Language: UR
مولانا موصوف نے اپنی برسہا برس کی تحقیق و تفتیش کے بعد ایک مختصر نوٹ 1974میں لاہور کے موقر اخبار امروز میں طبع کروایا تھاجس میں معین حوالہ جات پیش کرکے امت کو خبردار کیا تھا کہ کس طرح ایک گہری سازش کے تحت اسلام کے بیش قیمت اور قدیم لٹریچر میں بڑی تیزی سے تحریف کی جارہی ہے جو مجموعہ خطب سے لیکر احادیث بلکہ تراجم و تفاسیر القرآن پر بھی محیط ہوچکا ہے۔ دراصل جماعت احمدیہ کی برق رفتار ترقیات اور آہنی دلائل سے لیس علم الکلام کے دلائل سے لاجواب ہوکر مسلمانوں کے نام نہاد علماء نے یہود کی نقل میں اپنے ہی لٹریچر میں تحریف کی راہ اپنا لی تھی اور ہر نئی اشاعت میں جماعت احمدیہ کی تائید میں پیش کئے جانے والے حوالہ جات کے صفحات و ابواب ہی اڑاتے چلے گئے۔ سال 2005ء میں طبع کی جانے والی اس مختصر کتاب میں نہایت اختصار کے ساتھ اب تک کئے گئےاس رد وبدل کا نقشہ پیش کیا گیا ہے جو مخالفین احمدیت کی علم اور دلیل کے میدان میں شکست فاش کا آئینہ دار ہے۔
اسلامی لٹریچر میں خوفناک تحریف
خوفناک تحریف اسلامی لٹریچر میں 21360 24/25 AHMADIYYAH LIBRA ARY • مولفہ باره مولانا دوست محمد صاحب شاہد + تحفہ برائے خوف اور پھریری ری طوقت یک برز جمال اورتن و
نام کتاب اسلامی لڑ پچر میں خوفناک تحریف مصنف: مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت من اشاعت #2005
صفى 4 4 5 12 13 21 14 28 35 37 57 58 3 6 8 6 نمبر شمار 1 فہرست عنوانات صحافت پاکستان کا انکشاف اسلامی لٹریچر میں خوفناک تحریف (ایک تحقیقی مقالہ ) 61 64 65 66 محرف شدہ کتابوں کا تذکرہ مجموعه خطب معراج نامه تذكرة الاولياء 3 4 5 6 7 اربعین فی احوال المهديين 8 تعطير الانام اشارات فریدی 10 شمائل ترمذی 11 مسلم شریف 12 اسباب نزول اوحدی 13 تفسیر مجمع البیان 14 تفسیر الصافی 15 ترجمہ قرآن مجید ( حضرت شاہ رفیع الدین) اصل اور محرف شدہ نسخوں کے عکس
صحافت پاکستان کا انکشاف 29 مئی 1974 ء کے مبینہ سانحہ ربوہ سے صرف بارہ دن پیشتر صحافت پاکستان کے ذریعہ سے پہلی بار یہ سنسنی خیز انکشاف منظر عام پر آیا کہ ایک خصوصی سازش کے تحت اسلام کے قدیم اور بیش قیمت لٹریچر میں تیزی سے تحریف کی جارہی ہے جو مجموعہ خطب سے لے کر احادیث بلکہ تراجم و تفاسیر قرآن پر محیط ہو چکا ہے اس سلسلہ میں لاہور کے موقر اخبار امروز 17 مئی 1974ء صفحہ 4 پر حسب ذیل نوٹ سپر د اشاعت کیا جو ملک میں علمی اور درد مند حلقوں میں پوری توجہ اور اضطراب و تشویش سے پڑھا گیا یہ نوٹ خاکسار کی برسوں کی تحقیق کا نہایت مختصر سا خلاصہ تھا جس کا مقصد عشاق رسول عربی کو اس لرزہ خیز منصوبہ سے خبر دار کرنا تھا.اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی دوڑ وزمانہ چال قیامت کی چل گیا اس نوٹ کا مکمل متن پیش خدمت ہے.کچھ عرصہ سے بزرگان سلف کی بعض کتابوں میں رد و بدل کا سلسلہ شروع ہے.جدید ایڈیشنوں میں بعض حوالوں کو اپنے معتقدات کے سانچہ میں ڈھالا جا رہا ہے.بعض کتابوں کے متن میں ترمیم و تنسیخ اور حذف واضافہ کیا گیا ہے.بعض جگہ صفحوں کے صفحے خارج کر دیئے گئے ہیں.قدیم اسلامی لڑ پچر میں ترمیم و تنسیخ کا یہ منصو بہ نثر اور نظم دونوں پر حاوی ہے اور مواعظ وخطبات، سیرت و سوانح ، تصوف ، عقائد اور کلام وحدیث کی کتابوں تک ہی نہیں ، قرآن مجید کے ترجم اور تفسیر تک جا پہنچا ہے.
10 5 موجودہ ابتدائی تحقیق کے مطابق مندرجہ ذیل کتابیں قطعی طور پر ردو بدل کی اس سازش کا شکار ہو چکی ہیں.ا تذكرة الاولياء.تصنیف حضرت شیخ فریدالدین عطار - الاربعین فی احوال المهد تین مؤلفه حضرت شاہ اسماعیل شہید شمائل ترمذی از حضرت امام ابوعیسی ترندی صحیح مسلم شریف.حضرت امام مسلم بن حجاج قیری ۵ تفسیر مجمع البیان.حضرت الشیخ فضل ابن الحسن البطری المشہدی -۶- ترجمه قرآن مجید از حضرت شاہ رفیع الدین صاحب اس وقت صرف تذکرۃ الاولیاء کے حذف شدہ حوالوں میں سے چند مثالیں پیش ہیں.تذكرة الاولياء دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی اور نامور عارف حضرت شیخ فریدالدین عطار (المتوفی ۱۲۲۱٬۵۶۱۸ء) کی تذکرۃ الاولیاء کو شہرت دوام حاصل ہے.یہ کتاب کثیر التعداد اولیاء و صوفیا کے ایمان پرور حالات و شمائل کا بہترین ماخذ اور تصوف اسلامی کا نچوڑ تسلیم کی جاتی ہے.اصل کتاب فارسی زبان میں ہے جس کا پہلا مستند اور با محاوره ارد و ترجمه جناب عطاء الرحمان صاحب صدیقی دہلوی کے قلم کا رہین منت سے جو ملک چین دین صاحب نقشبندی مجددی تاجر کتب منزل نقشبند یہ کشمیری بار ناہور نے اپریل 1925ء میں یہ صرف کثیر نہایت صحت سے بھیجوایا تھا.علامہ عبد الرحمان صاحب شوق نے کتاب کے بعض فرمودات کو اپنے
6 معتقدات کے مطابق نہ پا کر ایک اور ترجمہ کیا.جس کا دوسرا ایڈیشن ملک سراج دین اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور نے 1956ء میں سپر داشاعت کیا.علامہ شوق نے 1925ء کے مستند اور بامحاوہ اردوترجمہ کے بعض مقامات پر خط تنسیخ کھینچ کر ان کو اپنے ترجمہ سے یکسر خارج کر دیا.حالانکہ تذکرۃ الاولیاء فاری مطبوعہ (306ھ 1889ء) مطبع محمدی لاہور میں یہ سب حوالے موجود ہیں.صرف چند مثالوں پر اکتفا کی جاتی ہے.حذف شدہ فرمودات کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں.ا.منقول ہے کہ کسی آدمی سے آپ (حضرت ابو یزید بسطامی ناقل ) پوچھا.کہاں جاتے ہو؟ کہا حج کو.پوچھا.کچھ پاس ہے؟ کہا دوسو درہم.فرمایا.یہ مجھے دے دو، کیونکہ عیال دار ہوں اور سات بار میرے گرد پھر کر واپس چلا جا.تیرا حج یہی ہے.اس نے ویسا ہی کیا اور پھر واپس چلا گیا.( ترجمہ تذکرۃ الاولیاء صفحہ 128 مطبوعہ منزل نقشبندیہ.لاہور ) ۲.فرمایا ( حضرت محمد علی حکیم الترندی ناقل ) کہ مجذوب کی کئی ایک منازل ہیں.چنانچہ بعض کو نبوت کا تیسرا حصہ ملتا ہے اور وہ خاتم الاولیاء اور تمام اولیاء کا سردار ہوتا ہے جیسا کہ مصطفی یہ خاتم الانبیاء اور تمام انبیاء کے سردار تھے اور نبوت آنحضرت ﷺ پر ختم تھی.۳.جس طرح عورتوں کو ( قول حضرت ابوبکر واسطی" ناقل ) حیض آتا ہے اسی طرح مریدوں کے لیے راہ ہدایت میں حیض ہے.مرید کی راہ کا حیض گفتگو سے آتا ہے.بعض ایسے ہوتے ہیں جو نا پاک حالت میں رہتے ہیں.کبھی پاک ہی نہیں (ايضاً صفحه 422)
ہوتے اور بعض ایسے ہیں جن کو یہ حیض لاحق ہی نہیں ہوتا.وہ ساری عمر پاک رہتے ہیں.( ایضاً صفحه 477) ۴.میں (حضرت ابوالحسن خرقانی) ماسوائے اللہ سے زائد ہو گیا.پھر جب میں نے اپنے آپ کو بلایا تو حق تعالیٰ سے آواز آئی.میں نے خیال کیا کہ اب میں خلقت سے آگے بڑھ گیا ہوں.میں لبیک الھم لبیک کہتے ہوئے محرم ہو گیا.پھر حج کرنے لگا.اور وحدانیت میں جب طواف کرنے لگا تو بیت المعمور نے میری زیارت کی.کعبہ نے میری تسبیح پڑھی.ملائکہ نے میری تعریف کی.پھر ایک نور نمودار ہوا.جس میں حق تعالیٰ کا مقام تھا.جب اس مقام میں پہنچا تو میری ملکیت میں کوئی چیز بھی نہ رہی.(صفحہ 521) ۵.نیز فرمایا ( حضرت ابوالحسن خرقائی.ناقل ) کہ ایک روز اللہ تعالیٰ سے آواز آئی کہ جو شخص تیری مسجد میں داخل ہو گا.اس کے گوشت پوست پر دوزخ حرام ہو جائے گی اور جو بندہ تیری مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرے گا، خواہ تیری زندگی میں خواه تیری زندگی کے بعد وہ قیامت کے دن عابدوں میں اٹھے گا.(صفحہ 549) ۲.پیغمبر علیہ السلام سے منقول ہے ( قول حضرت ابو القاسم نصر آبادی ) کہ بعض قبرستان ایسے ہوں گے کہ ان کے چاروں کونے پکڑ کر اسے بغیر حساب کے بہشت میں ڈال دیں گے.ان میں سے ایک بقیع بھی ہے.(صفحہ 616) بہت سے حذف شدہ حوالوں میں سے صرف چھ اوپر درج کئے گئے ہیں.آپ کو یہ معلوم کر کے تعجب ہوگا کہ اب ایک اور صاحب نے نہایت خوبی و کمال اور محنت و عرق ریزی سے ایک نیا تذکرۃ الاولیاء “ لکھا ہے جس کے پہلے حصہ میں اصل
8 تذکرۃ الاولیاء کا اپنے مفید مطلب خلاصہ شامل کر لیا.اور حصہ دوم میں برصغیر پاک و ہند کے بعض صوفیا کے حالات درج کر دیئے ہیں.اس مصلحت آمیز کا روائی کے نتیجہ میں بھی بعض حوالے مستقل طور پر نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں.ان میں سے بھی چند حوالے پیش خدمت ہیں.نیز فرمایا : حضرت امام جعفر صادق) کے الہام مقبولوں کا وصف ہے اور بغیر الہام استدلال کرنا مردودوں کا فعل ہے.(صفحہ 15) ۲.اگر پیغمبر میں معجزہ ہے تو ولی میں کرامت ہے اور پیغمبر اے کی متابعت کی برکت سے جس نے حرام کی ایک دمڑی اس کے مالک کو واپس کر دی ہوئے نبوت کا درجہ مل گیا اور نیز فرمایا کہ سچا خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہے.(صفحہ 60) ۳.منقول ہے کہ جب آپ (حضرت ابو یزید بسطامی مسجد میں جانتے تو کھڑے روتے رہتے.لوگ پوچھتے کیوں فرماتے میں اپنے تین حیض والی عورت کی.(28) طرح پاتا ہوں.۴.آپ (حضرت سفیان ثوری ) بصرہ میں بیمار پڑ گئے آپ کو اسہال کی بیماری تھی.لیکن عبادت سے ایک دم بھی آرام نہ لیتے تھے.اس رات حساب کیا تو آپ نے ساٹھ مرتبہ اٹھ کر وضو کیا اور نماز ادا کی.(صفحه 181)
دوستو ! اک نظر خدا کے لیے سید الخلق مصطفی کے لیے
10 تحریک احمدیت کے علم کلام کی برتری حقانیت اور فتح مبین کا دستاویزی ثبوت یہ بھی ہے.کہ غیر احمدی علماء نے سلسلہ احمدیہ کے زبردست دلائل ، منقولی شواہد اور فیصلہ کن حقائق کے مقابل علمی طور پر عبرت ناک شکست کھا جانے کے بعد اپنے ہی مسلمہ بزرگان سلف کی کتابوں میں رد و بدل کرنا شروع کر دیا ہے.ان کے جدید ایڈیشنوں میں ترمیم کر کے ان کو اپنے معتقدات کے سانچہ میں ڈھالا جا رہا ہے.بعض کتابوں کے متن میں سے صفحوں کے صفحے خارج کر دیئے گئے ہیں.اسی طرح بعض تراجم میں سے عہد اول کے بہت سے علمائے ربانی اور صوفیائے عظام کے ایسے واقعات و فرمودات کو نہایت پر اسرار طریق سے نکالا جا رہا ہے جو احمدی مناظر قیام پاکستان سے قبل سالہا سال تک اپنے مباحثوں میں پیش کیا کرتے تھے.اور جن کا ایک معتد بہ حصہ احمد یہ لڑ پچر میں محفوظ ہے اور سلسلہ احمدیہ کی تبلیغی تاریخ کا ایک دائی حصہ بن چکا ہے.اسی ضمن میں یہاں تک بے باکی اور دیدہ دلیری کا مظاہرہ کیا گیا ہے کہ خود تراشیدہ اور من گھڑت الفاظ یا فقرات کو بلا تامل
11 اسلام کی گذشتہ بلند پایہ شخصیتوں کیطرف منسوب کر دیا گیا ہے.قدیم اسلامی لڑیچر میں ترمیم و تنسیخ اور حذف و اضافہ کا یہ منصو بہ وسیع پیمانے پر منصہ شہود پر آچکا ہے اور اس کا دائر ونٹر اور انظم دونوں پر حاوی ہے اور مواعظ وخطبات ، سیرت و سوانح و تصوف ، عقائد اور کلام وحدیث کی کتابوں تک ہی نہیں قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر تک جا پہنچا ہے.جدید تحقیق کے مطابق مندرجہ ذیل کتاب ہیں قطعی طور پر رد و بدل کی اس سازش کا شکار ہو چکی ہیں.ا مجموعہ خطب ( مؤلفہ مولانامحمد مسلم صاحب مرحوم ) ۲- معراج نامه (مولوی قادر یا ر صاحب مرحوم) - تذكرة الاولياء (تصنیف حضرت شیخ فریدالدین عطار ) -۴- اربعین فی احوال المهدتین (مؤلفہ حضرت شاہ اسماعیل شہید ) ۵- تعطیر الانام ( مؤلفہ حضرت شیخ عبد الغني النابلسی) ۶ - اشارات فریدی حصہ سوم ( افادات حضرت خواجہ غلام فرید صاحب سجادہ نشین ے.شمائل ترمذی (از حضرت امام ابو عیسی ترندی) صحیح مسلم شریف (حضرت امام مسلم بن حجاج قیشری) چاچڑاں شریف )
12 و تفسیر مجمع البیان (الشیخ فضل ابن الحسن الطبری) ۱۰.تفسیر الصافی ( محمد بن مرتضى الفيض الكاشانی) ۱۱.ترجمہ قرآن کریم ( از حضرت شاہ رفیع الدین صاحب) مجموعہ خطب: انیسویں صدی کے مسلم پنجاب میں اہل سنت و الجماعت کے ایک مشہور عالم و خطیب مولانا محمد مسلم ( ولادت 1805 ء وفات 1880ء) گزرے ہیں جن کو جامع البرکات و الکمالات کا خطاب دیا جاتا ہے.حضرت مولوی صاحب گلزار آدم گلزار موسی " ، "گلزار سکندری گلزار محمدی تاثیر الصلوۃ اور تقویۃ الاسلام وغیرہ پنجابی کتابوں کے مؤلف تھے.آپ کا لکھا ہوا مجموعہ خطب بہت مقبول ہے.جس کے مواعظ اور اشعار شہروں اور دیہات میں منبروں پر مدتوں تک گونجتے اور بڑے شوق اور ذوق سے سنائے جاتے رہے ہیں.آپ کے مجموعہ کتب میں ایک شعر یہ درج تھا.اسماعیل اسحق نہ رہیا موسی عیسی نالے ہور الیاس داؤد پیغمبر پیتے اجل پیالے ( مجموعه خطب صفحہ 14 ، 1319ھ 1902 مطبع مفید عام لاہور ) یعنی حضرت اسماعیل ، الحق" نیز موسی" اور عیسی بھی نہ رہے اسی طرح الیاس اور داور پیغمبر نے بھی موت کے پیالے پی لیے.ا پنجابی شاعروں کا تذکرہ ( پنجابی ) مؤلفہ میاں مولا بخش کشتہ امرتسری صفحہ
13 پہلے مصرعہ سے چونکہ وفات حضرت عیسی کے احمد یہ نظریہ کی صریح تائید ہوتی ہے اور صاف طور پر کھل جاتا ہے کہ جماعت احمد یہ ہی آج اہل سنت والجماعت کے قدیم عقائد پر گامزن ہے اس لیے اس رسالہ کا ایک نیا ایڈیشن تیار کیا گیا ہے جس میں مندرجہ بالا شعر کو بدل کر یہ الفاظ لکھ دیئے گئے ہیں.اسماعیل اسحق " نہ رہیا ہارون موسیٰ نالے لوڈ آتے داؤد پیغمبر پیتے اجل پیالے مجموعہ خطب پنجابی صفحہ 12 ناشر سراج الدین اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور ) معراج نامه زبان اردو میں معراج نامہ کے نام سے صوفی اسلام اللہ اکبر الہ آبادی ، شفیق اور تنگ آبادی ، نوازش علی خان شیدا ، محمد باقر آگاه ، تصوّف حسین واصف اکبر الہ آبادی اور دوسرے ارباب سخن نے متعد د رسالے شائع کئے مگر پنجاب میں جو پنجابی اور منظوم معراج نامہ مقبول خاص و عام ہوا.وہ مولوی قادر بخش صاحب المتخلص قادر یار مرحوم (ولادت 1802 ء وفات 1892ء) کا تھا.اس معراج نامہ کے تمام نسخوں میں یہ شعر آج تک موجود ہے.لے ماچھیکے متصل ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ میں آپ کی قبر ہے.پنجابی شاعروں کا تذکرہ پنجابی صفحہ 163)
14 چپ محمد حرف محمد حرف نہ کیتا ستا نال غمی دك دھانا رُوح جنا بے خوابوں بُہت مکان زمین تے دوسرے مصرعہ میں معراج کی اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ اس اعجازی واقعہ کے دوران آنحضرت محمد مصطفی عنہ کی روح اقدس خواب میں اپنے خدا تک پہنچی تھی مگر جسد اطہر زمین پر ہی رہا تھا.اس مصرعہ سے چونکہ معراج روحانی پر مہر تصدیق ثبت ہوتی تھی اس لیے معراج نامہ کے جدید ایڈیشن تبدیل کر دیئے گئے ہیں اور اس کی بجائے مصرعہ ثانی یہ لکھ دیا گیا ہے.ع دھاناں رُوح جنا بے خوابوں بہت سمیت چلیندے ( معراج نامه مطبوعه شیخ برکت علی اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور ) یعنی رسول الله الا اللہ کی روح جناب الہی میں ایسی صورت میں حاضر ہوئی کہ آپ اپنے بت ( یعنی جسم خاکی ) سمیت چل کر گئے.تذکرۃ الاولیاء دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی اور نامور عارف حضرت شیخ فرید الدین عطار (المتوفی 618ھ 1221ء) بہت سی کتابوں کے مؤلف ہیں.جن میں تذکرۃ الاولیاء کو شہرت دوام حاصل ہوئی ہے.یہ کتاب کثیر التعداد اولیاء و صوفیاء کے ایمان پرور حالات و شمائل کا ماخذ اور تصوف اسلامی کا نچوڑ تسلیم کی جاتی ہے.اصل کتاب فارسی زبان میں ہے جس کا پہلا مستند اور بامحاورہ اردو ترجمہ جناب عطاء الرحمان صاحب صدیقی دہلوی کا رہین منت ہے جو ملک چنن دین صاحب نقشبندی مجددی تاجر کتب منزل نقشبند یه کشمیری بازار لاہور نے اپریل 1925ء میں بصرف کثیر زرنہایت صحت سے چھپوایا تھا.اس کتاب میں سلسلہ احمدیہ کے علم کلام کی
15 تائید یا اس پر اعتراضات کے جواب میں بہت سے حوالے ملتے ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ سلسلہ احمدیہ کی کتب کے علاوہ جماعت کے مشہور مناظر خالد احمدیت ملک عبد الرحمان صاحب خادم کی احمدیہ پاکٹ بک میں بھی موجود ہے.احمد یہ لڑ پچر یا مناظرات میں تذکرۃ الاولیاء سے منقول جن بزرگوں کے اقوال و واقعات سے استنباط کیا جاتا رہا ہے.ان کے نام یہ ہیں : حضرت امام جعفر صادق (المتوفی 148 0 765ء، حضرت حسن بصری (المتوفى 110 0 726ء) حضرت بایزید بسطامی ( المتوفى قریباً 261ھ 875، حضرت سری سقطی (المتوفی 253 ھ 867ء) حضرت سفیان ثوری (المتوفی 205ھ 821ء) حضرت امام ابو حنیفہ (المتوفى 150 0 767ء ) حضرت یحیی معاذ الرازی ( المتوفى 257 0 871ء) حضرت شبلی (المتوفی 334ھ 946ء ) حضرت ابوالحسن النوریؒ (المتوفی 297 ھ 910ء ) حضرت محمد بن علی احکیم الترندی (المتوفی 2255 869ء ) حضرت ابوبکر واسطی (المتوفی 308 921 ء ) حضرت رابعہ العدوى المتوفاة 185ھ 801ء ( حضرت ابو الفضل حسن سرخسی و حضرت ابوالحسن خرقانی (المتوفى 376ھ 986ء) حضرت جنید بغدادی" (المتوفى 9110298ء) حضرت حسین منصور ( المتوفی 309 922ء) حضرت ابوالقاسم نصر آبادی (المتوفی 0372 983ء) مندرجہ بالا بزرگوں کے واقعات واقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ ا.الہام مقبولان بارگاہ الہی کی علامت ہے.۲.خاکساری اور فروتنی، بزرگی و ولایت کا لازمی وصف ہے.ع تذلل ہے رہ درگاه باری
