Language: UR
تاریخی اہمیت کی یہ خاص تقریر 26 فروری 1919ء کو اسلامیہ کالج لاہور کی مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی کے ایک غیر معمولی اجلاس میں سید عبدالقادر صاحب پروفیسر تاریخ کی صدارت میں ہوئی۔ حضورؓ نے اپنے اس مقالہ میں حضرت عثمان غنی ؓ کے ابتدائی حالات، آپ کا مرتبہ رسول کریم ﷺ کی نظر میں،آپ کے زمانہ میں اٹھنے والا فتنہ کہاں پیدا ہوا، خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا، صحابہ کرام کی نسبت بدگمانی بلاوجہ ہے، نیز فتنہ کی وجوہ، اس کے اسباب و عوامل نیز فتنہ کے بانی مبانی عبداللہ بن سبا کے حالات اور اس ضمن میں کوفہ، بصرہ، شام اور وہاں کے مسلمانوں کے عمومی مزاج پر بھی روشنی ڈالی۔ الغرض مسحور کردینے والی تحقیق اور چونکا دینے والے نکات و تجزیات سے بھرپور یہ ٹھوس علمی لیکچر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بلند مقام اور فتنہ و فساد سے وریٰ الوراء کردار اور اوصاف حمیدہ بیان کرنے والا ہے۔ اور تاریخ اسلام کو سمجھنے کی درست راہیں دکھانے والا ہے۔
اسلام میں اختلافات کا آغاز حضرت مرزا بشیرالدین محمداحمد مصلح الموعوخليفة اسم الثانی رضی اللہعنہ
نام کتاب اسلام میں اختلافات کا آغاز مصنف حضرت مرزا بشیر الدین محمود اما اصلح المحمد قلين السن الثاني رضي الله عنه لمصل سن اشاعت مارچ2012ء تعداد 2000 شائع کرد نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان مطع ضلع گورداسپور پنجاب انڈیا 143516 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN: 81-7912-151-8
بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد مصلح الموعود علینہ اسی الائی نے ۲۶ فروری ۱۹۱۹ء کو مارٹن ہسٹار یکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے ایک اجلاس میں تاریخ اسلام کے اُس زمانہ کے بارے میں خطاب فرمایا جس میں مسلمانوں میں اختلافات کا آغاز ہوا اور جو مسلمانوں کے لئے ایک پیچیدہ مسئلہ ہے.یعنی اسلام میں جو تفرقہ کی بنیاد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے پندرہ سال بعد پڑی اس کی وجوہات اور اس کی حقیقت پر.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اس لیکچر میں اسلامی تاریخ کے اس پیچیدہ حصہ کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ مدلل تاریخی حوالہ جات سے حل کرتے ہوئے حاضرین جلسہ کے سامنے اس فتنہ کے وجوہات کو عمدہ طریق پر واضح کیا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس تقریر کی تمہید میں یہ بیان فرمایا ہے کہ آباء واجداد کے حالات کی واقفیت بہت سے اعلیٰ مقاصد کی طرف رہنمائی کرتی ہے......اور ان کو معلوم ہوگا کہ ہم کیسے آباء کی اولا د ہیں اور ان کی ذریت اور قائمقام ہونے کی حیثیت سے ہم پر کیا فرائض عائد ہیں.یا درکھنا چاہئے کہ اسلام کی ترقی کا انحصار اور اس کے غلبہ کا دارو مدار ، اللہ تعالیٰ کی قدرت ثانیہ خلافت کا بابرکت روحانی نظام ہے.اور خلافت کے قیام کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے فرمایا ہے جو ایمان اور اعمال صالحہ میں اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں.
امت مسلمہ اپنی کوتاہی اور کمزوری کے نتیجہ میں اس نعمت عظمی سے چودہ سو سال کے طویل عرصہ تک محروم رہی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ایک بار پھر امت کو خلافت علی منھاج النبوۃ کی نعمت سے نوازا ہے.اللہ تعالیٰ ہم کو بھی اور ہماری آئندہ نسلوں کو بھی خلافت کے ساتھ وابستہ رکھے اور اس کے فیوض و برکات سے تاقیامت مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اللہ تعالیٰ کا بے حد فضل واحسان ہے کہ اس کی توفیق سے خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں نظارت نشر و اشاعت قادیان سید نا حضرت امیر المومنین خلیفه لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے اس کتاب کو کمپوز کر کے پہلی بار شائع کر رہی ہے.الحمد للہ علی ذلک اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص و وفا، اطاعت وفرمانبرداری، پیار و محبت میں اعلیٰ نمونہ پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاكسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اسلامی تاریخ سے واقفیت کی ضرورت ( تقریر حضرت فضل عمر خلیفہ المی الثانی رضی اللہ تعالی عنہ جو آپ نے 26 فروری 1919 ء کو مارٹن ہسٹار یکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے ایک اجلاس میں فرمائی ) کچھ عرصہ ہوا میں نے یہ بات نہایت خوشی کے ساتھ سنی تھی کہ اسلامیہ کالج لاہور میں ایک ایسی سوسائٹی قائم ہوئی ہے جس میں تاریخی امور سے واقف کارا اپنی اپنی تحقیقات بیان کیا کریں گے.مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کیونکہ اقوام کی ترقی میں تاریخ سے آگاہ ہونا ایک بہت بڑا محرک ہوتا ہے اور کوئی ایسی قوم جو اپنی گذشتہ تاریخی روایات سے واقف نہ ہو کبھی ترقی کی طرف قدم نہیں مارسکتی.اپنے آباء واجداد کے حالات کی واقفیت بہت سے اعلیٰ مقاصد کی طرف رہنمائی کرتی ہے.پس جب اس سوسائٹی کے قائم ہونے کا مجھے علم ہوا تو اس خیال سے کہ اس میں جہاں اور تاریخی مضامین پرلیکچر ہوں گے وہاں اسلامی تاریخ پر ایسے لیکچر ہوا کریں گے جن سے کالجوں کے طالب علم اندازہ کر سکیں گے کہ ان کے آباء واجداد کے ذمہ کیسے کیسے مشکل کام پڑتے رہے ہیں اور وہ کس خوش اسلوبی اور کیسے استقلال کے ساتھ ان کو کرتے رہے ہیں.اور ان کو معلوم ہوگا کہ ہم کیسے آباء کی اولاد ہیں اور ان کی ذریت اور قائمقام ہونے کی حیثیت سے ہم پر کیا فرائض عائد ہیں.اور ان کو اپنے آباء کے شاندار اعمال اور ان کی اعلیٰ شان کو دیکھ کر انہی جیسا بننے کا خیال پیدا ہوگا.پس مجھے اس سوسائٹی کے قائم ہونے پر بہت خوشی ہوئی اور اب جب کہ مجھ سے اس سوسائٹی میں اسلامی 1
تاریخ کے کسی حصہ پر لیکچر دینے کے لئے کہا گیا تو میں نے نہایت خوشی سے اپنی روانگی ملتوی کر کے اس موقع پر آپ لوگوں کے سامنے بعض تاریخی مضامین پر اپنی تحقیقات کا بیان کرنا منظور کرلیا.مضمون کی اہمیت مجھ سے کہا گیا تھا کہ میں بعض اسلامی تاریخی مسائل پر کچھ بیان کروں اور گو اسلامی تاریخ میں سب سے اہم وہ زمانہ ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دنیا میں اسلام کا اعلان کیا اور تمیش سالہ محنت شاقہ سے لاکھوں آدمیوں کے دلوں میں اس کا نقش ثبت کیا اور ہزاروں آدمیوں کی ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جس کا فکر ، قول اور فعل اسلام ہی ہو گیا.مگر چونکہ اسلام میں تفرقہ کی بنیا د رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پندرہ سال بعد پڑی ہے.اور اس وقت کے بعد مسلمانوں میں شقاق کا شگاف وسیع ہی ہوتا چلا گیا ہے اور اسی زمانہ کی تاریخ نہایت تاریک پردوں میں چھپی ہوئی ہے اور اسلام کے دشمنوں کے نزدیک اسلام پر ایک بدنما دھبہ ہے اور اس کے دوستوں کے لئے بھی ایک سر چکرا دینے والا سوال ہے اور بہت کم ہیں جنہوں نے اس زمانہ کی تاریخ کی دلدل سے صحیح وسلامت پار ٹکنا چاہا ہو اور وہ اپنے مدعا میں کامیاب ہو سکے ہوں.اس لئے میں نے یہی پسند کیا کہ آج آپ لوگوں کے سامنے اسی کے متعلق کچھ بیان کروں.اسلام کا شاندار ماضی آپ لوگ جانتے ہوں گے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہوا ہے ( یعنی جماعت احمدیہ کی تربیت اور اس کی ضروریات کا انصرام اور اس کی ترقی کی فکر ) وہ اپنی 2
نوعیت میں بہت سی شقوں پر حاوی ہے.پس اس کے انصرام کے لئے ان خاص تاریخی مضامین کا جو زمانہ خلافت سے متعلق ہیں علم رکھنا میرے لئے ایک نہایت ضروری امر ہے اور اس لئے باوجود کم فرصتی کے مجھے اس زمانہ کی تاریخ کوزیر مطالعہ رکھنا پڑتا ہے.اور گو ہمارا اصل کام مذہب کی تحقیق و تدقیق ہے مگر اس مطالعہ کے باعث ابتدائے اسلام کی تاریخ کے بعض ایسے پوشیدہ امر مجھ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہوئے ہیں جن سے اس زمانہ کے اکثر لوگ ناواقف ہیں.اور اس ناواقفیت کے باعث بعض مسلمان تو اپنے مذہب سے بیزار ہورہے ہیں اور ان کو اپنا ماضی ایسا بھیا نک نظر آرہا ہے کہ اس کی موجودگی میں وہ کسی شاندار مستقبل کی امید نہیں رکھ سکتے.مگر ان کی یہ مایوسی غلط اور ان کے ایسے خیالات نا درست ہیں اور صرف اس امر کا نتیجہ ہیں کہ ان کو صحیح اسلامی تاریخ کا علم نہیں ورنہ اسلام کا ماضی ایسا شاندار اور بے عیب ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ سب کے سب ایسے اعلیٰ درجہ کے با اخلاق لوگ ہیں کہ ان کی نظیر دنیا کی کسی قوم میں نہیں ملتی خواہ وہ کسی نبی کے صحبت یافتہ کیوں نہ ہوں.اور صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ لوگ ہی ہیں جن کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے استاد اور آقا کے نقش قدم پر چل کر ایسی روحانیت پیدا کر لی تھی کہ سیاسیات کی خطرناک الجھن میں پڑ کر بھی انہوں نے تقویٰ اور دیانت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا.اور سلطنت کے بار کے نیچے بھی ان کی کمر ایسی ہی ایستادہ رہی جیسی کہ اس وقت جب ” قوت لایموت“ کے وہ محتاج تھے اور ان کا فرش مسجد نبوی کی بے فرش زمین تھی اور ان کا تکیہ ان کا اپنا ہاتھ ، ان کا شغل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام مبارک سننا تھا اور ان کی تفریح خدائے واحد کی عبادت تھی.3
اسلام کے اولین فدائی حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنھما غالباً آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا ارادہ اس وقت حضرت عثمان اور حضرت علی کی خلافت کے متعلق کچھ بیان کرنے کا ہے.یہ دونوں بزرگ اسلام کے اولین فدائیوں میں سے ہیں.اور ان کے ساتھی بھی اسلام کے بہترین ثمرات میں سے ہیں.ان کی دیانت اور ان کے تقویٰ پر الزام کا آنا در حقیقت اسلام کی طرف عار کا منسوب ہونا ہے.اور جو مسلمان بھی سچے دل سے اس حقیقت پر غور کرے گا اس کو اس نتیجہ پر پہنچنا پڑے گا کہ ان لوگوں کا وجود در حقیقت تمام قسم کی دھڑا بندیوں سے ارفع اور بالا ہے.اور یہ بات بے دلیل نہیں بلکہ تاریخ کے اوراق اس شخص کے لئے جو آنکھ کھول کر ان پر نظر ڈالتا ہے اس امر پر شاہد ہیں.غیر مسلم مؤرخین کی غلط بیانیاں جہاں تک میری تحقیق ہے ان بزرگوں اور ان کے دوستوں کے متعلق جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ اسلام کے دشمنوں کی کاروائی ہے اور گو صحابہ کے بعد بعض مسلمان کہلانے والوں نے بھی اپنی نفسانیت کے ماتحت ان بزرگوں میں سے ایک یا دوسرے پر اتہام لگائے ہیں لیکن باوجود اس کے صداقت ہمیشہ بلند و بالا رہی ہے اور حقیقت کبھی پردہ اخفاء کے نیچے نہیں چھپی.ہاں اس زمانہ میں جب کہ مسلمان اپنی تاریخ سے ناواقف ہو گئے اور خود اپنے مذہب پر ان کو آگا ہی نہیں رہی اسلام کے دشمنوں نے یا تو بعض دشمنوں کی روایات کو تاریخ اسلام سے چن کر یا صحیح واقعات سے غلط نتائج اخذ کر کے ایسی تاریخیں بنا 4
دیں کہ جن سے صحابہ اور ان کے ذریعہ سے اسلام پر حرف آوے.چونکہ اس وقت مسلمانوں کی عینک جس سے وہ ہر ایک چیز کو دیکھتے ہیں یہی غیر مسلم مؤرخ ہو رہے ہیں اس لئے جو کچھ انہوں نے بتایا انہوں نے قبول کر لیا.جن لوگوں کو خود عربی تاریخیں پڑھنے کا موقع ملا بھی انہوں نے بھی یورپ کی ہائر کریٹیسیزم (Higher Criticism) (اعلی طریق تنقید سے ڈر کر ان بے سروپا اور جعلی روایات کو جن پر یورپین مصنفوں نے اپنی تحقیق کی بناء رکھی تھی صحیح اور مقدم سمجھا اور دوسری روایات کو غلط قرار دیا.اور اس طرح یہ زمانہ ان لوگوں سے تقریباً خالی ہو گیا جنہوں نے واقعات کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی کوشش کی.اسلام میں فتنوں کے اصلی موجب صحابہ نہ تھے اس بات کو خوب یاد رکھو کہ یہ خیال کہ اسلام میں فتنوں کے موجب بعض بڑے بڑے صحابہ ہی تھے بالکل غلط ہے.ان لوگوں کے حالات پر مجموعی نظر ڈالتے ہوئے یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اپنے ذاتی اغراض یا مفاد کی خاطر انہوں نے اسلام کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی.جن لوگوں نے صحابہ کی جماعت میں مسلمانوں میں اختلاف و شقاق نمودار ہونے کی وجوہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے سخت غلطی کھائی ہے.فتنہ کی وجوہ اور جگہ پیدا ہوئی ہیں اور وہیں ان کی تلاش کرنے پر کی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی امید کی جا سکتی ہے.جو غلط روایات اس زمانہ کے متعلق مشہور کی گئی ہیں اگر ان کو صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو ایک صحابی بھی نہیں بچتا جو اس فتنہ میں حصہ لینے سے محفوظ رہا ہو اور ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو تقویٰ اور دیانت پر مضبوطی سے قائم رہا ہو اور یہ اسلام کی صداقت پر ایک ایسا حملہ
ہے کہ پیچ و بنیاد اس سے اکھڑ جاتی ہے.حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہنچانا جاتا ہے.اور ان روایات کے بموجب اسلام کے درخت کے پھل ایسے کڑوے ثابت ہوتے ہیں کہ کہ کچھ خرچ کرنا تو الگ رہا مفت بھی اس کے لینے کے لئے کوئی تیار نہ ہوگا.مگر کیا کوئی شخص جس نے رسول کریم کی قوت قدسیہ کا ذرا بھی مطالعہ کیا ہو.اس امر کے تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.یہ خیال کرنا بھی بعید از عقل ہے کہ جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی آپ کے جلیل القدر اور جاں نثار صحابہ تھے اور آپ سے نہایت قریبی رشتے اور تعلق رکھتے تھے وہ بھی اور ان کے علاوہ تمام دیگر صحابہؓ بھی بلا استثناء چند ہی سال میں ایسے بگڑ گئے کہ صرف ذاتی اغراض کے لئے نہ کہ کسی مذہبی اختلاف کی بناء پر ایسے اختلافات میں پڑ گئے کہ اس کے صدمہ سے اسلام کی جڑ ہل گئی.مگر افسوس ہے کہ گو مسلمان لفظا تو نہیں کہتے کہ صحابہ نے اسلام کو تباہ و برباد کرنے کے لئے فتنے کھڑے کئے.لیکن انہوں نے ایسے لوگوں کی روایتوں کو سچا سمجھ کر جنہوں نے اسلام اچھی طرح قبول نہیں کیا تھا اور صرف زبانی اقرار اسلام کیا تھا اور پھر ایسے لوگوں کی تحقیقات پر اعتبار کر کے جو اسلام کے سخت دشمن اور اس کے مثانے کے درپے ہیں ایسی باتوں کو تسلیم کر رکھا ہے جن کے تسلیم کرنے سے لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ صحابہ کی جماعت نعوذ باللہ تقویٰ اور دیانت سے بالکل خالی تھی.اے میں اپنے بیان میں اس امر کا لحاظ رکھوں گا کہ تاریخیں وغیرہ نہ آویں تا کہ سمجھنے میں دقت نہ ہو اور مضمون پیچ دار نہ ہو جائے.کیونکہ میرے اس لیکچر کی اصل غرض ابتدائے اسلام کے بعض اہم واقعات سے کالجوں کے طلباء کو واقف کرنا ہے.اور اسی وجہ سے ہی 6
عربی عبارات کے بیان کرنے سے بھی حتی الوسع اجتناب کروں گا اور واقعات کو حکایت کے طور پر بیان کروں گا.اختلافات کا ظہور خلیفہ ثالث کے زمانہ میں کیوں ہوا؟ یہ بات تمام تعلیم یافتہ مسلمانوں پر روشن ہوگی کہ مسلمانوں میں اختلاف کے آثار نمایاں طور پر خلیفہ ثالث کے عہد میں ظاہر ہوئے تھے.ان سے پہلے حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کے عہد میں اختلاف نے کبھی سنجیدہ صورت اختیار نہیں کی اور مسلمانوں کا کلمہ ایسا متحد تھا کہ دوست و دشمن سب اس کے افتراق کو ایک غیر ممکن امر خیال کرتے تھے اور اسی وجہ سے عموماً لوگ اس اختلاف کو خلیفہ ثالث کی کمزوری کا نتیجہ قرار دیتے ہیں.حالانکہ جیسا میں آگے چل کر بتاؤں گا واقعہ یوں نہیں.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی حالات حضرت عمرؓ کے بعد تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی نظر مسند خلافت پر بیٹھنے کے لئے حضرت عثمان پر پڑی.اور آپ اکابر صحابہ کے مشورہ سے اس کام کے لئے منتخب کئے گئے.آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اور یکے بعد دیگرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں آپ سے بیاہی گئیں.اور جب دوسری لڑکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فوت ہوئی تو آپ نے فرمایا اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اسے بھی حضرت عثمان سے بیاہ دیتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی علیہ وسلم کی نظر میں آپ کو خاص قدر ومنزلت حاصل تھی.آپ اہل مکہ کی نظر میں نہایت ممتاز حیثیت رکھتے اور اس وقت ملک عرب کے حالات کے مطابق مالدار آدمی تھے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام ย
اختیار کرنے کے بعد جن خاص خاص لوگوں کو تبلیغ اسلام کے لئے منتخب کیا ان میں ایک حضرت عثمان بھی تھے.اور آپ پر حضرت ابو بکر کا گمان غلط نہیں گیا بلکہ تھوڑے دنوں کی تبلیغ سے ہی آپ نے اسلام قبول کر لیا.اور اس طرح السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ میں یعنی اسلام میں داخل ہونے والے اس پیشرو گردہ میں شامل ہوئے جن کی قرآن کریم نہایت قابل رشک الفاظ میں تعریف فرماتا ہے.عرب میں انہیں جس قدر عزت اور تو قیر حاصل تھی اس کا کسی قدر پتہ اس واقعہ سے لگ سکتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رؤیا کی بناء پر مکہ تشریف لائے اور اہل مکہ نے بغض و کینہ سے اندھے ہو کر آپ کو عمرہ کرنے کی اجازت نہ دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا کہ کسی خاص معتبر شخص کو اہل مکہ کے پاس اس امر پر گفتگو کرنے کے لئے بھیجا جاوے اور حضرت عمر کو اس کے لئے انتخاب کیا.حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ میں تو جانے کو تیار ہوں مگر مکہ میں اگر کوئی شخص ان سے گفتگو کر سکتا ہے تو وہ حضرت عثمان ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کی نظر میں خاص عزت رکھتا ہے.پس اگر کوئی دوسرا شخص گیا تو اس پر کامیابی کی اتنی امید نہیں ہو سکتی جتنی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ہے.اور آپ کی اس بات کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی درست تصور کیا اور انہیں کو اس کام کے لئے بھیجا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کفار میں بھی خاص عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.حضرت عثمان کا مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا بہت احترام فرماتے تھے ایک دفعہ آپ لیٹے ہوئے تھے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور آپ اسی طرح لیٹے رہے.پھر 8
حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تب بھی آپ اسی طرح لیٹے رہے.پھر حضرت عثمان تشریف لائے تو آپ نے جھٹ اپنے کپڑے سمیٹ کر درست کر لئے اور فرمایا کہ حضرت عثمان کی طبیعت میں حیا بہت ہے اس لئے میں اس کے احساسات کا خیال کر کے ایسا کرتا ہوں.(مسلم كتاب فضائل الصحابة رضى الله عنهم باب من فضائل عثمان بن عفان (آپ ان شاذ آدمیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اسلام کے قبول کرنے سے پہلے بھی کبھی شراب کو منہ نہیں لگایا اور زنا کے نزدیک نہیں گئے.اور یہ ایسی خوبیاں ہیں جو عرب کے ملک میں جہاں شراب کا پینا فخر اور زنا ایک روز مرہ کا شغل سمجھا جاتا تھا اسلام سے پہلے چند گنتی کے آدمیوں سے زیادہ لوگوں میں نہیں پائی جاتی تھیں.غرض آپ کوئی معمولی آدمی نہ تھے.نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق آپ میں پائے جاتے تھے.دنیاوی وجاہت کے لحاظ سے آپ نہایت ممتاز تھے.اسلام میں سبقت رکھتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر نہایت خوش تھے.اور حضرت عمر نے آپ کو ان چھ آدمیوں میں سے ایک قرار دیا ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تک آپ کے اعلیٰ درجہ کی خوشنودی کو حاصل کئے رہے.اور پھر آپ عشرہ مبشرہ میں سے ایک فرد ہیں یعنی ان دس آدمیوں میں سے ایک ہیں جن کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی.۲ (ترمذی ابواب المناقب مناقب عبدالرحمن بن عرف) آپ کے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے چھ سال تک حکومت میں کسی قسم کا کوئی فتنہ نہیں اٹھا بلکہ لوگ آپ سے بالعموم بہت خوش تھے.اس کے بعد یکدم ایک ایسا فتنہ پیدا ہوا جو بڑھتے بڑھتے اس قدر ترقی کر گیا کہ کسی کے روکے نہ رک سکا.اور انجام کار اسلام 9
کے لئے سخت مضر ثابت ہوا.تیرہ سو برس گزر چکے ہیں مگر اب تک اس کا اثر امت اسلامیہ میں سے زائل نہیں ہوا.فتنہ کہاں سے پیدا ہوا؟ اب سوال یہ ہے کہ یہ فتنہ کہاں سے پیدا ہوا؟ اس کا باعث بعض لوگوں نے حضرت عثمان کو قرار دیا ہے اور بعض نے حضرت علی کو.بعض کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے بعض بدعتیں شروع کر دی تھیں جن سے مسلمانوں میں جوش پیدا ہو گیا.اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت علی نے خلافت کے لئے خفیہ کوشش شروع کر دی تھی اور حضرت عثمان کے خلاف مخالفت پیدا کر کے انہیں قتل کرا دیا تا کہ خود خلیفہ بن جائیں.لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں نہ حضرت عثمان نے کوئی بدعت جاری کی اور نہ حضرت علی نے خود خلیفہ بننے کے لئے انہیں قتل کرایا یا ان کے قتل کے منصوبہ میں شریک ہوئے بلکہ اس فتنہ کی اور ہی وجوہات تھیں.حضرت عثمان اور حضرت علی کا دامن اس قسم کے الزامات سے بالکل پاک ہے وہ نہایت مقدس انسان تھے.حضرت عثمان" تو وہ انسان تھے جن کے متعلق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے اسلام کی اتنی خدمات کی ہیں کہ وہ اب جو چاہیں کریں خدا ان کو نہیں پوچھے گا.( ترمذی ابواب المناقب باب مناقب عثمان بن عفان ) اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ خواہ وہ اسلام سے ہی برگشتہ ہو جائیں تو بھی مؤاخذہ نہیں ہوگا.بلکہ یہ تھا کہ ان میں اتنی خوبیاں پیدا ہوگئی تھیں اور وہ نیکی میں اس قدر ترقی کر گئے تھے کہ یہ مکن ہی نہ رہا تھا کہ ان کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو.پس حضرت عثمان ایسے انسان نہ تھے کہ وہ کوئی خلاف شریعت بات جاری کرتے اور نہ حضرت علی ایسے انسان تھے کہ 10
خلافت کے لئے خفیہ منصوبے کرتے جہاں تک میں نے غور کیا اور مطالعہ کیا ہے اس فتنہ ہائلہ کی چار وجوہ ہیں.فتنے کی چار وجوہ اوّل : عموماً انسانوں کی طبیعت حصول جاہ و مال کی طرف مائل رہتی ہے سوائے ان لوگوں کے جن کے دلوں کو خدائے تعالیٰ نے خاص طور پر صاف کیا ہو.صحابہ کی عزت ان کے مرتبہ اور ان کی ترقی اور حکومت کو دیکھ کر نو مسلموں میں سے بعض لوگ جو کامل الایمان نہ تھے حسد کرنے لگے.اور جیسا کہ قدیم سے سنت چلی آئی ہے اس بات کی امید کرنے لگے کہ یہ لوگ حکومت کے کاموں سے دست بردار ہوکر سب کام ہمارے ہاتھوں میں دے دیں اور کچھ اور لوگوں کو بھی اپنا جو ہر دکھانے کا موقع دیں.ان لوگوں کو یہ بھی بُرا معلوم ہوتا تھا کہ علاوہ اس کے کہ حکومت صحابہ کے قبضہ میں تھی اموال میں بھی ان کو خاص طور پر حصہ ماتا تھا.پس یہ لوگ اندر ہی اندر جلتے رہتے تھے اور کسی ایسے تغیر کے منتظر تھے جس سے یہ انتظام درہم برہم ہو کر حکومت ان لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے.اور یہ بھی اپنے جوہر لیاقت دکھاویں اور دنیاوی وجاہت اور اموال حاصل کریں.دنیاوی حکومتوں میں ایسے خیالات ایک حد تک قابل معافی ہو سکتے ہیں بلکہ بعض اوقات معقول بھی کہلا سکتے ہیں.کیونکہ اول دنیاوی حکومتوں کی بنیاد کلی طور پر ظاہری اسباب پر ہوتی ہے اور ظاہری اسباب ترقی میں سے ایک بہت بڑا سبب نئے خیالات اور نئی روح کا قالب حکومت میں داخل کرنا بھی ہے.جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ پہلے کام کرنے والے خود بخود کام سے علیحدگی اختیار کر کے دوسروں کے لئے جگہ چھوڑ دیں.11
دوم: حکومت دنیاوی کو چونکہ نیابت عامہ کے طور پر اختیارات ملتے ہیں اس لئے عوام کی رائے کا احترام اس کے لئے ضروری ہے اور لازم ہے کہ وہ لوگ اس کے کاموں کے انصرام میں خاص دخل رکھتے ہوں جو عوام کے خیالات کے ترجمان ہوں.مگر دینی سلسلہ میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہاں ایک مقررہ قانون کی پابندی سب اصول سے مقدم اصل ہوتا ہے اور اپنے خیالات کا دخل سوائے ایسی فروعات کے جن سے شریعت نے خود خاموشی اختیار کی ہو قطعاً ممنوع ہے.دوم دینی سلسلوں کو اختیارات خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں اور اس کی زمام انتظام جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ان کا فرض ہوتا ہے کہ امور دینیہ میں وہ لوگوں کو راستہ سے ادھر ادھر نہ ہونے دیں.اور بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کریں ان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے خیالات کو اس سانچہ میں ڈھالیں جو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کی ضروریات کے مطابق تیار ہوا ہے.خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا غرض اسلام کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ اعتراضات ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے تھے.وہ نہ سوچتے تھے کہ خلافت اسلامیہ کوئی دنیاوی حکومت نہ تھی نہ صحابہ عام امرائے دولت.بلکہ خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا اور قرآن کریم کے خاص احکام مندرجہ سورہ نور کے مطابق قائم کیا گیا تھا.اور صحابہ وہ ارکان دین تھے کہ جن کی اتباع روحانی مدارج کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے فرض کی تھی.صحابہ نے اپنے کاروبار کو ترک کر کے، ہر قسم کی مسکنت اور غربت کو اختیار کر کے، اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر، 12
اپنے عزیز و اقرباء کی صحبت و محبت کو چھوڑ کر اپنے وطنوں کو خیر باد کہہ کر، اپنے خیالات و جذبات کو قربان کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و محبت کو اختیار کیا تھا اور بعض نے قریباً ایک چوتھائی صدی آپ کی شاگردی اختیار کر کے اسلام کو سبقاً سبقاً پڑھا تھا.اور اس پر عمل کر کے اسکا عملی پہلو مضبوط کیا تھا.وہ جانتے تھے کہ اسلام سے کیا مطلب ہے.اس کی کیا غرض ہے.اس کی کیا حقیقت ہے.اس کی تعلیم پر کس طرح عمل کرنا چاہئے.اور اس پر عمل کر کے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.پس وہ کسی دنیاوی حکومت کے بادشاہ اور اس کے ارکان نہ تھے.وہ سب سے آخری دین اور خاتم النبین کی لائی ہوئی شریعت کے معلم تھے.اور ان پر فرض کیا گیا تھا کہ اپنے عمل سے، اپنے قول سے، اپنی حرکات سے، اپنی سکنات سے اسلام کی ترجمانی کریں اور اس کی تعلیم لوگوں کے دلوں میں نقش کریں اور ان کے جوارح پر اس کو جاری کریں.وہ استبداد کے حامی نہ تھے بلکہ شریعت غراء کے حامی تھے.وہ دنیا سے متنفر تھے.اور اگر ان کا بس ہوتا تو دنیا کو ترک کر کے گوشہ ہائے تنہائی میں جا بیٹھتے اور ذکر خدا سے اپنے دلوں کو راحت پہنچاتے.مگر وہ اس ذمہ داری سے مجبور تھے جس کا بوجھ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کندھوں پر رکھا تھا.سلے پس وہ جو کچھ کرتے تھے اپنی خواہش سے نہیں کرتے تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور اس کے رسول کی ہدایات کے مطابق کرتے تھے.اور ان پر حسد کرنا یا بدگمانی کرنا ایک خطر ناک غلطی تھی.باقی رہا یہ اعتراض کہ صحابہ کو خاص طور پر اموال کیوں دیئے جاتے تھے یہ بھی ایک وسوسہ تھا.کیونکہ صحابہ کو جو کچھ ملتا تھا ان کے حقوق کے مطابق ملتا تھا.وہ دوسرے لوگوں کے حقوق دبا کر نہیں لیتے تھے.بلکہ ہر ایک شخص خواہ وہ کل کا مسلمان ہوا اپنا حق اسی طرح پاتا تھا جس طرح ایک سابق بالایمان.ہاں صحابہ کا کام اور ان کی محنت اور 13
قربانی دوسرے لوگوں سے بڑھی ہوئی تھی اور ان کی پرانی خدمات اس پر مستزاد تھیں.پس وہ ظلماً نہیں بلکہ انصافاً دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حق دار تھے.اس لئے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ بدلہ پاتے تھے.انہوں نے اپنے حصے خود نہ مقرر کئے تھے بلکہ خدا اور اس کے رسول نے ان کے حصے مقرر کئے تھے.اگر ان لوگوں کے ساتھ خاص معاملہ نہ کیا جا تا تو وہ پیشگوئیاں کیونکر پوری ہوتیں.جو قر آن کریم اور احادیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ان لوگوں کی ترقی اور ان کے اقبال اور ان کی رفاہت اور ان کے غناء کی نسبت کی گئی تھیں.اگر حضرت عمر کسریٰ کی حکومت کے زوال اور اس کے خزانوں کی فتح پر کسری کے کڑے سراقہ بن مالک کو نہ دیتے اور نہ پہناتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بات کیونکر پوری ہوتی کہ میں سراقہ کے ہاتھ میں کسری کے کڑے دیکھتا ہوں.مگر میں یہ بھی کہوں گا کہ صحابہ کو جو کچھ ملتا تھا دوسروں کا حق مار کر نہ ملتا تھا بلکہ ہر ایک شخص جو ذرا بھی حکومت کا کام کرتا تھا اس کو اس کا حق دیا جاتا تھا.اور خلفاء اس بارے میں نہایت محتاط تھے.صحابہ کو صرف انکا حق دیا جاتا تھا.اور وہ انکے کام اور ان کی سابقہ خدمات کے لحاظ سے بے شک دوسروں سے زیادہ ہوتا تھا.اور پھر ان میں سے ایک حصہ موجودہ جنگوں میں بھی حصہ لیتا تھا اور اس خدمت کے صلہ میں بھی وہ ویسے ہی بدلہ کا مستحق ہوتا جیسے کہ اور لوگ.مگر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ ان اموال کو جمع کرنے یا ان کو اپنے نفسوں پر خرچ کرنے کے عادی نہ تھے بلکہ وہ اپنا حصہ صرف خدا اور رسول کے کلام کو سچا کرنے کے لئے لیتے تھے ورنہ ان میں سے ہر ایک اپنی سخاوت اور اپنی عطا میں اپنی نظیر آپ تھا اور ان کے اموال صرف غرباء کی کفالت اور ان کی خبر گیری میں صرف ہوتے تھے.14
