Jalsa Salana

Jalsa Salana

جلسہ سالانہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

جلسه سالانه شائع کردہ: جماعت احمد یہ برطانیہ

Page 2

يَأتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ وَ يَأْتِيْكَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تستی کا بتایا ہم نے جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی کا آئینہ دار! جلسه سالانه خدا تعالیٰ کی عظیم الشان قدرتوں کا ایک نشان عشاق اسلام کے ایمان افروز عالمگیر روحانی اجتماع کے مقاصد آداب اور روحانی برکات و فوائد سے متعلق سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور سید نا حضرت میر المومنين خلية اسم الراح بيد الله تعالى بمصر العزيز کے بعض ارشادات کا انتخاب مرتبہ عطاء المجیب راشد

Page 3

Page 4

3.پیش لفظ فہرست مضامین جلسہ سالانہ....ایک اجمالی تعارف • ارشادات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ( زمانی ترتیب کے لحاظ سے ) • ارشادات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام (مضمون کی ترتیب کے لحاظ سے ).پس منظر.غرض و غایت عظمت.برکات و فوائد شمولیت کی تاکید توجہ سے سننے کی تاکید عدم شمولیت پر افسوس ضروری ہدایات • شرکاء کے لئے محبت بھری دعائیں و جلسہ سالانہ کا عالمگیر شجرہ طیبہ.ایک مختصر تاریخی جائزہ • ارشادات و ہدایات 47 5 9 15 سید نا حضرت امیر المونین علی مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی عصر والعزیز 59 35 555

Page 5

Page 6

بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ ہمارے محبوب آقا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی جگہ اللہ اور اسکے رسول ملاقہ کے با برکت تذکرہ کے لئے کوئی مجلس منعقد ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس مجلس کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس بابرکت مجلس کا تذکرہ کرتے ہیں.ایسی مجلس میں شامل ہونے والے سب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی برکتوں سے بھر پور حصہ پاتے ہیں حتی کہ اتفاقاً اس مجلس میں آکر بیٹھ جانے والا بھی اس نیک مجلس کی برکتوں سے محروم نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے جماعت احمد یہ عالمگیر کو جلسہ سالانہ کی صورت میں اس نوعیت کی بہت ہی بابرکت اور پاکیزہ مجالس عطا فرمائی ہیں جو ہر سال جماعت کے مرکز میں اور اکناف عالم میں پھیلی ہوئی جماعتوں میں منعقد ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اذنِ الہی سے ۱۸۹۱ میں جلسہ سالانہ کی بنیا درکھی اور بار بار اس کی عظمت اور برکت کا اپنی تحریرات میں ذکر فرمایا.ایک موقع پر فرمایا: اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.ہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے“ جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عظیم الشان

Page 7

6 قدرتوں کا ایک نشان ہے.جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی کا آئینہ دار ہے.عشاق اسلام کا ایک عظیم عالمگیر روحانی اجتماع ہے جو اپنی مثال آپ ہے.ہر سال بڑی بے تابی سے ہر مردوزن کو اس کا انتظار رہتا ہے.اسکی برکتوں اور فیوض سے جھولیاں بھرنے کے بعد اگلے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے.عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ کوئی ایسی کتاب ہو جس میں سے متعلق بنیادی ضروری امور کو اکٹھا کر دیا گیا ہو.الحمد للہ کہ امسال ۲۰۰۲ کے موقع پر جماعت احمد یہ برطانیہ کو اس موضوع پر ایک مختصر کتابچہ شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.اس پہلی کوشش میں کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت امیرالمومنین خلیفتہ لمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات اور ہدایات کا ایک انتخاب پیش کیا گیا ہے.کے اجمالی خاکہ اور مختصر تاریخی جائزہ کے علاوہ چند کوائف بھی شامل ہیں.ارادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس پہلی کوشش کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک جامع کتاب کی شکل دی جائے جس میں بقیہ ارشادات کو بھی شامل کر لیا جائے.علاوہ از میں حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو بھی شامل کر دیا جائے اور ایک جامع دستاویز تیار ہو جائے.اس کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے جلسوں کی ملک دار تفصیل ، جلسہ سالانہ کے مزید اعداد و شمار اور کوائف نیز سے متعلق مزید تاریخی تفاصیل اور واقعات کو بھی شامل کتاب کر لیا جائے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ یہ جامع کتاب بھی جلد تیار ہو جائے اور اس موضوع پر ایک مستند مآخذ کا کام دے.آمین

Page 8

7 اس پہلی کوشش کی تیاری اور پیشکش میں مکرم وسیم احمد طاہر صاحب نے لمبا عرصہ بہت محنت کی ہے.اسکے علاوہ مکرم بلال احمد وسیم صاحب اور مکرم مظہر سلیم صاحب نے ٹائیپنگ میں بہت معاونت کی ہے.پروف ریڈنگ میں مکرم ملک محمد اکرم صاحب اور مکرم قریشی داؤ داحمد صاحب نے تعاون کیا ہے.اشاعت کے سلسلہ میں مکرم مرز اندیم احمد صاحب اور مکرم ملک مظفر احمد صاحب نے مدد فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب معاونین کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ اس ادنی کوشش کو قبول فرمائے اور قارئین کے لئے اس کتابچہ کا مطالعہ بہت فائدہ مند بنائے اور ہم سب کو یہ توفیق اور سعادت عطا فرمائے کہ ہم ہمیشہ ان ارشادات اور ہدایات کی پابندی کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان دعاؤں سے حصہ وافر حاصل کرنے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کے شرکاء کے حق میں فرمائی ہیں.آمین.۲۰ جولائی ۲۰۰۲ خاکسار عطاءالمجیب را شد امام مسجد فضل لندن

Page 9

Page 10

9....ایک اجمالی تعارف جماعت احمدیہ کا اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اور جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی کا ایک روشن سے روشن تر ہونے والا نشان ہے.اس عظیم الشان روحانی اجتماع کی بنیاد اللہ تعالی کے اذن اور ہدایت سے حضرت مسیح موعود وامام مہدی علیہ الصلوۃ و السلام کے مقدس ہاتھوں سے ۱۸۹۱ میں رکھی گئی.آپ نے جماعت کے دوستوں کو مشورہ کے لئے قادیان دارالامان بلوایا.چنانچہ وفا شعار بزرگان احمدیت فوری طور پر ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں جمع ہو گئے.جماعت احمدیہ کے اس مختصر ، ایک روزہ تاریخی میں ۷۵ مخلصین نے شرکت کی.کتنے خوش نصیب تھے وہ لوگ جو اس جلسہ میں حاضر ہوئے.وہ کاروانِ احمدیت کا ایک ہر اول دستہ تھے جو بعد میں ایک قلزم بیکراں بنے والا تھا.پہلے کے معا بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار میں یہ اطلاع ساری جماعت کو دی کہ آئیندہ ہر سال یہ ۲۷ - ۲۸ اور ۲۹ دسمبر کی تاریخوں میں مرکز احمدیت میں منعقد ہوا کرے گا.چنانچہ اس وقت سے یہ جماعت احمدیہ کی سالانہ تقریبات کا مستقل حصہ بن گیا ہے.

Page 11

10 مرکزی کی ابتداء قادیان کی مقدس بستی سے ہوئی.قادیان ایک وقت میں گمنام اور نا معلوم بہتی تھی.کی برکت سے کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر والا دور ختم ہوا اور یہی مقدس بستی مرجع خاص و عام بن گئی.ہر سال جلسہ کے موقع پر اس بستی کی شان دیکھنے والی ہوتی ہے.تقسیم ہند کے بعد بھی قادیان میں کا سلسلہ با قاعدگی سے جاری رہا.نامساعد حالات کے باوجود عشاق اسلام اس جلسہ کی برکتوں سے اپنی جھولیاں بھرتے رہے.1999ء میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنفس نفیس قادیان کے میں شمولیت فرما کر اسے ایک تاریخی بنا دیا.ہندوستان کی سرزمین پر آپ کی پرسوز دعا ئیں رنگ لائیں اور ہندوستان میں ایک عظیم روحانی بیداری پیدا ہوگئی.خوابیدہ شیر بیدار ہو گئے اور دن رات میدان تبلیغ میں سرگرم دکھائی دینے لگے آسمان سے رحمتوں کی بارشیں ہونے لگیں.اور ہر سال احمدیت قبول کرنے والوں کی تعداد ہزاروں لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں ہوگئی.نو احمدیوں کے وفود قافلہ در قافلہ قادیان میں آنے لگے اور اب تو قادیان کا سر زمین ہند پر مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع بن چکا ہے جس کی تعداد بھی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے اور روحانی کیفیات بھی.۱۹۴۶ ء تک مرکزی جلسے قادیان میں ہوتے رہے.تقسیم ہند کے بعد دو سال جلسے لاہور (پاکستان) میں ہوئے اور ۱۹۴۹ء سے ربوہ دارالہجرت میں ان کا انعقاد ہونے لگا.آخری جلسہ ۱۹۸۳ء میں ہوا جس کے بعد حکومت پاکستان کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے جماعت احمدیہ کا مرکزی جلسہ ربوہ میں منعقد نہ ہوسکا.اور یہ صورت تا حال قائم ہے.اس روحانی اور ایمان افروز کی بنیا در کھتے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 12

11 نے فرمایا تھا کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.نیز آپ نے فرمایا کہ اسکی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی.آپ نے بڑی تحدی اور جلال کے ساتھ فرمایا کہ ان باتوں کو ناممکن مت خیال کرو کہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.خدا کی بات پوری ہوئی.کوئی نہیں جو تقدیر خداوندی کو روک سکے.احمدیت اکناف عالم میں پھیلتی گئی اور ہر قوم وملت کے لوگ قافلہ در قافلہ احمدیت میں داخل ہوتے گئے.جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے عشاق اسلام کی تعداد بھی سال بہ سال بڑھتی چلی گئی.۱۹۸۳ء میں مرکز احمدیت میں منعقد ہونے والے آخری تاریخی میں شامل ہونے والوں کی تعداد کم و بیش پونے تین لاکھ بتائی جاتی ہے.اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل اس رنگ میں بھی ظاہر ہونے لگا کہ پاکستان میں بندش سے بہت پہلے ہی کا شجرہ طیبہ بیرونی ممالک میں لگ گیا اور سال بہ سال ترقی کرنے لگا.ایک طرف انڈو نیشیا میں اس کا آغاز ہوا تو دوسری طرف گھانا میں اس کی داغ بیل ڈالدی گئی.امریکہ میں اس کا انعقاد شروع ہوا تو برطانیہ اور جرمنی میں بھی ایسے جلسے بڑی شان سے منعقد ہونے لگے.اب تو یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مشرق اور مغرب ، شمال اور جنوب، غرضیکہ دنیا کے ہر علاقہ میں احمد یہ کیلنڈر کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے مسیح موعود علیہ السلام کی بات کس شان سے پوری ہو رہی ہے کہ ہر قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی.

Page 13

12 رنگ ونسل سے بے نیاز، دنیا بھر کی قو میں اپنے اپنے علاقوں میں کی برکت سے فیض یاب ہو رہی ہیں.حضرت امیرالمونین طریقه مسیح الرابع انید واللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۹۸۴ء میں برطانیہ تشریف لائے تو حضور انور کی آمد کی برکت سے جماعت احمد یہ برطانیہ کا ایک عالمگیر کے طور پر ابھرا ۱۹۸۴ء کا جلسہ ٹالور تھ کے علاقہ میں ہوا.۱۹۸۵ء سے اسلام آباد (انگلستان) میں منعقد ہونے لگا.اصل مرکزی جلسہ کی شان لیکر یہ جلسہ ہر سال ترقی کی منازل طے کرنے لگا.کے ساتھ انٹر نیشنل مجلس شوریٰ کا اجلاس بھی ہر سال ہونے لگا.بیرونی ممالک سے نمائیندگان کے وفود کثرت سے آنے لگے.حکومتوں کے نمائیندگان بھی اس جلسہ کی رونقیں بڑھانے لگے.تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا.۱۹۹۳ء سے عالمگیر بیعت کا آغاز ہوا، ہزاروں لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں کی تعداد میں لوگ ہر سال احمدیت میں داخل ہونے لگے.1997ء میں ایم ٹی اے (MTA) کا آغاز ہوا تو برطانیہ کی کاروائی اکناف عالم میں براہ راست دیکھی اور سنی جانے لگی.اس طرح کے شرکاء کا حلقہ عالمگیر ہو گیا.ایسی ایسی عظمتیں اس کو نصیب ہوئیں اور مسلسل ہوتی چلی جارہی ہیں کہ ان کا شمار اور بیان ناممکن ہے.۲۰۰۱ء میں جرمنی میں منعقد ہونے والا عالمی جلسہ ایک امتیازی اور تاریخی شان کا حامل تھا.یہ پہلا عالمی جلسہ تھا جو جرمنی کی سرزمین میں منعقد ہوا.ویسے بھی اکیسویں صدی میں منعقد ہونے والا یہ پہلا جلسہ تھا.حاضری کے اعتبار سے سرزمین یورپ میں منعقد ہونے والا احمدیت