16 عالم کشف و رویا میں بعض ایسے نظارے بھی اولیاء اللہ کو دکھائے جاتے ہیں جو اگر مادی دنیا میں رونما ہوں تو خلاف شریعت قرار دیے جائیں..اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کی امت میں پیدا ہونے والے پہلے بزرگوں کو بڑے بڑے مقامات سے نوازا گیا.اور انہوں نے اپنی شان کے متعلق بڑے بڑے دعاوی کیے جو آنحضرت ﷺ کے فیض روحانی کی برکت کا کرشمہ ہے.۵.بعض اوقات خواب میں دکھائی دینے والی بعض چیزیں خارج میں مادی صورت بھی اختیار کر لیتی ہیں جیسا کہ اولیائے امت کے روحانی تجربوں اور مشاہدوں سے ثابت ہے..علماء ظواہر نے اپنی بے بصیرتی کی وجہ سے ہمیشہ ہی بزرگان امت پر ان کے زمانہ میں کفر کے فتو اے عائد کیے.ے.خاتم الاولیاء کے معنی ولیوں کے سردار اور خاتم الانبیاء، کے معنی نبیوں کے سردار کے ہیں.حیض کا استعارہ گذشتہ صوفیوں اور بزرگوں کے ہاں زیر استعمال رہا ہے لہذا اس کا مذاق اڑانا دنیائے تصوف کے رموز اسرار سے قطعی نا واقعی کی دلیل ہے.۹.بعض کرامات جن کی بناء پر حضرت بانی جماعت احمدیہ پر اعتراض کیا جاتا ہے ان کے نمونے ہمیں پہلے اولیاء کی زندگی میں بھی ملتے ہیں.۱۰.کسی شخص یا مقبرہ کے بہشتی قرار دئیے جانے کا انکشاف پہلے بزرگوں پر بھی ہوتا رہا ہے.ا.بعض مقامات کی زیارت، گذشتہ بزرگوں کے اقوال کے مطابق ظلی حج کا رنگ
17 رکھتی ہے.جماعت احمدیہ کی طرف سے جب کتابوں اور مناظروں کے ذریعہ عام مسلمان پبلک کے سامنے یہ تحریرات پیش کی گئیں اور ثابت کر دیا گیا کہ احمدیت کسی نئے مسلک یا مکتب فکر کا نام نہیں اور حضرت بانی جماعت احمد یہ اسی مقدس قافلہ کے ممتاز فرد ہیں جس میں تیرہ سو سالہ بزرگان امت شامل ہیں.تو مخالف علما ء حیران رہ.گئے اور ان کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ رہا کہ وہ تذکرۃ الاولیاء کا ایک ایسا ترجمہ عوام کو دیں جو احمدیوں کے پیش کردہ حوالوں سے معزا اور خالی ہو.جس پر علامہ عبد الرحمان صاحب شوق امرتسری نے خالص اسی نقطۂ نگاہ سے قلم اٹھایا اور ایک اور ترجمہ کیا جس کا ایک ایڈیشن ملک سراج الدین اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور نے 1956ء میں سپر د اشاعت کیا.علامہ عبدالرحمان صاحب شوق نے اسی ایڈیشن میں احمدیت کی مخالفت کے جوش میں 1925 ء کے مستند اور بامحاورہ اردو ترجمہ کے مندرجہ ذیل مقامات پر خط تنسیخ کھینچ کر ان کو اپنے ترجمہ سے یکسر خارج کر دیا.حالانکہ تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306ھ 1889 ء مطبع محمدی لاہور میں یہ سب حوالے موجود ہیں.حذف شدہ فرمودات ذیل میں ملاحظہ فرمائیے اور پھر سنجیدگی اور ٹھنڈے دل سے سوچنے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے لیکر آج تک کے تمام معترض علماء ظواہر اگر ان پاک نہاد اور خدا نما بزرگوں کے زمانہ میں ہوتے جن کے ارشادات کو احمدیت کی مخالفت کے باعث حذف کیا جارہا ہے.تو کیا وہ اسلام کی ان مایہ ناز تذکرۃ الاولیاء فارسی (1306ھ)
18 ہستیوں کو بھی غیر مسلم اور کا فرقرار نہ دیتے ؟؟ ا منقول ہے کہ کسی آدمی سے آپ نے پوچھا کہاں جاتے ہو.کہانی کو.پو چھا کچھ پاس ہے؟ کہا دو سو درہم.فرمایا یہ مجھے دو کیونکہ میں عیال دار ہوں اور سات بار میرے گرد پھر کر واپس چلا جا.تیرا حج یہی ہے.اس نے ویسا ہی کیا اور واپس چلا گیا.اے ۲.منقول ہے کہ ایک روز آپ سے اصحاب سمیت کسی کو چہ میں سے جارہے تھے.سامنے سے کتا آیا تو آپ نے اسے رستہ دیا.یہ دیکھ کر ایک مرید کے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو معزز بنایا ہے اور آپ اس وقت سلطان العارفین ہیں پھر آپ اپنے اور سارے صادق مریدوں پر گتے کو ترجیح دیتے ہیں.آپ نے فرمایا اے عزیز ! گتے نے زبانِ حال سے بایزید کو کہا تھا کہا ازل میں مجھ سے کون سا ایسا قصور ہوا جس کے عوض مجھے کتا بنایا گیا اور تو نے کون سا نیک کام کیا جس کے عوض تجھے سلطان العارفین بنایا گیا.یہ خیال آتے ہی میں نے راستہ دے دیا.ہے“ ( ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحه 133 مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) ۳ فرمایا کہ مجذوب کی کئی ایک منازل ہیں چنانچہ بعض کو نبوت کا تیسرا حصہ ملتا ہے اور وہ خاتم الاولیاء اور تمام اولیاء کا سردار ہوتا ہے جیسا کہ مصطفے یہ خاتم انبیاء اور صلى الله تمام انبیاء کے سردار تھے اور نبوت آنحضرت ﷺ پر ختم تھی.(اردو ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 422 مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) لے حضرت ابو یزید بسطامی تذكرة الاولياء فارسی صفحہ 94 مطبوعہ 1306ھ مراد حضرت ابو یزید بسطائی کے تذکرۃ الاولیاء فارسی صفحہ 94 مطبوعہ 1306ھ
19.جس طرح عورتوں کو حیض آتا ہے اسی طرح مریدوں کے لیے راہ ہدایت میں حیض ہے.مرید کی راہ کا حیض گفتگو سے آتا ہے بعض ایسے ہوتے ہیں جو نا پاک حالت میں رہتے ہیں کبھی پاک ہی نہیں ہوتے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کو یہ حیض لاحق ہی نہیں ہوتا وہ ساری عمر پاک رہتے ہیں ہے (اردو ترجمه کتاب تذکرة الاولياء صفحہ 477 مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) ۵.جب سے میں نے سے اپنی والدہ کے شکم میں جنبش کی اس وقت سے لیکر اب تک کے سارے واقعات جو پیش آئیں گے بے کم و کاست بیان کر سکتا ہوں ہے.“ (اردو ترجمه کتاب تذکرة الاولياء صفحہ 519 مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) ۵ میں ماسوائے اللہ سے زائد ہو گیا.پھر جب میں نے اپنے آپ کو بلایا تو حق تعالیٰ سے آواز آئی.میں نے خیال کیا کہ اب میں خلقت سے آگے بڑھ گیا ہوں میں لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے محرم ہو گیا.پھر حج کرنے لگا اور وحدانیت میں جب طواف کرنے لگا تو بیت المعمور نے میری زیارت کی.کعبہ نے میری تسبیح پڑھی.ملائکہ نے میری تعریف کی پھر ایک نور نمودار ہوا.جس میں حق تعالیٰ کا مقام تھا جب اس مقام پر پہنچا تو میری ملکیت میں کوئی چیز بھی نہ رہی.(ترجمه کتاب تذکرة الاولیاء صفحہ 521 مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) ا قول حضرت ابوبکر واسطی " تذکرة الاولياء فارسی صفحہ مطبوعہ 1306ھ یعنی حضرت ابوالحسن خرقائی ہے تذکرۃ الاولیاء فارسی صفحه مطبوعہ 1306 صفحہ 337 ۵ قول حضرت ابوالحسن خرقانی 1 تذکرة الاولياء فارسی مطبوعہ 1306 صفحہ 339
20 ے.نیز فرمایا کہ میں اے بایزید اور اویس قرنی ایک ہی کفن میں تھے ہے“ (ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 526 مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) نیز فرمایا کہ کبھی تو میں سے اس کا ابوالحسن ہوں اور کبھی وہ ابوالحسن ہے یعنی جب میں فنا ہوتا ہوں تو میں وہ ہوتا ہوں ہے.“ ( ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 527 مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) ۹ نیز فرمایا کہ ایک روز اللہ تعالیٰ سے آواز آئی کہ جو شخص تیری مسجد میں داخل ہوگا اس کے گوشت اور پوست پر دوزخ کی آگ حرام ہو جائے گی اور جو بندہ تیری مسجد میں دورکعت نماز ادا کرے گا خواہ تیری زندگی میں خواہ تیری زندگی کے بعد وہ قیامت کے دن عابدوں میں اٹھے گا.(ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 549 مطبوعہ منزل نقشبند یہ لاہور ) 10 میں سے نے جب اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ مجھے میری اصلی حالت دکھائی جائے تو اس نے دیکھا دی وہ یہ کہ میں ایک میلے کچیلے ٹاٹ کی طرح ہوں ہمیں نے دیکھ کر عرض کی کہ کیا میں ایسا ہی ہوں؟ آواز آئی کہ ہاں.پھر میں نے پوچھا کہ پھر یہ ارادت ، محبت ، شوق اور تضرع کیا ہے ؟ آواز آئی کہ وہ سب کچھ ہماری طرف سے ہے اور تو یہی ہے جو دیکھ چکا ہے جب میں نے اس کی طرف اس کی ہستی سے دیکھا تو مجھے اپنی ہستی سے نکالا پس اپنے آگے دیکھا تو میں اپنی ہستی سے نکلا اور اپنے اندوہ حضرت ابوالحسن خرقانی کے تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306ھ صفحہ 342 حضرت ابوالحسن خرقائی ہے تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306 صفحہ 343 ۵ حضرت ابوالحسن خرقائی 1 تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306ھ صفحہ 360
21 کے زانو پیچھے آزردہ دل ہو کر بیٹھ گیا میں نے کہا یہ میرا کام نہیں.(اردو تر جمعه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحه ۵۵۰ مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) ا.پیغمبر خدا سے اللہ سے منقول ہے کہ بعض قبرستان ایسے ہوں گے کہ ان حبل کے چاروں کونے پکڑ کر اسے بغیر حساب کے بہشت میں ڈال دیں گے ان میں سے ایک بقیع بھی ہے.ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 616 مطبوعہ منزل نقشبند یہ لاہور ) مذکورہ ایڈیشن میں علامہ عبدالرحمان صاحب شوق نے اگر چہ احمد یہ علم کلام کی موید عبارتوں کو اپنی کتاب سے خارج کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تا ہم خوش قسمتی سے بعض حوالے ہنوز اس ایڈیشن میں ایسے بھی رہ گئے جن سے احمدی فائدہ اٹھا سکتے تھے لہذا ضرورت پڑی کہ بقیہ تمام حوالے بھی چن چن کر نکال باہر کئے جائیں تا کہ آئندہ نسلیں تذکرۃ الاولیاء کے مطالعہ کے نتیجہ میں احمدیت سے متاثر نہ ہو جائیں.یہ کٹھن فریضہ جناب رئیس احمد صاحب جعفری سے نے نہایت خوبی اور کمال محنت و عرقریزی سے انجام دیا.چنانچہ انہوں نے دنیا تذکرۃ الاولیاء “ لکھا جس کے پہلے حصہ میں اصل ” تذکرۃ الاولیاء کا اپنے مفید مطلب خلاصہ شامل کیا اور حصہ دوم میں برصغیر پاک و ہند کے بعض صوفیاء کے حالات درج کئے.اس مصلحت آمیز کارروائی کے نتیجہ میں جو حوالے قارئین کی آنکھوں سے مستقل طور پر اوجھل ہو گئے وہ تذكرة الاولياء فارسی مطبوعہ 1306ھ صفحہ 361-1360 قول حضرت ابوالقاسم نصر آبادی سے تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306 ھ صفحہ 409 وفات 28 اکتوبر 1968ء
22 حسب ذیل ہیں:.ا.نیز فرمایا : کہ الہام مقبولوں کا وصف ہے اور بغیر الہام استدلال کرنا مردودوں کا فعل ہے ہے (اردو ترجمہ کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 15 مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) ۲.منقول ہے کہ ایک روز یہ حدیث پڑھی گئی اخـــر مـن يـخـرج مـن النَّارِ يُقَالُ له نهاد ، یعنی اس امت میں سے سب سے اخیر جو دوزخ سے نکلے گا وہ اسی ہزار سال بعد نکلے گا اور جس کا نام نہاد ہو گا.یہ سن کر فرمایا سے کاش ! وہ نہاد حسن ہی ہوتا ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 27 مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) ۳.منقول ہے کہ حسن بصری کا ایک آتش پرست ہمسایہ شمعون نام بیمار ہوا.جب اس کی حالت نازک ہوگئی تو کسی نے آکر آپ کو اطلاع کی کہ اپنے ہمسایہ کی خبر تو پوچھیں.آپ اس کے پاس آئے دیکھا کہ آگ کے دھوئیں کے مارے سیاہ ہو گیا ہے آپ نے فرمایا اب تو خدا تعالیٰ سے ڈرو.ساری عمر تو تم نے آگ اور دھوئیں میں بسر کی اب تو اسلام قبول کرو.ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے شمعون نے کہا تین باتیں مجھے اسلام سے روکتی ہیں.ایک یہ کہ تم دنیا کو بُرا کہتے ہو اور پھر دن رات اس کی تلاش میں رہتے ہو دوسرے یہ کہ موت کو حق سمجھتے ہو.پھر اس کے لیے تیاری نہیں کرتے تیسرے یہ کہ دیدار حق کے قائل ہو اور پھر زندگی میں ایسے کام کرتے ہو سر بسر اس کی رضا کے برخلاف ہیں.آپ نے فرمایا کہ یہ علامت آشناؤں کی ہے.پس اگر مومن ا قول حضرت امام جعفر صادق ہے تذکرۃ الاولیاء فاری مطبوعہ 1306 صفحہ 11 حضرت حسن بصری
23 ایسا کرتے ہیں تو تم کیا کر رہے ہو.وہ اس کی بیگانگی کے اقراری ہیں اور تم نے آتش پرستی میں عمر بسر کر دی ہے.آگ جس کی پرستش تم نے ستر سال کی ہے تمہیں اور مجھے دونوں کو جلا دے گی اور تیرا کچھ لمحاظ نہ کرے گی لیکن اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آگ کی مجال نہیں کہ میرے بدن کا ایک بال بھی جلا سکے خواہ آزما لو.آؤ ہم دونوں آگ میں ہاتھ ڈالتے ہیں پھر تمہیں آگ کی کمزوری اور اللہ تعالیٰ کی قدرت معلوم ہو جائے گی.یہ کہہ کر دونوں نے آگ میں ہاتھ رکھے.آگ نے ذرا بھی اثر نہ کیا.جب شمعون نے یہ دیکھا تو حالت بدل گئی، دل میں محبت پیدا ہوئی اور حسن رضی اللہ عنہ کو کہا کہ میں ستر سال تو آتش پرستی کرتا رہا اب چند ایک دم باقی ہیں ان میں میں کیا کر سکتا ہوں.فرمایا بہتر یہی ہے کہ تو مسلمان ہو جائے کہا اگر آپ اس بات کی نوشت دے دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے عذاب نہیں کرے گا تو میں مسلمان ہو جاتا ہوں.آپ نے خط لکھ دیا شمعون نے کہا اس پر عمائد بصرہ گواہی کے دستخط کریں.جب وہ دستخط ہو گئے تو آپ نے وہ خط شمعون کو دیا.شمعون زار زار رویا اور مسلمان ہو گیا اور حسن بصری کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو آپ اپنے ہاتھ سے مجھے غسل دیں اور قبر میں دفن کر کے یہ خط میرے ہاتھ میں دیں تا کہ میرے پاس دلیل ہو.اسلام لا کر وہ مر گیا آپ نے اس کی وصیت کے مطابق کام کیا چنانچہ خود غسل دیا نماز جنازہ کی اور دفن کیا.آپ کو اس رات فکر کے مارے نیند نہ آئی ساری رات نماز ادا کرتے رہے اپنے دل میں کہتے تھے کہ میں نے کیا کیا میں تو خود ہی ڈوبا ہوا ہوں دوسرے کو کس طرح بچاؤں گا مجھے اپنے ہی ملک پر دسترس نہیں تو پھر میں نے اللہ تعالیٰ کے ملک کے بارے میں کیونکر نوشت دے دی اسی اندیشے میں آنکھ لگ گئی تو
24 کیا دیکھتے ہیں کہ شمعون سر پر تاج رکھے اور حلہ زیب تن کئے ہوئے بہشت میں ہنسی خوشی ٹہل رہا ہے پوچھا کیا حالت؟ کہا دیکھ لو پوچھتے کیا ہو مجھے اپنے فضل و کرم سے اس مقام میں جگہ دی اپنا دیدار دکھایا اور جو کچھ فضل وکرم میرے حق میں کیا وہ عبارت میں ادا نہیں کر سکتا.اب آپ بری الذمہ ہیں.یہ لو اپنا خط مجھے اس کی ضرورت نہیں.جب آپ بیدار ہوئے تو وہی خط ہاتھ میں دیکھا.ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 31-30) ۴.منقول ہے کہ ابرہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ چودہ سال راستہ طے کر کے کہے پہنچے آپ نے یہ ٹھانی تھی کہ اور لوگ تو قدموں چل کر پہنچتے ہیں میں آنکھوں کے بل جاؤں گا پس ہر قدم پر آپ دورکعت نماز ادا کرتے کرتے سکے پہنچے تو وہاں پر خانہ کعبہ کو نہ دیکھ کر کہا یہ کیا حادثہ ہے شائد میری بینائی میں خلل آ گیا ہے.غیب سے آواز آئی کہ تمہاری بینائی میں فرق نہیں بلکہ کعبہ ایک ضعیفہ کے استقبال کے لیے گیا ہے جو ادھر آرہی ہے.غیرت کے مارے آپ پکار اٹھے کہ وہ کون ہے؟ اتنے میں دیکھا کہ رابعہ بصری ہے عصا ئیکتی ہوئی آرہی ہیں پھر کعبہ بھی اپنے اصلی مقام پر آ گیا." 66 ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحه 57) ۵.اگر پیغمبر میں معجزہ ہے تو ولی میں کرامت اور پیغمبر خدا کی متابعت کی برکت سے من راد دانقاً من الحرام فقد نال درجة النبوة ، جس نے حرام کی ایک دمڑی اس کے مالک کو واپس کر دی اسے نبوت کا درجہ مل گیا.اور فرمایا : ل تذكرة الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306 ھ صفحہ 23 سے حضرت رابعہ العدومی
25 ،، کہ سچا خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہے ۲.“ ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحه 60) ۶.منقول ہے کہ جب آپ سے مسجد میں جاتے تو کھڑے روتے رہتے لوگ پوچھتے کیوں؟ فرماتے اپنے تئیں حیض والی عورت کی طرح پاتا ہوں ہے.(اردو تذکرۃ الاولیاء صفحہ 128) ے.پوچھا مجاہدوں میں آپ کی کیفیت کیا رہی؟ فرمایا ہے میں سو سال محراب میں رہا اور اپنے تئیں حیض والی عورت کی طرح جانتا تھا.“ (ایضاً صفحہ 187) - ایک دفعہ خلوت میں آپ کی زبان سے یہ کلمہ نکل گیا سبحانی ما اعظم شانی میں پاک ہوں میری شان کیا ہی بڑی ہے.جب ہوش میں آئے تو مریدوں نے کہا آپ نے یہ کلمہ کہا تھا.فرمایا تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اگر دوسری مرتبہ مجھ سے یہ کلمہ سنو تو مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا پھر ہر ایک مرید کو آپ نے چھری دی.جب پھر یہ کلمہ صادر ہوا تو مریدوں نے قتل کا ارادہ کیا.کیا دیکھتے ہیں سارا مکان آپ سے پُر ہو گیا ہے.مرید چھریوں کا وار کرتے لیکن کارگر نہ ہوتا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پانی پر چھری مار رہے ہیں جب گھڑی بعد وہ صورت چھوٹی اور آپ کا قد وقامت نمودار ہوا جیسے کہ مولا قول حضرت رابعہ العدومی - تذکرة الاولياء فارسی مطبوعہ 1306ھ صفحہ 44 حضرت ابو یزید بسطامی ۴ تذكرة الاولياء فارسی مطبوعہ 1306 ھ صفحہ 92 ۵ قول حضرت ابو یزید بسطامی 1 تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306 صفحہ 111 کے حضرت ابو یزید بسطامی