صحابہ کی نسبت بدگمانی بلا وجہ ہے غرض صحابہ کی نسبت جو بعض لوگوں کو حسد اور بدگمانی پیدا ہوگئی تھی بلا وجہ اور بلا سبب تھی.مگر بلا وجہ ہو یا با وجہ اس کا بیج بویا گیا تھا اور دین کی حقیقت سے ناواقف لوگوں میں سے ایک طبقہ ان کو غاصب کی حیثیت میں دیکھنے لگا تھا اور اس بات کا منتظر تھا کہ کب کوئی موقع ملے اور اُن لوگوں کو ایک طرف کر کے ہم حکومت و اموال حکومت پر تصرف کریں.دوسری وجہ اس فساد کی یہ تھی کہ اسلام نے حریت فکر اور آزادی عمل اور مساوات افراد کے ایسے سامان پیدا کر دیئے تھے جو اس سے پہلے بڑے سے بڑے فلسفیانہ خیالات کے لوگوں کو بھی میسر نہ تھے.اور جیسا کہ قاعدہ ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے اندر مخفی طور پر بیماریوں کا مادہ رکھتے ہیں وہ اعلیٰ سے اعلیٰ غذا سے بھی بجائے فائدہ کے نقصان اٹھاتے ہیں.اس حریت فکر اور آزادی عمل کے اصول سے کچھ لوگوں نے بجائے فائدہ کے نقصان اٹھایا اور اس کی حدود کو قائم نہ رکھ سکے.اس مرض کی ابتداء تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی ہوئی جب کہ ایک ناپاک روح نام کے مسلم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر آپ کی نسبت یہ الفاظ کہے کہ یا رسول اللہ! تقویٰ اللہ سے کام لیں کیونکہ آپ نے تقسیم مال میں انصاف سے کام نہیں لیا.جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِنْضِئِي هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ.(بخاري كتاب المغازی باب بعث علی ابن ابی طالب و خالد ابن الوليد الى اليمن قبل حجۃ الوداع) یعنی اس شخص کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جو قرآن کریم بہت پڑھیں گے لیکن وہ ان کے 15
گلے سے نہیں اترے گا.اور وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جس طرح تیر اپنے نشانہ سے نکل جاتا ہے.دوسری دفعہ ان خیالات کی دبی ہوئی آگ نے ایک شعلہ حضرت عمرہ کے وقت میں مارا جب کہ ایک شخص نے برسر مجلس کھڑے ہو کر حضرت عمر” جیسے بے نفس انسان اور امت محمدیہ کے اموال کے محافظ خلیفہ پر اعتراض کیا کہ یہ گرتا آپ نے کہاں سے بنوایا ہے.مگر ان دونوں وقتوں میں اس فتنہ نے کوئی خوفناک صورت اختیار نہیں کی کیونکہ اس وقت تک اس کے نشونما پانے کے لئے کوئی تیار شدہ زمین نہ تھی.اور نہ موسم ہی موافق تھا.ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت میں یہ دونوں باتیں میسر آگئیں اور یہ پودا جسے میں اختلال کا پودا کہوں گا ایک نہایت مضبوط تنے پر کھڑا ہو گیا اور حضرت علی کے وقت میں تو اس نے ایسی نشونما پائی کہ قریب تھا کہ تمام اقطار عالم میں اس کی شاخیں اپنا سایہ ڈالنے لگیں.مگر حضرت علیؓ نے وقت پر اس کی مضرت کو پہچانا اور ایک کاری ہاتھ کے ساتھ اسے کاٹ کر گراد یا اور اگر وہ بالکل اسے مٹانہ سکے تو کم از کم اس کے دائرہ اثر کو انہوں نے بہت محدود کر دیا.تیسرا سبب میرے نزدیک یہ ہے کہ اسلام کی نورانی شعاعوں کے اثر سے بہت سے لوگوں نے اپنی زندگیوں میں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا تھا مگر اس اثر سے وہ کمی کسی طرح پوری نہیں ہو سکتی تھی جو ہمیشہ دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول کے لئے کسی معلم کا انسان کو محتاج بناتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جب فوج در فوج آدمی داخل اسلام ہوئے تب بھی یہی خطرہ دامن گیر تھا.مگر آپ سے خدا تعالیٰ کا خاص وعدہ تھا کہ اس ترقی 16
کے زمانہ میں اسلام لانے والے لوگوں کو بد اثر سے بچایا جائے گا.چنانچہ آپ کی وفات کے بعد گو ایک سخت پہر ارتداد کی پیدا ہوئی مگر فوراً دب گئی اور لوگوں کو حقیقت اسلام معلوم ہو گئی مگر آپ کے بعد ایران و شام اور مصر کی فتوحات کے بعد اسلام اور دیگر مذاہب کے میل و ملاپ سے جو فتوحات روحانی اسلام کو حاصل ہوئیں وہی اس کے انتظام سیاسی کے اختلال کا باعث ہو گئیں.کروڑوں کروڑ آدمی اسلام کے اندر داخل ہوئے اور اس کی شاندار تعلیم کو دیکھ کر ایسے فدائی ہوئے کہ اس کے لئے جانیں دینے کے لئے تیار ہو گئے.مگر اس قدر تعداد نو مسلموں کی بڑھ گئی کہ ان کی تعلیم کا کوئی ایسا انتظام نہ ہو سکا جو طمانیت بخش ہوتا.جیسا کہ قاعدہ ہے اور انسانی دماغ کے بار یک مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی جوش کے ما تحت ان لوگوں کی تربیت اور تعلیم کی ضرورت محسوس نہ ہوئی.جو کچھ یہ مسلمانوں کو کرتے دیکھتے تھے کرتے تھے اور ہر ایک حکم کو بخوشی بجالاتے تھے.مگر جوں جوں ابتدائی جوش کم ہوتا گیا.جن لوگوں کو تربیت روحانی حاصل کرنے کا موقع نہ ملا تھا ان کو احکام اسلام کی بجا آوری بار معلوم ہونے لگی.اور نئے جوش کے ٹھنڈا ہوتے ہی پرانی عادات نے پھر زور کرنا شروع کیا.غلطیاں ہر ایک انسان سے ہو جاتی ہیں اور سیکھتے سیکھتے انسان سیکھتا ہے.اگر ان لوگوں کو کچھ حاصل کرنے کا خیال ہوتا تو کچھ عرصہ تک ٹھوکریں کھاتے ہوئے آخر سیکھ جاتے.مگر یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہ حال تھا کہ ایک شخص سے جب ایک جرم ہو گیا تو باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ فرمانے کے کہ جب خدا تعالیٰ ستاری کرے تو کوئی خود کیوں اپنی فضیحت کرے اس نے اپنے قصور کا خود اقرار کیا اور سنگسار ہونے سے نہ ڈرا.یا اب حدود شریعت کو قائم رکھنے کے لئے اگر چھوٹی سے چھوٹی سزا بھی دی جاتی تو ان لوگوں کو نا پسند ہوتی پس بوجہ اسلام کے دل میں نہ داخل ہونے کے شریعت کو 17
توڑنے سے کچھ لوگ باز نہ رہتے.اور جب حدود شریعت کو قائم کیا جاتا تو ناراض ہوتے اور خلیفہ اور اس کے عتمال پر اعتراض کرتے اور ان کے خلاف اپنے دل میں کینہ رکھتے اور اس انتظام کو سرے سے ہی اکھاڑ پھینک دینے کے منصوبے کرتے.چوتھا سبب میرے نزدیک اس فتنہ کا یہ تھا کہ اسلام کی ترقی ایسے غیر معمولی طور پر ہوئی ہے کہ اس کے دشمن اس کا اندازہ شروع میں کر ہی نہ سکے.مکہ والے بھی اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ضعف کے خیال میں ہی بیٹھے تھے کہ مکہ فتح ہو گیا اور اسلام جزیرہ عرب میں پھیل گیا.اسلام کی اس بڑھنے والی طاقت کو قیصر روم اور کسری ایران ایسی حقارت آمیز اور تماش میں نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جیسے کہ ایک جابر پہلوان ایک گھٹنوں کے بل رینگنے والے بچہ کھڑے ہونے کے لئے پہلی کوشش کو دیکھتا ہے.سلطنت ایران اور دولت یونان ضربت محمدی کے ایک ہی صدمہ سے پاش پاش ہوگئیں.جب تک مسلمان ان جابر حکومتوں کا مقابلہ کر رہے تھے جنہوں نے سینکڑوں ہزاروں سال سے بنی نوع انسان کو غلام بنا رکھا تھا اور اس کی قلیل التعداد بے سامان فوج دشمن کی کثیر التعداد با سامان فوج کے ساتھ برسر پیکار تھی.اس وقت تک تو دشمنان اسلام یہ خیال کرتے رہے کہ مسلمانوں کی کامیابیاں عارضی ہیں اور عنقریب یہ لہر نیا رخ پھیرے گی.اور یہ آندھی کی طرح اٹھنے والی قوم بگولے کی طرح اُڑ جائے گی.مگر ان کی حیرت کی کچھ حد نہ رہی جب چند سال کے عرصہ میں مطلع صاف ہو گیا اور دنیا کے چاروں کونوں پر اسلامی پرچم لہرانے لگا یہ ایسی کامیابی تھی جس نے دشمن کی عقل مار دی اور وہ حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوب گیا.اور صحابہ اور ان کے صحبت یافتہ لوگ دشمنوں کی نظر میں 18
انسانوں سے بالا ہستی نظر آنے لگے.اور وہ تمام امید میں اپنے دل سے نکال بیٹھے.مگر جب کچھ عرصہ فتوحات پر گزر گیا اور وہ حیرت و استعجاب جوان کے دلوں میں پیدا ہو گیا تھا کم ہوا اور صحابہ کے ساتھ میل جول سے وہ پہلا خوف و خطر جاتا رہا تو پھر اسلام کا مقابلہ کرنے اور مذاہب باطلہ کو قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا.اسلام کی پاک تعلیم کا مقابلہ دلائل سے تو وہ نہ کر سکتے تھے.حکومتیں مٹ چکی تھیں اور وہ ایک ہی حربہ جو حق کے مقابلہ میں چلا یا جا تا تھا یعنی جبر اور تعدی ٹوٹ چکا تھا.اب ایک ہی صورت باقی تھی یعنی دوست بن کر دشمن کا کام کیا جائے اور اتفاق پیدا کر کے اختلاف کی صورت کی جائے.پس بعض شقی القلب لوگوں نے جو اسلام کے نور کو دیکھ کر اندھے ہو رہے تھے اسلام کو ظاہر میں قبول کیا اور مسلمان ہوکر اسلام کو تباہ کرنے کی نیت کی.چونکہ اسلام کی ترقی خلافت سے وابستہ تھی اور گلہ بان کی موجودگی میں بھیڑ یا حملہ نہ کر سکا اس لئے یہ تجویز کی گئی کہ خلافت کو مٹایا جاوے اور اس سلک اتحاد کو توڑ دیا جاوے جس میں تمام عالم کے مسلمان پروئے ہوئے ہیں تا کہ اتحاد کی برکتوں سے مسلمان محروم ہو جائیں.اور نگر ان کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر مذاہب باطلہ پھر اپنی ترقی کے لئے کوئی راستہ نکال سکیں اور دجل وفریب کے ظاہر ہونے کا کوئی خطرہ نہ رہے.یہ وہ چار بواعث ہیں جو میرے نزدیک اس فتنہ عظیم کے برپا کرنے کا موجب ہوئے.جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت میں ملت اسلام کی بنیادوں کو ہلا دیا اور بعض وقت اس پر ایسے آئے کہ دشمن اس بات پر اپنے دل میں خوش ہونے لگا کہ یہ قصر عالی شان اب اپنی چھتوں اور دیواروں سمیت زمین کے ساتھ آلگے گا اور ہمیشہ کے لئے 19
اس دین کا خاتمہ ہو جائے گا جس نے اپنے لئے یہ شاندار مستقبل مقرر کیا ہے کہ هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: ١٠) یعنی وہ خدا ہی ہے کہ جس نے اپنا رسول سچے دین کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو باوجود اس کے منکروں کی ناپسندیدگی کے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے.فتنہ حضرت عثمان کے وقت میں کیوں اٹھا؟ میں نے ان تاریخی واقعات سے جو حضرت عثمان کے آخری ایام خلافت میں ہوئے نتیجہ نکال کر اصل بواعث فتنہ بیان کر دیئے ہیں.وہ درست ہیں یا غلط اس کا اندازاہ آپ لوگوں کو ان واقعات کے معلوم کرنے پر جن سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے خود ہو جائے گا.مگر پیشتر اس کے کہ میں وہ واقعات بیان کروں اس سوال کے متعلق بھی کچھ کہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ فتنہ حضرت عثمان کے وقت میں کیوں اٹھا؟ بات یہ ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے.ان نومسلموں میں اکثر حصہ وہی تھا جو عربی زبان سے ناواقف تھا اور اس وجہ سے دین اسلام کا سیکھنا اس کے لئے ویسا آسان نہ تھا جیسا کہ عربوں کے لئے اور جو لوگ عربی جانتے بھی تھے وہ ایرانیوں اور شامیوں سے میل ملاپ کی وجہ سے صدیوں سے ان گندے خیالات کا شکار رہے تھے جو اس وقت کے تمدن کالازمی نتیجہ تھے.علاوہ ازیں ایرانیوں اور مسیحیوں سے جنگوں کی وجہ سے اکثر صحابہ اور ان کے شاگردوں کی تمام طاقتیں دشمن کے حملوں کے رد کرنے میں صرف ہو رہی تھیں.اس ایک طرف توجہ کا بیرونی دشمنوں کی طرف مشغول ہونا دوسری طرف اکثر نو مسلموں کا عربی زبان سے ناواقف ہونا یا جمی خیالات سے متاثر ہونا دو عظیم الشان سبب تھے اس امر 20 20
کے کہ اس وقت کے اکثر نومسلم دین سے کماحقہ واقف نہ ہو سکے.حضرت عمر کے وقت میں چونکہ جنگوں کا سلسلہ بہت بڑے پیمانے پر جاری تھا اور ہر وقت دشمن کا خطرہ لگا رہتا تھا لوگوں کو دوسری باتوں کے سوچنے کا موقع ہی نہ ملتا تھا اور پھر دشمن کے بالمقابل پڑے ہوئے ہونے کا باعث طبعا مذہبی جوش بار بار رونما ہوتا تھا.جو مذہبی تعلیم کی کمزوری پر پردہ ڈالے رکھتا تھا.حضرت عثمان کے ابتدائی عہد میں بھی یہی حال رہا.کچھ جنگیں بھی ہوتی رہیں اور کچھ پچھلا اثر لوگوں کے دلوں میں باقی رہا جب کسی قدر امن ہوا اور پچھلے جوش کا اثر بھی کم ہوا تب اس مذہبی کمزوری نے اپنا رنگ دکھایا اور دشمنان اسلام نے بھی اس موقع کو غنیمت سمجھا اور شرارت پر آمادہ ہو گئے.غرض یہ فتنہ حضرت عثمان کے کسی عمل کا نتیجہ نہ تھا.بلکہ یہ حالات کسی خلیفہ کے وقت میں بھی پیدا ہو جاتے ، فتنہ نمودار ہو جاتا.اور حضرت عثمان کا صرف اس قدر قصور ہے کہ وہ ایسے زمانہ میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے جب ان فسادات کے پیدا کرنے میں ان کا اس سے زیادہ دخل نہ تھا جتنا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ فساد ان دونوں بزرگوں کی کسی کمزوری کا نتیجہ تھا.میں حیران ہوں کہ کس طرح بعض لوگ ان فسادات کو حضرت عثمان کی کسی کمزوری کا نتیجہ قرار دیتے ہیں حالانکہ حضرت عمررؓ جن کو حضرت عثمان کی خلافت کا خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں اس فساد کے بیج کو معلوم کر لیا تھا.اور قریش کو اس سے بڑے زور دار الفاظ میں متنبہ کیا تھا.چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت عمر صحابہ کبار کو باہر نہیں جانے دیا کرتے تھے اور جب کوئی آپ سے اجازت لیتا تو آپ فرماتے کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جو آپ لوگوں نے جہاد کیا ہے وہ کافی نہیں ہے.س، آخر ایک دفعہ صحابہ نے شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اسلام کو اس طرح چرایا ہے جس 21
طرح اونٹ چرایا جاتا ہے پہلے اونٹ پیدا ہوتا ہے پھر پٹھا بنتا ہے.پھر دودانت کا ہوتا ہے.پھر چار دانت کا ہوتا ہے.پھر چھ دانت کا ہوتا ہے.پھر اس کی کچلیاں نکل آتی ہیں.اب بتاؤ کہ جس کی کچلیاں نکل آویں اس کے لئے سوائے ضعف کے اور کس امر کا انتظار کیا جاسکتا ہے.سنو! اسلام اب اپنے کمال کی حد کو پہنچ گیا ہے.قریش چاہتے ہیں کہ سب مال یہی لے جاویں اور دوسرے لوگ محروم رہ جاویں.ھے سنو! جب تک عمر بن الخطاب زندہ ہے وہ قریش کا گلا پکڑے رکھے گا تا کہ وہ فتنہ کی آگ میں نہ گر جاویں.(طبری جلد صفحه ۴۰۳۶۳۰۲۵ مطبوعہ بیروت) حضرت عمرؓ کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ میں ہی لوگوں میں صحابہ کے خلاف یہ خیالات موجزن دیکھتے تھے کہ ان کو حصہ زیادہ ملتا ہے.اس لئے وہ سوائے چند ایسے صحابہ کے جن کے بغیر لشکروں کا کام نہیں چل سکتا تھا باقی صحابہ کو جہاد کے لئے نکلنے ہی نہیں دیتے تھے تا کہ دوہرے حصے ملنے سے لوگوں کو ابتلاء نہ آوے اور وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اسلام ترقی کے اعلیٰ نقطہ پر پہنچ گیا ہے اور اب اس کے بعد زوال کا ہی خطرہ ہوسکتا ہے نہ ترقی کی امید.اس قدر بیان کر چکنے کے بعد اب میں واقعات کا وہ سلسلہ بیان کرتا ہوں جس سے حضرت عثمان کے وقت میں جو کچھ اختلافات ہوئے ان کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے.میں نے بیان کیا تھا کہ حضرت عثمان کی شروع خلافت میں چھ سال تک ہمیں کوئی فساد نظر نہیں آتا.بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ عام طور پر آپ سے خوش تھے.(طبری جلد نمبر ۵ صفحه ۱۸۴۰ مطبوعہ بیروت) بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں وہ حضرت عمررؓ سے بھی زیادہ لوگوں کو محبوب تھے.صرف محبوب ہی نہ تھے بلکہ لوگوں کے دلوں میں آپ کا 22 22
رُعب بھی تھا.جیسا کہ اس وقت کا شاعر اس امر کی شعروں میں شہادت دیتا ہے.اور کہتا ہے کہ اے فاسقو ! عثمان کی حکومت میں لوگوں کا مال لوٹ کر نہ کھاؤ کیونکہ ابن عفان وہ ہے جس کا تجربہ تم لوگ کر چکے ہو.وہ لٹیروں کو قرآن کے احکام کے ماتحت قتل کرتا ہے اور ہمیشہ سے اس قرآن کریم کے احکام کی حفاظت کرنے والا اور لوگوں کے اعضاء وجوارح پر اس کے احکام جاری کرنے والا ہے.(طبری جلد صفحه ۲۸۴۱ مطبوعہ بیروت) لیکن چھ سال کے بعد ساتویں سال ہمیں ایک تحریک نظر آتی ہے اور وہ تحریک حضرت عثمان کے خلاف نہیں بلکہ یا تو صحابہ کے خلاف ہے یا بعض گورنروں کے خلاف.چنانچہ طبری بیان کرتا ہے کہ لوگوں کے حقوق کا حضرت عثمان پورا خیال رکھتے تھے.مگر وہ لوگ جن کو اسلام میں سبقت اور قدامت حاصل نہ تھی وہ سابقین اور قدیم مسلمانوں کے برابر نہ تو مجالس میں عزت پاتے اور نہ حکومت میں ان کو ان کے برابر حصہ ملتا اور نہ مال میں ان کے برابران کا حق ہوتا تھا.اس پر کچھ مدت کے بعد بعض لوگ اس تفضیل پر گرفت کرنے لگے اور اسے ظلم قرار دینے لگے.مگر یہ لوگ عامتہ المسلمین سے ڈرتے بھی تھے اور اس خوف سے کہ لوگ ان کی مخالفت کریں گے اپنے خیالات کو ظاہر نہ کرتے تھے.بلکہ انہوں نے یہ طریق اختیار کیا ہوا تھا.کہ خفیہ خفیہ صحابہ کے خلاف لوگوں میں جوش پھیلاتے تھے اور جب کوئی ناواقف مسلمان یا کوئی بدوی غلام آزاد شدہ مل جاتا تو اس کے سامنے اپنی شکایات کا دفتر کھول بیٹھتے تھے اور اپنی نا واقفیت کی وجہ سے یا خود اپنے لئے حصول جاہ کی غرض سے کچھ لوگ ان کے ساتھ مل جاتے.ہوتے ہوتے یہ گروہ تعداد میں زیادہ ہونے لگا اور اس کی ایک بڑی تعداد ہوگئی.(مفہوما طبری جلد نمبر صفحه ۲۸۴۹-۲۸۵۰ مطبوعہ بیروت) 23
جب کوئی فتنہ پیدا ہونا ہوتا ہے تو اس کے اسباب بھی غیر معمولی طور پر جمع ہونے لگتے ہیں.ادھر تو بعض حاسد طبائع میں صحابہ کے خلاف جوش پیدا ہونا شروع ہوا.ادھر وہ اسلامی جوش جو ابتداء ہر ایک مذہب تبدیل کرنے والے کے دل میں ہوتا ہے ان نو مسلموں کے دلوں سے کم ہونے لگا.جن کو نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ملی تھی اور نہ آپ کے صحبت یافتہ لوگوں کے پاس زیادہ بیٹھنے کا موقع ملا تھا بلکہ اسلام کے قبول کرتے ہی انہوں نے خیال کر لیا تھا کہ وہ سب کچھ سیکھ گئے ہیں.جوش اسلام کے کم ہوتے ہی وہ تصرف جو ان کے دلوں پر اسلام کو تھا کم ہو گیا.اور وہ پھر ان معاصی میں خوشی محسوس کرنے لگے جس میں وہ اسلام لانے سے پہلے مبتلاء تھے.ان کے جرائم پر ان کو سزا ملی تو بجائے اصلاح کے سزا دینے والوں کی تخریب کرنے کے درپے ہوئے.اور آخر اتحاد اسلامی میں ایک بہت بڑا رخنہ پیدا کرنے کا موجب ثابت ہوئے.ان لوگوں کا مرکز تو کوفہ میں تھا.مگر سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ خود مدینہ منورہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بعض لوگ اسلام سے ایسے ہی نا واقف تھے جیسے کہ آج کل بعض نهایت تاریک گوشوں میں رہنے والے جاہل لوگ.حمران ابن ابان ایک شخص تھا جس نے ایک عورت سے اس کی عدت کے دوران میں ہی نکاح کر لیا.جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو آپ اس پر ناراض ہوئے اور اس عورت کو اس سے جدا کر دیا اور اس کے علاوہ اس کو مدینہ سے جلا وطن کر کے بصرہ بھیج دیا.(طبری جلد نمبر ۶ صفہ ۲۹۲۳ مطبوعہ بیروت ) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح بعض لوگ صرف اسلام کو قبول کر کے اپنے آپ کو عالم اسلام خیال کرنے لگے تھے اور زیادہ تحقیق کی ضرورت نہ سمجھتے تھے.یا یہ که مختلف اباحتی خیالات کے ماتحت شریعت پر عمل کرنا ایک فعل عبث خیال کرتے تھے.یہ 24
ایک منفرد واقعہ ہے اور غالباً اس شخص کے سوا مدینہ میں جو مرکز اسلام تھا کوئی ایسا نا واقف آدمی نہ تھا.مگر دوسرے شہروں میں بعض لوگ معاصی میں ترقی کر رہے تھے.چنانچہ کوفہ کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نو جوانوں کی ایک جماعت ڈاکہ زنی کے لئے بن گئی تھی.لکھا ہے کہ ان لوگوں نے ایک دفعہ علی بن حیسمان الخزاعی نامی ایک شخص کے پر ڈا کہ مارنے کی تجویز کی.اور رات کے وقت اس کے گھر میں نقب لگائی.اس کو علم ہوگیا اور وہ تلوار لے کر نکل پڑا.مگر جب بہت سی جماعت دیکھی تو اس نے شور مچایا.اس پر ان لوگوں نے اس کو کہا کہ چپ کر ہم ایک ضرب مار کر تیرا سارا ڈر نکال دیں گے اور اس کو قتل کر دیا.اتنے میں ہمسائے ہوشیار ہو گئے اور اردگرد جمع ہو گئے اور ان ڈاکوؤں کو پکڑ لیا.حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ نے جو صحابی تھے اور اس شخص کے ہمسایہ تھے اور انہوں نے سب حال اپنی دیوار پر سے دیکھا تھا.انہوں نے شہادت دی کہ واقع میں انہی لوگوں نے علی کو قتل کیا ہے اور اسی طرح ان کے بیٹے نے شہادت دی اور معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف لکھ کر بھیج دیا.انہوں نے ان سب کو قتل کرنے کا فتویٰ دیا اور ولید بن عتبہ نے جوا ان دنوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے ، ان سب ڈاکوؤں کو دروازہ شہر کے باہر میدان میں قتل کروا دیا.(طبری جلد ۵ صفحه ۲۸۴۰-۸۴۱ مطبوعہ بیروت) بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس زمانے کے حالات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی واقعہ نہ تھا.اسلام کی ترقی کے ساتھ ساتھ جرائم کا سلسلہ بالکل مٹ گیا تھا.اور لوگ ایسے امن میں تھے کہ کھلے دروازوں سوتے ہوئے بھی خوف نہ کھاتے تھے.حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمال کی ڈیوڑھیاں بنانے سے بھی منع کر دیا تھا.گو اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غرض تو یہ تھی کہ لوگ آسانی سے اپنی شکایات گورنروں 25
کے پاس پہنچا سکیں.لیکن یہ حکم اس وقت تک ہی دیا جاسکتا تھا جب تک امن انتہاء تک نہ پہنچا ہوا ہوتا.پھر اس واقعہ میں خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس ڈا کہ میں بعض ڈی مقدرت اور صاحب ثروت لوگوں کی اولاد بھی شامل تھی جو اپنے اپنے حلقے میں بارسوخ تھے.پس یہ واردات معمولی واردات نہ تھی بلکہ کسی عظیم الشان انقلاب کی طرف اشارہ کرتی تھی.جو اس کے سوا کیا ہو سکتا تھا کہ دین اسلام سے ناواقف لوگوں کے دلوں پر جو تصرف اسلام تھا اب اس کی گرفت کم ہو رہی تھی.اور اب وہ پھر اپنی عادات کی طرف لوٹ رہے تھے.اور غریب ہی نہیں بلکہ امراء بھی اپنی پرانی عظمت کو قتل و غارت سے واپس لینے پر آمادہ ہو رہے تھے.حضرت ابو شریح صحابی نے اس امر کو خوب سمجھا اور اسی وقت اپنی سب جائیداد وغیرہ بیچ کر اپنے اہل و عیال سمیت مدینہ کو واپس تشریف لے گئے اور کوفہ کی رہائش ترک کر دی.ان کا اس واقعہ پر کوفہ کو ترک کر دینا اس امر کی کافی شہادت ہے کہ یہ منفر دمثال آئندہ کے خطر ناک واقعات کی طرف اشارہ تھی.انہی دنوں ایک اور فتنہ نے سر نکالنا شروع کیا.عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا جو اپنی ماں کی وجہ سے ابن السوداء کہلا تا تھا.یمن کا رہنے والا اور نہایت بد باطن انسان تھا.اسلام کی بڑھتی ہوئی ترقی کو دیکھ کر اس غرض سے مسلمان ہوا کہ کسی طرح مسلمانوں میں فتنہ ڈلوائے.میرے نزدیک اس زمانہ کے فتنے اسی مفسد انسان کے ارد گرد گھومتے ہیں اور یہ ان کی روح رواں ہے.شرارت کی طرف مائل ہو جانا اس کی جبلت میں داخل معلوم ہوتا ہے.خفیہ منصوبہ کرنا اس کی عادت تھی اور اپنے مطلب کے آدمیوں کو تاڑ لینے میں اس کو خاص مہارت تھی.ہر شخص سے اس کے مذاق کے مطابق بات کرتا تھا اور نیکی کے پردے میں بدی کی تحریک کرتا تھا.اور اسی وجہ سے 26
اچھے اچھے سنجیدہ آدمی اس کے دھوکے میں آجاتے تھے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے نصف میں مسلمان ہوا اور تمام بلاد اسلامیہ کا دورہ اس غرض سے کیا کہ ہر ایک جگہ کے حالات سے خود واقفیت پیدا کرے.مدینہ منورہ میں تو اس کی دال نہ گل سکتی تھی.مکہ مکرمہ اس وقت سیاسیات سے بالکل علیحدہ تھا.سیاسی مرکز اس وقت دارالخلافہ کے سوابصرہ، کوفہ ، دمشق اور فسطاط تھے.پہلے ان مقامات کا اس نے دورہ کیا اور یہ رویہ اختیار کیا کہ ایسے لوگوں کی تلاش کر کے جو سزا یافتہ تھے اور اس وجہ سے حکومت سے ناخوش تھے ان سے ملتا اور انہی کے ہاں ٹھہرتا.چنانچہ سب سے پہلے بصرہ گیا اور حکیم بن جبلہ ایک نظر بند ڈاکو کے پاس ٹھہرا اور اپنے ہم مذاق لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا اور ان کی ایک مجلس ا بنائی.چونکہ کام کی ابتدا تھی اور یہ آدمی ہو شیار تھا صاف صاف بات نہ کرتا بلکہ اشارہ کنایہ سے ان کو فتنہ کی طرف بلاتا تھا.اور جیسا کہ اس نے ہمیشہ اپنا وطیرہ رکھا ہے وعظ و پند کا سلسلہ بھی ساتھ جاری رکھتا تھا.جس سے ان لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت پیدا ہوگئی اور وہ اس کی باتیں قبول کرنے لگے.عبد اللہ بن عامر کو جو بصرہ کے والی تھے جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے اس کا حال پوچھا اور اس کے آنے کی وجہ دریافت کی.اس نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں اہل کتاب میں سے ایک شخص ہوں جسے اسلام کا انس ہو گیا ہے اور آپ کی حفاظت میں رہنا چاہتا ہوں.عبد اللہ بن عامر کو چونکہ اصل حالات پر آگاہی حاصل ہو چکی تھی.انہوں نے اس کے عذر کو قبول نہ کیا اور کہا کہ مجھے تمہارے متعلق جو حالات معلوم ہیں وہ ان کے خلاف ہیں اس لئے تم میرے علاقہ سے نکل جاؤ.وہ بصرہ سے نکل کر کوفہ کی طرف چلا گیا (طبری جلد ۶ صفحه ۱۹۲۲ مطبوعہ بیروت) مگر فساد بغاوت اور اسلام سے بیگانگی کا بیج ڈال گیا جو بعد میں بڑھ کر ایک بہت بڑا درخت ہو گیا.27
میرے نزدیک یہ سب سے پہلی سیاسی غلطی ہوئی ہے اگر والی بصرہ بجائے اس کو جلا وطن کرنے کے قید کر دیتا اور اس پر الزام قائم کرتا تو شاید یہ فتنہ وہیں دبارہتا.ابن سوداء تو اپنے گھر سے نکلا ہی اس ارادے سے تھا کہ تمام عالم اسلام میں پھر کر فتنہ فساد کی آگ بھڑ کائے.اس کا بصرہ سے نکلنا تو اس کے مدعا کے عین مطابق تھا.کوفہ میں پہنچ کر اس شخص نے پھر وہی بصرہ والی کاروائی شروع کی.اور بالآخر وہاں سے بھی نکالا گیا لیکن یہاں بھی اپنی شرارت کا بیج بوتا گیا جو بعد میں بہت بڑا درخت بن گیا.اور اس دفعہ اس کے نکالنے پر اس پہلی سیاسی غلطی کا ارتکاب کیا گیا.کوفہ سے نکل کر یہ شخص شام کو گیا مگر وہاں اس کو اپنے قدم جمانے کا کوئی موقع نہ ملا.حضرت معاویہؓ نے وہاں اس عمدگی سے حکومت کا کام چلایا ہوا تھا کہ نہ تو اسے ایسے لوگ ملے جن میں یہ ٹھہر سکے اور نہ ایسے لوگ میٹر آئے جن کو اپنا قائم مقام بنایا جاوے پس شام سے اس کو با حسرت و یاس آگے سفر کرنا پڑا اور اس نے مصر کا رخ کیا مگر شام چھوڑنے سے پہلے اس نے ایک اور فتنہ کھڑا کر دیا.ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی صحابہ میں سے ایک نہایت نیک اور متقی صحابی تھے.جب سے ایمان لائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آگے ہی قدم بڑھاتے گئے اور ایک لمبا عرصہ صحبت میں رہے.جیسا کہ ہر ایک شخص کا مذاق جدا گانہ ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان نصائح کو سن کر کہ دنیا سے مؤمن کو علیحدہ رہنا چاہئے یہ اپنے مذاق کے مطابق مال جمع کرنے کو ناجائز سمجھتے تھے اور دولت سے نفرت کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی سمجھاتے تھے کہ مال نہیں جمع کرنا چاہئے.جو کچھ کسی کے پاس ہوا سے غرباء میں بانٹ دینا چاہئے.مگر یہ عادت ان کی ہمیشہ 28
سے تھی.اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے بھی جب کہ مسلمانوں میں دولت آئی وہ ایسا ہی کرتے تھے ابن سوداء جب شام سے گزر رہا تھا اس نے ان کی طبیعت میں دولت کے خلاف خاص جوش دیکھ کر یہ معلوم کر کے کہ یہ چاہتے ہیں کہ غرباء وامرا ء اپنے مال تقسیم کر دیں.شام سے گزرتے ہوئے جہاں کہ اس وقت حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ مقیم تھے ان سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ دیکھئے کیا غضب ہو رہا ہے.معاویہ بیت المال کے اموال کو اللہ کا مال کہتا تھا حالانکہ بیت المال کے اموال کی کیا شرط ہے ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی ہے.پھر وہ خاص طور پر اس مال کو مال اللہ کیوں کہتا ہے.صرف اس لئے کہ مسلمانوں کا حق جو اس مال میں ہے اس کو ضائع کر دے اور ان کا نام بیچ میں سے اُڑا کر آپ وہ مال کھا جاوے.حضرت ابوذر تو آگے ہی اس تلقین میں لگے رہتے تھے کہ امراء کو چاہئے کہ سب مال غرباء میں تقسیم کر دیں کیونکہ مؤمن کے لئے آرام کی جگہ اگلا جہاں ہی ہے اور اس شخص کی شرارت اور نیت سے آپ کو بالکل واقفیت نہ تھی.بس آپ اس کے دھوکا میں آگئے اور خیال کیا کہ واقع میں بیت المال کے اموال کو مال اللہ کہنا درست نہیں.اس میں اموال کے غصب ہو جانے کا خطرہ ہے.ابن سوداء نے اس طرح حضرت معاویہؓ سے اس امر کا بدلہ لیا کہ کیوں انہوں نے اس کے ٹکنے کے لئے شام میں کوئی ٹھکانا نہیں بننے دیا.حضرت ابوذر معاویہ کے پاس پہنچے اور ان کو سمجھایا کہ آپ مسلمانوں کے مال کو ماك اللہ کہتے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ اے ابوذر! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے کیا ہم سب اللہ کے بندے نہیں؟ یہ مال اللہ کا مال نہیں؟ اور سب مخلوق اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں ؟ اور حکم خدا کے ہاتھ میں نہیں ؟ یعنی جب کہ بندے بھی خدا کے ہیں اور حکم بھی اسی کا جاری ہے تو پھر ان اموال کو اموال اللہ کہنے سے لوگوں کے حق کیونکر ضائع ہو جائیں گے.جو خدا تعالیٰ نے 29
حقوق مقرر کئے ہیں وہ اس کے فرمان کے مطابق اس کی مخلوق کو ملیں گے.یہ جواب ایسا لطیف تھا کہ حضرت ابو ذر اس کا جواب تو بالکل نہ دے سکے مگر چونکہ اس معاملہ میں ان کو خاص جوش تھا اور ابن سوداء ایک شک آپ کے دل میں ڈال گیا تھا.اس لئے آپ نے احتیاطاً حضرت معاویہ کو یہی مشورہ دیا کہ آپ اس لفظ کو ترک کر دیں.انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ تو ہر گز نہیں کہنے کا کہ یہ اموال اللہ نہیں ہاں آئندہ اس کو اموال المسلمین کہا کروں گا.ابن سوداء نے جب یہ حربہ کسی قدر کارگر دیکھا تو اور صحابہ کے پاس پہنچا اور ان کو اکسانا چاہا.مگر وہ حضرت ابو ذر کی طرح گوشہ گزیں نہ تھے.اس شخص کی شرارتوں سے واقف تھے.ابو درداء نے اس کی بات سنتے ہی کہا تو کون ہے جو ایسی فتنہ انگریز بات کہتا ہے.خدا کی قسم تو یہودی ہے.ان سے مایوس ہو کر وہ انصار کے سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص مقرب عبادہ بن صامت کے پاس پہنچا اور ان سے کچھ فتنہ انگیز باتیں کہیں.انہوں نے اس کو پکڑ لیا اور حضرت معاویہ کے پاس لے گئے اور کہا کہ یہ شخص ہے جس نے ابوذر غفاری کو آپ کے پاس بھیجا تھا.شام میں اپنا کام نہ بنتا دیکھ کر ابن السوداء تو مصر کی طرف چلا گیا اور ادھر حضرت ابوذر کے دل میں اس کی باتوں سے ایک نیا جوش پیدا ہو گیا اور آپ نے آگے سے بھی زیادہ زور کے ساتھ مسلمانوں کو نصیحت کر دی کہ سب اپنے اپنے اموال لوگوں میں تقسیم کر دیں.حضرت ابوذر کا یہ کہنا درست نہ تھا کہ کسی کو مال جمع نہ کرنا چاہئے.کیونکہ صحابہ مال جمع نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ہمیشہ اپنے اموال خدا کی راہ میں تقسیم کرتے تھے.ہاں بے شک مالدار تھے اور اس کو مال جمع کرنا نہیں کہتے.مال جمع کرنا اس کا نام ہے کہ اس مال سے غرباء کی پرورش نہ کرے اور صدقہ و خیرات نہ کرے.خودرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی آپ کے صحابہ میں سے بعض مالدار تھے.30 30
