Islami Jihad Ki Haqeeqat

Islami Jihad Ki Haqeeqat

اسلامی جہاد کی حقیقت

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اسلام پر اعتراضات
جہاد
متفرق کتب

یہ کتاب مصنف کی جلسہ سالانہ قادیان 2003ء کے موقع پر کی گئی تقریر کا متن ہے جسے نظارت نشر و اشاعت نے 2016ء میں فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان سے ٹائپ کرواکر کتابی شکل میں طبع کروایاہے۔ اس مختصر کتابچہ میں اسلامی جہاد کی حقیقت مختلف ماخذوں اور دلائل سے اس طرح واضح کی گئی ہے کہ اس مسئلہ کی وضاحت بھی ہوجائے اور اس بابت غیر ضروری اعتراضات اور غلط فہمیوں کا تدارک بھی ہوجائے۔


Book Content

Page 1

اسلامی جہاد کی حقیقت and hill them wherever you for 8 (140) And hill then men believe suite their necks ed their تقریراز مولانا محمد حمید کوثر صاحب بر موقعه جلسه سالانه قادیان 2003)

Page 2

اسلامی جہاد کی حقیت تقریر بر موقعه جلسہ سالانہ قادیان 2003ء از مولانا محمد حمید کوثر

Page 3

نام کتاب: اسلامی جہاد کی حقیقت تقریر بر موقعه جلسه سالانه قادیان 2003 از مولانا محمد حمید کوثر 2016 1000 فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا ، 143516 Name of the Book: اشاعت لذا بار اول (انڈیا) تعداد مطبع ناشر Islami Jihad ki Haqeeqat Speech Jalsa salana Qadian 2003 Mohammad Hameed Kousar Present edition India: Quantity: Printed at: Published by: 2016 1000 Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Nazarat Nashr-o-Isha,at Qadian Dist; Gurdaspur, Punjab, India, 143516

Page 4

محمد بسم الله الرحمن الرحيم رَسُولِ الكَر عَيْهِ وَعَلَى عِبَادِكَ المَسيحَ المَو اسلامی جہاد کی حقیقت تقریر جلسه سالانه قادیان ۲۰۰۳ء از محمد حمید کوثر ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد تعلیم القرآن وقف عارضی ) فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ( الفرقان : ۵۳) لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ( البقرہ:۲۵۷) وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ ٥ ( الانبياء: ١٠٨) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال (روحانی خزائن جلد ۷ ا ص ۷۷ ) دین اسلام ایک مکمل و کامل دین ہے.انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام حالات و مسائل کا حل اس میں موجود ہے.یہ ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر میدان میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے.اُسے یہ سکھاتا ہے کہ اُس کی پیدائش کی غرض کیا ہے اُس نے کس کی اور کیسے عبادت کرنی ہے.اُسے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے کون سے اصول وقوانین پر عمل پیرا ہونا ہوگا.اسلام اپنے متبعین کو یہ بھی بتا تا ہے کہ امن سے رہنے اور اسے قائم رکھنے کے کیا اصول ہیں.اور اس سے بھی باخبر کرتا ہے کہ اگر کسی وقت تم پر جنگ مسلط کی جائے تو تمہیں اپنا دفاع کن حالات میں اور کن قوانین کوملحوظ رکھتے ہوئے کرنا ہے.وہ آیات جوابھی 1