26 محراب میں تو ساری حالت مریدوں نے عرض خدمت کی.فرمایا بایزید یہ ہے جو تمہارے رو برو ہے وہ بایزید نہ تھائے (ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 125 مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ) و کسی نے آپ سے پوچھا کہ عرش کیا ہے؟ فرمایا میں ہوں پوچھا کری کیا ہے؟ فرمایا میں ہوں.پوچھا لوح و قلم کیا ہے؟ فرمایا میں ہوں.لوگوں نے کیا کہتے ہیں کہ ابراہیم موسیٰ محمد علیہم السلام اللہ تعالی کے بندے ہیں.فرمایا میں ہی ہوں.لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ کے بندے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل علیہم السلام کے سے بھی ہیں؟ فرمایا میں ہوں.وہ شخص خاموش ہو گیا تو آپ نے فرمایا جو شخص حق میں محو ہو جاتا ہے تو حق بن جاتا ہے.اور جو کچھ ہے حق ہے.اگر ایسی صورت میں وہ سب کچھ ہو تو کوئی تعجب نہیں ہے" ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحه 259) ۱۰.چنانچہ بایزید گولوگوں نے کہا قیامت کے دن ساری خلقت محمدی ﷺہ جھنڈے تلے ہوگی تو اس نے کہا کہ محمد علیہ الصلوۃ والسلام اس سے زیادہ ہے خلقت میرے جھنڈے تلے ہوگی ہے ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 163) تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306 صفحہ 191 حضرت بایزید بسطامی تذكرة الاولياء فارسی مطبوعہ 1306 ھ صفحہ 112
27 ا.اسی طرح لوائى اعظم من لواء محمد و سبحانی ما اعظم انسی.میرانشان نشانِ محمدی سے بڑا ہے اور میں ! پاک ہوں اور میری شان ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 162) کیا ہی اعلیٰ ہے؟ آپ سے بھرے میں بیمار پڑ گئے امیر بصرہ نے آپ کو بلا بھیجا تو آدمیوں نے آپ کو بیمار پایا آپ کو اسہال کی بیماری تھی لیکن عبادت سے ایک دم بھی آرام نہیں لیتے تھے اس رات حساب کیا تو آپ نے ساٹھ مرتبہ اٹھ کر وضو کیا اور نماز ادا کی لوگوں نے کہا آپ وضو تو نہ کریں.فرمایا میں چاہتا ہوں کہ جب عزرائیل آئے تو پاک ہوں نہ کہ پلید - کیونکہ پلیدی کی حالت میں بارگاہ الہی میں نہیں جا سکتا ہے؟ ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحه 181) ۱۳.ایک رات خواب میں دیکھا کہ آپ ۵ جناب رسول کریم اللہ کی ہڈیاں لحد میں سے اکٹھی کر رہے ہیں اور بعض کو پسند کرتے ہیں اور بعض کو نہیں.مارے خوف کے بیدار ہوئے تو ابن سیرین کے ایک صحابی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ آپ پیمبر ہے کے علم اور آنحضرت ﷺ کی لغت کو محفوظ رکھنے میں اس درجہ کو پہنچیں گے کہ اس پر متصرف ہوں گے اور ان کے صحت و سقم میں تمیز کریں گے.الله ترجمه کتاب تذکرۃ الاولیاء صفحہ 188) ا حضرت ابو یزید بسطامی ! تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306ھ صفحہ 115 حضرت سفیان ثوریؒ کے تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306 ھ صفحہ 115 ۵ امام اعظم حضرت ابوحنیفہ نئے تذکرۃ الاولیاء میں حضرت امام اعظم کا ذکر ہی قلمز و کر دیا گیا ہے.1 تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306 ھ صفحہ 131
28 ۱۴.منقول ہے کہ ایک مرقع پوش ہوا سے اترا.آپ کے سامنے زمین پر پاؤں مارنے لگا اور کہنے لگا.کہ میں جنید وقت ہوں.میں شبلی وقت ہوں.میں بایزید وقت ہوں.آپ بھی اٹھ کر رقص کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ میں خدائے وقت ہوں.مصطفے وقت ہوں.اس کے معنی وہی ہیں جو ہم حسین منصور کے حال میں انا الحق کے معنی بیان کر چکے ہیں کہ وہ محو تھا ہے“ ترجمه کتاب تذکرة الاولیاء صفحہ 515) مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں با آسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قدوة السالكين زبدة العارفین حضرت شیخ فریدالدین عطارحمۃ اللہ علیہ کی کتاب تذکرۃ الاولیاء کو کس بے دردی سے حذف و تنسیخ کا تختہ مشق بنایا گیا ہے.الاربعین فی احوال المهديين مجد د سیز دہم حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید خاص حضرت شاہ اسماعیل شہید ( شہادت 1246ھ 1831ء) کی ایک کتاب الاربعین فی احوال المہدین بھی ہے جو پہلی بار ۲۵ محرم الحرام 1268ھ بمطابق ۲۱ نومبر 1851ء کو مصری گنج کلکتہ سے شائع ہوئی.اس کتاب کے آخر میں چھٹی صدی ہجری کے نواح دہلی کے صوفی مرتاض اور دلی کامل حضرت نعمت اللہ ولی عطا رحمتہ اللہ علیہ کا ظہور مہدی موعود سے متعلق اصلی قصیدہ بھی شامل تھا.یہ قصیدہ بچپن اشعار پر مشتمل تھا.ا حضرت ابوالحسن خرقائی ہے تذکرۃ الاولیاء فارسی مطبوعہ 1306 صفحہ 335 علاوہ ازیں اس کے 118 ، 272،406،334،217 صفحات میں سے بھی بعض واقعات حذف کر دیئے گئے ہیں )
29 حضرت بانی جماعت احمدیہ مسیح موعود و مهدی موعود و مهدی مسعود عطا رحمۃ اللہ علیہ نے جون 1892ء میں نشان آسمانی کے نام سے ایک معرکۃ الآراء کتاب تصنیف فرمائی جس میں آپ نے الاربعین کے حوالے سے اس قصیدہ کا تفصیلی ذکر کیا اور اسے اپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش فرمایا نیز اس کے بعد ابیات کا ترجمہ اور تشریح کر کے ثابت کیا کہ آپ ہی اس الہی بشارت پر مشتمل قصیدہ کے موعود اور مہدی موعود سے متعلق پیشگوئی کے مصداق ہیں.کیونکہ جیسا کہ اس قصیدہ میں خبر دی گئی تھی ٹھیک چودہویں صدی کے سر پر آپ کا ظہور ہوا.آپ ہی کو یہ بشارت دی گئی کہ ایک موعود لڑ کا آپ کی یاد گار رہ جائے گا آپ کا نام ”احمد“ ہے آپ مہدی وقت بھی ہیں اور عیسی دوران بھی.مخالفین احمدیت نے اس الہامی قصیدے سے جو سلوک کیا وہ المیہ سے کم نہیں تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مولوی محمد جعفر صاحب تھا میسری مؤلف تواریخ عجیب سوانح احمدی نے 23 جولائی 1892ء کو نشان اے آسمانی کے رد میں تائید آسمانی لکھی جس میں انہوں نے اگر چہ مندرجہ بالا قصیدہ صحیح اور مکمل صورت میں شائع کر دیا.نیز بتایا کہ اربعین کا وہ نسخہ جس کے آخر میں یہ اشعار چھپے ہوئے ہیں خود میں نے مرزا صاحب کو بھجوایا تھا.(صفحہ 5-4) مگر انہوں نے مختلف اشعار کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ مرزا صاحب پر یہ نشانیاں ا یہ رسالہ اختر ہند پریس حال بازار امرتسر میں چھپا مؤلف کے علاوہ امرتسر میں شیخ محمد عبد العزیز صاحب کڑ کنہیا سے بھی مل سکتا تھا.تھا ینسری صاحب ان دنوں صدر بازار کیمپ انبالہ میں مقیم تھے.اس رسالہ کا ایک نسخہ خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے
30 چسپاں نہیں ہوتیں.اس وقت تو مولانا محمد جعفر صاحب تھانیسری کے ہمنوا علماء نے الاربعین کے قصیدہ کو خاموشی سے تسلیم کر لیا لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے رسالہ الا اربعین کو مولانا ولایت علی عظیم آبادی (متوفی 1269ھ ) کے دوسرے رسالوں میں شامل کر کے اس مجموعے کا نام "رسائل قطعہ رکھ کر شائع کر دیا اور رسالہ الاربعین کے آخر میں سے حضرت نعمت اللہ ولی کا مکمل قصیدہ جو پچپن اشعار پر مشتمل اور الہامی تھا بالکل خارج کر ڈالا.1920ء میں پروفیسر براؤن کی کتاب " تاریخ ادیبات ایران A Litrary History of Persia شائع ہوئی جس میں مسٹر براؤن نے ایران کے شیعہ بزرگ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی کے مزار کے کسی مجاور سے حاصل شدہ ایک قصیدہ بھی درج کیا.یہ قصیدہ دراصل حضرت نعمت اللہ ولی کے اصل قصیدہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی جسے باہیوں نے سید علی محمد بابا پر چسپاں کرنے کے لیے مسخ کر دیا تھا حتی کہ اس کے نام کی نسبت سے اس میں ”احمد“ کی بجائے ”محمد“ لکھ دیا اور چونکہ ایران کے شیعہ مسلمانوں کو دہلی کے کسی ولی سے کوئی خاص مذہبی عقیدت نہیں ہوسکتی تھی اس لیے انہوں نے نہایت ہوشیاری سے دہلی کے حضرت نعمت اللہ ولی کا قصیدہ ان کے ہم نام ایرانی بزرگ حضرت شاہ نعمت اللہ کرمائی تک منسوب کر دیا.اور مولانا مسعود عالم ندوی نے اپنی کتاب ”ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک کے صفحہ 212 پر رسائل تسہ“ کے ذکر میں یہ بتایا ہے کہ یہ مجموعہ مولوی الہی بخش بڑا کری عظیم آبادی (المتوفی 1334ھ ) کے اردو ترجمہ کے ساتھ چھپا تھا.۲ ۵۰ - ۱۸۴۹ء کے درمیان آذربائیجان میں قتل ہوئے.
31 اسے پروفیسر براؤن نے بھی کمال سادگی سے شاہ نعمت اللہ کرمانی کے حالات میں درج کر دیا.حالانکہ انہیں قطعی اور یقینی طور پر علم تھا کہ شاہ نعمت اللہ کرمانی کے دیوان مطبوعہ طہران 1860 میں اس قصیدے کا نام و نشان تک نہیں ہے.جیسا کہ انہوں نے اپنی اسی کتاب کی تیسری جلد کے صفحہ 468 میں واضح لفظوں میں اعتراف کیا ہے "THE POEM IS NOT TO BE FOUND AT ALL IN THE LITHO GRAPHED EDITION" یعنی اس نظم کا لیتھو ایڈیشن میں قطعاً کوئی وجود ہی نہیں ہے!.اب آگے سینے.مسٹر براؤن کی یہ کتاب جو نبی ہندوستان پہنچی ان مخالفین احمدیت نے جو پورے قصیدہ کو الاربعین سے خارج کر کے اپنے خیال میں اس کے اثرات کو معدوم اور اس کی اہمیت کو ختم کئے بیٹھے تھے یکا یک میدان مخالفت میں آگئے اور انہوں نے مسٹر براؤن کو بنیاد قرار دے کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ بس اب مغرب کے فاضل محققوں کی تحقیق نے ثابت کر دیا کہ قصیدہ میں مہدی کا نام محمد لکھا تھا مگر مرزا صاحب نے احمد کر دیا.( کاشف مغالطه قادیانی فی رد نشان آسمانی مطبوعه گلزار ہند پریس لاہور ) اس طرح محض احمدیت سے تعصب و عناد کے باعث دشمنان اسلام کی سازش سے تحریف شدہ قصیدہ اصلی قصیدہ قرار پا گیا اور اب اسی کو بکثرت شائع کیا جاتا ہے.جیسا کہ راقم الحروف نے رسالہ ”الفرقان“ (ربوہ جنوری 1972ء) میں پوری کے اسلامیہ کالج پشاور کی لائبریری میں دیوان شاہ نعمت اللہ ولی کا ایک قدیم قلمی نسخہ موجود ہے.ملاحظہ ہو فہرست کتب صفحہ 191-190 مگر اس مخطوطہ میں بھی نہیں ہے
32 =2 شرح و بسط سے بتایا ہے.حضرت نعمت اللہ ولی نہایت مظلوم شخصیت ہیں کیونکہ ایک تو آپ کے اصل قصیدہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا دوسرے آپ کے نام پر کئی جعلی قصیدے اور بیسوں اشعار وضع کر کے شائع کیے جاچکے قصیدہ سازی کی یہ ناپاک مہم مجد دسیز دہم حضرت سید احمد بریلوی کے سانحہ شہادت (مئی 1831ء) کے بعد شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے.اس سلسلہ میں پہلا جعلی قصیدہ جس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ سلطان مغرب 1854 ء تک ظاہر ہوگا.کلکتہ ریویو ( 1870ء) میں شائع ہوا.اس قصیدہ کی شکل حوادث زمانہ کی نئی صورتوں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی.چنانچہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب اتحادیوں نے ظالمانہ طور پر ترکی کے حصے کر دیئے مسلمانان ہند کو ڈھارس بندھانے اور دینی و قلبی تسکین کے لیے پھر یہی حربہ بروئے کار لایا گیا.تعلیمات جدید پر ایک نظر طبع اول مطبوعہ مارچ 1931 ء آفتاب برقی پریس امرتسر ) ملک تقسیم ہوا تو 1948 ء میں دوسرے جعلی قصیدہ کو بدلے ہوئے حالات میں ڈھال کر مزید اضافہ کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں شائع کیا گیا.اس قصیدہ میں میر عثمان علی والی دکن کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا تھا کہ ماہ محرم کے بعد تلوار مسلمانوں کے ہاتھ میں آجائے گی اور عثمان غازیانہ عزم کے ساتھ میدان جہاد میں اترے گا اور مسلمان دوبارہ ہندوستان پر قابض ہو جائیں گے لیکن 18 ستمبر 1948ء کو ریاست حیدرآباد نے ہتھیار ڈال دیئے اور اس قصیدہ کے جعلی ہونے پر خود بخود مہر تصدیق ثبت ہوگئی.1971ء میں اس وضع اور خود ساختہ قصیدہ کو ایک بار پھر مزید اضافوں کے ساتھ چھپوایا گیا تا سقوط ڈھاکہ کے زخموں کو مندمل کیا جا سکے.یہ کارنامہ“ دین دار انجمن
33 حزب اللہ پاکستان کے امیر جناب مولانا حبیب اللہ شاہ کا تھا جنہوں نے خاص اس جہاد کے لیے حقیقت قیام پاکستان بتوثیق بشارات“ کے نام سے ایک رسالہ سپرد قلم کیا اور اسے ہر طرف پھیلا دیا.ے تمبر 1974ء کے بعد پاکستانی پریس نے مسٹر بھٹو محافظ ختم نبوت“ کے نام سے گونج رہے تھے اور الامارات المتحد ہ “ کا اخبار الاتحاد اپنی دسمبر 1973ء کی اشاعت میں اعلان کر چکا تھا کہ موصوف خدا کی طرف سے مبعوث ہونے والے قائد ہیں.اس ماحول میں حضرت نعمت اللہ ولی کے نام پر بعض نئے اشعار تیار کئے گئے اور ان کو معہ دوسرے جعلی اشعار کے ایک دو ورقہ کی شکل میں آرٹ ایگز یوز پریس شاہراہ لیاقت کراچی سے شائع کر دیا گیا.اس ہینڈ بل میں عوام کو بتایا گیا کہ وو حضرت شاہ نعمت اللہ ولی نے اپنی منظوم پیش گوئیوں میں واضح طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے برسراقتدار آنے کا بھی واضح اشارہ کر دیا تھا انہوں نے پیش گوئی کی تھی.با نام ذال مردے حق گود نیک نام گیر و عناں شو دز و کارے مجاہدانہ یعنی ذال سے شروع ہونے والے نام کا ایک شخص جو حق گو اور شہرت یافتہ ہو گا عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے گا اور اس کے ہاتھ سے کوئی مجاہدانہ کام انجام پائے گا.عربی متن : " القادم الينا اليوم زعيم من الزعماء الدين يبعث الله بهم الى الامم عند ما تشتد المحين وتتكاثف ظلمات الياس و ذو الفقار على بوتو واحد من هو لاء الرجال العظام القلائل في تاريخ كل امة" (صفحه ۳)
34 اس پیشگوئی سے پہلے دو شعر اور بھی ہیں.الزام کفر باشد بر نیک خومسلمان از زاہدان به خامه اقدام کا فرانہ ( یعنی نیک خومسلمان پر زاہدوں کے قلم سے کفر کا الزام لگانے کا کافرانہ کام واقدام کیا جائے گا.) مثل یہوداں فرقه در قلب کبر ونخوت لما منع نمود: نیا، انداز عالمانه (یعنی یہودیوں کی طرح ایک فرقہ ہوگا جس کے دلوں میں کبر نخوت بھری ہوگی یہ فرقہ شہرت یافتہ اور دنیاوی جاہ کا لالچی ہو گا.بظاہر اس کا انداز عالمانہ ہوگا.) حضرت نعمت اللہ ولی کا نام استعمال کرنے والے لوگ ابھی جشن مسرت منا رہے تھے کہ یکایک پاکستان کی بساط سیاست الٹ گئی اور ملک پر مارشل لاء نافذ ہو گیا اس فوری انقلاب پر طالع آزماؤں نے پینترا بدلا اور اپنی طبع آزمائی کے لیے اس مقدس بزرگ ہی کو چنا اور مندرجہ ذیل شعر ایجاد کر لیا.قاتل کفار خواهد شد شیر علی حامی دین محمد پاسبان پیدا شود ترجمہ : ( بیہ) شیر علی شاہ کافروں کو قتل کرنے والا ہوگا سر کار دو عالم محمد اللہ کے دین کی حمایت کرنے والا ہوگا.اور ملک کا پاسبان ظاہر ہو گا اس شعر کی تشریح یہ کی گئی کہ شیر علی نامی حکمران مغربی پاکستان کے عہد حکومت میں ہندو پاکستان کے درمیان جنگ ہوگی اور شیر علی فاتح ہوگا اور مغربی پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرے گا دوسر از او یہ یہ ہے کہ وہ شخص بہ اعتبار صفت شیر علی ہو سکتا ہے اور یہ اعتبار اسم خواہ وہ ضیاء الحق صاحب ہی ہو“ یہ شعر اور اس کی تشریح حافظ محمد سرور چشتی نظامی فیصل آباد نے اپنی کتاب
35 آٹھ صد سالہ پیشگوئی حضرت نعمت اللہ ولی میں سپر داشاعت فرمائی اور کمال ہوشیاری سے رسالہ کی اشاعت کی تاریخ ۲۳ اپریل ۱۹۷۲ درج کر دی تا اس پیشگوئی کو مستند ثابت کیا جا سکے!! ناطقہ سر گریباں ہے اسے کیا کہے!! ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عوام کو عرصہ سے باور کرایا جارہا ہے کہ شاہ نعمت اللہ نے آنے والے انقلابات زمانہ پر تقریباً دو ہزار اشعار فارسی میں لکھے.(روز نامه مشرق ۲۱ دسمبر ۱۹۷۱ ء صفحه ۵) یہ بیان دوسرے لفظوں میں اس عزم کا اظہار ہے کہ جب تک حضرت نعمت اللہ ولی کے نام پر شائع کیے جانے والے اشعار کی تعداد دو ہزار تک نہ پہنچ جائے یہ سلسلہ تصنیف واختراع زور شور سے جاری رہے گا.فانا لله و انا اليه راجعون تعطیر الانام حضرت شیخ العارفین قطب زمان سید نا الشیخ عبدالغني النابلسی (۱۰۵۰ھ.۱۱۴۳ھ) کی بے نظیر کتاب "تعطیر الانام تعبیر الرؤیا کی دنیا میں سند سمجھی جاتی ہے.افسوس یہ مایہ ناز تصنیف بھی بیسویں صدی عیسوی میں دست و برد سے نہیں بچ سکی.اس کتاب کے تمام قدیم ایڈیشنوں میں لکھا ہے کہ:.من رأى كا نه صار الحق سبحانه وتعالى اهتدى الى الصراط المستقيم صفحہ 9 مطبوعه الشریفحه ۱ مطبوعہ بیروت) یعنی جو شخص خواب دیکھے کہ وہ گویا خدا بن گیا ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ اسے صراط مستقیم نصیب ہوگا.
