura صاحب شہدائے ۱۹۴۵ء عراق جنوری ۱۹۲۵ء کابل فروی ۱۹۲۵ء کابل ۶ امئی ۱۹۳۱ء قادیان ۶ امتی ۱۹۳۱ء خوست ۱۱ فروری ۱۹۳۹ء خوست ۱۱ فروری ۱۹۳۹ء انبالہ تقریباً ۱۹۳۹ء انبالہ ۱۴/۱۳ اگست کی درمیانی شب ۱۹۴۰ء | ۱۵ فروری ۱۹۴۲ء البانية ١٩٤٦ء چوکنا ونگ Cukangka Wung | مغربی جاوا انڈونیشیا چوکنا ونگ Cukangka Wung مغربی جاوا انڈونیشیا ۲۰.سائری Saeri صاحب چوکنا ونگ Cukangka Wung | مغربی جاوا انڈونیشیا ۲۱ - حاجی حسن Hj.Hasan صاحب چوکنا ونگ Cukangka Wung | مغربی جاوا انڈونیشیا ۲۲.راؤ ان صالح R.Saleh صاحب چوکنا ونگ Cukangka Wung | مغربی جاوا انڈونیشیا راڈان ۲۳.دہلان Dahilan صاحب چوکنا ونگ Cukangka Wung | مغربی جاوا انڈونیشیا ۲۴.حاجی سانوسی Sanusi صاحب چوکنا ونگ Cukangka Wung | مغربی جاوا انڈونیشیا ۲۵.اومو Omo صاحب چوکنا ونگ Cukangka Wung | مغربی جاوا انڈونیشیا ۲۶.تہیان Tahyan صاحب چوکنا ونگ Cukangka Wung | مغربی جاوا انڈونیشیا ۲۷.سہرومی Saiiromi صاحب چوکنا ونگ Cukangka Wung | مغربی جاوا انڈونیشیا ۲۸ مارتاوی Soma صاحب چوکنا ونگ Cukangka Wung | مغربی جاوا انڈونیشیا
608 شہدائے 1947ء درج ذیل احمدی احباب و خواتین کی ۱۹۴۷ء میں پاک و ہند کی پارٹیشن کے دوران شہادت ہوئی.۲۹.جمعدار محمد اشرف صاحب سٹھیالی نزد قادیان ۲ ستمبر ۱۹۴۷ء ۳۰.میاں علم دین صاحب قادیان ۶ ستمبر ۱۹۴۷ء ۳۱.سید محبوب عالم صاحب قادیان وار ستمبر ۱۹۴۷ء ۳۲.پیر سلطان عالم صاحب قادیان ۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء ۳۳.مرزا احمد شفیع صاحب ۳۴.فیض محمد صاحب ۳۵.زہرہ بی بی اہلیہ فیض محمد صاحب ۳۶.عبدالجبار صاحب ابن فیض محمد صاحب ۳۷.چار سالہ بیٹی فیض صاحب کی ۳۸.ملک حمید علی صاحب قادیان ۱۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء ۳۹.ماسٹر عبدالعزیز صاحب قادیان ۱۹۴۷ء ۴۰.غلام محمد صاحب ۴۱.عبد الحق صاحب ۴۲.محمد رمضان صاحب آف کھارا ۴۳.عالم بی بی صاحبہ آف کھارا ۴۴.چراغ دین صاحب آف کھارا قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء نزد قادیان ۱۹۴۷ء نزد قادیان ۱۹۴۷ء نزد قادیان ۱۹۴۷ء ۴۵.جان بی بی صاحبہ آف کھارا نز و قادیان ۱۹۴۷ء ۴۶.منور احمد صاحب آف کھارا ۴۷.نیاز علی صاحب آف کھاریاں نزد قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء ۴۸.عبدالمجید خان صاحب آف کھارا نز و قادیان ۱۹۴۷ء
609 ۴۹.بدر دین صاحب آف سیکھواں نزد قادیان ۱۹۴۷ء ۵۰.گلاب بی بی صاحبہ آف سیکھواں نز و قادیان ۱۹۴۷ء ۵۱۱ محمد اسماعیل صاحب آف سیکھواں ۵۲- عبدالرحمن صاحب آف پیروشاہ ۵۳.حمیدہ بیگم صاحبه ۵۴ عظیم احمد ولد پنڈت عبداللہ ۵۵.خواجہ محمد عبد اللہ صاحب آف آسنور کشمیر ۵۶- محمد منیر شامی صاحب ۵۷- چراغ دین صاحب نزد قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء قادیان ۱۹۴۷ء ۱۹۵۰ء تا ۱۹۵۳ء ۵۸.ڈاکٹر میجر محموداحمد صاحب ۵۹ - صاحبزادہ محمد اکرم خان درانی صاحب ۶۰.ماسٹر غلام محمد صاحب ۶۱.چود ہری بدرالدین صاحب لدھیانوی ۶۲.چوہدری عبد الغفور صاحب ۶۳- عبداللطیف عمرے سال ولد عبدالغفور صاحب ۶۴.چوہدری محمد حسین صاحب ۶۵ - جملی Jumli صاحب گمبٹ خیر پور ۲۲ فروری ۱۹۵۲ء جماعت چیاندام Ciandam مغربی جاوا انڈونیشیا ۶۶ - سرمان Sarman صاحب جماعت چیاندام Ciandam | مغربی جاوا انڈونیشیا ۱۹ اگست ۱۹۴۸ء چارسده ۱۰ جنوری ۱۹۵۰ء اوکاڑہ یکم اکتوبر ۱۹۵۰ء راولپنڈی ۱۰ را کتوبر ۱۹۵۰ء مانسهره ۲۱ ستمبر ۱۹۵۰ء مانسهره ۲۱ ستمبر ۱۹۵۰ء ۶۷.اوسون Uson صاحب ۶۸.ایڈوٹ Idot صاحبہ ۶۹.اونیہ Uniah صاحبہ جماعت چیاندام Ciandam | مغربی جاوا انڈونیشیا جماعت چیاندام Ciandam مغربی جاوا انڈونیشیا جماعت چیاندام Ciandam | مغربی جاوا انڈونیشیا
610 شہدائے ۱۹۵۳ء ۱۹۵۳ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک ختم نبوت کے تحت با قاعدہ طور پر ایک تحریک چلائی گئی.جس کو پنجاب حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی.اس تحریک کے دوران چھ ۶ راحمد یوں کو راہ مولیٰ میں اپنی جان قربان کر کے شہادت کا رتبہ پانے کی توفیق ملی.ان شہداء کی تفصیل حسب ذیل ہے.ے.ماسٹر منظور احمد صاحب مدرس باغبانپورہ اے محمد شفیع صاحب مغلپورہ ۷۲.جمال احمد صاحب بھاٹی گیٹ.مرزا کریم بیگ صاحب فلیمنگ روڈ ۷۴.ایک احمدی عطارصاحب گندہ انجن ۷۵.حوالدار عبدالغفور صاحب ولد الہی بخش صاحب ۷۶.داؤد جان صاحب لاہور ۵ / مارچ ۱۹۵۳ء لاہور ۶ / مارچ ۱۹۵۳ء لاہور ۶ / مارچ ۱۹۵۳ء لاہور ۶ / مارچ ۱۹۵۳ء لاہور ۸ مارچ ۱۹۵۳ء لاہور ۸ مارچ ۱۹۵۳ء ۱۹۵۶ء تا ۱۹۶۹ء ے.حاجی فضل محمد خاں صاحب گاؤں نزد پیواڑ کو تل افغانستان ۷۸.محمد احمد صاحب رہ سبز کابل افغانستان تاریخ شہادت فروری ۱۹۵۶ء تاریخ شہادت ۱۹۵۷ء افغانستان تاریخ شہادت ۱۹۵۷ء ۷۹.مولوی عبدالحق صاحب نور کرونڈی خیر پور سندھ ۲۱ دسمبر ۱۹۶۶ء ۸۰.ماسٹر غلام حسین صاحب ولد عبدالکبیر بٹ صاحب گلگت اکتوبر ۱۹۶۷ء قبولہ ۱۳ / جون ۱۹۶۹ء ۸۱.چوہدری حبیب اللہ صاحب شہدائے ۱۹۷۴ء ۱۹۷۴ء میں ایک بار پھر جماعت احمدیہ کے خلاف ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت تحریک چلائی گئی.اور اس تحریک کے دوران جماعت احمدیہ کو جانی اور مالی لحاظ سے بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا.نیز جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا.اس تحریک کے دوران ۲۶ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا جن کی تفصیل حسب ذیل ہے.