اگر مالدار نہ ہوتے تو غزوہ تبوک کے وقت دس ہزار سپاہیوں کا سامان سفر حضرت عثمان کس طرح ادا کرتے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو کچھ نہ کہتے تھے.بلکہ ان میں سے بعض آدمی آپ کے مقرب بھی تھے.غرض مالدار ہونا کوئی جرم نہ تھا بلکہ قرآن کی پیشگوئیوں کے عین مطابق تھا اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو اس مسئلہ میں غلطی لگی ہوئی تھی.مگر جو کچھ بھی تھا، حضرت ابو ذر اپنے خیال پر پختہ تھے.مگر ساتھ ہی یہ بات بھی تھی کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نصیحت تو کر دیتے مگر قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہ لیتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام آپ کے زیر نظر رہتے.لیکن جن لوگوں میں بیٹھ کر وہ یہ باتیں کرتے تھے وہ ان کے تقویٰ اور طہارت سے نا آشنا تھے اور ان کی باتوں کا اور مطلب سمجھتے تھے.چنانچہ ان باتوں کا آخر یہ نتیجہ نکلا کہ بعض غرباء نے امراء پر دست تعدی دراز کرنا شروع کیا اور ان سے جبراً اپنے حقوق وصول کرنے چاہے.انہوں نے حضرت معاویہ سے شکایت کی.جنہوں نے آگے حضرت عثمان کے پاس معاملہ پیش کیا.آپ نے حکم بھیجا کہ ابوذر کو اکرام و احترام کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کر دیا جاوے.اس حکم کے ماتحت حضرت ابو ذر مدینہ تشریف لائے.حضرت عثمان نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا سبب ہے کہ اہل شام آپ کے خلاف شکایت کرتے ہیں.آپ نے جواب دیا کہ میرا ان سے یہ اختلاف ہے کہ ایک تو مال اللہ نہ کہا جائے دوسرے یہ کہ امراء مال نہ جمع کریں.حضرت عثمان نے فرمایا کہ ابوذر جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے مجھ پر ڈالی ہے اس کا ادا کرنا میرا ہی کام ہے اور یہ میرا فرض ہے کہ جو حقوق رعیت پر ہیں ان سے وصول کروں.اور یہ کہ ان کو خدمت دین اور میانہ روی کی تعلیم دوں.مگر یہ میرا کام نہیں کہ ان کو ترک دنیا پر مجبور کروں.حضرت ابوذر نے عرض کیا کہ پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں 31
کہیں چلا جاؤں کیونکہ مدینہ اب میرے مناسب حال نہیں.حضرت عثمان نے کہا کہ کیا آپ اس گھر کو چھوڑ کر اس گھر سے بدتر گھر کو اختیار کر لیں گے.انہوں نے کہا کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب مدینہ کی آبادی سلع تک پھیل جاوے تو تم مدینہ میں نہ رہنا.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بجالا وہیں.اور کچھ اونٹ اور دو غلام دے کر مدینہ سے رخصت کیا اور تاکید کی کہ مدینہ سے کلی طور پر قطع تعلق نہ کریں بلکہ وہاں آتے جاتے رہیں.جس ہدایت پر ابوذرہ ہمیشہ عمل کرتے رہے.(طبری جلد نمبر صفحہ ۲۸۶۰ مطبوعہ بیروت) یہ چوتھا فتنہ تھا جو پیدا ہوا اور گواس میں حضرت ابوذر کو ہتھیار بنایا گیا تھا مگر در حقیقت نہ حضرت ابوذر کے خیالات وہ تھے جو مفسدوں نے اختیار کئے اور نہ ان کو ان لوگوں کی شرارتوں کا علم تھا.حضرت ابوذر تو باوجود اختلاف کے کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر آمادہ نہ ہوئے اور حکومت کی اطاعت اس طور پر کرتے رہے کہ باوجود اس کے کہ ان کے خاص حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو فتنہ اور تکلیف سے بچانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک خاص وقت پر مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا.انہوں نے بغیر حضرت عثمان کی اجازت کے اس حکم پر عمل کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور پھر جب وہ مدینہ سے نکل کر ربذہ میں جا کر مقیم ہوئے اور وہاں کے محصل نے ان کو نماز کا امام بننے کے لئے کہا تو انہوں نے اس سے اس بناء پر انکار کیا کہ تم یہاں کے حاکم ہو اس لئے تم ہی کو امام بننا سزاوار ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت حکام سے ان کو کوئی انحراف نہ تھا اور نہ انار کی کو وہ جائز سمجھتے تھے.حضرت ابوذر کی سادگی کا اس امر سے خوب پتہ چلتا ہے کہ جب ابن السوداء کے 32
دھوکا دینے سے وہ معاویہ سے جھگڑتے تھے کہ بیت المال کے اموال کو مال اللہ نہیں کہنا چاہئے اور حضرت عثمان کے پاس بھی شکایت لائے تھے وہ اپنی بول چال میں اس لفظ کو برابر استعمال کرتے تھے چنانچہ اس فساد کے بعد جب کہ وہ ربذہ میں تھے ایک دفعہ ایک قافلہ وہاں اُترا.اس قافلہ کے لوگوں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کے ساتھیوں کو ہم نے دیکھا ہے وہ بڑے بڑے مالدار ہیں مگر آپ اس غربت کی حالت میں ہیں.انہوں نے ان کو یہ جواب دیا کہ إِنَّهُمْ لَيْسَ لَهُمْ فِي مَالِ اللَّهِ حَقٌّ إِلَّا وَلِيْ مِثْلُهُ ( طرى جلده صفحه ۲۸۶۲ مطبوعہ بیروت) یعنی ان کا مال اللہ ( یعنی بیت المال کے اموال ) میں کوئی ایسا حق نہیں جو مجھے حاصل نہ ہو.اسی طرح انہوں نے وہاں کے حبشی حاکم کو بھی رَقِيقٌ مِّنْ مَّالِ اللَّهِ (طبری جلده صفحه ۱۸۶۲ مطبوعہ بیروت ) ( ماك اللہ کا غلام ) کے نام سے یاد کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی یہ لفظ استعمال کرتے تھے اور باوجود اس لفظ کی مخالفت کرنے کے بے تحاشا اس لفظ کا آپ کی زبان پر جاری ہو جانا اس امر کی شہادت ہے کہ یہ صحابہ کا ایک عام محاورہ تھا.مگر ابن السوداء کے دھوکا دینے سے آپ کے ذہن سے یہ بات نکل گئی.یہ فتنہ جسے بولشوزم کا فتنہ کہنا چاہئے حضرت معاویہؓ کی حسن تدبیر سے شام میں تو چکنے نہ پایا.مگر مختلف صورتوں میں یہ خیال اور جگہوں پر اشاعت پا کر ابن السوداء کے کام میں ممد ہو گیا.ابن السوداء شام سے نکل کر مصر پہنچا.اور یہی مقام تھا جسے اس نے اپنے کام کا مرکز بنانے کے لئے چنا تھا.کیونکہ یہ مقام دارلخلافہ سے بہت دور تھا اور دوسرے اس جگہ صحابہؓ کی آمد ورفت اس کثرت سے نہ تھی جتنی کہ دوسرے مقامات پر.جس کی وجہ سے یہاں کے 33 33
لوگ دین سے نسبتا کم تعلق رکھتے تھے اور فتنہ میں حصے لینے کے لئے زیادہ تیار تھے چنانچہ ابن السوداء کا ایک نائب جو کوفہ کا باشندہ تھا اور جس کا ذکر آگے آوے گا ان واقعات کے تھوڑے ہی عرصہ بعد جلا وطن کیا گیا تو حضرت معاویہ کے اس سوال پر کہ نئی پارٹی کے مختلف ممالک کے ممبروں کا کیا حال ہے.اس نے جواب دیا کہ انہوں نے مجھ سے خط و کتابت کی ہے اور میں نے ان کو سمجھایا ہے اور انہوں نے مجھے نہیں سمجھایا.مدینہ کے لوگ تو سب سے زیادہ فساد کے شائق ہیں اور سب سے کم اس کی قابلیت رکھتے ہیں.اور کوفہ کے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں.لیکن بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب سے خوف نہیں کھاتے اور بصرہ کے لوگ اکٹھے حملہ کرتے ہیں مگر پراگندہ ہو کر بھاگتے ہیں.ہاں مصر کے لوگ ہیں جو شرارت کے اہل سب سے زیادہ ہیں.مگر ان میں یہ نقص ہے کہ پیچھے نادم بھی جلدی ہو جاتے ہیں.اس کے بعد شام کا حال اس نے بیان کیا کہ وہ اپنے سرداروں کے سب سے زیادہ مطیع ہیں اور اپنے گمراہ کرنے والوں کے سب سے زیادہ نافرمان ہیں.کے یہ رائے ابن الکواء کی ہے جو ابن السوداء کی پارٹی کے رکنوں میں سے تھا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر ہی سب سے عمدہ مقام تھا جہاں ابن السوداء ڈیرہ لگا سکتا تھا.اور اس کی شرارت کی باریک بین نظر نے اس امر کو معلوم کر کے اس مقام کو اپنے قیام کے لئے چنا اور اسے فساد کا مرکز بنادیا اور بہت جلد ایک جماعت اس کے اردگرد جمع ہوگئی.اب سب بلاد میں شرارت کے مرکز قائم ہو گئے.اور ابن السوداء نے ان تمام لوگوں کو جو سزا یافتہ تھے یا ان کے رشتہ دار تھے یا اور کسی سبب سے اپنی حالت پر قانع نہ تھے نہایت ہوشیاری اور دانائی سے اپنے ساتھ ملانا شروع کیا.اور ہر ایک کے مذاق کے 34
مطابق اپنی غرض کو بیان کرتا تا کہ اس کی ہمدردی حاصل ہو جاوے.مدینہ شرارت سے محفوظ تھا اور شام بالکل پاک تھا.تین مرکز تھے جہاں اس فتنہ کا مواد تیار ہورہا تھا بصرہ،کوفہ اور مصر.مصر مرکز تھا.مگر اس زمانہ کے تجربہ کار اور فلسفی دماغ انارکسٹوں کی طرح ابن السوداء نے اپنے آپ کو خلف الاستار رکھا ہوا تھا.سب کام کی روح وہی تھا مگر آگے دوسرے لوگوں کو کیا ہوا تھا.بوجہ قریب ہونے کے اور بوجہ سیاسی فوقیت کے جو اس وقت بصرہ اور کوفہ کو حاصل تھی یہ دونوں شہران تغییرات میں زیادہ حصہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں.لیکن ذرا بار یک نگاہ سے دیکھا جاوے تو تاریخ کے صفحات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام کاروائیوں کی باگ مصر میں بیٹھے ہوئے ابن السوداء کے ہاتھ میں تھی.میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ کوفہ میں ایک جماعت نے ایک شخص علی بن حیسمان الخزاعی کے گھر پر ڈاکہ مار کر اس کو قتل کر دیا تھا اور قاتلوں کو دروازہ شہر پر قتل کر دیا گیا تھا.ان نوجوانوں کے باپوں کو اس کا بہت صدمہ تھا اور وہ اس جگہ کے والی ولید بن عتبہ سے اس کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور منتظر رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے اور ہم انتقام لیں.یہ لوگ اس فتنہ انگیز جماعت کے ہاتھ میں ایک عمدہ ہتھیار بن گئے جن سے انہوں نے خوب کام لیا.ولید سے بدلہ لینے کے لئے انہوں نے کچھ جاسوس مقرر کئے تا کہ کوئی عیب ولید کا پکڑ کر ان کو اطلاع دیں.جاسوسوں نے کوئی کاروائی تو اپنی دکھانی ہی تھی.ایک دن آکر ان کو خبر دی کہ ولید اپنے ایک دوست ابوز بیر کے ساتھ مل کر جو عیسائی سے مسلمان ہوا تھا شراب پیتے ہیں.ان مفسدوں نے اٹھ کر تمام شہر میں اعلان کرنا شروع کر دیا کہ لو یہ تمہارا والی ہے.اندر اندر چھپ چھپ کر اپنے دوستوں کے ساتھ شراب پیتا ہے.عامتہ 35
الناس کا تو جوش بے قابو ہوتا ہی ہے اس بات کو سن کر ایک بڑی جماعت ان کے ساتھ ہو گئی اور ولید کے گھر کا سب نے جا کر محاصرہ کر لیا.دروازہ تو کوئی تھا ہی نہیں.سب بے تحاشا مسجد میں سے ہو کر اندر گھس گئے (ان کے مکان کا دروازہ مسجد میں کھلتا تھا) اور ولید کو اس وقت معلوم ہوا جب وہ ان کے سر پر جا کھڑے ہوئے.انہوں نے ان کو دیکھا تو گھبرا گئے.اور جلدی سے کوئی چیز چار پائی کے نیچے کھسکا دی.انہوں نے خیال کیا کہ اب بھید کھل گیا اور چور پکڑا گیا.جھٹ ایک شخص نے بلا بولے چالے ہاتھ اندر کیا اور وہ چیز نکال لی.دیکھا تو ایک طبق تھا اور اس کے اندر والی کوفہ کا کھانا اور انگوروں کا ایک خوشہ پڑا تھا جسے اس نے صرف اس شرم سے چھپا دیا تھا کہ ایسے بڑے مالدار صوبہ کے گورنر کے سامنے صرف یہی کھانا رکھا گیا تھا.اس امر کو دیکھ کر لوگوں کے ہوش اُڑ گئے سب شرمندہ ہو کر اُلٹے پاؤں لوٹے اور ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ بعض شریروں کے دھوکا میں آکر انہوں نے ایسا خطر ناک جرم کیا اور شریعت کے احکام کو پس پشت ڈال دیا.مگر ولید نے شرم سے اس بات کو دبا دیا اور حضرت عثمان کو اس امر کی خبر نہ کی.لیکن یہ ان کا رحم جو ایک غیر مستحق قوم کے ساتھ کیا گیا تھا آخر ان کے لئے اور ان کے بعد ان کے قائمقام کے لئے نہایت مضر ثابت ہوا.مفسدوں نے بجائے اس کے کہ اس رحم سے متاثر ہوتے اپنی ذلّت کو اور بھی محسوس کیا اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے ولید کی تباہی کی تدابیر کرنی شروع کیں اور حضرت عثمان کے پاس وفد بن کر گئے کہ ولید کو موقوف کیا جائے.لیکن انہوں نے بلاکسی جرم کے والی کو موقوف کرنے سے انکار کر دیا.یہ لوگ واپس آئے تو اور دوسرے تمام ایسے لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا جو سزایافتہ تھے.اور مل کر مشورہ کیا کہ جس طرح ہو جھوٹ سچ ولید کو ذلیل کیا جاوے.ابوزینب اور ابومورع دو شخصوں نے اس بات کا ذمہ لیا کہ وہ کوئی 36
تجویز کریں گے اور ولید کی مجلس میں جانا شروع کیا.ایک دن موقع پا کر جب کہ کوئی نہ تھا اور ولید اپنے مردانہ میں جس کو زنانہ حصہ سے صرف ایک پردہ ڈال کر جدا کیا گیا تھا سو گئے.ان دونوں نے ان کی انگشتری آہستہ سے اتار لی اور خود مدینہ کی طرف بھاگ نکلے کہ ہم نے ولید کو شراب میں مخمور دیکھا ہے اور اس کا ثبوت یہ انگوٹھی ہے جو ان کے ہاتھ سے حالت نشہ میں ہم نے اتاری اور ان کو خبر نہ ہوئی.حضرت عثمان نے ان سے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کے سامنے انہوں نے شراب پی تھی.انہوں نے اس بات کے اقرار کی تو جرأت نہ کی کیونکہ سامنے شراب پینے سے ثابت ہوتا کہ وہ بھی ولید کے ساتھ شریک تھے.اور یہ کہا کہ نہیں ہم نے ان کو شراب کی قے کرتے ہوئے دیکھا ہے.انگوٹھی اس کا ثبوت موجود تھی اور وہ گواہ حاضر تھے.اور کچھ اور شریر بھی ان کی شہادت کو زیادہ وقیع بنانے کے لئے ساتھ گئے تھے وہ بھی اس واقعہ کی تصدیق بالقرائن کرتے تھے.صحابہ سے مشورہ لیا گیا اور ولید کو حد شراب لگانے کا فیصلہ ہوا.کوفہ سے ان کو بلوایا گیا اور مدینہ میں شراب پینے کی سزا میں کوڑے لگوائے گئے.ولید نے گو عذر کیا اور ان کی شرارت پر حضرت عثمان کو آگاہ کیا مگر انہوں نے کہا کہ بحکم شریعت گواہوں کے بیان کے مطابق سزا تو ملے گی.ہاں جھوٹی گواہی دینے والا خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا پائے گا.(طبری جلد ۵ صفحه ۲۸۴۶ تا ۲۸۴۸ مطبوعہ بیروت) ولید معزول کئے گئے اور ناحق ان پر الزام لگایا گیا مگر صحابہ کے مشورہ کے ماتحت حضرت عثمان نے ان کو حد لگائی.اور چونکہ گواہ اور قرائن ان کے خلاف موجود تھے شریعت کے حکم کے ماتحت ان کو حد لگانا ضروری تھا.سعید بن العاص ان کی جگہ والی کوفہ بنا کر بھیج 37
دیئے گئے.انہوں نے کوفہ میں جا کر وہاں کی حالت دیکھی تو حیران ہو گئے.تمام او باش اور دین سے ناواقف لوگ قبضہ جمائے ہوئے تھے اور شرفاء محکوم و مغلوب تھے.انہوں نے اس واقعہ کی حضرت عثمان کو خبر دی.جنہوں نے ان کو نصیحت کی کہ جو لوگ بڑی بڑی قربانیاں کر کے دشمنوں کے مقابلہ کے لئے پہلے پہلے آتے تھے.ان کا اعزاز و احترام قائم کریں ہاں اگر وہ لوگ دین سے بے توجہی برتیں تب بے شک دوسرے ایسے لوگوں کو ان کی جگہ دیں جو زیادہ دین دار ہوں.جس وقت کوفہ میں یہ شرارت جاری تھی بصرہ بھی خاموش نہ تھاوہاں بھی حکیم بن جبلہ ابن السوداء کے ایجنٹ اور اس کے ساتھیوں کے ذریعہ حضرت عثمان کے نائبوں کے خلاف لوگوں میں جھوٹی تہمتیں مشہور کی جارہی تھیں.مصر جو اصل مرکز تھا وہاں تو اور بھی زیادہ فساد بر پا تھا عبداللہ بن سبا نے وہاں صرف سیاسی شورش ہی بر پا نہ کر رکھی تھی بلکہ لوگوں کا مذہب بھی خراب کر رہا تھا.مگر اس طرح کہ دین سے ناواقف مسلمان اسے بڑا مخلص سمجھیں.چنانچہ وہ تعلیم دیتا تھا کہ تجب ہے کہ بعض مسلمان یہ تو عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لاویں گے مگر یہ نہیں مانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ معبوث ہوں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ إِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّكَ إِلَى مَعَادٍ (القصص :۸۶) یعنی وہ خدا جس نے قرآن کریم تجھ پر فرض کیا ہے تجھے ضرور لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لاوے گا.اس کی اس تعلیم کو اس کے بہت سے ماننے والوں نے قبول کر لیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کے قائل 38
ہو گئے حالانکہ قرآن کریم ان لوگوں کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے سے جو فوت ہو چکے ہیں بڑے زور سے انکار کرتا ہے.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نام کو روشن کرنے کے لئے کسی شخص کو انہی کے اخلاق اور صفات دے کر کھڑا کر دے.مگر یہ امر تناسخ یا کسی شخص کے دوبارہ واپس آنے کے عقیدہ سے بالکل الگ ہے.اور ایک بدیہی اور مشہور امر ہے.علاوہ اس رجعت کے عقیدہ کے عبد اللہ بن سبا نے یہ بھی مشہور کرنا شروع کیا کہ ہزار نبی گزرے ہیں اور ہر ایک نبی کا ایک وصی تھا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی حضرت علی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے تو حضرت علی خاتم الاوصیاء ہیں.پھر کہتا اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہو سکتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حملہ کر کے اس کا حق چھین لے.غرض علاوہ سیاسی تدابیر کے جو اسلام میں تفرقہ ڈالنے کے لئے اس شخص نے اختیار کر رکھی تھیں.مذہبی فتنہ بھی بر پا کر رکھا تھا اور مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی بھی فکر کر رہا تھا مگر یہ احتیاط ضرور برتا تھا کہ لوگ اس کو مسلمان ہی سمجھیں.ایسی حالت میں تین سال گزر گئے اور یہ مفسد گروہ برابر خفیہ کاروائیاں کرتا رہا اور اپنی جماعت بڑھاتا گیا.لیکن اس تین سال کے عرصہ میں کوئی خاص واقعہ سوائے اس کے نہیں ہوا کہ محمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ دو شخص مدینہ منورہ کے باشندے بھی اس فتنہ میں کسی قدر حصہ لینے لگے محمد بن ابی بکر تو حضرت ابوبکر کا چھوٹا لڑکا تھا جسے سوائے اس خصوصیت کے کہ وہ حضرت ابوبکر کا لڑکا تھادینی طور پر کوئی فضیلت حاصل نہ تھی.اور محمد بن ابی حذیفہ ایک یتیم تھا جسے حضرت عثمان نے پالا تھا.مگر بڑا ہو کر اس نے خاص طور پر 39
آپ کی مخالفت میں حصہ لیا جس کی وجوہ میں ابھی بیان کروں گا چوتھے سال میں اس فتنہ نے کسی قدر ہیبت ناک صورت اختیار کر لی اور اس کے بانیوں نے مناسب سمجھا کہ اب على الاعلان اپنے خیالات کا اظہار کیا جاوے اور حکومت کے رُعب کو مٹایا جاوے چنانچہ اس امر میں بھی کوفہ ہی نے ابتداء کی.جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ولید بن عتبہ کے بعد سعید بن العاص والی کوفہ مقرر ہوئے تھے.انہوں نے شروع سے یہ طریق اختیار کر رکھا تھا کہ صرف شرفاء شہر کو اپنے پاس آنے دیتے تھے مگر کبھی کبھی وہ ایسا بھی کرتے کہ عام مجلس کرتے اور ہر طبقہ کے آدمیوں کو اس وقت پاس آنے کی اجازت ہوتی.ایک دن اسی قسم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت طلحہ کی سخاوت کا ذکر آیا اور کسی نے کہا کہ وہ بہت ہی سخاوت سے کام لیتے ہیں.اس پر سعید کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ان کے پاس مال بہت ہے وہ سخاوت کرتے ہیں ہمارے پاس بھی مال ہوتا تو ہم بھی ویسی ہی داد و دہش کرتے.ایک نوجوان نادانی سے بول پڑا کہ کاش فلاں جا گیر جو اموال شاہی میں سے تھی اور عام مسلمانوں کے فائدہ کے لئے رکھی گئی تھی آپ کے قبضہ میں ہوتی.اس پر اس فتنہ انگریز جماعت کے بعض آدمی جو اس انتظار میں تھے کہ کوئی موقع نکلے تو ہم اپنے خیالات کا اظہار کریں غصہ کا اظہار کرنے لگے اور ظاہر کرنے لگے کہ یہ بات اس شخص نے سعید والی کوفہ کے اشارہ سے کہی ہے.اور اس لئے کہی ہے تا کہ ان اموال کو ہضم کرنے کے لئے راستہ تیار کیا جاوے اور اٹھ کر اس شخص کو سعید کے سامنے ہی مارنا شروع کر دیا.اس کا باپ مدد کے لئے اٹھا تو اسے بھی خوب پیٹا سعید ان کو روکتے رہے مگر انہوں نے ان کی بھی نہ سنی اور مار مار کر دونوں کو بے ہوش کر دیا.40 40
یہ خبر جب لوگوں کو معلوم ہوئی کہ سعید کے سامنے بعض لوگوں نے ایسی شرارت کی ہے تو لوگ ہتھیار بند ہو کر مکان پر جمع ہو گئے.مگر ان لوگوں نے سعید کی منت و سماجت کی اور ان سے معافی مانگی اور پناہ کے طلب گار ہوئے.ایک عرب کی فیاضی اور پھر وہ بھی قریش کی ایسے موقع پر کب برداشت کر سکتی تھی کہ دشمن مانگے اور وہ اس سے انکار کر دے.سعید نے باہر نکل کر لوگوں سے کہہ دیا کہ کچھ لوگ آپس میں لڑ پڑے تھے معاملہ کچھ نہیں اب سب خیر ہے.لوگ تو اپنے گھروں میں لوٹ گئے اور ان لوگوں نے پھر وہی بے تکلفی شروع کی.مگر جب سعید کو یقین ہو گیا کہ اب ان لوگوں کے لئے کوئی خطرہ کی بات نہیں ان کو رخصت کر دیا.اور جن لوگوں کو پیٹا گیا تھا ان سے کہہ دیا کہ چونکہ میں ان لوگوں کو پناہ دے چکا ہوں ان کے قصور کا اعلان نہ کرو اس میں میری سبکی ہوگی.ہاں یہ تسلی رکھو کہ آئندہ یہ لوگ میری مجلس میں نہ آسکیں گے.ان مفسدوں کی اصل غرض تو پوری ہو چکی تھی.یعنی نظم اسلامی میں فساد پیدا کرنا.اب انہوں نے گھروں میں بیٹھ کر علی الاعلان حضرت عثمان اور سعید کی برائیاں بیان کرنی شروع کر دیں.لوگوں کو ان کا یہ رویہ بہت برا معلوم ہو ا اور انہوں نے سعید سے شکایت کی کہ یہ اس طرح شرارت کرتے ہیں اور حضرت عثمان کی اور آپ کی برائیاں بیان کرتے ہیں اور امت اسلامیہ کے اتحاد کو توڑنا چاہتے ہیں.ہم یہ بات برداشت نہیں کر سکتے آپ اس کا انتظام کریں.انہوں نے کہا کہ آپ لوگ خود تمام واقعات سے حضرت عثمان کو اطلاع دیں.آپ کے حکم کے ماتحت انتظام کیا جاوے گا.تمام شرفاء نے حضرت عثمان کو واقعات سے اطلاع دی.اور آپ نے سعید کو حکم دیا کہ اگر روسائے کوفہ اس امر پر متفق 41
ہوں تو ان لوگوں کو شام کی طرف جلاوطن کر دوں.اور امیر معاویہ کے پاس بھیج دو.ادھر امیر معاویہ کو لکھا کہ کچھ لوگ جو کھلے طور پر فساد پر آمادہ ہیں وہ آپ کے پاس کوفہ سے آدیں گے ان کے گزارہ کا انتظام کر دیں اور ان کی اصلاح کی تجویز کریں.اگر درست ہو جاویں اور اصلاح کرلیں تو ان کے ساتھ نرمی کرو اور ان کے پچھلے قصورروں سے درگزر کرو اور اگر شرارت پر مصر رہیں تو پھر ان کو شرارت کی سزا دو.حضرت عثمان کا یہ حکم نہایت دانائی پر مبنی تھا کیونکہ ان لوگوں کا کوفہ میں رہنا ایک طرف تو ان لوگوں کے جوشوں کو بھڑ کانے والا تھا جو اس کی شرارتوں پر پوری طرح آگاہ تھے اور خطرہ تھا کہ وہ جوش میں آکر ان کو تکلیف نہ پہنچا بیٹھیں اور دوسری طرف اس لحاظ سے بھی مضر تھا کہ وہ لوگ وہاں کے باشندے اور ایک حد تک صاحب رسوخ تھے.اگر وہاں رہتے تو اور بہت سے لوگوں کو خراب کرنے کا موجب ہوتے.مگر یہ حکم اس وقت جاری ہوا جب اس کا چنداں فائدہ نہ ہوسکتا تھا.اگر ابن عامر والی بصرہ ابن السوداء کے متعلق بھی حضرت عثمان سے مشورہ طلب کرتا اور اس کے لئے بھی اسی قسم کا حکم جاری کیا جا تا تو شاید آئندہ حالات ان حالات سے بالکل مختلف ہوتے.مگر مسلمانوں کی حالت اس وقت اس بات کی مقتضی تھی کہ ایسی ہی قضاء وقدر جاری ہو اور وہی ہوا.یہ لوگ جو جلا وطن کئے گئے اور جن کو ابن سبا کی مجلس کارکن کہنا چاہئے تعداد میں دس کے قریب تھے ( گو ان کی صحیح تعداد میں اختلاف ہے ) حضرت معاویہ نے ان کی اصلاح کے لئے پہلے تو یہ تدبیر کی کہ ان سے بہت اعزاز واحترام سے پیش آئے.خودان کے ساتھ کھانا کھاتے اور اکثر فرصت کے وقت ان کے پاس جا کر بیٹھتے.چند دن کے بعد انہوں 42
نے ان کو نصیحت کی اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم لوگوں کو قریش نے سے نفرت ہے ایسا نہیں چاہئے.اللہ تعالیٰ نے عرب کو قریش کے ذریعہ سے ہی عزت دی ہے.تمہارے حکام تمہارے لئے ایک ڈھال کے طور پر ہیں.پس ڈھالوں سے جدا نہ ہو وہ تمہارے لئے تکالیف برداشت کرتے اور تمہاری فکر رکھتے ہیں.اگر اس امر کی قدر نہ کرو گے تو خدا تعالیٰ تم پر ایسے حکام مقرر کرے گا جو تم پر خوب ظلم کریں گے اور تمہارے صبر کی قدر نہ کریں گے اور تم اس دنیا میں عذاب میں مبتلاء ہو گے.اور اگلے جہان میں بھی ان ظالم بادشاہوں کے ظلم کی سزا میں شریک ہو گے کیونکہ تم ہی ان کے قیام کے باعث بنو گے.حضرت معاویہؓ کی اس نصیحت کو سن کر ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ قریش کا ذکر چھوڑ و، نہ وہ پہلے تعداد میں ہم سے زیادہ تھے نہ اب ہیں.اور جس ڈھال کا تم نے ذکر کیا ہے وہ چھنی تو ہم کو ہی ملے گی.حضرت معاویہؓ نے فرمایا کہ معلوم ہوا تم لوگ بے وقوف بھی ہو.میں تم کو اسلام کی باتیں سناتا ہوں تم جاہلیت کا زمانہ یاد دلاتے ہو.سوال قریش کی قلت و کثرت کا نہیں بلکہ اس ذمہ داری کا ہے جو اسلام نے ان پر ڈالی ہے.قریش بے شک تھوڑے ہیں.مگر جب خدا تعالیٰ نے دین کے ساتھ ان کو عزت دی ہے اور ہمیشہ سے مکہ مکرمہ کے تعلق کے باعث ان کی حفاظت کرتا چلا آیا ہے تو خدا کے فضل کا کون مقابلہ کر سکتا ہے.جب وہ کافر تھے تو اس ادنی تعلق کے باعث اس نے ان کی حفاظت کی.اب وہ مسلمان ہو کر اس کے دین کے قائم کرنے والے ہو گئے ہیں تو کیا خدا تعالیٰ ان کو ضائع کر دے گا ؟ یا درکھو تم لوگ اسلام کے غلبہ کو دیکھ کر ایک رو میں مسلمان ہو گئے تھے اب شیطان تم کو اپنا ہتھیار بنا کر اسلام کو تباہ کرنے کے لئے تم سے کام لے رہا ہے اور دین میں رخنہ ڈالنا چاہتا ہے.مگر تم 43
لوگ جو فتنہ کھڑا کرو گے اس سے بڑے فتنہ میں اللہ تعالیٰ تم کو ڈالے گا.میرے نزدیک تم ہرگز قابل التفات لوگ نہیں ہو جن لوگوں نے خلیفہ کو تمہاری نسبت لکھا انہوں نے غلطی کی.نہ تم سے کسی نفع کی امید کی جاسکتی ہے نہ نقصان کی.ان لوگوں نے حضرت معاویہ کی تمام نصائح سن کر کہا کہ ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے عہدہ سے علیحدہ ہو جاؤ.حضرت معاویہؓ نے جواب دیا کہ اگر خلیفہ اور آئمتہ المسلمین کہیں تو میں آج الگ ہو جاتا ہوں تم لوگ ان معاملات میں دخل دینے والے کون ہو.میں تم لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس طریق کو چھوڑ دو اور نیکی اختیار کرو.اللہ تعالیٰ اپنے کام آپ کرتا ہے.اگر تمہاری رائے پر کام چلتے تو اسلام کا کام تباہ ہو جاتا.تم لوگ دراصل دین اسلام سے بیزار ہو.تمہارے دلوں میں اور ہے اور زبانوں پر اور.مگر اللہ تعالیٰ تمہارے ارادوں اور مخفی منصوبوں کو ایک دن ظاہر کر کے چھوڑے گا.غرض دیر تک حضرت معاویہؓ ان کو سمجھاتے رہے اور یہ لوگ اپنی بیہودگی میں بڑھتے گئے.حتی کہ آخر لا جواب ہو کر حضرت معاویہ پر حملہ کر دیا اور ان کو مارنا چاہا.حضرت معاویہؓ نے ان کو ڈانٹا اور کہا یہ کوفہ نہیں شام ہے.اگر شام کے لوگوں کو معلوم ہوا تو جس طرح سعید کے کہنے سے کوفہ کے لوگ چپ کر رہے تھے یہ خاموش نہ رہیں گے بلکہ عوام الناس جوش میں میرے قول کی بھی پرواہ نہیں کریں گے اور تمہاری تکہ بوٹی کر دیں گے.یہ کہہ کر حضرت معاویہؓ مجلس سے اٹھ گئے اور ان لوگوں کو شام سے واپس کوفہ بھیج دیا.اور حضرت عثمان کو لکھ دیا کہ یہ لوگ بوجہ اپنی حماقت اور جہالت کے قابل التفات ہی نہیں ہیں.ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرنی چاہئے اور سعید والی کوفہ کو بھی لکھ دیا جاوے کہ ان کی طرف توجہ نہ کرے.یہ بے دین لوگ ہیں اسلام سے متنفر ہیں.اہل ذمہ کا مال لوٹنا چاہتے ہیں اور فتنہ ان کی عادت ہے ان لوگوں میں اتنی طاقت نہیں کہ بلا کسی دوسرے کی مدد 44
کے خود کوئی نقصان پہنچاسکیں.حضرت معاویہ کی یہ رائے بالکل درست تھی مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے علاقہ سے باہر مصر میں چھپی ہوئی ایک روح ہے.جو ان سب لوگوں سے کام لے رہی ہے اور ان کا جاہل ہونا اور اُجڈ ہونا ہی اس کے کام کے لئے محمد ہے.وہ لوگ جب دمشق سے نکلے تو انہوں نے کوفہ کا ارادہ ترک کر دیا.کیونکہ وہاں کے لوگ ان کی شرارتوں سے واقف تھے.اور ان کو خوف تھا کہ وہاں ان کو نقصان پہنچے گا اور جزیرہ کی طرف چلے گئے.وہاں کے گورنر عبد الرحمن تھے جو اس مشہور سپہ سالار کے خلف الرشید تھے جو جرات اور دلیری میں تمام دنیا کے لئے ایک روشن مثال قائم کر گیا ہے یعنی خالد بن ولید.جس وقت ان کو ان لوگوں کی آمد کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے فورا ان کو بلوایا اور کہا میں نے تمہارے حالات سنے ہیں.خدا مجھے نامراد کرے اگر میں تم کو درست نہ کروں.تم جانتے ہو کہ میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس نے فتنہ ارتدادکو دور کیا تھا اور بڑی بڑی مشکلات سے کامیاب نکلا تھا.میں دیکھوں گا کہ تم جس طرح معاویہ اور سعید سے باتیں کیا کرتے تھے مجھ سے بھی کر سکتے ہو.سنو! اگر کسی شخص کے سامنے تم نے یہاں کوئی فتنہ کی بات کی تو پھر ایسی سزا دوں گا کہ تم یاد ہی رکھو گے یہ کہہ کر ان کو نظر بند کر دیا اور ہمیشہ اپنے ساتھ رہنے کا حکم دیا.جب سفر پر جاتے تو ان کو اپنے ساتھ پا پیادہ لے جاتے اور ان سے دریافت کرتے کہ اب تمہارا کیا حال ہے؟ جس کو نیکی درست نہیں کرتی اس کا علاج سزا ہوتی ہے.تم لوگ اب کیوں نہیں بولتے ؟ وہ لوگ ندامت کا اظہار کرتے اور اپنی شرارت پر تو بہ کرتے.اسی طرح کچھ مدت گزرنے پر عبد الرحمن بن خالد بن ولید نے خیال کیا کہ 45
ان لوگوں کی اصلاح ہو گئی ہے اور ان میں سے ایک شخص مالک نامی کو حضرت عثمان کی خدمت میں بھیجا کہ وہاں جا کر معافی مانگو وہ حضرت عثمان کے پاس آیا اور توبہ کی اور اظہار ندامت کیا اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لئے معافی مانگی.انہوں نے ان کو معاف کر دیا اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کہاں رہنا چاہتے ہیں مالک نے کہا کہ اب ہم عبد الرحمن بن خالد کے پاس رہنا چاہتے ہیں.حضرت عثمان نے اجازت دی اور وہ شخص واپس عبد الرحمن بن خالد کے پاس چلا گیا.اس شخص کے عبد الرحمن بن خالد کے پاس ہی رہنے کی خواہش سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس کا دل ضرور صاف ہو چکا تھا.کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ایسے آدمی کے پاس جو شرارت کو ایک منٹ کے لئے روانہ رکھتا تھا واپس جانے کی خواہش نہ کرتا.مگر بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تو بہ بالکل عارضی تھی اور حضرت معاویہ کا یہ خیال درست تھا کہ یہ بے وقوف لوگ ہیں اور صرف ہتھیار بن کر کام کر سکتے ہیں.عبد اللہ بن سبا اس عرصہ میں خاموش نہ بیٹھا ہوا تھا بلکہ اس نے کچھ مدت سے یہ رویہ اختیار کیا تھا کہ اپنے ایجنٹوں کو تمام علاقوں میں بھیجتا اور اپنے خیالات پھیلاتا.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شخص غیر معمولی عقل و دانش کا آدمی تھا.وہ احکام جو اس نے اپنے ایجنٹوں کو دیئے اس کے دماغ کی بناوٹ پر خوب روشنی ڈالتے ہیں.جب یہ اپنے نائب روانہ کرتا تو ان کو ہدایت دیتا کہ اپنے خیالات کو فور لوگوں کے سامنے نہ پیش کر دیا کرو بلکہ پہلے وعظ و نصیحت سے کام لیا کرو.اور شریعت کے احکام لوگوں کو سنا یا کرو.اور اچھی باتوں کا حکم دیا کرو اور بری باتوں سے روکا کرو.جب لوگ تمہارا یہ طریق دیکھیں گے تو ان کے 46
