Language: UR
توہین رسالت کے نازک موضوع پر قرآن کریم، سنت نبویﷺ، احادیث مبارکہ اور بانی اسلام ﷺ کی مقدس زندگی کے واقعات سے مواد کا اقتباس کرکے یہ وقیع مسودہ تیا رکیا گیا ہے جسے چار سو سے زائد صفحات پر ٹائپ میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مواد سے بنیادی طور پردو بڑے اضافی فوائد بھی مل رہے ہیں، اولاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت نے توہین مذہب اور رسالت کرنے والوں سے نپٹنے کا جو طریق اور اسلوب عطا فرمایا ہے وہ محفوظ ہوگیا ہے نیز شاتم رسول کی سزا کے حوالہ سے اردو زبان میں ہر کس و نہ کس نہایت غیر ذمہ داری سے جس تیزی سے اپنی ذاتی اور نفسانی خواہشات کو کتابی شکل میں طبع کروارہا ہے، ان خون آشام نظریات اور اس سختی و تشدد سے لبریز موادکے ماخذ اور منبع کا سراغ لگانے کی بھی اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے۔
1 اسلام میں تو بین رسالت معلم کرنے والے کی سزا ! قرآن وسنت و حدیث اور اسوہ رسول کی روشنی میں تصنیف بر بان احمد ظفر درانی
2
تعارف 1 - پیش لفظ 3 فہرست مضامین 2.ابتدائیہ -3.آمد انبیاء اور ناموس رسالت -4 قرآن کریم کی تعلیم عدل اور انصاف پر مبنی ہے 5.اختلافات بین المذاہب 6.دور حاضر میں مخالفین انبیاء اور ان کی بدگوئیاں 7 - تعزیرات ہند میں توہین رسالت کے سلسلہ میں قانونی ضرورت اور وجوہات 8 حق آزادی رائے 9.سخت گوئی اور قرآنی تعلیم 10.توہین رسالت کیا ہے؟ 11 توہین رسالت پر علماء کرام کا مؤقف 12 - شاتم رسول اور توہین رسالت کرنے والے کی سزا 13 - قرآن کریم اور توہین رسالت 14.کیا قرآن کریم میں شاتم رسول اور توہین رسالت کرنے والے کی سز اقتل ہے؟ 15 - کیا شاتم رسول کا فر ہو جاتا ہے اور اس کی سزا قتل ہے؟ 16 ارتداد کیا ہے؟
17 - مرتد کون؟ 18.قرآن کریم اور مرتد کی سزا 19.نقی 20.ذمی کون ؟ 21 - جزیہ 22.کیا ذ تھی شاتم رسول واجب القتل ہے؟ 23.پہلی دلیل 24.دوسری دلیل 25.تیسری دلیل 26.چوتھی دلیل 27.پانچویں دلیل 28.اسلامی تعلیمات کے ماخذ اور ذرائع 29.درایت کے متعلق بعض ابتدائی مثالیں 30.درایت کے کمزور پہلو 31.روایت کا قلمبند ہونا 32.ایک بنیادی اصول 33.احادیث اور توہین رسالت کی سزا 34.مہاجرین و انصار اور یہود کا تاریخی معاہدہ 35.احادیث سے دوسری دلیل 4
36.تیسری دلیل 37.چوتھی دلیل 38.پانچویں دلیل 39.چھٹی دلیل 40.ساتویں دلیل 41.آٹھویں دلیل 42.نویں دلیل 43.دسویں دلیل 44.گیارہویں دلیل 45.بارہویں دلیل 46.تیرہویں دلیل 47.چودھویں دلیل 48.پندرویں دلیل 5 49.خلاصہ کلام 50.اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم سے استدلال 51.توہین رسالت کے مواقع پیدا کرنے کے ذمہ دار کون؟ 52.دورِ حاضر اور اسلام پر حملے 53.حضرت مرزا غلام احمدمسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی جانب سے ناموس رسالت پر حملوں کا جواب
6 54 - پنڈت لیکھرام 55.چشمہ معرفت کی تصنیف 56 نسیم دعوت اور سناتن دھرم کتابوں کی تصنیف 57.قادیان کے آریہ اور ہم کی تصنیف 58.عیسائیوں کی طرف سے توہین رسالت اور اس کا جواب ڈاکٹر جان الیگزنڈرڈوئی 59 - پادری جارج الفریڈ لیفرائے کے اعتراضات کا جواب 60 - کتاب بینابیع الاسلام کا جواب 61- نورالحق کی تصنیف 62.نور القرآن 2 کی تصنیف 63.الحاج حضرت حکیم مولوی نورالدین بھیروی خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا توہین رسالت پر حملوں کا جواب 64.عیسائیت کے جواب میں فصل الخطاب کی تصنیف 65 - تصدیق براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت 66.انجمن دیا نند کھنڈن سجھاد ہلی کی معاونت 67.کتاب نورالدین کی تصنیف 68 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی ناموس رسالت کے لئے کاوشیں 69.رنگیلا رسول اور ورتمان میں حضرت رسول کریم صل الیہ کی تضحیک
7 پر جماعت احمدیہ کا دفاع 70-کتاب ستیارتھ پرکاش کا جواب 71 - حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی ناموس رسالت کی حفاظت کے لئے کاوشیں 72 حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے دور خلافت میں ناموس رسالت پر حملوں کا جواب 73.رسوائے زمانہ سلمان رشدی کی کتاب Satanic Verses پر تبصرہ اور کتاب کا پس منظر 74 - حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک دورِ خلافت میں ناموس رسالت کے حملوں کا دفاع 75.جرمنی میں پوپ کا قرآن کریم اسلام اور باہء اسلام کے خلاف ایک لیکچر اور جماعت احمدیہ کی طرف سے اس کا دفاع 76.ہالینڈ میں تو بین رسالت کی ناپاک حرکت کا جواب 77.امریکہ میں قرآن کریم کو جلانے کی مذموم کوشش پر جماعت احمدیہ کارد عمل 78.امریکہ میں اسلام اور محمد کے خلاف بنائی جانے والی فلم پر دفاع
8 تعارف اسلام دین فطرت ہے اور قرآن کریم عین انسانی فطرت کے مطابق تعلیم دیتا ہے رسول کریم ملی علم کا اسوہ اس پر شاہد ہے آپ نے کوئی ایک حکم بھی ایسا نہیں دیا جسے انسانی فطرت قبول نہ کرتی ہو.اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دشمنانِ اسلام ہمیشہ ہی اسلام کی حسین تعلیم پر اعتراض کرتے چلے آئے ہیں اور ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی نا کسی ضعیف یا محرف و مبدل روایت کا سہارا لے کر اسلام پر حملہ آور ہوں اور اسلام کو بدنام کریں.اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض علماء اسلام نے بھی بعض ضعیف روایات کو لیکر اسے اسلامی تعلیمات کے رنگ میں پیش کیا اور بعض مستشرقین کے خیالات سے متأثر ہو کر ان کی بیان کردا روایات اور واقعات کو اپنی کتب اور تفاسیر میں جگہ دی پھر وہی روایات اور واقعات اسلامی تاریخ کا حصہ بن گئے.آگے چل کر یہی واقعات دور حاضر میں علماء اسلام کی جانب سے لکھی جانے والی کتب کا حصہ بن گئے.اور اسلام کی حسین تعلیم پر اپنے بدنما داغ چھوڑ گئے.جس سے دشمنان اسلام کو اسلام کی حسین تعلیم پر اعتراض کرنے کا خوب موقعہ حاصل ہوا.دیکھا جائے تو پاکستان میں توہین رسالت کی سزا کے لئے دفعہ C-295 کا اضافہ بھی ایسی ہی بے بنیاد اور وضعی ورایات کا نتیجہ ہے جس کی اصل قرآن مجید میں موجود نہیں.یہی وجہ ہے کہ توہین رسالت کرنے والے اور شاتم رسول کی سزا قتل کے نظریہ کے پیش نظر بہت سی کتب لکھی گئی ہیں.سب سے اہم کتاب جس کے حوالے اکثر علماء اپنی کتب میں پیش کرتے ہیں وہ امام ابن تیمیہ کی کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ ہے ایک کتاب ”شاتم رسول لام کی شرعی سزا تالیف پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الڈ راوی صاحب کی ہے.ایک کتاب ” تحفظ ناموس رسالت کے عنوان سے شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری صاحب کی طرف سے
9 لکھی ہوئی ہے اسی طرح ایک کتاب شان مصطفی میل اور گستاخ رسول کی سزا‘ کے عنوان سے جناب قادری محمد یعقوب شیخ صاحب کی طرف سے تصنیف شدہ ہے.اسکے علاوہ اور بھی بہت سی کتب اس مضمون کی شائع شدہ ہیں ان کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مصنفین کا موقف ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح کے حوالے انہوں نے پیش کئے ہیں اور ایک ہی نظریہ کو پیش کیا ہے اور ان تمام مصنفین نے امام ابن تیمیہ کی کتاب کو بنیاد بنایا ہے.اس عنوان پر لکھنے والوں نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ شاتم رسول صلی اور تو بین رسالت کرنے والوں کی سز الازمی طور پر قتل ہے.اسی لئے غالباً انہیں کتب کو بنیاد بنا کر اور ایسے علماء کے فتوؤں کا سہارا لیکر حکومت پاکستان نے تعزیرات پاکستان میں توہین رسالت کرنے والے اور شاتم رسول کے لئے قتل کی سزا رکھی ہے اور دفعہ C-295 کا اضافہ کیا گیا.ان کتب کا مطالعہ کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام علماء نے اپنے مؤقف کی تائید میں امام ابن تیمیہ کی طرف منسوب ہونے والی کتاب کو ہی بنیاد بنایا ہے اس لئے خاکسار نے یہ کوشش کی ہے کہ امام ابن تیمیہ ہی کی کتاب کو سامنے رکھ کر اس پر قرآن کریم ،سنت اور احادیث کے حوالہ سے جواب دیا جائے اگر چہ دور حاضر کے تینوں مصنفین کی کتب کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے.نیزہ کوشش کی گئی ہے کہ جو بھی حوالہ پیش کیا جائے وہ اصل کتاب سے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفاء احمدیت نے توہین رسالت کرنے والوں کا جس طرح سے دفاع کیا ہے اسے بھی اس کتاب کے آخر میں پیش کیا گیا ہے.خاکسار مکرم حنیف محمود صاحب مربی سلسلہ کا بھی نہایت درجہ شکر گزار ہے کہ آپ نے ناموس رسالت پر حملوں کا دفاع“ کے عنوان سے سارا مواد ایک جگہ جمع کر دیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا کرے.خاکسار نے ان کی کتاب سے بھی اس سلسلہ میں مدد لی ہے.میری قارئین سے
10 درخواست ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے بہترین نتائج پیدا کرے اور اسلام کی حقیقی اور سچی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرے اور جولوگ قرآن کریم کی عدل و انصاف اور حقیقی تعلیم سے واقف نہیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو کھولے تا وہ بھی دین کی صحیح راہنمائی کرنے والے ہوں ، اور دین حق کا چہرہ اور روشن ہو کر مخالفین اسلام کے دلوں کو بھی روشن کرے.آمین طالب دعا بر بان احمد ظفر درانی قادیان
11 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد و نصلی علی رسوله الكريم على عبد المسیح الموعود ابتدائیہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے اور اسے وہ وہ استعداد میں اور قوتیں عطا کی ہیں جو کسی اور مخلوق میں نہیں پائی جاتیں.اس کے ساتھ ہی اسے اپنا عرفان پہنچانے کے لئے سلسلہ انبیاء جاری فرمایا.آنحضرت علی کی ایک حدیث کے مطابق بنی نو انسان کی اصلاح کی خاطر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو مبعوث کیا جن میں سے چند انبیاء کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے.دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث نہیں کئے.اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا.وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُه (فاطر آیت ۲۵) یعنی اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں خدا کی طرف سے کوئی ہوشیار کرنے والانہ آیا ہو.نیز فرمایا وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد آیت (۸) یعنی اور ہر ایک قوم کے لئے ( خدا کی طرف سے ) ایک ( راہنما بھیجاجا چکا ہے.چونکہ انبیاء اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں اس لئے ہر بنی کو ماننا اور اس کی عزت و تکریم کرنا ہر شخص پر لازم ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو ایک مومن اور مسلمان کے لئے بلا تفریق ہر نبی پر ایمان لانا لازمی قرار دیا ہے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا.(البقرہ آیت ۲۸۶)
12 یعنی ( کہتے ہیں کہ ) ہم اس کے رسولوں میں سے ایک (دوسرے) کے درمیان (کوئی) فرق نہیں کرتے اور یہ (بھی) کہتے ہیں کہ ہم نے ( اللہ کاحکم ) سن لیا ہے اور اسکے دل سے فرمانبردار ہوچکے ہیں.مذاہب کی تاریخ پر غور کیا جائے تو ہمیں کوئی بھی دور وجود انبیاء سے خالی دکھائی نہیں دیتا ان انبیاء کا آنا بھی ایک بہت بڑے مقصد کے لئے تھا.اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی عقل اور کچھ پوچھ کے مطابق ہی اپنے نبیوں کے ذریعہ اپنا عرفان پہنچایا اور وہ تعلیم جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دینا چاہتا تھا انہیں انبیاء کے ذریعہ ہی تھوڑی تھوڑی کر کے اپنے بندوں کو دی.جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی کامل معرفت دینا چاہی تو اس نے کامل و اتم اور اکمل نبی کو ایک کامل اور مکمل تعلیم دیکر دنیا میں مبعوث کیا.وہ نبی جس پر کمال دین ہوا اور ایک کامل کتاب جس نبی کو عطا کی گئی وہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطف علی ہیں اور وہ کامل کتاب قرآن کریم ہے.قرآن کریم ایک ایسی کامل اور اتم اور اکمل شریعت ہے جس میں قیامت تک پیش آنے والے واقعات اور مسائل کا حل موجود ہے.اسی پر بس نہیں بلکہ آنحضرت میلیم نے اس شریعت پر عمل کر کے ہمیشہ ہمیش کے لئے دنیا والوں کے سامنے ایک لائحہ عمل پیش کر دیا.قرآن کریم میں تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اور کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ایک نبی کا بھی انکار کرے.اسی طرح کسی نبی کے درمیان اس پر ایمان لانے اور اس کی تکریم کرنے کے لحاظ سے تفریق نہیں کی جاسکتی.ہاں یہ بات اپنی جگہ ہے کہ انبیاء کو ان کے مرتبہ اور مقام کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فضیلت دی گئی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض بنی تشریعی ہیں اور بعض غیر تشریعی.بعض آزاد نبی ہیں بعض تابع لیکن ان پر ایمان
13 لانے اور ان کے خدا کی طرف سے آنے اور ان کی عزت و تکریم کرنے کے لحاظ سے کسی میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا.اسی بات کا ذکر قرآن کریم کی سورت بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۶ میں گزرا ہے.جہاں تک ایک دوسرے پر فضیلت کی بات ہے تو اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے تلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتِه (البقره آیت ۲۵۴ یعنی.یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی تھی اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور اس میں سے بعض کے درجات بلند کئے.اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انبیاء با وجود اس کے کہ درجات کے لحاظ سے بعض بعض پر فضیلت تو رکھتے ہیں لیکن عزت و تکریم کے لحاظ سے ناموس کے لحاظ سے سب برابر ہیں.اور جب بھی ناموس رسالت کی بات آئے گی تو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کسی ایک نبی کے ناموس کی بات نہیں آئے گی بلکہ تمام انبیاء کی ناموس کا خیال رکھنا ہوگا یہی قرآن کریم ہمیں حکم دیتا ہے اور یہی قرآن کریم کی کاملیت اور افضلیت کا ثبوت ہے.
14 آمدا نبیاء اور ناموس رسالت قرآن کریم اور تاریخ مذاہب پر غور کرنے سے یہ امر صاف دکھائی دیتا ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی بنی مبعوث ہوا تو ہمیشہ اس زمانہ کے لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور اس نبی کو ہر لحاظ سے نقصان پہچانے اور اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا اور قرآن کریم اس بات کی گواہی دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ أَبِي إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُونَ (الاشرف آیت (۸) یعنی.جب کبھی بھی ان کے پاس کوئی نبی آتا ہے وہ اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگ جاتے ہیں ( اور تمسخر کرنے لگ جاتے ہیں) نیورماتلے يراً عَلَى الْعِبَادِمَا يَأْتِيهِم مِن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ ٥ یس آیت ۳۱) یعنی.ہائے افسوس ( انکار کی طرف مائل ) بندوں پر جب کبھی بھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگ جاتے ہیں (اور تمسخر کرنے لگتے ہیں) ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی اور رسول دنیا میں آتے ہیں ان کے ساتھ اس زمانہ کے لوگ ہمیشہ ہی ہنسی ٹھٹھہ اور مذاق کرتے ہیں اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اور وہ لوگ جو ان انبیاء پر ایمان نہیں لاتے وہ ہمیشہ ہی ان سے ایسا ہی سلوک کرتے چلے جاتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے انبیاء کبھی بھی ایسے لوگوں پر تیش میں نہیں آتے اور انہیں برابھلا نہیں کہتے بلکہ وہ اس کام میں ہمیشہ لگے رہتے ہیں جس کا ان کو خدا تعالی کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے.جن انبیاء کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ان کے مخالفین
15 نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اس کا ذکر انبیاء کے ذکر کے ساتھ ہی ملتا ہے لیکن ہر نبی نے اپنے زمانہ کے لوگوں سے نرمی اور احسان کا ہی سلوک کیا.اگر دکھا جائے تو آنحضرت لعلل ایلیم سے پہلے کے انبیاء کو اپنی قوم کے لوگوں سے جن جن تکالیف سے گزرنا پڑا وہ تمام قسم کی تکالیف سے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطف علی کو گزرنا پڑا.باوجود ہر قسم کی تکالیف اٹھانے کے آپ ہی نے تمام انبیاء سے بڑھ کر اپنی قوم سے رحمت و شفقت اور احسان کا سلوک فرمایا.اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.مَا يُقَالُ لَكَ : لَّا مَا قَدْ قِيلَ لِرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وذُوْعِقَابِ اليمده (تم السجدة آيت (۳۴) یعنی.مجھ سے صرف وہی باتیں کہی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے رسولوں سے کہی گئی تھیں.تیرا رب بڑی بخشش والا ہے اور اس کا عذاب بھی دردناک ہے.قرآن کریم کی اس آیت سے ایک تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جو جو باتیں آنحضرت لام سے مخالفین کرتے رہتے تھے ایسی ہی باتیں تمام انبیاء کے مخالفین اپنے زمانہ کے نبیوں سے کرتے رہے.دوسری بات یہ بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ان مخالفانہ اور تمسخرانہ باتوں کے بالمقابل بنی ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک نہیں کرتے بلکہ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ چاہیے تو وہ انہیں بخش دے اور چاہے تو وہ انہیں دردناک عذاب میں مبتلاء کر دے.اور یہی کام ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطف ملیم نے اپنے مخالفوں اور دشمنوں کے ساتھ کیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَقَدِ اسْتَهْزِى بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَهَرُوا مِنْهُمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (الانبیاء آیت ۴۲)
16 یعنی.اور تجھ سے پہلے جو رسول گزرے ہیں ان سے بھی ہنسی کی گئی تھی لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ جنہوں نے ان رسولوں سے ہنسی کی تھی ان کو اُنہی باتوں نے آ کر گھیر لیا جن کے ذریعہ سے وہ نبیوں کی ہنسی اڑاتے تھے.اسی طرح ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِي عَدُوًّا شَيْطِيْنَ الْإِنْسِ وَالْجِنَّ يُوْحِي بَعْضُهُمْ إلى بَعْضٍ زُخْرُفُ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (الانعام آیت ۱۱۳) یعنی.اور ہم نے انسانوں اور جنوں میں سے سرکشوں کو اسی طرح ہر نبی کا دشمن بنا دیا تھا اُن میں سے بعض بعض کو دھوکا دینے کے لئے ( ان کے دل میں ) بُرے خیال ڈالتے ہیں جو محض ملمع کی بات ہوتی ہے اور اگر تیرا رب چاہتا وہ ایسا نہ کرتے پس تو ان کو بھی اور ان کے جھوٹ کو بھی نظر انداز کر دے.ان ہر دو آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس قدر بھی نبی دنیا میں گزرے ہیں ان کے ساتھ منسی کرنے اور ان کی رسالت کی توہین کرنے کا سلسلہ ہمیشہ سے ہی چلتا رہا ہے.اسی طرح ہر نبی کے دور میں جنوں اور انسانوں میں نبی کے دشمن بھی پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن کسی بھی نبی نے ان کی ہنسی اور دشمنی کا بدلہ ہنسی اور دشمنی کر کے نہیں دیا بلکہ ان کو انجام تک پہنچانے کے لئے اللہ کے آگے ہی چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی ان لوگوں سے نپٹ لے اور ایسا ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے والوں کو خود ہی پکڑ لیا اور وہ لوگ عبرتناک انجام تک پہنچے.خدائی ارشاد کے مطابق ایسا ہی عمل ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطف عالم نے اپنے سے مذاق کرنے والوں، تو بین کرنے والوں اور دشمنی کرنے والوں سے کیا.اور دنیا نے دیکھا کہ ان سب کو اللہ
17 تعالیٰ نے خود ہی پکڑ لیا.
18 قرآن کریم کی تعلیم عدل وانصاف پر مبنی ہے قرآن کریم کی جملہ تعلیمات عدل اور انصاف پر مبنی ہیں اور اسلام اسی بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا میں انصاف قائم کیا جائے اور اگر دنیا میں انصاف قائم ہو جائے تو آج کے دور میں پائے جانے والے تمام قسم کے مذہبی اور سیاسی اختلافات کو دور کیا جاسکتا ہے.اسی بات کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَانتَأَى ذِي الْقُرْبى ( النحل آیت (۹) یعنی اللہ یقیناً عدل اور احسان کا اور ( غیر رشتہ داروں کو بھی ) قرابت والے(شخص) کی طرح ( جاننے اور اسی طرح مدد ) دینے کا حکم دیتا ہے اسی طرح فرماتا ہے إنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمُ بَيْنَ النَّاسِ أن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ (النِّساء آیت ۵۹) یعنی اللہ تمہیں یقیناً ( اس بات کا ) حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے مستحقوں کے سپرد کرو.اور ( یہ کہ) جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل سے فیصلہ کرو.قرآن کریم نے اسی بات پر بس نہیں کیا بلکہ ہر چھوٹی اور بڑی بات کی وضاحت فرما دی ہے کہ عدل کیا ہوتا ہے فرمایا.وَ كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كفَّارَ قاله وَمَن لَّمْ يَحْكُمْ بما أنزل الله فأوليك هُمُ الظَّلِمُونَ (المائدة آیت ۴۶)
19 یعنی.اور ہم نے ان پر فرض کیا تھا کہ جان کے بدلہ میں جان اور آنکھ کی بدلہ میں آنکھ اور ناک کے بدلہ میں ناک اور کان کے بدلہ میں کان اور دانت کے بدلہ میں دانت.اور نیز زخموں کے بدلہ میں ) زخم برابر کا بدلہ ہیں.مگر جو شخص ( اپنے ) اس ( حق ) کو چھوڑ دے تو (اس کا فعل ) اس کے لئے گناہ کی معافی کا ذریعہ ہو جائے گا اور جو لوگ ) اس ( کلام ) کے مطابق فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی (حقیقی) ظالم ہیں.قرآن کریم کی یہ وہ آیت ہے جو کسی سے بدلہ لینے میں بھی انصاف سے کام لینے کا حکم دیتی ہے.اسلام دنیا میں انصاف قائم کرنے ہی آیا ہے.آگے چل کر تو بین رسالت کے تعلق سے جو بیان ہوگاوہ اسی انصاف والی آیت کو مد نظر رکھ کر ہی بیان کیا جائے گا کیونکہ یہ بنیاد ہے.پھر اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جو محسن انسانیت ہو اور جسے اس دنیا میں بھیجا ہی انصاف قائم کرنے کے لئے ہو اس کی طرف کسی بھی قسم کی نا انصافی کا اشارہ بھی کیا جا سکے.اس سلسلہ میں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کریم نازل ہور ہا تھا جن جن امور کے متعلق قرآن کریم میں احکامات نازل ہو چکے ہوتے آپ فیصلہ کرتے وقت ہمیشہ انہی احکامات کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے اور اگر کوئی ایسا امر پیش آتا جس کے بارے میں قرآن کریم میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا ہوتا تھا تو آپ سابقہ شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے.انصاف سے فیصلہ کرنے کی بات اس جگہ پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَ الْحُرُ بِالْحُرِ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْتُ بِالْأُنْتُ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٍ فَاتَّبَاعُ بالْمَعْرُوفٍ وَآدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى
20 20 بَعْدَ ذلِكَ فَلَه عَذَابٌ أَلِيمه (البقرہ آیت ۱۷۹) یعنی.اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر مقتولوں کے بارے میں برابر کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے اگر ( قاتل ) آزاد ( مرد ) ہو تو اس آزاد ( قاتل ) سے اور اگر ( قاتل ) غلام ہو تو اس غلام ( قاتل ) سے اور اگر ( قاتل ) عورت ہو تو اسی عورت ( قاتل) سے.مگر جس ( قاتل) کواس کے بھائی کی طرف سے کچھ ( تاوان لیکر ) معاف کر دیا جائے تو ( مقتولوں کا وارث بقیہ تاوان کو صرف) مناسب طور پر وصول کر سکتا ہے.اور ( قاتل پر) عمدگی کے ساتھ (بقیہ تاوان ) اس کوادا کرنا ( واجب) ہے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے.پھر جو شخص اس (حکم) کے بعد بھی زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ( مقدر ) ہے.قرآن کریم کے یہ وہ ارشادات اور احکامات ہیں جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم بدلہ لینے میں حد سے تجاوز کرو.بلکہ یہی حکم دیتا ہے کہ جس قدر دوسرے نے زیادتی کی ہے اسی قدر ہی تم اس سے بدلہ لے سکتے ہو اور زیادتی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ( البقرہ آیت ۱۹۱.المائدہ آیت ۸۸ یعنی.اور ( مقررہ ) حدود سے آگے نہ نکلو.اللہ (مقررہ) حدود سے آگے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حدیں مقرر فرما دی ہیں ان سے آگے نکلنا خدا تعالیٰ کی نار اهنگی کو مول لینے والی بات ہے.ایک آدمی قلم سے کام لیتا ہے تو دوسرے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اس کے مقابلہ کے لئے تلوار اٹھالے ایک آدمی زبان سے کام لیتا ہے تو دوسرے کا یہ کام نہیں
21 کہ اس کے مقابلہ پر بندوق تان لے.قرآنی تعلیم یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی کسی پر زیادتی کر بیٹھا ہے تو اول تو وہ اسے معاف کر دے اور اگر معاف نہیں کرتا تو اسے اسی قدر بدلہ لینے کا حق ہے جس قدر اس نے زیادتی کی ہے.اس وقت دنیا میں جس قدر بھی فساد برپا ہے اس کا اصل سبب ہی یہ ہے کہ دنیا سے انصاف اٹھ چکا ہے اور اسلام اسی انصاف کو قائم کرنے آیا ہے اگر آج ہر جگہ انصاف قائم ہو جائے اور لوگوں کے حقوق حق اور انصاف کے ساتھ ادا کئے جائیں تو یہ فتنہ وفساد کی فضاء امن میں تبدیل ہو سکتی ہے اور یہی اسلام اور قرآن کا حکم ہے.ایک بات عام طور پر یہ بھی دیکھی جاتی ہے کہ جب اپنی بات آتی ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن جب دوسروں کی یا کمزوروں کی باری آتی ہے تو اپنی مرضی ے فیصلے کئے جاتے ہیں اور اسی کا نام انصاف رکھ لیا جاتا ہے یہ اسلام کی تعلیم کے بالکل خلاف ہے.اللہ تعالی نے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر مخالف قوم کے درمیان بھی اور دشمنوں کے درمیان بھی تمہیں انصاف کرنا ہو تو تمہاری دشمنی بھی انصاف کے آڑے نہیں آنی چاہیئے اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرُ بمَا تَعْمَلُونَ (المائده آیت ۹) یعنی.اے ایماندارو ! تم انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے لئے استادہ ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر امادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو تیم انصاف کرو وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے
22 22 یقیناً آگاہ ہے.انصاف کو قائم کرنے اور کسی کو انصاف دینے کے لحاظ سے اس سے صاف اور سیدھی بات کوئی اور نہیں ہوسکتی.فرمایا انصاف کرو اور سب کے ساتھ انصاف کرو کسی قوم کی دشمنی بھی تم کو نا انصافی کرنے پر آمادہ نہ کرے.تو جہاں بھی انصاف کرنے کی بات آئے گی تو قرآن کریم کے اسی اصول کو مدنظر رکھا جائے گا اور رکھنا چاہئے.جہاں تک کسی کو سزادینے کسی سے بدلہ لینے کی بات ہوگی تو وہاں قرآن کریم ہی کی تعلیم کو مدنظر رکھا جائے گا یہ نہیں ہوگا کہ اپنوں کی باری میں تو قرآن پیش کیا جائے اور جب دوسرے کی باری ہو تو اپنی مرضی کی تشریحات کر کے اپنی مرضی کے فیصلے کر دئے جائیں چاہیے اس کی قرآن اجازت دیتا ہو یا نہ دیتا ہو یہ انصاف کے خلاف ہے اور اسلام اسی سے منع کرتا ہے.
23 23 اختلافات بین المذاہب جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے اللہ تعالیٰ سے بنی نوع انسان کی ھدایت کے لئے ہر زمانہ میں انبیاء کو مبعوث کیا.اور جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی اللہ کا پیغام لیکر آیا تو ہمیشہ ہی اس کی مخالفت کی گئی اور کچھ لوگوں کے ایمان لے آنے اور کچھ کے انکار کرنے کے باعث اختلافات کا سلسلہ شروع ہوتا رہا.اگر غور کیا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلیم کے دور تک بھی اور آپ کے زمانہ کے بعد سے آج تک بھی یہ سلسلہ اختلافات دکھائی دیتا ہے.اور یہ اختلافات کا سلسلہ بین المذاہب بھی موجود ہے اوراندرون المذہب بھی دکھائی دیتا ہے.قرآن کریم میں دیکھ لیں حضرت آدم علیہ السلام کے ذکر کے ساتھ ہی شیطان کا ذکر ملتا ہے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ کو دیکھ لیں حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت داؤدعلیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت لوط علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام الغرض کسی ایک نبی کا زمانہ بھی دیکھیں ہر ایک کے دور میں اختلافات اور مخالفت کا سلسلہ دکھائی دیتا ہے.اور پھر اختلاف بھی معمولی نہیں بلکہ ہمیشہ ہی ایمان لانے والوں پر انکار کرنے والے ظلم کا بازار گرم کرتے چلے آتے ہیں.جب بھی کسی قوم میں کوئی نبی آیا تو اس پر ایمان لانے والوں کو پہلے دین پر قائم لوگوں نے انہیں بے دین اور مرتد ہی کا خطاب دیا.او آنے والے نبی کی ہمیشہ توہین کی اور اس کی ہجو کرنے پر کمر بستہ رہے.کسی نے آنے والے بنی کا نام جادو گر ڈال دیا جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے قَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَذَا السحِرُ عَلِيمٌ ه (الاعراف آیت ۱۱۰) یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادو گر کہہ کر ان کی تو ہین کی گئی.اسی طرح ایک جگہ پہلی قوموں کا
24 24 ذکر کیا اور فرمایا.وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرُ مِنْهُمْ وَقَالَ الْكَفِرُونَ هَذَا سَحِرٌ كَذَّابٌ (ص آیت ۵) یعنی.اور وہ تعجب کرتے ہیں کہ ان کے پاس انہی کی قوم میں سے ہوشیار کرنے والا آ گیا.اور کافر کہتے ہیں کہ یہ تو ایک فریبی ( اور ) جھوٹا ہے.اس جگہ پر بھی دیکھ لیں کہ نبی کو فریب اور جھوٹا کہہ کر اس کی توہین کی گئی.ایک جگہ فرمایا.قَالَ الْكَفِرُونَ إِنَّ هَذَا لَسحِرٌ مُّبِينٌ (يونس آیت ٣) اس آیت میں کافروں نے اللہ کے نبی کو کھلا کھلا دھوکہ باز کہہ کر اس کی توہین کی ہے.اسی پر بس نہیں کیا گیا ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے افكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسَكُمْ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (البقره آیت ۸۸) یعنی.( ہر زمانہ کے لوگوں سے خطاب ہے کہ ) جب بھی کبھی تمہارے پاس رسول آیا اسے تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تم نے تکبر کیا پس بعض کو تم نے جھٹلایا اور بعض کے قتل کے درپے تھے.لازمی بات ہے کہ جب ایک انسان کسی کو پسند نہیں کرتا تو ہمیشہ اس کے لئے اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھتا ہے اور اسے برا خیال کرتا ہے اور تکبر کے نتیجہ میں انبیاء سے ایسی ایسی باتیں کرتا ہے جو انہیں لوگوں کی نظروں سے گرا دے.اسے جھٹلانے کے ساتھ ساتھ اسے قتل کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے.یہ وہ تمام باتیں ہیں جو ایک نبی کی تو ہین کا باعث بنتی ہیں.دیکھا
25 25 جائے جیسا سلوک باقی نبیوں کے ساتھ ہوتا رہا اسی طرح کا سلوک مخالفوں نے ہمارے پیارے رسول کے ساتھ بھی اختیار کیا اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وأن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ..( فاطر آیت ٢٦) یعنی.اور اگر یہ جھٹلاتے ہیں تو اُن لوگوں نے بھی جو اُن سے پہلے گزرے تھے (اپنے وقت کے رسولوں کو جھٹلایا تھا.اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُ واليُثْبِتُو كَ اَوْ يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ وَ يمكرون ويمكر الله وَالله خَيْرُ الْمُكِرِينَ ( الانفال آیت ۳۱) یعنی.اور (اے رسول اس وقت کو یاد کر ) جب کہ کفار تیرے متعلق تدبیر کر رہے تھے تا کہ تجھے (ایک جگہ ) محصور کر دیں یا تجھ کو قتل کر دیں یا تجھ کو نکال دیں اور وہ بھی تدبیر کر رہے تھے اور اللہ بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ تد بیر کرنے والوں میں سے بہتر تد بیر کرنے والا ہے.الغرض جس نبی کے دور کو بھی دیکھیں ہمیں وہاں انبیاء اور ان کے ماننے والوں کے خلاف پہلے نبی کے ماننے والوں نے ہمیشہ ہی ریشہ دوانیاں کی ہیں.یہ ہوتا اس وجہ سے تھا کہ وہ لوگ آنے والے نبی کو جھوٹا خیال کرتے تھے اور اس پر ایمان لانے والوں کو اپنے دین سے ہٹے ہوئے اور مرتد خیال کرتے تھے.بالکل اسی طرح بین المذہب بھی اختلافات دکھائی دیتے ہیں.ایک ہی نبی کے ماننے والے ایک ہی کتاب کے پیروکار ہیں لیکن بعض ذیلی امور میں اختلافات کے باعث ایک دوسرے کے شدید دشمن ہیں اور ایک فرقہ دوسرے فرقہ کو دین سے برگشتہ خیال کرتا ہے.اور بالکل اسی طرح کے فتوے جاری کرتا ہے جیسے پہلی قوموں کے ماننے
26 والے کرتے آئے ہیں.جب بھی کسی نے آنے والے نبی کو مانا تو اس کے مخالفوں نے یہی اعلان کیا کہ.وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْلَتَعُودُنَّ فِي ملينا - ( ابراهیم آیت (۱۴) یعنی.اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا ہم تمہیں ضرور اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تم ( مجبور ہو کر ) ہمارے دین میں واپس آجاؤ گے.یہی مضمون سورۃ الاعراف آیت نمبر ۸۹ میں بھی بیان ہوا ہے.قرآن کریم کا مطالعہ کرنے پر ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ نبی کے منکرین ہی کی طرف سے ایسی باتیں دیکھنے کوملتی ہیں.پورے قرآن کا مطالعہ کر لیں ایسی بات کسی جگہ بھی نبی کی طرف منسوب ہوئی دکھائی نہیں دیگی بلکہ اس کے مقابل نبی کی تعلیم محبت پیار صبر وتحمل سے پر تعلیم دکھائی دے گی اور یہی ایک نبی کی تعلیم کا خاصہ ہوتا ہے.غور کیا جائے تو مذاہب کے درمیان اور پھر ایک ہی مذہب میں پائے جانے والے فرقوں کے درمیان یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ ہمیشہ ہی ہر نبی کی آمد پر دو نظریات ابھر کر سامنے آجاتے ہیں.ایک یہ کہ نبی پر ایمان لانے والے اپنے آپ کو مومن خیال کرتے ہیں کیونکہ وہ ایمان لا چکے ہوتے ہیں.اور جن مذاہب سے نکل کر لوگ آنے والے نبی پر ایمان لاتے ہیں ان مذاہب پر قائم لوگ ان کو مرتد خیال کرتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے دین سے پلٹ گئے ہیں.اسی طرح یہ نظریہ بھی ابھر کر سامنے آجاتا ہے کہ ایمان لانے والے آنے والے نبی کو مان کراس کی عزت و تکریم کرتے ہیں لیکن انکار کرنے والے ہمیشہ ہی آنے والے انبیاء کی توہین کرتے دکھائی دیتے ہیں.اور توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں.توہین رسالت اور ارتداد یہ دونوں
27 الگ الگ باتیں ہیں ان دونوں نظریات کی جب وضاحت کی جائے گی تو ساری بات کھل جائے گی اور کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے گا جسے ہم آگے چل کر بیان کریں گے.
28 28 دور حاضر میں مخالفین انبیاء اور ان کی بدگوئیاں جیسا کہ اس مضمون کے شروع ہی میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ھدایت کے لئے انبیاء کے سلسلہ کو شروع کیا اور یہ سلسلہ ہر قوم ہر ملک اور ہرزمانہ میں جاری رہا.جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوا کسی نے اس کو مانا اور کسی نے اس کا انکار کیا ایمان لانے والے ہمیشہ ہی اُس نبی اور سابقہ نبیوں کی عزت اور احترام کرتے چلے آئے کیونکہ وہ انہیں بھی سچا مانتے تھے اور اس نئے آنے والے نبی کو بھی سابقہ انبیاء کی پیشگوئیوں پر پورا اترتے ہوئے اور سچامان کر قبول کر لیا.لیکن وہ لوگ جو نبی کا انکار کرتے ہیں تو عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ انکار کے ساتھ ساتھ وہ لوگ اس نبی سے ہنسی ٹھٹھا اور مذاق بھی کرتے ہیں اس کے لئے تو بین آمیز الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں اور اس پر الزام تراشیاں بھی کرتے ہیں ان تمام باتوں سے مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسی باتوں کے ذریعہ اس نبی اور اس کے ماننے والوں کو ایذاء پہنچائی جائے اور دکھ دیا جائے ان کے غیض و غضب کو بھڑکا یا جائے تا کہ اس کے ذریعہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں اور لوگوں کو اس نبی پر ایمان لانے سے روک سکیں.اس سلسلہ میں مخالفین انبیاء نے کیسے کیسے حربے استعمال کئے ان کا کچھ ذکر میں شروع میں ہی کر آیا ہوں جس سے مخالفین کی شرارتوں کا بخوبی علم ہوسکتا ہے.آنحضرت علیم کے بعثت ایسے زمانہ میں ہوئی جب دنیا ایک گھر کی حیثیت اختیار کر چکی تھی آپ کی بعثت کے ساتھ ہی دین کی بھی تکمیل ہوئی اور و تعلیم جسے اللہ تعالی انسان کو دینا چاہتا تھا وہ بھی قرآن کریم کی صورت میں پائے تکمیل کو پہنچی.اسی بات کا ذکر قرآن کریم میں اس صورت میں ہوا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ
29 29 الإِسْلامَ دِيداً (المائدة آيت (۴) یعنی.آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا ہے.اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے.تکمیل دین کی بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ھدایت کے لئے قیامت تک جن جن احکامات کی ضرورت تھی وہ سب کے سب قرآن کریم میں بیان کر دئے ہیں اسی لئے ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے اور قیامت تک کے لئے ہمارا را ہنما ہے.آنحضرت علی کے مبارک دور میں اسلام نے بہت ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام ساری دنیا میں پھیل گیا.اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلیم نے یہ بھی پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک دور اسلام پر ایسا بھی آنے والا ہے کہ اسلام بہت کمز ور ہو جائے گا اور مسلمان قرآن پر عمل چھوڑ دیں گے.سو آنحضرت علی کی اس پیشگوئی کے مطابق ایسا ہی وقوع میں آیا.جہاں ایک طرف دنیا نے بے شمار ترقی کی اس کے ساتھ ہی اسلام کی کمزوری کی حالت کو دیکھتے ہوتے دیگر ادیان والوں نے اسلام پر چوطرفہ حملے شروع کر دئے.اسلام اور بانی اسلام پر ایسے ایسے بیہودہ الزامات لگائے کہ جن کا اسلام اور بانی اسلام کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں تھا.اگر ایک طرف سے اسلام پر عیسائی حملہ آور تھے تو دوسری طرف آریہ سماج اور برہموں سماج بھی ان سے پیچھے نہ تھا اگر ایک طرف سوامی دیانند نے قرآن اور بانی اسلام کو اپنی کتاب ستیارتھ پر کاش میں نشانہ بنایا تھا تو دوسری طرف پنڈت لیکھرام نے بھی اسی قسم کا بیڑا اٹھارکھا تھا ایک طرف سے فتح مسیح زہر افشانی کر رہا تھا تو دوسری طرف پادری عمادالدین اور پادری سراج الدین اسلام اور آنحضرت علی پر نہایت درجہ غلط انداز میں حملے کر رہے
30 50 تھے.یہ دور ایسا تھا کہ اس میں ایک دوسرے کے خلاف ایک دوڑ لگی ہوئی تھی اس کے نتیجہ میں جہاں قلم اور زبان کی جنگ جاری تھی اس کے ساتھ ہی مذہبی جنون رکھنے والے بعض لوگوں نے فتنہ وفساد برپا کرتے ہوئے ایک دوسرے پر حملے بھی شروع کر دئے تھے حکومت کے لئے اس کے بنا اور کوئی چارہ نہ رہا تھا کہ وہ ان مذہبی جنون رکھنے والوں کے خلاف کوئی قانون بنائے جس سے ایسے خون ریز حملہ کرنے والوں کو قانون کے دائرہ میں لا کر انہیں ایسا کرنے سے روکا جاسکے چنانچہ جب ہندوستان میں حکومتی نظام کو بہتر رنگ میں چلانے کے لئے ۱۸۶۰ ء میں قانون بنائے گئے تو اس مذہبی جنون کو دبانے اور مذہب کے نام پر ایک دوسرے پر حملہ کرنے والوں کے خلاف بھی قانون میں ایک دفعہ شامل کی گئی.ایڈین پینل کوڈ میں دفعہ ۲۹۶۲۹۵ اور ۲۹۸ ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی سے روکنے کے لئے تھیں.ان دفعات میں جن باتوں کو شامل کیا گیا تھا وہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں اور ان کے مذہبی پروگراموں میں بے جا دخل اندازی کو سزا اور جرمانہ کے طور پر کھا گیا تھا.لیکن دیگر مذاہب والے آنحضرت صلی اور آپ کی ازواج مطہرات پر جس طرح کے حملے کر کے مسلمانوں کی دل آزاری کر رہے تھے ان سے مخالفین کو باز رکھنے کے لئے کوئی شق قانون میں شامل نہ کی گئی تھی.بالکل یہی حال دیگر مذاہب کا بھی تھا اگرچہ کچھ کم.ایک دوسرے کے مذاہب پر یہ حملے ایسے تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے اور یہ ضرورت دکھائی دیتی تھی کہ اس قسم کے اوچھے حملوں سے لوگوں کو باز رکھنے کے لئے کچھ ایسے اصول مرتب کئے جائیں جس سے انبیاء کی عصمت کو تحفظ مل سکے اور لوگوں کو ایسے انگیخت کرنے والے خیالات سے روکا جاسکے جس کے نتیجہ میں آئے دن فرقہ وارانہ فسادات کی بنیاد پڑتی ہے.موجودہ دور میں جسے امن قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مبعوث کیا ان مذہبی نزاعوں
31 سے لوگوں کو باز رکھنے کی خاطر حکومت وقت کو توجہ دلائی.اور تو بین انبیاء سے روکنے اور عصمت انبیاء کو قائم کرنے کے لئے اسلام کی تاریخ میں جبکہ اسلام نہایت درجہ کمزوری کی حالت میں پہنچ چکا تھا یہ پہلی آواز تھی جو امن کے شہزادے کی طرف سے بلند ہوئی آنحضرت علی اور آپ کی ازواج مطہرات پر حملہ کرنے والوں کے سامنے جس میں عیسائی اور آریہ پیش پیش تھے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے مباحثات اور مناظرات کے لئے کچھ اصول بیان کئے اور جہاں ان قوموں کو توجہ دلائی وہاں حکومت وقت کو بھی ان اصولوں پر عمل در آمد کروانے کے لئے توجہ دلاتے ہوئے ایک نوٹس جاری فرمایا جو حسب ذیہ نوٹس بنام آریہ صاحبان و دیگر صاحبان مذاہب مخالفه ان مسلمانوں کی طرف سے جن کے نام نیچے درج ہیں ونیز ایک التماس گورنمنٹ عالیہ کی توجہ کے لائق اے صاحبان مندرجہ عنوان نہایت ادب اور تہذیب سے آپ صاحبوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم سب فرقے مسلمان اور ہندو اور عیسائی وغیرہ ایک ہی سرکار کے جوسرکار انگریزی ہے رعایا ہیں لہذا ہم سب لوگوں کا فرض ہے کہ ایسے امور سے دستکش رہیں جن سے وقتا فوقتا ہمارے حکام کو وقتیں پیش آویں یا بیہودہ نزاعیں باہمی ہو کر کثرت سے مقدمات دائر ہوتے رہیں اور نیز جب کہ ہمسائیگی اور قرب و جوار کے حقوق درمیان ہیں.تو یہ بھی مناسب نہیں کہ مذہبی مباحثات میں نا حق ایک فریق دوسرے فریق پر بے اصل افتراء کر کے اس کا دل
32 دکھاوے اور ایسی کتابوں کے حوالے پیش کرے جو اس فریق کے نزدیک مسلم نہیں ہیں.یا ایسے اعتراض کرے جو خود اپنے دین کی تعلیم پر بھی وارد ہوتے ہیں.چونکہ اب تک مناظرات و مباحثات کے لئے کوئی ایسا قاعدہ باہم قرار یافتہ نہیں تھا جس کی پابندی یاوہ گولوگوں کو ان کی فضول گوئی سے روکتی لہذا اپادریوں میں سے ایک پادری عمادالدین و پادری تھا کرو اس و پادری فنڈل صاحب وغیرہ صاحبان اور آریہ صاحبوں میں سے منشی کنہیہ لال الکھ دھاری اور منشی اندر من مراد آبادی اور لیکھرام پیشاوری نے اپنا یہی اصول مقرر کر لیا کہ ناحق کے افتراؤں اور بے جار وایتوں اور بے بنیاد قصوں کو واجبی اعتراضات کی مدافعت میں پیش کیا.مگر اصل قصور تو اس میں پادری صاحبان کا ہے.کیونکہ ہندوؤں نے اپنے ذاتی تعصب اور کینہ کی وجہ سے جوش تو بہت دکھایا مگر براہ راست اسلام کی کتابوں کو وہ دیکھ نہ سکے.وجہ یہ کہ باعث جہالت اور کم استعدادی دیکھنے کا مادہ نہیں تھا.سو انہوں نے اپنی کتابوں میں پادریوں کے اقوال کا نقل کر دینا غنیمت سمجھا.غرض ان تمام لوگوں نے بے قیدی اور آزادی کی گنجائش پا کر افتراؤں کو انتہاء تک پہنچا دیا.اور ناحق بیوجہ اہل اسلام کا دل دکھایا اور بہتوں نے اپنی بدذاتی اور مادری بد گوہری سے ہمارے نبی ملایم پر بہتان لگائے یہاں تک کہ کمال خباثت اور اس پلیدی سے جو ان کے اصل میں تھی اس سید المعصومین پر سراسر دروغ گوئی کی راہ سے زنا کی تہمت لگائی.اگر غیرت مند مسلمانوں کو اپنی محسن گورنمنٹ کا پاس نہ ہوتا تو ایسے شریروں کو جن کے افتراء میں یہاں تک نوبت پہنچی وہ جواب دیتے جو ان کی بداصلی کے مناسب حال ہوتا.مگر شریف انسانوں کو گورنمنٹ کی پاسداریاں ہر وقت روکتی ہیں.اور وہ طمانچہ جو ایک گال کے بعد دوسرے گال پر عیسائیوں کو کھانا چاہئے تھا ہم لوگ گورنمنٹ کی اطاعت میں محو ہو کر پادریوں اور ان کے ہاتھ کے اکسائے ہوئے آریوں سے کھا رہے ہیں.یہ سب بردباریاں ہم
33 اپنی محسن گورنمنٹ کے لحاظ سے کرتے ہیں اور کریں گے.کیونکہ ان احسانات کا ہم پر شکر کرنا واجب ہے جو سکھوں کے زوال کے بعد ہی خدا تعالیٰ کے فضل نے اس مہربان گورنمنٹ کے ہاتھ سے ہمیں نصیب کئے.اور نہایت بدذاتی ہوگی اگر ایک لحظہ کے لئے بھی کوئی ہم میں سے ان نعمتوں کو فراموش کر دے جو اس گورنمنٹ کے ذریعہ سے مسلمانوں کو ملی ہیں.بلا شبہ ہمارا جان و مال گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی میں فدا ہے اور ہوگا.اور ہم غائبانہ اس کے اقبال کے لئے دعا گو ہیں.اور اگر چہ گورنمنٹ کی عنایات سے ہر ایک کو اشاعت مذہب کے لئے آزادی ملی ہے.لیکن اگر سوچ کر دیکھا جائے تو اس آزادی کا پورا پورا فائدہ محض مسلمان اٹھا سکتے ہیں.اور اگر عمداً آپ نہ اٹھاویں تو ان کی بدقسمتی ہے.وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ کی اپنی عام مہر بانیوں کی وجہ سے مذہبی آزادی کا ہر ایک قوم کو عام فائدہ دیا ہے اور کسی کو اپنے اصولوں کی اشاعت سے نہیں روکا.لیکن جن مذاہب میں سچائی کی قوت اور طاقت نہیں اور ان کے اصول صرف انسانی بناوٹ ہیں اور ایسے قابل مضحکہ ہیں جو ایک محقق کو ان کی بیہودہ کتھا اور کہانیاں سن کر بے اختیار نہی آجاتی ہے.کیونکر ان مذاہب کے واعظ اپنی ایسی باتوں کو وعظ کے وقت دلوں میں جھا سکتے ہیں اور کیونکر ایک پادری مسیح کو خدا کہتے ہوئے ایک دانشمند شخص کو اس حقیقی خدا پر ایمان رکھنے سے برگشتہ کر سکتا ہے جس کی ذات مرنے اور مصیبتوں کے اٹھانے اور دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہونے اور پھر مصلوب ہو جانے سے پاک ہے اور جس کا جلالی نام قانون قدرت کے ہر ایک صفحہ میں چمکتا ہوا نظر آتا ہے ہم نے خود محض منصف مزاج عیسائیوں سے خلوت میں سنا ہے کہ جب ہم مسیح کی خدائی کا بازاروں میں وعظ کرتے ہیں تو بعض وقت مسیح کے عجز اور اضطراب کی سوانح پیش نظر آجانے سے بات کرتے کرتے ایسا انفعال دل کو پکڑتا ہے کہ بس ہم ندامت میں غرق ہی ہو جاتے ہیں.غرض انسان کو خدا بنانے والا کیا وعظ کرے گا
34 == اور کیونکر اس عاجز انسان میں اس قادر خدا کی عظمت کا نمونہ دکھائے گا جس کے حکم سے ایک ذرہ بھی زمین و آسمان سے باہر نہیں اور جس کا جلال دکھانے کے لئے سورج چمکتا اور زمین طرح طرح کے پھول نکالتی ہے.ایسا ہی ایک آریہ کیا وعظ کرے گا.کیا وہ دانش مندوں کے سامنے یہ کہہ سکتا ہے کہ تمام روحیں اور اس کی قوتیں اور طاقتیں اپنے وجود کی آپ ہی خدا ہیں اور کسی کے سہارے سے ان کا وجود اور بقاء نہیں اور یا یہ کہ سکتا ہے کہ وید کی تعلیم عمدہ ہے کہ خاوند والی عورتیں اولاد کی غرض سے دوسروں سے ہم بستر ہو جایا کریں.ابھی ہمیں تجربہ ہوا ہے کہ جب ہماری بعض جماعت کے لوگوں نے کسی آریہ یا پنڈت سے نیوگ کی حقیقت بازار میں پوچھی جہاں بہت سے آدمی موجود تھے تو وہ آر یہ یا پنڈت شرمندہ ہوا.اور چپکے سے کہا آپ اندر چل کر مجھ سے یہ گفتگو کریں.بازار میں لوگ سن کر ہنسی کرتے ہیں.اب ظاہر ہے کہ جن لوگوں کا اپنا ہی یہ حال ہے کہ ایسے عقائد اور اعمال کی نسبت اپنا ہی کانشنس اُن کا اُن کے عقیدہ کو دھکے دیتا ہے اور قبول نہیں کرتا تو پھر وہ غیروں کو کیا وعظ کریں گے.اس لئے مسلمانوں کو نہایت ہی گورنمنٹ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ گورنمنٹ کے اس قانون کا وہی اکیلے فائدہ اٹھا رہے ہیں.بیچارے پادری صد با روپیہ خرچ کر کے ایک ہندو کو قابو میں لاتے ہیں اور وہ آخر بعد آزمائش مسلمانوں کی طرف آجاتا ہے اور یا صرف پیٹ کا بندہ ہو کر محض دنیاوی لالچ سے انہی میں گزارہ کرتا ہے.لیکن ہمیں اپنے دل آزار ہمسائیوں مخالفوں سے ایک اور شکایت ہے.اگر ہم اس شکایت کے رفع کے لئے اپنی محسن اور مہر بان گورنمنٹ کو اس طرف توجہ نہ دلاویں تو کس کو دلاویں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے مذہبی مخالف صرف بے اصل روایات اور بے بنیاد قصوں پر بھروسہ کر کے جو ہماری کتب مسلمہ اور مقبولہ کی رو سے ہر گز ثابت نہیں ہیں بلکہ مخالفوں کی مفتریات ہیں ہمارا دل دکھاتے ہیں.اور ایسی باتوں سے ہمارے سید و مولی نبی صلیم کی بہتک
35 کرتے ہیں اور گالیوں تک نوبت پہنچاتے ہیں جن کا ہماری معتبر کتابوں میں نام و نشان نہیں.اس سے زیادہ ہمارے دل دکھانے کا اور کیا موجب ہوگا کہ چند بے بنیاد افتراؤں کو پیش کر کے ہمارے سید و مولی محمد مصطف علم پر زنا اور بدکاری کا الزام لگانا چاہتے ہیں جس کو ہم اپنی پوری تحقیق کی رو سے سید المعصومین اور ان تمام پاکوں کا سردار سمجھتے ہیں جو عورت کے پیٹ سے لکلے اور ان کو خاتم الانبیاء جانتے ہیں کیونکہ ان پر تمام نبوتیں اور تمام پاکیز گیاں اور تمام کمالات ختم ہو گئے.اس صورت میں صرف یہی ظلم نہیں کہ ناحق اور بے وجہ ہمارا دل دکھایا جاتا ہے اور اس انصاف پسند گورنمنٹ کے ملک میں ہمارے پیغمبر الم کو گالیاں دی جاتی ہیں اور بڑے بڑے پیرایوں میں ہمارے اس مقدس مذہب کی توہین کی جاتی ہے.بلکہ ظلم بھی ہوتا ہے کہ ایک حق اور راست امر کو محض یاوہ گوئی کے ذخیرہ سے مشتبہ اور کمزور کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے.اگر گورنمنٹ کے بعض اعلیٰ درجہ کے حکام دو تین روز اس بات پر بھی خرچ کریں کہ ہم میں سے کسی منتخب کے رو برو ایسے بے جا الزامات کی وجہ ثبوت ہمارے مذکورہ بالا منکروں سے دریافت فرماویں تو زیرک طبع حکام کوفی الفور معلوم ہو جائے گا کہ کس قدر یہ لوگ بے ثبوت بہتانوں سے سرکار انگریزی کی وفادار رعایا اہل اسلام پر ظلم کررہے ہیں.ہم نہایت ادب سے گورنمنٹ عالیہ کی جناب میں یہ عاجزانہ التماس کرتے ہیں کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان احسانوں کو یاد کر کے جواب تک ہم پر کئے ہیں ایک یہ بھی ہماری جانوں اور آبروؤں اور ہمارے ٹوٹے ہوئے دلوں پر احسان کرے کہ اس مضمون کا ایک
36 36 قانون پاس کر دیوے یا کوئی سرکلر جاری کرے کہ آئیند ہ جو مناظرات اور مجادلات اور مباحثات مذہبی امور میں ہوں ان کی نسبت ہر یک قوم مسلمانوں اور عیسائیوں اور آریہ وغیرہ میں سے دوامر کے ضرور پابند ہوں.(۱) اول یہ کہ ایسا اعتراض جو خود معترض کی ہی الہامی کتاب یا کتابوں پر جن کے الہامی ہونے پر وہ ایمان رکھتا ہے وارد ہو سکتا ہو.یعنی وہ امرجو بناء اعتراض کی ہے اور کتابوں میں بھی پایا جاتا ہو جن پر معترض کا ایمان ہے.ایسے اعتراض سے چاہئے کہ ہر یک ایسا معترض پر ہیز کرے.(۲) دوم اگر بعض کتابوں کے نام بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے کسی فریق کی طرف سے اس غرض سے شائع ہو گئے ہوں کہ در حقیقت وہی کتا ہیں ان کی مسلم اور مقبول ہیں تو چاہئے کہ کوئی معترض ان کتابوں سے باہر نہ جائے.اور ہر ایک اعتراض جو اس مذہب پر کرنا ہو نہیں کی کتابوں کے حوالے سے کرے اور ہر گز کسی ایسی کتاب کا نام نہ لیوے جس کے مسلّم اور مقبول ہونے کے بارے میں اشتہار میں ذکر نہیں.اور اگر اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو بلا تامل اس سزا کا مستوجب ہو جو دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند میں مندرج ہے.یہ التماس ہے جس کا پاس ہوتا ہم بذریعہ کسی ایکٹ یا سرکر کے گورنمنٹ عالیہ سے چاہتے ہیں.اور ہماری زیرک گورنمنٹ اس بات کو سمجھتی ہے کہ اس قانون کے پاس کرنے میں کسی خاص قوم کی رعایت نہیں بلکہ ہر قوم پر اس کا اثر مساوی ہے.اور اس قانون کے پاس کرنے میں بے شمار برکتیں ہیں جن سے عام خلائق کے لئے امن اور عافیت کی راہیں کھلتی ہیں.اور صد با بیہودہ نز اعوں اور جھگڑوں کی صف لپٹتی جاتی ہے اور آخیر نتیجہ صلح کاری اور ان شرارتوں کا دور ہونا ہے
37 جوفتنوں اور بغاوتوں کی جڑ ہوتے ہیں.اور دن بدن مفاسد کو ترقی دیتے ہیں.اور ہماری قلم جو سر یک وقت اس گورنمنٹ عالیہ کی مدح و ثناء میں چل رہی ہے اس قانون کے پاس ہونے سے اپنی گورنمنٹ کو دوسروں پر ترجیح دینے کے لئے ایک ایسا وسیع مضمون پائے گی جو آفتاب کی طرح جھکے گا.اور اگر ایسا نہ ہوا تو خدا معلوم کہ روز کی لڑائیوں اور بیہودہ جھگڑوں کی کہاں تک نوبت پہنچے گی.بیشک اس سے پہلے تو بین کے لئے دفعہ ۲۹۸ تعزیرات میں موجود ہے لیکن وہ ان مراتب کے تصفیہ پا جانے سے پہلے فضول اور کمی ہے اور خیانت پیشہ لوگوں کے لئے گریز گاہ وسیع ہے.اور پھر ہم اپنے مخالف فریقوں کی طرف متوجہ ہو کر کہتے ہیں کہ آپ لوگ بھی برائے خدا ایسی تدبیر کو منظور کریں جس کا نتیجہ سرا سرا امن اور عافیت ہے.اور اگر یہ احسن انتظام نہ ہوا تو علاوہ اور فساد اور فتنوں کے ہمیشہ سچائی کا خون ہوتا رہے گا.اور صادقوں اور راستبازوں کی کوششوں کا کوئی عمدہ نتیجہ نہیں نکلے گا.اور نیز رعایا کی باہمی نا اتفاقی سے گورنمنٹ کے اوقات بھی ضائع ہونگے.اس لئے ہم مراتب مذکورہ بالا کو آپ سب صاحبوں کی خدمت میں پیش کر کے یہ نوٹس آپ صاحبوں کے نام جاری کرتے ہیں.اور آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ ہماری کتب مسلمہ مقبولہ جن پر ہم اعتقادر کھتے ہیں اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں، تفصیل ذیل ہیں.اول قرآن شریف مگر یا در ہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کریم کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں.کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں.اور نیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسر نہ آسکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی تفسیر ہو.غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں.پس ہر ایک معترض پر لازم
38 ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے.دوم دوسری کتا بیں جو ہماری مسلم کتا ہیں ہیں ان میں سے اول درجہ پر صبیح بخاری ہے اور اسکی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جو قرآن شریف سے مخالف نہیں.اور ان میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو.اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی، ابن ماجہ موطا نسائی ابن داؤد دار قطنی کتب احادیث ہیں.جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں.یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی رو سے ہمارا عمل ہے.اب ہم قانونی طور پر آپ لوگوں کو ایسے اعتراضوں سے روکتے ہیں جو خود آپ کی کتابوں اور آپ کے مذہب پر وارد ہوتے ہیں، کیونکہ انصاف جن پر قوانین مبنی ہیں ایسی کاروائی کو صحت نیت میں داخل نہیں کرتا.اور ہم ایسے اعتراضوں سے بھی لوگوں کو منع کرتے ہیں جوان کتابوں اور ان شرائط پر مبنی نہیں جن کا ہم اشتہار میں ذکر کرتے ہیں.کیونکہ ایسی کاروائی بھی تحقیق حق کے برخلاف ہے.پس ہر یک معترض پر واجب ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت ان کتابوں اور ان شرائط سے باہر نہ جائے.اور ضروری ہوگا کہ آئیند ہ آپ صاحبوں میں سے کوئی صاحب ہماری کسی تالیف کا رد لکھے یا رد کے طور پر کوئی اشتہار شائع کریں یا کسی مجلس میں تقریری مباحثہ کرنا چاہیں تو اس شرط مذکورہ بالا کی پابندی سے باہر قدم نہ رکھیں.یعنی ایسی باتوں کو بطور اعتراض پیش نہ کریں جو آپ لوگوں کی الہامی کتابوں میں بھی موجود ہوں.اور ایسے اعتراض بھی نہ کریں جو ان کتابوں کی پابندی اور اس طریق کی پابندی سے نہیں ہیں جو ہم اشتہار میں شائع کر چکے ہیں.غرض اس طریق مذکورہ بالا سے تجاوز کر کے ایسی بیہودہ روایتوں اور بے سر و پا قصوں کو
39 ہمارے سامنے ہر گز پیش نہ کریں اور نہ شائع کریں.جیسا کہ یہ خائنانہ کاروائیاں پہلے اس سے ہندؤں میں سے اندر من مراد آبادی نے اپنی کتابوں تحفہ اسلام و پاداش اسلام وغیرہ میں دکھلائیں.اور پھر بعد اس کے یہ نا پاک حرکتیں مسمی لیکھر ام پیشاوری نے جو محض نادان اور بے ہے اپنی کتاب تکذیب براہین اور رسالہ جہاد اسلام میں کیں.اور جیسا کہ یہی بیہودہ کاروائیاں پادری عماد الدین نے اپنی کتابوں میں اور پادری ٹھا کر داس نے اپنے رسائل میں اور صفدر علی وغیرہ نے اپنی تحریروں میں لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کیں.اور سخت دھو کہ دیدے کر ایک دنیا کو گندگی اور کیچڑ میں ڈال دیا.اور اگر آپ لوگ اب بھی یعنی اس نوٹس کے جاری ہونے کے بعد بھی اپنی خیانت پیشہ طبیعت اور عادت سے باز نہیں آئیں گے تو دیکھو ہم آپ کو بلا بلا کر متنبہ کرتے ہیں کہ اب یہ حرکت آپ کی صحت نیت کے خلاف سمجھی جائے گی اور محض دلآزاری اور توہین کی مد میں متصور ہو گی.اور اس صورت میں ہمیں استحقاق ہوگا کہ عدالت سے اس افتراء اور تو بین اور دلآزاری کی چارہ جوئی کریں اور دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند کی رو سے آپ کو ماخوذ کرائیں اور قانون کی حد تک سزا دلائیں.کیونکہ اس نوٹس کے بعد آپ اپنی ناواقفی اور صحت نیت کا عذر پیش نہیں کر سکتے.اور آپ سب صاحبوں کو بھی اختیار ہوگا کہ اپنی مقبولہ مسلمہ کتابوں کا اشتہار دے دیں.اور بعد اس کے اگر کوئی مسلمان معترض اپنے اشتہار میں آپ کے اشتہار کا پابند نہ ہو اور کوئی ایسا اعتراض کرے کہ جو ان کتابوں کی بنا پر نہ ہو جن کے مقبول ہونے کی نسبت آپ اشتہار دے چکے ہیں.یا کوئی ایسا امر مورد اعتراض ٹھہراوے جو خود اسلامی تعلیم میں موجود ہے تو بے شک ایسا معترض مسلمان بھی آپ لوگوں کے اشتہار کے بعد اسی دفعہ ۲۹۸ کی رو سے سزا پانے کے لائق ہوگا جس دفعہ سے ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں.اب ذیل میں اس نوٹس دینے والوں کے دستخط اور مواہیر ہیں.فقط
40 40 راقم خاکسار خادم دین مصطفے غلام احمد قادیانی ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۵۰ تا ۱۶۰ مطبوعہ لندن اپریل ۱۹۸۶ء) اس نوٹس کے صفحہ نمبر ۱۵۰ تا ۱۵۴ پر حاشیہ درج ہے کہ پادری صاحبان اگر ہماری نصیحت کو غور سے سنیں تو بیشک اپنی بزرگی اور شرافت ہم پر ثابت کریں اور اس حق پسندی اور صلح کاری کے موجب ہونگے جس سے ایک پاک دل اور راستباز شناخت کیا جاتا ہے اور وہ نصیحت صرف دو باتیں ہیں جو ہم پادری صاحبوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں.اوّل.یہ کہ وہ اسلام کے مقابل پر بیہودہ روایات اور بے اصل حکایات سے مجتنب رہیں جو ہماری مسلم اور مقبول کتابوں میں موجود نہیں اور ہمارے عقیدہ میں داخل نہیں اور نیز قرآن کے معنی اپنی طرف سے نہ گھڑ لیا کریں.بلکہ وہی معنی کریں جو تو اتر آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں اور پادری صاحبان اگر چہ انجیل کے معنی کرنے کے وقت ہر یک بے قیدی کے مجاز ہوں مگر ہم مجاز نہیں ہیں.اور انہیں یا درکھنا چاہئے کہ ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے معصیت عظیمہ ہے.قرآن کی کسی آیت کے معنی اگر کریں تو اس طور سے کرنے چاہئے که دوسری قرآنی آمیتیں ان معنوں کی مؤید اور تفسیر ہوں اختلاف اور تناقض پیدا نہ ہو کیونکہ قرآن کی بعض آیتیں بعض کے لئے بطور تفسیر کے ہیں.اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل رسول الله صل علیم کی بھی انہیں معنوں کی مفسر ہو.کیونکہ جس پاک اور کامل نبی پر قرآن نازل ہوا وہ سب سے بہتر قرآن شریف کے معنی جانتا ہے.غرض اتم
41 اور اکمل طریق معنے کرنے کا تو یہ ہے لیکن اگر کسی آیت کے بارے میں حدیث صحیحہ مرفوع متصل نہ مل سکے تو ادنی درجہ استدلال کا یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت کے معنی دوسری آیات بینات سے کئے جاویں.لیکن ہر گز یہ درست نہیں ہوگا کہ بغیر ان دونوں قسم کے التزام کے اپنے ہی خیال اور رائے سے معنی کریں.کاش اگر پادری عمادالدین وغیرہ اس طریق کا التزام کرتے تو نہ آپ ہلاک ہوتے اور نہ دوسروں کی ہلاکت کا موجب ٹھہرتے.دوسری نصیحت اگر پادری صاحبان سنیں تو یہ ہے کہ وہ ایسے اعتراض سے پر ہیز کریں جو خود ان کی کتب مقدسہ میں بھی پایا جاتا ہے.مثلاً ایک بڑا اعتراض جس سے بڑھ کر شاید اُن کی نظر میں اور کوئی اعتراض ہمارے نبی علم پر نہیں ہے وہ لڑائیاں ہیں جو آنحضرت علی ایم کو باذن اللہ ان کفار سے کرنی پڑیں جنہوں نے آنحضرتعلیم پر تیرہ برس تک انواع اقسام کے ظلم کئے اور ہر یک طرق سے ستایا اور دکھ دیا اور قتل کا اردہ کیا جس سے آنحضرت علی ایم کو معہ اپنے اصحاب کے مکہ چھوڑنا پڑا.اور پھر بھی باز نہ آئے اور تعاقب کیا اور ہر یک بے ادبی اور تکذیب کا حصہ لیا اور جو مکہ میں ضعفاء مسلمانوں میں سے رہ گئے تھے ان کو غایت درجہ دکھ دینا شروع کیا.لہذاوہ لوگ خدا تعالیٰ کی نظر میں اپنے ظالمانہ کاموں کی وجہ سے اس لائق ٹھہر گئے کہ اُن پر موافق سنت قدیمہ الہیہ کے کوئی عذاب نازل ہو اور اس عذاب کی وہ قومیں بھی سزاوار تھیں جنہوں نے مکہ والوں کو مدد دی.اور وہ قومیں بھی جنہوں نے اپنے طور پر ایذاء اور تکذیب کو انتہا ء تک پہنچایا اور اپنی طاقتوں سے اسلام کی اشاعت سے مانع آئے.سو جنہوں نے اسلام پر تلواریں اٹھائیں وہ اپنی شوخیوں کی وجہ سے تلواروں سے ہی ہلاک کئے گئے.اب اس صورت کی لڑائیوں پر اعتراض کرنا اور حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی ان لڑائیوں کو بھلا دینا جن میں لاکھوں شیر خوار بچے قتل کئے گئے.کیا یہ دیانت کا طریق ہے
42 یا ناحق کی شرارت اور خیانت اور فساد انگیزی ہے.اس کے جواب میں حضرات عیسائی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرتعلیم کی لڑائیوں میں بہت ہی نرمی پائی جاتی ہے کہ اسلام لانے پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور شیر خوار بچوں کو قتل نہیں کیا اور نہ عورتوں اور نہ بوڑھوں کو اور نہ فقیروں کو اور مسافروں کومارا اور نہ عیسائیوں اور یہودیوں کے گر جاؤں کو مسمار کیا.لیکن اسرائیلی نبیوں نے ان سب باتوں کو کیا.یہاں تک کہ تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ شیر خوار بچے قتل کئے گئے.گویا حضرات پادریوں کی نظر میں اس نرمی کی وجہ سے اسلام کی لڑائیاں قابل اعتراض ٹھہریں کہ ان میں وہ پختی نہیں جو حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرئیلی نبیوں کی لڑائیوں میں تھی.اگر اس درجہ کی سختی پر یہ لڑائیاں بھی ہوتیں تو قبول کر لیتے کہ در حقیقت یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اب ہر یک عقل مند کے سوچنے کے لائق ہے کہ کیا یہ جواب ایمانداری کا جواب ہے.حالانکہ آپ ہی کہتے ہیں کہ خدا رحیم ہے اور اس کی سزا رحم سے خالی نہیں.پھر جب موسیٰ کی لڑائیاں باوجود اس سختی کے قبول کی گئیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے لڑیں تو کیوں اور کیا وجہ کہ یہ لڑائیاں جو ابھی رحم کی خوشبو ساتھ رکھتی ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوئیں.اور ایسے لوگ کہ ان باتوں کو بھی خدا تعالیٰ کے احکام سمجھتے ہیں کہ شیر خوار بچے ان کی ماؤں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں اور ماؤں کو ان کے بچوں کے سامنے بیرحمی سے مارا جاوے وہ کیوں ان لڑائیوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ سمجھیں جن میں یہ شرط ہے کہ پہلے مظلوم ہو کر پھر ظالم کا مقابلہ کرو.منہ حاشیه صفحه ۱۵۰ تا ۱۵۴ مجموعه اشتہارات جلد دوم) 66 اس کے بعد حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اور اشتہار بھی شائع فرمایا تا حکومت اس پر غور کرتے ہوئے آئے دن مذہبی دل آزاریوں کی بنا پر جو فضاء مکدر ہوتی ہے اسے روکا جاسکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا
43 یہ وہ درخواست ہے جو برائے منظوری گورنمنٹ میں بعد تکمیل دستخطوں کے بھیجی جائے گی درخواست یہ درخواست مسلمانان برٹش انڈیا کی طرف سے جن کے نام ذیل میں درج ہیں بحضور جناب گورنر جنرل ہند دام اقبالہ اس غرض سے بھیجی گئی ہے کہ مذہبی مباحثات اور مناظرات کو ان ناجائز جھگڑوں سے بچانے کے لئے جو طرح طرح کے فتنوں کے قریب پہنچ گئے ہیں اور خطر ناک حالت پیدا کرتے جاتے ہیں اور ایک وسیع بے قیدی ان میں طوفان کی طرح نمودار ہوگئی ہے.دو ۲ مندرجہ ذیل شرطوں سے مشروط فرما دیا جاوے اور اسی طرح اس وسعت اور بے قیدی کو روک کر ان خرابیوں سے رعایا کو بچایا جاوے جو دن بدن ایک مہیب صورت پیدا کرتی جاتی ہیں جن کا ضروری نتیجہ قوموں میں سخت دشمنی اور خطر ناک مقدمات ہیں.ان دو شرطوں میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ برٹش 10انڈیا کے تمام وہ فرقے جو ایک دوسرے سے مذہب اور عقیدہ میں اختلاف رکھتے ہیں اپنے فریق مخالف پر کوئی ایسا اعتراض نہ کریں جو خود اپنے پر وارد ہوتا ہو.یعنی اگر ایک فریق دوسرے فریق پر مذہبی نکتہ چینی کے طور پر کوئی ایسا اعتراض کرنا چاہے جس کا ضروری نتیجہ اس مذہب کے پیشوا یا کتاب کی کسر شان ہو جس کو اس فریق کے لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مانتے ہوں تو اس کو اس امر کے بارے میں قانونی ممانعت ہو جائے کہ ایسا اعتراض اپنے فریق مخالف پر اس صورت میں ہر گز نہ کرے
44 جبکہ خود اس کی کتاب یا اس کے پیشوا پر وہی اعتراض ہو سکتا ہو.دوسری شرط یہ ہے کہ ایسے اعتراض سے بھی ممانعت فرما دی جائے جو ان کتابوں کی بنا پر نہ ہوجن کوکسی فریق نے اپنے مسلم اور مقبول کتابیں ٹھہرا کر ان کی ایک چھپی ہوئی فہرست اپنے ایک کھلے کھلے اعلان کے ساتھ شائع کر دی ہو.اور صاف اشتہار دیدیا ہو کہ یہی وہ کتابیں ہیں جن پر میرا عقیدہ ہے اور جو میری مذہبی کتابیں ہیں.سو ہم تمام درخواست کنندوں کی التماس ہے کہ ان دونوں شرطوں کے بارے میں ایک قانون پاس ہو کر اس کی خلاف ورزی کو ایک مجرمانہ حرکت قرارد یا جاوے اور ایسے تمام مجرم دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند یا جس دفعہ کی رو سے سر کارمناسب سمجھے سزا یاب ہوتے رہیں اور جن ضرورتوں کی بنا پر ہم رعا یا سر کار انگریزی کی اس درخواست کے لئے مجبور ہوئے ہیں وہ تفصیل ذیل ہیں.اول یہ کہ ان دنوں میں مذہبی مباحثوں کے متعلق سلسلہ تقریروں اور تحریروں کا اس قدر ترقی پزیر ہو گیا ہے اور ساتھ ہی اس کے اس قدر سخت بدزبانیوں نے ترقی کی ہے کہ دن بدن باہمی کینے بڑھتے جاتے ہیں اور ایک زور کے ساتھ مخش گوئی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا دریا بہہ رہا ہے.اور چونکہ اہل اسلام اپنی برگزیدہ نبی اور اس مقدس کتاب کے لئے جو اس پاک بنی کی معرفت اُن کو ملی نہایت ہی غیرت مند ہیں.لہذا جو کچھ دوسری قومیں طرح طرح کے مفتر یانہ الفاظ اور رنگارنگ کی پُر خیانت تحریر اور تقریر سے ان کے نبی اور ان کی آسمانی کتاب کی تو بین سے اُن کے دل دکھا رہے ہیں یہ ایک ایسا زخم ان کے دلوں پر ہے کہ شاید ان کے لئے اس تکلیف کے برابر دنیا میں اور کوئی بھی تکلیف ہو.اور اسلامی اصول ایسے مہذبانہ ہیں کہ یادہ گوئی کے مقابل پر مسلمانوں کو یاوہ گوئی سے روکتے ہیں.مثلاً ایک معترض جب ایک بے جا الزام مسلمانوں کے نبی علیہ السلام پر کرتا اور ٹھٹھے اور نہی اور ایسے الفاظ سے پیش آتا ہے جو بسا
45 اوقات گالیوں کی حد تک پہنچ جاتے ہیں تو اہل اسلام اس کے مقابل پر اس کے پیغمبر اور مقتداء کو کچھ نہیں کہہ سکتے.کیونکہ اگر وہ پیغمبر اسرائیلی نبیوں میں سے ہے تو ہر ایک مسلمان اس نبی سے ایسا ہی پیار کرتا ہے جیسا کہ اس کا فریق مخالف.وجہ یہ کہ مسلمان تمام اسرائیلی نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں.اور دوسری قوموں کی نسبت بھی وہ جلدی نہیں کرتے کیونکہ انہیں تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی ایسا آباد ملک نہیں جس میں کوئی مصلح نہیں گزرا.اس لئے گزشتہ نبیوں کی نسبت خاص کر اگر وہ اسرائیلی ہوں.ایک مسلمان ہر گز بددیانتی نہیں کر سکتا.بلکہ اسرائیلی نبیوں پر تو وہ ایسا ہی ایمان رکھتا ہے جیسا کہ نبی آخر الزمان کی نبوت پر تو اس صورت میں وہ گالی کا گالی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتا.ہاں جب بہت دکھ اٹھاتا ہے تو قانون کی رو سے چارہ جوئی کرنا چاہتا ہے.مگر قانونی تدارک بد نیتی کے ثابت کرنے پر موقوف ہے جس کا ثابت کرنا موجودہ قانون کی رو سے بہت مشکل امر ہے.لہذا ایسا مستغیث اکثر ناکام رہتا ہیں اور مخالف فتحیاب کو اور بھی تو بین اور تحقیر کا موقعہ ملتا ہے.اس لئے یہ بات بالکل سچی ہے کہ جس قدر تقریروں اور تحریروں کی رو سے مذہب اسلام کی توہین ہوتی ہے ابھی تک اس کا کوئی کافی تدارک قانون میں موجود نہیں.اور دفعہ ۲۹۸ حق الامر کے ثابت کرنے کے لئے کوئی ایسا معیار اپنے ساتھ نہیں رکھتی جس سے صفائی کے ساتھ نیک نیتی اور بدنیتی میں تمیز ہو جائے یہی سبب ہے کہ نیک نیتی کے بہانہ سے ایسی دلآ زار کتابوں کی کروڑوں تک نوبت پہنچ گئی ہے.لہذا ان شرائط کا ہونا ضروری ہے جو واقعی حقیقت کی کھلنے کے لئے بطور مؤید ہوں.اور صحت نیت اور عدم صحت کے پر کھنے کے لئے بطور معیار کے ہوسکیں.سو وہ معیار وہ دونوں شرطیں ہیں جو او پر گزارش کر دی گئی ہیں.کیونکہ کچھ شک نہیں کہ جو شخص کوئی ایسا اعتراض کسی فریق پر کرتا ہے جو د ہی اعتراض اس پر بھی اس کی الہامی کتابوں کی رو سے ہوتا ہے.یا ایسا اعتراض کرتا ہے جو ان کتابوں میں
40 46 نہیں پایا جاتا جن کو فریق معترض علیہ سے اپنی مسلّمہ مقبولہ کتابیں قرار دے کر ان کے بارے میں اپنے مذہبی مخالفوں کو بذریعہ کسی چھپے ہوئے اشتہار کے مطلع کر دیا ہے تو بلاشبہ ثابت ہو جاتا ہے کہ شخص معترض نے صحت نیت کو چھوڑ دیا ہے.تو اس صورت میں ایسے مکار اور فریبی لوگ جن حیلوں اور تاویلوں سے اپنی بدنیتی کو چھپانا چاہتے ہیں وہ تمام حیلے سکتے ہو جاتے ہیں اور بڑی سہولت سے حکام پر اصل حقیقت کھل جاتی ہے.اور اگر چہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یاوہ گولوگوں کی زبانیں روکنے کے لئے یہ ایک کامل علاج ہے مگر اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ بہت کچھ یاوہ گوئیوں اور ناحق کے الزاموں کا اس سے علاج ہو جائے گا.دوسری ضرورت اس قانون کے پاس کرنے کے لئے یہ ہے کہ اس بے قیدی سے ملک کی اخلاقی حالت روز بروز بگڑتی جاتی ہے.ایک شخص سچی بات کو سن کر پھر اس فکر میں پڑ جاتا ہے کہ کسی طرح جھوٹ اور افتراء سے مدد لے کر اس سچ کو پوشیدہ کر دیوے اور فریق ثانی کو خواہ نخواہ ذلت پہنچاوے.سوملک کو تہذیب اور راست روی میں ترقی دینے کے لئے اور بہتان طرازی کی عادت سے روکنے کے لئے یہ ایک ایسی عمدہ تدبیر ہے جس سے بہت جلد دلوں میں بچی پر ہیز گاری پیدا ہو جائے گی.تیسری ضرورت اس قانون کے پاس کرنے کی یہ ہے کہ اس بے قیدی سے ہماری محسن گورنمنٹ کی قانون پر عقل اور کانشنس کا اعتراض ہے.چونکہ یہ دانا گورنمنٹ ہر یک نیک کام میں اول درجہ پر ہے تو کیوں اس قدر الزام اپنے ذمہ رکھے کہ کسی کو یہ بات کہنے کا موقعہ ملے کہ مذہبی مباحثات میں اس کے قانون میں احسن انتظام نہیں، ظاہر ہے کہ ایسی بے قیدی سے صلح کاری اور باہمی محبت دن بدن کم ہوتی جاتی ہے.اور ایک فریق دوسرے فریق کی نسبت
47 ایسا اشتعال رکھتا ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس کو نابود کر دیوے اور اس تمام نا اتفاقی کی جڑ مذہبی مباحثات کی بے اعتدالی ہے.گورنمنٹ اپنی رعایا کے لئے بطور معلم کے ہے.پھر اگر رعایا ایک دوسرے سے درندہ کا حکم رکھتی ہو تو گورنمنٹ کا فرض ہے کہ قانونی حکمت عملی سے اس درندگی کو دور کر دے.چوتھی یہ کہ اہل اسلام گورنمنٹ کی وہ وفادار رعا یہ ہے جن کی دلی خیر خواہی روز بروز ترقی پر ہے اور اپنے جان و مال سے گورنمنٹ کی اطاعت کے لئے حاضر ہے.اور اس کی مہر بانیوں پر بھروسہ رکھتے ہیں اور.کوئی بات خلاف مرضی گورنمنٹ کرنا نہایت بیجا خیال کرتے ہیں اور دل سے گورنمنٹ کے مطیع ہیں.پس اس صورت میں ان کا حق بھی ہے کہ دردناک فریاد کی طرف گورنمنٹ عالیہ توجہ کرے.پھر یہ درخواست بھی کوئی ایسی درخواست نہیں جس کا صرف مسلمانوں کوفائدہ پہنچتا ہے اور دوسروں کو نہیں.بلکہ ہر یک قوم اس فائدہ میں شریک ہے.اور یہ کام ایسا ہے جس سے ملک میں صلح کاری اور امن پیدا ہوگا اور مقدمات کم ہوتے ہیں اور بد نثیت لوگوں کا منہ بند ہو جاتا ہے.اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس کا اثر مسلمانوں سے خاص نہیں ہر یک قوم پر اس کا برا براثر ہے.آخر ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس گورنمنٹ کو ہمیشہ کے اقبال کے ساتھ ہمارے سروں پر خوش و خرم رکھے اور ہمیں سچی شکر گزاری کی توفیق دے.اور ہماری محسن گورنمنٹ کو اس مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست کی طرف توجہ دے کہ بریک توفیق اسی کے ارادہ اور حکم سے ہے.آمین الملتمسين اہل اسلام رعایا گورنمنٹ جن کے نام علیحدہ نقشوں میں درج ہیں.
48 مورخه ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء ( مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) یہ اشتہار آریہ دھرم طبع اوّل کے صفحہ ۹۹ لغایت ۷۲ پر ہے ) ( بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد دوم مطبوعہ لندن اپریل ۱۹۸۶ء صفحه ۱۶۶ تا ۱۷۱)
449 49 تعزیرات ہند میں تو بین رسالت کے سلسلہ میں قانونی ضرورت اور وجوہات یہ ایک فطرتی عمل ہے کہ کوئی بھی انسان اس بات کو برداشت نہیں کرتا کہ کوئی اس کے باپ کو گالی دے یا اسے برابھلا کہے تو یہ بات کس طرح ممکن ہوسکتی ہے کہ کوئی انسان اس وجود کو گالی دے برا بھلا کہے جو لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کا پیارا اور محبوب ہو.ہر زمانہ میں ہی اللہ کی طرف سے نبی مبعوث ہوتے رہے ہیں اور ان نبیوں پر ایمان لانے والے ہمیشہ ہی ان کی خاطر اپنی جان، مال اولاد اور اپنی عزتوں کی قربانی دیتے آئے ہیں اور ہمیشہ ہی دیتے چلے جائیں گے.دنیا میں کئی مذاہب پائے جاتے ہیں ہر مذہب والا کسی نا کسی کو اپنا پیارا اور محبوب مان کر اس پر ایمان لاتا ہے اور اس سے پیار کرتا ہے.اگر دیگر مذہب والا اس کے کسی پیارے کو گالی دیگا یا برے ناموں سے یاد کرے گا تو لازمی بات ہے سامنے والا بھی اس کا اسی طرح جواب دیگا اگر چہ یہ بات اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف ہے.اللہ تعالیٰ نے اسی لئے قرآن کریم میں تعلیم دی ہے کہ تم انہیں جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں گالی نہ دے نہیں تو وہ دشمن ہو کر جہالت کی وجہ سے تمہارے خدا کو گالی دینگے.(الانعام آیت ۱۰۹) عجیب بات یہ ہے کہ جیسے ہی اسلام پر کمزوری کا زمانہ آن پہنچا اس کے ساتھ ہی تمام مذاہب والوں نے اسلام پر حملے تیز کر دئے اور ان حملوں میں سب سے زیادہ تیز اور خطر ناک حملے عیسائیوں کی طرف سے ہوئے اور ہمارے پیارے اور محبوب نبی صلیم کی اس قدر تو بین کی گئی کہ جسے بیان نہیں کیا جا سکتا.اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ کشت وخون کا بازار گرم ہوتا.جب اللہ تعالیٰ کی مشیت نے یہ چاہا کہ وہ آنحضرت صلم کی عزت و تکریم کو قائم کرے
50 اور تمام ادیان باطلہ پر اسلام کو غالب کرے تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا.جب آپ نے ان اسلام کے اشد ترین دشمنوں کے حملوں کا جواب دیا تو یہ سب آپ کے مخالف ہو گئے لیکن آپ نے مخالفت کی کچھ بھی پرواہ نہ کی اور ان مخالفین کے حملوں کا منہ توڑ جواب دیتے رہے.مخالفین آپ کے جوابوں کی تاب نہ لا کر حکومت کو آپ کی شکایات کرتے اور الٹا یہ الزام دھرتے کہ نعوذ باللہ آپ ان کے انبیاء کی نسبت سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں اسی بنا پر مخالفین نے آپ کے خلاف عدالت میں نالش بھی کی اور قتل تک کے مقدمات بھی کئے.اسلام کی تعلیم اس بات سے منع کرتی ہے کہ گالی کا جواب گالی سے دیا جائے لیکن دوسرے اس سے باز نہ آتے تھے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت وقت کو اس طرف توجہ دلائی کہ اگر مخالفین اسلام کی طرف سے یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور اس کے سد باب کے لئے کوئی قانون نہ بنایا گیا تو ملک بدامنی کا شکار ہو جائے گا.اور آپ نے مخالفین کی طرف سے آنحضرت علیم کے بارے میں کی جانے والی بے ادبی اور توہین آمیز الفاظ اور جملے بھی حکومت وقت کے علم میں لانے کے لئے نمونہ کے طور پر پیش کئے تا اسے دیکھتے ہوئے ہی کوئی قانون وضع کیا جاسکے.اس سلسلہ میں آپ نے لکھا.نہایت ضروری عرضداشت قابل توجہ گورنمنٹ چونکہ ہماری گورنمنٹ برطانیہ اپنی رعایا کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتی ہے اور اس کی شفقت اور رحمت ہر ایک قوم کے شامل حال ہے لہذا ہمارا حق ہے کہ ہم ہر ایک درد اور دکھ اس کے سامنے بیان کریں اور اپنی تکالیف کی چارہ جوئی اس سے ڈھونڈیں.سوان دنوں میں بہت تکلیف جو ہمیں پیش آئی وہ یہ ہے کہ پادری صاحبان یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر ایک طرح سے ہمارے نبی صلم کی بے ادبی کریں گالیاں نکالیں بیجا تہمتیں لگائیں اور ہر ایک طور سے توہین
51 کر کے ہمیں دکھ دیں اور ہم ان کے مقابل پر بالکل زبان بند رکھیں اور ہمیں اس قدر بھی اختیار نہ رہے کہ ان کے حملوں کے جواب میں کچھ بولیں.لہذاوہ ہماری ہر ایک تقریر کو کو کیسی ہی نرم ہو سختی پر حمل کر کے حکام تک شکایت پہنچاتے ہیں حالانکہ ہزار ہا درجہ بڑھ کر ان کی طرف سے سختی ہوتی ہے ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راست باز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہماری قلم سے اُن کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں لیکن پادری صاحبان ہمارے نبی علی ایم پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے جو چاہتے ہیں منہ پر لاتے ہیں.یہ ہمارا حق تھا کہ ہم ان کے دل آزار کلمات کی اپنی گورنمنٹ عالیہ میں شکایت پیش کرتے اور دادرسی چاہتے.لیکن انہوں نے اول تو خود ہی ہزاروں سخت کلمات سے ہمارے دل کو دکھایا اور پھر ہم پر ہی الٹی عدالت میں شکایت کی کہ گویا سخت کلمات اور تو ہین ہماری طرف سے ہے اور اسی بنا پر وہ خون کا مقدمہ اٹھایا گیا تھا جوڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے محکمہ سے خارج ہوچکا ہے.اس لئے قرین مصلحت ہے کہ ہم اپنی عادل گورنمنٹ کو اس بات سے آگاہ کریں کہ جس قدر سختی اور دل آزاری پادری صاحبان کی قلم اور زبان سے اور پھر ان کی تقلید اور پیروی سے آریہ صاحبان کی طرف سے ہمیں پہنچ رہی ہے ہمارے پاس الفاظ نہیں کہ جو ہم بیان کرسکیں.ہ بات ظاہر ہے کہ کوئی شخص اپنے مقتدا اور پیغمبر کی نسبت اس قدر بھی ملنا نہیں چاہتے کہ وہ جھوٹا اور مفتری ہے اور ایک باغیرت مسلمان بار بار کی تو بین کوسن کر پھر اپنی زندگی کو بے شرمی کی زندگی خیال کرتا ہے تو پھر کیونکر کوئی ایماندار اپنے بادی پاک نبی کی نسبت سخت گالیاں سن سکتا ہے.بہت سے پادری اس وقت برٹش انڈیا میں ایسے ہیں جن کا دن رات پیشہ ہی یہ ہے کہ
52 ہمارے نبی اور ہمارے سید و مولی آنحضرت صلیم کو گالیاں دیتے رہیں.سر سے زیادہ گالیاں دینے میں پادری عماد الدین امرتسری کا نمبر بڑھا ہوا ہے.وہ اپنی کتابوں تحقیق الایمان وغیرہ میں گھلی گھلی آنحضرت علی اہلیہ کو گالیاں دیتا ہے اور دغا باز پرائی عورتوں کو لینے والا وغیرہ وغیرہ قرار دیتا ہے اور نہایت سخت اور اشتعال دینے والے لفظ استعمال کرتا ہے.ایسا ہی پادری ٹھا کر داس سیرۃ مسیح اور ریویو براہین احمدیہ میں ہمارے نبی سلیم کا نام شہوت کا مطیع اور غیر عورتوں کا عاشق، فریبی لٹیرا مکار جاہل، حیلہ باز دھوکہ باز رکھتا ہے.اور رساله دافع البستان میں پادری انکلین نے ہمارے نبی علی ایم کی نسبت یہ الفاظ استعمال کئے ہیں.شہوت پرست تھا.محمد کے اصحاب زنا کار دنا با زچور تھے اور ایسا ہی تفتیش الاسلام میں پادری را جرس لکھتا ہے کہ محمد شہوت پرست، نفس امارہ کا از حد مطیع ، عشق باز مکار خونریز اور جھوٹا تھا.اور رسالہ نبی معصوم مصنفہ امریکن ٹریکٹ سوسائٹی میں لکھا ہے.محمد گنہگار عاشق حرام یعنی زنا کا مرتکب مکار ریا کا رتھا.اور رسالہ مسیح الدجال میں ماسٹر رام چندر ہمارے نبی صلی نماییم کی نسبت کہتا ہے کہ محمد سرغنہ ڈکیتی تھا.اور لٹیر اڈا کو فریبی عشقباز شہوت پرست خونریز زانی اور کتاب سوانح عمری محمد صاحب مصنفہ واشنگٹن اردنگ صاحب میں لکھا ہے کہ محمد کے اصحاب قراق اور لٹیرے تھے اور وہ خود طامع، جھوٹا، دھوکہ باز تھا.اور اندرون بائیبل مصنفہ آتھم عیسائی میں لکھا ہے کہ محمد دجال تھا اور دھو کہ باز.اور پھر کہتا ہے کہ محمد یوں کا خاتمہ بڑا خوفناک ہے یعنی جلد تباہ ہو جائیں گے.اور پر چہ نور افشاں لدھیانہ میں لکھا ہے کہ محمد کو شیطانی وحی ہوتی تھی اور وہ ناجائز حرکات کرتا تھا اور نفسانی ، آدمی، گمراہ مکار فریبی زائی چور خونریزی لٹیرا رہزن رفیق شیطان اور اپنی بیٹی فاطمہ کو نظر شہوت سے دیکھنے والا تھا.اب یہ تمام الفاظ غور کرنے کے لائق ہیں جو ہماری نی میم کے حق میں پادری صاحبوں
53 کے منہ سے نکلے ہیں.اور سوچنے کے لائق ہے کہ ان کے کیا کیا نتائج ہو سکتے ہیں.کیا اس قسم کے الفاظ کبھی کسی مسلمان کے منہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت نکل سکتے ہیں.کیا دنیا میں اس سے سخت تر الفاظ ممکن ہیں جو پادری صاحبوں نے اس پاک نبی کے حق میں استعمال.کئے ہیں جس کی راہ میں کروڑ با خدا کے بندے فدا شد ہیں اور وہ اس نبی سے سچی محبت رکھتے ہیں جس کی نظیر دوسری قوموں میں تلاش کرنا لا حاصل ہے.پھر باوجود ان گستاخیوں ان بد زبانیوں اور ان ناپاک کلمات کے پادری صاحبان ہم پر الزام سخت گوئی کار کھتے ہیں.یہ کس قدر ظلم ہے.ہم یقیناً جانتے ہیں کہ ہر گز ممکن نہیں ہماری گورنمنٹ عالیہ ان کے اس طریق کو پسند کرتی ہو یا خبر پا کر پھر پسند کرے اور نہ ہم باور کر سکتے ہیں کہ آئندہ پادریوں کے کسی ایسے بے جا جوش کے وقت کہ جو کلارک کے مقدمہ میں ظہور میں آیا ہماری گورنمنٹ پادریوں کو ہندوستان کے چھ کروڑ مسلمانوں پر ترجیح دیکر کوئی رعایت ان کی کرے گی.اس وقت جو ہمیں پادریوں اور آریوں کی بدزبانی پر ایک لمبی فہرست دینی پڑی وہ صرف اس غرض سے ہے کہ تا آئندہ وہ فہر ست کام آئے اور کسی وقت گورنمنٹ عالیہ اس فہرست پر نظر ڈال کر اسلام کی ستم رسیدہ رعایا کو رحم کی نظر سے دیکھے.اور ہم تمام مسلمانوں پر ظاہر کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کو ان باتوں کی اب تک خبر نہیں ہے کہ کیونکر پادریوں کی بدزبانی نہایت تک پہنچ گئی ہے.اور ہم دلی یقین سے جانتے ہیں کہ جس وقت گورنمنٹ عالیہ کو ایسی سخت زبانی کی خبر ہوئی تو وہ ضرور آیندہ کے لئے کوئی احسن انتظام کرے گی.( بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد سوم مطبوعہ لندن اپریل ۱۹۸۶ء صفحه ۷۹ تا ۸۱) یہ وہ وجوہات تھیں جس بنا پر تعزیرات ہند میں تو بین رسالت پر قانون بنائے جانے کی
54.....ضرورت تھی آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مخالفین اسلام نے کس قدر گندی زبان ہمارے پیارے آقا سلام کے بارے میں استعمال کی اور کیسی کیسی بدزبانیاں کی تھیں اس بات کا اندازہ صرف اس ایک ہی حوالہ سے کیا جاسکتا ہے.جو زبان آریہ اور عیسائی آنحضرت صلیم کے متعلق استعمال کرتے تھے کوئی بھی مسلمان اس قسم کی زبان دیگر مذاہب کے بزرگوں کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخالفین کی بدگوئیوں اور بدزبانیوں کا نمونہ بھی پیش فرمایا اور گورنمنٹ کو اس طرف توجہ دلائی کہ عصمت انبیاء کو قائم کرنے اور کتب مقدسہ کے تقدس کو قائم رکھنے کے لئے ایسا قانون بنایا جائے کہ کوئی بھی مذہب والا اگر کسی دوسرے مذہب کے پیشوا اور ان کی کتب مقدسہ کے تقدس کو پامال کرتا ہے تو اسے حکومتی سطح پر ایک قراروا اجبی سزادی جائے.دنیا کا کوئی بھی ملک ہو اس وقت مختلف مذاہب کے ماننے والے وہاں پائے جاتے ہیں.جس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہندوستان کی حکومت کے سامنے یہ بات رکھی تھی اس وقت بھی ہندوستان تمام مذاہب کا اکھاڑا بن چکا تھا اسی لئے آپ نے گورنمنٹ کے سامنے تمام مذاہب کے تقدس کے قیام اور ملک میں امن قائم رکھنے کی خاطر تجاویز پیش کی تھیں لیکن افسوس کہ گورنمنٹ نے اس نہج پر قانون بنانے کی طرف توجہ نہ کی اگر چہ حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ تعزیرات کی دفعہ ۲۹۵ میں ۲۹۵۸ کا اضافہ سن ۱۹۲۷ء میں کیا گیا اور یہ کلاز اس طرح شامل کی گئی 1[295A,Deliberat and malicious acts, intended to outrage religious feelings of any class by insulting its religion or religious beliefs.--whoever, with deliberate
55 and malicious intention of outraging the religious feelings of any class of 2 [citizen of india ],3 [by words either spoken or written, or by signs or by visible.representations or otherwise], insults or attempts to insult the religion or the religious beliefs of that clacc ,shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to 4 [three years],or with fine,or with both.] (The indian penal code p -505 Universal new publishin co new delhi 2015 ad) اس دفعہ کو ی ۱۹۲ء میں شامل کیا گیا اس میں نمبر ۲ کے الفاظ ۱۹۵۰ میں زائد کئے گئے اور نمبر ۳ کے الفاظ کا اضافہ ۱۹۶۱ ء میں ہوا اسی طرح نمبر ۴ کے الفاظ بھی ۱۹۶۱ء میں ہی شامل کئے گئے تھے.جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان میں ہر مذہب کے ماننے والے پائے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے مذہب پر کسی نہ کسی طرح سے لوگ حملہ کرتے ہی رہتے ہیں جس سے مخالف کی ایذاء رسانی سے لوگ دکھ اٹھاتے ہی رہتے ہیں.اس لئے یہاں جو قا نو بنایا گیا اس میں کسی خاص مذہب کو ملحوظ رکھ کر یہ قانون نہیں بنایا گیا تھا اور نہ ہی اس قانون کو بنانے میں کسی مذہب کے اصول اور قانون کو ہی مد نظر رکھا گیا.عمومی تاثر اکثر مذاہب والوں کے نظریات سے یہ دکھائی دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نبی یا کسی مقدس کتاب کے لئے توہین آمیز الفاظ استعمال کرے تو بس ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے اور ہر کوئی مذہبی جنون
56 سے لبریز ہو کر اسی بات کا مطالبہ کرتا ہے اور اس سے کم پر راضی دکھائی نہیں دیتا.بلکہ اکثر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ لوگ حکومت وقت سے چارہ جوئی کرنے کی بجائے خود ہی حاکم بن کر قتل بھی کر دیتے ہیں اور ایسے شخص کو لوگ قوم کا ہیرو مان کر اس کی عزت و تکریم بھی شروع کر دیتے ہیں جبکہ ملکی قانون ایسا کرنے والے کو مجرم گردانتا ہے.آج مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے کوئی شخص قلم سے یا زبان سے توہین رسالت کرتا ہے تو بڑے بڑے علماء فوراً ایسے شخص کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری کر دیتے ہیں اور یہ لوگ ایسے فتویٰ کو عین اسلام بیان کرتے ہیں.لیکن جائزہ لینے والی بات یہ ہے کہ کیا یہ اسلام کی تعلیم ہے؟ قرآن کریم اس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ جبکہ قرآن کریم جابجا انصاف اور عدل کی تعلیم دیتا ہے.کیا کسی کی تقریر اور تحریر کا جواب قتل کی صورت میں دیا جانا جائز ہے؟ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطف علم کا اس سلسلہ میں اُسوہ کیا تھا؟ یہ سب تحقیق طلب باتیں ہیں جس کا انشاء اللہ تعالیٰ آگے چل کر جائزہ لیا جائے گا.