Page 5

آپ نے سماعت فرمائیں اُن کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ( اور اے مسلمان) تو انکار کرنے والوں کی بات نہ مان اور اس (قرآن) کے ذریعہ ان سے بڑا جہاد کر.دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں کیوں کہ ہدایت و گمراہی کا باہمی فرق خوب ظاہر ہو چکا ہے.اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تجھے دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.اسلام جارحیت اور کسی پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ صرف اپنے دفاع کی اجازت دیتا ہے وہ بھی اس صورت میں جب کہ دشمن مسلمانوں پر حملہ کرنے میں پہل کرے اور مسلمان مظلوم ہوں (جیسا کہ فرمایاوَهُمْ بَدَهُ وَ كُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ التو : ۱۳ - بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا الج:۴۰) یہ صرف نظریہ اور دعویٰ ہی نہیں بلکہ سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ ہمارے لئے ایک اسوہ اور نمونہ بنائے گئے تھے، انہوں نے اس پر عمل کر کے مسلمانوں کو سمجھایا کہ اُن کو اپنا دفاع ویسی حالت میں کرنا ہے جس حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا.سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ۱۹ اپریل اے ھ ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے.اور جب آپ کی عمر قمری لحاظ سے چالیس سال کی ہوئی تو ۲۰ اگست ۱۰ ء کو آپ پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا.اور اس کے ساتھ ہی اسلام کی بنیاد رکھی گئی.اس کے بعد اہل مکہ کی طرف سے آپ پر اور آپ کے ماننے والوں پر مظالم کا سلسلہ شروع ہوا.جو دن بدن بڑھتا چلا گیا.جو لوگ آپ کے پڑوس میں رہتے تھے اُن کا معمول تھا کہ آپ کے گھر میں پتھر پھینکتے دروازوں پر کانٹے ڈال دیتے.ایک دفعہ جب آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے تو عقبہ بن ابی معیط نے آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر اسقدر دبایا کہ آپ کا دم گھٹنے لگا.حضرت ابو بکر کو علم ہوا تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپ کو اس بدبخت کے شر سے بچایا.اور ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اور جب آپ سجدہ میں تھے آپ پر اونٹنی کی غلیظ بچہ دانی لا

Page 6

کر رکھ دی.اور اسکے بوجھ سے اُس وقت آپ سر نہ اٹھا سکے جب تک کہ بعض لوگوں نے پہنچ کر اس بچہ دانی کو آپ کی پیٹھ سے ہٹایا نہیں.( بخاری کتاب الصلوۃ) اسی طرح آپ پر ایمان لانے والے مسلمانوں پر بھی مظالم ڈھائے جاتے ، جن کی داستان سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے...حضرت بلال رضی اللہ عنہ امیہ بن خلف نامی ایک مکی رئیس کے غلام تھے.امیہ انہیں دو پہر کے وقت گرمی کے موسم میں مکہ سے باہر لے جا کر تپتی ریت پر نگا کر کے لٹا دیتا تھا.اور بڑے بڑے پتھر اُن کے سینے پر رکھ کر کہتا تھا کہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر.بلال اس کے جواب میں احد احد یعنی اللہ ایک ہی ہے، اللہ ایک ہی ہے دہراتے جاتے.بار بار آپ کا یہ جواب سن کر امیہ کو اور غصہ آجاتا.اور وہ آپ کے گلے میں رسہ ڈال کر شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور کہتا کہ ان کو مکہ کی گلیوں میں پتھروں کے اوپر گھسیٹتے ہوئے لے جائیں.جس کی وجہ سے اُن کا بدن خون سے تر بتر ہو جاتا.مگر وہ پھر بھی احد احد کہتے چلے جاتے.بعض نادان مخالفین اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اسلام تلوار کے بل بوتے پر پھیلایا گیا.اُن کے الزام کی تردید بلال کے اسی ایک واقعہ سے ہو جاتی ہے.کوئی مخالف بتائے وہ کون سی تلوار تھی جس کے زور پر بلال کو اسلام میں داخل کیا گیا تھا.اور وہ کون سی شمشیر تھی ، جس نے اُن کو اتنے ظلم برداشت کرنے کا متحمل بنایا.مخالفین نہ جانے اس کا کیا جواب دیں؟ لیکن ہم جواباً عرض کرتے ہیں، کہ وہ محمدمصطفی سینما اینم کی حب کی تلوار تھی جس نے انہیں اسلام میں داخل کیا.حقیقت یہی ہے: محبت سے گھائل کیا آپ نے دلائل سے قائل کیا آپ نے بعض مخالفین اسلام کا خیال ہے کہ کیونکہ مکہ میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو قوت و....3.