دل تمہاری طرف مائل ہو جائیں گے اور تمہاری باتوں کو شوق سے سنا کریں گے اور تم پر اعتبار پیدا ہو جائے گا.تب عمدگی سے ان کے سامنے اپنے خاص خیالات پیش کرو وہ بہت جلد قبول کر لیں گے.اور یہ بھی احتیاط رکھو کہ پہلے حضرت عثمان کے خلاف باتیں نہ کرنا.بلکہ ان کے نائبوں کے خلاف لوگوں کے جوش کو بھڑ کا نا.اس سے اس کی غرض یہ تھی کہ حضرت عثمان سے خاص مذہبی تعلق ہونے کی وجہ سے لوگ ان کے خلاف باتیں سن کر بھڑک اٹھیں گے.لیکن امراء کے خلاف باتیں سننے سے ان کے مذہبی احساسات کو تحریک نہ ہوگی اس لئے ان کو قبول کر لیں گے.جب اس طرح ان کے دل سیاہ ہو جائیں گے اور ایک خاص پارٹی میں شمولیت کر لینے سے جو ضد پیدا ہو جاتی ہے وہ پیدا ہو جاوے گی.تو پھر حضرت عثمان کے خلاف ان کو بھڑ کا نا بھی آسان ہوگا.اس شخص نے جب یہ دیکھا کہ والیان صوبہ جات کی برائیاں جب کبھی بیان کی جاتی ہیں تو سمجھ دار لوگ ان کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنے مشاہدہ کی بناء پر ان شکایات کو جھوٹا اور بے حقیقت جانتے ہیں اور ملک میں عام جوش نہیں پھیلتا.تو اس نے ایک اور خطر ناک تدبیر اختیار کی اور وہ یہ کہ اپنے نائبوں کو حکم دیا کہ بجائے اس کے کہ ہر جگہ کے گورنروں کو انہی کے علاقوں میں بدنام کرنے کی کوشش کریں ان کی برائیاں لکھ کر دوسرے علاقوں میں بھیجیں.کیونکہ دوسرے علاقوں کے لوگ اس جگہ کے حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے ان کی باتوں کو آسانی سے قبول کر لیں گے.چنانچہ اس مشورہ کے ماتحت ہر جگہ کے مفسد اپنے علاقوں کے حکام کی جھوٹی شکایات اور بناوٹی مظالم لکھ کر دوسرے علاقوں کے ہمدردوں کو بھیجتے اور وہ ان خطوں کو پڑھ کر لوگوں کو سناتے اور بوجہ غیر 47
ممالک کے حالات سے ناواقفیت کے بہت سے لوگ ان باتوں کو سچ یقین کر لیتے اور افسوس کرتے کہ فلاں فلاں ملک کے ہمارے بھائی سخت مصیبتوں میں مبتلاء ہیں اور ساتھ شکر بھی کرتے کہ خدا کے فضل سے ہمارا والی اچھا ہے ہمیں کوئی تکلیف نہیں.اور یہ نہ جانتے کہ دوسرے ممالک کے لوگ اپنے آپ کو آرام میں اور ان کو دکھ میں سمجھتے اور اپنی حالت پر شکر اور ان کی حالت پر افسوس کرتے ہیں.مدینہ کے لوگوں کو چونکہ چاروں اطراف سے خطوط آتے تھے.ان میں سے جولوگ ان خطوط کو صحیح تسلیم کر لیتے وہ یہ خیال کر لیتے کہ شاید سب ممالک میں ظلم ہی ہورہا ہے اور مسلمانوں پر سخت مصائب ٹوٹ رہے ہیں غرض عبد اللہ بن سبا کا یہ فریب بہت کچھ کارگر ثابت ہوا.اور اسے اس ذریعہ سے ہزاروں ایسے ہمدردل گئے جو بغیر اس تدبیر کے ملنے مشکل تھے.جب یہ شورش حد سے بڑھنے لگی.اور صحابہ کرام کو بھی ایسے خطوط ملنے لگے جن میں گورنروں کی شکایات درج ہوتی تھیں تو انہوں نے مل کر حضرت عثمان سے عرض کیا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے.انہوں نے فرمایا کہ جور پورٹیں مجھے آتی ہیں وہ تو خیر و عافیت ہی ظاہر کرتی ہیں.صحابہ نے جواب دیا کہ ہمارے پاس اس اس مضمون کے خطوط باہر سے آتے ہیں اس کی تحقیق ہونی چاہئے.حضرت عثمان نے اس پر ان سے مشورہ طلب کیا کہ تحقیق کس طرح کی جاوے.اور ان کے مشورہ کے مطابق اسامہ بن زید کو بصرہ کی طرف محمد بن مسلم کو کوفہ کی طرف عبد اللہ بن عمر" کو شام کی طرف عمار بن یاسر کو مصر کی طرف بھیجا کہ وہاں کے حالات کی تحقیق کر کے رپورٹ کریں کہ آیا واقع میں امراء رعیت پر ظلم کرتے ہیں اور تعدی سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کے حقوق مار لیتے ہیں.اور ان چاروں 48
کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی متفرق بلاد کی طرف بھیجے تا کہ وہاں کے حالات سے اطلاع دیں.(طبری جلد نمبر ۶ صفحه ۲۹۴۳ مطبوعه بیروت) یہ لوگ گئے اور تحقیق کے بعد واپس آکر ان سب نے رپورٹ کی کہ سب جگہ امن ہے اور مسلمان بالکل آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں.اور ان کے حقوق کو کوئی تلف نہیں کرتا اور حکام عدل و انصاف سے کام لے رہے ہیں.مگر عمار بن یاسر نے دیر کی اور ان کی کوئی خبر نہ آئی عمار بن یاسر نے کیوں دیر کی اس کا ذکر تو پھر کروں گا.پہلے میں اس تحقیقی وفد اور اس کی تحقیق کی اہمیت کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.کیونکہ اس وفد کے حالات کو اچھی طرح سمجھ لینے سے اس فتنہ کی اصل حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے.سب سے پہلی بات جو قابل غور ہے یہ ہے کہ اس وفد کے تینوں سر کردہ جو لوٹ کر آئے اور جنہوں نے آکر رپورٹ دی وہ کس پایہ کے آدمی تھے.کیونکہ تحقیق کرنے والے آدمیوں کی حیثیت سے اس تحقیق کی حیثیت معلوم ہوتی ہے.اگر اس وفد میں ایسے لوگ بھیجے جاتے جو عثمان یا آپ کے نواب سے کوئی غرض رکھتے یا جن کی دینی و دنیاوی حیثیت اس قدر اعلیٰ اور ارفع نہ ہوتی کہ وہ حکام سے خوف کھاویں یا کوئی طمع رکھیں تو کہا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی لالچ یا خوف کے باعث حقیقت کے بیان کرنے سے اعراض کر گئے.مگر ان لوگوں پر اس قسم کا اعتراض ہر گز نہیں پڑسکتا اور ان لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کر کے حضرت عثمان نے اپنی نیک نیتی کا ایک بین ثبوت دے دیا ہے.اسامہ جن کو بصرہ کی طرف بھیجا گیا تھا وہ شخص ہے کہ جو نہ صرف یہ کہ اول المؤمنین حضرت زید کے لڑکے ہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے مقربین اور پیاروں میں سے ہیں.اور آپ ہی وہ شخص ہیں جن کو رسول کریم 49
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر عظیم کی سپہ سالاری عطا کی جسے آپ اپنی مرض موت میں تیار کرا رہے تھے اور اس میں حضرت عمر جیسے بڑے بڑے صحابیوں کو آپ کے ماتحت کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب صرف دلداری کے طور پر ہی نہ تھا بلکہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ وہ بڑے بڑے کاموں کے اہل تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے قدر محبت کرتے کہ دیکھنے والے فرق نہ کر سکتے تھے کہ آپ ان کو زیادہ چاہتے ہیں یا حضرت امام حسن کو.محمد بن مسلم بھی جن کو کو نہ بھیجا گیا جلیل القدرصحابہ میں سے تھے ย اور صحابہ میں خاص عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور نہایت صاحب رسوخ تھے.حضرت عبد اللہ بن عمر" جن کو شام کی طرف روانہ کیا گیا ایسے لوگوں میں سے ہیں جن کے تعارف کی ضرورت ہی نہیں.آپ سابق بالعبد مسلمانوں میں سے تھے.اور زہد و تقوی اللہ میں آپ کی وہ شان تھی کہ اکا برصحابہ بھی آپ کی ان خصوصیات کی وجہ سے آپ کا خاص ادب کرتے تھے.حضرت علی کے بعد اگر کسی صحابی پر صحابہ اور دوسرے بزرگوں کی نظر خلافت کے لئے پڑی تو آپ پر پڑی.مگر آپ نے دنیا سے علیحدگی کو اپنا شعار بنا رکھا تھا.شعائر دینیہ کے لئے آپ کو اس قدر غیرت تھی کہ بعض دفعہ آپ نے خود عمر بن الخطاب سے بڑی سختی سے بحث کی.غرض حق گوئی میں آپ ایک کھینچی ہوئی تلوار تھے.آپ کا انتخاب شام کے لئے نہایت ہی اعلیٰ انتخاب تھا.کیونکہ بوجہ اس کے کہ حضرت معاویہؓ دیر سے شام کے حاکم تھے اور وہاں کے لوگوں پر ان کا بہت رُعب تھا اور بوجہ ان کی ذکاوت کے ان کے انتظام کی تحقیق کرنا کسی معمولی آدمی کا کام نہ تھا.اس جگہ کسی دوسرے آدمی کا بھیجا جانا فضول تھا.اور لوگوں کو اس کی تحقیق پر تسلی بھی نہ ہوتی مگر آپ کی 50
سبقت ایمانی اور غیر اسلامی اور حریت اور تقویٰ و زہد ایسے کمالات تھے کہ ان کے سامنے معاویہ دم نہ مار سکتے تھے اور نہ ایسے شخص کی موجودگی میں حضرت معاویہؓ کا رُعب کسی شخص پر پڑ سکتا تھا.غرض جو لوگ تحقیق کے لئے بھیجے گئے تھے وہ نہایت عظیم الشان اور بے تعلق لوگ تھے اور ان کی تحقیق پر کسی شخص کو اعتراض کی گنجائش حاصل نہیں پس ان تینوں صحابہ کا مع ان دیگر آدمیوں کے جو دوسرے بلاد میں بھیجے گئے متفقہ طور پر فیصلہ دینا کہ ملک میں بالکل امن وامان ہے.ظلم و تعدی کا نام ونشان نہیں.حکام عدل و انصاف سے کام لے رہے ہیں اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو یہ کہ لوگوں کو حدود کے اندر رہنے پر مجبور کرتے ہیں ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی.اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب فساد چند شریر النفس آدمیوں کی شرارت و عبد اللہ بن سبا کی انگیخت کا نتیجہ تھا.ورنہ حضرت عثمان اور ان کے نواب ہر قسم کے اعتراضات سے پاک تھے.حق یہی ہے کہ یہ سب شورش ایک خفیہ منصوبہ کا نتیجہ تھی جس کے اصل بانی یہودی تھے.جن کے ساتھ طمع دنیاوی میں مبتلاء بعض مسلمان جو دین سے نکل چکے تھے شامل ہو گئے تھے ورنہ امرائے بلا د کا نہ کوئی قصور تھا نہ وہ اس فتنہ کے باعث تھے.ان کا صرف اسی قدر قصور تھا کہ ان کو حضرت عثمان نے اس کام کے لئے مقرر کیا تھا اور حضرت عثمان کا یہ قصور تھا کہ باوجود پیرانہ سالی اور نقاہت بدنی کے اتحاد اسلام کی رسی کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے بیٹھے تھے اور امت اسلامیہ کا بوجھ اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے تھے اور شریعت اسلام کے قیام کی فکر رکھتے تھے.اور متمر دین اور ظالموں کو اپنی حسب خواہش کمزوروں اور 51
بے وارثوں پر ظلم و تعدی کرنے نہ دیتے تھے چنانچہ اس امر کی تصدیق اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ کوفہ میں انہی فساد چاہنے والوں کی ایک مجلس بیٹھی اور اس میں افساد امر المسلمین پر گفتگو ہوئی تو سب لوگوں نے بالا تفاق یہ رائے دی لَا وَ اللَّهِ لَا يَرْفَعُ رَأْسٌ مَادَامَ عُثْمَانُ عَلَى النَّاسِ یعنی کوئی شخص اس وقت تک سر نہیں اٹھا سکتا جب تک کہ عثمان کی حکومت ہے.عثمان ہی کا ایک وجود تھا جو سرکشی سے باز رکھے ہوئے تھے.اس کا درمیان سے ہٹانا آزادی سے اپنی مرادیں پوری کرنے کے لئے ضروری تھا.میں نے بتایا تھا کہ عمار بن یا سرجن کو مصر کی طرف روانہ کیا گیا تھا وہ واپس نہیں آئے.ان کی طرف سے خبر آنے میں اس قدر دیر ہوئی کہ اہل مدینہ نے خیال کیا کہ کہیں مارے گئے ہیں.مگر اصل بات یہ تھی کہ وہ اپنی سادگی اور سیاست سے ناواقفیت کی وجہ سے ان مفسدوں کے پنجہ میں پھنس گئے تھے جو عبد اللہ بن سبا کے شاگر د تھے.مصر میں چونکہ خود عبد اللہ بن سبا موجود تھا اور وہ اس بات سے غافل نہ تھا کہ اگر اس تحقیقاتی وفد نے تمام ملک میں امن و امان کا فیصلہ دیا تو تمام لوگ ہمارے مخالف ہو جاویں گے اس وفد کے بھیجے جانے کا فیصلہ ایسا اچانک ہوا تھا کہ دوسرے علاقوں میں وہ کوئی انتظام نہیں کر سکا تھا.مگر مصر کا انتظام اس کے لئے آسان تھا جو نہ عمار بن یاسر مصر میں داخل ہوئے اس نے ان کا استقبال کیا.اور والی مصر کی برائیاں اور مظالم بیان کرنے شروع کئے.وہ اس کے لسانی سحر کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکے.اور بجائے اس کے کہ ایک عام بے لوث تحقیق کرتے.والی مصر کے پاس گئے ہی نہیں اور نہ عام تحقیق کی بلکہ اسی مفسد گروہ کے ساتھ چلے گئے اور انہی کے ساتھ مل کر اعتراض کرنے شروع کر دیئے.52 52
صحابہ میں سے اگر کوئی شخص اس مفسد گروہ کے پھندے میں پھنسا ہوا یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے تو وہ صرف عمار بن یاسر ہیں.ان کے سوا کئی معروف صحابی اس حرکت میں شامل نہیں ہوا.اور اگر کسی کی شمولیت بیان کی گئی ہے تو دوسری روایات سے اس کا رد بھی ہو گیا ہے.عمار بن یاسر کا ان لوگوں کے دھوکے میں آجانا ایک خاص وجہ سے تھا اور وہ یہ کہ جب وہ مصر پہنچے تو وہاں پہنچتے ہی بظاہر ثقہ نظر آنے والے اور نہایت طر ارولستان لوگوں کی ایک جماعت ان کو ملی جس نے نہایت عمدگی سے ان کے پاس والی مصر کی شکایات بیان کرنی شروع کیں.اتفاقاً والی مصر ایک ایسا شخص تھا جو کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت مخالف رہ چکا تھا اور اس کی نسبت آپ نے فتح مکہ کے وقت حکم دیا تھا کہ خواہ خانہ کعبہ ہی میں کیوں نہ ملے اسے قتل کر دیا جائے.اور گو بعد میں آپ نے اسے معاف کر دیا مگر اس کی پہلی مخالفت کا بعض صاحبہ کے دل پر جن میں عمار بھی شامل تھے اثر باقی تھا پس ایسے شخص کے خلاف باتیں سن کر عمار بہت جلد متاثر ہو گئے اور ان الزامات کو جو اس پر لگائے جاتے تھے صحیح تسلیم کر لیا اور احساس طبعی سے فائدہ اٹھا کر سبائی یعنی عبداللہ بن سبا کے ساتھی اس کے خلاف اس بات پر خاص زور دیتے تھے.پس حضرت عثمان کی نیک نیتی اور اخلاص کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ باوجود اس کے کہ سوائے ایک شخص کے سب وفدوں نے حکام کی بریت کا فیصلہ دیا تھا.حضرت عثمان نے اس ایک مخالف رائے کی قدر کر کے ایک خط تمام علاقوں کے لوگوں کی طرف بھیجا جس کا مضمون یہ تھا کہ میں جب سے خلیفہ ہؤا ہوں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر میر اعمل ہے اور میرے رشتہ داروں کا عام مسلمانوں سے زیادہ کوئی حق نہیں.مگر مجھے مدینے کے رہنے والے بعض لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ حکام لوگوں کو مارتے اور گالیاں دیتے ہیں اس لئے میں اس خط کے ذریعے سے عام اعلان 53
کرتا ہوں کہ جس کسی کو خفیہ طور پر گالی دی گئی ہو یا پیٹا گیا ہو وہ حج کے موقعہ پر مکہ مکرمہ میں مجھ سے ملے اور جو کچھ اس پر ظلم ہو ا ہو خواہ میرے ہاتھوں سے خواہ میرے عاملوں کے ذریعے سے اس کا بدلہ وہ مجھ سے اور میرے نائبوں سے لے لے یا معاف کر دے.اللہ تعالیٰ صدقہ دینے والوں کو اپنے پاس سے جزاء دیتا ہے.یہ مختصر لیکن دردناک خط جس وقت تمام ممالک میں منبروں پر پڑھا گیا تو عالم اسلام ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہل گیا اور سامعین بے اختیار رو پڑے اور سب نے حضرت عثمان کے لئے دعائیں کیں اور ان فتنہ پردازوں پر جو اس ملت اسلام کے در د ر کھنے والے اور اس کا بوجھ اٹھانے والے انسان پر حملہ کر رہے تھے اور اس کو دکھ دے رہے تھے اظہار افسوس کیا گیا.(طبری جلد نمبر ۶ صفحه ۲۹۴۴ مطبوعہ بیروت) حضرت عثمان نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ اپنے عمال کو ان الزامات کے جواب دینے کے لئے جو ان پر لگائے جاتے تھے خاص طور پر طلب کیا.جب سب والی جمع ہو گئے تو آپ نے ان سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ لوگوں کے خلاف الزام لگائے جاتے ہیں.مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں یہ باتیں درست ہی نہ ہوں.اس پر ان سب نے جواب میں عرض کیا کہ آپ نے معتبر آدمیوں کو بھیج کر دریافت کرالیا ہے کہ کوئی ظلم نہیں ہوتا.نہ خلاف شریعت کوئی کام ہوتا ہے اور آپ کے بھیجے ہوئے معتبروں نے سب لوگوں سے حالات دریافت کئے.ایک شخص بھی ان کے سامنے آکر ان شکایات کی صحت کا جو بیان کی جاتی ہیں مدعی نہیں ہوا.پھر شک کی کیا گنجائش ہے.خدا کی قسم ہے کہ ان لوگوں نے سچ سے کام نہیں لیا اور نہ تقویٰ اللہ سے کام لیا ہے.اور ان کے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں.ایسی 54
بے بنیاد باتوں پر گرفت جائز نہیں ہوسکتی نہ ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے.حضرت عثمان نے فرمایا کہ پھر مجھے مشورہ دو کہ کیا کیا جاوے.اس پر مختلف مشورے آپ کو دیئے گئے.جن سب کا ماحصل یہی تھا کہ آپ سختی کے موقع پر سختی سے کام لیں اور ان فسادیوں کو اس قدر ڈھیل نہ دیں.اس سے ان میں اور دلیری پیدا ہوتی ہے.شریر صرف سزا سے ہی درست ہو سکتا ہے نرمی اسی سے کرنی چاہئے جو نرمی سے فائدہ اٹھائے.حضرت عثمان نے سب کا مشورہ سن کر فرمایا.جن فتنوں کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں وہ تو ہو کر رہیں گے ہاں نرمی سے اور محبت سے ان کو ایک وقت تک روکا جاسکتا ہے.پس میں سوائے حدود اللہ کے ان لوگوں سے نرمی ہی سے معاملہ کروں گا تا کہ کسی شخص کی میرے خلاف حجت حقہ نہ ہو.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے لوگوں سے بھلائی میں کوئی کمی نہیں کی.مبارک ہو عثمان کے لئے اگر وہ فوت ہو جاوے اور فتنوں کا سیلاب جو اسلام پر آنے والا ہے وہ ابھی شروع نہ ہو ا ہو.پس جاؤ اور لوگوں سے نرمی سے معاملہ کرو اور ان کے حقوق ان کو دو اور ان کی غلطیوں سے درگزر کرو.ہاں اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کو کوئی توڑے تو ایسے شخصوں سے نرمی اور عفو کا معاملہ نہ کرو.حج سے واپسی پر حضرت معاویہؓ بھی حضرت عثمان کے ساتھ مدینہ آئے کچھ دن ٹھہر کر آپ واپس جانے لگے تو آپ نے حضرت عثمان سے علیحدہ مل کر درخواست کی کہ فتنہ بڑھتا معلوم ہوتا ہے.اگر اجازت ہو تو میں اس کے متعلق کچھ عرض کروں.آپ نے فرمایا کہو.اس پر انہوں نے کہا کہ اول میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ شام چلے چلیں کیونکہ شام میں ہر طرح سے امن ہے اور کسی قسم کا فساد نہیں ایسا نہ ہو کہ یک دم کسی قسم کا فساد 55
اٹھے اور اس وقت کوئی انتظام نہ ہو سکے.حضرت عثمان نے ان کو جواب دیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی کوکسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا خواہ جسم کی دھجیاں اُڑادی جائیں.حضرت معاویہؓ نے کہا کہ پھر دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ایک دستہ شامی فوج کا آپ کی حفاظت کے لئے بھیج دوں.ان لوگوں کی موجودگی میں کوئی شخص شرارت نہیں کر سکے گا حضرت عثمان نے جواب دیا کہ نہ میں عثمان کی جان کی حفاظت کے لئے اس قدر بوجھ بیت المال پر ڈال سکتا ہوں اور نہ یہ پسند کر سکتا ہوں کہ مدینہ کے لوگوں کو فوج رکھ کر تنگی میں ڈالوں.اس پر حضرت معاویہؓ نے عرض کی کہ پھر تیسری تجویز یہ ہے کہ صحابہ کی موجودگی میں لوگوں کو جرات ہے کہ اگر عثمان نہ رہے تو ان میں سے کسی کو آگے کھڑا کر دیں گے.ان لوگوں کو مختلف ملکوں میں پھیلا دیں.حضرت عثمان نے جواب دیا کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے میں ان کو پراگندہ کر دوں.اس پر معاویہؓ رو پڑے اور عرض کی کہ اگر ان تدابیر میں سے جو آپ کی حفاظت کے لئے میں نے پیش کی ہیں آپ کوئی بھی قبول نہیں کرتے تو اتنا تو کیجئے کہ لوگوں میں اعلان کر دیجئے کہ اگر میری جان کو کوئی نقصان پہنچے تو معاویہؓ کو میرے قصاص کا حق ہوگا.شاید لوگ اس سے خوف کھا کر شرارت سے باز رہیں.حضرت عثمان نے جواب دیا کہ معاویہ ! جو ہونا ہے ہو کر رہے گا میں ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ آپ کی طبیعت سخت ہے ایسا نہ ہو آپ مسلمانوں پر سختی کریں اس پر حضرت معاویہ روتے ہوئے آپ کے پاس سے اٹھے اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو.اور باہر نکل کر صحابہ سے کہا کہ اسلام کا دارو مدار آپ لوگوں پر ہے حضرت عثمان اب بالکل ضعیف ہو گئے ہیں اور فتنہ بڑھ رہا ہے آپ لوگ ان کی نگہداشت رکھیں.یہ کہہ کر 56
معاویہ شام کی طرف روانہ ہو گئے.صوبہ جات کے عمال کا اپنے اپنے علاقوں سے غائب رہنا ایسا موقع نہ تھا جسے عبداللہ بن سبا یونہی جانے دیتا.اس نے فوراً چاروں طرف ڈاک دوڑا دی کہ یہ موقع ہے اس وقت ہمیں کچھ کرنا چاہئے ایک دن مقرر کر کے یکدم اپنے اپنے علاقہ کے امراء پر حملہ کر دیا جائے مگر ابھی مشورے ہی ہو رہے تھے کہ امراء واپس آگئے.دوسری جگہوں کے سبائی تو مایوس ہو گئے مگر کوفہ کے سبائی ( یعنی عبد اللہ بن سبا کے ساتھی ) جو پہلے بھی عملی فساد میں سب سے آگے قدم رکھنے کے عادی تھے انہوں نے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا.یزید بن قیس نامی ایک شخص نے مسجد کوفہ میں جلسہ کیا اور اعلان کیا کہ اب حضرت عثمان کو خلافت سے علیحدہ کر دینا چاہئے.قعقاع بن عمرو جو اس جگہ کی چھاؤنی کے افسر تھے انہوں نے سنا تو آکر اسے گرفتار کرنا چاہا.وہ ان کے سامنے عذر کرنے لگا کہ میں تو اطاعت سے باہر نہیں ہوں.ہم لوگ تو اس لئے جمع ہوئے تھے کہ سعید بن العاص کے متعلق جلسہ کر کے درخواست کریں کہ اس کو یہاں سے بلوایا جائے اور کوئی اور افسر مقرر کیا جاوے.انہوں نے کہا کہ اس کے لئے جلسوں کی ضرورت نہیں.اپنی شکایات لکھ کر حضرت عثمان کی طرف بھیج دو.وہ کسی اور کو والی مقرر کر کے بھیج دیں گے.اس میں مشکل کون سی ہے.یہ بات انہوں نے اس لئے کی کہ زمانہ خلفاء میں لوگوں کے آرام کے خیال سے جب والیوں کے خلاف کوئی تکلیف ہوتی تھی تو اکثر ان کو بدل دیا جاتا تھا.قعقاع کا یہ جواب سن کر یہ لوگ بظاہر منتشر ہو گئے مگر خفیہ طور پر منصوبہ کرتے رہے.آخر یزید بن قیس نے جو اس وقت کو فہ میں سبائیوں کا رئیس تھا ایک آدمی کو خط دے کر حمص کی طرف روانہ کیا اور کہا کہ ان 57
لوگوں کو جو کوفہ سے جلا وطن کئے گئے تھے اور جن کا واقعہ پہلے بیان ہو چکا ہے وہ بلا لائے.وہ خط لے کر ان لوگوں کے پاس گیا.اس خط کا مضمون یہ تھا کہ اہل مصر ہمارے ساتھ مل گئے ہیں اور موقع بہت اچھا ہے یہ خط پہنچتے ہی ایک منٹ کی دیر نہ کرو اور واپس آجاؤ.کس قدر تعجب کی بات ہے کہ خلیفہ وقت سابق بالا یمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد کے خلاف جوش ظاہر کرنے والے اور اس پر عیب لگانے والے وہ لوگ ہیں جو خود نمازوں کے تارک ہیں.کیا ہو سکتا ہے کہ اسلام کے لئے غیرت صرف بے دینوں میں پیدا ہو؟ اگر واقع میں حضرت عثمان یا ان کے والیوں میں کوئی نقص ہوتا.کوئی بات خلاف شریعت ہوتی کوئی کمزوری ہوتی تو اس کے خلاف جوش کا اظہار کرنے والے علی ،طلحہ، زبیر، سعد بن الوقاص ، عبد اللہ بن عمر، اسامہ بن زید، عبد اللہ بن عباس، ابو موسیٰ اشعری، حذیفہ بن الیمان، ابوہریرہ ، عبد اللہ بن سلام ، عبادہ بن صامت ، اور محمد بن مسلمہ رضوان اللہ علیہم ہوتے نہ کہ یزید بن قیس اور اشتر.یہ خط لے کر نامہ بر جزیرہ پہنچا اور جلا وطنان اہل کوفہ کے سپر دکر دیا.جب انہوں نے اس خط کو پڑھا تو سوائے اشتر کے سب نے ناپسند کیا.کیونکہ وہ عبد الرحمن بن خالد کے ہاتھ دیکھ چکے تھے.مگر اشتر جو مدینہ میں جا کر حضرت عثمان سے معافی مانگ کر آیا تھا اس کی تو بہ قائم نہ رہی اور اسی وقت کوفہ کی طرف چل پڑا.جب اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اشتر واپس چلا گیا تو وہ ڈرے کہ عبد الرحمن ہماری بات پر یقین نہ کریں گے اور سمجھیں گے کہ یہ سب کام ہمارے مشورہ سے ہوا ہے.اس خوف سے وہ بھی نکل بھاگے جب عبد الرحمن بن خالد بن ولید کو معلوم ہوا تو انہوں نے پیچھے آدمی بھیجے مگر ان کے آدمی ان کو پکڑ نہ 58
سکے مالک الاشتر منزلوں پر منزلیں مارتا ہؤا کوفہ پہنچا خالی ہاتھ شہر میں گھسنا اس نے اپنی عزت کے خلاف سمجھا.یہ جزیرہ سے آنے والا شخص جو اپنے ساتھیوں سے ملنے کے لئے دو دومنزلوں کی ایک منزل کرتا چلا آیا تھا.اپنے مدینہ سے آنے کا اعلان کرنے لگا اور لوگوں کو جوش دلانے کے لئے کہنے لگا کہ میں ابھی سعید بن العاص سے جدا ہو اہوں.ان کے ساتھ ایک منزل ہم سفر رہا ہوں.وہ علی الاعلان کہتا ہے کہ میں کوفہ کی عورتوں کی عصمتوں کو خراب کروں گا اور کہتا ہے کہ کوفہ کی جائیداد میں قریش کا مال ہیں.اور یہ شعر فخر یہ پڑھتا ہے.وَيْلٌ لِأَشْرَافِ النِّسَاعِمِنِّي صَمَحْمَحٌ كَأَنَّنِيْ مِنْ جِنِّ طبری جلد ۶ صفحه ۲۹۲۹ مطبوعہ بیروت) شریف عورتیں میرے سبب سے مصیبت میں مبتلاء ہوں گی.میں ایک ایسا مضبوط آدمی ہوں گویا جنات میں سے ہوں اس کی ان باتوں سے عامتہ الناس کی عقل ماری گئی.اور انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیا اور آنا فانا ایک جوش پھیل گیا.عقل مندوں اور داناؤں نے بہت سمجھایا کہ یہ ایک فریب ہے اس فریب میں تم نہ آؤ.مگر عوام کے جوش کو کون روکے ان کی بات ہی کوئی نہ سنتا تھا.ایک آدمی نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ جو چاہتا ہے کہ سعید بن العاص والی کوفہ کی واپسی اور کسی والی کے تقرر کا مطالبہ کرے.اسے چاہئے که فوراً یزید بن قیس کے ہمراہ ہو جائے اس اعلان پر لوگ دوڑ پڑے اور مسجد میں سوائے داناؤں ،شریف آدمیوں اور رؤساء کے اور کوئی نہ رہا.عمر بن الجرید ، سعید کی غیر حاضری میں ان کے قائمقام تھے.انہوں نے جو لوگ باقی رہ گئے تھے ان میں وعظ کہنا شروع کیا کہ 59
اے لوگوں! خدا تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو کہ ہم دشمن تھے.اس نے تمہارے دلوں میں اتحاد پیدا کیا اور تم بھائی بھائی ہو گئے.تم ایک ہلاکت کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے خدا تعالیٰ نے تم کو اس سے بچایا پس اس مصیبت میں اپنے آپ کو نہ ڈالو.جس سے خدا تعالیٰ نے تم کو بچایا تھا.کیا اسلام اور ہدایت الہی اور سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تم لوگ حق کو نہیں پہچانتے اور حق کے دروازاہ کی طرف نہیں آتے؟ اس پر قعقاع بن عمرو نے ان سے کہا کہ آپ وعظ سے اس فتنہ کو روکنا چاہتے ہیں یہ امید نہ رکھیں.ان شورشوں کو تلوار کے سوا کوئی چیز نہیں روک سکتی اور وہ زمانہ بعید نہیں کہ تلوار بھی کھینچی جائے گی.اس وقت یہ لوگ بکری کے بچوں کی طرح چیچنیں گے اور خواہش کریں گے کہ یہ زمانہ پھر لوٹ آوے مگر پھر خدا تعالیٰ قیامت تک یہ نعمت ان کی طرف نہ لوٹائے گا.عوام الناس شہر کے باہر جمع ہوئے اور مدینہ کا رُخ کیا اور سعید بن العاص کا انتظار کرنے لگے.جب وہ سامنے آئے تو ان سے کہا کہ آپ واپس چلے جاویں ہمیں آپ کی ضرورت نہیں.سعید نے کہا کہ یہ بھی کوئی دانائی ہے کہ اس قدر آدمی جمع ہو کر اس کام کے لئے باہر نکلے ہو.ایک آدمی کے روکنے کے لئے ہزار آدمی کی کیا ضرورت تھی.یہی کافی تھا کہ تم ایک آدمی خلیفہ کی طرف بھیج دیتے اور ایک آدمی میری طرف روانہ کر دیتے.یہ کہہ کر انہوں نے تو اپنی سواری کو ایڑی لگائی اور مدینہ کی طرف واپس لوٹ گئے تا کہ حضرت عثمان کو خبر دار کر دیں.اور یہ لوگ حیران رہ گئے اتنے میں ان کا ایک غلام نظر آیا اس کو ان لوگوں نے قتل کر دیا.سعید بن العاص نے مدینہ پہنچ کر حضرت عثمان کو اس تمام فتنہ سے اطلاع دی.آپ نے فرمایا کہ کیا وہ لوگ میرے خلاف اُٹھے ہیں سعید نے کہا کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں 60 60
کہ والی بدلا یا جاوے.انہوں نے دریافت کیا کہ وہ کسے چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ابو موسیٰ اشعری کو پسند کرتے ہیں.ابو موسیٰ اشعری کا والی کوفہ مقرر ہونا حضرت عثمان نے فرمایا ہم نے ابو موسیٰ اشعری کو کوفہ کا والی مقرر کر دیا.اور خدا کی قسم ہے ان لوگوں کو عذر کا کوئی موقع نہ دوں گا اور کوئی دلیل ان کے ہاتھوں میں نہیں آنے دوں گا اور ان کی باتوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت صبر کروں گا یہاں تک کہ وہ وقت آجاوے جس کا یہ ارادہ کرتے ہیں یعنی عثمان کے علیحدہ کرنے کا.اس فتنہ نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ جھوٹ اور فریب سے کسی قسم کا پر ہیز نہیں رکھتے تھے.مفسدوں کی سازشوں کا انکشاف مالک الاشتر کا جزیرہ سے بھاگے چلے آنا اور مدینہ سے آنے کا اظہار کرنا.سعید بن العاص پر جھوٹا الزام لگانا اور شرمناک باتیں اپنے پاس سے بنا کر ان کی طرف منسوب کرنا ایسے امور نہیں ہیں جو ان مفسدوں کے اصل ارادوں اور مخفی خواہشوں کو چھپا رہنے دیں.بلکہ ان باتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اسلام سے بالکل کورے تھے.اسلام جھوٹ کو جائز نہیں قرار دیتا اور فریب کاروادار نہیں.اتہام لگانا اسلام میں ایک سخت جرم ہے.مگر یہ اسلام کی محبت ظاہر کرنے والے اور اس کے لئے غیرت کا اظہار کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں.اتہام لگاتے ہیں اور ان کاموں سے ان کو کوئی عار نہیں معلوم ہوتی.پس ایسے لوگوں کا حضرت عثمان کے خلاف شور مچانا ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ کسی حقیقی نقص کی وجہ سے یہ شورش نہیں تھی بلکہ اسلام سے ڈوری اور بے دینی کا نتیجہ ہے.61
دوسرا استنباط اس واقعہ سے یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس حضرت عثمان اور ان کے عمال کے برخلاف ایک بھی واجبی شکایت نہ تھی کیونکہ اگر واقعہ میں کوئی شکایت ہوتی تو ان کو جھوٹ بنانے کی کیا ضروری تھی.جھوٹی شکایات کا بنانا ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ ان لوگوں کو حقیقی شکایات نہ تھیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اشتر کے آنے سے پہلے جب یزید نے جلسہ کیا ہے تو اس وقت صرف چند سپاہی لوگ ہی اس جلسہ میں شریک ہوئے تھے اور قعقاع کے روکنے پر یہ لوگ ڈر گئے اور جلسہ کرنا انہوں نے موقوف کر دیا تھا.مگر اسی مہینہ کے اندر اندر ہم دیکھتے ہیں کہ اشتر کے جھوٹ سے متاثر ہو کر کوفہ کے عامتہ الناس کا ایک کثیر گروہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر سعید کو روکنے اور دوسرے والی کے طلب کرنے کے لئے کوفہ سے نکل پڑا.یہ امر اس بات کی شہادت ہے کہ پہلے لوگ ان کی باتوں میں نہ آتے تھے.کیونکہ ان کے پاس ان کو جوش دلانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا.اشتر نے جب ایسا ذریعہ ایجاد کیا جو لوگوں کی غیرت کو بھڑکانے والا تھا تو عامتہ الناس کا ایک حصہ فریب میں آگیا اور ان کے ساتھ مل گیا.اس فتنہ کے اظہار سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ان لوگوں کی اصل مخالفت حضرت عثمان سے تھی نہ کہ ان کے عمال سے.کیونکہ ابتداء یہ لوگ آپ کے ہی خلاف جوش بھڑکانا چاہتے تھے مگر جب دیکھا کہ لوگ اس بات میں ان کے شریک نہیں ہو سکتے بلکہ ان کی مخالفت پر آمادہ ہو جاتے ہیں.تب امراء کے خلاف جوش بھر کا نا شروع کر دیا.ایک جماعت کثیر کے ساتھ مدینہ کی طرف رخ کرنا بھی ثابت کرتا ہے کہ ان کی نیت حضرت عثمان کے متعلق اچھی نہ تھی.سعید بن العاص کے آزاد کردہ غلام کو بلا وجہ قتل کر 62
