Jadid Ilm-eKalam

Jadid Ilm-eKalam

جدید علم کلام کے عالمی اثرات

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

بلاشبہ نبی کا نزول اور ظہور انتشار نور اور روحانیت کا زمانہ ہوتا ہے جب مستعد روحیں اپنے اپنے کمالات کے لئے زندگی عطا کی جاتی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اپنے آقا و مطاع حضرت محمد ﷺ کے چشمہ رواں میں سے ایک خاص قطرہ تھے جس کے پیدا کردہ لڑیچر اور جدید علم الکلام کے مشرق و مغرب پر اثرات غیر معمولی ہیں۔ زیر نظر کتاب میں مولانا موصوف نے ان عالمی اثرات کو تین گروہوں میں تقسیم کرکے پیش کیا ہے۔(الف) غیر شعوری اثرات، (ب)عملی اثرات اور(ج) نظریاتی اثرات۔ جن کو مشرق و مغرب کے بلاد و امصار کے دور و نزدیک کے لٹریچر اور تاریخ سے باآسانی پہچانا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی کتابچہ کے آخر پر بطور ضمیمہ ایک معزز غیر احمدی سیاح مکرم خان بہادر شیر جنگ صاحب (آفیسر سروے آف انڈیا) کے سال 1900 سے 1923 کے مختلف ممالک کے مشاہدات درج کئے گئے ہیں جو اکناف عالم میں احمدیت کی تبلیغ اور مخصوص پہچان کا تعارف اور ریکارڈ ہے۔


Book Content

Page 1

ال های اثرات ٢٩ 2

Page 2

(صرف احمدیوں کے لیے ) جدید علم کلام عالمی اثرات مولانا دوست محمد شاہد مورخ احمدیت احمد اکیڈ ھیے.ربوہ

Page 3

صفحه 1 ۲۹ ۲۹ ۴۹ ۴۹ ۹۲ 94 ۱۴۰ 1.عنوان جدید علم کلام کے عالمی اثرات عالمی ا غیر شعوری اثرات لم A 1.عملی اثرات نظریاتی اثرات دنیائے عرب بر صغیر پاک و ہند غلبہ دین کا روح پرور نظاره ایران روس یورپ و امریکہ بعض دیگر مستشرقین کے تاثرات ضميمة اکناف عالم میں احمدیت کا چرچا خان بها در شیر جنگ صاحب آفیسر سروے آف انڈیا کے قلم سے نہایت روح پرور چشم دید واقعات - از ۶۱۹۰۰ تا ۶۱۹۲۳ -

Page 4

Page 5

° بسم الله الرحمنِ الرَّحِيم جدید علم کلام کے عالمی اثرات ساقی کوثر نبی اتنی سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دائمی برکات کو اگر غیر محدو د سمندر سے تشبیہ دی جائے تو احمدیت کا جدید علم کلام اس سمت در کا محض ایک قطرہ ہے.جو پچھلی صدی میں رب العرش کی بارگاہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو عین اس وقت عطا ہوا جبکہ باطل تحریکیں مربع مسکون پر طوفان کی طرح چھا گئی تھیں.خدا نے چاہا کہ ان کا مقابلہ اسی ایک قطرہ سے کر کے دکھا دے اور اپنے سب بندوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمون تلے جمع کر دے.یہ آسمانی فیصلہ اسی قادر و توا نا خدا کا تھا جس نے ابابیل کے ہاتھوں اصحار الفیل کو پاش پاش کیا ، اپنے محبوب کی خاطر لکڑی کے جائے کو ایک ناقابل تسخیر قلعہ میں تبدیل کر دیا.اور چند سنگریزوں سے خوفناک آندھی پیدا کردی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے پیش فرمودہ جدید علم کلام نے گزشتہ صدی میں اقوام عالم پر نہایت دوررس اور زبر دست اثرات ڈالے ہیں جو اصولی طور پر تین پہلوؤں پرمشتمل ہیں :- اول - غیر شعوری اثرات دوم - عملی اثرات سوم.نظریاتی اثرات

Page 6

غیر شعوری اثرات یہ ربانی شفقت ہے کہ امام الزمان کے طور پر نوع انسانی میں مادی ، فکری اور ہے روحانی قوتوں اور استعدادوں میں غیر معمولی تلاطم بر پا ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :- وجب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے تو ہزار یا انور اس کے ساتھ آتے ہیں اور آسمان میں ایک صورت انبساطی پیدا ہو جاتی ہے.انتشار روحانیت اور نورانیت ہو کر نیک استعدادیں جاگ اٹھتی ہیں.پس جو شخص الہام کی استعداد رکھتا ہے اس کو سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے اور جو شخص فکر اور غور کے ذریعہ سے دینی تفقہ کی استعداد رکھتا ہے اس کے تدبر اور سوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے اور جس کو عبادات کی طرف رغبت ہو اس کو تعبد اور پرستش میں لذت عطا کی جاتی ہے اور جو شخص غیر قوموں کے ساتھ فت مباحثات کرتا ہے اس کو استدلال اور اتمام حجت کی طاعات بخشی جاتی ہے.اور یہ تمام باتیں درحقیقت اسی انتشار روحانیت کا نتیجہ ہوتا ہے جو امام الزمان کے ساتھ آسمان سے اُترقی اور ہر ایک مستعد کے دل پر نازل ہوتی ہے" ضرورت الامام مات) دور حاضر میں جس عالمگیر شان کے ساتھ انتشار روحانیت و نورانیت ہوا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور اسلامی ممالک مثلاً مصر، شام، لبنان ، عثمان،

Page 7

ترکی، ایران اور برصغیر پاک و ہند میں تفسیر، حدیث، اسلامی قانون، کلام، تاریخ اسلام اور سیرت النبی کے موضوعات پر شائع ہونے والا وسیع لڑیچر اس پر شاہد ناطق ہے.پاکستان کے نامور مفکر ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ایم اے پی ایچ ڈی ڈی لٹ ڈائریکٹر ادارہ ثقافتِ اسلامیہ پاکستان تحریر فرماتے ہیں :- یہ بیسویں صدی عیسوی ہر جگہ مسلمانوں کے لیے نشاہ ثانیہ کہئے یا بیداری کا آغاز ہے مسلمان انڈونیشیا سے لے کر مرا کو تک اور افریقہ کے تاریک گوشوں میں بھی سیاسی اور علمی جد و جہد کر رہے ہیں " پندرہ روزہ استقلال لاہور ریکم مارچ ۱۹۵۸ء صلا) امام الزمان کے غیر شعوری اثرات کی نمایاں جھلک ہمیں یورپ و امریکہ کی مادی دنیا میں بھی دکھلائی دیتی ہے اور یہ عجیب اور پراسرار بات ہے کہ تمام مشہور عالم موجد حضرت اقدس مسیح موعود کے عہد میں ہوئے اور آپ کی بعثت کی صدی ایجادات کی صدی ثابت ہوئی جسکے مجھے یقینا تصرف الہی کا ہاتھ کار فرما ہے.یہی وہ زمانہ ہے جس میں مستشرقین نے اسلامی لٹریچر کی اشاعت میں حیرت انگیر کام کیا جس کا ایک شاندار نمونه جامعه هر بید لیدن کے پروفیسر الدکتور ا ہی.ونسک کی کلید احادیث نبوئی " المعجم المفهرس ہے جو سات ضخیم جلدوں میں ہے.اس دور میں قریباً پچاس سے زیادہ مستشرقین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر کتابیں لکھیں.(رسالہ" نقوش" لاہور.رسول نمبر جلد صفحه ۵۵۱ تا ۶۰ ۵) علاوه انہیں انہوں نے عربی کی قلمی کتابوں کے کیٹیلاگ مرتب کیے ، قرآن مجید کے تراجم کیئے اور ڈکشنری آف اسلام اور انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کی تدوین کر کے

Page 8

تحقیق تفحص کے نئے دروازے کھول دیئے.پاکستان کے ایک فاضل اور محقق جناب ڈاکٹر نشا را حمد صاحب کے قلم سے اس کی مزید تفصیل ملاحظہ ہو.فرماتے ہیں :.دور (۱۹۰۰ تا ۱۹۲۵) تحریک استشراق کے عروج و کمال سے عبارت ہے.اس عہد میں تحریک استشراق کو بھر پور فروغ حاصل ہوا مستشرقین کے انداز و اطوار اگرچہ بدل گئے تاہم کیفیت و کمیت دونوں اعتبار سے اُن کے اختلاف اپنے اسلام پر بازی لے گئے.چنانچہ : (1) کمیت کا اندازہ تو اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ زیرِ بحث دور میں مستشرقین کی ایک بہت بڑی تعداد سامنے آئی.اس میں ہر قسم کے مستشرقین شامل تھے جو خا موش صلیبی جنگ کے اس محاذ پر یورپ کے تقریباً تمام علاقوں کی نمائندگی کرنے والے تھے مثلا فرانس اٹلی، انگلستان، اسپین ، پرتگال، آسٹریا ، ہالینڈ، برمنی ، ڈنمارک، سوئیڈن سوئٹزر لینڈ، ہنگری، روس، انجیم، چیکوسلواکیہ، فن لینڈ وغیرہ اور را مریکہ والے بھی شریک ہو گئے.(ب) کیفیت کے اعتبار سے مستشرقین نے تصنیف و تالیف کے ڈھیر لگا دیئے.ان کے مطالعہ اور تحقیق و تدقیق کا دائرہ بھی محدود نہ رہا بلکہ عقائد اسلام، قرآن، حدیث ، سنت، فقه، اجتهاد عرب اور اہل عرب اور احوال ،عرب، ترکوں عریوں کے تعلقات، اسلام کی اصلیت اسلامی تہذیب و تمتران اور پیغمبر اسلام کی سیرت و سوانح وغیرہ پر کثرت سے لکھا گیا.اس دور میں مستشرقین کا معیار تحقیقی

Page 9

استدلال بھی بلند ہوا او تحقیق وجستجواد تفتیش تشخیص میں انہوں نے ایسا کمال نے ایسا دیکھایا جو آج بھی باعث حیرت ہے.قدیم عربی مآخذ کی تلاش مخطوطات اور قلمی نسوں کی دریافت ، آثار و اکتشافات قدیمیہ کا مطالعہ کتابوں کی تصحیح و اشاعت اسلامی تاریخی تأخذ کی ترتیب و تدوین، فهر تموی اشاریوں اور تبویب وغیرہ کی تیاری اور اسی طرح کی دوسری سرگرمیاں ان کی محنت و ریاضت ، علم شناسی اور مشرق نوازی کی روشن دلیل ہیں بلکہ یہ اُن کا مسلمانوں پر احسان ہے کہ اُن ہی کی کوششوں کے طفیل بہت سی نادر را ور مفقود الخبر کتابیں مسلمانوں تک پھر سے پہنچیں متعارف ہوئیں " در سالہ نقوش کا ہور رسول نمبر جلد اصناه شماره بجنوری ۶۱۹۸۵ - مدیر جناب محمد طفیل صاحب مرحوم ناشر اداره فروغ اردو لا ہور) "

Page 10

۱۰ عملی اثرات چودھویں صدی ہجری کے آغاز تک مسلمانان عالم خواب غفلت میں سو رہے تھے اور ان پر مکمل جمود طاری تھا یعنی کہ پان اسلام ازم کے بانی سید جمال الدین افغانی جسے عظیم قومی لیڈر (جنہیں شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے مجدد قرار دیات یہ نظریہ قائم کر چکے تھے کہ :." اذا اردنا ان ندعو احرار اورية الى ديننا رب طر فيجب علينا ان نقنعهم اولا أننا لسنا مسلمين فانهم ينظرون الينا من خلال القرآن هكذا - ورفع كفيه وفرج بين اصابعهها فيرون وراءه اقواماً فشا فيهم الجهل والتخاذل والتواكل ، فيقولون لو كان هذا الكتاب حقاً مصلحاً لما كان اتباعه كما نرى " الوحي المحمدي صفحه ۲۳ - موافقه علامه سید رشید رضا مصری ناشر المكتب الاسلامی - بیروت - دمشق ( ۶۱۹۸ ) یعنی اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم یورپ کے آزاد انسانوں کو اپنے مذہب کی دعوت دیں تو ہمارا فرض ہوگا کہ سب سے پہلے ہم انہیں قائل کر دیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں.کیونکہ وہ ہمیں دیکھ کر قرآن کریم کو سمجھنا چاہتے ہیں یہ کہ کہ آپ نے اپنی ہتھیلیوں کو اُٹھایا اور ان کی انگلیوں کو کشادہ کیا ، وہ قرآن مجید کے پس منظر میں ایسی قوموں کو دیکھتے ہیں جن پر حالت وذلت بھائی ہوئی ہے اور وہ خود اعتمادی کھوچکی ہیں.وہ کہتے ہیں اگر یہ کتاب صداقت پر مبنی ہوتی اور اصلاح کرنے والی ہوتی تو اسکے

Page 11

اتباع ایسے نہ ہوتے جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں.علامہ جمال الدین افغانی مسلمانوں کے دینی زوال کو دیکھے کہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان کے اخلاقی اقدار اس درجہ خراب ہو چکے ہیں کہ اصلاح کی کوئی امید نہیں.کیا ہی اچھا ہوتا اگر نئی مخلوق پیدا ہوتی اور نئے دور کی ابتداء ہوتی اور اس وقت جو لوگ ہیں وہ سب مر جاتے صرف وہی زندہ رہتے جو بارہ سال سے کم عمر رکھتے ہیں.اور نئی تربیت میں اُن کا اُٹھان ہوتا جو اُن کو راہ سلامت تک پہنچا دیتی.(مقام جمال الدین افغانی صفحه ۸۸- ناشر نفیس اکیڈمی کراچی طبیع دوبر مئی ۶۱۹۴۹ اس ہوش کیا اور مایوس کن ماحول میں حضرت بانی سلسلہ احمد مطلع عالم پر نمودار ہوئے اور رب ذوالجلال کے محکم سے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی.اور پیش گوئی فرمائی کہ :- " خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لیئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لیے پیدا کرنا چاہا ہے....وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیش گوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزارہا صادقین گو اس میں داخل کرے گا.وہ خود اس کی آبنا ستی کر بیگا اور اس کو نشو و نما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ ان چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لیئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے " (اشتہار میر مارچ ۱۸۸۹)

Page 12

۱۲ نیز یورپ و امریکہ کے سعید الفطرت لوگوں کے دینی رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خوشخبری دی کہ :.خدا تعالیٰ کسی صادق کو ہے جماعت نہیں چھوڑتا.انشاء الله القدیر سچائی کی برکت ان سب کو اس طرف کھینچ لائے گی.خُدا تعالیٰ نے آسمان پر یہی چاہا ہے اور کوئی نہیں کہ اس کو بدل سکے " داشتهار بار دسمبر ۶۱۸۹۲ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر) یہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے انقلاب آفرین اور جدید علم کلام ہی کا اعجاز ہے کہ اس نے ایک صدی کے اندر دین حق کے ایک کروڑ سے زیادہ ایسے فقید المثال فدائی اور شیدائی پیدا کر دیئے جن کا شعار ہی اعلائے کلمۃ اللہ اور دعوت الی اللہ ہے.اس کے بینکس رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرائی اکر عبداللہ عمر نصیف نے سعودی گزٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کمال بے نیازی سے ارشاد فرمایا کہ ہمارا مشن غیر مسلموں کو مسلمان بنانا نہیں.دنیا میں پہلے ہی بہت مسلمان ہیں ہم اُن کا معیارِ زندگی بہتر بنانے میں مصروف ہیں.(اخبارا مروز لاہور ۲۷ فروری ۱۶۱۹۸۴ نئی دہلی کا یا بہنامہ الرسالہ (اسلامی مرکز کا ترجمان) اپنی جولائی ۱۹۸۵ کی اشاعت میں رقمطراز ہے نجیب بات ہے کہ پاکستان میں بے شمار اسلامی جماعتیں اور اسلامی تنظیمیں ہیں مگر غالباً کوئی ایک جماعت باتنظیم الہی نہیں ہے جس کے پروگرام میں یہاں کے غیر مسلموں تک اسلام پہنچانا شامل ہو.پاکستان میں ہندو اور عیسائی قابل لحاظ تعداد میں آباد

Page 13

۱۳ ہیں مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے تو انہوں نے بے پناہ ہنگامے کیئے مگر غیر مسلموں کو اسلام کی رحمت میں داخل کرنے کے لیے کوئی بھی قابل ذکر کوشش اب تک پاکستان میں وجود میں نہ آسکی حالانکہ اس ملک میں عیسائی زیرہ دست تبلیغی کوشش میں مصروف ہیں.یہی حال ساری دنیا کے مسلمانوں کا ہے.وہ لوگوں کو جہنم میں ڈالنے کے لیے تو بہت بے قرار ہیں مگر لوگوں کو جنت میں پہنچانے کے لیے ان کے اندر کوئی تڑپ نہیں پائی جاتی " (صفحہ ۳۷) برطانوی ہند کے متاز مسلم صحافی جناب مولانا حکیم بر تیم صاحب گورکھپوری نے اپنے آخری مضمون میں جوائن کی وفات کے بعد شائع ہو التحریر فرمایا :- ہندوستان میں صداقت اور اسلامی سپرٹ صرف اس لیئے باقی ہے کہ یہاں روحانی پیشواؤں کے تصرفات باطنی اپنا کام برابر کر رہے ہیں.....اور سچ پوچھو تو اس وقت یہ کام جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے حلقہ بگوش اسی طرح انجام دے رہے ہیں جس طرح قرونِ اولیٰ کے " مسلمان انجام دیا کرتے تھے.انجاز مشرق" گورکھپور مؤرخه ۲۴ جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۴) اس ماحول میں جماعت احمدیہ کا تاریخی رول کیا ہے ؟ اس کا اجمالی تذکرہ دوسروں کی زبانی سنیئے.بر صغیر کے مفکر اور صحافی علامہ نیاز فنچوری تحریر فرماتے ہیں :- اس وقت مسلمانوں میں ان کو بے دین و کافر کہنے والے تو بہت

Page 14

۱۴ ہیں لیکن مجھے تو آج ان مدعیان اسلام کی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آتی جو اپنی پاکیزہ معاشرت، اپنے اسلامی رکھ رکھاؤ، اپنی تاب مقاومت اور خوٹے صبر و استقامت میں احمدیوں کے خاک پا کو بھی پہنچتی ہو! این آتش نیرنگ نه سوز و همه کس را یہ امر مخفی نہیں کہ تحریک احمدیت کی تاریخ شہ سے شروع ہوتی ہے جس کو کم و بیش نشتر سال سے زیادہ نہ مانہ نہیں گزرا لیکن اسی قلیل مدت میں اس نے اتنی وسعت اختیار کرلی کہ آج لاکھوں تقوس اس سے وابستہ نظر آتے ہیں اور دنیا کا کوئی دور و دراز گوشه ایسا نہیں جہاں یہ مردان خدا اسلام کی صحیح تعلیم انسانیت پرستی کی نشر و اشاعت میں مصروف نہ ہوی....اور جب قادیان در بوہ میں صدائے اللہ اکبر بلند ہوتی ہے تو ٹھیک اسی وقت یورپ و افریقہ والیشیا کے ان بعید و تاریک گوشوں سے بھی یہی آواز بلند ہوتی ہے جہاں سینکروں غریب الدیاراحمدی خدا کی راہ میں دلیرانہ قدم آگے بڑھائے ہوئے چلے جارہے ہیں.".(ماہنامہ نگار لکھنو.جولائی 1940ء صفحہ 114-119) نیز فرماتے ہیں :.اس کا نصب العین صرف قرآن اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ تعلیمات اسلام اخلاق اسلام اور غایت ظہور اسلام کی عملی مثالیں بھی قائم

Page 15

۱۵ کرنا ہے.یعنی وہ صرف یہ کہ کر خاموش نہیں ہو جاتے کہ اخلاق بلند کرو بلکہ اپنے کردار عمل سے بھی اس تعلیم کی برکات کا ثبوت دیتے ہیں.اتنا صریح روشن اور واضح ثبوت جس سے غیر بھر ممکن ہی نہیں.چنانچہ اگر تحریک احمدیت کے آغاز سے اس وقت تک کی ان تمام خدمات کا جائزہ ہیں جو اس نے خالص اخلاقی فقطۂ نظر سے مفاد عامہ کے لیے انجام دی ہیں تو آنکھیں جھکی رہ جاتی ہیں ؟“ (الفضل ۱۲ اکتوبر ۶۱۹۶۳ ) پاکستان کے مورخ جناب شیخ محمد اکرام صاحب اپنی مشہور کتاب موج کو تو کے صفحہ ۲۰۳ پر لکھتے ہیں : :- احمدیہ جماعت کی تبلیغی کوششیں صرف انگلستان تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے کئی دوسرے ممالک میں بھی اپنے تبلیغی مرکز کھولے ہیں.دنیا کے مسلمانوں میں سب سے پہلے احمدیوں اور قادیانیوں نے اس حقیقت کو پایا کہ اگر چہ آج اسلام کے سیاسی زوال کا زنا ہے لیکن عیسائی حکومتوں میں تبلیغ کی اجازت کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک ایسا موقع بھی حاصل ہے جو نہ منب کی تاریخ میں نیا ہے اور جس سے پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہیے.اگر چہ جو کام بھی تک انہوں نے کیا ہے وہ ایک کامیاب ابتداء سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا لیکن انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے ایک نیا رستہ کھول دیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مذہب کی بڑی خدمت کر سکتے ہیں.اسلامنا ہندوستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے درمیان روابط قائم کر سکتے ہیں.اور دُنیائے اسلام میں وہ

Page 16

14 ا سربلندی اور درجہ حاصل کر سکتے ہیں.جس کے وہ اپنی تعداد، مذہبی جوش اور شاندار سیاسی روایات کی وجہ سے مستحق ہیں.اب رو زیر وز بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان بھی اس خیال کے پابند ہوتے جاتے ہیں کہ اسلامی دنیا کی مصلحت اس میں نہیں کہ پاک و ہند کے مسلمان ترکی یا مصر یا کسی اور مختصر سے اسلامی ملک تھے تابع معمل ابنے رہیں.بلکہ اسلامی مصلحتوں کا تقاضا ہے کہ علمی اور تبلیغی بلکہ اقتصادی اور تمدنی امور میں بھی پاکستان اور ہندوستان کے مسلمان دنیائے اسلام یا کم از کم اسلامی ایشیا کی راہنمائی کریں.یہ خیال قوم سے مطمح نظر کو بلند کر کے ایک نئی کروبیانی زندگی کا باعث ہوگا.لیکن اس کے ایک حصے کی عملی تشکیل سب سے پہلے احمدیوں نے کی.“ بر صغیر کے ایک ممتاز عالم دین مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی مدیر اصداق جدید (لکھنو) نے قادیان سے شائع ہونے والے رسالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:.احمدیہ جماعت قادیان اپنے ناک میں جوخد مت تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں کر رہی ہے یہ رسالہ اس کا پورا مرقع ہے.جماعت کے مشن یورپ ، امریکہ، مغربی افریقہ، مشرقی افریقه، ماریشین انڈونیشیا نائیجیریا اور ہندوستان و پاکستان کے خدا معلوم کے مختلف مقامات میں قائم ہیں، ان سب کی فہرست اور ان کی کارگزاریاں، ان سے تبلیغی لٹریچر کی اشاعت انگریزی، فرینچ، جرمن، ڈچ ، سلینی فارسی، برمی، ملایا ، تامل، ملیالم، مرہٹی ، گجراتی، ہندی اور اردو زبان

Page 17

لا میں اُن کی مسجدوں اور اُن کے اخبارات و رسائل کی فہرست اور اسی قسم کی دوسری سرگرمیوں کا ذکر ان صفحات میں نظر آجائے گا.اور ہم لوگوں کے لیے جو اپنی کثرت تعداد پر نازاں ہیں ایک تازیانہ عبرت کا کام دے گا کاش ! ان لوگوں کے عقائد ہمارے جیسے ہوتے اور ہم لوگوں کی سرگرمی عمل اُن کی مبیسی یا (صدق جدید ، رجون ۶۱۹۵۷ ) بنگلور کے ایک فرض شناس اور تعلم دوست ایڈووکیٹ جناب اے.جے خلیل صاحب نے مدیر صدق جدید کے نام ایک خط میں لکھا :- یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ جولوگ احمدی یا قادیانی نہیں ہیں وہ پیام الہی کی چار دانگ عالم میں تبلیغ کرتے ہیں بہت ہی کو تاہ ہیں.میں کوئی سولہ برس سے اس فرض فراموشی کا کفارہ ادا کرنے ہیں کلام الہی کا ترجمہ عالمی زبانوں میں کرنے اور اس کی طبع و اشاعت ہیں مصروف ہوں لیکن خود میرے اوپر قادیانیت کا الزام لگا اور ثبوت میں یہی واقعہ پیش ہوا کہ یہ قرآنی تبلیغ کرتا رہتا ہے اسلئے کہ یہ کام تو بس قادیانی ہی کرتے رہتے ہیں.“ جناب خلیل صاحب کے خط کے اس اقتباس کو نقل کرنے کے بعد جناب مولانا عبد الماجد صاحب دریابادی ایڈیٹر صدق جدید تحریر فرماتے ہیں :- " مبارک ہے وہ دین کا خادم ہو تبلیغ و اشاعت قرآن کے جرم میں قادیانی یا احمد بی قرار پائے اور قابل سک ہے وہ احمدی یا قادیانی جن کا تمغہ امتیاز ہی خدمت قرآن یا قرآنی ترجموں کی طبع و اشاعت کو سمجھ

Page 18

کیا جائے" (صدق جدید ۲۲؍ دسمبر ۶۱۹۶۱ ) علامہ شبلی نعمانی نے شغل تکفیر کے خوگر اور دلدادہ نذر میں راہ نماؤں کا کیا خوب نقشہ کھینچا تھا.فرماتے ہیں ہے اک رومی ساخت کہا میں نے کہ کیا آپ کچھ حالت پور رستے خروار نہیں ہیں آمادہ اسلام ہیں لندن میں ہزاروں پر چیندا بھی مائیل اظب رنہیں ہیں جو نام سے اسلام کے ہوجاتے ہیں پر ہم ان میں بھی تعیہ کے وہ آثار نہیں میں افسوس مگر یہ ہے کہ واعظ نہیں پیدا ہاں میں تو بقول آپ کے دیدار نہیں میں کیا آپکے زمرہ میں کسی کو نہیں یہ درد کیا آپ بھی اُس کے لئے تیار نہیں ہیں جھلا کے کہا یہ کہ یہ کیا سودا د ہے کہتے ہو وہ باتیں جو سزاوار نہیں ہیں کرتے ہیں مسلمانوں کی کفر شب روز بیٹھے ہوئے کچھ تم بھی تو بیکا نہیں ہیں محمود نظم شبلی اردو صفحه ۰۳۲ ۳۵ مرتبه سید ظهور امر صاحب موسوی تاجر کتب دہلی.چھتہ لال میاں) سیح حضرت بانی سلسله احمدیه بین موعود و مہدی مسعود کے جدید علم کلام میں کلمہ طیبہ لا إله إلا الله محمد رسول اللہ کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے جیسا کہ آپ خود تحریر فرماتے ہیں :.یہ عاجز تو محض اس غرض سے بھیجا گیا ہے کہ ا یہ پیغام خلق شد کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب تحق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن لایا ہے اور دار النجات میں داخل ہونے کے لیے دروازہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ہے" (حجۃ الاسلام صفحه ۱۲-۱۳ اشاعت در مئی ۱۸۹۳ء مطبوعه ریاض بند پریس امر شیر)

Page 19

14 یہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے جدید علم کلام ہی کا انجاز ہے کہ کل طیبہ جماعت احمدیہ کے عقیدہ و ایمان کا ہمیشہ جزو اعظم رہا ہے.اور یہ حقیقت تو تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ اُس نے کلام طیبہ کی خاطر ایسی عدیم النظیر قربانیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر لی ہے کہ یہ مقدس کلمہ حضرت خاتم الانبیاء حمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی یادگار ہے پاکستان میں احمدیوں کی علامت بن چکی ہے اور اسی سے اُن کا دینی تشخص ہوتا ہے.(اخبار نوائے وقت“ لاہور دارمئی ۱۹۸۷ء صت) حضرت سیدنا فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے قادیان میں خطبہ جمعہ ۲۸ را گست ۱۹۳۶ ء کے دوران یه پر شوکت اعلان فرمایا کہ ہمارے لیے خود اللہ تعال اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے یہ مائو تجویز فرمایا ہے کہ لا الہ الا الله محمد رسول الله - اور ہماری جماعت کا فرض ہے کہ اسے ہر وقت اپنے سامنے رکھے.(الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۵-۷) فرزندان احمدیت کلمہ طیبہ کی عظمت و حرمت کے لیے ہمیشہ کفن بر دوش رہے ہیں...اس جرم کی پاداش میں کئی خوش نصیب، جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور کئی اب بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور ظلم و تشدد کے باوجود کلم طیبہ کا پرچم بلند رکھے ہوئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے کلمہ کے علاوہ کسی جدید کلمہ کا اقرار نہیں گوارا نہیں اور ہرگز گوارا نہیں !! اس باب میں ان کا مسلک خالص حسینی ہے " کٹا کو گردنیں بتلا گئے یہ کربلا والے کبھی بندوں کے آگے جھا نہیں سکتے خدا نے پاکستان کے مشہور قانون دان اور صاحب طرز ادیب جناب اصغر علی صاحب کھرل ایڈووکیٹ اپنی تالیف ” اقبال یا ملا ازم میں احمدیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-

Page 20

جناب اکبر الہ آبادی نے فرمایا تھا.نے رقیبوں نے ریٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھا میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں اُس زمانے میں مانے میں یہ شعر شاید شاعرانہ مبالغہ ہوگا.کافر انگریز کی حکومت میں خدا کا نام لینے پر کسی نے کوئی پابندی عائد نہیں کی تھی.کوئی ریٹ نہیں لکھوائی تھی.یہ سعادت صرف موجودہ اسلامی دور کو نصیب ہوئی ہے " غیر مسلموں کواللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی معبودیت کے اقرار کی اجازت نہیں.یہ جرم قابل دست اندازی پولیس ہے خلاف ورزی کی صورت میں آپ گرفتار ہو سکتے ہیں، سزا پا سکتے ہیں.ہو کیا سکتے ہیں، ہو رہے ہیں.پاکستان کی عدالتوں میں ایسے بے شمار مقدمات چل رہے ہیں جن میں کلمہ طیبہ پڑھنے، کلمہ کا بیج لگانے، درود شریف پڑھنے اذان دینے ، اور نماز جمعہ کی تیاری کے لیئے وضو کرنے کے الزامات میں گرفتاریاں ہوئیں اور ثبوت جرم کے بعد عدالتوں سے باقاعدہ سزائیں دی گئی ہیں.ایسے بے شمار واقعات میں سے ۷۵ جون ۱۹۸۷ء کے روز نامہ جنگ لاہور سے ایک چھوٹی سی خبر ملاحظہ ہو عنوان ہے : اذان دینے پر قادیانی کو دو سال قید ید و ملی ( نامہ نگار) سول حج با اختیار دفعه ۳۰ ضابطہ فوجداری نارووال نے بدوملہی کے ایک قادیانی نوجوان مسعود احمد بٹ کو ہا سال قید اور ہو ہزار روپیہ جرمانہ کی سزاد ی ہے.مسعود بٹ نے ایک سال قبل انٹی احمدیہ آرڈی نفس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اذان درمی تھی.ایک تحریری درخواست پر مقامی پولیس نے اس کے خلاف مقدم

Page 21

۲۱ درج کرکے گرفتار کر لیا تھا تفصیل اس جرم کی یہ ہے کہ قادیانی نوجوان نے بآواز بلند کہا تھا کہ اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے" یکی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں....." "نمازہ کی طرف آؤ کیا." بھلائی کی طرف آؤ"."اللہ سب سے بڑا ہے..." اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.....اس معروضی صورت حال سے چند سوال پیدا ہوتے ہیں.کیا ان سلامی مملکت میں رب العالمين فقط "رب المسلمين " ہے ؟ اور کیا اب (i) غیر مسلموں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار کی اجازت نہیں ؟ (i) غیر مسلموں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول تسلیم کرنیکی اجازت نہیں؟ (iii) غیر مسلموں کو اجازت نہیں کہ وہ قرآن پاک کو نظام حیات کے لیے بہترین کتاب مھدی قرار دیں اور کیا ان کو قرآن پاک کی صداقتوں اور احکام پر عمل پیرا ہونے کی اجازت نہیں ؟ ان سوالات کے ہاں میں جوابات کے لیے قرآن پاک سے کیا " جواز ہے ؟ اور نفی کی صورت میں کر طیبہ پڑھنے پر پکڑ دھکڑ اور قید و بند کیوں ہے ؟ انٹی احمدیہ انٹر ٹینس کو زیر بحث لانا ، اس پر مفصل تبصرہ میرے یہ موضوع

Page 22

۲۲ نا مارج ہے.ویسے بھی اس آرڈینس پر صحیح تبصرہ تاریخ ہی کرے گی البتہ اس کے نفاذ کے بعد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے نصف درجن سابق جج صاحبان نے شترکہ بیان میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ :- " پاکستان میں سب کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کر نیکی اجازت ہونی چاہیے.انہوں نے کہا احمد یہ فرقہ یا کسی اور فرقہ کے افراد پر طریقہ عبادت اور کلمہ پڑھنے پر موجودہ پابندیاں، ان حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے جن کی ضمانت مملکت کے تمام شہریوں کو دی گئی ہے.نیز یہ بنیادی انسانی حقوق کے تصور کی بھی نفی ہے.اس بیان پر دستخط کرنے والوں نے قائد اعظم کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں اس تقریر کا حوالہ دیا جس نہیں اُنہوں نے کہا تھا کہ :.تم آزاد ہو.تم اپنے مندروں میں جانے پر آزاد ہو.تم اپنی مسجدوں اور دیگر عبادت گاہوں میں آزادی سے جاسکتے ہو.پاکستان میں تم کسی بھی مذہب یا ذات یا عقیدہ سے تعلق رکھ سکتے ہو.کاروبار مملکت سے اس کا کوئی سروکار نہ ہوگا " ذیل کے اصحاب نے اس مشترکہ بیان پر دستخط فرمائے تھے :.سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق حج جناب فخرالدین جی ابراہیم مغربی ہائی کورٹ کے سابق نا مسٹر علی سعید، مسٹر فضل مفتی ، سندھ ہائی کورٹ کے جناب ، عبد الحفیظ میمن اسے کیو صحالے پوتہ اور مسٹر جی ایم شاہ - اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ الزام تو لگتا رہا کہ مسلمانوں نے زیر دستی کافروں کے کلمہ پڑھوایا البتہ کلمہ پڑھنے والوں کو بنوک شمشیر

Page 23

۲۳ اس سے باز رکھنے کی کوئی مثال پہلے نہیں ملتی.مگر اس آرڈینینس کے تحت جرائم کی یہ فہرست نہیں تک محدود نہیں رہے گی وقت گزرنے کے ساتھ ملا کے مطالبات اور آرڈی ننس کے دائرے وسیع ہوتے جائیں گے.غیر مسلموں کے تمام اعمال جو مشتبہ بال اسلام ہونے کا احتمال ہے قابل دست انداز میں پولیس جرائم کی زد میں آسکتے ہیں مثلاً :- ا.احمدیوں کا اپنے نومولود بچوں کے کانوں میں اذان دینا حالانکہ ہر بچہ فطرت سلیم نے کو پیدا ہوتا ہے اور ہمارے عقیدہ کے مطابق وہ حکم ہوتا ہے.۲ - رمضان المبارک میں مسلمانوں کی طرح روزہ رکھنا ، روزے رکھنے کی تیاری کرنا اور روزے کی افطاری (احمدیوں کو دن کے وقت کھانا کھلوا کر پولیس باقاعدہ ٹیسٹ لیا کرے گی کہ کہیں چوری چھپے روزہ تو نہیں رکھ لیا) -۳- ختنہ کروانے پر یہ غذر سموع نہیں ہو گا کہ میہودی اور بعض دیگر اقوام میں ختنہ رائج ہے..مسلمانوں کا نام رکھنے پر.حالانکہ بیشتر نام مسلمانوں، عیسائیوں اور بیویوں تک میں مشترک ہیں بلکہ بادنی تصرف ہندوؤں اور سکھوں کے بھی وہی نام ہیں.مسلمانوں کا سا لباس پہنے اور مسلمانوں کی سی داڑھی رکھنے پر.4.وضو کرنے، مسلمانوں کی طرح نماز پڑھنے ، گھر میں لوٹا یا مسلہ رکھنے پر..قرآن پاک کا پڑھنا اور کتاب اللہ کو گھر میں رکھنا ممنوع ہوگا.بلکہ قرآن پاک کے نسخے کی برآمدگی کی صورت میں منشیات اور نا جائزہ اسلحہ !