57 حق آزادی رائے اس سلسلہ میں بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے پیش کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے.اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کو اپنی بات رکھنے کا حق حاصل ہے.اور ہر مذہب اس کی اجازت دیتا ہے اور ہر حکومت اور ہر ملک بھی آزادی رائے کا حق دیتا ہے.لیکن جائزہ لینے والی یہ بات ہے کہ آزادی رائے کا حق کس حد تک ہے اور کس حد کے بعد حکومت اپنا بھی حق سمجھتی ہے.؟ دوسری بات یہ بھی دیکھنی ہوگی کہ آزادی رائے کو بنیاد بنا کر اگر کوئی کسی کے پیارے کی یا کسی کی مقدس کتاب کی تحریری طور پر یا تقریری طور پر یا عملی طور پر توہین کرتا ہے تو ایسی صورت میں اس سے بدلہ کسی صورت میں اور کس حد تک لیا جا سکتا ہے.؟ تیسری بات یہ بھی دیکھنے والی ہے کہ آزادی رائے کی بات کرنے والے اپنے بارے میں تو اس حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جب دوسرا بھی اس حق کو اپنے لئے استعمال کرنا چاہے تو اس پر کس حد تک پابندی لگانے کا حق حاصل ہے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے.اور یہ حق اسے ہر مذہب اور ہر حکومت دیتی ہے.اگر اس حق پر پابندی لگادی جائے تو کوئی بھی ملک و قوم ترقی نہیں کرسکتی.اور یہی حال مذہب کا بھی ہے دیکھا یہ جاتا ہے کہ لوگ سیاست میں رہن سہن، ثقافت، تجارت، صنعت و حرفت الغرض دنیا داری کے ہر معاملہ میں آزادی رائے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے پوری طرح اتفاق رائے اور اختلاف رائے کو برداشت کرتے ہیں.لیکن جیسے ہی مذہب کا معاملہ آتا ہے توسب کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں اور وہاں آرائی کرائے پر تبررکھ دی جاتی ہے اور اسے برداشت نہیں کیا جاتا.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر معاملہ میں آزادی رائے کا ہر شخص کو حق حاصل ہے تو پھر مذہب کے معاملہ میں یہ حق
58 کیوں چھینا جاتا ہے؟ حالانکہ غایت نظر سے دیکھا جائے تو آزادی رائے کا حق دراصل مذہب ہی نے انسان کو دیا ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رہبر نہیں آیا تھا اس وقت تک انسان اور جانور میں کوئی فرق نہ تھا.دنیا میں زندگی گزارنے کے اصول اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے انبیاء ہی نے سکھائے ہیں.اور وہ بھی آہستہ آہستہ جیسے جیسے انسانی عقل پروان چڑھتی گئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مطابق انبیاء کے ذریعہ اس کی ھدایت کے سامان پیدا ہوتے رہے اور انسان آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا یہاں تک کے وہ اشرف المخلوقات ٹھہرا.دنیا میں انبیاء کا سلسلہ ابتداء آفرینش سے ہے اللہ تعالیٰ کے انبیاء نے اللہ سے حکم پا کر انسان کی راہنمائی کی.سلسلہ انبیاء کو دیکھا جائے تو جب بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کوئی پیغام دنیا والوں کو دیا تو دنیا والوں نے ہمیشہ ہی ان سے اختلاف کیا اور انکار کیا.اس انکار کی بڑی وجہ ہی یہی رہی کہ وہ اپنے اباء و اجداد ہی کے دین کو سچا مانتے تھے اور کسی نئے نبی کے آنے کا تصور بھی نہیں رکھتے.ہاں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ فراصت عطا کرتا ہے وہ آنے والے انبیاء کو قبول کرتے ہیں.اس اختلاف کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انکار کرنے والے ہمیشہ ہی ایمان لانے والوں کو بے دین اور مرتد کے خطابات سے نوازتے رہے ہیں.اور انہیں ہمیشہ ہی تو ہین انبیاء کے مرتکب گردانتے رہے.ہوتا یہ ہے کہ انبیاء پر ایمان لانے والے سابقہ انبیاء کے بارے میں اپنی زبان سے کوئی بھی ایسا جملہ نہیں نکالتے جس سے ان انبیاء کی توہین ہو کیونکہ وہ انہیں آنے والے نبی پر ایمان لانے سے قبل بھی سچا نبی ہی مانتے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں اس لئے آنے والے بنی پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ سابقہ انبیاء کو بھی اسی طرح کا سچا اور قابل تعظیم نبی مانتے ہیں اس لئے ان کی طرف سے تو انبیاء کی توہین کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو
59 ہمیشہ یہی دکھائی دیگا کہ انبیاء کا انکار کرنے والوں ہی نے ہمیشہ ایسے الزام ایمان لانے والوں پر لگائے ہیں.اور ان کے خلاف کفر کے فتوے بھی دئے اور قتل کے فتوے بھی دئے.ایسی ایک بھی مثال کسی بھی نبی کی زندگی سے پیش نہیں کی جاسکتی.انبیاء کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے.بڑی عجیب بات ہے کہ جب بھی کوئی نبی آیا تو ہمیشہ اس کا انکار کرنے والوں ہی نے اس سے اور اس پر ایمان لانے والوں سے زیادتی کی اور ان پر الزامات بھی لگائے.اور ان کے لئے توہین آمیز الفاظ بھی استعمال کئے ایمان لانے والوں کو دکھ بھی دئے اور ان کو مارا پیٹا بھی گیا اور قتل تک کیا گیا اس کے مقابلہ پر انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں نے انکار کرنے والوں سے کبھی بھی ایسا سلوک نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان سے درگذری کی اور ان کی گستاخیوں کے باوجود انہیں معاف کیا.اگر سابقہ انبیاء کا ذکر نہ بھی کیا جائے تو بھی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفے علم کا اسوۃ اور نمونہ شہادت کے لئے کافی ہے.حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ رسول کریم علی ایم کو تحیک و استھر.اء کا نشانہ بنانے والے ہر زمانے میں موجود رہے ہیں.حتی کہ سید نا حضرت محمد مصطفی ملی لی ایم کے عہد مبارک میں بھی موجود تھے لیکن غور کرنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ایسے گستاخان رسول کے ساتھ خود سیدنا محمد مصطفی صلا علم کا اپنا سلوک و طریق کیا تھا.ایسے نازک وحساس اور جزباتی معاملہ پر مسلمانوں کو اسوہ رسول کریم صلہ پر ہی عمل کرنا چاہئے.کیونکہ اسی میں اسلام کی تعلیمات اور اخلاق کی سر بلندی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رسول کریم ملایم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا X وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ( سورة القلم آيت 5) اے محمد آپ نہایت ہی علی درجہ کے اخلاق پر قائم ہیں.
60 60 وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (سورة الانبياء آيت 106) یعنی ہم نے تجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر بھیجا.وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (سورۃ المائدہ آیت 68) اللہ تجھے لوگوں کے حملوں سے محفوظ رکھے گا.پہلی آیت میں بیان ہوا ہے کہ محملی نہایت ہی اعلی اخلاق پر قائم ہیں.رسول کریم علم کی حیات طیبہ شاہد ہے کہ آپ مالی نے ہر نازک سے نازک موقعہ پر بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ فرمایا.حالات کے ہر موڑ پر اپنے اور بے گانوں نے آپ کے اعلیٰ اخلاق کو ہی دیکھا.چند مثالیں پیش ہیں.- ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ سیدنا حضرت محمد مصطفے سلام کے پاس چند یہودی آئے.اور انہوں نے السّلامُ عَلَيْكُمْ کی بجاے السّامُ عَلَيْكَ يَا آبَا القاسم کہا.یعنی مجھ پر ہلاکت ہو ( نعوذبااللہ ) رسول کریم ملایا لیلی نے جواب میں صرف اتنا فرمایا عَلَیكُم یعنی ( جو کچھ تم نے مجھے کہا ہے وہ تمہیں پر ہو ) حضرت عائشہؓ نے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا * "عَلَيْكُمُ السَّامُ النَّامُ “ یعنی تم پر ہی ہلاکت ہو تمہاری مذمت ہو آنحضرت علی نے حضرت عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا * يَا عَائِشَةُ لا تكوني فَاحِشَةً “اے عائشہ سخت کلامی سے پر ہیز کرو.حضرت عائشہ نے فرمایا حضور آپ نے سنا نہیں کہ یہود نے کیا کہا ہے.رسول کریم علی نے فرمایا کہ سنا ہے.اور کیا تم نے میرا جواب نہیں سنا.قُلْتُ عَلَيْكُمْ.جو تم نے کہا وہ تم پر لوٹے.رسول کریم مال لیلی نے حضرت عائشہ کو فرمایا يَا عائشة - إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ.اے عائشہ یقینا اللہ ہر معاملہ میں نرمی پسند کرتا ہے.(صحیح مسلم کتاب السلام )
61 حضرت مصلح موعود اس حدیث کے سلسلہ میں فرماتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی یہ عادت تھی کہ وہ رسول کریم ملایم کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرتے جو گستاخانہ بھی ہوتے اور عامیانہ بھی.اور اس سے انکا مقصد محض رسول کریم علیم کی تذلیل اور آپ کا استخفاف ہوتا.(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 90) اس حدیث سے یہ علم ہوتا ہے کہ مخالفین اسلام آنحضرت علی کے عہد مبارک میں گستاخیاں کرتے رہیں مگر آپ نے ہر موقعہ پر اعلی اخلاق کا نمونہ دکھلایا.مدینہ میں آپ صاحب اقتدار تھے.اگر آپ چاہتے تو ایسی تو بین اور گستاخی کرنے والوں کو قتل کروا سکتے تھے یا کوئی اور سزا دلوا سکتے تھے.مگر آپ نے ایسا نہیں کیا.بلکہ حضرت ام المومنین کے ذریعہ رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ اللہ تعالی بدزبان کو پسند نہیں کرتا.اس لئے کسی مسلمان کو بد زبانی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ للہ تعالی کو پسند نہیں.مدینہ میں سب سے بڑا گستاخ رسول عبد اللہ بن ابی سلول رئیس المنافقین تھا.اس کا تعلق مدینہ کے ایک عرب قبیلہ خزرج سے تھا.پیشخص بظاہر تو مسلمان تھا مگر اندرونی اور باطنی اور پر آنحضرت علیم کا بدترین دشمن و مخالف تھا.وہ مسلمانوں کو باہم لڑوانے اور انہیں قصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں ہونے دیتا تھا.خفیہ سازشیں کرنا اس کا معمول تھا.یہی وہ شخص تھا جس نے غزوہ مصطلق پر سیدنا محمدعلی کی نسبت اعلان کیا تھا کہ لَئِن جَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِ جَنَّ الْأَعْرُ مِنْهَا الْأَفَلَ ( سورۃ المنافقون سورة آیت 9) یعنی اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو جو مدینہ کا سب سے معزز آدمی ہے ( یعنی وہ ) مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی کو اس سے نکال دے گا.معزز آدمی سے مراد اس کی اپنی ذات
62 تھی.اور ذلیل سے مراد ( العیاذ باللہ ) نبی کریم ملایم تھے.اُس کی مخالفانہ کاروائیوں سے تو تاریخ اسلام بھری پڑی ہے.جن کا بیان محدود وقت میں ممکن نہیں.بطور نمونہ چند کا ذکر کیا جاتا ہے.شوال 3 ھ بمطابق مارچ 624 میں کفار مکہ غز وہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے ابو سفیان کی سر کردگی میں تین ہزار جنگجوؤں کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کے لئے مدینہ کی طرف بڑھ رہا تھا.آنحضرت علی کی سرکردگی میں مسلمانوں کا ایک ہزار افراد پر مشتمل لشکر ان کو مدینہ پر حملہ کرنے سے روکنے کے لئے احد کے میدان کی طرف روانہ ہوا.ایسے خطر ناک اور نازک وقت میں عبد اللہ بن ابی بن سلول نے غداری کی اور راستے سے اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ واپس مدینہ لوٹ گیا.دنیا کے ہر ایک ملک اور قوم میں غذاری کی سزا موت ہے.مگر اس فڈ اٹ‘ اور گستاخ کو رسول کریم ملا لیا لیلی نے دنیا کے حکمر ان کی طرح موت کی سز انہیں دی بلکہ اُسے اس کے حال پر چھوڑ دیا.قرآن کریم کے بیان کے مطابق جس کا اوپر کی ایک آیت میں ذکر کیا ہے غزوہ بنو مصطلق کے موقعہ پر اسی نے یہ اعلان کیا تھا کہ مدینہ جا کر عزت والا شخص یا گروہ ذلیل شخص یا گروہ کو مدینہ سے باہر نکال دیگا.عبداللہ بن ابی سلول کا بیٹا جو ایک مخلص صحابی تھا جب یہ بات اُس نے سنی تو گھبرایا ہوا آنحضرت عیلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میں نے سنا ہے کہ آپ میرے باپ کی گستاخیوں کی وجہ سے اسکے قتل کا حکم دینا چاہتے ہیں.اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو آپ مجھے حکم فرمائیں میں ابھی اپنے باپ کا سرکاٹ کر آپ کے قدموں میں لاڈالتا ہوں.مگر آپ کسی اور کو ایسا ارشاد نہ فرمائیں کیوں کہ میں ڈرتا ہوں کہ کوئی جاہلیت کی رگ میرے بدن میں جوش مارے اور میں اپنے باپ کے قاتل کو کسی وقت کوئی نقصان پہنچا بیٹھوں اور خدا کی رضا چاہتا ہو بھی جہنم میں جا گروں.
63 سیدنا حضرت محمد مصطفے صلیم نے اس موقعہ پر اسے تسلی دی اور فرمایا ہمارا ارادہ اُسے قتل کرنے کا ہر گز نہیں بلکہ ہم تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے.مگر اللہ تعالی نے عبد اللہ بن ابی سلول کو گستاخی کی سزا خود ا سکے بیٹے کے ذریعہ دلوادی وہ اس طرح کہ جب لشکر اسلامی مدینہ کی طرف لوٹا تو عبد اللہ اپنے باپ کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا خدا کی قسم میں تمہیں مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم اپنے منہ سے یہ اقرار نہ کرو کہ رسول الله صلى لم معزز ہیں اور تم ذلیل ہو.آخر عبد اللہ ابن ابی سلول نے مجبور ہو کر یہ اقرار کیا کہ سیدنا محمد مصطف علی ہی معزز و مکرم ہیں اور میں ذلیل ہوں.اس واقعہ سے واضح ہے کہ اللہ تعالی نے گستاخ رسول کی گستاخی کی سزا خود ہی اس کے اپنے بیٹے کے ذریعہ دلوادی.عبداللہ ابن ابی سلول جب مرض الموت میں مبتلا تھا رسول کریم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.عبد اللہ بن ابی سلول نے آنحضرت علی سے کہا کہ مجھے اپنی قمیص عطا فرمائیں جو آپ نے پہن رکھی ہے اور اسی میں میری تکلمین فرمائیں میری نماز جنازہ پڑھائیں اور میرے لئے دعائے مغفرت بھی کریں.ماہ ذی قعدہ 2 ھجری یعنی 631 عیسوی کو عبداللہ بن ابی سلول کی وفات ہو گئی.جب رسول کریم اُس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو روک کر اس کی ساری گستاخیوں کا ذکر کر کے عرض کیا کہ کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جو رئیس المنافقین ہے کیا ایسے لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کرنے سے اللہ تعالی نے منع نہیں فرمایا ہے رسول کریم ملایم نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالی نے اختیار دیا ہے کہ استغْفِرْ لَهُمْ أَوْلَا تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ ، (التو به آیت 80)
64 تو اُن کے لئے استغفار کر یا نہ کر ان کے لئے برابر ہے.اگر تو ان کے لئے ستر بار بھی استغفار کریگا تو اللہ ان کو کبھی معاف نہیں کریگا.رسول کریم عالم نے فرمایا کہ اگر مجھے علم ہو جائے کہ ان کے لئے ستر مرتبہ سے زیادہ مغفرت مانگنے سے اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں وہ بھی کرتا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ رحمةٌ لِلعالمین کے جذبہ رحمت کی تاب نہ لا سکے اور پیچھے ہٹ گئے.جنازہ کے بعد اسے قبر میں اتارا گیا تو آپ نے اسے واپس نکالنے کا حکم دیا.نکلوانے کے بعد آپ نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ پر انڈیلااور اسے قبر میں اتارنے کا حکم دیا.تدفین کے بعد آپ واپس لوٹے تو اللہ تعالی نے حکم دیا وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ (التو به آیت 84) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو عبد اللہ بن ابی بن سلول کا جنازہ پڑھانے سے قبل ہی رسول کریم ام پر مذکورہ آیات نازل فرما سکتا تھا اور نماز جنازہ ادا کرنے سے روک سکتا تھا.مگر ایسا نہیں کیا غالباً اس میں حکمت یہ تھی اللہ تعالی اپنوں اور بیگانوں کو یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ اے دنیا والو دیکھو جسے میں نے رحمةٌ لِلعالمین بنایا ہے اور اعلی اخلاق سے ممیز کیا ہے، اس کی رحمت اور اعلی اخلاق کا اندازہ لگاؤ کہ اشد ترین گستاخ بھی اس کی رحمت سے محروم نہیں رہا.اگر عبد اللہ بن ابی سلول کے جنازہ ادا کرنے سے قبل یہ حکم نازل ہو جا تا تو سیدنامحمد مصطفے علم کی رحمت اور اعلی اخلاق کا عظیم جلوہ دنیا کے سامنے نہ آتا.اسی طرح ایک مرتبہ نبی کریم علی انصاری سردار حضرت سعد بن عبادہ کے عیادت کے لئے تشریف لے گئے.راستہ میں یہود مشرکین اور مسلمانوں کی ایک مجلس میں یہی منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی سلول بھی موجود تھا.رسول اللہ کی سواری کے آنے سے گرد اٹھی تو اس نے
65 رض مینہ ڈھانپ لیا اور رسول اللہ کو برابھلا کہنے لگا.نبی کریم جب سعد بن عبادہ کے گھر پہنچے اور ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے عبداللہ بن ابی سلول سے درگذر کرنے کی درخواست کی.اور رسول کریم ملایم نے اسے معاف کر دیا.( بخاری کتاب الاستیذان باب ۲) دوسری روایت میں ہے کہ رسول کریم عالی می کنیم سردار منافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کے پاس سے گزرے وہ ٹیلوں کے سایہ میں بیٹھا ہوا تھا، ناک بھوں چڑھا کر حقارت سے نبی کریم عالم کو ابن ابی کبشہ کے نام سے پکار کر کہنے لگا کہ اس نے اپنی ساری عبار ہم پر ڈالی ہے.اس کے بیٹے عبداللہ نے جو ایک مخلص صحابی اور عاشق رسول تھے عرض کیا یا رسول اللہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت عطا فرمائی ہے.اگر آپ ارشاد فرمائیں تو میں اس کا سر قلم کر کے لهش آؤں.نبی کریم علیم نے فرمایا نہیں وہ تمہارا باپ ہے اس سے نیکی اور احسان کا سلوک کرو.( مجمع الزوائدا سیستمی جلد ۳ صفحه ۳۱۸) ایک اندازے کے مطابق آنحضرت علی پر قرآن مجید کا نزول 24 رمضان بمطابق 20 اگست 610 کو ہوا اور آپ نے مکہ والوں کے مظالم سے تنگ آکر مورخہ 28 صفر 1 ھجری بمطابق 622 کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی.کم و پیش بارہ تیرہ سال آنحضرت علی نے کفار مکہ کی گستاخیوں اور زیادتیوں کو بڑے صبر و تحمل سے برداشت کیا.ان سے انتہائی گھٹیا اور تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ سنے کسی نے کہا : إِنَّكَ لَمَجْنُون(الحجر آیت.7) اے محمد یقین تو ایک دیوانہ ہے.اور کسی نے کہا وَقَالَ الكَفِرُونَ هَذَا سُحِرٌ كَذَّابٌ ( سورة ص آیت ( ) محمد ال کی تو ایک ساحر اور جھوٹا ہے.کسی نے یہ کہا کہ محمدعلی ملایم تواتر ہیں اور کسی نے مقطوع النسل کہا آپ انتہائی تکلیف دہ
66 باتیں سنتے اور خاموش رہتے اور صبر کرتے.کفار مکہ کے گستاخ رویے کی تفصیل کے لئے ہے ہے شمار واقعات میں سے صرف دو بیان کرتا ہوں.تاریخ اسلام اور سیرت کی کتب میں ذکر کہ سیدنا حضرت محمد مصطف علی کی ایک دن مکہ میں خانہ کعبہ کے قریب صفا پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تھے.اس دوران وہاں سے ابو جہل گزر رہا تھا.اس نے حضور صلیم کو بلا وجہ گالیاں دینی شروع کر دیں.وہ گالیاں دیتارہا اور حضور علی خاموشی سے سنتے رہے.کسی قسم کے رڈ عمل کا اظہار نہیں فرمایا.حضرت حمزہ کی ایک لونڈی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی.رسول کریم علی ایم کی مظلومیت اور خاموشی سے بہت متاثر ہوئی.حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جب جنگل سے شکار کھیل کر واپس آئے تو اس لونڈی نے حضرت حمزہ کو کہا کہ آپ کے بھتیجے کو ابو جہل نے بہت گالیاں دیں اور حضرت محمد مصطفے عمل کے سامنے سے بالکل خاموش رہے.حضرت حمزہ گو مسلمان نہ تھے مگر دل کے شریف تھے.جب حضرت حمزہ نے یہ واقعہ سنا اسی وقت سید ھے خانہ کعبہ کی طرف گئے وہاں ابوجہل بیٹھا تھا.آپ نے اسکے سر پر کمان ماری اور ابو جہل کو مخاطب کر کے کہا کہ میں ابھی محمد ام کے مذہب کو اختیار کرتا ہوں تم نے صبح صبح اسے بلاوجہ گالیاں کیوں دیں؟ کیا اس لئے کہ وہ آگے سے جواب نہیں دیتا؟ اگر بہادر ہو تو اب میری مار کا جواب دو.ابوجہل نے اس خیال سے کہ اگرلڑائی شروع ہو گئی تو اس کا نتیجہ نہایت خطرناک نکلے گا اس لئے مصلحت سے کام لیتے ہوئے ان سے کہا کہ چلو جانے دوز یادتی میری طرف سے ہوئی تھی میں نے آپ کے بھتیجے کو بہت گالیاں دیں.) سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 311) اگر غور کیا جائے تو اس واقعہ میں عصر حاضر کے مسلمانوں کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے.اسلام
67 کا اشد ترین دشمن گالیاں دیتا رہا.آنحضرت بلا یہ خاموش رہے آپ نے کبھی بھی اس سے بدلہ نہ لیا دوسری طرف اس مظلومانہ خاموشی کے باعث حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو ایک صحابی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول کریم لالایی کعبہ کے قریب کھڑے نما زادا کر رہے تھے اور کفار قریش کا ایک گروہ قریب ہی مجلس لگائے ہوئے بیٹھا تھا ان میں سے کسی نے کہا کہ کوئی ہے جو گند اور گوبر سے بھری ہوئی اونٹ کی اوجھری اس محمد کے دونوں کندھوں کے درمیان اس وقت رکھ دے جب کہ وہ سجدہ میں ہو.ایک کا فرظالم گیا اور او جھری لے آیا اور آپ کے کندھوں پر رکھ دی.ہمارے آقا سجدے کی حالت میں ہی پڑے رہے اور کفار مکہ ہنسنے لگے.ہنسی کے مارے وہ ایک دوسرے پر جھک جھک جاتے تھے.یہ منظر دیکھ کر کسی نے جا کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کو خبر دی.وہ بھاگتی ہوئی آئیں.اور اس اوجھری کو آپ کے کندھوں سے ہٹایا.جب رسول کریم نماز مکمل کر چکے تو فرما اللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش: اے اللہ تو ہی قریش سے سمجھ اے اللہ تو ہی قریش سے سمجھ.پھر آپ نے نام لیا ، اے اللہ ! عمر بن ہشام ، عتبہ بن ربیع ، شیبہ بن ربیع ، ولید بن عتبہ، امیہ بن حلف اور عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید سے سمجھ.حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کی اللہ کی قسم میں نے خود ان سب کو بدر کے میدان میں مقتول پایا.پھر ان کو بدر کے میدان میں ایک گڑھا کھود کر گھسیٹ کر پھینکا گیا.پھر رسول کریم علیم نے فرمایا کہ کنویں والے لعنت کے نیچے ہیں.( صحیح بخاری کتاب الصلاة باب المراة تطرح عن المصلّى) جب آنحضرت علیم کی بعثت مبارکہ پر دس سال گزر گئے اور مکہ والوں کی مخالفت
68 اور گستاخیوں میں روز بروز اضافہ ہونے لگا تو آپ نے تبلیغ اسلام کے لئے طائف جانے کا فیصلہ فرمایا یہ مقام مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلہ پر تھا.چنانچہ مئی یا جون 19 کو آپ وہاں تشریف لے گئے اور دس دن قیام فرمایا.اہل طائف نے بھی انتہائی گستاخانہ رویہ اختیار کیا.وہاں کے رئیس عبدیالیل ( یا ابن عبدیالیل ) نے شہر کے آوارہ آدمی آپ کے پیچھے لگادئیے.جب آنحضرت علی کی شہر سے نکلے تو ان گستاخ اور شر پسندلوگوں نے آپ پر اتنا پتھراؤ کیا کہ آپ کا سارا بدن خون سے تر بتر ہو گیا.تین میل تک یہ لوگ آپ کے ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور پتھر برساتے چلے آئے.ایک دفعہ رسول کریم ملایا لیلی نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ سے فرمایا عائشہ تیری قوم کی طرف سے مجھے بڑی بڑی سخت گھڑیاں دیکھنی پڑی ہیں.اور پھر آپ نے سفر طائف کے حالات سنائے اور فرمایا کہ اس سفر سے واپسی پر میرے پاس پہاڑوں کا فرشتہ آیا اور کہنے لگا يا محمد.....إِنْ شِئْتَ أنْ أطبقَ عَلَيْهِمُ الأَخْشَبَيْنِ ( بخاری کتاب ، بدء الخلق باب اذا قال احد کم امین اے محمد اگر آپ چاہیں تو میں اس انشین کے دو پہاڑوں سے ان لوگوں کو کچل دوں.اگر اسلام میں ایسی گستاخی کی سزا قتل اور ہلاکت ہوتی اور رسول کریم علی کی اہل طائف کو سزا دلوا نا یا بلاک کروانا چاہتے تو فورا جواب دیتے ہاں انہیں کچل کر رکھ دیا جائے ان کی گستاخیاں معافی کے قابل نہیں.مگر اس کربناک حالت میں بھی رحمۃ اللعالمین حضرت اقدس محمد مصطف عالم نے پہاڑوں کے فرشتوں کو جواب دیا کہ * بل ارجُوا أَنْ يُخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصلَا بِهِم مَن يعْبُدُ الله وحده لا يُغيرك به شيئًا
69 انہیں ان کی گستاخیوں کے باوجود ہلاک نہ کیا جائے ، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان کے اصلاب یعنی اولاد سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے.یہ ہے آنحضرت صل الم کا اسوہ اور دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قوموں کو اور ان کی نسلوں کو ھدایت نصیب کی اور وہ لوگ خدائے واحد کے پرستار ہو گئے حضرت نبی کریم عالم کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کئے ہوئے ساتواں سال گزر رہا تھا کہ جمادی الثانی ہجری بمطابق اکتوبر نومبر 628 میں آپ کو اطلاع ملی کہ بمقام نجد میں قبیلہ عطفان اور بنو ثعلبہ مسلمانوں پر حملہ کی تیاری کر رہے ہیں.آپ چند سوصحابہ کے ساتھ اس کے ممکنہ حملہ کو روکنے کے لئے نجد کی طرف روانہ ہو گئے.قبیلہ عطفان والے ڈر گئے اور راہِ فرار اختیار کی.جب نبی کریم مدینہ کی طرف واپس لوٹ رہے تھے تو راستے میں آپ ایک سایہ دار درخت کے نیچے آرام فرمانے کے لئے ٹھہر گئے اور تلوار درخت سے لٹکا دی.صحابہ کرام بھی آرام کرنے کے لئے مختلف درختوں کے سایہ میں آرام کرنے لگے.اسی حالت میں ایک دشمن آیا اور نبی کریم علیم کی تلوار ہاتھ میں پکڑ کر آپ کو نیند سے جگایا اور پوچھا مَن يَمنَعُكَ میلی مجھ سے تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم بیلا نے جواب دیا اللہ.یہ سنتا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی.حضور علی نے تلوار اٹھائی اور اس گستاخ دشمن سے پوچھا اب مجھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے.اس پر وہ ڈر کر کہنے لگا آپ ہی ہیں جو مجھ پر رحم کریں.آپ نے اس سے پوچھا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالی کارسول ہوں.اس گستاخ رحمن نے جواب دیا نہیں لیکن میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ آپ سے کبھی نہیں لڑونگا.رحمتہ اللعالمین نے اس بڑے گستاخ ودشمن کو آزاد کر دیا.وہ اپنے ساتھیوں
70 سے جاملا اور ان کو بتایا کہ میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا میں سب سے ؟ ( بحوالہ بخاری کتاب المغاری باب غزوہ ذات الرقاع ) اب دیکھیں دنیا کے ہر قانون کے مطابق قاتلانہ حملہ کرنے والوں کی سزا موت ہے مگر سیدنا محمد مصطفی علی نے ایسے سنگین جرم کے ارتکاب کرنے والے گستاخ کو بھی معاف فرمایا اور کوئی بھی سزا نہ دیکر کر ایک مثال اور نمونہ قائم فرما دیا.عہد رسول خدا سلام میں بڑے بڑے گستاخان رسول میں سے ایک شخص تمامه بن أقال تھا.یہ شخص یمامہ کا رہنے والا تھا.قبیلہ بنو حنیفہ کا ایک با اثر رئیس تھا.ہمیشہ بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے درپے رہتا تھا.ایک دفعہ مسلمان اُس کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئے.نبی کریم نے اس زمانہ کے رواج کے مطابق مسجد نبوی کے صحن میں ہی کسی ستون کے ساتھ باندھ کر قید کر دیا.آنحضرت صلا لا علم ہر روز صبح کے وقت شمامہ کے قریب تشریف لے جاتے.اور حال پوچھ کر در یافت فرماتے کہ عمامہ بتاؤ اب کیا ارادہ ہے؟ شمامہ جواب دیتا، اے محمد ! ( م ) اگر آپ مجھے قتل کر دیتے تو آپ کو اس کا حق ہے کیوں کہ میرے خلاف خون کا الزام ہے لیکن اگر آپ احسان کریں تو آپ مجھے شکر گزار پائیں گے اگر آپ فدیہ لینا چاہیں تو میں فدیہ دینے کے لئے بھی تیار ہوں، تین دن تک یہی سوال جواب ہوتا رہا.آخر تیسرے دن آنحضرت علیا لیلی نے از خود صحابہ رضی اللہ سے ارشاد فرمایا کہ شمامہ کو کھول کر آزاد کر دو“ صحابہ رضی اللہ نظم نے فورا آزاد کر دیا اور شمامہ جلدی جلدی مسجد سے نکل کر باہر چلا گیا.صحابہ یہ سمجھے ہوں گے کہ اب وہ اپنے وطن کی طرف واپس لوٹ جائیگا.مگر آنحضرت میں اسلام سمجھ چکے تھے کہ شمامہ کا دل مفتوح ہو چکا ہے.چنانچہ وہ ایک قریب کے باغ میں گیا اور وہاں سے نہا دھو کر
71 واپس آیا اور آتے ہی آنحضرت تعلیم کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا.والله مَا كَانَ عَلَى الارضِ وَجهُ أَبْغَضَ إِلى مِن وَجْهِكَ فَقَد أَصبَحَ وَجُهُ أَحَبَّ الوُجُودِ الَى وَاللهِ مَا كَانَ مِن دِين ابغَضَ إِلى مِن دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَى وَاللهِ مَا كانَ مِن بَلْدِ أَبغَضَ إِلى مِن بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بلدك أحب البلاد الى ( بخاری کتاب المغاری ) اے محمد عال العالم ! خدا کی قسم اس روئے زمین پر جتنے چہرے ہیں ان میں سے مجھے سب سے زیادہ نفرت آپ کے چہرے سے تھی مگر اب خدا کی قسم مجھے آپ کا چہرا سب سے زیادہ محبوب اور پیارا ہے.خدا کی قسم آپ کے دین سے زیادہ مجھے کوئی دین نا پسند نہ تھا لیکن آج مجھے آپ کا دین سب سے پیارا ہے.خدا کی قسم آپ کے شہر سے زیادہ کوئی شہر ناپسند تھا لیکن آج یہ مجھے سب شہروں سے پیارا ہے.اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفے ملا لیا لیلی نے بڑے بڑے گستاخی کرنے والوں کو اپنی دعا اور توجہ اور اپنے حسن اخلاق سے اپنا گرویدہ بنالیا.جولوگ اسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے وہی اسلام کے سب سے بڑے خدمت گزار بن گئے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گالی دی.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے.آنحضرت علی وہاں موجود تھے آپ متعجب تھے اور مسکراتے رہے.جب اس آدمی نے زیادہ گالیاں دینی شروع کیں تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا.آنحضرت صلیم ناراض ہو گئے اور وہاں سے روانہ ہو گئے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑے اور حضور علیم کی خدمت میں عرض کیا.جب وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا تو آپ وہاں تشریف فرمار ہے.اور جب
72 میں نے گالیوں کا جواب دیا تو آپ مالی ناراض ہو کر چلے آئے، آنحضرت میم نے فرمایا.كان مَعَكَ مَلَكَ يَرُدُّ عَلَيهِ فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَيْهِ وَقَعَ الشَّيْطَانُ ( مشکوۃ کتاب الآداب باب الرفق) اے حضرت ابوبکر جب تک آپ گالیاں دینے والے کے سامنے خاموش تھے فرشتہ اسے جواب دے رہا تھا.مگر جب آپ نے جواب دینا شروع کیا تو شیطان آگیا اور اس وجہ سے میں وہاں سے چلا آیا.ایک مرتبہ ایک بڈو نے آپ کی خدمت میں دست سوال دراز کرتے ہوئے عجیب گستاخانه طریق اختیار کیا.آپ کی چادر کو اس نے اتنے زور سے کھینچا کہ آپ کی گردن مبارک پر نشان پڑ گئے اور پھر بڑی ڈھٹائی سے کہنے لگا مجھے اللہ کے اس مال سے ادا کریں جو آپ کے پاس (امانت) ہے.آپ نے اس دیہاتی کے اس رویہ پر صرف صبر و ضبط اور تمنمل کا مظاہرہ کیا بلکہ نہایت فراخدلی سے مسکراتے ہوئے اس کی امداد کرنے کا حکم دیا.( بخاری کتاب النفقات و كتاب اللباس باب البرد ) ایک دفعہ رسول کریم نے ایک بڈو سے ایک وسق خشک کھجور ( قریباً سواد ومن ) کے عوض اونٹ خریدا.گھر تشریف لا کر دیکھا تو کجھور ختم ہو چکی تھی.آپ نے کمال سادگی اور سچائی سے جا کر اس بڈو سے صاف صاف کہا کہ اے خدا کے بندے ! ہم نے آپ سے خشک کھجور کے عوض اونٹ خریدا تھا اور ہمیں خیال تھا کہ اس قدر کھجور ہمارے پاس ہوگی مگر گھر آ کر پتہ چلا ہے کہ اتنی کھجور موجود نہیں.وہ بڈو کہنے لگا اے دھو کے باز لوگ اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے کہ رسول اللہ گو اس طرح کہتے ہو.مگر رسول کریم نے فرمایا اسے جانے دو..(مسند احمد جلد 6 صفحه 268 شائع شدہ بیروت)
73 محاصرہ طائف کی واپسی پر مشہور شاعر کعب بن زہیر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا دراصل اس کے والدز ہیر نے اہل کتاب کی مجالس میں ایک نبی کی آمد کا ذکر سن رکھا تھا اور اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ اسے قبول کریں.رسول اللہ کی بعثت پر اس کے ایک بیٹے بجیر نے تو اسلام قبول کر لیا.جب کی کعب رسول اللہ اور مسلمان خواتین کی عزت پر حملہ کرتے ہوئے گندے اشعار کہتا تھا.فتنہ پردازی کرتا لوگوں کو آپ کے خلاف مشتعل کرتا تھا اس بنا پر رسول اللہ نے اس کے قتل کا حکم دیا.کعب کے بھائی نے اسے لکھا کہ مکہ فتح ہو چکا ہے اس لئے تم آکر رسول اللہ سے معافی مانگ لو.چنانچہ اس نے رسول اللہ کی شان میں ایک قصیدہ لکھا جو بانٹ سُعادُ“ کے نام سے مشہور ہے.وہ مدینہ آ کر اپنے ایک جاننے والے کے پاس ٹھہرا.اہل مدینہ میں سے اسے کوئی پہچانتا نہ تھا.اس نے فجر کی نماز نبی کریم علیم کے ساتھ مسجد نبوی میں جا کر ادا کی اور رسول اللہ کی خدمت میں اپنا تعارف کروائے بغیر کہنے لگا یا رسول اللہ ! کعب بن زہیر تائب ہو کر آیا ہے اور معافی کا خواستگار ہے اگر اجازت ہو تو اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے؟ آپ نے فرمایا ” ہاں تو کہنے لگا میں ہی کعب بن زہیر ہوں یہ سنتے ہی ایک انصاری حضور کے سابقہ حکم کے مطابق اسے قتل کرنے کے لئے اٹھے.رسول اللہ نے فرمایا نہیں اب اسے چھوڑ دو یہ معافی کا خواستگار ہو کر آیا ہے.پھر اس نے اپنا قصیدہ حضور کی شان میں پیش کیا جس میں یہ شعر بھی پڑھا.إِنَّ الرَسُوْلَ لَسَيْف يُسْتَضَاءُ بِهِ مُهَنَّدُ مِنْ سَيُوْفِ اللَّهِ مَسْلُولُ یعنی یہ رسول ایک ایسی تلوار ہے جس کی چمک سے روشنی حاصل کی جاتی ہے.یہ زبر دست سونتی ہوئی ہندی تلوار ہے جو اللہ کی تلوار میں سے ہے.رسول اللہ یہ قصیدہ سن کر بہت خوش
74 ہوئے اور اپنی چادر دست مبارک سے بطور انعام اس کے اوپر ڈال دی.یوں یہ دشمن رسول آپ کے دربار سے معافی کے ساتھ انعام بھی لیکر لوٹا.) سیرت حلبیہ جلد 3 صفحہ 215, 214 بحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ 566.567 مطبوعہ مصطفے اکیڈمی لاہور ) اگر دیکھا جائے تو آنحضرت علیم کی سیرت میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں کہ دشمنان رسول نے آنحضرت علیم کے سامنے کئی کئی مرتبہ گستاخیاں کیں برا بھلا کہا اور ان کی لمبی داستانیں موجود ہیں لیکن آپ نے ان کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کیا اور درگزر فرمایا.اس کے مقابل پر ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کی جاسکتی کہ آپ نے کسی کے ساتھ گستاخیاں کی ہوں اور کسی معاملہ میں زیادتی کی ہو.اس بات میں بھی شک نہیں کہ رسول کریم صلی نے بعض لوگوں کو جو حد سے آگے گزر گئے تھے انہیں قتل کرنے کا بھی حکم دیالیکن یہ حکم صرف زبان سے گستاخانہ کلمات کہنے کی بنا پر نہیں دیا بلکہ دیکھا جائے تو ایسے لوگوں کی زبانی گستاخیوں کے ساتھ ساتھ خود رسول خدا صلی علیم اور مسلمانوں کے خلاف قتل کی سازشوں، غداری بغاوت اور فتنہ پردازیوں کی بنا پر حکم جاری کیا وہ بھی اس صورت میں کہ آپ اس وقت حاکم وقت بھی تھے اور آپ کی ایک حیثیت آزاد مملکت اسلامیہ کے حاکم کی بھی تھی.چونکہ آپ حاکم بھی تھے اس لئے جس نے باوجود ہر قسم کی گستاخیوں اور شوخیوں اور فتنہ پردازیوں کے معافی طلب کی آپ نے انہیں معاف بھی کر دیا.آپ کے اسوہ کی یہ مثالیں اس بات کی حد بندی کرتی ہیں کہ آ زادی رائے کی حد کہاں تک ہے اور پھر کس حد سے حاکم وقت کو کسی کی سزا مقرر کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے.اس سے ایک بات یہ بھی عیاں ہوتی ہے کہ کوئی بھی شخص جو تو بین رسول تو بین اسلام یا تو بین قرآن کرے کسی کو یہ حق ہر گز حاصل نہیں کہ وہ ازخود ہی کسی کے قتل کا فتویٰ
75 دیدے یا قتل کر دے.ایسا فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف حکومت وقت اور حاکم وقت کو حاصل ہے.جو واقعات اوپر بیان کئے گئے ہیں عصر حاضر کے مسلمانوں کے لئے اس میں بہت بڑا سبق ہے.مسلمانوں کو ہمیشہ اسوہ رسول میلہ پر عمل کرنا چاہئے اور کبھی بھی اس حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے جس سے آگے بڑھنے کی اسلام قرآن اور اسوۂ رسول اجازت نہیں دیتا.اب میں تیسری بات کی طرف آتا ہوں کہ کیا آزادی رائے کا حق کسی قوم کسی مذہب یا کسی شخص کے لئے ہی خاص ہے یا پھر یہ حق ہر کسی کو حاصل ہے.؟ دیکھا یہ جاتا ہے کہ تمام دنیا کے ممالک قانونی لحاظ سے ہر شخص کو یہ حق دیتے ہیں.اور آج کل تو یہ آواز زیادہ ہی بلند ہوئی دکھائی دیتی ہے.دنیا داری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تجارت ہوسیاست ہو ثقافت ہو ہمیں ان تمام امور میں آزادی رائے دکھائی دیتی ہے.مثلاً ایک شخص کوئی چیز تیار کرتا ہے اسے دیکھا دیکھی دوسرا بھی تیار کر لیتا ہے.دوسرے شخص کو اپنی چیز بیچنے کے لئے پہلے والے کی بنائی ہوئی چیز کی دو چار خامیاں بیان کر کے اپنے سامان کی دو چار خوبیاں بتانی ہونگی تبھی اس کا مال فروخت ہوگا یہ تنقید کہلاتی ہے.جب پہلے والے کو دوسرے کا پتہ چلتا ہے تو وہ بھی مارکیٹ میں اترنے والے نئے مال کی خوب برائی کر کے اپنے مال کو اچھابتانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے لیکن کسی نے بھی آج تک یہ نہیں دیکھا ہوگا کہ کوئی اس ایک دوسرے کے مال پر تنقید کے نتیجہ میں ایک دوسرے کے خلاف قتل کا فتویٰ دیکر اس تنقید کرنے والے کو قتل کر دے.یہ میں نے ایک مثال دی ہے دنیا داری کے تمام معاملات میں خوب تنقید بھی ہوتی ہے اور برداشت بھی کی جاتی ہے لیکن جہاں مذہب اور دین کا معاملہ آتا ہے تو لوگوں کے رجحانات یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں اور ذراسی تنقید پر بھی ایک دوسرے کو مارنے توڑنے میں لگ جاتے ہیں جب کہ دین اور مذہب ہی
76 انسان کو صبر وعمل کی تلقین کرتا ہے.ایک انسان جب بازار میں ایک مٹی کا برتن ہی خرید نے جائے تو وہ اسے بھی اٹھا کر آگے پیچھے سے اور بجا کھنکا کر دیکھتا ہے کہ کہیں خراب تو نہیں ٹوٹا تو نہیں اور ہم میں سے ہر شخص اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ یہ برتن اگر ہاتھ سے ایک مرتبہ بھی گر گیا تو یہ ٹوٹ جائے گا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا.جبکہ دین کے بارے میں ہم میں سے ہر کوئی یہ یقین رکھتا ہے کہ یہ ایسا سودا ہے جس سے انسان نے زندگی بھر فائدہ حاصل کرنا ہے اور مرنے کے بعد بھی اسی کی بنیاد پر اخروی زندگی میں جنت یا دوزخ کا حصول ہوگا.لیکن کوئی بھی مذہب والا اپنے دین سے ہٹ کر کسی دوسرے کے دین کے بارے میں غور وفکر کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر کوئی دوسرے کے دین پر غور وتد بر کر کے اسے قبول کرلے تو فوراً اس پر کفر کا ارتداد کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے.کیا یہ جائز ہے ؟ ہر گز نہیں جب قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی تو پھر ہر شخص اس بات میں قرآن کریم کے حکم کے مطابق آزاد ہے کہ وہ کسی پیغام کو قبول کرے یا نہ کرے.جب بھی کسی دین کے معاملہ میں بات کی جاتی ہے تو جہاں ایک مذہب کی خوبیاں لوگوں کو بتائی جاتی ہیں تو دیگر مذاہب کی کمیوں پر بھی غور ہونالازمی ہے کہ تا یہ جانچا جائے کہ تمام مذاہب میں خوبیوں سے بھر پور کون سادین ہے جیسا کہ ہم کوئی شے خریدتے وقت ایک کے مقابل دوسری شے میں زیادہ خوبیوں کو تلاش کرتے ہیں پھر زیادہ خوبیوں والی شے خرید کرتے ہیں.دین کے معاملہ میں ہر مذہب والا اپنے مذہب کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے دیگر مذاہب پر تنقید کرنے پر آزادی رائے کے نام پر تو اپنے حق کو محفوظ کرتا ہے لیکن اگر دوسرا بھی اس حق کو استعمال کرنا چاہے تو اس کو گستاخی اور توہین کا نام دید یا جاتا ہے.اسلام ہر شخص کو
77 آزادی رائے کا حق تو دیتا ہے لیکن اس کی حدود مقرر کی ہیں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے تجاوز کرے اور ایسی باتیں دیگر مذاہب اور ان کے پیشواؤں کی طرف منسوب کرے جن سے ان کے ماننے والوں کی دل آزاری ہو.جب معاملہ یہاں تک بڑھ جائے تو وہاں سے حکومت وقت اور حاکم وقت کی حد شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ اوپر بیان کی گئی مثالوں سے ظاہر ہے.سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی کسی کے پیارے کے بارے میں کوئی نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے تو جائزہ لینے والی بات یہ ہے کہ اگر وہی الفاظ اس کے پیاروں کے لئے استعمال کئے جائیں تو کیا وہ بھی اسے برداشت کر سکتا ہے اگر ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ اسے برداشت کرے تو پھر یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے آزادی رائے کے حق سے تجاوز کیا ہے.اگر ایسے الفاظ کا استعمال کوئی زبانی یا تحریر کرے گا تو مد مقابل کو یہ تو حق حاصل ہے کہ وہ بھی اس کا مناسب رنگ میں جواب دے خواہ تحریری یا زبانی لیکن کسی کو یہ حق قطعاً حاصل نہیں کہ اس کی تحریر یا تقریر کے بدلہ میں اس کو قتل کرنے کا فتویٰ دے یہ انصاف کے خلاف ہے قرآن کریم اس قسم کی نا انصافی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی آنحضرت علی ایم کے اسوۃ سے ایسی کوئی مثال دکھائی دیتی ہے.او پر پیش کی گئی مثالوں سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت علیم کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو زبانی اور تحریری طور پر آنحضور صلم کی توہین کرتے تھے ان کے مقابلہ کے لئے آنحضرت علیم کے اصحاب میں بھی ایسے صحابی موجود تھے جو توہین آمیز اشعار کا اشعار ہی میں جواب دیا کرتے تھے.کعب بن اشرف جو اسلام اور آنحضور علم کا اشترین دشمن تھا اشعار لکھ لکھ کر آپ کے بارے میں تو بین آمیز الفاظ کا استعمال کرتا اس کے جواب میں حضرت حسان بن ثابت الانصاری رضی اللہ عنہ اشعار کہا کرتے تھے.(سیرت ابن ہشام جلد
78 ۲ - اردو ترجمه صفحه ۱۹ تا ۲۱ مطبوعہ اعتقاد پبلشنگ ہاوس سوئی والا دہلی ۲) کعب بن اشرف کو آنحضور بیلالی نے ایک عرصہ بعد قتل کرنے کا بھی حکم دیا تھا لیکن آپ کا یہ حکم صرف اشعار لکھنے اور توہین آمیز الفاظ کہنے کی بناء پر نہیں تھا بلکہ اس کو قتل کرنے کا حکم دیگر وجوہات کی بنا پر فرمایا تھا اس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی.کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام ہر معاملہ میں انصاف کا حکم دیتا ہے اسلام بدلہ لینے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن اسی کے برابر جتنا اور جیسی زیادتی دوسرے نے کی.یہ نا انصافی ہوگی کہ زبان اور قلم کا بدلہ تلوار سے لیا جائے.
79 سخت گوئی اور قرآنی تعلیم قرآن کریم کی تعلیم ہمارے لئے ایک لائحہ عمل ہے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم قیامت تک کے مسائل کو حل کرنے میں راہنما ہے.قرآن کریم نے بہت سے انبیاء کا ذکر فرمایا ہے جس میں ان پر ایمان لانے والوں کا بھی ذکر ہے اور انکار کرنے والوں کا بھی ذکر ہے اور اس بات کو بھی محفوظ کیا ہے کہ ان کے مخالفوں نے نبیوں کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا اور کیسے کیسے استہزاء کئے گئے اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُوْنَ.(ئیس آیت ۳۱) یعنی.ہائے افسوس ہے مجھے اپنے بندوں پر جب بھی ان کی طرف کوئی رسول بھیجا گیا اس سے صرف انہوں نے استہز ا ہی کیا.قرآن کریم کی یہ آیت اگر ایک طرف مخالفین کے کردار کو پیش کر رہی ہے تو دوسری طرف یہ انبیاء کی صداقت کو بھی پیش کرتی ہے.انبیاء کی تاریخ کو دیکھا جائے تو کوئی ایک نبی بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا جس کی مخالفت نہ کی گئی ہو اور اس سے ہنسی اور مذاق کر کے ان کی توہین نہ کی گئی ہو لیکن انبیاء کی تاریخ میں سے کوئی ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جا سکتا کی کسی نبی نے ہنسی اور مذاق اور توہین کے بدلہ میں کبھی کسی کے ساتھ ہنسی مذاق اور ان کی توہین کی ہو بلکہ ہمیشہ ہی انبیاء نے ان کے مقابل خود بھی صبر کیا اور اپنے ماننے والوں کو بھی مہر ہی کی تعلیم دی.اگر دیکھا جائے تو ان باتوں کا سب سے زیادہ نشانہ ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطف الله اعلم کو بنایا گیا آپ کو ہر قسم کا دکھ دیا گیا اور تکلیف پہنچائی گئی لیکن آپ نے ہمیشہ قرآنی تعلیم کے مطابق صبر ہی کیا اور اپنے ماننے والوں کو صبر ہی کی تلقین فرمائی.اسی بات کی گواہی دیتے ہوئے
80 60 اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا انْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُ لَهُمْ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ ( ال عمران آیت ۱۶۰) یعنی پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب تو ان کے لئے نرم ہوا اوا گر تو بد مزاج اور سخت دل ہوتا تو وہ تیرے پاس سے بھاگ جاتے.پس تو ان سے درگزر کر اور ان کے لئے بخشش مانگ اور معاملات میں ان سے مشور لیا کر.آنحضرت بیل ظلم کا نمونہ آپ پڑھ چکے ہیں آپ کی ساری زندگی ہی قرآن کریم کے گردگھومتی ہے قرآن کریم ایک ایسا صحیفہ ہے جو جہاں ماضی کے واقعات کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے پیش کرتا ہے وہاں آئندہ پیش آنے والے واقعات کو بھی بیان کرتا ہے اور ان کا حل بھی بیان کرتا ہے.قرآن کریم کی ایک پیشگوئی یہ بھی ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی اسلام پر آئے گا کہ ہمیں اہل کتاب اور مشرکوں کی طرف سے بہت دکھ دینے والی باتیں سننی پڑیں گی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.لتَبْلَونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتب مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ اشْتَرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِه یعنی البتہ ضرور تم آزمائے جاؤ گے اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اور البتہ ضرورتم ان لوگوں سے جو تم سے پہلے کتاب دئے گئے ہیں اور ان لوگوں سے بھی جنہوں نے شرک کیا ہے بہت سی دل آزاری ( کی باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو یقیناً یہ ( سورة ال عمران آیت ۱۸۷)
81 بات پختہ باتوں میں سے ہوگی.غور کیا جائے تو قرآن کریم کی یہ پیشگوئی اس آخری زمانہ میں جس طرح پوری ہوئی ہے اس سے قبل کسی زمانہ میں بھی اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی.عیسائی قوم نے جو کہ اہل کتاب کہلاتے ہیں اور ہندوؤں نے خاص کر آریہ سماج والوں نے جو کہ مشرک کہلاتے ہیں جس قدر دل آزاری کی باتیں اس دور میں کی ہیں پہلے دور میں اس کا عشر عشیر بھی دکھائی نہیں دیتا.یہ پیشگوئی اس زمانہ کے لئے خاص تھی جو پوری ہوئی.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر تھا کہ ایسا ہی ہو سو ہوا اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے لئے اس میں ایک نصیحت بھی ہے جسے بھلا دیا گیا ہے.وہ یہ کہ یہ تو مقدر ہے کہ اہل کتاب اور مشرک مسلمانوں کی دل آزاری کی باتیں کریں گے اور ان کا اس طرح کی باتیں کرنا یہ مسلمانوں کے لئے ایک آزمائش کی بات ہوگی.ایسی باتیں کرنے والوں کی طرف سے مسلمانوں کو جانوں اور مالوں کا بھی نقصان اٹھانا پڑے گا اور دل آزاری کی باتیں بھی سننے پڑیں گی.لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ایسے موقعہ پر تمہیں صبر سے کام لینا ہے اور تقویٰ اختیار کرنا ہے اور فرمایا کہ اگر تم اس پر کار بند ہو گئے تو یہ بات تمہاری مضبوطی اور پختگی کی بات ہوگی.جب ہم اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے یا اللہ نیلم کے زمانہ کو دیکھتے ہیں تو ایسی باتیں ایک حد تک ہمیں وہاں بھی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ ایک تو یہ مدنی سورت ہے اور اس دور میں حالت کافی حد تک تبدیل ہو چکے تھے اگر چہ اس زمانہ کے لوگوں نے بھی آپ اور آپ کے صحابہ کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا اور ایسی ہی دل آزاری کی باتیں کر کر کے آپ اور آپ کے اصحاب کو تکلیفیں پہنچا ئیں ایسے مواقع پر آنحضرت بیل نام کا اور آپ کے اصحاب کا جو اسوہ ہے وہ ہمارے سامنے ہے اس کی بہت سی مثالیں او پر پیش بھی کی گئی ہیں.اس زمانہ میں جبکہ قرون
82 اولیٰ کے دور کے واقعات اپنے عروج پر پہنچے ہوئے ہیں اور اسلام پر چوطرفہ حملوں کا دور دورہ ہے تو مسلمانوں کو تقویٰ اور صبر کو انتہاء درجہ تک پہنچانے کی ضرورت ہے.لیکن دیکھا یہ جاتا ہے جب بھی کوئی دلآزاری کی بات کرتا ہے تو علماء قرآن کریم کی تعلیم کے برخلاف لوگوں کو اشتعال دلا کر بازاروں اور گلی کوچوں میں نکال دیتے ہیں جہاں مخالفوں اور حکومتوں کی طرف سے معصوم مسلمانوں کا ہی خون بہایا جاتا ہے.اس طرح کشت وخون اور لوٹ مار کا بازار گرم کر کے حالات بگاڑے جاتے ہیں جس سے مسلمان ہی اپنے مخالفوں کے ہاتھوں نقصان اٹھاتے ہیں.اس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں.سلمان رشدی نے جب دل آزاری سے بھری کتاب شائع کی اس کے نتیجہ میں دنیا کے کئی ممالک میں احتجاج کئے گئے اس کے نتیجہ میں کئی مسلمانوں کو ہی اپنی جانیں قربان کرنی پڑیں.اگر مسلمان قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق صبر اور تقویٰ سے کام لیتے تو مالی اور جانی نقصان سے محفوظ رہ سکتے تھے.یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اسلام کے مخالفوں کی طرف سے جب کوئی دل آزاری کی باتیں کی جاتی ہیں یا مضامین اور کتابیں لکھی جاتی ہیں تو فوری طور پر ایسےلوگوں کے خلاف قتل کے فتوے جاری کر دئے جاتے ہیں اور ان کی کتابوں پر پابندی لگانے کی باتیں کی جاتی ہیں.دیکھا جائے تو یہ باتیں اسلام کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہیں کہ بیان کی جانے والی باتوں کا مسلمانوں کے پاس کوئی جواب نہیں اس لئے ان کتابوں پر پابندی کی آواز بلند کی جارہی ہے.جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ مسلمان مخالفین کی ایسی باتوں کا جواب دیں.اگر کوئی زبانی یا تحریری دل آزاری کی بات کرتا ہے اسے حکمت کے ساتھ مدلل جواب دیا جائے.اور قرآن کریم ہی تعلیم دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے.وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (العنکبوت آیت ۴۷)
83 یعنی تم اہل کتاب کے ساتھ اس طریق سے مجادلہ کرو جو احسن طریق ہے اسی طرح ایک اور مقام پر بھی اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم لوگوں کو اللہ کی طرف اور صحیح راستہ کی طرف حکمت اور اور ناصحانہ طریق سے بلائیں.اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم جاہلانہ باتوں کا جواب جاہلانہ طریق سے دیں بلکہ یہ حکم دیتا ہے کہ جاہلانہ باتوں کوسن کر بھی ان کا حلم اور نرمی سے دیں اور اگر کسی سے ایسا ممکن نہیں تو پھر سلام کہتے ہوئے وہاں سے الگ ہو جائیں یہی اسلام ہے.اسی سے متعلق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی طرف سے ایک میموریل جو اشتہار کی صورت میں شائع ہوا راہنما اصول پر مبنی ہے جو ذیل میں جواب درج کیا جاتا ہے." بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.نَحْمُدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم میموریل بحضور نواب لفٹینینٹ گورنر صاحب بہادر بالقابه یہ میمویل اس غرض سے بھیجا جاتا ہے کہ ایک کتاب امہات المومنین نام ڈاکٹر احمد شاہ صاحب عیسائی کی طرف سے مطبع آرپی مشن پریس گوجرانوالہ سے چھپ کر ماہ اپریل ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی تھی اور مصنف نے ٹائیٹل پیج کتاب پر لکھا ہے کہ یہ کتاب ابوسعید محمد حسین بٹالوی کی تحری اور ہزار روپیہ کے انعام کے وعدہ کے معاوضہ میں شائع کی گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محترک اس کتاب کی تالیف کا محمد حسین مذکور ہے چونکہ اس کتاب میں ہمارے نبی کریم علمی کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جن کو کوئی مسلمان سن کر رنج سے رک
84 نہیں سکتا.اس لئے لاہور کی انجمن حمایت اسلام نے اس بارے میں حضور گورنمنٹ میں میموریل روانہ کیا تا گورنمنٹ ایسی تحریر کی نسبت جس طرح مناسب سمجھے کاروائی کرے اور جس طرح چاہے کوئی تدبیر امن عمل میں لائے.مگر میں مع اپنی جماعت کثیر اور مع دیگر معزز مسلمانوں کے اس میموریل کا سخت مخالف ہوں.اور ہم سب لوگ اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ کیوں اس انجمن کے ممبروں نے محض شتاب کاری سے یہ کاروائی کی.( حاشیہ میں درج ہے ) انجمن کا ایسے وقت میں میموریل بھیجنا جبکہ ہزار کاپی امہات المؤمنین کی مسلمانوں میں مفت تقسیم کی گئی اور خدا جانے کئی ہزار اور قوموں میں شائع کی گئی بیہودہ حرکت ہے کیونکہ اشاعت جس کا بند کرنا مقصود تھا کامل طور پر ہو چکی ہے.منہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ کتاب امہات المومنین کے مؤلف نے نہایت دل دکھانے والے الفاظ سے کام لیا ہے اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ باوجود ایسی سختی اور بدگوئی کے اپنے اعتراضات میں اسلام کی معتبر کتابوں کا حوالہ بھی نہیں دے سکا.مگر ہمیں ہر گز نہیں چاہئے کہ بجائے اس کے کہ ایک خطا کار کونرمی اور آہستگی سے سمجھاویں اور معقولیت کے ساتھ کتاب کا جواب لکھیں یہ حیلہ سوچیں کہ گورنمنٹ اس کتاب کو شائع ہونے سے روک لے تا اس طرح پر ہم فتح پالیں کیونکہ یہ فتح واقعی فتح نہیں ہے بلکہ ایسے حیلوں کی طرف دوڑنا ہمارے عجز اور درماندگی کی نشانی ہوگی اور ایک طور سے ہم جبر سے منہ بند کرنے والے ٹھہریں گے.اور گو گورنمنٹ اس کتاب کو جلا دے تلف کرے کچھ کرے مگر ہم ہمیشہ کے لئے اس الزام کے نیچے آجائیں گے کہ عاجز آ کر گورنمنٹ کی حکومت سے چارہ جوئی چاہی.اور وہ کام لیا جو مغلوب الغضب اور جواب سے عاجز آجانے والے لوگ کیا کرتے ہیں.ہاں جواب دینے کے بعد ہم ادب کے ساتھ گورنمنٹ میں التماس کر سکتے ہیں کہ ہر یک فریق اس پیرایہ کو جو حال میں اختیار کیا جاتا ہے
85 ترک کر کے تہذیب اور ادب اور نرمی سے باہر نہ جائے.مذہبی آزادی کا دروازہ کسی حد تک کھلا رہنا ضروری ہے تا مذہبی علوم اور معارف میں لوگ ترقی کریں اور چونکہ اس عالم کے بعد ایک اور عالم بھی ہے جس کے لئے ابھی سے سامان چاہئے اس لئے ہر ایک حق رکھتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ ہر ایک مذہب پر بحث کرے اور اس طرح اپنے تئیں اور نیز بنی نوع کو نجات اخروی سے متعلق جہاں تک سمجھ سکتا ہے اپنی عقل کے مطابق فائدہ پہنچاوے.لہذا گورنمنٹ عالیہ میں اس وقت ہماری یہ التماس ہے کہ جو انجمن حمایت اسلام لاہور نے میموریل گورنمنٹ میں اس بارے میں روانہ کیا ہے وہ ہمارے مشورہ اور اجازت سے نہیں لکھا گیا بلکہ چند شتاب کاروں نے جلدی سے یہ جرأت کی ہے جو درحقیقت قابل اعتراض ہے.ہم ہر گز نہیں چاہتے کہ ہم تو جواب نہ دیں اور گورنمنٹ ہمارے لئے عیسائی صاحبان سے کوئی باز پرس کرے یا ان کتابوں کو تلف کرے بلکہ جب ہماری طرف سے آہستگی اور نرمی کے ساتھ اس کتاب کار دشائع ہوگا تو خود وہ کتاب اپنی مقبولیت اور وقعت سے گر جائے گی اور اس طرح وہ خود تلف ہو جائے گی.اس لئے ہم بادب ملتمس ہیں کہ اس میموریل کی طرف جو انجمن مذکور کی طرف سے بھیجا گیا ہے گورنمنٹ عالیہ ابھی کچھ توجہ نہ فرمائے.( حاشیہ ہے.ہم دوبارہ عرض کرتے ہیں کہ انجمن کا یہ میموریل بعد از وقت ہے کیونکہ مؤلف امہات المومنین کی طرف سے جو پہنچنے کے لائق تھا وہ ہمیں پہنچ چکا اور پورے طور پر پنجاب ہندوستان میں اس کتاب کی اشاعت ہو گئی سو ہم نہیں سمجھتے کہ اب ہم اپنی گورنمنٹ محسنہ سے کیا مانگیں اور وہ کیا کرے.منہ ) کیونکہ اگر ہم گورنمنٹ عالیہ سے یہ فائدہ اٹھاویں کہ وہ کتاب تلف کی جائے یا اور کوئی انتظام ہو تو اس کے ساتھ ایک نقصان بھی ہمیں اٹھانا پڑتا ہے کہ ہم اس صورت میں دین اسلام کو ایک عاجز اور فروماندہ دین قرار دیں گے کہ یہ معقولیت سے حملہ کرنے والوں کا جواب نہیں دے سکتا.اور نیز
86 یہ ایک بڑا نقصان ہوگا کہ اکثر لوگوں کے نزدیک یہ امر مکروہ اور نا مناسب سمجھا جائے گا کہ ہم گورنمنٹ کے ذریعہ سے اپنے انصاف کو پہنچ کر پھر کبھی اس کتاب کار دلکھنا بھی شروع کر دیں.اور در حالت نہ لکھنے جواب کے اس کے فضول اعتراضات ناواقفوں کی نظر میں فیصلہ ناطق کی طرح سمجھے جائیں گے اور خیال کیا جائے گا کہ ہماری طاقت میں یہی تھا جو ہم نے کرلیا سواس سے ہماری دینی عزت کو اس سے بھی زیادہ ضرر پہنچتا ہے جو مخالف نے گالیوں سے پہنچانا چاہا ہے.اور ظاہر ہے کہ جس کتاب کو ہم نے عمداً تلف کرایا یا روکا پھر اسی کو مخاطب ٹھہرا کر اپنی کتاب کے ذریعہ سے پھر شائع کرنا نہایت نا معقول اور بیہودہ طریق ہوگا.اور ہم گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم دردناک دل سے ان تمام گندے اور سخت الفاظ پر صبر کرتے ہیں جو صاحب امہات المومنین نے استعمال کئے ہیں اور ہم اس مؤلف اور اس کے گروہ کو ہر گز کسی قانونی مواخذہ کا نشانہ بنانا نہیں چاہتے کہ یہ امر ان لوگوں سے بہت ہی بعید ہے کہ جو واقعی نوع انسان کی ہمدردی اور سچی اصلاح کے جوش کا دعویٰ رکھتے ہیں.یہ بات بھی گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں عرض کر دینے کے لائق ہے کہ اگر چہ ہماری جماعت بعض امور میں دوسرے مسلمانوں سے ایک جز وی اختلاف رکھتی ہے مگر اس مسئلہ میں کسی سمجھدار مسلمان کو اختلاف نہیں کہ دینی حمایت کے لئے ہمیں کسی جوش یا اشتعال کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ ہمارے لئے قرآن میں یہ حکم ہے.وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أحْسَنُ (العنکبوت آیت ۴۷) اور دوسری جگہ حکم ہے کہ.اُدْعُ إلى سَبِيلِ ربك بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ.(النحل آیت ۱۲۶) اس کے معنی یہی ہیں کہ نیک طور پر اور ایسے طور پر جو مفید ہو عیسائیوں سے مجادلہ کرنا چاہئے اور حکیمانہ طریق اور ایسے ناصحانہ طور کا پابند ہونا چاہئے کہ ان کو فائدہ بخشے.لیکن یہ طریق کہ ہم گورنمنٹ کی مدد سے یا نعوذ باللہ خود اشتعال
87 ظاہر کریں ہر گز ہمارے اصل مقصود کو مفید نہیں ہے.یہ دنیاوی جنگ وجدل کے نمونے ہیں اور سچے مسلمان اور اسلامی طریقوں کے عارف ہر گز اس کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان سے وہ نتائج جو ھدایت بنی نوع کے لئے مفید میں پیدا نہیں ہو سکتے.چنانچہ حال ہی میں پر چہ مخبر دکن میں جو مسلمان کا ایک اخبار ہے ماہ اپریل کے ایک پرچہ میں اسی بات پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ رسالہ امہات المومنین کے تلف کرنے یا روکنے کے لئے گورنمنٹ سے ہر گز التماس نہیں کرنی چاہئے کہ یہ دوسرے پیرایہ میں اپنے مذہب کی کمزوری کا اعتراف ہے.جہاں تک ہمیں علم ہے ہم جانتے ہیں کہ اخبار مذکور کی اس رائے کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ عام مسلمانوں کی یہی رائے ہے کہ اس طریق کو جس کا انجمن مذکور نے ارادہ کیا ہے ہرگز اختیار نہ کیا جائے کہ اس میں کوئی حقیقی اور واقعی فائدہ ایک ذرہ برابر بھی نہیں ہے.اہل علم مسلمان اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بارے میں ایک پیشگوئی ہے اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے وصیت کے طور پر ایک حکم ہے جس کو ترک کرنا سچے مسلمان کا.کام نہیں ہے.اور وہ یہ ہے لَتُبُلُونَ فِي اَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِه (سورة ال عمران آیت ۱۸۷) ترجمہ یہ ہے کہ خدا تمہارے مالوں اور جانوں پر بلا بھیج کر تمہاری آزمائش کرے گا اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی دکھ دینے والی باتیں سنو گے سوا گر تم صبر کرو گے اور اپنے تئیں ہر ایک نا کردنی امر سے بچاؤ گے تو خدا کے نزدیک اولوالعزم لوگوں میں ٹھہرو گے.یہ مدنی سورۃ ہے اور سیہ اس زمانہ کے لوگوں کو وصیت کی گئی ہے کہ جب ایک مذہبی آزادی کا زمانہ ہوگا کہ جو کوئی کچھ سخت گوئی کرنا چاہے وہ کر سکے گا جیسا کہ یہ زمانہ ہے.سو کچھ شک نہیں کہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ
88 کے لئے تھی اور اسی زمانہ میں پوری ہوئی کون ثابت کر سکتا ہے کہ جو اس آیت میں اڈی كثيراً کا لفظ ایک عظیم الشان ایذا بلسانی کو چاہتا ہے وہ کبھی کسی صدی میں اس سے پہلے اسلام نے دیکھی ہے؟ اس صدی میں پہلے عیسائی مذہب کا یہ طریق نہ تھا کہ اسلام پر گندے اور ناپاک حملے کرے بلکہ اکثر ان کی تحریریں اور تالیفیں اپنے مذہب تک ہی محدود تھیں.قریباً تیرھویں صدی ہجری سے اسلام کی نسبت بدگوئی کا دروازہ کھلا جس کے اول بانی ہمارے ملک میں پادری فنڈر صاحب تھے.بہر حال اس پیشگوئی میں مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ جب تم دل آزار کلمات سے دکھ دئے جاؤ اور گالیاں سنو تو اس وقت صبر کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا.سو قر آنی پیشگوئی کے مطابق ضرور تھا کہ ایسا زمانہ بھی آتا کہ ایک مقدس رسول کو جس کی امت سے ایک کثیر حصہ دنیا کا پُر ہے عیسائی قوم جیسے لوگ جن کا تہذیب کا دعویٰ تھا گالیاں دیتے اور اس بزرگ نبی کا نام نعوذ باللہ زانی اور ڈاکو اور چور رکھتے اور دنیا کے سب بدتر وں سے بدتر ٹھہراتے.بے شک یہ ان لوگوں کے لئے بڑے رنج کی بات ہے جو اس پاک رسول کی راہ میں فدا ہیں اور ایک دانشمند عیسائی بھی احساس کر سکتا ہے کہ جب مثلاً اسی کتاب امہات المومنین میں ہمارے نبی صلیم کو نعوذ باللہ زناکار کے نام سے پکارا گیا اور گندے سے گندے تحقیر کے الفاظ آنجناب کے حق میں استعمال کئے گئے اور پھر عمدہ آہزار کاپی اس کتاب کی محض دلوں کے دکھانے کے لئے عام اور خاص مسلمانوں کو پہنچائی گئی اس سے کس قدر درد ناک زخم عام مسلمانوں کو پہنچے ہونگے اور کیا کچھ ان کے دلوں کی حالت ہوئی ہوگی.اگر چہ بد گوئی میں یہ کچھ پہلی ہی تحریر نہیں ہے بلکہ ایسی تحریروں کو پادری صاحبوں کی طرف سے کروڑ با تک نوبت پہنچ گئی ہے.مگر یہ طریق دل دکھانے کا ایک نیا طریق ہے کہ خواہ نخواہ غافل اور بے خبر لوگوں کے گھروں میں یہ کتابیں پہنچائی گئیں.اور اسی وجہ سے اس کتاب پر بہت شور بھی اٹھا ہے.
89 باوجود اس بات کے کہ پادری عمادالدین اور پادری ٹھا کر داس کی کتابیں اور نور افشاں کی پچیس سال کی مسلسل تحریریں سختی میں اس سے کچھ کم نہیں ہیں.یہ تو سب کچھ ہوا مگر ہمیں تو آیت موصوفہ بالا میں یہ تاکیدی حکم ہے کہ جب ہم ایسی بدزبانی کے کلمات سنیں جس سے ہمارے دلوں کا دکھ پہنچے تو ہم صبر کریں.اور کچھ شک نہیں کہ جلد تر حکام کو اس طرف توجہ کرنا یہ بھی ایک بے صبری کی قسم ہے اس لئے عقل مند اور دور اندیش مسلمان ہر گز اس طریق کو پسند نہیں کرتے کہ گورنمنٹ عالیہ تک اس بات کو پہنچایا جائے.ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ دین اسلام میں اکراہ اور جبر نہیں.جیسا کہ وہ فرماتا ہےلا اکراہ فی الدین(البقرہ ۲۵۷) اور جیسا کہ فرماتا ہے افانت تکرہ الناس ( یونس ۱۰۰) لیکن اس قسم کے حیلے اکراہ اور جبر میں داخل ہیں جس سے اسلام جیسا پاک اور معقول مذہب بدنام ہوتا ہے.غرض اس بارے میں میں اور میری جماعت اور تمام اہل علم اور صاحب تدبر مسلمانوں میں سے اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ کتاب امہات المومنین کی لغو گوئی کی یہ سزا نہیں ہے کہ ہم اپنی گورنمنٹ محسنہ کو دست اندازی کے لئے توجہ دلائیں گوخود دانا گورنمنٹ اپنے قوانین کے لحاظ سے جو چاہے کرے.مگر ہمارا صرف یہ فرض ہونا چاہئے کہ ہم ایسے ایسے اعتراضات کا کہ جو در حقیقت نہایت نادانی یا دھوکہ دہی کی غرض سے کئے گئے ہیں خوبی اور شائستگی کے ساتھ جواب دیں اور پبلک کو اپنی حقیقت اور اخلاق کی روشنی دکھلائیں.اسی غرض کی بنا پر یہ میموریل روانہ کیا گیا ہے.اور تمام جماعت ہماری معر؛ زمسلمانوں کی اسی پر متفق ہے.۴ مامتی ۱۸۹۸ء الراقم
90 خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۴۰ تا ۴۶) قرآن کریم کے راہنما اصول قیامت تک کے لئے ہیں ان میں تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.دیکھا یہ جاتا ہے کہ بعض علماء اپنے فیصلوں اور خیالات کو قرآن کریم کی بعض آیات اور احادیث کی غلط تشریحات پیش کر کے تقویت دینا چاہتے ہیں جن کی بنیاد قرآن کریم میں دکھائی نہیں دیتی بلکہ اسرائیلی روایات کا عکس ان میں دکھائی دیتا ہے.قرآن کریم ایک ایسا صحیفہ ہے کہ وہ جو بات ایک جگہ بیان فرماتا ہے قرآن کریم کی دوسری آیات اس کی تائید کر رہی ہوتی ہیں اور ساتھ ہی سنت نبوی اس کی شہادت پیش کر رہی ہوتی ہے.مفسرین قرآن اگر کسی آیت کی ایسی تشریح بیان کریں جو قرآن کریم کی دوسری کسی آیت یا آیات سے ٹکراتی ہو تو لاز مادہ تشریح قابل قبول نہیں ہو سکتی بلکہ وہ چھوڑ دینے کے قابل ٹھہرتی ہے.مخالفین اسلام کی لغو گوئی اور توہین رسالت کی بنا پر سزاؤں کے حوالہ سے علماء اسلام نے قرآن کریم سے اپنے مؤقف کی تائید میں جو دلائل پیش کئے ہیں ان کی تائید قرآن کریم سے کسی اور جگہ سے پیش نہیں کی گئی بلکہ جو ایک آدھ دلیل پیش کی ہے اس میں بھی اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گیا کہ یہ دیکھا جاتا کہ قرآن کریم کا یہ حکم کس محل اور موقعہ کے لئے ہے.اور توہین رسالت سے اس کا کوئی تعلق بھی ہے کہ نہیں.بعض جگہ تو ایک آیت کے ایک حصہ کو پیش کر کے اپنے نظریہ کو تقویت دینے کی کوشش کی گئی ہے اگر چہ قرآن کریم کی بعض دیگر آیات ان کے نظریہ کے خلاف اصول پیش کر رہی ہیں.اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس سلسلہ میں قرآن کریم سے جو بھی پیش کریں اس کی تائید قرآن کریم کی دوسری آیات سے بھی دکھائی دے یا کم از کم سنت انبیاء سے اس کی تائید میں مثال پیش ہولیکن ایسا دکھائی نہیں دیتا.
91 توہین رسالت کیا ہے؟ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے انبیاء کی تو ہین کا سلسلہ کوئی نیا سلسلہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اپنے کلام قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ حسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْ يتهم مِن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْرُونَ.(ئیس آیت ۳۱) یعنی.ہائے افسوس ہے مجھے اپنے بندوں پر جب بھی ان کی طرف کوئی رسول بھیجا گیا اس سے صرف انہوں نے استہز ا ہی کیا.قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ نبیوں سے کس کس قسم کے استہزاء کئے جاتے رہے ہیں بلکہ قرآن کریم نے تو کافروں اور منافقوں کے ہنسی اور مذاق کو ان کی عادت کے طور پر بیان کیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيْطِيْهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ المَا نَحْنُ مُسْتَهْزِاون (البقرة آيت (۱۵) یعنی.اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب وہ اپنے شیطانوں کی طرف جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان سے صرف ہنسی کرنے والے ہیں.اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدِ اسْتَهْزِقٌ بِرُسُلٍ مِن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَهَرُوا مِنْهُمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (الانعام آیت ۱۱)
92 یعنی.اور یقیناً تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ہنسی کی گئی پھر گھیر لیا ان لوگوں کو جنہوں نے ہنسی کی تھی اسی (عذاب) نے جس پر وہ ہنسی کیا کرتے تھے.یہی آیت قرآن کریم میں سورۃ الانبیاء میں بھی آیت نمبر ۴۲ کے طور پر آئی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے.وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ د فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ (الرعد آیت ۲۳) یعنی.اور یقیناً ہنسی کی گئی تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی پس میں نے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا تھا مہلت دی پھر میں نے انہیں پکڑ لیا پس پیسز اکیسی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَأَصَابَهُمْ سَيّاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (النحل آیت ۳۵) یعنی.پس جیسے وہ عمل کیا کرتے تھے ویسی ہی بدیاں ان کو پہنچی اور جن باتوں کے ساتھ وہ ہنسی کیا کرتے تھے انہیں نے ان کو گھیر لیا.یہ مضمون که وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهُزمون قرآن کریم میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے جیسا کہ سورۃ الاحقاف آیت ۲۷ سورة الجاثية آیت ۳۴ سورة المؤمن آیت ۸۴ سورۃ الزمر آیت ۴۹ سورۃ ھود آیت ۹ اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ الشعراء میں فرماتا ہے فَقَدْ كَذَّبُوا فَسَيَأْتِيهِمُ انْبُوا مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ ( الشعراء آیت) یعنی.پس یقیناً تکذیب کی انہوں نے پس عنقریب ان کے پاس وہ خبریں آئیں گی جن کے ساتھ وہ ہنسی کیا کرتے تھے.
93 قرآن کریم کی ان آیات کو پڑھنے سے یہ بات صاف طور پر کھل جاتی ہے کہ انبیاء کے ساتھ ہنسی مذاق کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے ہر زمانہ میں اور ہر نبی کے ساتھ ہی ایسا ہوتا چلا آیا ہے بلکہ دیکھا جائے تو انبیاء کے سچا ہونے کی یہی بات ایک دلیل کے طور پر ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ لیس میں اسی استہزاء کو انبیاء کی صداقت کا نشان ٹھہرایا ہے کہ مجھے افسوس ہے بندوں پر کہ جب بھی ان کی طرف کسی نبی کو بھیجا گیا تو اس کے دور کےلوگوں نے اس کے ساتھ ہنسی کی اور مذاق اڑایا.اس لئے انبیاء کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا یہ تو مخالفین کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے جب نبیوں کا سردار آیا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور ایسا ہونا لازمی تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلیم کو یہ بات بتادی کہ آپ یہ خیال نہ کریں کہ یہ ہنسی اور مذاق صرف آپ کے ساتھ ہی ہورہا ہے بلکہ فرمایا کہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ سے پہلے انبیاء کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے.انبیاء کے ساتھ استہزا کرنے میں وہ ساری باتیں آجاتی ہیں جن سے تو ہین انبیاء ممکن ہے نبی کی باتوں کو بگاڑ کر پیش کرنا اسکی زندگی پر اعتراض اٹھانا.اس پر طعن کرنا نبی کو برے الفاظ سے یاد کرنا.انبیاء کے بُرے برے نام رکھنا.انبیاء کے نشانوں کو جھٹلانا.انبیاء کو غلط ناموں سے یاد کرنا.ازواج مطہرات پر انگلی اٹھانا اور ان پر الزام تراشی کرنا وغیر ہ الغرض وہ تمام باتیں جو ہجو اور عزت پر حملہ کرنے کے زمرہ میں آتی ہیں سب کی سب استہزا میں شمار ہوتی ہیں کیوں کہ لوگ ایسی باتیں انبیاء کی طرف منسوب کر کے ان سے ہنسی مذاق کرتے ہیں تا کہ ان کے ذریعہ سے نبی کو اور نبی پر ایمان لانے والوں کو دکھ دیا جائے اور ستایا جائے.اس کی مثالیں بھی ہمیں قرآن کریم میں دکھائی دیتی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَ
94 عَصَيْنَا وَ اسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيَّا بِالْسِنَتِهِمْ وَطَعْنَا فِي الدِّينِ ( النساء آیت ۴۷) یعنی.جولوگ یہودی ہوئے ہیں ان میں سے بعض ( خدا کی ) باتوں کو ان کی جگہوں سے ادل بدل دیتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور باوجود اس کے ہم نے نافرمانی کی اور ( کہتے ہیں کہ) تو ہماری باتیں سُن ( خدا کا کلام ) تجھے کبھی نہ سنایا جائے اور ہمارا لحاظ کر ( یہ بات) اپنی زبانوں سے جھوٹ بولتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہیں.روایات میں آتا ہے کہ یہود راعنا کے لفظ کو بگاڑ کر آنحضرت علیم کے سامنے بولا کرتے تھے اور اس سے ان کی نیت آپ کی تحقیر کرنا ہوتی تھی اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے یہود کی بد نیتی کو ظاہر کیا اور مومنوں کو اس لفظ کے استعمال سے منع فرمایا جس کا ذکر سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۰۵ میں موجود ہے کہ اے ایمان دارو! رسول کو مخاطب کر کے راعنا مت کہا کرو اور انظرنا کہا کرو.ایسے الفاظ کا استعمال بھی توہین رسالت کے زمرہ میں آتا ہے.اسی طرح آنحضرت ام ایم کو کافروں نے مجنون کہہ کر بھی آپ کی توہین کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وإن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُ واليُزلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِكرَ وَيَقُو لُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُون ( سورة القلم آیت ۵۲) یعنی.کافرلوگ قریب تھا کہ جب انہوں نے قرآن تجھ سے سنا تھا تو اپنی غصہ سے بھری آنکھوں سے دیکھ کر تجھے اپنے مقام سے پھسلا دیتے اور وہ کہتے جاتے ہیں کہ یہ شخص تو مجنون ہے.اس آیت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ کا فرلوگ آنحضرت علی ایم کو نعوذ باللہ مجنون کہہ کر آپ کی تو بین کیا کرتے تھے اسی طرح دیگر انبیاء کے بارے میں بھی ایسے الفاظ کا استعمال
95 کیا کرتے تھے جس کی چند مثالیں پہلے دی جا چکی ہیں اسی طرح اللہ تعالی قرآن کریم میں آپ کی زوجہ مبارکہ حضرت عائشہ صدیقہ پر منافقین نے جو الزام لگا کر آپ کی اور آپ کی زوجہ مطہرہ کی توہین کی تھی اس کا ذکر فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ جَاءَ وَبِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنكُمْ ، لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُمْ ، بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ لِكُلِّ امْرِى مِنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النور آیت ۱۲) یعنی.یقیناً وہ لوگ جنہوں نے بڑا اتہام باندھا ہے تمہیں میں سے ایک گروہ ہے تم اس (فعل) کو اپنے لئے برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے بہت اچھا تھا ( کیونکہ اس کی وجہ سے ایک پر حکمت تعلیم تم کو مل گئی ) ان میں سے ہر شخص کو اس نے جتنا گناہ کیا تھا اس کی سزامل جائے گی اور جو شخص اس گناہ کے بڑے حصے کا ذمہ دار تھا اس کو بہت بڑا عذاب ملے گا.اب میں ایک اور مثال توہین رسالت کی قرآن کریم سے پیش کرتا ہوں جس کا تعلق ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفے علم کی ذات سے ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَقُولُونَ لَئِنْ رَّجَعْنَ إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّمِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (المتفقون آیت ۹) وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو جو مدینہ کا سب سے معزز آدمی ہے وہ مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی کو اس سے نکال دیگا.اور عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو ہی حاصل ہے لیکن منافق جانتے نہیں.
96 96 قرآن کریم نے جس بات کی نشاندہی کی ہے یہ بات رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی بن سلول نے کی تھی اور جو الفاظ اس شخص نے استعمال کئے تھے یہ رسول خدا اصلی نیلم کی شدید تو ہین پر منتج ہیں.الغرض انبیاء کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا ان کی توہین کرنا یہ نبی کے مخالفوں کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے اور دیگر انبیاء کی تو ہین کیسے کیسے الفاظ سے کی جاتی تھی اس کی مثالیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں.تو بین کے بارہ میں پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الد راوی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ.نبوت ورسالت کا سلسلہ ایک انعام الہی تھا جن مقربانِ الہی کو عطا ہو گیا، ان کی صدق وامانت پر ایمان لانا ان سے محبت رکھنا اور ان کی عزت کا دفاع کرنا بعد میں آنے والے تمام لوگوں پر فرض ہو گیا.ہمارے نبی جناب حضرت محمد علی شادی سے پہلے تقریباً سوا لاکھ انبیاء و ن علیھم السلام گزر چکے ہیں.آپ علیم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.ان تمام سابقہ انبیاء کرام علیھم السلام کی عزت اور محبت اہل اسلام پر فرض ہے جو کوئی ایسا نہیں کرتاوہ ایمان سے خالی ہے.جتنے بھی سابقہ انبیاء گزرے ہیں ان کی حرمت کا پاس رکھنا ان کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھنا ایمان کا حصہ ہے.ان انبیاء کرام میھم السلام کی عیب چینی ان کی تو ہین وتنقیص سرا سرا کفر ہی نہیں بلکہ سب سے بڑا کفر اور بدبختی ہے.کتاب اللہ سنت رسول الله علم اجماع امت اور اجماع اہم، قیاس سب اس بات پر گواہ اور دلیل ہیں کہ انبیاء علیھم السلام کی شان میں گستاخی کرنے والا کافر ہے.متقدمین علماء نے اس سلسلہ میں بڑی ہی تشفی بخش کتابیں لکھی ہیں اور انہیں ہر طرح کے دلائل سے معمور و معطر کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کتابوں کو ان کے اعمال صالحہ اور باقیات صالحات میں سے بنا دئے اور آنے والوں کو ان سے خاطر خواہ استفادہ کرنے کی سلين توفیق دے.
97 40 عليه ان علماء کرام نے عصمت انبیاء کرام علم السلام کے متعلق ایک حفظہ بات لکھی ہے کہ وہ تمام انبیاء جن کی نبوت معلوم ہے ان کی نبوت کا انکار یا ان کی شان میں تنقیص کرنا یا ان پر عیب جوئی کرنا یا تو ہین وتحقیر کرنا یا ان میں سے کسی نبی کی نبوت میں شک کرنا موجب کفر ہے.ی جو شخص انبیاء کرام ملا عم السلام کی طرف بدکاریوں کی یا بدیوں کی نسبت کرنے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف قصد زنا کی نسبت کرنا اس سے بھی کفر لازم آتا ہے.ایسے ہی وہ شخص بھی کافر ہے جو یہ کہے انبیاء کرام عم السلام نبوت کے ملنے سے پہلے.کبیرہ گناہوں سے معصوم نہیں ہوتے.کیونکہ یہ عقیدہ صریح نصوص شرعیہ کے خلاف ہے.“ شاتم رسول علی تعلیم کی شرعی سزا تالیف پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی شائع کردا مکتبہ قدوسیہ رحمان مارکیٹ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور پاکستان صفحه ۱۵۸و۱۵۹) اسی طرح ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے لکھا ہے کہ دو سو اب اگر کوئی بالواسطہ یا بلا واسطه تو بین ایزدی، توہین رسالتمآب صلی ، توبین قرآن وسنت تو بین عقائد اسلامی، تو بین ارکان اسلام تو ہین انبیاء علیهم السلام غرضیکہ دین اسلام کی کسی بھی پہلو کی تو ہین کا ارتکاب کرتا ہے تو سیکشن A-295 کے تحت مجرم ہے.“ ( تحفظ ناموس رسالت مصنفہ شیخ السلام ڈاکٹر طاہر القادری شائع کردا منہاج القرآن ۳۶۵ ایم ماڈل ٹاؤن لاہور صفحہ ۲۴) توہین رسالت کے یہ چند نمونے پیش کئے گئے ہیں.اور یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تو بین انبیاء اور توہین رسالت کے طریق میں بھی تبدیلی آئی ہے تو بین رسالت کے لئے جہاں تحریر وتقریر کا سہارا لیا جاتا ہے وہاں چند سالوں سے آنحضور میلیم کے خاکے بنا کر بھی اخبارات و اشتہارات کے طور پر بھی شائع کئے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں
98 مسلمانوں میں غم وغصہ کے ساتھ ساتھ پر تشدد واقعات بھی رونما ہوتے ہیں.اس جگہ ایک اور بات بھی دیکھنے کے لائق ہے کہ جن لوگوں پر توہین رسالت کا الزام لگایا جاتا ہے یا جنہیں شاتم رسول کہا جاتا ہے کیا ان کی وہ بات جو انہوں نے بیان کی ہے وہ تو بینِ رسالت کے زمرہ میں آتی بھی ہے کہ نہیں کیونکہ یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ ایک عالم اپنے علم اور سوچ اور جو اس نے قرآن وحدیث سے سمجھا ایک بات بیان کرتا ہے لیکن دوسرا عالم اُس کی اس بات کو توہین رسالت کے زمرہ میں رکھتا ہے.آج کل تو ایلیکٹرونک میڈیا کا زمانہ ہے ہر روز ہی کسی دیو بندی عالم کی کسی بات کو لیکر کوئی بریلوی عالم تو بین رسالت سے جوڑ رہا ہوتا ہے اور دیوبندی، بریلوی کی کسی بات کو بیان کر کے اسے توہین رسالت کرنے والا کہہ رہا ہوتا ہے.یہی حال شیعہ اور سٹی کا ہے اور باقی فرقہ ہائے اسلام کے علماء بھی ایک دوسرے کے خلاف ایسی ہی باتیں کرتے اور فتوے دیتے ہیں.کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس بات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جس بات کے کرنے سے کسی شخص کو توہین رسالت کا ملزم ٹھہرایا جارہا ہے آیا وہ تو بین رسالت ہے بھی کہ نہیں اور قرآن کریم ایسے شخص کے متعلق کیا حکم دیتا ہے.پاکستان میں چند سال قبل پنجاب کے گورنر جناب سلمان تاثیر صاحب کو ایک شخص نے ہے چند روز قبل ہی پھانسی کی سزادی گئی ہے اس لئے قتل کیا تھا کہ انہوں نے توہین رسالت کی ہے اور علماء نے فتوے بھی جاری کر دئے لیکن عدالت نے تمام دلائل سننے اور جائزہ کے بعد قاتل کے خلاف جو فیصلہ سنا یا اس میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جناب سلمان تاثیر صاحب نے جو بات کی تھی وہ کسی بھی صورت میں توہین رسالت کے زمرہ میں نہیں آتی ہے.الغرض جب بھی ایسی بات کسی کی طرف سے ہو اس کے بارے میں یہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ
99 99 تو بین رسالت کے زمرہ میں آتی بھی ہے کہ نہیں اور قرآن وحدیث اس بارہ میں کیا بیان کرتا ہے اور سنت رسول اس بارہ میں کیا پیش کرتی ہے اور عقل اس بارہ میں کیا فتویٰ دیتی ہے ان تمام امور پر غور ہونالازمی ہے.
100 تو بین رسالت پر علماء کرام کا مؤقف تو بین رسالت پر قرآن کریم کی تعلیمات کا ایک مختصر سانمونہ گزشتہ صفحات میں پیش کیا گیا اس پر تفصیلی بحث انشاء اللہ آگے چل کر پیش کی جائے گی.جہاں تک علماء اسلام کا اس سلسلہ میں مؤقف ہے تو وہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ توہین رسالت کرنے والے کی سز اقتل ہے.اگر چہ بعض علماء اس مؤقف کے خلاف بھی ہیں اور اس معاملہ میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے.جیسا کہ لکھا ہے کہ گستاخان رسول علیم اور ناموس رسالت پر کیچڑ اچھالنے والوں کو قرآن کریم سنت رسول معلم اجماع صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین اجتماع امت اور قیاس صحیح کی رو سے کافر قرار دیا گیا ہے.نبی سلام کو اذیت پہنچانے، آپ بلا مالی کا مذاق اڑانے اور استہزا کرنے والوں کی سزا قتل طے پائی ہے.....دور حاضر کے بعض بزعم خود روشن خیال و اعتدال پسند لوگ شاتم و گستاخ رسول صلیم کی اس سزا کو غلو و تشدد باور کروانے پر تلے ہوئے ہیں.لہذا جب مذکورہ مسئلہ میں قرآن وحدیث کے دلائل آپ کے سامنے آجائیں گے تو ان لوگوں کی باتوں کا وزن آپ خود بھی کرسکیں گے.“ ( شاتم رسول کی شرعی سز اصفحہ ۱۶۱) 66 اسی طرح جناب شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں کہ مذکورہ بحث سے یہ بات بخوبی عیاں ہوئی کہ بارگاہ رسالتمآب صلیم میں بے ادبی و گستاخی اور توہین و تنقیص کا ارتکاب کرنے والے شخص کو قتل تک پہنچانا عین شرعی وفقہی تقاضا ہے.یہ الگ بات ہے کہ حضور علم کی ذات اقدس پر کسی نے حملہ کیا، پتھر مارے گالیاں دیں اور طعن و تشنیع کے تیر برسائے لیکن آقائے دو جہاں علیم نے اپنے حق میں بذات خود تصرف کرتے ہوئے اسے معاف کر دیا تو حضور نبی ارم عالیہ کا یہ عمل اہل ایمان کے مابین
101 حسن سیرت کی تعلیم قرار پایا نہ یہ کہ وہ حق رسول عالم میں تصرف کرتے ہوئے گستاخ نبی کو معاف و در گزر کرنے کی روش اختیار کریں.بایں وجہ کوئی فرد بشر سرور کائنات حضور نبی کریم علیم کی اہانت و گستاخی کا ارتکاب کرئے اس فعل کا کسی بھی امتی یا اسلامی ریاست کو پتہ چل جائے اور وہ بغیر قیام حد کے اسے معاف کر دے تو یہ حسن خلق ہر گز نہ ہوگا بلکہ از روئے شرع یہ عمل بے جمیتی اور بے غیرتی متصور ہوگا کیونکہ بنی کریم ملی کی عزت و حرمت، عظمت و تقدس اور آداب و احترام کی محافظت و پاسبانی امت مسلمہ کی دینی وایمانی ذمہ داری میں شامل ہے.علاوہ ازیں حضور نبی کریم علی نے اگر کسی کو بذات خود معاف فرما بھی دیا تو یہ آپ ملک کے حقوق میں سے ایک حق ہے.اسے معاف کرنے کا آپ علم کو بذات خود تو اختیار حاصل ہے لیکن ایک امتی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کوئی گستاخ و بے ادب حضور لیلی کی اہانت و تنقیص کرے تو امتی حضور عالم کے حق خاص میں از خود تصرف کرتے ہوئے اسے معاف کرتا پھرے اور اس سے درگزر کرے امت کے لئے یہ کسی بھی صورت میں جائز ہی نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے سے اس کا اپنا ایمان بھی ضائع ہو جائے گا.“ تحفظ ناموس رسالت صفحه ۱۹۸ ۱۹۹۹ ) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ میں لکھا ہے کہ کثر علماء کا موقف یہی ہے.ابن المنذر کہتے ہیں عام علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ نبی اکرم علیم کی توہین کرنے والے کی حد قتل ہے.امام مالک لیث احمد اسحاق اور امام شافعی کا قول یہی ہے مگر نعمان (ابو حنیفہ ) سے منقول ہے کہ اسے ( ذقی ) قتل نہ کیا جائے اس لئے کہ جس شرک پر وہ قائم ہے وہ توہین رسالت سے عظیم تر جرم ہے.
102 اصحاب شافعی میں سے ابو بکر فارسی نے اس امر پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ جو شخص رسول کریم علی ایم کو گالی دے اس کی حد شرعی قتل ہے، جس طرح کسی اور کو گالی دینے کی سزا کوڑے مارنا ہے ( فتح الباری) جو اجماع انہوں نے نقل کیا ہے اس سے صدر اول یعنی صحابہ و تابعین کا اجماع مراد ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم علیم کو گالی دینے والا اگر مسلم ہو تو واجب القتل ہے.قاضی عیاض نے بھی اسی طرح کہا ہے فرماتے ہیں اس بات پر امت کا اجماع منعقد ہوا ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی رسول کریم صلی اللہ کی تو بین کرے یا آپ صلیم کو گالی نکالے تو اسے قتل کیا جائے.اسی طرح دیگر علماء سے بھی رسول کریم میم کی تو بین کرنے والے کے واجب القتل اور کافر ہونے کے بارے میں اجماع نقل کیا ہے.امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس بات پر مسلمانوں کا اجماع منعقد ہوا ہے کہ جو شخص اللہ یا اس کے رسول کو گالی دے یا خدا کے نازل کردہ کسی حکم کو رد کر دے یا کسی نبی کو قتل کرے تو وہ اس کی بنا پر کافر ہو جاتا ہے اگر چہ وہ خدا کے نازل کردہ تمام احکام کو مانتا ہو.“ کیا امام خطابی فرماتے ہیں ”میرے علم کی حد تک کسی مسلمان نے بھی اس کے واجب القتل ہونے میں اختلاف نہیں محمد بن سحنون کا قول ہے اس بات پر علماء کا اجماع منعقد ہوا ہے کہ نبی کریم صلیم کو گالی دینے والا اور آپ صلم کی تو بین کرنے والا کافر ہے اس کے بارے میں عذاب خداوندی کی وعید آئی
103 ہے.امت کے نزدیک اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے، جو شخص اس کے کفر اور اس کی سزا میں شک کرے وہ بھی کافر ہے.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول اردو ترجمہ مترجم پروفیسر غلام احمد حریری ناشر مکتبہ قدوسیہ رحمان مارکیٹ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور پاکستان سن اشاعت ۲۰۱۱ صفحه (۴۰٫۳۹ اسی طرح لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ نبی اکرم صل اہلیہ کو گالی دینے سے نہ تو وقی کا عہد ٹونتا ہے اور نہ اس کا قتل لازم آتا ہے مگر اعلامیہ ایسا کرنے کی وجہ سے اس پر اسی طرح تعزیر لگائی جائے جس طرح دیگر منکرات کا اعلانیہ ارتکاب کرنے پر لگائی جاتی ہے.مثلاً اپنی مذہبی کتاب کو بآواز بلند پڑھنا وغیرہ طحاوی نے یہ مؤقف امام ثوری سے نقل کیا ہے.( مختصر الطحاوی صفحہ ۲۶۲) حنیفہ کا اصول یہ ہے کہ جن افعال کے ارتکاب سے فاعل کا قتل لازم نہیں آتا مثلا! بھاری پتھر پھینک کر کسی کو قتل کرنا یا فرج کے سوا کسی اور عضو میں جماع کرنا اگر ایسے فعل کا صدور فاعل سے کئی مرتبہ ہو تو حاکم ایسے شخص کو قتل کر سکتا ہے.اسی طرح اگر حاکم اس میں مصلحت دیکھے تو شرعی حد سے زیادہ سزا دے سکتا ہے.ایسے جرائم کی سزا میں قتل کی جو روایات رسول کریم علی ایم او صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے منقول ہیں وہ ان کو اس بات پر محمول کرتے ہیں کہ مصلحت کا تقاضا یہی تھا، اس کا نام وہ سیاست قتل کرنا ر کھتے ہیں.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جن جرائم میں تکرار و اعادہ کی وجہ سے شدت پیدا ہو گئی ہو ان میں قتل کی سزا دی جاسکتی ہے.بنابریں اکثر حنفیہ نے فتوی دیا ہے کہ جو زمی نبی کریم ملالہ اہلیہ کو گالی
104 دے اسے قتل کیا جائے اگر چہ گرفتار ہونے کے بعد مسلمان کیوں نہ ہو جائے.وہ کہتے ہیں کہ اسے سیاست قتل کیا جائے.یہ بات حنفیہ کے سابق الذکر اصول پر مبنی ہے.“ ( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۴۹) اب تک جن لوگوں نے بھی شاتم الرسول یا گستاخ رسول کے عنوان پر کتابیں لکھی ہیں ان سب نے اپنے مؤقف کی تائید میں امام ابن تیمیہ کی اسی کتاب الصارم المسلول کا سہارا لیا ہے.اور ہر مصنف نے اس بات کو پیش کیا ہے کہ اس معاملہ میں امت کا اجماع ہے کہ گستاخ رسول شاتم رسول کی سزا قتل ہے اور اسی بات کو بار بار دہرایا گیا ہے.اس وقت تک جس قدر بھی کتب میری نظر سے گزری ہیں ان میں روایات کی روشنی میں اس مسئلہ پر امت کے اجماع کی بات کی گئی ہے.قرآن کریم سے یا حدیث نبوی علیم سے کوئی ایک آیت بھی یا کوئی ایک حدیث بھی ایسی پیش نہیں کی گئی جس میں گستاخ رسول یا شاتم رسول کو قتل کرنے کا واضح حکم ہو.البتہ قرآن کریم کی آیات یا بعض احادیث کو پیش کر کے ان سے تو جیہ کی گئی ہے.گستاخ رسول کو قتل کرنے کے حامیوں نے جن آیات یا احادیث کو اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کیا ہے ان پر بھی آگے چل کر غور کیا جائے گا انشاء اللہ تعالی.لیکن اس جگہ یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ اجماع امت کسے کہتے ہیں.اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اجماع امت اس بات میں مانا جائے گا جس میں امت کے تمام علماء مفکرین، محدثین، مفسرین، مؤرخین، مفتیاں آئمہ و علماء شرح متین حالیان و سابقین تمام کے تمام کسی ایک مسئلہ پر متفق اور متحد ہوں اور کوئی رائی برابر بھی اختلاف نہ پایا جاتا ہو.علماء کرام کی طرف سے اس معاملہ میں جو یہ بات بار بار لکھی جاتی ہے کہ اس بات پر امت کا اجماع ہے درست دکھائی نہیں دیتی.اوپر پیش کئے گئے چند حوالوں ہی کو دیکھ لیں صاف دکھائی دیتا
105 منفین ہے کہ اس معاملہ میں امت کا اجماع ہر گز نہیں ہے.جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ تمام مص نے امام ابن تیمیہ کی کتاب کو بنیاد بنایا ہے ان کی کتاب سے جو حوالہ پیش کیا ہے اس میں بات ہی یہاں سے شروع کی گئی ہے کہ اکثر علماء کا موقف یہی ہے یہ نہیں لکھا کہ تمام علماء کا موقف یہی ہے.کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ اس معاملہ میں امت میں اختلاف پایا جاتا ہے.اور یہ بات درست بھی ہے کیونکہ آپ نے خود ہی اپنی کتاب میں اس اختلاف کو جابجا بیان بھی کیا ہے زیادہ دور نہ بھی جائیں تو بھی آئمہ اربعہ ہی کے موقف میں اختلاف موجود ہے جسے امام ابن تیمیہ نے خود ہی پیش کیا ہے.جن لوگوں نے بھی اجماع امت کی بات کی ہے یہ بات ان کے اپنے زعم کی حد تک ہے یا بعض علماء ان کے موقف کی تائید میں دکھائی دیتے ہیں لیکن اس معاملہ میں اختلاف رائے کو دیکھتے ہوئے اجماع امت ہر گز دکھائی نہیں دیتا.جناب پیر زادہ شفیق الرحمن صاحب بھی لکھ رہے ہیں کہ رح دو دور حاضر کے بعض بزعم خود روشن خیال و اعتدال پسند لوگ شاتم و گستاخ رسول ملالیم کی اس سزا کو غلو وتشد د باور کروانے پر تلے ہیں“ (صفحہ ۱۶۱) ان کی یہ تحریر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس معاملہ میں اختلاف موجود ہے.جب اختلاف موجود ہو تو اجماع امت کہنا کسی لحاظ سے بھی درست نہیں رہتا.الغرض اس سلسلہ میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اس لئے یہ بات کسی صورت بھی ماننے کے لائق نہیں ٹھہرتی کہ گستاخ رسول اور شاتم رسول کی سز اقتل پر اجماع امت موجود ہے.اس کے علاوہ ان کتب میں ایک بحث اور بھی بڑی ہی دل چسپ ہے جو ذھی کی بحث ہے قرآن کریم اور احادیث کے حوالہ سے ساری بحث ذقی کے گرد ہی گھومتی ہے یہ بھی ایک الگ مضمون سے جس پر الگ سے بحث کی جائے گی.پھر ایک کافر کی بحث ہے ایک مومن کن
106 حالات میں کافر ہو جاتا ہے اور پھر اس کے کفر کی بنا پر کیا اسے قتل کیا جا سکتا ہے قرآن کریم اس سلسلہ میں کیا کہتا ہے وغیرہ یہ وہ ساری بخشیں ہیں جن میں اختلاف موجود ہے یا پھر قرآنی تعلیم کے بالکل مخالف ٹھہرتی ہیں جن پر اجماع امت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.
