Language: UR
حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 27 جولائی 1986ء کو جلسہ سالانہ برطانیہ سے خطاب فرماتے ہوئے اسلام میں قتل مرتد کے نظریہ کی تاریخ اور حقیقت پرتفصیل سے روشنی ڈالی۔ آپ نے قرآن و سنت اور ثقہ تاریخی حوالوں سے ثابت فرمایا کہ قتل مرتد کا خوفناک عقیدہ قطعاً بے اصل اور بالآخر اسلام دشمنی پر منتج ہونے والا ہے اور قتل مرتد کے حامی گروہوں اور حکومتوں کو اس کے بھیانک نتائج سے آگاہ فرمایا۔ اس خطاب کو کتابی شکل میں مرتب کرتے وقت حضورؒ نے مناسب ترامیم اور اضافے فرمائے نیز اس میں حوالہ جات شامل کئے گئے ہیں۔
اسلام میں ارتداد کی سزا کی حقیقت خطاب سید نا حضرت مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع رحمه الله تعالى امام جماعت احمد یہ عالمگیر بر موقع جلسہ سالانہ یو.کے بمقام اسلام آباد،ٹلفورڈ ، برطانیہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۶ء
صفحہ vii.3...........4.5....6....7 9....9....12 12............14..........17 18...........19............i فہرست مضامین مضمون عالم اسلام کے خلاف خوفناک سازش مسلمان اور مرتد کی تعریف.علماء کا مسلمان کی تعریف پر اختلاف.مسلمان کی تعریف....رسول خدا کی زبانی تعریف نبوی علی اول.تعریف نبوی علیه دوم تعریف نبوی علی سوم علماء کا عذر لنگ.علماء کی اختراع کردہ تعریف مودودی صاحب کی اختراع کردہ تعریف.ارتداد کی تعریف عظیم حکمت الہی.کسی کو کسی کی تکفیر کا حق نہیں.
ii مضمون نظر یقتل مرتد - قرآن کریم کی روشنی میں.صفحہ 20 20.21 22 22 23 25...........25..27 29 31 32 32 34 35 36 37 38 41 42 پہلی آیت دوسری آیت تیسری آیت دوا ہم اعلان چوتھی آیت.مشائخ کے مزعومہ قرآنی دلائل علماء کی پہلی دلیل مسخ حقائق.حادثہ کے بارہ میں قرآن میں مذکور تفاصیل.قتل نفس کا مفہوم قرآن اور تورات کے بیانات میں تضاد.یہود کی توبہ قبول ہوئی.قتل معنوی.قدیم مفسرین کی آراء.علماء کی دوسری دلیل.مودودی صاحب کا استدلال.مودودی استدلال کا تجزیہ حقیقی سیاق و سباق تُقَاتِلُونَ ہے نہ کہ تَقْتُلُون
صفحہ 43 44 46 47 51.........51 52 54 55 56 57 58....58 59 60 60 61 62.62 62 iii مضمون علماء کی تیسری دلیل.برصغیر کے ایک عظیم مفسر کی رائے.پاکستانی شرعی عدالت کے جج کی رائے.علماء کی چوتھی دلیل مرتدین کے بارہ میں قرآن کا موقف پہلی آیت الله رسول اللہ ﷺ اور صحابہ مرتدین کو جانتے تھے رسول اللہ اللہ کا رئیس المرتدین سے حسن سلوک نبی رحمت کا پاس کرو دوسری آیت.تیسری آیت.چوتھی آیت.ٹیڑھا استدلال..پانچویں آیت.چھٹی آیت ساتویں آیت آٹھویں آیت نظر یقیل مرند...احادیث کی روشنی میں.قائلین قتل مرتد کی اخذ کردہ احادیث.پہلی روایت.
صفحہ 66 67 68...70 70 71 76 76 77 78 80.....80 82 83 84 84 85 86 90...91 96 96 iv مضمون ایک اور واقعہ دوسری روایت تیسری روایت عہد صدیقی اور ارتداد.مزعومہ سنت صدیقی کی حقیقت مرتدین کی بغاوت کے تاریخی شواہد مرتدین کی چھاؤنیاں.اسود عنسی کے حالات طلیحہ بن خویلد کے حالات.مسیلمہ کذاب کے حالات.عجیب بات ایک مریدہ کا قتل عہد فاروقی کی روایت صحت روایات جانچنے کا پیمانہ مرتد لڑائی کرنے والا تھا عہد علی کی روایت روایت کی چھان بین.راوی خارجی ہے داخلی شہادت.مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ کے اصل معنی.لغت میں قتل کے مجازی معنی.
مضمون V قتل مرتد کی تردید کرنے والی احادیث پہلی حدیث.دوسری حدیث.تیسری حدیث چوتھی حدیث نظر بقتل مرتد اور علماء سلف.دعویٰ اجماع غلط ہے دلیل اول.دلیل دوم.دلیل سوم.دلیل چهارم.دلیل پنجم.دلیل ششم دلیل ہفہ عصر حاضر کے علماء کی آراء کیا مودودی صاحب سنجیدہ ہیں؟ ملاؤں کے ارادے.پرانا مشغلہ ایک اہم اقتباس.مودودی کا تشدد _ صفحہ 101.101 102 103 103 104....104 104 105..105....106......107......108 109......109........114 115 116 118......119
مضمون ارتداد اور تاریخ انبیاء.دشمنان انبیاء کا عقیدہ حضرت نوح پر ارتداد کا الزام.حضرت ابراہیم پر فتوی ارتداد.مقام عبرت.حضرت لوط پر ارتداد کی تہمت.حضرت صالح مرتد کہلائے.حضرت شعیب پر تہمت ارتداد حضرت موسی پر فرعونیوں کا الزام.پاکستانی حکومت کی دلیل حضرت مسیح موعود کا الہام میرا جواب.سید الانبیاء پر ارتداد کا الزام.شرم تم کو مگر نہیں آتی ! زمانہ بدل چکا ہے سنبھلو کہ تم بہک رہے ہو دعاء مصطفوی علی کا معجزہ vi 1984ء سے 2010 ء تک جماعتی مقدمات کی تفصیل مراجع و مصادر..صفحہ 121 121 122 122 123.124 124.....125.127 129.129.130.....130......132.134 135.136..143 145.....
vii مقدمه آغاز اسلام سے لے کر آج تک اسلام اور عالم اسلام کو دشمنوں سے اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا خود بعض سادہ لوح مسلمان علماء کے ہاتھوں پہنچا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ دشمنان اسلام نے بھی اکثر اوقات ان سادہ لوح علماء کے جاہلا نہ فتقوں کو ہی بنیاد بنا کر اسلام پر حملے کئے ہیں.علماء میں یہ غلط رجحان اس لئے پیدا ہوا کہ انہوں نے اپنے سیاسی اور تمدنی ماحول سے متاثر ہو کر اسلام کے بعض احکامات کی ایسی تشریحات کو جو سیاسی رنگ لئے ہوئے تھیں ترجیح دی اور قرآن کریم کی واضح تعلیمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو پس پشت ڈال دیا.قتل مرتد کا عقیدہ بھی ان غلط رجحانات اور بے بنیا د نظریات میں سے ایک ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس خوفناک عقیدہ کی کوئی بنیاد نہ تو قرآن کریم میں ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ میں، بلکہ یہ محض ایک سیاسی نظر یہ تھا جسے عباسی خلفاء اور دوسرے حکام نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بعض متعصب علماء کی مدد سے اختراع کیا یہاں تک کہ اس دور کے دوسرے غیر متعصب علماء بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.اور بدقسمتی سے بعد میں آنے والے علماء کی اکثریت نے ، جو انہی سابقہ علماء کے مکاتب فکر کے زیر سایہ پروان چڑھی تھی ، اس نہایت خطرناک غیر اسلامی نظریہ کو بغیر کسی تحقیق اور تنقید کے قبول کر لیا.
viii اس ناپاک عقیدہ کے نہایت خوفناک نتائج نکلے.یہاں تک کہ علماء اسلام کو محض معمولی اختلافات پر خود علماء اسلام نے مرتد قرار دیا اور حکام اور صاحب نفوذ علماء نے اس ہتھیار کو اپنے مخالفین کے خلاف خوب خوب استعمال کیا.تاریخ اسلام کے یہ نہایت دردناک ابواب سپین میں عیسائی حکومتوں کی یاد دلاتے ہیں جب اسی قسم کے نظریات کے قائل عیسائیوں نے خود اپنے عیسائی بھائیوں کو معمولی اختلافات پر نہایت وحشت ناک سزائیں دیں.حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس تاریک دور کے واقعات کی تفصیل میں جانے کی بجائے اس ناپاک اور فاسد عقیدہ کا ہر پہلو سے تجزیہ کیا ہے اور قرآن کریم، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانہ کے تاریخی واقعات کی روشنی میں اس عقیدہ کا جھوٹا ہونا ثابت کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام کے نہایت حسین چہرے کو داغدار کرنے کی ناپاک کوشش اس بھیا نک نظریے کے ذریعہ کی گئی.چنانچہ یہ فاسد نظر یہ ہی وہ سب سے خطرناک ہتھیار تھا جسے دشمنان اسلام نے سب سے بڑھ کر اسلام کے خلاف استعمال کیا.ان حقائق پر مشتمل یہ عظیم خطاب حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر بتاریخ ۲۷ جولائی ۱۹۸۶ء بمقام اسلام آباد ٹلفور ڈسرے ارشاد فرمایا.امید ہے یہ خطاب غیر متعصب محققین کو اسلام کی صحیح اور پاک تعلیمات کو بہتر رنگ میں سمجھنے میں مدد دے گا اور اسلام کے دفاع کے لئے ، خصوصاً اس میدان میں ، ان کے اندر نئی روح پھونک دے گا.انشاء اللہ العزیز.یادر ہے کہ اس خطاب کو کتابی صورت میں ڈھالتے وقت حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعض مناسب ترامیم اور مفید اضافے فرمائے تھے.الناشر
1 اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ.أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنِ الرَّحِيمِ.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة (تا) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَا بِمِ ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (المآئدة: ۵۵) عالم اسلام اس دور آخرین میں شدید قسم کے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور اسلام دشمن طاقتیں خواہ وہ مشرق سے تعلق رکھتی ہوں یا مغرب سے تعلق رکھتی ہوں، نئے نئے حربوں سے اسلام پر حملہ آور ہو رہی ہیں.اور سب سے بڑی دردناک حقیقت یہ ہے کہ آج اسلام پر حملہ کے لئے اسلام ہی کے ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں اور عالم اسلام پر حملہ اسلام ہی کے نام پر کیا جا رہا ہے.آج آپ جب
2 ایک عمومی نظر عالم اسلام پر ڈالتے ہیں تو یہ دیکھ کر تجب ہوتا ہے کہ اسلام کے مخالفین سے تلوار کا جہا د حلال قرار دینے والے اور اسلام کے مخالفین کو بزور شمشیر مفتوح اور مغلوب کرنے والے مسلسل ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں اور عالم اسلام کی تلوار عالم اسلام ہی کے خلاف اٹھ رہی ہے اور عالم اسلام کے خنجر عالم اسلام ہی کے سینوں میں گھونپے جا رہے ہیں.خواہ ایران اور عراق کا اختلاف ہو یا فلسطین کے مجاہدین کے دو گروہوں کا یا شام اور اردن کا اختلاف ہو یا لیبیا یا مصر کا اختلاف کسی پہلو سے بھی عالم اسلام پر نظر ڈالیں تو آج اسلام کی طاقتیں عالم اسلام ہی کے خلاف ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں.اور عجیب بات ہے کہ آج اسلام دو متحارب کیمپوں میں اس طرح بٹا ہوا ہے کہ اسلام کے بعض ممالک قرآن اور سنت کی تعلیم پیش کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسلام کا رنگ سرخ ہے اور اسلام اور اشتراکیت میں سوائے نام کے عملاً کوئی مابہ الامتیاز نہیں.ہاں ایک فرق ہے کہ خدا کو اشتراکیت میں ڈال دو یا اسلام سے خدا کو نکال دو ، دونوں صورتوں میں یہ دونوں نظریۂ حیات بالکل ایک سے دکھائی دیں گے.اور دوسری طرف اسلام ہی کے نام پر مغربی استعماریت کی پر زور نمائندگی کی جارہی ہے.گویا اسلام دنیا میں کیپٹلزم کو تقویت دینے کے لئے آیا تھا اور اس کے سوا اسلام کا اور کوئی مقصد نہیں تھا.
3 عالم اسلام کے خلاف خوفناک سازش حال ہی میں اس ضمن میں مغربی استعمار کے زیر اثر مسلمان قوموں میں بعض ایسے نظریات کو عمداً ایک منصوبے کے تحت فروغ دیا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں یہ جنگ ملکوں ملکوں کی جنگ نہیں رہے گی بلکہ ہر مسلمان ملک کے اندر ایک خانہ جنگی کی صورت اختیار کر جائے گی.ان حربوں میں سے سب سے بڑا حر بقتل مرتد کا عقیدہ ہے اور وہ تمام اسلامی ممالک جو بالخصوص امریکہ کے زیرنگیں ہیں اور امریکہ کی حمایت علی الاعلان کرتے ہیں اور اس کی سر پرستی میں اپنے نظام حیات کو تشکیل دے رہے ہیں، ان ممالک میں یہ نظریہ بڑی شدت کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے اور اس پر وسیع پیمانے پر عمل درآمد کی تیاریاں ہو رہی ہیں.اس لئے میں نے آج ضروری سمجھا کہ قتل مرتد کے موضوع پر اسلام کی سچی حقیقی اور دائی اور انتہائی حسین تعلیم آپ کے سامنے رکھوں تا کہ جہاں تک آپ کا بس چلے اس انتہائی کر یہ اور خوفناک سازش کا اپنے اپنے دائرہ اختیار میں اور اپنی اپنی حدود میں مقابلہ کریں.
4 مسلمان اور مرتد کی تعریف قتل مرتد کے عقیدہ پر تفصیلی بحث سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دو بنیادی اصطلاحوں کی تعریف کی جائے ، مسلمان کون ہے؟ اور مرتد کسے کہتے ہیں اور مرتد کیسے بنتا ہے؟ اس پہلو سے جب میں نے نظر دوڑائی تو مجھے اس عدالت کی کارروائی کا خیال آیا جو جسٹس منیر اور جسٹس کیانی کی قیادت میں ۱۹۵۳ء میں پاکستان میں ہونے والے فسادات کی چھان بین کے لئے مقرر کی گئی تھی.ان دونوں فاضل ججوں نے نہایت گہری چھان بین کی اور تمام فرقوں کے علماء بلکہ ہر فرقے کے کئی کئی علماء کو کھلی دعوت دی اور ان سے مدد کی درخواست کی کہ ہم ان دو مسائل کو سمجھنا چاہتے ہیں، اس لئے آپ ہمیں بتائیں کہ اسلام کی تعریف کیا ہے؟ مسلمان کس کو کہتے ہیں؟ ان فاضل جوں نے یہ بات خوب کھول دی کہ جب تک پہلے مسلمان کی تعریف متعین نہ ہو ، اگلا قدم اٹھایا جا ہی نہیں سکتا.یہ بحث بالکل لا تعلق ہو جاتی ہے کہ مرتد کی سزا کیا ہے.پہلے مسلمان کی تعریف ہو پھر یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص اسلام کو چھوڑ بھی رہا ہے یا نہیں چھوڑ رہا.چنانچہ بہت گہری چھان بین اور بہت تفصیلی گفت وشنید کے بعد فاضل حج جس نتیجہ پر پہنچے وہ میں انہیں کے الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.وہ لکھتے ہیں:.یہ مسئلہ بنیادی طور پر اہم ہے کہ فلاں شخص مسلم ہے یا غیر مسلم.اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اکثر ممتاز علماء سے یہ سوال کیا ہے کہ وہ مسلم کی تعریف
5 کریں.اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مختلف فرقوں کے علماء احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے ذہن میں نہ صرف اس فیصلے کی وجوہ بالکل روشن ہوں گی بلکہ وہ مسلم کی تعریف بھی قلعی طور پر کر سکیں گے.کیونکہ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ فلاں شخص یا جماعت دائرہ اسلام سے خارج ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ دعویٰ کرنے والے کے ذہن میں اس امر کا واضح تصور موجود ہو کہ مسلم، کس کو کہتے ہیں.تحقیقات کے اس حصے کا نتیجہ بالکل اطمینان بخش نہیں نکلا.اور اگر ایسے سادہ معاملے کے متعلق بھی ہمارے علماء کے دماغوں میں اس قدر ژولیدگی موجود ہے تو آسانی سے تصور کیا جا سکتا ہے کہ زیادہ پیچیدہ معاملات کے متعلق ان کے اختلافات کا کیا حال ہو گا.(مسٹر جسٹس محمد منیر و مسٹر جسٹس ایم.آر.کیانی، رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء لاہور ، انصاف پریس ،صفحہ : ۲۳۱_۲۳۲) علماء کا مسلمان کی تعریف پر اختلاف پھر علماء کی طرف سے پیش کردہ متعدد تعریفوں کو نمونہ درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں.: ان متعدد تعریفوں کو جو علماء نے پیش کی ہیں پیش نظر رکھ کر کیا ہماری طرف سے کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟ بجز اس کے کہ دین کے کوئی دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں.اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کر دیں، جیسے ہر عالم دین نے کی ہے، اور وہ تعریف ان تعریفوں
6 سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائیگا.اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو ہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے.رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ ء لا ہور صفحہ ۲۳۵.۲۳۶) محض نمونیہ میں نے دو اقتباسات پیش کئے ہیں.ان فاضل جوں نے بہت تفصیلی بحث چھیڑی ہے.جس کو دلچپسی ہو اصل کتاب ( تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ) سے مطالعہ کر سکتا ہے.مسلمان کی تعریف.رسول خدا ﷺ کی زبانی اب میں آپ کو وہ تعریف بتاتا ہوں جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمائی، اور وہ دو تین مختلف طریقوں سے بیان فرمائی.کیسے ممکن ہے کہ علماء کے ذہن میں یہ تعریفیں موجود نہ ہوں؟ کیوں ان کا ذہن ان سادہ اور نہایت ہی روشن تعریفوں کی طرف منتقل نہیں ہوا؟ محض اس لئے کہ ان تعریفوں کی رو سے کسی صورت بھی جماعت احمدیہ کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا.اس لئے ظلم اور بددیانتی کی حد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح تعریفوں کو چھوڑ کر محض جماعت احمد یہ کی دشمنی میں اپنی طرف سے تعریف گھڑنے کی کوشش کی گئی اور اس میں وہ بری طرح ناکام رہے.
7 تعریف نبوی.اول سب سے عمومی تعریف جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے ہمیں ملی ہے اور جس میں سب سے زیادہ وسعت ہے اور جس کی رو سے کوئی مسلمان کہلانے والا کسی دوسرے مسلمان کو مرتد قرار دے ہی نہیں سکتا، جب تک وہ خود اعلان کر کے اسلام سے باہر نہ نکلے، وہ یہ ہے قَالَ النَّبِيُّ الا الله : أكتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَّظَ بِالْإِسْلَامِ مِنَ النَّاسِ (صحیح بخاری، کتاب الجهاد، باب كتابة الامام الناس و صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب جواز الاستسرار بالايمان للخائف باختلاف الفاظ) یہ حدیث اس موقع سے تعلق رکھتی ہے جب مدینے میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردم شماری کروائی.اور چونکہ مردم شماری کا معاملہ سب سے زیادہ عموم رکھتا ہے اس لئے سب سے زیادہ عمومی تعریف آپ نے اس موقع پر فرمائی.فرمایا: ” میرے لئے مسلمانوں کی مردم شماری کے لئے ( یعنی اس میں یہ مفہوم ہے) ہر اس شخص کا نام لکھ دو جو اپنے منہ سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.“ آپ نے کسی اور جھگڑے میں پڑنے کی اجازت ہی نہیں دی.کلمہ تک کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ جہاں تک عمومی مردم شماری کا تعلق ہے ، جہاں تک ملی سیاست کا تعلق ہے ، صرف یہ تعریف کافی ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے اس کا میرے لئے نام لکھ دو.”میرے لئے“ کا لفظ بہت ہی پیارا لفظ ہے، یعنی یہ تعریف مجھے قبول ہوگی،
8 ہزار دوسروں کو قبول ہو یا نہ ہو، مجھے اسکی کوئی فکر نہیں.میں ( محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جو خدا کا رسول مقرر ہوا ہوں.میرے لئے یہی عمومی تعریف کافی ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہونے کا دعوی کرے تعریف نبوی.دوم دوسری تعریف نسبتاً زیادہ دینی نوعیت کی ہے لیکن وہ بھی اتنی سادہ، اتنی صاف، اتنی حسین اور اتنی غیر مبہم ہے کہ اس تعریف کو سننے کے بعد بھی کسی قسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.آپ نے فرمایا:.مَنْ صَلَّى صَلَا تَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ أَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِى لَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَ ذِمَّةً رَسُولِهِ فَلا تُخْفِرُوا اللهَ فِي ذِمَّتِه - (صحيح بخارى كتاب الصلوة.باب فضل استقبال القبلة) کہ جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کو اپنا قبلہ قرار دے، ہمارا ذبیحہ کھائے ، وہ مسلمان ہے ایسے شخص کی حفاظت کرنا خدا اور اس کے رسول کی ذمہ داری ہے.پس تم اے مسلمانو! خدا کے ذمے کو ہرگز نہ تو ڑنا.کتنی عظیم الشان، کتنی واضح اور کیسی حسین تعریف ہے! آج دیکھیں کہ پاکستان میں علماء کیسے اس تعریف کے بالکل برعکس تعریف بنانے کی جرات کر رہے ہیں.آج سینکڑوں احمدیوں کو اس بنا پر تکلیف دی گئی، قیدوں میں ڈالا گیا اور علماء نے ان کے قتل کے کھلے کھلے فتوے دیئے اور یہ اعلان کیا کہ چونکہ یہ ایسی حرکتیں کر رہے ہیں، اس لئے ہمارے ذمے سے نکل گئے ہیں.یہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، یہ ہمارے قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور یہ ہماری طرح کا ذبیحہ
9 کھاتے ہیں، جب تک احمدی ان تینوں چیزوں سے باز نہیں آئیں گے ہم ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیں گے.جس دن یہ ان تینوں باتوں سے باز آ گئے ، اسی دن یہ ہمارے ذمے میں داخل ہو جائیں گے.کیا یہ وہ ذمہ ہے جس کا ذکر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا؟ خدا اور رسول کے ذمے کے بالکل برعکس، ایک ایک شق سے اختلاف کرتے ہوئے انہوں نے اپنا ایک نیا ذمہ بنایا ہے.مسلم کی ایک نئی تعریف بنائی ہے.اور ان کا احمدیوں کی مساجد منہدم کرنے اور ان کا رخ خانہ کعبہ سے پھیر کر کسی اور طرف کرنے کا مطالبہ یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے گویا ایک نیا قبلہ بنایا ہے، نئی عبادت کے گر بتائے ہیں.اور جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے، جماعت احمدیہ کو صرف اور صرف حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کافی ہے اور خدا اور اس کے رسول کا ذمہ کافی ہے، کسی اور ملاں کے ذمے کی ہمیں کوئی بھی پروا نہیں ہے.تعریف نبوی.سوم اب غیر مسلموں کو قتل کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے والوں کے لئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تعریف بیان فرمائی، جو اگر چه تعریف تو نہیں بلکہ ایک واقعہ پر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رد عمل ہے جو ایسی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ جو ایک رنگ میں مسلمان کی تعریف بھی متعین کر دیتا ہے.عَنْ أَسَامَةَ بن زَيْدٍ......قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَصَبَّحْنَا الْحُرُقَاتِ مِنْ جُهَيْئَةَ فَأَدْرَكْتُ رَجُلًا فَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَطَعَنْتُهُ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَالِكَ فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِي الله فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ الا الله أَقَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ قَتَلْتَهُ؟ لے مقدمات کے تفصیلی اعداد و شمار کے لئے دیکھئے صفحہ ۱۴۲
10 قَالَ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِّنَ السَّلَاحِ قَالَ: أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لَا، فَمَا زَالَ يُكَوِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ يَوْمَئِذٍ.وَفِي رِوَايَةٍ، حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمُ أَكُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَلِكَ الْيَوْمِ - وَ فِي رِوَايَةٍ ثَالِثَةٍ، قَالَ : فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرُ لِي قَالَ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إلهَ إِلَّا اللهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَة فَقَالَ : فَجَعَلَ لَا يَزِيدُهُ عَلَى اَنْ يَقُولَ: كَيْفَ تَصْنَعُ بِلا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ - (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الكافر بعد ان قال " لا اله الا الله حدیث نمبر ۱۵۸، ۱۵۹، ۱۶۰) " حضرت اسامہ بن زید بیان فرماتے ہیں کہ ہم ایک سریہ پر گئے.جہینہ قبیلہ کے علاقہ ”حرقات پر صبح صبح حملہ آور ہوئے.مجھے ایک آدمی مل گیا.جب میں اس پر غالب آ گیا تو اس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ پڑھ دیا ( حدیث میں صرف لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ پڑھنے کا ذکر ہے.محمد رسول اللہ بھی اس نے نہیں کہا ) مگر میں نے تب بھی اسے قتل کر دیا.اس پر میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا اور میں نے مدینہ آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سارا ماجرا عرض کیا.تو آپ نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تو نے اسے لَا إِلهَ إِلَّا اللہ پڑھنے کے باوجود قتل کر ڈالا؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ ! اس نے تو ہتھیاروں اور قتل کے خوف سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ پڑھا تھا.آپ ﷺ نے فرمایا: أَفَلا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ تو نے اس کا غلافوں میں چھپا ہوا دل کیوں نہ پڑھ لیا.کاش ایسا ہوتا تا کہ تجھے پتہ چل جاتا کہ اس نے خوف سے پڑھا تھا یا دل سے پڑھا تھا ؟!
