Islamabad High Court Ka Faisla

Islamabad High Court Ka Faisla

احمدیوں کے بارہ میں ایک فیصلہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اعتراضات، وساوس کا جواب

شوکت عزیز صدیقی صاحب جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا احمدیوں کے بارہ میں ایک فیصلہ اور مستند تاریخی حقائق و واقعات کی روشنی میں اس کا جائزہ اور مختصر تبصرہ


Book Content

Page 1

DOG شوکت عزیز صدیقی صاحب جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا 200 احمدیوں کے بارہ میں ایک فیصلہ اور DOG مستند تاریخی حقائق و واقعات کی روشنی میں D80 اس کا جائزہ اور مختصر تبصرہ حبه حبه حبه Ded

Page 2

رٹ سیکو با دبام آسلا ا جسٹس حب صایقی صد عزیز شوکت کا احمدیوں کے بارہ میں ایک فیصلہ اور مستند تاریخی حقائق و واقعات کی روشنی میں اس کا جائزہ اور مختصر تبصرہ An Analysis and Comment about the verdict on Ahmadis by Justice Shaukat Siddiqui of Islamabad High Court in Light of Historical Facts and Events (Urdu) First published in UK in 2019 © Islam International Publications Ltd Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in UK at: Raqeem Press, Farnham, UK For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-210-0

Page 3

شوکت عزیز صدیقی صاحب جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا احمدیوں کے بارہ میں ایک فیصلہ اور مستند تاریخی حقائق و واقعات کی روشنی میں اس کا جائزہ اور مختصر تبصرہ

Page 4

صفحہ i 1 4 5 9 11 12 19 21 22 23 26 28 31 33 فہرست مضامین مضمون نمبر شمار پس منظر 1857ء کی جنگ کے بارے میں اصل حقائق 1857ء کے بعد جہاد کے بارے میں فتاوی جماعت احمدیہ کے مخالفین کے نظریات اُس دور میں مسلمان سیاستدانوں اور مسلم لیگ کے نظریات کیا یہ سنت نبوی کی پیروی ہے؟ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کے واقعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہونے والی مردم شماری کا ذکر میثاق مدینہ کا حوالہ ہائی کورٹ کے فیصلہ اور سنت نبوی میں تضاد کی ایک مثال ان نظریات کا تعلق کس سے ہے؟ علامہ اقبال کی چند تحریروں کے حوالے.پس منظر اور حقائق 1934 ء سے قبل علامہ اقبال کے احمدیت کے بارے میں خیالات کشمیر کمیٹی کی جد و جہد کا آغاز کشمیر کمیٹی کی تحریک کے خلاف رد عمل 1 1 2 3 + 5 CO 6 7 00 8 9 10 11 12 13 14 15

Page 5

نمبر شمار 16 17 18 19 20 21 22 22 23 24 25 26 26 22 27 28 28 29 29 مضمون صفحہ راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس میں علامہ اقبال کی خاموشی اور قائد اعظم کے موقف کے 34 خلاف تقریر علامہ اقبال جماعت احمدیہ کے خلاف مہم شروع کرتے ہیں مجلس احرار کی بلکہ بازی کا انجام علامہ اقبال کی تحریروں کا تجزیہ کیا مسیح موعود کی پیشگوئی ایک مجوسی نظریہ ہے؟ علامہ اقبال کے مولوی حضرات اور صوفیاء کے بارے میں نظریات کیا کسی وجود کی روحانی اتباع کی ضرورت نہیں؟ اہل کشمیر کی مدد کے لئے جماعت احمدیہ کی کاوشوں کی مخالفت.پس پردہ کون تھا؟ جسٹس شوکت عزیز صاحب کا فیصلہ اور 1953ء کے فسادات 1936ء سے 1947 ء تک کے واقعات کا ذکر غائب کیوں؟ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر اعتراضات چوہدری ظفر اللہ خان کب برطانوی سامراج کے ملازم رہے تھے؟ اور اس کا کیا مطلب ہے؟ مسئلہ کشمیر اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات 1953ء کے فسادات کا آغاز 37 388 38 39 42 44 45 47 49 49 49 51 52 52 54 5.2

Page 6

مضمون قادیانی سامراجیوں کے ایجنٹ؟ افسانہ اور حقیقت امریکی مدد کا افسانہ سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام جہانگیر پارک میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر پر اعتراض مارچ 1953ء کے واقعات عبدالستار نیازی صاحب کی بزدلی صفحہ 58 62 64 223 67 70 70 71 مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کا انحراف کہ ہم تحریک میں شامل ہی نہیں تھے 72 کیا وزیر اعظم کو مارشل لاء کے فیصلہ پر افسوس تھا؟ کیا 1971ء میں احمدیوں کی وجہ سے ملک ٹوٹا تھا ؟ الزامات اور حقائق 1952ء اور 1971ء کے دوران امریکی مدد میں نشیب و فراز کیوں آئے؟ ایم ایم احمد کے سیکرٹری خزانہ بننے کے بعد امریکی مدد پر کیا اثر پڑا؟ کیا ایم ایم احمد اور ان کے بنائے ہوئے پانچ سالہ منصوبوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا؟ ایم ایم احمد کے بارے میں بنگلہ دیش کے پہلے وزیر قانون کی گواہی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی گواہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار کون تھا ؟ 74 75 76 79 80 60 83 85 87 91 3 الزامات کا معیار نمبر شمار 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45

Page 7

صفحہ 94 56 95 888 99 96 105 106 108 111 113 118 119 120 121 123 124 مضمون جماعت احمدیہ پر الزام لگانے والے Thrasy machus کی پیروی | کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں دوسری آئینی ترمیم کا ذکر.جعلی حوالوں سے جعلی حوالوں تک فیصلہ میں اللہ وسایا صاحب کا ذکر عدالتی فیصلہ میں شورش کا شمیری صاحب کا ذکر الزام لگانے والوں پر خود ایجنٹ ہونے کا الزام تھا فیصلہ میں 1974ء کے فسادات کے آغاز کا ذکر بیرونی ہاتھ غلط حوالے سیجی بختیار صاحب کی اختتامی تقریر کی عبارت تبدیل کر دی گئی بھٹو صاحب کی قومی اسمبلی اور پھر سپریم کورٹ میں تقریر ممبران اسمبلی کو کارروائی پڑھا ئیں لیکن مکمل کارروائی پڑھائیں محضر نامہ میں درج ایک انتباہ 1978ء میں رابطہ عالم اسلامی کی قرار داد پس منظر اور حقائق اس کا نفرنس کے بارے میں چند حقائق سعودی امام کعبہ کی طرف سے جنرل ضیاء کی حمایت 4 نمبر شمار 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 60

Page 8

نمبر شمار 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 مضمون جماعت احمدیہ کی مخالفت میں رابطہ عالم اسلامی کی تاریخ ٹی ایچ ہاشمی کا موقف رابطہ عالم اسلامی کا سر پرست کون ہے؟ اہل تشیع کے خلاف رابطہ عالم اسلامی کی سرگرمیاں 1978ء میں کون سے جہاد کی تیاریاں ہورہی تھیں مذہبی مدرسوں کا کردار اسرائیل اور بڑی طاقتوں کے ساتھ ساز باز کون کر رہا تھا ؟ صفح 125 128 129 130 133 137 140 احمدیوں کے خلاف قتل مرتد کے فتوے سے ملک میں بغاوت تک کا خون ریز سفر احمدیوں کو شناخت کرنے اور ان کی لسٹ بنانے کا مطالبہ شناخت کرنے اور مکمل فہرستیں بنانے پر اصرار کیوں؟ اس طرح کی فہرستیں کب بنائی جاتی ہیں؟ پاکستان میں قتل مرتد کے مسئلہ کی ابتدا قرآن کریم سے دلائل حضرت خلیفۃ اصیح الرابع رحمہ اللہ کا انتباہ دوسرے فرقوں کے خلاف فتاویٰ اور قتل و غارت پاکستان میں جگہ جگہ خانہ جنگی کی بنیاد قتل مرتد کے فتاویٰ تھے 5 143 144 146 149 150 152 157 158 162

Page 9

نمبر شمار 77 78 مضمون اسلم قریشی صاحب کا اغواء، شہادت اور پھر دوبارہ زندہ ہو جانا اسلم قریشی صاحب کا پہلا قاتلانہ حملہ گرفتاری اور معافی اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 مجلس عمل کا قیام پولیس کے ابتدائی انکشافات قادیانی اور قادیانی نواز ہونے کے الزامات اور مطالبات کا پر چار اگر الزامات غلط نکلیں تو ہمیں پھانسی دے دینا اسلامی نظریاتی کونسل کے مطالبات بغاوت کی دھمکی اور آرڈیننس کا نفاذ مباہلہ کا چیلنج مُردہ زندہ ہوتا ہے دال کھانے میں دشواری جماعت احمدیہ کے مخالفین کو گرفتار کرنے کا مطالبہ عذر گناه بدتر از گناه عدالتی فیصلہ میں کلیدی اسامیوں کا ذکر درخواست گزاروں کا موقف 6 صفح 164 165 167 168 169 169 171 174 175 177 178 179 181 182 184 185 186

Page 10

نمبر شمار مضمون صفح 188 عدالتی ماہرین کی رائے لیاقت علی خان صاحب کی اصل رائے کیا تھی ؟ ایک بے بنیادالزام 189 193 احمدی صرف حساس نہیں بلکہ کسی معزز اور آئینی عہدے پر بھی مقرر نہیں ہو سکتے 195 196 198 199 201 202 205 207 210 214 225 226 عدالتی فیصلہ آئین کی بنیاد کے خلاف رواج اور Natural Law کا سہارا مولوی صاحبان آخر چاہتے کیا ہیں؟ کیا پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار غیر محدود ہے یا اس کی کچھ حدود ہیں؟ بابر اعوان صاحب کی رائے 1974ء میں پیش کیا جانے والا موقف.کیا اسمبلی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی تھی ؟ 1974ء میں اٹارنی جنرل صاحب کے اُٹھائے گئے سوالات 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 مخالفین جماعت کے نظریات 106 کیا پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار ہے؟ مختلف ممالک کی عدالتوں کے فیصلے غیر قانونی ترمیم اور غیر قانونی مجوزہ قوانین مخالفین کا قرآن وسنت کے فیصلہ سے احتراز 7 107 108

Page 11

نمبر شمار مضمون 109 کون سا طبقہ بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کا حامی ہے؟ 110 تبلیغ پر پابندی 111 اسلم خاکی صاحب کی رائے اور آئین میں تبلیغ کی آزادی 112 بنیادی حقوق کے باب پر مولوی صاحبان کی ناراضگی 113 آزادی سے قبل تبلیغ کی آزادی پر مسلم لیگ کا مؤقف 114 پاکستان بننے کے بعد مولوی صاحبان کے مطالبات 115 مرتد کی تعریف اور اس میں پوشیدہ فتنہ 116 قرآن کریم کی راہنمائی صفحہ 229 233 235 237 239 241 243 244 117 جماعت احمدیہ کے خلاف آرڈینس میں بعض اصطلاحات کے استعمال پر پابندی 246 118 امیر المومنین کی اصطلاح 119 خلیفتہ المومنین اور خلیفتہ المسلمین کی اصطلاح 120 صحابی کی اصطلاح 121 رضی اللہ عنہ کی اصطلاح 122 | شروط عمریہ کی حقیقت 123 اس دستاویز کے بنیادی نکات 124 رسول اللہ صلی ا یتیم کا اسوہ حسنہ کیا تھا ؟ 125 حضرت عمر کے دور میں ہونے والے معاہدے 248 251 254 255 260 263 266 270 8

Page 12

نمبر شمار مضمون 126 شعائر اللہ اور شعائر اسلامی عدالتی فیصلے اور حقائق 127 عدالتی ماہرین کی آراء اور سابقہ عدالتی فیصلے 128 عدالتی فیصلہ میں شعائر اللہ کی تعریف 129 قرآن کریم میں شعائر اللہ کا ذکر 130 شعائر اسلامی کی اصطلاح اور احادیث صفح 275 276 278 280 283 131 کیا ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذاہب کے طریق عبادت کو اپنا سکتے ہیں؟ 284 132 لفظ ” مسجد کے استعمال پر وفاقی شرعی عدالت میں بحث 133 دلائل از روئے قرآن کریم 134 احادیث نبویہ صل للہ یہ تم سے دلائل 135 عدالتی معاون کے نظریات 136 وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ میں اس پہلو پر بحث 137 نظر انداز کئے جانے والے پاکستانی عدلیہ کے بعض فیصلے 138 سپریم کورٹ کے فیصلہ میں اُٹھائے گئے سوالات 286 287 290 292 296 298 313

Page 13

پس منظر جب کوئی قوم دانستہ طور پر اپنی منزل کھو کر تنگ نظری کی بندگلی میں جا نکلے تو پھر اللہ کا کوئی خاص فضل ہی اسے اس بندگلی سے نجات دلا سکتا ہے ورنہ ان بھول بھلیوں سے نکلنے کی ایک بعد دوسری کوشش ناکام ہوتی جاتی ہے.یہی حال اس دور میں پاکستان کا ہے.پہلے 1974ء میں آئین میں دوسری ترمیم کے ذریعہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا اور ظاہر ہے کہ احمدیوں نے اس عجیب الخلقت فیصلہ کو کبھی بھی قبول نہیں کیا.پھر جنرل ضیاء صاحب کے دور میں انتخابی قوانین میں ترمیم کر کے جدا گانہ انتخابات کو متعارف کرایا گیا یعنی ہر مذہب سے وابستہ افراد اپنے نمائندے علیحدہ منتخب کریں اور اس کا سب سے بڑا نشانہ احمدی تھے اور احمدیوں نے اس انتخابی عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا کیونکہ اُن کے نزدیک اسلام کے علاوہ احمدیوں کا کوئی مذہب نہیں ہے.پھر 2002ء میں جدا گانہ انتخابات کو ترک کر کے ایک بار پھر Joint Electorate کو نافذ کیا گیا.لیکن جب مولویوں نے فساد برپا کیا تو ایک اور بوانجی یہ دکھائی گئی کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ باقی فرقوں کے مسلمانوں ، ہندوؤں ، عیسائیوں اور سکھوں وغیرہ کی ایک مشتر کہ انتخابی فہرست بنے گی اور احمدیوں کی علیحدہ ووٹرلسٹ بنے گی.انتخابی قوانین میں یہ قوانین 7B اور 7C کی شقوں میں شامل کئے گئے تھے.ظاہر ہے کہ احمدیوں نے ان قوانین کے تحت بھی انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا.جب 2017ء میں نئے انتخابی قوانین بنائے گئے اور پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے تو ان قوانین میں 7A اور 7B کی شقیں شامل

Page 14

نہیں تھیں اور انتخابات میں کھڑے ہونے والے امیدواروں کے لئے جہاں پر ختم نبوت کا حلف نامہ دیا گیا تھا وہاں I solemnly swear“ کی جگہ I believe“ کے الفاظ شامل کئے گئے تھے.قوانین منظور ہو گئے.بعد میں اس بابت سوال اُٹھایا گیا اور فساد کرنے کی دھمکی دی گئی تو مذکورہ قوانین ایک بار پھر انتخابی قوانین کا حصہ بنادیئے گئے.اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں اور مقدمہ کی کارروائی جماعت احمدیہ کے مخالفین کے مطالبات تو پورے کر دیئے گئے لیکن بہت سے سیاسی بالشتیے اپنے قد کاٹھ میں اضافہ کرنے کے لئے ایسے مواقع کے منتظر ہوتے ہیں.چنانچہ ملک میں فسادات بر پا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی.دھرنا دے کر لوگوں کا جینا دوبھر کیا گیا.اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں کچھ اشخاص کی طرف سے پیٹیشن (petition) درج کرانے کا سلسلہ شروع ہوا.اس قسم کی پیٹیشن درج کرانے والوں میں جماعت احمدیہ کے پرانے مخالف مولوی اللہ وسایا صاحب، یونس قریشی صاحب اور تحریک لبیک یا رسول اللہ وغیرہ شامل تھے.اور وفاق پاکستان کو بواسطہ سیکرٹری قانون وانصاف ، اور حکومت پاکستان کو بواسطہ وزیر اعظم پاکستان مدعا علیہ بنایا گیا تھا.پیٹیشن دائر کر نے والوں کی درخواست تھی کہ انتخابات کے قوانین میں کی جانے والی مذکورہ تبدیلیوں کو ختم کیا جائے.(اور اس فیصلہ کے سنائے جانے سے قبل پارلیمنٹ نے ان ترامیم کو ختم کر بھی دیا تھا.) اور حکومت کو ہدایت کی جائے کہ جواحمدی سرکاری ملازمت میں داخل ہوں اُن کی علیحدہ لسٹیں رکھی جائیں تا کہ ان احمدیوں کو حساس عہدوں پر نہ لگایا جائے.اس بات کی تحقیقات کرائی جائیں کہ ان ترامیم کی پشت پر کون سے ہاتھ کارفرما تھے اور اس ضمن میں راجہ ظفر الحق صاحب نے جو تحقیقات کی تھیں وہ شائع کی جائیں.فیڈرل حکومت کی ملازمت میں جو احمدی اس وقت کام کر رہے ہیں ان کی لسٹیں ان

Page 15

!!! کے عہدوں سمیت سامنے لائی جائیں.انتخابات میں کھڑے ہونے والے امیدواروں کا پرانا حلف نامہ بحال کیا جائے.اُن NGOs پر پابندی لگائی جائے جو کہ ملک میں سیکولر پرو پیگنڈہ کر رہی ہیں.یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب پر مشتمل ایک رکنی بینچ سن رہا تھا.جب اس مقدمہ کی کارروائی آگے بڑھ رہی تھی تو اس بارے میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ کس قسم کا فیصلہ سنایا جائے گا.اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ 4 جولائی کو تفصیلی فیصلہ سامنے آیا.اس عدالتی فیصلہ کی بعض شقیں ملاحظہ ہوں.اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ کے فیصلہ میں اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اگرچہ 1974ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا لیکن اس ترمیم پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا.اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ قادیانی اس پر عملدرآمد کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں.جج صاحب نے مزید انکشاف کیا کہ قادیانیوں کا معاملہ باقی اقلیتوں کی طرح کا نہیں ہے کیونکہ باقی اقلیتیں تو اپنے نام، وضع قطع ، عقائد اور طریقہ عبادت کی وجہ سے صاف پہچانی جاتی ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ قادیانیوں کے نام،شکل صورت حتی کہ نماز کا طریقہ بھی مسلمانوں جیسا ہے اس لئے انہیں مسلمانوں سے فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے اور اس وجہ سے دوسری آئینی ترمیم کے مقاصد حاصل نہیں ہو رہے.اس کی معین مثال دیتے ہوئے حج صاحب نے تحریر فرمایا کہ نام احمد کچھ احمدیوں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے اور اسی وجہ سے بعض مرتبہ قادیانیوں کو احمدی بھی کہا جاتا ہے اور اس کی اجازت تو کسی صورت نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے.اس لئے اگر اس مخلوق کو کوئی نام دینے کا احسان کرنا ہی ہے تو انہیں غلام مرزا یا مرزائی کہہ دیا کرو اور رہا ان کے ذاتی ناموں کا بکھیڑا

Page 16

تو ایسا کرو یا تو انہیں مسلمانوں جیسے ناموں کو استعمال کرنے سے روکو یا اگر اس کی تو فیق نہیں تو کم از کم ان کے نام کے ساتھ غلام مرزا یا مرزائی جیسے سابقے اور لاحقے لگا کر وطن عزیز کو اشتباہ کی اس وبا سے نجات دلانا مناسب ہوگا.اس کے علاوہ عدالتی فیصلہ میں کچھ اعداد و شمار درج کر کے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ آخر حکومت ایسا کوئی سائنسی طریقہ کیوں نہیں ڈھونڈتی کہ پاکستان میں باقی ماندہ اقلیتوں کی صحیح صحیح تعداد معلوم ہو جائے.اگر یہ مسئلہ حل نہ کیا تو اس اقلیت کے افراد حساس عہدوں پر براجمان رہیں گے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوگی.اس ملک کے ہر شہری کا یہ حق ہے کہ اسے علم ہو کہ اس ملک کے حساس عہدوں پر مقرر اشخاص کے عقیدے آخر کیا ہیں؟ اس ملک کی اکثر اقلیتوں کی تو کوئی نہ کوئی علیحدہ پہچان ہے لیکن ایک اقلیت ایسی ہے جسے نام اور لباس کے معائنے سے پہچاننا دو بھر ہو رہا ہے.اگر اس کا کوئی انتظام نہ کیا گیا تو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ باوقار اور حساس عہدوں پر فائز ہو کر فائدہ اٹھا لیں.چنانچہ بہت ضروری ہے کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ بناتے ہوئے اور نادرا میں اندراج کرواتے ہوئے عقائد کا بیان حلفی بھروایا جائے.مسئلہ کا تاریخی پس منظر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جناب جسٹس شوکت عزیز صاحب نے احمدیوں کے بارے میں جو تفصیلی فیصلہ تحریر فرمایا ہے، اس کی ضخامت 172 صفحات پر مشتمل ہے.اس میں فیصلہ کا حصہ تو تھوڑا ہے لیکن طویل تاریخی پس منظر بیان کر کے اس فیصلہ کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اس میں بہت سے تاریخی واقعات کا تجزیہ کرنے اور ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح جماعت احمدیہ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے.یوں تو فیصلہ میں بیان کردہ تمام تاریخی نکات قابل توجہ ہیں لیکن اس مضمون میں ان نکات میں سے صرف ایک پر تبصرہ کیا جائے گا.iv

Page 17

اس فیصلہ میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے اشد مخالف اور شریعت کورٹ کے سابق حج ڈاکٹر محمود اے غازی صاحب کی ایک تحریر درج کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے 1857ء کی جنگ کے بعد ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت کو مسلمانوں میں موجود جذ بہ جہاد کی بہت فکر تھی اور اس جذبہ کو دبانے کے لئے انہوں نے ایک pseudo-religious لیڈر کو کھڑا کرنے کا منصوبہ بنایا جو کہ جہاد کے خلاف فتاوی دے اور غازی صاحب کے مطابق یہ لیڈر جماعت احمدیہ کے بانی تھے.اور اس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کو جہاد سے دور کرنے کی سازش پر عمل شروع ہوا.( صفحہ 40 - 42 ) اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں مودودی صاحب اور شورش کا شمیری صاحب کی تحریریں درج کرنے کے علاوہ بشیر احمد کی کتاب Ahmadiyya Movement کے حوالے دے کر یہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصل میں جماعت احمدیہ کو ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت نے کھڑا کیا تھا تا کہ وہ مسلمانوں میں جہاد کے خلاف پروپیگنڈا کر کے مسلمانوں میں جذبہ جہاد کو ختم کریں، مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوائیں ، ورنہ برطانوی حکومت کو ہر وقت یہ خطرہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمان ان کے خلاف کسی وقت بھی کھڑے ہو سکتے ہیں.( صفحه 47 و53 ) یہ الزام پہلی مرتبہ نہیں لگایا گیا بلکہ جب سے ہندوستان سے برطانوی حکومت رخصت ہوئی ہے جماعت احمدیہ کے مخالفین یہی الزام لگا رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو انگریز حکومت نے مسلمانوں میں جذبہ جہاد ختم کرنے کے لئے قائم کیا تھا.ہم اس الزام کو پر کھنے کے لئے

Page 18

ٹھوس تاریخی حقائق سامنے رکھیں گے جن کو پڑھ کر ہر شخص اس معاملہ میں آزادانہ رائے قائم کر سکتا ہے.یہ بات قابل غور ہے کہ عدالتی فیصلہ میں صرف جماعت احمدیہ کے اشد مخالفین کی تحریروں کو تاریخی ماخذ کے طور پر پیش کیا گیا ہے.ان میں سے کسی کو کسی طرح بھی معتبر تاریخی ماخذ نہیں قرار دیا جا سکتا.ان کتب میں دلائل کی بجائے محض غیظ و غضب کے اظہار کو ہی کافی سمجھا گیا ہے.لیکن ہم جو بھی تبصرہ پیش کریں گے اس کی تائید میں قابل اعتبار حوالے پیش کریں گے.vi

Page 19

1857ء کی جنگ کے بارے میں اصل حقائق اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں تاریخی واقعات کا جوتفصیلی مگر بے ربط اور خلاف واقعہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے اس کا نقطہ آغاز 1857ء کی جنگ کو بنایا گیا ہے.مناسب ہوگا اُس دور کے کچھ مسلمانوں کی تحریروں کے حوالے درج کر دیئے جائیں تا کہ یہ واضح ہو کہ اُس دور کے مسلمان 1857ء کی جنگ کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے؟ اس سے ہم سمجھ سکیں گے کہ مسلمانوں میں اس جنگ کا جو رد عمل پیدا ہوا وہ کیوں ہوا؟ اس فیصلہ کے صفحہ 40 پر غازی صاحب کی تحریر درج ہے جس میں لکھا ہے کہ 1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے مغلیہ سلطنت پر قبضہ کر لیا اور یہ مسلمانوں کے لئے بہت بڑا المیہ تھا.یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ غازی صاحب کو اس بارے میں بنیادی حقائق کا علم نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ سے قبل ہی دہلی اور اس کے گردو نواح کا تمام علاقہ انگریزوں کے قبضہ میں آچکا تھا اور یہ قبضہ خود مسلمان بادشاہ کی درخواست پر کیا گیا تھا.حقیقت یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے دادا شاہ عالم کو مرہٹوں نے گرفتار کر کے ان کی آنکھیں نکال دی تھیں.جب مرہٹوں کو شکست ہوئی تو شاہ عالم نے انگریزوں کو درخواست کی کہ وہ انہیں اپنی پناہ میں لیں.جنرل لیک نے انہیں رہا کر کے ان کا وظیفہ مقرر کیا اور 1857ء کی جنگ سے قبل بہادر شاہ ظفر بھی انگریز حکومت سے پنشن پاتے تھے اور دہلی میں بھی حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کی تھی.(1857 ء مجموعه خواجہ حسن نظامی ناشر سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور مطبوعہ 2007، صفحہ 308) جب نام کا بادشاہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی سے پینشن لیتا تھا تو یہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ اس جنگ کو شروع کرنے والے اور اس کو شہر شہر پھیلانے والے اور اس سلسلہ کو آگے 1

Page 20

بڑھانے والے آخر کون تھے؟ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہر مقام پر یہ جنگ لڑنے والے وہ سپاہی تھے جو کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تنخواہ دار تھے.وہ اب تک انگریزوں کے سب سے زیادہ وفادار تھے.یہ وہ سپاہی تھے جنہوں نے ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت قائم کرنے کے لیے اپنے ہم وطنوں سے جنگیں لڑیں تھیں.بہادر شاہ ظفر کے درباری ظہیر دہلوی کا بیان ہے کہ جب دہلی میں پہلی مرتبہ باغی سپاہی اور انگریز ریزیڈنٹ کا سامنا ہوا تو ان سپاہیوں نے اس وقت بھی انگریز افسر کو یہی کہا: غریب پرور ! حضور سچ فرماتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں سرکار نے ہم لوگوں کو اسی طرح پالا اور پرورش کیا ہے.سرکار کے حقوق نمک ہم نہیں بھولیں گے مگر ہم لوگوں نے آج تک سرکار کی کوئی نمک حرامی نہیں کی.جہاں سرکار نے ہمیں جھونک دیا، ہم آنکھیں بند کر کے آگ میں پانی میں کود پڑے.کچھ خوف جوکھوں کا نہ کیا.سر کٹوانے میں کہیں دریغ نہ کیا.کابل پر ہمیں لوگ گئے.لاہور ہمیں لوگوں نے فتح کیا.کلکتہ سے کابل تک ہمیں لڑے بھڑے، سر کٹوائے ، جانیں دیں اور حق نمک ادا کیا.داستان غدر مصنفہ ظہیر دہلوی ناشر سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور سال 2007 ، صفحہ 49 ، 50 ) جیسا کہ حوالہ درج ہے یہ گواہی ایک ایسے مسلمان کی ہے جو کہ بہادرشاہ ظفر کے دربار سے منسلک تھا.اب یہ دیکھتے ہیں کہ اُس وقت کے مسلمانوں سے اور دہلی کی مقامی آبادی سے اس فوج نے کیا سلوک کیا تھا.یہی صاحب یعنی ظہیر دہلوی بیان کرتے ہیں: وہ تمام بد پیشہ بد معاش چوٹے اٹھائی گیرے کر کی بانڈی باز مال مردم خور جو ایسے مواقعات کے منتظر رہتے تھے ، گھروں سے نکل نکل کر آن موجود ہوئے اور ایک جم غفیر اور ایک اثر دہام، کثیر فرقہ باغیہ میں شامل ہو گیا.اب ایک سوار ہے پچاس بد پیشہ اس کی اردلی میں دوڑے جاتے ہیں.سوار کسی پر دست درازی کرتے ہیں، بدمعاش لوٹ کھسوٹ کرنے لگتے 2

Page 21

ہیں اور سامان توڑ پھوڑ کر برابر کر دیتے ہیں.جو شے آتی ہے، لے بھاگتے ہیں رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچی کہ سواران باغیہ قلعہ کے لاہوری دروازے تک جا پہنچے.کوئی ان کا سد راہ نہ ہوا.داستان غدر مصنفه ظهیر دہلوی ناشر سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور سال 2007 ، صفحہ 53 ) کیا یہ جنگ جہاد تھی ؟ سرسید احمد خان صاحب لکھتے ہیں : غور کرنا چاہیے کہ اس زمانہ میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا ایسے خراب اور بد رویہ اور بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خواری اور تماش بینی اور ناچ اور چنگ دیکھنے کے اور کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا.بھلا یہ کیونکر پیشوا اور مقتدا جہاد کے گنے جاسکتے تھے.اس ہنگامہ میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوئی.سب جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اور اسباب جو امانت تھا اس میں خیانت کرنا، ملازمین کو نمک حرامی کرنی ، مذہب کے رو سے درست نہ تھی.صریح ظاہر ہے کہ بے گناہوں کا قتل علی الخصوص عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کا ، مذہب کے بموجب گناہ عظیم تھا پھر کیوں کر یہ ہنگامہ غدر جہاد ہو سکتا تھا البتہ چند بد ذاتوں نے دنیا کی طمع اور اپنی منفعت اور اپنے خیالات پورا کرنے کو اور جاہلوں کے بہکانے کو اور اپنے ساتھ جمعیت مع کرنے کو جہاد کا نام لے دیا پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرام زدگیوں میں سے ایک حرام زدگی 66 تھی نہ واقع میں جہاد.“ اسباب بغاوت ہند، مصنفہ سرسید احمد خان صفحه 31 تا 34 ) خودان واقعات کے مسلمان گواہ مثال کے طور پر عبد اللطیف صاحب اور حکیم احسن اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس جنگ کو بر پا کرنے والوں نے دہلی کی عورتوں پر حملہ کیا یہاں تک کہ کچھ عورتوں نے ان سے اپنی عزت بچانے کے لئے خود کشیاں کر لیں.بازار کے قریب مساجد میں اذان دینے پر پابندی لگا دی.اور لوٹ مار بر پا کی.یہ صورت حال دیکھ کر مقامی مولویوں 3

Page 22

نے ان سپاہیوں کے خلاف جہاد کا اعلان بھی کیا تھا.(1857 ء روز نامچے، معاصر تحریریں، یاداشتیں مرتبہ محمد اکرام چغتائی ناشر سنگ میل پبلیکیشنز صفحہ 159,241,200,199) 1857ء کے بعد جہاد کے بارے میں فتاویٰ......یہ تو اس جہاد کا مختصر احوال ہے جو کہ 1857ء کی جنگ کے دوران ہوا.اب اس الزام کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس جنگ کے بعد انگریز حکمرانوں کو اس بات کی بہت پریشانی تھی کہ مسلمانوں میں جہاد کا جذبہ بڑھ کر ان کے لئے خطرہ نہ بن جائے اور اس جذ بہ کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے جماعت احمدیہ کونعوذ باللہ قائم کیا.ایک سوال ہمیں پریشان کر رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کا قیام تو 1889ء میں ہوا تھا تو کیا 32 سال انگریز ہاتھ پر ہاتھ دھر کر مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو پھلتا پھولتا دیکھتے رہے تھے؟ خیر اس مسئلہ کا آسان حل ہے کہ اُس دور کے انگریزوں سے پوچھ لیتے ہیں کہ انہوں نے کس کو استعمال کیا تھا؟ جب اس دور کی برطانوی حکومت کے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا ہندوستان کے مسلمانوں میں ان کے خلاف جذبہ جہاد پایا جاتا ہے تو ان کے ایک اعلیٰ افسر Ww Hunter نے 1871ء میں ایک رپورٹ مرتب کی جو کہ اسی سال The Indian Mussalman's کے نام سے شائع کی.اس کے چندا ہم نتائج ملاحظہ ہوں.انہوں نے حکومت کو مبارکباد دی کہ مسلمانوں کے گزشتہ چند سالوں میں مختلف فرقوں کے علماء حتی کہ مکہ کے مفتی اعظم نے بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کو خلاف شریعت قرار دے 4

Page 23

دیا ہے.(صفحہ 114) حتی کہ ترکی کے خلیفہ مصر کے مسلمان حکمران اور دیگر مسلمان بادشاہ بھی جہاد کے قائل گروہوں کے خلاف سرگرم ہیں (صفحہ 115-116 ) پھر وہ بڑی مسرت سے اپنی حکومت کو اطلاع دیتے ہیں اس ملک میں سب سے بڑا فرقہ سینیوں کا ہے اور ان کے عمائدین نے بھی کلکتہ میں جمع ہو کر یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ انگریزوں کے خلاف جہاد جائز نہیں.(صفحہ 120-121 ) پھر وہ لکھتے ہیں کہ شمالی ہندوستان کے علماء نے بھی زور دار فتویٰ دیا ہے کہ عیسائی تو مسلمانوں کی حفاظت کر رہے ہیں ان کے خلاف جہاد خلاف شریعت ہے.(صفحہ 218 ) اور شیعوں کے متعلق وہ تفصیل سے لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک تو جب تک امام ظاہر نہ ہو جہاد گناہ ہے.(صفحہ 116-118) مزید تسلی کے لئے وہ مکہ مکرمہ کے حنفی ، شافعی اور مالکی مفتیوں کے فتاوی درج کرتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جہاد جائز نہیں.(Appendix1).جب یہ تمام فرقے جماعت احمدیہ کے قیام سے 18 سال قبل ہی برطانوی حکومت کی یہ خدمت کر چکے تھے تو یہ مضحکہ خیز دعویٰ ہے کہ انگریزوں نے جذبہ جہاد کو ختم کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کو کھڑا کیا تھا.اور عقل اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ جو گروہ انگریز حکمرانوں کی اس طرح حمایت کر رہے ہوں ، انگریز حکومت ان کے مقابل پر ایک گروہ کھڑا کرے.(The Indian Musssalman's by WW Hunter Published by Sange Meel 1999) جماعت احمدیہ کے مخالفین کے نظریات یہ تو جماعت احمدیہ کے قیام سے قبل کے دور کا ذکر ہے.اب ہم ان علماء کا ذکر کرتے 5

Page 24

ہیں جو کہ جماعت احمدیہ کے قیام کے بعد جماعت احمدیہ کی مخالفت میں سب سے پیش پیش تھے.ہم جماعت احمدیہ اور اس کے بانی کے اشد ترین مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی تحریروں سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں.جماعت احمدیہ کے قیام سے کچھ برس قبل 1883ء میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ میں یہ اعلان شائع کروایا: ”ہند کے مسلمانوں میں کوئی دشمن سرکار انگریزی کا نہیں خواہ ان کو کوئی دشمن ان کا بلفظ وہابی مشہور کرے یا نہ کرے.“ (اشاعة السنة النبویہ جلد 6 نمبر 6 صفحہ 177) عدالتی فیصلہ میں جماعت احمدیہ کے قیام کے بارے میں محمود غازی صاحب کی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے: The linchpin of the whole crusade was the propaganda against Jihad, the belief of which was motivating the Indian Muslims to rise against the British colonialism in India.ترجمہ: اس ساری کاوش کا محور یہ تھا کہ جہاد کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے کیونکہ اس پر ایمان ہندوستان کے مسلمانوں کو برطانوی استعماریت کے خلاف جوش دلا رہا تھا.اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر خود جماعت احمدیہ کے مخالفین کے مطابق اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں میں کوئی ایک بھی سرکار انگریزی کا دشمن نہیں تھا تو پھر انگریز حکومت کس میں جذبہ جہاد ختم کرنے کے لئے اتنے پاپڑ بیل رہی تھی ؟ اسی فیصلہ کے صفحہ 41 پر محمود غازی صاحب کی یہ تحریر درج کی گئی ہے کہ انگریز حکمرانوں کی طرف سے: 6

Page 25

"Every possible step to disintegrate, disunite, confuse and to create a defeatist mentality in the local population, more particularly, among the Muslim community was taken".ترجمہ: ہر ممکن قدم اٹھایا گیا تا کہ مقامی آبادی میں انتشار پیدا کیا جائے ، ان کے اتحاد میں رخنے ڈالے جائیں ، انہیں الجھنوں میں مبتلا کیا جائے اور ان میں شکست خوردہ ذہنیت پیدا کی جائے.یادش بخیر ! اس حوالے سے کچھ امور کو یاد کرانا ضروری ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک انگریز ہندوستان پر حکمران تھا، جماعت احمدیہ کے مخالف مولوی صاحبان یہ اعلان کر رہے تھے کہ انگریز حکمران تو مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کے لئے قابل قدر کوششیں کر رہے ہیں.چنانچہ 1881ء میں دہلی کے مسلمان علماء نے تجویز کیا کہ اہل حدیث اور حنفی دوسرے فقہ کے پیروکار ایک دوسرے پر طعن و تشنیع نہ کریں اور ایک دوسرے کی مساجد میں ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھ لیں اور رفع یدین اور آمین بالجہر پر فساد نہ کریں اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنے رسالہ میں فخر سے تحریر فرمایا کہ ہم مسٹر ینگ کمشنر دہلی کے شکر گزار ہیں جنہوں نے خود کوشش کر کے یہ معاہدہ کرایا ہے اور مسلمانوں کے دینی معاملہ میں ان کی مدد کی ہے.اور اس بارے میں مختلف مسالک کے بڑے بڑے علماء میں تحریری معاہدہ ہوا اور ان علماء نے اس معاہدہ پر دستخط کئے اور اپنی مہریں ثبت کیں.ان میں سے ایک دستخط جماعت احمدیہ کے ایک اور اشد مخالف مولوی نذیر حسین دہلوی صاحب کے بھی ہیں.اور یہ سب کچھ مسٹر ینگ کمشنز دہلی کے رو برو کیا گیا اور انہوں نے بھی اس معاہدہ پر اپنے دستخط کئے.(اشاعۃ السہ نمبر 3 جلد 5 صفحہ 69 تا 73) 7

Page 26

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اُس وقت انگریز حکومت کا مخالف کون تھا؟ تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ اُس دور میں جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف مولوی صاحبان یہ اعلان کر رہے تھے کہ انگریز حکومت کے سب سے بڑے مخالف بانی سلسلہ احمدیہ اور ان کی جماعت ہے اور انگریز حکومت کے خیر خواہ وہ علماء ہیں جو کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں.چنانچہ 1895ء میں جبکہ جماعت احمد یہ کے قیام کو صرف چھ برس ہوئے تھے مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے بانی سلسلہ احمدیہ کے بارے میں لکھا: گورنمنٹ کو خوب معلوم ہے اور گورنمنٹ اور مسلمانوں کے ایڈووکیٹ اشاعۃ السنہ نے گورنمنٹ کو جتا دیا ہوا ہے کہ یہ شخص در پردہ گورنمنٹ کا بدخواہ ہے...وہ اپنے جملہ مخالفین مذہب کے مال و جان کو گورنمنٹ ہو خواہ غیر معصوم نہیں جانتا اور ان کے تلف کرنے کے فکر میں ہے.دیر ہے تو صرف جمعیت و شوکت کی دیر ہے.“ اشاعۃ السنہ نمبر 5 جلد 8 صفحہ 152 ) جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے فیصلہ میں تحریر کیا ہے کہ نعوذ باللہ انگریزوں نے جماعت احمدیہ کو اس لئے کھڑا کیا تھا تا کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کے خلاف جہاد کا خیال نکالا جائے.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت جماعت احمدیہ کے مخالف مولوی صاحبان یہ عقیدہ ظاہر کر کے انگریز حکمرانوں کو خوش کر رہے تھے کہ جب ان کے عقیدہ کے مطابق امام مہدی آئے گا تو حقیقی طور پر جہاد کا خاتمہ کر دے گا.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب تحریر کرتے ہیں : مہدی علیہ السلام کا وقت (جو بعینہ حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت ثانی کا وقت ہے) حکم جہاد کو جو ابتداء بعثت نبوی بلکہ اس سے پہلے بھی نبیوں کے وقت سے مستمر چلا آتا تھا اُٹھا دینے کا وقت ہوگا جس کا اُٹھایا جانا خود خاتم المرسلین کے حکم اور پیشگوئی سے ثابت ومسلم 8

Page 27

اہل اسلام ہو چکا ہے.“ اشاعۃ السنہ نمبر 4 جلد 22 صفحہ 136 ) یہ امر قابل ذکر ہے کہ انگریز حکومت نے ان مولوی صاحبان کو جو کہ جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت میں پیش پیش تھے انعام واکرام سے بھی نوازا تھا.چنانچہ خود مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اقرار کیا تھا کہ انگریز حکومت نے ان کی خدمات سے خوش ہو کر انہیں چار مربع زمین عطا کی ہے.اس وقت ان کا رسالہ بانی سلسلہ احمدیہ کی مخالفت کے لئے وقف تھا.انہوں نے یہ بھی تحریر کیا تھا کہ اس انعام کے نتیجہ میں ان کے ذاتی اخراجات کا باررسالہ پر نہیں رہے گا اور لکھا کہ یہ عطیہ الہیہ بواسطہ گورنمنٹ عالیہ بانی سلسلہ احمدیہ کو بہت ناگوار گزرا ہے.(اشاعۃ السنہ نمبر 3 جلد 19 صفحہ 94و95) اُس دور میں مسلمان سیاستدانوں اور مسلم لیگ کے نظریات یہ تو اُس وقت کے علماء کا ذکر تھا.قدرتی طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اُس دور میں مسلمانوں کے سیاستدان بھی موجود تھے اور مسلمانوں کی سیاسی تنظیمیں بھی کام کر رہی تھیں، کیا یہ سیاسی تنظیمیں انگریز حکومت کے خلاف کسی قسم کی جدو جہد کی ترغیب دلا رہی تھیں؟ اُس وقت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت مسلم لیگ ہی تھی جیسا کہ ہر تنظیم اپنی ابتدا سے اپنے اغراض و مقاصد کا تعین کرتی ہے تا کہ اس پروگرام کے مطابق کام کر سکے.چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں عمل میں آیا اور اس کے بعد ایک کے بعد دوسری صوبائی مسلم لیگیں وجود میں آتی رہیں اور جب ڈھا کہ میں مسلم لیگ کا پہلا اجلاس ہوا تو اس اجلاس 9

Page 28

میں سب سے پہلی قرار داد یہی منظور کی گئی کہ مسلم لیگ کے بنے کا اولین مقصد یہ ہے: مسلمانوں کے درمیان برٹش گورنمنٹ کی نسبت سچی وفاداری کا خیال قائم رکھا جائے اور اس کو بڑھایا جائے.“ (Foundation of Pakistan Vol 1 compiled by Sharifuddin Pirzada p6 ) (Book of Reading on the history of the Punjab 17799 - 1947, Published by Research Society of Pakistan 1985, Copiled by Ikram Ali Malik) گویا مسلم لیگ کے قیام کا ایک اہم مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کو برطانوی حکومت کا وفادار رکھا جائے.ان کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنا اس تنظیم کا مقصد نہیں تھا.اس پس منظر میں برطانوی حکومت کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ ایک علیحدہ فرقہ بنائے جو پادریوں کے خلاف اور ان کے مذہب کے خلاف بھی سرگرم عمل ہو.اور اس اجلاس میں مسلمان عمائدین نے پریس کو یہ اعلامیہ جاری کیا تھا: "Advantage and every safety of the Muhammedans lay in the loyalty to the Government.So much was their cause bound up with the British Raj that they must be prepared to fight and die for the Government if necessary".(Foundation of Pakistan Vol.1 compiled by Sharifuddin Pirzada p 13) ترجمہ: مسلمانوں کا تمام تر فائدہ اور حفاظت گورنمنٹ سے وفاداری سے وابستہ ہے.ان کا مفاد برٹش راج سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو انہیں گورنمنٹ کی خاطر لڑنے اور مرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے.اگر تمام مسلمان اپنا مفاد اسی میں سمجھ رہے تھے کہ وہ ضرورت پڑنے پر انگریز گورنمنٹ پر جان بھی نچھاور کر دیں تو عقل اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ انگریز حکومت 10

Page 29

کو مسلمانوں میں جذبہ جہاد ختم کرنے کے لئے کوئی شعبدہ بازیاں کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو.ایک شخصیت ہے جس کی دیانتدارانہ رائے اور خلوص سے سب واقف ہیں اور دشمن بھی اس کی دیانتدارانہ رائے کے معترف رہے ہیں اور یہ شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت ہے.جب پہلی جنگ عظیم اپنے آخری ایام میں داخل ہو چکی تھی تو اس وقت ایک تقریر میں قائد اعظم نے کہا تھا: "It may be said once for all that the people of India are proud to be a part of the British Empire and their loyalty is as true and firm as that of any other Britisher in any part of the Empire, not excluding Great Britian and there is no doubt that India will to the end stand faithfully by the British Empire".(The Works of Quaide Azam Mohammad Ali Jinnah Vol 3, compiled by Dr.Riaz Ahmad, published by National Institute of Pakistan Studies Quade Azam University Islamabad 1998, p 364) ترجمہ: ہمیشہ کے لئے یہ کہ دینا مناسب ہوگا کہ ہندوستان کے لوگوں کو برٹش امپائر کا حصہ ہونے پر فخر ہے اور ان کی وفاداری اتنی ہی سچی اور مضبوط ہے جتنی کسی بھی برطانوی کی جو کہ برطانیہ عظمی سمیت ایمپائر کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان آخر تک وفاداری کے ساتھ برٹش ایمپائر کے ساتھ کھڑا رہے گا.کیا یہ سنت نبوی کی پیروی ہے؟ 4 جولائی 2018ء کو اسلام آباد ( پاکستان ) کی ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ کے اس 11

Page 30

تفصیلی فیصلہ میں پاکستان کے احمدیوں کے خلاف امتیازی سلوک کومزید سخت بنانے کے لئے بہت سی تجاویز دی گئی ہیں.یہ فیصلہ 172 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ان امور کا ایک تفصیلی تاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے.اس فیصلہ کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ تو قانون دان حضرات پیش کریں گے لیکن ہر ذی شعور کو ان تاریخی امور سے دلچسپی ضرور ہو گی جنہیں اس فیصلہ کی اصل بنیاد کے طور پر بیان کیا گیا ہے.مضامین کے اس سلسلہ میں ہم ان تاریخی تفاصیل کا تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ اس عدالتی فیصلہ کی زینت بنے ہیں.اس فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلہ کی بنیا دسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس سلسلہ میں بعض احادیث کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں.اس مضمون میں ہم اس دعوے کا تجزیہ پیش کریں گے.مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کے واقعات اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے جو فیصلہ تحریر فرمایا ہے، اس میں احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دے کر بعض نکات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے.اس فیصلہ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلامی حکومت میں کبھی بھی دعویٰ نبوت کو برداشت نہیں کیا گیا اور جب بھی کسی نے کسی قسم کا دعوی نبوت کیا اس کو سخت ترین سزادی گئی.ظاہر ہے کہ جب کسی بھی معاملہ میں اسلامی حکومت کی بات ہو رہی ہو تو زمانہ نبوی کی مثال دینا ضروری ہوگا.12

Page 31

انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے انہیں کے الفاظ میں درج کیا جائے کہ وہ کیا نتیجہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور پھر یہ جائزہ لیا جائے کہ وہ اس نتیجہ کی تائید میں کون سی احادیث پیش کر رہے ہیں.اپنے فیصلہ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب تحریر کرتے ہیں: "The learned Amicus Curiae while relying upon the authority of the Sunnah, a primary source of Islamic law and the guidance for the Ummah for all times to come, has emphasized these principles in a number of traditions....Two examples in this regard have been cited, one is about the false prophet-hood of Muselma Qazzab and the other is Aswad Ansa.The strict action against both the false claimants is sufficient to establish that there is no room for any false claimant of Prophethood in Islam" (page 16) ترجمه فاضل Amicus Curiae وہ ماہرین جنہیں کسی مقدمہ میں عدالت اپنی اعانت کے لئے طلب کرے) نے سنت نبوی جو کہ ہمیشہ کے لئے اسلامی قانون کے لئے بنیادی ماخذ اور امت کے لئے ہمیشہ کے لئے راہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے، پر انحصار کرتے ہوئے ان اصولوں پر زور دیا ہے.اس ضمن میں دو مثالیں دی گئی ہیں.ایک تو مسیلمہ کذاب کی جھوٹی نبوت کی ہے اور دوسری مثال اسود عنسی کی ہے.ان دونوں جھوٹے مدعیان کے خلاف جو سخت قدم اُٹھایا گیا اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ اسلام میں کسی جھوٹے مدعی نبوت کی کوئی جگہ نہیں ہے.ان الفاظ میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 13

Page 32

زمانے میں جب کسی شخص نے نبوت کا دعوی کیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی گئی اور جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے اکثر یہی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اسلامی تعلیم یہی ہے کہ جب کسی قسم کی نبوت کا دعوی سنو تو کسی دلیل یا بحث کی ضرورت نہیں ہے.اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ فوراً اس کے خلاف جہاد شروع کر دیا جائے.چنانچہ جب 1974 ء کی قومی اسمبلی میں اس مسئلہ پر بحث ہوئی تو مولوی عبد الحکیم صاحب نے یہی دلیل پیش کر کے اشتعال دلانے کی کوشش کی.انہوں نے کہا : ” نیز مسیلمہ کذاب کے علاوہ دوسرے مدعیان نبوت کے ساتھ بھی جہاد کیا گیا اور ہمیشہ کے لئے اہل اسلام کو عملی طور پر یہ تعلیم دی گئی کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے.“ کارروائی سپیشل کمیٹی قومی اسمبلی پاکستان 1974 صفحہ 2391 ) جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے دلائل میں اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور خود تحریر فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نبوت کا دعویٰ کر چکے تھے لیکن اس کے بعد جو حوالے انہوں نے لکھے ہیں وہ خود ان کے پیش کردہ دلائل کو ر ڈ کر دیتے ہیں.یقیناً مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا دعویٰ جھوٹا اور اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا.اس معاملہ میں تو کوئی دو آراء نہیں ہیں اور نہ اس پہلو پر ہم بحث کر رہے ہیں.اس مرحلہ پر یہ تجزیہ پیش کیا جارہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ان دونوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی.ہم اس سلسلہ میں حوالوں کے ساتھ حقائق پیش کریں گے.مسیلمہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اس کے 14

Page 33

بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ بھی آیا تھا.صحیح بخاری میں اس بارے میں یہ روایات بیان کی گئی ہیں." عبد اللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جب مسیلمہ کذاب مدینہ آیا تو بنت حارث کے ہاں اس نے قیام کیا کیونکہ بنت حارث بن کریز اس کی بیوی تھی.یہی عبداللہ بن عامر کی بھی ماں ہے.پھر حضور اکرم اس کے ہاں تشریف لائے.آپ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس" بھی تھے.ثابت وہی ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب کے نام سے مشہور تھے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آکر ٹھہر گئے اور اس سے گفتگو کی.مسیلمہ نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ ہمارے اور نبوت کے درمیان حائل نہ ہوں اور اپنے بعد ہمیں اسے سونپ دیں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم مجھ سے یہ چھڑی مانگو گے تو میں تمہیں یہ بھی نہیں دے سکتا.میرا خیال ہے کہ تم وہی ہو جو مجھے خواب میں دکھائے گئے تھے.یہ ثابت بن قیس ہیں جو میری طرف سے تمہاری باتوں کا جواب دیں گے.“ ( صحیح بخاری.کتاب المغازی.باب قصۃ الاسود العنسی ) یہی روایت صحیح مسلم کتاب الرؤیا میں بھی بیان کی گئی ہے.ان روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسیلمہ کذاب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی دعویٰ نبوت کر دیا تھا اور اسی کیفیت میں وہ مدینہ بھی آیا تھا مگر اس کے با وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس کے قتل کوئی حکم صادر فر ما یا تھا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی لشکر روانہ فرمایا تھا اور نہ اس کے خلاف کسی اور کارروائی کا حکم فرمایا تھا.حضرت ابوبکر کے دور میں اس کے خلاف اس وقت فوج روانہ کی گئی تھی جب اس نے 15

Page 34

خود اعلان بغاوت کر کے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا.ظاہر ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل کا دور ہو یا موجودہ دور ہو، جب بھی کوئی کسی حکومت میں بغاوت کر کے اس کے شہریوں پر حملہ کرے گا ، اس ملک کی حکومت اور اس کے شہریوں کے خلاف فوج کشی کرے گا تو حکومت کا فرض ہے کہ اسے سخت ترین سزا دے.اس کا مذہب یا دعویٰ نبوت سے کوئی تعلق نہیں.یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسود عنسی نے یمن کے علاقہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا.اُس وقت یہ علاقہ مسلمانوں کی حکومت کا ایک حصہ تھا اور اس کے مختلف علاقوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مختلف عمال مقرر تھے.اسود عنسی کے دعوئی کے بعد نہ مسلمانوں نے پہلے اُس پر حملہ کیا تھا اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا کوئی حکم جاری فرمایا تھا.اس سے قبل کہ کوئی ایسا قدم اُٹھایا جاتا اُس نے خود مسلمانوں پر حملہ کر کے خون خرابہ شروع کر دیا تھا اور ان علاقوں کو جو کہ مسلمانوں کی حکومت میں شامل تھے اپنی حکومت میں شامل کرنا شروع کر دیا تھا.اس نے صنعاء پر حملہ کیا اور صنعاء کے حاکم حضرت شہر بن باذان اس کے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے اور اسی طرح بہت وسیع علاقہ اس کے قبضہ میں آ گیا.اس نے ظلم کرتے ہوئے ان کی بیوی آزاد سے زبردستی شادی کر لی.اس نے خطوط لکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ عمال کو یمن سے نکلنے کا اور سرکاری خزانہ اس کے حوالے کر دینے کا مطالبہ کیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ تقریباً تمام عمال کو اپنے مقامات سے نکلنا پڑا.اس صورت حال میں اہل یمن کی ایک بہت بڑی تعداد مرتد ہو کر اسود عنسی پر ایمان لے آئی اور تاریخ طبری کے مطابق کئی مسلمانوں نے جو اپنے دین پر قائم تھے اس سے درخواست کر کے امان حاصل کی.دعویٰ نبوت کے علاوہ بھی اسود عنسی کی بغاوت 16

Page 35

اور دیگر کرتوت ایسے تھے کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت کسی بھی زمانہ میں اس کے خلاف فوج کشی سمیت سخت ترین کارروائی کرتی کیونکہ اس کا جرم ریاست سے سنگین غداری کا بھی تھا.حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسود عنسی کے مقابل پر کوئی لشکر یا فوج روانہ نہیں کی تھی اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے معین طور پر اس کی سزائے موت کا کوئی حکم صادر ہوا تھا.اس وقت ایک لشکر حضرت اُسامہ کی سرکردگی میں شام کی طرف روانہ ہو رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کو شام بھجوانے کے فیصلہ میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی اور اس کے بجائے آپ نے حضرت دبر کو اور چند اور صحابہ کو خط دے کر روانہ فرمایا جس میں مسلمانوں کو ارشاد فرمایا گیا تھا کہ وہ اپنے دین پر قائم رہیں اور جنگ اور حیلے سے اسود عنسی کے خلاف کارروائی کریں.اس علاقے کے مسلمان مظلومیت کی حالت میں تھے اور انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا کہ انہیں خبر ملی کہ اسود عنسی اور اس کے دو اہم عہدیداروں میں اختلاف ہو گیا ہے.اس پر انہوں نے اسود عنسی کے ان ناراض سرداروں سے رابطہ کیا اور پھر اسود عنسی کے ان ساتھیوں نے جو دل میں اس سے برگشتہ ہو چکے تھے لیکن اس کے اقتدار کے خوف سے بظاہر اس کی اطاعت کا دم بھرنے پر مجبور تھے ، اسود عنسی کی بیوی سے مل کر اس کے محل میں اس کو قتل کر دیا.جس شخص نے اسود عنسی کا قتل کیا اس کا نام' فیروز، تھا اور وہ خود اسود عنسی کے سرداروں میں سے تھا لیکن اس کے سلوک کی وجہ سے اس سے ناراض تھا.تاریخ ابن خلدون جلد دوئم ، اردو تر جمه از حکیم احمد حسین اله آبادی، الفیصل ناشران 435 -437) ( تاریخ طبری جلد دوم، اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم، ناشر دار الاشاعت کراچی ،2003 صفحہ 462_473) حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسیلمہ کذاب اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ آیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف نہ اُس وقت 17

Page 36

کارروائی کی اور نہ بعد میں کوئی لشکر روانہ فرمایا اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسود عنسی کے مقابل پر کوئی لشکر روانہ فرمایا تھا.اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں جو تاریخی حوالے درج فرمائے ہیں ، ان میں سے ایک بھی اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مدعیان نبوت کے خلاف کوئی لشکر روانہ کیا تھا.اگر چہ اس وقت اسود عنسی نے مسلمانوں کی حکومت کے ایک وسیع حصہ پر قبضہ کر لیا تھا اور واضح بغاوت کا مرتکب ہو چکا تھا اور مسلمانوں کا پوراحق تھا کہ اس کے خلاف کارروائی کرتے.لیکن قرآن کریم کی تعلیم واضح ہے کہ جو شخص جھوٹا دعویٰ نبوت کرے یا جھوٹا دعویٰ وحی کرے خواہ پوری دنیا اس کے ساتھ ہو خدا اس کو خو د تباہ کر دیتا ہے اور وہ کامیاب نہیں ہوسکتا.( سورة الحاقہ آیت 45 تا 47) حضرت ابوبکر کے دور کی جو مثال پیش کی جاتی ہے تو اس ضمن میں یہ حقیقت واضح ہے کہ حضرت ابوبکر کے دور میں بھی مسیلمہ کذاب نے پہلے خود مسلمانوں پر حملہ کر کے ان کا خون بہایا تھا اور ریاست سے بغاوت کا مرتکب ہوا تھا.اور یہاں کسی مذہبی عقیدہ یا دعویٰ نبوت کا سوال نہیں ہے ، خواہ آج سے پندرہ سو سال قبل کا دور ہو یا موجودہ دور ہو جب بھی کسی ریاست کے خلاف اس طرح کی بغاوت ہوگی تو اس کے خلاف فوج کشی کی جائے گی.یہ فیصلہ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صاحب کو خود اس دور کے بنیادی تاریخی حقائق کا علم نہیں تھا اور انہیں کسی اور نے یہ مواد لکھ کر دیا ہے اور اس میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر بہت سی غلطیاں شامل ہو گئی ہیں.مثال کے طور پر اس فیصلہ کے صفحہ 19 پر وہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے اسود عنسی کے خلاف کارروائی کی تھی جیسا کہ ہم تاریخی حوالے درج کر چکے ہیں، اسود عنسی تو حضرت ابو بکر کی خلافت کے آغاز سے چند روز قبل ہی مارا جا چکا تھا.18

Page 37

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہونے والی مردم شماری کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد کی دو اور مثالیں دیتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب تفصیلی فیصلہ میں لکھتے ہیں Even the Holy Prophet (PBUH) after migrating to Madinah conducted the population census so as to ascertain the true numbers of Muslim Males, Females and Children which itself drew a distinction line between the Muslims and non-Muslims.If one sees the Charter of Madinah and the parties to it whether they were Muslims, Persians or infidels every one entered into it with his separate religious identity.(page 22&23) ترجمه: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آبادی کی مردم شماری کرائی تھی.جس میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کا تعین کیا گیا تھا.اس سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تفریق کی گئی تھی.اگر کوئی میثاق مدینہ کو دیکھے تو اس میں مسلمان فارسی اور کا فراپنے علیحدہ علیحدہ مذہبی تشخص کے ساتھ شامل ہوئے تھے.یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ فیصلہ میں کسی حوالے کی معین عبارت درج کرنے سے گریز کیا گیا ہے.اور شاید یہ ان کی مجبوری بھی تھی کیونکہ جن تاریخی روایات کا وہ ذکر کر رہے ہیں ، وہ ان کے پیش کردہ نتائج کی تردید کر رہی ہیں.سب سے پہلے تو اس مردم شماری کا ذکر کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کرائی گئی تھی.صحیح بخاری کی کتاب الجہاد والسیر کے باب کتابۃ الامام الناس کی 19

Page 38

حدیث میں اس مردم شماری کا ذکر ہے.جب ہم اس حدیث کو پڑھتے ہیں تو ایک بار پھر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جج صاحب نے خود یہ حدیث نہیں پڑھی بلکہ انہیں کہیں سے مواد مہیا کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے یہ فیصلہ تحریر کیا ہے کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث میں عورتوں اور بچوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف مردوں کی تعداد لکھنے کا ذکر ہے.اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس حدیث کا متن ان نظریات کی مکمل تردید کرتا ہے جو کہ اس فیصلہ میں پیش کئے گئے ہیں.اس عدالتی فیصلہ میں حکومت پر یہ زور دیا گیا ہے کہ حکومتی ریکارڈ میں کسی کو مسلمان درج کرنے سے قبل اچھی طرح اس کے عقائد کی چھان پھٹک کرنی چاہیے.اس سے حلف اُٹھوانا چاہیے اور سرکاری ملازم رکھنے سے قبل تو علماء اور کسی ماہر نفسیات سے اس کے عقائد کا خوب تجزیہ کروالینا چاہیے اور حکومت کے لئے مناسب ہوگا کہ وہ سائنسی طریقہ دریافت کرے جس سے احمدیوں کی صحیح تعداد کو دریافت کیا جا سکے.(ملاحظہ کیجئے عدالتی فیصلہ کا صفہ نمبر 167,20) اس کے برعکس جب ہم اس حدیث نبوی کو پڑھتے ہیں تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ملتا ہے.اكْتَبُوا لِي مَنْ تَلَفَظَ بِاالْإِسْلَامِ مِنَ النَّاسِ.یعنی لوگوں میں سے جو اسلام کا اقرار کرتا ہے اس کا نام مسلمانوں میں درج کرو.اس ارشاد نبوی میں کہیں یہ ذکر موجود نہیں کہ اس کے عقائد کی چھان بین کرو یا کرید کرید کر اس کے عقائد کی تفاصیل معلوم کرو.واضح ارشاد یہ ہے کہ جو اسلام کا اقرار کرتا ہے اس کا نام مسلمانوں میں درج کرو.شوکت عزیز صاحب تو تجویز کر رہے ہیں کہ سرکاری ملازمت پر رکھنے سے قبل کسی ماہر نفسیات سے بھی عقائد کا تجزیہ کروانا ضروری ہے.پھر اسے علماء کے حوالے کرو وہ اس کے عقائد کی چھان بین کریں.آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں بھی تو عمال 20

Page 39

مقرر ہوتے تھے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقرر فرماتے تھے.کیا کوئی ایک حدیث بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ ان عمال کو تقرری سے قبل ان لغو مراحل سے گزارا جاتا ہو؟ میثاق مدینہ کا حوالہ جیسا کہ حوالہ درج کیا گیا ہے کہ اس فیصلہ میں مردم شماری کے ذکر کے بعد میثاق مدینہ کا ذکر کیا گیا ہے.اس بارے میں عدالتی فیصلہ کی عبارت پڑھتے ہوئے ایک بار پھر ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلہ لکھنے والے نے اصل تاریخی روایات کو خود نہیں پڑھا بلکہ اسے کہیں سے کچھ مواد مہیا کیا گیا ہے.اور اس مہیا کردہ مواد کو عجلت میں اس عدالتی فیصلہ کا حصہ بنا دیا گیا ہے.یہ معاہدہ تو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والے مہاجروں ، مدینہ کے انصار کے قبائل اور مدینہ کے یہود کے درمیان ہوا تھا.نہ جانے اس عدالتی فیصلہ میں فارس کے لوگوں کو اس معاہدہ میں کس طرح شریک قرار دے دیا گیا ہے؟ اس کی وضاحت تو پاکستان کی معزز عدالت ہی کر سکتی ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس معاہدہ میں ہر کوئی اپنے علیحدہ علیحدہ مذہبی تشخص کے ساتھ شامل ہوا تھا.یقیناً میثاق مدینہ میں مذہبی آزادی کی مکمل ضمانت دی گئی تھی اور یہ لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کے لئے مسلمانوں کا دین ہے اور یہود کے لئے یہود کا دین ہے لیکن اس میثاق میں ایسا کوئی نکتہ موجود نہیں جو کہ اس عدالتی فیصلہ یا کسی قسم کی تنگ نظری کا جواز بن سکے بلکہ میثاق مدینہ میں موجود مذہبی رواداری کی ایک مثال ملاحظہ کریں.اس معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ بنی عوف کے یہود بھی مسلمانوں میں شمار کئے جائیں گے اور پھر لکھا ہے کہ بنی نجار، بنی حرث، بنی جشم ، بنی تعلیہ، بنی اوس اور بنی شطنہ کے یہود کے لئے بھی وہی ہے جو کہ بنی عوف کے یہود کے لئے ہے.(سیرت ابن ہشام.اردو تر جمه از سید یسین علی حسنی، ناشر ادارہ اسلامیات مئی 1964 صفحہ 393 تا395) 21

Page 40

ہائی کورٹ کے فیصلہ اور سنت نبوی میں تضاد کی ایک مثال ہم صرف ایک مثال پیش کرتے ہیں کہ اس فیصلہ اور سنت نبوی سلایا تم میں کس قدر تضاد موجود ہے.اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں اس بات پر بہت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اور تو اور احمدیوں کے نام بھی مسلمانوں جیسے ہیں اور یہ بات دوسری آئینی ترمیم پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے اور عدالتی فیصلہ میں اس کا حل یہ تجویز کیا گیا ہے "Qadianis should not be allowed to conceal their identity by having similar names to those of Mulsims,, therefore, they should be either stopped from using name of ordinary muslims or in the alternative Qadiani, Ghulam-e-Mirza or Mirzai must form a partof (page 165&166) their names and be mentioned accordingly." ترجمہ: قادیانیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی شناخت کو مسلمانوں جیسے نام رکھ کر پوشیدہ رکھیں.لہذا یا تو انہیں عام مسلمانوں جیسے نام رکھنے سے روکا جائے یا متبادل قادیانی ناموں مثال کے طور پر غلام مرزا یا مرزائی کو ان کے ناموں کا حصہ بنایا جائے.عدالتی فیصلہ کا یہ حصہ پڑھ کر کسی دلیل کی بجائے پہلے غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے.حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں کیا اس سوچ کا اسلام سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کوئی دور کا بھی تعلق ہے؟ اس فیصلہ میں جسٹس شوکت عزیز صاحب تسلیم کر چکے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے سنت رسول کی پیروی لازمی ہے.کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم فرمائی تو اُس وقت کیا کسی بھی گروہ پر کوئی بھی پابندی تھی کہ وہ مسلمانوں جیسے نام نہیں رکھ سکتے ؟ اُس دور میں مدینہ کے نمایاں یہود کے چند نام ملاحظہ ہوں.22

Page 41

1.عبداللہ 2 کعب -3 - سلام -4 - اسد 5 رافع -6.مالک 7.یاسر 8.خالد 9.نافع 10.زید سب جانتے ہیں کہ ان ناموں کے صحابہ بھی موجود تھے.اور تاریخی طور پر ثابت ہے کہ مدینہ میں ایسے یہود بھی موجود تھے جو کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے مگر دل سے یہودی تھے.حوالہ درج کیا جا رہا ہے.ہر کوئی اپنی تسلی کر سکتا ہے.لیکن کیا کوئی ایک بھی واقعہ ایسا پیش کر سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہو کہ اشتباہ ہوتا ہے اس لئے یہود مسلمانوں جیسے نام نہیں رکھ سکتے ؟ (سیرت ابن ہشام.اردو ترجمہ از سید یسین علی حسنی، ناشر ادارہ اسلامیات مئی 1964 صفحہ 393 تا395) ان نظریات کا تعلق کس سے ہے؟ یہ تو ثابت ہو گیا کہ ان خیالات کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں.پھر ایک سوال رہ جاتا ہے کہ ان نظریات کا خمیر آخر کہاں سے اُٹھا ہے؟ تاریخ ہمیں کیا بتاتی ہے؟ کہ ایسا کب ہوا کہ لوگوں کے نام حتی کہ ان کے خاندانی نام (Surname) بھی زبر دستی تبدیل کئے گئے ہوں.جب ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس قسم کے واقعات ہمیں کیتھولک چرچ کے زیر سر پرستی چلنے والی Spanish Inquisition میں ملتے ہیں.جب غرناطہ اور ویلنسیا کے مظلوم مسلمانوں کے مذہب کو زبر دستی تبدیل کرنا اور ان کی مساجد پر قبضہ کر کے چرچوں میں تبدیل کرنے کو کافی نہیں سمجھا گیا تھا.اور انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے نام بھی تبدیل کریں.اس منحوس تحریک کا نقطہ آغاز یہ تھا کہ Pope Clement Vill نے بادشاہ کو اجازت دی تھی کہ اس کے لئے جائز ہے کہ وہ مسلمانوں سے کئے گئے تمام معاہدے توڑ 23

Page 42

دے.اس کے بھی حوالے درج کئے جار ہے ہیں.(Muslims of Medieval Latin Christendom, c.1050-1614,By Brian A.Catlos, Published by Cambridge University Press.p 224-227) (The Spanish Inquisition, 1478-1614 edited by Lu Ann Homza, Published by Hacket Publishing Company 2006, p 239) اس عدالتی فیصلہ میں صرف ناموں کی تبدیلی تک بس نہیں کی گئی.جب سوچ تنگ نظری کی ڈھلوان پر پھسلنا شروع ہو جائے تو پھر پستیوں کی طرف سفر جاری رہتا ہے.اس فیصلہ میں اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ احمدیوں کا لباس بھی مسلمانوں جیسا ہے.جیسا کہ تفصیلی فیصلہ میں لکھا ہے: "Most of the minorities residing in Pakistan hold a separate identification in reference to their names and identity but according to the constitution one of the minorities do not hold a distinct identification due to their names and general attire which (page 169-170) leads to crisis." ترجمہ: پاکستان میں آبا دا اکثر اقلیتیں ناموں اور پہچان کے اعتبار سے علیحدہ حیثیت رکھتی ہیں مگر آئین کے مطابق ایک اقلیت ایسی ھے جو ناموں اور عمومی لباس کے اعتبار سے کوئی مخصوص پہچان نہیں رکھتی اور اس وجہ سے بحران پیدا ہورہا ہے.اس حصہ پر کسی خاص تبصرہ کی ضرورت نہیں.ہر شخص پڑھ کر خود ہی اپنی رائے قائم کر سکتا ہے لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی گزشتہ چند سالوں میں دہشتگردی سے مارے گئے.ملک قرضوں کی دلدل میں ڈوب گیا.بین الاقوامی سطح پر تنہا رہ گیا.سب اعتراف کر رہے ہیں کہ اندرونی اتحاد پارہ پارہ ہو چکا ہے.خود حج صاحب اپنی تقریر 24

Page 43

میں اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان کے ادارے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں.ان سب باتوں سے بحران پیدا نہیں ہوا ؟ اور فکر ہے تو اس چیز کی کہ احمدیوں کا لباس عمومی طور مسلمانوں جیسا ہے.زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں.ہم نے تو جب بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کی تصویر دیکھی ہے وہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس نظر آئے ہیں.اس طرح تو کوئی بھی انگریز ، امریکی یا یوروپی اعتراض کر سکتا ہے کہ انہوں نے ہمارے جیسا لباس کیوں پہنا ہوا ہے؟ لاکھوں مسلمان برطانیہ یورپ اور امریکہ میں آباد ہیں.کیا وہ پسند کریں گے کہ وہاں کے مقامی باشندے یہ مطالبہ کریں کہ یہ ہمارے جیسا لباس کیوں پہنتے ہیں؟ ان کی علیحدہ پہچان ہونی چاہیے.ان کا لباس مختلف ہونا چاہیے.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے کی خواہش ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اس حدیث سے ظاہر ہے.حضرت فرات بن حیان سے روایت ہے کہ وہ فتح مکہ سے قبل مسلمانوں کے دشمن ابوسفیان کے لئے جاسوس کا کام کر رہے تھے.جب وہ پکڑے گئے اور ان کی سزائے موت کا حکم جاری ہوا تو انہوں نے انصار کے ایک گروہ کے سامنے کہا کہ میں مسلمان ہوں.انصار نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا.آپ نے فرمایا کہ بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی قسم کا اعتبار کر کے ہم انہیں ان کی قسم کے حوالے کرتے ہیں.اور ان میں سے فرات بن حیان بھی ہیں.اور آپ کو رہا کر دیا گیا.( مسند احمد بن حنبل.اردو ترجمہ از محمد ظفر اقبال.ناشر مکتبہ رحمانیہ جلد 8 ص 309) توجہ فرما ئیں کہ یہ حالت جنگ کا واقعہ ہے.ایک شخص دشمن کی جاسوسی کرتا ہوا پکڑا 25

Page 44

جاتا ہے.اور اس کے ایک جملہ پر کہ میں مسلمان ہوں اسے رہا کر دیا جاتا ہے.کیا کوئی تحقیقات کی گئیں؟ یا اس سے اس کے عقائد کی تفصیلات کرید کرید کر اس کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا گیا ؟ یا اسے علماء کے حوالے کیا گیا کہ اس کے ایمان کا فیصلہ کریں؟ ظاہر ہے ایسا نہیں کیا گیا.سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ ہے.البتہ تاریخ میں ایک اور مثال بھی پائی جاتی ہے.جب وسیع پیمانہ پر لوگوں کے عقائد کی تحقیقات کی گئی تھیں.جب علاقہ کے لوگوں سے گواہیاں جمع کی جاتی تھیں کہ فلاں شخص کے عقائد اور اعمال کیا ہیں.پھر ماہرین اس پر خوب جرح کرتے تھے کہ کیا وہ راسخ العقیدہ ہے کہ نہیں ہے.اسے گرفتار کر کے اسے اذیت بھی دی جاتی تھی تا کہ اس کے عقائد معلوم کئے جا سکیں لیکن اس عمل کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا.ایسا Spanish Inquisition میں کیا گیا تھا.علامہ اقبال کی چند تحریروں کے حوالے.پس منظر اور حقائق جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے اس فیصلہ کے صفحہ 101 سے صفحہ 122 تک جماعت احمدیہ کے خلاف علامہ اقبال کی دو تحریروں یعنی Islam and Ahmadism اور Qadianis and Orthodox Muslims کے تفصیلی اقتباسات کو تبصروں سمیت درج کیا گیا ہے.چونکہ پاکستان میں علامہ اقبال کی ایک اہمیت ہے، اس طرح ان اقتباسات کو درج کر کے اس عدالتی فیصلہ کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اس مضمون میں اس حصہ کا اور علامہ اقبال کی ان تحریروں کا تجزیہ پیش کیا جائے گا جن کے حوالے اس فیصلہ میں درج کئے 26

Page 45

گئے ہیں اور ہم یہ جائزہ بھی لیں گے کہ علامہ اقبال کی ان تحریروں کا پس منظر کیا تھا؟ اس عدالتی فیصلہ میں علامہ اقبال کی ان تحریروں کا ذکر ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ احمدیت کے بارے میں اقبال کی یہ تحریر ایک Excellent Expose ہیں یعنی ان تحریروں میں احمدیت کو شاندار طریقہ سے بے نقاب کیا گیا ہے.اس فیصلہ میں اس دعوے کی دلیل ان الفاظ میں دی گئی ہے: Iqbal to launch this crusade against.What prompted Dr Dr Iqbal knew Qadianyat.Qadianyat is not difficult to comprehend very well since its inception and had been a keen observer of its development and growth that took place in the last half of century had some kind of soft feelings for the, however, Hein India movement in early years when its real character was not In early 30s he had fully come to know about the established role Qadianis had been playing in India particularly in Kashmir closely associated.was himself movement in which he (page 101) ترجمہ: یہ مجھنا مشکل نہیں کہ اقبال نے قادیانیت کے خلاف یہ صلیبی جنگ کیوں شروع کی تھی ؟ اقبال قادیانیت کو اس کے آغاز سے خوب جانتے تھے اور ہندوستان میں گزشتہ نصف صدی کے دوران جو پیش رفت ہو رہی تھی اقبال اس کا بغور جائزہ لے رہے تھے.البتہ ان ابتدائی سالوں میں اقبال کے دل میں قادیانیت کے لئے ایک قسم کا نرم گوشہ موجود تھا کیونکہ اب تک اس تحریک کا صحیح کردار سامنے نہیں آیا تھا.1930ء کی دہائی کے آغاز میں انہیں پوری طرح علم ہوا کہ یہ تحریک ہندوستان میں اور بالخصوص کشمیر میں کیا کردار ادا کر رہی ہے.کشمیر کی 27

Page 46

تحریک کے ساتھ اقبال کا اپنا قریبی تعلق تھا.جیسا کہ پڑھنے والے خود محسوس کر سکتے ہیں کہ اس تحریر کے اندر تضاد موجود ہے.اس حصہ میں ان بہت سی باتوں کی تردید موجود ہے جو کہ جماعت احمدیہ کے خلاف اس فیصلہ میں لکھی گئی ہیں اور جو خود علامہ اقبال کی ان تحریروں میں موجود ہیں.ان دونوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ بانی جماعت احمدیہ کے دعاوی ہی ایسے ہیں جو خلاف اسلام ہیں اور جب بھی عالم اسلام میں ایسے دعاوی پیش کئے گئے کسی مسلمان نے کسی دلیل یا سوچ بچار کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی بلکہ ان کے خلاف شدیدردعمل دکھایا بلکہ جہاد شروع کر دیا.یہ دعاوی ایسے ہیں کہ ان کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا جائے.یہ سب جانتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ کا انتقال 1908ء میں ہو گیا تھا اور اُس وقت تک آپ کے تمام دعاوی سامنے آچکے تھے.پھر 1930 ء تک علامہ اقبال جماعت احمد یہ کے بارے میں نرم گوشہ کیوں رکھتے تھے؟ 1934 ء سے قبل علامہ اقبال کے احمدیت کے بارے میں خیالات حج صاحب نے اس فیصلہ میں کچھ مہم اور نرم الفاظ استعمال کئے ہیں.اس نرم گوشہ“ کی کچھ تفصیلات ہم علامہ اقبال کے صاحبزادے مکرم جسٹس جاوید اقبال صاحب کی تصنیف زندہ روڈ سے پیش کرتے ہیں.وہ لکھتے ہیں: 1.1900ء میں علامہ اقبال نے بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق فرمایا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں میں موجودہ دور میں غالباً سب سے عظیم دینی مفکر ہیں.28

Page 47

1910-2ء میں انہوں نے علیگڑھ کالج میں ایک لیکچر دیا اور اس میں فرمایا کہ اس دور میں فرقہ قادیانی اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ہے.3.1936ء میں تحریر کیا کہ اشاعت اسلام کا جوش جو جماعت احمدیہ کے افراد میں پایا جاتا ہے قابل قدر ہے.زنده رود مصنفہ جاوید اقبال صاحب، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور 2008 صفحہ 208,638) 4.1913ء میں علامہ اقبال کو شبہ ہوا کہ ان کی منکوحہ سردار بیگم صاحبہ سے ان کا نکاح قائم ہے کہ نہیں تو انہوں نے اپنے دوست مرزا جلال الدین صاحب کو فتوی دریافت کرنے کے لیے قادیان بھجوایا جنہوں نے اس بابت بانی سلسلہ احمدیہ کے پہلے خلیفہ حضرت مولانا نورالدین صاحب سے اس بابت فتوی دریافت کیا اور علامہ اقبال نے اس فتویٰ پر عمل بھی کیا.5.علامہ اقبال نے پہلی شادی سے اپنے بڑے بیٹے آفتاب اقبال صاحب کو پڑھنے کے لیے قادیان کے سکول میں بھجوایا.زنده رود مصنفہ جاوید اقبال صاحب، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور 2008 صفحہ 631,630) علامہ اقبال کے متعلق ان باتوں کی جاوید اقبال صاحب نے تردید نہیں کی بلکہ ان جیسی باتوں کو درج کر کے مکرم ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ اقبال کو 1935 ء سے قبل اس جماعت سے اچھے نتائج کی امید تھی لیکن ایک زندہ شخص ہونے کی حیثیت سے انہیں اپنی رائے بدلنے کا حق تھا.اور وہ ہمیشہ سے جماعت احمدیہ سے عقائد کا اختلاف رکھتے تھے.ہمیں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے بدلنے کا حق حاصل ہے لیکن اس رائے کی تبدیلی کی کوئی بھی وجہ ہو اس کی وجہ 29