دینے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے مقاصد کے پورا کرنے کے لئے ان لوگوں کوکسی جرم کے ارتکاب سے اجتناب نہ تھا.معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ لوگ اس بات کو محسوس کرنے لگ گئے تھے کہ اگر چندے اور دیر ہوئی تو امت اسلامیہ پوری طرح ہمارے فتنہ کی اہمیت سے آگاہ ہو جاوے گی.اس لئے وہ جس طرح بھی ہو اپنے مدعا کو جلد سے جلد پورا کرنے کی فکر میں تھے.مگر حضرت عثمان نے اپنی دانائی سے ایک دفعہ پھر ان کے عذرات کو توڑ دیا اور ابو موسیٰ اشعری کو والی مقرر کر کے فوراً ان لوگوں کو اطلاع دی.سعید بن العاص کے واپس چلے جانے اور ان کے ارادوں سے اہل مدینہ کو اطلاع دے دینے سے ان کی امیدوں پر پہلے ہی پانی پھر چکا تھا اور یک دم مدینہ پر قبضہ کر لینے کے منصوبے جو سوچ رہے تھے باطل ہو چکے تھے اور یہ لوگ واپس ہونے پر مجبور ہو چکے تھے.اب ابو موسیٰ اشعری کے والی مقرر ہونے پر ان کے عذرات بالکل ہی ٹوٹ گئے.کیونکہ یہ لوگ ایک مدت سے ان کی ولایت کے طالب تھے.ابو موسیٰ اشعری کو جب معلوم ہوا کہ ان کو کوفہ کا والی مقرر کیا گیا ہے تو انہوں نے سب لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ اے لوگو! ایسے کاموں کے لئے پھر کبھی نہ نکلنا اور جماعت اور اطاعت کو اختیار کرو اور صبر سے کام لو اور جلد بازی سے بچو.کیونکہ اب تم میں ایک امیر موجود ہے یعنی میں امیر مقرر ہوا ہوں.اس پر ان لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں تو انہوں نے اس سے انکار کر دیا.اور فرما یا کہ نہیں یہ کبھی نہیں ہوسکتا.حاکم وقت کی اطاعت ضروری ہے.جب تک تم لوگ حضرت عثمان کی کامل اطاعت اور ان کے احکام کے قبول کرنے 63
کا اقرار نہ کرو گے میں تمہارا امام جماعت نہیں بنوں گا.اس پر ان لوگوں نے اس امر کا وعدہ کیا کہ وہ آئندہ پوری طرح اطاعت کریں گے اور ان کے احکام کو قبول کریں گے تب حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ان کو نماز پڑھائی.اسی طرح حضرت ابو موسیٰ نے ان کو کہا کہ سنو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو کوئی ایسے وقت میں کہ لوگ ایک امام کے ماتحت ہوں ان میں تفرقہ ڈالنے کے لئے اور ان کی جماعت کو پراگندہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جاوے اسے قتل کر دو خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو.(مسلم کتاب الامارة باب حكم من فرق المسلمين وهو مجتمع ) اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے ساتھ اس کے عادل ہونے کی شرط نہیں لگائی یعنی تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت عثمان عادل نہیں.کیونکہ اگر یہ مان لیا جاوے تو بھی تمہارا یہ فعل جائز نہیں.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عادل کی شرط نہیں لگائی بلکہ صرف یہ فرمایا ہے کہ لوگوں پر کوئی حاکم ہو.یہ خیالات ہیں ان لوگوں کے جنہوں نے اپنی عمریں خدمت اسلام کے لئے خرچ کر دی تھیں اور جنہوں نے اسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے سنا تھا اور آپ کے سامنے ان پر عمل کر کے سند قبولیت حاصل کی تھی.وہ لوگ ان مفسدوں کے پیچھے نماز پڑھنا تو الگ رہا ان کا امام بننا بھی پسند نہیں کرتے تھے اور ان کو واجب القتل جانتے تھے.کیا ان لوگوں کی نسبت کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ فتنہ عثمان میں شامل تھے یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عثمان اور ان کے عمال حقوق رعایا کو تلف کرتے تھے یا ان واقعات کی موجودگی میں قبول کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کی خاطر یہ مفسد فساد برپا کر رہے تھے.نہیں بلکہ یہ فسادی جماعت صحابہ پر حسد کر کے فساد پر آمادہ تھے اور اپنے دلی خیالات کو چھپاتے 64
تھے حکومت اسلام کی بربادی ان کا اصل مقصد تھا.اور یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا جب تک حضرت عثمان کو درمیان سے نہ ہٹایا جاوے.بعض جاہل یا بے دین مسلمان بھی ان کے اس فریب کو نہ سمجھ کر خود غرضی یا سادگی کے باعث ان کے ساتھ مل گئے تھے.مفسدوں کی ایک اور سازش حضرت ابوموسیٰ اشعری کے والی مقرر ہو جانے پر ان لوگوں کے لئے فتنہ برپا کرنے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی تھی لیکن اس فتنہ کے اصل محرک اس امر کو پسند نہ کر سکتے تھے کہ ان کی تمام کوششیں اس طرح برباد ہو جاویں.چنانچہ خط و کتابت شروع ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ سب ملکوں کی طرف سے کچھ لوگ وفد کے طور پر مدینہ منورہ کو چلیں.وہاں آپس میں آئندہ طریق عمل کے متعلق مشورہ بھی کیا جاوے اور حضرت عثمان سے بعض سوال کئے جاویں تا کہ وہ باتیں تمام اقطار عالم میں پھیل جاویں اور لوگوں کو یقین ہو جاوے کہ حضرت عثمان پر جو الزامات لگائے جاتے تھے وہ پایہ ثبوت کو پہنچا دیئے گئے ہیں.یہ مشورہ کر کے یہ لوگ گھروں سے نکلے اور مدینے کی طرف سب نے رخ کیا.جب مدینہ کے قریب پہنچے تو حضرت عثمان کو ان کی آمد کا علم ہوا.آپ نے دو آدمیوں کو بھیجا کہ وہ ان کا بھید لیں اور ان کی آمد کی اصل غرض دریافت کر کے اطلاع دیں.یہ دونوں گئے اور مدینہ سے باہر اس قافلہ سے جاملے ان لوگوں نے ان دونوں مخبروں سے باتوں باتوں میں اپنے حالات بیان کر دیئے انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا اہل مدینہ میں سے بھی کوئی شخص ان کے ساتھ ہے جس پر ان مفسدوں کے گروہ نے کہا کہ وہاں تین شخص ہیں ان کے سوا کوئی چوتھا شخص ان کا ہمدرد نہیں.ان دونوں نے دریافت کیا کہ پھر تمہارا کیا ارادہ ہے.انہوں نے کہا 65
کہ ارادہ یہ ہے کہ ہم مدینہ جا کر حضرت عثمان سے بعض ایسے امور کے متعلق گفتگو کریں گے جو پہلے سے ہم نے لوگوں کے دلوں میں بٹھا چھوڑے ہیں.پھر ہم اپنے ملکوں کو واپس جاویں گے اور لوگوں سے کہیں گے کہ ہم نے حضرت عثمان پر بہت الزام لگائے اور ان کی سچائی ثابت کر دی.مگر انہوں نے ان باتوں کے چھوڑنے سے انکار کر دیا اور توبہ نہیں کی.پھر ہم حج کے بہانہ سے نکلیں گے اور مدینہ پہنچ کر آپ کا احاطہ کر لیں گے.اگر آپ نے خلافت سے علیحدگی اختیار کر لی تب تو خیر ورنہ آپ کو قتل کر دیں گے.سازش کا انکشاف یہ دونوں مخبر پوری طرح ان کا حال لیکر واپس گئے اور حضرت عثمان کوسب حال سے اطلاع دی.آپ ان لوگوں کا حال سن کر ہنس پڑے اور خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ الہی ! ان لوگوں کو گمراہی سے بچالے.اگر تو نہ بچاوے گا تو یہ لوگ برباد ہو جاویں گے.پھر ان تینوں شخصوں کی نسبت جو مدینہ والوں میں سے ان لوگوں کے ساتھ تھے فرمایا کہ عمار کو تو یہ غصہ ہے کہ اس نے عباس بن عتبہ بن ابی لہب پر حملہ کیا تھا اور اس کو زجر کی تھی.اور محمد بن ابی بکر متکبر ہو گیا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اب اس پر کوئی قانون نہیں چلتا.اور محمد بن ابی حذیفہ خواہ خواہ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال رہا ہے.پھر آپ نے ان مفسدوں کو بھی بلوایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بھی جمع کیا.حضرت عثمان کا مفسدوں کو بلوانا جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے ان لوگوں کو سب حال سنایا اور وہ دونوں مخبر بھی بطور گواہ کھڑے ہوئے.اور گواہی دی.اس پر سب صحابہ نے فتویٰ دیا کہ ان لوگوں کو 66
قتل کر دیجئے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص ایسے وقت میں کہ ایک امام موجود ہو اپنی اطاعت یا کسی اور کی اطاعت کے لئے لوگوں کو بلا وے اس پر خدا کی لعنت ہو.تم ایسے شخص کو قتل کر دو خواہ کوئی ہو.(مسلم کتاب الامارۃ باب حکم من فرق المسلمين و هو مجتمع ) اور حضرت عمرؓ کا قول یاد دلایا کہ میں تمہارے لئے کسی ایسے شخص کا قتل جائز نہیں سمجھتا جس میں میں شریک نہ ہوں.یعنی سوائے حکومت کے اشارہ کے کسی شخص کا قتل جائز نہیں.حضرت عثمان نے صحابہ کا یہ فتویٰ سن کر فرمایا کہ نہیں ہم ان کو معاف کریں گے اور ان کے عذروں کو قبول کریں گے اور اپنی ساری کوشش سے ان کو سمجھا دیں گے اور کسی شخص کی مخالفت نہیں کریں گے.جب تک وہ کسی حد شرعی کو نہ توڑے یا اظہار کفر نہ کرے.حضرت عثمان کا اتہامات سے بریت ثابت کرنا پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے کچھ باتیں بیان کی ہیں جو تم کو بھی معلوم ہیں مگر ان کا خیال ہے کہ وہ ان باتوں کے متعلق مجھ سے بحث کریں تا کہ واپس جا کر کہہ سکیں کہ ہم نے ان امور کے متعلق عثمان سے بحث کی اور وہ ہار گئے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے سفر میں پوری نماز ادا کی حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں نماز قصر کیا کرتے تھے.(ترمذی ابواب السفرباب التقصير فى السفر ) مگر میں نے صرف منی میں پوری پڑھی ہے.اور وہ بھی دو وجہ سے.ایک تو یہ کہ میری وہاں جائید داد تھی اور میں نے وہاں شادی کی ہوئی تھی.دوسرے یہ کہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ چاروں طرف سے لوگ ان دنوں حج کے لئے آئے ہیں.ان میں سے ناواقف لوگ کہنے لگیں گے کہ خلیفہ تو دو ہی رکعت پڑھتا 67
ہے دو ہی رکعت ہوگی.کیا یہ بات درست نہیں ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ہاں درست ہے.آپ نے فرمایا دوسرا الزام یہ لگاتے ہیں کہ میں نے رکھ مقرر کرنے کی بدعت جاری کی ہے.حالانکہ یہ الزام غلط ہے.رکھ مجھ سے پہلے مقرر کی گئی تھی حضرت عمر نے اس کی ابتداء کی تھی.اور میں نے صرف صدقہ کے اونٹوں کی زیادتی پر اس کو وسیع کیا ہے اور پھر رکھ میں جوز میں لگائی گئی ہے وہ کسی کا مال نہیں ہے اور میرا اس میں کوئی فائدہ نہیں میرے تو صرف دو اونٹ ہیں حالانکہ جب میں خلیفہ ہو ا تھا اس وقت میں سب عرب سے زیادہ مال دار تھا اب صرف دو اونٹ ہیں جو حج کے لئے رکھے ہوئے ہیں.کیا یہ درست نہیں؟ صحابہ کرام نے فرمایا ہاں درست ہے.پھر فرمایا یہ کہتے ہیں کہ نو جوانوں کو حاکم بناتا ہے.حالانکہ میں ایسے ہی لوگوں کو حاکم بناتا ہوں جو نیک صفات نیک اطوار ہوتے ہیں اور مجھ سے پہلے بزرگوں نے میرے مقرر کردہ والیوں سے زیادہ نو عمر لوگوں کو حاکم مقرر کیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اسامہ بن زید کے سردار شکر مقرر کر نے پر اس سے زیادہ اعتراض کئے گئے تھے جواب مجھ پر کئے جاتے ہیں.کیا یہ درست نہیں؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ہاں درست ہے.یہ لوگوں کے سامنے عیب تو بیان کرتے ہیں مگر اصل واقعات نہیں بیان کرتے.غرض اسی طرح حضرت عثمان نے تمام اعتراضات ایک ایک کر کے بیان کئے اور ان کے جواب بیان کئے.صحابہ برابر زور دیتے کہ ان کو قتل کر دیا جائے.مگر حضرت عثمان نے ان کی یہ بات نہ مانی اور ان کو چھوڑ دیا.طبری کہتا ہے کہ ابى الْمُسْلِمُوْنَ إِلَّا قَتْلَهُمْ وَأَبِي إِلَّا تَرْكَهُمْ (طبری جلد ۲ صفحہ ۱۹۵۳ مطبوعہ بیروت) یعنی باقی سب مسلمان تو ان لوگوں کے قتل کے سوا کسی بات پر راضی نہ ہوتے تھے.مگر حضرت عثمان سزا دینے پر کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے.68 88
حضرت عثمان کا مفسدوں پر رحم کرنا اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسد لوگ کسی کس قسم کے فریب اور دھوکے سے کام کرتے تھے اور اس زمانہ میں جب کہ پریس اور سامان سفر کا وہ انتظام نہ تھا جو آج کل ہے کیسا آسان تھا کہ یہ لوگ ناواقف لوگوں کو گمراہ کر دیں.مگر اصل میں ان لوگوں کے پاس کوئی معقول وجہ فساد کی نہ تھی.نہ حق ان کے ساتھ تھا نہ یہ حق کے ساتھ تھے.ان کی تمام کاروائیوں کا دارو مدار جھوٹ اور باطل پر تھا اور صرف حضرت عثمان کا رحم ان کو بچائے ہوئے تھا.ورنہ مسلمان ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے.وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ وہ امن و امان جو انہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے حاصل کیا تھا چند شریروں کی شرارتوں سے اس طرح جاتا رہے اور وہ دیکھتے تھے کہ ایسے لوگوں کو اگر جلد سزا نہ دی گئی تو اسلامی حکومت تہ و بالا ہو جائے گی.مگر حضرت عثمان رحم مجسم تھے وہ چاہتے تھے کہ جس طرح ہو ان لوگوں کو ہدایت مل جائے اور یہ کفر پر نہ مریں پس آپ ڈھیل دیتے تھے اور ان کے صریح بغاوت کے اعمال کو محض ارادہ بغاوت سے تعبیر کر کے سزا کو پیچھے ڈالتے چلے جاتے تھے.اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ ان لوگوں سے بالکل متنفر تھے کیونکہ اوّل تو خود وہ بیان کرتے ہیں کہ صرف تین اہل مدینہ ہمارے ساتھ ہیں اس سے زیادہ نہیں اگر اور صحابہ بھی ان کے ساتھ ہوتے تو وہ ان کا نام لیتے.دوسرے صحابہ نے اپنے عمل سے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ ان لوگوں کے افعال سے متنفر تھے.اور ان کے اعمال کو ایسا خلاف شریعت سمجھتے تھے کہ سزا قتل سے کم ان کے نزدیک جائز ہی نہ تھی.اگر صحابہ ان کے ساتھ ہوتے یا اہل مدینہ ان کے ہم خیال ہوتے تو کسی مزید حیلہ و بہانہ کی ان لوگوں کو کچھ ضرورت 69
ہی نہیں تھی.اسی وقت حضرت عثمان کو قتل کر دیتے اور ان کی جگہ کسی اور شخص کو خلافت کے لئے منتخب کر لیتے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ یہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں کامیاب ہوتے خود ان کی جانیں صحابہ کی شمشیر ہائے برہنہ سے خطرہ میں پڑ گئی تھیں.اور صرف اسی رحیم و کریم وجود کی عنایت و مہربانی سے یہ لوگ بیچ کر واپس جا سکے جس کے قتل کا ارادہ ظاہر کرتے تھے اور جس کے خلاف اس قدر فساد برپا کر رہے تھے.ان مفسدوں کی کینہ وری اور تقویٰ سے بُعد پر تعجب آتا ہے کہ اس واقعہ سے انہوں نے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھایا ان کے ایک ایک اعتراض کا خوب جواب دیا گیا.اور سب الزام غلط اور بے بنیا د ثابت کر دیئے گئے.حضرت عثمان ” کا رحم وکرم انہوں نے دیکھا اور ہر ایک شخص کی جان اس پر گواہی دے رہی تھی کہ اس شخص کا مثیل اس وقت دنیا کے پردہ پر نہیں مل سکتا.مگر بجائے اس کے کہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتے جفاؤں پر پشیمان ہوتے ، اپنی غلطیوں پر نادم ہوتے ، اپنی شرارتوں سے رجوع کرتے ، یہ لوگ غیظ و غضب کی آگ میں اور بھی زیادہ جلنے لگے اور اپنے لاجواب ہونے کو اپنی ذلت اور حضرت عثمان کے عفو کو اپنی حسن تدیر کا نتیجہ سمجھتے ہوئے آئندہ کے لئے اپنی بقیہ تجویز کے پورا کرنے کی تدابیر سوچتے ہوئے واپس لوٹ گئے.مفسدوں کی ایک اور گہری سازش واپس جا کر ان لوگوں نے پھر خط و کتابت شروع کی اور آخر فیصلہ کیا کہ شوال میں اپنی پہلی تجویز کے مطابق حج کے ارادہ سے قافلہ بن کر نکلیں اور مدینہ میں جا کر یک دم تمام انتظام کو درہم برہم کر دیں اور اپنی مرضی کے مطابق نظام حکومت کو بدل دیں.اس تجویز 70
کے مطابق شوال یعنی چاند کے دسویں مہینے حضرت عثمان کی خلافت کے بارھویں سال، چھتیسویں سال ہجری میں یہ لوگ تین قافلے بن کر اپنے گھروں سے نکلے.ایک قافلہ بصرہ سے ایک کوفہ سے اور ایک مصر سے.پچھلی دفعہ کی ناکامی کا خیال کر کے اور اس بات کو مدنظر رکھ کر کہ یہ کوشش آخری کوشش ہے عبد اللہ بن سبا خود بھی مصر کے قافلہ کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوا.اس رئیس المفسدین کا خود باہر نکلنا اس امر کی علامت تھا کہ یہ لوگ اب ہر ایک ممکن تدبیر سے اپنے مدعا کے حصول کی کوشش کریں گے.چونکہ ہر ایک گروہ نے اپنے علاقہ میں حج پر جانے کے ارادہ کا اظہار کیا تھا کچھ اور لوگ بھی ان کے ساتھ بارادہ حج شامل ہو گئے اور اس طرح اصل ارادے ان لوگوں کے عامتہ المسلمین سے مخفی رہے.مگر چونکہ حکام کو ان کی اندرونی سازش کا علم تھا عبد اللہ بن ابی سرح والی مصر نے ایک خاص آدمی بھیج کر حضرت عثمان کو اس قافلہ اور اس کے مخفی ارادہ کی اطلاع قبل از وقت دے دی جس سے اہل مدینہ پہلے ہوشیار ہو گئے.اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تک اہل مدینہ اور خصوصاً صحابہ ان لوگوں کے تین دفعہ آنے پر ان کو قتل کرنا چاہتے تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ ان کا حج کے بہانہ سے آکر فساد کرنے کا ارادہ حضرت عثمان" پر ظاہر ہے.تو پھر کیوں انہوں نے کوئی اور تدبیر اختیار نہ کی اور اسی پہلی تدبیر کے مطابق جن کا علم حضرت عثمان کو ہو چکا تھا سفر کیا.کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ در حقیقت اہل مدینہ ان لوگوں کے ساتھ تھے اسی وجہ سے یہ لوگ ڈرے نہ تھے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک ان کی یہ دلیری ظاہر کرتی ہے کہ ان لوگوں کو اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا.مگر اس کی یہ وجہ نہیں کہ صحابہ یا اہل مدینہ ان کے ساتھ تھے یا ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے.بلکہ جیسا کہ خودان کے بیان سے ثابت ہے کہ صرف تین شخص مدینہ کے ان کے ساتھ تھے اور جیسا کہ 71
واقعات سے ثابت ہے.صحابہ اور دیگر اہل مدینہ ان لوگوں سے سخت بیزار تھے.پس ان کی دلیری کا یہ باعث تو نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگ ان سے کسی قسم کی ہمدردی کا اظہار کرتے تھے ان کی دلیری کا اصل باعث اول تو حضرت عثمان کا رحم تھا.یہ لوگ سمجھتے تھے کہ اگر ہم کامیاب ہو گئے تو فھو المراد.اور اگر ناکام رہے تو حضرت عثمان سے درخواست رحم کر کے سزا سے بچ جائیں گے.دوسرے گو صحابہ اور اہل مدینہ کا طریق عمل یہ پچھلی دفعہ دیکھ چکے تھے.اور ان کو معلوم تھا کہ حضرت عثمان کو ہماری آمد کا علم ہے مگر یہ لوگ خیال کرتے تھے کہ حضرت عثمان اپنے علم کے باعث ان کے خلاف لڑنے کے لئے کوئی لشکر نہیں جمع کریں گے اور صحابہ ہمارا مقابلہ نہیں کریں گے.کیونکہ یہ لوگ اپنے نفس پر قیاس کر کے سمجھتے تھے کہ صحابہ ظاہر میں حضرت عثمان سے اخلاص کا اظہار کرتے ہیں ورنہ اصل میں ان کی ہلاکت کو پسند کرتے ہیں.اور اس خیال کی یہ وجہ تھی کہ یہ لوگ یہی ظاہر کیا کرتے تھے کہ صحابہ کے حقوق کی حفاظت کے لئے ہی ہم سب کچھ کر رہے ہیں.پس ان کو خیال تھا کہ صحابہ ہمارے اس فریب سے متاثر ہیں اور دل میں ہمیں سے ہمدردی رکھتے ہیں.مفسدوں کا مدینہ میں پہنچنا رض جونہی اس لشکر کے مدینہ کے قریب پہنچنے کی اطلاع ملی صحابہ اور اہل مدینہ جو اردگرد میں جائدادوں پر انتظام کے لئے گئے ہوئے تھے مدینہ میں جمع ہو گئے اور لشکر کے دوحصے کئے گئے ایک حصہ تو مدینہ کے باہر ان لوگوں کے مقابلہ کرنے کے لئے گیا اور دوسرا حصہ حضرت عثمان کی حفاظت کے لئے شہر میں رہا.جب تینوں قافلے مدینے کے پاس پہنچے تو اہل بصرہ نے ذوخشب مقام پر ڈیرہ لگایا، اہل کوفہ نے اعواص پر اور اہل مصر نے ذوالمروہ 72
پر.اور مشورہ کیا گیا کہ اب ان کو کیا کرنا چاہئے.گو اس لشکر کی تعداد کا اندازہ اٹھارہ سو آدمی سے لے کر تین ہزار تک کیا جاتا ہے.( دوسرے حجاج جو ان کو قافلہ حج خیال کر کے ان کے ساتھ ہو گئے تھے وہ علیحدہ تھے مگر پھر بھی یہ لوگ سمجھتے تھے کہ دلاورانِ اسلام کا مقابلہ اگر وہ مقابلہ پر آمادہ ہوئے ان کے لئے آسان نہ ہوگا.اس لئے مدینہ میں داخل ہوتے ہی پہلے اہل مدینہ کی رائے معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے.چنانچہ دو شخص زیادہ بن النضر اور عبد اللہ بن الاصم نے اہل کوفہ اور اہل بصرہ کو مشورہ دیا کہ جلدی اچھی نہیں وہ اگر جلدی کریں گے تو اہل مصر کو بھی جلدی کرنی پڑے گی اور کام خراب ہو جائے گا.انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اہل مدینہ نے ہمارے مقابلہ کے لئے لشکر تیار کیا ہے.اور جب ہمارے پورے حالات معلوم نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اس قدر تیاری کی ہے تو ہمارا پورا حال معلوم ہونے پر تو وہ اور بھی زیادہ ہوشیاری سے کام لیں گے اور ہماری کامیابی خواب و خیال ہو جائے گی.پس بہتر ہے کہ ہم پہلے جا کر وہاں کا حال معلوم کریں.اور اہل مدینہ سے بات چیت کریں.اگر ان لوگوں نے ہم سے جنگ جائز نہ سمجھی اور جو خبریں ان کی نسبت ہمیں معلوم ہوئی ہیں وہ غلط ثابت ہوئیں تو پھر ہم واپس آکر سب حالات سے تم کو اطلاع دیں گے اور مناسب کا روائی عمل میں لائی جائے گی.سب نے اس مشورہ کو پسند کیا.اور یہ دونوں شخص مدینہ گئے اور پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ملے.اور ان سے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت مانگی اور کہا کہ ہم لوگ صرف اس لئے آئے ہیں کہ حضرت عثمان سے بعض والیوں کے بدل دینے کی درخواست کریں اور اس کے سوا ہمارا اور کوئی کام نہیں.سب از اواج مطہرات نے ان کی بات کو قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ اس بات کا نتیجہ اچھا نہیں.پھر وہ باری باری حضرت علی حضرت طلحہ 73
حضرت زبیر کے پاس گئے اور ان سے یہی وجہ اپنے آنے کی بیان کر کے اور اپنی نیک نیتی کا اظہار کر کے مدینہ میں آنے کی اجازت چاہی.مگر ان تینوں اصحاب نے بھی ان کے فریب میں آنے سے انکار کیا اور صاف جواب دیا کہ ان کی اس کاروائی میں خیر نہیں ہے.(طبری جلد ۶ صفحه ۲۹۵۶ مطبوعہ بیروت) یہ دونوں آدمی مدینہ کے حالات معلوم کر کے اور اپنے مقصد میں ناکام ہو کر جب واپس گئے اور سب حال سے اپنے ہمراہیوں کو آگاہ کیا تو کوفہ، بصرہ اور مصر تینوں علاقوں کے چند سر بر آوردہ آدمی آخری کوشش کرنے کے لئے مدینہ آئے.اہل مصر عبد اللہ بن سبا کی تعلیم کے ماتحت حضرت علی کو وصی رسول اللہ خیال کرتے تھے اور ان کے سوا کسی اور کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار نہ تھے.مگر اہل کوفہ اور اہل بصرہ گوفساد میں تو ان کے شریک تھے مگر مذہباً ان کے ہم خیال نہ تھے.اور اہل کوفہ زبیر بن عوام اور اہل بصرہ طلحہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کو اپنی اغراض کے لئے مفید سمجھتے تھے.اس اختلاف کے باعث ہر ایک قافلہ کے قائم مقاموں نے الگ الگ ان اشخاص کا رُخ کیا جن کو وہ حضرت عثمان کے بعد مسند خلافت پر بٹھانا چاہتے تھے.اہل مصر کا حضرت علی کے پاس جانا اہل مصر حضرت علی کے پاس گئے وہ اس وقت مدینہ سے باہر ایک حصہ لشکر کی کمان کر رہے تھے.اور ان کا سر کچلنے پر آمادہ کھڑے تھے ان لوگوں نے آپ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بد انتظامی کے باعث اب خلافت کے قابل نہیں.ہم ان کو علیحدہ کرنے کے لئے آئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ ان کے بعد اس عہدہ کو قبول 74
کریں گے انہوں نے ان کی بات سن کر اس غیرت دینی سے کام لے کر جو آپ کے رتبہ کے آدمی کا حق تھا ان لوگوں کو دھتکار دیا اور بہت سختی سے پیش آئے اور فرمایا کہ سب نیک لوگ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کے طور پر ذ والمروہ اور ذ وخشب (جہاں ان لوگوں کا ڈیرہ تھا ) پر ڈیرہ لگانے والے لشکروں کا ذکر فرما کر ان پر لعنت فرمائی تھی.(البداية والنهاية جز ۷ صفحه ۱۷۴ مطبوعه بیروت ۱۹۶۶) پس خدا تمہارا بُرا کرے تم واپس چلے جاؤ.اس پر ان لوگوں نے کہا کہ بہت اچھا ہم واپس چلے جاویں گے اور یہ کہہ کر واپس چلے گئے.رض اہل کوفہ کا حضرت زبیر کے پاس جانا اہل کوفہ حضرت زبیر کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا کہ آپ عہدہ خلافت کے خالی ہونے پر اس عہدہ کو قبول کریں.انہوں نے بھی ان سے حضرت علی کا سا سلوک کیا اور بہت سختی سے پیش آئے اور اپنے پاس سے دھتکار دیا اور کہا کہ سب مؤمن جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذوالمروہ اور ذ والخشب اور اعواص پر ڈیرہ لگانے والے لشکر لعنتی ہوں گے.اہل بصرہ کا حضرت طلحہ کے پاس جانا اسی طرح اہل بصرہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے بھی ان کو رد کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور آپ کے ان پر لعنت کرنے سے ان کو آگاہ کیا.(طبری جلد صفحه ۲۹۵۶، ۲۹۵۷ مطبوعہ بیروت ) 75
محمد بن ابی بکر کا والی مصر مقرر ہونا جب یہ حال ان لوگوں نے دیکھا اور اس طرف سے بالکل مایوس ہو گئے تو آخر یہ تدبیر کی کہ اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور صرف یہ درخواست کی کہ بعض والی بدل دیئے جائیں.جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے کمال شفقت اور مہر بانی سے ان کی اس درخواست کو قبول کر لیا اور ان لوگوں کی درخواست کے مطابق مصر کے والی عبد اللہ بن ابی سرح کو بدل دیا.اور ان کی جگہ محمد بن ابی بکر کو والی مصر مقرر کر دیا.اس پر یہ لوگ بظاہر خوش ہو کر واپس چلے گئے اور اہل مدینہ خوش ہو گئے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو ایک فساد عظیم سے بچالیا.مگر جو کچھ انہوں نے سمجھا وہ درست نہ تھا کیونکہ ان لوگوں کے ارادے اور ہی تھے اور ان کا کوئی کام شرارت اور فساد سے خالی نہ تھا.اختلاف روایات کی حقیقت یا درکھنا چاہئے کہ یہی وقت ہے جب سے روایات میں نہایت اختلاف شروع ہو جاتا ہے.اور جو واقعات میں نے بیان کئے ہیں ان کو مختلف راویوں نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے حتی کہ حق بالکل چھپ گیا ہے اور بہت سے لوگوں کو دھوکا لگ گیا ہے.اور وہ اس تمام کا روائی میں یا صحابہ کو شریک سمجھنے لگے ہیں یا کم سے کم ان کو مفسدوں سے دلی ہمدردی رکھنے والا خیال کرتے ہیں.مگر یہ بات درست نہیں.اس زمانہ کی تاریخ کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے.کیونکہ اس زمانہ کے بعد کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا جو ایک یا دوسرے فریق سے ہمدردی رکھنے والوں سے خالی ہو.اور یہ بات تاریخ کے لئے نہایت مضر ہوتی ہے.کیونکہ جب سخت عداوت یا نا واجب محبت کا دخل ہو روایت کبھی بعینہ نہیں پہنچ 76
سکتی.اگر راوی جھوٹ سے کام نہ بھی لیں تب بھی ان کے خیالات کا رنگ ضرور چڑھ جاتا ہے.اور پھر تاریخ کے راویوں کے حالات ایسے ثابت شدہ نہیں ہیں جیسے کہ احادیث کے رواۃ کے.اور گومؤرخین نے بہت احتیاط سے کام لیا ہے پھر بھی حدیث کی طرح اپنی روایت کو روز روشن کی طرح ثابت نہیں کر سکتے.پس بہت احتیاط کی ضرورت ہے.تاریخ کی تصیح کا زریں اصل لیکن صحیح حالات معلوم کرنا ناممکن بھی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایسے راستے کھلے رکھے ہیں جن سے صحیح واقعات کو خوب عمدگی سے معلوم کیا جا سکتا ہے.اور ایسے راوی بھی موجود ہیں جو بالکل بے تعلق ہونے کی وجہ سے واقعات کو کما حقہ بیان کرتے ہیں.اور تاریخ کی تصیح کا یہ زریں اصل ہے کہ واقعات عالم ایک زنجیر کی طرح ہیں.کسی منفر د واقع کی صحت معلوم کرنے کے لئے اسے زنجیر میں پروکر دیکھنا چاہئے کہ وہ کڑی ٹھیک اپنی جگہ پر پروئی بھی جاتی ہے کہ نہیں.غلط اور صیح واقعات میں تمیز کرنے کے لئے یہ ایک نہایت ہی کارآمد مددگار ہے.غرض اس زمانہ کے صحیح واقعات معلوم کرنے کے لئے احتیاط کی ضرورت ہے اور جرح و تعدیل کی حاجت ہے.سلسلہ واقعات کو مدنظر رکھنے کے بغیر کسی زمانہ کی تاریخ بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہوسکتی مگر اس زمانہ کی تاریخ تو خصوصاً معلوم نہیں ہوسکتی.اور یوروپین مصنفین نے اسی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر اس زمانہ کی تاریخ کو ایسا بگاڑا ہے کہ ایک مسلمان کا دل اگر وہ غیرت رکھتا ہو ان واقعات کو پڑھ کر جلتا ہے اور بہت سے کمزور ایمان کے آدمی تو اسلام سے بیزار ہو جاتے ہیں.افسوس یہ ہے کہ خود بعض مسلمان مؤرخین نے 77
بھی بے احتیاطی سے اس مقام پر ٹھو کر کھائی ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کا باعث بن گئے ہیں.حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کی بریت میں اس مختصر وقت میں پوری طرح ان غلطیوں پر تو بحث نہیں کر سکتا.جن میں یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں لیکن میں اختصار کے ساتھ وہ صحیح حالات آپ لوگوں کے سامنے بیان کر دوں گا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمان اور دیگر صحابہ ہر ایک فتنہ سے یا عیب سے پاک تھے.بلکہ ان کا رویہ نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظہر تھا اور ان کا قدم نیکی کے اعلیٰ مقام پر قائم تھا.باغیوں کا دوبارہ مدینہ میں داخل ہونا میں بتا چکا ہوں کہ مفسد لوگ بظاہر رضامندی کا اظہار کر کے اپنے گھروں کی طرف واپس چلے گئے.کوفہ کے لوگ کوفہ کی طرف.بصرہ کے لوگ بصرہ کی طرف اور مصر کے لوگ مصر کی طرف.اور اہل مدینہ امن و امان کی صورت دیکھ کر اور ان کے کوٹنے پر مطمئن ہوکر اپنے اپنے کاموں پر چلے گئے لیکن ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ایسے وقت میں جب کہ اہل مدینہ یا تو اپنے کاموں میں مشغول تھے یا اپنے گھروں میں یا مساجد میں بیٹھے تھے.اور ان کو کسی قسم کا خیال بھی نہ تھا کہ کوئی دشمن مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے.اچانک ان باغیوں کا لشکر مدینہ میں داخل ہوا اور مسجد اور حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور تمام مدینہ کی گلیوں میں منادی کرا دی گئی کہ جس کسی کو اپنی جان کی ضرورت ہو اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا رہے اور ہم سے برسر پیکار نہ ہو اور نہ خیر نہ ہوگی.ان لوگوں کی آمد ایسی 78
اچانک تھی کہ اہل مدینہ مقابلہ کے لئے کوشش نہ کر سکے.حضرت امام حسن بیان فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک شور ہوا اور مدینہ کی گلیوں میں تکبیر کی آواز بلند ہونے لگی ( یہ مسلمانوں کا نعرہ جنگ تھا) ہم سب حیران ہوئے اور دیکھنا شروع کیا کہ اس کا باعث کیا ہے.میں اپنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا اور دیکھنے لگا.اتنے میں اچانک یہ لوگ مسجد میں گھس آئے اور مسجد پر بھی اور آس پاس کی گلیوں پر بھی قبضہ کر لیا.ان کے اچانک حملہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ اور اہل مدینہ کی طاقت منتشر ہوگئی اور وہ ان سے لڑ نہ سکے اور ان کا مقابلہ نہ کر سکے.کیونکہ شہر کے تمام ناکوں اور مسجد پر انہوں نے قبضہ کر لیا تھا.اب دو ہی راستے کھلے تھے.ایک تو یہ کہ باہر سے مدد آوے اور دوسرا یہ کہ اہل مدینہ کسی جگہ پر جمع ہوں اور پھر کسی انتظام کے ماتحت ان سے مقابلہ کریں.امراوّل کے متعلق ان کو اطمینان تھا کہ حضرت عثمان ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کا رحم اور ان کی حسن ظنی بہت بڑھی ہوئی تھی اور وہ ان لوگوں کی شرارت کی ہمیشہ تاویل کر لیتے تھے اور امر دوم کے متعلق انہوں نے یہ انتظام کر لیا کہ مدینہ کی گلیوں میں اور اس کے دروازوں پر پہرہ لگا دیا اور حکم دے دیا کہ کسی جگہ اجتماع نہ ہونے پائے.جہاں کچھ لوگ جمع ہوتے یہ ان کو منتشر کر دیتے.ہاں یوں آپس میں بولنے چالنے یا اگے ڈ کے کومیل ملاقات سے نہ روکتے تھے.اہل مدینہ کا باغیوں کو سمجھانا جب اہل مدینہ کی حیرت ذرا کم ہوئی تو ان میں سے بعض نے مسجد کے پاس آکر جہاں ان کا مرکز تھا ان کو سمجھانا شروع کیا.اور ان کی اس حرکت پر اظہار ناراضگی کیا مگر ان لوگوں 79
