Jamaat-eIslami Par Tabsra

Jamaat-eIslami Par Tabsra

جماعت اسلامی پر تبصرہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

جماعت اسلامی بیسیوں صدی کی وہ تحریک ہے جو اپنی روح کے اعتبار سے خالص سیاسی، نمائش کے اعتبار سے مذہبی، اور اپنی رنگینی مزاج کی وجہ سے ادبی تحریک تھی۔ زیر نظر کتاب میں مولانا موصوف نے جماعت اسلامی پر ادبی، مذہبی اور سیاسی گوشوں  اور پہلوؤں پر تبصرہ کیا ہے جو مولانا موصوف کی جلسہ سالانہ ربوہ 1957ء کے موقع پر کی جانے والی تقریر تھی۔ کاتب کی لکھائی میں تیار ہونے والا یہ مختصر کتابچہ مہتمم نشر و اشاعت نظارت اشاعت لٹریچر  صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا شائع کردہ ہے۔


Book Content

Page 1

جماعت اسلامی ب التاشير هستم نشرو اشاعث صمد امین احمدیه بود (پاکستان)

Page 2

پہلے اسے دیکھئے معزز قارئین سے بادب درخواست هے که وه زیر نظر رسالہ مطالہ کرنے سے قبل مندرجه ذیل اغلاط کی تصیح کرکے رہین منت فرمائیں صفحه | سطر غلط 1 ۱۲ حفلوں سحر نگاری محفلوں نگاری اور سحر گشت کها رها گردش کر رها جماعت ۰۱۹۳۱ حکومت مجسمه هو ۱۹۴۳ گم گشته نقشه گم گشته اکابر جماعت اکابر جماعت اسلامی وڈ نے ۳۱ ان اس له له بخشی بخشتی ۴۵ نام اپنی ابدی

Page 3

جماعات الاوربیست مولوی دوست محمد صاحب شاہد پر جال سا لروي هواء الناشر تم شر اشاعه صيد الحمن احمد ربوة

Page 4

لله الرحمن الرحيد و تمرة وتصلى على رسول الكريم وعلى عبد المسلم الموجود کے فضل اور رکے تھے تاخير جماعت اسلامی بیسویں صدی کی وہ تحریک ہے ، جو اپنی روح کے اعتبار سے خالص سیاسی نمائش کے اعتبار سے مذہبی اور رنگینی مزاج کے اعتبار سے ایک ادبی تحریک ہے.اس لئے اس پر تبصرے کے گوشے اور پہلو بھی کئی ہیں.ادنی سیاسی اور مذہنی جہاں تک ادبی نقطہ نظر کا تعلق ہے.اس کا حقیقی في ادبی نقطۂ نظر کا مقام ہمارا دینی پلیٹ فارم نہیں.ادبی مغلوں اور مشاعروں کی پر کہا رفضا ہے.لیکن ارباب سخن کے لئے صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شیر گاری شعلہ بیانی بلاشبہ عظیم الشان نعمتیں ہیں مگر ان کی تقسیم میں قسام ازل کی طرف سے شہنشاہ اور فقیر برما یہ وائر

Page 5

اور مزدور مسلمان اور کافر کا کوئی امتیاز نہیں برتا گیا.اس لئے محض قلم کی روانی تحریر کے تیکھا پن، الفاظ کی مرصع کاری، بندشوں کی چیتی محاوروں کا طلسم اور اندازِ بیان کی شگفتگی میں گم ہو کے رہ جانا ہمیشہ حقائق سے محرومی کا باعث ہوتا ہے.ہمیں ادبی لحاظ سے " تحریات اسلامی کا مطالعہ ذہنی تفریح کے لئے تو مغیرہ ہے.حق و صداقت " کی تلاش میں سود مند نہیں.ملکہ میں کہتا ہوں کہ اگر اس تحریک کے نقیب و داعی بستہ آفرینی میں غالب سلامت میں چالی، طنزیات میں اکبر مرثیہ گوئی میں انہیں دوبیر غزل گوئی میں میر تھی اور افسانہ نویسی میں منٹو ہوتے تو کیا ہم ان کے نظریات اور دعا دمی پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتے ؟ مگر یہاں تو ایسا بھی نہیں ہے.اور تو اور اس جماعت کے قابل احترام بانی اگر چہ اپنے مخصوص انداز تحریر کے باعث مانا پھر میں ایک ممتاز شخصیت نہیں دتی کے ایک مشہور علمی خاندان میں پیدا ہوتے، اپنی ماحول میں پروان چڑھے.اور اسی دشت کی سیاحی میں آج عمر کی ہمہ دیں بہار دیکھ رہے ہیں مگر اس دور کے بعض اجلہ عصر کا دجنہیں حضرت امیر مینائی سے براہ راست شرف تلمذ حاصل ہے یہ کہنا ہے کہ آپ کے قلم نے کئی ایک مقامات پر ایسی ایسی نفرتیں کھائی ہیں کہ حیرت آتی ہے لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا ہے ادبی حیثیت سے جماعت اسلامی اور اس کی تحریک پر روشنی ڈالنے کا یہ موقعہ نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے.سیاسی نقطہ نظر کو جہاں تک سیاسی پہلو کا تعلق ہے.مولانا شیخ روشن دین تنویر اور جماعت کے

Page 6

دوسرے اہل قلم بزرگوں کو فرائع نے یہ توفیق بخشی.کہ انہوں نے تحریک اسلامی کے خالص سیاسی عزائم سے باسی عزائم سے نقاب سرکانے ہوئے آن کھتے خدو خال اس وقت نمایاں کر کے دکھائے جبکہ عوام ہی نہیں.منبر و محراب تک اسے اقامت دیں کی تحریک سمجھے بیٹھے تھے.ابتدائی ان کی آواز نقار خانہ میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی.لیکن اب اسی آواز نے خود جماعت اسلامی میں ایک زلزلہ بیا کر دیا ہے او ر پچھلے اور دنوں تو اس کے بعض بڑے بڑے لیڈر جماعت اسلامی سے اس بنا پر علیحدگی اختیار کو چکے ہیں کہ مولانا مودودی مذہب کا نعرہ لگا کہ قوم کو سیاست کے خاردار جنگلات میں آگے ہی آگے لے جارہے ہیں اور دین کی مہم بہت پیچھے رہ گئی ہے.بالفاظ دیگر دیسکی کا نام میخانہ سیاست میں آب زمزم کے نام پر گشت کھا رہا ہے.بچنا نچہ مولانا مودودی صاحب کے دست راست اور جماعت اسلامی کے قدیم ترین راہ نما امین احسن اصلاحی (جو حال ہی میں اس تحریک سے کنار کشش ہوتے ہیں) اپنے ایک عبت انگیز میں بیان میں فرماتے ہیں کہ : جو اصحاب ان میں میرے ہمراہ جماعت اسلامی سے منسلک ہوئے تھے ان میں سے دور ایک اصحاب بطور تبرک ابھی تک اس جماعت سے منسلک ہیں باقی سارے دیرینہ کارکن یکے بعد دیگرے علیحدہ ہو چکے ہیں.میں نے سولہ سال کے بعد ایک گم کردہ راہ قافلہ کا ساتھ چھوڑا ہے.اور اب ایک صحرا میں کیس کر کے سہار نے تنہا کھڑا ہیں.

Page 7

اور در اصل جماعت اسلامی کا مقصود اور مطمح نظر سیار محض سیاست ہے جیسا کہ جماعت کے بانی کا اپنا اعتراف ہے: به یه مدرسی تبلیغ کرنے والے واعظین اور بیشترین کی جماعت نہیں بلکہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے.لہذا اس پارٹی کے لئے جاعت کے اقتدار پر قبضہ کئے بغیر کوئی چارہ نہیں" (جہانی ہیں ) حقیقت یہ ہے کہ سیاسی ـ ی غلبہ و استیلاء محض ایک وقتی اور ہنگامی چیز ہے.لیکن اگر محض اسمبلیوں تک پہنچنے کی بات ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی.سر کی جماعت بلکہ ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ جمہوری اصولوں کے مطابق زمام اقتدار سنبھالی کہ ملک و قوم کی خدمت سر انجام کی دے مگر یہاں تو جماعت اسلامی کا پر دینی عقیدہ ہے کہ : اگر کوئی حکومت دستور اسلامی کی ایسی صریح خلاف دیواری کرے جس کی کوئی تاویل ممکن نہ ہو.اور رعایا صالحین کا گروہ منظم ہو.ان کے پاس طاقت موجود ہو.اور اہل ملک کی عظیم اکثریت ان کے ساتھ ہو.یا کم از کم ظن غالب ہو جدد جهد شروع ہوتے ہی ان کا ساتھ دئے تو اس صورت میں بلا شبہ صالحین کی جماعت کو نہ صرف حق حاصل ہے.بلکہ ان کے اوپر یہ شرعی فرض ہے.کہ وہ طاقت منظم کر کے ملک کے اندر بزور شمشیر