Page 48

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعاوی اور جماعت احمدیہ کے بنیادی عقا ئد نہیں ہو سکتے کیونکہ 1908ء میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات ہو چکی تھی اور آپ کے دعاوی مکمل طور پر دنیا کے سامنے آچکے تھے.اس کے علاوہ اس فیصلہ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ جب کشمیر کمیٹی کا اجلاس ہوا تا کہ مسلمان مظلوم کشمیری مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کے لئے جد و جہد کر سکیں تو اُس وقت خود علامہ اقبال کی تجویز اور اصرار پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کمیٹی کا صدر بنایا گیا.اس وقت کشمیر کے مسلمان ڈوگرہ راجہ کے مظالم کی چکی میں پس رہے تھے اور انہیں بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں تھے.اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ ایک طرف تو یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ نعوذ باللہ انگریزوں نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا تھا اور جماعت احمدیہ کے بنیادی عقائد ہی ایسے ہیں کہ وہ خود بخو دا سلام سے خارج ہو جاتے ہیں بلکہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نعوذ باللہ ان سے اسلام کو شدید نقصان پہنچتا ہے.دوسری طرف مسلمانوں کا ایک نمایاں لیڈر اعتراف کرتا ہے کہ اگر کسی میں اشاعت اسلام کا جوش ہے تو جماعت احمدیہ میں ہے.اگر کوئی اس دور میں اسلامی سیرت کا نمونہ دیکھنا چاہتا ہے تو قادیان جا کر دیکھے.اپنے نکاح کے بارے میں شبہ ہو تو امام جماعت احمدیہ سے راہنمائی کی جائے.اور اگر مظلوم مسلمانوں کے لئے جد و جہد کرنی ہو تو امام جماعت احمدیہ سے اس مہم کی قیادت کرنے کی درخواست کی جائے.یہ تضادات ایسے نہیں جنہیں نظر انداز کیا جاسکے.جیسا کہ حوالہ درج کیا گیا ہے عدالتی فیصلہ میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ جب امام جماعت احمدیہ کی قیادت میں کشمیر کمیٹی نے کام شروع کیا تو علامہ اقبال پر قادیانیت کی 30

Page 49

حقیقت کھلی اور انہوں نے جماعت احمدیہ کی مخالفت شروع کی.اس مرحلہ پر یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ جب اس کمیٹی نے کام شروع کیا تو کیا ہوا تھا کہ علامہ اقبال نے جماعت احمد یہ کی مخالفت شروع کر دی؟ ہم اُن کتابوں کے حوالے سے اس سوال کا تجزیہ پیش کریں گے جن کے لکھنے والوں کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں.کشمیر کمیٹی کی جد و جہد کا آغاز اس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کشمیریوں کی حمایت کے لئے قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے مہم چلائی جائے.جن کشمیریوں کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے ان کی مالی مدد کی جائے.جن کشمیریوں کو قید و بند اور مہاراجہ کی حکومت کی طرف سے مقدمات کا سامنا تھا ان کی قانونی اور وکلاء کے ذریعہ مدد کا فیصلہ کیا گیا.اور کیونکہ دنیا کو خبر ہی نہیں تھی کہ کشمیر کے مسلمانوں کو کن مظالم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس لئے یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ باہر کی دنیا کو ان حقائق کے بارے میں مطلع کیا جائے اور مہاراجہ کشمیر پر دباؤ بڑھایا جائے.ثمینہ اعوان اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک جامع منصوبہ بنایا گیا اور اس پر عملدرآمد شروع ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ 14 اگست 1931 ء کو پورے ہندوستان میں کشمیر ڈے منایا جائے.یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد مسلمانوں نے پورے ہندستان میں اپنے حقوق کے لئے کوئی ایسی مہم کامیابی سے نہیں چلائی تھی.اور یہ سوال اُٹھتا تھا کہ کیا یہ دن کامیابی سے منایا جا سکے گا کہ نہیں؟ جب یہ دن آیا تو ہندوستان بھر میں یہ دن کامیابی سے منایا گیا اور چھوٹے بڑے شہروں میں کامیابی سے جلسے منعقد ہوئے.لاہور ، پٹنہ، کلکتہ، بمبئی، دیو بند، کراچی ، علی گڑھ، سیالکوٹ، دہلی، کراچی میرٹھ ، دکن، بہار اور اڑیسہ میں 31

Page 50

جلسے منعقد ہوئے.لاہور کے جلسہ سے علامہ اقبال نے خطاب کیا.اس سے قبل صورت حال یہ تھی کہ خود مسلم لیگ نے بھی کبھی کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں کوئی قرارداد منظور نہیں کی تھی.جب یہ مہم شروع ہوئی تو پہلی مرتبہ دسمبر 1931ء میں مسلم لیگ نے اپنے سالانہ جلسہ میں کشمیر کے مسلمانوں کی حمایت میں قرار داد منظور کی.1931ء کی گول میز کانفرنس کے دوران لندن میں علامہ اقبال ، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور دوسرے مسلمان مندوبین نے وزیر ہند سے ملاقات کر کے انہیں کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار سے مطلع کیا.کشمیر میں زخمی اور قید ہونے والے کشمیری مسلمانوں کی مالی اور قانونی مدد جاری کی گئی.کشمیر کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑنی شروع ہوئی اور ان میں اپنے حقوق کے لئے جد و جہد کرنے کا جوش پیدا ہوا.ڈوگرہ مہاراجہ کی حکومت اس مہم سے ہل کر رہ گئی اور انہوں نے مسلمانوں سے مذاکرات کا عمل اور اس کے ساتھ ان کو اپنا ہمنوا بنانے کا عمل بھی شروع ا کیا.اس صورت حال پر تحقیقات کے لئے گلاسی کمیشن قائم کیا گیا.رپورٹ تو جیسی تھی شائع کی گئی لیکن مہاراجہ کی حکومت نے اصلاحات کی بجائے لیت ولعل سے کام لینا شروع کیا.اس پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بہت سے مسلمان لیڈروں کے ساتھ وفد بنا کر وائسرائے سے ملاقات کر کے اس پر عمل درآمد کا سوال اُٹھایا.سب یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس مرحلہ تک کامیابی اور مستقل مزاجی سے کام جاری تھا.(Iqbal and the politics of Punjab1926-1993 8 ,by Khurram Mahmood, published by, National Book Foundation 2010, p 90-96) (Political Islam in Colonial Punjab Majlis-i-Ahrar 1929-1949, by Samina Awan, by Oxford University Press 2010, p 38-55) جب ہم یہاں تک کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں، اور ہم نے ایسی کتب کے حوالے 32

Page 51

درج کر دیئے ہیں جو نہ صرف احمدیوں کی لکھی ہوئی نہیں ہیں بلکہ اس میں بعض مقامات پر احمدیوں کے خلاف بھی لکھا گیا ہے، تو حیرت ہوتی ہے کہ جب یہ مہم کامیابی سے چل رہی تھی تو پھر بجائے شکر ادا کرنے کے احمدیوں کے خلاف مہم شروع کرنے کا کون سا موقع تھا ؟ آخر کون سا گر وہ اس مہم سے سخت نالاں تھا جس کا ایجنڈا پورا کرنے کے لئے مظلوم مسلمانوں کے لئے مہم چلانے کی بجائے احمدیوں کو کا فرقرار دینے کی مہم شروع کر دی گئی ؟ اس سوال کا جائزہ لینے کے لئے ہم ایک بار پھر ان کتب کے ہی حوالے پیش کریں گے جن کے مصنفین کا تعلق جماعت احمدیہ سے نہیں.ہے.کشمیر کمیٹی کی تحریک کے خلاف رد عمل جو نہی اس مہم نے زور پکڑا کٹر ہندو پریس میں خاص طور پر شدید بے چینی کا اظہار شروع ہو گیا.انہوں نے ایک متعصبانہ انداز میں اس تحریک کے خلاف مہم شروع کی.اس تحریک میں ملاپ، پرتاپ اور ٹریبیون اخبارات پیش پیش تھے.انہوں نے اس تحریک کو ہندو مسلم فسادات قرار دیا.انہوں نے کٹر ہندوؤں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ یہ ہندو کی حکومت کی جگہ مسلمان کی حکومت قائم کرنے کی سازش ہے.علامہ اقبال نے اس کی تردید کی کوشش کی اور کہا کہ ہندووں کو مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ تحریک چلانی چاہیے.بہر حال یہ صورت حال کانگرس کے لئے بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ جب اس تحریک کو چلتے ہوئے دو تین سال ہو گئے اور استقلال کے ساتھ کام جاری تھا.کانگرس کی اعلانیہ ہمدردیاں مہاراجہ کشمیر کے ساتھ تھیں.کچھ ہندوؤں نے علامہ اقبال سے بھی رابطہ کیا اور اس کا ذکر علامہ اقبال نے اپنی تقریر میں بھی کیا اور اس تحریک کے خلاف مہم کو ختم کرنے کا کام کانگرس کے لیڈر مولانا 33

Page 52

ابوالکلام آزاد صاحب کے سپرد ہوا.انہوں نے احرار لیڈروں سے ملاقات کر کے انہیں آمادہ کیا کہ وہ کشمیر کی مہم کو اپنے ہاتھ میں لے لیں.اور احرار نے مولوی انور کاشمیری کی وساطت سے علامہ اقبال کو بھڑ کا یا کہ وہ کشمیر کمیٹی میں امام جماعت احمدیہ کی مخالفت کریں اور اسی طرح بعض اور احرار لیڈر بھی علامہ اقبال سے مل کر انہیں خاص طور پر احمدیت کے خلاف بھڑکاتے رہے.اور اس طرح کشمیر کمیٹی میں رخنہ ڈالنے کا عمل شروع کیا گیا اور احمدیوں کے خلاف مہم شروع کر دی گئی.یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب کشمیر کمیٹی کے وفد نے مہاراجہ کشمیر سے ملاقات کا وقت مانگا تو مہاراجہ کشمیر نے ملاقات سے انکار کر دیا اور جب مجلس احرار کا وفد کشمیر گیا تو مہاراجہ نے انہیں اپنے ہاں ایک محل میں مہمان ٹھہرایا.گورنر جموں نے بھی احراری وفد سے ملاقات کی جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ لوگ تو مہا راجہ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہور ہے ہیں تو یہ خبر عام گردش کرنے لگی کہ احراریوں نے تحریک کو نا کام کرنے کے لئے مہاراجہ سے رشوت لی ہے اور ایک احراری لیڈر نے یہ بیان بھی داغ دیا کہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے بیان میں مبالغہ کیا گیا ہے.(Iqbal and the politics of Punjab1926-1938, by Khurram Mahmood, published by, National Book Foundation 2010, p 91-97) (Political Islam in Colonial Punjab Majlis-i-Ahrar 1929-1949, by Samina Awan, by Oxford University Press 2010, p 40-48) راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں علامہ اقبال کی خاموشی اور قائد اعظم کے موقف کے خلاف تقریر یہاں علامہ اقبال کے حوالے سے ایک اہم بات کا ذکر ضروری ہے.اس بات کا ذکر تو 34

Page 53

اکثر کیا جاتا ہے کہ احرار کی کاوشوں کے نتیجہ میں علامہ اقبال جماعت احمدیہ کے خلاف ہو گئے اور انہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف تحریری کاوشیں شروع کیں لیکن اُس وقت علامہ اقبال کی مخالفت کا دائرہ صرف احمدیت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس سے قبل خود بانی پاکستان محمد علی جناح اور دوسرے مسلمان لیڈروں کا موقف بھی علامہ اقبال کی مخالفت کا نشانہ بنا.اس کا پس منظر یہ ہے کہ 7 ستمبر 1931ء سے یکم دسمبر 1931ء تک لندن میں ہندوستان کے مستقبل کے آئین کے بارے میں دوسری راونڈ ٹیبل کانفرنس منعقد ہوئی.اس میں مسلمانوں کی طرف سے نمائندہ مندوبین میں قائد اعظم محمد علی جناح ، علامہ اقبال، حضرت چوہدری ظفر اللہ خان ، مولانا شوکت علی ،سر شفیع ، آغا خان سوئم بھی شامل تھے.پہلے کمیٹیوں نے کام شروع کیا.Federal Structure کمیٹی اور اقلیتوں کے بارے میں کمیٹی اہم تھیں.علامہ اقبال اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مولانا شوکت علی اور آغا خان اقلیتوں کی کمیٹی کے رکن تھے.اور Federal Structure کمیٹی میں دوسرے مندوبین کے علاوہ قائد اعظم اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل تھے.کانفرنس کے پہلے روز 7 ستمبر کو Federal Structure کی کمیٹی میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک طویل تقریر میں اعلان کیا کہ وہ گزشتہ کا نفرنس میں محمد علی جناح اور سر شفیع کی طرف سے اس خیال کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے لئے کوئی آئین اُس وقت تک کام نہیں کر سکتا جب تک مسلمان اور ہندوؤں کے درمیان اس مسئلہ پر اتفاق نہیں ہو جاتا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کہا کہ وہ اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں اور اس بات کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمان کسی ایسے آئین کی تائید نہیں کر سکتے جس میں ان کے مطالبات کو مناسب طریق پر تسلیم نہ کیا گیا ہو.اس لئے سب کومل کر پیش رفت کی کوشش کرنی چاہیے.35

Page 54

جب کا رروائی آگے بڑھی تو گاندھی جی نے علیحدہ اجلاس میں مسلمان مندوبین سے اس عذر کی بنا پر مذاکرات سے انکار کر دیا کہ ڈاکٹر انصاری لندن میں موجود نہیں ہیں اور وہ ڈاکٹر انصاری کی رضامندی کے بغیر کوئی تصفیہ نہیں کر سکتے.نتیجہ یہ ہوا کہ 26 نومبر 1931ء کو قائدِ اعظم محمد علی جناح نے تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ مسلمان مندوبین کی طرف سے یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت دونوں میں ایک ساتھ خود مختاری دینی چاہیے.اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان آزادی کی طرف کسی پیش رفت کے راستے میں حائل نہیں ہوں گے.ہم تمام تر کوشش کر چکے ہیں لیکن مسلمانوں اور ہندوؤں میں اتفاق نہیں ہو سکا.اور فی الحال کسی پیش رفت کی امید نظر نہیں آ رہی.آخر یہ مذاکرات ناکامی پر ختم ہوئے.یہ بات قابل ذکر ہے کہ علامہ اقبال نے کمیٹی کے اجلاس میں اور پھر کا نفرنس کی کارروائی میں ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ مسلمانوں کے مفادات کے لئے کوئی آواز اُٹھائی.وہ معنی خیز انداز میں مکمل طور پر خاموش رہے.اس کا نفرنس میں مسلمانوں کے حقوق کے لئے خاص طور پر قائد اعظم ، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور سرشفیع آواز اُٹھاتے رہے.علامہ اقبال کا دوسرے تمام مسلمان مندوبین سے اختلاف بھی ہو گیا اور اختلاف اتنا شدید ہوا کہ علامہ اقبال ایک لفظ بولے بغیر ہی اس کا نفرنس سے مستعفی ہو گئے.(Indian Round Table Conference[second session [ Proceedings of the Federal Structure Committee and Minorities Committee Vol 1.P31-35) (Indian Round Table Conference[second session [ Proceedings of the Federal Structure Committee and Minorities Committee Vol 2.p 1211-1215) زنده رود مصنفہ جا وید اقبال صاحب، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور 2008 صفحہ 504) 36

Page 55

علامہ اقبال نے ہندوستان آنے کے چند ماہ کے بعد مارچ 1931ء میں All Indian Muslim Conference کی صدارت کرتے ہوئے قائد اعظم کے اس موقف کو جو آپ نے 26 نومبر 1931ء کو فیڈرل سٹرکچر کی کمیٹی میں پیش کیا تھا اور کسی مسلم مندوب نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی ، شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ایک سنگین غلطی قرار دیا اور یہ سوال اُٹھایا کہ کیا انہیں ایسا کرنے کا حق بھی تھا کہ نہیں اور یہ الزام لگایا کہ انہوں نے یہ غلطی بعض انگریز سیاستدانوں کے غلط مشورہ کے زیر اثر کی تھی اور اس کی وجہ سے حکومت کو یہ موقع مل گیا کہ اس نے صوبوں کو خود مختار حکومتیں دینے میں تاخیر کر دی ہے اور یہ دعویٰ کیا کہ تمام ہندوستان کے مسلمان اس موقف کو ایک سنگین غلطی سمجھتے ہیں اور حاضرین کا نفرنس کو تحریک کی کہ وہ اس موقف کی مخالفت میں آواز اُٹھا ئیں.مختصر یہ کہ اس طرح اس نازک موقع پر جب کہ مسلمانوں میں اتحاد ضروری تھا، مسلمان لیڈروں کے درمیان ایسا نا گوار اختلاف سامنے آیا، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی قوت کو نقصان پہنچنا ایک لازمی بات تھی.( The All India Muslim Conference 1928-1935 ,compiled by K.K.Aziz, published by Sange Meel publications p.88) علامہ اقبال جماعت احمدیہ کے خلاف مہم شروع کرتے ہیں اس مرحلہ کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف یہ نفرت انگیز مہم زور پکڑتی گئی اور علامہ اقبال بھی اس مخالفت میں پیش پیش نظر آنے لگے.اس کے نتیجہ میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 7 مئی 1933ء کو کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفی دے دیا.علامہ اقبال کو نیا صدر بنایا گیا.اس مرحلہ پر علامہ اقبال کا نیا شکوہ سامنے آیا کہ کمیٹی کے احمدی ممبران اپنی قیادت کی پیروی کرتے ہیں اور اس بنا پر علامہ اقبال نے استعفیٰ دیا اور کمیٹی کو ختم کرنے کا 37

Page 56

اعلان کر دیا.یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اگر احمدی غدار تھے اور تفرقہ ڈال رہے تھے تو آپ کو ان کے تعاون کی ضرورت کیوں تھی ؟ کیا ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں میں آپ جیسے نمایاں لیڈر کو کچھ افراد بھی نہیں مل رہے تھے جو کہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے آپ سے تعاون کرتے.2 جولائی 1933 ء کو علامہ اقبال کی صدارت میں ایک نئی آل انڈیا کمیٹی قائم کی گئی اور اس میں کسی احمدی کو شامل نہیں کیا گیا.اب تو احمدی اس کا حصہ نہیں تھے.اب تو چاہیے تھا کہ پہلے سے کئی گنا زیادہ کام ہوتا.ان مخالفین کے نزدیک اگر احمدی غدار تھے اور کشمیریوں کی ا خدمت کرنے کی بجائے اپنے مسلک کی تبلیغ کرتے تھے تو اب تو یہ مسئلہ ختم ہو گیا تھا لیکن نہ اس کمیٹی کو مالی وسائل میسر ہوئے اور نہ کارکنان ملے جو بے لوث کام کرتے اور نہ ہی کوئی کام ہوا.آخر تنگ آکر علامہ اقبال نے 1934ء میں اپنے آپ کو اس کمیٹی سے علیحدہ کر لیا اور یہ کمیٹی بھی اپنی موت آپ مر گئی.مجلس احرار کی ہلڑ بازی کا انجام اب ہم یہ جائز ہ لیتے ہیں کہ مجلس احرار نے کیا تیر مارا؟ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے انہیں پیشکش کی تھی کہ وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں شامل ہو جائیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا اور کانگرس کے لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد کے مشورے سے اپنی علیحدہ تحریک چلائی تھی.احرار نے ہزاروں مسلمانوں سے گرفتاریاں دلائیں.اور انہیں جیل میں اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا.سول نافرمانی کی تحریک بھی چلائی.کچھ روز کی بے فائدہ ہلڑ بازی کے بعد اس تحریک کے پاس نہ کارکنان تھے اور نہ کوئی ان کی سننے کو تیار تھا ، اور نہ حوصلہ تھا کہ استقلال سے کوئی 38

Page 57

تحریک چلاتے.صرف 53 دن میں احرار کی ہمت جواب دے گئی اور انہوں نے باضابطہ طور پر تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیا.ہزاروں مسلمانوں کو قید بھی کرایا اور نتیجہ صفر.اندھا کیا چاہے دو آنکھیں“ مہاراجہ نے احرار کو چند دن روٹیاں کھلا کر جی بھر کر فائدہ اُٹھایا.احرار نے اختلافات کی جو آگ کشمیر کمیٹی میں لگائی تھی اس کے شعلے کشمیر تک پہنچے اور 1933ء میں کشمیر کے مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے.ایک گروہ شیخ عبداللہ صاحب کا گروہ تھا اور دوسرا گروہ مولوی یوسف شاہ صاحب کا تھا.اس اختلاف نے کشمیر کے مسلمانوں کی مہم کو مزید کمزور کر دیا.ذیل میں حوالے درج کئے جاتے ہیں.ہر کوئی ان حقائق کا آزادانہ تجزیہ کرسکتا ہے.(Iqbal and the politics of Punjab1926-1938, by Khurram Mahmood, published by, National Book Foundation 2010, p 90-112) (Political Islam in Colonial Punjab Majlis-i-Ahrar 1929-1949, by Samina Awan, by Oxford University Press 2010, p 40-55) علامہ اقبال کی تحریروں کا تجزیہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے اس فیصلہ میں علامہ اقبال کی جن تحریروں کے طویل حوالے درج کئے گئے ہیں، ہم نے ان تحریروں کا پس منظر پیش کیا ہے اور اب ہم ان تحریروں کا مختصر تجزیہ پیش کریں گے.اس عدالتی فیصلہ میں ان تحریروں کا آغاز نہیں درج کیا گیا.اس آغاز سے واضح ہو جا تا تھا کہ علامہ اقبال کی طرف سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی یہ گزارش کس سے کی جا رہی تھی اور اس کا اصل مخاطب کون تھا؟ علامہ اقبال لکھتے ہیں: I intended to adress an open letter to the British people 39

Page 58

explaining the social and political implications of the issue.ترجمہ: میرا ارادہ تھا کہ برطانوی لوگوں کو مخاطب کر کے ایک کھلا خط لکھوں تا کہ اس مسئلہ کے معاشرتی اور سیاسی مضمرات کی وضاحت کی جاسکے.گویا اس تحریک کو مسلم لیگ میں پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مخاطب اصل میں برطانوی حکمران تھے.یہ سوال قدرتی طور پر اُٹھتا ہے کہ اس مذہبی معاملہ میں کہ کون مسلمان ہے؟ انگریزوں کو درخواست کیوں پیش کی جا رہی تھی ؟ اب یہ دیکھتے ہیں کہ ان تحریروں میں احمدیوں کو غیر مسلم قراردینے کے حق میں کیا دلائل پیش کئے گئے؟ تو پہلی تحریر Muslims Qadianism and Orthodox کے شروع میں ہی علامہ اقبال نے واضح کر دیا "It must, however be pointed out at the outset that I have no intention to enter into any theological argument." ترجمہ: شروع میں ہی اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ میر امذہبی دلائل دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے.(Traitors of Islam) an analysis of Qadiani issue, by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973 p 31-32) بہت خوب! گویا احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ برطانوی حکمران قوم سے کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی مذہبی دلیل نہیں دی جائے گی.یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اگر اس سلسلہ میں علامہ اقبال نے قرآن کریم اور حدیث نبوی سے کوئی دلیل نہیں پیش کی تھی تو کیا کوئی دلیل پیش کی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سلسلہ میں انہوں نے ایک دلیل یہ ضرور پیش کی تھی کہ 40

Page 59

جس طرح کچھ صدیاں قبل ایمسٹر ڈیم کے یہودیوں نے مشہور فلاسفر Spinoza کو یہودیت سے خارج قرار دے دیا تھا، اسی طرح مسلمانوں کو بھی اختیار ہے کہ وہ احمدیوں کو اسلام سے خارج قرار دیں.اگر یہ مذہبی بحث تھی تو اس سلسلہ میں قرآن یا حدیث سے کوئی دلیل پیش کرنی چاہیے تھی.یہ دلیل بہر حال قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ کیونکہ ایمسٹر ڈیم کے یہودیوں نے Spinoza کو یہودیت سے خارج کر دیا تھا.اس لئے ہمارا بھی یہ حق ہے کہ ہم احمدیوں کو اسلام سے خارج قرار دیں.یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ اس تحریر میں ایک ایسی عبارت بھی موجود ہے جس سے جماعت احمدیہ کے متعلق مولوی صاحبان کے وہ تمام بے سر و پا دعاوی غلط ثابت ہو جاتے ہیں جنہیں وہ اب تک پیش کرتے رہے تھے.علامہ اقبال تحریر کرتے ہیں.Western people who cannot but adapt a policy of non-interference in religion.This liberal and indispensable policy in a country like India has led to the most unfortunate results.(Traitors of Islam) an analysis of Qadiani issue (by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973p37) یعنی مغربی احباب کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ مذہب کے معاملے میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنائیں.اگر چہ اس آزادانہ پالیسی کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا لیکن ہندوستان جیسے ملک میں اس کے نہایت ہی برے نتائج برآمد ہوئے.ان الفاظ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اس خیال کا اظہار کر رہے ہیں کہ سلطنت برطانیہ کو ہندوستان میں مذہبی معامات میں مداخلت ضرور کرنی چاہیے اور احمدیت کی ترقی کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے.1947ء کے بعد تو احمدیت کے مخالفین اس 41

Page 60

بات کا پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ کو برطانوی حکومت نے اپنے مقاصد کے لئے کھڑا کیا تھا.جبکہ جب انگریز یہاں حکمران تھے تو اس بات پر ان سے شکوہ کیا جا رہا تھا کہ ان کی حکومت نے احمدیت کی ترقی کو روکنے کے لئے کوششیں کیوں نہیں کیں؟ کیا مسیح موعود کی پیشگوئی ایک مجوسی نظریہ ہے؟ اس تحریر میں صرف احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس پیشگوئی کوجس کی بنیا د رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور بیان فرمودہ پیشگوئیوں پر ہے سخت ترین الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا.علامہ اقبال لکھتے ہیں: Even the phrase 'Promised Messiah' is not a product of Muslim religious consciousness.It is a bastard expression and has its origin in pre-Islamic Magian outlook.( Traitors of Islam) an analysis of Qadiani issue ( by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973p 35) ترجمه: مسیح موعود کی اصطلاح بھی اسلامی فکر کا نتیجہ نہیں ہے.یہ ایسی ناجائز اصطلاح ہے جس کی بنیاد قبل از اسلام مجوسی تصورات پر ہے.اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اناللہ وانا الیہ راجعون.) مسیح موعود کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ مسیح جس کا وعدہ کیا گیا ہے.“ آنے والے مسیح کے بارے میں کسی کے کوئی بھی عقائد ہوں کیا یہ حقیقت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار آنے والے مسیح کے بارے میں پیشگوئی فرمائی تھی؟ احادیث کی معتبر ترین کتب میں ی احادیث تواتر سے موجود ہیں.اور یہ دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس تاکید زور سے یہ پیشگوئی فرمائی تھی.صرف ایک مثال درج کی جاتی ہے.42

Page 61

”حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا قسم ہے اس پروردگار کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ نازل ہو گا تم میں ابن مریم حاکم عادل اور توڑنے والا صلیب کا اور مارے گا خنزیروں کو اور موقوف کر دے گا جزیہ کو اور لوگوں کو کثرت سے مال دے گا یہاں تک کہ کوئی اسے قبول نہ کرے گا.“ ( صحیح بخاری کتاب الانبیاء، باب نزول عیسی ابن مریم ، جامع ترمذی ابواب الفتن - ماجاء فی نزول عیسیٰ ابن مریم ) ملاحظہ کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی قسم کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں که ضرور وہ موعود مسیح آئے گا اور احمدیت کی دشمنی میں مسیح کی آمد کو ایک مجوسی تصور قرار دیا جارہا ہے اور ملاحظہ کریں کہ اسے ”Bastard Expression‘ قرار دیا جارہا ہے.اور اگر کوئی سمج بحثی سے یہ اصرار کرے کہ اردو میں مسیح موعود“ کی اصطلاح کہاں استعمال ہوتی تھی؟ تو عرض یہ ہے کہ ان الفاظ میں بھی مسلمانوں کی تحریروں میں یہ اصطلاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے قبل بکثرت استعمال ہوتی تھی.ہم سلسلہ احمدیہ کے مشہور مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی تحریر سے ہی ایک مثال پیش کر دیتے ہیں.مولوی صاحب اشاعۃ السنہ میں ” براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں.( یادر ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا.) یہ الفاظ ہمارے اس بیان کے مصدق ہیں کہ مؤلف کو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں بلکہ حضرت مسیح سے مشابہت کا ادعا ہے.سو بھی نہ ظاہری وجسمانی اوصاف میں بلکہ روحانی اور تعلیمی وصف میں.“ اشاعۃ السنہ جلد 7 نمبر 7 صفحہ 191) اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے معا قبل بھی یہ 43

Page 62

اصطلاح عام تھی جسے احمدیت کی مخالفت میں مجوسی اصطلاح قرار دیا گیا.علامہ اقبال کے مولوی حضرات اور صوفیاء کے بارے میں نظریات علامہ اقبال کی ان تحریروں کا ایک حصہ ایسا ہے جس کے ذکر سے جماعت احمدیہ کے مخالفین ہمیشہ گریز کرتے ہیں.اسی تحریر میں علامہ اقبال نے تحریر کیا ہے کہ مولوی اور صوفی عمداً ایسا پراسرار ماحول پیدا کرتے ہیں تا کہ عوام کی جہالت اور تقلید کا ناجائز فائد اُٹھایا جا سکے اور اگر انہیں اختیار ہوتا تو وہ ہندوستان میں ہر مولوی کے لئے لائسنس حاصل کرنا ضروری قرار دیتے.اور ا تا ترک نے جو معاشرے سے مولوی کو نکال باہر کیا ہے اگر ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ سے دیکھ لیتے تو بہت خوش ہوتے اور علامہ اقبال نے مشکوۃ کی ایک حدیث کا حوالہ دے کر اس خیال کا اظہار کیا کہ صرف ملک کے امیر یا اس کے مقرر کردہ لوگوں کا حق ہے کہ وہ عوام کو وعظ کریں.(Traitors of Islam) an analysis of Qadiani issue (by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973 p22,23) مولوی صاحبان علامہ اقبال کی اس تحریر کا ذکر کبھی نہیں کرتے کیونکہ اس سے ان کی مولویت کی صف لپٹ جاتی ہے.اس لئے انہیں مجبوراً صرف جزوی حوالے پیش کرنے پڑتے ہیں.علامہ اقبال کی انہی تحریروں میں جنہیں جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، بزرگ صوفیاء پر بھی نا مناسب اعتراض ان الفاظ میں کیا گیا تھا اور یہ الفاظ اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 119 پر درج ہیں.اقبال لکھتے ہیں: "Nor will Islam tolerate any revival of mediaeval mysticism which has already robbed its followers of their healthy instincts 44

Page 63

and given them only obscure thinking in return." ترجمہ: نہ ہی اسلام اب درمیانی صدیوں کے تصوف کو برداشت کر سکتا ہے جنہوں نے اس کے پیروکاروں کو صحت مندانہ رحجانات سے محروم کر دیا اور بدلے میں انہیں صرف مبہم خیالات دیئے.چونکہ جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت ابن عربی کی تحریر کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے.علامہ اقبال نے اس تحریر میں حضرت ابن عربی کے ان خیالات کو Psychologically Unsound یعنی نفسیاتی طور پر غیر صحت مندانہ قرار دے دیا.کیا کسی وجود کی روحانی اتباع کی ضرورت نہیں؟ ( عدالتی فیصلہ صفحه 115 ) اس تحریر میں صرف صوفیاء جن میں حضرت ابن عربی جیسے بزرگ بھی شامل تھے پر تنقید کرنے پر اکتفا نہیں گئی بلکہ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اب اسلام کو کسی بزرگ کی روحانی راہنمائی کی بھی ضرورت نہیں.علامہ اقبال تحریر کرتے ہیں : "Islam has already passed into the broad daylight of fresh thought and experience and no saint or prophet can bring it back to the وو و.......fogs of mediaeval mysticism ( عدالتی فیصلہ صفحہ 119 ) ترجمہ: اسلام اب جدید سوچ اور تجربات کی روشن خیالی میں داخل ہو چکا ہے.اب کوئی بزرگ یا نبی اسے قرون وسطی کے تصوف کی دھند کی طرف واپس نہیں لے جاسکتا.اگر صرف کسی نبی کی راہنمائی سے انکار کیا جاتا تو یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ جماعت احمد یہ 45

Page 64

سے عقائد کے اختلافات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن یہاں تو یہ اظہار کیا جا رہا ہے کہ نہ کسی بزرگ کی راہنمائی کی گنجائش ہے اور نہ صوفیاء جیسے خیالات کی کوئی جگہ.اور ایک اور بات قابل توجہ ہے کہ 1934ء میں اسلام پر کون سا روشن دور موجود تھا اور کس لحاظ سے مسلمانوں کی حالت قابل رشک تھی کہ اسے کسی بھی پہلو سے درمیانی صدیوں پر فوقیت حاصل ہوتی؟ یا اسے روشن دور قرار دیا جاسکتا.وہ سیاسی طور پر غلام تھے.آپس کے اختلافات نے مسلمانوں کا تماشہ بنایا ہوا تھا.مالی طور پر مقروض اور قلاش، عسکری طور پر صفر.علمی طور پر ہر لحاظ سے پسماندہ.اور پھر بھی اس دور کو ایسا قراردیا جارہا ہے کہ کسی بھی مصلح کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ کوئی گنجائش.علامہ اقبال کی ان تحریروں میں ختم نبوت کا جو تصور پیش کیا جا رہا ہے، وہ ایسا ہے کہ صرف نبوت سے ہی نہیں انکار کیا جاتا بلکہ ہر روحانی اتباع اور مصلح کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر دیا جاتا ہے.اقبال لکھتے ہیں : "The cultural value of the idea of Finality in Islam I have fully explained elsewhere.Its meaning is simple: No spiritual surrender to any human being after Muhammad who emancipated his followers by giving them a law" ترجمہ: خاتمیت کی معاشرتی اہمیت کے متعلق میں ایک اور جگہ وضاحت کر چکا ہوں کہ اس کا مطلب واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ وسلم نے قانون دے کر اپنے پیروکاروں کو آزاد کر دیا ہے.اب روحانی طور پر کسی کے آگے سر جھکانے کی ضرورت نہیں.یقینی طور پر قرآن کریم آخری شریعت ہے لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ کسی مجدد، خلیفہ یا بزرگ کی پیروی کی ضرورت نہیں اور نہ ان سے روحانی 46

Page 65

فیضان حاصل کرنے کی ضرورت ہے.کیا خلفاء راشدین کی پیروی کی کوئی ضرورت نہیں تھی؟ کیا مجددین کی پیروی کی ضرورت نہیں تھی ؟ کیا ائمہ اہل بیت کی روحانی پیروی بے سود تھی؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مہدی اور مسیح کی آمد کی خبر دی تھی اس کی روحانی پیروی کی ضرورت نہیں؟ یہ تحریر احمدیت کے خلاف تھی کہ اسلام کے ہر روحانی فیضان کے خلاف اعلان جنگ تھا؟ اہل کشمیر کی مدد کے لئے جماعت احمدیہ کی کاوشوں کی مخالفت.پس پردہ کون تھا؟ ایک اور بات جس کا ذکر اس موضوع پر لکھی گئی تحریروں میں بار بار کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اصل میں مہاراجہ کشمیر کے خلاف آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مہم کی سر پرستی انگریز حکمران کر رہے تھے اور یہ حکمران مہاراجہ کشمیر کے خلاف تھے اور یہی وجہ تھی کہ کانگرس اس تحریک کے خلاف تھی.اس کے علاوہ اس خیال کا بھی اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صدر بنانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے انگریزوں سے اچھے تعلقات تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس طرح وہ انگریزوں اور اس کمیٹی کے درمیان رابطہ کا کام سرانجام دے سکیں گے.برطانوی حکومت کی بہت سی دستاویزات جو کہ پہلے خفیہ تھیں اب declassify کر دی گئی ہیں اور ہر کوئی ان کا جائزہ لے کر اس بارے میں حقیقت جان سکتا ہے.جب ان فائلوں کا جائزہ لیا گیا تو بالکل برعکس صورت حال سامنے آئی.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کی حکومت اہل کشمیر کے بنیادی انسانی حقوق کے لئے جماعت احمدیہ کی کاوشوں کی مسلسل مخالفت کر رہی تھی.اس سلسلہ میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے.جب 47

Page 66

جماعت احمدیہ کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے نتیجہ میںآل انڈیا کشمیر کمیٹی ختم ہو چکی تھی اور اس تحریک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا، تو 1936ء میں حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن قائم فرمائی تھی تا کہ جائزہ لیا جا سکے کہ گلانسی کمیشن کشمیر نے اہل کشمیر کے حقوق کے لئے جو سفارشات پیش کی تھیں ان پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں اور جن سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ان پر عملدرآمد کروانے کے لئے کوششیں کی جائیں.اس ایسوی ایشن کا پہلا اجلاس لاہور میں ہوا.برٹش لائبریری میں موجود ریکارڈ ظاہر کرتا ہے اس وقت کی حکومت ان کا وشوں کے متعلق مہا راجہ کشمیر کی حکومت کو مسلسل مطلع کر رہی تھی.اس سلسلہ میں دہلی کے Foreign and Political Department اور کشمیر کی حکومت کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی.اس سلسلہ میں کشمیر کے وزیر اعظم Elliot James Colvin کشمیر میں ریذیڈنٹ Lt Col L E Lang اور دہلی FV Wylie Foreign and Political Department درمیان خط و کتابت بھی ہوتی رہی اور یہ مشورے بھی ہوتے رہے کہ اس سلسلہ کو ایک بار پھر بڑھنے سے کس طرح روکا جائے.اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا کہ امام جماعت احمد یہ اس مسئلہ کو اُٹھانے کی کوشش کریں گے کہ ریاست کشمیر کے وزیر کشمیریوں میں ہی سے لئے جائیں.16 جون 1936ء کو کشمیر کے انگریز وزیر اعظم Colvin نے ریذیڈنٹ L E Lang کو ایک خط لکھا اور اس میں امام جماعت احمدیہ کی اہل کشمیر کے لئے کاوشوں کے بارے میں لکھا "Government feel confident that the Punjab government will nip this agitation in the bud.I trust that you will take such action as you may consider necessary to attain this object." 48

Page 67

ترجمہ : حکومت اس بارے میں پر اعتماد ہے کہ پنجاب کی حکومت اس شورش کو آغاز میں ہی ختم کر دے گی.میں اس بات پر بھروسہ کر سکتا ہوں کہ آپ اس بارے میں ہرضروری قدم اُٹھائیں گے.یہ ریکارڈ برٹش لائبریری میں موجود ہے اور اس کا فائل نمبر 10R/R1/11 2837:1936-1937 ہے.ہر کوئی اس کا جائزہ لے کر حقائق جان سکتا ہے.اس ریکارڈ سے ان مفروضوں کی مکمل تردید ہو جاتی ہے جن کا ہم نے ذکر کیا تھا.ان حقائق کی روشنی میں از سر نو تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہے کہ اُس دور میں جماعت احمدیہ کے خلاف مہم کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما تھے؟ اور ان کے مقاصد کیا تھے؟ جسٹس شوکت عزیز صاحب کا فیصلہ اور 1953ء کے فسادات اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف جو فیصلہ تحریر کیا ہے ، اس کے بیشتر حصہ میں تاریخی واقعات درج کئے گئے ہیں اور جماعت احمدیہ پر ہر طرح الزامات لگانے کے لئے غلط اور خلاف واقعہ امور درج کئے گئے ہیں یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے.ہم گزشتہ اقساط میں 1936 ء تک کے درج کردہ حالات کا تجزیہ پیش کر چکے ہیں.1936ء سے 1947 ء تک کے واقعات کا ذکر غائب کیوں؟ لیکن ایک بات قابل غور ہے اور وہ یہ کہ اس کے بعد اس فیصلہ میں 1936ء سے 1948 ء تک کے تاریخی واقعات کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے.شاید پڑھنے والوں کو یہ بات تعجب میں ڈالے کہ یہ دور تو برصغیر کے مسلمانوں کے حوالے سے اہم ترین دور تھا کیونکہ 49

Page 68

اسی دور میں پاکستان حاصل کرنے کے لئے تحریک چلائی گئی اور پاکستان آزاد ہوا.شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے لئے بھی یہ ممکن نہ ہو کہ ان حقائق کو بدل کر پیش کر سکیں کہ آزادی سے قبل انتخابات میں جماعت احمدیہ نے مسلم لیگ کی حمایت کی تھی اور مجلس احرار اور جماعت اسلامی جیسے جماعت احمدیہ کے مخالفین نے مسلم لیگ کی اشد مخالفت کی تھی.غالباً اس وجہ سے ہی اس دور کے ذکر سے احتراز کیا گیا ہے.البتہ مہم سے انداز میں یہ ضرور لکھا ہے: " Before the partition, Mirza Mehmud had told his followers that Pakistan was not going to come into existence and that if any such state was created it would be undone." (page 46) ترجمہ: تقسیم سے پہلے مرزا محمود نے کہا کہ پاکستان نہیں بنے گا اور اگر ایسی کوئی ریاست وجود میں آئی تو ختم ہو جائے گی.حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے یہ کب کہا ؟ یہ بیان کہاں شائع ہوا؟ اس کا حوالہ کیا ہے؟ ان باتوں کا فیصلہ میں کوئی ذکر نہیں.پاکستان میں جماعت احمدیہ پر الزام لگاتے ہوئے ثبوت کی ضرورت نہیں پڑتی.صرف الزام ہی ثبوت سمجھا جاتا ہے لیکن ہم ثبوت ضرور پیش کریں گے.امام جماعت احمدیہ نے آزادی سے قبل ہونے والے ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں احمدیوں کو یہ ہدایت دی.میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہیے تا انتخابات کے بعد مسلم لیگ بلا خوف تردید کانگرس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے.اگر ہم اور دوسری مسلمان جماعتیں ایسا نہ کریں گی تو مسلمانوں 50

Page 69

کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی.اور ہندوستان کے آئندہ نظام میں ان کی آواز بے اثر 66 ثابت ہوگی..الفضل 22 اکتوبر 1945ء) اگر جماعت احمدیہ کے نزدیک پاکستان کا بننا یا قائم رہنا ممکن نہیں تھا تو پھر جماعت احمد یہ ان انتخابات میں مسلم لیگ کی حمایت کیوں کر رہی تھی ؟ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر اعتراضات چونکہ 1953 ء کے فسادات میں مخالفین نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ذات کو خاص طور پر نشانہ بنایا تھا.اس لئے اس عدالتی فیصلہ میں جہاں پر 1953ء کے فسادات کا ذکر ہے وہاں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر خاص طور پر اعتراضات کئے گئے ہیں.تقسیم ہند کے دور کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں: "People did not like Sir Zafaruulah at all for his past role as a servant of the British Imperialists and his perspective on foreign policy.The people believed that he did not plead Pakistan's case before the boundary commission and the Kashmir issue at UN." (Page 45,46) ترجمہ: لوگ سر ظفر اللہ کو خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کے نظریات کی وجہ سے بالکل پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ برطانوی سامراج کے ملازم رہ چکے تھے.لوگوں کا خیال تھا کہ انہوں نے پاکستان کا مقدمہ باؤنڈری کمیشن کے سامنے نہیں لڑا تھا اور نہ ہی کشمیر کا قضیہ اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا.ہر سنی سنائی بات نہ تو خبر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا سچا ہونا ضروری ہوتا ہے.اور نہ قانونی 51

Page 70

طور پر اس قسم کی مبہم اور غیر واضح باتیں بیان کر کے کسی کو متہم کیا جا سکتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خان کب برطانوی سامراج کے ملازم رہے تھے؟ اور اس کا کیا مطلب ہے؟ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہے تھے.اگر وہ کسی سامراج کے ملازم تھے تو مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی تنظیم نے انہیں اپنا صدر کیوں منتخب کیا تھا ؟ اور اگر مراد یہ ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وائسرائے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر رہے تھے تو واضح رہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب اور قائد اعظم کی کابینہ کے اراکین سردار عبد الرب نشتر صاحب، چندریگر اور غضنفر علی خان بھی وائسرائے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر رہے تھے.یہ الزام کہ آپ نے باؤنڈری کمیشن میں پاکستان کا مقدمہ پیش نہیں کیا تھا.خدا جانے یہ لکھتے ہوئے لکھنے والے کے ذہن میں کیا تھا؟ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کا مقدمه صحیح طور پر پیش نہیں کیا تھا تو اس کے چند ماہ بعد قائد اعظم نے آپ کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ کیوں مقرر کر دیا؟ اب تو اس باؤنڈری کمیشن کی ساری کارروائی شائع ہو چکی ہے.ہر کوئی اسے پڑھ سکتا ہے.ہم ممنون ہوں گے اگر اس سے کوئی ثبوت پیش کیا جائے کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس کمیشن کے روبرو پاکستان کا کیس نہیں پیش کیا یا صحیح طور پر پیش نہیں کیا.مسئلہ کشمیر اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات اسی طرح اگر یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ نے سلامتی کونسل میں کشمیر کے مسئلہ 52

Page 71

پر پاکستان کی صحیح نمائندگی نہیں کی تھی تو پہلی بات یہ ہے کہ وہ واحد قرار داد جس پر بناء کر کے پاکستان اب تک اپنا موقف پیش کرتا رہا ہے وہ اس وقت منظور کی گئی تھی جب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے.اس کے بعدسات دہائیوں میں اس قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی.اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس بحث کے دوران جو نمایاں افراد موجود تھے انہوں نے اس بارے میں کیا رائے ظاہر کی....پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی صاحب جو اس وفد میں شامل تھے لکھتے ہیں: "Zafarullah Khan's masterly exposition of the case convinced the security council that the problem was not simply one of expelling so called raiders from Kashmir." ظفر اللہ خان نے اس ماہرانہ انداز میں واقعات پیش کئے کہ سلامتی کونسل کو یقین ہو گیا کہ یہ معاملہ فقط کشمیر سے نام نہا دحملہ آوروں کو باہر نکالنے کا نہیں ہے.(The Emergence of Pakistan, by Chaudri Muhammad Ali, research Society of Pakistan, Oct.2003, p301) آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار ابراہیم جو اس موقع پر موجود تھے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : پاکستان کے وزیر خارجہ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں جو بھارت کی شکایت پر وو بلا یا گیا تھا.بھارت کے ایک ایک الزام کو غلط اور بے بنیاد ثابت کر دی.کشمیر کی جنگ آزادی، مصنفہ سرادار محمد ابراہیم، طابع دین محمدی پریس لاہور 1966ء ،صفحہ 126 ).....چو ہدری صاحب نے اس بحث میں دوسرے فریق کے بیانات کو اس مہارت سے استعمال کیا کہ اس کا اعتراف ان کے مصنفین بھی کرتے ہیں.چنانچہ بال راج مدھک سلامتی 53

Page 72

کونسل میں ہونے والی بحث کے متعلق لکھتے ہیں : انہوں نے ( یعنی شیخ عبد اللہ نے ) مختلف مواقع پر جو بیانات دیے تھے اور جو تقریریں کی تھیں اور اسی طرح پنڈت نہرو کی تقریروں نے ظفر اللہ کے ہاتھ میں ایسی چھڑی پکڑا دی تھی جس سے وہ ہندوستان کی پٹائی کرتے رہے.“ (Kashmir Storm center of the world, chapter8, by Bal Raj Madhok) شیخ عبد اللہ صاحب ہندوستان کے وفد میں شامل تھے اور انہوں نے اپنے مؤقف کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنی کتاب میں بہت کچھ لکھا ہے لیکن چوہدری صاحب کے کامیاب انداز کے متعلق وہ اعتراف کرتے ہیں : پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ چوہدری سر ظفر اللہ خان کر رہے تھے.مجھے بھی ہندوستان کے وفد میں شامل کیا گیا سر ظفر اللہ ایک ہوشیار بیرسٹر تھے.انھوں نے بڑی ذہانت اور چالا کی کا مظاہرہ کر کے ہماری محدود سی شکایت کو ایک وسیع مسئلے کا روپ دے دیا اور ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے سارے پر آشوب پس منظر کو اس کے ساتھ جوڑ دیا.ہندوستان پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایت کا دائرہ کشمیر تک محدود رکھتا لیکن وہ سر ظفر اللہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گیا اور اس طرح یہ معاملہ طول پکڑ گیا.بحثا بحثی کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا.ہمارے کان پک گئے اور قافیہ تنگ ہونے لگا.ہم چلے تو تھے مستغیث بن کر لیکن ایک ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑے کر دیئے گئے.آتش چنار، مصنفہ شیخ محمدعبداللہ مطبع جے کے آفسٹ پرنٹرز، جامع مسجد دہلی.1986 صفحہ 473) 1953ء کے فسادات کا آغاز اس مضمون میں ان فسادات کی تمام تفصیلات درج نہیں کی جارہیں بلکہ اس فیصلہ میں 54

Page 73

ان فسادات کے بارے میں درج باتوں پر تبصرہ پیش کیا جارہا ہے.سب سے پہلے تو یہ تجزیہ ضروری ہے کہ پاکستان بنتے ہی جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات شروع کرانے کی وجہ کیا تھی؟ یہ وجہ جاننے کے لئے ان فسادات کو شروع کرنے والوں کے عزائم اور نفسیات کو جاننا ضروری ہے.ہم صرف مجلس احرار اور جماعت اسلامی کا تجزیہ پیش کریں گے.اس شورش کو سب سے پہلے احرار نے ہوا دی.اگر چہ احرار دعوی کرتے تھے کہ وہ مذہبی مقاصد رکھتے ہیں لیکن وہ مذہب کا نام صرف سیاست کی دوکان چمکانے کے لئے استعمال کرتے تھے.ان کا عقیدہ تھا کہ سیاسی رسوخ حاصل کرنا ہی اصل مذہبی مقصد ہے.یہ پوچ نظریہ اُن کے ذہنوں میں بری طرح رچ بس گیا تھا.1939ء کی آل انڈیا احرار کا نفرنس کے خطبہ صدارت میں افضل حق صاحب نے یہ پالیسی ان الفاظ میں بیان کی.احرار اس یقین پر قائم ہیں کہ نیکی بغیر قوت کے زندہ نہیں رہ سکتی.مذہب صرف اس کا زندہ ہے جس کی سیاست زندہ ہے.اگر چہ بعض تبلیغی اور اصلاحی امور بھی احرار سے متعلق ہیں.تاہم سیاسی قوت حاصل کرنا ہمارا نصب العین ہے جس کے بغیر ہر اصلاحی تحریک تضیع اوقات ہے.‘“ ( خطبات احرار جلد اول، مرتبه شورش کا شمیری، مکتبہ احرار لا ہور، مارچ 1944 ء صفحہ 17، 18) اور جماعت اسلامی بنانے کا مقصد مودودی صاحب کے الفاظ میں یہ تھا: جماعت اسلامی کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود دنیا میں حکومت الہیہ کا قیام اور آخرت میں رضائے الہی کا حصول ہے.“ ( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم ، مصنفہ ابوالاعلی مودودی صاحب صفحہ 173, 174) اس کتاب کا ایک بڑا حصہ اس بحث سے بھرا ہوا ہے کہ یہ حکومت الہیہ صرف ایک 55

Page 74

صالح جماعت قائم کر سکتی ہے.چونکہ ایسی جماعت کوئی موجود نہیں اس لئے جماعت اسلامی کو قائم کیا جا رہا ہے تا کہ وہ حکومت حاصل کر سکے اور حکومت الہیہ قائم کر سکے.اس مضمون کو جسٹس شوکت عزیز صاحب بخوبی سمجھتے ہوں گے کیونکہ وہ خود ایک مرتبہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑچکے ہیں گو کہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے تھے.اس پس منظر میں یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان جماعتوں کی تشکیل اسی بنیاد پر ہوئی تھی کہ وہ کسی طرح سیاسی اقتدار حاصل کریں اور اپنا پروگرام پورا کرسکیں.یہ دونوں جماعتیں اور مولویوں کی بھاری اکثریت آزادی سے قبل پاکستان کے قیام کی مخالفت کر چکے تھے اور اسے پلیدستان، نا پاکستان کا فرستان اور غلامستان کہتے رہے تھے.جس وجہ سے آزادی کے بعد ان کی سیاسی حیثیت ختم ہوگئی تھی اور احرار نے تو سیاسی امور سے کنارہ کشی کا اعلان بھی کر دیا تھا اور جماعت اسلامی آزادی کے بعد پنجاب میں ہونے والے الیکشن میں ایک بھی نشست نہیں حاصل کر سکی تھی.اب انہیں اپنے سیاسی مردے میں جان ڈالنے کے لئے کسی مسئلہ کی ضرورت تھی جس کو بھڑکا کر وہ دوبارہ سیاسی سٹیج پر اپنی جگہ بناسکیں.اس تمنا کے تحت جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات کی بنیاد ڈالی گئی.اب ہم اس عدالتی فیصلہ کے اُس حصہ کی طرف آتے ہیں جس میں 1953ء کے فسادات کا ذکر کیا گیا ہے.افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ اس ذکر کے آغاز میں ہی ایک واضح غلط بیانی کی گئی ہے.جسٹس شوکت عزیز صاحب نے اس فیصلہ کے صفحہ 46 پر لکھا ہے " The anti-Ahmadiyya movement took shape in mid-1948 and reached its peak in 1953.Within a few months time, the ullema of 56

Page 75

all shades of opinion launched a movement." ترجمہ: جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک نے 1948 ء کے وسط میں شکل پکڑنی شروع کی.اور چند ماہ کے اندر اندر تمام خیالات کے علماء نے تحریک کا آغاز کر دیا.ان فسادات پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ موجود ہے.اس کا سرسری مطالعہ بھی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ یہ فسادات پنجاب تک محدود تھے.بنگال اس تحریک سے تقریباً مکمل طور پر لاتعلق رہا تھا.کراچی میں ایک حد تک یہ شورش پھیلانے کی کوشش کی گئی لیکن باقی سندھ میں اس شورش کا نام و نشان تک نہیں تھا.سرحد میں بھی اس شورش نے کوئی زور نہیں پکڑا تھا.جب مودودی صاحب نے قادیانی مسئلہ“ لکھا جو مارچ 1953ء میں یعنی فسادات کے زور پکڑنے سے کچھ روز قبل ہی شائع ہوا تو اس کی تمہید میں ہی وہ اس تحریک کی نا مقبولیت کا رونا ان الفاظ میں روتے نظر آتے ہیں.وہ علماء کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کے بارے میں لکھتے ہیں : ہم محسوس کرتے ہیں کہ قادیانی مسئلہ کا بہترین حل ہونے کے باوجود تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک تعداد ابھی تک اس کی صحت اور معقولیت کی قائل نہیں ہو سکی اور پنجاب اور بہاولپور کے ماسوا دوسرے علاقوں خصوصاً بنگال میں ابھی عوام الناس بھی پوری طرح اس کا وزن محسوس نہیں کر رہے.“ ( قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی سیاسی اور معاشرتی پہلو.مصنفہ ابوالاعلیٰ مودودی، ناشر اسلامک پبلیکیشنز مئی 2000 صفحہ 20) اور اس رسالہ میں بظاہر اس نامقبولیت کی وجہ یہ تحریر کرتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ اس مطالبے کو منوانے کے لئے عوام جس طریقہ سے مظاہرے کر رہے ہیں وہ شائستہ نہیں اور ملک کے تعلیم یافتہ اور سنجیدہ لوگ کسی طرح اسے 57

Page 76

پسند نہیں کر سکتے “ ( قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی سیاسی اور معاشرتی پہلو.مصنفہ ابوالاعلیٰ مودودی، ناشر اسلامک پبلیکیشنز مئی 2000 صفحہ 50) تحقیقاتی عدالت میں ثابت ہوا تھا کہ جن علاقوں میں اس شورش نے زور پکڑا تھا ان علاقوں میں پنجاب حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے لئے خود اس شورش کو ہوا دے رہی تھی اور اس غرض کے لئے علماء اور اخبارات کو سرکاری فنڈز سے مالی مدد بھی دی گئی تھی.اس کی تفصیلات بعد میں بیان کی جائیں گی.قادیانی سامراجیوں کے ایجنٹ؟ افسانہ اور حقیقت جب 1953ء کے فسادات کا ذکر شروع ہوا تو اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ یہ وضاحت پیش کی جائے کہ آخر احمدیوں کے خلاف یہ نفرت انگیزی کیوں کی جارہی تھی ؟ اس کے لئے ضروری تھا کہ احمدیوں پر کچھ الزامات لگا کر یہ دعوی کیا جائے کہ اصل میں یہ احمدیوں کا ہی قصور تھا کہ ان کے خلاف فسادات شروع ہو گئے.پاکستان میں اگر کسی کی کردار کشی کرنی ہو اور کوئی دلیل یا ثبوت مہیانہ ہو تو آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اسے مغربی طاقتوں کا یا یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے دیا جائے.بالعموم اس قسم کے الزام کے ثبوت نہیں طلب کئے جاتے.اسی مجرب نسخہ کو اس عدالتی فیصلہ میں بھی استعمال کیا گیا ہے.اس فیصلہ میں لکھا ہے."They came to know that the qadianis are palying the imperialists' game in order to undermine the integrity of the state."(page 45) ترجمہ: لوگوں کو علم ہو گیا کہ قادیانی استعماری طاقتوں کی کھیل کھیل رہے ہیں اور ریاست کی سالمیت کو نقصان پہنچارہے ہیں.اور یہ جملہ لکھنا ہی کافی سمجھا گیا ہے.نہ کوئی دلیل نہ کوئی ثبوت.صرف ایجنٹ ہونے کا 58

Page 77

الزام لگا دیا.آخر یہ ہولناک انکشاف کس طرح ہوا؟ اور گلی گلی لوگوں کو تو علم ہو گیا لیکن کیا حکومت پاکستان اور اس کے ادارے اونگھ رہے تھے کہ یا تو انہیں علم نہ ہوا یا کچھ کرنے کی سکت نہیں تھی.لیکن حقیقت جاننے کا ایک آسان طریقہ ہے.کابینہ میں ایک ہی احمدی تھا یعنی حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور ان کی وزارت بھی ایسی تھی یعنی وزارت خارجہ کہ اس الزام کو پرکھنا نسبتا آسان ہوگا.وزیر خارجہ بننے سے معاقبل قائد اعظم نے چوہدری صاحب کو مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے مقرر کیا تھا.یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ اگر احمدی مغربی استعمار کے ایجنٹ تھے تو اتنے اہم معاملہ میں ایک احمدی کو پاکستان کا نمائندہ کیوں مقرر کیا گیا؟ اگر کوئی سکج بحثی پر اتر آئے اور ہم فرض کر لیں کہ قائد اعظم کو غلطی لگ گئی تھی تو پھر اس سے اگلا مرحلہ ہمیں اور بھی حیرت زدہ کر دیتا ہے.اقوام متحدہ میں دو کمیٹیاں قائم کر دی گئی تھیں.ایک کمیٹی نے یہودیوں اور امریکہ کی رائے کے مطابق تجاویز مرتب کرنی تھیں اور ان کو پیش کرنا تھا اور دوسری کمیٹی نے فلسطینیوں کی رائے کے مطابق تجاویز تیار کرنی تھیں اور انہیں پیش کرنا تھا.جس کمیٹی نے فلسطینیوں کی آراء کو تیار کرنا تھا اور ان کا دفاع کرنا تھا اس کا صدر بھی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بنایا گیا اور Rapporteur بھی آپ کو ہی بنایا گیا.اس کمیٹی میں زیادہ تر عرب مسلمان ممالک تھے اور مسلمان ممالک کے مندوبین نے متفقہ طور پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو اپنی کمیٹی کا صدر منتخب کیا تھا.ضمناً یہ عرض کر دیں کہ ان میں ایک سعودی عرب کے امیر فیصل بھی تھے جنہیں آج کی دنیا شاہ فیصل کے نام سے جانتی ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی اس مسئلہ پر تقاریر انٹرنیٹ پر موجود اقوام متحدہ 59

Page 78

کے ریکارڈ پر موجود ہیں.ہر کوئی جائزہ لے سکتا ہے کہ ان تقاریر میں امریکہ کے موقف کی بھر پور مخالفت کی گئی تھی.ایک بار پھر حیرت ہوتی ہے کہ اگر احمدی مغربی طاقتوں کی کھیل کھیل رہے تھے تو پھر ایک احمدی کے سپرد یہ سب کام کیوں کئے گئے.یہ 1947 ء کے واقعات ہیں.اب ہم ایک مثال 1948 ء سے پیش کرتے ہیں.دسمبر 1948ء میں اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کا عالمی منشور تیار کیا جارہا تھا اور اس کے مسودہ پر بھر پور بحث ہورہی تھی.جب اس کا مسودہ بحث کے لئے پیش ہوا تو سوویت یونین نے اس مسودہ میں ترامیم پیش کیں.ان میں سب سے اہم ترمیم یہ تھی کہ اس مسودہ کے آرٹیکل 3 کو تبدیل کر کے پی شق شامل کی جائے کہ ہر کسی کو ہر قوم کو آزادی (self determination) کا حق حاصل ہے.جو ممالک ان علاقوں پر قابض ہیں جنہیں ابھی خود اختیاری کا حق نہیں ملا یعنی وہ آزاد نہیں ہوئے ، اُن ممالک کو چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان علاقوں یا ممالک کو بھی اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے مطابق یہ حق حاصل ہو یعنی وہ بھی آزاد ہو جا ئیں.اُس وقت بہت سے ممالک جن میں کئی مسلمان ممالک بھی شامل تھے برطانیہ اور فرانس کے قبضہ میں تھے اور اس ترمیم کے منظور ہونے کی صورت میں اس منشور میں ان کی آزادی کا حق تسلیم ہو جانا تھا.10 دسمبر 1948ء کو اس ترمیم پر رائے شماری ہوئی.اس ترمیم کے حق میں صرف آٹھ ممالک نے ووٹ دیئے.ان ممالک میں سوویت یونین ، یوکرین، بیلوروس چیکوسلا و یکیا، پولینڈ ، کو لیمبیا، پولینڈ اور پاکستان شامل تھے.مسلمان ممالک میں سے صرف پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس تجویز کی تائید کی.امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے تو اس تجویز کی مخالفت میں ووٹ دینا ہی تھا لیکن ستم ظریفی یہ کہ ایران، شام اور ترکی نے 60

Page 79

بھی اس کی مخالفت میں ووٹ دیا اور مصر، افغانستان، عراق اور سعودی عرب نے بھی عافیت اسی میں ہی سمجھی کہ رائے شماری میں حصہ نہ لیں حالانکہ اس کے نتیجہ میں کئی مسلمان ممالک کی آزادی میں سہولت پیدا ہوئی تھی.اگر احمدی مغربی طاقتوں کی کھیل کھیل رہے تھے تو اُس وقت صرف ایک احمدی نے اس اہم ترین موقع پر مغربی طاقتوں کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت کیوں کی تھی اور باقی ممالک جن میں سعودی عرب بھی شامل تھا یہ ہمت کیوں نہ کر سکے؟ جب بھی کسی کمزور ملک میں کوئی طبقہ کسی بیرونی طاقت کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کرتا ہے تو اس طبقہ کے اس طاقت سے روابط پیدا ہوتے ہیں اور یہ طبقہ اپنے ہم وطنوں کے خلاف اس طاقت کا آلہ کار بن کر اس بڑی طاقت کی خدمت میں اپنی رپورٹیں پیش کرتا رہتا ہے.جب پاکستان آزاد ہوا تو اُس وقت امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر سامنے آچکا تھا.اب اُس وقت کا امریکی وزارت خارجہ کا ریکارڈ بڑی حد تک declassify ہو چکا ہے اور شائع بھی ہو چکا ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی کئی نمایاں شخصیات کے امریکہ سے خفیہ روابط تھے.جب 1947ء سے 1955 ء تک کا یہ ریکارڈ پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خود پاکستان کے ایک گورنر جنرل نے امریکہ کی حکومت کو پیغام بھجوایا تھا کہ وہ اُس وقت پاکستان کے وزیر اعظم سے ذرا سخت رویہ اختیار کریں اور اس ریکارڈ کے مطابق 50 کی دہائی میں ایک قومی ادارے کے سربراہ نے امریکہ کے سفارتکاروں کے سامنے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ مرکزی حکومت کی نان سینس کو قبول نہیں کریں گے اور اگر سول انتظامیہ ناکام ہوئی تو وہ نظم و نسق سنبھالنے کے لئے تیار ہیں.اس ریکارڈ میں دور دور تک اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ کبھی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ان سفارتکاروں سے اس قسم کے خفیہ روابط ہوئے ہوں.اگر یہ اوٹ پٹانگ مفروضہ درست ہے کہ احمدی پاکستان 61

Page 80

میں بڑی طاقتوں کے اشارہ پر کام کر رہے تھے تو بڑی طاقتوں سے روابط بھی انہیں کے ہونے چاہیے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کے یہ خفیہ روابط تھے وہ احمدی ہر گز نہیں تھے.ہم نے عمداً ان نمایاں شخصیات کے نام نہیں لکھے کیونکہ مقصد ایک الزام کی تردید کرنا ہے نہ کہ کسی پر کیچڑ اچھالنا.حوالہ درج کیا جاتا ہے جو چاہے پڑھ کر ا پنی تسلی کر سکتا ہے.خفیہ پیپر زمرتبہ قیوم نظامی.ناشر جہانگیر بکس صفحہ 1 تا 11 ) امریکی مدد کا افسانہ اس عدالتی فیصلہ میں ایک الزام اور ایک مفروضہ درج کر دیا گیا کہ پاکستان میں احمدی اور خاص طور پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بڑی طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہے تھے.یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس کا کیا ثبوت پیش کیا گیا ؟ شاید اس ثبوت کی کمی دور کرنے کے لئے اس عدالتی فیصلہ میں مودودی صاحب کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے جو تحقیقاتی عدالت کے روبرو دیا گیا تھا لکھا ہے کہ مودودی صاحب نے کہا: "We are told that but for the position of Zafarullah Khan in the State Cabinet, America would not have given Pakistan a grain of wheat.I say if it is really so, the matter becomes even more serious.This clearly implies that an American agent presides over Foreign Affairs Department and our foreign policy has been pawned for ten lakh tons of grain."(page 47) ترجمه: ظفر اللہ خان کی کابینہ میں پوزیشن کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ امریکہ ایک گندم کا دانہ بھی نہیں دے گا.میں کہتا ہوں اگر واقعی ایسا ہے تو یہ معاملہ اور بھی سنگین بن جاتا ہے.اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے ایجنٹ وزارت خارجہ پر قابض ہیں اور 62

Page 81

ہماری خارجہ پالیسی دس لاکھ ٹن گندم کے عوض گروی رکھی ہوئی ہے.گویا یہ سنسنی خیز انکشاف کیا جا رہا ہے کہ امریکہ اس شرط پر پاکستان کی مدد کرتا تھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ رکھو گے تو مدد ملے گی ورنہ نہیں.گویا یہ ثبوت دیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں احمدی مغربی طاقتوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں.اس بارے میں حقائق پیش کرنے سے پہلے یہ واضح کرناضروری ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں نامکمل حوالہ پیش کیا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس بیان میں مودودی صاحب نے فوراً یہ وضاحت پیش کر دی تھی کہ وہ ہرگز امریکہ کی حکومت کو کسی قسم کا الزام نہیں دے رہے.انہوں نے کہا تھا: مگر مجھے یقین نہیں آتا کہ امریکی حکومت کا کوئی مد بر ایسا بیوقوف ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساڑھے آٹھ کروڑ باشندوں کی دوستی پر ایک شخص کی دوستی کو ترجیح دے اور 48 کروڑ روپے کے ایک دوستانہ تحفے سے باشندگان پاکستان کو احسان مند بنانے کی بجائے ان کے دلوں میں اپنی قوم کو اور حکومت کے خلاف الٹے سیاسی شکوک پیدا کر دے.“ ( قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی سیاسی اور معاشرتی پہلو ، از ابوالاعلیٰ مودودی صاحب، ناشر اسلامک پبلیکیشنز مئی 2000 صفحہ 135 ) مکمل حوالہ پڑھ کر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس عدالتی فیصلہ میں ایک بے جان اعتراض میں زندگی کی روح پھونکنے کے لئے مودودی صاحب کے بیان کا سہارا لیا گیا تھا لیکن جب ہم پورا بیان پڑھتے ہیں تو وہ خود ہی اس مفروضے کی مکمل تردید کر دیتا ہے لیکن ہم مزید تسلی کے لئے کچھ مالی اعداد و شمار پیش کرتے ہیں.جہاں تک پاکستان کے لئے امریکہ کی مدد کا تعلق ہے تو ہمیشہ سے سب سے متنازعہ ملٹری مدد رہی ہے.دسمبر 1948ء سے چھ سال تک چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پاکستان کے 63

Page 82

وزیر خارجہ رہے اور اس دوران امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ایک ڈالر کی بھی ملٹری ایڈ نہیں دی گئی اور اس کے اگلے چھ برس کے دوران 2069 ملین ڈالر کی خطیر ملٹری مدددی گئی.اب اقتصادی مدد کا جائزہ لیتے ہیں.جن چھ سالوں میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ تھے ان کے دوران امریکہ کی طرف 826 ملین ڈالر کی اقتصادی مدد پاکستان کو دی گئی اور اس سے اگلے چھ برس کے دوران 5371 ملین ڈالر اقتصادی مدد دی گئی.(Figures are adjusted for inflation and presented in 2009constant dollars) (https//:www.theguardian.com/global-development/poverty-matters /2 us-aid-to-pakistan.retrieved on 14.8.2018) ان اعداد و شمار کی روشنی میں تو کوئی ذی ہوش اُن الزامات کو قبول نہیں کر سکتا جو کہ اس عدالتی فیصلہ میں لگائے گئے ہیں لیکن ہمیں تو کوئی یہ سمجھائے کہ آخر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے وزارت خارجہ سے رخصت ہوتے ہی کون سی کرامت ظہور میں آئی کہ امریکی مدد کا سیلاب امڈ آیا.سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام پاکستان میں مخالفین عموماً یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ احمدیوں کو کلیدی عہدوں پر نہیں لگانا چاہیے.اس مطالبہ کا کوئی آئینی اور قانونی جواز موجود نہیں ہے.اس جواز کو پیدا کرنے کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ احمدی سامراجی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور عہدے کا فائدہ اُٹھا کر ناجائز طور پر دوسرے احمدیوں کی یا جماعت احمدیہ کی مدد کرتے ہیں اور خاص طور پر 1953ء کی شورش کے دوران سب سے زیادہ یہ الزام حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر لگایا گیا تھا.اس بارے میں تحقیقاتی عدالت میں مودودی صاحب کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے 64

Page 83

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں لکھا ہے کہ مودودی صاحب نے یہ الزام لگا یا تھا.گویا مودودی صاحب کا کہنا کافی دلیل ہے اور کسی ثبوت کی ضرورت نہیں.مودودی صاحب جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور اُن کا الزام لگا دینا کسی دلیل یا ثبوت کی حیثیت نہیں رکھتا.بہر حال اس فیصلہ میں مودودی صاحب کا یہ بیان درج کیا گیا ہے: "The demand for Sir Zafarullah Khan's removal from office not only originates from the doctrine that no non-Muslim should hold the office of a Minister in an Islamic state, but is also based on the fact that Sir Zafarullah Khan had always misused his official position to promote and strengthen the Qadiani movement." (page 47) ترجمہ : یہ مطالبہ کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو وزیر خارجہ نہیں ہونا چاہیے صرف اس نظریہ کی وجہ سے نہیں ہے کہ کوئی غیر مسلم اسلامی ریاست میں وزیر نہیں بننا چاہیے بلکہ اس کی بنیاد اس حقیقت پر بھی ہے کہ سر ظفر اللہ نے ہمیشہ اپنی سرکاری پوزیشن کا غلط استعمال کیا ہے اور اسے قادیانی تحریک کو تر و تیج دینے اور اسے مضبوط بنانے کے لئے استعمال کیا ہے.یہ وہ الزام ہے جو اُس وقت لگایا جاتا تھا اور اب بھی لگایا جاتا ہے لیکن جب تحقیقاتی عدالت میں اس بارے میں خواجہ ناظم الدین صاحب سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنے ایک جاری کردہ سرکلر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "It did not necessarily accept the allegation against the Foreign Minister but he had a general reputation that he tries to help Ahmadis and to convert people to his community.I asked for definite complaints which however were not available." 65

Page 84

ترجمہ: اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ وزیر خارجہ کے خلاف الزامات کو تسلیم کر لیا گیا تھا البتہ عمومی شہرت یہ تھی کہ وہ احمدیوں کی مدد کرتے ہیں اور لوگوں کو احمدی بنانے کی کوشش کرتے ہیں میں نے معین شکایت پیش کرنے کے لئے کہا لیکن ایسی کوئی شکایت پیش نہیں کی گئی تھی.اور اس سے قبل یہ ذکر چل رہا ہے کہ علماء کا وفد وزیر اعظم سے مل کر اپنا موقف پیش کر چکا تھا.ذرا تصور کریں کہ چھ سال چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ رہے اور اُس وقت بھی اور اب تک یہ الزام لگایا جا تا رہا.خود وزیر اعظم نے دلچسپی لے کر مخالفین کو کہا کہ اس بات کی کوئی ایک معین مثال پیش کریں کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنے عہدے سے جماعت احمدیہ کو ناجائز فائدہ پہنچایا ہو اور وہ ایک مثال بھی پیش نہ کر سکے.مودودی صاحب کا عدالت میں بیان پڑھ جائیں ، انہوں نے صرف یہ الزام لگایا اور اس کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہ کر سکے.دوسرے مخالفین کے بیانات پڑھ جائیں وہ بھی اس کا نہ کوئی ثبوت پیش کر سکے اور نہ کوئی مثال ان کے پاس تھی.چھ سال میں انہیں اس کی ایک بھی مثال نہ مل سکی.اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس عدالتی فیصلہ میں صرف مودودی صاحب کا الزام ہی درج ہے کوئی ثبوت نہیں دیا گیا.اس سے زیادہ کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ یہ الزام جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا اور دوسری طرف تحقیقاتی عدالت میں ثابت ہوا کہ انہی سالوں میں پنجاب حکومت سرکاری فنڈز سے ان علماء کی جیبیں گرم کر رہی تھی جو جماعت احمدیہ کے خلاف شورش چلا رہے تھے اور اُن اخبارات کو جو جماعت احمدیہ کے خلاف مضامین شائع کر رہے تھے تعلیم بالغاں کے فنڈ ز سے رشوتیں دی گئی تھیں.اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ 66

Page 85

جہانگیر پارک میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر پر اعتراض اس فیصلہ کے صفحہ 46 پر لکھا ہے: "Ahmadis announced to hold a public meeting at Karachi.Mr.Zafarullah was the main speaker.The Prime Minister Khawaja Nazimuddin expressed his disapproval of the Zafarrullah's attending such gathering.But Mr.Zafarullah was so committed that he told the Prime Minister that he would either resign or attend the meeting.Sir Zafarullah's controvercial speech resulted in eruption of demonstrations in Punjab and Karachi and intensified the anti-Qadiani movement." ترجمہ: احمدیوں نے کراچی میں ایک عام جلسہ کرنے کا اعلان کیا.مسٹر ظفر اللہ اس کے اہم مقرر تھے.وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ ظفر اللہ ایسے اجلاس میں شرکت کریں لیکن مسٹر ظفر اللہ اس بارے میں اتنے پر عزم تھے کہ انہوں نے وزیر اعظم کو کہا کہ یا وہ اس عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے یا اس جلسہ میں شرکت کریں گے.سر ظفر اللہ کی متنازعہ تقریر کے نتیجہ میں پنجاب اور کراچی میں مظاہرے شروع ہو گئے اور قادیانیت کے خلاف مہم اور تیز ہوگئی.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور جسٹس شوکت عزیز صاحب کے نزدیک یہ بات قابل اعتراض تھی کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ایک حکومتی عہد یدار ہوتے ہوئے بھی ایک فرقہ کے جلسہ میں تقریر کریں.یقینی طور پر ہر ایک شخص کو اپنی رائے قائم کرنے کا حق ہے لیکن اُس وقت جو حالات تھے ان کی چند جھلکیاں پیش ہیں.67

Page 86

سب سے پہلے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی یہ تقریر ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت سے اسلام کی برتری پر تھی.“ اسلام کی فضیلت پر اس تقریر کے صرف چند فقروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر تھا.اس کے برعکس مولوی شبیر احمد عثمانی صاحب نے جو کہ مسلم لیگ کی طرف سے مرکزی اسمبلی کے ممبر تھے اپنی ایک کتاب شہاب کو شائع کرنے کی اجازت دی اور اس میں احمدیوں کو واجب القتل قرار دیا گیا تھا اور احمدیوں کے خلاف شورش بر پا کرنے والوں نے جلسوں میں سب کو اس کتاب کو پڑھنے کا مشورہ دیا اور اس اشاعت کے بعد احمدیوں کے قتل کی وارداتیں شروع بھی ہوئیں.مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اس کتاب پر پابندی نہیں لگائی.جب احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز جلسے شروع ہوئے تو بعض مقامات پر خود ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ایسے جلسوں کی صدارت کی اور ان جلسوں میں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیئے گئے لیکن حکومت نے ان افسران کو اُن کے عہدوں سے برطرف نہیں کیا.خود پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ صاحب نے حضوری باغ میں جلسہ عام سے تقریر کرتے ہوئے احمدیوں کے خلاف خوب زہر فشانی کی اور کہا کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں تسلیم کرتا وہ غیر مسلم ہے اور اس معاملہ میں بحث کرنا بھی کفر ہے.احمدیوں کے خلاف چلنے والی نفرت انگیز تحریک کے ذمہ دار خود احمدی ہیں اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی راہ میں ایک مسئلہ یہ حائل ہے کہ اس صورت میں احمدیوں کو وہ حقوق دینے پڑیں گے جو وہ احمدیوں کو نہیں دینا چاہتے.اور خود حکمران مسلم لیگ کے عہدیدار جماعت احمدیہ کے خلاف جلسے اور جلوس کر رہے تھے.پنجاب کی مسلم لیگ کی کونسل نے یہ 68

Page 87

قرار داد منظور کی کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے.یہ تو بیانات کا تذکرہ تھا.اُس وقت احمدیوں کے خلاف شورش کی جس میں احمدیوں کو قتل کرنے اور ملک سے باہر نکالنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں ، اُس وقت کی پنجاب حکومت مالی نوازشوں سے اس شورش کی مدد کر رہی تھی.چنانچہ تحقیقاتی عدالت میں یہ ثابت ہوا کہ پنجاب حکومت نے احسان ، مغربی پاکستان، زمیندار، آفاق جیسے اخبارات کو تعلیم بالغاں کے فنڈ سے رقم نکال کر بطور رشوت دیئے اور ان اخبارات نے جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیز مضامین شائع کئے.اور اسی طرح اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا تھا کہ پنجاب حکومت نے محکمہ اسلامیات قائم کیا جس کے فنڈز سے ان علماء کو مالی طور پر نوازا گیا جو کہ جماعت احمدیہ کے خلاف شورش میں سرگرم تھے اور یہ سب کچھ پاکستان کے لوگوں کے دیئے گئے ٹیکس سے کیا گیا.پولیس نے مخالفین جماعت کی طرف سے ایسا سرکلر بھی پکڑا جس میں لکھا گیا تھا کہ جو چوہدری ظفر اللہ خان کا گلا کاٹے گا وہ جنت میں جائے گا.اس کے باوجود نہ وزیر اعظم کی طرف سے اور نہ کسی اور سطح پر پنجاب حکومت ، ممتاز دولتانہ صاحب یا پنجاب مسلم لیگ کی کونسل کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی گئی.ہم نے صرف ٹھوس حقائق پیش کئے ہیں اور تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے حوالے درج کئے جارہے ہیں.پڑھنے والے خود آزادانہ رائے قائم کر سکتے ہیں کہ کیا اس پس منظر میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر پر جو اسلام کی فضیلت پر تھی اور اس میں کسی فرقہ کے خلاف نفرت انگیزی نہیں کی گئی تھی کوئی اعتراض ہو سکتا ہے؟ ( رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے فسادات پنجاب 1953 صفحہ 97-88,98-83,90-48,55,77,85, (18,24,36,44 69 69

Page 88

مارچ 1953ء کے واقعات جماعت احمدیہ کے خلاف یہ فسادات ممتاز دولتانہ صاحب کی پنجاب حکومت کے زیر سایہ پھلتے پھولتے بالآخر مارچ 1953ء میں صوبہ پنجاب میں بالعموم اور لاہور شہر میں شدت اختیار کر گئے.پہلے ڈائریکٹ ایکشن کی دھمکی دی گئی ، پھر جماعت احمدیہ کے مخالفین نے ڈائریکٹ ایکشن کا آغاز کر دیا.احمدیوں کی قتل و غارت اور ان کے گھروں اور اموال کی لوٹ مارعروج پر پہنچ گئی.پولیس مظلوم احمدیوں کی مدد کو آنے کی بجائے بلوائیوں کا ساتھ دے رہی تھی.خاص طور پر لاہور میں مولوی حضرات تقریریں کر رہے تھے کہ یہ بدامنی قتل وغارت اور لوٹ مار باعث ثواب ہے.ممتاز دولتانہ صاحب اس شورش کی بیساکھیوں کے سہارے اپنا سیاسی قد بڑھانا چاہتے تھے اور خواجہ ناظم الدین صاحب کی مرکزی حکومت کے خلاف اس شورش کا رخ پھیر کر وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن آخر میں صورت حال اُن کے بھی قابو سے باہر ہو گئی.فسادی دولتانہ صاحب کا نہیں اپنا ایجنڈا پورا کر رہے تھے.اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 43 پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ربوہ ریاست کے اندر نیم آزادریاست کی حیثیت رکھتا تھا.ریاست کے اندر ریاست تب بنتی ہے جب کسی مقام پر حکومت وقت کی عملداری ختم ہو کر جزوی یا کلی طور پر کسی اور گروہ کے ہاتھ میں چلی جائے.1953ء کے حوالے سے ہی دیکھ لیں ساری عدالتی کارروائی پڑھ جائیں ربوہ کے اندر قانون شکنی کا ایک واقعہ نہیں ہوا، کوئی قتل و غارت نہیں ہوئی اور فسادیوں کا مرکز لا ہور میں مسجد وزیر خان تھی وہاں کیا کیفیت تھی؟ 4 مارچ کو جماعت احمدیہ کے مخالفین نے پولیس افسران کو اغوا کر کے لے جانے کا سلسلہ شروع کیا اور انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا.اشتہار لگائے گئے کہ پولیس ہتھیار ڈال دے، ہم حکومت کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اور 6 مارچ کو تحقیقاتی عدالت 70