11 پھر فرمایا: قیامت کے دن اس کے لَا إِلَهَ إِلَّا الله کے مقابلہ میں تیرے پاس کیا جواب ہو گا.میں نے عرض کی حضور آپ میرے لئے استغفار کیجئے مگر آپ ﷺ یہ فقرہ بار بار دھراتے رہے بار بار دھراتے رہے حتی کہ مجھے خواہش ہوئی کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا تا مجھے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا یہ دن نہ دیکھنا پڑتا“ 66 66 آج اس کے بھی بالکل برعکس تعریف کی جارہی ہے.کیسے ممکن ہے کہ علماء کی نظر اس حدیث پر نہ ہو ؟ آج کھلم کھلا علماء یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اگر احمدی لا الہ اِلَّا الله " پڑھے گا تو وہ گردن زدنی ہے.اور ہم کسی قیمت پر یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی احمدی " لَا إِلَهَ إِلَّا الله " پڑھے یا لَا إِلَهَ إِلَّا الله “ کا بیج اپنے سینے پر لگا کر پھرے.یہاں تک فتوے دیئے گئے کہ اگر ہم نے اب دیکھا کہ کوئی احمدی لَا إِلَهَ إِلَّا الله " پڑھتا ہے تو ہم اس کے ناک اور کان کاٹ دیں گے.اور یہاں تک بھی فتوے دیئے گئے کہ ہر مسلمان پر ایسے احمدی کا قتل واجب ہو جاتا ہے جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ “ پڑھتا ہے.اور دلیل وہ دی جس کو آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ کے لئے رد فرما چکے ہیں.دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم یہ اس لئے کہتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں ” لَا اِلهَ إِلَّا الله نہیں ہے صرف زبان پر جاری ہے.حیرت انگیز بات ہے.ایسی باغیانہ حرکت اس آقا کے خلاف جس کی غلامی کا دم بھرتے ہیں.کھلم کھلا بغاوت اور پھر اصرار اس بغاوت پر.اور اس بغاوت کے نتیجہ میں ظلم اور تعدی پر ایسا عمل درآمد ہے کہ حکومت کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی علماء کے پیچھے چل کر ہر ایسے احمدی کے قتل عام کا اعلان کر دے جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ
12 مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کا اعلان کرتا ہے : یعنی خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں.پس جہاں تک مسلمان کی تعریف کا تعلق ہے مجھے تو یہی تین تعریفیں نظر آئی ہیں اور یہی تین تعریفیں پسند ہیں اور ان کے سوا میں اور کسی تعریف کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، کیونکہ یہ تعریفیں بانی اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریفیں ہیں.علماء کا عذر لنگ ایک اور دلچسپ بات یہاں بیان کرنے کے لائق یہ ہے کہ تحقیقاتی عدالت کی اس رپورٹ پر کہ کوئی دو علماء بھی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہو سکے، تبصرہ کرتے ہوئے بعد میں علماء نے یہ تنقید کی کہ دراصل ہمیں کافی وقت نہیں دیا گیا.ہم اس سوال کے جواب کے لئے تیار ہی نہیں تھے.اگر ہمیں پورا وقت مل جاتا تو پھر ایسی تعریف ضرور بنا لیتے جس پر ہمارا اتفاق ہو جاتا.مرتضی احمد خان میکش درانی محاسبه یعنی عدالت تحقیقات فسادات پنجاب (۱۹۵۳ء) کی رپورٹ پر ایک جامع اور بلیغ تبصرہ.لاہور.روزنامہ نوائے وقت پاکستان صفحہ : ۳۸) علماء کی اختراع کردہ تعریف چنانچہ ایک لمبے عرصہ تک ان کو انتظار کرنا پڑا.۵۳ء کی تحریک پر سالہا سال گزر گئے تو ۱۹۷۴ء میں جا کر علماء نے وہ تیاری کی اور وہ نئی تعریف، اسلام کی ایجاد کی جس کا بانی اسلام اور قرآن وسنت سے کوئی بھی تعلق نہیں.اس تعریف میں ایک منفی پہلو داخل کیا گیا اور وہ منفی پہلو یہ تھا کہ مسلمان وہ ہے جو محض لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کا اقرار نہ کرے بلکہ
13 مرزا غلام احمد قادیانی کے کذب کا اقرار بھی کرے اور آپ کی نبوت کا کھلم کھلا انکار کرے.جب تک وہ اس تعریف کے مطابق مسلمان نہیں بنتاوہ مسلمان نہیں کہلا سکتا.درخواست برائے رجسٹریشن.زیر دفعہ ۴ (۱) (الف) نیشنل رجسٹریشن ایکٹ.فارم الف شائع کردہ حکومت پاکستان ڈائریکٹوریٹ جنرل آف رجسٹریشن (وزارت داخلہ) اس تعریف میں جو نیا دروازہ کھولا گیا ہے اس کے بہت سے بدنتائج نکلے بھی ہیں اور آئندہ بھی نکلیں گے.لیکن بنیادی طور پر اس تعریف پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ تعریف تو زمانے سے آزاد ہوا کرتی ہے.تعریف جغرافیائی قیود سے آزاد ہوا کرتی ہے.یہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام کی جو تعریف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے پر اطلاق نہیں پاسکتی وہ آج درست تعریف کے طور پر قبول کر لی جائے.صرف وہی تعریف قابل قبول ہو گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ پر اطلاق پائے اور پھر ہر زمانہ پر اطلاق پاتی چلی جائے.ایک لمحہ بھی ایسا نہ گزرے جس میں وہ تعریف ناکارہ ثابت ہو جائے.اور صرف پاکستان ہی میں اس کا اطلاق نہ ہو بلکہ دنیا کے ہر ملک میں ، مشرق کا ہو یا مغرب کا، شمال کا ہو یا جنوب کا، وہ تعریف بعینہ اسی طرح صادق آتی چلی جائے.مگر یہ ایک عجیب تعریف ہے جس کا ۱۹۷۴ء سے پہلے اطلاق ہو ہی نہیں سکتا.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے پر بھی اطلاق نہیں ہوسکتا، کیونکہ بکثرت ایسے احمدی فوت ہو گئے جو اس تعریف کے بننے سے پہلے مسلمان کہلاتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے اور چونکہ یہ تعریف موجود نہیں تھی اور کسی کا تصور اس تعریف کی طرف نہیں گیا تھا اس لئے اس تعریف کی رو سے وہ مسلمان ہی تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے کے مسلمانوں کا کیا کہو گے -
14 کیونکہ انہوں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار نہیں کیا؟ ان کے لئے تو لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ “ ہی کافی تھا.اس لئے جو تعریف پہلے زمانوں پر اطلاق نہیں پاسکتی ، وہ اب بھی غلط ہے.اب بھی اطلاق نہیں پاسکتی.اگر علماء یہ کہیں کہ اس وقت سامنے کوئی جھوٹا نبی تھا ہی نہیں اس لئے تعریف میں جھوٹے نبی کا ذکر آ نہیں سکتا تھا تو اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں، کیونکہ سب سے پہلے اور سب سے یقینی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابل پر دعویٰ کر نیوالا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوا یعنی مسیلمہ کذاب، اور اس دعویدار کی موجودگی میں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی تعریف بدلی، نہ آپ کے خلفاء نے اسلام کی تعریف بدلی، نہ تبع تابعین نے اسلام کی تعریف بدلی، نہ بعد کی آنے والی نسلوں نے اسلام کی تعریف بدلی.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیال نہیں آیا کہ جب تک اسلام کی تعریف میں اس جھوٹے نبی کا انکار نہ داخل کر لوں اس وقت تک مسلمان کی تعریف مکمل نہیں ہو گی؟ اس لئے لاؤ اب اپنا جواب.! نظریں دوڑاؤ سارے عالم اسلام پر !! ایک دن کے لئے بھی اس ۷۴ء کے واقعہ سے پہلے ایسی تعریف چسپاں کر کے دکھاؤ کہ جب تک نعوذ باللہ مبینہ طور پر کسی جھوٹے نبی کا انکار تعریف میں داخل نہ ہو جائے اس وقت تک مسلمان، مسلمان بن ہی نہیں سکتا.مودودی صاحب کی اختراع کردہ تعریف یہ تعریفیں اپنی جگہ.مولانا مودودی نے ایک الگ تعریف پیش کی ہے.اس تعریف کی تفصیل تو نہیں بتائی لیکن اس کا اطلاق کر کے دکھا دیا ہے.میں اس کا نمونہ
15 بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تا آپ دیکھیں کہ اگر مولانا مودودی کی تعریف کی رو سے آج پاکستان کے مسلمانوں کے چہرے دیکھے جائیں تو ان پر مسلمان لکھا ہوا نظر آئے گایا کا فرلکھا ہوا نظر آئے گا؟ چونکہ موجودہ حکومت کا یہ دور مودودی نواز دور ہے اور مودودی اور وہابی طرز خیال کے علماء اس حکومت پر قبضہ کئے ہوئے ہیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ مودودی تعریف کو اس وقت آپ کے سامنے پیش کیا جائے.مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم کے صفحہ ۱۳۰ پر مودودی صاحب فرماتے ہیں: وو یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں.نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے.باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آ رہا ہے، اس لئے یہ مسلمان ہیں.نہ انہوں نے حق کو حق جان کر اسے قبول کیا ہے.نہ باطل کو باطل جان کر اسے ترک کیا ہے.ان کی کثرت رائے کے ہاتھ میں باگیں دے کر اگر کوئی شخص یہ امید رکھتا ہے کہ گاڑی، اسلام کے راستے پر چلے گی تو اسکی خوش فہمی قابل داد ہے ( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش.بارششم.اچھرہ (لاہور) مکتبہ جماعت اسلامی.حصہ سوم.صفحہ :۱۳۰) ۷۴ء میں جو واقعہ ہوا.جو تعریف اسلام کی تعریف سمجھی گئی وہ انہی لوگوں کے ہاتھوں میں اسلام کی باگیں دینے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے.اس پر کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ مولانا مودودی صاحب کا خیال یہ تھا کہ
16 عامتہ الناس اگر اکٹھے ہو کر فیصلہ دیں گے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی.ہوسکتا ہے کہ مودودی صاحب کے ذہن میں یہ بات ہو کہ بڑے بڑے چوٹی کے علماء یہ حق رکھتے ہیں، اور وہ اسلامی فہم اور اسلامی ذوق رکھنے کی بناء پر مستند ہو جاتے ہیں، اس لئے چونکہ اس فیصلے میں اس قسم کے علماء بھی شامل تھے اس لئے اسکی حیثیت اور ہے.یا ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ خیال کرے کہ عامۃ الناس کی بات تو رد کی جائے گی کیونکہ اس قسم کے عامتہ الناس ہیں جیسے مودودی صاحب نے بیان فرمائے ہیں، لیکن ان کی منتخب نمائندہ اسمبلی کو تو بہر حال یہ حق حاصل ہونا چاہئے ، ان پر یہ فتویٰ جاری نہیں کیا جا سکتا.تو ان دونوں باتوں کا جواب میں اپنے الفاظ میں دینے کی بجائے مولانا مودودی کے الفاظ ہی میں دیتا ہوں.وہ پہلی بات کا جواب یہ دیتے ہیں: خواہ مغربی تعلیم و تربیت پائے ہوئے سیاسی لیڈر ہوں یا علماء دین ومفتیانِ شرع مبین (اس اسمبلی میں جس نے وہ تعریف منظور کی جس کی رو سے جماعت احمدیہ خارج از اسلام کہلاتی ہے وہاں یہ دو ہی قسم کے لوگ تھے.ناقل) دونوں قسم کے راہنما اپنے نظریہ اور اپنی پالیسی کے لحاظ سے یکساں گم کردہ راہ ہیں.دونوں راہ حق سے ہٹ کر تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں.ان میں سے کسی کی نظر بھی مسلمان کی نظر نہیں“.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم بار ششم صفحه : ۷۸،۷۷) جہاں تک اس وہم کا تعلق ہے کہ خواہ کیسے ہی ہوں، جب ان کو جمہوری قوت حاصل ہو جائے اور جمہور کی نمائندگی حاصل ہو جائے تو پھر ان کے فتوے لازماً چلنے چاہئیں ، پھر ان کی تعریف لازماً قابل قبول ہونی چاہئے.تو اس کا جواب بھی مودودی صاحب کی زبان ہی میں آپ کو دیتا ہوں.فرماتے ہیں:
17 ”جمہوری انتخاب کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے دودھ کو بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے.( کیسی عمدہ مثال دی ہے.اس سے تو کوئی انکار نہیں.نہایت خوبصورت مثال ہے.مگر اس سے نتیجہ کیا نکلتا ہے.ناقل) اگر دودھ زہریلا ہو تو اس سے جو مکھن نکلے گا قدرتی بات ہے کہ وہ دودھ سے زیادہ زہریلا ہو گا.........پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں اور یہاں جمہوری نظام قائم ہو جائے تو اس طرح حکومت الہی قائم ہو جائے گی ، ان کا گمان غلط ہے.دراصل اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی“.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش صفحہ : ۱۰۷-۱۰۸) یہ کل کی باتیں ہیں.آج کی باتیں کچھ اور ہو رہی ہیں.کیا دین اسلام اس طرح اپنے رنگ بدلا کرتا ہے؟ کیا کوئی بھی حق کی بات اس طرح پینترے بدل کر ، مختلف حلیئے مختلف شکلیں اختیار کیا کرتی ہے؟ پھر فرماتے ہیں: یہاں جس قوم کا نام مسلمان ہے وہ ہر قسم کے رطب و یا بس سے بھری ہوئی ہے.کریکٹر کے اعتبار سے جتنے ٹائپ کافروں میں پائے جاتے ہیں اتنے ہی اس قوم میں بھی موجود ہیں“ ( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم بارششم صفحه : ۱۰۷-۱۰۸) ارتداد کی تعریف اب میں ارتداد کی تعریف کی طرف توجہ کرتا ہوں.علامہ راغب اپنی کتاب المفردات“ میں لکھتے ہیں:
18 الْاِرْتِدَادُ وَالرِّدَّةُ : الرُّجُوعُ فِي الطَّرِيقِ الَّذِي جَاءَ مِنْهُ، لَكِنِ الرِّدَّةَ تُخْتَصُّ بِالْكُفْرِ، وَالارْتِدَادُ يُسْتَعْمَلُ فِيهِ وَ فِي غَيْرِهِ - قَالَ تَعَالَى : ﴿إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ وَ قَالَ: ﴿يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ.وَ هُوَ الرَّجُوعُ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَى الْكُفْرِ.“ 66 ( المفردات لامام حسین بن محمد المعروف بالراغب الاصفهانی.زیر لفظ: ”رد) یعنی: ارتداد اور ردَّة کے معنی ہیں اس راستے کی طرف واپس چلے جانا جس راستے سے کوئی آیا ہو ، لیکن ردة کا لفظ کفر کی طرف واپس جانے سے مختص ہے.اور ارتداد کا لفظ کفر کی طرف لوٹنے یا کسی اور امر کی طرف لوٹنے کے لئے مشترک ہے.جیسے قرآن کریم میں فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ نیز فرمایا: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ.یہ دوسری آیت اسلام سے کفر کی طرف لوٹنے کے معنوں میں آئی ہے.عظیم حکمت الہی ارتداد ایک ایسا لفظ ہے جو محض لازم استعمال ہوتا ہے اور متعدی استعمال ہو ہی نہیں سکتا.یعنی مرتد صرف اس کو کہتے ہیں جو خود اعلان کرے کہ میں باہر جا رہا ہوں.عربی قواعد کی رو سے یہ اجازت ہی نہیں کہ کوئی دوسرا اسکو مرتد کہہ کر باہر نکال دے.مرتد کی اپنی مرضی اس میں شامل ہے.ایسا حیرت انگیز لفظ خدا تعالیٰ نے چنا ہے، ارتداد کے اظہار کے لئے کہ دوسرے کے دخل سے ہر مسلمان کو آزاد کرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے بھی ایسی ہی تعریف فرمائی فرمایا :
19 قف وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنُ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الكهف: ٣٠) کہ دیکھو! تمہارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے.اب ہر شخص کا اختیار ہے.چاہے تو ایمان لائے اور چاہے تو کفر اختیار کرے.کسی کو کسی کی تکفیر کا حق نہیں اور چاہنے کا تعلق دل سے ہے.کہیں قرآن کریم نے اجازت نہیں دی کہ چاہو تو فلاں کو مومن قرار دے دو اور چاہو تو فلاں کو کا فرقرار دید و بلکہ ہر شخص کا اپنا حق رکھا اور اس اعلان کی اجازت دی.اب اس اعلان میں کسی جبر کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ : فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ اگر ارتداد کی سزا قتل ہے یا کفر کی سزا قتل ہے تو من شاء کے کیا معنی رہ جاتے ہیں؟ اپنی مرضی کو ہر شخص خود بتا سکتا ہے.پس اگر کسی سے پوچھا جائے کہ تم کافر ہوتے ہو یا مومن رہتے ہو اور وہ کہدے کہ میں مومن ہوں ، میں مسلمان ہوں، تو چونکہ ”شاء“ کا تعلق دل سے ہے، اس لئے کسی اور کو قرآن اجازت ہی نہیں دیتا کہ اس کے دل کی بات وہ بیان کرے.
20 نظر یقتل مرتد..قرآن کریم کی روشنی میں اسلام جس شاندار مذہبی آزادی کی تعلیم دیتا ہے، اس کے متعلق چند آیات آپ کے سامنے رکھنے کے بعد میں ان دلائل کی طرف متوجہ ہوں گا جو قتل مرتد کے جواز میں علماء کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.قتل مرتد کے جواب میں پہلی آیت : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنَ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة: ۲۵۷) کہ دیکھو! دین کے معاملے میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں اور اس کی ضرورت ہی نہیں.کیوں؟ اس لئے کہ ہدایت اور گمراہی کا فرق خوب ظاہر ہو چکا ہے.قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ پس جو شخص اپنی مرضی سے نیکی سے روکنے والے کی بات ماننے سے انکار کرے اور اللہ پر ایمان رکھے اس نے ایک مضبوط، قابل اعتماد کڑے پر ہاتھ ڈال لیا جوٹوٹنے کا نہیں ، یاوہ ہاتھ اب اس کڑے کو چھوڑنے والا نہیں.یہ ایک بہت ہی گہری حکمت کی بات پیش کرنے والی آیت ہے.یہاں بالکل بر عکس مضمون بیان ہوا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ تمہیں حق ہے کہ لوگوں کو ارتداد اختیار کرنے سے روکو.فرمایا کسی کو حق نہیں ہے کہ تمہیں اپنا دین چھوڑنے پر
21 مجبور کرے.فرمایا، چونکہ حق ظاہر ہو گیا ہے اور دین میں جبر نہیں ہے، تم تو جبر نہیں کرو گے کیونکہ خدا کا تمہیں حکم مل چکا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے، لیکن غیر کا جبر بھی نہیں چل سکتا، کیونکہ تم نے حق کو حق سمجھ کے قبول کیا ہے، ایک مضبوط کڑے پر ہاتھ ڈال بیٹھے ہو.پس جو طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کرے گا اور ان کے دین میں لوٹنے سے انکار کر دے گا اور اللہ کے ایمان پر قائم رہے گا، اس نے گویا ایک مضبوط کڑے پر ہاتھ ڈال دیا.لَا انفِصَامَ لَهَا اب یہ تعلق ٹوٹنے کا نہیں.یعنی جبر تمہارے خلاف استعمال ہو گا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ تم ایسے روشن مقام پر فائز ہو کہ کسی طرح بھی اندھیروں کی طرف لوٹ جانے والے نہیں.دوسری آیت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلى رَسُولِنَا الْبَلغَ الْمُبِينُ (المائدة : ٩٣) کہ تم اللہ کی بھی اطاعت کرو اور رسول کی بھی اطاعت کرو، اور ہوشیار رہو.اگر اس تنبیہ کے باوجود بھی تم پھر گئے تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ تو صرف کھول کر بات پہنچا دینا ہے ( قتل کرنا نہیں) اگر مرتد کی سزا قتل ہوتی تو اس کا تو فوری جواب یہ ہونا چاہئے تھا کہ ہم نے خوب بات کھول دی ہے.اتنی بات کھولنے کے باوجوداگر تم اس دین سے پھر گئے تو یا درکھوتلوارتمہارا جواب ہے اور تمہاری گردن کاٹی جائے گی.
تیسری آیت 22 پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سکیم آف تھنگز (Scheme of things) یہ نہیں ہے.خدا نے دین کا نقشہ بناتے وقت اس میں جبر کو کبھی داخل ہی نہیں ہونے دیا.کائنات کی جو تصویر اس کامل مصور نے کھینچی تھی اس میں تو دین اور جبر کا کوئی علاقہ اس نے قائم ہی نہیں ہونے دیا.فرمایا.: وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَا مَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (يونس: ١٠٠) کہ دیکھو! اگر اللہ چاہتا کہ مومنوں کی تعداد بڑھ جائے ،سارے لوگ ایمان لے آئیں تو اس کا چاہنا ہی کافی تھا اور تمام کے تمام بنی نوع انسان فوراً خدا کی چاہت کے ساتھ ہی ایمان لے آتے.جب اللہ نے ایسا نہیں چاہا ” أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ، تو اے محمد ! کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں.دواہم اعلان اس میں دو اعلان ہیں.ایک یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ کے لئے جبر کے الزام کی نفی فرما دی گئی کیونکہ محمد مصطفی ﷺ کا چاہنا تو وہی تھا جو خدا کا چاہنا تھا.آپ کا کلام خدا کا کلام تھا.آپ خدا کی منشاء کے تابع بات کرتے تھے.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: ۱۶۳) یہ ایک ہی نبی ہے جسے خدا نے بنی نوع انسان کے سامنے یہ اعلان کرنے کی اجازت دی کہ میرا اپنا تو کچھ بھی باقی نہیں رہا.میری تمام عبادتیں، میری ساری قربانیاں،
23 میری تو زندگی اور موت کلیتًا خدائے رب العالمین کی ہو چکی ہے.اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ اے محمد ! میں تجھے بتاتا ہوں کہ میرا منشاء ہے کہ دین میں آزادی ہو اور کسی کو زبردستی مومن نہ بنایا جائے تو " أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ“ کا کلمہ کسی ناراضگی کا کلمہ نہیں بلکہ پیار کا کلمہ ہے.ہم خوب جانتے ہیں کہ تو اب ایسی بات کر نہیں سکتا کیونکہ تجھے ہمارا منشاء معلوم ہو چکا ہے.اور دوسری طرف تمام ان مسلمانوں کے لئے جو بعد کی نسلوں میں آنے والے تھے یہ اعلان تھا کہ اب اگر تم نے دین میں جبر کے عقیدے کی اشاعت کی اور اس کی تلقین کی تو یاد رکھو کہ اللہ اور محمد مصطفی ﷺ کے واضح وعدے اور منشاء کے خلاف ایسا کرو گے، اس کے مطابق کبھی ایسا نہیں کرو گے.چوتھی آیت پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَذَكِّرُ ۖ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكَّرَهُ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرٍة إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَهُ فَيُعَذِّبُهُ اللهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَه (الغاشية: ۲۲ تا ۲۵) کہ اے محمد! تو تو نصیحت کرنے والا ہے.پس نصیحت کرتا چلا جا، تو ان لوگوں پر داروغہ مقرر نہیں ہے.یعنی اگر کوئی ایمان نہ لایا تو جس طرح داروغے کی حفاظت میں چیزیں دی جاتی ہیں اور کوئی چیز ضائع ہو جائے تو اس کی جواب طلبی ہوتی ہے ہم ہرگز تیری جواب طلبی نہیں کریں گے.یہاں داروغہ نہیں ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ ہم نے تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے تجھے مقررفرمایا
24 ہے لیکن جبر کا اختیار تجھے نہیں دیا.تو نصیحت کرتا چلا جا اور نہ ماننے والوں کا معاملہ ہمارے ذمہ ہے.جو انکار کرے گا اور کفر کرے گا تو اس کے لئے عذاب اکبر ہے.لیکن جہاں تک تیری ذات کا تعلق ہے تجھ سے ہرگز ان لوگوں کے بارہ میں نہیں پوچھا جائے گا جو انکار کر رہے ہیں.
25 مشائخ کے مزعومہ قرآنی دلائل اب میں آپ کے سامنے علماء کے چند دلائل پیش کرتا ہوں، جو انہوں نے اپنے زعم میں قرآن کریم سے نکال کر نص صریح کے طور پر اپنے عقیدے کی تائید میں پیش کئے ہیں.علماء کی پہلی دلیل پہلی مزعومہ طور پر مبینہ قرآنی دلیل جو علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی نے پیش کی ہے ان کی ایک ہی دلیل ہے.وہ اپنے رسالہ ”الشہاب“ میں اپنے استدلال کی بنیاد اس آیت پر رکھتے ہیں: وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمُ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِ بِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِ بِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرة : ۵۵) یعنی اے قوم بنی اسرائیل ! تو نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا تم اب خدا کی طرف رجوع کرو.پھر اپنے آدمیوں کو قتل کرو.اس آیت کا یہ ترجمہ کر کے اس کو قتل مرتد کے عقیدے کی تائید میں پیش کرتے ہوئے یہ تمہید باندھتے ہیں: یوں تو قرآن کریم کی بہت سی آیات ہیں جو مرتد کے قتل پر دلالت کرتی ہیں لیکن ایک واقعہ جماعت مرتدین کے بحکم خدا قتل کئے جانے کا ایسی تصریح
26 اور ایضاح کے ساتھ قرآن میں مذکور ہے کہ خدا سے ڈرنے والوں کے لئے اس میں تاویل کی ذرہ گنجائش نہیں“ گویا جو آیتیں میں نے تلاوت کر کے آپ کو سنائی ہیں ان میں (نعوذ بالله من ذلك) خدا سے ڈرنے والوں کے لئے بہت گنجائشیں موجود ہیں ،لیکن اس موقع میں کوئی گنجائش نہیں رہی.نہ وہاں محاربہ ہے، نہ قطع طریق ، نہ کوئی دوسرا جرم.صرف ارتداد اور تنہا ارتداد ہی وہ جرم ہے جس پر حق تعالیٰ نے ان کے بے دریغ قتل کا حکم دیا ہے.....66 یعنی مولوی صاحب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا تو کوئی واقعہ نہیں ملتا ( نہ ان کے نزدیک قرآن کریم بیان کرتا ہے ).حضرت موسی کی قوم کا ایک واقعہ نظر آیا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے، اس پر یقتل مرتد کے عقیدے کی بناء ڈال رہے ہیں اور لکھتے ہیں : فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ “ میں ”اَنْفُسَكُمْ “ کے معنے وہی ہیں جو ثُمَّ انْتُمُ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ “ میں ہیں.اور قتل کو اپنے اصلی اور حقیقی معنے سے ( جو ہر طرح کے قتل کو خواہ لوہے سے ہو یا پتھر سے شامل ہے) پھیرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں......اس حکم کا نتیجہ جیسا کہ روایات میں ہے یہ ہوا کہ کئی ہزار آدمی جرم ارتداد میں خدا کے حکم سے موسیٰ علیہ السلام کے سامنے قتل کئے گئے.اور صورت حال یہ ہوئی کہ قوم میں سے جن لوگوں نے بچھڑے کو نہیں پوجا تھا ان میں سے ہر ایک نے اپنے اس عزیز و قریب کو جس نے گوسالہ پرستی کی تھی اپنے ہاتھ سے قتل کیا
27 اس کی انہوں نے کوئی دلیل نہیں دی.میں آگے چل کر جب آیت پر بحث کروں گا تو آپ حیران ہوں گے کہ کس طرح انہوں نے آیت کے مضمون سے کھلا کھلا انحراف کیا ہے.یہ واضح رہے کہ یہ مقتولین سزا قتل دیئے جانے سے قبل ایک طرح کی تو بہ بھی کر رہے تھے.......لیکن اس تو بہ نے بھی ان کو دنیا کی عقوبت سے نہیں بچایا......کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ موسوی شریعت کا ہے امت محمدیہ کے حق میں اس سے تمسک نہیں کیا جا سکتا.لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ پہلی امتوں کو جن شرائع اور احکام کی ہدایت کی گئی ہے اور قرآن نے ان کو نقل کیا ہے وہ ہمارے حق میں بھی معتبر ہیں اور ان کی اقتداء کرنے کا امر ہم کو بھی ہے، جب تک کہ خاص طور پر ہمارے پیغمبر یا ہماری کتاب اس حکم سے ہمیں علیحدہ نہ کر دیں......پس اسی قاعدہ سے بنی اسرائیل کے مرتدین کو قتل کئے جانے کے حکم میں بھی تعلیم ہم ہی مسلمانوں کو ہوگی“ ( الشہاب صفحه ۳۲ ،۳۳) مسخ حقائق یہ جو دعویٰ کیا ہے کہ قرون خالیہ کے جن احکام و شرائع کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے، جب تک قرآن کریم ان پر عمل سے کھلے طور پر منع نہ فرما دے اس وقت تک وہ ہماری شریعت کا حصہ بن جاتے ہیں، بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے.ایک تاریخی حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے.اور وہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قرآن کریم کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی ، جب تک شریعت اپنی پوری شکل میں نازل نہیں
28 صل الله ہوئی تھی ، اس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دستور تھا کہ اگر قرآن میں کسی خاص مسئلے کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا ہوتا تو گزشتہ کتب سے نظیر پکڑا کرتے تھے.(ملاحظہ ہو مسلم، کتاب الفضائل، باب صفة شعره له وصفاته) اور جن امور کے بارہ میں قرآن کریم میں نص صریح نازل ہو چکی ہو ان میں ہرگز کبھی ایک دفعہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کے لئے گزشتہ کتب سے کوئی نظیر نہیں پکڑی قتل مرتد کا کوئی ذکر قرآن کریم میں ، مرتد کے ذکر کے باوجود بھی ، موجود نہیں.مرتد کے بارہ میں تفصیلی تعلیمات موجود ہیں اور بکثرت ذکر موجود ہے.جب قرآن نے مرتد کے موضوع پر لب کشائی فرما دی اور قتل کا ذکر نہ فرمایا تو یہ استدلال نہایت کج استدلال ہے کہ قرون خالیہ میں کسی واقعہ کا ذکر موجود ہے اور اس کا انکار نہیں کیا گیا اس لئے ہم اس سے نظیر پکڑتے ہوئے اسے شریعت کا حصہ بنالیں گے اور یہ ہم پر فرض ہے.یہ بات بالکل غلط ہے اور سنت کے بالکل خلاف ہے.یہ درست ہے کہ جب کسی موضوع پر حکم نہیں ملتا تھا اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرانی امتوں یعنی توارت کی تنتبع فرمایا کرتے تھے.جب اس موضوع پر حکم آجاتا تھا تو ہر گز اسکی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے.اور اب دوسرے استدلال کا قصہ سنئے اور دیکھئے کہ مرتد کی سزا قتل کا موضوع ہے بھی کہ نہیں.مولانا عثمانی صاحب درج ذیل آیت کریمہ پیش کرتے ہیں: وَلَمَا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَبِنُ لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخُسِرِينَ (الاعراف : ۱۵۰) یعنی جب اس معاملہ کا اختیار ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور انہوں نے خوب کھول کر یہ بات دیکھ لی کہ وہ گمراہ ہو گئے اور غلطی کی تھی تو انہوں نے کہا اگر
29 اللہ تعالیٰ ہم پر رحم نہ فرمائے اور ہماری بخشش نہ کرے یا ہم پر رحم نہ فرماتا اور ہماری بخشش نہ کرتا تو ہم یقینا گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جاتے.اس حصہ آیت کو پیش کر کے مولانا عثمانی صاحب یہ استدلال فرماتے ہیں کہ : ”دیکھو! باوجود اس کے کہ انہوں نے توبہ کر لی، باوجود اس کے کہ اللہ نے رحم فرما دیا، باوجود اس کے کہ ان کی مغفرت ہوگئی، پھر بھی قتل کا حکم جاری فرما دیا (مجله الشہاب ص ۱۸) گویا مولوی صاحب کے نزدیک گھاٹا پانے والوں کی یہ تعریف ہے.حادثہ کے بارہ میں قرآن میں مذکور تفاصیل قرآن کریم کے پیش کردہ سیاق و سباق کی روشنی میں اب اصل واقعہ ملاحظہ کیجئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاذْ وَعَدْنَا مُوسَى اَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَاَنْتُمْ ظَلِمُونَ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ) وَإِذْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ إِنَّكُمُ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوا إِلَى بَارِ بِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِ بِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرة : ۵۵۲۵۲) یعنی اس وقت کو یا دکر و جب ہم نے موسی سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا.پھر تم نے اس کے چلے جانے کے بعد ظالم بن کر بچھڑے کو معبود بنالیا.پھر ہم نے اس کے بعد بھی تمہیں معاف کر دیا تا کہ تم شکر گزار بنو.
30 معافی اور عفو کا سلوک مولوی عثمانی صاحب کے نزدیک یہ تھا کہ ایک طرف کہا کہ ہم تمہیں معاف کر رہے ہیں اور دوسری طرف سے قتل کا حکم دید یا اور گویا وہ شکر ادا کرتے کرتے قتل ہو گئے کہ اے خدا! ہم تیرے بڑے ہی ممنون ہیں.تو نے ہمیں معاف کرنے میں کمال کر دیا.کسی انسان سے ایسا عفو ہم نے کبھی نہیں دیکھا.ایسی مغفرت کبھی سننے میں بھی نہیں آئی تھی.کہ زبان سے عفو کا حکم جاری ہے اور اشارے یہ ہورہے ہیں کہ ان کو قتل کرتے چلے جاؤ.اس سے بڑا عفو ممکن نہیں.پھر فرماتا ہے: اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب یعنی تو ارات اور فرقان یعنی معجزات دیئے تا کہ تم ہدایت پاؤ.اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر بہت ہی ظلم کیا ہے.پس اللہ سے توبہ کرو اور تو بہ کے بعد اپنے نفسوں کو قتل کرو.یہ بات تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے حق میں بہت اچھی ہے.(جب تم نے ایسا کر لیا) تب اس نے تمہاری طرف فضل کے ساتھ پھر توجہ کی.وہ یقیناً اپنے بندوں کی طرف بہت توجہ کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے یہ آخری آیت وہ آیت ہے جسکا غلط ترجمہ کر کے آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے حالانکہ یہاں فَاقْتُلُوا اَنْفُسَكُمْ “ میں مذکور اَنْفُسَكُم “ وہی انْفُسَكُمُ ہیں جن کا ذکر "ظَلَمُتُمُ اَنْفُسَكُمْ “ میں ہوا ہے.سو فَاقْتُلُوا اَنْفُسَكُمُ سے مراد یہ ہے کہ ظلم کرنے والا اپنے نفس کو قتل کرے.کہیں بھی ہرگز ا یہ نہیں لکھا کہ ایک دوسرے کو قتل کرو.بلکہ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ان کو
31 مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ جن جانوں پر تم نے ظلم کیا ہے ان کو قتل کر دو.د قتل نفس کا مفہوم اور قتل نفس کا یہاں مطلب عربی لغت کی رو سے واضح طور پر یہ ہے کہ گریہ وزاری یا PENANCE کے ذریعہ توبہ و استغفار کے ذریعہ اپنے نفس امارہ کو کچلو.ایک ظلم تم نے کیا شرک کر کے، اب شرک کے اثر مٹانے کے لئے دوسرا ظلم یہ کرو کہ اپنے نفس کو توجہ دلا ؤ ، بار بار توبہ واستغفار کرو.علامہ شبیر عثمانی صاحب کو یہ واضح بات سمجھ نہیں آ رہی اور ایک ایسی بات کی ہے جس کا قرآن سے دور کا بھی تعلق نہیں.ان کو یہ بات تو سمجھ آ گئی تھی کہ جنہوں نے خود ظلم کیا ہے وہ اپنے آپ کو کس طرح قتل کریں گے؟ کیا تو بہ کے بعد خود کشیاں کرلیں؟ اسکا حل یہ بتایا کہ ان کو حکم یہ تھا کہ تم لوگوں میں سے جن لوگوں نے گناہ نہیں کیا ہے وہ باقی ان سب کو قتل کر دیں جنہوں نے گناہ کیا ہے.یعنی جو اپنے دین پر قائم رہے وہ مرتدین کو قتل کر دیں.حالانکہ قرآن کریم مخاطب ہی ان کو ہو رہا ہے جنہوں نے ظلم کیا تھا اور کہیں بھی کسی آیت میں بھی جنہوں نے ظلم نہیں کیا تھا ان لوگوں کو مخاطب نہیں ہو رہا بلکہ سارے مضمون میں جہاں جہاں بھی بیان ہوا ہے ان لوگوں کا کوئی ذکر ہی نہیں جنہوں نے گناہ نہیں کیا تھا.ان کو کہیں نہیں فرمایا کہ تم قتل کرو.مولوی صاحب نے اپنی طرف سے ایک بات ایجاد کی اور اسے قرآن کی طرف منسوب کر دیا.