107 شاتم رسول اور توہین رسالت کرنے والے کی سزا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں بہت سی کتب منظر عام پر آچکی ہیں.اور اکثر مصنفین نے اس بات پر ہی زور دیا ہے کہ ہر شاتم رسول کی اور توہین رسالت اور توہین قرآن کرنے والے کی سزا قتل ہے.آئے دن ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی بد باطن یا بدطینت ہمارے پیارے بنی مصلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے اور علماء کی طرف سے قتل کے فتوے جاری ہوتے ہیں.بعض اوقات احتجاجات کے نتیجہ میں خود مسلمانوں ہی کو جان کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں.علماء کی طرف سے فتوؤں کا جاری ہونا ہی دینا میں اسلام کی بدنامی کا ذریعہ بن جاتا ہے.تو بین کرنے والوں کو تو تحفظ فراہم ہوجاتا ہے لیکن ان کے خلاف احتجاج کرنے والے جو کہ اسلام کے نام پر اور محبتِ رسول عالم میں مر مٹنے کو تیار ہوتے ہیں مخالفین اسلام کے نشانے پر آکر پوری دنیا میں بدنام ہونے کے ساتھ ساتھ جان کی قربانیاں بھی پیش کرتے ہیں.اسی طرح بعض مفکرین اسلام اس بات کو بھی با دلائل پیش کرتے ہیں کہ تو بین رسالت کرنے والے یا شاتم رسول کے سزا قتل نہیں ہے اور اس کا اسلام میں کوئی جواز نہیں پایا جاتا.ان کی دلیل یہ ہے کہ اسلام انصاف ہر مبنی دین ہے اور کسی پر کسی قسم کی زیادتی کی اجازت نہیں دیتا.مخالفین اسلام جس قسم کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں اسلام مقابلہ کے لئے اسی طریق سے دفاع کا حکم دیتا ہے.اگر کوئی قلم کا استعمال کرے تو اس کا قلم سے جواب دیا جانا چاہئے اور اگر کوئی اسلام کے خلاف تلوار اٹھاتا ہے تو اس کے خلاف تلوار سے دفاع کی اجازت دیتا ہے.اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ زبان اور قلم کے بالقابل تلوار اٹھائی جائے.قرآن کریم اس بات کو کئی مقام پر بیان فرماتا ہے کہ جان کے بدلے جان ، دانت کے بدلے دانت ، آنکھ
108 کے بدلے آنکھ.کان کے بدلے کان ، اس کے ساتھ ہی فرماتا ہے کہ بدلہ تو انصاف کے تقاضہ کو پورا کرتے ہوئے لیا جا سکتا ہے ہاں جو معاف کر دے اور درگزر کر دے تو اس کا اجر اسے اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوگا.کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے کہ توہین رسالت کرنے والے یا شائیم رسول کی سزا کیا ہے؟ جن لوگوں نے اس کی سز اقتل بیان کی ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں تاریخ و سنت اور عقل کی کسوٹی پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے دلائل قرآنی تعلیم اور اسوہ رسول علیم سے کس قدر مطابقت رکھتے ہیں.اسی طرح ان کے دلائل بھی کس قدر مطابقت رکھتے ہیں جو توہین رسالت کرنے والے کے قتل کی سزا کے قائل نہیں.آگے چل کر انشاء اللہ تعالیٰ اس پر تفصیل سے غور کیا جائے گا.
109 قرآن کریم اور توہین رسالت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا واقعہ محفوظ کیا ہے جو رسول کریم علیم کی زندگی ہی میں پیش آیا اس کا ذکر احادیث نبوی صلیم میں بھی موجود ہے اور تاریخ اسلام لکھنے والوں نے بھی اسے محفوظ کیا ہے.اس واقعہ پر رسول کریم علی یا علم کا اسوہ ہمارے لئے اس معاملہ میں راہنما اصول ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (المتفقون آیت۹) یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو جو مدینہ کا سب سے معزز آدمی ہے وہ مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی کو اس سے نکال دیگا.اور عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو ہی حاصل ہے لیکن منافق جانتے نہیں.“ واقعہ غزوہ مصطلق کا ہے کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول ایک جگہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ مدینہ پہنچ کر وہاں کا عزت والا شخص وہاں کے ذلیل شخص کو مدینہ سے نکال دیگا.جب یہ بات اس نے کہی اس مجلس میں ایک بچہ زید بن ارقم بھی بیٹھے تھے جب آپ نے یہ بات سنی تو آپ بے تاب ہو گئے آپ نے فوراً ہی اپنے چچا کے ذریعہ اس واقعہ کی اطلاع آنحضرت حلالم کو دی.اس وقت حضرت عمر بھی وہاں بیٹھے تھے یہ الفاظ سن کر غیرت اور غصہ سے بھر گئے.اور آنحضرت علیم سے عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ ! آپ مجھے اجازت دیں میں ابھی اس منافق کی گردن اڑا دوں.آپ نے فرمایا ”عمر جانے دو.کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ لوگوں میں یہ چر چاہو کہ محمد
110 اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا پھرتا ہے.اس پر آنحضرت میم نے عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا اور دریافت فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے اس پر عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی قسمیں کھا گئے کہ ایسی کوئی بات ہی نہیں ہوئی ہے.آپ نے اس کی اور اسکے ساتھیوں کی بات کو قبول فرمالیا.اور زید کی بات کور د فرما دیا.اس بات کا زید کو بہت صدمہ پہنچا.مگر قرآنی وحی نے زید کی بات کی تصدیق فرما دی اور منافقین کو جھوٹا قرار دیا.یہ توہین رسالت کا ایسا واقعہ ہے جس کی خدا نے تصدیق کی کہ واقعی عبد اللہ بن ابی بن سلول نے رسول خدا اصلی لیلی کی توہین کی ہے اور یہ ایسا موقعہ تھا کہ توہین رسالت کرنے والے کی سزا کا اعلان فرماتے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں کوئی ارشاد نہیں فرمایا کہ اس کو یہ سزادی جائے بلکہ آپ نے حضرت عمرؓ سے ارشاد فرمایا کہ اس وقت لوگوں کو مدینہ کے لئے کوچ کرنے کا حکم دیدو.یہ دو پہر کا وقت تھا اور آنحضرت علیہ اس وقت کبھی بھی لشکر کو کوچ کا حکم نہیں فرماتے تھے.اور سارا لشکر کوچ کے لئے تیار ہو گیا.عبداللہ بن ابی بن سلول کی اس حرکت کی اطلاع جب اس کے بیٹے کو لی جس کا نام حباب تھا اور رسول اللہ علیہ نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھ دیا تھا گھبرایا ہوا آنحضرت میم کے پاس آیا یہ ایک مخلص صحابی تھے اور آنحضور علیم سے کہنے لگے.یا رسول اللہ میں نے سنا ہے کہ آپ میرے باپ کی گستاخی اور فتنہ انگیزی کی وجہ سے اس کے قتل کا حکم دینا چاہتے ہیں.اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو مجھے حکم فرمائیں میں ابھی اپنے باپ کا سرکاٹ کر آپ کے قدموں میں لا ڈالتا ہوں.مگر آپ کسی اور کو ایسا ارشاد نہ فرمائیں کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کوئی جاہلیت کی رگ میرے بدن میں جوش مارے اور میں اپنے باپ کے قاتل کو کسی وقت کوئی نقصان پہنچا ہیٹھوں اور خدا کی رضا چاہتا ہو بھی جہنم میں جا گروں.آپ نے اسے تسلی دی اور فرمایا کہ ہمارا ہر گز یہ ارادہ نہیں ہے بلکہ ہم بہر حال
111 تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے.(سیرت ابن ہشام جلد دوم اردو ترجمه صفحه ۳۴۹,۳۴۸) تاریخ میں آتا ہے کہ جب یہ شکر مدینہ میں داخل ہور ہا تھا تو عبداللہ ابن عبداللہ بن ابی بن سلول اپنے والد کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا خدا کی قسم میں تمہیں واپس نہیں جانے دونگا جب تک تم اپنے منہ سے یہ اقرار نہ کرو کہ رسول اللہ علیم معزز ترین ہیں اور تم ذلیل ہو اور عبداللہ نے اس اصرار سے اپنے باپ پر زور ڈالا کہ آخر اس نے مجبور ہو کر یہ الفاظ کہہ دیتے جس پر عبداللہ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا.(سیرت ابن ہشام ) یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے صاف صاف تو بین رسالت دکھائی دیتی ہے اگر اسلام میں اور قرآن کریم میں توہین رسالت کرنے والے کی سز اقتل کا حکم ہوتا تو آپ ضرور اس موقعہ پر عبد اللہ بن ابی بن سلول کو قتل کرنے کا حکم دیتے لیکن آپ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا بلکہ ہمیشہ ہی اس کے ساتھ رافت اور نرمی کا سلوک فرمایا.ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ جب عبداللہ بن ابی بین سلول کی وفات ہوئی تو آنحضور علی نے اس شخص کی نماز جنازہ تک ادا فرمائی.اپنی ایک قمیض بھی اسے عطا کی تھی جو اس کی نعش کے ساتھ بطور کفن کے دفن کی گئی.اس واقعہ پر آنحضرت علی کا عمل یہ بتاتا ہے کہ اسلام میں اور قرآن کریم میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ توہین رسالت کرنے والے کی سزا قتل ہے.۲.قرآن کریم میں ایک اور واقعہ بھی درج ہے جو کہ اسی غزوہ کے موقعہ پر پیش آیا یہ واقعہ واقعہ افک“ کے نام سے جانا جاتا ہے.آنحضرت علیم کا یہ طریق مبارک تھا کہ جب بھی آپ کسی سفر کے لئے تشریف لے جاتے تو اپنے ساتھ اپنی ازواج میں سے بھی کسی کو لے جاتے تھے.اس موقعہ پر قرعہ حضرت عائشہ کے نام نکلا تھا اور آپ آنحضور بیلیم کے
112 ساتھ تشریف لے گئی تھیں.آنحضور بلال سلیم کا لشکر کو جب واپسی کے وقت مدینہ کے قریب ایک جگہ ٹھہرا ہوا تھا تو آپ نے لشکر کو رات کے وقت نکلنے کا حکم صادر فرمایا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب میں نے یہ اعلان سنا تو میں حوائج انسانی سے فارغ ہونے کے لئے لشکر سے باہر نکل کر ایک طرف کو گئی اور فارغ ہو کر واپس لوٹ آئی جب میں اپنے اونٹ کے قریب پہنچی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے گلے کا ہار ندارد ہے.اس کی تلاش میں میں پھر واپس لوٹ گئی اور اس کی تلاش میں مجھے کچھ دیر ہوگئی.اسی اثناء میں وہ لوگ جو میرا ہوؤ دہ اُٹھانے پر متعین تھے آئے اور یہ خیال کر کے کہ میں ہودہ کے اندر ہوں انہوں نے میرا ہودہ اٹھا کر اونٹ کے اوپر رکھ دیا اور تشکر کے ساتھ روانہ ہو گئے.آپ فرماتی ہیں کہ میں اس زمانہ میں پہلی دہلی تھی اس لئے ہودہ اٹھانے والوں کو یہ شک بھی نہ گزرا تھا کہ میں ہودہ میں ہوں یا نہیں.جب میں واپس آئی تو میں نے دیکھا کہ لشکر روانہ ہو چکا ہے.اس پر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اسی جگہ بیٹھ جاتی ہوں میری غیر موجودگی پر مجھے تلاش کرتے ہوئے لشکر کے لوگ یہیں آئیں گے.آپ فرماتی ہیں کہ میں و ہیں بیٹھ گئی اور بیٹھے بیٹھے مجھے نیند آ گئی.ایسے مواقع پر کسی ایک شخص کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ وہ لشکر کے چلے جانے کے بعد پورے میدان کا جائز ولے اور اگر کوئی چیز پیچھے رہ گئی ہو تو وہ لیکر آئے اس کام پر صفوان بن معطل کی ڈیوٹی تھی.چنانچہ جب وہ پیچھے سے آئے اور صبح کے قریب میری جگہ پر پہنچے تو انہوں نے مجھے وہاں اکیلے سوتے ہوئے دیکھا.چونکہ وہ پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھ چکے تھے مجھے فوراً پہچان گئے جس پر آپ نے گھبرا کرانا یله و إنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون پڑھا.ان کی یہ آواز سن کر میں جاگ گئی اور فوراً اپنا منہ اوڑھنی سے ڈھانپ لیا.آپ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم اس نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی اور نہ میں نے اس کلمہ کے سوا اس کے منہ سے کوئی اور الفاظ سنے.اس کے بعد وہ اپنے اونٹ کو آگے لایا اور
113 میرے قریب اس کو بٹھا دیا.اور اس نے اونٹ کے دونوں گھٹنوں پر اپنا پاؤں رکھ دیا تا کہ وہ اچانک نہ اٹھ سکے ) چنانچہ میں اونٹ پر سوار ہو گء اور صفوان اس کے آگے آگے اُس کی مہار تھامے ہوئے چلنے لگا.حتی کہ ہم اس جگہ پہنچے جہاں اسلامی لشکر پر وڈالے ہوئے تھا.اس واقعہ پر اسی عبداللہ بن ابی بن سلول نے اور ان کے ساتھ اتم سطح کے بیٹے مسطح نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا پر بہتان باندھ کر آپ کی توہین کی یہ تو بین صرف حضرت ائم المؤمنین کی ہی تھی بلکہ آنحضرت صلم کی شان میں بھی گستاخی تھی کیوں کہ آپ رضی اللہ عنھا سرور کونین سلام کی زوجہ مطہرہ بھی تھیں.جو تہمت آپ پر باندھی گئی تھی وہ بہت بڑی تھی اور اس بارہ میں بہت چرچہ ہورہا تھا اور چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں.اسی دوران آپ بیمار بھی ہو گئیں اور فرماتی ہیں کہ میں دیکھتی تھی کہ میری بیماری کے دوران رسول کریم علیم کی وہ شفقت اور مہربانی بھی مجھے نظر نہ آتی تھی جو عموماً آپ مجھ سے فرمایا کرتے تھے.اسی دوران آپ اپنے والد کے گھر بھی تشریف لے گئیں تا کہ حقیقت کا علم ہو سکے.ادھر آ نحضرت بلای شمالی پر وحی کے نزول میں بھی کافی وقفہ ہو گیا تھا.اس واقعہ پر آنحضور عالم نے حضرت علی بن طالب اور اسامہ بن زید کو بلا کر ان سے مشورہ بھی لیا.پھر اسی دن آپ نے مسجد میں ایک تقریر بھی فرمائی جس میں آپ نے فرمایا ” مجھے میرے اہل کے بارے میں بہت دکھ دیا گیا ہے.کیا تم میں سے کوئی ہے جو اس کا سد باب کر سکے؟ اور خدا کی قسم مجھے تو اپنی بیوی کے متعلق سوائے خیر و نیکی کے اور کوئی علم نہیں ہے.اور جس شخص کا اس معاملہ میں نام لیا جاتا ہے اسے بھی میں اپنے علم میں نیک خیال کرتا ہوں.اور وہ بھی میرے گھر میں میری غیر حاضری میں نہیں آیا ( بخاری کتاب المغازی باب حدیث الا فک) الغرض رسول کریم علی ایم کو آپ کی زوجہ مبارکہ پر لگائے گئے اس تہمت کے الزام سے
114 بہت دکھ پہنچا.اگر چہ اس واقعہ کے ایک ماہ بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بریت کی یہ آیات نازل ہوئیں.إِنَّ الَّذِيْنَ جَا وَ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرَّ الكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ لِكُلِّ امْرِ مِنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَةُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنِ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْراً لا وَ قَالُوا هَذَا افَكَ مُّبِينٌ لَوْلَا جَاءُوْ عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ج فَاذْلَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللهِ هُمُ الْكَذِبُونَ (سورۃ النور ۱۲ تا ۱۴) یعنی یقینا وہ لوگ جنہوں نے ایک بڑا اتہام باندھا تھا تمہیں میں سے ایک گروہ ہے تم اس (فعل) کو اپنے لئے برانہ مجھو بلکہ وہ تمہارے لئے بہت اچھا تھا( کیونکہ اس کی وجہ سے ایک پر حکمت تعلیم تم کومل گئی ) ان میں سے ہر شخص کو اس نے جتنا گناہ کیا تھا اس کی سزامل جائے گی اور جو شخص اس گناہ کے بڑے حصے کا ذمہ دار تھا اس کو بہت بڑا عذاب ملے گا.جب تم نے یہ بات سنی تھی تو کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنی قوم کے متعلق نیک گمان کیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے.اور کیوں نہ وہ لوگ ( جنہوں نے یہ جھوٹ پھیلا یا تھا) اس پر چار گواہ لائے پس جب کہ وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے فیصلہ کے مطابق وہ جھوٹے ہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دور کے وہ مفکرین جو ازواج مطہرات کی توہین کرنے والوں کو قتل کی سزا کا فتویٰ دیتے ہیں وہ ان آیات پر غور کریں.اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ایسا کوئی حکم نہیں دیا کہ ایسے شخص کو قتل کر دیا جائے.اور نہ ہی آنحضور بیل مایلی نے ایسے اتہام لگانے والوں کو قتل کرنے کا کوئی حکم دیا بلکہ آپ نے ان سے در گزر فرماتے ہوئے اللہ کی طرف سے درد ناک
115 عذاب کی وعید کو کافی جانا.اگر ایسے اتہام لگانے والوں اور تو بین کرنے والوں کی سز اقتل ہوتی تو رسول کریم علیم ضرور اس کا حکم فرماتے اور ان لوگوں کو قتل کیا جاتا جنہوں نے اس تو بین کا بیڑا اٹھایا.لیکن آپ نے ایسے تمام افراد کو معاف فرماتے ہوئے ان سے شفقت ورافت کا سلوک فرمایل اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُ والهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْض...(الحجرات آیت ۳) یعنی اے مومنو! نبی کی آواز کے آگے اپنی آواز اونچی نہ کیا کرو.اور نہ بلند آواز سے اس رض کے سامنے اس طرح بولا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے سامنے بولتے ہو.اب یہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ جو کوئی بھی آنحضور علیم کے سامنے اونچی آواز سے بات کرے تو وہ تو ہین قرآن بھی کرتا ہے اور توہین رسول کا بھی مرتکب ہوتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت سلم کی خدمت میں آیا.آپ سے قرض ادا کرنے کا تقاضا کیا اور بڑی گستاخی سے پیش آیا.آپ کے صحابہ کو بڑا غصہ آیا اور اسے ڈانٹنے لگے.حضور نے فرمایا.اسے کچھ نہ کہو کیوں کہ جس نے لینا ہو وہ کچھ نہ کچھ کہنے کا بھی حق رکھتا ہے.پھر آپ نے فرمایا اسے اس عمر کا جانور دید وجس عمر کا اس نے وصول کرنا ہے.صحابہ نے عرض کیا اس وقت تو اس سے بڑی عمر کا جانور موجود ہے آپ نے فرمایا وہی دیدو.کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنا قرض زیادہ عمدہ اور اچھی صورت میں ادا کرتا ہے.( صحیح مسلم کتاب البیوع باب من استسلف شياً فقضى خيراً منه ) یہ حدیث اس بات کو پیش کرتی ہے کہ آنحضرت علیم کے سامنے ایک شخص نے واضح
116 طور پر گستاخی کی اور اس گستاخی کرنے کے نتیجہ میں صحابہ کو غصہ بھی آیا.اگر گستاخی کی سزا قتل ہی ہوتی تو یہ ایسا موقعہ تھا کہ ایک شخص ایک طرف قرآن کی توہین کر رہا ہے اور دوسری طرف رسول کریم علیم سے گستاخی بھی کر رہا ہے تو آنحضور علی اس شخص کو قتل کرنے کا حکم صادر فرماتے لیکن آپ نے لوگوں کو اسے ڈانٹنے سے بھی منع فرما دیا اور کچھ نہ کچھ کہنے کا حق دیتے ہوئے اس سے بہتر اس کو ادا کیا جس کا وہ مطالبہ کر رہا تھا.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِي وَيَقُولُونَ هُوَ أذن ، قُل أذن خَيْرٍ لَّكُمْ يؤمن باللهِ وَ يُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْكُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيم (سورت الثوبہ آیت ۶۱) یعنی.اور ان میں سے بعض ایسے ( منافق ) بھی ہیں جو نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو ( کان ہی ) کان ہے تو کہہ دے کہ وہ تمہارے لئے بھلائی سننے کے کان رکھتا ہے وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور جو تم میں سے مومن ہوں اُن کے وعدوں) پر ( بھی ) یقین رکھتا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت کا موجب ہے اور وہ لوگ جو اللہ کے رسول کو دکھ پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے.قرآن کریم کی اس آیت میں صاف طور سے دکھائی دیتا ہے کہ منافقین آنحضرت علی ایم کی توہین کی نیت ہی سے آپ کو کان کہہ رہے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ صرف لوگوں کی شکایات ہی سنتے رہتے ہیں.گو یہ کہ نعوذ باللہ اس کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہیں ہے تو اس کا جواب اللہ تعالیٰ دیتا ہے کہ سنتا تو ضرور ہے مگر تمہارے فائدہ کے لئے سنتا ہے تا کہ تمہاری اصلاح کرے.اور ایسا سننے والا قوم کا محسن ہوتا ہے خبریں سننا اس کے لئے منع ہے جو بغض اور
117 کینہ سے کام لے.اس میں توہین رسالت صاف دکھائی دیتی ہے لیکن قرآن کریم نے ایسے شخص کے قتل کا کوئی حکم نہیں دیا بلکہ اس کے لئے درد ناک عذاب کی وعید ہے اور اسے اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.بندوں کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ ایسا کرنے والے کو قتل کر دیں.امام ابن تیمیہ نے اس آیت کو بیان کر کے اس سے یہ دلیل پکڑی ہے کہ شاتم رسول کرنے والا کافر ہے چونکہ اس نے کفر کیا ہے اس لئے وہ مخالفت میں دشمنوں کے ساتھ ہو کر جنگ کرے گا.یہ ایک موہوم سی بات دکھائی دیتی ہے جو ان کا اپنا خیال کہلا سکتا ہے لیکن اس کی اصل اس آیت میں موجود نہیں.اس پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کہنے والے منافقین تھے جو آپ کی مجلسوں میں بیٹھتے بھی تھے اور ایسی باتیں بھی کرتے تھے.اور اپنی بات کو تقویت دینے کے لئے جن واقعات کو پیش کرتے ہیں ان کا نتیجہ اس کے بالکل برعکس دکھائی دیتا ہے.آپ لکھتے ہیں ابو قحافہ نے آنحضرت علی تعلیم کو گالی دی تو (ان کے بیٹے ) ابوبکر صدیق نے اسے قتل کرنا چاہا عبد اللہ بن ابی نے رسول کریم معلم کی تحقیر کی تو اس کے بیٹے نے رسول کریم سے اپنے باپ کو قتل کرنے کی اجازت مانگی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والا کافر اور مباح الدم ہے.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول اردو ایڈ یشن صفحہ ۷۴) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول کریم یا لیلی نے ان لوگوں کے قتل کی اجازت دی ؟ جب اجازت ہی نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کا اس بنا پر قتل ہوا تو یہ بات کہاں سے اخذ کی جا سکتی ہے کہ یہ مباح الدم ٹھہرتے ہیں.ہاں قتل کئے جاتے اس پر رسول خدا علی ان کو مباح الدم ٹھہراتے تو یہ بات مانی جا سکتی تھی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو شاتم رسول کے قتل کے لئے جو
118 دلیل دی گئی ہے وہ بالکل الٹ ٹھہرتی ہے.دوسری بات یہ کہ جو کافر ہو جائے اس کا خون بھی کس طرح جائز ہو سکتا ہے.کیونکہ قرآن کریم کسی کے ایمان لانے کے بعد اس کے انکار اور کفر کی بنا پر بھی اسے قتل کا کوئی حکم نہیں دیتا بلکہ یہ بات بیان کرتا ہے کہ پہلے ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر وہ کفر میں بہت ہی آگے بڑھ گئے ایسے لوگوں کو بھی سزا دینے کا کام اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا اور کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ کسی کے کافر ہو جانے کی بنا پر اس کو قتل کر دیا جائے ایسا کوئی حکم قرآن کریم میں موجود نہیں.اور نہ ہی آنحضرت نے کسی شخص کو محض انکار اور کھر کی بنا پر قتل کا کوئی حکم دیا ہے.اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ ہم نے نجد کی طرف آنحضرت علی کے ساتھ جہاد کیا.اتفاق سے دو پہر کا وقت ایسے جنگل میں آیا جہاں کانٹے دار درخت بہت تھے ، آپ ایک درخت کے سایہ میں اترے اور تلوار درخت سے لٹکا دی.تو آپ کے ہمراہی بھی جدا جدا درختوں کے سایہ میں اترے ،اسی اثناء میں ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت علی کی ہم کو بلا رہے ہیں، خیر ہم گئے، دیکھا تو ایک گنوار آپ کے سامنے بیٹھا ہے آپ نے فرمایا ابھی یہ گنوار میرے پاس آیا میں سورہا تھا اس نے کیا کیا میری تلوار سونت لی میں جاگا تو کیا دیکھتا ہوں ننگی تلوار لئے میرے سر پر کھڑا ہے کہنے لگا اب تم کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا، میں نے کہا اللہ بچانے والا ہے یہ سنتے ہی اس نے تلوار نیام میں کر لی اور بیٹھ گیا دیکھو یہ بیٹھا ہے.جابر نے کہا آنحضرت علی نے اس کو کوئی سزا نہ دی.( صحیح بخاری جلد دوم کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاب حدیث ۱۲۹۸) یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جنگ کا ماحول ہے ایک شخص آپ ہی کی تلوار لیکر آپ پر سونت کر کھڑا ہو جاتا ہے ایسا مجرم توجنگی مجرم کہلاتا ہے اور ایسے مجرموں کی سز اقتل ہوا کرتی ہے اور پھر وہ
119 بھی رسول کریم ملا لینے کے خلاف ایسی گستاخی کہ آپ آرام فرما رہے ہیں اور یہ شخص آپ ہی کی تلوار آپ کی پر سونت کر کھڑا ہو جاتا ہے.پھر آپ اپنے اصحاب کو بھی بلاتے ہیں اور اس واقعہ سے آگاہ کرتے ہیں کہ دیکھو اس شخص نے کیسا جرم اور گستاخی کی ہے ان تمام باتوں کے با وجود آنحضور بلا لیا ہم نے اس شخص کے خلاف قتل کا کوئی حکم نہیں دیا بلکہ آپ نے اسے کوئی سزا بھی نہ دی اور معاف فرما دیا.الغرض اوپر بیان کئے دلائل اس بات پر شاہد ہیں کہ اسلام میں محض گستاخ رسول، گستاخ قرآن، گستاخ اہل بیت کی سز اقتل نہیں.نہ تو قرآن کریم اس کا حکم دیتا ہے نہ ہی سنت سے ثابت ہے اور نہ ہی احادیث اس بات کو بیان کرتی ہیں.ایسے گستاخوں کی سزا کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے کہ وہ خود اس دنیا میں یا آخرت میں ان کو ان کے عمل کی سزا دیگا.
120 کیا قرآن کریم میں شاتم رسول اور توہین رسالت کرنے والے کی سر قتل ہے؟ توہین رسالت کرنے والے اور شاتم رسول کی سزا قتل ہے اس نظریہ کے پیش نظر بہت سی کتب لکھی گئی ہیں.سب سے اہم کتاب جس کے حوالے اکثر علماء اپنی کتب میں پیش کرتے ہیں وہ امام ابن تیمیہ کی کتاب ” الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ ہے ایک کتاب ”شاتم رسول ایم کی شرعی سزا‘ تالیف پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الد راوی صاحب کی ہے.ایک کتاب تحفظ ناموس رسالت“ کے عنوان سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی طرف سے لکھی ہوئی ہے اسی طرح ایک کتاب شان مصطفی صلی علیم اور گستاخ رسول کی سزا‘ کے عنوان سے جناب قادری محمد یعقوب شیخ صاحب کی طرف سے تصنیف شدہ ہے.انکے علاوہ اور بھی بہت سی کتب اس مضمون کی شائع شدہ ہیں ان کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مصنفین کا موقف ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح کے حوالے انہوں نے پیش کئے ہیں اور ایک ہی نظریہ کو پیش کیا ہے اور ان تمام مصنفین نے امام ابن تیمیہ کی کتاب کو بنیاد بنایا ہے.اس پر لکھنے والوں نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ شاتم رسول میلیم اور توہین رسالت کرنے والوں کی سز الازمی طور پر قتل ہے.اسی لئے انہیں کتب کو بنیاد بنا کر اور ایسے علماء کے فتوؤں کا سہارا لیکر حکومت پاکستان نے تعزیرات پاکستان میں تو بین رسالت کرنے والے اور عنوان پر شاتم رسول کے لئے قتل کا قانون بنادیا جیسا کہ درج ہے کہ 295-C.Use derogatory remarks, etc., in respect of the Holy prophet:
121 Whoever by words, either spoken or written or by visible reprsentation or by any imputation, innuendo, or insinuation, directly or indirectly, defiles the sacred name of the Holy prophet Muhammad (peace be with be punished shall upon him) death,or imprisonment for life, and shall also be liable to fine.(Pakistan penal code (Act XI.V of 1860) page108) تعزیرات پاکستان میں یہ کلاز ایسی ہے کہ جو توہین رسالت کرنے والے یا شاتم رسول کو موت کی سز اسناتی ہے.یہ قانون تو بنادیا گیا ہے اور ایسا کھلا قانون ہے کہ فیصلہ کرنے والاجس بات کو چاہے تو بین رسالت کے تحت لا کر اسے موت کی سزا سنا سکتا ہے.اس قانون میں اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ کون کون سی باتیں یا الفاظ یا امورتو بین رسالت کے ضمن میں سمجھے جائیں گے.اور کون سے امور اس ضمن میں نہیں آئیں گے.اس لحاظ سے اس قانون کا استعمال صحیح طور پر ہو رہا ہے یا نہیں یہ نہیں کہا جا سکتا.کیونکہ ایک شخص اپنے خیال میں جس بات کو شان رسول عربی علیم کے لئے پیش کر رہا ہے دوسرا شخص اسی بات کولیکر اسے گستاخ رسول کہہ رہا ہے.اور یہ باتیں ہم ہر روز دیکھتے اور سنتے ہیں کہ سٹی علماء بریوی علماء کی بعض تحریرات کو لیکر ان کے علماء کو گستاخ رسول کہہ رہے ہوتے ہیں اور بریلوی علماء سنی اور دیو بندی علماء کی بعض تحریرات کو پیش کر کے انہیں گستاخ رسول بیان کر رہے ہوتے ہیں.شیعہ علماء کا بھی یہی حال ہے وہابی علماء کا بھی یہی حال ہے الغرض اسلام میں پائے جانے والے تمام فرقوں کے علماء دوسرے فرقہ کے عالم کی کسی نہ کسی بات یا تحریر کولیکر یہ فتوے جاری کرتے رہتے ہیں اور
122 ایک دوسری کو گستاخ رسول صلی ٹھہراتے رہتے ہیں اگر ان علماء کے فتوؤں پر چلا جائے تو تعزیرات پاکستان کی اس کلاز سے سزائے موت پانے سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا.کیوں کہ کسی کے بھی کسی بھی قول یا تحریر کو گستاخ رسول میم کی شق کے نیچے لا کر کسی کو بھی سزائے موت سنائی جاسکتی ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اسلام میں اور قرآن میں توہین رسالت کرنے والے یا شاتم رسول کی سزا موت اور قتل ہی مقرر ہے اس بات پر بڑی گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اور مصنفین کتب نے اپنے مؤقف کی تائید میں جن قرآنی آیات کو پیش کیا ہے ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا قرآن کریم واقعی ان کے مؤقف کی تائید کرتا ہے یا پھر زورزبر دستی سے اپنا خیال اس میں داخل کیا گیا ہے.چونکہ علماء نے امام ابن تیمیہ کی کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ کو بنیاد بنایا ہے اور اکثر حوالے اسی کتاب سے پیش کئے ہیں تو آپ نے قرآن کریم کی جن آیات سے استدلال کیا ہے ان کو پیش کر کے ان پر غور کرنا ضروری خیال کرتا ہوں اس کے علاوہ بھی دیگر کتب میں جن قرآنی آیات سے استدلال کیا گیا ہے ان پر بھی غور کیا جائے گا.وباللہ التوفیق
123 66 کیا شاتم رسول کا فر ہو جاتا ہے اور اس کی سزا قتل ہے؟ جیسا کہ خاکسار گزشتہ صفحات میں اختصار سے اس بات کا ذکر کر آیا تھا کہ علماء اسلام نے شاتم رسول کی سزا قتل کے حوالہ سے تین باتوں کو اپنی بحث میں اٹھایا ہے.ان میں سے ایک تو مرتد کا معاملہ تھا جس پر گزشتہ صفحات میں تفصیل پیش کر دی گئی ہے اور دوسری بحث اس عنوان کے تحت کی گئی ہے کہ گستاخ رسول یا شاتم رسول “ کیا گستاخی کرنے یا سب و شتم کرنے کے نتیجہ میں کوئی انسان کا فر ہو جاتا ہے.اس لئے ایسے کافر کا قتل کر دینا چاہیئے.اس نظریہ کے مطابق امام ابن تیمیہ نے ایک عنوان باندھا ہے شاتم رسول کافر ہے“ اس عنوان کے تحت قرآن کریم کی ان آیات کو بیان کیا ہے جن سے شاتم رسول کی سز اقتل ٹھہرانے کی کوشش کی ہے اور دلیل اس طرح لی ہے کہ شاتم رسول کرنے والا چونکہ کافر ہوجاتا ہے اس لئے اس کو قتل کرنا جائز ہے.یہ ایک الگ بات ہے کہ کافر کو قتل کرنے کی دلیل کہاں سے لائیں گے جس کی قرآن قطعاً اجازت نہیں دیتا.خیر اس عنوان کے تحت قرآن کریم کی جو آیت سب سے پہلے پیش کی ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو کہ یہ ہے.رح ومِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِي وَيَقُولُونَ هُوَ أكن ، قُل أذن خَيْرٍ لَّكُم يُؤْمِنُ بِاللهِ وَ يُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيم (سورت الشو به آیت (۶) یعنی.اور ان میں سے بعض ایسے (منافق) بھی ہیں جو نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو ( کان ہی ) کان ہے تو کہہ دے کہ وہ تمہارے لئے بھلائی سننے کے کان رکھتا ہے وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور جو تم میں سے مومن ہوں اُن کے وعدوں) پر ( بھی ) یقین رکھتا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت کا موجب ہے اور وہ لوگ جو اللہ کے رسول کو دکھ پہنچاتے ہیں ان لے
124 لئے دردناک عذاب ہے.رحم امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول کریم کی ایذا رسانی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور مخالفت پر مبنی ہے، اس لئے کہ ایڈا کا ذکر ہی ”المحادۃ“ کے ذکر کا موجب ہوا ہے،اس کا اس میں داخل ہونا واجب ہے اور اگر اسے تسلیم نہ کیا جائے تو کلام غیر مربوط ہو جائے گا جب یہ کہنا ممکن ہو کہ وہ محاذ ( مخالف ) نہیں ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایذا رسانی اور رسول کی مخالفت کفر کی موجب ہے اس لئے کہ اللہ نے یہ خبر دی ہے کہ اس کے لئے آتش جہنم تیار ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یوں نہیں فرمایا کہ اس کی سزا ہے ظاہر ہے کہ ان دونوں جملوں میں فرق ہے بلکہ الحادة ( مخالفت ) ہی کو عداوت اور علیحدگی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کا نام کفر اور محاربہ ہے بدیں وجہ یہ لفظ تنہا کفر سے بھی سنگین تر ہے.بنابریں رسول کریم عالم کو ایذا دینے والا کافر، اللہ اور اس کے رسول کا دشمن اور ان کے خلاف جنگ لڑنے والا ہو گا، اس لئے کہ المحادۃ کے معنی ہیں جدا ہونا، بایں طور پر کہ ہر ایک کی حدجدا ہو، جس طرح کہا گیا ہے کہ المشاقتہ یہ ہے کہ شخص ایک شق ، یعنی ایک جانب ہو جائے اور المعاداة “ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں“ ( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۷۳) قرآن کریم کی اس آیت میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق منافقین سے ہے اور اس آیت کے سیاق وسباق کی آیات کو بھی پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں منافقوں کا ذ کر چل رہا ہے کہ وہ کیسی کیسی حرکتیں کرتے ہیں غور کیا جائے تو اس میں کافر کے ذکر کوز بر دستی شامل
125 کرنے کی کوشش کی گئی ہے.قرآن کریم کے شروع ہی میں اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کا ذ کر کیا ہے ایک مومنوں کا دوسرا کافروں کا اور تیسرا منافقوں کا اور وہاں صاف طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمان موجود ہے کہ یہ منافق لوگ ایسے ہیں کہ مومنوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب یہ اپنے ساتھیوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ ہنسی ٹھٹھہ اور مذاق کر رہے تھے.جب اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کا ذکر فرما دیا ہے تو پھر منافقوں کو کافروں میں ملانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی.سوال یہ ہے کہ اگر ان منافقوں کو کافر ہی مان لیا جائے تو بھی یہ دلیل کہاں سے نکل آئی کہ ایسا کرنے والے چونکہ کافر ہو گئے ہیں اس لئے ان کو قتل کردینا چاہئے.پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ آنحضرت سلیم کا اسوہ ہمارے سامنے موجود ہے کہ آپ نے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کے ساتھ کیا سلوک کیا.اگر قرآن کریم کی اسی آیت سے ایسا کہنے والے کو قتل کرنے کا اشارہ بھی ہوتا تو آپ ایسا کہنے والوں کو ضرور قتل کروا دیتے اور کوئی قتل کیا جاتا یا نہ کیا جا تا رئیس المنافقین کو ضر ور قتل کیا جاتا کیونکہ وہ شخص تو ایسی کئی گستاخیاں کر چکا تھا لیکن آپ نے اس کو بھی معاف کر دیا.الغرض امام ابن تیمیہ نے اس آیت کو پیش کر کے الحادۃ اور المشاقة کی جو بحث اٹھائی ہے اور ایسے الفاظ استعمال کرنے والے کو کا فرٹھہرا کر اس کے قتل کو واجب قرار دینے کی جو بات کی ہے اس کا اس آیت میں کوئی ذکر بھی نہیں ملتا ہے.بلکہ یہ آیت منافقوں کا ذکر کر رہی ہے.اس کے آگے بھی جن آیات کو اپنی بات کی تائید میں پیش کرتے ہیں ان کا اس معاملہ سے کوئی بھی تعلق دکھائی نہیں دیتا.رح پھر امام ابن تیمیہ نے ایک اور بھی باریک نقطہ اس جگہ بیان فرمایا ہے جو کہ قابل خور ہے.آپ نے لکھا ہے کہ بنا بریں رسول کریم علیہ اللہ کو ایذا دینے والا کا فر اللہ اور اس کے
126 رسول کا دشمن اور اس کے خلاف جنگ لڑنے والا ہوگا اس جگہ کافر کہہ کر یہ کہنا کہ اللہ اور اس کے رسول کا دشمن اور اس کے خلاف جنگ لڑنے والا ہوگا بتا تا ہے کہ صرف ایذا دینا ہی کسی کوسزا دینے کا موجب نہیں ہو سکتا بلکہ اس پر سزا تب واجب ہوگی جب وہ جنگ بھی کرے گا.بات صاف ہے جو جنگ کرے اس کو سزا اس کے جنگ کرنے کی بنا پر دی جائے گی.علامہ طاہر القادری صاحب نے بھی اس آیت کو پیش کیا ہے آپ فرماتے ہیں.”یہاں یہ بات واضح رہے کہ اذیت سے مراد زبانی طعن و تشنیع ، دشنام طرازی ، گستاخی و اہانت اور ادب و احترام تعظیم و توقیر کے منافی کوئی کلمہ جو آداب تعظیم سے فروتر ہوادا کرنا باعث اذیت و تکلیف ہے.قرآن حکیم مذکورہ بالا آیت کریمہ میں منافقین کی اذیت رسول علی کی ایک صورت واضح کر رہا ہے کہ وہ مخالفین اپنے خبث باطن کی وجہ سے حضور نبی کریم بلایی کواذیت دینے کی کوشش کرتے اور ( معاذ اللہ ) یوں کہتے کہ یہ رسول صل عالم کانوں کا اس قدر کچا ہے کہ جو بات بھی تم جا کر کہ دو وہ فوراً اسے تسلیم کرلے گا اور اگر تم اپنے کئے ہوئے وعدے سے انحراف بھی کر جاؤ تو تمہیں گھبرانے اور پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ جب تم قسمیں کھا کر بات کرو گے تو وہ تمہاری بات پر اعتما دو بھروسہ کرلے گا.غرض ادھر منافقین نے اپنی بدبختی کی وجہ سے ھواذن ( کان کے کچے ہیں ) کا کلمہ کہا تو ادھر بارگاہ الوہیت سے شان غیبیت کا اظہار ہوا اور اپنے محبوب بیل اللہ کی شان میں اتنا کلمہ کہنے کو صریح گمراہی وضلالت کھلی تو بین و تنقیص قرار دیا.اسی سبب سے دنیا و آخرت کی ذلالت ورسوائی کو ان کا مقدر ٹھہرا دیا، جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ان کا مسکن بنی اس طرح ان کا یہ قول ان کے نفاق کی بنیاد بھی قرار پایا.“ (تحفظ ناموس رسالت شائع کردہ منہاج القرآن پبلیکیشنز لاہور صفحہ ۱۵۰ و۱۵۱)
127 بات صاف ہے کہ اس آیت میں منافقوں کا ذکر ہے اور آنحضرت علیم نے کسی منافق کو بھی قتل کرنے کا حکم نہیں فرمایا اور یہ بات جن لوگوں نے بھی کہی تھی آنحضور بیل لیلی نے ان میں سے بھی کسی کو قتل کرنے کا ارشاد نہیں فرمایا.تو یہ کہنا ہی درست ثابت نہیں ہوتا کہ اس آیت سے کسی کافر یا منافق کے قتل کا جواز بنتا ہے.اسی آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا محمد شفیع صاحب مفہو اعظم پاکستان لکھتے ہیں.آیات مذکورہ میں بھی سابقہ آیات کی طرح منافقین کے بیہودہ اعتراضات اور رسول اللہ علیم کی ایذاء رسانی اور پھر جھوٹی قسمیں کھا کر ایمان کا یقین دلانے کے واقعات اور ان پر تنبیہ ہے.پہلی آیت میں مذکور ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صل علیم کے متعلق بطور استہزاء یہ کہتے ہیں کہ وہ تو بس کان ہے یعنی جو کچھ کسی سے سن لیتے ہیں اسی پر یقین کر لیتے ہیں ، اس لئے ہمیں کچھ فکر نہیں، اگر ہماری سازش کھل بھی گئی تو ہم پھر قسم کھا کر آپ کو اپنی براءت کا یقین دلا دیں گے جس کے جواب میں حق تعالیٰ نے ان کی حماقت کو واضح فرما دیا، کہ وہ جو منافقین اور مخالفین کی غلط باتوں کوشن کر اپنے مکارم اخلاق کی بناء پر خاموش ہور ہتے ہیں اس سے یہ نہ سمجھو کہ آپ کو حقیقت حال کی سمجھ نہیں ، صرف تمہارے کہنے پر یقین کرتے ہیں ، بلکہ وہ سب کی پوری پوری حقیقت سے باخبر ہیں، تمہاری غلط باتیں سُن کر وہ تمہاری سچائی کے قائل نہیں ہو جاتے، البتہ اپنی شرافت نفس اور کرم کی بنا پر تمہارے منہ پر تمہاری تردید نہیں کرتے.“ ( معارف القرآن جلد ۴ صفحه ۴۱۶ شائع کرده دارالکتب دیوبندیوپی) اسی طرح مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب اسی آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں منافقین نبی صلی لا سلیم کو جن عیوب سے متہم کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی
128 که حضور ہر شخص کی شن لیتے تھے اور مہر ایک کو اپنی بات کہنے کا موقعہ دیا کرتے تھے.خوبی ان کی نگاہ میں عیب تھی.کہتے تھے کی آپ کان کے کچے ہیں، جس کا جی چاہے آپ کے پاس پہنچ جاتا ہے ،جس طرح چاہے آپ کے کان بھرتا ہے.اور آپ اس کی بات مان لیتے ہیں.اس الزام کا چرچہ زیادہ تر اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ بچے اہل ایمان منافقین کی سازشوں اور ان کی شرارتوں اور ان کی مخالفانہ گفتگوؤں کا حال نبی صلی ایلیم تک پہنچا دیا کرتے تھے اور اس پر یہ لوگ سیخ پا ہو کر کہتے تھے کہ آپ ہم جیسے شرفاء اور معززین کے خلاف ہر کنگلے اور ہر فقیر کی دی ہوئی خبر پر یقین کر لیتے ہیں.“ تفہیم القرآن جلد ۲ شائع کرده مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی صفحه ۲۰۹) ان حوالہ جات سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں منافقین کا ذکر ہے جو رسول کریم بالا لیلی کے بارے میں ایسی بیہودہ گوئی کیا کرتے تھے اس کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ی آپ کو دیا جاتا تھا لیکن آپ نے ایسی باتیں کرنے والوں میں سے کسی کو بھی قتل کرنے کا حکم نہیں دیا.ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت علیم کواللہ تعالیٰ نے ایسے ستر ۷۰ منافقین کے نام بھی بتائے تھے اس کے باوجود کسی ایک منافق کو بھی ان کی ان ایذا رسانیوں کی وجہ قتل کرنے کا حکم نہیں دیا.اور نہ ہی اس آیت میں کوئی ایسا حکم پایا جاتا ہے.ہے.71 ۲.امام ابن تیمیہ نے اس سلسلہ میں قرآن کریم سے جو دوسری دلیل پیش کی ہے وہ یہ يَحْذَرُ الْمُنْفِقُونَ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمُ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِءُوا إِنَّ اللهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ آبِاللهِ وَايْتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُونَ لَا تَعْتَذِرُوا
129 قَد كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُمْ إِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبُ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (التوبة ۶۴ تا ۶۶) یعنی.منافق ( دکھاوے کے طور پر ) ڈر کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی سورۃ نازل نہ ہو جائے جو انہیں ( اور مسلمانوں کو ) ان باتوں سے خبر دار کر دے جو ان کے دلوں میں ہیں.تو کہہ دے کہ ہنسی کرتے جاؤ.اللہ (حقیقتاً) اس بات کو ظاہر کر دے گا جس (کے ظاہر کرنے ) سے تم ( بناوٹ سے) ڈرتے ہو.اور اگر تو اُن سے پوچھے ( کہ تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو) تو وہ ضرور یہی جواب دیں گے ہم تو صرف مذاق اور ہنسی کرتے تھے.تو ان کو جواب دیجیو کہ کیا اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول سے مذاق اور ہنسی کرتے تھے.اب کوئی عذر نہ کرو تم نے ایمان لا کر کفر کیا (پس اس کی سزا پاؤ ) اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف کردیں اور ایک گروہ کو عذاب دیدیں اس لئے کہ وہ مجرم تھے ( تو یہ ہمارا کام ہے ) 2 قرآن کریم کی اس آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں یہ آیت اس ضمن میں نص ہے کہ اللہ تعالیٰ، اس کی آیت اور اس کے رسول کا مذاق اڑانا کفر ہے ، پس گالی دینا طریق اولی مقصود ہے.یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص رسول کریم علیم کی توہین کرے ، خواہ سنجیدگی سے ہو یا ازراہ مذاق وہ کافر ہو جاتا ہے......ان لوگوں نے جب رسول کریم علیہ اور آپ کے اہل علم صحابہ کی تحقیر اور مذمت کی اور آپ کی باتوں کو اہمیت نہ دی تو اللہ نے خبر دی کہ ان لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا ہے اگر چہ یہ بات انہوں نے مذاق کے طور پر کہی تھی ، پھر جو چیز اس سے شدید تر ہو گی اس کا کیا حال ہو گا ؟ ان پر حد اس لئے نہ لگائی کہ ابھی منافقین کے خلاف جہاد کا حکم نازل نہ ہوا تھا، بخلاف ازیں آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ ان کی ایذارسانی کو نظر انداز کردیں، نیز اس لئے کہ آپ کو
130 یہ حق حاصل تھا کہ آپ ملا لیے اپنی تحقیر کرنے والوں کو معاف کر دیں.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۸۱۹۸۰) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ اس آیت میں بھی منافقین کا ذکر کیا گیا ہے اور منافقین کی قرآن کریم نے نشانی ہی یہی بیان فرمائی ہے کہ وہ جب مومنوں میں بیٹھتے ہیں تو ان کی طرف کی بات کرتے ہیں اور جب وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جاتے ہیں تو ہنسی مذاق اور ٹھٹھہ کرتے ہیں.ان کا یہ فعل ہی ان کو منافق ٹھہراتا ہے ورنہ صریح انکار کرنے والے کو کافر کہا جاتا ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منافق اگر کافر بھی ہو جائے تو اس کے ہنسی مذاق اور ٹھٹھہ کرنے کی بنا پر قتل کرنے کا پھر بھی کہیں حکم نہیں پایا جاتا.بلکہ کافروں کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ یہ ایسے ہیں کہ ”جو لوگ ایمان لائے پھر انہوں نے انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر کفر میں (اور بھی) بڑھ گئے.اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کر سکتا اور نہ انہیں ( نجات کا) کوئی راستہ دکھا سکتا ہے.تو منافقوں کو ( یہ ) خبر سنادے کہ ان کے لئے درد ناک عذاب ( مقدر) ہے.“ (النساء آیت ۱۳۸) اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے کافروں کو انکار کی بنا پر قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ یہ بات بیان کردی کہ ایمان کے بعد کفر اختیار کر لینے کے بعد بھی دوبارہ ایمان لانے کی امید ہوتی ہے اس لئے فرمایا کہ یہ ایمان لاتے ہیں پھر کفر کرتے ہیں پھر ایمان لاتے ہیں پھر کفر کرتے ہیں ایسا کرنے پر بھی بندوں کو اختیار نہیں دیا کہ وہ ان کے انکار اور کفر کی بنا پر ان کو قتل کر دیں بلکہ ان کے کفر کے نتیجہ میں ان کو سزادینا انکو عذاب دینا یہ اللہ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے.اس آیت سے قطعاً یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جو کوئی بھی ہنسی مذاق اور ٹھٹھہ کرے وہ کافر ہو جا کر قتل کئے جانے کے قابل ٹھہرتا ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول کریم علیل لیلی نے ایسی ہنسی کرنے
131 والے یا ٹھٹھہ کرنے والے کسی ایک منافق کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا؟ آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے کوئی ایک واقعہ بھی دکھائی نہیں دیتا.جس کام کو رسول خداصلی سلیم نے نہیں کیا تو آپ کے بعد کسی کا کیا حق بنتا ہے کہ وہ ایسا حکم جاری کرے جو رسول خدا صلیہ سے ثابت ข نہیں.بلکہ امام ابن تیمیہ نے تو آپ ہی تحریر فرمایا ہے کہ ان لوگوں نے جب رسول کریم ملی اور آپ کے اہل علم صحابہ کی تحقیر اور مذمت کی اور آپ کی باتوں کو اہمیت نہ دی تو اللہ نے خبر دی کہ ان لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا ہے اگر چہ یہ بات انہوں نے مذاق کے طور پر کہی تھی ، پھر جو چیز اس سے شدید تر ہوگی اس کا کیا حال ہوگا ؟ ان پر حد اس لئے نہ لگائی گئی کہ ابھی منافقین کے خلاف جہاد کرنے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، بخلاف ازیں آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ ان کی ایذارسانی کو نظرانداز کردیں، نیز اس لئے کہ آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ آپ عمل اللہ اپنی تحقیر کرنے والوں کو معاف کر دیں.“ ( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۸۱) تاریخ بتاتی ہے کہ ان وجوہات کی بنا پر جو اوپر بیان کی گئی ہیں بعد میں بھی آنحضور میلیم نے کسی منافق یا کافر کوقتل کرنے کا حکم صادر نہیں فرمایا بلکہ ہمیشہ ہی نرمی رافت اور عفو کا سلوک فرمایا.۳.اسی طرح قرآن کریم کی ایک تیسری آیت طعن کرنے والے کے کافر ہو جانے کے تعلق سے یہ پیش کرتے ہیں کہ وَمِنْهُم مَّنْ يَلْمِرُكَ فِي الصَّدَقَتِ (التوبة آيت (۵۸) اور ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو صدقات کے بارے میں آپ کو طعن دیتے ہیں لمز" کے معنی عیب اور طعن کے ہیں.مجاہد کہتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ تجھ پر تہمت
132 لگاتے ہیں اور تحقیر کرتے ہیں.عطاء کہتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ تیری چغلی کھاتے ہیں“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۸۱) اس کے ساتھ ہی آپ نے منافقین کے وہ اقوال بھی بیان کئے ہیں جن سے ان کے عدم ایمان کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور منافقین کے ایمان سے عاری ہونے کی علامات ظاہر ہوتی ہیں لیکن اس ساری بحث سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اس آیت میں بھی منافقین کا ذکر ہورہا ہے.علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بھی اسی آیت کو منافقین کی الزام تراشیوں کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے.اس مکمل آیت کو پیش کرنے کے بعد آپ تحریر فرماتے ہیں.’اس الزام تراشی کی بنیاد و اساس ان کی مفاد پرستی و خود غرضی ،حرص و لالچ اور ہوس نفس ہے جس کی بنا پر ان کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ صدقات وخیرات کی تقسیم وغیرہ ان کی خواہش و آرزو کے عین مطابق ہو جائے تو خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں.کیونکہ ان کا مقصود تو حصول دنیا ہے جبکہ دین سے ان کا حقیقی تعلق و ناطہ سرے سے موجود ہی نہیں.علاوہ ازیں یہ اپنی دنیوی خواہشات کی تکمیل پر اس قدر فرحان ہوتے ہیں کہ اس کے بعد کسی نوعیت کے طعن و تشنیع اور عیب و نقص کا آپ کو نشانہ و ہدف نہیں بناتے لیکن اس کے برعکس اگر انہیں صدقات میں سے کچھ کم و تھوڑا ملے یا اس قدر نہ ملے جس سے ان کے نفوس خوش ہوسکیں تو پھر آپ ملا لیا ایم کی شان اقدس میں گستاخی و اہانت کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں اور عیب جوئی والزام تراشی شروع کر دیتے ہیں.اپنے غیض و غضب کا آپ کو فقط اس لئے نشانہ بناتے ہیں کہ ان کی مذموم خواہش نفس کی تکمیل نہ ہوسکی.مذکورہ آیت کریمہ کے شان نزول کے متعلق مفسرین نے لکھا ہے کہ حضور علی کی فتح
133 حسنین کے بعد مال غنیمت تقسیم فرما ر ہے تھے، آپ یل ام کو فتح مکہ کے موقعہ پر ایمان لانے والوں کے تالیف قلب کی خاطر کچھ زیادہ جود وسخا اور کرم نوازی کا مظاہرہ فرما رہے تھے اس پر حرقوص بن زہیر جس کا لقب ذوالخویصرہ تھا کھڑا ہوا اور کہنے لگا.فقال يا رسول الله اعدل فقال ويلك ومن يعدل اذا لم اعدل قد خبت و خسرت ان لم اكن اعدل (صحیح بخاری کتاب المناقب ۵۰۹) یعنی اس نے کہا یا رسول اللہ علیم انصاف کیجئے.آپ میل نعیم نے فرمایا اگر میں نے انصاف نہ کیا تو پھر انصاف کون کرے گا.میں ناکام و نامراد اور خسارے میں پڑا اگر میں انصاف نہ کروں.حضرت عمرؓ اس وقت بارگاہ مصطفوی میلی کیم میں حاضر تھے جو نہی آپ نے اس گستاخ و بد بخت کو بارگاہ رسالت باب ملیم میں بے ادبی و گستاخی کرتے ہوئے دیکھا تو آپ سے اس کی جرأت دلیری برداشت نہ ہوسکی فورا عرض کرنے لگے.فقال عمر یا رسول اللہ ائذن لي فيه اضرب عنقه (صحیح بخاری کتاب المناقب ۵۰۹ حضرت عمر فاروق نے کہا یا رسول اللہ علی الیکم مجھے اس کے متعلق اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں.حضور علی نے مصلحتاً اپنے حق میں بذات خود تصرف فرماتے ہوئے وقتی طور پر حضرت عمرہ کو اس گستاخ کو قتل کرنے سے منع فرما دیا.66 فقال له دعه آپ صلیم نے فرمایا اے عمر اسے چھوڑ دو.“ تحفظ ناموس رسالت صفحه ۱۸۶،۱۸۵)
134 قرآن کریم کی اس آیت کی تشریح میں ایک حدیث بھی پیش کی گئی ہے ایک شخص بھری مجلس میں آنحضرت علی کے خلاف گستاخی کرتا ہے حضرت عمررؓ اس گستاخی کو قابل سزا سمجھتے ہیں لیکن آنحضرت علی نے اپنے اسوہ سے یہ ثابت فرمایا کہ کہ ایسے گستاخ کی سز اقتل نہیں ہے ورنہ آپ ضرور ایسے گستاخ کے قتل کا حکم صادر فرماتے.لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا.دوسری بات جو مولانا صاحب نے حدیث کا ترجمہ کرنے کے دوران اپنی طرف سے شامل کی ہے اس کا اس حدیث میں کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا.جیسا کہ مولانا صاحب نے لکھا ہے حضور صلیم نے مصلحتاً اپنے حق میں بذات خود تصرف فرماتے ہوئے وقتی طور پر حضرت عمر کو اس گستاخ کو قتل کرنے سے منع فرما دیا اب اس میں دیکھیں ”مصلحتا “ کا لفظ اپنی طرف سے شامل کر لیا وقتی طور پر کے الفاظ “ اپنی طرف سے شامل کر لئے ایسے الفاظ حدیث شریف میں موجود نہیں وہاں صرف یہ الفاظ ہیں جوموصوف نے نیچے لکھے ہیں کہ فقال له دعہ آپ نے انہیں فرمایا اسے چھوڑ دو.سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس وقت مصلوح اور وقتی طور پر فرمایا تھا کہ چھوڑ دو تو کیا بعد میں آپ نے اسے قتل کرنے کا کوئی حکم صادر فرما یا ہر گز نہیں.تو قرآن کریم اور حد بہت شریف بھی اس بات کو بیان کرتی ہے کہ گستاخ رسول کی سز اقتل نہیں.- چوتھی دلیل کے طور پر امام ابن تیمیہ نے قرآن کریم کی جو آیت پیش کی ہے وہ اس طرح ہے فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء آیت ۶۶)
135 یعنی.پس تیرے رب کی قسم جب تک وہ ( ہر ) اس بات میں جس کے متعلق ان میں جھگڑا ہو جائے تجھے حکم نہ بنائیں ( اور ) پھر جو فیصلہ تو کرے اس سے اپنے نفسوں میں کسی قسم کی تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر فرمانبردار نہ ) ہوجائیں ہر گز ایماندار نہ ہو نگے.اس کے علاوہ سورۃ النور کی آیات نمبر ۴۸ تا ۵۲ بھی پیش فرماتے ہیں.اس پر اپنا نقطع نظر اس طرح بیان کرتے ہیں کہ.مذکورہ صدر آیات میں بیان فرمایا کہ جو شخص اطاعت رسول سے منہ موڑے اور آپ کے حکم سے اعراض کرے تو وہ منافق ہے اور مومن نہیں ، مومن وہ ہے جو کہتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی.جب رسول کریم علیم کی اطاعت سے اعراض کرنے اور اپنا فیصلہ شیطان کی طرف لیجانے سے ایمان زائل ہو جاتا ہے اور نفاق کا اثبات ہوتا ہے ، حالانکہ یہ ترک محض ہے ، جس کا سبب حرص و ہوا کی قوت ہے تو آپ کی تحقیر اور سب و شتم کیونکر کفر کا باعث نہ ہوگا“ ( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۸۸) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کے بارے میں یہ علم ہو جائے کہ وہ مومن نہیں تو کیا اسے قتل کیا جا سکتا ہے اگر یہ بات درست تسلیم کر دی جائے تو پھر سب سے پہلے آنحضور بیل یا پیام کو ان لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دینا چاہئے تھا جن کے بارے میں اللہ نے یہ گواہی دی تھی کہ یہ مومن نہیں ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قَالَتِ الْأَعْرَابُ ا مَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلتُكُمْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِیمه (الحجرات آیت (۱۵) یعنی.اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے تو اُن سے کہہ دے تم حقیقتہ ایمان نہیں
136 لائے لیکن تم یہ کہا کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر فرمانبرداری قبول کر لی ہے.کیونکہ (اے اعراب ) ابھی ایمان تمہارے دلوں میں حقیقی داخل نہیں ہوا.اور اے مومنو! اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی سچی اطاعت کرو گے، تو وہ تمہارے اعمال میں سے کوئی عمل بھی ضائع نہیں ہونے دیگا اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ جو اعرابی لوگ تیرے پاس آئے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا کر مومن ہو گئے ہیں تو ان کو کہہ دے کہ تم مومن نہیں ہوئے ہو بلکہ ایمان تو تمہارے دلوں میں داخل بھی نہیں ہوا ہے.اب دیکھیں ایک طرف اللہ کا رسول ہے اور دوسری طرف اللہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں.کسی کے مومن نہ ہونے کی اس سے بڑھ کر اور کون سے شہادت ہوسکتی ہے اس کے باوجود ایسے بے ایمان لوگوں کے بارے میں آنحضرت علی نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں فرمایا کہ چونکہ یہ مومن نہیں ہیں اس لئے انہیں قتل کر دیا جائے.جب قرآن کریم ایسے غیر مومنوں کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیتا تو پھر کسی کے غیر مومن ہو جانے کی بنا پر کس طرح قتل کیا جاسکتا ہے اور اس کا غیر مومن ہونا کس طرح سب وشتم اور توہین رسالت کے تحت آسکتا ہے.جبکہ قرآن کریم پ بھی اعلان کرتا ہے کہ جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے.۵ - امام ابن تیمیہ نے پانچویں دلیل جو قرآن کریم سے پیش کی ہے وہ اس طرح ہے إنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَتَهُمُ الله في الدنيا والأخرة واعتلهم عَذَابًا مُّهِيناً وَ الَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَاناً وَ إِثْماً مُّبِیناه (الاحزاب آیت ۵۹٫۵۸) یعنی.وہ لوگ جو کہ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں اللہ ان کو اس دنیا میں اور
137 آخرت میں اپنے قرب سے محروم کر دیتا ہے اور اس نے ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر چھوڑا ہے.اور وہ لوگ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی قصور کیا ہو تکلیف دیتے ہیں ان لوگوں نے خطر ناک جھوٹ اور کھلے کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر اٹھالیا ہے.اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں ی آیت کئی وجوہ سے مسئلہ زیر قسم پر دلالت کرتی ہے.پہلی وجہ پہلی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایذا کو رسول کی ایذا اور اپنی اطاعت کو رسول کی اطاعت کے ساتھ مقرون و متصل کر کے بیان کیا ہے، یہ بطریق منصوص بھی آپ سے منقول ہے.اور جو شخص اللہ کو ایذا دے وہ کافر اور مباح الدم ہے.اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنی اور رسول صلم کی محبت اور رسول کی رضا مندی ، اپنی اطاعت اور رسول کی اطاعت کو 66 ایک ہی چیز قرار دیا ہے.“ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۹۰) اس کے بعد ان آیت کو بیان کیا گیا ہے جس میں اللہ اور رسول کو روحانی اعتبار سے ایک وجود قرار دیا گیا ہے کیونکہ جسمانی طور پر تو ایک نہیں ہو سکتے مثلاً جو تیرے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ تیرے ہاتھ پر نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں.(الفتح آیت ۱۱) وہ تجھ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے.(الانفال آیت (۲) اللہ اور اس کا رسول اس بات کے بہت حقدار ہیں کہ ان کو راضی کریں.(التوبہ آیت ۶۳ ) پھر آگے چل کر فرماتے ہیں وو دوسری وجہ X* دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نے اللہ اور رسول کی ایذا اور مومنین اور مومنات کی ایزا میں تفریق کی ہے اور اہل ایمان کی ایڈا کے بارے میں فرمایا
138 فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَاناً وَ إِثْماً مُّبِيناً (الاحزاب ۵۹) اس نے بہتان باندھا اور واضح گناہ کا ارتکاب کیا.“ جبکہ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینے والے کو دنیا و آخرت میں لعنت کی ہے اور اس کے لئے رسوا کرنے والا عذاب تیار کیا ہے.ظاہر ہے کہ اہل ایمان کو ایڈ اکبھی کبھی تو کہا ئر کا ارتکاب کرنے کے وجہ سے دی جاتی ہے اور اس میں کوڑے مارنا بھی شامل ہے، اس سے اوپر صرف کفر اور قتل باقی رہ جاتا ہے.تیسری وجہ X* اللہ نے ذکر کیا ہے کہ اس نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور رسوا کن عذاب تیار کیا ہے.لعنت کے معنی رحمت سے دور کرنے کے ہیں اور دنیا اور آخرت میں اس کی رحمت سے محروم صرف کا فر ہوتا ہے ، اس لئے کہ مومن بعض اوقات لعنت کے قریب تو پہنچ جاتا ہے مگر وہ مبارح الدم نہیں ہوتا، اس لئے کہ خون کی حفاظت اللہ کی طرف سے عظیم رحمت ہے جو کافر کے حق میں ثابت نہیں ہوتی.“ (الصارم السلوم علی شاتم الرسول صفحہ ۹۲ و ۹۳ ) اسی مضمون کو مولانا طاہر القادری صاحب نے بھی اسی حوالہ کو اپنی کتاب میں پیش کیا اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اللہ کی لعنت سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں ہو سکتی اور اگر اللہ کسی پر لعنت کرے تو اس کی سزا ہی یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے.اس مضمون کو اس حوالہ سے مرتد کی سز اقتل کے عنوان کے تحت بیان کیا گیا ہے اور وہاں اسکی پوری تفصیل درج کی گئی ہے.اس جگہ اس قدر بیان کرنا ہی کافی خیال کرتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ملعون کو قتل کرنے کا قرآن کریم میں کوئی حکم صادر نہیں فرمایا تو پھر کسی کو اپنے طور پر صرف أَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِيناً کے الفاظ سے یہ مفہوم نکالنے کا جواز نہیں بنتا کہ اس سے مراد قتل ہے اور قاتل مباح الدم ہو جاتا ہے.اگر اس کا مطلب یہی نکالا جائے تو پھر ان کے بارے میں کیا کہا جائے گا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ
139 قرآن کریم میں فرماتا ہے كَيْفَ يَهْدِ اللهُ قَوماً كَفَرُوا بَعْدَ إِيْمَانِهِمْ وَشَهِدُوْا أَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَ جَاءَ هُمُ الْبَيْنَتُ ، وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ ، أُولَئِكَ جَزَاءُ هُمْ أَنَّ ج عَلَيْهِم لَعْنَتُ اللهِ وَالْمَلئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ خَلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظُرُونَ (ال عمران آیت ۸۷ تا ۸۹) یعنی.جولوگ ایمان لانے کے بعد ( پھر ) منکر ہو گئے ہوں اور شہادت دے چکے ہوں کہ ( یہ ) رسول سچا ہے اور (نیز) ان کے پاس دلائل بھی آچکے ہوں انہیں اللہ کس طرح ہدایت پرلائے.اور اللہ ( تو ) ظالم (لوگوں) کو ہدایت نہیں دیتا.یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں ( کی) اور لوگوں ( کی) سب ہی کی لعنت ہو.وہ اس (لعنت ) میں رہیں گے : ( تو ) ان ( پر) سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی.اب یہاں پر تو ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف لوٹنے والوں پر تو اس سے بڑی لعنت کا ذکر ہے کہ اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور سب لوگوں کی لعنت.لیکن ان کو عذاب دینا اللہ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کے عذاب میں کمی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی انہیں ڈھیل دی جائے گی.یہ نہیں فرمایا کہ ایسے لوگوں کوئی ڈھیل نہ دی جائے اور قتل کر دیا جائے ! اللہ کی رحمت سے دوری اور بات ہے اور کسی کو قتل کر دینا یہ اور بات ہے.لعنت کے معنیٰ ہی اللہ کی رحمت سے محرومی کے ہیں.لغات میں لعنہ اللہ کے معنی اللہ کا کسی کو خیر سے دور اور رح محروم کرنا ہے.امام ابن تیمیہ نے خود بھی لکھا ہے کہ لعنت کے معنی رحمت سے دور کرنے کے ہیں اور دنیا اور آخرت میں اس کی رحمت سے محروم صرف کافر ہوتا ہے.لعنت کے یہ معنی تو نہیں کہ چونکہ یہ شخص دنیا اور آخرت میں رحمت خداوندی سے دور ہو گیا ہے لہذا اس کو قتل کر دیا
140 جائے.قرآن کریم میں لعنت کا لفظ کئی جگہ آیا ہے مثلاً جہاں لعان کا ذکر ہے اور میاں بیوی ایک وسرے پر بد گمانی کرتے ہیں تو وہاں بھی آتا ہے کہ مرد بھی اور عورت بھی اپنے سچے ہونے کی چار میں کھائے گا اور پانچویں بار یہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے یا جھوٹی ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہو.(سورت النور آیت (۸) قرآن کریم یہود پر لعنت کو بیان کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اور یہودی کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ میں زنجیریں پڑی ہوئی ہیں.جو کچھ انہوں نے کہا اس کے سبب سے خود ان کے ہاتھوں میں زنجیر میں ڈالی جائیں گی اور ان پر لعنت کی جائے گی وہ جھوٹ بولتے ہیں ( المائدہ آیت ۶۵) اسی طرح فرماتا ہے ”جولوگ اس ( کلام ) کو جو ہم نے کھلے نشانوں اور ہدائت پر مشتمل نازل کیا ہے بعد اس کے کہ ہم نے اسے اس کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے چھپاتے ہیں ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے.اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں.( البقرہ آیت (۱۶۰) اس سے مراد بھی یہود ہیں اور فرمایا کہ اللہ کی لعنت تو ہے ہی ان پر تو وہ جن پر لعنت کی گئی ہے وہ بھی لعنت کرتے ہیں تو کیا ان جگہوں پر بھی ملعون کے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ اول تو یہ کافر ہوئے اس پر لعنت بھی ہوگئی تو کفر ڈبل ہو گیا تو انہیں بھی قتل کر دیا جائے جبکہ قرآن کریم میں ایسا کسی جگہ پر بھی اشارہ تک نہیں پایا جاتا.اس کے علاوہ ایک اور حوالہ بھی پیش کرتا ہوں کہ کافروں پر اس دنیا میں تو لعنت کی گئی ہے قیامت کے روز بھی ان پر لعنت کی جائے گی تو وہاں اس سے کیا مراد لی جائے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جس دن ان کے بڑے بڑے آدمیوں کو آگ پر الٹا یا پلٹایا جائے گا اور وہ کہیں گے اے کاش! ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لیتے.اور عام لوگ کہیں گے.اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی پھر انہوں نے ہم کو (اصلی)
141 راستہ سے گمراہ کر دیا.اے ہمارے رب ان کو ڈہرا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت ڈال.یا انہیں اپنی رحمت سے دور کر دے.) ( الاحزاب آیت ۶۷ تا ۶۹ ) اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ہے اور جنتی لوگ دوزخیوں سے کہیں گے کہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اس کو تو ہم نے سچا پالیا، کیا تم نے بھی اس وعدہ کو جو تمہارے رب نے کیا تھا سچا پا لیا اس پر وہ ( دوزخی ) کہیں گے ہاں! پس ایک پکارنے والا ان کے درمیان زور سے پکارے گا.کہ ان ظالموں پر خدا کی لعنت ہو.ان حوالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے لعنت کے لفظ سے کسی ایک جگہ سے بھی یہ معنی اخذ نہیں کئے جاسکتے کہ جس پر اللہ کی اور رسول کی لعنت ہو وہ کافر ہو جاتا ہے لہذا اسے قتل کر دیا جائے لعنت سے مراد اللہ کی رحمت سے دوری کی سزا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پر رکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمت نازل نہیں کرتا.ان میں یہود بھی شامل ہیں استہزاء کرنے والے بھی شامل ہیں.انبیاء کو دکھ دینے والے اور ان کو تکالیف دینے والے بھی شامل ہیں اور پھر اللہ کی رحمت سے دوری اس دنیا میں بھی ہوگی اور مرنے کے بعد بھی ہوگی پھر بعض پر تو ملعون بھی لعنت کرتے ہوئے سنائی دینگے جیسا کہ قرآن کریم کی آیات سے ظاہر ہے.الغرض اللہ کی رحمت سے دور ہونا اور بات ہے لیکن اللہ کی رحمت سے دوری والے کو قتل کر دینا یہ قرآنی تعلیم کے بالکل منافی ہے.اور ایسی کوئی سند نہیں ملتی کہ ایسے شخص کو قرآن کریم قتل کرنے کاحکم دیتا ہے.چھٹی دلیل کے طور پر یہ بات بیان فرمائی ہے کہ اپنی آواز کو رسول کی آواز سے زیادہ بلند نہ کرو.اس سلسلہ میں قرآن کریم کی آیت يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ الدِّينِ وَلَا تَجْهَرُ والهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ٥
(الحجرات آیت ۳) 142 یعنی اے ایمان والو! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو ، جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے رو بروزور سے نہ بولا کرو (ایسانہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو.قرآن کریم کی اس آیت پر اس سے پہلے کافی تفصیل سے ذکر کیا جا چکا ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں.امام ابن تیمیہ نے اس حوالہ سے لکھا ہے کہ رح وجہ استدلالیہ ہے کہ اللہ نے ان کو اس بات سے منع کیا کہ اپنی آوازوں کو نبی کریم ام کی آواز سے زیادہ کریں یا اس طرح بآواز بلند ان سے مخاطب ہوں جیسے آپس میں ہوتے ہیں.اس لئے کہ یہ رفع و جہر حبوط اعمال کا موجب بن سکتا ہے جبکہ آواز بلند کرنے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا.آیت میں ترک جہر کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ شبوط اعمال سے سلامت رہے.اس آیت میں جس خرابی کی نشاندہی کی گئی ہے وہ حبوط اعمال کا ہے اور جو چیز حبوط اعمال تک لے جاسکتی ہو اس کا ترک کرنا واجب ہے اور اعمال کا حبط کفر کی وجہ ہوسکتا ہے.“ الصارم السلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۰۹) اس کے ساتھ ہی حبط ایمان کے بارے میں قرآن کریم کی آیات البقرہ آیت ۲۱۸ ، المائدہ آیت ۶ ، الانعام آیت ۸۹ ، الزمر کی آیت ۶۶ محمد کی آیت ۱۰، پیش کی ہیں ان آیات میں ایمان کے بعد ایمان سے پھر جانے سے اعمال ضائع ہونے ،شرک کرنے کی بنا پر اعمال ضائع ہونے.اللہ نے جو نازل کیا اس کو نا پسند کرنے کی بنا پر اعمال ضائع ہونے کا ذکر ہے درجہ بالا آیت سے ان آیات کا کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا ز بر دستی مطلب حاصل کرنے کی
143 کوشش کی گئی ہے.حالانکہ آنحضرت علیم کے سامنے ایسے واقعات ہوئے لیکن آپ نے کسی کے بارے میں بھی ویسا حکم نہیں دیا جس قسم کا امام ابن تیمیہ اس آیت کو پیش کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں.اس آیت کے تحت ساری بات پہلے ہی بیان کر دی گئی ہے دوبارہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں سمجھتا.مولانا پیر زادہ شفیق الرحمن شاہ الد راوی صاحب نے بھی اپنی کتاب شاتم رسول صلیم کی شرعی سزا کے صفحہ ۱۶۵ تا ۶۹ میں اسی آیت کو پیش کر کے بحث کی ے.ساتویں دلیل کے طور پر قرآن کریم کی جو آیت پیش کی ہے وہ اس طرح ہے لا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِةَ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( النور آیت ۶۴ ) یعنی اے مومنو! یہ نہ سمجھو کہ رسول کا تم میں سے کسی کو بلانا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم میں سے بعض کا بعض کو بلانا.اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو کہ تم میں سے پہلو بچا کر ( مشورہ کی مجلس سے ) بھاگ جاتے ہیں پس چاہئے کہ جو اس رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اس سے ڈریں کہ ان کو خدا کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے یا ان کو دردناک عذاب نہ پہنچ جائے.امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم علیم کے مخالفین کو حکم دیا گیا ہے کہ فتنے سے احتراز کریں ، فتنے سے ارتداد اور کفر مراد ہے.“ ( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۱۲) 66 سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت میں یہ مضمون ہی موجود نہیں کہ فتنے سے احتراز کریں جو اس میں سے نکالا گیا ہے کیونکہ آگے یہی مضمون بیان کیا جا رہا ہے کہ فتنہ قتل سے بھی
144 بڑا ہوتا ہے یہ کہ ان سے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ ختم نہ ہو جائے حالانکہ یہ مضمون اس آیت میں بیان ہی نہیں کیا جار ہا ہے بلکہ ایک اصول ھدایت دی گئی ہے کہ رسول کے بلانے کومعمولی خیال نہ کرو اس کا تمہیں بلا نا عام لوگوں کے بلانے کی طرح نہیں ہے.اس کا تمہیں بلانا کیسا ہے اسی مضمون کو قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوالِلهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال آیت ۲۵) یعنی اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی بات سنو جبکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے پکارے.اصل مضمون ہے اس لئے یہ کہا گیا ہے کہ جب بھی تمہیں رسول بلائے تو اس کے بلانے کو عام آدمی کے بلانے کی طرح نہ سمجھو بلکہ اس کا بلانا اس لئے ہے تا کہ وہ تمہیں زندہ کرے.جوانسان روحانیت سے خالی ہوتے ہیں وہ مردوں کی طرح ہیں جب ان کو رسول بلا تا ہے اور وہ رسول کی بات سنتے ہیں تو رسول ان میں روحانیت داخل کر کے انہیں روحانی طور پر زندہ کرتا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ ایسے لوگ جو رسول کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ہی اس بات سے ڈرا رہا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ کی طرف سے تمہارے پر کوئی آفت نازل ہوگی یا دردناک عذاب ان کو پہنچے گا.اس جگہ بندوں کو کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ ان کو حکم عدولی کی بنا پر کسی کو قتل کردیں.کتاب ”شاتم رسول کی شرعی سزا کے مصنف نے بھی امام ابن تیمیہ کی طرح اس آیت کو ساتویں دلیل کے طور پر پیش کیا ہے نیز امام ابن تیمیہ کی کتاب کے حوالہ سے درج کرتے ہیں
145 ” جب آپ کے حکم کی خلاف روزی کرنے والے کو کفر وشرک اور عذاب الیم سے ڈرایا گیا ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ کے حکم کی خلاف روزی کفر یا عذاب الیم تک پہنچنے والی ہے.ظاہر ہے کہ عذاب الیم تک پہنچانا محض معصیت کی وجہ سے ہے.اور کفر کی وجہ معصیت کے ساتھ ساتھ اس حکم دینے والے رسول علم کی تحقیر واستخفاف بھی شامل ہو جاتا ہے.پھر اس فعل کی سزا کیا ہوگی جو اس سے شدید تر ہو، مثلاً آپ کو گالی دینا، آپ کی تحقیر کرنا وغیرہ ( شاتم رسول کی شرعی سز ا صفحہ ۱۷۳‘ والصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ (۱۱۳ اس میں ایک بات یہ بھی سمجھنے والی ہے کہ اس میں رسول کے بلانے کا ذکر ہے کہ جب وہ بلائے اور اب اگر رسول ہی نہیں تو گویا یہ حکم مفقود ہو گیا.ایسی صورت میں اس کا اطلاق رسول کی اپنی زندگی تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے.اب جو بات رسول کی زندگی تک ہی خاص ہو اس بات کو رسول کی زندگی کے بعد کس طرح قابل عمل سمجھا جا سکتا ہے.؟ یہ ایک الگ بات ہے کہ فیضان نبوت ورسالت جاری و ساری ہونے کے نتیجہ میں قرآن کریم کا ہر حکم قیامت تک قابل عمل ہے اور ر ہے گا اور اس نبی کے ظل اس کے مصداق ہو نگے.العرض اس آیت میں بھی ایسا کوئی حکم دکھائی نہیں دیتا کہ جو رسول کے بلانے کو عام لوگوں کا بلا نا خیال کرے تو وہ کافر ہو کر واجب القتل ہوگا..آٹھویں دلیل کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ اَبَدًا اِنَّ ذَالِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللهِ عَظِيمًا (الاحزاب آیت ۵۴)
146 یعنی اور اللہ کے رسول کو تکلیف دینا تمہارے لئے جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ تم اس کے بعد اس کی بیویوں سے کبھی بھی شادی کرو.یہ بات اللہ کے فیصلہ کے مطابق بہت بری ہے.امام ابن تیمیہ نے سورت الاحزاب کی آیت نمبر ۵۴ کا آخری حصہ اس جگہ پیش کر کے اس سے استدلال کیا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلیم کی ازواج کے ساتھ نکاح کرنے کو منع کیا ہے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو گستاخ رسول کہلائے گا اس کو قتل کر دیا جائے.اور اپنے استدلال کی تائید میں صحیح مسلم کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت علی نے الزام تراشی کرنے والے ایک شخص کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا.لیکن اس حدیث سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ الزام تراشی کرنے والے کو قتل کر دیا گیا تھا.امام ابن تیمیہ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس آیت میں امت پر ہمیشہ کے لئے نبی کی بیویوں کو حرام قرار دیا گیا ہے.کیونکہ اس سے آپ صل اللہ کو ایذا پہنچتی ہے.پھر اس کی حرمت کی عظمت کی وجہ سے اس کو اللہ کے نزدیک عظیم جرم قراردیا گیا.ذکر کیا گیا ہے کہ یہ آیت تب اتری جب بعض لوگوں نے کہا اگر رسل کریم یا لیلی و وفات پاگئے ہوتے تو حضرت عائشہ عقد ثانی کرلیتیں، جو شخص آپ ماشیم کی بیویوں یالونڈیوں کے ساتھ نکاح کرے تو اس کی سزا قتل ہے.یہ حرمت نبوی کو توڑنے کی سزا ہے تو قیاس بریں بنی کو گالیاں دینے والا بالا ولی اس سزا کا مستحق ہے.“ ( الصارم المسلوم على شاتم الرسول صفحہ ۱۱۶) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ نے قرآن کریم کی یہ پوری آیت یہاں درج نہیں کی ہے جب کہ اس آیت میں بہت سے احکامات بیان کئے گئے ہیں.اس آیت کے
147 شان نزول کے سلسلہ میں جو بات آپ نے بیان کی ہے وہ درست معلوم نہیں ہوتی امام بخاریؒ اور دیگر محدثین نے اس آیت کی شانِ نزول اور بیان فرمائی ہے.مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے اس آیت کی جو تشریح بیان فرمائی ہے اس کا شان نزول و ہی بیان فرمایا ہے جس کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے.در اصل اس آیت میں عرب لوگوں کو ان کی بعض غیر مہذب عادات سے روکا گیا ہے.عرب کے رہنے والے اہل خانہ کی اجازت کے بنا ہی لوگوں کے گھروں میں داخل ہو جایا کرتے تھے اجازت لیکر داخل ہونے کا حکم نازل ہوا.عورتوں کے پردہ میں رہنے کا حکم ہوا کہ وہ غیر مردوں کے سامنے نہ جایا کریں اور نہ ہی مرد بے محابہ عورتوں کے سامنے جایا کریں.اس کے ساتھ ہی بنی کی بیویوں سے شادی نہ کرنے کا حکم نازل ہوا جبکہ دوسری آیت میں بھی یہ حکم موجود ہے کہ نبی کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں.اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی نازل ہوا کہ جب تم کسی کے ہاں دعوت پر جاؤ تو کھانا کھانے کے بعد وہاں بیٹھ کر باتیں نہ کرنے لگا کرو کہ اس سے معنی کو تکلیف پہنچتی ہے.صحیح بخاری میں درج ہے کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ قاشی نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے کہا میں نے والد سے سنا وہ کہتے تھے ہم سے ابو مجلز نے بیان کیا انہوں نے انس بن مالک سے انہوں نے کہا جب آنحضرت صلی نے زینب بنت جحش سے نکاح کیا ( تو آپ نے ولیمہ کی دعوت کی ) لوگوں کو بلایا انہوں نے کھانا کھا لیا اور لگے بیٹھ کر باتیں کرنے، آپ گھڑی گھڑی ایسا کرتے جیسے اٹھنا چاہتے ہیں مگر وہ نہ اٹھنا تھا) نہ اٹھے، آخر کو ( مجبور ہو کر ) آپ خود ہی اُٹھ کھڑے ہوئے ، اس وقت جو لوگ اٹھے وہ تو اٹھے پھر بھی تین آدمی بیٹھے ( باتیں کرتے ) رہے آپ جب باہر جا کر پھر اندر آئے دیکھا تو اب بھی وہ تین آدمی بیٹھے ہیں ، اس کے بعد کہیں وہ لوگ اٹھے ( آپ پھر باہر تشریف لے گئے تھے ) انس کہتے ہیں کہ میں نے جا کر آنحضرت
148 لام کوخبر دی کہ اب وہ تینوں آدمی چلے گئے ہیں اس وقت آپ تشریف لائے میں بھی آپ کے ساتھ اندر جانے لگا آپ نے اپنے اور میرے بیچ میں پردہ ڈال لیا ( آڑ کر لی ) اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری.یأیها الذین امنوا لا تدخلوا بيوت النبی آخر تک ( صحیح بخاری مترجم جلد دوم پاره ۱۹ کتاب التفسیر صفحه ۹۷۱ شائع کرده اعتقاد پبلیشنگ ہاؤس دہلی ) امام بخاری نے قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں پانچ احادیث درج فرمائی ہیں جن کا نفس مضمون ایک ہی طرح کا بیان ہوا ہے اور کسی روایت سے بھی وہ مطلب ظاہر نہیں ہوتا جس کو امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے.جوازواج رسول یا لونڈیوں سے شادی کرے اسے قتل کر دیا جائے.قرآن کریم کے ایک واضح حکم کے بعد کون مسلمان اس کی خلاف ورزی کر سکتا تھا.اور پھر ان آیات میں اور کسی حدیث میں بھی یہ حکم نہیں دیا گیا کہ ان باتوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جو قرآن کریم کی اس مذکورہ آیت میں بیان کی گئی ہیں قتل کر دیا جائے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس آیت کے آخر پر بیان کرتا ہے کہ اِن ذُلِكُمْ كَانَ عند الله عظیماً یعنی یہ بات اللہ کے فیصلہ کے مطابق بہت بری ہے.اور بندوں کو کسی قسم کی سزا دینے کا حکم نہیں دیا.ہاں یہ باتیں اللہ کے فیصلہ کے مطابق بری ہیں وہ خود ہی اس کی سزا بھی دیگا.خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرنے کے نتیجہ میں جن کا اوپر ذکر گزرا ہے کسی ایک مقام پر بھی ایسا کوئی حکم نہیں کہ خلاف ورزی کرنے کے نتیجہ میں کسی کے کافر ہو جانے پر اسے قتل کر دیا جائے.جبکہ قرآن کریم نے ایک اصول بیان کر دیا ہے کہ ہم نے ھدایت اور گمراہی کو الگ الگ کر کے بیان کر دیا ہے اب جو چاہے ایمان لائے اور جو
149 چاہیے انکار کرے.اس کے انجام کے طور پر جزا سزا کا اختیار اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.
150 ارتدار کیا ہے؟ ارتداد کے بارے میں مسلمان علماء کا یہ ماننا ہے کہ جو شخص اسلام قبول کرنے کے بعد پھر واپس اپنے پہلے دین کی طرف چلا جائے یا اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کر لے وہ مرتد ہے اور اس کی سز ا صرف اور صرف یہ ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر علماء اسلام کسی انسان کے اس حق کو کہ وہ اپنی مرضی سے جس دین کو چاہے قبول کرے اور جس دین کو چائے ترک کر دے ارتداد مان کر اس کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں تو پھر دوسرے مذہب والے بھی اس اصول کو استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ جو کوئی بھی ان کے مذہب سے الگ ہو کر دین اسلام قبول کرے وہ بھی علماء اسلام کی طرح اس پر فتویٰ دیکر اس مسلمان کو بھی قتل کر دیں.اگر یہ بات درست مان لی جائے تو پھر یہ دیکھیں کہ کیا کوئی شخص اس اصول کے ہوتے ہوئے اپنی مرضی سے دوسرا دین اختیار کر سکتا ہے؟ اگر کوئی کرے گا تو ایسی صورت میں سوائے ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کے اور کوئی کام ہی نہیں رہ جاتا.مرتد کون؟ آج کے دور میں علماء کے ایک دوسرے کے خلاف ارتداد کے فتوے عام دکھائی دیتے ہیں اگر کوئی ایک فرقہ کو چھوڑ کر دوسرے فرقہ میں داخل ہوجاتا ہے تو اسے مرتد کا خطاب دیدیا جاتا ہے.اگر کوئی ایک نظریہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے نظریہ کو اختیار کرتا ہے تو اسے بھی مرتد کی صف میں کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ایسے تمام قسم کے فتوے علماء کی طرف سے جاری کئے جاتے ہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نظریہ کے اختلاف سے یا ایک فرقہ کو چھوڑ کر اسلام کے دوسرے فرقہ میں جانے سے کسی کے خلاف مرتد کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے اور کیا وہ اس فتویٰ کی بنا پر مرتد
151 کہلائے گا؟ سو جاننا چاہئے کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے کلمہ توحید کا اعلان کرنا شرط ہے اس کے ساتھ باقی کے ارکان اسلام کی پابندی شرط ہے جس میں نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج فرائض میں شامل ہیں اگر ایک انسان ان پر عامل ہے تو اس کو مرتد کہنا بالکل غلط ہے.کیونکہ کسی کے کہنے سے کوئی شخص مرتد نہیں کہلا سکتا.مرتد وی کہلائے گا جو اپنے ارتداد کا خود اعلان کرے.جس طرح کوئی انسان کسی دوسرے کے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ خود اسلام لا کر اس کا اعلان نہ کرے اسی طرح کسی مسلمان کے ارتداد کا بھی کوئی اعلان کرنے کا حق نہیں رکھتا جب تک کہ وہ خود سے اس دین سے ارتداد کا اعلان نہ کرے.جس طرح اسلام لانے پر مسلمان ہونے کا اعلان کرنا ایک ذاتی فعل ہے اسی طرح کسی مسلمان کو مرتد نہیں کہا جا سکتا جب تک وہ خودارتداد کا اعلان نہ کرے.کیونکہ یہ ہر دو فعل اس کے ذاتی ہیں، نہ تو کسی کوز ورز بر دستی سے مسلمان بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی کوز بر دستی مرتد بنایا جاسکتا ہے.مرتد کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے ارتداد کا خود اعلان کرے جس طرح اس نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تھا.کسی عالم کا یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کی مرضی کے خلاف کسی کے مسلمان ہونے یا مرتد ہونے کا اعلان کرتا پھرے.اور قرآن کریم بھی ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے.قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے ھدایت اور گمراہی کو الگ الگ کر کے دکھا دیا ہے جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے کیونکہ یہ اس کا بالکل ذاتی عمل ہے کسی دوسرے کو اس میں دخل کا اختیار نہیں.جیسا کہ فرماتا ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (البقره آیت ۲۵۷) وَ قلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ.فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَ مَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الكيف آیت (۳۰)
152 یعنی.دین کے بارے میں کوئی جبر نہیں ہے یقیناً صدایت اور گمراہی کا فرق خوب ظاہر ہو چکا ہے...اور (لوگوں کو ) کہہ دے (کہ) یہ سچائی تمہارے رب کے طرف سے ہی ( نازل ہوئی) ہے پس جو چاہے ( اس پر ) ایمان لائے اور جو چاہے(اسکا) انکار کر دے.غور کریں کہ قرآن کریم کی اس واضح تعلیم کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی انسان پر دین کے بارے میں جبر روا رکھی جائے.اور اس کو اپنی مرضی سے اپنا پسندیدہ دین اختیار کرنے سے روکا جائے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو مرتد قرار دیکر اس کو قتل کرنے کا فتویٰ دیا جائے.خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے انبیاء نے تو کبھی ایسی تعلیم نہیں دی ، ہاں انبیاء کے مخالفین کا یہ شیوہ رہا ہے کہ انہوں نے ہی ایسے فتوے دئے اور لوگوں کو تکالیف بھی پہنچائیں اور ان کو قتل بھی کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر دیکھ لیں وہاں بھی ہمیں فرعون کی طرف سے ایسے ہی دعوے دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ فرمایا.قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنْتُمُ بِهِ قَبْلَ أَنْ اذَنَ لَكُمْ إِنَّ هَذَا لَمَكْرُ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ لَأَقَطِعَنَ أَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَا صَلِّبَنَّكُمْ أَجمعين (الاعراف آیت ۱۲۵٬۱۲۴) یعنی.فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے پیشتر اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا معلوم ہوتا ہے ) یہ ایک تدبیر ہے جو تم سب نے مل کر شہر میں بنائی ہے اس سے اس کے باشندوں کو نکال دو پس تم کو جلد ہی اس کا انجام معلوم ہو جائے گا.میں تمہارے ہاتھوں اور تمہارے پیروں کو ( اپنی ) خلاف ورزی کی وجہ سے کاٹ دوں گا پھر تم سب کو صلیب پر لٹکا دوں گا.قرآن کریم میں دیکھیں یہی مضمون سورت طہر آیت ۷۲ میں اور سورت الشعراء آیت ۵۰
153 اور سورت المائدہ آیت ۳۴ میں بھی دکھائی دیتا ہے.اب دیکھیں کہ اپنے دیرینہ مذہب کو تبدیل کرنے سے ارتداد کے نتیجہ میں نبی کے مخالفوں نے ہی ہمیشہ سزائیں سنائی ہیں اور اس پر عمل بھی کیا.ان کے مقابلہ پر کسی ایک نبی نے بھی اپنے مذہب سے ارتداد کرنے والوں کے لئے کسی قسم کی کوئی بھی سزا مقرر نہیں کی.لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج کے زمانہ میں لوگ نبی کے مخالفوں جیسے فعل کو نبی کی طرف منسوب کر کے نبی کی تو بین کرتے ہیں اور ساتھ ہی جوان کی ہاں میں ہاں نہ ملائے اس پر توہین رسالت کا فتویٰ صادر کر کے اسلام کے مخالفوں جیسا ان سے سلوک کرنا جائز قرار دیتے ہیں.اگر آج کے علماء کی باتوں کو جو قرآن وحدیث کے صریح مخالف ہیں درست تسلیم کر لیا جائے تو ایسی صورت میں دیگر مذاہب والوں کا بھی یہ حق بنتا ہے کہ وہ بھی اسی بات کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب میں جانے والے کے لئے یہی فتویٰ صادر کر دیں.مثلاً ایک ہندو جو اسلامی تعلیم سے متأثر ہو کر اسلام قبول کرے تو وہ ہندوؤں کے نذدیک مرتد خیال کیا جائے گا اور اگر وہ بھی مسلم علماء کی طرح مرتد کی سزا کوقتل مانتے ہوئے اس کو مسلم کے قتل کا فتویٰ دیں تو پھر کیا یہ علماء اسلام کے خیال سے اسلامی قانون کے مطابق درست ہوگا؟.اور جائز ہوگا کہ وہ بھی ارتداد کی سزا کے طور پر اس نو مسلم کو قتل کر دیں؟ پھر اس پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے.اسی طرح اگر کوئی یہودی عیسائیت کی تعلیم سے متأثر ہو کر عیسائی ہو جائے یا ہندو ہو جائے تو ان یہودیوں کو بھی پھر علماء کے پیش کردہ اسلام کی رو سے کہ مرتد کی سزا قتل ہے یہ حق ہوگا کہ ان کے دین کو چھوڑ کر جانے والے کو قتل کر دیں.اسی طرح اگر ہر مذہب والے کو اس اصول پر عمل کرنے کا حق دیدیں کیونکہ علماء اس کو اسلام کا نہ ٹوٹنے والا اصول تسلیم کرتے ہیں تو پھر
154 بتائیں کہ کیا دنیا میں امن قائم رہ سکتا ہے؟ اور کیا ایسی صورت میں کوئی کسی دوسرے مذہب کو جسے وہ پسند کرتا ہے تسلیم کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.اگر علماء اسلام مرتد کی سز اقتل تسلیم کرتے ہیں تو پھر دیگر مذاہب والوں کو بھی یہ حق دینا ہوگا جبکہ یہ عقل کے بالکل خلاف ہے.پھر یہی اصول بین المذہب بھی چلے گا کہ اسلام میں یا دیگر مذاہب میں جس قدر بھی فرقے پائے جاتے ہیں ایک فرقہ سے دوسرے فرقہ میں جانے پر بھی یہی اصول قائم رہے گا مثلاً جب بھی کوئی اہلحدیث بریلوی فرقہ میں داخل ہوگا تو اسے بھی مرتد سمجھا جائے گا بلکہ سمجھا جاتا ہے تو کیا اہل حدیث کو یہ حق ہوگا کہ وہ اسے قتل کردیں؟ کیا یہ اسلام ہوسکتا ہے کیا یہ اسلامی تعلیم ہو سکتی ہے ہر گز نہیں.اسلام تو ایک عالمی دین ہے اس کی تعلیم امن بخش ہے اور دین کے بارے میں اسلام کسی بھی قسم کے جبر کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ لا احتراقا فی الدین کی تعلیم دیتا ہے.
155 قرآن اور مرتد کی سزا ہر مسلمان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے اور یہ کامل اور مکمل تعلیم ہے اور قیامت تک اس شریعت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی یہ قیات تک کے لئے ضابطہ ء حیات ہے.اور قرآن کریم کی تعلیمات بڑی واضح اور صاف صاف ہیں پھر آنحضرت علی کا عمل اس پر دلیل ہے.مرتد کی سزا قتل کو بعض علماء کی طرف سے بار بار اس شدت سے اٹھایا گیا ہے کہ اس کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں یہ خیال گھر کر گیا ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہی ہے.لازمی بات ہے کہ جب ارتداد کی بات ہوگی تو اس کے ساتھ ہی تو بین رسالت کی بات بھی اٹھے گی کیوں کہ جو شخص مرتد ہوتا ہے ان میں سے بعض کے ذریعہ سے توہین رسالت کئے جانے کا بھی امکان روشن ہو جاتا ہے اس لئے جہاں مرتد کی سزا کے بارے میں بات ہوگی اس کے ساتھ ہیں تو بین رسالت پر بھی غور کیا جائے گا ان امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے اس کو دیکھا جانا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ امَنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَكَفَرُوا أُخِرَةَ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (ال عمران آیت ۷۳) یعنی.اور اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ مومنوں پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس پر دن کے ابتدائی حصہ میں تو ایمان لے آؤ اور اس کے پچھلے حصہ میں اس کا انکار کر دو شاید (اس کے ذریعہ سے ) وہ پھر جائیں.قرآن کریم کی اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں مرتد کی سز اقتل نہیں کیونکہ یہود اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے اسی لئے یہ لوگ ایمان لانے والوں کو ورغلانے کی غرض
156 سے ایسا کرتے تھے صبح ایمان لے آتے اور شام کو انکار کر دیتے کہ بھئی ہم نے مان تو لیا تھا لیکن بعد میں ہم نے غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ ہم نے ایمان لا کر غلطی کی ہے اس لئے ہم اب انکار کرتے ہیں.وہ لوگ جو حامیان قتل مرتد ہیں ان میں سے بعض کا یہ کہنا ہے کہ یہ تو یہود کی ایک تجویز تھی مگر اس پر انہوں نے عمل نہیں کیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہود اس بات سے واقف تھے کہ مرتد کی سزا قتل ہے تو جو ہمیشہ لبی زندگی گزارنے کے خواہشمندر ہے وہ تو ایسا سوچ کر اپنے آپ کو مصیبت میں کیونکر ڈال سکتے تھے بلکہ ان کا اس طرح سے سوچنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں مرتد کی سز اقتل نہیں.دوسری بات یہ ہے کہ یہود کی یہ کوئی تجویز ہی نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان یہود کے اندرو نے کو بھی بیان کیا ہے کہ یہ لوگ صرف اور صرف دکھاوے کی خاطر ایمان لاتے ہیں اور پھر انکار بھی کر دیتے ہیں اسی بات کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَد دَخَلُوا بِالْكُفْرِ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُبُونَ (المائده آیت ۶۲) یعنی.اور جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے حالانکہ وہ کفر ( ہی کے عقیدہ) کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور (پھر) وہ اس ( عقیدہ) کے ساتھ (ہی) نکل گئے تھے اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اسے اللہ سب سے بڑھ کر جانتا ہے.اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہود کی اس چال سے جو اوپر آیت میں بیان ہوئی ہے اللہ تعالیٰ بھی پوری طرح واقف تھا اور اس نے اپنے رسول کو بھی اس چال سے اطلاع دی تھی.اور یہود اسی طرح کرتے چلے گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد اس سے پھر جانے کی تو کوئی سزا نہیں ہے.اگر مرتد کی سزا قتل ہوتی تو وہ یہ نہ تو سوچ سکتے
157 تھے اور نہ ہی اس پر عمل کر سکتے تھے.اسی پر بات ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ان کے بار بار ایمان لانے اور انکار کرنے کا ذکر ایک اور جگہ بھی آیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ امَنُوا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرَ أَلَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمُ سَبِيلاه ( النساء آیت ۱۳۸) یعنی.اور جولوگ ایمان لائے پھر انہوں نے انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا.پھر کفر میں اور ( بھی ) بڑھ گئے.اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کر سکتا اور نہ انہیں ( نجات ) کا کوئی راستہ دکھاتا ہے.قرآن کریم کی بات کس قدر صاف اور واضح ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ ہم نے ھدایت اور گمراہی کو الگ الگ کر کے دکھا دیا اور پھر یہ بات بھی بیان کر دی کہ چاہے تو ایمان لے آؤ اور چاہے انکار کر دو اور تیسری بات یہ بیان کردی کہ دین کے بارے میں کوئی جبر نہیں ہے.اس پر بات کو بالکل ہی صاف کر کے عملی صورت بیان کر دی کہ وہ لوگ جو ایمان لائے پھر انہوں نے انکار کر دیا پھر وہ ایمان لے آئے اور پھر انہوں نے انکار کر دیا پھر وہ کفر میں آگے سے آگے بڑھتے ہی چلے گئے ایسے لوگوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ان کے انکار اور ارتداد کی وجہ سے کوئی سزا مقرر نہیں کی.بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سزاد بینا اپنے پر رکھ لیا ہے کہ ایسے لوگ جن کے بار بار ایمان لانے اور انکار کرنے کے بعد اور کفر میں بہت آگے نکل جانے کے بعد جبکہ ان کے دوبارہ ایمان لانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو اللہ نے ان کے لئے یہ فیصلہ فرمایا کہ اب انکو ان کے حال پر چھوڑ دو یہ میرا تو کچھ نقصان نہیں کر سکتے لیکن میں انکو ان کی حرکتوں کی بنا پر بخشوں گا نہیں اور نہ ہی اپنی سزا سے بھاگنے کا ان کو کوئی راستہ ہی دکھاؤں گا.