36 مگر اس کے جدید مصری ایڈیشن میں اس فقرہ کو یوں بدل دیا گیا ہے کہ:." من رأى كانه سار الى الحق سبحانه وتعالى اهتدى الى صراط المستقيم (صفحه انا شر مصطفی البابی الحلی دادلاده بمصر ) اس تبدیلی کے نتیجہ میں مفہوم ہی الٹ گیا ہے اور معنی یہ ہوتے ہیں کہ جو شخص دیکھے کہ گویاوہ خدا کی طرف چل رہا ہے تو وہ سیدھی راہ تک پہنچے گا.افسوس اسلامی علم و معرفت کا گنجینہ جو صدیوں سے ہمارے بزرگوں نے اپنے سینے سے لگا کر محفوظ رکھا اور پوری دیانتداری سے ہم تک منتقل کیا تھا اس لیے غارت کر دیا گیا کہ مسیح وقت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام کے اس مکاشفہ کو وجہ اشتعال بنایا جا سکے جس میں حضور نے دیکھا کہ گویا میں خدا بن گیا ہوں.آئینہ کمالات اسلام صفحہ 564-566) آپ نے یہ کشف درج کرنے کے بعد صاف لفظوں میں واضح فرمایا کہ میں اس سے وحدت الوجودیوں کے عقیدہ کی طرح مراد نہیں لیتا نہ حلولیوں کی طرح کہتا ہوں کہ خدا مجھ میں حلول کر آیا ہے بلکہ اس کشف کا وہی مطلب ہے جو صحیح بخاری کے قریب نوافل والی حدیث کا ہے.( بخاری جلد ۴ صفحه ۸۰ کتاب الرقاق باب التواضع - مطبوعہ مطبع الہیہ مصر )
37 اشارات فریدی چشتی سلسلہ کے خدارسیدہ صلحاء و صوفیاء و مشائخ پنجاب میں والٹی ریاست بہاولپور نواب محمد صادق خان کے پیر حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف ( ولادت ۲۶ نومبر ۱۸۴۵ء.وفات ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ء) کو ایک ممتاز اور منفرد مقام حاصل ہے.وجہ یہ کہ آپ مہدی دوراں اور مسیح وقت کے پر جوش مصدقین میں سے تھے چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں:.در بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری تصدیق کے لیے بڑے بڑے ممتاز لوگوں کو جو مشاہیر فقراء میں سے تھے خوا ہیں آئیں اور آنحضرت علی سے تایا نہ کو خواب میں دیکھا.جیسے سجادہ نشین صاحب العلم سندھ جن کے مرید ایک لاکھ کے قریب تھے.اور جیسے خواجہ غلام فرید چاچڑاں والے.“ (حقیقۃ الوحی طبع اول صفحہ ۶۸ تاریخ اشاعت ۵ امئی ۱۹۰۷ء) اس کے بعد حضور نے کتاب کے صفحہ ۲۰۶ تا ۲۰۹ پر اپنے مبارک قلم سے درج ذیل الفاظ میں اس کی تفصیل زیب قرطاس فرمائی: ۱۹.انیسواں نشان یہ ہے کہ خواجہ غلام فرید صاحب نے جو نواب بہاولپور کے پیر تھے.میری تصدیق کے لیے ایک خواب دیکھا جس کی بناء پر میری محبت خدا تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈال دی اور اسی بناء پر کتاب اشارات فریدی میں جو خواجہ صاحب موصوف کے ملفوظات ہیں جابجا خواجہ صاحب موصوف میری تصدیق فرماتے ہیں اہل فقر کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ظاہری جھگڑوں میں بہت کم پڑتے ہیں اور جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو بذریعہ خواب یا کشف یا الہام پستہ ملتا ہے اس پر
38 ایمان لاتے ہیں پس چونکہ خواجہ غلام فرید صاحب پیر صاحب العلم کی طرح پاک باطن تھے اس لیے خدا نے ان پر میری سچائی کی حقیقت کھول دی اور کئی مولوی جیسے مولوی غلام دستگیر خواجہ صاحب کو میرا مکذب بنانے کیلیے آپ کے گاؤں میں پہنچے جیسا کہ کتاب اشارات فریدی میں خواجہ صاحب نے خود یہ حالات بیان کیے ہیں کہ بعض غزنویوں کا بھی خواجہ صاحب موصوف کے پاس خط پہنچا مگر آپ نے کسی کی بھی پر واہ نہیں کی اور ان خشک ملاؤں کو ایسے دندان شکن جواب دیئے کہ وہ ساکت ہو گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کا خاتمہ مصدق ہونے کی حالت میں ہوا.چنانچہ وہ خطوط جو آپ نے میری طرف لکھے ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کس قدر محبت ان کے دل میں ڈال دی تھی اور کس قدرا اپنے فضل سے میرے بارہ میں ان کو معرفت بخش دی تھی خواجہ صاحب نے اپنی کتاب اشارات فریدی میں مخالفوں کے حملوں کا جا بجا جواب دیا ہے جیسا کہ ایک جگہ اشارات فریدی میں لکھا ہے کہ کسی نے خواجہ صاحب موصوف کی خدمت میں عرض کی کہ آتھم معیاد کے بعد مرا.انہوں نے میرا نام لے کر فرمایا اس بات کی کیا پر واہ ہے.میں جانتا ہوں کہ آٹھم انہیں کے نفس سے مرا ہے یعنی انہی کی توجہ اور عقد ہمت نے آتھم کا خاتمہ کر دیا.اور کسی نے میری نسبت آپ کو کہا کہ ہم ان کو مہدی موعود کیونکر مان لیں کیونکہ مہدی موعود کی ساری علامتیں جو حدیثوں میں لکھی ہیں ان میں پائی نہیں جاتیں تب خواجہ صاحب اس کلمہ پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یہ تو کہو کہ تمام قرار داده نشان جولوگوں نے پہلے سے سمجھ رکھے تھے کس نبی یا رسول میں سب کے سب پائے گئے.اگر ایسا وقوع میں آتا تو کیوں بعض کافر رہتے اور بعض ایمان لاتے یہی سنت اللہ ہے جو علامتیں پیشگوئیوں میں کسی آنے
39 والے نبی سے بارہ میں لکھی جاتی ہیں وہ تمام باتیں اپنے ظاہری الفاظ کے ساتھ ہرگز پوری نہیں ہوتیں بعض جگہ استعارات ہوتے ہیں بعض جگہ خود اپنی سمجھ میں فرق پڑ جاتا ہے اور بعض جگہ پرانی باتوں میں کچھ تحریف ہو جاتی ہے.اس لیے تقویٰ کا طریق یہ ہے جو باتیں پوری ہو جا ئیں ان سے فائدہ اٹھا ئیں اور وقت اور ضرورت کو مدنظر رکھیں غرض خواجہ غلام فرید صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ نور باطن عطا کیا تھا کہ وہ ایک ہی نظر میں صادق اور کاذب میں فرق کر لیتے تھے خدا ان کو غریق رحمت کرے اور اپنے قرب میں جگہ دے.“ (حقیقۃ الوحی) حضرت مسیح موعود کے نام خطوط حضرت مسیح موعود کے نام حضرت خواجہ غلام فرید نے نہایت درجہ عقیدت سے لبریز تین خطوط ارسال کیے تھے جو حضور نے ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۳۹ اور ضمیمہ رسالہ سراج منیر صفحہ الف، ب ، ج ، ن پر شائع فرمائے اور آپ کو فرید وقت“ کے خطاب سے نوازا.حضرت خواجہ صاحب کا پہلا خط عربی میں (مورخہ ۲۷ رجب ۱۳۱۴ھ ) دوسرا فارسی میں (۲۷ شعبان ۱۳۱۴ھ ) اور تیسرا بھی فارسی میں تھا.( تاریخ ہم شوال ۱۳۱۴ھ ہر خط پر آپ کی مہر ثبت تھی ) پہلے خط میں آپ نے تحریر فرمایا: ”اے ہر ایک حبیب سے عزیز تر آپ کو معلوم ہو کہ میرا مقام ابتداء ہی سے آپ کی تعظیم کرتا ہے تا کہ مجھے ثواب حاصل ہو اور کبھی میری زبان پر یہ تعظیم و تکریم اور رعایت آداب کے آپ کے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا.اور اب میں آپ کو
40 مطلع کرتا ہوں کہ میں بلا شبہ آپ کے نیک حال کا معترف ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ کے صالح بندوں میں سے ہیں اور آپ کی سعی عند اللہ قابل شکریہ جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشند بادشاہ کا آپ پہ بڑا فضل ہے میرے لیے عاقبت بالخیر کی دعا کریں.دوسرے خط کا خلاصہ یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم (ترجمه) بخدمت جناب مرزا صاحب عالی مراتب مجموعه محاسن بیکراں متجمع اوصاف بے پایاں مکرم معظم برگزیدہ خدائے احد جناب مرزا غلام احمد صاحب متع الناس ببقائه وسرنى بلقائه وانعمه بالائه.اس سلام کے بعد جو از روئے اسلام مسنون ہے اور کامل شوق اور اس دعا کے بعد کہ آپ کا نام روشن ہو اور آپ کا مرتبہ بلند ہو یہ بات واضح اور عیاں ہے کہ وہ مکتوب جس سے محبت کی بو آتی ہے اور جو کامل مہر بانیوں سے بھرا ہوا ہے مع اس کتاب کے جو آنجناب نے بھیجی تھی پہنچا.جس نے تازہ خوشی کے چہرہ کو بے نقاب کر دیا اور بے حد خوشی کا موجب ہوا.پس پوشیدہ نہ رہے کہ یہ خاکسار اپنی فطرت کے تقاضا کے مطابق شروع سے ہی جھگڑوں میں پڑنے اور مباحثات میں قدم رکھنے سے گریزاں رہا ہے.یہ بات مخفی نہ رہے کہ آجکل کچھ علمائے وقت نے مجھ سے جواب طلبی کی ہے کہ کیوں ایک ایسے شخص کو ( یعنی آنجناب کو ) جو باتفاق علماء ایسا ویسا ثابت ہو چکا ہے نیک مرد قرار دیتے ہیں.اور کس وجہ سے ان کے ساتھ حسن ظنی رکھتے ہیں.
41 حقیقت یہ ہے کہ میرے محبت نیوش کان جوں جوں آئمکرم کی مساعی سے آگاہی کے ذخیرہ سے بہرہ مند ہوتے ہیں میرا محبت شعار دل اس اخلاس میں اور بھی بڑھ گیا ہے کہ جو پہلے رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کوئی سبب بہتر پیدا ہو جائے اور مبارک گھڑی ظاہر ہو جائے کہ جس سے جسمانی دوری کا پر دہ اور فاصلہ کی لمبائی کا نقاب درمیان سے اٹھ جائے.اور اگر آپ وہ مضمون جو جلسہ مذاہب میں پیش فرمایا تھا میرے پاس بھیج کر مسرور کریں تو احسان ہوگا..تیسرے مکتوب کا خلاصہ یہ تھا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ہمیں جناب سے جو کہ تمام نفوس اور تمام جہانوں کے روح رواں ہیں ملاقات کا شوق اتنا زیادہ ہے جتنے کہ آپ کے اخلاق کریمانہ زیادہ ہیں اور اس مجاہد فی سبیل اللہ کی محبت روز بروز بڑھتی جاتی ہے اس کی ذات کا جو بخل سے پاک ہے بڑا احسان ہے کہ اس فقیر کے اوقات کو بے حد مہربانی سے ظاہر و باطن کی عافیت کی راہوں پر چلا رکھا ہے اور ہماری دعا اور مقصود ہے کہ خدائے عزیز آپ جیسے پسندیدہ اخلاق اور حمیدہ خصائل انسان کا مؤیدر ہے اور محبت اور پیار کے چمکتے ہوئے موتیوں کی لڑی اور صداقت و اتحاد کے درخشندہ جواہر کا بار یعنی جناب کا وہ خط جو سراپا اخلاص اور صفات کے مواد سے بھرا ہوا ہے اور جو راتی اور کچی محبت کے ذخیروں سے لبریز ہے اس سے ہمیں اپنے کریمانہ درود سے مشرف فرمایا اور میں بے حد مسرت بخشی.اے معالم ہے.مندروں میں غوطہ لگانے والے اس فقیر نے آپ کے الفت آمیز الفاظ اور شرت بخش معنی اور حیرت انگیز معارف سے ایک ایسا ذخیرہ حاصل کیا ہے جس سے
42 دل بے حد محظوظ ہوا اور جلسہ اعظم مذاہب لاہور کا مضمون جو آنجناب نے ارسال فرمایا ہے باوجود ایک بیش قیمت حقائق کی (روحانی) غذا ہونے کے (اس کے مضمون کو ) حیرت انگیز طریق سے ادا کیا گیا ہے جس نے سامعین کے دل موہ لیے.یہ خطوط اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جوابی مکاتیب اشارات فریدی جلد سوم میں ریکارڈ ہو چکے ہیں.اس طرح یہ خط و کتابت قیامت تک کے لیے محفوظ ہوگئی ہے.اشارات فریدی حصہ سوم کی عظمت و منزلت اشارات فریدی کے آخر میں صفحہ ۱۸۶، ۱۸۷ پر لکھا ہے: (ترجمه) : کتاب اشارات فریدی المعروف مقابیس المجالس کی تیسری جلد مکمل ہوئی اور یہ جلد سوم اول تا آخر میں نے خواجہ صاحب ابقاه الله تعالى ببقائه کی خدمت اقدس میں سبقاً سبقاً پڑھی اور حضرت خواجہ صاحب ابقاه الله تعالیٰ ببقائه نے کمال مہربانی اور توجہ سے اس کو سنا اور پوری تحقیق کے ساتھ اس کی تصیح و اصلاح فرمائی.فقط - تمت بالخیر.اس کے بعد حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کے فرزند جلیل اور جانشین قطب الموحدین حضرت خواجہ محمد بخش صاحب ( ولادت ۱۸۶۵ء.وفات ۵ استمبر ۱۹۱۱ء) نے اس مبارک تالیف پر جو شاندار اور بے نظیر تقریظ رقم فرمائی اس نے کتاب کے لفظ لفظ کے مستند ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی.ذیل میں اس معرکہ آراء تقریظ کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:.سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس
43 کے رسول خاتم النبین اور اس کی آل اور اصحاب پر درود اور سلام ہو.اما بعد فقیر محمد بخش سکنہ چاچڑاں شریف کہتا ہے کہ چونکہ کتاب مقابیس المجالس میں در حقیقت معرفت کا ایک نصاب ہے اور اشارات فریدی کے نام سے مشہور ہے اور جو کہ حضرت محمد مصطفی یہ ہے کی ملت کے سرتاج حجت نبوی میے کی روشن دلیل اور خدائے یگانہ کے انوار غیبیہ کے مشاہدہ کرنے والے وحدانیت سے پردہ اٹھانے والوں کے بادشاہ مشہور بزرگ عالم قطب جہان.مانے ہوئے غوث عالم ملکوت کے حقائق بیان کرنے والے توحید کی مجسم صورت ، ہمارے سردار ، ہمارے مرشد حضرت قبلہ خواجہ غلام فرید میرے والد ماجد رضی اللہ عنہ کے ملفوظات مبارکہ ہیں جو برادرم دینی ( دینی بھائی ) مولا نا رکن الدین صاحب سکنہ پر ہارسونکی سلمہ ربہ نے نو سال کی مدت میں ہمہ تن گوش رہ کر جمع کیے ہیں.جس کا صرف ایک ہی نسخہ تھا اور آپ کے تمام معتقدین اور سب طالبان طریقت اور مالکان حقیقت ہر طرف دوڑتے پھرتے اور اس معرفت کے خزانہ کے متلاشی تھے.پس بہت سا روپیہ خرچ کر کے خان صاحب والاشان محمد عبد العلیم خان صاحب بہادر سکنہ ریاست ٹونک کے زیر اہتمام اس کو طبع کرایا تاکہ دنیا کے تمام اطراف واکناف میں پھیل جائے اور ہر کوئی اس مبارک نسخہ کے مطالعہ میں اپنی ہمت صرف کرے اور معارف کے موتی حاصل کرے فقط - ( دستخط ) فقیر محمد بخش بقلم خود اشارات فریدی جلد سوم ۱۳۲۰ھ میں مطبع مفید عام آگرہ میں چھپی تھی اور اس کے سرورق پر اس کا پورا نام ” مقابیس المجالس المعروف اشارات فریدی شائع ہوا.