Page 14

13 کے پروانوں کا سب سے بڑا روحانی اجتماع تھا اور تاریخ احمدیت میں یہ پہلا موقع تھا کہ خلیفہ وقت نے مرکزی میں شمولیت کی غرض سے اپنے قیام کے ملک سے ایک دوسرے ملک کی جانب سفر اختیار فرمایا ہو.جماعت احمدیہ کا احمدیت کی صداقت کا بھی ثبوت ہے اور شانِ احمدیت کا آئینہ دار بھی.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ایک شجرہ طیبہ کی طرح اکناف عالم میں پھیلاتا چلا جائے اور اسکی برکتیں ساری دنیا پر محیط ہو جائیں.آمین.عطاءالمجیب راشد امام مسجد فضل لندن

Page 15

Page 16

15 سے متعلق سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے با برکت ارشادات حتی الامکان زمانی ترتیب کے لحاظ سے )

Page 17

Page 18

۲۲ دسمبر ۱۸۹۱ء 17 میں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں.کہ ایک آسمانی فیصلہ کے لئے میں مامور ہوں.اور اس کے ظاہری انتظام کے درست کرنے کے لئے میں نے ۲۷ دسمبر (۱۸۹ء کو ایک جلسہ تجویز کیا ہے.متفرق مقامات سے اکثر مخلص جمع ہوں گئے مکتوب مورخه ۲ دسمبر ۱۸۹ء بنام نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر چہارم بحوالہ تذکرہ صفحه ۱۹۴) ۳۰ دسمبر ۱۸۹۱ اطلاع تمام خلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو.اور اپنے مولیٰ کریم اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی بُرہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دُور ہو.اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے.سو اس بات کے لئے

Page 19

18 ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دعا کرنا چاہئے کہ خدائے تعالی یہ توفیق بخشے.اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو.کبھی کبھی ضرور ملنا چاہیئے.کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی.اور چونکہ ہر یک کے لئے بباعث ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بعد مسافت یہ میتر نہیں آسکتا کہ وہ محبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اُٹھا کر ملاقات کے لئے آوے.کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کے سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قو یہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو سکیں.سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ دسمبر سے ۲۹ دسمبر تک قرار پائے.یعنی آج کے دن کے بعد جو میں دسمبر ۱۸۹ ہے.آئیندہ اگر ہماری زندگی میں ۲۷ دسمبر کی تاریخ آجاوے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سنے کے لئے اور دُعا میں شریک ہونے کے لئے اُس تاریخ پر آجانا چاہیئے.اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سُنانے کا شغل رہے گا.جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.اور نیز اُن دوستوں کے لئے خاص دُعا ئیں اور خاص توجہ ہو گی.اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خُدائے تعالے اپنی طرف اُن کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی اُن میں بخشے.اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر ایک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے.وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے.اور

Page 20

19 روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو ڈ دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا.اور جو بھائی اس عرصہ میں اِس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا.اس جلسہ میں اُس کے لئے دُعائے مغفرت کی جائے گی.اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور اُن کی خشکی اور اجتمیت اور نفاق کو درمیان سے اُٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جلشانہ کوشش کی جائے گی.اور اس رُوحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہونگے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے.اور کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں.اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑ اسرمایہ خرچ سفر کے لئے ہر روز یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلا دقت سرمایہ سفر میسر آجاوے گا.گویا یہ سفر مفت میتر ہو جائے گا.اور بہتر ہوگا کہ جو صاحب احباب میں سے اس تجویز کو منظور کریں وہ مجھ کو بھی بذریعہ اپنی تحریر خاص کے اطلاع دیں تا کہ ایک علیحدہ فہرست میں اُن تمام احباب کے نام محفوظ رہیں کہ جو حتی الوسع والطاقت تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے کے لئے اپنی آئیندہ زندگی کے لئے عہد کرلیں اور بدل و جان پختہ عزم سے حاضر ہو جایا کریں بجز ایسی صورت کے کہ ایسے مواقع پیش آجائیں جن میں سفر کرنا اپنی حد اختیار سے باہر ہو جائے.اور اب جو ۲۷ دسمبر ۱۸۹ء کو دینی مشورہ کے لئے جلسہ کیا گیا.اس جلسہ پر جسقد را حباب محض اللہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے خُدا اُن کو جزائے خیر بخشے اور اُنکے ہر یک قدم کا ثواب انکو عطا فرما دے.آمین ثم آمین آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد۴ ، صفحه ۳۵۱ تا ۳۵۳) ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۳۰۲ تا ۳۰۴)

Page 21

20 20 ۷ دسمبر ۱۸۹۲ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ بعد ہذا بخدمت جمیع احباب مخلصین التماس ہے کہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۲ کو مقام قادیان میں اس عاجز کے محبوں اور مخلصوں کا ایک جلسہ منعقد ہوگا.اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو.پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے.ماسوا اس کے جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں.کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے طیار ہورہے ہیں اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں اور ہراساں ہیں چنانچہ انہیں دنوں میں ایک انگریز کی میرے نام چٹھی آئی جس میں لکھا تھا کہ آپ تمام جانداروں پر رحم رکھتے ہیں.اور ہم بھی انسان ہیں اور مستحق رحم.کیونکہ دین اسلام قبول کر چکے اور اسلام کی سچی اور صحیح تعلیم سے اب تک بے خبر ہیں.سو بھائیو یقیناً سمجھو یہ ہمارے لئے ہی جماعت طیار ہونے والی ہے.خدا تعالے کسی صادق کو بے جماعت

Page 22

21 نہیں چھوڑتا.انشاء اللہ القدر سچائی کی برکت ان سب کو اس طرف کھینچ لائے گی.خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہی چاہا ہے اور کوئی نہیں کہ اس کو بدل سکے.سولا زم ہے کہ اس جلسہ پر جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لاویں جوز ادراہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور اپنا سرمائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدر ضرورت ساتھ لاویں اور اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں ادنے ادنے حرجوں کی پرواہ نہ کریں.خدا تعالے امخلصوں کو ہر یک قدم پر ثواب دیتا ہے اور اس کی راہ میں کوئی محنت اور صعوبت ضائع نہیں ہوتی.اور مکرر لکھا جاتا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اُس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا اور نہ نیچر کے تفریط پسند اور اوہام پرست مخالفوں کا ، نہ خوراق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالف قرآن روایتوں کو ملانے والے.اور خدا تعالے اس امت وسط کے لئے ئین ئین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا.وہی راہ جس کو قرآن لا یا تھا.وہی راہ جو رسول کریم متعلقہ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلائی تھی.وہی ہدایت جو ابتداء سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے.یہی ہو گا.ضرور یہی ہوگا.جس کے کان سُننے کے ہوں سنے.مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے.بالآخر میں دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہر یک صاحب جو اس لتہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں.خدا تعالے اُن کے ساتھ ہو اور اُن کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات اُن پر آسان کر دیوے

Page 23

22 اور اُن کے ہم وغم دُور فرمادے.اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مُرادات کی راہیں اُن پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ اُن کو اُٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.آمین ثم آمین.والسلام علی من اتبع الهدی الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ عفی اللہ عنہ ۷ دسمبر ۱۸۹۲ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۳۴۰ ۳۴۲) ۱۷ دسمبر ۱۸۹۲ ☆ سال گذشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں بہ نیت استفاده ضروریات دین و مشوره اعلاء کلمہ اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں.اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ ۲۷ دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا انسب اور اولی ہے.کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملا زمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت رکھتے ہیں.اور باعث ایام سرمایہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں.چنانچہ احباب اور مخلصین نے اس مشورہ پر اتفاق کر کے خوشی ظاہر کی تھی اور کہا تھا

Page 24

23 کہ یہ بہتر ہے.اب سے دسمبر ۱۸۹۲ء کو اسی بنا پر اس عاجز نے ایک خط بطور اشتہار کے تمام مخلصوں کی خدمت میں بھیجا جو ریاض ہند پر لیس قادیان میں چھپا تھا.جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تاہر یک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقعہ ملے اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں اور معرفت ترقی پذیر ہو....یہ عاجز اپنے صریح صریح اور ظاہر ظاہر الفاظ سے اشتہار میں لکھ چکا کہ یہ سفر ہر یک ☆ مخلص کا طلب علم کی قیت سے ہوگا.اپنی جماعت کو طلب علم اور حل مشکلات دین اور ہمدردی اسلام اور برادرانہ تعلقات کے لئے بلایا ہے صرف طلب علم اور مشورہ امدا د اسلام اور ملاقات اخوان کے لئے یہ جلسہ تجویز کیا ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۳۵۲ تا صفحه ۳۶۵) ۱۸۹۲ کے جلسہ کے بعد ناظرین کی توجہ کے لایق اس بات کے سمجھنے کے لئے کہ انسان اپنے منصوبوں سے خدا تعالیٰ کے کاموں کو روک نہیں سکتا.یہ نظیر نہایت تشفی بخش ہے کہ سال گذشتہ میں جب ابھی فتویٰ تکفیر میاں بٹالوی صاحب کا طیار نہیں ہوا تھا اور نہ انہوں نے کچھ بڑی جدوجہد اور جان کنی کے ساتھ اس عاجز کے کافر ٹھہرانے کے لئے توجہ فرمائی تھی صرف ۷۵ احباب اور مخلصین تاریخ جلسہ پر قادیان میں تشریف

Page 25

24 لائے تھے.مگر اب جبکہ فتویٰ طیار ہو گیا اور بٹالوی صاحب نے ناخنوں تک زور لگا کر اور آپ بصد مشقت ہر یک جگہ پہنچ کر اور سفر کی ہر روزہ مصیبتوں سے کوفتہ ہو کر اپنے ہم خیال علماء سے اس فتویٰ پر مہر میں ثبت کرائیں اور وہ اور ان کے ہم مشرب علما بڑے ناز اور خوشی سے اس بات کے مدعی ہوئے کہ گویا اب اُنہوں نے اس الہی سلسلہ کی ترقی میں بڑی بڑی روکیں ڈال دی ہیں.تو اس سالانہ جلسہ میں بجائے ۷۵ کے تین سوستائیس احباب شامل جلسہ ہوئے اور ایسے صاحب بھی تشریف لائے جنہوں نے توبہ کر کے بیعت کی.اب سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ خدا تعالے کی عظیم الشان قدرتوں کا ایک نشان نہیں کہ بٹالوی صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کی کوششوں کا اُلٹا نتیجہ نکلا اور وہ سب کوششیں برباد گئیں.کیا یہ خدا تعالیٰ کا فعل نہیں کہ میاں بٹالوی کے پنجاب اور ہندوستان میں پھرتے پھرتے پاؤں بھی گھس گئے.لیکن انجام کار خدا تعالیٰ نے ان کو دکھلا دیا کہ کیسے اس کے ارادے انسان کے ارادوں پر غالب ہیں.۱۸۹۳ء ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۶۶) ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۱۷، ۱۸ ، روحانی خزائن جلد ۵ ) التوائے جلسہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۳ء ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ چندا ایسے وجوہ ہم کو پیش آئے جنہوں نے ہماری رائے کو اس طرف مائل کیا کہ اب کی دفعہ اس جلسہ کو ملتوی رکھا جائے.اور چونکہ بعض لوگ تعجب کرینگے کہ اس

Page 26

25 التواء کا موجب کیا ہے.لہذالطور اختصار کسی قدران وجوہ میں سے لکھا جاتا ہے.اول یہ کہ اس جلسہ سے مدعا اور مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکتی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پر ہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں.لیکن اس پہلے جلسہ کے بعد ایسا اثر نہیں دیکھا گیا.بلکہ خاص جلسہ کے دنوں میں ہی بعض کی شکایت سنی گئی کہ وہ اپنے بعض بھائیوں کی بدخوئی سے شاکی ہیں.اور بعض اس مجمع کثیر میں اپنے اپنے آرام کے لئے دوسرے لوگوں سے کج خلقی ظاہر کرتے ہیں گویا وہ مجمع ہی ان کے لئے موجب ابتلاء ہو گیا.اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ جلسہ کے بعد کوئی بہت عمدہ اور نیک اثر اب تک اس جماعت کے بعض لوگوں میں ظاہر نہیں ہوا.اور اس تجربہ کے لئے یہ تقریب پیش آئی کہ ان دنوں سے آجتک ایک جماعت کثیر مہمانوں کی اس عاجز کے پاس بطور تبادل رہتی ہے.یعنی بعض آتے اور بعض جاتے ہیں.اور بعض وقت یہ جماعت سوسو مہمان تک بھی پہنچ گئی ہے اور بعض وقت اس سے کم.لیکن اس اجتماع میں بعض دفعہ بباعث تنگی مکانات اور قلت وسائل مہمانداری ایسے نالایق رنجش اور خود غرضی کی سخت گفتگو بعض مہمانوں میں باہم ہوتی دیکھی ہے کہ جیسے ریل میں بیٹھنے والے تنگی مکان کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں.اور اگر کوئی بیچارا عین ریل چلنے کے قریب اپنی گھڑی کے سمیت مارے اندیشہ کے دوڑ تا دوڑتا ان کے پاس پہنچ جاوے تو اس کو دھکے

