Ittemamul-Hujjah

Ittemamul-Hujjah

اتمام الحجّة

اُردو ترجمہ
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR

<div class="container mt-2"> یہ رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی رسل بابا امرتسری پر اتمام حجّت کرنے کے لیے جون۱۸۹۴ء میں شائع کیا۔ اس رسالہ کا کچھ حصہ عربی میں ہے اور کچھ اردو میں۔ اس کی تالیف کا باعث مولوی رسل بابا امرتسری کا رسالہ حیات المسیح ہوا۔ جس میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے آسمان پر بچشمہ العنصری زندہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رسالہ میں قرآن مجید اور احادیث اور ائمہ اور سلف صالحین کے اقوال سے مسیحؑ کی وفات پر مختصر لیکن جامع بحث کی ہے۔ مولوی مذکور نے اپنے رسالہ میں ان کے دلائل کو ردّ کرنے والے کے لیے ایک ہزار روپیہ انعام دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ یہ رسالہ رؤسائے امرتسر اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور خود مولوی رسل بابا صاحب کو رجسٹر کر کے بھجوایا گیا مگر مولوی رسل بابا صاحب نے اپنے ہزار روپیہ انعام کے اعلان کا پاس نہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کر کے اپنا کذب اور دروغ ثابت کر دیا۔ مولوی رسل بابا صاحب امرتسری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشد ترین مخالفوں میں سے تھے۔ آپ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں ان کا شمار نو مشہور مفسد مخالفین میں کیا ہے۔ اور وہ آخر کار ۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء کو طاعون سے امرتسر میں وفات پا گئے۔ <div class="container mt-2"> عربی حصہ کا اُردو زبان میں ترجمہ افادہٴ عام کے لئے شائع کیا گیا ہے۔ اس میں عربی متن اور اس کا اُردو ترجمہ بالمقابل دیا گیا ہے تاکہ پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔ </div> </div>


Book Content

Page 1

اردو ترجمہ اتمام الحُجَّة تصنیف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام

Page 2

اردو تر جمہ ٹائیٹل با راول الحمد لله الذي وفقنا لتأليف رسالتنا هذه التي ألفت لأفحام المولوى رسل بابا الأمرتسرى و تبكيته و فصل فيه کل امر لتسكيته و سمّيت سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں ہمارے اس رسالہ کی تالیف کی توفیق عطا فرمائی جس کو میں نے مولوی رسل بابا امرتسری کو لاجواب اور ساکت کرنے کے لئے تالیف کیا اور اس میں ہر امر کو اس کو خاموش کرانے کے لئے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس کا نام میں نے اتمام الحَجَةِ على الذى لج وزاغ عَز المحيَةِ رکھا ہے یعنی اتمام حجت ہر اس شخص پر جو دشمنی میں بڑھ گیا او راہ راست سے ہٹ گیا ہے و طبعت فی مطبع گلزار محمدی في بلدة لاهور ۱۳۱۱ھ یہ گلزار محمدی پریس بمقام لاہور ۱۳۱ ھ میں طبع ہوئی.تعداد جلد ۷۰۰ قیمت فی جلد۳

Page 3

نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود عرض ناشر حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ السلام نے مولوی رسل بابا امرتسری کے رسالہ حیات اسیح کے جواب میں ایک عظیم الشان کتاب اتـمَـامُ الحُجّة جون ۱۸۹۴ء میں تصنیف فرمائی تھی.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے زنده بجسده العنصر کی آسمان پر چلے جانے کے عقیدہ کا رڈ اور بطلان دلائل قویہ اور حجت قاطعہ سے پیش کیا ہے.نیز قرآن کریم اور احادیث نبویہ، سلف صالحین کے اقوال سے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کو ثابت فرمایا ہے.یہ کتاب عربی زبان میں تحریر فرمائی گئی.اس کتاب کا ایک حصہ اردو زبان میں بھی ہے.عربی حصّہ کا اردو تر جمہ افادہ عام کی غرض سے پیش ہے.محترم مولانامحمد سعید صاحب انصاری مربی سلسلہ نے اس کا ترجمہ کیا تھا.اس ترجمہ کی نظر ثانی عربک بورڈ نے کی ہے.اصل ترجمہ کے مقابل پر اردو ترجمہ درج کیا گیا ہے تا قارئین کو سہولت رہے.قارئین کی سہولت کے پیش نظر کتاب کی ترتیب کے مطابق اردو حصہ بھی شامل اشاعت ہے.

Page 4

اللہ تعالیٰ قارئین کو اس کے گہرے اور دقیق مضامین و مطالب کو ذہن نشین کرنے اور آگے پھیلانے کی توفیق بخشے.

Page 5

اتمام الحجة اردو تر جمه بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الحمد لله الذي يقيم سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو ہر زمانے میں الحمدلله حجته في كل زمان ويجدد اپنی حجت قائم فرماتا ہے، ہر آن اپنی ملت کی تجدید ملّته في كل أوان، ويبعث کرتا اور ہر فساد کے موقع پر مصلح مبعوث فرما تا اور مصلحا عند کل فساد، وینتاب اس کی طرف سے مخلوق میں پے در پے ایک ہادی الخَلُقَ منـه هـاد بعد هاد، کے بعد دوسرا ہادی آتا ہے وہ سیدھی راہ دکھا کر اپنے ويـــمــن عـلـى عباده بارائة بندوں پر احسان فرماتا اور مستعد روحوں کے لئے راہ طرق سداد، ويسوّى الصراط ہموار کرتا ہے.وہ اپنی کتاب کے ذریعہ مخلوق کی للمتأهبين.يهدى الخلق بكتابه | رہنمائی اپنے اسرار کی طرف فرماتا ہے اور عقل کو اُس إلى أسراره، ولا يُسمح عقل کی پردہ کشائی تک رسائی نہیں.وہ اپنے بندوں میں بكشف أستاره ، يُلقى الروح سے جن پر چاہتا ہے اپنی روح ڈالتا ہے اور جن پر على من يشاء من عباده، ويفتح چاہے اپنے رشد و ہدایت کے دروازے کشادہ کر دیتا على من يشاء أبواب إرشاده ہے جس کی وجہ سے اس شخص کو نہ کوئی میل آلودہ کر فلا يغشاه درن ولا ينتطحه سکتی ہے اور نہ کوئی ہم پلہ اس سے ٹکر لے سکتا ہے.قرن، ويُدخله في الطيبين.ایسے شخص کو وہ پاک لوگوں میں شامل کر لیتا ہے.وہ يدعو من يشاء ، ويطرد من جسے چاہے اپنے حضور پذیرائی بخشتا ہے اور جسے يشاء، ويُخيّب من يشاء، چاہے دھتکار دیتا ہے.جسے چاہے نامراد کرتا اور ويعطى من يشاء من نعماء جسے چاہے اپنی عظیم نعمتیں عطا کر دیتا ہے.وہ جہاں عظمى، ويجعل رسالاته حيث چاہے اپنی رسالت رکھ دیتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ يشاء، ويعلم من بها أحق وأولى.اس کا سب سے زیادہ حقدار اور اہل کون ہے.

Page 6

اتمام الحجة اردو تر جمه الناس كلهم ضالون إلا من حق یہ ہے کہ ) لوگ سب کے سب گم گشتہ راہ ہیں هداه، وكلهم ميتون إلا من سوائے اُن کے جنہیں وہ ہدایت دے اور سب مردہ أحياه، وكلهم عُمى إلا من أراہ ہیں سوائے ان کے جنہیں وہ زندہ کرے.اور سب وكلهم جياع إلّا من غذاه، اندھے ہیں بجز اُن کے جنہیں وہ بینائی بخشتے اور سب وكلهم عطاش إلا من سقاه، ومن بھوکے ہیں سوائے اُن کے کہ جنہیں وہ غذا مہیا کرے لم يهده فلا يكون من المهتدین اور سب پیاسے ہیں سوائے اُن کے کہ جنہیں وہ والصلاة والسلام على رسولہ پلائے.اور جسے وہ ہدایت نہ دے وہ ہدایت یافتہ ومقبوله محمد خیر الرسل نہیں ہو سکتا.اور درود و سلام اُس کے رسول اور و خاتم النبيين، الذي جاء بالنور | مقبول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر جو خیر الرسل اور المنير، ونجى الخلق من الظلام خاتم النبيين ہیں جو نور منیر لائے اور جنہوں نے مخلوق المبير، وخلص السالكين من کو ہلاک کر دینے والے اندھیروں سے نجات بخشی اعتياص المسير، وهيا لهم اور سالکین راہ کو راستے کی مشکلات سے نجات بخشی زادا غير اليسير ، و آتی صُحُفًا اور اُن کے لئے وافر زادِ راہ مہیا کیا.اور انہیں شجرہ مطهرة كشجرة طيّبة، اغتذى كل طیبہ کی طرح ایسے پاک صحیفے عطا کئے جن سے ہر طالب بـجـنـي عُودها، ورغبت طالب حق نے اس درخت کے تازہ پھلوں سے غذا كل فطرة سليمة في استشارة حاصل کی.اور ہر فطرت سلیمہ اس کی سعادتوں کے سعودها، وما بقى إلا الذي كان حاصل کرنے کی جانب راغب ہوئی اور ازلی شقى الأزل ومن المحرومين بدبخت اور حرماں نصیب کے سوا کوئی بھی (ان والسلام علی آله الطيبين سعادتوں سے ) محروم نہ رہا.اور سلامتی ہو آپ کی الطاهرين، الذين أشرقت الأرض اس پاک اور مطہر آل پر کہ جن کے نور سے ساری بنورهم، وظهر الحق بظهورهم زمین منور ہوگئی اور جن کے ظہور سے حق ظاہر ہوا.

Page 7

اتمام الحجة اردو تر جمه ولا شك أنهم كانوا بدور بلا شبہ یہ لوگ امامت کے مہ کامل اور استقامت کی الإمامة، وجبال طرق راہوں کے کوہ گراں تھے.ان لوگوں سے صرف الاستقامة، ولا يُعاديهم إلا من وى شخص عداوت کرتا ہے جو لعنت کا مورد اور کج رو وہی كان مورد اللعنة، وزائغا عن ہو.اللہ رحم فرمائے اس شخص پر جس نے ان المحجّة، ورحم الله رجلا (اہل بیت ) کی محبت کو تمام صحابہ کی محبت کے ساتھ جمع حُبّهم مع حبّ الصحبة جمع کیا.اور سلامتی ہو آپ کے صحابہ اور آپ کے أجمعين.وعـلــى أصحابه مخلص پیاروں پر جو آپ کے سایہ سے بھی بڑھ وصفوة أحبابه الذين كانوا له کر آپ کے پیچھے پیچھے چلنے والے اور آپ کے أتبع من ظله، وأطوع من نعله كفش پاسے بھی زیادہ مطبع تھے.انہوں نے آپ تركوا بروق الدنيا وزينتها کے لعلِ بے بہا کو دیکھ کر دنیا کی چمک اور سج دھج کو برؤية لعله ونهضوا إلى ما ترک کر دیا اور پوری قلبی اطاعت اور فطری أمروا بإذعان القلب وسعادة سعادت کے ساتھ ہر دیئے گئے حکم کی بجا آوری السيرة، وجاهدوا فی اللہ علی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ناتوانی حال کے ضعف من المريرة، و ما كانوا باوجود انہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ بیٹھ قاعدين.تبتلوا إلى الله تبتيلا، رہنے والے نہیں تھے.اُنہوں نے اللہ کے لئے وجمعوا خزائن الآخرة وما پُورا پورا تقتل اختیار کیا اور آخرت کے خزانے جمع ملكوا من الدنيا فتیلا، وما کر لئے اور دُنیا کے مال سے کچھ بھی نہ لیا.اور مالوا إلى امتراء الميرة، وبذلوا ذخائر جمع کرنے کی جانب مائل نہ ہوئے.دین کی أنفسهم لإشاعة الملّة، وقَفَوا اشاعت کے لئے اُنہوں نے اپنی جان مار دی.ظلال رسول اللہ صلی اللہ علیہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایوں کے وسلم حتى صاروا من الفانين پیچھے پیچھے ایسے چلے کہ بس فانی ہو گئے.

Page 8

اتمام الحجة اردو تر جمه شروا أنفسهم ابتغاء مرضاة اُنہوں نے رب لطیف کی خوشنودی کے حصول کی الرب اللطیف، ورضوا خاطر اپنے آپ کو بیچ ڈالا.اور اُس کی رضا کی لمرضاته بمفارقة المألف خاطر اپنے گھر بار اور پیارے دوستوں کی مفارقت والأليف، وأنحـوا أبصارهم پر راضی ہو گئے اُنہوں نے دنیا وَ مَا فِيهَا سے اپنی عن الدنيا وما فيها، وأخذتهم آنکھیں پھیر لیں.اور ایک بہت بڑی کشش اُن جذبة عظمى فجذبوا إلى الله پر ایسی طاری ہوئی کہ وہ اللہ رب العالمین کی طرف ربّ العالمين.کھنچے چلے گئے.أما بعد فاعلم أن أُخُوّة اَمَّا بَعد.تو جان لے کہ اسلامی اخوت خیر خواہی الإسلام يقتضى النصح و صدق اور صدق بیانی کا تقاضا کرتی ہے.اور جس شخص کو الكلام، ومن أعطى علمًا من كوئى علم دیا گیا پھر اس نے اُسے ایک پوشیدہ راز کی علوم فأخفاه كسر مكتوم فهو طرح چھپایا تو وہ ایک خائن شخص ہے.علوم کے أحد من الخائنين.وإن العلوم دقائق کی کوئی انتہاء نہیں اور اُن کے حقائق بے شمار لا تنتهى دقائقها، ولا تُحصى ہیں.اُن کے ظہور میں کوئی مانع نہیں اور نہ ہی اُن حقائقها، ولا مانع لظهورها، کے ماہتابوں کے لئے تاریک راتیں ہیں.بہت ولا محاق لبدورها، وكم من سے علوم ایسے بھی ہیں جو آخرین کے لئے چھوڑ علم ترك للآخرين.وقد دیئے گئے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ میرے رب نے علمنی ربّى من أسرار ، مجھے بہت سے اسرار سکھائے ہیں اور اخبار ( غیبیہ ) وأخبرني من أخبار ، وجعلني سے اطلاع بخشی ہے اور اُس نے مجھے اس صدی کا مجدد هذه المائة، وخصني في مجدد بنایا اور اپنے علوم میں بڑی فراخی اور وسعت علومه بالبسطة والسعة کے ساتھ مجھے مخصوص فرمایا اور مجھے اپنے رسولوں کا وجعلنى لرسله من الوارثين وارث بنایا.

Page 9

اتمام الحجة اردو ترجمہ وكان من مفائح تعليمه، وعطايا | يأس (ذات باری ) کی تعلیم کی فیاضی اور تفہیم تفهيمه، أن المسيح عيسى بن کے عطیات میں سے ہے کہ مسیح عیسی ابن مریم اپنی مريـم قـدمـات بـمـوتـه الطبعي طبعی موت سے فوت ہوئے اور اپنے دوسرے وتُوفّى كإخوانه من المرسلين مُرسَل بھائیوں کی طرح وفات پاچکے ہیں.اور وبشرني وقال إن المسیح اس نے مجھے بشارت دی اور فرمایا کہ مسیح موعود جس الموعود الذي يرقبونه والمهدی کی وہ راہ دیکھتے ہیں اور مہدی مسعود جس کا وہ المسعود الذي ينتظرونه هو أنت، انتظار کر رہے ہیں وہ تو ہی ہے.ہم جو چاہتے ہیں نفعل ما نشاء فلا تكونن من کرتے ہیں.اس لئے تو شک کرنے والوں میں الممترين.وقال إنا جعلناك سے ہرگز نہ بن.نیز فرمایا : کہ ہم نے تجھے مسیح ابنِ المسيح ابن مریم ، ففَضَّ خَتُم مریم بنایا ہے.اس طرح اُس نے اپنے راز کی سره وجعلني على دقائق الأمر مُہر کو توڑا اور اس امر کے دقائق پر مجھے مطلع فرمایا من المطلعين.وتواترت هذه اور یہ الہامات اتنے تواتر سے ہوئے اور یہ الإلهامات، وتتابعت البشارات، بشارتیں اتنی لگا تار ہوئیں کہ میں پورے طور پر حتى صرت من المطمئنين.ثم مطمئن ہو گیا.پھر میں نے حزم و احتیاط کا تخيّرت طريق الحزامة، ورجعتُ طريق اختیار کیا اور سلامتی کی راہوں کی محافظ إلى كتاب الله خفير طرق السلامة، اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کیا.تو میں نے فوجدته عليه أوّلَ الشاهدين.اس کو اس پر سب سے پہلا گواہ پایا.اور اُس کے و أى بيان يكون اوضح من بيانه بيان يُعِيلى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ سے بڑھ کر يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ؟ فَانظُرُ، اور کون سا بیان واضح تر ہوسکتا ہے؟ غور کر.هداك الله قبل تَوَفِّيك الله تعالى تجھے تیری وفات سے پہلے ہدایت وجعلك من المستبصرين دے اور تجھے صاحب بصیرت بنائے.

Page 10

اتمام الحجة اردو تر جمه وأكده الله بقوله فَلَمَّا اللہ تعالیٰ نے اپنے قول فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى تَوَفَّيْتَني، ففَكِّرُ فيه يا من سے (وفات مسیح کے عقیدہ) کو پکا کر دیا ہے.اس آذیتنی، و حسبتنى من لئے اے وہ شخص جس نے مجھے اذیت دی اور مجھے الكافرين.وهذا نص لا يردّه کافروں میں سے گردانا تو اس بارے میں غور قولُ مُبار بآثار ، ولا يجرحه کر.اور یہ وہ نص صریح ہے جسے کسی مخالف کا سهم مُمارِ في مضمار ، ولا قول احادیث سے رڈ نہیں کر سکتا اور نہ ہی میدان ینكره إلا من كان من میں کسی مخالف کا تیر اسے مجروح کرسکتا الظالمين.والذين غاض دَر سوائے ظالم کے اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.وہ ہے.أفكارهم وضعفت جوازل لوگ جن کے فکر کے سوتے خشک ہو چکے ہوں اور أنظارهم، لا ينظرون إلى كتاب اُن کی نگاہیں کمزور اور کوتاہ ہوں وہ کتاب اللہ اور الله وبيناته، ويتيهون كرجل اُس کے واضح دلائل پر نگاہ نہیں ڈالتے اور وہ اُس شخص اتبع جهلاته، ويتكلمون کی طرح سرگرداں ہیں جو اپنی جاہلانہ باتوں کا تابع كمجانين.يقولون إن لفظ ہو اور پاگلوں جیسی گفتگو کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں التوفي ما وضع لمعنى خاص ك لفظ توفی خاص معنی کے لئے وضع نہیں کیا بل عمت معانيه، وما أُحكمت گیا بلکہ اس کے معانی عام ہیں اور اس کی بنیادیں مبانيه، وكذلك يكيدون مضبوط نہیں اور وہ اس طرح مفتریوں کی طرح فریب كالمفترين.وإذا قيل لهم إن کرتے ہیں.اور جب ان سے یہ کہا جائے کہ هذا اللفظ ما جاء في القرآن رحمن خدا کی کتاب قرآن میں یہ لفظ جہاں بھی وارد كتاب الله الرحمن إلا للإماتة ہوا ہے وہاں اس کے معنی صرف اور صرف مارنے وقبض الأرواح المرجوعة، لا اور دمِ واپسیں روح کے قبض کرنے کے ہوتے لقبض الأجسام العنصرية، ہیں نہ کہ اجسام عنصری کے قبض کرنے کے.

Page 11

اتمام الحجة اردو تر جمه فكيف تصرون على معنى ما پھر تم کس طرح اُن معنوں پر اصرار کرتے ہو جو ثبت من كتاب الله وبيان خير كتاب اللہ اور خیر المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے المرسلین صلی اللہ علیہ بیان سے ثابت نہیں ؟ تو وہ اس کے جواب میں وسلم؟ قالوا إنا ألفينا آباء نا کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے آباء واجداد کو اپنے على عقيدتنا ولسنا بتاركيها اس عقیدے پر پایا.اور ہم اس کو ابدالآباد تک إلى أبد الآبدين.نہیں چھوڑ سکتے.ثم إذا قيل لهم إن خاتم پھر جب اُن سے کہا جائے کہ سب سے النبيين و أصدق المفسرین زیادہ بچے مفسر خاتم النبیین نے اس آیت کی فسّر هكذا لفظ التوفّى فى تفسیر میں لفظ تو فی یعنی تَوَفَّيْتَنِی کی یہی تفسير هذه الآية؛ أعنى تفسیر کی ہے جیسا کہ اہلِ دانش پر مخفی نہیں اور تَوَفَّيْتَني، كما لا يخفى على حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا أهل الدراية، وتبعه ابن عباس تتبع کیا ہے تا کہ وہ اِس طرح کے وسوسوں کی ليقطع عرق الوسواس، وقال جڑ کاٹ دیں.اور اُنہوں نے مُتَوَفِّيكَ وفيك مميتك، فلِمَ کے معنے مُمِيتُكَ کے کئے ہیں.تو پھر تم تتركون المعنى الذى ثبت مِن کیوں ان معنوں کو چھوڑتے ہو جو اول درجے نبي كان أوّل المعصومين کے معصوم نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اور ومن ابن عمه الذي كان من آپ کے چا زاد سے جو اعلیٰ پایہ کے صاحب الراشدين المهديين ؟ قالوا رشد و ہدایت تھے ، ثابت ہیں؟ تو کہتے ہیں کہ كيف نقبل ولم يعتقد بهذا ہم کیسے تسلیم کریں جبکہ ہمارے گزشتہ آباء و | آباؤنا الأوّلون؟ و ما قالوا اجداد اس پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے.اُنہوں إلا ظلمًا وزورا ومن الفِرية نے جو کچھ کہا ہے وہ محض ظلم، جھوٹ اور افتراء ہے

Page 12

اتمام الحجة اردو تر جمه ولم يحيطوا آراء سلفِ اور اُنہوں نے اسلاف اُمت کی آراء کا احاطہ الأمة إلا الذين قربوا منهم نہ کیا سوائے اُن غلطی خورہ لوگوں کے جو اُن مـن الـمـخـطـيــن، وما تبعوا إلا سے زیادہ قریب تھے.اور انہوں نے صرف الذين ضلوا من قبل من فَيُجِ فَيُجِ اَعُوجُ کے اُن لوگوں کی اتباع کی جو أعوج ومن قوم محجوبین پہلے ہی گمراہ ہو گئے اور وہ محروم قوم میں سے فما زالوا آخذین بآثارهم تھے.وہ اُن لوگوں کے اقوال اختیار کرتے حتى حصحص الحق، فرجع چلے گئے تا آنکہ حق واضح ہو گیا پھر اُن میں بعضهم متندمين.وأما الذين سے بعض نے تو پشیمان ہو کر رجوع کر لیا.البتہ طبع الله على قلوبهم فما جن کے دلوں پر اللہ نے مُہر لگا دی تھی تو وہ نہ تو كانوا أن يقبلوا الحق وما حق کو قبول کرنے والے ہوئے اور نہ ہی نفعهم وعظ الواعظين واعظین کے وعظ نے انہیں کوئی فائدہ پہنچایا.والعلماء الراسخون يبكون ہاں راسخ فی العلم علماء اُن کی حالت پر روتے عليهم ويجدونهم علی ہیں اور انہیں (ہلاکت کے ) گڑھے کے شفا حفرة نائمين.کنارے پر سوئے ہوئے پاتے ہیں.يا حسرة عليهم لم لا يفكرون وائے حسرت اُن پر! وہ اپنے دلوں في أنفسهم أن لفظ التوفّى لفظ قد میں کیوں نہیں سوچتے کہ توفی کے لفظ اتضح معناه من سلسلة شواهد کے معنے قرآنی شواہد کے تواتر ، انس و جن القرآن، ثم من تفسير نبي الإنس کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) نیز آپ کے ونبي الجان، ثم من تفسير صحابي جليل القدر صحابی کی تفسیر کے ذریعہ واضح ہو جليل الشان، ومن فسّر القرآن برأيه گئے ہیں.اور جو قرآن کی من مانی تفسیر کرتا فهو ليس بمؤ من بل هو أخ الشيطان ہے وہ مومن نہیں بلکہ شیطان کا بھائی ہے.