Page 8

انقلاب پیدا کریں.اور حکومت پر قبضہ کر لیں " د اسلامی ریاست من (۳) خود مولانا مودودی کا ارشاد ہے کہ : مسلم پارٹی اور اصلاح عمومی اور تحفظ خودی دونوں کی خاطر ایک طرف اپنے افکارو نظریات کو دنیا میں پھیلائے گی.اور تمام ملک کے باشندوں کو دعوت دیگی کہ اس مسلک کو قبول کریں.دوسری طرف اگر اس میں طاقت ہوگی تو لڑ کر غیر اسلامی حکومتوں کو مٹادے گی.اور ان کی جگہ اسلامی حکومت قائم کرے گی " در ساله حقیقت جهاد) ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مولانا نے ظلم و زباں کے بل بوتے پر سیاست کے اس خونی ڈرامہ میں سرتاج مدینہ نور دو حاظر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شامل کرنے کی ناپاک کو شش کی ہے چنانچہ الجہاد فی الاسلام میرا لکھتے ہیں :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک عرب کو اسلام تیرہ کی دعوت دیتے رہے.وعظ و تلقین کا جو مدثر سے موز انداز ہوسکتا تھا اسے اختیار کی مضبوط دلائل نہ بیٹے واضح بخشیاں پیش کیں.فصاحت و بلاغت اور مہ رخطابت سے لوگوں کے دلوں کو گرمایا.اللہ کی جانب سے محیر العقول معجزے دکھائے اپنے اخلاق اور پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا اور کوئی ذریعہ ایک نہ چھوڑا جو

Page 9

حق کے اظہا واجبات کے لئے مفید ہو سکتا تھا.بین آپ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپ کی صداقت کے روشن ہوتے کے باوجود آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا لیکن جب دعظ و تلقین کی ناکامی کے یں.داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوارلی دلوں سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا.طب حتوں سے فاس کس کو یہ بھی کی روحوں دور كافتير سے پردہ ہٹ کر حق کا نورصات عیاں ہو گیا.بلکہ ابر گردنوں میں رہ سختی اور سروں میں وہ تخت تھی پاتی نہیں رہی.وہ طورچی کے بعد انسان کو آپ کے آگے بھیگنے سے باز رکھتی ہے عرب کی طرح دو کے ممالک نے بھی جو اسلام کو اس سرعت سے قبول کیا.کہ ایک صدی کے اندر چو تھائی دنیا مسلمان ہوگئی.تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پر دوں کو چاک کی کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے جس کے اندر رکوائی اخلاقی تعلیم پنپ نہیں سکتی.ان حکومتوں کے تختے الٹ دیتے جو حق کی قیمن اور باطل کی پشت پنه.تھی.(الجهاز فی الاسلام شتا و مش۱۳ ) له گویا معاذ الله رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مضبوط دلائل ، زور خطابت اور محیر العقول معجزات i

Page 10

کے باوجود ناکام ہوئے.اور تلوار اور فقط تلوار کا میاب ہوئی جیسا کہ اسلام کے رسوا ئے عالم بدترین اور ظالم مخالفوں کا دھوئے ہے کہ : منتجات محمد کے جنرل ایک ہا تھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ ہاتھ میں تلوار لے کر تلقین کرتے تھے نے (دوزی) آپ دیمنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن لے کر مختلف اقوام کے پاس جاتے ہیں" سے دستی جب آپ کی جمعیت بڑھ گئی.تو آپ آپ نے کیا کہ مجھے اُن پر حملہ کرنے اور بزور مشارکر دین حق کے قائم کرنے کی اجازت بل گئی ہے؟ (جاری سیل) کیا ملت بیضا کی پوری تاریخ میں یہ حادثہ کچھ کم درد انگیز ہے که بیسویں صدی مین تحریک اسلامی " کی قیادت کا دعوے کرتے والوں کی تلاش کی گئی تو وہ اسلام کے رفقاء متفقین اور ہمدردان کی بجائے دشمنان اسلام کی صفوں میں پائے گئے سے دوستوں سے اس قدر صدر نے اٹھائے ہم نے دشمنوں سے دشمنی کا سب گلہ جاتا رہا خدا تعالے دین حق کو نادان دوستوں سے بچائے.ت بحوالہ تحقیق الجهاد مصنفہ اعظم یار جنگ مرحوم

Page 11

جماعت اسلامی کے سیاسی عزائم کے متعلق بڑے بڑے انکشافات ہوتے ہیں.مگر میں اس پر مزید کچھ عرض کرنے کی بجائے مذہبی پہلو کی طرف آتا ہوں.اسلامی جماعت کے مذہبی کارناموں کا جائزے بی نقطہ نظر کر لینے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ تیرھویں صدی کے مجدد حضرت سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے دیر میں بالا کوٹ کے مقام پر جام شہادت نوش فرمایا.اور ساتھ ہی نظام اسلامی کا صحیح نقشہ بھی مد شہید کیا گیا.اور پھر مغربی اور مشرقی تحریکوں کی اسلام پر زبردست ام پر زبردست یلغار کے نتیجہ میں ایسے ایسے باریک اور پیچیدہ مسائل پیدا ہو گئے.کہ اسلام کا.چودہ سو سالہ لٹریچر با لکل غارت ہو گیا.اور خدا کی طرف سے ہرایا ہے والے مامور کے سوا امکان ہی نہ رہا.کہ کوئی شخص محض اپنے ذاتی اجتہاد سے خواہ وہ گزشتہ محد دین امت میں سے کیوں نہ ہو ان بدلے ہوئے حالات میں امت کی راہ نمائی کرتے ہیں کامیاب ہو سکتا ہے.چنانچہ مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ اس دور میں تجدید دین کے لئے صرف علوم دینیہ کا احیاء اور اتباع شریعت کی روح کو تازہ کر دینا ہی کافی نہیں تھا.بلکہ ایک جامع اور ہمہ گیر اسلامی تحریک کی ضرورت تھی.نیز تجدید کا کام تمئی اجتہادی قوت کا طالب تھا.محض وہ اجتہادی بصیرت جو شاہ ولی اللہ صاحب یا ان سے پہلے مجتہدین

Page 12

و محمد دین کے کارناموں میں پائی جاتی ہے.اس وقت کے کام سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کافی نہیں تھی.ا (تجدید احیائے دین مدی) یہ زمانہ بالکل بدل چکا تھا.اور علم وعمل کی دنیا میں اس عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا کہ جس کو خدا کی نظر تو دیکھ سکتی تھی.مگر کسی غیر ہی انسان کی نظر میں یہ طاقت نہیں تھی.کہ قرنوں اور صدیوں کے پردے اٹھا کر ان مسائل تک پہنچے ہیں " " تنقیحات مشا) نیز لکھا:." اکثر لوگ اقامت دین کی تحریک کے لئے کسی ایسے مرد کامل کو ڈھونڈتے ہیں ، جو ان میں سے ایک ایک شخص کے تصور کمال کا مجسمہ اور جس کے سارے پہلو توی ہی قوی ہوں.کوئی پہلو کمزور نہ ہو.دو سے الفاظ میں یہ لوگ در اصل نبی کے طالب ہیں.اگر چہ زبان سے ختم نبوت کا اقرار کرتے ہیں.اور کوئی اجرا نے نبوت کا نام بھی نے دہے.تو اس کی زبان گدی سے کھینچنے کے لئے تیار ہو جائیں مگر اندر سے ان کے دل ایک نبی مانگتے ہیں.اور نبی سے کم کسی پر راضی نہیں ہیں کہ اس کی قیادت میں دین کی اقامت کے لئے جدو جہد کریں.(مسلمان ۲۸ فروری تکیه)

Page 13

چنانچہ اس نازک ترین دقت اسلامی حکومت کا شاندار تصویری میں اللہ تعا لئے نے سیدنا حضرت مسیح میخود علیه الصلواة والسلام کو مبعوث فرمایا.آپ نے خدا.کے محکمہ سے ایک عظیم الشان اسلامی جماعت کی بنیاد رکھی.اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ احیاء اور تجدید کا شاندار تصور پیش کرتے ہوئے دار یا اعلان فرمایا که دهد.خدا چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو جید کی طرف کھینچے.اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہیں.سو تم اس مقصد کی پیروی کرد مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے " سے (الوصیت) یہ اسی ولولہ انگیز اعلان کا نتیجہ تھا کہ آپ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے النصرہ العزیز نے شعراء میں ملین اس وقت جبکہ فرنگی نظام کی پوری شیری جماعت احمدیہ کے مقدس اہم ور مقدس مرکز کے خلاف حرکت میں آ رہی تھی.ایک رپھر یہ منادی کی که در سوائے ان باتوں کے حین میں حکومت ہمارا ہم تھے روک دیتی ہے اد نے اسے اونے اسلامی حکم جاری