611 ۸۲.بشیر احمد صاحب بٹ کنڈیارو ۸۳.چوہدری شوکت حیات صاحب ۸۴ محمد افضل کھوکھر صاحب.دہلی کلاتھ ہاؤس ضلع نوشہرو فیروز ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء حافظ آباد ٹیم جون ۱۹۷۴ء گوجرانوالہ یکم جون ۱۹۷۴ء ۸۵- محمد اشرف کھوکھر صاحب ولد محمد افضل کھوکھر صاحب گوجرانوالہ یکم جون ۱۹۷۴ء ۸۶.سعید احمد خاں صاحب گوجرانوالہ یکم جون ۱۹۷۴ء ۸۷ - منظور احمد خان صاحب خسر محترم سعید احمد خاں گوجرانوالہ یکم جون ۱۹۷۴ء ۸۸ محمود احمد خان صاحب ابن منظور احمد خاں ۸۹ - قریشی احمد علی صاحب ۹۰.بشیر احمد صاحب ابن مہر دین صاحب ۹۱ - منیر احمد صاحب ابن مہر دین صاحب ۹۲.غلام قادر صاحب کنگنی والا ولد روشن دین صاحب گوجرانوالہ ٹیم جون ۱۹۷۴ء گوجرانوالہ ٹیم جون ۱۹۷۴ء گوجرانوالہ ۲ جون ۱۹۷۴ء گوجرانوالہ ۲ جون ۱۹۷۴ء گوجرانوالہ ۲ جون ۱۹۷۴ء ۹۳.عنایت اللہ صاحب کنگی والا ابن فضل دین صاحب گوجرانوالہ ۹۴ محمد رمضان صاحب آف کوہلو وال ۹۵ محمد اقبال صاحب آف کوہلو وال ۹۶ - محمد الیاس صاحب عارف ۹۷ - سید آفتاب صاحب ۹۸.نقاب شاہ مہمند ولد محمد شاہ صاحب ۹۹.سید مولود احمد صاحب ولد سید محمود احمد صاحب ۱۰۰.صوبیدار غلام سرور خان صاحب ٹوپی ۱۰۱.اسرار احمد خان صاحب ٹوپی ۱۰۲.فخر الدین صاحب بھٹی ۱۰۳.محمد زمان خاں صاحب پوڑی ۱۰۴.مبارک احمد خان صاحب گوجرانوالہ گوجرانوالہ ۲ جون ۱۹۷۴ء ۲ جون ۱۹۷۴ء ۴ جون ۱۹۷۴ء واہ کینٹ ۴ جون ۱۹۷۴ء کوئٹہ یشاور ۸ جون ۱۹۷۴ء مردان ۸/جون ۱۹۷۴ء ۹ جون ۱۹۷۴ء صوبه سرحد ۹ جون ۱۹۷۴ء صوبه سرحد ۱۱ جون ۱۹۷۴ء ایبٹ آباد ۱۱ جون ۱۹۷۴ء بالاکوٹ ۱۱ جون ۱۹۷۴ء بالاکوٹ ۱۱/ جون ۱۹۴ء
612 ۱۰۵.سیٹھی مقبول احمد صاحب ابن محمد الحق صاحب ۱۰۶.ماسٹر ضیاءالدین ارشد صاحب ۱۰۷.پروفیسر عباس ابن عبدالقادر صاحب ۱۰۸.عبدالحمید خاں صاحب کنری ۱۰۹.بشارت احمد صاحب تهال ۱۱۰.چوہدری عبدالرحیم صاحب آف موسیٰ والا ۱۱۱.چوہدری محمد صدیق صاحب آف موسیٰ والا ۱۱۲.رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم قاری عاشق حسین صاحب ۱۱۳.ماسٹر نوراحمد صاحب مولوی فاضل.کوریل ۱۱۴ منشی علم دین صاحب، عرائض نویس کوٹلی ۱۱۵.ماسٹر عبدالحکیم ابر وصاحب صدر جماعت وارہ ۱۱۶.ڈاکٹر مظفر احمد صاحب ڈیٹرائٹ ۱۷.چوہدری عبدالحمید صاحب آف محراب پور ۱۱۸.ڈاکٹر عبدالقادر صاحب.چینی ۱۱۹.ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر صاحب ۱۲۰.قریشی محمد اسلم صاحب مربی سلسلہ ٹرینی ڈاڈ ۱۲۱.بابو محمد عبدالغفار صاحب ۱۲۲.ظہیر احمد صاحب.سوہاوہ ۱۲۳.عثمان غنی صاحب ۱۲۴.عبدالرحیم صاحب ۱۲۵.رستم خاں صاحب آف مردان ۱۲۶.مولوی عبدالحق نور صاحب آف کرونڈی ۱۲۷.مولوی عبدالعلی صاحب کا بل ربوه ۲ جولائی ۱۹۷۴ء ۱۶ جولائی ۱۹۷۴ء حیدر آباد ۴ ستمبر ۱۹۷۴ء سندھ ۳اکتوبر ۱۹۷۴ء ضلع گجرات ۷ اکتوبر ۱۹۷۴ء سیالکوٹ ۲۶ ستمبر ۱۹۷۶ء سیالکوٹ ۲۶ ستمبر ۱۹۷۶ء ور اگست ۱۹۷۸ء سانگلہ ہل مقبوضہ کشمیر ۱۵ را پریل ۱۹۷۹ء آزاد کشمیر ۱۳ / اگست ۱۹۷۹ء ضلع لاڑکانہ ۱۶ / اپریل ۱۹۸۳ ء ۸/اگست ۱۹۸۳ء امریکہ نواب شاہ ۱۰ را پریل ۱۹۸۴ء فیصل آباد ۱۵/جون ۱۹۸۴ء حیدر آباد ۱۹ جون ۱۹۸۵ء جنوبی امریکہ ۱۰ / اگست ۱۹۸۵ء حیدرآباد ور جولائی ۱۹۸۶ء ضلع جہلم فروری ۱۹۸۷ء بنگلہ دیش ۳ / نومبر ۱۹۶۳ء بنگلہ دیش ۳/ نومبر ۱۹۶۳ء ضلع مردان ۱۱ فروری ۱۹۶۶ء خیر پور ۲۱ / دسمبر ۱۹۶۶ء افغانستان
۲۲-۸-۱۹۷۸ ۲۹_۱۹۸۲ ۱-۵-۹۸۴ ۱۵-۳۸۵ ۱۸-۰۹-۱۳ ۷۴۸۵ ۲۹-۷-۸۵ ۱۱۷-۸۵ 11-2-10 ۱۷۴۸۶ ۱۴۰۵۸۹ ۱۴۰۷ - ۸۹ ۱۴۰۷-۸۹ ۱۴۰۷-۸۹ ۲۸-۸۹ ۲۸-۹-۸۹ ۳۰_۰۶_۹۰ 12-2-90 12_11_9+ ۱۶۱۲۹۲ ۶-۲-۹۴ ۶-۲-۹۴ شیخو پوره پنو عاقل سکھر سکھر سکھر اوکاڑہ 613 ۱۲۸.ملک محمد انور صاحب ۴۵ مرڈ نز د سانگلہ ہل ۱۲۹ مکرم چوہدری مقبول احمد صاحب ۱۳۰.مکرم قریشی عبدالرحمان صاحب ۱۳۱.مکرم ملک انعام الرحمن صاحب شہید ۱۳۲.مکرم شیخ ناصر صاحب شہید ۱۳۳ مکرم چوہدری عبدالرزاق صاحب شہید آف بھریا روڈ نواب شاہ ۱۳۴ مکرم چوہدری محمود احمد صاحب اٹھوال پنو عاقل ۱۳۵ مکرم سید قمر الحق صاحب ۱۳۶ مکرم راؤ خالد سلیمان صاحب آف گوجرہ ۱۳۷ مکرم مرزا امنور بیگ صاحب شہید چونگی امرسدھو ۱۳۸ مکر مہ رخسانہ صاحب شہید زوجہ طارق احمد صاحب ۱۳۹.مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب شہید سکرنڈ گھر سیکھے لاہور مردان نواب شاہ گجرات ۱۴۰ مکرم نذیر احمد صاحب ساقی چک سکندر ۱۴۱ مکرم محمد رفیق صاحب ولد مولوی خان محمد صاحب چک سکندر گجرات ۱۴۲.مکر مہ نبیلہ صاحبہ بنت مشتاق احمد صاحب بعمر ۱۰ سال چک سکندر گجرات ۱۴۳.مکرم ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب جدران جماعت قاضی احمد نواب شاہ ۱۴۴.مکرم ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب جدران جماعت قاضی احمد نواب شاہ ۱۴۵ مکرم مبشر احمد صاحب آف تیما پور بھارت ۱۴۶.قاضی بشیر احمد صاحب کھوکھر ۱۴۷.مکرم نصیر احمد صاحب علوی.دوڑ ۱۴۸.مکرم محمد اشرف صاحب.جلہن ۱۴۹ مکرم را نا ریاض احمد صاحب.ٹاؤن شپ ۱۵۰.مکرم احمد نصر اللہ صاحب کرناٹک شیخو پوره نواب شاہ گوجرانوالہ لاہور لاہور
614 ۱۵۱ مکرم وسیم احمد بٹ صاحب ولد محمد رمضان بٹ صاحب سمن آباد فیصل آباد ۱۵۲.مکرم حفیظ احمد بٹ صاحب ابن اللہ رکھا صاحب سمن آباد ۱۵۳.مکرم ڈاکٹر نسیم با بر صاحب ۱۵۴ مکرم عبد الرحمن صاحب باجوہ ایڈووکیٹ منظور کالونی ۱۵۵.مکرم دلشاد حسین صاحب کچھی صاحب ۱۵۶.مکرم سلیم احمد صاحب پال ولد خدا بخش صاحب منظور کالونی ۱۵۷.مکرم انور حسین صاحب ابڑو.انور آباد ۱۵۸ میکرم ریاض احمد خاں صاحب ولد کمال الدین صاحب شب قدر مردان نزد ۱۵۹ مکرم مبارک احمد شر ما صاحب ۱۶۰.مکرم میاں محمد صادق صاحب ولد علم الدین صاحب چٹھہ داد ۱۶۱.مکرم چوہدری عتیق احمد صاحب باجوہ ایڈووکیٹ ۱۶۲.مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ڈھوئیگی ۱۶۳ مکرم شیخ مظفر احمد صاحب شرما ۱۶۴ مکرم میاں محمد اقبال صاحب آف کراچی ۱۶۵ مکرم چوہدری عبدالرشید شریف صاحب ابن مولوی محمد شریف صاحب ۱۶۶.مکرم محمد ایوب اعظم صاحب واہ کینٹ ۱۶۷ مکرم ملک نصیر احمد صاحب صدر جماعت ۱۶۸.مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب بگھیو فیصل آباد اسلام آباد کراچی لاڑکانہ کراچی لاڑکانہ پشاور ۳۰-۸-۹۴ ۱۰-۱۰-۹۴ ۱۸_۱۰-۹۴ ۳۱_۱۰_۱۹۹۴ 1+_11_97 ۱۹-۱۲-۹۴ ۹-۰۴-۱۹۹۵ ۳-۰۵-۱۹۹۵ شکار پور سندھ ضلع حافظ آباد ۱۹۹۶.۱۱.۸ وہاڑی ضلع گوجرانوالہ ۲۶_۱۰_۱۹۹۷ شکار پور سندھ ۱۲-۱۲-۱۹۹۷ یوگنڈا ۱۴_۱۵_۲-۱۹۹۸ لاہور ١٩٩٨ء_۱۰_۳۰ راولپنڈی ۱۹۹۸ - ۰۷.۷ وہاڑی نواب شاہ ۴۰۸ - ۱۹۹۸ ۱۰_۱۰_۱۹۹۸ ۱-۱۲-۱۹۹۸ ۹-۰۵-۱۹۹۹ ۹-۰۵-۱۹۹۹ ۱۶۹ مکرم ملک اعجاز احمد صاحب ولد عنایت اللہ صاحب ڈھوئیکی وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ ۱۷۰ مکرم مرزا غلام احمد قادر صاحب ربوه ۱۷۱ مکرمہ مبارک بیگم صاحبہ اہلیہ محد سلیم صاحب بٹ چونڈہ ڈوگرا نوالی سیالکوٹ ۱۷۲ مکرم ڈاکٹر شمس الحق صاحب ولد ڈاکٹر فضل حق صاحب ۱۷۳ مکرم عبداللطیف صاحب چک ۱۸ بہوڑو فیصل آباد ضلع شیخو پوره ۱۷۱-۲۰۰۰ ۸-۶-۲۰۰۰
615 شہدا مسجد کھلنا بنگلہ دیش مورخه ۸/اکتوبر ۱۹۹۹ء بروز جمعہ احمدیہ مجد کھلنا بنگہ دیش میں ایک بم دھما کہ ہوا جس کے نتیجہ میں سات احمدی شہید ہو گئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۵/نومبر ۱۹۹۹ء بمقام مسجد فضل لندن میں ان شہداء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.ہوگی.اب میں اس خطبہ کے آخر پر بعض شہداء کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی نماز جنازہ آج جمعہ کے بعد ادا چند ہفتے قبل ۱/۸ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو بنگلہ دیش کے شہر کھلنا کے رہائشہ علاقہ نرالہ میں واقع احمد یہ مسجد میں بم کا ایک خوفناک دھما کہ ہوا تھا.اس وقت مربی سلسلہ مکرم امدادالرحمن صاحب خطبہ جمعہ دے رہے تھے.اس دھما کہ کے نتیجہ میں دو خدام مکرم جہانگیر حسین صاحب اور مکرم نورالدین صاحب موقع پر ہی شہید ہو گئے جبکہ چار افراد نے ہسپتال پہنچ کر دم تو ڑ دیا.یہ دو اور چار چھ بنتے ہیں مگر مجھے یاد ہے انہوں نے مجھ سے رپورٹ پیش کی تو میرے منہ سے سات نکلا ہے کہ سات شہید ہو گئے.تو بعد کی اطلاع کے مطابق ایک صاحب بعد میں بھی زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہو گئے تو سات کا عدد اس طرح پورا ہو گیا.ان شہداء کے اسماء درج ذیل ہیں.(ضمیمہ شہدائے احمدیت ص ۲۳۱ تا ۲۳۵) ۱۷۴.مکرم جہانگیر حسین صاحب ابن مکرم اکبر حسین صاحب.کھلنا بنگلہ دیش A_1_99 ۸_۱۰_۹۹ ۱۷۵.مکرم نورالدین صاحب بنگلہ دیش ۱۷۶.مکرم سبحان مورل صاحب بنگلہ دیش ۱۰-۹۹.۸ ۱۷۷.مکرم محبت اللہ صاحب ابن جی.ایم مطیع الرحمن صاحب بنگلہ دیس ۱۰-۹۹.۸ ۱۷۸.مکرم ڈاکٹر عبدالماجد صاحب بنگلہ دیش ۱۷۹.مکرم ممتاز الدین صاحب بنگلہ دیش ۱۸۰.مکرم اکبر حسین صاحب بنگلہ دیش ۸_۱۰_۹۹ ۸_۱۰_۹۹