نے بجائے ان کی نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے ان کو ڈرایا اور دھمکایا اور صاف کہہ دیا کہ اگر وہ خاموش نہ رہیں گے تو ان کے لئے اچھا نہیں ہوگا.اور یہ لوگ ان سے بُری طرح پیش آویں گے.باغیوں کا مدینہ پر تسلط قائم کرنا اب گویا مدینہ دارالخلافت نہیں رہا تھا.خلیفہ وقت کی حکومت کو موقوف کر دیا گیا تھا اور چند مفسد اپنی مرضی کے مطابق جو چاہتے تھے کرتے تھے.اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا اور دیگر اہل مدینہ کیا سب کو اپنی عزتوں کا بچانا مشکل ہو گیا تھا.اور بعض لوگوں نے تو اس فتنہ کو دیکھ کر اپنے گھروں سے نکلنا بند کر دیا تھا.رات دن گھروں میں بیٹھے رہتے تھے اور اس پر انگشت بدندان تھے.(طبری جلد صفحہ ۹۶۲ مطبوعہ بیروت) اکابر صحابہؓ کا باغیوں سے واپسی کی وجہ دریافت کرنا چونکہ یہ لوگ پچھلی دفعہ اپنی تسلی کا اظہار کر کے گئے تھے اور آئندہ کے لئے ان کو کوئی شکایت باقی نہ تھی صحابہ حیرت میں تھے کہ آخر ان کے لوٹنے کا باعث کیا ہے.دوسرے لوگوں کو تو ان کے سامنے بولنے کی جرات نہ تھی.چندا کا بر صحابہ جن کے نام کی یہ لوگ پناہ لیتے تھے اور جن سے محبت کا دعویٰ کرتے تھے انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ آخر تمہارے اس لوٹنے کی وجہ کیا ہے.چنانچہ حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر نے ان لوگوں سے ان کے واپس آنے کی وجہ دریافت کی.سب نے بالا تفاق یہی جواب دیا کہ ہم تسلی اور تشفی سے اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے کہ راستہ میں ایک شخص کو دیکھا کہ صدقہ کے ایک اونٹ پر سوار ہے اور کبھی ہمارے سامنے آتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتا ہے.80
ہمارے بعض آدمیوں نے جب اسے دیکھا تو انہیں شک ہوا اور انہوں نے اس کو جا پکڑا.جب اس سے دریافت کیا گیا کہ کیا تیرے پاس کوئی خط ہے تو اس نے انکار کیا اور جب اس سے دریافت کیا گیا کہ تو کس کام کو جاتا ہے تو اس نے کہا مجھے علم نہیں.اس پر ان لوگوں کو اور زیادہ شک ہوا.آخر اس کی تلاشی لی گئی اور اس کے پاس سے ایک خط نکلا جو حضرت عثمان کا لکھا ہوا تھا اور اس میں والی مصر کو ہدایت کی گئی تھی کہ جس وقت مفسد مصر واپس لوٹیں.ان میں سے فلاں فلاں کو قتل کر دینا اور فلاں فلاں کو کوڑے اور ان کے سر اور داڑھیاں منڈوا دینا اور جو خط ان کی معرفت تمہارے معزول کئے جانے کے متعلق لکھا ہے اس کو باطل سمجھنا.یہ خط جب ہم نے دیکھا تو ہمیں سخت حیرت ہوئی اور ہم لوگ فوراً واپس کو ٹے.حضرت علی نے یہ بات سن کر فوراً ان سے کہا کہ یہ بات تو مدینہ میں بنائی گئی ہے.کیونکہ اے اہل کوفہ اور اے اہل بصرہ ! تم لوگوں کو کیونکر معلوم ہوا کہ اہل مصر نے کوئی ایسا خط پکڑا ہے.حالانکہ تم ایک دوسرے سے کئی منزلوں کے فاصلے پر تھے.اور پھر یہ کیونکر ہوا کہ تم لوگ اس قدر جلد واپس بھی آگئے.اس اعتراض کا جواب نہ وہ لوگ دے سکتے تھے اور نہ اس کا کوئی جواب تھا.پس انہوں نے یہی جواب دیا کہ جو مرضی آئے کہو اور جو چاہو ہماری نسبت خیال کرو.ہم اس آدمی کی خلافت کو پسند نہیں کرتے.اپنے عہدے سے دست بردار ہو جائے.محمد بن مسلمہ جو اکابر صحابہ میں سے تھے اور جماعت انصار میں سے تھے کعب بن اشرف جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اسلام کا سخت دشمن تھا اور یہود میں ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا جب اس کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کی تکلیف کی کوئی حد نہ رہی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت انہوں نے اس کو قتل کر کے اسلام کی ایک بہت بڑی خدمت کی تھی انہوں نے جب یہ واقعہ سنا تو یہی جرح کی اور صاف کہہ ا 81
دیا کہ یہ صرف ایک فریب ہے جو تم نے کیا ہے.حضرت عثمان کا باغیوں کے لئے الزام سے بریت ثابت کرنا گو صحابہ نے ان کی اس بات کو عقلاً رد کر دیا مگر ان لوگوں کی دلیری اب حد سے بڑھ گئی تھی.باوجود اس ذلت کے جو ان کو پہنچی تھی.انہوں نے حضرت عثمان کے سامنے اس معاملہ کو پیش کیا اور آپ سے اس کا جواب مانگا.اس وقت بہت سے اکابر صحابہ بھی آپ کی مجلس میں تشریف رکھتے تھے.آپ نے ان کو جواب دیا کہ شریعت اسلامیہ کے مطابق کسی امر کے فیصلہ کے دو ہی طریق ہیں.یا تو یہ کہ مدعی اپنے دعوی کی تائید میں دو گواہ پیش کرے یا یہ کہ مدعی علیہ کو قسم دی جائے.پس تم پر فرض ہے کہ تم دو گواہ اپنے دعویٰ کی تائید میں پیش کرو ورنہ میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں کہ نہ میں نے یہ خط لکھا ہے نہ میرے مشورہ سے یہ خط لکھا گیا اور نہ ہی لکھوایا ہے نہ مجھے علم ہے کہ یہ خط کس نے لکھا ہے.پھر فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ کبھی خط جھوٹے بھی بنا لئے جاتے ہیں اور انگوٹھیوں جیسی اور انگوٹھیاں بنائی جاسکتی ہیں.جب صحابہ نے آپ کا یہ جواب سنا تو انہوں نے حضرت عثمان کی تصدیق کی اور آپ کو اس الزام سے بری قرار دیا.مگر ان لوگوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور ہوتا بھی کیونکر.انہوں نے تو خود وہ خط بنایا تھا.سوتے ہوئے آدمی کو تو آدمی جگا سکتا ہے جو جاگتا ہو اور ظاہر کرے کہ سو رہا ہے اسے کون جگائے.ان لوگوں کے سردار تو خوب سمجھتے تھے کہ یہ ہمارا اپنا فریب ہے.وہ ان جوابات کی صحت یا معقولیت پر کب غور کر سکتے تھے اور ان کے اتباع ان کے غلام بن چکے تھے جو کچھ وہ کہتے وہ سنتے تھے اور جو کچھ بتاتے تھے اسے تسلیم کرتے تھے.82 22
باغیوں کے منصوبہ کی اصلیت ان لوگوں پر نہ تو اثر ہوسکتا تھا نہ ہو مگر آنکھوں والوں کے لئے حضرت عثمان کا جواب شرم و حیا کی صفات حسنہ سے ایسا متصف ہے کہ اس سے ان مفسدوں کی بے حیائی اور وقاحت اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے جب کہ وہ مفسد ایک جھوٹا خط بنا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فریب اور دھو کے کا الزام لگاتے ہیں اور جب کہ حضرت علی اور محمد بن مسلمہ واقعات سے نتیجہ نکال کر ان لوگوں پر صاف صاف دھو کے کا الزام لگاتے ہیں.خود حضرت عثمان" جن پر الزام لگایا گیا ہے اور جن کے خلاف یہ منصوبہ کھڑا کیا گیا ہے اپنے آپ سے تو الزام کو دفع کرتے ہیں مگر یہ نہیں فرماتے کہ تم نے یہ خط بنایا ہے بلکہ ان کی غلطی پر بھی پردہ ڈالتے ہیں اور صرف اسی قدر فرماتے ہیں کہ تم جانتے ہو کہ خط خط سے مل جاتا ہے اور انگوٹھی کی نقل بنائی جاسکتی ہے اور اونٹ بھی چرا یا جاسکتا ہے.بعض لوگ جو حضرت عثمان کو بھی اس الزام سے بری سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کی نسبت بھی حسن ظنی سے کام لینا چاہتے ہیں خیال کرتے ہیں کہ یہ خط مروان نے لکھ کر بطور خود بھیج دیا ہوگا.مگر میرے نزدیک یہ خیال بالکل غلط ہے واقعات صاف بتاتے ہیں کہ یہ خط انہی مفسدوں نے بنایا ہے نہ کہ مروان یا کسی اور شخص نے اور یہ خیال کہ اگر انہوں نے بنایا ہوا تھا تو حضرت عثمان کا غلام اور صدقہ کا اونٹ ان کے ہاتھ کہاں سے آیا اور حضرت عثمان کے کاتب کا خط انہوں نے کس طرح بنالیا اور حضرت عثمان کی انگوٹھی کی مہر اس پر کیونکر لگا دی ایک غلط خیال ہے.کیونکہ ہمارے پاس اس کی کافی وجوہ موجود ہیں کہ یہ خط انہیں لوگوں نے بنایا تھا.گو واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے اور یہی قرین قیاس ہے کہ یہ 83
فریب صرف چندا کا بر کا کام تھا اور کوئی تعجب نہیں کہ صرف عبداللہ بن سبا اور اس کے چند خاص شاگردوں کا کام ہو.اور دوسرے لوگوں کو خواہ وہ سر دارلشکر ہی کیوں نہ ہوں اس کا علم نہ ہو.خط والے منصوبے کے ثبوت میں سات دلائل اس امر کا ثبوت کہ یہ کاروائی انہی لوگوں میں سے بعض لوگوں کی تھی یہ ہے:.ان لوگوں کی نسبت اس سے پہلے ثابت ہو چکا ہے کہ اپنے مدعا کے حصول کے لئے یہ لوگ جھوٹ سے پر ہیز نہیں کرتے تھے جیسا کہ ولید بن عتبہ اور سعید بن العاص کے مقابلہ میں انہوں نے جھوٹ سے کام لیا.اسی طرح مختلف ولایات کے متعلق جھوٹی شکایات مشہور کیں جن کی تحقیق اکا بر صحابہ نے کی اور ان کو غلط پایا.پس جب کہ ان لوگوں کی نسبت ثابت ہو چکا ہے کہ جھوٹ سے ان کو پر ہیز نہ تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس امر میں ان کو ملزم نہ قرار دیا جاوے اور ایسے لوگوں پر الزام لگا یا جاوے جن کا جھوٹ ثابت نہیں.جیسا کہ حضرت علی اور محمد بن مسلمہؓ نے اعتراض کیا ہے ان لوگوں کا ایسی جلدی واپس آجانا اور ایک وقت میں مدینہ میں داخل ہونا اس بات کی شہادت ہے کہ یہ ایک سازش تھی.کیونکہ جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے اہل مصر بیان کرتے تھے کہ انہوں نے بویب مقام پر اس قاصد کو جو ان کے بیان کے مطابق حضرت عثمان کا خط والی مصر کی طرف لے جار ہا تھا پکڑا تھا.بویب مدینہ سے کم سے کم چھ منازل پر واقع ہے اور اس جگہ واقع ہے جہاں سے مصر کا راستہ شروع ہوتا ہے.جب اہل مصر اس جگہ تک پہنچ گئے تھے تو اہل کوفہ اور اہل بصرہ بھی قریباً بالمقابل جہات پر چھ چھ منازل طے کر چکے ہوں گے اور اس طرح اہل مصر سے جو کچھ واقع ہوا اس کی اطلاع دونوں قافلوں کو کم سے کم بارہ تیرہ دن میں 84
مل سکتی تھی.اور ان کے آنے جانے کے دن شامل کر کے قریباً چوبیس دن میں یہ لوگ مدینہ پہنچ سکتے تھے.مگر یہ لوگ اس عرصہ سے بہت کم عرصہ میں واپس آگئے تھے.پس صاف ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ سے رخصت ہونے سے پہلے ہی ان لوگوں نے آپس میں منصوبہ بنا لیا تھا کہ فلاں تاریخ کو سب قافلے واپس مدینہ کو ٹیں اور ایک دم مدینہ پر قبضہ کر لیں اور چونکہ مصری قافلہ کے ساتھ عبد اللہ بن سبا تھا اور وہ نہایت ہوشیار آدمی تھا.اس نے ایک طرف تو یہ دیکھا کہ لوگ ان سے سوال کریں گے کہ تم بلا وجہ کوٹے کیوں ہو اور دوسری طرف اس کو یہ بھی خیال تھا کہ خود اس کے ساتھیوں کے دل میں بھی یہ بات کھٹکے گی کہ فیصلہ کے بعد نقض عہد کیوں کیا گیا ہے.اس لئے اس نے جعلی خط بنایا اور خود اپنے ساتھیوں کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا.اور غیظ و غضب کی آگ کو ان کے دلوں میں اور بھی بھڑ کا یا.اور صدقہ کے اونٹ کا چرالینا اور کسی غلام کو رشوت دے کر ساتھ ملا لینا کوئی مشکل بات نہیں.اس خط کے پکڑنے کا واقعہ جس طرح بیان کیا جاتا ہے وہ خود غیر طبعی ہے.کیونکہ اگر حضرت عثمان نے یا مروان نے کوئی ایسا خط بھیجا ہوتا تو یہ کیونکر ہوسکتا تھا کہ وہ غلام کبھی ان کے سامنے آتا اور کبھی چھپ جاتا.یہ حرکت تو وہی شخص کر سکتا ہے جو خود اپنے آپ کو پکڑوانا چاہے.اس غلام کو تو بقول ان لوگوں کے حکم دیا گیا تھا کہ اس قافلہ سے پہلے مصر پہنچ جائے.پھر بویب مقام پر جو مصر کا دروازہ ہے اس شخص کا ان کے ساتھ ساتھ جانا کیونکر خیال میں آسکتا ہے.قافلہ اور ایک آدمی کے سفر میں بہت فرق ہوتا ہے ایک آدمی جس سرعت سے سفر کر سکتا ہے قافلہ نہیں کرسکتا.کیونکہ قافلہ کی حوائج بہت زیادہ ہوتی ہیں اور سب قافلہ کی سواریاں ایک جیسی تیز نہیں ہوتیں.پس کیونکر ممکن تھا کہ بویب تک قافلہ پہنچ جاتا اور وہ 85
پیغا مبرا بھی قافلہ کے ساتھ ہی ہوتا اس وقت تو اسے اپنی منزل مقصود کے قریب ہونا چاہئے تھا.جو حالت وہ اس پیغامبر کی بیان کرتے ہیں وہ ایک جاسوس کی نسبت تو منسوب کی جا سکتی ہے پیغامبر کی نسبت منسوب نہیں کی جاسکتی.اسی طرح جب اس پیغامبر کو پکڑا گیا تو جو سوال و جواب اس سے ہوئے وہ بالکل غیر طبعی ہیں.کیونکہ وہ بیان کرتا ہے کہ وہ پیغامبر ہے.لیکن نہ اسے کوئی خط دیا گیا ہے اور نہ اسے کوئی زبانی پیغام دیا گیا ہے یہ جواب سوائے اس شخص کے کون دے سکتا ہے جو یا تو پاگل ہو یا خود اپنے آپ کو شک میں ڈالنا چاہتا ہو.اگر واقع میں وہ شخص پیغامبر ہوتا تو اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ کہتا کہ میں حضرت عثمان یا کسی اور کا بھیجا ہوا ہوں.یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ سچ کا بڑا پابند تھا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس خط تھا.مگر اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں پس ان لوگوں کی روایت کے مطابق اس پیغامبر نے جھوٹ تو ضرور بولا.پس سوال یہ ہے کہ اس نے وہ جھوٹ کیوں بولا جس سے وہ صاف طور پر پکڑا جا تا تھا.وہ جھوٹ کیوں نہ بولا جوایسے موقع پر اس کو گرفتاری سے بچا سکتا تھا.غرض یہ تمام واقعات بتاتے ہیں کہ خط اور خط لے جانے والے کا واقعہ شروع سے آخر تک فریب تھا.انہی مفسدوں میں سے کسی نے ( زیادہ تر گمان یہ ہے کہ عبد اللہ بن سبانے ) ایک جعلی خط بنا کر ایک شخص کو دیا ہے کہ وہ اسے لے کر قافلہ کے پاس سے گزرے لیکن چونکہ ایک آبادراستہ پر ایک سوار کو جاتے ہوئے دیکھ کر پکڑ لینا قرین قیاس نہ تھا اور اس خط کو بنانے والا چاہتا تھا کہ جہاں تک ہو سکے اس واقعہ کو دوسرے کے ہاتھ سے پورا کر وائے اس لئے اس نے اس قاصد کو ہدایت کی کہ وہ اس طرح قافلہ کے ساتھ چلے کہ لوگوں کے دلوں میں شک پیدا ہو اور جب وہ اس شک کو دور کرنے کے لئے سوال کریں تو ایسے جواب دے کہ شک اور زیادہ ہو.تا کہ عامۃ الناس خود اس کی تلاشی 86
لیں اور خط اس کے پاس دیکھ کر ان کو یقین ہو جاوے کہ حضرت عثمان نے ان سے فریب کیا ہے.اس خط کا مضمون بھی بتا تا ہے کہ وہ خط جعلی ہے اور کسی واقف کار مسلمان کا بنایا ہوا نہیں.کیونکہ بعض روایات میں اس کا یہ مضمون بتایا گیا ہے کہ فلاں فلاں کی ڈاڑھی منڈوائی جاوے حالانکہ ڈاڑھی منڈوانا اسلام کی رو سے منع ہے اور اسلامی حکومتوں میں سز ا صرف وہی دی جا سکتی تھی جو مطابق اسلام ہو.یہ ہرگز جائز نہ تھا کہ کسی شخص کو سزا کے طور پر سور کھلایا جاوے یا شراب پلائی جاوے یا ڈاڑھی منڈوائی جاوے.کیونکہ یہ ممنوع امر ہے.سز ا صرف قتل یا ضرب یا جرمانہ یا نفی عن الارض کی اسلام سے ثابت ہے خواہ نفی بصورت جلا وطنی ہو یا بصورت قید.اس کے سوا کوئی سزا اسلام سے ثابت نہیں اور نہ آئمہ اسلام نے کبھی ایسی سزادی.نہ خود حضرت عثمان یا ان کے عمال نے کبھی کوئی ایسی سزادی.پس ایسی سزا کا اس خط میں تحریر ہونا اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ یہ خط کسی ایسے شخص نے بنایا تھا جومغنز اسلام سے واقف نہ تھا.اس خط سے پہلے کے واقعات بھی اس امر کی تردید کرتے ہیں کہ یہ خط حضرت عثمان یا ان کے سیکرٹری کی طرف سے ہو کیونکہ تمام روایات اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت عثمان نے ان لوگوں کو سزا دینے میں بہت ڈھیل سے کام لیا ہے.اگر آپ چاہتے تو جس وقت یہ لوگ پہلی دفعہ آئے تھے اسی وقت ان کو قتل کر دیتے.اگر اس دفعہ انہوں نے چھوڑ دیا تھا تو دوسری دفعہ آنے پر تو ضرور ہی ان سرغنوں کو گرفتار کیا جاسکتا تھا کیونکہ وہ کھلی کھلی سرکشی کر چکے تھے اور صحابہ ان سے لڑنے پر آمادہ تھے.مگر اس وقت ان سے نرمی کر کے مصر 87
کے والی کو خط لکھنا کہ ان کو سزا دے ایک بعید از عقل خیال ہے.اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت عثمان کی نرمی کو دیکھ کر مروان نے ایسا خط لکھ دیا کیونکہ مروان یہ خوب جانتا تھا کہ حضرت عثمان حدود کے قیام میں بہت سخت ہیں.وہ ایسا خط لکھ کر سزا سے محفوظ رہنے کا خیال ایک منٹ کے لئے بھی اپنے دل میں نہیں لاسکتا تھا.پھر اگر وہ ایسا خط لکھتا بھی تو کیوں صرف مصر کے والی کے نام لکھتا.کیوں نہ بصرہ اور کوفہ کے والیوں کے نام بھی وہ ایسے خطوط لکھ دیتا.جس سے سب دشمنوں کا ایک دفعہ ہی فیصلہ ہو جاتا.صرف مصر کے والی کے نام ہی خط لکھا جانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ کوفہ اور بصرہ کے قافلوں میں کوئی عبد اللہ بن سبا جیسا چال باز آدمی نہ تھا.اگر یہ کہا جائے کہ شاید ان دونوں علاقوں کے والیوں کے نام بھی ایسے احکام جاری کئے گئے ہوں گے مگر ان کے لے جانے والے پکڑے نہیں گئے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی تھی.کیونکہ اگر عبد اللہ بن عامر پر یہ الزام لگا دیا جاوے کہ وہ حضرت عثمان کا رشتہ دار ہونے کے سبب خاموش رہا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری جو اکابر صحابہ میں سے تھے اور جن کے کامل الایمان ہونے کا ذکر خود قرآن شریف میں آتا ہے اور جو اس وقت کوفہ کے والی تھے وہ کبھی خاموش نہ رہتے اور ضرور بات کو کھول دیتے.پس حق یہی ہے کہ یہ خط جعلی تھا اور مصری قافلہ میں سے کسی نے بنایا تھا.اور چونکہ مصری قافلہ کے سوا دوسرے قافلوں میں کوئی شخص نہ اس قسم کی کاروائی کرنے کا اہل تھا اور نہ اس قدر عرصہ میں متعدد اونٹ بیت المال کے کرائے جا سکتے تھے اور نہ ہی اس قدر غلام قابو کئے جاسکتے تھے.اس لئے دوسرے علاقوں کے والیوں کے نام کے خطوط نہ بنائے گئے.88 88
سب سے زیادہ اس خط پر روشنی وہ غلام ڈال سکتا تھا جس کی نسبت ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ خط لے گیا تھا.مگر تعجب ہے کہ باوجود اس کے کہ حضرت عثمان نے گواہوں کا مطالبہ کیا ہے اس غلام کو پیش نہیں کیا گیا اور نہ بعد کے واقعات میں اس کا کوئی ذکر آتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پیش کیا جانا ان لوگوں کے مفاد کے خلاف تھا.شاید ڈرتے ہوں کہ وہ صحابہ کے سامنے آکر اصل واقعات کو ظاہر کر دے گا.پس اس کو چھپا دینا بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ خط کے بنانے والا یہ مفسد گر وہ ہی تھا.ایک نہایت زبر دست ثبوت اس بات کا کہ ان لوگوں نے ہی یہ خط بنا یا تھا یہ ہے کہ یہ پہلا خط نہیں جو انہوں نے بنایا ہے بلکہ اس کے سوا اسی فساد کی آگ بھڑ کانے کے لئے اور کئی خطوط انہوں نے بنائے ہیں.پس اس خط کا بنانا بھی نہ ان کے لئے مشکل تھا اور نہ اس واقعہ کی موجودگی میں کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے.وہ خط جو یہ پہلے بناتے رہے ہیں حضرت علی کے بدنام کرنے کے لئے تھے اور ان میں اس قسم کا مضمون ہوتا تھا کہ تم لوگ حضرت عثمان کے خلاف جوش بھڑ کا ؤ.ان خطوط کے ذریعے عوام الناس کا جوش بھڑ کا یا جاتا تھا اور وہ حضرت علی کی تصدیق دیکھ کر عبد اللہ بن سبا کی باتوں میں پھنس جاتے تھے.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان خطوط کا مضمون بہت مخفی رکھنے کا حکم تھا تا کہ حضرت علی کو معلوم نہ ہو جائے اور وہ ان کی تردید نہ کر دیں.اور مخفی رکھنے کی تاکید کی وجہ بھی بانیانِ فساد کے پاس معقول تھی.یعنی اگر یہ خط ظاہر ہوں گے تو حضرت علی مشکلات میں پڑ جاویں گے.اس طرح لوگ حضرت علی کی خاطر ان خطوط کے مضمون کو کسی پر ظاہر نہ کرتے تھے.اور بات کے مخفی رہنے کی وجہ سے بانیان فساد کا جھوٹ کھلتا بھی نہ تھا.لیکن جھوٹ آخر زیادہ 89
دیر تک چھپا نہیں رہتا خصوصاً جب سینکڑوں کو اس سے واقف کیا جاوے.حضرت عثمان کے نام پر لکھا ہوا خط پکڑا گیا اور عام اہل کوفہ نہایت غصہ سے واپس ہوئے تو ان میں سے ایک جماعت حضرت علی کے پاس گئی اور ان سے مدد کی درخواست کی حضرت علی تو تمام واقعہ کوسن کر ہی اس کے جھوٹا ہونے پر آگاہ ہو چکے تھے اور اپنی خداداد فراست سے اہل مصر کا فریب ان پر کھل چکا تھا.آپ نے صاف انکار کر دیا کہ میں ایسے کام میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہو سکتا اس وقت جوش کی حالت میں ان میں سے بعض سے احتیاط نہ ہو سکی اور بے اختیار بول اٹھے کہ پھر ہم سے خط و کتابت کیوں کرتے تھے.حضرت علی کے لئے یہ ایک نہایت حیرت انگیز بات تھی.آپ نے اس سے صاف انکار کیا اور لاعلمی ظاہر کی اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم ہے میں نے کبھی کوئی خط آپ لوگوں کی طرف نہیں لکھا.(طبری جلد نمبر صفحه ۱۹۶۵ مطبوعہ بیروت) اس پر ان لوگوں کو بھی سخت حیرت ہوئی کیونکہ در حقیقت خود ان کو بھی دھوکا دیا گیا تھا.اور انہوں نے ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا اور دریافت کیا کہ کیا اس شخص کے لئے تم غضب ظاہر کرتے ہو اور لڑتے ہو یعنی یہ شخص تو ایسا بز دل ہے کہ سب کچھ کر کرا کر موقع پر اپنے آپ کو بالکل بری ظاہر کرتا ہے.(نَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں بعض ایسے آدمی موجود تھے جو جعلی خطوط بنانے میں مہارت رکھتے تھے اور یہ بھی کہ ایسے آدمی مصریوں میں موجود تھے.کیونکہ حضرت علی کے نام پر خطوط صرف مصریوں کی طرف لکھے جاسکتے تھے جو حضرت علی کی محبت کے دعویدار تھے.پس اس خط کا جو حضرت عثمان کی طرف منسوب کیا جاتا تھا مصری 00 90
قافلہ میں پکڑ ا جانا اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ اس کا لکھنے والا مدینہ کا کوئی شخص نہ تھا بلکہ مصری قافلہ کا ہی ایک فرد تھا.خط کا واقعہ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف الزام لگانے والوں کے نزدیک سب سے اہم واقعہ ہے اس لئے میں نے اس پر تفصیلا اپنی تحقیق بیان کر دی ہے اور گواس واقعہ پر اور بسط سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے.اس امر کے ثابت کرنے کے لئے کہ یہ خط ایک جعلی اور بناوٹی خط تھا.اور یہ کہ اس خط کے بنانے والے عبد اللہ بن سبا اور اس کے ساتھی تھے نہ کہ مروان یا کوئی اور شخص.(حضرت عثمان کی ذات تو اس سے بہت ارفع ہے ) کافی ہے.مفسدوں کی اہل مدینہ پر زیادتیاں اب میں پھر سلسلہ واقعات کی طرف لوٹتا ہوں.اس جعلی خط کے زور پر اور اچانک مدینہ پر قبضہ کر لینے کے گھمنڈ پر ان مفسدوں نے خوب زیادتیاں شروع کیں.ایک طرف تو حضرت عثمان پر زور دیا جاتا کہ وہ خلافت سے دست بردار ہو جائیں.دوسری طرف اہل مدینہ کو تنگ کیا جاتا کہ وہ حضرت عثمان کی مدد کے لئے کوشش نہ کریں.اہل مدینہ بالکل بے بس تھے دو تین ہزار مسلح فوجی جو شہر کے راستوں اور چوکوں اور دروازوں کی ناکہ بندی کئے ہوئے تھے.اس کا مقابلہ یوں بھی آسان نہ تھا مگر اس صورت میں کہ وہ چند آدمیوں کو بھی اکٹھا ہونے نہ دیتے تھے اور دو دو چار چار آدمیوں سے زیادہ آدمیوں کا ایک جگہ جمع ہونا ناممکن تھا.باغی فوج کے مقابلہ کا خیال بھی دل میں لانا محال تھا.اور اگر بعض من چلے جنگ پر آمادہ بھی ہوتے تو سوائے ہلاکت کے اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلتا.مسجد ایک ایسی 91
جگہ تھی جہاں لوگ جمع ہو سکتے تھے.مگر ان لوگوں نے نہایت ہوشیاری سے اس کا بھی انتظام کر لیا تھا اور وہ یہ کہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے اور اہل مدینہ کو اس طرح ایک دوسرے سے جداجدار کھتے کہ وہ کچھ نہ کر سکتے.حضرت عثمان کا مفسدوں کو نصیحت کرنا باوجود اس شور و فساد کے حضرت عثمان نماز پڑھانے کے لئے باقاعدہ مسجد میں تشریف لاتے اور یہ لوگ بھی آپ سے اس معاملہ میں تعریض نہ کرتے اور امامت نماز سے نہ روکتے حتی کہ ان لوگوں کے مدینہ پر قبضہ کر لینے کے بعد سب سے پہلا جمعہ آیا.حضرت عثمان نے جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر ان لوگوں کو نصیحت فرمائی.اور فرمایا کہ اے دشمنانِ اسلام ! خدا تعالیٰ کا خوف کرو.تمام اہل مدینہ اس بات کو جانتے ہیں کہ تم لوگوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے.پس تو بہ کرو اور اپنے گناہوں کو نیکیوں کے ذریعے سے مٹاؤ.کیونکہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو نیکیوں کے سوا کسی اور چیز سے نہیں مٹاتا.اس پر محمد بن مسلمہ انصاری کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں اس امر کی تصدیق کرتا ہوں.ان لوگوں نے سمجھا کہ حضرت عثمان پر تو ہمارے ساتھی بدظن ہیں لیکن صحابہ نے اگر آپ کی تصدیق کرنی شروع کی اور ہماری جماعت کو معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری نسبت خاص طور پر پیشگوئی فرمائی تھی تو عوام شاید ہمارا ساتھ چھوڑ دیں.اس لئے انہوں نے اس سلسلہ کو روکنا شروع کیا.اور محمد بن مسلمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب صحابی کو جو تائید خلافت کے لئے نہ کسی فتنہ کے برپا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے.حکیم بن جبلہ ڈاکو نے جس کا ذکر میں شروع میں کر چکا ہوں جبراً پکڑ کر بٹھا 22 92
دیا.اس پر زید بن ثابت " جن کو قرآن کریم کے جمع کرنے کی عظیم الشان خدمت سپر دہوئی تھی تصدیق کے لئے کھڑے ہوئے مگر ان کو بھی ایک اور شخص نے بٹھا دیا.مفسدوں کا عصائے نبوی کو توڑنا اس کے بعد اس محبت اسلام کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے ایک فرد نے حضرت عثمان کے ہاتھ سے وہ عصا جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے اور آپ کے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ایسا ہی کرتے رہے چھین لیا اور اس پر اکتفا نہ کی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس یادگار کو جو امت اسلام کے لئے ہزاروں برکتوں کا موجب تھی اپنے گھٹنوں پر رکھ کر توڑ دیا.حضرت عثمان سے ان کو نفرت سہی خلافت سے ان کو عداوت سہی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو ان کو محبت کا دعوی تھا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس یاد گار کو اس بے ادبی کے ساتھ توڑ دینے کی ان کو کیونکر جرات ہوئی.یورپ آج دہریت کی انتہائی حد کو پہنچا ہوا ہے مگر یہ احساس اس میں بھی باقی ہے کہ اپنے بزرگوں کی یادگاروں کی قدر کرے.مگر ان لوگوں نے باوجود دعوائے اسلام کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عصائے مبارک کو توڑ کر پھینک دیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نصرت کا جوش صرف دکھاوے کا تھا ورنہ اس گروہ کے سردار اسلام سے ایسے ہی دور تھے جیسے کہ آج اسلام کے سب سے بڑے دشمن.مفسدوں کا مسجد نبوری میں کنکر برسانا اور حضرت عثمان کو زخمی کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عصا تو ڑ کر بھی ان لوگوں کے دلوں کو ٹھنڈک نہ حاصل ہوئی اور انہوں نے اس مسجد میں جس کی بنیاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی اور 93
جس کی تعمیر نہایت مقدس ہاتھوں سے ہوئی تھی کنکروں کا مینہ برسانہ شروع کیا اور کنکر مارمار کر صحابہ کرام اور اہل مدینہ کو مسجد نبوی سے باہر نکال دیا اور حضرت عثمان پر اس قدر کنکر برسائے گئے کہ آپ بے ہوش ہو کر منبر پر سے گر گئے اور چند آدمی آپ کو اٹھا کر گھر چھوڑ آئے.یہ اس محبت کا نمونہ تھا جو ان لوگوں کو اسلام اور حاملانِ شریعت اسلام سے تھی.اور یہ وہ اخلاق فاضلہ تھے جن کو یہ لوگ حضرت عثمان کو خلافت سے علیحدہ کر کے عالم اسلام میں جاری کرنا چاہتے تھے.اس واقع کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان کے مقابلہ میں کھڑی ہونے والی جماعت صحابہ سے کوئی تعلق رکھتی تھی.یا یہ کہ فی الواقع حضرت عثمان کی بعض کا روائیوں سے وہ شورش کرنے پر مجبور ہوئے تھے یا یہ کہ حمیت اسلامیہ ان کے غیظ و غضب کا باعث تھی.ان کی بد عملیاں اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ نہ اسلام سے ان کو کوئی تعلق تھا نہ دین سے ان کو کوئی محبت تھی.نہ صحابہ سے ان کو کوئی اُنس تھا.وہ اپنی مخفی اغراض کے پورا کرنے کے لئے ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے پر آمادہ ہو رہے تھے اور اسلام کے قلعہ میں نقب زنی کرنے کی کوشش کر رہے تھے.صحابہؓ کی مفسدوں کے خلاف جنگ پر آمادگی اس واقعہ ہائکہ کے بعد صحابہ اور اہل مدینہ نے سمجھ لیا کہ ان لوگوں کے دلوں میں اس سے بھی زیادہ بغض بھرا ہوا ہے جس قدر کہ یہ ظاہر کرتے ہیں.گووہ کچھ کرنہیں سکتے تھے مگر بعض صحابہ جو اس حالت سے موت کو بہتر سمجھتے تھے اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو جاوے ہم ان سے جنگ کریں گے.اس دو تین ہزار کے لشکر کے مقابلہ میں چار پانچ آدمیون کا لڑ نا دنیاداری کی نظروں میں شاید جنون معلوم ہو.لیکن جن لوگوں نے اسلام 94
کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہوا تھا انہیں اس کی حمایت میں لڑنا کچھ بھی دوبھر نہیں معلوم ہوتا تھا.ان لڑائی پر آمادہ ہو جانے والوں میں مفصلہ ذیل صحابہ بھی شامل تھے.سعد بن مالک ، حضرت ابوہریرہ ، زید بن صامت اور حضرت امام حسن.جب حضرت عثمان کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فوراً ان کو کہلا بھیجا کہ ہرگز ان لوگوں سے نہ لڑیں اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں.حضرت عثمان کی محبت جو آپ کو صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت سے تھی اس نے بے شک اس لڑائی کو جو چند جان فروش صحابہ اور اس دو تین ہزار کے باغی لشکر کے درمیان ہونے والی تھی روک دیا.مگر اس واقعہ سے یہ بات ہمیں خوب اچھی طرح سے معلوم ہو جاتی ہے کہ صحابہ میں ان لوگوں کی شرارتوں پر کس قدر جوش پیدا ہو رہا تھا.کیونکہ چند آدمیوں کا ایک لشکر جرار کے مقابلہ پر آمادہ ہو جانا ایسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ لوگ اس لشکر کی اطاعت کو موت سے بدتر خیال کریں.اس جماعت میں ابو ہریرہ اور امام حسن کی شرکت خاص طور پر قابل غور ہے.کیونکہ حضرت ابو ہریرہ فوجی آدمی نہ تھے اور اس سے پیشتر کوئی خاص فوجی خدمت ان سے نہیں ہوئی.اسی طرح حضرت امام حسن گو ایک جری باپ کے بیٹے اور خود جری اور بہادر تھے مگر آپ صلح اور امن کو بہت پسند فرماتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کے مطابق صلح کے شہزادے تھے.(مستدرک الحاكم الجزء الثالث كتاب معرفة الصحابة باب اخبار النبي بان الحسن يصلح به بين فئتين من المسلمين ) ان دو شخصوں کا اس موقع پر تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو جانا دلالت کرتا ہے کہ صحابہ اور دیگر اہل مدینہ 95