Page 14

18 کرتا اور اسلامی حکومت کا ہر نقشہ دنیا میں قائم کر دیا ضروری ہے.ہم نے تو کبھی....یہ بات نہیں چھپائی کہ ہم دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنا بکہ ہم کھلے طور پر کہتے ہیں کہ ہم اسلامی ہم کومت دنیا میں قائم کر کے رہیں گے انشاء اللہ) ہم جس چیز کا انکار کرتے ہیں.وہ یہ ہے کہ تلوار رفتنہ و فساد کے دور سے سجر اسلامی حکومت قائم نہیں کرینگے.بلکہ دلوں کو فتح کرکے اسلامی حکومت قائم کریں گے " (الفضل ۱۸ مارچ کنم گم گشته نقشہ اور اس کے نکات امام عصر حضرت سعدة سیح موعود میر صادم السلام نے صرف یہ تحرہ ہی بلند نہیں کیا.کہ میں اسلام کی نشاہ ثانیہ کے لئے آیا ہوں بلکہ آپ نے اسلام کو شریا سے لاکر وہ گھر گشتہ بھی عطا فرمایا جس پر مستقبل میں اسلام کا عالمگیر نظام قائم ہونے والا تھا.اور جس کے چند بنیادی نکات یہ ہیں : (1) اسلامی نظام کی اساس قرآن مجید ہے.ہو خدا کا زندہ اور ابدی کلام ہونے کی وجہ سے ہر چیز پر مقدم ہے.(۲۳) قرآن مجید کے بعد سنت رسولی کا مقام ہے.جو آپ کی مخصوص صطلاح میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش سے تعبیر پاتا ہے.(۳) دست رسول کے بعد ہر اس حدیث نبوی کو پیش نظر رکھنا ضروری

Page 15

ہے جو قرآن و سنت کی روح سے ہم آہنگ ہو خواہ وہ علم روایت کی ریسرچ گیا ہوں میں مجروح ہی کیوں نہ قرار دی گئی ہو.ونی خلفائے اربعہ مجددین ائمہ اربعہ اور دو کے سلف صالحین کی عزت و احترام کرنا ہر مسلم کا فرض ہے.اگر ہر مسلہ میں ان کی تقلید لازم نہیں.البتہ حضرت امام ابو حنیفہ کی شخصیت اپنی بصیرت قوت اجتہاد اور باریک نظری کے باعث سب اللہ دین سے ممتاز ہے.(۵) قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں قیامت تک ہر قسم کی ضرورتوں کے سامان موجود ہیں.اس لئے موجودہ معلوم اور انکشافات سے مشوش ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اسلامی نقشہ کی تفصیوں پر راہنمائی و یہ تو ہے فقط اصول الفقر اس کے بعد تفصیلات کا مرحلہ آتا ہے جس میں آپ نے خدا داد تفقہ اور قوت اجتہاد کے ساتھ اسلامی نظام حیات کے ہرا ہم گوشے پر ایسی زیر درس روشنی ڈالی کہ میں دن ہی چڑہا دیا.دوسری مرسوی فروعی اختلافات جن میں پورا عالم اسلام صدیوں سے بری طرح الجھا ہوا تھا ختم کر دیے.اور ان درات کی پوری توجہ اس بلند نصب العین کی طرف مرکوز کر دی کہ وہ اپنے دل پر قرآنی حکومت قائم کر کے دنیا بھر کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالیں.جن کی گفتش برداری تخت شاہی سے افضل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے آنے والے حالات کا

Page 16

۱۳ اپنی کشفی نگاہ سے نظارہ کرتے ہوئے اپنی وفات سے تین برس پیشتر یہ ہدایت فرمانی که :- اسلام کی خوبیوں کی ایک جامع کتاب تالیف کی جائے جس میں سر سے پاؤں تک اسلام کا پورا نقشہ کھیتی جائے " (بادشاہ) سو آپ کی وصیت کے مطابق حضرت خلیفہ اسیح الثانی الی اللہ د العزیز نے ہمیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں وہ جامع نقشہ بھی پیش کر دیا.یہ نقشہ دنیا کی مختلف زبانوں پر منتقل ہو کر یورپ امریکہ افریقہ ، اور دوسرے ممالک میں بکثرت شلع کیا گیا ہے.اور جماعت کے سر فریش اور رہا نیاز مجاہد ا سے عملی صورت دینے کے لئے دنیا کے گوشے گوشے میں علم اسلام مبند کئے ہوئے : اور ان کی منتظم جدوجہد سے کفر و الحاد کے پرشکوہ قلعے مسمار ہوا ہے ہیں.یہ وہ حیرت انگیز اسلامی فہم ہے جیر کا اقرار خود پچھلے سالی اکابر جماعت کو بھی کرنا پڑا ہے.قادیانیت ا کا پر جماعت اسلامی اور حیرت انگیز اسلامی مهم ؟ نفع رسائی کے جو جو ہر موجود ہیں.ان میں اولیت جد و جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر یہ لوگ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے.ہیں.یہ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں.شکیات کو باطل ثابت کرتے ہیں.سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں.

Page 17

۱۴ ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں.اور جہاں کمیں مکن ہو اسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کی حیثیت.و پیش کرتے ہیں.دالمنیر ۲۳ فروری ۱۹۵۶ در عمی قادیانی تنظیم کا تیسرا پہلو تبلیغی نظام ہے جس نے اس جماعت کو بین الاقوامی جماعت بنا دیا ہے.اس سلسلہ میں یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے.کہ بھارت کشمیر اللہ نیشیا اسرائیل: جرمن، ہالینڈ سوئٹزرلینڈ امریکہ، برطانیہ، دمشق آتا بخیر یا افریقی علاقے اور پاکستان کی تمام قادیانی جماعتیں مرزا محمود احمد صاحب کو اپنا امیر اور خلیفہ تسلیم کرتی ہیں.اور آپ کے علا" دوستے ممالک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں رپوں کی جائدادیں صدر انجمن احمد یہ بیوہ اور صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام وقف کر رکھی ہیں.نام ہے المنیر ۲ پارچ ست) میں جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ میں علم اور اسلامی مسائل سے دل بہلا رہے تھے.اور تمام جماعتیں قادیانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی جدو جہد میں مصروف تھیں.قادیانی میں انہی دنوں ڈیچ اور بعد دوسری غیر کی زبانوں میں ترجمہ قرآن کو مکمل کر چکے تھے اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام تجبر اور جسٹس منیر کی خدمت میں یہ طار " بعض

Page 18

۱۵ تراجم پیش کئے.گویا بزبان حال وقال یہ کہہ رہے تھے کہ ہم ہیں وہ غیر مسلم اور خارج از ملت اسلامیہ جماعت جو آن وقت جگہ آپ ہمیں کا فر قرار دینے کے لئے پر تول رہے ہیں.ہم غیر مسلموں کے سامنے قرآن ان کی مادری زبان میں پیش کر رہے ہیں؟ دالمنیر در اگست (شانه) فطرت کی آواز ؟ یہ تمام حقائق دیکھ کر فطرت بول اٹھتی اسلامی حکومت کے قیام کا دل سے خواہاں ہے.اس کے نتیجے امام عصر کے مقدس دامن سے وابستہ ہوئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رکھو کہ عالمگیر اسلامی حکومت فاشی نظام قائم کرنے اور تخریبی کا رروائیوں سے پیدا نہیں ہو سکتی.بلکہ دلوں کے فتح کرنے سے پیدا ہو سکتی ہے.جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام مبعوث ہوتے تھے مگر افسوس مولانا مودودی نے اس طبعی اور سنت اللہ کے عین مطابق سیدھے سادے طریق کو چھوڑ کر یہ انوکھی راہ تجویز کی.کہ انہوں نے فقیہ شہر کی طرح امام وقت کے لڑیچر سے بائیکاٹ کی بجائے آپ کے لائے ہوئے اسلامی نقشے کا باریک اور تفصیلی مطالعہ کرنے اور ایک حد تک اپنانے کے بعد ۲۵ راگت ساکنہ کو لاہور میں انگ ایک نئی جماعت قائم کرلی اور اعلان کیا کہ : ہے کہ آج جو مسلمان بھی اسلام کی عالمگیر " میں نے ماضی یا مال کے کسی شخص سے دین کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی.بلکہ میں نے اپنا دین براہ راست خدا