Page 27

26 دیتے اور دروازہ بند کر لیتے ہیں کہ ہم میں جگہ نہیں حالانکہ گنجائش نکل سکتی ہے مگر سخت دلی ظاہر کرتے ہیں اور وہ ٹکٹ لئے اور بقیہ اٹھائے اِدھر اُدھر پھرتا ہے اور کوئی اس پر رحم نہیں کرتا مگر آخر ریل کے ملازم جبراً اس کو جگہ دلاتے ہیں.سو ایسا ہی یہ اجتماع بھی بعض اخلاقی حالتوں کے بگاڑنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے اور جب تک مہمانداری کے پورے وسائل میسر نہ ہوں اور جب تک خدا تعالے ہماری جماعت میں اپنے خاص فضل سے کچھ مادہ رفق اور نرمی اور ہمدردی اور خدمت اور جفاکشی کا پیدا نہ کرے تب تک یہ جلسہ قرین مصلحت معلوم نہیں ہوتا.حالانکہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ مبائعین محض اللہ سفر کر کے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کر کے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں.میرے دیکھنے میں مبائعین کو فائدہ ہے.مگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہے.سوا ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے.کسی جلسہ پر موقوف نہیں.بلکہ دوسرے وقتوں میں وہ فرصت اور فراغت سے باتیں کر سکتے ہیں.اور یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ نخواہ التزام اس کا لازم ہے.بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے.ورنہ بغیر اس کے بیچ.اور جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجر بہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد کہ اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے ایک معصیت اور طریق ضلالت اور بدعت شنیعہ ہے.میں ہر گز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں.بلکہ وہ علت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں.اصلاح

Page 28

27 خلق اللہ ہے.پھر اگر کوئی امر یا انتظام موجب اصلاح نہ ہو بلکہ موجب فساد ہو تو مخلوق میں سے میرے جیسا اس کا کوئی دشمن نہیں.اور اخی مکرم حضرت مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالے بارہا مجھ سے یہ تذکرہ کر چکے ہیں کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگوں نے اب تک کوئی خاص اہلیت اور تہذیب اور پاک دلی اور پر ہیز گاری اور لہی محبت با ہم پیدا نہیں کی.سو میں دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب موصوف کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہو کر اور اس عاجز سے بیعت کر کے اور عہد تو بہ نصوح کر کے پھر بھی ویسے کج دل ہیں کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیٹریوں کی طرح دیکھتے ہیں.وہ مارے تکبر کے سیدھے منہ سے السلام علیک نہیں کر سکتے.چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آویں اور انہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنے ادنے خود غرضی کی بناء پر لڑتے اور ایک دوسرے سے دست بدامن ہوتے ہیں.اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے.بلکہ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کر لیتے ہیں اور کھانے پینے کی قسموں پر نفسانی بحثیں ہوتی ہیں.اور اگر چہ نجیب اور سعید بھی ہماری جماعت میں بہت بلکہ یقیناً دوسو سے زیادہ ہی ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو نصیحتوں کو سن کر روتے اور عاقبت کو مقدم رکھتے ہیں اور ان کے دلوں پر نصیحتوں کا عجیب اثر ہوتا ہے.لیکن میں اس وقت کج دل لوگوں کا ذکر کرتا ہوں.اور حیران ہوتا ہوں کہ خدایا یہ کیا حال ہے.یہ کونسی جماعت ہے جو میرے ساتھ ہے.نفسانی لالچوں پر کیوں ان کے دل گرے جاتے ہیں اور کیوں ایک بھائی دوسرے بھائی کو ستاتا اور اس سے بلندی چاہتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے

Page 29

28.بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہرا دے.اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے.تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں.اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سور ہوں اور اس کے لئے جہانتک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں.بلکہ مجھے چاہیئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے.اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہیئے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چین بر جبیں ہوکر تیزی دکھاؤں یا بد نیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں.کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو.جب تک وہ اپنے تیں ہر ایک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری شیخیں دور نہ ہو جائیں.خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں.بلکہ بعض میں ایسی بے تہذیبی ہے کہ اگر ایک بھائی ضد سے اس کی چارپائی پر بیٹھتا ہے تو وہ پختی

Page 30

29 سے اس کو اٹھانا چاہتا ہے.اور اگر نہیں اٹھتا تو چارپائی کو الٹا دیتا ہے اور اس کو نیچے گراتا ہے.پھر دوسرا بھی فرق نہیں کرتا.اور وہ اس کو گندی گالیاں دیتا ہے اور تمام بخارات نکالتا ہے.یہ حالات ہیں جو اس مجمع میں مشاہدہ کرتا ہوں.تب دل کباب ہوتا اور جلتا ہے اور بے اختیار دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے اگر میں درندوں میں رہوں تو ان بنی آدم سے اچھا ہے.پھر میں کس خوشی کی اُمید سے لوگوں کو جلسہ کے لئے اکٹھے کروں.یہ دنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں.ابھی تک میں جانتا ہوں کہ میں اکیلا ہوں.بجز ایک مختصر گروہ رفیقوں کے جو دوسو سے کسی قدر زیادہ ہیں.جن پر خدا کی خاص رحمت ہے.جن میں سے اول درجہ پر میرے خالص دوست اور محبّ مولوی حکیم نورالدین صاحب اور چند اور دوست ہیں جن کو میں جانتا ہوں کہ وہ صرف خدا تعالیٰ کے لئے میرے ساتھ تعلق محبت رکھتے ہیں.اور میری باتوں اور نصیحتوں کو تعظیم کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی آخرت پر نظر ہے.سو وہ انشاء اللہ دونوں جہانوں میں میرے ساتھ ہیں اور میں اُن کے ساتھ ہوں.میں اپنے ساتھ اُن لوگوں کو کیا سمجھوں جن کے دل میرے ساتھ نہیں.جو اس کو نہیں پہچانتے جس کو میں نے پہچانا ہے اور نہ اس کی عظمتیں اپنے دلوں میں بٹھاتے ہیں اور نہ ٹھیٹھوں اور بے راہیوں کے وقت خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور کبھی نہیں سوچتے کہ ہم ایک زہر کھا رہے ہیں جس کا بالضرور نتیجہ موت ہے.درحقیقت وہ ایسے ہیں جن کو شیطانی راہیں چھوڑ نا منظور ہی نہیں.یادر ہے کہ جو میری راہ پر چلنا نہیں چاہتا وہ مجھ میں سے نہیں اور اپنے دعوی میں جھوٹا ہے اور جو میرے مذہب کو قبول کرنا نہیں چاہتا بلکہ اپنا مذہب پسندیدہ سمجھتا ہے وہ مجھ سے ایسا دور ہے جیسا کہ مغرب مشرق سے.وہ خطا پر ہے کہ سمجھتا ہے کہ میں اس کے ساتھ

Page 31

30 ہوں.میں بار بار کہتا ہوں کہ آنکھوں کو پاک کرو اور ان کو روحانیت کے طور سے ایسا ہی روشن کرو جیسا کہ وہ ظاہری طور پر روشن ہیں.ظاہری رؤیت تو حیوانات میں بھی موجود ہے.مگر انسان اس وقت سو جا کھا کہلا سکتا ہے جبکہ باطنی رویت یعنی نیک و بد کی شناخت کا اس کو حصہ ملے اور پھر نیکی کی طرف جھک جائے.سوتم اپنی آنکھوں کے لئے نہ صرف چار پاؤں کی بینائی بلکہ حقیقی بینائی ڈھونڈ و.اور اپنے دلوں سے دنیا کے بُت باہر پھینکو کہ دنیا دین کی مخالف ہے.جلد مرو گے اور دیکھو گے کہ نجات انہیں کو ہے کہ جو دنیا کے جذبات سے بیزار اور بری اور صاف دل تھے.میں کہتے کہتے ان باتوں کو تھک گیا کہ اگر تمہاری یہی حالتیں ہیں تو پھر تم میں اور غیروں میں فرق ہی کیا ہے.لیکن یہ دل کچھ ایسے ہیں کہ توجہ نہیں کرتے اور ان آنکھوں سے مجھے بینائی کی توقع نہیں.لیکن خدا اگر چاہے.اور میں تو ایسے لوگوں سے اس دنیا اور آخرت میں بیزار ہوں.اگر میں صرف اکیلا کسی جنگل میں ہوتا تو میرے لئے ایسے لوگوں کی رفاقت سے بہتر تھا جو خدا تعالیٰ کے احکام کو عظمت سے نہیں دیکھتے اور اس کے جلال اور عزت سے نہیں کانپتے اگر انسان بغیر حقیقی راست بازی کے صرف منہ سے کہے کہ میں مسلمان ہوں یا اگر ایک بھوکا صرف زبان پر روٹی کا نام لاوے تو کیا فائدہ.ان طریقوں سے نہ وہ نجات پائے گا اور نہ وہ سیر ہو گا.کیا خدا تعالے دلوں کو نہیں دیکھتا.کیا اس علیم وحکیم کی گہری نگاہ انسان کی طبیعت کے پاتال تک نہیں پہنچتی.پس اے نادانو ! خوب سمجھو.اے غافلو ! خوب سوچ لو کہ بغیر کچی پاکیزگی ایمانی اور اخلاقی اور اعمالی کے کسی طرح رہائی نہیں.اور جو شخص ہر طرح سے گندہ رہ کر پھر اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے وہ خدا تعالے کو نہیں بلکہ وہ اپنے تئیں دھوکہ دیتا ہے.اور مجھے ان لوگوں سے کیا کام جو

Page 32

31 بچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر نہیں اُٹھا لیتے.اور رسول کریم کے پاک جوئے کے نیچے صدق دل سے اپنی گردنیں نہیں دیتے اور راستبازی کو اختیار نہیں کرتے اور فاسقانہ عادتوں سے بیزار ہونا نہیں چاہتے اور ٹھٹھے کی مجالس کو نہیں چھوڑتے اور ناپاکی کے خیالوں کو ترک نہیں کرتے اور انسانیت اور تہذیب اور صبر اور نرمی کا جامہ نہیں پہنتے بلکہ غریبوں کو ستاتے اور عاجزوں کو دھکے دیتے اور اکڑ کر بازاروں میں چلتے اور تکبر سے گرسیوں پر بیٹھتے ہیں.اور اپنے تئیں بڑا سمجھتے ہیں.اور کوئی بڑا نہیں مگر وہی جو اپنے تئیں چھوٹا خیال کرے.مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا سمجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے اور کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے اور اپنے رب کریم کو یا درکھتے ہیں.اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں.سو میں بار بار کہتا ہوں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے نجات تیار کی گئی ہے.جو شخص شرارت اور تکبر اور خود پسندی اور غرور اور دنیا پرستی اور لالچ اور بدکاری کی دوزخ سے اسی جہان میں باہر نہیں.وہ اس جہان میں کبھی باہر نہیں ہوگا.میں کیا کروں اور کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو اس گروہ کے دلوں پر کارگر ہوں..خدایا مجھے ایسے لفظ عطا فرما اور ایسی تقریریں الہام کر جوان دلوں پر اپنا ٹو ر ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے اُن کی زہر کو دور کر دیں.میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ بھی دن ہو کہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جُھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہر یک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبر سے جو تمام شرارتوں کی جڑ ہے بالکل دُور جاپڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہینگے.مگر ابھی تک بجز خاص چند آدمیوں کے ایسی شکلیں مجھے نظر نہیں آتیں.ہاں نماز پڑھتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ نماز کیا شئے ہے.جب

Page 33

32 تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے.جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا.صرف تقویٰ پہنچتی ہے.ایسا ہی جسمانی رکوع وسجود بھی بیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود و قیام نہ ہو.دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کے لئے اپنے وجود سے دست بردار ہو.سو افسوس ہزار افسوس کہ ان باتوں کا کچھ بھی اثر میں ان میں نہیں دیکھتا.مگر دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دم زندگی ہے کئے جاؤں گا.اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالے میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے.اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اُٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کر دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دُعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا.ہاں میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں بد بخت از لی ہے جس کے لئے یہ مقدر ہی نہیں کہ تیچی پاکیزگی اور خدا ترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کر دے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لا جس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو.اب میری یہ حالت ہے کہ بیعت کرنے والے سے میں ایسا ڈرتا ہوں جیسا کہ کوئی شیر سے.اسی وجہ سے کہ میں نہیں چاہتا کہ دنیا کا کیڑا رہ کر میرے ساتھ پیوند کرے.پس التواء جلسہ کا ایک یہ سبب ہے جو میں نے بیان کیا.دوسرے یہ کہ ابھی ہمارے سامان نہایت نا تمام ہیں.اور صادق جانفشاں بہت کم اور بہت سے کام ہمارے اشاعت کتب کے متعلق قلت مخلصوں کے سبب سے باقی پڑے ہیں.پھر ایسی صورت میں جلسہ کا اتنا بڑا اہتمام جو صد ہا آدمی خاص اور عام کئی دن آ کر قیام پذیر ہیں.اور