ان مفسدوں کی شرارت پر سخت ناراض تھے.مدینہ میں مفسدوں کے تین بڑے ساتھی صرف تین شخص مدینہ کے باشندے ان لوگوں کے ساتھی تھے ایک تو محمد بن ابی بکر جو حضرت ابو بکر کے لڑکے تھے.اور مؤرخین کا خیال ہے کہ بوجہ اس کے کہ لوگ ان کے باپ کے سبب ان کا ادب کرتے تھے ان کو خیال پیدا ہو گیا تھا کہ میں بھی حیثیت رکھتا ہوں.ورنہ نہ ان کو دنیا میں کوئی سبقت حاصل تھی نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی نہ بعد میں ہی خاص طور پر دینی تعلیم حاصل کی حجتہ الوادع کے ایام میں پیدا ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ابھی دودھ پیتے بچے تھے.چوتھے سال ہی میں تھے کہ حضرت ابو بکر فوت ہو گئے اور اس بے نظیر انسان کی تربیت سے بھی فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملا.(تهذيب التهذيب جلد ۹ صفحه ۷۰ مطبوعه لاهور) دوسر اشخص محمد بن ابی حذیفہ تھا یہ بھی صحابہ میں سے نہ تھا اس کے والد یمامہ کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے اور حضرت عثمان نے اس کی تربیت اپنے ذمہ لے لی تھی اور بچپن سے آپ نے اسے پالا تھا.جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو اس نے آپ سے کوئی عہدہ طلب کیا.آپ نے انکار کیا اس پر اس نے اجازت چاہی کہ میں کہیں باہر جا کر کوئی کام کروں.آپ نے اجازت دے دی اور یہ مصر چلا گیا.وہاں جا کر عبد اللہ بن سبا کے ساتھیوں سے مل کر حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کو بھر کا نا شروع کیا.جب اہل مصر مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو یہ ان کے ساتھ ہی آیا.مگر کچھ دور تک آکر واپس چلا گیا اور اس فتنہ کے 96
وقت مدینہ میں نہیں تھا.طبری جلد ۶ صفحه ۳۰۲۹ مطبوعه بیروت) تیسرے شخص عمار بن یاسر تھے یہ صحابہ میں سے تھے اور ان کے دھوکا کھانے کی وجہ یہ تھی کہ یہ سیاست سے باخبر نہ تھے.جب حضرت عثمان نے ان کو مصر بھیجا کہ وہاں کے والی کے انتظام کے متعلق رپورٹ کریں تو عبد اللہ بن سبانے ان کا استقبال کر کے ان کے خیالات کو مصر کے گورنر کے خلاف کر دیا.اور چونکہ وہ گورنر ایسے لوگوں میں سے تھا.جنہوں نے ایام کفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت مخالفت کی تھی اور فتح مکہ کے بعد اسلام لایا تھا.اس لئے آپ بہت جلد ان لوگوں کے قبضہ میں آگئے.والی کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کے بعد آہستہ آہستہ حضرت عثمان " پر بھی انہوں نے ان کو بدظن کر دیا.مگر انہوں نے عملاً فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا.کیونکہ باوجود اس کے کہ مدینہ پر حملہ کے وقت یہ مدینہ میں موجود تھے سوائے اس کے کہ اپنے گھر میں خاموش بیٹھے رہے ہوں اور ان مفسدوں کا مقابلہ کرنے میں انہوں نے کوئی حصہ نہ لیا ہو عملی طور پر انہوں نے فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا.اور ان مفسدوں کی بداعمالیوں سے ان کا دامن بالکل پاک ہے.حضرت عثمان کو خلافت سے دست برداری کیلئے مجبور کیا جانا ان تین کے سوا باقی کوئی شخص اہل مدینہ میں سے صحابی ہو یا غیر صحابی ان مفسدوں کا ہمدرد نہ تھا.اور ہر ایک شخص ان پر لعنت ملامت کرتا تھا.مگر ان کے ہاتھ میں اس وقت سب انتظام تھا یہ کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے تھے.ہیں دن تک یہ لوگ صرف زبانی طور پر کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح حضرت عثمان” خلافت سے دست بردار ہوجائیں.مگر حضرت عثمان نے اس امر سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ جو تمیض مجھے خدا تعالیٰ نے 97
پہنائی ہے میں اسے اتار نہیں سکتا.اور نہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ چھوڑ سکتا ہوں کہ جس کا جی چاہے دوسرے پر ظلم کرے.(طبری جلد صفحہ ۱۹۹۰ مطبوعہ بیروت ) اور ان لوگوں کو بھی سمجھاتے رہے کہ اس فساد سے باز آجاویں اور فرماتے رہے کہ آج یہ لوگ فساد کرتے ہیں اور میری زندگی سے بیزار ہیں.مگر جب میں نہ رہوں گا تو خواہش کریں گے کہ کاش عثمان کی عمر کا ایک ایک دن ایک ایک سال سے بدل جاتا اور وہ ہم سے جلدی رخصت نہ ہوتا.کیونکہ میرے بعد سخت خون ریزی ہوگی اور حقوق کا اتلاف ہوگا اور انتظام کچھ کا کچھ بدل جائے گا (چنانچہ بنوامیہ کے زمانہ میں خلافت حکومت سے بدل گئی اور ان مفسدوں کو ایسی سزائیں ملیں کہ سب شرارتیں ان کو بھول گئیں ).حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ ہیں دن گزرنے کے بعد ان لوگوں کو خیال ہوا کہ اب جلدی ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہے تا ایسا نہ ہو کہ صوبہ جات سے فوجیں آجاویں اور ہمیں اپنے اعمال کی سزا بھگتنی پڑے.اس لئے انہوں نے حضرت عثمان کا گھر سے نکلنا بند کر دیا.اور کھانے پینے کی چیزوں کا اندر جانا بھی روک دیا اور سمجھے کہ شاید اس طرح مجبور ہو کر حضرت عثمان ہمارے مطالبات کو قبول کر لیں گے.مدینہ کا انتظام اب ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا اور تینوں فوجوں نے مل کر مصر کی فوجوں کے سردار غافقی کو اپنا سر دار تسلیم کر لیا تھا.اس طرح مدینہ کا حاکم گو یا اس وقت غافقی تھا اور کوفہ کی فوج کا سردار اشتر اور بصرہ کی فوج کا سردار حکیم بن جبلہ (وہی ڈاکو جسے اہل ذمہ کے مال لوٹنے پر حضرت عثمان نے بصرہ میں نظر بند کر دینے کا حکم دیا تھا ) دونوں غافقی کے 98
ماتحت کام کرتے تھے.اور اس سے ایک دفعہ پھر یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس فتنہ کی اصل جڑ مصری تھے.جہاں عبد اللہ بن سبا کام کر رہا تھا.مسجد نبوی میں غافقی نماز پڑھاتا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اپنے گھروں میں مقید رہتے یا اس کے پیچھے نماز ادا کرنے پر مجبور تھے.جب تک ان لوگوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا تب تک تو لوگوں سے زیادہ تعرض نہیں کرتے تھے مگر محاصرہ کرنے کے ساتھ ہی دوسرے لوگوں پر بھی سختیاں شروع کر دیں.اب مدینہ دارالامن کی بجائے دارالحرب ہو گیا.اہل مدینہ کی عزت اور ننگ و ناموس خطرہ میں تھی اور کوئی شخص اسلحہ کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا تھا اور جو شخص ان کا مقابلہ کرتا اسے قتل کر دیتے تھے.حضرت علی کا محاصرہ کرنے والوں کو نصیحت کرنا جب ان لوگوں نے حضرت عثمان کا محاصرہ کر لیا اور پانی تک اندر جانے سے روک دیا تو حضرت عثمان نے اپنے ایک ہمسایہ کے لڑکے کو حضرت علی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور امہات المؤمنین کی طرف بھیجا کہ ان لوگوں نے ہمارا پانی بھی بند کر دیا ہے.آپ لوگوں سے اگر کچھ ہو سکے تو کوشش کریں اور ہمیں پانی پہنچائیں.مردوں میں سب سے پہلے حضرت علی آئے اور آپ نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ تم لوگوں نے کیا رویہ اختیار کیا ہے.تمہارا عمل تو نہ مؤمنوں سے ملتا ہے نہ کافروں سے.حضرت عثمان کے گھر میں کھانے پینے کی چیزیں مت روکو.روم اور فارس کے لوگ بھی قید کرتے ہیں تو کھانا کھلاتے ہیں اور پانی پلاتے ہیں.اور اسلامی طریق کے موافق تو تمہارا یہ فعل کسی طرح جائز 66 99
نہیں.کیونکہ حضرت عثمان نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم ان کو قید کر دینے اور قتل کر دینے کو جائز سمجھنے لگے ہو.حضرت علی کی اس نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا.اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اس شخص تک دانہ پانی نہ پہنچنے دیں گے.یہ وہ جواب تھا جو انہوں نے اس شخص کو دیا جسے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی اور آپ کا حقیقی جانشین قرار دیتے تھے.اور کیا اس جواب کے بعد کسی اور شہادت کی بھی اس امر کے ثابت کرنے کے لئے ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ حضرت علی کا وصی قرار دینے والا گروہ حق کی حمایت اور اہل بیت کی محبت کی خاطر اپنے گھروں سے نہیں نکلا تھا بلکہ اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنے کے لئے.حضرت اُمّ حبیبہ سے مفسدوں کا سلوک اُمہات المؤمنین میں سے سب سے پہلے حضرت ام حبیبہ آپ کی مدد کے لئے آئیں.ایک خچر پر آپ سوار تھیں.آپ اپنے ساتھ ایک مشکیزہ پانی کا بھی لائیں.لیکن اصل غرض آپ کی یہ تھی کہ بنوامیہ کے یتامی اور بیواؤں کی وصیتیں حضرت عثمان کے پاس تھیں.اور آپ نے جب دیکھا کہ حضرت عثمان کا پانی باغیوں نے بند کر دیا ہے تو آپ کو خوف ہوا کہ وہ وصایا بھی کہیں تلف نہ ہو جائیں اور آپ نے چاہا کہ کسی طرح وہ وصایا محفوظ کر لی جائیں.ورنہ پانی آپ کسی اور ذریعہ سے بھی پہنچاسکتی تھیں.جب آپ حضرت عثمان کے دروازے تک پہنچیں تو باغیوں نے آپ کو روکنا چاہا لوگوں نے بتایا کہ یہ ام المؤمنين ام حبیبہ ہیں مگر اس پر بھی وہ لوگ باز نہ آئے اور آپ کی خچر کو مارنا شروع کیا.ام المؤمنین ام حبیبہ نے فرمایا کہ میں ڈرتی ہوں کہ بنوامیہ کے یتامی اور بیوگان کی وصایا ضائع نہ ہوجائیں.اس لئے اندر جانا چاہتی ہوں تا کہ ان کی حفاظت کا سامان کر دوں.مگر ان بدبختوں 100
نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ کو جواب دیا کہ تم جھوٹ بولتی ہو اور آپ کی خچر پر حملہ کر کے اس کے پالان کے رستے کاٹ دیئے اور زین الٹ گئی.اور قریب تھا کہ حضرت امّم به گر کر ان مفسدوں کے پیروں کے نیچے روندی جا کر شہید ہو جاتیں کہ بعض اہل مدینہ نے حبيبه جو قریب تھے جھپٹ کر آپ کو سنبھالا اور گھر پہنچادیا.11 ۱۵ طبری جلد ۲ صفحه ۱۰ ۳۰ مطبوعه بیروت) ۶ حضرت اُم حبیبہ کی دینی غیرت کا نمونہ یہ وہ سلوک تھا جو ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سے کیا.رت ام حبیبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا اخلاص اور عشق رکھتی تھیں کہ جب پندرہ سولہ سال کی جدائی کے بعد آپ کا باپ جو عرب کا سردار تھا اور مکہ میں ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا ایک خاص سیاسی مشن پر مدینہ آیا اور آپ کے ملنے کیلئے گیا.تو آپ نے اسکے نیچے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر کھینچ لیا.اس لئے کہ خدا کے رسول کے پاک کپڑے سے ایک مشرک کے نجس جسم کو چھوتے ہوئے دیکھنا آپ کی طاقت برداشت سے باہر تھا.تعجب ہے کہ حضرت ام حبیبہ نے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبت میں آپ کے کپڑے تک کی حرمت کا خیال رکھا مگر ان مفسدوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبت میں آپکے حرم محترم کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا.نادانوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی جھوٹی ہیں حالانکہ جو کچھ انہوں نے فرمایا تھا وہ درست تھا.حضرت عثمان بنوامیہ کے یتامی کے ولی تھے اور ان لوگوں کی بڑھتی ہوئی عداوت کو دیکھ کر آپ کا خوف درست تھا کہ یتامی اور بیواؤں کے اموال ضائع نہ ہو جائیں.جھوٹے وہ تھے جنہوں 101
نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعوی کرتے ہوئے ان کے دین کی تباہی کا بیڑا اٹھایا تھا نہ ام المؤمنین ام حبیبہ.(طبری جلد صفحه ۰۲۹ مطبوعہ بیروت) حضرت عائشہ کی حج کے لئے تیاری حضرت اُمّ حبیبہ کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا گیا تھا.جب اس کی خبر مدینہ میں پھیلی تو صحابہ اور اہل مدینہ حیران رہ گئے اور سمجھ لیا کہ اب ان لوگوں سے کسی قسم کی خیر کی امید رکھنی فضول ہے.حضرت عائشہ نے اسی وقت حج کا ارادہ کر لیا اور سفر کی تیاری شروع کر دی.جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ مدینہ سے جانے والی ہیں تو بعض نے آپ سے درخواست کی کہ اگر آپ یہیں ٹھہریں تو شاید فتنہ کے روکنے میں کوئی مدد ملے اور باغیوں پر کچھ اثر ہو.مگر انہوں نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ مجھ سے بھی وہی سلوک ہو جو ام حبیبہ سے ہوا ہے خدا کی قسم ! میں اپنی عزت کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتی ( کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت تھی ) اگر کسی قسم کا معاملہ مجھ سے کیا گیا.تو میری حفاظت کا کیا سامان ہوگا خدا ہی جانتا ہے کہ یہ لوگ اپنی شرارتوں میں کہاں تک ترقی کریں گے اور ان کا کیا انجام ہوگا.حضرت عائشہ صدیقہ نے چلتے چلتے ایک ایسی تدبیر کی جو اگر کارگر ہو جاتی تو شاید فساد میں کچھ کمی ہو جاتی.اور وہ یہ کہ اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کو کہلا بھیجا کہ تم بھی میرے ساتھ حج کو چلو مگر اس نے انکار کر دیا.اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا.کیا کروں بے بس ہوں.اگر میری طاقت ہوتی تو ان لوگوں کو اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہ ہونے دیتی.حضرت عثمان کا والیان صوبہ جات کو مراسلہ حضرت عائشہ تو حج کو تشریف لے گئیں اور بعض صحابہؓ بھی جن سے ممکن ہو سکا 102
اور مدینہ سے نکل سکے مدینہ سے تشریف لے گئے اور باقی لوگ سوائے چندا کا بر صحابہؓ کے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور آخر حضرت عثمان کو بھی یہ محسوس ہو گیا کہ یہ لوگ نرمی سے مان نہیں سکتے اور آپ نے ایک خط تمام والیان صوبہ جات کے نام روانہ کیا جس کا خلاصہ یہ تھا.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے بعد ہلا کسی خواہش یا درخواست کے مجھے ان لوگوں میں شامل کیا گیا تھا جنہیں خلافت کے متعلق مشورہ کرنے کا کام سپر د کیا گیا تھا.پھر ہلا میری خواہش یا سوال کے مجھے خلافت کے لئے چنا گیا اور میں برابر وہ کام کرتا رہا جو مجھے سے پہلے خلفاء کرتے رہے اور میں نے اپنے پاس سے کوئی بدعت نہیں نکالی.لیکن چند لوگوں کے دلوں میں بدی کا بیج بویا گیا اور شرارت جاگزیں ہوئی اور انہوں نے میرے خلاف منصوبے کرنے شروع کر دیئے.اور لوگوں کے سامنے کچھ ظاہر کیا اور دل میں کچھ اور رکھا اور مجھ پر وہ الزام لگانے شروع کئے جو مجھ سے پہلے خلفاء" پر بھی لگتے تھے.لیکن میں معلوم ہوتے ہوئے خاموش رہا.اور یہ لوگ میرے رحم سے ناجائز فائدہ اٹھا کر شرارت میں اور بھی بڑھ گئے.اور آخر کفار کی طرح مدینہ پر حملہ کر دیا.پس آپ لوگ اگر کچھ کرسکیں تو مدد کا انتظام کریں.اسی طرح ایک خط جس کا خلاصہ مطلب ذیل میں درج ہے حج پر آنے والوں کے نام لکھ کر کچھ دن بعد روانہ کیا.حضرت عثمان کا حاجیوں کے نام خط میں آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور اس کے انعامات یا دلاتا ہوں.اس وقت کچھ لوگ فتنہ پردازی کر رہے ہیں اور اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش میں مشغول ہیں.مگر ان لوگوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا 103
ہے.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَستَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرَضِ ( النور : ۵۶) اور اتفاق کی قدر نہیں کی.حالانکہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وَاعْتَصِمُوْ بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيْعًا (ال عمران : ۱۰۳) اور مجھ پر الزام لگانے والوں کی باتوں کو قبول کیا اور قرآن کریم کے اس حکم کی پرواہ نہ کی کہ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إِنْ جَاءَ كُمْ فَاسِقُ بِنَبَافَتَبَيَّنُوْا (الحجرات : 4 ) اور میری بیعت کا ادب نہیں کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ يُبَا بِعُوْنَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ (الفتح : 11) اور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوں.کوئی امت بغیر سردار کے ترقی نہیں کر سکتی اور اگر کوئی امام نہ ہو تو جماعت کا تمام کام خراب و بر باد ہو جائے گا.یہ لوگ امت اسلامیہ کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں.اور اس کے سوا ان کی کوئی غرض نہیں.کیونکہ میں نے ان کی بات کو قبول کر لیا تھا اور والیوں کے بدلنے کا وعدہ کر لیا تھا.مگر انہوں نے اس پر بھی شرارت نہ چھوڑی.اب یہ تین باتوں میں سے ایک کا مطالبہ کرتے ہیں.اول یہ کہ جن لوگوں کو میرے عہد میں سزا ملی ہے ان سب کا قصاص مجھ سے لیا جاوے.اگر یہ مجھے منظور نہ ہو تو پھر خلافت کو چھوڑ دوں اور یہ لوگ میری جگہ کسی اور کو مقرر کر دیں.یہ بھی نہ مانوں تو پھر یہ لوگ دھمکی دیتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے تمام ہم خیال لوگوں کو پیغام بھیجیں گے کہ وہ میری اطاعت سے باہر ہو جائیں.پہلی بات کا تو یہ جواب ہے کہ مجھ سے پہلے خلفاء" بھی کبھی فیصلوں میں غلطی کرتے تھے مگر ان کو کبھی سزا نہ دی گئی اور اس قدر سزائیں مجھ پر جاری کرنے کا مطلب سوائے مجھے مارنے کے اور کیا ہوسکتا ہے.خلافت سے معزول ہونے کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ موچنوں 104
سے میری بوٹیاں کر دیں تو یہ مجھے منظور ہے.مگر خلافت سے میں جدا نہیں ہوسکتا.باقی رہی تیسری بات کہ پھر یہ لوگ اپنے آدمی چاروں طرف بھیجیں گے کہ کوئی میری بات نہ مانے.سو میں خدا کی طرف سے ذمہ دار نہیں ہوں اگر یہ لوگ ایک امر خلاف شریعت کرنا چاہتے ہیں تو کریں.پہلے بھی جب انہوں نے میری بیعت کی تھی تو میں نے ان پر جبر نہیں کیا تھا.جو شخص عہد توڑنا چاہتا ہے میں اس کے اس فعل پر راضی نہیں نہ خدا تعالیٰ راضی ہے.ہاں وہ اپنی طرف سے جو چاہے کرے.چونکہ حج کے دن قریب آرہے تھے اور چاروں طرف سے لوگ مکہ مکرمہ میں جمع ہو رہے تھے.حضرت عثمان نے اس خیال سے کہ کہیں وہاں بھی کوئی فساد نہ کھڑا کریں اور اس خیال سے بھی کہ حج کے لئے جمع ہونے والے مسلمانوں میں اہل مدینہ کی مدد کی تحریک کریں حضرت عبد اللہ بن عباس کو حج کا امیر بنا کر روانہ کیا.حضرت عبد اللہ بن عباس نے بھی عرض کی کہ ان لوگوں سے جہاد کرنا مجھے زیادہ پسند ہے مگر حضرت عثمان نے ان کو مجبور کیا کہ وہ حج کے لئے جاویں.اور حج کے ایام میں امیر حج کا کام کریں تا کہ مفسد وہاں اپنی شرارت نہ پھیلا سکیں اور وہاں جمع ہونے والے لوگوں میں بھی مدینہ کے لوگوں کی مدد کی تحریک کی جاوے.اور مذکورہ بالا خط آپ ہی کے ہاتھ روانہ کیا.جب ان خطوں کا ان مفسدوں کو علم ہوا تو انہوں نے اور بھی سختی کرنا شروع کر دی.اور اس بات کا موقع تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح لڑائی کا کوئی بہانہ مل جاوے تو حضرت عثمان کو شہید کر دیں مگر ان کی تمام کوششیں فضول جاتی تھیں اور حضرت عثمان ان کو کوئی موقع شرارت کا ملنے نہ دیتے تھے.105
مفسدوں کا حضرت عثمان کے گھر میں پتھر پھینکنا آخر تنگ آکر یہ تدبیر شو بھی کہ جب رات پڑتی اور لوگ سوجاتے.حضرت عثمان کے گھر میں پتھر پھینکتے.اور اس طرح اہل خانہ کو اشتعال دلاتے تا کہ جوش میں آکر وہ بھی پتھر پھینکیں تو لوگوں کو کہہ سکیں کہ انہوں نے ہم پر پہلے حملہ کیا ہے اس لئے ہم جواب دینے پر مجبور ہیں.مگر حضرت عثمان نے اپنے تمام اہل خانہ کو جواب دینے سے روک دیا.ایک دن موقع پا کر دیوار کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے لوگو! میں تو تمہارے نزدیک تمہارا گناہ گار ہوں مگر دوسرے لوگوں نے کیا قصور کیا ہے.تم پتھر پھینکتے ہو تو دوسروں کو بھی چوٹ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے.انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ ہم نے پتھر نہیں پھینکے.حضرت عثمان نے فرمایا کہ اگر تم نہیں پھینکتے تو اور کون پھینکتا ہے.انہوں نے کہا کہ خدا تعالیٰ پھینکتا ہوگا ( نعوذ باللہ من ذالک) حضرت عثمان نے فرمایا کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو.اگر ہم پر پتھر پھینکتا تو اس کا کوئی پتھر خطانہ جاتا.لیکن تمہارے پھینکے ہوئے پتھر تو ادھر ادھر بھی جا پڑتے ہیں.یہ فرما کر آپ ان کے سامنے سے ہٹ گئے.فتنه فروکرنے میں صحابہ کی مساعی جمیلہ گو صحابہ کو اب حضرت عثمان کے پاس جمع ہونے کا موقع نہ دیا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے فرض سے غافل نہ تھے.مصلحت وقت کے ماتحت انہوں نے دوحصوں میں اپنا کام تقسیم کیا ہوا تھا.جوسن رسیدہ اور جن کا اخلاقی اثر عوام پر زیادہ تھاوہ تو اپنے اوقات کو لوگوں کے سمجھانے پر صرف کرتے اور جو لوگ ایسا کوئی اثر نہ رکھتے تھے یا نوجوان تھے وہ حضرت عثمان کی حفاظت کی کوشش میں لگے رہتے.106
اوّل الذکر جماعت میں سے حضرت علی اور حضرت سعد بن وقاص فاتح فارس فتنہ کے کم کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں تھے.خصوصاً حضرت علی تو اس فتنہ کے ایام میں اپنے تمام کام چھوڑ کر اس کام میں لگ گئے تھے چنانچہ ان واقعات کی رؤیت کے گواہوں میں سے ایک شخص عبد الرحمن نامی بیان کرتا ہے کہ ان ایام فتنہ میں میں نے دیکھا ہے کہ حضرت علی نے اپنے تمام کام چھوڑ دیئے تھے اور حضرت عثمان کے دشمنوں کا غضب ٹھنڈا کرنے اور آپ کی تکالیف دور کرنے کی فکر میں ہی رات دن لگے رہتے تھے.ایک دفعہ آپ تک پانی پہنچنے میں کچھ دیر ہوئی تو حضرت طلحہ" پر جن کے سپرد یہ کام تھا آپ سخت ناراض ہوئے اور اس وقت تک آرام نہ کیا جب تک پانی حضرت عثمان کے گھر میں پہنچ نہ گیا.دوسرا گروہ ایک ایک، دو دو کر کے جس جس وقت موقع ملتا تھا تلاش کر کے حضرت عثمان یا آپ کے ہمسایہ گھروں میں جمع ہونا شروع ہوا.اور اس نے اس امر کا پختہ ارادہ کر لیا کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر حضرت عثمان کی جان پر آنچ نہ آنے دیں گے.اس گروہ میں حضرت علی ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی اولاد کے سوائے خود صحابہ میں سے بھی ایک جماعت شامل تھی.یہ لوگ رات اور دن حضرت عثمان کے مکان کی حفاظت کرتے تھے اور آپ تک کسی دشمن کو پہنچنے نہ دیتے تھے.اور گویہ قلیل تعداد اس قدر کثیر لشکر کا مقابلہ تو نہ کرسکتی تھی مگر چونکہ باغی چاہتے تھے کوئی بہانہ رکھ کر حضرت عثمان کو قتل کریں وہ بھی اس قدر زور نہ دیتے تھے.اس وقت کے حالات سے حضرت عثمان کی اسلامی خیر خواہی پر جو روشنی پڑتی ہے اس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے.تین ہزار کے قریب لشکر آپ کے دروازہ کے سامنے پڑا ہے اور کوئی تدبیر اس سے بچنے کی نہیں.مگر جولوگ آپ کو بچانے 107
کی کوشش کرنا چاہتے ہیں ان کو بھی آپ روکتے ہیں کہ جاؤ اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالوان لوگوں کو صرف مجھ سے عداوت ہے تم سے کوئی تعرض نہیں.آپ کی آنکھ اس وقت کو دیکھ رہی تھی جب کہ اسلام ان مفسدوں کے ہاتھوں سے ایک بہت بڑے خطرہ میں ہوگا.اور صرف ظاہری اتحاد ہی نہیں بلکہ روحانی انتظام بھی پراگندہ ہونے کے قریب ہو جاوے گا.اور آپ جانتے تھے کہ اس وقت اسلام کی حفاظت اور اس کے قیام کے لئے ایک ایک صحابی" کی ضرورت ہو گی پس آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی جان بچانے کی بے فائدہ کوشش میں صحابہ کی جانیں جاویں اور سب کو یہی نصیحت کرتے تھے کہ ان لوگوں سے تعرض نہ کرو اور چاہتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے آئندہ فتنوں کو دور کرنے کے لئے وہ جماعت محفوظ رہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی ہے.مگر باوجود آپ کے سمجھانے کے جن صحابہ کو آپ کے گھر تک پہنچنے کا موقع مل جاتا وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرتے اور آئندہ کے خطرات پر موجودہ خطرہ کو مقدم رکھتے اور اگر ان کی جانیں اس عرصہ میں محفوظ تھیں تو صرف اس لئے کہ ان لوگوں کو جلدی کی کوئی ضرورت نہ معلوم ہوتی تھی اور بہانہ کی تلاش تھی.لیکن وہ وقت بھی آخر آگیا جب کہ زیادہ انتظار کرنا ناممکن ہو گیا.کیونکہ حضرت عثمان کا وہ دل کے ہلا دینے والا پیغام جو آپ نے حج پر جمع ہونے والے مسلمانوں کو بھیجا تھا حتجاج کے مجمع میں سنا دیا گیا تھا اور وادی مکہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی آواز سے گونج رہی تھی اور حج پر جمع ہونے والے مسلمانوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ حج کے بعد جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہ رہیں گے اور مصری مفسدوں اور ان کے ساتھیوں کا قلع قمع کر کے چھوڑیں گے.مفسدوں کے جاسوسوں نے انہیں اس ارادہ کی اطلاع دے دی تھی اور اب ان کے کیمپ میں سخت گھبراہٹ کے آثار 108
تھے.حتی کہ ان میں چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ اب اس شخص کے قتل کے سوا کوئی چارہ نہیں.اور اگر اسے ہم نے قتل نہ کیا تو مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہمارے قتل میں کوئی شبہ نہیں.اس گھبراہٹ کو اس خبر نے اور بھی دو بالا کر دیا کہ شام اور کوفہ اور بصرہ میں بھی حضرت عثمان کے خطوط پہنچ گئے ہیں اور وہاں کے لوگ جو پہلے سے ہی حضرت عثمان کے احکام کے منتظر تھے ان خطوط کے پہنچنے پر اور بھی جوش سے بھر گئے ہیں اور صحابہ نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے مسجدوں اور مجلسوں میں تمام مسلمانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلا کر ان مفسدوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا.اور وہ کہتے ہیں جس نے آج جہاد نہ کیا اس نے گویا کچھ بھی نہ کیا.کوفہ میں عقبہ بن عمر و، عبد اللہ بن ابی اوفی اور حنظلہ بن ربیع التمیمی اور دیگر صحابہ کرام نے لوگوں کو اہل مدینہ کی مدد کے لئے ابھارا ہے تو بصرہ میں عمران بن حصین، انس بن مالک، ہشام بن عامر اور دیگر صحابہ نے.شام میں اگر عبادہ بن صامت، ابو امامہ الے اور دیگر صحابہ نے حضرت عثمان کی آواز پر لبیک کہنے پر لوگوں کو اُکسایا ہے تو مصر میں خارجہ و دیگر لوگوں نے.اور سب ملکوں سے فوجیں اکٹھی ہو کر مدینہ کی طرف بڑھی چلی آتی ہیں.(طبری جلد صفحه ۱۹۶۰ مطبوعہ بیروت) حضرت عثمان کے گھر پر مفسدوں کا حملہ غرض ان خبروں سے باغیوں کی گھبراہٹ اور بھی بڑھ گئی آخر حضرت عثمان کے گھر پر حملہ کر کے بزور اندر داخل ہونا چاہا صحابہؓ نے مقابلہ کیا اور آپس میں سخت جنگ ہوئی گو صحابہ کم تھے مگر ان کی ایمانی غیرت ان کی کم کی تعداد کو پورا کر رہی تھی.جس جگہ لڑائی ہوئی یعنی حضرت عثمان کے گھر کے سامنے وہاں جگہ بھی تنگ تھی.اس لئے بھی مفسدا اپنی کثرت 109
سے زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکے.حضرت عثمان کو جب اس لڑائی کا علم ہوا تو آپ نے صحابہؓ کو لڑنے سے منع کیا.مگر وہ اس وقت حضرت عثمان کو اکیلا چھوڑ دینا ایمانداری کے خلاف اور اطاعت کے حکم کے متضاد خیال کرتے تھے اور باوجود حضرت عثمان کو اللہ کی قسم دینے کے انہوں نے کوٹنے سے انکار کر دیا.حضرت عثمان کا صحابہ کو وصیت کرنا آخر حضرت عثمان نے ڈھال ہاتھ میں پکڑی اور باہر تشریف لے آئے اور صحابہ کو اپنے مکان کے اندر لے گئے اور دروازے بند کرا دیئے اور آپ نے سب صحابہ اور ان کے مددگاروں کو وصیت کی کہ خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو دنیا اس لئے نہیں دی کہ تم اس کی طرف جھک جاؤ.بلکہ اس لئے دی ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے آخرت کے سامان جمع کرو.یہ دنیا تو فنا ہو جاوے گی اور آخرت ہی باقی رہے گی.پس چاہئے کہ فانی چیز تم کو غافل نہ کرے.باقی رہنے والی چیز کو فانی ہو جانے والی چیز پر مقدم کرو اور خدا تعالیٰ کی ملاقات کو یا درکھو اور جماعت کو پراگندہ نہ ہونے دو.اور اس نعمت الہی کو مت بھولو کہ تم ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تم کو نجات دے کر بھائی بھائی بنا دیا اور اس کے بعد آپ نے سب کو رخصت کیا.اور کہا کہ خدا تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو.تم سب اب گھر سے باہر جاؤ اور ان صحابہ کو بھی بلو اؤ جن کو مجھ تک آنے نہیں دیا تھا.خصوصاً حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر کو.یہ لوگ باہر آئے اور دوسرے صحابہ کو بھی بلوایا گیا.اس وقت کچھ ایسی کیفیت پیدا ہو رہی تھی اور ایسی افسردگی چھا رہی تھی کہ باغی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے.اور 110
کیوں نہ ہو تا سب دیکھ رہے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلائی ہوئی ایک شمع اب اس دنیا کی عمر کو پوری کر کے اس دنیا کے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہونے والی ہے.غرض باغیوں نے زیادہ تعرض نہ کیا اور سب صحابہ جمع ہوئے.جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ گھر کی دیوار پر چڑھے اور فرمایا میرے قریب ہو جاؤ.جب سب قریب ہو گئے تو فرمایا کہ اے لوگو! بیٹھ جاؤ.اس پر صحابہ بھی اور مجلس کی ہیبت سے متاثر ہو کر باغی بھی بیٹھ گئے.جب سب بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ اہل مدینہ! میں تم کوخدا تعالیٰ کے سپر د کرتا ہوں اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے بعد تمہارے لئے خلافت کا کوئی بہتر انتظام فرما دے.آج کے بعد اس وقت تک کہ خدا تعالیٰ میرے متعلق کوئی فیصلہ فرمادے میں باہر نہیں نکلوں گا اور میں کسی کو کوئی ایسا اختیار نہیں دے جاؤں گا کہ جس کے ذریعہ سے دین یا دنیا میں وہ تم پر حکومت کرے.اور اس امر کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دوں گا کہ وہ جسے چاہے اپنے کام کے لئے پسند کرے.اس کے بعد صحابہ و دیگر اہل مدینہ کو قسم دی کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ عظیم میں نہ ڈالیں اور اپنے گھروں کو چلے جاویں.آپ کے اس حکم نے صحابہ میں ایک بہت بڑا اختلاف پیدا کر دیا.ایسا اختلاف کہ جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی.صحابہ حکم ماننے کے سوا اور کچھ جانتے ہی نہ تھے.مگر آج اس حکم کے ماننے میں ان میں سے بعض کو اطاعت نہیں غداری کی بو نظر آتی تھی.بعض صحابہ نے تو اطاعت کے پہلو کو مقدم سمجھ کر بادل ناخواستہ آئندہ کے لئے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا اور غالباً انہوں نے سمجھا کہ ہمارا کام صرف اطاعت ہے یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس حکم پر عمل کرنے کے کیا نتائج ہوں گے مگر بعض صحابہ نے اس حکم کو 111