Page 19

14 خدا کی کتاب اور رسول کی سنت سے اخذ کیا ہے؟ رکو تر ۱۳ جولائی شکیر) یہ حقیقت مولانا کے عقیدت مندوں کے لئے سب سے زیادہ تلخ اور نا گوار ہے.مگر جب تک مولانا کا لٹریچر موجود ہے.یہ حقیقت محض تلخی کے اظہار سے بدل نہیں سکتی.چونکہ وقت کم ہے.آپ لئے اس امر پر مختصر روشنی ڈالوں گا.پہلا بنیادی تحت حضرت مسیح موعود علی الصلاة والسلام کے لائے ہوئے نقشہ کا پہلا بنیا ہی نکتہ یہ تھا کہ قرآن مجید ہر چیز پر مقدم ہے.چنانچہ آپ نئے فرمایا ایک اور غلطی مسلمانوں کے درمیان ہے.کہ وہ حدیث کو قرآن کریم پر مقدم کرتے ہیں.حالانکہ یہ بات غلط ہے.قرآن شریف ایک یقینی مرتبہ رکھتا ہے.اور حدیث کا مرتبہ ظنی ہے." در ) احمدی اور غیر احمدی میں فرق صفحہ (۱۶) مورود کی صاحب نے لکھا ہے کہ :- صحیح علاج بیجہ اس کے اور کوئی نہیں کہ جس ترتیب کو الٹ دیا گیا ہے اسے پھر سیدھا کر دیا جائے.قرآن کو اپنی پیشوائی کا مقام دیجئے.جو عہد رسالت میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب بہت دیتے تھے " ر ترجمان القرآن جولائی ۱۹۳۳ء)

Page 20

16 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرا بنیادی کر کے ہوئے نقشہ کا دوسرا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ :.محسنت و حدیث کو ایک چیز نہیں قرار دیتے جیا کہ ایسی محدثین کا طریق ہے.بلکہ حدیث الگ چیز ہے سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے" دمی که بر مباحثہ محمد حسین بٹالوی وحید اللہ چکڑالوی) مولانا مودودی نے مسلمانوں کو بتایا کہ : مت اسلامیہ کی عمارت در اصل اس ترتیب پر قائم ہے کہ پہلے قرآن اور پھر رسول اللہ کی نست" (تفہیمات صفحه ۱۱۹) عام لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا بڑا سبب یہ ہے کہ حدیث اور سنت کے فرق سے ناواقفیت ہے ست اس طریقے کو کہتے ہیں جسے حضورتے خود اختیار فرمایا ، اور امت میں اسے جاری کیا....اس کے بر عکس حدیث سے مراد وہ روایات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کیا کیا.اور کس چیز کو کرنے کا حکم دیا.اس لحاظ سے حضور کی پوری زندگی کا طور طریقہ مدت ہے.د نیمه ارمنی شهرداری

Page 21

١٨ تیسرا بنیادی جمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لائے وئے نقشہ کا تیسرا نکتہ یہ تھا.کہ قرآن و سنت کے بعد حدیث کا مرتبہ ہے (احمدی اور غیر احمدی میں فرق ) اور مولانا مودودی نے بھی اپنے لڑیچر میں یہی مسلک اختیار فرمایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام چوتھا بنیادی نکتہ کے لاتے ہوئے نفقہ کا چوتھا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ :- اہل بصیرت اور معرفت...کی اس حد تاب تقلید ضروری ہے جب تک بیدا بہت معلوم نہ ہو کہ اس شخص نے عمر آیا سہواً قرآن اور احادیث نبویہ کو چھوڑ دیا ہے.کیونکہ ایک نظر وقافق تک نہیں پہونچ سکتی.د مجموعہ فتاو نے احمدیہ جاہد اول مره مطبعہ ا ء نیٹر فرماتے ہیں ، در امام ابو حنیفہ اپنی قوت اجتہاد میں ائمہ ثلاثہ تمہیں سے افضل واعلے تھے.ان کی قوت مدرکہ کو قرآن مجید کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی، ایں وجہ سے اجتہاد و استنباط میں ان کے لئے وہ درجہ علیا ہے جون تک پہونچنے میں دوسرے رب لوگ قاصر تھے " (ازالہ اوہام t.(۲۹۲۳) (یاد رہے مولانا مودودی ۲۵ ستمبر کار میں پیدا ہوئے، اور یہ

Page 22

19 کتاب ان کی پیدائش سے بھی دس سال پہلے ۱۹۳ ء کی ہے، مولانا مودودی نے اسے لفظ لفظاً تسلیم کرتے ہوئے اپنی جماعت کو یہ تلقین کی.کہ قرآن اور احادیث کے احکام کے مطابق آپ کو چلانے والے بہر حال انسان ہی ہوں گے.اس لئے ان انسانوں کی اطاعت کے بغیر تو گزارہ نہیں.البتہ ضرورت جس بات کی ہے.وہ یہ ہے کہ آپ انسانوں کے پیچھے آنکھیں بند کر کے نہ چلیں اگر وہ قرآن وحدیث کے مطابق چلائیں.تو ان کی اطاعت آپ پر در فرض ہے" (خطبات طبع مفتم ) خصوصیت کے ساتھ میں فقیہ اعظم کی قانونی بصیرت اور فقیہانہ کنہ سینچی نے سب سے بڑھ کر ان انتشارات کو سمجھا وہ امام ابو حنیفہ ہیں، فقہائے اسلام میں سے کوئی بھی ان معاملہ میں ان کا ہمسر نظر نہیں آتا " (سود) یہاں میں درد بھرے دل سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا مودودی نے احمدیت کی تعلیم کے سراسر خلات اور صلحائے امت کی اتباع واجب قرار دینے کے باوجود گزشتہ مجددین اور ائمہ دین پر بے محابا تنقیدی نشر چلاتے ہیں.اور حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نہم تک کو بڑی بے باکی سے طعن و استہزا کا نشانہ بنایا ہے.چین سے ایک پاکباز اور بچے مسلمان کا جگر پارہ پارہ دل چھلنی اور آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں مثلاً اپنی کتاب از تجدید

Page 23

واحیائے دین" میں حضرت سید احمد بریلوی اور شاہ اسمعیل شہید کے متعلق لکھتے ہیں : ر جب وہ اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لئے اٹھے تھے تو انہوں نے سارے انتظامات کئے.مگر اتنا نہ کیا کہ اہل نظر علما کا ایک وفد یورپ بھیجتے سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح ان بزرگوں کی نگاہ دور رس سے معاملہ کا یہ پہلو بالکل ہی اوجھل ہو گیا.بہر حال ان سے یہ چوک ہوئی یہ ریون)..حضرت مجدد الف ثانی " اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پرافیه استاک حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :- مسلمانوں کے اس مرض (کشف و الہام ناقل) سے نہ حضرت مجدد صاحب واقف تھے اور نہ شاہ صاحب یہی وجہ ہے کہ دونوں بزرگوں نے ان بیما رول کو پھر وہی غذا دے دی جو اس مرض میں مہکات ثابت مر چکی تھی" اما متر الی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- چند نقائص بھی تھے" (ماه).(ص) ضرت عثمان نے کے بارے میں ان کا فرمان ہے :- در حضرت عثمان ان خصوصیات کے حامل نہ تھے.جو ان کے جلیل القدر پیشروڈل کو عطا ہوئی تھیں.اور اسلئے

Page 24

۲۱ چاہیت کو اسلامی نظام اجتماع کے اندر گھس آنے کا راستہ مل گیا م ۲۳ اور پھر ان کے قبیل القدر پیشرو ڈل یعنی حضرت عمر فاروق نے اور حضر ابو بکر صدیق رض کے متعلق آپ یہاں تک گو ہر افشانی فرماتے ہیں: حضرت عمر کے قلب سے وہ جذبہ اکا بر پرستی جو زمانہ جاہلیت کی پیدا وار تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وقالت ناک بھی پوری طرح محو نہ ہوا تھا.اور آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ابھر ہی آیا " السلام کا یہ نازک ترین مطالبہ ہے.اور آنا نازک ہے.کہ ایک مرتبہ صدیق اکبر جیسا بے نفس اور سرا پا للہیت انسان بھی اس کو پورا کر نے سے چوک گیا.اور اسیسمی حرکت آپ سے سرزد مدنی جو اسلام کی روح کے خلافت ہے (ترجمان القرآن بحوالہ ، فرقہ سازی کی افسوسناک مہم " الدمولانا محمد الیاس صاحب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انچواں بنیادی نکتہ کا نقشہ کا پانچواں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید قیامت تک کے مسائل کی راہ نمائی کے لئے کافی ہے، اس لئے علوم مغربی کے سامنے سپر انداز ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا قرآن خدا کا قول ہے اور سانس اس کا فعل چنا نچہ فرمایا : میں ان مولویوں کو غلطی پر سمجھتا ہیں.جو علوم جدیدہ '