Page 89

کی رپورٹ کے مطابق یہ صورت حال تھی کہ لاہور شہر پر حکومت کی عملداری ختم ہو رہی تھی.اس رپورٹ میں لکھا ہے’ حادثہ پر حادثہ رونما ہوتا گیا.پولیس اور احمدیوں پر حملے کئے گئے اور حکومت یا احمدیوں کے اموال و جائیداد کو لوٹنے کا ہنگامہ جاری رہا.“ رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے فسادات پنجاب 1953 صفحہ 159 تا 161 ) یہ حقیقت ظاہر ہے کہ ریاست کے اندر ریاست جماعت احمدیہ کے مخالفین نے قائم کی تھی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے.دولتانہ صاحب نے وزیر اعظم کو فون کیا کہ فسادیوں کے مطالبات مان لیں ورنہ لاہور شہر تو ختم ہے.پاکستان کی مرکزی کابینہ نے حالات قابو کرنے کا فیصلہ کیا اور جنرل اعظم نے لاہور شہر میں مارشل لاء لگا دیا.اس سے قبل تو شورش برپا کرنے والے کہہ رہے تھے کہ وہ خون کے آخری قطرے تک جد و جہد کریں گے لیکن جب قانون نافذ کرنے والوں نے فساد کرنے والوں سے رو رعایت بند کر دی تو لاہور میں جلد ہی ان کے حوصلے پست ہو گئے.دوسرے انہیں یہ بھی نظر آرہا تھا کہ اب عوام ان کی حمایت نہیں کر رہے.ایجی ٹیشن کرنے والوں نے مساجد سے نکل کر گرفتاریاں دینی شروع کر دیں اور 8 مارچ تک تو لاہور میں امن وسکون بحال ہو گیا.عبدالستار نیازی صاحب کی بزدلی مسجد وزیر خان اس فساد کو بر پا کرنے والوں کا سب سے بڑا مرکز تھا اور ادھر عبدالستار نیازی صاحب اشتعال انگیز کارروائیوں میں پیش پیش تھے.جب انہیں یہ خطرہ دکھائی دیا کہ شاید انہیں گرفتار کر لیا جائے تو انہوں نے ایک استرے کی مدد حاصل کی.کسی پر حملہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی داڑھی سے نجات حاصل کرنے کے لئے.اس طرح وہ بھیس بدل کر کے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے مگر کچھ روز کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا اور 71

Page 90

سول اینڈ ملٹری گزٹ کی رگِ ظرافت پھڑ کی تو ان کی دو تصویریں Before اور After کے عنوان کے ساتھ شائع کر دیں.ایک میں موصوف ایک ضخیم داڑھی کے ساتھ تھے اور دوسری میں داڑھی غائب تھی.آفاق 10 مارچ 1953 ، صفحہ 1 The Civil & Military gazette, March 24, 1953) مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کا انحراف کہ ہم تحریک میں شامل ہی نہیں تھے اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے فیصلہ میں مودودی صاحب کو 1953ء کے ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے لیکن ایک اہم بات کا ذکر انہوں نے نہیں کیا.اور وہ یہ کہ جب فسادات ختم ہو چکے تھے اور تحقیقاتی عدالت میں سب جماعتوں نے اپنے اپنے بیانات جمع کرائے تو جماعت اسلامی کی طرف سے بھی بیان جمع کرایا گیا.اس بیان میں مودودی صاحب کی جماعت نے جماعت احمدیہ ، صوبائی اور مرکزی حکومت کے علاوہ ان فسادات کی ذمہ داری جماعت احمدیہ کے مخالفین پر بھی عائد کی تھی اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ جماعت اسلامی اس تحریک کو چلانے والوں کے طریقہ کار سے متفق نہیں تھی اور جماعت احمدیہ کے مخالفین نے 17 جنوری 1953 کے بعد ، ڈائرکٹ ایکشن کی دھمکی سے لے کر اس پر عملدرآمد تک جو بھی اقدامات اُٹھائے وہ utravires یعنی غیر قانونی تھے.خود ان کی مجلس عمل کے قوانین کے مطابق انہیں اس کا اختیار نہیں تھا.جماعت اسلامی تو ان اقدامات میں شامل نہیں تھی بلکہ مودودی صاحب نے اپنے کارکنان کو روک دیا تھا کہ وہ ان اقدامات میں شامل نہ ہوں اور ان میں شامل ہونے کی پاداش میں بعض کارکنان کو 72

Page 91

جماعت اسلامی سے نکال بھی دیا گیا تھا.ان کا دعوئی تو یہ تھا کہ ہم نے مجلس عمل کا اجلاس بلا کر ان اقدامات کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن دوسرے مخالفین نے ہماری ایک نہ چلنے دی.جماعت اسلامی نے جو بیان تحقیقاتی عدالت میں پیش کیا اس میں جلی حروف میں underline کر کے یہ استدعا کی."The Jammat-i-Islami as such was not a member of this new or was any individual any other direct action committee nor belonging to jammat allowed to enroll itself as a direct action worker.The Maulana made it quite obvious to everybody by his order and by his action by expelling two of his members of the Jammat for alleged disobedience of his orders that the jammat did not believe in or support the direct action in any manner and had completely dissociated from all such activities." ترجمہ: جماعت اسلامی بحیثیت جماعت اس نئی یا کسی اور ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی کی ممبر نہیں تھی اور نہ اس کے کسی کارکن کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ ڈائر یکٹ ایکشن کے کارکن کی حیثیت سے اپنا نام لکھوائے.مولانا نے اپنے حکم سے اور اپنے اس عمل سے کہ جن دوممبران نے اس حکم کی نافرمانی کی تھی انہیں جماعت سے خارج کر دیا گیا تھا، یہ بالکل واضح کر دیا تھا کہ جماعت نہ تو کسی طرح کے ڈائریکٹ ایکشن پر یقین رکھتی ہے اور نہ اس کی حمایت کرتی ہے اور اس قسم کی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ کرتی ہے.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ جب فروری کے آخر میں اس تحریک نے زور پکڑ ا یعنی یہ شورش اصل مراحل میں داخل ہوئی تو اُس وقت شورش چلانے والے ڈائریکٹ 73

Page 92

ایکشن پلان پر عمل کر رہے تھے اور جماعت اسلامی نے عدالت میں استدعا کی تھی کہ وہ تو اس کا حصہ نہیں تھے بلکہ خلاف تھے لیکن مجلس احرار نے ان کے اس بیان کو غلط قرار دیا اور کہا کہ وہ ہر طرح اس کا حصہ تھے.اب جماعت اسلامی کی طرف سے عدالت میں دیئے جانے والے بیان کا جو اردو تر جمہ قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی سیاسی اور معاشرتی پہلو کے نام سے شائع کیا جاتا ہے وہ جماعت اسلامی نے تحریف کر کے شائع کیا ہے اور اس شورش کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی ہے.اس میں یہ حصے نکال دیئے گئے ہیں کہ انہوں نے شورش کے اصل حصہ کی مخالفت کی تھی.لیکن اصل انگریزی بیان محفوظ ہے.اور یہ حقیقت اس لئے بھی نہیں چھپ سکتی کہ تحقیقاتی عدالت کی اردور پورٹ کے صفحہ 263 سے 272 میں یہ سب امور بڑی تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں.کیا وزیر اعظم کو مارشل لاء کے فیصلہ پر افسوس تھا؟ اس فیصلہ کے صفحہ 48 پر لکھا ہے: The whole nation condemned it.The action was also resented by the Prime Minister.یعنی پوری قوم نے اس ایکشن کی مذمت کی اور وز یر اعظم اس پر ناراض تھے.یہ بات خلاف واقعہ ہے کیونکہ جب یہ سب واقعات ہو چکے تھے اور عدالت ان فسادات پر تحقیقات کر رہی تھی تو خواجہ ناظم الدین صاحب سے 1953 ء میں لاہور میں ہونے والے جنرل اعظم صاحب کے آرمی کے ایکشن کی بابت سوال کیا گیا.انہوں نے جواب دیا I, however, accept responsibility for General Muhammad 74

Page 93

Azam's action because taking over by the military was, in my opinion the only opinion the situation could be saved.ترجمہ: البتہ میں جنرل محمد اعظم کے ایکشن کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک اس وقت ملٹری کا نظم و نسق سنبھالنا وہ واحد راستہ تھا جس سے صورت حال بچائی جاسکتی تھی.کیا 1971ء میں احمدیوں کی وجہ سے ملک ٹوٹا تھا ؟ الزامات اور حقائق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے جماعت احمدیہ کے بارے میں جو تفصیلی فیصلہ تحریر کیا ہے، اس میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک طویل تجزیہ پیش کیا ہے اور اس سے کچھ نتائج نکالنے کی کوشش کی ہے.ہم گزشتہ اقساط میں اس فیصلہ میں 1953 ءتک کے حالات کا جو تجزیہ پیش کیا تھا ، اس پر تبصرہ کر چکے ہیں.اس کے بعد ہم 1960ء کی دہائی کی طرف آتے ہیں.جس طرح 1953ء کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ذات کو نشانہ بنایا ہے، اسی طرح 1960ء کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (ایم ایم احمد ) کی ذات کو نشانہ بنایا گیا ہے.اور اسی طرز پر بنایا ہے جس طرح حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ذات کو بنایا گیا تھا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جب پاکستان میں احمدی اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے تھے تو وہ پاکستان کے مفادات کے لئے کام کرنے کی بجائے بڑی طاقتوں کے آلہ کار بنے رہتے تھے اور ان کے مفادات کے لئے کام کرتے اور اس کے عوض بڑی طاقتیں مدد کرتی تھیں اور اس مدد پر پاکستان کا انحصار بڑھ جاتا تھا.گو یا مالی اعداد وشمار کی 75

Page 94

مدد سے یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ احمدی اپنے وطن کے وفادار نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کے آلہ کار ہوتے ہیں اور ماضی میں بھی اکثر اس طرز پر احمدیوں کے خلاف تعصب کو بھڑ کانے کی کوشش کی گئی ہے.ایک مذہبی بحث میں کبھی سیاسی اور کبھی مالی امور کا ذکر عجیب تو لگتا ہے بہر حال جن موضوعات پر اعتراضات کئے گئے ہیں ان کے حقائق سامنے رکھنا ضروری ہے.1952ء اور 1971ء کے دوران امریکی مدد میں نشیب وفراز کیوں آئے؟ اس فیصلہ کے صفحہ 49 پر لکھا ہے: "In view of a tilt towards the US in foreign policy, the economic assistance from America which was less than $10 million in 1952 rose to $380 million in 1963.Pakistan responded with acts of friendship XXMirza Muzaffar Ahmad(M.M Ahmad), the grandson of notorious bureaucrat Mirza Ghulam Ahmad, a Finance Secretary and afterwards the Deputy Chairman of the Planning Commission of Pakistan." became ترجمه: خارجہ پالیسی میں امریکہ کی طرف جھکاؤ کے پس منظر میں امریکہ کی طرف سے اقتصادی مدد جو کہ 1952ء میں 10 ملین ڈالر تھی 1963ء میں بڑھ کر 380 ملین ڈالر ہو گئی اور پاکستان اس کا جواب دوستی کے اقدامات سے دینے لگا.مرزا مظفر احمد (ایم ایم احمد ) کو جو کہ مرزا غلام احمد کا پوتا اور بہت بدنام سرکاری ملازم تھا پہلے سیکرٹری خزانہ اور پھر پاکستان کے پلاننگ کمیشن کا ڈپٹی چیئر مین لگادیا گیا.اس طویل فیصلہ میں اپنے ہی کئی حصوں کی تردید کا مواد موجود ہے جیسا کہ گزشتہ قسط میں حوالے درج کئے گئے تھے کہ 1953ء میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ حکومت چوہدری 76

Page 95

ظفر اللہ خان صاحب کو ہٹاتے ہوئے اس لئے جھجک رہی تھی کیونکہ اگر انہیں ہٹایا جا تا تو امریکہ مدد بند کر دیتا.اور یہ سب جانتے ہیں کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے 1954ء میں وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اوپر کے حوالے میں اعتراف کیا گیا ہے اور ہم نے گزشتہ قسط میں اعداد و شمار بھی پیش کئے تھے کہ اس کے بعد بھی 1963 ء تک امریکہ کی مدد میں کئی گنا کا اضافہ ہوتا رہا.اور بعد کے جملے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ اس لئے ہورہا تھا کہ مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو سیکرٹری خزانہ لگا دیا گیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایم ایم احمد مارچ 1963 ء میں سیکرٹری خزانہ بنے اور مئی 1966 ء تک اس عہدے پر مقرر رہے.خود اس عدالتی فیصلہ میں درج اعداد و شمار کے مطابق امریکی مدد میں بہت تیزی سے اضافہ آپ کے سیکرٹری خزانہ بننے سے قبل ہوا.جیسا کہ گزشتہ قسط میں عرض کیا گیا تھا کہ جب تک چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ تھے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو کوئی ملٹری ایڈ نہیں ملی تھی اور آپ کے استعفی کے بعد اس مدد میں تیزی سے اضافہ ہوا لیکن اس کی وجہ کیا تھی ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سالوں میں مسلسل امریکہ کی حکومت کا موقف یہ تھا کہ پاکستان سے عسکری تعاون کیا جائے گالیکن پاکستان کی افواج کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اور مشرق وسطی میں امریکہ کے اتحادیوں کی حفاظت کے لئے امریکہ کی مدد کریں گی لیکن کشمیر کے معاملہ میں اور بھارت کے ساتھ تنازعہ میں امریکہ پاکستان کی مدد نہیں کرے گا اور غیر جانبدار رہے گا.بحیثیت وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے آخری مذاکرات منیلا کا نفرنس کے موقع پر تھے جبکہ سیٹو (SEATO) کے قیام کے لئے مذاکرات ہو رہے تھے اور امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور دوسرے کئی ممالک کے وزراء خارجہ بھی اس کا نفرنس میں شریک تھے.اس موقع پر بھی 77

Page 96

امریکہ نے بھی اس یادداشت کے ساتھ دستخط کئے تھے کہ امریکہ صرف کمیونزم کی جارحیت کو روکنے کے لئے عسکری طور پر اس معاہدہ میں شامل ہوگا.دوسری طرف چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا موقف یہ تھا پاکستان کو فائدہ تبھی ہے کہ جب بھی پاکستان کو جارحیت کا سامنا ہو اس وقت امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کی عسکری مدد کریں.مثلاً اگر کشمیر پر جنگ ہو جائے تو اس معاہدے کی رُو سے ان طاقتوں کو پابند ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان کی مدد کریں.ورنہ پاکستان صرف یکطرفہ طور پر اپنی افواج کی مدد پیش کرنے کا پابند ہو گا اور اس کا نفرنس کے موقع پر خاص طور پر امریکہ کے وزیر خارجہ Dulles اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا واضح اختلاف سامنے آیا تھا.جب معاہدے پر دستخط کرنے کا مرحلہ آیا تو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس کو منظور کرنے کے لئے دستخط نہیں کئے بلکہ اس عبارت پر دستخط کئے تھے کہ یہ معاہدہ حکومت پاکستان کو بھجوایا جائے گا وہ پاکستان کے آئین کے مطابق اس معاہدے کے بارے میں فیصلہ کرے گی.اس کے معا بعد چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزارت خارجہ سے رخصت ہو گئے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے استعفیٰ کے فوراً بعد پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے امریکہ کا دورہ کیا.تقریباً تین ماہ کے بعد ہی محققین کے مطابق جن کے حوالے درج کئے جارہے ہیں، پاکستان نے امریکہ کے دباؤ کے باعث امریکہ کی سابقہ شرائط پر ہی اس معاہدہ کو منظور کر لیا اور اس کے بعد پہلی مرتبہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ملٹری مددملنی شروع ہوئی.اب جبکہ ان واقعات کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں ، یہ واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان کے مفاد میں یہی تھا کہ وہ انہی شرائط پر معاہدے میں شامل ہوتا جن کو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پیش کر رہے تھے.(SEATO The Failure of an Alliance Strategy, by Leszek Buszynski, 78

Page 97

published by Singapore University Press 1983p 33-39) (Crossed Swords, by Shuja Nawaz, published by Oxford University Press p 99) سیاست کے میدان میں ہمیشہ مختلف آراء سامنے آتی ہیں.ہر کوئی آزاد ہے جس رائے کو چاہے پسند کرے اور اس کی حمایت کرے.اس تحریر کا مقصد کوئی سیاسی بحث کرنا نہیں ہے لیکن ان تاریخی حقائق کی موجودگی میں یہ دعویٰ کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب امریکہ کے لئے کام کر رہے تھے اور اس کے عوض امریکہ کچھ مدد کر دیتا تھا ایک بچگانہ مفروضے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا.حقائق اس مفروضے کی مکمل تردید کر رہے ہیں.ایم ایم احمد کے سیکرٹری خزانہ بننے کے بعد امریکی مدد پر کیا اثر پڑا؟ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس فیصلہ میں یہ تاثر پیش کیا گیا ہے کہ ایم ایم احمد کو پاکستان کا سیکرٹری خزانہ بنایا گیا تو امریکہ کی امداد تیزی سے بڑھنی شروع ہوئی اور پاکستان کا اس امداد پر انحصار بڑھ گیا اور پاکستان کو اس کے عوض امریکہ کے لئے دوستی کے اقدامات اُٹھانے پڑے.دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ 1952ء سے لے کر 1963 ء تک امریکہ کی مدد کئی گنا ہوگئی.حقیقت یہ ہے کہ اس دور کا ایم ایم احمد سے کوئی تعلق نہیں تھا.ایم ایم احمد تو 6 مارچ 1963ء کو سیکرٹری خزانہ بنے تھے اور 30 مئی 1966 ء تک اس عہدے پر کام کرتے رہے.حقیقت یہ ہے کہ 1962ء میں امریکی مددسب سے زیادہ تھی اور اس کے بعد یہ مدد کم ہوتی رہی.1963ء میں امریکہ کی اقتصادی مدد 2066 ملین ڈالر تھی اور 1966ء میں یہ مددکم ہو کر 816 ملین ڈالر رہ گئی.اور 1963ء میں امریکہ کی ملٹری مدد 299 ملین ڈالر تھی جو کہ 1966ء میں کم ہو کر صرف 8 ملین ڈالر رہ گئی.گویا اُن سالوں میں جن میں ایم ایم احمد سیکرٹری خزانہ تھے امریکہ کی مدد پر انحصار کئی گنا کم ہو گیا تھا.79

Page 98

اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو جماعت احمدیہ کے مخالفین بغیر کسی ثبوت کے جو الزامات اور مفروضے پیش کرتے ہیں، حقائق اس سے بالکل الٹ منظر پیش کر رہے ہیں.حوالہ درج کیا جاتا ہے تا کہ ہر شخص ان اعداد و شمار کا خود تجزیہ کر سکے.(Note: All figures are in US($millions.) Figures are adjusted for inflation and presented in 2009 constant dollars Source: Wren Elhai, Center for Global Development, 2011 https//:www.theguardian.com/global-development/poverty-matters /2011/jul/11/us-aid-to-pakistan.Accessed on 18.8.2018) اس کے علاوہ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے فیصلے ساری حکومت کرتی ہے اور تنہا وزیر خارجہ یا سیکرٹری خزانہ کو ان کا ذمہ دار نہیں قرار دیا جا سکتا.اگر ان کا الزام قبول کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ باقی ساری حکومت یا تو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی یا کام کرنے کی بجائے خواب غفلت کا شکارتھی جو انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا ہے.کیا ایم ایم احمد اور ان کے بنائے ہوئے پانچ سالہ منصوبوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا؟ اس کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب یہ الزام لگاتے ہیں : " He was deemed to be responsible for creating regional imbalances in Pakistan economy in collaboration with the Zionist backed economic groups like Ford Foundation and Harvard Advisory Group.These Groups transmitted stream a of economists to the Planning Commission and Provincial Planning Departments to prepare Five Year Plans of Pakistan.The 80

Page 99

disparity and East-West in resulted planning defective consequently loss of Eastern Wing of the country.[ The Ahmadiya Movement by Bashir Ahmed M.A([.page 49) پیدا ترجمہ: ان کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فورڈ فاؤنڈیشن اور ہارورڈ مشاورتی گروپ جیسے صیہونی گروہوں کے تعاون سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں اقتصادی عدم توازن برا کرنے کے ذمہ دار تھے.ان گروہوں نے اقتصادی مشیروں کا ایک سلسلہ پلاننگ کمیشن میں اور صوبائی منصوبہ بندی کے شعبوں میں بھجوایا اور جو ناقص منصوبہ بندی کی گئی اس کے نتیجہ میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اقتصادی عدم توازن بڑھا اور آخر میں ملک کا مشرقی حصہ علیحدہ ہو گیا.فیصلہ کے اس حصہ میں افسانوی انداز میں یہ سنسنی پیدا کی گئی ہے کہ ایک نمایاں احمدی کی سازش اور وہ بھی صیہونی گروہوں کے ساتھ کی گئی سازش کی وجہ سے ملک میں اس طرح کی ناقص اقتصادی منصوبہ بندی کی گئی کہ ملک دو ٹکڑے ہو گیا اور دلیل کیا ہے ؟ صرف جماعت احمدیہ کے اشتد ترین مخالف کی کتاب کا حوالہ دیا جارہا ہے جو کہ لکھی ہی جماعت احمد یہ کی مخالفت کے لئے گئی تھی اور اس کتاب میں کیا دلیل پیش کی گئی ؟ اس کتاب میں اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں پیش کی گئی.بہر حال ہم اس الزام کا تجزیہ پیش کرتے ہیں.اول تو یہ کہ خواہ وہ سیکرٹری خزانہ ہو یا منصو به بندی کمیشن کا ڈپٹی چیئر مین ہو وہ اکیلا اتنے بڑے اقدامات اُٹھا ہی نہیں سکتا کہ اپنی مرضی کا پانچ سالہ منصوبہ بنادے یا ملک کے تمام اقتصادی اور دیگر معاملات کو بیرونی عناصر کے ساتھ سازش کر کے اتنا بگاڑ دے کہ ملک تقسیم ہو جائے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو.81

Page 100

اتنی بڑی اور کھلم کھلا سازش ہوگئی اور پارلیمنٹ کو علم نہیں ہوا، کا بینہ کوعلم نہیں ہوا اور باقی سرکاری مشینری کو بھی علم نہیں ہوا اور ملک ٹوٹ بھی گیا.سر براہ حکومت تو اس کمیشن کا صدر ہوتا تھا لیکن اس کمیشن کو چلانے والا عملاً اس کمیشن کا ڈپٹی چیئر مین ہوتا تھا.سر براہ حکومت کے بعد اگر کوئی شخص پانچ سالہ منصوبے پر اثر انداز ہوسکتا تھا تو وہ اس کمیشن کا ڈپٹی چیئر مین ہوسکتا تھا اور چند سال کے لئے ایم ایم احمد بھی اس کمیشن کے ڈپٹی چیئر مین رہے تھے.الزام یہ ہے کہ انہوں نے دانستہ طور پر ایسے پانچ سالہ منصوبے بنائے کہ آخر میں ملک ٹوٹ گیا.جب ہم ملک ٹوٹنے کے سانحہ سے قبل کے بننے والے پانچ سالہ منصوبوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی منصوبہ ایم ایم احمد کی نگرانی میں نہیں بنا تھا.ان میں سے کسی منصوبے کے بنتے وقت آپ پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئر مین نہیں تھے.پہلے پانچ سالہ منصوبے کو تیار کرنے والے زاہد حسین صاحب تھے جو کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر تھے.اسی طرح دوسرے پانچ سالہ منصو بہ کو بنانے میں آپ کا کوئی کردار نہیں تھا.اسی طرح تیسرا پانچ سالہ منصوبہ سعید حسن صاحب ڈپٹی چیئر مین پلانگ کمیشن کی نگرانی میں بنا تھا.اور اس کے مسودہ سے پہلے صدر ایوب اور سعید حسن صاحب کے لکھے ہوئے طویل دیباچے موجود ہیں ، ان میں ایم ایم احمد کا نام تک نہیں ہے.ہم یہ سمجھ نہیں پار ہے کہ اگر اتنا بڑا سانحہ صرف پانچ سالہ منصوبوں کی وجہ سے ہوا تھا تو پھر اُس وقت کے سر براہان حکومت، زاہد حسین صاحب اور سعید حسن صاحب کو موردِ الزام کیوں نہیں ٹھہرایا جارہا؟ ایم ایم احمد کو الزام کیوں دیا جارہا ہے؟ اوپر درج کی گئی معلومات اس الزام کو غلط ثابت کر دیتی ہیں.تیرا پنج سالہ منصوبہ 1965-1970 ، از پلاننگ کمیشن حکومت پاکستان.پیش لفظ و دیباچہ) 82

Page 101

ایم ایم احمد کے بارے میں بنگلہ دیش کے پہلے وزیر قانون کی گواہی کسی سیاسی بحث سے احتراز کرتے ہوئے یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ اُس وقت پاکستان کے دولخت ہونے کا سب سے بڑا سبب یہ ہوا تھا کہ انتخابات میں جیت کے بعد منتخب نمائندوں کو یعنی مشرقی پاکستان میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں ہو سکا تھا.اور مرکزی نکتہ یہ تھا کہ عوامی لیگ کے چھ نکات پر مغربی پاکستان کے نمائندوں ، عوامی لیگ اور اُس وقت کی حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے تھے.اور مشرقی پاکستان کے نمائندوں کو یہ شکوہ تھا کہ باوجود اس کے کہ وہ الیکشن میں اکثریت حاصل کر چکے تھے ان کے ساتھ مذاکرات میں مفاہمت کا رویہ نہیں دکھایا گیا اور آخر میں جب ملٹری آپریشن شروع ہوا تو مفاہمت کے راستے بند ہو گئے.بدقسمتی سے یہ دوریاں اتنی بڑھیں کہ آخر میں ملک کے دوٹکڑے ہو گئے.بنگلہ دیش کے پہلے وزیر قانون اور بنگلہ دیش کا آئین مرتب کرنے والے کمیشن کے چیئر مین کمال حسین صاحب نے ان حالات پر ایک کتاب تحریر فرمائی ہے.وہ خودان مذاکرات میں شامل تھے.انہوں نے ان مذاکرات کا تجزیہ پیش فرمایا ہے اور یہ مذاکرات تقریباً تین ماہ وقفے وقفے سے چلے تھے اور کچھ مالی نکات ایسے تھے جس وجہ سے مفاہمت ہونے کے راستے بند نظر آرہے تھے.ان مذاکرات میں صرف ایک روز یعنی 23 مارچ 1971 ء کے لئے ایم ایم احمد مالی معاملات کے بارے میں عوامی لیگ کے نمائندوں سے مذاکرات کرنے کے لئے شامل ہوئے تھے اور خود کمال حسین صاحب تحریر کرتے ہیں کہ اس روز مذاکرات میں پیش رفت ہورہی تھی اور ایم ایم احمد لچک اور مفاہمت کا مظاہرہ کر رہے تھے.وہ لکھتے ہیں."Indeed M.M.Ahmed started by saying that he thought that 83

Page 102

the Six Points scheme could be given effect to with some minor practical adaptations." ترجمه حیران کن طور پر ایم ایم احمد نے بات کا آغاز ہی یہ کہہ کر کیا کہ اُن کے نزدیک چھ نکات کی سکیم کو چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اپنایا جا سکتا ہے.اس سے قبل جب بھٹو صاحب اور عوامی لیگ کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات اس بات پر ٹک گئے تھے کہ بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ وہ غیر ملکی تجارت اور غیر ملکی امداد کے بارے میں اپنے موقف سے نہیں ہٹ سکتے لیکن جب ایم ایم احمد کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے تو کمال حسین صاحب لکھتے ہیں: "M.M.Ahmad even showed some flexibility in respect of foreign trade and aid." ترجمہ : یہاں تک کہ ایم ایم احمد نے غیر ملکی تجارت اور امداد کے معاملے میں بھی کچھ لچک دکھائی.کمال حسین صاحب لکھتے ہیں کہ ایم ایم احمد نے اپنی تجاویز کچھ کاغذوں پر لکھ کر دیں.ہم ایم ایم احمد کی تجاویز لے کر عوامی لیگ کے ماہرین اقتصادیات کے ساتھ میٹنگ کے لئے گئے اور ہم نے ان تجاویز کے مطابق مسودہ تیار کر لیا جس پر مفاہمت مکمل ہو جاتی لیکن وہ لکھتے ہیں کہ اس سے قبل ہی یحیی خان صاحب اور ان کے چند ساتھی اس وقت ملٹری آپریشن کا فیصلہ کر چکے تھے اور ڈھا کہ میں اس کی تیاریاں کر رہے تھے اور جب ہم واپس آئے تو بیٹی خان صاحب ڈھاکہ کے ایوان صدر میں موجود نہیں تھے.بہر حال ایم ایم احمد کو 24 مارچ کو مغربی پاکستان واپس بھجوا دیا گیا اور 25 مارچ کو ملٹری آپریشن شروع ہو گیا اور ڈاکٹر کمال حسین صاحب کو بھی گرفتار کر لیا گیا.اس طرح مفاہمت کا یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا.84

Page 103

کمال حسین صاحب کی کتاب کے صفحہ 59 سے صفحہ 103 تک ان پیچیدہ مذاکرات کی تفصیلات لکھی ہوئی ہیں.ہر کوئی انہیں پڑھ کر اپنی آزادانہ رائے قائم کر سکتا ہے.وہ مرحلہ جب ایم ایم احمد ایک روز کے لئے مذاکرات میں شامل ہوئے ، ان ایک دو مواقع میں شامل تھا جب مفاہمت ہوتی نظر آ رہی تھی ورنہ جیسا کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں لکھا ہوا ہے کہ عمومی طور پر مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو رہی تھی.اگر اسی طرح سب مفاہمت کی سوچ کے ساتھ مذاکرات کر کے پیش رفت کرتے تو اس سانحہ کی نوبت نہ آتی لیکن حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ شروع ہی سے صدر یحیی خان صاحب کا ارادہ ہی نہیں تھا کہ مذاکرات کامیاب ہوں.چنانچہ مذاکرات کے دوران ہی ملٹری آپریشن کا آغاز کر دیا گیا.(Bangladesh Quest for Freedom and Justice, by Kamal Hossain, published by Oxford University Press 2013, p101-102) (The Report of the Hamoodur Rahman Commission, published by Vanguard, p 88,93) حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی گواہی جیسا کہ ہم حوالہ درج کر چکے ہیں ، اس فیصلہ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ 1971ء میں ملک ٹوٹنے کا سانحہ بھی ایک احمدی کی وجہ سے ہوا.جس حوالے سے یہ الزام لگایا ہے وہ تو واضح طور پر غلط ثابت ہوتا ہے لیکن کوئی معترض یہ الزام لگا سکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ایم ایم احمد پانچ سالہ منصوبوں کو بنانے کے انچارج نہ ہوں لیکن 1960ء کی دہائی میں ملک کے اقتصادی نظام میں آپ کا بہر حال ایک نمایاں مقام تھا اور آپ کی بنائی ہوئی اقتصادی پالیسیاں ایسی تھیں بلکہ ایک سازش کے تحت ایسی بنائی گئی تھیں کہ ملک میں ایسے حالات پیدا ہوئے اور ملک کے دو حصوں میں فرق اتنا بڑھ گیا کہ اس کی وجہ سے ملک تقسیم 85

Page 104

ہو گیا.اول تو اس مقدمہ میں یہ موضوع غیر متعلقہ تھا لیکن اگر اس موضوع پر تبصرہ کرنا تھا تو یہ بات کیوں فراموش کر دی گئی کہ اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کی صدارت پاکستان کے چیف جسٹس جناب حمود الرحمن صاحب کر رہے تھے اور اب تو اس کی رپورٹ شائع بھی ہو چکی ہے.اس کا حوالہ دینے کی بجائے ایک غلط مفروضے کو بنیاد بنا کر نتیجہ نکالنے کی کوشش کیوں کی گئی؟ اس کمیشن کے صدر جناب حمود الرحمن صاحب کا تعلق بھی بنگال سے تھا.اس کمیشن کی رپورٹ کا ایک باب 1960ء کی دہائی کے سیاسی اور اقتصادی حالات کے تجزیہ کے بارے میں ہے.اس میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ اس دہائی میں کیا حالات پیدا ہوئے کہ آخر میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا.اس میں سیاسی اور آئینی غلطیوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور اقتصادی عدم توازن کے الزام کا ذکر بھی کیا گیا ہے لیکن نتیجہ یہی نکالا ہے کہ اس دہائی میں ہونے والی غلطیاں سیاسی نوعیت کی تھیں اقتصادی نہیں تھیں.یہ دور اقتصادی ترقی کا دور تھا.اس باب کے آخر میں یہ نتیجہ درج ہے: "It was a period of comparative stability and considerable development in all fields even in East Pakistan.It was a period in which Pakistan had grown in no small measure in stature and acquired prestige amongst the Nations of the world but unfortunately lacked political maturity," (The Report of the Hamoodur Rahman Commission, published by Vanguard, p 50) ترجمه: مشرقی پاکستان میں بھی یہ دور نسبتاً استحکام اور تمام میدانوں میں خاطر خواہ ترقی کا دور تھا.اس دور میں پاکستان کی اہمیت میں جو اضافہ ہوا وہ ہر گز کوئی معمولی اضافہ نہیں تھا اور اقوام عالم میں پاکستان کو ایک وقار حاصل ہوا مگر بدقسمتی سے سیاسی بالغ نظری کا فقدان تھا.86

Page 105

اس کی وضاحت میں اس سے آگے صدر ایوب مرحوم کی سیاسی غلطیوں کا ذکر ہے جنہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں.اگر مقصد یہ تھا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کا ذمہ دار کون تھا تو صحیح نتیجہ شورش صاحب کی کتا ہیں ، یا اللہ وسایا صاحب کی کتاب یا جماعت احمدیہ کے خلاف لکھی گئی وسیم احمد صاحب کی کتاب پڑھ کر نہیں نکالا جاسکتا اور نہ ہی کوئی ذی ہوش اسے درست معیار قرار دے سکتا ہے.مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار کون تھا ؟ عدالت کے لئے مناسب ہوتا کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی طرف توجہ کرتی.اس رپورٹ کے آخر میں اس سانحہ کے ذمہ دار افراد کا تعین کیا گیا ہے اور خاص طور پر صفحہ 536 تا 538 پر ان افراد کے نام درج کر کے ان پر بغیر تاخیر کے مقدمات چلانے کی سفارش کی گئی ہے.ان میں سے ایک بھی احمدی نہیں تھا.البتہ ایک ہی جنرل تھا جس نے اس جنگ میں فرائض ادا کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی اور وہ جنرل احمدی تھا یعنی میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید.یہ وہ واحد جنرل ہیں جن کے بارے میں حمود الرحمن کمیشن نے Boldand Capable commander کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور کسی جرنیل کے لئے یہ الفاظ استعمال نہیں کئے گئے.آپ کے سپر د چھمب کا سیکٹر تھا.اس سیکٹر کی پاکستان کے لئے یہ اہمیت تھی کہ اگر اس محاذ پر مد مقابل افواج آگے بڑھتیں تو صرف 35-40 میل کے فاصلہ پر جی ٹی روڈ تھی ، اس کو خطرہ ہوسکتا تھا اور یہ خطرہ بہت بڑا خطرہ تھا اور مرالہ بیراج بھی خطرے میں آ سکتا تھا اور یہ بیراج بہت سی دفاعی اہمیت کی حامل نہروں کو سپلائی کرتا تھا.1965ء کی جنگ میں اس محاذ پر ایک اور احمدی جنرل یعنی لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک صاحب تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ انہیں دوران جنگ تبدیل کر کے جنرل یحیی خان صاحب کو مقرر کر دیا اور ساری 87

Page 106

پیش رفت رک گئی.1971ء میں بھارت کی طرف سے اس محاذ پر بھر پور تیاریاں کی گئی تھیں.اس جنگ میں پاکستان کی 23 ڈویژن کی قیادت احمدی جنرل میجر جنرل افتخار جنجوعہ کر رہے تھے.انہیں یہ ہدف دیا گیا تھا کہ جنگ کے آغاز میں پیش قدمی کر کے دریائے تو کی کے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیں تا کہ مد مقابل فوج آگے نہ بڑھ سکے.پہلے انہوں نے سیکٹر کے شمال میں پیش قدمی کی کوشش کی.کچھ پیش قدمی ہوئی بھی لیکن پھر رک گئی.اس مرحلہ پر یعنی 7 دسمبر کو انہوں نے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے سیکٹر کے جنوب سے حملہ کر کے چھمب اور مناور پر قبضہ کر لیا اور پاکستانی فوج دریا کے مغربی کنارے پر قابض ہو گئی اور دریا سے مغرب کی طرف مدمقابل فوج کی طرف سے مزاحمت ختم ہوگئی.ان کو جنگ میں حاصل کرنے کے لئے جو اہداف دیئے گئے تھے وہ پورے ہو گئے تھے لیکن اس وقت مد مقابل فوج افرا تفری کا شکار تھی.اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے جنرل جنجوعہ نے اپنی افواج کے کچھ افسران کو دو پہر اڑھائی بجے حکم دیا کہ وہ دریا عبور کر کے دریا سے مشرق کی طرف Pallanwala پر بھی قبضہ کر لیں.بعض افسران کی طرف سے عذر پیش کیا گیا کہ یہ ممکن نہیں.اس پر جنرل جنجوعہ نے دوبارہ یہی حکم دیا لیکن پھر عذر پیش کیا گیا کہ وہ بٹالینز جنہوں نے حملہ کرنا ہے locate نہیں ہور ہیں.اس طرح حملہ میں تاخیر ہوگئی.جنرل جنجوعہ کے حکم کی فوری تعمیل میں دیر کیوں ہوئی اس بارے میں آغا ہمایوں امین صاحب نے اپنی تحقیق شائع کی ہے جس کا حوالہ درج کیا جا رہا ہے.پھر 9 دسمبر کی شام کو جنرل افتخار جنجوعہ ہیلی کاپٹر کے حادثہ میں شہید ہو گئے.ان کی شہادت کے بعد 23 ڈویژن نے کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ اس دوران اس مقام پر مزید افواج جمع کر کے بھارت نے اپنے دفاع کو مضبوط کر لیا تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان کی افواج نے خاطر خواہ علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور اس جنگ میں پاکستانی افواج 88

Page 107

کو کہیں اور اتنی کامیابی نہیں ملی اور دوسرے اکثر محاذوں پر پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا.حمود الرحمن کمیشن نے جنرل جنجوعہ شہید کی شاندار الفاظ میں تعریف کرنے کے ساتھ ان کی کارکردگی کا بھی ناقدانہ جائزہ لیا اور یہ رائے دی کہ انہیں صرف اتنے علاقے پر ہی قبضہ کرنا چاہیے تھا جس کا ہدف دیا گیا تھا اور جی ایچ کیو کو چاہیے تھا کہ انہیں مزید پیش رفت سے روکتا.ہم اس کے عسکری پہلو پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے لیکن اس قسم کے اعتراض صرف مُحب وطن اور بہادر فوجیوں پر ہوتے ہیں.ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین پر اس قسم کا اعتراض کبھی نہیں ہوا ہو گا.دوسری یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے بعد جب بھارت کی عسکری تاریخ Indian Army After Independence کے نام سے لکھی گئی تو اس کے مصنف K.C.Praval نے جنرل جنجوعہ کے اس فیصلہ کو کہ دریائے توی کے مشرق کی طرف حملہ کر کے Pallanwala پر قبضہ کیا جائے نہ صرف ضروری اور پاکستان کے لئے عمدہ فیصلہ قرار دیا اور چونکہ انہیں پاکستان کی طرف کے حالات کا علم نہیں تھا، اس لئے انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار بھی کیا کہ ہماری افواج اس سیکٹر میں افرا تفری کا شکار تھیں، پاکستان نے اسی وقت مزید پیش قدمی کیوں نہیں کی.اس کتاب کے بعد پاکستان کی طرف سے آغا ہمایوں امین صاحب نے چھمب کے معرکہ پر تحقیق کر کے مقالہ شائع کیا.ان کے مطابق جنرل افتخار جنجوعہ کی خوبی یہ تھی کہ وہ ڈویژن ہیڈ کوارٹر میں بیٹھ کر جنگ کی کمان کرنے کی بجائے محاذ جنگ کے Front پر کھڑے ہو کر کمان کرتے تھے اور یہ طرز برصغیر کی فوجی تاریخ میں کم ہی دیکھنے کوملتی ہے اور اس معرکے میں ان کے فوجیوں نے بھی غیر معمولی بہادری دکھائی اور اس جنگ میں سب سے زیادہ اس محاذ پر فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے ماتحت کام کرنے 89

Page 108

والے زیادہ تر بریگیڈ کمانڈر اس طرح front پر کھڑے ہو کر جنگ کی قیادت کرنے کے عادی نہیں تھے اور یہی وجہ تھی کہ جب پاکستان کے لئے نادر موقع تھا کہ اپنی کامیابی کو اور وسیع کرتا اور Pallanwala پر بھی قبضہ کر لیتا تو وہ اس وقت بریگیڈ کمانڈر جنرل جنجوعہ کی اس ہدایت پر عمل نہ کر سکے کہ فوراً دریا عبور کر کے مزید پیش قدمی شروع کر دو.اس وقت یہ قبضہ آسانی سے ہوسکتا تھا اور اس کے بعد بھارت اور کشمیر کو ملانے والی سڑک کے راستے میں صرف اکھنور حائل رہ جاتا.بہر حال یہ دلچسپ بحث ہے.نیچے حوالے درج کئے جارہے ہیں.(The Battle of Chamb-1971by Major Agha Hamayun Amin.http//:www.defencejournal.com/sept 99/chamb.htm.accessed on 22.8.2018) (Indian Army After Independence By Major K.C.Praval.Chapter 1971 operations-case west) (The Report of the Hamoodur Rahman Commission, published by Vanguard, p 213-215) جنرل جنجوعہ کی صلاحیتوں اور جرات کا اعتراف بھارت کے عسکری مؤرخوں نے بھی کیا.چنانچہ KC Parval لکھتے ہیں : "Major General Iftikhar Khan, the Divisional Commander, showed skill and determination in carrying out his mission." (K.C Praval -Indian Army after Independence-Page.496) ترجمہ: میجر جنرل افتخار خان ڈویژنل کمانڈر نے اس آپریشن کو چلاتے ہوئے مہارت اور عزم کا مظاہرہ کیا پھر وہ لکھتے ہیں : 90 90

Page 109

"The enemy commander showed commendable flexibility.Having achieved surprise by using the northern approach, he switched to the south when he found himself firmly checked (page 488) at Mandiala crossings." ترجمہ: دشمن کے کمانڈر نے قابل تعریف لچک کا مظاہرہ کیا اور پہلے شمال میں حملہ کر کے حیران کیا اور جب انہیں معلوم ہوا کہ یہاں پر انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے تو انہوں نے وہ حملہ جنوب میں منتقل کر دیا.الزامات کا معیار اگر جماعت احمدیہ کی طرف سے جماعت کے کسی مخالف گروہ پر الزام لگایا جائے اور یہ الزام لگاتے ہوئے صرف جماعت احمدیہ کی کسی کتاب کا حوالہ دیا جائے تو یقیناً کوئی بھی اسے قبول نہیں کرے گا اور سب کہیں گے کہ یہ تو آپ کی اپنی کتاب کا حوالہ ہے جو آپ نے اپنے مخالف کے خلاف پیش کیا ہے.آپ کو اگر الزام لگانا ہے تو کوئی اور ثبوت پیش کریں، عقل کی رو سے اس الزام کو ثابت کریں یا کم از کم اس موضوع پر کسی غیر جانبدار معیاری تحقیق کا حوالہ پیش کریں.اسی طرح جب تاریخی واقعات کے حوالے سے جماعت احمدیہ پر ایسے سنگین الزامات لگائے جا رہے ہوں اور خاص طور پر عدالت کے فیصلہ میں انہیں درج کر کے نفرت انگیزی کی جارہی ہو تو جماعت احمدیہ کے اشد مخالفین کی کتب کے حوالے جو کہ لکھی ہی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں گئی تھیں کوئی ثبوت نہیں کہلا سکتیں لیکن اس عدالتی فیصلہ میں صرف ایسی کتب کو نام نہاد ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ہمیشہ سے یہی طریق اختیار کیا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں لکھی گئی اناپ شناپ تحریروں 91

Page 110

کو ثبوت کا نام دے کر پیش کیا جاتا ہے.یہ اوٹ پٹانگ الزام کہ 1971 ء میں ملک کے ٹوٹنے کا سانحہ احمدیوں کی سازش کی وجہ سے ہوا 1974ء کی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی میں بھی پیش کیا گیا تھا اور بالکل اسی طرحیہ الزام اٹارنی جنرل یحیی بختیار صاحب نے 7 اگست 1974 ء کو لگایا تھا اور اپنی دلیل کے طور پر ایک انگریزی جریدہ کا طویل حوالہ پڑھنا شروع کیا.جریدہ کا نام Impact تھا اور یہ 27 جون 1973ء کا حوالہ تھا.ابھی یہ بھی واضح نہیں ہوا تھا کہ وہ کیا فرمانا چاہ رہے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس جریدہ کی اس تحریر کے متعلق ان سے استفسار فرمایا Who is the writer“ یعنی اس تحریر کو لکھنے والا کون ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کمال قول سدید سے فرمایا I really do not know یعنی حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے.حضور نے اگلا سوال یہ فرمایا What is the standing of this publication یعنی اس اشاعت یا جریدہ : کی حیثیت کیا ہے؟ یعنی کیا یہ کوئی معیاری جریدہ ہے یا کوئی غیر معیاری جریدہ ہے.اس کی حیثیت ایسی ہے بھی کہ نہیں کہ اس کے لکھے کو ایک دلیل کے طور پر پیش کیا جائے.چونکہ یہ ایک غیر معروف نام تھا اس لیے اس سوال کی ضرورت پیش آئی.اس سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب نے ایک بار پھر نہایت بے نفسی سے فرمایا May be nothing at all Sir یعنی جناب شاید اس کی وقعت کچھ بھی نہیں ہے.خیر اس کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے دریافت فرمایا Have we anything to do with this یعنی کیا ہمارا اس تحریر سے کوئی تعلق ہے؟ اس کا جواب یہ موصول ہوا Nothing I do not say you have any thing to do......یعنی کوئی نہیں ، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کا اس سے کوئی تعلق ہے.92

Page 111

اب یہ ایک عجیب مضحکہ خیز منظر تھا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی میں ایک جریدہ کی ایک تحریر بطور دلیل کے پیش کر رہا ہے اور اسے ایک جماعت کے غدار ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے اور اسے یہ بھی علم نہیں کہ یہ تحریر لکھی کس کی ہوئی ہے، اسے یہ بھی خبر نہیں کہ اس جریدہ کی کوئی حیثیت بھی ہے کہ نہیں.(The National Assembly of Pakistan.Proceedings of the special committee of the whole house held in camera to consider the Qadiani issue.7th August 1974p 364-367) جس وقت اٹارنی جنرل آف پاکستان نے ان کمزور بیساکھیوں کے سہارے جماعت احمد یہ پر یہ الزام لگانے کی کوشش کی ، اُس وقت حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ حکومت کے پاس آچکی تھی اور ظاہر ہے اس رپورٹ میں جماعت احمدیہ کو اس سانحہ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا تھا.اس رپورٹ میں ان لوگوں کی فہرست دی گئی تھی جو کہ اس سانحے کے ذمہ دار تھے اور یہ سفارش کی تھی کہ ان پر فوری طور پر مقدمہ چلایا جائے.حکومت نے یہ رپورٹ خفیہ رکھی اور بجائے اس کے کہ ان افراد پر مقدمات چلائے جائیں، ان میں سے ایک کو ترقی دے کر فوج کا سر براہ مقرر کر دیا اور قومی اسمبلی میں اس نا معقول انداز میں یہ الزام جماعت احمدیہ پر لگانے کی کوشش کی.ایسے موقعوں پر Plato کی Republic میں درج ایک مباحثہ میں Thrasymachus کا یہ قول یاد آ جاتا ہے کہ اس کے نزدیک: Justice is nothing else than the interest of the stronger انصاف طاقتور کے مفادات کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے.93

Page 112

جماعت احمدیہ پر الزام لگانے والے Thrasymachus کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جیسا کہ ہم پہلے نشاندہی کر چکے ہیں کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کی وابستگی جماعت اسلامی سے تھی اور انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر ایک مرتبہ انتخاب بھی لڑا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے.چونکہ ماضی قریب میں 1971ء کے دوران جماعت اسلامی کے اراکین کے کردار پر سوال اُٹھایا گیا ہے اور ان میں سے بعض کو بنگلہ دیش میں سزا بھی ہوئی ، شاید اس لئے بھی اب ان کے حلقے کی طرف سے 1971ء کے سانحے کا الزام جماعت احمدیہ کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہو.انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ یہ واضح کر دیا جائے کہ جماعت اسلامی کی طرف سے ان الزامات کو غلط اور سیاسی انتقام قرار دیا گیا ہے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس بارے میں اصل حقائق کیا تھے ؟ اس ذکر کا مقصد کسی ایک کے موقف کو صحیح یا غلط قرار دینا نہیں تھا لیکن یہ پس منظر ذہن میں ہونا ضروری ہے.اگر ہم کچھ دیر کے لئے اس عدالتی فیصلہ کو فراموش بھی کر دیں اور صرف جماعت احمدیہ کی عمومی مخالفت کی طرف توجہ کریں تو یہ ظاہر ہے کہ اس کی نفسیات سمجھنی ضروری ہے.کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ جب اعتدال اور توازن کے راستے سے ہٹ جاتا ہے تو اس کی کیفیت نفسیاتی بیماری کی ہوتی ہے.اب پہلے کی نسبت نفسیات کے علم نے کافی ترقی کی ہے اور بہت سی نفسیاتی بیماریوں کی علامات کے بارے میں نئے نئے حقائق سامنے آرہے ہیں ان میں سے ایک بیماری Narcissistic High Conflict Personality ہے.نرگسیت یا خود پسندی کا پہلو تو یہ ہے کہ اس کیفیت کے شکار اشخاص سمجھتے ہیں کہ اُن میں وہ خوبیاں ہیں جو در حقیقت موجود نہیں ہوتیں لیکن وہ خود اپنے دل میں اپنا ایک فرضی مقام 94

Page 113

تجویز کر لیتے ہیں اور اس پر یقین بھی رکھتے ہیں لیکن اپنے اندر موجود کمی کو محسوس کرنے کی بجائے وہ اپنے آپ کو برتر ثابت کرنے کے لئے دوسروں پر مسلسل بے تکان اور بے بنیاد الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں اور اس الزام تراشی سے ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے ذہن میں یہ خیال کرتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو برتر ثابت کر رہے ہیں.درحقیقت وہ اپنا بھی تماشا بنا رہے ہوتے ہیں اور معاشرے میں بھی زہر گھول رہے ہوتے ہیں.اختلاف تو ہر ایک کا حق ہے لیکن جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیزی کرنے والوں کی اکثر کیفیت Narcissistic High Conflict Personality والی ہی ہوتی ہے.اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں دوسری آئینی ترمیم کا ذکر.جعلی حوالوں سے جعلی حوالوں تک اس تفصیلی فیصلہ میں 1974ء میں ہونے والی دوسری آئینی ترمیم کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے.یہ وہ ترمیم ہے جس میں احمدیوں کو قانون اور آئین کی اغراض کے لئے غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اور جماعت احمد یہ ہمیشہ سے اس فیصلہ کو مسترد کرتی آ رہی ہے.جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے دوسری آئینی ترمیم کو اپنے اس فیصلے کا جواز قرار دیا ہے.اس لئے اس فیصلہ کے اُس حصے کا تجزیہ زیادہ ضروری ہے جس میں دوسری آئینی ترمیم اور اس کے منظور ہونے کا ذکر ہے.اس مضمون میں 1974ء کے تمام حالات کا ذکر نہیں کیا جا رہا.صرف عدالتی فیصلہ کے ان حصوں کا تجزیہ کیا جارہا ہے جن میں دوسری آئینی ترمیم کا ذکر ہے.95

Page 114

فیصلہ میں اللہ وسایا صاحب کا ذکر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مقدمہ کے ایک درخواست گزار اللہ وسایا صاحب تھے.ان کا تعارف اس فیصلہ میں ان الفاظ میں کرایا گیا ہے."Maulana Allah Wasaya, Petitioner in W.P.No.3862/2017,is a renowned religious scholar, author of many famous books on different subjects of Islam" ترجمہ: مولانا اللہ وسایا صاحب درخواست گزار 3862/2017.W.P.No ایک نامور مذہبی سکالر ہیں جنہوں نے مختلف اسلامی موضوعات کے بارے میں بہت سی کتب لکھی ہیں.اس کے بعد اس فیصلہ میں ان کی ایک کتاب ” پارلیمنٹ میں قادیانی شکست کا ذکر کیا گیا ہے اور جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے یہ کتاب دوسری آئینی ترمیم کے بارے میں ہے.ہم اس کتاب کا مختصر تعارف کرائیں گے جس کے بعد مصنف کا زیادہ تعارف کرانے کی ضرورت نہیں رہے گی.2000ء میں اللہ وسایا صاحب نے ایک کتاب ”پارلیمنٹ میں قادیانی شکست“ کے نام سے شائع کی اور اس کے سرورق پر لکھا تھا ” قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی مکمل روداد صاف ظاہر ہے کہ وہ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ یہ پندرہ روز کی حرف بحرف مکمل کارروائی ہے.اب یہ واضح کرنا تھا کہ 2000 ء تک تو یہ کارروائی خفیہ رکھی گئی تھی انہیں یہ مکمل مواد کہاں سے ملا کہ انہوں نے شائع کر دیا.انہوں نے کہا کہ پہلے چند ممبران اسمبلی کو جو روزانہ کی کارروائی دی جاتی تھی وہ ان ممبران نے اللہ وسایا صاحب کو دے دی تھی اور ان کے پاس محفوظ تھی اور اس کے بعد جنوبی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف ہونے.96

Page 115

والے ایک مقدمہ کے لئے جنرل ضیاء صاحب نے پاکستانی وفد کو اس کارروائی کی مکمل کاپی فراہم کر دی جو کہ اللہ وسایا صاحب کے پاس آگئی گو یا دوہری تصدیق ہو گئی.اس کے ساتھ انہوں نے ایک فائل کور کی کاپی بھی شائع کی تاکہ یقین ہو جائے کہ یہ اصل اور مکمل کارروائی شائع کی جارہی ہے اور یہ پندرہ روز کی کارروائی جو کہ اکثر صبح سے شام تک چلتی تھی اس کتاب کے 287 صفحات پر آ گئی.ابھی اس کتاب کے قصے چل رہے تھے کہ اچانک لاہور ہائی کورٹ میں ہونے والے ایک مقدمہ کے نتیجے میں قومی اسمبلی کو 1974ء میں بننے والی سپیشل کمیٹی کی کارروائی شائع کرنی پڑی.جو کارروائی اللہ وسایا صاحب نے 287 صفحات پر شائع کر کے اسے مکمل قرار دیا تھا، زیادہ بڑے کاغذوں پر 3085 صفحات کے حجم کی تھی یعنی اللہ وسایا صاحب نے 10 فیصد سے بھی کم کارروائی کو مکمل کارروائی قرار دے کر شائع کیا تھا اور وہ بھی جگہ جگہ پر واضح طور پر تبدیل کر کے شائع کی تھی.اس کا یہی مطلب نکل سکتا ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ کارروائی ایسی تھی جس کو شائع کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے مخالفین شرمندگی محسوس کرتے تھے.جب اس بات کے چرچے شروع ہوئے تو اللہ وسایا کی کتاب نے ایک اور جنم لیا اور وہی کارروائی جو کہ پہلے انہوں نے 287 صفحات پر شائع کی تھی 2952 صفحات پر قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ“ کے نام سے شائع کر کے شرمندگی مٹانے کی کوشش کی.گویا یہ عملی طور پر اس بات کا اقرار تھا کہ انہوں نے پہلے جعلی کارروائی شائع کی تھی.یہ بھی واضح ہو کہ جو کارروائی قومی اسمبلی کی طرف سے شائع کی گئی اور جومولوی حضرات نے شائع کی ، ان دونوں میں جماعت احمدیہ کا موقف جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے دو روز کی کارروائی کے دوران پڑھا تھا اور ایک محضر نامے کی صورت میں سب ممبران میں تقسیم بھی کیا 97

Page 116

گیا تھا شامل نہیں کیا گیا یعنی یہ کارروائی جماعت احمدیہ کے موقف کے بغیر شائع کی گئی ہے.مخالفین جماعت نے جو ضمیمے جمع کرائے تھے وہ تو شائع کئے گئے لیکن جماعت احمدیہ نے جو ضمیمے جمع کرائے تھے انہیں اشاعت میں شامل نہیں کیا گیا.اس سے زیادہ تحریف کیا ہو سکتی تھی ؟ بہر حال یہ حقیقت ہے ان صاحب کی دیانتداری کی جنہیں عدالتی فیصلہ میں نامور سکالر قرار دیا گیا ہے.اور جب جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ حقیقت حال شائع کی گئی تو اللہ وسایا صاحب بجائے اس کے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے یا اپنے موقف کے حق میں کوئی دلیل پیش کرتے الٹا کو سنے دینے پر اُتر آئے.اور انہوں نے اپنی کتاب قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ میں لکھا ” حکومتی سطح پر اس کا رروائی کے اوپن ہوتے ہی قادیانیوں نے ایک کتاب شائع کی.خصوصی کمیٹی میں کیا گذری.کتاب کیا ہے.تمسخر، بدکلامی اور پھبتیوں کا مجموعہ قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ.جلد اوّل.مرتب اللہ وسایا صاحب.ناشر عالمی مجلس ختم نبوت ملتان - ستمبر 2013 صفحہ 18 ) بڑے ادب سے عرض ہے کہ سوال تو یہ اُٹھایا گیا تھا کہ پہلے آپ نے اس کا رروائی کی مکمل رپورٹ شائع کی جو کہ 287 صفحات پر مشتمل تھی.پھر آپ نے ہی یہ کمل کا رروائی شائع فرمائی جو کہ اچانک 2900 صفحات سے بھی زیادہ کی ہو گئی.ان میں سے کون سی جعلی ہے اور کون سی اصلی؟ بس اس کا جواب مرحمت فرما دیں لیکن اللہ وسایا صاحب نے یہ مہربانی کرنے کی بجائے اس دوسری اشاعت کی جلد اول کے صفحہ 19 پر یہ عذر پیش کیا.قادیانیوں نے اس کتاب میں کیا کہا.اس کا نوٹس ہی نہیں لیا اور اس کے علاوہ وہ کوئی جواب پیش نہیں فرما سکے.حقائق درج کر دیئے گئے ہیں پڑھنے والے خود فیصلہ فرما سکتے ہیں.98

Page 117

عدالتی فیصلہ میں شورش کا شمیری صاحب کا ذکر عدالتی فیصلہ میں اس دور میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک اور صاحب کی قلمی کاوشوں کی بھی بہت تعریف کی گئی ہے.اس فیصلہ کے صفحہ 50 پر لکھا ہے "The credit also goes to the weekly Chattan, Lahore for its bold criticism and exposition of Qadiani intrigues despite stern warning of the Home Department and arrest of its valiant editor, Agha Shorish Kashmiri.He boldly faced all." ترجمہ: دلیرانہ تنقید اور قادیانیوں کو بے نقاب کرنے کی وجہ سے اس کا سہرا ہفتہ وار چٹان لاہور کو جاتا ہے.باوجود اس کے کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اسے سخت انتباہ بھی بھجوایا تھا اور اس کے بہادر ایڈیٹر آغا شورش کا شمیری کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا.انہوں نے دلیری سے ان حالات کا سامنا کیا.جب کسی مصنف کی قلمی کاوشوں کا اور اس کے رحجانات کا جائزہ لیا جائے تو مناسب ہوتا ہے کہ اس کی قلمی زندگی کے آغاز سے جائزہ لینا شروع کیا جائے.یہ درست ہے کہ شورش کا شمیری صاحب نے پاکستان بننے کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف بہت کچھ لکھا لیکن ان کے قلمی معر کے تو پاکستان بننے سے پہلے شروع ہو چکے تھے لیکن اس وقت ان کا مرکز جماعت احمدیہ کی مخالفت اتنی نہیں تھی.جب 1944ء میں پاکستان کے حصول کے لئے مسلم لیگ کی کاوشیں عروج پر تھیں ، اُس وقت شورش کا شمیری صاحب نے خطبات احرار جلد اول مرتب کر کے شائع کی اور اس کا طویل دیباچہ بھی لکھا.اس کا ناشر مکتبہ احرار تھا.مسلم لیگ اور قائد اعظم کے بارے میں اس کتاب کے چند جملے ملاحظہ ہوں.99

Page 118

دیگر بطور جماعت خود خائف رہنا اور اپنی قوم کو ہندو سے خوف دلا نا لیگ کا فلسفہ حیات ہے یہ دشمنوں کی کوششوں سے بڑھ کر اسلام دشمنی ہے.“ (صفحہ 20) قائد اعظم اور مسلم لیگ کی قیادت کے بارے میں لکھا ہے: لیگ کے ارباب اقتدار جو عیش کی آغوش میں پہلے ہیں.اسلام جیسے بے خوف مذہب اور مسلمانوں جیسے مجاہد گروہ کے سردار نہیں ہو سکتے.مُردوں سے مرادیں مانگنا اتنا بے سود نہیں جتنا لیگ کی موجودہ جماعت سے کسی بہادرانی اقدام کی توقع رکھنا.“ (صفحہ 22) احرار اس پاکستان کو پلیدستان سمجھتے ہیں جہاں امراء بھوک کو چورن سے بڑھاتے ہوں اور غریب غم کھاتے ہوں.“ (صفحہ 83) وو بے عملی کے باعث لیگی عمارت ریت کی دیوار پر ہے.مگر کانگرس قوت عمل کے باعث ہندو کا مضبوط قلعہ ہے.“ (صفحہ 92) ”پاکستان کی تحریک مکانی لحاظ سے نہیں بلکہ زمانی لحاظ سے شرانگیز ہے.“ (صفحہ 42) احرار کا وطن لیگی سرمایہ دار کا پاکستان نہیں.“ (صفحہ 99) ان حوالوں سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی آزادی سے قبل شورش کاشمیری صاحب کیا خدمات سرنجام دے رہے تھے.پاکستان بننے کے بعد یہ ہمت تو نہیں رہی کہ کھلم کھلا پاکستان اور پاکستان کی حکمران جماعت کے خلاف اپنی خدمات جاری رکھ سکیں چنانچہ توجہ کا مرکز زیادہ تر جماعت احمدیہ ہی رہ گئی جیسا کہ 1953ء کے فسادات پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ صرف شورش کا شمیری صاحب کو ہی نہیں مجلس احرار کو بھی اس مسئلہ کا سامنا تھا کہ وہ لوگوں کی نظر میں گر گئے تھے اور اب وہ کوئی مسئلہ چھیڑ کر لوگوں کی نظر میں مقبول بننا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف مہم شروع کی.100

Page 119

اس فیصلہ کے صفحہ 52 تا 57 پر تفاصیل درج کی گئی ہیں کہ شورش کا شمیری صاحب نے اپنے رسالہ چٹان میں مضامین لکھے ، اُس وقت بھٹو صاحب کو کھلا خط لکھا اور عرب ممالک کے سربراہان کو بھی خطوط لکھے.اور تحریک ختم نبوت اور عجمی اسرائیل جیسی کتب لکھیں اور ان کا ب لباب یہ تھا کہ قادیانی یہودیوں اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں.مغربی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں.ان کا مشن اسرائیل میں کیا کر رہا ہے؟ یہ لوگ مسلمان ممالک میں خفیہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن سے مسلمان ممالک کو نقصان پہنچ رہا ہے.یہ سیاسی جماعت ہے ان پر پابندی لگانی چاہیے وغیرہ وغیرہ.لیکن جسٹس شوکت عزیز صاحب نے اپنے فیصلہ میں ایک چیز کا ذکر نہیں فرمایا اور وہ یہ کہ شورش کا شمیری صاحب کی تحریر کردہ یا مرتب کردہ کتب میں بہت سے مسلمانوں اور ان کی جماعتوں کو کسی نہ کسی کا ایجنٹ اور آلۂ کار قرار دیا گیا ہے یا انہیں یہ الزام دیا گیا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور اسلام کے دشمنوں کے سامنے سر جھکا یا فہرست ملاحظہ ہو : 1.صحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر الزام کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں جنگ کرانے کی کوشش کی.(خطبات احرار جلد 1 صفحہ 151 ) 2.جب مسلم لیگ 1944ء میں پاکستان کے قیام کی جنگ لڑ رہی تھی تو اس پر الزام کہ مسلم لیگ والے اصل میں انگریزوں کے وہ ایجنٹ ہیں جنہوں نے نقاب اوڑھی ہوئی ہے.(خطبات احرار جلد 1 صفحہ 20) 3.انیسویں صدی میں مکہ مکرمہ کے حنفی ، مالکی اور شافعی مفتیان کو انگریزوں نے 101

Page 120

استعمال کر کے ان سے تنسیخ جہاد کے فتاویٰ حاصل کئے اور کلام اللہ کا مطلب بدلوایا.( تحریک ختم نبوت از شورش کاشمیری، ناشر مطبوعات چٹان مئی 1990 صفحہ 14) 4.اہل حدیث میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے جہاد کو منسوخ قرار دیا اور زمین انعام میں حاصل کی.(تحریک ختم نبوت صفحہ 16 ) 5- علیگڑھ کالج بنانے والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن سے اپنے کالج کا سنگ بنیا درکھوایا.( تحریک ختم نبوت صفحه 17 ) 7- مفتی محمود صاحب کی جمعیت العلماء اسلام پر یہ الزام کہ وہ قادیانیوں کا بغل بچہ ہیں اور ان کے جلسے بھی قادیانیوں کے چندے سے ہوتے ہیں.چٹان 20 جولائی 1970 ، صفحہ ،4 ، 6 ، چٹان 17 راگست 1970 ، صفحہ 4 چٹان 27 جولائی 1970 ، صفحہ 6) تو جہاں تک ایجنٹوں کا تعلق ہے ان کی جولسٹ شورش کا شمیری صاحب نے بنائی تھی وہ تو بہت طویل تھی.عدالتی فیصلہ میں ان کی کتاب عجمی اسرائیل کا بھی حوالہ دیا گیا ہے.اس کتاب میں شورش صاحب نے جماعت احمدیہ پر الزام لگاتے ہوئے کس طرح کے ثبوت دیئے ہیں ملاحظہ فرما ئیں.وہ لکھتے ہیں : اس وقت میرے سامنے وہ کتاب نہیں ، مصنف اور کتاب کا نام بھی یاد نہیں آرہا.پاکستان کے ایک بڑے افسر عاریتاً لے گئے.پھرا اپنی نظر بندی کے باعث میں ان سے یہ کتاب واپس نہیں لے سکا.( عجمی اسرائیل بار دوئم صفحہ 18) 102

Page 121

بہت خوب! کیا زبردست ثبوت پیش کیا جارہا ہے؟ کتاب کا نام کیا ہے؟ یہ تو معلوم نہیں.کس نے لکھی؟ یاد نہیں رہا.کتاب کہاں ہے؟ وہ تو اب میرے پاس نہیں.شورش صاحب کی کتاب کے کئی ایڈیشن چھپ گئے لیکن یہ کتاب دستیاب نہ ہوئی نہ اس کا نام سامنے آیا.پھر وہ اگلے صفحہ پر اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو انگریزوں نے اپنے مقاصد کے لئے کھڑا کیا تھا کیونکہ انہیں ایک حواری نبی کی ضرورت تھی.اور وہ ایک ایسی پراسرار رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جو شائع بھی ہو چکی تھی اور اس کا نام تھا "The Arrival of British Empire in India" اور شورش صاحب نے یہ دل دہلا دینے والا انکشاف کیا کہ اس رپورٹ کو پڑھ کر سارے راز کھل جاتے ہیں لیکن اس دستاویز کا حوالہ یا ثبوت کیا ہے؟ کیا یہ کہیں شائع ہوئی تھی ؟ یا اس کے مندرجات کسی کتاب یا جریدہ میں شائع ہوئے تھے ؟ یا یہ کسی لائبریری یا ARCHIVES میں موجود ہے؟ نہ تو شورش صاحب نے بیان کیا اور جب مفتی محمود صاحب نے 1974ء میں اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے خلاف تقریر کی تو انہوں نے بھی عجمی اسرائیل کا حوالہ دیا اور اس راز سے پردہ نہ اُٹھایا کہ یہ کتاب یا دستاویز کس نے دیکھی؟ کہاں دیکھی؟ کہاں پر موجود ہے؟ پھر جب سالہا سال کے بعد جماعت احمدیہ کے مخالفین پر دباؤ بڑھا کہ اس سنسنی خیز دستاویز کا انہیں کہاں سے علم ہوا تو پھر اپنی خفت مٹانے کے لیے روز نامہ نوائے وقت مورخہ 7 ستمبر 2011ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا گیا کہ یہ دستاویز انڈیا آفس لائبریری میں آج تک موجود ہے.اس انکشاف سے سب محققین کو خوشی ہوئی کہ اس لائبریری میں موجود ریکارڈ تک تو پبلک کو رسائی ہے، اب یہ دستاویز شائع ہو جائے گی لیکن 103

Page 122

اس ضمن میں دو اہم پہلو جان کر سب کو حیرت ہوگی.1.قارئین کو یہ جان کے حیرت ہوگی کہ 1982ء میں انڈیا آفس لائبریری کو ختم کر کے اس کا سارا مواد برٹش لائبریری منتقل کر کے اس کے ORIENTAL AND INDIA OFFICE کا حصہ بنا دیا گیا تھا.گویا جب 2011 ء میں یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ میہ دستاویز آج بھی انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے اس وقت انڈیا آفس لائبریری ہی موجود نہیں تھی.2.بہر حال انڈیا آفس لائبریری کا ریکارڈ تو موجود تھا.اس لئے ہم نے متعلقہ حصہ سے رابطہ کر کے سوال کیا کہ کیا اس ریکارڈ میں THE ARRIVAL OF BRITISH IN INDIA نام کی کوئی دستاویز موجود ہے؟ چونکہ اس شعبہ میں کیے جانے والے ہر استفسار یا درخواست کو ایک نمبر دیا جاتا ہے.یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ ہمارے سوال کا نمبر 7007475 تھا.جس اہلکار نے اس کا جواب دیا ان کا نام DOROTA WALKER تھا.ان کا جواب موصول ہوا کہ اس نام کی کوئی دستاویز ریکارڈ میں موجود نہیں ہے.ہر کوئی متعلقہ شعبہ سے رابطہ کر کے ان حقائق کی تصدیق کر سکتا ہے.3.راقم الحروف خود بھی برٹش لائبریری جا کر جائزہ لے چکا ہے.یہ ساری کہانی جھوٹ پر مشتمل ہے.اس نام کی کسی دستاویز کا کوئی وجود ہی نہیں تھا.اگر اب بھی کسی کا خیال ہے کہ اس کا وجود تھا ؟ تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس کا ثبوت مہیا کرے.یہ چیلنج تحریری طور پر ، انٹرنیٹ پر ، ٹی وی پر ، یوٹیوب پر بارہا دیا جا چکا ہے.آخر مخالفین جماعت اس ذکر سے اتنا گھبرا کیوں رہے ہیں؟ اس طلسماتی دستاویز کا ذکر تو پاکستان کی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں بھی ہوا تھا.آخر ان مخالفین نے یہ دستاویز کہاں پر دیکھی تھی ؟ 104

Page 123

ہم یہ فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں کہ جس کتاب میں اس طرز پر جعلی حوالے دیئے گئے ہوں اسے کسی ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے کہ نہیں! الزام لگانے والوں پر خود ایجنٹ ہونے کا الزام تھا شاید شورش کا شمیری صاحب اور مجلس احرار کے دوسرے عمائدین کی یہ مجبوری بھی تھی کہ وہ دوسروں کو کبھی اس کا اور کبھی اُس کا ایجنٹ قرار دیں کیونکہ یہ الزام اصل میں اُن پر آ رہا تھا.چنانچہ 1953ء کے فسادات پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق جماعت احمد یہ کے خلاف شورش کے دوران سی آئی ڈی نے حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ آزادی سے پہلے تو احرار کے کانگرس سے تعلقات تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد بھی ان میں سے بعض کانگرس کے وفادار ہیں اور پاکستان کے غدار ہیں.اس تحقیقاتی عدالت میں اس بات کے ثبوت ملے تھے کہ مجلس احرار کے کم از کم ایک لیڈر کو کانگرس کے بودھ چندر صاحب نے ایک ہوٹل بغیر قیمت کے بھی دیا تھا اور خود شورش کا شمیری صاحب نے اپنی ایک کتاب میں اعتراف کیا تھا کہ بھارت کی کابینہ کے ایک سینئر وزیر نے 1956ء میں انہیں یاد فرمایا تھا تو وہ اُن سے ملنے دہلی گئے تھے اور شورش کاشمیری صاحب نے بھارت کے ان سینئر وزیر صاحب سے پاکستان کے اندرونی حالات پر طویل گفتگو بھی کی تھی.یہ تو ہر ایک کا حق ہے کہ جس سیاسی جماعت کو پسند کرے اُس سے وابستہ رہے مگر اس ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اُس وقت شورش کا شمیری صاحب اور ان جیسے احرار پر اس قسم کے الزام لگ رہے تھے تو شاید ان الزامات سے نجات حاصل کرنے کے لئے انہوں نے یہ تدبیر نکالی ہو کہ جماعت احمدیہ پر ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر لوگوں کی توجہ دوسری طرف کر دیں.مختصر یہ کہ جس شخص کی کتاب کو بنیاد بنا کر احمد یوں پر اسرائیل کے ایجنٹ 105

Page 124

ہونے کا الزام لگایا گیا ہے، اس کی جماعت پر خود ایجنٹ ہونے کا الزام تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لگایا گیا تھا.رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953 صفحہ 49 و12 ) ابوالکلام آزا دسوانح و افکار از شورش کا شمیری فروری 1988ء مطبوعات چٹان لاہورصفحہ 234) فیصلہ میں 1974ء کے فسادات کے آغاز کا ذکر اس عدالتی فیصلہ میں جب وہ مرحلہ آیا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات شروع ہوئے تھے تو شاید ان فسادات کا جواز ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے کہ جب 29 مئی 1974ء کو ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر ربوہ کے لڑکوں اور نشتر میڈیکل کالج کے طلباء میں تصادم ہوا تو 50 طلباء بری طرح زخمی ہوئے اور ان میں سے 13 کی حالت Serious (خطرناک) تھی.(صفحہ 56) جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے بار بار 1974ء میں ہونے والی پیش کمیٹی کی کارروائی کا حوالہ دیا ہے.جب 6 اگست کی کارروائی ہو رہی تھی تو حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے اس بات کی نشاندہی فرمائی تھی کہ ربوہ کے سٹیشن کے واقعہ میں صرف تیرہ بچوں کو ضربات خفیفہ آئی تھیں.اور اس کے بعد احمدیوں کے سینکڑوں مکانوں اور دکانوں کو جلا دیا گیا ہے.اس وقت یقینی طور پر حکومت کے پاس ان زخمیوں کے بارے میں حکومت کے اپنے ڈاکٹروں کی رپورٹ آچکی تھی.اگر یہ بات غلط ہوتی تو ناممکن تھا کہ اسی وقت اس بیان کی تردید نہ کر دی جاتی لیکن اس کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب نے کہا."I agree with you they should be punished" ترجمہ: میں آپ سے متفق ہوں.انہیں سزاملنی چاہیے.106

Page 125

(Proceedings of The Special Committee of the Whole House Held In Camera To Consider Qadiani Issue.6th August 1974p 249) اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اصل میں اس واقعہ میں صرف تیرہ افراد کو ضربات خفیفہ لگی تھیں.اس عدالتی فیصلہ میں زخمیوں کی حالت اور تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے.عدالتی فیصلہ کے صفحہ 56 سے صفحہ 59 تک یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ 29 مئی کے بعد حکومت نے بڑی کوشش کی کہ یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں نہ پیش ہو لیکن لوگوں کے رد عمل نے دباؤ ڈالا اور اپوزیشن نے جان فشانی دکھائی تب جا کر حکومت مجبور ہوئی کہ یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش ہو اور جماعت احمدیہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیا اور ان کا موقف سنا گیا اور سوال جواب ہوئے تب قومی اسمبلی کے اراکین اس نتیجہ پر پہنچے کہ انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینا چاہیے.حقیقت یہ ہے کہ جس وقت اپوزیشن نے پہلی مرتبہ یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی کوشش کی اُس وقت بجٹ پر بحث ہو رہی تھی اور حکومت کا موقف یہ تھا کہ جب بجٹ پر بحث ختم ہو جائے گی تب یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا.30 جون کو بجٹ کی بحث کے ختم ہوتے ہی اپوزیشن نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے اپنی قرارداد پیش کی اور وزیر قانون نے کہا کہ ہم اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ خیر مقدم کرتے ہیں.اُس وقت وزیر اعظم ایوان میں موجود تھے.ابھی تو جماعت احمدیہ کا موقف پیش بھی نہیں کیا گیا تھا.(نوائے وقت یکم جولائی 1974 ، صفحہ 1 ،19741 Dawn, 1st July) اس سے بھی قبل اپریل 1974ء میں رابطہ عالم اسلامی کا اجلاس مکہ مکرمہ میں ہوا اور اس میں احمدیوں کے بارے میں یہ قرارداد بھی منظور کی گئی کہ ان کے کفر کا اعلان کرنا چاہیے اور اس پر پاکستان کے فیڈرل سیکرٹری ٹی ایچ ہاشمی صاحب نے بھی دستخط کئے.107

Page 126

ڈاکٹر مبشر حسن صاحب جو اُس وقت وزیر خزانہ تھے اپنی کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں.وہ اپنے ریکارڈ سے ایک کاغذ کے مندرجات لکھتے ہیں جس پر ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں تین وزیروں نے کچھ نہ کچھ لکھا تھا.یہ اعلیٰ سطح کا اجلاس یکم جولائی 1974ء کو ہوا تھا.اس پر اُس وقت کی حکومت کے سیاسی مخالفین کی فہرست بھی درج ہے.یہ فہرست ملا حظہ ہو.ولی خان ، مفتی محمود، جماعت اسلامی ، نصر اللہ، قادیانی ، ہڑتال کرنے والے مزدور.ڈاکٹر مبشر حسن صاحب تبصرہ کرتے ہیں کہ قادیانی ہمارے دوست تھے لیکن جب ہم نے آئین میں ترمیم کر کے انہیں غیر مسلم قرار دیا تو وہ ہمارے دوست نہ رہے.بہت خوب! مکرم ڈاکٹر مبشر حسن صاحب پاکستان کے چند اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدانوں میں سے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں ذہانت سے بھی نوازا ہے لیکن وہ معصومیت میں بہت اہم انکشاف کر گئے ہیں.ذرا تاریخ پر غور کریں.آئین میں دوسری ترمیم تو 7 ستمبر 1974ء کو ہوئی تھی.یکم جولائی تک تو ابھی سپیشل کمیٹی کی کارروائی بھی شروع نہیں ہوئی تھی.ابھی تو جماعت احمدیہ کی طرف سے محضر نامہ بھی نہیں پیش ہوا تھا.اور یکم جولائی سے ہی آپ نے اس وجہ سے کہ آپ نے آئین میں ترمیم کر کے بزعم خود جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اپنے سیاسی مخالفین کی فہرست میں بھی شامل کرنا شروع کر دیا تھا.ان تمام حقائق سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا.یہ طویل کا رروائی جسے اتنے سال خفیہ بھی رکھا گیا صرف دکھانے کے لئے تھی.(The Mirage of Power By Doctor Mubashir Hassan, published by Jamhoori Publication 2000p 253) بیرونی ہاتھ ظاہر ہے اگر یہ بات درست ہے کہ یہ فیصلہ پہلے سے ہو چکا تھا تو پھر یہ سوال تو اُٹھے گا 108

Page 127

کہ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا تھا؟ مکرم ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے کافی عرصہ بعد اس راز سے پردہ اُٹھایا.انہوں نے کراچی کے ایک جریدہ کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا " 'Bhutto was under pressure from the Saudi King, Shah Faisal to declare the Ahmadis non-Muslim." (Newsline, Nov.2017p37) ترجمه: سعودی بادشاہ ، شاہ فیصل بھٹو صاحب پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قراردیا جائے.شاہ فیصل کی اس خواہش کی وجہ کیا تھی؟ اس بحث میں جائے بغیر چند امور توجہ طلب ہیں.کسی بھی ملک میں جب آئینی ترمیم کی جائے تو یہ فیصلہ بیرونی مداخلت کی وجہ سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ خود مختار ممالک آزادانہ طور پر یہ فیصلہ خود کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ جمہوری طرز پر کیا گیا تھا.کیا جمہوری ممالک اپنے آئین میں ترامیم دوسرے ممالک سے مالی مدد کے عوض کرتے ہیں؟ اور ملک بھی وہ جہاں خود جمہوریت کا وجود نہ ہو.اگر اس مداخلت کو قبول کرنے کی وجہ وہ مالی مدد نہیں تھی جو کہ سعودی عرب سے لینی مقصود تھی تو کیا تھی؟ اگر سعودی مدد کے عوض یہ خدمت کی گئی تھی کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تو ایسا کرنا پاکستان کی خود مختاری کو فروخت کرنے کے مترادف تھا.شاید اس دعوے کو کوئی شخص محض Conspiracy Theory قرار دے تو ایک اور بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک نہیں تھا جس کے آئین میں اپنی مرضی کی مذہبی نوعیت کی تبدیلیوں کے لئے سعودی عرب کے شاہ فیصل نے دباؤ ڈالا تھا.بنگلہ دیش کے پہلے وزیر قانون کمال حسین صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ستمبر 1973ء میں الجزائر میں بنگلہ دیش کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن صاحب اور سعودی 109