32 قرآن اور تورات کے بیانات میں تضاد مولوی عثمانی صاحب کو زیادہ سے زیادہ ہم یہ حق دے سکتے ہیں کہ انہوں نے بائیبل سے اس واقعہ کی تفصیل معلوم کی ہو گی.لیکن اگر بائیل سے تفصیل معلوم کرتے تو پھر بھی یہ کہانی نہ بنتی.کیونکہ بائیبل تو اس بارہ میں قرآن سے بڑا واضح اور شدید اختلاف کر رہی ہے.اس اختلاف کے بعد بائیبل کی روایت مسلمانوں کے لئے قابل اعتماد نہیں رہتی کیونکہ بائیل میں تو یہ لکھا ہے کہ گناہ سب نے کیا تھا، لیکن وہ گناہ کروانے والا سامری نہیں تھا بلکہ موسیقی کا بھائی ہارون تھا.ہارون نے خود وہ شرک کا طریق ایجاد کیا اور حضرت موسی کو یہ جواب دیا کہ میں تو مجبور ہو گیا تھا ساری قوم مجھ پر غالب آ گئی تھی اور ان میں کوئی نیک لوگ رہے ہی نہیں تھے.مجھے یہ ترکیب سوجھی کہ میں نے ان کے زیور ا کٹھے کئے.ان کو آگ میں جھونک دیا اور اس آگ سے یہ بچھڑا نکل آیا.اس پر بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت موسی نے یہ انصاف جاری کیا، نعوذ بالله من ذلك، کہ بنی لاوی کو جو ان کا اپنا خاندان تھا بلایا کہ اگر تم میرے ساتھ وفادار ہو تو ادھر آ جاؤ.باوجود اس کے کہ وہ اس جرم کے بانی مبانی تھے، ان کو بلایا اور ان کو حکم دیا کہ باقیوں کو قتل کر دو.اس طرح تین ہزار آدمی اس دن مارے گئے.( عہد نامہ قدیم ، خروج باب ۳۲.آیات ۲ - ۲۸) یہ ہے قتل مرتد کی عثمانی دلیل جسکو قرآنی دلیل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے.یہود کی تو بہ قبول ہوئی جہاں تک قرآن کا تعلق ہے قرآن اس بات کو یوں کھلا کھلا رد کر رہا ہے کہ کوئی انسان جس میں تقویٰ کا کوئی شائبہ بھی ہو اس بات کے بعد مرتد کی سزا قتل کا جواز
33 یہاں سے نہیں نکال سکتا.کیونکہ قرآن کریم کے نزدیک اس واقعہ اور اس ظلم کا بانی مبانی سامری تھا.مگر سامری کے قتل کا بھی حکم نہیں دیا گیا جولیڈ رتھا، اس کو یہ سزا ملی کہ : فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَوةِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ (طه: ۹۸) ساری عمر تجھے لَا مِسَاس “ کہنا ہے.تیرا بائیکاٹ ہوگا یا تجھے ایسی بیماری پڑے گی جس سے تیرا بدن مکروہ ہو جائے گا.تو ہمیشہ کہتا رہیگا کہ میرے پاس نہ آؤ، مجھے ہاتھ نہ لگاؤ مجھ سے دور رہو.میں پلید انسان ہوں قتل کا حکم تو کہیں نہیں دیا گیا.اور پھر مسلسل ہر جگہ جہاں اس واقعہ کا ذکر ہے قرآن کریم کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو بہ کرنے والوں کی تو بہ کو قبول فرمالیا.چنانچہ فرماتا ہے: فَتُوبُوا إِلَى بَارِ بِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِ بِكُمْ ۖ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُه (البقرة: ۵۵) کہ اپنے رب کی طرف تو بہ کے ساتھ جھکو، رجوع کرو، اور اپنے نفسوں کو قتل کرو.یہ طریق تمہارے رب کے نزدیک بہتر ہے.پھر فرمایا: فَتَابَ عَلَيْكُمْ نہ صرف یہ کہ تم تو بہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھکے بلکہ خدا نے بھی تمہاری تو بہ کو قبول فرمایا: إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ.دیکھو! کیسا پیارا کیسا بار بار تو به قبول کرنے والا خدا ہے.اور کتنا رحم کرنے والا خدا ہے.کیا یہ ان کے دل کی آواز تھی جن کے دل تو بہ کے باوجود یہ دیکھ رہے تھے کہ ان کی گردن زدنی کا حکم دیدیا گیا ہے.قرآن کریم پر کتنا ظالمانہ الزام ہے؟ قرآن کریم کے منشاء سے کیسا واضح اور کھلا کھلا انحراف ہے؟ اور پھر کہتے ہیں کہ ہم قرآن کریم سے قتل مرتد کے جواز میں دلائل لے کر آ رہے ہیں اور جس میں ذراسی
34 بھی عقل ہوگی وہ بھی اس چکر میں سے نکل کر باہر نہیں جاسکتا.الٹ کہنا چاہئے تھا.کہنا یہ چاہئے تھا کہ جس میں ذرا بھی عقل ہو گی وہ اس پھندے میں پڑ نہیں سکتا.کیونکہ قرآن کریم کی یہ آیات کسی طرح بھی اجازت نہیں دیتیں کہ ان سے قتل مرتد کا جواز نکالا جائے.اگر قرآن کی یہ بات درست ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو چھوڑ کر ساری قوم مرتد ہو گئی تھی تو کس نے کس کو قتل کیا ؟ کیا اشارہ بھی ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں نے مل کر ساری قوم کو قتل کر دیا تھا اور صرف ان کے لیڈر سامری کو چھوڑ دیا تھا؟ اگر ایسا ہوتا تو موسیٰ کی قوم کا نام ونشان مٹ چکا ہوتا.قتل معنوی پھر اس سے اگلی آیت کے معا بعد ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ثُمَّ بَعَثْكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرة : ۵۷) کہ پھر ہم نے تمہارے مرنے کے بعد دوبارہ تمہیں زندہ کر دیا تا کہ تم شکر کرو.گویا اس موت کی وضاحت کر دی جس کو اپنے نفسوں پر وارد کرنے کا حکم انہیں دیا گیا تھا، اور بتا دیا کہ وہ لوگ مادی لحاظ سے نہیں مارے گئے تھے.قتل نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے اپنے لئے اپنے نفس پر ایک موت وار د کر لی تھی.اور اسی کا حکم تھا.اور جب انسان اپنے نفس پر خدا کی خاطر موت وارد کرتا ہے تو اس کی زندگی خدا کے ذمہ ہو جاتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ”اب“ کا مضمون بھی بیان فرما دیا کہ کس طرح اس نے ان کی توبہ قبول فرمائی.انہوں نے اپنے نفسوں کو مارا، خدا نے ان کو نئی زندگی عطا کر دی.جس پر وہ شکر کرتے تھے کہ ہم مردہ قوم تھے.کس طرح خدا نے ہمیں روحانی طور پر زندہ کر دیا.واقعتا ہم پر شکر واجب ہو جاتا ہے.
35 قدیم مفسرین کی آراء اس ضمن میں اور بھی قرآن کریم کی آیات اور دلائل ہیں مگر چونکہ آجکل کے علماء قرآن سے بہت زیادہ قرون وسطی کے فقہاء اور علماء کے فتووں کے قائل ہیں اس لئے میں باقی آیات کے بیان کو چھوڑتا ہوں اور چند تفاسیر کے فیصلے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.(۱) تفسیر روح البیان میں لکھا ہے: فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ بِقَمْعِ الْهَوى، لِاَنَّ الْهَوَى هُوَ حَيَاةُ النَّفْسِ، وَارْجِعُوا بِالْاِسْتِنْصَارِ عَلَى قَتْلِ النَّفْسِ بِنَهْيِهَا عَنْ هَوَاهَا فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ بِنَصْرِ اللَّهِ وَ عَوْنِهِ...﴿ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ ، يَعْنِي: قَتْلُ النَّفْسِ بِسَيْفِ الصِّدْقِ خَيْرٌ لَّكُمْ، لَانَّ بِكُلِّ قَتْلَةٍ رِفْعَةً وَ دَرَجَةً لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ، فَأَنْتُمْ تَتَقَرَّبُونَ إِلَى اللَّهِ بِقَتْلِ النَّفْسِ وَ قَمُعِ الْهَوَى، وَهُوَ يَتَقَرَّبُ إِلَيْكُمُ بِالتَّوْفِيقِ لِلتَّوْبَةِ وَالرَّحْمَةِ عَلَيْكُمْ.....وَ ذَلِكَ قَوْلُهُ: ﴿فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَابُ الرَّحِيمُ (شيخ اسماعيل حقى البروسى تفسير روح البيان.سورة البقرة آيت: و اذ قال موسى لقومه يقوم انكم ظلمتم انفسكم باتخاذكم العجل......الخ) کہ جب قرآن فرماتا ہے کہ اپنے نفسوں کو قتل کرو تو مراد ہے کہ اپنی ہوا و ہوس کو قتل کرو.گندی تمناؤں کو کچلو.کیونکہ ہوا و ہوس ہی نفس کی جان ہیں.یہ
36 بات تمہارے رب کے نزدیک تمہارے حق میں بہتر ہے.کیونکہ جتنی بار تم نفس امارہ کو کچلو گے اتنا ہی تم خدا کے حضور رفعت و درجات میں ترقی کرو گے اور وہ بھی تمہیں مزید نیکیوں کی توفیق دے کر رحمت کا سلوک فرماتے ہوئے تمہارے قریب ہوتا جائے گا.” فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَابُ الرَّحِيمُ “ کا یہ مطلب ہے.(۲) امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں.وَ قَوْلُهُ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ، قِيلَ: مَعْنَاهُ : لِيَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَقِيلَ: عُنِيَ بِقَتْلِ النَّفْسِ إِمَاتَةُ الشَّهَوَاتِ (المفردات فی غریب القرآن.زیر لفظ ”قتل“ کہ قتل نفس سے بعض لوگوں نے ظاہری قتل مراد لیا ہے لیکن علماء کی طرف سے ایک خیال یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد شہوات نفسانیہ کو ختم کرنا اور کچلتا ہے.اب میں دوسری دلیل کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.علماء کی دوسری دلیل قتل مرتد کے جواز میں دوسری مزعومہ قرآنی دلیل مودودی صاحب اپنے رسالہ میں پیش فرماتے ہیں مگر وہ مولانا عثمانی صاحب کی دلیل کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتے.گویا ان کے نزدیک بھی اس دلیل کی کوئی وقعت نہیں ہے.ورنہ اگر وہ اتنی مضبوط دلیل ہوتی تو وہ اس کی طرف بھی متوجہ ہوتے.انہوں نے ایک اور استدلال سورۃ تو بہ کی درج ذیل آیات سے کیا ہے.
37 فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكُوةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ، وَ اِنْ نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِّنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا ايمةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمُ لَعَلَّهُمُ يَنْتَهُونَ ) (التوبة: ١١-١٣) مودودی صاحب کا استدلال فرماتے ہیں.پھر اگر وہ ( کفر سے) تو بہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں.ہم اپنے احکام ان لوگوں کے لئے واضح طور پر بیان کرتے ہیں جو جاننے والے ہیں.لیکن اگر وہ عہد ( یعنی قبول اسلام کا عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین پر زبان طعن دراز کریں تو پھر کفر کے لیڈروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں.شاید کہ وہ اس طرح باز آجائیں“ (التوبہ:۲) ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں طبع اول.اچھرہ (لاہور.) مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی.۱۹۵۱ء صفحہ ۹) یہاں پہنچ کر وہی آیت جس سے وہ استنباط کرتے ہیں ان کی دلیل کے بیجیے ادھیڑ دیتی ہے کہ یہ اس لئے کہ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ “ شاید وہ باز آ جائیں.اگر قتل ہی ہو گئے تو پھر باز کیسے آئیں گے.اس طرح تو ان کے لئے تو بہ کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.پھر مودودی صاحب کہتے ہیں :
38 ”یہاں عہد شکنی سے مراد کسی طرح بھی سیاسی معاہدات کی خلاف ورزی نہیں لی جاسکتی بلکہ سیاق عبارت صریح طور پر اس کے معنی ”اقرار اسلام سے پھر جانا ، متعین کر دیتا ہے.اور اس کے بعد فَقَاتِلُوا ايمةَ الكُفْرِ کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے کہ تحریک ارتداد کے لیڈروں سے جنگ کی جائے.“ ( ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں، طبع اول.اچھرہ (لا ہور.) مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۰) مودودی استدلال کا تجزیہ اس میں بہت سی باتیں محل نظر ہیں.پہلی بات تو مودودی صاحب کا یہ دعویٰ کہ سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ عہد سے مراد قبول اسلام کا عہد ہے.ان کا یہ دعوی سیاق و سباق سے ہی غلط ثابت ہو جاتا ہے.یہ سورۃ تو بہ کی آیات ہیں اور قرآن کریم سورۃ تو بہ میں یہ مضمون بیان فرما رہا ہے کہ مشرکین جنہوں نے تم سے عہد باندھا تھا وہ عہد کو توڑنے والے ہیں اور ان کے عہد کا کوئی اعتبار نہیں اور ان سے تمہیں جنگ کرنی پڑے گی.چنانچہ اس سورۃ کا آغاز ہی اس آیت سے ہوتا ہے: بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُوْلِةَ إِلَى الَّذِيْنَ عُهَدْتُم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ (سورة التوبة: ١) اس میں مشرکین کے مسلمان ہونے کا کہاں ذکر آیا ہے؟ فرماتا ہے: مشرکین ہیں جن کے ساتھ ہم عہد کی بات کرتے ہیں.مشرکین میں سے جن لوگوں نے اپنے عہد کو تم سے تو ڑا ان کے خلاف ہم تمہیں جنگ پر آمادہ کرتے ہیں.پھر ذرا
39 آگے چل کے فرمایا: كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ إِلَّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ تَأبى قُلُوْبُهُمْ ۚ وَاَكْثَرُهُمْ فَسِقَوْنَ اِشْتَرَوْا بِايْتِ اللهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيْلِهِ ۖ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلَّا وَلَا ذِمَةً وَأُولَيكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ ، فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكُوةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُوْنَ (التوبة: ۸ تا ۱ ۱ ) اس میں بھی کہیں اشارتاً بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں.فرماتا ہے: کیسے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک مشرکین کے عہد کی کوئی وقعت ہوسکتی ہے؟ سوائے ان لوگوں کے کہ جن کے ساتھ تم نے مسجد حرام میں ایک عہد باندھا ہے.یہ مشرکین جب تک اپنے عہد پر قائم رہیں گے تمہارے ذمہ ہے کہ ان کو اپنی تکلیف دہی وایزا دہی سے محفوظ رکھو.ہرگز ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کرو.اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے.كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيكُمْ إِلَّا وَّلَا ذِمَّةً کیسے ان کے عہد کی کوئی اہمیت ہو سکتی ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر غلبہ پالیں تو تمہارے بارہ میں نہ کوئی رشتہ داری ان کو منظور خاطر ہوگی، نہ کسی عہد کی وہ پروا کرنے والے ہوں گے.وہ منہ سے صرف تمہیں راضی کرنے کی باتیں کرتے ہیں جبکہ ان کے دل باغی ہیں اور تم سے متنفر اور دور ہیں.انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے دنیا کا تھوڑا مال لینا منظور کر لیا ہے اور اس کی راہ سے لوگوں کو روکنے
40 والے ہیں.یقیناً ان کے اعمال بہت برے ہیں.کسی مومن کے بارہ میں وہ کسی رشتہ داری کا لحاظ نہیں کرتے اور نہ عہد و پیمان کا.اور وہ حد سے بڑھے ہوئے ہیں.سیاق اس آیت کا یہ ہے.کیا یہ مسلمانوں کی باتیں ہو رہی ہیں؟ حیرت کی بات ہے کہ مودودی صاحب کس طرح یہ کہتے ہیں کہ سیاق و سباق کو دیکھو تو قطعاً ثابت ہو جائے گا کہ قرآن کریم میں جس عہد کا ذکر چلا ہے وہ عہد مسلمانی یعنی عہد بیعت ہے.پھر فرماتا ہے: فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكُوةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ یہ آیت ایک جملہ معترضہ کے طور پر بیچ میں آئی ہے.عہد کے ذکر کو وقتی طور پر چھوڑ کر یہ بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں میں سے جن کے ساتھ تمہارا عہد ہے اگر کوئی اسلام قبول کر لیں تو پھر ان سے تمہیں صرف نظر کرنی چاہئے.ان سے تمہارا جھگڑ اختم ہو جاتا ہے.ان کا معاملہ ہی بدل جاتا ہے.پھر دوبارہ اس عہد کی بات شروع ہوئی جو شروع سے چلی آ رہی ہے کہ : وَاِنْ نَّكَثُوا اَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَيْمَةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمُ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ (التوبة : ١٢) یعنی پھر اگر وہ عہد کو توڑتے ہیں اور تمہارے دین میں طعن کرتے ہیں (صرف عہد توڑنا کافی نہیں.کیسا عظیم کلام ہے.کیسی عظیم رحمت ہے کہ باوجوداس کے کہ مشرک عہد تو ڑ رہے ہیں پھر بھی ان کی سزا کا حکم نہیں آتا.فرماتا ہے کہ اگر
41 ایسے ذلیل ہو جاتے ہیں کہ عہد بھی توڑتے ہیں اور پھر تمہیں تکلیفیں بھی پہنچاتے ہیں.کھلم کھلا بغاوت کرتے ہیں تو ) پھر تم ضرور کفر کے ائمہ سے جنگ کرو.کیونکہ ان کے لئے اس وقت تک کوئی کارروائی جائز نہیں جب تک وہ خود اپنا عہد نہ توڑیں.لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ تا کہ وہ باز آ جائیں.مولانا مودودی اور بعض دوسرے علماء کے نزدیک تو باز آنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مرتد تو بہ کرنے کے باوجود بھی قتل کیا جائے گا.کیونکہ ان علماء کے نزدیک تو مرتد کی توبہ قبول ہی نہیں ہوتی.(ملاحظہ ہو الشهاب لرجم الخاطف المرتاب - صفحہ (۱۸) لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ بتا رہا ہے کہ اس سے قتل مرتد کا استنباط کرنا انتہائی ظلم ہے.کاش یہ علماء اس حرکت سے باز آجائیں کیونکہ بات تو مشرکین کی ہورہی ہے.اسلام قبول کرنے والوں کی بات تو ہو ہی نہیں رہی.اور قرآن کریم کی طرف وہ باتیں منسوب نہ کریں جن کا قرآن کریم سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے.حقیقی ساق وسباق مولوی مودودی صاحب کے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے سیاق وسباق کو دیکھتے ہوئے اب ہم اس کے معاً بعد آنے والی آیت کا ذکر کرتے ہیں.اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کون لوگ مراد ہیں.کیا مرتد کی سزا قتل کا معاملہ زیر بحث ہے یا کچھ اور معاملہ؟ کن سے مقاتلہ کرو.کن سے لڑائی کرو.فرمایا: أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمُ بَدَهُ وَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ اَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ ) (التوبة:١٣)
42 فرمایا: جن لوگوں سے ہم تمہیں لڑنے کا حکم دے رہے ہیں اس لئے کہ تم غالب ہو اور مضبوط ہو اور ان کی گردنیں تمہارے ہاتھوں میں آئی ہوئی ہیں بلکہ وہ اتنے مضبوط اور اتنے قوی ہیں کہ رسول اور آپ کے ساتھیوں کو شہر سے نکالنے پر تلے بیٹھے ہیں.ان کے جرم کیا ہیں؟ یہ نہیں فرمایا: اِرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ وہ اپنی پیٹھوں کے بل پھر گئے اور انہوں نے اسلام سے منہ موڑ کر کفر اختیار کر لیا.ہر گز نہیں.بلکہ فرمایا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمُ : انہوں نے اپنی قسمیں توڑی ہیں اور اپنی شرارتوں اور زیادتیوں میں وہ پہل کر گئے ہیں.پہلے انہوں نے تمہارے خلاف تلوار اٹھائی ہے.پہلے انہوں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے.66 تُقَاتِلُونَ ہے نہ کہ تَقْتُلُونَ آلَا تُقَاتِلُونَ “ کا صیغہ خود ہی بتا رہا ہے کہ کسی تلوار اٹھانے والے سے مقابلہ کا حکم ہے کیونکہ تُقَاتِلُونَ" مفاعلہ کا صیغہ ہے.اگر صرف قتل کرنا مراد ہوتی تو اَلَا تُقَاتِلُونَ “ کی بجائے اَلَا تَقْتُلُونَ کہنا چاہئے تھا.کوئی شخص جسے معمولی سی بھی عربی کا فہم ہو وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ قرآن کریم نے الا تَقْتُلُون “ نہیں فرمایا بلکہ آلَا تُقَاتِلُونَ فرمایا.اور وَهُمْ بَدَهُ وَكُمُ اَوَّلَ مَرَّةٍ“ نے اس بات کی خوب وضاحت کر دی کہ وہ لوگ جو پہلے تمہارے خلاف تلوار اٹھا چکے ہیں، باغی ہیں، عہدہ شکن ہیں.سازشی ہیں.محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے سے نکالنے کی سازشیں کر رہے ہیں.چونکہ ان کے عہد کی کوئی بھی حیثیت باقی نہیں رہی اور وہ ان سب جرائم ،،
43 کے مرتکب ہو چکے ہیں.اس لئے ان سے لڑو جو تم سے لڑنے میں پہل کر چکے ہیں.یہ ہے مولانا مودودی کی قتل مرتد کی دلیل کا قرآنی سیاق و سباق اور یہ بھی شبیر عثمانی صاحب کی دلیل کی طرح ان کی اکلوتی قرآنی دلیل ہے.اس کے سوا ان کو سارے قرآن میں اور کوئی دلیل نہیں ملی.علماء کی تیسری دلیل اب میں وفاقی شرعی عدالت پاکستان میں پیش کی جانے والی بعض ان مزعومه قرآنی آیات کا ذکر کرتا ہوں جن سے عدالت کی کارروائی کے دوران علماء کی طرف سے قتل مرتد کا استدلال کیا گیا ہے.إِنَّمَا جَزَوا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمُ (المائدة: ۳۳) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یعنی یقیناً وہ لوگ جنہوں نے تم سے محاربہ کیا ہے اور زمین میں وہ فساد پھیلانے میں تیزی سے سعی کر رہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں کہ زمین کا امن اٹھ جائے ، ان کے لئے یہ سزا ہے کہ یا تو وہ قتل کئے جائیں یا وہ سولی چڑھائے جائیں یا مخالف سمتوں سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں یا ان کو دیس نکالا دے دیا جائے.یہ ان کے لئے دنیا میں بطور رسوائی کے ہوگا اور آخرت میں ان کے لئے عذاب عظیم مقدر ہے.
44 اس آیت میں کسی ایک لفظ کا ترجمہ بھی ارتدار نہیں کیا جاسکتا.اشار تایا کنایتاً بھی ارتداد کا مضمون یہاں کہیں بیان نہیں ہوا.اور محاربہ کو کھینچ تان کر ارتداد قرار دینا قرآن سے بھی اور عربی زبان سے بھی ظلم سے مترادف ہے.تعجب ہے کہ علماء کہلاتے ہوئے بھی یہ کس طرح ایسی باتوں کی جرات کرتے ہیں؟ بر صغیر کے ایک عظیم مفسر کی رائے چنانچہ آجکل کے علماء میں سے ایک مفتی اور عالم کہ جن کا بہت بڑا اثر ہندوستان میں ہے اور بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں یعنی مولانا مفتی محمد شفیع صاحب وہ فرماتے ہیں.یہاں پہلی بات قابل غور یہ ہے کہ اللہ و رسول کے ساتھ محاربہ اور زمین میں فساد کا کیا مطلب ہے؟ اور کون لوگ اس کے مصداق ہیں؟ لفظ ” محاربہ حرب سے ماخوذ ہے اور اس کے اصلی معنی سلب کرنے اور چھین لینے کے ہیں اور محاورات میں یہ لفظ ”سلم“ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جس کے معنی امن اور سلامتی کے ہیں.تو معلوم ہوا کہ حرب کا مفہوم بدامنی پھیلانا ہے اور ظاہر ہے کہ اکا دُکا چوری یا قتل و غارت گری سے امن عامہ سلب نہیں ہوتا“ یہ نہایت ہی معقول دلیل پیش کر رہے ہیں کیونکہ یہ خطرہ تھا کہ فقہاء اس سے یہ نتیجہ نکالیں گے کہ ہر شخص جو کبھی ڈاکہ ڈالے یا ہر شخص جو کبھی چوری کرے اس کے لئے قرآن ایسی سخت سزائیں تجویز کرتا ہے کہ اگر اس کے جرم میں شدت ہو تو بے شک اسے اذیت ناک سزائیں دو جو عام سزاؤں سے ہٹ کر ہوں.فرماتے ہیں:.
45 بلکہ یہ صورت جبھی ہوتی ہے جبکہ کوئی طاقتور جماعت راہزنی اور قتل وغارت گری پر کھڑی ہو جائے.اس لئے حضرات فقہاء نے ( یعنی مفتی صاحب اس ذکر میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ اس میں تنہا نہیں بلکہ ان کے ساتھ فقہاء کی ایک جماعت ہے جس نے) اس سزا کا مستحق صرف اس جماعت یا فرد کو قرار دیا ہے جو مسلح ہو کر عوام پر ڈا کے ڈالے اور حکومت کے قانون کو قوت کے ساتھ توڑنا چاہے.جس کو دوسرے لفظوں میں ڈا کو یا باغی کہا جاسکتا ہے.عام انفرادی جرائم کرنے والے چور، گرہ کٹ وغیرہ اس میں داخل نہیں ہیں.“ وو دوسری بات یہاں یہ قابل غور ہے کہ اس آیت میں محاربہ کو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے حالانکہ ڈاکو یا بغاوت کرنے والے جو مقابلہ یا محاربہ کرتے ہیں وہ انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے.وجہ یہ ہے کہ کوئی طاقتور جماعت جب طاقت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کو توڑنا چاہے تو اگر چہ ظاہر میں اس کا مقابلہ عوام اور انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن درحقیقت اسکی جنگ حکومت کے ساتھ ہے اور اسلامی حکومت میں جب قانون اللہ اور رسول ﷺ کا نافذ ہو تو یہ محاربہ بھی اللہ و رسول ہی کے مقابلہ میں کہا جائیگا.( مفتی محمد شفیع سابق مفتی اعظم پاکستان - تفسیر معارف القرآن.کراچی.ادارۃ المعارف.جلد سوم.سورۃ المائدہ: ۱۲۰،۱۱۹)
46 پاکستانی شرعی عدالت کے جج کی رائے پاکستان کی مشہور و معروف وفاقی شرعی عدالت کے جسٹس پیر محمد کرم شاہ صاحب اپنی کتاب ”ضیاء القرآن“ میں اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مملکت اسلامیہ کے گوشہ گوشہ میں امن قائم کرنے ، راستوں کو محفوظ بنانے اور فتنہ و فساد کی جڑ کاٹنے کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم نے دیا ہے.جو اس حکم کی خلاف ورزی کر کے قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کرتا ہے وہ گویا اللہ اور اس کے رسول کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہا ہے، اس لئے قرآن کریم نے مملکت اسلامیہ کے کسی باشندے پر ، خواہ وہ مسلمان ہو یا زمی، دست درازی کرنے کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنے سے تعبیر کیا ہے“.پھر فرماتے ہیں: واؤ تفسیر یہ ہے.پہلے جملہ میں جس محاربہ کا ذکر ہے اس کی وضاحت فرما دی.محاربین جن کی سزائیں یہاں بیان کی گئی ہیں وہ کون ہیں؟ ان کے متعلق فقہاء کرام نے کہا کہ جن میں یہ تین شرطیں پائی جائیں وہ محارب ہیں: ا.وہ بندوق، تلوار، نیزہ وغیرہ ہتھیاروں سے مسلح ہوں.۲.آبادی سے باہر راستہ یا صحراء میں وہ راہزنی اور ڈاکے کا ارتکاب کریں.لیکن امام شافعی ، اوزاعی اور لیٹ رحمہم اللہ تعالی کے نزدیک شہر میں ڈاکہ ڈالنے والے بھی محارب کہلائیں گے اور انہی سزاؤں کے مستحق ہوں گے.