158 اگر اسلام میں مرتد کی سز اقتل ہوتی جیسا کہ بہت سے علماء کا خیال ہے تو ان کے پہلی مرتبہ ہی ایمان سے پھر جانے کے بعد ان کے قتل کا حکم دیا جا تا کجا یہ کہ وہ پھر ایمان لاتے اور پھر انکار کرتے اور پھر کفر میں وہ آگے سے آگے ہی بڑھتے جاتے.دو دومرتبہ ارتداد کرنے کے باوجود قرآن کسی مرتد کے قتل کرنے کا حکم نہیں دیتا.اس سے بڑھ کر اور کون سی قرآن کی تعلیم پیش کی جا سکتی ہے جو یہ ثابت کرے کہ اسلام میں مرتد کی سز اقتل نہیں ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے كَيْفَ يَهْدِ اللهُ قَوماً كَفَرُوا بَعْدَ المَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَ جَاءَ هُمُ الْبَيَّنتُ، وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ أُولَئِكَ جَزَاءُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَتُ اللهِ وَالْمَلَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ خَلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ ج عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ إِلَّا الَّذِينَ تَابَوَا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ وإِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ ايْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفَرَ الَّنِ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الضَّالُونَ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوْا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ قِلْ الْأَرْضِ ذَهَباً وَ لَوِ افْتَدَى بِهِ ، أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم وَمَالَهُمْ من نهرینه (ال عمران آیت ۸۷ تا ۹۲ ) یعنی.جولوگ ایمان لانے کے بعد ( پھر ) منکر ہو گئے ہوں اور شہادت دے چکے ہوں کہ ( یہ ) رسول سچا ہے اور (نیز) ان کے پاس دلائل بھی آچکے ہوں انہیں اللہ کس طرح ہدایت پر لائے.اور اللہ ( تو ) ظالم (لوگوں) کو ہدایت نہیں دیتا.یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں ( کی ) اور لوگوں ( کی) سب ہی کی لعنت ہو.وہ اس ( لعنت ) میں رہیں گے نہ ( تو ) ان ( پر) سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی.سوائے
159 ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور اللہ یقیناً بہت بخشنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.جولوگ ایمان لانے کے بعد منکر ہو گئے ہوں پھر وہ کفر میں اور بھی بڑھ گئے ہوں ان کی تو بہ ہر گز قبول نہ کی جائے گی اور یہی لوگ گمراہ ہیں.جولوگ منکر ہو گئے ہوں اور گفر (ہی) کی حالت میں مرگئے ہوں ان میں سے کسی سے زمین بھر سونا ( بھی ) جسے وہ فدیہ کے طور پر پیش کریں ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا.ان لوگوں کے لئے دردناک عذاب ( مقدر ) ہے اور ان کا کوئی بھی مدد گار نہ ہوگا.ان جملہ آیات پر غور کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ایمان کے بعد کفر اختیار کر لینے کی صورت میں اللہ نے بندوں کو کوئی اختیار نہیں دیا کہ وہ ایسے لوگوں سے اس دنیا میں کوئی بدلہ لیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی سزا کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور کسی کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ ایسے لوگوں کو کوئی سزا دیں.اگر مرتد کی سز اقتل ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس جگہ اس کا ذکر ضرور فرما تا لیکن ایسا نہیں ہے.اس جگہ ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ اس جگہ جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو یہ لعنت میں رہیں گے اور ان پر عذاب ہلکانہ کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں کوئی ڈھیل دی جائے گی.اس سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کی فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت کا ذکر ہے تو جس پر ایسی لعنت وارد ہوتو گویا وہ اللہ کی سخت ناراضگی کا مورد ہے لہذا اسے قتل کر دینا چاہئے کیونکہ فرمایا ہے کہ انہیں کوئی ڈھیل نہیں دی جائے گی.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرند کی سز اقتل ہے.لیکن اس جگہ ایسی کسی بات کا اشارہ تک بھی موجود نہیں کہ مرتد پر لعنت کی صورت میں قتل واجب ہو جاتا ہے.قرآن کریم میں اور بھی بہت سے لوگوں کے لئے لعنت کا لفظ استعمال کیا ہے اگر لعنت سے مراد قتل لیا جائے تو پھر اس کی زد میں ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو
160 ایمان نہیں لائے اور انہوں نے ارتداد بھی اختیار نہیں کیا.لہذا یہ بات کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی.اس سلسلہ میں جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ لعنت کا مفہوم بیان کرتے ہیں کہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کو اپنی رحمت سے دور کر دے مزید براں فرماتے ہیں.کہ اللہ جل شانہ دنیا و آخرت میں اپنی رحمت واسعہ سے سوائے کافر و مشرک کے کسی کو محروم نہیں کرتا.بلکہ مومن کی یہ شان ہے وہ ہر لمحہ رحمت خداوندی کے قرب و حضور کا متلاشی و سرگردان رہتا ہے اس لئے وہ مباح الدم نہیں ہوسکتا کیونکہ خون اور زندگی کی حفاظت کی عظیم رحمت و برکت اسے باری تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے اس لئے اس کی جان و مال محفوظ و مامون ہے اور استحقاق لعنت سے بھی بچارہا جبکہ لعنت تو ملعون کو مستحق قتل بناتی ہے.اس کی تائید ہمیں حضور علی کے فرمان سے ملتی ہے.و من لعن مو منا وهو كقتله جس نے کسی بھی مومن پر لعنت کی تو دو وایسا ہے جیسے اس نے اسے قتل کیا (صحیح بخاری کتاب الادب ۲ - ۸۹۳) مزید برآں امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں فاذا كان الله قد لعن هذا فى الدنيا والاخرة فهو كقتله فعلم ان قتله مباح جب اللہ جل شانہ نے دنیا و آخرت میں ( گستاخ رسول علیایی ) پر لعنت فرمائی تو وہ ایسے ہی ہے جیسے صفحہ ہستی سے اسے مٹانا اور قتل کرنا ہے پس یہ بات معلوم ہوئی کہ ( شاتم رسول)
مبارح الدم ہے.161 (الصارم المسلول ۴۲،۴۱) اس میں گستاخ رسول صلیم اور شاتم رسول کے الفاظ جناب مولوی صاحب نے خود ہی شامل کرلئے ہیں.) ( بحوالہ تحفظ ناموس رسالت شائع شده منهاج القرآن پبلیکیشنز ۳۶۵ ایم.ماڈل ٹاؤن لاہور صفحہ ۱۵۴) محترم ڈاکٹر صاحب نے اس جگہ امام ابن تیمیہ کی کتاب کے حوالہ سے بات تو کی ہے لیکن جو نتیجہ نکالا ہے وہ درست نہیں ہے اور بخاری شریف کی جو حدیث پیش کی گئی ہے وہ بھی ادھوری اس سے حدیث کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہو تا حدیث میں اس کی آگے پیچھے کے الفاظ اس طرح ہیں مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ فِي الدُّنْيَا عُذِبَ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ وَ مَنْ لَّعَنَ مُؤْمِناً فَهُوَ كَقَتْلِهِ وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنأَ فَهُوَ كَقَتْلِهِ یعنی.اور جو شخص دنیا میں کسی چیز سے اپنے تئیں مارے اس کو قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب ہوتارہے گا.اور جو شخص کسی مسلمان پر لعنت کرے تو ایسا ہے جیسے اس کا خون کیا اور جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے ( وہ کافر نہ ہو ) تو ایسا ہے جیسے اس کا خون کیا.( بخاری شریف مترجم جلد سوم صفحه ۲۱ ۴ حدیث نمبر ۹۸۴) مولوی صاحب نے ایک جملہ لکھا اور دلیل پیش کر دی کہ مومن کو لعنت کرنا ایسا ہے جیسے اس کا قتل کر دیا اور امام ابن تیمیہ کی بات رکھ کر دلیل بنالی کہ لعنت کرنے والے کو قتل کرنا جائز ہے.جبکہ آگے بھی تو لکھا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا بھی ایسا ہی ہے کہ گویا اس کو قتل کردیا جبکہ
162 وہ کافر نہ ہوتو.فرقہ بندیوں کو دیکھ لیں اگر لعنت کرنے والے کو قتل کرنے کا جواز اس حدیث ہ بندیوں کو دیکھ لیں.سے نکالا جا سکتا ہے تو پھر اس حدیث سے ان تمام علماء کو قتل کرنے کا جواز بھی نکالا جا سکتا ہے جو آئے دن کسی نہ کسی مسلمان کو کفر کا فتویٰ دیتے رہتے ہیں.الغرض یہ بات قطعی طور پر نا جائز ہے کہ کسی لعنت کرنے والے کو مرتد قرار دیکر اس کو قتل کیا جا سکتا.حدیث میں الفاظ ہیں کہ گویا اس نے قتل کیا گویا اور سچ سچ میں بہت فرق ہوتا ہے.اور ویسے بھی یہ عدل کے خلاف ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر مرتدین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ الْمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنَّ بِالْإِيمَانِ وَلكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمُه ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الحَيُوةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ (النحل آیت نمبر ۱۰۷ - ۱۰۸) یعنی.جولوگ بھی اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کریں سوائے ان کے جنہیں ( کفر پر مجبور کیا گیا ہو لیکن ان کا دل ایمان پر مطمئن ہو ( وہ گرفت میں نہ آئیں گے ) ہاں وہ جنہوں نے (اپنا) سینہ کفر کے لئے کھول دیا ہو ان پر اللہ کا (بہت) بڑا غضب ( نازل ) ہوگا اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ( مقدر) ہے.اور ایسا اس سبب سے ہوگا کہ انہوں نے اس ورلی زندگی سے محبت کر کے اسے آخرت پر مقدم کرلیا.اور ( نیز اس وجہ سے کہ ) اللہ کفر اختیار کرنے والوں کو ھدایت نہیں دیتا.قرآن کریم کی ان آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے دین سے مرتد ہو جانے والوں کا ذکر کیا ہے اور مرتد ہونے والے لوگوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر کے بیان کیا ہے ایک تو وہ گروہ ہے جو دل سے ایمان لاتا ہے لیکن ان کی قوم ان پر اس قدر دباؤ بناتی ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان
163 گھر کر جانے کے باوجود مخالفین کی سختیاں برداشت نہ کر سکنے کی بنا پر مجبوری میں ایمان سے پھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.ایسے دکھائی دینے والوں کے لئے تو اللہ یہ فرماتا ہے کہ انہیں تو گرفت میں نہ لیا جائے گا.ہاں ایسے لوگ جو کھلے دل کے ساتھ ارتداد اختیار کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ان کے لئے کوئی سزا مقرر نہیں فرما تا بلکہ فرماتا ہے کہ ان پر اللہ کا غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے اللہ نے بہت بڑا عذاب مقدر کر رکھا ہے.ان لوگوں نے ارتداد اختیار کیوں کیا اس بات کی بھی اللہ نے وضاحت فرما دی کہ انہوں نے دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی پر فضیلت دی ہے.فرمایا چونکہ ان لوگوں نے دل سے ارتداد اختیار کیا ہے اسلئے اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت بھی نہیں دیتا.اب دیکھو ان کا ارتداد کیسا سخت ہے کہ اللہ گواہی دے رہا ہے کہ ان مرتدیں نے ہدایت نہیں پانی اور دوبارہ ان کے ایمان لے آنے کا موقعہ نہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ایسے لوگوں کو بھی سزاد ینے کا کام اپنے ہی ہاتھ میں رکھا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِيْبِهِ فَسَوْفَ يَأْتي اللهُ بِقَوْمٍ تجلهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لا يم ، ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعُ عَلِیمه (المائدہ آیت ۵۵) یعنی.اے ایماندارو! تم میں سے جو (شخص) اپنے دینا سے پھر جائے تو ( وہ یاد رکھے) اللہ ( اسکی جگہ) جلد (ہی) ایک ایسی قوم لے آئے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہو نگے.جومومنوں پر شفقت کرنے والے ہو نگے اور کافروں کے مقابلہ
164 پر سخت اور اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے پسند کرتا ہے ( فضل اسے) دیدتا ہے اور اللہ وسعت بخشنے والا ( اور ) بہت جاننے والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو متنبع کیا ہے کہ اگر تم دین سے پھر جاؤ گے تو اللہ تمہاری جگہ ایک اور قوم کو لے آئے گا.یہ نہیں فرمایا کہ اگر تم پھر جاؤ گے تو ارتداد کے نتیجہ میں قتل کر دئے جاؤ گے.قرآن کریم میں یہ ایک ایسا موقعہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو تنبیہ کر رہا ہے کہ اگر تم لوگوں نے ارتداد اختیار کیا تو میں تم سے کیا کرنے والا ہوں.اگر اسلام میں مرتد کی سز اقتل ہوتی تو اس مقام پر اس کا ذکر ہوتا یہ نہ فرما تا کہ تم اگر ارتداد اختیار کرو گے تو اللہ اس کے بدلہ میں اس رسول سے محبت کرنے والی اور جن سے اللہ کا رسول محبت کرتا ہوگا ایسی قوم کولے آئے گا بلکہ یہی کہتا کہ ارتداد کے نتیجہ میں قتل کئے جاؤ گے.لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسا کوئی حکم نہیں دیا بلکہ کسی جگہ بھی نہیں دیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا يَزَالُونَ يُقَتِلُونَكُمْ حَتَّى يُرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرُ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقره آیت نمبر (۲۱۸ یعنی.اگر ان کی طاقت میں ہو تو تم سے لڑتے ہی چلے جائیں تا کہ تمہیں تمہارے دین پھیر دیں اور تم میں سے جو ( بھی ) اپنے دین سے پھر جائے ( اور ) پھر کفر ہی کی حالت میں مر ( بھی ) جائے تو ( وہ یادر کھے ) ایسے لوگوں کے اعمال اس دنیا میں ( بھی ) اور آخرت میں
165 ( بھی ) اکارت جائیں گے اور ایسے لوگ دوزخ ( کی آگ میں پڑنے) والے ہیں وہ اس میں ( دیر تک ) رہیں گے.اب اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے دین سے پھر جانے والوں کا ذکر کیا اور فرمایا ہے کہ یہ جو مخالفین اسلام میں یتیم سے لڑتے ہی اس غرض سے ہیں کہ تا تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں برگشتہ کر دیں ان کی مخالفتوں اور لڑائیوں کے نتیجہ میں اگر کوئی دین سے پھر جائے مرتد ہو جائے اور ارتداد کی حالت میں ہی مر بھی جائے تو یا درکھو کہ اس کی اعمال جو بھی اس نے کئے تھے وہ اس نے اس دنیا میں بھی ضائع کر لئے اور آخرت میں بھی ضائع کر لئے اور وہ دوزخی ہو گا.اب دیکھیں اس آیت میں ایک مرتد کو اس کی موت تک مہلت دی ہے یہ نہیں فرمایا کہ اگر مرتد ہو جائے تو اسے قتل کر دو اس آیت میں بھی مرتد کو سزا دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.کسی بندے کو کسی حاکم کو با اختیار نہیں دیا کہ اگر ارتداد اختیار کرے تو اس کو قتل کر دو.اسی طرح ایک جگہ فرمایا وَمَنْ يَتَبَتِّلِ الْكُفْرَ بِالْايْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِه ( البقره آیت نمبر ۱۰۹) یعنی.اور جو ایمان کے بدلے کفر اختیار کرے تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا.اگر اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہوتی تو قرآن کریم میں اس جگہ بھی موقعہ تھا کہ اس کا ذکر کیا جاتا لیکن یہاں بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا بلکہ صرف یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ایسا شخص سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے.اور سیدھے راستہ سے بھٹک جانے کی سز ا صرف اخروی زندگی میں ہی ہوسکتی ہے اس زندگی میں اس کو قتل کرنے کا کوئی حکم نہیں.اورسید ھے راستہ سے بھٹک جانا کوئی ایسا فعل نہیں ہے کہ انسانی فطرت اس کے لئے قتل کی سزا تجویز کرے.اسی طرح ایک اور
جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 166 وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَ اللهَ شَيْئاً (ال عمران آیت ۱۴۵) یعنی.اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا.اب اس جگہ بھی دیکھ لیں ایمان سے پلٹ جانے کا ذ کر موجود ہے لیکن مرتد ہو جانے والے کے لئے دنیاوی کوئی بھی سزا مقرر نہیں کی گئی بلکہ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ مرتد ہونے والے اگر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ لوگ ایمان سے پھر جانے پر اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان کریں گے تو یہ ان کی بھول ہے اللہ فرماتا ہے کہ ان کا ارتداد اختیار کر لینا اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اگر اسلام میں مرتد کی سز اقتل ہوتی تو اس جگہ پر ہی اس کا ذکر ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا دکھائی نہیں دیتا.الغرض قرآن کریم میں ہمیں کسی ایک موقعہ پر بھی مرتد کی سز اقتل دکھائی نہیں دیتی مرتد کی سزا قتل کا عقیدہ قرآن کریم سے قطعاً ثابت نہیں ہے مرتد کو سزا دینا یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اس کا بھی تعلق اخروی زندگی کے ساتھ ہے.جو لوگ بھی مرتد کی سزا قتل کے قائل ہیں وہ اس عقیدہ کی تائید میں قرآن کی ایک آیت بھی پیش نہیں کر سکتے ایسا عقیدہ رکھنا یہ صرف ان کے ذہن کی اختراع ہے.
167 زمی امام ابن تیمیہ نے شاتم رسول کرنے والے کی جو تیسری شق بیان کی ہے اس کا تعلق زمی سے ہے.اگر دیکھا جائے تو آپ کی کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول میں جس شق پر سب سے زیادہ بحث کی ہے اس کا تعلق زقی سے ہے.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ ساری کی ساری کتاب زنی کے گرد ہی گھومتی ہے.جن دو موضوعات پر اوپر بحث کی گئی ہے وہ اس کتاب کے 114 حصہ پر محیط ہونگے اور باقی کی ساری بحث ہی زخمی کو لیکر کی گئی ہے.لیکن حیرت کی بات ہے کہ موجودہ دور میں شاتم رسول یا تو بین رسالت کے عنوان پر لکھی جانے والی کتب میں اس موضوع کو یکسر نظر انداز کر کے اپنے ذہن میں بسے اسلامی نظریہ کو ادھر ادھر سے کھینچ تان کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ساری کی ساری بات امام ابن تیمیہ کی کتاب کی طرف منسوب کر دی ہے.امام ابن تیمیہ نے جس نظریہ کو ایک خاص گروہ کے ساتھ باندھ کر اپنی کتاب میں پیش کیا ہے اس کا کسی نے ذکر تک بھی نہیں کیا.امام ابن تیمیہ نے جس سزا کو ذھی کے ساتھ خاص کر کے بیان کیا ہے اس دور کے علماء نے اس کو ہر کس و ناقص پر نافذ العمل قرار دیا ہے.جبکہ ذمی اور آزاد شخص کے معاملات میں زمین آسمان کو فرق ہے.علماء نے اپنے مقاصد کے حصول کی لئے قرآن کریم سے ان آیات کو تو پیش کیا جن کو امام ابن تیمیہ نے زقی اور اس کے نقص عہد اور اس کی سزا کے حوالہ سے پیش کیا.لیکن دیگر علماء میں سے کسی نے اس بات کا اشاتاً بھی ذکر نہیں کیا کہ اس کا اطلاق صرف ذقی پر ہوگا وہ بھی اس وقت جبکہ وہ نقص عہد کرے.حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا اور ایمانداری کا تقاضہ تھا کہ جس طرح امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب کو ہر لحاظ سے نکھار کر ہر مسئلہ علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے اس طرح سے بیان کرتے اور یہ
168 بات صاف کرتے کہ قرآن کریم کی ان ھدایات اور احکامات کا تعلق زقی کے ساتھ ہے.اور پھر اس دور میں تو عوام الناس کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ ذقی ہوتا کون ہے زقی کسے کہا جاتا ہے ، اس کے مسلمانوں پر کیا حقوق ہیں اور مسلمانوں کے ان پر کیا حقوق ہیں؟ اگر یہ ساری باتیں بیان کردی جاتیں تو اسلام کی ایک حسین تعلیم ابھر کر سامنے آجاتی.لیکن جوطریق علماء نے اختیار کیااس سے تو غیروں کے نزدیک اسلام پر ایک قشقہ لگا ہے اور اسلام کی عدل وانصاف کی تعلیم کو ظلم وزیادتی اور جبر کی تعلیم کے طور پر پیش کیا گیا ہے.ہمارا کام ہے کہ ہم غیروں کے سامنے اسلام کی حقیقی اور حق و انصاف پر مبنی اور پر امن تعلیم پیش کریں تا کہ لوگ اسلام کے حسن کو دیکھ کر اسے خوش دلی سے قبول کریں.امام ابن تیمیہ نے ذمی کی جو بحث اٹھائی ہے اس سلسلہ میں کسی قدر اختصار سے وضاحت پیش کرنا ضروری خیال کرتا ہوں تا کہ ہر شخص یہ سمجھ سکے کہ زنی کون ہوتا ہے اور کوئی شخص ذمی کب کہلا تا ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں اور مسلمانوں کے ان پر کیا حقوق ہیں؟
169 زمی کون؟ قبل اس کے کہ بات کو آگے بڑھایا جائے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ امام ابن تیمیہ نے ذمی کے بارے میں جو اس قدر لمبی چوڑی بحث کی ہے آخر یہ زقی ہے کیا اور کسے ذمی کہا جاتا ہے اور کوئی ذھی کس صورت میں اور کون بنتا ہے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ذمی کا تعلق خاص اسلامی مملکت سے ہے.جہاں پورے طور پر اسلامی تعلیمات کا نفاذ ہوتا ہو.دیکھا جائے تو آج کے دور میں دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں اسلامی نظام پوری طرح سے نافذ ہو.عرف عام میں اس وقت بھی بہت سے ممالک کو اسلامی ملک کہا جاتا ہے لیکن ہر ملک میں اس وقت پوری طرح سے یا جزوی طور پر جمہوری نظام قائم ہے.آغاز اسلام میں جو نظام حکومت قائم ہوا وہ مکمل طور پر اسلامی نظام تھا جس میں تمام امور قرآن و سنت کی روشنی میں نافذ العمل تھے لیکن آج کے دور میں وہ اسلامی نظام حکومت کسی جگہ بھی دکھائی نہیں دیتا.اس لئے اس دور میں زخمی کی بحث ہی بے مقصد دکھائی دیتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں کسی بھی ملک میں کسی کو بھی آپ ذقی کے زمرہ میں شمار نہیں کر سکتے.آنحضرتعلیم نے جب دنیا والوں کو توحید کا پیغام دیا تو آپ صلم کی شدید مخالفت شروع ہوئی.آپ کو بہت دکھ دئے گئے اور تکالیف پہنچائی گئیں.آپ پر ایمان لانے والے بھی اس سے محفوظ نہ تھے.حتی کہ آپ کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی اور آپ مدینہ تشریف لے گئے.اس پر کفار مکہ نے آپ اور آپ کے ماننے والوں پر جنگ مسلط کر دی جس پر اللہ تعالی نے آنحضرت علی ایم کو دفاعی جنگ کی اجازت دی جس کا ذکر قرآن کریم کی سورت حج آیت نمبر ۴۰ میں موجود ہے کہ وہ لوگ جن سے ( بلا وجہ ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی جنگ کرنے
170 کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے جب یہ دفاعی جنگیں ہوئیں تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتوحات سے نوازا.اسلام کا اصل مقصد دنیا میں توحید کا قیام تھا.جن علاقوں کو بھی مسلمان فتح کرتے وہاں لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی جو تو اسلام قبول کرتے ان پر اسلامی قوانین نافذ کئے جاتے.بہت سے ایسے بھی ہوتے جو اپنے دین پر قائم رہتے اور اسلام قبول نہ کرتے.ان سے اس فتح یافتہ ملک میں قیام کی صورت میں معاہدہ کیا جاتا جن میں بعض شرائط رکھی جاتیں جن کو دونوں فریق بخوشی قبول کرتے.تو ایسے لوگ جو مغلوب ہو کر باہمی رضامندی سے قائم کی گئی شرائط پر عمل کرنے کی شرط پر اسلامی مملکت میں رہنا پسند کرتے انہیں اسلامی اصطلاح میں ذمی کہا جاتا.اور یہ لوگ ذمی کہلاتے.ان میں اور مسلمانوں میں ٹیکس کے معاملہ میں بھی الگ الگ اصطلاح قائم تھی.مسلمانوں سے زکوۃ وصول کی جاتی تھی اور ذمیوں سے جو ٹیکس وصول کیا جاتا وہ جزیہ کہلاتا تھا.اگر لغت میں دیکھا جائے تو اس کے معنی یہ بیان ہوئے ہیں کہ الذی یعنی وہ شخص جس سے معاہدہ کر کے اس کی جان و مال عزت و آبرو اور مذہب کی 66 حفاظت کا ذمہ لیا گیا ہو.ھی ذمّيّة عرب میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین موجود تھے اس لئے ذمی کا اطلاق عام طور پر ان قوموں کے مفتوح ہو جانے اور ان سے معاہدات کر لینے کے بعد ہوتا تھا لیکن آج کے دور میں اگر کسی جگہ اسلامی حکومت قائم ہو جہاں تمام اسلامی اصول نافذ ہونگے تو اگر وہاں ان کے علاوہ دیگر مذاہب والے بھی اپنے دین پر رہتے ہوئے معاہدہ کرتے ہیں تو وہ بھی ذھی ہی کہلائیں گے اور انہیں معاہدہ کرنے کے بعد جزیہ دینا ہوگا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے.
171 قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرَّمُونَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُولَهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَبَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدِوَهُمْ صَغِرُونَ ( التوبة آیت ۲۹) یعنی جولوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ یوم آخرت پر اور نہ اسے جسے اللہ اور رسول نے حرام قرادیا ہے حرام قرار دیتے ہیں اور نہ سچے دین کو اختیار کرتے ہیں.یعنی وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی ہے ان سے جنگ کرو جب تک کہ وہ اپنی مرضی سے جزیہ ادا نہ کریں اور وہ تمہارے ماتحت نہ آجائیں.قرآن کریم کی اس آیت سے کسی کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہود سے یا کسی اور قوم سے بنا کسی دلیل کے جنگ جائز ہے جنگ کی جو شرائط ہیں ان میں سے ایک کا تو او پر ذکر کیا گیا ہے کہ جنگ کی ایسی صورت میں اجازت دی گئی ہے کہ جب دوسرا جنگ مسلط کر دے اور مسلمانوں کو یہ اجازت ہے کہ وہ ایسی صورت میں دفاعی جنگ کریں گے.پس اگر یہود یا کوئی دوسری قوم بھی حملہ کرے تو یہ بتایا گیا ہے کہ پھر ان سے جنگ کرو اور اس وقت تک کرو کہ وہ مغلوب ہو جائیں اور شکست کھا کر جزیہ دینے کے لئے تیار ہو جائیں.تو فرمایا کہ پھر لڑائی کولمبا نہ کرو بلکہ ان کی پہلی غلطی کو معاف کردو.وَهُمُ صَاغِرُونَ کے معنے مفسرین نے یہ کئے ہیں که جزیہ دیتے وقت بہت تذلیل اختیار کریں.لیکن اس آیت کا یہ مطلب نہیں صرف یہ مطلب ہے کہ وہ عن یں جزیہ دیں یعنی اپنی مرضی سے اور شکست کھا کر اس کا اقرار کریں تو ان سے جزیہ کی شرط قبول کرلور ڈ نہ کرو اور لڑائی کو لمبا نہ کرو.پس یہ احسان ہے ظلم نہیں.صَاغِرُونَ سے اس طرف اشارہ ہے کہ چونکہ وہ شکست قبول کر چکے ہیں اس لئے وہ اس کے متعلق معاہدہ کریں.
172 قرآن کریم کی یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے والے جب جنگ میں شکست کھا جائیں تو ان سے جزیہ کی شرط پر معاہدہ کر کے انہیں امان دید یا کرو.تو ایسے لوگ جو جزیہ کی ادائیگی کی شرط پر معاہدہ کرتے ہیں وہ ” ذقی“ کہلاتے ہیں.امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب میں جو ساری بحث اٹھائی ہے وہ اس ذمی کے بارے میں ہے کہ جب بھی کوئی ذقی گالی دیگا تو اس کے گالی دینے کی بنا پر وہ معاہدہ جو جزیہ دینے کے شرط کے ساتھ مسلم مملکت میں رہنے کے لئے کیا تھا وہ ٹوٹ جاتا ہے لہذا اسے قتل کر دیا جائے.امام ابن تیمیہ کی اس بات میں ایک بہت ہی باریک نقطہ ہے جسے سمجھنا نہایت ضروری ہے.وہ یہ ہے کہ ایک شخص ذمی اس وقت بنتا ہے جب کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کرنے کے نتیجہ میں شکست کھا کر جزیہ کی شرط پر ایک معاہدہ کرتا ہے اور اس میں امن و امان قائم رکھنے کی بھی شرط شامل ہوتی ہے.اگر ایک شخص کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا کر ملک میں فتنہ پردازی کرنا چاہے ایسی صورت میں دو گو یا عہد شکنی کرتا ہے.ایسی صورت میں اس کی شکل یہ بنتی ہے کہ جب کوئی ذمی رسول کریم علیہ کو گالی دیتا ہے تو اس کو قتل کی سزا اس کے گالی دینے کی بنا پر نہیں دی جائے گی بلکہ اس کی معاہدہ شکنی اور فتنہ پردازی کو ہوا دینے کی بنا پر دی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَالْفِتْنَةُ اكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرة آيت ۲۱۸) یعنی اور فتنہ قتل سے بھی بڑا ہوتا ہے.اسلامی مملکت میں رہتے ہوئے ذمی کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ کوئی بھی ایسی بات نہیں کرے گا جس سے فتنہ کا اندیشہ ہو.جب بھی اس کی طرف سے کوئی بھی ایسی بات ہوگی یا معاہدہ کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور وہ شخص ان لوگوں میں شمار ہوگا
173 جن سے عہد شکنی کا بدلہ لیا جا سکتا ہے.جزیہ کے بدلہ میں ذمی کی ہر طرح کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے اور انہیں پوری طرح سے امان دی جاتی ہے.یہ امان کسی قسم کی ہوتی تھی اس کا ایک نمونہ میں اس جگہ پیش کر دیتا ہوں اگر چہ معاہدات میں وہاں کے حالات اور علاقہ کی مناسبت سے کچھ کم یا زیادہ شرائط رکھ لی جاتی تھیں.بیت المقدس کے عیسائیوں کے لئے جو امان نامہ لکھا گیا تھا وہ اس طرح پر ہے.ی وہ امان نامہ ہے جو امیر المومنین عمرؓ نے ایلیا والوں کو دیا ہے.ایلیا والوں کی جان.مال.گرجے.صلیب.بیمار تندرست سب کو امان دی جاتی ہے اور ہر مذہب والے کوامان دی جاتی ہے.ان گر جاؤں میں سکونت نہ کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے.یہاں تک کہ ان کے احاطوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے گا.نہ ان کی صلیبیوں اور مالوں میں کمی کی جائے گی.نہ مذہب کے بارے میں کسی قسم کا کوئی تشدد کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کوئی کسی کو ضرر پہنچائے گا.اور ایلیا میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے.اور ایلیا والوں پر فرض ہے کہ جزیہ دیں اور یونانیوں کو نکال دیں پس یونانیوں یعنی رومیوں میں سے جو شہر سے نکل جائے گا اس کے جان و مال کی امان دی جائے گی جب تک کہ وہ محفوظ مقام تک نہ پہنچ جائے.اگر کوئی رومی ایلیا میں رہنا پسند کرتا ہے.تو اس کو باقی اہل شہر کی طرح جز یہ ادا کرنا ہوگا.اور اگر اہل ایلیا میں سے کوئی شخص رومیوں کے ساتھ جانا چاہے تو اس کو امن وامان ہے.یہاں تک کہ وہ محفوظ مقام تک پہنچ جائیں.جو کچھ اس عہد نامہ میں درج ہے اس پر خدا اور رسول اور خلفاء اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے.بشر طیکہ اہل ایلیا مقررہ جزیہ کی ادائیگی سے انکار نہ کریں.“ ( بحوالہ تاریخ اسلام جلد اوّل صفحه ۳۵۰ مصنفہ مولانا اکبر نجیب آبادی مطبوعہ تاج پرنٹرز
174 ۶۹ نجف گڑھ روڈ انڈسٹریل ایریانئی دہلی ۱۱۰۰۰۱۵) الغرض جزیہ ادا کرنے کی شرط پر ذمیوں کے مذہب ، مذہبی امور ، عبادت گاہوں ، جان و مال عزت و آبر وحق و انصاف وغیرہ تمام امور کی حفاظت کی جاتی تھی.
175 جزیہ جو شخص جز یہ ادا کرتا ہے وہ ذمی کہلاتا ہے.جزیہ کیا چیز ہے جس کی ادائیگی کسی کو ذھی بناتی ہے اس کے متعلق بھی جاننا ضروری ہے کہ جزیہ کیوں اور کس قدر لگایا جاتا تھا؟ اور اس کا مقصد اور مصرف کیا تھا؟ اس مسئلہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تصنیف ”سیرت خاتم النبيين بالای ایام میں ایک نوٹ لکھا ہے جس میں اس کی پوری وضاحت موجود ہے میں اسے اس جگہ لکھنا مناسب خیال کرتا ہوں.آپ لکھتے ہیں جزیہ کا مسئلہ بعض لوگوں کو قابل اعتراض نظر آتا ہے حالانکہ وہ محض ایک ٹیکس تھا جو نظام حکومت کو چلانے کے لئے غیر مسلم رعایا سے لیا جاتا تھا اور جس کا فائدہ بالواسطہ خود ٹیکس دینے والے کو ہی پہنچتا تھا.کیونکہ اس روپئے سے حکومت ان کے حقوق کی حفاظت ان کے آرام و آسائش اور ان کی بہبود کا انتظام کرتی تھی اور ان کے جان ومال کی حفاظت کے لئے افواج مہیا کرتی تھی اور اگر یہ اعتراض ہو کہ یہ ٹیکس غیر مسلم رعایا کے ساتھ مخصوص کیوں تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ ٹیکس فوجی خدمت کا معاوضہ سمجھا جاتا تھا جو مسلمان سپاہی سرانجام دیتے تھے مگر جس سے غیر مسلم رعایا آزاد رکھی گئی تھی یعنی جہاں ہر مسلمان گویا جبری بھرتی کے قانون کے ماتحت تھا وہاں غیر مسلم رعایا آزا د کھی گئی تھی.اس صورت میں یہ انصاف کا تقاضا تھا کہ اسلامی حکومت کے فوجی اخراجات کا بوجھ ایک حد تک غیر مسلم رعایا پر بھی ڈالا جاتا اور یہی جز یہ تھا.علاوہ ازیں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ در اصل اسلام میں ٹیکس کے معاملہ کو تین شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے.اوّل وہ ٹیکس صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص تھے مثلاً زکوۃ.دوم وہ ٹیکس جو غیر مسلموں کے ساتھ خاص تھے مثلاً جزیہ.سوم مشترک ٹیکس جو حسب حالات سب پر لگائے جا سکتے تھے مثلا زمین کا مالیہ.اس تقسیم و تفریق کی وجہ تھی کہ اسلامی حکومت کو بعض ایسے کام بھی
176 کرنے پڑتے تھے جو مسلمانوں کے دینی مصالح کے ساتھ خاص تھے اور یہ انصاف سے بعید تھا کہ ان کا بوجھ غیر مسلم رعایا پر ڈالا جاتا لہذا کمال دیانت داری کے ساتھ اسلام نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے بعض ٹیکس جدا جدا کر دئے.چنانچہ جہاں مسلمانوں کے مخصوص ٹیکس یعنی زکوۃ میں دینی اور سیاسی اغراض ہر دو مخلوط طور پر شامل کر دی گئیں.(سورۃ توبہ آیت اے) وہاں غیر مسلموں کے مخصوص ٹیکس یعنی جزیہ کے مصارف میں کوئی دینی غرض شامل نہیں کی گئی بلکہ اسے عام رکھا گیا (سورۃ توبہ آیت ۲۹) یہی وجہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں زکوۃ کا ٹیکس جو مسلمانوں کے لئے خاص ہے جزیہ کے ٹیکس سے بھاری ہوتا ہے کیونکہ اس کے مصارف زیادہ ہیں.پس غور کیا جاوے تو جزیہ کے ٹیکس کا غیر مسلموں کے ساتھ مخصوص کر دیا جانا اسلام اور بانی اسلام کی اعلی درجہ کی دیانت کا ثبوت ہے.مگر افسوس کہ نادان لوگوں نے اسی کو ایک اعتراض کی بنیاد بنالیا ہے.اب را جزیہ کی تشخیص و تحصیل کا سوال.سو اس معاملہ میں بھی اسلام نے ایک ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا ہے جس کی نظیر کسی دوسری جگہ نہیں ملتی.اس کے متعلق سب سے پہلی بات تو یہ جاننی چاہئے کہ اسلام نے جزیہ کے ٹیکس کی کوئی شرح معین نہیں کی بلکہ اسے ہر زمانہ اور ہر قوم کے حالات پر چھوڑ دیا ہے.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خود آنحضرت علی نے عرب کے مختلف قبائل کے ساتھ جزیہ کے متعلق مختلف صورتیں اور مختلف شرحیں اختیار کی تھیں.چنانچہ مثلاً نجران کے عیسائیوں سے آنحضرت علی نے مجموعی طور پر دوہزار چادر میں اور بعض ضروری چیزیں سالانہ مقرر کی تھیں.( بخاری بحوالہ فتح الباری جلد ۷ صفحہ ۷۳ وابوداؤد کتاب الخراج باب فی اخذ الجزية و کتاب الخراج قاضی ابو یوسف) مگر اس کے مقابل پر یمن کے لوگوں سے اوسطاً ایک دینار فی کس سالانہ مقرر تھا.(ابو داؤد کتاب الخراج باب فی اخذ الجزیۃ ) اسی طرح آنحضرت علیم کے بعد آپ
177 کے خلفاء نے بھی یہی طریق جاری رکھا کہ ہر قوم کے مناسب حال ان سے جزیہ کا ٹیکس وصول کیا جا تا تھا اور افراد پر اس ٹیکس کی تقسیم ایسے رنگ میں کی جاتی تھی کہ ہر شخص پر اس کی مالی طاقت کے مطابق بوجھ پڑتا تھا.چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ خلفاء اربعہ کے زنانہ میں جزیہ کے ٹیکس کی صورت عموماً یہ تھی کہ خوشحال لوگوں سے اڑتالیس درہم سالا نہ لیا جاتا تھا.اور متوسط الحال لوگوں سے چوبیس درہم سالانہ اور ان سے کم حیثیت لوگوں سے صرف بارہ درہم سالانہ لیا جاتا تھا.(کتاب الخراج قاضی ابو یوسف فصل في من تجب عليه الحجرية ) یه خفیف ٹیکس بھی ساری غیر مسلم آبادی پر نہیں لگایا جا تا تھا بلکہ مندرجہ ذیل اقسام کے لوگ اس سے مستثی تھے.ا.تمام وہ لوگ جو مذ ہب کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتے تھے.۲.تمام عورتیں اور بچے..تمام بوڑھے اور معتمر لوگ جو کام کے ناقابل تھے ۴.تمام نابینا لوگ اور اسی قسم کے دوسرے معذور لوگ جو کام نہ کر سکتے تھے.۵.تمام مساکین اور غربا، جن کی مالی حالت جزیہ کی ادائیگی کے قابل بھی.(كتاب الخراج فصل فى من تحجب عليه الجزية ) جزیہ کی تحصیل میں یہ اصول مدنظر رکھے جاتے تھے.(الف) جزیہ دینے والے کو اختیار تھا کہ خواہ نقد ادا کرے یا اس کی قیمت کے اندازے پر کوئی چیز دے دے.(ب) جزیہ کی وصولی سے متعلق تاکیدی حکم تھا کہ اس معاملہ میں کسی قسم کی سختی سے کام نہ لیا جاوے اور بالخصوص بدنی سزا سے منع کیا گیا تھا.
178 (ج) اگر کوئی شخص ایسی حالت میں مرجاتا تھا کہ جس کے ذمہ جزیہ کی کوئی رقم واجب الادا ہوتی تھی تو وہ معاف کر دی جاتی تھی.اور مرنے والے کے ورثاء اور ترکہ کو اس کا ذمہ وار نہیں قرار دیا جاتا تھا.(بحوالہ درجہ بالا) کیا سلوک آج کوئی قوم کسی دوسری قوم سے کرتی ہے؟ پھر یہی نہیں کہ جز یکی تشخیص میں نرمی سے کام لیا جاتا تھا بلکہ اگر جزیہ واجب ہو جانے کے بعد بھی کسی شخص کی مالی حالت جزیہ ادا کرنے کے قابل نہ رہتی تھی تو اسے جزیہ کی رقم معاف کر دی جاتی تھی.چنانچہ ذیل کا تاریخی واقعہ اس کی ایک دلچسپ مثال ہے.روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں بعض غیر مسلموں سے جزیہ وصول کرنے میں کچھ سختی کی جا رہی تھی.یہ دیکھ کر حضرت عمر فور ارک گئے اور غصہ کی حالت میں دریافت فرمایا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا کہ یہ لوگ جزیہ ادا نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس کی طاقت نہیں، حضرت عمرؓ نے فرمایا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان پر وہ بوجھ ڈالا جاوے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے.انہیں چھوڑ دو.میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سنا ہے کہ جو شخص دنیا میں لوگوں کو تکلیف دیتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے عذاب کے نیچے ہو گا.چنانچہ ان لوگوں کا جزیہ معاف کر دیا گیا“ (کتاب الخراج فصل في من تجب عليه الجزية ) حضرت عمر کو آنحضرت علی کے تاکیدی ارشادات کے ماتحت اپنی غیر مسلم رعایا کا اس قدر خیال تھا کہ انہوں نے فوت ہوتے ہوئے خاص طور پر ایک وصیت کی جس کے الفاظ یہ تھے.میں اپنے بعد میں آنے والے خلیفہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا سے بہت نرمی اور شفقت کا معاملہ کرے.ان کے معاہدات کو پورا کرے ان کی حفاظت کرے.ان کے لئے ان کے دشمنوں سے لڑے اور ان پر قطعاً کوئی ایسا بوجھ یا ذمہ داری نہ
179 ڈالے جوان کی طاقت سے زیادہ ہو.“ (کتاب الخراج صفحہ ۷۲)....حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب شام فتح ہوا تو معاہدہ کی رو سے مسلمانوں نے شام کی عیسائی آبادی سے ٹیکس وغیرہ وصول کیا.لیکن اس کے تھوڑے عرصہ بعد رومی سلطنت کی طرف سے پھر جنگ کا اندیشہ پیدا ہو گیا جس پر شام کے اسلامی امیر حضرت ابوعبیدہ نے تمام وصول شدہ ٹیکس عیسائی آبادی کو واپس کردیا اور کہا کہ جب جنگ کی وجہ سے ہم تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ ٹیکس اپنے پاس رکھیں.عیسائیوں نے یہ دیکھ کر بے اختیار مسلمانوں کو دعادی اور کہا ”خدا کرے تم رومیوں پر فتح پاؤ اور پھر اس ملک کے حاکم بنو“ چنانچہ جب مسلمانوں نے دوبارہ فتح حاصل کی تو علاقہ کی عیسائی آبادی نے بڑی خوشی منائی اور واپس شدہ ٹیکس پھر مسلمانوں کو ادا کئے.“ (کتاب الخراج صفحہ ۸۱،۸۰، ۸۲) یہ اس قسم کے حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ جب حضرت عمر خلیفہ ثانی شام میں تشریف لے گئے تو وہاں کے عیسائی لوگ گاتے اور بجاتے ہوئے ان کے استقبال کے لئے نکلے اور ان پر تلواروں کا سایہ کیا اور پھولوں کی بارش برسائی (فتوح البلدان بلاذری صفحه ۱۴۶) ( بحوالہ سیرت خاتم النبیین مالی صفحه ۶۵۱ تا ۶۵۵ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب النہ ایم.اے شائع شدہ نظارت نشر و اشاعت قادیان ۲۰۰۱ء) اسی پر بس نہیں بلکہ اسلامی حکومت میں غیر مسلم رعایا نادار اور غریب ذمیوں کی امداد کا بھی انتظام تھا.چنانچہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک بوڑھے یہودی کو بھیک مانگتے دیکھا تو اسے پوچھا کیا ماجرا ہے؟ اس نے کہا.بوڑھا ہو گیا ہوں.اور نظر کمزور ہے.کام ہو نہیں سکتا اور جزیہ کی رقم بھی ابھی مجھ پرلگی ہوئی ہے.یہ سن کر حضرت عمر بے چین ہو گئے.فوراً اسے اپنے ساتھ لیا اور اپنے گھر لا کر مناسب امداد دی اور پھر بیت المال کے افسر کو بلا کر کہا کہ یہ کیا بے انصافی
180 ہے کہ ایسے لوگوں پر جز یہ لگایا جاتا ہے اہمیں تو حکم ہے کہ غرباء کی امداد کریں نہ کہ الٹا ان پر ٹیکس لگائیں.اس کے بعد ایک عام حکم جاری فرمایا کہ ایسے لوگوں پر جز یہ نہ لگایا جاوے بلکہ اس قسم کے لوگوں کو بیت المال سے وظیفہ دیا جاوے.“ ( کتاب الخراج قاضی ابو یوسف فصل فی من تجب علیہ الجزیۃ صفحہ ۷۴ بحوالہ سیرت خاتم النبیین علایل صفحه ۶۵۶) الغرض ذمی اسے کہا جاتا ہے جو اسلامی مملکت میں اپنے دین پر رہنا چاہیے اور اپنی ہر طرح کی امان کے لئے جزیہ ادا کرے.ایسے شخص پر اسلامی قانون تو نافذ نہ ہونگے البتہ جزیہ کے بدلہ میں ایک معاہدہ کے تحت اپنے آپ کو اس مملکت کا ایک شہری ہونا تسلیم کرے گا.اور ملکی قوانین کی پابندی اس پر لازم ہوگی.اور جب تک وہ جز یہ ادا کرتار ہے اور مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کی پاسداری کرے گا اس وقت تک اس کو امن امان سے اس ملک میں رکھنے کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہوگی.اور مذہبی معاملہ میں اس پر کوئی جبر نہیں ہوگا.فی زمانہ اگر دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں کوئی ایک بھی اسلامی مملکت ایسی نہیں جہاں غیر مسلموں سے جز یہ لیا جا تا ہو.اس کی وجہ یہ ہے کہ فی زمانہ ہر ملک میں ایک جمہوری نظام قائم ہے کہیں اس کی کوئی صورت ہے اور کہیں اس کی کوئی اور صورت لیکن ہے جمہوری نظام.خواہ پاکستان ہو یا بنگلہ دیش ، سعودی عرب ہو یا یمن، ایران ہو یا عراق کسی ایک ملک میں بھی اس وقت جزیہ کا اصول قائم نہیں جبکہ ان ممالک میں ہندو، عیسائی، یہودی ،مشرک، ناستک ہر طرح کے لوگ آباد ہیں.اس اعتبار سے تو کسی غیر مسلم سے جزیہ وصول نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی کو آج کے زمانہ میں ذخی کہا جاتا ہے.جمہوری نظام میں ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور ہر شخص اپنے ملکی قوانین کا پابند ہے.اس لحاظ سے فی زمانی ذقی کی بحث بے مقصد معلوم ہوتی ہے.جبکہ امام ابن تیمیہ نے شاتم رسول کی سزا کے عنوان کو کتاب کے ۶۰ فی صد حصہ میں ذھی کے بارے
181 میں ہی بیان کیا ہے.تاہم اس کے تعلق سے بھی قرآن وحدیث سے جو دلائل آپ نے پیش فرمائے ہیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی کسی ذمّی کو صرف گالی دینے کی بناء پر ہی قتل کیا جا سکتا ہے؟ قرآن کریم اس سلسلہ میں کیا تعلیم پیش کرتا ہے.اور آئمہ کا اس سلسلہ میں کیا کہنا ہے.؟
182 کیا ذمی شاتم رسول واجب القتل ہے؟ امام ابن تیمیہ نے ذمی کے بارے میں جو گالی دیکر نقص عہد کرتا ہے اس کے دلائل جو قرآن کریم سے پیش کئے ہیں اس کی پہلی دلیل کے طور پر قرآن کریم کی جو سب سے پہلے آیت پیش کی وہ یہ ہے.پہلی لیل قاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُقرمُونَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُولَهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِي مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدِوَهُمْ صَغِرُوْنَ (التوبة آیت ۲۹ ) یعنی X جولوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ یوم آخرت پر اور نہ اسے جسے اللہ اور رسول نے حرام قرادیا ہے حرام قرار دیتے ہیں اور نہ سچے دین کو اختیار کرتے ہیں.یعنی وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی ہے ان سے جنگ کرو جب تک کہ وہ اپنی مرضی سے جزیہ ادا نہ کریں اور وہ تمہارے ماتحت نہ آجائیں.آپ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ہمیں اہل کتاب سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے.یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر جزیہ ادا کریں.ان کے قتل سے اس وقت تک رکنا جائز نہیں جب تک وہ ذلیل ورسوا ہو کر جزیہ ادا نہ کریں.“ نیز لکھا ہے دو ” جب ان سے لڑنا ہم پر واجب ہے تاوقتیکہ وہ ذلیل ہوں اور وہ ذلیل نہیں ہیں تو ہم ان
183 سے لڑنے کے لئے مامور ہیں ، اور جن کفار سے بھی ہمیں لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب ہم ان پر قابو پالیں تو انہیں قتل کردیں گے، نیز یہ کہ جب ہم ان کے خلاف لڑنے کے لئے اس حد تک مامور ہیں تو اس سے کم درجے کا کوئی معاہدہ ہم ان سے نہیں کریں گے اور اگر کریں گے تو یہ 66 معاہدہ فاسد ہو گا اور وہ بدستور مباح الدم والمال رہیں گے.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۵۱،۵۰) اسی طرح پیر زادہ شفیق الرحمن شاہ صاحب الڈ راوی نے بھی اس آیت کو پیش کر کے امام ابن تیمیہ کی کتاب سے ہی درجہ بالا حوالہ پیش کیا ہے.اس کے علاوہ یہ حوالہ بھی پیش کرتے ہیں اگر کوئی ذمّی ) اللہ اور اس کے رسول صلیم کی شان میں ایسے الفاظ کہے جو سابقہ کفریہ عقیدہ وکلام کے علاوہ ہیں ، تو معاہدہ زمیت ٹوٹ جائے گا.امام شافعی کے اکثر شاگردوں کا یہ خیال ہے کہ اگر معاہدہ میں اس کی شرط لگائی گئی ہو تو معاہدہ ٹوٹ جائے گا، کیونکہ یہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگی، ورنہ نہیں ٹوٹے گا“ شاتم رسول کی شرعی سز ا صفحہ ۱۸۰) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت کے بارے میں تفصیل جزیہ اور ذمی کی بحث میں گزر چکی ہے اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں بس اس قدر بیان کرنا ہی کافی ہے کہ کسی کو اس آیت سے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اسلام ہر اہل کتاب سے ہر وقت اور ہر جگہ بنا کسی وجہ کے جنگ کا حکم دیتا ہے.جنگ کس صورت میں جائز ہوگی اس کا ذکر قرآن کریم کی دوسری آیات میں موجود ہے.ہاں جب جنگ جاری ہو گئی تو اس وقت اہل کتاب سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے کہ یا تو وہ اسلام لے آئیں یا پھر وہ اپنی امان کی خاطر جز یہ دینے پر رضامند ہو
184 جائیں.اور مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر لیں.وہ لوگ جو جزیہ پر راضی ہو جاتے ہیں وہ ذمّی کہلاتے ہیں.ذمی کے لئے مسلمانوں کا یہ حق ہے کہ وہ اس کو پوری طرح سے امان دیں گے.اور ذقی کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کی پابندی کرے گا.اگر کوئی ذقی مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے اپنے عہد کو توڑتا ہے مثلا کفار کے ساتھ پیل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے یا مسلمانوں میں فتنہ انگیزی کرتا ہے یا رسول کریم یا مہات المومنین کے بارے میں گستاخی کرتا ہے یا گالی دیتا ہے تو اسے اس جگہ پر کھڑا سمجھا جائے گا جس پوزیشن میں وہ جزیہ دینے کے معاہدہ سے پہلے کھڑا تھا.اسے ان لوگوں میں شامل سمجھا جائے گا جن سے جنگ کی جاسکتی ہے.لیکن اگر وہ شخص جس نے عہد توڑا ہے اپنے 71 اس فعل سے توبہ کرلے تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے.امام ابن تیمیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان باندھا ہے کہ وئی اگر رسول کریم میں تعلیم کو گالی دے کر تو بہ کر لے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ مسئلہ زیر قلم میں ہم نے تین اقوال ذکر کئے ہیں.قول اول X اسے ہر حال میں قتل کیا جائے ، امام احمد کا مشہور مذہب یہی ہے، امام مالک کا مذہب بھی یہی ہے، الا یہ کہ پکڑے جانے کے بعد وہ تو بہ کرلے، امام شافعی کے اصحاب کا بھی ایک قول یہی ہے.قول دوم X اسے قتل کیا جائے ، الا یہ کہ اسلام لا کر توبہ کرلے، امام مالک اور احمد کی بھی رویت یہی ہے.قول سوم X اسے قتل کیا جائے بجز اس صورت کے جبکہ وہ اسلام لا کر توبہ کر لے یا حسب سابق ذمی بن جائے ، امام شافعی کے کلام کا عموم بھی اسی پر دلالت کرتا ہے.الا یہ کہ اس کی
185 تاویل کی جائے ، بنا بریں اگر دوبارہ زمئی بن جائے تو اسے سزادی جائے گی، مگر قتل نہیں کیا جائے گا.جن لوگوں کا موقف یہ ہے کہ اسلام لانے سے اس سے قتل ساقط ہو جاتا ہے وہ اس قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں جو ہم نے مسلم کے بارے میں پیش کئے ہیں.ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ کا فرا گر اسلام لائے تو گالی کی سزا اس سے ساقط ہو جائے گی.اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ صحابہ نے ذکر کیا ہے کہ جب بھی وہ ایسا کرے گا تو وہ عہد شکنی کرنے والا محارب ہوگا اور ظاہر ہے کہ جو شخص جنگ کرے اور عہد توڑے پھر مسلمان ہو جائے تو اس کا خون اور مال محفوظ ہو جاتا ہے، بکثرت مشرکین ایسے تھے جو مختلف طریقوں سے رسول کریم عالم کی ہجو کیا کرتے تھے ، پھر اسلام لا کر اپنا خون اور مال بچالیا کرتے تھے، مثلاً ابن الزبعری ، کعب بن زبیر، ابوسفیان بن حارث و غیر ہم، اگر چہ یہ لوگ محارب تھے مگر معاہدہ نہ تھے، یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حقوق العباد ، جن کو کا فر حلال سمجھ کر انجام دیتا ہے، جب وہ اسلام لے آئے تو حقوق اللہ کی طرح اس سے ساقط ہو جاتے ہیں.اسی لئے تمام مسلمان کتاب وسنت کے پیش نظر اس امر پر متفق چلے آتے ہیں کہ حربی کافر جب مسلمان ہو جائے تو ماضی میں مسلمانوں کا خون بہانے، ان کا مال لینے اور ان کی عزت کو بٹہ لگانے کی وجہ سے اس پر گرفت نہیں کی جائے گی، اور ذمی جب رسول کریم معلم کو گالی دیتا ہے تو وہ اسے حلال سمجھتا ہے اور ذخمی ہونے سے اس پر لازم نہیں کہ وہ اسے حرام تصور کرے، چنانچہ جب وہ اسلام لائے گا تو اس کی وجہ سے اسے پکڑا نہیں جائے گا، بخلاف ازیں مسلمانوں کی جو خونریزی وہ کرتا ہے یا ان کا مال لیتا ہے یا ان کو بے آبرو کرتا ہے،عقد ذمہ ان سب کو اس پر حرام ٹھہراتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ذمی کا خون و مال اور آبر و مسلمان پر
186 حرام ہو جاتے ہیں، اگر چہ وہ ہم پر واجب ٹھہرتا ہے کہ ہم ان کے مذہب کو گالی نہ دیں اور نہ ان پرطعن کریں.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۴۳۰ و ۴۳۱) اسی طرح لکھا ہے کہ مزید برآں گالی دینے کی صورت میں ذقی کو یا تو اس کے کفر اور جنگ آزمائی کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے، جس طرح گالی دینے والے حربی کو قتل کیا جاتا ہے، یا اس کو حد لگانے کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے، مثلاً یہ کہ وہ ذھی عورت کے ساتھ زنا کرے یا کسی ذقی پر ڈاکہ ڈالے، ظاہر ہے کہ دوسری صورت باطل ہے ، پس پہلی صورت متعین ہوئی اور وہ اس لئے کہ گالی اس حیثیت سے گالی ہے، بے آبروئی کے سوا کچھ نہیں اور اتنے سے جرم کی سز اصرف کوڑے مارنا ہے، بلکہ یوں کہنا اقرب الی القیاس ہے کہ اس کی وجہ سے ذمّی پر کوئی بھی سز عائد نہیں ہوتی ، اس لئے کہ وہ اسے حلال سمجھتا ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ہم نے اس سے صلح کی ہے کہ وہ ان باتوں سے باز رہے گا، لہذا جب وہ علانیہ گالی دیگا تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور وہ حربی بن جائے گا“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۴۳۱ و ۴۳۲) ان حوالوں کو دیکھنے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ ذمئی اگر گالی دیتا ہے تو اس سے اس کا وہ عہدٹوٹ جاتا ہے جو اس نے مغلوب ہونے کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا.اس صورت میں وہ ان لوگوں میں شمار ہو گا جو مسلمانوں کے ساتھ بحیثیت کفر کے جنگ پر آمادہ ہوتے ہیں.ہاں جنگ کی صورت میں وہ حربی ہونے کی صورت میں قتل کیا جائے گا صرف گالی دینے کی وجہ سے اس کا قتل واجب نہیں ٹھہرتا.یا پھر ذقی کو اس پر اگر کوئی حد واقع ہو جائے تو قتل کیا جائے گا.جس آیت کے تحت یہ ساری بحث کی جارہی ہے اس پر پھر سے غور کریں اللہ فرماتا
187 ہے جولوگ اہل کتاب میں سے اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر ، اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ تمہارے ماتحت ہو کر تمہیں جزیہ دیں“ تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اول ایک کا فرجب جنگ کرنے پر مغلوب ہو جاتا ہے ہو مسلمانوں کے تحت آکر جزیہ دینے کے عہد کے ساتھ ذمی ہونا قبول کر لیتا ہے اور وہ اس مملکت کے احکامات کا پابند ہو جاتا ہے جو اس میں جاری ہوتے ہیں اور مسلمانوں اور ملک کے خلاف وہ کسی قسم کو فتنہ وفساد نہیں کرے گا.لیکن اگر وہ ان احکامات کی پابندی سے باہر جاتا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنہ وفساد کی باتیں کرتا ہے دین کو اور رسول اللہ لال ہمالیہ کو گالیاں دیتا ہے تو گویا وہ اپنا ذقی ہونے کا عہد توڑ کر اس سے باہر جاتا ہے ایسی صورت میں اسے حربی کافرماناجائے گا گویا کہ وہ اب مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے پر آمادہ ہے ایسا حربی جب جنگ کرنے کے لئے میدان میں اترے گا تو لاز ما قتل ہوگا.یا پھر اس کی دوسری صورت جو او پر بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے تو بہ کرتے ہوئے پھر سے اپنا ذھی ہونا تسلیم کرتے ہوئے تابعداری اختیار کرلے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا یا پھر وہ اسلام قبول کر لے تو امن میں آجائے.دوسر ولیل كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ الله وعند رسوله إلا الذين عهدتم عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوا لَهُمْ ، إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلَّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُو نَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبِي قُلُوبُهُم ، وَأَكْثَرُهُمْ فَسِقُوْنَ (التوبة آيت ۸٫۷)
188 یعنی.اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے کس طرح عہد و پیمان کر سکتے ہیں سوائے ان (مشرکوں کے ) جن کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے پاس عہد کیا تھا پس جب تک وہ تمہارے مقابلہ پر ) اپنے عہد پر قائم رہیں تم بھی ان کے ساتھ معاہدہ پر قائم رہو.اللہ (عہد توڑنے سے بچنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے.(ہاں اس قسم کے مشرکوں کو کوئی رعایت ) کس طرح ( دی جاسکتی ہے کیونکہ وہ اگر تم پر غالب آجائیں تو تمہاری کسی رشتہ داری یا معاہدہ کی پرواہ نہیں کریں گے وہ تم کو اپنے منہ ( کی باتوں ) سے خوش رکھتے ہیں حالانکہ ان کے دل ( ان باتوں سے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر عہد و پیمان کو توڑنے والے ہوتے ہیں.فتح مکہ کے بعد مکہ والے مشہور کرتے تھے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر سب کفار کو معافی مل گئی ہے.اور ان سے معاہدہ ہو گیا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے جب تک وہ خود نیچے ہو کر معاہدہ کی درخواست نہ کریں ان سے کس طرح عہد ہو سکتا ہے.دوسری بات جو عہد کی گئی ہے اس سے مراد ان مشرکوں سے عہد قائم ہے جنہوں نے صرف فتح مکہ کو معاہدہ قرار نہیں دیا بلکہ درخواست کر کے اپنے لئے امن کا اعلان کروایا تھا.ان آیات میں قرآن کریم نے مشرکوں کے ساتھ معاہدات کرنے کا ایک اصول بیان کیا ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ مشرکوں کے ساتھ ہمارے عہد و پیمان اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک وہ ہمارے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کو پورا کرتے رہیں گے لیکن اگر انہوں نے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا تو ہماری طرف سے کئے گئے عہد و پیمان بھی ختم ہو جائیں گے.جنگ کی صورت میں جب دشمن اپنی شکست کو تسلیم کرلے اور خود معاہدہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تو ہی ان سے معاہدہ کیا جاتا ہے اور اگر دشمن اس بات پر امادہ نہ ہوتو ایسی صورت میں جنگ جاری رہتی ہے کسی دشمن کا صرف شکست تسلیم کر لینا معاہدہ کا قائم مقام نہیں ہوسکتا.دشمن کو یا تو اسلام قبول
189 کر کے امن حاصل کرنا ہوگا یا اگر وہ اپنے مذہب پر رہتے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے فتح کئے گئے ملک میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں جزیہ کی شرط پر معاہدہ کر کے ذمی کی حیثیت سے اس ملک میں رہنا ہوگا.ان آیات میں اسی بات کو بیان کیا گیا ہے اور یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہم معاہدہ نہیں توڑیں گے لیکن اگر مخالف معاہدہ توڑتا ہے تو ہماری طرف سے بھی معاہدہ ختم ہو جائے گا اس طرح معاہدہ توڑنے والے حربی کہلائیں گے.اسلام نے ہمیشہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا ہے دیگر مذاہب کو دیکھا جائے تو دشمنوں پر غلبہ کے بعد مفتوح قوموں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی اور نہ ہی انہیں سوچنے اور سمجھنے اور فیصلہ لینے کا موقعہ دیا جاتا ہے بلکہ اپنے فیصلے صادر کئے جاتے ہیں.اوپر بیان کردہ آیت میں خدا تعالیٰ نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ ان مشرکوں کو کوئی رعایت کس طرح سے دی جاسکتی ہے کیونکہ اگر یتیم پر غالب آجائیں تو یہ تمہاری کسی رشتہ داری یا تمہارے کسی معاہدہ کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے.امام ابن تیمیہ بھی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں ان آیات میں فرمایا کہ رسول کریم علی سلیم نے جن لوگوں سے عہد کیا ہے ان میں سے کسی کا عہد بھی درست نہیں، البتہ اس قوم کا عہد درست ہے جو اپنے عہد پر قائم ہے.اس سے معلوم ہوا کہ مشرک کے ساتھ عہد اسی وقت تک قائم رہتا ہے جب تک وہ اپنے معاہدہ پر قائم رہے.پکھلی ہوئی بات ہے کہ جو شخص بر ملا ہمارے رب اور رسول کو گالیاں دیتا اور دین اسلام کی تخلیص کرتا ہو وہ اپنے معاہدے پر قائم نہیں ہے" مطلب یہ کہ ان کے ساتھ معاہدہ کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر غلبہ پالیں تو نہ قرابت داری کا لحاظ کریں گے اور نہ اس عہد کا جو تمہارے اور ان کے درمیان ہے؟ پس معلو ہوا کہ جس کا یہ حال ہو اور جو علانیہ ہمارے دین کو ہدف طعن بنا تا ہو تو یہ اس امر کی
190 دلیل ہے کہ وہ کسی چیز کی پرواہ نہ کرے گا، خواہ وہ قرابت داری ہو یا پاس عہد.جب عہد نامہ کی موجودگی میں ذلت کے باوجود یہ کام کر سکتا ہے تو غلبہ اور قدرت کی صورت میں وہ کیا کچھ نہ کر گزرے گا! بر خلاف اس شخص کے جس نے ہمارے ساتھ ایسی گفتگو نہیں کی ، عین ممکن ہے کہ وہ اپنے عہد کو نہلے کی صورت میں بھی پورا کرے ، اگر چہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے جو مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کر کے اپنے علاقہ میں مقیم ہوں تاہم یہ ان اہل ذمہ پر بھی بطریق اولی صادق آتی ہے جو ہمارے ساتھ دار السلام میں رہتے ہوں.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۵۲ و ۵۳) اسلام چونکہ سلامتی کا مذہب ہے اور یہ دنیا میں فساد نہیں چاہتا مشرکین کی ایسی سوچ کے با وجود انہیں سوچنے سمجھنے اور اپنی ذات پر فیصلہ کرنے کی مہلت دیتا ہے کہ وہ غور کر لیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتا ہے یا ہجرت کرنی ہے یا پھر غور وفکر کے بعد اسلام قبول کرنا ہے.اس تعلق سے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِ اللَّهِ وَأَنَّ اللهَ مُخْزِي الْكَفِرِينَ ( التوبة آيت ۲) یعنی.چنانچہ ملک عرب میں چار مہینے پھر کر دیکھ لو اور جان لوکہ تم اللہ کو ہر انہیں سکتے اور یہ بھی جان لو ) کہ اللہ کفار کو رسوا کر کے چھوڑے گا.اس آیت کی تشریح میں حضرت مرزا بشیر الدین رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اس آیت میں جن لوگوں کو چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے اس سے مراد مشرکین ہیں جنہوں نے مسلمانوں سے کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا.اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف عملاً جنگ جاری رکھی تھی اور جولوگ ایسے ہوں ان کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ عرب میں رہتے کیونکہ وہ لڑائی کرنے
191 والے تھے اور لڑائی کرنے والوں کو دنیا کی کوئی حکومت اپنے ملک میں نہیں رہنے دیتی.یہاں کسی شخص کو شبہ ہو سکتا ہے کہ مکہ والوں کو چار مہینے کے بعد نکنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا حکم قرآن میں کہیں نہیں بلکہ چار مہینے کی اجازت کا ذکر ہے کہ چار مہینے تک پھر کر دیکھ لو کہ عرب پر اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے اور تمہارے جو اعتراضات تھے وہ غلط ثابت ہو گئے ہیں.باقی رہا یہ کہ اس کے بعد کیا ہوگا اس کا قرآن کریم میں کوئی ذکر نہیں.لیکن یہ بھی یادر کھنا چاہئے کہ اگر فرض کیا جائے کہ ان کے نکالنے کا حکم تھا اب بھی جن لوگوں کو نکالنے کا حکم تھا یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ علی اور آپ کے صحابہ کو مکہ سے نکالا تھا حالانکہ وہ بھی مکہ کے شہری تھے پس یہ حکم کوئی ظلم نہیں بلکہ جو کچھ انہوں نے کیا ویسا ہی ان کے ساتھ معاملہ کیا گیا.پھر یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ ان مشرکوں کی اولاد کو خود رسول کریم علی نے مکہ میں رہنے کی اجازت دی تھی.چنانچہ ابو جہل جو سب سے بڑا مشرک اور دشمن اسلام تھا فتح مکہ کے موقعہ پر اس کے بیٹے عکرمہ نے بھاگ کر ایسے سینا جانے کا ارادہ کیا تو اس کی بیوی رسول کریم علی کے پاس آئی اور اس نے کہا یا رسول اللہ آپ کے بھائی یعنی قومی بھائی آپ کے ملک میں رہے تو اچھا ہے یا عیسائیوں کے ملک میں چلا جائے تو اچھا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے تو اسے کوئی نہیں نکالا.اس نے کہا یا رسول اللہ وہ ڈر کے مارے چلا گیا ہے کیا میں اسے واپس لے آؤں؟ آپ نے فرمایا لے آؤ.پھر اس نے کہا یا رسول اللہ ! وہ بڑا با غیرت آدمی ہے وہ اس بات کو پسند نہیں کرے گا کہ جب تک اس کی سمجھ میں نہ آئے وہ زبر دستی اسلام قبول کرے.کیا وہ مشرک ہوتے ہوئے بھی آپ کی حکومت کے نیچے رہ سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ رہ سکتا ہے.تب وہ گئی اور عکرمہ کو سمجھا کر لے آئی پہلے تو اس نے اعتبار نہ کیا مگر پھر بیوی کے اصرار پر
192 آ گیا.جب وہ آیا تو اس کی بیوی اسے رسول کریم علیم کے پاس لے گئی.اس نے کہا یا رسول اللہ میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے مکہ میں رہنے کی اجازت دی ہے کیا یہ ٹھیک ہے؟ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.پھر اس نے کہا یا رسول اللہ جب تک اسلام میری سمجھ میں نہیں آتا میں اسلام قبول نہیں کرونگا، کیا غیر مسلم اور مشرک ہونے کی حیثیت میں بھی مجھے مکہ میں رہنے کی اجازت ہوگی؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس پر وہ بے اختیار بولا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ آپ نے فرمایا یہ کیا ؟ تم تو ابھی کہہ رہے تھے کہ اسلام ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آیا.اس نے کہا یا رسول اللہ آپ نے جو اپنے ابتدائی اور سب سے بڑے دشمن اسلام کے بیٹے سے یہ سلوک کیا ہے کہ وہ مشرک رہتے ہوئے بھی مکہ میں رہ سکتا ہے یہ سوائے خدا کے رسول کے اور کوئی نہیں کر سکتا.پس آپ کے اس فیصلہ سے میرادل صاف ہو گیا ہے اور میں نے سمجھ لیا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں.یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رسول کریم علیم بھی یہی سمجھتے تھے کہ اس صورت کا یہ مطلب نہیں کہ مشرکین کو عرب سے نکال دیا جائے ، بلکہ صرف شریر کفار کو نکالنے کا حکم ہے جو کفار اس بات پر آمادہ ہوں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ محبت سے رہیں گے تو ان کو نکالنے کا کہیں حکم نہیں.اول قرآن کے الفاظ اور دوم رسول کریم ملی کاعمل ثابت کرتا ہے کہ اس سورۃ میں کفار کو جبری نکالنے کا کوئی حکم نہیں ، بلکہ زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کو نکالنے کا حکم ہے جو شریر ہوں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں جاری رکھنے والے ہوں.اور ایسے لوگوں کو دنیا کی ہر حکومت نکالتی ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں سمجھتی.فعل ان کا اپنا ہوتا ہے اور ہر شخص اپنے فعل کا آپ ذمہ دار سمجھا جاتا ہے.“ ( تفسیر صغیر تشریح آیت نمبر ۲ سورۃ التوبه صفحه ۲۳۱ و ۲۳۲)
193 العرض اسلام کسی پر جبر کی تعلیم نہیں دیتا ، ہاں مخالف کی طرف سے جنگ چھوٹی جانے کی صورت میں دفاع کی اجازت دیتا ہے اور فتح کی صورت میں بھی کسی پر اسلام قبول کرنے کے لئے جبر نہیں کرتا.مفتوح قوم خواہ وہ کسی بھی دین سے تعلق رکھتی ہو معاہدہ کی شرط پر اسلامی مملکت میں رہ سکتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہی ہے کہ وہ اپنے معاہدہ کی پاسداری کرے گی، اگر وہ معاہدہ کو توڑتی ہے تو ان کی حیثیت حربی کی ہوگی.ان آیات میں کسی کے گالی دینے پر اسے قتل کئے جانے کا کوئی حکم نہیں البتہ معاہدہ توڑنے کی صورت میں وہ لوگ قابل مؤاخذہ ہو نگے اور حربی کہلائیں گے.تیسر لیل امام ابن تیمیہ نے جو آیت تیسری دلیل کے طور پر پیش کی وہ یہ ہے.وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِّنْ بَعْدِ عَهَدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةً الكفر ( التوبآيت (۱۲) یعنی.اور اگر ( یہ لوگ ) اپنے عہد و پیمان کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین پر طعن کریں ، تو (ایسے) سرداران کفر سے لڑائی کرو.اس آیت کے آگے کے الفاظ یہ ہیں إنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ یعنی ، تا کہ وہ شرارتوں سے باز آجائیں کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں.7 امام ابن تیمیہ نے اس آیت کے اول حصہ کو پیش کر کے وہاں سے دین پر طعن کرنے کی بات کو لیکر یہ دلیل پکڑی ہے کہ جو طعن فی الدین کرتا ہے اس کے نتیجہ میں اس کی طرف سے کیا ہوا عہد ٹوٹ جاتا ہے ایسا اگر قی کرتا ہے تو اسے اس جرم میں قتل کیا جائے گا.
194 بات یہ ہے کہ اس میں کسی کے قتل کرنے یا نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں.بلکہ بات یہ ہورہی ہے کہ ایسے لوگ جن کے ساتھ عہد و پیمان ہو چکے ہیں ان میں سے اگر کوئی اپنے عہد کو توڑتے ہیں اور دین کے بارے میں بھی طعن کرتے ہیں یعنی تحقیر سے پیش آتے ہیں اور غصہ دلانے والی باتیں کرتے ہیں تو ایسے لوگوں سے جنگ کروں.جنگ کسی ایک شخص سے نہیں کی جاتی بلکہ پوری قوم سے کی جاتی ہے یہاں کسی ایک آدمی کا ذکر ہی نہیں ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے ، بلکہ فرمایا کہ فَقَاتِلُوا آئمةَ الْكُفْرِ یعنی سردار ان سے جنگ کرو اور جب سرداران سے جنگ ہوگی تو اس کی قوم پیچھے نہیں رہتی ہے.پھر یہ کہ ان سے جنگ کیوں کرنی ہے فرمایا تا کہ وہ شرارتوں سے باز آجائیں کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جنگ اگر کرنی ہی پڑتی ہے تو وہ بھی صرف اس لئے تا کہ وہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں.اور طعن فی الدین کرنا چھوڑ دیں.یہ کہیں نہیں فرمایا کہ طعن فی الدین کرنے والے کو فوری قتل کر دو.جنگ کرنے کی بھی دو وجوہات ہیں ایک تو طعن فی الدین ہے جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو اور دوسرا سب سے بڑا جرم نقص عہد ہے.ہیں.اسی آیت کے ضمن میں پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الڈ راوی ، امام ابن تیمیہ کے حوالہ سے لکھتے (کوئی) ایک ذمّی اللہ یا رسول الله علم کو گالی دے، یا اعلانیہ اسلام میں عیب نکالے، تو اس نے طعن فی الدین کا ارتکاب کر کے اپنی قسم کو توڑ دیا ہے، اس لئے بلا خوف و نزاع اسے سزادی جائے گی، اور اس کی تادیب کی جائے گی.(الصارم المسلول ۱۳۵ ( اردو ترجمه صفحه ۵۶) بحوالہ شاتم رسول کی شرعی سز اصفحہ ۱۸۱)
195 سزاد بنا اور تأدیب کرنا ایک الگ بات ہے اور سیدھا سیدھا قتل کرنے کی بات کرنا یہ اور بات ہے.قرآن کریم کی یہ آیت کسی گالی دینے والے کو قتل کرنے کا کوئی حکم نہیں دیتی.اس آیت میں ایک بات تو طعن فی الدین کی بیان کی گئی ہے اور دوسری بات نقص عہد ہے اور یہی وہ بڑا جرم ہے جسے بیان کر کے آئمہ کفر سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ اسی وجہ خاص کو اس آیت میں دوبارہ سے بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں کی قسموں کا کوئی اعتبار ہی نہیں ہے.تو گالی سے بڑا جرم نقص عہد بنتا ہے خواہ وہ کسی وجہ سے بھی ہو.اسی بات کا اظہار امام ابن تیمیہ نے بھی اس طرح کیا ہے کہ.تیسری وجہ یہ ہے کہ طعن فی الدین کی وجہ سے اللہ نے ان کو آئمۃ الکفر کہا ہے اور ضمیر کی جگہ اسم ظاہر استعمال کیا ہے.”آئمۃ الکفر“ سے یا تو وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے اپنا عہد توڑ ایادین اسلام کو ہدف طعن بنایا ان میں سے بعض مراد ہیں ، مگر ان میں سے بعض مراد لینا اس لئے درست نہیں کہ وہ فعل جنگ کا موجب ہوا ہے وہ سب سے صادر ہوا ہے،لہذ البعض کو سزا کے لئے مخصوص کرنا جائز نہیں، اس لئے کہ علت کا سب میں پایا جانا ضروری ہے، الا یہ کہ کوئی مانع موجودہ انگر یہاں کوئی مانع نہیں ہے.اللہ نے دوسری علت یہ بتائی ہے کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں، اور یہ علت سب عہد توڑنے والوں اور طعن فی الدین کا ارتکاب کرنے والوں میں پائی جاتی ہے ، نیز یہ کہ نکث ( عہد شکنی ) اور طعن فی الدین ایک وصف مشتق ہے جو وجوب قتال کا مناسب ہے اور یہاں جزا کو شرط پر حرف الفاء کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے.یہ اس بات پر نص ہے کہ یہ فعل سزا کا موجب ہے، پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد وہ سب لوگ ہیں اس لئے وہ سب لوگ آئمہ الكفر “ ہیں ( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۵۷)
196 ایک معترض کے دل میں پیدا ہونے والے ایک سوال کے تعلق سے آپ فرماتے ہیں م گر معترض کہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص عہد شکنی اور طعن فی الدین دونوں کا مرتکب ہو تو اس سے لڑنا واجب ہے مگر جو شخص صرف طعن فی الدین کا ارتکاب کرے آیت اس کے بارے میں خاموش ہے.آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ محض طعن فی الدین کرنے والے کے خلاف جنگ واجب نہیں، اس لئے کہ جو حکم دوصفات کے ساتھ معلق ہوا ایک صفت کی موجودگی میں اس حکم کا وجو د واجب نہیں.“ 66 الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۵۴ و ۵۵) دیکھا جائے تو معترض کا ایسا کہنا درست دکھائی دیتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صرف طعن فی الدین کرنے پر کوئی سزا مقرر نہیں کی اس کے ساتھ نقص عہد کو جوڑ کر بیان فرمایا ہے.اسی لئے مذکورہ آیت میں نقص عہد کی بات کودوبارہ سے بیان کیا گیا ہے.پھر بات کو اسی جگہ ختم نہیں کیا گیا بلکہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الا تُقَاتِلُوا قَوْماً نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُ و كُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ ، فَاللهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللهُ بِأَيْدِيكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ (سورة التوبة آیت ۱۳ و ۱۴) یعنی.(اے مومنو!) کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو ( اس کے گھر سے) نکالنے کا فیصلہ کر لیا اور تم سے ( جنگ چھیڑنے میں ) انہوں نے ہی ابتداء کی کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ (اگر ایسا ہے تو ) اگر تم مومن ہو تو کچھ لو کہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو.ان سے لڑو.اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دلوائے گا اور
197 ان کو رسوا کرے گا اور تمہیں ان پر غلبہ دیگا اور اس ( ذریعہ) سے مومن قوم کے دلوں کو ( صدمہ اور خوف سے ) نجات دیگا.انہیں آیات کو علامہ پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الڈ راوی نے بھی اپنی کتاب ”شاتم رسول ایم کی شرعی سزا میں پیش کر کے اسی نظریہ کو ظاہر کیا ہے جس نظریہ کو امام ابن تیمیہ پیش فرما رہے ہیں.لیکن یہ آیات ساری بات کو کھول کر بیان کرتی ہیں کہ جنگ کی وجوہات کیا ہیں.اور سب سے پہلی بات ہی یہ بیان کی گئی ہے جیسا کہ پہلی آیت میں بھی بیان کی گئی تھی کہ انہوں نے اپنے عہد و پیمان کو توڑا ہے نقص عہد کیا ہے، اپنی قسموں کو توڑا ہے پھر طعن فی الدین بھی کیا ہے.پھر فرمایا کہ کیا جنہوں نے اپنی قسمیں توڑی ہیں اور رسول کریم علا الہ اہلیہ کو ان کے گھر سے نکال دینے کا ارادہ کیا ہے کیا ایسے لوگوں سے تم جنگ نہیں کرو گے؟ تو جنگ کا جو حکم دیا گیا ہے اس کی وجہ صرف طعن فی الدین نہیں بلکہ نقص عہد اور قسموں کو توڑ نا مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع کرتا اور رسول کو اس کے گھر سے نکالنے کا ارادہ کرنا ہے.ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ جو شخص بھی ایسے جرائم کا مرتکب ہوگا اس کے خلاف جنگ کرنا اور انہیں قتل کرنا بالکل جائز ہوگا.لیکن صرف طعن فی الدین پر ایسی سزا نہیں دی جاسکتی قرآن کریم صرف اکیلے طعن فی الدین کی کوئی سزا مقرر نہیں کرتا.مطعن فی الدین تو کوئی ایک آدمی یادہ چار کریں گے لیکن یہاں قتال کا حکم پوری قوم کے خلاف دیا جارہا ہے جو اس بات پر بین ثبوت ہے کہ آئمۃ الکفر نے طعن فی الدین کے علاوہ دیگر جو کام کئے ہیں ان کی سزا دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر جنگ مسلط کی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ انہیں مومنوں کے ہاتھوں نقص عہد کرنے کے نتیجہ میں ان کو عذاب بھی دے اور رسوا بھی کرے.امام ابن تیمیہ اسی آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں
198 دو مذکورہ صدر آیت کریمہ میں عہد شکنی کرنے والوں اور دین کو ہدف طعن بنانے والوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا اور ہمیں یقین دلایا کہ اگر ہم اس طرح کریں کے تو وہ ہمارے ہاتھوں دیہ انہیں عذاب دیگا، انہیں رسوا کرے گا، ان کے خلاف ہمیں مدد دیگا اور مومنین کے سینوں کو شفا دے گا جو کفار کے نقص عہد اور طعن کی وجہ سے زخم خردہ ہو چکے ہیں ، اس طرح ان کے دل میں جو غصہ ہے وہ دور ہو جائے گا، اس لئے کہ اس کو ہمارے جنگ کرنے پر اس طرح مرتب کیا ہے جس طرح جزا شرط پر مترتب ہوتی ہے.عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم ان سے لڑو گے تو یہ سب کچھ ہو کر رہے گا، پس معلوم ہوا کہ عہد شکنی کرنے والا ان سب باتوں کا مستحق ہوتا ہے، ورنہ کفار کبھی ہم پر غالب ہوتے ہیں اور کبھی ہم ان پر غلبہ حاصل کرتے ہیں اگر چہ انجام کار کامیابی متقی لوگوں کے حصہ میں آتی ہے.حدیث میں جو کچھ آیا ہے یہ آیت اس کی تصدیق کرتی ہے.حدیث میں فرمایا X ج قوم بھی عہد شکنی کرتی ہے دشمن اس پر غالب آجاتا ہے ( سنن ابن ماجہ ) الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۶۰ و ۶ ) اس جگہ ایک اور بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیات کی وضاحت کرتے وقت ایک بات بڑی عجیب دکھائی دیتی ہے وہ یہ کہ ایک قوم اپنے ہی دین پر قائم رہتے ہوئے اسلامی حکومت میں عہد و پیمان کر کے بطور ذمی رہنا قبول کرلیتی ہے پھر وہ نقص عہد کرتی طعن فی الدین کی بھی مرتکب ہوتی ہے پھر وہ رسول کو بھی ان کے گھر سے نکالنے کا ارادہ کرتی ہے ان سب باتوں کی بنا پر اللہ نے یہ حکم دیا کہ تم ان کے خلاف جنگ کرو.اور امام ابن تیمیہ نے قرآن کریم کی ان آیات کا ترجمہ کرتے وقت فَقَاتِلُوا کا ترجمه ألا تُقَاتِلُونَ اور قَاتِلُوهُمْ کا ترجمہ جنگ کرو جنگ کیوں نہیں کرتے ان سے
199 جنگ کرو ہی کیا ہے لیکن ایک جگہ ان معانی سے ہٹ کر اس کی تشریح بیان فرماتے ہیں جس کا کہ اس میں ذکر تک موجود نہیں فرماتے ہیں "جو شخص بھی ہم سے عہد باندھنے کے بعد دین اسلام کو ہدف طعن بنا تا ہے اسے اس سے احتراز کرنا چاہئے، لہذ اور کٹر کا امام ہے اور اس کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں، اس لئے اس کو قتل کرنا واجب ہے.( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۵۹) 66 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن آیات کو استدلال کے طور پر پیش کیا گیا ہے اس میں تو ایسا کوئی حکم دکھائی نہیں دیتا ، مذکورہ آیات سے تو یہ امر صاف دکھائی دیتا ہے کہ نقص عہد اور طعن فی الدین کی بنا پر اور رسول کو گھر سے نکالنے کی پاداشت میں ان سے جنگ کا حکم ہے، ہاں جنگ میں کوئی مارا جائے تو بیا الگ بات ہے کیونکہ جنگ کے نتیجہ میں یا تو قص عہد کرنے والے تو بہ کر کے نئے معاہدہ کے ساتھ مسلمانوں کے زیر ہو جائیں گے یا پھر قتل ہو نگے.لیکن ان آیات کے کسی بھی لفظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا کہ عہد باندھنے کے بعد طعن کرنے والوں کو قتل کر دیا جائے.ان آیات میں ایسے لوگوں سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے ہاں جنگ کے نتیجہ میں وہ قتل کئے جائیں گے.پھر اسی طرح ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ ”ہمارے ہاتھوں عذاب دینے سے مراد قتل ہے، لہذا عہد شکنی کرنے والا اور طعن فی الدین کا ارتکاب کرنے والا قتل کا مستحق ہے، اور ظاہر ہے کہ رسول کریم عالم کو گالی دینے والا اپنے عہد کو توڑ دیتا ہے، جیسا کہ پیچھے گزرا ہے، اس لئے وہ قتل کئے جانے کا مستحق ہے.“ ( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۶۱ ) عرض ہے کہ جن آیات سے استنباط کیا جارہا ہے اس میں تو ایسا کوئی بھی مضمون مذکور نہیں
200 جہاں تک ہمارے ہاتھوں عذاب دینے کی بات ہے تو وہ دوران جنگ ہے.اگر عہد شکنی کرنے والوں سے جنگ ہوتی ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ ایسی صورت میں ہم تمہارے ہاتھوں سے ان کو الجُزْيَةَ عذاب دیں گے اس میں ایک تو صورت یہ ہے کہ وہ دوران جنگ قتل ہونگے، ا يُعطوا ا عن يد هُمْ صَغِرُونَ ، وہ جزیہ دیگر محکوم ہو جائیں گے لیکن ان آیات میں ایسی کوئی بھی صورت نہیں بیان کی گئی ہے کہ گالی دینے کے نتیجہ میں چونکہ نقص عہد ہوتا ہے اس لئے ایسے شخص کو قتل کر دیا جائے.میں یہاں اس بحث کو دہرانا نہیں چاہتا کیونکہ اس پر پہلے ہی گزشتہ صفحات میں بحث ہو چکی ہے.صرف اس قدر ہی بتانا کافی ہے کہ مندرجہ بالا آیات کو پیش کر کے جو نتیجہ نکالا گیا ہے اس کا ان آیات میں کوئی بھی ذکر موجود نہیں.تیسری بات جو اس میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو یوں ہی جنگ کرنے کا حکم نہیں دیدیا گیا کہ چونکہ انہوں نے عہد شکنی کی ہے طعن فی الدین کیا ہے اور رسول کو اس کے گھر سے نکال دینے کا ارادہ کیا ہے اس لئے جنگ شروع کر دو ایسا نہیں ہے، بلکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے فتنہ کی ابتداء کی انہوں نے ہم سے پہلے جنگ شروع کر دی ہے اس لئے اب ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ ہم بھی ان کے خلاف جنگ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے که وَهُمْ بَدَءُ وَ كُمْ أَوَّلَ مَر یعنی اور تم سے ( جنگ چھیڑنے میں ) انہوں نے ہی ابتداء کی ہے.اب دیکھیں کہ کس قدر جرائم کئے ہیں عہد شکنی بھی کی طعن بھی کیا، رسول کو اس کے گھر سے نکال دینے کا ارادہ بھی کیا، اس کے بعد انہوں نے جنگ کا بھی آغا ز کیا تو حکم ہوا کہ اب ان کے خلاف تم بھی جنگ کرو.ان آیات میں صرف طعن فی الدین کرنے کی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اسلام ایسی نا انصافی کی کوئی تعلیم دیتا ہے کہ کوئی زبان کا استعمال کرے تو آپ اس کے سامنے تلوار سونت لیں.اسلام نے ہمیشہ مخالفین کے خلاف اس وقت تلوا اٹھانے اور
201 جنگ کرنے کا حکم دیا ہے جب مخالف نے پہلے اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی اس جگہ بھی یہی مضمون دکھائی دیتا ہے.اور ان آیات کے کسی بھی حصہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صرف طعن فی الدین کے نتیجہ میں کسی کو قتل کرنے کا قرآن کریم حکم دیتا ہے.چوتھی دلیل امام ابن تیمیہ قرآن کریم سے چوتھی دلیل دیتے ہوئے یہ آیت پیش کرتے ہیں.الَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ءَ ذلِكَ الْخِزْيُّ الْعَظِيمُ (التوبة آيت ۶۳) رح ط یعنی.کیا ان کو معلوم نہیں کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ ( مقدر ) ہے وہ اس میں رہتا چلا جائے گا اور یہ بڑی بھاری رسوائی ہے.اس آیت پر بحث کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ نے اس سے یہ دلیل لی ہے کہ جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے تو وہ گو یا نقص عہد کرتا ہے اس لئے ایسا شخص واجب القتل ہے.دیکھا جائے تو اس آیت سے اوپر والی آیات اور بعد والی آیات جن پر پہلے بحث ہو چکی ہے منافقین کے بارے میں ہیں کہ وہ کس کس طرح سے رسول کریم علیم کے بارے میں باتیں کرتے ہیں اور یہ آیت ان آیات کے درمیان آئی ہے اس میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا جارہا ہے اور یہ بتایا جارہا ہے کہ یہ جو منافقین ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ یہ یادرکھیں کہ ان کے اعمال کے نتیجہ میں ان کے لئے جہنم کا عذاب مقدر کیا جا چکا ہے.اور جسے جہنم کا عذاب دیا جائے اس کے لئے اس سے زیادہ اور کیا رسوائی ہوسکتی ہے لیکن یہاں یہ کہنا کہ رسوا کن عذاب کا مطلب یہ ہے کہ ان کو قتل کیا جائے یہ بات بالکل بھی درست دکھائی نہیں دیتی.اور قرآن کریم کی اس آیت کے کسی بھی لفظ سے یہ مضمون نہیں نکلتا کہ جس سزا
202 کو اللہ نے اپنے ہاتھوں میں رکھا ہے کہ وہ ان کو جہنم میں ڈال کر رسوا کرنے والا عذاب دیگا اسے وہ بندوں کے ہاتھ میں دیدے.بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ کو رسوا کرے تو اس کے مقابلہ پر بندوں کی طرف سے کی گئی رسوائی کیا حیثیت رکھتی ہے.کس کو عزت بخشنی ہے اور کس کو رسوا کرنا ہے اللہ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے.وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرِ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (ال عمران آیت ۲۷) یعنی.اور تو جسے چاہتا عزت عطا کرتا ہے اور تو جسے چاہتا رسوا کرتا ہے ہر قسم کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو یقیناً ہر چیز پر قادر ہے.جہاں تک منافقین کا تعلق ہے وہ بھی اگر نقص عہد کرتے ہیں اور فتنہ وفساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے فعل سے باز نہیں آتے تو وہ بھی مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں تو ان کے لئے بھی جنگ کی صورت میں مسلمانوں کے ہاتھوں رسوا کن عذاب مقدر کیا جائے گا جیسا کہ دوسرے انکار کرنے والوں اور عہد شکنی کرنے والوں کے لئے اللہ کی طرف سے مقدر ہوتا ہے.پانچویں دلیل وئی کے عہد شکنی پر سزا کی بحث میں جو پانچویں دلیل دی گئی ہے وہ یہ ہے اِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ( الاحزاب آیت ۵۸) یعنی.وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں اللہ ان کو ( اس ) دنیا میں اور آخرت میں اپنے قرب سے محروم کر دیتا ہے.
203 اس آیت کے اگلے الفاظ ہیں.وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَاباً مهین معنی اور اس نے ( یعنی اللہ نے) ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر چھوڑا ہے.یادر ہے کہ لعنت کے معنی اللہ کے قرب سے دوری کے بھی ہوتے ہیں اور آیت پر اس سے قبل بھی سیر حاصل بحث ہو چکی ہے اس لئے اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں.لعنت کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اس کو قتل کیا جائے بلکہ اللہ نے خود ہی آگے اس کی تشریح بیان فرما دی ہے کہ ان کے اس فعل کی وجہ سے اللہ نے اپنے قرب سے انہیں محروم کر دیا ہے اور اللہ ہی نے ان کے لئے رسوا کر دینے والا عذاب بھی تیار کر چھوڑا ہے.امام ابن تیمیہ نے لعنت سے اور رسوا کن عذاب سے جو یہ جواز اخذ کیا ہے کہ ایسے شخص کو قتل کر دیا جائے یہ بالکل درست نہیں.اور اس سے یہ جو از قطعا نہیں نکالا جاسکتا کہ اس سے مراد قتل ہے.الغرض امام ابن تیمیہ نے جن تین موضوعات کو باندھ کر شاتم رسول کی سز اقتل کے حوالہ سے قرآن کریم سے جس قدر بھی دلائل دیتے ہیں جن کو انہیں کے حوالہ سے دیگر علماء نے اپنی کتب میں پیش کیا ہے ان میں سے کسی ایک آیت سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے شاتم رسول کرنے والوں کو سزا دینے کا حق بندوں کو دیا ہے بلکہ ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو سزا دینے کا ذمہ اپنے پاس رکھا ہے.جس کی مثالیں قرآن کریم کے حوالہ سے ہی پیش کی گئی ہیں.امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب میں جو بحث کی ہے اس کا جو خلاصہ نکل کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ملا سلیم کو گالی دینے کے نتیجہ میں ذمتی نے اسلامی ملک میں رہنے کے لئے جو عہد کیا تھاوہ عہد ٹوٹ جاتا ہے.تو سز ا عہد توڑنے کی ملے گی نہ کہ گالی دینے کی.دوسرے یہ کہ عہد توڑنے کے ساتھ ساتھ اگر وہ فتنہ انگیزی کرتا ہے تو سز انقص عہد اور فتنہ پردازی کی ملے گی.یا جو شخص بھی مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھاتا ہے اس کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کی سزا
204 ملے گی جو کہ قتل کی صورت میں بھی مل سکتی ہے.قرآن کریم کی واضح اور بین تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسے معاملات میں ہمارے پاس ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطف علی سلیم کا اسوہ بھی موجود ہے کہ آپ نے ایسی گستاخیاں کرنے والوں کے ساتھ کیا کیا؟ اور اگر کسی کو قتل کی سزا سنائی تو اس کی وجوہات کیا تھیں قرآن و احادیث اور تاریخ اس سلسلہ میں کیا بیان کرتی ہے.یہ بات بالکل بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ہم یہ دیکھیں کہ جو عمل رسول خدا اعلام کی طرف ہم منسوب کر رہے ہیں وہ کہیں قرآن کریم کی کسی واضح تعلیم کے خلاف تو نہیں! کیونکہ ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ آنحضرت علی کا کوئی عمل معاذ اللہ قرآنی تعلیم کے خلاف بھی ہوسکتا ہے.وباللہ التوفیق.