Page 34

33 جلسہ سابقہ کی طرح بعض دُور دراز کے غریب مسافروں کو اپنی طرف سے زاد راہ دیا جاوے.اور کماحقہ کئی روز صد ہا آدمیوں کی مہمانداری کی جاوے.اور دوسرے لوازم چار پائی وغیرہ کا صدہا لوگوں کے لئے بندو بست کیا جائے اور ان کے فروکش ہونے کے لئے کافی مکانات بنائے جائیں.اتنی توفیق ابھی ہم میں نہیں اور نہ ہمارے مخلص دوستوں میں.اور یہ بات ظاہر ہے کہ ان تمام سامانوں کو درست کرنا ہزار ہا روپیہ کا خرچ چاہتا ہے.اور اگر قرضہ وغیرہ پر اس کا انتظام بھی کیا جائے تو بڑے سخت گناہ کی بات ہے کہ جو ضروریات دین پیش آرہی ہیں وہ تو نظر انداز رہیں اور ایسے اخراجات جو کسی کو یاد بھی نہیں رہتے اپنے ذمہ ڈال کر ایک رقم کثیر قرضہ کی خواہ نخواہ اپنے نفس پر ڈال لی جائے.ابھی باوجود نہ ہونے کسی جلسہ کے مہمانداری کا سلسلہ ایسا ترقی پر ہے کہ ایک برس سے یہ حالت ہو رہی ہے کہ کبھی تھیں تمہیں چالیس چالیس اور کبھی سوتک مہمانوں کی موجودہ میزان کی ہر روزہ نوبت پہنچ جاتی ہے.جن میں اکثر ایسے غرباء فقراء دُور دراز ملکوں کے ہوتے ہیں جو جاتے وقت ان کو زاد راہ دے کر رخصت کرنا پڑتا ہے.برابر یہ سلسلہ ہر روز لگا ہوا ہے.اور اس کے اہتمام میں مکر می مولوی حکیم نورالدین صاحب بدل و جان کوشش کر رہے ہیں.اکثر دُور کے مسافروں کو اپنے پاس سے زاد راہ دیتے ہیں.چنانچہ بعض کو قریب تمہیں تھیں یا چالیس چالیس روپیہ کے دینے کا اتفاق ہوا ہے.اور دو دو چار چار تو معمول ہے اور نہ صرف یہی اخراجات بلکہ مہمانداری کے اخراجات کے متعلق قریب تین چارسوروپیہ کے انہوں نے اپنی ذاتی جوانمردی اور کریم النفسی سے علاوہ امدادات سابقہ کے ان ایام میں دئے ہیں اور نیز طبع کتب کے اکثر اخراجات انہوں نے اپنے ذمہ کر لئے کیونکہ کتابوں کے طبع کا سلسلہ بھی برابر جاری ہے.گو بوجہ ایسے لابدی مصارف کے اپنے مطبع کا اب تک انتظام نہیں ہو سکا.لیکن مولوی صاحب

Page 35

34 موصوف ان خدمات میں بدل و جان مصروف ہیں.اور بعض دوسرے دوست بھی اپنی ہمت اور استطاعت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں.پھر کب تک اس قدر مصارف کا محمل نہایت محمد ود آمدن سے ممکن ہے.غرض ان وجوہ کے باعث اب کے سال التوائے جلسہ مناسب دیکھتا ہوں.آگے اللہ جل شانہ کا جیسا ارادہ ہو.کیونکہ اس کا ارادہ انسان کے ضعیف ارادہ پر غالب ہے.مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے.اور میں نہیں جانتا کہ خدا تعالے کا منشاء میری اس تحریر کے موافق ہے یا اس کی تقدیر میں وہ امر ہے جو اب تک مجھے معلوم نہیں.وافوض امرى الى الله واتوكل عليه هو مولانا نعم المولى ونعم النصير اکسار غلام احمد از قادیان ی اشتہار شہادت القرآن مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ باراول کے آخر پر صفحہ۱ تا ۵ پر ہے) ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء اعلان.دسمبر میں تعطیلوں کے دنوں میں ہمیشہ جلسہ ہوتا تھا لیکن اب کے دسمبر میں میں اور میرے گھر کے لوگ اور اکثر خادمہ عورتیں اور مردموسمی بیماری سے بیمار ہیں خدمت مہمانوں میں فتور ہوگا.اور بھی کئی اسباب ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے.اسلئے اعلان کیا جاتا ہے کہ اب کی دفعہ کوئی جلسہ نہیں ہے.ہمارے سب دوست مطلع رہیں.والسلام.المعلن مرزا غلام احمد کتاب راز حقیقت روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۵۳)

Page 36

35 ارشادات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ( مضمون کی ترتیب کے لحاظ سے ).پس منظر غرض و غایت و عظمت.برکات و فوائد.شمولیت کی تاکید و توجہ سے سننے کی تاکید و عدم شمولیت پر افسوس ضروری ہدایات • شرکاء کے لئے محبت بھری دعائیں

Page 37

Page 38

37 جلسه سالانہ کا پس منظر اور غرض وغایت....اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو.پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے.ماسوا اس کے جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں.کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے طیار ہورہے ہیں...(اشتہارے دسمبر ۱۸۹۲ء.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۳۴۰-۳۴۱) اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور با ہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں....(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۹۴).....میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں

Page 39

38 اصلاح خلق اللہ ہے.دو شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۹۵) تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو.اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے.اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے.تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے.سواس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دعا کرنا چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو.کبھی کبھی ضرور ملنا چاہیئے.کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی.اور چونکہ ہر ایک کے لئے بباعث ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے آوے.کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حر جوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں.الہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قو یہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو سمیں 66 آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلده صفحه ۳۵۱)

Page 40

39 وفات پا جانے والوں کے لئے اجتماعی دعائے مغفرت ” جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی.“ آسمانی فیصله، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۵۲) دو کی عظمت.اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس 66 قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں..؟ دو (اشتہارے دسمبر ۱۸۹۲ء مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحه ۳۴۱) کی برکات و فوائد...حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دُعا میں شریک ہونے کے لئے اُس تاریخ پر آجانا چاہیئے اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعا ئیں اور خاص توجہ ہو گی اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالے اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے.اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر ایک نئے سال جس قدر نئے بھائی

Page 41

40 اس جماعت میں داخل ہونگے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رفتہ تو ڑ دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا.....اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہونگے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے..66 آسمانی فیصلہ اشتہار ۳۰ دسمبر ۱۸۹۱ء روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۵۲) اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جل شانہ کوشش کی جائے گی.“ آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن، جلد ۴، صفحه ۳۵۲) میں شمولیت کے لئے تاکیدی ارشادات سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروانہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہر ایک کے لئے باعث ضعف فطرت یا کمی کمقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے آوے.کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں.لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں.جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موافع قویہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۳۰۲)

Page 42

41 دل تو ہی چاہتا ہے کہ مباتعین محض اللہ سفر کر کے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کر کے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں.میرے دیکھنے میں مبائعین کو فائدہ ہے مگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہے سو ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے.“ شہادت القران ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۹۵) دین تو چاہتا ہے مصاحبت ہو، پھر مصاحبت ہو.اگر مصاحبت سے گریز ہو تو دینداری کے حصول کی امید کیوں رکھتا ہے.ہم نے بار بار اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ بار بار یہاں آ کر رہیں اور فائدہ اٹھا ئیں.مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے.لوگ ہاتھ میں ہاتھ دیکر دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں.مگر اس کی پرواہ کچھ نہیں کرتے.یا درکھو قبر میں آواز میں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جا رہی ہے.ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے ہو.اللہ تعالیٰ سے مکر کرنا مومن کا کام نہیں ہے جب موت کا وقت آ گیا پھر ایک ساعت آگے پیچھے نہ ہوگی وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قدر نہیں کرتے اور انہیں کوئی عظمت اس سلسلہ کی معلوم ہی نہیں ان کو جانے دو مگر ان سب سے بدقسمت اور اپنی جان پر ظلم کرنے والا تو وہ ہے جس نے اس سلسلہ کو شناخت کیا اور اس میں شامل ہونے کی فکر کی لیکن پھر اس نے کچھ قدرنہ کی.وہ لوگ جو یہاں آکر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور ان باتوں کو جو خدا تعالیٰ ہر روز اپنے سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہے نہیں سنتے اور دیکھتے وہ اپنی جگہ کیسے ہی نیک متقی اور پر ہیز گار ہوں مگر میں یہی کہوں گا کہ جیسا چاہیئے انہوں نے قدر نہ کی.میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تکمیل علمی کے بعد تحمیل عملی کی ضرورت ہے اور تکمیل عملی بدؤں تکمیل علمی کے محال ہے اور جب تک یہاں

Page 43

آ کر نہیں رہتے تحمیل علمی مشکل.42 (الحکم ۷ استمبر ۱۹۰۱ء).....اور کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں.اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑا سر مایہ خرچ سفر کے لئے ہر روز یاماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلا دقت سرمایہ سفر میسر آجاوے گا.گویا یہ سفر مفت میسر ہو جائے گا.آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۵۲) کا لازمی تقاضا سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے پورے غور اور فکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا ہے اس میں سستی ،غفلت اور عدم توجہ بہت برے نتائج پیدا کرتی ہے.جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جائے تو غور سے اس کو نہیں سنتے.ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں اور دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں پس یا درکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوےاسے توجہ اور بڑے غور سے سنو کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا“ (الحکم امارچ ۱۹۰۲ء)

Page 44

43 دسمبر ۱۸۹۹ء کے پر بہت کم لوگ آئے.اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بہت اظہار افسوس کیا اور فرمایا: پر نہ آنے والوں پر اظہار افسوس ” ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ بن جائیں.وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے.وہ پوری نہیں ہو سکتی.جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اکتائیں.اور فرمایا.”جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اس پر بوجھ پڑتا ہے.یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہو گا.اسے ڈرنا چاہیئے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے.ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہو جائے تو ہمارے مہمات کا متکفل خدا تعالیٰ ہے.ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں.ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے.یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے دور پھینکنا چاہیئے.میں نے بعض کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت صاحب کو تکلیف دیں.ہم تو نکھے ہیں.یوں ہی روٹی بیٹھ کر کیوں تو ڑا کر یں.وہ یہ یا درکھیں یہ شیطانی وسوسہ ہے جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا ہے کہ ان کے پیر یہاں جمنے نہ پائیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحه ۴۵۵) جلسہ پر آنے والوں کے لئے ضروری ہدایات لازم ہے کہ اس جلسہ پر جو ئی با برکت مصالح پر مشتمل ہے ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لاویں جو زاد راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور اپنا سرمائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدر

Page 45

44 ضرورت ساتھ لاویں اور اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں ادنے ادنے حرجوں کی پرواہ نہ کریں.“ دو (اشتہارے دسمبر ۱۸۹۲ء، مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۳۴۱) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے.اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجوداپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چار پائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اسکے مقابل پر امن سے سو رہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں بلکہ مجھے چاہیئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے.اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہیئے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں بر جبیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بد نیتی سے اسکی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں.کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جبتک اس کا دل نرم نہ ہو.جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری شیخیں دور نہ ہو جا ئیں خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الہی ہونیکی علامت ہے ، اور

Page 46

45 بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جاتا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں 66 شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۹۵-۳۹۶) کے شرکاء کے لئے دعائیں ہر یک صاحب جو اس لڑی جلسہ کے لئے سفراختیار کریں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم وغم دور فرما دے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخاصی عنایت کرے اور ان کی مُرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روزِ آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھا وے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا اے ذوالحجد و العطاء اور رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.آمین ثم آمین.(اشتہارے دسمبر ۱۸۹۲ء مجموعه اشتہارات جلد اول صفحه ۳۴۲) اس جلسہ پر جسقد را حباب محض اللہ تکلیف سفر اُٹھا کر حاضر ہوئے خُدا اُن کو جزائے خیر بخشے اور اُنکے ہر یک قدم کا ثواب اُنکو عطا فرمادے.آمین ثم آمین آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد۴، صفحه ۳۵۱ تا ۳۵۳) ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۳۰۲ تا ۳۰۴)