616 شہدائے گھٹیالیاں مورخه ۱/۳۰ اکتوبر ۲۰۰۰ء کو صبح چھ بجے کے قریب گھٹیالیاں خوردضلع سیالکوٹ کے شرقی جانب واقع جماعت احمدیہ کی بیت الذکر میں نامعلوم نقاب پوشوں کی فائرنگ سے ٫۵احباب راہ مولا میں قربان ہو گئے.ان کے علاوہ چھ احمدی احباب سخت زخمی ہوئے.تفصیلات کے مطابق صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد درس قرآن کریم ہوا.درس ختم ہونے کے بعد ایک نو جوان باہر نکلا تو ایک نقاب پوش نے جو سن میں موجود تھا اسے بندوق کا بٹ مارا اور اسے بیت الذکر کے اندر دھکا دیا جس سے وہ گر گیا.باقی نمازیوں نے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر دہشت گردوں نے بیت الذکر کے اندر ہی روک کر کلاشنکوف کا برسٹ مارا جس کے بعد اسی نقاب پوش نے اپنے ساتھی سے کلاشنکوف لے کر دوسرا برسٹ مارا اس کے نتیجے میں دو احمدی دوست موقعہ پر راہ مولا میں قربان ہو گئے جبکہ باقی ۳ / احباب ہسپتال جاتے ہوئے شہر ہو گئے راہ مولا میں قربان ہونے والوں کے نام درج ذیل ہیں.۱۸۱ مکرم افتخار احمد صاحب ولد محمد صادق صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ ۱۸۲ مکرم شہزاد احمد صاحب ولد محمد بشیر صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ ۱۸۳ مکرم عطاء اللہ صاحب ولد مولا بخش صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ ۱۸۴ مکرم غلام محمد صاحب ولد علی محمد صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ ۱۸۵ مکرم عباس احمد صاحب ولد فیض احمد صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ شہدائے تخت ہزارہ ضلع سرگودھا ۳۰_۱۰_۲۰۰۰ ۳۰_۱۰_۲۰۰۰ ۳۰_۱۰_۲۰۰۰ ۳۰_۱۰_۲۰۰۰ ۳۰_۱۰_۲۰۰۰ مورخه ۱۰ نومبر ۲۰۰۰ ء بروز جمعہ المبارک جماعت احمدیہ تخت ہزارہ ضلع سرگودھا کے پانچ احمدی معاندین کے تشد داور فائرنگ سے مسجد احمدیہ میں شہید ہو گئے.اس اشتعال انگیز اور پر تشد دواقعہ میں چند احمدی زخمی بھی ہوئے.اس گاؤں میں مولوی اطہر شاہ نے گزشتہ ایک عرصہ سے جماعت کے خلاف سب وشتم اور اشتعال انگیزی کا بازار گرم کر رکھا تھا.۱۰ار نومبر کو عصر کے بعد اس نے اپنے غنڈوں کے ہمراہ گاؤں کی گلیوں میں احمدیوں کے گھروں کے باہر غلیظ گالیاں نکالنی شروع کیں.احمدیوں نے صبر سے کام لیا.عشاء کے وقت طے شدہ منصوبہ کے تحت چار مساجد سے اعلان ہوا اور دو اڑھائی صد افراد ڈنڈے اور کلہاریاں لے کر احمد یہ
617 مسجد پہنچے.دیوار گرادی، اندر گھس گئے اور چھت پر بھی چڑھ گئے.پولیس کو واقعہ کی اطلاع دی گئی تھی اور اس وقت بھی چند سپاہی موجود تھے.اس پر تشدد واقعہ میں چار احمدی موقع پر ہی شہید کر دیئے گئے اور ان کی لاشوں کی بیحرمتی کی گئی اور لاشوں کو گھسیٹ کر چھت سے گلیوں میں پھینکا گیا.ایک نوجوان ہسپتال پہنچ کر قربان ہو گیا.یوں عشق حقیقی میں سرشار پانچ احمد یوں نے اپنے خون سے لافانی عشق کی داستان رقم کر دی.جن کے اسماء درج ذیل ہیں.۱۶ مکرم محمد عارف صاحب ولد نذیر احمد صاحب ۱۸۷.مکرم نذیر احمد صاحب ۱۸۸.مکرم ماسٹر نصیر احمد صاحب ۱۸۹.مکرم مبارک احمد صاحب ۱۹۰.مکرم مدثر احمد صاحب ۱۹۱.مکرم شیخ نذیر حمد صاحب.مدینہ ٹاؤن ۱۹۲.مکرم نوراحمد صاحب پٹواری سد و والا ۱۹۳ مکرم طاہر احمد صاحب ولد نوراحمد صاحب سد و والا ۱۹۴ مکرم چوہدری عبدالرحیم مجاہد صاحب ۱۹۵ مکرمہ شوکت خانم صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالرحیم صاحب مجاہد ۱۹۶.مکرم نعیم احمد صاحب.گولیکی ۱۹۷.مکرم غلام مصطفیٰ صاحب محسن.پیر محل ۱۹۸ مکرم مقصود احمد صاحب ولد نور احمد صاحب ۱۹۹.مکرم عبدالوحید صاحب ولد عبدالستار صاحب.کریم نگر ۲۰۰ مکرم ڈاکٹر رشید احمد صاحب شہید ۲۰۱ مکرم میاں اقبال احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر ضلع ۲۰۲ مکرم بریگیڈیئر افتخار احمد صاحب شہید ۲۰۳ مکرم برکت اللہ منگل صاحب ایڈووکیٹ شہید ۲۰۴ مکرم وسیم احمد صاحب ولد عبدالعزیز صاحب تخت ہزار ضلع سرگودها تخت ہزارہ ضلع سرگودھا تخت ہزارہ ضلع سرگودھا تخت ہزارہ ضلع سرگودھا ۱۰_۱۱_۲۰۰۰ ۱۰_۱۱_۲۰۰۰ ۱۰_۱۱_۲۰۰۰ ۱۰_۱۱_۲۰۰۰ تخت ہزار مضلع سرگودھا ۱۰_۱۱_۲۰۰۰ فیصل آباد ۲۸-۰۷ - ۲۰۰۱ نارووال نارووال ساہیوال ساہیوال ۸/۹_۵_۲۰۰۱ ۸/۹-۵-۲۰۰۱ ضلع گجرات ۲۰۰۱.۱۰.۷ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ فیصل آباد فیصل آباد رحیم یارخاں راجن پور راولپنڈی سرگودها ۷_۱۰_۲۰۰۱ ۰۱-۰۹-۲۰۰۲ ۱۴۱۱-۲۰۰۲ ۱۵_۱۱_۲۰۰۲ ۲۵_۰۲_۲۰۰۲ ۱۷-۰۷-۲۰۰۳ ۲۱-۰۸-۲۰۰۴ آرم ۱۲-۰۹-۲۰۰۵
618 شہدائے مونگ ضلع منڈی بہاؤالدین ۲ رمضان المبارک بمطابق ۷ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو تین نامعلوم افراد نے احمد یہ بیت الذکر مونگ میں اس وقت فائرنگ کر دی.جب احباب جماعت نماز فجر کی ادائیگی کے دوران دوسری رکعت میں رکوع میں جانے والے تھے.اس فائرنگ سے ۸ را فراد جماعت اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو گئے.جبکہ ۱۵ رشدید زخمی ہو گئے.شہداء مونگ کے اسماء درج ذیل ہیں.ضلع منڈی بہاؤالدین | ۲۰۰۵-۱۰.۰۷ ضلع منڈی بہاؤالدین ۲۰۰۵-۱۰-۰۷ ۲۰۵ مکرم عابد خاں صاحب.مونگ ۲۰۶.مکرم محمد اشرف صاحب.مونگ ۲۰۷ مکرم یا سراحمد صاحب.مونگ ۲۰۸.مکرم محمد اسلم صاحب.مونگ ۲۰۹ مکرم نوید احمد صاحب.مونگ ۲۱۰.مکرم الطاف احمد صاحب.مونگ ۲۱۱ - مکرم عبدالمجید صاحب.مونگ ۲۱۲ مکرم راجہ اہرا سپ صاحب.مونگ ضلع منڈی بہاؤالدین ۲۰۰۵-۱۰-۰۷ ضلع منڈی بہاؤالدین ۲۰۰۵-۱۰.۰۷ ضلع منڈی بہاؤالدین ۲۰۰۵-۱۰-۰۷ ضلع منڈی بہاؤالدین ۲۰۰۵-۱۰-۰۷ ضلع منڈی بہاؤالدین ضلع منڈی بہاؤالدین ۲۱۳ مکرم محمد اقبال صاحب ولد محمد سائیں نارنگ منڈی شیخوپورہ واہنڈ گوجرانوالہ ۲۱۴.مکرم نعیم محمود صاحب ولد محمد نصیب صاحب دامتہ زید کا ۲۱۵.مکرم شیخ رفیق احمد صاحب.منظور کالونی ۲۱۶ مکرم ڈاکٹر پیر مجیب الرحمن صاحب ۲۱۷ مکرم ماسٹر منور احمد صاحب سیالکوٹ کراچی سانگھڑہ گجرات ۰۷_۱۰_۲۰۰۵ ۰۷_۱۰_۲۰۰۵ ۶-۱۱-۲۰۰۵ ۱۹-۱۲-۲۰۰۵ ۰۱-۰۳_۲۰۰۷ ۰۷-۰۴-۲۰۰۷ ۲۱-۰۹-۲۰۰۷ ۲۶-۰۹-۲۰۰۷ ۰۷-۱۲-۲۰۰۷ ۲۱۸ میکرم محمد اشرف صاحب جھار اولد مہر الدین صاحب.سیرہ تحصیل پھالیہ منڈی بہاؤالدین ۲۱۹.مکرم چوہدری حبیب اللہ صاحب سیال.اڈہ نور پور نہر ۲۲۰.مکرم ڈاکٹر حمیداللہ صاحب ۲۲۱.مکرم پروفیسر ڈاکٹر شیخ مبشر احمد صاحب ۲۲۲.مکرم ہمایوں وقار صاحب ولد سعید احمد ناصر صاحب ضلع قصور کراچی کراچی شیخوپوره
۲۴_۰۲_۲۰۰۸ ۱۹-۳-۲۰۰۸ ۰۸-۰۹-۲۰۰۸ ۰۹-۰۹-۲۰۰۸ ۱۳-۰۹-۲۰۰۸ ۱۸-۱۱-۲۰۰۸ ۲۰-۰۱-۲۰۰۹ ۲۰_۰۲_۲۰۰۹ ۱۴۰۳_۲۰۰۹ ۲۹-۰۵_۲۰۰۹ ۰۶-۰۸-۲۰۰۹ ۲۶-۰۹-۲۰۰۹ ۱۱_۱۰_۲۰۰۹ ۲۹_۱۱_۲۰۰۹ ۰۵-۰۱-۲۰۱۰ ۱-۴-۲۰۱۰ ۱-۴-۲۰۱۰ ۱۹-۰۵-۲۰۱۰ 619 ۲۲۳ مکرم بشارت احمد صاحب مغل ولد سراج الدین صاحب منظور کالونی کراچی ۲۲۴.مکرم ڈاکٹر غلام سرور صاحب ۲۲۵.مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب ۲۲۶.مکرم سیٹھ محمد یوسف صاحب امیر جماعت نگھو پشاور ۲۲۷.مکرم شیخ سعید احمد صاحب منظور کالونی ۲۲۸ مکرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب.بورے والا ۲۲۹.مکرم سعید احمد اٹھوال کوٹری ۲۳۰ مکرم مبشر احمد صاحب ۲۳۱ مکرم ڈاکٹر شیر از احمد باجوہ صاحب ۲۳۲.مکرمہ ڈاکٹر نورین شیر از صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر شیر از باجوہ صاحب ۲۳۳ مکرم شیخ لئیق احمد صاحب ۲۳۴ مکرم ظفر اقبال صاحب ۲۳۵ - مکرم خالد رشید صاحب ۲۳۶ مکرم عطاء الکریم نون صاحب ۲۳۷.مکرم محمد اعظم فاروقی صاحب.اوچ شریف ۲۳۸ مکرم ذوالفقار احمد منصور صاحب ( اغوا کر کے شہید کیا گیا) ۲۳۹ مکرم را ناسلیم احمد صاحب میر پور خاص سندھ نواب شاہ سندھ کراچی ضلع وہاڑی حیدر آباد کراچی ملتان ملتان فیصل آباد کوئے کوئٹہ ملتان بہاولپور کوئٹے سانگھڑ ۲۴۰ مکرم پر و فیسر محمد یوسف صاحب صدر جماعت رچنا ٹاؤن شاہدرہ لاہور ۲۴۱.مکرم سمیع اللہ صاحب شہداد پور ۲۴۲.مکرم شیخ اشرف پرویز صاحب ولد شیخ بشیر احمد صاحب ۲۴۳ مکرم شیخ آصف جاوید صاحب ولد شیخ مسعود جاوید صاحب ۲۴۴.مکرم حفیظ احمد شاکر صاحب سانگھڑ فیصل آباد فیصل آباد کراچی