Page 13

اتمام الحجة ۹ اردو تر جمه فأى حجة أو ضحُ من هذا إن اگر وه في الواقعہ مومن ہیں تو اس سے بڑھ کر اور كانوا مؤمنين؟ ولو جاز صرف کون سی دلیل واضح ہو سکتی ہے اور اگر الفاظ میں ألفاظ تحكما من المعانى المرادة اُن کے مقصودہ، متواترہ معانی سے از راہ محکم المتواترة، لارتفع الأمان عن تصرف کرنا جائز ہو تو پھر لغت اور شرع سے کلیہ اللغة والشرع بالكلية، وفسدت امان اُٹھ جائے گی اور سب عقائد بگڑ جائیں گے العقائد كلها، ونزلت آفات علی اور ملت اور دین پر آفات نازل ہو جائیں گی.اور الملة والدين.وكل ما وقع في جب بھی کلام عرب میں کوئی لفظ آئے تو ہم پر لازم كلام العرب من ألفاظ وجب علينا ہے کہ اپنی طرف سے اس کے معانی نہ گھڑیں اور أن لا ننحت معانيها من عند أنفسنا، قليل ( الاستعمال) معانی کو کثیر (الاستعمال ) ولا نقدّم الأقل على الأكثر إلا معانی پر مقدم نہ کریں سوائے اس کے کہ کوئی ایسا عند قرينة يوجب تقديمه عند قرینہ موجود ہو جو اہلِ معرفت کے نزدیک اس معنی أهل المعرفة، وكذلك كانت كو مقدم كرنا واجب کر دے اور یہی طریق کار سنن المجتهدين.ہمیشہ مجتہدین کا رہا ہے.ولما تفرقت الأمة على ثلث اور جب امت مسالک کے لحاظ سے تہتر وسبعين فرقة من الملة، وكل فرقوں میں بٹ گئی اور ہر ایک نے یہ سمجھا کہ وہ زعم أنه من أهل السنّة، فأتى اہلِ سنّت میں سے ہے تو ان اختلافات سے مخرج من هذه الاختلافات نکلنے کی کون سی راہ ہے اور ان آفات سے وأى طريق الخلاص من چھٹکارا حاصل کرنے کا اور کون سا طریق ہے.الآفات من غير أن نعتصم سوائے اس کے کہ ہم اللہ کی محکم رتی کو بحبل الله المتين؟ فعليكم معاشر مضبوطی سے تھام لیں.پس اے مومنوں کے المؤمنين باتباع الفرقان گرو ہو! تم پر فرقان (حمید) کی اتباع لازم ہے

Page 14

اتمام الحجة اردو تر جمه ومن تبعه فقد نجا من طرق اور جس نے اس کی اتباع کی تو وہ یقیناً گھاٹے کی الخسران.ففكروا الآن، إن راہوں سے نجات پا گیا.لہذا اب غور کرو کہ القرآن يتوفَّى المسيح ويكمل قرآن کریم میسیج کو مارتا ہے اور اس کے بارہ فيه البيان، وما خالفه حدیث میں اپنے بیان کو مکمل کرتا ہے اور کوئی حدیث بھی في هذا المعنى بل فسّره وزاد اس معنی میں قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ اس کی العرفان، وتقرأ فى البخاری تفسیر کرتی اور عرفان بڑھاتی ہے.تم بُخاری ، والــعـيـنـي وفـضـل الباري أن عيني اور فضل الباری میں پڑھتے ہو کہ توفّی التوفّى هو الإماتة، كما کے معنی مارنے کے ہیں.جیسا کہ (حضرت) صلى الله شهد ابن عباس بتوضيح ابنِ عباس اور ہمارے آقا محمد ﷺ) نے جو تمام البيان، وسيدنا الذي إمام انس و جن کے امام اور نبی ہیں.واضح بیان کے الإنس ونبي الجان، فأى أمرٍ ساتھ اس کی شہادت دی ہے.تو پھر اے بھائیو بقی بعدہ یا معشر الإخوان اور مسلمانوں کے گروہو ! اس کے بعد اور کون سی وطوائف المسلمين؟ بات باقی رہ جاتی ہے؟ وقد أقر المسيح في القرآن أن قرآن میں مسیح کا یہ اقرار موجود ہے کہ اُن کی فساد أمته ما كان إلا بعد موته موت کے بعد ہی ان کی اُمت میں بگاڑ ظاہر ہوا.فإن كان عيسى لم يمت إلى الآن، پھر اگر عیسی (علیہ السلام) اب تک فوت نہیں فلزمك أن تقول إن النصارى ما ہوئے تو تمہیں لا ز ما یہ ماننا پڑے گا کہ نصاریٰ نے أفسدوا مذهبهم إلى هذا الزمان اب تک اپنے مذہب کو نہیں بگاڑا اور جن لوگوں والذين نحتوا معنى آخر للتوفّى نے توفی کے کوئی اور معنی گھڑ لئے ہیں تو ایسے فهو بعيد عن التشفّى، وإن هو معنى نا قابل اطمینان ہیں اور یہ صرف اور صرف إلا من أهوائهم وفساد آرائهم، ان کی خواہشات اور اُن کے خیالات کا فتور ہے.

Page 15

اتمام الحجة اردو تر جمه ما أنزل الله به من سلطان، كما جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں لا يخفى على أهل الخبرة وقلب فرمائی.جیسا کہ یہ امر اہل علم اور بیدار دل رکھنے يقظان.وإن لم ينتهوا حقدًا، والوں پر مخفی نہیں.اگر وہ کینہ رکھنے کی وجہ سے باز وأصروا على الكذب عمدا، نہ آئے اور عمدا جھوٹ پر اصرار کرتے رہے تو اُن فليخرجوا لنا على معناهم کو (اپنے) معانی کے لئے کوئی سند ہمارے سندا، وليأتوا من الله ورسوله سامنے پیش کرنی چاہئے یا اگر وہ بچے ہیں تو اللہ اور بشرح مستند إن كانوا صادقين.اُس کے رسول کی کوئی مستند شرح سامنے لائیں اور وقد عرفتم أن رسول الله صلی یہ تو تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الله عليه وسلم ما تكلم بلفظ توفّى کا لفظ صرف اماتَتْ (موت دینا) کے التوفى إلا فـي مـعـنـى الإمانة معنى میں بولا ہے.اور آپ تمام انسانوں میں وكان أعمق الناس علما وأوّل سب سے گہرا علم رکھنے والے اور اول درجہ کے المبصرين.وما جاء فی القرآن صاحب بصیرت تھے.قرآن میں بھی لفظ توفی إلا لهذا المعنى، فلا تحرّفوا ان ہی معنوں میں آیا ہے.اس لئے تم اللہ کے كلمات الله بخيال أدنى، ولا کلمات میں (اپنے) گھٹیا خیال سے تحریف نہ کرو اور تقولوالماتصف ألسنتكم تم ان چیزوں کے بارے میں جن کے متعلق تمہاری الكذب ذلك حق وهذا باطل، زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ نہ کہو کہ وہ حق ہے واتقوا الله إن كنتم متقين.اور یہ باطل ہے.اگر تم متقی ہو تو اللہ سے ڈرو.لم تتبعون غلطًا ورجمًا بالغيب، تم غلط اور اٹکل پچو (عقیدہ) کے پیچھے کیوں لگے (۵) ولا تبغون تفسير من هو منزّه من ہوئے ہو اور اُس کی تفسیر کو پسند نہیں کرتے جو ہر عیب صلى الله العيب وكان سيّد المعصومین؟ سے منزہ اور تمام معصوموں کا سردار ہے ہے پس فاجتنبوا مثل هذه التعصبات، اس قسم کے تعصبات سے اجتناب کرو.

Page 16

اتمام الحجة ۱۲ اردو تر جمه واذكروا الموت يا دُودَ الممات | اے موت کے کیڑو! موت کو یاد رکھو.کیا تم سمجھتے ( أتُتركون في الدنيا فرحین؟ ہو کہ تمہیں دنیا میں یونہی شاداں و فرحاں چھوڑ دیا فاذكروا يوما يتوفاكم الله ثم جائے گا.اُس دن کو یاد کر وجب اللہ تمہیں وفات دے ترجعون إليه فرادی فرادی، گا پھر تم اُس کی طرف ایک ایک کر کے لوٹائے جاؤ گے.ولا ينصركم من خالف الحق اور کوئی بھی حق کا مخالف اور دشمن تمہاری مدد نہ کر سکے وعادى، وتُسألون كالمجرمين.گا اور تم سے مجرموں کی طرح باز پرس کی جائے گی.وأما قول بعض الناس من الحمقى رہا بعض احمق لوگوں کا یہ قول کہ عیسی کے أن الإجماع قد انعقد علی رفع روحانی زندگی کے ساتھ نہیں بلکہ جسمانی زندگی عيسى إلى السماوات العلى بحياته کے ساتھ بلند آسمانوں کی طرف رفع پر اجماع الجسماني لا بحياته الروحانی ہو چکا ہے، پس تو جان لے کہ یہ قول محض ایک فاعلم أن هذا القول فاسد ومتاع لغو بات اور ایک گھٹیا سودا ہے جسے صرف جاہل كاسد، لا يشتريه إلا من كان من ہی خرید سکتا ہے.اجماع سے مراد اجماع الجاهلين.فإنّ المراد من الإجماع صحابہ ہے.اور وہ اس عقیدہ میں ثابت نہیں إجماع الصحابة، وهو ليس بثابت ہے.حضرت ابنِ عباس نے مُتَوَفِّيكَ کے في هذه العقيدة ، وقد قال ابن معنى مُمِيتُكَ کے کئے ہیں.پس موت عباس متوفيك مميتك، فالموت تو ثابت ہے خواہ تیرا بھوت اس کو قبول نہ ثابت وإن لم يقبل عفريتك کرے.اے وہ شخص جس نے مجھے تکلیف دی وقد سمعت يا من آذیتنی أن آية ہے ! تم نے یہ سنا ہے کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کی فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنى تدل بدلالة قطعية آيت دلالت قطعیہ اور واضح عبارت سے اس و عبارة واضحة أن الإماتة التي امر كى طرف رہنمائی کرتی ہے کہ جو وفات ثبتت من تفسير ابن عباس، حضرت ابنِ عباس کی تفسیر سے ثابت ہوتی ہے

Page 17

اتمام الحجة ۱۳ اردو تر جمه قد وقعت و تمت ولیس وہ وقوع پذیر ہوگئی اور پا یہ تکمیل کو پہنچ گئی نہ یہ کہ وہ بواقع كما ظن بعض واقع ہونے والی ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال الناس.أفأنت تظن أن النصاری ہے.کیا تم خیال کرتے ہو کہ نصاری نے اپنے ما أشركوا بربهم وليسوا رب کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا ؟ اور کیا وہ قیدیوں في شرك كالأسارى؟ کی طرح اس کے دام میں گرفتار نہیں ہیں؟ اگر تم یہ وإن أقررت بأنهم قد ضلوا اقرار کرتے ہو کہ وہ گمراہ ہو چکے ہیں اور دوسروں کو وأضلوا، فلزمك الإقرار بھی انہوں نے گمراہ کیا ہوا ہے تو پھر لازمی طور پر بأن المسیح قدمات تمہیں اس کا بھی اقرار کرنا ہو گا کہ مسیج مر گئے اور وفات، فإنّ ضلالتهم فوت ہو گئے.کیونکہ ان (نصاری ) کی گمراہی کانت موقوفة على وفاة مسیح کی وفات پر موقوف تھی اس لئے غور کر اور المسيح، فتفكر ولا تجادل بے حیاؤں کی طرح فضول بحث نہ کر.اور یہ کالوقيح.وهذا أمر قد (وفات مسیح کا معاملہ قرآن اور انس و جن کے الله ثبت من القرآن، ومن حديث امام اور نبی (حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی إمام الإنس ونبي الجان، حدیث سے ثابت شدہ ہے.اس لئے تمہیں کسی فلا تسمع رواية تخالفها، ایسی روایت پر کان نہیں دھرنے چاہئیں جو ان وإن الحقيقة قد انكشفت کے مخالف ہو.حقیقت تو کھل کر سامنے آچکی.فلاتلتفت إلى من اس لئے تم کسی ایسے شخص کی طرف توجہ مت دو خالفها، ولا تلتفت بعدها جوان کا مخالف ہے اور نہ ہی تم اس کے بعد إلى رواية والراوی کسی روایت اور راوی کی طرف توجہ دو.ان ولا تهلك نفسك من دعاوی کے باعث اپنے تئیں ہلاک نہ کر.اور الدعاوى، وفكّر كالمتواضعين عاجزی اختیار کرنے والوں کی طرح غور وفکر کر.

Page 18

اتمام الحجة ۱۴ اردو تر جمه هذا ما ذكرناك من النبي يہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا وہ والصحابة لنزيل عنك (عقیدہ) ہے جو ہم نے تجھے یاد دلایا ہے تا کہ ہم تجھ غشاوة الاسترابة، وأما حقيقة سے شکوک کا پردہ ہٹا دیں.صحابہ کے بعد آنے والے إجماع الذين جاء وا بعدهم، لوگوں کے اجماع کی حقیقت کا جہاں تک تعلق ہے تو فنُذكرك شيئا من كلمهم ان کی بعض باتوں کا ذکر ہم آئندہ تم سے کریں گے.وإن كنت من قبل من الغافلين.اگر چہ تم اس سے پہلے محض غافل تھے.فاعلم أن الإمام البخاري جان لو کہ امام بخاریؒ جو اللہ کے فضل سے الذي كان رئيس المحدثين رئيس المحد ثین تھے وہ وفات مسیح کا سب سے پہلے من فضل البارى، كان أول اقرار کرنے والے تھے.جیسا کہ انہوں نے اپنی المقرين بوفاة المسيح، كما صحیح میں اس کی جانب اشارہ فرمایا ہے.انہوں أشار إليه في الصحيح، فإنه نے ان دو آیتوں (إِنِّي مُتَوَفِّيكَ فَلَمَّا جمع الآيتين لهذا المراد تَوَفَّيْتَنِی ) کو اس غرض سے جمع کیا تھا تا کہ وہ ليتظاهـرا ويحصل القوة دونوں ایک دوسرے کو تقویت دیں اور اجتہاد للاجتهاد.وإن كنت تزعم أنه مضبوط ہواور اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ اُنہوں نے ان ما جمع الآيتين المتباعدتين دو متباعد آیتوں کو اس نیت سے جمع نہیں کیا تھا اور اُن لهذه النية، وما كان له غرض کی غرض اس عقیدہ ( وفات مسیح) کو ثابت کرنے کی نہیں تھی.تو پھر اگر تم چشم بصیرت رکھتے ہو تو بتاؤ لإثبات هذه العقيدة، فبينُ لِمَ جمع الآيتين إن كنت من ذوى کہ انہوں نے ان دو آیتوں کو کیوں جمع کیا ؟ اور اگر تم اس کی وضاحت نہ کر سکو اور تم ہر گز نہیں کر العينين؟ وإن لم تبيّن، ولن سکو گے تو پھر اللہ سے ڈرواور فاسقوں کی راہوں تبيّن، فاتق الله ولا تُصرّ على پر چلنے پر اصرار نہ کرو.طرق الفاسقين.ال عمران : ۵۶ المائدة : ١١٨

Page 19

اتمام الحجة ۱۵ اردو تر جمه ثم بعد البخارى انظروا يا ذوى اے صاحب بصیرت لوگو! پھر بخاری کے بعد تم الأبصار ، إلى كتابكم المسلم اپنی مسلمہ کتاب مجمع البحار “پر غور کرو.مجـمـع البـحـار فـإنه ذكر اس نے (حضرت ) عیسی علیہ السلام کے معاملے اختلافات في أمر عیسی علیه میں اختلافات کا ذکر کیا ہے.اور پہلے ان کی السلام، وقدّم الحياة ثم قال : حیات کا ذکر کیا ہے اور پھر کہا ہے کہ مالک وقال مالك مات.فانظروا فرماتے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے.اے اہلِ دانش! المجمع“ يا أهل الآراء، وخذوا مجمع البحار کو دیکھو اور کچھ حیا سے کام لو.حظا من الحياء، هذا هو القول یہ ہے وہ قول جس کا تم انکار کر رہے ہو اور وہ چیز الذي تكفرون به و تقطعون ما أمر جس کے متعلق اللہ نے ملانے کا حکم دیا ہے الله به أن يوصل وباعدتم عن أسے قطع کرتے ہو.اور تقویٰ کے مقام سے مقام الا تقاء ، أليس منكم رجل دور ہٹ گئے ہو.اے فتنہ پردازو! کیا تم میں رشيد يا معشر المفتتنين ؟ وجاء ایک بھی عقل والا نہیں؟ طبرانی اور مستدرک میں في الطبراني والمستدرك عن ( حضرت ) عائشہؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتی عائشة قالت قال رسول الله صلعم ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ إن عيسى بن مریم عاش عشرین عیسی ابن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے.پھر ومائة سنة.ثم بعد هذه الشهادات، ان شہادتوں کے علاوہ ابن القيم المحدّث انظروا إلى ابن القيم المحدث کی جانب نظر دوڑاؤ جن کی باریک بینی کا ایک المشهود له بالتدقيقات، فإنه عالم گواہ ہے.اُنہوں نے اپنی کتاب مدارج قال في مدارج السالكين إنّ السّالکین میں فرمایا ہے کہ اگر موسی اور عیسی موسى وعيسى لو كانا حيين ما زندہ ہوتے تو انہیں حضرت خاتم النبیین صلی وسعهم إلا اقتداء خاتم النبيين اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا.

Page 20

اتمام الحجة ۱۶ اردو تر جمه ثم بعد ذلك انظروا فی اس کے بعد رساله الفوز الكبير وفتح الخبير الرسالة الفوز الكبير وفتح پر غور کرو جو خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال الخبير التــی هـی تفسیر سے ہی قرآن کی تفسیر ہے اور حکیم الملت القرآن بأقوال خير البرية (حضرت) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تالیف وهي من ولی الله الدهلوی ہے.وہ فرماتے ہیں مُتَوَفِّيكَ: مُمِيْتُكَ حكيم الملة، قال متوفيك انہوں نے اِس کلمہ کے سوا اور کچھ نہیں کہا اور مميتك.ولم يقل غيرها من مشکوۃ نبوت سے اخذ ہونے والے معنی کی اتباع الكلمة، ولم يذكر معنی سواها کرتے ہوئے نہ ہی اس کے سوا کسی اور معنی اتباعا لمعنى خرج من مشكاة کا ذکر کیا ہے.پھر (علامہ زمخشری کی کتاب) النبوة.ثم انظر في الكشاف كشاف کو دیکھ اور اللہ سے ڈر اور ظلم کی راہوں 66 پھر تم اس کے بعد معتزلہ کے فرقوں کا عقیدہ واتق الله ولا تَخْتَرُ طرق کو بے باکوں کی طرح اختیار نہ کر.الاعتساف كمجترئين.ثم بعد ذلك تعلمون عقيدة جانتے ہو کہ وہ حیات مسیح کا عقیدہ نہیں رکھتے الفرق المعتزلة، فإنهم لا بلکہ انہوں نے اُن کی وفات کا اقرار کیا ہے اور يعتقدون بحیات عیسی، بل اسے اپنے عقیدہ میں داخل کیا ہے.اس میں أقروا بموته وأدخلوه فی العقیدة کوئی شک نہیں کہ وہ اسلامی مسالک میں سے ولا شك أنهم من المذاهب ہیں.کیونکہ تیسری صدی کے بعد اُمت فرقوں الإسلامية، فإن الأمة قد افترقت میں بٹ گئی تھی.اور اس ملت کے گروہوں بعد القرون الثلاثة، ولا ينكر میں بٹنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا.اور معتزلہ بھی افتراق هذه الملّة، والمعتزلة | أن متفرق فرقوں میں سے ایک ہے.أحد من الطوائف المتفرّقة.

Page 21

اتمام الحجة ۱۷ اردو تر جمه وقال الإمام عبد الوهاب الشعراني امام عبد الوھاب شعرانی ” جو مستند علماء کے ہاں المقبول عند الثقات، في كتابه بہت مقبول ہیں وہ اپنی مشہور کتاب الطبقات میں المعروف باسم الطبقات وكان فرماتے ہیں کہ ”میرے بزرگ افضل الدین رحمہ اللہ سيدى أفضل الدين رحمه الله يقول فرماتے تھے کہ صوفیاء کا اکثر کلام ظاہراً معتزلہ اور كثير من كلام الصوفية لا يتمشى فلاسفہ کے قواعد پر ہی چلتا ہے.پس کوئی عقل مند ظاهره إلا على قواعد المعتزلة شخص صرف اس وجہ سے کہ یہ علم کلام اُن والفلاسفة، فالعاقل لا يُبادر إلى ( معتزلہ) کی طرف منسوب ہوتا ہے اس کے الإنكار بمجرد عزاء ذلك الكلام انکار میں جلدی نہیں کرے گا.بلکہ وہ اُن کے ان إليهم، بل ينظر ويتأمل في أدلتهم دلائل پر پورا پورا غور وفکر کرے گا.پھر وہ (امام ثم قال ورأيت في رسالة سيدى شعرانی ) فرماتے ہیں کہ سیدی الشیخ محمد المغربی الشيخ محمد المغربي الشاذلي الشاذلی کے رسالہ میں میں نے یہ دیکھا اعلم أن طريق القوم مبنی علی شهود جان لو کہ قوم (صوفیاء) کا طریق اثبات حق کے لو الإثبات، وعلى ما يقرب من طريق یقین پر مبنی ہے اور بعض حالات میں وہ معتزلہ کے المعتزلة في بعض الحالات.هذا طريق کے قریب ہے.یہ ہم نے لواقح الانوار ما نقلنا من لواقح الأنوار، فتدبر سے نقل کیا ہے.پس برگزیدہ لوگوں کی طرح غور كالأخيار، ولا تعرض كالأشرار، کر.اور شریروں کی طرح اعراض نہ کر اور حد سے ہے.ولا تختر سبيل المعتدين.تجاوز کرنے والوں کی راہ اختیار نہ کر.وإن قلت إن الإجماع قد انعقد اگر تم یہ کہو کہ ائمہ اربعہ کے مخالف مذاہب پر على عدم العمل بالمذاهب المخالفة عمل نہ کرنے پر اجماع ہو چکا ہے تو ہم للأئمة الأربعة، فقد بينا لك حقيقة تمہارے لئے اس اجماع کی حقیقت بیان کر الإجماع، فلا تصل ،کالسباع چکے ہیں.پس تو درندوں کی طرح حملہ آور نہ

Page 22

اتمام الحجة ۱۸ اردو تر جمه وفكر كأولى التقوى والارتياع ہو بلکہ متقیوں اور پرہیز گاروں کی طرح وذكر قول الإمام أحمد الذي سوچ.نیز امام احمد جو خوف خدا ر کھنے والے خاف الله وأطاع، قال من ادعى اور اُس کے اطاعت گزار تھے اُن کے اس الإجماع فهو من الكاذبين.ومع قول کو بھی یاد رکھ.انہوں نے فرمایا کہ جو ذلك نجد كثيرا من الاختلافات اجماع کا دعوی کرے وہ جھوٹوں میں سے الجزئية في الأئمة الأربعة، ونجدها ہے.علاوہ ازیں ہم ائمہ اربعہ میں بہت سے خارجة من إجماع الأئمة، فما جزوى اختلافات پاتے ہیں اور انہیں ائمہ تقول في تلك المسائل وفی کے اجماع سے خارج پاتے ہیں.پس ان قائلها؟ أأنت تقر بغوائلها، مسائل اور ان کے قائلین کے متعلق تم کیا أو أنت تجوّز العمل عليها كہتے ہو؟ کیا تم ان مسائل کی ہلاکت والتمسك بها ولا تحسبها من آفرینیوں کے اقراری ہو یا ان پر عمل کرنے خيالات المتبدعين؟ وأنت تعلم اور اُن پر مضبوطی سے جم جانے کو جائز قرار أن الإجماع ليس معها ومع أهلها، دیتے ہو؟ اور انہیں بدعتیوں کے خیالات تصور وكل ما هو خارج من الإجماع نہیں کرتے ؟ اور تم جانتے ہو کہ اجماع اس فهو عندك فاسد ومتاع کاسد عقیدے کا اور اس عقیدے کے حاملین کا وتحسب قائلها من الملحدین ساتھ نہیں دیتا.جبکہ ہر وہ امر جوا جماع سے الدجالين.وإن كنتَ تزعم خارج ہو وہ تمہارے نزدیک فاسد اور نکما مال ہے اور أن الإجماع قد انعقد على إس (عقیدہ ) کے قائلین کو تم ملحد و دجال سمجھتے ہو حيات عيسى المسيح بالسند اور اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ سند صحیح اور بیان صریح الصحيح والبيان الصريح، فهذا سے عیسی امسیح کی حیات پر اجماع ہو چکا ہے تو | افتراء منك ومن أمثالك يہ تمہارا اور تمہارے جیسوں کا افترا ہے.

Page 23

اتمام الحجة ۱۹ اردو تر جمه ألا لعنة اللہ علی الکاذبین یا د رکھو کہ جھوٹے مفتریوں پر اللہ کی لعنت ہے.المفترين.أيها المستعجلون لِمَ اے جلد بازو! کیوں تکذیب کرتے پھرتے تسعون مكذبين ؟ ومن أعظم ہو.اور سب سے بڑی ہلاکت اُن لوگوں کی المهالك تكذيب قوم كُشف تکذیب کرنا ہے جن پر راہ حق و یقین کی | عليهم ما لم يُكشف على غيرهم باریکیوں میں سے وہ انکشافات ہوئے جو اُن من دقائق سبيل الحق والیقین کے سوا دوسروں پر نہیں ہوئے تھے.کتنے ہی وكم من أُناس ما أهلكهم إلا لوگ ہیں جنہیں صرف ان کی بدظنیوں نے ہی ظنونهم، وما أرداهم إلا سب ہلاک کیا اور صادقوں کو گالیاں دینے نے انہیں الصادقين.دخلوا حضرة أهل تباہ کیا.یہ اہل اللہ کے حضور بے باکی سے داخل الله مجترئين، وما كان لهم ان ہوئے.حالانکہ انہیں وہاں ڈرتے ہوئے ے) يدخلوها إلا خائفين.داخل ہونا چاہئے تھا.وإن المنكرين رموا كل سهم منکروں نے ہر تیر چلایا اور ہر وہم کی وتبـعـوا كــل وهم فما وجدوا پیروی کی لیکن وہ اس میدان میں ٹھہر نہ مقاما في هذا الميدان، سکے.اور اُنہوں نے انتہائی کوشش کی لیکن وجاهدوا كل جهد فما بقی بیہودہ گوئی کے سوا اُن کے پاس کچھ نہ رہا عندهم سوى الهذيان ، فلما پس جب ( اُن کے ) ترکش خالی ہو گئے اور انثلت الكنائن، ونفدت الخزائن خزانے ختم ہو گئے اور اُن کے لئے بھاگنے ولم يبق مفرّ ولا مآب، ولا ثنية اور پناہ لینے کی کوئی جگہ باقی نہ رہی اور ان ولا ناب، مالوا إلى السب کے دانت رہے نہ کچلیاں تو انہوں نے سب وشتم ، والتكفير، والمكر والتزوير، تکفیر اور مکروفریب کی جانب رخ کیا.اس اُمید لعلهم يغلبون بهذا التدبیر سے کہ وہ اس تدبیر سے غالب آجائیں گے.