Page 24

۲۴ سے زیادہ سزا کا ستحق ہوگا.(یکن نے اگلے دن ایک ساٹھ سالہ احمدمی خاتون کو قرآن پاک حفظ کرتے دیکھا ہے.وجہ پوچھی تو کہنے لگیں.جب مولوی لوگ یہ خزانہ میرے گھر سے اُٹھا کر لے جائیں گے تو تلاوت کیسے کروں گی.اور یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں کے موتی جھڑ رہے تھے ).ان پر سلمانوں کی طرح ذبیحہ اور حلال گوشت کھانے پر پابندی لگ سکتی ہے اور کافری کی تصدیق و توثیق کے لیے ان کو حرام گوشت کھانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے.یہ دائرہ پھیلنا ہی جا رہا ہے مگر کیا آپ اسے مذاق سمجھ رہے ہیں ؟ جب پہلے دن میں نے یہ خبر پڑھی تھی کہ کلمہ پڑھنے پر یا کلمہ کے بیج لگانے پر چند نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو میں نے بھی اسے مذاق ہی سمجھا تھا کہ رب العالمین اور رحمت للعالمین کا نام لینے پر پابندی کیسے لگ سکتی ہے ؟ جسٹس ایم آر کیانی مرحوم نے فرمایا تھا کہ بعض انسانی حقوق اتنے بنیادی ہوتے ہیں کہ اُن پر پابندی لگائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر اب وہ زمانہ بھی بیت گیا.اب شاعر یہ کہنے کی جسارت وہ یہ نہیں کر سکتا ہے تجھے کیا پڑی ہے زاہد مری طرز بندگی سے نه حرم رتری و رانت نه خدا ترا اجارا پرانے زمانے کے بادشاہ بعض مخالفین پر بھو کے شیروں کے پنجرے میں پھینک کر تماشا دیکھا کرتے تھے پاکستان کے بادشاہ لوگ اس شاندار روایت کو پھر زندہ کر رہے ہیں ؟ اسلام یا کلا از هم صفحه بهم تا ۱۵۱ مولفه اصغر علی

Page 25

گھرال یڈووکیٹ ہائی کورٹ.ناشر مکتب الوکیل عزیز بھٹی شہید روڈ گجرات - اکتوبر ۶۱۹۸۸ ) پاکستان کے ایک اور قانون دان جناب حسین شاہ صاحب ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب " آمریت کے سائے میں بھی اُن نخونی اور دردناک مظالم پر روشنی ڈالی ہے جو ضیاء دور میں کلمہ توحید کے پروانوں پر نہایت بے دردی کے ساتھ ڈھائے گئے اور بتایا ہے کہ کس طرح بہت سی احمدی عبادتگاہوں کو یا تو مسمار کر دیا گیا یا سر بمہر کر دیا گیا.اسی طرح را ہوالی ، بھکر، ملتان، گوجرانوالہ اور جھنگ میں قادیانی جماعت کی مساجد کو آگ لگا کر گرا دیا گیا مگرحکومت ک طرف سے مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ بعض مقامات پر مقامی حکام کے احکام کے تحت اُن کی موجودگی میں کلمہ طیبہ کھرچ کر مٹا دیا گیا.مثال کے طور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کوئٹہ اور سب ڈویژنل مجسٹریٹ راولپنڈی کے حکم پر قادیانی جماعت کی مساجد سے کلمہ طیبہ منا دیا گیا." (صفحہ ۳۸۲) اس کے بعد جناب حسین شاہ صاحب اید و و کیٹ بلا جرم قتل کے زیر عنوان لکھتے ہیں :.قادیانی جماعت کیے بہت سے افراد کو بغیر کسی جرم یا گناہ کے کھلے مقامات پر دن وہاڑے قتل کر دیا گیا لیکن حکومت کی طرف سے مجرموں کو گرفتار کرنے یا قرار واقعی سزادینے کے لیے قانونی مشیری کو خاموش کر دیا گیا.قتل ہونے والوں میں بعض افراد بڑی اہمیت کے حامل تھے جن میں سے حسب ذیل قابل ذکر ہیں.(1) پروفیسر عقیل بن عبد القادر - آپ امراض چشم کے اہر ڈاکٹر اور لیاقت میڈیکل کالج میں شعبہ امراض چشم کے سربراہ تھے آپ

Page 26

کو 9 ارجون شائر کو حیدرآباد میں قتل کر دیا گیا.(ii) ڈاکٹر عبد القادر -:- آپ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سینٹر نمبر تھے اور فیصل آباد میں پریکٹیں کرتے تھے.آپ کو ۱۵ اجون ۱۹ء کو فیصل آباد میں اپنے گھر میں قتل کر دیا گیا.19 (iii) عبدالحکیم ابرو :- آپ وارہ ضلع لاڑکانہ میں اسکول ٹیچر تھے اور چھ معصوم بچوں کے باپ اور سر پرست تھے.آپکے ۶ را پرول کو رات کے وقت سوتے ہوئے قتل کر دیا گیا لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی.بلکہ اس کے برعکس قادیانی جماعت کے بہت سے افراد کے خلاف کر طیبہ پڑھنے یا نماز پڑھنے کے جرم میں مقدمات قائم کر کے انہیں سزائیں دی گئیں.ایک وہ زمانہ تھا به مسلمان کلمہ طیبہ کی تبلیغ اور صوم و صلوۃ کے قیام کے لیے دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے تھے اور ایک یہ ہے کہ اگر کوئی قادیانی صدق دل سے بھی کلمہ طیبہ پڑھنا چاہے تو نہیں پڑھ سکتا.کیونکہ اس کے لیے کلمہ طیبہ پڑھنے پر پابندی ہے.پر پابندی ہے.بلکہ ایسا کرنا تعزیری جرم بھی ہے " (صفحہ ۳۸۴) ناشر شا ہین لایک ہاؤس ایم اے جناح روڈ کراچی) ے عاشقوں کا شوق قربانی تو دیکھے سخون کی اس راہ میں ارزانی تو دیکھ ہے اکیلا کفر سے زور آزا امیدی کورد و یا این تودیکھ کیا کی پاکستانی احمدیوں کے خونچکاں واقعات اور ان کی جا نفروشیوں نے منصف مزاج حلم حلقوں کو ہی متاثر نہیں کیا غیر مسلم دنیا بھی عش عش کر اٹھی ہے

Page 27

۲۷ اس ضمن میں کینیڈا کے مستشرق اور اوٹا وہ یونیورسٹی کے پروفیسر مسٹر انٹینو آرگلیٹری ( ANTONIO R.GUALTIERI ) کی مثال دی جا سکتی ہے.آپ دسمبر ۱۹۴۷ء میں احمدیوں کی بے مثال قربانیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے لیئے پاکستان تشریف لائے اور احمدی جوانوں کے جذبہ ملائیت، دینی جوش اور ولولہ ایمانی کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے اور واپس جا کر اپنے تاثرات و مشاہدات پر ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے CON SCIENCE AND COERCION(انسانی ضمیر اور بعد و تشدد ) اس کتاب میں پروفیسر موصوف نے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا ہے کہ قربانی کے موجودہ دور میں جماعت احمدیہ کسی پہلو سے کی مہمان سے پیچھے نہیں ہٹی اور ان کے اندر نئے عزم پیدا ہوتے پہلے بار ہے ہیں.میں نے جیلوں میں جا کر بوڑھوں کے ساتھ بھی بات چیت کی اور میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ ان کو لذت کس بات کی آرہی ہے.وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے تھے کہ یہ خدا کی خاطر قربانی کا مزہ ہے.(مفہوم) یہ قابل قدر کتاب کینیڈا کے نشریاتی ادارہ G VERNICA نے مانٹریالی سے گزشتہ سال ۱۹۸۹ء میں شائع کی ہے.مولانا تاج محمد صاحب بھی ناظم اعلی تحفظ ختم نبوت کورٹ نے بجٹ پیٹ درجہ اول کوئٹہ کی عدالت میں ۲۱ دسمبر ۱۹۰۵ء کو بیان دیتے ہوئے یہ حیرت انگیز اعتراف کیا کہ :." " یہ درست ہے کہ حضور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا ، اذان دیتا تھا یا کلمہ بڑھتا تھا اس کے ساتھ مشترک یہی سلوک کرتے تھے جو اب ہم احمدیوں سے کر رہے ہیں.مصدق نقل بیان

Page 28

۲۸ گواه استفاثه نمبر ۲ تاج محمد ولد فیروز الدین مجریه ۲۲ دسمبر ۶۱۹۸۵ گذشته سال ۱۵ر دسمبر ۶۱۹۸۹ کو فقیہان شہر کی سازش سے ایک ایسا اقدام کیا گیا جس کی کوئی مثال اُن اشتراکی ممالک میں بھی نہیں مل سکتی جہاں مظلوم مسلمان اقلیتیں تعصب کا شکار ہو رہی ہیں اور لاتعداد مسائل سے دوچار نہیں اور وہ یہ کہ ربوہ کے پچاس ہزار احمدیوں کے خلاف کل طیبہ کے موسم میں زیر دفعہ ۲۹۸C مقدمہ درج کر دیا گیا.(نوائے وقت ۲۱ دسمبر ۱۹۸۹ ۶ صدا ، ، الفصل ۱۹ر دسمبر ۱۹۸۹ء ص ) سے سزا دار و رسن کی دیں گے.آخر آپ کس کس کو کہ دیوانوں کی بستی میں تو سب منصور رہتے ہیں غرضکہ کلمہ طیبہ کی عظمت و ناموس کے لیے جماعت احمدیہ کی فدا کاریوں اور جہاں شادیوں کا سلسلہ بہت طویل مگر حد درجہ ایمان افزاء ہے جس سے چودہ سو سال قبل کا دور ایک بار بچہ پوری شان سے پلٹ آیا ہے وہی ہے ان کو ساقی نے پلا دی فسُبحَانَ الَّذِي أُخْرَى الأَعادِي

Page 29

۲۹ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے جدید علم کلام نے مندر بعد ذیل ممالک پر خاص طور پر نظریاتی اثرات ڈالے ہیں جو مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں.دنیائے عرب.برصغیر پاک و ہند - ایران - انڈونیشیا روس - یورپ و امریکہ دنیائے عرب حضرت اقدس بانی احمدیت نے اپنے دعوی مسیحیت و مهدویت ابتدائی دور میں ہی یہ نظریہ پیش فرما دیا تھا کہ قرآن مجید اور احادیث نبوی میں عہد حاضر کی ایجادات اور حالات کی نسبت پیش گوئیاں موجود ہیں.اس نظریہ نے دنیائے عرب کے علمی طبقہ کو بہت متاثر کیا ہے جس کے متعدد نمونے جدید عربی لڑیچر میں پائے جاتے ہیں.مثلاً مصری عالم " الامام المجتهد الحافظ ابی الفیض احمد بن محمد بن الصديق العمار من الحسنى " نے " مطابقة الاختراعات العصريه لما اخبر به می سید البریہ کے نام سے ایک تالیف کی جو مکتبہ قاہرہ نے شائع کی جو خاص اس موضوع پر ہے.اس کتاب کا سلیس اور با محاورہ اُردو ترجمہ حامد اینڈ کمپنی اردو بازاری ہور کی طرف سے اسلام اور عصری ایجادات کے نام سے چھپ چکا ہے.جو مولانا ابو حماد مفتی احمد میاں برکاتی مارہروی کے رشحات قلم کا نتیجہ ہے.ایک عرب فاضل جناب کامل سلیمان کے قلم سے ایک ضخیم کتاب بوم الخلاص فى ظل القائم المهدى عليه السلام منظر عام پر آچکی ہے.جیسے

Page 30

بیک وقت دار الکتاب المصری (قاہرہ) اور دار الکتاب اللبنانی (بیروت) نے شائع کی ہے.اس کا ایک نسوز راقم الحروف نے کویت کی مرکزی لائبریری میں دیکھا ہے یہ اس کتاب میں قابل مولف نے بڑی شرح وبسط سے نہ صرف دو بر جدید کی ایجادات کا قرآن و حدیث سے پتہ دیا ہے بلکہ بتایا ہے کہ آمد مهدی موعود سے متعلق قرآن مجید احادیث نبوی اور ائمہ اہلبیت علیهم السلام کی اکثرو بیشتر علامات پوری ہو چکی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کا چمکتا ہوا نشان ہیں.نیز لکھا ہے کہ کئی علامات پود بیزی پردہ پڑا ہوا تھا لیکن موجودہ زمانہ کی ایجادات و اکتشافات نے اُن کی حقیقت بالکل کھول دی ہے.بعض علامات جن کا ذکر کیا گیا ہے :.مہدی موعود کا خزانہ چاندی اور سونا نہیں، اس کے انصار ہیں جو کامل عارف باللہ ہوں گے.مہدی موعود اسلام کو جدید رنگ میں پیش کرے گا.موٹر کار اور طیارہ جیسی سواریوں کی پیش گوئی.ائمہ گراہ اور بادشاہ ظالم ہوں گے محکام کے مظالم سے عوام پر خرمہ حیاست تنگ ہو جائے گا.فقہاء خائن ہوں گے.اُن کا دعویٰ ہوگا کہ وہ میری شفت کی طرفت دعوت دے رہے ہیں حالانکہ وہ مجھ سے بیزار اور میں اُن سے بیزار ہوں.د حدیث) - علماء بادشاہوں سے وابستہ ہو جائیں گے اور اُن کے اشارہ ابرو پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیں گے اور جو چاہیں گے فتوے دیں گے.اور علم محض اس لیے سیکھیں گے کہ درہم و دینار حاصل کریں اور قران کو تجارت کا ذریعہ بنائیں.بادشاہ ظالم ہوں گے اگر اطاعت کرو گے تو کافر بنا دیں گے اور اگر نا فرمانی کرو گے تو موت کے گھاٹ اُتار دیں گے.بادشاہ اور کتاب اللہ الگ الگ ہو جائیں گے.اُن کے فیصلے اپنے لیے اور ہوں گے اور تمہارے لیے اور اگر ان کی اطاعت کرو گے گمراہ ہو جاؤ گے ہیں حضرت مسیح کے سواریوں کی طرح

Page 31

۳۱ دین کی خاطر قربانیاں پیش کرنا جو آروں سے چیر دیئے گئے اور تختہ دار پرائٹ کا دیئے گئے.علماء بدترین خلائق ہوں گے.دوسروں کو قتل کرائیں گے اور خود بھی.چوروں کی طرح قتل کئے جائیں گے.مالدار تفریح کے لیے ، متوسط طبقہ کے مسلمان تجارت کے لیے اور فقیر دریا کاری اور گداگری کے لیے حج کریں گے.بادشاہوں کا حج بھی تفریح کیلئے ہوگا.حرمین شریفین میں گانے اور موسیقی کے آلات داخل ہو جائیں گے.جور و فساد بڑھ جائے گا.بدی ظاہراً ہو گی مگر نیکی سے روکا جائے گا.قتل و غارت میں زبردست اضافہ ہو جائے گا اور خونریزی معمولی بات سمجھی جائے گی کھیل تماشے بہت ہوں گے.خدا کو گالیاں دی جائیں گی.قرآن اور باطل کا سننا آسان ہوگا.مساجد بظاہر آبادیگر فتنوں کی آماجگاہ ہوں گی.ان میں تصادم ہوں گے.اور ہر فتنہ اُنہی سے اُٹھے گا.حج اور جہاد غیر اللہ کے لیے ہو گا.طاعون کا زور ہوگا.فضائی جنگیں لڑی جائیں گی.حجاز سے آگ اُٹھے گی (پٹرول برآمد ہوگا).یہودی فلسطین میں اکٹھے ہو جائیں گے اور وادی قدس پر یہودیوں کا قبضہ ہو جائے گا.حضرت مهدی علیہ السلام محمدی پر کمر کے حامل اور احمدی بادشاہت کے علمبردار ہوں گے (" صاحب الراية المحمدية والدولة الاحمدیہ) آپ کا ظہور ہجرت نبوئی کے ۱۱۴۴ سال بعد مقدر ہے.یہود کے ارض مقدس میں اجتماع سے قبل آپ ظاہر ہو چکے ہوں گے.آپ کے زمانہ میں جبریل نازل ہوں گے اور رمضان میں آواز آئے گی کہ حق

Page 32

۳۲ آل محمد میں ہے.کعبہ کے راستہ میں دیوار حائل کر دی جائے گی.مومن اقلیت میں ہوں گے اور اپنی بکری سے بھی زیادہ ذلیل و رسوا کیئے جائیں گے.اور گو علماء وقت سب سے بڑھ کہ مہدی کے مخالف ہوں گے مگر بالآخر مشرق و مغرب ماری موجود کی منادی سے گونج اُٹھیں گے." اس نوع کی بکثرت علامات اس کتاب کے دوابواب العلم والفقهاء والامراء“ اور ” الدين والقرآن میں بیان کی گئی ہیں.ظور صدی کا آفاقی نشان رمضان میں چاند سورج گھر ہن ہے جس کا ذکر حدیث کی بلند پایہ کتاب دار قطنی میں موجود ہے.از ہر یونیورسٹی کے ایک نابغہ روزگار علامہ سید محمد حسن نے اپنی کتاب " المهدیه فی الاسلام کے صفحہ ۲۷ پر تسلیم کیا ہے کہ چاند سورج گرہن کا یہ آسمانی نشان اگر کسی مدعی مہدویت کے زمانہ میں مارا ہوا تو وہ باقی سلسلہ احمدیہ ہیں.رکات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی آمد سے قبل مسلم دنیا میں خونی مہدی کے ظہر کا تصور عرب و عجم میں راسخ ہو چکا تھا.ہر طرف مہندی کی تلوار سے کفار کے قتل عام کے غلغلے بلند ہو رہے تھے.اس بھیانک تصور نے شمنان اسلام کی نظر میں اسلام کو بہت بدنام کیا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے اس تصور کے خلاف نہر سورت باد کیا.چودھویں صدی ہجری کے آخر میں خدا تعالیٰ نے اس دیو مالائی افسانہ اور خیال کو پاش پاش کرنے کا عجیب سامان پیدا فرمایا اور وہ یہ کہ عین حج کے مقدس و مبارک ایام کے دوران ایک شخص محمد بن عبدالله القحطانی نے جس کی والدہ کا نام آمنہ تھا حرم کعبہ میں دعوئی مہدویت کیا اور اس نے دوسرے فسادیوں سے مل کرسٹین گنوں سے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا.کئی دن کے خونریر تصادم کے بعد ارض حرم کو اس فتنہ سے پاک کیا جا سکا.

Page 33

۳۳ اس حادثہ معظمی نے عر کے دانشور علماء و فضلاء کی آنکھیں کھول دیں چنانچہ ایک مشہور عالم دین اشیخ محمد علی الصالونی نے "المهدي واشراط الساعة" کتاب شائع کی نہیں ہیں صاف طور پر اقرار کیا کہ مہندی دینی مصلح ہوگا جو اللہ عز وجل کی طرف سے براہین و دلائل لے کر آئے گا اور وہ بند و قول اور مشین گنوں سے مسلح نہ ہوگا.اور ہتھیار بند ہو کر دعوی کرنے والا شخص مہدی نہیں درقبال ہے.نہ صرف مشق اور بیروت میں بلکہ سارے عرب ممالک میں اس کتاب کی وسیع پیمانے " " پر اشاعت کی گئی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے نہایت شد و مد کے ساتھ یہ اعلان فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مہاد کے نام سے جارحانہ اقدامات کا الزام سراسر جھوٹ اور بہتان ہے.اسلام صرف دفاع کے لیے تلوار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں.عرب علماء کی طرف سے اس مسلک کی تائید میں عرصہ سے آواز بلند کی جاری ہے.چنانچہ علامہ سید محمد رشید رضا مدير المنار نے الوحي المحمدی میں لنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد بالسیف کو جارحانہ نہیں مدافعانہ قرار دیا ہے.برطانیہ میں عرب ملکوں کی سرپرستی میں دمی مسلم سکولز ٹرسٹ لنڈن قائم ہے.جس کے چیرمین شیخ عبد اللہ علی المود ( شارجہ) ہیں.ٹرسٹ نے پندرھویں صدی ہجری کے آغاز میں انسائیکلو پیڈیا آف سیرت ENCYCLOPAEDIA) OF SEERAH کی چار جلدیں شائع کی ہیں اور اس کا پیش لفظ سعودی عرب کی شاہ فیصل یونیورسٹی جدہ کے صدر ڈاکٹر عبدالله النصیف نے رقم فرمایا ہے کتاب کی پہلی جلد کے صفحہ ۵۰۳۴ پر اسلامی جہاد کے پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے.چنانچہ لکھا ہے :-

Page 34

سم ۳ "In Makkah Muhammad began his mission first by himself obeying the Law of God and then by inviting his relatives and others to join with him and enter the fold of Islam.It was an open invitation to all, given in a peaceful and friendly manner, but people opposed him and gradually this opposi- tion became violent and fierce.The Prophet and his com- panions suffered persecution at the hands of the Quraish for 13 years, until they were forced to leave their property, their homes, their relatives and, above all, the Ka'bah, and seek refuge in another town called Medinah, merely to pro- tect their faith and practise it freely.But the Quraish did not let them live in peace and practise their faith even in Medinah and began a series of raids and attacks on them in order to destroy them and their faith.Thus war came into Islam as a logical step to self-protection and self-preservation.When the Quraish opposed and obstructed Muhammad and his com- panions, who were practising their Faith in their own way, and even waged war to destroy them, Muhammad was left with no option but to defend his faith and his life with all the power he could gather.Under these circumstances, they were given permission to fight back and defend themselves and their faith from the aggressive designs of the enemy".کہ میں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کی ابتداء اس طرح کی کہ پہلے تو آپ نے خود اللہ کے قانون کی فرمانبرداری کی اور پھر اپنے رشتہ داروں اور دیگر لوگوں کو دعوت دی کہ اسلام قبول کر کے آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں.یہ دعوت ایک صلائے عام تھی جو پر امن اور دوستانہ انداز میں دی گئی لیکن لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کی جو رفتہ رفتہ شدید اور نوفاک شکل اختیار کر گئی.نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور حضور کے صحابہ نے قریش مکہ کے ہاتھوں اور '

Page 35

۳۵ تیرہ سال تک مظالم برداشت کیئے یہاں تک کہ انہیں اپنی جائداد اپنے مکان اپنے رشتہ دار اور سب سے بڑھ کر خانہ کعبہ کو چھوڑتے ہوئے ایک اور شہر مدینہ میں پناہ لینا پڑی محض اس لیے کہ وہ اپنے عقیدہ کا تحفظ کر سکیں اور اس پر آزادی سے عمل پیرا ہو سکیں لیکن قریش نے انہیں مدینہ میں بھی ی موقع نہیں دیا کہ وہ آزادی سے وہاں رہ سکیں اور اپنے مذہب پر عمل کر سکیں.چنانچہ انہوں نے اُنہیں اور اسلام کو ختم کر دینے کے لیے متواترہ چڑھائیوں اور جملوں کا سلسلہ شروع کر دیا.اس طرح اسلام میں اپنے دفاع اور اپنی بقاء کے لیے جنگ کا تصور اسی صورت حال کے طبعی نتیجہ کے طور پریہ آیا.جب قریش نے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم) اور آئینہ کے صحابہ کو اپنے دین پر اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرنے سے روکا اور ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارٹ کاریہ رہا کہ وہ اپنی بھر پور قوت سے اپنے دین اور اپنی جان کی حفاظت کریں.یہ تھے وہ حالات جن میں انہیں اجازت دی گئی کہ وہ اپنی اور اپنے دین کی حفاظت کی خاطر جوابی کارروائی کریں اور دشمن کے جارحانہ عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے صف بستہ ہو جائیں.(ترجمہ) مندرجہ بالا تصریحات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نظریہ جہاد کی شاندا فتح کا اعلان عام کر رہی ہیں کیونکہ آپ نے قریباً ایک صدی پیشتر اسلامی جہاد کے آغاز کا بالکل یہی فلسفہ پیش فرمایا تھا.چنانچہ آپ نے کتاب گورنمنٹ انگریزی اور جہاد میں لکھا ہے :." اب ہم اس سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کو جہاد کی کیوں ضرورت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے؟

Page 36

۳۶ سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور تمام قومیں اس کی دشمن ہوگئی تھیں.جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک نبی یا رسول خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور با ہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اُس کی نسبت موجود قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور جہد پیدا ہو جایا کرتا ہے.بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں......اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے سوچتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ایک پاک دل بندہ کو ناحق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آگئے ہیں اور اُن کے احتمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لیے ہر وقت اُن سے سرزد ہوتے رہتے ہیں اُن کے دل کی قصور وار حالت کو اُن پر ظاہر کرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی حسد کی آگ کا نیز انجن عداوت کے گڑھوں کی طرف اُن کو کھینچے لیے جاتا ہے.یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا لہذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحۂ دنیا سے مٹا دیں.اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لیے اُن کے مخالفوں نے بباعث اس تکبیر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں

Page 37

۳۷ دولت میں، مال میں ، کثرت جماعت میں ، عرآت میں ، مرتبہ میں دوسرے فرقے سے برتر خیال کرتے ہیں اُس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لیے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا.اور ان کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے.سو اسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ درانہ تک ہو تیرہ برس کی مدت تھی اُن کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بند ہے اور نوع انسان کے فخر کن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے شکوے کیئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کوچوں گلیوں میں ذبح کئے گئے.اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شرکا ہرگز مقابلہ نہ کرو.چنانچر ان برگزیده راستبازوں نے ایسا ہی کیا.ان کے خونوں سے کوچے سُرخ ہوگئے.پر انہوں نے دم نہ مارا.وہ قربانیوں کی طرح ذبیح کیئے گئے پر انہوں نے آر نہ کی.خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام میں بار با پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر

Page 38

اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ دونوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گزر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اس کا غصب شریروں پر بھڑکا اور اس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور یکی خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا " حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت پر ۱۸۹۲ء میں برطانوی ہند کے علماء نے قومی کفر دیا اُس کی بنیادی وجہ حیات شیخ ناصری سے انکار تھا.لیکن احمد ثیت کی پہلی صدی میں ہی اس عقیدہ کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ دور حاضر کے بہت سے عرب زحما د حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طبعی وفات کے قائل ہو چکے ہیں اور شیخ کی آمد ثانی کے تحصیل کو بے بنیاد یقین کرتے ہیں اور جیسا کہ علام محمد عزت الطحاوی نے اپنی کتاب النصرانيه والاسلام" (شائع کرده مکتبه النور مصر ۱۴۰۷ھ) میں ذکر کیا ہے.ان زماء عرف میں الاستاذالامام محمد عبده ، الستيد محمد رشید رضا ، فضیلة الاستاذ الشیخ محمد ابو زہرہ، الاستاذ الاكبر شیخ مصطفی الارضی شیخ الازہر، الاستاذ الاكبر اشیخ محمود شلتوت شیخ الازہر، الاستاذ محمد الغزالي، الاستاذ حسنی الزمزمی اور الاستاذ این عز العرب جیسی بلند پایہ علمی تخصیات شامل ہیں.ان

Page 39

۳۹ کے علاوہ الاستاد عباس محمود عقاد، سید قطب رہنما الاخوان السلمون، الدكتوبر محمود بن الشریف پروفیسر اکنامکس کالج مصر، سید محمد حسن وزارت معارف اور الشیخ عبدالله القیشادی غزہ بھی میں رائے رکھتے ہیں.تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو خاکسار کا رسالہ وفات شیخ اور احیائے اسلام نامستر نظارت اشاعت بوه) لبنانی عالم اشیخ مصطفی غلامینی نے " خیار المعقول فی سیرت الرسول میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت علیہ السلام تک ہر نبی نے ہجرت کی ہے.اور السید محمد رشید رضا نے رسالہ "المنار" جلد 1 صفحہ 90-91 میں اور السید عباس محمود العماد نے حیات المسيح في 16 التاريخ وكشوف العصر الحدیث (مطبوعہ بیروت ۱۹۶۹ء) کے صفحه ۲۵ و ۲۵۶ میں تسلیم کیا ہے کہ عقلی، نقلی اور تاریخی اعتبار سے سرینگر کے محلہ خانیار میں واقع مقبرہ حضرت مسیح علیہ السلام ہی کا ہے.ان تفصیلات سے عیاں ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے جدید کیم کلام نے عرب دنیا کے مفکرین و مدبرین کے اذہان و قلوب میں تہلکہ مچا دیا ہے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے وسط ۱۸۹۱ء میں یہ انکشاف کر کے پوری مسلم دنیا کو چونکا دیا کہ روس اور انگریزی یا جوج ماجوج میں (ازالہ او ہام حصد و سفراط مطبوعہ ذی الحجہ ۱۳۰۸ د/ جولائی ۶۱۸۹۱) به نظر یہ بھی عرب ملکوں میں روز بروز مقبولیت حاصل کر رہا ہے.چنانچہ علامہ اشیخ عبدالرحمن بن ناصر بن سعدی اور نے اس کتاب کا اردو ترجمہ جناب منہاج الدین اصلاحی صاحب نے کیا ہے اور پاکستان کو پریٹو پبلشر لا ہور نے چھپوایا ہے مگرافسوس قبر میم سے متعلق علامہ عقاد کے افکار اس میں سے حذف کر دیئے گئے ہیں.انا للہ وانا اليه راجعون.