620 شہدائے لاہور پاکستان کے ثقافتی مرکز اور پنجاب کے دار الحکومت لاہور میں مورخہ ۲۸ رمئی ۲۰۱۰ء بروز جمعۃ المبارک دو پہر تقریباڈیرہ بجے احمد یہ بیوت الذکر گڑھی شاہو اور بیت نور ماڈل ٹاؤن پر مسلح افراد کے منظم حملوں سے ۸۶ احمدی احباب راہ مولیٰ میں قربان ہو گئے اور ۱۲۴ سے زیادہ زخمی ہو گئے.یہ حملے بیوت الذکر میں اس وقت ہوئے جب احباب جماعت جمعہ کے لئے بیوت میں اکٹھے ہو چکے تھے.دارالذکر گڑھی شاہو میں اور ماڈل ٹاؤن میں مربیان کرام نے خطبہ دینا شروع ہی کیا تھا کہ یہ اندوہناک واقعات وقوع پذیر ہوئے.تفصیلات کے مطابق ماڈل ٹاؤن کے سی بلاک میں واقع بیت نور میں ۲ دہشت گرد جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے ہوئے مین گیٹ سے گارڈ کو ہلاک کر کے اندر داخل ہوئے.ان میں سے ایک نے محراب کی طرف سے ایک کھڑکی کا شیشہ توڑ کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی.جبکہ دوسرا دہشت گرد اس طرف سے بیت میں داخل ہوا جہاں جو تے رکھے جاتے ہیں اور اس نے ہینڈ گرنیڈ پھینکا اور فائر کھول دیا.ڈیوٹی پر متعین خدام نے جانفشانی اور جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس دہشت گرد کو پیچھے سے بازوؤں کے ذریعہ پکڑ لیا اور بے بس کر دیا.اس حملہ آور نے خود کش جیکٹ پہنی تھی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس سے محفوظ رکھا اور مزید نقصان سے بچالیا.جبکہ دوسرے حملہ آور کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا.ماڈل ٹاؤن کے اس وحشیانہ حملے میں بہت دیر تک گولیوں کی بارش اور بلاسٹ ہوتے رہے.متعدد احباب نے تہہ خانے میں اور ادھر ادھر بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں.تاہم میجر جنرل مکرم (ر) ناصر احمد صاحب صدر جماعت احمدیہ ماڈل ٹاؤن سمیت ۲۶/ افراد اللہ کو پیارے ہو گئے اور ۳۵ سے زائد زخمی ہوئے.جنہیں جناح ہسپتال ، شیخ زاید ہسپتال، میوہسپتال اور دیگر ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا.جہاں فوری طور پر طبی امداد دی گئی اور خدام خون دینے کے لئے مختلف حلقوں سے ہسپتال پہنچ گئے.گڑھی شاہو میں واقع دارالذکر میں عینی شاہدین کے مطابق ۶ سے ۸ دہشت گرد مین اور پچھلے گیٹ سے داخل ہوئے.۴ زور دار دھماکے اور فائرنگ کر کے حملہ آوروں نے دوسری منزل اور مینار پر چڑھ کر پوزیشن سنبھال لی تا کہ پولیس اور دیگر فورسز اندر نہ آجائیں.ابھی دارالذکر میں جمعہ شروع نہیں ہوا تھا تا ہم ہال نمازیوں سے بھرا ہوا تھا.تین بلاسٹ ہال کے اندر اور ایک باہر ہوا.تقریباً ۲ دو گھنٹے تک دہشت گردوں نے احباب کو
621 یرغمال بنائے رکھا اور فائرنگ کرتے رہے.اطلاع ملنے پر قدرے تاخیر سے پولیس اہلکار، اہلیٹ فورس کے جوان اور بکتر بند گاڑیاں دارالذکر پہنچ گئیں اور پولیس اور حملہ آوروں میں دیر تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا.ریسیکو ذرائع کے مطابق گڑھی شاہو میں خودکش دھماکوں اور حملہ آوروں کی فائرنگ سے ۳۴ افراد موقع پر ہی شہید ہو گئے اور دیر سے ہسپتال پہنچنے کی وجہ سے اکثر زخمیوں کا زیادہ خون بہہ گیا اور وہ ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گئے.دارالذکر میں سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ۲ دہشت گردوں نے خود کو اڑا لیا.ماڈل ٹاؤن سے گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کو ابتدائی تحقیقات کے لئے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا.دارالذکر میں مکرم و محترم منیر اے شیخ صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور اور مکرم و محترم چوہدری اعجاز نصر اللہ صاحب سمیت ٫۸۶احباب جاں بحق ہوئے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد ۱۲۴ سے زائد تھی.سینکڑوں افراد نے دارالذکر کے تہہ خانے ، باتھ رومز اور مختلف کمروں میں چھپ کر جانیں بچائیں.پولیس نے تقریباً شام ساڑھے پانچ بجے آپریشن مکمل کر کے کنٹرول سنبھال لیا.زخمی افراد کو میو ہسپتال ، سروسز ہسپتال اور شہر کے کئی ہسپتالوں میں رکھا گیا.خدام ان ہسپتالوں میں کثیر تعداد میں پہنچ گئے اور زخمیوں کو خون کا عطیہ دیا.پولیس کو خود کش حملہ آوروں کے سر مل گئے جبکہ دیگر ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی شناخت نہیں ہوسکی.دارالذکر اور بیت نور کے مین ہال کا نقشہ ان حملوں کے بعد بہت خراب اور جنگ کے بعد ہونے والی تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا.ان حملوں میں دونوں بیوت الذکر میں کل ۸۶ احباب شہید ہوئے اور ایک خاکروب برکت مسیح ہلاک ہوا.شہدائے لاہور کے اسماء حسب ذیل ہیں.۲۴۵ مکرم شیخ شمیم احمد صاحب ولد شیخ نعیم احمد صاحب ۲۴۶ مکرم منور احمد قیصر صاحب ولد عبدالرحمن صاحب ۲۴۷ مکرم ظفر اقبال صاحب ولد ظفر صادق صاحب ۲۴۸ مکرم احسان احمد خان صاحب ولد و سیم احمد خان صاحب ۲۴۹ مکرم محمد اکرم ورک صاحب ولد چوہدری اللہ دتہ صاحب لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور ۲۵۰.مکرم عبدالرحمن صاحب ( نو مبائع ) ولد ڈاکٹر محمد اسلم صاحب لاہور ۲۵۱ مکرم محمود احمد صاحب ولد مجید احمد صاحب ۲۵۲ مکرم محمد اشرف بلال صاحب ولد عبداللطیف صاحب لاہور لاہور ۲۵۳.مکرم عتیق الرحمن وڑائچ صاحب ( ڈرائیور ) ولد محمد شفیع صاحب لاہور ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰
۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ 622 ۲۵۴ مکرم عرفان احمد ناصر صاحب ولد عبدالمالک صاحب لاہور ۲۵۵ مکرم مسعود احمد اختر باجوہ صاحب ولد چوہدری محمد حیات باجوہ صاحب لاہور ۲۵۶.مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب ولد مہر اللہ یا ر صاحب ۲۵۷ مکرم نثار احمد صاحب ولد غلام رسول صاحب لاہور لاہور ۲۵۸ مکرم اکرم بیگ مرزا صاحب ولد مرزا منور بیگ صاحب لاہور ۲۵۹.مکرم ڈاکٹر طارق بشیر صاحب ولد محمد یوسف صاحب لاہور لاہور لاہور ۲۶۰ مکرم خلیل احمد سولنگی صاحب ولد نصیر احمد سولنگی صاحب ۲۶۱۱.مکرم عامرلطیف پراچہ صاحب ولد لطیف الرحمن پراچہ صاحب ۲۶۲ مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب ولد چوہدری اسد اللہ خان صاحب لاہور لاہور ۲۶۳ مکرم چوہدری حفیظ احمد کاہلوں صاحب ایڈووکیٹ ولد چوہدری نذیر حسین صاحب لاہور ۲۶۴ مکرم چوہدری امتیاز احمد صاحب ولد چوہدری نثار احمد صاحب لاہور ۲۶۵ مکرم ناصرمحمود صاحب ولد محمد عارف و سیم صاحب ۲۶۶ مکرم محمد یحیی خان صاحب ولد محمدعبداللہ خان صاحب ۲۶۷.مکرم عمیر احمد صاحب ولد عبدالرحیم صاحب لاہور لاہور ۲۲۸ مکرم منیر احمد شیخ صاحب (امیر ضلع) ولد شیخ تاج دین صاحب لاہور ۲۶۹ مکرم محمود احمد صاحب ولمدا کبر علی صاحب ۲۷۰ مکرم مرزا منصور بیگ صاحب ولد مرز اسرور بیگ صاحب ۲۷۱ مکرم سید ارشاد علی شاہ صاحب ولد سمیع اللہ شاہ صاحب ۲۷۲ مکرم خاور ایوب صاحب ولد محمد ایوب صاحب ۲۷۳ مکرم شیخ نورالامین صاحب ولد نصیر احمد صاحب ۲۷۴.مکرم میاں محمد سعید صاحب ولد میاں محمد یوسف صاحب ۲۷۵.مکرم میاں لئیق احمد صاحب ولد میاں شفیق احمد صاحب ۲۷۶ مکرم محمد شامل منیر مرزا صاحب ولد میاں شفیق احمد صاحب لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور
۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ 623 ۲۷۷ مکرم ملک زبیر صاحب ولد ملک رشید احمد صاحب ۲۷۸ مکرم مبشر احمد صاحب ولد شیخ حمید احمد صاحب ۲۷۹.مکرم ندیم احمد صاحب ولد منشاء طارق صاحب ۲۸۰ مکرم اعجاز الحق طاہر صاحب ولد رحمت حق صاحب ۲۸۱ مکرم منور احمد صاحب ولد صوبیدار (ر) منیر احمد صاحب ۲۸۲.مکرم انیس احمد صاحب ولد صوبیدار (ر) منیر احمد صاحب ۲۸۳ مکرم چوہدری محمد احمد صاحب ولد ڈاکٹر نور احمد صاحب ۲۸۴ مکرم ولید احمد صاحب ولد محمد منور احمد صاحب ۲۸۵ میکرم الیاس احمد صاحب ولد ماسٹر محمد شفیع صاحب ۲۸۶ مکرم محل خان ناصر صاحب ولد حاجی احمد صاحب ۲۸۷ مکرم چوہدری محمد مالک صاحب ولد چوہدری فتح محمد صاحب ۲۸۸ مکرم شیخ ساجد نعیم صاحب ولد شیخ امیر احمد صاحب ۲۸۹ مکرم شیخ محمد یونس صاحب ولد جمیل احمد صاحب ۲۹۰ مکرم وسیم احمد صاحب ولد عبد القدوس صاحب ۲۹۱ مکرم مبارک علی اعوان صاحب ولد عبد الرزاق صاحب ۲۹۲ مکرم ارشد محمود بٹ صاحب ولدمحمود احمد بٹ صاحب لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور ۲۹۳ مکرم جنرل (ر) ناصر احمد چوہدری صاحب ولد چوہدری صفدر علی صاحب لاہور ۲۹۴ مکرم محمود احمد شاد صاحب (مربی سلسلہ ) ولد غلام احمد صاحب لاہور ۲۹۵ مکرم محمد انور صاحب ( سیکورٹی گارڈ ) ولد محمد خان صاحب ۲۹۶.مکرم منیر عمیر صاحب ولد میاں عبدالسلام صاحب ۲۹۷ میکرم سردار افتخار الغنی صاحب ولد سردار عبدالشکور صاحب لاہور لاہور لاہور ۲۹۸- مکرم ملک مقصود احمد صاحب ( سرائے والا ) ولد الیس اے محمود صاحب لاہور ۲۹۹.مکرم منصور احمد صاحب ولد عبدالحمید جاوید صاحب لاہور
۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ 624 ۳۰۰ مکرم اعجاز احمد صاحب ولد انور بیگ صاحب ۳۰۱ مکرم آصف فاروق صاحب ولد لیاقت علی صاحب لاہور لاہورر ۳۰۲ مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب ولد شیخ شمس الدین صاحب لاہور ۳۰۳ مکرم چوہدری محمد نواز حجہ صاحب ولد چوہدری غلام رسول صاحب لاہور ۳۰۴ مکرم مسعود احمد صاحب ولد احمد دین صاحب ۳۰۵ مکرم فدا حسین صاحب ولد بہادر خان صاحب ۳۰۶.مکرم میاں مبشر احمد صاحب ولد میاں برکت علی صاحب ۳۰۷ مکرم محمد شاہد صاحب ولد محمد شفیع صاحب لاہور لاہور لاہور لاہور ۳۰۸ مکرم کیپٹن (ر) مرزا نعیم الدین صاحب ولد مرز اسراج الدین صاحب لاہور ۳۰۹ مکرم ملک انصار الحق صاحب ولد ملک انوار الحق صاحب لاہور ۳۱۰.مکرم عبدالرشید صاحب ولد عبدالحمید ملک صاحب لاہور ۳۱۱.مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب ولد عبدالمجید صاحب لاہور ۳۱۲ مکرم رشید ہاشمی صاحب ولد سید محمدمنیر ہاشمی صاحب لاہور ۳۱۳ مکرم مرز اظفر احمد صاحب والد مکرم مرزا منصور احمد صاحب لاہور ۳۱۴ مکرم سید لئیق احمد صاحب ولد سید محی الدین صاحب ۳۱۵ مکرم طاہر محمود صاحب ولد سعید احمد صاحب ۳۱۶ مکرم مبارک احمد طاہر صاحب ولد عبدالمجید صاحب ۳۱۷ مکرم کامران ارشد صاحب ولد محمد ارشد صاحب ۳۱۸ مکرم چوہدری مظفر احمد صاحب ولد مولوی محمد ابراہیم صاحب لاہور ۳۱۹.مکرم مرزا امین بیگ صاحب ولد مرزا کریم بخش صاحب لاہور ۳۲۰ مکرم ڈاکٹر اصغر یعقوب صاحب ولد ڈاکٹر یعقوب خان صاحب لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور ۳۲۱ مکرم منور احمد خان صاحب ولد محمد ایوب خان صاحب ۳۲۲ مکرم ملک و سیم احمد صاحب ولد محمد اشرف صاحب
625 ۳۲۳ مکرم حسن خورشید صاحب ولد ملک خورشید اعوان صاحب لاہور ۳۲۴ مکرم محمد اشرف بھلر صاحب ولد محم عبداللہ صاحب ۳۲۵ مکرم محمد حسین صاحب ولد نظام دین صاحب ۳۲۶ مکرم نذیر احمد صاحب ولد محمد یاسین صاحب ۳۲۷ مکرم محمد حسین ماہی صاحب ولد محمد ابراہیم صاحب ۳۲۸.مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب ولد ڈاکٹر عبدالشکور صاحب ۳۲۹.مکرم سعید احمد طاہر صاحب ولد صوفی نذیر احمد صاحب ۳۳۰.مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب ۳۳۱ مکرم نعمت اللہ صاحب.قلعہ احمد آباد ۳۳۲ مکرم ڈاکٹر نجم الحسن صاحب چائلڈ سپیشلسٹ ۳۳۳.مکرم پیر حبیب الرحمن صاحب ۳۳۴ مکرم شیخ عامر رضا صاحب ۳۳۵.مکرم نصیر احمد صاحب ۳۳۶ مکرم شیخ محمود احمد صاحب ولد شیخ نذیر احمد صاحب ۳۳۷.مکرم عمر جاوید صاحب ولد جاوید احمد شیخ صاحب لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸_۰۵_۲۰۱۰ ۲۸-۰۵-۱۰ ضلع نارووال ۲۰۱۰-۰۵-۳۱ کراچی | ۲۰۱۰-۰۸-۱۷ سانگھڑ مردان ۱۹-۰۸-۲۰۱۰ ۳۰۹_۲۰۱۰ فیصل آباد ۲۰۱۰-۰۹-۸ مردان مردان ۸-۱۱-۲۰۱۰ ۲۳_۱۲_۲۰۱۰ ( بحوالہ شہدائے احمدیت وریکارڈ نظارت امور عامه ربوہ پاکستان ) ایک قابل رشک واقعہ شہدائے احمدیت کی مناسبت سے آخر میں ایک انتہائی ایمان افروز واقعہ درج کرنا چاہتا ہوں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ احمدیت کی خاطر راہ مولیٰ میں شہادت پانے کے اعزاز کے بارہ میں ہمارے ننھے منے احمدی بچوں کے کیسے خیالات، احساسات، خواہشات اور جذبات ہیں.یہ واقعہ عزیزہ سارہ احمد بعمر ۱۲ سال بنت مکرم عطاء الرحمن مبشر صاحب آڈیر تحریک جدید کا ہے.اس سلسلہ میں مکرم عطاء الرحمن مبشر صاحب نے بتایا کہ جلسہ سالانہ جماعتہائے احمد یہ جرمنی ۲۰۱۰ء کے موقع پر جب حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اختتامی خطاب فرما رہے تھے.جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شہدائے احمدیت
626 بالخصوص شہدائے لاہور کا بھی ذکر فرمایا.اس مناسبت سے حاضرین جلسہ شہدائے احمدیت اور شہدائے لاہور زندہ باد کے نعرہ لگا رہے تھے.اس دوران ان کی بیٹی عزیزہ سارہ احمد نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”ابا جان اگر آپ بھی شہید ہو جاتے تو حضور کا فون ہمارے گھر بھی آجاتا، بچی کی اس معصومانہ خواہش کے اظہار کے پیچھے دراصل پس منظر یہ تھا کہ سانحہ لاہور کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام شہدائے لاہور کے پسماندگان اور اہل خانہ کو فون کر کے حوصلہ اور تسلی دی تھی.اور اس بچی کو اس صورتحال کا علم تھا.اس لئے بچی کو شہدائے لاہور زندہ باد کے نعرہ کے وقت شہداء لاہور کے پسماندگان کو ملنے والے اس اعزاز کا خیال آ گیا.جس پر اس معصوم اور نھی منی احمدی بچی نے بے اختیار اس معصومانہ خواہش کا اظہار کر دیا.مکرم عطاءالرحمن صاحب نے بتایا کہ اگلے روز علی اصبح انہوں نے یہ بات مکرم عبد الحلیم سحر صاحب افسر صیغہ امانت تحریک جدید کو بتائی.اس کے دو تین روز بعد مکرم عبد الحلیم سحر صاحب کا ان کو ٹیلیفون آیا کہ جو بات آپ کی بیٹی نے کہی تھی میں نے وہ واقعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں فیکس کر دیا تھا.جس پر مکرم ناظر صاحب امور عامہ کی طرف سے مجھے ٹیلیفون آیا ہے کہ یہ واقعہ کس گھر میں ہوا ہے؟ اس کے کچھ دیر بعد مکرم ناظر صاحب امور عامہ کا مجھے ٹیلیفون آیا اور انہوں نے اس واقعہ کی مجھ سے تصدیق کی اور بیٹی کے کوائف دریافت فرمائے.اس کے تقریباً تین گھنٹے بعد رات 9 بجے مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب لندن کا مجھے فون آیا اور انہوں نے بھی اس واقعہ کی تصدیق چاہی.اور کہا کہ ایک منٹ ہولڈ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بات کرنی ہے.پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا السلام علیکم میں نے سنا.(اس وقت مجھے یقین نہیں آ ” رہا تھا کہ ہمارے گھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا فون بھی کبھی آئے گا ) السلام علیکم کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ ”بیٹی کو فون دیں میں نے اپنی بیٹی کو فون دیا.بیٹی نے بتایا کہ:.حضور انور نے السلام علیکم کے بعد فرمایا کہ آپ نے ضرور ابا کو شہید کروا کر بات کرنا تھی.اس کے بعد حضور انور نے بہت دعائیں دیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے والد کا سایہ سدا سلامت آپ کے سر پر قائم رکھے اور آپ کو اپنے فضلوں سے نوازتار ہے.اور نیک بنائے.(آمین ) حضور انور نے یہ بھی پوچھا کہ آپ کی چھوٹی بہن بھی ہے.یہ بات اس نے کی ہے یا آپ نے؟ میں نے حضور انور سے عرض کی حضور میں نے کی تھی.اور مزید پوچھا کہ آپ کس کلاس میں پڑھتی ہو اور کہاں پڑھتی ہو؟ میں نے بتایا کہ حضور میں نصرت جہاں اکیڈمی ربوہ کی ساتویں کلاس میں پڑھتی ہوں.چھوٹی بہن کا بھی پوچھا کہ وہ کس کلاس میں پڑھتی ہے؟ میں نے بتایا کہ حضور وہ تیسری کلاس میں پڑھتی ہے.حضور نے میری عمر بھی پوچھی تھی
627 میں نے بتایا کہ حضور میری عمر ۱۲ سال ہے.اس کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ اپنی چھوٹی بہن کو فون دو.“ مکرم عطاء الرحمن مبشر صاحب نے بتایا کہ میری چھوٹی بیٹی جس کا نام عیشہ احمد ہے سے حضور نے السلام علیکم فرمایا اور حال پوچھا، چھوٹی نے کہا کہ حضور آپ نے کب آنا ہے؟ اس پر پیارے حضور نے فرمایا کہ ”جب اللہ تعالیٰ چاہے گا.اس کے بعد چھوٹی بیٹی خاموش ہو گئی تو حضور انور نے فرمایا کہ ”اب خاموش کیوں ہوگئی ہو؟ اس کے بعد حضور انور نے ” السلام علیکم فرما کر فون بند کر دیا.اس فون کے چند روز بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے بچیوں کے لئے چاکلیٹ کا ایک پیکٹ بھی موصول ہوا.الحمد لله على ذلكَ.مکرم عطاء الرحمن مبشر صاحب نے یہ واقعہ بتانے کے بعد اس خواہش کا اظہار کیا کہ احباب جماعت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو نیک اور خادم دین بنائے اور ان کے دلوں کو خلیفتہ اسیح کے حقیقی پیار اور محبت سے بھر دے اور وہ ہمیشہ خلافت سے چھٹے رہیں اور ان کی نسلوں کو بھی اس عظیم الشان نعمت کا وارث بنائے.آمین پس جس جماعت کے معصوم اور ننھے منے بچوں کے ایسے ظالمانہ، بہیمانہ اور دل دہلا دینے والے واقعات پر بھی ایسے ایمان افروز اور قابل تقلید جذبات و احساسات اور خیالات اور خواہشات ہوں اس جماعت کو کون ختم کر سکتا ہے؟ اور ایسی روح پرور خواہشات صرف الہبی جماعتوں میں ہی پائی جاتی ہیں.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلّم وصَلَّ عَلَيْهِ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اے راہ حق کے شہیدو! کہ تم نے خاک و خون میں غلطان ہو کر جو حسین رسم جاری کی ہے اس کے اعتراف میں ہم بڑے بجز سے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے مولیٰ کریم ان پاک باز عشاق کی روحوں کو اپنی رحمت و محبت کی چادر میں لپیٹ لے.۱۹۸۴ء کا ظالمانہ اینٹی احمد یہ آرڈینینس ۱۹۱ء کے اینٹی احمد یہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی صدارتی آرڈینینس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ پر ہر قسم کی پابندیاں لگادی گئیں اور سینکڑوں احمدیوں کو کلمہ طیبہ کے جرم میں مقدمات میں ملوث کر کے سنگین قسم کی سزائیں دی گئیں.جن میں سکھر اور ساہیوال کیس بہت ہی معروف ہیں جن میں ظالمانہ طور پر عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بعض احمدیوں کو سزائے موت سنا دی گئی.جو بعد میں ۱۹۸۸ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد عمر قید میں تبدیل ہوگئی.