Page 24

اتمام الحجة اردو تر جمه نتى اجترأ بعض الناس من پھر ان میں سے ایک شخص نے وسوسہ ڈالنے والے وساوس الوسواس الخنّاس شیطان کے وسوسوں کے زیر اثر اپنا قلم چلا کرعوام کو على أن يخدع بعض العوام دھوکا دینے کی جرات کی اور اس غرض سے ایک بصرير الأقلام، فألف كتابا کتاب تالیف کی.لیکن خدا کی تقدیر کہ انعام کی لهذا المرام، وقيض القدر شرط پر جو اس نے کتاب شائع کی وہی اُس کی پردہ لهتك ستره أنه أشاع الكتاب دری کا باعث بنی.اُس نے دعویٰ کیا کہ اُس نے بشرط الإنعام، وزعم أنه سكتنا ہمیں خاموش و گنگ کر دیا ہے اور لاجواب کرنے وبكتنا وأدى مراتب الإفحام کے تمام مراتب طے کر لئے ہیں اور وہ غالبوں میں وصار من الغالبين.فنهضنا سے ہو گیا ہے.اس پر ہم اُٹھ کھڑے ہوئے تا کہ لنعجم عُودَ دعواه، وماءَ ہم اُس کے دعوی کی حقیقت اور اُس کے گھاٹ شقياه، ونمزق الکذاب کے پانی کو پرکھیں اور اُس کذاب اور اُس کے فساد وبلـواه، ونُری جنوده ما کانوا کو پارہ پارہ کردیں اور اُس کے لشکر کو وہ کچھ دکھاویں جس سے وہ غافل تھے.فإن إنعامه أوحش الذين اُس شخص کے اس انعام نے حیوان صفت لوگوں هم كالأنعام، وإعلامه أو هش کو وحشی بنا دیا اور اُس کے اعلان نے لگڑ بگڑ صفت بعض العيلام، وما علموا لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور وہ اُس کی خبث قوله وضعف صوله، باتوں کی خباثت اور اُس کے حملے کی کمزوری کو نہ وحسبوا ســرابه كماء معین جان سکے.اور اُنہوں نے اُس کے سراب کو جاری و كنت آليتُ أن لا أتوجه إلا شیریں چشمہ سمجھا اور میں نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ إلى أمر ذى بال، ولا أضيع صرف اہم معاملہ کی طرف ہی توجہ کروں گا اور بحث الوقت لكل مناضل ونضال وتمحیص میں وقت ضائع نہیں کروں گا.میں نے عنه غافلين.

Page 25

اتمام الحجة ۲۱ اردو تر جمه اپنے ورأيت تأليفــه مـمـلـوا مـن | اس شخص (رسل بابا) کی تالیف کو جاہلانہ باتوں الجهلات، ومشحونا من اور خرافات سے بھرا ہوا اور ذہنی پسماندگی کی فطرت الخزعبلات، ومجموعا من کا مجموعہ اور بدبختی کی طینت سے مرکب پایا.اس ديدن الغباوة، وموضوعا من لئے میری عدیم الفرصتی اور عالی ہمتی نے مجھے اس قريحة الشقاوة، فمنعتنى عزّة بات سے روکے رکھا کہ میں اس کیڑے کے خون وقتي وجلالة همتى أن الطخ سے اپنے ہاتھوں کو آلودہ کروں اور اصل مقصد سے يدى بدم هذا الدود، وأبعد عن دور ہو جاؤں.لیکن میں نے دیکھا کہ یہ خصا.أمر المقصود ولكنى رأيت أنه انعام کی پیشکش سے اور لاف زنیوں سے جاہل يخدع كل غمر جاهل بإراءة اجد طبقہ کو فریب دے رہا ہے اور یہ کہ اگر ہم إنعامه وتُرهات ،کلامه ولو خاموش رہے تو وہ بلا شبہ اپنے جرموں میں اور بڑھ صمتنا فلا شك أنه يزيد في جائے گا اور لا جواب کر کے اپنے جھوٹے دعوے اجترامه، ويخدع الناس بتزوير سے لوگوں کو دھوکا دے گا.اور یہ کہ شکار دام میں پھنس إفحامه، وإنه ولج الفخ فنری چکا ہے تو پھر ہم نے یہی مناسب سمجھا کہ اُس (شکار) أن نأخذه ثم نذبحه للجائعین کو پکڑ کر بھوکوں کے لئے ذبح کر دیں اور یہ کہ وہ ٹڈی وإنه يطير طيران الجراد دل کی طرح اُڑ رہا ہے تا وہ بندوں کے رب کی کھیتی ليأكل زرع ربّ العباد ، فرأينا چٹ کر جائے تو میں نے حقیقت کے چشمہ اور اس لتائيد عين الحقيقة ومجاريها، کے جاری پانی کی تائید میں یہی مناسب سمجھا کہ ہم أن نصطاد هذه الجراد مع اس لڑی اور اُس کے بچوں کا شکار کریں اور خائنوں ذراريها، وتنج الخلق من کے فریب سے خلق خدا کو نجات دیں.پس اُس كيد الخائنين.فوالذي حبانا ذات کی قسم ! جس نے ہمیں اپنی محبت سے نوازا اور بمحبته، ودعانا إلى تائيد أحبته، اپنے پیاروں کی تائید کے لئے ہمیں بلایا

Page 26

اتمام الحجة ۲۲ اردو تر جمه إنا لا نرغب في عطاء هذا الرجل | کہ ہمیں اس شخص کی عطا اور انعام میں کوئی دلچسپی وإنعامه، بل نحسبه فضولا نہیں بلکہ ہم اُسے اس کے بیہودہ کلام کی طرح كفضول كلامه، وما نريد إلا أن بیہودہ ہی سمجھتے ہیں.ہم تو بس یہی چاہتے ہیں کہ نریه جزاء اجترامه لئلا يغتر اس کو اس کے جرم کی سزا دکھا دیں تا کہ بعض بعض الجهلة من المتعصبين.متعصب جاہل دھوکا نہ کھائیں.فاعلم يا من ألف الكتاب ويطلب پس اے وہ شخص جس نے یہ کتاب تالیف کی ہے منا الجواب، إنا جئناك راغبين في اور جو ہم سے جواب مانگتا ہے تجھے معلوم ہو کہ ہم یہ استماع دلائلك، لننجيك من خواہش لے کر تیرے پاس آئے ہیں کہ تیرے دلائل غوائلك، ونجيح أصل رزائلك بغور سنیں اور تجھے تیری ہلاکت آفرینیوں سے بچائیں ونريك أنك من الخاطئين اور تیری کمینگیوں کی جڑ کاٹ کے رکھ دیں اور تجھے وأنت تعلم أن حمل الإثبات ليس بتادیں کہ تو خطا کار ہے اور یہ تو تو جانتا ہی ہے کہ بارِ علينا بل على الذي ادعى الحياة ثبوت ہم پر نہیں.بلکہ اس پر ہے جو حیات مسیح کا مدعی ويقول إن عيسی ما مات ولیس ہے اور یہ کہتا ہے کہ عیسی مرے نہیں اور نہ ہی مردوں من الميتين.فإن حقيقة الادعاء میں شامل ہیں.دلائل کے بغیر استثناء کے طریق اختيار طرق الاستثناء بغير أدلة اختیار کرنے کے دعوی کی حقیقت ایسی ہی بے بنیاد دالة على هذه الآراء ، أعنى إدخال آراء پر دلالت کیا کرتی ہے.میرا مطلب یہ ہے کہ أشياء كثيرة في حكم واحد، ثم بہت سی چیزوں کو حکم واحد میں داخل کرنا اور پھر اُس إخراج شيء منه بغير وجه الإخراج میں سے کسی چیز کو وجہ اخراج اور وجہ ثبوت کے بغیر و سبب شاهد، وهذا تعريف لا اس سے خارج کر دینا یہ ایسی تعریف ہے جس کا نہ تو ینکرہ صبى ولا غبي، إلا الذي کوئی بچہ انکار کر سکتا ہے اور نہ نادان.بجز اس شخص كان من تعصبه كالمجنونين.کے جو جنونیوں جیسا تعصب رکھتا ہو.

Page 27

اتمام الحجة ۲۳ اردو تر جمه فإذا تقرر هذا فنقول إنّا اذا پھر جب یہ بات پختہ طور پر ثابت ہو گئی تو ہم نظرنا إلى زمان بعث فيه المسیح کہتے ہیں کہ جب ہم اُس زمانہ پر نظر ڈالتے ہیں فشهد النظر الصحيح أنه كل جس میں مسیح مبعوث کئے گئے تو ہماری صحیح نظر اس من كان في زمانه من أعدائه بات کی گواہی دیتی ہے کہ آپ کے زمانے کے تمام وأحبــائــه و جـيـرانـه وإخوانه لوگ، خواہ آپ کے دشمن ہوں یا دوست.پڑوسی وخلانه وخالاته وأمهاته ہوں، بھائی ہوں، یار دوست ہوں، خالائیں | وعماته وأخواته، وكل من كان ہوں ، مائیں ہوں، پھوپھیاں ہوں اور بہنیں ہوں في تلك البلدان والديار اور وہ سب جو ان علاقوں، شہروں اور آبادیوں میں والعمران، كلهم ماتوا وما نری بستے تھے وہ سب کے سب مر گئے تھے اور ان میں أحدا منهم فى هذا الزمان سے کسی کو بھی ہم اس زمانے میں (زندہ) نہیں فمن ادعى أن عيسى بقى منهم دیکھتے.پس جو کوئی یہ دعویٰ کرے کہ ان میں سے حيا وما دخل في الموتى فقد عیسی زندہ بچ گئے تھے اور مردوں میں داخل نہ استثنى، فعليه أن يُثبت هذا ہوئے تو اُس نے انہیں مستثنیٰ قرار دیا.پس اُس پر الدعوى.وأنت تعلم أن الأدلة فرض ہے کہ وہ اس دعوی کا ثبوت دے.اور تم عند الحنفيّين لإثبات ادعاء جانتے ہو کہ مدعیوں کے دعوی کے ثبوت کے لئے المدعين اربعة انواع كما لا حنفیوں کے نزدیک دلائل کی چار قسمیں ہیں جو اہل فکر سے مخفی نہیں.يخفى على المتفقهين.الأوّل قطعي الثبوت والدلالة وليس اوّل قَطْعِيُّ القُبُوتِ وَالدَّلَالَةِ جس فيها شيء من الضعف والكلالة | میں کسی قسم کا کوئی ضعف اور نقص نہ ہو جیسے كالآيات القرآنية الصريحة، والأحاديث المتواترة الصحيحة صريح قرآنی آیات اور احادیث متواترہ صحیحہ.

Page 28

اتمام الحجة ۲۴ اردو تر جمه بشرط كونها مستغنية من اس شرط کے ساتھ کہ وہ تاویل کرنے والوں کی تأويلات المؤوّلين، ومنزهة تأویلات سے بے نیاز اور ایسے تعارض اور تناقض عن تعارض وتناقض يوجب سے پاک ہوں جو محققین کے نزدیک ضعف کا الضعف عند المحققين.الثاني قطعي الثبوت ظنّي دوم - قَطْعِيُّ القُبُوتِ ظَنِّيُّ الدَّلَالَةِ : الدلالة، كالآيات والأحادیث جیسے وہ آیات اور احادیث جن کی صحت اور الـمـاؤلة مع تحقق الصحة اصالت تو قطعی ہو لیکن اُن کی تاویل کی والأصالة.موجب ہو.جاسکتی ہو.الثالث ظنی الثبوت قطعی سوم - ظَنِّى القُبُوتِ وَ قَطْعِيُّ الدَّلَالَةِ : الدلالة، كالأخبار الآحاد جیسے وہ اخبار احاد (احادیث ) جو ہوں تو واضح الصريحة مع قلة القوّة وشيء لیکن زیادہ قوی نہ ہوں اور ان میں کسی قدر نقص من الكلالة.پایا جاتا ہو.الرابع ظنّى الثبوت والدلالة چهارم - ظَنِّى النُّبُوتِ وَالدَّلَالَةِ : الى كالأخبار الآحاد المحتملة | احاد حدیثیں جو کئی معانی پرمن مشتمل ہوں اور المعاني والمشتبهة.مشتبہ ہوں.ولا يخفى أن الدليل القاطع اور یہ بالکل عیاں ہے کہ دلائل میں سب القوى هو النوع الأول من الدلائل سے قاطع اور قوی دلیل پہلی قسم ہے اور سائل کو ولا يمكن من دونه اطمینان اس کے بغیر اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا.السائل.فإنّ الظَّنَّ لا يُغْنِی مِنَ الْحَقِّ کیونکہ حق کے مقابل میں ظن کی کوئی حقیقت شَيْئًا، ولا سبيل له إلى يقين أصلا نہیں اور وہ قطعا یقین کی طرف راہ نہیں پاتا.

Page 29

اتمام الحجة ۲۵ اردو تر جمه ولم أزل أرقب رجلا يدعى اليقين | اور مجھے ہمیشہ ایسے شخص کا انتظار ہی رہا جو اس في هذا الميدان، وأتشوف إلى ميدان ميں يقين کا دعویٰ کرتا اور منتظر رہا کہ دشمنوں خبره في أهل العدوان، فما قام میں سے کسی ایسے شخص کے متعلق مجھے کوئی اطلاع أحد إلى هذا الزمان، بل فروا منی مل جائے.لیکن اس وقت تک کوئی بھی مقابل پر كالجبان، فأودعتهم كاليائسین نہ آیا.بلکہ وہ بُزدلوں کی طرح مجھ سے بھاگ وانطلقت كالمتفرّدين، إلى أن نکلے.پس میں نے ناامیدوں کی طرح انہیں جاء نی بعد تراخى الأمد، خیر باد کہہ دیا اور میں تن تنہا ہی چل پڑا تا آنکہ تلك رسالتك يا ضعیف کچھ مدت کے بعد اے کوتاہ نظر اور بیمار چشم البـصـر شـديـد الرمد، ونظرت تیرا یہ رسالہ مجھے ملا اور میں نے اس پر نگاہ إليه نظرة وأمعنت فيه طرفة، ڈالی اور لمحہ بھر غور کیا تو میں نے جانا کہ یہ تو فعرفت أنه من سقط المتاع، روی مال ہے.اور لا زم ہے کہ اس پر پردہ ہی ومما يستوجب أن يُخفَى ولا پڑا رہے.اور اسے بطور متاع پیش نہ کیا يُعرض كالبعاع.ولو غشِيك جائے اور اگر تجھے نور عرفان نصیب ہوتا اور تو نور العرفان، وأمعنت كرجل له نے ایک بینا شخص کی طرح غور کیا ہوتا تو تو خود عينان، لسترت عوارك، وما اپنی عیب پوشی کر لیتا اور اپنے ہمسایہ کو اپنی دعوت إليه جارك، ولكن الله کمزوری کی طرف نہ بلاتا.لیکن منشاء الہی یہی أراد أن يُخزيك، ويُرى الخلق تھا کہ وہ تجھے رسوا کرے اور مخلوق کو تیری ذلت خزيك، فبارزت وأقبلت، دکھائے اس لئے تو مقابلہ کرنے کے لئے وفعلت ما فعلت وزوّرت سامنے آیا اور جو کرنا تھا وہ تو نے کیا اور مکروفریب وسولت، وكتبت في كتابك سے کام لیا اور عوام کالانعام کو خوش کرنے کے الإنعام، لترضى به الأنعام لئے اپنی کتاب میں انعام کا اشتہار دے دیا.

Page 30

اتمام الحجة ۲۶ اردو تر جمه ولكن رتقت وما فتقت، وخدعت | لیکن تو نے اسے گرہ بند ہی رہنے دیا اور اسے نہ في كل ما نطقت وإنا نعلم کھولا اور اپنی ہر گفتگو میں دھوکا دیا اور یہ تو ہمیں أنك لست من المتموّلين.معلوم ہی ہے کہ تو مالدار نہیں.ومع ذلك لا نعرف أنك صادق علاوہ ازیں ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ تو وعدے کا الوعد ومن المتقين، بل نری سچا اور متقی ہے بلکہ ہم تیری باتوں میں فاسقوں جیسی خيانتك في قولك كالفاسقين.خیانت پاتے ہیں.پھر اس بات کا کیا اعتبار کہ فما الثقة بأنك حين تغلب وترتعد جب تو مغلوب ہو جائے اور تجھ پر کپکپی طاری ہو ستفى بما تعد؟ وقد صار الغدر جائے تو تو اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا اور حال یہ كالتحجيل في حلية هذا الجيل، ہے کہ وعدہ خلافی اس نسل کے اوصاف میں نمایاں فإن وردت غدير الغدر، فمن أين وصف ہے.اگر تو خود ہی وعدہ خلافی کے جو ہر میں.نأخذ العين يا ضيق الصدر ؟ وما اتر جائے.تو پھر اے تنگ دل بنتا ہم یہ رقم کہاں نريد أن تُرجع الأمر إلى القضاة سے لیں گے؟ ہم نہیں چاہتے کہ یہ معاملہ منصفوں ونحتاج إلى عون الولاة، ونكون تک جائے اور ہم حکمرانوں کی مدد کے محتاج ہوں عرضة للمخاطرات.ونعلم أنك اور ہم خطرات کا ہدف بنیں.ہمیں معلوم ہے کہ تو أنت من بنى غبراء، لا تملك نادار ہے تیرے پاس سیم و زر نہیں پھر بتا! تیرے بيضاء ولا صفراء، فمن أين يخرج فقر، تیری محتاجی اور کم مائیگی کے ہوتے ہوئے یہ العين مع خصاصتك وإقلالك نقد مال کہاں سے نکلے گا.مزید برآں نئی آراء | وقلّة مالك؟ ومع ذلك للعزائم عزائم کے آڑے آجاتی ہیں اور وعدوں کے راستہ بدوات، وللعدات ،معقبات، وبيننا میں موانع ہوتے ہیں.ہمارے اور وعدوں کی وبين النجز عقبات ، ولا نأمن | تحمیل کے درمیان روکیں ہیں.اور اے جھوٹوں وعدكم يا حزب المبطلين کے گروہ ! ہم تمہارے وعدوں پر اعتبار نہیں کرتے.

Page 31

اتمام الحجة ۲۷ اردو تر جمه فإن كنت من الصادقين لا من اگر تو سچوں میں سے ہے اور جھوٹوں اور وعدہ الكاذبين الغدارين، وصدقت في خلافی کرنے والوں میں سے نہیں اور تو اپنے عهد إنعامك و ما نويت حنثا في انعام کے عہد میں سچا ہے اور اپنے موقف میں إقامك، فالأمر الأحسن الذى عہد شکنی کی نیت نہیں تو احسن امر جو خطرات کے يسرد غواشي الخطرات ، ویجیح پردوں کو ہٹا دے اور شبہات کی بیخ کنی کرے اور أصل الشبهات، ويهدى طريقا ایسی راہ کی طرف رہنمائی کرے جو جھگڑوں کو ختم 69 منهم قاطع الخصومات، أن تجمع مال کر دے تو وہ یہ ہے کہ تو کسی شریف معزز رئیس الإنعام عند رئيس من الشرفاء کے پاس وہ انعام کی رقم جمع کرا دے.اور جھگڑا الكرام، ونحن راضون أن تجمع ختم کرنے کے لئے ہم اس بات پر راضی ہیں کہ عند الشيخ غلام حسن أو تو اسے شیخ غلام حسن یا خواجہ یوسف شاہ یا میرمحمود الخواجه يوسف شاه أو المیر شاہ کے پاس جمع کرا دے اور اس غرض سے ہم محمود شاه قطعا للخصام، ونأخذ ان سے دستی تحریر لے لیں.کیا تو تیار ہے کہ اس سندًا فى هذا المرام، فهل رقم کو ایسے شخص کے پاس جو میرے اور تیرے لك أن تجمع عينك عند رجل درمیان یکساں درجہ رکھتا ہے جمع کرا دے.یا پھر تو سواء بيني وبينك أو لا تقصد منصفوں کی راہ اختیار کرنا ہی نہیں چاہتا؟ ہمیں سبيل المنصفين؟ وإنا لا نعلم معلوم نہیں جو تمہارے نہاں خانہ ء دل میں چھپا مكنون طويتك، فإن كنت كتبت ہوا ہے.اگر تو تم نے یہ رسالہ صحت نیت سے الرسالة من صحة نيتك، لا من لکھا ہے اور اپنی فطرت کے فساد سے نہیں لکھا تو فساد طبيعتك، فقُم غير وان قوت سے کھڑا ہو جا اور زیادتی کی طرف مائل ولا لاو إلى عدوان واعمل كما نہ ہو.اور اگر تو سچا ہے تو جیسا ہم نے کہا ہے أمرنا إن كنتَ من الصادقین ویسا ہی کر.

Page 32

اتمام الحجة ۲۸ اردو تر جمه وإنا جئناك مستعدین ولسنا ہم پوری تیاری سے تیرے پاس آئے ہیں ہم من المعرضين ولا من الخائفين، منہ پھیرنے والے نہیں اور نہ ڈرنے والے ہیں بل نسرب الأقدام ولو على بلکہ ہم پیش قدمی کریں گے خواہ وہ شیر کے الضرغام، ولا نخاف أمثالك مقابل ہو اور ہم تجھ جیسے لوگوں سے ڈرنے من الناس، بل نحسبهم كالثعالب والے نہیں بلکہ ہم جنگ کے وقت انہیں عند البأس.وأزمعنا أن نفتش لومڑیوں جیسا سمجھتے ہیں اور ہم نے یہ تہیہ کر لیا خباءتك، ونستنفض حقيبتك، ہے کہ تیرے اندرونے کی چھان بین کریں اور ونحسر اللثام عن قربتك، تیرے تھیلے کو اچھی طرح جھاڑ دیں اور تیرے وقلّما خلص كذاب أو بورك كذاب أو بورك مشکیزے کے بند کو کھول دیں اور ایسا کم ہی ہوا له اختلاب، وقد بقينا عاما لا ہے کہ کوئی کذاب بیچ نکلا ہو یا فریب اُس کے نخشن كلامًا، ولا نجیب لئے موجب برکت ہوا ہو.سال بھر ہم نے نہ مكفرًا ولوامًا، وصبرنا ورأينا سخت کلامی کی نہ کسی ملکفر و ملامت گر کو جواب اجلخماما ، حتى ألجأتنا مرارة دیا.ہم نے صبر کیا اور ان کا تکبر دیکھا یہاں تک الكلمات إلى جزاء السيئات کہ اُن کے کلمات کی تلخی نے ہمیں بدگوئی کی سزا بالسيئات، وعلاج الحیات دینے پر مجبور کیا اور سانپوں کا علاج ڈنڈے بالعصي والصفاة، فقمنا اور پتھر ہیں.پس ہم جھوٹوں کے پردے چاک لنهتك أستار الكاذبين.کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے.فلا نلتفت إلى القول العريض، ہم لمبی چوڑی بات کی طرف توجہ نہیں ونريد أن تبرز إلينا بالصُّفر کرتے.ہم چاہتے ہیں کہ تو اپنا سیم و زر والبيض، وتجمع مبلغك عند ہمارے سامنے ظاہر کرے اور اپنی رقم مذکورہ أحد من الرجال الموصوفين، افراد میں سے کسی ایک کے پاس جمع کرائے

Page 33

اتمام الحجة ۲۹ اردو تر جمه وتأمرهم ليعطوني مبلغك اور تو ان سے یہ کہے کہ جب وہ تجھے مغلوب عندما رأوك من المغلوبين.دیکھیں تو تیری رقم وہ مجھے دے دیں.پھر اگر تو فإن لم تفعل فكذبك واضح نے ایسا نہ کیا تو تیرا کذب واضح ہو جائے گا اور تیرا وغدرك فاضح، ألا لعنة الله عہد کا توڑ نا باعث رسوائی ہوگا.سنو جھوٹوں پر اللہ على الكاذبين، ألا لعنة الله کی لعنت ہوتی ہے.اور سنو سنو کہ اُن پر بھی اللہ کی على الغادرين الناكثين، الذين لعنت ہوتی ہے جو بد عہد اور اپنے وعدوں سے پھر يقولون ولا يفعلون، ويعاهدون جانے والے ہیں اور جو کہتے تو ہیں لیکن کرتے ولا ينجزون، ولا يتكلمون إلا نہیں اور معاہدات تو کرتے ہیں اور انہیں پورا كالخادعين المزوّرين، فعليهم نہیں کرتے اور دھو کے باز اور جعل سازوں کی لعنة الله والملائكة والناس طرح گفتگو کرتے ہیں.پس ایسے لوگوں پر اللہ، أجمعين.فاتَّقِ لعنة الله وأَنجِزُ فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے.پس تو اللہ ما وعدت كالصادقين.وإن كنت کی لعنت سے ڈر.اور راستبازوں کی طرح اپنے لا تقدر على الإيفاء ، وليس وعدے کو پورا کر اور اگر تو ایفاء عہد نہیں کرسکتا اور عندك مال كالأمراء، فاطلب دولتمندوں کی طرح تیرے پاس مال نہیں ہے تو لعونك قوما يأسون جراحك پھر اپنی مدد کے لئے ایسے لوگوں کی تلاش کر جو ويريشون جناحك، فإن كانوا تیرے زخموں کا علاج کر سکتے ہوں اور تیرے المصدقين المعتقدین دست و بازو بن سکتے ہوں.پھر اگر تو وہ تیری فيـعـيـنــونـك كالمريدين مع تصدیق کرنے والے معتقد ہوئے تو مریدوں کی أن دين القوم جبر الكسير طرح تیری مدد کریں گے.کیونکہ قوم کا فرض وفت الأسير، واحترام ہے کہ وہ شکستہ حال کی امداد، اسیر کی آزادی، العلماء واستنصاح النصحاء علماء کا احترام اور خیر خواہوں کی خیر خواہی کریں

Page 34

اتمام الحجة اردو تر جمه ى أنك لن تطالب البتہ تجھ سے ایک درہم کا بھی مطالبہ نہیں کیا ــدرهم إلا بـ إلا بعد جائے گا مگر ثالثوں کی گواہی کے بعد، اور شهادةحكم، وأما الحكم فلا بد جہاں تک فیصلہ کا تعلق ہے تو یہ ثالثی فیصلہ رقم من الحكمين بعد جمع جمع ہونے کے بعد دو ثالثوں کی طرف سے العين.ووكلنا إليك ہوگا.اور یہ معاملہ ہم تیرے سپر د کر تے ہیں هذا الخطب، ولك اور اس کے رطب و یابس کا تجھے مکمل اختیار كل ما تختار الیابس ہے اگر تم دو جھوٹے حکم بھی مقرر کرو گے تو أو الرطب، فإن جعلت ہمیں وہ بھی بسر و چشم قبول ہوں گے.اور حَكَمين كاذبين، فنقبلهما ہم ان کے جھوٹ اور کذب کو نظر انداز بالرأس والعین، ولا کر دیں گے.ہاں البتہ ان دونوں حکموں ننظر إلى الكذب والمين، سے خدائے ذوالجلال کی قسم دے کر استفسار بيد أننا نستفسرهما بیمین کریں گے.اور ان دو ثالثوں پر لازم ہوگا الله ذي الجلال، وعليهما كہ وہ علی الا علان حلف اُٹھا ئیں کہ انہوں نے أن يحلفوا إظهارا لصدق سچی بات کی ہے پھر ہم انہیں ایک سال تک المقال، ثم نمهلهما إلى مہلت دیں گے اور ہم خدائے خبیر و علّام کے عام، ونمديد المسألة حضور دست دعا دراز کریں گے.پھر اگر اس إلى خبير ،علام، فإن لم مدت میں قبولیت دعا کا کوئی واضح نشان ظاہر تتبين إلى تلك المدة أمارة نہ ہوا تو ہم اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہراتے ہیں کہ الإستجابة، فنشهد الله انا نُقرّ اس صورت میں ) ہم بلاکسی شک وشبہ کے بصدقك من دون الاسترابة، تمہاری سچائی کا اقرار کر لیں گے اور تمہیں ونحسبك من الصادقين.سچوں میں سے تصور کریں گے.