47 ۳.وہ چھپ کر نہیں بلکہ بر ملاحملہ آور ہو کر لوٹ مارکریں“ ( تفسیر ضیاء القرآن از پیرمحمد کرم شاہ.لاہور.ضیاء القرآن پبلیکیشنز، جلد اول.سورة المائدة - صفحہ ۴۶۴ یہ ہے ان کے علماء کی اپنی تشریح جو عین عربی قواعد اور قرآنی محاورہ اور سیاق وسباق کے مطابق ہے.اس آیت سے قتل مرتد کا استنباط کرنا ایک ایسے آدمی کے لئے ناممکن ہے جو سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہو.جب تک کسی کے دماغ میں کوئی خلل نہ پیدا ہو جائے اس وقت تک وہ اس آیت میں خلل پیدا کر ہی نہیں سکتا.علماء کی چوتھی دلیل اب چوتھی دلیل ملاحظہ فرمائیے.یہ بھی شرعی عدالت کی ایک مرغوب دلیل ہے.اسی شرعی عدالت کی جس کے خلاف اس کے ایک بج پیر محمد کرم شاہ صاحب اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں.اس کا حوالہ میں پہلے دے چکا ہوں.یہ دلیل درج ذیل ہے : يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَةَ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَا بِمِ ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (المآئدة: ۵۵) یہ وہی آیت ہے جسکی میں نے اس تقریر کے آغاز میں تلاوت کی تھی.اس سے بھی قتل مرتد کا استنباط کرنا کلیتًا بعید از عقل ہے اور اس کی کوئی دور کی بھی یہاں
48 گنجائش موجود نہیں.انہوں نے جو استدلال کیا ہے اس کی بنیاد انہوں نے آیت کے درج ذیل تین ٹکڑوں پر رکھی ہے.(۱): فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَة (۲): اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكُفِرِينَ (۳): يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَآبِ وہ کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ جو کوئی مرتد ہو جائے گا اس مرتد سے لڑنے کے لئے اللہ ایک قوم لے آئیگا جس سے اللہ محبت کریگا اور وہ قوم اللہ سے محبت کرے گی.وہ ان مرتدین سے جہاد کریں گے اور ان کو تلوار سے قتل کر دیں گے کیونکہ وہ مومنوں کے لئے تو بہت ہی نرم ہوں گے اور کافروں کے لئے بہت سخت ہوں گے.گویا ان کے نزدیک فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ میں ایک بعد میں آنے والی قوم کا ذکر ہے.اگر مرتد کی سزا قتل ہوتی تو کیا نعوذ بالله من ذالك آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ان غلاموں میں جن میں اس ارتداد کی خبر دی جا رہی ہے، کوئی اللہ سے محبت کرنے والا ایسا نہیں تھا جس سے اللہ بھی محبت کرتا تھا؟ کوئی ایسا نہیں تھا جو دین کے لئے ایسی غیرت رکھتا ہو اور خدا کے لئے ایسی اطاعت کا جذبہ اپنے اندر پاتا ہو کہ ان مرتد ہونے والوں سے لڑائی کی ہمت کر سکے؟ کیسی ظالمانہ دلیل دی جا رہی ہے اور نہایت شدید حملہ کیا جا رہا ہے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں کے ایمان پر! گویا اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اگر تم میں سے اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور تمہارے غلاموں میں سے جن کی تربیت تو نے خود کی ہے، جنکا تزکیہ تو نے کیا ہے، کوئی مرتد ہو جائے گا تو تم نے کچھ نہیں کرنا، فکر نہ کرنا، ہم کوئی ایسی قوم
49 لے آئیں گے جو خدا سے محبت کرنے والی ہوگی اور خدا ان سے محبت کریگا.ان کی یہ صفات ہوں گی کہ وہ مومنوں کے لئے تو بڑے نرم دل ہوں گے اور کافروں کے لئے سخت ہوں گے اور تلوار کے زور سے انہیں غارت کریں گے.66 يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ “ کا یہ ترجمہ بھی کر لیا گیا حالانکہ جہاد کے تو بڑے وسیع معانی ہیں.جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: ۵۳) بھی تو قرآن میں آیا ہے جو قرآن ہی کے متعلق ہے اور یہاں جہاد بالسیف کا اشارتا بھی کوئی ذکر نہیں.اگر اس استدلال کو منظور کر لیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی شدید گستاخی ہے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آپ کے صحابہ میں سے تو کوئی لڑنے والا ، دین کی غیرت رکھنے والا نہیں تھا جو اللہ تعالی کے فضل سے عطا ہوتی ہے اور گویا اللہ نے کہا کہ میں ایسے متقی لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھیج دوں گا.وہ آپ ہی ان سے نپٹتے پھریں گے.تمہیں پروا کی کوئی ضرورت نہیں.ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسکو چاہے دیتا ہے.(المآئدة: ۵۵) اس سیاق وسباق میں تو یہ مطلب بنے گا کہ تمہیں تو یہ فضل نہیں ملا ہتم فکر نہ کرو اور لوگوں کو مل جائے گا یعنی دشمنوں سے لڑنے کی توفیق.وہ بھول گئے کہ یہی ”عزیز “ کا لفظ بڑی شان کے ساتھ قرآن کریم اس سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استعمال فرما چکا ہے.اور آذِلَّة“
50 سے بڑھ کر مومنوں سے محبت کا لفظ بھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استعمال فرما چکا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے: لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبة: ۱۳۸) کہ تم جو تکلیف اٹھاتے ہو وہ اس رسول پر بہت شاق گزرتی ہے جن کی طرف سے تکلیف پہنچتی ہے ان کے خلاف اس کے دل میں شدید جذبات پیدا ہوتے ہیں.پھر فرمایا بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ.اَذِلَّةٌ کا لفظ اس کے مقابل پر تو کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا.فرمایا: مومنوں کے لئے یہ رؤف ہے اور رحیم ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی دوصفات ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں اس شان سے جلوہ گر ہوئی ہیں کہ آپ کو قرآن کریم رَءُوفٌ رَّحِیم قرار دے رہا ہے.اس عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ کے مصداق اور اس رَءُوفٌ رَّحِیم کے ہوتے ہوئے کیوں اللہ تعالیٰ نے قتل مرتد کا حکم نہیں دیا ؟ کیوں یہ وعدہ فرما کے ٹال دیا کہ کوئی بات نہیں میں آئندہ ایک قوم بھیج دوں گا جو تمہارے لئے یہ کام کر دے گی؟ جہاں تک میں نے تلاش کیا ہے مجھے ان چار دلائل کے سوا جنہیں مزعومہ طور پر قرآن کریم کی نصوص صریحہ کے طور پر قتل مرتد کے عقیدہ کے حق میں پیش کیا جاتا ہے اور کوئی آیت علماء کی طرف سے پیش کردہ نہیں ملی.اگر کسی کے علم میں ہو تو مجھے بھجوائے.انشاء اللہ اس کا بھی جواب دے دیا جائے گا.
51 مرتدین کے بارہ میں قرآن کا موقف اب اس کے مقابل پر میں وہ آیات قرآنیہ پیش کرتا ہوں جن میں ارتداد کا واضح ذکر موجود ہے مگر ارتداد کی سزا قتل کا قطعا کوئی ذکر موجود نہیں بلکہ اس کے برعکس کھلا کھلا مضمون ہے اور اس مضمون پر اتنی واضح آیات ہیں کہ ان کے بعد نظریہ قتل مرتد کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.پہلی آیت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَكَذِبُونَ اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ، ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ أَمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوا فَطِيعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أجْسَامُهُمُ وَ إِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبُ مُسَنَدَةٌ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قْتَلَهُمُ اللهُ الى يُؤْفَكُونَ ، وَإِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَسُولُ اللهِ لَقَوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ ) (المتفقون : ۲ تا ۶) کہ اے محمد ! جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ یقینا تو اللہ کا رسول ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ تُو اس کا رسول
52 ہے کیونکہ اسی نے تجھے بھیجا ہے.اس سے بہتر کون تجھے جان سکتا ہے؟ اس کے باوجود اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں.بات بظاہر کچی کر رہے ہیں لیکن بول جھوٹ رہے ہیں.کیونکہ ان کے دل میں وہ بات نہیں جسکا وہ منہ سے اقرار کر رہے ہیں.اس مضمون پر یہ پہلا واقعہ ہمارے علم میں آیا ہے جس میں اگر چہ انسانوں کو دسترس نہیں تھی مگر خدا نے جو دلوں کے راز سے واقف ہے خود گواہی دی کہ بعض لوگ منہ سے اقرار کرنے والے ہیں.لیکن ہم گواہی دے رہے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور وہ مرتد ہو چکے ہیں.ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں رہا.پھر فرمایا ! انہوں نے اپنے عہدوں یا اپنے ایمان کو ( دونوں معنی ہو سکتے ہیں) اپنے لئے جُنَّة (ڈھال) بنالیا ہے اور پھر اللہ کے راستہ سے لوگوں کو روک رہے ہیں.بہت ہی برا کرتے ہیں جو یہ کرتے ہیں.اس لئے یہ گندے سے گندے ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ وہ ایک دفعہ ایمان لائے تھے پھر اس کے بعد انہوں نے انکار کر دیا یعنی کھلے کھلے مرتد ہو چکے ہیں.اب اللہ نے ان کے دلوں پر مہر بھی لگا دی ہے.اب کبھی ایمان لا ہی نہیں سکتے.ایسے پکے مرتد ہو چکے ہیں کہ ان کے دلوں کے لئے تو بہ کے سارے دروازے بند ہو چکے ہیں.اور ان کو ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے.رسول اللہ اور صحابہ مرتدین کو جانتے تھے وہ لوگ کون تھے؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں کو ان کی معین طور پر خبر تھی کہ نہیں ؟ اگر خبر تھی تو اس قطعی اور پکی گواہی کے باوجود کہ نہ صرف
53 وہ مرتد ہو چکے ہیں بلکہ تو بہ کا بھی کوئی امکان نہیں رہا ان کو قتل کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا گیا آیا ان میں سے کسی ایک کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کیوں نہ کروایا ؟ ان کی تعیین و تشخیص کے متعلق قرآن ساتھ ہی آگے فرماتا ہے کہ وہ معین لوگ ہیں جن کا تمہیں علم ہے اور اس علم کے باوجود : ” جب تم ان کو بلاتے ہو کہ تو بہ کریں تو اللہ کا رسول بھی ان کے لئے بخشش طلب کرے گا یہ نہیں فرمایا کہ تو بہ کرتے ہی اللہ کا رسول ان کو قتل کر دے گا کیونکہ خدا نے مرتد کی سزا یہی رکھی ہے کہ تو بہ کے باوجود قتل ہوگا.نہیں بلکہ فرمایا: باز آ جاؤ، استغفار کرو، تو بہ کرو.اگر تو بہ کرو گے تو خدا کا رسول بھی تمہارے لئے بخشش طلب کرے گا.اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے؟) تو وہ تحقیر اور طعن و تشنیع کے طور پر سر مٹکاتے ہیں اور تو دیکھے گا کہ وہ رکتے ہیں اور دوسروں کو بھی خدا کی راہ سے روکتے ہیں.مسلسل ایسا کرتے چلے جا رہے ہیں اور وہ بڑے سخت تکبر کرنے والے لوگ ہیں“ اب بتائیے کہ ان آیات کے بعد کہ جن میں خدا تعالیٰ نے جو دلوں کا راز جاننے والا ہے کسی کے کفر کی گواہی دی اور ان کے متعلق آگاہ فرما دیا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ان کو پہچاننے لگے اور ان کو معین طور پر تو بہ کی دعوت دینے لگے اس کے باوجود بھی انہوں نے خدا کے رستہ سے روکا اور تکبر کیا اور اپنے جرم پر اصرار کیا اس کے باوجود خدا تعالیٰ ان کے قتل کا حکم نہیں دیتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی ایک کو بھی قتل نہیں کرواتے.
54 رسولِ خدا کا رئیس المرتدین سے حسن سلوک ایک عجیب واقعہ قرآن کریم میں ملتا ہے کہ رئیس المنافقین جس کا نام لے کر خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا چکا تھا کہ یہ منافق ہے اور آپ کے دل کی رحمت پر نظر کرتے ہوئے جانتا تھا کہ آپ اسکی بخشش کے لئے کوشش کریں گے آپ کو حکما روکا کہ اسکی نماز جنازہ نہیں پڑھنی وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ ( التوبة: (۸۴) وہ منافق زندہ چلتا پھرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مسلسل گستاخیاں کرتا چلا جاتا ہے اتنی شدید گستاخی کہ قرآن فرماتا ہے کہ اس نے ایک موقع پر کہا کہ : يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (المنافقون: ٩) کہ جب ہم مدینے لوٹیں گے تو سب سے معزز انسان ( جو اپنے زعم میں خود عبداللہ بن ابی بن سلول تھا) (نعوذ بالله من ذالك) سب سے ذلیل انسان کو ( یعنی حضرت محمد رسول اللہ کو) مدینہ سے نکال دے گا.یہاں خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لیا.اس میں حکمت یہ تھی کہ صحابہ اس آیت کو الٹا بھی سکتے تھے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک صحابی نے اس واقعہ کا ذکر کیا تو کہا: یا رسول اللہ ! وہ بیچ ہی تو کہتا ہے کہ دنیا کا سب سے معزز انسان یعنی آپ دنیا کے سب سے ذلیل انسان
55 یعنی اس منافقین کے سردار کو مدینہ سے نکال دے گا.بد بخت منافقوں کا سردار اس انتہائی گستاخی کے باوجود زندہ رکھا گیا.وہ مسلسل مدینے کی جگہوں میں دندناتا پھرتا رہا اور لوگوں کو مرتد کرنے کی کوشش کرتا رہا.اپنی ایک پارٹی بنائی.عین جنگ کے دوران دھوکہ دے کر وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے رہے.ہر قسم کی ظالمانہ کارروائیاں کیں.ہر قسم کی گستاخیاں کیں.اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے ساتھ یہ سلوک تھا کہ خدا نے اس دل پر نظر رکھ کر متنبہ فرمایا کہ اے محمد ! ( ع ) تو نے اسکی نماز جنازہ نہیں پڑھنی.تو نے اس کے لئے استغفار نہیں کرنا.اگر تو اس کے لئے ستر بار بھی استغفار کرے گا تو تب بھی میں اس کو نہیں بخشوں گا.(التوبۃ: ۸۰ تا ۸۵) نبی رحمت کا پاس کرو اس سے بڑا ، اس سے واضح ، اس سے زیادہ یقینی مرتد لا کے تو دکھاؤ.اور اس سے زیادہ عظیم الشان سلوک تو دکھاؤ جو کسی نے کسی مرتد کے ساتھ کیا ہو.اب تم ان دعووں کی جرات کرتے ہو اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان کردار کو قرآن کے بیان کے منافی اور مخالف داغدار کرنے کی کوشش کرتے ہو.شرم سے تمہیں موت کیوں نہیں آ جاتی کہ دنیا کے سب سے زیادہ رحیم و کریم آقا کے خلاف ایسے گندے الزامات لگاتے ہو اور ساری دنیا میں اس کو اور اس کے دین کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہو.
56 دوسری آیت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ أُمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا أُخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ( آل عمران ۷۳) کتب تفسیر بیان کرتی ہیں کہ یہ آیت نجران کے عیسائیوں کے وفد کی رسول اللہ کے پاس مدینہ میں آمد کے بعد نازل ہوئی.اور وفد نجران کی آمد کا یہ واقعہ رسول اللہ کی زندگی کے آخری سالوں کا ہے جب اسلامی سلطنت قائم ہو چکی تھی.اس سے معلوم ہوا کہ اس واقعہ کے وقت تک نظر یہ قتل مرتد کا کوئی وجود نہ تھا.ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اہل کتاب اپنے بھائیوں کو یہ مشورہ دیتے کہ صبح کے وقت قرآن پر ایمان لے آئیں اور شام کو مرتد ہو جائیں.(ملاحظہ ہو.السيرة النبوية لابن هشام قدوم وفد نصاری (نجران اور وہ بھی اس وقت جبکہ اسلامی حکومت خوب مستحکم ہو چکی تھی اور اہل کتاب مغلوب اور محکوم ہو گئے تھے.ایسی صورتحال میں یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ لوگ اپنے ساتھیوں کو ایسا مشورہ دیتے حالانکہ انہیں علم تھا کہ ارتداد کی سزا قتل ہے؟ اگر قتل مرتد کے قائل لوگوں کا موقف درست مانا جائے تو ایسی صورت میں ایسا مشورہ دینے والوں کو ان کے ساتھی جواب دیتے : تمہارے دماغ خراب ہیں کہ ایسا مشورہ دیتے ہو؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ اگر ہم صبح ایمان لا کر شام کو ارتداد اختیار کر جائیں تو محمد ملے اور اس کے ساتھی فوراًہماری گردن اڑا دیں گے؟ مگر قرآن نے ان کا ایسا کوئی جواب ذکر نہیں کیا جس سے ثابت ہوا کہ ان
57 کے صبح کے وقت ایمان لا کر شام کو مرتد ہونے میں ان کے لئے کوئی خطرہ نہ تھا.تیسری آیت پھر فرماتا ہے: كَيْفَ يَهْدِى اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوا أَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَتُ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ b الظَّلِمِينَ ) أُولَيكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَيْكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لا خَلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَاَصْلَحُوا " فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (ال عمران: ۸۷ تا ۹۰) یہاں قتل مرتد کے مضمون کو مکمل طور پر بیان فرما دیا.فرمایا: کس طرح اللہ ہدایت دے ایسی قوم کو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا ؟ ( یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کس طرح خدا زندہ رہنے کی اجازت دے؟ کس طرح انہیں چلتا پھرتا باقی چھوڑے؟ صرف ہدایت کا مضمون چھیڑا ہے.پھر فرمایا) اور انہوں نے انکار کیا بعد اس کے کہ انہوں نے گواہی دی کہ یہ رسول سچا ہے.اور زبانی قرار ہی نہیں کیا تھا بلکہ کھلے کھلے نشانات دیکھنے کے بعد انکار کیا.اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا.(لیکن آج کل کے علماء تلوار کے زور سے ہدایت دینے کا ملکہ رکھتے ہیں) مذکورہ مرتدوں کی سزا یہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول اور اس کے فرشتے اور سارے کے سارے انسان ان پر لعنت ڈالتے ہیں ( یہ نہیں فرمایا کہ ایسے لوگوں کو قتل
58 کرتے ہیں) وہ اسی ذلیل حالت میں رہیں گے.نہ ان کا عذاب کم کیا جائے گا اور نہ وہ مہلت دیئے جائیں گے.ہاں وہ لوگ جو خود تو بہ کر لیں اور پھر اصلاح کرلیں تو وہ اللہ کو ظالم اور منتقم نہیں پائیں گے.بلکہ بہت ہی زیادہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا پائیں گے.چوتھی آیت فرمایا: اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَيكَ هُمُ القَاتُوْنَ o اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَا تُوْا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُولَكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ تصِرِينَ (ال عمران : ۹۱-۹۲) یقیناً وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے.پھر وہ کفر میں ترقی کرتے چلے گئے.(اگر وہ فورا قتل کر دئے گئے تھے تو انہوں نے کفر میں ترقی کیسے کر لی تھی ؟ ) ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی.یہ بہت بڑے گمراہ لوگ ہیں“ ٹیڑھا استدلال میں نے سنا ہے کہ بعض علماء نے آیت لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُم “ سے بھی قتل مرتد کا استنباط کیا ہے کہ دیکھو ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور وقتل کئے جائیں گے.مگر اگلی آیت اس کا کلیتا روفرما رہی ہے.فرمایا: اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَا تُوا وَهُمْ كُفَّارُ
59 کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور پھر کفر پر ہی مر گئے.( یہ نہیں فرمایا قُتِلُوا وَهُمُ كُفَّار کہ پھر وہ قتل کر دئے گئے اس حالت میں کہ وہ کافر تھے بلکہ فرمایا پھر وہ طبعی موت مر گئے اور وہ کفار ہی تھے.فرمایا) فَلَنْ تُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِّلُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِه اس محاورہ نے اس مضمون کو کھول دیا ہے کیونکہ یہاں اس دنیا میں بندوں کا ان سے تو بہ قبول کرنے کا بھی کوئی ذکر نہیں اور ایسے لوگ چونکہ کفر کی حالت میں جان دے رہے ہیں اس لئے قیامت کے روز بھی کوئی سودا بازی نہیں ہو سکتی اور اس دن زمین کے برابر سونا یا دیگر اشیاء بھی ان سے قبول نہیں کی جائیں گی.اور ایسے لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں.پانچویں آیت فرمایا.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَسِرِينَ) (ال عمران:۱۵۰) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم ان لوگوں کی پیروی کرو گے جنہوں نے کفر کیا تو وہ تمہیں تمہاری ایڑھیوں کے بل پھر ا دیں گے یعنی تمہیں تمہارے دین سے ہٹا کر پھر کفر میں دھکیل دیں گے.پھر تم گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جاؤ گے.یہاں یہ نہیں فرمایا فَتَنْقَلِبُوا مَقْتُولِینَ“ کہ اگر تم نے ارتداد اختیار کیا تو تم قتل کر دئے جاؤ گے.اگر ارتداد کی سزا قتل تھی تو یہاں اسکا ذکر ہونا چاہئے تھا.
60 چھٹی آیت فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ امَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيْلاة بَشِّرِ الْمُنْفِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (النساء : ۱۳۸- ۱۳۹) کہ یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور پھر کا فر ہو گئے ، پھر ایمان لائے ، پھر کافر ہو گئے ، پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے ، اللہ کی سنت کے خلاف ہے کہ ایسے لوگوں کی مغفرت فرمائے اور ایسے لوگوں کو ہدایت دے.پس ایسے منافقین کو تم عذاب الیم کی خوشخبری دے دو.یہاں بھی ان لوگوں کے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرنے اور پھر ایمان لانے اور پھر کفر کرنے اور پھر کفر میں بڑھ جانے کا ذکر ہے، مگر ایسے لوگوں کے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ اے نبی ! خدا کے ہاں ملنے والے عذاب الیم کی خوشخبری ان کو دے دو.ساتویں آیت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةَ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَا بِهِ ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ه (المآئدة: ۵۵)
61 دیکھیں یہ آیت بھی مرتد کی سزا قتل نہیں مقرر کرتی بلکہ صرف اتنا کہتی ہے کہ ایسے مرتدین کی جگہ اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جن سے خدا محبت کرے گا اور وہ بھی خدا سے محبت کرنے والے ہوں گے.آٹھویں آیت فرمایا: وَمَنْ يَّرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَمَتْ وَ هُوَ كَافِرُ فَأُولَيكَ حَبِطَتْ ج أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ ۚ وَأُولَيكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ (البقرة : ۲۱۸) یہ آیت بھی صرف یہی ذکر کرتی ہے کہ مرتدین کے اعمال دنیا و آخرت میں اکارت جائیں گے اور قیامت کے دن انہیں آگ کا عذاب دیا جائے گا مگر اس آیت میں قطعاً کوئی ذکر نہیں کہ لوگوں کے ہاتھوں مرتدین کو دنیا میں بھی عذاب ملے گا.اس موضوع پر اور بھی آیات ہیں جن میں ارتداد کا ذکر ہے اور کسی آیت میں بھی نہ صرف یہ کہ قتل کا کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ قتل کے بالکل منافی مضمون واضح نظر آتا ہے.