Page 128

بادشاہ شاہ فیصل کے درمیان ملاقات ہوئی.اس ملاقات میں شاہ فیصل نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور اس مدد کے حصول میں سہولت ہو جائے گی اگر بنگلہ دیش اپنے آئین میں جو سیکولر شقیں ہیں ان پر نظر ثانی کرے.کمال حسین صاحب بیان کرتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن صاحب نے ثابت قدمی سے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا اور بنگلہ دیش کے آئین میں ان شقوں کی شمولیت کی وجہ بیان کی.پاکستان کے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے بعد بھی سعودی عرب نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا.پھر نومبر 1974ء میں سعودی عرب میں کمال حسین صاحب اور شاہ فیصل کی ملاقات ہوئی.اس میں شاہ فیصل نے ان سیکولر شقوں کا مسئلہ دوبارہ اُٹھایا اور کمال حسین صاحب کو ان شقوں کی وضاحت کرنی پڑی.اگر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اور کمال حسین صاحب کے بیانات قبول کئے جائیں اور بظاہر قبول نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ اُس وقت ایک سے زائد ممالک میں یہ عمل جاری تھا.(Bangladesh Quest for Freedom and Justice, by Kamal Hossain, published by Oxford University Press,p 191-194) اس فیصلہ میں بہت سے تاریخی واقعات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے.جماعت کے خلاف چلنے والی شورش کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا ہے.اپوزیشن کی قرارداد کا ذکر بھی تفصیل سے ہے لیکن جب اسمبلی کی اُس کا روائی کا مرحلہ آتا ہے جب امام جماعت احمد یہ نے محضر نامہ پڑھا تھا تو یہ ذکر ہی نہیں کیا گیا کہ جماعت احمدیہ کا موقف کیا تھا؟ جب جماعت احمدیہ کے وفد سے سوال و جواب کا طویل سلسلہ چلا تو اس ذکر کو مختصر کر کے سیدھا اٹارنی جنرل صاحب کی آخری تفصیلی تقریر کا ذکر شروع ہو جاتا ہے.شاید اس کی 110

Page 129

وجہ یہ تھی کہ قومی اسمبلی نے یہ طے کیا تھا کہ سپیشل کمیٹی اس بات پر غور کرے گی کہ اسلام میں اس شخص کی کیا حیثیت ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ سمجھتا ہو؟ اور قواعد کی رو سے یہ سپیشل کمیٹی اس بات کی پابند تھی کہ اس سوال پر کارروائی چلائے لیکن جماعت احمد یہ کا محضر نامہ سننے کے بعد اٹارنی جنرل صاحب اور ممبران اسمبلی نے یہی مناسب سمجھا کہ اس موضوع پر سوال و جواب کا سلسلہ نہ ہی چلایا جائے تو بہتر ہوگا.چنانچہ اتنے روز غیر متعلقہ سوالات میں وقت ضائع کیا گیا.غلط حوالے اس فیصلہ میں اس ذکر سے بچنے کی ایک اور وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب جو سوالات پڑھ رہے تھے ان کی بنیاد کچھ حوالوں پر تھی جو کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے پیش کئے جارہے تھے.لیکن ان میں سے کئی حوالے ساری کارروائی میں غلط ثابت ہوتے رہے.یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ اس تواتر کے ساتھ بیچی بختیار صاحب نے غلط حوالے کیوں دیئے یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انہیں سوالات مہیا کرنے والے ممبران اور علماء نے اتنے غلط حوالے کس طرح مہیا کئے.علماء اور وکلاء کی ایک لمبی چوڑی ٹیم دن رات کام کر رہی تھی.ان کو لائبریرین اور عملہ بھی مہیا تھا اور انہیں تیاری کے لئے کافی وقت بھی دیا گیا تھا.جماعت احمدیہ کے وفد کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کیا سوال کیا جائے گا جبکہ سوال کرنے والے اپنی مرضی سے سوالات کرتے تھے.پھر بھی مسلسل ان کے پیش کردہ حوالے غلط نکلتے رہے اور یہ عمل اتنے دن بغیر کسی وقفہ کے جاری رہا.اگر سوالات میں پیش کئے گئے حوالے اس طرح غلط نکل رہے ہوں تو سوالات کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی.نہ معلوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا تصرف تھا کہ آخر تک یہ لوگ اس بنیادی نقص کو دور ہی نہ کر سکے.111

Page 130

خاکسار نے اس سلسلہ میں مکرم ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے انٹرویو بھی لیا تھا.ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اس وقت بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے اور قومی اسمبلی کے ممبر بھی تھے.جب ہم نے اس بارے میں ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے سوال کیا تو انہوں نے کمال قول سدید سے جواب دیا: یہ ہوا ہی کرتے ہیں.دن رات ہوتا ہے.یحیی بختیار بیوقوف آدمی تھا، بالکل جاہل 66 اور اس کو تو جو کسی نے لکھ کر دے دیا اس نے وہ کہہ دیا.“ جب یہ سوال اس اضافہ کے ساتھ دہرایا گیا کہ جب ان کو عملہ اور دیگر سہولیات بھی میسر تھیں تو پھر بار بار یہ غلطیاں کیوں ہوئیں؟ تو اس پر جوسوال و جواب ہوئے وہ درج کئے جاتے ہیں.ڈاکٹر مبشر حسن صاحب: ارے بابا! وہ کا رروائی ساری Fictitious ( بناوٹی ) تھی.سلطان: وہ اسمبلی کی کارروائی ساری fictitious تھی؟ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب : فیصلہ پہلے سے ہوا ہوا تھا کہ کیا کرنا ہے.(اس انٹرویو کی ریکارڈنگ محفوظ ہے.) یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب قومی اسمبلی کی کارروائی منظر عام پر آئی اور اللہ وسایا صاحب کو مجبور انٹی کتاب شائع کرنی پڑی تو اس کے پیش لفظ میں انہوں نے کہا کہ قادیانیوں نے حوالوں کے معاملہ میں دجل سے کام لیا ہے.سپیشل کمیٹی میں جو غلط حوالے پیش کئے گئے تھے ، ان کی جگہ صحیح حوالے میرے پاس ہیں اور میں بین القوسین انہیں شائع کر رہا ہوں.وغیرہ وغیرہ.(ویسے وہ یہ دعوئی بھی پورا نہیں کر سکے ).عقل اللہ وسایا صاحب کے عذر کو قبول نہیں کر سکتی.جب یہ کارروائی ہو رہی تھی تو جماعت احمدیہ کے وفد کے سامنے اٹارنی جنرل 112

Page 131

صاحب نے جماعت کے لٹریچر سے حوالے پیش کر کے سوالات کئے اور کتابیں سامنے موجود تھیں اور جو حوالے انہوں نے اپنی ٹیم کی مدد سے پیش کیے، جماعت احمدیہ نے ان سوالات پر اور حوالوں پر جواب دینے تھے.جب وہ حوالے غلط نکلے تو قصور اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی اعانت کرنے والے مولوی حضرات کی ٹیم کا ہے.اگر وہ حوالے غلط تھے تو غلط حوالے پیش کرنے والوں کو ہی خفت اُٹھانی پڑے گی اور انہیں ہی قصور وار ٹھہرایا جائے گا.اب جبکہ اس کارروائی کو چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے تو انہیں خیال آیا ہے کہ اب ہم صحیح حوالے پیش کر دیں گے.یہ تو ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے کہ کارروائی چالیس سال پہلے ہوئی اور حوالے اب پیش کرنے کی نوید سنائی جارہی ہے.اور اللہ وسایا صاحب آپ تو اُس کا رروائی کا حصہ ہی نہیں تھے.آپ کو تو یہ حق ہی نہیں کہ ان کی طرف سے حوالے پیش کریں.اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو جماعت احمد یہ کے محضر نامے اور اس کے ضمیمہ جات کو سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے حصہ کے طور پر شائع کریں ( جس کی ہمت آپ کو اب تک نہیں ہو رہی ) لوگ خود دونوں کا موازنہ کر کے فیصلہ کرلیں گے.سکی بختیار صاحب کی اختتامی تقریر کی عبارت تبدیل کر دی گئی اب ہم اس ذکر کی طرف آتے ہیں کہ جسٹس شوکت عزیز صاحب کے اس فیصلہ میں 1974ء میں بننے والی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے کسی حصہ کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے؟ اس فیصلہ کے صفحہ 59 پر لکھا ہے: "whereas, Mr.Yahya Bukhtiar, Attorney General gave following historical comments on 5 &6th September.1974" ترجمہ: جبکہ اٹارنی جنرل یحیی بختیار صاحب نے 5 اور 6 ستمبر 1974ء کو مندرجہ ذیل 113

Page 132

تاریخی تبصرہ کیا.اس کے بعد اس فیصلہ کے صفحہ 59 سے صفحہ 70 تک اٹارنی جنرل صاحب کی اس تقریر کا متن درج کیا گیا ہے جو انہوں نے سپیشل کمیٹی میں دوسری آئینی ترمیم کے بارے میں بحث سمیٹتے ہوئے کی تھی.جب ہم نے اس حصہ کا مطالعہ شروع کیا تو ایک ایسی صورت حال سامنے آئی جو افسوسناک ہی نہیں بلکہ المناک بھی تھی.ایک ناقابل یقین نتیجہ سامنے آرہا تھا.معزز عدالت کے فیصلہ میں اٹارنی جنرل صاحب کی تقریر کی عبارت کو تبدیل کر کے درج کیا گیا ہے.پہلے پیشل کمیٹی میں پیش ہونے والے جعلی حوالے کیا کم تھے ؟ کہ اب اس کمیٹی کی کارروائی میں بھی تحریف کا سلسلہ شروع ہو گیا.مکمل مواز نہ تو اس مضمون میں نہیں سما سکتا لیکن ہر کوئی قومی اسمبلی کی شائع کردہ کا رروائی اور اس فیصلے میں درج تقریر کے متن کو پڑھ کر موازنہ کر سکتا ہے.دونوں انٹر نیٹ پر موجود ہیں.یہ ایک طویل بحث ہوگی کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اور مقصد کیا تھا؟ لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی بڑے پیمانے پر کی گئی ہے.ہم صرف چند مثالوں پر اکتفا کریں گے.جہاں اٹارنی جنرل صاحب وزیر قانون کی پیش کردہ موشن پڑھتے ہیں وہاں قومی اسمبلی کی شائع کردہ کارروائی میں کمیٹی کا دائرہ کا رواضح کرتے ہوئے الفاظ ہیں : To discuss the question of status in Islam of persons اس کو تبدیل کر کے فیصلہ میں یہ الفاظ اس طرح درج ہیں: To discuss the position or status of a person within the frame of Islam (page 61) وزیر قانون کے موشن کے اس حصہ میں اٹارنی جنرل صاحب نے اہم قانونی سقم کی نشاندہی کی تھی.اس لئے الفاظ کو ہی تبدیل کر دیا گیا.114

Page 133

اس تقریر میں جہاں جہاں الفاظ ''Status in Islam‘ آتے تھے انہیں تبدیل کر کے 'Position or status within the frame of Islam کر دیا گیا ہے.اس طرح اس سقم کو دور کرنے کی ناکام سی کوشش کی گئی ہے.66 اسی طرح اپوزیشن کے 37 اراکین نے جو قرار داد پیش کی تھی اسے اٹارنی جنرل صاحب نے تقریر کے آغاز میں پڑھ کر سنایا تھا، اس کے الفاظ بھی جگہ جگہ تبدیل کر کے اس فیصلہ میں درج کئے گئے ہیں.عدالتی فیصلہ میں تبدیل شدہ الفاظ اس لئے شامل کئے گئے ہیں کہ اٹارنی جنرل صاحب نے کہا تھا کہ وزیر قانون کے موشن کے اندر خود تضاد موجود ہے یعنی قانونی سقم موجود ہے.انہوں نے کہا تھا: "The motion is contradiction in terms❞ اس فیصلہ میں یہ الفاظ تبدیل کر کے اس طرح شامل کئے گئے ہیں: "The motion is in itself conflicting" (page 63) اسی طرح تقریر کے اس حصہ کے الفاظ بھی تبدیل کر دیئے گئے ہیں جس میں اٹارنی جنرل صاحب نے اپوزیشن کی قرارداد کے اندر تضاد کی نشاندہی کی تھی.اٹارنی جنرل صاحب نے کہا تھا: "Again Sir, with all respect, the resolution moved by thirty seven members is, in my opinion, in some parts contradictory".ترجمہ: پھر سر! ادب سے عرض ہے کہ وہ قرار داد جو کہ 37 اراکین نے پیش کی ہے میرے خیال میں اس کے کچھ حصوں میں تضاد موجود ہے.ان الفاظ کو تبدیل کر کے اس فیصلہ میں اس طرح درج کیا گیا ہے: 115

Page 134

"Sir, the resolution(37)presented by the members, I would say with utmost respect, that it also has some conflict." (page 63) اسی طرح اٹارنی جنرل صاحب نے کہا تھا کہ اپوزیشن کے 37 اراکین نے جو قرار داد پیش کی ہے.اس میں ایک طرف تو یہ کہا گیا ہے کہ قادیانیت ایک تخریبی تحریک ہے اور دوسری طرف اسی قرار داد میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کو اقلیت قرار دے کر ان کے حقوق محفوظ کئے جائیں تو کیا آپ تخریبی تحریک کو تحفظ دیں گے.اگر آپ نے انہیں علیحدہ مذہب قرار دیا تو آپ کو انہیں ایک مذہب کے حقوق دینے پڑیں گے.اور ان حقوق کے بارے میں اٹارنی جنرل صاحب نے کہا تھا: "It is my duty to draw the attention of the honorable members of the house that if you declare a section of population as a separate religious community, then not only the constitution but even your religion enjoins upon you to respect their right to profess and practice their religion and to propagate it.I do not want to say anything more”.......ترجمہ: میرا یہ فرض ہے کہ معزز اراکین اسمبلی کو یہ توجہ دلا دوں کہ جب آپ اپنی آبادی کے ایک حصہ کو علیحدہ مذہبی گروہ قرار دیتے ہیں تو نہ صرف آئین بلکہ آپ کا مذہب بھی آپ کو حکم دیتا ہے کہ اسے اپنے مذہب کا اعلان کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کو پھیلانے کی اجازت دی جائے.میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا.یہ علیحدہ بات ہے کہ جماعت احمدیہ نے کبھی کسی اسمبلی یا آئین کا یہ حق تسلیم نہیں کیا کہ وہ کسی گروہ کے مذہب کا فیصلہ کرے لیکن آئین کی رُو سے اور اسلام کی رُو سے کسی بھی گروہ کو 116

Page 135

اگر علیحدہ مذہب تصور کیا جائے تو کم از کم یہ حقوق اسے دینے پڑیں گے.ظاہر ہے کہ 1984ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف نافذ کیا جانے والا آرڈیننس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ بھی ان حقوق کو سلب کرنے کا اعلان کرتے ہیں.ایک طرف تو اس عدالتی فیصلہ میں اٹارنی جنرل صاحب کی سپیشل کمیٹی میں آخری تقریر کو ایک تاریخی خطاب قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف اسی تقریر کا یہ اہم حصہ اس عدالتی فیصلہ کی نفی بھی کرتا ہے.چنانچہ اس مخمصے سے بچنے کے لئے ، عدالتی فیصلہ میں اس مقام پر تقریر کے الفاظ بھی بدل دیئے گئے ہیں.چنانچہ او پر درج کئے گئے کی جگہ یہ الفاظ درج کیے گئے ہیں : "But it is my duty to make it clear to the worthy members that if you declare a portion of your citizen population a separate religious group, then not only your constitution but also your religion demands you to safeguard their rights to give them their right to preach and practice their religion.I would not like to comment any further as I am very sure that there is very little time available.(page 6465) اس مقام پر Propagate اور profess کے الفاظ کو نکال کر حقیقت پوشیدہ کرنے کی بہت نا کام سی کوشش کی گئی ہے.اسی طرح اٹارنی جنرل صاحب کی تقریر میں جہاں پر Mirza Ghulam Ahmad of Qadian کے الفاظ تھے ، ان کو بدل کر ان کی جگہ Mirza Qadiani کے الفاظ متن میں شامل کر دیئے گئے ہیں اور ایسا کرنے کی وجہ ظاہر ہے.117

Page 136

قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی 5 ستمبر کی کارروائی کے آخر پر اور 6 ستمبر کی کارروائی کے صفحہ 3005 سے 3049 پر اٹارنی جنرل صاحب کی تقریر موجود ہے جسے دیکھ کر موازنہ کیا جاسکتا ہے.اور اس اشاعت کے صفحہ 3047 پر اٹارنی جنرل صاحب نے ایک بار پھر یہ واضح کیا تھا کہ اگر آپ انہیں اقلیت قرار بھی دے دیں تو انہیں اپنے مذہب کو Profess, practice and propagate کرنے کا آئینی حق حاصل ہے.اور ممبران نے آئین کی پاسداری کا حلف اُٹھایا ہوا ہے.بھٹو صاحب کی قومی اسمبلی اور پھر سپریم کورٹ میں تقریر دوسری تقریر جس کا خاص طور پر جسٹس شوکت عزیز صاحب نے ذکر کیا ہے وہ اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی تقریر تھی جو کہ 7 ستمبر 1974 ء کو قومی اسمبلی میں دوسری آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل کی گئی تھی.عدالتی فیصلہ میں صفحہ 70 سے صفحه 74 تک وزیر اعظم کی اس تقریر کا متن درج کیا گیا ہے.قومی اسمبلی کے ریکارڈ سے اُس روز کی کارروائی حاصل کی گئی.چنانچہ The National Assembly of 39.Pakistan-Debates Vol no پر 7 ستمبر 1974ء کی کارروائی شائع ہوئی ہے اور اس کے صفحہ 565 سے 570 پر بھٹو صاحب کی یہ تقریر موجود ہے.ایک بار پھر افسوس سے عرض کرنا پڑتا ہے کہ متعدد مقامات پر عبارات تبدیل کر کے اس تقریر کو اس فیصلہ میں درج کیا گیا ہے.یہ سوال کہ ایسا کیوں کیا گیا ؟ ایک اہم سوال ہے لیکن اس کا جواب ایک تفصیلی موازنہ، قانونی اور نفسیاتی تجزیہ کا تقاضا کرتا ہے لیکن یہ حقیقت اہم ہے کہ ایسا کیا گیا.اور یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا ؟ 118

Page 137

ممبران اسمبلی کو کارروائی پڑھا ئیں لیکن مکمل کارروائی پڑھائیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے بجا طور پر اپنے فیصلہ کے صفحہ 164 پر لکھا ہے: "It would be pertinent to observe here that steps shall be taken to ensure that every parliamenatarian is provided adequate awareness about the parliamentary debates and proceedings taken place during the course of passage of 2nd Constitutional Amendment❞ ترجمہ: یہ تبصرہ کرنا مناسب ہوگا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہرممکن قدم اٹھانا چاہیے کہ ممبران پارلیمنٹ کو ان بحثوں اور کارروائی سے کافی آگہی حاصل ہو جو کہ دوسری آئینی ترمیم کو منظور کرتے ہوئے کی گئی.ہم کم از کم ان کی اس بات سے متفق ہیں.نہ صرف ممبران پارلیمنٹ کو بلکہ اس ملک کے ہر پڑھے لکھے شخص کو اس بارے میں آگہی دینی ضروری ہے لیکن اس خواہش کی تکمیل سے پہلے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی مکمل کارروائی شائع کرے.اب تک جماعت احمدیہ کا موقف جو کہ ایک محضر نامہ کی صورت میں دو روز اس کمیٹی کے سامنے پڑھا گیا تھا اسے تو قومی اسمبلی نے شائع ہی نہیں کیا.اگر ان کے نزدیک جماعت احمدیہ کا موقف کمز ور تھا تو پھر تو انہیں اس بات کے لئے بے تاب ہونا چاہیے تھا کہ جماعت احمدیہ کا محضر نامہ شائع کریں.مخالفین نے جو ضمیمہ جات جمع کرائے تھے وہ تو اس کا رروائی کا حصہ بنا دیئے گئے لیکن جماعت احمدیہ نے جو ضمیمہ جات جمع کرائے تھے وہ اس اشاعت کا حصہ نہیں بنائے گئے.ان کی اشاعت بھی تو ضروری ہے.119

Page 138

محضر نامہ میں درج ایک انتباہ آخر میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں یہ کہا گیا تھا که اگر قومی اسمبلی نے اس طرز پر مذہب میں مداخلت کی تو جو صورتیں سامنے آئیں گی وہ بشمول پاکستان دنیا کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کی راہ کھولنے کا موجب ہو جائیں گی.“ اس عدالتی فیصلہ میں بھٹو صاحب اور ان کے اٹارنی جنرل بھی بختیار صاحب کی تقاریر کے متن شامل کئے گئے ہیں.خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ چند سالوں بعد ایک مقدمہ میں بھٹو صاحب ملزم کے طور پر اور سیکی بختیار صاحب ان کے وکیل کے طور پر پیش ہورہے تھے.یہ مقدمہ نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ تھا.ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں بھٹو صاحب کو سزائے موت سناتے ہوئے نام کا مسلمان قرار دیا.سپریم کورٹ میں اپیل کرتے ہوئے بھٹو صاحب اور ظاہر ہے ان کے وکیل یکی بختیار صاحب نے بھی اس پر شدید احتجاج کیا اور سپریم کورٹ میں اپنی تقریر میں بھٹو صاحب کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ ایک مسلمان کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ کلمہ پڑھتا ہے اور کلمہ پر یقین رکھتا ہے.اور انہیں یہ بھی کہنا پڑا کہ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ انہیں پھانسی دے دی جاتی.عدالت عظمی سے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کا تاریخی خطاب، مترجم ارشا در اؤ، ناشر جمہوری پبلیکیشنز صفحه 30) بھٹو کا عدالتی قتل، مصنفہ مجاہد لاہوری، ناشر احمد پبلیکیشنز جنوری 2008 صفحہ 133 ) اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے.آج پاکستان کے اندرونی حالات پر نظر ڈالیں یا اور مسلمان ممالک کے اندرونی حالات پر نظر ڈالیں یا مسلمان ممالک کے آپس کے تعلقات پر نظر ڈالیں حقیقت سامنے آجاتی ہے.ہر کوئی ان حالات کا جائزہ لے کر فیصلہ کر سکتا ہے کہ 120

Page 139

جماعت احمدیہ کا انتباہ درست تھا کہ نہیں.1978ء میں رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد پس منظر اور حقائق 1974ء کے حالات کے بعد جسٹس شوکت عزیز صاحب کے فیصلہ میں 1978ء کے ایک واقعہ کا ذکر آتا ہے اور یہ واقعہ 1978ء میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت کراچی (پاکستان) میں ہونے والا ایک اجلاس ہے جس میں اس فیصلہ کے مطابق جماعت احمدیہ کے خلاف بھی ایک قرارداد منظور کی گئی.جو قرار داد اس فیصلہ میں درج کی گئی ہے وہ اسی طرح نفرت انگیز مواد پر مشتمل تھی جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں اور اس قرارداد میں جماعت احمدیہ کو حسب سابق بغیر دلیل کے یہود کا ، استعماری طاقتوں کا بلکہ ہر کسی کا ایجنٹ قرار دے کر ملت اسلامیہ کے لئے ایک سنگین خطرہ قر را دیا گیا.اور یہ بے بنیادالزام بھی لگایا گیا تھا کہ نعوذ باللہ احمدیوں نے قرآن کریم میں لفظی تحریف بھی کی ہے اور حسب سابق یہ الزام بھی لگایا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے.عدالتی فیصلہ سے اس قرارداد کا متن درج کیا جاتا ہے.Qadianism is a destructive religious doctrine which hides under the guise of Islam in order to conceal its mischievous and malicious ends.Its most un-Islamic allegations are: a) Its leader's baseless claim to prophethood.b) Distortion of Quranic texts c) Falsification of Jihad (Fight in the cause of Islam) Qadianism is the step-daughter of British Imperialism it 121

Page 140

survives only under its guardianship and protection.Qadianism does not faithfully serve the cause of the Muslim Ummah it is blindly devoted to Imperialism and Zionism, and wholeheartedly supports anti-Muslim powers and policies.It even utilizes the anti-Muslim powers in order to pull down and disintegrate basic principles of Islamic belief.Qadianism persistently endeavours to attain such malicious and mischievous (PAGE 75-76) ends',......ترجمه: قادیانیت ایک تخریبی مذہبی عقیدہ ہے جو کہ اسلام کے لبادے میں چھپ کر کام کرتا ہے تا کہ اپنے شریر اور بدار ا دوں کو پوشیدہ رکھ سکے.اس کے نہایت غیر اسلامی ارادے یہ ہیں.1.ان کے بانی کا نبوت کا بے بنیاد دعوئی.2.قرآن کریم کے متن کو مسخ کرنا.3.جہاد ( اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے ) کو منسوخ کرنا قادیانیت برطانوی استعمار کی سوتیلی بیٹی ہے اور صرف اس کی سر پرستی اور حفاظت میں ہی زندہ رہ سکتی ہے.قادیانیت مسلم اُمہ کے مقاصد کی وفاداری سے خدمت نہیں کرسکتی.یہ اندھا دھند استعماریت اور صیہونیت کی پیروی کرتی ہے اور دل و جان سے ان کی خلاف اسلام سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہے.یہ بڑی طاقتوں کو بھی استعمال کرتی ہے تا کہ اسلام کے بنیادی عقائد کو پراگندہ کر دے.قادیانیت مسلسل ان شریر اور بد ارادوں کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے.122

Page 141

اس کا نفرنس کے بارے میں چند حقائق عدالتی فیصلہ میں رابطہ عالم اسلامی کی اس کا نفرنس کی مندرجہ بالا قرارداد کا حوالہ دیا گیا ہے.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُس پس منظر کا جائزہ لیا جائے جس میں یہ کانفرنس منعقد ہورہی تھی.یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کانفرنس کا افتتاح جنرل ضیاء الحق صاحب نے کیا تھا اور ظاہر ہے کہ اُس دور میں اُن کی مرضی کے بغیر پاکستان میں یہ کانفرنس اس قسم کی قرارداد منظور نہیں کر سکتی تھی اور اس کا نفرنس کی صدارت پاکستان کے وزیر برائے مذہبی امور و قانون اے کے بروہی صاحب کر رہے تھے.انہوں نے اپنے اختتامی خطاب میں کہا: "Decisions of the conference will be followed by vigorous action." ترجمہ: اس کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں پر بھر پور عمل کیا جائے گا.اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ایشیا کے لئے کا نفرنس کا ریجنل سینٹر کراچی (پاکستان) میں قائم کیا جائے گا.یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں رابطہ عالم اسلامی کی یہ کا نفرنس ایک ایسے موقع پر ہو رہی تھی جبکہ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں جو کہ امریکہ کے لئے بہت پریشانی کا باعث تھیں.اپریل 1978 ء میں افغانستان میں نور محمد ترکئی صاحب کی قیادت میں کمیونسٹ گروہ نے صدر داؤد کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا تھا اور ظاہر ہے کہ ایشیا کے اس اہم حصہ میں کمیونزم کا نفوذ امریکہ، برطانیہ اور ان کے دیگر اتحادیوں کے لئے پریشانی کا باعث تھا.شاید اسی لئے اس کا نفرنس کے اختتام پر رابطہ عالم اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ محمد صفوات نے اعلان کیا: "Communism with its irreligious doctrine came in for unequivocal condemnation." 123

Page 142

ترجمہ: اس کا نفرنس پر اپنے غیر مذہبی نظریہ کی وجہ سے کمیونزم کی غیر مہم مذمت کی گئی.جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا افغانستان کی صورت حال پر بھی بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جب ہم کمیونزم کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وہ تمام ممالک ہوتے ہیں جن کو کمیونزم سے خطرہ ہے یا وہاں پر کمیونزم کا نفوذ ہو چکا ہے.اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کا نفرنس میں سیکولر خیالات اور سوشلزم کو بھی مستر د کیا گیا ہے.سعودی امام کعبہ کی طرف سے جنرل ضیاء کی حمایت جن دنوں میں یہ کا نفرنس منعقد کرائی گئی ، اُن دنوں میں پاکستان کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق صاحب کو بھی کئی چیلنجوں کا سامنا تھا.وہ ایک سال قبل اس دعوے کے ساتھ آئے تھے کہ نوے دن میں انتخابات کرا کر رخصت ہو جائیں گے لیکن اب یہ آثار واضح نظر آرہے تھے کہ وہ اقتدار چھوڑنے کا کسی قسم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے.اور اس غرض کے لئے وہ وعدہ شکنی پر وعدہ شکنی کر رہے تھے.اُن دنوں بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا.اور سزائے موت کے خلاف اُن کی اپیل کی سماعت سپریم کورٹ میں ہورہی تھی.جس روز اس کا نفرنس کا اختتام ہوا اس روز سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب کے وکیل بیٹی بختیار صاحب نے اس اپیل کے میرٹ پر دلائل دینے شروع کئے تھے.جنرل ضیاء صاحب بھٹو صاحب کی سیاسی مقبولیت سے خائف بھی تھے.یہ بھی ظاہر تھا کہ ضیاء صاحب کی مقبولیت کا گراف جو کہ پہلے بھی نیچے تھا ، اب تیزی سے مزید گر رہا ہے.اس وقت کے امام کعبہ بھی اس کا نفرنس کے اہم مندوب تھے.اُنہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے لوگوں کو نصیحت کی کہ وہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء صاحب کے ہاتھ مضبوط کریں.اپنی اس حمایت کو تقدس کا رنگ دینے کے لئے انہوں نے ایک تقریر میں کہا کہ وہ خانہ کعبہ میں جا کر جنرل ضیاء صاحب 124

Page 143

کی کامیابی کے لئے دعا کریں گے.جنرل ضیاء صاحب نے بھی ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا اور کہا کہ عالم اسلام کے اتحاد کے لئے کوششیں جاری رکھی جائیں گی.(Daily Dawn, 9 July 1978 page 1&10) جماعت احمدیہ کی مخالفت میں رابطہ عالم اسلامی کی تاریخ رابطہ عالم اسلامی کی طوطا چشمی ملاحظہ ہو.صرف چار پانچ سال پہلے یعنی 1973 ء اور 1974ء میں یہی تنظیم بھٹو صاحب کو تھپکیاں دے رہی تھی کہ احمدیوں کے خلاف قدم اُٹھاؤ.اور جب کوئی قدم اُٹھایا جاتا تھا تو انہیں مبارکبادیں بھی دی جاتی تھیں.اور اب بھٹو صاحب اقتدار سے محروم ہو کر جیل میں تھے اور اپنی سزائے موت کے خلاف اپیل کر رہے تھے اور اس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ لاہور ہائی کورٹ نے انہیں نام کا مسلمان کیوں قرار دیا ہے؟ اور اب یہ تنظیم جنرل ضیاء کی حمایت کر رہی تھی.1978ء میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا کہ رابطہ عالم اسلامی نے جماعت احمدیہ کے خلاف اس قسم کے الزامات پر مشتمل قرار داد منظور کی ہو.جب آزاد کشمیر اسمبلی نے 1973ء میں یہ سفارشی قرار داد منظور کی کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے تو فوراً رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری نے تار کے ذریعہ مکہ معظمہ سے پاکستان کے صدر بھٹو کو آزاد کشمیر کی اسمبلی کی اس قرار داد پر مبارکباد بھجوائی.رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل نے دنیا کے مسلمان ممالک سے اپیل کی کہ وہ اپنے ممالک میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیں اور مسلمان فرقوں میں اس گمراہ فرقہ کو اپنا شر پھیلانے کی اجازت نہ دی جائے.(المنبر 6 جولائی 1973 صفحہ 14 و 15 ) 125

Page 144

1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات شروع ہونے یا شروع کرانے سے قبل رابطہ عالم اسلامی کا ایک اجلاس مکہ مکرمہ میں منعقد کیا گیا.اس میں مختلف مسلمان ممالک کے وفود نے شرکت کی.اس میں ایک سب کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے متعلق بھی کئی تجاویز پیش کی گئیں.اس کمیٹی کا نام کمیٹی برائے Cults and Ideologies تھا.اس کے چیئر مین مکہ مکرمہ کی اُم القریٰ یونیورسٹی میں اسلامی قانون کے Associate پروفیسر مجاہد الصواف تھے.اس کمیٹی کے سپر د بہائیت، فری میسن تنظیم ، صیہونیت اور جماعت احمد یہ کے متعلق تجاویز تیار کرنے کا کام تھا.اس کمیٹی میں سب سے زیادہ زور وشور سے بحث اُس وقت ہوئی جب اجلاس میں جماعت احمدیہ کے متعلق تجاویز پر تبادلہ خیالات ہوا اور اس بات پر اظہار تشویش کیا گیا کہ پاکستان کی بیوروکریسی ، ملٹری اور سیاست میں احمدیوں کا اثر ورسوخ بہت بڑھ گیا ہے اور یہ ذکر بھی آیا کہ اگر احمدی غیر مسلم بن کر رہیں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ احمدی افریقہ اور دوسری جگہوں پر اپنے آپ کو عالم اسلام کی ایک اصلاحی تنظیم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور اس بات پر اظہار تشویش کیا گیا کہ قادیانیوں نے حیفا میں اسرائیلی سرپرستی میں اپنا مشن قائم کیا ہے اور اسے چلا رہے ہیں.یہ تاریخی حقائق کے بالکل خلاف تھا.کہا بیر، حیفا میں جماعت اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے قائم تھی اور دوسرے لاکھوں مسلمانوں کی طرح انہوں نے اس وقت بے انتہا تکالیف اٹھائی تھیں جب وہاں پر یہودی تسلط قائم کیا جا رہا تھا اور اس وقت حیفا میں صرف احمدی ہی نہیں رہ رہے تھے بلکہ دوسرے بہت سے مسلمان بھی رہ رہے تھے.) بہر حال خوب جھوٹ بول کر مندوبین کو جماعت کے خلاف بھڑ کا یا گیا.تمام تگ و دو کے بعد جماعت احمدیہ کے متعلق تجاویز پیش کی گئیں اور یہ تجویز کیا گیا کہ تمام عالم اسلام کو 126

Page 145

قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں سے مطلع کیا جائے کیونکہ قادیانی مسلمانوں کی سیکیورٹی کے لیے بالخصوص مشرق اوسط جیسے حساس علاقہ میں ان کے لیے سنگین خطرہ ہیں کیونکہ قادیانی جہاد کو منسوخ سمجھتے ہیں اور ان کو برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا تھا اور یہ لوگ صیہونیت اور برطانوی استعمار کو مضبوط کر رہے ہیں.اور قادیانی ان طریقوں سے اسلام کو نقصان پہنچارہے ہیں.یہ اپنی عبادت گا ہیں تعمیر کر رہے ہیں جہاں سے یہ اپنے عقائد کی تبلیغ کر رہے ہیں اور اپنی خلاف اسلام سرگرمیوں کو مضبوط کرنے کے لیے سکول اور یتیم خانے تعمیر کر رہے ہیں اور قرآن کریم کے تحریف شدہ تراجم دنیا کی زبانوں میں شائع کر رہے ہیں اور اس کام کے لیے انہیں اسلام کے دشمن مدد مہیا کر رہے ہیں.جماعت احمدیہ کے متعلق یہ فلمی منظر کشی کرنے کے بعد کمیٹی نے یہ تجاویز پیش کیں.(1) تمام اسلامی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ قادیانی معابد، مدارس ، یتیم خانوں اور ودسرے تمام مقامات میں جہاں وہ اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہیں ان کا محاسبہ کریں.(2) ان کے پھیلائے ہوئے جال سے بچنے کے لیے اس گروہ کے کفر کا اعلان کیا جائے.(3) قادیانیوں سے مکمل عدم تعاون اور مکمل اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی بائیکاٹ کیا جائے.ان سے شادی سے اجتناب کیا جائے اور ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے.(4) کانفرنس تمام اسلامی ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اور ان کی املاک کو مسلمان تنظیموں کے حوالے کیا جائے.اور قادیانیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے.(5) قادیانیوں کے شائع کیے گئے تحریف شدہ تراجم قرآن مجید کی نقول شائع کی جائیں اور ان تراجم کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے.127

Page 146

ٹی ایچ ہاشمی کا موقف جب یہ تجاویز کمیٹی کے سامنے آئیں تو مختلف تنظیموں کے مندوبین نے ان سے اتفاق کیا اور اس قرارداد پر دستخط کر دیئے.پاکستان کے سیکرٹری اوقاف ٹی ایچ ہاشمی صاحب نے بھی اس قرارداد پر دستخط کئے لیکن اتنا اختلاف کیا کہ انہیں ان تجاویز کے مذہبی حصہ سے اتفاق ہے لیکن انہیں اس تجویز سے اتفاق نہیں کہ قادیانیوں کو ملازمتوں میں لینے پر پابندی لگائی جائے.اس کی جگہ انہیں غیر مسلم قرار دینا کافی ہوگا.اس پر کمیٹی کے صدر جناب ڈاکٹر مجاہد الصواف نے کہا کہ علماء کے فتوے کے پیش نظر سعودی حکومت نے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ اس بات پر پابندی لگادی ہے کہ قادیانی سعودی عرب میں داخل ہوں یا انہیں یہاں پر ملا زمت دی جائے.اس طرح یہ قرارداد منظور کر لی گئی.پاکستان کی طرف سے اوقاف کے فیڈرل سیکرٹری تجمل ہاشمی صاحب نے رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد پر دستخط کئے تھے اور ہم نے ایک کتاب کی تالیف کے دوران ان کا انٹرویو بھی لیا اور جب ان سے اس بابت یہ سوال کیا گیا تو ان کا کہنا یہ تھا: ”میرے لحاظ سے کسی کو کہہ دینا کہ یہ مسلمان ہے یا نہیں مسلمان.یہ میں سمجھتا ہوں.میں تو کسی کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرے سے بہتر مسلمان ہے یا نہیں مسلمان ہے.“ پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی کسی کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمان ہے کہ نہیں ہے.“ 66 اس کے باوجود یہ امر قابل توجہ ہے کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کو حکومت نے نہیں کہا تھا کہ وہ اس قرارداد پر دستخط کریں.اس کے باوجود جبکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ کسی شخص کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ یہ کہے کہ دوسرا شخص مسلمان ہے یا نہیں پھر بھی انہوں نے اس قرار داد پر دستخط کر دیئے اور اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رابطہ عالم اسلامی کی اور اس کی قراردادوں کی 128

Page 147

کوئی اہمیت بھی نہیں تھی.پھر بھی انہوں نے پاکستان کے داخلی معاملہ پر بیرون ملک جا کر اس بحث میں حصہ لیا اور ایک ایسی قرارداد پر دستخط بھی کر دیئے جس کے مطابق پاکستان کی آبادی کے ایک حصہ کا اقتصادی اور معاشی بائیکاٹ بھی کیا جانا تھا.البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ سعودی حکومت کے پاس پیسہ تھا اور وہ اس کے بل بوتے پر ایسی کانفرنسیں کراتے تھے یا کتابیں لکھوا کر اور انہیں خرید کر یا پھر ویسے ہی علماء کی مدد بھی کرتے تھے.اس انٹرویو کی آڈیوریکارڈنگ محفوظ ہے] اس پس منظر میں یہ امر قابل حیرت نہیں کہ 1978ء میں بھی رابطہ عالم اسلامی نے کراچی میں یہ قرارداد منظور کی.رابطہ عالم اسلامی کا سر پرست کون ہے؟ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے فیصلہ میں اس قرارداد کو معتبر بنانے کے لئے رابطہ عالم اسلامی کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے."Rabeta-e-Alam-i-Islami, an international non-government and non-partisan body representing Muslims of the world." (page 75) ترجمہ: رابطہ عالم اسلامی ایک ایسی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ہے جو کسی پارٹی سے وابستہ نہیں اور تمام دنیا کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے.سب سے پہلے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ رابطہ عالم اسلامی کو تمام دنیا کے مسلمانوں کا نمائندہ کس نے اور کب مقرر کیا ہے؟ کبھی بھی اسلامی کانفرنس پر بھی یہ قرار داد منظور نہیں کی گئی کہ رابطہ عالم اسلامی کی تنظیم تمام مسلمانوں کی نمائندہ ہے.دوسری بات یہ کہ خواہ اس 129

Page 148

تنظیم کے لٹریچر میں کچھ بھی لکھا ہو، یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ یہ تنظیم سعودی عرب کی حکومت کے عطایا پر کام کر رہی ہے اور یہ تنظیم کئی ملین ڈالر سعودی حکومت سے لے کر کام کرتی ہے اور اس کی پالیسی وہی ہوتی ہے جو کہ سعودی عرب کی حکومت کی ہوتی ہے.اس کا ہیڈ کوارٹر بھی سعودی عرب میں ہے اور رابطہ عالم اسلامی نے آج تک کوئی ایسی پالیسی نہیں اپنا ئی جو کہ سعودی عرب کی حکومت کی پالیسی نہ ہو.[http//:www.pewforum.org/2010/09/15/muslim-networks-and- movements-in-western-europe-muslim-world-league-and-world- assembly-of-muslim-youth/accessed on 2.9.2018] اور ایک طویل عرصہ سے یہ تنظیم جماعت احمد یہ کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تفرقہ کا جو سفر جماعت احمدیہ سے شروع کیا جاتا ہے وہ کبھی بھی جماعت احمدیہ کے خلاف محدود نہیں رہتا بلکہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کا کام ایک منصوبے کے تحت آگے بڑھایا جاتا ہے.تو قابل غور یہ پہلو ہے کہ یہ تنظیم رابطہ عالم اسلامی کیا صرف احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی میں ملوث رہی ہے یا اس تنظیم نے دوسرے فرقوں کے خلاف بھی فتنہ پروری کی ہے.اہل تشیع کے خلاف رابطہ عالم اسلامی کی سرگرمیاں ذیل میں جو تفاصیل بیان کی جائیں گی ان کے ثبوت ایسی معتبر تحریروں سے دیئے جائیں گے جن کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہی تنظیم شیعہ فرقہ کے خلاف بھی نفرت انگیزی کی مہم میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے.اس کے لئے رابطہ عالم اسلامی نے بھارت کے عالم منظور نعمانی صاحب کو تیار کیا کہ وہ شیعہ احباب اور ان کے قائد مینی صاحب کے خلاف فتاویٰ کفر تیار کر کے شائع کریں.منظور نعمانی صاحب رابطہ 130

Page 149

عالم اسلامی کی شوریٰ میں رہے تھے اور ان سے یہ کتاب بھی رابطہ عالم اسلامی نے مالی مدد دے کر شائع کرائی تھی.اس سلسلہ میں پاکستان کے معروف صحافی اور مصنف خالد احمد صاحب کی کتاب کا حوالہ بھی درج کیا جا رہا ہے.کہا جاتا ہے کہ ہر مجرم کا ایک طریقہ واردات ہوتا ہے.کچھ فرق ضرور ہوتا ہے لیکن جب بھی یہ مجرم کوئی واردات کرتا ہے تو اس میں کچھ ایسے پہلو ہوتے ہیں کہ یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ جرم کس نے کیا ہے.جماعت احمدیہ کے خلاف رابطہ عالم اسلامی نے کس طریق پر نفرت انگیزی کی یہ او پر لکھا جا چکا ہے.اس کتاب میں شیعہ فرقہ کے خلاف کس طرح نام نہا دفتاویٰ کفر کی بنیاد بنائی گئی.ذیل میں عقائد اور صحیح اور غلط کی بحث میں پڑے بغیر اس کتاب کے چند حوالے درج کئے جاتے ہیں.منظور نعمانی صاحب کی کتاب کی معین عبارتیں ملاحظہ کریں 1 ائمہ اور امامت کے پورے سلسلہ پر ایمان لایا جائے جو اثناعشری مذہب کی اساس و بنیاد ہے اور جو عقیدہ توحید اور ختم نبوت کے بالکل منافی ہے.“ ایرانی انقلاب از منظور نعمانی.ناشر حاجی عارفین اکیڈمی کراچی دسمبر 1987 صفحہ 291) یہ کتاب پہلے لکھنو (بھارت) میں ایرانی انقلاب ، امام خمینی اور شیعت“ کے نام سے شائع کی گئی تھی.اور پھر اسی کتابت کے ساتھ پاکستان لا کر نام میں ذرا تبدیلی کے ساتھ شائع کی گئی.2 - خمینی صاحب صحابہ کرام بالخصوص خلفائے ثلاثہ کے بارے میں انتہائی گھناؤنے اور نا پاک رائے رکھتے ہیں.وہ ان کے اسلام و ایمان کے بھی منکر ہیں.“ ایرانی انقلاب از منظور نعمانی.ناشر حاجی عارفین اکیڈمی کراچی دسمبر 1987 صفحہ 291-292) 3 شیعت اسلام کے اندر سے تخریب کاری اور مسلمانوں میں اختلاف شقاق پیدا 131

Page 150

کرنے کے لئے یہودیت و مجوسیت کی مشترکہ کاوش سے اس وقت وجود میں آئی تھی جب یہ دونوں قوتیں طاقت کے بل پر اس کی برق رفتاری سے پھیلتی ہوئی دعوت کو روکنے میں ناکام رہی تھیں.“ وو ایرانی انقلاب از منظور نعمانی ناشر حاجی عارفین اکیڈمی کراچی دسمبر 1987 ، صفحہ 292-293) 4 - " عقیدہ امامت ہی کے لازمی نتائج میں سے ہیں جن میں سے سر فہرست تحریف قرآن کا عقیدہ ہے.“ ایرانی انقلاب از منظور نعمانی ناشر حاجی عارفین اکیڈمی کراچی دسمبر 1987ء صفحہ 291) یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کتاب کا مقدمہ ابوالحسن علی ندوی صاحب نے لکھا تھا.وہ رابطہ عالم اسلامی کی standing committee کے رکن تھے اور انہیں 1980ء میں شاہ فیصل ایوارڈ ملا تھا.جب 1978ء میں کراچی میں رابطہ عالم اسلامی کے ایشیا ریجن کا اجلاس ہوا تو اس میں ابوالحسن علی ندوی صاحب بحیثیت نائب صدر شریک ہوئے تھے اور انہوں نے اس اجلاس سے خطاب بھی کیا تھا اور جماعت احمدیہ کے خلاف مذکورہ قرار داد منظور کرنے میں شامل تھے.احمدیت کے خلاف رابطہ عالم اسلامی کی قراردادوں میں بلکہ 1974ء میں ہونے والی پاکستان کی قومی اسمبلی کی پیشل کمیٹی کی کارروائی کے دوران بھی اسی قسم کے الزامات جماعت احمدیہ کے خلاف لگائے گئے تھے.مثال کے طور پر یہ کہ وہ نعوذ باللہ ختم نبوت کے منکر ہیں، صحابہ کی توہین کرتے ہیں ، اپنے علاوہ دوسروں کو مسلمان نہیں سمجھتے ، اور یہودیوں کے اور بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں ، قرآن کریم میں تحریف کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.خالد احمد صاحب اپنی کتاب Sectarian War میں تحریر کرتے ہیں کہ اس 132

Page 151

کتاب کے مختلف زبانوں میں تراجم کرا کے شائع کئے گئے اور ان کتب کو دنیا میں سعودی عرب کے سفارت خانوں نے تقسیم کیا.اس کے بعد 1986ء میں پاکستان کے بہت سے مدرسوں نے جو سعودی عرب سے فیاضانہ مالی مدد لیتے تھے شیعہ احباب کے ارتداد کے فتاویٰ دے دیئے.ان فتاویٰ کو نعمانی صاحب نے ایک جلد میں علیحدہ شائع کرایا.اور یہ فتاوی پاکستان میں شیعہ احباب کے قتل و غارت کا باعث بنے.( Sectarian War, by Khaled Ahmad, published by Oxford Pakistan Paperbacks 2013.p 95-92,300) یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جب بھی جماعت احمدیہ کے خلاف تعصب کی آگ بھڑکائی جاتی ہے اس کے شعلے پورے معاشرے میں پھیلتے ہیں اور جلد ہی دوسرے فرقوں کے خلاف واقعات بھی سامنے آنے لگتے ہیں.چنانچہ پاکستان بننے کے معا بعد جب احرار اور جماعت احمدیہ کے مخالفین کے دوسرے گروہ جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات بھڑ کانے میں مصروف تھے اسی وقت شیعہ سنی اختلافات اور دوسرے فرقوں میں اختلافات بھی شدید ہونا شروع ہو گئے تھے.چنانچہ 1953ء کے فسادات پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے : اس مرحلہ پر فرقہ وار مناقشوں نے اور بھی زیادہ مکروہ شکل اختیار کر لی.کئی مقامات پر شیعہ سنی اختلافات پیدا ہونے اور بڑھنے لگے.“ رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953 صفحہ 35) 1978 ء میں کون سے جہاد کی تیاریاں ہو رہی تھیں رابطہ عالم اسلامی کی اس قرارداد میں مذہبی تنگ نظری کو فروغ دینے کے علاوہ اس بات کا ذکر نمایاں تھا کہ جماعت احمد یہ جہاد کی منکر ہے.133

Page 152

سوال یہ ہے کہ اچانک جولائی 1978ء میں جہاد کی کیا ضرورت پیش آگئی کہ اس کی آڑ میں جماعت احمدیہ پر حملے کئے جا رہے تھے اور اس کا نفرنس کے بعد کہاں جہاد کیا گیا ؟ اور کس کو خوش کرنے کے لئے کیا گیا؟ اور اس کے کیا نتائج نکلے؟ کیا یہ ضرورت بڑی مغربی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے پیش آئی تھی؟ یا مغربی طاقتوں کی خدمت کرنے کے لئے پیش آئی تھی ؟ اور ان کی جنگ میں ان کی مدد کرنے کے لئے پیش آئی تھی؟ بجائے سیاسی نتائج اخذ کرنے کے ہم صرف چند حقائق پیش کر دیتے ہیں.پڑھنے والے آزادانہ طور پر اپنا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں.اپریل 1978ء میں نور محمد ترکئی صاحب کی قیادت میں کمیونسٹ گروہ نے صدر داؤد کا تختہ الٹ دیا یعنی رابطہ عالم اسلامی کی اس کا نفرنس سے صرف تین ماہ قبل.ظاہر ہے یہ بات امریکی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے لئے پریشان کن تھی.اس سے قبل کہ سوویت یونین افغانستان میں فوجیں داخل کرتا امریکہ کی حکومت افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف محاذ بنانے والے مجاہدین کے گروہوں کی مدد شروع کر چکی تھی اور ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ایسا عمداً کیا گیا تھا تا کہ سوویت یونین افغانستان میں اپنی افواج داخل کر لے اور افغانستان سوویت یونین کا ویتنام ثابت ہو.(Robert Worley 2015 Cold War Strategies.Orchestrating the Instruments of Power: A Critical Examination of the U.S.National Security System.University of Nebraska Press.p.159) (Ali Riaz (2008).Faithful Education: Madrassahs in South Asia.Rutgers University Press.p.104) 134

Page 153

سوویت یونین نے دسمبر 1979ء میں افغانستان میں فوجیں داخل کر لیں اور پھر افغانستان میں ایک دہائی کی خانہ جنگی کا آغاز ہوا.اس خانہ جنگی میں جسے اُس وقت افغانستان جہاد“ کہا جاتا تھا، امریکہ نے سی آئی اے کی وساطت سے جنرل ضیاء صاحب کی حکومت اور جنگ کرنے والے افغان گروہوں کو اربوں ڈالر کی مدد دی.امریکہ نے کامیابی سے اپنے اہداف حاصل کر لئے اور افغانستان کو سوویت یونین کا ویتنام بنا دیا لیکن اس ساری جنگ میں پاکستان کو شرکت کرنے کی جو بھاری قیمت دہشتگردی اور مذہبی تنگ نظری کی صورت میں ادا کرنی پڑی اس کا قرضہ شود در شود پاکستان ابھی تک ادا کر رہا ہے اور خدا جانے یہ منحوس سلسلہ کب تک چلے گا؟ خدا پاکستان کو تمام مشکلات سے نجات دے.آمین تمام سیاسی بحثوں سے گریز کرتے ہوئے ہم ایک بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 76 پر جلی حروف سے لکھا ہے: "Qadianism is the step-daughter of British Imperialism it survives only under its guardianship and protection." ترجمه: قادیانیت برطانوی استعمار کی سوتیلی بیٹی ہے اور صرف اس کی سر پرستی اور حفاظت میں زندہ رہ سکتی ہے.ہر ایک کو اپنی رائے کا حق ہے خواہ ہم اُس سے متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ جب اس کے فوراً بعد پاکستان میں مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی مدد کا سیلاب امڈ آیا تو وہ ان گروہوں کو دی گئی جو جماعت احمدیہ کی پر تشد د مخالفت کے داعی تھے اور پاکستان کی اس حکومت کو دی گئی جو کہ جماعت احمدیہ کی سب سے زیادہ مخالف تھی.اس موضوع پر پاکستان میں ہونے والی بہت سی تحقیق سامنے آچکی ہے.اُس دور میں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اور جس کے آغاز پر رابطہ عالم اسلامی کی یہ قرارداد 1978ء میں 135

Page 154

منظور کی گئی تھی اور اس میں یہ واویلا بھی کیا گیا تھا کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں ہیں اور مغربی طاقتوں کے اشاروں پر مسلمانوں کے خلاف کام کر رہے ہیں.اُس وقت مغربی طاقتیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے خود ایک بین الاقوامی جہاد کی حوصلہ افزائی کر رہی تھیں اور مالی طور پر بھی نواز رہی تھیں اور پاکستان اور سعودی عرب دونوں مکمل طور پر ان کا ساتھ دے رہے تھے اور یہ سب کچھ جماعت احمدیہ کے اشد مخالفین جنرل ضیاء الحق صاحب اور سعودی عرب کے شاہی خاندان مل کر کر رہے تھے اور یہ سب کچھ مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی حکومت کے باہمی تعاون اور مشترکہ منصوبہ بندی سے ہو رہا تھا.چنانچہ اُس وقت کے امریکہ کے صدر کارٹر کے مشیر برائے نیشنل سیکیورٹی Zbigniew Brzezinski اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان آکر جنرل ضیاء صاحب سے ملاقات کی اور افغانستان میں سوویت یونین کی مخالفت میں منصوبہ پر مذاکرات کئے.جنرل ضیاء الحق صاحب نے ہی یہ مشورہ دیا کہ فی الحال بہتر یہ ہوگا کہ پاکستان بظاہر امریکہ سے ذرا فاصلہ رکھے اور دنیا کو یہی نظر آئے کہ مسلمان ممالک اس معاملہ میں پاکستان کی مدد کر رہے ہیں.چنانچہ اس مشورہ کے بعد Zbigniew Brzezinski سعودی عرب گئے اور شاہ خالد کو اس منصوبے پر آمادہ کیا اور خود برززنسکی صاحب لکھتے ہیں کہ اس وقت کی سعودی حکومت امریکہ کی بہت زیادہ حامی تھی اور اس وقت سعودی عرب کے دفاع کو بہتر بنانے کا منصوبہ مکمل طور پر امریکہ کی حکومت کے اراکین ہی بنارہے تھے.(Power and Principle, by Zbigniew Brzezinski, published by Weidenfeld and Nicolson 1983p 449,454) ایک اور پہلو کے ذکر کے بغیر یہ بات ادھوری رہ جائے گی.اُس وقت ”جہاد“ کی اہمیت اتنی تھی کہ خود امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر برزنسکی (Zbigneiw Brzezinski) 136

Page 155

پاکستان آکر مجاہدین کو یقین دلاتے تھے کہ ہمیں معلوم ہے کہ تمہیں خدا پر گہرا ایمان ہے اور تم ضرور کامیاب ہو گے کیونکہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اور سامنے کھڑے ہوئے نام نہاد مجاہدین یہ تقریر سن کر بچوں کی طرح تالیاں پیٹ رہے ہوتے تھے.یہ تقریر یوٹیوب پر موجود ہے اور ملاحظہ کی جاسکتی ہے.اس کا لنک ذیل میں درج کیا جارہا ہے.(https//www.youtube.com/watch v=A9RCFZnWGE0) جیسا کہ یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ رابطہ عالم اسلامی کی تنظیم جو یہ الزام لگا رہی تھی کہ نعوذ باللہ جماعت احمد یہ صرف مغربی استعماری طاقتوں کی حفاظت اور سر پرستی میں کام کر سکتی ہے، وہ خود سعودی عرب کی مالی مدد اور سر پرستی کے تحت کام کر رہی تھی اور اب تک کر رہی ہے.اور اُس وقت یعنی 1978ء کے آخری نصف میں جب سعودی عرب کو یہ خطرہ ہوا کہ ایک مسلمان ملک ان پر حملہ کر سکتا ہے تو خود سعودی عرب امریکہ کی حفاظت کا مرہون منت تھا.سابق صدر کا رٹر بیان کرتے ہیں کہ اس وقت امریکہ نے 1978 ء میں اپنی ایئر فورس کے جہاز سعودی عرب میں متعین کئے ہوئے تھے تاکہ اُن کی حفاظت کر سکیں.اس پس منظر میں رابطہ عالم اسلامی کا جماعت احمدیہ پر یہ الزام مضحکہ خیز تھا.اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ خود جماعت احمدیہ کے خلاف الزام لگانے والے اپنے لئے مغربی طاقتوں کی حفاظت کے محتاج تھے.(Keeping Faith, by Jimmy Carter, published by Bantam Books November 1982.P 559) مذہبی مدرسوں کا کردار چنانچہ مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں چلنے والے اس جہاد کے لئے لڑنے والے بھی تو چاہیے تھے اس کا انتظام بھی کیا گیا.چنانچہ 1970ء کی دہائی کے آخر میں پاکستان میں 137

Page 156

دینی مدارس کی تعداد 900 تھی جن میں 30000 طلباء موجود تھے.جب اس جہاد کا اعلان کیا گیا تو ان مدارس میں تعداد میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا.چنانچہ اس موضوع پر اب بہت سے ریسرچ پیپر سامنے آچکے ہیں کہ پاکستان میں ان مدرسوں کا فروغ Operation Cyclone کا حصہ تھا.یہ وہ آپریشن تھا جو صدر کارٹر کے دور میں ہی افغانستان میں سوویت یونین کے اثر کو روکنے کے لئے بنایا گیا تھا.پہلے اس کے لئے پانچ سو ملین ڈالر مختص کئے گئے اور بعد میں ایک مرحلہ پر چار ارب ڈالر بھی اس آپریشن کو آگے بڑھانے کے لئے دیئے گئے اور اس کے مقاصد میں ایک یہ بھی تھا کہ پاکستان میں جہادی کلچر کو فروغ دیا جائے اور ان مدرسوں کا قیام اس کا ایک اہم حصہ تھا اور اس کے نتیجہ میں دیکھتے دیکھتے پاکستان میں مدرسوں کی تعداد حیران کن حد تک بڑھ گئی.بہت سی تحقیقات میں سے ایک کا حوالہ درج کیا جا رہا ہے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اس سے ان حقائق کی تصدیق کی جاسکتی ہے.(Ali Riaz).2005).Global jihad, sectarianism and the madrassahs in Pakistan).RSIS Working Paper, No.85).Singapore: Nanyang Technological University).اور ان مدارس کی سر پرستی وہ عرب ممالک بھی کر رہے تھے جو کہ مغربی طاقتوں کے اتحادی تھے اور افغانستان کی جنگ ختم ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور 2008ء میں ایک تخمینہ کے مطابق ان کی تعداد 45000 تک پہنچ گئی ہے اور ان میں چالیس لاکھ سے زیادہ طلبا تعلیم پارہے ہیں.جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے مغربی طاقتوں نے تو اپنے اہداف حاصل کر لیے.افغانستان کو سوویت یونین کا ویتنام بنادیا گیا لیکن اس کے لئے جو لاکھوں لوگ دونوں اطراف سے مارے 138

Page 157

گئے وہ یا تو افغانستان کے تھے یا پاکستان اور کسی حد تک دوسرے مسلمان ممالک کے تھے.بڑی طاقتوں نے اس جہاد کے لئے از راہ شفقت صرف اسلحہ اور ڈالر عطا کئے تھے.جب یہ جنگ ختم ہوئی تو تقسیم کیا ہوا اسلحہ اور تیار کئے ہوئے جنگجو پاکستان کے لئے وبال جان بن گئے اور دہشت گردی کا وہ خوفناک سلسلہ شروع ہوا جس کی قیمت پاکستان آج تک ادا کر رہا ہے.(World Powers Rivalry in Afghanistan and Its Effects on Pakistan by Muhammad Karim.The Dialogue Vol XII no 3.p 247-261) جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.واقعی جماعت احمدیہ کسی ایسے ”جہاد“ کا حصہ نہیں رہی جس کو چلانے کے لئے ایڈ (Aid) کے ڈالروں کی اور جس میں نصرت الہی کی خوش خبری دینے کے لئے برززنسکی صاحب کی ضرورت پڑے.جماعت احمد یہ ایک غریب جماعت ہے.اس کی تاریخ کا خلاصہ درج ذیل آیت ہے الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران: 174) ترجمہ: ( یعنی ) وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا تمہارے خلاف لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں پس ان سے ڈرو تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھا دیا.اور انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے.تاریخی واقعات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم بارہا یہ منظر دیکھتے ہیں کہ ایک عمل یہ نعرہ لگا کر شروع کیا جاتا ہے کہ قادیانی ”بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور اس طرح عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں.اور بعد میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جماعت کے مخالفین کے اس عمل سے انہی بیرونی طاقتوں کی مدد مقصود تھی جن کے آلہ کار ہونے کا الزام جماعت احمدیہ پر لگایا جا رہا تھا.یہی صورت ان مدرسوں میں عسکریت کے آغاز کو فروغ 139

Page 158

دینے کے معاملے میں نظر آتی ہے.66 چنانچہ مجاہد حسین صاحب اپنی کتاب ” پنجابی طالبان میں تحریر کرتے ہیں کہ سب سے پہلے پاکستان کے مدرسوں میں عسکری تربیت دینے کا کام 1973ء میں شروع کیا گیا.اور مسعود علوی صاحب نے ملتان میں ایک تنظیم جمعیت المجاہدین کی بنیا د رکھی اور اس کا سب سے پہلا نشانہ احمدی ہی تھے.جب مفتی محمود صاحب سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے تحریک ختم نبوت کے راہنما خواجہ محمد احمد خان کے ساتھ کہنیاں میں مدرسوں کے ان طالب علموں کی عسکری صلاحیتوں کا مظاہرہ دیکھا.انہی مسعود علوی صاحب نے اسد کے بعد خالد یہ نام کا مدرسہ قائم کیا جس میں عسکری تربیت لازمی تھی.افغانستان میں مدرسوں کی طرف سے جو پہلا دستہ بھجوایا گیا وہ مسعود علوی صاحب نے ہی بھجوایا تھا.اس کے بعد مختلف مدر سے Operation Cyclone کی بھر پورا عانت وخدمت کرتے رہے.پنجابی طالبان مصنفہ مجاہد حسین صاحب.ناشر سانجھ مارچ 2011 صفحہ 98-99) اسرائیل اور بڑی طاقتوں کے ساتھ ساز باز کون کر رہا تھا ؟ جیسا کہ حوالہ درج کیا گیا تھا کہ 1978 ء میں رابطہ عالم اسلامی کی اس قرارداد میں احمدیوں پر صیہونیت سے بھی وابستہ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا.تاریخ کا ہر طالب علم یہ جاننا پسند کرے گا کہ اُس وقت مسلمان ممالک اور اسرائیل میں کیا معاملات چل رہے تھے.اس کے بعد ہی ہم اس الزام کے بارے میں رائے قائم کر سکیں گے.یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ کسی ملک یا کسی سیاستدان کے فیصلوں پر تنقید کی جائے.ہر ملک کے قائدین آزاد ہیں وہ جیسا پسند کریں فیصلے کریں اور وہ اس کے بارے میں صرف اپنے ملک کے منتخب نمائندوں اور ملک کے عوام کو جوابدہ ہیں.یہاں صرف 140

Page 159

کچھ حقائق پیش کئے جارہے ہیں جن سے ہمیں اس الزام کو پر کھنے میں مددمل سکتی ہے.جس وقت کراچی میں یہ کانفرنس ہوئی اور اس میں جماعت احمدیہ پر صیہونیت کی اندھا دھند پیروکار ہونے کا الزام لگایا گیا.اس دور میں امریکہ کے زیر سر پرستی یہ کوششیں ہو رہی تھیں کہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان معاہدے ہو جائیں اور عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے سفارتی تعلقات قائم کر لیں.عرب ممالک میں سے اکثر کی رائے تھی کہ تمام عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان اکھٹی مفاہمت ہو اور ایک ساتھ عرب ممالک کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں لیکن اسرائیل اور امریکہ کی کوشش تھی کہ اسرائیل کے عرب ممالک سے علیحدہ علیحدہ صلح کے معاہدے ہوں اور اس کوشش کے خلاف اکثر عرب دنیا میں شدید رد عمل پایا جاتا تھا.مصر کے انورالسادات اس بات کے حامی تھے کہ مصر اور اسرائیل میں علیحدہ معاہدہ ہو جائے اور یہ معاہدہ آخر میں ستمبر 1978ء میں Camp David Accord کی صورت میں سامنے آیا اور اس کی وجہ سے انور السادات صاحب کو ملک کے اندر اور عرب ممالک کے اکثر حصہ کی ناراضگی مول لینی پڑی اور آخر میں انہیں قتل بھی کر دیا گیا.اس وقت یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب باقی عرب عوام اور عرب ممالک کی حکومتوں کی طرح اس معاہدے کے سخت خلاف ہے اور اس معاہدے کے بعد بھی اس معاہدے کے خلاف بظاہر سعودی عرب کا شدید ناراضگی والا رد عمل سامنے آیا لیکن آہستہ آہستہ شواہد سامنے آتے گئے کہ یہ سب کچھ صرف دکھانے کے لئے تھا.پس پردہ سعودی عرب ان مذاکرات اور اس معاہدے کی پوری حمایت کر رہا تھا اور امریکہ کی حکومت سے تعاون کر رہا تھا.چنانچہ اُس وقت کے امریکی صدر کے مشیر برززنسکی صاحب لکھتے ہیں کہ جب اس 141

Page 160

سلسلہ میں فروری 1978ء میں مصر میں صدر کارٹر اور صدر انور السادات کی ملاقات ہونے سے قبل ہی سعودی عرب میں امریکہ کے صدر اور سعودی فرمانروا میں ملاقات ہو چکی تھی اور سعودی لیڈروں کو اعتماد میں لیا جا چکا تھا.اس کے بعد برززنسکی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُس وقت سعودی حکومت سے ایک Secret Pledge حاصل کر لیا تھا کہ اسرائیل اور مصر کے معاہدے کے بعد سعودی عرب مصر کے خلاف ایسی پابندیاں نہیں لگائے گا جو اسے نقصان پہنچاسکیں اور سابق امریکی صدر کا رٹرا اپنی کتاب Keeping Faith میں لکھتے ہیں کہ اس معاہدے کے فوراً بعد انہیں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد نے ان مذاکرات میں اپنی حمایت کا یقین دلا دیا تھا.اور اسی قسم کا پیغام سعودی ولی عہد شہزادہ فہد کی طرف سے بھی ملا تھا اور بعد میں CIA نے خفیہ دستاویزات declassify کیں تو ان سے بھی یہ چیز ثابت ہو گئی.اگر چہ 1978ء کے معاً بعد یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب بھی دوسرے عرب ممالک کی طرح اسرائیل سے ہونے والے معاہدے کے شدید خلاف ہے.( Power and Principle, by Zbigniew Brzezinski, published by Weidenfeld and Nicolson 1983p 239.240.286) ( Keeping Faith, by Jimmy Carter, published by Bantam Books November 1982.P408) ظاہر ہے کہ اگر اُس وقت یہ راز فاش ہو جاتا کہ سعودی عرب کی حکومت ان مذاکرات کی حمایت کر رہی ہے تو انہیں شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا اور جس طرح صدر سادات پر امریکہ اور اسرائیل کے سامنے جھکنے کے الزامات لگ رہے تھے ، سعودی عرب کی حکومت کو بھی انہیں الزامات کا سامنا پڑتا اور اُس وقت اکثر عرب دنیا اسے غداری قرار دے رہی تھی.شاید اسی لئے حفظ ما تقدم کے طور پر رابطہ عالم اسلامی نے یہی مناسب سمجھا ہو کہ شور مچا کر 142

Page 161

دوسروں پر یہ الزام لگادیا جائے لیکن حقائق یہی تھے جو کہ درج کر دیئے گئے ہیں.اس پس منظر میں سعودی سر پرستی میں کام کرنے والی کسی تنظیم کا یہ الزام کہ احمدی نعوذ باللہ صیہونیت کے پیروکار ہیں ایک مضحکہ خیز الزام ہے اور اسے سنجیدگی سے بھی نہیں لیا جا سکتا.ان حقائق کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جب کوئی شخص یا کوئی تنظیم یا کوئی گروہ جماعت احمد یہ پر یہ مغربی طاقتوں کا یا اسرائیل کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتا ہے تو اس شخص ، گروہ یا تنظیم کی تحقیقات ہونی ضروری ہیں کہ کہیں وہ خود تو اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے.احمدیوں کے خلاف قتل مرتد کے فتوے سے ملک میں بغاوت تک کا خون ریز سفر اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں ایک مطالبہ کا بار بار ذکر ملتا ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح یہ معلوم ہو جائے کہ پاکستان میں احمدی کہاں کہاں ہیں؟ کون کون احمدی ہے؟ Identify کا لفظ بار بار استعمال کیا گیا ہے یعنی جب بھی احمدی اپنی معمول کی زندگی گزار نے کے لئے یا ملازمت کی تلاش کے لئے نکلیں تو ہر مرحلہ پر واضح ہو جائے کہ یہ شخص احمدی ہے.کوئی تو امتیازی نشان ایسا ہو کہ راہ چلتے بھی معلوم ہو سکے کہ یہ احمدی جا رہا ہے اور اس فیصلہ میں بار بار لکھا گیا ہے کہ احمدیوں کی کسی طرح ایک مکمل اور صحیح لسٹ بن جائے.حکومت عقائد کی چھان بین کا کوئی ایسا سائنسی طریقہ دریافت کرے کہ مکمل طور پر علم ہو جائے کہ ہر شہری کے عقائد کیا ہیں اور اس طرح احمدیوں کی صحیح تعداد بھی معلوم ہو جائے.اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ نادرا ( Nadra) کا ریکارڈ نامکمل ہے اور اس میں سارے احمدی شامل نہیں ہیں.143

Page 162

احمدیوں کو شناخت کرنے اور ان کی لسٹ بنانے کا مطالبہ ایک Amicus Curiae ( وہ ماہرین جنہیں عدالت اپنی اعانت کے لئے طلب کرتی ہے ) نے اس مطالبہ کا جواز قرآن کریم سے پیش کرنے کی کوشش میں کہا: "While taking guidance from the verse 10 of Surah Mumtahinah, the learned amicus curiae has contended that the Islamic State can examine any of its individuals to identify the veracity of claim about his religion." (page 27) ترجمہ: سورۃ ممتحنہ کی آیت 10 سے راہنمائی لیتے ہوئے فاضل ماہر نے کہا کہ اسلامی ریاست کسی بھی فرد کے عقائد کے بارے میں دعاوی کی سچائی جاننے کے لئے تحقیقات کر سکتی ہے.اس آیت میں یہ مضمون نہیں بیان ہوا کہ ریاست ہر کسی کے عقائد کی چھان بین شروع کر سکتی ہے.اس آیت کریمہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب مومن عور تیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو ان کا امتحان کر لیا کرو اور اگر وہ واقعی مومن ہوں تو انہیں کفار کی طرف مت لوٹاؤ.یہ تو ظاہر ہے کہ اُس وقت مکہ کے مشرکین اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی تھیں اور ان حالات میں اگر دشمن کی ریاست سے کوئی عورت مدینہ آجاتی تو احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ اس سے سوالات کر لئے جائیں کہ یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟ اس کی مصلحت ظاہر ہے.اس آیت کریمہ کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں کہ اسلامی ریاست کو یہ اختیار ہے کہ اپنے شہریوں کے عقائد کے بارے میں کرید کرید کر چھان بین کرتی پھرے.یہ اسی طرح تھا جس طرح موجودہ دور میں جب ایک ملک سے کوئی دوسرے ملک جائے خواہ مکمل امن کی حالت میں ایسا کیا جائے تو ویزا دینے سے قبل بنیادی سوالات کئے جاتے ہیں 144

Page 163

البتہ یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس آیت کریمہ پر کس طرح عمل کیا جاتا تھا.تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہوا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ حضوران عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے؟ فرمایا کہ اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ اپنے خاوند سے ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی.صرف آب و ہوا اور زمین تبدیل کرنے کے لئے بطور سیر و سیاحت نہیں آئی.کسی دنیا طلبی کی وجہ سے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں ہے.“ ( تفسیر ابن کثیر اردو ترجمہ از مولانامحمد جونا گڑھی جلد 6 ، ناشر فقہ الحدیث پبلیکیشنز مارچ 2009، صفحہ 301) اس روایت سے ظاہر ہے کہ اس آیت میں عقائد کی تفصیلات کا جائزہ لینے کا ذکر نہیں ہے کیونکہ ان سوالات میں تو یہ ذکر ہی نہیں کہ یہ دریافت کیا جاتا ہو کہ آنے والی عورت کے عقائد کیا ہیں؟ درخواست گزاروں کے وکیل نے احمدیوں کے بارے میں استدعا کی : "Therefore, a direction to maintain separate database (as prayed in Clause "b" of Prayer clause of Writ Petition is extremely essential." (page 10) ترجمہ : چنانچہ یہ ضروری ہے کہ جیسا کہ درخواست گزار bانے استدعا کی ہے ان کی علیحدہ فہرست بننے کی ہدایت دینا نہایت ضروری ہو گیا ہے.ایک Amicus Cure (عدالت کے مددگار ماہر ) نے تجویز دی Before induction of persons in sensitive institutions a thorough investigation about their faith may be conducted 145

Page 164

with the help of the religious experts and psychiatrists (page 20) ترجمہ: حساس اداروں میں ملازم رکھنے سے پہلے درخواست دہندہ کے ایمان کی تفصیلی تحقیق مذہب کے ماہرین اور ماہرین نفسیات سے کروالینی چاہیے.عدالت نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہ کوئی احمدی اس لسٹ سے باہر نہ رہ جائے فیصلہ میں لکھا " 'State of Pakistan, needs to reconcile these figures by adopting certain procedures and evolving scientific measures to know exact number of this minority." (page 167) ترجمہ: ان اعداد و شمار میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے پاکستان کی ریاست کو چاہیے کہ ایسے طریقے وضع کرے اور ایسے سائنسی طریقے تیار کرے کہ اس اقلیت کی معین تعداد معلوم ہو جائے.اور صفحہ 169 پر یہ تشویش ظاہر کی گئی کہ حلیے سے اندازہ نہیں ہوتا کہ کون احمدی ہے؟ گویا کوئی تو امتیازی نشان ہونا چاہیے.شناخت کرنے اور مکمل فہرستیں بنانے پر اصرار کیوں؟ آخر ماہرین نفسیات سے مدد لے کر اور سائنسی طریقوں سے پر کھ کر یہ سب کچھ معلوم کرنے کی اتنی شدید خواہش کیوں ہے کہ احمدی کون ہے؟ چنانچہ یہ تسلی بھی دی گئی کہ ہم احمدیوں کی صحیح فہرست اس لئے تیار کر رہے ہیں تا کہ اُن کے حقوق کی حفاظت بخوبی کر سکیں جیسا کہ صفحہ 30 پر ایک Amicus Curiae کی یہ رائے درج ہے 146

Page 165

"In order for the State to provide protection to minorities - not only their person or property but also to their religion conscience and religious practices - and to ensure that they have adequate freedom to lead their lives according to the dictates of their creed, inevitably requires their identification to the State." ترجمہ: اقلیتوں سے وابستہ افراد کی ، ان کی جائیدادوں کی ، ان کے مذہبی ضمیر کی اور ان کی مذہبی رسومات کی حفاظت کے لئے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ انہیں اپنے عقیدے کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کافی آزادی حاصل ہو، یہ ضروری ہے کہ ریاست کو ان کی شناخت ہو.اب یہ سوال لازماً اُٹھے گا کہ ریاست ان کے حقوق کی حفاظت کس طرح کرے گی ؟ چنانچہ 1984ء کے حالات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اس منصوبہ کی بھی کچھ جھلک نظر آجاتی ہے.چنانچہ اس فیصلہ کے صفحہ 76 پر لکھا ہے کہ 27 اپریل 1984 ء کو تحریک ختم نبوت کا راولپنڈی میں اجلاس ہوا جس میں اس تحریک نے اپنے آٹھ مطالبات پیش کئے.باقی مطالبات کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا، فی الحال ان مطالبات میں سے چوتھا مطالبہ ملاحظہ ہو "Implementation of recommendation of the Council of Islamic Ideology regarding Qadianis.( The Council proposed death penalty for an apostate.)" ترجمه: قادیانیوں کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کیا جائے.اس کونسل نے مرتد کی سزا کے لئے سزائے موت کی تجویز دی تھی.) 147

Page 166

جماعت احمدیہ کے مخالفین کا یہ بھی ایک دیرینہ مطالبہ ہے.کچھ دیر کے لئے یہ بحث چھوڑتے ہوئے کہ پیدائشی احمدیوں کو بھی کس طرح مرتدین میں شمار کرتے ہیں؟ پہلے یہ ملاحظہ کریں کہ یہ سفارش کسی مولویوں کے مدرسہ کی نہیں تھی ، کسی جلسہ میں جذبات سے بے قابو مقرر کی نہیں تھی بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تھی.یہ اسلامی نظریاتی کونسل کیا ہے؟ یہ کونسل آئین پاکستان کی شق نمبر 228 تا 231 کے تحت قائم کی جاتی ہے اور اس کا کام حکومت اور پارلیمنٹ کو یہ مشورہ دینا ہے کہ مختلف قوانین کو کس طرح اسلامی قوانین سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے یا اسلامی احکامات کی روشنی میں کس طرح قانون سازی کی جاسکتی ہے.اُس وقت ملک میں جنرل ضیاء صاحب کا مارشل لاء لگا ہوا تھا اور یکلخت اسلامی نظریاتی کونسل کو خود یہ خیال نہیں آیا تھا کہ یہ مسئلہ چھیڑ دیتی ، حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت خود حکومت کی وزارت دفاع نے یہ سوال اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا تھا کہ اگر دفاعی سروس کے دوران کوئی شخص احمدی ہو جائے تو پھر اس پر کیا ردعمل ہونا چاہیے.( Persecution of Ahmadis in Pakistan.An objective study, by Mujeeb-ur-Rahman p 21) یہاں اگر یہ موہوم امید پیدا ہو کہ یہ تو اُن لوگوں کے لئے ہے جو خود احمدی ہوئے تھے اور ان کا اثر اُن پر نہیں پڑے گا جو کہ پیدائشی احمدی ہیں.تو اس کا حل بھی ایک Amicus Curiae یعنی حسن مدنی صاحب نے تجویز فرمایا ہے.اس فیصلہ کے صفحہ 20 پر اُن کی یہ رائے درج ہے."The learned Amicus Curiae has also contended that non-Muslims in an Islamic State are not entitled to pose themselves as Muslims and if they do so, it falls within the ambit of high treason, and disloyalty to the State of 148

Page 167

highest order.The learned Amicus Curiae in this regard has cited examples of treatment meted to Zanadiqa by the forth righteous Caliph Hazrat Ali (R.A)." ترجمہ: فاضل ماہر نے یہ رائے بھی دی کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلم کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ مسلمانوں جیسے انداز اپنائے.اگر وہ ایسا کریں تو یہ انتہائی غداری اور ریاست سے بغاوت کے زمرہ میں آتا ہے.اور فاضل ماہر نے اس سلسلہ میں چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زندیقوں سے جو سلوک کیا تھا، اس کی مثال دی.( جماعت کے مخالف علماء کے نزدیک زندیق کی سزا موت ہے.) یہ ظاہر ہے کہ اگر یہ سوچ لے کر قانون سازی کی جائے اور فیصلے کئے جائیں ایسی اندھیر نگری میں ہر احمدی کی روزمرہ کی زندگی بھی سنگین غداری شمار ہوگی.اس طرح کی فہرستیں کب بنائی جاتی ہیں؟ اس طرح کی فہرستیں اور لسٹیں کہاں بنائی جاتی ہیں؟ ہمیں دنیا کی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے.بدقسمتی سے گزشتہ سو برس میں دنیا میں کئی ملکوں میں تعصب اس حد تک بڑھا کہ Genocide ( قتل عام یا نسل کشی) کے منصوبے بنائے گئے اور کئی ممالک میں اس کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا خواہ وہ جرمنی کی نازی پارٹی کا holocaust ہو، خواہ بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہو یا روانڈا اور برونڈی میں قبائلی تفریق کی بنا پر ہونے والا قتل عام ہو.گزشتہ سوڈیڑھ سوسال میں کروڑوں لوگوں کو اس طرح بربریت سے قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا.اس دور میں ماہرین نے سائنسی طور پر اس عمل کا تجزیہ کیا ہے اور ادارے Genocide Watch نے اس تحقیق کو مشتہر بھی کیا ہے اور یہ طے کیا کہ دس مراحل میں یہ عمل اپنی منحوس تکمیل کو پہنچتا ہے.149

Page 168

یہ تفاصیل Genocide Watch کی سائٹ پر موجود ہیں.ہر پڑھے لکھے کو ان کا مطالعہ کرنا چاہیے.اس عمل کا پہلا مرحلہ Classification ہے یعنی مذہب کو یا نسل کو یا کسی اور چیز کو بنیاد بنا کر معاشرے کو خود تقسیم کیا جاتا ہے.دوسرا مرحلہ Symbolization ہے یعنی جس گروہ کے خلاف نفرت انگیزی کی جانی ہوا سے کوئی نام دیا جاتا ہے جس سے نفرت وابستہ کر دی جاتی ہے.چھٹا مرحلہ preperation یعنی تیاری کا ہوتا ہے اور آٹھواں مرحلہ Persecution کا ہے.اس کے متعلق Genocide Watch کا کہنا ہے."Victims are identified and separated out because of their ethnic or religious identity.Death lists are drawn up.In state sponsored genocide, members of victim groups may be forced to wear identifying symbols." ترجمہ: نشانہ بننے والوں کو شناخت کیا جاتا ہے اور دوسروں سے نسل یا مذہب کی بنیاد پر علیحدہ کر کے شناخت کیا جاتا ہے اور موت کی فہرستیں بنائی جاتی ہیں.جس قتل عام کی سر پرستی ریاست کر رہی ہو اس میں نشانہ بننے والے گروہوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ دوسروں سے علیحدہ کرنے والے امتیازی نشان پہنیں.اس ادارے کا انتباہ ہے کہ جب یہ مرحلہ آئے تو یہ ایک ایمر جنسی ہے.فوراً اس کی روک تھام کو حرکت میں آنا چاہیے.[http//:genocidewatch.org/genocide/ten stagesofgenocide.html- accessed on 5.9.2018 پاکستان میں قتل مرتد کے مسئلہ کی ابتدا جماعت احمدیہ کے ایک مخالف مولوی شبیر عثمانی صاحب تھے جو کہ پاکستان کی مرکزی 150