44 اشارات فریدی جلد سوم میں تعریفی کلمات ان مکاتیب کے علاوہ جو آپ کے ملفوظات اشارات فریدی میں شائع شدہ ہیں.آپ کے ارشادات میں حضرت مسیح موعود کی شان اقدس کے متعلق تعریفی کلمات بڑی کثرت سے موجود ہیں جو فارسی الفاظ میں ہیں جن میں سے بعض کا اردو ترجمہ نمونہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.یہ ارشادات اشارات فریدی حصہ سوم میں مرقوم ہیں.دعویٰ مسیحت کی تصدیق ( ترجمہ ): اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے بارے میں فرمایا کہ مرزا صاحب نیک اور صادق مرد ہیں اور انہوں نے مجھے اپنے الہامات کی ایک کتاب ( انجام آتھم ) بھیجی ہے.ان کا کمال اس کتاب سے ظاہر ہے اسی اثناء میں علماء ظواہر میں سے کسی نے جو حضرت خواجہ صاحب ابــقـــاه الــلــــه تعالى ببقائه کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا حضرت اقدس کے متعلق زبان طعن دراز کی اور آپ کا رد و انکار کیا.حضرت خواجہ صاحب ابقاه الله تعالى ببقائه نے اس کے جواب میں فرمایا کہ نہیں نہیں وہ مرد صادق ہیں مفتری اور کا ذب نہیں.ان کا دعویٰ جعلی اور خود ساختہ نہیں ہے زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ ان سے بعض اپنے کشوف کے سمجھنے میں تھوڑی سی اجتہادی غلطی ہوئی ہے اس کے بعد فرمایا کہ لوگوں نے تو انا الحق کہا ہے اور اگر وہ ( یعنی مرزا صاحب ) اپنے آپ کو مجدد اور عیسی قرار دیں تو پھر بھی عبد ہی کہلاتے ہیں.“ (صفحه ۴۲ مطبوعه آگره ۱۳۲۰ ه ) اشارات فریدی ، جلد سوم صفحه ۴۲ تا ۴۴)
45 عدیم النظیر معارف قرآن اور سلاطین عالم کو دعوت اسلام اس کے بعد فرمایا کہ مولوی حکیم نور الدین صاحب جو آپ کے صادق الا رادت اور راسخ العقیدہ مریدوں میں سے ہیں ایک دفعہ میرے پاس بہاولپور آئے تھے انہوں نے فرمایا کہ میں مرزا صاحب کا جو مرید ہوا ہوں ان کی اور کرامات کو دیکھ کر نہیں ہوا بلکہ یہ تین امر د یکھ کر ہوا ہوں.ہے.اول یہ کہ حضرت مرزا صاحب نے ظاہری علم صرف و نحو کا شرح ملا تک پڑھا ہے اور وہ بھی انگریزوں کی ملازمت کے وقت دوسرے علماء کی مانند بھلا دیا تھا اور اب ایسے تبحر اور یگانہ روزگار عالم ہیں کے قصائد عربی اور فارسی اور اردو کمال فصاحت اور بلاغت کے ساتھ چالیس چالیس شعر یک دفعہ بلا تامل لکھے چلے جاتے ہیں اور قرآن شریف کے معانی کے رموز جو کچھ ہم لوگوں کو معلوم ہیں وہ عموماً صوفیاء کی کتابوں ہی سے ہیں.خصوصاً فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی سے.مگر قرآن شریف کے وہ اسرار اور معانی جو ہم نے حضرت مرزا صاحب سے سنے ہیں نہ پہلے کسی کتاب میں دیکھے ہیں اور نہ سوائے حضرت مرزا صاحب کے کسی اور شخص سے سنے ہیں.دوم یہ کہ ہم نے حضرت مرزا صاحب کو رات دن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف و مشغول دیکھا ہے.حمل سوم یہ کہ دین اسلام کی اشاعت میں ایسے کمر بستہ ہیں کہ بے خوف و ہر اس تمام ملکوں اور شہروں کے ملوک وسلاطین کو دعوت اسلام دی ہے.جیسا کہ ملکہ زمان بادشاہ لنڈن کو صلیب کی شوکت اور کفارہ اور تثلیث کے عقیدہ کو توڑنے کی غرض
46 سے دین اسلام کی دعوت دی ہے اور بادشاہ جرمن اور فرانس اور روس کو بھی دعوت دی ہے کہ اپنے جھوٹے عقیدوں کو چھوڑ کر اسلام قبول کریں.اور روم کے بادشاہ اور امیر عبدالرحمان کابل کے بادشاہ وغیرہ سب کو دعوت دی ہے کہ حمایت اسلام کریں اور کبھی ان کے دل میں کوئی خوف و ہراس نے راہ نہیں پائی.“ عالمگیر دعوت اسلام حدیث کدعہ اور چاند سورج گرہن کے آفاقی نشان کے ظہور پر اظہار مسرت مقبوس نمبر ۲۷.بوقت عشاء منگل کی رات ۲۹ ماہ شعبان ۱۳۱۴ھ حضرت خواجہ صاحب کی پابوسی و زیارت کا شرف حاصل ہوا جس سے بہتر کوئی خوش نصیبی اور عبادت نہیں ہے.اس نشست میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اور آپ کے منکرین کی مذمت اور ر دو قدح کا ذکر چلا.ایک دانشمند حاضر تھا.اس نے حضرت مرزا صاحب کی تعریف و ثناء بیان کی جس سے حضرت خواجہ صاحب ابـقـاه الله تعالیٰ ببقائه بہت مسرور ہوئے.اس کے بعد فرمایا کہ حضرت مرزا صاحب تمام اوقات خدائے عزوجل کی عبادت میں گزارتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں یا قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں یا دوسرے ایسے ہی دینی کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دین اسلام کی حمایت پر اس طرح کمر ہمت باندھی ہے کہ ملکہ زماں لنڈن کو بھی دین محمدی ( اسلام ) قبول کرنے کی دعوت دی ہے اور روس اور فرانس اور دیگر ملکوں کے بادشاہوں کو بھی اسلام کا پیغام بھیجا ہے.اور ان کی تمام تر سعی و کوشش اس بات میں ہے کہ وہ لوگ عقیدہ تثلیث وصلیب کو جو کہ سراسر کفر ہے چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اختیار کر لیں.اور اس وقت کے علماء کا حال دیکھو کہ دوسرے تمام
47 جھوٹے مذاہب کو چھوڑ کر ایسے نیک مرد کے درپے ہو گئے ہیں جو کہ اہل سنت و الجماعت میں سے ہے اور صراط مستقیم پر قائم ہے.اور ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے.اور یہ اس پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں.ان کے عربی کلام کو دیکھو جو انسانی طاقتوں سے بالا ہے اور ان کا تمام کلام معارف و حقائق اور ہدایت سے بھرا ہوا ہے.وہ اہل سنت والجماعت اور دین کی ضروریات سے ہرگز منکر نہیں ہیں.اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ مرزا صاحب نے اپنے مہدی ہونے پر بہت سی علامات کی ہیں ان میں سے دو علامات انہوں نے خود اپنی کتاب ضمیمہ انجام آتھم میں درج کی ہیں.وہ نہایت اعلیٰ اور بدرجہ غایت ان کے دعوئی مہدویت پر گواہ ہیں.ایک یہ ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم میں اللہ نے فرمایا کہ مہدی اس بستی میں ظاہر ہوں گے جس کو کدعہ کہتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ ان کی تصدیق کرے گا اور دور دور شہروں سے ان کے اصحاب جمع کرے گا جن کی تعداد اصحاب بدر کے برابر یعنی تین سو تیرہ ہوگی اور ان کے پاس کتاب ہوگی جس میں ان اصحاب کی تعداد اور ان کے نام اور ان کے شہروں کے نام اور ان کے اوصاف اس چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے.یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مہدی ایک ایسے گاؤں سے ظاہر ہوگا کہ لوگ اس کو کدعہ کہتے ہوں گے اور کدعہ اصل میں قادیان کا معرب ہے.دوسری علامت یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث دار قطنی میں حضرت امام محمد باقر سے مروی ہے کہ یقینا ہمارے مہدی کے لیے دو نشان ہیں جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے کسی مدعی کے لیے یہ دونشان ظاہر نہیں ہوئے.یعنی رمضان شریف
48 میں چاند کو اس کی پہلی رات گرہن لگے گا اور سورج کو اس کی درمیانی رات گرہن لگے گا.چونکہ ماہ اپریل ۱۸۹۴ء کو چھٹی تاریخ کو خسوف قمر اور کسوف شمس واقع ہو گیا ہے.پس حضرت مرزا صاحب نے اپنی طرف سے اتمام حجت کے لیے تمام دنیا کے اطراف واکناف میں ان معنوں کا اشتہار شائع کیا ہے کہ یہ پیشگوئی جو آنحضرت ما نے مہدی موعود کے ظاہر ہونے کے متعلق بیان فرمائی تھی اب پوری ہوگئی ہے.ہر ایک پر واجب ہے کہ میرے مہدی ہونے کو تسلیم کریں اور اقرار کریں.مگر اس زمانے کے مولویوں نے یہ طفلانہ سوال کیا ہے کہ حدیث شریف سے یہ معنی ظاہر ہوتے ہیں کہ رمضان شریف کی پہلی رات کو چاند گرہن ہو گا اور اپنی ماہ رمضان میں سورج کو بھی گرہن ہوگا.اور یہ چاند گرہن، رمضان کی تیرہویں تاریخ کو واقع ہوا ہے.اور سورج گرہن رمضان کی اٹھائیسویں تاریخ کو واقع ہوا ہے اور یہ بات حدیث شریف کے فرمان کے خلاف ہے.وہ کسوف و خسوف کوئی اور ہو گا جو کہ مہدی برحق کے زمانہ میں واقع ہوگا.اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب ابقاه الله تعالى ببقائه نے فرمایا سبحان اللہ ! سنئے ! حضرت مرزا صاحب نے مذکورہ حدیث کے کیا معنی کئے ہیں اور منکر مولویوں کو کیا جواب دیا ہے؟ حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ حدیث شریف سکے معنے یہ ہیں کہ ہمارے مہدی کی تائید و تصدیق کیلیئے دو نشان مقرر ہیں اس وقت سے کہ جب سے آسمان و زمین پیدا ہوئے.یہ دونوں نشان کسی مدعی کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے اور وہ دونشان یہ ہیں کہ مہدی موعود کے دعوئی کے وقت چاند گرہن پہلی رات کو ہوگا اور وہ چاند گرہن کی تین راتوں میں سے پہلی رات یعنی تیرھویں رات
49 ہے.اور سورج گرہن کے دنوں میں سے درمیانہ دن یعنی ماہ رمضان کی اٹھائیسویں تاریخ ہے.اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ بے شک حدیث شریف کے معنے اسی طرح سے ہیں جس طرح حضرت مرزا صاحب نے بیان فرمائے کیونکہ چاند گرہن ہمیشہ مہینہ کی ۱۳ یا ۱۴ یا ۱۵ تاریخ کو ہی واقع ہوتا ہے.اور سورج گرہن ہمیشہ مہینہ کی ۲۷ یا ۲۸ ی ۲۹ تاریخ کو ہی وقوع پذیر ہوتا ہے.پس چاند گرہن جو بتاریخ ۶ ماہ اپریل ۱۸۹۴ کو واقع ہوا ہے وہ ماہ رمضان المبارک کی تیرھویں تاریخ ہے جو کہ چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات ہے اور سورج گرہن کے دنوں میں سے درمیانے دن سورج گرہن ہوا ہے.(اور وہ ماہ رمضان کی ۲۸ تاریخ ہے ).بعد ازاں حضرت خواجہ صاحب نے تسبیح (مالا) مبارک چار پائی پر رکھ دی اور نماز عشاء با جماعت ادا فرمائی اور یہ عاجز (رکن الدین ) بھی نماز با جماعت میں شامل ہوا.(اشارات فریدی جلد سوم صفحه ۶۹ تا ۷۲ ) مہدی برحق کی بے ادبی پر انتباہ اور اس کے ظہور کی عارفانہ منادی (ترجمه) مقبوس نمبر ۵۶- بعد از نماز ظهر بروز منگل بتاریخ ۲۷ ماه رمضان المبارک ۱۳۱۴ھ ) حضرت خواجہ صاحب کی پابوسی اور زیارت کا شرف حاصل ہوا جس سے بہتر کوئی عبادت اور سعادت نہیں.اسی اثناء میں حافظ گوں سکنہ حدود گڑھی بختیار خان نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے متعلق نامناسب اور ناروا باتیں کہنا شروع
50 کیں.اس وقت حضرت خواجہ صاحب ابقاه الله تعالی ببقائہ کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ نے اس حافظ کو تنبیہ کی اور اسے ڈانٹا.اس حافظ نے عرض کی کہ قبلہ جبکہ مرزا صاحب میں حضرت عیسی بن مریم کے حالات وصفات اور مہدی موعود کے اوصاف نہیں پائے جاتے تو ہم کس طرح اعتبار کر لیں کہ وہ عیسی اور مہدی ہیں.حضور خواجہ صاحب ابقاه الله تعالى ببقائه نے فرمایا کہ مہدی کے اوصاف پوشیدہ اور چھپے ہوئے ہیں وہ اوصاف ایسے نہیں جیسے لوگوں کے دلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں.کیا تعجب ہے کہ یہی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مہدی ہوں.جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ بارہ (۱۲) دجال ہیں.پس اسی قدر مہدی ہیں.اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ عیسی اور مہدی ایک ہی شخص ہے.اس کے بعد فرمایا کہ یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ مہدی کی تمام علامات جو کہ لوگوں کے فہم کے مطابق بیٹھی ہوئی ہیں ظاہر ہو جائیں.بلکہ اے حافظ ! بات دوسری طرح ہے.اگر اسی طرح ہوتا جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں تو تمام دنیا مہدی برحق کو جان لیتی اور اس پر ایمان لے آتی جیسا که پیغمبر ہیں کہ ہر نبی کی امت کئی گروہ ہو گئی.بعض پر اس پیغمبر کا حال ظاہر ہو گیا.وہ اس پر ایمان لاتے رہے.اور بعض پر اس پیغمبر کا حال ظاہر ہی نہیں ہوا.اس وجہ سے اس گروہ نے انکار کر دیا اور کافر ہو گیا.اگر ہر نبی کی امت پر اپنے وقت کے نبی کا حال منکشف ہو جاتا تو تمام مسلمان ہو جاتے جیسا کہ آنحضرتے ہیں کہ آنحضرت مو کے اوصاف و علامات کتب سماویہ میں لکھے ہوئے تھے اور جب آنحضرت ﷺ ظاہر ہوئے اور مبعوث ہو گئے تو انہوں نے بعض علامات کو اپنی سمجھ اور فہم اور خیال کے مطابق نہ پایا.پس جن لوگوں پر آنحضرت ﷺ کا معاملہ ظاہر ہو گیا تو وہ ایمان لے
51 آئے اور جس گروہ پر آپ کا حال نہ کھلا انہوں نے انکار کر دیا.اسی طرح مہدی کا حال ہے.پس اگر مرزا صاحب مہدی ہوں تو کونسی بات مانع ہے.“ (صفحه ۱۲۳ تا ۱۲۴) فتویٰ کفر پر دستخط کرنے سے قطعی انکار ترجمہ: مقبوس نمبر ۸۳.بوقت ظهر (بروز جمعتہ المبارک ۴ ذوالج ۱۳۱۴ھ) حضرت خواجہ صاحب کی پابوسی اور زیارت کا شرف حاصل ہوا جس سے بہتر کوئی عبادت اور سعادت نہیں ہے..اس کے بعد مولوی غلام دستگیر قصوری جو کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ کمال مخالفت رکھتا تھا اور اس کے پاس حضرت مرزا صاحب کے خلاف کفر کے فتوے لکھے ہوئے تھے حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں آیا اور آداب بجالا کر بیٹھ گیا.اور چند کتب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تصنیفات میں سے جو کہ اپنی بغل میں دبائے ہوئے تھا حضرت خواجہ صاحب کے سامنے رکھ دیں.اور ہر ایک کتاب میں سے وہ مقامات جن پر اس نے نشان لگائے ہوئے تھے ایک ایک کر کے حضرت خواجہ صاحب ابقاه الله تعالى ببقائه ونفعنا واياكم بلقائه کے سامنے پڑھتا.اور کہتا دیکھئے ! اس جگہ حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کی ہے.اور اس جگہ دیگر انبیاء علیہ السلام کی توہین کی ہے اور حقیقت حال یوں ہے کہ مرزا صاحب نے عیسائیوں اور یہودیوں کی تردید کے پیش نظر انجیل اور تورات ( جن میں تحریف ہو چکی ہے ) سے اس قسم کی مذموم باتیں جو ان کتابوں میں پائی جاتی ہیں اپنی کتابوں میں نقل کی تھیں.لیکن مولوی غلام دستگیر کو اس حقیقت سے آگا ہی نہ تھی.