62 نظر یہ قتل مرتد.....احادیث کی روشنی میں اب میں حدیثوں کی طرف آتا ہوں.جب علماء کو قرآن کریم میں سے اپنی مرضی کا کوئی مضمون نظر نہ آئے تو پھر وہ حدیثوں کی طرف رجوع کرتے ہیں.اور یہ بات اس لحاظ سے ضرور جائز ہے کہ اگر قرآن میں کوئی مضمون لاعلمی کی وجہ سے ہم اس آیت کو تلاش نہ کر سکیں جس میں کوئی مضمون بیان کیا گیا ہو تو اس بارہ میں حدیث سے مدد لی جا سکتی ہے.مگر حدیث کو قرآن کریم پر حاکم نہیں بنایا جاسکتا.اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر متبدل مسلک تھا.پس فی ذاتہ اس بات پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، مگر جنہوں نے قرآن کے خلاف وہ زیادتیاں کیں جن کا میں ذکر کر چکا ہوں وہ حدیث پر زیادتیاں کرنے سے کب باز آنے والے ہیں.جنہوں نے اللہ کے کلام کا احترام نہیں کیا اور زبردستی اس کی طرف مضمون منسوب کئے ، ان لوگوں سے یہی توقع ہے کہ وہ یہی حرکت حدیث کے ساتھ بھی کریں گے.چنانچہ ایسا ہی کر رہے ہیں.پہلی روایت قائلین قتل مرتد کی اخذ کردہ احادیث ایک حدیث عبداللہ بن ابی سرح کے بارہ میں پیش کی گئی ہے کہ کسی زمانے میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی تھا، مگر شیطان نے اس کو پھسلا دیا.جب فتح مکہ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے.مگر بعد میں حضرت عثمان نے اس کے لئے پناہ مانگی اور رسول اللہ نے پناہ دے دی.( ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں از مودودی.صفحہ ۱۵)
63 یہ ہے حدیث قتل مرتد کے جواز میں.اور ٹیڑھی باتوں کے علاوہ دلیل دینے والوں نے یہ زیادتی اور ظلم کیا ہے کہ اس کا پس منظر آپ سے چھپالیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جونہی اس نے ارتداد کیا ، اسی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیدیا اور پھر انتظار کرتے رہے کہ کب وہ قابو آئے تو اسے قتل کر دیا جائے.ہرگز ایسا کوئی واقعہ نہیں.واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص ان حد سے بڑھے ہوئے مجرموں میں سے ایک تھا جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد عام معافی سے مستفی قرار دیا تھا اور جس طرح عام معافی سے مستقلی قرار دینے کے باوجود ان میں سے بہتوں کو آپ نے رحمت کے ساتھ معاف فرما دیا تھا، اس کو بھی آپ کی بڑھی ہوئی رحمت نے معاف فرما دیا.واقعہ یہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی سرح نہ صرف یہ کہ مرتد ہوا تھا بلکہ شرارت میں بہت بڑھ چکا تھا اور مسلمانوں کے خلاف محاربت میں شامل تھا.جب فتح مکہ ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ان لوگوں میں شامل کر دیا جن کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ ان کو معاف نہیں کیا جائیگا.یہ شخص حضرت عثمان سے پناہ کا ملتجی ہوا اور انہوں نے آپ کو پناہ دلا دی.چنانچہ لکھا ہے: (۱) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : كَانَ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ سَعْدِ ابْنِ أَبِي السَّرْحِ يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ فَازَلَّهُ الشَّيْطَانُ، فَلَحِقَ بِالْكُفَّارِ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللهِ الا الله أَنْ يُقْتَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَاسْتَجَارَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَأَجَارَهُ رَسُولُ اللهِ ال (سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب الحكم فيمن ارتد
64 کہ ابن عباس سے رایت ہے کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی ہوا کرتا تھا مگر شیطان نے اسے پھسلا دیا اور وہ کفار سے جا ملا.فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قتل کئے جانے کا حکم دیا.حضرت عثمان نے آپ سے اس کی معافی کی درخواست کی جسے آپ نے منظور فرماتے ہوئے اسے معاف کر دیا.(۲) اسی طرح سنن النسائی میں ہے.عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللهِ الله النَّاسَ إِلَّا اَرْبَعَ نَفَرٍ وَ امْرَأَتَيْنِ، وَ قَالَ: اقْتُلُوهُمُ وَ إِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِيْنَ بِاَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، عِكْرَمَةُ بْنَ أَبِي جَهْلِ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ وَ مَقِيْسُ بْنُ صُبَابَةَ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ ابْنِ ابي السَّرح (سنن النسائى كتاب تحريم الدم.باب الحكم في المرتد) کہ فتح مکہ کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا سب کو عام معافی دے دی اور فرمایا کہ ان کو قتل کر دو خواہ ان کو کعبہ کے پردوں سے چمٹ کر پناہ مانگتے پاؤ.ان کے نام تھے: عکرمہ بن ابو جہل.عبداللہ بن خطل مقیس بن صبابہ اور عبد اللہ بن ابی سرح.(۳) نیز مروی ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ...عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحِ الَّذِي كَانَ عَلَى مِصْرَ كَانَ يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ لا فَازَلَّهُ الشَّيْطَانُ فَلَحِقَ بِالْكُفَّارِ فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُقْتَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَاسْتَجَارَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ
65 فَأَجَارَهُ رَسُولُ اللهِ الله - (سنن النسائی کتاب تحريم الدم باب توبة المرتد) عبداللہ بن سعد بن ابی سرح جو ( بعد میں) مصر کا گورنر بنا رسول اللہ کے لئے وحی لکھا کرتا تھا.اسے شیطان نے پھسلا دیا اور وہ کفار کے ساتھ جا ملا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے مگر حضرت عثمان نے انہیں پناہ دینے کی سفارش کی تو رسول اللہ نے ان کی درخواست قبول فرما کر اسے پناہ دیدی.یہ ہے اصل واقعہ مگر ان علماء کے استدلال کی رو سے تو یہ صورتحال بنتی ہے کہ گویا حضرت عثمان کو فتح مکہ تک اس مسئلے کا علم ہی نہیں تھا کہ مرتد کی سزا قرآن کریم نے قتل قرار دی ہے.ایسے شخص کو تو پناہ دینا ہی جرم ہے اور قرآن کریم کے شدید منافی.یعنی استنباط کرنے والے اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ حضرت عثمان پر وہ کیسا گھناؤنا الزام لگا رہے ہیں.اس کو پہلے تو خود پناہ دی اور پھر اتنی جرات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسے پیش کیا اور درخواست کی کہ اس کی بیعت لے لیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جواباً یہ نہیں فرمایا کہ عثمان ! یہ تم کیا حرکت کر رہے ہو؟ تمہیں علم نہیں کہ خدا کی حدود کے بارہ میں میں کیسی غیرت رکھتا ہوں؟ تمہیں یاد نہیں کہ جب ایک چوری کرنے والی کی سفارش مجھ سے کی گئی تھی تو میں نے خدا کی قسم کھا کر یہ کہا تھا کہ بخدا! اگر میری بیٹی فاطمہ نے بھی یہ حرکت کی ہوتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا.(ملاحظہ ہو بخاری کتاب الحدود باب اقامة الحدود على الشريف والوضيع) کیونکہ حدوداللہ میں کسی قسم کی رعایت جائز نہیں.تمہاری یہ جرات کہ میرے سامنے
66 اس کی سفارش کر رہے ہو! ان سب باتوں کے باوجود ایک دفعہ بھی حضور نے یہ نہیں فرمایا بلکہ جب عثمان نے معافی کی درخواست کی تو آپ نے منہ پھیر لیا.دوسری دفعہ پھر درخواست کی.پھر خاموش رہے تیسری دفعہ پھر درخواست کی پھر خاموش رہے.اور چوتھی بار جب درخواست ہوئی تو ہاتھ بڑھایا اور رحمۃ للعالمین نے اس کی بیعت قبول فرمائی.(سنن النسائى كتاب تحريم الدم باب الحكم في المرتد) ایک اور واقعہ اس واقعہ کے ساتھ ایک چھوٹا سا واقعہ اور ہوا ہے اسے بھی یہ علماء استنباط کی تائید میں پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت قبول فرمالی تو پھر صحابہ سے شکوہ کیا کہ کیا تمہیں علم نہیں تھا کہ میں نے اس شخص کو ان لوگوں کی فہرست میں داخل کر دیا تھا جن کو میں نے معاف نہیں کیا؟ کیوں کس بات نے تمہیں روکا کہ اٹھتے اور اسے قتل کر دیتے ؟ دو تین بار ایسا ہوا؟ صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ ! آپ آنکھ سے اشارہ فرما دیتے آپ نے فرمایا: یہ رسول کی شان کے خلاف ہے کہ وہ آنکھوں کی خیانت کا مرتکب ہو ، جو بات کرتا ہے صاف کرتا ہے اور کھلی کرتا ہے.یعنی اگر میں نے اس کو مروانا ہوتا تو میں تمہیں کہتا کہ مار دو.میں ہرگز یہ بات نہیں کر رہا.افسوس کہ بعض علماء اس سیدھی بات سے ایک ٹیڑھا استدلال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ”خَائِنَةَ أَعْيُن“ کا مرتکب نہ ہونے کا تو صاف یہ مطلب ہے کہ اس قسم کی حرکتیں میری اخلاقی عظمت کے خلاف ہیں.اگر میں چاہتا کہ اسے مروا دوں تو میں
67 تمہیں صاف کہہ دیتا کہ اٹھو اور اس کو مار دو.میں تو یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا بات تھی جو تمہیں روک رہی تھی کہ میرے ایک فیصلہ کا علم ہونے کے باوجود تم نے اس کے قتل سے اپنے ہاتھ روک لئے.سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کریم کا واضح حکم ہوتا کہ مرتد کی سزا قتل ہے تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدود میں رعایت کرنے والے تھے؟ ہرگز نہیں.ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کے متعلق یہ سوچا نہیں جا سکتا کہ قرآن کی عائد کردہ حدود سے ادنیٰ سا بھی تجاوز فرماتے.زمین و آسمان ٹل جائیں لیکن ایسا ممکن نہیں.دوسری روایت مولانا مودودی صاحب نے اپنی کتاب میں ایک اور حدیث کا بھی ذکر کیا ہے جس سے وہ قتل مرتد کا استنباط کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ : ایک عورت اُتم رومان ( یا اتم مروان) نامی مرتد ہوگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کے سامنے پھر اسلام پیش کیا جائے.پھر وہ تو بہ کر لے تو بہتر ، ورنہ قتل کر دی جائے.( دار قطنی.بیہقی) بیہقی کی دوسری روایت اس سلسلے میں یہ ہے کہ فَابَتْ أَنْ تُسْلِمَ فَقُتِلَتْ اس نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اس بنا پر قتل کر دی گئی.“ ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں صفحہ ۱۷) مگر نیل الاوطار میں امام محمد بن علی الشوکانی ان روایات کے بارہ میں فرماتے ہیں: قَالَ الْحَافِظُ : إِسْنَادُ هُمَا ضَعِيفَان ( نيل الأوطار شرح منتقى الاخبار من احاديث سيد الاخيار.لمحمد بن على الشوكاني مصر.شركة مصطفى البابي الحلبى احكام الردة والاسلام باب قتل المرتد جزء هفتم صفحه ۲۱۸) -
68 یعنی ان دونوں حدیثوں کی سند ضعیف.اسی طرح علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے بھی اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے.چنانچہ لکھا ہے.إِسْنَادُهُمَا ضَعِيفَان“ ( التعليق المغنى على الدار قطنى القاهرة (مصر) دار المحاسن للطباعة ١٩٦٦ء جزء ثالث جلد دوم کتاب الحدود والديات.حديث نمبر ۱۲۲ صفحه: ۱۱۹) یعنی قابل اعتبار نہیں.جب قرآن سے کچھ نہیں ملا.جب صحیح قابل اعتماد حدیثوں سے کچھ نہیں ملا تو قتل کرنے کا ایسا جوش ہے کہ ایک حدیث جس کے متعلق اکثر جید علماء کہہ رہے ہیں کہ یہ ضعیف ہے اور قابل اعتبار نہیں ہے اسکا سہارا ڈھونڈھ کر قتل ضرور کرنا چاہتے ہیں.تیسری روایت ایک اور حدیث مودودی صاحب نے پیش کی ہے کہ : حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا حاکم مقرر کر کے بھیجا.پھر اس کے بعد معاذ بن جبل کو ان کے معاون کی حیثیت سے روانہ کیا.جب معاذ وہاں پہنچے تو انہوں نے اعلان کیا کہ لوگو! میں تمہاری طرف اللہ کے رسول کا فرستادہ ہوں.ابو موسیٰ نے ان کے لئے تکیہ رکھا تا کہ اس سے ٹیک لگا کر بیٹھیں.اتنے میں ایک شخص پیش ہوا جو پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا پھر یہودی ہو گیا تھا معاذ نے کہا: میں ہرگز نہ بیٹھوں گا جب تک یہ شخص قتل نہ کر دیا جائے.اللہ اور اس کے رسول کا یہی
69 فیصلہ ہے.معاذ نے یہ بات تین دفعہ کہی.آخر کار جب وہ قتل کر دیا گیا تو معاذ بیٹھ گئے.ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں.صفحہ ۱۴) یہاں ایک طرف معاذ کہہ رہے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے مگر یہ فیصلہ کب ہوا تھا کیا الفاظ تھے اس کے، اسکا معاذ کوئی ذکر نہیں کرتے.دوسری طرف اللہ کے کسی ایسے فیصلے کا کوئی ذکر قرآن کریم میں موجود نہیں اور نہ ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ کسی حدیث میں مذکور ہے کہ محض ارتداد کے نتیجہ میں کسی کو قتل کر دیا جائے اس لئے معاذ کے اس قول سے یہ استنباط کرنا زیادہ قرین قیاس ہے کہ یہ ان کا اپنا استدلال تھا.اسکی حیثیت ان کی ذاتی رائے کی ہے نہ کہ قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے.پھر اس واقعہ کے ساتھ کوئی تفصیل بیان نہیں ہوئی کہ یہودی کیوں لایا گیا؟ اس نے کیا حرکت کی تھی؟ ہر بات مبہم ہے اور امکانات واحتمالات موجود ہیں.اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ کسی اور شرارت میں پکڑا گیا ہو.اور اس بناء پر وہاں لایا گیا ہو.ہو سکتا ہے اس نے اسلام کے خلاف محاربت کی ہو.چونکہ یہ سارے واقعات مبہم ہیں اس لئے اس مبہم حدیث پر جس میں ایک صحابی کا صرف استنباط ہے بناء کرتے ہوئے اتنے اہم مسئلہ میں قرآن کی واضح آیات کے منافی فیصلہ کرنا ظلم ہے.یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جہاں قرآن کریم کی نص صریح موجود ہو اس کے خلاف بظاہر مستند حدیث بھی مل جائے تو تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اس ظاہری طور پر مستند حدیث کو رد کر دیا جائے جو کھلم کھلا قرآن کریم کی نص صریح سے ٹکراتی ہوئی معلوم ہوتی ہے.اس حدیث کی صرف یہی حیثیت نہیں بلکہ دوسری حدیثیں واضح طور پر اس
70 مضمون کی نفی کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں.جیسا کہ میں نے ایک اور حدیث آپ کے سامنے پیش کی ہے پھر یہ بھی ذکر نہیں کہ اس واقعہ کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کی گئی یا نہیں.اگر کی گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر کیا رد عمل تھا؟ سو قرآن کریم کی آیات ،سنت نبوی، تاریخ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مرتد کی موت تک مسلسل عمل کہ اس کے قتل کا حکم نہیں دیتے یہ سب کچھ ثابت کرتا ہے کہ اتنے واضح دلائل کے مقابل پر اس قسم کے کمزور استدلال کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے اور اتنے بڑے اہم عقیدہ کی اس پر بنیاد نہیں ڈالی جاسکتی.عہد صدیقی اور ارتداد اب خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتا ہوں.اکثر کتا ہیں جو ارتداد کی سزا قتل کے حق میں آپ پڑھیں گے ان میں آپ دیکھیں گے کہ علماء سرسری طور پر قرآن اور حدیث کی بحث کر کے بڑی تیزی کے ساتھ دور ابوبکر میں داخل ہوتے ہیں اور اپنے عقائد کو سہارا دینے کے لئے وہاں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور کہتے ہیں یہ سنت صدیقی ہے.سنت محمدی ان کو بھول جاتی ہے اور سنت صدیقی کی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں.مزعومہ سنت صدیقی کی حقیقت حالانکہ حسنت صدیقی بھی وہ سنت نہیں جو حضرت ابوبکر صدیق کی طرف وہ منسوب کرتے ہیں.بلکہ تاریخ واضح طور پر اس بات کو جھٹلا رہی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے کبھی کسی کو محض ارتداد کے جرم میں قتل کرایا ہو.یا کبھی کسی کو اس کے
71 مسلمان کہلانے کے باوجود، کلمہ پڑھنے کے باوجود، مسلمانوں کے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے باوجود، زکوۃ کا قائل ہونے کے باوجود اور زکوۃ ادا کرنے کے با وجود مرتد قرار دے کر قتل کرایا ہو.بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے مرتدین میں سے صرف ان لوگوں کے خلاف لڑائی کی جنہوں نے ارتداد کے ساتھ ساتھ اسلامی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا.اور آپ کے گورنروں اور عمال کو ان کے علاقوں سے مار بھگا دیا اور مسلمانوں کو شدید تکالیف پہنچا ئیں اور انہیں بُری طرح قتل کیا تھا.آپ نے ان بد بختوں کے خلاف اس لئے جنگ کی کہ ان ظالموں نے ہی جنگ اور ظلم کی ابتدا کی تھی اور بے گناہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنا شروع کر دیا تھا.مرتدین کی بغاوت کے تاریخی شواہد چنانچہ کتب سیرت و تاریخ اس فتنہ ارتداد اور بغاوت کی تفاصیل یوں بیان کرتی ہیں: ا.بغاوت اور ارتداد کا یہ فتنہ آگ کی طرح پھیلا اور چند روز میں عربستان کے اس سرے سے اس سرے تک دوڑ گیا.مرتدوں اور باغیوں نے اسلامی عمال کو نکال دیا.اپنے ہاں کے صادق الایمان مسلمانوں کو دردناک ایذا ئیں دیں اور بے رحمی سے قتل کیا.“ شیخ محمد اقبال ایم اے.داستان اسلام حصہ دوم.خلافت راشده - ۱۹۷۰، مطبوعہ پنجاب پر لیس صفحه ۳۳) یہ واقعہ نہیں ہو رہا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے ارتداد کی خبر سن کر ان کو قتل کرنے کا حکم دیدیا.بلکہ وہ ظالم بد بخت مسلمانوں کو ارتداد کے جرم میں قتل کر رہے تھے کہ تم ہماری ملت سے پھر کر اسلام قبول کر چکے ہو واپس لوٹ آؤ ورنہ ہم تمہیں قتل کردیں گے اور طرح طرح کی اذیتیں دے کر ارتداد کی سزا وہ دے رہے تھے.اس
72 سزا سے، اس ظلم سے روکنے کے لئے حضرت ابو بکر صدیق نے فوج کشی فرمائی اور مسلمہ اسلامی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے جرم میں ان کے خلاف لشکرکشی کی.مصنف کہتے ہیں: ”جو جان بچا سکے بھاگ کر مدینہ میں پناہ گیر ہوئے.باغیوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا، مرکز خلافت پر چڑھائی کی تیاریاں کرنے لگے.ان دنوں اتفاق سے عمرو بن العاص بحرین سے واپس آئے.انہوں نے دیکھا کہ یمن سے مدینہ تک مرند افواج چھاؤنیاں ڈالے پڑی ہیں.دشمن کی افواج عرب کی ریگ کی طرح بے شمار تھیں اور مقابلہ پر مدینے کے فقط مٹھی بھر بے سر و سامان مسلمان تھے.“ شیخ محمد اقبال ایم.اے.داستان اسلام حصہ دوم ( خلافت را شده) ۱۹۷۰ء لاہور.مطبوعہ پنجاب پر لیں.صفحہ : ۲۳) ۲.ایک اور مؤرخ لکھتا ہے: "آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ اٹھتے ہی عرب کے طول وعرض میں اللہ کے دین کے خلاف بغاوت کے نشان ابھر نے لگے.صرف مکہ، مدینہ اور طائف کے باشندے ثابت قدم رہے.بغاوت اور ارتداد کا یہ فتنہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلا اور چند روز ہی میں عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ گیا.مرتدوں اور باغیوں نے اسلامی عمال کو نکال دیا.سچے مسلمانوں کو بیدردی سے قتل کرنا شروع کر دیا.جو بیچ سکے بھاگ کر مدینہ میں پناہ گزین ہوئے.کچھ طالع آزماؤں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کو دیکھ کر خانہ ساز نبوت کا ڈھونگ رچایا.مختلف قبائل میں کئی جھوٹے نبی پیدا ہو گئے ( جن میں ایک مشہور شخص طلیحہ بن خویلد تھا) اس کا اصلی نام طلحہ تھا مسلمان اسکو تحقیر اطلیحہ کہتے تھے.یہ بنواسد کے قبیلہ سے تھا جو قریش کا دیرینہ حریف تھا.طلیحہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
73 زندگی ہی میں نبوت کا روپ دھار لیا تھا.“ یہ فقرہ توجہ کے لائق ہے.کہتے ہیں! دیکھو جھوٹے نبیوں کے خلاف حضرت ابوبکر نے کیسی چڑھائی کی؟ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ دیکھو جھوٹے نبیوں کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی چڑھائی کی؟ بعض اور نبوت کے دعویداروں کے علاوہ طلیحہ نے بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا کوئی حکم نہیں دیا اور کسی بھی دعویدار نبوت کے خلاف فوج کشی نہیں کی جاتی تھی.افسوس یہ بگڑے ہوئے علماء ظلم پر ظلم کرتے چلے جا رہے ہیں.ذرا بھی خدا کا خوف نہیں کھاتے کہ اسلام پر کیسے گندے حملے کر رہے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی حملہ کرنے سے نہیں چوکتے.دو لیکن اس وقت اسکا فریب نہ چلا.حضور علی کی وفات کے بعد سارا قبیلہ اس کے دام میں آ گیا.اس نے نماز سے سجدہ موقوف کر دیا اس سے تکلیف ہوتی ہے زکوۃ بھی معاف کر دی.اس لئے منکرین زکوۃ اس کے حلقہ بگوش ہو گئے.طلیحہ نے ایک بہت بڑا لشکر مرتب کر کے مدینہ بھیجا“ (لشکر بھی بھیجا ہے جب تک لشکر نہیں بھیجا اس وقت تک حضرت ابوبکر کو خیال بھی نہیں آیا کہ جھوٹے نبی کی سزا یہ ہے کہ اس کے خلاف قتال کرو) حضرت صدیق لشکر کے مقابلہ کے لئے آئے.حملہ آور بھاگ نکلے“.(اسلامی دستور حیات از غلام احمد حریری.لاہور.محمود ریاض پرنٹرز.ناشر ضیاء الحق قریشی - ۱۹۸۶ء صفحہ ۳۳۵ - ۳۳۶) ۳.تاریخ ابن خلدون میں مذکورہ حالات کا خلاصہ یوں ہے : قریش اور ثقیف قبیلہ کے علاوہ جملہ اہل عرب کے ارتداد کی خبریں مدینہ پہنچیں.مسیلمہ کی بغاوت کا مسئلہ نازک صورتحال اختیار کر گیا.اسی طرح
74 طئ اور اسد قبیلوں کے لوگ طلیحہ کے گرد جمع ہو گئے.غطفان قبیلہ بھی مرتد ہو گیا ہوازن قبیلہ کے لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا.یمن اور یمامہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ والیان اور عمال کو باغیوں نے نکال دیا.حضرت ابوبکر نے (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد) سفراء اور خط و کتابت کے ذریعہ بات چیت کر کے ان باغیوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور اسامہ کی زیر نگرانی باہر گئے ہوئے لشکر کی واپسی کا انتظار کیا مگر باغیوں نے مدینہ پر حملہ کے لئے مدینہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی.مدینہ کے قریب پہنچ کر الا برق اور ذی القصہ مقام پر پڑاؤ ڈالا اور حضرت ابوبکر کو پیغام بھیجا کہ ہمیں نماز بے شک پڑھوائیں مگر زکوۃ ادا کرنا معاف کر دیں.مگر حضرت ابو بکر نے اس مطالبہ کو ماننے سے انکار فرما دیا.اور آپ نے مدینہ کے مختلف کناروں پر حضرت علی، زبیر اور عبداللہ بن مسعودؓ کو پہرہ کے لئے مقرر فرمایا.اہل مدینہ مسجد میں اکھٹے ہونے لگے.باغیوں کے وفد نے واپس جا کر اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ مدینہ میں موجود مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے.اس پر باغیوں نے مدینہ کی اطراف پر حملہ کر دیا.جس پر حضرت ابوبکر مسجد میں اکھٹے ہونے والے مسلمانوں کو لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے اونٹوں پر نکلے.دشمن بھاگ نکلا مگر دوڑتے دوڑتے بھی اس نے مختلف ترکیبوں سے مسلمانوں کے اونٹوں کو بد کا دیا جس پر اونٹ واپس مدینہ کی طرف بے قابو ہوکر بھاگے.مسلمانوں کا کوئی جانی نقصان نہ ہوا مگر دشمن نے مسلمانوں کو کمزور سمجھا اور اپنے باقی باغی ساتھیوں کو پیغام بھیجا کہ مسلمان کمزور ہیں آؤ حملہ کریں.اس پر ابو بکر مسلمانوں کو لے کر فجر ہوتے
75 ہی دشمنوں کے سر پر پہنچ گئے اور ان سے جنگ کی.سورج نکلنے سے قبل ہی دشمن پسپا ہو گیا.واپس جا کر بنوز بیان اور عبس قبائل نے اپنے علاقہ کے نہتے مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا جس پر ابوبکر نے قسم کھائی کہ وہ ایک ایک مسلمان کا بدلہ لے کر رہیں گئے.تاریخ ابن خلدون از عبد الرحمن ابن خلدون - زیر عنوان "الخلافة الاسلامية.دار ابن حزم، بیروت الطبعة الاولی ۲۰۰۳م - جلد اول صفحه ۸۶۱۸۶۰) " ۴.تاریخ طبری میں مذکورہ حالات کا خلاصہ یہ ہے : حضور کی بیماری کی خبر ہوتے ہی یہ اطلاع بھی پہنچی کہ مسیلمہ نے یمامہ پر اور اسود عنسی نے یمن پر قبضہ کر لیا ہے.طلیحہ نے بھی جلد ہی نبوت کا دعویٰ کر کے بغاوت کا علم بلند کیا اور فوج لے کر سمیراء مقام پر مسلمانوں سے لڑائی کے لئے نکلا.اس کے پیچھے بہت سے عوام ہو گئے اور اس کا معاملہ خطرناک صورت اختیار کر گیا.ادھر بنور بیعہ نے بھی بحرین کے علاقہ میں بغاوت اور ارتداد کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم بادشاہت کو دوبارہ آل منذر میں واپس لائیں گے اور انہوں نے منذر بن نعمان بن منذر کو اپنا بادشاہ بنایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گورنرز کی طرف سے جلد ہی یہ رپورٹس آئیں کہ ہر علاقہ میں خاص وعام نے بغاوت کر دی ہے اور باغی مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے ہیں.حضرت ابوبکر نے بھی باغیوں کے ساتھ شروع میں بالکل اسی طرح بات چیت جاری رکھی جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفراء کے ذریعہ باغیوں سے مذاکرات فرماتے تھے.مگر عبس اور ڈبیان قبائل نے مدینہ پر
76 لشکر کشی کر دی اور اپنے ہاں کے نہتے مسلمانوں کو بُری طرح قتل کرنا شروع کر دیا.دوسرے قبائل نے بھی ایسا ہی کیا.اس پر حضرت ابوبکر نے قسم کھائی کہ وہ ایک ایک مسلمان کے بدلہ ایک ایک باغی کو ماریں گے بلکہ زیادہ کو ماریں گے.پھر آپ نے ایسا ہی کیا.آپ نے خالد بن ولید کو پیغام بھیجا کہ تم ہر اس باغی کو جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا پکڑتے ہی عبرت ناک طور پر قتل کر دو 66 مرتدین کی چھاؤنیاں "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل حضرت عمرو بن العاص کو جیفر (عمان) کی طرف بھجوایا تھا.وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد واپس لوٹے تو باغیوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے مسلمان ان کے گرد جمع ہو گئے.انہوں نے بتایا کہ دبا سے لیکر مدینہ تک کے سارے راستہ میں مرتدین چھاؤنیاں ڈالے پڑے ہیں.“ اسود عنسی کے حالات وه ارتداد و بغاوت کی ابتدا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ میں اسود عنسی نے یمن کے علاقہ میں کی.مذحج قبیلہ اس کے ساتھ مل گیا اور اس کی بغاوت کا فتنہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگا.اس کے ساتھ مل جانے والے باغیوں کی فوج میں پیادوں کے علاوہ سات سو گھڑ سوار تھے.اس نے اسلامی حکومت کے عمال کو دھمکی دی کہ : اے غاصبو! ہمارا ملک ہمارے حوالے کر دو.جو مال تم نے جمع کئے ہیں وہ بے شک لے لو مگر
77 ہماری سرزمین سے نکل جاؤ.پھر انہوں نے مسلمان عمال کو نکال کر ان کی جگہ عمر و بن حزم اور خالد بن سعید کو حاکم مقرر کر دیا.بعد ازاں اسود اپنی فوج لے کر صنعاء پر حملہ آور ہوا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ عامل شہر بن باذان کو قتل کر کے صنعاء پر قابض ہو گیا اور دوسرے مسلمانوں کو قتل کیا.حضرت معاذ بن جبل نے بھاگ کر جان بچائی اور ما رب پہنچ کر حضرت ابوموسیٰ الاشعری کو صورتحال سے باخبر کیا.یہ دونوں حضرموت کی طرف آگئے اور یوں سارا ملک یمن اسود کے قبضہ میں آ گیا.اس کی حکومت وہاں قائم ہوگئی اور اس کی طاقت بڑھتی گئی.آخر کار یمامہ میں ایک معرکہ میں مسلمانوں نے اسے واصل جہنم کیا.“ طلیحہ بن خویلد کے حالات وو طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور باغیوں کو ساتھ لے کر سمیراء مقام پر مورچہ بند ہوا.اس کے پیچھے اتنے لوگ آئے کہ ان کے لئے جگہ کم ہو گئی.انہوں نے دوٹولیوں میں بٹ کر اپنے دفد مدینہ بھیجے.حضرت ابوبکر نے طلیحہ کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا.اس دفد نے جا کر اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے چلو ان پر حملہ کریں.حضرت ابوبکرؓ نے ان سے مذاکرات کے بعد مدینہ کی اطراف میں پہرہ کے لئے چھوٹے چھوٹے دستے مقرر فرما دیئے اور مسلمانوں سے کہا کہ سارے ملک میں ارتداد اور بغاوت کی وباء پھیلی ہوئی ہے اور مرتدین کے وفد نے ہماری تھوڑی تعداد کا اندازہ کر لیا ہے.اب کوئی پتہ نہیں کہ وہ رات ہی تم پر
78 حملہ کر دیتے ہیں یا دن چڑھنے کا انتظار کرتے ہیں.اس لئے پورے طور پر تیاری کرو.ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ باغیوں کے لشکر نے رات کے وقت مدینہ پر ہلہ بول دیا.حضرت ابوبکر مسلمانوں کو لے کر مقابلہ پر نکل اور دشمن کو پسپا کر دیا.“ مسیلمہ کذاب کے حالات ”اس کے ساتھ قبیلہ بنوحنیفہ کی اکثریت مل گئی اس نے یمامہ پر قبضہ کر کے وہاں سے رسول اللہ کے مقرر کردہ گورنر حضرت ثمامہ بن اثال کو نکال دیا.اس نے بڑی قوت پکڑ لی.سجاح نامی مدعیہ نبوت اس سے لڑنے کے لئے نکلی.یہ اس سے ڈر گیا اور اس کے ساتھ مصالحت کر کے ان الفاظ میں اسے مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسانے لگا.اگر قریش (مسلمان) عدل سے کام لیتے تو نصف ملک خود رکھتے اور نصف ہمارے حوالے کرتے مگر انہوں نے ہمارے ساتھ ظلم کیا ہے.کیا تم میرے ساتھ شادی کرو گی تا ہم دونوں مل کر اپنے قبیلوں کو لے کر سارے عرب قبائل کو نگل جائیں.چنانچہ وہ سجاح سے شادی کر کے مسلمانوں کے مقابلہ کو نکلا.اس کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تھی.حضرت خالد بن ولید نے اسکا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی.“ تاريخ الطبرى لمحمد بن جرير الطبري، ذكر بقية خبر مسيلمة الكذاب وقومه من اهل اليمامة حالات ااه )
79 (۵) اسی طرح تاریخ الخمیس میں بھی مذکور ہے.مسیلمہ کذاب کے ساتھ بنوحنیفہ کی اکثریت ہوگئی.وہ ثمامہ پر قابض ہو گیا اور اس نے رسول اللہ کے گورنر ثمامہ کو نکال باہر کیا.انہوں نے رسول اللہ کی خدمت میں پیغام بھجوایا.جب رسول اللہ فوت ہو گئے تو انہوں نے حضرت ابو بکر کو اطلاع کی جس پر آپ نے حضرت خالد بن ولید کو ایک بڑے لشکر کے ساتھ مسیلمہ کے مقابلہ کے لئے روانہ فرمایا.( تاريخ الخميس لحسين بن محمد الديار بكرى قصة مسيلمة الكذاب ) پس صحابہؓ نے مسیلمہ کذاب اور اس کے قبیلہ بنو حنیفہ کے خلاف محض ارتداد کی بناء پر جنگ نہیں کی بلکہ بغاوت کے جرم کی وجہ سے کی تھی کیونکہ مسیلمہ باغی تھا اور مسلمانوں کے خلاف اس نے لشکر کشی کی تھی.(۲) پھر علامہ عینی شارح صحیح البخاری لکھتے ہیں.إِنَّمَا قَاتَلَ اَبُوْبَكُرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مَانِعِي الزَّكوة، لانهم امْتَنَعُوا بِالسَّيْفِ، وَ نَصَبُوا الْحَرْبَ لِلْامَّةِ » (عمدة القارى لعلامه محمود بن احمد العينى شرح البخارى كتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم باب قتل من ابى قبول الفرائض وما نسبوا الى الردة ) یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زکوۃ دینے سے انکار کرنے والوں سے صرف اس لئے قتال کیا کہ انہوں نے تلوار کے ذریعہ سے زکوۃ روکی اور مسلمانوں کے خلاف جنگ بر پا کی.
80 عجیب بات وو علاوہ ازیں تاریخ الطبری اور تاریخ ابن خلدون میں یہ بھی مذکور ہے کہ : جنگ کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو باغیوں پر فتح حاصل ہو گئی تو ان میں سے بعض کو قید بھی کیا گیا.غلام بھی بنایا گیا“.(تاريخ الطبری، حوادث ۵۱۱ - صفحه ۲۵۹ تا ۲۶۳ ، تاریخ ابن خلدون جلد اول ردة اهل عمان و مهرة واليمن صفحه ۸۷۲٬۸۷۱ مطبوعہ دارابن حزم بيروت الطبعة الاولى ٢٠٠٣م) اگر مرتد کی سزا قتل تھی اور حضرت ابوبکر صدیق کی لشکر کشی کی یہی وجہ تھی اور اگر اسلام تو بہ کے باوجود بھی مرتد کے لئے قتل کے سوا اور کوئی سزا تجویز نہیں کرتا تو حضرت ابوبکر صدیق کو اس وقت یہ بات بھول کیوں گئی؟ کیا حق تھا ان کو کہ شریعت اسلامیہ کے اس واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے کہ جن کے بارہ میں خدا کہتا ہے کہ لازما تم نے ان کو قتل کرنا ہے اور تین دن سے زیادہ مہلت نہیں دینی ، انہیں اس جرم میں پکڑنے کے باوجود، قابو میں کر لینے کے باوجود قتل نہیں کیا بلکہ غلام بنالیا؟ ایک مرندہ کا قتل مولانا مودودی نے اُمّ قرفه نامی مرتد ہ کا ذکر بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ : حضرت ابوبکر کے زمانہ میں ایک عورت جس کا نام اُمّ قرفہ تھا اسلام لانے کے بعد کافر ہو گئی.حضرت ابو بکر نے اس سے تو بہ کا مطالبہ کیا مگر اس نے توبہ نہ کی حضرت ابوبکر نے اسے قتل کرا دیا.“ ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں صفحہ ۱۸)
81 اور تاثر یہ دیا ہے کہ محض ارتداد کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا تھا.حالانکہ اس میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس میں اسکا کوئی ذکر نہیں کہ محض ارتداد کی بنا پر اسے قتل کیا گیا ہو.مگر وہ اس بات پر مصر ہیں کہ ام قرفہ کا قتل بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ : اُمُّ قِرْفَةَ كَانَ لَهَا ثَلَا ثُونَ إِبْنا وَ كَانَتْ تُحَرِّضُهُمْ عَلَى قِتَال الْمُسْلِمِينَ، وَ فِي قَتْلِهَا كَسْرُ شَوْكَتِهِمْ 66 ( المبسوط لشمس الدين السرخسی طبع دوم.بيروت.دار المعرفة للطباعة والنشر جزء دهم صفحه : ۱۱۰) اس عورت کے قتل کا حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ اس کے تئیں بیٹے تھے اور وہ ان تمھیں کے تمیں بیٹوں کو ہر وقت مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تحریک کرتی رہتی تھی ، ابھارتی رہتی تھی.چنانچہ اس کے بیٹوں کی شوکت کو توڑنے کے لئے ان کی ماں کو قتل کروایا گیا کہ اگر یہ ماں اپنے بیٹوں کو اکساتی ہے اور اگر ان میں اتنی ہی طاقت ہے تو ہم ان کی ماں کو اس جرم میں قتل کرتے ہیں ان میں طاقت ہے تو روک کے دیکھ لیں اور اپنی ماں کو بچالیں اور ان تیں کو قتل نہیں کروایا جو جنگ کا ذریعہ بنائے گئے تھے.یہ اس لئے کہ تا اگر ایک کے قتل سے شر رک سکتا ہے تو ایک ہی قتل ہو.علم درایت کی رو سے تو یہ روایت اس لئے بھی قابل قبول نہیں کہ تمیں بچوں کی بوڑھی ماں ان کو اکسا رہی ہے جو خود مرتد تھے.اور ان مرتدوں کو پوچھا تک نہیں گیا بلکہ اس بڑھیا کو قتل کر دیا گیا.
82 عہد فاروقی کی روایت اب حضرت عمر کے زمانے کے حالات پر آجائیں.مولانا مودودی نے اس دور کی جو حدیث پیش کی ہے وہ یہ ہے: عمرو بن عاص حاکم مصر نے حضرت عمر کو لکھا کہ ایک شخص اسلام لا یا تھا پھر کافر ہو گیا.پھر اسلام لایا پھر کافر ہو گیا.یہ فعل وہ کئی مرتبہ کر چکا ہے اب اس کا اسلام قبول کیا جائے یا نہیں؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ اس سے اسلام قبول کرتا ہے تم بھی کئے جاؤ.اس کے سامنے اسلام پیش کرو.مان لے تو چھوڑ دوور نہ گردن مار دو.( کنز العمال) ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں.صفحہ ۱۸) یہ جو آخری ٹکڑہ ہے گردن مار دو والا.اس سے استنباط کر رہے ہیں کہ دیکھو! مرتد کی سزا قتل تھی اس لئے آپ نے یہ فرمایا تھا.اگر مرتد کی سزا قتل کا حکم تھا تو حضرت عمرؓ جیسے شدت رکھنے والے خلیفہ کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ جواب دیتے جو آپ نے دیا.سختی سے آپ سرزنش فرماتے کہ تم کون ہوتے ہو اس ارتداد کے بعد اسے دوبارہ موقع دینے والے کہ دوبارہ اسلام قبول کرے.اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بارہا ایسا ہو چکا ہے اور پھر بھی تم باز نہیں آئے پھر بھی تم نے اسے قتل نہیں کیا ؟ فرمایا جتنی بار اللہ نے اسے اجازت دی ہے دیتے چلے جاؤ.یعنی جتنی دفعہ بھی وہ تمہارے قابو میں آئے اور کہہ دے کہ میں اسلام لے آیا ہوں تم پر فرض ہو جائے گا کہ اسے چھوڑ دو.پھر اس پر تمہیں ہرگز کوئی اختیار نہیں رہتا.