Page 35

اتمام الحجة ۳۱ Σ اردو تر جمه وأعجبنى لم تصديت لتأليف اور مجھے تعجب ہے کہ تم اس کتاب کی تالیف کے ۱۰ الكتاب، وأي أمر كتبت كالنادر در پے کیوں ہوئے اور تم نے اس میں کون سی نادر العجاب، بل جمعت فضلة أهل اور انوکھی بات لکھی ہے بلکہ تم نے اس میں صرف الفضول، واتبعت جهلات فضول لوگوں کا بچا کچھا جمع کر دیا ہے اور جاہلوں کی الجهول، وما قلت إلا قولا قيل من جاہلانہ باتوں کی پیروی کی ہے اور ان باتوں کے قبلك، ونسج بجهل أكبر من سوا تو نے کچھ نہیں کہا جو پہلے کی جاچکی ہیں اور تیری جهلك، وما نطقت بل سرقت جہالت سے بھی بڑھ کر جہالت کے تانے بانے بضاعة الجاهلين.وما نرى فى بئے تھے اور تو نے خود کچھ نہیں کہا بلکہ جاہلوں کی كلامك إلا عبارتك التي نجد متاع چرائی ہے اور ہم تیرے کلام میں ایسی ہی ريحه كسهكِ الحيتان المتعفنة، عبارت دیکھتے ہیں جس کی بو متعفن مچھلیوں اور ونتن الجيفة المنتنة ، ونراه مملوا بدبودار مردار کی گندی بو کی طرح محسوس کرتے ہیں من تكلفات باردة ركيكة اور اُسے ہم رکیک اور ناقص تکلفات اور ہنسنے وضحكة الضاحكين.وفعلت والوں کی ہنسی کے سامان سے بھرا ہوا پاتے ہیں.كل ذلك لرغفان المساجد، اور یہ سب کچھ تم نے حریص کی طرح مسجدوں کی وابتغاء مرضاة الخلق كالواجد، روٹیوں اور لوگوں کی خوشنودی کے حصول کی خاطر لا لله رب العالمين.يامن کیا ہے نہ کہ اللہ رب العالمین کی خاطر.اے وہ ترك الصدق ومان، قد نبذت شخص جس نے سچ کو چھوڑا اور جھوٹ سے کام لیا، تو الفرقان، ولا تعلم إلا الهذيان نے فرقان ( حمید ) کو پس پشت ڈال دیا اور ہذیان وتمشي كالعمين، لا تعلم إلا کے سوا تو کچھ نہیں جانتا اور اندھوں کی طرح چلتا الاختراق في مسالك الزور، ہے.جھوٹ کی راہوں پر چلنے اور شر کے مختلف والانصلات في سكك الشرور ، کوچوں میں سرپٹ دوڑنے کے سوا تو کچھ نہیں جانتا.

Page 36

اتمام الحجة ۳۲ اردو تر جمه ولا تتقى براثن الأسد و تسعى تجھے شیر کے پنجوں کا خوف نہیں اور تو اندھوں كالعمى والعُور، وإنا كشفنا اور کانوں کی طرح دوڑتا پھرتا ہے.ہم نے ظلامك، ومزقنا كلامك، تیرے اندھیروں کا پردہ چاک کر دیا ہے اور وستعرف بعد حين أتؤمن بحياة تیرے کلام کو پارہ پارہ کر دیا ہے.اور مجھے جلد المسيح كالجهول الوقیح، وتحسبه ہی معلوم ہو جائے گا.کیا تو ایک بے حیا جاہل كأنه استثنى من الأموات وما شخص کی طرح حیات مسیح پر ایمان رکھتا ہے.أقمت عليه دليلا من البينات اور یہ خیال کرتا ہے کہ گویا وہ (مسیح) مُردوں والمحكمات، ولا من الأحاديث سے متقی ہیں تم نے اس پر بینات ، محکمات اور المتواترة من خير الكائنات، نہ ہی سرور کائنات کی احادیث متواترہ سے فكذبت في دعوى الإثبات، کوئی دلیل پیش کی.پس اے جھوٹ کے پتلے وباعدت عن أصول الفقه يا أخا تو نے اپنے اثبات دعوی میں جھوٹ سے کام الترهات.أيها الجهول العجول لیا اور اصول فقہ سے دور ہٹ گیا.اے جاہل المخطى المعذول ، قف وفكّرُ مطلق ، شتاب کار، خطا کار ملامت زده شخص! برزانة الحصاة، ما أوردت دلیلا رُک اور سنجیدگی اور عقل سے سوچ ! کہ تُو نے على دعوى الحياة، وما اتبعث إلا حيات (مسیح) کے دعویٰ پر کوئی دلیل پیش نہیں الظنيات، بل الوهميات.ونتيجة کی.اور تو نے صرف ظنیات بلکہ تو ہمات کی الأشكال لا يزيد على المقدمات پیروی کی ہے.اشکال کا نتیجہ مقدمات (صغری ، فإذا كانت المقدمتان ظنيتين کبری) سے زیادہ نہیں ہوتا جب مقدمہ صغریٰ و فالنتيجة ظنّية، كما لا يخفى على كبرى ظنی ہوں تو اُن کا نتیجہ بھی ظنی ہو گا.جیسا ذوى العينين.وإن كنت لا تفهم هذه كه اہل بصیرت پر مخفی نہیں اگر تو ان دقائق کو سمجھ الدقائق، ولا تدرك هذه الحقائق نہیں پاتا اور تجھے ان حقائق کا ادراک نہیں

Page 37

اتمام الحجة ۳۳ اردو تر جمه فسَلِ الذين من أولى الأبصار الرامقة، تو عمده فراست اور گہری بصیرت رکھنے والوں والبـصـائـر الرائقة، وانظر بعين سے پوچھ ! اگر تو اپنے کرتوتوں کو اپنی آنکھ سے غيرك إن كنت لا تنظر بعينك نہیں دیکھ سکتا تو دوسروں کی آنکھ سے دیکھ اور في سيرك، واستنزل الرئ من اگر تو موسلا دھار بارش سے محروم ہے تو دوسروں سحاب الأغيار، إن كنتَ محروما کے بادلوں سے بارش طلب کر.اے تہی من درّ الأمطار ألا تعلم يا مسكین دست کیا تو نہیں جانتا کہ تیرا قول قرآن کے أن قولك يُعارض بينات القرآن، روشن دلائل کے معارض اور فرقان (حمید) کے ويخالف محكمات الفرقان وقد محکمات کے مخالف ہے.توفی کے معنی انس و تبين معنى التوفّى من لسان سيد جن کے سردار نبی ﷺ کی اور آپ کے اہل فہم و الإنس ونبي الجان، وصحابته عرفان صحابہ کی زبان سے واضح طور پر بیان ہو ذوى الفهم والعرفان وأى فضل چکے ہیں تو پھر خیر الا نام کے واضح معنوں کے لمعنى العوام، بعد ما حصحص مقابلہ میں عوام کے معنوں کی کیا حیثیت رہ جاتی المعنى من خير الأنام، ومَن يأباه ہے اور فاسقوں کے علاوہ ان معنوں کا کون إلا من كان من الفاسقين؟ انکار کر سکتا ہے.فتندم على ما فرطت في جنب پس تمہیں شرم آنی چاہئے جو تو نے اللہ اور اس الله وبيناته واتبعت المتشابهات کے بیات کے بارے میں کوتاہی کی ہے اور وأعرضت عن محكماته ووثبت متشابہات کی پیروی کی ہے اور محکمات سے كخليع الرسن، وتركت الحق روگردانی کی ہے اور تو بے لگام کی طرح حملہ آور كعبدة الوثن.وإنى نظرتُ ہوا.اور تو نے بت پرستوں کی طرح حق کو چھوڑ دیا رسالتك الفينة بعد الفينة، فما ہے میں نے وقتا فوقتا تیرے رسالے کو دیکھا ہے وجدتُها إلا راقصة كالقينة، اور اسے ایک مغنیہ کی طرح رقص گناں پایا ہے.

Page 38

اتمام الحجة ۳۴ اردو تر جمه ووالله إنها خالية عن صدق اور بحد اوہ رسالہ سچائی سے خالی ہے اور دجال کی المقال، و مملوة من أباطيل فریب کاریوں سے بھرا ہوا ہے.اس لئے یہ تجھ الدجال، فعليك أن تنقد پر لازم ہے کہ تو فورا اُس رقم کو نقد ادا کرے.المبلغ في الحال، لنريك تا کہ ہم تیرا جھوٹ تجھ پر آشکار کریں اور تجھے كذبك ونوصلك إلى دار مقام عبرت تک پہنچا ئیں اور تجھ پر یہ بھی لازم النكال.وعليك أن تجمع ہے کہ تو اپنے مال کو ایسے امین کے پاس جمع مالك عند أمين الذي كان کرائے جو یقینی طور پر ضامن ہو.ورنہ ہمیں کیسے ضمينا بيقين، وإلا فكيف نوقن یقین آئے کہ جب ہم تیرے دعوی کو باطل أنا نقطف جناك إذا أبطلنا کر دیں گے اور تیری بدبختی کو ثابت کر دکھائیں دعواك، وأريناك شقاك ؟ گے تو تیرے پھل (انعامی رقم ) کو حاصل کر لیں يا أسير المتربة، لست من أهل گے.اور اے افلاس کے مارے ہوئے تو الثروة، بل مِن عَجَزة الجهلة صاحب ثروت نہیں بلکہ بے بس جاہلوں میں سے فاترُكُ شِنُشِنة القحة، واجمع ہے.پس بے حیائی کی عادت کو چھوڑ اور مال جمع المال وجانِب طرق الفرية کرا اور افتراء کی راہوں سے الگ ہو جا اور حیلہ والتعلّة، فواها لك إن كنت من سازیاں چھوڑ ! اگر تو سچا اور سچائی کا طالب ہے الصادقين الطالبين، و آها منك تو تجھے شاباش اور اگر تو اعراض کرنے والا اور إن كنت من المعرضين المحتالين.حیلہ جو ہے تو تجھ پر ٹف ہے! ہم نے نصیحت کی وقد أوصيـنـا واستقصينا، اور نصیحت کو انتہاء تک پہنچایا اور ایسے شخص کی ونقحنا تنقيح من يدعو أخا طرح چھان بین کی جو صاحب رُشد کا طالب ال الرشد و يكشف طرق السَّدَد ہے اور سیدھی راہوں کو واضح کرتا ہے.اور ہم وأكملنا التبليغ لله الأحد نے خدائے یگانہ کی خاطر تبلیغ کو کمال تک پہنچایا.

Page 39

اتمام الحجة ۳۵ اردو تر جمه وننظر الآن أتجمع المال اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا تو وہ (انعامی ) رقم جمع وترى العهد والإيمان، أو کرواتا ہے اور عہد اور ایمان کی پاسداری کرتا ہے ترى الغدر وتتبع الشيطان یا بد عہدی کی پاسداری کرتا اور مفسدوں کی طرح شیطان کی پیروی کرتا ہے؟ كالمفسدين.ووالله الذي يُنزل المطر من اور اللہ کی قسم جو بادلوں سے بارش برسا تا اور الغمام، ويُخرج الثمر من خوشوں سے پھل نکالتا ہے کہ میں کسی انعام کی طمع الأكمام، إنى ما نهضت لطمع کی وجہ سے مقابلہ کے لئے نہیں بلکہ کمینوں کو في الإنعام، بل لإخزاء اللئام، رُسوا کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں تا کہ حق واضح ليتبين الحق وليستبين سبیل ہو جائے اور مجرموں کی راہ خوب کھل کر ظاہر ہو المجرمين، وإن الله مع جائے بلاشبہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے اور المتقين.ووالله الذى أعطى اس خدا کی قسم جس نے انسان کو عقل و فکر سے الإنسان عقلا وفكرًا، لقد نوازا تو نے سخت ناپسندیدہ بات کا ارتکاب کیا جئتَ شيئًا نُكْرًا، وأبقيت لك ہے اور اپنے پیچھے اپنے لئے رسوا کن ذکر چھوڑا في المخزيات ذكرا.وقد ہے.ہم نے اس سے پہلے ایک اشتہار لکھا اور كتبنا من قبل اشتهارا ، وواعدنا اُس کا جواب دینے والوں کے لئے انعام دینے للمجيبين إنعاما، وأقررنا إقرارا، کا وعدہ اور پختہ اقرار کیا.لیکن کوئی بھی جواب فما قام أحد للجواب، وسكتوا دینے پر آمادہ نہ ہوا.اور وہ جانوروں اور كالبهائم والدواب، وطارت چوپایوں کی طرح خاموش ہو گئے ، اُن کی جانیں نفوسهم شعاعا، وأرعدت ہوا ہو گئیں اور مارے خوف کے اُن کے فرائصهم ارتياعا، وأكبوا على اعصاب پر کیپکپی طاری ہوگئی اور ندامت کے وجوههم متندمين.مارے وہ اپنے منہ کے بل گر گئے.

Page 40

اتمام الحجة ۳۶ اردو تر جمه أفأنت أعلم منهم أو أنت من کیا تم اُن سب لوگوں سے زیادہ عالم ہو یا تم المجانين؟ إنهم كانوا أشدَّ دیوانے ہو وہ لوگ گفتگو میں تم سے کہیں بڑھ كيدا منك في الكلام، بل کر چالاک تھے.بلکہ تم ان لوگوں کے مقابل پر أنت لهم كالسّلام، فكان آخر طفل مکتب ہو آخر کار ان کا انجام ربّ العالمین کا أمرهم خزی و خذلان وقهر قهر، رسوائی اور ذلت ہوا اور جب اللہ کسی قوم کی رب العالمين.وإن الله إذا أراد رسوائی کا ارادہ فرماتا ہے.تو (اس قوم کے لوگ) خزی قوم فيعادون أولياءه، اُس کے اولیاء سے عداوت رکھنے لگتے اور اُس کے ويؤذون أحباءه، ويلعنون پیاروں کو دُکھ دیتے اور اُس کے برگزیدہ بندوں کو أصفياءه، فیبارزهم الله لعن طعن کرتے ہیں اور اللہ جنگ کے لئے ان کے للحرب، ويصرف وجههم مد مقابل آجاتا ہے اور ایک ہی ضرب سے اُن بالضرب، ويجعلهم من کے منہ پھیر دیتا اور انہیں بے یارو مددگار کر دیتا المخذولين.ألا تفكرون في ہے.کیا تم ان (مخالفین) کے بارے میں غور نہیں أنفسهم أن الله يُنزل نُصرته کرتے ( کہ ان کا کیا انجام ہوا) یقیناً اللہ نے لنا بجميع أصنافها، ويأتى ہمارے لئے اپنی ہر قسم کی نصرت نازل فرمائی اور الأرض ينقصها من أطرافها، زمین کو اُس کے تمام اطراف سے سکیٹر رہا ہے اور ويحفظنا بأيدي العناية، اپنے دست عنایت سے ہماری حفاظت فرماتا ہے ويسترنا بملاحف الحماية، اور اپنی حمایت کے لحافوں میں ہمیں ایسے چھپائے فلا يضرنا کید المفسدين ؟ ہوئے ہے کہ مفسدوں کی کوئی تدبیر ہمیں نقصان يعلم من كان له ومن كان نہیں پہنچاسکتی.وہ جانتا ہے کہ جو اُس کا ہے اور جو لغيره، وينظر كل ماش فی سیرہ، اُس کے غیر کا ہے.وہ ہر چلنے والے کی چال پر نگاہ رکھتا ولا یهدی قوما مسرفین ہے اور حد سے بڑھنے والی قوم کو ہدایت نہیں دیتا

Page 41

اتمام الحجة ۳۷ اردو تر جمه ويبير الفاسقين و يمحو أسماء اور فاسقوں کو تباہ کر دیتا اور مفتریوں کے نام سطح اور المفترين من أديم الأرضين.هو زمین سے مٹا دیتا ہے.وہ بڑا غیور اور منتقم الغيور المنتقم، ويعلم عمل ہے.وہ مفسد، فتنے باز کے عمل کو جانتا ہے اور المفسد الفتان، ويأخذ المفترين زمانہ قریب میں ہی وہ مفتریوں کو پکڑتا ہے اور بأقرب الأزمان، فيُنزل رجزه آنکھ جھپکنے سے بھی جلد تر اپنا عذاب نازل أسرع من تصافح الأجفان فتوبوا فرمائے گا.اے دشمنوں کے گروہ! ان لوگوں كالذين خافوا قهر الرحمن کی طرح تو بہ کرو جو خدائے رحمان کے قہر سے وأنابوا قبل مجيء يوم الخسران، ڈرتے ہیں اور جو گھاٹے کا دن آنے سے پہلے وغيَّروا ما في أنفسهم ابتغاء پہلے اس کی طرف جھکے اور اللہ کی رضا حاصل لمرضات الله يا معشر أهل کرنے کے لئے اپنے نفسوں میں تبدیلی پیدا العدوان.اطلبوا الرحم وهو أرحم کی رحم مانگو.کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے.الراحمين.فتندم یا مغرور علی اے فریب خوردہ شخص ! اپنی جہالتوں پر نادم ہو جهلاتك، واعتذر من فرطاتك، اور اپنی زیادتیوں پر معافی مانگ اور اپنے وفكر في خسرك و انحطاط نقصان اور اپنی اخلاقی گراوٹ اور پردہ دری.عرضك وانكشاف سترك پر غور کر اور ڈرنے والوں کی طرح اپنے آپ کو وازدجر كالخائفين.زجر و توبیخ کر.واعلم أنه من نهض ليستقرى جان لے کہ جو بھی عیسی (علیہ السلام) کی أثر حياة عيسى، فما هو إلا حيات کا کوئی نشان ڈھونڈنے کے لئے کھڑا كجادع مارن أنفه بموسى ہوتا ہے تو وہ اُس شخص کی طرح ہے جو فإن الفساد كل الفساد | استرے سے اپنی ناک کاٹتا ہے.کیونکہ یہ ظهر من ظن حياة المسيح، سارا فساد حیات مسیح کے اعتقاد سے بر پا ہوا ہے 6

Page 42

اتمام الحجة ۳۸ اردو تر جمه واسودت الأرض من هذا اور اس قبیح عقیدے کے باعث زمین سیاہ ہوگئی الاعتقاد القبيح، ومع ذلك لا ہے.بایں ہمہ تم حیات (مسیح ) پر دلیل لانے کی تقدرون على إيراد دلیل علی قدرت نہیں رکھتے اور لوگوں کی باتوں کو لے لیتے الحياة ، وتأخذون بأقوال ہو لیکن اللہ اور سرور کائنات کے فرمان کو قبول الناس ولا تقبلون قول الله نہیں کرتے.اور تم جانتے ہو کہ جس نے قرآن وسيد الكائنات.وتعلمون أنه كى تفسیر بالرائے کی اگر وہ درست بھی ہو تو اس من فسر القرآن برأيه وأصاب نے خطا کی.پھر بھی تم اپنی خواہشات کی اتباع فقد أخطأ، ثم تتبعون أهواء کم کرتے ہو اور اس ہستی سے نہیں ڈرتے جس نے ولا تتقون من ذرأ وبرأ، سب کچھ پیدا کیا ہے.اور بیباک لوگوں کی طرح وتتكلمون كالمجترئین.وإذا باتیں کرتے ہو.اور جب تمہارے سامنے فرقانِ قرء علیکم آیات الفرقان فلا (حمید) کی آیتیں پڑھی جائیں تو تم انہیں قبول تقبلونها، وإن قُرِءَ نصف نہیں کرتے خواہ نصف قرآن بھی پڑھ دیا جائے.القرآن، وإنْ عُرِضَ غیرہ، اور اگر قرآن کے علاوہ جو بھی پیش کیا جائے اُسے تم بخوشی قبول کر لیتے ہو.فتقبلونه مستبشرين.لا تلتفتون إلى كتاب الله تم اللہ رحمن کی کتاب کی طرف توجہ نہیں کرتے.الرحمن، وتسعون إلى غيره اور اس ( قرآن ) کے غیر کی طرف خوشی خوشی لپکتے فرحين.وليت شعری کیف یجوز ہو.کاش مجھے یہ معلوم ہوتا کہ جب ہم نے فرقان الاتكاء على غير القرآن بعد ما کے بینات دیکھ لئے تو اس کے بعد قرآن کے علاوہ رأينا بينات الفرقان ؟ أتوصلكم کسی اور چیز پر بھروسہ کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے.کیا غير القرآن إلى اليقين والإذعان؟ قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز تمہیں طاعت ویقین فأتوا بدليل إن كنتم صادقین تک پہنچا سکتی ہے؟ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لاؤ.

Page 43

اتمام الحجة ۳۹ اردو تر جمه يا حسرة على أعدائنا إنهم صد افسوس ہمارے دشمنوں پر کہ اُنہوں نے رحمن صرفوا النظر عن صحف الله الله کے صحیفوں سے اپنی نظریں پھیر لی ہیں اور الرحمن، وما طلبوا معارفها عرفان کے متلاشیوں کی طرح انہوں نے قرآنی كطلاب العرفان وأفنوا معارف کی تلاش نہیں کی.اور اپنا سارا وقت اور زمانهم وعمرهم في أقوال اپنی پوری عمر ایسے اقوال میں فنا ( بر باد ) کر دی جو لاتوصلهم إلى روضات انہیں اطاعت کے باغات تک نہیں پہنچا سکتے.اور الإذعان، ولا تسقيهم من ينابيع نہ وہ انہیں ایمان کے پاک چشموں سے سیراب مطهرة للإيمان، ومانری کرتے ہیں اور ہم اُن کے اقوال کو افتراء أقوالهم إلا كــصــاغـين پردازوں کی باتوں کی طرح دیکھتے ہیں.اے باللسان.فيامعشر العُمی اندھے اور کانے لوگوں کے گروہ! اللہ سے ڈرو والعُور.اتقوا الله ولا تجترء وا اور معاصی اور فسق و فجور پر دلیری مت دکھاؤ اور على المعاصي والفجور، وہ راہ اختیار کرو جس میں نہ ارتکاب ظلم کا اندیشہ وتخيروا طريقا لا تخشون فيه ہو اور نہ کسی تلوار کی ضرب کا اور نہ کسی ڈسنے مس حيف ولا ضرب سیف والے کے ڈنگ کا اور نہ کسی وسیع وادی کی ولا حُمَة لاسع ولا آفة وادٍ مصیبت کا خدشہ ہو اور اللہ کے حضور مطبع بن کر واسع، وقوموا لله قانتين | ایستادہ رہو اور میری اس بات پر غور کرو کہ جو کچھ وفكروا في قولی.هل صدقت میں نے کہا ہے کیا وہ سچ ہے یا جو کچھ میں نے کہا فيمانطقت ، أو ملتُ فيما ہے اُس میں سچائی سے ہٹ گیا ہوں؟ اور خشوع قلت، وتفكروا كالخاشعین کرنے والوں کی طرح غور و فکر کرو.تمہیں کیا ہو گیا مالكم لاتستعدّون لقبول ہے کہ تم حجت قبول کرنے میں مستعدی ظاہر نہیں الحجّة وتزيغون عن المحجّة کرتے اور سیدھے راستے سے ہٹ رہے ہو.