52 اس وجہ سے اس نے حضرت خواجہ صاحب کے سامنے حضرت مرزا صاحب کی مذمت کی.حضرت خواجہ صاحب ابقاه الله تعالیٰ ببقائه نے اس کی تمام تقریر کو سنا اور اس کو کوئی جواب نہ دیا.اس کے بعد جناب مولوی غلام احمد صاحب اختر نے عرض کی قبلہ ! جو کچھ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے لکھا ہے وہ عیسائیوں کو کہتے ہیں کہ جو کچھ تمہاری انجیل اور تورات ( جو حرف ہیں ) میں لکھا ہوا ہے کہ یسوع اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے اور یہ کہ تم تثلیث اور کفارہ کا عقیدہ رکھتے ہو اور دیگر بُری باتیں اور تو ہین جو کہ یسوع اور دیگر انبیاء علیہ السلام کے متعلق انجیل اور تورات سے ظاہر ہوتی ہیں یہ سب باتیں سراسر بہتان ہیں اور ایسے ہی یسوع بھی ایک فرضی شخصیت ہے اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہ جن کی نبوت اور اوصاف اور معجزات کے متعلق قرآن شریف خبر دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا نبی ہے.اور وہ ہماری آنکھوں کا نور ہے.پس بہتر ہے کہ اس یسوع کا مذہب جسے تم نے اپنے دل میں بٹھایا ہوا ہے اس کو چھوڑ دو اور ترک کر دو.اور حضرت محمد مصطفی میے کے حق میں گالی گلوچ اور فحش باتیں نہ کہو اور آنحضرت صلعم کے پیش فرمودہ دین اسلام کو قبول کر لو ورنہ میں تمہارے اس فرضی یسوع کی اس سے زیادہ خبر لوں گا.(تمہاری کتابوں سے ) حضرت خواجہ ابقاه الله تعالى ببقائه نے فرمایا: ہاں ٹھیک حقیقت اسی طرح ہے.بعد ازاں مولوی غلام دستگیر مذکور نے عرض کیا کہ وہ خط جو حضور نے مرزا صاحب قادیانی کو لکھا ہے.مرزا صاحب نے حضور کے اس خط کو اپنی کتاب ہے.انجام آتھم کے ضمیمہ میں درج کر کے شائع کر دیا ہے اور اخبارات میں چھپوا کر دنیا
53 کے چاروں طرف شائع کر دیا ہے اور حضور کے اس خط کو مرزا صاحب نے اپنی سچائی کی مضبوط سند قرار دی ہے اور تمام روئے زمین کے علماء وصلحاء پر نمایاں طور پر حجت قرار دی ہے اور وہ (حضرت اقدس مرزا صاحب ) کہتے ہیں کہ دیکھئے ! اس طرح شیخ اکبر واعظم جو جہاں میں مقتداء ہیں میرے موقف کی صحت کے معترف ہیں.اور مجھے کو اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں میں سے جانتے ہیں.پس حضور کو چاہیے کہ اس سے سروکار نہ رکھیں اور دنیا کے علماء کی حمایت فرما ئیں اور وہ اس طرح کہ حضور بھی ان فتووں پر جو ہم نے ان (مرزا صاحب) کے انکار اور رڈ میں لکھے ہیں حضور بھی ان کے کفر کا فتویٰ خود لکھ دیں.مگر حضرت خواجہ صاحب ابقاه الله تعالى ببقائه نے اس فتویٰ پر ہرگز اپنے دستخط نہ کئے.اس وقت حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی حق پر ہیں اور اپنے معاملہ میں راستباز و صادق ہیں اور آٹھوں پہر اللہ تعالیٰ حق سبحانہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور اسلام کی ترقی اور دینی امور کی سر بلندی کے لیے دل و جان سے کوشاں ہیں.میں ان میں کوئی مذموم اور قبیح چیز نہیں دیکھتا.اگر انہوں نے مہدی اور عیسی ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ بھی ایک ایسی بات ہے جو جائز ہے.(اشارات فریدی جلد ۳ صفحه ۷ ۱۷ تا ۱۷۹) عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی کے مطابق ہلاکت کا اعتراف حق ( ترجمہ ) مقبوس نمبرے.بوقت مغرب.سوموار کی رات.۱۸ ماه جمادی الاول ۱۳۱۴ھ بعد ازاں ایک شخص نے باوا گرونا تک رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر کیا.اس کے بعد کچھ ذکر حضرت مرزا غلام احمد قادیائی اور پادری عبد اللہ آتھم (جو کہ حضرت اقدس کا سخت مخالف تھا) کا چل پڑا.اور خواجہ صاحب ابقاه الله تعالى
54 ببقائہ نے فرمایا کہ اگر چہعبد اللہ اکتم حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی پیشگوئی (جو انہوں نے عبداللہ انھم کی موت کے متعلق کی تھی ) کی مقررہ مدت کے انداز اور حد سے باہر چلا گیا یعنی پیشگوئی کی معیاد کے بعد فوت ہوا مگر مرزا صاحب کے سانس ( یعنی بددعا) سے مرا.اسی اثناء میں حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے عرض کی کہ کیا یہ عبداللہ آتھم جو مرزا صاحب قادیانی کی بددعا سے مرا ہے یہ وہی شخص ہے جس کا سر ہر سال انگریزوں کے پاس بیچا جاتا تھا یا کوئی اور؟ تو حضرت خواجہ صاحب ابـقـاه الــلــه تعالیٰ ببقائہ نے فرمایا کہ یہ وہ نہیں ہے، وہ سید احمد نیچری ہے وہ مسلمان ہے اور یہ عبداللہ انتم عیسائی ہے.اشارات فریدی جلد ۳ صفحه ۱۵،۱۴) اس کے بعد خواجہ صاحب نے فرمایا کہ مرزا صاحب نے عبداللہ آتھم پادری کی موت کے متعلق پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک سال کے عرصہ کے اندر مر جائے گا.لیکن واقعہ اس کے خلاف وقوع میں آیا.یعنی پادری آتھم اس موعود سال کے گزر جانے پر دوسرے سال مرا.اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ جب یہ بات مولوی نوالدین صاحب ( جو کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے مرید ہیں ) کے سامنے بیان ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگوں کا اعتقاد حضرت مرزا صاحب کے حق میں اس قسم کا نہیں ہے کہ آتھم پادری کے موعود سال کے اندر نہ مرنے سے متزلزل ہو کر ختم ہو جائے.کیونکہ اس قسم کے واقعات اللہ تعالیٰ کی بعض مصلحتوں کے ماتحت سابقہ انبیاء کرام کے وقت میں بھی پیش آتے رہے ہیں.چنانچہ واقعہ حدیبیہ سے قبل حضرت محمد مصطفی ، احمد مجتبی رسول خدا ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا تھا کہ ہم اس سال صلى الله ع
55 بیت اللہ شریف کا طواف کریں گے حالانکہ ان تینوں باتوں میں سے کوئی بات بھی وقوع میں نہ آئی اور حضور علیہ السلام کفار کے ساتھ صلح کر کے مقام حدیبیہ سے واپس تشریف لے آئے.اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب ابقاه الله تعالى ببقائه نے فرمایا کہ یہ مولوی نورالدین وہ بلا ہے جسے ہندوستان میں علامہ کہتے ہیں.اشارات فریدی جلد ۳ صفحه ۴۳ ۴۴) نوٹ : مندرجہ بالا حوالوں کا ترجمہ مولانا عبدالمنان صاحب شاہد مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ مرحوم کی مشہور کتاب ”شہادات فریدی‘ مطبوعہ نومبر ۱۹۶۱ء سے لیا گیا ہے.فجزاه الله و جعل مثواه في الجنة) حضرت خواجہ صاحب کے ملفوظات پانچ جلدوں میں شائع ہوئے تھے جو نایاب ہو چکے تھے.ان کے ایک عقیدت مند مولانا الحاج کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری نے بڑی تگ و دو اور تلاش کے بعد حاصل کئے اور ان کا نہایت عمدہ ، رواں اور سلیس اردو ترجمہ کیا.یہ ترجمہ ”بزم اتحاد السلمین لاہور پاکستان (طارق روڈ لاہور ) نے رجب ۱۴۱۱ھ میں دیدہ زیب شکل میں شائع کیا مگر افسوس صد افسوس فاضل مترجم نے حضرت خواجہ صاحب کے حضرت مسیح موعود کے نام جملہ مکاتیب اور مذکورہ بالا ایمان افروز ارشادات ترجمہ سے یکسر خارج کر دیئے.یہ سلوک ایک مرید کی طرف سے اپنے مرشد حق کی کتاب کے ساتھ کیا گیا ہے جس کی نسبت اسے خود مسلم ہے کہ : 33 یہ کتاب حضرت خواجہ صاحب کی زندگی کے آخری نو دس سال کی کاوش اور عرق ریزی کا نتیجہ ہے.اور مریدین کی ظاہری و باطنی تعلیم و تربیت کے متعلق بیش
56 بہا جواہرات سے لبریز ہے.اس کتاب میں ایسی جامعیت ہے کہ جہاں اس سے عامۃ الناس مستفیض ہو سکتے ہیں طالبان راہ حق کے تمام طبقات یعنی مبتدی متوسط اور منتہی سب کے لیے ان کے حسب استعداد اسباق و نکات موجود ہیں“.مقابیس المجالس جس کو آئندہ ہم سہولت کی خاطر اشارات فریدی سے موسوم کریں گے کی پہلی تین جلدوں کی طباعت آپ کے خلیفہ جانشین قطب الموحدین حضرت خواجہ محمد بخش قدس سرہ کے زیر سر پرستی نواب محمد عبد العلیم خان والی ریاست ٹونک نے جو حضرت اقدس کے راسخ العقیدہ مرید تھے سال ۱۳۲۱ھ یعنی آپ کے وصال کے دو سال بعد مطبع مفید عام آگرہ میں کرائی.“ مقابیس المجالس صفحہ ۸۸-۸۹) قرآن مجید نے یہودی اخبار کو تحریف کا مجرم قرار دے کر جس درجہ زجر و تو ریخ فرمائی ہے اس کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: اگر تم اس امت میں یہود کا نمونہ دیکھنا چا ہو تو ان علماء سوء کو دیکھ لو“ ( ترجمہ: الفوز الکبیر صفحہ ۷ ا ناشر ادارہ اسلامیات لاہور فروری ۱۹۸۲ء) اہل حدیث عالم مولوی ثناء اللہ صاحب نے اخبار اہلحدیث ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ میں یہ برملا اعتراف کیا کہ قرآن میں یہودیوں کی مذمت کی گئی ہے کہ کچھ حصہ کتاب کا مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے.افسوس کہ آجکل ہم اہلحد بیٹوں میں بالخصوص یہ عیب پایا جاتا ہے.(بحوالہ زجاجہ صفحہ ۱۹۷ مؤلفہ سید طفیل محمد شاہ صاحب مطبع آرٹ پریس.۱۵.انار کلی لاہور )
57 ہمیں کچھ کیں نہیں بھا ئیو نصیحت ہے غریبا نہ کوئی جو پاک دل ہو وے دل و جان اس پہ قربان ہے شمائل ترمذی حضرت امام ابوعیسی ترندی (المتوفی ۸۹۲۵۲۷۹ء ) کا شمار محد ثین عظام میں ہوتا ہے.حضرت امام آنحضرت ﷺ کے حلیہ مبارک ، لباس عادات و شمائل اور اخلاق و معمولات کے متعلق جتنی روایات پہنچیں ان کو ایک کتاب ”شمائل ترمذی میں جمع کر دیا.علماء اور محدثین نے اس جامع کتاب کی بہت سی شرحیں اور حواشی لکھے ہیں.شمائل ترمذی میں آنحضرت ہی اللہ کے اسمائے مبارک کے بارے میں ایک حدیث درج ہے کہ انا العاقب “ کہ میں عاقب ہوں.اس حدیث کے ساتھ بطور تشریح یہ عبارت ہے العَاقِبُ الَّذِي لَيسَ بَعدَهِ نبی " اسی ترجمہ سے حسین مجتبائی دہلی اور امین کمپنی بازار دہلی میں چھپنے والے نسخوں کے بین السطور میں یہ تصریح موجود ہے کہ هَذَا قَولُ الزُّهْرِى ( یہ امام زہریؒ کا قول ہے ) پنجاب یونیورسٹی لائبریری لاہور میں شمائل ترمذی کا ایک قلمی نسخہ ہے جس پر ۸ ۱ ذی الحجہ ۱۳۰۲ ہجری کی تاریخ درج ہے اس مخطوطہ میں بھی اس مقام پر بین السطور لکھا ہے ” هذا قول الزهرى شیخ ابن حجر ، یعنی شیخ ابن حجر کے نزدیک یہ امام زہری کا قول ہے." علاوہ ازیں مشکوۃ کے شارح حضرت ملاعلی القاری المتوفی ۱۰۱۴ ۱۶۰۷۵ء نے بھی فرمایا ہے کہ :.
58 الظَّاهِرُ أَنَّ هَذَا تَفسِير" لِلصَّحَابِي أَو مَن بَعدَهُ وفِي شَرح مُسلِمٍ قَالَ ابْنُ الْاعَرَبِّي العَاقِبُ الَّذِي يَحْلُفُ فِي الخَيرِ مَن كَانَ قَبلَه “ (مرقاه شرح مشکوۃ جلد ۵ ( صفحه ۲۷۶ مطبوعہ مصر ۱۳۰۹ھ ) یعنی صاف ظاہر ہے کہ الـعـاقــب الـذي ليس بعده ، کسی صحابی یا بعد میں آنے والے شخص کی تشریح ہے.مسلم کی شرح میں ہے کہ ابن اعرابی نے کہا ہے کہ عاقب وہ ہوتا ہے جو کسی اچھی بات میں اپنے سے پہلے کا قائمقام ہو.نبی قارئین حیران ہوں گے کہ اس واضح حقیقت کے باوجود قرآن محل مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی سے ۱۳۸۰ ھ ۱۹۶۱ ء میں ایک شمائل ترمذی شائع کی گئی جس میں سے ” هذا قول الزهری “ کے بین السطور الفاظ بالکل حذف کر دیئے گئے ہیں تا کہ یہ مغالطہ بآسانی دیا جاسکے کہ عاقب کی یہ تشریح آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہے اور فی الحقیقت یہ حدیث نبوی ہے یہی نہیں اس مغالطہ انگریزی کو انتہاء تک پہنچانے کے لیے حاشیہ میں بھی لکھ دیا گیا ہے کہ ولی بعدی نبی اور میرے بعد کوئی نبی نہیں.صحیح مسلم شریف حضرت امام مسلم بن حجاج (ولادت ۲۲۵۲۰۶ - ۸۲۱ء وفات ۲۶۱ھ ۸۷۵ ء ) علم حدیث کے مسلمہ امام کبیر ہیں.جن کی شہرہ آفاق صحیح مسلم کو یہ شرف حاصل ہے کہ ہمیشہ اصح الکتاب بعد کتاب اللہ بخاری شریف کے ساتھ ساتھ اس کا نام بھی لیا جاتا له ابن اعرابی وفات ۶۸۴۶۵۲۳۱
59 ہے.صحیح مسلم کی شہرت اور مقبولیت کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ اس کی بہت سے شروح آج تک لکھی گئی ہیں.مسلم کے شارحین میں حضرت امام جلال الدین سیوطی اور حضرت قاضی ایاز جیسے اکابر امت اور ائمہ فن کے علاوہ شافعی مالکی.حنفی غرض کہ ہر مکتب فکر کے بزرگ شامل ہیں.حضرت امام مسلم نے کتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدى مكة و مدينة میں مندرجہ ذیل حدیث بروایت حضرت ابو ہریرہ درج فرمائی ہے.قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فَإِنِّي اخِرُ الأنبياءِ وَ إِنَّ مَسجِدِى أَخِرُ المَسَاجِدِ یعنی میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے.یہ حدیث جماعت احمدیہ کے نظریہ ختم نبوت کی زبر دست موئید ہے جس سے آنحضرت ﷺ کے آخری نبی ہونے کی تفسیر خود حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی جاتی ہے نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی ہے.یہ حدیث بھی صحیح مسلم کتاب الحج سے نکال دی گئی ہے.یہ حذف شدہ نسخہ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور نے نومبر ۱۹۵۶ء میں شائع کیا ہے اور اس کا ترجمہ سید رئیس احمد صاحب جعفری نے کیا ہے.صحیح مسلم میں دوسرا تغیر و تبدل یہ کیا گیا ہے کہ کتاب الایمان میں حضرت ابو ہریرہ کی مندرجہ ذیل دو حدیثیں جو تمام پہلے مصری اور ہندوستانی نسخوں میں موجود تھیں صرف اس لیے حذف کر دی گئیں کہ ان سے جماعت احمدیہ کا یہ مسلک بالکل صحیح ثابت ہوتا تھا کہ آنیوالا مسیح ابن مریم امت محمدیہ کا ہی ایک فرد ہوگا.وہ دونوں حدیثیں یہ ہیں :.
60 66 ()....أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كيف أنتُم إِذَا ابْنُ مَريَمَ فيكم و امّكُم “ عن أَبِي هُرَيرَة انّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ 66 (†)”" عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَيفَ أَنتُم إِذَا نَزَلَ فِيكُم ابْنُ مَرْيَمَ فَأَمَّكُم منكُم (ملاحظہ ہو صحیح مسلم مصری ایڈیشن کتاب الایمان القسم الاول من الجزء الاول صفحه ۶۳ مطبوعه ۱۳۴۸ ۱۹۳۹ء) ستم کی انتہا یہ ہے کہ کتاب الایمان میں سے وہ پورا باب ہی کاٹ کر الگ کر دیا گیا ہے جس میں حضرت امام مسلم نے یہ حدیث درج فرمائی تھی اور جس کا عنوان یہ ہے.باب نزول عيسى بن مريم حاكما بشريعة نبینا محمد صلى الله وعليه وسلم اس طرح صرف اس ایک باب کے حذف کے نتیجہ میں چھ حدیثیں اور متعدد آثار و اقوال صحیح مسلم کی کتاب الایمان سے نکالے جاچکے ہیں.مسلم شریف میں حضرت نواس بن سمعان سے مروی اور مشہور عالم حدیث درج ہے جس میں آنحضرت خاتم الانبیاء ﷺ نے مسیح محمد ﷺ کو چار مرتبہ نبی اللہ کے پیارے خطاب سے یاد کرتے ہوئے فرمایا:.رغب نبي الله عیسی علیہ السلام واصحابه" (کتاب الفتن) عشاق رسول عربی (ﷺ) کے لیے یہ اطلاع قیامت صغریٰ سے کم نہیں کہ دیوبندی مکتب فکر کے جید عالم اور مذہبی راہنما حضرت علامہ مولانا سید شمس الحق صاحب“
61 نے اپنی تالیف علوم القرآن فارسی “ کے صفحہ ۳۱۵ پر حضرت خاتم النبین فداه امی والی) کے مبارک فقرہ سے نبی کا لفظ نہایت بے دردی کے ساتھ اڑا دیا ہے اور (معاذ اللہ ) حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف منسوب فقرہ کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اللہ یعنی عیسی ابن مریم متوجہ ہوں گے.توحید کے پلیٹ فارم پر تثلیث کی منادی کرنے کی ایسی جگر سوز اور روح مسلم کو تڑپا دینے والی مثال شائد ہی کہیں مل سکے.انما اشكوا بني وحزني الى الله اسباب النزول سرزمین نمیشار پور کے عظیم مفسر قرآن حضرت الشیخ لا امام ابی الحسن علی الواحدی ( المتوفى جمادی الثانی ۴۶۸ ھ بمطابق جنوری ۱۰۷۶ء) شافعی مسلک کے مشاہیر میں سے تھے جنہوں نے دنیائے تفسیر ،نحو، بلغت اور شعر وشن اور تاریخ میں یاد گارلٹر پھر چھوڑا ہے آپ کی معرکہ آرا تفسیر السیط ۱۶ جلدوں پر مشتمل.علاوہ ازیں المغازی ، شرح دیوان امتبنی ، الاغراب في الاعراب ، نفى التحريف عن القرآن الشریف اور مشہور عالم کتاب اسباب النزول“ آپ کے تجر علمی اور قرآنی وادبی ذوق و شوق کی آئینہ دار ہیں.اسباب النزول“ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ مصر اور بیروت سے اس کے متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں.اکیسویں صدی عیسوی کے پہلے سال بیروت کے اشاعتی ادارہ دار انجئیل نے عرب سکالر السید محمد عقیل کی تحقیق ، شرح اور فہرست کے ساتھ اس تفسیر کا نہایت دل آویز اور نیا جاذب و پُر کشش ایڈیشن شائع کیا ہے.جو ۴۰۸ صفحات پر محیط ہے.اور کوثر قرآن کے تشنہ لبوں کے لئے لاثانی تحفہ ہے.