83 ย یہاں عمر کا ایک استنباط ہے اور یہ استنباط بھی ان علماء کو دوسرے مسلمانوں کی جانوں پر کوئی حق عطا نہیں کرتا.وجہ یہ ہے کہ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ وہ جب کہہ دے میں مسلمان ہو گیا باوجود اس پس منظر کے کہ وہ ہر دفعہ مرتد ہو جاتا ہے جتنی بار بھی کہے تم اس کو چھوڑتے چلے جاؤ.اس کا فیصلہ اسی پر رکھا ہے.اس کے اس قول کو ان سب باتوں کے باوجود قابل اعتماد قرار دیا ہے.اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت عمرؓ نے ان کو یہ کہا تھا چونکہ اس کا جھوٹ ثابت ہو گیا ہے چونکہ اس کی بدعہدی ثابت ہو گئی ہے اس لئے اب کی بار چاہے وہ کہے بھی کہ میں مسلمان ہوتا ہوں تب بھی تم نے اس کی بات نہیں مانتی.اس لئے اس حدیث سے قتل مرتد کا جواز اور یہ جواز کہ تو بہ کرے بھی تو اس کو معاف نہیں کرنا اور جب بھی کوئی ارتداد کرے اسی وقت اسے قتل کر دو کہاں سے نکل آیا؟ صحت روایات جانچنے کا پیمانہ دوسرے وہ اصول اپنی جگہ قائم ہے، ہرگز اس پر کوئی اثر نہیں پڑا کہ جو حدیثیں یا آثار (اور یہ حدیث آثار میں سے ہے کیونکہ حضرت عمرؓ کا اپنا ایک استنباط ہے اگر حضرت عمرؓ کا استنباط ہو یا تمام صحابہ کا بھی (نعوذ باللہ من ذلک) جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مستمرہ کے خلاف ہو اور قرآن کی واضح آیات کے خلاف ہو تو وہ قابل التفات نہیں.ایسی صورت میں ہم راوی کو جھوٹا قرار دیں گے نہ کہ نعوذ باللہ حضرت عمر کو غلط استنباط کرنے والا کیونکہ ناممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ یہ بزرگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نظر انداز کر چکے ہوں.اس لئے ایسی حدیثیں پائیۂ اعتبار سے گر جاتی ہیں.یہ مطلب نہیں کہ ہم
84 حضرت عمر کی بات نہیں مانتے.مراد یہ ہے کہ چونکہ واضح طور پر یہ حدیث یا اثر قرآن وسنت سے ٹکرا رہا ہے اس لئے راوی غلط ہے کسی کو یا غلط فہمی ہوئی ہے یا کسی نے جھوٹ بولا ہے.مرتد لڑائی کرنے والا تھا دوسری بات یہ ہے کہ اس شخص کے متعلق یہ وضاحت ملتی ہے کہ وہ حالت جنگ میں پکڑا گیا تھا اور یہاں ایک اور استدلال ہے وہ شخص جو حالت جنگ میں پکڑا جائے اور حاکم وقت یا فاتح جرنیل نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ ہم اسے قتل کریں گے کیونکہ اس نے ہم سے جنگ کی ہے اور ہمارے ساتھیوں کو قتل کیا ہے ( حاکم وقت یا فاتح جرنیل کو یہ قانونی حق حاصل ہے معاف کرنے کا بھی یا قتل کر دینے کا بھی) اب اگر وہ گرفتار شدہ شخص جان بچانے کے لئے اسلام قبول کر لے تو پھر جس وقت بھی وہ اسلام سے پھرتا ہے وہ اپنے آپ کو گو یا قتل کے لئے پیش کر دیتا ہے کیونکہ صاف پتہ چلے گا کہ قتل کا فیصلہ جو جائز تھا اس کی تلوار بہر حال لٹکی رہے گی.دھوکہ دے کر جائز فیصلے سے بچنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.یہ ایک اور مضمون ہے.اسکا ارتداد کے ساتھ بالکل کوئی تعلق ہی نہیں ہے.عہد علی کی روایت اب ہم حضرت علی کے دور میں داخل ہو جاتے ہیں.وہاں بھی ایک بڑی خطرناک قسم کی نظر آنے والی حدیث ( با اثر کہنا چاہئے جس کے ساتھ ایک حدیث بھی منسلک ہے) پیش کی جاتی ہے اور اس حدیث کی سند بظاہر بڑی مضبوط ہے لیکن اس کے متعلق میں آگے جا کر بحث کروں گا.حدیث یہ ہے:
85 عَنْ عِكْرَمَةَ قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِزَنَادِقَةَ، فَأَحْرَقَهُمْ فَبَلَغَ ذَلِكَ بُنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُخْرِقْهُمْ، لِنَهْي رَسُولِ اللهِ : لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ ۖ وَ لَقَتَلْتُهُمْ لِقَوْلِ صلى الله رَسُولِ اللهِ عَلَ: "مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ - (صحيح البخارى كتاب استتابة المرتدين والمعاندين و قتالهم باب حكم المرتد و المرتدة واستبانهم) کہ مکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ کے پاس زندیق لوگ لائے گئے.ان زندیقوں کو حضرت علیؓ نے زندہ آگ میں جلا دینے کا حکم دیا.جب حضرت ابن عباس نے سنا تو یہ رد عمل ظاہر کیا کہ کہا اگر میں ہوتا تو ہرگز ایسا نہ کرتا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ہمیں اس عذاب کے دینے سے منع فرمایا ہے جو عذاب اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص کیا ہے یعنی آگ کا عذاب.میں انہیں قتل کر دیتا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: کہ جو اپنے دین کو بدل دے اسے قتل کر دو.روایت کی چھان بین یہ بظاہر سب سے مضبوط استدلال رکھنے والی حدیث ہے جو صحاح ستہ میں سے بخاری، ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں آئی ہے.اس حد تک اس کی صحت ہے مگر کسی روایت کی صحت کا اندازہ صرف اس کے صحاح ستہ میں مذکور ہونے سے نہیں لگایا جاتا بلکہ بعض اور پیمانے بھی ہیں اس کی صحت جانچنے کے.ان میں ایک اہم معیار یہ ہے کہ روایوں کی شخصیت اور ان کے تسلسل کے بارہ میں گہری
86 چھان بین کی جائے.بڑے بڑے علماء کرام جنہوں نے روایات کی صحت کے بارہ میں تحقیقات کے لئے اپنی زندگیاں صرف کر دیں، انہوں نے عکرمہ کی اس روایت کے بارہ میں فیصلہ دیا ہے کہ یہ روایت غریب اور احاد روایات میں آتی ہے یعنی اس کا راوی صرف ایک عکرمہ ہی ہے.اور مولا نا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ چونکہ امام بخاری نے عکرمہ سے روایت کی ہے اس لئے دوسرے محدثین نے بھی اس کی روایت قبول کر لی بغیر اس کے کہ وہ خود اس کے بارہ میں تحقیق کرتے “ الرفع والتكميل فى جرح والتعديل صفحه ۷.طبع قدیم لکھنو) یہ تو ممکن ہے کہ ایک ہی راوی سے مروی روایت صحیح اور معتبر حدیث ہومگر وہ روایت ایسی حدیث صحیح کے پائے کو نہیں پہنچ سکتی جو کئی راویوں سے مروی ہو.اس لئے ایسی احاد روایات پر ایسے امور کے بارہ میں بناء نہیں کی جاسکتی جو حقوق وذمہ داریوں اور واجبات اور سزاؤں سے تعلق رکھتے ہوں.خصوصاً حدود کے مسائل کے بارہ میں یعنی وہ سزائیں جن کو خود قرآن نے مقرر کیا ہے لہذا ایسے نازک اور حساس مسئلہ کے بارہ میں ایسی حدیث احاد پر بناء نہیں کی جاسکتی خواہ وہ بعض علماء کے نز دیک صحیح ہی کیوں نہ ہو.راوی خارجی ہے پھر ہمیں راوی عکرمہ اور اس کی شہرت کے بارہ میں مزید چھان بین کرنا ضروری ہے.جب اس روایت کو اس معیار سے پر کھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا
87 راوی عکرمہ خارجی اور حضرت علی کا دشمن تھا.چنانچہ رجال حدیث کی بڑی اور اہم کتب میں اس کے بارہ میں لکھا ہے کہ یہ ایسا کمینہ اور خبیث شخص تھا کہ مسلمانوں نے اس کا جنازہ تک نہیں پڑھا.اسی وجہ سے ایسے علماء حدیث نے جن کو روایات کی صحت جانچنے کے بارہ میں ید طولیٰ حاصل تھا یہ فیصلہ دیا ہے کہ اس روایت کی کوئی قیمت نہیں کیونکہ اس کا راوی زندیق اور خارجی تھا اور حضرت علیؓ کے دشمنوں کا حامی تھا خصوصاً ان ایام میں جب حضرت علی اور حضرت ابن عباس کے درمیان اختلافات شروع ہوئے.عباسی دور میں عکرمہ نے ایک نیک اور خدا ترس عالم کے طور پر بڑی شہرت اور تعظیم حاصل کر لی تھی اور یہ بات واضح ہے کہ اس شہرت کا باعث ، حضرت علی کی مخالفت اور عباسیوں کی حمایت تھا جو سیاست کی وجہ سے ہر اس شخص اور چیز کی مخالفت کرتے تھے جس کا تعلق اولا دعلی سے ہو.عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ قتل مرتد کی روایات نے دراصل بصر ہ ، کوفہ اور یمن میں رونما ہونے والے واقعات سے جنم لیا ہے کیونکہ اہل حجاز یعنی مکہ و مدینہ والے اس روایت سے بالکل لاعلم نظر آتے ہیں.پھر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ عکرمہ کی اس روایت کے رادی عراقی ہیں اور اس ضمن میں قارئین کو امام طاؤوس بن کیسان کا یہ قول نہیں بھولنا چاہئے کہ : اگر کوئی عراقی تجھے سو حدیثیں بتائے تو ان میں سے ۹۹ کو تو بالکل پھینک دو اور باقی کے بارہ میں بھی شک ہی کرو“.جہاں تک عکرمہ کے خارجی، غیر ثقہ اور کذاب ہونے کا تعلق ہے تو اس ضمن
88 میں کتب الرجال کی بڑی بڑی تالیفات سے درج ذیل شواہد آپ کے سامنے پیش ہیں: ) الذھبی کہتے ہیں: ہمیں الصلت ابو شعیب نے بتایا کہ میں نے محمد بن سیرین سے عکرمہ کے بارہ میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس بات سے کوئی تکلیف نہیں کہ وہ اہل جنت میں سے ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ بہت ہی زیادہ جھوٹ بولنے والا ہے.“ الذھبی مزید کہتے ہیں.یعقوب بن الحضر می اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا ہے کہ ایک بار عکرمہ مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ اس مسجد میں موجود سب لوگ کافر ہیں.عکرمہ اباضیہ فرقہ کے خیالات رکھتا تھا.“ الذھبی مزید فرماتے ہیں: ابن المسیب نے اپنے غلام بُرد سے کہا کہ میری طرف منسوب کر کے جھوٹی روایات بیان نہ کرنا جیسے عکرمہ، ابن عباس کی طرف جھوٹی روایات منسوب کرتا ہے.“ (ميزان الاعتدال في نقد الرجال لمحمد بن بن العثمان احمد الذهبي - عكرمة مولى ابن عباس ب: ایک اور محقق لکھتے ہیں.”عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ میں علی بن عبد اللہ بن عباس کے ہاں گیا تو دیکھا کہ باب الحش کے سامنے عکرمہ پابہ زنجیر پڑا ہے.میں نے علی کو کہا کیا
89 تمہیں خوف خدا نہیں؟ علی کہنے لگے: یہ خبیث ( عکرمہ) میرے والد صاحب کے نام پر جھوٹی روایات بیان کرتا پھرتا ہے نیز لکھتے ہیں: وھیب روایت کرتے ہیں کہ میں بیٹی بن سعید انصاری اور ایوب کے پاس تھا کہ انہوں نے عکرمہ کا ذکر کیا.اس پر یحیی بن سعید نے کہا کہ عکرمہ کذاب تھا“ (الضعفاء الكبير لحافظ ابی جعفر محمد بن عمر بن موسى بن الحماد المكي دار الكتب العلمية، بيروت طبع اول ۹۸۴اء السفر الثالث ص ۳۷۳، ۳۷۴) ج.حضرت ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: * یحیی بن معین نے کہا: امام مالک بن انس نے عکرمہ سے صرف اس وجہ سے روایات بیان نہیں کی ہیں کہ وہ صفر یہ فرقے کے خیالات رکھتا تھا.* عطاء کہتے ہیں کہ وہ ( عکرمہ ) اباضیہ فرقے سے تعلق رکھتا تھا.* الجوز جانی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے پوچھا کہ کیا عکرمہ اباضی تھا؟ انہوں نے کہا: کہا جاتا ہے کہ وہ صفری تھا.* * مصعب الزبیری کے نزدیک عکرمہ خارجی خیالات کا حامل تھا.ابراہیم بن مندز نے معن بن عیسی اور دوسرے لوگوں سے روایت کی ہے کہ امام مالک عکرمہ کو ثقہ خیال نہ کرتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ اس کی بیان کردہ روایات قبول نہ کی جائیں.* میں نے اہل مدینہ میں سے بعض کو یہ کہتے سنا ہے کہ عکرمہ اور عزہ نامی لڑکی کے عاشق کُفیر کی میتیں ایک ہی دن میں مسجد کے دروازے کے
90 سامنے لائی گئیں.لوگوں نے کثیر کا جنازہ تو پڑھ لیا مگر عکرمہ کا جنازہ بہت کم لوگوں نے پڑھا.احمد سے بھی اس مفہوم کی روایت بیان ہوئی ہے.* ہشام بن عبداللہ المحزومی کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی ذئب کو کہتے سنا کہ عکرمہ غیر ثقہ تھا اور میں نے اسے دیکھا ہوا ہے“ (تهذيب التهذيب، لامام حافظ شهاب الدين احمد بن العسقلانی، عكرمة البريرى ابو عبدالله المدنى مولى ابن عباس) پس ایک ایسی روایت پر بنا کرنا جس کے بارہ میں واضح طور پر ثابت ہو کہ اس کا راوی سخت جھوٹا تھا اور حضرت علی کا شدید دشمن تھا قطعا جائز نہیں.داخلی شہادت پھر جب ہم روایت کے الفاظ کی چھان بین کرتے ہیں تو اس کو کئی لحاظ سے غلط پاتے ہیں.ا.اس میں شک نہیں کہ حضرت ابن عباس کا اپنا ایک مقام ہے.مگر حضرت علی کے مقام کا مقابلہ تو وہ نہیں کر سکتے تھے.وہ خلیفۃ الرسول تھے.خدا نے ان کو خلافت کے لئے چنا تھا.یہ ممکن نہیں تھا کہ حضرت ابن عباس کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا پاس ہو اور حضرت علی کو پاس نہ ہو.اگر ہم روایت کو درست بھی مان لیں تب بھی ابن عباس کا طرز بیان ہی بتا رہا ہے کہ وہ اس خبر کی تصدیق ہی نہیں کرتے.وہ کہتے ہیں: میں اپنے متعلق سوچ کر دیکھتا ہوں تو میں کبھی ایسا کرنے کے لئے تیار ہی نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واضح حکم تھا حضرت علیؓ کب ایسا کر سکتے ہیں.
91 اس لئے حضرت علیؓ کے متعلق ایسی ذلیل بات منسوب کرنا کہ انہوں نے زندہ جلا دیا یہ بالکل جھوٹ ہے اور قطعی جھوٹ ہے کیونکہ آپ کے ایک شدید دشمن کی طرف سے مروی ہے جو حضرت علی پر بہتان بازی کرنا چاہتا ہے چنانچہ اس بات کی تصدیق ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں عکرمہ بتاتا ہے کہ جب حضرت علی کو حضرت ابن عباس کے اس رد عمل کی خبر پہنچی تو آپ نے سخت برہم ہو کر کہا: ”وَيْحَ ابن عباس “ کہ خدا ابن عباس کو غارت کرے.(سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب الحكم فيمن ارتد مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ کے اصل معنی ۲.پھر مَنْ بَدَّلَ دِيْنَهُ فَاقْتُلُوهُ“ کا جملہ عمومیت رکھتا ہے اور اس کے کئی 66 معنے کئے جا سکتے ہیں.چنانچہ لفظ ”من“ مرد عورتوں اور بچوں سب پر اطلاق پاتا ہے.مگر کئی فقہا ء ایسے ہیں جنہوں نے مرتد عورت کے قتل کو نا جائز قرار دیا ہے.۳.پھر دِینَهُ “ میں لفظ ”دین“ سے کوئی بھی دین مراد لیا جا سکتا ہے صرف اسلام ہی مراد نہیں لیا جا سکتا.بت پرستوں کے دین کو بھی قرآن میں دین کہا گیا ہے.(سورۃ الکافرون) ان احتمالات کے ہوتے ہوئے ایسی روایت کو صرف ایسے مسلمان سے جو اپنا دین بدل دے مخصوص کر دینا کس طرح ممکن ہے؟ قانون کی حساس و بار یک زبان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس روایت کی رو سے تو ہر اس انسان کو جو اپنا دین بدلے قتل کیا جائے گا خواہ اس کا کوئی بھی دین ہو.پھر تو ہر وہ یہودی جو عیسائی ہو جائے قتل کیا جائے گا اور ہر وہ عیسائی جو مسلمان ہو قتل کیا جائے گا اور ہر وہ مشرک جو کوئی اور دین
92 اختیار کرے قتل کیا جائے گا !! 66 پھر لفظ ”من“ اسلامی حکومت کی حدود سے باہر بھی اطلاق پائے گا یعنی ہر و شخص جو اپنا دین بدلے قتل ہو گا خواہ اسلامی حکومت سے باہر آسٹریلیا میں رہتا ہو یا افریقہ اور جنوبی امریکہ کے جنگلوں میں !! نیز سوچئے کہ اسلام خود تو اپنے پیروکاروں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلا ؤ حتی کہ وہ ہر مسلمان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مبلغ اور داعی اللہ بنے مگر دوسرے مذاہب کے بارہ میں کیا ہو گا؟ کیا ان کو بھی تبلیغ کا ویسا ہی حق حاصل ہو گا جیسا اسلام کو ہے؟ قتل مرتد کے غیر انسانی اور بدعتی نظریہ کے حامی حضرات یہ نہیں سوچتے کہ مختلف قوموں اور مذاہب کے باہمی انسانی تعلقات پر اس نظریہ کے کیسے بدنتائج پڑیں گے؟ وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اگر اس نظریہ کو درست مانا جائے تو پھر دوسرے لوگوں کو تو اپنا دین بدلنے کی اجازت ہوگی مگر مسلمان کو اپنا دین چھوڑنے کا حق نہ ہوگا اور اسلام کو تو یہ حق ہوگا کہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کا دین بدلے مگر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو قطعاً یہ حق نہ ہوگا کہ اسلام کے پیروکاروں کو دوسرے عقائد کا قائل کریں؟ اسلام کے عدل و انصاف کو کیسی بھیانک شکل میں یہ لوگ دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں ! لہذا اس روایت سے قتل مرتد کا استدلال کرنا بالکل غلط ہے کیونکہ اس کا مفہوم غیر واضح ہے.اس کا راوی کذاب، فاسق اور خارجی ہے جو حضرت علی پر تہمت لگا رہا ہے کہ آپ نے زندیقوں کو زندہ جلوا دیا اور اگر چہ حضرت امام بخاری کو علم نہ ہو سکا مگر آپ کے بعد کے محدثین نے ثابت کیا ہے کہ وہ خارجی اور حضرت علی کا دشمن تھا اور اس کا فسق اور خباثت اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ مسلمانوں نے اسکا جنازہ تک پڑھنا گوارا نہ کیا.
93 اب اس موضوع پر چند مزید احادیث پیش کرتا ہوں.(0) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : لَا يَحِلُّ دَمُ امْرَيْ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثِ اَلنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالطَّيِّبُ الزَّانِي، وَالْمُفَارِقُ لِدِينِهِ، النَّارِكُ لِلْجَمَاعَةِ (بخاری کتاب الديات باب قول الله تعالى: ان النفس بالنفس....) یعنی عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی یسے مسلمان کا خون کرنا جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں (محمد) اللہ کا رسول ہوں ہرگز جائز نہیں سوائے تین صورتوں کے.اول یہ کہ اس نے کسی جان کو قتل کیا ہو جس کے بدلہ میں اسے قتل کیا جائے.دوم یہ کہ وہ ایسا شخص ہو جو با وجود شادی شدہ ہونے کے زنا کا مرتکب ہوا ہو.سوم یہ کہ وہ دین سے نکل جائے اور جماعت کو چھوڑ دے.(ب) حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزَ أَبْرَزَ سَرِيرَهُ يَوْمًا لِلنَّاسِ ثُمَّ أَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا قَالَ لِي مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ ؟....قُلْتُ : فَوَاللَّهِ مَا قَتَلَ رَسُوْلُ اللَّهِ ﷺ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا فِي صلى الله إحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ، رَجُلٌ قَتَلَ بِجَرِيرَةِ نَفْسِهِ فَقُتِلَ، أَوْ رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِ أَوْ رَجَلٌ حَارَبَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ فَقَالَ الْقَوْمُ: أَوَ لَيْسَ قَدْ حَدَّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ الله قَطَعَ فِي السَّرَقِ وَ سَمَرَ الْأَعْيُنَ ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ ؟ فَقُلْتُ أَنَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثَ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ أَنَّ نَفَرًا
94 صلى الله مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَبَايَعُوهُ عَلَى الإِسْلامِ فَاسْتَوْخَمُوا الْأَرْضَ، فَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ فَشَكَوا ذلِكَ إِلى رَسُولِ اللهِ الا الله قَالَ : أَفَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِيْنَا فِي إبلِهِ فَتُصِيبُونَ مِنْ أَلْبَانِهَا وَ اَبْوَالِهَا؟ قَالُوا: بَلَى فَخَرَجُوا فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَ أَبْوَالِهَا فَصَحُوا فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللهِ الا الله وَ أَطْرَدُوا النَّعَمَ - فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ الله ، فَأَرْسَلَ فِي آثَارِهِمْ فَأُدْرِكُوا - فَجِئ بِهِمْ، فَأَمَرَبِهِمْ فَقُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ وَ أَرْجُلُهُمْ وَ سَمَرَ أَعْيُنَهُمْ ثُمَّ نَبَذَهُمُ فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا قُلْتُ وَأَيُّ شَيْءٍ أَشَدُّ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ؟ اِرْتَدُّوا عَنِ الإِسْلَامِ وَ قَتَلُوا وَ سَرَقُوا ހ (بخارى كتاب الديات باب القَسَامَةِ) ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک روز باہر دربار لگایا اور لوگوں کو ملنے کے لئے بلایا لوگ آپ کے پاس آئے ایک کیس کے بارہ میں آپ نے مجھے فرمایا: ابو قلابہ تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کی: خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے درج ذیل تین قسم کے مجرموں کے کسی کو قتل نہیں فرمایا.ایک تو وہ جو دوسرے کو اپنے نفس کے جوش کی وجہ سے قتل کرے.دوسرا وہ جو شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرے.تیسرا وہ جو مرتد ہو کر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے لئے نکلے.اس پر موجو دلوگوں نے کہا.کیا حضرت انس سے مروی نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنے اور آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر نے اور پھر دھوپ میں تڑپ تڑپ کر مرنے
95 کی سزا دی ؟ اس پر میں نے کہا کہ میں تمہیں انس والی اصل روایت بتاتا ہوں.انس نے خود مجھ سے بیان کیا تھا کہ ٹھکل قبیلہ کے آٹھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام لائے.مگر انہیں اس زمین ( یعنی مدینہ) کی آب و ہوا راس نہ آئی اور ان کے جسم بیماری کی وجہ سے کمزور پڑ گئے.انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی.آپ ﷺ نے انہیں فرمایا آپ لوگ ہمارے چرواہے کے ساتھ ہماری اونٹوں کی چراہ گاہ پر چلے جائیں اور ان کے دودھ اور پیشاب استعمال کریں.انہوں نے کہا ٹھیک ہے.چنانچہ وہ چراہ گاہ پر چلے گئے.وہاں اونٹوں کے دودھ اور پیشاب پینے سے جب ان کو صحت ہو گئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لئے گئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ نے ان لوگوں کو پکڑنے کے لئے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے جنہوں نے انہیں جالیا.جب یہ لوگ آپ کے سامنے حاضر کئے گئے تو آپ نے انہیں سزا دینے کا حکم دیا چنانچہ ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری گئیں.پھر انہیں دھوپ میں پھینک دیا گیا یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مر گئے.میں نے کہا: کیا ان کے جرم سے بڑھ کر بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے جس کی انہیں سزا دی گئی.انہوں نے اسلام سے مرتد ہونے کے بعد قتل کیا اور چوری بھی کی.(ج): عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ
96 مُسْلِمٍ يَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثٍ : رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ أَحْصَانٍ فَإِنَّهُ يُرْجَمُ، وَ رَجُلٌ خَرَجَ مُحَارِبًا بِاللَّهَ وَرَسُولِهِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ اَوْ يُصَلَّبُ اَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ ، أَوْ يَقْتُلُ نَفْسًا فَيُقْتَلُ بِهَا - (ابوداؤد كتاب الحدود باب الحكم فيمن ارتد) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کا جو " لا اله الا الله محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہو سوائے تین وجوہ کے خون بہانا حرام ہے.یا وہ ایسا شخص ہو جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو.ایسے شخص کو سنگسار کیا جائے گا.یا ایسا شخص ہو جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے نکلا ہوا ایسے شخص کو یا قتل کیا جائے یا صلیب دے کر مار دیا جائے گا یا ملک بدر کیا جائے گا.یا ایسا شخص ہو جس نے کسی جان کا ناحق خون کیا ہو.اسے مقتول کے بدلے قتل کیا جائے گا.لغت میں قتل کے مجازی معنی پھر لغت کی کتب میں قتل مجازی معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے.چنانچہ عربی زبان کے جید علماء نے لکھا ہے: وَ مِنَ الْمَجَازِ : قَتَلَ الشَّيْئَ خَبْرًا أَوْ عِلْمًا - أَى عَلِمَهُ عِلْمًا تَأَمَّا - وَ قَتَلَ الشَّرَابَ: إِذَا مَزَجَهُ بِالْمَاءِ فَأَزَالَ بِذلِكَ حِدَّتَهُ - وَ قَتَلَ فُلَانًا : أَذَلَّهُ - وَتَقَبَّلَ الرَّجُلُ لِلْمَرَأَةِ: خَضَعَ - وَ نَاقَةٌ مُقَتَلَةٌ : مُذَلَّلَةٌ
97 وَ قَوْلُهُ تَعَالَى : قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا اَكْفَرَهُ - أَيْ لُعِنَ، قَالَهُ الْفَرَّاءُ - وَقَوْلُهُ - قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ - أَى لَعَنَهُمْ - وَ فِى الْحَدِيثِ: قَاتَلَ اللهُ الْيَهُودَ: أَيْ قَتَلَهُمُ اللَّهُ وَ قِيْلَ: لَعَنَهُمْ وَ قِيْلَ: عَادَاهُمْ وَ فِي حَدِيثِ الْمَارِ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلَّى : قَاتِلُهُ فَإِنَّهُ لَشَيْطَانٌ : أَى رَافِعُهُ مِنْ قِبْلَتِكَ وَ لَيْسَ كُلُّ قِتَالِ بِمَعْنَى الْقَتْلِ - قَتَلَ اللَّهُ فُلَانًا فَإِنَّهُ كَذَا : أَيْ رَفَعَ شَرَّهُ - وَ فِي حَدِيثِ السَّقِيفَةِ، قَالَ عُمَرُ: قَتَلَ اللَّهُ سَعْدًا، فَإِنَّهُ صَاحِبُ فِتْنَةٍ وَ شَرٍ، أَيْ دَفَعَ اللَّهُ شَرَّهُ - وَ فِي رِوَايَةٍ: اقْتُلُوا سَعْدًا قَتَلَهُ اللهُ، أَيْ اجْعَلُوهُ كَمَنْ قُتِلَ ، وَلَا تَعْتَدُّوا بِمَشْهَدِهِ، وَلَا تُعَرِّجُوْا عَلَى قَوْلِهِ - وَ فِي حَدِيثِ عُمَرَ أَيْضًا: مَنْ دَعَا إِلَى أَمَارَةِ نَفْسِهِ أَوْ غَيْرِهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَاقْتُلُوهُ : أَى : اِجْعَلُوهُ كَمَنْ قُتِلَ وَ مَاتَ بِاَلَّا تَقْبِلُوا لَهُ قَوْلًا وَلَا تُقِيمُوا لَهُ دَعْوَةً - وَلِذلِكَ الْحَدِيثُ الْأَخَرُ : إِذَا بُوْيِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ فَاقْتُلُوا الْاَخِيْرَ مِنْهُمَا، أَى أَبْطِلُوا دَعْوَتَهُ، وَاجْعَلُوهُ كَمَنْ مَاتَ - تاج العروس، لسان العرب، المعجم الوسيط) کہ مجازی طور پر کہتے ہیں: قَتَلَ الشَّيْءَ خَبْرًا وَّ عِلْمًا: اس نے کسی بات کو علم کے لحاظ سے قتل کر دیا یعنی اس چیز کے بارہ میں مکمل علم حاصل کیا.پھر کہتے ہیں : اس نے شراب کو قتل کیا.مراد یہ ہوتی کہ شراب میں پانی ملا کر اسکی تیزی ختم کی.اور قَتَلَ فُلانا کہتے ہیں تو مراد ہوتی ہے کہ اس نے دوسرے کو ذلیل ورسوا کیا.اور تقبَّلَ الرَّجُلُ لِلْمَرْأَةِ کہیں تو مطلب ہوتا
98 ہے کہ مرد عورت کا مطیع ہو گیا اور نَاقَةٌ مُقَتَلَةٌ ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں جو مالک کے اشارے پر چلتی ہو.آيت كريم قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا اَكْفَرَہ کے بارہ میں فَرَّاء نے کہا ہے کہ یہاں قتل کا مطلب ہے لعن یعنی خدا کی لعنت ہو انسان پر.اسی طرح قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُون میں قاتل کا مطلب یہ کیا گیا ہے کہ خدا منافقین پر لعنت ڈالے.حدیث میں ہے.قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ مراد ہے اللہ یہود کو ہلاک کرے بعض نے اسکا معنی کیا ہے کہ ان پر لعنت ڈالے اور بعض نے یہ کیا ہے کہ ان کا دشمن ہو.حدیث میں نمازی کو حکم ہے کہ اگر کوئی اس کے آگے سے گزرے تو قَاتِلُهُ فَإِنَّهُ لَشَيْطَان اور قاتل کے یہاں معنی یہ کئے گئے ہیں کہ اسے اپنے آگے سے ہٹا دو اس سے بھی پتہ چلا کہ قتال کا لفظ ہر بار ظاہری طور پر قتل کرنے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا.اسی طرح کہتے ہیں : قَتَلَ اللهُ فُلانا اور مراد ہوتی ہے کہ اللہ اس کے شر سے بچائے.چنانچہ سقیفہ بنی سعد کے موقع پر حضرت عمرؓ نے کہا : قَتَلَ اللهُ سَعُدًا کہ خدا سعد کے شر سے مسلمانوں کو بچائے.دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اُقْتُلُوا سَعْدًا قَتَلَهُ اللهُ اور مراد یہ تھی کہ اس کو مقتول سمجھو.یوں سمجھو کہ گویا یہ زندہ ہی نہیں اور اس کی بات نہ مانو اسکی گواہی کو قبول نہ کرو.اسی طرح حضرت عمرؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو اپنا یا کسی مسلمان کا نام
99 امارات کے لئے پیش کرے تو اُقْتُلُوهُ یعنی اسے یوں سمجھو کہ جیسے وہ ہلاک ہو گیا ہے.اس کی بات کو نہ مانو.تو معلوم ہوا کہ قتل کا لفظ عربی میں بہت ہی وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اس لئے فَاقْتُلُوهُ سے ہمیشہ بدنی قتل مراد لینا آیات قرآنیہ صریحہ کے منافی ہے اور سنت رسول کے مخالف.حضرت عمرؓ سے ثابت ہے کہ آپ نے اُقْتُلُوهُ کا لفظ بائیکاٹ کرنے اور کالعدم سمجھنے کے معنوں میں استعمال کیا.چنانچہ ایک معزز صحابی نے ابتدا میں حضرت ابوبکر کی بیعت نہ کی تو حضرت عمرؓ نے اس کے متعلق اقتلُوهُ کے الفاظ استعمال فرمائے.اور سب نے یہ مراد لی کہ اس سے قطع تعلق کر لو.تاريخ الطبرى مطبوعه دار المعارف مصر.سن اشاعت ۱۹۶۲ء جزء ثالث صفحه ۲۲۲) جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا روایت کا تعلق ہے اس میں اور بھی باتیں ایسی ہیں جو درایڈ درست معلوم نہیں ہوتیں.مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کر دو.یہ قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں.پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی حکم کے خلاف کوئی حکم جاری فرمایا ہو.مزید برآں جو یہ ارشاد ہے کہ زانی سے کوئی شادی نہ کرے سوائے ایک ایسے شخص کے جو خود بھی زانی ہوصاف بتا رہا ہے کہ زانی کو سنگسار نہیں کیا جاتا تھا ورنہ وہ شادی کیلئے بچتا ہی نہ.دوسرا حصہ جو کسی کو عمد اقتل کرے.لفظاً بھی اطلاق پاتا ہے اور عین انصاف کے مطابق ہے کہ قاتل کو قتل کے بدلہ میں قتل کیا جائے سوائے اس کے کہ مقتول کے ورثاء اسے معاف کر دیں.