Page 25

۲۲ کی تعلیم کے مخالف ہیں.وہ دراصل اپنی غلطی چھپانا چاہتے ہیں.ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوتی ہے.کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بڈھن اور گمراہ کر دیتی ، ہے.اور یہ اقرار کئے بیٹھے ہیں کہ سائنس اور اسلام بالکل متضاد چیزیں ہیں.پس ضرورت ہے کہ آجکل دین کی خدمت اور اعلائے کلمتہ اللہ کی غرض علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑی جدو جہد سے کام کو " لفوظات حضرت مسیح میشود جلد اول مل تنہا یہ نکتہ ہی ایسا تھا جس نے مسلمانوں کے سامنے فکر و اجتہاد کی بے شمار را میں کھول دیں اور مولانا مودودی اس کی محبتم ینکر پکار اٹھے کہ در مغربی علوم دفتون بجائے خود سب کے سب مقید میں اور اسلام کو ان میں سے کسی کے ساتھ دشمنی نہیں بلکہ اینجا نہ میں یہ کہوں گا کہ جہاں تک حقائق علمیہ کا تعلق ہے.اسلام ان کا دوست ہے.اور وہ اسلام کے صورت (ترجمان القرآن تمبر ها) ہیں" مولانا مودودی کے تفصیلات اعتبار تمجید میر انگیز مثالیں لٹریچر میں اسلامی افتہ کے ان اصولی نکات کے علاوہ اس کی تفصیلات میں بھی امام عصر کے فیض علم دور قال کے جاہی شواہد موجود ہیں.اور بزیان حال کہہ رہے ہیں.غم

Page 26

۲۳ انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زبان میری ہے بات آپکی اس ضمن میں بطور نمونہ چند حیرت انگیز مثالیں ہدیہ قارئین کرتا ہوں پہلی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- وہ لوگ باطل پر ہیں کہ روح القدس : لیوں اور لیبیوں سے کسی وقت الگ ہو جانے کا عقیدہ رکھتے ہیں." د آئینہ کمالات اسلام صلال مطبوعه ست اداری م مودودی صاحب کہتے ہیں." اللہ کا تعلق اپنے انبیا کے ساتھ کوئی عارضی تعلق نہیں کہ جب کبھی اس کو اپنے بندے تک کوئی پیغام پہونچاتا ہو.میں اس وقت یہ تعلق قائم اور اس کے منقطع ہو جائے." د د ترجمان القرآن جولائی شعراء بحوالہ مفتیحات) دوسری مثال - یورپ اور امریکہ میں اسلام کو غلامی کے مسئلے اور کی آڑ میں جتنا بدنام کیا گیا ہے.وہ ظاہر ہی ہے احضرت مسیح موعود علیہ السلام نے موجودہ زمانہ کے متعلق قرآنی تعلیمات سے یہ امر پیش کر کے دشمنان دین کے زہریلے پروپگینڈے کی چھیاں بکھیر دیں چنانچہ فرمایا : اسلام کے مقابل پر جو لوگ کافر کہلا تے ہیں انہوں نے یہ تھری اور زیادتی کا طریق چھوڑ دیا ہے.اس کیلئے اب مسلمانوں کے لئے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کو لونڈی غلام بنا دیں یہ دشمہ معرفت حاشیہ (۳۳)

Page 27

۲۴ مولانا مودودی نے بھی مسئلہ غلامی کی اسی حقیقت کو حصار عافیت سمجھا اور یہ نظریہ پیش فرمایا کہ : نظام شریعت میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کی اجازت ایسی حالت میں دی گئی ہے.جبکہ وہ قوم جس سے ہماری جنگ ہیں نہ قیدیوں کے تبادلے پر رامتی ہو.نہ فدیے کہ ہمارے قیدی چھوڑے.تھی ندیہ دہے کہ اپنے قیدی چھڑائے" (رسائل و مسائل) تیسری مثال - رفع یدین کا مسئلہ وہابی اور بریلوی حضرات کا مشہور موضوع اختلات ہے میں نے مدت سے مسلمانوں میں سخت کشیدگی پیدا کر رکھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے آسمانی بجے کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے اس کے متعلق یہ فیصلہ دیا کہ : ات میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا ہے.خواہ کوئی کرے یا نہ کرے.احادیث میں اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے.(پدرام را کتوبر ) اور مولانا مودودی کہتے ہیں.اس کے فعل اور ترک دونوں کی تائید میں دلائل مجھ کو تقریباً مساوی الوزن نظر آتے ہیں یہ در سائل و مسائل سال ۲۴) چوتھی مثال - حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے موجو مسلمانوں کے طریق کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے فرمایا :-

Page 28

۲۵ دیا کہ : آج کل جلدی جباری نا ت کو ادا کرتے ہیں.اور پیچھے لہی دعائیں کرنے بیٹھتے ہیں.یہ بدعت ہے کہ دیده از تاریخ شراء) مولانا مودودی نے اس پر بعض معمار کا تختلاف پڑھا کر یہ فتویٰ اس میں شک نہیں کہ نبی صلعم کے زمانہ میں یہ طریق رائج نہ تھا جو اب رائج ہے کہ نماز با جماعت کے بعد امام اور مختاری سب ملکر دعا مانگتے ہیں.اسی بنا پر بعض علما نے اس طریقے کو بدعت ٹھہرایا ہے" در سائل و مسائل ص۲۱۳) وہ بعض مما حضرت مسیح موجود علیہ السلام کے سوا اور کون ہیں ؟ پانچوں مشاکل.سفر کی تعیین کے لئے فقہا میں بڑی بڑی بخشی ہوئی ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام نے اس ایک فقرے میں اس کا حل کر دیا کہ : " ایسے موقعہ پر دل کے اطمینان کو دیکھ لینا چاہیئے کہ اگر وہ بغیر کسی خلجان کے فقہ سے دے کہ یہ سفر ہے تو قصر کرتے.استلفت قلبات دیدر ۲۳ جنوری سشوار مولانا مودودی لئے ایک دو کے پیرا یہ میں اسے یوں بیان کیا کہ :- بارع نے سفر کے مفہوم کو عرف عا اور یہ بات ہر شخص بآسانی جان سکتا ہے

Page 29

۲۶ سفر میں ہے.اور کب وہ سفر میں نہیں " در سائل و مسائل مر ۲۱۵) چھٹی مثال - ٹوٹو کے متعلق آج کا مسلمانوں کے علم بڑے متشدد ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یہ تعلیم دی کہ که چند منشیات کے سوا اسلام اس کے جواز کے حق میں ہے چنانچہ فرمایا: کسی خونی مجرم کی تصویر اس غرض سے لے لیں کہ اس کے ذریعہ شناخت کر کے گرفتارکر لیا جائے.تو نہ صرف جانا ہوگا بلکہ اس سے کام لینا فرض ہوگا.یاد اسلام بہت نہیں کہ زندہ مذاہب ہے دالحکم ۲۸ فروری سرو) نہیں مولانا مودودی نے یہ فتقر لے دیا کہ، میٹرک کے لئے تصویر کھچو اتنے میں کوئی مضائقہ نہ آن طرح میرے نزدیک پاسپورٹ تفتیش جرائم بھی تحقیق اور ضروریات جہاد اور نا گزیر تعلیمی اغراض کے لئے بھی فین تصویر کا استعمال درست ہے یہ در سائل در مسائل صفحه ۱۹۳) کچھ عرصہ میرا جماعت اسلامی کے ایک ضلعی امیر جو سلام کی یہ تحریک ختم پاکستان کے سلسلہ میں بھی ماخوذ رہے ہیں یہاں پاس تشریف لائے.اور میادلہ خیالات کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے رسالہ الفرقان میں جماعت اسلامی کے متعلق یہ دھوئے کیا

Page 30

۲۷ کہ مولانا مودودی نے جناب مرزا صاحیت کے لٹریچر سے استفادہ کیا ہے.کیا تمہارے پاس اس کے ثبوت میں ان کی کوئی تھر یہ بھی موجود ہے ؟ گفتگو چونکہ عام دوستانہ ماحول اور بے تکلفی کے انداز میں ہو رہی تھی اس لئے میں نے بھی مسکراتے ہوئے عرض کیا.میرا کام تو مال بر آمد کرنا تھا سو میں نے مال بر آمد کر لیا ہے.آپ یہ صالحین کرام کا کام ہے کہ وہ اس تھا اعتراف کریں یا صاف انکار کردیں!!! المیہ کہ ایک و روناک المیہ کی ہر حال یہ ایک دور سے اپنی زندگی کے آں مودودی پہلو کے متعلق آج تک نہائت درجہ پر اسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اس بات کا خاص اہتمام فرمایا ہے کہ کسی کتاب میں السلام کا اشارہ بھی ذکر نہ آنے پائے کہ انہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ کے ارشادا سے بھی استفادہ کیا ہے.مولانا ایک دفعہ گجرات تشریف لے گئے چند نوجوانوں نے برسبیل تذکرہ یہ سوال کیا کہ مرزائیت کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے فرمایا : جس تحریک پر بھی تنقید کرتی ہو اس کا غائر مطالعہ کرنا چاہیئے.لیکن میری حالت یہ ہے کہ اگر (اس کے ) لٹریچر کی کوئی کتاب پڑھتا ہوں.تو پندرہ منٹ کے بعد میر نے درد سر شروع ہو جاتا ہے.حقیقۃ الوحی ہی کو کیجئے جو مرزائیوں کے زعم میں بلند یا یہ کتاب ہے اگر میں کچھ تحریر کا مطالعہ کیجیئے ایک حاشیہ آجا