62 " راقم الحروف کو ۲۶ دسمبر ۱۹۷۸ ء کو جلسہ سالانہ ربوہ کے مقدس سیج پر وفات مسیح اور احیائے اسلام“ کے موضوع پر تقریر کی سعادت عطا ہوئی.عاجز نے دوران تقریر اسباب النزول مصری کے حوالہ سے اُس تاریخی واقعہ نجران کا بھی ذکر کیا جو خاتم المومینین ، خاتم العارفین ، خاتم النبین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آستانہ عالیہ میں حاضر ہوا.شہنشاہِ دو عالم نے عیسائی دنیا کی ان معزز و محترم شخصیات کو مسجد نبوی میں قیام وصلوٰۃ کا شرف بخشا اور دوران ملاقات الوہیت مسیح کے نظریہ پر بھی فیصلہ کن گفتگو فرمائی.اور ڈنکے کی چوٹ پر اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح وفات پاچکے ہیں.چنانچہ خاکسار نے بتایا :- مکہ معظمہ سے یمن کی طرف سات منزل پر نجران کی عیسائی ریاست تھی جہاں ایک عظیم الشان گرجا تھا جس کو وہ کعبید نجران کہتے تھے اور حرم کعبہ کا جواب سمجھتے تھے.یہ کعبہ تین سوکھالوں سے گنبد کی شکل میں بنایا گیا تھا ، عرب میں عیسائیوں کا کوئی مذہبی مرکز اس کا ہمسر نہ تھا ، اس ریاست کا انتظام تین شعبوں پر منقسم تھا، خارجی اور جنگی امور کے ناظم کو سید“ کہتے تھے.دنیاوی اور داخلی امور عاقب “ کے سپر دہوتے اور دینی امور کا ذمہ دار أسقف ( لارڈ بشپ ) کہلاتا تھا.ان مذہبی پیشواؤں کا تقرر خود قیصر روم کیا کرتا تھا.( معجم البلدان جلد ۸ صفحه ۲۶۳) آنحضرت ﷺ نے ان کے دوسرے بادشاہوں کے ساتھ تبلیغی خط لکھا جس پر کہ ہجری میں نجران کا ایک پر شکوہ وفد مدینہ حاضر ہوا.یہ وفد ساٹھ ارکان پر مشتمل تھا اور اس میں ریاست کے مینوں لیڈر بھی تھے.جن کے نام یہ ہیں عبدالمسیح (عاقب) شرجیل یا اہم (سید) اور ابو حارثہ بن علقمہ ( اسقف ) یہ وفد شاہی
63 تزک واحتشام کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا.آنحضور نے انہیں مسجد نبوی سے میں اتارا.تھوڑی دیر بعد ان کی نماز کا وقت آیا تو پیغمبر امن ﷺ کی اجازت سے ان لوگوں نے مسجد نبوی میں ہی اپنی مخصوص عبادت کی جس کے بعد آنحضور ﷺ نے اس وفد کو جو گو یا عیسائی دنیا کا ایک نمائندہ وفد تھا اسلام کی طرف بلایا اور انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم تو پہلے ہی مسلمان ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم مسیح کو خدا کا بیٹا مانتے ، صلیب پوجتے اور خنزیر کھاتے ہو.یہی وجہ ہے کہ تمہیں اسلام لانے میں تامل ہے، کہنے لگے اگر یسوع مسیح خدا کا بیٹا نہیں تو اس کا باپ کون ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” الستُم تَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَا إِلَا يَكُونُ وَلَدٌ أَلَّا وَيُشبِهُ آبَاهُ " کیا تمہیں علم نہیں کہ ہر بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے انہوں نے عرض کیا.یقیناً.اس پر حضور ﷺ نے پورے جلال کیساتھ فرمایا: الَستُم تَعْلَمُونَ أَنَّ رَبَّنَا حَى لَّا يَمُوتُ وَإِنَّ عِيسَى أَتَى عَلَيْهِ الفَنَاءُ“ اسباب النزول صفحه ۵۳ از حضرت ابوالحسن علی بن احمد الواحدی النیسابوری متوفی ۴۶۸ طبع دوم مصری ۱۹۶۸ء) یعنی کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرتا اگر حضرت عیسی وفات پاچکے ہیں.یہ تقریر کراچی کی مخلص، ایثار پیشہ اور پر جوش داعی الی اللہ جماعت نے مارچ 1929ء میں
64 شائع کی جس کے ٹھیک چھ سال بعد (۱۴۰۵ھ بمطابق ۱۹۸۵ء ) بیروت کے دار الکتاب العربی نے اس کا جدید ایڈیشن شائع کیا جس میں آنحضرت کے زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ مقدس و مبارک الفاظ (جس کے مقابل فیج اعوج کے زمانہ سے لیکر آج تک کے دہشت گرد ملاؤس کی حیات مسیح سے متعلق تمام کتابوں کی ذرہ برابر بھی حیثیت نہیں) نہایت بے شرمی ، ڈھٹائی اور گستاخانہ طور پر یکسر خارج ”اسباب النزول“ کر دیئے گئے.دوستو اک نظر خدا کے لئے سید الخلق مصطفی کے لئے تفسیر مجمع البیان مسلمانوں لئے فرقہ اثناعشریہ کے قدیم مفسر الشیخ فضل بن السن فضل البطری المشہدی (متوفی ۲۸ ۵ ۱۱۵۳ء ) میں تفسیر مجمع البیان میں صورت المائدہ کی آیت "فلما تو فظنی “ کی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے:.قال الجبائى و فى هذه الأية دلاته على انه امات عيسى وتوفاه ثم رفعه اليه لا نه بين انه كان شهيداً عليهم مادام فيهم فلما توفاه الله كان هو الشهيد عليهم لان التوفي لا يستفاد من اطلاقها الا الموت ( تفسیر مجمع البیان مطبوعه ایران ۱۸۶۸ء) یعنی جہائی لے کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ محمد بن عبد الوہاب الجبائی البصری المتزلی متوفی ۹۱۵۵۳۰۲ء
65 نے عیسی کو موت دے کر ان کی روح قبض کر لی پھر ان کا اپنی طرف رفع کیا کیونکہ حضرت عیسی نے خدا کے سامنے یہ بیان دیا کہ وہ اپنی قوم پر اس وقت تک گواہ تھے پھر جب اللہ نے ان کی روح قبض کرلی تو اس کے بعد وہ خود ہی ان پر گواہ تھا کیونکہ مطلق توفی کے لفظ سے صرف موت ہی مراد ہوتی ہے.تفسیر مجمع البیان کا یہ مقام بھی بدل دیا گیا ہے چنانچہ مکتبہ الحیات بیروت ۱۳۸۰ ھ ۱۹۱۱ء میں شائع ہر نے والے جدید ایڈیشن میں الموت “ سے قبل لکھا ہوا ا لا “ کا لفظ حذف کر دیا گیا ہے اور لان التَّوَفِّي کے الفاظ سے قبل حاشیہ کتاب و هذا ضعیف“ کے الفاظ متن میں داخل کر دیئے گئے ہیں!.حذف و الحاق کی چیرہ دستیوں سے سارا مضمون ہی بدل گیا ہے کیونکہ اس صورت میں عبارت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ علامہ جہائی کا یہ قول ضعیف ہے وجہ یہ کہ مطلق ” توقفی موت کا فائد ہی نہیں دیتی حالانکہ یہ شیخ حسن طبری المشہدی کے منشاء اور محاورہ عرب دونوں کے بالکل برعکس ہے.تفسیر الصافی گیارہویں صدی ہجری کے علاوہ امامیہ میں حضرت العارف الحق محمد بن المرتضی ملا احسن الفیض الکاشافی رحمۃ اللہ علیہ کا مقام نہایت بلند ہے.کتاب "الصافی فی تفسیر القرآن آپ ہی کی معرکہ آراء تالیف ہے اس کتاب میں علامہ موصوف (طاب شراہ) نے آیت خاتم النبین کی تفسیر میں یہ فیصلہ کن حدیث درج فرمائی ہے.تفسیر مجمع البیان مطبوعہ بیروت ۱۳۸۰ ھ جلدے صفحہ ۲۴۷ ( کتاب کا پہلا ایڈیشن خلافت لائبریری ربوہ میں اور نیا ایڈیشن پنجاب یونیورسٹی لاہور لائبریری میں موجود ہے
66 انا خاتم الانبياء و انت يا على خاتم الاولياء یعنی میں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علی تم خاتم الاولیاء ہو.یہ عبارت ۱۸۶۲ سے قبل کے ایرانی ایڈیشن میں موجود ہے مگر ۱۳۳۴ھ اور ۱۳۹۳ھ میں جو نئے ایڈیشن تہران سے شائع کئے گئے ہیں ان میں خاتم الاولیاء کی بجائے متن میں خاتم الاوصیاء لکھ دیا گیا ہے.جو فرمان رسالت کی کھلی بے ادبی اور گستاخی ہے.ترجمہ خاتم النبین حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی حضرت شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کی بلند شخصیت محتاج تعارف نہیں المتوفی ۳۴۵۱۲۴۹ ۱۸۳۳ء ) آپ حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اکے دوسرے بیٹے اور یگانہ روزگار اور جلیل القدر عالم اور کئی کتابوں کے مصنف تھے آپ کا عظیم ترین کارنامہ قرآن عظیم کا تحت اللفظ ترجمہ ہے جس کو برصغیر پاک و ہند کے تمام تحت اللفظ ترجمہ میں اولیت زمانی کا فخر حاصل ہے.افسوس ! یہ تاریخی ترجمہ بھی علماء کی تبدیلی کا نشانہ بننے سے محفوظ نہیں مثلاً اسوقت ہمارے سامنے شیخ غلام علی تاجر کتب کشمیری بازار لاہور کا شائع کردہ ایک ایڈیشن موجود ہے جس پر دس مارچ ۱۹۲۴ء کی تاریخ اشاعت درج ہے.اس ایڈیشن کے صفحہ ۵۵۵ پر آیت خاتم النبین کا ترجمہ درج ذیل الفاظ میں لکھا ہے.نہیں ہے محمد باپ کسی کا مردوں تمہارے میں سے ولیکن پیغمبر خدا کا ہے اور مہر تمام نبیوں پر اور ہے اللہ ہر چیز کو جاننے والا لی المتوفی ۱۷۶۲۵۱۱۷۶ء
67 حضرت شاہ رفیع الدین کا اصلی اور قدیم ترجمہ حاجی ملک دین محمد اینڈ سنز تاجران کتب و پبلشرز بازار بل روڈ لاہور نے ۱۳۵۲ھ ۱۹۳۳ ء میں شائع کیا جس میں مُہر تمام نبیوں پر کے الفاظ بدل دیئے گئے ہیں اور ان کی بجائے یہ لکھ دیا کہ ختم کرنے والا ہے تمام نبیوں کا “ ظاہر ہے کہ مہر تصدیق اردو کا ایک قدیم اور مستند محاورہ ہے.عدالتی دستاویزات کی مہر عدالت سے بند ہوا نہیں بلکہ جاری ہوا کے الفاظ ثبت کئے جاتے ہیں مشہور دیو بندی عالم جناب شبیر احمد عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ”الشھاب میں اپنا مؤقف یہ تحریر فرمایا ہے کہ احمدی مرتد ہیں اور ارتداد کی شرعی سزا قتل ہے.بایں ہمہ انہوں نے اپنے ترجمہ قرآن میں ” خاتم کا ترجمہ مہر ہی کے کئے ہیں اور حاشیہ میں اس کی تفسیر میں فرمایا ہے.دو جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمد صلعم پر ختم ہوتا ہے.بدیں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانہ ہر حیثیت سے خاتم النبین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے.“ ( ترجمه صفحه ۵۵۰ ناشر نور محمد کارخانه تجارت کتب آرام باغ کراچی) خلاصہ کلام یہ کہ بزرگان سلف کے قدیم لڑیچر میں ترمیم ، حذف اور اضافہ کی کوششیں ، مواعظ و خطبات سیرت و سوانح ، تصوف عقائد علم التعبیر اور کلام وحدیث کی کتابوں ہی میں نہیں کی گئی بلکہ قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیر کو بھی ان کا نشانہ بنایا جا چکا ہے.
68 اور اگر خدائے ذو العرش کا وعد و حفاظت نہ ہوتا تو قرآن مجید کا محرف و مبدل ہونا بھی ممکن تھا مگر کسی ماں نے ایسا بیٹا نہیں جنا جو خاتم الانبیاءمحمد مصطفی منانے کی لائی ہوئی کتاب کا ایک حرف بلکہ ایک نقطہ یا ضعفہ تک کو بدل سکے.آسمانی صحیفوں میں یہ واحد کتاب جو صرف کاغذ کے اوراق میں ہی نہیں لاکھوں کروڑوں حفاظ کے سینے میں بھی محفوظ رہی ہے اور قیامت تک رہے گی.نہ ہوا سلام کیوں ممتاز دنیا بھر کے دینوں میں وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں بعض صل اور محرف شدہ نسخوں کے عکس اگلے صفحات میں ملاحظہ فرمائیں
الية الألسنة التي إنَّهُ هُوالسميع البصيرة سوار جهانگیر یگران براق * که بگذشت از قصر نیلی رواق کلان عربی قادرتاج ملنے کا راح ارتوك فولکھا بانہار لاہور
بنان باران سال گذشته ھوئے کیتا یا د الهی اول اخر نور نبید اکلیدی پادشاهی سال بوجه عمر نبیدی هی اوس ھائے جہاں معراج ھو یا سرد نوٹ تھے عرش منار ماه رجب اها مهينه هو يا جدب فضل سي اكس بزرك روایت کیتی ماه ربیع الاول سی مکنار کھیا معراج نبینوں ھو یا ماه رمضان قادر قدمت هستوندا وے ٹریے کیت زمانے کناں کھیا معراج نبی نوں ھو یا ماه شوالے پھیر ربیع الاخر کیا اکس روایت والے سارے دانش کی کہ تھکے پہلا وقت بیتو نے اورک ماه رجب سمجھنا اقرار کیتو نے ناخ رجب دا اها همین چن تاریخ ستھیویں رات سوار کھیو بھی دے خانے ستانار غمیلی سردہ صفاارہ پر بتا دو دیں تجھے سی اوہ خام کے جھا مراتب اُسدا رتبہ وجہ جھاناں کا فر غالب ھوئے نبی تے تا گھر اوس گیا سی اوہ سر د تائیں چھن لگی دلوچه فکر پیاسی پھوپھی بھت پیاری ابی مخفی جاهات سوائی دے دلیری پاک نبی نوں پھر بھی جی تھرائی نا دل اندر کرتوں خطرہ کے پھوپھی فرندا جیکوئی اجہ تیریوں دے کوئی منافق بنده رول همان جبیناں والا میں اواز کراں گی جے اوہ پھیر منافق ھود نے پھر ہمیشہ رولر انگی باك محمد سرور تائیں پھوپھی دے دلیری توں مالک ملک خوانیانو الا قرب حضوروں تیری اپ محمد صرف نہ کیتا ستا نال نمی دے دھانان روح جنا بے خوابوں بت مکان میں ہے دکست کیستی منمت نبی نوں جوع ھوئے غم سار ا اندیشه امتوالا ایه دلیل گزارتے وب حکیم و نماند اها آپ الله حق تعالی خواهش چیندی کن فیکونوں بنیا عالم ما دوست خاص حبیب خدادا کیتا غم بیماری قدرت نالاحوال تھا ندا ڈٹھا رب ستاری وب چت دلتیا لیا خلقا ت تھیں جبرائیل بلایا پردہ خالق تین روالا کل خلقاں تے پایا اخور دھندے چھوڑ و حضرت جی شیلا اسرافیل تھمیں کرناؤں روزیوں میکائیلا جان قبض تھیں توں ستائیں حضرت عزرائیلا یار میرے دی آمد ھوئی کرو خوشی ا حیلا جھاڑ و کردا اسماناں اتے عرشوں گردا تا دو کرسی دے سرتاج پھناؤ ھور خیال د سارو حوض کو تر تھیں بھر بھر کا راجہ شراب لیاؤ نوری حملے اسماناں اوتے گل چھنکا ر کرا دو مشت معطر ظاهر چور سے تیز ھو دے وشنائی میں یار اپنے نوقی رت سان چندی خواهش مدنی حکم کرو اس چرخے تائیں پھر نوں نظیر کھلور سے ہاتھ نبید نے ایار تائیں ھور خیال ندھورے کھول دیکھو دروازے، اس نے بے نور ظہوں خوشی کرد شبقد بنی دی زیور پهن خوران ھوئی
تحرف شده نسخته سف قادریار صاحب چشکو شیخ برکت علی اینڈ مشنرز تاجران کتب کشمیری بازار لاھور نے ايمر فيرمى الدين
H چودہویں یقین کی دھروی پھر یا ہور زمانہ کھتے راج رزالیاں کو سکوں تخت ملے سُلطاناں شہر شرع وا ہو یا مرتب پاک محمد یارو بانگ بلند بلائے وتی کا شکر گذار و ابو بكریه با شهردی عمررضه چوکانده آنها چت اتے عثمان یہ غنی ہے در تے حضرت شاہا اسم محمد شہر شرع وا اللہ پاک و سا یا مسلم ہو یا نال ایمانے نہ کوئی اندر آیا وا مدہم ہوئے بہتر فرقے روشن چار و یاری قادر بخشا کہو دل کلمہ ہو یا رب ستاری ہاں یاران سال گذشتہ ہوئے گیت یاد الہی اول آخر نور بنی دا کھلے دی بادشاہی سال یونجه عمر بنی دی آہی اویسی وہاڑے جدوں معراج ہو یا سرور نوں ڈٹے عرش منار سے ماه رجب را آیا مہینہ ہو یا جدوں فضل یی اکس بزرگ روائیت لیستی ماه رنج الاول سی ہکناں کہیا معراج نبی نوں ہو یا ماہ شوالے پھر ربیع الاول کہیا.اس روایت والے ہکناں کیا معراج نبی نوں ہو یا ماہ رمضا نے قادر قدرت ہتھ نہ آوے رینے کت زبانے سالے دانش کر کر جھکے ویلا وقت بیتو نے اوڑک ماہ رجب دا سمجھناں آ قرار کیتو نے ماه رجب را آیا مہینہ چن تاریخ تیویں رات سوار پھوپھی کے خانے کتنے نال کمیوین مروہ صفا اوہ پر بہت دو نویں جیتے سی اوہ خانہ کیسے جیا مراتب اسدا آبا وچ جاناں کا فر غالب ہوئے نبی تھے تاں گھر اوس گیا سی اوہ مرد اور عرب داتا نہیں دل و چن کر پیاسی کچھ بھی بہت پیار سے آہے مخفی جاگہ سوہائے دے دلیری پاک نبی نوں پھوپھی بھی ٹھہرائے ا نداند که توں خطرہ پھوپھی کہے فرزندا جیوانج تیرے دل آدے کون منافق بندا مجاد سرور تائیں پھوپھی دے دلیری توں مالک ملک خنہ انیان الا قرب حصوں تیری محمد حرف نہ کیتا استانان نمی دے دھانا روح جنابی خوابوں بہت سمیت چلیند ہے.رکعت پونچی بہت بنی نوں رجوع ہوے غم سارے اک اندیشہ امت رہیا ایھ وسیل گزارے رب رحیم او ناندا آیا آپ اللہ حق تعالے خواہش جنیدی کن فیکونوں بنیاں عالم سارا انه دوست خاص جیب خدادا کیتا غم بیماری قدرت نال احوال انہاندا ڈٹھا آپ ستاری رب چک در میان لیا خلقاں تھیں جبرائیل بولا یا پردہ خالق نیندر والا کل خلقاں تے آیا رب کیا ہور دھندے چھڈ و حضرت جبرائیل اسرافیل تھمی کرناؤں روزیوں میکائیلا جان قبض تھیں توں ستائیں حضرت عزرائیل یار میرے دی آمد ہوئی کہ و خوشی واحب لا حوض کو شر تھیں بھر بھر مشکال اج شراب لیا ؤ نوری ملے آسماناں تے کل سنگار کہ اؤ شک معطر ظاہر ہو نے تیزہ ہو جسے روشنائی میں یار اپنے نوں قدرت سال جن دی خواہش رہی حکم کرو اس چرنے تائیں پھر نوں شہر کھلو و با چہ نبی دے آیاں تانیں ہور خیال نہ ہووے
قدیم نسخہ من تصانيف جامع البركات و الكلمات جناب الرى فخم