Page 44

اتمام الحجة ۴۰ اردو تر جمه تركضون في امتراء الميرة ذخیرے جمع کرنے میں بھاگ دوڑ کرتے ہو اور ولها تتركون أقارب العشيرة.اس کی خاطر قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ رہے ہو اور وما أرى فيكم مَنْ تَرَكَ لِلہ مجھے تم میں کوئی ایسا نظر نہیں آرہا جس نے خدا کی خاطر الأقارب والأحباب، وجد فى اقارب و احباب کو چھوڑا ہو اور دین میں جدوجہد الدين ودأب.لم لا تتأدبون کی اور دوام اختیار کیا.تم کیوں نیک لوگوں کے بآداب الصلحاء ، ولا تقتدون آداب نہیں اپناتے اور اتقیاء کی راہوں کی پیروی بطرق الأتقياء ؟ أنكرتم الحق نہیں کرتے تم نے حق کا انکار کیا اور تم نے اس کی وما رأيتم سُقياه، وما وطأتم سیرابی کو نہیں دیکھا.نہ ہی اُس کے سنگریزوں پر حصاه، وما استشر فتم أقصاه، قدم مارا ہے اور نہ تم نے سارے معاملے پر نگاہ وتركتم الفرقان وهداه، و کنتم ڈالی.تم نے فرقان ( حمید ) اور اُس کی ہدایت کو چھوڑ دیا ہے اور تم حد سے بڑھنے والی قوم ہو.يا أهل الفساد والعناد..اتقوا اے فساد اور بغض وعنا در کھنے والو! تم اللہ الله ربّ العباد.أين ذهب رب العباد سے ڈرو.تمہارا تقویٰ کدھر گیا ؟ تقاكم؟ وأضلكم علمكم وما اور تمہارے علم نے تمہیں گمراہ کیا اور وقاكم.لا تفهمون القرآن ولا تمہیں بچایا نہیں.نہ تمہیں قرآن کا فہم تمسون الفرقان، فأين غارت ہے اور نہ تمہیں فرقان سے مس ہے.مزاياكم و أين ذهب رياكم؟ تمہاری خوبیاں کہاں کھو گئیں اور تمہاری ما أجد کلامکم مؤسسا شادابی کہاں گئی ؟ میں تمہارے کلام کی بنیاد على التقوى وأجد قلوبكم تقویٰ پر نہیں پاتا ( بلکہ ) تمہارے دلوں کو متدنسة بالطغوى.فما بال سرکشی سے آلودہ پاتا ہوں.اور اُس سفینے کا قارب كان لها كمثلكم الملاح کیا بنے گا جس کے ملاح تم جیسے ہوں قوما عادين

Page 45

اتمام الحجة اردو تر جمه وما بال أرض يحرثها اور اُس زمین کا حال کیا ہوگا جس پر تمہارے جیسے كحزبكم الفلاحُ؟ ولا شك لوگ کھیتی باڑی کرتے ہوں.بلا شبہ تم دین اور أنكم أن أعداء الدين وعدا الشرع شرع متین کے دشمن ہو.اور ہم جانتے ہیں کہ المتين.ونعلم أن قصر الإسلام اسلام کا محل تمہاری وجہ سے اور تمہارے ہاتھوں منكم ومن أيديكم عفا، ولم پیوندِ خاک ہو گیا ہے.اور اب صرف اُس کے يبق منه إلا شفا، ولولا رحمة کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں اور اگر میرے رب کی ربي لأحاطه الدجى، وكان الله رحمت نہ ہوتی تو تاریکیاں اس کا احاطہ کر لیتیں.حافظه وهو خير الحافظين.اللہ ہی اُس کا محافظ ہے اور وہی بہترین محافظ ہے.ألا تنظرون أنكم كم کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم کتنی راہوں پر چلے فَجٍّ سلکتم و کم رجل اور کتنے لوگوں کو تم نے ہلاک کیا اور کتنی أهـلـكتـم، وكم بدع ابتدعتم، بدعتیں ایجاد کیں اور کتنی قوموں کو دھوکا دیا وكم قوم خدعتم و کم عرض اور کتنی عزتیں پامال کیں اور کتنے مکاروں اختلستم و کم ثعلب کو تم نے مات دی.لیکن اب حق ظاہر افترستم؟ أما الآن فالحق قد ہو گیا ہے اور رب رحیم نے رحم فرمایا اور بان ورحم الرب الرحيم شب دیجور پُر نور ہوگئی اور دین قویم روشن واستنار الليل البهيم وأنار ہو گیا.اور تمہاری ناپسندیدگی کے علی الرغم الدين القويم وظهر أمر الله الله کا امر ظا ہر ہو گیا.اللہ کی ہر گھڑی پر نظر و کنتم كارهين.إن لله في كل ہے.پس اُس نے اپنے دین پر رحمت کی نگاہ يوم نظرةً، فنظر الدین رحمةً ، ڈالی.اُس نے اس ( دین ) کو دشمنوں کے تیروں ووجده غرضًا لسهام الأعداء ، کا نشانہ پایا اور اسے ایسی حالت میں پایا کہ وہ و كالوحيد الطريد فى البيداء، ایک لق و دق صحراء میں تنہا بے یارو مددگار ہے.

Page 46

اتمام الحجة ۴۲ اردو تر جمه فأقامني برحمة خاصة فی أیام اس پر اللہ نے اپنی رحمت خاص سے اس غربت اور الراحمين.وہ إقلال وخصاصة، ليجعل بے بسی کے زمانہ میں مجھے کھڑا کیا تاکہ المسلمين من المنعمين مسلمانوں کو آسودہ حال کرے اور اُنہیں وہ عطا ويعطيهم ما لم يعط لآبائهم کرے جو ان کے آبا ؤ اجداد کو نہ دیا گیا تھا.اور ويرحم الضعفاء ، وهو أرحم ناتوانوں پر رحم کرے اور وہی ذات ہے جو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والی ہے.وما قمت بهذا المقام إلا میں اس مقام (امامت ) پر قادر و توانا خدا کے بأمر قدير ، يبعث الإمام ويعلم حکم سے ہی کھڑا ہوا ہوں جو امام مبعوث فرماتا ہے الأيام، حکیم علیم یری أیام اور وہ (ضرورت ) زمانہ کو جانتا ہے وہ حکیم وعلیم الغي والضلال، وصراصر ضلالت و گمراہی کے زمانے کو اور عورتوں اور مردوں الفساد في النساء والرجال میں فساد کی بادِ صر صر کو اچھی طرح دیکھتا ہے.گنا ہوں تناهي الخلق فى التخطى إلى میں آگے بڑھنے میں مخلوق اپنی انتہاء کو پہنچ گئی اور اپنی الخطايا، وعقروا مطا المطايا، سواریوں کی پیٹھوں کو زخمی کر دیا اور حق کو کونوں ودفنوا الحق في الزوايا ، ولمع کھدروں میں دفن کر دیا اور باطل آئینوں کی طرح الباطل كالمرايا، فرأى هذا چمک اُٹھا اور یہ سب کچھ مخلوق کے رب نے كله ربُّ البرايا، فبعث عبدًا من دیکھا تب اس نے اپنے بندوں میں سے ایک العباد عند وقت الفساد، بندے کو اس فساد کے موقع پر مبعوث فرمایا.اے أعجبتـم مـن فـضـلـه يـا جَمُرَ بغض و عناد کے انگارو! کیا تم اُس کے فضل پر تعجب العناد؟ فلا تتكثوا على الظنون کرتے ہو.پس شکوک و بد گمانیوں پر تکیہ نہ کرو.اللہ ولله اسرار کالدر المکنون کے اسرار در مکنون کی طرح ہیں.وہ ہر زمانے میں یبلی عباده في كل زمان، اپنے بندوں کو آزماتا ہے.۱۳

Page 47

اتمام الحجة ۴۳ اردو تر جمه وكل يوم هو في شان.وأُقسم اور اس کی ہر وقت ایک نئی شان ہے اور میں اُس ذات بعلام المخفيات، ومعین کی قسم کھاتا ہوں جو تمام مخفی باتوں کو خوب جاننے الصادقين والصادقات، أنى من والی اور صادق مردوں اور عورتوں کی مدد کرنے والی الله رب الكائنات ترتعد ہے کہ میں اللہ کی طرف سے ہوں جو کائنات کا ربّ الأرض من عظمته، و تنشق ہے جس کی عظمت سے زمین لرزتی ہے اور جس کی السماء من هيبته، وما كان بيت سے آسمان پھٹ جاتا ہے.کسی ملعون جھوٹے لكاذب ملعون أن يعيش عمرا کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ افتراء کے باوجود ایک لمبی مع فريته، فاتقوا الله و جلال عمر پائے.پس اللہ اور اُس کی ذات کے جلال سے حضرته.ألم يبق فيكم ذرّة من ڈرو کیا تمہارے اندر تقویٰ کا کوئی ذرہ تک باقی نہیں التقوى؟ أنسيتم وعظ کف رہا.کیا تم زبان کو لگام دینے کی نصیحت اور عقبی کے اللسان وخوف العقبي ؟ يا أيها خوف کو بھول گئے ہو؟ اے بدگمانی کرنے والو! آؤ الظانون ظن السوء.تعالوا ولا اور روشنی سے مت بھا گو.اے میری قوم! میں اللہ تفروا من الضوء يا قوم إنی من کی طرف سے ہوں.میں اللہ کی طرف سے إنى من الله.إنى من الله ہوں.میں اللہ کی طرف سے ہوں اور میں اپنے شهد ربى أنى من الله أؤمن رب کو گواہ ٹھہراتا ہوں یقیناً میں اللہ کی طرف سے بالله وكتابه الفرقان، وبكل ما ہوں اور میں اللہ، اس کی کتاب فرقان حمید اور ہر اس ثبت من سيّد الإنس ونبی چیز پر ایمان لاتا ہوں جو جن وانس کے سردار نبی صلی الجان.وقد بُعثتُ على رأس اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور میں صدی کے سر پر المائة لأجدد الدين وأنور وجه مبعوث کیا گیا ہوں تا کہ میں دین کی تجدید کروں اور الملة، والله على ذلك شهيد ملت کے چہرے کو منور کروں اور اللہ اس پر گواہ ہے ويعلم من هو شقى وسعید اور وہ جانتا ہے کہ کون بد بخت ہے اور کون خوش بخت..الله

Page 48

اتمام الحجة ۴۴ اردو تر جمه فاتقوا الله يا معشر المستعجلينا جلد بازوں کے گروہ! اللہ سے ڈرو.کیا تم اے أليس فيكم رجل من الخاشعین؟ میں کوئی بھی عاجزی اختیار کرنے والا نہیں.کیا تم أتصولون على الأسود ولا شیروں پر حملہ کرتے ہو؟ اور مقبول اور مردود کے تميزون المقبول من المردود ؟ درمیان تمیز نہیں کرتے.اُمت مسلمہ ) میں ایک وفى الأمة قوم يلحقون طبقہ ایسا بھی ہے جو یگانہ روزگار افراد میں شامل بالأفراد، ويكلمهم ربهم ہیں.اُن کا رب اُن سے محبت اور پیار کے ساتھ بالمحبة والوداد، ويُعادی ہمکلام ہوتا ہے اور جو اُن سے دشمنی کرے اُن سے من عاداهم ویوالی من وہ دشمنی کرتا ہے اور جو اُن سے دوستی رکھے اُن سے والاهم، ويُطعمهم ويسقيهم، دوستی رکھتا ہے.اور وہ انہیں کھلا تا اور پلاتا ہے.ويكون فيهم وعليهم ولهم ، اور وہ اُن کے شامل حال ہوتا اور ان پر سایہ مگن ہوتا ويحاطون من ربّ العالمین اور ان کا ہو جاتا ہے.اور وہ رب العالمین کی آغوش رار من ربهم لا میں آجاتے ہیں.انہیں اپنے رب کی طرف سے يعلمها غيرهم، ويشرَبُ ایسے اسرار ملتے ہیں جنہیں ان کے سوا کوئی نہیں لبهم هوى المحبوب جانتا.ان کے دل محبوب کے عشق میں سرشار ہوتے ويوصلون إلى المطلوب ہیں اور وہ اپنے مقصود و مطلوب کا وصال حاصل ينوّر باطنهم ويترك ظاهر هم کر لیتے ہیں.ان کے باطن کو منور کیا جاتا ہے اور في الـمـلـومین، فطوبى لفتی ان کے ظاہر کو ملامت کئے جانے والوں میں چھوڑ يـأتـــم بآدابهم، وتنكسر دیا جاتا ہے.پس مبارک ہو اُس نوجوان کو جو اُن جبائر مکره فی جنابھم کے آداب اپنا تا ہے اور جس کی ہرقسم کی تدبیر انکی ويسرج جواد الصدق لصحبة جناب میں ختم ہو جاتی ہے اور وہ ( جوان ) صحبت صادقین کے لئے اسپ صدق پر سوار ہوتا ہے.الصادقين.

Page 49

اتمام الحجة ۴۵ اردو تر جمه هذا ما كتبنا وألفنا لك یہ ہے ہماری تحریر اور کتاب جو ہم نے تمہارے الكتاب، فإذا وصلك فأمل لئے تالیف کی.پس جب تمہیں یہ ملے تو اس کا الجواب.وحاصل الكلام أنا جواب لکھو.خلاصہ کلام یہ کہ ہم مقابلے کے لئے قائمون للخصام، لنذيقك تیار ہیں تا کہ ہم تمہیں تمہاری تیراندازی کا مزا جزاء السهام، ومن آذی چکھائیں.اور جس نے شرفاء کو اذیت دی تو الأحرار فأباد نفسه وأبار اُس نے اپنے تئیں تباہ و برباد کر لیا.میری بات فاسمع منى المقال، إنى أرقب سنو! میں اس انتظار میں ہوں کہ تم انعامی رقم جمع أن تجمع المال ، فإذا جمعت کرو.جب تم پیسے جمع کر لو اور مطالبہ پورا کر لو.تو وأتممت السؤال، فاعلم أن پھر جان لو کہ احمد تم پر حملہ آور ہو گیا اور تمہیں أحمد قد صال وأراك الوبال و بال اور عبرت دکھا دی.اے نادار ! عیسی کی والنكال.يا مسكين إن موت موت بدیہیات میں سے ہے اور اس سے انکار عيسى من البديهيات، وإنكاره کرنا بہت بڑی جہالت ہے مگر تمہارے دل کو أكبر الجهلات، ولكن صدئ زنگ لگ چکا ہے اور پر دے دبیز ہو چکے ہیں پس قلبك وغلظ الحجاب تو نے انکار کیا اور تجھ پر تمام دروازے بند ہو گئے فردّدت و تقاذفت بك جس کی وجہ سے تم نصیحتوں کی طرف کان نہیں دھر الأبواب، فلا تصغَى إلى العظات رہے اور طیش میں لانے والے کلمات کی طرح ويؤذيك الحق كالكَلِم حق تجھے تکلیف دیتا ہے.تمہیں تمہارے رسالے المحفظات، وأرداك تباهيك پرفخر و مباہات نے ہلاک کیا اور یہی تمہاری تباہی بكتابك وهو أصل تبابك کا اصل سبب ہے.میں تمہارے راز اور اس کے وإني عرفت سرك و معماه، معمہ کو جان چکا ہوں.خواہ دوسرے لوگ اس وإن لم يدر القوم معناہ کے معنی (مقصد ) کو نہ جان پائے ہوں

Page 50

اتمام الحجة ۴۶ اردو تر جمه وما تريد إلا أن تفتتن قلوب تمہارا مقصد صرف بے وقوفوں کے دلوں میں فتنہ السفهاء ، وتخدع الجهلاء پیدا کرنا اور جاہلوں کو چکمہ دینا ہے تا کہ تجھے زمرہ لتكون لك عزّة في الأشقياء، اشقیاء میں عزت حاصل ہو اور تو اپنی خواہشات وتفوز فى الأهواء ، وهذا میں کامیاب ہو.ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں پس خاتمة الكلام، فتدبر كالعقلاء عقلمندوں کی طرح غور وفکر کر اور اندھوں کی طرح ولا تقعد كالعمين.هداك مت بیٹھ.ك الله هل ترضى العواما لكي تستجلبن منهم حُطاما اللہ تجھے ہدایت دے کیا تم عوام کو خوش کرنا چاہتے ہو تا کہ تم اس طرح ان سے دنیاوی فائدہ حاصل کر سکو.وهل في ملة الإسلام أثر من الكلم التي تبرى خصاما کیا ملت اسلامی میں تمہاری اُن باتوں کا کوئی اثر ہے.جن سے تم مقابلہ کرنا چاہتے ہو.(1) أعندك حجة إجماع قوم أضاعوا الحق جهلا واهتضاما کیا تمہارے پاس اُس قوم کے اجماع کی دلیل ہے جس نے از راہ جہالت اور ظلم حق کو ضائع کر دیا.ومثلك أُمّة قتلتُ حسينـا إذا وجدت كمنفرد إماما وہ امت تمہارے جیسی تھی جس نے حسین کو اس وقت قتل کر دیا جب اُنہوں نے یہ پایا کہ وہ منفرد امام ہیں.

Page 51

اتمام الحجة ۴۷ اردو تر جمه مولوی رسل بابا صاحب امرتسری کے رسالہ حیات المسیح پر ایک اور نظر اور نیز مزار رو پیدا نعامی جمع کرانے کے لئے درخواست ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ ان دنوں میں مولوی صاحب مندرج العنوان نے ایک کتاب حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت کرنے کے لئے لکھی ہے جس کا نام حیات اسیح رکھا ہے.لیکن اگر یہ پوچھا جائے کہ انہوں نے باوجود اس قدر محنت اٹھانے اور وقت ضائع کرنے کے ثابت کیا کیا ہے تو ایک مصنف آدمی یہی جواب دے گا کہ کچھ نہیں.اگر مولوی صاحب موصوف کی نیت بخیر ہوتی اور ان کے اس کاروبار کی علت غائی حق الامر کی تحقیق ہوتی نہ اور کچھ تو وہ اس رسالہ کے لکھنے سے پہلے قرآن شریف کی ان آیات بینات کو غور سے پڑھ لیتے جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ایسی صاف طور پر ثابت ہو رہی ہے کہ گویا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے فوت ہو گئے اور دفن کئے گئے.لیکن افسوس کہ مولوی صاحب موصوف ان محکم اور بین آیات سے آنکھ بند کر کے گزر گئے اور بعض دوسری آیات میں تحریف کر کے اور اپنی طرف سے اور فقرے ان کے ساتھ ملا کر عوام کو یہ دکھلانا چاہا کہ گویا ان آیتوں سے حضرت عیسی کی حیات کا پتہ لگتا ہے.لیکن اگر مولوی صاحب کی اس مفتر یانہ کارروائی سے کچھ ثابت ہوتا بھی ہے تو بس یہی کہ ان کی فطرت میں یہودیوں کی صفات کا خمیر بھی موجود ہے ورنہ یہ کسی نیک بخت آدمی کا کام نہیں ہے کہ قرآن کریم کی ظاہر ترکیب کو توڑ مروڑ کر اور آیات کے غیر منفک تعلقات کو ایک دوسری سے الگ کر کے اور بعض فقرے اپنی طرف سے زائد کر کے کوئی امر ثابت کرنا چاہے اگر اسی بات کا نام ثبوت ہے تو کونسا امر ہے جو ثابت نہیں ہوسکتا.بلکہ ہر ایک ملحد اور بے ایمان اپنے مقاصد اسی طرح ثابت کر سکتا ہے.اس بات کو کون نہیں جانتا کہ ایک کتاب کے معنے اسی صورت میں اس کتاب کے معنے کہلاتے ہیں کہ جب اس کی ترتیب اور تعلقات فقرات اور سیاق سباق محفوظ رکھ کر کئے جائیں.لیکن اگر اس کتاب کی ترتیب کو ہی زیروز بر کیا جائے اور عبارت کے مصنف سہو کتابت ہے.درست لفظ ” منصف ہے.(ناشر)

Page 52

اتمام الحجة ۴۸ اردو تر جمه اعضا کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے اور نہایت دلیری کر کے بعض فقرات اپنی طرف سے ۱۵ ملا دیئے جائیں تو پھر ایسی خود ساختہ عبارت سے اگر کوئی مدعا ثابت کرنا چاہیں تو کیا یہ وہی یہودیانہ تحریف نہیں ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم میں ایسے لوگ سؤر اور بندر کہلائے جنہوں نے اسی طرح توریت میں ملحدانہ کاروائیاں کی تھیں.اگر ایسے ہی خائنانہ تصرفات اور تحریفات سے حضرت مسیح کی زندگی ثابت ہو سکتی ہے تو پھر ہمیں تو اقرار کرنا چاہیئے کہ حضرت مسیح کی زندگی ثابت ہوگئی.مگر اس بات کا کیا علاج کہ خدا تعالیٰ نے ایسے محرفوں کا نام خنزیر اور بوز نہ رکھا ہے اور ان پر لعنت بھیجی ہے اور ان کی صحبت سے پر ہیز اور اجتناب کرنے کا حکم ہے.یہ بات یادرکھنی چاہیئے کہ ہم الہی کلام کی کسی آیت میں تغییر اور تبدیل اور تقدیم اور تاخیر اور فقرات تراشی کے مجاز نہیں ہیں مگر صرف اس صورت میں کہ جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہو اور یہ ثابت ہو جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ بذات خود ایسی تغییر اور تبدیل کی ہے اور جب تک ایسا ثابت نہ ہو تو ہم قرآن کی ترصیع اور ترتیب کو زیروز بر نہیں کر سکتے اور نہ اس میں اپنی طرف سے بعض فقرات ملا سکتے ہیں.اور اگر ایسا کریں تو عند اللہ مجرم اور قابل مواخذہ ہیں.اب ناظرین خودمولوی صاحب موصوف کی کتاب کو دیکھ لیں کہ کیا وہ ایسی ہی کارروائیوں سے پُر ہے یا کہیں انہوں نے ایسا بھی کیا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسے طور سے پیش کی ہے کہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ ثابت کر کے دکھلا دیا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے اس آیت کے معنے حضرت مسیح کی حیات ہی ثابت ہوتی ہے اور تکلفات اور تحریفات سے کام نہیں لیا.ہمیں نہ مولوی رسل بابا صاحب سے کچھ ضد اور عناد ہے نہ کسی اور مولوی صاحب سے.اگر وہ یہودیانہ روش پر نہ چلیں اور صحیح استدلال سے کام لیں تو پھر ثابت شدہ امر کو قبول نہ کرنا بے ایمانی ہے.اگر کوئی تعصبات سے الگ ہو کر اس بات میں فکر کرے کہ حقیقتیں کیونکر ثابت ہوتی ہیں اور ان کے ثبوت کے لئے قاعدہ کیا ہے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے ایسا قاعدہ صرف ایک ہی رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ صاف اور صریح اور بدیہی امور کو نظری امور کے ثابت کرنے کے لئے

Page 53

اتمام الحجة ۴۹ اردو تر جمه بطور دلائل کے استعمال کیا جائے اور اگر ایسے امر کو بطور دلیل کے پیش کریں کہ وہ خود نظری اور مشتبہ امر ہے جو تکلفات اور تاویلات اور تحریفات سے گھڑا گیا ہے تو اس کو دلیل نہ کہیں گے بلکہ وہ ایک الگ دعوئی ہے جو خود دلیل کا محتاج ہے.افسوس کہ ہمارے سادہ لوح مولوی دلیل اور دعوی میں بھی فرق نہیں کر سکتے.اور اگر کسی دعوی پر دلیل طلب کی جائے تو ایک اور دعویٰ پیش کر دیتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ وہ خود محتاج ثبوت ایسا ہی ہے جیسا کہ پہلا دعوی.ہم نے اپنے مخالف الرائے مولوی صاحبوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ممات کے بارے میں صرف ایک ہی سوال کیا تھا.اگر ایمانداری سے اس سوال میں غور کرتے تو ان کی ہدایت کے لئے ایک ہی سوال کافی تھا مگر کسی کو ہدایت پانے کی خواہش ہوتی تو غور بھی کرتا.سوال یہ تھا کہ اللہ جل شانه نے قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت دو جگہ تو فی کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ لفظ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی قرآن کریم میں آیا ہے اور ایسا ہی حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا میں بھی یہی لفظ اللہ جل شانہ نے ذکر فرمایا ہے اور کتنے اور مقامات میں بھی موجود ہے.اور ان تمام مقامات پر نظر ڈالنے سے ایک منصف مزاج آدمی پورے اطمینان سے سمجھ سکتا (11) ہے کہ توفی کے معنے ہر جگہ قبض روح اور مارنے کے ہیں نہ اور کچھ.کتب حدیث میں بھی یہی محاورہ بھرا ہوا ہے.کتب حدیث میں توفی کے لفظ کو صد ہا جگہ پاؤ گے مگر کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ بجز مارنے کے کسی اور معنے پر بھی استعمال ہوا ہے ہر گز نہیں.بلکہ اگر ایک اتمی آدمی عرب کو کہا جائے کہ تُوُفِّيَ زَيْدٌ تو وہ اس فقرہ سے یہی سمجھے گا کہ زید وفات پا گیا.خیر عربوں کا عام محاورہ بھی جانے دو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ملفوظات مبارکہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب کوئی صحابی یا آپ کے عزیزوں میں سے فوت ہوتا تو آپ توفی کے لفظ سے ہی اس کی وفات ظاہر کرتے تھے اور جب آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو صحابہ نے بھی توفی کے لفظ سے ہی آپ کی وفات ظاہر کی.اسی طرح حضرت ابوبکر کی وفات ،حضرت عمر کی وفات.غرض تمام صحابہ کی وفات توفی کے لفظ سے ہی تقریر تحریر بیان ہوئی اور مسلمانوں کی وفات کے

Page 54

اتمام الحجة ☆ اردو تر جمه لئے یہ لفظ ایک عزت کا قرار پایا تو پھر جب مسیح پر یہی وارد ہوا تو کیوں اس کے خود تراشیدہ معنے لئے جاتے ہیں.اگر یہ عام محاورہ کا فیصلہ منظور نہیں تو دوسرا طریق فیصلہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ جو مسیح کے متعلق قرآنی آیات میں توفی کا لفظ موجود ہے اس کے معنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے کیا کئے ہیں.چنانچہ ہم نے یہ تحقیقات بھی کی تو بعد دریافت ثابت ہوا که صحیح بخاری میں یعنی کتاب التفسیر میں آیت فلما توفیتنی کے معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مارنا ہی لکھا ہے اور پھر اس موقع پر آیت انى متوفيك كے معنے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مميتك درج ہیں یعنی اے عیسی میں تجھے مارنے والا ہوں.اب ان حضرات مولویوں سے کوئی پوچھے کہ پہلا فیصلہ تو تم نے منظور نہ کیا مگر صحابہ کا فیصلہ اور خاص کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قبول نہ کرنا اور پھر بھی کہتے رہنا کہ توفی کے اور معنے ہیں ایمانداری ہے یا بے ایمانی.ایسے تعصب پر بھی ہزار حیف کہ ایک لفظ کے معنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے بھی سن کر قبول نہ کریں بلکہ کوئی اور معنے تراشیں اور اس فیصلہ کو منظور نہ رکھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کر دیا ہے اور اپنی نزاع کو اللہ اور رسول کی طرف رد نہ کریں بلکہ ارسطو اور افلاطون کی منطق سے مدد لیں.یہ طریق صلحاء کا نہیں ہے البتہ اشقیاء ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں.ہمارے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت سے اور کوئی بڑھ کر شہادت نہیں ہمارا تو اس بات کو سن کر بدن کانپ جاتا ہے کہ جب ایک شخص کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ پیش کیا جائے تو وہ اس کو قبول نہیں کرتا اور دوسری طرف بہکتا پھرتا ہے.پھر نہ معلوم ان حضرات کے کس قسم کے ایمان ہیں کہ نہ قرآن کریم کا فیصلہ ان کی نظر میں کچھ چیز ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہ صحابہ کی تفسیر.یہ کیسا زمانہ آ گیا کہ مولوی کہلا کر اللہ رسول کو چھوڑتے جاتے ہیں.اور اگر بہت تنگ کیا جائے اور کہا جائے کہ جس حالت میں رسول اللہ حاشیہ:.طبرانی اور مستدرک میں حضرت عائشہ سے یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلعم نے اپنی وفات کی بیماری ۱۲۰ میں فرمایا کہ عیسی بن مریم ایک سو بیس برس تک جیتا رہا.