Page 40

پروم الشیخ عبد الله بن زید ال محمود رئيس الحاكم الشرعيه والشئون المد فيه بدولة قطر عبداله زیان رئیس و چیف جسٹس شرعی عدالت اور وزیر امور مذہبی قطر) بر طار اس نظریہ کا اظہار کر چکے ہیں (رسالہ " لا مهدى ينتظر از اشیخ عبد الله بن زید آل محمود) مدتوں سے عالم اسلام میں یہ خیال پرورش پارہا تھا کہ جونہی مہدی موعود مطلع عالم پر نمودار ہوں گے ساری دنیا آپ پر فوراً ایمان لے آئے گی لیکن اب سرزمین عرب سے ہی یہ آوازیں اُٹھنی شروع ہو چکی ہیں کہ اگر آج عیسی و موسیٰ علیهم السلام ہی نہیں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوبارہ تشریف لے ہیں تو ان کی شدید مخالفت کی جائے گی.چنانچہ مصری عالم الاستاذ لحیم شیخ نظاری نے الجواهر فى تفسير القرآن (جلد ۳ صفحہ ۱۱۲ طبع ثانی ہیں اور علامہ عباس محمود العتاد نے کتاب حیات مسیح (صفحہ ۲۱۳ ) میں انہی خیالات کا اظہار کیا ہے.اور عراق کے مشہور عالم دین الشیخ محمد رضا الشبینی فرماتے ہیں :- 14 وَاحْبَرُ ظَنِي لَوْانَا نَا مُحَمَّد لَلَاقَى الَّذِي لَا قَاهُ مِنْ أَهْلِ مَكَةٍ عَدَ لنَا عَنِ النُّورِ الَّذِي جَاءَنَا بِهِ كَمَا عَدَلَتْ عَنْهُ قُرَيْشٍ فَضَلَبٍ إذَنْ لَقَضَى لَا مَنْهَجُ النَّاسِ مَنْهَى وَلَا مِلَةُ الْقَوْمِ الْأَوَاخِرِ مِلَّتِ ۶۱۹۴ لئے ديوان الشبيبي صفح - اناشر مطبعة لجنة التأليف والترجمة والتبشير شاي - یعنی میر اظن غالب ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) آج ہمارے پاس تشریف لے آئیں تو آپ کو آج بھی اس قوم کے ہاتھوں اُسی قسم کے مصائب اور انکار ہی سے دوچار ہونا پڑے گا جس طرح آپ اہلِ مکہ کے ہاتھوں دو چار ہو.کیونکہ ہم اس نور سے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لاتے تھے روگردانی کر چکے ہیں جس طرح قریش نے اس سے منہ پھیرا تھا اور گمراہی کے گڑیا تجھے

Page 41

۴۱ میں جا پڑے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ کر یقینا فیصلہ کریں گے کہ ان لوگوں کا رستہ میرا رستہ نہیں اور نہ آخری زمانہ یکم مسلمانوں کا مذہب میرا مذہب ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ابتداء دون سیت میں ہیں یہ پیشگوئی فرما دی تھی کہ اس للہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِمُونَ یعنی اسے حسرت بندوں پر کہ ایسا کوئی نبی نہیں آتا جس سے وہ ٹھٹھا نہ کریں.ایسا ہی قرآن شریف کے دوسرے مقامات میں جا بجا لکھا ہوا ہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں آیا جس کو لوگوں نے بالاتفاق مان لیا ہو.اب اگر حضرت مسیح بن مریم نے در حقیقت ایسے طور سے ہی اُترنا ہے جس طور سے ہمارے علماء یقین کیئے بیٹھے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سے کوئی فرد بشر انکار نہیں کر سکتا لیکن ہمارے علماء کو یا درکھنا چاہیے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا یا ہوگا." ازاله او بام جلد ۲ صفحه ۲۸۰ طبع اول ۶۱۸۹۱) راسی کتاب میں آپ نے اپنی جماعت کے مخلصین کو بتایا کہ اس آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کا وقت تم پر ہے اسی سنت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے.ہر ایک طرف سے کوشش ہوگی کہ تم ٹھو کر کھاؤ اور تم ہر طرح سے بتائے بھاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سکنی پڑیں گی اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دُکھ دے گا اور خیال کرنے کا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے یا (ایضاً صفحه ۴۲)

Page 42

۳۲ اس حقیقت زبانی کی بازگشت کسی قوت و شوکت کے ساتھ مرکز اسلام میں سنائی دینے لگتی ہے ؟ اس کا اندازہ دارالحدیث مکہ مکرمہ کے نامور ما درس علامہ محمد بن جمیل زمینو کے مندرجہ ذیل بیان سے بآسانی لگ سکتا ہے.فرماتے ہیں :-.علامة الفرقة الناجية ا - الفرقة الناجية هم قلة بين الناس ، دعا لهم الرسول صلى الله عليه وسلم بقوله : طوبى للغرباء، أناس م اكثر ممن صالحون ، في أناس سُوء كثير من يعصيهم يطيعهم، (صحيح رواه احمد ولقد أخبر عنهم القرآن الكريم فقال مادحاً لهم : وقليل من عبادي الشكور (سورة سبا) ٢ - الفرقة الناجية يعاديهم الكثير من الناس - ويفترون عليهم و ينا بزونهم الالقاب، ولهم أسوة بالأنبياء الذين قال الله عنهم : > وكذلك جعلنا لكل نبي عدواً شياطين الانس والجن ، يُوحى بعضهم إلى بعضٍ زُخْرِفُ لقول غروراً..(سورة الأنعام) وهذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عنه قومه (ساخر كذاب ) حينما دعاهم الى إلى التوحيد، وكانوا قبل ذلك سمونه الصادق الامين لعلامة الفرقة الناجية » صفحه ۲) مولفه من مينا في

Page 43

۴۳ (ترجمه) فرقہ ناجیہ کی علامت ا.فرقہ ناجیہ دوسر کے لوگوں کی نسبت اقلیت میں ہوگا.رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد مبارک میں اسی کے لیے یہ دعا کی ہے کہ غرباء کے لیے مبار کی ہو.یہ صالح لوگ ہوں گے جو بدایوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے لوگوں کے درمیان ہوں گے.ان کی پیروی کرنے والے کم اور ان سے تعصب رکھنے والے بہت زیادہ ہوں گے.کم (یہ امام احمد بن حنبل کی صحیح روایت ہے.) قرآن کریم نے بھی ان کی خبر دی ہے اور ان کی تعریف میں فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہوتے ہیں (سورۃ سبا : ۱۴).لوگوں کی بھاری اکثریت فرقہ ناجیہ سے عداوت رکھتی ہے ، ان کے خلاف افترا پردازی سے کام لیتی ہے اور انہیں برے ناموں سے یاد کرتی ہے.اس کے لیے انبیاء کا وجود مشعل راہ ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انسانوں اور بھنوں میں سے سرکشوں کو اسی طرح ہر نبی کا دشمن بنا دیا تھا ان میں سے بعض بعض کو دھوکہ دینے کے لیے (ان کے دل میں ) بُرے خیال ڈالتے ہیں جو محض مطمع کی بات ہوتی ہے.(الانعام : ۱۱۳) یہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنی کی ذات گرامی تھی جس نے توحید کی طرف بلایا تو آپ کی قوم نے آپ کو ساحر و کذاب قرار دے دیا حالانکہ اس سے پہلے وہ آپ کو العصا دق الامین کے نام سے یاد کرتی تھی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے واضح اور فیصلہ کن رنگ میں یہ صراحت فرمائی کہ:-

Page 44

صرف مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے.عو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں میں اُس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہی نبوت رکھتا ہوں " ر حقیقة الوحی تقمه صفحه ۶۴ - تاریخ اشاعت ۱۵ اپریل ۶۱۹۰ وسط ایشیا کے مستند و مذہبی راہ نماؤں کے نزدیک نہ صرف حضرت بانی جامعات احمدیہ کا دعوی معاذالار شارع نبی کا ہے بلکہ وہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے نبی و رسول کے الفاظ کا استعمال شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں اور عرب ذہن اور عرب دماغ کو مکمل طور پر اسی رنگ میں رنگیں کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں مگر انہیں غربی مزاج کو اس محبی فکر سے ہم آہنگ کرنے میں کوئی کا میابی حاصل نہیں ہوئی میں پر عرب کی جدید تاریخ گواہ ہے.اسی صدی میں اہل عرب نے نبی اور رسول کا لفظ جس رنگ میں مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے لیے استعمال کیا ہے وہ ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے.مصر کے صدر جمال عبد الناصر کے حادثہ وفات پر اخبار الكويت (۵) ار اکتوبر ۱۹۷ء) نے عربوں کے نامور قوم پرست شاعر نزار قبانی کا مرتبہ شائع کیا جس کا عنوان تھا " قتلناك يا آخر الانبیاء اسے آخری نبی ہم نے تجھے قتل کر دیا.بیروت سے القذاقی رسُول الصحراء " کے نام سے کرنل معمر قذافی صدر لیبیا کی سوانح حیات شائع کی گئی.کتاب کا آغاز جمالی عبد الناصر کی عکسی تحریر سے ہویا.یہ در اصل ایک اٹالین مصنفہ میریلا بیانگر کی کتاب کا عربی ترجمہ تھا جو عرب ملکوں میں بکثرت شائع کی گئی.اسی طرح نزار قبانی اپنی ایک مید نظم من فلسطین کے سرفروش نوجوانوں کی تنظیم" الفتح " کی ترجمانی کرتے نہ i

Page 45

۴۵ کرتے ہوئے کہتا ہے اس يا "فتح" تحن مكة ننتظر الرسولا سعیدہ انیس ماجد نے اس مصرعہ کو درج ذیل انگریزی الفاظ میں منتقل کیا ہے :.AL-FATAH, WE ARE THE MECCA OF THE PAST, AWAITING REDEMPTION WITH THE BIRTH OF THE PROPHET'' رساله " فتح " مطبوعہ آزادکشمیر پرنٹنگ پریس ۸۱/۴ شارع قائد اعظم لاہو) معنی الفتح اور ہم ماضی کے منکر ہیں اور نہایت شدت سے ایک نہیں کی پیدائش کا انتظار کر رہے ہیں.سعودی عرب کے مدارس میں ایک کتاب " القرأة الاعدادية داخل نصاب رہی ہے جس کا ایک باب گاندھی جی کے لیے مخصوص ہے جس میں اُن کی شان میں ایک قصیدہ بھی درج ہے جس کا ایک شعر یہ ہے :- نبي مثل كنفيرتس او من ذالك العهد (بحوالہ اخبار رضائے مصافی ۱۵ر صفر المظفر ۱۳۷۹ صفحه ۵ - مطابق ۲۰ اگست ۱۹۵۹ء) - یعنی گاندھی کنفیوشس کی طرح نبی ہیں یا اسی عہد سے تعلق رکھتے ہیں.ستمبر ۱۹۵۶ء میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے تو محافظ الحرمین الله فین جلالت الملک شاه سعود نے اُن کا پر جوش استقبال کیا اور مرحبا نهر و رسول السلام امیر مین).

Page 46

۴۶ کے فلک شگاف نعروں سے حجاز کی سرزمین گونج اٹھی.پاکستانی علما ر نے اس نعرہ پر سعودی حکومت سے احتجاج کیا جسے سعودی سفارت خانہ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ لوگ عربی کی ابجد سے بھی واقف نہیں، عربی میں قاصد کو رسول کہتے ہیں.تاریخی حقائق صفحہ ۲۰- اسم مؤلفہ مولانا الحاج ابو داود محمد صادق صاحب ناشرر صوبیہ کتب خانه پلاک.وانگراں لاہور) رابطہ عالیہ اسلامی کے زیر اہتمام کیا منظر میں ۲۰ نمبر ا ۱۲۵ رتبه ۱۹۷۰ و ایک بین الا قوامی کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں دنیا بھر کے ممالک سے سلم نمائندگان نے شرکت کی اور مقالے پڑھے.کانفرنس میں مسجد کے حقیقی مقام سے اسلامی روایات کی روشنی میں متعارف کرایا گیا اور اس کا نام رکھا گیا " مؤتمر احياء رسالة المسجد کا نفرنس کی مکمل روداد بحوث مؤتمر رسالة المسجد کے عنوان سے جدہ سے چھپ چکی ہے ، نظاہر ہے رسائیت کے معنی یہاں پیغامبری کے ہیں.جہاں تک حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوئی کا تعلق ہے تو صغیر پاک ہند کے غالی طائفوں کے مقابل عرب کے چوٹی کے اہل قلم حلقوں نے کسی او یہ نگاہ سے آپ کی تحریرات کا مطالعہ کیا ہے اور آپ کے دعوی کی حقیقت و نوعیت معلوم کی ہے اس کا ایک شاندار نمونه ممتاز مصرف عالم محمد سود کلانی کا وہ نوٹ ہے جو آپ نے پانچویں صدی کے متکلم اسلام علامہ ابو الفتح محمد بن ابو بکراحمد الشهرستانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الملل والنحل کے ضمیمہ میں" المحركة القاديانية کے عنوان سے پسر در قلم فرمایا ہے.کتاب کا یہ ایڈیشن بیروت کے دارالمعرفہ نے سے قلم چو و مویں صدی ہجری کے آخری سال شائع کیا تھا.علام محمد یاد گیلانی اس حقیقت افروز نوٹ میں حضرت اقدس کی کتاب بنا بر نظم

Page 47

رو کے حقہ عربی کے بعض اہم اقتباس درج کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :- ادعى غلام احمد أنه المسيح الموعود ؛ بمعنى أنه جاء بقوة وروح عيسى عليه السلام وأدعى أنه هو النبي الذي تنبأت بظهوره في آخر الزمان أغلب الديانات العظيمة ، وأكد أن القرآن هو آخر كتاب تشریعی موحی به من الله تعالى ، وأن محمدا صلى الله عليه وسلم آخر الانبياء المشرعين ، وأنه خاتم النبيين أى أنه لا يمكن لأي نبي غير مشرع أن يظهر بعده إلا باتباعه اتباعا كاملا ، والتشبه به تشبها تا ما ، وقد ادعى أنه نبي، وأن مهمته هي إقامة العلاقة بين الإنسان وخالقه كما أنه جاء أيضا ليفسر القرآن وتعاليم الإسلام في ضوء الوحي الإلهى بما يطابق العصر الحاضر، وليكون هو نفسه مثالا يبين الحياة الإسلامية ( الملل والنحل" مجلد ثاني صفحه ۶۲-۶۳) حضرت مرزا غلام احمد نے دعوی کیا کہ وہ مسیح موجود ہیں ، ان معنوں میں کہ آپ حضرت عیسی علیہ السلام کی قوت اور روح کے ساتھ آئے ہیں نیز د سونی کیا کہ آپ وہی نبی ہیں جس کے آخری زمانہ میں طور کی اکثر بڑے مذاہب میں پیشگوئی کی گئی تھی، اور اس بات کو بھی زور دار طریق سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کردہ آخری شریعت قرآن مجید ہے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری

Page 48

تیری ہی ہیں اورخاتم النبین ہیں یعنی یہ مین ہی ہیں نبی ممکن کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیرونی اور آپ سے پوری مشابهت پیدا کئے بغیر کوئی غیر تشریعی نبی بھی ظاہر ہو سکے.انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ نبی ہیں اور ان کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ انسان اور خالق کے درمیان تعلق قائم کریں اور قرآن مجید اور اسلامی تعلیمات کی وحی اٹھی کی روشنی میں ایسی تفسیر کریں جو زمانہ حال کے تقاضوں کے مطابق ہو نیز یہ کہ وہ اپنے نمونہ سے مکمل اسلامی معاشرہ کو ظاہر کریں.(ترجمہ) سلسلہ احمدیہ کے ابتدائی دور میں بعض لوگوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اہل عراب آپ کی دعوت کو ہرگز نہیں سنیں گئے حضرت بانی سلسلہ نے اپنی کتاب نورالحق حصہ دوم صفحہ ۱۹ مطبوعہ (۱۳۱۱ھ / ۶۱۸۹۲) میں اس کے بجواب میں اپنے عظیم مبارک سے لکھا:.وو الا يَعْلَمُونَ أَنَّ الْعَرَبِيّينَ سَابِقُونَ فِي قُبُولِ الْحَقِّ مِنَ الزَّمَانِ الْقَدِيمِ بَلْ هُمُ مَا أَصْلِ فِي ذَالِكَ وَ غَيْرُهُمْ أَغْصَاتُهُم تُم نَقُولُ نَّ هَذَا فِعْلُ اللَّهِ رَحْمَةً مِنْهُ وَالْعَرَب اَحَقٌّ وَأَولَى وَاَقْرَبُ بِرَحْمَتِهِ وَانِي اَجِدُ رِيحَ فَضْلِ اللَّهِ ترتیبہ کیا وہ نہیں جانتے کہ عرب کے لوگ حق قبول کرنے میں ہمیشہ اور قدیم زمانہ سے پیشدست رہے ہیں بلکہ وہ اس بات میں بڑ کی طرح ہیں اور دوسرے اُن کی شاخیں ہیں، پھر ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارا کاروبابا الفات

Page 49

۴۹ کی طرف سے ایک رحمت ہے اور عرب کے لوگ الہی رحمت کو قبول کرنے کے لیے سب سے زیادہ حقدار اور قریب اور نزدیک رہیں اور مجھے خدا تعالیٰ کے فضل کی خوشبو آرہی ہے.بر صغیر پاک و ہند بر صغیر پاک و ہند مذاہب عالم کا عجائب گھر ہے.اسی مبارک خطہ میں حضرت بانی احمدیت پیدا ہوئے، اور اسی میں اپنی عالمگیر دعوت کا آغاز فرمایا اور یہیں سے آپ کا انقلاب انگیز لڑ پھر چھپ کر اکناف عالم تک پہنچا اور اسی سے دنیا بھر کے مفکروں اور مذہبی راہ نماؤں کو آپ کے جدید علم کلام سے تعارف ہوا.غلبہ دین کا رُوح پرور نظارہ اس عظیم کلام نے آپ کے دعوی مسیحیت و صیدویت کے چھ سال کے اندر اندر مذاہب عالم سے اپنی برتری کا لوہا منوا لیا تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مشہور مذہبی نمائند ے دسمبر ۱۸۹۶ء میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور لاہور میں شہرۂ آفاق مذاہب کا نفرنس کا انعقاد عمل میں آیا.اس کا نفرنس میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ر قم فرموده مقاله اسلامی اصول کی فلاسفی دیگر تمام مضامین پر بالا رہا.اور وسطی ایشیا میں " اس کی دھوم مچ گئی.اس تاریخی حقیقت کے ثبوت میں اُس دور کے مسلم پریس کی نمونہ صرف دو آراء ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں.

Page 50

ا کلکتہ کے اخبار جنرل گو ہر آصفی (کلکتہ) نے ۲۴ جنوری ۴۱۸۹۷ کی اشاعت ہمیں جلسہ اعظم منعقدہ لاہور " اور " فتح اسلام کے دوہرے عنوان سے لکھا :.چونکہ ہمارے اخبار کے کالم اس جلسہ کے متعلق ایک خاص لچسپی ظاہر کر چکے ہیں لہذا ہم اپنے شائق ناظرین کو اس کے درجہ آخر مختصر حالات سے اطلاع دینی ضروری سمجھتے ہیں.جہاں تک ہم نے دریافت کیا ہے ہر ایک طالب حق کو اس جلسہ کی حالت معلوم کرنے کے لیے بڑا ہی شائق پایا ہے.کون دل ہو گا جو حق کا متلاشی نہ ہوگا.کون آنکھ ہو گی جو سق کی چمک دیکھنے کے لیئے تڑپتی نہ ہوگی ؟ کون دماغ ہوگا جو حق کی جانچ پڑتال کی طرف مائل نہ ہوگا.پھر ہم یہ کیونکر میں نہیں کر سکتے کہ اپنی ناظرین کی روحیں اس جیس کی کارروائی کی دریافت کے لیئے مضمرانہ ہوگی.کیا اس اضطرار کو دفع کرتا ہمارا فریضہ نہیں.بے شک ہے اور ضرور ہے اور اسی لیے ہے جو ہم نے خاص انتظام کر گئے اس جلسہ کے حالات کو دریافت کیا ہے جنہیں ہم اب ہدیہ ناظرین کیا چاہتے ہیں.پیشتر اس کے کہ ہم کارروائی جلسہ کی نسبت گفتگو کریں ہمیں یہ بتا دنیا ضروری ہے کہ ہمارے اخبار کے کالموں میں جیسا کہ اسکے ناظرین پر واضح ہوگا یہ بحث ہو چکی ہے کہ اس جلسہ اعظم مذا ہمیں میں اسلامی وکالت کے لیے سب سے زیادہ لائق کون شخص تھا.ہمارے ایک معزہ نہ نامہ نگار صاحب نے سب سے پہلے خالی الذہن ہو کر اور حق کو مد نظر رکھ کر حضرت مرزا مذاہب

Page 51

۵۱ غلام احمد صاحب رہیں قادیان کو اپنی رائے میں منتخب فرمایا تھا.جن کے ساتھ ہمارے اور ایک مکرم مخدوم نے اپنی مراسلت میں تو ارداً اتفاق ظاہر کیا تھا.جناب مولوی سید مو فخرالدین صاحب فخر نے بڑے زور کے ساتھ اس انتخاب کی نسبت ہو اپنی آزاد، مدلل اور بیش قیمت رائے پبلک کے پیش فرمائی تھی اس میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان به جناب سرسید احمد صاحب آن علیگڑھ کو انتخاب فرمایا تھا اور ساتھ ہی اس اسلامی وکالت کا قرعہ حضرات ذیل کے نام نکالا تھا.جناب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی جناب مولوی حاجی سید محمد علی صاحبانوی اور جناب مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی.یہاں یہ ذکر کر دنیا بھی نا مناسب نہ ہوگا کہ ہمارے ایک لوکل اخبار کے ایک نامہ نگار نے جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی مصنف تغییر حقانی کو اس کام کے لیئے منتخب فرمایا تھا.ہم اپنے ناظرین کو یہ بھی معلوم کرایا چاہتے ہیں کہ سوا می شوگن چندر نے انعقاد جلسہ سے پہلے اپنے اشتہار واجب الاظہار کے ذریعے علمائے مذا ہب مختلفہ ہند کو بہت عار ولا دلا کر اپنے اپنے مذہب کے جوہر دکھلانے کے لیے طلب کیا تھا اور میں جوش سے اور عار دلانے والے طریق سے اُنہوں نے طلب کیا تھا اس کا ٹھیک اندازہ انہیں کی عبارت سے کیا جا سکتا ہے وہ فرماتے ہیں :.ہر ایک قوم کے بزرگ واعظ جانتے ہیں کہ اپنے مذہب کی سچائی کو ظاہر کرنا اُن پر فرض ہے.پس میں حالت میں اس غرض

Page 52

or کے لیے یہ جلسہ انعقاد پایا ہے کہ سچائیاں ظاہر ہوں تو صدا نے اُن کو اس فرض کے ادا کرنے کا اب خوب موقع دیا ہے جو ہمیشہ انسان کے اختیار میں نہیں ہو تا.میرا دل اس بات کو قبول کر نہیں سکتا کہ اگر ایک شخص سچا جوش اپنے مذہب کے لیے رکھتا ہو اور فی الواقع اس بات میں ہمدردی انسانوں کی دیکھتا ہوں کہ ان کو اپنے مذہب کی طرف کھینچے تو پھر وہ ایسی نیک تقریب میں جبکہ صدہا مہذب او تعلیمیافتہ لوگ ایک عالم تھا موشی میں بیٹھ کر اس کے مذہب کی خوبیاں سننے کے لیے تیار ہوں گے ایسے مبارک وقت کو ہاتھ سے دیدے.کیا میں قبول کر سکتا ہوں کہ جو شخص دوسروں کو ایک مہلک بیماری میں خیال کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس کی سلامتی میرے دوائیں ہے اور بنی نوع کی ہمدردی کا دعویٰ بھی کرتا ہے وہ ایسے موقع میں جو غریب بیمار اُس کو علاج کے لیے بلاتے ہیں، وہ دانستہ پہلو تہی کرے.میرا دل اس بات کے لیئے تڑپ رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ کونسا مذہب در حقیقت سچائیوں اور صداقتوں سے بھرا ہوا ہے.اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جون کے ذریعہ میں اپنے اس بیچے جوش کو بیان کر سکوں.میرا قوم کے بزرگ اعظوں اور جلیل الشان خامیوں پر کوئی حکم نہیں صرف اُن کی خدمت میں سچائی ظاہر کرنے کے لیئے ایک عاجزانہ التماس ہے.میں اس وقت مسلمانوں کے معزز علماء کی خدمت میں اُن کے خدا کی قسم دیگر با درب التماس کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنا مذہب منجانب اللہ جانتے ہیں تو اس موقع پر اپنے اُسی نبی کی عزت کے لیے جس کے فدا شدہ وہ اپنے تئیں خیال کرتے ہیں اس

Page 53

۵۳ جلسہ میں حاضر ہوں.اسی طرح بخدمت پادری صاحبان نهایت ادب اور انکساری سے میری التماس ہے کہ اگر وہ اپنے مذہب کو فی الواقع سچا اور انسانوں کی نجات کا ذریعہ خیال کرتے ہیں تو اس موقعہ یرا ایک اعلیٰ درجہ کا بندرگ اُن میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں سنانے کے لیے جلسہ میں تشریف لاویں - یکی نے جیسا کہ مسلمانوں کو قسم دلی کیا ہی بزرگ پادری صاحبوں کو حضرت مسیح کی قسم دیتا ہوں اور انکی محبت اور عزت اور بزرگی کا واسطہ ڈالکر خاکساری کے ساتھ عرض پرداز ہوں کہ اگر کسی اور نیت کیلئے نہیں تو اس قسم کی عزت کے لیے ضرور اس جلسہ میں ایک اعلیٰ بزرگ اُن میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کیلئے تشریف لاویں.ایسا ہی میں اپنے بھائیوں آری یا اج والوں کی خدمت میں اُس پر میشر کی قسم دیکر جس نے وید مقدس کو اہمیت کیا عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ اس جلسہ میں ضرور کوئی اعلیٰ واعظہ ان کا تشریف لا کر وید مقدس کی خوبیان کرے، اور ایسا ہی سناتن دھرم اور پر ہو صاحبان وغیرہ کی خدمت میں اسی قسم کے ساتھ التماس ہے.پبلک کو اس اشتہار کے بعد ایک فائدہ بھی حاصل ہوگا کہ ان تمام قوموں میں سے کس قوم کو در حقیقت اپنے خدا کی عزت اور قسم کا پاس ہے اور اگر اس کے بعد بعض صاحبوں نے پہلو نہی کی تو بلاشبہ اُن کا پہلو تہی کرنا گویا اپنے مذہب کی سچائی سے انکار ہے" انتہی اب ہمارے ناظرین کو غور کرنا چاہیے کہ اس جلسے کے اشتہاروں وغیرہ کے دیکھنے اور دعوتوں کے پہنچنے پر کن کن علمائے ہند کی الگ حمیت نے مقدس دین اسلام کی وکالت کے لیے جوش

Page 54

۵۴ کھایا.اور کہاں تک انہوں نے اسلامی حمایت کا بیڑا اٹھا کر بھیج دو براہین کے ذریعے فرقانی مصیبت کا رستہ غیرمنا اس کے دل پر بٹھانے کیلئے کوشش کی ہے.ہمیں معتبر ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ کارکنان جلسہ نے خاص طور پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب اور سرسید احمد صاحب کو شریک طلبہ ہونے کے لیے خط لکھا تھا تو حضرت مرزا صاحب نے گو علالت طبع کی وجہ سے بنفس نفیس شریک جلسہ نہ ہو سکے مگر اپنا مضمون بھیج کر اپنے ایک شاگرد خاص جناب مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کو اس کی قرات کے لیے مقرر فرمایا.لیکن جناب سرسید نے شریک جلسہ ہونے اور مضمون بھیجنے سے کنارہ کشی فرمائی کا یہ اس بناء پر نہ تھا کہ وہ عمر ہو چکے اور ایسے جلسوں میں شریک ہونے کے قابل نہ رہے ہیں اور نہ اس بناء پر تھا کہ انہیں ایام میں ایجو کیشنل کانفرنس کا انعقاد میں مٹھ مقدر ہو چکا تھا بلکہ یہ اس بناء پر تھا کہ مذہبی جلسے ان کی تو جبر کے قابل نہیں.کیونکہ انہوں نے اپنی میٹھی میں جس کو ہم انشاء اللہ تم اپنے اخبار میں کسی اور وقت ورج کریں گے صاف لکھ دیا ہے کہ وہ کوئی واعظ یا ناصح یا مولوی نہیں یہ کام واعظوں اور ناصحوں کا ہے.جلسے کے پروگرام کے دیکھنے اور نیز تحقیق کرنے سے ہمیں یہ پتہ ملا ہے کہ جناب مولوی سید محمد علی صاحب کانپوری، جناب مولوی محمد عبدالحق صاحب دہلوی اور جناب ڈی احمد سین صاحت عظیم آبادی نے اس جلسہ کی طرف کوئی جو شیلی توجہ نہیں فرمائی اور نہ ہمارے مقدس زمرہ علماء سے کسی اور لائق فرو نے اپنا مضمون پڑھنے یا پڑھوانے کا عرجم بتایا.ہاں دو ایک عالم

Page 55

۵۵ صاحبوں نے بڑی ہمت کر کے مانحن فیہا میں قدم رکھا مگر اُلٹا.اس لیے انہوں نے یا تو مقرر کردہ مضامین پر سنہ گفتگو نہ کی یا بے سر و پا کچھ بانک دیا.جیسا کہ ہماری آئندہ کی رپورٹ سے واضح ہو گا.غرض مجلسہ کی کارروائی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک حضرت مرزا غلام احمد صاحب رہیں قادیان تھے جنہوں نے اس میدان مقابلہ نہیں، اسلامی پہلوانی کا پورا حق ادا فرمایا ہے اور اس انتخاب کو راست کیا ہے جو خاص آپ کی ذات کو اسلامی و سنیل مقرر کرنے میں پیشاور.راولپنڈی جہلم.شاہ پور بھیرہ - خوشاب - سیالکوٹ - جموں.وزیر آباد - لاہور - امرتسر - گورداسپور لودھیانہ شملہ، دہلی- انبالہ - ریاست پٹیالہ کپورتھلہ ڈیرہ دون.الہ آباد- مدراس بیٹی.حیدر آباد دکن نیکور وغیرہ بلاد ہند کے مختلف اسلامی فرقوں سے وکالت ناموں کے ذریعے مزین با خط ہو کر وقوع میں آیا حق تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے رو برو ذلت و ندامت کا قشقہ لگتا.مگر خدا کے زبر دست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا بلکہ اس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمانی که موفقین تو موافقین مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اُٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے.بالا ہے.صرف اسی قدر نہیں بلکه اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پر یوں جاری ہو چکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی جو

Page 56

۵۶ انتخاب تیر بہدف کی طرح روز روشن میں ٹھیک نکلا.اب اس کی مخالفت میں دم زدن کی گنجائش ہے ہی نہیں.بلکہ وہ تمہارے فرو ناز کا موجب ہے.اس لیے کہ اس میں اسلامی شوکت ہے اور اسی ہیں اسلامی عظمت اور حقی بھی یہی ہے.چیا اگر چه با اعظم مذاہب کا ہند میں یہ دوسرا اجلاس تھا لیکن اہی نے اپنی شان و شوکت اور جاہ عظمت کی رو سے سارے ہندوستانی کانگریسوں اور کا نفرنسوں کو مات دیا ہے.ہندوستان کے مختلف بلاد کے رہ و سماء اس میں شریک ہوئے.اور ہم بڑی خوشی کے ساتھ یہ ظاہر کیا چاہتے ہیں کہ ہمارے مدر اس نے بھی اس میں حصہ کیا ہے جلسہ کی پچسپی یہاں تک بڑھی کہ مشتہرہ تین دن پر ایک دن بڑھانا پڑا.انعقاد جلسہ کے لیے کارکن کمیٹی نے لاہور میں سب سے بڑی وسعت کا مکان اسلامی راج تجویز کیا یکی خالق داکا از دام اسقدر تھا کہ مکان کی وسعت) غیر مستفی ثابت ہوئی.جلسہ کی عظمت کا یہ کافی ثبوت ہے کہ کل پنجاب کے عمائدین کے علاوہ چیف کورٹ پنجاب اور ہائی کورٹ الہ آباد کے آنریل جز باید پول چند صاحب اور مسٹر بنرجی نہایت خوشی سے شریک جلسہ ہوئے.اس جلسے کیلئے سابق چھ پریذیڈنٹ مقدر ہو چکے تھے جن کے نام نامی یہ ہیں.(۱) رائے بہا در بایو پر تول چندر چٹرجی چیف کورٹ پنجاب.(۲) خان بها در شیخ خدا بخش صاحب حج اسمال کا زکورٹ لاہور.(۳) رائے بہا در پنڈت رادھا کشن صاحب کول بلیڈر حیف کورٹ و سابق گور تر جمه ا ) (۴) سردار دیال سنگھ صاحب نہیں اعظم مجیٹھ

Page 57

(۵) رائے بہادر بھوانیداس صاحب افسر بند و بست ضلع جہلم.حکیم مولوی نورالدین صاحب سابق طبیب شاہی صا راجہ صاحب بها در والی کشمیر اور یہی مولوی صاحب تھے جو اخت مر جلسہ پر خاتمہ کی تقریر کرنے کے لیے مقرر کیے گئے تھے " -۲- اخبار چودھویں صدی راولپنڈی نے یکم فروری ۱۸۹۷ء کے شمارہ میں جلسہ اعظم مذاہب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا " ان لیکچروں میں سب سے شدہ اور بہترین لیکچر ؟ جلسہ کی روح رواں تھا مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا لیکچر تھا جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے نهایت خوبی و خوش اسلوبی سے پڑھا.لیکچر دو دن میں تمام ہوا.میں رد کمر کو قریباً ہم گھنٹے اور ۲۹ کو 1 گھنٹہ تک ہوتا رہا کل چھ دسمبر کم گھنٹڈ میں یہ لیکچر تمام ہوا جو حجم میں سونہ نخہ کلاں تک ہوگا.فرانسکو مولوی عبد الکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کب شروع کی کہ کہ تمام سامعین لٹو ہو گئے.فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کے لیے حاضرین سے فرمائش کی جاتی تھی.عمر بھر بہار سے کانوں نے ایسا خوش آئیند لیکچر نہیں سنا.دیگر مذاہب میں سے جتنے لوگوں نے لیکچر دیئے سچ تو یہ ہے کہ جلسہ کے مستفسرہ سوالوں کے جواب بھی نہیں تھے.عموماً سپیکر صرف چوتھے سوال پر ہی رہے اور باقی سوالوں کو اُنہوں نے بہت ہی گم میں کیا.اور زیادہ تر اصحاب تو ایسے بھی تھے جو بولتے تو بہت تھے مگر اس میں جاندار

Page 58

۵۸ بات ایک آدھ ہی ہوتی.تقریریں عموماً کمزور بھی خیالات کی تھیں بنجر مرزا صاحب کے لیکچر کے جو اُن سوالات کا علیحدہ علیحدہ مفصل اور مکمل جواب تھا اور جس کو حاضرین بھلسہ نے نہایت ہی تو جہ اور دیسی سے سنا اور بڑا بیش قیمت اور عالی قدر خیال کیا.ہم مرزا صاحب کے مرید نہیں ہیں نہائی سے ہم کو کوئی تعلق ہے لیکن انصاف کا خون ہم کبھی نہیں کرسکتے اور نہ کوئی سلیم فطرت اور صحیح کاشنی اس کو روا رکھ سکتا ہے.مرزا صاحب نے کل سوالوں کے جواب (جیسا کہ مناسب تھا) قرآن شریف سے دیئے.اور تمام بڑے بڑے اصول و فروع السلام کو دلائل عقلیہ اور براہین فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزین کیا.پہلے عقلی دلائل سے الہیا کیے ایک مسئلہ کو ثابت کرنا اور اس کے بعد کلام الہی کو بطور حوالہ پڑھنا ایک عجیب شان دکھاتا تھا.مرزا صاحب نے نہ صرف مسائل قرآن کی فلاسفی بیان کی بلکہ الفاظ قرآنی کی فلالوجی اور فلانسونی بھی ساتھ ساتھ بیان کر دی.غرضنکہ مرزا صاحب کا لیکچر بہ بیت مجموعی ایک مکمل اور حاوی لیکچر تھا جس میں بے شمار معارف و حقائق وحکم و اسرار کے موتی چمک رہے تھے اور فلسفہ الہیہ کو ایسے ڈھنگ سے بیان کیا گیا تھا کہ تمام اہل مذاہب ششدر رہ گئے کسی شخص کے لیکچر کے وقت اتنے آدمی جمع نہیں تھے جتنے کہ مرزا صاحت کے لیکچر کے وقت.تمام ہال اور نیچے سے بھر ہا تھا تھا اور سامعین ہمہ تن گوش ہو رہے تھے.مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت اور دیگر سپیکروں کے لیکچروں میں امتیاز کے لیے اس قدر کافی ہے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت خلقت اس قدر آگرمی جیسے شہد

Page 59

پر لکھیاں.مگر دوسرے لیکچروں کے وقت بوجہ بے طفی بہت سے لوگ بیٹھے بیٹھے اُٹھے جاتے.مولوی عمرحسین صاحب بٹالوی کا نیچر بالکل معمولی تھا.وہی ملانی خیالات تھے جن کو ہم لوگ بہروز سنتے ہیں اُس میں کوئی عجیب و غریب بات نہ تھی اور مولوی او موصوف کے دوسرے حصہ لیکچر کے وقت پر کئی شخص اُٹھ کر چلے گئے تھے مولوی ممدوح کو اپنا لیکچر پورا کرنے کے لیئے لالہ درگا پر شاد صاب نے آپ آپ دس پندرہ منٹ اجازت دے دی.مومن کہ وہ لیکچر ایسا پر لطف اور ایسا عظیم الشان تھا کہ بجز سننے کے اس کا لطف بیان میں نہیں آسکتا.مرزا صاحب نے انسان کی پیدائش سے لے کو معاد تک ایسا مسلسل بیان فرمایا، اور عالم برزخ اور قیامت کا حال ایسا عیاں فرمایا کہ بهشت و دوزخ سامنے دیکھا دیا.اسلام کے بڑے سے بڑے مخالف اُس روز اس لیکچر کی تعریف میں رطب اللسان تھے.چونکہ وہ پیکچر عنقریب رپورٹ کیا شائع ہونے والا ہے اس لئے ہم ناظرین کو شوق دلاتے ہیں کہ اس کے منتظر رہیں مسلمانوں میں سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کا طر یہ بیان بھی کسی قدرا چھا تھا لیکن لیکچر عموماً وعظ کی تم کا طرفہ قسم کا تھا فلسفیانہ ڈھنگ کا نہیں تھا جس کی جلسہ کو ضرورت تھی......بہر حال اس کا شکر ہے کہ اس جلسہ میں اسلام کا بول بالا رہا.اور تمام غیر ذاہب کے دلوں پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا.گونبان سے وہ اقرار کریں یا نہ کریں کا