پرمونمازاں روزے رکھو چنگے عمل کہاؤ حسب خیلی وذہبی رشوت ہر گز مول نکھاؤ سجدہ کرو نہ سول کسے نوں یا جنہوں ذات الہی جو کی قد میں کہ سی جاہو کر ہو دور سیاہی سیلے مجلس اندر جاون جاڑنا ہیں بھائی عورت مرد جو جان نیگا ہے ایہ بھی شرک الہی شرع نبی دسے اوپر چلونیکی خیر کیا ہو.غیر شرع بورس تہ ہو رہے اسول مول تجا ہو بورستہ استھیں ہے اوہ دیون نارا غزت ذلت تھے اوسید کرسی اور نیست را ایسے عمل کیا و جست میں اللہ ہو دے راضی دلوپه شوق استہ دار کھو کر بو دور مجازی جو گجر پاک نبی وریا یا راضی ہو کے کریو - وچہ قبر دے پوسن گرزاں اس عذابوں ڈریو معرفت نفس دیکولوں سنگ پناہ الہی نیکی دی توفیق دیو نے رٹ دور کرے گمراہی جنوں رب بدایت بخشے کون بھلا ہے راہوں بخش دی امید ہمیشہ باری سنگ الا ہوں نیک بیان کر دوچه دنیا بدی کر ہو کوئی اچہ قبر ہے روز قیامت مسلم حالت ہوئی اد مرمت خلیل سلیماں نوح اور تیسردار یوسف نے سلطان سکندر لنگے ہیں ای پیارے خیر الحق من بیا موسی سینے نالے سور الیاس دائود خمیر پیتے اجل پالے نبی حبیب محمد صاحب وہ لد سد ہارے دربان نے اصحاباں نالوں توں میں کون بیچا واحد رب رسول محمد یاری منگ انہوں اچھے اوتھے دو ہیں یا میں خیر سے درگاہوں مسئله یا می بندہ تیرا بخشیں انہیں غفارا با جنہوں تک تیرے میرا نہیں.بَارَكَ الله لنا ولكم فى لقم ونفعنا واياكم بالايت و الذكر الحكيم انه تعالى بنات بخواند الحمد الله وتعود الله من شرور انفسنا ومن سيتا ري النامَن يَهْدِى اللهُ
محرف شده تسمه مجموع دا پنجابی حنيف محمد مسلم مُسْلَمُ ملنے کا پتن شیخ سراج الدین ایست دسنتر تاجران کتب کشمیری بازار اهور
جو دنیا دے وچہ کی یا تجھ تمھارے آیا کہ وہ میرا آیا پر سا کرو کلا ما پڑ ھونانہ ان را بیل مومن دال نہیں ہو کر کھو ساتھ بان نه خیلی غیبت سندی نظر نه نگو دھکے کن سنواے مومن آکھاں بات دیگری بخشش منگو اللہ کو نوں نیت نیک پیری ہ کم سنتھاں نال نہ کر یو جاگہ بری نہ جائے یہ متھاں پیراین و ارسی روزہ تینوں آکھ سنا ہے ہور نہ بان اکھیں و از روزه دان کرد و چه سیا توں کجھوٹ نہ بولو یا نہ آنکھو غیراں برا نہ جانوں ٹے چھو نازاں روزے رکھ چکے عمل کماؤ قصد خیلی دوسی مشورت هرگز بول سکھاؤ ر کرو نہ معمول کسے نوں بار جوانی رات اپنی چور کی قدمی کمدی به جاز کریو دور سیاہی پہلے مجلس اندر جا من جوائز نا میں بھائی عورت مرد جو جان لگا ہے یہ بھی شک انہی مشروع نبی دست او پر پلونی کی خیر کماؤ یو شروع بود راستہ ہوئے اس انکل نہ جاؤ ید منگو سب مرا ماں تھیں.ہے اور دیون ہارا عزت ذلت تھے او سید ہے کہ سی اوہ نتارا ایسے عمل کماؤ جسں تھیں اللہ ہم سے راضی دل وچ شوق الله وار کھو کر یوز در مجازی جہ کچھ پاک نبی فرما را راضی ہوئے کر چین و چہ قربی پس گرنزیں اس عذابوں دینے کر ترتیب نفس وے کولوں منگ بنانا بھی نیکی دی توفیق دیوی سب دور کر نے لگا رہی جس نوں رب ہدایت بخشتے کون بھلاوے ہوں بخشش وی اُمید ہمیشہ یاری منگ اتا ہوں نیک اعمال کرد چہ دنیا ہی نہ کریں کوئی وچہ قبرے اور قیامت مسلمہ حالت ہونی چه ری آدم شیت فیل سلیمانی نوح اورنیش سردار یوسف نے سلطان سکندر لنگے ہواوہ سارت ہمیں اسحق نہ رہیا ہاروں موسے تالے لوٹا تے دائرہ پیغمبر پیتے اجل پیمائے نی حبیب محمد صاحب اوہ بھی لرسام حرماں نے صحاباں نالوں میں توں کون بچا رہے و اجداب رسول محمد یاری منگلا ہوں ایتھے اوتھے دو میں جائیں فیٹ سے درگاہوں مسلح خاصی بندہ تیرا نبخشی ایس غفارا باہجوں تک یہ تیر سے رہا میرا نہیں سہارا بَارَكَ اللهُ لَنَا لَكُمْ فِي الْقُرانِ الْعَظِيمِ وَنَفَعْنَا وَايَا كَمُ الأَنتِ والذكر الحكيم أنه تعالى جواد كريه ملك بر سوف تجيم كَرِيمَ مَّلِكُ واکر
قدیم نسخه الجزء الاول ) من تعطير الأنام في تعبير المنام تأليف مولانا الشيخ الامام والبحر الهمام شيخ العارفين ومربى السالكين قطب الزمان ومرشد الأوان سيدنا وأستاذنا الشيخ عبد الغني النابلي قدس الله مره ونفعنا به و بلومه آمین 1 ⇓ A ⇓ A c d d d Wi ور بها مينه الكتاب المسمى منتخب الكـ الكلام فى تفسير الأحل ي للإمام الهمام سيدنا و مولانا محمد بن سير من تقدما الله و الان ل مبيعه بمكتبة ملتزمه ؟ رة الشيخ محمد على المليجى الكتبي الشهير لقريبة من الجامع الأزهر المنير باصرة
ار عالج بها فلم تقدر عليه اثلاث مرات ثم قدرت ما لفم وأصنى البدقتتال في الرؤياشي قال ما در تال كانت مالك شريطة من ارية قال صدقت و الله فكيف حالت قال ان اسم الطائر طيطوى (قال ابن قتيبة) رضى الله عجب على العابر النثبت فيما يرد عليه وترك المة ، ولا يأنف من أن يقول لما يشكل عليه لا أعرفه وقد كان محمدبن سيرين امام الناس في هذا الفن وكان ما يسك عنه أكثر هاينر در الامي) من أبي المقدام أو قرة بن خالد قال كنت أحضر ابن سيرين ثل عن الرؤيا فكنت أحزره به بر من كل أربعين واحدة اول ابن قتيبة) وتفهم كلام صاحب الرؤيا وتبينه ثم العرضه على الأصول فان رأيته كلاما شايدل على مدان من تنقية يشد بعضها بعضا برت الرؤيا بعد مسئلتك الله تعالى أن يوفقك للصراب وان وجدت الرؤيا قتل معفيين متضاد من نظرت أيهما أولى بالفانلها و أقرب من ان والمخاط ملته اهليه وإن رأيت الاصول صحيحة وفي خلالها أمور لا تنتظم ألقيت حشو ما وقصدت الصحيح منها وان رأيت الرؤيا كان المختلطة ا لتتم على الأصول علمت أنها من الاضفات فأعرض عنها وان اشتبه عليك الأمر سألت الله تعالى كشفه ثم (4) سألت الرجل عن خميره في ستاره ان رأى السفروني سيده ان رأى الصيد وفي كلامه ان رأى الكلام تم قضيت بالضهير قلت لم يكن هناك ضمير أخذت بالاشياء تانه قائم بين يدى الله تعالى ينظر اليه فإن كان الرائي من الصالحين غرؤياه رؤيا رحمة وان لم يكن من الصالحين ، فعليه الحذر من ذلك وإن رأى كأنه يناجيه أكرم بالقرب ومحبب من الناس وكذلك لو رأى أنه ساجدين | بدى الله تعالى (ومن رأى) كأنه يكلمه من وراء جناب حسن دينه وأدى أمانته ان كانت يده وتحوى سلطانه وان رأى أنه يكلمه من غير مجاب فانه يكون ذا خطيئة في دينه خان کانتو با فهوهم وستم ما عاش و يستوجب ولك الأجر الكبير فإن رأى كأن الله تعالى سماه باسمه واسم آخر علا أمر د وغلب أعداء.فإن رأى أن الله تعالى ساخط عليه دل على خط والديه عليه (ومن رأى) أن أبو يه ساخطان عليه دل ذلك على مخط الله تعالى ليه (ومن رأى) أن الله تعالى غضب عليه فانه يسقط من مكان رفيع ولورأى أنه سقط من حائط أو ماء أو على ما بينت التوقد تختلف دل دل ذلك على غضب الله تعالى (ومن رأى) مثالا أو سورة فقيل له انه الملك وظن أنه المهم فعبده ومجدله فانه طبائع الناس في الرؤيا ويجرون على عادة فها امل فى الباطل على ظن أنه حق (ومن رأى) أن الله تعالى يصلى في مكان فان رحمت و مغفرته تجى مذلك المكان والموضع الذي كان يصلى فيه (ومن رأى) الله تعالى يقبله فان كان من أهل الصلاح والخير فانه يقل فيعرفونها من أنفسهم على طاعته تعالى وتلاوة كتابه أو يلقن القرآن وان كان بخلاف ذلك فهو مبتدع (ومن رأى) الله تعالى | ا ناداه فاجابه فانه يحج ان شاء الله تعالى وأما تجليه على المكان المخصوص فر بما دل على عمارته ان كان خرابا الاصل فيستول على عادة أو على خرابه ان كان عامر الوان كان أهل ذلك ظالمين انتقم منهم وان كانوا مظلومين نزل بهم العدل وربمعادات ر زينه تعالى في المكان المخصوص على ملك عظيم يكون فيه أو يتولى أمره جبار شديد أو يقدم الى ذلك ال كان عالم مفيد أو حكيم خبير بالمعالجات وأما الخمسية من الله تعالى في المنام فانها تدل على الطمأنينة ) والسلة ون و الغنى من الفقر والرزق الواسع (ومن رأى) كأنه صار الحق سبحانه وتع مالى اهتدى إلى الصراط وعن أصلها من الخير بكلام الوقت والشرفات كانت.المستقيم (ومن رأى) كان الحق تعالى يهدده و يتوعده فانه يرتكب معصية ( استعادة ) من رأى انه يكتر الاستعاذة بالله من الشيطان في المنام فانه يرزق علما نافعا وهدى وأمنا من عدوه وغنى من الحلال وان كان فيكون ذلك أقوى من الرجل ويترك الاصل وقد تصرف الرؤيا عن أصلها من الشر بكلام الخير والبر الرؤيا تدل على فاحشة و قبيح او درت عنه باحسن ما تقدر على ذلك من اللفظ وأم مروته إلى صاحبها سترت ذلك راضا أفاق من مرضه مخصوصا ان كان يصرح الجان وربما دلت الاستعادة على الامن : الشريك المدائن | ا المهارة من النجس أو الاستخدمي الكفر ( آيات القرآن) فإن كانت آيات رحمة فان كان القارئ ميتا فهو رحمة الله تعالى وان كانت آيات عقاب فهو فى عذاب الله تعالى وان كانت آيات انذار وكان الرائي حيا دونه من ارتكاب مكروه وان كانت آیات مبشرات بشرته بخير (ومن رأى) أنه يقرأ آية آية رحمة فاذا وصل كما فعل ابن سيرين حسين الى آية عذاب عسر عليه قراءتها أصاب فرجا (ومن رأى) أنه يقرأ آية هذاب فاذا وصل الى آية رحمة لم سئل عن الرجال الذي يتنا وه - نابلسی - ل بيضا من رؤسه فيأخذ بياضه ويدع صفرته فانك لست من الرؤيا على يقين وانما هو حدس وترجيع الظنون فإذا أنت بدهت السائل بة بيج ألحقت به شائبة لعلها لم تكن ولعله الن كانت من أن يرحوى ولا يعود (واعلم أن أصل الرؤيا جنس وصنف وطبع فالجنس النشر والسماع والطير وهذا كله الاغلب عليه أنه رجال والصنف أن يعلم صنف تلك الشجرة من الشجر وذلك السبع من السباع وذلك الطائر من الطيور وان كانت الشهرة نخلة كان ذلك الرجل من العرب لاز منابت أكثر الفضل بلاد الحرب وان كان الطائرة أوساكا جلا من الهيم ا وان كان ظلما كان بدو يا من العرب والطبع أن تنظر ما طبع تلك الشجرة فتقضى على الرجل بطبعها فان كانت الشهيرة جوز اقضيت على الرجل بطبعها بالعسر في المعاملة والخصومة عند المناظرة وان كانت فلة قضيت عليها بأنهار جل نفاع بالخيرة جره طيبة أصلها ثابت وفرعها في العام يعنى الحفلة وان كان طائر الالات انه رجل ذو أسفار كا فات كان طاوساكان ا المجيد اذا جمال ومال وكذلك ان كان أمرا كان ملكا وان كان قرابا كان رجلا ف اسما غادرا كذا بالقول النبي صلى الله عليه مو سلم ولان نوما ه السلام بعث به ليعرف مال الماء أنصب أملا فوجد جيفة طافية على الماء فيقع عليها ولم يرجع فضرب به المثل وقيل ان ابطا عليك أو يث يقول الله عز وجل
تحرف شده نسخه تغطية الان الام تعية المسامراء تأليف الأستاذ الشيخ عبد الغني النابلسي (112-1.0.) ( أولهما ) بأسفل الصحيفة : و بهامشه كتابان منتخب الكلام في تفسير الأحلام لمولانا محمد بن سيرين من علماء القرن الأول الهجرى ( ثانيهما ) بجانب الصحيفة : الإشارات في علم العبارات لسيدى خليل بن شاهين الظاهرى من علماء القرن التاسع الهجرى الجمع الأوان
الله تعالى نزل على أرض أو مدينة أو قرية أوحارة أو نحو ذلك يدل على أن الله تعالى ينصر أهل ذلك المكان ويظنرهم على الأعداء فان كان فيها قحط يدل على الخصب وإن كان فيها حسب زاد الله خصبها و يرزق أهلها التوبة ، ومن رأى أن الله تعالى نور وهو قادر على وصفه فانه يدل على أن الله تعالى سماه باسم آخر واحصل له شرف وعظمة ، ومن النذر من ذلك (۱۱) الذي رأى أن الله قال له تعال إلى يدل على المكان عميل في القضاء الله تعالى فانه جاحد لنعمته غير راض ب قسم الله له من الرزق ومن رأى كأنه قائم بين يدى الله له الى ينظر إليه فإن كان الرائى من الصالحين فرؤياه رو با رحمة و إن لم يكن من الصالحين فعاليه و إن رأى كأنه يناجيه أكرم بالقرب وحبب من الناس وكذلك لو رأى أنه قرب أجله ، ومن رأى ساجد بين يدى الله تعالى ومن رأى كأنه يكام من وراء حجاب حسن دينه وأدى أمانته إن كانت في أن الله تعالى غضب بده وقوى سلطانه وإن رأى أنه يكلمه من غير حجاب فانه يكون ذاخطيئة في دينه فإن كاه بوبا على أهل مكان يدل فهوهم وسقم ماعاش ويستوجب بذلك الأجر الكبير فإن رأى كأن الله تعالى سماه باسمه واسم آخر على أن قاضي ذلك علا أمره وغاب أنداء، فإن رأى أن الله تعالى ساخط عليه دل على خط والديه عليه ومن رأى أن أبو يه ساخطان عليه دل ذلك على سخط الله تعالى عليه ومن رأى أن الله تعالى غضب عليه فإنه وأنه يظلم الرعية أو يسقط من مكان رفيع ولو رأى أنه سقط من حائط أو سماء أو جبل دل ذلك على غضب الله تعالى ومن عامه يكون غير متدين و إن كان الراقي سارة رأى مثالا أوصورة فقيل له إنه إلهك أوظن أنه إلهه فعيده وسجد له فانه منهمك في الباطل على تلق أنه حق ومن رأى الله تعالى يصلى فى مكان فان رحمته ومغفرته تجىء فى ذلك المكان والموضع الـ لعت يده ورجله و بدل كان يصلى فيه ومن رأى الله تعالى يقبله فان كان من أهل الصلاح والخير فانه يقبل على طاعته تعالى على أن الرائي يكون وتلاوة كتابه أو يات من القرآن وإن كان يخلاف ذلك فهو مبتدع ومن رأى الله تعالى ناداه فأجابه مذنبا أيضا.وأهـلا فانه يحج إن شاء الله تعالى وأما تجليه على المكان المخصوص فربما دل على عمارته إن كان خرابا أو على العقوبة ويقع في ذلك خرابه إن كان عامرا و إن كان أهل ذلك ظالمين انتقم منهم وإن كانوا مظلومين نزا بهم ! وربما دلت رؤيته تعالى فى المكان المخصوص على ملك عظيم يكون فيه أو يتولى أمره جبار شديد وقتل، ومن رأى أن الله أو يقدم إلى ذلك للمكان عالم مفيد أو حكيم خبير بالمعالجات.وأما الخشية من الله تعالى في المنام في نها تدل على الطمأنينة والسكون والغنى من الفقر والرزق الواسع ومن رأى كأنه سار إلى الحق سبحانه المعروف يدل على أن وتعالى اهتدى إلى الصراط المستقيم ومن رأى كأن الحق تعالى يهدده ويتوعده فانه يرتكب ، ذلك الرجل قاهر وعظيم رأى أنه يكثر الاستعادة بالله من الشيطان في المنام فانه يرزق علما نافعا ، هات ومن رأى أن الله تعالى معه في الأبوة والنسب والبطن وكسميه وجاره ونظيره فلا نصح الشركة : لاحتلال تلك المنارة بوجهين فصاعداً وليس تنقل الرؤيا أبدا برأسها عمن رؤيت له إلا أن لا تليق به معانيها ولا يمكن ومن رأى أن الله تعالى أن ينال مثله موجبها ولا أن ينزل به دليلها أو يكون شريكه فيها أحق بها منه بدلیل برى عليه وشاهد استعاذة : من كشفيته لاشتراكه العدل المكان بلاء وفتة تعالى على صورة رحل في المتماير بدل على زول لها فانه يفتري على الله على صورة وهو يسجد في اليقظة والنظر يزيد عليه كدلالة للموت لا تنقل عن صاحبها إلا أن يكون سليم الجسم في اليقظة و شریکه مريضا فيكون لرضه أولى بها منه لدنوه من الموت واشتراكه معه فى التأويل فلذلك يحتاج تعالى ، ومن رأى أنه العابر إلى أن يكون كما وصفوا أديبا ذكيا فطنا نقيا تقيا عارفا بحالات الناس وشما تلهم وأقدارهم وهيئاتهم يراعى ما تتبدل مرائيه وتتغير فيه عبارته عند الشتاء إذا ارتحل.ومع الصيف إذا دخل عارف بالأزمنة وأمطارها ونفعها ومضارها وبأوقات ركوب البحار وأوقات ارتجاجها وعادة البلدان نم الله تعالى يكون كافرا بنعمة الله تعالى وساخطا القضائه وحكمه ا وأهلها وخواصها وما يناسب كل بلدة منها وما يجى من ناحيتها كقول القتي في الجاورس بر بما دل ومن رأى أن الله تعالى جالس على سرير أو ضطجع أو نائم أو غير ذلك مما لا يليق فى حقه جل وعز يدل على أن الرأئي.بعضى الله تعالى ويصاحب الأشرار.وقال جعفر صادق رضى الله تعالى عنه رؤيا الله تعالى في المنام تؤول على سبعة أوجه حصول نعمة فى الدنيا وراحة في الآخرة وأمن وراحة ونور وهداية وقوة للدين والعفو والدخول إلى الجنة بكرمه ويظهر العدل و يقهر الظالمة في تلك الدماء ويعز الرائى ويشرفه و ينظر على قدوم غائب من اليمن لأن شطر اسمه جا والورس لا يكون إلا من اليمن عارفا بتفصيل المقامات