Page 169

اسمبلی کے ممبر بھی تھے.آزادی سے قبل 1924ء میں جب افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ نے عقیدہ کی بناء پر ایک احمدی مولوی نعمت اللہ صاحب کو سر عام سنگسار کیا تو ہندوستان میں اس موضوع پر بحث چھڑ گئی.اس مرحلہ پر شبیر عثمانی صاحب نے اس سزائے موت کے دفاع کے لئے اس موضوع پر ایک کتا بچہ تحریر کیا کہ نعوذ باللہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے.پاکستان بننے کے صرف اڑھائی سال کے بعد جماعت احمدیہ کے مخالفین نے اس کتا بچہ کے مصنف کی اجازت سے اس کو شائع کیا اور مخالفین جماعت نے جلسوں میں یہ اپیلیں شروع کیں کہ لوگ اسے پڑھیں اور تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق اس کی اشاعت کے بعد پاکستان میں احمدیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا.اور جلسوں میں با قاعدہ لوگوں نے کھڑے ہوکر اعلان شروع کئے کہ وہ فلاں فلاں احمدی کو خود قتل کریں گے.رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953 ، صفحہ 18 ، 24،21) اور جون 1951ء میں جماعت اسلامی کے بانی مودودی صاحب نے بھی ایک کتاب ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں لکھ کر مرتد کے لئے قتل کی سزا تجویز کی.ملاحظہ کریں کہ یہ سب کچھ اُس وقت کیا جا رہا تھا جب پاکستان کو بنے صرف اڑھائی تین سال ہوئے تھے.ابھی پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا.مالی مسائل ہوں یا ملک کے دفاع کا مسئلہ ہو ملک ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا تھا اور ابھی ملک کا آئین بھی نہیں بنا تھا اور ان احباب کو فکر کیا پڑی ہے؟ کہ مرتد کو قتل کر دو.بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے.جنوری 1950 میں بھارت میں آئین بن کر پارلیمنٹ سے منظور ہو کر نافذ ہو چکا تھا اور پاکستان میں بجائے اس کے کہ ملک کو آئین دے کر آگے بڑھتے یہ بحث شروع کر دی گئی کہ مرتد کو قتل کرنا ہے کہ نہیں.اس کے جو نتائج برآمد ہوئے وہ سب جانتے ہیں.151

Page 170

قرآن کریم سے دلائل اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ مولوی شبیر عثمانی صاحب اور مودودی صاحب نے قرآن کریم سے اس نظریہ کے حق میں کیا دلائل دیئے تھے؟ شبیر عثمانی صاحب نے اپنے کتا بچہ کے پہلے 26 صفحے تو احمدیوں کو مرتد ثابت کرنے میں صرف کئے.پھر ذکر شروع ہوا که قرآن کریم میں کہیں ذکر آیا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے؟ تو پہلے یہ دعویٰ پیش کیا گیا کہ یوں تو بہت سی آیات سے قتل مرتد ثابت ہوتا ہے اور پھر صفحہ 30 پر لکھتے ہیں کہ ایک آیت ایسی ہے جس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یقینی طور پر ( نعوذ باللہ ) قرآن کریم میں مرتد کی سز اقتل بیان ہوئی ہے اور یہی اسلام میں حکم بیان ہوا ہے کہ مرتد کو قتل کر نالازمی ہے.ملاحظہ کریں کہ کون سی آیت پیش کی گئی.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِالْخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِيَّكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِيكُمْ (البقرة : 55) اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم یقینا تم نے بچھڑے کو (معبود) بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا.پس تو بہ کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف متوجہ ہو اور 66 اپنے نفوس کو قتل کرو.یہ تمہارے لئے تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہت بہتر ہے.“ شبیر عثمانی صاحب کے نزدیک بنی اسرائیل کے ان لوگوں کو حکم دیا گیا تھا جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی تھی کہ وہ اپنے اُن رشتہ داروں کو قتل کریں جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی.جماعت احمدیہ کے نزدیک اپنے نفوس کو قتل کرنے سے مراد یہ ہے کہ اپنے نفوس کو مارو یعنی اپنے گناہوں سے تو بہ کرو.البتہ دیگر علماء میں سے بہت سے اس کا یہ مطلب لیتے 152

Page 171

ہیں کہ ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دو.اس بحث کو اگر ایک طرف رہنے دیں تو بھی یہاں مسلمانوں کو کوئی حکم دیا ہی نہیں گیا.یہاں تو ایک مخصوص موقع پر بنی اسرائیل کو ایک حکم دینے کا ذکر ہے.اور اُن کو بھی کوئی عمومی حکم نہیں کہ جب بھی کوئی مرتد ہو تو اُسے قتل کر دو.شبیر احمد عثمانی صاحب اس کا یہ حل تجویز کرتے ہیں." کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ موسوی شریعت کا ہے.امت محمدیہ کے حق میں اس سے تمستک نہیں کیا جا سکتا لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پہلی امتوں کو جن شرائع اور احکام کی ہدایت کی گئی ہے اور قرآن نے اُن کو نقل کیا ہے وہ ہمارے حق میں بھی معتبر ہیں اور ان کی اقتدا کرنے کا امرہم کو بھی ہے جب تک کہ خاص طور پر ہمارے پیغمبر اور ہماری کتاب اس حکم سے ہم کو علیحدہ نہ کر دیں.“ (الشهاب مصنفہ شبیر احمد عثمانی ، ناشر ادبی کتب خانه ملتان صفحه 33 و 34 ) اگر شبیر احمد عثمانی صاحب کا استدلال قبول کیا جائے تو پھر قرآن کریم کی ایک آیت ہے.وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّ أَلِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَ اجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةٌ- (يونس: 88) ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ تم دونوں اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر تیار کرو اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ رکھو.اس طرح تو پھر اس سے یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ مسلمانوں پر بھی فرض ہے کہ اپنے گھروں کو قبلہ رُخ بنا ئیں.کو فرمایا: اسی طرح قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل 153

Page 172

يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ - (المائدة: 22) ترجمہ: اے میری قوم ارض مقدس میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھی ہے.اگر شبیر احمد عثمانی صاحب کا نظریہ تسلیم کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ فلسطین جا کر آباد ہو جائیں.1953ء کے فسادات پنجاب پر بننے والی تحقیقاتی عدالت میں بھی الشہاب“ کو پیش وو کیا گیا تھا.اس کتا بچہ کے پیش کردہ نظریات پر تحقیقاتی عدالت کا تبصرہ یہ تھا: ارتداد کے لئے سزائے موت بہت دور رس متعلقات کی حامل ہے اور اس سے اسلام مذہبی جنونیوں کا دین ظاہر ہوتا ہے جس میں حریت فکر مستوجب سزا ہے.قرآن تو بار بار عقل و فکر پر زور دیتا ہے.رواداری کی تلقین کرتا ہے اور مذہبی امور میں جبر واکراہ کے خلاف تعلیم دیتا ہے لیکن ارتداد کے متعلق جو عقیدہ اس کتابچے میں پیش کیا گیا ہے وہ آزادی فکر کی جڑ پر ضرب لگا رہا ہے کیونکہ اس میں یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ جو شخص پیدائشی مسلمان ہو یا خود اسلام قبول کر چکا ہو وہ اگر اس خیال سے مذہب کے موضوع پر فکر کرے کہ جو مذہب اسے پسند آئے وہ اسے اختیار کرلے وہ سزا کا مستوجب ہو گا.اس اعتبار سے اسلام کامل ذہنی فالج کا پیکر بن جاتا ہے اور اگر اس کتابچہ کا یہ بیان صحیح ہے کہ عرب کے وسیع رقبے بارہا انسانی خون سے رنگین ہوئے تھے تو اس سے یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ عین اس زمانے میں بھی جب اسلام عظمت و شوکت کے نقطہ عروج پر تھا اور پورا عرب اس کے زیر نگین تھا.اس ملک میں بے شمار ایسے لوگ موجود تھے جو اس سے منحرف ہو گئے تھے اور انہوں نے اس کے نظام کے ماتحت رہنے پر موت کو ترجیح دی تھی.اس کتابچے کے مصنف نے جو یہ نتیجہ نکالا ہے وہ اس نظیر پر مبنی ہے جو عہد نامہ عتیق کے فقرات 82،72،62 میں مذکور ہے اور جس کے متعلق 154

Page 173

قرآن کی دوسری صورت کی چو نویں آیت میں جزوی سا اشارہ کیا گیا ہے.اس نتیجے کا اطلاق اسلام سے ارتداد پر نہیں ہو سکتا اور چونکہ قرآن مجید پر ارتداد پر سزائے موت کی کوئی واضح آیت موجود نہیں اس لئے کتا بچہ کے مصنف کی رائے بالکل غلط ہے.“ ( رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953 صفحہ 237 و 238) اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ مودودی صاحب نے اپنی کتاب میں قرآن مجید سے قتل مرتد کی کیا دلیل بیان کی ہے.مودودی صاحب اپنی کتاب میں قتل مرتد کی دلیل کے طور پر یہ آیات پیش کرتے ہیں.فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ.(التوبة : 11) وَإِن تَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةً الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ.(التوبة: 12) ترجمہ: پس وہ اگر تو بہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں.اور ہم ایسے لوگوں کی خاطر نشانات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں.اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے سرغنوں سے لڑائی کرو.یقیناً وہ ایسے ہیں کہ ان کی قسموں کی کوئی حیثیت نہیں ( پس ان سے لڑائی کرو.اس طرح) ہو سکتا ہے وہ باز آجائیں.مودودی صاحب نے اس آیت میں عہدوں اور قسموں کو توڑنے سے مراد مرتد ہونا لیا ہے جبکہ اس سے قبل کی آیات میں ان مشرکین کا ذکر چل رہا ہے جنہوں نے جزیرہ عرب میں مسلمانوں سے معاہدے کئے ہوئے تھے.ان کے معاہدات کی مدت پوری کرنے کی ہدایت 155

Page 174

کی گئی ہے اور یہ بھی ذکر چل رہا ہے کہ یہ مشرک تم سے عہد کرتے ہیں اور پھر بار بار اپنے عہد توڑتے ہیں اور یہ بیان ہے کہ اگر پھر بھی وہ ایمان لے آئیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں.لیکن اگر وہ بد عہدی کریں تو ان کے سرغنوں سے لڑائی کرو.اس کے علاوہ بھی اگر مودودی صاحب کا نظریہ قبول کیا جائے تو بھی یہاں سرغنوں سے لڑائی کرنے کا حکم ہے ، ہر مرتد کو قتل کرنے کا جواز نہیں نکل سکتا.( ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں ، مصنفہ ابوالاعلیٰ مودودی ناشر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان جون 1951 صفحہ 10,9 ) یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تفسیر ابن کثیر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت درج ہے کہ اس آیت میں خاص مخاطب مشرکین قریش ہیں.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے مراد مشرکین لیے تھے مرتدین نہیں لیے تھے.( تفسیر ابن کثیر جلد اردو تر جمه از مولانامحمد جونا گڑھی، ناشر فقہ الحدیث پبلیکیشنز مارچ 2009 ، جلد 3 صفحہ 234) صرف ایک آیت لا إكراه في الدين ( دین میں جبر نہیں ) ہی ایسے تمام وساوس کی تردید کے لئے کافی ہے.اور ایک اور آیت کریمہ ملاحظہ فرمائیں : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ امَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا (النساء: 138) ترجمہ: یقیناً جو لوگ ایمان لائے پھر انکار کر دیا.پھر ایمان لائے.پھر ا نکار کر دیا.پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے.اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کر دے اور انہیں راستہ کی ہدایت دے.اگر مرتد کی سزا موت تھی تو ایمان کے بعد انکار کرنے کے نتیجہ میں تو سزائے موت کا ذکر ہونا چاہیے تھا نہ کہ پھر ایمان لانے اور پھر انکار کرنے اور پھر کفر میں بڑھنے کا.156

Page 175

اس سلسلہ میں دیگر آیات اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بحث کی تفصیل جانے کے لئے سلسلہ احمدیہ کی مندرجہ ذیل تین کتب کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے.1.اسلام میں ارتداد کی سزا کی حقیقت.خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ بر موقع جلسہ سالانہ یو کے 27 جولا ئی 1986ء 2 قتل مرتد.مصنفہ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ -3 اسلام میں ارتداد کی سزا.مصنفہ مکرم روشن دین تنویر صاحب 3.میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا انتباہ لیکن اس مرحلہ پر حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا یہ انتباہ پیش کرنا ضروری ہے جو حضور نے اس خطاب سے قبل فرمایا تھا: حال ہی میں اس ضمن میں مغربی استعمار کے زیر اثر مسلمان قوموں میں بعض ایسے نظریات کو عمدا ایک منصوبے کے تحت فروغ دیا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں یہ جنگ ملکوں ملکوں کی جنگ نہیں رہے گی بلکہ ہر مسلمان ملک کے اندر ایک خانہ جنگی کی صورت اختیار کر جائے گی.ان حربوں میں سب سے بڑا حربہ قتل مرتد کا عقیدہ ہے اور وہ تمام اسلامی ممالک جو بالخصوص امریکہ کے زیر نگیں ہیں اور امریکہ کی حمایت علی الاعلان کرتے ہیں اور ان کی سر پرستی میں اپنے نظام حیات کو تشکیل دے رہے ہیں، ان ممالک میں یہ نظریہ بڑی شدت سے اُٹھایا جا رہا ہے اور اس پر وسیع پیمانے پر عملدرآمد کی تیاریاں ہو رہی ہیں.اس لئے میں نے آج ضروری سمجھا کہ قتل مرتد کے موضوع پر اسلام کی سچی، حقیقی اور دائمی اور انتہائی حسین تعلیم آپ کے سامنے رکھوں تا کہ جہاں تک آپ کا بس چلے اس انتہائی کر یہہ اور خوفناک سازش کا اپنے اپنے دائرہ کار میں اور اپنی اپنی حدود میں مقابلہ کریں.“ 157

Page 176

اسلام میں ارتداد کی سزا کی حقیقت، خطاب حضرت خلیفہ المسح الرابع" 27 جولائی 1986 صفحہ 3) شاید اُس وقت جلد بازی میں یہ اعتراضات کئے گئے ہوں کہ چونکہ اس قانون سے احمدی خطرہ محسوس کر رہے ہیں اس لئے اس مسئلہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے لیکن ہم ایسی کتب کے حوالوں کے ساتھ جن کے مصنفین کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اس میدان میں بین الاقوامی طور پر سند مانے جاتے ہیں ، وہ حقائق پیش کریں گے جن سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ انتباہ حرف بحرف پورا ہوا.اور وقت پر اس سے نصیحت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ تمام عالم اسلام نے شدید نقصان اُٹھایا اور اللہ رحم کرے یہ نقصان اب تک جاری ہے.دوسرے فرقوں کے خلاف فتاوی اور قتل وغارت سب سے پہلے تو یہ غلط فہمی دور ہونی ضروری ہے کہ شدت پسندوں نے اس فتنے کو صرف جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ 1984ء میں جنرل ضیاء نے جماعت احمدیہ کے خلاف آرڈینس نافذ کیا اور اس کے ایک دوسال کے بعد ہی پاکستان میں بہت سے مدرسوں نے اہل تشیع کے کفر کے فتاویٰ دینے شروع کئے اور ان میں وہ مدارس شامل تھے جو جماعت احمدیہ کے خلاف بھی سرگرم رہے تھے.ان میں دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور جامع اشرفیہ لاہور سر فہرست تھے اور یہ فتویٰ دیا کہ ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا تک نا جائز ہے.(Sectarian War, by Khalid Ahmed, published by Oxford Publishers 2013p 90-91) یہ عمل صرف نمایاں مدارس کے فتاویٰ تک محدود نہیں رہا بلکہ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انتباہ فرمایا تھا جلد ہی ان کو مرتد قرار دے کر ان کا خون خرا به شروع 158

Page 177

ہو گیا اور 1986ء میں دہشتگردوں نے با قاعدہ فوج کشی کر کے پارا چنار اور گلگت میں شیعہ حضرات کا قتل عام کیا.اسی طرح یہ خونی تاریخ پاکستان میں بار بار دہرائی گئی مثلاً بلوچستان میں ہزارہ شیعہ احباب کو بار بار قتل و غارت اور مظالم کا نشانہ بننا پڑا.(Sectarian War, by Khalid Ahmed, published by Oxford Publishers 2013 p 98,99,202, 207) حقیقت یہ ہے کہ جس ضلع سے 1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات کا آغاز کیا گیا تھا اسی ضلع سے تکفیر کے عمل کو نئے سرے سے وسیع کرنے کے منحوس عمل کا آغاز بھی کیا گیا اور شیعہ احباب کو مرتد اور واجب القتل قرار دے کر ان پر قاتلانہ حملے شروع کرائے گئے.مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں : اور پنجاب کے وسطی شہر جھنگ میں با اثر شیعہ جاگیرداروں کے خلاف ایک مقامی خطیب مولانا حق نواز جھنگوی نے بعض عقائد کی وجہ سے شیعہ فرقہ کی تکفیر کا نعرہ بلند کر دیا.اگر چہ برصغیر میں دیو بندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کی طرف سے اہل تشیع پر کفر کے فتاویٰ ملتے ہیں جبکہ دیگر مکاتب فکر بھی ایک دوسرے کے بارے میں تکفیر کے فتاویٰ جاری کرتے رہے ہیں لیکن ان فتاوی کی روشنی میں قتل و غارت گری کا بازار کہیں گرم نہیں ہوا تھا.جھنگ میں فرقہ وارانہ فسادات نے زور پکڑا اور اطراف کے لوگ قتل ہونے لگے.“ پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ 2011ء صفحہ 29) پہلے کفر کے فتوے ، پھر ارتداد اور واجب القتل ہونے کے فتوے.یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو پھر رکنے میں نہیں آتا بلکہ بڑھتا جاتا ہے.اسی کتاب میں پھر مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں.فرقہ وارانہ جنگ پاکستان میں اپنا رنگ دکھانے لگی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کا سلسلہ 159

Page 178

طویل ہوتا گیا.جھنگ میں سپاہ صحابہ کے سربراہ مولانا حق نواز جھنگوی کے قتل کے بعد فرقہ وارانہ فسادات شدت اختیار کر گئے.جھنگ کے اہل تشیع جاگیر داروں اور آباد کارسینوں کے درمیان قتل و غارت کا سلسلہ آہستہ آہستہ پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا.“ پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین، ناشر سانجھ لاہور مارچ 2011 صفحہ 31) یہ شدت پسندی صرف زبانی کفر کے فتاوی تک محدود نہیں رہی بلکہ پھوٹ ڈالنے کی اس مہم نے ایسا خوفناک رنگ اختیار کیا کہ جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.مجاہد حسین صاحب نے اپنی کتاب میں ایک اشتہار کی نقل شائع کی ہے جو پاکستان میں کھلم کھلا لگا یا گیا.اس میں ایک شدت پسند تنظیم نے اہل تشیع احباب کو یہ دھمکی دی ہے کہ وہ اسلام کی آڑ میں دین اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں.اب انہیں ان میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا، یا تو وہ اسلام قبول کر لیں، یا جزیہ دیں، یا یہاں سے ہجرت کر جائیں ورنہ ان کی جائیدادوں اور عبادت گاہوں پر قبضہ کر لیا جائے گا اور ان کی عورتوں کو کنیزیں بنالیا جائے گا اور ان کے بچوں کو غلام بنا کر یا تو مسلمان کر لیا جائے گا یا پھر ان سے بیگا رلیا جائے گا.پنجابی طالبان، مصنفہ مجاہد حسین، ناشر سانجھ لاہور مارچ 2011 ، صفحہ 101 ) اس دیدہ دلیری سے خوف و ہراس کی فضا قائم کی جا رہی ہے کہ پنجاب کے بعض علاقوں میں اہل تشیع افراد کے گھروں میں ایسے خطوط بھی بھیجے گئے جن میں یہ لکھا گیا تھا کہ وہ کافر ہیں.یا تو وہ اسلام کی طرف لوٹ آئیں ورنہ ان کے مردوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو جلایا جائے گا.ان کی عورتوں کو کنیزیں اور ان کے بچوں کو غلام بنایا جائے گا اور ان کی جائیدادوں کو مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا.پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ 2011 ، صفحہ 103 ) 160

Page 179

جماعت احمدیہ کے اشد مخالف اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر اور پاکستان علماء کونسل کے صدر طاہر اشرفی صاحب نے اعتراف کیا کہ انہیں بعض شائع ہونے والے فتاویٰ دکھائے گئے جن میں لکھا تھا کہ شیعہ اور قادیانی عورتیں تمہاری لونڈیاں ہیں ، ان کے اموال مال غنیمت کے طور پر حلال ہیں اور ان کو قتل کرنا فرائض دینی میں شامل ہے.(A Debate on Takfeer and Khurooj, Editor Safdar Sial, Printed by Narratives Publication 2012, p 102) اگر ابھی بھی کسی پڑھنے والے کے دل میں یہ خوش نہی موجود ہے کہ یہ کفر وارتداد اور قتل و غارت کے فتوے صرف احمدیوں اور شیعہ احباب تک محدود رہ جائیں گے تو محض خام خیالی ہوگی.مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں : پنجاب میں تحریک طالبان کے ورثاء جو تتر بتر شیعہ تنظیموں کو تقریباً شکست فاش دے چکے ہیں، اب ان کے اگلے اہداف بریلوی مسالک کی تنظیمیں ہیں جبکہ پنجاب میں دیو بندیوں کے درمیان بھی واضح تقسیم دیکھی جاسکتی ہے جو تیزی کے ساتھ حیاتی اور مماتی کی عقیدہ جاتی شناختوں کو واضح کر رہے ہیں.“ پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین، ناشر سانجھ لاہور مارچ 2011ء صفحہ 275) اگر ان سخت گیر اسلام کے نفاذ کے داعیوں کے خصوصی اجتماعات یا خطبات کو سنا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شدت جذبات کا کیا حال ہے.ان خطبات میں صوفیاء کے مزاروں اور خانقاہوں پر زائرین کے جانے کو شرک سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مشرک کو بدترین شخص قرار دیا جاتا ہے جس کی سزا موت سے کہیں زیادہ ہے.“ پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین، ناشر سانجھے لاہور مارچ 2011 ص 296) 161

Page 180

پاکستان میں جگہ جگہ خانہ جنگی کی بنیاد قتل مرتد کے فتاوی تھے یہ سلسلہ صرف اس مرحلہ پر نہیں رک جاتا کہ مختلف فرقوں کو کا فرقرار دیا گیا اور اس بناء پر انہیں مرتد اور پھر واجب القتل قرار دیا گیا اور ملک میں خون خرابہ شروع ہو گیا جیسا کہ حضرت خلیفة أمسیح الرابع رحمہ اللہ نے خبر دار فرمایا تھا یہ سلسلہ اس سے بہت آگے چلتا ہے.پھر یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ ملک کی حکومت کیا مسلمان ہے یا کافر ہے؟ ملک کی عدلیہ کیا اسلام پر کاربند ہے یا کفر پر کار بند ہے؟ ملک کی فوج کیا اسلامی احکامات پر عمل کر رہی ہے؟ یا کافروں کی آلہ کار بنی ہوئی ہے؟ یہ آئین کیا اسلامی ہے یا اس کی بنیاد کفر کے نظریات پر ہے؟ جب پاکستان میں تنگ نظر طبقہ نے یہ سوالات اُٹھا دیئے تو پھر ان کو حل کرنے کے لئے ملک سے باہر سے کچھ علماء بلائے گئے جنہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ یہ سب تو کافر ہو چکے ہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے اس طبقہ نے ” قواعد التکفیر “ شائع بھی کئے تاکہ مسلمانوں کو کافر اور مرتد قرار دینے کا کام منظم طریق پر آگے بڑھایا جا سکے.جب یہ مسلمان کا فر ہو گئے تو یقینی طور پر مرتد ہیں.اور مرتد کی سزا قتل ہے.چنانچہ ان دہشت گردوں نے یہ اعلان کیا کہ ار ہمارا کام ہے کہ ان مرتدوں کو قتل کی شرعی سزا دیں اور اس کو بنیاد بنا کر ملک کے مختلف حصوں میں جن میں خاص طور پر سوات اور وزیرستان شامل ہیں بغاوت اور خانہ جنگی شروع کر دی گئی.اس موضوع پر بہت سی تحقیقات سامنے آچکی ہیں لیکن اس ضمن میں خاص طور پر سید سلیم شہزاد صاحب کی کتاب " Inside Alqaeda and Taliban beyond Bin 11/9 Laden and کا ایک باب Takfeer and Khrooj جو اس کتاب کے صفحہ 124 تا 155 پر ہے خاص طور پر مطالعہ کے قابل ہے.اسی طرح سوات میں بغاوت اُٹھاتے وقت صوفی محمد صاحب نے فتویٰ دیا کہ 162

Page 181

جمہوریت بھی کفر ہے.اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سب وہ مقامات ہیں جہاں بتوں کی پرستش کی جاتی ہے.(Inside Alqaeda and the Taliban beyond Bin Laden and 9/11 by Syed Saleem Shehzad published by Pluto Press 2011,p174) جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی شروع کی گئی کہ احمدی تو عیسائیوں اور یہودیوں کے ایجنٹ ہیں.لیکن آخرتان اس پر ٹوٹی کہ پاکستان میں یہ فتویٰ بھی داغا گیا کہ چونکہ حکومتِ پاکستان کے یہودی اور عیسائی ممالک سے تعلقات ہیں ، اس لئے یہ حکومت بھی کافر اور مرتد ہے.اور چونکہ فوج نے دہشتگردی کے اڈوں پر حملہ کیا ہے، اس لئے پاکستان کی فوج بھی کافر اور مرتد ہے.اس سے بھی دل نہیں بھرا تو یہ فتولی جاری ہوا کہ سارے حکومتی ادارے طاغوتی ہیں.شاید یہ وہم اُٹھے کہ پاکستان کا آئین تو بچ گیا.[ جی وہی آئین جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا.] تو یہ خبر بھی سن لیں کہ یہ فتویٰ بھی جاری ہو چکا ہے کہ پاکستان کے آئین کی بنیا دہی کفر پر ہے.(A Debate on Takfeer and Khurooj, Editor Safdar Sial, Printed by Narratives Publication 2012, p111,112,89) اور اس طرح کفر وارتداد کے فتوے لگا کر اپنے کارندوں کو قائل کیا گیا کہ ان کے خلاف جنگ ضروری ہو گئی ہے کیونکہ مرتد تو واجب القتل ہے اور یہ کافر اور مرتد ہیں اور اس طرح ملک میں جگہ جگہ بغاوت کھڑی کی گئی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی اور وسیع علاقے ایک لمبا عرصہ حکومت کی عملداری سے باہر نکل گئے.ہزاروں پاکستانیوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا.اس کے علاوہ شام اور عراق میں ISIS کی اور نائیجیریا میں بوکوحرام کی فتنہ پردازی دیکھ لیں.ان سب کی بنیاد کفر وارتداد کے فتوے اور ان کی بنیاد پر شروع کیا جانے والا 163

Page 182

نام نہاد جہاد تھا.جو انتباہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1986ء میں فرمایا تھا، ساری دنیا اس کی صداقت ملاحظہ کر رہی ہے.اب جبکہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کی سرزمین ان فتاوی کی وجہ سے خون سے رنگ دی گئی ہے، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس مرحلہ پر ایک عدالتی فیصلہ میں اس مسئلہ کی آگ کو کیوں بھڑ کانے کی کوشش کی جارہی ہے.؟ اسلم قریشی صاحب کا اغواء،شہادت اور پھر دوبارہ زندہ ہو جانا قبل ازیں اُس مرحلہ کا ذکر ہو چکا ہے جب 1984ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف جماعت احمدیہ کے مخالفین نے مہم چلانی شروع کی تھی.اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے صفحہ 76 پر اختصار سے جماعت احمدیہ کے خلاف اس تحریک کے شروع ہونے کا ذکر ہے.اور یہ بھی ذکر ہے کہ اس تحریک کے آٹھ مطالبات تھے.گزشتہ صفحات میں ان میں سے ایک اہم مطالبہ یعنی مرتد کے لئے سزائے موت مقرر کرنے کا ذکر ہو چکا ہے.جنہوں نے فیصلہ پڑھا ہے ان میں سے کئی احباب ان میں سے پانچویں مطالبے کو سمجھ نہیں سکے ہوں گے اور انہوں نے محسوس کیا ہو گا کہ اس عدالتی فیصلہ میں گو کہ بہت سی تفصیلات درج ہیں لیکن اس مطالبے کے متعلق کچھ وضاحت نہیں کی گئی کہ اس سے کیا مراد تھی ؟ اس فیصلہ سے اس مطالبہ کی عبارت درج کی جاتی ہے: "Arrest of Mirza Tahir Ahmad and some of his colleagues in connection with the disappearance of Maulana Aslam Qureshi and immediate recovery of Maulana Qureshi." (page 76) ترجمہ: مرزا طاہر احمد اور ان کے کچھ ساتھیوں کو مولانا اسلم قریشی کے غائب ہونے کے سلسلے 164

Page 183

میں گرفتار کیا جائے اور مولا نا قریشی کو فوراً برآمد کرایا جائے.حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ اہم مطالبہ تھا جس کی وجہ سے یہ تحریک شروع کی گئی تھی اور آخر میں جنرل ضیاء صاحب نے مخالفین جماعت کے مطالبات کے مطابق جماعت احمدیہ پر مختلف قسم کی پابندیاں لگانے کے لئے ایک آرڈینس نافذ کیا تھا اور اسی مطالبہ کی وجہ سے پورے ملک میں ایک سال سے زائد عرصہ ایک ہیجان کی کیفیت رہی تھی اور کیا عام شہری اور کیا صدر مملکت سب تشویش کا شکار رہے تھے.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ کی کچھ تفصیلات پڑھنے والوں کے سامنے رکھی جائیں تا کہ انہیں یہ اندازہ ہو سکے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف چلنے والی شورشوں کو کس طرح پروان چڑھایا جاتا ہے؟ بلکہ مناسب ہوگا کہ کم از کم پاکستان میں ان واقعات کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سول سروس اپنے نصاب میں شامل کر لیں تا کہ جو افراد وہاں سے تربیت حاصل کر کے نکلیں انہیں یہ تو علم ہو کہ علماء کا طبقہ جب کوئی ملک گیر مہم چلانے کے لئے نکلتا ہے تو اس کی منصوبہ بندی کس طرح کی جاتی ہے؟ اور اس شورش کو کس طرح پروان چڑھایا جاتا ہے.اگر وہ ان واقعات کا مطالعہ کریں گے تو وہ بہتر سمجھ سکیں گے کہ ان سے نمٹنا کس طرح ہے؟ اسلم قریشی صاحب کا پہلا قا تلانہ حملہ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ ”مولانا اسلم قریشی کون تھے؟ اور کس طرح پہلی مرتبہ منظر عام پر آئے تھے؟ 1971ء میں حضرت مسیح موعود کے پوتے اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے صاحبزادے مکرم صاحبزادہ مرز امظفر احمد صاحب ملک کی مرکزی کابینہ میں صدر کے 165

Page 184

اقتصادی مشیر تھے.15 ستمبر 1971ء کو جب کہ ملک ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا تھا، مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اسلام آباد کے سیکرٹریٹ میں صبح کے وقت اپنے معمول کے مطابق مرکزی سیکرٹریٹ آئے اور سوا آٹھ بجے آپ لفٹ میں اپنے دفتر جا رہے تھے.جس وقت لفٹ کا دروازہ بند ہو رہا تھا اس وقت کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ایک فورمین اسلم قریشی بھی لفٹ میں سوار ہو گیا.اور اس وقت کسی نے اس شخص کو سوار ہونے سے نہیں روکا.جب لفٹ کا دروازہ بند ہوا تو اس وقت اسلم قریشی نے چاقو نکالا اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے پیٹ پر وار کیا.وہ دوسرا وار کرنے لگا تھا کہ لفٹ والے اور دفتر کے ایک اور ملازم نے اسے پکڑ لیا.اس پر اسلم قریشی نے صاحبزادہ صاحب پر پھر بھر پور وار کرنے کی کوشش کی اور گالیاں نکالنی شروع کر دیں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں.لفٹ چلانے والے نے لفٹ کا دروازہ کھول دیا اور صاحبزادہ صاحب کو سہارا دے کر نکالا گیا.پہلے اسلام آباد پولی کلینک لے جا کر ابتدائی طبی امداد دی گئی اور پھر سی ایم ایچ لے جایا گیا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب روز نامہ امروز نے یہ خبر شائع کی تو ساتھ اس عنوان کے تحت بھی کچھ سطور لکھیں اسلم قریشی کا ماضی بے داغ ہے اور اس کے نیچے لکھا کہ جب اس کو جاننے والوں کو اس حملہ کا علم ہوا تو انہیں بہت حیرت ہوئی کیونکہ اس سے قبل اسلم قریشی کسی لڑائی جھگڑے میں ملوث نہیں رہا اور لوگ اس کی سنجیدگی ، متانت اور شرافت کے قائل تھے اور وہ کسی فرقہ پرست جماعت کا رکن بھی نہیں ہے.گویا قاتلانہ حملہ کرنے کے بعد بھی حملہ آور کے کردار کے بارے میں شک رہ جاتا ہے.یہ ایک معمول کی بات ہے کہ جب کوئی کسی احمدی پر اس قسم کا حملہ کرتا ہے تو ایک طبقہ مفسدوں کی حمایت پر کمر بستہ ہو جاتا ہے.جب حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ ہوا تو رض 166

Page 185

سیشن عدالت نے سزا سناتے ہوئے مجرم کی کچھ مدح سرائی بھی کی تھی.اب اسلم قریشی کے متعلق بھی پریس کا ایک حصہ اس قسم کا رویہ اپنائے ہوئے تھا.(امروز 16 ستمبر 1971 ، صفحہ 1 ، مساوات 16 ستمبر 1971 ، صفحہ 1 ، الفضل 17 ستمبر 1971 ، صفحہ 1) گرفتاری اور معافی یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب اسلم قریشی صاحب پر اقدام قتل کا مقدمہ چلا یا گیا تو راجہ ظفر الحق صاحب نے اس کی طرف سے مقدمے کی پیروی کی تھی.راجہ ظفر الحق صاحب بعد میں جنرل ضیاء صاحب کی کابینہ میں وزیر اطلاعات بھی رہے اور 1992ء میں مؤتمر العالم الاسلامی کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں.بہر حال اسلم قریشی صاحب کو پندرہ برس کے لئے جیل کی سزا ہوئی لیکن ان کا بیان تھا کہ مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب نے اُس وقت 1974ء میں بھٹو صاحب سے سفارش کروا کر انہیں رہا کروا لیا اور اس کے بعد وہ عمرہ کرنے اور ملازمت کرنے سعودی عرب چلے گئے.(حیرت ہے اس ریکارڈ کے آدمی کو سعودی عرب میں ملا زمت مل بھی گئی ) لیکن سعودی عرب میں ان کا دل نہیں لگا اور وہ پاکستان واپس آگئے لیکن اس کے بعد بھی ایک مرتبہ اسلم قریشی صاحب کو جیل جانے کا اتفاق ہوا اور اس کی وجہ ان میں اور ان کے ہمزلف کے درمیان جائیداد پر ہونے والا جھگڑا تھا.(روز نامہ حیدر راولپنڈی 1988-7-19 مکتوب سیالکوٹ از احسان چوہدری، چٹان 5 تا 12 ستمبر 1983 صفحہ 33 تا35 ) اب ایک داڑھی کے اضافہ کے ساتھ وہ ”مولانا بن چکے تھے بلکہ جماعت احمدیہ کے مخالفین کی تنظیم " مجلس تحفظ ختم نبوت کے سرکردہ مبلغ بھی بن چکے تھے.اب جو حالات ذیل میں درج کئے جائیں گے وہ جماعت احمدیہ کی کسی کتاب یا اخبار سے نہیں بلکہ اُن اخبارات سے پیش کئے جائیں گے جو جماعت احمدیہ کے خلاف بہت کچھ لکھ چکے ہیں یا ان رسالوں سے پیش کئے جائیں گے جو کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لئے 167

Page 186

وقف تھے تا کہ یہ شبہ نہ پیدا ہو سکے کہ حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے.اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی اب ہم اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کا ذکر کرتے ہیں.تحصیل پسرورضلع سیالکوٹ میں بھارت کی سرحد کے بالکل قریب ایک گاؤں معراجکے ہے.اس جگہ دولڑکیوں نے احمدیت قبول کر لی.لازمی طور پر اس جگہ مخالفت شروع ہو گئی.اس مقام پر جماعت احمد یہ کے ایک مخالف محمد یوسف صاحب نے سیالکوٹ میں جماعت کی مخالف تنظیم مجلس احرار کے رکن سالار بشیر صاحب سے کہا کہ معراجکے میں انہیں ایک مبلغ کی ضرورت ہے.سالار بشیر صاحب نے اسلم قریشی صاحب سے درخواست کی کہ وہ معراجکے میں جمعہ پڑھائیں.چنانچہ اسلم قریشی صاحب نے وہاں پر 11 فروری 1983ء کو ختم نبوت“ کے موضوع پر خطبہ دیا اور مقامی لوگوں کے ساتھ طے ہوا کہ وہ اگلی جمعرات کو اس موضع میں عورتوں کو وعظ کریں گے اور اس سے اگلے روز جمعہ پڑھا ئیں گے.اسلم قریشی صاحب 17 فروری جمعرات کے روز ایک مدرسہ دار العلوم شہابیہ تک سائیکل پر گئے اور وہاں پر اپنی سائیکل ایک نابینا کے حوالے کی کہ میں واپسی پر لے لوں گا اور معراجکے روانہ ہو گئے.اس کے بعد ان کا کوئی پتہ نہیں چلا.سالار بشیر صاحب جب محمد یوسف صاحب کو ملے تو انہیں بتا دیا کہ اسلم قریشی صاحب معراجکے چلے گئے ہیں.محمد یوسف صاحب معراجکے آئے.انہیں علم ہو گیا کہ اسلم قریشی صاحب وہاں نہیں پہنچے لیکن اس نے کسی کو اطلاع نہیں دی اور جب گمشدگی پر پولیس نے تفتیش شروع کی تو محمد یوسف صاحب کو تحویل میں بھی لیا تھا.لازمی بات ہے جب ایک شخص اس طرح گم جائے تو پھر پولیس میں رپورٹ درج کرائی جاتی ہے.جماعت احمدیہ کی مخالف تنظیم مجلس تحفظ ختم نبوت کو یہ شکوہ تھا کہ ان کی 168

Page 187

رپورٹ تاخیر سے درج کی گئی.دوسرا شکوہ یہ تھا کہ جب ہم نے پولیس سے کہا کہ ایف آئی آر میں شبہ میں قادیا نیوں کا نام لکھیں تو پولیس والوں نے کہا کہ کیا ملک کے سارے قادیا نیوں کو پکڑلیں؟ پھر پولیس نے ایف آئی آر میں چند احمدیوں کے نام درج کر دیئے.مجلس عمل کا قیام بہر حال 25 فروری 1983ء کو مخالفین جماعت نے اسلم قریشی صاحب کی بازیابی کے لئے مجلس عمل قائم کر دی.1984ء کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلہ کے صفحہ 76 پر جس مجلس عمل کا ذکر ہے وہ اس طرح اسلم قریشی صاحب کے لاپتہ ہونے پر قائم کی گئی تھی.26 اور 27 فروری کو چنیوٹ میں جماعت احمدیہ کے مخالفین مباہلہ کا نفرنس منعقد کرتے ہیں اور مولوی منظور چنیوٹی صاحب اس میں اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کی خبر کو خوب اجاگر کرتے ہیں اور منظور چنیوٹی صاحب یہ انکشاف کرتے ہیں کہ اسلم قریشی صاحب کا اغوا مرزا طاہر احمد (امام جماعت احمدیہ ) کی سازش کا نتیجہ ہے اور حکومت کو خبر دار کیا جاتا ہے.اور اس گمشدگی کے تقریباً ایک ماہ کے اندر اندر ہی صدر مملکت سے بھی اپیلیں شروع ہو جاتی ہیں کہ ایک ممتاز عالم دین گم ہو گیا ہے اور ہمیں شبہ ہے کہ قادیانیوں نے دشمنی کی وجہ سے اغوا کرلیا ہے.پولیس کے ابتدائی انکشافات (نوائے وقت 27 فروری 1983 ء) اب ہم یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ ان ابتدائی دنوں میں پولیس نے کیا دریافت کیا تھا؟ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ پولیس کو پہلا شک معراجکے کے جماعت احمدیہ کے مخالف محمد یوسف صاحب پر ہوا تھا کیونکہ انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ اسلم قریشی صاحب 169

Page 188

معراجکے کے لئے روانہ ہوئے تھے اور وہاں پر نہیں پہنچے کسی کو اطلاع نہیں کی اور اس شک کی بناء پر ان صاحب کو کچھ عرصہ پولیس نے اپنی تحویل میں بھی رکھا تھا.12 مارچ 1983ء کو پولیس نے اب تک اپنی کارگزاری پر سیالکوٹ میں پریس کانفرنس کی.اسلم قریشی صاحب کے بارے میں اطلاع دینے پر انعام کا اعلان کیا گیا اور بتایا کہ ان کی بازیابی کے لئے چار ٹیمیں بنا دی گئی ہیں.پریس کانفرنس میں یہ حیران کن انکشاف کیا گیا کہ اسلم قریشی صاحب نے اپنا پاسپورٹ بنایا تھا اور جب وہ 17 فروری کو گھر سے روانہ ہوئے تو پاسپورٹ اور چار ہزار روپیہ لے کر نکلے تھے.اب ظاہر ہے کہ معراج کے جانے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑتی اور پولیس نے اعلان کیا کہ اب تک چالیس افراد کو شامل تفتیش کیا گیا ہے جن میں بعض علماء بھی شامل ہیں اور یہ بھی تسلی دلائی کہ چند روز میں اسلم قریشی صاحب کا سراغ مل جائے گا.امروز 14 مارچ 1983 ء ) اس کے بعد پولیس نے دوسری اہم دریافت یہ کی کہ جب اسلم قریشی صاحب کے گھر کی تلاشی لی تو ان کے گھر سے جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف مولوی منظور چنیوٹی صاحب کا اسلم قریشی صاحب کے نام خط ملا اور یہ خط سات آٹھ ماہ قبل لکھا گیا تھا.اس خط میں منظور چنیوٹی صاحب نے انہیں ملک سے باہر بھجوانے کی پیشکش کی تھی.چٹان 21 تا 28 مارچ 1983 صفحہ 14 تا 16 ) اب تک ظاہر ہونے والے واقعاتی ثبوت یہ ظاہر کر رہے تھے کہ اسلم قریشی صاحب کا اپنا اراردہ ملک سے باہر جانے کا تھا اور وہ گھر سے اس کے لئے رقم اور پاسپورٹ لے کر نکلے تھے اور جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف نے ، جو کہ اب اسلم قریشی صاحب کے لئے 170

Page 189

تحریک چلانے میں پیش پیش تھے، انہیں ملک سے باہر بھجوانے کی پیشکش کی تھی اور پولیس نے کچھ مولویوں کو بھی شامل تفتیش کیا تھا.اس پس منظر میں جب کمشنر جی ایم پراچہ سے ملنے کے لئے مجلس عمل اور مولوی حضرات کا ایک وفد گیا تو کمشنر صاحب نے یہ سوال اُٹھایا کہ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ قادیانیوں نے آخر اسلم قریشی صاحب کو کیوں اغوا کرنا تھا.اگر انہوں نے اغوا کرنا تھا تو منظور چنیوٹی صاحب کو کرتے جو کہ انہیں گالیاں دیتے ہیں.ہفت روزہ چٹان 23 تا 30 مئی 1983 صفحہ (7) قادیانی اور قادیانی نواز ہونے کے الزامات اور مطالبات کا پر چار جماعت احمدیہ کے مخالفین نے جب تفتیش کا یہ رُخ دیکھا تو انہوں نے اپنی سابقہ طرز پر ہی مہم چلانی شروع کی.ایک طرف تو یہ واویلا شروع کیا کہ قادیانی ملک کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں بلکہ پاکستان کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے ہیں.مشرقی پاکستان بھی ان کی سازش کی وجہ سے علیحدہ ہوا تھا.1948ء میں کشمیر میں تنازعہ بھی ان کی وجہ سے ہوا تھا وغیرہ وغیرہ اور یہ بھی پروپیگنڈا شروع کیا کہ سیالکوٹ کے ایس پی پولیس طلعت محمود صاحب یا تو قادیانی ہیں اور یا قادیانی نواز ہیں اور پھر جلد ہی یہ مطالبہ بھی شروع ہو گیا کہ جو افسران اب تک یہ تحقیقات کر رہے ہیں انہیں تبدیل کیا جائے اور حکومت جائزہ لے کہ کہیں پولیس میں ”نقب“ تو نہیں لگ چکی اور یہ مطالبہ زور پکڑ رہا تھا کہ امام جماعت احمدیہ کو شامل تفتیش کر لیا جائے.چٹان 4 تا 11 اپریل 1983 ، صفحہ 6، چٹان 18 تا 25 اپریل 1983 صفحہ 8 ، چٹان 16 تا 23 مئی 1983ء صفحہ 7 ، چٹان 11 تا 18 جولائی 1983 صفحہ (32) جیسا کہ پہلے 1930ء کی دہائی میں ، 1953 ء اور 1974 ء کے فسادات میں ہو چکا تھا ، ایک موضوع پر یعنی اس گمشدگی پر مہم شروع کی گئی تھی اور پھر جلد ہی جماعت احمدیہ کے خلاف مطالبات کی طویل فہرست سامنے آگئی تھی.چنانچہ مطالبات یہ تھے.171

Page 190

1.جماعت احمدیہ کو خلاف قانون قرار دیا جائے اور اس کے فنڈ ز منجمد کئے جائیں.2.احمدیوں کو کلیدی اسامیوں سے برطرف کیا جائے.3.احمدیوں کو اس بات سے روکا جائے کہ وہ شعائر اسلام استعمال کر سکیں.انہیں اس بات سے روکا جائے کہ وہ اذان دے سکیں، مسجد کی شکل میں اپنی عبادتگاہ بنا سکیں، نماز کی شکل میں عبادت کر سکیں.4.احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی لگائی جائے.5.مرتد کے لئے سزائے موت مقرر کی جائے اور اس کے ساتھ یہ نکتہ بھی اُٹھایا گیا کہ ایسے کئی قوانین موجود ہیں جو کہ جاری تو بعد میں ہوئے لیکن اُن کا دائرہ کار ماضی کے زمانہ پر بھی محیط تھا قتل مرتد کے بارے میں غور کر لینا چاہیے کہ اس کا اطلاق بانی جماعت احمدیہ کے دعوے سے شروع ہوگا یا پاکستان کی آزادی کی تاریخ سے اور جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد احمدیت کو قبول کیا ہے انہیں تین روز کے لئے علماء کے حوالے کیا جائے اگر وہ اس دوران تائب نہ ہوں تو اُن کو سزائے موت دی جائے.چٹان 11 تا 18 جولائی 1983 صفحہ 15 ،32) یہ مطالبات اور ان کے پیچھے کارفرما ارادے واضح ہیں اور ان پر زیادہ تبصرے کی ضرورت نہیں ہے.جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ جب جماعت احمدیہ کے مخالفین نے یہ دیکھا کہ پولیس حقیقت تک پہنچ رہی ہے اور ان کے مقاصد پورے نہیں ہو رہے تو انہوں نے پولیس افسران پر قادیانی اور قادیانی نواز ہونے کا الزام لگا یا تھا.جلد ہی جب انہوں نے یہ محسوس کیا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کی حکومت ان کی ہاں میں ہاں ملائے تو انہوں نے صدر جنرل ضیاء صاحب پر بھی قادیانی ہونے کا الزام لگایا اور جنرل صاحب کو 172

Page 191

جلسوں میں تردید کرنی پڑی کہ وہ قادیانی نہیں ہیں اور جب ایک اجتماع کے سامنے جس میں علماء کی بڑی تعداد شامل تھی جنرل ضیاء صاحب نے یہ تردید کی تو بڑی دیر تک تالیاں بجتی رہیں.اس پر جنرل صاحب نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ بات یہاں تک بڑھ چکی ہے اور مجھے آپ کی تالیوں سے اندازہ ہوا ہے کہ یہاں اس چیز کو بڑی ہوا دی گئی ہے اور اس کے ساتھ جماعت احمدیہ کے مخالف جرائد یہ لکھ رہے تھے کہ ملک بھر میں یہ تاثر موجود ہے کہ حکومت قادیانیوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے.اس کا مقصد یہی تھا کہ حکمرانوں پر جماعت احمدیہ کے خلاف سخت ترین قدم اُٹھانے کے لیے دباؤ بڑھایا جائے.چٹان 19 تا 28 ستمبر 1983 صفحہ 6 اب اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کو تقریباً چھ ماہ گزر چکے تھے.امام کعبہ نے بھی ان کی بازیابی کے لئے خط لکھا.اکتوبر 1983 ء میں ربوہ میں اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کے سلسلہ میں ایک جلسہ کیا گیا.اس میں سعودی عرب کی نمائندگی الشیخ عبد اللہ بیٹی صاحب نے اور رابطہ عالم اسلامی کی نمائندگی ظہور الحق ظہور صاحب نے کی.1974 ء کی طرح سعودی عرب اور رابطہ عالم اسلامی کی آشیر بادنظر آ رہی تھی اور اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ سعودی حکام بھی اسلم قریشی صاحب کے اغوا سے کافی پریشان رہ رہے ہیں.اور اس کا کچھ ذکر ایک گزشتہ قسط میں گذر چکا ہے.اسی جلسہ میں جماعت احمدیہ کے چوٹی کے مخالف مولوی تاج محمود صاحب جب اسلم قریشی صاحب کے صاحبزادے صہیب کو سٹیج پر لائے تو اس پر ہفت روزہ ختم نبوت کی رپورٹ تھی کہ سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجمع پر سکتہ چھا گیا اور خود مولوی تاج محمود صاحب بھی اتنی رفت میں آئے کہ آواز نہ نکل سکی.ختم نبوت کراچی 12 تا 18 نومبر 1983 صفحہ 5,4) 173

Page 192

اگر الزامات غلط نکلیں تو ہمیں پھانسی دے دینا مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے اس قسم کے اعلانات شائع ہو رہے تھے.چنانچہ امیر مجلس تحفظ ختم نبوت سیالکوٹ کی طرف سے اعلان شائع ہوا، جس کا عنوان تھا ، کھلی چٹھی بنام جنرل محمد ضیاء الحق صاحب صدر پاکستان، جناب گورنر صاحب پنجاب“ اس میں لکھا گیا تھا کہ امام جماعت احمدیہ کے حکم سے مولانا اسلم قریشی صاحب کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا ہے اور تمام قرار دادوں کے باوجود اب تک مرزائیوں کو گرفتار کر کے مسلمانوں کی تسلی نہیں کی گئی اور عوام میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ حکومت مرزائی نوازی سے کام لے رہی ہے جبکہ مرزائی پاکستان کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے کوشاں ہیں اور اس کھلی چٹھی میں مطالبہ کیا گیا کہ معراجکے اور سیالکوٹ کے نمایاں احمدیوں اور امام جماعت احمد یہ کو گرفتار کر کے شاہی قلعہ لاہور میں ہمارے سامنے تفتیش کی جائے.اگر اس طریق پر تفتیش وو کرنے سے 48 گھنٹے کے اندراندر مجرموں کا سراغ نہ ملا تو حکومت کو اختیار ہوگا: چوک علامہ اقبال میں کھڑا کر کے گولی مار دیں یا پھانسی پر لٹکا دیں.ہمیں یا ہمارے ورثاء کو کوئی گلہ یا اعتراض نہ ہو گا اور مولانا اسلم قریشی کے مدعیان اور ہمدرد مسلمان بھی خاموش ہو کر آرام سے گھروں کو بیٹھ جائیں گے اور فرض کی ادائیگی کے بعد حکومت کو بھی سکون حاصل ہو جائے گا.“ ختم نبوت کراچی 12 تا 18 نومبر 1983 صفحہ 10 ) اب الزامات اغوا تک محدود نہیں تھے بلکہ برملا یہ اعلانات کئے جا رہے تھے کہ ہم اسلم قریشی کے خون کا بدلہ لیں گے اور اگر حکومت نے ہمارے مطالبات نہ مانے تو اس کے ماضی کےسارے دھبے اس معاملے کے سامنے ماند پڑ جائیں گے اور یہاں تک نوبت آ چکی 174

Page 193

تھی کہ صدر جنرل ضیاء صاحب تقریر کر رہے تھے کہ ایک مولوی صاحب نے کھڑے ہوکر کہا کہ آپ کے متعلق یہ تاثر ہے کہ آپ قادیانیوں کے لئے سخت الفاظ استعمال نہیں کرتے اور صدر صاحب نے کمال تابعداری سے کہا کہ میرے والد نے تو ساری عمر قادیانیت کی عداوت میں گزار دی اور میں قادیانیوں کو کافروں سے بد تر سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ جماعت احمدیہ کے مخالفین نے ایک نئی مجلس عمل قائم کی اور جماعت اسلامی ، جمعیت العلماء پاکستان ، جمیعت العلماء اسلام اور شیعہ عالم بھی اس میں شامل ہو گئے.(ختم نبوت کراچی 26 نومبر یا2 دسمبر 1983ء صفحہ 14 ، ختم نبوت کراچی 12 تا18 نومبر 1983 صفحہ 5 ، ختم نبوت 3 تا 9 دسمبر 1983 صفحہ 18 ,19 ) 1983ء کے بالکل آخر میں یہ خبریں اُڑائی جا رہی تھیں کہ اب قادیانیوں نے اسلم قریشی صاحب کے بیٹے صہیب کو بھی اغوا کرنے کی کوشش کی ہے اور اب قادیانی مسلک سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کی فہرستیں تیار کی جارہی ہیں اور یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ان کو عام شائع کیا جائے تاکہ ان پر ہر کوئی نظر رکھ سکے اور ساتھ یہ بات بھی شائع کی جارہی تھی کہ جو قادیانیوں کو کا فرنہیں سمجھے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا اور اس کے ساتھ جماعت احمدیہ کے مخالفین نے یہ راگ الاپنا شروع کیا کہ اب اسلم قریشی تک بس نہیں قادیا نیوں نے مزید علماء کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے.ختم نبوت کراچی ، 3 تا 9 دسمبر 1983 ، صفحہ 4، 5، 18، 19 ختم نبوت 9 تا 15 دسمبر 4 ، 5 ، 22 ، 23 - ختم نبوت 16 تا 22 دسمبر 1983 ، صفحہ 5) اسلامی نظریاتی کونسل کے مطالبات 1984ء کا آغاز اس عمل میں تیزی کا پیغام ہی لایا.آٹھویں قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر جسٹس تنزیل الرحمن نے صدر جنرل ضیاء صاحب کی 175

Page 194

موجودگی میں مطالبہ کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ختم نبوت کی حفاظت کے لئے مرتد کی سزا موت تجویز کی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ اس پر عمل درآمد کرے اور کونسل نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ قادیانیوں کو روکا جائے کہ وہ اپنی عبادت گاہ کے لئے مسجد کا لفظ استعمال کریں اور اذان کا استعمال کریں یا اپنے لئے مسلمان کا لفظ استعمال کر سکیں.اور جسٹس صاحب نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عم کیوں نہیں کر رہی.اس کے جواب میں جنرل ضیاء صاحب نے کہا کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ دس دن کے لئے حکومت تنزیل الرحمن صاحب کے حوالے کر دیں تا کہ انہیں حکومت کی مشکلات کا اندازہ ہو جائے.ر عملدرآمد چٹان 2 تا 9 جنوری 1983 ء صفحہ 7,6 ) 1984ء کے آغاز کے بعد اسلم قریشی صاحب نے تو کہاں دریافت ہونا تھا ، البتہ ان کی گمشدگی یا اغوا اور پھر شہادت کا سہارا لے کر جماعت احمدیہ کے مخالفین کے مطالبات کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جارہی تھی.اب یہ کہا جارہا تھا کہ مرتد کے لئے سزائے موت نافذ کئے بغیر تو اسلامی نظام مکمل ہو ہی نہیں سکتا.قادیانیوں کو اسلامی اصطلاحات مثلاً نبی ، رسول ،خلیفہ، امہات المومنین ، سیدۃ النساء، صحابی وغیرہ کے استعمال سے روکا جائے.مسجد اور اذان کے استعمال پر پابندی لگائی جائے.قادیانیوں کے تمام لٹریچر پر پابندی لگائی جائے.ان کا روز نامہ الفضل بند کیا جائے.امام جماعت احمدیہ پر آئین سے غداری کا مقدمہ چلایا جائے.احمدیوں نے مسلح عسکری تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں ان پر پابندی لگائی جائے اور اسلم قریشی صاحب کے اغوا پر حکومت کی سرد مہری قابل نفرت ہے اس لئے مرزا طاہر احمد کو گرفتار کر کے اس معمے کو حل کیا جائے.کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کو لگانا آئین سے غداری کے مترداف ہے، اس لئے انہیں ان کلیدی آسامیوں سے فوری طور پر برطرف کیا جائے.176

Page 195

یہاں ” کلیدی اسامیوں کی تعریف بھی ملاحظہ فرمائیں، چنیوٹ میں ہونے والی اکتیسویں آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ چنیوٹ کے ریلوے سٹیشن کے سٹال کا ٹھیکہ ایک قادیانی کو دیا گیا ہے اسے فوری طور پر ہٹایا جائے اور گورنمنٹ کالج چنیوٹ کی حساس پوسٹ یعنی ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن (جس کا کام ورزش کرانا تھا) پر قادیانی کولگا یا گیا ہے اسے فوری طور پر برطرف کیا جائے.چٹان 2 تا 9 جنوری 1984 ، صفحہ 21 تا 23 اب ضیاء صاحب کی مخالف سیاسی جماعتیں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی تھیں اور یہ بیان دے رہی تھیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جنرل ضیاء صاحب کے ارد گرد اہم عہدوں پر قادیانی مقرر ہیں اور اس کی دلیل یہ دی جارہی تھی کہ آرمی کے ایک ہسپتال کا ڈائیریکٹر آف سرجری ایک قادیانی ہے جو چندے بھی دیتا ہے.یہ جنون اس حد تک ترقی کر چکا تھا کہ بلوچستان کے ایک سیاستدان میر غوث بخش بزنجو صاحب نے بیان دیا کہ ہم سیکولر لوگ ہیں اور ہم دوسری آئینی ترمیم (جس میں احمدیوں کو آئین کی اغراض کے لئے ) غیر مسلم قراردیا گیا تھا اسے تسلیم نہیں کرتے.پہلے جماعت کے مخالف اخبارات نے اسے اجماع امت سے بغاوت قرار دیا.پھر ایک اور سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ خان صاحب نے بیان داغا کہ بزنجو صاحب سے ناراض نہ ہوں وہ مسلمان نہیں ہیں.چٹان 23 تا 30 جنوری 1984 ء صفحہ 37 ، چٹان 19 مارچ 1984 ، صفحہ 7 ، چٹان 16 تا 23 اپریل 1984ء) بغاوت کی دھمکی اور آرڈیننس کا نفاذ اب یہ اعلان کیا گیا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو 30 اپریل 1984ء کو قادیانیوں کی عبادتگاہوں کو مسمار کر دیں گے.گویا احمدیوں کو بغاوت کے منصوبوں کا الزام 177

Page 196

دے کر اب یہ گروہ خود بغاوت برپا کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا.اور سب کو یہ باور کرانے کے لئے کہ ہم سچ بول رہے ہیں مولوی منظور احمد چنیوٹی صاحب نے کہا کہ ہم نے اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کے سلسلہ میں حکومت کو چھ آدمیوں کے نام دیئے ہیں اور ان میں مرزا طاہر احمد کا نام بھی شامل ہے.اگر ان چھ آدمیوں سے اسلم قریشی برآمد نہ ہوا تو ہم سر بازار گولی کھانے کو تیار ہیں.(نوائے وقت لاہور 18 فروری 1984ء) اس پس منظر میں جماعت احمدیہ کے مخالفین نے 27 اپریل کو اپنا جلسہ کرنے کا اعلان کیا اور 26 اپریل کو جنرل ضیاء صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف آرڈیننس نافذ کر دیا.(اس آرڈینس کی تفصیلات بعد کی قسط میں بیان کی جائیں گی.اس قسط میں مرکزی نقطہ اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی ہے ).آرڈیننس کے بعد مخالفین کی خوش فہمیوں کا عالم یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے اشد مخالف رسالہ چٹان نے لکھا: قادیانی فتنہ 26 اپریل 1984 ء کا سورج طلوع ہوتے ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا.اس روز جب سورج غروب ہوا تو برطانیہ کے خود کاشتہ پودے کی زندگی کا چراغ بھی ہمیشہ کے لئے گل ہو گیا.خس کم جہاں پاک.“ چٹان 30 اپریل 1984 صفحہ 6 اس کے اوپر جنرل ضیاء صاحب کی مسکراتی ہوئی تصویر بھی دی گئی تھی.آخر یہ کارنامہ تو اُن کا تھا.اس دعوے کی حقیقت کے بارے میں اب پڑھنے والے خود ہی رائے قائم کر سکتے ہیں.مباہلہ کا چیلنج بہر حال آرڈینس کے بعد اسلم قریشی صاحب کے اغواء اور شہادت کا معاملہ تو پس منظر 178

Page 197

میں چلا گیا اور دوسرے مطالبات زیادہ اہمیت اختیار کر گئے.اب ہم بیان کو مختصر کرتے ہوئے جون 1988 ء پر آتے ہیں.جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جماعت احمدیہ کے معاندین مکفرین اور مکذبین کومباہلہ کا چیلنج دیا.دوسرے چیلنجوں کے علاوہ ایک چیلنج یہ بھی تھا.’ جماعت احمدیہ کے موجودہ امام یعنی اس عاجز کے متعلق حسب ذیل پرو پیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ، اسلم قریشی نامی ایک شخص کے اغواء اور قتل میں ملوث ہے.میں بحیثیت امام جماعت احمد یہ یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ تمام الزامات کلیۂ جھوٹے اور افتراء ہیں اور ان میں کوئی بھی صداقت نہیں.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْن.( جماعت احمدیہ عالمگیر کی طرف سے دنیا بھر کے معاندین اور مکفرین اور مکذبین کو مباہلے کا کھلا کھلا چیلنج.صفحہ 11) اور اس دعوت مباہلہ کے آخر پر اس مباہلہ کا مقصد یہ لکھا تھا: تا کہ بچے اور جھوٹے میں خوب تمیز ہو جائے اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہو.“ اس مضمون کے موضوع کی مناسبت سے مباہلہ کے صرف اس پہلو کے بارے میں جائزہ لینا مناسب ہوگا یا تو مخالفین اقرار کریں کہ انہوں نے مباہلہ کی دعوت قبول نہیں کی تھی یا پھر یہ قبول کرنا ہوگا کہ اس پہلو سے جو فیصلہ ہوا وہ خدا کی طرف سے فیصلہ تھا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا کیونکہ اس مباہلہ میں تو یہی لکھا تھا کہ خدا خود کچے اور جھوٹے میں تمیز کر کے دکھائے.مُردہ زندہ ہوتا ہے ابھی اس چیلنج کو کچھ ہفتے ہی گزرے تھے کہ 12 جولائی 1988 ء کا دن آن پہنچا اور وہ دن خاکسار کو بھی بخوبی یاد ہے.صبح سے اسلم قریشی صاحب کے متعلق کچھ افواہیں گردش کرنا شروع ہو گئی تھیں جو کہ گزشتہ سالوں کے واقعات کو دیکھتے ہوئے نا قابل یقین لگ رہی تھیں.179

Page 198

بہر حال شام کی خبروں کا وقت ہوا تو اسی ملی جلی کیفیت کے ساتھ سب ٹی وی کے اردگرد جمع ہو گئے.یکلخت سکرین پر پولیس کی معیت میں بیٹھے ہوئے مولانا اسلم قریشی صاحب نظر آئے.ہاں وہی اسلم قریشی جن کے متعلق یہ دعوے تھے کہ احمدیوں نے بلکہ امام جماعت احمدیہ نے اغواء کروا دیا ہے.ہاں وہی اسلم قریشی صاحب جن کے متعلق مخالفین نے اشتہار دیا تھا کہ اگر احمدیوں سے اس کا پتہ نہ ملے تو ہمیں چوک میں گولی مار دینا.ہاں وہی اسلم قریشی صاحب جن کی شہادت کی روح فرسا خبر مخالفین جماعت ایک عرصہ سے اپنے بیانات میں قوم کو سنا کر اشتعال دلا رہے تھے اور ان کے قتل کی وجہ سے احمدیوں کو گردن زدنی قرار دے رہے تھے.ہاں وہی اسلم قریشی صاحب جن کے اغواء اور شہادت کی وجہ سے پورا ملک ایک ہیجان میں مبتلا رہا تھا.آج وہی اسلم قریشی شہید مجاہد ختم نبوت ہمیں سکرین پر زندہ سلامت جلوہ افروز نظر آرہے تھے.بہر حال یہ سوال ہر ذہن میں تھا کہ یہ حضرت آخر تھے کہاں ؟ پولیس نے کہا کہ یہا اپنی مرضی سے ایران گئے تھے اور اپنی مرضی سے ہی وہاں سے واپس آگئے ہیں.اب ان مولانا کی کہانی ان کی اپنی زبانی سنیں.ان صاحب نے فرمایا کہ ملک سے چلا جانا اصل میں میری اسلامی سوچ کا نتیجہ تھا.یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور یہاں توہین رسالت ہوتی تھی.میں یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا.میں نے اس طرح جانے کی با قاعدہ منصوبہ بندی کی تھی.میں اپنے غائب ہونے کی جگہ سے نکلا اور لاہور آ گیا.وہاں سے ملتان اور ملتان سے سندھ گیا اور وہاں کچھ عرصہ حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی کے مزار پر رہا.وہاں سے گوادر آ گیا اور 4 یا 6 ماہ پاکستان میں رہا اور اپنے گم ہونے پر تقریریں بھی سنتار ہا اور پھر ایران کی سرحد کے قریب ایک گاؤں میں مزدوری کرنے لگا لیکن یہ مشقت کا کام تھا اور مجھے مشقت کی عادت نہیں تھی.چنانچہ میں ایران آ گیا اور وہاں سیستان میں امام کی نوکری مل گئی.پھر فوج 180

Page 199

میں بھرتی ہو گیا اور عراق کے خلاف جنگ میں بھی شامل ہوا.اور پھر وہاں سردی لگنے لگی میرے پاؤں مشکل ہو جاتے تھے.چنانچہ وہاں بھی نہیں ٹک سکا اور پاکستان واپس آ گیا.ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ کو اپنے اہل خانہ کا خیال نہ آیا کہ انہیں بھی اطلاع کر دیں تو موصوف فرمانے لگے کہ یہ بات میرے ذہن میں نہیں آئی کہ انہیں اطلاع کر دوں.پھر یہ بھی فرمایا کہ میں اللہ کے بھروسے پر انہیں چھوڑ گیا تھا.ایک دو سال پہلے میں نے اپنے بیٹے کو خط بھجوایا تھا.ان کے صاحبزادے سے پوچھا کہ آپ نے وہ خط ایجنسیوں کو کیوں نہیں دکھایا ؟ تو وہ فرمانے لگے میں نے ایک ہینڈ رائیٹنگ کے ماہر کو دکھایا تھا تو اس نے کہا تھا کہ یہ اسلم قریشی صاحب کی تحریر نہیں ہے.ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کی گمشدگی کی وجہ سے لوگ ایک اقلیت کو مارنے پر تل گئے تھے کیا آپ کو یہ بات معلوم نہیں تھی؟ تو اسلم قریشی صاحب نے کہا کہ میرے خیال میں تو انہیں نیست و نابود ہی ہو جانا چاہیے.انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ انہیں یقین تھا کہ اسلم قریشی صاحب قتل نہیں ہوئے اور کچھ عرصہ سے خبریں مل رہی تھیں کہ وہ ایران میں زندہ موجود ہیں.دال کھانے میں دشواری (نوائے وقت 13 جولائی، 1988ء، جنگ 13 جولائی 1988 ء) اس خبر کا نشر ہونا تھا کہ جماعت کے مخالف حلقوں میں قیامت برپا ہوگئی.اتنے برسوں سے یہ دعوے کئے جارہے تھے کہ اگر ہمارا یہ دعویٰ غلط نکلا تو ہمیں گولی مار دینا ، پھانسی چڑھا دینا.اب کوئی گولی کھانے کو آگے نہ آیا.کبھی کسی نے ایک بیان داغا اور کبھی دوسرا بیان داغا.اب چلو بھر پانی بھی دستیاب نہیں ہو رہا تھا.دوسری طرف اسلم قریشی صاحب کو چند روز جیل کی ہوا کھانی پڑی تو ان کو مظلوم بنانے کی ناکام سی کوششیں شروع ہوئیں.یہ خبریں بھی شائع 181

Page 200

ہوئیں کہ مولانا جیل کی کوٹھڑی میں چیچنیں مار رہے ہیں کہ میری جنگ قادیانیوں کے ساتھ ہے.اب اس ملک میں میں رہوں گا یا قادیانی رہیں گے.پھر یہ خبر شائع ہوئی کہ انہیں وضو کرنے میں بھی دشواری پیش آرہی ہے اور صرف ڈبل روٹی کھا رہے ہیں یا دینی مطالعہ کر رہے ہیں.کمزور بہت ہو گئے ہیں.پھر یہ رونا بھی رویا گیا کہ مولانا اسلم قریشی صاحب کے اہل خانہ ان کی ضمانت اور رہائی کے لئے کوئی کوشش نہیں کر رہے بلکہ انہیں گھر سے کھانا بھی نہیں بھجوا ر ہے اور جیل کا کھانا کھانے پر مولانا تیار نہیں ہورہے.جن چھوٹے چھوٹے بچوں کو وہ بے یار و مددگار چھوڑ کر گئے تھے ، ان کا یہ ردعمل سمجھنا مشکل نہیں.ایک دن ایک اخبار نے یہ تشویشناک خبر شائع کی کہ جب مولانا کو کھانے کے لئے دال پیش کی گئی تو انہوں نے دال کھانے سے صاف انکار کر دیا اور فرمائش کی کہ مجھے مرغا یا گوشت پیش کیا جائے.اتالمبا عرصہ پوری قوم کو دھوکہ دینے کے بعد بھی کیفیت یہ تھی کہ دال حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی.پھر یہ بھی انکشاف ہوا کہ مولانا نے ایک شادی ایران میں بھی کی تھی اور اس سے ایک بیٹی بھی تھی.ان کی ایرانی بیوی کا نام فاطمہ تھا اور اس سے بیٹی کا نام سمیرا تھا.پہلے ایک بیوی سے اولا د کو پاکستان میں چھوڑ کر بھاگے اور پھر ایک اور بیوی سے اولا دکو ایران میں چھوڑ کر فرار ہو گئے.( امروز 6 اگست 1988ء، امروز یکم اگست 1988ء ، مرکز 18 اگست 1988ء، نوائے وقت کیکم اگست 1988ء) جماعت احمدیہ کے مخالفین کو گرفتار کرنے کا مطالبہ اب اتنی شرمناک صورت حال سامنے آرہی تھی کہ علماء کے بعض طبقوں کی طرف سے اس واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ شروع ہو گیا.چنانچہ امام اعظم کونسل نے اپنے ایک اجلاس میں مطالبہ کیا کہ اسلم قریشی کی گمشدگی اور پھر برآمدگی ایک سازش ہے.چنانچہ ضروری ہے کہ 182

Page 201

تحریک ختم نبوت کے لیڈروں مثلاً مولوی منظور چنیوٹی ، مولوی خان محمد صاحب ،ضیاء القاسمی وغیرہ کو گرفتار کر کے ان کا جسمانی ریمانڈ لیا جائے اور ہائی کورٹ کے ایک حج سے اس واقعہ کی تحقیقات کرائی جائیں.ان افراد کو گرفتار کر کے بے نقاب کیا جائے اور کڑی سزا دی جائے تا کہ مذہب کے نام پر آئندہ کسی کو ایسا ڈرامہ کرنے کی ہمت نہ ہو اور اس ڈرامہ کے دوران جو املاک تباہ ہوئیں اور جو اسلم قریشی کے نام پر جو کروڑوں کا چندہ اندرون ملک اور بیرون ملک وصول کیا گیا وہ قومی خزانہ میں جمع کرایا جائے.یہ ایک ڈھونگ تھا جو کہ ختم نبوت کے نام پر علماء دیو بند نے رچایا تھا.(روز نامہ حیدر راولپنڈی 15 جولائی 1988 ء) ایک اخبار نے اس صورت حال پر یہ اداریہ لکھا.افسوسناک امر تو یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو ساڑھے پانچ برس تک گمراہ کیا جاتارہا اور مختلف حلقوں پر اس ضمن میں الزامات بھی عائد کئے گئے.مولانا اسلم قریشی کی از خود واپسی جہاں ان کی گمشدگی سے زیادہ بڑا اسرار ہے وہاں اس حوالے سے بہت سے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں.مثال کے طور پر اس سلسلہ میں آج تک جتنے بے گناہ لوگوں کو تھانوں میں بٹھا کر تفتیش کے بہانے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ مولانا موصوف کی بازیابی کے لئے جتنی ہڑتالیں کی گئیں اور کاروباری حلقوں کا جتنا نقصان ہوا اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ “ (روز نامه حیدر راولپنڈی 14 جولائی 1988 ء) اس وقت قومی اسمبلی تو تحلیل ہو چکی تھی البتہ سینٹ میں اس اسلم قریشی صاحب کا بعد از موت زندہ ہو جانے کا تذکرہ ضرور ہوا.اس موضوع پر تحاریک التوا پیش ہوئیں تو چیئر مین 183

Page 202

سینٹ نے انہیں خلاف ضابطہ قرار دیا لیکن وفاقی وزیر داخلہ نسیم آہیر صاحب نے بتایا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ اسلم قریشی صاحب نے اپنے اہل خانہ کو بھی بتانا مناسب نہ سمجھا.ان کی ایران میں موجودگی کی اطلاع زاہدان میں پاکستان کے قونصل جنرل نے کی تھی اور اسی اطلاع پر جب وہ پاکستان میں داخل ہورہے تھے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا.عذر گناه بدتر از گناه (نوائے وقت 3 اگست 1988ء) اب مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے جماعت احمدیہ کے مخالفین نے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے.اسلم قریشی صاحب نے عدالت میں جا کر بیان تبدیل کیا کہ اصل میں میرا گزشتہ بیان غلط تھا، مجھے قادیانیوں نے اغوا کیا تھا اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا.(Dawn August 2, 1988، Pakistan Times 2August (1988) چند دنوں کے لئے جماعت کے مخالف رسائل نے یہ لکھا کہ لوجی ! اسلم قریشی نے قادیانیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا.پھر یہ شائع کیا کہ یہ کیا سے کیا ہو گیا.اسلم قریشی صاحب کی برین واشنگ کر دی گئی ہے لیکن پھر شاید کسی عقلمند نے مشورہ دیا کہ چپ رہو یہ تو ممکن نہیں کہ آدمی ربوہ قادیانیوں کی قید میں ہو اور اس کا بچہ ایران میں پیدا ہو جائے اور ویسے بھی پاکستانی قونصل ان کا پیچھا ایران سے کر رہا تھا.اس کے بعد یہ مخالفین خاموش ہو کر بیٹھ گئے اور یہ واویلا بند کر دیا گیا.حقیقت کھل چکی تھی.چٹان 2 تا 9 اگست 1988 ، چٹان 12 تا 19 جولائی 1988ء) اسلم قریشی صاحب کو ایک مرتبہ پھر رہا کیا گیا.اب یہ خوار پھر رہے تھے اور کوئی انہیں منہ لگانے کو تیار نہیں تھا.انہوں نے ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بننے کے لئے جماعت احمدیہ 184

Page 203

کے مشہور وکیل خواجہ سرفراز احمد صاحب پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن خواجہ صاحب کی زندگی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ گئی.اب بیہودگی اور چھچھورے پن کی انتہا ہو چکی تھی.اس واقعہ پر خود سیالکوٹ کے وکلاء نے ہڑتال کر دی اور شدید احتجاج کیا اور جلوس نکالا.اب مجلس تحفظ ختم نبوت کو بھی ہمت نہیں ہوئی کہ اس کی حمایت کرتی.یہ اس ڈرامے کا ڈراپ سین تھا.امروز لاہور 10 مارچ 1989ء) اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ نے اس اہم واقعہ کا ذکر غیر معمولی اختصار سے کیا تھا اور مضمون کافی تشنہ رہ گیا تھا حالانکہ 1984ء کے واقعات کی بنیاد اسلم قریشی صاحب کی نام نہاد شہادت ہی تو تھی.ان حالات کو سمجھنے کے لئے ان واقعات کی تفاصیل کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے.عدالتی فیصلہ میں کلیدی اسامیوں کا ذکر اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں اس مسئلہ کا ذکر بار بار آیا ہے کہ احمدیوں کی فہرستیں بنانا ضروری ہے ورنہ یہ خدشہ ہے کہ احمدی یا دوسرے اقلیتی مسالک کے لوگ کلیدی یا حساس اسامیوں پر فائز ہو سکتے ہیں.خواہ اس مقدمہ میں درخواست گزاروں کی درخواستیں ہوں ، یا وکلا کے دلائل ہوں، یا عدالت کی اعانت کے لئے طلب کئے گئے ماہرین کی آراء یا بحث ہو یا عدالت کا اپنا فیصلہ یا رائے ہو، یہ ذکر بار بار آتا رہا ہے کہ کلیدی یا حساس اسامیوں پر قادیانیوں کا تسلط پہلے بھی رہا ہے اور اب بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ ان اسامیوں پر فائز ہوکر وہ ملک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں.185

Page 204

درخواست گزاروں کا موقف سب سے پہلے اس مسئلہ کا ذکر اللہ وسایا صاحب کی درخواست میں آیا.ان کی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے: "Direct the Respondent No.3to maintain, henceforth, a separate database of individuals belonging to Qadiani group/Lahori group entering in civil service so that in future they may not be posted in offices involving (page 3) sensitive matter/s', ترجمہ: مدعاعلیہ نمبر 3 کو ہدایت کی جائے کہ وہ قادیانی / لاہوری گروہ سے تعلق رکھنے والوں کے علیحدہ اعدادو شمار جمع رکھنے کا اہتمام کرے تا کہ انہیں ایسے عہدوں پر مقرر نہ کیا جائے جو 66 حساس معاملات سے نمٹتے ہیں.یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس فیصلہ میں key posts‘ اور ’sensitive posts کا نام تو کئی جگہ آیا ہے لیکن یہ وضاحت نہیں کہ حساس یا کلیدی اسامیوں سے کیا مراد ہے؟ جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے یہ مطالبہ بہت پرانا ہے کہ احمدیوں کو کلیدی یا حساس اسامیوں پر نہ لگایا جائے.جہاں تک ان عہدوں کی تعریف کا تعلق ہے تو یہ سوال 1953ء کے فسادات پر بننے والی تحقیقاتی عدالت میں بھی کیا گیا تھا.اس وقت یہ موقف پیش کیا گیا تھا کہ ” کلیدی اسامی“ سے مراد وہ عہدہ ہے جس کا کام پالیسی وضع کرنا ہولیکن جب ان سے یہ دریافت کیا گیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے علاوہ ، جو اُس وقت وزیر خارجہ تھے اور کون سے احمدی کلیدی عہدے پر مقرر ہیں ؟ تو وہ کسی اور ایسے احمدی کا نام 186

Page 205

نہیں لے سکے جو اُس وقت ایسے عہدے پر کام کر رہا تھا.رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953 ، صفحہ 262) لیکن جیسا کہ اوپر حوالے درج کر دیئے گئے ہیں یہی مطالبہ 1984ء میں بھی دہرایا جار ہا تھا لیکن اگر کوئی آدمی ریلوے سٹیشن پر کینٹین کا ٹھیکیدار بن جائے تعلیمی ادارے میں ورزش کرانے والا استاد بن جائے یا کسی ہسپتال کا ڈائر یکٹر آف سرجری بن جائے تو اس پر بھی احتجاج کیا جا رہا تھا.اس قسم کے مطالبات میں جن کا مقصد حقوق کو سلب کرنا ہو بعض اصطلاحات کا مفہوم مبہم رکھا جاتا ہے تا کہ وقت کے ساتھ ان کو حسب منشا تبدیل کیا جاسکے.اور شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ وسایا صاحب جو اس درخواست میں درخواست گزار (W.P.NO.3862 / 2017) ہیں انہوں نے عدالت میں یہ استدعا بھی کی ہے "Direct the Respondent No.3to bring on record a detailed report showing individuals/officers belonging to Qadiani group/Lahori group currently serving in the Federal Government with their respective portfolios” (page 34) ترجمه: مدعاعلیہ نمبر 3 کو ہدایت کی جائے کہ وہ افراد افسران جو کہ قادیانی / لاہوری گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور وفاقی حکومت میں ملازم ہیں، ان کی فہرست ان کے عہدوں سمیت تیار کر کے ریکارڈ پر رکھی جائے.یہاں پر مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام ایسے احمدیوں کی فہرست تیار کی جائے جو کہ وفاقی حکومت میں ملازم ہیں.یہ فیصلہ بعد میں اپنی خواہش کے مطابق کیا جائے گا کہ کون کلیدی اسامی پر کام کر رہا ہے؟ اسی طرح درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ جب عدالت نے اس کا رروائی کے دوران establishment 187