205 اسلامی تعلیمات کے ماخذ اور ذ رائع.اسلامی تعلیمات کو جاننے کے لئے ہمارے پاس سب سے بڑا ذریعہ اور ماخذ قرآن کریم ہے.اس کے بعد دوسرے نمبر پر بڑا ماخذ وہ روایات ہیں جو احادیث مبارکہ کی صورت میں ہمارے پاس ہیں یا پھر تفاسیر اور تاریخ اسلام کا وہ حصہ ہے جو ابتداء ہی سے ایک منظم سلسلہ روایات کے ذریعہ اصحاب رسول صلیم تا بعین اور پھر تبع تابعین سے آگے آنے والوں سے ہم تک پہنچی ہیں.ابتداء میں تو یہ روایات سینہ بسینہ چلتی رہیں لیکن بعد میں کتابوں کی صورت میں ضبط تحریر میں لائی گئیں.اس طرح یہ تعلیمات اور روایات ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئیں.روایت و درایت سے متعلق واقعات کو جن لوگوں نے بھی جمع کیا ہے ان میں اکثر نے تعلیمات اور عقائد کے معاملہ میں تو بڑی احتیاط سے کام لینے کی کوشش کی ہے اور ہر روایت کو جانچ پھٹک کر اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی ہے.لیکن ایسی روایات اور واقعات جن کا تعلق تاریخ سے ہے اس میں اس قدر احتیاط سے کام نہیں لیا گیا بلکہ جو بات بھی جیسی بھی ملی اس کو جمع کر لیا بعض ایسی باتیں بھی درج کی گئی ہیں جو قرآن اور سنت اور عقل کے بھی خلاف دکھائی دیتی ہیں.اس لئے بعض لوگوں نے روایت و درایت کو پرکھنے کے لئے کچھ اصول مقرر کئے جن کو بیان کرنا بھی ضروری ہے.چونکہ اس مضمون کا تعلق تاریخ سے ہے جن کی بنیا دروایات و درایت سے ہے اور آگے چل کر وہ واقعات بھی بیان ہونگے جو تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں جن کو علماء اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتے ہیں کہ توہین رسالت کی سزا قتل ہے.وہاں ان اصولوں کو مدنظر رکھ کر غور کرنا ضروری ہوگا تا قرآن وسنت و حدیث کی روشنی میں روایت و درایت کو پرکھا جاسکے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آنحضرت علی کی سیرت سیرۃ
206 لنبيين خاتم المین“ کے نام سے تصنیف فرمائی ہے روایت و درایت کے سلسلہ میں آپ نے کتاب کے شروع میں مثالیں دیکر ایک نوٹ لکھا ہے میں اسے اس جگہ درج کرنا ضروری خیال کرتا ہوں تا درست اور صحیح روایت و درایت کو جانچنے کے اصول کا علم ہو سکے اور جب تاریخی واقعات پر غور کیا جائے تو ان اصولوں کو بھی مدنظر رکھا جا سکے.آپ تحریر فرماتے ہیں.روایت کا طریقہ...ناظرین کی واقفیت کے لئے یہ ذکر کر دینا بھی ضروری ہے که روایت بیان کرنے کا طریق مسلمانوں میں اس طرح رائج تھا کہ نیچے کے راوی سے شروع ہو کر درجہ بدرجہ ہر راوی کا نام لیتے ہوئے اوپر کو چلتے جاتے تھے حتٰی کہ روایت آنحضرت جی ایم پر یا آپ کے کسی صحابی پر جا کر ختم ہو جاتی تھی.آنحضرت جیلانی ایام تک پہنچنے والی روایت حدیث کہلاتی ہے اور صحابی پر پہنچ کر ختم ہو جانے والی روایت اثر کہلاتی ہے.اور ان میں سے ہر ایک کی بہت سی صورتیں ہیں.طریق بیان عموماً یہ ہوتا تھا کہ مجھ سے الف نے بیان کیا اور الف نےب سے سنا تھا اورب سے ت نے روایت کی تھی اورت کوج نے خبر دی تھی کہ ایک مجلس میں آنحضرت علی نے میرے سامنے فلاں امر کے متعلق یہ الفاظ بیان فرمائے تھے.یا یہ کہ ہمارے سامنے یہ یہ واقعہ پیش آیا تھا......روایت و درایت کے اصول..اصل الاصول اس علم کا یہ ہے کہ ہر واقعہ کی صحت دوطریق پر آزمائی جاسکتی ہے اور جب تک ان دونوں طریق سے کسی واقعہ کی صحت پائیہ ثبوت کو نہ پہنچ جاوے اس پر پور اعتماد نہیں کیا جاسکتا.پہلا طریق روایت ہے.یعنی یہ دیکھنا کہ جو واقعہ ہم تک پہنچا ہے.وہ واسطہ کس حد تک قابل اعتماد ہے.دوسراطریق درایت ہے یعنی یہ دیکھنا کہ واقعہ کی صحت کے متعلق اندرونی شہادت کیسی ہے.یعنی قطع نظر واسطہ کے کیا وہ واقعہ اپنی ذات میں اور اپنے ماحول کی نسبت سے ایسا ہے کہ اسے درست اور صحیح یقین کیا جائے.یہ وہ دو بنیادی
207 اصول ہیں جو مسلمانوں نے اپنے ہر روایتی اور تاریخی علم کی پڑتال کے لئے ایجاد کئے.اور ابتدائے اسلام سے ان کا اس پر عمل رہا ہے.ان ہر دو اصول کے ماتحت بہت سے قابل لحاظ امور قرار دئے گئے ہیں جن میں سے زیادہ معروف امور کو ہم اپنے الفاظ میں درج ذیل کرتے ہیں.روایت کے اصول کے ماتحت یہ باتیں زیادہ قابل لحاظ قرار دی گئی ہیں X (۱) راوی معروف الحال ہو.(۲) راوی صادق القول اور دیانت دار ہو.(۳) بات کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو.(۴) اس کا حافظہ اچھا ہو.(۵) اسے مبالغہ کرنے خلاصہ نکال کر رپورٹ کرنے یا روایت میں کسی اور طرف تصرف کرنے کی عادت نہ ہو.(۶) راویت بیان کردہ میں راوی کا کوئی اپنا ذاتی تعلق نہ ہوجس کی وجہ سے یہ خیال کیا جاسکے کہ اس کی روایت متأثر ہوسکتی ہے (۷) دواوپر نیچے راویوں کا آپس میں ملنا زمانہ یا حالات کے لحاظ سے قابل تسلیم ہو.(۸) روایت کی دو کڑیاں محفوظ ہوں اور کوئی راوی اوپر سے یا درمیان سے یا نیچے سے چھوٹا ہوا نہ ہو.(۹) مذکورہ بالا اوصاف کے ماتحت کسی روایت کے راوی جتنے زیادہ معتبر اور قابل اعتماد ہو گے اتنی ہی وہ روایت زیادہ پختہ کبھی جائے گی.(۱۰) اسی طرح ایک روایت کے متعلق معتبر راویوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی وہ
208 روایت زیادہ مضبوط قرار دی جائے گی.درایت کے اصول کی ماتحت مندرجہ ذیل امور زیادہ قابل لحاظ سمجھے گئے ہیں.(۱) روایت کسی معتبر اور مستند عصری ریکارڈ کے خلاف نہ ہو.اس اصل کے ماتحت ہر درایت جو قرآن شریف کے خلاف ہے قابل رد ہوگی.(۲) کسی مسلمہ اور ثابت شدہ حقیقت کے خلاف نہ ہو.(۳) کسی دوسری مضبوط تر روایت کے خلاف نہ ہو.(۴) کسی ایسے واقعہ کے متعلق یہ ہو کہ اگر وہ صحیح ہے تو اس کے دیکھنے یا سنے والوں کی تعداد یقینا زیادہ ہونی چاہئے لیکن پھر بھی اس کا راوی ایک ہی ہو.(۵) روایت میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو اسے عقلاً یقینی طور پر غلط یا مشتبہ قرار دیتی ہو.درایت کے متعلق بعض ابتدائی مثالیں یہ وہ اصول ہیں جو مسلمان محقیقن نے اپنی روایات کی چھان بین کے لئے آغا ز اسلام میں مقرر کئے اور انہیں کے مطابق وہ اپنی روایات کی تحقیق و تدقیق کرتے رہے ہیں.اور ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ روایات کی پڑتال کے لئے ان سے بڑھ کر کوئی کسوٹی نہیں ہوسکتی.ہمارا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ یہ ساری باتیں لازماً ہر مسلمان محدث یا مؤرخ کے پیش نظر رہی ہیں.مگر اس میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ یہ وہ اصول ہیں جو مسلمان محققین نے ابتدائے اسلام میں اپنی روایات کی تحقیق کے لئے وضع کئے اور جنہیں وہ بالعموم اپنی تصانیف میں ملحوظ رکھتے رہے ہیں.یہ ممکن ہے کہ ذاتی میلان کی وجہ سے ایک محقق کسی بات کو زیادہ وزن دیتا ہو اور دوسرا کسی اور کو یا کوئی مصنف اپنے مجموعہ کو زیادہ جامع بنانے کے لئے یا بعض روایات کی امکانی صحت
209 کے خیال سے کمز ور روایتوں کو بھی لے لیتا ہو یا کوئی مصنف ایسے ہی غیر محتاط ہو، کیونکہ کسی طبقہ کے سب لوگ ایک درجہ کے نہیں ہوتے مگر بہر حال روایت و درایت دونوں کے اصول کو ابتدائی مسلمانوں نے بالعموم اپنے مد نظر رکھا ہے اور زیادہ محتاط مصنفین پوری سختی کے ساتھ ان پر کار بند ر ہے ہیں.روایت کے اصول کے متعلق تو ہمیں مثالیں دینے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ اسلامی تحقیق کا یہ پہلود دوست و دشمن سب کے نزدیک مسلم ہے، البتہ چونکہ بعض عربی متقین نے جن میں سر ولیم میور بھی شامل ہیں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں نے درایت کے پہلو کو مدنظر نہیں رکھا اور صرف روایت کے اصول کے ماتحت اپنی روایتوں کی پڑتال کرتے رہے ہیں.(لائف آف محمد مصنفہ سر ولیم میور دیباچہ xxx) اس لئے درایت کے پہلو کے متعلق اس جگہ بعض مثالیں درج کی جاتی ہیں تاکہ ناظرین کو اس بات کا اندازہ کرنے کا موقعہ ملے کہ یہ اعتراض کس قدر غلط اور بے بنیاد ہے.سب سے پہلے خود قرآن شریف اس بات کو پیش کرتا ہے کہ محض روایت پر بنیا درکھنا ہر صورت میں کافی نہیں بلکہ کسی خبر کو صحیح سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں کے متعلق اچھی طرح تحقیق کر لی جائے چنانچہ فرماتا ہے.إن جَاءَ كُمْ فَاسِقٌ بِنَيَا فَتَبَيَّنُوا (الجرات آیت ۷) یعنی اگر تمہارے پاس کوئی خبر پہنچ تو یہ دیکھ لیا کرو کہ خبرلانے والا کیسا آدمی ہے.پھر اگر یہ راوی قابل اعتماد نہ ہو تو اچھی طرح سارے پہلوؤں پر نظر ڈال کر سوچ لیا کرو.اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف روایت کی صحت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مگر غور کرنے سے یہ بات مخفی نہیں رہتی کہ در اصل یہ آیت روایت و درایت دونوں پہلوؤں کی حامل ہے، چنانچہ فاسق کے لفظ میں تو روایت کے پہلو کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ دیکھ لیا کرو کہ
210 خبر لانے والا کیسا ہے اور تبینوا کے لفظ میں درایت کا پہلو مڈ نظر ہے یعنی دوسری جہت سے بھی خبر کی اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو.پھر فرمایا.اِنَّ الَّذِينَ جَاءَوُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ...لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا.....وَ لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُونُ لَنَا انْتَكَلَّمَ بِهَذَا، سُبْحَانَكَ هَذَا بُهتان عَظِيمٌ (سورة نور آیت ۱۲ - ۱۷) یعنی جولوگ رسول خدا کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ کے خلاف بہتان لگانے میں شریک ہوئے ہیں وہ اسے مسلمانوں! تمہیں میں سے ایک پارٹی ہیں مگر تمہیں چاہئے تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے متعلق نیک گمان کرتے.پس کیوں نہ ہوا کہ تم نے اس بہتان کے سنتے ہی یہ کہہ دیا کہ خدا تعالیٰ پاک اور بے عیب ہے.یہ تو ایک صاف بہتان نظر آتا ہے.“ اس آیت میں صراحت کے ساتھ درایت کے اصول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بلکہ صحابہ کو اس بات پر توبیخ کی گئی ہے کہ خواہ حضرت عائشہ پر الزام لگانے والے بظاہر مسلمان ہی تھے، مگر جب تم حضرت عائشہ کے حالات سے اچھی طرح آگاہ تھے اور تم جانتے تھے کہ وہ خُدائے پاک کے رسول کی بیوی اور دن رات آپ کی صحبت میں رہنے والی ہے تو تمہیں چاہئے تھا کہ ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے اس خبر کو سنتے ہی بہتان اور افتراء قرار دیکر ٹھکرا دیتے.گویا اس آیت میں ضمناً یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک روایت کے متعلق صرف یہ دیکھ کر کہ اس کے راوی بظا ہر اچھے لوگ ہیں اسے نہیں مان لینا چاہئے بلکہ خداداد عقل کے ماتحت دوسری باتیں بھی دیکھنی ضروری ہیں.اور اگر دوسری باتیں روایت کو مشتبہ قراردیں تو اسے قبول نہیں کرنا چاہئے.اسی قرآنی اصل کے ماتحت حدیث میں بھی یہ تاکید آتی ہے کہ محض کسی کی بات کو سن کر اسے
211 سچا نہیں سمجھ لینا چاہئے.بلکہ ہر جہت سے تحقیق کر کے معلوم کرنا چاہئے کہ حقیقت کیا ہے، چنانچہ حدیث میں آنحضرت صلیم فرماتے ہیں کہ.كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ تُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ (صحیح مسلم جلد ا باب النهى عَنِ الْحَدِيثِ) یعنی ایک انسان کے جھوٹا ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ وہ جو بات بھی سنے اسے بلا 66 تحقیق آگے روایت کرنا شروع کر دے.“ اس حدیث میں گوروایتی تحقیق کی طرف بھی اشارہ ہے ،مگر اصل مقصود روایتی تحقیق ہے جیسا کہ بگل شمع کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں.یعنی محض کسی بات کا سننا اس کے قبول کئے جانے کا باعث نہیں بنتا چاہئے بلکہ دوسری جہات سے بھی غور کرنا چاہئے کہ آیا جو خبر میں پہنچی ہے وہ قابل قبول ہے یا نہیں، بلکہ اس حدیث میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ جو شخص تحقیق کرنے کے بغیر یونہی ہر سنی سنائی بات آگے روایت کر دیتا ہے وہ جھوٹ کی اشاعت کا ایسا ہی ذمہ دار ہے جیسا کہ جھوٹ بولنے والا شخص.الغرض قرآن شریف و حدیث دونوں اس اصول کو بیان کرتے ہیں کہ ہر خبر کی تصدیق کے متعلق روایت و درایت دونوں پہلو مد نظر رہنے چاہئیں، چنانچہ اس اصول کے ماتحت حدیث میں کثرت کے ساتھ ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے مسلمان محققین نے ہمیشہ روایت کے پہلو کے ساتھ درایت کے پہلو کو بھی مدنظر رکھا ہے اور بسا اوقات روایتی لحاظ سے ایک روایت کے مضبوط ہونے کے باوجود درایت کی بنا پر اسے رد کر دیا ہے.مثلاً حدیث میں آتا ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلعم الوضوء ما مشت النار
212 فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاس يَا أَبَا هُرَيْرَةَ انْتَوَضَّاءُ مِنَ الدُّهْنِ انتَوَفَّاءُ مِن الحَمِيمِ....فَقَالَ أَبُو عِيسَى وَاَكْثَرُ اَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى تَرْكِ الْوُضُوءِ ( ترمذی کتاب الطهارة بابمَا غَيَّرَتِ النَّارِ ) د یعنی ایک مجلس میں ابوھریرہ نے بیان کیا کہ آنحضرت سلیم فرماتے تھے کہ جس چیز کو آگ نے چھو ہو اس کے استعمال سے وضوء ضروری ہو جاتا ہے.اس پر ابن عباس نے ابو ہریرہ کوٹوک کر کہا کہ کیا پھر ہم گھی یا تیل کے استعمال کے بعد وضو کیا کریں.اور کیا ہم گرم پانی کے استعمال کے بعد بھی وضو کیا کریں؟ یہ روایت درج کرکے ترمذی علیہ رحمتہ عرض کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے اکثر علماء کا اسی پر عمل ہے کہ آگ پر تیار کی ہوئی چیز کے استعمال سے وضوضروری نہیں ہو جاتا.اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ تک کی روایت کوجن کی روایات کی تعداد سارے صحابہ سے زیادہ ہے حضرت ابن عباس نے اس عقلی دلیل سے رد کر دیا کہ اول تو محض آگ پر کسی چیز کا تیار ہونا اس بات سے کوئی جوڑ نہیں رکھتا کہ اس کے استعمال سے وضوضروری ہو جائے.دوسرے یہ کہ جب دین کی بناء کیسر اور آسانی پر ہے تو آنحضرت علیم کی طرف یہ قول کس طرح منسوب ہو سکتا ہے کہ بس جس چیز کو بھی آگ چھو جائے اس سے وضو واجب ہو جاتا ہے اور اسی لئے باوجود حضرت ابو ہریرہ کی اس صریح حدیث کے اکثر ائمہ حدیث وفقہ کا یہی مذہب ہے کہ آگ والی چیز کے استعمال سے وضو واجب نہیں ہوتا.اور بعض دوسری حدیثوں سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے.اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ حضرت ابن عباس یا بعد کے ائمہ حدیث کے نزدیک ابوہریرہ نے جو روایت بیان کی ہے وہ آنحضرت علیم کا ارشادتو ہے، مگر قابل عمل نہیں.بلکہ مطلب یہ ہے کہ ابن عباس اور دوسرے محققین کے نزدیک
213 اس روایت میں ابو ہریرہ کو غلط فہمی ہوئی ہے یا آپ کا ارشاد بعض خاص قسم کے حالات کے متعلق ہوگا جسے ابو ہریرہ نے عام سمجھ کر اسے وسعت دے لی.بہر حال باوجود اس کے کہ اصول روایت کے لحاظ سے یہ حدیث بالکل صحیح قرار پاتی ہے ،مسلمان محققین نے درایت کی بنا پر اسے صحیح تسلیم نہیں کیا.اور جب ابوہریرہ جیسے کہنہ مشق راوی کی روایت درایت کی جرح سے محفوظ نہیں سمجھی گئی تو میور صاحب کے اس قول کی حقیقت ظاہر ہے کہ مسلمان صرف روایتی پہلو کو دیکھ کر ہر بات کو صحیح مان لیا کرتے تھے اور درایت کو کام میں نہیں لاتے تھے.پھر ایک اور حدیث میں آتا ہے عَن أبي إسحق قَالَ كُنتُ مَعَ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ فَخَدَّكَ الشَّعْبِي عَنْ حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّعَم لَمْ يَجْعَلْ لَهَا سُكُنَى وَلَا نَفَقَةٌ فَأَخَذَ الْأَسْوَدُ مِنْ حَصَى فَحَصِبَهُ بِهِ فَقَالَ وَيْلَكَ تُحَدِّثُ يَمَثْلِ هَذَا وَقَالَ عُمَرُ لَا نَتْرُكَ كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيَّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم بِقَوْلِ امرأة لا تنيني حفظت أو نسيت (مسلم کتاب الطلاق باب المطلقه ثلاث ألا نفقة لها ) یعنی.ابو اسحق سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں ایک مجلس میں اسود بن یزید کے ساتھ بیٹھا تھا کہ شعبی نے یہ روایت بیان کی کہ فاطمہ بنت قیس صحابیہ بیان کرتی ہے کہ جب اس کے خاوند نے اسے طلاق دیدی تو آنحضرت علی نعیم نے اسے مکان اور خرچ نہیں دلایا.اس پر اسود نے ایک کنکروں کی مٹھی اٹھا کر شعبی کو ماری اور کہا کیا تم یہ حدیث بیان کرتے ہو حالانکہ حضرت عمر کے سامنے جب یہ حدیث بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا ہم ایک عورت کے بیان پر قرآن اور
214 سنت رسول کو نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ نہیں معلوم کہ اصل بات کیا تھی اور اس نے کیا سمجھایا اصل بات کیا تھی اور اسے کیا یا درہا.اس حدیث میں گویا حضرت عمر خلیفہ ثانی ایک صحابیہ کی روایت کو اس بنا پر رد کرتے ہیں کہ وہ ان کی رائے میں قرآنی تعلیم اور سنت رسول کے خلاف ہے اور اس کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ آنحضرت بلال سلیم نے جو کچھ فرمایا ہوگا اُسے یا تو وہ سمجھی نہیں ہوگی یا بعد میں بھول گئی ہوگی.بہر حال حضرت عمر نے روایت کی بنا پر ایک روایتی لحاظ سے صحیح حدیث کورڈ کر دیا اور جمہور اسلام کا ہی فتویٰ ہے کہ فاطمہ کی روایت غلط تھی اور حضرت عمر کا خیال درست ہے.پھر ایک اور حدیث میں آتا ہے ؟ عَن مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ أَنَّهُ سَمِعَ عُتبان بن مَالِكِ الأَنْصَارِقَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يَبْتَغِي بذالك وجه اللهِ قَالَ مَحْمُودُ فَحَدَّ ثُهَا قَوْماً فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللهِ صَلَّعَمَ فَأَنْكَرَهَا عَلَى أَبُو أَيُّوبَ وَقَالَ وَاللهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ مَا قُلْتُ قَط ( بخاری باب صلوة النوافل جماعة) یعنی محمود بن الربیع روایت کرتے ہیں کہ میں نے عتبان بن مالک سے یہ سنا کہ رسول اللہ الا اللہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے جو سچی نیت سے اللہ کی رضا کی خاطر لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے لیکن جب میں نے یہ روایت ایک ایسی مجلس میں بیان کی جس میں ابو ایوب انصاری بھی موجود تھے تو ابو ایوب نے اس روایت سے انکار کیا اور کہا کہ خدا کی قسم میں ہر گز نہیں خیال کر سکتا کہ رسول اللہ علیم نے یہ بات فرمائی ہو.“
215 اس حدیث میں حضرت ابو ایوب انصاری ایک ایسی حدیث کو جو اصول روایت کی لحاظ ے صحیح تھی اپنی روایت کی بنا پر قبول کرنے سے انکار کر دیا.اور گو یہ ممکن ہے کہ حضرت ابو ایوب کا استدلال درست نہ ہو مگر بہر حال یہ حدیث اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ صحابہ یونہی کورانہ طور پر ہر روایت کو قبول نہیں کر لیتے تھے ، بلکہ درایت وروایت ہر دو کے اصول کے ماتحت پوری تحقیق کر لینے کے بعد قبول کرتے تھے.پھر ایک اور حدیث میں آتا ہے قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ ذَكَرْتُ ذَالِكَ لَعَائِشَةَ فَقَالَتْ يَرْحَمُ اللهُ محمر واللهِ مَا حَدَكَ رَسُولُ اللهِ صلعم أَنَّ الْمَيْتَ ليُعَذِّبُ بِبُكاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ ولكن قَالَ إِنَّ اللهَ يَزِيدُ الْكَافِرِ عَذَابًا بَبُكاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ قَالَ وَقَالَتْ عَائِشَةُ حَسْبُكُمُ الْقُرْآنُ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخرى (بخاری و مسلم بحوالہ مشکوۃ باب البكاء على الميت د یعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر یہ روایت بیان کرتے تھے کہ آنحضرت علی نے فرمایا کہ میت پر رونے سے میت پر عذاب ہوتا ہے.ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد میں نے یہ حدیث حضرت عائشہ سے بیان کی تو فرمانے لگیں اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے.خدا کی قسم رسول اللہ علیم نے ایسا ہر گز نہیں فرمایا بلکہ یہ کہا تھا کہ ایک کافر کے مرنے کے بعد اگر اس کے ورثاء اس پر روئیں تو اس وجہ سے اس کا عذاب اور زیادہ ہو جاتا ہے.(کیونکہ جب وہ زندہ تھا تو ان کے اس فعل میں ان کا مؤید ہوا کرتا تھا) اور پھر حضرت عائشہ کہنے لگیں کہ ہمیں قرآن کا یہ قول کافی ہے کہ کوئی نفس کسی دوسرے نفس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا
216 اس حدیث سے بھی درایت کے پہلو کا استعمال نمایاں طور پر ظاہر ہوتا ہے یعنی حضرت عائشہ نے حضرت عمر جیسے جلیل القدر انسان کی روایت کو صرف ایک بالمقابل روایت بیان کر دینے سے ہی رڈ نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی اپنے خیال میں اس کے غلط ہونے کی قرآن شریف سے ایک دلیل بھی دی.ہمیں اس جگہ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حضرت عائشہ کا خیال درست تھا یا کہ حضرت عمرؓ کا.صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ یہ الزام بالکل غلط ہے کہ مسلمان محققین صرف ایک روایت کوسن کر اسے قبول کر لیتے تھے.کیونکہ حق یہ ہے کہ وہ پوری طرح درایت کو کام میں لاتے اور ہر چیز کو اپنی عقل خداداد کے ساتھ تول کر پھر اسے قبول کرتے تھے اور اس بنا پر بعض اکابر صحابہ تک میں باہم اختلاف ہو جاتا تھا.درایت کے کمزور پہلو یہ چار مثالیں جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں اور جوصرف نمونہ کے طور پر درج کی گئی ہیں ورنہ اس قسم کی مثالیں اسلامی تاریخ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں.ان میں آنحضرت صلیم کے چار جلیل القدر صحابیوں کے فعل سے بھی قطعی طور پر ثابت ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہی درایت کا پہلو روایت کے پہلو کے ساتھ ساتھ چلا آیا ہے اور مسلمان نخستین پوری دیانتداری اور آزادی کے ساتھ درایت کے اصول کو اپنی روایت کی تحقیق اور پڑتال میں استعمال کرتے رہے ہیں اور اسی قسم کی مثالیں بعد کے زمانوں کے متعلق بھی پیش کی جاسکتی ہیں.مگر ہم اپنے اس مضمون کو زیادہ لمبا نہیں کرنا چاہتے کیو کہ ایک عقل مند انسان کے لئے اسی قدر کافی ہے.......اگر ہمارے معترضین کا یہ منشاء ہے کہ ہر حال میں درایت کے پہلو کوترجیح اور غلبہ ہونا چاہئے اور خواہ ایک بات اصول روایت کے لحاظ سے کیسی ہی پختہ اور مضبوط ہو اور اگر درایت کے پہلو کے لحاظ سے مشکوک نظر آتی ہے تو ہر صورت اسے رد کر دینا چاہئے تو یہ خیال نہ صرف بالکل غلط ہے بلکہ علمی ترقی کے لئے بھی سخت مضر اور نقصان دہ
217 ہے.درایت خواہ کیسی ہی اچھی چیز ہو مگر اس کے ساتھ دو خطر ناک کمزوریاں بھی لگی ہوئی ہیں.اول یہ کہ اس کا تعلق استدلال کے ساتھ ہوتا ہے اور استدلال ایک ایسی چیز ہے کہ اس میں اختلاف رائے کی بہت گنجائش ہے.دوسرے یہ کہ درایت کی بنازیادہ تر انسان کے سابقہ تجربہ اور معلومات پر ہوتی ہے اور تجربہ اور معلومات ایسی چیزیں ہیں کہ روز بدلتی رہتی ہیں کیونکہ اس میں ہر وقت وسعت اور ترقی کی گنجائش ہے ان وجوہ کی بنا پر درایت کے پہلو پر زیادہ بھروسہ کرتا اپنے اندر ایسے خطرات رکھتا ہے جنہیں کوئی دانا شخص نظر انداز نہیں کر سکتا.مثلا ایک شخص کسی روایت کو قرآن شریف کی کسی آیت کے خلاف سمجھ کر رڈ کردیتا ہے ،مگر ہوسکتا ہے کہ ایک دوسرا شخص اسے کسی قرآنی آیت کے خلاف نہ پائے بلکہ وہ دونوں کی ایسی تشریح کر دے کہ ان کے درمیان کوئی تضاد نہر ہے.یا مثلا ایک شخص ایک روایت کو کسی ثابت شدہ حقیقت کے خلاف سمجھتا ہے ،مگر ہوسکتا ہے کہ ایک دوسرے شخص کے نزدیک وہ چیز جسے ایک ثابت شدہ حقیقت سمجھا گیا ہے.وہ ثابت شدہ حقیقت نہ ہو.یا ایک شخص ایک روایت کو انسانی حجر بہ اور مشاہدہ کے خلاف سمجھتا ہے، مگر ہوسکتا ہے کہ دوسرا شخص جس کا تجربہ اور مشاہدہ زیادہ وسیع ہے وہ اسے اس کے خلاف نہ سمجھے وغیرہ ذالک.ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ درایت کے پہلو پر زیادہ زورد بینا نہ صرف اصولاً غلط ہے، بلکہ علمی ترقی کے لئے بھی ایک بہت بھاری روک ہے اور اس پر زیادہ زور دینا انہی لوگوں کا کام ہے جو اپنے محدود علم اور محدود تجربہ اور محدود مشاہدہ اور محدود استدلال سے ساری دنیا اور سارے زمانوں کے علم کو نا پنا چاہتے ہیں.اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ نظریہ دنیا کی علمی ترقی کے لئے ایک سم قاتل سے کم نہیں.اگر ابتدائی مسلمان محدث یا مؤرخ درایت پر اس قدر زور دیتے جتنا میور صاحب اور ان کے ہم عقیدہ اصحاب چاہتے ہیں کہ دینا چاہئے تھا تو یقیناً با ء اسلام کے متعلق بہت سی مفید معلومات کا ذخیرہ ہمارے ہاتھ سے نکل
218 جاتا، کیونکہ اس صورت میں ان میں سے کوئی مصنف کسی بات کو اور کوئی کسی کو اپنی درایت کے خلاف پا کر ترک کردیتا، حالانکہ بالکل ممکن ہے کہ وہ صحیح درایت کے خلاف نہ ہوئیں، چنانچہ ہم عملاً دیکھتے ہیں کہ کئی باتیں جو گزشتہ زمانوں میں سمجھ نہیں آتی تھیں آج ان کا سمجھنا آسان ہورہا ہے.پس پختہ اور صحیح اصول و ہی تھا جو ابتدائی مسلمان مصنفین نے اختیار کیا کہ انہوں نے اصل بنیاد روایت کے اصول پر رکھی مگر روایت کی مدد کے لئے ایک حد تک درایت کو بھی کام میں لاتے رہے.اور اس طرح انہوں نے اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے ایک عمدہ ذخیرہ روایات کا جمع کر دیا.اور اب یہ ہم لوگوں کا کام ہے کہ روایت و درایت کے اصول کے مطابق اس ذخیرہ کی چھان بین کر کے صحیح کو سقیم سے جُدا کر لیں.روایت کا قلمبند ہونا گو اصول روایات کے لحاظ سے کسی روایت کا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے اور اسلامی روایات میں ایک بڑا حصہ ایسی روایتوں کا شامل ہے جو کم از کم ابتداء میں صرف زبانی طور پر سینہ بہ سینہ مروی ہوئی ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہی بعض راویوں کا یہ طریق رہا ہے کہ جو حدیث بھی وہ سنتے تھے یا جو روایت بھی ان تک پہنچتی تھی اسے وہ فوراً لکھ کر محفوظ کر لیتے تھے اور جب کسی کو آگے روایت سناتے تھے تو اس لکھی ہوئی یاداشت سے پڑھ کر سناتے تھے.جس سے ان روایات کو مزید مضبوطی حاصل ہو جاتی تھی.اس قسم کے لوگ صحابہ کرام میں بھی پائے جاتے تھے اور بعد میں بھی.بلکہ بعد میں جوں جوں علم ترقی کرتا گیا اور فن تحریر زیادہ پھیلتا گیا ، ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی.حتی کہ اس زمانہ میں آکر جبکہ روایات کتابی صورت میں جمع ہونے لگیں اور موجودہ کتب حدیث وغیرہ کے مجموعے عالم وجود میں آنے شروع ہوئے جس کا آغا ز دوسری صدی ہجری سے سمجھا جاسکتا ہے روایات کو لکھ کر محفوظ کر لینے کاطریق عام طور پر رائج ہو چکا تھا
219 اور راوی لوگ اپنی روایات کو دوسروں تک پہنچاتے اپنی تحریری یاداشتوں سے کثرت کے ساتھ مدد لینے لگ گئے تھے لیکن چونکہ محض کسی تحریر یا یاداشت کا موجود ہونا اسے قابل سند نہیں بنا سکتا جب تک کہ اس کی تائید میں معتبر زبانی تصدیق بھی موجود نہ ہو اور اس لئے آج تک ہر مہذب ملک کی عدالتوں میں ہر دستاویز کی تصدیق کے لئے زبانی شہادت ضروری قرار دی جاتی ہے اس لئے بالعموم محدثین نے زبانی اور تحریری روایات کے امتیاز کو اپنے مجموعوں میں ظاہر نہیں کیا.لیکن اس میں ہر گز کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ اب جو احادیث کے مجموعے ہمارے سامنے ہیں ان سب میں ایک معتد بہ حصہ ایسی روایات کا شامل ہے جو زبانی انتقال کے ساتھ ساتھ تحریری طور پر بھی ایک راوی سے دوسرے راوی تک منتقل ہوتی ہوئی نیچے اتری ہیں.اس دعویٰ کی تصدیق میں ہم اس جگہ اختصار کی غرض سے صرف صحابہ کے زمانہ کی چند مثالیں درج کریں گے کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ خود صحابہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو آنحضرت علیم کی احادیث اور روایات کو لکھ کر محفوظ کر لیا کرتے تھے اور پھر اسی مجموعہ سے آگےسلسلہ روایات چلاتے تھے تو یہ ایک قطعی ثبوت اس بات کا ہوگا کہ یہ طریق بعد کے زمانہ میں ( جبکہ فن تحریر بہت زیادہ وسیع ہو گیا اور روایات کے لکھنے کے لئے ہر قسم کی سہولت میسر آ گئی ) بدرجہ اولی جاری رہا.سب سے پہلی اور اصولی حدیث ہم اس معاملہ میں وہ درج کرنا چاہتے ہیں جن میں خود آنحضرت علیم نے یہ تحریک فرمائی ہے کہ جس شخص کو میری باتیں یاد نہ رہتی ہوں اسے چاہئے کہ انہیں لکھ کر محفوظ کرلیا کرے، چنانچہتر مندی میں پیروایت آتی ہے کہ عن أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَجْلِسُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْمَعُ مِنَ النَّبِيِّ الْحَدِيثَ وَلَا يَحْفَظُهُ فَشَكَا ذَالِكَ إِلَى النَّبِيِّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اسْتَعِنْ بِيَمِنِيكَ وَأَوْمَاءَ بِيَدِهِ للفظ ( ترمذی ابواب العلم
220 باب ما جاء فی الرخصتہ فیہ) یعنی ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک انصاری آنحضرت علی ایم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں آپ کی باتیں سنتا ہوں مگر مجھے وہ یاد نہیں رہتیں.آپ نے فرمایا تم اپنے دائیں ہاتھ کی مددحاصل کر کے میری باتوں کو لکھ لیا کرو“ اس حدیث سے ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں آنحضرت علایم خود تحریک فرمایا کرتے تھے کہ جس شخص کو میری باتیں یاد نہ رہتی ہوں وہ انہیں لکھ کر محفوظ کر لیا کرے اور آپ کے اس فرمان کے ہوتے ہوئے اگر ہمیں تاریخ میں صراحت کے ساتھ یہ ذکر نظر یہ بھی آئے کہ فلاں فلاں صحابی حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے تو بھی قیاس یہی ہوگا کہ بعض صحابی ضرور حدیثیں لکھا کرتے تھے ، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت علی کی اس ہدایت سے صحابہ جیسی جماعت میں سے کسی فرد نے بھی فائدہ نہ اٹھایا ہو در بہر حال جس صحابی کو آپ نے بر اور است مخاطب کر کے یہ الفاظ فرمائے تھے اُس نے تو ضرور اس ارشاد کی تعمیل کی ہوگی.مگر یہ صرف قیاس ہی نہیں ہے بلکہ حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ ذکر آتا ہے کہ بعض صحابی آنحضرت علم کی حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے ، چنانچہ روایت آتی ہے کہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص آنحضرت علیم کی زبان مبارک سے جو سنتے تھے وہ لکھ لیا کرتے تھے.اس پر بعض لوگوں نے انہیں منع کیا کہ آنحضرت علیم کبھی خوش ہوتے ہیں اور کبھی غصہ میں ہوتے ہیں تم سب کچھ لکھتے جاتے ہو.عبداللہ بن عمرو نے اس پر لکھنا چھوڑ دیا، لیکن جب آنحضرت علیکم تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا أكْتُبْ فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا الْحَقُ (ابوداؤد کتاب العلم باب كتابة العلم)
221 نکلتا ہے یعنی تم بے شک لکھا کرو کیونکہ خدا کی قسم میری زبان سے جو کچھ نکلتا ہے حق اور راست ( یہاں روایات کے لکھے جانے پر جو بحث کی گئی ہے اسے طوالت کی بنا پر چھوڑتا ہوں البتہ آپ نے حدیث اور سیرت کی روایات میں جو بنیادی فرق بیان کیا ہے اسے درج کرنا مناسب خیال کرتا ہوں تا کہ آئندہ صفحات میں جب اس سلسلہ میں بات کی جائے گی تو معاملہ کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو ) آپ تحریر فرماتے ہیں حدیث وسیرت کی روایات میں ایک بنیادی فرق.اس اصولی بحث کے ختم کرنے سے قبل یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گو مسلمان مصنفین نے اپنی روایات کی پڑتال میں روایت و درایت ہر دو قسم کے اصول کو علی قدر مراتب ملحوظ رکھا ہے مگر انہوں نے ہر قسم کی روایت کے لئے ایک ہی معیار نہیں رکھا بلکہ وہ ایک دانشمند محقق کی طرح اس غرض و غایت کے مناسب حال جس کے لئے کوئی روایت مطلوب ہوتی تھی اپنی معیار کو نرم یا سخت کرتے رہے ہیں.یعنی بعض علوم میں اپنا معیار سخت رکھا اور بعض میں نرم.مثلاً حدیث میں جہاں عقائد و اعمال کا تعلق تھا محد ثین نے بڑی سختی کے ساتھ روایات کو پرکھا ہے اور اپنے معیار کو بہت بلند رکھا ہے.لیکن سیرت و تاریخ وغیرہ میں اتنی سختی نہیں کی ، چنانچہ علامہ علی بن برہان الدین حلسمی اپنی سیرت میں لکھتے ہیں کہ لا تخفى أنّ السّيرَ تَجْمَعُ الصَّحِيحَ وَالضَّعِيفَ وَالْمُرْسَلَ وَالْمُنقَطِعَ - ( سیر مطلبیہ جلدا صفحه ۱) د یعنی یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ سیرت کی روایتوں میں صحیح اور ضعیف اور مرسل اور منقطع سبھی قسم کی روایتیں شامل ہیں.“
222 اور پھر امام احمد بن حنبل اور دوسرے آئمہ حدیث کی زبانی اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ إذا رَوَيْنَا فِي الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ شَدَحْنَا وَإِذَا رَوَيْداً فِي الْفَضَائِلِ وَأَحْوَهَا تَسَاهَلُنَا (سيرة حلبيه جلدا صفحه ا) یعنی ہمارا اصول یہ ہے کہ جب ہم حلال و حرام کے مسائل کے لئے کوئی روایت بیان کرتے ہیں تو ہم اس کی تحقیق میں بڑی سختی سے کام لیتے ہیں لیکن فضائل اور سیرۃ میں اپنے معیار کو نرم کر دیتے ہیں اور اسی اصول کی مزید تشریح یوں کرتے ہیں کہ الَّذِي ذَهَبَ إِلَيْهِ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ التَّرَخُصُ فِي الرِّقَائِقِ وَمَا لَا حُكْمَ فِيهِ مِنْ الْخَبَارِ الْمَغَازِى وَمَا تخرى مُجْرَى ذَالِكَ وَإِنَّهُ يُقْبَلُ فِي الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ لِعَدُمِ تَعَلُّقِ الْأَحْكامِ بِهَا.(سیر معلبہ جلدا صفحه ۲) یعنی اکثر اہل علم نے یہی طریق رکھا کہ ایسی باتیں جن میں شرعی احکام نہ بیان ہوں جیسے سیرت مغازی وغیرہ ان میں اپنے معیار کو نرم رکھنا چاہئے، کیونکہ ان امور میں ہم ایسی روایتوں کو بھی قبول کر سکتے ہیں جنہیں دینی اور فقہی احکام کے معاملہ میں قبول نہیں کر سکتے.“ امام احمد بن حنبل نے اس اصول کی تشریح میں ایک لطیف مثال بھی بیان کی ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں ابن إِسْحَاقَ رَجُلٌ نَكْتُبُ عَنْهُ هَذِهِ الْأَحَادِيْتَ يَعْنِي الْمَغَازِي وَأَحْوَهَا وَ إِذَا جَاءَ الْحَلَالُ وَالْحَرامُ أَرَدْنَا قَوْمًا هَكَذَا وَقَبِضَ أَصَابِعَ يَدَيْهِ الْأَرْبَعِ.(فتح المغیث صفحہ ۱۲۰) یعنی ابن اسحاق صاحب سیرۃ و مغازی بیشک اس رتبہ کے آدمی ہیں کہ ان سے سیرۃ و
223 تاریخ میں روایات لیتے ہوئے تامل نہیں ہونا چاہئے لیکن جب حلال و حرام کے مسائل کا سوال ہو تو ہمیں ایسے آدمی چاہئیں.یہ کہہ کر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چار انگلیاں مضبوطی کے ساتھ ملا کر باہم جفت کرلیں.جس سے مراد یہ تھی کہ حدیث میں ایسے راوی درکار ہیں جن میں کوئی رخنہ نہ نکالا جا سکے.الغرض حدیث اور سیرۃ کی روایات کے معیار میں ہمیشہ سے ایک اصولی فرق مد نظر رکھا گیا ہے اور یہی ہونا چاہئے تھا، کیونکہ حدیث میں جس کی روایت نے دین کی بنیاد بننا تھا سخت معیار رکھنا ضروری تھا تا کہ کوئی کمز ور روایت حدیث کے ذخیرہ میں راہ پا کر دینی فتنہ کا باعث نہ بنے، لیکن سیرۃ و تاریخ میں یہ پہلو ایسا خطر ناک نہیں تھا.بلکہ سیرۃ و تاریخ میں زیادہ قابل توجہ یہ بات تھی کہ اساسی مواد جمع ہو جائے جس میں بعد میں اصول مقررہ کے ماتحت چھان بین کی جا سکے.یہی وجہ ہے کہ اسلامی کتب حدیث کا روایتی پہلو کتب سیرۃ ومغازی وغیرہ کی نسبت بہت زیادہ مضبوط اور بانڈ سمجھا گیا ہے.مگر یہ کوئی نقص نہیں ہے بلکہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا تا کہ جہاں ایک طرف دین کوفتنہ و اختلاف سے بچایا جاتا وہاں تاریخ میں جامعیت قائم رہتی.خوب سوچ لو کہ تاریخ کے لئے یہی پالیسی مناسب تھی.سوائے اس کے کہ کوئی روایت بالبداہت غلط اور باطل ہو ہر وہ روایت لے لی جاوے تاکہ بعد کی تحقیق اور ریسرچ کے لئے ایک بنیادی ذخیرہ محفوظ ہو جائے مگر حدیث کے لئے یہ پالیسی سخت نقصان دہ تھی ، کیونکہ اس کے لئے ضروری تھا کہ معیار کو ایسا سخت رکھا جائے کہ خواہ کوئی مضبوط روایت گر جائے مگر بہر حال جو حدیث لی جائے وہ پختہ اور قابل اعتماد ہو.اس کا یہ مطلب نہیں کہ احادیث کا سارا مجموعہ غلطی سے پاک ہے یا یہ کہ سیرۃ و تاریخ کا مجموعہ کمز ور روایات پر مبنی ہے بلکہ غرض صرف یہ ہے کہ بالعموم حدیث کا معیار سیرۃ و تاریخ سے بالا و بلند ہے.اور اسی لئے مسلمان مؤرخین میں سے جو لوگ زیادہ
224 محقق گزرے ہیں انہوں نے سیرۃ و تاریخ کے واقعات کے لئے ان روایات کو ترجیح دی ہے جو دینی مسائل کے ضمن میں کتب حدیث میں مروی ہوئی ہیں.اور مصنف کتاب ہذا کا بھی 66 تصنیف میں یہی مسلک رہا ہے.“ ( سیرت خاتم النبیین حصہ اول صفحه ۱۰ تا ۲۴ مصلفه حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سن اشاعت ۲۰۰۱ شائع شده نظارت نشر و اشاعت قادیان)
225 ایک بنیادی اصول ہمارے وہ علماء کرام جنہوں نے شاتم رسول یا گستاخ رسول کی سز اقتل کے مؤقف کو اختیار کیا ہے انہوں نے جن آیات قرآنی یا حدیث رسول ملایم و روایات و درایت کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا ہے ان کو پیش کر کے ان پر کچھ لکھنے سے قبل ایک اصولی بات پیش کرنا ضروری خیال کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے ہمارے ہاتھ میں تین چیزیں دی ہیں سب سے اول نمبر پر قرآن کریم ہے جو کہ اللہ کا کلام ہے جو غیر محرف ومبدل ہے جس کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہی کیا ہے.دوسرے نمبر پر سنت رسول صل للعالم ہے جو کہ آپ کا عمل ہے.تیسری چیز حدیث ہے.قرآن کریم کی شریعت کا نزول آنحضرت صلی کلم پر وحی کے ذریعہ ہو اور یہ ایک ایسی شریعت ہے جو قیامت تک کے لئے ہے جس میں کسی تبدیلی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.جیسے جیسے قرآن کریم کا نزول ہوا ویسے ویسے ہی آنحضرت معالم نے اسے خود بھی یادرکھا اور آپ کے ساتھ ساتھ صحابہ رضوان اللہ علیھم نے بھی یاد کیا.اس کا ایک ایک لفظ خدا کا کلام ہے جس میں کسی قسم کی غلطی کا کوئی احتمال نہیں.اس کا کوئی بھی حکم خواہ کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے وہ قابل عمل ہے یہ ایک کامل اور مکمل شریعت ہے جس میں کسی قسم کی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی.اس کا ہر حکم حدیث وسنت پر آخری ڈگری کا حکم رکھتا ہے.اگر کوئی حدیث یا سنت کی کوئی بات قرآن کریم کے کسی حکم سے ٹکرا جائے تو فیصلہ قرآن کریم کے مطابق ہوگا.اختلاف کی بنا پر اگر کوئی تو جیح ہو سکتی ہو جو قرآن کریم کے کسی حکم سے نہ ٹکرائے تو کی جاسکتی ہے جس میں انسانی عقل کا بھی دخل ہے کہ وہ خود بھی اس امر پر غور کرے اور وہ راستہ اختیار کرے جس کی طرف قرآن
226 کریم کی شریعت را ہنمائی کرتی ہے.اس بات کو بیان کرنا اس لئے ضروری ہے آئندہ پیش آمدہ امور میں قرآن وسنت اور حدیث کے حوالہ سے جب بات ہوگی تو اس اصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہوگا تا کہ بات کو سمجھنے میں آسانی ہو.روایت اور درایت کے اصول جو فقہاء اور علماء نے مرتب کئے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے بیان کر دئے گئے ہیں جو اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم بھی عطا کی ہے اس لئے اس کا استعمال بھی ضروری ہے خاص طور پر ایسے مقامات پر جہاں قرآن کریم یا آنحضرت علیم کی ذات مبارکہ پرزد پڑتی ہو.آنحضرت صل اللہ کا مقام و مرتبہ کیا ہے اس سے ہر مسلمان اچھی طرح واقف ہے اور قرآن کریم کی عظمت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف تو ہم قرآن کریم کی تعلیمات کو پیش نظر رکھیں اور دوسری طرف ان تعلیمات پر رسول مقبول لام کے عمل کولوگوں کے سامنے اسواہ کے طور پر پیش کریں.توہین رسالت کے حوالے سے سزاؤں کے سلسلہ میں جہاں بات ہوگی اوپر بیان کردہ امور کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہوگا.خاص طور پر ان واقعات پر چھان بین اور غور خوض کی ضرورت ہوگی جو تاریخ میں رسول مقبول م کی جانب سے جاری کی گئی سزاؤں کے سلسلہ میں درج ہیں.ان کے بارے میں دیکھنا ہوگا کہ کون کون سی ایسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر ایسے خطر ناک دشمنان رسول اور دشمنان اسلام کو قتل کرنے کا آنحضور میلالی نے حکم صادر فرمایا.جہاں تک ہمارے پیار آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطف عالی کی ذات مبارکہ کی بات ہے تو آپ نہایت درجہ رقیق القلب اور شفقت کرنے والے رحم دل عفو و درگزری سے کام لینے والے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ صلیم کو ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
227 وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (الانبیا آیت (۱۰۸) یعنی اور (اے نبی ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت ( بنا کر ) بھیجا ہے اس بات میں کیا شک ہے کہ واقعی آپ تمام جہانوں کے لئے رحمت تھے بنی نوع انسان سے لے کر چرند پرند تک بھی آپ کی رحمت سے مستفید ہوئے.آپ کی رحمت کے پہلو کو دیکھتے ہوئے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ آپ نے کسی دشمن پر بھی ایسی تحقیق کی ہو جس میں رحمت کا پہلو نہ پایا جاتا ہو.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (اتو به ۱۲۸) یعنی (اے لوگو ) تمہارے پاس تمہاری ہی قوم میں سے ایک فردرسول ہو کر آیا ہے.تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بہت بھوکا ہے اور مومنوں کے ساتھ محبت کرنے ولا ( اور ) بہت کرم کرنے والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں کو خطاب فرمایا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ یہ وہ رسول ہے کہ جب تم میں سے کسی کو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کو بہت شاق گزرتا ہے کیونکہ سیدرسول کسی کا بھی تکلیف میں پڑا ہونا پسند نہیں کرتا اور ہمیشہ ہی یہ تمہارے لئے خیر چاہنے والا ہے.اور ساتھ ہی یہ بات بھی بیان فرما دی کہ جہاں تک اس کو مومنوں سے تعلق کی بات ہے تو یہ رسول مومنوں سے بہت محبت کرنے والا ہے.رسول کریم علیم کی سیرت پر غور کرنے سے ہر معاملہ میں یہ پہلو بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے.
228 فماَ رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْلَهُمْ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَعِلِينَ ( آل عمران ۱۶۰) یعنی اور تو اس عظیم الشان رحمت کی وجہ سے (ہی ) جو اللہ کی طرف سے ( تجھے دی گئی ) ہے ان کے لئے نرم واقع ہوا ہے اور اگر تو بد اخلاق اور سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے گردے تنثر بشر ہو جاتے پس تو انہیں معاف کر دے اور ان کے لئے (خدا سے) بخشش مانگ اور حکومت ( کے معاملات ) میں ان سے مشورہ (لیا) کر پھر جب تو ( کسی بات کا) پختہ ارادہ کرلے تو اللہ پر توکل کر.اللہ تو کل کرنے والوں سے یقیناً محبت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی یہ بات بیان فرمائی ہے کہ اسے محمد علی لوگوں کی خاطر تیرے دل میں جو نرمی پائی جاتی ہے وہ اس لئے ہے کہ ہم نے تجھے عظیم الشان رحمت سے نوازا ہے.اگر یہ لوگ کوئی غلطی بھی کریں تب بھی تو انہیں معاف کر دے نہ صرف معاف کر بلکہ اللہ تعالیٰ سے ان لوگوں کے لئے بخشش بھی طلب کر.پس یہی وجہ ہے کہ آپ صل علیم نے اپنے اشد ترین دشمنوں کو بھی معاف کیا اور ان کے ساتھ نرمی کا سلوک فرما یا اور ان لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش کی دعا بھی کی.ان آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کی طرف سے عطا کی گئی رحمت کے ہر فرد بشر کے لئے عام تھی بلکہ اللہ ک مخلوق میں سے کوئی بھی اس رحمت سے محروم نہ تھا.پس آپ کی رحمت و شفقت کا پہلو ہمیں ہر جگہ پھیلا ہوا صاف دکھائی دیتا ہے.پس جب ہم ان واقعات پر غور کریں گے جو سزاؤں سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ہمیں آنحضور علی ایم کے اس رحمت کے پہلو کو بھی ضرور مد نظر رکھنا ہوگا.اور اس بات پر عمیق نظر سے غور کرنا ہو گا کہ آنحضور عالم نے جن لوگوں کے بارے میں سخت فیصلہ لیتے ہوئے انہیں قتل
229 کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا اس کی وجوہات کیا تھیں.کیا ایسے لوگوں کو صرف رسول خداہلی نشانی کی توہین کرنے کی بنا پر قتل کیا گیا یا پھر اس کی کوئی اور بھی وجوہات تھیں.ایک طرف تو ہمیں ایسے بہت سے واقعات دکھائی دیتے ہیں رسول کے مخالفوں نے رسول کریم ملی ایم کے سامنے ہی آپ کی توہین کی اور استہزا کیا مگر آپ نے انہیں معاف فرما دیا اور انہیں کسی قسم کی بھی کوئی سزا نہیں دی.تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ آپ مبعض کے لئے صرف تو ہین کی بنا پر قتل کا حکم فرما دیں.جبکہ قرآن کریم میں ہمیں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ کسی بھی نبی نے استہز آ کرنے والوں میں سے کسی کو قتل کرنے کا حکم دیا ہو یا کسی کو اس بنا پر قتل کر دیا ہو.تو ایسا بنی جسے اللہ تعالیٰ نے ساری جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہو وہ صرف کسی کے استہزا کرنے یا توہین کرنے کی بنا پر کسی کو قتل کرنے کا حکم کس طرح صادر فرماسکتا ہے.اس لئے ایسے واقعات پر ہمیں بہت زیادہ غور وتدبر کی ضرورت ہے کہ قتل کرنے کے واقعات میں تمام پہلوؤں پر غور کر کے اصل وجوہات کو تلاش کیا جائے.جس پر آئندہ جو واقعات پیش ہوں ان پر غور کیا جا سکے گا.ان شا اللہ.
230 احادیث اور توہین رسالت کی سزا ہمارے ایسے علماء جو تو بین رسالت کی سزا قتل مانتے ہیں انہوں نے بعض احادیث اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کی ہیں.بعض علماء نے تو حوالے پیش کئے ہیں اور بعض کوئی حوالہ بھی پیش نہیں کیا.کچھ علماء نے واقعات کو ذکر کرتے وقت واقدی کی بعض روایات پیش کی ہیں.جب کہ بہت سے علماء کا یہ بھی ماننا ہے کہ واقدی ان لوگوں میں شامل ہے جو جھوٹے قصے اور واقعات بیان کرنے اور بناوٹی باتوں کو حقیقت کا رنگ بھر کے پیش کرنے میں ماہر ہے.اس لئے واقدی کی روایات پر انحصار نہیں کیا جاسکتا.البتہ جو واقعات احادیث میں پیش ہوئے ہیں ان پر غور کیا جانا ضروری ہے.احادیث پر غور کرنے کے ساتھ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ جو روایت پیش کی جارہی ہے اور جسے رسول کریم علی کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے وہ کہیں قرآن کریم کی کسی واضح تعلیم کے خلاف تو نہیں؟ اگر ایسی بات دکھائی دے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس حدیث کی کوئی نہ کوئی توجیح کرنی ہوگی جو کہ قرآن کے عین مطابق ہو.کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ آنحضرت سلیم اپنی طرف سے کوئی ایسی بات کہیں جو کہ قرآن کریم کی تعلیم کی صریح خلاف ہو.علماء نے توہین رسالت کی سز اقتل کو ثابت کرنے کے لئے جن احادیث کا سہارا لیا ہے وہ چند ہی ہیں اور عجیب بات ہے کہ تمام علماء نے ہی ان احادیث کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا ہے.کسی نے کسی حدیث کو پہلے پیش کر دیا اور کسی نے کسی دوسری حدیث کو اور دیکھا جائے تو امام ابن تیمیہ نے ان ساری احادیث کو ہی بیان کر دیا ہے.امام ابن تیمیہ نے جس حدیث کو سب سے پہلے بیان کیا ہے وہ حدیث ہے جس میں ایک نابینا شخص کے ایک یہود یہ کے قتل کرنے کا ذکر ملتا ہے.لکھا ہے کہ شعبی نے حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ ایک یہودی عورت رسول کریم علیم کو
231 گالیاں دیا کرتی تھی.ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے بلاک کر دیا تو آپ بیل یا ہم نے اس عورت کے خون کو رائیگاں قرار دیا.“ ( سنن ابوداؤد.رقم الحدیث ۴۳۶۲) سب سے پہلی بات جو اس حدیث کے سلسلہ میں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس حدیث کے نیچے درج ہے کہ ضعیف الاسناؤ کہ اس حدیث کی جوسند ہے وہ ضعیف ہے جو حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہو اس پر بحث کرنے کا کوئی مقصد ہی دکھائی نہیں دیتا.اسی طرح اس سے ملتی جلتی ایک اور حدیث بھی اس طرح سے بیان ہوئی ہے کہ اسماعیل بن جعفر نے بطریق اسرائیل از عثمان شیخام از کرمه از ابن عباس سے روایت کیا کہ ایک اندھے شخص کی ام ولد لونڈی تھی جو رسول کریم بیلیم کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے روکتا مگر وہ باز نہ آتی وہ ڈانٹتا مگر وہ رکتی نہ تھی.ایک رات اس نے رسول کریم عالم کو گالیاں دینے کا آغاز کیا.اس نے بھالا لیکر اس کے شکم میں پیوست کر دیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ بلاک ہو گئی.صبح کو اس کا تذکرہ رسول کریم علیم سے کیا گیا تو لوگوں کو جمع کر کے آپ میم نے فرمایا میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا جو کچھ کیا اور میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے“ یہ سن کر اندھا آدمی کھڑا ہوا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آپ سبیل نیم کے پاس آیا اور ا بیٹھ گیا اور کانپ رہا تھا.اس نے کہا یا رسول اللہ ! اسے میں نے قتل کیا ہے وہ آپ ملی ایم کو گالیاں دیا کرتی تھی.میں اسے روکتا اور وہ باز نہ آتی تھی.میں اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا مگروہ پرواہ نہ کرتی.میں نے بھالا لیکر اس کے پیٹ میں گاڑ دیا اور اسے زور سے دبا دیا.اس کے
232 بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں.وہ میری رفیقہ حیات تھی.گزشتہ شب جب وہ آپ لم کو گالیاں بکنے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں گاڑ دیا اور اسے زور سے دبا د یا حتی کہ وہ مرگئی.رسول اکرم علی نے فرمایا 66 تم گواہ رہو کہ اس کا خون ہدد ہے (سنن ابوداؤ درقم الحدیث ۴۳۶۱) الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۲۶ و ۱۲۷) اس جگہ یہ دو احادیث پیش کی گئی ہیں ان دونوں احادیث کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی واقعہ کو کچھ کمی بیشی سے بیان کیا گیا ہے امام ابن تیمیہ نے بھی اسی خیال کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہو جیسا کہ امام احمد کے کلام سے واضح ہوتا ہے.بروایت عبد اللہ امام احمد سے روایت کیا گیا کہ ذقی اگر رسول کریم علا الہ اہلیہ کو گالی دے تو اس کو قتل کرنے کے بارے میں کوئی حدیث وارد ہوئی ہے.؟ فرمایا X جی ہاں ! ان میں سے ایک حدیث اندھے شخص کے بارے میں ہے جس نے عورت کو قتل کیا تھا.فرمایا کہ اس نے اسے گالی دیتے ہوئے سنا تھا.پھر عبداللہ نے امام احمد سے دونوں حدیثیں روایت کی ہیں.ممکن ہے کہ پہلے اس شخص نے اس کا گلا گھونٹا ہو اور پھر بھالا اس کی شکم میں پیوست کر دیا ہو یا ہوسکتا ہے کہ ایک روایت میں قتل کی کیفیت محفوظ نہ ہو ( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۲۷) غور کیا جائے تو یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ ان دونوں احادیث میں ایک ہی واقعہ بیان ہوا ہے یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ دو اشخاص کی بیویاں یہودی ہوں اور دونوں ہی گالیاں دیتی ہوں اور دونوں نے ہی اپنی بیویوں کو قتل کیا ہو.قاضی ابو یعلی کا بھی یہی خیال ہے.اور یہ امر
233 بعید از قیاس نہیں ہے.ان روایات پر غور کرتے ہوئے ان امور کو یادرکھنا بہت ضروری ہے کہ اوّل یہ عورت یہود یہ تھی.دوم یہ کہ اس کی حیثیت ذمی کی تھی.سوم یہ کہ اس عورت کا تعلق یہود کے قبیلہ بنو قینقاع سے تھا اور یہ وہ قبیلہ تھا جس نے مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے عہد کو سب سے پہلے توڑا تھا.چہارم یہ کہ یہ یہودیہ مدینہ میں ایک مسلمان کے گھر تھی اور اس نابینا شخص کے بچوں کی ماں تھی.پنجم یہ کہ اس قتل کا مقدمہ رسول کریم علیم کے سامنے پیش ہوا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے رحمتہ العالمین بنا کر بھیجا تھا.ششم یہ کہ اس حدیث میں ایسا کوئی لفظ دکھائی نہیں دیتا کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ رسول کریم علی نے اس فعل کو قابل تحسین ٹھہرایا ہو.ہفتم یہ کہ کسی عالم نے بھی اس حدیث کے پیش کرنے کے ساتھ کوئی بھی ایسی حدیث پیش نہیں کی کہ اور نہ ہی کر سکتے ہیں کہ رسول کریم مالی یا لیلی نے ایسا فعل کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا ہو.اور نہ ہی ایسی کوئی حدیث پیش کی ہے یا کی جاسکتی ہے کہ یہ قتل رسول کریم علیم کے حکم سے کیا گیا ہے.یا آئندہ ایسی گستاخی کرنے والے کے لئے قتل کو جائز ٹھہرایا ہے.تمام مسلمان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جب رسول کریم علیم نے ملکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو آپ نے مدینہ میں پہنچ کر سب سے پہلا کام ہی یہ کیا تھا کہ آپ نے مدینہ کے اندر اور قریب قریب میں یہود کے جو قبیلے آباد تھے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور یہود کو بھی آپ نے اس معاہدہ پر پابند رہنے کو کہا اور خود مسلمانوں کی طرف سے آپ نے اس کی ذمہ داری لی.وہ معاہدہ کیا تھا اس جگہ میں درج کرنا مناسب خیال کرتا ہوں تا کہ اس معاہدہ کی روشنی میں غور کیا جا سکے.کیونکہ توہین رسالت کے جرم میں قتل کئے جانے کے ثبوت کے طور پر جن لوگوں کی سزاؤں کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں سے اکثر کا تعلق ان معاہد سے ہے جو یہود اور
234 ذمیوں میں سے ہیں.اس وقت جو معاہدہ ہوا وہ اس طرح سے تھا.مهاجرین وانصار اور یہود کا تاریخی معاہدہ بسم اللہ الرحمن الرحیم شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے.یہ نوشتہ یا دستہ ویز ہے جو محمد علی کی طرف سے جو نبی ہیں قریش اور اہل یثرب میں سے ایمانداروں اور اطاعت گزاروں نیز ان لوگوں کے درمیان جو ان کے تابع ہوں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے ہمراہ جہاد میں حصہ لیں.ا.دوسرے لوگوں کے بالمقابل وہ ایک امت ( سیاسی وحدت ) ہوں گے ۲.قریش کے مہاجر قبل اسلام کے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے.اور اپنے اسیروں کا فدیہ ادا کریں گے تا کہ ایمانداروں کا برتاؤ باہم نیکی اور انصاف کا ہو..اور بنی عوف کے لوگ اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے اور ہر گروہ اپنے اسیروں کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا تا کہ ایمانداروں کا برتاؤ با ہم نیکی اور انصاف کا ہو.۴.اور بنی حارث اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے.اور ہر گروہ اپنے اسیر وں کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا تا کہ ایمانداروں کا برتاؤ باہم نیکی اور انصاف کا ہو.۵.اور بنی ساعدہ اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے.اور ہر گروہ اپنے قیدی خود فدیہ دے کر چھڑائے گا تا کہ ایمانداروں کا برتاؤ با ہم نیکی اور انصاف کا ہو..اور بنی بکشم اپنے دستور کے مطابق مخون بہا ادا کریں گے.اور ہر گروہ اپنے قیدی خود فدیہ دے کر چھڑائے گا تا کہ ایمانداروں کا برتاؤ باہم نیکی اور انصاف کا ہو.ے.اور بنی نجار اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے.اور ہر گروہ اپنے قیدی خود
235 فدیہ دے کر چھڑائے گا تا کہ ایمانداروں کا برتاؤ باہم نیکی اور انصاف کا ہو..اور بنی عمر بن عوف اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے.اور ہر گروہ اپنے قیدی خودفدیہ دے کر چھڑائے گا تا کہ ایمانداروں کا برتاؤ با ہم نیکی اور انصاف کا ہو.۹.اور بنی النمبیت اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے.اور ہر گروہ اپنے قیدی خودفدیہ دے کر چھڑائے گا تا کہ ایمانداروں کا برتاؤ با ہم نیکی اور انصاف کا ہو.۱۰.اور بنی اوس اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے.اور ہر گروہ اپنے قیدی خود فدیہ دے کر چھڑائے گا تا کہ ایمانداروں کا برتاؤ باہم نیکی اور انصاف کا ہو.۱۱.اور ایماندار لوگ کسی مفلس اور زیر بار شخص کو مدد دئے بغیر نہ چھوڑیں گے تا کہ اس کا فدیہ یا خون بہا بخوبی ادا ہو سکے.۱۲.اور کوئی مومن کسی دوسرے مومن کی اجازت کے بغیر اس کے مولیٰ ( معاہداتی بھائی) سے معاہدہ نہ کرے گا.۱۳.اور متقی اور ایماندار ہر اس شخص کی مخالفت پر کمر بستہ رہیں گے جو ان میں سے سرکشی کرے جو ظلم یا گناہ یا زیادتی کا مرتکب ہو یا ایماندار لوگوں میں فساد پھیلائے ان سب کے ہاتھ ایسے شخص کی مخالفت پر ایک ساتھ اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو.۱۴.اور کوئی ایماندار کسی ایماندار کو کافر کی خاطر قتل نہ کرے گا اور نہ کسی ایماندار کے خلاف کافر کی امداد کرے گا.۱۵.اور خدا کا ذمہ ایک ہی ہے مسلمانوں میں سے ادنی فرد بھی کسی کو پناہ دیکر سب پر پانبدی عائد کر سکے گا اور ایماندار دوسرے لوگوں کے مقابلے میں باہم بھائی بھائی ہیں.۱۶.اور یہودیوں میں سے جو اتباع کرے گا اسے امداد ومساوات حاصل ہوگی.نہ ایسے
236 لوگوں پر ظلم ہوگا اور نہ ان کے خلاف کسی کی مدد کی جائے گی.۱۷.ایمانداروں کی صلح ایک ہی ہوگی.اللہ کی راہ میں ہو تو کوئی ایماندار کسی دوسرے ایماندار کو چھوڑ کر دشمن سے صلح نہیں کرے گا جب تک مصلح سب کے لئے برابر نہ ہو.۱۸.وہ تمام گروہ جو ہمارے ساتھ ہو کر جنگ کریں گے ایک دوسرے کے پیچھے ہونگے.پر ہے.۱۹.اور ایماندار اس چیز کا بدلہ لیں گے جو خدا کی راہ میں ان کے خون کو پہنچے.۲۰.اور اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ متقی ایماندار سب سے بہتر اور سب سے سیدھے راستے ۲۱.اور کوئی مشرک قریش کے مال اور جان کو پناہ نہ دیگا اور نہ ایماندار کے لئے اس سلسلہ میں رکاوٹ بنے گا.۲۲.اور جو شخص کسی مومن کو نا حق قتل کرے گا اور گواہوں سے اس کا ثبوت بھی مل جائے گا تو اس سے قصاص لیا جائے گا، بجز اس صورت کے کہ مقتول کا ولی خون بہا پر راضی ہو جائے اور تمام ایماندار اس کی تعمیل کے لئے اٹھیں گے اور اس کے سوا ان کے لئے کوئی صورت جائز نہ ہوگی.۲۳.اور کسی ایماندار کے لئے جو اس نوشتے یا دستاویز کے مندرجات کا اقرار کر چکا ہے، نیز خدا اور یوم آخرت پر ایمان لا چکا ہے، جائز نہیں کہ کسی فتنہ اٹھانے والے کی مدد کرے یا اسے پناہ دیگا.قیامت کے دن خدا کی لعنت اور غضب کا مستوجب ٹھہرے گا اور اس سے کوئی فدیہ یا بدلا قبول نہ کیا جائے گا.۲۴.اور جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق ، اختلاف پیدا ہوگا تو اللہ تعالی او محمدعلی لالیم کی طرف رجوع کیا جائے.
237 ۲۵.اور یہودی جب تک ایمانداروں کے ساتھ مل کر جنگ کرتے رہیں گے مصارف بھی برداشت کرتے جائیں گے.۲۶.اور بنی عوف کے یہودی ایمانداروں کے ساتھ ایک امت ( سیاسی وحدت) تسلیم کئے جاتے ہیں.یہودی اپنے دین پر رہیں مسلمان اپنے دین پر خواہ موالی ہوں یا اصل البتہ جو لوگ ظلم اور جرم کے مرتکب ہو نگے وہ اپنی ذات یا گھرانے کے سوا کسی کو ہلا کت وفساد میں نہیں ڈالیں گے.۲۷.اور بنی نجار کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہو نگے جو بنی عوف کے یہودیوں ۲۸.اور بنی حارث کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہو نگے جو بنی عوف کے یہودیوں کو.کو.۲۹.اور بنی ساعدہ کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہو نگے جوبنی عوف کے یہودیوں ۳۰.اور بینی جشم کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہو نگے جو بنی عوف کے یہودیوں ۳۱.اور بنی اوس کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہو نگے جو بنی عوف کے یہودیوں کو.۳۲.اور بنی نجار ثعلبہ کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہو نگے جو بنی عوف کے یہودیوں کو.البتہ جو ظلم اور جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کوئی مبتلائے ہلاکت و فساد نہ ہوگا.
238 ۳۳.اور جفنہ بھی بنی ثعلبہ کی شاخ ہیں انہیں بھی وہی حقوق حاصل ہونگے جو اصل کو.۳۴.اور بنی شطیبہ کو بھی وہی حقوق حاصل ہونگے جو بنی عوف کے یہودیوں کو وفا شعاری ہو نہ کہ عہد شکنی.نکلے گا.۳۵.اور ثعلبہ کے موالی کو بھی وہی حقوق حاصل ہونگے جو اصل کو.۳۶.اور یہودیوں کے قبائل کی شاخوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہونگے جو اصل کو.۳۷.اور یہ کہ ان میں سے کوئی بھی محمد علیم ) کی اجازت کے بنا جنگ کے لئے نہ.اور ظلم کا بدلہ لینے میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے گی.جو شخص مخون ریزی کرے تو ذمہ داری اس پر اور اس کے گھرانے پر ہوگی.بجز اس شخص کے جس پر ظلم کیا گیا ہو اور خدا اس کے ساتھ ہو.۳۹.یہودی اپنے خرچ کے ذمہ دار ہو نگے اور مسلمان اپنے خرچ کے.۴۰.جو کوئی اس دستور العمل کو قبول کرنے والوں کے خلاف جنگ کرے تو وہ ( یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کی مدد کریں گے.وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی پر عمل پیرا ہونگے اور باہم مشورے کریں گے وفا کا شیوہ ہوگا نہ کہ عہد شکنی.۴۱.کوئی شخص اپنے حلیف کی بدعملی کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے گا اور مظلوم کو بہر حال مدددی جائے گی.۴۲.یہودی اس وقت تک مصارف برداشت کرتے رہیں گے جب تک وہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر جنگ میں شریک رہیں گے.۴۳.یثرب کا میدان اس نوشتے کو ماننے والوں کے نزدیک مقدس و محترم ہوگا.
239 ۴۴.پناہ گزین سے ویسے ہی برتاؤ ہوگا جیسا کہ اصل شخص پناہ دہندہ سے ہو رہا ہو.نہ اسے کوئی نقصان پہنچایا جائے اور نہ وہ کسی جرم کا مرتکب ہوگا.۴۵.کسی عورت کو اس کے کنبے والوں کی اجازت کے بغیر پناہ نہ دی جائے گی.۴۶.اس نوشتے کو قبول کرنے والوں کے درمیان کوئی نیا معاملہ یا جھگڑا پیدا ہوجس پرفساد رونما ہونے کا ڈر ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف اور اس کے رسول محمد ( ل ل لم ) کی طرف لوٹایا جائے گا.اس نوشتے میں جو کچھ ہے، اللہ تعالیٰ کو اس پر زیادہ سے زیادہ احتیاط اور وفاداری پسند ہے.۴۷.نہ قریش کو پناہ دی جائے گی اور نہ اس شخص کو جو ان کا معاون ہو.۴۸.اگر کوئی میثرب پر حملہ آور ہو تو ان ( معاہد فریقوں یعنی یہودیوں اور مسلمانوں پر ) ایک دوسرے کی امدا د ونصرت لازم ہوگی..اگر انہیں صلح کر لینے اور اس میں شرکت کرنے کی دعوت دی جائے گی تو یہ اسے قبول کرلیں گے اور شریک ہونگے اسی طرح جب وہ کسی کو صلح کے لئے بلائیں گے تو اسے قبول کریں گے اور مسلمانوں پر بھی قبول کر لینا لازم ہوگا بجز اس صورت کے کہ کوئی دینی جنگ کرے.۵۰.ہر شخص کے حصے میں اسی کی مدافعت آئے گی جو اس کے بالمقابل ہوگا.۵۱.اور اوس کے یہودیوں کو اصل ہوں یا موالی وہی حقوق حاصل ہونگے جو اس نوشتے کے ماننے والوں کو حاصل ہیں.۵۲.یہ نوشتہ کسی ظال یا مجرم کے آڑے نہ آئے گا جو شخص جنگ کے لئے نکلے وہ بھی اور جو شخص گھر میں بیٹھار ہے وہ بھی امن کا مستحق ہوگا.صرف وہ لوگ مستعفی ہوں گے جو ظلم یا جرم کے مرتکب ہو نگے.
240 ۵۳.خداس شخص کا حامی ہے جو عبدوا قرار میں وفاشعار اور پر ہیز گار اور اللہ کے رسول محمد لام ) بھی اس کے حامی ہیں.“ ( سیرت النبی کامل ابن ہشام جلد اول صفحه ۵۵۴ تا ۶۱ ۵ مطبوعه اعتقاد پبلشنگ ہاؤس سوتی والان دہلی.سن اشاعت ۱۹۸۲) قارئین ! یادر ہے کہ میں نے اس معاہدہ کا پور امتن اس جگہ درج کر دیا ہے.اس معاہدہ کا ان لوگوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں تو بین رسالت کے جرم میں قتل کیا گیا تھا.حالانکہ اس معاہدہ میں اس بات کو بڑی وضاحت سے درج کیا گیا تھا کہ اور متقی اور ایماندار ہر اس شخص کی مخالفت پر کمر بستہ رہیں گے جو ان میں سے سرکشی کرے جو ظلم یا گناہ یا زیادتی کا مرتکب ہو یا ایماندارلوگوں میں فساد پھیلائے ان سب کے ہاتھ ایسے شخص کی مخالفت پر ایک ساتھ اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو.“ ری نوشتہ کسی ظال یا مجرم کے آڑے نہ آئے گا جو شخص جنگ کے لئے نکلے وہ بھی اور جو شخص گھر میں بیٹھا رہے وہ بھی امن کا مستحق ہوگا.صرف وہ لوگ مستثنی ہوں گے جو ظلم یا جرم کے مرتکب ہو نگے“ یہود کے قبیلوں کا ذکر کیا اور لکھا کہ اور بنی نجار ثعلبہ کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہو نگے جو بنی عوف کے یہودیوں کو.البتہ جوظلم اور جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کوئی مبتلائے ہلاکت و فسادنہ ہوگا.“ اول تو سارا معاہدہ ہی قابل غور ہے تاہم جہاں یہود اور ذمیوں کو سزا دینے کی بات ہوگی تو وہاں کم از کم اب تین شقوں کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہوگا.اگر غور کیا جائے تو آنحضرت علیم
241 نے جن لوگوں کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا یا پھر قتل ہونے پر ان کا معاملہ آنحضرت علیم کے سامنے پیش ہوا اور آپ مال لیلی نے ان کے خون کو رائیگاں اور بدد کرار د یاوہ دراصل اس معاہدہ کے توڑنے کے مجرم تھے.اور یہ عورت جس کے بارے میں اور ذکر کیا گیا ہے اس کا بھی تعلق اس قبیلہ سے تھا جنہوں نے اس معاہدہ کو توڑا تھا.امام ابن تیمیہ خود تحریر فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق نے بطریق عاصم بن عمر بن قتادہ روایت کیا ہے کہ بنو قینقاع کے قبیلہ نے یہود میں سے سب سے پہلے عہد شکنی کا ارتکاب کیا.انہوں نے غزوہ بدر اور احد کے درمیان مسلمانوں کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا، چنانچہ رسول کریم ملایم نے ان کا محاصرہ کیا اور یہ آپ کے حکم کے مطابق قلعوں سے اتر آئے.جب آپ علیہ نے ان پر قابو پالیا تو رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی نے رسول کریم علیم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کہا اے محمد الا اللہ میرے حلیفوں پر مہربانی کیجئے ، آپ مال لیلی نے اس سے اپنا رخ مبارک پھیر لیا ،اس نے اپنا ہاتھ رسول کریم علی ایل کے گریبان کے اندر داخل کیا ، رسول اکرم علی نے فرمایا مجھے چھوڑ دو، آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ چہرے سے ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے.آپ میم نے فرمایا * " تجھ پر افسوس ! مجھے چھوڑ دو.‘اس نے کہا میں آپ کو اس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک آپ میرے حلیفوں پر مہر بانی نہ فرمائیں گے.چارسو ( ۴۰۰) کھلے جسم کے جوان اور تین سو (۳۰۰) زرہ پوش ، جنھوں نے مجھے سرخ و سیاہ سے بچایا تھا ، آپ انہیں ایک ہی صبح میں کاٹ کر رکھ دیں گے! بخدا ! میں زمانے کی گردشوں کا خطرہ محسوس کر رہا ہوں.رسول اکرم علیم نے فرمایا ”میں نے ان کو تمہاری خاطر آزاد کیا.“ باقی رہے بنو نظیر اور بنوقریظہ کے قبائل تو وہ مدینہ سے باہر رہتے تھے اور رسول کریم ملایم
242 کے ساتھ انہوں نے جو معاہدہ کیا ہوا تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہ تھا.(السیر والمغازی لابن اسحاق صفحه ۳۱۴) یہ مقتول عورت جس کو نا بینے آدمی نے قتل کیا تھا، قینقاع کے قبیلہ سے تھی کیونکہ یہ واقعہ مدینہ میں پیش آیا.بہر حال اس عورت کا تعلق قبیلہ قینقاع سے ہو یا کسی اور قبیلہ سے وہ ذمّی عورت تھی ، اس لئے کہ مدینہ کے سب یہودی ذقی تھے.یہ یہودیوں کی تین قسمیں تھیں اور وہ 66 سب کے سب ذقی تھے.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۲۳) او پر پیش کئے گئے حوالوں کو دکھنے سے چند امور سامنے آتے ہیں جو کہ بڑے غور طلب ہیں مثلاً ایک بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ جود و واقعات الگ الگ روایات اور اختلافی عمل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں محققین کا یہ کہنا ہے کہ در اصل یہ ایک ہی واقعہ ہے جنہیں دوروایات میں اختلاف کے ساتھ بیان کیا گیا ہے.اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس واقعہ سے جو نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے وہ درست نہیں مانا جاسکتا کہ ہر ایسے شخص کو قتل کیا جاسکتا ہے جو گالی دے.کیونکہ گالی دینے کے جرم میں کسی کو قتل کرنے کا جواز اور حکم ان روایات میں کہیں دکھائی نہیں دیتا.کیونکہ اس واقعہ میں ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی کہ آنحضرت علی ایم نے اس قتل کو گالی دینے کے بدلہ میں درست عمل قرار دیا ہو.اگر گالی کے بدلہ میں قتل کو جائز قرار دیا جائے تو یہ قرآنی تعلیم اور انصاف کے بالکل برعکس دکھائی دیتا ہے کیونکہ قرآن کریم کا یہ واضح حکم ہے کہ تمہیں بدلہ لینے کا اسی قدر حق ہے جس قدر تم سے زیادتی کی گئی ہو." 66 دوسری بات جو ان روایات میں ہمیں دیکھنے کوملتی ہے وہ یہ ہے کہ اس عورت کے گالیاں دینے کے جرم میں اسے قتل کرنے کا کسی کو کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا.بلکہ یہاس نا بینا شخص کا اپنا
243 ذاتی فعل تھا جسے اس نے خاموشی سے کیا تھا اور کان و کان بھی کسی کو اس کی خبر تھی.اگر کسی کو بھی اس کی خبر ہوتی تو وہ پہلے ہی رسول کریم علی ایم کو بتادیتا.اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ آنحضرت بیل تعلیم نے کسی شخص کو بھی ایسا کرنے کے لئے کوئی حکم صادر نہیں فرمایا تھا.اگر آپ علی نے کوئی حکم صادر فرمایا ہوتا تو آپ اس طور پر دریافت نہ فرماتے.آپ کا اس طور سے دریافت فرمانا اس لئے تھا کہ تا آپ صلیم کو علم ہو سکے کہ اس عورت کو کس نے اور کس بنا پر قتل کیا ہے.جہاں تک اس خون کو بدد قرار دینے کی بات ہے تو اس کی اور وجوہات دکھائی دیتی ہیں.ا.سب سے اول یہ کہ یہود نے جو معاہدہ رسول کریم ملایم کے ساتھ کیا تھا اس معاہدہ کو سب سے پہلے توڑنے والا وہی قبیلہ تھا جس قبیلہ سے اس عورت کا تعلق تھا.اور امام ابن تیمیہ خود ہی اپنی کتاب میں یہ لکھ چکے ہیں کہ اگر کوئی معاہد عہد توڑ دے کو وہ حربی ہو جاتا ہے.اور یہ عورت معاہدہ توڑنے والوں میں شامل تھی.۲.اس عورت کا قتل تو ہوا تھا لیکن کوئی ایسی شہادت موجود نہیں ہے کہ کسی نے اس قتل کی دیت کا مطالبہ کیا ہو.اگر دیت کا مطالبہ ہوتا بھی تب بھی دیت دینے کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا کیونکہ یہ عورت معاہدہ توڑ کر پہلے ہی حربی بن چکی تھی.۳.تیسری بات یہ ہے کہ اس نا بینا شخص کی بیوی بھی تھی.جس سے اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے.عورت کو قتل کرنے کا فعل اس نابینا شخص کا اپنا ذاتی فعل تھا.قتل کی یا تو دیت ادا ہوتی یا خون بہا جس کا کوئی دعویدار نہ تھا.اس کا کسی نے کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا تھا.اس لئے اس قتل کو ہد دقراردیا گیا.۴.پھر اس کو بدد قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی دکھائی دیتی ہے کہ اس شخص کے اس عورت
244 سے دو بچے تھے بچوں کی ماں کے نہ رہنے کی وجہ سے ان کی کفالت کی ذمہ داری اب باپ پر تھی.ماں کا سایہ اٹھ جانے کے بعد باپ کا سایہ بچوں کے سر پر رہے ہوسکتا ہے اس لئے بھی اس قتل کو بد دقراردیا ہو.۵.پانچویں بات یہ ہے کہ یہ معاملہ آنحضرت علی ایم کے سامنے پیش ہوا تھا.آپ کہ جہاں اللہ کے رسول تھے وہاں آپ حاکم وقت بھی تھے.آپ جو بھی فیصلہ فرماتے وہ ایک نبی اور ایک حاکم وقت کی طرف سے جاری کردہ فیصلہ تھا.جس پر کسی کو کوئی اعتراض کا یا اس سے اپنی مرضی کا جواز نکالنے کا کوئی حق نہیں رہتا کیونکہ آپ میم نے مدد کی کوئی وجہ بیان نہیں فرمائی خود سے یہ جواز نکال لینا کہ گالی دینے والے کو قتل کرنا جائز ہے اس لئے آپ عالی ایلیم نے اسے بدد قرار د یا کسی طرح بھی درست دکھائی نہیں دیتا.الغرض اس قتل کو صرف گالی دینے کی بنا پر ہدد قرادینا کسی صورت میں بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں درست نہیں مانا جا سکتا.کیونکہ گالی و شخص دیتا ہے جو لاعلم ہے اور جس کو معلوم ہی نہیں کہ وہ جس کو گالی دے رہا ہے اس کا مقام کیا ہے تو اس کو سزا کیسے دی جاسکتی ہے ویسے بھی لاعلمی کی بنا پر صادر ہوا گناہ بھی قابل مواخذہ نہیں ہوتا.اسی بات کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام آیت نمبر ۱۰۹) یعنی اور تم انہیں جنہیں وہ اللہ کے سوا ( دعاؤں میں ) پکارتے ہیں گالیاں نہ دو نہیں تو وہ دشمن ہو کر جہالت کی وجہ سے اللہ کوگالیاں دیں گے.قرآن کریم نے کس قدر صاف اور سیدھی بات بیان کی ہے کہ تم کسی غیر اللہ کو بھی گالی نہ دو اگر تم ایسا کرو گے تو یہ بتایا ہے کہ لوگ ناعلمی اور جہالت کی بنا پر خدا کو گالیاں دیں گے.اس
245 بات کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کے دور میں بھی بہت سے لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو خدا کو گالیاں دیتے ہیں جبکہ خدا کو گالی دینا رسول کو گالی دینے سے بھی بڑا جرم ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس گالی کے بدلہ میں انہیں اس دنیا میں کوئی سزا دینے کی وعید نہیں فرمائی بلکہ یہ فرمایا کہ ایسے لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں جب یہ ہمارے پاس آئیں گے تو پھر انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کیا جائے گا کہ تم لوگ کیسی کیسی باتیں اور عمل کیا کرتے تھے.قرآن کریم کے حوالہ سے ہم پہلے بھی یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ قرآن کریم اللہ یا اس کے رسول کو گالی دینے والے کو قتل کرنے کا کہیں حکم نہیں دیتا ہاں ایسا کرنے والے کو اللہ کیا سزا دیگا یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.
246 ۲.دوسری دلیل کے طور پر کعب بن اشرف کے قتل کے واقعہ کی حدیث کو پیش کیا گیا ہے.کعب بن اشرف وہ شخص ہے جس نے میثاق مدینہ پر دستخط کئے اور یہ معاہد تھا.بخاری شریف میں آیا ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان نے انہوں نے عمر سے انہوں نے جابر بن عبداللہ سے انہوں نے آنحضرت علیم سے آپ نے فرمایا کعب بن اشرف کے لئے کون کافی ہے.محمد بن مسلمہ نے کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کروں فرمایا ہاں، انہوں نے کہا تو پھر مجھے اجازت دیجئے کہ جو چاہوں کہوں آپ نے فرمایا اجازت ہے.“ ( صحیح بخاری مترجم جلد دوم پاره ۱۲ کتاب الجہاد والسیر صفحه ۱۶۱و۱۶۲ حدیث نمبر ۲۰۲ باب الفتك باهل الحرب اعتقاد علیشنگ ہاؤس پی دیلمی ) 66 امام بخاری نے اس حدیث کو جس باب کے تحت پیش کیا ہے اس کا مطلب ہے ”حربی کافر کو اچانک دھوکے سے مارنے اس باب کو دیکھنے کے ساتھ ہی کعب بن اشرف کے قتل کی وجہ کا علم ہو جاتا ہے کہ شخص حربی تھا.تفصیل آگے پیش کی جائے گی.تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ بدر کی جنگ نے جس طرح مدینہ کے یہودیوں کی دلی عداوت کو ظاہر کر دیا تھا یہ کسی سے چھپی تھی اور یہ لوگ اپنی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں میں ترقی کرتے گئے.چنانچہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے.کعب گومذہباً یہودی تھا لیکن دراصل یہودی النسل نہ تھا، بلکہ عرب تھا.اس کا باپ اشرف بنو نبہان کا ایک ہوشیار اور چلتا پرزہ آدمی تھا جس نے مدینہ میں آکر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کئے اور ان کا حلیف بن گیا اور بالآخر اس نے اتنا اقتدار اور رسوخ پیدا کرلیا کہ قبیلہ بنونضیر کے رئیس اعظم ابو رافع بن ابی الحقیق نے اپنی لڑکی اسے رشتہ میں دیدی.اسی لڑکی کے بطن سے کعب پیدا ہواجس
247 نے بڑے ہو کر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا.حتی کہ اسے حیثیت حاصل ہو گئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے گو یا اپنا سردار سمجھنے لگ گئے.کعب ایک وجیہہ اور شکیل شخص ہونے کے علاوہ ایک قادر الکلام شاعر اور ایک نہایت دولتمند آدمی تھا اور ہمیشہ اپنی قوم کے علماء اور دوسرے ذی اثر لوگوں کو اپنی مالی فیاضی سے اپنے ہاتھ کے نیچے رکھتا تھا ( زرقانی ) مگر اخلاقی نقطۂ نگاہ سے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا اور خفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے کمال حاصل تھا.( بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحه ۴۶۶ و ۴۶۷) مولانا اکبر نجیب آبادی تحریر فرماتے ہیں ”یہودیوں کو چونکہ مسلمانوں کی ترقی دل سے نا پسند تھی لہذا وہ قریش کی ہمدردی اور مسلمانوں کی بربادی کے لئے برابر کوشاں رہے.اب جنگ بدر کے بعد ان کی عداوت مسلمانوں کے ساتھ اور بھی بڑھ گئی اور آتش حسد میں جل کر وہ کہاب بن گئے.چنانچہ جب بدر ے فتح کی خوش خبری لے کر حضرت زید بن حارث مدینہ پہنچے ہیں تو کعب بن اشرف نامی ایک یہودی نے اس خبر کو سن کر حضرت زید سے کہا کہ تیرا برا ہو، مکہ والے لوگوں کے بادشاہ اور اشراف عرب ہیں.اگرمحمد (صلعم) نے ان لوگوں پر فتح پائی ہے تو پھر اس زمین پر رہنے کا کوئی لطف باقی نہیں رہا.جب اس خبر کی خوب تصدیق ہو گئی تو کعب بن اشرف مدینہ چھوڑ کر مکہ کی جانب چلا گیا.مکہ میں جا کر اس نے مقتولین بدر کے نوحے لکھنے اور سنانے شروع کئے.اور چند روز تک اپنے اشعار سنا سنا کر اہل مکہ کی آتش انتقام کے بھڑکانے میں مصروف رہا.پھر مدینہ آ کر مسلمانوں کی ہجو میں اشعار لکھتا اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا رہا.‘....”اس نے اب علانیہ مسلمان عورتوں کے نام عشقیہ اشعار میں استعمال کرنے شروع
248 کئے.اس سے مسلمانوں کو سخت صدمہ ہوتا تھا.پھر اس نے آنحضرت صلعم کے قتل کی تدبیریں اور سازشیں شروع کیں.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آنحضرت رات کے وقت باہر نکلنے میں احتیاط سے کام لیتے تھے.جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں تو ایک صحابی محمد بن مسلمین نے آنحضرت صلعم سے اس شریر کے قتل کی اجازت لینے کے بعد کئی دوستوں کو ہمراہ لیا اور اس کے گھر جا کر اس کو قتل کیا.“ ( تاریخ اسلام حصہ اول مصنفہ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی مطبوعہ تاج کمپنی دہلی صفحه ۱۵۵ و ۱۵۶) ان حوالوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کعب بن اشرف کسی قسم کا انسان تھا اور وہ کن کن ریشہ دوانیوں میں شامل تھا.اس نے ایک جرم نہیں کیا بلکہ کئی جرموں کا مرتکب ہوا تھا.یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ اس کا قتل توہین رسالت کی بنا پر کیا گیا تھا.اسی طرح سیرت حلبیہ میں لکھا ہے کہ حضرت زید کو آنحضرت صلی نے اپنی اونٹنی قصوری پر سوار کر کے بھیجا اور ایک قول ہے کہ عصبار نامی اونٹنی پر بھیجا کہ حق تعالیٰ نے اپنے نبی اور مسلمانوں کو جو عظیم فتح نصیب فرمائی ہے اس کی اطلاع لوگوں کو پہنچادیں چنا نچہ عالیہ کے علاقوں میں حضرت عبد اللہ ابن رواحہ اور سافلہ کے علاقوں میں حضرت زید بن حارثہ نے جا کر اعلان کیا.ے گروہ انصارا تمہیں خوشخبری ہو.رسول میلین کی سلامتی اور مشرک کے قتل اور گرفتاری کی.ساتھ ہی یہ دونوں کہتے جاتے تھے کہ قریشی سرداروں میں سے فلاں اور فلاں قتل ہو گئے اور فلاں فلاں گرفتار ہو گئے.ان دونوں کے منہ سے یہ اعلان سن کر اللہ کا دشمن کعب رض بن اشرف یہودی ان کو جھٹلانے لگا.وہ کہنے لگا.
249 اگر محمد صلا للعالم نے ان بڑے بڑے سورماؤں کو مارڈالا ہے تو بہتر ہے زمین کی پشت پر رہنے سے زمین کے اندر رہنا.یعنی زندہ رہنے سے موت بہتر ہے.66 ) سیرت حلبیہ اردو جلد چہارم صفحه ۴۲، ۲۳ مطبوعہ زکر یہ بکڈ پو دیو بند سہارنپور یوپی) اس حوالہ سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شخص کس قدر متعصب تھا اسلام اور آنحضرت لیم کے بارے میں کس قدر دشمنی رکھتا تھا اسی طرح پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی کعب بن اشرف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بنی نضیر سے اس کا سسرالی رشتہ تھا.غزوہ بدر میں اسلام کی فتح کے بعد اس کا دل حسد و بغض سے بھر گیا اور اس نے کھل کر اپنی دشمنی کا اظہار کرنا شروع کر دیا.ایک بار اس نے آنحضرت علی ایم کو دعوت کے بہانے سے بلایا اور کچھ آدمی متعین کر دئے کہ جب آپ تشریف لائیں تو قتل کر ڈالے جائیں.آپ اس آکر بیٹھے ہی نہیں تھے کہ جبریل امین نے آکر عليم آپ علم کو ان کے ارادہ سے مطلع کر دیا ، آپ صلی یہ فوراً وہاں سے اٹھ کر جبریل امین علیہ السلام کے پروں کے سایہ میں باہر تشریف لائے ، اور واپسی پر اس کے قتل کا حکم دیدیا.اسلام کے خلاف سازشوں اور اہل مکہ و دیگر لوگوں کو رسول اللہ علیم کے خلاف جنگ پر بھڑ کانے، اور مسلمان خواتین کی شان میں گستاخی کرنے اور ان کے متعلق عشقیہ غزلیں لکھنے رسول الله ملا لینے سے کئے گئے عہد میثاق مدینہ کو پامال کرنے کے جرم میں رسول اللہ لام نے کعب بن اشرف کا خون مباح کر دیا شاتم رسول کی شرعی سز اصفحہ ۱۹۳ - ۱۹۴) کس قدر صاف بات لکھی ہے اس کے باوجود یہ کہنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ کعب بن اشرف کا قتل صرف اس لئے کیا گیا اور اس کو مباح الدم اس لئے قرار دیا گیا کہ وہ گستاخ رسول میلیم
250 تھا.جبکہ اس کا صرف یہی جرم اس قابل نہیں بنتا کہ اس کو قتل کیا جاتا اسکے قتل کا سبب وہ سارے جرم ہیں جو او پر بیان کئے گئے ہیں.دراصل شخص بہت بڑافتنہ پرداز تھا.رح امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ ابن ابی اویس نے بطریق ابراہیم بن جعفر بن محمود بن محمد بن مسلمہ از خود، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ کعب بن اشرف نے رسول کریم علیہ سے معاہدہ کیا تھا کہ آپ میلم کے دشمن کی مدد نہیں کرے گا اور نہ آپ علیم سے جنگ کرے گا ، پھر وہ مکہ گیا اور مدینہ واپس آکر رسول کریم علیم کی عداوت کا اعلان کیا اور آپ مسلم کی ہجو میں اشعار کہے، تب رسول کریم ملایم نے صحابہ کو اس کے قتل کرنے کے لئے کہا.“ آگے لکھا ہے اہل علم کے نزدیک یہ بات ہر قسم کے شک وشبہ سے پاک ہے کہ رسول کریم علی جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلیم نے یہود کے تمام گروہوں کے ساتھ معاہدہ کرلیا تھا.اس میں بنو قینقاع نضیر ار قریطہ کے قبائل سب شامل تھے، پھر جب بنو قینقاع نے معاہدہ توڑ دیا تو آپ مالی نے ان کے ساتھ جنگ کی ، پھر کعب بن اشرف نے اپنا معاہدہ توڑ دیا اور اس کے بعد بنو نضیر نے اور پھر بنو قریظہ نے کعب بن اشرف کا تعلق بنونضیر کے ساتھ تھا.ان کا معامہ ظاہر ہے کہ انہوں نے رسول کریم ملی ایم کے ساتھ مصالحت کر لی تھی.....ہم اس روایت پر روشنی ڈال چکے ہیں کہ کعب بن اشرف رسول کریم معلم کا معابد تھا ، پھر اس نے آنحضرت مسلم کی ہجو کی اور اپنی زبان سے آپ کو ایذاء پہنچائی تو آپ عملا ایلیم نے اسے معاہدہ توڑنے والا قرادیا.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۱۳۱ و ۱۳۲- ۱۳۳)
251 اسی طرح سے لکھا ہے کہ رض کعب بن اشرف نے رسول کریم علیم اور صحابہ کی ایز ارسانی سے باز رہنے سے انکار کر دیا اور جب زید بن حارثہ فتح بدر اور مشرکین کو قتل کرنے کی بشارت لائے اور کعب نے قیدیوں کو جکڑے ہوئے دیکھا تو ذلیل ورسوا ہو گیا ، پھر اس نے اپنی قوم سے کہا تم پر افسوس ہو، خدا از مین کا بطن تمہارے لئے اس سطح سے افضل ہے.پیلوگوں کے سردار تھے جن کو قتل کیا گیا اور قیدی بنایا گیا ، اب تمہارے پاس کیا باقی رہا ؟ انہوں نے کہا ہم جب تک زندہ رہیں گے ان سے عداوت رکھیں گے، کعب نے کہا تم کیا ہو؟ اس نے تو اپنی قوم کو کچل دیا اور قتل کر دیا ، البتہ میں قریش کی طرف جاؤں گا اور ان کے مقتولوں پر نوحہ گری کرونگا ہوسکتا ہے کہ اس پر وہ برانگیختہ ہو جائیں اور میں بھی ان کے ساتھ جنگ کے لئے نکلوں.چنانچہ کعب مکہ آیا اور اپنا سامان ابو د داعہ بن ابی صہیر سہمی کے پاس رکھ دیا.اس کی بیوی عاتکہ بنت اُسید بن ابی العیص تھی.اس نے قریش کے مرثیہ پر اشعار کہے.نیز حسان نے وہ اشعار سنائے جن میں اس نے ان اہل خانہ کی ہجو کہی تھی جن کے ہاں وہ قیام پزیر تھا.جب عاتکہ کو اس کی ہجو گوئی کی خبر پہنچی تو اس نے کعب کا سامان باہر پھینک دیا اور کہا * اس یہودی سے ہمیں کیا سروکار؟ تم دیکھتے نہیں کہ حسان ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ چنانچہ کعب وہاں سے چلا گیا.وہ جب کسی کے پاس قیام کرتا تو رسول کریم علی مالی حسان کو بلاتے اور فرماتے کہ کعب فلاں شخص کے پاس ٹھہرا ہوا ہے.حضرت حسان اس کی ہجو کہتے اور وہ کعب کا سامان باہر پھینک دیتا.“ اسی طرح آگے کعب بن اشرف کے جرائم لکھے ہیں کعب بن اشرف کی ذات میں کئی جرم جمع ہو گئے تھے.
252 ا.اس نے قریش کے مقتولوں پر مرثیہ کہا.۲.قریش کو رسول کریم ملی ایم کے خلاف اُبھارا اور ان کی پشت پناہی کی.۳.اس نے قریش سے کہا کہ تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے.۴.اس نے رسول کریم صلی علیم اور مسلمانوں کی ہجو کہی.الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۳۹ - ۱۴۰ ) 66 یہ تو وہ جرائم ہیں جن کا صاحب کتاب نے خود اعتراف کیا ہے اس کے علاوہ اور بھی جرائم تھے اس میں سب سے بڑا جرم تو وہ بنتا ہے جو اس نے رسول کریم عالی لیلی کے نعوذ باللہ قتل کرنے کی سازش کی تھی جس کا حوالہ پیچھے گزر چکا ہے.پھر اس کا یہ جرم تھا کہ اس نے اس معاھدہ کو توڑا تھا جو اس نے اور اس کی قوم نے رسول کریم علیم کے ساتھ کیا تھا.پھر اس کا ایک بہت بڑا جرم یہ بنتا ہے جو اس نے مخالفین اسلام کو آنحضرت معاللہ ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے اُبھارا جس سے وہ خود حر بی ٹھہرا.امام ابن تیمیہ نے خود بھی لکھا ہے کہ اس لئے کہ ذمی اگر حربی کافروں کے لئے جاسوسی کرے، انہیں مسلمانوں کی نقائص سے آگاہ کرے اور کفار کو مسلمانوں کے ساتھ لڑنے پر اُبھارے تو ہمارے نزدیک اس کا عہد ٹوٹ جائے گا“ (صفحہ ۱۴۳) پھر اس کا جرم جو بہت بڑا کہلاتا ہے وہ فتنہ پردازی تھا.جس کے لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرہ آیت ۱۹۲) یعنی اور فتنہ پردازی قتل سے بھی زیادہ سخت (خطرناک) ہوا کرتی ہے.اسی طرح ایک جگہ فرماتا ہے.وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ( البقره آیت (۲۱۸) یعنی فتنہ قتل سے بھی بڑا ہوتا ہے.یہ وہ سارے جرائم تھے جس بنا پر یہ شخص فتنہ پرداز اور حربی کہلایا تو اسے قتل کرنے کا فیصلہ فرمایا.قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق تو اس کا قتل اس کے فتنہ سے کم تر تھا.یہ کہنا بالکل غلط اور سراسر
253 زیادتی ہے کہ اسے صرف ہجو کرنے کی بنا پر قتل کیا گیا تھا.جہاں تک اس کی طرف سے ہونے والی بچو کی بات ہے تو جب بھی شخص اپنے اشعار میں آنحضرت بی یا اسلام کی ہجو کرتا تو رض اس کے ہجو کا جواب آنحضرت میال لا علم حضرت حسان کے ذریعہ اشعار ہی میں دلوایا کرتے تھے.ایسا کوئی ثبوت کسی جگہ سے پیش نہیں کیا جا سکتا کہ رسول کریم بالا میں نے اس شخص کو صرف ہجو کرنے کے جرم میں قتل کرنے کا ارشاد فرمایا ہو.جہاں تک ایذارسانی کی بات ہے تو اس کے یہ تمام عمل ہی ایذارسانی پر منتج تھے جس کی اسے سزا دی گئی.اس جگہ سیرت خاتم النبیین سے بھی ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے جسے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مضبوط حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں.جب اس خبر کی تصدیق ہوگئی اور کعب کو یہ یقین ہو گیا کہ واقعی بدر کی فتح نے اسلام کو وہ استحکام دیدیا ہے جس کا اسے وہم و گمان بھی نہ تھا تو وہ غیض و غضب سے بھر گیا.اور فور اسفر کی تیاری کر کے اس نے مکہ کی راہ لی اور وہاں جا کر اپنی چرب زبانی اور شعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بار کر دیا.اور ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کر دیاور ان کے سینے جذبات انتقام وعداوت سے بھر دئے.(ابوداؤد کتاب الخراج نیز ابن ہشام وابن سعد ) اور جب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک انتہائی درجہ کی بجل پیدا ہو گئی تو اسنے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جا کر اور کعبہ کے پر دے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر ان سے تمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانٹی اسلام کو صفحہ دنیا سے ملیا میٹ نہ کر دیں گے، اس وقت تک چین نہ لیں گے.( فتح الباری جلد کے صفحہ ۲۵۹) مکہ میں یہ آتش فشاں پیدا کر کے اس بدبخت نے دوسرے قبائل عرب کا رخ کیا اور قوم بقوم پھر کر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑ کا یا.( زرقانی جلد ۲ صفحہ ۹ ) اور پھر مدینہ واپس
254 آکر مسلمان خواتین پر تشبیب کہی.یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اور مخش طریق پر مسلمان خواتین کا ذکر کیا.(ابن ہشام) حتٰی کہ خاندان نبوت کی مستورات کو بھی اپنی ان اوباشانہ اشعار کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا.(طبری والروض الانف ) اور ملک میں ان اشعار کا چرچہ کروایا.اور بالآخر اس نے آنحضرت صلیم کے قتل کی سازش کی.اور آپ کو کسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پر بلا کر چند نو جوان یہودیوں سے آپ کو قتل کروانے کا منصو بہ باندھا.مگر خدا کے فضل سے وقت پر اطلاع ہوگئی اور اس کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی.( خمیس جلدا صفحه ۴۷۴ وزرقانی جلد ۲ صفحه ۱۰) جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور کعب کے خلاف عہد شکنی ، بغاوت، تحریک جنگ ،فتنہ پردازی بخش گوئی اور سازش قتل کے الزامات پا پی ثبوت کو پہنچ گئے تو آنحضرت مسیل سلیم نے جو اس بین الاقوامی معاہدہ کی رو سے جو آپ کے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد اہالیانِ مدینہ سے ہوا تھا.مدینہ کی جمہوری سلطنت کے صدر اور حاکم اعلیٰ تھے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ کعب بن اشرف اپنی کاروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اور اپنے بعض صحابیوں کو ارشاد فرمایا کہ اسے قتل کر دیا جائے.(ابو داؤد کتاب الخراج نیز بخاری باب قتل کعب بن اشرف) ( بحوالہ سیرت خاتم النبیین مالی تصنیف حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے صفحہ (۴۶۹,۴۶۸ یہ وہ وجوہات تھیں جس بنا پر کعب بن اشرف کو قتل کرنے کا حکم آنحضرت علی نے صادر فرمایا تھا.یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ کعب بن اشرف کے قتل کا حکم صرف اس کے ہجو کرنے کی بنا پر دیا گیا تھا.اس پورے واقعہ سے قطعاً ایسی کوئی دلیل نہیں لی جاسکتی کہ تو بین رسالت کی سز اقتل ہے.
255 امام ابن تیمیہ نے ایک حدیث درج کی ہے لیکن اس حدیث پر زیادہ تبصرہ نہیں کیا.البتہ دیگر علماء نے اس کو اپنے مؤقف کو طاقت دینے کے لئے خوب کھینچا ہے.حدیث کے الفاظ یہ ہے کہ (مَنْ سَبَ نَبِيًّا فَقْتُلُوهُ وَمَنْ سَبَ أَصْحَانِ فَاجْلِدُوْهُ) رح یعنی جو کسی نبی کو گالی دے اسے قتل کردو اور جو میرے صحابی کو گالی دے اسے کوڑے لگاؤ امام ابن تیمیہ نے اس حدیث کو پیش تو کیا ہے لیکن اس کے حوالہ سے تعلق سے لکھا ہے کہ المعجم الصغیر للطبرانی (۳۹۳/۱، راقمحدیث X ۶۵۹) اس کی سند میں عبید اللہ بن محد عمر متہم بالکذب ہے، اسے علامہ بیشمی نے ضعیف ، ابن حجر منکر اور علامہ البانی نے موضوع قرار دیا ہے.( مجمع الزوائد ۲۶۳/۶ ،لسان المیز ان ۱۱۲/۴، الضعیف ، رقم الحدیث ۲۰۶) الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۱۵۴، ۱۵۵) جناب پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی نے تو یہ حدیث یہاں سے لیکر اس پر اس طرح سے بحث کی ہے کہ گویا ان کے ہاتھ میں شاتم رسول کی سزا قتل کی بہت بڑی دلیل آگئی ہے.جب کہ دیکھا جائے تو امام ابن تیمیہ نے اس روایت کو پیش تو کیا ہے لیکن اس پر زیادہ بحث نہیں کی.اس کی وجہ صاف ہے کہ اس روایت کے بارے میں خود ہی لکھ رہے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف بھی ہے اور اس کے راویوں میں ایک راوی جھوٹا بھی ہے.ایک نے اسے منکر بیان کیا ہے اور ایک اسے موضوع قرار دے رہا ہے اور پھر متقین اور غور وتد بر کرنے والوں نے اس حدیث کو ضعیف احادیث میں شامل کیا ہے.ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے اس روایت کو قابل اعتبار کس طرح مانا جا سکتا ہے جب کہ یہ روایت قرآن کریم اور دیگر روایات کے بھی بر
256 خلاف ف ہے.قرآن کریم کی کوئی ایک آیت بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس میں یہ واضح حکم ہو کہ گستاخ رسول کو قتل کر دیا جائے.اسی طرح کوئی حدیث بھی اس بات کی تائید نہیں کرتی ہے.پھر جو ورایت ہو ہی ضعیف اور اس کا راوی بھی جھوٹ بولنے والا ہو تو ایسی روایت کو پیش کرنا ہی درست نہیں.بلکہ ایسی روایت رد کرنے کے قابل ہے.