628 چنانچہ بعد میں تقریباًے سال قید کاٹنے کے بعد اسیران راہ مولی سکھر.۱۹۹۲ء میں باعزت طور پر بری ہو گئے.اسی طرح اسیران راه مولی مکرم برادرم محمد الیاس منیر صاحب مربی سلسلہ اور ان کے ساتھی مکرم رانا نعیم الدین صاحب، مکرم حاذق احمد صاحب، مکرم نثار احمد صاحب اور مکرم عبدالقدیر صاحب ۱۰ سال کی قید کے بعد ۱۶ مارچ ۱۹۹۴ء کو باعزت رہا ہوئے.جبکہ ان میں سے ایک بزرگ را نا محمد دین صاحب اسی قید کے دوران ہی اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.تین ہزار ایک سو تیرہ احمدیوں کے خلاف مختلف مقدمات قائم کئے گئے.جن میں سے بے شمار احمد یوں کو کئی کئی سال با مشقت قید اور ہزاروں روپے کے جرمانے سنائے گئے.ان مقدمات کی تفصیل اخبار کے مطابق یہ ہے:.پاکستان کے احمدیوں کے خلاف اپریل ۱۹۸۴ء تا اکتوبر ۲۰۱۰ء رجسٹر کئے جانے والے مقدمات کی تفصیل حسب ذیل ہے.ا کلمہ طیبہ کا بیج لگانے یا گھروں اور بیوت الذکر پر کلمہ طیبہ لکھنے کے جرم میں ۷۶۴ مقدمات.۲.اذان دینے کے جرم میں.۳۸ مقدمات ۳.اپنے اپ کو مسلمان ظاہر کرنے کے جرم میں.۴۳۴ مقدمات ۴.اسلامی اصطلاحات کے استعمال کرنے پر.۱۶۱ مقدمات ۵.نماز ادا کرنے کے جرم میں.تبلیغ کرنے کے جرم میں.۹۳ مقدمات ۷۲۱ مقدمات ۷.صد سالہ جشن تشکر ۱۹۸۹ء کے جرم میں ۲۷ مقدمات..چاند اور سورج گرہن کے نشان کے ظہور کی صد سالہ جوبلی منانے کے الزام میں ۵۰ مقدمات ۹.اک حرف ناصحانہ تقسیم کرنے کے الزام میں.۱۰.دعوت مباہلہ پرمبنی پمفلٹ تقسیم کرنے کے الزام میں.۲۷ مقدمات ۱۴۸ مقدمات ۲۷ مقدمات ۱.قرآن کریم جلانے کے الزام میں.۱۲ اینٹی احمدیہ آرینس ۱۹۸۴ء کی شق B/C-298 کے ارتکاب کے الزام میں.۹۷۸ مقدمات ۲۹۵ مقدمات ۱۳.توہین رسالت کے الزام میں ۱۴.اینٹی احمد یہ آرڈینینس ۱۹۸۴ء کی خلاف ورزی کرنے پر امام جماعت کے خلاف کے مقدمات ۱۵.موجودہ امام جماعت احمدیہ کے لندن مقیم ہونے کے الزام پر.ایک مقدمہ
629 ۱۶.ربوہ کی تمام آبادی (۶۰) ہزار افراد کے خلاف دفعہ PPC298-C کے تحت مقدمہ قائم کیا (بحوالہ ریکارڈ نظارت امور عامه صدرانجمن احمد یہ ربوہ پاکستان ) ظلم کی انتہا اس حد تک ہوگئی ہے کہ تادم تحریر ۲۹۵ مقدمات آنحضرت ﷺ کی محبت اور آپ سے عقیدت کے اظہار کے جرم میں قائم کئے گئے.انالله وانا اليه راجعون.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد نے انتہائی صبر اور تحمل کے ساتھ بے مثال قربانیاں دے کر مخالفین کے تمام عزائم کو ناکام بنادیا.دشمنی اور عناد کے یہ طوفان اور ظالمانہ قتل وغارت کی سرخ آندھیاں اس آواز کو دبا نہ سکیں.اور مخالفت کی ہر لہر سے ٹکرا کر جماعت احمد یہ پہلے سے زیادہ قوی تر اور بلند تر آواز ہوکر ابھری.ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ خود اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے وعدہ فرمایا تھا کہ:.میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“
630
631 باب چہار دہم جماعت احمدیہ کی الہی تائید ونصرت
632
633 جماعت احمد یہ ترقی کی شاہراہوں پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنے عظیم روحانی مشن کی کامیابی کے متعلق الہی وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے - فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدوں کو پورا کرے گا.سواے سنے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا.“ (تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۴۰۹ ، ص ۴۱۰) جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی سے کچھ زائد عرصہ گزر چکا ہے.اس عرصہ میں جماعت نے محض اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے انتہائی نامساعد حالات اور ہر قسم کی مخالفت کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں حیران کن ترقی کی ہے.جماعت احمدیہ کی اس عظیم ترقی کے متعلق ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا جاتا ہے.یہ جائزہ جولائی ۲۰۱۰ ء تک کا ہے.ا.اس وقت تک جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے ۱۹۸ ممالک میں قائم ہو چکی ہے.۲.جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام ۲۲۰۴ مشن ہاؤسز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت میں مصروف ہیں.مختلف ممالک میں خدمت دین بجالانے والے مربیان و معلمین کی تعداد۱۵۰۰ سے زیادہ ہے.۴.دنیا کے ۶ براعظموں کے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کی بیوت الذکر کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۶۰۹۹ ہو چکی ہے.۵.براعظم افریقہ کے ۱۲ ممالک میں ۴۱ ہسپتال کلینکس دکھی انسانیت کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں.
634.دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص افریقہ میں جماعت احمدیہ کے ۷۰ ہائیر سیکنڈری سکول اور ۵۹۷ نرسری سکول تعلیمی میدان میں بنی نوع انسان کی خدمت کر رہے ہیں.ے.جماعت احمدیہ کی طرف سے مختلف ممالک کی ۱۷ زبانوں میں ۷۹ اخبارات و رسائل شائع ہو رہے ہیں..دنیا کے مختلف ااممالک میں جماعت احمدیہ کے پریس کام کر رہے ہیں.۹.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور خلافت احمدیہ کی برکت سے جماعت احمدیہ کو تادم تحریرہ کے زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کرنے کی توفیق ملی ہے.۱۶ زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ زیر طباعت ہے.اور ۱۲ زبانوں میں ترجمہ کرنے کا کام ہورہا ہے.۱۰.واقفین نو بچوں کی تعداد ۳۱ / جولائی ۲۰۱۰ء تک ۴۱۲۲۰ ہو چکی ہے.جن میں سے ۲۶۰۶۷ لڑ کے ہیں.اور ۱۵۱۵۳ رلڑکیاں ہیں.جو ۱.۲ کی نسبت بنتی ہے.ا.نظام وصیت میں ۳۱ / جولائی ۲۰۱۰ ء تک شامل ہونے والوں کی کل تعداد ۱,۰۹,۰۰۰ ہوگئی ہے.۱۹۸۴-۱۲ء کے بدنام زمانہ اینٹی احمد یہ آرڈنینس کے بعد ۱۰۸ ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہو چکا ہے.۱۳.ہجرت خلافت رابعہ کے بعد ۲۷ سالوں میں بیعت کرنے والوں کی تعداد۱۷ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے.۱۴.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دنیا کے جن ۱۹۸ ممالک میں احمدیت قائم ہو چکی ہے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے.ایشیا:.پاکستان، انڈونیشیا، ملائشیا، بھارت، بنگلہ دیش، پاپوانیوگنی، سنگاپور، تھائی لینڈ ، جاپان، برما، سری لنکا، نیپال، بھوٹان، فلپائن، ایران ، ترکی، افغانستان، چین، جنوبی کوریا، مالدیب، برونائی ، ہانگ کانگ، میانمار،فلپائن.کمبوڈیا.ستم.مشرق وسطی :.ابوظہبی ، بحرین، دوبئی فلسطین ،کویت ،عثمان ،سعودی عرب ،شارجہ،شام.اسرائیل رشیا اینڈ اسٹیٹس: روس، از بکستان، قزاقستان، قرغیزستان، قاذقستان، تا تارستان، آذر بائیجان، ی کرائن، بیلہ روس، لیٹویا، لیتھوینیا، رومانیہ، ترکمانستان.براعظم امریکہ:.امریکہ ، کینیڈا، گیانا، ٹرینیڈاڈ، سرینام، برازیل، ڈومینیکن آف ریپبلک، گوئٹے مالا، ارجنٹائن، گاڈی لوپ، بیٹی، جمیکا، مارتیق ، ٹو بیگو، فیرو آئی لینڈ، ویت نام، لاؤس، گریناڈا، میکڈونیا، کیوبا، سینٹ کٹس، جبرالٹر ، بہاماز، سینٹ ونٹ، برمودا، بولیویا، سینٹ مارٹن، وینزویلا، نکاراگووا،
635 ایل سکواڈور.براعظم افریقہ:.غانا، نایجیریا، سیرالیون، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، لائیبر یا، بین، کینیا، تنزانیہ، یوگنڈا، زیمبیا ، زمبابوے، زائر ، ماریشس، ساؤتھ افریقہ، سینیگال، بورکینا فاسو، ملاوی ، موروز ، مالی، گنی بساؤ، موریطانیہ، ٹوگولینڈ ، روانڈا، برونڈی، انگولا، تیونس، نائیجر گئی ، مڈغاسکر،صومالیہ، کیمرون، مراکش، الجزائر، سوڈان، ایتھوپیا، کانگو، موزمبیق ، گیون الجیریا، مصر، بوٹسوانہ سنٹرل افریقن ریپبلک، جزائرکموروز ، کیپ ورڈ، ویسٹرن صحارا، سوازی لینڈ، سیشلز ، سباح، ری یونین، مایوٹی، نمیبیا، بچیلین، ایر بیٹریا، چاؤ گئی ایکواٹوریل، گئی کنا کری، کانگوکنشاسا،ساؤ تو مے، کانگو برازیلوی.یورپ :.حکیم ، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، ناروے، سوئٹزرلینڈ ، سویڈن ، سپین، برطانیہ، آئرلینڈ، یوگوسلاویہ، آسٹریا، پولینڈ، پرتگال، یونان، اٹلی ، روس، فن لینڈ لکسمبرگ، منا کو، نیوسیلیڈونیا، سربیا، ترکی ، سلووینیا، کسووو، ایسٹ لینڈ، چیک ریپبلک، سائپرس ، بلغاریہ، بوسنیا، اندورا، البانیہ، مالٹا، نیومیسیڈونیا، ہنگری، آئس لینڈ ، کروشیا، سیر نیو، پغاؤ جزیرہ.جزائر بحر الکاہل بشمول براعظم آسٹریلیا:.آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، نجی، وسیٹ سمووا، طوالو، ٹونگا کیری باس، نورو ، سالمن زائر ، وانتو لی ، وانا طو، مارشل آئیسلینڈ ، پاپوانیوگنی ، پیلو، کر دیہاتی.تراجم قرآن کریم حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بعثت کا اصل مقصد ہی قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت تھا.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم سے آپ کو عشق کی حد تک دلچسپی اور لگاؤ تھا.چنانچہ آپ نے فرمایا:.سے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی جماعت احمدیہ عالمگیر خدا کے فضل سے دنیا کی 20 زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم شائع کرنے کی سعادت پا چکی ہے.مزید ۱۶ زبانوں میں تراجم قرآن زیر طبع ہیں.اور ۱۲ زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمہ کا کام جاری ہے.اور پروگرام یہ ہے.کہ سوز بانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم تفسیری نوٹس کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیئے جائیں.( جماعت احمدیہ ترقی کی شاہراہوں پر ص ۱۶، ۲۰۱۰،۱۷ء) قرآن کریم کے مکمل ترجمہ کے علاوہ ایک سو سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کی منتخب آیات کا ترجمہ
636 شائع ہو چکا ہے.جن زبانوں میں مکمل طور پر قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.ان کی تفصیل حسب ذیل.وں مکمل طور پر آ کر مہاراجہ شائع ہو چاہے کی تصیل حسب ذیل ہے.ا.ڈچ ۲.سواحیلی ۳.جرمن ۴.انگلش ۵.اردو ۶.ڈینش ے.انڈونیشن.یوروبا و گرمکھی ۱۰.اسپرانٹو 11.لو گنڈا ۱۲.فرینچ ۱۳.اٹالین ۱۴.جیئن ۱۵.ہندی ۱۶ رتین ۱۷.جاپانی ۱۸.کیکوئی ( کینیا ) ۱۹.کورین ۲۰.پرتگیز ۲۱.سپینش 1-Dutch-1953 2-Kiswahili-1953 3-Grrman-1954 | 4-English-1955 5-Urdu-1957 -6-Danish-1967 7-Indonesian-19709 | 8-Yoruba-1976 9-Gurmukhi-1983 10-Esperanto-1970 11- Luganda-1984 12- French-1985 13- Italian-1986 14-Fijian-1987 15-Hindi-1987 16- Russian-1987 17- Japanese-1988 18- Kikuyu-1988 19- Korean-1988 | 20- Portuguese-1988 21- Spanish-1988