Page 47

Page 48

47 جلسه سالانه کا عالمگیر شجره طقیه ایک مختصر تاریخی جائزہ

Page 49

Page 50

49 وہ جلسہ جو سال میں ایک دفعہ ہوتا ہے اسے کہا جاتا ہے.جماعت احمدیہ کا پہلا ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں منعقد ہوا.جماعت احمدیہ کی بنیاد ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو رکھی گئی تھی.گویا قیام جماعت کے قریباً دو سال بعد پہلا منعقد ہوا تھا.اس جلسہ کے انعقاد کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ ۱۸۹۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رسالہ آسمانی فیصلہ کے نام سے شائع فرمایا اور اس میں ان علماء کو جو آپ کو کا فرقرار دیتے تھے یہ دعوت دی گئی کہ قرآن مجید میں مومنوں کی جو علامات بیان فرمائی ہیں ان میں میرا مقابلہ کر لیں اسی مقابلہ کو فیصلہ کی حیثیت دینے کے لئے آپ نے تجویز فرمایا تھا کہ لاہور میں ایک انجمن قائم کر دی جائے اور اس انجمن کے ممبر فریقین کی مرضی سے مقرر کر لئے جائیں.آپ نے اس انجمن کی تشکیل کے لئے مزید مشورہ کی غرض سے احباب جماعت کو ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں آنے کے لئے ارشاد فرمایا.چنانچہ اس جلسہ میں شمولیت کے لئے ۷۵ احباب حاضر ہوئے.اور اس روز نماز ظہر کے بعد مسجد اقصیٰ قادیان میں جلسہ شروع ہوا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے رسالہ ” آسمانی فیصلہ پڑھ کر احباب کو سنایا اور اُسی روز بالا تفاق یہ طے پایا کہ سر دست اس رسالہ کو شائع کر دیا جائے اور مخالفین کا عندیہ معلوم کر کے پھر انجمن کے ممبر مقرر ہوں.اسی کے بعد جلسہ کی کاروائی ختم ہوگئی.احباب نے حضور سے مصافحہ کیا.یہ مختصر رو دا داس جلسہ کی ہے جو بعد میں با قاعدہ کی شکل اختیار کر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد کے دیگر جلسے جماعت احمدیہ کا دوسرا ۲۷، ۲۸ دسمبر ۱۸۹۲ء کو قادیان میں ہوا.اس میں اللہ

Page 51

50 تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پانچ سو احباب جماعت نے شرکت کی اور ان میں سے تین سوستائیس احباب قادیان سے باہر کے تھے.۱۸۹۳ء کا بعض وجوہ سے ملتوی کر دیا گیا.۱۸۹۴ء تا ۱۹۰۰ء میں مسجد اقصیٰ قادیان میں جلسے منعقد ہوتے رہے.۱۸۹۶ء میں جلسہ مذاہب عالم لاہور (جس میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا مضمون پڑھا گیا تھا ) جو کہ دسمبر میں ہی منعقد ہوا تھا اسی کے پیش نظر قادیان میں جلسہ سالا نہ ملتوی کر دیا گیا.۱۹۰۰ء میں بھی مسجد اقصیٰ قادیان میں جلسہ ۲۶، ۲۷، ۲۸ دسمبر کی تاریخوں میں ہوا تاہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ناسازی طبع کیوجہ سے صرف ایک دفعہ خطاب فرمایا.اور اس جلسہ میں ۵۰۰ احباب نے شرکت کی.۱۹۰۱ء میں کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے.۱۹۰۵ء کے جلسہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس جلسہ میں بہشتی مقبرہ کے انتظام کیلئے ایک انجمن بنائی گئی جس کا نام ” انجمن کار پردازان مصالح بہشتی مقبرہ رکھا گیا.دور مسیح موعود علیہ السلام کا آخری مسجد اقصی قادیان میں ۲۶، ۲۷، ۲۸ دسمبر ۱۹۰۷ء کو منعقد ہوا.مؤرخہ ۲۵ دسمبر کو انجمن تشخیز الاذہان کا جلسہ ہوا.مؤرخہ ۲۶ دسمبر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام صبح جب سیر کے لئے تشریف لے گئے تو حسب معمول بہت سے احباب ساتھ ہو گئے.اثناء سیر حضور ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور قریباً دو گھنٹہ تک اپنے خدام کو مصافحہ کا شرف بخشا.مؤرخہ ۲۷ اور ۲۸ تاریخ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو تزکیہ نفس کی طرف توجہ دلائی.۲۸ دسمبر کو آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "زندگی کا کچھ اعتبار نہیں جس قدر لوگ آج اس جگہ موجود ہیں معلوم نہیں ان میں سے کون سالِ آئیندہ تک زندہ رہے گا اور کون مرجائے گا“ اس جلسہ میں مہمانوں کی بہت کثرت تھی.جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ کے علاوہ اردگرد کی دکانوں اور

Page 52

51 گھروں اور ڈاکخانہ کی چھتوں پر کھڑے ہو کر لوگوں نے نماز ادا کی.کے آغاز سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں سترہ سال جلسہ کے ایام آئے ان ایام میں تین جلسے ۱۸۹۳، ۱۹۰۲،۱۸۹۶ ملتوی ہوئے اور چودہ جلسے ایسے منعقد ہوئے جن میں خود حضرت مسیح موجود علیہ السلام النفس نفیس شریک ہوئے اور احباب کو برکت بخشی.حضرت خلیفتہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں حضرت حکیم مولوی الحاج نورالدین خلیفتہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں چھ سالانہ جلسے منعقد ہوئے گویا ( ۱۹۰۸ ء تا مارچ ۱۹۱۴ء ) ہر سال با قاعدگی کے ساتھ جلسے منعقد ہوتے رہے.البتہ ۱۹۰۹ء کا جلسہ بعض وجوہ کی بناء پر ۲۵ تا ۲۷ مارچ ۱۹۱۰ء کو منعقد ہوا.اور ۱۹۱۰ء کا جلسہ سالانه ۲۵ تا ۲۷ دسمبر ۱۹۱۰ء کو منعقد ہوا اس لحاظ سے ۱۹۱۰ء کے سال میں دو جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہوئے.ہوئے.حضرت خلیفتہ اُسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں جلسہ ہائے سالانہ حضرت خلیفہ امسیح الا اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو ہوئی تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے.آپ کا دور ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء سے ۸ نومبر ۱۹۶۵ء تک پھیلا ہوا ہے.آپ کے دور مبارک میں باون جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہوئے.قیام پاکستان سے قبل ۳۳ جلسے قادیان میں ہوئے.ان میں سے ۳۲ جلسے مسجد نور اور اس کے ملحقہ گراؤنڈ میں ہوئے جبکہ ۱۹۴۱ء کا جلسہ مسجد اقصیٰ قادیان میں منعقد ہوا.متحدہ ہندوستان میں قیام پاکستان سے قبل آخری جلسہ ۱۹۴۶ء میں قادیان مسجد نور میں ہوا.قیام پاکستان کے

Page 53

52 بعد حضرت مصلح موعودؓ کے عہد میں اُنیس جلسے ہوئے.ان میں صرف ۱۹۴۷ ء اور ۱۹۴۸ء کے جلسے جو کہ مارچ کے مہینے میں ہوئے لاہور میں منعقد ہوئے.بعض جلسوں کے بارہ میں کچھ مزید دلچسپ باتیں درج کی جاتی ہیں.۱۹۱۴۴ء کو پہلی مرتبہ خواتین کو جلسہ میں مدعو کیا گیا.۱۹۱۷ء میں خواتین کا پہلا جلسہ ہوا جس کا الگ طور پر انتظام کیا گیا.۱۹۲۲ء میں لجنہ کی بنیاد رکھی گئی اور پہلی دفعہ لجنہ کے زیر انتظام پہلا جلسہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی کی کوٹھی پر ہوا.۱۹۳۶۶ء میں پہلی مرتبہ میں لاؤڈ سپیکر استعمال ہوا.۱۹۳۹ء کا جلسہ خلافت جو بلی کے طور پر منایا گیا.۲۸ دسمبر کی صبح سے خلافت جوبلی کی مبارک تقریب کے پروگرام شروع ہوئے.مختلف علاقوں اور مختلف ممالک کی جماعتیں مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار پڑھتی اور حمد کے گیت گاتی ہوئی اپنے جھنڈے لئے جلسہ گاہ پہنچیں.تمام جھنڈے جن کی تعداد تقریباً ۵۰ تھی، جلسہ گاہ کی اوپر کی گیلریوں میں کھڑے کر دیئے گئے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ نے چیک کی صورت میں دو لاکھ ستر ہزار روپے کی رقم حضور کی خدمت میں پیش کی حضور نے اسے قبول فرمایا اور اپنی تقریر میں حضور نے شکریہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ یہ رقم جماعت ہی کے کاموں پر خرچ کی جائے گی.اس کے بعد حضور نے دعائیں پڑھتے ہوئے نعرہ ہائے تکبیر کے دوران پہلی دفعہ لوائے احمدیت اور لوائے خدام الاحمدیہ اہرایا اور زنانہ جلسہ گاہ تشریف لے جا کر لجنہ اماءاللہ کا جھنڈا لہرایا.یہ پہلا موقعہ تھا کہ دو انگریز نواحمدی خواتین اس جلسہ

Page 54

53 53 میں شامل ہوئیں.ایک اہم جلسہ ۱۹۴۴ کا جلسہ بعض لحاظ سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہو گیا.اسی سال اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر یہ انکشاف کیا گیا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں.چنانچہ آپ نے اسی جلسہ پر جو تقریر فرمائی اس میں حلفاً یہ امر پیش فرمایا کہ آپ ہی پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق ہیں اور بتایا کہ پیشگوئی مصلح موعود میں اللہ تعالیٰ نے موعود بیٹے کی ۵۲ علامات بیان فرمائی ہیں وہ تمام اللہ تعالیٰ نے میرے حق میں پوری فرما دی ہیں.ربوہ کا ۱۹۴۹ء کا ۱۵، ۱۶، ۱۷ اپریل ۱۹۴۹ء کو ہوا.یہ ربوہ کا پہلا جلسہ تھا.اس جلسہ سے چند روز قبل ربوہ کا ریلوے اسٹیشن منظور کیا گیا جس سے مہمانوں کو بہت سہولت ہوگئی.مہمانوں کی رہائش کے لئے اسٹیشن کے قریب ہی بیر کیں بنائی گئیں.جگہ کم ہونے کی وجہ سے بہت سے مہمان خیموں میں سوئے.ایک پہاڑی کے دامن میں لنگر خانہ قائم کیا گیا جس میں ۴۵ تنور لگائے گئے.۱۹۶۴ء کا جلسہ دور مصلح موعود کا آخری جلسہ ثابت ہوا.اس جلسہ میں حضور نا سازی طبع کی وجہ سے تشریف نہ لائے اور افتتاحی اور اختتامی پیغامات حضرت مولانا جلال الدین صاحب سمس رضی اللہ عنہ کو پڑھ کر پیش کرنے کی سعادت ملی.اسی سال لجنہ اماءاللہ کی طرف سے ڈنمارک میں مسجد تعمیر کرنے کے لئے دولاکھ روپے

Page 55

54 نقد اور ایک لاکھ روپے کے وعدے فوری طور پر پیش کئے گئے.اگلے سے قبل ہی مورخہ ۷ اور ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب خدا کا یہ پیارا بندہ ہم سے جدا ہو گیا، آپ کا دور ایک عظیم دور کے طور پر ہمیشہ یادر ہے گا.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد مبارک میں نومبر ۱۹۶۵ ء وہ دن ہے جب قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اس عظیم منصب پر فائز ہوئے اور جماعت احمدیہ کی امامت کی عظیم ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈالی گئی.آپ کا مبارک دور نومبر ۱۹۶۵ء سے جون ۱۹۸۲ء تک قریباً سترہ سال پر محیط ہے.آپ کے عہد مبارک میں سولہ جلسہ ہائے سالانہ ہوئے.یہ تمام جلسے ربوہ میں ہوئے.۱۹۶۶ء کا رمضان المبارک کی وجہ سے مؤخر کر دیا گیا اور پھر ۲۶ تا ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء کو منعقد کیا گیا.اسی طرح ۱۹۶۷ء کا جلسہ مؤخر کر کے ۱۱ تا ۱۳ جنوری کو منعقد کیا گیا.۱۹۶۸ء کا جلسہ ۲۶ تا ۲۸ دسمبر کو ہوا.اس طرح اس سال یعنی ۱۹۶۸ء میں دو جلسے ہوئے.۱۹۷۱ء کا پاکستان اور بھارت کی جنگ کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا.پندرھویں صدی ہجری کا پہلا ۲۶ تا ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ کو ہوا.۱۹۸۱ ء کا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور کا آخری جلسہ ثابت ہوا.اس دور کے تمام مردانہ جلسے مسجد اقصٰی ربوہ میں ہوئے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عہد مبارک میں ۱۹۸ ء سے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کا بابرکت دور شروع ہوا.آپ ۱۹۸۲ء