Page 7

تلخيص طاقت حاصل نہ تھی.اس لئے آپ نے مقابلہ نہ کیا ، یہ خیال غلط اور بے بنیاد ہے.تاریخ میں آتا ہے کہ مکہ میں مظلومیت کے ایام میں، آپ کے ایک ماننے والے حضرت عبد الرحمن بن عوف اور چند دوسرے مسلمانوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ جب ہم مسلمان نہ تھے تو معزز تھے اور کوئی ہماری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا.اب یہ کفار ہم کو کمزور اور بزدل سمجھنے لگے ہیں ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان کا مقابلہ کریں اور انہیں سبق سکھا ئیں.حضرت محمد مصطفی سلی یا یہ تم نے جواباً فرمایا : إنى أمرتُ بالعَفُو فَلَا تُقَاتِلُوا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معاف کرنے کا حکم ہے.پس میں تم کولڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا.(تل) الصحاح جلدا صفحہ (۱۵۲) صحابہ رضوان الله عليهم نے سیدنا محمد مصطفی صلی یا یتیم کے حکم کے مطابق تیرہ سال تک ظالموں کے ظلموں کا مقابلہ صبر اور دعا سے کیا.آخر وہ دن آیا، جب سید نا محمد لی ہیں کہ ہم اور آپ کے ساتھیوں نے ظالموں کے ظلم سے تنگ آکر اپنے آبائی وطن مکہ کو چھوڑ دیا، اور میثرب (مدینہ منورہ) کی طرف ہجرت فرما گئے ، مگر مکہ کے دشمنان اسلام نے وہاں بھی آپ کا پیچھا کر کے مسلمانوں کو ہلاک و تباہ کرنے کی کوششیں کی.پندرہ سال مسلسل ظلم سہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اجازت دی کہ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ هِ الَّذِينَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ ( الحج : ۴۰-۴۱) اُن لوگوں کو جن کے خلاف لڑائی کی جارہی ہے لڑائی کی اجازت دی جاتی ہے.کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے.اور یقینا اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے.اس الہی اجازت کے بعد آنحضرت مصلانا اسلم اور مسلمانوں نے اپنے دفاع کے لئے لڑائیاں لڑیں.مگر تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے آقا نے کبھی کسی پر حملہ کرنے میں پہل نہیں 4.

Page 8

کی.اور کسی کو بلا وجہ جانی و مالی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی.یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے ملک بھارت میں شری رام چندر جی مہاراج نے امن وشانتی کا قیام فرمایا.مگر آپ کو بھی حالات نے اس حد تک مجبور کر دیا، کہ آپ نے انکا پر حملہ کر کے راون کو ہلاک کیا، اور اُس کا ناش کیا.اور آج تک ہمارے ہندو دوست دسہرہ کے موقعہ پر راون" کے پتلے کو تیر مارتے اور جلاتے ہیں.اگر سید نا محمد مصطفی سایشی پیام نے اپنے زمانے کے راونوں سے اپنے آپ کو اور انسانیت کو بچانے کے لئے اُن کا مقابلہ کیا، یا ان کے خلاف چھوٹا جہاد جہاد اصغر ) کر کے ہلاک کیا تو اس میں کون سی حیرت و تعجب کی بات ہے؟ اسی طرح شری کرشن جی مہاراج کے حکم پر ہی کو روکشیتر کے میدان میں اٹھارہ دن مہا بھارت کی جنگ لڑی گئی ، جب ارجن اپنی کمان پھینک کر بے دل ہو کر بیٹھ گیا، اور جنگ سے انکار کر دیا، تو شری کرشن جی مہاراج نے اُسے جنگ کی تعلیم دی.باوجود اس کے کہ اس کے مخالفین میں اس کے قریبی رشتے دار اور محترم استاد درونا چار یہ بھی شامل تھے.اگر اسی طرح کی تعلیم آنحضرت صلی یا ایتم نے اپنے ساتھیوں کو اپنے دفاع کے لئے دی تو اس میں باعث اعتراض کیا ہے؟ مذہب اسلام، سلامتی فراہم کرنے والا مذہب ہے.آنحضرت صلی یا یہ تم نے فرمایا کہ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ ( مشکوۃ کتاب الایمان) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے امن پسند لوگ محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے مال اور جانیں محفوظ رہیں.اسلام کے بانی سید نامحمد صلی ا یہ تم کواللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.اسلام کی بنیادی تعلیم لا اکراہ فی الدین ہے، یعنی دین کے معاملے میں کسی قسم کا جبر 5