Page 60

پادریوں کی عالمگیر شکست " حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کا بنیادی مشن کر صلیب تھا اس لیے آپ کے جدید علم کلام کا براہ راست نشانہ عیسائیت ہی تھی جو آپ کے عقلی نقلی دلائل سے پاش پاش ہوگئی چنانچہ مولانا نور محمد صاحب نقشبندی تحریر فرماتے ہیں : اسی زمانہ میں پادری لیفرا ئے پادریوں کی ایک بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا.ولایت کے انگریزوں سے وپیر کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد سے مسلسل وعدوں کا اقرار ہے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا.اسلام کی سیرت و احکام پر جو اس کا حملہ ہوا تو وہ ناکام ثابت ہوا.کیونکہ حکام اسلام سیرت رسول اور انبیاء بنی اسرائیل اور ان کی سیرت جن پر اس کا ایمان تھا یکساں تھے.پس الزامی و نقلی و عقلی جوابوں سے ہار گیا مگر حضرت عیسی کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لیے اسکے خیال میں کارگر ہو ا.تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہوگئے اور لیفر ائے اور اُس کی جماعت سے کہا کہ عیسی اسمس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں اور اگر تم سعادتمند ہو تو مجھے کو قبول کر لو.اس ترکیب سے اُس نے لی رائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے

Page 61

41 اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تا کے پادریوں کو شکست دے دی ؛ (دیباچه معجز نما کلان قرآن شریف اصبح المطابع وعلى مطبوعہ ۲۶۱۹۳۴ مولانا ابو الکلام صاحب آزاد نے حضرت بانی سلسلہ کے انتقال پر اخبار وکیل “ میں آپ کی دینی خدمات پر شاندا رالفاظ میں خراج تحسین ادا کرتے ہوئے رقم فرمایا : شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان چادو.وہ شخص جو ماضی عجائبات کا مجسمہ تھا، جس کی نظر فتنہ اور آواز تھی ، جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی مٹھیاں بجلی کی دو بیٹیاں تھیں.وہ شخص جوند ہی دنیا کیلئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شورِ قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کو تار ہا خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ گیا......مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کے لیے اُسے امتداد زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عام پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں." میرزا صاحب کی اس رفعت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر سلیمان کو ہاں تعلیمیافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا

Page 62

۶۲ ایک بڑا شخص اُن سے جدا ہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جنرل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا تعلیم کھلا اعتراف کیا جاوے تا کہ وہ تم بالشان تحریک میں نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا آئیندہ بھی جاری رہے گا 15 شاه مرزا صاحب کا لٹریچر جو سیمیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل نے تو کونی پڑتی ہے.اس لیے کہ وہ وقت ہر گز لوح قلب سے نسیا منیتیا نہیں ہو سکتا.جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالمہ اسباب و وسائط ہیں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے تصورں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لیے کچھ نہ کرتے تھے یانہ کر سکتے تھے.ایک طرف جملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری سیمی دنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کو سر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دنیا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گرمی کے لیے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری

Page 63

۶۳ طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ توپوں کے مقابلہ ہو تیر بھی نہ تھے اور جملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا ہے تیر مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اُس کے اِس زیادہ خطر ناک اور تحق کا میابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم وھواں ہو کر اڑنے لگا....غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ اُن کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا.هندوستان آج مذاہب کا سجائب خانہ ہے.اور جس کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور باہمی کشمکش سے اپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہتے ہیں اس کی نظیر ہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ایم اے ایم بی بی ایس این تنظیم اسلامی پاکستان لکھتے ہیں قلمت اسلامی کا قصر گویا دفعہ زمین پر آرہا اور اسلام اور مسلمان دونوں اپنے زوال اور انحطاط کی آخری حدوں تک پہنچ گئے یا امرا فگندم ملا تاثر مرکزی مکتب تنظیم اسلامی کا بورجون ۱۹۷۹)

Page 64

۶۴ غالباً دنیا میں کسی جگہ سے نہیں مل سکتی.مرزا صاحب کا دعوی تھا کہ یکیں ان سب کے لیے محکم و عدل ہوں لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کردینے کی اُن میں بہت مخصوص قابلیت تھی اور یہ نتیجہ تھی ان کی فطری استعداد کا ، ذوق مطالعہ اور کثرت مشق کا.آئندہ امید نہیں ہے کہ ہند ستون کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلی اخو اہشیں محض اس طرح مذاہب کے مطالعہ میں صرف کر دیے ہیں مولانا صاحب نے اس کے بعد اخبار وکیل کے ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء کے پرچہ میں ایک اور شذرہ سپرد قلم فرمایا جس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے :.اگر چه مرزا صاحب نے علوم مروجہ اور دینیات کی باقاعدہ تعلیم نہیں پائی تھی مگر ان کی نہ ندگی اور زندگی کے کارناموں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خاص فطرت لے کر پیدا ہوئے تھے جو ہر کس و ناکس کو نصیب نہیں ہو سکتی.انہوں نے اپنے مطالعہ اور فطرت سلیم کی مدد سے مذہبی لٹریچر پر کافی عبور حاصل کیا..۱۸۷۱ء کے قریب جبکہ اُن کی ۳۵ ۳۶ سا کی عمر تھی ہم اُن کو ایک غیر معمولی مذہبی جوش میں سر شار پاتے ہیں.وہ ایک سچے اور پاکباز مسلمان کی طرح زندگی بسر کرتا ہے.اس کا دل دنیوی کی خششوں سے غیر متاثر ہے اور خلوت میں انجمن اور انجمن میں خلوت کا لطف اٹھانے کی کوشش میں مصرف ه بحواله بدر ۸ ارجون ۱۹۰۸ صفحه ۳۰۲ -

Page 65

ہم اُسے بے چین پاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ و کسی ایسی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش میں ہے جس کا پتہ فانی دنیا میں نہیں ملتا.اسلام اپنے گہرے رنگ کے ساتھ اس پر چھایا ہوا ہے کبھی وہ آریوں سے مباحثے کرتا ہے کبھی حمایت و حقیقت اسلام میں وہ مبسوط کتابیں لکھتا ہے.۱۸۸۶ء میں بمقام ہوشیار پور آریوں سے جو مباحثات انہوں نے کئے تھے اُن کا لطف اب تک دلوں سے محو نہیں ہوا.غیر مذاہب کی تردید اور اسلام کی حمایت میں ہونا در کتا بیں نہوں نے تصنیف کی تھیں ان کے مطالعہ سے جو وجہ پیدا ہوا وہ اب تک نہیں اُترا.اُن کی ایک کتاب براہین احمدیہ نے غیر مسلموں کو مرعوب کر دیا اور اسلامیوں کے دل بڑھائے اور مذہب کی پیاری تصویر کو ان آلائشوں اور گرد و غبار سے صاف کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جو مجاہیں کی تو ہم پرستیوں اور فطری کمزوریوں نے چڑھا دیئے تھے.غرضکہ اس تصنیف نے کم از کم ہندوستان کی مذہبی دنیا میں ایک گونج پیدا کر دی جس کی صدائے بازگشت ہمارے کانوں میں اب تک آ رہی ہے.گو بعض بزرگان اسلام اب براہین احمدیہ کے برا ہونے کا فیصلہ دے دیں محض اس وجہ سے کہ اس میں مرزا صاحب نے اپنی نسبت بہت سی پیشگوئیاں کی تھیں اور بطور حفظ ما تقدیم اپنے آئیندہ دعاوی کے متعلق بہت کچھ مصالحہ فراہم کر لیا تھا لیکن اسکے بہترین فیصلہ کا وقت ۱۸۸۰ء تھا جبکہ وہ کتاب شائع ہوئی مگر اُس وقت

Page 66

۶۶ مسلمان بالاتفاق مرزا صاحب کے حق میں فیصلہ دے چکے تھے...کیریکٹر کے لحاظ سے ہمیں مرزا صاحت کے بجے دامن پرسیاری کا ایک چھوٹا سا د عصبہ بھی نظر نہیں آتا وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی.غرضکہ مرزا صاحب کی زندگی کے ابتدائی پچاس سالوں نے کیا بلحاظ اخلاق و عادات اور پسندیدہ اطوار کیا بلحاظ مذہبی خدمات و حمایت دین مسلمانان ہند میں اُن کو متاز برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا.(اخبار وکیل امرتسر ۳۰ مئی ۶۱۹۰۸ صفحه ۱) عظیم فکری انقلاب بر صغیر میں سیدنا حضرت اقدس کے بلند پایہ لیکچر اور جدید علیم کلام سے جو عظیم فکری و علمی انقلاب رونما ہو چکا ہے وہ نہایت حیرت انگیز ہے.اس انقلاب کا معروضی مطالعہ کرتے ہوئے تین گوشے بہت نمایاں اور واضح طور پر ہمارہ سے سامنے آتے ہیں اور تینوں ہی اپنی ذات میں نہایت درجہ اہمیت رکھتے ہیں.پہلا گوشہ یہ ہے کہ فیرا ز جماعت اہل قلم اور مفکرین کی طرف سے حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے جدید علم کلام کے بعض نکات مستق تصانیف شائع کی گئی ہیں.مثلاً عقیدہ نسخ فی القرآن کے رد میں علامہ صحت اللہ صاحب طارق کی معرکہ آراء کتاب تفسیر منسوخ القرآن ایک قابل قدر تصنیف "

Page 67

4- ہے جو ستمبر ۱۹۷۳ء میں ادارہ ادبیات اسلامیہ ملتان کے زیرا ہتمام شائع ہوئی.مقام خاتم النبیین کے تعلق میں مولانا قاری محد طیب صاحب متجم دار العلوم دیوبند کی کتاب آفتاب نبوت اور خاتم النبیین سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نقطہ نظر کی بہترین عکاسی ہوتی ہے.پروفیسرڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برق ایم اے پی ایچ ڈی کی تالیف دو قرآن" قرآن مجید کے متعلق حضور کے اس بلیغ فقرہ کی بصیرت افروز تفصیل ہے کہ ( قرآن ) قانون فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے " (براہین احمدیہ حصہ دوم صفر ۹۱-۹۲ مطبوع ۱۸۸۲) نذیر الحق صاحب میر تھی نے اپنی کتاب یا جوج ماجوج " میں اور جناب علی اکبر صاب نے اسرائیل قرآنی پیش گوئیوں کی روشنی میں دجال اور یا جوج ماجوج کے ظہور پذیر ہونے کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا ہے وہ حضور ہی کے علم کلام - مستعار لیا گیا ہے.مقدم الذکر کتاب فیروز سنز لاہور کی اور موخر الذکر مکتبہ " سے شاہکارہ لاہور کی مساعی سے منظر عام پر آئی ہے.اسی طرح کشمیر کے رسیرچ سکالر محمد یسین صاحب ایم اے ایل ایل بی ایچ ڈی.ڈمی نے ۱۹۷۲ء میں کتاب MYSTERIES OF KASHMEER د کشمیر کے سربستہ رانہ) شائع کی جس میں تاریخی حقائق کی روشنی میں ثابت کیا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام واقعہ ملیب کے بعد کشمیر میں ہجرت کر کے تشریف لے آئے تھے اور سرینگر محمد خانیار میں بلا شبہ آپ ہی کا مزار مبارک ہے نیز بتایا کہ اس انکشاف کا سہرا حضرت باقی سلسلہ احمدیہ ہی کے سر ہے چنانچہ فاضل مؤلف تحریر فرماتے ہیں :.

Page 68

the “It was Mirza Ghulam Ahmad of Qadian (1835-1908), founder of the Ahmadiyya Movement in Islam, who for the first time wrote his treatise "Masih Hindustan mein" in 1899 A.D.and pointed out that Jesus Christ did not die on the Cross nor he ascended to Heaven alive.Instead, Jesus went over to Kashmir, died a natural death and is buried there in Srinagar.Mirza Ghulam Ahmad told a truth but his religious, zeal blurred the real issue.The Mirza used this discovery to demolish Christian doctrines and to establish his own mis- sion." صفحه از دیباچه - ناشر قیصر پبلشرز سرینگر ۴۱۹۷۲) یہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (۶۱۸۳۵ ۶۱۹۰۸) بانی سلسلہ احمدیہ ہی تھے جنہوں نے اپنی جامع کتاب مسیح ہندوستان ہیں جو آپ نے ۱۸۹۹ء میں لکھی پہلی بار اس امر کی نشاندہی کی کہ (حضرت) نیسوں ششیح نہ تو صلیب پر فوت ہوئے اور نہ آسمان پر چلے گئے بلکہ آپ کشمیر کی طرف ہجرت کر گئے اور وہیں طبیعی طور پر وفات پائی اور سرینگر میں دفن کئے گئے.مرزا غلام احمد صاحب نے ایک حقیقت بیان کی تھی لیکن اُن کے مذہبی جوش نے اصل مسئلہ کو دھندلا دیا.مرزا صاحب نے اس دریافت کو عقائد عیسائیت کو پاش پاش کرنے اور خود اپنے سلسلہ کو قائم کرنے کے لیے استعمال کیا.حیدر آباد دکن سے اگست ۱۹۴۷ ء میں علامہ میرزا ابوالفضل بن فیاض علی شیراز می کی کتاب غریب القرآن فی لغات القرآن" طبع ہوئی اور اب پاکستان میں قانونی کتب خانہ کچہری بازار لاہور نے بھی پھپوا دی ہے.یہ قرآنی لغت پر ایک مستند کتاب ہے جس سے بلا مبالغہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے افکار و

Page 69

49 خیالات کی فتح کے نقارے بج گئے ہیں.اور معراج خاتم ، در نبع ، تونی ایک ایک ، تابوت ، جن ، قمر اشتبه ، قتل نفس ، ربوه ، کشف ساق ، شق قمر، مع نزول نمل اور وحی، وغیرہ متعدد الفاظ کی تشریح میں احمدیت کے نقطہ نگاہ کی برتری نمایاں ہو گئی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کا مصلیب کی حیثیت سے صلیبی فتنہ کے خلاف دلائل و براہین کا زبر دست اسلحہ خانہ یاد گار چھوڑا ہے میں سے دجالیت کی دھجیاں فضائے بسیط میں ہمیشہ کے لئے بکھر گئی ہیں.یہی وجہ ہے کہ پادریوں کی یلغار کو روکنے کے لیے آپ کا علم کلام ہی سب سے کارگر ہتھیار ثابت ہوتا ہے جس کا ایک نمونہ کتاب آئینہ حقائق قرآن ہے جو اسلامی مشن سنت نگر لاہور نے پادری سلطان احمد صاحب کے چودہ سوالوں کے جواب میں شائع کی ہے.کتاب اول سے آخر تک احمدی علم کلام سے مسلح ہے اور اس کی اثر انگیزی، برجستگی اور تاثیر کا سب راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے.دوسرا گوشه فکری و علمی انقلاب کا یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دینی افکار و خیالات نے آپ کی ہمعصر نامور شخصیات کے لڑ پچر پر گہرا اثر ڈالا ہے جن میں سے تین خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں.شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمداقبال امام بہنڈ مولانا ابوالکلام آزاد - مولانا ابو الجمال احمد مکرم صاحب عباسی، چریا کوٹی.شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے اپنے ایک مقالہ میں جو رسالہ دی انڈین اینٹی کو بری ) جلد ۲۹ ستمبر ۱۹ ء میں شائع ہوا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو جدید ہندی مسلمانوں میں سب سے بڑا دینی مفکر تسلیم کیا.احمدیت کے بنیادی مسئلہ مسیح ناصری کی وقتی اور اُن کے تیل کے طور کا تخیل ان کی نگاہ میں مقبولیت کا پہلو لیے ہوئے تھا

Page 70

جس کا انہوں نے بر ملا اخضار فرمایا ، اخبار محکم ( قادیان) نے اسپر مارچ ۶۱۹۰۵ کی اشاعت میں شرف ہندوستان کے زیر عنوان اُن کا کلام چھپا جس کا ایک شعر یہ تھا.گوتم کا جو وطن ہے جاپان کا جرم ہے عینی کے عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے (صفحہ (1) علامہ نے دوسرے مصرعہ پر ھاشیہ میں تحریر فرمایا بعض کے خیال میں حضر مسیح علیہ السلام بھی کشمیر میں مدفون ہیں.آپ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی اس تحقیق سے پوری طرح متفق تھے کہ بینی اسرائیل کے گمشدہ قبائل افغانستان اور کشمیر میں آباد ہو گئے تھے جناب محمد عبدالہ قریشی کا بیان ہے کہ اقبال کشمیریوں کو یہودی تصور کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اُن کے عادات و خصائل اور شکل و شمائل افغانوں سے ملتے جلتے ہیں جو بنی اسرائیل ہیں اور اس معاملے میں اُن کو یہاں تک غلو تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ فارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند کے پاس ایک یادداشت بھیجنی چاہئیے جس کا مضمون یہ ہو کہ تم بھی بنی اسرائیل ہو اور کشمیر کے لوگ بھی.ان کو دوہری غلامی سے نجات دلا کر نیکی اور بھلائی کی مستقل یادگار چھوڑ جائیے ، احیات قبال کی گمشدہ کڑیاں ، صفحہ ۱۶۲ از محمد عبداللہ قریشی ناشر بزم اقبال کلب روڈ لاہور طبع اول مئی ۶۱۹۸۲ علامہ سراقبال کی نظموں میں احمدی نظریات کے نقوش کا سراغ لگانا کوئی مشکل مرنہیں صرف چند اشعار ملاحظہ ہوں :- ہو چکا گو قوم کی شان جلابی کا ظہور ہے ابھی باقی گرمشان جمالی کا ظہور بانگ درا صفحه ۱۹۵)

Page 71

اء سے کھل گئے یا جوج اور ماجوج کے لشکر تمام چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ينسلون سے مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی د بانگ درا متحد به ۳۳) اب بھی درخت طور سے آتی ہے ہانک لا تخفف سے نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا (با نگ در اصفحه ۱۵۰) یہ قدسی جماعت احمدیہ کے سوا اور کون ہیں جس کے بانی نے خدا سے حکم پا کرد ولی مسیحیت کی پہلی کتاب " فتح اسلام میں ہی یہ پر شوکت پیش گوئی فرما دی تھی :- سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لیے پھر اُس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر پڑھے گا " فتح اسلام طبع دوم صفحه ه طبیع اول ۱۸۹۱ ۶ طبع دوم ۶۱۸۹۷) ناب مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن میں آیت ولكن شبه لهم كے معنى حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے علم کلام کے میں مطابق کیئے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں :.نیز اُن کا یہ کہنا کہ ہم نے مریم کے بیٹے جیسے کو جو خدا کے رسول ہونے کا دعوئی کرتے) تھے (سولی پر چڑھا کہ قتل کر ڈالا حالانکہ (واقعہ یہ ہے کہ) نہ تو انہوں نے قتل کیا اور نہ سوئی پر چوٹھا کر ہلاک کیا بلکہ حقیقت اُن پر شبہ ہوگئی یعنی

Page 72

۷۲ صورت حال ایسی ہو گئی کہ انہوں نے سمجھا، ہم نے مسیح کو مصلوب کر دیا حالانکہ نہیں کر سکے تھے " تفسیر میں مزید لکھتے ہیں یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ حضرت شیخ کی موت مشتبہ ہو گئی وہ زندہ تھے مگرا نہیں مردہ سمجھے لیا گیا." ( ترجمان القرآن جلد اول صفحه ۳۷۵ مطبوعہ جید برقی پریس دہلی نومبر ۱۹۳۰) مولانا صاحب کی خدمت میں اُن کے ایک مرید ڈاکٹر انعام اللہ خان نے بلوچستان سے بذریعہ مکتوب درخواست کی کہ انہوں نے اختبار وکیل (امرتسر میں بانی جماعت احمدیہ کے وصال پر جو شیره در قم فرمایا تھا اس پر خط تنسیخ پھیلنے دیں اور ایک کتاب حیات مسیح کے موضوع پر تصنیف فرما دیں.مولانا نے کیا لطیف جواب دیا ؟ فرمایا :- وفات مسیح کا ذکر خود قرآن میں ہے.مرزا صاحب کی تعریف یا برائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسلئے کہ ے تو برا ہے تو بھلا ہو نہیں سکتا اسے ذوق وہ بُرا خود ہے جو تجھ کو برا جانتا ہے " لملفوظات آزاد صفحه ۱۳۰ مرتب محمد اجمل خان مکتبه ما حول کراچی طبیع اول اکتوبر ۱۹۶۱ء) مولانا اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ :." حیات مسیح کا عقیدہ اپنی نوعیت میں ہر اعتبار سے ایک مسیحی عقیدہ ہے اور اسلامی شکل و لباس میں نمودار ہوا ہے کیا نقش آنها و صفحه ۱۲)

Page 73

۷۳ مولانا ابو الجمال احمد مکرم صاحب عباسی چڑیا کوئی ارکن مجلس اشاعۃ العلوم حیدر آباد دکن) احمدیت کے علم کلام سے بہت متا نہ تھے.انہوں نے اپنی معرکہ آراء کتاب حکمت بالغہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۶ تا ۱۴۲ میں حاضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تصریحات کی روشنی میں پادریوں کو دقبال اور ریل کو خیر د قبال قرار دیا ہے.اُن کی یہ تالیف مطبع دائرۃ المعارف نظامی حیدر آباد دکن میں چھپی تھی.ر تاریخ در جمادی الاولی ۱۳۳۲ھ مطابق ۵ را پریل ۱۶۱۹۱۴ تیسرا گوشتہ جدید علم کلام کے مہتم بالشان انقلاب کا یہ ہے کہ اس کے اثرات صرف ان شخصیات تک محدود نہیں جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی مصری کا شرف رکھتی تھیں بلکہ بعد کی تخصیات پر بھی مندر ہے جن کے اسماء گرامی یہ ہیں.مولانا عبید اللہ صاحب سندھی ، علامہ عنایت اللہ خان المشرقی بانی خاکسار تحریک مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی بانی جماعت اسلامی، مولانا عبد الرحمن صاحب طا ہر سورتی موسس انجمن ترقی عربی پاکستان، مولانا الحاج قاری محمد طیب صاب مہتمم دارالعلوم دیوبند (رفیق اعزازمی ندوۃ المصنفین)، مولاناستیدا بوالحسن صاحب ندوی چیر مین دارالمصنفین اعظم گرت و بانی رکن رابطہ عالم اسلامی مکه معظمه ان مولانا محمد موسی صاحب مدرس جامعہ اشرفیہ لاہور، مولانا انند یارسان صاحب چکڑالہ ضلع میانوالی لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) خواجہ عبد الرشید صاب مولانا بدرالدین صاحب بدر جالندھری.به مولانا صاحب اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ کی اس اعلی، مغربی اکیڈیمی دمشق، عرب یونیورسٹیوں کی فیڈریشن کی مجلس انتظامیہ (مراکش) اور اردن کی مجلس علمی کے رکن بھی ہیں.۱۹۸۰ء میں آپ شاہ فیصل ایوارڈ کے سختی قرار پائے تھے.

Page 74

مولانا عبید اللہ صاحب سندھی جنہیں مفکر اسلام، مجدد اعظم اور امام انقلاب کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے حضرت مسیح ناصری کے رفع کی قرآنی فلاسفی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :.مفسرین نے ایک قصہ بنا دیا اور مسلمان اس پر ایمان لائے کہ شیخ رفع کر لیا گیا اور اس کا ایک حواری اُس کی صورت بن گیا.ہم کو اس بات کی تصدیق یا تکذیب کی ضرورت نہیں.جو کچھ قرآن نے حکایت بیان کی ہے وہی انا جیل میں ہے.بل دفعہ اللہ یہ کلمہ قرآن میں ایک بار ستعمل نہیں ہوا بلکہ اس کلمہ کی بہت سی مثالیں اور نظائر ہیں جسے اجتماعیت میں مقام مالی حاصل ہو تو قرآن اسے رفع کے ساتھ موصوف کہتا ہے.ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے مسیح کا درجہ بلند کیا.اب ہم مونٹی او را براہیم کی تعلیمات نہیں جان سکتے جب تک کہ ابن مریم کی اتباع نہ کریں یقینا اللہ نے اس کا مقام بلند کیا دیہی رفع کا معنیٰ ہے، نیز ہمیں یہ ضرورت نہیں کہ قرآن کی تفسیر میں اس کے رفع جسمانی کے قائل ہوں." الهام الرحمن في تفسير القرآن سورة الفاتحة سورة المائده طه ناشر ادارہ بیت الحکمت کبیر والہ ضلع ملتان) علامہ سندھی کا یہ موقف حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے علم کلام کی خوشہ چینی کا واضح ثبوت ہے.مولانا سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی - حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے دور کے اُن علماء پر زبردست

Page 75

تنقید کی جو علوم جدیدہ اور سائنس کی تعلیم کو کفر سمجھتے تھے.آپ نے یہ کہکو فکر و اجتہاد کی بے شمار راہیں کھول دیں کہ : ئیں اُن مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں.وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لیے ایسا کرتے ہیں.اُن کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے باطن اور گراہ کر دیتی ہے اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں لوگو با عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضاد چیزیں ہیں.چونکہ خود فلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لیے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے یہ بات تراشتے ہیں کہ علوم جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں.اُن کی رُوح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے.مگر وہ پنچا فلسفہ اُن کو نہیں ملا جو الہام الہی سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے وہ اُن کو اور صرف انہیں کو دیا جاتا ہے جو نہایت تذکل اور نیستی سے اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کے درولو زیے پر پھینک دیتے ہیں.جن کے دل اور دماغ سے متکبرانہ خیالات کی تعفن نکل جاتا ہے اور جو اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے گڑ گڑا کر نیچی عبودیت کا اقرار کرتے ہیں.پس ضرورت ہے کہ آجکل دین کی خدمت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جد و جہد سے حاصل کرو لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ میں بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ ان علوم میں میں یکطرفہ پڑ گئے اور ایسے محو اور نمک

Page 76

64 ہوئے کہ کسی اہل دل اور اہل ذکر کے پاس بیٹھنے کا اُن کو موقعہ نہ ملا اور خود اپنے اندرائی نور نہ رکھتے تھے.وہ عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دور جا پڑے اور بجائے اس کے کہ اُن علوم کو اسلام کے تابع کرتے الٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات سے متکفل بن گئے مگر یاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے یعنی دینی خدمت وہی بجا لا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو" (ملفوظات جلد اول صفحه ۴۳ تقریر فرموده ۶۱۸۹۸ مطبوعه الحکم " مولانا مودودی صاحب نے طبقہ علماء میں سے ہونے کے باوجود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی اس تحریک کو مشعل راہ بناتے ہوئے یہ رائے قائم فرمائی کہ : مغربی علوم وفنون بجائے خود سب کے سب مفید ہیںاور اسلام کو ان میں سے کسی کے ساتھ دشمنی نہیں بلکہ اینجا با ئیں یہ کہوں گا کہ جہاں تک حقائق علمیہ کا تعلق ہے اسلام ان کا دوست ہے اور وہ اسلام کے دوست ہیں." تنقیحات صفحه ۱۹-ایڈین پنجم ناشر جماعت اسلامی پاکستان) برطانوی ہند کے دارالحرب نہ ہونے کا مسئلہ گزشتہ صدی سے اب تک محل نزاع ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی رائے میں وہ شرع دار الحرب نہیں تھا.بائی میں مسلک مولانا مودودی نے اختیار کیا.چنانچہ آپ اپنے رسالہ سود میں رقمطرازہ ہیں :.ہندوستان اس وقت بلاشبہ دار الحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی.اس وقت مسلمانوں

Page 77

کا فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑتے یا اس میں ناکام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے لیکن جب وہ مغلوب ہو گئے ، انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل کار پر قتل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا تواب یہ ملک دارالحرب نہیں رہا.اس لیے کہ یہاں تمام اسلامی قوانین منسوخ نہیں کئے گئے ہیں نہ مسلمانوں کو سب احکام شریعت کے اتباع سے رو کا جاتا ہے." (سود حصہ اول صفحہ ، حاشیہ - شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان لاہور) نیز لکھا :." وہ وہ شرائط یہاں ابھی پورے نہیں ہوئے ہیں جن کے ماتحت اسلام نے جہاد بالسیف کی اجازت دی ہے.جہاد بالسیف کے لیئے دو شرطیں ضروری ہیں.ایک یہ کہ و با اختیار امیر کی قیادت میں ہو، کسی دوسرے نظام قاہر وسلط کے اندر رہتے ہوئے جہاں کسی یا اختیار میر کا وجود نا ممکن ہے قتال کرنا بدامنی اور فساد ہے جو جائز نہیں.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کا اعلان ہجرت کے بعد فرمایا.دوسرے یہ کہ جو لوگ جہاد بالسیف کے لیے اُٹھیں وہ خود شائبہ فساد و ظلم سے پاک ہو چکے ہوں....اس طرح کی کوئی حیات اور کوئی یا اختیا را میر چونکہ ابھی ہندوستان میں موجود نہیں ہے اس وجہ سے یہاں جہاد بالسیف روا نہیں (ترجمان القرآن ستمبر اکتوبر ۶۱۹۲۵ صفحه ۱۸۲)

Page 78

حضرت اقدس مسیح موجود بانی سلسلہ احمدیہ نے بارہا یہ حقیقت واضح فرمائی کہ عہد حاضر ما مور ربانی کا تقاضا کرتا ہے.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں :."اے بندگان خدا ! آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب امساک باراں ہوتا ہے اور ایک مدت تک مینہ نہیں برستا تو اُس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کنوئیں بھی خشک ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پیس کی طرح جسمانی طور پر آسمانی پانی بھی زمین کے پانیوں میں جوش پیدا کرتا ہے اسی طرح روحانی طور پر جو آسمانی پانی ہے (یعنی خدا کی وحی) وہی شغلی عقلوں کو تازگی بخشتا ہے.سوپر زمانہ بھی اس روحانی پانی کا محتاج ہے یکی اپنے دعوئی کی نسبت اس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں که یکی عین ضرورت کے وقت خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.نہ صرف یہ ہے کہ ہمیں اس زمانہ.کے لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود زمانے نے مجھے بلایا ہے ؟ پیغام صلح کا یادداشتیں) " چنا نچہ مولانا مودودی نے کھلے دل و دماغ سے یہ شہادت دی کہ آج فی الحقیقت نبی کی نظر ہی اسلامی حقائق تک رسائی پا سکتی اور موجودہ مسائل میں ہماری راہ نمائی کر سکتی ہے.چنانچہ انہوں نے اعتراف حق کرتے ہوئے вый افسوس که علماء ( الا ماشاء الله) خود اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہو چکے تھے.ان میں اجتہاد کی قوت نہ تھی.....ان پر تو اسلاف کی اندھی اور جامد تقلید کا مرض پوری طرح مسلط ہو چکا

Page 79

29 ง تھا جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کو اُن کتابوں میں تلاش کرتے تھے جو خدا کی کتا ہیں نہ تھیں کہ زمانے کی قیود سے بالا تر ہوتیں.وہ ہر معاملہ میں اُن انسانوں کی طرف رجوع کرتے تھے جو خدا کے نبی نہ تھے کہ اُن کی بصیرت اوقابت اور حالات کی بندشوں سے بالکل آزاد ہوتی.پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ ایسے وقت میں مسلمانوں کی کامیاب رہنمائی کر سکتے جب کہ زمانہ بالکل بدل چکا تھا اور یکم عمل کی دنیا میں ایسا عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا جس کو خدا کی نظر تو دیکھ سکتی تھی مگر کسی غیر نبی انسان کی نظر میں یہ طاقت نہ تھی کہ قرنوں اور صدیوں کے پردے اٹھا کر ان تک پہنچ سکتی یا ا تنظیمات فخمه ۲۰۰۲۷ طبع میفتم ۱۹۹۳ ۱ ناشر اسلامک پبلیکیشنز لاموا ے کام نیز تسلیم کیا کہ :- اکثر لوگ اقامت دین کی تحریک کے لیے کسی ایسے موڈل کو ڈھونڈتے ہیں جو ان میں سے ایک ایک شخص کے تصویر کامل کا مجتمہ ہو.....دوسرے الفاظ میں یہ لوگ دراصل نہی کے طالب ہیں اگر چہ زبان سے ختم نبوت کا اقرار کرتے ہیں اور کوئی اجرائے نبوت کا نام بھی لے رہے تو اس کی زبان گدی سے کھینچنے کے لیے تیار ہو جائیں مگر اندر سے اُن کے دل نبی سے کم کسی پر رائٹی نہیں؟ اخبار مسلمان ۲۴ / فروری ۶۱۹۴۳ بحواله الفضل ۶ / مارچ ۶۱۹۴۳ صفحه ۱)

Page 80

A.ے وقت تھا وقت مسیحانہ کسی اور کا وقت یکی نہ آتا تو کوئی اور ہیں آیا ہوتا ربانی سلسلہ احمدید؟ مولانا عبد الرحمن طا ہر سورتی.عرب کا بے مثال ماہر لسانیات علامہ ابو الفتح عثمان ابن بینی اپنی شہرہ آفاقی کتاب الخصائص میں یہ اقرار کرنے پر مجبور ہے کہ عربی زبان الہامی ہے یا دوسری زبانوں کی طرح انسانوں کی ایجاد ہے.اس بارے میں میں کوئی رائے قائم نہیں کر سکا مگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے عربی تالیف من الرحمن کے ذریعہ غربی زبان کو ام الا سینه ثابت کر کے پوری علمی دنیا کو انگشت بدنداں کر دیا.اس شاندار انگستان کی نسبت عرب علماء و فضلاء کی کوئی تحریر اب تک میری نظر سے نہیں گزری.پاکستان کے اکابر علماء میں سے مولانا عبد الرحمن خانہ مورتی پہلے محقق و فاضل ہیں جنہوں نے عربی کو اتم الاسنہ یقین کرنے کا اعلان فرمایا ہے.چنانچہ آپ استاذ احمد حسن زیارت کی کتاب تاریخ الادب العربی کے اردو ایڈیشن کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں عربی زبان کے ام الائ نہ ہو نے میں شک نہیں (صفحہ ۲۶ ناشر کتاب شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور جون ۶۱۹۶۱ ) مولانا الحاج قاری محمد طیب صاحب پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے جدید علم کلام کا نہایت وجد آفریں انعکاس اُن شریرات سے بخوبی عیاں ہے جو شان خاتمیت محمدی کے سلسلہ میں اُن کے قلم سے نکلی ہیں.مثلاً فرماتے ہیں :- لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الرد قالین کا اصلی مقابلہ تو شا شیخ احمد الاسکندری اور شیخ عنانی یک اب ماہرین اس نتیجہ بچہ پہنچ سکے ہیں کہ عربی تمام سامی " زبانوں کی ماں سے قریب تر ہے.(الوسیط فی الادب العربي و تاریخہ )

Page 81

خاتم النبیین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لیے نہ حضور کا دنیا میں دوبارہ تشریف لانا مناسب نہ صدیوں باقی رکھا جانا شایان شان ن زمانہ نبوی میںمقابلہ ختم کرایا جانا مصلحت اور ادھر اسی ختم دقایت کے استیصال کے لیے چھوٹی موٹی روحا نیست تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی.عام مجددین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآنہ ہو سکتے تھے جبتک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے.بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک مؤثر نہ تھی جب تک کہ اُس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہوسکتی تھی کہ اس دنبال اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لیے امت میں ایک ایسا خاتم المحمد دین آئے جو خاتم النبیین کی غیر معمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتم النبیین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہ خاتم النبیین کا مقابلہ ہو.مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہوئی مرتبہ ولایت میں یہ تحمل کہاں کہ وہ درجہ نبوت کی بھی برداشت کر سکے چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار نہیں بلکہ اس انعکاس کے لیے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جو فی الجملہ خاتمیت کی ہوئی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو.تا کہ خاتم مطلق کے کمالات کا عکس اُس نہیں اتر سکے اور ساتھ ہی اس خانم مطلق کی

Page 82

۸۲ ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے یا تعلیمات اسلام اور سیمی اقوام ناشر ندوۃ المصنفین علی ۱۳۹۵ ) مولانا محمد طیب صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان خاتمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں کہ :- " حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوت بخش بھی نکلتی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہو گیا.آپ کی یہ فیض رسانی اور سر چشمہ کمالات نبوت ہونے کی امتیازی شان آغاز بشریت سے شروع ہوئی تو انتہائی کائنات تک جا پہنچی (آفتاب نبوت صفحہ 9-1-111 ناشر : ادارہ عثمانیہ ۳ پرانی انار کلی لاہور ) -١٠٩-١١١ اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على ابراهيم وعلى ال ابراهيم انك حميد مجيد.مولانا ابو الحسن علی ندوی جیسے محقق و فاضل کو حضرت امام الزمان کے اس نظریہ کے سامنے سپر انداز ہونا پڑا ہے کہ یور بین اقوام اور یورپ کی مغربی تہذیب ہی دجال ہے.(ازالہ اوہام مطبوعہ ۶۱۸۹۱) من مولانا تحریر فرماتے ہیں :- " زندگی اور معاشرہ پر د قبال کا اثر احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت داعی اور گرم جوش ، چست و چالاک اور مذاہب و اخلاق کے مقابل ہیں کفر اور بغاوت کا علمبردار ہوگا.ایک دوسری حدیث میں ہے.