637 22- Swedish-1988 23- Greek-1989 24- Malay-1989 | 25- Oriya-1989 26- Persian-1989 27- Punjabi- 1989 | 28- Tamil-1989 | 29- Vietnamese-1989 | 30- Albanian-1990 | 31- Assanmese-1990 32- Bengali-1990 33-Chinese-1990 34- Czech- 1990 | 35-Gujrati-1990 36- Igbo-1990 | 37- Mende-1990 38- pashtu- 1990 39- Polish-1990 40- Saraeiki-1990 |41- Turkish-1990 | 42- Tuvaluan-1990 | 43- Bulgarian-1991 |44- Malayaiam-1991 ۲۲.سویڈیش ۲۳.یونانی ۲۴.مالی ( ملائیشیا) ۲۵.اور ریا (انڈیا) ۲۶.پر مین ۲۷.پنجابی ۲۸.تمالی ۲۹.دینا میز ۳۰.البانین ۳۱.آسامی (انڈیا) ۳۲.بنگالی ۳۳.چائینز ۳۴.چیک ۳۵.گجراتی ۳۶.اگبو ۳۷.مینڈے (سیرالیون) ۳۸ پشتو ۳۹.پوش ( پولینڈ ) ۴۰.سرائیکی ۴۱.ترکی ۴۲ طوالو ۴۳.بلغارین ۴۴.ملائیم ( انڈیا )
638 | 45- Manipuri-1991 -46- Sindhi-1991 47- Tagalog-1991 48- Telugu-1991 49- Hausa-1992 -50- Marathi-1992 -51- Norwegian-1996 52- Kashmiri-1998 | 53- Sundanese-1998 54- Nepali-2001 55- Jula-2002 56- Kiaamba-2002 |57- Catalan-2003 58- Creole-20034 -59- Kannada-2004 60- Uzbek-2005 61- Morre-2006 62- Fula-2007 -63- Mandinka-2007 64- Wolof-2007 | 65- Bosnian-2008 66- Kyrgyz-2008 167- Thai-2008 ۴۵ منی پوری ( انڈیا ) ۴۶.سندھی ۴۷.ٹاگالوگ ( فلپائن ) ۴۸.تلگو ( انڈیا ) ۴۹.ہاؤسا ( نائیجیریا) ۵۰ - مرہٹی (انڈیا) ۵۱.نارویجیئن ( ناورے) ۵۲ کشمیری ۵۳.سنڈانی (انڈونیشیا) ۵۴.نیپالی ۵۵.جولا ۵۶.کیکانبا ۵۷ کینالان ۵۸.کربول ۵۹.کیناڈا ۶۰- از یک ۶۱ مورے ۶۲ - فولا ۶۳.مانڈنکا ۶۴.وولف ۶۵.بوز نین ۶۶ - قرغیزی ۶۷.تھائی
639 ۶۸ - مالاگاسی ۶۹.اشانٹی ۷۰.پرتگیز کریول -68- Malagasy-2008 69- Asante Twi-2009 70- Purtugues creole-2010 از ماہنامہ تحریک جدید ستمبر ۲۰۰۹ء) تراجم قرآن کریم کے متعلق غیروں کے تاثرات 66 رسالہ ” المنبر نے اپنی ۲ مارچ ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں لکھا:.غیر مسلم ممالک میں قرآنی تراجم اور اسلامی تبلیغ کا کام صرف اس اصول نفع رسانی کی وجہ سے قادیانیت کی بقاء اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے.ایک عبرت انگیز واقعہ ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوا.۱۹۵۴ء میں جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ میں علم اور مسائل اسلامی کے دل بہلا رہے تھے اور تمام مسلم جماعتیں قادیانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھیں.قادیانی عین انہی دنوں اور بعض دوسری غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ قرآن کریم مکمل کر چکے تھے اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدرحکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان اور جسٹس منیر کی خدمات میں یہ تراجم پیش کئے.گویا وہ بزبان حال و قال کہہ رہے تھے.کہ ہم میں وہ غیر مسلمان اور خارج از ملت اسلامیہ جماعت جو اس وقت جبکہ ہمیں آپ لوگ کا فرقرار دینے کے لئے پر تول رہے ہیں.ہم غیر مسلموں کے سامنے قرآن کریم ان کی مادری زبان میں پیش کر رہے ہیں.غور فرمائیے کہ ان لوگوں کا تاثر کیا ہوگا اور قادیانیوں کا یہ کام ان کی زندگی اور ترقی میں کس قد رمد و معاون ہے.“ اس شمارہ میں مزید تحریر کرتے ہیں :.قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جو ہر موجود ہیں.اولین اہمیت اس جدو جہد کو حاصل ہے.جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں.یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں.تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں.سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں.ان ممالک میں مساجد بناتے ہیں اور جہاں کہیں بھی ممکن ہو اسلام کو امن اور سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں.“ المنبر ۲ مارچ ۱۹۵۶ء بحوالہ اشاعت اسلام زمین کے کناروں تک ) جماعت احمدیہ کی یہ مساعی اور اس کے شیریں ثمرات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں.خدا تعالیٰ نے بالکل آغاز میں جو وعدے حضرت بانی سلسلہ کے ساتھ کئے تھے آج خدا کے فضل سے وہ
640 تمام وعدے حرف بحرف پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں.خدا تعالیٰ کی اس تائید و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:..یه سراسر فضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگاہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خُدا جانے کہاں پھینک دی جاتی غبار پر اس قدر مجھ ہوئیں تیری عنایات و کرم که تا روز قیامت ہو شمار ہے جن کا مشکل اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا قادیان بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر بار کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد لیکن اب دیکھو کہ چرچا کس قدر ہے ہر کنار اُس زمانے میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مرور روزگار پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا میرا کیسا ہوا کس طرح سرعت سے شہرت ہو گئی درہر دیار اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذاب کی کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر ہے میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار پر میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں ہر عدو پر تحجبت حق کی پڑی ہے ذوالفقار آنکھ رکھتے ہو ذرا سوچو کہ یہ کیا راز ہے کس طرح ممکن ہے کہ وہ قدوس ہو کاذب کا یار ہر قدم (از در تمین)
641 باب پانزدهم جماعت احمدیہ اغیار کی نظر میں اور جماعت احمدیہ کا مستقبل
642
643 شاعر مشرق علامہ اقبال: پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں.“ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظرص ۱۸،۱۷ مطبوعہ مرغوب احسنی مترجم مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار اخبار.لاہور ) جناب مولا نا محمد علی جو ہر ایڈیٹر ہمدرد اخبار دہلی: ناشکر گزاری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر تو جہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اور مسلمانوں کی تنظیم و تجارت میں بھی انتہائی درجہ سے منہمک ہیں اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمات اسلام کے بلند بانگ و در باطن پیچ دعاوی کے خوگر ہیں.مشعل راہ ثابت ہو گا.جن اصحاب کو جماعت قادیان کے اس جلسہ عام میں جس میں مرزا صاحب موصوف نے اپنے عزائم و طریق کار پر اظہار خیالات فرمایا.شرکت کا شرف خاص ہوا وہ ہمارے خیال کی تائید کئے بغیر نہیں رہ سکتے.“ (اخبار ہمدردی دہلی ۲۶ ستمبر ۱۹۲۷ء) جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی سجادہ نشین نظام الدین اولیاء نے اپنی کتاب مسلمان مہارانا‘ میں لکھا:.اگر چہ میں قادیانی عقیدہ کا نہیں ہوں.نہ کسی قسم کا میلان میرے دل میں قادیانی جماعت کی طرف ہے.لیکن میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ قادیانی جماعت اسلام کے حریفوں کے مقابلہ میں بہت مؤثر اور پر زور کام کر رہی ہے.“ ( بحوالہ الفصل ۳۱ رمئی ۱۹۲۷ء) جناب مولا نا عبد الحلیم صاحب شر لکھنوی ایڈیٹر ” دلگداز“ لکھتے ہیں:.آجکل احمدیوں اور بہائیوں میں مقابلہ و مناظرہ ہو رہا ہے اور با ہم رد و قدح کا سلسلہ جاری ہے.مگر دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ احمدی مسلک شریعت محمدیہ کو اسی قوت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے.اور بہائی مذہب شریعت عرب (اسلام) کوای منسوخ شده
644 غیر واجب الاتباع دین بتاتا ہے خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کو مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی سچی اور پُر جوش خدمت ادا کرتے ہیں دوسرے مسلمان نہیں.“ رساله دلگداز لکھنو ماہ جون ۱۹۲۶ء) 66 جناب مولانا ظفر علی خاں صاحب ظفر ایڈیٹر اخبار ”زمیندار لا ہور لکھتے ہیں:.”ہم مسلمانوں سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں اپنے دین مقدس کو پھیلانے کے لئے کیا جدو جہد کر رہے ہیں.ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان آباد ہیں.کیا ان کی طرف سے ایک بھی تبلیغی مشن مغربی ممالک میں کام کر رہا ہے؟ گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں.کیا ندوۃ العلماء میں ، دیو بند، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ بھی تبلیغ واشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں.نیز فرمایا: ” مسلمانان جماعت احمد یہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں.جو ایثار، کمر بستگی ، نیک نیتی اور توکل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے.وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت افزائی اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے، جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اس الوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت اسلام کر کے دکھا دی.“ (اخبار زمیندار لاہور ۲۴ / جولائی ۱۹۲۳ء) " اخبار زمیندار لاہور دسمبر ۱۹۲۶ء) اخبار بندے ماترم “ میں لکھا ہے:.احمدی لوگ تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس اور مسلسل تبلیغی پروگرام پر کام کرنے والے ہیں.ان کی تبلیغی جد و جہد اس وقت ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچارہی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ احمدی لوگ ہندو جاتی کے سب سے زیادہ خوفناک حریف ہیں.ہمیں ان کی طرف سے ہرگز غافل نہ رہنا چاہئے.اس ضروری بات کو پھر ایک دفعہ بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ احمد یہ جماعت ایک نہایت زبردست منظم اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والی جماعت ہے احمدیوں کی عورتیں ہمارے مردوں سے بازی لے گئیں.“ (بندے ماترم ۱۸ ستمبر ۱۹۲۷ء) روزنامہ نوائے وقت لاہور میں لکھا ہے:.افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی جماعت بطور مشنری کام کر رہی ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہے.(۲ اپریل ۱۹۶۰ء) انسائیکلو پیڈیا برٹیز کا میں لکھتا ہے:.” جماعت احمدیہ کا ایک وسیع تبلیغی نظام ہے.نہ صرف ہندوستان میں بلکہ مغربی افریقہ ماریشس