Page 9

جائز نہیں فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الکھف:۳۰) جو چاہے مان لے جو چاہے انکار کر دے.اگر کوئی اسلام کو قبول نہیں کرتا تو اُسے کہہ دو لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دین (الکافرون : ۷) تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے.افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ اسلام جو امن وسلامتی کا مذہب ہے.اور وہ رسول جسے اللہ تعالیٰ نے رحمت بنا کر بھیجا مخالفین اسلام اور بعض مستشرقین کی طرف سے اس مذہب کو دہشت پیدا کرنے والا ، خون بہانے والا مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی.اور جہاد کی غلط اور من گھڑت تفسیریں کر کے اُسے بد نام کرنے کی کوشش اب تک جاری ہے.واضح ہو کہ ”جہاد“ عربی زبان کا لفظ ہے جو جھڈ سے بنا ہے، جس کے معنے مشقت برداشت کرنا ہے.اور جہاد کے معنے ہیں، کسی کام کے کرنے میں پوری کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ چھوڑنا.ہم اردو میں بھی کہتے ہیں جدو جہد کرنا.قرآن مجید اور احادیث میں جہاد کی بہت سی قسمیں بیان ہوئی ہیں.حدیث میں آتا ہے عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ أَنَّهُ رَجَعَ مِنْ بَعْضِ غَزَوَاتِهِ فَقَالَ رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إلى الجِهَادِ الَّا كَبَرِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الجِهَادُ الاكْبَرُ قَالَ وَهِيَ مُجَاهِدَةُ النَّفْسِ - (رد المختار علی الدر المختار ج ۳ ص ۲۳۵) ایک دفعہ سیدنا محمد مصطفی سایا کہ تم ایک جنگ سے واپس لوٹ رہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ ہم سب سے چھوٹے جہاد یعنی جنگ سے واپس آرہے ہیں اور سب سے بڑے جہاد (جہاد کبیر ) یعنی مجاہدہ نفس کی طرف جا رہے ہیں...ایک دوسری حدیث میں ہے المُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ ( مشکوۃ کتاب الایمان ) مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ

Page 10

کی فرمانبرداری میں اپنے نفس کو مشقت میں ڈالتا ہے.سامعین کرام پہلے درجے کا جہاد وہ ہے جو انسان اپنے نفس کے خلاف کرتا ہے.اسلام میں سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں اور پاپوں سے بچائے ، نیک اوراچھے کام کرے اور جب ایک مسلمان اپنے آپ کو پاک کر لیتا اور باعمل بن جاتا ہے تو اُسے دوسرے درجے کا جہاد (جہاد کبیر ) کرنے کا حکم ہے.جیسا کہ فرمایا.جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان : ۵۳) تو قرآن مجید کی تعلیمات کو دوسروں تک پیار و محبت ، دلائل و برھان سے پہنچا.جماعت احمدیہ کے اکثر افراد بفضلہ تعالیٰ دن رات جہاد کبیر میں مصروف ہیں.تیسرے درجے کا جہاد سب سے چھوٹا جہاد جہاد اصغر ) کہلاتا ہے.یہ صرف اُس وقت کرنے کی اجازت ہے جب کہ مسلمان ربنا اللہ کہنے کی وجہ سے ظلم کئے جائیں.اور ایسی حالت میں اگر مسلمان چھوٹا جہاد کریں گے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اِنَّ الله عَلى نَصْرِهِم لقدير (الحج:۲۰) یقینا اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے ) آج کے جو مسلمان اور اُن کے مولوی جہاد، جہاد کا نعرہ لگا کر معصوم انسانوں کو قتل کرتے اور کرواتے ہیں.اس کا اُس جہاد سے دور کا بھی تعلق نہیں جسے قرآنی جہاد کہا جاتا ہے.اگر یہ قرآنی جہاد ہوتا توضرور اللہ تعالیٰ انہیں غلبہ و فتح عطا کرتا.پچھلے ایک سوسال میں اُن کی ہر میدان میں شکست و حزیمت اس بات کا واضح اشارہ ربانی ہے کہ یہ قرآن کا جہاد نہیں.اگر یہ وہ ہوتا تو انہیں ضرور فتح نصیب ہوتی.پھر سد نامحمد الین ایام کا واضح فرمان ہے.مسلم ومومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگوں کے جان و مال محفوظ رہیں.اگر آج اپنے آپ کو مسلمان مومن کہلانے والوں کے ہاتھوں کہیں معصوم انسانوں کا قتل ہوتا ہے تو وہی بتا ئیں کہ اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مطلب ہے؟ پس ثابت ہوا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان اور مومن تو ایسا کرے گا نہیں.اگر کوئی کرتا ہے تو پھر وہ کسی اسلام دشمن طاقتوں.

Page 11

کے اشارے پر اسلام اور حقیقی مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کرے گا.یہ بات بھی درست ہے کہ پچھلی صدی میں دنیا کے بعض ملکوں اور علاقوں میں یا جوج و ماجوج اور دجال کی سیاست اور خود مسلمانوں کی اپنی غلطیوں کے نتیجہ میں مسلمان دوسری قوموں سے برسر پیکا ررہے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے.واضح ہو، کہ یہ سب کی سب سیاسی لڑائیاں جھگڑے قتل وغارت ہے.ان کا اسلام اور قرآن سے کوئی بھی تعلق نہیں.اور اگر انہیں کوئی اسلام کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ سخت غلطی پر ہے.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی پر امن تعلیمات کے ہوتے ہوئے، جہاد کا غلط مفہوم مسلمانوں میں کہاں سے سرایت کر گیا.اگر تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس سوال کا جواب آسانی سے مل جائے گا.اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اسلام کی غیر معمولی ترقیات کو دیکھ کر دشمنان اسلام سمجھ گئے ، کہ اب اسلام کا مقابلہ ہمارے بس کی بات نہیں رہی.دوسری طرف وہ اسلام کو تباہ و برباد اور ناکام و بدنام کرنا چاہتے تھے.چنانچہ انہوں نے مسلمانوں میں شامل ہو کر کچھ غلط عقائد مسلمانوں میں پھیلانے شروع کئے.مثلاً یہ کہنا کہ عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور دوبارہ نازل ہوں گے، ہر قسم کی نبوت ووحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے.اسلام نے جہاد کے ذریعہ قتل اور سفا کی کی تعلیم دی ہے، وغیرہ کیونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کو تو رایت میں یہ حکم دیا گیا تھا.” جب خداوند تیرا خدا اُسے (یعنی کسی شہر کو ) تیرے قبضے میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر ، مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو جو جو کچھ اس شہر میں جو اس کا سارالوٹ اپنے لئے لے لے.(استثناء۲۰/ ۱۴-۱۳) ان قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے،