257 ۴ توہین رسالت کرنے والے کو قتل کرنے کی دلیل کے طور پر ایک حدیث اس طرح سے بیان کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ خطمہ قبیلے کی ایک عورت نے رسول کریم لم کی ہجو کہی ، آپ علی سلیم نے فرمایا اس عورت سے کون نمٹے گا اس کی قوم میں سے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ علیہ یہ کام میں انجام دونگا، چنانچہ اس نے جا کر اسے قتل کر دیا.آپ مالم نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہیں ٹکرائیں ( بحوالہ الکامل لابن عدی (۲۱۵۶/۶) ابن عدی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو وضع کرنے میں محمد بن حجاج متہم ہے.) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ حدیث ہی ایک متہم کی وجہ سے اس لائق نہیں ٹھہرتی کہ اس پر بات کی جائے کیوں کہ اس حدیث کے صحیح ہونے کا کوئی ثبوت نہیں اور پھر قرآنی تعلیم اور احکامات کے بالکل خلاف ہے.حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بھی اور پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ صاحب نے بھی اپنی اپنی کتاب میں اس واقعہ کو پیش کیا ہے علامہ قادری صاحب نے بحوالہ الشفاء ۲ ۱۹۵۲ا سے پیش کیا ہے اور پیرزادہ صاحب نے اپنی کتاب میں بحوالہ مسند شہاب ۴۶۲ اسے پیش کیا ہے.اس واقعہ کی جو تفصیل امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب میں پیش کی ہے اسی کو ہی پیرزادہ صاحب نے بھی اپنی کتاب میں درج کیا ہے.اس واقعہ کے بارے میں لکھا ہے کہ واقدی نے بطریق عبد اللہ بن حارث بن فضیل از والد خود روایت کیا ہے کہ عصناء سینت مروان بنو امیہ بن زید کے خاندان سے تھی اور یزید بن زید بن حصن العلمی کی بیوی تھی.یہ رسولکریم علی کو ایذا دیا کرتی تھی ، اسلام میں عیب نکالتی تھی اور آپ علم کے خلاف
258 لوگوں کو بھڑکا یا کرتی تھی.عمیر بن عدی العلمی کو جب اس کی باتوں اور اشتعال بازی کا علم ہوا تو اس نے کہا اے اللہ ! میں تیرے حضور نذر مانتا ہوں کہ اگر تو نے رسول کریم ملایم کو بخیریت وعافیت ) مدینہ لوٹادیا تو میں اس عورت کو قتل کر دونگا.رسول کریم صلیم اس وقت بدر میں تھے ، جب آپ مالی یہ بدر سے واپس آئے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے.اس کے اردگر داس کے بچے سوئے ہوئے تھے ، ایک بچہ اس کے سینے کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور وہ اسے دودھ پلا رہی تھی.عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کوٹٹولا تو معلوم ہوا کہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہے، عمیر نے بچے کو الگ کیا، پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھا اور اس کی پشت کے پار کر دیا.پھر صبح کی نماز رسول کریم علیم کے ساتھ ادا کی جب آپ صلی نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا X ” کیا تو نے بنت مروان کو قتل کر دیا ؟ عرض کیا جی ہاں! میرا باپ آپ صلیم پر قربان ہو.عمیر اس بات سے ڈرا کہ اس سے رسول کریم ملایم کی مرضی کے خلاف کام کیا ہو، اس نے کہا یا رسول اللہ لا علم سلیم کیا.اس ضمن میں مجھ پر کوئی چیز واجب ہے؟ فرمایا * نہیں، دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہیں ٹکرائیں یہ فقرہ پہلی مرتبہ رسول کریم عالم سے سنا گیا.عمیر کہتے ہیں کہ رسول کریم علالا لیلی نے ارد گرد دیکھا اور فرمایا اگر تم ایسا شخص دیکھنا چا ہو، جس نے اللہ اور اس کے رسول کی غیبی مدد کی تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۵۷ - ۱۵۸) ان ہر دوروایات پر تبصرہ کرنے سے قبل یہ بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ اس کا راوی جو اس قدر تفصیل بیان کر رہا ہے وہ واقدی ہے.واقدی کے بارے میں اسی کتاب میں لکھا ہے
259 ”ہم نے یہ واقعہ بروایت اہل المغازی ذکر کیا ہے، حالانکہ واقدی ضعیف ہے، اس لئے یہ واقعہ اہل سیرت کے یہاں مشہور ہے.......پھر اس کے ساتھ یہ چیز بھی شامل ہوتی ہے کہ واقدی مرسل اور مقطوع روایات سے بھی اخذ کرتے ہیں، پھر وہ اس حد تک اس میں 66 کثرت کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ان کی روایات کو مبالغہ اور عدم ضبط پر محمول کیا جاتا ہے.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۵۹ - ۱۶۰) اس بات پر افسوس ہوتا ہے ایسے افراد جو حوالہ تو پیش کرتے ہیں لیکن اس کے بارے میں یہ بیان نہیں کرتے کہ ان روایات اور واقعات کے بارے میں دوسروں کی کیا رائے ہے ہر دو علماء نے اس واقعہ کو بیان تو کر دیا لیکن یہ نہیں لکھتے کہ یہ کوئی ایسی حدیث نہیں کہ اس کے راوی مضبوط ہوں بلکہ لکھنا چاہئے تھا کہ اس واقعہ کو کتاب السيرة وكتاب المغازی کی روایات سے لیا گیا ہے اس سلسلہ میں گزشتہ صفحات میں یہ بات بیان کر دی گئی تھی کہ تاریخ اور سیرت کے تعلق سے مؤرخین نے جو مواد جمع کیا ہے اس کے لئے انہوں نے یہ معیار قائم نہیں رکھا کہ اس واقعہ کی صداقت کہاں تک ثابت ہے بلکہ مؤرخین نے ہر اس بات کو تاریخ میں جمع کر دیا ہے جو ان تک پہنچی ہے اس لئے سیرت اور تاریخ میں بیان کئے گئے واقعات کی تصدیق نہیں ہوسکتی.اور یہ جو روایت پیش کی گئی ہے وہ بھی واقدی کے حوالہ سے ہے جب کہ اس کی اپنی حیثیت ہی مشکوک ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے اپنی کتاب سیرت خاتم النبیین صلی یکیم میں واقدی کے بارے میں ایک الگ سے نوٹ دیا ہے جو ان کی اصلیت کو ظاہر کرتا ہے اسےاس جگہ نوٹ کرنا ضروری خیال کرتا ہوں.کیونکہ ایسی بہت سی روایات تاریخ میں ملتی ہیں جن کی اصل قرآن و حدیث میں تلاش کرنے سے نہیں ملتی لیکن واقدی ایسے واقعات کو اس طرح سے پیش کرتا ہے کہ گویا یہ صاحب آنکھوں دیکھی بات بیان کر رہے ہوں.زیر نظر کتاب کے تعلیم
260 مصنف نے بھی واقدی کی کمزور سے کمز ور روایت کو بھی اپنی کتاب میں درج کیا ہے جس سے اسلام کی حسین تعلیم پر اور آنحضرت سلیم کی عظمت و شان پر ضرب آتی ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے تحریر فرماتے ہیں.واقدی کے متعلق ہمیں کچھ علیحدہ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن بدقسمتی سے یورپین مصنفین نے اسے اتنا نوازا ہے کہ اس کی حقیقت کے اظہار کے لئے علیحدہ نوٹ ضروری ہو گیا ہے.جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، واقدی کا زمانہ ۱۳۰ھ سے لیکر ۲۰۷ ھ تک تھا اور اس میں شبہ نہیں کہ زمانہ کے لحاظ وہ کسی دوسرے مؤرخ سے کم محفوظ پوزیشن میں نہیں تھا.مگر یہ بات کسی شخص کے ذاتی صفات و عادات کا رُخ بدل نہیں سکتی اور حقیقیت یہ ہے کہ واقدی اپنی وسعت علم کے باوجود ایک بالکل نا قابل اعتبار اور غیر ثقہ شخص تھا اور متقین نے اسے بالاتفاق جھوٹا اور دروغ گو قرار دیا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی ساری روایات غلط اور جھوٹی ہوتی تھیں.دنیا میں جھوٹے سے جھوٹا انسان بھی ہمیشہ جھوٹ نہیں بولتا بلکہ حق یہ ہے کہ ایک جھوٹے آدمی کی بھی اکثر باتیں سچی اور واقعہ کے مطابق ہوتی ہیں.لیکن دوسری طرف اس بات میں بھی ہرگز کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ جو شخص جھوٹ بولنے کا عادی ہو اس کی کوئی بات بھی قابل حجت نہیں رہتی.واقدی کے متعلق یہ مسلم ہے کہ وہ ایک عالم انسان تھا اور اس کے تاریخی معلومات اتنے وسیع تھے کہ اس زمانہ میں کسی اور مؤرخ کے کم ہوں گے.مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وسعت معلومات نے ہی اس کے سر کو پھیر دیا تھا کہ وہ کسی بات کے متعلق لاعلمی کا اظہار کرنے کی بجائے خود اپنی طرف سے بات بنا کر بیان کر دیا کرتا تھا؛ چنانچہ اس کے متعلق ایک محقق کا یہ بہت اچھا مقولہ ہے کہ اگر واقدی سچا ہے تو بے نظیر ہے اور اگر جھوٹا ہے تب بھی عدیم المثال ہے.( بحوالہ تہذیب التہذیب حالات واقدی) مگر بد قسمتی سے واقدی کی یہی طلاقت لسان
261 اور یہی وسعت علم ہمارے یورپین مصنفین کو اس کا دلداہ بنارہی ہے.انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ واقدی سچا تھا یا جھوٹا.اس کی عادت ایک محتاط محدث کی طرح تحقیق کر کے بات کرنے کی تھی یا کہ یونہی واہی تباہی کہتے جانے کی.ان کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ واقدی جو کچھ کہتا ہے تفصیل سے کہتا ہے، اور یوں کہتا ہے جیسے کوئی شخص پاس بیٹھا ہوا سب کچھ دیکھ رہا ہو.اگر اس کا کوئی قول کسی صحیح اور مضبوط روایت کے خلاف ہے تو ہوا کرےان کے لئے سب روایتیں برابر ہیں اور سوائے اپنے دماغ کی شہادت کے اور کوئی شہادت قابل قبول نہیں.مسلمان محققین جو اپنی عمریں کھپا کھپا کر ہر روایت سے بال کی کھال نکالی ہے اور ہر راوی کے صحیح صحیح حالات معلوم کر کے علم روایت کے لئے ایک سچا تراز ومہیا کر دیا ہے اہل مغرب کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے.بہر حال ہم کسی کے قلم اور زبان کو تو روک نہیں سکتے مگر ہم بتادینا چاہتے ہیں کہ واقدی کے متعلق ان مسلمان محققین نے جن کی دیانت وامانت اور اصابت رائے کو سب نے تسلیم کیا ہے کیا رائے دی ہے.ا.امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ ۱۱ راه تا ۲۴۱ ھ واقدی کے بارے رائے فرمایا هُوَ كَذَّابٌ يُقلِبُ الحَدِيث یعنی واقدی پرلے درجہ کا جھوٹ بولنے والا شخص ہے جوروایتوں کو بگاڑ بگاڑ کر بیان کرتا ہے.۲.ابو احمد عبد اللہ بن محمد المعروف بابن عدی ۲۷۷ ھ تا ۳۶۵ ھ کی رائے احَادِيثُهُ غَيْرُ مَحْفُوظَةٍ وَالْبَلَاءُ مِنْهُ یعنی واقدی کی روایتیں قابل اعتبار نہیں ہیں اور یہ خرابی خود اس کے نفس کی طرف سے ہے.۳.ابوحاتم محمد بن ادریس ۱۹۵ھ تا ۲۷۷ھ کی رائے يَضَعُ الْحَدِيقَ یعنی واقدی اپنے پاس سے جھوٹی حدیثیں بنا بنا کر بیان کیا کرتا تھا.
262 ۴ علی بن عبد اللہ بن جعفر المعروف بابن المدینی ۱۱ اھتا ۲۲۴ھ کی رائے يَضَعُ الْحَدِيد لَا أَرْضَاهُ في شَيني يعني واقدی جھوٹی رویات بنا تا تھا میرے نزدیک وہ کسی جہت سے بھی قابل قبول نہیں.-۵ امام علی بن محمند دار قطنی ۳۰۲ تا ۳۸۵ھ کی رائے فيهِ ضُعُف یعنی واقدی کی روایات ضعیف ہوتی ہیں.۶.اسحاق بن ابراہیم المعروف بابن راہویہ للاھ تا ۲۳۸ھ کی رائے هُوَ عِنْدِي مَن يَضَعُ الحَدِيت یعنی میرے نزدیک واقد کی جھوٹی روائیتیں گھڑنے والوں میں سے ایک ہے ( میزان الاعتدال فی نقد الرجال لعلامہ ذہبی ) ۷.امام بخاری علیہ الرحمہ ۱۹۴ھ تا ۲۵۶ھ کی رائے متروك الحديث یعنی واقدی اس قابل نہیں ہے کہ اس سے کوئی روایت لی جائے..امام کئی بن معین ۸۵اه تا ۲۳۳ ھ کی رائے لَيْسَ بِشَيْءٍ كَانَ يُقَلِّبُ یعنی واقدی اہل علم کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتا.وہ حدیثوں کو بگاڑ بگاڑ کر بیان کرتا تھا.۹ - امام شافعی علیہ الرحمۃ ۱۵۰ ھتا ۲۰۴ھ کی رائے كُتُبُ الْوَقْدِى كُلُّهَا كِذَبْ كَانَ يَضَعُ الْأَسَانِيْدَ یعنی واقدی کی سب کتابیں جھوٹ کا انبار ہیں.وہ اپنے پاس سے جھوٹی سند میں گھڑ لیا کرتا تھا.۱۰.امام ابوداؤود سجستانے ۲۰۲ ھ تا ۲۷۵ھ کی رائے كتُبُ حَدِيثَهُ إِنَّهُ كَانَ يَفْتَعِلُ الْحَحدنیت یعنی میرے نزدیک واقدی کوئی حدیث روایات نہیں کرتا، بلکہ یہ کہ وہ اپنے پاس سے حدیثیں گھڑ لیا کرتا تھا.
263 ۱۱.امام نسائی علیہ الرحمہ ۲۱۵ ھ تا ۳۰۳ھ کی رائے الْوَاقْدِى مِنَ الْكَذَّبِينَ الْمَعْرُوفِين بالكذب یعنی واقدی ایسے جھوٹے لوگوں میں سے تھا ، جن کا جھوٹ ظاہر اور عیاں ہے اور اسے سب جانتے ہیں.۱۲ محمد بن بشار بندار ۱۱۷ھ تا ۲۵۲ھ کی رائے ہے.مَا رَأَيْتُ أَكُذَبَ مِنْهُ یعنی میں نے واقدی سے بڑھ کر کوئی جھوٹا نہیں دیکھا.۱۳.امام نودی المتوفی ۷۴ ھ کی رائے ضَعِيفٌ بِاتِّفَاقِهِمْ یعنی واقد کی سب محققین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف الروایت ۱۴.علامہ ذہبی.المتوفی ۷۲۸ ھ کی رائے استقر الانجماعُ عَلیٰ دُھن الواقدی یعنی سب محققین نے واقدی کے کمزور ہونے کے متعلق اجماع کیا ہے.(تہذیب التہذیب لعلامہ ابن حجر ) ۱۵.قاضی احمد بن محمد بن ابراہیم المعروف بابن خلکان.المتوفی ۱۸۱ ھ کی رائے ضَعَفُوهُ فِي الْحَدِيثِ وَ تَكَلَّمُوا فِيْهِ يعنی محققین نے واقدی کو ضعیف قرار دیا ہے.اور اس پر بہت اعتراض کئے ہیں.( دفیات الاعیان لقاضی ابن خلکان ) ۱۶.علامہ زرقانی المتوفی ۱۱۲۲ھ کی رائے الْوَا قَدِى لَا يُخْتَجُ بِهِ إِذَا انْفَرَدَ فَكَيْفَ إِذا تخالف یعنی واقدی اگر کسی بات کے بیان کرنے میں اکیلا ہو تو متقین کے نزدیک اس کی روایت قابل حجت نہیں ہے.پھر اس پر خود قیاس کرلو کہ ایسی بات میں اس کی روایت کا کیا وزن ہوسکتا ہے جو وہ دوسروں کے خلاف کہتا ہے.
264 ( شرح مواہب اللہ نیہ لعلامہ زرقانی جلدا ).یہ وہ شہادت ہے جو مسلمان محققین نے جن میں بہت سے خود واقدی کے ہمعصر تھے پوری پوری تحقیق کے بعد دی ہے.اب ہمارے یو پین محققین خود سوچ لیں کی ان کا دل پسند مؤرخ کس شان کا انسان ہے.ہم نہیں کہتے کہ واقدی کی ہر روایت غلط ہے.یقینا اس کی روایتوں کا بیشتر حصہ صحیح ہوگا.مگر جس شخص کے صداقت و عدالت کا یہ حال ہے جواو پر بیان کیا گیا ہے وہ اپنی کسی روایت میں بھی جس میں وہ اکیلا راوی ہے یا جس میں وہ دوسرے راویوں کے خلاف بات کہتا ہے کسی عقلمند کے نزدیک قابل حجت نہیں سمجھا جاسکتا.واللہ اعلم بہر حال ہماری تحقیق میں محمد بن عمر واقدی با وجود ابتدائی مؤرخوں میں ہونے کے ہرگز قابل اعتبار نہیں ہے.اور جہاں تک خالص سیرت کی کتب کا تعلق ہے صرف ابن ہشام اور ابن سعد اور ابن جریر طبری ہی وہ تین ابتدائی مؤرخ ہیں جنکی کتب پر آنحضرت اللہ الیہ کی سیرت و سوانح کی بنیاد بھی جانی چاہئے.“ (سیرت خاتم النبیین ملا للعلم صفحه ۳۶ تا ۳۹ شائع کرده نظارت نشر و اشاعت قادیان (+1) اس جگہ واقدی کے بارے میں یہ نوٹ اس لئے بھی دیا گیا ہے کہ آگے آنے والے واقعات میں بھی واقدی کے حوالہ سے بات ہوگی کیونکہ وہ لوگ جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں وہ واقدی سے زیادہ محبت رکھتے ہیں جبکہ واقدی اپنے زمانہ کے لوگوں کے نزدیک بھی جھوٹا اور مکذب مانا گیا ہے.اب اس روایت ہی کو دیکھ لیں کہ اؤل جو روایت درج کی گئی ہے جو کہ ایک مختصرسی روایت تھی اس کے بارے میں بھی یہ نوٹ درج کیا گیا ہے کہ اس حدیث کو وضع کرنے میں محمد بن حجاج متہم ہے.“ اس کے بالمقابل واقدی نے جو اس واقعہ کوجس تفصیل سے
265 پیش کیا ہے وہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ سارا کا سارا واقعہ واقدی کے سامنے پیش آیا ہے.اور جو تفصیل اس نے پیش کی ہے وہ اور کسی جگہ دکھائی نہیں دیتی.بات اس طرح سے کرتے ہیں کہ جیسے یہ اس وقت ساتھ ساتھ تھے.کہ دیکھا کہ بچے اردگر دسوئے ہیں ایک بچہ اس عورت کے سینے پر ہے اور وہ عورت اسے دودھ پلا رہی تھی پھر اس نے عورت کو ٹولا اور بچے کو اس سے الگ کیا پھر اپنی تلوار اس کے سینے پر رکھی اور اس کے سینے سے پار کر دیا وغیرہ ! یہ کیا ہے؟ یہ ساری کی ساری ایک بناوٹی کہانی دکھائی دیتی ہے جس میں واقدی بقول بزرگان سلف خوب ماہر تھا.اگر اس سارے معاملہ پر غور کیا جائے تو یہ بات رسول کریم صلیمی کی شان کے برخلاف دکھائی دیتی ہے کہ آنحضرت مال یا کسی عورت کو قتل کرنے کا حکم دیں وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ وہ رسول خدا اسلام کی ہجو کیا کرتی تھی اور اس کے سوا اس کا اور کوئی جرم نہ ہو.غور کریں کہ ایک طرف جنگ کا ماحول ہو اور وہاں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی جنگ میں شریک ہوں اور قرآن ایسے موقعہ کے لئے حکم دیتا ہو کہ اسی حالت میں کہ دشمن کو جس جگہ بھی پاؤ اس کو قتل کر دو اس کے باوجود میرے پیارے آقا علی ایم کا یہ فرمانا کہ جنگ میں بھی کسی عورت کو بچے کوقتل نہ کیا جائے آپ میم کا کسی عورت کو قتل کرنے کے حکم سے بری کرتا ہے.پھر ان ہر دو روایات میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ایک میں تو یہ بات آئی ہے کہ رسول کریم علی سلیم نے یہ فرمایا کہ اس عورت سے کون نمٹے گا اور واقدی کہاتا ہے کہ عمیر بن عدی الخطمی نے اس عورت کی حرکتوں رسول کریم علی اللہ کو ایذا دینے ، اسلام میں عیب نکالنے، آنحضرت علایم ایم کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کی بنا پر ازخود اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا.یہ اختلاف ہی اس واقعہ کی صحت کو کمزور کرتا ہے.اور اس سے ایک اور بات یہ بھی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو اس عورت کے قتل کا جواز اس بات سے نکالتے ہیں کہ اسے صرف رسول کریم
266 لم کی ہجو کرنے کے نتیجہ میں قتل کیا گیا تھا غلط ثابت ہوتا ہے.کیونکہ واقدی ہی لکھتا ہے کہ اس عورت کا جرم یہ بھی تھا کہ یہ اسلام میں عیب نکالتی تھی ، آنحضرت علی کے خلاف لوگوں کو بھڑ کاتی تھی.ہاں آپ علم کو ایذا بھی دیا کرتی تھی.تو صرف ہجو کرنے کے نتیجہ میں قتل کرنے کو جائز قرار دینے والے باقی کے جرائم کو کیوں بھول جاتے ہیں.؟ احادیث کے حوالہ سے جو ابھی تک لکھا گیا ہے اس میں ہی تین عورتوں کے قتل کے واقعات بیان کئے گئے ہیں.پہلی دو عورتوں کے بارے میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ دراصل یہ ایک ہی واقعہ ہے جسے دو طریق سے پیش کیا گیا ہے.اس واقعہ پر غور کرنے سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بھی پہلے دو واقعات سے ہٹ کر کوئی اور واقعہ نہیں ہے لیکن اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ی عورت وہ نہیں ہے جس کو اس کے نابینا آقا نے قتل کیا تھا اور نہ ہی وہ یہودی عورت ہے جسے قتل کیا گیا تھا، اس لئے کہ یہ عورت قبیلہ بنی امیہ بن زید سے تعلق رکھتی تھی جو انصار کی ایک رض شاخ ہے.اس کا شوہر قبیلہ بنی خطمہ سے تھا.اسی لئے حضرت ابن عباس کی روایت میں اس عورت کو بنی خطمہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے.اس کا قاتل اس کا شوہر نہیں تھا.اس کی چھوٹی بڑی عمر کے بیٹے بھی تھے، البتہ قاتل اس کے شوہر کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۵۹) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس تیسری عورت والا واقعہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے اور اس میں محمد بن عمیر حجاج متہم ہے.جبکہ دوسری عورت والا واقعہ بھی اسماعیل بن جعفر نے بطریق اسماعیل از عثمان شیخام از عکرمه از ابن عباس سے مروی ہے.پہلی عورت والا واقعہ شعبی نے حضرت علی سے روایت کیا ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ واقعات ایک ہی نابینا شخص
267 سے تعلق نہیں رکھتے تو یہ کیا وجہ ہے کہ ان تینوں واقعات میں ایک سی مشابہات کیوں ہیں.؟ مثلاً ا.پہلے دونوں واقعات میں نا بینا شخص کا ہی ذکر کیا گیا ہے.اور اس واقعہ میں واقدمی کہتا ہے کہ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹولا آنکھ والے کو تو دکھائی دیتا ہے اسے ٹٹولنے کی کیا ضرورت تھی اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے عمیر کہا گیا ہے وہ بھی دراصل وہی نابینا شخص ہے جس کا ذکر پہلی روایات میں ہو چکا ہے.۲.دوسری بات یہ ہے کہ دوسری روایت میں یہ آیا ہے کہ اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور اس میں بھی بچے کا ذکر ہے کہ اس کے ارد گرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے ایک بچہ اس کے سینے کے ساتھ چمٹا ہوا تھا.“.تیسری بات یہ ہے کہ اس عورت کو قتل کرنے کا طریق واردات دوسری اور تیسری روایت میں ایک سابیان ہوا ہے تیسری روایت میں آیا ہے کہ اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھا اور اس کی پشت کے پار کر دیا.دوسری روایت میں ہے کہ میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں گاڑ دیا اور اسے زور سے دباد یا حتی کہ وہ مرگئی اس دوسری روایت میں بھالے کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ”مغول‘ ہے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ خطابی کہتے ہیں کہ مغول ایک بھالا ہوتا ہے جس کا پھل بڑا باریک ہوتا ہے.دیگر اہل علم نے بھی اسی طرح کہا ہے کہ وہ ایک تیز تلوار ہوتی ہے جس کا ایک دستہ ہوتا ہے اور اس کا غلاف چابک کی طرح ہوتا ہے." مشمل " چھوٹی تلوار کو کہتے ہیں.اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آدمی اس کو چھپائے رکھتا ہے، یعنی کپڑے سے اسے ڈھانپ دیتا ہے.”مغول“ کا مادہ ممال“ اور اغسال“ ہے جس کے معنی اچانک کسی چیز کو پکڑ لینے کے ہیں.“
268 الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۲۷) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں واقعات میں تلوار ہی کا استعمال کیا گیا ہے جسے بھالا کہا گیا ہے وہ بھی دراصل چھوٹی تلوار ہی ہے.۴.اسی طرح ان سب روایات میں یہ بات بھی قدر مشترک ہے کہ عورت کا قتل ہوا ہے اور رات کے وقت ہی ہوا ہے.اور صبح لوگوں کو علم ہوا.جہاں تک موجودہ روایت کا تعلق ہے تو اس میں بھی بعض باتیں قابل غور ہیں جن کا ہونا حالات کے لحاظ سے ممکن دکھائی نہیں دیتا.مثلاً رات کے وقت کسی غیر کے گھر میں داخل ہونا.گھر والوں کو اس کا علم تک نہ ہونا.اس کے خاوند کا وہاں موجود نہ ہونا.عورت کا ٹٹول کر معلوم کرنا.اور عورت کو یہ تک معلوم نہ ہونا کہ یہ غیر مرد کون ہے جو اسے ٹول رہا ہے.اس کے بچے کو اس کے سینہ سے الگ کرنا اس پر بھی اس عورت کوئی شک نہ گزرنا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے.پھر اس کے پاس اس کے جو چھوٹے بڑے بچے سورہے تھے ان کو بھی اس سارے واقعہ کے گزر جانے پر بھی کچھ بھی علم نہ ہونا.نہ کوئی شور سنائی دینا نہ ہی کسی کا جاگنا وغیرہ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو اس واقعہ کی شہادت کو گدلا کرتی ہیں اور صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس واقعہ کو واقدی نے خود سے بہت کچھ ملا جلا کر پیش کیا ہے.دراصل ایک واقعہ کو تین روایات کے حوالہ سے الگ الگ طریق سے پیش کیا گیا ہے.اس واقعہ سے یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہوتی کہ صرف گالی دینے یا ہجو کرنے کی بنا پر کسی کو قتل کیا جا سکتا ہے.ہجو کے ایسے واقعات میں ہمیں قرآن کریم کی اس آیت کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لتُبْلَونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ
269 مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ اشْتَرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِه ( سورة ال عمران آیت ۱۸۷) ترجمہ یہ ہے کہ خدا تمہارے مالوں اور جانوں پر بلا بھیج کر تمہاری آزمائش کرے گا اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی دکھ دینے والی باتیں سنو گے سوا گر تم صبر کرو گے اور اپنے تئیں ہر ایک نا کر دنی امر سے بچاؤ گے تو خدا کے نزدیک اولوالعزم لوگوں میں ٹھہرو گے.قرآن کریم کے اس فرمان کے ہوتے ہوئے وہ لوگ جونعوذ باللہ یہ گمان کریں کہ آنحضرت علی نے اس کے خلاف کوئی حکم دیا ہو گا وہ سخت غلطی پر ہیں.اسلام نے تو ہمیشہ کی صبر کی تعلیم دی ہے اور ہمیشہ انصاف کو قائم کیا ہے.
270 ۵ - الصارم المسلول علی شاتم الرسول کے مصنف نے ایک واقعہ اس طرح سے پیش کیا ہے واقدی نے بطریق سعید بن محمد از عمارہ بن غزیہ واز مصعب اسماعیل بن مصعب بن اسماعیل بن زید بن ثابت اپنے شیوخ سے روایت کیا ہے ، دونوں کہتے ہیں کہ بنوعمر و بن عوف میں ایک شیخ تھا جس کو ابو عفک کہتے تھے.وہ نہایت بوڑھا تھا اور اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی شخص مدینہ آکر لوگوں کو رسول کریم اللہ کی بغاوت پر بھڑ کا یا کرتا تھا.اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا.جب رسول کریم علی کیم بدر تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح و کامرانی سے نوازا تو وہ حسد کرنے لگا اور بغاوت پر اتر آیا.اس نے رسول کریم علیم اور صحابہ کی مذمت میں ایک تو بین والا قصیدہ کہا.سالم بن عمیر نے نذر مانی کہ میں ابو عفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے مارا جاؤں گا.سالم موقعہ کی تلاش میں تھا، موسم گرما کی ایک رات تھی ، ابو عفک موسم گرما میں قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے صحن میں سور ہا تھا، اندریں اثنا سالم بن عمیر آیا اور تلوار اس کے جگر پر رکھ دی ، دشمن خدا بستر پر چیخنے لگا.اس کے ہم خیال بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئے ، پہلے اسے اس کے گھر میں لے گئے اور پھر قبر میں دفن کر دیا.کہنے لگے اسے کس نے قتل کیا ہے؟ بخدا! اگر ہمیں قاتل کا پتہ چل جائے تو ہم اسے قتل کر دیں گے.( بحواله المغازى للواقدی ۱/ ۱۷۴ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۶۸) اول یہ کہ واقدی اس واقعہ کو بیان کرنے والے ہیں اس لئے ان کی یہ روایت قابل اعتبار ہی نہیں.دوسرے یہ کہ اسلام کسی بھی قوم کے بوڑھے شخص کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیتا، چاہے بوڑھا شخص میدان جنگ ہی میں کیوں نہ ہو.تیسرے یہ کہ اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ
271 کسی ایک شخص نے اس کا قتل کیا بھی ہے تو یہ کہنا کیونکر درست ہو سکتا ہے کہ توہین کرنے ہی کی وجہ سے اس کا قتل کیا گیا ہے؟ اس کی طرف منصوب ہونے والے باقی جرائم تو اس سے بھی زیادہ سنگین ہیں جس کو واقدی خود بیان کر رہا ہے کہ لوگوں کو رسول کریم ملی کی عداوت پر بھڑ کاتا تھا.اور بغاوت پر اتر آیا تھا.اسی طرح ابن اسحق نے کہا غزوہ سالم بن عمیر ابو عفک کے قتل کے لئے ہوا ابو عفک بنو عمر و ابن عوف کا ایک آدمی تھا اور بنو عمیر بن عوف بنی عبید کی شاخ ہے.ابو عفک کا نفاق اس وقت ابھرا جب رسول اللہ صلیم نے حارث بن سوید بن صامت کو قتل کیا.اور حارث بن شوید کو اس لئے قتل کیا گیا تھا کہ یہ جنگ احد میں مسلمانوں کے ساتھ نکلا تھا جب جنگ شروع ہوئی تو یہ مجذر بن زیا دبلوی اور بہنوضبیعہ کے ایک شخص قیس بن زید پرٹوٹ پڑا اور دونوں کا کام تمام کر دیا پھر مکہ پہنچ کر قریشیوں سے مل گیا ( ابن ہشام جلد دوم صفحہ ۷۲ (۷۸۰) یہ قتل کے بدلہ میں قتل تھا.اب جو شخص معاہد ہو کر عہد شکنی کرے اور بغاوت پر بھی اتر آئے تو ایسے شخص کو آج کل بھی حکومتیں سزائے موت ہی سناتی ہیں.اکثر ملکوں میں آج بھی باغیوں کے سر قلم کر دئے جاتے ہیں.اس لئے یہ کہنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں مانا جاسکتا کہ کوئی بھی قتل صرف تو ہین رسالت کی وجہ سے کیا گیا ہو کیونکہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.
272 عبداللہ بن قدامہ نے ابوبرزہ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابو بکرؓ کو برا بھلا کہا، میں نے کہا کیا میں اسے قتل کر دوں ؟ انہوں نے مجھے ڈانٹ کر کہا کہ رسول کریم السلام کے بعد یہ حق کسی کو حاصل نہیں ( سنن النسائی ۱۰۹/۷ بحوالہ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۱۵۵) اس روایت کو پیش کر کے اس سے یہ دلیل دی گئی ہے کہ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث سے استدلال کیا کہ رسول کریم علیم کو گالی دینے والے کو قتل کرنا جائز ہے.‘اسی طرح لکھا ہے کہ ”رسول کریم علی سلیم کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنے گالی دینے والے کو قتل کر سکتے تھے.آپ ہ ان ہی کو چھی بھی حاصل تھا کہ اس شخص کو قتل کرنے کا حکم دیتے جس کے بارے میں لوگوں کو کچھ علم ہو کہ اسے کیوں قتل کیا جارہا ہے.اس معاملہ میں لوگوں کو آپ کی اطاعت کرنا چاہئے نہ 66 اس لئے کہ آپ اس بات کا حکم دیتے ہیں جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہو.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۵۶) اس روایت کو پیش کر کے جو نتیجہ نکالا گیا ہے وہ درست دکھائی نہیں دیتا.بات صرف یہ کہی گئی ہے کہ انہوں نے مجھے ڈانٹ کر کہا کہ رسول کریم علیم کے بعد یہ حق کسی کو حاصل نہیں“ اس بات سے صرف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی کے قتل کرنے کا فیصلہ لینا یہ حق صرف رسول کریم سلامی و حاصل تھا آپ کے بعد ایسا فیصلہ لینے کا حق کسی کو نہیں.اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں نکلتا اگر کوئی کسی بھی معزز شخص کو برا بھلا کہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا.ہاں اگر وہ رسول کریم کو برا بھلا کہے تو اسے قتل کر دیا جائے آیات تو بڑی صاف بیان کی گئی ہے لیکن نتیجہ غلط نکالا گیا ہے.
273 دیکھا جائے تو امام ابن تیمیہ نے اس جگہ بہت اہم نقطہ بیان فرمایا ہے اور یہی وہ نقطہ ہے جو ہر قسم کے شک وشبہات کو دور کرتا ہے.اور آنحضرت میام کے کسی حکم اور عمل پر بھی انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی.کیونکہ آپ مالی مایلی کا ایک عمل بھی ایسا نہیں تھا جو اذنِ الہی کے خلاف ہو جیسا کہ لکھا ” آپ اسی بات کا حکم دیتے جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہو یہی وہ بات ہے جسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان کرتا ہے.فرمایا وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ الا وحى توخى (النجم آیت ۴۱۳) یعنی.اور یہ اپنی خواہش کے مطابق کچھ نہیں بولتا مگر وہی ( کہتا ہے ) جواس کی طرف وحی کی جاتی ہے.قرآن کریم کی یہ آیات اس بات کی شہادت پیش کرتی ہیں کہ آنحضرت صلے یہ کوئی بات ایسی نہیں کرتے تھے اور کسی بات کا حکم نہیں دیتے تھے مگر یہ کہ اس کے بارے میں اللہ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے.یہ بات بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے.اس روایت میں جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ رسول کریم ملا لینے کے بعد یہ حق کسی کو حاصل نہیں اس سے مراد ہی یہ ہے کہ ایسے حکم صادر فرمانا یہ صرف رسول کریم اللہ ہی کا حق تھا کسی اور کا نہیں اس کی وجہ ہی تھی کہ آپ بی این ایام کا ہر حکم اذن خداوندی اور ارادہ نے خداوندی سے ہوتا تھا اس کا راز اور اس کا مقصد خواہ کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے.ہاں اس کی پوشیدہ رازوں کو اللہ اور اس کا رسول اچھی طرح جانتے تھے.اس کی مثال سورۃ الکہف کے اس واقعہ سے دی جاسکتی ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اللہ کے بندے کے ساتھ سفر کیا تھا اور اس سفر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ میرے کسی بھی کام پر کوئی سوال نہیں کرو گے جب تک کہ میں خود سے نہ بتاؤں لیکن آپ بار بار سوال کرتے تھے کیونکہ ان کے سامنے جو
274 کام کئے جا رہے تھی وہ ان کی سمجھ سے باہر تھے.در اصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ سفر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطف علی ایم کے ساتھ تھا ( جسے بعض مفسرین حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ بیان کرتے ہیں.) اس میں دراصل حضرت محمد مصطفی علم کی اعلی اور ارفع شان اور تعلق باللہ وصبر استقامت کو بیان کیا گیا ہے.اب دیکھیں یتیم بچوں کی کشتی کا توڑنا، ایک بچے کو قتل کر دینا ، ایک گرتی ہوئی دیوار کو بنا اجرت لئے کھڑا کر دینا بظاہر یہ باتیں زیادتی اور ظلم اور بے فائدہ دکھائی دیتی ہیں.جب آپ مالی نے ان کے رازوں سے پردہ اٹھایا تو پھر بات سمجھ میں آئی تب معلوم ہوا کہ یہ سب کام تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کئے جارہے تھے.اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت محمد مصطف عالی و بی حکم صادر فرماتے تھے اس میں بہت سے راز پوشیدہ ہوتے تھے اور ان لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے تھے جو دنیا کی آنکھ رکھتے تھے.پس یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے کہ آپ کوئی بھی بات اپنی طرف سے نہ کرتے تھے اور نہ ہی کوئی حکم اپنی طرف سے دیتے تھے بلکہ وہی کرتے اور کہتے تھے جس کا اللہ آپ کو حکم کرتا تھے.پس حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول بالکل سچا اور حقیقت پر مبنی ہے کہ حضرت محمد مصطف علی میم کے بعد کسی کی تو ہین پر اس کو قتل کر دینے کا حکم دینے کا حق کسی کو نہیں.یہ بہت قابل غور بات ہے.پس اس روایت سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ توہین رسالت کہ سزا اسلام میں قتل مقرر کی گئی ہے.آنحضرت لالا لیلی نے جن لوگوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا ان کی ظاہری وجوہات کے علاوہ کیا کیا پوشیدہ راز تھے یہ تو اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے تھے ہمیں خود سے کوئی نتیجہ نہیں نکال لینا چاہئے.
275 ۷.امام ابن تیمیہ نے انس بن تریم الدیلی کا واقعہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ واقدی نے بطریق عبداللہ بن عمرو بن ر ہیر انجن بن وہب ذکر کیا ہے(المغازی للواقدی ۲۸۲/۲-۲۸۹) بحوالہ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۶۹، کہ آخری واقعہ جو خزاعہ اور کنانہ کے مابین پیش آیا وہ یہ ہے کہ انس بن زنیم الدیلی نے رسول اکرم یام کی بجو کہی.قبیلہ خزاعہ کے ایک لڑکے نے سُن لیا، اس نے انس پر حملہ کر دیا اور اس کے سر پر چوٹ ماری.وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور ان کو اپنا زخم دکھایا، فتنہ بازی کا آغاز ہوا.بنوبکر پہلے ہی خزاعہ سے اپنے خون کا مطالبہ کر رہے تھے.واقدی نے بطریق حرام بن ہشام بن خالد الکعبی اپنے والد سے روایت کی ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چالیس سواروں میں رسول کریم علیم سے مدد طلب کرنے کے لئے نکلا.انہوں نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا جو ان کو پیش آیا تھا اور اس قصیدے کا بھی ذکر کیا جس کا پہلا مصرعی یہ ہے اللهم انى ناشد محمداً جب قافلے والے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ انس بن کر نیم الدیلی نے آپ کی ہجو کہی ہے.رسول کریم علیم نے اس کے خون کو صدر قرار دیا.جب انس بن ژ نیم کو پتہ چلا تو وہ معذرت طلبی کے لئے رسول کریم علی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا.اس نے رسول کریم عالم کی شان میں مدحیہ قصیدہ کہا اور آپ کو سنایا.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۶۹) اسی واقعہ کو پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی نے بھی اپنی کتاب میں درج کیا ہے.اس واقعہ کے ضمن میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کو واقدی بیان کر رہا ہے اور اس کی کوئی سند
276 نہیں.دوسری بات یہ ہے کہ ان دونوں قبیلوں میں آپسی لڑائی صلح حدیبیہ سے پہلے سے جاری تھی.صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں ہی ان کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا اس میں خزاعہ قبیلہ کے لوگ مسلمانوں کے حلیف ہوئے تھے اور بنو بکر کو قریشیوں کی ہمدردی مل گئی تھی.اس طرح بنو بکر نے اس موقعہ کو غنیمت جان کر خزاعہ قبیلہ سے بدلہ لینے کی ٹھان لی تھی اس پر بنو بکر نے شبخون مارا اور معاہدہ کی خلاف ورزی کی جو بعد میں فتح مکہ کا باعث ہوئی.اس آپسی چپکلش کا ذکر امام ابن تیمیہ خود بھی فرما رہے ہیں کہ ”بنو بکر پہلے ہی خزاعہ سے خون کا مطالبہ کر رہے تھے یہ جملہ بتاتا ہے کہ یہ دونوں قبیلے پہلے ہی سے ایک دوسرے کے حریف تھے.تیسری بات یہ بھی ہے کہ اس واقعہ کو واقدی کے علاوہ اور کوئی بھی اس طرح سے بیان نہیں کرتا.البتہ ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنو بکر اور خزاعہ میں یہ رقابت چل ہی رہی تھی کہ اسلام آکر ان دونوں میں حائل ہو گیا اور اب ان کی توجہ اسلام کی طرف منعطف ہو گئی.پھر جب رسول اللہ علیہ اور قریش کے مابین صلح حدیبیہ وقوع پزیر ہوئی تو جو شرطیں جانبین میں طے ہوئیں جیسا کہ مجھ سے زہری نے عروہ بن زبیر نیز ہمارے علماء میں سے منصور بن محزمہ،مروان بن حکم وغیرہ کے واسطے بیان کیا ، ان میں ایک شرط یہ تھی کہ جو شخص رسول اللہ علیم کے عہد میں ہونا پسند کرے شامل ہو جائے.اور جو قریش کے عہد میں شامل ہونا چاہے شامل ہو جائے.اس شرط کے نتیجہ میں قبیلہ بنو بکر قریش کے عہد میں اور بنو خزاعہ رسول اللہ صلیم کے عہد میں شامل ہو گئے.ابن اسحاق نے کہا پھر جب یہ صلح ہوئی ( اور صلح میں قریشیوں کی ہمدردی بنو بکر کومل گئی ) تو بنوبکر کے قبیلہ بنو ویل نے یہ موقعہ غنیمت سمجھا اور بنو اسود بن رزن کے بدلے کے لئے بنی خزاعہ سے بدلہ لینے کا ارادہ کیا کہ خوں بہا وصول کر لیا جائے جنہیں انہوں نے قتل کر دیا تھا، چنانچہ نوفل
277 بن معاویہ دیلی اپنے قبیلہ بنوریل میں آیا جن کا یہ اس وقت قائد تھا مگر بنوبکر کا ہر فرد اس کے تابع فرمان نہ تھا، اس نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کولیکر بنوخزاعہ پر شبخون مارا.جب وہ ویر میں تھے اور ان کا ایک آدمی نرغے میں آ گیا.جسے پکڑ کر قتل کر دیا.دوسری طرف قریش نے بنو بکر کو ہتھیار ہم پہنچائے.نہ صرف یہ بلکہ کچھ قریشیوں نے رات کے وقت ان کے ساتھ ہو کر محفیہ اس قتل و خونریزی میں حصہ بھی لیا ، تا آنکہ بنوخزاعہ کوگھیر کر حرم کی طرف دھکیل دیا جائے.جب وہ حرم میں پہنچ گئے تو بنو بکر کے لوگوں نے کہا ” نوفل ! ہم تو حرم میں داخل ہو گئے ہیں تم جانو اور تمہارا معبودجانے اس پر نوفل نے کہا یہ بہت بڑی بات ہے.آج کوئی معبود نہیں ہے.اے بنو بکر تم اپنا خون بہا وصول کر وہ میری جان کی قسم تم حرم میں چوریاں کرتے ہو تو کیا یہاں اپنا خون بہا وصول نہیں کر سکتے حالانکہ بنو بکر بنوغزاعہ کے ایک آدمی کوجس کا نام منبہ تھا ایک رات و تیر میں شب خون مار کر قتل کر چکے تھے منبہ ایک کمز ور دل آدمی تھا، یہ اپنی قوم کے ایک آدمی کے ساتھ جس کا نام تمیم بن اسد تھا، نکلا اور اس سے کہا: تمیم تم اپنے آپ کو بچاؤ، جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو بالکل ایک مرا ہوا آدمی ہوں.مجھے یا تو قتل کر دیں گے یا چھوڑ دیں گے، میرا دل ٹوٹ چکا ہے.بہر حال تمیم اسے چھوڑ کر چلا گیا، بنو بکر کے آدمیوں نے منہ کو پکڑا اور قتل کر دیا.بنوخزاعہ نے مکہ میں پہنچ کر بدیل بن ورقاء اور ان کے مولیٰ رافع کے مکان میں پناہ لی.“ (سیرت النبی کامل مرتبہ ابن ہشام جلد دوم صفحه ۴۵۹ ۴۶۰) نیز لکھا ہے کہ ابن اسحاق نے کہا * غرض بنی بکر اور قریش نے مل کر بنی خزاعہ پر غلبہ حاصل کرنا چاہا، انہیں جو نقصان پہچانا تھا پہنچالیا اور وہ عہد و میثاق توڑ دیا، جورسول اللہ علیم سے کیا تھا اور اس میں بنی خزاعہ بھی شامل تھے.آخر عمر و بن سالم خزاعی اور اس کے بعد بنو کعب کا ایک آدمی نکل کر
278 رسول الله السلام کے پاس مدینہ پہنچا.اور یہی بات تھی جو فتح مکہ کے لئے موجب ہوئی.آپ مسجد میں سب لوگوں کے درمیان موجود تھے کہ عمر و خزاعی نے سامنے آکر یہ شعر پڑھنے شروع کئے.(اس کا پہلا شعر یہ ہے ) يارب إلى دليلٌ مُحَمَّدًا حِلْفَ أَبِيْنَا وَآبِيْهِ الْأَثْلَهَا سیرت النبی کامل مرتبہ ابن ہشام جلد دوم صفحہ ۴۶۴) سیرت ابن ہشام میں ایسا کوئی واقعہ درج نہیں کہ توہین آمیز اشعار کی بنا پر قبیلہ خزاعہ کے کسی لڑکے نے انس پر حملہ کیا تھا اور نہ ہی اس واقعہ کا رسول کریم ملی ایم کے پاس ذکر کرنے کا تذکرہ ہے کہ جس پر رسول کریم علیلم لیلی نے اس کے خون کو صدر قرار دیا.تاریخ اسلام کے مصنف مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی نے بھی اس واقعہ کو درج کیا ہے لیکن آپ نے بھی اس ہجو والے واقعہ کا ذکر نہیں کیا.دراصل یہ دو قبیلوں کی دیرینہ آپسی دشمنی کا شاخسانہ تھا اور صلح حدیبیہ کے بعد بنو بکر کو اور قریش کو یہ نہیں چاہئے تھا کہ وہ بنو خزاعہ پر حملہ کرتے اور ان کے آدمیوں کا قتل کرتے بلکہ انہوں نے شبخون مارا اور تیس چالیس افراد کوقتل کردیا جب اس کی اطلاع رسول کریم ملایم تک پہنچی تو آپ صلیم نے بنوخزاعہ کی مدد کا وعدہ کیا اور ایک لشکر تیار ہو اور یہ واقعہ فتح مکہ کا باعث ہوا.الغرض واقدی نے جو بات لکھی ہے اس کے حوالہ سے دیگر کتب میں یہ واقعہ درج ہوا ہے ان کے علاوہ اور کوئی بھی مؤرخ کسی ثقہ حوالہ سے اسے پیش نہیں کرتا.پھر یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ اس ہجو کرنے والے کا انجام کیا ہوا بقول واقدی آپ لم نے اسے معاف فرما دیا.ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ ہجو کرنے والی کی معافی بھی قبول نہیں کی جائے گی اور دوسری طرف اسی واقعہ میں یہ بات دیکھنے میں ملتی ہے کہ آنحضرت
279 م اسی معافی طلب کرنے پر معاف فرما دیتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ہجو کہتا ہے اور پھر اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور معافی طلب کرتا ہے تو اسے معاف کیا جائے گا یہی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطف عمل علم کا اسواہ ہے اور پھر ایسے معاف کرنے کے بہت سے واقعات آنحضرت علی کی زندگی میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں.اگر دیکھا جائے تو آنحضرت علی نے جن لوگوں کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا ان کی وجوہات صرف ہو نہیں تھی بلکہ دیگر سنگین جرائم تھے ان کی آج کے زمانہ میں بھی قتل کی ہی سزا مقرر ہے.اسلام پر یہ سراسر الزام ہے کہ اسلام صرف تو ہین رسالت کی بنا پر ہی کسی کے قتل کی سزا تعین کرتا ہے.
280 واقعہ ابن ابی سرح - امام ابن تیمیہ نے ایک دلیل ابن ابی سرح کے واقعہ سے پیش کی ہے.تاریخ میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو آپ نے سب لوگوں کو معاف فرما دیا سوائے چند اشخاص کے جن کی تعداد گیارہ بیان کی جاتی ہے.روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صم نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ان کو قتل کرد وا گر چہ کعبہ کے پردے کے ساتھ لٹکے ہوئے ہوں“ ان کے اسماء اس طرح سے ہیں.رض ا.عبداللہ بن ابی سرح.اسے حضرت عثمان بن عفان جو کہ عبداللہ بن ابی سرح کے رضائی بھائی تھے اپنے ساتھ لیکر آنحضرت علی ایم کی خدمت میں حاضر ہوئے معافی کی درخواست کی تو آپ نے معاف فرما دیا.۲.ابن خطل.اس کو قتل کیا گیا.۳.۴.ابن خطل کی دولونڈیاں جو اس کے ساتھ شرارتوں میں شامل تھیں ان میں.ایک قتل ہو گئی اور دوسری کے لئے رسول کریم یا ایلیم سے امان طلب کی گئی تو آپ نے امان دیدی اور اسے معاف فرما دیا.۵ عکرمہ بن ابی جہل.اس کی بیوی نے آنحضر عالم کے حضور حاضر ہو کر اس کے لئے معافی طلب کی تو آپ نے معاف فرما دیا.۶.حویرث بن نقید.آنحضرت صل تعلیم کی سخت ہجو کیا کرتا تھا.اور اشعار بناتا تھا.رض آنحضرت علی ایم کی دولڑکیوں فاطمہ اور ام کلثوم کو حضرت عباس اپنے ساتھ مدینہ لے جارہے تھے تو اس شخص نے ہبار بن الاسود کے ساتھ شامل ہو کر اونٹ کو نیزہ مارکرلڑکیوں کو نیچے گرا دیا تھا.( زرقانی علی مواہب اللہ نیہ جلد ۲ صفحہ ۳۱۵) اسے قتل کیا گیا تھا.
281 مقیس بن صابة شخص ایک انصاری کو قتل کر کے بھاگ آیا تھا اور مرتد ہو گیا تھا.قتل کے جرم میں اس کو قتل کیا گیا..ہبار بن الاسود.اسنے حضرت زینب ” کو ہجرت کے وقت اونٹ سے ایک چٹان پر گرایا جس کہ وجہ سے انکا اسقاط ہو گیا.اس کو معاف کر دیا گیا.۹.کعب بن زہیر.نبی کریم علیم کی اشعار میں ہجو کرتا تھا اس کو بھی معافی دے دی گئی.۱۰.ہندہ بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان.اس نے حضرت حمزہ کا مثلہ کیا تھا کلیجہ نکال کر دانتوں سے چبایا.اور ان کے بدن کے ٹکڑوں کا ہار بنا کر بازوؤں اور پاؤں پر پہنے.اس کو بھی معاف کردیا گیا.۱۱.وحشی بن حرب.ہندہ بنت عقبہ کا غلام.اسنے ہندہ کے کہنے پر حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا.اس کو بھی معافی دیدی گئی.( بحوالہ قتل مرتد اور اسلام صفحہ ۱۱۸و۱۱۹.وسیرت ابن ہشام ) جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ ان میں سے صرف چار ہی کا قتل ہوا باقی سب کو رسول کریم کے پاس آ کر معافی مانگنے کا موقعہ مل گیا یا کسی کی پناہ میں آجانے اور اس کے ذریعہ سے آپ مالیم تک پہنچنے سے یا کسی اور کی معافی کی درخواست پر باقی سب کو معاف فرما دیا.ان پار قتل ہو جانے والے اشخاص کو بھی اگر رسول کریم صلی میل تک پہنچ کر معافی طلب کرنے کا موقعہ مل جاتا تو میرے آقا کی شفقت اس قدر وسیع تھی کہ آپ انہیں بھی معاف فرما دیتے.اس تفصیل سے ایک بات یہ بھی ظاہر ہوتی ہے کہ رسول کریم علیم نے ہجو کرنے والوں اور ہجو کے اشعار کہنے والوں کو بھی معاف فرما دیا جو اس بات کے لئے کافی دلیل ہے کہ توہین رسالت
282 کرنے والوں کی سزا قتل نہیں ہے ورنہ آپ عمل یا کسی ایک ہجو کرنے والے کو بھی معاف نہ فرماتے.واقعہ عبداللہ بن ابن سرح.اس کے بارے میں تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ فلما كان يوم الفتح امر النبی صلی اللہ علیہ و سلم بقتله فاستجار له عثمان فاجاره رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم انہ اسلم و حسن اسلامه» ( تفسیر کبیر جلد ۵ صفحه ۵۲۷) یعنی.فتح مکہ کے دن آپ نے عبد اللہ بن ابی سرح کے قتل کا حکم دیا.حضرت عثمان نے اس کو اپنی پناہ میں لے لیا.اس لئے رسول اللہ علی ایم نے بھی اس کو پناہ دے دی اور معاف کر دیا.اسی طرح روح المعانی جلد ۴ صفحہ ۴۸۴ میں لکھا ہے کہ كان يكتب لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فازلہ الشیطن فلحق بالكفار فامربه النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان يقتل يوم فتح مكة فاستجار له عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فاجاره النبی صلی اللہ علیہ و سلم“ یعنی.وہ پہلے کا تب وحی تھا.پھر شیطان نے اس کو بہکادیا اور وہ کافروں سے جاملا فتح مکہ کے دن آنحضرت علی ایم نے اس کے قتل کا حکم دیا.حضرت عثمان نے اس کو اپنی پناہ میں لے لیا.پھر آنحضرت صلیم نے بھی اس کو پناہ دیدی.عبد اللہ بن ابن ابی سرح کا جرم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ رسول کریم صل اللہ کا کاتب وحی
283 تھا جیسا کہ اوپر والے حوالہ سے بھی ظاہر ہے.اور قرآن کریم کی جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ولَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَلَةٍ مِن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةٌ في قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَجَعَلْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَجَعَلْنَا الْمُضْغَةَ ق عِظَمًا فَكَسَوْنَا الْعِظُمَ لَحْمًا، ثُمَّ انْشَأنَهُ خَلْقًا أَخَرَ طَ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (المومنون آیت ۱۲ تا ۱۵) ترجمہ.اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ یعنی غذا سے بنایا.پھر ہم نے اس کو نطفہ سے بنایا جو کہ ایک مدت معینہ تک ایک محفوظ مقام یعنی رحم میں رہا.پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنایا پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کی بوٹی بنایا پھر ہم نے اس بوٹی کے بعض اجزاء کو ہڈیاں بنایا پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا یا پھر ہم نے اس میں روح ڈال کراس کو ایک دوسری طرح کی مخلوق بنایا.سوکیسی بڑی شان ہے اللہ کی جو تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے.کہتے ہیں کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں اور رسول کریم عالم اس آیات کو تم انْشَأْنَهُ خَلْقًا اخر تک لکھوا چکے تو اس کے منہ سے فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ کے کلمات نکلے تو آنحضرت علیم نے فرمایا یوں ہی لکھو کیونکہ یہی کلمات نازل ہوئے ہیں اس پر اس نے خیال کیا کہ اگر رسول کریم علی پروحی نازل ہوتی ہے تو مجھ پر بھی تو وحی نازل ہوتی ہے تو میں بھی نبی ہوں.اس پر یہ مرتد ہو گیا اور مدینہ سے بھاگ کر مکہ چلا گیا اور وہاں پہنچ کر اس نے لوگوں سے یہ کہنا شروع کیا کہ میں جس طرح چاہتا تھا محمد علیم کے الفاظ کو بدل دیا کرتا تھا.وہ مجھے بولتے عَزِيزٌ حَکیم تو میں لکھتا عَلِیمٌ حَکیم اور وہ کہہ دیتے کہ ہاں سب ٹھیک ہے.اور جو کچھ میں کہتا وہ اسی کو کہہ دیتے ہاں یوں ہی لکھو یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے.
284 اس طرح شخص آنحضرت بی ایم کی نبوت ، کلام الہی اور اسلام کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شک وشبہات پیدا کرتا تھا اس طرح شخص ایک پولیٹیکل مجرم بن گیا تھا.ہم میں سے ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ رسول کریم بلال ایلی کے مدینہ تشریف لے آنے کے بعد ہی یہود کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس کے ساتھ ہی مدینہ ایک اسلامی مملکت کی حیثیت اختیار کر چکا تھا.اس کے بعد صلح حدیبیہ کے موقعہ پر مکہ والوں نے بھی معاہدہ کر کے مدینہ کو ایک اسلامی مملکت تسلیم کر لیا تھا.اس صورت میں حضرت محمد مصطف علی ایم کی ایک حیثیت تو نبی کی تھی ہی دوسری حیثیت اسلامی مملکت کے سر براہ کی بھی آپ کو حاصل ہو گئی تھی جسے مکہ والوں اور انکے حلیفوں نے خود تسلیم کر لیا تھا.ایسی صورت میں رسول کریم صلیم کو یہ بھی اختیار حاصل تھا کہ آپ کسی بھی مجرم کے لئے کوئی بھی سزا مقررفرماتے.اسی بنا پر رسول کریم لام نے عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کو بھی ایک پولیٹیکل مجرم قرار دیتے ہوئے اسے قتل کرنے کاارشاد فرمایا.آنحضرت سلیم نے اس شخص کی اس کی گستاخی کی بنا پر جو اس نے کلام اللہ بنی اللہ کے ساتھ کی تھی اسے قتل کرنے کا حکم تو دیا لیکن آپ مالی نے اسے معاف بھی فرما دیا.آپ لیہ کا ایسے شخص کو معاف فرماد بینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلامی شریعت میں کسی گستاخ رسول کی سزا قتل مقرر نہیں ہے.اگر اسلامی شریعت میں گستاخ رسول کی سز اقتل مقرر ہوتی تو آپ اس کو بھی معاف نہ فرماتے.اسی طرح اگر کسی گستاخ رسول کی سزا قتل ہی ہوتی تو حضرت عثمان بن عفان انہیں کبھی بھی اپنے گھر میں پناہ نہ دیتے.آپ بھی اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ کوئی ایسی گستاخی نہیں ہے کہ جس کی سز ا شریعت میں صرف قتل ہے اس لئے آپ نے پناہ بھی دی اور خود اسے اپنے ساتھ لیکر رسول کریم علی کی خدمت میں حاضر
285 ہوئے تھے.اور پھر آپ علیم نے معاف بھی فرما دیا.یہ دونوں باتیں ہی اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ اسلامی شریعت میں گستاخ رسول کی سزا قتل نہیں.اس جگہ چند احادیث کو پیش کرنا ضروری خیال کرتا ہوں جن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اسلامی شریعت میں کن لوگوں پر قتل کی سزا مقرر ہے.ا." عن عائشة قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا يحل دم امرء مسلم يشهد ان لا اله الا الله و أن محمدا رسول الله الا في احدى ثلث رجل زنی بعد احصان فانه يرجم و رجل خرج محارباً لله و رسوله فانه یقتل او یصلب او ینفی او یقتل نفساً فيقتل بها ( ابوداؤد کتاب الحدود باب الحکم فی من ارتد جلد سوم صفحه ۳۵۲) یعنی.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ کسی مسلمان کا خون کرنا جائز نہیں جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمداللہ کے رسول ہیں سوائے ان تین وجوہات کے یہ کہ محصن ہو کر زنا کرے تو اس کو سنگسار کیا جائے گا دوسرے وہ جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کے لئے نکلے اسے قتل کیا جائے گا یا سولی دیا جائے گا یا قید کیا جائے گا.تیسرے وہ جو کسی کا ناحق خون کرے اسے قتل کیا جائے گا.٢ عن عائشة ان رسول الله صلى الله علیه و سلم قال لا يحل دم امریء مسلم الا بأحدى ثلث خصال زان محصن پر جم او ر جل قتل رجلا متعمدا فيقتل او رجل يخرج من الاسلام فيحارب الله عز وجل و رسوله فیقتل او یصلب او ينفى من الارض ( نسائی.کتاب المحاربة - باب الصلب جلد سوم صفحہ ۱۳۴)
286 یعنی.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضور علی نے فرمایا مسلمان کا خون درست نہیں مگر تین صورتوں میں ایک تو جو محصن ہو کر زنا کرے وہ سنگسار کیا جائے.اور دوسرے وہ شخص جو کسی شخص کو قصد آمارڈالے تو وہ قتل کیا جائے گا تیسرے وہ شخص جو اسلام سے پھر جائے اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے پس وہ قتل کیا جائے یا سولی دیا جائے یا قید کیا جائے.حدثنا ابو قلابة (فی حدیث طویل) فو الله ما قتل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احداً قط الا فى احدى ثلاث خصال رجل قتل بجبريرة نفسه او رجل زنی بعد احصان او رجل حارب الله و رسوله وارتد من الاسلام» ( بخاری کتاب الدیات.باب القسامۃ جلد سوم صفحہ ۷۴۸) یعنی ہم سے ابوقلابہ نے بیان کیا........خدا کی قسم آنحضرت علی نے تو کسی شخص کے خون کرنے کا حکم نہیں دیا جب تک وہ ان تین باتوں میں سے کسی بات کا مرتکب نہ ہو یا تو ناحق خون کا مرتکب ہوا اپنے جرم کی سزا میں قتل کیا جائے.یا محصن ہو کر زنا کرے یا اللہ اور اس کے رسول سے مقابلہ کرے اسلام سے پھر جائے.۴- حدثنی سلمان ابو رجاء مولى ابي قلابة عن ابي قلابة.....فقال (عمر بن عبد العزیز) - - ما تقول يا عبد الله بن زید...قلت ما علمت نفسا حل قتلها فى الاسلام الا رجل زنی بعد احصان او قتل نفسا بغیر 66 نفس او حارب اللہ و رسولہ صلی اللہ علیہ و سلم.“ (صحیح بخاری - کتاب التفسير - باب انما جزاء الذين يحاربون الله و رسوله آية جلد دوم صفحه ۸۴۰)
287 یعنی.مجھ سے سلمان ابور جاء کے غلام ابی قلابہ سے..کہ عبداللہ بن زید کیا کہتے ہو.میں نے کہا میں تو یہ جانتا ہوں کہ ہماری شرع یعنی اسلام میں کسی کا خون درست نہیں.مگر جو محصن ہو کر زنا کرے.یا کسی کو ناحق مارڈالے یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑے.ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شرعی لحاظ سے اسلام میں قتل کی سز ا صرف تین وجوہات کی بنا پر دی جاسکتی ہے.ایک محصن زانی کو دوسرے اگر کسی نے کسی دوسرے انسان کونا حق قتل کردیا ہو یا اس شخص کو قتل کیا جائے گا جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے نکلے گا.یہ وہ تین مواقع ہیں جن میں اسلام نے قتل کی سزا مقرر فرمائی ہے.اس پر آنحضرت علی کا عمل اور سنت بھی ثابت ہے اس کے علاوہ کسی کو بھی کسی دوسرے جرم میں قتل نہیں کیا گیا.ان احادیث میں ایک صحابی اللہ کی قسم کھا کر یہ بات بیان کر رہے ہیں کہ آنحضرت علی یا لیلی نے صرف تین قسم کے لوگوں کو ہی قتل کروایا اس کے سوا کسی کو آنحضرت لیم کے حکم سے قتل نہیں کیا گیا.یہ احادیث اور آنحضرت علی ایم کا عمل اس معاملہ کو بالکل صاف کر کے بیان کر رہا ہے کہ اسلام میں تو بہین رسالت کی سز اقتل تو بالکل بھی نہیں ہے.
288 ہجو گوئی کی سزا قتل کی دلیل کے طور پر ابن خطل کے قتل کو بھی بیان کیا گیا ہے اور لکھا صحیح بخاری و مسلم میں بطریق زمری از انس مروی ہے کہ رسول اکرم بیلی یہ فتح مکہ والے سال مکہ میں داخل ہوئے اور آپ نے آہنی خود پہن رکھی تھی.جب آپ ملا ہم نے اسے اتارا تو ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے.آپ ﷺ نے فرمایا اسے قتل کر دو 66 (صحیح بخاری حدیث نمبر ۱۸۴۶ صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۳۵۷) اس واقعہ کے بارے میں امام ابن تیمیہ کی کتاب میں درج ہے کہ ابن خطل کے واقعہ سے فقہاء کی ایک جماعت نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ رسول کریم علی اہلیہ کو گالی دینے والا مسلمان بھی ہو تو اسے حدا قتل کیا جائے.اس پر اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ ابن خطل حربی تھا اس لئے اسے قتل کیا گیا.“ الصارم المسلول على شاتم الرسول صفحه ۲۰۰) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ فقہاء نے تو لکھ دیا لیکن کوئی حوالہ پیش نہیں کیا کہ کون سا فقہی ہے جس نے یہ استدلال لیا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں گالی دینے والے یا ہجو کرنے والے کو قتل کرنے کا تو کوئی ثبوت ہی نہیں ملتا.پھر حربی بھی اس لئے نہیں ہوا کیونکہ اس نے مسلمانوں کا لشکر دیکھ کر ہی جنگ کرنے کا ارادہ ہی ترک کر دیا جیسا کہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر دیکھا اور سمجھا کہ لڑائی ہونے والی ہے وہ اس قدر مرعوب ہوا کہ اس پر کپکپی طاری تھی ، یہاں تک کہ کعبہ پہنچا، اپنے گھوڑے سے اترا اور ہتھیار پھینک دئے.وہ بیت اللہ میں آکر اس کے پردوں میں داخل ہو گیا.“
289 الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۹۸) اب ایک ہی صورت باقی رہتی ہے جسے تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ اسی طرح رسول اللہ صل العلیم نے ابن خطل کے قتل کا حکم دیا تھا.دراصل یہ فتح مکہ سے پہلے مدینے آیا تھا اور مسلمان ہو گیا تھا.اس سے پہلے اس کا نام عبد العزیٰ تھا جب یہ مسلمان ہوا تو رسول الله مال لیلی نے اس کا نام عبد اللہ رکھا تھا.اس کے بعد آنحضرت علیم نے اس کو صدقات وصول کرنے کے لئے دوسری بستیوں میں بھیجا.اس کے ساتھ ایک انصاری شخص کو آپ نے خدمت گار کے طور پر بھیجا.ایک روایت میں یوں ہے کہ.اس کے ساتھ خدمت کے لئے اس کا ایک غلام بھی تھا جو خود بھی مسلمان تھا.راستے میں ایک جگہ ابن خطل نے پڑاؤ کیا اور غلام کوحکم دیا کہ ایک بکرا ذبح کر کے کھانا تیار کردے.یہ حکم دے کر ابن خطل پڑ کر سو گیا.جب سو کر اٹھا تو اس نے دیکھا کہ خادم نے کھانا تیار نہیں کیا تھا بلکہ خود بھی پڑا اسور ہا تھا.یہ دیکھ کر ابن خطل سخت غضبناک ہو گیا اور غصہ میں خادم پر حملہ کر کے اسے قتل کرڈالا.( سیرت حلبیہ اردوجلد پنجم صفحه ۲۷۷) اسی طرح سیرت النبی ابن ہشام میں لکھا ہے کہ اس کے قتل کا حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ جب یہ مسلمان ہوا اسے رسول اللہ صلعم نے وصول صدقات کے عامل بنا کر ایک انصاری کے ساتھ بھیجا.ساتھ اس کا غلام بھی تھا جو مسلمان تھا اور اس کی خدمت پر معمور تھا.ابن خطل ایک منزل پر اترا اور اپنے غلام کو حکم دیا کہ وہ مینڈھا ذبح کر کے کھانا تیار کرے اور خود سو گیا اور جب جاگا تو کھانا تیار نہ تھا ابن خطل نے غلام پر حملہ کر کے قتل کردیا اور خودمرتد ہو گیا.“
290 سیرت النبی کامل مرتبہ ابن ہشام جلد دوم صفحه ۴۸۵ - ۴۸۶) اس حرکت کے بعد ابن خطل ( کو سخت خطرہ اور ڈر محسوس ہوا اور وہ ) مرتد ہو کر وہاں سے بھاگ گیا.یہ چونکہ شاعر تھا اس لئے اب اس نے آنحضرت علیم کی شان میں گستاخانہ شاعری شروع کر دی اور اپنے شعروں میں آنحضرت علی کی تو ہین اور ہجو کرنے لگا.اس کے پاس دو داشتائیں بھی تھیں جو اس کے اشعار گا یا کرتی تھیں اور ابن خطل ان کو آنحضرت سلم کی ہجو میں اشعار لکھ کر دیا کرتا تھا.“ (سیرت حلبیہ اردوجلد پنجم صفحه ۲۷۷) 7 امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ اس طرح اس کے تین ایسے جرائم تھے جس سے کسی کا بھی خون مباح ہو جاتا ہے.ا قتل نفس ۲ ارتداد ۳ ہجو گوئی الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۹۹) یہاں تین وجوہات بیان کی گئی ہیں.ارتداد کی بحث پیچھے گزر چکی ہے مرتد کی سزا قتل قرآن سے ثابت نہیں.اسی طرح بجو گوئی کی سزا قتل بھی قرآن سے ثابت نہیں.اب ایک ہی وجہ باقی رہتی ہے جو کہ قتل نفس ہے.اس شخص نے اسی بات کا ارتکاب کیا تھا اور قتل کی سز اقتل قرآن سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ط يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَمُ الْحُرُّ بِالْحُرِ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْأَنْث بالانفط ( البقرة آیت نمبر ۱۷۹) یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر مقتولوں کے بارہ میں برابر کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے اگر ( قاتل ) آزاد ( مرد ) ہو تو اسی آزاد ( قاتل ) سے اور اگر ( قاتل ) غلام ہو تو اسی غلام
291 ( قاتل) سے اور اگر ( قاتل ) عورت ہو تو اسی ( قاتل ) عورت سے ( بدلہ لیا جائے گا) قرآن کریم کے اس حکم سے ساری بات صاف ہو جاتی ہے کہ ابن خطل کے قتل کا حکم قتل کے بدلے قتل کے طور پر دیا گیا تھانہ کسی اور بنا پر.یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ابن خطل کا قتل تو بین رسالت کی بنا پر کیا گیا تھا.کیونکہ قرآن کریم تو بین رسالت کرنے والوں کو اس دنیا میں لوگوں کے ہاتھوں سزاد ینے کا کوئی حکم نہیں دیتا بلکہ ایسے شخص کو سزا دینا اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.جہاں تک ان دو معنی عورتوں کو قتل کرنے کا حکم ہے جو ابن خطل کی لونڈیاں تھیں اور اس کے اشعار پڑھ پڑھ کرلوگوں کو آنحضرت ملا لیلی اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف اُکسایا کرتی تھیں.ان میں سے ایک کو تو قتل کر دیا گیا لیکن دوسری بھاگ گئی اس کے لئے آنحضرت علیم کی خدمت میں امن کی درخواست کی گئی تو آنحضور ملی ایم نے اسے معاف کرتے ہوئے اسے امان دیدی اس کے بعد وہ مسلمان ہوگئی.ان ہر دور اشتاؤوں کو قتل کرنے کا حکم بھی ابن خطل کے کارناموں میں شامل ہونے کی بنا پر دیا گیا تھا.کیونکہ مقولہ مشہور ہے کہ الجلیس کمثلہ کہ جو جس کے ساتھ بیٹھتا ہے وہ بھی ان جیسا ہی ہوتا ہے.جہاں ابن خطل آنحضرت علی اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف سازشیں تیار کرتا اس کی یہ لونڈیاں بھی اس میں برابر کی شریک ہوتی تھیں.اس کے باوجود جب ان میں سے ایک کے لئے امان طلب کی گئی تو آنحضرت مصلی نے اس کو امان دیدی اگر دوسری کی بھی آنحضرت علی تک رسائی ہو جاتی تو آپ اسے بھی معاف کردید تے کیونکہ آنحضرت علی ایم نے جن لوگوں کے بھی قتل کا حکم دیا تھا ان میں سے جس کے لئے بھی امان طلب کی گئی آپ نے اسے امان دیدی اور جس نے بھی معافی طلب کی آپ مالی نے اسے معاف کر دیا.اگر اسلام میں تو بین رسالت کی
292 سز اقتل ہی ہوتی تو آپ علیم کسی ایک کو بھی معاف نہ کرتے اور نہ ہی کسی کو امان دیتے.
293 ۱۰ امام ابن تیمیہ نے ایک دلیل واقعہ قتل ابو ملک یہودی سے دی ہے لکھا ہی کہ " کہتے ہیں کہ بنو عمرو بن عوف ایک شیخ تھا جس کو ابو عفک کہتے تھے.وہ نہایت بوڑھا تھا اور اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی.یہ شخص مدینہ آکرلوگوں کو رسول کریم عالم کی عداوت پر بھڑکا تا تھا.اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا.جب رسول کریم علیہ بدر تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح و کامرانی سے نوازا تو وہ حسد کرنے لگا اور بغاوت پر اتر آیا.اس نے رسول کریم علیم اور صحابہ رضی اللہ عنھم کی مذمت میں ایک تو بین والا قصیدہ کہا.سالم بن عمیر نے نذرمانی کہ میں ابو عفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے مارا جاؤں گا.سالم موقعہ کی تلاش میں تھا، موسم گرما کی ایک رات تھی ، ابو عفک موسم گرما میں قبیلہ بنی عوف کے صحن میں سور ہا تھا اندریں اثنا سالم بن عمیر آیا اور تلوار اس کے جگر پر رکھ دی دشمن خدا بستر پر چینے لگا.اس کے ہم خیال بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئے ، پہلے اسے اس کے گھر میں لے گئے اور پھر قبر میں دفن کر دیا.کہنے لگے اسے کسی نے قتل کیا ہے؟ بخدا! اگر ہمیں قاتل کا پتہ چل جائے تو ہم اسے قتل کردیں گے“ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۱۶۸) اس واقعہ کو واقدی کے حوالہ سے بیان کیا ہے.واقدی کی کیا پوزیشن ہے اس کو پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے کہ شخص خود سے واقعات بنانے میں ماہر تھا.امام ابن تیمیہ کی کتاب میں جو حوالہ دیا گیا ہے وہ اسی کی کتاب المغازی الواقدی ۱۷۶/۱ کا ہے اور اس واقعہ کی کوئی سند بھی پیش نہیں کی گئی.الطبقات الکبری کے حوالہ سے صرف یہ بات لکھی ہے کہ یہ ایک یہودی تھا.اس واقعہ کو پڑھنے سے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری بات بناوٹی ہے قصیدہ تعریف میں لکھا جاتا ہے پھر لوگوں کو عداوت پر پہلے ہی بھڑ کا یا کرتا تھا تو پھر جنگ بدر کے بعد کیا تبدیلی ہوئی وغیرہ سب باتیں بناوٹی دکھائی دیتی ہیں.اسی حوالہ کو پیرزادہ شفیق الرحمن صاحب نے بھی اپنی
294 کتاب میں درج کر دیا ہے ( البتہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اس کو اپنی کتاب میں نہیں لیا ) اس پر کوئی تحقیق پیش نہیں کی گئی اور اس بات کو پر کھا تک نہیں گیا کہ واقدی جو کہ رہے ہیں اس میں صداقت کس قدر ہے.اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر اس واقعہ کو درست مان بھی لیا جائے تو بھی یہ واقعہ اس بات کی شہادت نہیں بن سکتا کہ اسلام میں تو ہین رسالت کرنے والے کی سز اقتل ہے.کیونکہ جس طرح سے اس واقعہ کو پیش کیا گیا ہے اس سے یہ بات تو نظر آتی ہے کہ یہ ایک شخص کا ذاتی فعل ہے جو کہ اس کی اپنی ذات کی حد تک ہوسکتا ہے.یہ واقعہ نہ تو آنحضرت صل للہ علیم کے سامنے پیش ہوا اور نہ ہی آپ نے اسے جائز ٹھہرایا اس بات کا کہیں ذکر تک بھی نہیں ملتا.بلکہ واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قتل کی کان و کان کسی کو خبر نہ ہوئی ور نہ قاتل مارا جا تا.الغرض یہ سارا قصہ ہی فرضی اور بناوٹی دکھائی دیتا ہے اس کے علاوہ الصارم المسلول کتاب کے مصنف نے اپنی کتاب میں بعض ایسے اشخاص کو بھی قتل کرنے کے حکم کے بارے میں لکھا ہے جن کے بارے میں دوسرے مؤرخین خاموش ہیں اور کوئی سند بھی نہیں ملتی جس میں ایک نام ابن الزبعری کا لکھا ہے اور دوسرا ابوسفیان بن حارث کا.اور ساتھ ہی یہ بات بھی بیان کی ہے کہ ان دونوں کو معافی دیدی گئی تھی.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تو بین رسالت کرنے والے کی سزا قتل ہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے تو پھر ان لوگوں کو معافی کیوں دی گئی؟ معاف کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں تو بین رسالت کرنے والے کی سزا قتل نہیں ہے اور نہ رسول کریم ہال کی ایسی گستاخی کرنے والوں کو کبھی معاف نہ فرماتے.
295 ۱۱.آنحضرت سلیم نے فتح مکہ پر جن لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا اس میں ایک نام حویرث بن نقید کا بھی ہے.ان کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اسے بھی آنحضرت علیم کی ہجو اور توہین کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا.اس بارے میں لکھا ہے کہ واقدی نے اپنے شیوخ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم علیم نے جنگ سے منع کیا دو مگر چھ آدمیوں اور چار عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، ان کے نام یہ ہیں ا.عکرمہ بن ابو جہل -۲ صبار بن الاسود ۳ ابن ابی سرح ۴ مقیس ب صبا به ۵- حویرث بن نقید ۶.ابن خطل وہ کہتے ہیں کہ حویرث بن نقید رسول کریم علیم کو ایذا دیا کرتا تھا ، اس لئے آپ ایم نے اس کے خون کو حد د قراردیا ، فتح مکہ والے دن اس نے اپنے گھر کا دروازہ بند رکھا تھا ،حضرت علی اس کے بارے میں پوچھتے ہوئے آئے تو کہا کہ وہ جنگل کو گیا ہے، حویرث کو پتہ چل گیا کہ اسے تلاش کیا جارہا ہے.حضرت علی اس کے دروازے سے الگ ہوئے تو حویرث گھر 66 سے نکل کر ایک گھر سے دوسرے گھر میں جانے لگا، حضرت علی نے اس کی گردن اڑادی.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۲۰۶) اس روایت کو بھی واقدی کے حوالہ سے ہی بیان کیا گیا ہے.اور صرف یہ بات لکھ دی ہے که یه شخص رسول کریم عالم کو ایذا دیا کرتا تھا.کیا ایذا پہنچائی اس کو ذکر تک نہیں کیا گیا.حالانکہ جو اس کا جرم تھا اس کی یہی سزا ہونی چاہئے تھی اس لئے رسول کریم ہیں ہم نے اس شخص کے لئے یہی سز ا مقررفرمائی.جیسا کہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت علی کے چا حضرت عباس رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادیوں حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم کو مکہ سے مدینہ لیجانے کے لئے روانہ ہوئے.یہ جس
296 اُونٹ پر سوار تھیں حویرث نے اس کو اس طرح کچھو کے دئے اور بھڑ کا یا کہ وہ زمین پر گر گیا.غرض آنحضرت سلیم کی طرف سے اس کے قتل کے حکم کے بعد اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی مگر حضرت علی نے اسے پکڑ کر اسی دن قتل کر دیا.“ (سیرت حلبیہ جلد ۵ صفحه ۲۷۸) اسی طرح لکھا ہے کہ ابن ہشام نے کہا ، عباس ابن عبد المطلب رسول اللہ صلاحم کی دو صاحبزادیوں، فاطمہ اور ام کلثوام کو مکہ سے مدینہ لے جا رہے تھے ، حویرث نے ان دونوں کو پریشان کیا اور تیر مار کر زمین پر گرا دیا.“ ( سیرت البنی کامل ابن ہشام جلد دوم صفحہ ۴۸۶) اس شخص کے قتل کا حکم صرف ایذا پہنچانے اور تو بین کرنے تک منتج نہ تھا بلکہ یہ شخص آنحضرت تعلیم کی دوبیٹیوں کے اقدام قتل کا مجرم تھا اس لئے اس کے قتل کا حکم دیا گیا تھا.جو کہ بالکل جائز ٹھہرتا ہے.
297 ۱۲ - نضر بن حارث اور عقبہ بن معیط کا قتل 71 امام ابن تیمیہ اور شفیق الرحمن صاحب نے بھی اپنی کتاب میں ان ہر دو کے قتل کو بھی تو بین رسالت کرنے والوں کے ساتھ جوڑا ہے اور ساتھ ہی واقدی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ غر وہ بدر سے مدینہ واپس جاتے ہوئے آپ علیم نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو معیط کو قتل کرنے کا حکم دیا، اس لئے کہ یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے شدید ترین دشمن، کفر کے سردار اور جنگی مجرموں میں سے تھے.‘ ( شاتم رسول کی شرعی سز اصفحہ ۱۹۶) ان کے قتل کی جو وجوہات ہیں وہ خود ہی بیان کر دی گئی ہیں.دشمن ہونا کفر کے سردار ہونا تو ایک معمولی بات ہے سب سے بڑا جرم خود ہی بتا رہے ہیں کہ یہ جنگی مجرموں میں سے تھے.جو بھی جنگی مجرم ہو اس کی سزا قتل ہی ہوا کرتی ہے.اور اس بات سے سب واقف ہیں کہ یہ دونوں ہی جنگ بدر میں کافروں کی طرف سے شامل تھے.اسی لئے جنگی مجرم کہلائے.اور یہ ایسے مجرم تھے کہ اپنے جرموں پر نادم بھی نہ تھے.جب نضر بن حارث کے قتل کی اطلاع اس کی بہن کو ملی تو اس نے ایک مرتبہ لکھا جن کے دواشعار کا ترجمہ اس طرح ہے.محمد صل لالیم اپنے قبیلے میں ایک شریف ترین انسان ہیں اور جواں مرد و ہی ہے جو قبیلے کا شریف ترین انسان ہو.اے محمد صل علیم اگر اس مقتول پر رحم کھا کر اس کو چھوڑ دیتے تو آپ کا کوئی نقصان نہ پہنچتا کیونکہ شریف آدمی کبھی ایسے شخص پر بھی احسان کردیتا ہے جو اس کے نز دیک گردن زدنی ہو.( لکھا ہے کہ ) آنحضرت علی نے جب یہ شعر سنے تو آپ آبدیدہ ہو گئے اور اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی تر ہوگئی پھر آپ نے فرمایا اگر اس کو قتل کرانے سے پہلے میں یہ شعر سن پاتا تو اس کو معاف کر دیتا
298 مطلب یہ ہے کہ ان شعروں کو بطور سفارش کے قبول کر کے اس کو امان دیدیتا.یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نضر کے قتل کرانے پر نادم ہوئے یا پچھتائے کیونکہ رسول کریم علی ایم جو کچھ بھی حکم فرماتے تھے اور جو کچھ کرتے تھے وہ حق اور صرف حق ہوتا تھا.“ ) سیرت حلبیہ جلد دوم نصف آخرار دو صفحه ۵۱ - ۵۲) آنحضرت علیم کا یہ فرمانا کہ اگر نضر کے قتل سے پہلے میں یہ شعر سن لیتا تو میں اسے معاف کر دیتا ، یہ بات آپ کی شفقت اور رافت کی نشاندہی کرتی ہے آنحضور عالم کا یہی طریق تھا کہ چاہے کوئی بڑے سے بڑا مجرم بھی ہوتا اگر وہ آپ سے معافی طلب کرتا یا کوئی صحابی رسول کریم علیم سے اس کی سفارش کرتا تو آپ اسے امان دیدیتے تھے (سوائے ان کے جن پر حد قائم ہوئی ہو ) ایسی کئی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں.ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ کسی نے معافی طلب کی ہو یا کسی نے ایسے مجرم کو امان دینے کی سفارش کی ہو تو بھی آپ نے اسے قتل کروا دیا ہو.آپ صلیم کا یہ عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام میں سوائے ان کے جن پر حد قائم ہوتی ہو جن حدود کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ، شائم رسول کو قتل کرنے کا قرآن کریم میں کسی جگہ بھی ذکر موجود نہیں ، اس لئے آپ مالی سلیم نے تو بین رسالت کرنے والے کسی بھی شخص کے قتل کا کبھی حکم نہیں دیا.جن لوگوں کے بھی قتل کا حکم دیا وہ دیگر سنگین جرائم کے مرتکب تھے جن کی سزا صرف قتل ہے.لیکن بعض ایسے مجرموں کو بھی قتل کا حکم ینے کے باوجود معافی طلب کرنے یا امان طلب کرنے پر آپ صلیم نے انہیں معاف فرما دیا اورامان دیدی.عقبہ کے بارے میں ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ اس شخص نے ایک مرتبہ آنحضرت لام کی دعوت کی آپ نے فرمایا کہ میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک کہ عقبہ
299 کلمہ شہادت نہ پڑھ لے اس پر اس نے کلمہ شہادت پڑھ لیا.ابی ابن خلف جو کہ عقبہ کا دوست تھا اس نے عقبہ کو بہت ملامت کی کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ تو بے دین ہو گیا ہے.عقبہ نے کہا کہ انہوں نے اس کے بغیر کھانا کھانے سے انکار کر دیا تھاوہ اس وقت میرے گھر میں تھے اس لئے مجھے شرم آئی کہ وہ بغیر کھائے چلے جائیں! اس لئے میں نے ان کی خواہش کے مطابق شہادت کا کلمہ کہ دیا مگر میرے دل میں کچھ نہیں ہے.اس پر ابی ابن خلف نے کہا.اچھا تو اس وقت تک تم پر میری صورت دیکھنا حرام ہے جب تک تم ان کی گردن کو پامال نہ کرو اور ان کے منہ پر نچھو کو اور ان کی آنکھوں پر تھپڑ نہ ماروا“ چنانچہ اس کے بعد ایک دن عقبہ نے آنحضرت سلیم کو دارالندوہ میں دیکھا.آپ اس وقت سجدہ میں تھے.عقبہ نے وہی سب کیا جوابی ابن خلف نے اس سے کہا تھا.آنحضرت سلام نے عقبہ سے فرمایا.دو مکے سے باہر میں تجھ سے جب بھی ملوں گا تو اسی حالت میں ملوں گا کہ تلوار سے تیر اسر قلم کروں گا ! ( سیرت حلبیہ جلد دوم نصف آخر ار دو صفحه ۵۳) سی اس کا سنگین جرم تھا.پھر جنگ بدر میں شامل ہو کر شخص حربی بھی بن چکا تھا.
300 ۱۳.کعب بن زہیر کا واقعہ آنحضرت صلیم نے فتح مکہ کے موقعہ پر جن لوگوں کو ان کے سنگین جرائم کے پیش نظر قتل کرنے کا حکم دیا تھا ان میں ایک نام کعب بن زہیر کا بھی ہے.انکے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں کسی جگی ان کا نام زہیر بن امیہ لکھا ہے (سیرت حلبیہ ) کسی جگہ ان کا نام کعب بن زہیر بن ابی سلمی ( الصارم السلول ) اور کسی جگہ زہیر بن ابوامیہ بن مغیرہ ( ابن ہشام ) لکھا ہے.ان کا واقعہ یوں ہے کہ رض ابن اسحاق نے کہا مجھ سے سعید ابن ابو ہند نے بواسطہ ابومرہ عقیل ابن ابی طالب بیان کیا کہ ام ہانی نے بتایا، جب رسول اللہ علیم نے بالائی مکہ میں نزول اجلال فرمایا تو میرے پاس دو آدمی جو میرے دیوروں میں سے تھے ، دوڑتے ہوئے آئے.یہ دونو آدمی خاندان بنی مخزوم سے تعلق رکھتے تھے اور ام ہانی بہیرہ ابن ابو وہب مخزومی کے زوجیت میں تھیں.حضرت ام بانی فرماتی ہیں.پھر میرے بھائی علی ابن ابی طالب گھر میں داخل ہوئے اور کہا ، خدا کی قسم ! میں ان دونوں کو ضرور قتل کروں گا، میں نے انہیں بچانے کے لئے دروازہ بند کر لیا اور رسول کریم ملی ایم کے پاس بالائی مکہ میں پہنچی.میں نے دیکھا آپ ایک رسلے کے پانی سے جس کو آٹے کے نشان بھی تھے غسل فرمارہے ہیں اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ" کپڑے سے پردہ کئے ہوئے ہیں.آپ مغسل سے فارغ ہوئے تو کپڑا لیا اور پہن لیا.پھر چاشت کی آٹھ رکعت نماز ادا کی.اس کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، خوش آمدیدام بانی! کیونکر آنا ہوا؟ میں نے دونوں آدمیوں اور علی کا حال بتایا تو آپ نے فرمایا X قد اجر نا من اجرت و امنا من امنتِ فلا يقتلهما جسے تم نے پناہ ہی اسے ہم نے پناہ دی، جسے تم نے امن دیا اسے ہم نے امن دیا علی انہیں قتل نہ کریں.
301 ابن ہشام نے کہا یہ دونوں آدمی حارث ابن ہشام اور زہیرا بن ابو امیہ بن مغیرہ ہیں.“ (سیرت النبی کامل ابن ہشام جلد دوم صفحہ ۴۸۷) 71 اس سلسلہ میں ایک روایت امام ابن تیمیہ نے بنا کسی حوالہ کے درج کی ہے جس کو پیر زادہ شفیق الرحمن صاحب نے بھی امام ابن تیمہ کے حوالہ سے درج کیا ہے جس میں ایک خط لکھے جانے کا ذکر ہے اور اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ خط اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہجو گوئی کرنے والوں کو قتل کیا جائے لہذا ہجو گوئی کرنے والے کی سزا قتل ہے.لکھتے ہیں اموی کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے بتایا کہ ابن اسحاق نے کہا اور یونس بن بگیر اور بکائی وغیرہ نے ابن اسحاق سے روایت کیا ہے کہ جب رسول کریم صل عالمی طائف سے لوٹ کر مدینہ تشریف لائے تو بجیر بن زہیر نے اپنے بھائی کعب بن زہیر کو لکھا کہ رسول کریم علی سلیم نے مکہ کے چند آدمیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا جو ہجو گوئی کر کے آپ مسلم کو ایذا دیا کرتے تھے.یونس اور بکائی کے الفاظ یہ ہیں کہ مکہ میں ایک شخص رسول کریم علی کو جو کہہ کر ایذا دیا کرتا تھا رسول کریم ملی ایم نے اسے قتل کر دیا اور قریش کے شعراء میں سے جو باقی رہ گئے تھے مثلاً ابن الزبعری اور ہبیرہ بن ابی وہب ، وہ ادھر ادھر بھاگ گئے.اگر تمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو اڑ کر رسول کریم علی کی خدمت میں پہنچ جاؤ کیونکہ جو شخص تائب ہو کر آجاتا ہے آپ مل ہی اسے قتل نہیں کرتے.اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پناہ لینے کے لئے دور دراز چلے الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحه ۲۱۰،۲۰۹) جاؤ.یہ روایت جو بیان ہوئی ہے اس سے صاف طور پر دکھائی دیتا ہے کہ یہ بناوٹی ہے.اس کی وجہ یہ ہے رسول کریم ملا لیلی نے فتح مکہ کے دن جن لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا اس میں
302 کعب بن زہیر کا نام شامل تھا.اگر ان کے بھائی بجیر بن زہیر نے اپنے بھائی کو خط لکھا تھا تو انہیں دیگر بجو گوئی کرنے والوں کے قتل کئے جانے کے ذکر کے ساتھ یہ لکھنا چاہئے تھا کہ اسی بنا پر تمہارے قتل کئے جانے کا بھی حکم فرمایا ہے.لیکن ایسا کوئی ذکر اس خط میں نہیں کیا گیا.جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کسی اور کا ذکر کرتے یا نہ کرتے اس بات کا ذکر ضرور کرنے کی تمہارے قتل کئے جانے کا حکم صادر فرمایا ہے لیکن ایسا کوئی تذکرہ اس خط میں موجود نہیں ہے.پھر جس بات کی دلیل کے لئے اس خط کا ذکر کیا ہے وہ مقصد کو پورا ہوتا نظر نہیں آتا.کیونکہ آنحضرت بیل ایام نے ام ہانی کے ان کے لئے امان مانگنے پر انہیں امان دیدی.ہاں امان مانگنے پر بھی امان نہ دی جاتی اور انہیں قتل کر دیا جاتا تو ہی یہ اس بات کی دلیل ٹھہر سکتی تھی کہ ہر ہجو گو کو قتل کرنا لازمی ہے.ہجو گوئی کے باوجود قتل نہ کرنا بلکہ امان بخشنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں جو گوئی کی سز اقتل نہیں.اور توہین رسالت کرنے والے کی سزا قتل نہیں.جبکہ امام ابن تیمیہ ایک جگہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ پھر قبل اس کے کہ اس پر قابو پایا جاتا وہ تو بہ کر کے اسلام لا یا اگر چہ وہ حربی کا فر تھا، تاہم اس نے اپنے اشعار میں معذرت خواہی کی ( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۲۱۱) ایک طرف تو امام ابن تیمیہ یہ لکھتے ہیں کہ توہین رسالت کرنے والے کی تو بہ بھی قبول نہیں کی جائے گی.اور نہ ہی اسے تو بہ کرنے کے لئے کہا جائے گا اور یہاں خود ہی بیان فرماتے ہیں کہ قبل اس کے کہ اس پر قابو پایا جا تاوہ تو بہ کر کے اسلام لایا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ہجو گوئی اور توہین رسالت سے تو بہ کرے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی، اور خط سے یوں ظاہر ہوتا ہے کی بھائی نے تو بہ کرنے کی طرف توجہ دلائی اور انہوں نے تو بہ کر لی اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسے شخص کو تو بہ کرنے کے لئے بھی کہا جائے گا.پھر ہجو گوئی سے بڑا جرم ان کا حربی ہونا ہے
303 جس کا خود اعتراف کر رہے ہیں.اس کے باوجود انہیں امان دی گئی اور کوئی سزا نہیں دی.یہی اسلامی تعلیم ہے جو علوا اور سلامتی کو پیش کرتی ہے.
۱۴.ابورافع یہودی کا قتل 304 ابورافع کے قتل کا مشہور واقعہ ہے اس کو امام بخاری نے بھی کتاب المغازی میں بیان کیا ہے.امام بخاری دوروایات کے حوالہ سے اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں لیکن اس میں کسی جگہ بھی اس بات کا اشارہ بھی نہیں ملتا کہ یقتل توہین رسالت کے جرم میں کیا گیا ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک یہودی تھا اور یہود کی رسول کریم علی سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی تھی.کعب بن اشرف کا واقعہ آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں.کعب بن اشرف ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے رسول کریم علیم کے مدینہ آنے کے بعد آپ سے ایک معاہدہ کیا تھا اس کے باوجود اس نے رسول کریم صلی علیم اور مسلمانوں کے خلاف فتنہ انگیزی کی کوئی راہ نہیں چھوڑی تھی.یہ شخص بھی ایسی ہی ریشہ دوانیوں میں ملوث تھا بلکہ کعب بن اشرف سے بھی آگے بڑھا ہوا تھا اس کی وجہ تھی کہ اس کا مسلمانوں کے ساتھ کوئی معاہدہ طے نہیں پایا تھا اس لئے جو چاہتا کرتا اور جیسے چاہتا کرتا تھا.لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا مسلمانوں میں بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کرنا.اور رسول کریم لیلی لیلی اور آپ کے ماننے والوں کو ہر قسم کے دکھ پہنچانے کی کوشش کرنا اس کے اہم کاموں میں سے تھا.انہیں وجوہات کی بنا پر رسول کریم یلا لیلی نے اس کی سرکوبی کا حکم صادر فرمایا تھا.امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ ”حضرت البراء اور ابن کعب کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم علی ایم سے اجازت لے کر رات کو اسے قتل کرنے کے لئے گئے، اس لئے کہ وہ رسول کریم علیم کو ایذا دیتا اور عداوت رکھتا تھا گویاوہ کعب بن اشرف کی مانند تھا اس فرق کے ساتھ کی کعب بن اشرف معاہد تھا اور جب اس نے اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دی تو آپ نے مسلمانوں کو اس کے قتل کرنے کے لئے کہا مگر ابورافع معاہد نہ تھا.( الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۲۱۶)
305 اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شخص بھی کعب بن اشرف کی مانند تھا.کعب بن اشرف کو قتل کرنے کی جو وجوہات تھیں اس کو قتل کرنے کی بھی وہی وجو ہات تھیں.اس کا کام بھی رات دن مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو اکسانا اور بھڑکانا تھا اور رسول کریم علیم اور مسلمانوں کو قتل کرنے کی سازشیں کرنا اس کا کام تھا.یہ کوئی شاعر بھی نہ تھا کہ کہا جائے کہ شخص آپ بیلا شایلی کی ہجو گوئی کرتا تھا.لیکن اس کے دیگر جرائم ایسے تھے کہ رسول کریم علی ایک کو اسے قتل کرنے کا حکم فرماید
306 ۱۵ - آنحضرت صلم کی ذات مبارکہ پر اعتراض احادیث کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب رسول کریم علیم کے پاس صدقات کا مال یا مال غنیمت آیا کرتا تو آپ میلی اسے لوگوں کے درمیان تقسیم فرمایا کرتے تھے.اس تقسیم کے دوران بعض لوگ رسول کریم علی ایام پر نا انصافی کرنے کا الزام لگایا کرتے تھے.نعوذ باللہ ایسے الزامات کے واقعات کا ذکر مختلف روایات میں الگ الگ طریق سے ملتا ہے.اور آپ کے ارشادات بھی موقعہ کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ تبدیل الفاظ کے ساتھ الگ الگ ملتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے کہ گر میں نے عدل نہ کیا تو اور کون عدل کرے گا ؟ اگر میں نے عدل نہ کیا تو پھر تم نہایت کھائے اور خسارے میں رہے.( صحیح بخاری حدیث ۱۳۶۰۱ مسلم شریف ۱۰۶۴) ایک مرتبہ فرمایا " کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں آسمان والوں کا امین ہوں، میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں آتی ہیں.“ ( صحیح بخاری ۴۳۰۱) اسی طرح ایک شخص نے کہا کہ اللہ سے ڈرو تو آپ نے فرمایا کیا میں تمام کائنات ارضی پر رہنے والوں سے زیادہ اس بات کا حقدار نہیں کہ میں اللہ سے ڈروں؟“ (صحیح بخاری ۳۳۴۴) یہ جتنے بھی مواقعہ میں یہ آنحضرت علیم کی توہین کے زمرہ میں آتے ہیں لیکن کسی ایک موقعہ پر بھی ایسے آمنے سامنے تو بین کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا.بلکہ ایک روایت میں آتا ہے کہ غالباً وہ حضرت خالد بن ولید تھے نے آپ کی شان میں گستاخی کرنے
307 والے ایک شخص کے بارے میں آنحضرت ہی سے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب فرمائی لیکن آپ نے منع فرما دیا.انہیں واقعات کا ذکر قرآن کرم نے بھی کیا ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَ مِنْهُم مَّنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَتِ ، فَإِنْ أَعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَّمْ يُعْطُوا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ (التوبة آيت (۵۸) یعنی.اور ان میں سے کچھ (منافق) ایسے ہیں جو صدقات کے بارہ میں تجھ پر الزام لگاتے ہیں.اگر ان صدقات میں سے کچھ ان کو دیدیا جائے تو وہ راضی ہو جاتے ہیں ، اور اگر ان میں سے انہیں کچھ نہ دیا جائے تو فوراً خفا ہو جاتے ہیں.یہ آیت ان لوگوں کا حال بیان کر رہی ہے جو آنحضرت علیم پر الزام لگانے کی گستاخی کرتے ہیں اور ایسے لوگ آپ کے سامنے ہوتے تھے لیکن آپ نے کسی ایک کے بارے کیں بھی یہ حکم صادر نہیں فرمایا کہ اسے قتل کر دیا جائے.اگر اسلام میں گستاخ رسول کی سزا قتل ہی ہوتی تو آپ سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا تھا جو اللہ کے حکم کی پاسداری نہ کرتا لیکن آپ نے کسی بھی گستاخی کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ہمیشہ معاف فرما یا اور اگر کسی کے دل میں یہ خیال بھی گزرا کہ ایسا گستاخ قتل کئے جانے کے قابل ہے اور اس نے آپ مالی مالیہ سے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو بھی آپ نے اسے قتل کرنے کی اجازت نہیں دی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں تو ہین رسالت کرنے والے کی سز اقتل نہیں.ان تمام دلائل کے ہوتے ہوئے امام ابن تیمیہ کی کتاب میں ایک بڑی انوکھی بات بیان کی گئی ہے لکھتے ہیں کہ ”اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اسکی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے رسول کریم علی ایم کو مورد
308 طعن بنایا اور آپ صلیم کی عیب چینی کی ، جس طرح ان طعن دینے والوں نے کیا تھا.جب ان احادیث صحیحہ کی روشنی میں ثابت ہوا کہ رسول کریم علیم نے ان لوگوں کے قتل کا حکم دیا جو طعن زنی کرنے والے شخص کی جنس میں سے تھے، خواہ کہیں بھی ہوں ، آپ نے یہ بھی بتایا کہ وہ تمام مخلوقات سے بدتر اور منافقین میں سے ہیں، لہذا یہ اس امر کی دلیل ہے کہ شیعی کی روایت کا مفہوم درست ہے کہ دراصل یہ قتل کے مستحق ہیں.“ الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ ۲۵۶) عجیب سی بات کی ہے بات کوئی چل رہی ہے جواب کسی اور بات کا دیا جا رہا ہے اور دو باتوں کی ملا کر ایک دلیل جس کا کسی بعد کے زمانہ سے تعلق ہے بیان کی جارہی ہے جو کہ ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے.اسی حوالہ سے کتاب ”شاتم رسول کی شرعی سزا“ کے مصنف نے روایت درج کی ہے جس سے بات کھل جاتی ہے کہ اصل واقعہ کیا ہے اور کن کے بارے میں بات کی گئی تھی اور مسلم کی روایت ہے.لکھا ہے کہ ایک آدمی گھنی داڑی ؛ پھولے ہوئے رخسار والا ؛ آنکھیں اندر دھنسی ہوئی ؛ اونچی جبین اور مونڈے ہوئے سر والا آ کر کہنے لگا اے محمد علی سلیم اللہ سے ڈرو.تو رسول اللہ صل الم نے فرما یا اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو کون ہے جو اللہ کی فرمانبرداری کرے.اور اللہ نے مجھے زمین والوں پر امانتدار بنایا ہے اور تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے.پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چلا گیا.تو قوم میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی جو کہ غالباً حضرت خالد بن ولید تھے ، تو رسول کریم مالیہ نے فرمایا اس آدمی نسل سے ایک قوم پیدا ہو گی جو قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا اور اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر ترکش سے نکل جاتا ہے اگر میں ان کو پاتا تو
309 انہیں قوم عاد کی طرح قتل کرتا“ ( صحیح مسلم کتاب الزکوۃ باب مؤلفۃ القلوب والخوارج جلد سوم صفحه ۸۲،۸۱) اس حدیث میں کہیں نہیں آیا کہ اس شخص کو قتل کرنے کی اجازت دی گئی یا سے قتل کیا گیا بلکہ یہ فرمایا کہ اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہو نگے جن کی صفات بیان کی گئی ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ اگر میں انہیں پاتا تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کرتا.کیوں قتل کرتا اس کی وجوہات بیان فرما دیں اس میں کہاں پایا جاتا ہے کہ توہین رسالت کی بنا پر انہیں قتل کیا جاتا.اس واقعہ کو بیان کر کے امام ابن تیمیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ چونکہ اس شخص کی نسل سے جس نے تو بین رسالت کی ہے پیدا ہونے والوں کو قتل کرنے کی بات ہے اس لئے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ توہین رسالت کرنے والے کو بھی قتل کیا جائے.بڑی عجیب وغریب منطق ہے جس کی قرآن و سنت نبوی اور حدیث سے کوئی دلیل نہیں ملتی.الغرض ایسے جس قدر بھی واقعات احادیث کے حوالہ سے بیان کئے گئے ہیں ان میں سے کسی ایک واقعہ سے بھی یہ شہادت نہیں ملتی کہ آنحضرت علی نے کسی ایک شخص کو بھی صرف تو بین رسالت کی بنا پر یا ہجو گوئی کی بنا پر قتل کرنے کا حکم دیا ہو.بلکہ اکثر واقعات میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جن کو ان کے سنگین جرائم کے پیش نظر قتل کرنے کا حکم بھی دیا تھا اگر انہوں نے خود رسول کریم علیم تک رسائی حاصل کر کے معافی طلب کی ہو یا کسی صحابی کی مدد سے رسائی حاصل کر کے امان کی دورخواست کی ہو تو آپ نے اسے معاف کر دیا اور امان بخش دی.یہ میرے پیارے آقا حضرت محمد مصطفے عالم کا اسوہ ہے اور آپ مالی کے رحمت اللعالمین ہونے کی نشانی ہے، آپ کی زندگی میں کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ آپ مالی میم نے قصاص سے ہٹ کر کسی کے قتل کا حکم دیا اور اس نے آ کر آپ سے معافی طلب
310 کی اس کے باوجود آپ میل شمالی نے اسے قتل کروا دیا ہو.آپ میں سلیم نے ایسے ایسے لوگوں کو معاف کر دیا جن کے سنگین قسم کے جرائم تھے آج بھی ایسے جرائم کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جاتا.جن میں ہندہ بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان ، عکرمہ بن ابی جہل ، ہبار بن الاسود، وحشی بن حرب وغیرہ کی مثالیں موجود ہیں.الغرض اسلام میں توہین رسالت یا ہجو گوئی کی سز اقتل قرآن وسنت و حدیث سے کسی جگہ سے بھی ثابت نہیں.اور جو بھی اس کے دعویدار ہیں ان کے پاس اپنے ذاتی استدلال کے علاوہ کوئی دلیل نہیں.ایسے دعوی کرنے والے حضرت محمد مصطفے علم کی پاک اور انصاف پسندی کی سیرت پر الزام دھرتے ہیں جس سے آپ میلی لی ایم کا دامن بالکل پاک اور صاف دکھائی دیتا ہے.