Page 206

division سے استفسار کیا کہ کتنے قادیانی کلیدی اسامیوں (key posts) پر کام کر رہے ہیں تو ان کی طرف سے جواب دیا گیا کہ یہ اعداد و شمار تیار نہیں کئے گئے.وکیل نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ علم نہیں کہ کتنے قادیانی بیوروکریسی میں شامل ہو کر اپنے مفادات کے لئے کام کر رہے ہیں.عدالتی ماہرین کی رائے (صفحہ 10,9) یہ تو درخواست گزار کے وکیل صاحب کے دلائل تھے.اس موضوع پر، ان ماہرین نے بھی جنہیں عدالت نے اپنی اعانت کے لئے طلب کیا تھا ، اظہارِ خیال کیا.چنانچہ ایک Amicus Curiae حافظ حسن مدنی صاحب نے یہ رائے دی : "Before induction of persons in sensitive institutions a thorough investigation about their faith may be conducted with the help of the religious experts and psychiatrists and for this purpose a Board may be constituted with the (page 20) task of giving ideological verification." ترجمہ: حساس اداروں میں رکھنے سے قبل امیدوار کے عقائد کے بارے میں دینی ماہرین سے اور ماہرین نفسیات سے مکمل تحقیقات کرالینا ضروری ہیں.اور اس غرض کے لئے ایک بورڈ بنانا چاہیے جو کہ نظریات کی تحقیقات کرے.ایک اور amicus curiae اکرم شیخ صاحب نے بھی اس نظریہ کی تائیدان الفاظ میں کی: "Yet, these laws and such amendments may be 188

Page 207

rendered more effective by bringing about administrative changes at the grassroots level, such as inserting a requirement to filing a declaration by the competing candidates for Civil Services posts and exams.Such a requirement is not entirely alien to our state institutions, as it is already a prerequisite for induction into the military service in Pakistan." (page 29) ترجمہ: پھر بھی ان قوانین کو اور ایسی ترامیم کو زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے اگر نچلی سطح پر انتظامی تبدیلیاں کی جائیں.مثلاً سول سروس کے عہدوں کے لئے منتخب ہوتے ہوئے یا سول سروس کے امتحان کے وقت ایک اظہار جمع کرانا ضروری قرار دیا جائے.ایسا نہیں کہ ہماری ریاست کے انتظام میں اس کی مثال موجود نہ ہو کیونکہ عسکری خدمات میں لئے جانے سے قبل اس کا جمع کرایا جانا ضروری ہوتا ہے.لیاقت علی خان صاحب کی اصل رائے کیا تھی ؟ پھر اس بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے اس فیصلہ میں تحریر کیا گیا ہے: "Within a span of four years Mr.Liaqat Ali Khan came to know of the Qadianis prophecies and utterances regarding creation of an Ahmadiyya state in Kashmir and Baluchistan.In the wake of their policy and aspirations for a united India, he ordered the creation of Special Intelligence Cell to prepare list of Qadianis in sensitive postions and to keep an aye on their activities." (page 46) ترجمہ: چار سال کی مدت کے اندر اندر مسٹر لیاقت علی خان کو بلوچستان اور کشمیر میں اپنی 189

Page 208

ریاست بنانے کے بارے میں قادیانیوں کی پیشگوئیوں اور بیانات کا علم ہو گیا اور اس بات کی وجہ سے کہ ان کی پالیسی اور امنگیں یہ ہیں کہ ہندوستان کو متحد کر دیا جائے لیاقت علی خان صاحب نے حکم دیا کہ انٹلیجنس کا خصوصی شعبہ قائم کیا جائے جو کہ ان قادیانیوں کی لسٹ بنائے جو کہ حساس عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے.پہلی بات یہ ہے کہ الزام تراشی کی جلدی میں دو عجیب وغریب متضاد الزام لگا دیئے گئے ہیں.اگر احمدی کشمیر اور بلوچستان میں اپنی علیحدہ ریاستیں بنانے کی سازش کر رہے تھے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ وہ متحدہ ہندوستان کے دوبارہ قیام کی سازش کر رہے تھے.اگر احمدیوں نے کشمیر میں اپنی علیحدہ ریاست بنائی تھی تو پھر متحدہ ہندوستان بنانے کی سازش نہیں ہو سکتی تھی بلکہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے متعلق بھی یہ سازش تھی.یہی ایک پہلو اس الزام کو غیر سنجیدہ الزام ثابت کر دیتا ہے.ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے کہ اگر لیاقت علی خان صاحب کے نزدیک احمدی اتنی بڑی سازش کر رہے تھے تو پھر انہوں نے ایک احمدی کو اپنے آخری دم تک ملک کا وزیر خارجہ کیوں بنائے رکھا؟ اور جہاں تک اس افسانوی Special Intelligence Cell کا تعلق ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ اس کا ثبوت دینا تو الزام لگانے والوں کا کام ہے.اس کا ثبوت دیکھنے کے بعد ہی اس کے متعلق کوئی رائے دی جاسکتی ہے.اس وقت کا ریکارڈ تو اب declassify بھی ہو چکا ہے.اس لئے اس کا ثبوت نہ دینے کا کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے.البتہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب کے متعلق جو ریکارڈ ہم نے دیکھا ہے، اس کے مطابق آپ کو ایک طبقہ سے خدشہ تھا کہ وہ پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ کون سا طبقہ تھا ؟ یہ جاننے کے لئے ہم خود انہی کے الفاظ پیش کرتے ہیں.یہ موقع بھی بہت اہم تھا.یہ موقع تھا جب پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں 190

Page 209

قراردادِ مقاصد پیش ہوئی.اس موقع پر ایک معزز ہندو ممبر اسمبلی نے اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ چند تنگ نظر مولوی صاحبان ان کے پاس آئے اور اپنے شدت پسند نظریات کا اظہار کیا.اس کے جواب میں لیاقت علی خان صاحب نے فرمایا: "I can quite understand why this visit and why this handing over of this literature was done.There are some people who are out to disrupt and destroy Pakistan and these so called ulema who have come to you, they have come with that particular mission of creating doubts in your mind regarding the bona fides of the mussalmans of Pakistan.Do not for God's sake lend your ears to such mischievous propaganda.I want to say and give a warning to this element which is out to disrupt Pakistan that we shall not brook it any longer.They have misrepresented the whole ideology of Islam to you.They are in fact enemies of Islam while posing as friends and supporters of Islam...Sir, my friend that these people told him that in an Islamic state-that means a state which is established in accordance with this resolution-no Non-Muslim can be head of the administration.This is absolutely wrong.A non- Muslim can be the head of administration under a constitutional government with limited authority that given under the constitution to a person or an institution in that 191

Page 210

particular state." (Constituent Assembly of Pakistan Debates, Vol no.5 p 5 12th March 1949 p 94-95) ترجمہ: میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ وہ ملاقات کرنے کیوں آئے تھے اور یہ لٹریچر کیوں دیا گیا تھا ؟ بعض لوگ ایسے ہیں جو پاکستان کو منتشر اور تباہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ نام نہاد علماء جو آپ کے پاس آئے تھے وہ اسی مشن کے ساتھ آئے تھے تا کہ آپ کے ذہن میں پاکستان کے مسلمانوں کی حسن نیت کے بارے میں شک ڈالیں.خدا کے لئے ان لوگوں کے شر انگیز پراپیگنڈا پر کان نہ دھریں.میں یہ کہنا چاہتا ہوں اور اس طبقہ کو جو پاکستان کو منتشر کرنا چاہتا ہے یہ انتباہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اسے مزید برداشت نہیں کریں گے.ان لوگوں نے آپ کے سامنے اسلامی نظریات کی غلط ترجمانی کی ہے اور یہ لوگ اپنے آپ کو اسلام کا دوست اور حمایتی ظاہر کرتے ہیں اور اصل میں اسلام کے دشمن ہیں...جناب ! میرے دوست نے بتایا کہ ان لوگوں نے انہیں بتایا کہ ایک اسلامی ریاست میں یعنی اُس ریاست میں جو کہ اس قرار داد کے مطابق وجود میں آئے گی.کوئی غیر مسلم انتظامیہ کا سر براہ نہیں ہو سکتا.یہ بالکل غلط ہے.ایک غیر مسلم آئینی حکومت میں انتظامیہ کا سر براہ ہوسکتا ہے.ان محدود اختیارات کے ساتھ جو کہ کسی ریاست کے آئین میں کسی شخص یا ادارے کو دیئے جاتے ہیں.یہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں بیان ہے اور لیاقت علی خان صاحب تو یہ اقرار کر رہے ہیں کہ مولویوں کا ایک طبقہ تنگ نظری کے خیالات کو پھیلا کر ملک کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ تو یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر پاکستان میں کسی شخص کو سر براہ حکومت بننے سے بھی نہیں روکا جا سکتا.یہ دونوں باتیں 192

Page 211

اس عدالتی فیصلہ میں درج باتوں کی تردید کر رہی ہیں.ایک بے بنیادالزام اس فیصلہ کے صفحہ 49 پر یہ مفروضہ درج ہے کہ احمدی کلیدی عہدوں پر کس طرح لگائے جاتے تھے؟ "They collaborated both with the military rulers and the bureaucracy to get key posts in fast expanding economic institutions and public organizations." ترجمہ: انہوں نے ( یعنی احمدیوں نے ) فوجی حکمرانوں اور بیورو کریسی کے تعاون سے پاکستان کے تیزی سے ترقی پانے والے اقتصادی اور پبلک اداروں میں کلیدی اسامیوں پر قبضہ کر لیا.جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے رہ چکا ہے اور ان کے ٹکٹ پر ایک مرتبہ الیکشن بھی لڑا تھا گو کا میاب نہیں ہو سکے تھے اور یہ یاد کراتے جائیں کہ جب جنرل ضیاء صاحب کی آمریت تھی تو جماعت اسلامی شروع میں ان سے بھر پور تعاون کر رہی تھی اور ان کی کابینہ میں عہدے بھی قبول کر رہی تھی.اس پس منظر کے باوجود جماعت احمدیہ پر بغیر ثبوت کے یہ اعتراض ایک بے معنی دعوے سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ، جس کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا.Eye of the Pakistan Owen Bennet Jones.Storm میں لکھتے ہیں : "Throughout his period in office Zia rewarded the only political party consistent him to offer 193 support,

Page 212

Jamaat-e-Islami.Tens of thousands of Jamaat activists and sympathisers were given jobs in the judiciary, the These institutions.other state and service civil appointments meant Zia's Islamic agenda lived on long after he died." (Pakistan Eye of the Storm by Owen Bennet Jones, internet archives p 17) ترجمہ: اپنے سارے دور میں ضیاء نے اُس ایک پارٹی کو یعنی جماعت اسلامی کو نوازا جس نے اسے مستقل مدددی تھی.جماعت اسلامی کے ہزاروں حامیوں اور ہمدردوں کو عدلیہ میں ، سول سروس میں اور دوسرے ریاستی اداروں میں ملازمتیں دی گئیں.ضیاء کی موت کے بعد بھی اس نے ان کے اسلامی ایجنڈا پر عملدرآمد کرایا.اس پس منظر میں جماعت احمدیہ پر یہ الزام ایک بے معنی الزام ہے کیونکہ جماعت احمدیہ کے مخالفین کو آمریت کے دور میں سب سے زیادہ نواز ا گیا تھا.اس فیصلہ کے صفحہ 127 پر لکھا ہے: "That phenomenon of the infiltration of Qadianis by posing themselves as Muslims, in the State institutions and key posts, including the high Constitutional offices was to be addressed, effectively but no step were taken towards this direction, although the same has been the demand of the nation and mandate of 2nd Constitutional Amendment." ترجمہ: قادیانیوں کا اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے ریاستی اداروں اور کلیدی اسامیوں 194

Page 213

بشمول اعلیٰ آئینی عہدوں میں سرایت کر جانے کے عمل کا مسئلہ حل ہونا چاہیے تھا لیکن اس سمت میں کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا.اگر چہ دوسری آئینی ترمیم کے بعد سے یہ قوم کا مطالبہ رہا ہے.اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 168 پر یہ مطالبہ بالکل ایک اور رنگ میں پیش کیا گیا ہے.اور اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ عمل صرف احمد یوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اسے آگے بڑھایا جائے گا اور ہرا ہم سرکاری اہلکار سے نہ صرف یہ دریافت کیا جائے گا کہ اس کا مذہب کیا ہے بلکہ ہر مسلمان اہلکار سے یہ بھی پوچھا جائے گا کہ اس کا فرقہ کون سا ہے اور ایسا بڑے پیمانے پر کیا جائے گا.چنانچہ لکھا ہے: Every citizen of the country has right to know that the person(s) holding the key posts belongs to which religious community........(page168) ترجمہ: ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ یہ جانے کہ جو شخص کلیدی عہدے پر کام کر رہا ہے ، اس کا مذہبی گروہ کیا ہے؟ احمدی صرف حساس نہیں بلکہ کسی معزز اور آئینی عہدے پر بھی مقرر نہیں ہو سکتے پھر اس فیصلہ میں احمدیوں کے بارے میں لکھا ہے: "Due to their names they can easily mask their belief and become part of Muslim majority.Also they can then gain access to dignified and sensitive posts resulting in accumulation of all benefits." (page169-170) ترجمہ: اپنے ناموں کی وجہ سے وہ اپنے عقائد چھپاتے ہیں اور مسلم اکثریت کا حصہ بن جاتے ہیں اور معزز اور حساس عہدوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں.195

Page 214

اس حصہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدالت کے نزدیک کسی اقلیت کے لئے معزز عہدے پر مقررہونا بھی ممنوع ہے اور وہ صرف غیر معزز اسامیوں پر ہی کام کر سکتے ہیں.پھر لکھا ہے: "It is significant to prevent this situation because the appointment of a non Muslim on constitutional posts is against our organic law and rituals." (page 170) ترجمہ: اس صورت حال کو روکنا ضروری ہے کیونکہ ایک غیر مسلم کا آئینی عہدوں پر فائز ہونا ہمارے organic law اور رسومات کے خلاف ہے.عدالتی فیصلہ آئین کی بنیاد کے خلاف یہاں کلیدی اسامیوں کی جگہ ایک اور اصطلاح استعمال کی گئی ہے یعنی ” آئینی عہدے“.اگر آئینی عہدوں سے مراد وہ تمام عہدے ہیں جن کا ذکر پاکستان کے آئین میں ہے تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ پاکستان کے آئین کی رو سے صرف وزیر اعظم اور صدر کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے اور باقی کسی عہدے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ مسلمان ہو.مثال کے طور پر وفاقی وزراء اور صوبائی وزراء کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے.اسمبلیوں کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں.سینٹ کے چیئر مین کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں.تمام عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان اور جج صاحبان کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں.چیف الیکشنر کمیشنر ، چیئر مین پبلک سروس کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں.یہ سب عہدے بھی تو آئین میں مذکور ہیں.جب یہ بات کی جا رہی ہے کہ ان عہدوں : وں پر کوئی غیر مسلم یا جسے پاکستان کا آئین غیر مسلم قرار دیتا ہے ان عہدوں پر مقرر 196

Page 215

نہیں ہوسکتا تو یہ بات بذات خود پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے.یہ بات ماورائے آئین نہیں بلکہ خلاف آئین ہے کیونکہ پاکستان کا آئین یہ ضمانت دیتا ہے اور یہ ضمانت پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 71 (2 ) میں موجود ہے.اس آرٹیکل کے الفاظ یہ ہیں: کسی شہری کے ساتھ جو باعتبار دیگر پاکستان کی ملازمت میں تقرری کا اہل ہو، کسی ایسے تقریر کے سلسلے میں محض نسل ، مذہب ، ذات ، جنس ،سکونت یا مقام پیدائش کی بناء پر امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا.“ اور آئین کی شق باب 1 یعنی بنیادی حقوق کے باب میں شامل ہے اور اس باب کا آغاز ( یعنی آئین کے آرٹیکل 8 کا آغاز ) ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے: (1) کوئی قانون، یا رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو، تناقص کی اس حد تک کا لعدم ہو گا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو.(2) مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے اس خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا.تو صورت حال یہ ہے کہ آئین کی رو سے کوئی رسم یا رواج اس بنیادی حق کی راہ میں روک نہیں بن سکتا اور مملکت مستقبل میں بھی کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو اس شق کی خلاف ورزی کرے.اگر مملکت ایسا قانون بنا بھی دے تو وہ اگر ان حقوق سے متصادم ہو جن کا ذکر اس باب میں ہے تو وہ قانون اس حد تک کالعدم ہوگا اور اس پر عمل درآمد کرنا ایک غیر آئینی قدم ہوگا.درخواست گزاروں نے یہ درخواست دی ہے کہ احمدیوں کو کلیدی اسامیوں سے علیحدہ 197

Page 216

کیا جائے ، یا وکلاء یا Amicus Curiae نے جو دلائل دیئے ہیں کہ احمدیوں کا کلیدی اسامیوں پر کام کرنا مناسب نہیں ہے اور خود انہوں نے اس عدالتی فیصلہ میں اس بات پر بار بار اظہار تشویش کیا ہے کہ احمدی آئینی عہدوں پر یا کلیدی اسامیوں پر مقر نہیں ہو سکتے.رواج اور Natural Law کا سہارا غالباً جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کو اس بات کا احساس تھا کہ یہ درخواست اور ایسا کوئی بھی ممکنہ قدم کوئی آئینی جواز اپنے اندر نہیں رکھتا.یہ آئین کی ان شقوں کے خلاف ہے جن کے خلاف قانون سازی کا حق مملکت کے کسی ادارے کو نہیں ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس الجھن سے نکلنے کے لئے اور اس بات کا جواز پیدا کرنے کے لئے انہوں نے اس آخری حوالے میں لکھا ہے کہ اگر غیر مسلم آئینی عہدوں پر کام کرے تو یہ ہمارے Ritual رسم یا رواج اور Natural Law کے خلاف ہوگا.یہاں اس بحث سے پہلے کہ Ritual اور Natural Law کا مطلب کیا ہے اور اس موقع پر ان کا ذکر کرنا اپنے اندر کوئی قانونی معنی رکھتا بھی ہے کہ نہیں؟ ایک بنیادی سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی Ritual آئین کی بنیادی شقوں کے خلاف ہو تو کیا پاکستان میں آئین پر عمل ہوگا یا پھر ہر کوئی شخص اس بات پر آزاد ہے کہ وہ اپنی مقامی Ritual پر عمل کرتا رہے اور آئین کی خلاف ورزی کرے.آئین پاکستان کا آغاز ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ کوئی رواج ان بنیادی حقوق کو ختم نہیں کر سکتا جو کہ بنیادی حقوق کے باب میں درج ہیں.اور جہاں تک اس فیصلہ میں Natural Laws کا تعلق ہے تو اس موضوع پر قدیم زمانے سے اب تک بہت بحثیں ہوئی ہیں.ارسطو اور افلاطون سے شروع ہوکر پھر عیسائی 198

Page 217

راہب Aquinas سے آج کے فلاسفروں تک اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے.یہاں ان سب بحثوں کا خلاصہ بیان نہیں کیا جا رہا لیکن اس ضمن میں چند سوالات ضرور اُٹھتے ہیں.پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پھر ہر فیصلہ کرنے والے کو اجازت ہو گی کہ وہ Natural Law کا نام لے کر آئین کی خاص طور پر ان شقوں کو جن کا تعلق بنیادی حقوق سے ہے کالعدم قرار دے دے؟ اگر ایسا کیا جائے گا تو پھر وہ دروازہ کھلے گا کہ کوئی بھی بنیادی انسانی حق محفوظ نہیں رہے گا.دوسرا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آج پاکستان میں مذہب کو بنیاد بنا کر اور Natural Laws کا نام لے کر کچھ طبقات کو بنیادی انسان حقوق سے محروم کیا جاتا ہے تو پھر کیا ایسے ممالک میں جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں، انہیں بھی یہ اختیار ہوگا کہ اپنے مذہب کو بنیاد بنا کر اور Natural Laws کا نام لے کر مسلمانوں کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیں.کیا یہ قابل قبول ہوگا ؟ مولوی صاحبان آخر چاہتے کیا ہیں؟ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب 1953ء کی تحقیقاتی عدالت میں مودودی صاحب نے اپنی تصورات کی اسلامی ریاست کے خدو خال بیان کئے تو یہ واضح ہو گیا کہ ان کی اس تصوراتی ریاست میں غیر مسلموں کو دوسرے درجہ کے شہری کی حیثیت حاصل ہوگی.اس پر عدالت نے ان سے سوال کیا وو اگر ہم پاکستان میں اس شکل کی اسلامی حکومت قائم کر لیں تو کیا آپ ہندوؤں کو اجازت دیں گے کہ وہ اپنے دستور کی بنیاد اپنے مذہب پر رکھیں؟“ اس پر مودودی صاحب نے جواب دیا: یقیناً مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ حکومت کے اس نظام میں مسلمانوں سے 199

Page 218

ملیچھوں اور شودروں سا سلوک کیا جائے.ان پر منو کے قوانین کا اطلاق کیا جائے اور انہیں حکومت میں حصہ اور شہریت کے حقوق قطعاً نہ دیئے جائیں.“ اور صدر جمعیت العلماء پاکستان نے بھی کہا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں سے شودروں جیسا سلوک کیا جائے.جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد صاحب نے تو یہ بھی کہا کہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت اپنے کسی مسلمان شہری کو کسی عہدے کی پیشکش کرے تو اس مسلمان کو چاہیے کہ انکار کر دے.رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953 صفحہ 245 تا 247) ظاہر ہے کہ اگر اسی سوچ کو پروان چڑھایا جائے تو پھر دنیا بھر میں فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا اور خود مسلمانوں کے حقوق بھی محفوظ نہیں رہیں گے.قدیم زمانے میں جب انسانی حقوق کا شعور اتنا مستحکم نہیں ہوا تھا تو Natural Law کا نام لے کر کچھ طبقات کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جاتا تھا.مثلا ارسطو نے اسی کو جواز بنا کر یونانی شہروں میں کثرت سے پائے جانے والے غلاموں اور ان کو اس پستی کی حالت میں رکھنے کو جائز بلکہ ضروری قرار دیا تھا.افلاطون نے اسی کو بنیاد بنا کر بعض نسلوں اور شہروں کو بھی کمتر قرار دیا تھا.عیسائی راہب فلاسفروں میں سے Aquinas اور Saint Augustine نے بھی اس قسم کے نظریات کو بنیاد بنا کر غلامی کا جواز پیدا کیا تھا.(http//www.bbc.co.uk/ethics/slavery/ethics/philosophers_1.shtml.accessed on 26.9.2018) لیکن یہ فلسفہ قبل مسیح ادوار میں یا ابتدائی عیسائی راہبوں کے دور میں تو قابل قبول ہوسکتا تھا کہ Natural Law کا نام لے کر انسانوں کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے لیکن فی زمانہ اس فلسفہ کو بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے انہیں پامال 200

Page 219

کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا.لکھتے ہیں جس طرح پاکستان کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب اپنے ایک فیصلہ میں "Fundamental Rights in essence are restraints on the arbitrary exercise of power by the State in relation to any activity that an individual can engage.....Moreover, Basic or Fundamental Rights of individuals which presently stand formally incorporated in the modern Constitutional documents derive their lineage from an era traceable to the ancient Natural Law." (Muhammad Nawaz Sharif v.Federation of Pakistan (PLD 1993 SC 473-p 29) ترجمه: بنیادی حقوق کی روح یہ ہے کہ ریاست کو اپنے اختیار کے استعمال میں من مانی کرنے سے روکا جائے کہ وہ ایک فرد کی سرگرمیوں پر کوئی قدغن لگائے...مزید یہ کہ ایک فرد کے بنیادی حقوق جو آج با قاعدہ جدید آئین کا حصہ ہیں اصل میں قدیم Natural Laws سے اپنا وجود رکھتے ہیں.کیا پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار غیر محدود ہے یا اس کی کچھ حدود ہیں؟ اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ اس بنا پر درج کیا گیا تھا کہ درخواست گزاروں کے نزدیک پارلیمنٹ نے جو 2017ء میں نئے انتخابی قوانین کا بل منظور کیا ہے وہ غیر قانونی ہے کیونکہ وہ ان کے نزدیک پاکستان کے آئین سے متصادم تھا.اگر چہ قومی اسمبلی اور سینٹ 201

Page 220

دونوں نے ان قوانین کو منظور کیا تھا پھر بھی جماعت احمدیہ کے مخالفین کے نزدیک چونکہ یہ قوانین پاکستان کے آئین کے خلاف تھے اس لئے غیر قانونی تھے.گو کہ حکومت نے اس مقدمہ کے فیصلہ سے قبل ہی ان شقوں کو جن پر جماعت احمدیہ کے مخالفین کو اعتراض تھا تبدیل کر دیا تھا، پھر بھی جماعت احمدیہ کے مخالفین کی تسلی نہیں ہوئی.اُن کا مطالبہ تھا کہ ان لوگوں کو منظر عام پر لایا جائے جنہوں نے یہ تبدیلی کی تھی.چنانچہ اللہ وسایا صاحب اور یونس قریشی صاحب کی درخواستوں میں یہی مطالبہ کیا گیا تھا.بابر اعوان صاحب کی رائے ایک Amicus Curiae ( وہ ماہر جنہیں عدالت اپنی اعانت کے لئے طلب کرتی ہے ) سابق وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان صاحب نے اس معاملہ پر رائے دی کہ پارلیمنٹ کا قانون بنانے کا اختیار غیر محدود نہیں ہے گو کہ بابر اعوان صاحب نے یہ رائے جماعت احمدیہ کے مخالفین کے موقف کی حمایت کے لئے دی تھی لیکن اس کی دلیل دیتے ہوئے وہ جماعت احمدیہ کے اُس اصولی موقف کی تائید کر گئے جو کہ 1974ء کی کارروائی میں جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اور اُس موقف کی مخالفت کر گئے جو کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے پیش کیا جاتا رہا.سب سے پہلے ہم بابر اعوان صاحب کی دلیل انہی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں.انہوں نے فرمایا: "Learned Amicus further added that higher judiciary is duty bound to examine the constitutionality of any law if it be promulgated in derogation of the found to Fundamental Rights as envisaged by Art.8 and 227 of the Constitution, or where any provision of any law was 202

Page 221

found contrary to the very theme of the Constitution then it is to be declared void.Moreover, any enactment aimed at benefitting a specific person or community should also be discouraged and declared void as such exercise instead of promoting the administration of justice would cause injustice in the society amongst the citizens who were being governed under the Constitution." (page36) ترجمہ: فاضل ماہر نے اس پر اضافہ کیا کہ اعلیٰ عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر اُس قانون کا جائزہ لے جو کہ ان بنیادی حقوق کے خلاف ہو جن کا ذکر آرٹیکل 8 اور آرٹیکل 227 میں ہے یا جب کسی قانون کے مندرجات آئین کے بنیادی خدو خال سے متصادم ہوں تو اسے منسوخ قرار دینا چاہیے.جب کوئی قانون اس لئے بنایا جائے کہ کسی مخصوص شخص یا گروہ کو فائدہ پہنچایا جائے تو اسے منسوخ قرار دینا چاہیے کیونکہ اس عمل سے آئین کے فراہم کردہ انصاف کی بجائے معاشرے میں ان شہریوں کے درمیان ناانصافی پیدا ہوتی ہے جو اس آئین کے ماتحت ہ رہے ہوتے ہیں.ره پہلے اس رائے کے دوسرے دلچسپ حصے کا ذکر کرتے ہیں.اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جس طرح پاکستان میں قانون سازی کرتے ہوئے احمدیوں کے مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اور دوسروں کے مفادات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے.اس کے رڈ میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں کوئی بھی ذی ہوش اسے سنجیدہ رائے قرار نہیں دے سکتا.انتخابی قوانین کی مثال ہی لے لیں.پورے پاکستان میں ایک انتخابی فہرست اس لئے بنتی ہے جس میں مسلمانوں کے باقی تمام فرقے عیسائی ، ہندو اور دوسرے مذاہب کے سب افراد شامل ہوتے ہیں اور 203

Page 222

ایک اور فہرست بنتی ہے جس میں علیحدہ احمدی شامل کئے جاتے ہیں.اس سے بڑھ کر اور تفریق کیا ہوسکتی ہے؟ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ احمدیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے.اس کی تفصیل پہلی قسط میں بیان کی جاچکی ہے.آخر کوئی ایک مثال تو پیش کی جائے کہ ملک میں کون سا قانون احمدیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنایا گیا ہے؟ اب بابر اعوان صاحب کی رائے کے پہلے حصے کا تجزیہ پیش کرتے ہیں.بابر اعوان صاحب کی رائے میں جب کوئی قانون آئین کے آرٹیکل 8 کے خلاف یا آرٹیکل 227 کے خلاف بنایا جائے تو ایسا قانون غیر قانونی ہے اور عدالت کے لئے لازمی ہے کہ اس کا جائزہ لے کر اسے منسوخ کر دے.اُن کی رائے میں پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار غیر محدود نہیں ہے.یہ اختیار اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ پارلیمنٹ آرٹیکل 8 یا آرٹیکل 227 سے متصادم قانون بنا دے.پہلے آرٹیکل 8 کا جائزہ لیتے ہیں.جیسا کہ گزشتہ قسط میں تفصیل بیان کی جاچکی ہے کہ یہ آرٹیکل بنیادی حقوق بیان کرتا ہے اور اس کے آغاز میں ہی لکھا ہوا ہے کہ مملکت اگر کوئی قانون بنائے جو اس سے متصادم ہو تو وہ اس حد تک جس حد تک اس آرٹیکل سے متصادم ہو ، منسوخ سمجھا جائے گا.یہ سوال ایک بار پہلے بھی بڑی تفصیل سے زیر بحث آیا تھا اور اُس وقت زیر بحث آیا تھا جب 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں جماعت احمدیہ کا وفد اپنا مؤقف پیش کر رہا تھا اور یہ موضوع زیر بحث تھا کہ کیا قومی اسمبلی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز بھی ہے کہ نہیں ؟ کیا پارلیمنٹ جس طرح چاہے آئین میں ترمیم کر سکتی ہے یا اس کی کوئی حدود ہیں.204

Page 223

1974ء میں پیش کیا جانے والا مؤقف.کیا اسمبلی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی تھی؟ اس بحث میں قدرتاً پہلا سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کیا کوئی اسمبلی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ ایک گروہ کو کسی مذہب کی طرف منسوب ہونے کا اختیار ہے کہ نہیں ؟ اس اہم پہلو کے بارے میں جماعت احمدیہ نے اپنے محضر نامہ میں یہ موقف پیش کیا تھا کہ کسی بھی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے اور اگر اس سمت میں قدم اُٹھایا گیا تو یہ امر پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کا راستہ کھولنے کا باعث بن جائے گا.(محضر نامه صفحه 5) اس کارروائی کے آغاز سے پہلے بھی اس ضمن میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جون 1974 ء میں فرمایا تھا: پس ہزار ادب کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ یہ عقل کی بات ہم حکومت کے کان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ جس کا تمہیں انسانی فطرت اور سرشت نے حق نہیں دیا ، جس کا تمہیں حکومتوں کے عمل نے حق نہیں دیا ، جس کا تمہیں یو.این.او کے Human Rights نے ( جن پر تمہارے دستخط ہیں ) حق نہیں دیا ، چین جیسی عظیم سلطنت جو مسلمان نہ ہونے کے باوجود اعلان کرتی ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کوئی شخص profess کچھ کر رہا ہو اور اس کی طرف منسوب کچھ اور کر دیا جائے.میں کہتا ہوں میں مسلمان ہوں ، کون ہے جو دنیا میں جو یہ کہے گا کہ تم مسلمان نہیں ہو؟ یہ کیسی نا معقول بات ہے.یہ ایسی نا معقول بات ہے کہ جولوگ دہریہ تھے انہیں بھی سمجھ آگئی.پس تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس کا تمہیں تمہارے اُس دستور نے حق نہیں دیا جس دستور کو تم نے ہاتھ میں پکڑ کر دنیا میں یہ اعلان کیا تھا کہ دیکھو کتنا اچھا اور 205

Page 224

کتنا حسین دستور ہے.آج اس دستور کی مٹی پلید کرنے کی کوشش نہ کرو اور اس جھگڑے میں نہ پڑوا سے خدا پر چھوڑ دو کیونکہ مذہب دل کا معاملہ ہے.خدا تعالیٰ اپنے فعل سے ثابت کرے گا کہ کون مومن اور کون کافر ہے.“ الفضل 23 جون 1974 ء صفحہ 8) آئین پاکستان کے 1 Chapter میں انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور اس میں آرٹیکل 20 میں یہ ضمانت دی گئی تھی کہ: "Subject to law, public order and morality:- (a) every citizen shall have the right to profess, practice and propagate his religion; and (b) every religious denomination and every sect thereof Ishall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions" ترجمه قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع.(الف) ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا اور (ب) ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے ، برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا.اگر یہ سوال اُٹھایا جائے کہ یہ آزادی قانون کے تحت دی گئی ہے.اگر ایسا قانون بنا دیا جائے کہ جس میں یہ آزادی سلب کر دی جائے تو پھر آئین کی رو سے مذہبی آزادی کا اختیار بھی سلب ہو جائے گا تو یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ آئین پاکستان کا 1 Chapter جس میں 206

Page 225

بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ: "Any law, or any custom or usage having the force of law, in so far as it is inconsistent with the rights conferred by this Chapter, shall, to extent the of such inconsistency, be void." ترجمہ: کوئی قانون، کوئی رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو ، تناقض کی اس حد تک کا لعدم ہو گا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو.تو حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی ایسا قانون بنانے کی اجازت ہی نہیں جو کہ ان حقوق کو منسوخ کرے یا ان میں کمی کرے.جب جماعت احمدیہ کے وفد سے سوال و جواب شروع ہوئے تو پہلے روز ہی بیٹی بختیار صاحب نے حضرت امام جماعت احمدیہ سے یہ سوال کیا کہ آپ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ہمیں یہ کہے کہ تم غیر مسلم ہو اور اس ضمن میں آئین کی شقوں کا حوالہ دیا ہے.اس پر حضرت امام جماعت احمدیہ نے فرمایا: "8 and 20l rely on clauses ہماری جو کانسٹی ٹیوشن ہے اس کی غالباً دفعہ 8 ہے جو یہ کہتی ہے کہ اس ہاؤس کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ جو اس نے حقوق دیئے ہیں ان میں کوئی کم کرے یا اس کو منسوخ کرے.“ ( کارروائی صفحہ 38 ) 1974ء میں اٹارنی جنرل صاحب کے اُٹھائے گئے سوالات اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال اُٹھایا: "I will ask a very simple question.Is the parliament competent to amend article 8 and article 20." 207

Page 226

ترجمہ: میں ایک بہت سادہ سوال پوچھوں گا ؟ کیا پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ آئین کی آٹھویں اور بیسویں شق میں ترمیم کرے.اس پر حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے فرمایا: ” کانسٹی ٹیوشن کیا کہتا ہے؟“ اس کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب نے کہا: "Yes, by two-thirds majority they can amend; through a particular procedure they can amend.I am not saying.....I am coming to that....but I am just suggesting a simple proposition." ترجمہ: ہاں دو تہائی اکثریت کے ساتھ وہ اس میں ترمیم کر سکتے ہیں.میں نہیں کہہ رہا.میں اس کی طرف آرہا ہوں لیکن میں صرف ایک سادہ رائے پیش کر رہا ہوں.پہلے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس رائے کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار حاصل ہے لیکن پھر اگلے فقروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس رائے کے بارے میں پر اعتماد نہیں تھے.اس پر حضرت امام جماعت احمدیہ نے فرمایا: وو...یہ نیشنل اسمبلی ، یہ سپریم لیجسلیٹو باڈی ہے اور اس کے اوپر کوئی پابندی نہیں ، سوائے ان پابندیوں کے جو یہ خود اپنے اوپر عائد کرے.“ Yahya Bakhtiar: I appreciate that they should not do it, they ought not to do it; But they are legally competent to do it, to repeal Article 20 and to repeal article 8 or any other provision." 208

Page 227

ترجمہ: میں یہ جانتا ہوں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے اور یہ نہیں کرنا چاہیے مگر انہیں قانون کی رو سے اختیار حاصل ہے کہ وہ آئین کی شق ہیں اور آٹھ کو منسوخ کر دیں.حضرت امام جماعت احمدیہ : وہ تو میں نے بھی یہ کہا ہے ناں کہ اس کی سپریم لیجسلیٹو باڈی کی حیثیت ہے.ان کے اوپر کوئی ایجنسی نہیں ہے جو پابندی لگا سکے لیکن کچھ پابندیاں اس سپریم لیجسلیٹو باڈی نے خود اپنے پر لگائی ہیں.Yahya Bakhtiar: With that I agree ترجمہ: میں اس سے متفق ہوں.Yayha Bakhtiar: Those are of ploitical, religious nature, but not of constitutional nature.ترجمہ: یہ پابندیاں) سیاسی اور مذہبی نوعیت کی ہیں لیکن آئینی نہیں ہیں.کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 صفحہ 36 تا40) سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے مندرجہ بالا حصے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم قانونی اور آئینی سوال کے بارے میں خود اٹارنی جنرل صاحب کا ذہن واضح نہیں تھا.ایک سے زائد مرتبہ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ان کے نزدیک پاکستان کی پارلیمنٹ کو مکمل اختیار ہے کہ وہ آئین میں جس طرح چاہے تبدیلی کرے.اس پر کوئی پابندی نہیں ، خواہ یہ پارلیمنٹ آئین میں دیئے گئے تمام بنیادی انسانی حقوق کو ترمیم کر کے منسوخ کر دے اور ایک ایسا آئین بنا دے جس میں کسی قسم کے انسانی حقوق کی کوئی ضمانت نہ دی گئی ہو لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہہ گئے کہ وہ حضرت امام جماعت احمدیہ کے نظریہ سے متفق ہیں کہ پارلیمنٹ نے اپنے اوپر خود یہ پابندی لگائی ہے کہ جن بنیادی انسانی حقوق کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے ، ان میں کوئی کمی بھی نہیں کر سکتی.209

Page 228

مخالفین جماعت کے نظریات اس مسئلہ پر کہ آیا پاکستان کی پارلیمنٹ کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اس قسم کا فیصلہ کرے، مولوی عبدالحکیم صاحب نے جماعت احمدیہ کے موقف کے بارے میں یہ نظریہ پیش کیا: یہی پہلا اور بنیادی فرق ہے جو مرزائیوں اور مسلمانوں میں ہے.مسلمان اپنے فیصلے صرف قرآن اور شریعت کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں اور اسی کو قانون زندگی کی بنیاد سمجھتے ہیں مگر مرزائی اقوام متحدہ کو دیکھتے ہیں.کبھی عالمی انجمنوں کو اور کبھی انسان کے بنائے ہوئے دستور اور قانون کو.ہم تو تمام امور میں صرف دین اور اس کے فیصلے دیکھتے ہیں.“ ( کارروائی صفحہ 2349) مولوی عبد الحکیم صاحب کا موقف تھا کہ خواہ ایک ترمیم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کے خلاف ہو، خواہ آئین پاکستان میں اس قسم کی ترمیم کرنے پر پابندی ہو، پارلیمنٹ اس لئے اس ترمیم کو منظور کرنے کی مجاز ہے کیونکہ اس کے نزدیک دینی طور پر یہ فیصلہ درست ہے.تمام تر کارروائی جب اختتام پر پہنچ رہی تھی تو مولوی ظفر احمد انصاری صاحب نے ایک اور نظریہ پیش کیا.جب 3 ستمبر کو انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو کہا.محضر نامے میں دونوں طرف سے اس طرح کے سوال کئے گئے ہیں کہ کیا پاکستان کی نیشنل اسمبلی کو یہ اختیار ہے یا نہیں ہے.یہ نہایت اہانت آمیز اور اشتعال انگیز سوال ہے.“ اس آغاز سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کو بالکل یہ اختیار ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ ایک فرقے یا ایک گروہ کو کس مذہب کی طرف منسوب ہونا چاہیے اور یہ سوال اُٹھانا کہ اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ نہیں اسمبلی کی تو ہین ہے.لیکن پھر چند لمحوں میں ہی انہوں نے نہ صرف اپنے اس بیان کا بلکہ قومی اسمبلی کی تمام 210

Page 229

کارروائی کا رڈ کر دیا.انہوں نے کہا: ”میرے پاس ، شاید اور ممبران کے پاس بھی ، بہت سے خطوط ایسے آئے ہوں گے جن میں یہ کہا گیا کہ یہ بڑی خطر ناک بات ہے کہ آپ اسمبلی کو دینی معاملات میں فیصلہ کرنے کا حق دیتے ہیں کہ کون مسلمان ہے کون مسلمان نہیں ہے.کل وہ کہیں گے سود جائز ہے....حالانکہ میرے نزدیک مسئلہ کی نوعیت یہ نہیں ہے.میں بھی اسمبلی کو در الافتاء کی حیثیت دینے کو تیار نہیں ہوں اور نہ یہ اسمبلی ایسے ارکان پر مشتمل ہے جنہیں فتوی دینے کا مجاز ٹھہرایا جائے لیکن یہاں فتوی دینے کی بات نہیں ہے ہمارے فتویٰ دینے یا نہ دینے سے اس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا.اگر آج ہم کہہ دیں کہ ہم آج کہہ رہے ہیں کہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا چاہیے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آج تک وہ غیر مسلم نہیں تھے ،مسلمان تھے.“ کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ، صفحہ 2875-2874) مندرجہ بالا عبارت ظاہر کر رہی ہے کہ خود ظفر احمد انصاری صاحب کے نزدیک پاکستان کی قومی اسمبلی ایسے افراد پر مشتمل نہیں تھی جو کہ اس قسم کے معاملات پر فیصلہ کر سکے اور ان کے نزدیک کسی بھی اسمبلی کو اس قسم کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں تھا.اور جماعت احمد یہ نے بالکل یہی موقف پیش کیا تھا جسے ظفر احمد انصاری صاحب اہانت آمیز اور اشتعال انگیز قرار دے رہے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ کارروائی کے آخر تک خود ممبران اسمبلی اس بات کو بھول چکے تھے کہ یہ سپیشل کمیٹی کس مقصد کے لئے قائم کی گئی تھی اور قانونی طور پر وہ اسی موضوع پر کام کرنے کی پابند تھی.3 ستمبر کو سپیشل کمیٹی کی کارروائی کا یہ حصہ ملاحظہ ہو.اس کمیٹی کے سر براہ صاحبزادہ 211

Page 230

فاروق علی خان صاحب نے کہا : ”مولانا محمد ظفر احمد انصاری: شاید مولانا صاحب کو غلط نہی ہوئی ہے.یہ مسئلہ ہے ہی نہیں کہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم.یہ مسئلہ ہے ہی نہیں.مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان کی دستوری اور قانونی حیثیت کو کس طریق پر واضح کریں.جناب چیئر مین : یہی تو میں نے کوریجہ صاحب کو کہا تھا کہ ان کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کیا کچھ ہم کر سکتے ہیں ، کیا ہمیں سفارش کرنی چاہیے.مولا نا عبد الحق : اچھا جی.تو گزارش میری یہ ہے کہ ختم نبوت کا مسئلہ جو ہے یہ مسئلہ تو ہمارے آئین میں طے شدہ ہے کہ مسلمان وہ ہوسکتا ہے جس کا عقیدہ یہ ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور اس کے بعد کوئی بروزی ظلی نبی نہیں آسکتا.“ ( کارروائی 2917-2916) جہاں تک مولوی عبدالحق صاحب کے نکتے کا تعلق ہے تو اس کو پڑھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اور بہت سے اور ممبران اسمبلی کا ذہن آئین کے مندرجات کے بارے میں واضح نہیں تھا.اس وقت تک پاکستان کے آئین کی جوشکل تھی اس میں اس قسم کی کوئی بات نہیں لکھی تھی جس کا دعویٰ مولوی عبدالحق صاحب کر رہے تھے.آئین کی جس شق میں غیر مسلم اقلیتوں کے نام لکھے تھے.اس شق میں احمدیوں کا نام درج نہیں تھا.یہاں یہ یاد دلاتے چلیں کہ یہ کاروائی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی تھی اور یہ سپیشل کمیٹی قانوناً اس موضوع پر کارروائی کرنے کی پابند تھی جو کہ قومی اسمبلی نے اس کے لئے مقر رکیا تھا.اور موضوع یہ تھا کہ اسلام میں اس شخص کی کیا حیثیت ہے جو کہ آنحضرت سلینا ہی تم کو آخری نبی نہیں مانتا.اس سوال کو حل کئے بغیر کسی قانونی اور دستوری حیثیت کو واضح کرنے کا 212

Page 231

مرحلہ نہیں آسکتا تھا.لیکن آخر میں سپیشل کمیٹی کے چیئر مین سمیت دوسرے ممبران نے اس بات کا واضح اقرار کیا تھا کہ وہ اس موضوع پر کارروائی نہیں کر رہے.جیسا کہ کتاب "سپیشل کمیٹی کی کارروائی پر ریویو میں اس بات کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ 15 اگست کے روز سوال و جواب کے دوران اٹارنی جنرل صاحب نے یہ نکتہ اُٹھایا تھا کہ آئین میں مذہبی آزادی کی جو شقیں ہیں، ان سے قبل یہ لکھا ہے: "Subject to law, public order and morality." یہ آزادی قانون ، امن عامہ کے تقاضوں اور اخلاقی حدود کے اندر ہوگی اور یہ بحث اُٹھائی تھی کہ اگر قانون سازی کر کے کسی گروہ کی مذہبی آزادی کو سلب کر لیا جائے یا محدود کر دیا جائے تو پھر آئین کی مذکورہ شق اس راستے میں حائل نہیں ہو سکتی.جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آئین پاکستان 1 CHAPTER جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا جو کہ ان بنیادی انسانی حقوق میں کمی کر سکے.لیکن اس کے باوجود اٹارنی جنرل صاحب نے یہ خوفناک نظریہ پیش کیا تھا کہ پارلیمنٹ اگر چاہے تو دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین میں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے.جس کا نتیجہ یہی نکل سکتا تھا کہ ایسا آئین ملک پر مسلط کیا جا سکتا ہے جس میں تمام بنیادی انسانی حقوق سلب کر لئے گئے ہوں یعنی کہ جہاں تک مذہبی آزادی کا تعلق ہے تو کسی کو اپنے مذہب کو profess, practice اور propagate کرنے کی اجازت نہ ہو.جب آئین میں دوسری ترمیم منظور کی جارہی تھی اور بزعم خود احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جار ہا تھا اس موقع پر وزیر اعظم بھٹو صاحب نے اس ترمیم کی منظوری سے کچھ دیر پہلے اپنی تقریر میں یہ نظریہ پیش کیا: 213

Page 232

"Every Pakistani has a right to profess his religion, his caste and his sect proudly and with confidence, and this guarantee the Constitution of Pakistan gives to citizens of Pakistan." (The National Assembly Of Pakistan, Debates, Official Report, Saturday, 7th September, 1974 p 567) ترجمہ: ہر پاکستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کا اظہار کرے، اپنی ذات اور اپنے فرقے کا اعلان فخر اور اعتماد کے ساتھ بغیر کسی خوف کے کرے.اور پاکستان کے شہریوں کو پاکستان کا آئین یہ حق دیتا ہے.یہاں وہ اپنی تقریر میں خود مجوزہ ترمیم کی نفی کر رہے تھے.اگر قانون اور آئین کی اغراض کے لیے احمدی مسلمانوں کو غیر مسلم شمار کیا جائے گا تو سرکاری کاغذوں میں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں لکھ سکیں گے جبکہ وہ یہ اعلان کر چکے تھے کہ اسلام کے علاوہ ان کا کوئی اور مذہب نہیں ہے.تو پھر یہ کس طرح دعوی کیا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ مذہبی آزادی مجروح نہیں ہوئی اور انہیں اپنے مذہب کا اعلان کرنے کی مکمل آزادی ہے.مندرجہ بالا حقائق اس بات کو بالکل واضح کر دیتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اراکین کا ذہن اس قسم کے بنیادی سوالات کے بارے میں واضح نہیں تھا.یہ سوالات اہم تھے اور بعد میں اس کے بارے میں کافی تنازعہ پیدا ہونا تھا.کیا پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار ہے؟ مختلف ممالک کی عدالتوں کے فیصلے اب ہم اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا 214

Page 233

غیر محدود اختیار ہے؟ دوسری آئینی ترمیم کی بحث سے قطع نظر اس بارے میں پوری دنیا میں قانونی اور آئینی بخشیں ہوتی آئی ہیں اور اب تک ہو رہی ہیں.ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ پارلیمنٹ یا قانون ساز ادارے کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار ہے.اگر پارلیمنٹ کوئی غلط ترمیم کرے تو یہ ترمیم غلط تو ہوگی لیکن اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا.اگر اسے ختم کرنا ہے تو صرف پارلیمنٹ ہی ایسا کرسکتی ہے.دوسرا گروہ یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے.مثلاً پارلیمنٹ کسی ترمیم کے ذریعہ بنیادی انسانی حقوق سلب نہیں کرسکتی.پارلیمنٹ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ختم نہیں کر سکتی اور اگر پارلیمنٹ ایسا قدم اُٹھائے تو ملک کی اعلیٰ عدالت اس ترمیم کو ختم کر سکتی ہے.سوال و جواب کے مرحلہ کے دوران بیٹی بختیار صاحب نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین میں ترمیم کا غیر محدود اختیار ہے اور اگر پارلیمنٹ چاہے تو آئین میں اس شق کو بھی ختم کر سکتی ہے کہ آئین میں جن انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ان میں کسی قانون کے ذریعہ کمی نہیں کی جاسکتی.تو سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار ہے؟ کیا قومی اسمبلی اور سینٹ دو تہائی کی اکثریت سے آئین میں کوئی بھی ترمیم کر سکتے ہیں؟ یا ان کے اختیار کی کوئی حدود ہیں؟ اس سوال کا تعلق صرف پاکستانی آئین کی دوسری ترمیم سے ہی نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں اس موضوع پر بحث ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے.اس سلسلہ میں اگست 2015ء 215

Page 234

میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا ذکر ضروری ہے.جب پاکستان کے آئین میں اکیسویں ترمیم کی گئی اور اس کے تحت ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو سپریم کورٹ میں اس کے خلاف بہت سی درخواستیں جمع کرائی گئیں.ان میں سے کئی درخواستیں بہت سی وکلاء تنظیموں کی طرف سے تھیں.عدالت عظمیٰ نے جب فیصلہ سنایا تو جہاں ایک طرف یہ ترمیم برقرار رکھی گئی وہاں فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے اور آئین میں ترمیم کو عدالت عظمی میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں عدالت عظمیٰ آئین میں ترمیم کو ختم کرسکتی ہے.اس فیصلہ میں لکھا گیا: be stated unequivocally that "Therefore, it can Parliament does not have unbridled or unfettered power to amend the Constitution, and if an amendment is made the Supreme Court has the jurisdiction to examine it and, if necessary, strike down the offending whole or part thereof.The Supreme Court exercises this power not because it seeks to undermine Parliament or travel beyond its domain, but because the Constitution itself has granted it such power.The Supreme Court's power of judicial review cannot be negated in any manner whatsoever because it is provided in the original 1973 Constitution and in its Preamble." فیصلہ کے اس حصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے.سپریم کورٹ کے پاس اس بات کا اختیار ہے کہ آئین میں ہونے والی 216

Page 235

کسی ترمیم کا جائزہ لے یا اسے منسوخ کر دے.اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے یا پارلیمنٹ کو کمزور کرنا چاہ رہی ہے بلکہ خود آئین نے اسے یہ اختیار دیا ہے.اور یہ اختیار اس سے اس لئے واپس نہیں لیا جا سکتا کیونکہ یہ اختیار 1973ء کے اصل آئین میں اور آئین کی تمہید میں دیا گیا ہے.اس مقدمہ میں اس وقت کے اٹارنی جنرل صاحب نے یہ دلیل پیش کی کہ آئین کے آرٹیکل 239 میں یہ واضح کیا گیا ہے: "No amendment to the Constitution shall be called in question in any court on any ground whatsoever.." یعنی آئین میں کسی ترمیم کوکسی عدالت میں کسی وجہ سے بھی چیلنج نہیں کیا جائے گا.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین کے جس آرٹیکل میں کسی معاملہ کو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا گیا ہے وہاں یہ درج کیا گیا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں سماعت نہیں کیا جاسکتا لیکن آرٹیکل 239 میں جہاں کسی بھی عدالت کے الفاظ ہیں وہاں ان حدود کا اطلاق سپریم کورٹ پر نہیں ہوتا.عدالتی فیصلہ صفحه 853 856) ( Distric Bar Rawalpindi Vs.Federation of Pakistan, 21st amendment) سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس امر کی نشاندہی کی کہ آرٹیکل 239 کا مذکورہ حصہ جس کا حوالہ اٹارنی جنرل صاحب دے رہے تھے ، 1973ء کے اصل آئین میں موجود نہیں تھا بلکہ جنرل ضیاء الحق صاحب نے اسے آئین میں شامل کیا تھا اور اس وقت کی پارلیمنٹ نے مجبوری کی حالت میں اس کی منظوری دی تھی کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو طویل تعطل کے بعد مشکل 217

Page 236

سے جو جز وی جمہوری عمل شروع ہوا تھا وہ بھی ختم کر دیا جاتا.پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس امر کی نشاندہی بھی کی کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 239 کا مذکورہ حصہ بھارت کے آئین میں کی جانے والی 1976 42nd Amendment) Act of) سے نقل کیا گیا تھا اور اس کے ذریعہ اندرا گاندھی صاحبہ کے دور میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 368 میں ترمیم کی گئی تھی.اس ترمیم کے الفاظ یہ تھے: "Art.368.Power of Parliament to amend the Constitution and procedure therefor: (4) No amendment of this Constitution (including the provisions of Part III) made or purporting to have been made under this article [whether before or after the commencement of Section 55 of the Constitution (Forty-second Amendment) Act, 1976] shall be called in question in any court on any ground.(5) For the removal of doubts, it is hereby declared that there shall be no limitation whatever on the constituent power of Parliament to amend by way of addition, variation or repeal the provisions of this Constitution under this article.." اس ترمیم کے آخری حصہ میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار موجود ہے اور پارلیمنٹ جس طرح چاہے آئین میں اضافہ 218

Page 237

یا ترمیم کر سکتی ہے یا اس کی کسی شق کو ختم کر سکتی ہے.یہ بات اہم ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ میں آئین کی اس شق کو ختم کر دیا تھا.بھارت کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا: "The newly introduced clause 5 of article 368 transgresses the limitations on the amending power of Parliament and is hence unconstitutional.It demolishes the very pillars on which the preamble rests by empowering the Parliament to exercise its constituent power without any "limitation whatever"."No constituent power can conceivably go higher than the sky-high power conferred by clause (5), for it even empowers the Parliament to "repeal the provisions of this Constitution", that is to say, to abrogate the democracy.and substitute for it a totally antithetical form of Government.That can most effectively be achieved, without calling a democracy by any other name, by a total denial of social, economic and political justice to the people, by emasculating liberty of thought, expression, belief, faith and worship and by abjuring commitment to the magnificent ideal of a society of equals.The power to destroy is not a power to amend.219

Page 238

Since the Constitution had conferred a limited amending power on the Parliament, the Parliament cannot under the exercise of that limited power enlarge that very power into an absolute power.Indeed, a limited amending power is one of the basic features of Indian Constitution and therefore, the limitations on that power cannot be destroyed.In other words, Parliament cannot, under Article 368, expand its amending power so as to acquire for itself the right to repeal or abrogate the Constitution or to destroy its basic and essential features.The donee of a limited power cannot by the exercise of that power convert the limited power into an unlimited one.(2) The newly introduced clause (4) of Article 368 is equally unconstitutional and void because clauses (4) and (5) are inter-linked.While clause (5) purports to remove all limitations on the amending power, clause (4) deprives the courts of their power to call in question any amendment of the Constitution.Indian Constitution is founded on a nice balance of power among the three wings of the State namely, the Executive, the Legislature and the Judiciary.It is the function of the Judges, may their duty, to pronounce upon the validity of laws.If courts are totally deprived of 220

Page 239

that power, the fundamental rights conferred upon the people will become a mere adornment because rights without remedies are as writ in water.A controlled Constitution will then become uncontrolled.Clause (4) of Article 368 totally deprives the citizens of one of the most valuable modes of redress which is guaranteed by Article 32.The conferment of the right to destroy the identity of the Constitution coupled with the provision that no court of law shall pronounce upon the validity of such destruction is a transparent case of transgression of the limitations on the amending power.If a constitutional amendment cannot be pronounced to be invalid even if it destroys the basic structure of the Constitution, a law passed in pursuance of such an amendment will be beyond the pale of judicial review because it will receive the protection of the constitutional amendment which the courts will be powerless to strike down.Article 13 of Constitution will then become a dead letter because even ordinary laws will escape the scrutiny of the courts on the ground that they are passed on the strength of a constitutional amendment which is not open to challenge.221

Page 240

ترجمہ: آرٹیکل 368 میں شق 5 کا اضافہ پارلیمنٹ کے ترمیم کرنے کی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس لئے غیر آئینی ہے.یہ ان ستونوں کو تباہ کر دیتا ہے جس پر آئین کی تمہید قائم ہے کیونکہ یہ شق پارلیمنٹ کو ایسا آئینی اختیار دے دیتی ہے جس کی کوئی حدود نہیں ہیں.کوئی آئینی اختیار اس اختیار سے زیادہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں آئین کی دفعات کو منسوخ کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے، جمہوریت کو ختم کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے.اس کی جگہ اس کے خلاف نظام متعارف کرانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے اور ایسا جمہوریت کوکسی اور نام سے منسوب کئے بغیر یا اس کا مکمل انکار کر کے بھی کیا جا سکتا ہے.ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو معاشی، اقتصادی اور سیاسی انصاف سے محروم کر دیا جائے.سوچ، اظہار ، عقیدے ، ایمان اور مذہب کی آزادی کو غیر مؤثر کر دیا جائے.اس عظیم مقصد کو ترک کر دیا جائے کہ ایک ایسا معاشرہ تعمیر کیا جائے جس میں سب برابر کے شہری ہوں.یہ آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں بلکہ اسے تباہ کرنے کا اختیار ہے.چونکہ آئین پارلیمنٹ کو ترمیم کرنے کا محدود اختیار دیتا ہے، پارلیمنٹ اس محدود اختیار کا استعمال کر کے، اس میں اضافہ کر کے اس اختیار کو غیر محدود نہیں بنا سکتی.حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا آئین پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا محدود اختیار دیتا ہے.ان حدود کو ختم نہیں کیا جاسکتا.دوسرے لفظوں میں پارلیمنٹ آرٹیکل 368 کے تحت اپنے اختیارات کو وسیع کر کے آئین کو منسوخ کرنے یا ختم کرنے کا اختیار نہیں حاصل کر سکتی یا اس کے بنیادی خد و خال کو ختم کرنے کا اختیار نہیں حاصل کر سکتی.محدود اختیارات کا حامل ان اختیارات کو غیر محدود بنانے کا حق نہیں رکھتا.آرٹیکل 368 میں شق 4 کا اضافہ بھی اتنا ہی غیر آئینی ہے 222

Page 241

کیونکہ شق 4 اور شق 5 ایک دوسرے سے منسلک ہیں.شق 5 آئین میں ترمیم کرنے کے اختیار پر تمام حدود ختم کر دیتی ہے اور شق 4 عدالتوں کا یہ اختیار سلب کر لیتی ہے کہ وہ آئین میں کسی ترمیم کے بارے میں سماعت کرے.بھارت کا آئین ریاست کے تین حصوں یعنی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان ایک عمدہ توازن پر قائم کیا گیا ہے.یہ جوں کا صرف کام نہیں بلکہ فرض ہے کہ وہ قوانین کے جواز کے متعلق سماعت کریں.اگر عدالتوں کا یہ اختیار ختم کر دیا جائے تو آئین میں بنیادی حقوق صرف ایک سجاوٹ کی چیز بن جائیں گے.کیونکہ ایسے حقوق جن کے پامال ہونے کی صورت میں چارہ جوئی کا کوئی راستہ نہ ہو پانی پر لکیر ثابت ہوتے ہیں.عدالت نے فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر سکتی ہے لیکن اس اختیار کی بھی کچھ حدود ہیں.اگر اس حق کو غیر محدود کر دیا جائے اور عدالتوں کا یہ حق ختم کر دیا جائے کہ وہ اس بارے میں کسی مقدمہ کی سماعت کریں تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے.اس طرح ایک متوازن آئین ایک غیر متوازن آئین میں تبدیل ہو جائے گا.آرٹیکل 368 کی شق 4 شہریوں کو اس حق سے کلیتاً محروم کر دیتی ہے کہ وہ آرٹیکل 38 میں زیادتیوں کے ازالہ کے لئے جو ضمانت دی گئی ہے اس سے مستفیض ہوسکیں.ایک طرف یہ آئین کو تباہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور دوسری طرف یہ پابندی لگادی گئی ہے کہ کوئی عدالت اس کے جواز کے بارے میں سماعت بھی نہیں کر سکتی.یہ ترمیم کے اختیار سے تجاوز کی ایک واضح مثال ہے.اگر ایک آئینی ترمیم کو اس صورت میں بھی غیر قانونی نہیں قرار دیا جا سکتا کہ وہ آئین کی بنیاد ہی کو منہدم کر رہی ہو تو جو قوانین اس ترمیم کے نتیجہ میں بنیں گے وہ بھی عدالت کے جائزہ کے دائرہ سے بالا ہوں گے اور عدالتیں بے بس ہوں گی کہ ان کو ختم کر سکیں.اس صورت میں آرٹیکل 13 ایک مردہ دستاویز 223

Page 242

بن جائے گا اور عام قوانین بھی عدالت کے جائزہ سے بالا ہوں گے کیونکہ انہیں کسی ترمیم کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس ترمیم کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا.اسی طرح بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ایک مقدمہ کی سماعت کے بعد جو فیصلہ دیا اس میں لکھا: "Basic structural pillars of the Constitution cannot be changed by amendment." ترجمہ: آئین کے بنیادی ستونوں کو ترمیم کے ذریعہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا.(Anwar Hossain Chowdhury Vs.Bangladesh, 1989, 18 CLC (AD) اس موضوع پر بہت سی بحثیں ہو چکی ہیں اور اب بھی یہ بحث جاری ہے لیکن یہ امر قابل توجہ ہے کہ برصغیر کی تینوں پارلیمانی جمہوری ممالک کی سپریم کورٹس کا آخری فیصلہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے.پاکستان کے آئین میں بنیادی حقوق کے باب کے آغاز پر ہی یہ پابندی درج ہے: (1) کوئی بھی قانون یا رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو ، تناقض کی اس حد تک کالعدم ہو گا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو.(2) مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے اس خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا.اور اس باب میں ہی مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے.ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا.آخر میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس قرارداد کی منظوری سے قبل وزیر اعظم 224

Page 243

ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان میں ہر شخص کو اپنا مذہب profess کرنے کی آزادی ہے.اور سوال و جواب کے پہلے روز اٹارنی جنرل صاحب نے بھی یہی نظریہ پیش کیا تھا کہ اگر آئین میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے تو اس سے ان کے اپنے مذہب کو profess کرنے کے حق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا.کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ، صفحہ 129 ) Profess کا ہے: Affirm one's faith in or allegiance to a religion or set of beliefs اردو میں اس کا مطلب ہے کہ دعوی کرنا اور اقرار کرنا.اگر آئین میں ترمیم کر کے قانون اور آئین کی اغراض کے لئے ایک فرقہ کو غیر مسلم قرار دیا جائے تو کم از کم سرکاری کا رروائی میں یا سرکاری کاغذات میں وہ اپنے آپ کو مسلمان درج نہیں کر سکیں گے.احمد یوں کا مذہب کیا ہے؟ یہ فیصلہ اور اس کا اعلان کرنے کا حق بھی انہی کا ہے.اگر انہیں اس سے روکا جائے گا تو ان کا اپنے مذہب کو profess کرنے کا حق بہر حال متاثر ہو گا.اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں احمدیوں کے اُن بنیادی حقوق پر پابندی لگانے کا ذکر بار بار کیا گیا ہے جو آئین پاکستان کے باب اول میں درج ہیں.غیر قانونی ترمیم اور غیر قانونی مجوزہ قوانین جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود آئین کی رو سے اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی رو سے مملکت کے کسی ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پاکستان کے کسی شہری کے ان بنیادی حقوق میں سے کسی کو کم یا منسوخ کر سکے.اس عدالتی فیصلہ میں یہ سوال بار بار اُٹھایا گیا ہے کہ 225

Page 244

دوسری آئینی ترمیم ( جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا ) پر عملدرآمد کر وانے کی ضرورت ہے.حقیقت یہ ہے کہ خود یہ آئینی ترمیم ہی غیر آئینی ہے کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 20 کے خلاف ہے.دوسری آئینی ترمیم کی طرح جماعت احمدیہ کے خلاف جاری کیا جانے والا جنرل ضیاء صاحب کا آرڈینس بھی غیر آئینی ہے کیونکہ یہ احمدیوں کے ان بنیادی حقوق کو ختم کرتا ہے جن کو ختم کرنے کا اختیار مملکت کے کسی ادارے کو نہیں ہے اور یہ آرڈینس بھی آئین کے آرٹیکل 20 کے خلاف ہے.اسی طرح یہ مطالبہ بھی غیر آئینی ہے کہ احمدیوں کو کلیدی اسامیوں پر نہ لگاؤ کیونکہ یہ مطالبہ آئین کے آرٹیکل 26 اور 36 کے خلاف ہے.جب 1974ء میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں جماعت احمدیہ کا وفد اپنا موقف ) پیش کر رہا تھا تو اس وقت اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اگر یہ ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو بھی آپ کو اس بات سے کوئی نہیں روک رہا کہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھیں یا اپنے عقائد کو propagate کریں.آپ کا جو بھی ایمان ہے آپ اُس کا اعلان کر سکتے ہیں.کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ء ص 128 ) ہ کتنی بے معنی بات ہے کہ انسان کا عقیدہ یا مذہب تو اور ہے اور کاغذوں پر اس سے کچھ اور لکھوایا جائے.مخالفین کا قرآن وسنت کے فیصلہ سے احتراز اب ہم آئین کے آرٹیکل 227 کا ذکر کرتے ہیں.اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کی یہ رائے درج ہے کہ کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکتا جو کہ 226

Page 245

اس آرٹیکل کے خلاف ہو.اس آرٹیکل کے الفاظ یہ ہیں ” تمام موجودہ قوانین کو قرآنِ پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا.جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام کے حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو.“ یہاں اس اہم بات کا ذکر ضروری ہے کہ جب 1974ء میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی ہو رہی تھی تو یہ مؤقف جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا کہ فیصلہ کا معیار قرآن اور سنت ہونے چاہئیں اور جماعت احمدیہ کے مخالفین نے یہ معیار قبول کرنے سے انکار کیا تھا.جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ اصول پیش کیا گیا تھا کہ یہ فیصلہ کرنے سے قبل که کسی گروہ کو غیر مسلم قرار دینا ہے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ تب ہی یہ فیصلہ ہو سکے گا کہ کون مسلمان ہے؟ جب 1974ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے محضر نامہ پیش کیا گیا تو اس حوالہ سے اس میں مندرجہ ذیل سوالات اُٹھائے گئے: ل : کیا کتاب اللہ اور آنحضرت سائی یا ایتم سے مسلمان کی کوئی تعریف ثابت ہے جس کا اطلاق خود آنحضرت صلی سیستم کے زمانے میں بلا استثناء کیا گیا ہو.اگر ہے تو وہ تعریف کیا ہے؟ ب کیا اس تعریف کو چھوڑ کر جو کتاب اللہ اور آنحضرت صلی یا تم نے فرمائی ہو اور خود آنحضور این ایام کے زمانہ مبارک میں اس کا اطلاق ثابت ہو.کسی زمانہ میں کوئی اور تعریف کرنا کسی کے لیے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟“ (محضر نامہ.ناشر : اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز صفحہ 13 ) اور پھر جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ مؤقف پیش کیا گیا تھا کہ صرف قرآن کریم اور 227

Page 246

سنت نبوی کو بنیاد بنا کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ کسی بھی اہم کام کو کرنے سے قبل کچھ بنیادی اصول طے کرنے پڑتے ہیں.اسی طرح اگر مسلمان کی ایسی تعریف کرنی تھی جس پر تمام ملت اسلامیہ کا اتفاق ہو سکے تو ضروری تھا کہ اس کے کچھ بنیادی اصول طے کر لیے جائیں جن پر بنیا درکھ کر مسلمان کی تعریف کی جا سکے اور نہ یہ عمل ملت اسلامیہ کے اتحاد اور اخوت میں رخنہ ڈالنے کا سبب بھی بن سکتا تھا.جماعت احمدیہ کی طرف سے جو مندرجہ بالا اصول بیان کیے گئے تھے وہ ایسے تھے کہ جن سے کسی مسلمان کو اختلاف نہیں کرنا چاہیے تھا.جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں کچھ آیات اور رسول اللہ صلی ا یتیم کی کچھ احادیث بھی پیش کی گئی تھیں تا کہ ان کو معیار بنا کر فیصلہ کیا جائے.اس کے جواب میں مفتی محمود صاحب نے یہ نظریہ پیش کیا کہ رسول اللہ صلی الیتیم کی حدیث شریف میں جو مسلمان کی تعریف بیان کی گئی ہے وہ جامع و مانع تعریف نہیں ہے.گویا جو تعریف رسول اللہ سال میں ہی تم نے بیان فرمائی وہ تو مکمل اور قانونی تعریف نہیں تھی اور جو تعریف پاکستان کی قومی اسمبلی تیار کرے گی وہ مکمل اور صحیح ہو گی اگر یہ گستاخی نہیں تو اور گستاخی کس کو کہتے ہیں؟ کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ، صفحہ 1992) جب مولوی عبد الحکیم صاحب نے اس تجویز پر اپنی رائے کا اظہار کیا تو اس کا آغاز اس طنز سے کیا: اب جبکہ ملک میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبہ میں میں سال کے بعد پھر طاقت آئی ہے تو مرزائیوں کو بھی مسلمان کی تعریف کا شوق چرایا تا کہ ہم کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں شمار ہو جا ئیں.اس عنوان کے تحت صفحہ 15 پر مرزائی محضر نامہ کے بیان سے 228

Page 247

واضح ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی تعریف کو جائز نہیں سمجھتے جو کتاب اللہ اور خودسرور کائنات سینا یہ تم کی فرمائی ہوئی تعریف کے بعد کسی زمانہ میں کی جائے.“ ( کارروائی صفحہ 2364) مولوی عبد الحکیم صاحب کا جماعت احمدیہ کے مؤقف پر حملہ تو واضح ہے لیکن وہ کیا نتیجہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے ؟ اس کا جواب واضح ہے کہ وہ یہ نتیجہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مناسب یہی ہے کہ پاکستان کے آئین میں مسلمان کی ایسی تعریف شامل کی جائے جو قرآن کریم اور رسول اللہ صلی ایتم کی بیان فرمودہ تعریف سے مختلف ہو جبکہ آئین تو انہیں اس بات کا پابند کرتا تھا کہ وہ فیصلہ قرآن کریم اور سنت کے مطابق کریں.کون سا طبقہ بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کا حامی ہے؟ یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سا طبقہ ہے جو کہ آئین میں درج بنیادی حقوق کے خلاف رائے رکھتا ہے اور اس کا اظہار کر چکا ہے اور اگر یہ پابندی نہ قائم رکھی گئی کہ ان بنیادی حقوق میں مملکت کے کسی قانون سے بھی کمی نہیں کی جاسکتی تو وہ یقینی طور پر ان بنیادی حقوق کے قوانین میں ترمیم کرنے کی کوشش کرے گا.یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب پاکستان کے موجودہ آئین کا مسودہ تیار ہو کر قومی اسمبلی میں پیش ہو رہا تھا تو مولوی حضرات نے اس آئین کو اسلامی بنانے کے لئے بہت سی تجاویز پیش کی تھیں.ایک تجویز تو یہ تھی کہ اگر اسلامی آئین چاہیے تو یہ کام تین علماء کے سپر د کر دیا جائے.باقی کسی کی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ مولوی نعمت اللہ صاحب نے تجویز پیش کی تھی کہ کوثر نیازی صاحب، مولوی عبدالحق صاحب اور مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب کے سپر د اسلامی آئین بنانے کا کام کیا جائے اور وہ تین ماہ میں یہ کام کر دیں اور ساتھ یہ انتباہ کیا تھا: 229

Page 248

د میں کہتا ہوں خدا کے بند و اسلام کے ساتھ مذاق نہ کرو“ (The National Assembly of Pakistan, Constitution making debates Feb 281973, Vol 2No.10, p 264) اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان مولوی صاحب کو پورے آئین میں کیا غیر اسلامی بات نظر آئی تھی ؟ تو یہ حقیقت جان کر سب کو حیرت ہوگی کہ انہیں آئین کے آرٹیکل 1.11 پر اعتراض تھا کیونکہ اس میں غلام اور لونڈیاں رکھنے کی ممانعت کی گئی تھی.یہ مولوی صاحب نعوذ باللہ پاکستان کے آئین کو کس طرح اسلامی بنانا چاہتے تھے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں.مولوی نعمت اللہ صاحب کہتے ہیں: ”جناب صدر اس آئین کے حصہ دوئم میں لکھا ہے کہ غلامی انتہائی درجے تک جائز نہیں ہے اور انسانوں کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے اور غلامی یہاں پر نہیں کی جائے گی اور اس کی ترویج نہیں دی جائے گی...جناب والا ! سوچ لیجیے یہ ہال جو مسلمانوں کا ہے اور سب کا قرآن پاک پر ایمان ہے، اس آئین میں یہ اب پیش کیا گیا ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا.یہ با قاعدہ اس میں موجود ہے.جناب والا قرآن پاک میں یہ بھی موجود ہے.یہ قرآن کریم کا حکم جو ہے وہ ٹھکرایا جاتا ہے.ہم انگریزوں کی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور قرآن پاک کو چھوڑ دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر تمہاری طاقت اتنی ہے کہ چار شادیاں نہیں کر سکتے تو ایک کر لو یا باندی کو استعمال میں لاؤ.آپ کہتے ہیں کہ غلامی جائز نہیں.جناب والا جائز ہے.یہ جناب والا قرآن کی مخالفت ہے اور یہ کس طریقے سے کہتے ہیں قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور کہتے ہیں غلامی کو ہم کبھی جائز نہیں کریں گے، انسانوں کی خرید و فروخت جائز نہیں ہوگی.بنیادی حصے میں یہ الفاظ رکھ 230

Page 249

دیئے گئے ہیں.یہ لفظ تو انگریز کے کیے ہوئے ہیں.“ (The National Assembly of Pakistan, Constitution making debates Feb 281973, Vol 2No.10, p 458-459) پھر دوبارہ اس مسئلہ پر مولوی نعمت اللہ صاحب نے کہا: یہ آئین جو آپ کے سامنے ہے.اس میں کہا ہے کہ اگر آپ غلامی کو جائز رکھیں تو آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں شرمندہ ہو جائیں گے.میں خدا کی قسم آپ کے سامنے کہتا ہوں کہ آپ دنیا میں بلکہ انتہائی درجہ تک سرخرو ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے شامل حال ہوگی.اور پیپلز پارٹی دنیا میں انتہائی درجہ تک سرخرو ہو جائے گی.اور پاکستان پیپلز پارٹی دنیا میں سرخرو ہو جائے گی.اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی آئین پچیس سال بعد دنیا میں پیش کر دیا.“ (The National Assembly of Pakistan, Constitution making debates Feb 281973, Vol 2No.10, p 460) یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب پاکستان کی اسمبلی میں مولوی نعمت اللہ صاحب یہ تقریر فرما چکے تو کوثر نیازی صاحب نے کہا کہ کیا مفتی محمود صاحب کے بھی یہی نظریات ہیں.تو نہ مفتی محمود صاحب نے اور نہ علماء میں سے کسی اور ممبر نے اس بات کی تردید کی کہ یہ ہمارے خیالات نہیں ہیں.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله ! یعنی ان علماء کو قرآن کریم اور احادیث میں غلاموں کو آزاد کرنے کی تاکید اور اس کے ثواب کا بیان نظر نہیں آیا اور ان کے نزدیک ملک میں اسلامی آئین کے نفاذ کا سب سے اہم پہلو یہی تھا کہ پاکستان میں غلام اور لونڈیاں بنانا شروع کر دو اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح پاکستان دنیا بھر میں سرخرو ہو جائے گا.یہ مثال پیش کرنے سے غرض یہ ہے کہ یہ واضح ہو کہ جب مولوی صاحبان یہ کہتے ہیں کہ ہم قوانین بنائیں گے اور ہم پر یہ پابندی نہ ہو کہ بنیادی حقوق کے خلاف قوانین نہ 231

Page 250

بنا ئیں تو اس کا منحوس انجام کیا ہوتا ہے اور یہ بھی ملاحظہ ہو کہ جماعت احمدیہ کے خلاف جس قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلے کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے، اس کی ذہنی کیفیت کیا تھی ؟ اور کسی کو یہ وہم نہ اُٹھے کہ اسمبلی میں ایک ممبر صاحب نے بہک کر ایسی بات کہہ دی.اس کے بعد ISIS اور بوکوحرام نے اس کام کو عملاً کر بھی دیا.اگر اس شدت پسند طبقے کو کھلی چھٹی دی جائے گی تو یہ خوفناک نتیجے نکلیں گے.جماعت احمدیہ کے مخالف طبقہ کو آئین پاکستان کے پہلے باب سے ایک خاص عداوت ہے کیونکہ اس میں پاکستان کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق بیان ہوئے ہیں.جیسا کہ ، ذکر کیا گیا کہ بیٹی بختیار صاحب نے تو یہ خوفناک نظریہ پیش کر دیا تھا کہ پارلیمنٹ آئین میں درج بنیادی حقوق اور اس شق کو کہ ان میں کمی بھی نہیں کی جاسکتی ختم کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے.اس کے علاوہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 کے مطابق (جو بنیادی حقوق کے باب کا حصہ ہے ) قانون اور امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہر شخص کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق دیا گیا تھا لیکن مولوی صاحبان اس سے بھی خوش نہیں تھے کیونکہ اگر تبلیغ کی اجازت ہے تو پھر مذہب کی تبدیلی کی اجازت بھی دینی پڑے گی.چنانچہ جب 1973ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں آئین کے مسودے پر بحث ہو رہی تھی تو مفتی محمود صاحب نے کہا: ”بنیادی حقوق کی دفعات میں ایک مسلمان کو مرتد ہونے کا حق حاصل ہے.اب بتا ئیں کہ سرکاری مذہب اسلام کیسے ہو گیا.“ (The National Assembly of Pakistan Constitution Making Debates, Vol II No.13March 51973, p 644) جمیعت علمائے پاکستان کے قائد شاہ احمد نورانی صاحب نے کہا: اس دستور میں مسلمان کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار 232

Page 251

کر لے.جناب صدر ایک ایسا دستور جس میں مسلمان کے عقیدے کی مسلمان کے مذہب کی، مسلمان کے دین کی حفاظت کی ضمانت نہ دی گئی ہو.اور کسی بھی حیثیت سے ، کہیں بھی کسی شخص کو بھی اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ مسلمان کے عقیدہ پر کسی قسم کی شرط لگا سکے.مسلمان کے مذہب کو تبدیل کرا سکے.جب تک اس قسم کی ضمانت اس میں موجود نہ ہو.میں سمجھتا ہوں اس دستور کو مکمل طور پر اسلامی نہیں کہا جاسکتا.“ (The National Assembly of Pakistan P712, 14 vol.11 No, Constitution Making Debates) ان مثالوں سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جیسا کہ پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ کسی پارلیمنٹ یا مملکت کے کسی اور ادارے کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ بنیادی حقوق میں کمی کر سکے ورنہ اس سے فسادوں کا وہ دروازہ کھلے گا جس کو بند کرنا بہت مشکل ہو جائے گا.تبلیغ پر پابندی اب ہم اس عدالتی فیصلہ کے اس حصہ کی طرف آتے ہیں جس میں جماعت احمدیہ کے خلاف نافذ کئے جانے والے آرڈینس کا ذکر ہے.اس قسط میں ہم قانون اور اسلامی تعلیمات کی رو سے اس آرڈینس کی شقوں کا جائزہ لیں گے.اسلام آباد ہائی کورٹ کے زیر نظر فیصلہ میں اس آرڈینینس کے بارے میں شریعت کورٹ کے فیصلہ کا ذکر کیا گیا ہے.اس لئے شریعت کورٹ کے اس فیصلہ کا مختصر ذکر بھی کریں گے.سب سے پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ جنرل ضیاء صاحب کے جاری کردہ آرڈیننس میں تبلیغ کے حوالے سے جماعت احمدیہ پر کیا پابندی لگائی گئی تھی ؟ تعزیرات پاکستان کا یہ حصہ 2980 ہے.اس کے الفاظ یہ ہیں: 233

Page 252

Any person of the Qadiani group or the Lahori group (who call themselves Ahmadis or by any other name,) who directly or indirectly, poses himself as a Muslim, or calls, or refers to, his faith as Islam, or preaches or propagates his faith, or invites others to accept his faith, by words, either spoken or written, or by visible representations, or in any manner whatsoever outrages the religious feelings of Muslims shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years and shall also be liable to fine.ترجمہ: کوئی بھی شخص جو قادیانی یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا ہو ( جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی بھی اور نام سے موسوم کرتے ہوں ) جو بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے، اپنے عقیدے کو اسلام کہے، اپنے عقیدہ کا پر چار و تبلیغ کرے، دوسروں کو اپنے عقیدہ میں شامل ہونے کی دعوت دے ایسے الفاظ سے جو چاہے قولی صورت میں ہوں یا تحریری صورت میں، یا کسی بھی ظاہری صورت میں ، یا کسی بھی ایسی صورت میں جن سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں.مندرجہ بالا تمام شقوں میں سے کسی کی بھی خلاف ورزی کی صورت میں تین سال تک قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہوگا.بظاہر یہ قانون کم اور احمدیوں کے خلاف اظہار بغض زیادہ لگتا ہے.یہ پابندی صرف احمدیوں پر ہے اور جماعت احمدیہ کے مخالفین پر کوئی پابندی نہیں وہ جماعت احمدیہ کے خلاف جتنا چاہیں پراپیگینڈا کریں.جبکہ آئین کا آرٹیکل 25 یہ اعلان کرتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب شہری برا بر ہوں گے.234