Page 12

کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیسا نہ چھوڑیو.“ (استثناء ۶۱/۲۰) حضرت عیسی علیہ السلام کا انجیل میں فرمان ہے یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں.(متی ۳۴/۱۰) جب یہود اور عیسائیوں نے دیکھا کہ تورایت وانجیل میں تو انتہائی جارہانہ اور ظالمانہ تعلیمات دی گئیں ہیں اور اس کے مقابل قرآن کریم میں انتہائی متوازن اور پرامن تعلیمات دی گئیں ہیں.تو انہوں نے ” جہاؤ" کے لفظ کی غلط تفسیر مسلمانوں میں پھیلانا شروع کی، اور دوسری طرف مطلب پرست مسلمان کہلانے والے بادشاہوں کو اپنی سلطنتوں کی وسعت کے لئے ”جہاد“ کی غلط تفسیر کی ضرورت تھی ، چنانچہ انہوں نے اپنے زمانے کے علماء کے ذریعہ غلط تفسیر کو خوب رواج دیا، گویا دشمنانِ اسلام کی طرف سے جھوٹ کی مردہ لاش کو علماء کی طرف سے کفن مل گیا.اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج ”جہاد“ کی غلط تفسیر کو ہی اصل تفسیر سمجھ کر اسلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پیدا کر دی گئیں.اس غلط نہی ، اور اس طرح کی اور بہت سی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو سیح موعود اور امام مہدی بنا کر بھیجا.اور انہوں نے اعلان فرمایا: " آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا.خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا.اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا ہے.اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریم ملی تم کی نافرمانی کرتا ہے.جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جا ئیں گے.سواب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں.ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا

Page 13

ہے.خدا تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کی ایک راہ نہیں.پس جس راہ پر نادان لوگ اعتراض کر چکے ہیں.خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ اسی راہ کو پھر اختیار کیا جائے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے جن نشانوں کی پہلے تکذیب ہو چکی وہ ہمارے سید رسول اللہ صل تم کو نہیں دیئے گئے.لہذا اسیح موعود اپنی فوج کو اس ممنوع مقام سے پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۲۸) واعلمو ان وقت الجهاد السيفى قد مضى ولم يبق الاجهاد القلم و الدعا و آیات عظمی (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۵۸) یعنی جان لو کہ اب جہاد بالسیف کا وقت نہیں ہے بلکہ قلم اور دعا اور بڑے بڑے نشانات کے ذریعہ جہاد کرنے کا زمانہ ہے.وفى هذه الايام و أمرنا ان نعد للكافرين كما يُعدّون لنا.ولا نرفع الحسام قبل ان نقتل بالحسام (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن ۱۴ صفحه ۴۵۴) اب جہاد کے اسباب باقی نہیں رہے، اور ہمیں حکم ہے کہ ہم انکار کرنے والوں کے مقابل پرویسی ہی تیاری کریں جیسی وہ ہمارے مقابل پر کر رہے ہیں.اور اُس وقت تک ہرگز تلوار نہ اٹھا میں جب تک ہم تلوار کے ذریعہ قتل نہ کئے جائیں ( یا تلوار کے ذریعہ ہم سے لڑا نہ جائے) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب التواء جہاد بالسیف کا اعلان فرمایا تو مولویوں اور علماء نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے لگائے.اور بہت برا بھلا کہا.مگر تصرف الہی دیکھیئے کہ آہستہ آہستہ حالات نے مسلمانوں کی اکثریت کو وہی عقیدہ و موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا تھا.چنانچہ جلالتہ الملک شاہ فیصل نے ۱۳۸۵ ہجری کے موقعہ پر رابطة العالم الاسلامی مکہ مکرمہ کے اجتماع میں فرمایا : انکم ايها الاخوة الكرام مدعوون لترفعوا على الجهاد في سبيل الله وليس الجهاد هو فقط حمل البندوقية او تجريد 10