311 خلاصه کلام تو بین رسالت کی سلسلہ میں اب تک جو بحث گزری ہے وہ چار موضوعات پر تھی.امام ابن تیمیہ نے بھی انہیں چار موضوعات کو لیکر اپنی کتاب میں بحث کی ہے.بالکل اختصار سے ان چاروں موضوعات کو پیش کر کے لکھے گئے مضمون کا ایک جائزہ خلاصہ کے رنگ میں پیش کرتا ہوں تا کہ ساری بات آسانی سے سمجھ میں آجائے.کافر! پہلا مسئلہ یہ تھا کہ کیابنی کریم علیم کی توہین کرنے والے کو قتل کیا جائے گا؟ وہ مسلم ہو یا بعض علماء اس بات کے حامی رہے ہیں کہ ہاں ایسے شخص کی سزا قتل ہے.جیسا کہ اس پر بحث گزری ہے.لیکن اس کے حامی اشخاص میں سے ایک شخص بھی کوئی ایک دلیل بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش نہیں کر سکا جس سے یہ ثابت ہو کہ توہین رسالت کرنے والے کی سزا قطعی اور یقینی طور پر قتل ہے.جن لوگوں کے قتل کی مثالیں پیش کی گئی ہیں ان کے بارے میں کوئی ایک بھی حتمی دلیل نہیں پیش کی گئی کہ انہیں صرف اور صرف تو ہین رسالت کی بنا پر ہی قتل کیا گیا تھا بلکہ خود ہی اس بات کو بھی پیش کرتے ہیں کہ ان کے اس کے علاوہ یہ بھی جرائم تھے اور و ہی جرائم ایسے تھے جن کی سزا اسلام قتل بیان کرتا ہے جس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہو سکتا.ایسی تمام مثالیں پیش کر دی گئی ہیں.دوسرا مسئلہ ذقی کا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ذمی اگر تو بین رسالت کرے تو اسے قتل کیا جائے گا، نہ اس پر احسان کرنا جائز ہے اور نہ فدیہ لینا روا ہے.اس سلسلہ میں بھی جو اختلاف پایا جاتا ہے اسے پیش کیا گیا ہے.اور خود ہی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ذقی عبد شکنی کر کے جب حربی ہوگا تو قتل کیا جائے گا.اور دوسری طرف یہ بھی ثابت کیا جاچکا ہے کہ اگر کوئی ذمّی
312 عہد توڑتا ہے تو تا وقت کہ وہ مسلم ریاست سے باہر نہ چلا جائے اسے امان دی جائے گی.اسی وہ طرح حوالہ جات سے یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی ذقی تو بہ کرے اور معاہدہ پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو اسے معاف کیا جائے گا.اور اس سے احسان کا سلوک کیا جائے گا.تیسرا مسئلہ تو بہ قبول کرنے کا تھا کہ توہین رسالت کرنے والے کی توبہ قبول کی جائینگی یا نہیں؟ اس کی بھی مثالیں پیش کی گئی ہیں خود رسول مقبول علیم نے جب سنگین جرائم کرنے والوں اور تو بین کرنے والوں کو معاف کر دیا تو صرف تو بین رسالت کرنے والوں کا مسئلہ تو کوئی چیز ہی نہیں ٹھہرتا.جس نے بھی آپ صلیم سے معافی طلب کی آپ نے اسے معاف کر دیا.اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تو بہ کرنے والے کی توبہ قبول کی جائے گی.چوتھا مسئلہ یہ تھا کہ گالی کی تعریف کیا ہے کون سی بات گالی کہلاتی ہے اور کون سی نہیں کہلاتی ؟ جس پر شروع میں ہی بحث گزر چکی ہے.دراصل یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ان کو قرآن کریم اور اسوہ رسول کی روشنی میں ہی پرکھا جانا ضروری ہے.اور وہیں سے ان سب باتوں کا حل دکھائی دیتا ہے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ کسی بھی بات پر فتوی دیدنے سے قبل قرآن کریم اور سنت رسول صلیم پر غور کیا جائے کہ وہ اس بارے میں کیا بیان کرتے ہیں.جب ہم ہر مسئلہ کو قرآن کریم اور سنت رسول مہم کی کسوٹی پر پرکھیں گے تو ہمیں ہر معاملہ میں ایک راہنما اصول دکھائی دیگا جس پر کسی بھی مخالف کو اعتراض کرنے کا موقعہ ہاتھ نہ آئے گا.اور اسلام کی اصلی اور حقیقی صورت سب کو صاف دکھائی دیگی.قرآن کریم اور سنت نبوی علیم ہمارے سامنے ہے اس کے ہوتے ہوئے حکومت پاکستان نے اس کے برعکس تعزیرات پاکستان میں C-295 دفعہ کا اضافہ کیا جس میں تو بین رسالت کرنے والے کی سز اقتل مقرر کی گئی جو کہ پہلے بھی درج کی گئی ہے حسب ذیل ہے
313 295-C.Use derogatory remarks, etc.,in respect of the Holy prophet: Whoever by words, either spoken or written or by visible reprsentation or by any imputation, innuendo, or insinuation,directly or indirectly, defiles the sacred name of the Holy prophet Muhammad (peace be death, or with punished be shall upon him) imprisonment for life, and shall also be liable to fine.(Pakistan penal code (Act XI.V of 1860) page108) پاکستان جو اپنے آپ کو اسلامی جمہوریہ کا نام دیتا ہے لیکن قانون ایسا بنا یا جو کہ قرآن کریم اور سنت نبوی علیم اور احادیث رسول کے بالکل برعکس.اس قانون کی تائید میں ایک بھی قرآن کریم کی آیت پیش نہیں کی جاسکتی جیسا کہ آپ ساری بحث پڑھ چکے ہیں.اس قانون کو پاس کروانے کے لئے پاکستان کے علماء نے خوب زور لگایا اورحکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ یہ قانون پاس کرے.آخر اس غیر اسلامی قانون کو پاس کروانے میں یہ علماء کامیاب ہو گئے.علماء نے اپنے موقف کی تائید میں کتابیں بھی لکھ ماریں جیسا کہ بعض کتب کے حوالے دئے بھی گئے ہیں.انہیں میں سے ایک ”شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب بھی ہیں جن کی کتاب ” تحفظ ناموس رسالت ہے جس کے کئے حوالے پیش کئے جا چکے ہیں.یہ ایک ادارہ منہاج القرآن کے نام سے بھی چلاتے ہیں.عالم دین تو تھے ہی لیکن اب یہ ایک سیاسی لیڈر بھی بن گئے ہیں.انہوں نے اپنی کتاب میں پورا زور اس بات پر لگایا
314 ہے کہ توہین رسالت کرنے والے کی سزا اسلام میں قتل ہے تو بین رسالت کرنے والا کوئی ذھی ہو یا کافر یا مسلمان مرد ہو یا عورت تو بہ بھی قابل قبول نہیں سب قتل کئے جائیں گے.ان کا اپنا بیان ہے کہ انہوں نے اس قانون کو بنوانے میں بہت زور لگایا ہے اس بات کا اظہار کئی مجالس میں بھی کر چکے ہیں.لیکن یہی صاحب جب کینیڈا امریکہ جاتے ہیں اور وہاں کا میڈیا جب ان سے اس قانون کے تعلق سے سوال کرتا ہے تو موصوف اپنی ہی کتاب میں پیش کئے ہوئے مؤقف اور پاکستان میں کی گئی تقاریر اور کوششوں کے بالکل برعکس بیان دیتے ہیں.اس قانون کے بنوانے اور اس کی تائید کرنے سے اپنا پلہ جھاڑتے ہوئے صاف دکھائی دیتے ہیں اور یہ سب باتیں ریکارڈ میں موجود ہیں اور اس کو فیس بک اور واٹس آپ پر بھی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے.پاکستان میں ایک دفعہ ایک مجلس میں جور یکا ڈڈ ہے فرمایا.میں اسٹینڈ یہ لے رہا تھا اور یہی قانون بنوایا.میرا پوائیٹ آف ویو یہ تھا کہ جو بھی گستاخئی رسول کا مرتکب ہو مسلمان ہو یا غیر مسلم مرد ہو یا عورت.مسلمان ہو یہودی ہو عیسائی 66 ہو ہندو ہو مرد ہو یا عورت جو بھی گستاخی رسول کا مرتکب ہو اس کی سزا قتل ہے.“ پھر فرمایا تو میں اس لئے تحدیث نعمت کے طور پر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ قانون تحفظ ناموس رسالت کا ناموس رسالت کا C-295 جو یہ قانون بنا ہے اس ملک میں، میں یہ ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ کس کی کوشش سے بنا تھایہ قانون ، یہ قانون بنوایا ہی میں نے تھا.پھر یہ ہوا کہ میں پور اواقعہ آپ کو بتادوں کہ 1985 میں جب اٹھارہ گھنٹے کے میرے دلائل مکمل ہو گئے تو اس وقت جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی اور شوری تھی تو 1986 ہو گیا 87 چلتار با یہ عرصہ انہوں نے یہ فائل اور کچھ لوگ جنرل ضیاء الحق کو ملے جو شوریٰ میں تھے تو انہوں نے کہا کہ عدالت میں یہ
315 فیصلہ ہو گیا ہے اور عدالت نے لکھ لیا یہ فیصلہ میرے دلائل ہو گئے ہیں بڑے مقسوط اور عنقریب عدالت فیصلہ سنانے والی ہے تو عدالت کے فیصلے سے قانون بنے گا تو آپ کو کوئی نہیں جائے گا کریڈٹ.انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ حدود آرڈیننس جاری کر رہے ہیں اور کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں تو حدود میں آپ خود شامل کر لیں اور بطور آرڈینٹس اینڈ دا ایکٹ آف پارلیمنٹ، پارلیمنٹ کی طرف سے اس کو جاری کرلیں تو کریڈٹ آپ کو چلا جائے گا کہ آپ نے دین کی خدمت کی ہے تو بجائے اس کے کہ عدالت سے اناؤنس ہو آپ اناؤنس کر دیں پارلیمنٹ کی طرف سے تو تب جنرل ضیاء الحق نے عدالت کو آرڈر بھیجے کہ دونوں فائل اور فیصلہ مجھے بھیج دیں.وہ منگوالیا اور جوفیصلہ لکھا تھا اسے ایکٹ آف پارلیمنٹ بنادیا.اور اس طرح یہ قانون بنا پارلیمنٹ کے ذریعہ.تو بتانا یہ چاہتا ہوں کہ یہ تحفظ حرمت رسالت اور تحفظ رسالت کا قانون جو توہین رسالت کے بعد بھی C-295 یہ صرف اور صرف آپ کے خادم اور آپ کے بھائی کے ذریعہ اللہ نے بنوایا ہے اس میں کسی اور کا کنٹری بیوشن نہیں ہے.اور یہ تاریخ جانتی ہے جو آج سے جن کی عمر ۲۶ سال پہلے جوسن شعور میں تھے اور جن کو اس زمانے کے واقعات یاد ہیں وہ معمر جو آپ میں کئی بیٹھے ہونگے اس زمانے کے جن کو یہ ساری سٹوری یاد ہو گی ذرا وہ ہاتھ کھڑا کریں.زیادہ عمر والے سب لوگوں کو پتہ ہے.لاہور ہائیکوٹ کی یہ بلڈنگ درود یوار گواہ ہیں" پھر فرماتے ہیں حرمت رسول کی عظمت کے لئے ناموس رسول کے لئے تا کہ گستاخی کے سارے راستے اور امکانات بند ہو جائیں.مسلم و کافر عورت اور مرد اور تو بہ کرنے والا اور غیر تائب سب کے لئے جس نے رسول کی گستاخی کی وہ بے ایمان قتل ہو جائے اور کتے کی طرح جہنم میں رسید کر دیا جائے جو گستاؤ ورسول ہے.میں سارے راستے اس گناہ کے بند کرنا چاہتا تھا.“
316 یہ صاحب جب باہر کے ملک میں جاتے ہیں تو اس قانون کے بنوانے کی بات کرنا تو دور کی بات یہ اس سے ایسے پلہ جھاڑتے ہیں کہ میں تو اس قانون کے حق میں ہی نہیں اور مجھ سے تو مشورہ بھی نہیں لیا گیا اس قانون کے بارے میں میری بہت سے ریزرویشنز ہیں وغیرہ یہ موصوف پاکستان سے باہر کے ایک ٹی وی چینل والے کوانٹرویو دے رہے ہیں کیا فرماتے ہیں پڑھیں.جب C-295 والے قانون کے بارے میں سوال کیا گیا تو جواب میں فرماتے ہیں Whatever the law of blasphemy is, is not applicable on non muslims is not applicable on jews and Christians and other non muslim minorities, it is just to be dealt with Muslims.پھر فرماتے ہیں.And to explain the situation the Danish Integration Ministry and the minister, they are, have been totally receiving wrong information they should try to correct their source of information.The fact is, I am not saying for the sake of the conference, fact is that I was never a consultant or adviser to Genral Zia-ul-Haq.The president who made the law of blasphemy in 80s.I had never been a member of his cabinet.I was never a member of the parliament in his days.They invited
317 me offered me to be Federal Minister for three times.l refused and I never joined his dictatorial group and the way he was formulating the Sharia law.was totally against it.Question of reporter: So you are against the Blasphyemy law? Answer:Finally when this law was made, The president Zia-ul-Haq never consulted me and I was never a part of shaping this law in the parliment made by General Zia-ul-Haq.This is absolutely clear.so they have wrong information that I was......Question: Are you pro or against the most discussed Blasphemy law? Answer: There are two aspects First of all, after clearly clarifying the situation.That I was never a part of shaping in the parliament.Question: Why there is a controversy around your person and the minister says that she is against the canon law and you apparently support.Do you support
the canon law? 318 answer: with differ | the procedural and administrative, all procedural law of this matter.I have many resevations.I have difference of opinion.قارئین ہر دو بیان پڑھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ صاحب جو کہ اپنے آپ کو ایک عالم مانتے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو انہوں نے اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے کس قدر دیدہ دلیری سے غلط بیانی کر رہے ہیں.پاکستان کے لوگوں میں بیٹھ کر اس قانون کا سارا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں اور جب باہر کے ملک میں جا کر اسی قانون پر بات کرتے ہیں تو صاف مکر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس قانون سے تو میرا کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے میرا تو اس میں کوئی دخل عمل ہی نہیں ہے اور میں تو اس قانون کے بالکل خلاف ہوں.جب یہ قانون بنا نہ تو میں پارلیمنٹ کا ممبر تھا اور نہ ہی اس بورڈ کا ممبر تھا جس نے یہ قانون بنایا.اس قدر ڈھٹائی سے کوئی عالم جھوٹ بولے گا یہ بات سوچ سے بھی بعید ہے.یہی صاحب ہیں کہ ایک مرتبہ ARY نیوز چینل پاکستان کے ایک صحافی کو انٹرویو دے رہے تھے تو ان سے سوال ہوا کہ آپ کتنے فی صد سچ بولتے ہیں تو جواب دیتے ہیں کہ میں سو فی صد سچ بولتا ہوں، موصوف کتنے فی صد سچ بولتے ہیں قارئین خودان کے خود کے بیانوں سے اندازہ کر سکتے ہیں.واقعی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ اندھوں میں کانا راجہ لیکن یہی صاحب جب پڑھے لکھوں میں جاتے ہیں اور غیر اسلامی قانون کے بنائے جانے پر جب اعتراض ہوتے ہیں تو ہی اسلام کی صحیح تعلیم ان کی زبان سے جاری ہوتی ہے ؟ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ان کی مجبوری ہے اگر یہ ایسا نہ کریں تو یا تو اسی وقت ملک بدر کئے جائیں یا قیدی بن کر اپنی زندگی گزاریں گے.ان کے اس بیان سے جو انہوں نے پاکستان
319 سے باہر کے ملک میں دیا ہے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خود ان کی کتاب بھی اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے اور پاکستان میں بنایا گیا تو بین رسالت کا قانون بھی اسلامی تعلیمات کے بر خلاف ہے.اور حقیقت یہی ہے کہ اسلام کسی بھی تو ہین رسالت کرنے والے کے لئے قتل کی سزا بیان نہیں کرتا.بلکہ ایسے شخص کو کیا سزاد ینی ہے اسے اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور کسی بندے کو قتل کی سزا دینے کا اختیار نہیں دیا.البتہ اگر کوئی سیاسی حکومت اپنے ملک میں کوئی ایسا قانون بنا دے کہ توہین رسالت کرنے والے کی سز اقتل ہوگی تو ایسا قانون ملکی قانون تو کہلائے گالیکن اسلامی قانون ہر گز نہیں کہلا سکتا کیونکہ اسلام میں توہین رسالت کرنے والے کی سز اقتل بیان نہیں کی گئی.
320 اجماع صحابہ رضی اللہ تھم سے استدلال امام ابن تیمیہ نے اجماع صحابہ کا عنوان باندھ کر دو تین واقعات بیان کئے ہیں لیکن ان کی کوئی شہادت پیش نہیں کی صرف سیف بن عمر اتمیمی کے کتاب الردة والفتوح کے حوالہ سے جس میں وہ اپنے شیوخ کے حوالہ سے بات بیان کرتے ہیں درج کیا ہے جس میں حضرت ابو بکر کے ایک خط کا ذ کر تاریخ طبری کے حوالہ سے کیا ہے.اس میں بھی ایسا کوئی جملہ دکھائی نہیں دیتا کہ جس سے یہ خیال بھی کیا جا سکے کہ حضرت ابوبکرؓ نے قرآن وسنت کے حوالہ سے کوئی بات بیان کر کے کسی کے قتل کا حکم دیا ہے.جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ تاریخ جمع کرنے والوں نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ یہ بات درست ہے یا نہیں بلکہ ان تک جو بات بھی پہنچی وہ انہوں نے تاریخ کا حصہ بنادی اس طرح بہت سے ایسے واقعات بھی تاریخ میں ملتے ہیں جن کے سچا ہونے پر یقین نہیں آتا کیونکہ ایسا عمل قرآن وسنت کے خلاف ہے اور مسلمان آغاز اسلام میں ہی اسلامی تعلیم سے اس قدر دور ہو جائیں گے ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا.الغرض خلافتِ راشدہ کے دور سے کوئی ایک واقعہ بھی ایسا بیان نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ توہین رسالت کرنے والے کی سزا قتل ہے اور خلفائے راشدین اس پر عمل کرتے رہے ہیں.اس عنوان کے تحت چھ صفحات پر بحث کی ہے لیکن ایک بھی حوالہ درج نہیں کیا صرف عمومی بحث کر کے دلیل دینے کی کوشش کی ہے.یہی وجہ ہے کہ باقی مصنفین نے اس عنوان پر کچھ بیان کرنے سے اجتناب کیا ہے اور تاریخ اسلام میں خلافت راشدہ کے دور میں ہمیں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ کسی کو تو بین رسالت کی بنا پر قتل کیا گیا ہو.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس زمانہ میں اصحاب رسول اور خلفائے اسلام اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اسلام کسی ہجو کرنے والے اور توہین رسالت کرنے والے کے لئے قتل کی سزا مقرر نہیں کرتا.کیونکہ رسول
321 کریم عالم کا اسوہ ان لوگوں کے سامنے تھا.اور صحابہ رسول قرآن کریم کے حوالہ سے اس بات سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے کہ یہ سلسلہ ہر نبی کے دور میں چلا ہے اور کسی نبی نے بھی ایسی ہجو کرنے والوں کے قتل کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی قرآن کریم میں ایسا کوئی حکم موجود ہے.اس سلسلہ میں ایک دلیل گزشتہ صفحات میں پیش کی جا چکی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابوبکر کے ساتھ گستاخی کی تو ایک صحابی نے حضرت ابوبکر صدیق سے اس کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے منع فرما دیا.اور فرمایا کہ ایسا حق صرف رسول کریم علی ایم کو تھا ان کے بعد کسی کو یہ حق نہیں.اس پر لمبی بحث پیچھے گزری ہے اسے دہرانا نہیں چاہتا.اس سلسلہ میں صرف اس قدر درج کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ جس بات کی دلیل قرآن کریم سے پیش نہ کی جاسکتی ہو سنت نبوی صلیم میں جس پر عمل دکھائی نہ دیتا ہو اور احادیث میں بھی جس کی شہادت موجود نہ ہو اس کے بالمقابل اگر کو شخص ہزار دلیل بھی پیش کرے وہ قابل قبول نہیں ہو سکتی ایسے تمام لوگ جو اسلام میں تو بین رسالت کی سز اقتل کے حق میں ہیں ان کے پاس کوئی ایک بھی دلیل موجود نہیں جو وہ قرآن کریم سے پیش کر سکیں جو وہ سنت نبوی ملا لیں اور اسوہ رسول علی ایم سے پیش کر سکیں کہ محض ہجو گوئی اور توہین رسالت کرنے کی بنا پر کسی کو قتل کرنے کا حکم ہو یا رسول کریم بلی نے محض اس بنا پر کسی کوقتل کروادیا ہو.البتہ جن لوگوں کو بھی قتل کرنے کا آنحضرت علی علیم نے حکم دیا اس کی وجہ ان کے دیگر سنگین قسم کے جرائم تھے جن جرائم کی سزا آج بھی قتل ہی بیان کی جاتی ہے ہاں ان سنگین جرائم کے ساتھ ساتھ وہ تو بین رسالت بھی کرتے تھے اور بجو گوئی بھی کرتے تھے لیکن سزا اس جرم کی نہیں دی گئی اور اسلام نہ ہی ایسے جرائم کی سز اقتل کا حکم دیتا ہے.جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ کتاب کے مصنف نے شروع میں تو قرآن وحدیث کے
322 حوالوں سے بات کو بیان کیا ہے اگر چہ نتیجہ ان تعلیمات اور احکامات کے خلاف نکالا ہے جیسا کہ ثابت کیا جا چکا ہے.باقی کی ساری کتاب ہی انہیں بیان کردہ واقعات کے گرد گھومتی ہے.کبھی ذقی کی بات کو بیان کر کے اس پر بحث کی گئی ہے تو کہیں منافق کی بحث کو اٹھایا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ منافق کی سزا قتل ہے.کبھی زندیق کا ذکر کر کے اسے قتل کرنے کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی ہے لیکن قرآن وسنت وحدیث سے ایک بھی دلیل پیش نہیں کی گئی.اور اگر کسی جگہ کوئی دلیل پیش کی بھی ہے تو وہی آیات اور احادیث اور واقعات دہرا دئے گئے ہیں جن کو بیان کیا جا چکا ہے.کوئی ایک بھی نئی دلیل پیش نہیں کی گئی.خلاصہ کلام یہ کہ کتاب کے شروع میں جن چار مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا تھا ان پر سیر حاصل تفصیل پیش کی گئی ہے.اور جو بھی ان مسائل سے توہین رسالت کی سز اقتل کے قائل ہیں قرآن کریم سنت و حدیث ان کا ساتھ نہیں دیتی بلکہ قرآن سنت و حدیث ایسے مجرموں کو سزاد بینا اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے کہ اللہ ہی ان کو سزاد یگا کسی بندے کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ ازخود کھڑا ہو کر شاتم رسول یا تو بین رسالت کرنے والے کو قتل کرنا شروع کر دے.پس یہی حقیقی اسلامی تعلیم ہے جس پر خو درسول مقبول صلیم نے عمل کر کے لوگوں کے لئے اسوہ حسنہ چھوڑا ہے.اسی طرح یہ بحث بھی بار بار اٹھائی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان نے ایسی گستائی کی ہو تو وہ مرتد کہلائے گا اور مرتد کی سزا قتل ہے لیکن پوری بحث میں ایک بھی قرآن وحدیث سے دلیل نہیں پیش کی گئی.اول تو مسلمان ایسا فعل کر ہی نہیں سکتا لیکن اگر کوئی اپنے ارتدا کو اعلان کر بھی دے تب بھی اسلام اسے قتل کی سزا نہیں دیتا اس پر بھی تفصیلی بحث پیچھے گزر چکی ہے.فتویٰ جاری کرنا ایک بات ہے لیکن اس کے لئے قرآن کریم سے دلیل پیش کرنا یہ اور بات ہے.اور اسلام کی بنیا دفتوؤں پر نہیں بلکہ قرآن کریم کی شریعت پر ہے.
323 توہین رسالت کے مواقع پیدا کرنے کے ذمہ دار کون؟ اس بات میں تو شک نہیں کہ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ توہین رسالت ہر نبی کے زمانہ میں ہوتی رہی ہے اور کوئی نبی بھی مخالفین کی ایسی حرکتوں سے محفوظ نہیں رہا.ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ملا لیا جو سب نبیوں کے سردار ہیں آپ پر بھی مخالفین اسلام نے ویسے ہی حملے کئے لیکن ان حملوں کا موقعہ خود مسلمانوں نے مہیا کیا اس کا باعث خواہ ان کی اپنی کم فہمی ہے یا پھر ان اسرئیلی روایات کا اثر ہوسکتا ہے جن سے مسلمان متأثر ہوئے اور ان کو قرآن کریم کی تفاسیر میں شامل کیا اور ضعیف روایات کو لیکر ان سے دلیل پکڑی اور اسے اسلامی تعلیمات کا حصہ بنا دیا.جسے آگے چل کر عیسائی مستشرقین نے انہیں مسلمانوں کے حوالہ سے اپنی کتب میں درج کیا اور اسلام پر حملہ آور ہوئے.ایسے واقعات کا جائزہ لینے کے لئے کتاب ” تفاسیر القرآن میں اسرائیلی روایات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ہی مؤرخین نے ہر سنی سنائی بات کو اٹھایا اور اسے تاریخ کا حصہ بنادیا اصل واقعہ کی تہہ تک پہنچنے کی انہوں نے کوشش ہی نہیں کی اور پھر واقدی جیسے بعض ایسے مؤرخین بھی آئے جن کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ یہ روایات کو خو بھی گھڑ لیا کرتا تھا اور بات کو اس طرح بیان کرتا تھا کہ گویا یہ اس واقعہ کے موقعہ پر خود وہاں موجود تھا اور سارا واقعہ ہی اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.آج بھی بعض ایسے لوگ ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں خاص طور پر شیعہ حضرات میں کہ جب وہ واقعہ کربلا کا ذکر کرتے ہیں تو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا ہے.آج کے دور میں سکھوں میں بھی بعض ایسے لوگ ملتے ہیں کہ جب وہ کسی واقعہ کا ذکر کر رہے ہوں تو ان کے واقعہ کا ذکر کرنا ایسے ہی دکھائی دیتا ہے کہ گویا شخص خود اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہے.ان باتوں سے کچھ نہ کچھ تو ضرور اندازہ ہو جاتا ہے کہ خود مسلمان علماء نے توہین رسالت کرنے
324 والوں اور اپنے مخالفوں کے کس قدر ہاتھ مضبوط کئے ہیں.اس میں مسلمانوں کی حالت ابتری کا بھی بڑا عمل دخل ہے.
325 دور حاضر اور اسلام پر حملے آنحضرت صلیم نے پیشگوئی کے رنگ میں یہ بات بیان فرمائی تھی کہ میری صدی سب سے بہترین صدی ہے اور کچھ کم درجہ کی اس کے ساتھ والی اور پھر اس کے کم درجہ کی اس کے ساتھ والی.اس طرح آپ میلیم نے تین صدیوں کو خیر القرون کا درجہ دیا ہے.اور یہ ایک حقیقی بات ہے کہ زمانہ جیسے جیسے بنی کے زمانہ سے دور ہوتا جاتا ہے اس میں اسی قدر خامیاں اور کمزوریاں واقع ہوتی جاتی ہیں یہی اسلام کے ساتھ ہوا.پہلے پہل لکھنے پڑھنے کا رواج بھی کم تھا جیسے جیسے اس میں زیادتی ہوئی اور اس آخری زمانہ میں مذاہب کی آپسی محاذ آرائی شروع ہوئی تو ساتھ ہی ایک دوسرے کے مذاہب پر ان کے ماننے والوں نے حملے تیز کر دئے.اسلام کی آمد کے ساتھ ہی عیسائیوں کو ہر ملک میں ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا تھا.عیسوی مذہب نے جب دنیا میں دوبارہ ترقی کی اور مسلمان ہر میدان میں کمزور ہو گئے اس وقت عیسائی مستشرقین نے اسلام میں کمزوریاں تلاش کرنی شروع کیں اور مؤرخین اسلام کی ان روایات کو انہوں نے لیا جن سے کسی نہ کسی طرح اسلام پر زد پڑتی تھی.اسی طرح قرآن کریم اور آنحضرت علایی کی سیرت پر بھی اعتراضات کے انبار لگا دئے اور مسلمانوں میں اتنی بھی سکت نہ رہی کہ یہ ان کے اعتراضات کا جواب دے پاتے.جب عیسائیت ہندوستان میں داخل ہوئی تو ان کی دیکھا دیکھی ہندؤوں اور خاص طور پر آریوں نے بھی اسلام پر شدید حملے کرنے شروع کر دئے.جس طرح عیسائی پادری رسول کریم بیلی یا لیلی کے بارے میں ناپاک زبان استعمال کرتے تھے آریوں نے بھی کرنی شروع کر دی لیکن مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا کہ وہ ان حملوں کا جواب دے سکتا.خود مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ بڑے بڑے علماء عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے مساجد کے شاہی امام تک پادریوں سے فکست کھا کر خود پادری بن گئے.
326 جن میں پادری عماد الدین، پادری عبد اللہ آتھم ، پادری سراج الدین کے نام شہادت کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں.اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے اخبار البشیر نے اپنی ایک اشاعت میں لکھا بعثت پیغمبر آخر الزمان کے وقت عیسائیوں اور یہودیوں میں جو فرقہ بندی تھی ان کی تاریخ اٹھا کر پڑھو اور پھر آج کل کے علماء اسلام کا ان سے مقابلہ کرو تو صاف طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ آج بہت سے علماء اسلام کی جو حالت ہے وہ فوٹو ہے اس زمانہ کے علماء یہود اور نصاری کی اخبار ”البشير “اٹا واستمبر 1925 ء) محترم الطاف حسین حالی نے سن 1889ء میں مسلمانوں کی بدحالی کو یوں نقشہ کھینچا تھا.ربادین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی پھر علامہ اقبال نے مسلمانوں کے بارے میں لکھا وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں! ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود مودودی صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ آپ اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کا جائزہ لیں گے تو اس میں آپ کو بھانت بھانت کا مسلمان نظر آئے گا.مسلمانوں کی اتنی قسمیں ملیں گی کہ آپ شمار نہ کرسکیں گے.یہ ایک چڑیا گھر ہے جس میں چیل، کوے، گدھ، بٹیر، تیتر اور ہزاروں قسم کے جانور جمع ہیں اور ان میں ہر ایک چڑیا ہے.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ 31 زیر عنوان تحریک اسلامی کاننزل) پس مسلمانوں اور اسلام کی کمزوری کے وقت جب اسلام اور حضرت محمد مصطف معلم اور قرآن کریم پر چوطرفہ حملے ہورہے تھے اور توہین رسالت کا بازار گرم تھا اس وقت اللہ کا ایک ہی
327 پہلوان تھا جو ان کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہوا جسے خدا نے مقام مہدی عطا کیا تھا جو حکم اور عدل ہو کر آیا اس نے قرآن کریم کو ہاتھ میں لیا اور اس میں بیان کردہ اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے توہین رسالت کرنے والوں اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کا منہ توڑ جواب دیا جس کا اعتراف اپنوں نے نہیں بلکہ بیگانوں نے بھی کیا اور وہ اصول سمجھائے جس کے ذریعہ اسلام کی حقانیت دنیا والوں پر ظاہر ہوئی اور حضرت محمد مصطفے بلی کا روشن اور پاک چہرہ مخالفین اسلام پر ظاہر ہوا.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے تمام مخالفین اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے سب سے پہلے جو کتاب لکھی وہ براہین احمدیہ تھی.آپ نے اس کتاب میں تمام مذاہب والوں کو مخاطب کیا اور دس ہزار روپے انعام کے چیلنج کے ساتھ ایک اشتہار بھی شائع فرمایا.اس میں پیش کردہ چیلنج آج بھی اسلام کے مخالفوں کو دعوت دیتا ہے کہ آؤ اور اسلام اور قرآن اور حضرت محمد مصطفے علم کی عالی شان کے بالمقابل اپنی مذہبی کتب سے، اپنی کتب اور اپنے انبیاء کا مقابلہ کروان کی شان بیان کرو لیکن آج تک بھی کوئی ایک بھی اس انعام کو حاصل کرنے کے لئے سامنے نہیں آیا.اسی بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں.میں جو مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہار اپنی طرف سے بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ بمقابلہ جمیع ارباب مذہب اور ملت کے جو حقانیت فرقان مجید اور نبوت حضرت محمد مصطفے سلیم سے منکر ہیں اتماما للحجہ شائع کر کے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب منکرین میں سے مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے اُن سب برابین اور دلائل میں جو ہم نے دوبارہ حقیت فرقان مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیاء عال العالم
328 اُسی کتاب مقدس سے اخذ کر کے تحریر کی ہیں اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت کر کے دکھاوے یا اگر تعداد میں اِن کے برابر پیش نہ کر سکے تو نصف ان سے یا ثلث ان سے یا ربع ران سے یا خمس ان سے نکال کر پیش کرے یا اگر بنگالی پیش کرنے سے عاجز ہوتا ہمارے ہی دلائل کو نمبر وار توڑ دے تو اُن سب صورتوں میں بشرطیکہ تین منصف مقبولہ فریقین بالاتفاق یہ رائے ظاہر کر دیں کہ ایفاء شرط جیسا کہ چاہئے تھا ظہور میں آ گیا میں مشتہر ایسے مجیب کو بلاغذ رو حیلے اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دونگا.مگر واضح رہے کہ اگر اپنی کتاب کی دلائل معقولہ پیش کرنے سے عاجز اور قاصرر ہیں یا برطبق شرط اشتہار کی خمس تک پیش نہ کرسکیں تو اس حالت میں بصراحت تمام تحریر کرنا ہو گا جو بوجہ نا کامل یا غیر معقول ہونے کتاب کے اس شق کے پورا کرنے سے مجبور اور معذور رہے.اور اگر دلائل مطلوبہ پیش کریں تو اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو کہ ہم نے خمس دلائل تک پیش کرنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس سے ہماری یہ مراد نہیں ہے جو اس تمام مجموعہ دلائل کا بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے نصف یا ثلث یا ربع یا خمس پیش کر دیا جائے بلکہ یہ شرط ہر یک صنف کی دلائل سے متعلق ہے اور ہر صنف کے براہین میں سے نصف یا ثلث یا ربع یا خمس پیش کرنا ہو گا.“ روحانی خزائن جلد ا اشتہار صفحہ 24 تا 31 مطبوعہ لندن) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں اسلام اور قرآن کریم اور آنحضرت سلام کی توہین کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا اور ساری دنیا پر اسلام قرآن کریم اور آنحضرت علی کی زبر دست حقانیت اور صداقت پیش فرمائی اور آج تک بھی کسی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ کوئی اس کا جواب دیتا.توہین رسالت کرنے والوں کو یہ آپ کا پہلا جواب تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق توہین رسالت کرنے والوں کو جواب دینے کے لئے عین
329 قرآنی حکم کے مطابق تھا اسی بات کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس طرح بیان فرماتا ہے کہ أَدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أحْسَنُ ( النحل آیت ۱۲۶) یعنی (اے رسول) تو ( لوگوں کو ) حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ سے اپنے رب کی راہ کی طرف بلا.اور اس طریق سے جو سب سے اچھا ہو.ان سے اُن کے اختلافات کے ( متعلق ) بحث کر.قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق یہی وہ طریق ہے جس سے مخالفین اسلام کا مقابلہ کرنا چاہئے اسلام کا عدل اور انصاف کا قانون بھی یہ بیان کرتا ہے جس کا کہ اس کتاب کے شروع میں ذکر بھی کیا گیا ہے.یہ بات انصاف کے خلاف ہے کہ کوئی شخص قلم سے حملہ کرے تو اس کے خلاف تلوار سونت لی جائے.قلم کا جواب قلم سے دینا اور تلوار کا جواب تلوار سے دینا یہی انصاف ہے.جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توہین رسالت کرنے والوں کا جس طرح دندان شکن جواب دیا اس کا اعتراف بیگانوں نے بھی کیا اس کی بھی چند شہادتیں پیش کرتا ہوں.قرآن کریم کا ایک ترجمہ جو معجز نما عکسی کے نام سے باجازت مولوی نور محمد صاحب کتب خانه رشید یہ دہلی سے شائع ہوا ہے.اس کے شروع میں ایک دیباچہ آغا زانسان.قدیم قوموں اور پیغمبروں کا بیان کے نام سے شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے انبیاء کا اختصار سے ذکر کرتے ہوئے آخری زمانہ میں مسلمانوں میں پائے جانے والے اختلافات اور ان کی کمزوری کا بھی ذکر کیا ہے اسی سلسلہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ.اسی زمانہ میں پادری لفرائی پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لیکر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا ولایت انگریزوں سے
330 روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرارلیکر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا اسلام کی سیرت اور احکام پر جو اوسکا حملہ ہوا تو وہ ناکام ثابت ہوا کیونکہ احکام اسلام اور سیرت رسول اور احکام انبیاء بنی اسرائیل اور ان کی سیرت جن پر اوسکا ایمان تھا یکساں تھے.پس الزامی و نقلی و عقلی جوابوں سے ہار گیا.مگر عیسی کے آسمان پر جسم خا کی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا جملہ عوام کے لئے او سکے خیال میں کارگر ہوا تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لفرائی اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسی جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لواس ترکیب سے او سے لفرائی کو اس قدر تنگ کیا کہ اوسکو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اوسنے ہندوستان سے لیکر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دیدی.“ معجز نما عکسی مترجم به دوترجمه مطبوعہ کتب خانه رشید به دیلی صفحه ۳۰) اسی طرح کرزن گزٹ کے ایڈیٹر میرزا حیرت صاحب دہلوی نے لکھا مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال یہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.....اگر چہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلنی بلندی میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.....اس کا پر زور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض
331 عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے.....اس نے ھلاکت کی پیشگوئیوں مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا.( کرزن گزٹ دہلی مورخہ یکم جون ۱۹۰۸) اسی طرح اخبار وکیل نے لکھا و شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جود ما فی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی انگلیوں میں انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا....مرزا غلام احمد قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے.شخص جن سے مذہبی و عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عام پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر ہاں مسلمانوں کو تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کر دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات کے ساتھ وابسطہ تھی خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے....مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج
332 جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے....آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو.“ ( اخبارہ کیل امرتسر ) اسی طرح سید حبیب احمد صاحب سابق مدیر سیاست اپنی کتاب تحریک قادیان میں لکھتے ہیں.اس وقت کہ آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے.اسے ڈسے جو عالم - دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہو گئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا.اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آر یہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کرلیا.میں مرزا صاحب کے ادعائے نبوت وغیرہ کی قلعی کھول چکا ہوں لیکن بقولیکہ ع عیب دی جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو.مجھے یہ کہنے میں زرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دئے.اسلام کے متعلق ان کے بعض مضامین لا جواب ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنی کامیابی سے متأثر ہو کر نبوت کا دعویٰ نہ کرتے تو ہم انہیں زمانہ حال میں مسلمانوں کا سب سے بڑا خادم مانتے.لیکن افسوس کہ جس کی ابتداء اچھی تھی انتہاء وہ نہ رہی جو ہونا چاہئے تھی.‘“ (تحریک قادیان صفحہ 210) حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے جب کتاب برا بین احمد یہ تصنیف فرمائی جو تمام مخالفین اسلام کے لئے ایک چیلنج تھی اس کی اشاعت پر مولوی محمد حسین بٹالوی نے جور یو یولکھا وہ بھی آپ علیہ السلام کی خدمت اسلام پر ایک دال ہے.لکھتے ہیں ”ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی...اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و
333 لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ مجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کے نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بیڑا اٹھالیا ہو اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود والہام کا شک ہو.وہ ہمارے پاس آکر تجربہ و مشاہدہ کرلے اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزا چکھادیا ہو.“ اشاعۃ السنہ جلد ہفتم نمبر 6 صفحہ 169-170) اس تبصرہ کے آخری الفاظ اس طرح سے ہیں مؤلف براہین احمدیہ نے مسلمانوں کی عزت رکھ دکھائی ہے اور مخالفین اسلام سے شرطیں لگا لگا کر تحدی کی ہے.اور یہ منادی اکثر روئے زمین پر کر دی ہے کہ جس شخص کو اسلام میں شک ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اس کی صداقت دلائل عقلیہ قرآنیہ و معجزات نبوت محمدیہ سے ( جس سے وہ اپنے الہامات و خوارق مرا در کھتے ہیں ) بچشم خود ملاحظہ کرلے.“ ( اشاعۃ السنہ جلد ہفتم نمبر 6 صفحہ 348) الغرض توہین رسالت اور تو بین اسلام اور توہین قرآن کرنے والوں کو کس طرح جواب دینا ہے اس کے اسلوب دور حاضر میں قرآنی تعلیم کی رو سے دنیا والوں کو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھائے اور اس پر عمل کر کے دکھایا جس کا اعتراف جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اپنوں اور بیگانوں سب نے کیا.یہی وہ طریق ہے جس
334 کے ذریعہ آج بھی خلفائے احمدیت توہین رسالت کرنے والوں کو دندان شکن جواب دے رہے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے.اسلام اگر چہ ہمیں مہر کی تعلیم دیتا ہے لیکن جب عدو حد سے بڑھ جائے تو اس کا جواب دینے کا بھی حکم دیتا ہے اور اسلام اسی راہ کو اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے جو راہ اسلام کے مخالفین اختیار کرتے ہیں.اگر مخالفین اسلام نے اسلام کے خلاف قلم کا استعمال کیا تو ہمیں بھی اس کا جواب قلم ہی سے دینا ہوگا اور یہی وہ طریق ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہے اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اسلام کے خلاف قلم کا استعمال کرنے والوں پر قتل کا فتویٰ جاری کیا جائے یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.
335 حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی جانب سے ناموس رسالت پر حملوں کا جواب سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے موجودہ دور میں ناموس رسالت پر حملہ کرنے والوں کا جس طریق سے جواب دیا اس کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جاسکتی.عیسائی مشنریز تو اسلام کے خلاف کام کر ہی رہے تھے جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ان کی دیکھا دیکھی آریہ سماج نے بھی جو کہ ہندوؤں کی ایک شاخ ہے اسلام اور آنحضرت علی کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا اس میں پنڈت دیا نند نے ایک کتاب ستیارتھ پر کاش لکھی جس میں چودھواں ادھیائے اسلام کے خلاف لکھا جس میں قرآن کریم کی آیات کو لیکر ان کے غلط مفہوم کو بیان کر کے اسلام اور حضرت محمد مصطف عالم پر شدید حملے کئے گئے تھے.اس کے علاوہ اور بھی بہت سی کتب شائع ہو کر منظر عام پر آچکی تھیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار باعث تالیف آریہ دھرم دست بچن“ کے عنوان سے شائع فرمایا جو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ توہین رسالت کرنے والوں کی وجہ سے آپ کے دل میں کس قدر کرب اور درد پا یا جا تا تھا اور ساتھ ہی اس بات کی بھی شہادت دیتا ہے کہ آپ کے دل میں اپنے آقا حضرت محمد مصطفے لام کے لئے کس قدر محبت اور غیرت پائی جاتی تھی اس کے چند نمونے آپ کے سامنے پیش کئے جاسکتے ہیں یہ توممکن ہی نہیں کہ آپ کے تمام تر خدمات کا اس مختصر سی کتاب میں ذکر کیا دو جاسکے.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ.یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ ہم برسوں تک آریوں کے مقابل پر بالکل خاموش رہے قریباً چوداں برس کا عرصہ ہو گیا کہ جب ہم نے پنڈت دیانند اور اندرمن اور کنہیالال کی سخت بد
336 زبانی کو دیکھ کر اور ان کی گندی کتابوں کو پڑھ کر کچھ ذکر ہندوؤں کے ویدوں کا براہین احمدیہ میں کیا تھا مگر ہم نے اس کتاب میں بجز واقعی امر کے جو دیدوں کی تعلیم سے معلوم ہوتا تھا ایک ذرا زیادتی نہ کی لیکن دیانند نے اپنی ستیارتھ پرکاش میں اور اندرمن نے اپنی کتابوں میں اور کنہیا لال نے اپنی تالیفات میں جس قدر بدزبانی اور اسلام کی توہین کی ہے اس کا اندازہ ان لوگوں کو خوب معلوم ہے جنہوں نے یہ کتابیں پڑھی ہونگی.خاص کر دیا نند نے ستیارتھ پرکاش میں وہ گالیاں دیں اور سخت زبانی کی جن کا مرتکب صرف ایسا آدمی ہوسکتا ہے جس کو نہ خدا کا خوف ہو اور نہ عقل ہو نہ شرم ہو نہ فکر ہو نہ سوچ ہو غرض ہم نے ان سفلہ مخالفوں کے افتراؤں کے بعد صرف چند ورق براہین میں آریوں کے خیالات کے بارہ میں لکھے اور بعد ازاں ہم باوجود یکہ رام وغیرہ نے اپنی ناپاک طبیعت سے بہت سا گند ظاہر کیا اور بہت سی توہین مذہب کی.بالکل خاموش رہے ہاں سرمہ چشم آریہ اور شحنہ حق جن کی تالیف پر نو برس گزر گئے آریوں کی ہی تحریک اور سوالات کے جواب میں لکھے گئے.چنانچہ سرمہ چشم آریہ کا اصل موجب منشی مرلی دھر آریہ تھے جنہوں نے بمقام ہوشیار پور کمال اسرار سے مباحثہ کی درخواست کی اور سرمه چشم آر یہ در حقیقت اس سوال جواب کا مجموعہ ہے جو مابین اس عاجز اور منشی مرلی دھر کے مارچ1886ء میں ہوا.پھر ان کتابوں کی تالیف کے بعد آج تک ہم خاموش رہے اور چودا برس سے آج تک یا اگر ہوشیار پور کے مباحثہ سے بات کرو تو نو برس سے آج تک ہم بالکل چپ رہے اور اس عرصہ میں طرح طرح کے گندے رسالے آریوں کی طرف سے نکلے اور گالیوں سے بھری ہوئی کتابیں اور اخبار میں انہوں نے شائع کیں مگر ہم نے بجز اعراض اور خاموشی کے اور کچھ بھی کاروائی نہیں کی پھر جب آریوں کا غلو حد سے زیادہ بڑھ گیا اور ان کی بے ادبیاں انتہا تک پہنچ گئیں تو اب یہ رسالہ آریہ دھرم لکھا گیا.ہمارے بعض اندھے مولوی جوہر
337 ایک بات میں ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں اور آریوں اور عیسائیوں کو بالکل معذور سمجھ کر ہر یک سخت زبانی ہماری طرف منسوب کرتے ہیں ان کو کیا کہیں اور ان کی نسبت کیا لکھیں وہ تو بخل اور حسد کی زہر میں مرگئے اور ہمارے بغض سے اللہ اور رسول کے بھی دشمن ہو گئے.اے سیہہ دل لوگو! تمہیں صریح جھوٹ بولنا اور دن کو رات کہنا کس نے سکھایا گو یہ سچ ہے کہ ہم نے براہین میں ویدوں کا کچھ ذکر کیا مگر اس وقت ذکر کیا جب دیا نند ہمارے نبی کو اپنی ستیا تھ پر کاش میں صد با گالیاں دے چکا اور اسلام کی سخت تو بین کر چکا اور ہندو بچے ہر ایک گلی کوچہ میں اسلام کے منہ پر تھوکنے لگے.پس کیا اس وقت واجب نہ تھا کہ ہم بھی کچھ ویدوں کی حقیقت کھولیں اور آیت کریمہ وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْى هُمْ يَنْتَصِرُونَ (الشورى -40) پر عمل کر کے اپنے مولیٰ کو راضی کریں اور پھر اس وقت سے آج تک ہم خاموش رہے لیکن آریوں کی طرف سے اس قدر گندی کتابیں اور گندی اخباریں تو ہین اسلام کے بارے میں اس وقت تک شائع ہوئیں کہ اگر ان کو جمع کریں تو ایک انبار لگتا ہے.یہ کیسا خبث باطن ہے کہ مسلمان کہلا کر پھر ظلم کے طور پر ان لوگوں کو ہی حق بجانب سمجھتے ہیں جو سالہا سال سے ناحق شرارت اور افترا کے طور پر اسلام کی توہین کر رہے ہیں.اے مولویت کے نام کو داغ لگانے والو! ذرا سوچو کہ قرآن میں کیا یہ روا ہے کہ ہم اسلام کی تو بین کو چپکے سنے جائیں.کیا یہ ایمان ہے کہ رسول اللہ ایم کو گالیاں نکالی جائیں اور ہم خاموش رہیں ہم نے برسوں تک خاموش رہ کر یہی دیکھا ہم دکھ دئے گئے اور صبر کرتے رہے مگر پھر بھی ہمارے بدگمان دشمن با زنہ آئے.“ آریہ دھرم از روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 107 - 108 ) توہین رسالت کرنے والوں کو جواب دینے کا یہی وہ اصول ہے جو خود رسول کریم علی لالیم نے بھی اختیار فرمایا.کعب بن اشرف نے جب رسول کریم ملا لیں اور اسلام کے خلاف ہجو پر
338 مبنی اشعار کہے تو آپ نے اس کا جواب دینے کے لئے حضرت حسان بن ثابت کو بلایا اور فرمایا کہ کعب کے ان اشعار کا جواب دیں تو حضرت حسان بن ثابت نے ان اشعار کا جواب اشعار ہی میں دیا جیسا کہ پہلے بھی اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے.الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توہین رسالت کرنے والوں کو اسی طریق سے جواب دیا جس طریق سے انہوں نے اسلام اور آنحضرت علیم کی شان پر حملہ کیا تھا.اور یہ ایک مرتبہ نہیں ہوا بلکہ جب جب بھی کسی بد باطن نے ایسی حرکت کی آپ علیہ السلام نے اسی وقت اس کا جواب دیا.پنڈت لیکھرام آریہ سماج ہی سے تعلق رکھنے والے پنڈت لیکھر ام پیشاوری کا شمار بھی انہیں لوگوں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ اسلام اور حضرت محمد مصطف علیلی لیلی اور آپ کی ازواج مطہرات کے خلاف رکیک حملے کرنے میں مصروف دکھائی دیتے تھے.بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ شخص پنڈت دیا نند کے بعد زہر افشانی کرنے اور آنحضرت علم کے خلاف کیچڑ اچھالنے اور آپ کی شان میں گستاخی کرنے میں پیش پیش تھا.اس کی زبان رسول پاک مالی اور دیگر انبیاء کے خلاف ہمیشہ تیز چھری کی طرح چلتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے تو اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ تا یہ اپنی بد باطن روش سے باز آجائے لیکن بجائے باز آنے کے آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا.جب اس کی شوخیاں انتہا تک پہنچ گئیں اور والآزاری کی ساری حدیں پار کردیں تب آپ نے اللہ تعالی سے علم پا کر اس کے چھ سال کے عرصہ میں بلاک ہو جانے کی پیشگوئی فرمائی.اور یہ شخص اپنی بے باکانہ شوخیوں کی بنا پر مقررہ معیاد کے اندر اندر بلاک ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.پس خدا نے مجھ کو اطلاع دی کہ وہ تو گوشت یعنی زبان کی چھری اسلام پر چلا تار ہا ہے مگر
339 خدالو ہے کی چھری سے اس کا کام تمام کرے گا.سو ایسا ہی وقوع میں آیا“ ( قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 429) بچھایا.واضح رہے کہ اس شخص نے رسول اللہ مالی سال کی محنت بے ادبیاں کی ہیں جن کے تصویر سے بھی بدن کانپتا ہے اس کی کتابیں عجیب طور کی تحقیر اور تو بین اور دشنام دہی سے بھری ہوئی 66 ہیں.کون مسلمان ہے جو ان کتابوں کو سنے اور اس کا دل اور جگر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو.“ (اشتہار 20 فروری 1893 ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 373) اسی طرح ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.کیا لیکھرام نے میرے کسی باپ اور دادا کو قتل کردیا تھا؟ اس نے میری ذات کو کسی قسم کی تکلیف اور ایذاء نہیں دی.ہاں اس نے رسول کریم علی کی پاک ذات پر وہ گستاخانہ حملے کئے اور وہ بے ادبیاں کیں کہ میرا دل کانپ اٹھا اور میرا بنگر پارہ پارہ ہو گیا.میں نے اس کی بے ادبیوں اور شوخیوں کوٹکڑے ہوتے ہوئے دل کے ساتھ خدا کے حضور پیش کیا.اس نے ان شوخیوں اور گستاخیوں کے عوض میں اس کی نسبت مجھے یہ پیشگوئی عطا فرمائی.“ ( ملفوظات جلد اوّل نیا ایڈیشن صفحہ 377-378) نیز ایک جگہ فرمایا جس نے پیشگوئی کی میعاد میں کوئی تضرع اور خوف ظاہر نہ کیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ گستاخ ہو کر بازاروں اور کوچوں اور شہروں اور دیہات میں تو ہین اسلام کرنے لگا.تب وہ میعاد کے اندر ہی اپنی اس بد اعمالی کی وجہ سے پکڑا گیا اور وہ زبان اس کی جو گالی اور بدزبانی میں چھری کی طرح چلتی تھی اسی چھری سے اس کا کام تمام کر دیا.“
340 تذکرہ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 42-43) اس طرح ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شخص کے اسلام پر اعتراضات کا جواب دیا اور دوسری طرف جب اس شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار 20 فروری 1886 کے جواب میں آپ علیہ السلام کے تین سال کے اندراندر بلاک ہو جانے کا اشتہار دیا تو آپ نے بھی اللہ تعالیٰ سے اس کی بلاکت کی خبر پا کر اس کے چھ سال کے عرصہ میں بلاک ہو جانے کی پیشگوئی کی جو کہ لفظاً لفظاً پوری ہوئے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو تو بین رسالت اور تو مبین اسلام کرنے پر عبرت ناک سزا دی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ناموس رسالت پر حملوں کا زبردست دفاع کیا.چشمہ معرفت کی تصنیف آریہ سماج والوں نے ایک مذہبی کا نفرنس کر کے اس میں اسلام اور آنحضرت علی ایم پر بے جا اور ناپاک الزامات لگائے اور قرآن کریم کو تضحیک کا نشانہ بنایا.حضرت مسیح موعور علیہ السلام نے اس کے جواب میں کتاب چشمہ معرفت تصنیف فرمائی اور آریوں کی طرف سے کی گئی تضحیک اور توہین کا جواب دیا گیا.اگر چہ یہ کتاب جنوری 1908 کے شروع ہی میں لکھی جا چکی تھی لیکن اس کی اشاعت 15 مئی 1908ء کو ہوئی.اس کتاب کے پہلے حصہ میں حضور علیہ السلام نے ان دعاوی کار و فرمایا ہے جوڑ اکٹر بھاردواج سیکریٹری آریہ سماج لاہور نے اپنی تقریر میں وید کے بارے میں کئے تھے.دوسرے حصہ میں ان حملوں کا رد کیا گیا جو انہوں نے قرآن کریم اور آنحضرت علی ایم پر کئے تھے.اسی طرح کتاب کے آخر پر وہ مضمون بھی ہے جسے حضور نے تصنیف فرمایا تھا جو کہ اس آریہ سماج کی مذہبی کا نفرنس میں پڑھا گیا تھا.حضور نے اس کتاب میں تمام غیر مذاہب والوں کو چیلنج کرتے ہوئے لکھا.
341 ”میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایسے بدیہی طور پر سچا ہے کہ اگر تمام کفار روئے زمیں دعا کرنے کے لئے ایک طرف کھڑے ہوں اور ایک طرف صرف میں اکیلا اپنے خدا کی جناب میں کسی امر کے لئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا.مگر نہ اس لئے کہ سب سے میں ہی بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 339-340) نسیم دعوت اور سناتن دھرم کتابوں کی تصنیف 1903ء کی بات ہے کہ بعض تو مسلم حضرات نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشورہ کے بغیر ہی اپنی قوم آریہ سماج والوں کی ہمدردی اور خیر خواہی کی خاطر ایک اشتہار شائع کیا.اس کے جواب میں آریہ سماج والوں نے بھی ایک اشتہار قادیانی پوپ کے چیلوں کی ایک ڈینگ کا جواب“ شائع کیا.اس اشتہار میں بھی آریہ سماج والوں نے اپنی عادت کے طور پر آنحضرت علی ایم پر اعتراضات کرتے ہوئے سخت تو بین کی اور گالیاں دیں اسی طرح آپ کی جماعت کے آء معززین کے لئے بھی توہین آمیز الفاظ استعمال کئے گئے اور گالیاں دی گئیں.اسی طرح ایک جلسہ کرنے کا بھی اعلان کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر چہ کئی مرتبہ ان کے اعتراضات اور گالیوں کا جواب دے چکے تھے اس لئے پہلے تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ اس کو جواب نہ دیا جائے لیکن وحی خاص سے آپ کو اس کا جواب لکھنے کا حکم ہوا.چنانچہ اس کے جواب میں آپ نے «نسیم دعوت تصنیف فرمائی.اس میں ان کے اعتراضات کے جوابات کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب عالم پر اسلام کی خوبیوں کو خوب کھول کھول کر بیان فرمایا.نیز فرمایا.خدا تعالیٰ نے اپنی وحی خاص سے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اس تحریر کا جواب لکھ اور
342 میں جواب دینے میں تیرے ساتھ ہوں.تب مجھے اس مبشر وحی سے بہت خوشی پہنچی کہ جواب دینے میں میں اکیلا نہیں.سو میں اپنے خدا سے قوت پا کر اٹھا اور اس کی روح کی تائید سے میں نے اس رسالہ کو لکھا اور جیسا کی خدا نے مجھے تائید دی میں نے یہی چاہا کہ ان تمام گالیوں کو جو میرے نبی مطاع کو اور مجھے دی گئیں نظر انداز کر کے نرمی سے جواب لگوں اور پھر یہ کاروبار خدا تعالیٰ کے سپرد کردوں.(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 364 جب یہ کتاب پنڈت رام بھجدت صاحب پریذیڈنٹ آریہ پرتی ندھی سبھا پنجاب کے پاس قادیان میں کئے جانے والے جلسہ میں پہنچی تو انہوں نے اپنی تقریر کے دوران فرمایا.اگر وہ مجھ سے اس بارے میں گفتگو کرتے تو جو کچھ نیوگ کرنے کے فائدے ہیں سب ان کے پس بیان کرتا.“ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آریہ سماج کے ایک ذمہ دارلیڈر کی یہ بات پہنچی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھارچ 1903ء کو ایک مختصر سا رسالہ سناتن دھرم کے نام سے شائع فرمایا.اس کے ذریعہ حضور نے نیوگ کی بناء پر آریہ سماج کی خوب قلعی کھولی اور اس کے مقابل پر اسلام کی تعلیم بیان فرمائی.قادیان کے آریہ اور ہم" کی تصنیف قادیان سے آریوں کا ایک اخبار شبھ چنتک نکلا کرتا تھا اور اس کا کام ہی یہ تھا کہ یہ اسلام اور آنحضرت علی کے خلاف گندی اور ناشائستہ زبان استعمال کرے.اس اخبار میں لالہ ملا وامل اور لالہ شرمپت کی طرف منسوب کر کے ایک اعلان شائع کیا گیا تھا کہ ہم مرزا صاحب کے کسی بھی نشان کے گواہ نہیں ہیں.اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ 1906ء میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ لالہ ملا وامل اور لالہ شرمیت میرے
343 بیسیوں نشانوں کے گواہ ہیں.اس اخبار میں یہ اعلان شائع ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ رسالہ تصنیف فرمایا جو قادیان کے آریہ اور ہم کے نام سے شائع ہوا.اس میں حضور نے فرمایا.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سب بیان صحیح ہے اور کئی دفعہ لالہ شرمیت سن چکا ہے اور اگر میں جھوٹا ہوں تو خدا مجھ پر اور میرے لڑکوں پر ایک سال کے اندر اندر اس کی سزا نازل کرے آمین و لعنۃ اللہ علی الکاذبین.ایسابی شرمپت کو بھی چاہئے کہ میری اس قسم کے مقابل پر قسم کھاوے اور یہ کہے کہ اگر میں نے اس قسم میں جھوٹ بالا ہے تو خدا مجھ پر اور میری اولاد پر ایک سال کے اندر اس کی سز اوارد کرے آمین و لعنۃ اللہ علی الکاذبین؛ ( قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 442) بالکل ایسا ہی مطالبہ لالہ ملاوہ مل سے بھی کی گیا تھا ( قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 443) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مطالبہ پر یہ دونوں اشخاص تو سامنے نہ آئے لیکن اخبار شبھ چنتک“ کے منیجر اچھر چند نے الحکم کے ایڈیٹر صاحب سے ایک گفتگو کے دوران کہا 66 کہ میں بھی مرزا صاحب کی طرح دعوی کرتا ہوں کہ طاعون سے کبھی نہیں مروں گا.خدا کی قدرت کہ چند روز کے اندر اندر اس اخبار کا تمام عملہ، ایڈیٹر صاحب کی اولاد اور اہل وعیال خدا کے اس قہر کی لپیٹ میں آگئے اور لقمہ طاعون ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 484) جولوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی ملیم کو
344 بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر نا پاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں ان سے ہم کیونکر صلح کریں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابان کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے.ناپاک حملے کرتے ہیں.“ پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 459)
345 عیسائیوں کی طرف سے توہین رسالت اور اس کا جواب ڈاکٹر جان الیگزنڈرڈوئی ڈاکٹر الیگزنڈرڈوئی سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا آسٹریلیا، سان فرانسسکو اور امریکہ کی دیگر ریاستوں سے ہوتا ہوا 1893 ء میں شکا کو پہنچا.یہاں پر اس نے کر کچن کیتھولک اپاسٹک چرچ کی بنیاد رکھی اور ایک اخبار بھی جاری کیا.شخص بہت شعلہ بیان تھا اس لئے جلد ہی شہرت حاصل کر گیا.اس شخص کا ایک ہی مقصد تھا کہ دنیا سے اسلام کومٹادیا جائے اور ساری دنیا میں عیسائت کی حکومت قائم کر دی جائے.اس کا کہنا تھا کہ میں امریکہ اور یورپ کی عیسائی اقوام کو خبر دار کرتا ہوں کہ اسلام مُردہ نہیں ہے اسلام طاقت سے بھرا ہوا ہے اگر چہ اسلام کو ضرور نابود ہونا چاہئے.محمڈن ازم کو ضرور تباہ ہونا چاہئے مگر اسلام کی بربادی نہ تو مضمحل لاطینی عیسویت کے ذریعہ ہو سکے گی نہ ہی بے طاقت یونانی عیسویت کے ذریعہ سے.“ 66 ( ڈوٹی کا عبرتناک انجام صفحہ 7 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 242) مسٹرڈوئی کا بغض اور عناد جب اس حد تک پہنچ گیا اور اس کی شوخیاں اور بے باکیاں جب انتہاء کو پہنچ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں آنحضرت سلیم کی غیرت کا ایک زبر دست جوش پیدا کیا.چنانچہ آپ نے ستمبر 1902ء کو ایک مفصل اشتہار.لکھا جس میں حضور نے تثلیث پرستی پر تنقید اور اپنے دعویٰ مسیحیت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھا.حال میں ملک امریکہ میں یسوع مسیح کا ایک رسول پیدا ہوا ہے جس کا نام ڈوئی ہے.اس کا دعویٰ ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے تاسب کو اس بات
346 کی طرف کھینچے کہ بھر صبح کے اور کوئی اور خدا نہیں...اور بار بارا اپنے اخبار میں لکھتا ہے کہ اس کی خدا یسوع مسیح نے اس کو خبر دی ہے کہ تمام مسلمان تنباہ اور بلاک ہو جائیں گے اور دنیا میں کوئی زندہ نہیں رہے گا بجز ان لوگوں کے جو مریم کے بیٹے کو خدا سمجھ لیں اور ڈوئی کو اس مصنوعی خدا کا رسول قرار دیں.......سو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں بادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کو مارنے کی کیا حاجت ہے؟ ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا ہے یا ہمارا خدا.وہ بات یہ ہے کہ وہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیشگوئی نہ سنائیں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنی ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کریں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے کیونکہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدا مانتا ہے مگر میں اس کو ایک بندہ عاجز مگر نبی جانتا ہوں.اب فیصلہ طلب یہ امر ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے.چاہئے کہ اس دعا کو چھاپ دے اور کم سے کم ہزار آدمی کی اس پر گواہی لکھے اور جب وہ اخبار شائع ہو کر میرے پاس پہنچے گئی تب میں بھی بجواب اس کے یہی دعا کرونگا اور انشاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ڈوئی کے اس مقابلہ سے اور تمام عیسائیوں کے لئے حق کی شناخت کے لئے راہ نکل آئے گی.میں نے ایسی دعا کے لئے سبقت نہیں کی بلکہ ڈوئی نے کی.اس سبقت کو دیکھ کر غیور خدا نے میرے اندر یہ جوش پیدا کیا اور یادر ہے کہ میں اس ملک میں معمولی انسان نہیں ہوں میں وہی مسیح موعود ہوں جس کا ڈوئی انتظار کر رہا ہے.صرف یہ فرق ہے کہ ڈوئی کہتا ہے کہ مسیح موعود پچیس برس کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا اور میں بشارت دیتا ہوں کہ وہ مسیح پیدا ہو گیا اور وہ میں ہی ہوں.صد با نشان زمین سے آسمان سے میرے لئے ظاہر ہو چکے ہیں.ایک لاکھ کے قریب میرے ساتھ جماعت ہے جو زور سے ترقی کر رہی ہے...
347 اگر ڈ وئی اپنے دعوی میں سچا ہے اور در حقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا.کیا حاجت ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے لیکن اگر اس نے نوٹس کا جواب نہ دیا اور یا اپنے لاف و گزاف کے مطابق دعا کر دی اور پھر دنیا سے قبل میری وفات کے اٹھایا گیا تو یہ تمام امریکہ کے لئے ایک نشان ہوگا.مگر شرط یہ ہے کہ کسی کی موت انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ کسی بیماری سے یا بجلی سے یا سانپ کے کاٹنے سے یا کسی درندہ کے پھاڑنے سے ہوا اور ہم اس جواب کے لئے ڈوئی کو تین ماہ تک مہلت دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا سچوں کے ساتھ ہو.آمین ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 568-570) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس طریق فیصلہ کا ڈوئی نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اسلام کے خلاف اور زیادہ بدزبانی شروع کر دی.اور اپنے پر چہ ستمبر 1902ء میں لکھا کہ.”میرا کام یہ ہے کہ میں مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو جمع کروں اور مسیحیوں کو اس شہر اور دوسرے شہروں میں آباد کروں یہاں تک کہ وہ دن آجائے کہ مذہب محمدی دنیا سے مٹادیا جائے“ (حقیقت الوحی تتمہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 509) اس پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے مضمون مباہلہ کوامریکہ کے مشہور و معروف اخبارات میں شائع کروادیا جس سے امریکہ اور یورپ میں اس کی دھوم مچ گئی.ان میں سے بعض اخبارات نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور قبرمسیح کی فوٹو بھی شائع کیں.اس اشتہار کو شائع ہوئے ایک سال گرزر جانے پر بھی ڈوئی نے کوئی جواب نہ دیا جبکہ اخبارات نے بار بار کی اشاعت میں ڈوئی کو شرم بھی دلائی لیکن نہ تو اس نے چیلنج کو قبول کیا اور نہ ہی زبان سے کوئی لفظ ہی اس سلسلہ میں نکالا لیکن بد زبانی سے بھی باز نہ آتا تھا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
348 23 اگست 1903ء کو ایک اور انگریزی اشتہار پگٹ اور ڈوئی کے متعلق پیشگوئیاں“ شائع فرمائیں جس میں حضور نے لکھا.مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتا یا اشارہ میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 606-607) گا.جب یہ اشتہار بھی امریکہ کے اخباروں میں شائع ہوا جس میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر اب بھی ڈوئی مقابلہ سے انکار کرے گا تو امریکہ کے پیغمبر کے دعاوی جھوٹ اور فتراء ثابت ہو جائیں گئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اشتہار کے بعد ڈ وئی اشاروں اشاروں میں آپ کے مقابل پر آ گیا اور 26 دسمبر 1903ء کے اپنے اخبار میں لکھا لوگ مجھے بعض اوقات کہتے ہیں کہ کیوں تم فلاں فلاں بات کا جواب نہیں دیتے.کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان کیڑوں مکوڑوں کو جواب دوں گا.اگر میں اپنا پاؤں ان پر رکھوں تو ایک دم ان کو کچل سکتا ہوں.مگر میں ان کو موقعہ دیتا ہوں کہ میرے سامنے سے دور چلے جائیں اور کچھ دن اور زندہ رہ لیں.“ اس کے بعد 27 دسمبر 1903ء کے اخبار میں نہایت بد زبانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے بیوقوف محمدی مسیح کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھا.ہندوستان میں ایک بے وقوف شخص ہے جو حمدی مسیح ہونے کا دعوی کرتا ہے دو مجھے بار بار کہتا ہے کہ حضرت عیسی کشمیر میں مدفون ہیں جہاں پر ان کا مقبرہ دیکھا جاسکتا ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ اس نے خود وہ ( مقبرہ) دیکھا ہے مگر بیچارہ دیوانہ اور جاہل شخص پھر بھی یہ بہتان لگاتا ہے کہ حضرت مسیح ہندوستان میں فوت ہوئے.واقعہ یہ ہے کہ خداوند مسیح بیت عنیاہ کے مقام پر آسمان
349 پر اٹھایا گیا جہاں پر وہ اپنے سمادی جسم میں موجود ہے.“ حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 500) اس کے بعد 23 جنوری 1903ء میں تمام دنیا کے مسلمانوں کی تباہی کے بارے میں پیشگوئی کرتے ہوئے لکھا.سینکڑوں ملین مسلمان جو اس وقت ایک جھوٹے نبی کے قبضہ میں ہیں انہیں یا تو خدائی 66 آواز سننی پڑے گی یا وہ تباہ ہو جائیں گے.“ ( عبرتناک انجام صفحہ 11 تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 246) اب یہ شخص تو ہین اسلام اور توہین رسالت کے معاملہ میں نہایت درجہ بے باک ہو کر اور گستاخی کی انتہاء پر پہنچ کر کھل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر آچکا تھا اور ساتھ وہ فیصلہ کی گھڑی بھی آن پہنچی تھی جس نے اس کی ذلت کے سامان پیدا کر دئے اور شیخص دیکھتے ہی دیکھتے اپنے انجام کو پہنچ گیا.سب سے پہلے اخبار نیو یارک ورلڈ نے اس کے 7 خطوط شائع کر دئے جو اس نے اپنے باپ جان مرے ڈوٹی کو اپنی ناجائز ولدیت کے بارے میں لکھے تھے.پھر فالج کا حملہ ہوا.اس کی پرائیویٹ کمرہ سے شراب برآمد ہوئی.کنواری لڑکیوں سے اس کے ناجائز تعلقات سامنے آئے بلاآ خر سسکتے ہوئے موت کو اپنے گلے لگالیا.بچے اور حواری تمام اس کا ساتھ چھوڑ گئے.ڈوٹی کی ہلاکت کا نشان دنیا کی تاریخ میں ایک غیر معمولی نوعیت کا نشان تھا جس نے مغرب کی مادیت پرست دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور امریکہ اور یورپ کے بعض اخبارات کو تسلیم کرنا پڑا کہ محمدی مسیح کی پیشگوئی ایسی شان سے پوری ہوئی ہے جس پر وہ جتنا بھی فخر کریں کم ہے.
350 چنانچہ شکا گوٹریوں نے 10 مارچ1907ء کولکھا.ڈوئی کل صبح 7 بجکر 40 منٹ پر شیلو ہاؤس میں مر گیا.اس وقت اس کے خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہ تھا“ ڈوئی کے مرنے کے چند گھنٹے بعد ہی اس کی آراستہ و پیراستہ اقامت گاہ اور اس کے سارے سامان پرسرکاری ریسیور مسٹر جان ہارٹلے نے صیحوں کے قرض خواہوں کے نام پر قبضہ کرلیا.جب ڈوئی کی نعش صندوق میں پڑی تھی اس وقت سرکاری کسٹوڈین مکان کے احاطہ میں جائیداد کی نگرانی کرتارہا.یه خود مصنوعی پیغمبر کسی اعزاز کے بغیر بالکل کسمپرسی کے عالم میں مر گیا.اس وقت اس کے پاس نصف درجن سے بھی کم وفادار اور پیر و موجود تھے جن میں باتنخواہ ملازمین منجملہ ایک حبشی کے شامل تھے.اس کے بستر موت پر کوئی قریبی عزیز نہ آیا اس کی بیوی ،لڑکا جیمل مشی گن کے دوسری طرف والے مکان بین مکدو ہی میں اس عرصہ میں مقیم رہے.وہ آدمی جس نے دوسروں کو شفا دینے کا پیشہ اختیار کیا وہ خود کو شفا نہ دے سکا.اس کی غیر مطیع سپرٹ کو اس بیماری کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا جو اس کو قریب دوسال سے دبوچے ہوئے تھی.اس کا شفاء دینے کا ایمان ، اس کے فالج ، ڈرا پسی اور دوسری پیچیدہ امراض کے سامنے بالکل بے طاقت ثابت ہوا.“ ( ناموس رسالت پر حملوں کا دفاع صفحہ 34-35) امریکن اخبار ٹرتھ میکر“ نے اپنی اشاعت 15 جون 1907ء میں ”مرسلین کی جنگ“ کے عنوان سے ادار یہ لکھا کہ.ڈوئی محمد علیم ) کو مفتریوں کا بادشاہ سمجھتا تھا.اس نے نہ صرف یہ پیشگوئی کی کہ اسلام صیحوں کے ذریعہ سے تباہ ہو جائے گا بلکہ وہ ہر روز یہ دعا بھی کرتا تھا کہ بلال ( اسلامی
351 نشان) جلد از جلد نابود ہو جائے.جب اس کی خبر ہندوستانی مسیح کو پہنچی تو اس نے اس ایلیاء ثانی کوللکارا کہ وہ مقابلے کو نکلے اور دعا کریں کہ ”جو ہم میں سے جھوٹا ہو وہ بچے کی زندگی میں مر جائے.قادیانی صاحب نے پیشگوئی کی کہ اگر ڈوئی نے اس چیلنج کو قبول کر لیا تو وہ میری آنکھوں کے سامنے بڑے دکھ اور ذلت کے ساتھ دنیا سے کوچ کر جائے گا اور اگر اس نے چیلنج کو قبول نہ کیا تو تب اس کا اختتام صرف کچھ توقف اختیار کر جائے گا.موت اس کو پھر بھی جلد پالے گی اور اس کے مسیحوں پر بھی تباہی آجائے گی.ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ میحوں تباہ ہو جائے اور ڈوئی احمد ( علیہ السلام) کی زندگی میں مرجائے.مسیح موعود کے لئے یہ ایک خطرے کا قدم تھا کہ وہ لمبی زندگی کے امتحان میں اس ایلیاء ثانی کو بلائیں.کیونکہ چیلنج کرنے والا ہر دو میں سے کم و بیش پندرہ سال زیادہ عمر رسیدہ تھا.ایک ایسے ملک میں جو پلیگ اور مذہبی دیوانوں کا گھر ہو.حالات اس کے مخالف تھے مگر آخر وہ جیت گیا.“ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 249) الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توہین رسالت کرنے والے اس شخص کو بھی قرآنی تعلیم کے مطابق ہی دعوت دی اور عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اُسے اُسی میدان میں بلایا جس میدان میں یہ شخص کھڑا ہو کر تو بین رسالت کرتا تھا.آخر اللہ تعالی نے حضرت محمد اللیل کو اس فتح نصیب جرنیل کے ذریعہ سے وہ عزت بخشی جس کے آپ ہی حقدار تھے اور توہین رسالت کرنے والے کو ذلت اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا.جیسا کی پہلے بھی لکھ اجاچکا ہے کہ ہندوستان میں عیسائیت کو پھیلانے کے لئے عیسائیوں نے بہت سے حربے استعمال کئے.ان میں سے ایک حربہ تو بین رسالت کا بھی تھا.پادریوں نے جہاں قرآن کریم پر حملے کئے وہاں آنحضرت علی کی زندگی پر بھی شدید حملے کرنے
352 شروع کئے اور ہر جگہ یسوع کی آنحضرت صلیم پر برتری بیان کرنے کے ساتھ ساتھ تو بین رسالت بھی کرتے.اور وہ زمانہ ایسا تھا کہ پادری تو ریت کو ہاتھوں میں لے کر مسلمانوں کو چیلنج کرتے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ اسلام جھوٹا مذہب اور نعوذ باللہ آنحضرت میلیم جھوٹے نبی ہیں اس پر جگہ جگہ مناظرے کرنے کے چیلنج کرتے.ادھر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام اور آنحضرت میللی لیلی کی صداقت کو ساری دنیا میں ظاہر کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا.اسی دور میں جب پادری اسلام اور آنحضرت علی ایلیا کے خلاف کتابیں لکھ رہے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان کی کتابوں اور اعتراضات کے جواب میں کتابیں لکھیں جس میں حقیقی جوابات کے ساتھ ساتھ الزامی جوابات بھی دئے گئے تھے.پادریوں کے اسلام پر اعتراضات کے جواب میں آپ نے جو الزامی جوابات دئے عیسائیوں اور کم عقل مسلمانوں نے بھی اعتراض کرنے شروع کر دئے جس پر آپ نے فرمایا.”ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض تھی.انہوں نے ناحق ہمارے نبی صلی اہلیہ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں...اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا.(ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 292-293 حاشیہ ) نیز فرمایا.اگر پادری اب بھی پالیسی بدل دیں اور عہد کریں کہ آئندہ ہمارے نبی نبیل شام کو گالیاں نہیں نکالیں گے تو ہم بھی عہد کریں گے کہ آئندہ نرم الفاظ کے ساتھ ان سے گفتگو ہوگی ورنہ جو 66 کچھ کہیں گے اس کا جواب سنیں گے.“ ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 292 حاشیه در حاشیه )
353 جیسا کہ لکھا جا چکا ہے کہ عیسائی پادری ہر طرف گھوم گھوم کر عیسائیت کی تبلیغ کرتے اور مسلمانوں کو مناظروں کا چیلنج کرتے تھے.ایسا ہی جنڈیالہ کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا اور عیسائیوں نے انہیں مناظرہ کی دعوت دی جس پر جنڈیالہ کے مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے اور درخواست کی کہ آپ یہ مناظرہ کریں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند آدمیوں کو مناظرہ کی شرائط طے کرنے کے لئے ان کے ساتھ امرتسر روانہ کیا.اس پر عبد اللہ آتھم کے ساتھ مناظرہ ہونا طے پایا.یہ ناظرہ جو کہ اسلام اور عیسائیت کے مابین ہوا امرتسر میں پندرہ یوم تک چلا جو کی کتابی صورت میں بھی ”جنگ مقدس“ کے نام سے شائع شدہ ہے.اس مناظرہ کے دوران عبد اللہ آتھم نے گستاخی کرتے ہوئے آنحضرت ملا سلیم کو نعوذ باللہ دجال کہا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی مناظرہ میں فرمایا کہ عبداللہ آتھم نے ہمارے پیارے رسول میں اسلام کو دجال کہا ہے اگر شخص حق کی طرف رجوع نہیں کرے گا تو پندرہ ماہ کے اندر اندر حاویہ میں گرایا جائے گا.اس پر عبد اللہ آتھم نے اس وقت اپنی زبان باہر نکالی اور کان پکڑے.گویا کہ توبہ کی، اُس کی اِس تو بہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت دی.اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی اس مہلت پر مخالفین کی طرف سے یہ بات اٹھائی گئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی نعوذ باللہ جھوٹی نکلی ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ وضاحت بیان فرمائی کہ چونکہ عبداللہ تم نے حق کی طرف رجوع کیا تھا اس لئے اسے یہ مہلت ملی ہے اور اس عرصہ میں بھی عبد اللہ آتھم اسلام اور آنحضرت علم کی گستاخی کرنے سے باز بھی رہا ہے.جب لوگوں نے اس بات کو تسلیم نہ کیا تو آپ نے یہ علان فرمایا کہ عبد اللہ آتھم کو کہو کہ وہ قسم کھائے کہ اس پر اس پیشگوئی کی ہیبت طاری ہوئی تھی اور اس نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا تھا اور تثلیث کے عقیدہ سے ذرہ بھی متزلزل نہیں ہوا تھا تو میں اسے
354 ایک ہزار روپیہ انعام دونگا.اور اگروہ قسم اٹھالے اور اس کے قسم اٹھانے کے ایک سال کے اندراندرا گریہ شخص بلاک نہ ہو گیا تو میں جھوٹا ہوں.پھر آپ نے یہ بات بھی بیان فرمائی کہ اگر شخص قسم نہیں بھی کھائے گا تو چونکہ یہ حق پوشی کر ر ہا ہے اس لئے بھی یہ شخص ایک سال کے اندر اندر بلاک ہو جائے گا.اس پر دنیا والوں نے دیکھا کہ یہ گستاخ رسول شخص اس اعلان کے ایک سال کے اندر اندر اس جہان سے رخصت ہو گیا.اس طرح یہ شخص اسلام اور حضرت محمد مصطفے عالم کی داقت پر مہر ثبت کر گیا.اس سلسلہ میں پوری وضاحت کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین مستقل نوعیت کی کتب تصنیف فرمائیں جو کہ ضیاء الحق ، انوار السلام اور انجام آتھم کے نام سے موجود ہیں.جن میں اس گستاخ رسول کی ساری گستاخیوں کا جواب اور اس کے انجام کی تفصیل موجود ہے.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سراج الدین عیسائی کی طرف سے اٹھائے گئے چارسوالوں کے جواب بھی تصنیف فرمائے.اس سلسلہ میں سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی.اسی طرح ایک کتاب امہات المومنین کے نام سے ایک بد زبان کشمیری مرتد احمد شاہ شائق نے جو عیسائی ہو چکا تھا شائع کی.اس کتاب میں آنحضرت میلہ اور آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کو اتنی گالیاں دی گئی تھیں کہ اسے پڑھ کر مسلمانان ہند کے جگر چھلنی اور دل پارہ پارہ ہو گئے.اور پورے ہندوستان میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی ( اس کا پہلے بھی کچھ ذکر کیا جا چکا ہے ) اس کتاب کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ”البلاغ “ کے نام سے ایک کتاب تصنیف فرمائی جس میں ان کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا گیا ہے.اسی کتاب میں آپ نے ایک جامع سکیم بھی پیش فرمائی اور مسلمانوں سے اس سلسلہ میں اپیل
355 کرتے ہوئے فرمایا.اے بزرگو! یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہی دین اور دینوں پر غالب ہوگا جو اپنی ذاتی قوت سے اپنی عظمت دکھاوے.پس جیسا کہ ہمارے مخالفوں نے ہزاروں اعتراضات کر کے یہ ارادہ کیا ہے کہ اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرہ کو بدشکل اور مکر وہ ظاہر کریں ایسا ہی ہماری کوششیں اسی کام کے لئے ہونی چاہئیں کہ اس پاک دین کی کمال درجہ کی خوبصورتی اور بے عیب اور معصوم ہونا بپایہ ثبوت پہنچادیں...اور ان کو دکھا دیں کہ اسلام کا چہرہ کیسا نورانی، کیسا مبارک اور کیسا ہر ایک داغ سے پاک ہے.ہمارا کام جو ہم کو ضرور ہی کرنا چاہئے وہ یہی ہے کہ یہ دجل اور افترا جس کے ذریعہ سے قوموں کو اسلام کی نسبت بدظن کیا گیا ہے اس کو جڑ سے اکھاڑ دیں.یہ کام سب کاموں پر مقدم ہے جس میں اگر ہم غفلت کریں تو خدا اور رسول کے گناہ گار ہوں گے.سچی ہمدردی اسلام کی اور سچی محبت رسول کریم کی اسی میں ہے کہ ہم افتراؤں.اپنے مولیٰ و سید رسول اللہ صل اللہ کا دامن پاک ثابت کر کے دکھلائیں....خدا تعالیٰ نے ہمارے دل کو اسی امر کے لئے کھولا ہے کہ اس وقت اور اس زمانہ میں اسلام کی حقیقی تائید اس میں ہے کہ ہم اس تخم بد نامی کو جو بویا گیا ہے اور ان اعتراضات کو جو یورپ اور ایشیا میں پھیلائے گئے ہیں جڑ سے اکھاڑ کر اسلامی خوبیوں کے انوار اور برکات اس قدر غیر قوموں کو دکھلاویں کہ ان کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں.“ البلاغ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 382-383) پس گستاخانِ رسول کی گستاخیوں کا جواب اسی صورت میں دیا جا سکتا ہے کہ ہم اسلام کی خوبیاں اور آنحضرت صلیم کی پاک سیرت کولوگوں کے سامنے اس کثرت سے پیش کریں کہ اسلام اور سیرت رسول صلیم پر اٹھنے والے اعتراضات ان کے سامنے بے حقیقت دکھائی
356 دے لگیں.بالکل اسی اصول کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا ہے.پادری جارج الفریڈ لیٹرائے کے اعتراضات کا جواب لیفر ائے پادری صاحب کا ذکر معجز نما عکسی ترجمۃ القرآن کے حوالہ سے ہو چکا ہے.ان کا تقرر جب لاہور میں ہوا تو وہاں انہوں نے تقاریر اور مباحثات کے ذریعہ عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی اور انہوں نے ایک پروگرام کے تحت 18 مئی 1900 کو لاہور میں معصوم نبی“ کے موضوع پر ایک تقریر کی اور یہ ثابت کرنا چاہا کہ اگر کوئی معصوم نہی ہے تو وہ حضرت مسیح ہیں اور رسول کریم لالا لیلی کے بارے میں قرآن کریم میں آئے لفظ ذنب سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آپ نعوذ باللہ گناہ گار تھے.اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو چیلنج کیا کہ اگرکسی کو اعتراض ہے تو وہ میدان میں آئے اور سوال کرے.اس مجمع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی مفتی محمد صادق صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے وہ جوش غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور تقریر شروع کر دی انہوں نے پادری صاحب کے ایک ایک اعتراض کا جواب دیدیتے ہوئے ان کے سبھی دعاوی کی دھجیاں بکھیر دیں.اس پر مسلمانوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور پادری صاحب کو شرمندگی اٹھانی پڑی.مسلمان اسلام کی اس فتح کا کئی روز تک چرچہ کرتے رہے.اور یہ شور بر پارہا کہ مرزائی جیت گئے.پادری صاحب کو اپنی شکست سے بڑی خفت اٹھانی پڑی تھی اس کو مٹانے کے لئے انہوں نے ایک اور اشتہار دیا جس میں لکھا کہ وہ 25 مئی کو زندہ رسول“ پر پھر لیکچر دیں گے.اس اشتہار سے مسلمانوں میں بڑا جوش پھیل گیا.اس کی اطلاع جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچی اگر چہ آپ اس وقت علیل تھے لیکن اسلام اور عیسائیت کے درمیان اس جنگ میں حصہ لینے کے لئے آپ میں ایک جوش پیدا ہو گیا اور آپ نے زندہ رسول کے عنوان پر ایک لا
357 جواب مضمون لکھا جس میں آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے ناقابل تردید دلائل کے ثبوت پیش فرمائے اور لکھا.میں تمام لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب آسمان کے نیچے اعلیٰ اور اکمل طور پر زندہ رسول صرف ایک ہے یعنی محمد مصطفی جلیلی ایک اسی ثبوت کے لئے خدا نے مجھے مسیح کر کے بھیجا ہے جس کو شک ہو وہ آرام اور آہستگی سے مجھ سے یہ اعلی زندگی ثابت کروا لے.اگر میں نہ آیا ہوتا تو کچھ عذر بھی نہ تھا مگر اب کسی کے لئے عذر کی جگہ نہیں کیونکہ خدا نے مجھے بھیجا ہے تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفی صلی ہے.دیکھو میں زمین اور آسمان کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں اور خدا و ہی ایک خدا ہے جو کلمہ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ میں پیش کیا گیا ہے اور زندہ رسول وہی ایک رسول ہے جس کے قدم پر نئے سرے سے دنیا زندہ ہو رہی ہے.نشان ظاہر ہورہے ہیں.برکات ظہور میں آ رہے ہیں.غیب کے چشمے کھل رہے ہیں.پس مبارک وہ جو اپنے تئیں تاریکی سے نکال لے.“ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 388 لندن پرنٹ) 66 جیسا کہ اشتہار دیا گیا تھا بشپ لیفر ائے نے اس کے مطابق ”زندہ رسول“ کے عنوان پر تقریر کی اس کے بعد جب سوالات کا موقعہ دیا گیا تو مفتی محمد صادق صاحب وہیں موجود تھے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پر شوکت مضمون پڑھنا شروع کیا.اس مضمون کی خصوصیت یہ تھی کہ اگرچہ یہ ایک دن پہلے لکھا گیا تھا لیکن اس میں بشپ صاحب کے تمام سوالوں کا جواب تھا اور لوگ حیران تھے کہ اس قدر جلد بشپ صاحب کی تقریر کا جواب کس طرح تیار ہوا اور چھپ کر اس طرح منظر عام پر آ گیا.اس مضمون کی بدولت اسلام کو ز بر دست فتح نصیب ہوئی اور اسلام کی فتح کا ہر طرف شور مچ گیا اور بشپ صاحب کو پھر سے خفت اٹھانی
358 پڑی.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توہین رسالت کرنے والوں کو اسی رنگ میں جواب دیا جس رنگ میں انہوں نے توہین کی تھی اس کے بعد بشپ صاحب نے ایسے اشتہارات دینے اور ایسی تقاریر کرنے سے اپنے آپ کو باز رکھا.کتاب دینا بیع الاسلام‘ کا جواب درج بالا عنوان سے ایک پادری صاحب نے ایک کتاب لکھی جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ قرآن کریم سابقہ کتب کا سرقہ ہے.اس کتاب پر بانس بریلی کے ایک مسلمان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط لکھ کر اپنے شک کا اظہار کیا.اس کتاب کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب چشمہ مسیحی تصنیف فرمائی اور یہ بتایا کہ جو الزام پادیوں کی طرف سے قرآن کریم پر کیا گیا ہے صبح کی انجیل پر بھی ہندؤوں اور بدھ مذہب والوں کا یہی اعتراض ہے کہ یہ بھی ان کی کتب کا سرقہ ہے.اور حضور نے یہ بات بھی بیان فرمائی کہ اگر قرآن کریم کا کوئی حصہ قدیم نوشتوں سے ملتا ہے تو یہ وحی الہی میں توارد ہے.ورنہ آنحضرت علی شمالی کی تو امی تھے یونانی اور عبرانی نہیں پڑھ سکتے تھے.جبکہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے اور زندہ معجزہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.اس میں پیش گزشتہ زمانہ کی خبریں اور قصے اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتے ہیں.اور اس کی فصاحت و بلاغت کا بھی ایسا معجزہ ہے جس کی آج تک بھی کوئی نظیر نہیں ملتی.اس کتاب میں آپ نے تحریر فرمایا.”ہمارے نبی صلیم اور ہمارے سید و مولی ( اس پر ہزار سلام ) اپنے افاضہ کی رو سے تمام انبیاء سے سبقت لے گئے ہیں کیونکہ گزشتہ نبیوں کا افاضہ ایک حد تک آکر ختم ہو گیا اور اب وہ قومیں اور وہ مذہب مردے ہیں.کوئی ان میں زندگی نہیں مگر آنحضرت علیم کا روحانی فیضان قیامت تک جاری ہے اسی لئے باوجود آپ کے اس فیضان کے اس امت کے لئے
359 ضروری نہیں کہ کوئی مسیح باہر سے آوے بلکہ آپ کے سایہ میں پرورش پانا ایک ادنی انسان کو مسیح بناسکتا ہے جیسا کہ اس نے اس عاجز کو بنایا.(چشمه مسیحی روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 389) نور الحق کی تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مناظرہ کے بعد جو امرتسر میں ہوا تھا عیسائی پادری بہت گھبرا گئے.اپنی ناکامی اور مفت کو مٹانے کے لئے نہایت دریدہ دہن اور زبان در ازشخص پاردی عمادالدین نے ایک کتاب ” تو زین الا قوال کے نام سے لکھی یہ نہایت ہی دل آزار اور اشتعال انگیز تھی.اس میں بھی قرآن کریم اور رسول پاک مسلم پر ناپاک حملے کئے گئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں چند ہی دنوں میں اس کا نا قابل تردید جواب لکھا جس میں پادری عمادالدین کے علاوہ تمام مرتدیں اسلام پادریوں کو میدان مقابلہ میں آنے کے لئے للکارا.اور اعلان کیا کہ اگر وہ سب مل کر بھی اس کتاب کا حقیقی جواب تین ماہ میں لکھ دیں تو انہیں پانچ ہزار روپیہ کا انعام دیا جائے گالیکن اگر وہ نہ تو جواب لکھیں اور نہ آنحضرت لیلی کی تو بین سے باز آئیں تو خدا کی ان پر لعنت ہو.حضور کا یہ جواب 1894ء کے آغاز میں ”نور الحق حصہ اول کے نام سے طبع ہوا جو نہایت مقفی وسیع اور فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہے.اس کتاب کے لکھے جانے پر پادری عماد الدین نے گورنمنٹ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اکسایا اس کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ لوگ جو اسلام سے مرتد ہو گئے ہیں اور پادری بن گئے ہیں ان کو منع کیا جائے کہ وہ اپنے ساتھ مولوی کا لفظ لگائیں کیونکہ اس سے اسلام کے بدنامی ہوتی ہے.اس طرح ہر لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تو بین رسالت کرنے والوں کا مقابلہ کیا اور ان کو انہیں کے حربہ سے مقابلہ کرتے ہوئے انہیں شکست فاش دیدی.
360 نور القرآن نمبر 2 کی تصنیف پادری فتح مسیح جو فتح گڑھ ضلع گورداسپور کا رہنے والا تھا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو دو خط لکھے جس میں اس بد باطن نے رسول مقبول بیلیم کو گالیاں دیتے ہوئے امام الطيبين وسيد المعصومین پر شرمناک تہمتیں لگائیں.ان گالیوں سے بھرے خطوط کا جواب حضور علیہ السلام نے کتاب ”نور القرآن حصہ دوم ) میں لکھا.اس کتاب میں پادریوں کی بدر بانیوں اور گستاخیوں کا جواب الزامی رنگ میں دیا گیا ہے اور انجیل کے بیان کردہ یسوع مسیح کا فوٹو پیش کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان پادری صاحبان کی طرف سے کی جانے والی گستاخیوں کے جواب میں سختی کا جو استعمال کیا ہے اس سلسلہ میں حضور فرماتے ہیں.پادری عماد الدین کی کتابیں اور پادری ٹھا کر داس کی کتابیں اور صفدر علی کی کتابیں اور امہات المومنین اور پادری ریواڑی کا رسالہ جو ہمارے بھی بلا لیا ایم کی نہایت درجہ کی تو ہین اور تکذیب سے پر ہیں.یہ ایسی کتابیں ہیں کہ جو شخص مسلمانوں میں سے ان کو پڑھے گا اگر اس کو صبت اور حلم سے اعلی درجہ کا حصہ نہیں تو بے اختیار جوش میں آجائے گا کیونکہ ان کتابوں میں علمی بیان کی نسبت سخت کلامی بہت ہے جس کو عام مسلمان برداشت نہیں کر سکتے.چنانچہ ایک معزز پادری صاحب نے اپنے ایک پرچہ میں جو لکھنو سے شائع ہوتا تھا لکھتے ہیں کہ اگر 1857 ء کا دوباره آناممکن ہے تو پادری عماد الدین کی کتابوں سے اس کی تحریک ہوگی.اب سوچنے کے لائق ہے کہ پادری عماد الدین کا کیسا خطر ناک کلام ہے جس پر ایک معزز مشنری صاحبہ رائے ظاہر کرتے ہیں اور گزشتہ دنوں میں میں نے بھی مسلمانوں میں ایسی تحریروں سے ایک جوش دیکھ کر چند دفعہ ایسی تحریریں شائع کی تھیں جن میں ان سخت کتابوں کا جواب کسی قدرسخت
361 تھا.ان تحریروں سے میرا مدعا یہ تھا کہ عوض معاوضہ کی صورت دیکھ کر مسلمانوں کا جوش رک جائے.سوا گرچہ ان حکمت عملی کی تحریروں سے مسلمانوں کو فائدہ تو ہوا اور وہ ایسے رنگ کا 66 جواب پا کر ٹھنڈے ہو گئے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب بھی آئے دن پادری صاحبوں کی طرف سے ایسی تحریر میں نکلتی رہتی ہیں جو و درنج اور تیر طبع مسلمان ان کی برداشت نہیں کر سکتے.“ ضمیمہ رسالہ جہادروحانی خزائن جلد 17 صفحہ 30-31) یہ وہ چند نمونے ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کئے گئے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توہین رسالت کرنے والوں کا پیچھا کیا اور انہیں ہر میدان میں شکست دی.اگر دیکھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک ایک کتاب اسلام کے دفاع میں لکھ گئی ہے.اور آپ نے اپنی زندگی میں کوئی بھی ایسا موقعہ ہاتھ سے نہیں دیا کہ اسلام اور قرآن اور آنحضرت صلم کی شان پر کسی نے حملہ کیا ہو تو آپ نے اس کا جواب نہ دیا ہو.تو بین رسالت کرنے والوں سے آپ کے دل میں کس قدر دکھ اور درد پیدا ہوتا تھا اس کو اندازہ کرنے کے لئے یہاں صرف دو اقتباس درج کرتا ہوں.ایک مقام پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اس بات کو کون نہیں جانتا کہ ہندوستان اور پنجاب میں کم سے کم 45 برس سے یہ اعتدالیاں شروع ہیں.ہمارے سید و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء وسيد المطهرين افضل الاولین و الآخرین محمد مصطفی بھی نا اہلی کو اس قدر گالیاں دی گئی ہیں اور اس قدر قرآن کریم کو بیجا ٹھٹھے اور میں تعلیم ہنسی کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ دنیا میں کسی ذلیل سے ذلیل انسان کے لئے بھی کسی شخص نے یہ لفظ استعمال نہیں کئے.یہ کتا ہیں کچھا ایک دو نہیں بلکہ ہزار ہا تک نوبت پہنچ گئی ہے اور جو شخص ان کتابوں کے مضمون پر علم رکھ کر اللہ جلشانہ اور اس کے رسول پاک کے لئے کچھے بھی غیرت نہیں
362 رکھتا.وہ ایک لعنتی آدمی ہے، یہ مولوی اور ایک پلید حیوان ہے نہ انسان.اور یادر ہے کہ ان میں سے بہت سی ایسی کتابیں ہیں جو میرے بلوغ کے ایام سے بھی پہلے کی ہیں اور کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ ان کتابوں کی تالیف کا یہ موجب تھا کہ میں یا کسی اور مسلمان نے حضرت مسیح علیہ السلام کو گالیاں دی تھیں جس سے مشتعل ہو کر پادری فنڈل اور صفدر علی اور پادری ٹھا کر داس اور عماد الدین اور پادری ریواری نے وہ کتابیں تالیف کیں کہ اگران کی گالیاں اور بے ادبیاں جمع کی جائیں تو اس سے سوجز کی کتاب بن سکتی ہے.اور ایسا ہی کوئی اس بات کا ثبوت نہیں دے سکتا کہ جس قدر گالیاں اور بے ادبیاں پنڈت دیا نند نے اپنی کتاب ستیارتھ پر کاش میں ہمارے سید و مولی نبی میلی لیلی کو دیں اور دین اسلام کی تو ہین کی.یہ کسی ایک اشتعال کی وجہ سے تھیں جو ہماری طرف سے ہوا تھا.ایسا ہی آریوں میں سے لیکھرام وغیرہ جواب تک گندی کتابیں چھاپ رہے ہیں.اصل موجب اس کا ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم نے وید کے رشیوں کو گالیاں دی تھیں بلکہ اگر ہم نے کچھ وید کی نسبت براہین میں لکھا تو نہایت تہذیب سے لکھا اور اس وقت لکھا گیا کہ جب دیا نند اپنے ستیارتھ پر کاش میں اور کنہیا لعل الکھ دھاری لدھیانوی اپنی کتابوں میں اور اندر من مراد آبادی اپنی پلید تالیفوں میں ہزار ہا گالیاں آنحضرت علی کو دے چکے تھے اور ان کی کتابیں شائع ہو چکی تھیں اور بعض بد بخت اور آنکھوں کے اندھے مسلمان آریہ بن چکے تھے اور اسلام سے نہایت درجہ ٹھٹھا کیا گیا تھا اور پھر بھی ہم نے نہایت تہذیب کو ہاتھ سے نہ دیا.گو ہمارا دل دکھایا گیا اور بہت ہی دکھایا گیا مگر ہم نے اپنی کتاب میں ہر گز ناراستی اور تختی کو اختیار نہ کیا اور جو واقعات در اصل صحیح اور محل پر چسپاں تھے وہی بیان کئے.ہم بمقابل آریوں کی گالیوں کے ویدوں کے رشیوں کو کیونکر گالیاں دیتے...اسلام کا طریق گالی دینا نہیں ہے مگر ہمارے مخالفوں نے ناحق بے وجہ اس قدر
363 گالیوں سے بھری ہوئی کتابیں لکھی ہیں کہ اگر ان کا ایک جگہ ڈھیر لگایا جائے تو اس کی بلندی ہزار فٹ سے کچھ کم نہ ہو.اور ابھی تک بس کب ہے ہر ایک مہینہ میں ہزاروں رسالے اور کتابیں اور اخبار تو ہین اور سب وشتم سے بھرے ہوئے نکلتے ہیں.پس ہمیں ان مولویوں کی حالت پر افسوس تو یہی ہے کہ ایسے مولوی جو کہتے ہیں کہ جو کچھ ہوتا ہے ہوتا ر ہے.کچھ مضائقہ نہیں.اگر ان کی ماں کو کوئی ایسی گالی دی جاتی جو ہمارے پیارے نبی صیام کو دی جاتی ہے.یا اگر ان کے باپ پر وہ بہتان لگایا جاتا جو سید الرسل محمد مصطفی علی سلیم پر لگایا جاتا ہے تو کیا یا یسے ہی چپ بیٹھے رہتے.ہر گز نہیں.بلکہ فی الفور عدالت تک پہنچے اور جہاں تک طاقت ہوتی کوشش کرتے کہ تا ایسا دشنام دہ اپنی سزا کو پہنچے مگر آنحضرت بی اہلیہ کی عزت ان کے زیک کچھ چیز نہیں.غضب کی بات ہے کہ مخالفین کی طرف سے تو چھ کروڑ کتاب اب تک اسلام کے رد اور توہین میں تالیف ہو چکیں اور سب وشتم کا کچھ انتہا نہ رہا.اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کچھ مضائقہ نہیں ہونے دو جو کچھ ہوتا ہے.عنقریب ہے کہ ان گالیوں سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں مگر ان مولویوں کو کچھ پرواہ نہیں.حیف ہے ایسے اسلام اور مسلمانی پر.کہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی حرج نہیں.ہزار ہا آدمی ان جھوٹے بہتانوں کوسن کر مرتد ہو گئے مگر ان کے خیال میں ہنوز کسی احسن انتظام کی ضرورت نہیں.یا الہی ! یہ لوگ کیوں اندھے ہو گئے.مجھے کچھ سبب معلوم نہیں ہوتا کیوں بہرے ہو گئے.مجھے کچھ بھی پتہ نہیں لگتا.اے قادر خدا.اے حامی دین مصطفے ؟ تو ان کے دلوں کے جذام کو دور کر.ان کی آنکھوں کو بینائی بخش کہ تو جو چاہتا ہے کرتا ہے تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں ! ہم تیری رحمتوں پر بھروسہ رکھتے ہیں تو کریم اور ( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 397-400) قادر ہے.66 اسی طرح ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں.