Page 253

اسلم خا کی صاحب کی رائے اور آئین میں تبلیغ کی آزادی یہی وجہ تھی کہ ایک عدالتی مددگار ماہر ڈاکٹر اسلم خا کی صاحب نے عدالت میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا: "prohibiting Qadianis from preaching their religion is a sort of 'one sided operation' which is not justified in Islam" (page 34) ترجمہ: قادیانیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ سے روکنا ایک یک طرفہ عمل ہے جو کہ اسلام کی رو سے جائز نہیں.اب آئین کی شق نمبر 20 کا جائزہ لیتے ہیں.یہ شق بیان کرتی ہے ” قانون امن عامہ اور اخلاق کے تابع [الف] ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا“ اس شق کی رو سے ہر شہری کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہے.شریعت کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ نکتہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ حق تو قانون کے تابع ہے.جب 1984ء میں احمدیوں کے بارے میں ایک قانون بنا دیا گیا تو پھر یہ حق برقرار نہیں رہتا.(فیصلہ شریعت کورٹ صفحہ 183) لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آئین کی رو سے یعنی آئین کے آرٹیکل 8 کی رو سے ان بنیادی حقوق میں کمی کرنے یا انہیں منسوخ کرنے کا کوئی قانون نہیں بن سکتا اور اگر ایسا قانون بنایا جائے تو اس حد تک کالعدم ہو گا جس حد تک وہ ان بنیادی حقوق سے ٹکرائے گا تو اس رُو سے تو 1984ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف 235

Page 254

جنرل ضیاء صاحب کے آرڈینس کے تحت نافذ ہونے والا قانون خود بخود کالعدم ہو جاتا ہے اور اس کو نافذ کرنا غیر آئینی ہے.اگر یہ نکتہ اٹھایا جائے کہ یہ مذہبی آزادی قانون کے تابع بیان کی گئی ہے اور اگر ایسا قانون بنادیا جائے جس میں احمدیوں کی مذہبی آزادی سلب کر لی جائے تو آئین کی یہ شق اس کو روک نہیں سکتی تو پھر یہ احمد یوں تک کیوں محدودر ہے؟ پھر تو پاکستان میں کسی بھی گروہ کی مذہبی آزادی قانون بنا کر سب کی جاسکتی ہے.پھر یہ اندھیر نگری صرف مذہبی آزادی تک کیوں محدودر ہے؟ آئین کی تمہید میں انصاف اور برابری کے حق کو بھی قانون اور اخلاق عامہ کے تابع بیان کیا گیا ہے.کل کو یہ کہا جائے گا کہ ہم نے قانون بنا دیا ہے کہ اب سے انصاف اور برابری غیر قانونی ہوگی.آئین کے آرٹیکل 14 میں گھر کی خلوت کے حق کو بھی قانون کے تابع بیان کیا گیا ہے.کوئی حکومت پھر یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم قانون بنا رہے ہیں کہ کسی کو گھر کی خلوت کا حق حاصل نہیں ہے.اور کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ ہمارے اس حق پر اعتراض کرے.آئین کی شق 22 میں لکھا ہے کہ کسی شخص کو نسل ، ذات، مذہب یا مقام پیدائش کی بنا پر ایسے تعلیمی ادارے میں داخلہ سے محروم نہیں کیا جائے گا جسے سرکاری محاصل سے مدد ملتی ہو.اور آئین کی رو سے یہ حق بھی قانون کے تابع بیان کیا گیا ہے.اگر یہ دروازہ کھولا جائے تو پھر کوئی قانون ساز اسمبلی یہ اعلان کر سکتی ہے کہ ہم نے یہ قانون بنادیا ہے کہ اب سے تعلیمی اداروں میں داخلہ بلا امتیاز نہیں ہوگا اور ہم یہ قانون بنارہے ہیں کہ یہ طبقہ اب سے تعلیمی اداروں میں داخلہ سے محروم رکھا جائے گا.اگر یہ سوچ لے کر قانون سازی کی جائے گی کہ ہمیں قانون بنانے کا اختیار ہے تو پاکستان میں کسی کے بھی حقوق محفوظ نہیں رہیں گے اور جارج اورول (George Orwell) کے اُس ناول میں بیان کیا گیا نقشہ سامنے آجاتا ہے، ستم ظریفی دیکھیں جس کا نام ہی 1984ء.ہے.236

Page 255

اس ناول میں ایسے دور کا نقشہ پیش کیا گیا ہے جب دنیا میں سیاسی اشرافیہ نے اس طرح کی قانون سازی کر کے افراد کو اُن کے تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے.وہ گھر بھی جاتے ہیں تو کیمرہ ان کی نگرانی کر رہا ہوتا ہے، جب دل چاہتا ہے تاریخ اور ڈکشنری بدل دیتے ہیں.اور شادی بھی کرتے ہیں تو اس لئے کہ ان کی پارٹی کو مزید بچوں کی ضرورت ہے.اگر کوئی گھر میں ڈائری بھی لکھتا ہے تو چھپ کر جیسے کوئی بڑا جرم کر رہا ہو.بنیادی حقوق کے باب پر مولوی صاحبان کی ناراضگی یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں آئین کے آرٹیکل 8 پر یعنی اُس آرٹیکل پر جس میں بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیا گیا تھا کہ ان کو سلب یا کم کرنے کے بارے میں کوئی قانون نہیں بن سکتا اور اگر بنایا گیا تو وہ از خود کالعدم ہوگا ، بحث شروع ہوئی تو مولوی صاحبان نے اس شق پر اظہار ناراضگی کیا تھا اور اسے تبدیل کروانے کی کوشش کی تھی اور ظلم یہ ہے کہ اسلام کا نام لے کر یہ کوشش کی گئی تھی.حالانکہ انہیں اسلام کی حکمتوں کی اطلاع ہوتی اور اسلام سے محبت ہوتی تو یہ کہتے کہ سب سے زیادہ بنیادی حقوق کو تحفظ اسلام نے عطا کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام کے نام پر ان حقوق کو مکمل تحفظ دیا جائے اور ایسا تحفظ دیا جائے کہ کسی اور ملک میں اس کی مثال نہ ملتی ہو لیکن افسوس کہ ان لوگوں نے بالکل برعکس رویہ دکھایا.چنانچہ جب یہ آرٹیکل قومی اسمبلی میں بحث کے لئے پیش ہوا تو جماعت احمدیہ کے اشد مخالف مولوی عبد الحکیم صاحب نے اس میں یہ ترمیم پیش کردی که بنیادی حقوق میں کمی کرنے یا اسے سلب کرنے کا کوئی قانون منظور نہیں سوائے اس کے کہ اس باب میں عطا کردہ کسی حق کا خلاف قرآن اور سنت ہونا ثابت ہو جائے.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اس باب کو یعنی پاکستان کے آئین کے باب نمبر 1 کو پڑھ جائیں.237

Page 256

اس میں تو بالکل بنیادی قسم کے انسانی حقوق بیان کئے گئے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے ، قرآن نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بہت زیادہ حقوق انسانیت کو عطا فرمائے ہیں اور مولوی عبد الحکیم صاحب یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ اگر بنیادی انسانی حقوق میں سے کوئی خلاف اسلام یا خلاف سنت ثابت ہو جائے تو وہ منسوخ ہو سکتا ہے.یہ صاحب تو خود اسلام پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اسلام نے انسانیت کو بنیادی حقوق بھی عطا نہیں کئے.اسی رو میں بہک کر مولوی عبد الحق صاحب (اکوڑہ خٹک) نے بھی ایک ترمیم پیش کر دی.جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے آئین کا یہ آرٹیکل ( نمبر 8) ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ کوئی رسم یا رواج یا قانون جوان بنیادی انسانی حقوق سے ٹکرائے گا وہ تناقض کی حد تک کالعدم ہوگا.ان صاحب نے یہ ترمیم پیش کر دی سوائے اس کے کہ ایسا قانون ، رسم و رواج جو قرآن وسنت کے مطابق ہو.“ دوسرے لفظوں میں یہ مولوی صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ قرآن وسنت بنیادی انسانی حقوق کو سلب کر سکتے ہیں.مولوی عبد الحق صاحب یہ تو غور فرماتے کہ اس باب میں درج کون ساحق خلاف اسلام یا خلاف سنت ہے.خدا کا شکر ہے کہ یہ عجیب الخلقت ترامیم بھاری اکثریت سے نا منظور ہوگئیں اور ان کے حق میں صرف 16 ووٹ آئے.66 (The National Assembly of Pakistan, Constitution Making bates, Vo.II no 19, P1096) شریعت کورٹ کے فیصلہ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ پر پابندی کا جواز پیش کرنے کے لئے یہ تبصرہ کیا گیا کہ دوسری آئینی ترمیم کے بعد بھی احمدی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے تبلیغ کرتے رہے جبکہ اُن کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ خود کو مسلمان ظاہر کر کے تبلیغ کرتے.(فیصلہ شریعت کورٹ ص 150) 238

Page 257

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1974ء کی کارروائی کے دوران جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ خود کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھتے ہیں اور علیحدہ ظاہر کرتے ہیں.بلکہ انہوں نے خود یہ مطالبہ پیش کیا تھا کہ ہمیں مسلمانوں سے علیحدہ اقلیت تسلیم کرو.کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ء ص 1920 ) اور یہ الزام بار بار لگایا گیا کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھتے ہیں اور دس سال بعد یہ الزام لگایا جارہا تھا کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور اس سے دھو کہ لگتا ہے.ظاہر ہے کہ یہ دونوں متضاد باتیں ہیں اور اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین جب دل چاہتا ہے اپنی پسند کا بے بنیاد الزام لگا دیتے ہیں خواہ ان کا ایک الزام دوسرے الزام کی تردید ہی کیوں نہ کرتا ہو.آزادی سے قبل تبلیغ کی آزادی پر مسلم لیگ کا مؤقف یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزادی سے بھی کافی قبل جب 1930 ء کی دہائی میں ہندوستان کے مستقبل کے آئین کے بارے میں بحث چل رہی تھی اور اس سلسلہ میں لندن میں راؤنڈ ٹیبل کا نفرنسیں ہو رہی تھیں.تو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی قرار دادوں کے ذریعہ مستقبل کے آئین کے بارے میں جو مطالبات پیش کئے تھے ان میں سے ایک یہ تھا: acceptable to be would constitution "No Mussalman's unless it secures and guarantees them: freedom of profession, practice and propagation of religion, education etc".(Foundations of Pakistan, edited by Syed Sharifuddin Pirzada, Vol 21924-1947, Published by National Publishing House 1970, p 189) 239

Page 258

ترجمہ: کوئی بھی آئین مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا جب تک اس میں ان امور کی ضمانت نہ دی جائے پیشہ اختیار کرنے کی آزادی مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی اور تعلیم کا حق وغیرہ.حقیقت تو یہ ہے کہ سب کے لئے تبلیغ کی آزادی کا مطالبہ تو مسلم لیگ کا بنیادی مطالبہ تھا اور ان مطالبات میں قانون کے تابع Subject to law) کا ذکر نہیں تھا.یہ بات اہم ہے کہ اسی سال یعنی مارچ 1931ء میں کراچی میں کانگرس نے بھی مستقبل کے آئین کے بارے میں اپنے مطالبات منظور کئے تھے اور ان مطالبات کا آرٹیکل 1 - ii مذہبی آزادی کے بارے میں تھا.اور اس کے الفاظ یہ تھے."Every citizen shall enjoy freedom of conscience and the right freely to profess and practise his religion, subject to public order and morality وو ترجمہ: ہر شخص کو ضمیر کی آزادی اور قانون اور اخلاق عامہ کے تابع اپنے مذہب کا اعلان کرنے اور اس پر عمل کرنے کے حق کی آزادی حاصل ہوگی.مسلم لیگ کی قرارداد کے برعکس اس قرارداد میں تبلیغ کا ذکر نہیں تھا.اور اس حق کو قانون اور اخلاق عامہ کے تابع رکھا گیا تھا.اسی طرح جب ستمبر تا دسمبر 1931ء میں لنڈن میں ہندوستان کے مستقبل کے آئین کے بارے میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس ہوئی تو اس میں گاندھی جی نے کانگرس کی طرف سے مذہبی آزادی کی ضمانت کا ذکر کیا تو اس میں مذہب کے Profession and practice کا ذکر تھا لیکن تبلیغ کرنے کی اجازت کا ذکر نہیں تھا اور اس وقت ہندوستان کے عیسائیوں کی طرف سے جو میمورنڈم جمع کرایا گیا تھا اس میں 240

Page 259

گاندھی جی کے بعض بیانات پر جو عیسائی تبلیغی سرگرمیوں پر ممکنہ پابندیوں کے بارے میں تھے اظہار تشویش کیا گیا تھا.( Indian Roundtable Conference Second Session proceedings of Federal Structure Committee and Minorties Government of India: Published by Calcutta Vol.3 Committes 1411, 1391, P1348, India Centrel Publication Branch 1939.) اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ آزادی سے قبل پاکستان کی بانی جماعت کا مؤقف مذہب کی آزادانہ تبلیغ کے حق کو محفوظ کرنے کے حق میں تھا.اور مسلم لیگ کی طرف سے جو آزادی اور حقوق کا جو تصور پیش کیا جار ہا تھا اس میں ایک اہم پہلو ہر ایک کے لئے تبلیغ کی آزادی کا حق تھا.پاکستان بننے کے بعد مولوی صاحبان کے مطالبات لیکن پاکستان بننے کے دو تین سال بعد ہی بہت سے مولوی صاحبان (جن کی اکثریت پاکستان بننے کی ہی مخالف تھی) کے ایسے فتاویٰ سامنے آنے لگے کہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس لئے یہاں پر غیر مسلموں کو یا اُن کو جنہیں یہ مولوی صاحبان غیر مسلم سمجھتے ہیں تبلیغ کی بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے.اس کے علاوہ ان کا نظریہ یہ تھا کہ ان پر خود کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے خواہ وہ دوسروں کو واجب القتل ہی کیوں نہ قرار دے دیں.چنانچہ جب 1953ء کے فسادات پر قائم ہونے والی تحقیقاتی عدالت میں اس بارے میں سوالات کئے گئے تو اکثر مولوی صاحبان نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پاکستان چونکہ ایک اسلامی مملکت ہے اس لئے یہاں پر غیر مسلموں کو کھلم کھلا تبلیغ کی 241

Page 260

بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے.رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953 ء ص 238) ان صاحبان کو اگر دنیا میں اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام کی فکر ہوتی یا کم از کم اس کی صلاحیت ہوتی تو وہ کبھی بھی تبلیغ کے حق کی مخالفت نہ کرتے بلکہ اس کی بھر پور حمایت کرتے.اگر ان میں خود اعتمادی ہوتی تو انہیں کبھی بھی اس بات سے پریشانی نہ ہوتی کہ آئین میں سب کو تبلیغ کی آزادی حاصل ہے مگر افسوس کہ جب 1973ء میں پاکستان کے تیسرے آئین پر بحث ہو رہی تھی تو اس موقع پر بھی مذہبی جماعتوں کے قائدین نے آئین میں تبلیغ کے حق کی مخالفت کی.یہ حق آئین کے آرٹیکل 20 میں دیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: قانون ، امن عامہ اور اخلاق کے تابع [الف] ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا“ جب یہ شق پیش ہوئی تو مذہبی جماعتوں کے ممبران نے اس میں ترمیم کرانے کی کوشش کی.مولوی عبد الحکیم صاحب نے اس شق میں یہ ترمیم پیش کی: بشرطیکہ اسلام کی تبلیغ میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو.اور یہ کہ مسلمان کو مرتد ہونے کی اجازت نہ ہوگی.“ اور مولوی غلام غوث صاحب نے ان الفاظ کے اضافہ کی تجویز پیش کی : دو لیکن کسی مسلمان کو مرتد ہونے کی اجازت نہیں ہوگی.“ اس کا مطلب یہ کہ غیر مسلموں کو تبلیغ کرنے کی اجازت تو ہے لیکن کوئی مسلمان اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتا.اس شرط کے ساتھ تو تبلیغ کا حق بے معنی ہو جاتا ہے.یہ بات قابل ذکر 242

Page 261

ہے کہ اس موقع پر وفاقی وزیر خورشید حسن میر صاحب نے اس ترمیم کی مخالفت میں تقریر کی اور کہا کہ اس وقت کئی ممالک میں مثلاً افریقہ میں اسلام پھیل رہا ہے.اگر ہم ایسا قانون بنائیں گے تو غیر مسلم ممالک بھی ایسے قوانین بنا دیں گے جس سے اسلام کی تبلیغ پر غلط اثر پڑے گا.لیکن اسلام کی تبلیغ کی کسی کو فکر نہیں تھی تو ان علماء صاحبان کو نہیں تھی.اس بحث میں وہ اس قسم کی فکروں سے مکمل طور پر بے نیاز نظر آتے ہیں.(The National Assembly of Pakistan Constitution Making Debates Vol II No.20 P 1096-1110) مرتد کی تعریف اور اس میں پوشیدہ فتنہ ایک گذشتہ قسط میں یہ ذکر گذر چکا ہے کہ مولوی صاحبان کے نزدیک مرتد کی سز اقتل ہے اور وہ اسے قانون کا حصہ بنانے کے لئے کوششیں بھی کرتے رہے ہیں.جب 1973ء کے آئین پر بحث ہو رہی تھی تو مذہبی جماعتوں کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو تبلیغ کا حق تو دے دو.سکھ یا ہندو عیسائی ہوسکتا ہے اور عیسائی سکھ یا ہند و ہوسکتا ہے لیکن آئین کی رو سے مسلمان کو مرتد ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے.اس پس منظر میں ایک اور بات کا ذکر بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس مرحلہ پر ان علماء نے مرتد کی تعریف کو بھی آئین کا حصہ بنانے کی کوشش کی.چنانچہ مولوی غلام غوث صاحب نے مرتد کی اس تعریف کو آئین کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی کہ و کسی ایسے شخص کو مرتد کہا جائے گا اگر وہ اسلام قبول کرنے کے بعد قرآن پاک کی کسی آیت رسول کی کسی مسلسل حدیث یا ان کی کسی مقبول عام توضیح کو قبول کرنے سے انکار کر دے.“ (The National Assembly of Pakistan Constitution Making Debates Vol II No.20 P 1268) 243

Page 262

مرتد کی اس تعریف سے یہ ظاہر ہے کہ اس کے بعد ان علماء نے یہ مسئلہ اُٹھانا تھا کہ یہ فیصلہ تو ہم علماء کریں گے کہ کسی آیت یا مسلسل حدیث کی مقبول عام توضیح کیا ہے؟ یا یہ کہ یہ فیصلہ بھی ہم کریں گے کہ کون سی حدیث کو مسلسل حدیث قرار دیا جاسکتا ہے.اور اس کو بنیاد بنا کر جس کو ان کا جی چاہے مرتد ، غیر مسلم اور واجب القتل قرار دینا تھا.اور اس طرح ان کے لئے اپنی من مانی کرنے کے راستے کھل جانے تھے.یہ ترامیم بھی بھاری اکثریت سے نامنظور قرار دے دی گئیں.اور ان کی حمایت میں صرف دو ووٹ آئے.اگر مرتد کی یہ تعریف منظور کرانے کی کوشش کی گئی تھی تو لازمی بات ہے کہ اگلا مرحلہ یہ ہونا تھا کہ جو کسی ایک آیت یا کسی ایک حدیث کے مطلب کے بارے میں بھی مولوی صاحبان سے اختلاف کرے گا وہ غیر مسلم اور گردن زدنی قرار دے دیا جائے گا.قرآن کریم کی راہنمائی اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس بارے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ کیا ! ملک میں جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو، دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے عقائد کی تبلیغ کی اجازت ہوتی ہے کہ نہیں ؟ بار بار اس بات کا اعلان کیا جاتا ہے کہ ملک کے آئین میں لکھا ہے کہ پاکستان میں قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا تو اس مسئلہ میں بھی یہ جائزہ لینا پڑے گا کہ اس بارے میں قرآن کریم سے کیا را ہنمائی ملتی ہے؟ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ میں فرماتا ہے: وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصْرَى تِلْكَ أَمَانِتُهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ترجمه: (البقرة : 112 ) وروہ کہتے ہیں ہرگز جنت میں کوئی داخل نہیں ہو گا سوائے ان کے جو یہودی یا عیسائی 244

Page 263

ہوں.یہ محض ان کی خواہشات ہیں.تو کہا اپنی کوئی مضبوط دلیل لا ؤاگر تم سچے ہو.یہ مدنی دور کی آیت ہے.اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کے برحق ہونے کا اعلان کر رہے تھے اور قرآن کریم نے انہیں اس سے روکا نہیں بلکہ انہیں دعوت دی ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو مضبوط دلیل پیش کریں.اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دے رہا ہے.تفسیر جلالین میں لکھا ہے کہ یہودو نصاری نے یہ جملے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کہے جب نجران کا وفد مدینہ میں آیا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ (الانبياء : 25) ترجمہ: کیا انہوں نے اس کے سوا کوئی معبود بنارکھے ہیں؟ تو کہہ دے اپنی قطعی دلیل لاؤ.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ جب مشرکوں سے بھی مذہبی گفتگو ہو اور وہ اپنے مشرکانہ دعاوی پیش کریں تو ان سے ان کے دعوے کی دلیل طلب کرو.اگر مشرکین کو اپنے مذہب کے حق میں دلائل پیش کرنے کی یا تبلیغ کی اجازت ہی نہیں تھی تو ان سے دلیل طلب کرنے کا کیا مطلب؟ پھر سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : أدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: 126) ترجمہ: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو.245

Page 264

تبلیغ کا مقصد اپنے مذہب کے حق میں دلائل دینا ہے.اگر دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے عقائد کے حق میں دلیل دینے یا تبلیغ کا حق ہی نہیں تھا تو پھر بہترین دلیل کے ساتھ بحث کیسے ہوسکتی ہے؟ اس آیت کریمہ میں جادِلُهُمُ “ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور لفظ الجدال کا مطلب ہی یہ ہے ایسی گفتگو جس میں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.اگر فریق مخالف کو تبلیغ کی یا دلیل دینے کی اجازت ہی نہیں تو پھر ایسی گفتگو ہو ہی نہیں سکتی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (العنكبوت : 47) ترجمہ: اور اہل کتاب سے بحث نہ کرومگر اس (دلیل) سے جو بہترین ہو.اگر اہل کتاب کو تبلیغ کی اجازت ہی نہیں تھی تو ان سے بحث کس طرح ہو سکتی تھی.یہ آیات کریمہ ظاہر کرتی ہیں کہ قرآن کریم واضح طور پر مشرکین ، یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے مذہب اور اپنے عقائد کے حق میں دلائل دیں اور اگر یہ تبلیغ نہیں تو پھرا اور تبلیغ کس کو کہتے ہیں؟ جماعت احمدیہ کے خلاف آرڈیننس میں بعض اصطلاحات کے استعمال پر پابندی اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں تعریفی الفاظ کے ساتھ جنرل ضیاء صاحب 246

Page 265

کے اس آرڈینس کا ذکر ہے جو کہ جماعت احمدیہ کے خلاف جاری کیا گیا تھا.اس کے ایک حصہ کا تجزیہ گزشتہ قسط میں پیش کیا جا چکا ہے.اب ہم اس کے اُس حصہ کا جائزہ لیتے ہیں جو تعزیرات پاکستان میں 298B کے نام سے موجود ہے.اس کے نمبر 1-2 کا متن یہ ہے 2988.Misuse of epithets, descriptions and titles, etc.xx reserved for certain holy personages or places.(1) Any person of the Quadiani group or the Lahori group (who call themselves 'Ahmadis' or by any other name) who by words, either spoken or written, or by visible representation (a) refers to, or addresses, any person, other than a Caliph or companion of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him) a s 'Ameerul Mumineen , 'Khalifa-tui-Mumineen'X' Khalifa-tul-Muslimeen X' 'Sahaabi' or 'Razi Allah Anho' جیسا کہ اس قانون کی عبارت سے ظاہر ہے کہ اس کا عنوان یہ تھا کہ یہ قانون مقدس ہستیوں کے لئے مخصوص خطابات کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے نافذ کیا جا رہا ہے اور پھر لکھا ہے کہ کوئی بھی قادیانی یا لا ہوری یا احمدی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء یا آپ کے صحابہ کے علاوہ کسی اور شخص کے لئے امیر المومنین ، خلیفہ المومنین ، خلیفۃ المسلمین ، صحابی یا رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور پھر اس قانون کے آخر میں لکھا ہے کہ اسے تین سال تک قید کی سزا اور جرمانہ کی سزادی جاسکتی ہے.اس قانون کے الفاظ سے ہی ظاہر ہے کہ یہ پابندی صرف احمدیوں کے لئے تھی.247

Page 266

سنیوں، شیعہ حضرات، عیسائیوں ، یہودیوں ، سکھوں اور ہندؤوں کے لئے ایسی کوئی پابندی نہیں تھی.اور اس عجیب الخلقت قانون کے الفاظ ایسے ہیں کہ اگر کوئی احمدی ان اصطلاحات کا استعمال ایسے بزرگان کے لئے کرے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل نہ ہوں ، خواہ یہ بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل ہی گزر چکے ہوں تو بھی اس احمدی پر مقدمہ بنایا جا سکتا ہے اور اس قانون کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ قانون بنانے والوں کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء یا آپ کے صحابہ کے علاوہ کسی کے لئے امیر المومنین، خلیفہ المومنین، خلیفہ المسلمین یا رضی اللہ عنہ کے الفاظ کا استعمال جائز نہیں.یہاں صرف یہ ذکر نہیں کہ احمدی یہ اصطلاحات اپنی مقدس ہستیوں کے لئے استعمال نہیں کر سکتے بلکہ یہ قانون بنایا گیا ہے کہ اگر احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کے خلفاء کے علاوہ کسی اور کے لئے یہ اصطلاحات استعمال کرے گا تو اسے سزادی جائے گی.اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون کو بنانے والے تاریخ اسلام کے متعلق بنیادی امور کا علم بھی نہیں رکھتے تھے.امیر المومنین کی اصطلاح سب سے پہلے امیر المومنین کی اصطلاح کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے علاوہ تاریخ اسلام میں شروع سے لے کر اب تک یہ اصطلاح بہت سی شخصیات کے لئے استعمال کی گئی ہے بلکہ بہت سے جابر بادشاہوں کو بھی امیر المومنین کہا اور لکھا گیا ہے.اس کا ثبوت معتبر حوالوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے.وہ کون سا پڑھا لکھا شخص ہو گا جو ابن خلدون کے مقدمہ تاریخ سے واقف نہ ہو.اس میں امیر المومنین کی اصطلاح اور استعمال پر قابل قدر تحقیق پر مشتمل ایک باب شامل کیا گیا 248

Page 267

ہے.اس میں ابن خلدون تحریر کرتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کے خلفاء کے لئے امیر المومنین کا لقب استعمال کیا گیا.پھر جب بنو امیہ کو تخت سے محروم کر کے بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی اور ابو العباس سفاح تخت نشین ہوا تو اسے بھی امیر المومنین کا لقب دیا گیا حالانکہ اُس کی سفا کی اور خونریزی ضرب المثل تھی اور اس کے بعد بنو عباس کے بادشاہ بھی امیر المومنین کہلاتے رہے.اسی طرح شیعہ بادشاہوں نے بھی امیر المومنین کا لقب اختیار کیا.جب عباسی سلطنت میں کمزوری شروع ہوئی اور فاطمی دولت قائم ہوئی تو اس کے بادشاہوں کو بھی امیر المومنین کہا گیا.جب سپین میں بنوامیہ کی حکومت قائم ہوئی تو عبدالرحمن ثالث اور ان کے بعد ہونے والے بادشاہوں نے بھی امیر المومنین کا لقب اختیار کیا اور انہیں امیر المومنین کہا جا تا تھا.مراکش و اندلس کے بادشاہ یوسف بن تاشفین کو بھی باقاعدہ امیر المومنین کا خطاب دیا گیا تھا.اس کے علاوہ بہت سے بادشاہ امیر المومنین کہلاتے رہے.( مقدمه تاریخ ابن خلدون، اردو تر جمه عبد الرحمن دہلوی ، ناشر الفصل اگست 1993 ، صفحہ 212 تا 215) خود امام ابو حنیفہ نے بادشاہ وقت کے لئے امیر المومنین کے الفاظ استعمال کئے.حالانکہ وہ بادشاہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل نہیں تھا.( تذکرۃ الاولیاء مصنفه شیخ فریدالدین عطار ناشر الحمد پبلیکیشنز 2000 صفحہ 187) جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف الیاس برنی صاحب چونکہ حیدر آباد دکن میں مقیم تھے اور کئی مولوی صاحبان کو نظام حیدر آباد سے وظیفہ ملتا تھا یا کم از کم کچھ ملنے کی امید ضرور ہوتی تھی.اس لئے انہوں نے جب جماعت احمدیہ کے خلاف اپنی کتاب قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ لکھی تو اس کی تمہید میں نظام دکن کو امیر المومنین قرارد یا اور جوش میں یہ بھی لکھ گئے کہ حیدر آباد دکن عظمت رسول کا مسکن و مامن بنا ہوا ہے.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهُ ! یعنی ان 249

Page 268

صاحب کے نزدیک نعوذ باللہ عظمت رسول اگر کہیں محفوظ تھی تو حیدر آباد دکن کی ریاست میں تھی.جماعت احمدیہ کے ان مخالفین کو یہ بھی علم نہیں کہ عظمت رسول کی محافظ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وہ انعام کے لالچ میں ایک نواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظمت کو امان دینے والا قرار دے رہے تھے.اگر ساری دنیا کی حکومتیں بھی مل کر حملہ آور ہوں تو صرف خدا ہی عظمت رسول کی حفاظت کے لئے کافی ہے ( اور یہ وہ ریاست تھی جو انگریز کی مدد کے بغیر اپنی حفاظت خود بھی نہیں کر سکتی تھی اور پھر وہ لکھتے ہیں جو یہاں امیر المومنین ہے وہ سب سے بڑھ کر فدائے سید المرسلین ہے.سبحان اللہ.( قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ، مصنفہ الیاس برنی، ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان جنوری 2001، صفحہ 9) یہ عمل صرف سات آٹھ سو سال تک جاری نہیں رہا تھا بلکہ جب پہلی جنگ عظیم کے بعد تحریک خلافت چلائی گئی تو اس تحریک کی طرف سے ترکی کے سلطان کو عقیدت سے لبریز خط لکھے گئے.ان میں سلطان عبد الوحید کو دیگر القابات کے علاوہ امیر المومنین کے لقب سے بھی مخاطب کیا گیا.(The Indian Muslims-A Documentary Record 1900-1947 Vol VI, compiled by Shan Muhammad Prakashan Meerut Dehli 1983,p251) " published by Meenakshi جماعت احمدیہ پر تو یہ پابندی لگا دی گئی لیکن مخالفین جماعت کو گزشتہ چند دہائیوں میں ایک کے بعد دوسرا نام نہاد امیر المومنین دیکھنا پڑا.پہلے طالبان کے لیڈر ملا عمر نے امیر المومنین ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر داعش (ISIS) کے قائد ابوبکر بغدادی نے خلیفہ ہونے کے ساتھ امیرالمومنین ہونے کا بھی دعویٰ کر دیا.دیگر مصروفیات کے علاوہ ہزاروں کے حساب سے مسلمانوں کا خون کرنا ان دونوں صاحبان کا خاص مشغلہ تھا.پاکستان میں شدت 250

Page 269

پسندوں کے ایک طبقہ نے پہلے ملا عمر صاحب کو امیر المومنین تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور پھر بغدادی صاحب کو خلیفہ اور امیر المومنین بھی مان لیا.بعد میں سٹپٹا کر غور کرتے رہے کہ ایک وقت میں دو امیر المومنین کیسے ہو سکتے ہیں.ایک مدرسہ سے یہ تو جیہہ پیش کی گئی کہ ملا عمر ہمارے امیر المومنین اور ابوبکر البغدادی ہمارے خلیفہ ہیں اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ امیر المومنین ہو سکتے ہیں.اس حالت کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جنرل ضیاء صاحب کے آرڈینس میں یہ پابندی تو لگا دی گئی تھی کہ احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کے علاوہ کسی اور کو امیر المومنین نہیں کہہ سکتے لیکن جب پاکستان میں کئی طبقوں نے ملا عمر اور ابوبکری بغدادی کو علی الاعلان امیر المومنین تسلیم کیا تو قانون خاموش رہا بلکہ اب تک خاموش ہے.(Analysis: Battle for Ameer-ul-Monineen, by Hassan Abdullah, Daily Dawn 6th December 2014) (https//:www.thenews.com.pk/archive/print/641023-a-setback-for-fazlullah -mullah-omar-and-zawahiri accessed on 12th October 2018) (https//:dailypakistan.com.pk/09-Dec-2014/1171237accessed on 12th October 2018) خليفة المومنین اور خلیفہ المسلمین کی اصطلاح اب ہم خلیفتہ المسلمین اور خلیفتہ المومنین کی اصطلاحات کا جائزہ لیتے ہیں.اس آرڈیننس میں ان اصطلاحات کا شامل کر نا بذات خود ظاہر کرتا ہے کہ اس آرڈیننس کی عبارت تیار کرنے والے ان اصطلاحات کے بارے میں گہرا علم تو در کنار سطحی علم بھی نہیں رکھتے تھے.خلیفہ کا لفظی مطلب ہے جانشین ، قائم مقام اور سب سے بڑا بادشاہ.(المنجد) 251

Page 270

عموماً جماعت احمدیہ میں امام جماعت احمدیہ کے لئے خلیفتہ امسیح کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے.جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے خلیفہ رسول اللہ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی.اس آرڈینس کے مطابق کوئی احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے علاوہ کسی کے لئے خلیفہ المسلمین یا خلیفہ المومنین کی اصطلاح نہیں استعمال کر سکتا.بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی ممانعت ہے کہ خلفائے راشدین کے علاوہ کسی کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال کیا جائے.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اسلام میں تمام اموی بادشاہوں کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا ، تمام عباسی بادشاہوں کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا ، اور تمام عثمانی بادشاہوں کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا.باوجود اس کے کہ خلافت راشدہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ختم ہو گئی تھی ، ابن خلدون اور امام غزالی دونوں کا یہ نظر یہ تھا کہ عالم اسلام میں خلیفہ ہمیشہ موجود رہا ہے.امام غزالی نے تو لکھا ہے کہ امت مسلمہ میں خدا نے خلافت کا سلسلہ قیامت تک کے لئے کھول دیا ہے.ان حقائق کی موجودگی میں یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کے خلفائے راشدین کے علاوہ کسی کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا ایک بے معنی بات ہے.( مقدمه تاریخ ابن خلدون اردو ترجمہ عبدالرحمن دہلوی، ناشر الفیصل اگست 1993 صفحه 179 ) مجربات امام غزالی اردو تر جمه از سید حافظ یاسین، ناشر الفیصل جون 2007 ، صفحہ 357) اور اگر یہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کے بعد کسی کے بارے میں خلیفہ کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا تو یہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا انکار کرنا ہے کیونکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اُٹھا لے گا پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.پھر اللہ جب چاہے گا اسے 252

Page 271

اُٹھالے گا.پھر ایذاء رساں بادشاہت قائم ہوگی.پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی جب تک اللہ چاہے گا.پھر اللہ اسے اُٹھا لے گا.اس کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ 66 قائم ہوگی.پھر آپ خاموش ہو گئے “.( مشکوۃ المصابیح باب الانذار والتحذير ) اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں خلافت قائم ہوگی اور ایک بار پھر تحریک خلافت کی مثال دینی ضروری ہے.یہ ساری تحریک اس بنیادی نکتہ پر چلی تھی کہ ترکی کے سلطان مسلمانوں کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہیں اور خلیفۃ المسلمین ہیں اور جب تحریک خلافت کی طرف سے ان کے نام خط لکھے جاتے تو خلیفۃ رسول اللہ اور امیر المومنین کے الفاظ سے شروع ہوتے.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے بعد کسی کے لئے خلیفہ المسلمین یا خلیفتہ المومنین کی اصطلاحات جائز نہیں تھیں تو یا ترکی کے سلطان کے لئے یہ القابات کیوں استعمال کئے گئے؟ اور دوسراستم یہ کہ پہلے تو ترکی کے سلطان عبد الوحید کو خلیفہ اور امیر المومنین قرار دیا گیا اور پھر جب وہ تخت سے محروم ہو گئے تو یہی لوگ باقاعدہ انہیں مردود اور مقہور کے نام سے یاد کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہندوستان کے مسلمان ان سے شدید نفرت رکھتے ہیں اور اس کی ذمہ داری انہی کے افعال قبیحہ پر عائد ہوتی ہے اور انہوں نے اپنے ذاتی مفادات پر اپنے مذہبی اور قومی مفادات کو قربان کر دیا ہے اور فوراً نئے خلیفہ کے نام نیازمندیوں کے پیغامات بھجوانے شروع کر دیئے.تحریک خلافت مصنفہ ڈاکٹر میم کمال او کے، ترجمہ ڈاکٹر ثاراحمد اسرار، سنگ میل پبلیکیشنز 1991ء صفحہ 180 ،195 ،200) 253

Page 272

صحابی کی اصطلاح اب ہم صحابی کی اصطلاح کی طرف آتے ہیں.اس آرڈینس میں یہ ممانعت کی گئی تھی کہ احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے علاوہ کسی اور کے لئے صحابی کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے.مفردات امام راغب میں اس کا مطلب ہمیشہ رہنے والا ساتھی بیان ہوا ہے.یہ تو سب جانتے ہیں کہ صحابی کی جمع اصحاب ہے اور یہ لفظ قرآن کریم میں مختلف معانی میں بیان ہوا ہے اور قبل از اسلام لوگوں کے لئے بھی اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے مثلاً سورۃ الکہف آیت 9 میں اصحبُ الْكَهْفِ وَالرَّقِیم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور سورۃ الحج آیت 45 میں مدین کے لوگوں کے لئے بھی اصحب مدین کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اصطلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لئے مخصوص نہیں ہے اور اسلامی لٹریچر میں یہ لفظ دوسروں کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے.مثال کے طور پر معروف شیعہ کتاب چودہ ستارے میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ایک صحابی کے بارے میں لکھا ہے.ناگاہ ایک صحابی حسین نے تکبیر کہی چودہ ستارے مولفہ نجم الحسن کراروی، ناشر مکتبہ الرضا 2010 اس 253) اسی طرح عثمان بن سعید عمری کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ امام علی نقی رحمتہ اللہ علیہ اور امام حسن عسکری کے اصحاب میں سے تھے.(چودہ ستارے مولفہ نجم لحسن کراروی، ناشر مکتبہ الرضا2010، صفحہ 582) یہ تو صرف دو مثالیں ہیں ورنہ شیعہ احباب کے لٹریچر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کے لئے بکثرت اصحاب اور صحابی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.254

Page 273

رضی اللہ عنہ کی اصطلاح اب ہم رضی اللہ عنہ کی اصطلاح کا ذکر کرتے ہیں.اس آرڈینس میں اس بات پر پابندی لگائی گئی ہے کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے علاوہ کسی اور کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے.ایک بار پھر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ پابندی صرف احمدیوں پر ہی ہے.ورنہ اس قانون کی رو سے عیسائیوں، یہودیوں ، ہندووں، وں ،سکھوں اور دہر یہ احباب پر کوئی پابندی نہیں.وہ یہ اصطلاحات جس کے لئے پسند فرما ئیں استعمال کر سکتے ہیں.اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں بار بار اس بات کا ذکر آیا ہے کہ پاکستان کے آئین کی رو سے قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا تو مناسب ہوگا کہ اس پابندی کا بھی قرآن کریم کی رو سے جائزہ لیا جائے.کیا قرآن کریم میں بھی کہیں پر رضی اللہ عنہ کے الفاظ آئے ہیں اور کیا قرآن کریم میں یہ الفاظ صحابہ کے خلاف بھی کسی اور گروہ کے لئے استعمال ہوئے ہیں.ہم چند آیات قرآنی پیش کرتے ہیں.سورۃ البینہ میں تمام ایمان لانے والوں اور اعمال صالحہ بجالانے والوں کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ (البين: 7) جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذُلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ (السبين : 9) 255

Page 274

ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ، یہی ہیں وہ جو بہترین مخلوق ہیں.ان کی جزا اُن کے رب کے پاس ہمیشہ کی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.وہ ابدالآباد تک ان میں رہنے والے ہوں گے.اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہو گئے.یہ اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے خائف رہا.اور سورۃ المائدۃ میں تمام سچے لوگوں کے لئے رضی اللہ نھم کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قَالَ اللهُ هَذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (المائدة : 120) ترجمہ: اللہ نے کہا کہ یہ وہ دن ہے کہ بچوں کو ان کا سیچ فائدہ پہنچانے والا ہے.ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں.اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے.یہ بہت بڑی کامیابی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ المجادلہ میں فرماتا ہے: لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوجٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 256 (المجادلة : 23)

Page 275

ترجمہ: تو کوئی ایسے لوگ نہیں پائے گا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے ایسے لوگوں سے دوستی کریں جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہوں ،خواہ وہ ان کے باپ دادا ہوں یا ان کے بیٹے ہوں.یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے ہم قبیلہ لوگ ہوں.یہی وہ ( باغیرت) لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ نے ایمان لکھ رکھا ہے اور ان کی وہ اپنے امر سے تائید کرتا ہے.اور وہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.وہ ان میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے.اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے.یہی اللہ کا گروہ ہے.خبردار! اللہ ہی کا گروہ جو کامیاب ہونے والے لوگ ہیں.تو صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف قرآن کریم تو رضی اللہ عنہ کے الفاظ تمام ایمان لانے والوں اور اعمال صالحہ بجالانے والوں اور تمام سیچوں کے لئے استعمال کر رہا ہے اور جنرل ضیاء صاحب کا آرڈینس یہ اعلان کر رہا ہے کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے علاوہ کسی اور کے لئے یہ الفاظ استعمال نہیں کر سکتے.اس نامعقول قانون کی رو سے تو اگر کوئی احمدی یہ آیات کریمہ بھی پڑھے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کرایا جا سکتا ہے.جب عدالت میں یا عدالت سے باہر جماعت احمدیہ کی مخالفت کا وقت آتا ہے تو یہ مولوی حضرات کہتے ہیں کہ ہم یہ ظلم برداشت نہیں کر سکتے کہ احمدی رضی اللہ عنہ کی اصطلاح صحابہ کے علاوہ کسی کے لئے استعمال کریں.یہ تو صحابہ کے لئے مخصوص ہے.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اپنے فتاویٰ اس کے خلاف ہیں.ہم مفتی عبد القیوم ہزاروی صاحب کا ایک فتویٰ نقل کرتے ہیں جو انٹرنیٹ پر موجود ہے.اور اس کا لنک بھی درج کیا جارہا ہے تا کہ ہر کوئی اس کو پڑھ کر حقیقت جان سکے.اس فتویٰ میں انہوں نے لکھا ہے کہ صحابہ کے علاوہ دوسروں کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ کا استعمال نہ صرف جائز ہے بلکہ قرآن کریم سے ثابت ہے.257

Page 276

اس تجزیہ کے ساتھ وہ لکھتے ہیں : و بعض مسائل شریعت میں کچھ ہوتے ہیں مگر ہم لوگ قرآن وسنت کا مطالعہ نہ کرنے کی بناء پر ان کو کچھ اور ہی بنادیتے ہیں اور اس پر ڈٹ جاتے ہیں.نیز اپنی اس روش پر ناز کرتے ہیں اور کوئی دوسرا خلوص نیت سے ہماری غلطی دلیل کے ساتھ واضح بھی کر دے تو اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں.علماء کہلانے والوں کی یہ روش بڑی تکلیف دہ ہے.صلوۃ وسلام“ اور ترضی و ترحم ( رضی اللہ عنہ اور رحمتہ اللہ ) کہنا بھی ان مسائل میں شامل ہے جن کو نادانی سے اختلافی بنادیا گیا ہے اور صورت حال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ علماء کہلانے والے بزرگ اس بناء پر تکفیر تفسیق تک پہنچ جاتے ہیں.یہ ایک بیماری ہے اس کا علاج صرف علم کی روشنی ہے.علم جوں جوں بڑھے گا، قرآن وسنت کا جوں جوں مطالعہ کرنے کی ہمیں عادت پڑے گی جہالت ختم ہوگی اور اختلاف معدوم ہو جائے گا.“ پھر وہ لکھتے ہیں : الہذا اس پر سر پھٹول اور دنگا فساد، امت میں انتشار وافتراق بہت نامناسب، کم علمی، کوتاہ بینی اور فی سبیل اللہ فساد ہے.“ (https//www.thefatwa.com/urdu/questionID/1419./Accessed on 16.10.2018) اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا عملی طور پر کبھی کسی ایسے شخص کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی نہ ہو رضی اللہ عنہ کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے کہ نہیں؟ اس کے جواب میں اب ہم اسلامی لٹریچر سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں جن میں ان احباب کے لئے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل نہیں تھے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال ہوئے 258

Page 277

ہیں.مناقیب لمحمد ہیں جو کہ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی کے ملفوظات پر مشتمل ہے، اس کے صفحہ 4 پر خواجہ نور محمد مہاروے کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.مقابیس المجالس حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے ملفوظات پر مشتمل ہے.اس کے مقبوس 3 میں خواجہ محمد سلیمان اور خواجہ محمد عاقل کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.اشارات فریدی، مقابیس المجالس مرتبہ مولا نارکن الدین صاحب ناشر اسلامک فاؤنڈیشن لاہور مقبوس 3، 11 صفر 1311ء) اسی طرح مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کئے گئے.( سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی صاحب ومجموعہ مکتوبات ، باہتمام عبدالوحید وعبدالاحدغزنوی، ناشر رفاہ عام سٹیم پریس صفحہ (24) اسی طرح جماعت احمدیہ کے مخالف رسالے ضیاء حرم کے نومبر 1994ء کے شمارے میں ایک فتویٰ شائع ہوا کہ کیا غیر صحابہ کو رضی اللہ عنہ کہا جاسکتا ہے؟ اس کو تحریر کرنے والے مفتی جلال الدین احمد امجدی تھے.اس میں بہت سی مثالوں سے ثابت کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے علاوہ دوسروں کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نام پر جو آرڈیننس جماعت احمدیہ کے خلاف جاری کیا گیا تھا وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا.اور اگر یہ دعوی ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہیں بن سکتا تو سب سے پہلے جماعت احمدیہ کے خلاف بننے والے ان قوانین کو ختم کرنا ضروری ہے.اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کے حوالے سے اعتراضات کا طومار پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی.حقیقت یہ ہے کہ اس تفصیلی فیصلہ میں جو 259

Page 278

اعتراضات پیش کئے گئے ہیں وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں اور ان کی بنیا دوہی بے بنیاد اور خلاف واقعہ الزامات ہیں جو کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے عرصہ دراز سے لگائے جاتے رہے ہیں.انہی پرانی غلطیوں کو جمع کر کے ایک نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے.یہ تفصیلی فیصلہ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور ہر دلچسپی رکھنے والا ان کا موازنہ ان حقائق سے کر سکتا ہے جنہیں اس مضمون میں پیش کیا گیا ہے.شروط عمریہ کی حقیقت اس فیصلہ میں درج چند امور اسلام کے مخالفین کو مذہب فطرت ”اسلام“ کے خلاف ناحق طور پر بہت سا مصالحہ فراہم کرنے کے مترادف ہو گا جس کو پھر یہ طبقہ اپنی اسلام مخالف مہم میں استعمال کر سکتا ہے.چنانچہ اس بارے میں حقائق کا جاننا اور ایسے امور کی مدلل تردید کرناضروری محسوس ہوتا ہے.فیصلہ مذکورہ بالا میں مسلمانوں اور شام کے عیسائیوں کے درمیان ہونے والے ایک معاہدہ کا بار بار حوالہ دیا گیا ہے.یہ معاہدہ ” شروط عمریہ کے نام سے معروف ہے.اس معاہدے کے متعلق ایک گروہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں طے پایا تھا.چنانچہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی صاحب کے تفصیلی فیصلہ میں سب سے پہلے اس معاہدے کا ذکر صفحہ 19 پر ملتا ہے.اور یہاں پر Amicus Curiae ( وہ ماہرین جنہیں عدالت اپنی اعانت کے لئے طلب کرتی ہے ) میں سے حافظ حسین احمد مدنی صاحب کی آراء کا ذکر ہے.یہاں پر لکھا ہے کہ اجماع صحابه شروط عمریہ سے یہ معلوم ہوتا ہے: 260

Page 279

"Non-Muslims are not entitled to use the ShaairAllah, which are distinct and separate characteristics of Muslim Ummah and it is the responsibility of the Islamic State to protect and safeguard the same from incursion at the hands of the non-Muslims." (page 19) ترجمه غیر مسلموں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ شعائر اللہ جو کہ مسلم امہ کے ساتھ مخصوص ہیں اور ان کی پہچان ہیں انہیں استعمال کریں اور یہ اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ ان کی حفاظت کرے اور انہیں غیر مسلموں کی دست برد سے بچائے.پھر اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 140 پر حافظ حسین احمد مدنی صاحب کی بید رائے لکھی ہے : شروط عمر یہ پر نہ صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلکہ آپ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ، خلیفہ ہارون الرشید اور دیگر سلاطین کے دور میں بھی عمل کروایا گیا.ایک طرف تو مسلمانوں کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھیں اور دوسری طرف غیر مسلموں پر بھی اس بات کی پابندی تھی کہ وہ مسلمانوں جیسی شناخت اپنا ئیں.اس کے بعد اپنے موقف میں وزن پیدا کرنے کے لئے مدنی صاحب نے کچھ قدیم مصنفین کے حوالے پیش کئے جن کے نزدیک شروط عمر یہ پر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجماع ہوا تھا کیونکہ ان میں سے کسی نے ان شرائط پر اعتراض نہیں کیا.اسی طرح اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 27 پر لکھا ہے کہ جب عدالت نے مفتی محمد حسین خلیل صاحب سے سوال کیا کہ اس مسئلہ پر ریاست کیا کر سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ اس 261

Page 280

22 مسئلہ پر شروط عمر یہ ایک راہنما دستاویز ہے.اور انہوں نے تمام اسلامی تاریخ میں اس کی اہمیت پر زور دیا.ان روایات کا ذکر صرف اس عدالتی فیصلہ میں نہیں کیا گیا بلکہ جب بھی جماعت احمد یہ کے مخالفین کو اپنے دلائل کے مُردے میں جان ڈالنے کی ضرورت پیش آئے تو عموماً ان روایات کا حوالہ دیتے ہیں.چنانچہ جب 1984ء میں چند احمد یوں نے شرعی عدالت میں جنرل ضیاء صاحب کی طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف جاری ہونے والے آرڈیننس کو چیلنج کیا اور کئی روز پر محیط بحث میں مکرم مجیب الرحمن صاحب (ایڈووکیٹ ) نے شرعی عدالت میں اس آرڈیننس کا غیر اسلامی ہونا ثابت کیا تو 23 جولائی 1984 ءکو جماعت احمد یہ کی مخالفت میں پیش ہونے والے قاضی مجیب صاحب نے اپنی ڈولتی ہوئی کشتی کو سنبھالنے کے لئے اسی معاہدے کا ذکر کیا تھا.چونکہ اس عدالتی فیصلہ میں ”شروط عمریہ کے بارے میں ان عدالتی ماہرین کی آراء کو بہت نمایاں کر کے اور اہمیت دے کر درج کیا گیا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر کچھ نتائج اخذ کئے گئے ہیں، اس لئے مناسب ہوگا کہ ان ماہرین کے نزدیک جو بھی ”شروط عمریہ“ کی شرائط تھیں ان کے بارے میں مندرجہ ذیل امور کا تجزیہ پیش کیا جائے : 1.اس دستاویز کے بنیادی نکات کیا ہیں اور اگر ان کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی گئی تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے؟ 2.کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس دستاویز میں بیان کردہ قواعد کی تائید کرتی ہے؟ 3.کیا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس وقت غیر مسلموں سے مختلف معاہدات کئے 262

Page 281

تو اُن میں موجود شرائط اس دستاویز میں مذکور شرائط سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہیں؟ 4 مختلف ماہرین اور مؤرخین کے نزدیک وہ روایات و رواۃ جو اس معاہدے کی سند کا حصہ ہیں کس حد تک مستند ہیں؟ اس دستاویز کے بنیادی نکات اب ہم اس دستاویز کے کچھ بنیادی نکات درج کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ جائزہ بھی لیتے ہیں کہ اگر اب پاکستان یا کسی اور مسلمان ملک میں ان کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی گئی تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے.اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلہ کے صفحہ 141 اور 142 پر اس دستاویز ( شروط عمر یہ ) کے بنیادی نکات موجود ہیں.ہم انہیں کو بنیاد بنا کر یہ تجزیہ پیش کرتے ہیں.اس کی پہلی شرط یہ بیان کی گئی ہے: "We made a condition on ourselves that we will neither erect in our areas a monastery, church, or a sanctuary for a monk, nor restore any place of worship that needs restoration." ترجمہ: ہم (یعنی معاہدہ کرنے والے شام کے عیسائی ) اپنے اوپر یہ شرط لگاتے ہیں کہ ہم اپنے علاقہ میں کوئی خانقاہ ، گر جایا کوئی راہب خانہ تعمیر نہیں کریں گے اور نہ کسی عبادت کی جگہ کو جسے مرمت کی ضرورت ہو مرمت کریں گے.اگر اس دستاویز کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی جائے یا عدالتیں فیصلہ کرنے لگیں تو اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پاکستان میں کسی غیر مسلم کو اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنا تو در کنار 263

Page 282

انہیں اپنی پرانی عمارات کی مرمت کروانے کی اجازت بھی نہ ملے گی.اس پابندی کے بعد وہ اپنی عبادت گاہیں قائم نہیں رکھ سکتے.ہر عمارت مرورِ زمانہ سے شکست وریخت کا شکار بنتی ہے.اگر اس اصول کے مطابق چلا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وطن عزیز میں غیر مسلم اپنی عبادت گاہیں قائم نہ رکھ سکیں گے اور اگر ایسا ہے تو پھر آئین کی تمہید میں ” عبادت کی آزادی کے کیا معنی؟ اور اس دستاویز کے مطابق یہ شرط بھی لگائی گئی ہے کہ عیسائی چر چوں کے باہر صلیب آویزاں نہیں کی جائے گی.عدالتی فیصلہ میں ” شروط عمریہ کے متن میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان دن کو یا رات کو عیسائیوں کے گرجے میں آرام کرنا چاہے گا تو اسے نہیں روکا جائے گا.پھر اس دستاویز میں لکھا ہے کہ شام کے عیسائیوں پر یہ شرط تھی کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن نہیں پڑھا سکتے.اس کا یہ مطلب نکلے گا کہ کوئی بڑی عمر کا غیر مسلم بھی قرآن نہیں پڑھ سکتا.یہ شرط تو از خود تبلیغ اسلام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے.اگر کسی غیر مسلم کو قرآن کریم پڑھایا ہی نہیں جاسکتا تو پھر اس کی تعلیم کو قبول کرنے کی دعوت کس طرح دی جاسکتی ہے؟ اس کے بعد یہ دلچسپ شرط لکھی ہوئی ہے کہ اگر غیر مسلم کہیں پر بیٹھے ہوں اور وہاں پر مسلمان بیٹھنا چاہیں تو غیر مسلم وہاں سے اُٹھ جائیں گے.یہاں پر یہ شرط بالکل نہیں کہ اس پابندی کا اطلاق کس جگہ پر ہوگا اور کس جگہ پر نہیں ہوگا.اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ خواہ غیر مسلم اپنی ذاتی نشست گاہ، اپنے ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوں اور مسلمان ارادہ کریں کہ وہاں اپنی مجلس لگا ئیں تو غیر مسلموں کا فرض ہوگا کہ وہاں سے اُٹھ جائیں ورنہ ان کو غدار شمار کیا جائے گا.لباس کے متعلق اس دستاویز میں یہ ہدایت پائی جاتی ہے کہ عیسائی مسلمانوں جیسا لباس ، ٹوپی اور پگڑی نہیں پہنیں گے بلکہ مسلمانوں جیسے جوتے بھی نہیں پہن سکیں گے.اب 264

Page 283

یہاں یہ سوال طبعی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمانوں جیسے لباس سے کیا مراد ہے؟ اگر ہم آج کے پاکستان کا جائزہ لیں تو پاکستان میں مسلمان شلوار قمیص پہنتے ہیں.غیر مسلم یا عیسائی پھر شلوار قمیص نہیں پہن سکیں گے اور پاکستان میں ہی مسلمانوں کی بڑی تعدا د مغربی طرز کی پتلون شرٹ بھی پہنتی ہے یا صاحب حیثیت مسلمان مغربی طرز کا سوٹ بھی پہنتے ہیں.اس قانون کا یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ غیر مسلم یہ بھی نہیں پہن سکیں گے.تو یہ سوال تو بہر حال اُٹھے گا کہ آخر وہ کیا پہنیں گے کہ اس تنگ نظر طبقہ کی دل آزاری نہ ہو؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلہ میں یا ان ماہرین کی آراء میں جو کہ اس فیصلہ کی زینت بنی ہیں اس اہم موضوع پر روشنی نہیں ڈالی گئی.یہ بھی واضح نہیں ہوتا کہ کیا غیر مسلم اپنا نیا لباس خود ڈیزائن کریں گے کہ یہ کام بھی پاکستان کی کوئی حکومت یا عدالت یا پارلیمنٹ سرانجام دے گی؟ یا از راہ شفقت پاکستان کے غیر مسلموں کو اجازت ہوگی کہ کم از کم اپنا لباس وہ خود ڈیزائن کرلیں اور اگر یہ کہا جائے کہ کوٹ پتلون تو غیر مسلموں کا لباس ہے تو اس بارے میں نشاندہی کرنی ضروری ہے کہ پھر تو مسلمانوں پر یہ پابندی لگ جائے گی کہ وہ کوٹ پتلون نہ پہنیں کیونکہ اس عدالتی فیصلہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا حلیہ مختلف ہونا چاہیے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ سنانے والے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کی تصویر جب بھی دیکھی ہے مغربی لباس میں ہی دیکھی ہے.اس معاہدے میں مزید یہ شرط درج ہے کہ عیسائی اپنا روایتی لباس پہنیں گے.اگر اس دور میں ان شرائط کا اطلاق کیا جائے تو پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ آخر پاکستان کے مسیحی احباب کا روایتی لباس ہے کیا ؟ اور یہ احتیاط کہ مسلم اور غیر مسلم ایک جیسے نظر نہ آئیں صرف لباس تک محدود نہیں ہے.اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلہ میں ماہرین کی آراء درج کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ مسیحی 265

Page 284

مسلمانوں جیسا ہیئر سٹائل بھی نہیں بنا ئیں گے.اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہیئر سٹائل سے کیا مراد ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالتی ماہرین نے جومتن پیش کیا ہے اس میں تو ہیئر سٹائل کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لیکن اس کے جو متن مہیا ہیں ان میں واضح طور پر مانگ نہ نکالنے کا ذکر ہے یعنی ایک اسلامی ریاست میں مسیحیوں پر یہ پابندی ہے کہ وہ مانگ نہیں نکال سکتے اور جو متن اس عدالتی فیصلہ میں درج ہے اس میں یہ وضاحت ہے کہ مسیحیوں کو سامنے کے بال کاٹ کر رکھنے ہوں گے.اگر اس کا مجموعی جائزہ پیش کریں تو یہ صورت حال سامنے آئے گی کہ مسیحیوں کے بالوں میں مانگ نہ نکالی گئی ہو اور سامنے کے بال کٹے ہوئے ہوں اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو کیا جرم ہوگا؟ اس دستاویز کی رو سے یہ غداری کے زمرے میں شمار ہوگا اور غیر مسلموں کے امن سے رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی.پھر یہ پابندی ہے کہ مسیحی مسلمانوں جیسی زبان نہیں بول سکتے.یہ پابندی بھی بہت سی وضاحتوں کا تقاضا کرتی ہے.مثال کے طور پر اگر پنجاب میں مسلمان پنجابی یا اردو بولتے ہیں تو کیا غیر مسلموں پر یہ پابندی ہوگی کہ وہ پنجابی یا اردو بول سکیں.اگر وہ کوئی اور زبان بولیں گے تو وہ کون سی زبان ہوگی اور ان کو کس طرح سکھائی جائے گی ؟ یا پھر انہیں کسی اور لب و لہجے میں بات کرنا سکھایا جائے گا.جب اس قدر پابندیاں ہیں تو اس نکتے پر بحث کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس دستاویز کی رُو سے مسیحی اپنی حفاظت کی غرض سے ہی سہی اسلحہ رکھنے کے مجاز بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں! رسول اللہ صلی ستم کا اسوہ حسنہ کیا تھا ؟ اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ان شرائط اور پابندیوں کی تصدیق کرتی ہے یا معاملہ کچھ اور ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں بھی تو 266

Page 285

بہت سے عیسائیوں اور یہودیوں سے معاہدات کئے گئے تھے.کتاب اللہ اور سنت رسول اسلامی قوانین کے سب سے اہم مآخذ ہیں.اور آئین کے آرٹیکل 227 کی رو سے ایسا کوئی قانون نہیں بن سکتا جو کہ قرآن مجید کی تعلیمات اور نبی اکرم صلی ا یتیم کے تعامل کے خلاف ہو.اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں یا ان کی طرف منسوب ہونے والے معاہدوں کے تجزیہ سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سنت رسول اس معاملہ میں کیا را ہنمائی کرتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا پہلا معاہدہ مدینہ کے یہود سے کیا گیا تھا اور یہ معاہدہ میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے.اس میں کہیں اس قسم کی شرائط موجود نہیں کہ مدینہ کے یہود مسلمانوں کی طرح کا لباس نہیں پہن سکتے یا مسلمانوں کی طرح بال نہیں بنا سکتے یا عربی زبان نہیں بول سکتے یا مسلمانوں کی طرح کلام نہیں کر سکتے اور نہ اس معاہدے میں کہیں لکھا ہے کہ مدینہ کے یہود پر اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی پابندی ہوگی.(سیرت ابن ہشام اردو تر جمه از سید یسین علی حسنی، جلد 1 ناشر ادارہ اسلامیات مئی 1994 ص 336 - 338 ) اور اس کے علاوہ اور بہت سے معاہدات تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہود اور مسیحیوں سے کئے گئے.مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی فرامین اور خطوط کے متون بھی تاریخ میں محفوظ ہیں جن سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود اور عیسائیوں کے بارے میں اس قسم کی ہدایات جاری فرمائی تھیں جن کا ذکر اس دستاویز میں ہے یا معاملہ اس کے برعکس تھا.9 ہجری میں حمیر (Himyar) کے رئیس نے اسلام قبول کیا.ان کے اطاعت کے خط کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط بھجوایا اس میں مسلمانوں کے لئے زکوۃ کے احکامات درج فرمائے اور یہ ہدایت واضح طور پر فرمائی کہ کسی یہودی یا مسیحی کو اپنا مذہب 267

Page 286

ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا.اور یہودیوں اور مسیحیوں سے فی کس ایک دینار جزیہ وصول کیا جائے اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر ہوگی.تاریخ طبری اردو تر جمه از سید محمد ابراہیم جلد 2 ناشر دار الاشاعت 2003 ص 388,387) 10 ہجری میں بنو حارث میں جب اسلام پھیلا تو ان کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر ہدایات کے ساتھ یہ ہدایت بھی بھجوائی کہ جو یہودی اور مسیحی اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہے اسے ہرگز اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے اور ہر غیر مسلم شخص.ایک دینار جزیہ لیا جائے.تاریخ طبری اردو تر جمه از سید محمد ابراہیم جلد 2 ناشر دار الاشاعت 2003 ص 394,393 ) ان دونوں حوالوں میں اس قسم کی شرائط کہیں پر مذکور نہیں کہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں جیسا لباس نہیں پہن سکتے یا ان جیسے بال یا طر ز خطابت نہیں رکھ سکتے.اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو حارث کے پادری اور نجران کے پادریوں کے نام یہ فرمان بھجوایا تھا کہ جو زمین اور جائیداد ان گرجا گھروں، پادریوں اور درویشوں کے زیر انتظام ہے وہ اسی طرح ان کی ملکیت رہے گی.اس فرمان میں بھی ان شرائط کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا جن کا حوالہ جسٹس شوکت صدیقی صاحب کے فیصلہ میں دیا گیا ہے مثلاً یہ کہ وہ اپنے گرجوں اور خانقاہوں کی مرمت بھی نہیں کروا سکتے اور نئے گرجے بھی نہیں بنا سکتے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں تو بالکل بر عکس مضمون بیان ہوا ہے اور ملا حظہ ہو کہ نجران کے عیسائیوں کے لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان جاری فرمایا تھا کہ ان کی جان ، مذہب ، عبادت اور عبادت خانوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ اور اس کے رسول پر ہے.اس عہد کی عبارت یہ ہے: 268

Page 287

اہل نجران اور ان کے قرب و جوار کے لئے ان کی جان، مذہب، ملک و مال، حاضر و غائب، ان کے معاہد و عبادات اللہ کی پناہ اور محمد نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری میں ہیں نہ تو ان کے کسی اسقف ( پادریوں کا سردار ) کو تبدیل کیا جائے گا، نہ کسی راہب کو اس کی رہبانیت سے اور نہ کسی واقف کو وقفیت سے.اس قلیل یا کثیر مقدار میں کوئی تغیر و تبدل نہ کیا جائے گا جو ان لوگوں کے قبضے میں ہے....(طبقات ابن سعد ا ر د و ترجمه از عبدالله العمادی جلد اوّل ناشر دار الاشاعت 2003 ص 404,387 ) اگر کسی اور مذہب کے بانی کی طرف سے صاحب اقتدار ہوتے ہوئے دوسرے مذہب کی عبادت ، عبادت خانوں اور مذہبی شخصیات کو اس قسم کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے تو اس کی معین مثال حوالوں کے ساتھ پیش کرنی چاہیے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقنا (Maqna) کے یہود کو بھی خط تحریر فرمایا.اس میں انہیں امان دینے کا اور ان کی حفاظت کا وعدہ تھا.اور یہ عہد تھا کہ ان کے ساتھ کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہوگی.ان لوگوں پر واجب الادا ئیکس کی تفصیلات بھی درج تھیں لیکن اُن پابندیوں کا کوئی ذکر نہیں تھا جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے.اسی طرح ” عریض اور بنی غادیا“ کے یہود کے نام فرمان عہد بھی تاریخ میں محفوظ ہیں.جس طرح مسلمانوں پر زکوۃ تھی غیر مسلموں کو جز یہ دینا ہوتا تھا.اس کے علاوہ ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی.(طبقات ابن سعد اردو ترجمہ از عبد الله العمادی جلد اوّل ناشر دار الاشاعت 2003 ص 395 تا 397 ) ی مختصر سا تجزیہ اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ عہد نبوی میں عیسائیوں یا یہودیوں پر اس قسم کی کوئی پابندیاں نہیں لگائی جاتی تھیں بلکہ ان کو امان دی جاتی تھی اور یہ عہد کیا جاتا تھا کہ ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا.ان پر مذہب تبدیل کرنے کے لئے کوئی دباؤ نہیں ڈالا جائے 269

Page 288

گا اور ان کے عبادت خانوں اور عبادت کی حفاظت کی جائے گی.ان کے پادریوں اور راہبوں اور واقفین کو ان کے کام سے نہیں ہٹایا جائے گا.ان کے مذہبی اداروں سے وابستہ جو جائیداد ہے وہ ان کے پاس ہی رہے گی.یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جن شرائط کو عین اسلام قرار دے کر پیش کیا گیا ہے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہیں.حضرت عمر کے دور میں ہونے والے معاہدے ایک ضعیف حوالے کو بنیاد بنا کر تنگ نظر طبقہ یہ الزام لگا رہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایسا معاہدہ کیا گیا جس میں شام کے عیسائیوں کی مذہبی اور معاشرتی آزادی سلب کر لی گئی.اس معین حوالے کا تجزیہ پیش کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب دوسرے مذاہب کے لوگوں سے معاہدے کئے گئے تو کیا ان میں ان کی مذہبی آزادی سلب کی گئی تھی یا ان میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی.حضرت عمرؓ کے دور میں تو اسلامی سلطنت اتنے وسیع علاقے پر پھیل گئی تھی کہ یہ مضمون خفیہ رہ ہی نہیں سکتا کہ اُس وقت اس سلطنت میں غیر مسلموں کے ساتھ کیا رویہ تھا؟ اس بارے میں جو بھی حقائق ہوں وہ کئی حوالوں سے ثابت ہونے چاہئیں.سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ جب ایلیاء (یروشلم) کے لوگوں سے صلح نامہ ہوا ہے تو اس کی کیا شرائط تھیں؟ یہ عیسائیوں کا مقدس ترین مقام تھا اور اس حوالے سے اس کی ایک اہمیت ہے.اس شہر کے لوگوں سے مسلمانوں کا معاہد ہ 15 ہجری میں ہوا تھا.اس معاہدہ میں لکھا گیا تھا: اللہ کے بندے عمرا میرالمومنین نے ایلیاء والوں کو امان دے دی ہے.ان کو ، ان کی 270

Page 289

جانوں اور ان کے مالوں کو امان دی گئی ہے.ان کے عبادت خانے صلیبیں، بیمار اور تندرست اور تمام مذاہب والے باشندے امن میں رہیں گے.ان کے گرجا گھروں کو کوئی مسلمان رہائش کے لئے استعمال نہیں کرے گا.نہ ہی ان کو منہدم کیا جائے گا اور نہ ہی ان کی عمارت اور زمین میں سے کمی کی جائے گی اور نہ ہی ان کی صلیب اور ان کے مال میں سے کوئی کمی کی جائے گی.ان پر ان کے دین کے متعلق جبر نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے کسی فرد کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا...66 تاریخ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم جلد 2 ناشر دارالاشاعت 2003 ص 807) اس معاہدے میں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایلیاء کے باشندوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنایا ہے.اور اس قسم کی شرائط جیسا کہ ” شروط عمریہ نام کی دستاویز میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی گئی ہیں اس میں ہر گز نہیں پائی جاتیں.پہلے اس علاقہ پر رومی مسیحی قابض تھے.اس معاہدے میں یہ بھی شامل تھا کہ جو کوئی رومیوں کے ساتھ جانا چاہے اسے اس کی آزادی ہو گی.اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فلسطین کے باقی علاقوں سے جو معاہدے فرمائے ان میں یہ الفاظ شامل تھے : ان کی جانوں اور ان کے مال و دولت ، ان کے کلیساؤں اور ان کی صلیبوں، ان کے بیمار اور صحتمند اور ان کے تمام مذاہب والوں کو امن دے دیا ہے اور یہ کہ کم از کم عبادت خانوں کو رہائش کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ ان کو منہدم کیا جائے گا اور ان کی عمارت اور ان کی صلیبیوں اور مال و متاع میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی.ان کو مذہب اور دین کے معاملے میں مجبور نہیں کیا جائے گا.66 تاریخ طبری اردو تر جمه از سید محمد ابراہیم جلد 2 ناشر دار الاشاعت 2003 ص 809,808) 271

Page 290

یہ بات قابل غور ہے کہ ” شروط عمریہ میں تو یہ شرط درج ہے کہ اگر کوئی مسلمان رات کو یا دن کو گرجا میں آرام کرنا چاہے گا تو اسے نہیں روکا جائے گا اور دوسری طرف ان معاہدوں میں صاف یہ لکھا ہے کہ عیسائیوں کے عبادت خانوں کو رہائش کے لئے نہیں استعمال کیا جائے گا.اسی طرح حضرت عمرؓ کے دور میں اہل مصر سے جو معاہدہ کیا گیا اس میں بھی ان کی مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی اور اُن توہین آمیز شرائط کا نام ونشان نہیں پایا جاتا جو کہ حضرت عمر کی طرف منسوب کی جا رہی ہیں.اسی طرح جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آرمینیا کے لوگوں سے معاہدہ کیا گیا تو اس میں بھی یہ شرط موجود تھی کہ مسلمان ان کے مذہب کی بھی حفاظت کریں گے اور اگر وہاں کے لوگ جنگ میں شرکت کریں گے تو پھر اُن سے جزیہ بھی وصول نہیں کیا جائے گا اور اسی طرح آذربائیجان پر قبضہ کے بعد جو معاہدہ ہوا اس میں بھی یہ شرط شامل تھی کہ ان کے مذہب کی حفاظت کی جائے گی.یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ابھی جن علاقوں کے حوالے دیئے گئے ہیں وہ تمام حضرت عمرؓ کے عہد مبارک میں ہی اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے تھے.تاریخ طبری اردو تر جمه از سید محمد ابراہیم جلد 3 ناشر دار الاشاعت 2003 ص 125 و 171 و 173 ) یہ تو ثابت ہو گیا کہ جن شرائط کو شروط عمر یہ “ کا نام دے کر شہرت دی جاتی ہے یا تنگ نظر طبقہ اسے اپنے خیالات کی تائید میں پیش کر رہا ہے، وہ شرائط اُن شرائط سے بالکل مختلف ہیں جن کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ معاہدے کیا کرتے تھے اور روایات کا ایک ذخیرہ اس روایت کی تردید کر رہا ہے.یہ ناممکن تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے ہٹ کر کوئی معاہدہ کرتے.اب ہم اُس روایت کا تجزیہ کرتے ہیں جس کے حوالہ سے یہ معاہدہ بیان کیا جاتا ہے.یہ معاہدہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب ” احکام اہل ذمہ“ میں بیان ہوا ہے.جو اس کی پہلی سند 272

Page 291

بیان ہوئی ہے اس کے راویوں میں پہلے راوی ابو شرحبیل عیسی بن خالد مجہول الحال ہیں یعنی ماہرین کے نزدیک ان کے حالات ہی معلوم نہیں کہ ان کی روایت پر اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ نہیں اور اس روایت کے مطابق انہوں نے اسماعیل بن عیاش سے روایت کی ہے.گو بعض نے انہیں ثقہ بھی قرار دیا ہے لیکن کئی آئمہ نے ان کی روایت کو نا قابل اعتبار شمار کیا ہے.ان کو امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن حبان نے لکھا ہے کہ یہا کثر غلطی کر جاتے تھے.ابو حاتم نے انہیں ”لین قرار دیا ہے.اس کا مطلب ہے کہ یہ راوی پوری طرح ساقط نہیں ہے لیکن اس میں کچھ قابل اعتراض باتیں ایسی پائی گئی ہیں جن کی بنا پر وہ پوری طرح عادل نہیں قرار دیا جا سکتا.میزان الاعتدال نقد الرجال المؤلف محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذي شمس الدين ابو عبد اللہ جلد اول ص 240 تا 244) (احکام اهل ذمته، تالیف ابن قیم الجوزیہ، الجزء اول، ناشر دار الكتب العلمیہ بیروت ص 113 114 ) احکام اہل ذمہ میں اسماعیل بن عیاش کے بعد یہ لکھا ہی نہیں ہوا کہ انہوں نے یہ روایت کس سے سنی تھی؟ اس مجموعی صورت حال اور خاص طور پر روایت کے باقی روایات کے مسلمان ذخیرے سے اختلاف ہمیں اسی نتیجہ پر لے جاتا ہے کہ اس روایت کو غلط اور جعلی شمار کیا جائے.محققین اور مصنفین تو ایک طرف رہے خود مغربی مصنفین نے بھی اقرار کیا ہے کہ وہ روایات جن میں یہ معاہدہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے درست نہیں ہیں.ان میں سے ایک محقق Tritton.A.S اپنی کتاب The Caliphs and their non-Muslim Subjects میں ' شروط عمر یہ پر اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں.ان کے مطابق یہ بات ہی اس کو عجیب بنادیتی ہے کہ اسے لکھا ہی شام کے مسیحیوں نے تھا اور اپنے اوپر خود ہی یہ سخت پابندیاں لگا دی تھیں جبکہ بالعموم فاتح افواج شرائط لکھتی ہیں.دوسری بات جو اسے غلط ظاہر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں لکھا ہی نہیں کہ یہ معاہدہ کس شہر 273

Page 292

کے لوگوں سے ہوا تھا.اگر شام کے لوگوں سے ہوا تھا تو حضرت خالد بن ولید نے دمشق کے لوگوں سے بالکل مختلف بلکہ ان شرائط سے متضاد شرائط پر معاہدہ کیا تھا.شام کے اس شہر سے جس کا نام بھی معلوم نہیں ، آخر اتنی سخت شرائط پر کیوں معاہدہ ہوا اور وہ بھی اس فرضی شہر کے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کا لکھا ہوا جبکہ شام ہی کے دوسرے شہروں سے بالکل اور شرائط پر معاہدات کئے گئے.یہ تمام حقائق یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس معاہدے کا منسوب کرنا درست نہیں.وہ اپنی کتاب کے آخر میں یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام کی پہلی صدی میں جب یہ ” فرضی معاہدہ ہوا تھا اسے نظر انداز کر دیا گیا اور اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور مسلمان جرنیلوں نے جو معاہدے کئے وہ ان شرائط کے مطابق نہیں تھے اور 200 سال کے بعد اس کے بعض خدو خال نظر آنے شروع ہوتے ہیں.ان کی کتاب کا آخری فقرہ یہ ہے: "The covenant was drawn up in the schools of law, and came to be ascribed, like so much else, to Umar I" ترجمہ: اس معاہدے کو فقہ کے مدرسوں میں تیار کیا گیا اور بہت سی دوسری چیزوں کی طرح عمر اوّل کی طرف منسوب کر دیا گیا.(THE CALIPHS AND THEIR NON-MUSLIM SUBJECTS-A Critical Study of the Covenant of 'Umar-By A.S.Tritton, published by HUMPHREY OXFORD MILFORD UNIVERSITY LONDON BOMBAY CALCUTTA MADRAS 1930, p 5-18,233) کیا یہ شرم کا مقام نہیں کہ جب اس جیسی ضعیف اور بے اصل روایت سامنے آتی ہے 274 PRESS

Page 293

جس کے نتیجہ میں اسلام پر اور ایک خلیفہ راشد پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے دوسرے مذاہب سے وابستہ لوگوں کے بنیادی حقوق بھی سلب کر لئے تو غیر مسلم مگر انصاف پسند مغربی مصنفین خلیفہ راشد کی معصومیت کو ثابت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ روایات غلط ہیں.خلفائے راشدین کا سارا طرز عمل اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ اس قسم کا ظلم کریں اور دوسری طرف پاکستان کے نام نہاد علماء اپنی اغراض کے لئے اور جماعت احمدیہ کی دشمنی میں یہ اصرار کرتے ہیں کہ ہم نہیں مانیں گے یہی ایک روایت درست ہے اور نعوذ باللہ خلفائے راشدین یہ مظالم روا ر کھتے تھے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت بجائے اس کی مذمت کرنے کے اپنے تفصیلی فیصلہ میں اسے نمایاں کر کے شامل کرتی ہے.اس طرح یہ لوگ خود اسلام کے دشمنوں کو اسلام پر اعتراض کا موقع فراہم کر رہے ہیں.عوام خود تو اس قسم کے معاملات میں تحقیق نہیں کر سکتے.یہ رویہ پاکستان کے عوام کو بھی یہی سکھا رہا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے.پاکستان میں احمدیوں پر مختلف بہانوں سے ظلم تو روار کھے ہی جا رہے ہیں مگر خدا کے واسطے اس دشمنی میں اندھے ہو کر اسلام پر اور اسلامی تعلیمات پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین پر حملے کرنا تو بند کر دیں.اس صورت حال میں انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنے اور جماعت احمدیہ کے ایک مخالف کا ہی شعر لکھنے کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اب زبان حال سے کہہ رہا ہے ؎ میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے ☆☆☆ شعائر اللہ اور شعائر اسلامی عدالتی فیصلے اور حقائق اس فیصلہ میں درج چندا مورا اسلام کے مخالفین کو مذہب فطرت ”اسلام“ کے خلاف 275

Page 294

ناحق طور پر بہت سا مصالحہ فراہم کرنے کے مترادف ہوگا جس کو پھر یہ طبقہ اپنی اسلام مخالف مہم میں استعمال کر سکتا ہے.چنانچہ اس بارے میں حقائق کا جاننا اور ایسے امور کی مدل تردید کرناضروری محسوس ہوتا ہے.اس عدالتی فیصلہ میں ایک اور پہلو کو بہت نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ احمدی شعائر اللہ یا شعائر اسلام استعمال کرتے ہیں اور اس طرح ان شعائر کی نہ صرف تو ہین ہوتی ہے بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے اور آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ.فیصلہ کے اس پہلو کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ بات واضح کر دینا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں اور اسی لئے شعائر اللہ اور شعائر اسلامی کا ادب و احترام کے ساتھ استعمال کرتے ہیں.اس عدالتی فیصلہ میں پہلے اس بارہ میں ماہرین کی آراء درج کی گئی ہیں اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے اپنے تبصرے موجود ہیں.سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں عدالتی ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی آراء کیا ہیں؟ عدالتی ماہرین کی آراء اور سابقہ عدالتی فیصلے اس فیصلہ کے صفحہ 19 پر حافظ حسین احمد مدنی صاحب کی یہ رائے درج ہے کہ شعائر اللہ جو اسلام کی علامات ہیں ان کا احترام اور ان کی حفاظت ضروری ہے.قرآن کریم ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، اجماع صحابہ اور شروط عمر یہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو شعائر اللہ کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شعائر اللہ کو غیر مسلموں کی دست برد سے بچائے اور احمدیوں کو تو بالکل شعائر اللہ کے استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی.یہاں یہ بات قابل ور ہے کہ حسین مدنی صاحب نے یہاں 276