Page 14

السيف و انما الجهاد هو الدعوة الى كتاب الله سنّة رسوله والتمسك بها و المشابرة على ذلك مهما اعترضتنا المشاكل اولمصاعب او المتاعب (ام القرى مكة معظمة ۲۴ اپریل ۱۹۶۵)اے معزز بھائیو! تم سب کو جہاد فی سبیل اللہ کا علم بلند کرنے کے لئے بلایا گیا ہے.جہاد صرف بندوق اٹھانے یا تلوار لہرانے کا نام نہیں، بلکہ جہاد تو اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی سنت کی طرف دعوت دینے ، ان پر عمل پیرا ہونے اور ہر قسم کی مشکلات، دقتوں اور تکالیف کے باوجود استقلال سے اس پر قائم رہنے کا نام ہے.ایک زمانہ میں جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان فرما یا کہ یہ زمانہ قلمی جہاد کا ہے اس زمانے میں کتاب اللہ قرآن مجید اور رسول کریم صلی یا اسلام کی سنت کے احیاء کو بذریعہ تحریری و تقریری دلائل ثابت کرنے کی ضرورت ہے تو اس پر طعن و تشنیع کی گئی.اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ اسی طرح کا اعلان مکہ مکرمہ سے شاہ فیصل کرنے پر مجبور ہوئے.یہاں اختصار سے ایک اور بات کا ذکر بھی بہت ضروری ہے.آج کل دنیا میں گویا یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ اگر دنیا کے کسی کونے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو جائے تو اُسے ہمارے ملک اور دنیا کے بعض اخبارات اور نشریاتی ادارے فوراً اسلامک دہشت گردی کا نام دے دیتے ہیں.ایسی اخبارات پر حیرت ہوتی ہے، اگر کسی دوسرے مذہب کے لوگ اسی قسم کی کاروائیاں کریں، تو اُن کی کاروائیاں ان کے مذہب کی طرف منسوب نہیں کرتے.مثال کے طور پر اگر امریکہ ہیروشیما نا گا سا کی پر ایٹم بم گرائے یا امریکہ و برطانیہ افغانستان اور عراق پر بم باری کریں تو اس کا روائی کو مسیحی دہشت گردی نہیں کہا جاتا.اگر جنرل ڈائر جلیانوالا باغ میں سینکڑوں بھارتیوں کو گولیوں سے بھون دے تو اسے بھی عیسائی دہشت گردی کا نام نہیں دیا جاتا.اگر یہود عربوں کے گھروں کو تہس نہس کر دیں تو اسے بھی یہودی دہشت گردی نہیں کہا جاتا.لیکن اگر کوئی مسلمان اسلام دشمن طاقتوں کے اشارے پر یا

Page 15

اپنی بے وقوفی سے اس قسم کی کاروائی کرتا ہے تو اُسے اسلام کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے.جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ دشمنان اسلام نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے مسلمانوں کے علماء سے اپنے مفاد اور مطلب کے مطابق فتوے جاری کروائے ، حیرت کی بات ہے یہ کاروائی آج کے دور میں بھی جاری ہے.سماعت فرمائیں جالندھر سے شائع ہونے والے روز نامہ ہند سماچار کی خبر : امریکہ پرا استمبر کے حملوں کے بعد سی.آئی.اے.نے عرب دنیا میں امریکی مخالف جذبات کو سرد کرنے اور اعتدال پسندی کی تبلیغ کرنے کے لئے ملاؤں کو خریدا اور نقلی علماء کھڑے کئے یہ بات ایک نئی کتاب...سی.آئی.اے.اور ایف.بی.آئی.کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف اور ایک محقق رپورٹر رونالڈ کسلر نے کہی ہے.کیسلر نے بتایا کہ ہی.آئی.نے ملاؤں کو فتوے جاری کرنے کے لئے پیسہ دیا.“ ہند سماچار جالندھر ۲۹ ستمبر ۲۰۰۳ء) ۱۹۸۰ء کے دھاکے میں جب افغانستان پر روسی قبضہ تھا تو یہی امریکہ تھا جس نے مسلمانوں کوروس کے خلاف جہاد کرنے کی ترغیب دی.اُس وقت جہاد کے حق میں فتوے دلوائے تھے.سامعین کرام ! آپ نے اندازہ لگالیا، کہ دشمنان اسلام، اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے مسلمان کہلانے والے علماء کو ہی لالچ و رشوت دے کر اپنا آلہ کار بناتے.اور نقلی علماء کھڑے کرتے ہیں.اور سادہ لوح مسلمان ان علماء کے فتووں پر عمل کرتے ہیں.اور بعض اپنی سادگی اور نادانی میں جہاد کا نام سنتے ہی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہو جاتے ہیں.دین مصطفی سالی سیستم کی یہ بدنامی اور مظلومیت دیکھ کر احمدی مسلمان کا دل تڑپ اٹھتا ہے.مسلمان جتنا چاہیں جماعت احمدیہ پر مظالم کے پہاڑ 12