645 اور جاوا میں بھی.اس کے علاوہ برلن شکا گو اور لنڈن میں بھی ان کے تبلیغی مشن قائم ہیں.ان کے مبلغین نے خاص کوشش کی ہے کہ یورپ کے لوگ اسلام قبول کریں اور اس میں انہیں معتد بہ کامیابی بھی ہوئی ہے.ان کے لٹریچر میں اسلام کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جونو تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے باعث کشش ہے اور اس طریق پر نہ صرف غیر مسلم ہی ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں بلکہ ان مسلمانوں کے لئے بھی یہ تعلیمات کشش کا باعث ہیں، جو مذہب سے بے گانہ ہیں عقلیات کی رو میں بہہ گئے ہیں.ان کے مبلغین ان حملوں کا دفاع بھی کرتے ہیں جو عیسائی مناظرین نے اسلام پر کئے ہیں.“ ”ہماری زبان‘ علی گڑھ نے لکھا:.(انسائیکلو پیڈیا برٹین کا مطبوعہ ۱۹۴۷ء جلد ۲ ص ۷۱۱ - ۷۱۲ ) موجودہ زمانہ میں احمدی جماعت نے منظم تبلیغ کی جو مثال قائم کی ہے وہ حیرت انگیز ہے.لٹریچر، مساجد و مدارس کے ذریعہ سے یہ لوگ ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے دُور دُور گوشوں تک اپنی کوششوں کا سلسلہ قائم کر چکے ہیں.جس وجہ سے غیر مسلم جماعتوں میں ایک گونہ اضطراب پایا جاتا ہے.کاش دوسرے لوگ بھی ان کی مثال سے سبق لیتے (ہفت روزہ ”ہماری زبان، علی گڑھ ۲۳ دسمبر ۱۹۵۸ء) جماعت احمدیہ کا مستقبل کسی بھی قوم یا جماعت کے مستقل کا اندازہ اس کے ماضی اور حال کے آئینہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے.جماعت احمدیہ کے زندہ ماضی اور تابندہ حال کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا چکا ہے جس کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے مستقبل کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے.حضرت بانی سلسلہ جماعت احمدیہ کے روشن مستقبل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.ا.اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا.اور حجت و برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرادر کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائیگی.( تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲ ص ۶۶) ۲.خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے :.أَنَا الْفَتَّاحُ افْتَحُ لَكَ.تَرَىٰ نَصْرًا عَجِيْبًا وَيَخِرُّونَ عَلَى الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا إِنَّا كُنَّا
646 خَاطِئِينَ.جَلَابِيبُ الصِّدْقِ.فَاسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ.اَلْخَوَارِقُ تَحْتَ مُنْتَهَى صِدْقِ الَا قدَامِ كُنْ لِلَّهِ جَمِيعًا وَمَعَ اللهِ جَمِيعًا.عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبَّكَ مُقَامًا مَّحْمُودًا.(ترجمہ: یعنی میں فتاح ہوں تجھے فتح دوں گا.ایک عجیب مدد تو دیکھے گا اور منکر یعنی بعض اُن کے جن کی قسمت میں ہدایت مقدر ہے اپنے سجدہ گاہوں پر گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش ہم خطا پر تھے.یہ صدق کے جلابیب ہیں جو ظاہر ہوں گے سوجیسا کہ تجھے حکم کیا گیا ہے استقامت اختیار کر.خوارق یعنی کرامات اُس محل پر ظاہر ہوتی ہیں جو ان انتہائی درجہ صدق اقدام کا ہے.تو سارا خدا کے لئے ہو جا.تو سارا خدا کے ساتھ ہو جا.خدا تجھے اُس مقام پر اٹھائے گا جس میں تو تعریف کیا گیا ہے.) اور ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت دکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اب اے مولویو! اے بخل کی سرشت والو! اگر طاقت ہے.تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھلاؤ.ہر ایک قسم کے فریب کام میں لاؤ اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو.پھر دیکھو کہ آخر خد تعالی کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا.والسلام عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - ( تبلیغ رسالت جلد دوم ص ۹۲) ۳.فرمایا ” چند روز ہوئے کہ خداوند کریم کی طرف سے ایک اور الہام ہوا تھا:.قُلْ اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي يُحْيِيكُمُ اللَّهُ إِنِّي مُتَوَفِيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ.وجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.وَقَالُوا أَنَّى لَكَ هَذَا.قَالَ هُوَ اللهُ عَجِيْبٌ يَحْبَتَبِى مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَا وِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ.ترجمہ:.کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے گا.میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا.اور میں تیرے تابعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا.لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا؟ کہ وہ خدا عجیب ہے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چن لیتا ہے.اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں.اور یہ آیت وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ بار بار الہام ہوئی اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے.اور اس قدر زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہو گئی.اس سے یقینا معلوم ہوا کہ خدا وند کریم ان سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا.اور ان کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا.اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم
647 مارے.اور جو مخالف قدم مارے گا اس کو خدا تباہ کرے گا.اور اس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی.یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہر گز تخلف نہیں کرے گا.(تذکرہ ص۶۲) ۴.پھر فرمایا بار بار کے الہامات مکاشفات سے جو ہزار ہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کر دوں گا اور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب ہوگی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی کو ظاہر کروں گا.اور یادر ہے کہ یہ الہامات اس واسطے نہیں لکھے گئے کہ ابھی کوئی ان کو قبول کر لے.بلکہ اس واسطے کہ ہر یک چیز کے لئے ایک موسم اور وقت ہے.پس جب ان الہامات کے ظہور کا وقت آئے گا تو اس وقت یہ تحریر مستعد دلوں کے لئے زیادہ تر ایمان اور تسلی اور یقین کا موجب ہوگی.والسلام على اتبع الهدی (انوار الاسلام ص ۵۲-۵۴) ۵.فرمایا " یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا.اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی.اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے.کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوئی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کر ے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی.اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا.مگر وہ سب لوگ جوا خیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخرفتحیاب ہوں گے.اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.“ ( الوصیت ص۴۳).میں امید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے جو میں اس دنیا سے گذر جاؤں میں نے اپنے اس حقیقی آقا کے سوا دوسرے کا محتاج نہیں ہوں گا.اور ہر ایک دشمن سے مجھے اپنی پناہ میں رکھے گا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ أَوَّلاً وَاخِرًا وظَاهِرًا وَ بَاطِنَّا هُوَ وَلِيٌّ فِى الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَ هُوَم نِعْمُ الْمَوْلَىٰ وَ نِعْمُ النَّصِير - اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا اور وہ مجھے ہرگز ہر گز ضائع نہیں کرے گا اگر تمام دنیا میری مخالفت میں در دندوں سے بدتر ہو جائے تب بھی وہ میری حمایت کرے گا.میں نامرادی کے ساتھ ہرگز ہرگز قبر میں نہیں اتروں گا کیونکہ میرا خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں اور میرے اندرون کا جو اس کو علم ہے کسی کو بھی علم نہیں.اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا جو میرے رفیق ہوں گے.نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے بات
648 بگڑ جائے گی اور سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا.مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پا چکازمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے.میرے خدا کے آگے زمین و آسمان کا نپتے ہیں.خدا ہی ہے جو میرے پر اپنی پاک وحی نازل کرتا ہے.اور غیب کے اسرار سے مجھے اطلاع دیتا ہے.اس کے سوا کوئی خدا نہیں اور ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ کو چلا دے اور بڑھاوے اور ترقی دے.جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کر کے نہ دکھلا دے.ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگاوے.اور پھر دیکھے کہ انجام کار وہ غالب ہوا یا خدا.پہلے اس سے ابو جہل اور ابولہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لئے کیا کیا زور لگائے تھے مگر اب وہ کہاں ہیں؟ وہ فرعون جو موسیٰ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اب اس کا کچھ پتہ ہے؟ پس یقیناً سمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہوسکتا.وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرا ہے بد قسمت وہ جو اس کو شناخت نہ کرے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ ص ۱۲۸.۱۲۹) ے.فرمایا: ” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا.اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام دنیا میں پھیلائے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی.اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مشت خاک کو اس نے باوجودان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا عجب دارم از لطفت اے کردگار پذیرفته پسندید گانے بجائے چو من خاکسار چوں رسند زما کهترانت آمد چه پسند از قطره خلق پیدا کنی ہمیں عادت اینجا ہویدا کنی تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹-۴۱۰) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ وَصَلَّ عَلَيْهِ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.