Page 295

کسی آیت قرآنی، حدیث یا صحابہ کے اجماع کا کوئی حوالہ پیش نہیں کیا.اسی طرح صفحہ 26 پر لکھا ہے کہ محمد حسین خلیل صاحب نے بھی اس رائے کا اظہار کیا کہ غیر مسلموں کا مسلمانوں سے امتیاز بہت سی وجوہات کی بنا پر ضروری ہے.ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ تا کہ شعائر اللہ کے معاملے میں شریعت کی ہدایات پر عمل کیا جا سکے.اسی طرح صفحہ 85 پر ایک گذشتہ فیصلہ کا حوالہ دیا گیا ہے.جب 1989ء میں اُس وقت کی پنجاب حکومت نے جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی کی تقریبات پر پابندی لگا دی تو اُسے عدالت میں چیلنج کیا گیا.یہ مقدمہ (PLD 1992 Lahore 1 Mirza Khurshid Ahmad and another Vs Government of Punjab Etc) کے نام سے معروف ہے.اس مقدمہ پر آنے والے فیصلہ کے ایک حصے کا حوالہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے عدالتی فیصلہ میں بھی دیا گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ یوں تو آئین میں اپنے مذہب کے اظہار اور اس پر عمل کرنے کی سب کو اجازت ہے لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب قادیانی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور شعائر اسلام استعمال کرتے ہیں.اسی طرح صفحہ 88 اور 89 پر ایک اور عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیا گیا ہے جو کہ پاکستان سپریم کورٹ کی جانب سے سنایا جانے والا ایک اکثریتی فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے جنرل ضیاء صاحب کے جماعت احمدیہ کے خلاف نافذ کئے جانے والے بدنام زمانہ آرڈیننس 20 کو چیلنج کرنے پر سنایا گیا تھا.اس فیصلہ میں لکھا گیا تھا کہ احمدیوں کی طرف سے شعائر اسلام کے استعمال پر اصرار کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ قادیانی جان بوجھ کر ایسا دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے کرتے ہیں.اس فیصلہ میں جسٹس عبد القدیر چوہدری صاحب 277

Page 296

نے لکھا کہ قادیانیوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ شعائر اسلام کا استعمال کریں کیونکہ ان کا استعمال مسلمانوں کے لئے مخصوص ہے.جسٹس عبد القدیر چوہدری صاحب اس سے بھی ایک قدم آگے جا کر لکھتے ہیں : "Again, if the appellants or their community have no designs to deceive, why do not they coin their own epithets etc.? Do not they realise that relying on the 'Shaairs' and other exclusive signs, marks and practices of other religions will betray the hollowness of their own religion.It may mean in that event that their new religion cannot progress or expand on its own strength, worth and merit but has to rely on deception." (page 89 & 90) ترجمہ: اگر درخوا دست گزار اور ان کے گروہ کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ دیں وہ اپنے خطابات وضع کیوں نہیں کر لیتے.کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ دوسرے مذاہب کے شعائر ، علامات، نشانات اور طریقوں کو اپنانے سے ان کے اپنے مذہب کا کھوکلا پن ظاہر ہوتا ہے.اس کا تو یہ مطلب نکل سکتا ہے کہ ان کے مذہب میں اپنے طور پر ترقی کرنے اور پھیلنے کی صلاحیت نہیں ہے.عدالتی فیصلہ میں شعائر اللہ کی تعریف اس ساری بحث کے بعد غالباً معزول جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کو یہ خیال آیا کہ یہ وضاحت تو ہوئی ہی نہیں کہ آخر شعائر اللہ یا شعائر اسلام کہتے کسے ہیں؟ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے انہوں نے مختلف مفسرین کے اقتباسات درج کئے ہیں لیکن یہ بات 278

Page 297

قابل ذکر ہے کہ انہوں نے سارے حوالے دورِ حاضر کے مفسرین کے پیش کئے ہیں مثلاً جسٹس تقی عثمانی صاحب نے شعائر اللہ کا مطلب یہ بیان کیا کہ اس سے مراد شریعت کے وہ اظہار ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لازمی قرار دیا ہے.مثلاً حج کی ادائیگی کے لئے جن مقدس مقامات پر جانا پڑتا ہے وہ شعائر اللہ ہیں.صلاح الدین یوسف صاحب نے شعائر اللہ کی یہ تعریف کی کہ اسلام کے وہ نمایاں اور منفرد احکامات جن کی وجہ سے مسلمانوں کا علیحدہ تشخص قائم ہوتا ہے.اسحاق مدنی صاحب نے یہ تعریف کی کہ اسلام کا ہر وہ حکم جسے اسلام کی علامت سمجھا جائے شعائر اللہ میں شمار ہوتا ہے.ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے لکھا کہ ہر وہ چیز جس سے اللہ کی یاد آئے شعائر اللہ ہے.اسی لئے صفا مروہ اور بیت اللہ شعائر اللہ میں سے ہیں.حافظ عبد السلام بٹالوی شعائر اللہ کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کا عرفان پیدا کرنے کے لئے قائم کیا ہے شعائر اللہ کہلاتی ہے.جسٹس پیر کرم شاہ نے شعائر اللہ کی یہ تعریف کی کہ ہر وہ چیز جو کہ غلط اور صحیح میں فرق کرتی ہے شعائر اللہ کہلاتی ہے.عدالتی فیصلہ صفحہ 130-133 ) یہ ظاہر ہے کہ خود اس دور کے علماء بھی اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ آخر شعائر اللہ کہتے کسے ہیں.آخری تین تعریفوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک شعائر اللہ سے مراد اسلام کی کوئی منفر د علامات نہیں ہیں بلکہ ہر وہ چیز جس سے اللہ کی یاد آئے یا صحیح اور غلط کا فرق ہوشعائر اللہ کہلاتی ہے.شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے مؤقف میں وزن پیدا کرنے کے لئے اس اصطلاح کی بہت سی تعریفیں درج کیں لیکن اسی رو میں اپنے مؤقف کے خلاف ہی دلائل دے گئے.کیونکہ ان کے درج کئے گئے دلائل کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ یہ شعائر اسلام کی انفرادی علامات کی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی اور مذہب سے وابستہ شخص کو یہ حق نہیں 279

Page 298

کہ وہ انہیں استعمال کرے.قرآن کریم میں شعائر اللہ کا ذکر ان تعریفوں کو درج کرنے سے قبل اس عدالتی فیصلہ میں قرآن کریم کی وہ آیات کریمہ درج کی گئی ہیں جن میں شعائر اللہ کا ذکر ہے اور صفحہ 129 پر یہ تنبیہ درج ہے کہ قرآن کریم میں ان شعائر اللہ کے احترام کا حکم دیا گیا ہے اور اگر اس بارے میں کوتاہی کی جائے تو نہ صرف ذاتی سطح پر بلکہ اجتماعی سطح پر بھی خدا کا قہر آ سکتا ہے.اس عدالتی فیصلہ میں جو آراء درج ہیں، ان کا خلاصہ پیش کرنے کے بعد کوئی رائے ظاہر کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ اسلامی قوانین کی سب سے بڑی بنیاد یعنی قرآن کریم شعائر اسلام یا شعائر اللہ کے بارے میں کیا کہتا ہے اور جیسا کہ اس مضمون کے آغاز میں Amicus Curiae یعنی حافظ حسین مدنی صاحب کی رائے درج کی جاچکی ہے کہ قرآن کریم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو شعائر اللہ کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اس بارے میں عرض ہے کہ شعائر اسلام کے الفاظ تو قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں.البتہ مندرجہ ذیل آیات میں شعائر اللہ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے.1 - إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ تَطَوَّفَ بِهِمَا (البقرة : 159) ترجمہ: یقیناً صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں.پس جو کوئی بھی اس بیت کا حج کرے یا عمرہ ادا کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا بھی طواف کرے.2 - يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدَى وَلَا الْقَائِدَ وَ لَا آمِينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنْ 280

Page 299

رَّبِّهِم وَرِضْوَانًا (المائدة:3) ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شعائر اللہ کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ ہی حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ قربانی کی علامت کے طور پر پیٹے پہنائے ہوئے جانوروں کی اور نہ ہی ان لوگوں کی جو اپنے رب کی طرف سے فضل اور رضوان کی تمنا رکھتے ہوئے حرمت والے گھر کا قصد کر چکے ہوں.3 - ذَالِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (الحج : 33) ترجمہ: یہ (اہم بات ہے ) اور جو کوئی شعائر اللہ کو عظمت دے گا تو یقیناً یہ بات دلوں کے تقویٰ کی علامت ہے.4 - وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ (الحج: 37) ترجمہ: اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تمہارے لئے شعائر اللہ میں شامل کر دیا ہے.ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے.پس ان پر قطار میں کھڑا کر کے اللہ کا نام پڑھو.یہ ہیں وہ آیات کریمہ جن میں شعائر اللہ کا ذکر ہے.ان آیات میں صفا اور مروہ، حرمت والے مہینوں اور قربانی کے اونٹوں کو شعائر اللہ میں شامل کیا گیا ہے اور ان سب شعائر اللہ کا تعلق حج بیت اللہ کے مناسک سے ہے اور ان کی عظمت کا ذکر ہے.ان آیات میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ ان شعائر اللہ کا اسلام سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا.سورۃ المائدۃ میں ایمان لانے والوں کو حکم ہے کہ تم ان کی بے حرمتی نہ کرو.جیسا کہ ذکر ہے کہ صفا اور مروہ اور قربانی کے جانوروں اور حرمت والے مہینوں کو شعائر اللہ میں قرار دیا گیا ہے.یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان شعائر کا احترام اسلام کی آمد سے قبل ہی عرب میں موجود تھا.وہ قربانی کے 281

Page 300

جانوروں کو حج کے موقع پر مکہ لے کر جاتے اور ان کے گلے میں پٹا ڈال دیتے تھے اور پھر کوئی غیر بھی ان جانوروں کو کچھ نہیں کہتا تھا.اسی طرح صفا مروہ کے گرد سعی یعنی ان کے چکر لگانے کا بھی عرب میں اسلام کی آمد سے قبل رواج تھا.اور ان میں یہ رواج حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے چلے آرہے تھے.یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام کی آمد کے بعد مشرکین یہ اعتراض کرتے کہ یہ تو ہمارے شعائر ہیں اور اسلام کی آمد سے قبل ہی صدیوں سے ہم ان پر عمل کر رہے تھے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے علیحدہ شعائر بنا ئیں اور ہماری رسومات پر عمل نہ کریں اور ہمارے شعائر کی بے حرمتی نہ کریں تو کیا وہ حق بجانب ہوتے؟ مخالفین جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اکثر وہ مؤقف اپنا لیتے ہیں جو کہ خود اسلام پر اعتراض پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے.اگر مخالفین احمدیت کے نظریات کی طرف دیکھیں تو ان کی رو سے یہی نتیجہ نکلے گا کہ مشرکین مکہ مسلمانوں پر ان مظالم کو ڈھانے کا حق رکھتے تھے کیونکہ مسلمان ان کے قدیمی شعائر کو استعمال کر رہے تھے اور مشرکین کی اکثریت کو غصہ دلا رہے تھے اور ظاہر ہے کہ کوئی انصاف پسند اس موقف کی حمایت نہیں کر سکتا.( تفسیر ابن کثیر اردو تر جمه از مولانامحمد جونا گڑھی جلد 2 ناشر فقہ الحدیث پبلیکیشنز مارچ 2009 صفحہ 332 تفسیر ابن کثیر اردو تر جمہ از مولانا محمد جونا گڑھی جلد 1 ناشر فقہ الحدیث پبلیکیشنز مارچ 2009 صفحہ 324 تا 327) بحث یہ تھی کہ اذان ، علیہ السلام، رضی اللہ عنہ، صحابہ،خلیفتہ المسلمین ، امیر المومنین جیسی اصطلاحات شعائر اللہ ہیں اور قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ شعائر اللہ کو غیر مسلموں کی دست برد سے بچاؤ.خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم کی آیات میں کہیں اذان، علیہ السلام، رضی اللہ عنہ، صحابه، خلیفہ المسلمین ، امیر المومنین جیسی اصطلاحات کو شعائر اللہ قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ حکم مذکور ہے کہ ان کو غیر مسلموں کی دست برد سے بچاؤ.اس لئے عدالتی فیصلہ میں یہ دعویٰ غلط ہے کہ قرآن کریم ان کے مؤقف کی تائید کر رہا ہے.282

Page 301

شعائر اسلامی کی اصطلاح اور احادیث شعائر اللہ کے بارے میں کچھ مختصر حقائق پیش کرنے کے بعد شعائر اسلامی کی اصطلاح کا جائزہ لیتے ہیں.یہ الزام بار بار لگایا جاتا ہے کہ احمدی مسلمان شعائر اسلامی“ استعمال کرتے ہیں اور اس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے.پہلے یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ قرآن کریم میں کہیں پر بھی شعائر اسلامی کی اصطلاح موجود نہیں ہے.قرآن کریم کے بعد جائزہ لیتے ہیں کہ احادیث نبویہ میں اس بارے میں کیا راہنمائی پائی جاتی ہے.احادیث کی کتب میں سب سے اہم اور سب سے زیادہ معتبر احادیث کی وہ چھ کتب ہیں جو’ صحاح ستہ کے نام سے جانی جاتی ہیں.سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ صحاح ستہ میں شعائر اسلامی کا ذکر کہاں پر آتا ہے.تو یہ بات یقینا قارئین کے لئے حیران کن ہوگی که صحاح ستہ میں بھی کہیں پر شعائر اسلامی“ کے الفاظ موجود نہیں ہیں.البتہ تفسیر کی کتاب در منثور میں سورۃ مائدہ آیت 3 کی تفسیر میں یہ روایت درج ہے: ” ابن ابی حاتم ، طبرانی، ابن مردویہ اور حاکم نے (حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ) ابوامامہ سے روایت نقل کی کہ مجھ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم کے پاس بھیجا کہ میں ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلاؤں اور ان پر شعائر اسلام کو پیش کروں.“ اس کے بعد جو اشیاء کھانے کی اجازت نہیں ہے اور حرام قرار دی گئی ہیں ان کا ذکر شروع ہو جاتا ہے.اس روایت میں بھی اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ اسلامی اصطلاحات کا استعمال غیر مسلموں کے لئے ممنوع ہے.یا یہ کہ ریاست کا یہ کام ہے کہ غیر مسلموں کو اس بات سے رو کے کہ وہ اسلامی اصطلاحات کا استعمال کریں.چنانچہ یہ حقائق اس بات کو ثابت کر دیتے ہیں کہ یہ دعویٰ کہ حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم شعائر اللہ یا شعائر اسلامی“ 283

Page 302

استعمال نہیں کر سکتے اور اسلامی ریاست کا یہ فرض ہے کہ انہیں ایسا کرنے سے رو کے غلط ثابت ہو جاتا ہے.کیا ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذاہب کے طریق عبادت کو اپنا سکتے ہیں؟ آخر میں اس بنیادی سوال کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا ایک مذہب یا عقیدہ سے وابستہ لوگ دوسرے مذہب یا عقیدہ کے شعائر یا رسومات یا روایات کو اپنا سکتے ہیں کہ نہیں؟ صحیح بخاری میں حضرت براء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آنے کے بعد بھی سولہ یا سترہ ماہ کے لئے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اور بیت المقدس یہود کا مقدس مقام اور قبلہ تھا.پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے حکم کے تحت آپ نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی شروع کی.(صحیح بخاری.کتاب الصلوۃ باب قول الله عز وجل واتخذوا من مقام ابراهیم مصلی) یہ تو سب جانتے ہیں کہ اسلام کے ظہور سے بھی بہت پہلے بیت المقدس یہود کا مقدس مقام اور قبلہ چلا آرہا تھا.کیا اُس وقت یہود اعتراض کر سکتے تھے کہ یہ قبلہ تو ہمارے شعائر میں سے ہے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں؟ کیا یہود اب بھی تاریخ اسلام کے اس دور پر اعتراض کر سکتے ہیں کہ اسلام نے بڑا ظلم کیا جو ہمارے قبلہ کو اور ہمارے شعائر کو استعمال کیا.اب صحیح بخاری سے ہی دوروایات پیش ہیں : 1.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں.آپ نے ان سے 284

Page 303

اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے.اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی تھی.اس لئے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا تھا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم موسیٰ کے تم سے زیادہ مستحق ہیں.چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا.2.حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عاشورا کے دن کو یہودی عید اور خوشی کا دن سمجھتے تھے.اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو.رمضان کی فرضیت کے بعد جس کا جی چاہتا تھا وہ یہ روزہ رکھتا تھا اور جس کا جی چاہتا تھا وہ چھوڑ دیتا تھا.( صحیح بخاری.کتاب الصوم.باب صيام يوم عاشوراء) کیا یہود اس بات پر اعتراض کر سکتے ہیں کہ یہ تو ہمارے شعائر میں سے ہے اور یہ ہمارا روزہ تھا، مسلمانوں نے اس دن روزہ کیوں رکھا؟ اسلام علیحدہ مذہب ہے.مسلمان ہمارے شعائر کو کیوں اپناتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ انہیں اس اعتراض کا حق نہیں ہے.حضرت موسیٰ سے محبت دونوں مذاہب میں مشترک ہے اور اسی محبت کی وجہ سے دونوں اس دن کو روزہ رکھ سکتے ہیں لیکن اسی طرح کسی اور مسلک یا عقیدہ سے وابستہ افرادکو یہ حق نہیں کہ اس بات پر پابندی عائد کریں کہ جو ان سے مختلف مسلک سے تعلق رکھتا ہے وہ ان کے طریق عبادت کو یا کسی اور طریق کو اپنا ئیں.جہاں تک اصطلاحات کا تعلق ہے تو اسلام کے بابرکت ظہور سے دو ہزار سال قبل سے یہود کے لٹریچر میں ”نبی“ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی.کیا یہود یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ مسلمان یہ اصطلاح استعمال نہیں کر سکتے ، یہ تو ہماری اصطلاح ہے.یا اگر اسرائیل میں کوئی 285

Page 304

متعصب یہ اعتراض کر دے کہ ختنہ تو ہماری رسم ہے اور اسلام کے ظہور سے بہت قبل یہ رسم ہمارے میں رائج تھی اور ثبوت کے طور پر بائبل کی کتاب ” پیدائش کے باب 17 کی عبارت پیش کرے کہ یہ تو اُس عہد کی نشانی ہے جو خدا نے ہمارے ساتھ اور صرف بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھا.اس لئے اسرائیل میں مسلمانوں پر فوری پابندی لگا دی جائے کہ وہ اپنے بچوں کا ختنہ نہ کریں.تو کیا کوئی ذی عقل اس فرمائش کو معقول مطالبہ سمجھ سکتا ہے؟ " 66 لفظ مسجد کے استعمال پر وفاقی شرعی عدالت میں بحث جماعت احمدیہ کے مخالف طبقہ کی طرف سے یہ نکتہ بار بار اُٹھایا جاتا ہے اور عوام الناس کو یہ کہہ کر اشتعال دلایا جاتا ہے کہ احمدی شعائر اسلام کو استعمال کر کے ان کی تو ہین کر رہے ہیں اور گویا اس طرح نعوذ باللہ اسلام کی تو ہین کے مرتکب ہو رہے ہیں اور جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلے سناتے ہوئے بہت سی عدالتوں نے بھی اپنے تفصیلی فیصلوں میں اس بارہ میں بہت کچھ لکھا ہے.تعصب کی فضا خواہ کتنی ہی زہر آلود کیوں نہ ہو، کوئی انصاف سے بات سننے کے لئے تیار ہو یا نہ ہو جماعت احمدیہ کی طرف سے ہمیشہ یہی کوشش کی گئی ہے کہ سچی بات اور درست مؤقف متعلقہ اشخاص، متعلقہ اداروں اور عوام الناس تک پہنچا کر فیصلہ ان پر چھوڑ دیا جائے.جہاں تک شعائر اسلام کے استعمال کا تعلق ہے اس پہلو سے جماعت احمدیہ پر سب سے زہر یلا وار جنرل ضیاء صاحب کا جاری کردہ آرڈیننس 20 تھا.اس وقت بھی یعنی 1984ء میں جماعت احمدیہ کے چند احباب نے اسے شرعی عدالت میں چیلنج کیا تھا.ان احباب میں سر فہرست مکرم مجیب الرحمن ایڈووکیٹ تھے جنہوں نے عدالت کے روبرو دلائل دیئے تھے.ان کے علاوہ اس مقدمہ کے سائلین میں مکرم مبشر لطیف صاحب ایڈووکیٹ، 286

Page 305

مکرم مرزا انصیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور مکرم حافظ مظفر احمد صاحب بھی شامل تھے.مزید برآں علماء کی ایک ٹیم جس میں مکرم و محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب ، مولانا جلال الدین قمر صاحب، مولانا محمد صدیق صاحب، مکرم شمس الحق صاحب، مکرم ملک مبارک احمد صاحب، مکرم نصیر احمد قمر صاحب اور مولا نا مبشر احمد کا ہلوں صاحب شامل تھے اس مقدمہ کی تیاری میں مدد کر رہی تھی.جنرل ضیاء صاحب کے آڑ دینس کے حوالے سے اس عدالت کے روبرو شعائر اللہ یا شعائر اسلامی کے استعمال کے مسئلہ پر بھی بحث ہوئی.فیصلہ تو جو ہونا تھا وہ ہوالیکن کم از کم مختصر طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ اس موقع پر ان احمدی احباب کی طرف سے کیا دلائل پیش کئے گئے؟ پڑھنے والے خود ہی ان کے بارے میں اپنی آزادانہ رائے قائم کر سکتے ہیں.اس بارہ میں مکرم مجیب الرحمن صاحب کی کتاب امتناع قادیانیت آرڈینس 1984ء وفاقی شرعی عدالت شائع ہو چکی ہے.دلچسپی رکھنے والے تفصیلات اس کتاب میں ملاحظہ کر سکتے ہیں.دلائل از روئے قرآن کریم جب عدالت میں بحث شروع ہوئی اور مکرم مجیب الرحمن صاحب نے اس بارے میں دلائل کو آگے بڑھانا شروع کیا تو شریعت کورٹ کے جج صاحبان میں سے جسٹس عبد القدوس قاسمی صاحب نے یہ سوال اُٹھایا کہ کیا مسلمانوں کے شعائر غیر مسلموں کے ساتھ مشترک ہو سکتے ہیں؟ اس کا جواب مجیب الرحمن صاحب نے یہ دیا کہ ہو سکتے ہیں.مثلاً داڑھی رکھنا اور ختنہ کرانا یہودیوں کے شعار میں بھی شامل ہے اور مسلمانوں کے شعار میں بھی شامل ہے.اس پر ایک اور حج مولوی غلام علی صاحب نے یہ نکتہ اٹھایا کہ اگر کوئی جعلی کرنسی چھاپ دے 287

Page 306

اور اصلی کرنسی جیسی ہو تو یہ دوسرے کے شعار استعمال کرنا نہیں ہو گا.اس پر مجیب الرحمن صاحب نے جواب دیا کہ ریال سعودی عرب کی کرنسی بھی ہے اور عراق کی بھی کرنسی ہے.دونوں اپنی جگہ استعمال کرتے ہیں.ان میں سے کسی کو بھی جعلی نہیں کہا جاسکتا.اس کے علاوہ دینی امور مثلاً اذان کو کرنسی یا دوسرے مادی امور سے تشبیہ دینا مناسب نہیں.مکرم مجیب الرحمن صاحب نے اس ضمن میں مزید دلائل کی بنیاد قرآن کریم کی درج ذیل آیت پر رکھی : قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران:65 ) ترجمہ: تو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے.کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی چیز کو اُس کا شریک ٹھہرائیں گے.اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے گا.پس اگر وہ پھر جائیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ یقینا ہم مسلمان ہیں.اس آیت کریمہ سے استنباط کرتے ہوئے مجیب صاحب نے کہا کہ قرآن کریم تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مشترک امور کی طرف دعوت دیتا ہے.کجا یہ کہ ان لوگوں کے مطابق قرآن ان کا استعمال ممنوع قرار دے کر قابل تعزیر جرم بنانے کی تعلیم دیتا ہے اور یہ نکتہ اُٹھایا کہ اپنے مذہب کے شعائر متعین کرنا ہمارا حق ہے.اور اپنے شعائر ہم خود طے کریں گے.(امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984ء.وفاقی شرعی عدالت مصنفہ مجیب الرحمن صاحب.ناشر اسلام انٹرنیشنل پلیکیشن 2011 م 69,23 ایک اہم بحث جو اس سلسلہ میں کی گئی وہ لفظ ” مسجد کے استعمال کے بارے میں تھی.288

Page 307

جنرل ضیاء صاحب کے آرڈینس میں اس بات پر پابندی لگائی گئی تھی کہ احمدی اپنی مساجد کے لئے لفظ مسجد استعمال کر سکیں.جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے یہ نکتہ اٹھایا جاتا تھا کہ مسجد شعائر اسلامی میں سے ایک ہے اور اس کا استعمال مسلمانوں سے مخصوص ہے.چونکہ ہم بزعم خود احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے چکے ہیں، اس لئے اُن کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی عبادتگاہ کے لئے لفظ مسجد“ استعمال کریں کیونکہ یہ معاملہ زیر بحث نہیں تھا اس لئے وفاقی شرعی عدالت میں مکرم مجیب الرحمن صاحب نے اس بحث کو نہیں چھیڑا کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں ہے اور اس موضوع پر درج ذیل بنیادی سوالات اٹھائے: 1.کیا کوئی ایسا شخص جو قرآن کریم کے نظام حیات کو اپنا لے.اس سے قرآنی اصطلاحات چھینی جاسکتی ہیں؟ 2.جب کوئی لفظ لغوی اور اصطلاحی معنوں میں ساتھ ساتھ استعمال ہو رہا ہو تو کیا اس کے استعمال پر پابندی لگائی جاسکتی ہے؟ 3.کیا مسجد کا لفظ خالصتاً اصطلاحی طور پر مسلم معابد کے لئے مخصوص ہے یا اس میں کوئی استثناء بھی ہے؟ اور اگر کوئی مستثنیات قرآن وحدیث میں ملتی ہیں تو اس کا ماحصل کیا ہے؟ 4.لغوی طور پر مسجد کا لفظ کن معابد کے لئے استعمال ہوا ہے؟ اس موقع پر عدالت میں بہت جامع اور علمی بحث پیش کی گئی.اس کی تفصیل تو کتاب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے لیکن سب سے اہم یہ نکتہ تھا کہ خود قرآن کریم میں مسجد“ کا لفظ اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان کی عبادتگاہ کے لئے استعمال ہوا ہے.چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ 289

Page 308

الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (بنی اسرائیل: 2) پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے.تاکہ ہم اسے اپنے نشانات میں سے کچھ دکھا ئیں.یقیناًوہ بہت سننے والا اور بہت گہری نظر رکھنے والا ہے.جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، اُس وقت بیت المقدس میں مسلمانوں کی کوئی مسجد موجود نہیں تھی.اُس وقت بیت المقدس میں یہودیوں کا معبد موجود تھا.اور اس معبد کے لئے قرآن کریم میں مسجد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.پھر سورہ کہف میں بیان کیا گیا ہے: إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا (الكهف: 22) ترجمہ: جب وہ آپس میں بحث کر رہے تھے تو ان میں سے بعض نے کہا ان پر کوئی یادگار عمارت تعمیر کرو.ان کا رب ان کے بارہ میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے.اُن لوگوں نے جو اپنے فیصلہ میں غالب آگئے کہا ہم تو یقیناً ان پر ایک مسجد تعمیر کریں گے.یہ آیت اصحاب کہف کے بارے میں ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ واقعہ اسلام سے کافی پہلے کا ہے اور ان لوگوں کی عبادتگاہ کے لئے قرآن کریم میں مسجد“ کا لفظ استعمال ہوا ہے.احادیث نبویہ صلی یتیم سے دلائل پھر عدالت کے سامنے یہ تجزیہ پیش کیا گیا کہ کیا حدیث میں مسجد کا لفظ صرف 290

Page 309

مسلمانوں کی عبادتگاہ کے لئے استعمال ہوا ہے یا دوسرے مذاہب کی عبادتگاہوں کو بھی مسجد“ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے؟ اس ضمن میں صحیح بخاری کی حدیث ہے: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ نے ایک کنیسہ کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا.اس میں تصویریں تھیں.انہوں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا.آپ نے فرمایا کہ ان کا یہ حال تھا کہ ان کا کوئی صالح شخص فوت ہو جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی تصویریں بنادیتے.یہ لوگ خدا کے نزدیک قیامت کے دن بدترین مخلوق ہیں.“ ( صحیح بخاری - کتاب الصلوة - هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد) اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہود اور نصاریٰ کے معاہد کے لئے مسجد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے باوجود اس کے کہ ان کے مذکورہ فعل کی مذمت کی جارہی ہے اور صحیح مسلم میں یہ مضمون بالکل واضح ہو جاتا ہے کیونکہ مذکورہ بالا حدیث صحیح مسلم کی کتاب المساجد و.مواضع الصلاة‘“ کے ”باب النهي عن بناء المساجد على القبور واتخاذ الصور فيها والنهي عن اتخاذ القبور مساجدا‘ میں بھی بیان کی گئی ہے.صحیح مسلم کے اس باب کی بعض اور احادیث ملاحظہ ہوں : حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں جس سے آپ اُٹھ نہیں سکے فرمایا اللہ کی لعنت ہو یہود ونصاریٰ پر جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنالیا.وہ فرماتی تھیں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ کی قبر کو باہر کھلی جگہ بنا دیا جاتا مگر اس بات کا خدشہ ہوا کہ اسے مسجد نہ بنالیا جائے.“ اس حدیث میں بھی یہود و نصاریٰ کی عبادتگاہ کے لئے مسجد کا لفظ استعمال ہوا ہے 291

Page 310

حالانکہ اس طرح مسجد بنانے میں شرک کا پہلو پایا جاتا تھا.پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد میں بنالیا.“ پھر حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: سنو جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو مساجد بنا لیتے.تھے.خبردار! تم قبروں کو مساجد نہ بنانا.میں تمہیں اس سے تاکیدا منع کرتا ہوں.“ ( صحیح مسلم - کتاب المساجد و مواضع الصلاة - باب النهي عن بناء المساجدعلى القبور واتخاذ الصور فيها و النهي عن اتخاذ القبور مساجد) ان حوالوں سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم میں اور احادیث میں لفظ ”مسجد صرف مسلمانوں کی عبادتگاہ کے لئے نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کی عبادتگاہوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے.جب قرآن و حدیث میں باقی مذاہب کی عبادتگاہوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے تو پھر کسی کا یہ حق نہیں کہ وہ اسلام کے نام پر یہ پابندی لگائے کہ اس لفظ کو غیر مسلم یا جن کو ہم نے بزعم خود غیر مسلم قرار دیا ہے اپنی عبادتگاہ کے لئے نہیں استعمال کر سکتے.اسی طرح عربی لغت منجد میں لفظ ” مسجد“ کا مطلب سجدہ گاہ اور عبادت کی جگہ کے بیان ہوئے ہیں.عدالتی معاون کے نظریات جب عدالت میں اس موضوع پر بحث ہو رہی تھی تو مورخہ 22 جولا ئی 1984ء کو قاضی مجیب صاحب صدر شعبہ اسلامیات پشاور یونیورسٹی نے بطور عدالتی معاون اپنے دلائل پیش کئے.ان دلائل میں لفظ ”مسجد کے استعمال کے بارے میں بھی دلائل شامل تھے.292

Page 311

انہوں نے عدالت کے سامنے یہ مؤقف پیش کیا کہ مسجد کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے.اور اس کا مطلب صرف عبادت گاہ سمجھنا درست نہیں ہے.انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ قرآن کریم میں لفظ ” مسجد مختلف مذاہب کے معابد کے طور پر نہیں بلکہ اُن عبادتگاہوں کے لئے استعمال ہوا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھیں اور مختلف انبیاء کے مراکز کے طور پر قائم کی گئی تھیں.(سورۃ کہف کی جس آیت کا حوالہ درج کیا گیا ہے، اس سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ اصحاب کہف نبی نہیں تھے.اسی طرح جن احادیث کا حوالہ درج کیا گیا ہے، ان سے بھی اس نظریہ کی تردید ہوتی ہے.) اس پر عدالت کے چیف جسٹس جسٹس آفتاب نے کہا یعنی ایسے الفاظ آئے ہیں کہ سابق انبیاء کی عبادتگاہوں کے لئے لفظ مسجد استعمال کیا گیا ہے.کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسلمان تھے.اس پر قاضی مجیب صاحب نے یہ نکتہ اٹھایا کہ سورۃ الحج کی آیت 41 میں اس کی صراحت موجود ہے.اور اس کی تائید میں جلال الدین محلی اور جلال الدین سیوطی کی تفسیر جلالین کا حوالہ پیش کیا.اس ضمن میں سب سے پہلے اس آیت کریمہ کا متن درج کرنا ضروری ہے.الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ عَلي إِلا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ، وَلَوْلاً دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحج: 40) ترجمه: (یعنی) وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معاہد بھی 293

Page 312

اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقیناًاللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے.یقیناً اللہ بہت طاقتور ( اور ) کامل غلبہ والا ہے.اس دلیل کا لب لباب یہ تھا کہ اس آیت میں عیسائیوں اور یہود کی عبادتگاہ کے لئے مسجد کے علاوہ دوسرے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور تفسیر جلالین کا حوالہ دیا کہ اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ”بیع سے مراد نصاری کی خانقاہیں اور عبادت گاہیں ہیں اور صلوات “ سے مراد یہود کے معابد ہیں.اس کے بعد قاضی مجیب صاحب نے تفسیر مظہری کا حوالہ پیش کیا کہ ’مساجد سے مراد مسلمانوں کی مساجد ہیں.یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ان دونوں تفاسیر میں بھی سورہ کہف کی آیت 22 کی تفسیر کرتے ہوئے اصحاب کہف کی یاد میں بننے والی عمارت کو مسجد ہی کہا گیا ہے اگر چہ یہ واقعہ ظہور اسلام سے قبل کا ہے.قاضی مجیب صاحب کی دلیل میں نقص یہ تھا کہ مکرم مجیب الرحمن ایڈووکیٹ صاحب اور دیگر Petitioners نے یہ دعوی نہیں پیش کیا تھا کہ یہود و نصاریٰ کے معاہد کے لئے ہمیشہ مسجد“ کا لفظ استعمال ہوا ہے.ان کی طرف سے یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ قرآن وحدیث میں ان مذاہب کی عبادت گاہوں کے لئے مسجد کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے.اور احادیث سے ثابت ہے کہ اپنی مبارک زندگی کے آخری دنوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مذاہب کی عبادت گاہوں کے لئے مسجد کا لفظ استعمال کیا ہے.اس طرح قرآن وحدیث کی رو سے یہ پابندی نہیں لگائی جاسکتی کہ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو مسجد“ کے نام سے نہیں پکارا جا سکتا.قاضی مجیب صاحب نے 23 جولائی کو ان دلائل سے دفاع کے لئے یہ مؤقف اپنایا کہ اسلامی اصطلاحات تین اقسام کی ہیں.عرف عام،عرف خاص اور عرف شرعی اور بعض وو 294

Page 313

مواقع پر اسلامی اصطلاحات عام معنی سے ہٹ کر خاص معنوں میں محدود کر دی جاتی ہیں مثلاً صلوٰۃ کا مطلب دعا ہے مگر اسے صرف نماز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.ان کا مؤقف تھا کہ اس قسم کی اصطلاحوں کے شرعی مفہوم کو عرف عام کے ذریعہ بدلا نہیں جاسکتا.لہذا انہوں نے عدالت کے سامنے اس مؤقف کا اظہار کیا کہ ”مسجد“ کا لفظ اسلام میں جو اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس کے خلاف اسے کہیں اور استعمال نہیں کیا جاسکتا.جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے دلائل پیش کئے جاتے ہیں اور ان میں سے چند حوالے درج کئے گئے ہیں.قرآن کریم کے دلائل کے جواب میں انہوں نے جو دلیل پیش کی اس کا ذکر کیا جا چکا ہے.اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ انہوں نے اس بات کا کیا جواب دیا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کے مطابق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود اور نصاریٰ کی عبادتگاہوں کے لئے مسجد کا لفظ استعمال فرمایا تھا.چنانچہ قاضی مجیب صاحب نے بیسویں صدی کے ایک مصری عالم شیخ مراغی کی کتاب "الزواج والطلاق فی جمیع الادیان “ کا حوالہ دیا کہ اگر چہ دیگر ادیان کے فقہ اور فقہ اسلامی میں بعض الفاظ میں اتحاد ہے لیکن اس وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دونوں الفاظ ایک ہیں.ان کی طرف سے پیش کی جانے والی دوسری دلیل کتاب اکفار الملحدین “ سے تھی.ویسے تو کتاب کا نام ہی واضح کر دیتا ہے کہ اس کتاب کا مقصد کفر کے فتاوی کی ترویج تھی.انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ اسلام کے اساسی ارکان کی طرح اسلام کے دیگر احکام ہیں.ان کے مخصوص معانی ہیں.جو ان کو ان کے اصل معنوں سے نکال کر دوسرے معنوں میں استعمال کرے گا ملحد ہو گا.اب اكفار الملحدین“ کے مصنف کا کچھ تعارف کروانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے.یہ کتاب انورشاہ کشمیری صاحب نے لکھی تھی..295

Page 314

موصوف دیوبند میں مدرس تھے اور بعد میں صدر مدرس بھی مقرر ہوئے.ان کا سن وفات 1933ء ہے.اس کتاب میں موجود چند اور باتیں یہاں درج کر دینا مناسب ہوگا تاکہ قارئین پر واضح ہو جائے کہ مصنف کتاب ھذا نے کسی کو بھی کا فرقرار دینے کے لئے کس قدر سہولت بہم پہنچائی ہے.انہوں نے مختلف کتب سے کافر قرار دینے کے عمل کا نچوڑ پیش کیا ہے.چنانچہ اس کتاب میں لکھا ہے جو خضر کو نبی نہیں بلکہ ولی جانے وہ کا فر ہے ،ضروریات دین کا منکر واجب القتل ہے، اہل قبلہ کی تکفیر نہ کرنے کا حکم اہل قبلہ حکمرانوں کے لئے ہے، ضروریات دین میں تاویل کرنا بھی کفر ہے، رافضی ، غالی شیعہ کافر ہیں، رافضی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے.اکفار الملحدین مصنفہ انور شاہ کشمیری صاحب ، مترجم محمد ادریس میرٹھی صاحب ، ناشرالبرہان پبلشرز اکتوبر (.223.176.91.77.2001 احمدیوں کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بطور دلیل پیش کئے گئے تھے اور قاضی مجیب صاحب اپنی طرف سے یہ برہان قاطع لے کر آئے کہ نہیں یہ صحیح نہیں کیونکہ نعوذ باللہ اسلام کی صحیح تعلیمات بانی اسلام نہیں شیخ مراغی صاحب اور انور شاہ کشمیری صاحب ہی دے سکتے ہیں.وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ میں اس پہلو پر بحث اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ میں اس پہلو پر کیا روشنی ڈالی تھی.انہوں نے اس ضمن میں پہلا نکتہ یہ اُٹھایا تھا کہ احمدی وکیل مجیب الرحمن ایڈووکیٹ صاحب نے یہ نکتہ اُٹھایا کہ قرآن کریم میں مسجد کا لفظ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ کے لئے استعمال نہیں ہوا تو ہم نے یہ سوال کیا کہ کیا گزشتہ چودہ سو سال میں غیر مسلموں کی عبادت گاہ کے لئے 296

Page 315

الفظ مسجد استعمال کیا گیا ہے؟ اس کا جواب انہوں نے پہلے نفی میں دیا پھر ایک تصویر مہیا کی جس میں کراچی میں یہودیوں کی عبادتگاہ پر مسجد بنی اسرائیل لکھا ہوا تھا.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عدالت میں یہ ثابت کر دیا گیا تھا کہ قرآن کریم میں یہ لفظ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے لئے استعمال نہیں ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہود و نصاریٰ کی عبادت گاہوں کے لئے لفظ مسجد استعمال کیا ہے تو پھر کوئی اور نظیر ڈھونڈنے کی ضرورت کیا پیش آئی تھی ؟ پھر اس عدالتی فیصلہ میں لکھا ہے کہ The question whether places of worship of persons other than those who are followers of the Holy Prophet have been called in the Quran by the name of masjid is besides the point.ترجمہ: یہ سوال کہ کیا قرآن کریم میں لفظ ” مسجد " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے علاوہ کسی اور کی عبادت گاہ کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے؟ غیر متعلقہ سوال ہے.اس جملے میں بھی عجیب منطق بیان کی گئی ہے یعنی شرعی عدالت کا کام یہ ہے کہ قرآن وسنت کے مطابق فیصلہ کرے اور وہ اپنے فیصلے میں تحریر کر رہی ہے کہ اس موضوع پر آیات پیش کرنا غیر متعلقہ ہے ! ان کا تو فرض تھا کہ سب سے زیادہ توجہ قرآن کریم کی آیات کی طرف کرتے.اس عجیب و غریب منطق کی توجیہ اس فیصلہ میں دیکھی ہے: Islam has been the divine religion from the very beginning, i.e.starting with Adam.If the word masjid has been used for the places of worship of those who belonged to the Ummah of some other Prophet and followed the then prevailing religion of Islam, it cannot 297

Page 316

be concluded that the name masjid was the name given to the places of worship of non-Muslims too.ترجمہ: ابتدا سے یعنی حضرت آدم کے زمانے سے ہی اسلام آسمانی مذہب ہے.اگر مسجد کا لفظ ان لوگوں کی عبادت گاہوں کے لئے استعمال کیا گیا تھا جو کہ کسی اور نبی کی امت سے وابستہ تھے اور اُس وقت کے رائج اسلام کی پیروی کر رہے تھے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ غیر مسلموں کی عبادت گاہ کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے.اس تحریر کا اصل میں کیا مطلب تھا اس پر تو شرعی عدالت کے جج صاحبان ہی روشنی ڈال سکتے ہیں! بہر حال پہلی بات تو یہ کہ اس کا زیر بحث موضوع سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ”عدالت عالیہ کے مطابق جو لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں شامل ہوئے یعنی یہود وہ تو مسلمان کہلا سکتے ہیں لیکن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی لائی ہوئی کتاب کو ہر معاملہ میں آخری فیصلہ سمجھتے ہیں وہ مسلمان نہیں کہلا سکتے ! (اُس وقت یہ پابندی لگا دی گئی تھی کہ عدالت میں ہونے والی بحث کی رپورٹ اخبارات میں شائع ہو اور جماعت احمدیہ کو بحث کی ریکارڈنگ بھی مہیا نہیں کی گئی تھی.اس لئے بحث کی تفصیلات مکرم یوسف سلیم شاہد صاحب اور مکرم یوسف سہیل شوق صاحب نے نوٹ کی تھیں.اور اس مضمون کے لئے اسی سے استفادہ کیا گیا ہے.).....نظر انداز کئے جانے والے پاکستانی عدلیہ کے بعض فیصلے پاکستان میں جب بھی جماعت احمدیہ کے خلاف کوئی کتاب لکھی جاتی ہے یا غیر منصفانہ 298

Page 317

فیصلہ سنایا جاتا ہے تو اس بات کا ضرور حوالہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں پہلے بھی جماعت احمد یہ کے خلاف بہت سی عدالتوں نے فیصلے سنائے اور 1974ء کی آئینی ترمیم کے ذریعہ تو احمد یوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا لیکن اس سے قبل بھی جماعت احمدیہ کو بہت سی عدالتوں نے غیر مسلم قرار دیا تھا.گویا اس طرح ایک خلاف عقل اور غیر منصفانہ فیصلہ کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.یہ علیحدہ بحث ہے کہ نہ کسی عدالت کا یہ کام ہے اور نہ کسی پارلیمنٹ کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ بوجھ بجھکڑوں کی طرح یہ فیصلہ کرے کہ کسی شخص یا کسی گروہ یا کسی فرقے کا مذہب کیا ہے اور نہ ہی جماعت احمدیہ نے کبھی بھی کسی عدالت یا کسی پارلیمنٹ کا یہ اختیار تسلیم کیا ہے.البتہ جہاں تک ممکن ہوا حق بات کو عوام تک پہنچانے اور ان پر حجت تمام کرنے کا فرض ضرور ادا کیا ہے.یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ سے متعلقہ مقدمات و معاملات میں بہت سے غیر منصفانہ فیصلے سنائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود جب اس بارے میں سابقہ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا جاتا ہے تو نا مکمل حقائق پیش کئے جاتے ہیں کیونکہ مکمل حقائق ایک ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ خود ہی اس غیر منصفانہ طرز کی تردید ہو جاتی ہے مثلاً 2018ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف ہونے والے حج شوکت عزیز صدیقی صاحب کے ایک رکنی بنچ نے جماعت احمدیہ کے متعلق ایک نہایت مخالفانہ تفصیلی فیصلہ سنایا.جیسا کہ دستور تھا اس فیصلہ میں بھی جماعت احمدیہ کے خلاف کچھ سابقہ فیصلوں کے حوالے دئے گئے اور کچھ متعلقہ فیصلوں کا ذکر کرنے سے گریز کیا گیا.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کے سامنے مکمل حقائق پیش کر کے ایک مرتبہ پھر حجت تمام کر دی جائے.اس فیصلہ میں حج موصوف نے وفاقی شرعی عدالت اور پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے دینے کے علاوہ 299

Page 318

برٹش دور میں ریاست بہاولپور کے ایک فیصلہ اور سیشن کورٹ راولپنڈی کے ایک فیصلے کے حوالے بھی دیئے ہیں.سب سے پہلے آخری دو مثالوں کے بارے میں کچھ ذکر کیا جائے گا.ریاست بہاولپور کا فیصلہ 1935ء میں ڈسٹرکٹ بہاولنگر کے حج محمد اکبر صاحب نے سنایا تھا اور دوسرا فیصلہ 1955ء میں ڈسٹرکٹ حج کیمبل پور راولپنڈی شیخ محمد اکبر صاحب نے سنایا تھا.ان فیصلوں کا حوالہ صرف شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے فیصلہ میں ہی نہیں دیا تھا بلکہ جب 1974ء میں پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی نے جماعت احمدیہ کے بارے میں کارروائی کی تو اس وقت بھی ان فیصلوں کی مثالیں پیش کی گئی تھیں بلکہ جب کئی دہائیوں کے بعد یہ کارروائی شائع ہوئی تو ان فیصلوں کے مکمل متن اس کا رروائی میں شائع کئے گئے اور جماعت احمدیہ کا موقف جو محضر نامہ کی شکل میں وہاں پر دوروز پڑھا گیا تھا وہ شائع نہیں کیا گیا.بہر حال سب سے دلچسپ اور قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ خود پاکستان کی ایک ہائیکورٹ یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ پاکستان میں ان فیصلوں کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی اور ایسا کرنا ایک غیر متعلقہ بات ہوگی.اس کا پس منظر یہ ہے کہ رسالہ چٹان کے ایڈیٹر اور جماعت احمدیہ کے مشہور مخالف شورش کا شمیری صاحب نے 1969ء میں ہائیکورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا.اس مقدمہ کی وجہ یہ تھی کہ حکومت مغربی پاکستان نے انہیں نوٹس بھجوایا تھا کہ ان کا رسالہ ایسا مواد شائع کر رہا ہے جس سے مسلمانوں کے فرقوں میں باہمی منافرت پھیل رہی ہے اور اس رسالہ کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا.اس وقت یہ رسالہ حسب معمول احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے میں مشغول تھا.اس مقدمہ میں مغربی پاکستان کی حکومت مدعا علیہ تھی.مدعی نے اپنی درخواست میں دیگر امور کے علاوہ یہ موقف بھی پیش کیا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں اور اس کو ثابت کرنے 300

Page 319

کے لئے انہوں نے یہ فیصلے ہائیکورٹ کے سامنے رکھے.ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: We are obliged to consider this aspect of the matter, because the petitioner's learned counsel in the course of his argument referred to certain parts of Munir enquiry Report...Two judgements one of a subordinate Court in the former Punjab and the other from a District Court in what was once Bahawalpur State wherein it was held that Ahmadis are not a sect of Islam were also placed within record.We wonder how these instances are relevant.The judgements are of subordinate courts and they are not relevant even under section 13of the Evidence act, 1872.As to the instances of Ahmadis being dubbed as Murtads and done to death, all we need to say is that these are sad instances of religious persecution against which human conscience must revolt, if any decency is left in human affairs.How far these instances are opposed to the true Islamic percepts and injuctions would be manifest from Chapter 2:256 of The Holy Quran which guarantees freedom of conscience in clear mandatory terms which are translated thus: "Let 301

Page 320

there be no compulsion in religion..." (PLD1969 Lahore 289) ترجمہ : ہمیں اس مسئلے کے اس پہلو پر غور کرنا پڑے گا کیونکہ درخواست گزار کے فاضل وکیل نے اپنے دلائل کے دوران منیر انکوائری رپورٹ کا حوالہ دیا ہے.ایک جو اُس وقت پنجاب تھا اس کی ماتحت عدالت کا فیصلہ ہے اور دوسرا فیصلہ بہاولپور کی سابقہ ریاست کی ضلعی عدالت کا ہے.ان فیصلوں میں جو ریکارڈ میں پیش کئے گئے ہیں یہ کہا گیا تھا کہ احمدی مسلمانوں کا فرقہ نہیں ہیں.ہم اس بات پر حیران ہیں کہ یہ مثالیں اس معاملہ سے متعلقہ کس طرح ہیں؟ یہ ماتحت عدالتوں کے فیصلے ہیں اور قانون شہادت 1872ء کے سیکشن 13 کے مطابق متعلقہ بھی نہیں ہیں.جہاں تک اُن مثالوں کا تعلق ہے جن میں احمدیوں کو مرتد قرار دے کر سزائے موت دی گئی تھی.یہ وہ قابل افسوس مثالیں ہیں جن کے خلاف انسانی ضمیر کو بغاوت کرنی چاہیے.می واقعات اسلامی نظریات اور احکامات سے کتنا دور ہیں، اس کا اندازہ قرآنِ کریم کی سورۃ البقرۃ آیت 256 سے ہوتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ”دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں.“ ہائیکورٹ کے اس فیصلے سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ قانون کی رو سے اُن فیصلوں کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی جن کا حوالہ شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے فیصلے میں دیا ہے اور اس قسم کی مثال بطور ثبوت کے پیش کرنا ایک غیر متعلقہ دلیل ہے.1968ء کے اسی عدالتی فیصلہ میں لکھا ہے: The whole burden of argument of petitioners learned counsel was that Ahmadis are now a sect of Islam and the petitioners right to guaranteed by the constitution.But learned counsel 302 SO say is

Page 321

overlooks the fact that Ahmadis as citizens of Pakistan are also guaranteed by the Constitution the same freedom to profess and proclaim that they are within the fold of Islam....( PLD1969 Lahore 289) ترجمه: درخواست گزار کے وکیل کی بحث کا دارو مدار اس پر تھا کہ احمدی اسلام کا فرقہ نہیں ہیں اور آئین کی رو سے درخواست گزار کو ایسا کہنے کا حق پہنچتا ہے لیکن فاضل وکیل اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ پاکستان کے شہریوں کی حیثیت سے احمدیوں کو بھی یہی آزادی حاصل ہے کہ اس بات کا اظہار اور اعلان کریں کہ وہ مسلمانوں میں شامل ہیں.مخالفین کی طرف سے بار بار نچلی سطح کی عدالت کے چند فیصلوں کی مثال پیش کی جاتی ہے لیکن بعض اور اہم فیصلوں کا ذکر ہی غائب کر دیا جاتا ہے کیونکہ ان فیصلوں کے مطابق احمدیوں کے خلاف چلائی جانے والی شورش کے مطالبات ہی غیر آئینی تھے.جب ہم 1984ء سے قبل کئے جانے والے تمام فیصلوں کو سامنے رکھیں تو بالکل مختلف صورت حال سامنے آتی ہے.جماعت احمدیہ کے خلاف قوانین بننے کے بعد جماعت احمدیہ کو بہت سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور مقدمات میں مخالفین جماعت کی طرف سے یہ نکتہ بار بار اٹھایا گیا کہ چونکہ پاکستان کے آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے اس لئے وہ اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے اور مختلف عدالتی فیصلوں میں بھی اس موضوع پر کئی مرتبہ بہت کچھ لکھا گیا ہے.ان میں سے ایک اہم فیصلہ وہ تھا جب کچھ احمدیوں نے شرعی عدالت میں جنرل ضیاء صاحب کی طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف جاری کئے جانے والے آرڈینس کو چیلنج کیا 303

Page 322

تھا.اس عدالت کے عجیب و غریب تفصیلی فیصلہ کا اکثر حصہ ان امور کے متعلق تھا ہی نہیں جنہیں عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا یا جن کے بارے میں ان احمدیوں نے عدالت میں دلائل دئے تھے.فیصلہ کے آخر میں ان امور کا کچھ تذکرہ کیا گیا تھا جن کے بارے میں عدالت میں بحث ہوئی تھی اور اس میں ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ چونکہ آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اس لئے انہیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے.جب بھی جماعت احمدیہ کے خلاف کچھ لکھا جاتا ہے تو بسا اوقات اس فیصلے کا ضرور ذکر کیا جاتا ہے.شرعی عدالت کے جس بینچ کے سامنے یہ فیصلہ پیش ہوا اس کی سر براہی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ، جسٹس آفتاب حسین صاحب کر رہے تھے.یہاں پر ایک دلچسپ پہلو کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ 1978ء میں جسٹس آفتاب حسین لاہور ہائیکورٹ میں جج تھے اور اُس وقت بھی ان امور کے بارے میں ایک مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوا تھا.یہ مقدمہ ڈیرہ غازی خان کی ایک مسجد کے بارے میں تھا.اُس وقت بھی جماعت کے مخالفین نے اس قسم کے نکات اُٹھائے تھے کہ چونکہ احمدیوں کو آئین میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اس لئے اب انہیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور یہ ان شعائر کی بے حرمتی ہے کہ انہیں احمدی استعمال کریں.مناسب ہوگا کہ 1978 ء میں لاہور ہائیکورٹ میں اور 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت میں ہونے والے ان فیصلوں کا موازنہ کیا جائے کیونکہ 1978ء میں ہونے والا ہائیکورٹ کا فیصلہ جسٹس آفتاب حسین صاحب نے لکھا تھا اور وفاقی شرعی عدالت کے جس بینچ نے فیصلہ سنایا تھا اس کی سربراہی بھی جسٹس آفتاب حسین صاحب کر رہے تھے.لازمی طور پر اس بات کی نشاندہی کی جائے گی کہ ان دونوں فیصلوں کے درمیان 1984ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک آرڈیننس نافذ کیا گیا تھا.اور یہ قانون اُس وقت موجود 304

Page 323

نہیں تھا جب 1978ء میں لاہور ہائیکورٹ کے بینچ نے فیصلہ سنایا لیکن اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان دونوں فیصلوں میں اور خاص طور پر 1984 ء میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں میں بنیا دقرآن کریم اور احادیث نبویہ تھیں اور دونوں فیصلوں میں قرآن کریم اور احادیث کے حوالوں کے علاوہ مذہبی کتب کے بہت سے حوالے پیش کئے گئے تھے اور انہیں ان تفصیلی فیصلوں میں تحریر کردہ دلائل کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور ظاہر ہے کہ ان چھ سالوں میں قرآن کریم اور احادیث کی تعلیمات تبدیل نہیں ہو سکتی تھیں.قرآن وحدیث کی روشنی میں جسٹس آفتاب 1978ء میں جن نتائج پر پہنچے تھے، 1984ء میں بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں انہیں انہی نتائج پر پہنچنا چاہیے تھا.اگر یہ نتائج تبدیل ہو گئے تھے تو ان کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کریں گے.جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ 1984ء میں جماعت احمدیہ کے مخالفین نے یہ موقف پیش کیا کہ احمدیوں کو پاکستان کے قانون میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور قرآن وحدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام غیر مسلموں کو شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اس بارے میں 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت نے قرآنِ کریم کی آیات اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے دے کر اپنے فیصلہ میں یہ نتیجہ نکالا : It is thus obviously concluded from it that Islamic Sharia does not allow a non-Muslim to adopt Shia'ar of Islam, because Shia'ar means the distinguishing features of a commu- nity with which it is known.If an Islamic State inspite of its being in power allows a non-Muslim to adopt the Shia'ar of Islam which 305

Page 324

effects the distinguishing cha- racteristics of Muslim ummah, it will be the failure of that State in discharge of its duties.To allow a non-Muslim to adopt Islamic Shia'ar in an Islamic State amounts to an illegal behaviour with the Shia'ar of Islam and as such reason for its prohibition becomes stronger.The above mentioned verse 9:28 and the subsequent Practice of the Holy Prophet prove the power of legislation of the Islamic State to prevent non-Muslims from adopting the Shia'ar of Islam.It is for this reason that it is also in the legislative power of the Islamic State to provide punishment for the non Muslim who does not abstain himself from adopting the Shia'ar of Islam as has been provided in the impugned Ordinance.- ترجمه: اسلامی شریعت سے یہ واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ غیر مسلم اسلامی شعائر کو اپنائیں کیونکہ شعائر اُن منفرد علامات کو کہتے ہیں جن سے ایک گروہ کو شناخت کیا جاتا ہے.اگر ایک اسلامی ریاست اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی غیر مسلموں کو ان شعائر کے استعمال سے نہیں روک سکتی جو کہ مسلمانوں کے لئے خاص ہیں تو وہ اپنے فرائض ادا نہیں کر رہی.غیر مسلموں کو اسلامی شعائر کے استعمال کی اجازت دینا ان کے ساتھ غیر قانونی سلوک کے مترادف ہے.اور اس لئے اس پر پابندی لگانے کی ضرورت اور شدید ہو جاتی ہے.اوپر درج کی گئی آیت 28:9 اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت 306

Page 325

اس بات کی اہمیت کو واضح کر دیتی ہے کہ اس بارے میں قانون سازی کی جائے کہ غیر مسلم اسلامی شعائر کو اختیار نہ کر سکیں.یہی وجہ ہے کہ قانون سازی کرتے ہوئے اسلامی ریاست کو اس بات کا اختیار ہے کہ اُن غیر مسلموں کے لئے سزا مقرر کرے جو کہ اسلامی شعائر کو اختیار کرنے سے باز نہیں آتے جیسا کہ اس نافذ ہونے والے آرڈیننس میں کیا گیا ہے.اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ 1978ء میں کئے جانے والے فیصلے میں اس بارے میں کیا لکھا تھا.اس سے پہلے ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ 1978 ء کے اس فیصلہ میں جسٹس آفتاب حسین صاحب نے اپنی رائے لکھنے سے قبل بہت سی آیات کریمہ اور احادیث کا حوالہ دے کر نتیجہ نکالا تھا اور معین طور پر سورۃ توبہ کی اس آیت کا حوالہ بھی دیا تھا جس کا حوالہ 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ میں دیا گیا تھا.جسٹس آفتاب حسین صاحب نے 1978ء کے فیصلہ میں درج ذیل نتیجہ نکالا تھا: The learned counce I argued that to allow the non-Muslims to offer prayer and to call Azan is an but شعائر agree that these are شعائر اسلام.interference with I am unable to appreciate that adaption of these lis interference with them.They are good for Qadianis since they consider them necessary as a matter of conscience to perform the duty of obedience to Allah.(PLD 1978 Lahore 113 ) ترجمه: فاضل وکیل نے ( یعنی مخالفین جماعت کے وکیل نے ) یہ دلیل دی ہے کہ غیر مسلموں کو نماز پڑھنے اور اذان دینے کی اجازت دینا شعائر اسلامی میں مداخلت ہے.میں اس بات 307

Page 326

سے متفق ہوں کہ یہ شعائر ہیں لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان شعائر کو اپنا نا ان میں مداخلت کس طرح ہو سکتا ہے.چونکہ قادیانی بھی اپنے ضمیر کے مطابق انہیں اللہ کے حکم کی اطاعت کے لئے فرض سمجھتے ہیں، اس لئے یہ قادیانیوں کے لئے بھی اچھے شعائر ہیں.اس بناء پر 1978ء میں جسٹس آفتاب حسین صاحب نے مخالفین جماعت کی یہ استدعا نا منظور کر دی تھی کہ احمدیوں کو اذان جیسے شعائر کے استعمال کرنے سے روکا جائے.یہ بات قابل توجہ ہے کہ انہی آیات کریمہ اور احادیث کی بناء پر 1978ء میں جو چیز جائی تھی وہ انہی آیات کریمہ اور احادیث کی بناء پر 1984ء میں ناجائز کس طرح ہو گئی؟ 1984ء میں جنرل ضیاء صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک آرڈیننس جاری کیا.اس میں دیگر پابندیوں کے علاوہ یہ پابندی بھی لگائی گئی کہ احمدی اپنی عبادت گاہ کے لئے مسجد“ کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے اور نماز سے پہلے اذان نہیں دے سکتے.جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، ایک احمدی وکیل مکرم مجیب الرحمن صاحب اور چند اور احمدیوں نے اس آرڈینس کو اس بنیاد پر وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا کہ یہ پابندیاں قرآن وسنت کے خلاف ہیں.اس بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس آفتاب حسین صاحب کی سر براہی میں ایک بینچ نے جو فیصلہ سنایا اس میں قرآن وحدیث کے حوالے درج کر کے یہ اعتراف کیا ہے کہ The Jurists have for this reason taken the view that whoever calls Azan should be treated to be a Muslim.If people give evidence in respect of a Zimmi (protected non-Muslims) that he had called Azan he should be treated as a Muslim.(Bahrur Raiq, Vol.I, by Ibne Nujaim, page 279, Raddul Mukhtar by Ibne Aabideen, Vol.1, page 353) 308

Page 327

ترجمہ: ان وجوہات کی بناء پر فقہاء نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ جو بھی اذان دے اس سے مسلمانوں جیسا سلوک کرنا چاہیے.اگر لوگ ایک ذمی کے بارے میں یہ گواہی دیں کہ اُس نے اذان دی ہے تو اسے مسلمان سمجھا جائے گا.خود وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اسلامی تعلیم یہی ہے کہ جو اذان دے اسے مسلمان سمجھو.اس کی وجہ ظاہر ہے کہ کیونکہ اذان میں کلمہ شہادت موجود ہے.جو اذان دے وہ خدا کی وحدانیت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتا ہے اسے مسلمان سمجھنا چاہیے.اس اقرار کے بعد ہر پڑھنے والا یہی توقع کرے گا کہ یہ نتیجہ نکالا جائے گا کہ چونکہ احمدی 1974ء سے پہلے اور بعد میں اذان دیتے تھے.اس لئے انہیں مسلمان ہی سمجھنا چاہیے اور اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ پاکستان کے آئین میں دوسری آئینی ترمیم بلا جواز اور غیر اسلامی تھی لیکن جنرل ضیاء صاحب کی حکومت نے اور پھر 1984ء میں پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے یہ نتیجہ نکالا کہ احمدیوں کی اذانوں پر ہی پابندی لگادی یعنی نہ احمدی اذان دیں اور نہ انہیں مسلمان سمجھنا پڑے اور اس طرح وفاقی شرعی عدالت نے جنرل ضیاء صاحب کا آرڈینس برقرار رکھا اور اس بات کو قبول نہیں کیا کہ یہ آرڈینس اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے.کوئی بھی ذی ہوش اس منطق کو درست نہیں قرار دے سکتا.دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ جب 1978ء میں ڈیرہ غازی خان کی مسجد کا مقدمہ لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوا تھا اور اُس وقت بھی جماعت احمدیہ کے مخالفین نے یہ دلائل پیش کرنے کی کوشش کی تھی کہ اگر اذان جیسے شعائر غیر مسلم استعمال کریں ( یا وہ استعمال کریں جنہیں انہوں نے بزعم خود غیر مسلم قرار دیا ہے.تو یہ ان شعائر کی بے حرمتی ہے.اس پہلو کے بارے میں 1978ء میں جسٹس آفتاب حسین صاحب نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا.309

Page 328

" But neither any Qur'anic injuction nor any tradition, nor any opinion of Imams was cited in proof of the proposition that no non-Muslim can construct his place of worship in any way resembling mosque or call it by the name of Masjid or call Azan in it or perform his prayer in it in the same manner as is ordained for the Muslims.A number of denominations were treated as infidels in the course of history by the then monarch or Caliph.But not a single instance of interference with the prayer or places of worship of such persons was quoted.It is one thing to establish that all these institutions originated with Islam but it is all together a different proposition that Islam made these things so exclusive that no non-Muslim even a believer in the Holy Quran or traditions of the Holy Prophet may utilize them as a means of spiritual advancement.(PLD 1978 Lahore 113 ) ترجمہ: مگر اس بات کی تائید میں نہ کوئی قرآنی حکم ، نہ کوئی حدیث اور نہ کسی امام کی رائے پیش کی گئی کہ کوئی غیر مسلم اپنی عبادت گاہ مسجد کی شکل کی نہیں بنا سکتا یا اس میں اذان نہیں دے سکتا یا اس میں جس طرح مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے نماز نہیں پڑھ سکتا.تاریخ میں بہت سے مسالک کو وقت کے بادشاہ یا خلیفہ کی جانب سے کافر قرار دیا گیا لیکن ایک بھی ایسا واقعہ 310

Page 329

پیش نہیں کیا گیا کہ ان کی عبادت یا عبادت گاہ میں مداخلت کی گئی ہو.یہ ثابت کرنا اور بات ہے کہ ان روایات کا آغاز اسلام سے ہوا تھا لیکن یہ نظریہ بالکل مختلف ہے کہ اسلام نے ان کو اس طرح مخصوص کر دیا ہے کہ کوئی غیر مسلم خواہ وہ قرآن اور احادیث پر ایمان لاتا ہو ان کو اپنی روحانی ترقی کے لئے استعمال نہ کر سکے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ 1978ء میں جسٹس آفتاب نے یہ فیصلہ دیا کہ قرآن کریم اور احادیث میں اس بات کی کوئی ممانعت نہیں کہ کوئی غیر مسلم اسلامی شعائر کو اپنائے اور 1984ء میں انہی جج صاحب نے یہ فیصلہ دیا کہ اسلامی تعلیم یہی ہے کہ کوئی غیر مسلم اسلامی شعائر کو نہیں استعمال کر سکتا اور اسلامی ریاست کا تو یہ فرض ہے کہ اس بات کو سختی سے روکے.سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ان چھ سال میں اسلامی تعلیمات تبدیل ہو گئی تھیں ؟ پھر 1978ء میں اپنے فیصلے میں جسٹس آفتاب حسین صاحب نے لکھا: It therefore appears that the word 'Masjid' has been used in this verse in the sense of the place for worship of Allah.Whatever may be the ground of revelation as stated by Ibn Kasseer the word 'Masjid' according to some opinion seem to pertain to all places of worship(where Allah is worshipped) whether before the advent of Islam or after...(PLD 1978 Lahore 113 ) ترجمہ: چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں مسجد کا لفظ ایسی جگہ کے لئے استعمال ہوا ہے جہاں اللہ کی عبادت کی جاتی ہو.اس کی شان نزول کچھ بھی ہو جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ 311

Page 330

بعض کے نزدیک مسجد کا لفظ ان تمام عبادت گاہوں پر چسپاں ہوتا ہے جہاں اللہ کی عبادت ہوتی ہو.خواہ ان کا تعلق اسلام سے پہلے کے زمانے سے ہو یا بعد کے زمانے سے ہو.اس کے برعکس 1984ء میں جسٹس آفتاب حسین صاحب کی سر براہی میں ہی وفاقی شرعی عدالت کے بینچ نے جو فیصلہ سنایا اس میں لکھا ہے.The question whether places of worship of persons other than those who are followers of the Holy Prophet have been called in the Quran by the name of masjid is besides the point.Islam has been the divine religion from the very beginning, i.e.starting with Adam.If the word masjid has been used for the places of worship of those who belonged to the Ummah of some other Prophet and followed the then prevailing religion of Islam, it cannot be concluded that the name masjid was the name given to the places of worship of nonMuslims too." ترجمہ: یہ سوال کہ کیا قرآن کریم میں مسجد کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے علاوہ کسی اور کی عبادت گاہ کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے غیر متعلقہ سوال ہے.ابتدا سے یعنی حضرت آدم کے زمانے سے ہی اسلام آسمانی مذہب ہے.اگر مسجد“ کا لفظ ان لوگوں کی عبادت گاہوں کے لئے استعمال کیا گیا تھا جو کہ کسی اور نبی کی امت سے وابستہ تھے اور اُس وقت کے رائج اسلام کی پیروی کر رہے تھے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ غیر مسلموں کی 312

Page 331

عبادت گاہ کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے.یہ بات قابل غور ہے کہ 1978ء میں ایک سوال متعلقہ تھا اور 1984ء میں وہی سوال غیر متعلقہ ہو گیا اور قرآن وحدیث پر بنیا د رکھتے ہوئے 1978ء میں یہ فیصلہ تھا کہ کسی بھی مذہب سے وابستہ افرادا گر وہ اللہ کی عبادت کر رہے ہوں اپنی عبادت گاہ کا نام مسجد رکھ سکتے ہیں اور قرآن وحدیث پر ہی بنیاد رکھتے ہوئے 1984ء میں شریعت کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی اور کی عبادت گاہ مسجد نہیں کہلا سکتی.یہ تضاد ہی 1984 ء کے فیصلہ کو غیر منصفانہ اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ثابت کرنے کے لئے کافی ہے.سپریم کورٹ کے فیصلہ میں اُٹھائے گئے سوالات جیسا کہ کتاب کے آغاز میں ذکر کیا گیا تھا کہ جب مخالفین جماعت نے نئے انتخابی قوانین کے بارے میں احتجاج کا فیصلہ کیا تو اس احتجاج کا مرکزی نقطہ فیض آباد کے مقام پر دیا جانے والا دھرنا تھا.یہ انٹر چینج اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان کا اہم راستہ ہے.اس دھرنے کے ناٹک کے کرتا دھرتا تحریک لبیک پاکستان کے قائدین اور ان کے کارکنان تھے.برطرف کئے جانے والے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے فیصلہ میں اس دھرنے کا نمایاں ذکر کیا ہے.چنانچہ وہ اپنے فیصلہ کے صفحہ 6 پر لکھتے ہیں: were Several people whose religious feelings outraged and hurt thronged Islamabad and staged a protest/sit-in near Faizabad which paralyzed life in the twin cities and brought the government machinery..grinding halt, though unadmitted,to an obvious 313

Page 332

ترجمہ: بہت سے لوگ جن کے مذہبی جذبات مشتعل اور مجروح ہوئے تھے اسلام آباد میں جمع ہوئے اور احتجاج کرتے ہوئے فیض آباد کے قریب دھرنا دے دیا.اس سے دونوں شہروں کی زندگی مفلوج ہوگئی اور گو کہ اس کا اعتراف نہیں کیا جا رہا تھا لیکن یہ واضح تھا کہ حکومت کی مشینری کو روک دیا گیا ہے.اسی طرح اس فیصلہ کے صفحہ 127 پر پھر یہ لکھا گیا ہے کہ چونکہ حکومت نے احمدیوں کے بارے میں بھر پور قانون سازی نہیں کی تھی ، اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ فیض آباد میں دھرنا دیا گیا اور حکومت کی مشینری ناکام ہو کر رہ گئی اور اس کے ساتھ یہ انتباہ بھی درج ہے کہ آئندہ بھی اس طرح حکومت کی مشینری کو مفلوج کیا جاسکتا ہے.شوکت عزیز صدیقی صاحب کے فیصلہ میں یہ بات زور دے کر لکھی گئی ہے کہ اس تنازعہ کے پیچھے کوئی Hidden Hand یعنی خفیہ ہاتھ کارفرما تھا اور اس خفیہ ہاتھ نے ان قوانین کو تبدیل کر دیا جن کو بنانے کے لئے مسلمانوں نے طویل جدو جہد کی تھی.(ملاحظہ کریں عدالتی فیصلہ کا صفحہ 9,7) اور ظاہر ہے کہ پوری قوم یہ تو جاننا چاہتی ہے کہ اگر کوئی خفیہ ہاتھ کارفرما تھا تو کون سا خفیہ ہاتھ تھا اور کس کی مدد کے لئے کام کر رہا تھا.یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے مقدمہ میں دوسرے درخواست گزاروں کے ساتھ تحریک لبیک پاکستان بھی بطور درخواست گزار 2017/3896 پیش ہوئی تھی اور جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ فیض آباد کے مقام پر دھرنا دینے اور فساد کرنے کا کا م کلی طور پر اسی جماعت نے سرنجام دیا تھا.جب تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دے کر اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگوں کا جینا دو بھر کیا تو پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس معاملہ کا suo moto ( از خود نوٹس لیا اور پاکستان کے اعلیٰ حکام اور ایجنسیوں کے عہدیداروں کو 314

Page 333

طلب کر کے ان واقعات کی تفتیش کی.اس کا رروائی کی سماعت پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم صاحب اور جسٹس فائز عیسی صاحب کر رہے تھے.اس مقدمہ کی سماعت 21 نومبر 2017 ء کو شروع کی گئی اور طویل تحقیقات کے بعد 6 فروری 2019 ء کو اس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا.اس فیصلہ میں لکھا گیا ہے کہ اس دھرنے کے ذریعہ ایسے راستہ کو روک دیا گیا جہاں سے روزانہ لاکھوں گاڑیاں گزرتی ہیں اور اس طرح اسلام آباد اور راولپنڈی کو مفلوج کر دیا.لوگوں کو ان کے روز مرہ کے کام پر جانے سے روکا گیا، طلباء اپنے کالج اور یو نیورسٹیوں کو نہ جا سکے، وکلاء عدالتوں تک نہ پہنچ سکے ، مریض ہسپتالوں تک نہ پہنچ سکے اور اس وجہ سے اموات بھی ہو ئیں اور اس دھرنا کے کرتا دھرتا نفرت انگیز تقاریر کرنے کے علاوہ دھمکیاں دیتے رہے اور گالی گلوچ کا طوفان برپا کرتے رہے اور اس کے بعد انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا جو اُن کے ساتھ اس فساد میں شامل نہ ہوا اُس پر خدا کا غضب نازل ہوگا.(فیصلہ سپریم کورٹ صفحہ 1 تا 5 ) جماعت احمدیہ کے جن مخالف مولوی صاحبان نے یہ دھرنا دیا ، وہ گالی گلوچ کے دوران یہ بھی اعلان کرتے رہے کہ وہ نعوذ باللہ یہ سب کچھ اسلام کی حفاظت کے لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کر رہے ہیں.پاکستان کی سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے اس پہلو کے بارے میں لکھا ہے: Islam The Constitution does not permit "the glory of " 118 to be denigrated.When a mob abuses, threatens and resorts to violence ostensibly in the 315

Page 334

name of Islam it does exactly this.True believers abhor such conduct.Slowly, and over a period of time, the real face of Islam is being effaced and the voices of believers, who practice akhlaq and aadab, have been muffled.Ironically, the most offensive speech and violent behavior purports to represent Islam and Muslims; this is against Islam and the Sunnah of Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him).The Constitution holds out the promise that Muslims will be enabled to live "in accordance with the fundamental principles and basec concepts of Islam" 119, and the State shall endeavour, "to promote unity and ovservance of the Islamic moral standard " 120.Abuse, threats and violence are the antithesis of Islamic moral standard.(page 37) ترجمہ: آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اسلام کی عظمت کو بدنام کیا جائے.جب ایک ہجوم بظاہر اسلام کے نام پر گالی گلوچ کرتا ہے، دھمکیاں دیتا ہے اور تشدد پر اُتر آتا ہے تو وہ یہی کر رہا ہوتا ہے.حقیقی مومن اس عمل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کیا جا رہا ہے اور ان مسلمانوں کی آواز کو جو اخلاق اور آداب کی رعایت رکھتے ہیں دبایا جارہا ہے.بدقسمتی سے بدترین بد گوئی اور تشدد 316

Page 335

کو اسلام اور مسلمانوں کا نمائندہ سمجھا جانے لگا ہے اور یہ طرز عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے سراسر خلاف ہے.عدالتی فیصلہ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے نزدیک جماعت احمدیہ کے مذکورہ مخالفین کے اس طبقہ کا رویہ ایسا تھا جو کہ اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کر کے پیش کر رہا تھا اور پھر اس عدالتی فیصلہ میں لکھا ہے کہ جب جماعت احمدیہ کے مخالفین کے اس گروہ نے اپنی مہم جوئی شروع کی تو بعض بے اصول میڈیا چینلز نے انہیں اس طرح کی مفت تشہیر مہیا کرنی شروع کی کہ تحریک لبیک نام کا یہ گمنام گروہ لوگوں کی نظروں میں آنا شروع ہو گیا اور اس کے نتیجہ میں یہ گالی گلوچ اور جارحانہ رویہ میں اور بھی ترقی کر گئے.(صفحہ 5,4) اس فیصلہ کی رو سے اس گروہ کی روش ایسی تھی کہ عام لوگوں کے وہ بنیادی انسانی حقوق بھی پامال ہونے لگے جن کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے.چنانچہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ میں لکھا ہے Abusing, threatening and attacking people underminers their right to live a life of "dignitly" (guaranteed under Article 14 (1) of the Constitution) (page 10) which requires enforcement.ترجمہ : گالیاں اور دھمکیاں دیتے ہوئے اور حملے کرتے ہوئے یہ لوگ دوسروں کے با وقار زندگی گزارنے کے حق کو بھی مجروح کرتے ہیں [ اس کی ضمانت آئین کی شق 14 (1) میں دی گئی ہے] جو کہ نافذ کئے جانے کا تقاضہ کرتی ہے.317

Page 336

قانون کے بارے میں اس پارٹی کا رویہ ایسا تھا کہ جب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے انہیں خط لکھا تو انہوں نے اس کے خط کی کوئی پرواہ نہیں کی.( عدالتی فیصلہ صفحہ (20) اور اس سیاسی جماعت کا رویہ ایسا تھا کہ جو بھی ایسا رویہ اپنائے گا وہ بغاوت کا مرتکب ہو گا جس کی سزا عمر قید ہے.عدالتی فیصلہ صفحہ (22) اس فیصلہ میں یہ تشویشناک انکشاف کیا گیا ہے کہ جب اس پارٹی کو الیکشن کمیشن کے روبرو رجسٹر کرایا گیا تو اس کام کے لئے متحدہ عرب امارات میں رہائشی ایک پاکستانی نے جس کے پاس سمندر پار مقیم پاکستانیوں کا کارڈ NICOP تھا اس نے پاکستان آکر اس کی رجسٹریشن کرائی تھی.یہ پہلو درج کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے اس فیصلہ میں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان کے انتخابی قوانین کی رو سے پاکستان میں کسی ایسی سیاسی پارٹی کی اجازت نہیں ہے جو کہ "Foreign Aided" ہو یعنی وہ بیرون ملک سے مالی مد دوصول کرتی ہو.( عدالتی فیصلہ صفحہ 24) اور پاکستان کے انتخابی قوانین کی رو سے پاکستان کی ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ اپنے فنڈ ز کا حساب الیکشن کمیشن کو مہیا کرے لیکن تحریک لبیک نے یہ تفصیل الیکشن کمیشن کو مہیا نہیں کی تھی کہ اس کے مالی وسائل کہاں سے آرہے ہیں.الیکشن کمیشن نے اس جماعت کو بار بار اس کی یاددہانی کرائی لیکن اس پارٹی نے پھر بھی یہ حساب جمع نہیں کرایا اور الیکشن کمیشن نے بھی اس کے نہ ملنے پر قانونی کارروائی نہیں کی.( عدالتی فیصلہ صفحہ 25 و 26 ) جب فیض آباد کے مقام پر دھرنا دے کر لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی جارہی تھیں اور 318

Page 337

طوفان بدتمیزی برپا کیا جارہا تھا تو اس گروہ کو ان دنوں میں کھانا کہاں سے مہیا کیا جا رہا تھا؟ ادارے آئی ایس آئی کی رپورٹ ہے کہ ایک ٹی وی چینل کی طرف سے ان لوگوں کو کھانا مہیا کیا جا رہا تھا.اس کے باوجود ان چینلز کی نگرانی کرنے والے ادارے نے اس چینل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی.پھر اس فیصلہ میں لکھا ہے ( عدالتی فیصلہ صفحہ (27) The hate which was spread and the violence which was incited through electronic means appears not to have been investigated, let alone the violators prosecuted and punished.If serious violations of the law are ignored them the law loses respect and efficacy.(page 28) الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ جو نفرت پھیلائی گئی اور لوگوں کو جو تشدد پر اکسایا گیا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سزاد ینا تو درکنار اس کی تحقیقات بھی نہیں کی گئیں.اگر قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو قانون کا احترام وافادیت ختم ہو جاتی ہے.حال ہی میں جماعت احمدیہ کے مخالفین نے کس طرح فساد بر پا کیا اس کا اندازہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے ہو جاتا ہے اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا.پاکستان میں یہ تاریخ بار بار دہرائی گئی ہے.خفیہ ہاتھ شورش کو بر پا کرارہے ہوتے ہیں، غیبی ہاتھ مالی وسائل مہیا کرتے ہیں اور تمام قوانین نظر انداز کر کے ان کو پنپنے کی سہولت مہیا کی جاتی ہے جیسا کہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ سے ظاہر ہے یہی ڈرامہ 1953 میں کیا گیا.یہی ڈرامہ 1974 میں ہوا.یہی ڈرامہ 1984 میں ہوا اور یہی بھونڈا ناٹک اب تک ہو رہا ہے اور 319

Page 338

پاکستان کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ ہٹ دھرمی سے جاری ہے اور خود سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ظاہر ہے کہ سزا دینا تو ایک طرف رہا، اس جرم کی تحقیقات بھی نہیں کی جار ہیں.وہ کون سے ہاتھ ہیں جو روک رہے ہیں.پڑھنے والوں کی خدمت میں یہ سوال پیش کر کے رخصت ہوتے ہیں کہ آخر کیوں؟“ 320

Page 338