Page 55

اتمام الحجة ۵۱ اردو تر جمه صلی اللہ علیہ وسلم نے توفی کے معنے مارنا کر دیئے ہیں تو پھر کیوں آپ لوگ قبول نہیں کرتے تو آخری جواب ان حضرات کا یہ ہے کہ حضرت مسیح کی زندگی پر اجماع ہو چکا ہے پھر ہم کیونکر قبول کرلیں مگر یہ عذر بھی بدتر از گناہ اور نہایت مکروہ چالا کی اور بے ادبی ہے.کیونکہ جس اجماع میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم داخل نہیں ہیں بلکہ اس کے صریح مخالف ہیں وہ اجماع کے ساتھ اور ایک کیا حقیقت رکھتا ہے.ماسوا اس کے اجماع کا دعویٰ بھی سراسر جھوٹ اور افترا ہے.دیکھو کتاب مجمع بحارالانوار جلد اول صفحہ ۲۸۶ جو اس میں حَكَمًا کے لفظ کی شرح میں لکھا ہے ینزل (ای ينزل عيسى حكما اى حاكما بهذه الشريعة لا نبيًّا والاكثر ان عيسى لم يمت وقال مالك مات وهو ابن ثلث وثلثين سنة یعنی عیسی ایسی حالت میں نازل ہوگا جو اس شریعت کے مطابق حکم کرے گا نہ نبی ہو کر.اور اکثر کا یہ قول ہے کہ عیسیٰ نہیں مرا.اور امام مالک نے کہا ہے کہ عیسی مر گیا اور وہ تینتیس برس کا تھا جب فوت ہوا.اب دیکھو کہ امام مالک کس شان اور مرتبہ کا امام اور خیر القرون کے زمانہ کا اور کروڑہا آدمی ان کے پیرو ہیں.جب انہیں کا یہ مذہب ہوا تو گویا یہ کہنا چاہیئے کہ کروڑ ہا عالم فاضل اور متقی اور اہل ولایت جو بچے پیر و حضرت امام صاحب کے تھے ان کا یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں کیونکہ ممکن نہیں کہ سچا پیرو اپنے امام کی مخالفت کرے خاص کر ایسے امر میں جو نہ صرف امام کا قول بلکہ خدا کا قول رسول کا قول صحابہ کا قول تابعین کا نتبع تابعین کا قول ہے.اب ذرہ شرم کرنا چاہیئے کہ جب ایسا عظیم الشان امام جو تمام ائمہ حدیث سے پہلے ظہور پذیر ہوا اور تمام احادیث نبویہ پر گویا ایک دائرہ کی طرح محیط تھا جب اسی کا یہ مذہب ہو تو کس قدر حیا کے برخلاف ہے کہ ایسے مسئلہ میں اجماع کا نام لیں افسوس کہ حضرات مولوی صاحبان عوام کو دھو کہ تو دیتے ہیں مگر بولنے کے وقت یہ خیال نہیں کرتے کہ دنیا تمام اندھی نہیں کتابوں کو دیکھنے والے اور خیانتوں کو ثابت کرنے والے بھی تو اسی قوم میں موجود ہیں.یہ نام کے مولوی جب دیکھتے ہیں کہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے پیش کرنے سے عاجز آگئے اور گریز گاہ باقی نہیں رہا اور کوئی حجت ہاتھ میں نہیں تو نا چار ہو کر کہہ دیتے

Page 56

اتمام الحجة ۵۲ اردو تر جمه ہیں کہ اس پر اجماع ہے کسی نے سچ کہا ہے کہ ملا آن باشد که بند نشود اگر چه دروغ گوید.یہ حضرات یہ بھی جانتے ہیں کہ خود اجماع کے معنوں میں ہی اختلاف ہے.بعض صحابہ تک ہی محدود رکھتے ہیں.بعض قرون ثلاثہ تک بعض ائمہ اربعہ تک مگر صحابہ اور ائمہ کا حال تو معلوم ہو چکا اور اجماع کے توڑنے کے لئے ایک فرد کا باہر رہنا بھی کافی ہوتا ہے چہ جائے کہ امام مالک رضی اللہ عنہ جیسا عظیم الشان امام جس کے قول کے کروڑ ہا آدمی تابع ہوں گے حضرت عیسی کی وفات کا صریح قائل ہو.اور پھر یہ لوگ کہیں کہ ان کی حیات پر اجماع ہے.شرم.شرم.شرم.اور اجماع کے بارے میں امام احمد رضی اللہ عنہ کا قول نہایت تحقیق اور انصاف پر مبنی ہے وہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اجماع کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے کچی اور کامل دستاویز قرآن اور حدیث ہی ہے باقی ہمہ بیچے.مگر جو حدیث قرآن کی بینات محکمات کے مخالف ہوگی اور اس کے قصص کے برخلاف کوئی قصہ بیان کرے گی.وہ دراصل حدیث نہیں ہوگی کوئی محرف قول ہوگا یا سرے سے موضوع اور جعلی.اور ایسی حدیث بلا شبہ رد کے لائق ہوگی.لیکن یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے کہ مسئلہ وفات مسیح میں کسی جگہ حدیث نے قرآن شریف کی مخالفت نہیں کی بلکہ تصدیق کی.قرآن میں متوفيك آیا ہے حدیث میں مميتك آ گیا ہے.قرآن میں فلما توفیتنی آیا.حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی لفظ فـلـما ۱۸ تو فیتنی بغیر تغیر و تبدیل کے اپنے پر وارد کر کے ظاہر فرما دیا کہ اس کے معنے مارنا ہے نہ اور کچھ اور نبی کی شان سے بعید ہے کہ خدا تعالیٰ کے مرادی معنوں کی تحریف کرے.اور ایک آیت قرآن شریف کی جس کے معنے خدا تعالیٰ کے نزدیک زندہ اٹھا لینا ہو اسی کو اپنی طرف منسوب کر کے اس کے معنے ماردینا کر دیوے یہ تو خیانت اور تحریف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس گندی کارروائی کو منسوب کرنا میرے نزدیک اول درجہ کا فسق بلکہ کفر کے قریب قریب ہے.افسوس کہ حضرت عیسی کی زندگی ثابت کرنے کے لئے ان خیانت پیشہ مولویوں کی کہاں تک نوبت پہنچی ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی محرف القرآن ٹھہرایا بجز اس کے کیا کہیں کہ

Page 57

اتمام الحجة ۵۳ اردو تر جمه لعنة الله على الخائنين الكاذبين یہ بات نہایت سیدھی اور صاف تھی کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت فلما تو فیتنی کو اسی طرح اپنی ذات کی نسبت منسوب کر لیا جیسا کہ وہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب تھی اور منسوب کرنے کے وقت یہ نہ فرمایا کہ اس آیت کو جب حضرت عیسی کی طرف منسوب کریں تو اس کے اور معنے ہوں گے اور جب میری طرف منسوب ہو تو اس کے اور معنے ہیں.حالانکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت میں کوئی معنوی تغییر و تبدیل ہوتی تو رفع فتنہ کے لئے یہ عین فرض تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس تشبیہ تمثیل کے موقعہ پر فرما دیتے کہ میرے اس بیان سے کہیں یوں نہ سمجھ لینا کہ جس طرح میں قیامت کے دن فلما توفیتنی کہ کر جناب الہی میں ظاہر کروں گا کہ بگڑنے والے لوگ میری وفات کے بعد بگڑے.اسی طرح حضرت مسیح بھی فلما توفیتنی کہ کر یہی کہیں گے کہ میری وفات کے بعد میری امت کے لوگ بگڑے کیونکہ فلما توفیتنی سے میں تو اپنا وفات پانا مراد رکھتا ہوں لیکن مسیح کی زبان سے جب فلما توفیتنی نکلے گا تو اس سے وفات پا نا مراد نہیں ہوگا بلکہ زندہ اٹھایا جانا مراد ہوگا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرق کر کے نہیں دکھلایا جس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں موقعوں پر ایک ہی معنے مراد لئے ہیں.پس اب ذرا آنکھ کھول کر دیکھ لینا چاہیئے کہ جبکہ فلما تو فیتنی کے لفظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی دو نو شریک ہیں گویا یہ آیت دونو کے حق میں وارد ہے تو اس آیت کے خواہ کوئی معنے کر و دو نو اس میں شریک ہوں گے.سوا گر تم یہ کہو کہ اس جگہ توفی کے معنے زندہ آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہے تو تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ اس زندہ اٹھائے جانے میں حضرت عیسی کی کچھ خصوصیت نہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں کیونکہ آیت میں دونو کی مساوی شراکت ہے.لیکن یہ تو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے بلکہ وفات پاگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آپ کی قبر مبارک موجود ہے تو پھر اس سے تو بہر حال ماننا پڑا کہ حضرت عیسی بھی وفات پاگئے ہیں.اور

Page 58

اتمام الحجة ۵۴ اردو تر جمه لطف تو یہ کہ حضرت عیسی کی بھی بلاد شام میں قبر موجود ہے اور ہم زیادہ صفائی کے لئے اس جگہ حاشیہ میں اخویم حبّی فی الله سید مولوی محمد السعیدی طرابلسی کی شہادت درج کرتے ہیں اور وہ طرابلس بلا دشام کے رہنے والے ہیں اور انہیں کی حدود میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے لے جب میں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر کی نسبت حضرت سید مولوی محمد السعیدی طرابلسی الشامی سے بذریعہ 19 خط دریافت کیا تو انہوں نے میرے خط کے جواب میں یہ خط لکھا جس کو میں ذیل میں معہ ترجمہ لکھتا ہوں.يا حضرة مولانا وامامنا السلام عليكم اے حضرت مولانا واما منا السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته ورحمة الله وبركاته نسأل الله الشافی میں خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو شفا بخشے.(میری ان يشفيكم.اماما سالتم عن قبر عیسی علیه بیماری کی حالت میں یہ خط شامی صاحب کا آیا تھا ) جو کچھ السلام وحالات اخرى مما يتعلق به فابینه آپ نے عیسی علیہ السلام کی قبر اور دوسرے حالات کے مفصلا في حضرتكم وهو ان عیسی علیه متعلق سوال کیا ہے سو میں آپ کی خدمت میں مفصل بیان السلام ولد في بيت لحم وبينه و بين بلدة کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بیت اللحم القدس ثلثة اقواس وقبره في بلدة القدس میں پیدا ہوئے اور بیت اللحم اور بلدہ قدس میں تین کوس کا والى الان موجود وهنالك كنيسة وهى فاصلہ ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر بلدہ قدس میں اكبر الكنائس من كنائس النصارى و داخلها ہے اور اب تک موجود ہے اور اس پر ایک گر جا بنا ہوا ہے قبر عيسى عليه السلام كما هو مشهود اور وہ گر جا تمام گر جاؤں سے بڑا ہے اور اس کے اندر وفــي تـلـك الكنيسة ايضا قبر امه مريم حضرت عیسی کی قبر ہے اور اسی گرجا میں حضرت مریم ولـكـن كـل مـن القبرين عليحدة و كان صدیقہ کی قبر ہے اور دونو قبریں علیحدہ علیحدہ ہیں.اور بنی اسم بلدة القدس في عهد بنی اسرائیل اسرائیل کے عہد میں بلدہ قدس کا نام یروشلم تھا اور اس کو ۲۱ ) یروشلم ويقال ايضا اورشليم وسمیت اور شلم بھی کہتے ہیں.اور حضرت عیسی کے فوت ہونے کے من بعد المسيح ايلياء ومن بعد الفتوح بعد اس شہر کا نام ایلیا رکھا گیا اور پھر فتوح اسلامیہ کے بعد الاسلامية الــى هـذا الـوقـت اسمها اس وقت تک اس شہر کا نام قدس کے نام سے مشہور ہے اور القدس والاعاجم تسمیها بیت المقدس عجمی لوگ اس کو بیت المقدس کے نام سے بولتے ہیں.

Page 59

اتمام الحجة ۵۵ اردو تر جمه اور اگر کہو کہ وہ قبر جعلی ہے تو اس جعل کا ثبوت دینا چاہیئے.اور ثابت کرنا چاہیئے کہ کس وقت یہ 19 م و اما عدة اميال الفصل بينها وبين طرابلس مگر طرابلس اور قدس میں جو فاصلہ ہے میں تحقیقی طور پر فلا اعـلـمـهـا تحقيقا نعم يعلم تقریبا نظرا اس کو بتلا نہیں سکتا کہ کس قدر ہے ہاں راہوں اور منزلوں على الطرق والمنازل.وتختلف الطرق.کے لحاظ سے تقریباً معلوم ہے.اور طرابلس سے قدس کی الـطـريـق الاول مـن طرابلس الی بیروت طرف جانے کی کئی راہیں ہیں.ایک راہ یہ ہے کہ فمن طرابلس الى بيروت منزلين طرابلس سے بیروت کو جائیں اور طرابلس سے بیروت متوسطين (وقدر المنزل عندنا من الصباح تک دومتوسط منزلیں ہیں.اور ہم لوگ منزل اس کو کہتے الى قريب العصر ومن بيروت الى صيدا ہیں جو صبح سے عصر تک سفر کیا جائے اور پھر بیروت سے منزل واحد و من صيدا الى حيفا منزل صیدا تک ایک منزل ہے اور صیدا سے حیفا تک ایک واحد و من حيفا الى عكا منزل واحد ومن منزل اور حیفا سے عکا تک ایک منزل اور عکا سے سورتک عـــا الــى ســور منزل واحد و یقال لبلاد ایک منزل اور بلا د شام کو سور یہ اسی نسبت کی وجہ سے کہتے الشام سوريه نسبة الى تلك البلدة فی ہیں یعنی اس بلدہ قدیمہ کی طرف منسوب کر کے سوریہ نام القديم.ثم من سور الى يافا منزل كبير رکھتے ہیں پھر سور سے یا فا تک ایک منزل کبیر ہے اور یا فا وهي على ساحل البحر ومنها الى القدس بحر کے کنارے پر ہے اور یافا سے قدس تک ایک چھوٹی منزل صغير والان صنع الريل منها الى سی منزل ہے اور اب یا فا سے قدس تک ریل طیار ہو گئی القدس ويصل القاصد من يا فا الی القدس ہے.اور اگر ایک مسافر یافا سے قدس کی طرف سفر في اقل من ساعة فعدة المسافة من طرابلس کرے تو ایک گھنٹہ سے پہلے پہنچ جاتا ہے.سو اس الـى الـقـدس تسعة ايام مع الراحة واليها حساب سے طرابلس سے قدس تک نو دن کا سفر آرام (۲۲) طرق من طرابلس واقربها طريق البحر کے ساتھ ہے مگر سمندر کا راہ نہایت قریب ہے.اور اگر بحيث لـوركـب الانسان من طرابلس انسان اگن بوٹ میں بیٹھ کر طرابلس سے قدس کو جانا بالمركب الناري يصل الىی یافا بیوم چاہے تو یا فا تک صرف ایک دن اور رات میں پہنچ جائے تو یا وليلة ومنها الى القدس ساعة في الريل گا اور یافا سے قدس تک صرف ایک گھنٹہ کے اندر.

Page 60

اتمام الحجة اردو تر جمه جعل بنایا گیا ہے اور اس صورت میں دوسرے انبیاء کی قبروں کی نسبت بھی تسلی نہیں رہے گی اور امان اٹھ جائے گا.اور کہنا پڑے گا کہ شاید وہ تمام قبریں جعلی ہی ہوں.بہر حال آیت فلما توفیتنی سے یہی معنے ثابت ہوئے کہ مار دیا.بعض نادان نام کے مولوی کہتے ہیں کہ یہ تو سچ ہے کہ اس آیت فلما توفیتنی کے مارنا ہی معنے ہیں نہ اور کچھ لیکن وہ موت نزول کے بعد وقوع میں آئے گی اور اب تک واقع نہیں ہوئی.لیکن افسوس کہ یہ نادان نہیں سمجھتے کہ اس طور سے آیت کے معنے فاسد ہو جاتے ہیں کیونکہ آیت کے معنے تو یہ ہیں کہ حضرت عیسی جناب الہی میں عرض کریں گے کہ میری امت کے لوگ میرے مرنے کے بعد بگڑے ہیں.یعنی جب تک میں زندہ تھا وہ سب صراط مستقیم پر قائم تھے اور میرے مرنے کے بعد میری امت بگڑی.نہ میری زندگی میں.سواگر یہ کہا جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اب تک فوت نہیں ہوئے تو ساتھ ہی یہ بھی اقرار کرنا پڑے گا کہ ان کی امت بھی اب تک بگڑی نہیں.کیونکہ آیت اپنے منطوق سے صاف بتلا رہی ہے کہ امت نہیں بگڑے گی جب تک وہ فوت نہ ہو جائیں.اور فوت کا لفظ یا یوں کہو کہ مرنے کی حقیقت کھلی کھلی ہے جس کو سارا جہان جانتا ہے.اور وہ یہ کہ جب ایک انسان کو فوت شدہ کہیں گے تو اس سے یہی مراد ہوگی کہ ملک الموت نے اس کی روح کو قبض کر کے بدن سے ۲۰ علیحدہ کر دیا ہے.اب مصنفین انصافا بتلا دیں کہ حضرت عیسی کی وفات پر اس سے زیادہ تر کیا ثبوت ہوگا اور کیا دنیا میں اس سے زیادہ تر منطقی فیصلہ ممکن ہے جو اس آیت نے کر دیا.پھر اس کے مقابل پر یہودیوں کی طرح خدا تعالیٰ کی پاک کلام کو تحریف کر کے اور گندے دل کے ساتھ والسلام عليكم ورحمة الله و بركاته والسلام.خدا آپ کو سلامت رکھے اور نگہبان اور مددگار ہو اور ادام اللـه وجـود كـم و حفظكم واید کم دشمنوں پر فتح بخشے.آمین.منہ و نصركم على اعدائكم.أمين.كتبه خادمكم محمد السعيدي الطرابلسي عفا الله عنه د و مصنفین سہو کتابت ہے.درست منصفین“ ہے.(ناشر) منه

Page 61

اتمام الحجة ۵۷ اردو تر جمه اپنی طرف سے اس کے معنے گھڑنا اگر فسق اور الحاد کا طریق نہیں ہے تو اور کیا ہے.انصاف یہ تھا کہ اگر اس قطعی اور یقینی ثبوت کو ماننا نہیں تھا تو اس کو توڑ کر دکھلاتے.مگر ہمارے مخالفوں نے ایسا نہیں کیا اور تاویلات رکیکہ کر کے اور سچائی کے راہوں کو بکلی چھوڑ کر ہم پر ثابت کر دیا کہ ان کو سچائی کی کچھ بھی پروانہیں ہے.انہوں نے انکار حیات عیسی کو کلمہ کفر تو ٹھہرایا مگر آنکھ کھول کر نہ دیکھا کہ قرآن اور نبی آخر الزمان دونوں متفق اللفظ واللسان حضرت عیسی کی وفات کے قائل ہیں.امام مالک جیسے جلیل الشان امام قائل وفات ہو گئے.اور امام بخاری جیسے مقبول الزمان امام حدیث نے محض وفات کے ثابت کرنے کے لئے دو متفرق مقامات کی آیتوں کو ایک جگہ جمع کیا.ابن قیم جیسے محدث نے مدارج السالکین میں وفات کا اقرار کر دیا.ایسا ہی علامہ شیخ علی بن احمد نے اپنی کتاب سراج منیر میں ان کی وفات کی تصریح کی.معتزلہ کے بڑے بڑے علماء وفات کے قائل گزر گئے.پر ابھی تک ہمارے مخالفوں کی نظر میں حضرت عیسی کی حیات پر اجماع ہی رہا.یہ ۲۱ خوب اجماع ہے.خدا تعالیٰ ان لوگوں کے حال پر رحم کرے یہ تو حد سے گزر گئے.جو باتیں اللہ اور رسول کے قول سے ثابت ہوتی ہیں انہیں کو کلمات کفر قرار دیا.انا لله وانا اليه راجعون.اب ہم اس تقریر کو زیادہ طول دینا نہیں چاہتے اور نہ ہم جتلانا چاہتے ہیں کہ مولوی رسل بابا صاحب کا رسالہ حیات اسیح کس قدر بے بنیاد اور واہیات باتوں سے پُر ہے.لیکن نہایت ضروری امر جس کے لئے ہم نے یہ رسالہ لکھا ہے یہ ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے اپنے رسالہ مذکورہ میں محض عوام کا دل خوش کرنے کے لئے یہ چند لفظ بھی منہ سے نکال دیئے ہیں کہ اگر ہمارے دلائل حیات مسیح تو ڑ کر دکھلا دیں تو ہم ہزار روپیہ دیں گے.اگر چہ دلائل کا حال تو معلوم ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے ناحق چند ورق سیاہ کر کے ایک قدیم پردہ اپنا فاش کیا اور ایسی بے ہودہ باتیں لکھیں کہ بجز دو نام کے ہم تیسرا نام ان کا رکھ ہی نہیں سکتے.یعنی یا تو وہ صرف دعاوی ہیں جن کو دلیل کہنا بیجا اور حمق ہے.اور یا یہودیوں کی طرح قرآن شریف کی

Page 62

اتمام الحجة ۵۸ اردو تر جمه تحریف ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں.اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں بھی یہ یقین جما ہوا ہے کہ میری کتاب میں کچھ نہیں اس لئے انہوں نے اس پردہ پوشی کے لئے آخر کتاب کے کہہ بھی دیا ہے کہ میری کتاب سمجھ میں نہیں آئے گی.جب تک کوئی سبق سبقا مجھ سے نہ پڑھے.یہ کیوں کہا.صرف اس لئے کہ ان کو معلوم تھا کہ میری کتاب دلائل شافیہ سے محض خالی اور طبل تہی ہے.۲۲ اور ضرور جانے والے جان جائیں گے کہ اس میں کچھ نہیں.لہذا تعلیق بالمحال کی طرح انہوں نے یہ کہہ دیا کہ وہ دلائل جو میں نے لکھے ہیں ایسے پوشیدہ ہیں کہ وہ ہر یک کو نظر نہیں آئیں گے اور صرف میری زبان ان کی کنجی رہے گی اور جب تک کوئی میرے دروازہ پر ایک مدت ٹھہر کر اور میری شاگردی اختیار کر کے اس مجموعہ بکواس کو سبقا سبقا مجھ سے نہ پڑھے تب تک ممکن ہی نہیں کہ ان اوراق پراگندہ سے کچھ حاصل ہو سکے.اے فضول گومولوی اگر تیرے دلائل ایسے ہی گور میں پڑے ہوئے اور تاریکی میں اترے ہوئے ہیں کہ وہ تیری کتاب میں ایک زندہ ثبوت کی طرح اپنا وجود بتلا ہی نہیں سکتے تو ایسی بیہودہ اور فضول کتاب کے بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی جب تجھے خود معلوم تھا کہ دلائل نہایت نکھے اور بے معنی ہیں یہاں تک کہ تیرے زبانی بکو اس کے سوا بے نشان ہیں تو ایسی کتاب کا لکھنا ہی بے سود تھا.بلکہ ان کا دلائل نام رکھنا ہی بے محل اور جائے شرم اور یاوہ گوئی میں داخل ہے.اگر چہ اس پرفتن دنیا میں ہزاروں طرح کے فریب ہو رہے ہیں مگر ایسا فریب کسی نے کم سنا ہوگا کہ جو اس مولوی رسل بابا صاحب نے کیا کہ دلائل سمجھنے کے لئے شاگردی اور سبقاً سبقاً کتاب پڑھنے کی شرط لگا دی اور دل میں یقین کر لیا کہ یہ تو کسی دانا سے ہرگز نہیں ہوگا کہ ایک نادان نجی کی شاگردی اختیار کرے اور اس کے شیطانی رسالہ کو سبق سبقاً اس سے پڑھے اس امید سے کہ حضرت مسیح کی زندگی کے دلائل ایسے پوشیدہ طور پر اس کی کتاب میں چھپے ہوئے ہیں کہ تمام دنیا اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ نہیں سکتی اور نہ ان کے رسالہ میں ان کا کچھ پتا لگاسکتی ہے.اگر چہ ہزار یا کروڑ مرتبہ پڑھے اور نہ رسالہ میں ان کا کچھ پتہ لگ سکتا ہے کہ کہاں ہیں.صرف