Page 56

55 کے دور میں ربوہ پاکستان میں صرف ۱۹۸۲ ء اور ۱۹۸۳ء کے دوسالانہ جلسے ہوئے اس کے بعد آج تک بعض قانونی مجبوریوں کی وجہ سے یہ جلسہ منعقد نہ ہو سکا.۱۹۸۳ء کے میں حاضری ایک اندازہ کے مطابق دو لاکھ ۷۵ ہزار سے زائد تھی.وہ کارواں جو صرف ۷۵ احباب سے شروع ہوا.۱۹۸۳ء میں لاکھوں میں جا پہنچا فضل باری تعالیٰ کی یہ ایک مثال صرف ایک ملک میں ہے.جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ برطانیہ میں جلسہ ہائے سالانہ کا آغاز با قاعدگی کے ساتھ ۳۰،۲۹.اگست ۱۹۶۴ء - ہوا.۱۹۸۴ء میں جب اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے تحت حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لندن تشریف لائے تو برطانیہ کے سالانہ جلسوں کو بین الاقوامی اور مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی.۱۹۸۴ء کا سالانہ جلسہ اپنے پروگرام کے مطابق ۲۶،۲۵ اگست کو منعقد ہوا.اس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اختتامی خطاب فرمایا.۵ تا ۷ اپریل ۱۹۸۵ ء کا وہ جلسہ تھا جو پہلی دفعہ اسلام آباد تلفورڈ سرے لندن میں ہوا.۴۸ سے زائد ممالک کے نمائندوں نے اس میں شمولیت کی.یہ وہ تھا جس سے لندن میں بین الاقوامی جلسوں کا آغاز ہوا اور جس کے تینوں روز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطابات فرمائے.۱۹۸۷ء کے جلسہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی بار مختلف ممالک کے جھنڈے لہرائے گئے.۱۹۸۸ء میں ان ۱۷ا ممالک کے جھنڈے لہرائے گئے جہاں جماعت احمد یہ قائم ہو چکی تھی.۱۹۸۹ء کا جلسہ خاص اہمیت کا حامل جلسہ تھا کیونکہ یہ احمدیت کے قائم ہونے پر سوسال

Page 57

56 پورے ہونے کا جوبلی جلسہ تھا.اس جلسہ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں حضرت مولوی محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی شامل ہوئے جنہیں خاص طور پر حضور نے اس جلسہ کے لئے بلایا تھا.برطانیہ کی ایک خاص بات عالمی بیعت کے سلسلہ کا اجرا ہے.۱۹۹۳ کے کے موقع پر حضور نے یہ سلسلہ جاری فرمایا اور MTA کی وساطت سے ساری دنیا کے کروڑوں احمدی اس میں شامل ہوئے اور اب بھی ہوتے ہیں.۱۹۹۳ میں نئے بیعت کنندگان کی تعداد دو لاکھ چار ہزار تین سو آٹھ تھی.بیعت کے الفاظ دہرانے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتداء میں حاضرین اور کل عالم کے احمدیوں نے سجدہ شکر ادا کیا.جلسہ ہائے سالانہ قادیان تقسیم ہندو پاک ۱۹۴۷ء کے بعد بھی قادیان کے جلسے حسب دستور جاری رہے.اگر چہ اس وقت مشکلات بہت تھیں مگر درویشان قادیان نے اس مبارک روایت کو جاری رکھا.چنانچہ ۱۹۴۷ء کے جلسہ میں ۲۵۳ در ولیش اور ۶۲ غیر مسلم احباب شامل ہوئے.اس کے بعد یہ جلسہ سوائے چند سالوں کے وقفہ کے جاری رہا.1991ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنفس نفیس اس میں شرکت فرمائی.یہ تاریخ کا ایک اہم دن تھا.۱۹۴۶ء کے بعد کسی خلیفتہ اسیح کی قادیان میں موجودگی میں ہونے والا یہ پہلا جلسہ تھا.دنیا کے دیگر ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ملک ملک میں جلسے شروع ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ ان

Page 58

57 با برکت جلسوں کو جاری و ساری رکھے اور ساری دنیا کو ان کی برکات سے متمتع فرمائے.ان تمام کی تفصیلات درج کرنا ناممکن ہے تاہم چند ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ کے آغاز کے سن یہاں درج کئے جار ہے ہیں.من آغاز ملک بنگلہ دیش ١٩٢٣ء ماریشس ١٩٢٣ء غانا ١٩٢٣ء انڈونیشیا ۱۹۲۷ء امریکہ ۱۹۴۸ء سیرالیون ١٩٤٩ء جرمنی ۱۹۷۶ء کینیڈا ۱۹۷۷ء بیسویں صدی میں دنیا کے مختلف ممالک میں جاری ہونے والے جلسے نہایت اہمیت کے حامل ہیں گو عام دنیا ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی مگر آنے والی نسلیں جان لیں گی کہ یہی جلسے انقلاب عظیم کا باعث ہوں گے جو دنیا کی تقدیر بدل دیں گے.انشاءاللہ.(ماہنامہ تشخیذ الاذھان مئی جون ۲۰۰۱ء)

Page 59

58 آسٹریلیا کینیڈا ہالینڈ نیوزی لینڈ کا انعقاد کرنے والے ممالک کا بنگلہ دیش ڈنمارک انڈونیشیا نیپال کونگو ریپبلک(زائر) برکینا فاسو نائیجیریا قلبي جاپان پرتگال ببینن دی گیمبیا انڈیا ناروے برما فرانس بھوٹان کینیا گنی بساؤ لائیبیریا پاکستان برازیل آئیوری کوسٹ 號 ملائیشیا کمبوڈیا سری لنکا سیرالیون گوئٹے مالا سویڈن سوئٹزرلینڈ ساؤتھ افریقہ زیمبیا سینیگال سین انگلستان سر بینام یوگنڈا زمبابوے تنزانیہ ٹرینیڈاڈ امریکہ ماریشس اور متعدد دیگر ممالک جرمنی بوسنیا غانا ( گھانا )

Page 60

59 عالمی بیعت کاریکارڈ 19 سے کے موقع پر عالمی بیعت کا مبارک سلسلہ شروع ہوا.اب تک ہونے والی بیعتوں کی تعداد درج ذیل ہے.اللهم زد و بارک لنا.آمین سال تعداد 2,04308 1993 4,21,753 1994 8,47,725 1995 16,02,721 1996 30,04,585 1997 50,04,591 1998 1999 2000 دولاکھ چار ہزار تین سو آٹھ چار لاکھ اکیس ہزار سات سوتر بین آٹھ لاکھ سینتالیس ہزار سات سو پچپیس سولہ لاکھ دو ہزار سات سوا کیس تمیں لاکھ چار ہزار پانچ سو پچاسی پچاس لاکھ چار ہزار پانچ سوا کانوے 2001 1,08,20,226 ایک کروڑ آٹھ لاکھ بیس ہزار دو سو چھبیس 4,13,08,975 چار کروڑ تیرہ لاکھ آٹھ ہزار نو سو پچھتر 8,10,06,721 آٹھ کروڑ دس لاکھ چھ ہزار سات سوا کیس کل میزان 14,42,21,605 چودہ کروڑ بیالیس لاکھ اکیس ہزار چھ سو پانچ

Page 61

Page 62

61 کے بارہ میں سید نا حضرت امیر المومنين خليفة اسم الرابع و العالى بضر العزيز کے بعض اہم ارشادات اور ضروری ہدایات

Page 63

Page 64

63 یہ وہ سالانہ جلسہ ہے جو ایک عالمی نوعیت اختیار کر چکا ہے.سب جلسے بہت اچھے ہوتے ہیں محض اللہ کی خاطر دور دور سے لوگ اکھٹے ہوتے ہیں بہت سے فوائد باہمی محبت کے ذریعے بھی بڑھتے ہیں اور دیگر روحانی اور آسمانی برکات بھی بکثرت نازل ہوتی ہیں.جرمنی کا جلسہ بھی بہت غیر معمولی نوعیت اختیار کر چکا ہے کینیڈا کا بھی اپنا رنگ رکھتا تھا امریکہ کا بھی ، دور دور سے مہمان آتے ہیں اور ان سے مل کر محبتیں تازہ ہوتی ہیں پرانی یاد میں پھر زندہ ہو جاتی ہیں اور آئندہ کے لئے گویا زادِراہ مل جاتا ہے.بعض جلسے ایسے ہیں اتنا روحانی زاد چھوڑ جاتے ہیں ایسی غذا پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کہ سارا سال یادوں میں ان کو کھایا جاتا ہے اور وہ ختم نہیں ہوتیں.مگر یو.کے.یعنی United Kingdom کا جو جلسہ ہے اس کی اپنی ایک شان ہے.اس کثرت سے دور دراز سے، مشرق و مغرب، شمال و جنوب سے دنیا کے کسی جلسے میں لوگ اس طرح اکٹھے نہیں ہوتے جیسے انگلستان کے جلسے میں آتے ہیں اس لئے اس پہلو سے اسے ایک مرکزیت حاصل ہوگئی ہے.اور وہ آتے ہیں جن کا انتظار رہتا ہے.بعض چہرے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں.خاص طور پر اپنے مظلوم بھائی ، مظلوم بہنیں ، مظلوم بچے جو پاکستان سے آتے ہیں.اترے ہوئے، دکھے ہوئے چہرے آتے ہیں تو کھلکھلا اٹھتے ہیں.نئی زندگی نئی تازگی پیدا ہوتی ہے.خو شیاں بھی لاتے ہیں غم بھی لاتے ہیں اور بیک وقت ایسی کیفیت میں وقت گزرتا ہے کہ اس کا بیان ممکن نہیں.لیکن جلسے کی عادت یہ ہے کہ مدتوں انتظار کراتا ہے راہ دیکھتے چلے جاتے ہیں جب آتا ہے تو ایسے گزر جاتا ہے جیسے پلک جھپکنے میں نکل گیا.یہ وصل کی کفیت کا حال ہے اور محبت کے طبعی تقاضے ہیں.ایک ایسی ہی کفیت کو بیان کرنے کے لئے میں نے ایک دفعہ ، اپنے ایک شعر میں یوں کو شش کی تھی کہ

Page 65

64 لمحات وصل جن ازل کا گمان تھا چٹکی میں اڑ گئے وہ طیور سرور شب یعنی وہ لمحات وصل کے جب تھے تو لگتا تھا کہ ازل آگئی ہے، وقت ٹھہر گیا ہے، اور جب گزرے تو سیہ رات کے پرندے لگتا تھا کہ چکٹی میں اڑ گئے.ہمارے جلسے بھی اسی طرح آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ابھی کچھ دیکھا بھی نہیں تھا کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا، گزر گیا.پس جتنے بھی لمحات ہیں ان کی قدر کریں.میں ایک اور بات کی نصیحت آپ کو کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس جلسے میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ پہلے سے بھی بڑھ کر غیر معمولی فضلوں کو نازل ہوتا دیکھیں گے.اور ان فضلوں کے دیدار کی جو خدا نے توفیق عطا فرمائی ہے اس کا شکر ادا کرنا واجب ہے.یہ دن ذکر الہی میں گزاریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر اس کے احسانات کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے وقت کو کاٹیں اور اس جنت سے لطف اندوز ہوں.جو شکر کی جنت ہے ویسی کوئی جنت نہیں.شکر ایک ایسی عظیم نعمت ہے کہ شکر گزار بندہ جو ہے وہ واقعتا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے تلے اس دنیا میں ہی جنت پا جاتا ہے.اور اس کے عظیم فوائد ہیں جو اپنی ذات میں الگ خطاب کو چاہتے ہیں مگر اتنا میں آپ کو کہوں گا کہ خدا کے فضلوں کا شکر کیسے ممکن ہوگا جو بارش کی طرح برس رہے ہوں ان گنت ہوں، ناممکن ہے کہ آپ ان کا احاطہ کر سکیں.تو جہاں تک ہمارا فرض ہے ہمیں چاہیئے کہ جس حد تک ممکن ہے خدا کے فضلوں پر نظر کر میں اور خدا کے احسان کا بدلہ تو انسان اتار ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے.ایک ذریعے سے وہ احسان 66 کا بدلہ اتارنے کا احساس اور شعور بیدار کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسمار زقنهم ينفقون “ جتنا