ماننے سے انکار کر دیا.کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ بے شک خلیفہ کی اطاعت فرض ہے مگر جب خلیفہ یہ حکم دے کہ تم مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ تو اس کے یہ معنے ہیں کہ خلافت سے وابستگی چھوڑ دو.پس یہ اطاعت در حقیقت بغاوت پیدا کرتی ہے.اور وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ حضرت عثمان کا ان کو گھروں کو واپس کرنا ان کی جانوں کی حفاظت کے لئے تھا تو پھر کیا وہ ایسے محبت کرنے والے وجود کو خطرہ میں چھوڑ کر اپنے گھروں میں جا سکتے تھے اس مؤخر الذکر گروہ میں سب اکابر صحابہ شامل تھے.چنانچہ باوجود اس حکم کے حضرت علی حضرت طلحہ ، حضرت زبیر کے لڑکوں نے اپنے اپنے والد کے حکم کے ماتحت حضرت عثمان کی ڈیوڑھی پر ہی ڈیرہ جمائے رکھا اور اپنی تلواروں کو میانوں میں نہ داخل کیا.حاجیوں کی واپسی پر باغیوں کی گھبراہٹ باغیوں کی گھبراہٹ اور جوش کی کوئی حد باقی نہ رہی جب کہ حج سے فارغ ہو کر آنے والے لوگوں میں سے اگے دُگے مدینہ میں داخل ہونے لگے.اور ان کو معلوم ہو گیا کہ اب ہماری قسمت کے فیصلہ کا وقت بہت نزدیک ہے.چنانچہ مغیرہ بن الاخنس سب سے پہلے شخص تھے جو حج کے بعد ثواب جہاد کے لئے مدینہ میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ ہی یہ خبر باغیوں کو ملی کہ اہل بصرہ کا لشکر جو مسلمانوں کی امداد کے لئے آرہا ہے صرار مقام پر جو مدینہ سے صرف ایک دن کے راستہ پر ہے آپہنچا ہے.ان خبروں سے متاثر ہو کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح ہو اپنے مدعا کو جلد پورا کیا جائے اور چونکہ وہ صحابہ اور ان کے ساتھی جنہوں نے باوجود حضرت عثمان کے منع کرنے کے حضرت عثمان کی حفاظت نہ چھوڑ دی تھی اور صاف کہہ دیا تھا کہ اگر ہم آپ کو باوجود ہاتھوں میں طاقت مقابلہ ہونے کے چھوڑ دیں تو 112
خدا تعالیٰ کو کیا منہ دکھا ئیں گے.بوجہ اپنی قلت تعداد اب مکان کے اندر کی طرف سے حفاظت کرتے تھے.اور دروازہ تک پہنچنا با غیوں کے لئے مشکل نہ تھا.انہوں نے دروازہ کے سامنے لکڑیوں کے انبار جمع کر کے آگ لگا دی تا کہ دروازہ جل جاوے اور اندر پہنچنے کا راستہ مل جاوے.صحابہ نے اس بات کو دیکھا تو اندر بیٹھنا مناسب نہ سمجھا.تلواریں پکڑ کر باہر نکلنا چاہا مگر حضرت عثمان نے اس بات سے روکا اور فرمایا کہ گھر کو آگ لگانے کے بعد اور کون سی بات رہ گئی ہے.اب جو ہونا تھا ہو چکا.تم لوگ اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالو اور اپنے گھروں کو چلے جاؤ.ان لوگوں کو صرف میری ذات سے عداوت ہے.مگر جلد یہ لوگ اپنے کئے پر پشیمان ہوں گے.میں ہر ایک شخص کو جس پر میری اطاعت فرض ہے اس کے فرض سے سبکدوش کرتا ہوں اور اپنا حق معاف کرتا ہوں.(طبری جلد صفحہ ۲۰۰۲ مطبوعہ بیروت ) مگر صحابہ نے اور دیگر لوگوں نے اس بات کو تسلیم نہ کیا اور تلواریں پکڑ کر باہر نکلے.ان کے باہر نکلتے وقت حضرت ابو ہریرہ بھی آگئے اور باوجود اس کے کہ وہ فوجی آدمی نہ تھے وہ بھی ان کے ساتھ مل گئے.اور فرمایا کہ آج کے دن کی لڑائی سے بہتر اور کون سی لڑائی ہوسکتی ہے اور پھر باغیوں کی طرف دیکھ کر فرما یا قَوْمِ مَالِيَّ أَدْعُوكُمْ إِلَى النُّجُوةِ وَتَدْعُوْنَنِي إِلَى النَّارِ (المؤمن :۴۲) یعنی اے میری قوم! کیا بات ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھ کو آگ کی طرف بلاتے ہو.صحابہؓ کی مفسدوں سے لڑائی یلڑائی ایک خاص لڑائی تھی.اور مٹھی بھر صحابہ جو اس وقت جمع ہو سکے انہوں نے اس لشکر عظیم کا مقابلہ جان تو ڑ کر کیا.حضرت امام حسن جو نہایت صلح جو بلکہ صلح کے شہزادے 113
تھے انہوں نے بھی اس دن رجز پڑھ پڑھ کر دشمن پر حملہ کیا.ان کا اور محمد بن طلحہ کا اس دن کا رجز خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ ان سے ان کے دلی خیالات کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے.حضرت امام حسن یہ شعر پڑھ کر باغیوں پر حملہ کرتے تھے.لَادِيْنُهُمْ دِيْنِي وَلَا آنَا مِنْهُمْ حَتَّى آسِيْرَ إِلَى طَمَارِ شَمَامٍ طبری جلد ۲ صفحه ۱۴ ۳۰ مطبوعه بیروت) یعنی ان لوگوں کا دین میرا دین نہیں اور نہ ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق ہے اور میں ان سے اس وقت تک لڑوں گا کہ شمام پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ جاؤں.شام عرب کا ایک پہاڑ ہے جس کو بلندی پر پہنچنے اور مقصد کے حصول سے مشابہت دیتے ہیں.اور حضرت امام حسن کا یہ مطلب ہے کہ جب تک میں اپنے مدعا کو نہ پہنچ جاؤں اس وقت تک میں برابر ان سے لڑتا رہوں گا اور ان سے صلح نہ کروں گا.کیونکہ ہم میں کوئی معمولی اختلاف نہیں کہ بغیر ان پر فتح پانے کے ہم ان سے تعلق قائم کر لیں یہ تو وہ خیالات ہیں جو اس شہزادہ صلح کے دل میں موجزن تھے.اب ہم طلحہ کے لڑکے محمد کا رجز لیتے ہیں وہ کہتے ہیں: أَنَا ابْنُ مَنْ حَامَى عَلَيْهِ بِأَحَدٍ وَرَدَّ أَحْزَابَا عَلَىٰ رَغْمِ مَعَدٌ یعنی میں اس کا بیٹا ہوں جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت احد کے دن کی تھی اور جس نے باوجود اس کے کہ عربوں نے سارا زور لگایا تھا ان کو شکست دے دی تھی.یعنی آج بھی احد کی طرح کا ایک واقعہ ہے اور جس طرح میرے والد نے اپنے ہاتھ کو تیروں سے چھلنی کروالیا تھا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آنچ نہ آنے دی تھی میں بھی 114
ایسا ہی کروں گا.حضرت عبد اللہ بن زبیر بھی اس لڑائی میں شریک ہوئے اور بری طرح زخمی ہوئے.مروان بھی سخت زخمی ہوا.اور موت تک پہنچ کر لوٹا.مغیرہ بن الاخنس مارے گئے.جس شخص نے ان کو مارا تھا اس نے دیکھ کر کہ آپ زخمی ہی نہیں ہوئے بلکہ مارے گئے ہیں زور سے کہا کہ اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ سردار لشکر نے اسے ڈانٹا کہ اس خوشی کے موقع پر افسوس کا اظہار کرتے ہو.اس نے کہا کہ آج رات میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ ایک شخص کہتا ہے مغیرہ کے قاتل کو دوزخ کی خبر دو.پس یہ معلوم کر کے کہ میں ہی اس کا قاتل ہوں مجھے اس کا صدمہ ہونا لازمی تھا.مذکورہ بالا لوگوں کے سوا اور لوگ بھی زخمی ہوئے اور مارے گئے اور حضرت عثمان کی حفاظت کرنے والی جماعت اور بھی کم ہو گئی.لیکن اگر باغیوں نے باوجود آسمانی انذار کے اپنی ضد نہ چھوڑی اور خدا تعالیٰ کی محبوب جماعت کا مقابلہ جاری رکھا تو دوسری طرف مخلصین نے بھی اپنے ایمان کا اعلیٰ نمونہ دکھانے میں کمی نہ کی.باوجود اس کے کہ اکثر محافظ مارے گئے یا زخمی ہو گئے پھر بھی ایک قلیل گروہ برابر دروازہ کی حفاظت کرتا رہا.چونکہ باغیوں کو بظاہر غلبہ حاصل ہو چکا تھا.انہوں نے آخری حیلہ کے طور پر پھر ایک شخص کو حضرت عثمان کی طرف بھیجا کہ وہ خلافت سے دستبردار ہو جائیں.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خود دست بردار ہو جاویں گے تو مسلمانوں کو انہیں سزا دینے کا کوئی حق اور موقع نہ رہے گا.حضرت عثمان کے پاس جب پیغامبر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو جاہلیت میں بھی بدیوں سے پر ہیز کیا ہے اور اسلام میں بھی اس کے احکام کو نہیں تو ڑا.میں 115
کیوں اور کس جرم میں اس عہدہ کو چھوڑ دوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.میں تو اس نمیض کو کبھی نہیں اتاروں گا جو خدا تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے.وہ شخص یہ جواب سن کر واپس آگیا اور اپنے ساتھیوں سے ان الفاظ میں آکر مخاطب ہوا.خدا کی قسم ! ہم سخت مصیبت میں پھنس گئے ہیں خدا کی قسم! مسلمانوں کی گرفت سے عثمان کو قتل کرنے کے سوائے ہم بچ نہیں سکتے ( کیونکہ اس صورت میں حکومت تہ و بالا ہو جائے گی اور انتظام بگڑ جاوے گا اور کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا ) اور اس کا قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں.اس شخص کے یہ فقرات نہ صرف ان لوگوں کی گھبراہٹ پر دلالت کرتے ہیں بلکہ اس امر پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس وقت تک بھی حضرت عثمان نے کوئی ایسی بات پیدا نہ ہونے دی تھی جسے یہ لوگ بطور بہانہ استعمال کر سکیں اور ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ حضرت عثمان کا قتل کسی صورت میں جائز نہیں.عبد اللہ بن سلام کا مفسدوں کو نصیحت کرنا جب یہ لوگ حضرت عثمان کے قتل کا منصوبہ کر رہے تھے.حضرت عبد اللہ بن سلام جو بحالت کفر بھی اپنی قوم میں نہایت معزز تھے اور جن کو یہودا پنا سر دار مانتے تھے اور عالم بے بدل جانتے تھے تشریف لائے اور دروازہ پر کھڑے ہو کر ان لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کی اور حضرت عثمان کے قتل سے ان کو منع فرمایا.کہ اے قوم! خدا کی تلوار کو اپنے اوپر نہ کھینچو.خدا کی قسم اگر تم نے تلوار کھینچی تو پھر اسے میان میں کرنے کا موقع نہ ملے گا ہمیشہ مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا ہی جاری رہے گا.عقل کرو آج تم پر حکومت صرف کوڑے کے ساتھ کی جاتی ہے.(عموماً حدود شرعیہ میں کوڑے کی سزا دی جاتی ہے ) اور اگر تم نے اس 116
شخص کو قتل کر دیا تو حکومت کا کام بغیر تلوار کے نہ چلے گا ( یعنی چھوٹے چھوٹے جرموں پر لوگوں کو قتل کیا جاوے گا ) یا درکھو کہ اس وقت مدینہ کے محافظ ملائکہ ہیں.اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو ملائکہ مدینہ کو چھوڑ جائیں گے.اس نصیحت سے ان لوگوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ عبد اللہ بن سلام صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دھتکار دیا.اور ان کے پہلے دین کا طعنہ دے کر کہا کہ اے یہودن کے بیٹے ! تجھے ان کاموں سے کیا تعلق.افسوس کہ ان لوگوں کو یہ تو یا درہا کہ عبداللہ بن سلام یہودن کے بیٹے تھے لیکن یہ بھول گیا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ایمان لائے اور رسول کریم نے آپ کے ایمان لانے پر نہایت خوشی کا ظہار کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر ایک مصیبت اور دکھ میں آپ شریک ہوئے.اور اسی طرح یہ بھی بھول گیا کہ ان کا لیڈر اور ان کو ورغلانے والا حضرت علیؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی قرار دے کر حضرت عثمان کے مقابلہ پر کھڑا کرنے والا عبد اللہ بن سبا بھی یہو دن کا بیٹا تھا بلکہ خود یہودی تھا اور صرف ظاہر میں اسلام کا اظہار کر رہا تھا.مفسدوں کا حضرت عثمان کو قتل کرنا حضرت عبد اللہ بن سلام تو ان لوگوں سے مایوس ہوکر چلے گئے اور ادھر ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ دروازہ کی طرف سے جا کر حضرت عثمان” کوقتل کرنا مشکل ہے کیونکہ اس طرف تھوڑے بہت جو لوگ بھی روکنے والے موجود ہیں وہ مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں یہ فیصلہ کیا کہ کسی ہمسایہ کے گھر کی دیوار پھاند کر حضرت عثمان کو قتل کر دیا جائے چنانچہ اس ارادے سے چند لوگ ایک ہمسایہ کی دیوار پھاند کر آپ کے کمرہ میں گھس گئے.جب 117
گھسے تو حضرت عثمان قرآن کریم پڑھ رہے تھے.اور جب سے کہ محاصرہ ہوا تھا رات دن آپ کا یہی شغل تھا کہ نماز پڑھتے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اس کے سوا اور کسی کام کی طرف توجہ نہ کرتے اور ان دنوں میں صرف آپ نے ایک کام کیا اور وہ یہ کہ ان لوگوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے آپ نے دو آدمیوں کو خزانہ کی حفاظت کے لئے مقرر کیا.کیونکہ جیسا کہ ثابت ہے اس دن رات کو رویا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو نظر آئے اور فرمایا کہ عثمان آج شام کو روزہ ہمارے ساتھ کھولنا.اس رؤیا سے آپ کو یقین ہو گیا تھا کہ آج میں شہید ہو جاؤں گا پس آپ نے اپنی ذمہ داری کا خیال کر کے دو آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ خزانہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر پہرہ دیں تا کہ شور وشر میں کوئی شخص خزانہ لوٹنے کی کوشش نہ کرے.واقعات شہادت حضرت عثمان ย غرض جب یہ لوگ اندر پہنچے تو حضرت عثمان کو قرآن کریم پڑھتے پایا ان حملہ آوروں میں محمد بن ابی بکر بھی تھے.اور بوجہ اپنے اقتدار کے جوان لوگوں پر ان کو حاصل تھا اپنا فرض سمجھتے تھے کہ ہر ایک کام میں آگے ہوں.چنانچہ انہوں نے بڑھ کر حضرت عثمان کی ڈاڑھی پکڑ لی اور زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان نے ان کے اس فعل پر صرف اس قدر فرمایا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیرا باپ (حضرت ابوبکر ) اس وقت ہوتا تو کبھی ایسانہ کرتا.تجھے کیا ہوا تو خدا کے لئے مجھے پر ناراض ہے.کیا اس کے سوا تجھے مجھ پر کوئی غصہ ہے کہ تجھ سے میں نے خدا کے حقوق ادا کروائے ہیں.اس پر محمد بن ابی بکر شرمندہ ہوکر واپس لوٹ گئے.لیکن دوسرے شخص وہیں رہے اور چونکہ اس رات بصرہ کے لشکر کی مدینہ 118
میں داخل ہو جانے کی یقینی خبر آ چکی تھی اور یہ موقع ان لوگوں کے لئے آخری موقع تھا ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ بغیر اپنا کام کئے واپس نہ لوٹیں گے اور ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمان کے سر پر ماری اور پھر حضرت عثمان کے سامنے جو قرآن دھرا ہوا تھا اس کو لات مار کر پھینک دیا.قرآن کریم لڑھک کر حضرت عثمان کے پاس آگیا اور آپ کے سر پر سے خون کے قطرات گر کر اس پر آ پڑے قرآن کریم کی بے اد بی تو کسی نے کیا کرنی ہے مگر ان لوگوں کے تقویٰ اور دیانت کا پردہ اس واقع سے اچھی طرح فاش ہو گیا.جس آیت پر آپ کا خون گراوہ ایک زبردست پیشگوئی تھی جو اپنے وقت میں جا کر اس شان سے پوری ہوئی کہ سخت دل سے سخت دل آدمی نے اس کے خونی حروف کی جھلک کو دیکھ کر خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں.وہ آیت یی فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ (البقرة :۱۳۸ ) اللہ تعالیٰ ضرور ان سے تیرا بدلہ لے گا اور وہ بہت سننے والا اور جاننے والا ہے.اس کے بعد ایک اور شخص سودان نامی آگے بڑھا اور اس نے تلوار سے آپ پر حملہ کرنا چاہا.پہلا وار کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کو روکا اور آپ کا ہاتھ کٹ گیا.اس پر آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم یہ وہ ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے قرآن کریم لکھا تھا.اس کے بعد پھر اس نے دوسرا وار کر کے آپ کو قتل کرنا چاہا تو آپ کی بیوی نائلہ وہاں آگئیں اور اپنے آپ کو بیچ میں کھڑا کر دیا مگر اس شقی نے ایک عورت پر وار کرنے سے بھی دریغ نہ کیا اور وار کر دیا جس سے آپ کی بیوی کی انگلیاں کٹ گئیں اور وہ علیحدہ ہو گئیں.پھر 119
اس نے ایک وار حضرت عثمان پر کیا اور آپ کو سخت زخمی کر دیا اس کے بعد اس شقی نے یہ خیال کر کے کہ ابھی جان نہیں نکلی شاید بچ جاویں اسی وقت جب کہ زخموں کے صدموں سے آپ بے ہوش ہو چکے تھے اور شدت درد سے تڑپ رہے تھے آپ کا گلا پکڑ کرگھونٹنا شروع کیا اور اس وقت تک آپ کا گلا نہیں چھوڑا جب تک آپ کی رُوح جسم خاکی سے پرواز کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو لبیک کہتی ہوئی عالم بالا کو پرواز نہیں کر گئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ پہلے حضرت عثمان کی بیوی اس نظارہ کی ہیبت سے متأثر ہوکر بول نہ سکیں لیکن آخر انہوں نے آواز دی اور وہ لوگ جو دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے اندر کی طرف دوڑے.مگر اب مدد فضول تھی جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا تھا.حضرت عثمان کے ایک آزاد کردہ غلام نے سودان کے ہاتھ میں وہ خون آلودہ تلوار دیکھ کر جس نے حضرت عثمان کو شہید کیا تھا نہ رہا گیا اور اس نے آگے بڑھ کر اس شخص کا تلوار سے سرکاٹ دیا.اس پر اس کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے اس کو قتل کر دیا.اب اسلامی حکومت کا تخت خلیفہ سے خالی ہو گیا.اہل مدینہ نے مزید کوشش فضول سمجھی اور ہر ایک اپنے اپنے گھر جا کر بیٹھ گیا.ان لوگوں نے حضرت عثمان کو مار کر گھر پر دست تعدی دراز کرنا شروع کیا.حضرت عثمان کی بیوی نے چاہا کہ اس جگہ سے ہٹ جاویں تو اس کے لوٹتے وقت ان میں سے ایک کم بخت نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو اس کے سرین کیسے موٹے ہیں.بے شک ایک حیادار آدمی کے لئے خواہ وہ کسی مذہب کا پیرو کیوں نہ ہو اس بات کو باور کرنا بھی مشکل ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت 120
سابق (قدیم) صحابی آپ کے داماد! تمام اسلامی ممالک کے بادشاہ اور پھر خلیفہ وقت کو یہ لوگ ابھی ابھی مار کر فارغ ہوئے تھے ایسے گندے خیالات کا ان لوگوں نے اظہار کیا ہو.لیکن ان لوگوں کی بے حیائی ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ کسی قسم کی بد اعمالی بھی ان سے بعید نہ تھی یہ لوگ کسی نیک مدعا کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے تھے.نہ ان کی جماعت نیک آدمیوں کی جماعت تھی.ان میں سے بعض عبد اللہ بن سبا یہودی کے فریب خوردہ اور اس کی عجیب و غریب مخالف اسلام تعلیموں کے دلدادہ تھے.کچھ حد سے بڑھی ہوئی سوشلزم بلکہ بولشوزم کے فریفتہ تھے.کچھ سزا یافتہ مجرم تھے جو اپنا دیرینہ بغض نکالنا چاہتے تھے.کچھ لٹیرے اور ڈاکو تھے جو اس فتنہ پر اپنی ترقیات کی راہ دیکھتے تھے.پس ان کی بے حیائی قابل تعجب نہیں.بلکہ یہ لوگ اگر ایسی حرکت نہ کرتے تب تعجب کا مقام تھا.جب یہ لوگ لوٹ مار کر رہے تھے ایک اور آزاد کردہ غلام سے حضرت عثمان کے گھر والوں کی چیخ و پکارٹن کر نہ رہا گیا اور اس نے حملہ کر کے اس شخص کو قتل کر دیا جس نے پہلے غلام کو مارا تھا.اس پر ان لوگوں نے اُسے بھی قتل کر دیا اور عورتوں کے جسم پر سے بھی زیورا تار لئے اور ہنسی ٹھٹھا کرتے ہوئے گھر سے نکل گئے.باغیوں کا بیت المال کو لوٹنا اس کے بعد ان لوگوں نے اپنے ساتھیوں میں عام منادی کرادی کہ بیت المال کی طرف چلو اور اس میں جو کچھ ہولوٹ لو.چونکہ بیت المال میں سوائے روپیہ کی دو تھیلیوں کے اور کچھ نہ تھا محافظوں نے یہ دیکھ کر کہ خلیفہ وقت شہید ہو چکا ہے اور ان لوگوں کا مقابلہ کرنا فضول ہے آپس میں یہ فیصلہ کیا کہ یہ جو کچھ کرتے ہیں ان کو کرنے دو.اور بیت المال 121
کی گنجیاں پھینک کر چلے گئے.چنانچہ انہوں نے بیت المال کوجا کر کھولا اور اس میں جو کچھ تھا لوٹ لیا.اور اس طرح ہمیشہ کے لئے اس امر کی صداقت پر مہر لگا دی کہ یہ لوگ ڈاکو اور ٹیرے تھے.اور ان کو اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا.اور کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ وہ لوگ جو حضرت عثمان " پر یہ اعتراض دھرتے تھے کہ آپ غیر مستحقین کو روپیہ دے دیتے ہیں حضرت عثمان کی شہادت کے بعد سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ پہلے آپ کا گھر لوٹتے ہیں اور پھر بیت المال.مگر خدا تعالیٰ نے ان کی آرزوؤں کو اس معاملہ میں بھی پورا نہ ہونے دیا.کیونکہ بیت المال میں اس وقت سوائے چند روپوں کے جو ان کی حرص کو پورا نہیں کر سکتے تھے اور کچھ نہ تھا.حضرت عثمان کی شہادت پر صحابہ کا جوش حضرت عثمان کی شہادت کی خبر جب صحابہ کو پہنچی تو ان کو سخت صدمہ ہوا.حضرت زبیر نے جب یہ خبر ی تو إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اے خدا عثمان پر رحم کر اور اس کا بدلہ لے اور جب ان سے کہا گیا کہ اب وہ لوگ شرمندہ ہیں اور اپنے کئے پر پشیمان ہو رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ منصوبہ بازی تھی اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی وَ حِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ (ا: ٥٥) خدا تعالیٰ نے ان کی آرزوؤں کے پورا ہونے میں روکیں ڈال دی تھیں.یعنی جو کچھ یہ لوگ چاہتے تھے چونکہ اب پورا ہوتا نظر نہیں آتا.گل عالم اسلامی کو اپنے خلاف جوش میں دیکھ رہے ہیں اس لئے اظہار ندامت کرتے ہیں.جب حضرت طلحہ کو خبر ملی تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ خدا تعالیٰ عثمان پر رحم فرمادے.اور اس کا اور اسلام کا بدلہ ان لوگوں سے لے.جب ان سے کہا گیا کہ اب تو وہ 122
لوگ نادم ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان پر ہلاکت ہو اور یہ آیت کریمہ پڑھی فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ تَوْصِيَةً وَّلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُوْنَ (يس:۵۱) ان کو وصیت کرنے کی بھی توفیق نہ ملے گی.اور وہ اپنے اہل وعیال کی طرف واپس نہ کوٹ سکیں گے.اسی طرح جب حضرت علی کو اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی عثمان پر رحم فرمادے اور ان کے بعد ہمارے لئے کوئی بہتر جانشین مقررفرما وے اور جب ان سے بھی کہا گیا کہ اب تو وہ لوگ شرمندہ ہیں تو آپ نے یہ آیت کریمہ پڑھی كَمَثَلِ الشَّيْطَنِ اذْ قَالَ لِلْإِنْسانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِئُ : مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَلَمِينَ ( الحشر :۱۷) یعنی ان کی مثال اس شیطان کی ہے جولوگوں کو کہتا ہے کہ کفر کر وجب وہ کفر اختیار کر لیتے ہیں تو پھر کہتا ہے کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں تو خدا سے ڈرتا ہوں.جب ان لشکروں کو جو حضرت عثمان کی مدد کے لئے آرہے تھے معلوم ہوا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.تو وہ مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر سے ہی لوٹ گئے اور مدینہ کے اندر داخل ہونا انہوں نے پسند نہ کیا کیونکہ ان کے جانے سے حضرت عثمان کی تو کوئی مرد نہ ہوسکتی تھی اور خطرہ تھا کہ فساد زیادہ نہ بڑھ جاوے اور مسلمان عام طور پر بلا امام کے لڑنا بھی پسند نہ کرتے تھے.اب مدینہ انہیں لوگوں کے قبضہ میں رہ گیا اور ان ایام میں ان لوگوں نے جو حرکات کیں وہ نہایت حیرت انگیز ہیں.حضرت عثمان کو شہید تو کر چکے تھے ان کی نعش کے دفن کرنے پر بھی ان کو اعتراض ہوا.اور تین دن تک آپ کو دفن نہ کیا جا سکا آخر صحابہ کی ایک جماعت نے ہمت کر کے رات کے وقت آپ کو دفن کیا.ان لوگوں کے راستہ میں بھی انہوں نے روکیں ڈالیں لیکن بعض لوگوں نے سختی سے ان کا مقابلہ کرنے کی دھمکی دی تو دب 123
گئے.حضرت عثمان کے دونوں غلاموں کی لاشوں کو باہر جنگل میں نکال کر ڈال دیا اور کتوں کو کھلا دیا.(طبری جلد صفحہ ۴۹، مطبوعہ بیروت) نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ.واقعات متذکرہ کا خلاصہ اور نتائج یہ وہ صحیح واقعات ہیں جو حضرت عثمان کے آخری ایام خلافت میں ہوئے ان کے معلوم کرنے کے بعد کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ حضرت عثمان یا صحابہ کا ان فسادات میں کچھ بھی دخل تھا.حضرت عثمان نے جس محبت اور جس اخلاص اور جس بُردباری سے اپنی خلافت کے آخری چھ سال میں کام لیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے.خدائے پاک کے بندوں کے سوا اور کسی جماعت میں ایسی مثال نہیں مل سکتی.وہ بے لوث مسند خلافت پر بیٹھے اور بے لوث ہی اپنے محبوب حقیقی سے جاملے.ایسے خطر ناک اوقات میں جب کہ بڑے بڑے صابروں کا خون بھی جوش میں آجاتا ہے آپ نے ایسا رویہ اختیار کیا کہ آپ کے خون کے پیاسے آپ کے قتل کے لئے کوئی کمزور سے کمزور بہانہ بھی تلاش نہ کر سکے اور آخر اپنے ظالم ہونے اور حضرت عثمان کے بری ہونے کا اقرار کرتے ہوئے انہیں آپ پر تلوار اٹھانی پڑی.اسی طرح ان واقعات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کو حضرت عثمان کی خلافت پر کوئی اعتراض نہ تھا.وہ آخر دم تک وفاداری سے کام لیتے رہے اور جب کہ کسی قسم کی مدد کرنی بھی ان کے لئے ناممکن تھی تب بھی اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر آپ کی حفاظت کرتے رہے.یہ بھی ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان فسادات میں حضرت عثمان کے انتخاب والیان کا بھی کچھ دخل نہ تھا اور نہ والیوں کے مظالم اس کا باعث تھے کیونکہ ان کا کوئی ظلم ثابت نہیں ہوتا حضرت علی اور طلحہ اور حضرت زبیر پر خفیہ ریشہ دوانیوں کا بھی الزام رض 124
بالکل غلط ہے.ان تینوں اصحاب نے اس وفاداری اور اس ہمدردی سے اس فتنہ کے دور کرنے میں سعی کی ہے کہ سگے بھائی بھی اس سے زیادہ تو کیا اس کے برابر بھی نہیں کر سکتے.انصار پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حضرت عثمان سے ناراض تھے وہ غلط ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انصار کے سب سردار اس فتنہ کے دور کرنے میں کوشاں رہے ہیں.فساد کا اصل باعث یہی تھا کہ دشمنان اسلام نے ظاہری تدابیر سے اسلام کو تباہ نہ ہوتے دیکھ کر خفیہ ریشہ دوانیوں کی طرف توجہ کی اور بعض اکابر صحابہ کی آڑ لے کر خفیہ خفیہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہا.جن ذرائع سے انہوں نے کام لیا وہ اب لوگوں پر روشن ہو چکے ہیں.سزا یافتہ مجرموں کو اپنے ساتھ ملایا اورلٹیروں کو تحریص دلائی.جھوٹی مساوات کے خیالات پیدا کر کے انتظام حکومت کو کھوکھلا کیا.مذہب کے پردہ میں لوگوں کے ایمان کو کمزور کیا اور ہزاروں حیلوں اور تدبیروں سے ایک جماعت تیار کی.پھر جھوٹ سے،جعل سازی سے اور فریب سے کام لے کر ایسے حالات پیدا کر دیئے جن کا مقابلہ کرنا حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کے لئے مشکل ہو گیا.ہم نہیں جانتے کہ انجام کیا ہوتا.مگر ہم واقعات سے یہ جانتے ہیں کہ اگر اس وقت حضرت عمر کی خلافت بھی ہوتی تب بھی یہ فتنہ ضرور کھڑا ہو جاتا اور وہی الزام جو حضرت عثمان پر لگائے گئے حضرت عمر پر بھی لگائے جاتے کیونکہ حضرت عثمان نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکر نے نہیں کیا تھا.حضرت علی کی خلافت کے واقعات چونکہ بوجہ قلت وقت چند منٹ میں بیان کئے گئے تھے اور بہت مختصر تھے اس لئے نظر ثانی کے وقت میں نے اس حصہ کو کاٹ دیا.ย 125
۱.اس مضمون پر برائے اشاعت نظر ثانی کرتے وقت میں نے حاشیہ پر بعض ضروری تاریخی حوالجات دے دیئے ہیں اور مطالعہ کنندہ کتاب کو زیادہ مشقت سے بچانے کے لئے صرف تاریخ طبری کے حوالوں پر اکتفاء کی ہے.الا ماشاء اللہ.منہ ۲.درحقیقت عشرہ مبشرہ ایک محاورہ ہو گیا ہے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بہت زیادہ صحابہؓ کی نسبت جنت کی بشارت دی ہے.عشرہ مبشرہ سے دراصل وہ دس مہاجر مراد ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوری کے رکن تھے اور جن پر آپ کو خاص اعتماد تھا.رض.اسلامی تاریخ کے بعد کے واقعات سے یہ بات خوب اچھی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ صحابہ کا دخل کیسا مفید و با برکت تھا کیونکہ کچھ عرصہ کے لئے صحابہ کے دخل کو ہٹا کر خدا تعالیٰ نے بتایا کہ ان کے علیحدہ ہونے سے کیسے بُرے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.اسلام کی تضحیک خود مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں اس عرصہ میں اس طرح ہوئی کہ دل ان حالات کو پڑھ کر خوف کھاتے ہیں اور جسموں میں لرزہ آتا ہے.( مرزا محمود احمد ) ۴.اس سے آپ کی دو غرضیں تھیں.ایک تو یہ کہ مدینہ میں معلمین کی ایک جماعت موجود رہتی تھی اور دوسرے آپ کا خیال تھا کہ صحابہ کو چونکہ ان کے سابق بالا یمان ہونے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی خدمات کی وجہ سے بیت المال سے خاص حصے ملتے ہیں اگر یہ لوگ جنگوں میں شامل ہوئے تو ان کو اور حصے ملیں گے اور دوسرے لوگوں کو نا گوار ہوگا کہ سب مال انہی کو مل جاتا ہے.ہ.یعنی بحیثیت سابق ہونے کے بھی حصہ لیں اور اب بھی جہاد کر کے حصہ لیں تو 126
دوسرے لوگ محروم رہ جائیں گے.لَا تَأْكُلُو اَبَدًا جِيْرَانَكُمْ سَرَفًا أَهْلُ الدَّعَارَةِ فِي مُلْكِ ابْنِ عَفَّانَ إِنَّ ابْنَ عَفَّانَ الَّذِي جَرَّبْتُمْ فَطِمُ اللَّصُوْصِ بِحُكْمِ الْفُرْقَانِ مَازَالَ يَعْمَلُ بِالْكِتْبِ مُهَيْمِنًا فِي كُلِّ عُنْقٍ مِنْهُمْ وَ بَنَانِ ے.جیسا کہ آگے ثابت کیا جاوے گا.یہ اس کا جھوٹ تھا کہ مدینہ کے لوگ اس فتنہ سے محفوظ تھے.بوقت نظر ثانی..یہ پیشگوئی فتح مکہ کی ہے جسے بگاڑ کر اس شخص نے رجعت کا عقیدہ بنالیا.چونکہ مکہ کی طرف لوگ بہ نیت حج اور حصول ثواب بار بار جاتے ہیں اس لئے اس کا نام بھی معاد ہے یعنی وہ جگہ جس کی طرف لوگ بار بار کو ٹتے ہیں.و.جہاں جلا وطن کر کے یہ لوگ بھیجے گئے تھے وہاں کے لوگوں کو خراب کرنے کا ان کو موقع نہ تھا کیونکہ وہاں خاص نگرانی اور نظر بندی کی حالت میں ان کو رکھا جاتا تھا.۱۰.حضرت معاویہؓ کے کلام اور ان لوگوں کے جواب سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عثمان یا ان کے مقرر کردہ حکام سے ان لوگوں کو مخالفت نہ تھی بلکہ قریش سے ہی یا دوسرے لفظوں میں ایمان میں سابق لوگوں سے ہی ان کو حسد تھا.اگر حضرت عثمان کی جگہ کوئی اور صحابی خلیفہ ہوتا.اور ان کے مقرر کردہ والیوں کی جگہ کوئی اور والی ہوتے تو ان سے بھی یہ لوگ اسی طرح حسد کرتے کیونکہ ان کا مد عاصرف حصول جاہ تھا.127
۱۱.طبری کی روایت کے مطابق شام میں حضرت عثمان کی مدد کے لئے لوگوں میں جوش دلانے والے صحابہ میں حضرت ابو درداء انصاری بھی شامل تھے.مگر دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے فوت ہو چکے تھے جیسا کہ استیعاب اور اصابہ سے ثابت ہے اور یہی بات درست ہے مگر جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے یہ بھی اپنے ایام زندگی میں اس فتنہ کے مٹانے میں کوشاں رہے ہیں.**************** ******* 128