Page 31

۲۸ اس حاشیہ کو پڑھیے ایک دوسرے حاشیہ سے واسطہ پڑے گا.پھر تیسرا حاشیہ اس میں چوتھا ماشین....ان میں شخص کو فصل خطاب ہی عطا نہ ہوا ہو نیت کیا خاک کر سکتا ہے ؟ (آزاده نو میرشند) اس دلچسپ لطیفہ سے قطع نظر کہ حقیقة الوحی میں سرے سے اس طرانہ کا کوئی عاشید در حاشیہ موجود نہیں.بیان شدہ حقا لوح کی روشنی میں یہ بات بالکل نمایاں ہو جاتی ہے کہ حضور کی طرنہ نگارکش اور دلآویز اسلوب بیان کی تنقیص سے در اصل حقیقت پر پر وہ ڈالنا مقصود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پردہ انقلاب آفرین لٹریچر موجود ہے.اس لٹریچر کے حیت ان نتائج ایک عالم کے سامنے ہیں.اور خود ان کی جماعت کے سرید آورده افراد کو اس کی شاندار عظمتوں کا اقرار ہے.چنانچہ لکھا ہے.ی میں ایک تحریک اقامت دین بالاکوٹ کے جلوہ گاہ شہادت میں بظاہر نا کام چکی تھی.اور کشدار میں ہندوستان کے اقتدار کی تعلیماتی ہوئی شمع بھی بجھ چکی تھی.جو ہر حال مسلمانوں کے مایوس اور تاریک دلوں میں ایک امید کی کرن روشن رکھتی تھی.دوسری طرف انگریزی اقتدار کے جلو میں مکار پادری جدید علم کلام کے حوالی سے اسلام کی حقانیت پر

Page 32

۲۹ حملہ آور تھے.اور مسلمانوں کو بتاتے تھے.کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجودہ ہیں.اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ ع یہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اس لئے میسائیوں کو دنیا میں عروج اور غلبہ حاصل ہے.اور مسلمانوں کی قسمت میں ناکامی و نامرادیان کے ساتھ ہے.وہ منطق فلسفہ اور سائنس کے مسلمات کی رو سے اسلامی تعلیمات کے خلاف عقل ثابت کر رہے تھے.اور چونکہ حکومت بھی ان کی پشت پر تھی.آپ لئے ان کا استدلال عوام کو متاثر اور مرعوب کر رہا تھا.دوسری طرف سوامی دیا نند نے ہندوؤں کے زوال کو روکنے اور مغربی تہذیب و تمدن علم دانش کی مرعوبیت اور ہندو دھرمہ کی کمزوریوں سے نجات دلانے کے لئے بالکل اعتقالی اصولوں کے مطابق دیدک دھرم کی تبغیر سیٹیں کرنا شروع کر دیا تھا.اور چومکھی لڑائی کے ذریعہ دہ مہندو دھرم اور دوسرے مذاہب کی تر : تردید بھی کر رہے تھے جب مسلمان ہر طرف سے اس طرح گھرے ہوئے تھے تو ہر وہ شخص جس نے ان کے مذہب کی حفاظت و حمایت کا ادعا کیا مسلمانوں نے اس کو مہر آنکھوں پر بٹھایا کہ

Page 33

" الکل یہی کیفیت مرت اعلام احمد قادیانی کے معاملہ میں پیش آئی جب وہ اسلام کی حمایت کا علم لے کر اٹھے.تو انہوں نے اپنے مخصوص علم کلام سے غیر مسلموں کا مقابلہ شروع کیا.تو مسلمانوں نے ان کو بھی ہا تھوں ہاتھ لیا.خصوصاً وہ جدید طبقہ جو مغربی علوم سے مرعوب ہو کر عیسائیت کی طرف راجب ہو رہا تھا.اور جیسے نرسید کا علم کلام بھی موجوہ مطمئن نہیں کر سکتا تھا ایں دیکھا کہ سرسید کی طرح اسلامی ملمات انکا ر کر نے کی بجائے مردہ اغلاط حر دیانی داخلیہ السلام) قرآن ہی سے اس کے انکار کا جواز پیش کر رہے ہیں.تو ان کی طرف متوجہ چنانچه هرزه اعلام احمد قادیانی (علیه السلام) کے زیادہ نمایاں ساتھیوں میں سے اکثر ایسے تھے که اگر وہ قادیان نہ جاتے تو عیسائی ہو جاتے " ایشیا ۱۳ مارچ باشه امسال منی تا میں انقلاب آزادی انقلاب آ زادی کا سہرا ا ا ا د اوری کی صد سالہ یادگار آزادی منائی گئی ہے.یہ اقتباس اعلان عام کر رہا ہے.کہ انقلاب آزادی کا سہرا حقیقی معنوں میں سیدنا و مرشدنا و اما منا مفر

Page 34

۳۱ " حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے سر ہے.کیونکہ آپ اور تنہا آپ ہی وہ مبارک وجود ہیں جنہوں نے قرآن کی شمشیر بہ منہ ہاتھ میں لے کر میں ثیت کے بڑھتے ہوئے خوفناک طوفانوں کا رخ پھیر دیا.اگر آپ ظاہر نہ ہوتے تو پاکستان کا بننا تو رہا ایک طرف یہ پورا ملک برطانوی سازش کے تحت ہمیشہ کے لئے فرنگی جھنڈے تلے رہتا.جیسا کہ وزیر بند چارلس موڈ شاہ میں کہا تھا.میرا ایمان ہے کہ ہر وہ نیا عیسائی جو ہندوستان میں عیسائیت قبول کرتا ہے.انگلستان کے ساتھ ایک نیا رابطہ اتحاد بنتا ہے.اور ایمپا ڑکے استحکام کے لئے نیا ذریعہ ہے " (The mission Page 234 By RC (904) نیز یارڈ لا انیس نے ایک دفعہ انگریزی پالیسی کو بے نقاب کرتے ہوئے واضح اعلان کیا تھا:.کوئی چیز ہماری سلطنت کے استحکام کا اس امر سے زیادہ موجب نہیں ہو سکتی.کہ ہم عیسائیت کو ہندوستان میں پھیلا دیں.

Page 35

۳۲ (Lord Laurence Life vol I Page 313) پس یہ حضور انور کے طوری کی برکت تھی.کہ آپ کے پیدا کردہ لٹریچرنے عیسائیت کے پردے چاک کر دیئے مسیحی منا دوں کا سمجھایا ہوا جال ہمیشہ کے لئے پارہ پارہ ہو گیا.اور برطانوی سازش ناکام و نامراد ہو گئی.مگر ان ختائج کے باوجود مولانا مودودی کا فرمان ہے.کہ آپ کو تو فصل خطاب ہی حاصل نہیں ہے.انا للہ وانا الیه راجعون!! مولانا کی خدا نا ترسی اور شن پوری خدا نا ترسی اور ک کی انتہاء یہ ہے کہ انہوں.حق پوشی کی انتہاء نے ابتداء ہی سے جماعت احمد کو مرتدین کی رٹ میں شامل کر کے خوام میں یہ تبلیغ جاری کر رکھی ہے.کہ ارتداد کی سزا اسلام میں قتل اور محض قتل ہے چنانچہ اپنی آردویں کی تعمیل کے لئے انہوں نے سواء کی احراری نظریات میں گرمجوشی سے شرکا کی.اور اپنے رسالہ قادیانی مسئلہ میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اتحلمات قرار دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا.کہ اگر پر وہ یہ ہوگا تے ختم کرنا چاہتی ہے.تو وہ ناک کے بہتر

Page 36

۳۳ فرقوں کے اس معقول مط لبے کے سامنے ہتھیار ڈال دے.حالانکہ وہ مدتوں سے دربار رسالت کا یہ فیصلہ سناتے آرہے تھے کہ ہا.یه (ناجی) گردہ نہ کثرت میں ہوگا نہ اپنی کثرت کو اپنے حق ہونے کی دلیل ٹھہرائے گا.ملکہ اس امت کے ۷۳ فرقوں میں سے ایک ہوگا.اور اس معمور دنیا میں اس کی حیثیت اجتبی اور بیگا نہ لوگوں کی ہوگی ہیں جو جماعت محض اپنی کثرت کی بناء پر اپنے آپ کو وہ جماعت قرار دے رہی ہے نہیں پر اللہ کا ہاتھ ہے.اس کے جس لئے تو حدیث میں امید کی کوئی کرن نہیں کیونکہ اس حدیث میں اس جماعت کی دو علامتیں نمایاں طیور پر بیان کر دی گئی ہیں.ایک تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہوگی.دوسری یہ کہ نہائت اقلیت میں ہوگئی." ر ترجمان القرآن ستمبر اکته به مشکنید) خدا کی شان بعد کو وہی بے بنیاد اور سرتا پا غلط اعتراضات اور اور الزامات جو مولانا نے اپنے رسالہ میں جماعت احمدیہ حضرت مسیح موجود عليه الصلوة والسلام پر عائد کئے تھے ان