Page 63

اتمام الحجة ۵۹ اردو تر جمه مصنف کی رہنمائی سے نظر آ سکتے ہیں.ورنہ قیامت تک پتہ لگنے سے نومیدی ہے.اے ناظرین کیا آپ لوگوں نے کبھی اس سے پہلے بھی کوئی ایسی کتاب سنی ہے جس کے دلائل کتاب میں درج ہو کر پھر بھی مصنف کے پیٹ میں ہی رہیں.افسوس کہ آج کل کے ہمارے مولویوں میں ایسی ہی بیہودہ مکاریاں پائی جاتی ہیں جن سے مخالفین کو ہنسی اور ٹھٹھے کا موقعہ ملتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ جو فاضل اور عالم اور واقعی اہل علم ہیں وہ تو ان کو نہ اندیشوں اور نادانوں سے کنارہ کر کے ہماری طرف آتے جاتے ہیں.رہے نام کے مولوی جو اردو بھی اچھی (۲۳) طرح لکھ نہیں سکتے اور قرآن کریم اور احادیث سے بے خبر ہیں وہ صرف آبائی تقلید کی وجہ سے ہمارے ایسے مخالف ہو گئے ہیں کہ خدا جانے ہم نے ان کے کس باپ یا دادے کو قتل کر دیا ہے.ان لوگوں کا رات دن کا وظیفہ گالیاں اور ٹھٹھا اور تکفیر ہے گویا کبھی مرنا نہیں.کبھی پوچھے جانا نہیں کہ تم نے کیوں مسلمانوں کو کافر کہا.خدا تعالیٰ سے لڑائی کر رہے ہیں ضد سے باز نہیں آتے.مگر ضرور تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوتی کہ مہدی معہود یعنی وہی مسیح موعود جب ظہور کرے گا تو اس وقت کے مولوی اس پر فتوائے کفر لکھیں گے.اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ لوگ فتویٰ لکھنے والے تمام دنیا کے شریروں سے بدتر ہوں گے اور روئے زمین پر ایسا کوئی بھی فاسق نہیں ہوگا جیسا کہ وہ اور ہرگز قبول نہیں کریں گے مگر نفاق سے.افسوس کہ ان سادہ لوحوں کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ جو شخص اللہ اور رسول کے قول کے مطابق کہتا ہے وہ کیونکر کافر ہو جائے گا.کیا کوئی شخص اس بات کو قبول کر لے گا کہ وہ ہزار ہا کا بر اور اہل اللہ جو تیرہ سو برس تک یعنی ان دنوں تک حضرت عیسی کا فوت ہو جانا مانتے چلے آئے وہ سب کا فر ہی ہیں.اور نعوذ باللہ امام مالک رضی اللہ عنہ بھی کافر ہیں جنہوں نے کروڑ ہا اپنے پیروؤں کو یہی تعلیم دی اور نعوذ باللہ امام بخاری بھی کا فر جنہوں نے حضرت عیسی کی موت کے بارے میں اپنی صحیح میں ایک خاص باب باندھا.ابن قیم بھی کافر جنہوں نے ان کو حضرت موسیٰ کی طرح موتی میں داخل کیا.اور ان بزرگوں کے مسلمان جاننے والے بھی سب کا فر.اور معتزلہ تمام کا فر جن کا مذہب

Page 64

اتمام الحجة ہی یہی ہے کہ حضرت عیسی در حقیقت فوت ہو گئے.اردو ترجمه اے بھلے مانس مولو یو کیا تمہیں ایک دن موت نہیں آئے گی جو شوخی اور چالا کی کی راہ سے سارے جہان کو کافر بنا دیا.خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جو تمہیں السلام علیکم کہے اس کو یہ مت کہو کہ لَسْتَ مُؤْمِناً یعنی اس کو کا فرمت سمجھو وہ تو مسلمان ہے.لیکن تم نے ان کو کا فر ٹھہرایا جو تمام ایمانی عقائد میں تمہارے شریک ہیں.اہل قبلہ ہیں اور شرک سے بیزار اور مدار نجات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی جانتے ہیں اور پیروی سے منہ پھیرنے والے کو لعنتی اور جہنمی اور ناری سمجھتے ہیں.اے شریر مولو یو ذرہ مرنے کے بعد دیکھنا کہ اس جلد بازی کی شرارت کا تمہیں کیا پھل ملتا ہے.کیا تم نے ہمارا سینہ چاک کیا اور دیکھ لیا کہ اندر کفر ہے ایمان نہیں اور سینہ سیاہ ہے روشن نہیں.ذرہ صبر کرو اس دنیا کی عمر کچھ بہت لمبی نہیں.تمہارے نزدیک صرف چند فتنہ انگیز مولوی جو اسلام کے لئے جائے عار ہیں مسلمان ہیں اور باقی سارا جہان کا فر.افسوس کہ یہ لوگ کس قدر سخت دل ہو گئے.کیسے پردے ان کے ۲۴ دلوں پر پڑ گئے.یا الہی اس امت پر رحم کر اور ان مولویوں کے شر سے ان کو بچالے اور اگر یہ ہدایت کے لائق ہیں تو ان کی ہدایت کر ورنہ ان کو زمین پر سے اٹھا لے تا زیادہ شر نہ پھیلے اور یہ لوگ در حقیقت مولوی بھی تو نہیں ہیں تبھی تو ہم نے ان لوگوں کے سرگروہ اور امام الفتن اور استاد شیخ محمدحسین بطالوی کو اپنے رسالہ نور الحق میں مخاطب کر کے کہا ہے کہ اگر اس کو ھر بیت میں کوئی حصہ نصیب ہے تو اس رسالہ کی نظیر بنا کر پیش کرے اور پانچ ہزار روپیہ انعام پاوے مگر شیخ نے اس طرف منہ بھی نہیں کیا حالانکہ شیخ مذکور ان تمام لوگوں کے لئے بطور استاد کے ہے اور اُسی کی تحریکوں سے یہ مُردے جنبش کر رہے ہیں.ہم بار بار کہتے ہیں اور زور سے کہتے ہیں کہ شیخ اور یہ تمام اُس کے ذریات محض جاہل اور نادان اور علوم عربیہ سے بے خبر ہیں.ہم نے تفسیر سورۃ الفاتحہ انہیں لوگوں کے امتحان کی غرض سے لکھی اور رسالہ نورالحق اگر چہ عیسائیوں کی مولویت آزمانے کے لئے لکھا گیا مگر یہ چند مخالف

Page 65

اتمام الحجة ۶۱ اردو تر جمه یعنی شیخ محمد حسین بطالوی اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے میاں رسل بابا وغیرہ جو مکفر اور بدگو اور بد زبان ہیں اس خطاب سے باہر نہیں ہیں.الہام سے یہی ثابت ہوا ہے کہ کوئی کافروں اور مکفروں سے رسالہ نور الحق کا جواب نہیں لکھ سکے گا.کیونکہ وہ جھوٹے اور کا ذب اور مفتری اور جاہل اور نادان ہیں.اگر یہ ہمارے الہام کو الہام نہیں سمجھتے اور اپنے خبیث باطن کی وجہ سے اس کو ہماری بناوٹ یا شیطانی وسوسہ خیال کرتے ہیں تو رسالہ نور الحق کا جواب میعاد مقررہ میں لکھیں اور اگر نہیں لکھ سکتے تو ہمارا الہام ثابت.پھر جن لوگوں نے اپنی نالیاقتی اور بے علمی دکھلا کر ہمارا الہام آپ ہی ثابت کر دیا تو وہ ایک طور سے ہمارے دعوے کو تسلیم کر گئے.پھر مخالفانہ بکواس قابل سماعت نہیں اور ہماری طرف سے تمام پادریان اور شیخ محمد حسین بطالوی اور مولوی رسل بابا امرتسری اور دوسرے ان کے سب رفقاء اس مقابلہ کے لئے مدعو ہیں اور درخواست مقابلہ کے لئے ہم نے ان سب کو اخیر جون ۱۸۹۴ء تک مہلت دی ہے اور رسالہ بالمقابل شائع کرنے کے لئے روز درخواست سے تین مہینہ کی مہلت ہے.پھراگرا خیر جون ۱۸۹۴ء تک درخواست نہ کریں تو بعد اُس کے کوئی درخواست سنی نہیں جائے گی اور نادانی ان کی ہمیشہ کے لئے ثابت ہو جائے گی اور مولویت کا لفظ اُن سے چھین لیا جائے گا.لیکن اگر وہ ماہ جون ۱۸۹۴ء کے اندر بالمقابل رسالہ بنانے کے لئے درخواست کر دیں ﴿۲۵﴾ تو تمام درخواست کنندوں کی ایک ہی درخواست سمجھی جائے گی اور صرف پانچ ہزار روپیہ جمع کرادیا جائے گا نہ زیادہ.اور ان میں سے جو لوگ رسالہ بالمقابل بنانے میں فتح یاب سمجھے جائیں گے خواہ وہ عیسائی ہوں گے اور یا یہ حق کے مخالف نام کے مولوی اور یا دونوں.وہ اس پانچ ہزار روپیہ کو آپس میں تقسیم کر لیں گے اور ان کا اختیار ہو گا کہ سب اکٹھے ہوکر رسالہ بناویں غالباً اس طرح سے ان کو آسانی ہو گی مگر آخری نتیجہ ان کے لئے یہی ہوگا کہ خسر الدنيا والآخرة و سواد الوجه في الدارین.اور اگر ہم ان کی اس درخواست کے آنے کے بعد جس پر کم سے کم دس

Page 66

اتمام الحجة ۶۲ اردو تر جمه مشہور رئیسوں کی گواہیاں ثبت ہونی چاہئیں اور جو کسی اخبار میں چھاپ کر ہمیں رجسٹری کرا کر پہنچانی چاہیئے.تین ہفتہ تک کسی بنک میں پانچ ہزار روپیہ جمع نہ کر اویں تو ہم کا ذب اور ہمارا سب دعوی کذب متصور ہوگا کیونکہ زبانی انعام دینے کا دعوی کرنا کچھ چیز نہیں ایک کا ذب بدنیت بھی ایسا کر سکتا ہے.سچا وہی ہے کہ جو اُس کی زبان سے نکلا اس کو کر دکھاوے.ورنہ لعنۃ اللہ علی الكاذبين.لیکن اگر ہم نے روپیہ جمع کرادیا اور پھر نفاق پیشہ لوگ مقابل پر آنے سے بھاگ گئے تو اس بد عہدی کے باعث سے جو کچھ خرچہ ہمارے عائد حال ہوگا وہ سب براہ راست یا بذریعہ عدالت اُن سے لیا جائے گا اور نیز اس حالت میں بھی کہ جب وہ جواب لکھنے میں عہدہ برا نہ ہو سکیں اس کا اقرار بھی ان کی درخواست میں ہونا چاہیئے.اب ہم مولوی رسل بابا کے ہزار روپیہ کے انعام کا ذکرکرتے ہیں.ہم بیان کر چکے ہیں کہ مولوی رسل بابا صاحب نے اپنے رسالہ حیات اسی کو ہزار روپیہ انعام کی شرط سے شائع کیا ہے کہ جو شخص اُن کے دلائل کو توڑ دے اس کو ہزار روپیہ انعام دیا جائے.مگر مولوی صاحب موصوف نے اسی رسالہ میں یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ وہ دلائل رسالہ مذکورہ میں ایک معمایا چیستان کی طرح مخفی رکھے گئے ہیں وہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہو سکتے جب تک کوئی انہیں سے اس رسالہ کو سبقاً سبقاً نہ پڑھے.عقلمند معلوم کر گئے ہوں گے کہ یہ باتیں کس خوف نے ان کے منہ سے نکلوائی ہیں اور کون سا دل میں دھڑ کا تھا جس سے ان روباہ بازیوں کی ضرورت ہوئی ہم تو ان باتوں کے سنتے ہی ڈائن کے اڑھائی حرف معلوم کر گئے اور سمجھ گئے کہ کس درد سے یہ سیاپا کیا گیا ہے اور کس خوف سے دلائل کا حوالہ اپنے پیٹ کی طرف دیا گیا ہے.بہر حال ہم ان کو اس رسالہ کے ذریعہ سے فہمائش کرتے ہیں کہ وہ ماہ جون ۱۸۹۴ء کے اخیر تک ہزار روپیہ خواجہ یوسف شاہ صاحب اور شیخ غلام حسن صاحب اور میر محمود شاہ صاحب کے پاس یعنی بالا تفاق تینوں کے پاس جمع کرا کر اُن کی دستی تحریر کے ساتھ ہم کو اطلاع دیں جس تحریر میں اُن کا یہ اقرار ہو کہ ہزار روپیہ ہم نے وصول کر لیا اور ہم اقرار کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد

Page 67

اتمام الحجة ۶۳ اردو تر جمه یعنی راقم لھذا کے غلبہ ثابت ہونے کے وقت یہ ہزار روپیہ ہم بلا توقف مرزا ند کور کو دے دیں گے ﴿۲۲﴾ اور رسل بابا کا اس سے کچھ تعلق نہ ہوگا.اس تحریر کی اس لئے ضرورت ہے کہ تا ہمیں بکلی اطمینان ہو جائے اور سمجھ لیں کہ روپیہ ثالثوں کے قبضہ میں آ گیا ہے اور تا ہم اس کے بعد مولوی رسل بابا کے رسالہ کی بیخ کنی کرنے کے لئے مشغول ہو جائیں.اور ہم قصہ کوتاہ کرنے کے لئے اس بات پر راضی ہیں کہ شیخ محمد حسین بطالوی یا ایسا ہی کوئی زہرناک مادہ والا فیصلہ کرنے کے لئے مقرر ہو جائے فیصلہ کے لئے یہی کافی ہوگا کہ شیخ بطالوی مولوی رسل بابا صاحب کے رسالہ کو پڑھ کر اور ایسا ہی ہمارے رسالہ کو اول سے آخر تک دیکھ کر ایک عام جلسہ میں قسم کھا جائیں اور قسم کا یہ مضمون ہو کہ اے حاضرین بخدا میں نے اول سے آخر تک دونوں رسالوں کو دیکھا اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ در حقیقت مولوی رسل بابا صاحب کا رسالہ یقینی اور قطعی طور پر حضرت عیسی کی زندگی ثابت کرتا ہے.اور جو مخالف کا رسالہ نکلا ہے اس کے جوابات سے اس کے دلائل کی بیخ کنی نہیں ہوئی.اور اگر میں نے جھوٹ کہا ہے یا میرے دل میں اس کے برخلاف کوئی بات ہے تو میں دعا کرتا ہوں کہ ایک سال کے اندر مجھے جذام ہو جائے یا اندھا ہو جاؤں یا کسی اور برے عذاب سے مر جاؤں فقط.تب تمام حاضرین تین مرتبہ بلند آواز سے کہیں کہ آمین آمین آمین.اور جلسہ برخاست ہو.پھر اگر ایک سال تک وہ قسم کھانے والا ان بلاؤں سے محفوظ رہا تو کمیٹی مقرر شدہ مولوی رسل بابا کا ہزار روپیہ عزت کے ساتھ اس کو واپس دے دے گی.تب ہم بھی اقرار شائع کریں گے کہ حقیقت میں مولوی رسل بابا نے حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی ثابت کر دی ہے.مگر ایک برس تک بہر حال وہ روپیہ کمیٹی مقرر شدہ کے پاس جمع رہے گا اور اگر مولوی رسل بابا صاحب نے اس رسالہ کے شائع ہونے سے دو ہفتہ تک ہزار روپیہ جمع نہ کرا دیا تو اُن کا کذب اور دروغ ثابت ہو جائے گا.تب ہر ایک کو چاہیئے کہ ایسے دروغ گولوگوں کی شر سے خدا تعالی کی پناہ مانگیں اور اُن سے پر ہیز کریں.واضح رہے کہ اس مخالف گروہ سے ہمیں عام طور پر تکلیف پہنچی ہے اور کوئی تحقیر

Page 68

اتمام الحجة ۶۴ اردو تر جمه اور توہین اور سب اور ختم نہیں جو اُن سے ظہور میں نہیں آیا.جب تکفیر اور گالیوں سے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے تو پھر بد دعاؤں کی طرف رخ کیا اور دن رات بددعائیں کرنے لگے مگر ایسے بخیلوں سیاہ دلوں کی ظالمانہ بددعا ئیں کیونکر اُس جناب میں قبول ہوں جو دلوں کے مخفی حالات جانتا ہے.آخر جب بد دعاؤں سے بھی کام نہ نکل سکا تو خدا تعالیٰ سے نومید ہو کر گورنمنٹ انگریزی کی طرف جھکے اور جھوٹی مخبریاں کیں اور مفتر یانہ رسالے لکھے کہ اس شخص کے وجود سے فساد کا اندیشہ اور جہاد کا خوف ہے.لیکن یہ دانا اور دقیقہ رس اور حقیقت شناس گورنمنٹ ایسی کم فہم تھوڑی تھی کہ ان چالاک حاسدوں کے دھوکہ میں آ جاتی.گورنمنٹ خوب جانتی ہے کہ ایسے عقیدے تو انہیں لوگوں کے ہیں.اور یہی لوگ ہیں جو صد ہا برسوں سے کہتے چلے آئے ہیں کہ اسلام کو جہاد سے پھیلانا چاہیئے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ یہ بھی ان کا قول ہے کہ جب ان کا فرضی مہدی ظہور کرے گا یا کسی غار میں سے نکلے گا اور اُسی زمانہ میں ان کا فرضی عیسیٰ بھی آسمان پر سے اتر کر کوئی تیز حربہ کفار کے قتل کے لئے اپنے ساتھ ہی آسمان سے لائے گا تو دونوں مل کر دنیا کے تمام کافروں کو قتل کر ڈالیں گے اور جس نے اسلام سے انکار کیا خواہ وہ یہود میں سے ہو یا نصاری میں سے وہ تہ تیغ کیا جائے گا.یہ ان لوگوں کے بڑے پکے عقیدے ہیں اگر شک ہو تو کسی مولوی کا عدالت میں حلفاً اظہار لیا جاوے.تا عدالت پر کھل جائے کہ کیا واقعی ان لوگوں کے یہی عقیدے ہیں یا ہم نے بیان میں غلطی کی ہے.لیکن ہم گورنمنٹ کو بلند آواز سے اطلاع دیتے ہیں کہ اس زمانہ میں جنگ اور جہاد سے دین اسلام کو پھیلانا ہمارا عقیدہ نہیں ہے اور نہ یہ عقیدہ کہ جس گورنمنٹ کے زیر سایہ رہیں اور اس کے ظلّ حمایت میں امن اور عافیت کا فائدہ اٹھاویں اور اس کی پناہ میں رہ کر اپنے دین کی بخوشی خاطر اشاعت کر سکیں اُسی سے باغیوں کی طرح لڑنا شروع کر دیں.کیا اس گورنمنٹ انگریزی میں ہم امن اور عافیت سے زندگی بسر نہیں کرتے.کیا ہم حسب مرضی دین کی اشاعت نہیں کر سکتے.کیا ہم دینی احکام بجالانے سے روکے گئے ہیں.ہرگز نہیں.بلکہ سچ اور بالکل سچ

Page 69

اتمام الحجة اردو تر جمه یہ بات ہے کہ ہم جس کوشش اور سعی اور امن اور آزادی سے اسلامی وعظ اور نصائح بازاروں میں، کوچوں میں، گلیوں میں اس ملک میں کر سکتے ہیں اور ہر یک قوم کو حق پہنچا سکتے ہیں یہ تمام خدمات خاص مکہ معظمہ میں بھی بجا نہیں لا سکتے چہ جائیکہ کسی اور جگہ تو پھر کیا اس نعمت کا شکر کرنا ہم پر واجب ہے یا یہ کہ مفسدہ بغاوت شروع کر دیں.سواگر چہ ہم مذہب کے لحاظ سے اس گورنمنٹ کو بڑی غلطی پر سمجھتے اور ایک شرمناک عقیدہ میں گرفتار دیکھ رہے ہیں تاہم ہمارے نزدیک یہ بات سخت گناہ اور بدکاری میں داخل ہے کہ ایسے محسن کے مقابل پر بغاوت کا خیال بھی دل میں لاویں.ہاں بے شک ہم مذہبی لحاظ سے اس قوم کو صریح خطا پر اور ایک انسانی بناوٹ میں مبتلا دیکھتے ہیں.تو اس صورت میں ہم دعا اور توجہ سے اس کی اصلاح چاہتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے مانگتے ہیں کہ اس قوم کی آنکھیں کھولے اور ان (۲۸) کے دلوں کو منور کرے اور انہیں معلوم ہو کہ انسان کی پرستش کرنا سخت ظلم ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کیا ہیں صرف ایک عاجز انسان اور اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ایک دم میں کروڑہا ایسے بلکہ ہزارہا درجہ اُن سے بہتر پیدا کر دے وہ ہر چیز پر قادر ہے.جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کر رہا ہے.مشت خاک کو منور کرنا اس کے نزدیک کچھ حقیقت نہیں.جو شخص صاف دل سے اور کامل محبت سے اس کی طرف آئے گا بے شک وہ اس کو اپنے خاص بندوں میں داخل کر لے گا.انسان قرب کے مدارج میں کہاں تک پہنچ سکتا ہے اس کا کچھ انتہا بھی ہے ہرگز نہیں.اے مُردوں کے پرستار و زندہ خدا موجود ہے اگر اس کو ڈھونڈو گے پاؤ گے.اگر صدق کے پیروں کے ساتھ چلو گے تو ضرور پہنچو گے.یہ نامر دوں اور مختوں کا کام ہے کہ انسان ہو کر اپنے جیسے انسان کی پرستش کرنا.اگر ایک کو با کمال سمجھتے ہو تو کوشش کرو کہ ویسے ہی ہو جاؤ نہ یہ کہ اس کی پرستش کرو.مگر وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قومی کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً وعملاً وصدقا و ثباتا دکھلایا اور انسان کامل کہلایا بخدا وہ مسیح بن مریم نہیں ہے.میسیج تو صرف ایک معمولی سا نبی تھا.ہاں وہ بھی کروڑ ہا مقربوں میں سے ایک

Page 70

اتمام الحجة ۶۶ اردو تر جمه تھا.مگر اُس عام گروہ میں سے ایک تھا اور معمولی تھا اس سے زیادہ نہ تھا.بس اس سے دیکھ لو کہ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ بیچی نبی کا مرید تھا اور شاگردوں کی طرح اصطباغ پایا.وہ صرف ایک خاص قوم کے لئے آیا.اور افسوس کہ اس کی ذات سے دنیا کو کوئی بھی روحانی فائدہ پہنچ نہ سکا.ایک ایسی نبوت کا نمونہ دنیا میں چھوڑ گیا جس کا ضرر اس کے فائدہ سے زیادہ ثابت ہوا اور اس کے آنے سے ابتلا اور فتنہ بڑھ گیا.اور دنیا کے ایک حصہ کثیرہ نے ہلاکت کا حصہ لے لیا مگر اس میں شک نہیں کہ وہ سچا نبی اور خدا تعالیٰ کے مقربوں میں سے تھا.مگر وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر انبین جناب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملا کی اور بیچی اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگر چہ سب مقرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے.یہ اُسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں بچے سمجھے گئے.اللهم صل وسلم وبارك عليه و آله و اصحابه اجمعين و آخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العلمين.