Page 83

۸۳ فوا الله ان الرجل ليأتيه و خدا کی قسم آدمی اس کے پاس لیگا هو يحسب انه مؤمن فيتبعہ اور سمجھتا ہو گا کہ وہ مومن ہے پھر مما يبعث به الشبهات اس کا متبع بن جائے گا، ان شبہات کی وجہ سے جو وہ اس کے دل میں پیدا کردے گا.اس کا معاملہ اتنا آگے بڑھے گا اور اس کی دعوت اس قدر عام ہوگی کہ کوئی گھرانہ اور خاندان اس سے محفوظ نہ رہے گا ، نہ عورتیں اور نہ لڑکیاں اس کے اثر اور سحر سے آزاد سکیں گی.گھر کا بڑا اور ذمہار اپنے گھر والوں، اپنی بیوی اور عورتوں اور لڑکیوں پر کوئی کنٹرول قائم نہ رکھ سکے گا اور سب شتر بے مہار ہوجائیں گے.ت حدیث میں آیا ہے کہ :- ينزل الدجال بهذه السبخة دجال اگر اسی شور قطعه زمین مرقناة " بمرقناة فيكون آخر من میں پڑاتھ کریگا.آخر میں اس کے يخرج اليه النساء حتی پاس خود تمیں گھروں سے نکل کے ان الرجل ليرجع الى امام جائیں گی یہاں تک کہ آدمی اپنی نان وابنته وأخته وعمتہ اپنی بیٹی اپنی بہن اور اپنی پھوپھی فيوثقها رباطًا مخافة کے پاس جائے گا اور ان کو باندھ کے ن ابو داؤد - له ملاحظہ ہو نزول دجال کے معنے مولانا ندوی نے آسمان سے اترنے کے نہیں بلکہ پڑاؤ کرنے کے لیئے ہیں اور کس خوبی سے نزول مسیح کا مسئلہ بھی خود بخود حل کر دیا ہے.(ناقل)

Page 84

۸۴ ان نخرج اليه له مقید کر دے گا، اس اندیشہ سے کہ یہ دجال کے پاس جائیں.سوسائٹی کا فساد اور اخلاقی انحطاط اور زوال اس درجہ پر پہنچے جائے گا کہ حدیث کے الفاظ میں :- فيبقى شرار الناس في صرف بُرے لوگ باقی رہ جائیں گے خفة الطير واحلام السباع، جو چڑیوں کی طرح ہلکے اور درندوں لا يعرفون معروفا ولا کی کسی عقلیں رکھنے والے ہونگے ينكرون متكراً نہ اچھائی کو وہ اچھائی سمجھیں گے نہ بوائی کو گیرائی.موجودہ مادہ پرستانہ اور کافرانہ تہذیب کی یہ وہ بلیغ تعبیر اور زندہ تصویر ہے جس میں اس کے نقطہ عروج کا نقشہ پیش کر دیا.گیا ہے، اور اس کے اہم مرکزوں اور قلعوں کی بہت واضح طور پر نشاندہی کردی گئی ہے.یہ در اصل نبوت کے ان لافانی معجزوں میں سے ایک معجزہ اور رسول اللہ صل اللہ علیہ سلم کے اس جامع و مانع کلام کا ایک بہترین نمونہ ہے ، جس کے عجائبات و کمالات کبھی ختم نہیں ہوتے اور جس کی تازگی اور جدت ہمیں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا.اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ تہذیب میں ایک طرف پرندوں کا سا ہلکا پن ہے اور وہ فضاؤں میں اڑ رہی ہے ہ طیراتی معن ابن عمر رضی اللہ عنہ که می مسلم دروایت عبد اللرین گار و ابن العاص رضی اللہ عنہ.

Page 85

اور ہوا کو تسخیر کر رہی ہے اور اس نے جدید انسان کو پرندہ سے تیز رفتار اور سبک بنا دیا ہے ، دوسری طرف اس میں درندگی خونخواری اور مردم آزادی کی وہ صفت ہے جس سے وہ پورے یورسے ملکوں اور قوموں کو نیست و نابود کرنے میں کوئی تخلف محسوس نہیں کرتی اور نہ صرف لعلمانی فصلوں اور گل و گلزار زمینوں کو بلکہ باغ انسانی کو اس طرح تباہ و برباد کرتی ہے کہ اس کی نظیر تاریخ میں نظر نہیں آتی اور یہ سب عیش و آرام ، رزق کی فراوانی راحت و آسائش اور آرائش و زیبائش کے اس ساز و سامان اور اسباب و وسائل کے ساتھ ہے جو شایدہ تاریخ کے کسی اور دور میں اتنی کثرت و عمومیت سے امتیا نہ ہوئے تھے." حدیث میں آتا ہے :- وهم في ذلك دار رزقهم اس حالت میں ان کا رزق من حسن عيشهم.کی طرح برس رہا ہو گا اور عیش صحیح سلم روایت عبداللہ بن عمرو کے سب سامان مہیا ہوں گے.ا معرکہ ایمان و مادیت صفحه ۱۳۹-۱۴۱- تالیف مولانا سید ابوالحسن ندوی ناشر مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ہندی اور پنجابی ہونے پر ابھی تک زبان طعن دراز کی جاتی ہے اور اکثر نگا ہیں آج بھی ظہورہ مہدی کے لیے سرزمین عرب کی طرف دیکھ رہی ہیں مگر مولانا سید ابوالحسن ندوی صاحب عربوں کی افسوسناک دینی و اخلاقی حالت پر نوحہ کناں ہیں اور انہیں زبر دست انتباہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :-

Page 86

>> إن الله تعالى حدر العرب الأولين وقال لنبيه صلى الله عليه وسلم رفان يكفرُ بِهَا هُؤُلاء فَقَدْ وَكَلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بكفرين ) [ الانعام: ٤٩٠ وقال للمسلمين العرب : اوان ستولّوا يَسْتَبْدِلُ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا امنا لكم) [محمد : ۳۸] [٣٨ والله جنود الشهوات والارض، وفي كنانة الاسلام سهام لم يرها احد ولا تخرج إلا في وقتها ، ومن يدرى فلعل شمس الاسلام تطلع من المشرق ، وهذه أمم اسلامية فتية على سواحل المحيط الهندى وفى جزرة تتحفز للوثوب وتتهيأ لقيادة العالم الإسلامي" العرب والاسلام صفحہ ۳۷ - ناشر المكتب الاسلامي دمشق بيروت - طبع ثالث (۱۴۰ هـ / ۶۱۹۸۱ ) (ترجمہ) : اللہ تعالیٰ نے پہلے عربوں کو بھی اپنے نبی کریم صلی الہ عیہ علم کے ذریعہ متنبہ کیا تھا کہ اگر یہ لوگ اس (نیوت محمدی) کا انکار کریں تو ہم اسے ایک ایسی قوم کے سپرد کر دیا ہے جو اس کے منکر نہیں (الانعام 9) نیز عرب مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمہاری جگہ ایک اور قوم بدل کرے آئے گا اور وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے.(محمد : ۳۸) آسمانوں اور زمین میں اللہ ہی کے لشکر ہیں اور اسلام کے ترکش میں کئی تیر ہیں جو کسی کو دکھائی نہیں دیتے مگر اپنے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں.

Page 87

کے خیر ہے کہ آفتاب اسلام شاید مشرق سے ہی طلوع کرے جہاں نوجوان اہم اسلامیہ بحر ہند کے ساحلوں پر آباد ہیں اور اس کے بھاٹا میں کودنے پر آمادہ ہیں اور دنیائے اسلام کی قیادت کے لئے تیار کھڑی ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے بہنوئی مسیحیت و مہدویت کے آغاز میں ہی اعلان فرما دیا تھا کہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہوگئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر تھی....سوش کر کرو اور خوشی سے اچھلو جو آج تمہاری تازگی کا دن آگیا.خدا تعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا " (ازالہ اوہام حصہ اول صفحه ۳ - ۴) مولانا محمد موسی صاحب مدرس جامعہ اشرفیہ لاہور بر صغیر کے ماہر فلکیات ہیں آپ اپنی کتاب فلکیات جدیدہ (حصہ اول صفحہ ۲۱۶) میں بالوضاحت لکھتے ہیں کہ " خسوف ایام استقبال یعنی ۱۳-۱۴-۵ تاریخوں کے علاوہ نا ممکن ہے.(ناشر کتاب ادارہ تصنیف و ادب جامعہ اشرفیه فیروز پور روڈ لاہور ) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ۱۳۱۱ھ / ۱۸۹۴ء میں جبکہ گرہن کا آفاقی نشان رونما ہوا بالکل یہی موقف اختیار فرمایا تھا، (نورالحق حقی دوم مولفه (۲۱۸۹۴) پس مولانا محمد موسی صاحب کا یہ بیان احمد می علم کلام کی حقانیت پر ایک واضح شہادت ہے.مولانا اللہ یار صاحب چکڑالہ ضلع میانوالی فرماتے ہیں :.کشف و الہام وحی باطنی ہے اور کمالات نبوت سے ہے اور نائب و خلیفہ نبوت ہے.انقطاع نبوت اور انقطاعی وحی

Page 88

AA شرعی کے بعد یہ دلائل میں داخل ہے.یہ باطنی دولت انبسیار کا حصہ ہے جو بطور وراثت انبیاء کی حقیقی اولاد یعنی متبعین کو ملتی ہے." (دلائل السلوک صفحه ۱۲۲-۱۲۳۰- ناشر اداره نقشبندیه اویسیہ چکوال) نیز فرماتے ہیں :.تجبریل ولی اللہ کے پاس آسکتے ہیں صرف وحی شرعی اور وحی احکامی کا سلسلہ ختم ہوا کیونکہ دین مکمل ہو چکا ہے" (ایضاً صفحہ ۱۲۷) ر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لیے زندہ نبی یقین کرتے تھے کہ آپ کی پیروی سے وحی وا امام کا سلسلہ قیامت تک جاری ہے.جناب مولانا اللہ یار صاحب اسی جدید علم کلام کے خوشہ چلین ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ حضرت اقدس نے دنیا بھر میں پوری قوت و شوکت سے یہ منادی فرمائی کہ آنحضرت کی غلامی کے طفیل مجھے مکالمہ مخاطبہ المیہ کی نعمت سے نوازا گیا ہے اور کوئی نہیں کہ اس میں میرا مقابلہ کر سکے مگر مولانا صاحب موصوف صرف " آسکتے" کی منزل تک رسائی یا سکتے ہیں سے چراغ مرده کجا شمع آفتاب کجا ببین تفاوت راه از کجا است تا بکجا عبداللہ ملک صاحب جیسے سوشلسٹ رینجا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نسبت لکھتے ہیں :.مرزا غلام احمد کی تعلیمات اور تنظیم نے یقیناً ایک ایسا گروہ پیدا کیا جو اپنے اندر ایک جذبہ رکھتا تھا جو مذہب سے شیفتگی کا

Page 89

اُٹھتے بیٹھتے اظہار کرتا تھا.اور اُن کے اسی جذبہ نے ان مسلمانوں کو بھی بہت متاثر کیا جو مرزا غلام احمد کی تعلیمات کو تفصیلی طور پر نہیں جانتے تھے.در اصل مرزا غلام احمد نے اپنی تصانیف اور تحریروں کے ذریعے ایک دور میں تہلکہ مچا دیا.جب براہین احمدیہ شائع ہوئی تو مولانا محمد حسین بٹالوی نے اسی کتاب کے بارے میں لکھا تھا.یہ کتاب اس زمانہ کی موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی آئندہ کی خبر نہیں ، لعل الله يحدث بعد ذالك امرا اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی قلمی و لسانی اور حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر مسلمانوں میں بہت کم پائی جاتی ہے.ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم از کم ایک ایسی کتاب بتلا دے جس میں جملہ فرقہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ سماج دیر سمو سماج سے اس زور تقوی سے مقابلہ پایا جاتا ہو.اور دو چار ایسے اشخاصی انصارا سلام کی نشاندہی کر دے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بیڑہ بھی اُٹھایا ہو اور مخالفین اسلام ومنکرین الہام کے مقابلے میں مڑا نہ تخدمی کے ساتھ یہ دعوی کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر تجربہ و مشاہدہ کہ ہے اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا

Page 90

ہو پنجاب کی سیاسی تحریکیں صفحہ ۲۶۷-۲۶۸ طبع اوّل یکم جنوری ۱۹۷۱ ۶- ناشر نگارشات پرنٹرز لاہور) لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) خواجہ عبدالرشید صاحب - خواجہ صاحب کی تحریرات میں ہمیں احمدیت کے جدید علم کلام کی جھلکیاں صاف دکھلائی دیتی ہیں مثلاً آپ حضرت مسیح کی طبعی وفات کے قائل ہیں اور آپ نے آیت " إِنَّهُ لَعِلْمُ السَّاعَةِ " سے حضرت مسیح کی آمد ثانی کا استدلال کرنے والوں کا ہمیشہ علمی تعاقب کیا ہے.(ملاحظہ ہو آپ کا مضمون نزول شیخ مطبور پیشان یکم دسمبر ۶۱۹۵۸ صفحه ۷-۸) جناب خواجہ صاحب سیر فرنگ میں تحریر فرماتے ہیں :- میں نے پہلی مرتبہ چینی اور جاپانی زبانوں کے اخبار ہوائی جہاز میں دیکھتے ہیں.انگریزی، عربی اور فارسی کے اخبار تو اکثر یہاں دیکھنے میں آیا کرتے تھے شاید یہ جھا نہ جاپان سے ہو کر آیا ہے اسلیئے یہ اخبار لیتا ہی آیا ہو گا.آپ شاید میرے ساتھ اتفاق نہ کریں لیکن وراها الوحوش حشرات کے ساتھ وَإِذَا الصُّحُفُ نَشِرَت کی بھی تغییر نظر آرہی ہے.یہ ہوائی جہاز اچھا خاصہ انسانی چڑیا گھر معلوم ہوتا ہے.اور پھر اس پر بھی خود فرمائیے واذا لو شارہ ملت یہ قیمتی اور کا بھی اونٹنی (یعنی قیمتی اونٹ جو بہت کارآمد ہے ) معطل ہو جائے گی.ہوتی جارہی ہے کہ نہیں.اب کہاں وہ حاجیوں کے قافلے جو قطار اندر قطار جدہ سے چھیل کر رکن کٹھن منزلوں سے مکہ اور مدینہ پہنچتے تھے اب تو ریگستان عرب میں

Page 91

91 میں قیمتی سے قیمتی موٹر چلتی ہے.عنقریب آپ دیکھ لیں گے اونٹ کی افادیت ختم ہو جائے گی اور یہ جانور بھی ریگستانوں میں ناپید ہو جائے گا.یہ حالات ہیں جو قیامت کے > قریب ظاہر ہو رہے ہیں " ہمیں تو قیامت کے آثار بہت قریب دکھائی دیتے ہیں." وإذا الوحوش حُشِرَتْ ، وَإِذَا الْبِحَارُ سُجَرَتْ - وَإذَا النُّفُوسُ رُوحَتْ.....وَاِذَا الصُّحُفُ نُشْرَتْ.....عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا احضرت (التکویر: ۶-۷-۸-۱۱-۵) (سیر فرنگ صفحه ۳۰ ۶۴۰۳۱) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب " شہادت القرآن میں اور دوسری پر معارف کتابوں میں سورہ تکویر کی مذکورہ بالا آیات کی تفسیر فرمائی ہے مندر ہے بالا بیان اس کی حقانیت پر شاہد عادل ہے.حضور نے شہادت القرآن کتاب علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کے والد ماجد جناب میاں عطا محمد صاحب آف امرتسر کے ایک مکتوب کے جواب میں سپرد قلم فرمائی تھی.مولانا بدرالدین صاحب بدر جالندھری - ایک دانشور اور عارف کا قول ہے وہ آفتاب آمد دلیل آفتاب ! مگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے عشق رسول ہمیں ڈوبا ہوا یہ نیا محاورہ پیش فرمایا.محمد است بر بان محمد آئینہ کمالات اسلام طبع اول، تالیف ۶۱۸۹۳) جناب مولوی بدرالدین صاحب بذر جالندھری راس عارفانه محاورہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- رہنمایان عالم میں صرف آنحضرت کی ذات والا صفات

Page 92

۹۲ وہ ذات ہے جس کا ہر وصفف ، ہر خط و خال اور ہر ادا آپ کے کمال کی دلیل ہے اسی لیے قدرت نے آپ کے واسطے وہ نام تجویز کیا جس کے معنی مستم تعریف کے ہیں کہ اگر دنیا میں کوئی ایسی ہستی ہے جس کا ہر وصف اسے ہر دوسرے شخص کے مقابلے میں محمد یعنی قابل تعریف ثابت کرتا ہو اور اس کے لئے کسی بیرونی پسیل کی ضرورت نہ ہو تو وہ صرف پیغمبر اسلام ہے جن کی تعریف کے لیے " محمد مست بربان محمد " ہی کا مصرع پورے طور پر صادق آتا ہے.خطبات بدر صفحہ ۱۶۷ ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز کشمیری بازار لاہور ) ایران ایران مسلم دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو سرکاری اور عوامی دونوں حیثیت سے ظہور مہدی کے تخیل کو اپنے سینہ میں بسائے ہوئے ہے.ایرانیوں کے سوا کسی اور قوم کو یہ اعزاز حاصل نہیں.پچھلے چند برسوں میں حضرت امام مہدی کے بارے میں اتنی کثرت سے لڑریچر شائع ہوا ہے کہ گزشتہ تمام ریکارڈ ماند پڑ گئے ہیں.اس لٹریچر کی ایک بھاری اور منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کئی علامات مہدی کے پورے ہونے کا واضح اقرار کیا گیا ہے جو تعجب خیز بات ہے.مثلاً علامہ باقر مجلسی کی عربی کتاب بحار الانوار جلد ۱۳ شیعہ دنیا میں امام مہدی علیہ السلام کے حالات و علامات پر سمندر کی حیثیت یکھتی ہے.عہد حاضر کے ایک ایرانی فاضل علامہ علی دوانی نے اس کو فارسی زبان میں منتقل کیا ہے اور طہران کے دارالکتب الاسلامیہ نے اسے مہدی کے پیارے نام سے متعدد بار شائع کیا ہے.کتاب کا پندرھواں ایڈیشن راس

Page 93

۹۳ وقت ہمارے سامنے ہے جس کے حاشیہ صفحہ ۱۰۴۳ میں فاضل مترجم نے اعتراف کیا ہے مہدی موعود کے زمانہ کی یہ علامات کہ مکہ و مدینہ میں آلات موسیقی ظاہر ہوں گے اور آسمان پر ایسے نشانات دکھائی دیں گے جن سے دنیا خائف نہ ہوگی، یہ دونوں ہی وقوع پذیر ہو چکے ہیں.مؤلف کے نزدیک امام مہدی کے زمانہ میں جو سرخ آندھی مقدر تھی وہ ایٹمی جنگ کی صورت میں نمودار ہو چکی ہے.(حاشیہ صفحہ ۱۰۴۷) اور دخان بین سے مراد ایم کم ہے.حاشیہ صفحہ 1199 اصفہان کے مکتبہ الامام امیر المومنین علی العامہ لانے علامہ محمد الصدر کی ایک گرانقدر تالیف " تاریخ الغیبۃ الکبری" شائع کی ہے جو علمی لٹریچر میں عمدہ اضافہ جو ہے.کتاب کے صفحہ ۵۱ سے ۵۳۷ تک دجال کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کی ایک ایک علامت کا ذکر کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ موجودہ اور بین تہذیب ہی در قبال ہے.نظریہ وفات مسیح نے بھی ایران کے بااثر علمی اور مذہبی حلقوں پر گہرا اثر ڈالا ہے اور ملک کے ممتاز عالم دین حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا اعلان کر چکے ہیں.چنانچہ ایرانی مفتر مولانا زین الدین راہ نما کا ترجمہ و تفسیر قرآن ملک میں بہت مقبول ہے.اس کتاب کی پہلی جلد کے صفحہ ۲۶۹-۵۰۰ پر حضرت مسیح کی طبعی وفات کا ذکر ہمیں ملتا ہے.نیز صفحہ ۲۶۷ کے حاشیہ میں لکھا ہے :.میسی پس از آنکه ریج فراوانی از یهو د کشید راه مشرق يهود در پیش گرفت و برائے قبائل اسرائیلی کہ کشمیر و شرق سے راقم الحروف کے پاس اس کتاب کا بیسواں ایڈیشن بھی موجود ہے.(مولف)

Page 94

۹۴ افغانستان کوچ کرده بودند.موعظه ما کرد.یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو یہود کے ہاتھوں بہت تکالیف برداشت کرنا پڑیں جس پر آپ نے مشرق کا رخ اختیار کیا اور پر کشمیر اور مشرقی افغانستان کے اسرائیلی قبائل کی طرف ہجرت کر گئے اور انہیں وعظ و نصیحت فرمائی.تاریخ ایران کا یہ نا قابل فراموش واقعہ ہے کہ ایران کے مرحوم روحانی پیشوا اور دینی رہنما علامہ آیت اللہ خمینی نے پوپ کو ایک مکتوب مفتوح میں یکھا "If Jesus Christ Were Alive Today Considering the fact that we are oppressed, we ask you for judgment.You must provide salvation for the Christian nations.Nations must be saved from actions which are per- formed in the name of Jesus Christ and Christianity but which are in reality, crimes.These actions hurt the reputation of Jesus Christ and Christianity.If jesus Christ were alive today, he would condemn Carter.If he were alive today, he would release us from the clutch of this enemy of the people, the enemy of all hum- anity.You are a representative of Jesus Christ and thus you must do what he would do." (( 2- (SELECTED MESSAGES AND SPEECHES OF IMAM KHOMEINI) Page 72 The Ministry of National Guidance Tehran, Iran.نے کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں یہ عبارت صفحہ ۲۶۵ پر ہے اور وفات مسیح کا ذکر بالترتیب صفحہ ۲۶۸ اور صفحہ ۹- ۵ پر ہے.یہ ایڈیشن رمضان ۱۳۵۲/ جنوری ۴۱۹۳۴ میں چھپا تھا.کہ ناشر

Page 95

۹۵ اگر آن مسیح زندہ ہوتے ہم نے آپ سے درخواست کی ہے کیونکہ ہمارے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے یہ ہم عیسائی دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی نجات کا راستہ تلاش کرے.ہم نجات کا راستہ اس لیے کہتے ہیں کہ لوگ بڑے ممالک میں شیخ اور عیسائیت کے نام پر جو جرا تم کرتے ہیں وہ حضرت عیسی کی تعلیمات کے منافی ہیں.یہ اقدامات عیسائیت کو تمام دنیا میں بدنام کرتے ہیں.میں پوپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر آج حضرت عیسی زندہ ہوتے تو ہمیں اس عوام تیون کے شکنجہ سے نجات دلاتے.آپ حضرت عیسی آ کے نمائندے ہیں اور اس حیثیت سے ہمیں آپ سے امید ہے کہ آپ وہی کریں گے جو اگر حضرت عیسی زندہ ہوتے تو کرتے " ترجمہ.رخشندہ حسن - اخبار امروزہ لاہور ۲۵ / نومبر ۱۹۷۹ء صفحه ۳ ) مسئلہ جہاد جس پر مدتوں سے دبیز می پردے پڑے ہوئے تھے احمدی علم کلام کی بدولت اب ایران میں بھی اپنی صحیح شکل و صورت میں جلوہ گر ہونے لگا ہے چنانچہ مولانا آیت الله مرتضیٰ مطہری جیسے مجتہد اور بزرگ عالم دین نے جہاد کے موضوع پر متعد د لیکچر دیئے اور قرآن مجید سے ثابت کیا کہ جہاد خالص دفاعی عمل ہے جس کی اجازت حریت ضمیر اور مذہبی آزادی کی خاطر دی گئی ہے.ایک لیکچر میں آپ نے بتایا کہ نے یعنی مسٹر کا رٹر

Page 96

44 "What has been presented so far is that the Qur'an has fundamentally defined jihad not as a war of aggression, of superiority, or of domination, but of resistance to aggres sion." MEHDI PAGE: 92 (JIHAD AND SHAHADAT EDITED BY ABEDI AND GARY LEGENHAUSEN) مطبوعه امریکه اشاعت اول ۶۱۹۸۶ ) یعنی مذکورہ تفصیل سے عیاں ہے کہ قرآن مجید نے بنیادی طور پر وضاحت کر دی ہے کہ جہاد، بالا دستی اور اقتدار کی جارحانہ جنگ نہیں جارحیت کے مقابلہ کا نام ہے.احمدیہ مشن امریکہ کے بانی حضرت مفتی محمد صادق صاحب روس تحریر فرماتے ہیں : :.روسی ریفار مرکونٹ ٹالسٹائی کو تبلیغ عاجز را تم نے حضرت میسج موجود...کی زندگی میں کی ! آپ کے وصال کے بعد اپنے ولایت جانے سے قبل یور پر امریکہ کے جن بڑے بڑے لوگوں کو تبلیغ کی اُن میں سے ایک مشہور روسی ریفار مرکونٹ ٹالسٹائی بھی تھے.اُن کو جو خط لکھا گیا تھا وہ بطور نمونہ کے درج ذیل ہے :- جناب.میں نے آپ کے مذہبی خیالات کتاب برٹش انسائیکلو پیڈیا کی جلد ۳۲ میں پڑھتے ہیں.جو کہ انہیں دنوں میں انگلستان میں طبع ہوئی ہے.اور اس بات کے معلوم کرنے سے مجھے بہت

Page 97

خوشی ہوئی ہے کہ یورپ اور امریکہ کے ممالک پر جو تاریکی شلیت نے ڈال رکھی ہے اس کے درمیان کہیں کہیں خالص موتی بھی ہے جاتے ہیں جو کہ خدائے قادر ازلی ابدی ایک سچے معبود کے جلال کے اظہار کے لیے جھک رہے ہیں.سچی خوش تعالی اور دعا کے متعلق آپ کے خیالات بالکل ایسے ہیں جیسے ایک مومن مسلمان کے ہونے چاہئیں.میں آپ کے ساتھ ان باتوں میں بالکل متفق ہوں کہ عیسی مسیح ایک روحانی معلم تھا اور کہ اسکو خدا سمجھے نایاد سمجھ کر پرستش کرنا سب سے بڑا کفر ہے.علاوہ ازیں میں آپ کو اس امر سے بھی بخوشی اطلاع دیتا ہوں کہ حضرت عیسی کی قبر کے مل جانے سے کافی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ وہ مر گیا.یہ قبر کشمیر میں ملی ہے اور اس تحقیقات کا اشتہار حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے کیا ہے جو کہ توحید رائی کے سر سے بڑھ کر محافظ ہیں اور جن کو خدائے قادر کی طرف سے مسیح موعود ہونے کا خطاب عطا کیا گیا ہے.کیونکہ ایک سچے خدا کی سچی محبت میں وہ کامل پائے گئے ہیں وہ اس زمانہ میں منجانب اللہ اظہم مصلح اور خدا کے نیچے رسول ہیں.وہ سب جو اس مسیح پر ایمان لائیں گے خدا کی طرف سے برکتیں پائیں گے.پر جو کوئی انکار کرے گا اُس پر غیور خدا کا غضب بھڑکے گا.میں آپ کو ایک علیحدہ پیکٹ نہیں خدا کے اس مقدس بندے کی تصویر بعد سیون کی قبر کی تصویر کے روانہ کرتا ہوں.آپ کا جواب آنے پر میں بخوشی اور کتا ہیں آپ کو ارسال کروں گا.میں ہوں آپ کا خیر خواہ مفتی محمد صادق از قادیان ۲۸ اپریل ۶۱۹۰۳ ).

Page 98

اس خط کے جواب میں ۲۹ جون کو فصلہ ذیل خط کونٹ ٹالسٹائی کی طرف سے آیا : پیارے صاحب - آپ کا خط بمعہ مرزا غلام احمد صاحب کی تصویر اور میگزین ریویو آف ریلیجنز کے ایک نمونے کے پرچے کے ملا.وفات عیسی کے ثبوت اور اس کی قبر کی تحقیقات میں مشغول ہونا بالکل بے نادہ کوشش ہے کیونکہ عقلمند انسان حیات عیسی کا قائل کبھی ہو ہی نہیں سکتا.ہمیں معقول نہ ہی تعلیم کی ضرورت ہے اور اگر مرزا احمد صاحب کوئی نیا معقول مسئلہ پیش کریں گے تو یکی بڑی خوشی سے اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تیار ہوں میگزین کے نمونے کے پرچے میں مجھے دو مضمون بہت ہی پسند آئے یعنی گناہ سے کس طرح آزادی ہو سکتی ہے.اور آئندہ زندگی کے مضامین خصوصاً دوسرا مضمون مجھے بہت پسند آیا.نہایت ہی شاندار اور صداقت سے بھرے ہوئے خیالات ان مضامین میں ظاہر کئے گئے ہیں.میں آپ کا نہایت ہی شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے یہ پرچہ بھیجا اور آپ کی چھٹی کے سبب بھی ہیں آپ کا بہت ہی شکر گزالہ ہوں.یکیں ہوں آپ کا مخلص ٹالسٹائی از ملک روس هار جون ۲۶۱۹۰۳ اس کا جواب نہیں نے پھر اسے لکھا کہ مسیح کی کیا ضرورت ہے اور قبر میچ ناصری کا مشتہر کرنا کس واسطے ضروری ہے میرے بیان سے اُس نے اتفاق کیا " "ذکر حبیب صفحہ ۲۹۹-۴۰۱ ناشتر بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان (۶۱۹۳ )

Page 99

۹۹ ٹالسٹائی کی طرح علامہ موسی جار اللہ بھی روس کے ایک تنظیم مفکر تھے اور بقول قاضی محمد عبد الغفار" روسی سلمانوں میں موسی جار اللہ کا وہی یا یہ تھا جو مصر میں مفتی عبدہ کا تھا یا آثار جمال الدین افغانی صفحه ۳۱۹ - ناشر انجمن ترقی اردو ہند دہلی ۱۶۱۹۴۰ علامہ موصوف حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے جدید علم کلام سے اس درجہ متاثر تھے کہ انہوں نے خاص اس موضوع پر کتاب لکھی کہ قرآن مجید میں کوئی آیت منسوخ نہیں.(رسالہ ترجمان القرآن جنوری فروری ۶۱۹۴۵ صفحه ۷۹) علامه كتاب في حروف اوائل السور" صفحه ۱۳۳ پر آیت وَآخَرِينَ منهم (الجمعه : (۴) کی تفسیر میں فرماتے ہیں :.هُوَ الذي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنَ الْأُمِّيِّينَ وبعت في أخَرِينَ رُسُلاً مَنْ أَخَرِيْنَ لِكُلّ أم لَهَا رَسُولُ مِنْ نَفْسِهَا وَهُؤلاء الرُّسُلُ هُمُـ رُسُلُ الإِسْلَامِ فِي الْأُمَمِ مِثْلَ أَنْبِيَاءِ بَنِي إسرائيل هُمْ رُسُلُ التَّوْرَاةِ فِي بَنِي إِسْرَاريل " دمی کا انا شہر لاہور بیت الحکمت ۱۷ فروری ۶۱۹۴۲ ) یعنی وہی خدا ہے جس نے امتیوں کی طرف اُمتیوں میں سے ایک رسول بھیجا اُسی خدا نے آخرین میں بھی رسول بھیجے جو آخرین میں سے ہیں کیونکہ ہر امت کے لیے رسول اس کے نے تفصیلی حالات کے لیے ملاحظہ ہو معجم المؤلف این جلد ۱۳ ص ۳۶- از عمر رضا كحالة مطبع ترقی دمشق ۱۹۶۱ء)

Page 100

1..نفس سے ہوتا ہے.یہ رسول (بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح جو بنی اسرائیل میں تو رات کے رسول تھے) اسم میں اسلام کے رسول ہیں.علامہ صاحب غازی مصطفی کمال اتاترک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- نَصَرَهُ اللهُ نَصْرًا عَزِيزًا إِذْ تَوَفَّاهُ وَرَفَعَهُ اليه " (صفحه ۳) یعنی انا تعالیٰ نے اُن کی نمایاں رنگ میں نصرت فرمائی جب اُن کو وفات دی اور اپنی طرف اُٹھا لیا.آپ نے اس فقرہ میں توقی" اور دفع کے الفاظ ٹھیک انہی معانی میں استعمال فرماتے ہیں جو احمدی علم کلام سے مخصوص ہیں.علامہ عبید اللہ سندھی نے اس کتاب پر بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا اور مولانا عبیدالحق پیشاوری نے آپ کو الامام العلام تاج ان علام کے خطاب سے یاد کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کتاب آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے.جماعت احمدیہ کا قیام ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کوشل یورپ و امریکہ میں آیا جبکہ صرف چالیس درویش طبی اور فقر منش بزرگوں نے حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی.یہ ایک تاریخ ساز واقعہ تھا مگر مادی نگاہوں نے اس کو کوئی چنداں اہمیت نہ دی تھی کہ پنجاب کے پریس نے اس کی دو سطری نہر دنیا بھی گوارا نہ کی.اُس زمانہ میں برطانوی امپریلزم کے جھنڈے ہر طرف لہرا رہے تھے اور مستشرقین اور عیسائی پادری اور متاد یورپ اور امریکہ کی پشت پناہی میں معصوموں کے سردار اور رسولوں کے فخر حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس

Page 101

1- پر نہایت شرمناک حملے کر رہے تھے.اُن کے ناپاک اور بے بنیا داعتراضات، الزامات اور مفتریات کا تصور آج بھی ایک عاشق رسول کی روح کو لرزا دیتا ہے اور اس کا خون کھولنے لگتا ہے.اور یہ حقیقت ہے کہ شیطان دورانی قاتم رسول سلمان رشد می کی بکواس اور بلد نام زمانہ یوسف صدیق ٹیونسی کے کارٹون ان منفورت کے مقابل اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتے ملنی چند ریزوں کے سامنے ایک فلک بوس پہاڑ کی ہوتی ہے.اں ہور میں عیسائیت کے علمبرداروں کے حوصلے اس درجہ بڑھ چکے تھے کہ وہ مکہ اور مدینہ کی مقدس سرزمین پر صلیبی جھنڈا لہرانے کا خواب دیکھ رہے تھے.چنانچہ انہی ایام میں امریکہ کے مشہور عیسائی لیکچرار پادری جان ہنری بیروز نے ہندوستان کا طوفانی دورہ کیا اور عیسائیت کے عالمی اثرات کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے اعلان کیا :- I might sketch movement in Mussulman lands, which has touch- ed.with the radiance of the Cross the Lebanon and the Persian mountains, as well as the waters of the Basphorus, and which is the sure harbinger of the day when Cairo and Damascus and Tcheran shall be the servent of Jesus and when even the solitudes of Arabia shall be pierced, and Christ, in the person of His disciples, shall enter the Kaaba of Mecca and the whole truth shall at last be there spoken."This is eternal life that they might know Thee, the only true God, and Jesus Christ whom thou hast sent." (Barrow's Lectures 1896-97, Christianity, The World Wide Reli- gion, by John Henry Barrows, page 42).اہ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو رسالہ نقوش رسولی نمبر ( لاہور) جلد یاز دہم شمارہ جنوری ۶۱۹۸۵ صفحه ۵۳۱-۵۴۰ -

Page 102

۱۰۲ اب میں اسلامی ممالک میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں.اس ترقی کے نتیجہ میں صلیب کی ضوفشانی اگر ایک طرف بیان پر ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کے نور سے منور ہے.یہ صورت حال اُس آئندہ انقلاب کا پیش خیمہ ہے جب قاہرہ ، دمشق اور طهران خداوند سیوں صبیح کے خدام سے معمور نظر آئیں گے حتی کہ صلیب کی چک صحرائے عربجے سکوت کو چیرتی ہوئی خداوند یسوع مسیح کے شاگردوں کے ذریعہ سکھر اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہوگی اور بالآخر وہاں اس حق و صداقت کی منادی کی جائے گی کہ ابدی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھے خدائے واحد برحق اور کیسوں مسیح کو جانیں جسے تو نے بھیجا ہے.(ترجمہ) اس روح فرسا ما حول میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دعوائی مسیحیت کی پہلی کتاب " فتح اسلام میں یہ پیش گوئی فرمائی کہ : "مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے.سو میں صلیبہ توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں.میں آسمان سے اترا ہوں اُن پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کو پورا کرنے کے لیے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اترے ہیں اپنا

Page 103

١٠٣ کام بند نہیں کر سکتے اور اُن کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی میل کچلنے کے لیئے دئے گئے ہیں یا (صفحه ۱۸ طبع اوّل) نیز فرمایا :- چونکہ یہ عاجز راستی اور سچائی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس لیے تم صداقت کے نشان ہر ایک طرف پاؤ گے.وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اترتی اور ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے.یہ تم قرآن شریف سے معلوم کر چکے ہو کہ خلیفہ اللہ کے نزول کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا ضروری ہے تاکہ دلوں کو حق کی طرف پھیریں بھو تم اس نشان کے منتظر رہو.“ (صفحه ۲۲ طبع اول ) حضور ایک شعر میں یہ شفی صداقت بے نقاب کرتے ہیں :.ارى فوج الملائكة الكرام يكفّ المُصطفى اضحى الزمام داعجاز مسیح یں ملائکہ کرام کے لشکر دیکھتا ہوں جن کی باگ ڈور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھے میں دی گئی ہے.اس پیشگوئی کے مطابق احمدیت کی پہلی صدی کے دوران یورپ و امرکریں عیسائیت کی شکست فاش اور دین حق کی فتح و کامرانی کے لیے ایسے ایسے طریق پر نزول ملائکہ ہوا کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اس انقلاب عظیم کی فصیل تو بہت طویل ہے نمونہ چند امور مشتمل ایک مختصر ساخا کہ پیش کرنا کافی ہوگا.اول مغربی محققین کو ۱۹۱۰ ء میں حضرت اقدس مسیح موعود کے سکیچر اسلامی

Page 104

۱۰۴ پادریو اصول کی فلاسفی کے انگریزی ایڈیشن کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا.وہ اب تک یاد ریو کے فرضی اسلام میں کو تحقیقی اسلام مجھے بیٹھے تھے.اس کتاب انہوں نے پہلی دین حق کی خوشنما اور روح پرور تصویر دیکھی تو وہ حیران و شمندر رہ گئے اور دریا ذہن میں سنجیدگی سے قرآنی حقائق سمجھنے کا رحجان شروع ہوا.کاونٹ ٹالسٹائی نے کہا :- یہ خیالات نہایت گہر.یہ اور بیچتے ہیں.ا تھیا سا فی کل ایک نوٹس“ (مارچ ۱۹۱۲ء) نے لکھا :- "Admirably calculated to appeal to the student of compa- rative religion, who will find exactly what he wants to know as Mohammedan doctrines on souls and bodies, divine existence, moral law and much else".Theosophical Book Notes: قابل تعریف جچا تلا انداز جو موازنہ نا ہر کے طالب علم کو بہت متاثر کرتا ہے اس کتاب میں اُسے وہ سب کچھ فراہم ہو جاتا ہے جو وہ شریعت محمدیہ کی روشنی میں روح جسم، روحانی زندگی اخلاقی قوانین اور دیگر بہت سے متعلقہ امور کے بارے میں جاننا اور چاہتا ہے.۲ - دمی انگلش میل ( مورخه ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۱ء) نے یہ رائے دی کہ :- "A summary of really Islamic Ideas".The English Mail: حقیقی اسلامی نظریات کا خلاصہ -

Page 105

1.0 وی پوسٹل ٹائمز اینڈ مرزا نے تبصرہ کیا کہ : "Clearly it is no ordinary person who thus addresses himself to the West".The Bristol Times and Mirror: یقینا وہ شخص جو اس رنگ میں یورپ و امریکہ کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں.ہم " دی ڈیلی نیوز رشکا گو) نے ۱۲ مارچ ۱۹۱۷ء کی اشاعت میں لکھا :- "The devout and eamest character of the author is appa- rent." The Daily News, Chicago:-- مصنف کا نہایت پر خلوص اور حقیقت پر مبنی کردار بالکل عیاں ہے.۵ دی اینگلو بیلجین ٹائمز ( برسلز) نے کتاب پر درج ذیل خیالات رضائیا."The Teaching of Islam” turns out a wonderful commentary on the Quran (the Muslim Scripture) itself.The author's method has a further moral, and this is one which, to our mind, all writers on religion will do well to consider.It is that a religious treatise should be affirmative rather than negative in character.It should insist on the beauties of one system rather than on the defects of another."The Teachings of Islam" demonstrates the principle in a pre-eminent degree, and the result is that the author has been able, without being in the least bitter towards any non-Muslim system, to guide the reader to an appreciation of Muslim fundamen- tals such as would have been impossible otherwise.The book rings with sincerity and conviction." The Anglo-Belgian Times, Brussels:- نے بحوالہ ریویو آف ریلیجز انگریزی قادیان جولائی ۱۹۱۲ صفحه ۲۹-۲۹۷ - پیک آف اسلام سر ورق ۳۲ طبع دہم نامشر انجمن ترقی اسلام سکندر آباد دکن -

Page 106

1.4 ٹیچنگ آف اسلام مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن مجید کی نہایت عمدہ تفسیر ہے مصنف کا اسلوب بیان ایک مزید اخلاقی معیار قائم کرتا ہے جسے ہماری رائے میں مذہب پر قلم اٹھانے والے تمام مصنفین کو پیش نظر رکھنا چاہئیے.جو یہ ہے کہ اک نا ہی چینیف کا انداز منفی نہیں بلکہ مثبت ہونا چاہیے اور اسے ہر نوع کی خوبیاں واضح کرنا چاہیں نہ کہ محض دوسروں کی خامیاں.یہ اصول کتاب ٹیچنگز آف اسلام نہایت واضح طور پر قائم کرتی ہے جس کی بناء پر اس کا مؤلف، قاری کو اسلام کے بنیادی اصولوں کی ستائش کی ترغیب دلانے کی خاطر کسی غیر مسلم نظام کے خلاف تلخ رویا اختیار نہیں کرتا.اور یہ بات کوئی اور طرز بیان اختیار کرنے سے مکن نہ تھی.الغرض یہ کتاب خلوص اور حق الیقین کا مرقع ہے.دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ثابت کیا کہ موجودہ عیسائی مذہب کا موجد پولوس ہے.( الحکم.سارا پریل ۶۱۹۰۲ صفحه ۷) یورپ صدیوں سے عیسائیت کا گہوارہ بنا ہوا ہے اور کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں ہی نظریاتی کشمکش کے باوجود پولوس کو شیح کا رسول اور ترجمان یقین کرتے ہیں لیکن حضرت سیح موعود کے علم کلام اور احمدمی مجاہدین کی مساعی کے نتیجہ میں اس تثلیت کدہ کے قلب سے یہ تحریک اُبھر رہی ہے کہ موجودہ عیسائیت کا باقی پولیس ہے.حضرت یوں مسیح کا اس سے کوئی تعلق نہیں.چنانچہ زیور یونیورسٹی میں دینیات کے پروفیسر ڈاکٹر آئلڈ میٹر (Dr.Annold Meyer, Professor of Theology, Zurich Univer- sity).h عیسائیت کا مطالعہ کرنے کے بعد ٹھیک اس نتیجہ پر پہنچے ہیں چنانچ آپ لکھتے ہیں.

Page 107

10 WHO FOUNDED CHRISTIANITY? "If by Christianity we understand faith in Christ as the heavenly Son of God, who did not belong to earthly hum- anity, but who lived in the Divine likeness and glory, who came down from Heaven to earth, who entered humanity and took upon himself a human form through a virgin, that he might make propitiation for men's sins by his own blood upon the Cross, who was then awakened from death and raised to the right hand of God, as the Lord of his own people, who believe in him, who hears their prayers, guards and leads them, who, moreover dwells and works personally in each of them, who will come again with the clouds of Heaven to Judge the world, who will cast down all the foes of God, and will bring his own people with him unto the home of heavenly light so that they may become like His glorified body-IF THIS IS CHRISTIANITY, THEN SUCH CHRISTIANITY WAS FOUNDED BY ST.PAUL AND NOT BY OUR LORD”.(Jesus or Paul, p.122) عیسائیت کی بنیاد کس نے رکھی ؟ اگر ہم عیسائیت سے مراد مسلح پر ایمان بحیثیت خدا کے آسمانی بیٹے سے لیں جس کا ارضی انسانیت سے کوئی تعلق نہیں الیکن جس نے خدا کی مشابہت اور خدائی شان کے ساتھ زندگی گزاری، جو آسمان سے زمین پر اترا جس نے ایک کنواری کے وسیلہ سے اپنی مرضی سے انسانی شکل و صورت اختیار کی تا انسانوں کے گناہوں کا کفا صلیب پر اپنے خون سے ادا کر سکے جیسے مرنے کے بعد زندہ کیا گیا اور پھر اپنے شاگردوں کے خداوند کی حیثیت سے خدا کے داہنے ہاتھ جا بجھا اور جو ائی پر ایمان رکھتے ہیں وہ اُن کی دُعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے؟ اُن کی حفاظت اور رہنمائی کرتا ہے.مزید برآں جو اُن (شاگردوں کے

Page 108

I-A دلوں میں قیام کرتا ہے اور ذاتی طور پر ہر ایک کے وجود میں کارفرما ہے، جو آسمانی بادلوں کے ساتھ زمین کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیئے دوبارہ جلوہ گر ہو گا.جو خدا کے سب دشمنوں کو غمزدہ کر دے گا او اپنے ساتھ اپنے شاگردوں کو آسمانی نور کے جلو میں لائے گا تا وہ اس کے نورانی وجود جیسے بن جائیں اگر یہ عیسائیت ہے تو یقیناً اسے سینٹ پال نے قائم کیا ہے نہ کہ ہمارے آقا (یسو سیح) نے سومر ظہور احمدیت کے بعد مستشرقین یورپ کے خیالات میں زبر دست تبدیلی واقع ہو چکی ہے.قبل ازیں وہ مدت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نہایت بے باکی سے ہرزہ سرائی میں سرگرم تھے اور اُن کی دریدہ دہنی انتہاء تک پہنچ گئی تھی.اور وہ اسلام کو خونی مذہب قرار دیتے تھے اور اس کی اشاعت کو تلوار کا مرہون منت جانتے تھے مگر بیسویں صدی میں وہ برملا اعتراف کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بے مثال شخصیت اور محسن انسانیت ہیں اور اسلام آزادی فکر اور رواداری کا علمبردار نہ ہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نا پاک الزامات محض تعصب کا نتیجہ ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں.اس انقلابی رجحان کی بہترین مثال نیپلز یونیورسٹی میں عربی کی پروفیسر و گلیری کی کتاب "اسلام پر ایک نظر (APOLOGIA DELL ISLAMISHI) ہے جو پہلی دفعہ ۱۹۲۵ء میں اطالوی زبان میں چھپی.بعد ازاں الڈو کیلی LAURA VECCI A VEGLIE Rid

Page 109

1-4 (ALDO CAS ELLI) ایسے فاضل اور مشہور ادیب نے اس کا انگریزی میتی جماعت کیا جسے ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر ایم اے پی ایچ ڈی نے احمد میشن و انگلش سے شروع ۱۹۵۷ء میں شائع کیا.پیش لفظ حضرت چو ہدری محمد ظفراللہ خاص بالحب حج عالمی عدالت نے رقم فرمایا.اگست ۱۹۵۷ء میں ما ہرلسانیات محترم شیخ محمد حد صاحب نظر ایڈو کیٹ د امیر جماعت احمد به ضلع فیصل آباد) کے قلم سے اس کاشتہ اور دلنشیں انداز اردو ترجمہ ہوا جسے مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے اپنے مشہور سائہ الفرقان دستمبر اکتوبر ۱۹۵۷ء) میں پہلے بطور ضمیمہ سپرہ اشاعت کیا پھر اسے منتقل رسالہ کی صورت میں چھپوا دیا.جناب شیخ محمد احمد صاحب منظر نے ترجمہ کتاب سے قبل" تعارف کے زیر عنوان لکھا ” اس کتاب کی دلآویزی معنی آفرینی، اختصار اور جامعیت، وسعت نظر اور انصاف پسندی اپنی نظیر آپ ہے اور ہماری تعریف و توصیف سے مستغنی یا (صفحہ ۷) اس کتا کے انگریزی ترجمہ نے عرب حلقوں میں دھوم مچادی.اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر دنیائے عربکے ممتاز اہل قلم اور دیں میرا لبعلبکی نے اسے عربی زبان میں منتقل کیا جو حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے عربی پیش لفظ کے ساتھ دار المعلم للملايين، بیروت نے شائع کیا.کتاب کا یہ عربی ایڈیشن دفاع عن الاسلام کے نام سے چھپا اور ہاتھوں ہاتھ بک گیا.۱۹۸۱ء تک اس کے پانچ ایڈیشن چھپ چھلکے ہیں.ڈاکٹرو کلیر کو اگر یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انہوں نے اسلام اور آنحضرت عنوان : AN INTERPRETATION OF ISLAM

Page 110

١١٠ صل اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں ایک مستقل کتاب تصنیف کی تو برطانیہ کے عظیم مفکر جارج برناڈشا ( G.SHAH) کا نام اس لیے ہمیشہ یادر کھا جائے گا کہ انھوں نے پادریوں کی اسلام دشمنی کے خلاف زبردست صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے لکھا:.(G.B.SHAH) "The medieval ecclesiastics, either through ignorance or bigo- try painted Muhammadanism in the darkest colours.They were, in fact, trained to hate both the man Mohammad and his religion.To them Muhammad was.anti-Christ.I have studied him, the wonderful man, and in my opinion, far from being an anti-Christ, he must be called the saviour of humanity.I believe if a man like him were to assume dictatorship of the modern world, he would succeed in solving its problems in a way that would bring in the much needed peace and happiness.Europe is beginning to be enamoured of the creed of Muhammad.In the next century it may go still further in recognising the utility of that creed in solving its problems and it is in this sense that you must understand my prediction.Already, even at the present time, many of my own people and of Europe as well have come over to the faith of Muhammad.And the Islamisation of Europe may be said to have begun".(On Getting Married By George Bernard Shaw) وو ازمنہ وسطیٰ کے علماء نے جہالت یا تعقیب کی بناء پر اسلام کو نہایت بھیانک رنگ میں پیش کیا تھا.دراصل ان کی تربیت ہی اس لہنگ میں کی جاتی تھی کہ وہ محمد اور ان کے مذہب سے نفرت کریں.اُن کے نزدیک محمد مسیح کے مخالف تھے.میں نے محمد (صلعم) کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے وہ مجیب شان کا انسان ہے اور میری رائے میں وہ ہر گز میسیج کے خلاف نہیں.انہیں انسانیت کا نجات ہند

Page 111

کھنا چاہیے.میرا ایمان ہے کہ اگر ایسا شخص موجودہ زمانے میں اقتدار سنبھالے تو وہ موجودہ مسائل ایسے رنگ میں حل کر سکتا ہے کہ دنیا امن اور مسرت سے معمور ہو جائے گی.ب یورپ اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے لگ گیا ہے اور اگلی صدی میں یورپ اپنے مسائل کو حل کرنے میں اس دین کی افادیت کو اور بھی زیادہ سلیم کرنے کا اہل ہوگا.یہی وہ نقطہ نگاہ ہے جس کی روشنی میں میری اس پیشگوئی کو سمجھنا چاہیئے.آجکل بھی میرے ملک اور یورپ کے بہت سے باشند سے اسلام کو قبول کر چکے ہیں اور یورپ کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی مہم کا آغاز ہو چکا ہے یہ بعض دیگر مستشرقین کے تاثرات ا لینارڈ (URG LEONARD, ARTHURG) لکھتا ہے :.ر حضرت محمد عظیم محض اس لیئے ہیں کہ وہ ایک روحانی پیشوا تھے.انہوں نے ایک عظیم ملت کو جنم دیا.اور ایک عظیم سلطنت قائم فرمائی.بلکہ ان سب سے آگے بڑھ کر یہ کہ ایک عظیم عقیدہ کا پرچار کیا.مزید بال اس لیئے بھی عظیم تھے کہ وہ اپنے آپ سے بھی نکلس و وفادار تھے، اپنے امتیوں سے بھی مخلص تھے اور اور اپنے اللہ سے بھی مخلص و وفادار تھے.ان باتوں کو سلیم کرتے ہوئے یہ ماننا پڑتا ہے کہ اسلام ایک کامل سچا مذہب ہے، جو اپنے

Page 112

۱۱۲ ماننے والوں کو انسانیت کی تاریک گہرائیوں سے نکال کر نور و حققت کی رفعتوں سے ہمکنا نہ کرتا ہے." (LEONARD, MAJORA.G.ISLAM - HER MORAL AND SPIRITUAL VALUE LONDON 1927 P.26-217 (CARLYLE THOMAS) ۲- کارلائل " لکھتا ہے :.عرب قوم کو یہی نور ظلمتوں سے نکال کر روشنی میں لایا.عرب کو اسی کے ذریعہ پہلے پہل زندگی ملی.بھیڑوں بکریوں کے چرانے والے لوگ جو ازل سے صحراؤں میں بے کھٹکے، بے روس ٹوک گھومتے پھرتے تھے کہ ایک امیر و پیغمبر ان کی طرف بھیجا گیا.ایک پیغام کے ساتھ ، جس پر وہ ایمان لا سکتے تھے.اور پھر سب نے دیکھا کہ جوکسی کے نزدیک قابل اعتناء نہ تھے، دُنیا بھر کے لیے قابل ذکر بن گئے " (CARLYLE, THOMAS, THE HERO AS PROPHET ISLAM SERVICE LEAGUE, BOMBAY P.23,24 ہے :.- ایچ جی ویلینه (WELLS.H.G لکھتا.یر محمد صلی الہ علیہ وسلم) کے صدف کی دلیل قاطع ہے کہ ان سے قربت رکھنے والے لوگ اُن پر ایمان لائے، حالانکہ وہ اُن کے اسرار رموز سے پوری طرح واقف تھے اور اگر انہیں اُن کی صداقت میں ذرہ برابر بھی شبہ ہوتا تو ان پر وہ ہرگز ایمان نہ لاتے " کر یا باشم زکریا (بحوالہ - ج - ویلیز) ص ۲۷) ۴.ڈیلیونٹگمری واٹ ڈبلیو منٹگمری (WATT - W.MONTGOMARY) لکھتا ہے :- محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر کار لائل کے خطبات کے بعد سے

Page 113

١١٣ مغرب کو یہ اچھی طرح معلوم ہو گیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ کی سنجیدگی پر یقین کرنے کی معقول وجوہات موجود ہیں.اپنے ایمان فر عقیدہ کی خاطر مظالم سہنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ، ان پر اعتقاد رکھنے والوں کا اعلیٰ اخلاق و کردار اور ان کی طرف امام و پیشوا کی حیثیت سے دیکھنا، پھر آخر کار ان کی عظمتیں اور کامیابیاں ، یہ سب دلیل ہیں اُن کے اخلاص کامل کی.اس لیے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو ایک مدعی کا ذب ( IM POSTER) قرار دیتے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اور پیدا ہو جاتے ہیں.مزید برآں ، تاریخ کی کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے جسے مغرب میں اس قدر کم سراہا گیا ہو جتنا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم کو.اس لیے اگر ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کوکچھ بھی سمجھنے کی نیت رکھتے ہوں، تو ضروری ہے کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے مشن میں دیانت دار قرار دیں اور مقصد سے اُن کے خلوص اور وابستگی کے قائل ہو جائیں.اگر ہم انغلطیوں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں جو اپنے ماضی سے ہم نے ورثہ میں پائی ہیں تو ہمیں ہر معاملہ میں ان کے خلوص اور دیانت کو ہر حال پیش نظر رکھنا ہو گا جب تک کہ کوئی الزام ان کے خلاف پوری طرح ثابت نہ ہو جائے " (WATT.W.MONT GOMARY.MUHAMMAD AT MECCA, OXFORD, 1953, P52) حالات، مواقع اور وقت سر نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ساتھ دیا اور مختلف بعوامل نے مل کر اُن کی زندگی میں کامیابیوں

Page 114

۱۱۴ کی اور ان کے بعد اسلام کی توسیع وترقی کی راہ ہموار کی...محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں صفات و کمالات کا جو عین امتزاج موجود تھا اُس کی تین جہتیں تھیں.ایک نبوت کا فیضان.....دوسرے سیاست و حکمرانی میں اُن کی بصیرت.....اور تیسرے ایک کے ظلم کی حیثیت سے اُن کی مہارت و حذاقت اور تمام مناصب پر اہل ترین افراد کا انتخاب...جب کوئی اسلام کی ابتدائی تاریخ اور سیرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر جس حد یک نظر ڈالتا ہے وہ اُسی حد تک اُن کی کا میا بیوی اور کامرانوں پر حیران و ششدر رہ جاتا ہے.حالات نے انہیں کس درجہ سازگاری عطا کی.اس طرح کے مواقع تو کسی کو شاذ و نادر اصل ہوتے ہیں.بالکل وقت کی آواز بن کر ایک پیغمبر اور ایک منتظم کی حقیقتیں انہیں اگر حاصل نہ ہوتیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے پیچھے ایک خدا پر انہیں غیر متزلزل اعتقاد نہ ہوتا ، اور اگر وہ اس قین محکم سے بہرہ ور نہ ہوتے کہ وہ خدا کے فرستادہ ہیں تو شاید تاریخ انسانیت کا ایک اہم اور قابل ذکر باب رقم ہو جانے سے رہ جاتا.(WATT.W.MONTGOMERY - MOHAMMAD PROPHET AND STATESMAN OXFORD UNIVERSITY PRESS LONDON 1981 P.236-237) ه ما خود نقوش رسول نمبر جلد ۱ صفحه ۵۴۰

Page 115

۱۱۵ حضرت مسیح موعود نے ۰۹۳ار میں پیش گوئی فرمائی تھی سے وَ وَ اللَّهِ يُثْنِي فِي الْبِلادِ إمَامُنَا اِمَامُ الآنَافِ الْمُصْطَفِى الْمُتَخَيَّرُ (کرامات الصادقين) اور اللہکی قسم ملکوں میں ہمارے امام کی تعریف کی جائے گی جو ساری دنیا کا امام ہے برگزیدہ اور چین ہوا.چهارم - حضرت مسیح موعود نے عہد حاضر میں سوتے پہلے یہ نکتہ پیش فرمایا کہ مذہب ندا کا قولا ہے اور سائنس اس کا فعل اس لیے ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہو سکتا.مشہور برطانوی سیاح ، ہیئت دان اور لیکچرار مسٹر کلیمنٹ ریگ نے مئی ۱۹۰۸ء میں دو بار حضرت اقدس سے ملاقات کی اور گناہ، نجات ، روحوں سے طلاقات، ذات و صفات باری ، ڈارون کا نظریہ ارتقاء، تاثیر اجرام سماوی وغیرہ امور پر کئی سوالات کیے.اس ملاقات میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی موجود تھے.آپ کا بیان ہے کہ مٹر کلیمنٹ حضور کے تسلی بخش اور بصیرت افروز ہوا بات سے بہت خوش ہوئے اور کامل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں تو خیال کرتا تھا کہ سائنس اور مذہب میں بڑا تضاد ہے بعیسا کہ عام طور سے علماء میں مانا گیا ہے مگر آپ نے تو اس تضاد کو بالکل اٹھا دیا ہے.حضور نے فرمایا :- د مینی تو ہمارا کام ہے اور میں تو ہم ا ا ہت کر رہے ہیں کہ مذہب لہ بانی احمد نیشن امریکہ.

Page 116

114.اور سائنس میں بالکل اختلاف نہیں بلکہ مذہب بالکل سائنس کے مطابق ہے اور سائنس خواہ کتنی ہی عروج پکڑ جاوے مگر قرآن کی تعلیم اور اصول اسلام کو ہرگز ہرگز نہیں جھٹلا سکے گی " اختبار الحکم قادیان ۲۰ مئی ۱۹۰۸ء ملفوظات جلد دهم ۴۳۵ مطبوعه جنوری ۶۱۹۶۷ ربوده) پروفیسر ریگ نے بعد میں اسلام قبول کر لیا اور مرتے دم تک نہایت ثابت قدمی سے عقیدہ پر قائم رہے.(ذکر حبیب صفحہ ۲۲۲ مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) یورپ کے ممتاز سائنسدان چانس اپنے ٹاونسن صاحب میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں طبیعیات کے پروفیسر ہیں ۱۹۶۴ء میں طبعیات میں ہی اُن کو نوبل پرائز کا اعزاز ملا.مسٹر چارلس اپنے ایک فکر انگیز مقالہ بعنوان مذہب اور سائنس مستقبل میں لکھتے ہیں میں لکھتے ہیں :- میرے نزدیک سائنس اور مذہب دونوں کی حیثیت آفاقی ہے اور بنیادی طور پر دونوں بے حد مشابہ ہیں " اگر سائنس و مذہب وسیع طور پر اس قدر مماثل ہیں اور اپنے خود ساختہ تنگ دائروں تک محدود نہیں تو کبھی نہ کبھی وہ واضح طور پر ایک دوسرے میں مدغم ہو جائیں گے.مجھے یقین ہے کہ ان دونوں کا اتحاد نا گزیر ہے.کیونکہ دونوں کا ئنات کے فہم کے لیے انسان کی کوششوں کے منظر ہیں اور نمائی طور پر دونوں کا موضوع ایک ہی ہے.جوں جوں ان میں سے کسی ایک دائرے میں ہمارا علم بڑھتا جائے گا اُسی قدر دونوں کی بانہی قرابت ناگزیر ہوتی جائیگی.

Page 117

114 اس اتحاد کے وجود میں آتے آتے سائنس غائباً انیسویں صدی کی طرح کے کئی زبردست انقلابات سے گزر چکا ہوگا.اس وقت سائنس کی ماہیت وہ ہوگی جو کا آج کے سائنسدان عموماً تصور بھی نہیں کر سکتے.غالباً مذہب کے بارے میں ہمارے فہم میں بر دست ترقی اور تبدیلی آچکی ہو گی مگر دونوں کا اتحاد تو بالاخر ہونا ہی ہے اور اس اتحاد کے ذریعے دونوں ایک نئی توانائی سے معمور ہو جائیں گے ہے (ترجمہ) نوبل انعام یافتہ سائنسدان مدتوں کی ریسرچ کے بعد بی حقیقت تک آج پہنچے ہیں اس کا مکمل انکشاف حضرت مسیح موعود کم و بیش ایک صدی بیشتر فرما چکے ہیں اور حق یہ ہے کہ احمدیت کے مایہ ناز فرزند اور عہد حاضر کے شہرہ آفاق سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی جدید تحقیق نے اس تھیوری پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور وہ وقت دور نہیں جبکہ دنیا بھر کے سائنسدان با لآخر تسلیم کر ینگے که مذهب خدا کا قول ہے اور سانس اُس کا فعل " پنجم.بر صغیر کےمشہور مسلمان لیڈر سرسید احمدخان بانی علی را تحریک مغربی فلسفہ سے بہت مرغوب تھے اور اپنی تفسیر القرآن میں انہوں نے مغرب کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے.حضرت مسیح موعود نے اس معذرت خواہانہ روش کے خلاف جہاد کرتے ہوئے یہ پر شوکت اور پر جلال پیش گوئی فرمائی کہ :- اس زمانہ میں جو مذ ہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی نے مقالہ کا اردو ترجمہ جناب عبد القدی کیم کے قلم سے سال پرانے راہ کراچی (اپریل ۱۹۶۷ء صفحہ ۱۱-۲۵) میں شائع شدہ ہے.

Page 118

HA ہو رہی ہے اُس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہیے کہ اب کیا کریں.یقینا سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں.بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقبت دیکھلا چکا ہے.یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلت کے ساتھ پسا ہوگا اور اسلام فتح پائیگا حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں ، کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجا مکار ان کے لیے ہر میت ہے.میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے.جس علم کی رو سے کہیں کہ سکتا ہوں که اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تین بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کردے گا.اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ ور طبیعی کی طرف سے ہو رہے ہیں.اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اُس کی فتح کے نشان نمودار ہیں.یا قبال روحانی ہے.در فتح بھی روحانی تا باطل معلم کی مخالفانہ طاقتوں کو اس کی الہی طاقت ایسا ضعیف کرے کہ کالعدم کر دیو سے " نیز فرمایا :- " یاد رہے کہ قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی تولین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا.

Page 119

119 وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اُس کو پاش پاش کر دے گا.اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہو جائے گا.پھر آپ کو دب کر ضلع کرنے کی کیوں فکر پڑ گئی ہے آئینہ کمالات اسلام حاشیه صفحه ۲۵۴ تا ۲۵۰ مطبوعه ۶۱۸۹۳) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود و صدمی کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہو رہی ہے.چنانچہ ایک غیر مسلم فرانسیسی محقق ڈاکٹر موریس بوکلائیے (20) (MAURICE BUCAILLE نے بائبل، قرآن اور سائنس THE BIBLE) کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی ہے THE QURAN AND SCIENCE) : جس نے دنیا بھر کو چونکا دیا ہے.اس تصنیف میں انہوں نے سائنس کی ثابت شدہ صداقتوں کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ جہاں بائبل تضادات، ناممکنات اور تناقضات کا ملغوبہ ہے وہاں قرآنی بیانات سائنس کے جدید انکشافات کے عین مطابق ہیں.جو اس کے وحی آسمانی ہونے کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے.چنانچہ ڈاکٹر مورہ میں بو کلا ئیے پائیل اور قرآن کا سائنسی انداز میں تقابلی مطالعہ اور موازنہ کرنے کے بعد آخری فصل میں لکھتے ہیں :- General Conclusions The Old Testament represents a vast number of literary works written over a period of roughly nine hundred years.It forms a highly disparate mosaic whose pieces have, in the course of centuries, been changed by man.Some parts were added to what already existed, so that today it is sometimes very difficult indeed to identify where they came from originally.