Page 37

کے اخباری انتقاد نے ایک ایک کر کے ان پر بھی لگا دیئے.اور صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ : ہ مولانا مودودی کی اسلامی جماعت ذہنی طور پر مرزائی جماعت ہے." ر مودودیت کا پوسٹ مارٹم مل) جماعت مودودیہ کے صالحین کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہے.اور وہ یہ کہ جدید قسم کے اسلام کرکے کا ایک ڈھونگ کھڑا کر کے امت مراز انیہ کی طرح ایک نیا گروہ بنائیں " " (مولانا شفیق الرحمن) ملکہ وکٹوریہ آئی تو اس لئے مرزا غلام احمد قادیانی کو بھیج دیا.اور مکہ الاستجھ آئی.تو اس نے مودودی صاحب کو بھیجدیا.اب خدا کسی اور کو نہ بھیجے" رٹو نے پاکستان ۲۵ فروری تشنه بعض احراری علماء نے اس پر اکتفا نہ کرتے ہوئے یہ بھی مطالبہ کر ڈالا کہ مور د دیوں کو بھی شعر دہائیوں " کی طرح غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.اس حیرت ناک سزا کے باوجود مولانا مودودی اور ان کے عقیدت مند اپنی مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں.اور مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ ایک ہی سانس میں وہ جماعت احمد بو کے سیاسی حقوق کا دم بھرتے ہوئے اسے غیر مسلم اقلیت بھی قرار دیتے ہیں.اور مرتد اور واجب العمل بھی !

Page 38

۳۵ پر منظر ؟ اس شرمناک کارروائی کا پس منتظر صرف یہ ہے کہ مولانا کو مدت سے یہ خطرہ.لاحتی ہے کہ اگر احمدیت اور اس کا لٹریچر کچھ دیر اور موجود رہا.تو ان کا سارا راز فاش ہو جائے گا.اور ان کی اجتہادی بصیرت کے دعاوی کی قلعی کھل جائے گی.مگر مولانا کو آپ کھلے کا نوں سن لینا چاہیئے.کہ رات کی تاریک گھڑیاں ختم ہو رہی ہیں.آثار سحر افق پر نمایاں ہوتے جا رہے ہیں.اور وہ وقت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.جب آفتاب بدایت پوری آب و تاب سے حلوہ نمائی کریگا.تو آپ کی جلائی ہوئی تمام مشکلیں اس کی تیز کرنوں کی تاب نہ لاکر یا تو خود بخود بجھ جائیں گی ، یا انہیں خود آپ ہی کے ہاتھوں بجھا دیا جائے گا.م ہے یہ تقدیر خداوند کی تقدیوں سے

Page 39

۳۶ با کاتر یا د رہے.موجودہ زمانہ میں جماعت احمدیہ تک موجود درمانہ که کے نام سے اٹھنے والی تحریک میں شخص بھی جو چاہے ایک نئی ہی جماعت اسلامی قرار دی جاتی ہے تحریک بنا کر اس پر جماعت اسلامی کا لیبل جہاں کر سکتا ہے.مگر عرش پر خالص اسلامی کے اورا ا محمدید عت صرف وہی ہو سکتی ہے جس کا نام.مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ خدا سے خبر پاکر یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ جب ب اسلام کا قافلہ مسیح موعود زمانہ میں داخل ہوگا.سے م احمدیت کے نام سے تعبیر کیا جائے گا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:- میں ایک عجیب بات خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے خبر دینے سے بتاتا ہوں، جسے کسی تے نہیں سنا.اور نہ آج نا.اور نہ آج تک کسی خبر دینے والے کے متعلق خبر دی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی رحلت سے ایک ہزار اور چند سال بعد ایک ایسا زمانہ آرہا ہے.جبکہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج کر کے حقیقت کعبہ سے متحد ہو.جائیگا اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت امیری

Page 40

ہوگا.اور احمدیت خدا کی صنعت احد کا منظر ہوگی." (ترجمہ از مبداء ومعاد) حقیقت محمدی کے حقیقت کعبہ سے متحد ہونے کے کامہینے یہ ہیں کہ جس طرح خانہ کعبہ میت کے لئے خدا کی امان اور حفاظت کے نیچے ہے.اسی طرح خدا تعا لئے آخری زمانہ میں تحریک احمدیت کی بھی قیامت تک حفاظت فرمائے گا.اور جو ملک اور بادشاہ بھی ایرہ کا لشکرین کہ اس پر حملہ آنہ رہینے کی کوشش کرے گا وہ تا کام ونامراد رہے گا.مولانا مودودی جماعت احمدیہ کی ۶۸ سالہ تاریخ میں ) کی خود ساختہ حال بایوکس اور مستقبل تاریک ہے.مگر جماعت احمدیہ کے بارہ میں خود جماعت اسلامی کے اکابر کو مسلم ہے کہ :- بہ قادیانیوں کے ہاں ہر بات مقید ہے کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ جو گروہ اور شخص مرزا فلام احمد کی نبوت کو چیلنج کرتا ہے.یا قادیانی جماعت کی مخالفت کے در پہلے ہوتا ہے وہ انجا مکائے انجام زلیل و خوار ہوتا ہے.اس پر مرز اقلام احمد صاحب کا یہ الہام ہر قادیانی کے درد زبان ہے کہ

Page 41

۲۸ من اراد اهانتات میں ہر آن شخص کو ذلیل کروں گا.جو تیری تذلیل کے درپے ہو گا.اگرچہ یہ الفاظ سننے اور پڑھنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے لیکن ہم اس کے باوجو اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکا ئیمه (مولوی ثناء اللہ علامه اقبال - قاضی سلیمان منصوری - مولانا انورشاہ صاحب مولانا عبد الجبار صاحب غره نوی.مولانا عبد الواحد صاحب غزنوی - سید نذیر احمد صاحب دہلوی ناقل نورالله مرقدهم : کی تمام کا وشوں کے با وجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے.متحدہ ہندو میں قادیانی بڑھتے رہے.تقسیم کے بعد اس گروہ میں پاکستان میں صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں.اور دوسری جانب شراء کے عظیم تر ہنگامہ کے با وجود تا زیانی جماعت آپ کو شش میں ہے کہ انوں کا عشم ہ پیر کا ہو." لاکھ ۰۰۰ ۲۵۰۰۰

Page 42

۳۹ خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ کام کا جواب فردی سے انگیزیاں اسل جدوجہد کا توڑا سے عالمی سطح پر مساعی کو ناکام بنانے کا دایہ صرف پھیتی بے ہودہ جلومیں اور ناکارہ ہنگاموں سے پورا نہیں ہو سکتا.اس کے لئے جب تک وہ انداز اختیار نہ کیا ہمالئے جس سے فکری اور علمی تقاضے پورے نزل تدریجا مہ خیزی کا نتیجہ وہی یہ آمد ہو گا جس پر مرزا صاحب کا الهام الى مهين من اراد مرزا صاحب کا اولین مارنے کا " الهامات دالمنیز اراگت شنه و ۲۲ فروری تایر جماعت احمدیہ کے درخشندہ اور متعلق جماعت احمدیہ کا اور شاندار مستقبل کے حسنی حضرت شاندار مستقبل مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " خدا تعالے نے مجھے بار بار خبر دی ہے.کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا.اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا.اور کے سلسلہ کو تمامہ میں میں پھیلائے گا.اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس

Page 43

قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر قوم اس چشمہ سے پانی پٹے گی.اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا.اور پھولے گا.یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جائے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی.اور ابتدا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا.اد اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.کہ میں تجھے برکت پر برکت دونگا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھوڑیں گے.سوائے سلنے والو! ان باتوں کو یاد رکھو.اور ان پیش خبریوں کو اپنے صند و قول میں بند رکھی.کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا " تجلیات الہیہ سلام) واخر دخولنا ان الحمد لله رب العالمين.