Page 71

اتمام الحجة ۶۷ اردو ترجمه الْوَصِيَّةُ لِلَّهِ لِقَوْمٍ علم نہ رکھنے والے لوگوں کے لئے للہی نصیحت لا يَعْلَمُونَ أيها الـعـلـمـاء والمشائخ اے علماء، مشائخ اور فقہاء! مجھے تمہاری تصنیف والفقهاء.إني رأیت تعامیکم کردہ کتابوں میں تمہارا اندھا پن نظر آیا تو تمہاری في مصنفاتكم، فتأجج قلبی جاہلانہ باتوں کی وجہ سے میرے دل میں آگ لجهلا تكم.إنكم تسيرون فی بھڑک اُٹھی.تم اندھی راہوں میں چلتے ہو اور المعامي، ولا تخافون جَوُبَ خطرات میں گھسنے سے نہیں ڈرتے ہو.میں تمہارا الحوامي.وإني عِفْتُ أن أفضل کچا چٹھا کھولنے اور تمہاری باتوں کو تفصیل سے بیان حالاتكم، وأبين مقالاتكم.کرنے سے رکا رہا.کیا تم صحیح سلامت آنکھیں أتعاميتم مع سلامة البصر رکھتے ہوئے بھی اندھے بن رہے ہو اور 6 وتجاهلتم مع العلم والخبر ؟ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہو.تمہارے پاس كان عندكم العقل والفهم صاف اور شفاف عقل و فہم موجود تھا لیکن دل ہے الصافي، ولكن النفس صارت کہ ہر طرح کے شر کی آماجگاہ بن گیا ہے.مال و ثالثة الأثافي.إنّ حبّ العين زر کی محبت نے تمہیں اندھا کر دیا اور لوگوں کی سلب عينيكم، والطمع فی طرف سے نوازشات کی طمع نے تمہاری آنکھوں كرم الناس محق کریمتیکم کو بے نور کر دیا.کیا تم نے دعوتیں اڑانے کے دیا.أقرأتم العلوم للقرى، وتعلمتم لئے علوم پڑھے تھے؟ اور گاؤں کی روٹیوں کے لرغفان القُرى؟ وباعدتم عن ٹکڑوں کی خاطر تعلیم حاصل کی تھی؟ تم اُس الإخلاص الذى هو شعار الأنبياء اخلاص سے دور جا پڑے ہو جو انبیاء کا شعار وحلية الأولياء.تركتم الشريعة اور اولیاء کا شیوہ ہے.تم نے شریعت چھوڑ دی ۲۹

Page 72

اتمام الحجة ☆ ۶۸ اردو تر جمه واتبعتم النفس الدنية، وصرتم اور گھٹیا نفس کی پیروی کرنے لگ گئے اور ایک قوما خاسرين.أكلتم الدنيا بأنواع گھاٹا پانے والی قوم بن گئے.مختلف قسم کی الدقاقير وما نجا من فحكم کذب بیانیوں سے تم نے دُنیا کو کھایا اور کوئی أحد من القبيل والدبير.طورًا كہہ ومہ تمہارے جال سے بچ نہ سکا.کبھی تم تلدغون في حلل العظات نصائح کا جامہ پہن کر اور کبھی غصہ دلانے والی وأخرى بالكَلِم المحفظات باتیں کر کے (لوگوں کو ) ڈستے ہو.میں تم میں وأجد فيكم ما يسم بالإخلاق، وه ( خصائل) پاتا ہوں جو اخلاق کو داغدار وما أجد شيئا من محاسن کرتے ہیں مگر میں ان میں حسنِ اخلاق کا شائبہ الأخلاق.فإنا لله على مصيبة تک نہیں پاتا.پس اسلام کی اس مصیبت اور الإسلام، وإمحال رياض خير ( حضرت ) خیر الانام (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے الأنام.وإنّا نكتب قصتكم گلستان کی ویرانی پر صرف انا للہ ہی کہا جا سکتا متجرعًا بالغصص، ومتورعا من ہے.غم کے گلو گیر گھونٹ پی کر اور مبالغہ آمیز مبالغات القصص.إنكم جعلتم قصوں سے بچتے ہوئے ہم تمہاری داستان رقم کر الإسلام مصطبة المقيفين، أو رہے ہیں.تم نے اسلام کو قیافہ شناسوں کی خان المدروزین و المُشَقْشِقین آماجگاہ اور گھٹیا اور لاف زنی کرنے والوں کی اتقوا الله ويوم الأهوال وحلول سرائے بنا دیا ہے.پس ہولناک گھڑی سے، الآفات وتغير الأحوال، واذكروا آفات کے نزول سے اور حالات کی تبدیلی میں الحِمام ومساورة الإعلال، اللہ سے ڈرو.اور موت اور بیماری کے حملے اور وفضوح الآخرة وسوء المآل آخرت کی رسوائی اور بد انجام کو یا درکھو.تکبر ، خود واتركوا الكبر والعُجب والخيلاء پسندی اور گھمنڈ کو چھوڑ دو.کیونکہ یہ چیزیں تمہیں فإنها لا يزيدكم إلا الغطاء.اندھیروں میں ہی بڑھا ئیں گی." هذا سهو الناسخ والصحيح ” الدقارير “.(الناشر)

Page 73

اتمام الحجة ۶۹ اردو تر جمه ولا تصح صفة العبودية إلا بعد عبودیت کی صفت ، شیطانی جذبات یعنی ہوائے ذوبان جذبات الحيّة، أعنى نفس کے پگھلنے کے بعد ہی کامل ہوتی ہے.هوى النفس الذي هو على ہوائے نفس بحر سلوک پر جھاگ کی طرح ہے.بحر السلوك كزبد، فلا پس تم ایک غلام کی طرح اس جھاگ کے مطیع نہ تطيعوا الزبد ،کعبد، واطلبوا بنو.اور ایک شیریں صاف پانی کے سمندر کی تلاش میں رہو.بحر ماء معين.واعلم يا طالب الحق الأهم أن اے اہم صداقت کے متلاشی ! بیا درکھ کہ علماء سوء علماء السوء ما يخرجون من کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں لوگوں کے لئے الفم هو أضرّ على الناس من زہر اور روئے زمین پر پائی جانے والی ہر بلا السم، ومن كل بلاء يوجد علی سے بڑھ کر ضرر رساں ہیں کیونکہ زہریں (۳۰) وجه الأرضين، فإن السموم إذا جب بھی نقصان پہنچاتی ہیں تو صرف جسموں أضرت فلا تضر إلا الأجسام كو نقصان پہنچاتی ہیں لیکن ان کا کلام روحوں وأما كلامهم فيـضـر الأرواح كو نقصان پہنچا تا اور عوام کو ہلاک کرتا ہے.ويُهلك العوام، بل ضررهم بلکہ ان کا ضرر لعین ابلیس سے بھی زیادہ أشد وأكثر من إبليس اللعین شدید اور بڑھ کر ہوتا ہے.وہ حق کو باطل يلبسون الحق بالباطل، ويسلون سے خلط ملط کرتے ہیں اور ایک قاتل کی سيوف الــمـكـر كالقاتل طرح مکر کی تلواریں سونتے ہیں اور اپنے منہ ويُصرون علی کلمات خرجت سے نکلی ہوئی باتوں پر اصرار کرتے ہیں خواہ من أفواههم وإن كانوا على خطأ وه واضح غلطی پر ہوں.پس ان سے اور ان مبين.فاستعذ بالله منهم ومن کی باتوں سے خدا کی پناہ مانگ اور اُن سے كلماتهم، واجتنبهم وجهلاتهم، اور اُن کی جاہلانہ باتوں سے اجتناب کر

Page 74

اتمام الحجة اردو تر جمه وكن مع العلماء الصادقين.ولا اور بچے علماء کے ساتھ ہو جا.اور اولیاء کی وجدانی تضحك على مواجيد الأولياء كيفيات اور اُن اسرار پر جو اُن اصفیاء پر منکشف والأسرار التي كشفت علی کئے جاتے ہیں استہزاء نہ کر کیونکہ یہ لوگ اللہ کے تلك الأصفياء ، فإنهم مظاهر نور کے مظہر اور رب العالمین کے چشمے ہوتے نور الله وينابيع ربّ العالمین ہیں.جان لو کہ یہ لوگ تمام حالات میں صادق اور واعلم أنهم قوم صادقون في تمام افعال و اعمال میں معصوم ہوتے ہیں انہیں الأحوال، والمحفوظون في اشياء ( کی ماہیت ) کا ایسا علم دیا جاتا ہے جسے علماء الأفعال والأعمال، ويُعلمون من كى عقل معلوم نہیں کر سکتی انہیں وہ علم عطا کیا أشياء لا يـعـلـمـهـا عقل العلماء، جاتا ہے کہ کسی دانشور کو ویسا علم عطا نہیں کیا جاتا.ويُعطون من علم لا يُعطى مثله ان کا انکار صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس میں کا أحد من العقلاء.فلا يُنكرهم مست شیطان کا کچھ حصہ اور جنوں کے اثرات میں إلا الذي فيه بقيّة من مس سے کوئی اثر ہو.اور وہی اندھا اُنہیں کا فرقرار الشيطان، وأثر من آثار الجان دیتا ہے جس کا کام فقط ان صالحین کی تکفیر کرنا ولا يكفرهم إلا الأعمى الذى ہے.سنو! کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں جن ليس همه إلا تكفیر الصالحین سے وہ محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ألا إن لله عبادا يحبّهم ہیں اللہ نے انہیں فوقیت دی ہے اور ان کے دلوں ويحبّونه، آثرهم وملأ قلوبھم کو اپنی محبت اور اپنی رضا کی محبت سے بھر دیا ہے.من حبه وحبّ مرضاته، فنسوا پس محبت ذات وصفات باری میں محویت کے أنفسهم استغراقا في محبة ذاته باعث وہ اپنے آپ کو بالکل بھلا بیٹھے ہیں اس وصفاته، فلا تعلق ہمّتك لئے تو ایسے لوگوں کی ایذا رسانی کے درپے مت ہو بإيذاء قوم لا تعرفهم ومنازلهم، کہ جن کا عرفان اور قدرومنزلت تجھے معلوم نہیں

Page 75

اتمام الحجة 21 اردو تر جمه وإنك لا تنظر إليهم إلا اور تو تو وہ ہے جو ان کی طرف صرف اندھوں کی كعمين.إنهم خرجوا من خلق طرح ہی دیکھتا ہے.وہ ایسی تخلیق سے بالا ہیں جو كان مشابه خلق وجودِك، تیرے وجود کی تخلیق کے مشابہ ہے.وہ اعلیٰ مقام وسعوا إلى مقام أعلى وتباعدوا کی جانب کوشاں رہے اور تیری حدود سے بالا ہو عن حدودك، ووصلوا مكانا گئے اور ایسے مقام پر جاپہنچے جہاں تیری نگاہوں کی لا تصل إليها أنظارك، ولا رسائی نہیں اور نہ ہی تیرے افکار کو اس کا ادراک تدركها أفكارك، ونزلوا ہے.وہ ایسے (بلند ) مقام پر فائز ہیں جس کو صرف بمنزلة لا يعلمها إلا رب رب العالمین ہی جانتا ہے اس لئے تو ان کی باتوں العالمین.فلا تدخل فی میں بے باک لوگوں کی طرح دخل مت دے اور نہ أقوالهم كمجترئین، ولا ہی ان کے ساتھ حد سے تجاوز کرنے والوں کی تتحرك بسوء الظنون وقلة طرح بدظنی اور بے ادبی سے پیش آ.ورنہ تیرا الأدب معهم كالمعتدين رب تیرا دشمن ہو جائے گا اور تو نقصان اُٹھانے فيعاديك ربك وتلحق والوں میں شامل ہو جائے گا.اس لئے اے میرے بالخاسرين.فإيَّاك يا أخى أن بھائی ! انکار کے بھنور میں پڑنے اور حلقہء تقع في ورطة الإنكار، وتلحق اشرار میں شامل ہونے اور ہلاک ہونے والوں بالأشرار، وتهلك مع الهالكين کے ساتھ ہلاک ہونے سے بچ.اور جان لے واعلم أن كتاب الله الرحمن کہ رحمن خدا کی کتاب (قرآن کریم ) طرح كسبعة أبحرٍ من أنواع نكات طرح کے نکات عرفان کے سات سمندروں کی العرفان، يشرب منها كل طير طرح ہے جس میں سے ہر پرندہ اپنی منقار کی بوسع منقاره، ويختار حقیرًا وسعت کے مطابق سیراب ہوتا ہے اور معمولی ولا يشرب إلا قدرا يسيرا سا لیتا ہے اور تھوڑی سی مقدار میں پیتا ہے.

Page 76

اتمام الحجة ۷۲ اردو تر جمه والذين وسع مداركهم عنایات لیکن وہ لوگ جن کی استعدادوں کو ان کے رب کی کی ربهم، فيشربون ماءً كثيرا وهم عنایات نے وسعت بخشی ہے تو وہ یہ پانی کثرت أولياء الرحمن و أحباء أحسن سے پیتے ہیں.وہ اولیاء الرحمن اور احسن الخالقین الخالقين.يهُبُّ على قلوبھم کے محبوب ہیں اُن کے دلوں پر اللہ کی معطر نفحات إلهية، فيتعالی ہوائیں چلتی ہیں جس سے ان کا کلام عالیشان كلامهم، فيجهله عقول الذین ہو جاتا ہے.چنانچہ وہ لوگ جو عارف نہیں ہوتے ليسوا من العارفين.والذين اُن کی عقلیں اس سے نا آشنا ہوتی ہیں.اور وہ يُعطون أفعالا خارقة للعادة، لوگ جنہیں خارق عادت افعال اور عقل، فکر وأعمالا متعالية عن طور العقل اور شعور سے بالا اعمال عطا کئے جاتے ہیں.والفكر والإرادة، فلا تعجب اگر انہیں ایسے کلمات (حکمت) اور نکات من أن يُعطوا كلماتٍ، ورُزقوا ( معرفت) عطا کئے جائیں جن کے سمجھنے سے من نكات تعجز العلماء علماء عاجز آجا ئیں تو اس پر تو تعجب نہ کر.پس تو عن فهمها، فلا تنهَضُ جلد بازوں کی طرح مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ہو كالمستعجلين.وإن كنت من اور اگر تو ان لوگوں میں سے ہے جن سے اللہ الذين أراد الله بهم خیرًا، فبادِرُ بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے تو تو فورا اُن کے پاس چل و سر إليهم سيرًا، ودَعُ زورا کر جا اور جھوٹ اور ایذا دہی کو چھوڑ اور حزم واحتیاط وضيرا، وكن من الحازمين کرنے والوں میں سے ہو جا.اور کتنے ہی نا در وكم من کلمات نادرات بل بلکہ غصہ دلانے والے کلمات ہیں جو اہل اللہ محفظات تخرج من أفواه کے مونہوں سے الہاما جاری ہوتے ہیں اُس أهل الله إلهاما من الله الذى هو خدا کی طرف سے جو ماہموں کا مؤید ہے وہ بس مؤيد الملهمين، فينهضون الله الله تعالیٰ کی خاطر کمر بستہ ہو جاتے ہیں

Page 77

اتمام الحجة ۷۳ اردو تر جمه ويُبلغونها ويشيعونها، اور ان کلمات کی تبلیغ واشاعت کرتے ہیں پس وہ فتكون سبب مرضاة الله كهف كلمات خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے سبب مامورین کی المأمورين.ثم تلك الكلمات پناہ ہوتے ہیں اور پھر بعینہ یہی کلمات بغیر کسی تغییر و بعينها بغیر تغییر و تبدیل تبدل دوسرے شخص کے منہ سے نکلتے ہیں تو ان تخرج من فم آخر ، فيصير كلمات کا قائل ان لوگوں میں سے ہوجاتا ہے قائلها من الذين تركوا الأدب جنہوں نے حدادب کو چھوڑ دیا ہوتا ہے اور بے باکی واجترء وا وصاروا من اختیار کرتا اور فاسقوں میں سے ہو جاتا ہے.پس الفاسقين.فتأدَّبُ مع أهل الله اہل اللہ کے ساتھ ادب سے پیش آاور اُن کے بعض ولا تعجل عليهم ببعض کلمات کی وجہ سے اُن کے خلاف جلدی مت کر.كلماتهم.وإن لهم نياتٍ لا كيونكه أن (اہل اللہ ) کی نیتیں ایسی ہیں جن سے تو تعرفها، وإنهم لا ينطقون نا آشنا ہے وہ صرف اور صرف اپنے رب کے إلا بإشارة ربّهم، فلا تهلك اشارے سے گفتگو کرتے ہیں.پس اپنے آپ کو نفسك كالمجترئین بے باک لوگوں کی طرح ہلاک نہ کر.ان کی وہ لهم شأن لا يفهمه إنسان، عظمت شان ہوتی ہے جسے عام انسان سمجھ نہیں فكيف مثلك فـتـان إلا سکتا.پھر بھلا تیرے جیسا فتنہ باز کیا سمجھے گا؟ من سلك مسلكهم، وذاق انہیں تو وہی سمجھ سکتا ہے جو ان کے مسلک پر چلا ہو مذاقهم، ودخل في سككھم اور اُس نے وہی مزا چکھا ہو جو انہوں نے چکھا ہوا فلا تنظر إلى وجوه مشایخ ہے.اور اُن کے کوچوں میں داخل ہو چکا ہو.پس الإسلام وكبراء الزمان تو مشائخ اسلام اور زمانے کے سرکردہ لوگوں کے فإنهم وجوه خالية من نور چہروں کو مت دیکھ.کیونکہ وہ چہرے خدائے رحمان الرحمن، ومن زى العاشقين کے نور اور عاشقوں کے شعار سے خالی ہیں.

Page 78

اتمام الحجة ۷۴ اردو تر جمه ولا تحسب كلمات المحدثین اور تو خدا سے شرف مکالمہ و مخاطبہ پانے والے المـكـلـمـيـن كـكلماتك أو محدثین کے کلمات کو اپنے اور اپنے جیسے گمراہ كلمات أمثالك من لوگوں کی باتوں کی طرح مت خیال کر.کیونکہ المتعسّفين.فإنها خرجت من ان كى باتیں انفاس طیبہ اور الہام یافتہ پاک أنفاس طيّبة، ونفوس مطهَّرة دلوں سے نکلتی ہیں اللہ کی طرف سے نو بہ نو ملنے ملهمة، وهي قريب العهد من والے يہ كلمات اُن تر و تازہ پھلوں کی طرح ہیں الله تعالى كثمر غضّ طری جو کھانے والوں کے لئے شجرہ مبارکہ سے ابھی أخذ الآن من شجرة مباركة ابھی حاصل کئے گئے ہوں.اور لوگ جب اِن للآكلين.والقوم لمالم کی لطیف، باریک اور پر حکمت الہی باتوں کو سمجھ يفهموا كلمات لطيفة دقيقة نہیں پاتے تو وہ انہیں (اولیاء اللہ ) کو فاسقوں، حكميّة إلهيّة، فعزَوا أهلها إلى زنديقوں ، کافروں اور نفسانی خواہشات رکھنے الفساق والزنادقة والكفّار وأهل والوں سے منسوب کر دیتے ہیں.پس حیف الأهواء.فيا حسرة عليهم وعلى ہے اُن پر اور اُن کی آراء پر.اگر اس ( رویہ ) تلك الآراء ، إنهم قد هلكوا سے باز آتے ہوئے انہوں نے تو بہ اور رجوع إن لم يتوبوا ولم يرجعوا منتھین نہ کیا تو وہ ضرور ہلاک ہوں گے.شرفاء قالب والأحرار ينتقلون من القالب إلى (ظاہر ) سے قلب (باطن) کی طرف منتقل القلب، وهم انتقلوا من القلب ہوتے ہیں.لیکن یہ لوگ تو قلب سے قالب کی إلى القالب، ونبذوا كل ما طرف منتقل ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنے علموا وراء ظهورهم للبخل شدید بخل کی وجہ سے اپنے علم کو پس پشت ڈال دیا الغالب، فأصبحوا كقشر لا لب ہے پس وہ اُس چھلکے کی طرح ہو گئے جس میں مغز فيه وأكلوا الجيفة كالثعالب ، نہ ہو اور انہوں نے لومڑیوں کی طرح مُردار کھایا

Page 79

اتمام الحجة ۷۵ اردو تر جمه و کفرونی و لعنونی من غیر علم اور انہوں نے بغیر علم کے میری تکفیر کی اور مجھے ملعون ليستروا الأمر على الطالب ٹھہرایا تا کہ وہ اس معاملے پر طالب حق کے لئے وقالوا كافر كذاب، واتبعوا پردہ ڈال دیں اور انہوں نے کہا کا فر ہے، کذاب دأب الذين خلوا من قبلهم من ہے.انہوں نے اپنے سے پہلے گزرے ہوئے تباہ أهل التباب.وكانوا يقولون من شدہ لوگوں کا وطیرہ اختیار کیا.اس سے پہلے وہ یہ کہا قبل إنّ رجلا لا يخرج من کرتے تھے کہ کوئی شخص ان اختلافات کی وجہ سے الإيمان باختلافات ليس فيها جن میں تعلیم قرآن کا انکار نہ ہو، ایمان کے دائرہ إنكار تعليم القرآن، وإنما سے خارج نہیں ہوتا اور تکفیر کا حکم صرف اُس پر الحكم بالتكفير لمن صرّح اطلاق پاتا ہے جو صراحت کے ساتھ کفر کا واضح بالكفر واختارہ دینا، وأنكر اظہار کرے اور کفر کو بطور دین اختیار کرے اور دين الله القدير وجحد خدائے قدیر کے دین کا انکار کرے اور کلمہ شہادت بالشهادتين كالأعداء اللئام، و کا کمینے دشمنوں کی طرح انکار کرے اور وہ دین ۳۲ خرج عن دين الإسلام وصار اسلام سے نکل گیا ہو اور مرتد ہو گیا ہو.ان لوگوں من المرتدين.وقالوا لو رأينا نے یہ کہا کہ اگر ہم اس شخص میں کوئی خیر دیکھتے یا في هذا الرجل خيرا أو رائحةً دین کی رمق پاتے تو ہم اسے کافر نہ ٹھہراتے اور نہ من الدين ما كفرنا وما كذبنا ہی تکذیب کرتے اور اس کی توہین کے درپے نہ وما تصدينا للتوهین کلا، بل ہوتے.ہرگز نہیں بلکہ ان کے دل انکار پر اصرار قست قلوبهم من الإصرار علی کرنے اور ریا کاری کے دعووں اور متکبرانہ فتووں الإنكار، ودعاوى الرياء وفتاوی کے باعث سخت ہو چکے ہیں.پس مہر لگانے والے الاستكبار ، فطبع عليها طابع وما نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور انہیں یہ توفیق نہ ملی وفّقوا أن يرجعوا مع الراجعین کہ وہ رجوع کرنے والوں کے ساتھ رجوع کرتے.→

Page 80

اتمام الحجة 24 اردو تر جمه ولو شاء الله لأصلح بالهم اور اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو وہ ان کے حالات وطهر مقالهم، وجذبهم درست فرما دیتا اور اُن کے کلام کو پاک بنا وأراهم ضلالهم، ولكنهم دیتا.اور انہیں اپنی طرف کھینچتا اور اُن کو اُن کی زاغوا و أحبوا عيوبهم، فغضب گمراہی دکھا دیتا.لیکن وہ کج رو ہو گئے اور اپنے الله عليهم وأزاغ قلوبهم، عیوب کو محبوب جانا.جس کی وجہ سے اُن پر اللہ کا وتركهم في ظلمات، وجعلهم غضب نازل ہوا اور اُس نے اُن کے دلوں کو كصم وعـمـين.أيها العجول، ٹیڑھا کر دیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا.اور اتق الله وخَفْ أولياء الله انہیں بہروں اور اندھوں کی طرح کر دیا.اے الودود، ولا خوفك من جلد باز ! اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور خدائے ودود الأسود، وإذا رأيت رجلا تبتل کے اولیاء سے ڈر.اور تیرا خوف ایسا نہ ہو جو إلى الله، وما بقى له شيء شیروں سے ہوتا ہے.اور جب تو کسی متبتل الی اللہ يشغله عن ربه، فلا تتكلم فيه شخص کو دیکھے جسے کوئی چیز اپنے رب سے غافل نہ ولا تجترء على سبّه، اتحارب کرے تو اُس کے بارے میں موشگافی نہ کر.اور الله يا مسكين، أو تقتل اُسے گالی دینے کی جرات نہ کر.اے بے بس نفسك كالمجانين؟ واعلم انسان کیا تو اللہ سے جنگ کرے گا یا مجنونوں کی أن أولياء الرحمن يُطردون طرح اپنے تئیں ہلاک کرے گا؟ جان لے کہ ويلعنون ويُكفِّرون فى أوائل شروع شروع میں اولیاء اللہ کو دھتکارا جاتا ہے، الزمان، ويقال فيهم كل كلمة اُن پر لعنتیں ڈالی جاتی ہیں اُن کی تکفیر کی جاتی ہے شر، ويسمعون من قولهم كل اور اُن کی نسبت ہر طرح کی بُری باتیں کی جاتی الهذيان، ويسمعون أذًى كثيرا ہیں اور یہ ان لوگوں سے ہرقسم کی بکواس اور اپنی من قومهم ومن أهل العدوان قوم اور معاندین سے تکلیف دہ باتیں سنتے ہیں

Page 81

اتمام الحجة LL اردو تر جمه | ويسمونهم أجهل الناس اور یہ اِن کو تمام لوگوں سے زیادہ جاہل اور سب وأضل الناس، مع كونهم سے بڑھ کر گمراہ موسوم کرتے ہیں حالانکہ وہ من أهل العارفة والعرفان، صاحب معرفت اور اہلِ عرفان ہوتے ہیں نیز ويسمونهم دجالين وعَبَدة وہ ان کا نام دجال اور شیطان کے بندے الشيطان؛ ثم يجعل الله الكرةَ رکھتے ہیں.پھر اللہ ان کے حق میں حالات کو لهم، ويُؤيَّدون وينصرون پلٹا دیتا ہے اور ان کی مدد اور تائید کی جانے لگتی ويُبرأون مما يقولون، ويأتيهم ہے اور جو کچھ ان کی نسبت کہا جاتا ہے اُس سے الدولة والنصرة من عند الله وہ بَری کئے جاتے ہیں اور خدائے منان کی في آخر أمرهم من الله المنان طرف سے انجام کار اُن کے پاس غلبہ اور وكذلك جرت عادة الله نصرت الہی آتی ہے اور اسی طرح عادل اللہ کی الديان، أنه يجعل العاقبة سنت جاریہ ہے کہ وہ متقیوں کا انجام بخیر کرتا للمتقين.وإذا جاء نصرہ فتری ہے اور جب اُس کی نصرت آئے گی تو تو دیکھے قلوب الناس كأنها خُلقت گا کہ گویا لوگوں کے دلوں کو ایک نیا جنم دیا گیا خلقًا جديدا، وبدلت تبدیلا ہے اور ان میں نمایاں تبدیلی پیدا کر دی گئی شديدا، وترى الأرض مخضرة ہے اور تو قادر و قیوم اور مددگار خدا کے حکم بعد مرتها، والعقول سليمة سے زمین کو بنجر ہونے کے بعد سرسبز و شاداب ، بعد سخافتها، والأذهان عقلوں کو کمزوری کے بعد صحیح سالم اور ذہنوں صافية والصدور مطهرة بإذن کو صاف اور دلوں کو پاک ہوتے دیکھے گا قادر قيوم ومُعين.فيسعون اس پر ( مخالفت کر نیوالے ) اپنے معاندانہ إليهم بالمحبة و الوداد دور پر شرمندہ ہوتے ہوئے پیار اور محبت نادمين من أيام العناد سے ان کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں اور

Page 82

اتمام الحجة ZA اردو تر جمه ويُثنون عليهم باكين قائلین رو رو کر اُن کی تعریف کرتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ہم إنَّا تُبنا فاغفر لنا ربنا نے توبہ کی پس اے ہمارے رب! تو ہمیں بخش دے.إنا كنا خاطئين، ومن يرحمهم يقيناً خطا کار تھے اور اس کے علاوہ کون رحم کرتا ہے إلا هو وهو أرحم الراحمين.اور وہی الرحم الراحمین ہے.یہ انجام ہے ان لوگوں کا جو هذا مآل الذين سعدوا نیک بخت ہیں اور جن کی آنکھیں کھول دی گئیں.وفتحت أعينهم وجُذبوا ، اور وہ (اللہ کی طرف) کھینچے گئے.ہاں البتہ وہ لوگ وأما الذين شقوا فلایرون جو بد بخت ٹھہرائے گئے.وہ اُس وقت تک ( حقائق حتى يُردون إلى عذاب کو دیکھ نہیں پائیں گے یہاں تک کہ وہ رسوا کن مهين.ربّ أَرِنَا أيامك عذاب کی طرف نہ لوٹائے جائیں.اے ہمارے وصدق كلامك، وفرّج ربّ! تو ہمیں اپنے دن دکھا اور اپنی کلام کو سچا کر كرباتنا، واغفر زلاتنا، اور ہماری مصیبتوں کو دور فرما اور ہماری لغزشوں کو وارْضَ عنا وتعال علی بخش دے اور ہم سے راضی ہو جا اور ہمارے ساتھ ميقاتنا، وانصرنا علی کئے ہوئے وعدے پورے کرنے کے لئے آاور کا فر القوم الكافرين.وصل قوم کے خلاف ہماری مددفرما.وصلّ وسلم و وسلّم وبارك على رسولك بارك على رسولك خاتم النبيين - خاتم النبيين.آمين ربنا آمين.امین.ربّنا آمین.-

Page 82