Page 66

65 خدا عطا فرماتا ہے اتنا ہی وہ آگے بنی نوع انسان پر اور نیک کاموں پر خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.یہ جلسہ ہمارے لئے ایک عمومی عالمی تربیت کے پیغام بھی لایا ہے، مواقع بھی لایا ہے.دعائیں کرتے رہیں اللہ تعالیٰ ہمیں سب تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخشے.سب مہمان ہم سے خوش جائیں ہم مہمانوں سے خوش رہیں.جلسہ آیا تو ہے مگر ختم ہو جائے گا.اللہ خیر وعافیت سے ختم کرے، فضلوں کی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور ان جلسوں میں ہمیشہ ہمیں پہلے سے بڑھ کر خدا کے فضلوں کی زیارت کی توفیق ملے اور اس کے احسانات کا شکر ادا کرنے کی توفیق ملے.( خطبہ جمعہ فرموده ۱۹ جولائی ۱۹۹۶ بحوالہ الفضل انٹر نیشنل ۶ ستمبر ۱۹۹۶) سب سے پہلے تو میں دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ ان سب کو جو آ گئے اور ان سب کو بھی جو آنے والے ہیں اور ان سب کو بھی جو آنہیں سکے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اور ان انتظامات کے سلسلے میں جو بشری کمزوریاں رونما ہوں ان سے صرف نظر فرما ئیں اور جہاں تک ہو سکے عفو کا سلوک کریں اور بخشش کا سلوک کریں کیونکہ انسان جو اپنے بھائیوں سے عفو اور بخشش کا سلوک کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی عفو اور بخشش کا سلوک فرماتا ہے.پس عفو اپنی ذات میں ایک بہت اعلیٰ خلق ہے اور بخشش بھی اپنی ذات میں ایک بہت اعلیٰ خلق ہے لیکن اگر خدا کے حوالے سے کئے جائیں تو یہ دوہرا فائدہ ہے دنیا کا بھی اور دین کا بھی.کیونکہ جو اللہ کی خاطر عفو کیا جائے اللہ کی خاطر مغفرت کی جائے اس میں اللہ تعالیٰ اپنے اوپر یہ حق بنا لیتا ہے کہ ایسے بندے سے میں بھی عفو کا سلوک فرماؤں اور مغفرت کا سلوک فرماؤں.تو بہت ہی اچھا موقع ہے کہ بظاہر ایک

Page 67

99 66 تاریکی سے نور نکال لیا جائے.( خطبہ جمعہ فرموده ۱۲ جولائی ۱۹۹۶ ء بحواله الفضل انٹرنیشنل ۳۰ اگست ۱۹۹۶ء) اس جلسہ کو ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اس لئے اس سے وابستہ روایات کو زندہ کرنا چاہیئے اور حسین پہلوؤں کا اضافہ ہونا چاہیئے.اس جلسہ کو زیادہ پہلوؤں سے اور شدت کے ساتھ روایتی بہترین جماعتی مرکزی جلسوں کا نمائندہ بنانے کی کوشش کریں.جلسہ کے ایام میں نمازوں کی خاص طور پر نگرانی کی جائے اور جب نمازیں کھڑی ہو جاتی ہیں تو کوئی نماز سے باہر نہ ہو سوائے ان کے جو ڈیوٹیوں پر ہیں اور خاص طور پر فجر کی نماز کا اہتمام کیا جائے.کارکنان کو دعا کی طرف توجہ دلانی چاہیئے اور ہر منتظم اپنے شعبے میں دیگر امور کے علاوہ دعا کی طرف توجہ دلائے کیونکہ اس سے کاموں میں عظیم الشان برکت پڑتی ہے.(خطبہ جمعہ ۱۷ جولائی ۱۹۸۷ء) جلسے کا نظام عالمی بھائی چارے کو تقویت دینے اور اخلاقی لحاظ سے ایک عالمی معیار پیدا کرنے اور قائم رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے.(خطبہ جمعہ فرموده ۸ جولائی ۱۹۹۴ء) جماعت بحیثیت جماعت احمد یہ ایک اسلامی کردار کی حامل ہے اور یہی کردار اور حقیقت آپ کا تشخص بن رہا ہے اور بنتا چلا جائے گا.یہی کردار جس کے تشخص کو نمایاں کرنے کے نتیجہ میں ایک عالمی برادری وجود میں آئے گی اور اس کے بغیر یہ مکن نہیں ہے.پس اس کردار کی تعمیر میں اور اس کے تشخص کو نمایاں کرنے میں جماعت احمد یہ عالمگیر کے سالانہ جلسے ایک بہت ہی اہم

Page 68

67 کردار ادا کرتے ہیں اور جس طرح مجلس شوریٰ ایک خاص دائرے میں خلافت کی نمائندہ اور دست و بازو بن جاتی ہے اسی طرح یہ جلسے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خلافت کے قیام اور استحکام اور اسی کے فوائد کو عام طور پر جاری کرنے میں بہت ہی محمد ثابت ہوتے ہیں“ الفضل انٹر نیشنل ۱۲ تا ۱۸ اگست ۱۹۹۴ء صفحه ۶، ۷ ) وہ عالمی ادارہ جس کا نام اقوام متحدہ ہے جس کو یو نائیٹڈ نیشنز“ کہا جاتا ہے وہ پھٹے ہوئے دلوں کا مصنوعی طور پر باندھا ہوا ایک مجموعہ ہے.اس کے سوا اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں.کوئی ایک بھی قوم اس میں ایسی نہیں جو جذبہ ایثار کے ساتھ آراستہ ہو، جو جذ بہ ایثار میں سرشار ہو کر بنی نوع انسان کو اکٹھا کرنے کے ارادے کے ساتھ اس عالمی ادارہ میں شامل ہو.اگر آپ خدا کے نام پر اکٹھے ہو جائیں تو آپ وہ ہیں جو اس یو نائیٹڈ نیشنر کو جنم دیں گے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوراللہ کی یونائیٹڈ نیشنز ہوگی اور تمام کائنات پر چھا جائے گی ، ہر دل کو باندھ دے گی، ہر وجود کو ایک کر دے گی.ساری قومیں اسی ایک چشمہ سے سیراب ہونگی.خدا کرے کہ جلد از جلد وہ دن آئیں.ہمیں اس کی تیاری کرنی ہے.ہمارے سپرد یہ کام سونپا گیا ہے.پس اپنی حقیقت کو پہچانیں.ان توقعات پر نظر ڈالیں جو آپ سے وابستہ ہیں.اور کوئی ان توقعات کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں نہیں آئے گا.“ افتتاحی خطاب برطانیہ مورخہ ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء) پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ مہمانوں سے عزت اور احترام کا سلوک کریں.انگلستان کے احمدیوں کو چاہیئے کہ وہ ذوق و شوق کے ساتھ اس جلسہ میں شریک ہوں.بغیر کسی عذر کے کوئی غیر حاضر نہ رہے.بعض لوگ تین دن کی بجائے صرف دو دن یا آخری دن کے لئے آجاتے ہیں اور

Page 69

68 ان کے آنے کا مقصد صرف میل ملاقات ہوتا ہے.اس جلسہ کی برکات کے حصول کے لئے ضروی ہے کہ مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے تینوں دن حاضر رہیں اور ہر لحاظ سے مستفید ہوں.جو گھر کے عزیز رشتہ دار ہوتے ہیں ان کو اگر شوق سے زیادہ بھی ٹھہرا لیا جائے تو وہ ہرگز مہمان نوازی نہیں بلکہ اقرباء کے حق میں آتے ہیں.بلند آواز سے تو تو میں میں کرنا یا ٹولیوں میں پھر کر قہقہے بلند کرنا اچھی عادت نہیں.بعض اوقات مہمان یہ سمجھتا ہے کہ شاید مجھ پر ہنسا جا رہا ہے.پچھلے سالوں میں ایک جلسہ کے موقع پر بالکل ایسا ہی ہوا اور اس مہمان نے مجھ سے شکایت کی کہ مجھ پر میرے رنگ پر، میری نسل پر ہنسا جا رہا تھا حالانکہ بننے والوں کا دور کا بھی یہ خیال نہیں تھا.بہر حال ہنسیں تو احتیاط سے نہیں.یعنی بہت اونچی آواز سے قہقہے نہ لگا ئیں تا کہ سننے والے یہ نہ سمجھیں کہ آپ ان پر ہنس رہے ہیں.اگر کسی مہمان کو اپنی کار وغیرہ میں بٹھا ئیں تو ہر گز کرایہ کے طور پر نہ ایسا کریں ان سے کسی قسم کے کرایہ کا مطالبہ جائز نہیں.مہمانوں کی خدمت اپنا شعار بنا ئیں اور محبت، خلوص و قربانی کے جذبہ سے ان کی خدمت کریں.ذکر الہی اور درود شریف پڑھنے میں اپنا وقت گزاریں اور التزام کے ساتھ نماز با جماعت کی پابندی کریں.لنگر خانہ میں نماز کی ادائیگی کا انتظام ہونا چاہیئے اور پہرہ دار بھی ضرور نماز ادا کریں.ان کے افسران کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کا خیال رکھیں.فضول گفتگو سے اجتناب کریں.جس حد تک ممکن ہو جلسہ کی کارروائی وقار اور خاموشی سے سنیں.وقت کی پابندی کا خیال رکھیں.جلسہ کی تقریروں کے دوران باہر کھڑے ہو کر آپس میں باتیں نہ کریں.صفائی کا خیال رکھیں مسجد، رہائش گاہ جلسہ گاہ اور سارا ماحول صاف ستھرا رکھنے میں تعاون فرمائیں.اپنے ساتھ بیگ میں یا جیب میں ایک خالی پلاسٹک کا تھیلا رکھ لیا کریں اور

Page 70

69 استعمال شدہ چیزیں اسی میں ڈالا کریں، بعد میں اسے بڑے بن (Bin) میں پھینک دیا کریں کھانا کھانے والی مارکیوں میں بھی کھانا کھانے کے بعد ڈسپوزایبل (Disposable) برتن خود اٹھا کر ڈسٹ بن (Dustbin) میں ڈالیں یا اگر منتظمین چاہیں تو پھر وہ خود ہی یہ کام کریں گے.خیال رکھیں کہ کھانے کا ایک لقمہ بھی ضائع نہ ہو.یہ آنحضرت ملالہ کی سنت تھی کہ اپنی پلیٹ میں اتنا ہی ڈالتے تھے جو ختم کیا جا سکتا ہو.اس لئے اپنی تھالی میں اتنا ہی ڈالیں جو آپ کھا سکتے ہیں.دوبارہ ضرورت پڑے جتنی دفعہ چاہیں ڈالیں اس میں کسی تردد کی ضرورت نہیں، بے تکلفی سے کریں.تکلف ایک مصنوعی چیز ہے تکلف سے بازرہیں.ہر قسم کے جماعتی اموال اور اشیاء کی حفاظت اور ان کے استعمال میں خاص احتیاط برتی جائے.غض بصر اور پردہ کا خیال رکھیں.بعض خواتین جو کسی وجہ سے چہرہ نہیں ڈھانپ سکتیں ان کا لباس اور انداز ہی ان کے لئے پردہ کا کام کرتا ہے.بعض عورتیں جو چہرہ نہ ڈھانک سکیں ان کے لئے جائز نہیں کہ سرخی پاؤڈر لگا کر اور بناؤ سنگھار کر کے سر عام پھریں.بعض دفعہ غیر احمدی خواتین اپنے طور پر سنگھار کر کے آتی ہیں اور آنے والے مہمانوں کو نہیں پتہ چل سکتا کہ احمدی خواتین ہیں یا غیر احمدی خواتین ہیں لیکن ان کو بھی ڈانٹ ڈپٹ کر منع کرنا بختی سے منع کرنا جائز نہیں.جو کوئی سمجھتا ہے سمجھتار ہے مگر ان کو سمجھانا ہے تو لجنہ کی کارکنات ایک طرف لے جا کر پیار یہ سے سمجھا ئیں.ہر وقت شناختی کارڈ لگا کر رکھیں اور اگر کوئی شخص اس کے بغیر نظر آئے تو اس کو بھی نرمی سے سمجھائیں.حفاظت کے پہلوکو ہر وقت ذہن میں رکھیں.یا درکھیں حفاظت صرف اللہ کی ہے مگر اللہ کے حکم کے تابع حفاظت کے لئے اپنے ذہن کو بیدار رکھنا چاہیئے.لیکن اس یقین کے

Page 71

70 ساتھ کہ حفاظت بہر حال خدا ہی کی ہے.اپنے دائیں بائیں جو بھی آپ کے دائیں بائیں دوست بیٹھے ہوتے ہیں ان پہ نظر رکھا کریں.ان کو چاہئے کہ آپ پر نظر رکھیں کیونکہ بہت سے لوگوں کو لوگ پہچانتے نہیں ہیں اور چہرہ بعض دفعہ لگتا ہے کہ بڑا ہی کوئی خونی قسم کا آدمی ہے.تو ایسے چہرے تو کم ہی ہوں گے احمدیوں میں انشاء اللہ، لیکن اگر خدانخواستہ ہوں تو آپ بیدار مغزر ہیں اور ان پر نظر رکھیں.کسی کے متعلق اگر اطلاع ملے کہ وہ اجنبی ہے اور اس کی حرکات ٹھیک نہیں ہیں تو چاہئے کہ محکمہ کو مطلع کریں اور جب تک محکمہ کی طرف سے اس کا انتظام نہ ہو آپ بھی اس کے ساتھ ساتھ رہیں.بچوں کے رونے سے جو شور پڑتا ہے اس کے لئے ہدایت ہے کہ والدین جو بچوں والے ہوں وہ پیچھے بیٹھا کریں اور اگر بچے شور ڈالیں تو ان کو لے کر باہر نکل جائیں.اب لندن میں بھی گاڑیاں پارک کرنے کا ایک مسئلہ بن گیا ہے.اس کثرت سے لوگ وہاں آتے ہیں اور گاڑیاں پارک کرتے ہیں کہ بعض دفعہ اردگرد کے ہمسایوں کو بڑی شکایات پیدا ہوتی ہیں.اس لئے احتیاط کریں خواہ دور جا کے گاڑی کھڑی کرنا پڑے، دور سے پیدل آجائیں مگر نزدیک کے ہمسایوں کو بالکل تکلیف نہ دیں.ٹریفک کے قواعد کو جیسا کہ ہمیشہ سمجھایا جاتا ہے ملحوظ رکھیں، رستوں کے حقوق کا خیال رکھیں.تکلیف دہ چیزوں کو ہٹائیں یہ بھی ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے.بازار جلسہ کے دوران بندر ہیں گے مگر بعض دفعہ فوری ضرورت کے لئے بعض دکانیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں.وہ اب بھی انتظام کے تابع کھلی رہیں گی لیکن عموماً بازار بندر ہنے چاہئیں.زیادہ سے زیادہ وقت ذکر الہی میں گزاریں.جو مہمان مختلف جگہوں سے آئے ہوئے