Page 44

ستر امام جماعت احمدیہ کا پیغام جماعت اسلامی اور دیگر مسلمانان عمل ہے.اے عزیز دا پرانی کتابیں پڑھ کر دیکھو.پھر خود اپنے اسلاف کی تاریخ پچھو.کیا ان لوگوں کی زندگیان مادی تھیں دیکھو.کیا ان کے کام صرف ماری تدابیر سے تھے.وہ كـ خدا تعا لئے کی محبت کے حاصل کرنے کے لئے رات دن تڑپتے تھے.اور ان میں سے کامیاب لوگ خدا تو لئے کے معجزات اور نشانات سے حصہ یا تے تھے.اوریہی وہ زندگی تھی.جو ان کو دوسری قوموں تھے لوگوں سے ممتاز کرتی تھی.لیکن آج وہ کو نسا امتیاز ہے.جو ملی توں کو ہندو دل اور میسائیوں اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں حاصل ہے.اگر اب لوئی امتیاز نہیں.تو پھر اسلام کی ضرورت کیا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا امتیاز ہے لیکن مسلمانوں نے اسے بھلا دیا.اور وہ امتیاز یہ ہے کہ ا نہ اسلام میں ہمیشہ میں ہمیشہ کے لئے خدا تعا لئے کلام جاری ہے اور ہمیشہ ہی خدا تعالے کے ساتھ براہ راست تعلق پیدا کیا جا سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کے یہی تو سکتے ہیں آپ کے فیضان کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ

Page 45

ہم بی اے یا ایم اے کا امتحان پاس کر لیں.کیا ایک میائی یہی ہے یا ایم.اے نہیں ہوتا ؟ آپ کے فیضان کے بے معنے تو نہیں کہ ہم نے - کوئی بڑا کارخانہ چلا لیا ہے.کیا عیسائی اور مہندو اور سکھ ایسے کار چاچ نہیں چلاتے ، آپ کے فیضان کے یہ معنی تو نہیں کہ کوئی بڑی تجارتی کہ منفی تر نے کھوئی.اور دور دراز ملکوں میں ہم نے تجارتی کا روبار ہم جاری کر دیا ہے.یہ سب ہندو اور عیسائی اور ہوا ہی کر رہے ہیں.ہیول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کے ہی سکتے ہیں کہ آپ کے طفیل انستان کا خدا تعالے کے ساتھ براہ راست تعلق ہو جائے ، انسان کا ول خدا تعالے کو دیکھے.اس کی روح کا اس سے اتحاد ہو جائے اس کا شیریں کلام سنے اور خدا تعا لئے کے تازہ تازہ نشانات اور آیات آپ کے لئے ظاہر ہوں.یہ وہ چیز ہے.جو محمد رسول اللہ صلے الہ علیہ وسلم کی غلامی کے بغیر کسی شخص کو دنیا میں نہیں مل سکتی.اور یہی وہ چیز ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباغ دوسری قوموں سے ممتاز ہیں ہیں اسی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں کو توجہ دلائی اور یہی چیز اپنے نہ ماننے والوں کے سامنے پیش کی.کہ خدا تھا لئے نے یہ کھویا میڈر موتی مجھے دیا ہے.اور یہ ضائع شد تاع مجھے بخشی ہے.اور یہ سب کچھ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آ تمہ کے طفیل اور آپ کی اتباع سے ملا ہے اور اس نظام پر آپ ہی کے فیضان نے مجھے پہنچایا ہے.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے کئے لیکن وہ سب جوہی حیثیت رکھتے ہیں.گو بہت اہم اور

Page 46

۴۳ عظیم الشان ہیں لیکن اصل کام یہی تھا.کہ آپ نے دین کو دنیا پر مقدم کرتے اور مادیت پر روحانیت کو غالب کرنے کی مہم مشروع کی.اور یقیناً اسلام کو دوسرے ادیان پر قلیہ اسی راستہ سے ہو گا ہم توپوں اور بندوقوں سے اپنے ملکوں کا دفاع بھی کرینگے.ہم بعض بعض دم ہم بعض بعض دشمنوں پر ان ذرائع سے غالب بھی آئینگے لیکن ساری دنیا پر اسلام کو جو علیہ وصل ہوگا.وہ اسی روحانی طریقہ سے حاصل ہوگا.میں کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے جب مسلمان مسلمان ہو جائے گا جب وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے لگ جائے گا.جب وہ روحانی اشیاء کو مادی اشیا پر فوقیت دینے لگے گا.تو وہ حیات نہ زندگی جو اس وقت مغربی اقوام کی وجہ سے ہمارے ملک میں رائے ہو رہی ہے آپ ہی آپ مٹ جائے گی.اور انسان کسی کے کہنے کی وجہ سے نہیں.بلکہ خود اپنے نفس کی خواہش کے تحت لغویات کو چھوڑ ڑے گا.اور سنجیدہ زندگی بسر کرتے لگ جائے گا.اور اس کی زبان میں تاثیر پیدا ہو جائے گی اور ان کا ہمسایہ آپ کے رنگ کو اختیار کرنے لگ جائیگا.اور میائی اور ہندو اور دو کے ادیان کے لوگ بھی اسی طرح جس طرح کئے مکہ کے لوگوں نے کہا تھا.یہ کنا شروع کر دینگے کہ لو کانوا مسلمین کاش وہ مسلمان ہونے.اور پھر تے ہوئے یہ قول ان کا مکہ کے لوگوں کی طرح عمل میں بدل جائے گا.اور وہ مسلمان ہو جا ایں گے.کیونکہ کوئی شخص

Page 47

تم بم اور زیادہ دیر تک اچھی بات سے دور نہیں رہ سکتی.پہلے رقبت رہ ہو یدا ہوتی ہے.پھر لالچ آتی ہے.پھر کشش پیدا ہوتی ہے.اور آخر انسان کھی کھی اس چیز کی طرنت آہی جاتا ہے.یہی ا بھی ہوگا پہلے اسلام مسلمانوں کے دلوں میں داخل ہو گا یہ پھر وہ آپ کے جسموں پر جاری ہو جائے گا.پھر غیر مسلم خود نخوند ایسے کامل مسلمانوں کی نقل کرنے پر آمادہ ہوتے جائینگے.! دنیا مسلمانوں سے بھر جائے گی ، اور اسلام - سے محمود ہو جائے گی :: الے عزیزو! اس چھوٹے سے مضمون میں میں تفصیل دلائل بیان نہیں کر سکتا.اور احدیت کے پیغام کی تمام جزئیات کو آپ کے سامنے پیش نہیں کر سکتا.میں نے اچھائی طور پر احدیث کی غرض اور آپ کا مقصد آپ لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے.اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مضمون پر غور کریں.اور یے میں کہ دنیا میں کبھی بھی مذہبی تحریکیں صرت دنیوی ذرائع سے غالب نہیں ہوئیں.مذہبی تحریکیں اصلاح نفس تبلیغ اور قربانی ہی کے ساتھ ہمیشہ غالب آتی رہی ہیں.آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک جو نہیں ہوا.وہ اب بھی نہیں ہوگا.اور جس ذریعہ سے آج تک خدا تو لئے پھیلتے رہتے ہیں، اسی طرح اب بھی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا میں پھلے گا.پس اپنی جانوں پر رقم کرتے ہوئے اپنے خاندانوں اور اپنی قوموں پر رحم کرتے ہوئے

Page 48

۴۵ اپنے ملک پر رحم کرتے ہوئے خدا تعالے کے پینیام کی سننے کو اور سمجھنے کی کوشش کریں.تا کہ اللہ تبا لئے کے فضل کے آپ کے لئے جلد سے جلد کھل جائیں.اور اسلام کی ترقی پیچھے نہ پڑتی چلی جائے.ابھی بہت کام ہے جو ہم نے کرنا ہے کہ آپ کے لئے ہم آپ کی آمد کے منظور میں نے کیونکہ خدائی ترقیات علاوہ معجزات کے دین کی کے دین کی اشاعت کے ساتھ بھی تعالی رکھتی ہیں.آپ آئیں.اور اس بوجھ کو ہمارے ساتھ ملکر اٹھائیں جس بوجھ کا اٹھانا اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے.بے شک قربانی اور اختیار اور سلامت اور ریب ان سب چیزوں کا دیکھنا آن راستہ میں ضروری ہے مگر خدا تعالے کی راہ میں موت ہی حقیقی از تازگی بخشی ہے.اور اس موت کو اختیار کئے بغیر کوئی شخص خدا تعا لئے تے نہیں تک پہونچ سکتا.اور آپ موت کے اختیار کئے بغیر اسلام بھی غالب نہیں ہو سکتا..بہت کریں اور موت.اس پیالہ محمدی کو منہ سے لگا لیں.تاکہ ہماری اور آپ کی موت موت سے اسلام کو زندگی ملے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تروتازہ ہو جائے.اور اس موت کو قبول کر کے ہم محبوب کی گونہ میں اپنی زندگی کا لطف اٹھائیں! اللهم امين واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

Page 48