Page 16

ڈھالیں ،مگر ہم سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے ؎ اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کاخر کنند دعوی حُبّ پیمبرم اے میرے دل یہ جو مسلمان تیری مخالفت و دشمنی کر رہے ہیں آخر تیرے محبوب رسول صلی اسلام کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس محبوب رسول کی خاطر ہی ان سے بھلائی کا سلوک کرتا چلا جا.اس تعلیم کی بناء پر ہم اُن مسلمانوں سے جو دنیا کے کسی بھی خطے میں جہاد کے نام پر کوئی بھی ایسا کام جو آنحضرت سال یا پریم کی تعلیم کے خلاف ہو اور اسلام کو بدنام کرنے کا باعث ہورہاہو چھوڑنے کی درخواست کرتے ہیں.اور مسلمانوں پر آنے والے مصائب کی حقیقی وجہ تلاش کر کے اس کے ازالہ کی طرف متوجہ ہونے کی اپیل کرتے ہیں ان مصائب کی جو وجہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی تھی ، وہی حقیقی وجہ اور وہی حقیقی علاج ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ادبار اور تنزل کا دور اور یہ بار بار کے مصائب حقیقت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلو و السلام کے انکار کا نتیجہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اس لئے آخری پیغام میرا یہی ہے کہ وقت کے امام کے سامنے سرتسلیم خم کرو.خدا نے جس کو بھیجا ہے اس کو قبول کرو.وہی ہے جو تمہاری سر براہی کی اہلیت رکھتا ہے.اس کے بغیر اس سے علیحدہ ہو کر تم ایک ایسے جسم کی طرح ہو جس کا سر باقی نہ رہا ہو.جس میں بظاہر جان ہو اور عضو پھڑک رہے ہوں.(خطبہ جمعہ ۱۳ اگست ۱۹۹۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے انما الامام محبت کا حال من ورائہ وینیٹی پہ مسلم كتاب الامارۃ ) یقینا امام ڈھال ہوتا ہے، انکے پیچھے رہ کرلڑا جاتا ہے.اور اس کے ذریعہ محفوظ رہا جاتا ہے.اس فرمان رسول صلی یا یتیم کے مطابق کوئی جہاد بھی ”امام“ یعنی ڈھال کے بغیر ممکن نہیں.(13

Page 17

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اُس ڈھال کے پیچھے آنے کی توفیق بخشے جسے اللہ تعالیٰ نے عصر حاضر میں اُن کے لئے مہیا فرمایا ہے.اس کے علاوہ جماعت احمد یہ دنیا کے ہر انسان کو چاہے اُس کا تعلق کسی بھی مذہب و علاقے سے ہو سیدنا حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے الفاظ میں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہماری طرف سے صلح کاری اور امان کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے.میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع انسان سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر ( اربعین روحانی خزائن ج ۷ اص ۳۴۴).وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے.اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں.لیکچر لا ہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص۱۸۰) دعا ہے اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو دنیا کے ہر علاقے میں صلحکاری کا سفید جھنڈا بلند کرتے ہوئے، انسان اور انسان کے درمیان محبت و پیار پیدا کرنے کا عظیم جہاد، اُس وقت تک کرنے کی توفیق عطا فرما تا چلا جائے جب تک دنیا کے ہر انسان کی روح سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ نہ دہرانے لگے بتاؤں تمہیں کیا ، کہ کیا چاہتا ہوں ہوں بنده مگر میں خدا چاہتا ہوں مجھے ہر کسی ނ گز نہیں ہے میں دنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں اے اللہ ہماری دعا قبول فرما.آمین!

Page 17