Page 120

۱۲۰ Through an account of Jesus's words and deeds, the Gospels were intended to make known to men the teachings He wished to leave them on completion of His earthly mission.Unfortunately, the authors of the Gospels were not eyewitnesses of the data they recorded.They were spokes- men who expressed data that were quite simply the infor- mation that had been preserved by the various Judeo-Chris- tian communities on Jesus's public life, passed down by oral traditions or writings which no longer exist today, and which constituted an intermediate stage between the oral tradition and the definitive texts.This is the light in which the Judeo-Christian Scriptures should be viewed today, and-to be objective-one should abandon the classic concepts held by experts in exegesis.The inevitable result of the multiplicity of sources is the existence of contradictions and oppositions: many ex- amples have been given of these.The authors of the Gospels had (when talking of Jesus) the same tendency to magnify certain facts as the poets of French Medieval literature in their narrative poems.The consequence of this was that events were presented from each individual narrator's point of view and the authenticity of the facts reported in many cases proved to be extremely dubious.In view of this, the few statements contained in the Judeo-Christian Scriptures which may have some-thing to do with modern knowledge should always be examined with the circumspection that the questionable nature of their authenticity demands.Contradictions, improbabilities and incompatibilities with modern scientific data may be easily explained in terms of what has just been said above.Christians are nevertheless greatly surprised when they realize this, so great have been the continuous and far-reaching efforts made until now by many officia! commentators to camouflage, under cunning dialectical acrobatics orchestrated by apologetic lyricism, the very obvious results of modern studies.A case in point are the genealogies of Jesus given in Matthew and Luke, which

Page 121

were contradictory and scientifically unacceptable.Examples have been provided which reveal this attitude very clearly.John's Gospel has been given special attention because there are very important differences between it and the other three Gospels, especially with regard to the fact that his Gospel does no describe the institution of the Eucharist: this is not generally known.The Qur'anic Revelation has a history which is funda- mentally different from the other two.It spanned a period of some twenty years and, as soon as it was transmitted to Muhammad by Archangel Gabriel, Believers learnt it by heart.It was also written down during Muhammad's life.The last recensions of the Qur'an were effected under Calif Uthman starting some twelve years after the Prophet's death and linishing twenty-four years after it.They had the advant- age of being checked by people who already knew the text by heart, for they had learnt it at the time of the Revelation itself and had subsequently recited it constantly.Since then, we know that the text has been scrupulously preserved.It does not give rise to any problems of authenticity.The Qur'an follows on from the two Revelations that preceded it and is not only free from contradictions in its narrations, the sign of the various human manipulations to be found in the Gospels, but provides a quality all of its own for those who examine it objectively and in the light of science i.e.its complete agreement with modern scientific data.What more, statements are to be found in it (as has been shown) that are connected with science: and yet it is un- thinkable that a man of Muhammad's time could have been the author of them.Modern scientific knowledge therefore allows us to understand certain verses of the Qur'an which, until now, it has been impossible to interpret.The comparison of several Biblical and Qur'anic narra- tions of the same subject shows the existence of fundamental differences between statements in the former, which are scientifically unacceptable, and declarations in the latter which are in perfect agreement with modern data; this was

Page 122

۱۲۷ the case of the Creation and the Flood, for example.An extremely important complement to the Bible was found in the text of the Qur'an on the subject of the history of the Exodus, where the two texts were very much in agreement with archaeological findings, in the dating of the time of Moses.Besides, there are major differences between the Qur'an and the Bible on other subjects: they serve to dis- prove all that has been maintained-without a scrap of evidence on the fact that Muhammad is supposed to have copied the Bible to produce the text of the Qur'an.When a comparative study is made between, on the one hand, the statements connected with science to be found in the collection of hadiths, which are attributed to Muhammad but are often of dubious authenticity (although they nevertheless reflect the beliefs of the period), and on the other, the data of a similar kind in the Qur'an, the disparity becomes so obvious that any notion of a common origin is ruled out.In view of the state of knowledge in Muhammad's day, it is inconceivable that many of the statements in the Qur'an which are connected with science could have been the work of a man.It is, more-over, perfectly legitimate, not only to regard the Qur'an as the expression of a Revelation, but also to award it a very special place on account of the guarantee of authenticity it provides and the presence in it of scientific statements which, when studied today, appear as a challenge to human explanation.” (P; 220-222) ترجمہ : عام نتائج اس مطالعہ کے اختتام پر ایک حقیقت جو نہایت واضح طور پر سامنے آتی ہے یہ ہے کہ صحت مقدسہ کے متون پر مغرب میں جو غالب رائے اس وقت دکھائی

Page 123

۱۲۳ دیتی ہے وہ شکل سے حقیقت پر مبنی قرار دی جاسکتی ہے.ہم نے اُن حالات این نمانوں اور ان طریقوں کا جائزہ لیا ہے جن میں عہد نامہ قدیم ان جیل اور قرآن کے عناصر کو جمع کیا گیا اور تحریر میں لایا گیا.وہ حالات جو ان الہامی صحیفوں کے وجود میں آنے کے وقت تھے آپس میں ایک دوسرے سے بڑی حد تک مختلف تھے جو ایک ایسی حقیقت ہے کہ ان متون اور ان کے مضامین کے بعض پہلوؤں کے استفاد سے اور متعلق بے انتہا را ہمیت کی حامل ہے.محمد نامه قدیم ایسی متعدد ادبی تحریروں پر مشتمل ہے جو تقریباً نو سو سال کی مدت میں لکھی گئیں.یہ ایک انتہائی تغیر یکساں اور مختلف النوع پچی کاری کا کام ہے جس کے ٹکڑوں کو صدیوں کے دوران انسان نے بدل دیا ہے.جو چیز پہلے سے موجود تھی اس میں کچھ حصوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے.چنانچہ آج یہ بتانا بعض اوقات نہایت مشکل ہو جاتا ہے کہ ابتداء وہ کہاں سے آئے تھے.انا جیل کا مقصد حضرت یسوع مسیح کے اقوال و افعال کے ذریعہ لوگوں کو وہ تعلیمات پہنچانا تھا جو وہ اپنی حیات دنیوی کے مشن کی تکمیل کے وقت لوگوں کو دنیا چاہتے تھے.بدقسمتی سے اناجیل کے مصنفین ان معلومات کے جو انہوں نے درج کیں عینی شاہد نہیں تھے وہ صرف ترجمان تھے جنہوں نے ان معلومات کا اظہار کیا جو سیدھے طریقے پریسی خبر تو ہیں جن کو مختلف بیوی، عیسائی فرقوا ن حضرت یسوع مسیح کی قومی زندگی سے تعلق محفوظ کیا تھا اور جو زبانی روایت اور ایسی تحریروں کے ذریعہ منتقل ہوئی تھیں جن کا آج کوئی وجود نہیں ہے اور جو بانی دایت اور قطعی متون کے بیچ میں ایک درمیانہ درجہ تھا.آج اس روشنی میں یہودی عیسائی صحف کا جائزہ لینا چاہیے اور معروضی طریقہ اختیار کرنے کے لیے وہ کلاسیکی تصور ترک کر دینا چاہئے تو ماہرین نے تفاسیر میں پیش کیا ہے.

Page 124

ذرائع کی کثرت کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ تناقضات اور اختلافات پیدا ہو گئے ہیں ان کی بہت سی مثالیں پیش کی جاچکی ہیں.اناجیل کے مصنفین کا (جب یسوں میسج کے متعلق گفتگو کرتے ہیں، بعض واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں وہی رویہ ہوتا تھا جو اپنی بیا نیہ نظموں میں فرانسیسی متوسط دور کے ادب کے شعر کا ہوتا تھا.نتیجہ اس کا یہ تھا کہ واقعات ہر انفرادی بیان کرنے والے کے نقطہ نظر کو ظاہر کرتے تھے اور اس لیے اکثر حالتوں میں جو واقعات بیان کیئے جاتے تھے اُن کا استناد بے انتہا مشکوک وشتہ ہو گیا ہے.اس چیز کے پیش نظر یہودی عیسائی صحیفوں میں سے اُن چند بیانات کا جو جدید علومات سے کچھ علاقہ رکھتے ہیں جائزہ ہمیشہ اس حزم و احتیاط سے لینا چاہیے جو ان کے استناد کی مشتبہ نوعیت کا اقتضا ہے.تضادات، ناممکنات اور تناقضات جو جدید سائنسی معلومات سے ہوتے ہیں اُن کو اُن الفاظ میں یہ آسانی بیان کیا جا سکتا ہے جن کے بارے میں صدر میں بتایا جا چکا ہے لیکن عیسائیوں کو زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب وہ راس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ جدید مطالعہ کے بہت سے بدیہی نتائج میں دھوکہ دینے کی غرض سے متعدد سر کاری شارحین کی ایسی مسلسل اور دور رس کوششیں رہی ہیں کہ انہوں نے عذرخواہانہ ترنم ریزی سے نغمہ کے سروں کو ترتیب دے کر بڑی چال کی کے ساتھ منطقی نوعیت کے مداریوں کا کردارادا کیا ہے.اس کی واضح مثال حضرت یسوع مسیح کے وہ نسب نامے ہیں جو متی اور لو قانے دیتے ہیں جن میں باہم تضاد ہے اور جو سائنسی اعتبار سے ناقابل قبول ہیں.بعض ایسی مثالیں پیش کی گئی ہیں جن سے اس رویہ کا صاف طور پر اظہار ہوتا ہے.یوحنا کی انجیل پر خصوصی تو یہ دی جانی چاہئیے اس لیے کہ اس میں اور ریاقی تین انجیلوں کے درمیان بڑے

Page 125

۱۲۵ اہم اختلافات ہیں.بالخصوص یہ حقیقت سامنے ہے کہ اس انجیل میں مقدیمی عشائے ربانی کا تذکرہ نہیں ہے.اور یہ بات عام طور پر لوگوں کے علم میں نہیں ہے.نزول قرآن کی ایک تاریخ ہے جو بنیادی طور پر ان دونوں سے مختلف ہے.اس کا پھیلاؤ لگ بھگ میں سال کی مدت پر ہے.جیسے ہی یہ حضرت جبریل کے ذریعہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتا تھا ویسے ہی اہل ایمان اس کو حفظ کر لیتے تھے.پھر اس کو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے دوران ضبط تحریر میں بھی لے آیا گیا تھا.قرآن کریم کی آخر می تنظیمات خلیفہ الرسول حضرت عثمان کے زمانہ میں کی گئیں جس کی ابتداء نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کی رحلت کے بارہ سال بعد در انتها تروریس سال بعد ہوئی.اُس وقت یہ فائدہ حاصل تھا کہ جین لوگوں کو قرآن پہلے ہی سے حفظ یاد تھا اُن سے اس کا موازنہ کر لیا جاتا تھا.کیونکہ انہوں نے بوقت نزول ہی اُس کو یا کر لیا تھا اور بعد میں برابر اس کی تلاوت کرتے رہے تھے.ہمیں معلوم ہے کہ متن کو اسی وقت سے پوری دیانت داری سے محفوظ کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے استناد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.قرآن مجید ان دونوں صحیفوں سے جو اس سے قبل نازل ہوئے تھے بڑھ چڑھک اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے.اور اپنے بیانات کے لحاظ سے تضادات و تناقضات سے پاک ہے جبکہ اناجیل میں انسان کی کارگزاریوں کی علامت پائی جاتی ہے.قرآن کی اُن لوگوں کے لیے جو معروضی طور پر اور سائنسی اعتبار سے اس کا جائزہ لیتے ہیں ایک الگ خوبی ہے.وہ خوبی جدید سائنسی معلومات سے اُس کی کلی طور پر مطابقت ہے.اس سے بھی بڑھ کو جو بات ہے وہ یہ کہ اس میں ایسے بیانات موجود ہیں (جیسا کہ بتایا جا چکا ہے) جو سائنس سے مربوط ہیں.ایسی صورت میں یہ بات ناقابل تصور ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا کوئی شخص اس

Page 126

کا مصنف ہو سکتا.یہی وجہ ہے کہ جدید سائنسی معلومات ہی نے ہمیں قرآن کریم کی بعض آیات کو سمجھنے کا موقع دیا ہے جن کی توضیح کرنا اس زمانہ میں ممکن نہ تھا.بائیل اور قرآن کے ایک ہی مضمون کے کئی بیانات کے موازنہ سے وہ بنیادی اختلافات ظاہر ہوتے ہیں جو اول الذکر کے بیانات کے جو سائنسی اعتبار سے قابل قبول ہیں اور موخرالذکر کے بیانات کے جو جدید معلومات سے ہم آہنگی رکھتے ہیں درمیان دکھائی دیتے ہیں.مثلاً تخلیق اور طوفان عالمگیر کے واقعات ہیں.البتہ بائیل کا ایک انتہائی ضروری تکملہ جو قرآن مجید کے متن میں خروج کی تاریخ کے موضوع پر ہے اثر یاتی تحقیقات کے ساتھ بے انتہاء مطابقت رکھتا ہے.ی تحقیقات حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ کی تعیین سے متعلق ہے.علاوہ ازیں دیگر موضوعات پر قرآن اور بائیل میں بڑے اختلافات ہیں.یہ اختلافات اس دعوئی کو غلط ثابت کر دیتے ہیں میں میں بغیر ذرا سی شہادت کے یہ کہا جاتا ہے کہ حا صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کا متن پیش کرنے کے لیے بائبل کی نقل کر ڈالی.جب سائنس سے متعلق بیانات کا جو ان احادیث کے مجموعہ میں پائے بھاتے ہیں جن کا انتساب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جاتا ہے لیکن جن میں سے اکثر مشتبہ ہیں (حالانکہ وہ اُس دور کے عقائد کی عکاسی کرتی ہیں ، قرآن میں شامل اُسی قسم کی معلومات سے تقابلی موازنہ کیا جاتا ہے تو غیر یکسانیت اس قدر واضح ہوتی ہے کہ ان دونوں کے ایک ہی ماخذ ہونے کا تصور خارج از بحث ہو جاتا ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی معلومات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ بات ناقابل تصور معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کے بہت سے وہ بیانات جو سائنس سے متعلق ہیں کسی بشر کا کام ہو سکتے ہیں.لہذا یہ بات مکمل طور پر سمیع ہے کہ قرآن کو وحی آسمانی کا اظہار سمجھا جائے لیکن ساتھ ہی اُس استناد کے سبب جو اس سے فراہم

Page 127

ہوتی ہے نیز ان سائنسی بیانات کی وجہ سے جن کا آج بھی مطالعہ کرنا بنی نوع انسان کے لیئے ایک چیلنج ہے اس کو ایک انتہائی خصوصی مقام حاصل ہے.ششم صلیبی مذہب کے دوستوں تھے.(۱) حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت (۲) آپ کا زندہ ہو کر آسمان پر جانا.حضرت مسیح موجود کے علم کلام کا یہ زندہ اور محیر العقول معجزہ ہے کہ عیسائی دنیا نے اپنے ہاتھوں سے ان ستونوں کو پیوند خاک کر دیا ہے.چنانم امریکہ کے ایک با انترسیمی ادارہ نے بعد نیا کے مشہور عیسائی سکالرز پر مشتمل تھا کئی برسوں کی تحقیق کے بعد یہ انکشاف کیا کہ مرقس اور لوقا کی وہ آیات جن میں بیچے کے صعود ابی سلام کا ذکر ہے مرا سر وضعی اور جعلی ہیں.امریکی چرچ کی نیشنل کونسل نے اس تحقیق کی بناء پر ایک نیا معیاری اور مستند ترجمه ریوائزڈ سٹینڈرڈ ورشن (REVISED STANDERD VERSION) کے نام سے شائع کیا اور اس میں سے دیگر الحاقی آیات کے علاوہ ان آیات کو بھی بائبل کے متن سے خارج کر دیا جس نے عیسائیت کے تمام حلقوں میں صف ماتم بچھا دی ہے.چنانچہ پاکستان کے بعض مسیحی لیڈروں نے نہایت خوفزدہ ہو کر کھا ہے کہ: مترجمین کے سامنے ایک ہی مقصد تھا کہ جہاں تک ہو سکے کلام مقدس میں سے وہ تمام آیات حذف کر دی جائیں جن سے خداوند یسوع مسیح کا تختم الوہیت ، کفارہ مردوں میں سے زندہ ہونا ، اور آسمان پر صعود فرمانا ثابت ہوتا ہے تاکہ خداوند یسوں نسیج کی دوبارہ آمد مشکوک ہو جائے اور خدا وند کو وہی حیثیت حاصل رہے جو دوسرے انبیاء کو حاصل ہے.اور

Page 128

۱۲۸ انہوں نے اس طرح خداوند سیج کی الوہیت اور پاکیزگی اور فوق البشر ہونے کا انکار کیا ہے اور یہ ایک ایسی مذموم عبارت ہے کہ اس کی موجودگی میں تسیحیت کی ساری عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے " ماہنامہ کلام حق گوجرانوالہ بات اپریل ۱۹۷۸ صفحه ۷) موازنہ مذاہب کے مشہور ہسپانوی سکالا فیبر قیصر - A.FABER) KAISER قبر مسیح کی تحقیق کے لیے خود کشمیر گئے اور انتہائی محنت و قابلیت سے قابل قدر تاریخی معلومات فراہم کر کے ایک ضخیم کتاب شائع کی جں کا نام ہی یہ رکھا کہ ( ESUS DIED IN KASHMIR میسوع کشمیری ) فوت ہوئے.ایک برطانوی سیاح میکائیل برک (MICHAEL BURKE ) نے انکشاف کیا ہے کہ ہرات میں انہوں نے ایک قدیم عیسائی فرقہ دیکھا جن کا مذہبی لیڈرا یا بیٹی ہے.اس فرقہ کے لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب سے زندہ اتر آئے اور ہجرت کر کے کشمیر تشریف لے گئے اس لیے آپ عیسی بن مریم ناصری کشمیری کہلائے.برطانوی سیاح لکھتا.ہے :- THE FOLLOWERS OF JESUS The followers of Isa, son of Maryam - Jesus the son of Mary-generally call themselves Moslems and inhabit a num ber of villages scattered throughout the Western area of Afghanistan whose centre is Herat.I had heard of them several times, but considered that they were probably people who had been converted by European missionaries from ه ناشر GORDON CREMONEST - لندن

Page 129

۱۲۹ Eastern Persia, or else that they were a relic of the times when Herat had been a flourishing bishopric of the Nestorian rite, before the Arabs conquered Persia in the seventh and eight centuries.But, from their own accounts and what I could observe, they seem to come from some much older source.I found them through one of the deputies of the Mir of Gazarga, the descendant of Mohammad under whose protection they are.Gazarga is the shrine where Abdullah Ansar, a Sufi mystic and great local saint, is buried in a magnificent tomb formerly much visited by the emperors of India and other notables.There must be about a thousand of these Christians.Their chief is the Abba Yahiyya (Father John), who can recite the succession of teachers through nearly sixty genera- tons to Isa, son of Mary, of 'nazara', the Kashmiri.According to these People, Jesus escaped from the Cross, was hidden by friends, was helped to flee to India, where he had been before during his youth, and settled in Kashmir, where he is revered as an ancient teacher, Yuz Asaf.It is from this period of the supposed life of Jesus that these people claim to have got their message.AMONG THE DERVISHES P: 107 An account of travels in Asia and Africa, and four years studying the Dervishes, Sufis and Fakirs, by living among them.(طبع سوم) THE OCTAGON PRESS LONDON 3rd EDITION 1984 یسوع کے پیروکار (حضرت) عیسی بن مریم کے پیرو عموماً اپنے تیکن مسلمان کہتے ہیں اور افغانستان ( ترجمہ )

Page 130

۱۳۰ کے غربی علاقے میں پھیلی ہوئی اُن متعد دلبستیوں میں آباد ہیں جن کا مرکز ہرات ہے.میں نے اُن کی نسبت کئی بار سنا تھا لیکن میں سمجھتا تھا کہ شاید یہ مشرقی ایران کے وہ لوگ ہیں جنہیں یورپی مشنریوں نے عیسائی بنا لیا تھا یا وہ اس زمانے کی یادگار ہیں جب ساتویں آٹھویں صدی عیسوی میں ایران پر عربوں کے تسلط سے قبل ہرات نسطوری سلطنت کا حصہ ہوا کرتا تھا.لیکن اُن کے اپنے بیان کے مطابق بلکہ میں خود بھی ہی سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ کسی اور زیادہ قدیم قوم سے تعلق رکھتے ہیں.مجھے ان کا علم میر آف گزر گا کے ایک کارندے کے ذریعہ ہوا.میر حضرت) محمد کی اولاد میں سے ہے اور یہ لوگ اسی کی زیر حفاظت رہتے ہیں.گزرگا ایک خانقاہ ہے جہاں ایک مقامی صوفی بزرگ (حضرت عبداللہ انصار کا نہایت شاندار مزار واقع ہے اور جو ہندوستان کے کئی بادشا ہوں اور معززین کی زیارت گاہ رہا ہے.ان عیسائیوں کی تعداد ضرور ایک ہزار تک ہوگی.اُن کے سردار کا نام بتاتی ہے جو عیسی بن مریم ناصری کشمیری تک اپنے رہبروں کی گزشتہ 40 پشتوں تک کے نام گنوا سکتا ہے.ان لوگوں کے نزدیک (حضرت) یسوع مسیح صلیب سے زندہ اتر آئے تھے اور اپنے حواریوں کی مدد سے پوشیدہ طور پر سند تون کی طرف ہجرت کر گئے.اُن دنوں آپ جو ان ہی تھے.آپ کشمیر نہیں ہیں جوان آباد ہو گئے جہاں انہیں یوز آصف کے نام سے ایک قدیم بزرگ شخصیت کے طور پر نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.اُن لوگوں کا دعوی ہے کہ انہیں (حضرت) یسوع مسیح کی مفروضہ زندگی کے اسی دور میں ان کا پیغام پہنچا تھا.

Page 131

۱۳۱ حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتین مطبوعہ ۱۹۰۳ء میں ہی اپنے خدا سے خبر یا کہ یہ دعوی فرمایا تھا کہ :- " یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ائن کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی کیلئے بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزرگیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا جیسے اب تک آسمان سے نہ اترا تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور باطن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا ہیں تو یک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور بھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے " (صفحہ ۶۷) هفتم - حضرت بانی سلسلہ احمدیہ عالمی امن، عالمی صلح در عالمی اتحاد کے پیا پھر کی حیثیت سے ظاہر ہوئے.چنانچہ آپ نے صدائے ربانی بن کر یہ اعلان عام فرمایا کہ ہماری طرف سے امان اور فضلی کارمی کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے "

Page 132

داشتهار مشمول خطبہ الہامیہ صفحہ : مطبوعہ ۱۳۱۹ھ / ۱۹۰۱ء) حضور نے اپنے وصال سے قبل جو آخری کتاب لکھی اس کا نام ہی پیغام صلح تجویز فرمایا اور اس کی ابتداء میں امین عالم کے بنیادی اصول پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا.وہ دین دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہوا ورنہ وہ انسان انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو.ہمارے خدا رو نے کسی قوم سے فرق نہیں کیا مثلاً جو جو انسانی طاقتیں اور قوتیں آریہ ورت کی قدیم قوم کو دی گئی ہیں وہی تمام قوتیں عربوں اور فارسیوں اور شامیوں اور چینیوں اور جاپانیوں اور یورپ اور امریکہ کی قوموں کو بھی خطا کی گئی ہیں.سب کے لیے خدا کی زمین فرش کا کام دیتی ہے اور سب کے لیے اس کا سورج اور چاند اور کئی اور ستارے روشن چراغ کا کام دے رہے ہیں اور دوسری خدمات بھی بجالاتے ہیں.اُس کی پیدا کردہ عناصر یعنی ہوا اور پانی اور آگ اور خاک اور ایسا ہی اسکی دوسری تمام پیدا کردہ چیزوں اناج اور پھل اور دوا وغیرہ سے تمام قومیں فائدہ اٹھا رہی ہیں.پس یہ اخلاق ربانی ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہم بھی اپنے بنی نوع انسانوں سے مروت اور سلوک کے ساتھ پیش آویں اور تنگ دل اور تنگ ظرف نہ نہیں ، صفحہ ۲ طبع اول بون ۱۹۰۸ء مطبوعہ نولکشور پریس لاہور ) نیز فرمایا : " خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمینوں پر محیط ہو رہا ہے.....پیس جبکہ ہمارے خدا کے یہ

Page 133

١٣٣ اخلاق بایں تو ہمیں مناسب ہے کہ ہم بھی انہیں اخلاق کی پیروی کرین...بد را قم آپ کو صلح کے لئے بلاتا ہے.دنیا پر طرح طرح کے ابتلاء نازل ہو رہے ہیں.زلزلے آرہے ہیں.فحط پڑ رہا ہے اور طاعون نے بھی ابھی پیچھا نہیں چھوڑا اور توکچھ خدا نے مجھے خبر دی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دنیا اپنی باڈلی سے باز نہیں آئے گی اور بُرے کاموں ایسے تو یہ نہیں کرے گی تو دنیا رسخت سخت بلائیں آئیں گی اور ایک بلا ابھی بس نہیں کرے گی کہ دوسری بلا ظا ہر ہو جائے گی یاد قبل ازیں آپ نے حقیقت الوحی صفر ۲۵۰ ۱۵۰ میں اقوام عالم کو زبردست اندار کرتے ہوئے فرمایا :.اسے یورپ تو کبھی امن میں نہیں اور اسے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں.اور اسے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.لیکن شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کیئے گئے اور وہ چُپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے " افسوس صد افسوس ! دنیا نے صلح کے شہزادہ کی آواز کو ٹھکرا دیا جس کا نمیازہ وہ اسی سال سے بھگت رہی ہے.تاہم دو ہولناک جنگوں کے تلخ نتائج اور

Page 134

۱۳۴ خوفناک مصائب و آلام سے دو چار ہونے کے بعد اب وہ صلح اور استاد کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی طرف مائل ہوتی دکھائی دیتی ہے.اور یہ گیر اصرار ہات ہے کہ احمدیت کی دوسری صدی کے آغانہ کے ساتھ ہی اقوام عالم میں انقلابات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور بولن کی آہنی دیوار کے ریزہ ریزہ ہونے کے بعد دنیا بھر میں تہلکہ پے گیا ہے اور نہ صرف مشرقی اور مغربی جرمنی بلکہ پورے یورپ کے متحد ہونے کی راہیں کھل گئی ہیں اور کمیونزم جس کا سارا فلسفہ شدہ دا دہشت اور بربریت پر قائم تھا حالات حاضرہ کے سامنے گھٹنے ٹیک رہا ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود نے فروری ۱۹۴۵ ء کو لاہور میں ایک معرکہ آرا لیکچر کے دوران فرما تھا " اس وقت کمیونزم کی کامیابی محض زار کے مظالم کی وجہ سے ہے.جب پچاس ساٹھ سال کا عرصہ گزر گیا ، جب زار کے ظلموں کی یاد دلوں سے مٹ گئی تب ہم کھیں گے کہ کیمونزم واقعہ میں ماں کی محبت اور باپ کے پیارا اور بہن کی ہمدردی کو کچلنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن دنیا یا در تھے یہ محبتیں کبھی کھلی نہیں جاسکتیں.....وقت آئے گا کہ انسان اس مشینری کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گا اور اس نظام کو اپنے لیے قائم کرے گا جس میں عائلی جذبات کو اپنی پوری شان کے ساتھ برقرار رکھا جائے گا.اقتصادی نظام صفحه ۵ ۸۰ طبع اقول - اگست ۶۱۹۴۵ قادیان) پھر روس کے آہنی پردہ اور اس میں داخلے کی ناروا پابندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دو ٹوک لفظوں میں یہ آسمانی نیروی :.آخر یہ کولڈ سٹور کی رکھنے کا معاملہ کب تک چلے گا.ایک دن

Page 135

۱۳۵ یہ دیوانہ ٹوٹے گی اور دنیا ایک زبر دست تغیر دیکھے گی.(صفحہ ۱۰) روسی صدر میخائل گوربا چوف تشکیل نو “ میں لکھتے ہیں :- و ہمیں ایسی دنیا چاہیئے جس میں جنگ نہ ہو ہتھیاروں کی دور نہ ہو.ایٹمی ہتھیار نہ ہوں ظلم و تشدد نہ ہو محض اس لیے نہیں کہ ہمیں اپنی قومی ترقی کے لیے ان حالات کی ضرورت ہے بلکہ اس لیے کہ معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ سب باتیں پورے کرہ ارض کے لیے ضروری ہیں.ہماری نئی سوچ اس سے بھی ایک قدم آگے جاتی ہے.آج دنیا نہ صرف ایٹمی تیا ہی کے خطرے کے سائے میں جی رہی ہے بلکہ تمہیں بہت سے اہم مگر لا ینحل سماجی مسائل کا بھی سامنا ہے.سائنسی اور تیکنیکی ترقی سے پیدا ہونے والے کھچاؤ کا بھی تدارک کرنا ہے.اور عالمی مسائل سے پیدا ہونے والی بدمزگی کو بھی دور کرنا ہے.آج عالم انسانیت کو ایسے مسائل در پیش ہیں جیسے پہلے کبھی نہ تھے.اور اگر ہم سب مل قبل کر ان مسائل کا متفقہ حل نہیں تلاش کرتے تو ہمارا مستقبل خطرے میں پڑھائے گا.آج تمام ملک کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور ہتھیاروں کا ڈیر خاص طور سے ایٹمی میزائیلوں کے ذخیرے عالمی جنگ کی ابتداء کو ممکن بنا سکتے میں خواہ اس کا کوئی جواز ہو یا نہ ہو اور خواہ وہ حادثاتی طور پر اچانک چھڑ جائے خواہ اس کا سب میکنیکی غلطی ہو یا افسانی غلطی نگرانی ایٹمی جنگ سے روئے زمین پر ساری مخلوقات تباہی کے منہ میں چلی.

Page 136

١٣٩ جائے گی.سب لوگ متفق ہیں کہ ایسی ایٹی جنگ میں نہ کوئی جیتنے والا بچے گا نہ ہارنے والا ر ہے گا.کوئی بھی باقی نہ رہے گا.یہ خطرہ جان لیوا ہے.اور پوری انسانیت کے لیے ہے " تشکیل نو صفحه ۱۵- ناشر ترجمہ پیپلز پبلشنگ ہاؤس لاہور) الغرض نقشه عالم حیرت انگیز طور پر بدل رہا ہے جو اس بات کی نماز می کرتا ہے کہ امن کے شہزادہ کی عالمگیرد حوت من و صلح ہرگز بے اثر دور رائیگاں نہیں جاسکتی اور جلد یا بدیر دنیا کے مذہبی و سیاسی راہ نما ، مفکر وادیب اور سائنسدان یقیناً اس طرف پوری توجہ دیں گے.یہی وہ وقت ہوگا جبکہ جہان نو کی تعمیر ہو گی اور حضرت اقدس کا یہ الہام ہر اعتبار سے اور پوری شان و شوکت کے ساتھ ملی شکل اختیار کرلے گا کہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضِ غَيْرَ الْأَرْضِ یعنی زمین کے باشندوں کے خیالات اور رائیں بدلائی جائیں گی.الهام در در مارچ ۶۱۸۹۳- تذکر صفحه ۲۳۲ طبع سوم ۶۱۹۶۹ ) ایک دفعہ حضرت مولانا نورالدین (خلیفہ المسیح الاول) نے حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضورتو اسلام کی اشاعت یورپ اور امریکہ میں کرنا چاہتے ہیں اور وہاں کے لوگ مذہب کے نام سے متنفر ہو رہے ہیں ، فرمایا اچھا ہے تختی صاف ہو رہی ہے نقش اچھا جمے گا " (مجدد اعظم جلد سوم صفحہ ۱۷ از ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مطبوعہ لاہور.جنوری ۶۱۹۴۴ ) حضرت مسیح موعود کی نظر میں آراء کی تبدیلی کا تصور کیا تھا ؟ اسکی ایک جھلک ہمیں ۹۸-۱۸۹۷ء کے ایک عجیب واقعہ میں ملتی ہے.حضرت مفتی

Page 137

مفتی محمد صادق صاحب کا بیان ہے کہ ع ایک دفعہ یکن لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا اور حضرات کے گرد علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس حضور کے اندر کے کمرے میں بدھا تھا کہ یا ہر جیسے ایک لڑی کا پیغام لایا کہ قاضی آل محمد صاحب آئے، ہیں.اور کہتے ہیں کہ ایک نہایت ضروری پیغام لایا ہوں.حضور خود سُن لیں.حضور نے مجھے بھیجا کہ ان سے دریافت کرو کیا بات ہے.قاضی صاحب سیڑھیوں میں کھڑے تھے.میں نے جا کر دریافت کیا.انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت مولوی محمد احسن صاحب نے بھیجا ہے کہ ایک نہایت عظیم الشان خوشخبری ہے اور خود حضرت صاحب کو ہجا سنانی ہے.لیکن نے پھر جاکر عرض کیا کہ وہ ایک عظیم الشان خوشخبری لائے ہیں اور صرف حضور کو ہی سنا تا چاہتے ہیں حضور نے فرمایا آپ پھر جائیں اور انہیں سمجھائیں تراش قت مجھے فرصت نہیں وہ آپ کو ہی سمجھا دیں اور آپ آکر مجھے سُنا دیں.میں نے حکم کی تعمیل کی اور قاضی آل محمد صاحب کو سمجھایا کہ وہ خوشخبری مجھے سُنا دیں میں حضرت صاحب کو سنا دیتا ہوں تب قاضی صاحب نے ذکر کیا کہ ایک مولوی کا مباحثہ حضرت مولوی محمد حسن صاحب کے ساتھ تھا اور اس مولوی کو خوب پہ کھاڑا اور لتاڑا گیا اور شکست فاش دی میں نے اگر یہ خبر حضرت صاحب کے حضور عرض کی حضور نے تلبستم کرتے ہوئے فرمایا میں نے سمجھا یہ خبر لاتے ہیں کہ یورپ مسلمان ہو گیا ہے ؟ ( ذکر جیب صفحہ ۵۲-۵۲ مولف حضرت مفتی محمد صادق صاحب )

Page 138

۱۳۸ حضرت اقدس نے ایک بار فرمایا :.ہ میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں " تذکره طبع سوم صفحه ۱۳ ۸ - الناشر: الشركة الاسلامیہ ربوہ) بہر کیف افکار و خیالات کے عالمی انقلاب کے بعد حضرت مسیح موعود ومد می مسعود کے جدید علم کلام کی اصل غرض و غایت پوری ہو جائے گی یعنی توحید اور رسالت محمدی کی فتح ہوگی اور باطل ازموں اور جھوٹے مذہبوں کی صف پیسٹ دی جائے گی.چنانچہ حضرت اقدس نہایت پر قوت و شوکت الفاظ میں فرماتے ہیں :- و نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دان نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے پڑھے گا.قریب ہے کہ سب تمہیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی تو یہ کہ گے خوب وہ نہ ٹوٹے گا اور نہ گند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی تو حید جس کو بیا باتوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کستی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے.بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے.تب

Page 139

یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی " الاشتهار مستيقنا بوحى الله القهّار ۲۰ شعبان ۱۵/۱۳۱۴/ جنوری ۶۱۸۹۷) وَاخِرُه عُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِان تمـ بالخـــــاير

Page 140

۱۴۰ ر ضمیمه اکناف عالمہ میں احمدیت کا چرچا ایک معز غیر احمدی ستیان خان بها در شیر جنگ صاحب فیرسروے آف انڈیا کے قلم سے نهایت نوح پرور تشدید واقعات روحیه ۱۹۰۰ تا ۶۱۹۲۳ منقولة الفضل مار مارچ ۱۹۲۴ در صفوه -۱۰)

Page 141

IM ایران کا سفر "جب ۱۹۰۰ ء میں میں ایران گیا اور وہاں ۱۹۰۲ مر تک رہا.بوشهر بندر عباس لنگر، میناب، میر، آرزو ، کرمان اشتملات، احمدی نیرو بر تو، شیراز، تبریز وغیره شہروں اور قصبوں میں میرا گزر ہوا.اس سفر میں شیعہ مذہب کے علاوہ بانی مذہب والوں سے بھی ملا.مگر یہ لوگ اپنے مذہب کو پوشیدہ رکھتے تھے بسنت والجماعات کے اصحاب سے بھی ملا مگر اس وقت احمدی جماعت کی نسبت میں نے کچھ نہ سنا اور نہ بھی مجھ سے کسی نے کچھ دریافت کیا اور نہ ہی نہیں جانتا تھا کہ احمدی بھی کوئی جھات ہے.اب میں جانتا ہوں مگر میں احمدی نہیں ہوں.مذہب باب کے متعلق بہت مبالغہ آمیز قصے سناتے رہے.افسوس ہے بعد میں مجھے ایک بابی در ویش تونگر سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ قرآن شریف کے منکر ہیں.اگر یہ سچ ہے تو یہ لوگ کافر ہیں بلکہ خاص کافر ہیں.ایران کے اہل تشیع بھی مسلمان ہیں.مگر اسلام سے اتنے دور کہ جیسے دنیا کے بہت مسلمان اسلام کے اصولوں سے بالکل بے خبر - ابی سینیا کا سفر ۱۹۲ء میں میرا جانا ابی سینیا ملک حبش کو ہوا.اس سفر میں شاہ ملینک کو دیکھا.آدھ گھنٹے تک میں اُن کے تخت کے پاس کھڑا رہا.اس وقت میں جوان تھا اور میں نے زریں سنگی صریہ باندھی ہوئی تھی.کمر میں ریشمی صافہ تھا اور کرپ آویزاں تھی.شاہ ملینک بار بار میری طرف دیکھتا تھا اور سرا گنتی سفیرانی سینیا سے میری بابت دریافت کرتا تھا کہ اس کا کیا نام ہے کیس ملک کا رہنے والا ہے.اس وقت ملینک کی گود میں چھوٹا ساکتا تھا اور منکے کر تخت پر بیٹھا تھا.