364 اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم بیا کی تو ہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا.کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندان کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بد گوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم علیم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے اور دل رورو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو والله ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس تو بین سے جو ہمارے رسول کریم کی گئی دکھا.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 50-51) نیز ایک مقام پر فرماتے ہیں ”میرے دل کو کسی چیز نے اتنی تکلیف نہیں دی جتنی ان دشمنوں کے حضرت محمد مصطفی کے استہزا کرنے نے دی ہے.خدا کی قسم اگر میرے سارے لڑکے اور اولاد اور پوتے میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئے جائیں اور میرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئے جائیں اور میری آنکھیں نکال دی جائیں اور مجھے میرے تمام مرادوں اور معین و مددگاروں سے محروم کر دیا جائے تو تب بھی یہ تمام امور مجھ پر ان کے آپ سے استہزا سے زیادہ گراں نہیں.“ 66
365 ( آئینہ کمالات اسلام ترجمه عربی عبارت روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 15) قارئین ! یہ وہ درد تھا جو تو بین رسالت کرنے والوں سے آپ کو پہنچتا اور آپ نے ایسے لوگوں کی توہین کا جواب قرآن کریم کے اسلوب اور رسول کریم مسلم کی سنت کے مطابق دیا اور ہر میدان میں انہیں چیلنج کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو بین کرنے والوں کا مقابلہ کر کے انہیں ہر میدان میں شکست فاش دیکر مسلمانوں کو سمجھا دیا کہ آئندہ جب بھی کوئی بد باطن دریدہ دہن اور عقل کا اندھا ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے عالم کے خلاف زبان درازی کرے تو کیسے جواب دیا جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے نظام خلافت قائم فرما کر قیامت تک کے لئے اسلام کے گرد ایک حصار قائم کر دی ہے اس لئے جب بھی کوئی اسلام پر حملہ آور ہوتا ہے تو خلفاء احمدیت اسی قرآنی اصول پر قائم رہتے ہوئے تو بین رسالت کرنے والوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور ساری جماعت کو انہیں اسلوب پر قائم رہتے ہوئے دفاع اسلام کی تلقین کرتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس طریق سے تو بین رسالت کرنے والوں کا مقابلہ کیا، اور غیروں کا بھی آپ کی عظیم الشان کامیابیوں کا ذکر کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہی وہ اصول اور اسلوب ہیں جن کے ذریعہ اسلام اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتا ہے.اور یہی وہ اسلوب ہیں جن پر چل کر اسلام دیگر ادیان پر غلبہ حاصل کرسکتا ہے.
366 الحاج حضرت حکیم مولوی نورالدین بھیروی خلیفه امسیح الاول رضی اللہ تعالی عنہ کا تو بین رسالت پر حملوں کا جواب الحاج حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیرہ کے رہنے والے تھے اس لئے آپ کے نام کے ساتھ بھیروی آتا ہے.چھوٹی عمر ہی سے آپ کو دینی تعلیم کا بے حد شوق تھا آپ ہمیشہ ذی علم اساتذہ کی تلاش میں رہتے.علم کے حصول کے لئے آپ نے دور دراز کے سفر بھی اختیار کئے اس کی بدولت آپ کا شمار بڑے عالموں میں ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی آپ حاذق حکیم بھی تھے.آپ کو بھی اسلام اور حضرت محمد مصطفی بیام سے بے پناہ محبت تھی.آپ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رابطہ کس طرح سے ہوا اس کا ایک واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ آپ جب جموں میں ملازمت کرتے تھے تو ایک شخص جناب شیخ رکن الدین صاحب نے ( جو خود بھی جموں ہی میں کسی جگہ ملازمت کرتے تھے) آپ کو بتایا کہ گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے اسلام کی حمایت میں رسالے اور کتب لکھی ہیں.اس پر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے جو خود بھی اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد صل علیم سے دلی پیار رکھتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو خط لکھ کر کتابیں منگوائیں اور ان کا مطالعہ کیا.انہیں دنوں میں کشمیر ہی کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان افسر کے ساتھ ختم نبوت کے عنوان پر ایک مباحثہ بھی ہوا.اسی دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اشتہار آپ کو ملاجس میں آپ نے دعوی ماموریت کے بعد نشان نمائی کی عالمگیر دعوت دی تھی اور یہ اشتہار آپ نے ایشیا، یورپ اور امریکہ کے تمام مذہبی عمائدین اور منکرین کو بھیجا تھا.اس اشتہار کے ملنے پر ہی آپ جموں سے قادیان کے لئے روانہ ہوئے.اللہ تعالیٰ نے
367 آپ کو وہ بصیرت عطا فرمائی تھی کہ پہلی نظر ہی میں آپ نے اس فرستادہ کو پہچان لیا کہ یہ وہی وجود ہے جس کی انتظار میں لاکھوں انسان اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں.پھر آپ پر ایسے.فدا ہوئے کہ اپنا سب کچھ آپ پر قربان کر دیا.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دل اپنے آقا حضرت محمد مصطف علی ایم پر فدا تھا آپ کے دل سے بھی اسی طرح فدائیت کی چشمے پھوٹتے تھے.توہین رسالت کرنے والوں سے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دل چھلنی ہوتا تھا اسی طرح آپ بھی بے تاب ہو جاتے تھے.آپ کی ایک دعا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے.آپ نے یہ دعا کی کہ.الہی اسلام پر بڑا تبر چل رہا ہے مسلمان اول توست ہیں.پھر دین سے بے خبر ہیں.اسلام و قرآن اور نبی کریم علی الیہ سے بے خبر ہیں.تو ان میں ایسا آدمی پیدا کرجس میں قوت جاذبہ ہو وہ کاہل دست نہ ہو.ہمت بلند رکھتا ہو ، با وجود ان باتوں کے وہ کمال استقلال رکھتا ہو.دعاؤں کا مانگنے والا ہو، تیری تمام رضاؤں یا اکثر کو پورا کیا ہو.قرآن وحدیث سے باخبر ہو پھر اس کو ایک جماعت بخش اور وہ جماعت ایسی ہو جو نفاق سے پاک ہو، تباغض ان میں نہ ہو.اس جماعت کے لوگوں میں بھی جذب، ہمت اور استقلال ہو ، قرآن وحدیث سے واقف ہوں اور ان پر عامل ہوں اور دعاؤں کے مانگنے والے ہوں.ابتلاء توضرور آویں گے، ابتلاؤں میں ان کو ثابت قدمی عنایت فرما اور ان کو ایسے ابتلاء نہ آویں جو ان کی طاقت سے باہر ہوں.تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 444) آمین اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ اس دور میں اسلام پر عیسائیوں اور آریوں کی طرف سے شدید حملے ہو رہے تھے.اور علمائے اسلام اس بات کی ضرورت محسوس کر رہے تھے کہ ان حملوں کے جواب کے لئے مسلمانوں کی ایک مشترکہ انجمن ہونی چاہئے.جس کے ذریعہ اسلامی
368 لٹریچر شائع کیا جائے اور وا کو اندرونِ ملک اور بیرون ملک بھیجا جائے.اس غرض کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی کی تجویز پر ایک انجمن اشاعت اسلام کے نام سے قائم کی گئی.حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی اور ایک رقم اس غرض کے لئے مختص کر دی.اگر چہ یا انجمن قائم نہ رہ سکی.اس بات کی ضرورت تو تھی کہ اسلام پر ہونے والوں حملوں کے جواب کے لئے کوئی نہ کوئی انجمن ضرور قائم ہونی چائے.اسی غرض کے پیش نظر ایک اور انجمن لاہور میں قائم ہوئی جس کا انجمن حمایت اسلام“ نام رکھا گیا.حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس انجمن کی بھی بھر پور مالی اور علمی مددفرمائی اعانت مالی کے ساتھ ساتھ مضامین بھی لکھے.اور اس کا صرف مقصد یہی تھا کہ کوئی دشمن اسلام، بانی اسلام آنحضرت علی کے خلاف ہرزہ سرائی نہ کرے.اور اسلام کی صحیح اور حقیقی تصویر بھی دنیا والوں کے سامنے پیش ہو سکے.چنانچہ مولوی حسن علی صاحب مونگھیر ہی جن کا اسلام کے مشہور مبلغین میں شمار ہوتا ہے انہوں نے 1893ء کے جلسہ انجمن حمایت اسلام میں حضور کی شمولیت پر اور آپ کی تقریر کو سراہتے ہوئے ذکر کیا کہ مجھ کو فخر ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اتنے بڑے عالم اور مفسر کو دیکھا اور اہل اسلام کو جائے فخر ہے کہ ہمارے درمیان اس زمانہ میں ایک ایسا عالم موجود ہے.تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 137) عیسائیت کی جواب میں فصل الخطاب“ کی تصنیف سن 1886ء کی بات ہے کہ ایک حافظ قرآن عیسائیت سے متأثر ہو کر اسلام کو خیر آباد کہنے کے لئے تیار ہو گئے.اس بات کا علم جب آپ کو ہوا تو آپ کا دل تڑپ گیا اور فوری حافظ صاحب سے رابطہ کیا اور اسے بپتسمہ لینے سے روک دیا اور ان سے کہا کہ وہ اس پادری صاحب سے ان کی بات کروائیں جنہوں نے انہیں متاثر کیا ہے چنانچہ حافظ صاحب نے آپ "
369 کی ملاقات پادری تھامس ٹاول سے کروائی جو کہ ایک انگریز تھا.آپ اس پادری کے سامنے شیر خدا بن کر کھڑے ہو گئے اور اسے کہا کہ اس نے اسلام پر جو بھی اعتراض کرنا ہے کرے میں اس کا جواب دونگا.اسپر اس پادری نے آپ سے لکھ کر سوال کئے جس کا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھ کر ہی جواب دیا جو چار جلدوں پر مشتمل تھا.آپ کا دیا ہوا یہی جواب بعد میں فصل الخطاب“ کے نام سے شائع ہوا.جب حافظ صاحب نے ان جوابات کو پڑھا تو عیسائیت کی ساری کلی ان پر کھل گئی اس پر وہ اور ان کے بہت سے ساتھی ارتداد سے بچ گئے اور بچے دل سے مسلمان ہو گئے.اس کتاب میں خاص طور پر اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.اسی کتاب میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.آنحضرت علی کو دشمنوں اسلام اور مخالفوں نے اکثر یہ طعن کیا ہے کہ آنحضرت اللہ کادین بزور شمشیر شائع ہوا ہے اور تلوار ہی کے زور سے قائم رہا.جن مؤرخین عیسائیوں نے آنحضرت علی ایم کا تذکرہ یعنی لائف لکھی ہے آ ملی تعلیم پر طعن کرنا انہوں نے اپنا شعار کرلیا ہے اور ان کے طعن کی وجہ فقط یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے تئیں اور اپنے رفقاء کو حملوں سے بچایا...قوانین اسلام کے موافق ہر قسم کی آزادی مذہبی اور مذہب والوں کو بخشی گئی جو سلطنت اسلام کے مطیع ومحکوم تھے.لا اكراة في الدين ( البقرہ 257) دین میں کوئی جبر نہیں یہ آیت کھلی دلیل اس امر کی ہے کہ اسلام میں اور اہل مذاہب کو آزادی بخشنے اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ہے.“ (فصل الخطاب صفحہ 98-99).66 اسی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے مولوی سید محمد علی صاحب کا نپوری نے لکھا.اس عمدہ کتاب میں پر جوش تحریر کے ساتھ اکثر نئی تحقیق کا دریا موجزن ہے.اسلام کی خوبی کو مختصر طور پر خوب دکھایا گیا ہے اور غالباً عیسائیوں کے کل اعتراضوں کے جواب الزامی
370 اور تحقیقی خوش اسلوبی سے دئے ہیں اور نبوت سرور انبیاء اور ضرورت قرآن مجید کو عمدہ طرز سے تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 116) ثابت کیا ہے.“ تصدیق براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ اسلام پر اگر ایک طرف عیسائی حملہ آور تھے تو دوسری طرف آریوں کی کھلیوں سے بھی اسلام کے خلاف زیرا گلا جار ہاتھے ایک طرف جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کا مقابلہ کر رہے تھے وہیں آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی تصدیق براہین احمدیہ کی تحریک فرمائی.آپ نے فرمایا آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہورہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لئے بہت زور لگا رہے ہیں میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے اور 66 اعلائے کلمتہ الاسلام کے لئے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے.“ انجمن دیا نند کھنڈن سجادہلی کی معاونت ( مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 43) حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے دور خلافت میں دہلی اور اس کے ارد گرد آریہ سماج والوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک فتنہ کھڑا کر دیا.اس وقت جماعت احمدیہ کے نامورممبر حضرت میر قاسم علی صاحب نے ان دشمنان اسلام کا تحریری اور تقریری دفاع کرنے کی غرض سے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور وہاں ایک انجمن دیانند مت کھنڈن سمجھا“ کے نام سے قائم فرمائی.اس انجمن نے آریوں کی زہریلی کھلیوں کو توڑنے کا زبردست کام کیا جس سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الاول نے اس انجمن کے لئے اپنی جیب سے یکصد روپے عنایت فرمائے.( تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 302)
371 کتاب نورالدین کی تصنیف 66 عبدالغفور نامی ایک شخص نے جس نے اسلام کو خیر آباد کہہ کر آر یہ دھرم اختیار کرتے ہوئے اپنا نام دھرم پال رکھ لیا تھا اس نے اسلام کے خلاف ایک کتاب ” ترک اسلام کے نام سے لکھی.اسلام پر اعتراضات کرتے ہوئے اس کتاب میں اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ نعوذ باللہ اسلام دنیا کا سب سے بڑامذہب ہے.حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ایک کتاب لکھی جس کا نام آپ نے ”نورالدین تجویز فرمایا، اس میں اعتراضات کے جواجات کے ساتھ ساتھ اسلام کی خوبیاں بھی بیان کی گئی ہیں.حضرت مولوی صاحب نے خوابوں اور رڈیا کی بنا پر اس کی خوب تشہیر فرمائی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کے خلاف اٹھنے والا فتنہ دب گیا اور دھرم پال پر اس کتاب کا اتنا اثر ہوا کہ وہ پھر سے مسلمان ہو گیا اور اسلام کی تعریف کرنے لگا اور اس نے اپنی کتاب جواس نے اسلام کے خلاف لکھی تھی وہ بھی اپنے ہاتھ سے جلا دی.مسیحی لیکچروں کے جواب میں اسلامی لیکچرز تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 164-165) سن 1909ء کے آخر میں عیسائیوں نے فورمین کالج میں مسلمانوں کے خلاف تقریروں کاسلسلہ شروع کیا اس پر حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے 5 نومبر 1909ء کو یہ اعلان فرمایا کہ ہم بھی لاہور میں اسلامی لیکچروں کا سلسلہ شروع کریں گے.چنانچہ 29 دسمبر 1909ء تا میکم جنوری 1910ء چار روز احمد یہ بلڈنگ لاہور میں جوابی لیکچر ز ہوئے جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے نجات کے موضوع پر مدلل لیکچر بھی شامل ہیں.
372 تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 305) الغرض حضرت خلیفہ امسح الاول رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت میں صرف کی اور جب بھی اسلام پر کسی نے حملہ کیا آپ نے اس کا فوری جواب دیا اور جب بھی مخالفین اسلام نے اسلام اور حضرت محمد مصطفے صلی علم کی شان پر گستاخانہ حملے کئے آپ نے ان کا منہ توڑ جواب دیا اور اسی طریق کو اختیار کیا جس کی قرآن کریم ھدایت کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس طریق کو اختیار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آپ کے خدمت اسلام کے اس جذبہ کی بنا پر بے انتہا محبت تھی آپ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ بیان فرماتے ہیں.”سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نورِ اخلاص کی طرح نور دین ہے.میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلاء کلمہ اسلام کیلئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکیں.ان کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہے اس کے تصور سے قدرت الہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 35)
373 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفة المسح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی ناموس رسالت کے لئے کاوشیں.اس بات سے تو ہر کوئی واقف ہے کہ یہ دور ہی ایسا تھا کہ اسلام پر چوطرفہ حملے ہورہے تھے جہاں عیسائی اسلام پر حملہ آور تھے وہاں ہندوؤں نے بھی اسلام پر اپنے حملے تیز کر دئے تھے.اور یہ کوشش کی جارہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کو دنیا سے ختم کر دیا جائے اسی لئے مخالفوں نے یہ طریق اختیار کر لیا تھا کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے آنحضرت علی ایم پر اور آپ کی ازواج مبارکہ پر توہین آمیز شدید حملے کئے جائیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یه پیش خبری دی تھی کہ تیری ہی ذریت اور نسل سے میں تجھے ایک دینا عطا کروں گا جو اسلام کی خدمت پر معمور ہو کر ساری دنیا میں اسلام کو پھیلائے گا جسے اللہ تعالی نے مصلح موعود کے نام سے بھی یاد کیا.حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کو خلافت پر متمکن فرمایا.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توہین رسالت کرنے والوں کو دندان شکن جواب دئے آپ نے بھی اسی طرح اسلام اور اپنے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی علم پر ہونے والے حملوں کا بھر پور دفاع کیا.رض حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں.دیکھو ہندوستان میں آج کل اسلام پر خطر ناک وقت آیا ہوا ہے.دشمن چاہتا ہے وہ اسلام کو مٹادے اور توحید کو مٹا کر شرک کی بنیاد رکھ دے اور اسلام کی جگہ ہندو مذہب قائم کردے.وہ بت پرست اقوام جن کی گھٹی میں شرک ملا ہوا ہے آج وہ خدائے واحد کی توحید کو
374 مٹانے کے درپے ہیں....پس میں آج ہر اس شخص سے جس کے دل میں اسلام کا درد ہے ہر اس شخص سے جو اسلام کی ترقی اور عظمت کا خواہاں ہے ہر اس شخص سے جس نے اقرار کیا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھے گا یہ بات بڑے درد سے کہتا ہوں کہ اس کا فرض ہے کہ اس نازک وقت میں بیدار ہو جائے.( خطبات محمود جلد 11 صفحہ 69-70) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے حملوں اور بد زبانیوں کے پیش نظر تمام مسلمانوں اور اپنی جماعت کے افراد کو ان کا جواب دینے کی طرف توجہ دلائی اور مسلمانان ہند کو تین باتوں پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی.جائیں.1.دشمن کے مقابلہ کے وقت ہم آپس میں متحد ہوجائیں اور ایک دوسرے کے مددگار بن 2 مسلمان اپنے ماحول کے حالات سے باخبر رہیں اور جس جگہ وہ ہندوؤں کے حملہ کا دفاع نہیں کر سکتے وہ ہمیں اطلاع دیں.ہم اپنے آدمی بھیج دیں گے.3.جہاں جہاں آریوں اور عیسائیوں کا زور ہو وہاں مسلمان تبلیغی جلسے کر کے ہمارے واعظ بلوائیں.اس اعلان کے بعد مسلمانوں نے اپنے جلسوں میں احمدی وا کو بلانا شروع کیا اور احمدی وا یہ بھی بلا تامل ہر جگہ پہنچ جاتے جہاں انہیں بلایا جاتا اس طرح پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہو گیا.اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب ”مسلمان مہارا نا‘ میں لکھا گرچہ میں قادیانی عقیدہ کا نہیں ہوں نہ کسی قسم کا میلان میرے دل میں قادیانی جماعت کی طرف ہے.لیکن میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ قادیانی جماعت اسلام کے
375 66 حریفوں کے مقابلہ میں بہت مؤثر اور پر زور کام کر رہی ہے.“ الفضل 31 مئی 1927 ء تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 574) رنگیلا رسول اور رسالہ ورتمان میں حضرت رسول کریم علی ایم کی تضحیک پر جماعت احمد یہ دفاع سن 1927ء کی بات ہے کہ ایک شخص " راجپال“ نے ”رنگیلا رسول“ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صل اسلام کی ذات پر شدید قسم کے غلیظ حملے کئے گئے دلخراش اور اشتعال انگیز باتیں لکھی گئی تھیں.اسی طرح ایک اور آریہ دیوی شرن شرما نے ہندور سالہ ورتمان میں سیر دوزخ کے عنوان سے افسانوی رنگ میں ایک مضمون لکھا جو کہ آنحضرت صلیم کی ذات کونشانہ بناتے ہوئے لکھا گیا تھا اس میں بھی آنحضرت علیم کے بارے میں تو بین آمیز اور دل آزار باتیں لکھی گئی تھیں اور اہل بیت کے نام بھی بگاڑ کر لکھے گئے تھے.اس سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو گیا.اس پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک پوسٹر شائع کیا اور یہ پوسٹر ایک ہی رات میں پورے ہندوستان میں چسپاں کر دیا گیا.اس کا عنوان تھا ”رسول کریم کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہونگے اس اشتہار میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے تحریر فرمایا.کیا اس سے زیادہ اسلام کے لئے کوئی مصیبت کا دن آسکتا ہے؟ کیا اس سے زیادہ ہماری بیکسی کوئی اور صورت اختیار کر سکتی ہے؟ کیا ہمارے ہمسایوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسول کریم معالم فداہ نفسی و اہلی کی اپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور
376 ہمارے جسم کا زرہ زرہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے اس کے اور کیا غرض ہوسکتی ہے کہ ہمارے دلوں کو زخمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایا جائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پرواہ نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لئے ان لوگوں کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا.ہماری جانیں حاضر ہیں.ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں.جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدار انبیوں کے سردار کی بہتک کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس پر حملہ کرنے والوں سے ہم بھی صلح نہیں کر سکتے ہمارے طرف سے بار بار کہا گیا ہے اور میں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہر گز صلح نہیں ہو سکتی جو رسول کریم اللہ کو گالیاں دینے والے ہیں.بیشک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہے کرلیں اور پنجاب ہائیکورٹ کے تازہ فیصلہ کی آڑ میں جس قدر چاہیں ہمارے رسول کریم علیم کو گالیاں دے لیں.لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے وہ اپنی طاقت کی بنا پر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانون قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے اور قانون قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوتی ہے اس کو برابھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا.“ تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 597) اس پوسٹر کے شائع ہو جانے پر پورے ملک میں مسلمانوں میں رسول کریم علیم کے
377 تئیں ایک جز بہ اور جوش پیدا ہو گیا اور حکومت کو بڑی کوشش سے امن قائم کرنا پڑا اس پر حکومت نے ”درحمان کا وہ پرچہ ضبط کیا اور اس کے ایڈیٹر اور مضمون نگا پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا.اسی طرح ”رنگیلا رسول“ کے مصنف راجپال پر بھی مقدمہ چلایا گیا اور اسے زیر دفعہ 153 - الف تعزیرات ہند چھ ماہ قید با مشقت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ قید مزید کی سزا ہوئی لیکن راجپال نے اس کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اس پر ہائیکورٹ کے جج کنور دلیپ سنگھ نے یہ کہتے ہوئے اسے بری کر دیا کہ میری رائے میں دفعہ 153 - الف اس قدر وسیع معانی کے لئے نہیں بنایا گیا تھا.میرے خیال میں اس دفعہ کے وضع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو کسی ایسی قوم پر حملہ کرنے سے روکا جائے جو موجود ہو نہ کہ اس سے گزشتہ مذہبی رہنماؤں کے خلاف اعتراضات اور حملوں کو روکنا مقصود تھا.جہاں تک میرا تعلق ہے میں اس امر پر اظہار افسوس کرتا ہوں کہ ایسی دفعہ کی تعزیرات میں کمی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ مقدمہ 153.الف کی زد میں آتا ہے اس لئے میں نظر ثانی کو بادل ناخواستہ منظور کرتا ہوں اور مرافعہ گزار کو بری کرتا ہوں.ہائیکورٹ کے اس فیصلہ پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ورتمان کے مضمون نگار کو سز ادلوانے کی پوری کوشش کی اور ساتھ ہی یہ بھی کوشش کی کہ اس دفعہ 153 - الف میں جو کمی ہے اسے دور کیا جائے.چنانچہ یہ مقدمہ چیف جسٹس نے ایک حج کے سپرد کر دیا.لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکومت کو تار کے ذریعہ اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ یہ مقدمہ ایک سے زیادہ ججوں کے سامنے پیش ہونا چاہئے.تا کہ دفعہ 153.الف سے متعلق جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ کی تحقیق ہو جائے.چنانچہ حکومت نے اس مطالبہ کو منظور کرتے ہوئے ڈویژن بینچ کے سپرد کر دیا.جس نے 16 اگست 1927ء کو فیصلہ سنایا کہ مذہبی پیشواؤں کے
378 خلاف بدزبانی 153 - الف کی زد میں آتی ہے اور بانی اسلام کو اسلام سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا اس وجہ سے ڈویژن بینچ نے ورتمان کے مضمون نگار کو ایک سال قید بامشقت اور پانچ سوروپیہ جرمانہ اور ایڈیٹر کو چھ ماہ قید سخت اور اڑھائی سور و پیہ جرمانہ کی سزادی.ہائیکورٹ کے سابقہ فیصلہ پر اخبار مسلم آؤٹ لک کے ایڈ میٹر سید دلاور شاہ صاحب بخاری نے 14 جون 1927ء کو مستعفی ہو جاؤ“ کے عنوان سے ایک ادا یہ لکھا جس میں ہائیکورٹ کے اس فیصلہ سے اختلاف کیا گیا تھا جس پر اخبار کے ایڈیٹر اور اس کے مالک وطابع ( مولوی نورالحق صاحب کے نام توہین عدالت ہائیکورٹ کی طرف سے نوٹس بھیجا گیا.آپ پر مقدمہ چلا جماعت کے تعاون سے یہ مقدمہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے لڑا مضبوط دلائل پیش کرنے کے باوجو د ہر دوملزمان کو قید اور جرمانہ کی سزاد یکر انہیں جیل بھیج دیا گیا.رنگیلا رسول کے مصنف راجپال کو 16 اپریل 1926ء میں لاہور میں ایک مسلمان نوجوان علم الدین نے قتل کر دیا جس پر آریہ دھرم والوں اور آر یہ اخبارات نے مسلمانوں اور اسلام پر یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ اسلام میں جواب دینے کی طاقت نہیں.اس قتل کے بعد ملکی فضا مکدر ہو گئی.اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے میدان میں اتر کر اپنے خطبات اور تقاریر کے ذریعہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم ایک دوسرے کے بزرگان کی عزت واحترام کریں اس سے ہی دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے.( تاریخ احمدیت جلد 5) جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشوایان مذاہب کی عزت اور تکریم کو قائم رکھنے کے لئے موجودہ قانون میں اضافہ کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی.حضرت مصلح موعوددؓ نے بھی قانون کی دفعہ 153.الف کے ناقص اور نامکمل ہونے کی
379 طرف حکومت وقت کو تو جہ دلاتے ہوئے 1927 ء میں لکھا کہ دو.موجودہ قانون صرف اس شخص کو مجرم گردانتا ہے جو فسادات کی نیت سے کوئی مضمون لکھے.براہ راست تو ہین انبیاء کو جرم نہیں قراردیتا.2.اس قانون کے تحت صرف حکومت ہی مقدمہ چلا سکتی ہے.3 اس قانون میں یہ اصلاح کرنا ضروری ہے کہ جوابی کتاب لکھنے والے پر اس وقت تک قانونی کاروائی نہ کی جائے جب تک کہ اصل مؤلف پر مقدمہ نہ چلایا جائے بشرطیکہ اس نے گندہ دہنی سے کام لیا ہو.4.یہ قانون صوبائی ہے لہذا اصل قانون یہ ہونا چاہئے کہ جب ایک گندی کتاب کو ایک صوبائی حکومت ضبط کرلے تو باقی صوبائی حکومتیں بھی قانوناً پابند ہوں کہ وہ اپنے صوبہ میں اس کتاب کی طباعت یا اشاعت بند کر دیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد گورنمنٹ آف انڈیا کے اختیار میں ہو جو کسی صوبہ کی حکومت کے توجہ دلانے پر ایک عام حکم جاری کر دے جس کا سب صوبوں پر اثر ہو.“ الفضل 19 اگست 1927 تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ 610-611) حضرت مصلح موعود کی اس کوشش کے نتیجہ میں حکومت نے اس امر کی طرف توجہ کی اور جب یہ معاملہ اسمبلی میں پیش ہوا تو ایک نئی دفعہ کا اضافہ منظور کرلیا گیا جس کے نتیجہ میں پیشوایان مذاہب کی عزت کے تحفظ کا قانون پہلے سے بہت زیادہ معین صورت اختیار کر گیا.اس طرح تمام مذاہب کے پیشواؤں کی عزت کے تحفظ کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی کوششیں برآئیں.اس کے ساتھ ہی حضرت مصلح موعودؓ نے سن 1927ء میں جب رنگیلا رسول کتاب کی اشاعت ہوئی تو تحفظ ناموس رسالت کی خاطر سیرت النبی صلیم کے عنوان پر جلسوں کا آغاز
380 فرمایا آپ نے اس پر اس قدر زور دیا کہ یہ جلسے عالمگیر جلسوں کی صورت اختیار کر گئے اور آج تک بھی جاری ہیں.ان جلسوں کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگوں کو آپ پر حملہ کرنے کی جرات اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں یا اسی لئے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریم عالم کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دئے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپ کی پاکیزگی سے آگاہ ہوجائے.اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرات نہ رہے، جب کوئی حملہ کرتا ہے یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا.واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر دیگا.پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم عالیم کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے کہ رسول کریم علیم کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے.اور ہر سال خاص انتظام کے تحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے.تا کہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہو جائیں.“ تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 29-30) اس کے علاوہ آپ نے 1939ء میں پیشوایان مذاہب کے جلسوں کا بھی آغاز فرمایا اور تمام مذاہب والوں ایک کو ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں سے ہر مذہب والا اپنے اپنے مذہب کے پیشواؤں کی سیرت لوگوں کے سامنے پیش کر سکے.اس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کے مذہب کے پیشوا کی عزت لوگوں کے دلوں میں قائم ہونا شروع ہوئی اور آج تک کبھی جماعت احمدیہ ناموس رسالت انبیاء کے قائم کرنے لئے اس سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ کام ناموس
381 رسالت انبیاء کے قائم رکھنے کا ایک زبر دست ذریعہ ہے.کتاب ستیارتھ پرکاش“ کا جواب اس کتاب کا ذکر پہلے بھی گزر چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ کی اشاعت سے قبل آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی نے یہ کتاب شائع کی تھی.اس کتاب میں تمام مذاہب کونشانہ بناتے ہوئے ہندو مذہب کی برتری کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی.اسی کتاب کے چودھویں ادھیائے ( حصہ ) میں اسلام، قرآن کریم اور رسول پاک میایم پر شدید حملے کئے گئے تھے.اس کتاب کی اشاعت پر ایک عرصہ گزر جانے پر بھی کسی کو اس کتاب کا جواب لکھنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی.یہ توفیق بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ تو عطا کی.اس کتاب کا جواب تیار کرنے کے لئے سنسکرت کا جاننا بہت ضروری تھا.اس زبان کو سیکھنے کے لئے مولوی ناصرالدین عبد اللہ صاحب بنارس تشریف لے گئے اور وہاں کسی ادارہ سے اس زبان کے سیکھنے کی کوشش کرنے لگے.چونکہ اس زبان کو سکھانے والے سب ادارے ہندو تھے کوئی بھی تیار نہ ہوا ہر ایک کا یہ مطالبہ تھا کہ پہلے آپ ہندو ہو جائیں تو پھر آپ کو یہ زبان سکھائی جائے گی.بہت کوشش کے بعد آپ کو ایک ایسے پنڈت ملے جنہوں نے شرط رکھی کہ آپ مجھے عربی سکھائیں گے تو میں تمہیں سنسکرت پڑھا دوں گا.آپ نے یہ شرط منظور کر لی.پنڈت صاحب نے تو کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد عربی سیکھنی چھوڑ دی لیکن آپ پڑھتے رہے اور دو یا تین سال میں آپ نے کلکتہ یونیورسٹی سے سنسکرت میں ڈگری حاصل کر لی.آپ نے اپنی تعلیم کے دوران ہی ستیارتھ پر کاش کے چودھویں ادھیائے کا جواب آسمانی پر کاش“ کے نام سے لکھا جس میں ہر اعتراض کا حقیقی اور الزامی جواب دیا گیا تھا.یہ کتاب آپ نے بنارس سے ہی شائع کروائی اور وہاں کے بڑے بڑے پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھما کر تحفظ ناموس رسالت کا
382 فریضہ سرانجام دیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سن 1944ء میں اس کتاب کا مکمل جواب تیار کر کے شائع کرنے کی تحریک فرمائی اور اس کے لئے تیں افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں مکرم مولوی ناصر الدین عبد اللہ صاحب ،مکرم مہاشہ محمد عمر صاحب اور مکرم مہاشہ فضل حسین صاحب شامل تھے.یہ تینوں نوجوان ہندی اور سنسکرت زبان کے ماہر تھے.یہ جواب تیار کرتے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی ایڈیٹنگ فرمایا کرتے تھے.بہت حد تک اس کتاب کا جواب تیار ہو چکا تھا لیکن تقسیم ملک کے باعث یہ جواب شائع نہ ہو سکا.اگر چہ اس کتاب پرسندھ حکومت نے پابندی عائد کر دی اور یہ فیصلہ کیا کہ ستیارتھ پرکاش کی کوئی کتاب اس وقت تک شائع نہ کی جائے جب تک کہ اس میں سے چودھواں ادھیائے حذف نہ کیا جائے.چونکہ اس کتاب میں دیگر مذاہب پر بھی نازیبہ حملے کئے گئے تھے اس پر حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا.نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ وہی حصہ ستیارتھ پرکاش کا ضبط نہ ہونا چاہئے تھا جو اسلام کے خلاف ہے بلکہ وہ حصہ بھی ضبط ہونا چاہئے تھا جو عیسائیت کے خلاف ہے، جو ہندو مذہب کےخلاف ہے، جو جین مذہب کے خلاف ہے ، جو سکھ مذہب کے خلاف ہے.کیونکہ ستیارتھ پر کاش میں ان مذاہب کی طرف بھی وہ باتیں منسوب کی گئی ہیں جوان میں نہیں پائی جاتیں یا جو خود آریہ سماج کے مسلمات میں بھی ہیں.اگر دل دکھنا ضبطی کی دلیل ہے تو کیا سکھ کا دل نہیں دکھتا؟ کیا عیسائیوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی ؟ جس طرح مسلمانوں کا دل دکھتا ہے اسی طرح سکھوں کا دل بھی دکھتا ہے.اسی طرح عیسائیوں کا دل بھی دکھتا ہے.پس گورنمنٹ کو چاہئے کہ اگر ضبط کرنا تھا تو ایسے سب بابوں کو ضبط کرتی جود وسرے مذاہب کے بارے میں ہیں
383 اور ان دو باتوں پر ان کی بنیاد رکھتی.محض دکھنے پر بنیاد نہ رکھتی.“ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 239-240) اسی طرح سن 1956 ء میں ہندوستان میں ایک کتاب شائع ہوئی جو مذہبی راہنماؤں کی سوانح عمریاں“ کے عنوان سے تھی.دراصل یہ کتاب کافی عرصہ پہلے امریکہ میں شائع ہوئی تھی جس میں رسول کریم علیم کی ہتک کی گئی تھی.اس کتاب کی اشاعت پر ہندوستان کے مسلمانوں میں جوش پیدا ہو گیا مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اس کتاب کا مترجم ایک ہندو تھا اس لئے ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے حکومت نے اگر چہ اس کتاب پر پابندی عائد کردی لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سلسلہ میں فرمایا اس کتاب پر صرف پابندی لگ جانے پر ہمیں بیٹھ نہیں جانا چاہئے اس سے مخالف یہ خیال کریں گے کہ چونکہ مسلمانوں کے پاس ان اعتراضات کا جواب دینے کی طاقت نہیں ہے اس لئے اس پر پابندی لگوائی گئی ہے.اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس کا جواب لکھا جائے اور اس جواب کو انگریزی زبان میں بھی امریکہ میں شائع کیا جائے اور ہندوستان میں بھی اس کی اشاعت ہو.پہلے انہیں مباحثہ کا چیلنج کیا جائے اگر وہ اس کے لئے تیار ہوں تو انہیں مباہلہ کا چیلنج کیا جائے.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ اس کتاب کا جواب حقیقی اور الزامی دونوں رنگ میں دیا جائے اور اس میں ہندو مذہب کے پول بھی کھولے جائیں تا کہ انہیں بھی یہ معلوم ہو کہ اگر وہ ہماری طرف اینٹ پھینکیں گے تو انہیں بھی پتھر کھانے ہونگے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا.ہندوستان بے شک آزاد ہو گیا ہے مگر اب بھی وہ یورپ کی طرف میلان رکھتا ہے.اگر یورپ اور امریکہ میں شور مچ گیا کہ محمد رسول اللہ صلیم پر حملہ کرنے والوں کو احمدیوں نے خوب
384 لتا ڑا ہے اور انہیں مباحثہ اور مباہلہ کا چیلنج دیا ہے تو ہندوستان کے اخبارات بھی شور مچانے لگ جائیں گے اور وہ بھی وہی باتیں شائع کرنے لگ جائیں گے جو یورپ اور امریکہ کے اخبارات میں شائع ہو رہی ہوں گی.اور اس سے ہندوؤں کے کان کھڑے ہو جائیں گے اور وہ سمجھ لیں گے کہ احمدی پیچھا نہیں چھوڑا کرتے.اگر ان کے رسول پر حملہ کیا گیا تو اس وقت تک حملہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑتے جب تک انہیں گھر نہ پہنچا لیں.اس طرح آئندہ کے لئے رسول کریم ی کی ہتک کرنے اور مسلمانوں پر حملہ کرنے میں احتیاط سے کام لیں گے.“ 66 تو ریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 216) جولائی اگست 1950ء میں شہورہ کے ایک رومن کیتھولک پادری نے اسلام اور آنحضرت علیم کے خلاف ایک رسالہ "KIONGOZI" شائع ہوا جس میں اسلام اور رسول مقبول ملی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا تھا.اس رسالہ کا جواب مبلغ اسلام مکرم مولانا جلال الدین صاحب قمر اور مکرم امری عبیدی صاحب نے راتوں رات تیار کر کے شائع کر دیا جس میں پادریوں کے الزامات کا مختصر جواب دیا گیا تھا اور انہیں مناظرہ کی دعوت دی گئی تھی اس کی اشاعت پر عیسائیوں میں کھلبلی مچ گئی اور مسلمانوں کی طرف سے خوشی اور مسرت کے خطوط آنے شروع ہو گئے.اس موقع پر زنجبار کے مشہور عالم شیخ عبد اللہ صالح نے مولونا جلال الدین صاحب قمر کو لکھا.اگر چہ میں احمدیوں کی بعض باتوں سے اتفاق نہیں رکھتا لیکن اللہ تعالی اور اس کے مقدسوں کے سامنے اس بات کا اعتراف کے بغیر نہیں رہ سکتا کہ احمدیوں کے اندر حفاظت اسلام کے لئے جو غیرت ہے وہ مجھے بے حد محبوب ہے، احمدی قطعاً اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کے خلاف کچھ لکھایا کہا جائے اور جب تک اس کا شافی جواب دے کر دشمن اسلام کو خاموش نہ
385 کر دیں دم نہیں لیتے.تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 257) سن 1957ء کی بات ہے کہ جنوبی بھارت میں ندیب فوٹو پبلیشر کمپنی حیدر آباد دکن کی طرف سے آنحضرت علیم اور آپ کے بعض اصحاب کی فرضی تصاویر شائع کی گئیں اس شرمناک حرکت پر مکرم ناظر صاحب دعوت و تبلیغ قادیان نے فوری نوٹس لیا اور کمپنی کی اس حرکت پر سخت احتجاج کرتے ہوئے لکھا.اس قسم کا فرضی فوٹو آنحضرت صلی اللہ کا شائع کرنا اور پھر اس کے لئے نذرانہ طلب کرنا بہت معیوب، قابل اعتراض اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس لگانے کا باعث ہے اور ہم اس کی اشاعت پر سخت نفرت اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں.“ تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 733-734) الغرض حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا بیان نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام اور رسول کریم بیا این اپیل پر کسی بھی مخالف اسلام نے حملہ کیا ہو تو اس کا خلیفہ امسیح کی راہنمائی میں جواب نہ دیا گیا ہو.رسول پاک میلی لی ایم اور اسلام پر ہونے والے ہر حملہ کے موقعہ پر تمام جماعتی اخبارات اس کا جواب دینے اور ناموس رسالت کی حفاظت کے لئے کوشاں ہو جاتے اور مخالفین اسلام کو ان کا چہرہ دکھا کر اسلام اور رسول کریم اللہ کا حسین چہرہ دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں.”میرے دل میں ایک آگ ہے، ایک جلن ہے، ایک تپش ہے جو مجھے آٹھوں پہر بے قرار رکھتی ہے.میں اسلام کو اس کی ذلت کے مقام سے اٹھا کر عزت کے مقام تک پہنچانا چاہتا ہوں.میں پھر محمد رسول اللہ علی کے نام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا چاہتا ہوں.میں
386 پھر قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہوں.میں نہیں جانتا کہ یہ کام میری زندگی میں ہو گا یا میرے بعد لیکن میں یہ جانتا ہوں اسلام کی بلند ترین عمارت میں اپنے ہاتھ سے ایک اینٹ لگانا چاہتا ہوں یا اتنی اینٹیں لگانا چاہتا ہوں جتنی انٹیں لگانے کی خدا مجھے توفیق دیدے.میں اس عظیم الشان عمارت کو کمل کرنا چاہتا ہوں یا اس عمارت کو اتنا اونچا لے جانا چاہتا ہوں جتنا اونچالے جانے کی اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے.اور میرے جسم کا ہر ذرہ اور میری روح کی ہر طاقت اس کام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خرچ ہوگی اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی میرے اس ارادہ میں حائل نہیں ہوگی.“ (انوار العلوم جلد 19 صفحہ 388)
387 حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی ناموس رسالت کی حفاظت کے لئے کاوشیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی اصل غرض جو ہمارے پیارے آقا حضرت محمد رسول الہ عالم نے بیان فرمائی ہے وہ دجال کو قتل کرنا اور صلیب کو توڑنا ہے تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کے خلاف جن کی طرف سے اصل فتنہ برپا کیا گیاوہ عیسائی مذہب ہے.اور ان کے مذہب کی اصل بنیا د اس عقیدہ پر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر مر گئے اور آدم کے خون میں چلے آتے گناہ کا کفارہ دے گئے.تین دن بعد زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے اور خدا کے داہنے ہاتھ بیٹھے ہیں.اسی بات کو لیکر پادری مسلمانوں سے کہتے تھے کہ آنحضرت بالا یا پای تو وفات پاچکے اور مسیح زندہ آسمان پر ہے بتاؤ کون بڑا ، زندہ یا مردہ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم اور احادیث و تاریخ سے اس بات کو ثابت کیا کہ حضرت عیسی صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ صلیب سے زندہ اترے اور اپنی طبعی موت سے وفات پائے اور کشمیر کے محلہ خانیار سرینگر میں دفن ہیں.اس پر قرآن کریم کی شہادتوں اور تاریخی شہادتوں اسی طرح تورات و انجیل کے حوالوں سے بھری کتب جب منظر عام پر آئیں تو پادریوں کے لئے ان کا جواب دینا مشکل ہو گیا.وہ عیسائی جو کسی زمانہ میں بائیبل کو ہاتھ میں لیکر مسلمانوں کو آگے لگائے پھرتے تھے اب وہ زمانہ آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے سامنے وہ دلائل رکھے جن کے سامنے کھڑے ہونے کی کسی پادری میں سکت نہ رہی، احمدیت کے مجاہدوں نے قرآن کریم کو ہاتھ میں لیکر پادریوں کو میدان مقابلہ سے بھاگنے پر مجبور کر دیا.پھر یہی آواز عیسائیت کے گڑھ میں بھی گونجی جس نے محمد رسول اللہ صلی کی عظمت کو قائم کیا اور آپ کی ذات پر حملہ کرنے
388 والوں کو خاموش کر دیا.سن1978ء کی بات ہے عیسائیت کے گڑھ لندن میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے دور خلافت میں بین الاقوامی کسر صلیب کا نفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا.یہ کانفرنس کامن ویلتھ انسٹی ٹیوٹ آف لندن کے آڈیٹوریم میں 2-3-14 جون 1978ء کو بعنوان «مسیح کی صلیبی موت سے نجات منعقد ہوئی.اس تاریخی کا نفرنس میں احمدی سکالرز کے علاوہ عیسائی ، ہندو سکالرز بھی شامل ہوئے.اس کانفرنس میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بڑے پیارے انداز میں اسلام کی حقانیت ثابت کرتے ہوئے حضرت مسیح کی صلیبی موت سے نجات اور کفن مسیح پر مذہبی اور تاریخی رنگ میں روشنی ڈالی.آپ نے اس کا نفرنس میں تمام دنیا کو مخاطب کرتے دو ہوئے فرمایا.ھیں آپ کو محمد علی کی پیروی کے لئے بلاتا ہوں.وہ را ہیں جن پر چل کر آپ نے اپنے رب کو پایا اور جس کے نتیجہ میں آپ کو دونوں جہان کی نعمتیں ملیں ان پر آج بھی آپ کے قدموں کے نشان موجود ہیں.ان مقوش پا کی پیروی کریں.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ خدا کی محبت جیتنے والے ہو نگے اور آپ اس کی وہ آواز سنے والے ہوں گے جو آپ کو تسلی دے گی.” جے توں میرا ہور میں سب جگ تیرا ہو اس فانی دنیا کی غیر حقیقی خوشیوں اور مسرتوں کا مقابلہ خدا کی محبت سے نہیں کیا جا سکتا.میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ خدا کی محبت کے حصول کے لئے کوشاں ہوں.وہ دروازہ صدیوں سے لاکھوں دستک دینے والوں کے لئے کھولا جاتا رہا ہے.آپ کیوں مایوس ہوتے ہیں کہ یہ آپ کے لئے کھولا نہ جائے گا.آگے آئیں اور مسیح موعود کے جانشین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کریں کیونکہ اسلام میں ہی آپ کی اور آپ کی آنے والی نسلوں کی بھلائی ہے.اگر آپ اس آواز پر دھیان نہ دیں گے تو ایک خطرناک
389 تباہی آپ کی منتظر ہے.وہی تباہی جس کے متعلق آج سے گیارہ سال قبل میں نے آپ کو خبر دار (ضمیمہ خالد جون 1978 صفحہ 32) کیا تھا.“ سن 1972ء کی بات ہے کہ ڈنمارک کے ایک پادری نے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی تو حضور نے اسے بھی چیلنج دیا اور مقابلہ کی دعوت دی لیکن وہ بھی آپ کے مقابلہ پر نہ 66 آیا.عیسائی حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں اس کے مقابل پر جب ہم انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں وہاں مسیح کے بارے میں ایک لفظ ابن آدم جا بجا لکھا ہوا ملتا ہے جس کے معنی ہیں آدم کا بیٹا صاف بات ہے کہ ایک طرف تو بائیبل مسیح کو آدم کا بیٹا کہتی ہے تو پھر وہ خدا کا بیٹا کس طرح بن سکتا ہے؟ اسی بات کو سمجھاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ پس عیسائیوں کو بھی حضرت مسیح کا ابن آدم ہونا تو ماننا پڑ گیا.“ اس طرح مسیح کو خدا کا بیٹا کہنے سے عیسائی آپ کی محمد مصطفے علم پر جو برتری ثابت کرنے کی بات کر کے ہتک کرتے تھے اس کا زبردست جواب دیتے ہوئے بائیبل ہی کے حوالہ سے مسیح کو ابن آدم ثابت کیا اورمحمد علی کی مسیح پر برتری ثابت کی.اسی طرح آپ نے جماعت میں مختلف تحریکات فرما کر جس میں دعاؤں کی تحریک خاص ہے مخالفین اسلام کا مقابلہ کرنے کی تلقین فرمائی.اور آپ نے ایک مرتبہ فرمایا.غلبہ اسلام کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے اگر ہمارے جسموں کا قیمہ بنا دیا جاتا ہے تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں اور دنیا کو ایک نہایت بھیانک ہلاکت سے بچانے کی خاطر ہم اپنے پر ہر قسم کا دکھ اور ظلم سہنے کے لئے تیار ہیں.“ ( خطبات ناصر جلد 5 صفحہ 425) پس دیکھا جائے تو آپ کا دور خلافت بھی ناموس رسالت کی حفاظت کرنے میں گزرا اور آگے بھی یہ سلسلہ جاری وساری ہے.
390 حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے دور خلافت میں ناموس رسالت پر حملوں کا دفاع پاکستان میں جب تو ہین رسالت کا قانون پاس ہوا جو کہ عشق محمد مصلے بلی کے نام پر کیا گیا تھا اس وقت حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 18 جولائی 1886ء کو ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے اس قانون کے بارے میں عوام الناس کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ قرآن کریم کی رو سے اس قانون کی کیا حیثیت ہے اور اس کے پس پردہ کون سے عوامل کار فرما ہیں اس خطبہ میں آپ نے حکومت کو یہ سمجھانے کی بھی کوشش کی کہ اگر اس قسم کا قانون بنانا ہی ہے تو تمام مذاہب کے رہنماؤں کی عزت کا قانون پہلے پاس ہونا چاہئے.اور ساتھ ہی آپ نے یہ بھی بات بیان فرمائی کی اسی غرض سے جماعت احمد یہ پیشوایان مذاہب کے جلسوں کا انعقاد کرتی ہے اور تاہر کوئی ایک دوسرے کے پیشواؤں کی عزت کرنا سیکھے.نیز قرآن کریم کے حوالہ سے یہ بات بھی سمجھائی کہ ہتک رسول کا مضمون اللہ تعالیٰ کی بہتک سے شروع ہوتا ہے.اور قرآن کریم کسی بھی نبی سے کی گئی گستاخی کی سزا کا حق اس دنیا میں کسی کو نہیں دیتا بلکہ گستاخی کرنے والے کو سزا دینے کا حق اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے.اس کے ساتھ ہی آپ نے آنحضرت علی علیم کے زمانہ میں ہی آپ کے ساتھ کی گئی گستاخیوں کا ذکر فرمایا جس کا قرآن کریم اور احادیث میں ذکر گزرا ہے.اور ان کے ساتھ ہمارے پیارے آقا نے کیا سلوک کیا اسے بھی بیان فرمایا.اس کے ساتھ آپ نے قوم کو یہ بات بھی سمجھائی کہ اگر آپ لوگ ایسی گستاخیاں کرنے والوں کو ازخود سزائیں دو گے تو اس کے نتیجہ میں دنیا کا امن اٹھ جائے گا.اور اس طرف بھی
391 اشارہ فرمایا کہ دراصل یہ قانون احمدیوں کو اس دائرہ میں لا کر انہیں سزا دینے کے لئے بنایا گیا ہے.( اور پھر بعد کے حالات نے یہ بات ثابت بھی کر دی.) اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انگریز حکومت کے دور میں عیسائیوں اور آریوں نے اسلام اور بانٹی اسلام پر جو گستاخانہ حملے کئے وہ نا قابل برداشت تھے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود سے حکومت سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ ایسے حملے کرنے والوں کے خلاف کوئی قانون بنائے جس میں ایسے لوگوں کے لئے کوئی سزا بھی مقرر ہو لیکن اسلام کے نام پر پاکستان میں جو قتل کی سزا مقرر کی گئی ہے یہ اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف ہے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں کی جانے والی گستاخیوں کا بھی ذکر فرمایا جو مسٹر ڈوئی نے کیں جو پنڈت لیکھرام نے کیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے ان کو کس طرح پکڑا یہ سب کے سامنے ہے.اسی طرح 29 جولائی 1994ء کو حضور نے جلسہ سالانہ یو کے کے اختتامی اجلاس میں جو خطاب فرمایا اس میں آپ نے فرمایا.”بہت سے ظالموں نے قرآن کریم کی حقیقی تعلیم سے منہ پھیر کر ازمنہ وسطی کے بعض فقہاء اور بعض حدیثیں جمع کرنے والوں کی ایسی حدیثوں پر بنا کرتے ہوئے جن کی کوئی اصل نہیں ہے اور جو قرآن کریم کے مضمون سے واضح طور پر ٹکرانے والی ہیں.ایسے مفتی پیدا ہوئے جن مفتیوں نے اپنی عقل و فہم کے مطابق بظاہر اسلام کی خدمت کی مگر ایسا بھیا نک تصور اسلام کا پیش کیا کہ اس تصور کی رو سے اسلام دنیا پر فتح یاب نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تصویر انسانی فطرت کے خلاف ہے اور قرآن کا دعویٰ ہے کہ قرآنی تعلیمات فطرت کے مطابق ہیں.فطرت پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور فطرت ہی کی تعلیم ہے جو اسلام نے دی ہے.پس ہروہ تعلیم جس سے فطرت مناسبت نہیں رکھتی.ہر وہ تعلیم جو اسلام کی سچی فطرت کے معاند اور مخالف ہے وہ کسی صورت
392 میں بھی اسلام کی سچی تعلیم نہیں کہلا سکتی.یہ ایک ایسا دائمی ، بنیادی قطعی اصول ہے جس میں آپ کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.اسلام کی جو تصویر ان لوگوں نے پیش کی ہے وہ نہ صرف یہ کہ بھیا نک ہے بلکہ ان کا عمل اس تصویر کو خود جھٹلا رہا ہے.اسلام کے نام پر جبر اور ظلم اور زبردستی اور کسی گستاخی کی خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو انسانی سزا کا کوئی تصور پیش نہیں کیا گیا.لیکن ان مفتیوں نے اور آج بھی جو آج کے مفتیوں کی لگا میں تھامے ہوئے ہیں انہوں نے کھلم کھلا یہ فتوے دئے ہیں کہ کفر کی سزا قتل ہے.اس کے سوا اور کوئی سزا نہیں اور جہاں جہاں گستاخی کے حوالے سے قتل کے فتوے دئے ہیں وہاں یہ استنباط قائم کیا ہے کہ چونکہ گستاخی رسول کرنے والا کافر ہوجاتا ہے اور کفر کی سز اقتل کے سوا کچھ نہیں اس لئے لازماً ایسے شخص کو قتل کیا جائے گا.“ الفضل انٹر نیشنل 19 گست 1994ء) آپ نے اس خطاب میں ملاؤں کے اس سلسلہ میں نظریات کو پیش کرتے ہوئے یہ بات بھی بیان فرمائی کہ تمام علماء اسلام اس مسئلہ پر متفق نہیں ہیں بلکہ اختلاف رکھتے ہیں ( جیسا کہ اس کتاب میں بھی اس بات کو ثابت کیا گیا ہے )
393 رسوائے زمانہ سلمان رشدی کی کتاب Satanic Verses پر تبصرہ اور کتاب کا پس منظر رسوائے زمانہ سلمان رشدی نے ایک ناول کی صورت میں ایک کتاب لکھی جس کا نام اس نےSatanic Verses رکھا.یہ کتاب نہایت ہی غلیظ ، بیہودہ اور اخلاقیات سے گری ہوئی زبان میں لکھی گئی تھی.حضور انور رحمہ اللہ نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کئی خطبات ارشاد فرمائے جو ایک سیریز کی صورت میں ہیں.جس میں آپ نے مسلمانوں اور افردا جماعت کی راہنمائی فرمائی.پھر یہ خطبات کتابی صورت میں الگ سے بھی شائع کئے گئے.آپ نے بیان فرمایا کہ اس کتاب کی اشاعت کے پس پردہ اسلام کے خلاف ایک سازش کار فرما ہے صرف اس کا رنگ تبدیل کیا گیا ہے.اس کتاب میں بھی ایسی ہی روایات اور احادیث کا سہارا لیا گیا تھا جن کی کوئی بھی سند موجود نہیں.اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اسلام اور رسول کریم الا اللہ کی ہتک کی جائے اس کام کے لئے عیسائی مستشرقین نے اس بار ایک مسلمان کو استعمال کیا ہے جس کا اسلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں.اس کتاب کی اشاعت پر پوری اسلامی دنیا میں سخت غم و غصہ کی فضاء پیدا ہو گئی.اسی دوران ایران سے آیت اللہ خمینی نے رشدی کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری کر دیا.ہر ملک میں سلمان رشدی کے خلاف جلوس نکالے جانے لگے.ہندوستان کے مختلف شہروں میں بھی جلوس نکالے گئے ایک جلوس ممبئی میں بھی نکلا جسے روکنے کے لئے پولیس نے گولی چلائی جس سے آٹھ مسلمان شہید ہوئے.ان شہید ہونے والے مسلمانوں کو ذکر بھی حضور نے اپنے ایک خطاب میں کیا اور فرمایا کہ علماء رسول کریم علیم سے محبت کا واسطہ دیکر مسلمانوں کو ابھارتے ہیں اور
394 انہیں گلی کوچوں میں نکالتے ہیں اور جب عشق محمد صل للہ اسکیم میں مسلمان شہید ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے پسماندگان کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا.حضور نے فرمایا جماعت احمد یہ رسول کریم علی تعلیم سے محبت کی بناء پر شہید ہونے والوں کے پسماندگان کو اکیلا نہیں چھوڑے گی.اس پر حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ شہید ہونے والے لوگوں کے پسماندگان کا پتہ کیا جائے کہ وہ کس حال میں ہیں.خاکسار ان دنوں ممبئی ہی میں موجود تھا وہاں ان خاندانوں کو تلاش کیا گیا ان میں سے چار خاندان ایسے تھے کہ جو مدد کے مستحق تھے.حضور انور کی خدمت میں رپورٹ پیش ہونے پر حضور نے فوری مدد کے طور پر رقم بھجوانے کا انتظام فرمایا جوان خاندانوں کو دی گئی اس کے بعد ایک عرصہ تک جب تک کہ یہ لوگ اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو گئے ان کے لئے مخصوص وظیفہ مقرر کیا گیا.حضور انور نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے مواقع پر مسلمانوں کی طرف ے جس قسم کا رد عمل ظاہر کیا جاتا ہے وہ غیر اسلامی ہے مسلمانوں کو ایسے وقت میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اس پر ردعمل اس صورت میں ظاہر ہونا چاہئے جوصحیح اور درست طریق ہے کہ ہم رسول کریم علیہ کی سیرت کے ہر پہلو کو دنیا والوں کر سامنے رکھیں اور آپ کی حسین تعلیم کو دنیا والوں کو بتا ئیں تا ہر شخص رسول کریم ملا لیلی کی اصل اور حقیقی تعلیم سے واقف ہو سکے.اور ایسی غلط روایات کی بیخ کنی کی جائے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں.اسی طرح اس کتاب کا جواب تیار کیا جانا چاہئے پھر اسے ہر شخص تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے.اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کی ہمیں چاہئے کہ ہم لوگ رسول کریم ملایم پر کثرت سے درود بھیجیں.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے اس غلط رد عمل سے جو اختیار کیا گیا ہے اس کتاب کو مزید شہرت حاصل ہوئی ہے.حضور انور نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.
395 پس میں احمدیوں کو اب یتلقین کرتا ہوں کہ صورت حال کے تجزیہ کے نتیجہ میں وہ ایسی مؤثر اور دیر پا کا روائی کریں جو آئندہ نسلوں تک پھیل جائے.اگلی صدی ، اُس سے اگلی صدی.اُس سے اگلی صدی.اب یہ ایک صدی کا معاملہ نہیں ہے.محمد مصطف مسلم کا سارا زمانہ غلام ہے اپنے پہلے زمانے کے بھی وہ بادشاہ تھے اور آئندہ زمانوں کے بھی وہی بادشاہ ہیں اس لئے ہمیشہ کے لئے جماعت احمد یہ ایسی کوشش میں وقف ہو جائے جس کے نتیجہ میں دشمن کے ہر نا پاک حملے کو ناکام بنایا جائے.پس میں جماعت کی ان نسلوں کو خصوصیت سے مخاطب ہوں جو ان ملکوں میں پیدا ہوئے ہیں......جہاں جہاں بھی احمدی خدا کے فضل سے موجود ہیں اور مقامی طور پر ایسی پرورش انہوں نے پائی ہےاور ایسی تعلیم حاصل کی ہے کہ اس ملک کے اہل زبان شمار کئے جا سکتے ہیں.ان کو محمد مصطفی علی ملک کے لئے وقف ہو جانا چاہئے اور اس نیت سے ادب اور کلام پر دسترس حاصل کرنی چاہئے اور قادر الکلام بننا چاہئے کہ خود انہی کے ہتھیاروں سے انہی کے انداز سے ہم ان کے متعلق جوابی کاروائی کریں اور اسلام کا دفاع کریں گے اور حضرت محمد مصطفی ملایم کے تقدس کی حفاظت کریں گے.“ 66 اسی طرح حضور انور نے اس کتاب کا مکمل جائزہ لینے کے لئے ایک بورڈ بھی قائم کرنے کا اعلان فرمایا.اس کتاب کا جواب بھی شائع کیا گیا جسے مکرم ارشد احمدی صاحب نے تیار کیا تھا.( پورے مضمون کے لئے دیکھیں خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 111 تا 132) اسی طرح حضور انور نے جو خطبہ 3 مارچ 1989ء میں ارشاد فرمایا اس میں آپ نے جمات اور مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ گستاخی کرنے والے کو سزا دینے کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کسی انسان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ از خود بدلہ لے.دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ اسلام اس بات کی اجازت
396 دیتا ہے کہ مخالف اسلام نے جس طریق سے اسلام یا رسول پاک میم پر حملہ کیا ہے اسی طریق سے ہم بھی جواب دیں سلمان رشدی نے چونکہ قلم سے حملہ کیا ہے اس لئے اس کا جواب بھی قلم ہی سے دیا جانا چاہئے.اس لئے علماء کو چاہئے کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کر کے تجزیہ کریں اور ان ناپاک حملوں کا جواب عقل و حکمت سے دیں.اس کام کے لئے حضور انور نے احمدی علماء اور اثر ورسوخ رکھنے والے افراد کو بھی توجہ دلائی کہ وہ بھی اپنے اپنے طور پر اس معاملہ میں اسلامی تعلیم کولوگوں کے سامنے کھول کھول کر بیان کریں.بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف تو مملکت پاکستان کو کلمہ اور اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اور دوسری طرف اسی پاکستان میں اسلام اور کلمہ کی جابجابے حرمتی کی جاتی ہے.احمدیوں کے کلمہ لکھنے اور پڑھنے پر پابندی ہے مساجد اور گھروں سے کلمہ مٹایا جاتا ہے کبھی مساجد سے قرآن کریم کو نکال کر جلایا اور نالیوں میں پھینکا جاتا ہے اور بے حرمتی کی جاتی ہے اور دوسری طرف احمدی ہیں کہ کلمہ ، قرآن اور اسلام کی حفاظت کی خاطر ہتھکڑیاں لگواتے ہوئے جیلوں میں جاتے ہیں.وہ مظالم جو دور اولیٰ میں کئے گئے اب وہ سب پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ روا ہیں اور احمدی ہی ہیں جو غیر متزلزل ایمان اور یقین کے ساتھ ان تمام مظالم کو برداشت کر رہے ہیں جو اسلام اور ناموس رسالت کے نام پر کئے جا رہے ہیں بالا نکہ ناموس رسالت کے حقیقی اور سچے محافظ ہم ہیں.حضور انور نے ایک مرتبہ فرمایا ایک بات بہر حال آخری اور یقینی ہے کہ جماعت احمد یہ کلمہ کی حفاظت میں جان دے گی اور ہر گز کسی قیمت پر اس بات کو قبول نہیں کرے گی.آمر ہو یا غیر آمر، ایک دنیا کی طاقت ہو یا ساری دنیا کی طاقتیں ہوں ، ہر گز کوئی احمدی کسی آمر کی کوئی ایسی بات قبول نہیں کرے گا جو دین کے اصولوں پر حملہ آور ہورہی ہو اور کلمہ طیبہ جودین کی جان ہے، اصول تو دوسری باتیں ہیں یہ تو
397 وہ مرکزی حصہ ہے جس سے سارے اصول نکلتے ہیں.وہ بیج کی جڑ ہے جس سے آگے جڑیں پھوٹتی ہیں.اس لئے اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی احمدی کلمہ طیبہ کو چھوڑ دیگا یا کلمہ طیبہ کو مٹانے دیگا ان ظالموں کے ہاتھوں.اگر کوئی حکومت بدکردار خود مٹاتی ہے تو دیکھیں اس حکومت کے ساتھ پھر خدا کیا سلوک کرتا ہے لیکن حکومت کے علاوہ جولوگ ہیں خواہ احمدی کتنے ہی اس راہ میں مارے جائیں ان کو نہیں ہاتھ ڈالنے دیں گے.“ نیر ایک اور جگہ فرمایا.66 خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 704) اگر خدا نے کسی قوم کو شہادت کی سعادت عطا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم اس کی ہر رضا پر راضی رہیں گے لیکن میں جماعت احمد یہ پاکستان کو یاد دلاتا ہوں کہ اگر یہ شہادت ان کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے تو پہلے سے زیادہ عزم اور حوصلے کے ساتھ اس بات کا عہد کریں کہ جس طرح ان نوجوانوں نے اپنے عہد کو پورا کیا اور خدا کی خاطر اپنے پیارے بیوی اور بچوں سے منہ موڑا موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کو دیکھا اور اسے خدا کے نام پر قبول کرنے کے لئے تیار ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ کلمہ شہادت کی عزت اور ناموس پر حرف نہیں آنے دیں گے خواہ ان کی گردنیں تختہ دار پر لٹکا دی جائیں اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیوی اور بچوں کی بیوگی اور میمی کو قبول کر لیں گے لیکن یہ نہیں قبول کریں گے کہ خدا کی عبادت گاہوں کو دنیا کے ذلیل انسان اپنے گندے پاؤں تلے روندیں اور ان کی عصمت کے ساتھ کھیلیں.انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر حال میں ہر قیمت پر ہر قربانی دیتے ہوئے ہم کلمہ طیبہ کی حفاظت کریں گے.پس انہوں نے اپنی راہیں متعین کرلیں فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَه ( الاحزاب 24 کے فیصلے کو پورا کر دیا.اے پیچھے رہنے والو! کیا تم ان راہوں سے پیچھے ہٹ جاؤ گے؟ اے پیچھے رہنے والو!
398 کیا تم ان آگے بڑھنے والوں کو ہمیشہ کے لئے خالی چھوڑ دو گے؟ آج تم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ان خدا کی خاطر مصیبتیں برداشت کرنے والوں کے ساتھ وفا کا تقاضا ہے، محمد سلام اور قرآن اور خدا کے ساتھ وفا کا تقاضا ہے کہ ان راہوں سے نہیں پیچھے ہٹنا ایک قدم بھی پیچھے نہیں بٹنا آگے بڑھنا ہے.اگر چالیس لاکھ احمدی کی لاشیں پاکستان کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں تم کو تاکید کرتا ہوں کہ خدا کے نام کے کلمےاور محمد مصطفی علی کے نام کے کھلے کو آنچ نہیں آنے دینی.پس آگے بڑھو اور یقین رکھو کہ آخر غلبہ تمہارا ہے آخر فتح تمہاری ہے کیونکہ خدا کے نام پر مرنے کے لئے تیار رہنے والوں کو کبھی موت مار نہیں سکتی ، کوئی دشمن ان پر فتح یاب نہیں ہو سکا.اپنی دعاؤں میں التزام اختیار کرو.“ خطبات طاہر جلد 5 صفحہ 169-170) پس جب بھی اور جہاں بھی ناموس رسالت پر کوئی حملہ ہوا آپ نے اس کا پوری طاقت سے دفاع کیا.چاہے کوئی کتاب لکھی گئی ہو، یا زبان استعمال کی گئی ہو، خواہ مساجد پر حملے کر کے اسے گرایا گیا ہو، یا کلمہ مٹایا گیا ہو، یا دہشت گردی کو اسلام کی طرف منسوب کیا گیا ہو.آپ نے اپنی جماعت کو ہر میدان میں اتر کر ناموس رسالت کی حفاظت کے لئے آگے بڑھنے کی تلقین فرمائی.اور جماعت نے بھی ہر میدان میں کار ہائے نمایاں سر انجام دئے.اور ہر موقعہ پر ناموس رسالت کا پُرزور در دفاع کیا.
399 حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک دورِ خلافت میں ناموس رسالت کے حملوں کا دفاع اسلام کے دشمنوں کا ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ وہ مختلف پیرا یہ میں اسلام اور رسول پاک ام پر حملے کرتے رہے ہیں.زمانہ کے ساتھ ساتھ ان کے حملوں کا طریق بھی بدلتا رہا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دور میں اسلام اور رسول مقبول می کی توہین کا ایک نیا طریق سامنے آیا وہ اس طرح کہ ڈنمارک کے اخبارات میں آنحضرت صلیم کے حوالے سے بارہ تو بین آمیز خاکوں کی اشاعت کی گئی.ان خاکوں کا شائع ہو نا تھا کہ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ساری دنیا میں پھیل گئی اور مسلمانوں نے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا مسلم ممالک میں فسادات پھوٹ پڑے ہر ملک میں ڈنمارک کی امبیسیوں پر حملے ہونے لگے املاک جلائی گئیں جلوس نکالے گئے.اسی طرح ڈنمارک کی بنی ہوئی چیزوں کا بائیکاٹ کیا گیا.لیکن کسی نے بھی وہ راد اختیار نہ کی جس سے اسلام کی صحیح اور حقیقی تعلیم دنیا والوں تک پہنچتی.مسلمانوں کے اس رویہ سے اسلام کو اور نقصان پہنچا اور یہ پیغام دنیا والوں کو ملا کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے.اسلام دشمن طاقتیں یہی بات دنیا والوں کے سامنے پیش کرنا چاہتی تھیں.ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسلام کا اصلی چہرہ دنیا والوں کے سامنے پیش کیا جاتا جو کہ رسول مقبول صلیم کی حسین سیرت کو پیش کر کے دکھا یا جا سکتا تھا یہ موقعہ تھا کہ اسلام کی مہر کی تعلیم پر عمل کیا جاتا اور دشمن اسلام کو آنحضرت علیم کی تعلیمات و قرآن کریم کی تعلیمات کو پیش کر کے رسول کریم علیم کی زندگی کے واقعات پیش کئے جاتے کہ آپ مالی اسلیم نے دشمنوں کے ایسے سلوک پر کیا نمونہ پیش کیا.لیکن افسوس کہ ایسا کرنے کی جماعت احمدیہ کے سوا کسی اور کو تو فیق نصیب نہیں ہوئی.حضور
400 انور ایدہ اللہ نے اپنے خطبات کے ذریعہ ایسے موقعہ پر ناموس رسالت پر حملوں کے دفاع کے طریق سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ ”ہمارا ردعمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرت میم کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے.قرآن کریم کی تعلیم نکھر کر سامنے آئے.آنحضرت صلم کی ذات پر ناپاک حملے دیکھ کر بجائے تخریبی کاروائیاں کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگنے والے ہم بنتے ہیں“ اس کے بعد آپ نے عبد اللہ آتھم اور پنڈت لیکھرام کی مثالیں بیان فرمائیں کہ یہ کس طرح اسلام اور رسول پاک میم پر حملے کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے تو ان لوگوں کو سمجھایا کہ وہ ایسی حرکتوں سے باز آجائیں لیکن جب وہ اپنی شوخی میں بہت بڑھ گئے تو آپ نے ان کی بدزبانیوں کے مقابلہ پر اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے اس سے مدد چاہی اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو عبرت کا نشان بناتے ہوئے پکڑا.حضور انور نے فرمایا کہ یہ وہ اسلوب ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سمجھائے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ نے یہ بات بھی بیان فرمائی کہ اس موقعہ پر بھی ہمارا رد عمل اسی طرح کا ہے جماعت کسی کیٹیشن میں حصہ نہیں لیتی البتہ ہمارے ایک مبلغ نے اس اخبار کے لئے جس میں یہ کارٹون شائع کئے گئے تھے ایک تفصیلی مضمون لکھا اور اسے بھیجا اور کارٹون کی اشاعت پر احتجاج کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے بارے میں لکھا کہ ہم جلوس وغیرہ میں حصہ نہیں لیتے لیکن ہم قلم کے جہاد میں یقین رکھتے ہیں.اور اسے بتایا کہ ضمیر کی آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کسی کی دلآزاری کی جائے.چنانچہ اخبار نے مضمون شائع بھی کیا جس کا مثبت در عمل ظاہر ہوا.اس کے ساتھ ہی حضور انور نے یہ بھی ھدایت فرمائی کہ مضامین لکھنے والے
401 رسول کریم علیم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کریں تا کہ عوام الناس رسول پاک سلام کی اصل سیرت سے روشناس ہوسکیں.( دیکھیں خطبات مسرور جلد 4 صفحہ 75 تا88) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 24 فروری 2006ء کے اپنے خطبہ میں بھی مسلمانوں اور افراد جماعت کو ان کارٹونوں کے سلسلہ میں ھدایات فرمائیں.آپ نے فرمایا کہ مسلمان ممالک کی طرف سے انفرادی بھی اور اجتماعی بھی رد عمل آرہا ہے اور یہ ممالک یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مغربی ممالک پر دباؤڈالا جائے کہ وہ معافی مانگیں اور اس بات پر بھی زور ڈالا جائے کہ ایک ایسا قانون پاس کیا جائے.تا کہ آزادی صحافت اور آزادی ضمیر کے نام پر انبیاء تک نہ پہنچا جائے.کیونکہ اگر اس سے باز نہ آئے تو دنیا میں امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی.آپنے دعا کی کہ اللہ تعالی اسلامی ممالک کو اتنی مضبوطی دے اور اس کی توفیق بھی عطا کرے.اس کے ساتھ ہی ایک ایرانی اخبار کے غیر اسلامی رد عمل کا بھی ذکر فرمایا جس میں اس نے کہا ہے کہ ہم جنگ عظیم دوم کے موقعہ پر یہود پر ہوئے مظالم پر کارٹونوں کا اخبارات میں مقابلہ کروائیں گے.جس پر کارٹون شائع کرنے والے اخبار نے اسے برا مناتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم اس میں حصہ نہیں لیں گے.حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنی غلطی کا اقرار کرتے اور یہ کہتے کہ ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے دنیا میں فساد کی فضاء قائم ہوتی ہے اور ہمیں چاہئے کہ ہم کسی بھی نبی اور باہ و مذہب کے بارے میں ایسا کام نہ کریں.نیز حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ہمیں ایسا کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہئے جس سے غیروں کو حضور اکرم علیم کی ذات پر تو بین آمیز حملے کرنے کا موقعہ مل سکے.آپ نے فرمایا کہ ایسے موقعہ پر ہمیں جری اللہ کے پیچھے کھڑا ہونا ضروری ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ی زمانہ کیس مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل
402 سے آنحضرت علا تعلیم کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا.میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک دردر کھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس سے بڑھ کر اسلام پر گزرا ہے جس میں اس قدرسب و شتم اور تو ہین آنحضرتعالی کی کی گئی ہو.اور قرآن شریف کی ہتک ہوئی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بے قرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہ رہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کرلیں.کیا آنحضرت علیم کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سب و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفین اسلام کے منہ بند کر کے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلا تا.جب کہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلیم پر درود بھیجتے ہیں کہ اس تو ہین کے وقت میں اس صلوۃ 66 کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کی صورت میں کیا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 8-9) جماعت احمد یہ ڈنمارک نے لوکل سطح پر بھی اپنا ردعمل ظاہر کیا.مکرم نعمت اللہ بشارت صاحب نے ایک احمدی دوست مکرم خرم جمیل صاحب کی معاونت سے ڈیمینش زبان میں ایک مضمون تیار کر کے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بغرض راہنمائی بھجوایا.حضور کی ہدایت پر یہ احتجاجی مضمون اشاعت کے لئے اخبار کو بھیجا گیا جو یولینڈ پوسٹن میں 13اکتوبر 2005ء کے صفحہ 7 پر شائع ہوا.اس کے علاوہ مورخہ 21 نومبر 2005ء کو جماعت احمدیہ ڈنمارک کے دور کنی وفد نے وزیر مملکت برائے پناہ گزین، غیر ملکی اور امیگریشن Miss Rikke Hveisht سے ملاقات کر کے جماعت کے موقف سے آگاہ کیا.اسی
403 طرح ڈینش جرنلسٹ یونین کی میٹنگ میں بھی جماعت احمدیہ کے وفد نے شرکت کر کے اپنا مؤقف ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا.ڈنمارک کا قانون آزادی ضمیر کی اجازت دیتا ہے مگر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دوسروں کے مذہبی راہنماؤں اور قابل تکریم ہستیوں کی ہتک کی جائے.اس معاشرہ میں جہاں مسلمان اور عیسائی اکٹھے رہ رہے ہیں وہاں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے.اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو امن قائم نہیں ہو سکتا نیز اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انہیں بتایا کہ اسلام آزادی ضمیر کی اجازت دیتا ہے مگر اس سے کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں.“ اس کے علاوہ 2 دسمبر کو 2 TV کے نمائندگان نے مشن ہاؤس آکر مکرم نعمت اللہ بشارت صاحب کا انٹرویو لیا جس میں خاکوں کی اشاعت پر پر زور احتجاج کیا گیا.جبکہ 9جنوری 2006ء کو جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گئی.دیکھیں الفضل انٹر نیشنل 21 اپریل 2006ء) ڈینش کارٹونوں کی ایک بار پھر اشاعت اور جماعت احمدیہ کا احتجاج سن 2008ء میں ایک بار پھر ڈینش اخبارات میں آنحضرت صلی کے خاکے طبع ہوئے جس سے ایک بار پھر احمدیوں کے دل چھلنی ہو گئے.اس کی دوبارہ اشاعت پر بہانا یہ بنایا گیا کہ ہم بدلہ لے رہے ہیں کہ پولیس نے تین آدمیوں کو گرفتار کیا ہے جو ایک کارٹون بنانے والے کو مارنا چاہتے تھے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 15 فروری 2008ء کو خطبہ ارشاد فرمایا.آپ نے فرمایا ہمارا فرض تھا کہ ہم ان کو سمجھاتے سو ہم نے انہیں سمجھایا لیکن یہ ہمارے دل دکھانے سے باز نہیں آتے اب ہمارا کام ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں اور پہلے سے
404 بڑھ کر اس رسول کے پاک اسوہ کو قائم کرنے کی اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کریں.اور پہلے سے بڑھ کر ہم رسول پاک تعلیم پر درود بھیجیں.اللہ تعالیٰ سب قدرتوں کا مالک ہے وہ خود اپنی قدرت دکھائے گا.نیز آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش فرمایا کہ مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے بنی کریم کی عزت کے لئے جان دیتے ہیں اور وہ اس بے عزتی سے مرنا بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخص سے دلی صفائی کریں اور ان کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ ان کے رسول کریم علی اہلیہ کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہارات میں نہایت تو بین سے ان کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ میں ان کو یاد کرتے ہیں.آپ یاد رکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کی راہ میں کانٹے بوتے ہیں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کرلیں تو یہ ممکن ہے مگر ہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے جو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بدگوئی سے باز نہیں آتے.وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بد زبانی میں ہی فتح ہے مگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے.“ (مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت صفحہ 14) ( خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 73) جرمنی میں پوپ کا قرآن کریم ، اسلام اور باہء اسلام کے خلاف ایک لیکچر اور جماعت کی طرف سے اس کا دفاع ستمبر 2006 ء میں روم کے کیتھولک پوپ Joseph Ratzinger نے اپنے دورہ جرمنی کے دوران ریکسن برگ یونیورسٹی میں ایک لیکچر دیا.جو مغرب اور اسلام کے درمیان تناؤ
405 کھچاؤ میں اضافہ کا موجب بنا.پوپ نے اسلام کے خلاف جہاں بہت سی باتیں کیں بالخصوص اسلام کے خدا کے تصور کو غلط رنگ میں پیش کیا.پوپ نے اپنے لیکچر کے آغاز میں چودھویں صدی عیسوی کے بازنطینی بادشاہ مینوئیل دوم کی ایک فارسی عالم سے گفتگو quote کی ہے کہ محمد کون سی نئی چیز لے آیا ہے.دیکھنے والوں کو صرف بدی اور انسانیت سوز امور ہی ملیں گے جیسے کہ اپنے عقائد کو تلوار کے ذریعہ پھیلانے کا حکم وغیرہ.اپنی گفتگو کو جازب نظر بنانے اور اس میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لئے بادشاہ نے اپنی درج شدہ گفتگو میں ان الفاظ کا مزید اضافہ کر دیا کہ کسی بھی معقول ذی روح کو کسی بھی عقیدہ کے لئے قائل کرنے کے لئے طاقتو ر ہاتھ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی خوفناک ہتھیار کی اور نہ ہی کسی کو موت کی دھمکیوں سے عقیدہ اپنانے کے لئے قائل کیا جا سکتا ہے.“ اسی طرح پوپ نے اپنے خطاب میں حضرت محمد علی کو یہ الزام دیا کہ مذہب کے معاملہ میں جبر جائز نہیں.یہ اس وقت کہا گیا جبکہ محد محود بھی اور اسلام بھی کمزور تھے لیکن اپنے خطاب میں کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کی.الفضل انٹرنیشنل 20اکتوبر 2006ء) حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس پر فوری رد عمل ظاہر فرماتے ہوئے 15 ستمبر 2006ء کو ایک خطبہ ارشاد فرمایا.آپ نے فرمایا کل ایک خبر آئی تھی کہ پوپ نے جرمنی میں ایک یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران بعض اسلامی تعلیمات کا ذکر کیا اور قرآن کریم اور آنحضرت علی کے بارے میں کسی دوسرے لکھنے والے کے حوالے سے ایسی باتیں کی ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے.یہ ان کا ایک طریق ہے، بڑی ہوشیاری سے دوسرے کا حوالہ دیکر اپنی جان بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور بات بھی کہہ جاتے ہیں.پوپ صاحب نے بعض ایسی باتیں کہہ کر قرآن
406 کریم ، اسلام اور بانی اسلام ملایم کے بارے میں ایک ایسا غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے مسلمانوں میں تو ایک بے چینی پیدا ہو گئی ہوگی ، اس سے ان کے اسلام کے خلاف اپنے دلی جذبات کا بھی اظہار ہو جاتا ہے.پوپ کا ایسا مقام ہے کہ وہ چاہے کسی حوالے سے بھی بات کہتے ، ان کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ ایسی بات کا اظہار کیا جاتا.“ خطبات مسر در جلد 4 صفحہ 459) حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ پوپ کے اس بیان سے مسلمانوں کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوگا.اور جولوگ اسلام کو شدت پسند خیال کرتے ہیں ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف اور نفرت بڑھے گی.حضور انور نے اپنے اس خطبہ میں قرآن کریم اور آنحضرت لم کے اسوہ سے اسلام کی حقیقی تعلیم پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم تمام انبیاء کی عزت کرتے ہیں اور اسلام دین فطرت ہے.اسلام میں بالکل بھی جبر کی تعلیم نہیں پائی جاتی.اگر اسلام میں جنگوں کا حکم ہے تو وہ صرف دفاعی جنگوں کا حکم ہے.یہ سب باتیں آپ نے قرآن کریم کے حوالہ سے پیش کیں.اس کے ساتھ ہی آپ نے انصاف پسند عیسائی مستشرقین کے حوالے بھی پیش فرما کر یہ ثابت کیا کہ اسلام بزور شمشیر نہیں پھیلا.اس کے علاوہ حضور انور نے ایک خط بھی پوپ صاحب کو لکھا جسے مکرم محمد شریف عودہ صاحب کے ہاتھوں ان تک پہنچایا گیا.حضور انور نے اس امرکاذ کر کرتے ہوئے فرمایا.ہمیں تو اس زمانہ کے امام نے اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے اور دشمن کا منہ دلائل سے بند کرنے کا فریضہ سونپا ہے اور اپنی اپنی بساط اور کوشش کے مطابق ہر احمدی اس کام کو سر انجام دے رہا ہے.اور جہاں اسلام پر دشمنان اسلام کو حملہ آور دیکھتا ہے وہاں احمدی ہے جو دفاع بھی کرتا ہے اور منہ توڑ جواب بھی دیتا ہے.دنیا کو سمجھاتا بھی ہے.اور یہ حضرت مسیح
407 موعود کے ذریعہ سے ہی ملی ہوئی علم و معرفت ہے جس کو ہم استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہر احمدی بغیر کسی احساس کمتری کے بڑے بڑے لیڈروں اور مذہبی سر براہوں کو بھی اسلام کا پیغام پہنچارہا ہے.دوسرے اگر لیڈروں کو ملنے جاتے ہیں تو مدد لینے جاتے ہیں یا دنیاوی مفادات لینے جاتے ہیں کبھی اسلام کا پیغام پہنچانے کی جرات نہیں کرتے.“ ( خطبات مسرور جلد 9 صفحه 609) اس کے ساتھ ہی حضور انور نے اس ملاقات کی تفصیل بھی بیان فرمائی.ہالینڈ میں توہین رسالت کی ناپاک حرکت کا جواب ڈنمارک کے بعد بالینڈ کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے اسلام ، بانی اسلام اور قرآن کریم کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی.اس کی اس بے ہودہ گوئی پر حضور انور ایدہ اللہ نے 23 فروری 2007ء کے خطبہ جمعہ میں اس کا دفاع کیا.آپ نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ جہاں بھی اسلام اور بانی اسلام پر حملے ہوتے ہیں جماعت احمد یہ اس کا دفاع کرتی ہے اور میں نے ہر ملک کے احمدیوں کو یہ ہدایت کی ہے کہ جہاں بھی اسلام پر حملہ کیا جائے وہاں اس کا جواب دیا جائے.آپ نے مغرب والوں کو اللہ کے پیاروں کے خلاف بے ہودہ گوئیوں سے باز آنے کی نصیحت فرمائی.اور فرمایا کہ اگر تم لوگ اپنی بقا چاہتے ہو تو اللہ کے پیارے نبی کی ذات پر حملوں سے اپنے آپ کو روک لو.اسی طرح آپ نے 24 اگست 2007ء کو یوروپ کے دورہ کے دوران بہالینڈ میں بھی ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور ہالینڈ والوں کو متنبہ فرمایا کہ آج کل جو یہ طوفان اور زلزلے دنیا میں آرہے ہیں ، پانی کے طوفان ہیں، کہیں ہوا ؤں کے طوفان ہیں، کہیں زلزلے آرہے ہیں.یہ وارننگ ہیں کہ حد سے زیادہ بڑھنے والے اس کی لپیٹ میں بھی آسکتے ہیں، کوئی دنیا کا ملک محفوظ نہیں، کوئی دنیا کا شخص محفوظ نہیں.ہالینڈ تو ویسے
408 بھی ایسا ملک ہے جس کا اکثر حصہ سمندر سے نکالا ہوا ہے ،طوفان تو بلندیوں اور پہاڑوں کو بھی نہیں چھوڑتے ، یہ تو برابر کی جگہ ہے بلکہ بعض جگہ نیچی بھی ہے.‘ اس طرح آپ نے اس ملک کے باشندوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے ان طوفانوں کو اپنے پر وارد کرنے کا موجب نہ ہوں.اس کے ساتھ ہی آپ نے افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.پس ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اتمام حجت کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائے.اسلام کی صحیح تصویر دنیا کو دکھائیں.عیسائیوں کوبھی، یہودیوں کو بھی ،لامذ ہبوں کو بھی اور مسلمانوں کو بھی جو تمام نشانات دیکھنے کے باوجود مسیح موعود کا انکار کر رہے ہیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.مگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی ، پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے 66 غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 268 مطبوعہ لندن ) فتنہ نام سے ولڈ رز کی فلم کی ناپاک جسارت اور اس کا جواب ہالینڈ کے ممبر پارلیمنٹ غیرت ولڈرز نے اسلام اور قرآن کریم کے خلاف ایک فلم ”فتنہ کے نام سے 27 مارچ 2008ء کو جاری کی جس میں آنحضرت صلیم اور قرآن کریم کے بارے میں نہایت درجہ نا مناسب اور توہین آمیز الفاظ استعمال کئے گئے تھے.اور یہ لکھا کہ قرآن کریم دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اس کا آدھا حصہ پھاڑ کر ( نعوز باللہ ) الگ کر دینا چاہئے.اس کے دفاع کے طور پر حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 29 فروری 2008ء کو ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے اس فلم کے ذریعہ کی جانے والی شرارت کا
409 ذکر فرمایا ہے اس فلم کا مقصد صرف یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں یہ دکھایا جائے کہ اسلام دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے اور قرآن کریم کی جس آیت کا حوالہ پیش کرتا ہے وہ جنگ کے بارے میں ہے لیکن اگلی بات بیان نہیں کرتا کہ جب جنگ ختم ہو جائے تو قیدیوں کو احسان کرتے ہوئے یافد یہ لیکر انہیں آزاد کر دو.اس کے ساتھ ساتھ جماعت نے بھی بالینڈ میں دیگر ممبر پارلیمنٹ کو خط لکھے اور انہیں مل کر حضور انور ایدہ اللہ کا پیس کا نفرنس کا ایڈریس بھی دیا گیا.اس سے وہاں کی فضاء کافی حد تک صاف ہو گئی.اس کے بعد حضور انور نے 28 مارچ2008 ء کے خطبہ میں فرمایا.ہالینڈ کی جماعت کو اس شخص ولڈ رز ( Wilders) ایم پی ، پر یہ بات واضح کر دینی چاہئے کہ بے شک ہم قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے اور نہ ہی کبھی ہم قانون اپنے ہاتھ میں لیکر تم سے بدلہ لیں گے لیکن ہم اس خدا کو ماننے والے ہیں جو حد سے بڑھے ہوؤں کو پکڑتا ہے.اگر اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئے تو اس کی پکڑ کے نیچے آسکتے ہو.پس خدا کا خوف کرتے ہوئے اپنی حالت کو بدل لو.بے شک ہم تو خدا کے ماننے والے ہیں، اس خدا کے ماننے والے ہیں جو رفیق ہے اور اس صفت کے تحت وہ مہربانی کرنے والا بھی ہے، ہمدردی کرنے والا بھی ہے، رحم کرنے والا بھی ہے، نقصان سے بچانے والا بھی ہے اور امن سے رکھنے والا بھی ہے.اور اللہ کی صفات میں رنگین ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ہم تمہاری ہمدردی اور تمہیں بچانے کے لئے کہتے ہیں کہ اپنی حالت بدلو.یا ایک آخری کوشش ہے اس کے بعد آغرض عَنِ الْجَاهِلِین کے حکم کے تحت ہم معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں اور وہ اپنے نبی صل اللہ کے دین کی عزت و توقیر قائم کرنا جانتا ہے اور خوب جانتا ہے.“ (خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 137) اسی طرح ہالینڈ میں ایک کتاب Women Embracing Islam کے ذریعہ
410 ہوئی جو کہ مختلف مقالوں کا مجموعہ ہے اس کا بھی حضور انور نے دفاع کرتے ہوئے 7 مارچ2008ء کو خطبہ ارشاد فرمایا اور اس کتاب کے اصل مقاصد کو بیان کیا.اس کتاب میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ امریکن اور افریقن مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی بھی اسلام میں دلچسپی ظاہر ہو رہی ہے یہ بات بیان کر کے بتانا یہ چاہتے ہیں کہ اس کا اصل مقصد سیاسی ہے.حضور انور نے فرمایا.دو بہر حال یہ بہت ہی سوچی سمجھی سکیم کے تحت اسلام پر حملے ہیں.ایک آدھ بات میں نے بیان کر دی ہے.کیونکہ یہ مختلف پیپرز ہیں ، مقالے ہیں اور مقالوں کا مجموعہ ہے.اسلام کے بارے میں بیچ بیچ میں بعض اچھی باتیں بھی ظاہر کی گئی ہیں.لیکن جو بھی صورت حال ہو جب اس طرح اسلام کی طرف توجہ دلانے والے نتائج سامنے آئیں گے تو اسلام مخالف طاقتوں کا ایک منظم کوشش کے لئے جمع ہونا ضروری ہے اور ضروری تھا ، جودہ ہوگئیں ،، (خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 99) امریکہ میں قرآن کریم کو جلانے کی مذموم کوشش پر جماعت احمد بیکا رو عمل امریکہ میں ایک چرچ کے پادری نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے یہ مذموم کوشش کی اور بہانہ یہ بنایا کہ قرآن کریم چونکہ دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اس لئے اس کو جلایا جاتا چاہئے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ نے 20 اگست 2010ء کو خطبہ ارشاد فرمایا اور پادری کی اس حرکت کے خلاف قدم اٹھنے کی ھدایت فرمائی جماعتی کوشش سے اس کی پہلی کوشش تو نا کام ہوئی لیکن بعد میں اس نے یہ مذموم حرکت کر ہی دی.جس پر حضور نے اس سلسلہ میں 25 مارچ
411 2011ء کو پھر خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ نے امریکہ کی جماعت کو یہ ھدایت فرمائی کہ امریکہ میں جگہ جگہ قرآن کریم کی نمائشیں بڑے بڑے ہال کرایہ پر لیکر ان میں لگائی جائیں اور سیمینار کئے جائیں اور قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کے تراجم کے پوسٹر اور بینرز تیار کروا کر مختلف جگہوں پر لگائے جائیں.اس طرح قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم سے لوگوں کو روشناس کروایا جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ اس کی میڈیا کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ کوریج ہو.نیز حضورانور نے فرمایا.د 66 پس ہمارا کام یہ ہے کہ جب بھی ہم اسلام ، آنحضرت علی اور قرآن کریم پر دشمنوں کے غلیظ تعملوں کو دیکھیں تو سب سے پہلے اپنے عملوں کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، پھر معاشرے میں اس خوبصورت تعلیم کا پر چار کریں اور اس کے لئے جو ذ رائع بھی میسر ہیں انہیں استعمال کیا جائے.“ خطبات مسرور جلد 9 صفحه 147) امریکہ میں اسلام اور محمد کے خلاف بنائی جانے والی فلم پر دفاع سن 2012ء کی بات ہے کہ ایک امریکن عیسائی نکولا سیلے نے قرآن کریم اور رسول کریم علیم پر ایک فلم بنائی جس میں قرآن کریم کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تھا.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لگاتار دو خطبات ارشاد فرمائے آپ نے 21 ستمبر 2012 ء کے خطبہ میں ارشاد فرمایا.آج کل مسلم دنیا میں ، اسلامی ممالک میں بھی اور مختلف ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی اسلام دشمن عناصر کے انتہائی گھٹیا، گھناؤنے اور ظالمانہ فعل پر غم و غصہ کی لہر دوڑی ہوئی ہے.اس غم و غصہ کے اظہار میں مسلمان یقینا حق بجانب ہیں.مسلمان تو ، چاہے وہ اس بات کا صحیح اور اک رکھتا ہے یا نہیں کہ آنحضرت علیم کا حقیقی مقام کیا ہے ، آپ مالی
412 کی عزت و ناموس کیلئے مرنے کٹنے پر تیار ہو جاتا ہے......اس عظیم محسن انسانیت کے بارے میں ایسی اہانت سے بھری ہوئی فلم پر یقیناً ایک مسلمان کا دل خون ہونا چاہئے تھا اور ہوا اور سب سے بڑھ کر احمدی مسلمان کو تکلیف پہنچی کہ ہم آنحضرت علی کے عاشق صادق اور غلام صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں.جس نے ہمیں آنحضرت علی کے عظیم مقام کا ادراک عطا فرمایا.پس ہمارے دل اس فعل سے چھلنی ہیں.ہمارے جگر کٹ رہے ہیں.ہم خدا کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ ان ظالموں سے بدل لے.انہیں وہ عبرت کا نشان بنا جو رہتی دنیا تک مثال بن جائے.ہمیں تو زمانے کے امام نے عشق رسول ملالی سلیم کی اس طرح ادراک عطا فرمایا ہے کہ جنگل کے سانپوں اور جانوروں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد ل للسلام، حضرت خاتم الانبیاء کی تو بین کرنے والے اور اُس پر ضد کرتے چلے جانے والے سے ہم صلح نہیں کر سکتے.“ (الفضل انٹرنیشنل 12اکتوبر2012ء) حضور انور نے مخالفوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ یہ یا درکھو کہ جس رسول کی تم لوگ ہتک کرنے کی کوشش کر رہے ہو آخر اسی نے غالب آنا ہے.حضور نے فرمایا کہ یہ وہ رسول ہے جس پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھجتے ہیں اس لئے اس موقعہ پر ہمارا یہ در عمل ہونا چاہئے کہ ہم بھی کثرت سے رسول کریم علیم پر درود بھیجیں.آپ نے مسلمانوں کے غلط رد عمل پر انہیں بھی نصیحت فرمائی کہ اپنے ہی ملک کی املاک کو جلانا اور جائیدادوں کو برباد کرنے کا عمل درست نہیں.فرمایا کہ یہ بات درست ہے کہ بعض رد عمل غلط ہیں لیکن معصوم نبیوں کا استہزاء کرنا بھی بہت بڑا گناہ ہے.فلم بنانے والوں کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا.66 پس یہ غلاظت کر کے انہوں نے یقیناً خدا تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دی ہے اور دیتے
413 چلے جارہے ہیں.اسی طرح اس فلم کے سپانسر کرنے والے بھی خدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے.ان میں وہ ایک عیسائی پادری بھی شامل ہے جو مختلف وقتوں میں امریکہ میں اپنی سستی شہرت کے لئے قرآن وغیرہ جلانے کی بھی کوشش کرتارہا ہے.اللَّهُمَّ مَنْ فَهُمْ كُلَّ مُمَنَّقٍ و وَسَيْقُهُم تَسْحِیقَا.اس میں آپ نے مسلم وکلاء کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ سارے اکٹھے ہو کراس کے خلاف پٹیشن داخل کریں.اس خطبہ کے بعد آپ نے 28 ستمبر 2012ء کو دوسرا خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے فرمایا کہ اس فلم کی وجہ سے اور مسلمانوں احتجاج کی وجہ سے پوری دنیا میں شور برپا ہوا تو میڈیا کے نمائندے اس سلسلہ میں جماعت کا موقف جاننے کے لئے آئے حضور نے فرمایا کہ آپ ایا کہ اسوہ ہر مسلمان کے لئے قابل تقلید ہے.مسلمانوں کا ردعمل جو غم وغصہ کا ہے وہ ایک لحاظ سے تو ٹھیک ہے کہ پیدا ہونا چاہئے تھا، گو بعض کا اظہار غلط طور پر ہو رہا ہے.ہمارے دلوں میں آنحضرت میم کا جو مقام ہے دنیا دار کی نظر اس تک نہیں پہنچ سکتی.اس لئے دنیا دار کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ کس حد تک اور کس قدر ہمیں ان باتوں سے صدمہ پہنچا ہے.ایسی حرکتیں دنیا کا امن برباد کرتی ہیں.حضور نے فرمایا ہمارے دل میں آنحضرت علی کی جس قدر محبت ہے اس کا تو آپ انداز بھی نہیں کر سکتے.کیا کبھی کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے وہ اسے برداشت کرے گا؟ آنحضرت علی ایم کا مقام و ان کے نزدیک اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے.حضور انور نے ایک تو جماعت کو کثرت سے درود پڑھنے کی طرف توجہ دلائی دوسرے آپ نے فرمایا کہ اس خطبہ کی کا پہیاں ہر زبان میں ترجمہ کر کے تقسیم کی جائیں.اسی طرح لائف آف محمد سب لائبریریوں میں رکھوائی جائیں.اسی طرح سیمینار اور جلسے منعقد کئے جائیں جن میں غیروں کو بھی بلایا جائے.اسی طرح امن اور احترام مذہب کے عنوان سے لیف لیٹ تیار
414 کر کے اسے تقسیم کیا جائے کیونکہ اسلام تمام انبیاء کی عزت کرنے کی تعلیم دیتا ہے اس لئے ایک احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرے.اسی فلم ہی کے تعلق سے ایک تیسرا خطبہ بھی ارشاد فرمایا.آپ نے اس خطبہ میں 24 مستشرقین کے ایسے حوالے پیش کئے جو انہوں نے آنحضرت صلیم کی سیرت حسنہ سے متاثر ہو کر بیان کئے ہیں.حضور انور نے اپنے پہلے خطبہ کے حوالہ سے یہ بات بھی بیان فرمائی کہ میں نے وکلاء سے کہا تھا کہ وہ سب مل بیٹھ کر اس بات پر غور کریں کہ اس سلسلہ میں کیا کیا جاسکتا ہے حضور نے فرمایا دوسرے مسلم وکلاء کیا کرتے ہیں اس بات کا تو علم نہیں لیکن پاکستان کے احمدی وکلاء نے اس پر کچھ کام شروع کیا ہے اور بہت سے فیصلے مختلف عدالتوں کے انہوں نے جمع کئے ہیں اور مجھے بھیجے ہیں جنہیں میں نے دوسرے ممالک کے وکلاء کو بھی غور کرنے کے لئے بھیجا ہے وہاں سے بھی رائے آجائے گی اور جو بھی رائے قائم ہو گی پھر اس پر کوئی عملی کا روائی کرنی ہوگی.الفضل انٹر نیشنل 26 اکتوبر 2012ء) اسی طرح حضور نے فرمایا کہ سلمان رشدی کی کتاب کا جو جواب ارشد احمدی صاحب نے تیار کیا تھا اور شائع کی گئی تھی اب اس میں بھی ایک باب کا اضافہ کر کے اور بعض ترامیم کے ساتھ اسے بھی دوبارہ شائع کرنے کا ارشاد فرمایا.اسی طرح ایک موقعہ پر آپ نے اخبارات میں مضامین لکھ کر تو بین رسالت کا جواب دینے کی طرف توجہ دلائی.الغرض یہ مضمون تو ایسا ہے کہ جس قدر بھی بیان کیا جائے وہ کم ہے کوئی ایک موقعہ بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ کسی نے قرآن کی تو بین کی ہو کسی نے رسول پاک صلم کی توہین کی ہو تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فوری طور پر اس کا دفاع نہ کیا ہو.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.آج تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ آنحضرت علی اور قرآن کریم پر مخالفین اسلام نہایت
415 گھٹیا اور قیق حملے کرتے اور الزام لگاتے ہیں لیکن اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.اور آج بھی مسلمانوں میں ایک گروہ ہے اور بڑی تعداد میں ہے جو آپ کی لائی ہوئی شریعت کو اصل حالت میں اپنی زندگیوں پر لاگو کر رہا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت تک کے لئے بھیجے گئے ہیں.اور آپ کی لائی ہوئی شریعت زندہ ہے اور زندہ رہے گی.انشاء اللہ.اور دشمنان اسلام کی کوششیں اور دھمکیاں نہ پہلے اسلام کا کچھ بگاڑ سکی تھیں اب بگاڑ سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اس کے لئے کافی ہوں.اپنے بندوں کو ان کے شر کے بد انجام سے ہمیشہ بچاؤں گا.“ ( خطبات مسرور جلد 7 صفحہ 40) پس تو ہین رسالت کرنے والوں کا جواب قرآنی تعلیم کی روشنی میں اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ارشادات کی روشنی میں اور خلفائے احمدیت کی راہنمائی میں جس طرح جماعت احمد بی دے رہی ہے وہی حقیقی اسلامی تعلیم ہے.اسلام کسی پر بھی جبر کرنے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ ہی اسلام میں تو بین رسالت کرنے والے کے لئے قتل کی سزا مقرر ہے اسلام آشتی اور امن کا دین ہے، یہ اپنی حسین تعلیمات کی بنیاد پر ساری دنیا میں غالب آئے گا اور اسلام کے غلبہ کو کوئی طا غوطی طاقت نہیں روک سکتی.