100 تیسرے حصہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص نہ صرف مرتد ہو بلکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے خلاف جنگ کرے.ایسی صورت میں یا اسے قتل کیا جائے یا صلیب دے کر مارا جائے یا اسے ملک سے نکال دیا جائے.اب یہ تینوں متضاد باتیں ہیں ورنہ اگر محض ارتداد کی سزا قتل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لازم تھا کہ اسے قتل کروادیتے.دوسرے جہاں تک صلیب دینے کا تعلق ہے کہیں ثابت نہیں کہ آنحضور نے کسی کو صلیب دے کر مروایا ہو.علاوہ ازیں ملک بدر کرنے کا ، آنحضور کیسے استعمال فرماتے جبکہ قرآن کی صریح حد یہ تھی کہ اسے لا ز ما قتل کیا جائے.اس لئے یہ حدیث ان سارے پہلوؤں سے غور طلب ہے.اگر چہ الفاظ درست ہو سکتے ہیں لیکن ان کے معانی پر غور اور تدبر کرنے پڑے گا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل یا قول قرآن کے منافی نہ سمجھا جائے.آنحضرت تو معروف مرتدین کو قتل کروانے کی بجائے ان کی بخشش کی دعا مانگا کرتے تھے اور قتل مرتد کا عقیدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا آپ کی صریح گستاخی ہے.اس ضمنی مگر ضروری بحث کے بعد ہم پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ روایت کی طرف واپس لوٹتے ہیں جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہاں قتل سے مراد ہرگز جسمانی قتل نہیں ورنہ ہر وہ شخص جو یہ خواہش ظاہر کرے کہ اسے امیر بنا دیا جائے اس کا قتل واجب ہو جاتا.حالانکہ کسی ایک شخص کو بھی حضرت عمرؓ نے اس لئے قتل نہیں کروایا کہ کہ اس نے امارت کی خواہش کی ہو بلکہ ایسے مطالبہ کو کالعدم سمجھا گیا اور فَاقْتُلُوہ سے صرف یہی مراد ہے کہ اس کے مطالبہ کو کالعدم کی طرح چھوڑ دو.
101 قتل مرتد کی تردید کرنے والی احادیث اب میں قتل مرتد کے عقیدہ کی تردید میں بعض کھلی کھلی ایسی احادیث پیش کر رہا ہوں، سنئے جو تل مرتد کے عقیدہ کے بخیے ادھیڑ دیتی ہیں.پہلی حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بدو حاضر ہوا اور آ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی.اس کے بعد اسے مدینہ میں بخار ہو گیا.وہ بدو بیچارہ وہمی تھا وہ سمجھا کہ اسلام قبول کرنے کی سزا ملی ہے.بیچارہ بڑا سادہ آدمی تھا.اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا اسلام واپس کر دیں.میں باز آیا اس بیعت سے جس کے نتیجے میں مجھے تکلیف پہنچے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ یہ سادہ آدمی ہے اس لئے آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ دیکھو اگر تم نے ارتداد کیا تو قتل کر ڈالونگا نہیں بلکہ، آپ نے واضح انکار کر دیا کہ میں تمہاری بیعت واپس نہیں کرتا.پھر وہ دوبارہ آیا.بخارا بھی چڑھا ہوا تھا اور کہا میں بیعت فسخ کرنے کی درخواست کرتا ہوں.مجھے معاف کر دیں (وہ سمجھتا تھا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نہ کریں کہ میں نے تمہارا اسلام واپس کر دیا میرا بخار نہیں اترے گا).رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: نہیں میں نے تمہاری بیعت واپس نہیں کرنی.اس پر اس نے تیسری بار آ کر عرض کی کہ میری بیعت واپس کر دیں آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے نہیں کرنی.چنانچہ بدو
102 ناراض ہو کر مدینہ سے چلا گیا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینے کی مثال تو بھٹی کی طرح ہے جو میل کو باہر نکال دیتی ہے.یعنی غلط آدمی تھا اس لئے باوجود میری کوشش کے اسلام میں نہیں ٹھہر سکا.مدینے کے ماحول نے اسے اس طرح باہر پھینک دیا جس طرح بھٹی میل کو نکال دیتی ہے.( بخارى كتاب الحج باب المدينة تنفى الخبث.....) گویا ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ مرتد تھا خود کہہ رہا تھا کہ میرا اسلام واپس کر دیں تین دفعہ ایسا کہا اور جب نکل گیا تو اس کے باوجود آپ نے اس کے قتل کا حکم نہیں دیا کیسے ممکن ہے کہ نعوذ باللہ حضرت عمرؓ کو تو علم ہو، حضرت علی کو تو علم ہو، حضرت ابو بکر" کو تو علم ہولیکن ، اگر علم نہ ہو تو رسول اللہ ہی کو نہ ہو کہ ارتداد کے جرم کی سزا کیا ہے؟ دوسری حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کے ساتھ جو شرائط منظور فرمائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر کفار مکہ کے پاس چلا جائے گا تو کفارا سے واپس نہیں کریں گے.( السيرة النبوية لعبد الملك بن هشام، امر الحديبية في آخر سنة ست.) اگر اسلام میں یہ واضح اور قطعی سزا موجود تھی کہ جو ارتداد کرے گا اسے قتل کیا جائے گا تو دین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نرمی نہ فرماتے.
تیسری حدیث 103 پھر وہ روایت ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ حضرت عثمان کے پاس چھپ کر ایک مرتد نے پناہ مانگی تھی اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرما دیا تھا.(سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب الحكم فيمن ارتد) یہ بھی ایک واضح اور قطعی دلیل ہے کہ قتل مرتد کا کوئی تصور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں موجود نہ تھا چوتھی حدیث حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے مجھے ایک فتح کی خوشخبری پہنچانے کیلئے حضرت عمرؓ کی طرف بھیجا.واقعہ یہ تھا کہ بکر بن وائل قبیلہ کے چھ افراد اسلام سے مرتد ہو کر مشرکین کے جتھے سے جاملے تھے.حضرت عمرؓ نے پوچھا ان لوگوں کا کیا بنا؟ میں نے عرض کی یا امیر المومنین ! ان لوگوں نے اسلام سے ارتداد اختیار کیا تھا اور مشرکوں سے جاملے تھے قتل کے سوا اور کیا ان کے ساتھ کیا جاتا تھا ؟ اس پر عمر فرمانے لگے اگر میں انہیں قتل کئے بغیر صلح سے پکڑتا تو یہ بات مجھے دنیا میں موجود سب سونے اور چاندی کے مل جانے سے زیادہ پسندیدہ تھی.میں نے عرض کی یا امیر المومنین ! اگر آپ ان لوگوں کو پکڑ لیتے تو آپ ان سے کیا سلوک فرماتے؟ آپ نے فرمایا: میں ان سے کہتا کہ جس دروازے سے نکلے ہو اسی میں واپس آ جاؤ.اگر وہ ایسا کرتے تو میں انہیں کچھ نہ کہتا اور اگر وہ نہ
104 مانتے تو انہیں قید میں ڈال دیتا.(كنز العمال كتاب الايمان والاسلام من قسم الافعال باب اوّل الفصل الخامس فى الارتداد و احكامه حديث نمبر ١٤٦٤ مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت الطبعة الاولى ١٤٩١ هـ ١٩٩٨م) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ بھی قتل مرتد کے نظریہ کے مخالف تھے.نظریہ قتل مرتد اور علماء سلف قتل مرتد کے قائلین جب زمانہ نبوی ﷺ اور زمانہ خلافت راشدہ میں کوئی مضبوط ٹھوس دلیل نہیں پاتے تو پھر اجماع کی باتیں شروع کر دیتے ہیں اور اسلام کے وسطی زمانہ (جبکہ تاریکی پھیل چکی تھی) کے علماء کی باتوں سے استنباط کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس مسئلے پر اجماع ہو چکا ہے.اس لئے اجماع کے مقابل پر کسی کی بات قبول نہیں کی جائے گی.دلیل اول: دعوی اجماع غلط ہے اس اجماع کے خلاف ایک دلیل تو میں پہلے دے چکا ہوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مرتدین گرفتار ہوئے ہیں اور ان کو قتل نہیں کیا گیا.تاريخ الطبري، حوادث ۵۱۱- صفحه ۲۵۹ تا ۲۶۳، تاریخ ابن خلدون جلد اول ردة اهل عمان و مهرة واليمن صفحه ۱۸۷۲،۸۷۱ مطبوعہ دار ابن حزم بيروت الطبعة الاولى ٢٠٠٣م)
105 اس لئے اس زمانہ کا اجماع تو قتل مرتد کے عقیدہ کے خلاف تھا.اگر قتل مرتد کے عقیدہ پر اجماع ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ حضرت ابو بکر مرتدین کو قتل نہ کرواتے.ایک صحابی نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر یہ اعتراض نہیں کیا کہ قرآن کا حکم ہے کہ مرتد کو قتل کیا جائے اور یہ حد ہے جس کا جاری کرنا آپ پر فرض ہے آپ کو اجازت ہی نہیں کہ ان لوگوں کو قتل کے سوا کوئی اور سزا دیں.آپ کو کس طرح یہ حق حاصل ہو گیا کہ ان کو غلام بنا لیں.تو یہ صحابہ کا تقریری اجماع ہے.ایک مخالف آواز کا بھی نہ اٹھنا ثابت کرتا ہے کہ اگر اجماع ہے تو اس بات کے حق میں ہے کہ مرتد کی سزا اسلام قتل قرار نہیں دیتا.دلیل دوم سنن دار قطنی میں حضرت ابن عباس سے ایک روایت یوں مروی ہے کہ : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : الْمُرْتَدَّةُ عَنِ الإِسْلَامِ تُحْبَسُ وَلَا تُقْتَلُ (سنن الدارقطني كتاب الحدود والديات حدیث نمبر ۱۲۰٫۳۱۷۳) یعنی آپ کے نزدیک مرتد ہ کو قتل نہیں کیا جائے گا.قید کیا جائے گا.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو میدان جنگ میں بھی قتل کرنے سے منع فرمایا ہے.سو یہ دونوں روایات مودودی کے اس نظریہ کی مخالفت کر رہی ہیں کہ مرتد قتل ہوگی اور اس بات کی بھی کر قتل مرتد کے نظریہ پر امت کا اجماع ہے.دلیل سوم علامہ المرغینانی ( وفات ۵۹۳ ہجری) فرماتے ہیں: وَلَنَا أَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ نَهَى عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ،
106 وَلاَنَّ الْاَصْلَ تَاخِيُرُ الْأَجْزِيَةِ إِلى دَارِ الْآخِرَةِ، إِذْ تَعْجِيلُهَا يُخِلُّ بِمَعْنَى الْإِبْتِلاءِ، وَ إِنَّمَا عُدِلَ عَنْهُ دَفْعًا لِشَرِّ نَاجِرٍ وَ هُوَ الْحِرَابُ وَلَا يَتَوَجَّهُ ذَلِكَ مِنَ النِّسَاءِ لِعَدْمِ صَلَاحِيَّةِ الْبِنْيَةِ بِخِلَافِ الرجال - ( الهداية في شرح بداية المبتدى لعلى بن ابى بكر المرغيناني.الجزء الثاني.كتاب السير باب احكام المرتدين صفحه : ۴۰۶، ۴۰۷.داراحیاء التراث العربي بيروت ، لبنان) یعنی مرتد ہ عورت کو قتل نہ کرنے کی دو وجوہ ہیں.ایک یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے.دوسرے یہ کہ سزا کا اصل یہ ہے کہ اس کو آخرت پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ اس دنیا میں جلدی سے سزا دے دینا آزمائش کرنے کے اصول میں خلل اندازی ہے.اور اس قاعدہ سے جو عدول کیا گیا ہے تو وہ صرف پیدا ہونے والے شر کو روکنے کی غرض سے ہے اور وہ شر حراب یعنی جنگ ہے.اور چونکہ عورتوں میں مردوں کے برعکس اپنی خلقت کی وجہ سے جنگ کی قابلیت نہیں ہوتی اس لئے ان کو قتل کیا ہی نہیں جاتا.دلیل چهارم اسی طرح ایک بہت بڑے فقیہ فتح القدیر“ کے مصنف امام ابن الهمام ( متوفی ۶۸۱ ہجری) فرماتے ہیں:.....يَجِبُ فِى الْقَتْلِ بِالرِّدَّةِ أَنْ يَكُونَ لِدَفْعِ شَرِّ حِرَابِهِ، لَا جَزَاءً عَلَى فِعْلِ الْكُفْرِ، لِاَنَّ جَزَاءَ هُ اَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ عِنْدَ اللهِ تَعَالَى
107 ހﷲ فَيَخْتَصُّ بِمَنْ يَتَأْتَى مِنْهُ الْحِرَابُ، وَهُوَ الْرَّجُلُ، وَلِهَذَا نَهَى النَّبِيُّ الله عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ.....و لِهَذَا قُلْنَا : لَوْ كَانَتِ الْمُرْتَدَّةُ - ذَاتَ رَأْي وَ تَبَعِ تُقْتَلُ، لَا لِرِدَّتِهَا، بَلْ لِأَنَّهَا حِينَئِذٍ تَسْعَى فِي الْأَرْضِ بِالْفَسَادِ شرح فتح القدير على الهداية لمحمد بن عبد الواحد المعروف بابن الهمام.طبع اول.القاهرة.شركة البابی الحلبی.۱۹۷۰ء الجزء السادس كتاب السير باب احكام المرتدين.صفحه: ۷۲) یعنی مرتد کو صرف اس صورت میں قتل کیا جانا چاہئے جب اس کی طرف سے جنگ کے خطرے کو ٹالنا مقصود ہو نہ کہ محض کفر اختیار کرنے کے بناء پر کیونکہ کفر اختیار کرنے کی سزا خدا کے نزدیک اس سے بہت بڑھ کر ہے.لہذا صرف ایسے مرتد کو قتل کیا جائے گا جو محارب ہو جو عموماً مرد ہوتا ہے نہ کہ عورت.اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورتوں کے قتل سے منع فرمایا ہے....ور اسی بناء پر ہمارے نزدیک اگر مردہ عورت اثر و رسوخ اور جتھہ رکھنے والی ہو تو وہ قتل ہوگی.اپنے ارتداد کی وجہ سے نہیں بلکہ زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے.دلیل پنجم اسی طرح امام البا برقی (متوفی ۷۸۶ ہجری) فرماتے ہیں: د قتل صرف جنگ کرنے کی بناء پر کیا جائے گا کیونکہ محض کفر کرنے پر کسی کو قتل کرنا جائز نہیں.اسی وجہ سے اندھے اور گھر میں پڑے ہوئے اور پیر فرتوت کو قتل نہیں کیا جاتا.(شرح فتح القدير على الهداية الجزء السادس كتاب السير باب احكام المرتدين صفحه ۷۴ )
دلیل ششم 108 نیز علامہ سرخسی جو پانچویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں لکھتے ہیں: کفر کرنا اگر چہ بہت بڑا جرم ہے مگر یہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے اس لئے اس کی سزا آخرت کو ملے گی.دنیا میں جو سزائیں دی جاتی ہیں وہ بندوں کے مصالح کی حفاظت کے لئے جاری کی گئی ہیں.جیسے جانوں کی حفاظت کے لئے قصاص کی سزا ، نسب کی حفاظت کے لئے حد زنا، لوگوں کے اموال کی حفاظت کے لئے حد سرقہ ، عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے حد قذف اور عقل کی حفاظت کے لئے حد خمر ہے.چونکہ کفر پر اصرار کرنے والا مسلمانوں کا محارب ہوتا ہے اس لئے اس کی طرف سے جنگ کے شر سے بچاؤ کے لئے اسے قتل کیا جاتا ہے.جنگ اور محاربت کے اس شر سے بچاؤ کی فوری علت کو بعض جگہ خدا نے واضح بیان کیا ہے.جیسے فرمایا: فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ.اور بعض جگہوں پر اس تک لے جانے والے سبب شرک کا ذکر فرمایا ہے.پس جب ایک طرف یہ ثابت ہو گیا کہ قتل کرنے کی وجہ جنگ اور محاربت ہے اور دوسری طرف یہ معلوم ہے کہ عورت کی خلقت جنگ کے قابل نہیں اس لئے وہ نہ کافرہ ہونے کی وجہ سے قتل ہوتی ہے نہ ارتداد اختیار کرنے پر.(المبسوط لشمس الدين السرخسي طبع دوم، بیروت.دار المعرفة للطباعة والنشر جزء دهم صفحه +11)
109 دلیل ہفتم اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ کے استاد حضرت حماد کے استاد حضرت ابراہیم مخفی جو علماء حدیث اور فقہ میں غیر معمولی مقام رکھتے ہیں ان کے متعلق لکھا ہے کہ.: و, وہ مرتد کو موت تک یعنی غیر محدود مدت تک مہلت دینے کے قائل تھے.“ (نيل الأوطار لامام محمد بن علی بن محمد الشوكاني.ابواب احكام الردة والاسلام باب قتل المرتد.) اتنا بڑا چوٹی کا عالم جو علماء حدیث اور فقہ میں ایک غیر معمولی مقام رکھتا ہے اس کا اختلاف ان آج کل کے علماء کو نظر ہی نہیں آ رہا عصر حاضر کے علماء کی آراء اس زمانہ کے علماء نے بھی کبھی اس نظریہ پر اتفاق نہیں کیا.سابق میں تو کبھی اجماع ہوا ہی نہیں ، اب بھی اجماع نہیں ہے.مثلا : ا.امام محمود شلتوت سابق شیخ الازھر فرماتے ہیں: اس جرم کے بارہ میں جو کچھ قرآن کریم میں آیا ہے وہ درج ذیل آیت کریمہ ہے: وَمَنْ يَّرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَمَتْ وَ هُوَ كَافِرُ فَأُولَبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَأُولَيكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ (المائدة : ۵۵) اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس آیت میں صرف یہ ذکر ہے کہ ایسے مرتدین کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور آخر میں آگ میں رہتے چلے جانے کی سزا پائیں گے.
110 جہاں تک اس جرم کی دنیوی سزا کا تعلق ہے تو اس کے ثبوت میں فقہاء درج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں جو ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "مَنْ بَدَّلَ دِيْنَهُ فَاقْتُلُوهُ“ علماء نے اس حدیث پر مختلف زاویوں سے بحث کی ہے....اس مسئلہ کے بارہ میں نقطہ نظر اس وقت بدل جاتا ہے جب یہ بات سامنے رکھی جائے کہ بہت سے علماء کی رائے میں حدود کہلانے والی سزاؤں کی بنیاد حدیث احاد کو نہیں بنایا جا سکتا اور یہ کہ صرف کفر کی وجہ سے کسی کا خون بہانا جائز نہیں بلکہ صرف اس صورت میں کسی کا خون بہانا جائز ہوگا جب کوئی مسلمانوں سے جنگ کرے اور ان پر حملہ کرے اور بزور شمشیر ان کو ان کے دین سے رو کے اور یہ کہ قرآن کریم کی اکثر آیات واضح طور پر دینی امور میں کسی پر زبردستی کرنے کی مخالفت کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى نیز فرمایا: " أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ" (الاسلام عقيدة وشريعة - طبعة دار العلم - القاهرة - صفحه ۲۹۲-۲۹۳) ۲.علاؤالدین -۲- استاذ محمحمود زغلف ڈاکٹر علاؤ الدین زیدان عبد المنعم یحییٰ الکامل اور يَحْی کامل احمد صاحبان کی رائے ہے کہ : اس مزعومہ حد کی کوئی دلیل قرآن یا سنت صحیحہ میں قطعاً موجود نہیں بلکہ اس کے برعکس متعدد آیات قرآنیہ اس قسم کے مزاعم کو قطعاً باطل قرار دیتی اور انسان کو کفر یا ایمان کے اختیار کرنے میں آزادی دیتی ہیں.چاہے وہ اسلام میں داخل ہو جائے اور چاہے تو اسے چھوڑ کر علیحدہ ہو جائے.نیز بتاتی
111 ہیں کہ ہر انسان کے ایمان لانے یا حق سے اعراض کرنے کا حساب خود اللہ تعالیٰ آخر کار لے گا کیونکہ وہی اپنے بندوں کے سینوں کے پوشیدہ رازوں اور دلوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے“.جو لوگ حضرت ابوبکر صدیق کی مرتدین کے خلاف حروب سے قتل مرتد کا جواز نکالتے ہیں انہیں جاننا چاہئے کہ اگر ہم ان حروب کے مختلف تاریخی پہلوؤں پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ وہ لوگ صرف مرتد نہ تھے بلکہ انہوں نے اسلامی معاشرہ کے اند رفتنہ کھڑا کر رکھا تھا اور ملک کے امن و امان کو برباد کر دیا تھا حتی کہ انہوں نے مدینہ کا محاصرہ بھی کر لیا تھا جس پر مجبور ہوکر ابوبکران کے مقابلہ پر نکلے اور انہیں ان کے محاصرہ سے نکالا.اس سے ثابت ہوا کہ بات صرف اتنی سے نہ تھی کہ چندا فراد مرتد ہو گئے تھے اور ان سے ان کے ارتداد کی وجہ سے جنگ کی گئی بلکہ ابو بکر نے ان مرتدین کے خلاف اس لئے جنگ کی کہ تا آپ ان کی اسلامی حکومت پر یلغار کو روکیں اور اس میں فتنہ پردازی سے انہیں باز رکھیں تا کہ وہ اسلامی حکومت کے امن اور سلامتی کے لئے خطرہ نہ بنیں.آپ نے یہ قدم درج ذیل ارشاد الہی کی روشنی میں اٹھایا تھا "وَ قَاتِلُوا الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ».(البقرة: ۲۱۰) اسی طرح کتب تاریخ میں مذکور ثعلبہ کا قصہ بھی حد ردہ کے بطلان پر تین ثبوت ہے اور اس بات کی تردید کرتا ہے کہ ابو بکر نے مرتدین سے صرف اس بنا پر جنگ کی تھی کہ وہ زکوۃ دینے سے انکاری ہو گئے تھے.کیونکہ تعلبہ نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور آپ کے عامل
112 کے ساتھ بڑی بے باکی اور بدزبانی کا مظاہرہ کیا تھا مگر پھر بھی آپ نے نہ اس کے قتل کا ارشاد فرمایا اور نہ ہی اس سے زبر دستی زکوۃ وصول کرنے کا.بلکہ بعد میں خود ثعلبہ نادم ہو کر جب زکوۃ دینے آیا تو آپ نے لینے سے انکار فرما دیا اسی طرح آپ کے بعد ابو بکر، عمر وعثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اپنے اپنے زمانہ خلافت میں اس سے زکوۃ قبول نہ کی.اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ زکوۃ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور نہ ہی عہد صدیقی میں کوئی ایسا جبری ٹیکس سمجھی جاتی تھی جو قوت سے وصول کیا جاتا ہو اور جو زکوۃ دینے سے انکاری ہوتا اس کے خلاف چڑھائی کی جاتی تھی نہیں ، بلکہ مسلمان اپنے کامل ارادے سے اپنے مولا کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اپنے نفس کو پاک کرنے کی خاطر ز کوۃ ادا کرتا تھا.اور ظاہر ہے کہ حضرت ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے اور سب امور میں آپ کے اسوۂ حسنہ پر کار بند تھے.ایسی صورت میں آپ کے لئے یہ ناممکن ہے کہ آپ تلوار کے زور سے کسی کو دین اسلام کی طرف لوٹنے پر مجبور کرتے.پس ہم خدا سے ڈرتے ہیں کہ ابوبکر کی طرف وہ بات منسوب کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مخالف ہے.حقیقت یہی ہے کہ آپ نے ان مرتدین سے صرف اور صرف اس لئے جنگ کی تھی کہ تا آپ نئے نئے پروان چڑھنے والے اسلامی معاشرہ کو ان لوگوں کے فتنہ اور یورش سے بچاویں.