Page 142

۱۴۲ یہ لوگ پرانے عیسائی مذہب کے ہیں.جبش میں مسلمان بھی ہیں مگر مذہب سے بے خیبر باقی افریقہ کے لوگ اکثر یا مذہب ہیں.اس کے بعد ہمارا سفر جنگلیوں میں رہا.جو اکثر ننگے رہتے تھے.جب ہم جنگل قطعے پر پہنچے تو وہاں کے سردار کا بھائی شاہ طینک کے حکم سے ہم لوگوں کی مدد کے واسطے آیا.بہت دن ہمارے ہمراہ رہا.یہ ہمیشہ میرے پاس آکر کہا کرتا تھا کاش میرے بادشاہ کے ہاں تمہارے جیسے ہوتے.یہ بھی لاند رب تھا.میں نے اس کو بذریعہ ترجمان کہا کہ سردار گلگلہ تم لوگ کیوں ایک مذہب اختیار نہیں کرتے.اس نے کہا ہمارے بزرگوں سے یہ بات چلی آتی ہے کہ ہمارا پیشوا بہت خوبصورت تھا اُس نے ہم لوگوں کو ایک کتاب دی تھی مگر اس کو ایک گائے کھا گئی.اُس دن سے ہما را دستور ہے کہ جب دوسرے کو گائے دیتے ہیں تو اس سے یہ تاکید کر دیتے ہیں کہ جب اس کو مارو یا مرے تو اس کا شکم ضرور چاک کر کے دیکھ لینا اور کتاب کو تلاش کرنا مگر ابھی تک ہمیں یہ کتاب نہیں ملی لیکن ہمارے پیشوا نے ہمارے بزرگوں کو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر تم سے کتاب گم ہو جاوے اور تم کو نہ لے تو ہر سال نہ ہونا اور شمال مشرق کی طرف مراک نے ہاتھ اٹھایا اور کہا کہ ہمارے پیشوا نے ہم سے بزرگوں کو بتایا تھا کہ اس طرف ایک شہر قودی جو بہت دُور ہے وہاں ایک آدمی آئے گا اور یہ کتاب وہاں ہی مل سکے گی.وہاں سے شمال مشرق میں، ہندوستان ہے.کہیں نے کہا کہ تم لوگ جاؤ اور قودی شہر کو تلاش کرو اور وہاں سے کتاب سے آؤ.اس نے کہا کہ ہمارے بزرگوں کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ قودی بہت دُور جگہ ہے اور راستے میں سمندر ہے ہم وہاں تک پہنچ نہیں سکتے.وہاں کے ہادی کے آدمی کسی زمانے میں خود ہمارے تک آئیں گے اور سب پتہ بتائیں گے.پھر اس نے کہا کہ نہ معلوم اس وقت تک میں زندہ بھی ہوں گا یا نہیں جب اس بادی کے

Page 143

۱۴۳ آدمی کتاب لے کر آئیں گئے.اور اُس نے کہا کہ کاش کہیں اُس وقت تک زندہ رہوں.بعد میں مجھے خیال ہوا کہ غالباً قودی سے مراد قادیان ہی ہے.واللہ اعلم بالصواب.با تبت کا سفر.۱۹۳ء کے اخیر اور ۱۹۰۴ء تک میرا اسفر تبت میں تھا.گیانی یاری نیگا لمانہ شہروں میں پھرا.یہاں مسلمان بہت کم ہیں.زیادہ آبادی بدھ مت والوں کی ہے اور بت پرست بھی بہت ہیں.لہا سہ شہر میں مسلمان بھی ملے جنہوں نے بہت اظہار محبت کیا.اور یہ لوگ تاجر تھے اور ان کی تجارت چین اور کشمیر سے ہے اور چینی مسلمان بھی ہم سے ملے.ایک روز انہوں نے ہم سے حضرت مرزا احمد اللہ نہیں کران کا رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت بھی دریافت کیا.میں نے کہا میں نہیں جانتا کہ ان کا کیا مذہب ہے.ہمارے علماء تو اُن کو گالیاں دیتے ہیں اور کافر کہتے ہیں.ایک چینی کپتان نے بار بار حضرت مرزا احمد رحمہ اللہ کی عمر، علم ، خاندان اور دھو سے کے مرزا متعلق دریافت کیا مگر میں نے اور بھی بد مزاجی سے جواب دیا کہ کیوں بار باران کا ذکر کرتے ہو.وہ امام مہدی اور عیسی ہونے کے دعویدار ہیں.یہ کپتان بہت ہنسا اور کہنے لگا کہ شہر جنگ میں جانتا تھا کہ آپ بہت عقلمند اور بہاندیدہ آدمی ہیں لیکن اب معلوم ہوا کہ آپ بھی مرض تعقیب میں مبتلا ہیں.کیا آپ میرے اس سوال کا جواب دیں گے کہ امام مہدی جب آوے گا تو انسان ہوگا اور انسانی صورت رکھتا ہوگا یا صورت دیگر.بات تو دعویدار کے دعوئی کی ہے.میں کچھ ناراض سا ہو گیا ایک چینی کپتان نے اظہار محبت سے مجھے راضی کر لیا.اور یہ سلسلہ گفتگو ختم ہوا.

Page 144

۱۴۴ خلیج کا سفر ۱۹۰۹ء کے اخیر اور ۱۹۰۵ء میں میرا سفر خیلیج ، عراق ، مسقط ، اور عمان اور کچھ حصہ نجد کی طرف رہا.پہلے جہاز سے ہم بوشہر اُترے.اس کے بعد ہم کویت گئے.اس جگہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے جس کو خارجی کہتے ہیں.یہ فرقہ سجد کی طرف رہتا ہے.میرا خیال ہے یہ وہی وہابی ہیں جو کم و بیش ہندوستان میں پائے جاتے ہیں.کو بیت سے ہم بحرین میں آئے اور بحرین سے مسقط میسقط میں سلطان مسقط نے مجھے اجازت دی کہ میں اندرون ملک عثمان کی کیر کیروں مسقط سے مجھے شہر متھرا میں بھیجا اور ایک خط سلطان مسقط نے دیا اور کہا کہ وہاں میرا بھائی ہے وہ وہاں کا والی ہے وہ تمہارا بندوبست کر دے گا اُس سے ملنا ایک فراش جس کا نام عزیز تھا مجھے قونصل خانے کی طرف سے بغرض ترجمانی علامتھرا میں پہنچ کر عز یز مجھے ایک مکان میں لے گیا.اس میں بہت سے عرب بیٹھے ہوئے تھے.جب ہم مکان میں داخل ہوئے تو سب کے سب تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے.ان میں سب قسم کے لوگ تھے.شائستہ اور نیم شائستہ بدو وغیرہ بہت دیر تک اُن کے ساتھ گفت گو ہوتی رہی.اور میرا خیال تھا کہ والی بہت شان و شرکت کے ساتھ آئے گا.شاید اس کا بنگلہ اور ہوگا.عزیز سے نہیں نے فارسی میں دریافت کیا کہ والی کب آئے گا.اُس وقت میرے اور عزیز کے درمیان جو نورانی شکل کا آدمی بیٹھا تھا اُس نے عزیز کو مخاطب کیا اور جلدی جلد میان میں سوال و جواب ہوتے رہے.آخر میں اُس نے عزیز سے کہا کہ شیر جنگ سے کہو کہ والی میں ہی ہوں.عزیز نے مجھے کہا.اور اس کے بعد وہ والی آب دیدہ ہوا اور اُس نے ایک تقریر شروع کی جس کے معنی تو میں نہیں جانتا تھا لیکن

Page 145

۱۴۵ اُس کی آواز دل پر اثر کرتی گئی بغیر میں نے عزیز سے کہا کہ مجھے تمام تقریر وہ فارسی میں شنا دے، اس نے مجھ سے بیان کیا اور اس کی باتوں کا مجھ پر اس قدیر اثر ہوا کہ اب تک جب مجھے خیال آجاتا ہے تو میرا جسم کانپ اُٹھتا ہے.اس میں اُس نے بتایا کہ اگر میں والی بن گیا ہوں تو مجھے خدا سے بھی ڈرتے رہنا چاہیئے فرعون بے سامان کی طرح نہیں ہونا چاہیئے.اور اسی لیے میں اس سادی حالت میں رہتا ہوں.پھر اس نے میری روانگی کا انتظام کیا اور میں اندرون گتسان کی طرف روانہ ہوا.پہلے دراجی قوم میں سے گزارا.پھر ہمارا قافلہ وادی نہیں میں پہنچا.ایک جگہ بہت جذامی آدمی دیکھے.عثمان ہیں یہ وادی مشہور ہے ایس کے مرتبات بہت دور دور تک جاتے ہیں اور خشک نہیں ہوتے.یہاں کے انار بھی مشہور ہیں.یہاں کے لوگ لانچی ہیں اور ہمارا قافلہ لوٹنا چاہتے تھے اس لیے میں نے واپس سقط کا ارادہ کیا اور قوم درابی میں پہنچا.اس دن راستے میں ہم پر گولیاں ھی چلائی گئیں کی ندا ر فضل سے نقصان ہوا جنوں گولیاں چلائی تھیں میں خود انکے گاؤں میں گیا.انکے علامت کی اور والی سے ڈرایا.پھر یہ لوگ شام کو مجھے ملنے آئے اور دستور کے مطابق اپنی خنجروں کو میرے سامنے رکھ دیا.یعنی وہ صلح چاہتے تھے.میں نے خنجروں کو ہا تھ لگا دیا اور اس طرح صلح ہو گئی.یہاں میں کئی دن رہا.اور یہ لوگ بازمی گرمی تماشہ اور چاند ماری کرتے تھے.ایک عربسے حضرت مرزا صاحب کا تذکرہ ایک دن ایک نورانی شکل کا شخص میرے پاس بیٹھ گیا اور ترجمان کے ذریعے مجھ سے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ نہیں نے کہا کہ افغانستان کا رہنے والا ہوں.اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا رسالہ تھا.اس نے کہا

Page 146

۱۴۶ کہ تم نے مرزا احمد کو دیکھا ہے ؟ اور وہ تم سے کتنا دور رہتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ یکں نے نہیں دیکھا.وہ تو مجھ سے بہت دور رہتے ہیں.پھر اس نے کہا میں عربی کا عالم ہوں لیکن جیسی کلام اس رسالے میں مرزا احمد نے لکھی ہے وہ سی انسان کی طاقت میں نہیں کہ لکھے.بلکہ خدا کی طرف سے خاص مدد.اور نصرت سے لکھی گئی ہے.میں نے عرب کے بڑے بڑے لوں کا کلام پڑھا ہے لیکن ایسا کلام اور ایسی تاثیر نہیں دیکھی.افسوس ہے میرے پاس نہ اتنی دولت ہے اور نہ ہندی زبان سے آشنا ہوں اور میری ضعیف والدہ بھی مجھے جانے کی اجازت نہ دے گی ورنہ میں ضرور مرزا احمد (فداہ اتنی وابی ) کی خدمت میں حاضر ہوتا.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ارادہ ہے کہ اُن کی زیارت کروں.پھر تمام لوگوں نے اس سے مرزا احمد کی بابت گفتگو شروع کردی اور بہت دیر تک وہ عربی میں گفتگو کرتے رہے جس کنوئیں سمجھے نہیں سکتا تھا.یہ علاقے بہت خوفناک ہیں لیکن اگر احمدی جماعت کے عربی رسالے وہاں تقسیم ہوں تو بہت بہتر ہوگا.افسوس ہے کہ عرب میں عربی کے عالم کم ہیں.ایران میں احمدیت کا ذکر ۱۹۰۶ ۶ و ۱۹۰۷ء میں میں پھر ایران گیا.بندر عباس، سیستان، کرمان شهر بابک، شیراز ، بوشہر کا سفر کیا.اس سفر میں شیرا نہ سکے لوگوں نے بہت احمدی جماعت کی نسبت دریافت کیا مگر افسوس ہے کہ میں اس جماعت سے واقف نہیں تھا اس لیے پورا پورا جواب نہ دے سکا.

Page 147

۱۴۷ شملہ کے احمدیوں سے ملاقات ۱۹۰۷ء کے اخیر میں مجھے شملہ جانے کا حکم ملا نہیں نے وہاں کے جنگی دفتر میں جانا تھا.اور ریل پر سے اُتر کر میں نے اپنا اسباب کمپنی کی سرائے میں رکھا.اور خود دفتر میں گیا.پھڑا سیوں سے دریافت کیا کہ یہاں صرف گورے ہی ہیں یا دیسی بھی.ایک نے کہا کہ یہاں ایک مولوی خدا بخش میں میں اُن سے ملا بہت محبت سے پیش آئے اور خود بخود ہی کہنے لگے.شیر جنگ تم اچھے ہو حالانکہ میں نے ابھی اپنا نام نہیں بتلایا تھا.مجھے حیرانی ہوئی.یہ خزانچی تھے بکیں نے پوچھا آپ نے کس طرح پہچان لیا؟ کہنے لگے بعد میں بتلاؤں گا.میرا خیال تھا کہ دفتر سے دریافت کر لیا ہوگا.نہیں بعدمیں معلوم ہوا کہ میرے آنے کی خبر صرف کمپنی کو تھی اور اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے میری شکل دکھائی تھی.اور اس نے میرے آنے سے قبل ہی اپنے چند دوستوں کو میرا حلیہ بتلا دیا تھا.پھر وہ مجھے اپنی جگہ لے گئے.اُس جگہ شام کو دس بارہ آدمی آئے.سب نے لکھانا کھایا اور نمازادا کی، پھر انہوں نے مجھے کہا کہ جب تک آپ کا انتظام نہ ہو سکے ہمارے ساتھ ہی رہیں.سب سے مجھے محبت ہوگئی.سب نماز پڑھتے صبح کو تلاوتِ قرآن کریم کرتے.بعض امیر اور بعض غریب تھے لیکن سب میں مساوات اسلامی پائی جاتی تھی.مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ احمدی ہیں.ایک دن بالائی بازار میں مجھے چند سلمان ملے اور چار وغیرہ سے تواضح کی اور مجھے کہنے لگے کہ جن کے ساتھ تم رہتے ہو اور کھاتے پیتے ہو وہ تو مرزائی بے ایمان ہیں (نعوذ باللہ) اُن کے پاس سے چلے آئیے.میں نے پوچھا کہ کیا وہ مسلمان نہیں ؟ کہنے لگے کہ نہیں.میں نے کہا اگر یہ لوگ کافر ہیں تو میں ایسے کافروں کو ہی پسند کروں گا اور تم سے

Page 148

۱۴۸ اچھا سمجھوں گا.اور اُس دن سے میری محبت زیادہ بڑھ گئی.افغانستان میں احمد تیت 199ء اور 1910ء میں وادی کورم افغانستان میں میرا سفر ہوگا.اور ایک روزہ میں پیداوار کو تل جو شکلات زان سے اوپر پہاڑوں میں ہے اس کے جنوب کی جانب افغانستان کی سرحد کے پاس قوم منگل کے ایک گاؤں کے قریب خیمہ زن ہوا.رات کو ایک منگل وحشی میرے پاس آیا اور مجھ سے دریافت کیا کہ تم احمدی ہو یا نہیں.میں نے خیال کیا کہیں یہ احمدی سمجھ کر مار نہ دے اس لیے میں نے کہا کہ نہیں.تو اس نے کہا ڈرو نہیں میں اور میرے گاؤں کے اکثر لوگ احمدی ہیں لیکن ہم میں سے ابھی کئی لوگ نماز تک نہیں جانتے اور اگر کوئی اذان کہے تاہم ڈرتے ہیں کہ ہماری بکریوں میں بیماری نہ پیدا ہو جاو ہے.میں نے اس سے دریافت کیا کہ تم کیسے احمدی ہوئے ؟ اُس نے ایک نیند کا نام لیا جس کو سنگسار کیا گیا تھا اور اس نے کہا کہ انہوں نے تبلیغ کی تھی اس لیے ہم احمدی ہو گئے تھے.یہ معلوم انہوں نے سید کا نام کیا بتا یا شاید طیف یا ایسا ہی کچھ اور نام تھا.۶۱۹۱۱ و ۶۱۹۸۲ میں ہم اور کی لڑائی میں شریک ہوئے اور یہ قوم بھی جنگلی اور وحشی ہے.ایران کا تیسرا سفر ۰۶۱۹۱۳ ۶۱۹۱۲ - ۱۹۱۵ء میں پہلے ہم ایران گئے.شہر محاصرہ پہنچے ایسی کے بعد پشتکوہ.اس کے بعد سندس.اس کے بعد فائقین، کلف جاوا پنجویں، ورنہ لہ شہید کابل حضرت شہزادہ عبداللطیف نہوں نے روانی جام شہادت نوش کیا.ممتاز ناقل)

Page 149

۱۴۹ لائیجان، ارومیہ.اس کے بعد کوہ قاف جنوبی دروں کو عبور کر کے اخر می داغ مشہور پہاڑ تک پہنچے.اس اثناء میں مجھے شہر بایزید جانے کا موقعہ ملا.اس دوران میں جب کبھی کسی قسم کی دینی گفت گو ر ہوں، ایرانیوں یا ترکوں سے ہوئی تو احمدی جماعت کا اکثر ذکر آتا رہا.اور لوگ مجھ سے دریافت کرتے رہے.لیکن اس وقت تک بھی یکن احمدی جماعت کے اصولوں سے اچھی طرح واقف نہ تھا اس لیے ان لوگوں کو منفصل حالات احمدی جماعت کے نہیں بتلا سکا.بایزید شہر میں جب میں پہنچا تو میرے ترک آفیسر سب فوجی کاروبار میں مصروف تھے اس لئے ایرانی کونسل میں مقیم ہوا.ترک دن رات لڑائی کا سامان تقسیم کرنے میں مشغول تھے اور جنگ میں شامل ہونے والے تھے.کونسل کی جگہ پر پہلے مجھے شہر کا قائم مقام آکر ملا.شخص فارسی بول سکتا تھا مجھ سے لڑائی کی گفت گو کرتا رہا اور پھر اس نے ہندتون کے مسلمانوں کی حالت دریافت کی کہ ہندوستانی ترکوں کی طرف ہوں گے یا انگریزوں کی طرف.میں نے کہا کہ ہندوستان سے ایسی امید نہ رکھو کہ وہ انگریزوں کے خلاف ہو کر لڑیں گئے.اس کے بعد قاضی شہر سے ملاقات ہوئی.میں نے اس سے کہا کہ قاضی صاحب آپ سنی حنفی ہیں پھر آپ لہوں کے بال کیوں نہیں کرواتے ؟ وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ اہل افغانستان اسلام کے پابند معلوم ہوتے ہیں.پھر مذہبی گفتگو شروع ہوئی اور ہندوستان کی مذہبی حالت اس نے دریافت کی.اس کے بعد اس نے حضرت مرزا احمد رحمۃ اللہ علیہ کے دعوے کی نسبت دریافت کیا.میں نے لاعلمی ظاہر کی.پھر اس نے دریافت کیا کہ اس کے پیر و شریعت کے پابند ہیں یا نہیں ؟ اور نماز کیسی ہے.میں نے کہا کہ وہ شریعت کے پابند ہیں.ہماری طرح ہی نماز پڑھتے ہیں صرف ہاتھ ناف پر انہیں باندھتے.اُس نے کہا کہ تم لوگ کیوں ان کو کافر کہتے ہو ؟ میں نے کہا صرف جاہلی ملانے ایسا کہتے ہیں.

Page 150

۱۵۰ پھر اس نے مجھ سے حضرت مرزا صاحب کی کتاب مانگی لیکن میں نہیں دے سکتا تھا آخر اُس نے کہا کہ جب دوبارہ آؤ تو میرے لیئے ضرور اُن کی کتا ہیں لانا جو عربی اور فارسی میں ہوں.بایزید سے واپس ہو کر بازرگان نام گاؤں میں پہنچا.بایزیدی شہر ایک بلند پہاڑ کے غربی دامن میں واقع ہے.باندرگان میں چند ماہ رہ کر مجھے واپسی کا اختیار دیا گیا اور ایک بڑا قافلہ میرے ماتحت کیا گیا.ترکوں سے جنگ شروع ہو چکی تھی لیکن میں نے مناسب سمجھا کہ ترک دوستوں سے بھی ملاقات کرتا جاؤں وہ بہت شرافت سے پیش آئے اور میری روانگی کے وقت آبدیدہ ہوئے.راستہ خطرناک ہو چکا تھا.میں ایرانی قونصل خانے میں گیا اور اُن سے راہ داری کا پروانہ حاصل کیا.تاکہ راستے میں کوئی دق نہ کر سکے.ایرانی سرحد پر پہنچے تو ماکو شہر میں روسی فوجوں کا اجتماع تھا.یہ وحشی بہت تکلیف دیتے تھے.میں روسی قونصل کے پاس گیا جو پہلے سے ہی ہمارا واقف تھا.ایک روسی کرنل کی گفتگو حضرت مرزا صاحب کے متعلق اُس قو تصل کے پاس ایک روسی کرنل بیٹھے تھے جو مسلمان تھے اور قفاز کے رہنے والے تھے.کرنل نے مجھے ایک خط لکھ دیا کہ یہ انگریزوں کے آدمی ہیں ان کو راستے میں تکلیف نہ دی جائے.لیکن وہاں سے رخصت ہو اور اسی کے وقت میں باکی کے لیے بازار سے ہوتا ہوا چلا.مجھے اُس وقت پھر دوبارہ وہی کرنل آکر ملا اور بذریعہ ترجمان گفتگو کرنے لگا اور میرے ساتھ کیمپ میں آگیا.بہت خلیق آدمی تھا.اثناء گفتگو میں میں حیران رہ گیا جب اس نے یہ دریافت کیا کہ آپ لوگوئی مرزا احمد سے بھی واقفیت ہے یا نہیں.اور وہ چاہتا تھا کہ چھی طرح مفصل حالات دریافت کرے.اُس کا خیال تھا کہ ہندوستان اور افغانستان

Page 151

۱۵۱ سب اُن کی جماعت میں داخل ہو چکے ہوں گے.میں نے کہا کہ مجھے واقفیت نہیں ہے.اُس نے حیرانی ظاہر کی اور کہا کہ جس ملک میں اسلام کا علمبر اور ظاہر ہو اس ملک کا آدمی اگر اسلامی تعلیم سے واقفیت نہ رکھے تو تعجب ہے میں نے کہا کہ تمہیں اُن کی نسبت کہاں سے علم ہوا ؟ کہنے لگا کہ میں داغستان کا رہنے والا قف کاری ہوں.ہم لوگ یورپ میں تعلیم پاتے ہیں اور تجارت کرتے ہیں.امریکہ کا ایک انگریزی زبان کا رسالہ ملا تھا.میرا ایک انگریز دوست تھا اس کے پاس یہ رسالہ تھا.اس کو یکی نے روسی اور ترکی زبان میں ترجمہ کیا تھا جس کو میں بوجہ جنگ کے شائع نہ کر سکا.علاوہ ازیں ہمارے چند تا بر بخارا سے آئے اور انہوں نے مرزا احمد کی تعلیم ثنائی.اب ہم اپنے ملک میں تعلیم حاصل کر کے نیز ان کی فکر میں تھے کہ نا مراد جنگ شروع ہو گئی.اس کے بعد ہم تبریز پہنچے اور قونص جنرل سے ملے.اس کے بعد اس نے کہا کہ مظفر بے سے بھی ملتے جاؤ.وہ میرا ماتحت ہے.اُس کے پاس جب گئے تو وہ خاطر تواضع سے پیش آیا اور اندر لے گیا.سٹرارگردستان کی گفتگو حضرت مرزا صاحب کے متعلق اندر ایک شخص بہت ہی حسین اور جوان بیٹھا تھا.میں اُسے دیکھ کر ششدر رہ گیا.ایسا خوبصورت آدمی یکں نے کبھی نہ دیکھا تھا.اُس نے فارسی میں ہماری مزاج پرسی کی.اُن کا نام حضرت سیلاط پاشا تھا اور وہ تمام کردستان کے سردار مانے جاتے تھے.سلاط نے فراشی کو کہا سب باہر لے جاویں.صرف کیں، حمید گل صاحب جو میرے ہمراہ تھے اسیلاط اور منظفر بے رہ گئے.بات چیت شروع ہوئی.افغانستان کی نسبت انہوں نے

Page 152

۱۵۲ سے کہ دریافت کیا تھا.اور جب ہندوستان کا ذکر آیا تو انہوں نے سب سے پہلے حضرت مرزا احمد کی نسبت دریافت کیا اور احمدی جماعت کی نسبت گفتگو شروع کر دی.وہ احمد نیت اتنے واقف تھے کہ مجھے تو پتہ بھی نہ تھا.پھر انہوں نے بعض سوالات کیئے لیکن میں نے لاعلمی ظاہر کی.اور ان کا اتنا رعب مجھ پر طاری ہوا کہ میں ان سے یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ حضرت احمد سے آپ کیوں محبت رکھتے ہیں.دنیا میں سیلاح عجیب غریب انسان ہے.عربی زبان کا ماہر اور بہت ہی عقلمند آدمی ہے.وہ ہمیشہ اسیر ہی رہا، آٹھ برس کا تھا کہ ترکوں نے قید کیا.اسکے بعد اکثر قید میں رہا.اس کی عمر اس وقت ۲۸ سال کی تھی.بڑی حسرت کے ساتھ میں اس سے رخصت ہوا.دوسرے دن سُنا کہ روسیوں نے اُسے پھر قید کر دیا ہے اور ماسکولے گئے.مختلف سفر اس کے بعد بہت سے شہروں سے ہوتے ہوئے ہر مہینے میں بوشہر آئے اور خوشی تھی کہ ہندوستان پہنچیں گے لیکن آتے ہی بھرے کا حکم ملا قریب ایک ماہ وہاں رہے اس کے بعد ہندوستان واپس آئے.چند روز بعد مهمند میں جانا پڑا.اس کے بعد بندرعباس جو ایران کا ہند گاہ ہے وہاں جانے کا حکم ملا.وہاں چند دن رہ پھر ہندوستان آکر پھر بغداد پہنچا.لڑائی ختم ہوچکی تھی.

Page 153

۱۵۳ سیلات سے دوبارہ ملاقات چند دن کے بعد موصل جانے کا حکم ملا.وہاں سے ارومیہ جانے کا حکم ملا کہ وہاں جا کر سلاط پاشا سے ملوں جو روسیوں کی اسیر می سے رہا ہوں ارومیہ پہنچ گیا تھا.پھر تو بہت ہی خوشی ہوئی.چونکہ اندرون ارومیه 9 منزل تھا.مگر لوجہ جنگ راستے ویران ہو چکے تھے.میں دس چھروں کا قافلہ لے کو اردو میں روانہ ہوا.تیسری منزل پر معلوم ہوا کہ برفباری ہو چکی ہے اور راستہ بند تھا.لیکن مجھے سیلاط سے ملنے کا شوق تھا اس لیے میں صرف اپنا ٹولے کم روانہ ہو گیا اور خدا خدا کر کے گیارھویں دن وہاں پہنچا.وہاں کے گورنر سے ملے.اس نے مہمانداری کی لیکن میں نے کہا کہ میں سیلاط کا مہمان ہوں.انہوں نے کہا آج کل ان کا مقام چھے روز کے راستے پر شمال کی طرف ہے.میں نے کہا کہ اچھا میں آج اُن کے بنگلے میں ہی رہوں گا.یکس نے ایک آدمی کو سیلاط کے پاس بھیجا اور وہ جلد ہی مجھے ملنے کے واسطے آگئے.اب اُن کا رنگ رُوپ بگڑا ہوا تھا اور میں پہچان نہ سکا.آپ نے فرمایا میں سیلاطہ ہوں.پھر کیا تھا خوب ملے.رات بھر باتیں کرتے رہے.ایک ماہ میں اُن کے پاس رہا.بارہا احمدیت کا ذکر ہوتا رہا اور مجھے ملامت بھی کی کہ تم کوئی رسالہ نہیں لائے.میں نے کہا مجھے معلوم نہ تھا کہ لیکس نے پھر آپ سے ملنا ہے.ایک دن بڑے بڑے لوگ، قاضی دین، اُن کی خدمت میں بیٹھے تھے.اس دوران اُنہوں نے ایک تقریر فرمائی جو حضرت احمد کی تعریف میں تھی.

Page 154

۱۵۴ مختلف شہروں کا سفر اس کے بعد یکیں بغداد آیا اور امان کی طرف روانہ ہوا.جب سرحد پر پہنچا وہاں سے طویل ا شریف پہنچا اور سید حسام الدین کے دربار میں حاضر ہوا.حضرت حسام الدین بہت مہربانی سے ملے.دو دن ان کے پاس رہا.انہوں نے بھی احمدی جماعت کے عقائد وغیرہ دریا فت کئے لیکن نہیں خاموش رہا.کیونکہ خاموش رہنا وہاں ادب کی نشانی ہے.بہت دنوں بعد پھر مجھے ایران کی سرحد پر بجانے کا حکم ملا.تا کہ حدود کو درست کیا جاوے.اور ایرانی افسر معزز انسلطان صاحب بھی ایران کی طرف سے افسر مقرر ہوئے.ہم دونوں خانقین ، بدره ، بهره، محامره ، قصر شیرین صندل علف جا وغیرہ گئے.اس سفر میں انہوں نے اکثر حضرت احمد کی نسبت در ریاست کیا اور وہ طہران کو چلے گئے.میں نے کہا ئیں احمد می تو نہیں لیکن ان کو اور اُن کی جماعت کو پابند شریعت جانتا ہوں.اور ان احمدیوں میں تکبیر کا نام و نشان نہیں ہے.بڑے خلیق اور اچھے مسلمان لوگ ہیں.میری یہ باتیں سن کر معزز السلطان بہت خوش ہوا.اس نے بتایا کہ بعض ایرانی میرے دوست نار ہیں جو اکثر ہندوستان میں آتے جاتے ہیں اُن سے لیکن بہت شوق سے حضرت احمد کی نسبت دریافت کرتا رہتا ہوں.اس طرح مجھے واقفیت ہو گئی ہے.علف جا سے میں پھر ایک دفعہ طو یلا شریف حضرت حسام الدین کی خدمت میں گیا.ایک دفعہ اُن کے دربار میں مجھے ایک افغانی بزرگ جناب سید احمد افغانی ہے.وہ خوست یا کونار کے سادات سے تھے انہوں نے پھر مجھ سے حضرت مرزا صاحب کی نسبت دریافت کیا لیکن میں نے خاموشی ہی اختیار کی.

Page 155

یہ سید افغانی بزرگ تھے.رات دن اللہ کی عبادت میں لگے رہتے تھے.ایک معرزافسر کی احمدیت کے متعلق گفتگو اس کے بعد میں پنجویں آیا.جہاں میں مال آفیسر کے مکان میں ٹھرا اور اُسے ہدایت تھی کہ عراق کے حدود کے متعلق مجھے واقفیت حاصل کرائے.یہ پہلے تو کی میجر تھا.یہ شخص دورے پر میرے ساتھ جاتا رہا اور شام کو جب کھانا گھر پر کھانا تو میرے پاس آجاتا اور احمد مکی جماعت کی بابت دریافت کرتا تھا.لیکن مجھے اپنے اگلے خوفناک سفر کی قطر تھی میں اُس سے ملک کی حالت دیر یافت کرتا رہتا.یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب عراق میں بغاوت ہوئی.اس شخص کا نام عبد القادر ہے تھا.پنجویں سے آگے روانگی پر خطر تھی لیکن سفر کرنا پڑا اور خاردار علاقوں میں سے ہوتا ہوا شیوہ کل پہنچا.اگلا علاقہ اور بھی خطر ناک تھا.توکل بخدا آگے روانہ ہوا اور ایک شہر سردشت کو دیکھنے گیا.وہاں کسٹم آفیسر کے ہاں ٹھرا.اس کے مکان پر ایک شخص ہمایوں مرزا جو اپنے ملک سے بدر کر دیا گیا تھا ملا.یہ شا ہونہ قوم کا آدمی تھا.اُس نے مجھ سے کئی بار حضرت احمد کی نسبت سوال کیئے لیکن میرے پاس وقت نہیں تھا اس لئے میں واپس آگیا اور پی در پہنچا.وہاں کا سردار با بکر تھے بہت اچھی طرح لے گیا اور بڑی خاطر تواضع کی.وہاں سے میں وزنہ پہنچا اور وہاں کے سردار کے پاس ٹھرا.میں چند دن کے واسطے شکار کو گیا اور جب واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرا ڈیرا میوہ جات سے بھرا ہوا ہے اور بہت سے سوار باہر کھڑے ہیں.جس دن میں شکار کو گیا اسی دن وہ سردار آغا با قر بھی کسی کام کو روانہ ہوا مجھے معلوم ہوا کہ وہ واپس آ گیا ہے.

Page 156

104 سیلاط سے بھر ملاقات میں نے کہا کہ تم جلد ہی کیوں واپس آگئے کچھ اور نام تھا.پہلے اور گفتگو مں آیا نام میں شریک ہوئے.یہ قوم لخط آپ کے نام دیا اور فورا ہی پوسٹیکل آفیسر سے اجازت دلوا کر مجھے واپس روانہ کر دیا.خط میں انہوں نے اشتیاق ملاقات کا اظہار کیا اور مجھے لکھا کہ میں اُن سے آکر ملوں، اسی ق وہ دو بند ایک جگہ ہے جہاں گیا اس منزل کے فاصلے پر تھے.غیر میں گیا.مزاج پرسی وغیرہ جب ختم ہوئی تو چھٹتے ہی کہنے لگے کہ میرے لیئے کیا لائے ہو ؟ میں نے کہا کہ نافہ لایا ہوں.تو ہنسے اور کہنے لگے کہ حضرت احمد کی کوئی کتاب بھی لائے ہو یا نہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت مجھے تو خواب و خیال بھی نہ تھا کہ آپ سے ملاقات ہوگی.پھر کہنے لگے کہ جب ہندوستان رخصت ہو گئے تھے تواحمد کی جماعت کے مرکز میں بھی گئے تھے یا نہیں ؟ یکی خاموش ہو گیا.اس کے بعد میں وہاں سے وا نہ ہو کر کوک سلیمانیہ ہوتا ہوا بغداد پنچا.عربوں کی بغاوت ختم ہو چکی تھی.اس کے بعد میری صحت خراب ہونے کی وجہ سے مجھے ہندوستان آنے کی اجازت ہوئی.را چیپوتانہ میں احمدیت کا ذکر ۱۹۲۲ء اور ۱۹۲۳ء میں مجھے راجپوتانے میں کام کرنے کاحکم ملا اور ایسے علاقے میں گیا جہاں کوئی انگریز سرویرا بھی تک نہیں گیا اور نہ ہی امید تھی کہ کوئی جاسکے گا.پہلے ہم لوگ بار میرا سٹیشن مارواڑ پر اترے.وہاں سے جیسلمیر ریاست کے شہر پہنچے.سب بندوبست کر کے ریگستان میں داخل ہوئے.جگہ جگہ پانی کے جاہات پر لوگ ملتے رہے جو نام کے مسلمان تھے مگر اسلام سے نا واقف لیکن اکرنوں نے احمد می جما عت کی نسبت وہاں بھی مجھ سے دریافت کیا ہے.

Page 156