Page 72

71 ہیں آپس میں ملتے ہیں وہ اپنے اپنے علاقوں میں ظاہر ہونے والے نشانات اور واقعات کے تذکرے کریں.بہت کثرت سے اللہ تعالیٰ کے نشانات ہر علاقہ میں اترتے رہتے ہیں.جو احمدی گواہ ہیں وہ تائید باری تعالیٰ کے نشانات بھی ہیں.اور دشمن پر اللہ تعالیٰ کے غضب کے نشانات بھی ہیں تو وہ کیوں نہ یہ باتیں کریں اس سے بیان کرنے والوں کا ایمان بھی بڑھے گا.اور سننے والوں کا بھی بڑھے گا.اپنی قیمتی اشیاء پر نظر رکھیں.بعض دفعہ ایسے بڑے اجتماعات کے موقع پر کئی قسم کے شریر لوگ بھی آجاتے ہیں وہ بھیس بدل کر جیب کترے بھی آجاتے ہیں اس لئے بہت احتیاط کریں اور گری پڑی چیز کے متعلق ویسے تو وہیں رہنے دینا چاہئے مگر اس لئے کہ کوئی دوسرا آدمی غلط نیت سے اس کو اٹھانہ لے بے شک اس کو اٹھا کر گمشدہ اشیاء کے شعبہ تک پہنچا دیا کریں.وہ اعلان کر کے بتادیں گے جس شخص کی بھی وہ چیز ہوگی اس کو واپس کر دیں گے.اسی طرح گمشدہ بچوں پر نظر رکھیں، ان کو گمشدہ اشیاء کی طرح گمشدہ چیزوں کے خیمہ میں پہنچائیں اور ان کے متعلق وہ اعلان کر دیں گے.( خطبہ جمعہ ۲۸ جولائی ۲۰۰۰ء) ”اب میں کچھ مہمانوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں جودُور دُور سے یہاں آئے ہیں.پہلی تو یہ ہے کہ اپنا وقت ضائع نہ کریں اور جہاں تک ہو سکے ذکر اللہ کیا کریں.باتیں کرنا بھی ایک مجبوری ہے لیکن باتوں سے خیال پھر ذکر اللہ کی طرف جائے اور مسجد میں بیٹھ کر تو ذکر الہی بہت ضروری ہے.نمازوں کا التزام.نمازوں کے علاوہ وقت میں خاموشی سے تسبیحات میں مصروف

Page 73

72 رہیں.اب جو پہریدار ہوں اس وقت تو نماز میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن بہتر یہی ہے کہ ان کے لئے باجماعت نماز کا انتظام کیا جائے اور انہی میں جو اس وقت نماز نہیں پڑھ سکتے کوئی ان کا امیر بن جائے اور ان کا امام بن کر ان کی امامت کروائے.تقاریر بڑی محنت سے تیار کی جاتی ہیں صرف میری نہیں بلکہ سلسلہ کے دوسرے علماء بھی انشاء اللہ آپ کے سامنے تقریریں کریں گے تو آپ پوری توجہ سے اسی طرح جس طرح میری تقریر سنتے ہیں ان کی تقریریں بھی سنیں اور ان کی محنت کو ضائع نہ جانے دیں.سلام کو رواج دیں.” افتو السلام رسول اللہ ملالہ کا حکم ہے، آتے جاتے ، چلتے پھرتے سلام کیا کریں.ہمارے حافظ محمد رمضان صاحب ہوتے تھے قادیان میں ، ان کو بہت شوق تھا پہلے سلام کرنے کا.دُور سے بعض دفعہ کسی بکری، کسی بھینس کی چاپ کی آواز آئے تو فوراً السلام علیکم کہ دیا کرتے تھے.تو بعد میں کسی نے ان سے پوچھا کہ حافظ صاحب یہ کیا کرتے ہیں.انہوں نے کہا مجھے پتہ نہیں ، مجھے اتنا پتہ ہے کہ جو پہلے سلام کرتا ہے اسے فائدہ ہوتا ہے.تو مجھے پتہ نہیں لگتا، دیکھ نہیں سکتا کہ جانور ہے یا آدمی ہے چاپ سنتا ہوں تو میں سلام پہلے کر دیتا ہوں.بڑوں سے ادب سے پیش آئیں اور چھوٹوں کا خیال رکھیں.عورتیں پردہ کا خیال رکھیں.کھانا ضائع نہ کریں بلکہ کسی بھی قابل استعمال چیز کو ضائع نہ ہونے دیں.اپنے برتن میں اتنا ہی ڈالیں جتنا آپ کھا سکتے ہیں اور برتن خالی کر دیا کریں.جو برتنوں میں سے کھانا اٹھا کے پھینکا جاتا ہے یہ ایک بہت ہی بیہودہ رواج ہے.آپ نے جہازوں میں سفر کر کے دیکھا ہوگا کتنا کھانا وہاں ضائع جاتا ہے اور وہ سارا ڈسٹ بنز (Dust Bins) میں پھنیک دیتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ سمندری جہازوں میں بھی یہی دستور ہے.ہوائی جہازوں میں بھی یہی دستور ہے

Page 74

73 اگر یورپ کا کھانا اور امریکہ کا کھانا جو پھینکا جاتا ہے غریب ملکوں میں تقسیم ہوسکتا ہو تو پورے افریقہ کے لئے ایک سال کی غذا کا موجب بن سکتا ہے.تو دیکھو Waste نہ جانے کے متعلق رسول اللہ صل اللہ کی تعلیمات کا کتنا بنیادی فائدہ ہے.لڑائی جھگڑوں سے پر ہیز رکھیں.فضول بحثوں میں نہ الجھا کریں.کارکنان سے تعاون کیا کریں.جہاں تک حفاظت کا تعلق ہے اصل حفاظت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ جب بھی کوئی جلسہ کا وقت قریب آنے والا ہو.لوگوں کو بڑی ڈراؤنی خوا ہیں آتی ہیں اور مجھے لکھ لکھ کر بھیجتے ہیں کہ احتیاط کریں.اب میری احتیاط اور کیا ہوسکتی ہے.اللہ تعالیٰ ہے جو حفاظت کرنے والا ہے.مجھے قطعاً کوئی پرواہ نہیں کہ خدا کی راہ میں مجھے کیا در پیش ہو لیکن حفاظت کے لئے ایک اصول میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں.ہر جلسے پر بیان کیا کرتا ہوں کہ ہر آدمی اپنے گرد و پیش پر گہری نظر رکھے اور اگر کسی کو اجنبی دیکھے اور یہ محسوس کرے کہ اس اجنبی میں کچھ غیریت پائی جاتی ہے.اس کی آنکھوں سے لگتا ہے کہ خطرہ کا موجب ہوگا.اس پر نظر رکھیں.اس سے بہتر اور کوئی حفاظتی اقدامات نہیں ہو سکتے.اپنے گردو پیش پر نظر رکھیں اور خیال رکھیں کہ کسی قسم کی شرارت نہ ہونے دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کی اغراض میں یہ بھی فرمایا ہے کہ باہمی موقت پیدا ہو.دور دور سے لوگ آتے ہیں اور آپ کے ملک میں اس وقت سب دنیا سے لوگ اکھٹے ہوئے ہیں.ان سے محبت اور پیار سے ملیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس حکم کی اطاعت کریں.سفر کے متعلق بارہا میں کہہ چکا ہوں کہ احتیاط برتیں.اگر نیند غالب ہو تو سفر نہ کیا

Page 75

74 کریں.نوکری جانے کا بھی خطرہ ہو تو نوکری جانے دیں.جان نہ جانے دیں.اور ہمیں پھر اس کا دکھ پہنچتا ہے.مرنے والا تو گزر جاتا ہے لیکن پچھلوں کو اس کا دکھ پہنچتا ہے.اس لئے بہت سی چٹیں ایسی کاروں کے سامنے لگائی جاتی ہیں کہ جس میں احتیاط سے سفر کرنے کی تاکید ہوتی ہے.جو اللہ کی طرف سے تقدیر ہو اس کا تو کوئی علاج نہیں.کار میں پھسل بھی جاتی ہیں.دوسرے ڈرائیوروں کی غلطی سے بھی ٹکر لگ جاتی ہے.تو جہاں تک تفقد برانہی کا تعلق ہے اس سے تو ہر گز لڑا نہیں جا سکتا لیکن جہاں تک احتیاط کا تعلق ہے ہر احتیاط کرنا انسان کا فرض ہے.پھر اپنے معاملے کو نقد سرالہی پر چھوڑ دے.اس کے بعد ایک آخری نصیحت یہ کرنی چاہتا ہوں کہ جرمنی میں امسال پہلی دفعہ انٹر نیشنل کا انعقاد ہوا ہے اور بڑی کثرت سے بیرونی ممالک سے لوگ تشریف لائے ہوئے ہیں.ان میں اکثر کے متعلق جو باہر سے تشریف لائے ہیں مجھے یقین ہے کہ وہ واپس اپنے ملکوں کو جائیں گے.خصوصاً مغربی ممالک سے جو آئے ہوئے ہیں ان کو کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ جرمنی میں ٹھہر ہیں.اور جہاں تک پاکستان سے آنے والوں کا تعلق ہے میں نے اپنی ملاقاتوں کے دوران ان سے دریافت کیا ہے بلا استثناء ہر ایک نے یہ کہا کہ ہم جلسہ کے بعد واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں.تو یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جماعت کو اس بات کا احساس ہے.مگر اگر کسی کے دماغ میں یہ فتور ہو کہ ویزا میں نے اپنی کوشش سے حاصل کیا ہے اور میں یہاں رہ کر اسائکم لے سکتا ہوں تو یہ بالکل غلط ہے.ہرگز جماعت اس کی اجازت نہیں دیتی.خواہ وہ اپنی کوشش سے لیا گیا ہو یا جماعت کی گارنٹی سے لیا گیا ہو جو بھی جرمنی میں اس سال اس جلسہ پر آیا ہے اس کا لازمی فرض ہے کہ وہ جلسہ کے بعد اپنی قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے واپس اپنے ملک میں چلا

Page 76

75 جائے.جتنے دنوں کی اجازت ملی ہے جرمن حکومت کی طرف سے، یہ حکومت کا احسان ہے اور اس احسان کی ناشکری ہرگز نہ کریں.کیونکہ اس سے جماعت کے وقار کو اور نیک نامی کو بہت دھچکا لگتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہیئے.مگر اگر خدا نخواستہ فرض کریں اتفاق سے کوئی ایسا حادثہ ہو جائے تو اس کے لئے میرے پاس اور تو کوئی ذریعہ نہیں ، صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ یا جرمنی سے چلے جاؤ یا جماعت سے باہر چلے جاؤ.اور ایسے موقعہ پر جب کہ جماعت کی ساکھ کا سوال پیدا ہوتا ہے اگر آپ جرمنی سے باہر نہیں جائیں گے تو ہمیشہ کے لئے جماعت سے باہر نکلیں گے.بعد میں اس کی معافیاں مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں.کیونکہ اس صورت میں ہم ہر گز نہیں معاف کریں گے کہ آپ نے حکومت کو دھوکہ دیا اور جماعت کی ساکھ بگاڑ دی.ہدایات بر موقعہ جرمنی ۲۰۰۱ بحوالہ ہفت روزه بدر.قادیان ۱۱ اکتوبر ۲۰۰۱)

Page 77

76 نام کتاب مرتبه جلسه سالانه عطا مالجیب را شد امام مسجد فضل اندان جولائی ۲۰۰۲ ( طبع اول ) سن اشاعت تین ہزار تعداد ناشر جماعت احمد یہ برطانیہ مطبع قیم برلیں.اسلام آباد.برطانیہ Title: JALSA SALANA Compiled by: Ataul Mujeeb Rashed Imam London Mosque First edition: 3000 Copies, July 2002 Publisher: Ahmadiyya Muslim Association UK The London Mosque 16 Gressenhall Road, London SW18 5QL United Kingdom.Printed at: Raqeem Press, Islamabad, UK

Page 77