113 ان حقائق کی روشنی میں وہ سارے فاسد خیالات جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں جو مستشرقین اور دشمنان اسلام نے مرتدین کے ساتھ ابوبکر کی جنگوں کے نام سے مشہور کئے ہوئے ہیں“ (حقيقة الحكم بما انزل الله طبع اول دار نهر النيل القاهره.صفحه ۲۶ ۱ تا ۱۳۱) ۳.اسی طرح درج ذیل علماء کرام نے بھی اس بودے نظریہ کو بڑی شدت کے ساتھ ردّ کیا ہے.مولوی غلام احمد پرویز ( نقطہ پر کار حیات.یعنی جہاد کا صحیح مفہوم قرآن کریم کی روشنی میں.ادارہ طلوع اسلام.اشرف پریس لاہور.جولائی ۱۹۶۷.صفحہ ۳۰.۳۱) ب.مولانا ابولکلام آزاد ( تفسیر ترجمان القرآن زمزم کمپنی لمیٹیڈ.لاہور.جلد اول) ج.مولانا نواب اعظم یار جنگ چراغ عالی.(اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام طبع اول حیدرآباد دکن ۱۹۱۰ء جز اول) د.مولا نا محمد علی جوہر، رئیس الاحرار ) سیرت محمد علی بقلم رئیس احمد جعفری طبع اول کتاب منزل.لاہور) د.مولوی ثناء اللہ امرتسری ( اسلام اور عیسائیت ، ثنائی برقی پر لیں.ہال بازار.امرتسر ۱۹۴۱ء) س.جناب رحمت اللہ طارق ) قتل مرتد کی شرعی حیثیت ادارہ ادبیات اسلامیہ.ملتان طبع ثالث - ۱۹۸۷ء) ص.چیف جسٹس ایس.اے رحمان (PUNISHMENT OF APOSTASY IN ISLAM ،ادارہ ثقافت اسلامیہ، پاکستان)
114 ط جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس محمد منیر رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء) یہ ہے ان کے اجماع کی حقیقت و حیثیت کہ اس زمانہ میں بھی کہ جس میں یہ سانس لے رہے ہیں وہ بہت بڑے بڑے جید علماء اور ماہرین قانون بڑی قطعیت کے ساتھ ان کے عقیدہ قتل مرتد کو رد کر رہے ہیں.کیا مودودی صاحب سنجیدہ ہیں؟ مولانا مودودی صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر حقیقت میں ان مسلمانوں پر غور کرو تو وہ مسلمان ہیں ہی نہیں“.دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اپنے اس فتوی میں سنجیدہ تھے؟ سنئے وہ کیا فرماتے ہیں ان لوگوں کے متعلق جو جماعت اسلامی سے الگ ہو جائیں.اسلام سے الگ ہونے والوں کے متعلق نہیں بلکہ جماعت اسلامی سے الگ ہونے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: وو ر یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں.نہیں.یہاں پیچھے ہٹنے کے معنی ارتداد کے ہیں“ روداد جماعت اسلامی از مودودی.حصہ اول صفحہ ۸ مرتبه شعبه تنظیم جماعت).لاہور.مکتبہ جماعت اسلامی) اگر جماعت اسلامی سے علیحدہ ہو کر کسی اور جماعت میں شامل ہو جانے کا نام ارتداد ہے تو دوسری جماعت کا نام کفر نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے؟
115 ملاؤں کے ارادے ان کے ارادے کیا ہیں؟ اگر ان کا بس چلے ( اور جس طرح حکومت پاکستان پر یہ ایک عالمی سازش کے تحت قبضہ کر رہے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے) تو یہ کیا کریں گے؟ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء نے اس مسئلے پر غور کیا کہ اس عقیدہ کے نتیجے کیا نکل سکتے ہیں.عدالت کے جج صاحبان جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے لکھا کہ : وو دیوبندیوں کے دارالعلوم سے مصدقہ فتوی (13 EX-D-E) میں اثناعشری شیعوں کو کافر اور مرتد قرار دیا گیا ہے“ اور شیعوں کے نزدیک تمام سنی کافر ہیں اور اہل قرآن یعنی وہ لوگ جو حدیث کو غیر معتبر سمجھتے ہیں اور واجب التعمیل نہیں مانتے متفقہ طور پر کافر ہیں اور یہی حال آزاد مفکرین کا ہے.اس تمام بحث کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ شیعہ، سنی، دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی لوگوں میں سے کوئی بھی مسلم نہیں.اور اگر مملکت کی حکومت ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہو جو دوسری جماعت کو کافر سمجھتی ہے تو جہاں کوئی شخص ایک عقیدے کو بدل کر دوسرا اختیار کرے گا اس کو اسلامی مملکت میں لازماً موت کی سزا دی جائے گی“ رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۳۶.۲۳۷) آج اسلام کو خود عالم اسلام سے خطرہ ہے.یہ ایک بھیانک سازش ہے جس کا سر براہ آج امریکہ کا استعمار ہے.جن جن حکومتوں پر امریکہ کا رعب اور تسلط ہے
116 وہاں قتل مرتد کا عقیدہ اٹھایا جا رہا ہے اور یہ ظالم یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہماری طرف رخ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں اور جانتے ہیں کہ ان کمز ور حکومتوں کو جو ہماری امداد پر پلتی ہیں، جو ہم سے روٹی مانگ کر کھاتے ہیں اور ہم سے ہتھیار لیتے ہیں جرات نہیں ہوگی کہ کسی ہندو، کسی عیسائی، کسی یہودی کو قتل کریں.ہاں ! اگر ان کی بجلی گرے گی تو صرف مسلمانوں کے سر پر گرے گی.اگر یہ گردنیں کاٹیں گے تو صرف مسلمانوں کی کاٹیں گے.ہر فرقہ دوسرے فرقہ کو مرتد قرار دے گا اور ہر فرقہ جس کا زور چلے گا وہ دوسرے مرتد فرقے کو قتل کرتا چلا جائے گا.اسلام میں ایک کہرام برپا ہو جائے گا اور ایسے مذہب پر ساری دنیا لعنت ڈالے گی اور ان لوگوں پر جن میں یہ بھیانک عقیدے چل رہے ہیں اور جو اس طرح اپنے دوسرے بھائیوں کے خون مباح سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کرتے چلے جاتے ہیں.یہ ہے اس سازش کا خلاصہ.پرانا مشغلہ اس سے پہلے یہ کھیل کھیلا جا چکا ہے.یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے.عملاً عالم اسلام میں اس سے پہلے جہاں جہاں بھی ملانوں کا اسلامی حکومتوں پر قبضہ ہوا ہے یا ظالم اسلامی حکومتوں نے مسلمان علماء کو استعمال کیا ہے، وہاں قتل مرتد کے نام پر اتنا بھیا نک کھیل کھیلا جا چکا ہے کہ اس کے تصور سے آج بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.عباسی بادشاہ مامون اور اس کے بعد کے زمانہ کے چند واقعات میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.نہایت راستباز ، خدا ترس، نیک اور عالم مسلمان محض اس
117 جرم میں مصلوب کئے گئے کہ ان کا قرآن کریم کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ یہ مخلوق ہے.لیکن جب دور بدلا اور ایسا شخص خلافت کی مسند پر بیٹھا جس کا خود اپنا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن کریم مخلوق ہے تو اس نے ایسے تمام علماء کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا جو قرآن کریم کو مخلوق نہیں سمجھتے تھے.مسلمان بزرگوں کے خون گلیوں میں بہتے رہے اس جرم میں کہ وہ مرتد ہو گئے ہیں اور مرتد کی سزا قتل ہے.اور ارتداد کی دلیل صرف اتنی تھی کہ انہوں نے قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی تنزیہی صفات کے پیش نظر مخلوق قرار دیا.یہ اتنا بھیا نک ظالمانہ دور ہے.مگر یہ صرف ایک دور نہیں بلکہ کثرت سے ایسے واقعات نہایت ظالمانہ طور پر اسلامی حکومتوں کے چہرے پر ایک ایسا کلنک کا ٹیکہ لگاتے ہیں کہ جسے دیکھ کر آج بھی آزاد دنیا اسلام اور اسلام کے ماننے والوں سے نفرت اور حقارت کرتی ہے اور اسلام کو ایک جاہلانہ تار یک ماضی کا مذہب قرار دیتی ہے.آج یہ علماء اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کر رہے.ان کو کوئی شرم نہیں آتی.زبر دستی قرآن اور سنت کے خلاف عقیدے اسلام کی طرف منسوب کرتے چلے جاتے ہیں اور اسلام کی تاریخ کو خون آلود کر تے چلے جاتے ہیں.لیکن ملاں کے منہ کو جو خون لگ چکا ہے یہ خون اس منہ سے اب اترنے والا نہیں ہے.آج بھی اگر عالم اسلام کو ہوش نہ آئی اور ملاں کی بالا دستی کو رد کر کے ردی کی ٹوکری میں نہ پھینکا گیا اور اسے مجبور نہ کیا گیا کہ تم دینی معاملات کو سیاست سے الگ رکھو اور دین اسلام پر ظلم سے باز آ جاؤ...صرف تقویٰ کی تعلیم دو اور نمازوں اور عبادتوں کی تعلیم دو، اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ ماضی کی بھیانک تاریخ پھر دہرائی جائے گی.اور اس کے پیچھے بڑی بڑی حکومتیں ہیں جو چاہتی ہیں کہ ایسا ہو.وہ چاہتی ہیں کہ مسلمان مسلمان کی چھری سے ہلاک ہو اور اسلام عالم اسلام کی چھری سے ہلاک ہو.
118 ایک اہم اقتباس ہیں تحقیقاتی عدالت کا ایک اور اقتباس پیش کر کے پھر میں اس مضمون کے آخری حصے کی طرف آتا ہوں.تحقیقاتی عدالت لکھتی ہے کہ عدالت تسلیم کرتی ہے کہ : اسلامی مملکت میں ارتداد کی سزا موت ہے.اس پر علماء عملاً متفق الرائے رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحه ۲۳۶) یعنی وہاں اس وقت عدالت میں جو علماء پیش ہوئے تھے وہ متفق الرائے تھے.عدالت ان علماء کی بات کر رہی ہے.مگر بہت سے بڑے بڑے علماء جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے وہ پاکستان سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور دیگر عرب ممالک سے بھی تو وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے اس لئے عدالت ان کا ذکر نہیں کرتی.اس زمانہ میں بھی اور اس سے پہلے بھی اس نظریہ کے خلاف وہ جہاد کر چکے ہیں.کتابیں لکھ چکے ہیں.اس لئے عدالت کی ہرگز یہ مراد نہیں کہ سارے علماء اس نظریہ پر متفق تھے بلکہ صرف وہ جو عدالت میں ان کے سامنے پیش ہوئے تھے.عدالت مھتی ہے.اگر مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری یا مرزا رضا احمد خاں بریلوی ( مراد احمد رضا خاں بریلوی ہیں.ناقل ) یا ان بے شمار علماء میں سے کوئی صاحب ( جو فتوے (EX-D-E14) کے خوبصورت درخت کے ہر پتے پر مرقوم دکھائے گئے ہیں) ایسی اسلامی مملکت کے رئیس بن جائیں تو یہی انجام ( یعنی قتل.ناقل ) دیوبندیوں اور وہابیوں کا ہو گا جن میں مولانا محمد شفیع دیو بندی ممبر بورڈ تعلیمات اسلامی ملحقہ دستور ساز اسمبلی پاکستان اور مولانا داؤد غزنوی بھی شامل ہیں.اور اگر مولانا محمد شفیع دیو بندی رئیس مملکت مقرر
119 ہو جائیں تو وہ ان لوگوں کو جنہوں نے دیوبندیوں کو کافر قرار دیا ہے، دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں گے.اور اگر وہ لوگ مرتد کی تعریف میں آئیں گے یعنی انہوں نے اپنے مذہبی عقائد ورثے میں حاصل نہ کئے ہوں گے بلکہ خود اپنا عقیدہ بدل لیا ہو گا تو مفتی صاحب ان کوموت کی سزا دے دیں گئے.مودودی کا تشدد رپورٹ تحقیقاتی عدالت ۱۹۵۳ ء صفحه ۲۳۶) مولوی مودودی صاحب کا ایک اور دلچسپ حوالہ ہے جس میں وہ اس بات سے اختلاف رکھتے ہیں کہ سارے پیدائشی مسلمان ، مسلمان ہی شمار ہوں گے.ان کے نزدیک مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے والے بھی فی الحقیقت مرتد ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم اسلامی حکومت میں ان سب کو بطور مسلمان قبول نہیں کریں گے بلکہ ایک سال کا نوٹس دیں گے کہ عملاً تو تم مرتد ہو ہی چکے ہو اس لئے اب ہم تمہیں کھلی چھٹی دیتے ہیں کہ ایک سال کے اندر اندر خود اپنے منہ سے اسلام کی صداقت کا انکار کرو اور کہو کہ اسلام جھوٹا مذہب ہے.اگر تم ایسا کرو گے تو ہم تمہیں معاف کر دیں گے اور جان بخشی کر دیں گے.( بس ایک حسرت رہ گئی ہے کہ مسلمانوں سے اسلام کو جھوٹا سن لیں) اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں کہ ایک سال گزرنے کے بعد اگر تمہاری یہی حالت رہی یعنی جسے ہم ارتداد سمجھتے ہیں تو ہم قتل وغارت کریں گے اور تم سب کی جڑیں اکھاڑ پھینکیں گے اور بصورت دیگر جبر ا تم سے اس اسلام پر عمل کروائیں گے جسے ہم اسلام سمجھتے ہیں.
120 وہ لکھتے ہیں: ” جس علاقہ میں اسلامی انقلاب رونما ہو وہاں کی مسلمان آبادی کو نوٹس دیا جائے کہ جو لوگ اسلام سے اعتقاد او عملا منحرف ہو چکے ہیں اور منحرف ہی رہنا چاہتے ہیں وہ تاریخ اعلان سے ایک سال کے اندر اندر اپنے غیر مسلم ہونے کا با قاعدہ اظہار کر کے ہمارے نظامِ اجتماعی سے باہر نکل جائیں.اس مدت کے بعد اُن سب لوگوں کو جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں مسلمان سمجھا جائے گا.تمام قوانین اسلامی ان پر نافذ کئے جائیں گے.فرائض و واجبات دینی کے التزام پر انہیں مجبور کیا جائے گا.اور پھر جو کوئی دائرہ اسلام سے باہر قدم رکھے گا اسے قتل کر دیا جائے گا.ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں.صفحہ ۸۰) اس جگہ کوئی مودودی صاحب کے ان الفاظ سے دھو کہ نہ کھائے کہ ان سب لوگوں کو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں مسلمان سمجھا جائے گا کیونکہ مودودی.صاحب اس سے پہلے پڑھے جانے والے ایک حوالہ میں فتویٰ دے چکے ہیں کہ ان مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان میں ۱۰۰۰ میں سے ۹۹۹ بھی حقیقی مسلمان نہیں.گویا اس کا معنی یہ ہوا کہ یہ مسلمان پیدائشی کا فر ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر بچہ فطرت صحیحہ یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے.یہ ہیں ان علماء کے ارادے اور یہ ہے ان کے اسلام کا تصور اور یہ ہے ان کے نزدیک آزادی ضمیر کا تصور.
121 ارتداد اور تاریخ انبیاء اب میں آپ کے سامنے ایک آخری بات جو دلچسپ بھی ہے اور اس مضمون پر حرف آخر کی حیثیت بھی رکھتی ہے اور ایک پہلو سے انتہائی دردناک بھی ہے پیش کرتا ہوں.قرآن کریم نے ایک بڑی ہی وسیع اور بہت مستند اور نہایت مبسوط تاریخ انبیاء پیش کی ہے.حضرت آدم سے لے کر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک انبیاء علیہم السلام کے کیا عقائد رہے؟ ان کے کیا دستور رہے؟ ان کے ماننے والوں کے کیا خلق تھے؟ کیا اطوار تھے؟ اور اس کے مقابل پر ان کے دشمنوں کے کیا عقائد اور اطوار تھے ؟ ان کے دعوے کیا تھے؟ ان کے استدلال کیا تھے؟ نہایت مبسوط اور مسلسل تاریخ کے رنگ میں قرآن کریم نے ان سب باتوں کو محفوظ فرمایا ہے.حضرت نوح سے لے کر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک کے انبیاء کا ذکر اور ان کے مخالفین کا ذکر اور ان کے درمیان چلنے والی بحث کا ذکر قرآن کریم نے محفوظ کیا ہے.دشمنان انبیاء کا عقیدہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ بلا استثناء تمام منکرین انبیاء کا یہ عقیدہ تھا کہ جو ان کے مذہب سے پھر جائے یعنی مرتد ہو جائے اسے ضرور بھیانک سزائیں ملنی چاہئیں.پس اس مسئلہ پر اگر کوئی اجماع ہے تو مخالفین انبیاء کا اجماع ہے نہ انبیا ء اور ان کے ماننے والوں کا.قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے ساتھ تھا اور ان
122 لوگوں پر لعنت ڈالتا تھا جو یہ عقیدہ رکھتے تھے اور اس پر عمل کی کوشش کرتے تھے کہ اگر کوئی اپنی ملت سے پھر جائے تو اس کی سزا قتل ہونی چاہئے یا اسے زندہ جلا دینا چاہئے یا اسے بستی سے نکال دینا چاہئے یا اسے قید کر دینا چاہئے.حضرت نوح پر ارتداد کا الزام چنانچہ حضرت نوح کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ ان کی قوم نے بھی آپ کو کہا کہ تم اپنے دین سے خود بھی پھر گئے ہو اور دوسروں کا دین بھی تبدیل کروا ر ہے ہو اور قَالُوا لَبِنْ لَمْ تَنْتَهِ يُنُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِينَ ) (الشعراء: ۱۱۷) انہوں نے بیک آواز ہو کر کہا کہ اے نوح! اگر تو اس بات سے باز نہ آیا، اگر تو نے ارتداد سے تو بہ نہ کی اور لوگوں کو مرتد بنانے سے باز نہ آیا تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تیرا انجام یہ ہوگا کہ تو ہمارے ہاتھوں سنگسار کیا جائے گا.اس لئے اگر آج کوئٹہ کے علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ احمدی مرتد ہیں.ان کی مرضی کے خلاف زبر دستی انہیں اسلام سے باہر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس ارتداد کی سزا رجم ہے، ان کو زمین میں گاڑھ کر سنگسار کر دینا چاہئے تو یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں اس سے قبل حضرت نوح کے مخالفین بھی بعینہ یہی دعویٰ کر چکے ہیں.حضرت ابراہیم پر فتوی ارتداد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارہ میں قرآن کریم میں آتا ہے: قَالَ اَرَاغِبُ اَنْتَ عَنْ أَلِهَتِى يَابُرُ هِيمُ ۚ لَبِنْ لَّمْ تَنْتَهِ لا رَجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيَّاه (مريم : ۴۷) ابراہیم کے باپ نے ( جو بعض کے نزدیک ان کا چا تھا مگر قرآن اسے باپ
123 قرار دیتا ہے) اسے کہا کہ کیا تو میرے معبودوں سے پھر چکا ہے؟ اے ابراہیم ! اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کرونگا.اور بہتر ہے کہ سر دست کچھ دیر کے لئے تو میری نظروں سے اوجھل ہو جاتا کہ میرا غضب کچھ ٹھنڈا ہو جائے.پھر اسی آواز کو حضرت ابرا ہیم کے باپ کی قوم نے بھی اختیار کر لیا اور ارتداد کی سزا کا ایک اور طریقہ ایجا دکیا.انہوں نے کہا: قَالُوا حَرِقُوْهُ وَانْصُرُوا الهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَعِلِينَ.قُلْنَا ينَارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَهِيْمَنَ وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْتُهُمُ الْأَخْرِيْنَ ) (الانبياء : ۶۹ (۷۱) جب باپ نے سنگسار کرنے کا کہا تو قوم کو تو شہہ مل گئی.اگر باپ ارتداد کے جرم میں بیٹے کو یہ سزا دے سکتا ہے کہ اسے سنگسار کرا دے تو قوم نے تو ایک قدم آگے جانا ہی تھا.قرآن فرماتا ہے کہ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ اسے زندہ آگ میں جلا دو اور اس طرح اپنے معبودوں کی مدد کرو.اگر کچھ کرنا ہی ہے تو یہ کر گز رو ورنہ تمہارا دین خراب ہو جائے گا.مگر ارتداد کی سزا قتل قرار دینے والوں کا حکم نہیں چلنا تھا.خدا فرماتا ہے کہ آگ پر حکم میرا چلنا تھا کیونکہ آگ میری تخلیق ہے.میں نے اس آگ کو حکم دیا: يُنَارُ كُونِى بَرْدًا وَ سَلَمَا عَلَى إِبْرَاهِيمَ کہ اے آگ ! میرے ابراہیم پر ٹھنڈی پڑ جا اور اس کے لئے امن کا ذریعہ بن جا اور سکینت کا ذریعہ بن جا.مقام عبرت اس طرز کلام سے انسان کو عبرت حاصل کرنی چاہئے.انسان تو مٹی سے پیدا کیا گیا جونمو کا جو ہر رکھتی ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا یعنی مٹی کے برعکس جو
124 کچھ مٹی پیدا کرتی ہے اسے جلا کر خاکستر کر دے.پس انسانوں میں باہمی دشمنی پیدا کرنے والے دراصل شیطان ہی کی خصلت رکھتے ہیں.حضرت لوط پر ارتداد کی تہمت حضرت لوط کے متعلق بھی ان کی قوم نے یہی طرز اختیار کیا اور آپ کو بھی ارتداد کے جرم کا سزاوار قرار دیا.قَالُوا لَبِنْ لَّمْ تَنْتَهِ يَلُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ قَالَ إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقَالِينَ ، رَبِّ نَجِنِي وَأَهْلِى مِمَّا يَعْمَلُونَ (الشعراء : ۱۶۸ تا ۱۷۰) انہوں نے ایک اور سزا تجویز کی.کہا اگر تو ارتداد سے باز نہ آیا تو ہم تجھے وطن سے نکال دیں گے.انہوں نے کہا: تم نے جو کرنا ہے کر لو.میں تو تمہارے عمل سے بیزار بیٹھا ہوں.تھک چکا ہوں تمہارے گند کو دیکھ دیکھ کر.تم سے مجھے رحم کی کوئی توقع نہیں نے.پھر معاً آپ کا ذہن خدا کی طرف منتقل ہوا اور یہ عرض کی : اے میرے رب! مجھے اور میرے اہل کو ان سب حرکتوں سے نجات بخش جو وہ کرتے ہیں.حضرت صالح" مرتد کہلائے حضرت صالح" کے ساتھ بھی ان کی قوم نے یہی سلوک کیا.اور یہی بحث جاری تھی کہ ملت سے منہ موڑنے والے اور ارتداد اختیار کرنے والے کو کوئی سزاملنی بھی چاہئے کہ نہیں؟ قَالُوا تَقَاسَمُوْا بِاللَّهِ لَنُبَيْتَنَهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ تَنْقُولَنَّ لِوَلِيْهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَ إِنَّا لَطيقُونَ (النمل :۵۰)
125 انہوں نے کہا کہ سب اللہ کے نام کی قسم کھاؤ کہ ہم سب اس پر اور اس کے گھر والوں پر رات کے وقت حملہ کریں گے اور انہیں قتل کریں گے اور جو بھی ان کے خون کی دیت کا مطالبہ کرنے کے لئے آئے گا ہم اس سے کہیں گے کہ ہم نے اس کے اہل کی ہلاکت کے واقعہ کو نہیں دیکھا اور ہم بچے ہیں.ہمیں کچھ پتہ نہیں.یعنی بعض جگہ کھلم کھلا مرتد کی سزا یہ قرار دی گئی اور بعض جگہ مخفی حملے کی صورت میں یہ سزا تجویز کی گئی ہے تا کہ جرم میں پکڑے نہ جائیں.پس آج اگر پاکستان میں یہ ہو رہا ہے اور علماء کہہ رہے ہیں کہ تم قانون کی زد سے بچنے کے لئے چھپ کر حملے کرو، بوڑھوں کو مارو، عورتوں کو قتل کرو، بچوں کو قتل کرو تو یہ کوئی نیا واقعہ نہیں.اس سے پہلے حضرت صالح کے زمانہ میں بھی یہ واقعات گزر چکے ہیں.حضرت شعیب پر تہمت ارتداد حضرت شعیب کے متعلق قرآن کریم بیان فرماتا ہے: قَالَ الْمَلَأُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يُشْعَيْبُ وَالَّذِينَ مَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا اَو لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا قَالَ اَوَلَو كُنَّا كُرِهِيْنَ قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُمُ بَعْدَ إِذْ نَجنَا اللهُ مِنْهَا وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا إِلَّا أَنْ يشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللهِ تَوَكَلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِينَ ) (الاعراف: ۹۰،۸۹) کہ شعیب کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب ! ہم ضرور تجھے
126 اور تجھ پر ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے سوائے اس کے کہ تم ہماری ملت میں واپس لوٹ آؤ.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو ارتداد اختیار کر جائے اور ہم تجھے بغیر سزا کے چھوڑ دیں! حضرت شعیب نے کیسا ہمیشہ زندہ رہنے والا جواب دیا کہ کیا اس کے باوجود بھی تم ہم پر زبردستی کرو گے کہ تم جانتے ہو کہ ہمارے دل تمہارے دین سے متنفر ہو چکے ہیں؟ وہ جب تمہارے دین کے قائل ہی نہیں رہے تو تمہاری زبردستی ہمارے دلوں میں تمہارا دین داخل کر ہی نہیں سکتی.جو ترکیب نہ حضرت شعیب کو معلوم تھی اور نہ آپ کی قوم کو معلوم تھی کہ زبر دستی کس طرح دلوں میں دین داخل کیا جاتا ہے وہ آج کے علماء کو معلوم ہوگئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ زبر دستی تلوار کے زور سے اگر اپنی ملت میں لوٹ آنے کا ہم مطالبہ کریں تو یہ بالکل جائز اور معقول ہے، عین اسلام اور قرآن کے مطابق ہے اور عقل کے مطابق ہے.ان کے اس تو ہم کا جواب حضرت شعیب کی زبان سے سنیئے.فرماتے ہیں.قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُمُ کہ اگر جبر اور موت کے ڈر سے یا گھروں سے نکالے جانے کے خوف سے ہم تمہاری ملت میں لوٹ آئیں گے تو ہم اللہ پر افترا کرنے والے ہوں گے.تو کیا اسلام اس بات کا حکم دیتا ہے کہ جو محض مولویوں کے تصور اسلام کے قائل نہیں رہے ان سے اور بھی بڑا جرم کرواؤ ؟ انہیں اللہ پر افترا کرنے والا بنا دو.پھر فرماتے ہیں:
127 ”ہمارے لئے یہ ممکن ہی نہیں اور تمہارے لئے بھی یہ ممکن نہیں.دلوں پر صرف ایک صاحب اختیار کا اختیار ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہے.جب تک ہمارا رب نہیں چاہے گا کہ ہم واپس اس خیال کی طرف لوٹ آئیں جسے چھوڑ کر ہم نکلے ہیں، اس وقت تک ہمارے قبضہ قدرت میں نہیں ہے کہ ہم وہ بات مان جائیں جو تم ہم سے منوانا چاہتے ہو.آج کی دنیا کے قبضہ قدرت میں وہ باتیں کیسے آ گئیں جو اس زمانہ کے نبی وقت کے قبضہ قدرت میں نہ تھیں؟ نہ اس زمانہ کے مخالفین کے قبضہ قدرت میں تھیں.صرف اللہ کے قبضہ قدرت میں تھیں.یقیناً آج بھی خدا ہی ہے جو دلوں کا مالک ہے اور اس کے تسلط کے سوا دل ہر گز بدل نہیں سکتے.حضرت موسی پر فرعونیوں کا الزام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی ان کی قوم اور اس وقت کے فرعون نے یہی سلوک کیا.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ نہ صرف یہی سلوک کیا بلکہ اس ظلم میں حد سے زیادہ بڑھ گئے اور نئے نئے طریق ایذا دہی کے ایجاد کئے.ایسی باتیں جو پہلے انبیاء کے مخالفین کے تصور میں بھی نہیں آئی تھیں وہ بھی فرعون کو سوجھیں اور ہر قسم کے مظالم اس بنا پر ان پر روا ر کھے کہ وہ اس کے نزدیک اس کی قوم کو مرتد بنا رہے تھے.چنانچہ قرآن کریم بیان فرماتا ہے: فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ ول امَنُوْا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ وَمَا كَيْدُ الْكُفِرِيْنَ إِلَّا فِي ضَللٍ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلَيَدْعُ رَبَّهُ اِنّى أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي
128 الْأَرْضِ الْفَسَادَ وَقَالَ مُوسَى إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّ وَرَبَّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ 0 (المؤمن : ۲۶ تا ۲۸) جب موسیٰ فرعون اور اس کی قوم کی طرف حق کے ساتھ آیا جو ہماری طرف سے اسے عطا ہوا تھا تو انہوں نے کہا کہ انہی کو ہی نہیں ان کے بیٹوں کو بھی قتل کرو.اقْتُلُوا ابْنَاءَ الَّذِينَ امَنُوْا مَعَهُ“ میں ”معه“ جو ہے وہ ایمان سے بھی متعلق ہو سکتا ہے یعنی ان لوگوں کے بیٹے جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں اور اقتلوا سے بھی متعلق ہو سکتا ہے یعنی اس کے ساتھ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ ان کی اولادکو بھی قتل کرو.یہ دونوں مفہوم ثابت ہیں کیونکہ اگلی آیت بتا رہی ہے کہ حضرت موسی کے قتل کا بھی انہوں نے فیصلہ کیا تھا.چنانچہ انہوں نے کہا کہ اسے ہی قتل نہ کرو ان کی اولادوں کو بھی قتل کر دو.وہ بھی قتل مرتد کے حکم میں آتی ہیں.اور آج بعینہ یہ آواز پاکستان کے علماء کی طرف سے احمدیوں کے خلاف اٹھائی جا رہی ہے.پس تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ قرآن فرماتا ہے کہ حق کے مخالفین ہمیشہ ایسی ہی تدبیریں سوچا کرتے ہیں.پھر کہا: وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَ هُمُ کہ ان کی عورتوں کو زندہ رکھو یعنی ذلیل کرنے کے لئے، رسوا کرنے کے لئے.فرمایا : وَمَا كَيْدُ الْكَفِرِينَ إِلَّا في ضَللٍ کہ کفار کی تدبیر سوائے رسوائی اور ناکام ہونے کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی.گمراہی میں بھٹکنے والی ایک تدبیر ہے جس کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلے گا.پھر بتایا که فرعون نے کہا " ذَرُونِی اَقْتُلْ مُوسى وَلْيَدْعُ رَبَّه» میں موسی کو کیوں نہ قتل کر دوں وہ پھر بلاتا پھرے اپنے رب کو.دیکھتے ہیں کہ کس طرح اس کا رب
129 اسے میرے پنجے سے نکال کر لے جاتا ہے؟ کیوں میں ایسا کرتا ہوں؟ کہا: ان کا اپنا دین جو ہے جو مرضی ہوتا پھرے، مگر صرف یہ بات نہیں اس کے جرم کی.یہ تبلیغ کرتے ہیں اور دوسروں کا دین بھی بدلتے پھر رہے ہیں اور یہ ایک ایسا جرم ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ یہ اس طرح زمین میں فساد برپا کرتے ہیں.پاکستانی حکومت کی دلیل چنانچہ حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کے خلاف جو مبینہ قرطاس ابیض شائع کیا ہے، اس میں یہی دلیل دی ہے.حکومت پاکستان کا لکھنے والا باہر کے ملکوں کو لکھتا ہے کہ آپ کو اندازہ نہیں کہ ہم کیوں ان کی مخالفت کرتے ہیں.ان کا اپنا دین جو ہے ہوتا پھرے لیکن یہ دوسروں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں اور ہماری زمین میں فساد برپا کر رہے ہیں کونسی حکومت ہے جو اس فساد کو برداشت کر سکے؟ انہیں کہنا چاہئے تھا کہ قرآن پڑھ کر دیکھ لو، فرعون نے بھی برداشت نہیں کیا تھا، میں کیسے برداشت کرسکتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ کا الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ہوا.اور اس دور میں اس عاجز کے متعلق بھی انہی الفاظ میں ہو چکا ہے.پاکستان کے علماء نے بار بار اصرار کیا اور قرائن بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے آمر نے حامی بھی بھر لی تھی کہ اس کے خلاف ایک سازش کرتے ہیں جس طرح موسی کے خلاف قتل کا ایک مقدمہ بنا تھا، اسے قتل کرتے ہیں.اگر اسے قتل کرو گے تو ( نعوذ باللہ) گویا رگِ احمدیت کائی جائے گی.کیونکہ یہ بہت شرارت کر رہا ہے.
130 نہایت فسادی شخص ہے.تبلیغ پر جماعت کو آمادہ کر رہا ہے.کہہ رہا ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ پھیل جاؤ اور بڑی تیزی کے ساتھ دنیا کوخدا کا پیغام دو.” داعیین الی اللہ“ کی تحریک کر دی ہے.یہاں تک لکھا ہوا ہے کہ پہلے خلفاء کچھ شریف تھے.یہ تو بڑا خبیث اور شریر آدمی ہے.یہ تو تیز کر رہا ہے جماعت کو.ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں.میرا جواب پس میں ان لوگوں کو قرآن کی زبان میں وہی جواب دیتا ہوں جو اس وقت کے نبی نے دیا تھا ( اور میں نبیوں کی خاک پا کے برابر بھی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا، مگر سنت نبویہ کی پیروی ضروری سمجھتا ہوں) میں حضرت موسیٰ کے قول سے سند لیتے ہوئے قرآن کی آواز میں انہیں مخاطب کر کے یہی کہتا ہوں.: إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَ رَبَّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَيْرٍ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ خدا کی قسم! میں تم سے اور تمہارے جیسے شریروں سے اپنے رب کی پناہ میں آتا ہوں.ہر اس متکبر سے جو یوم حساب پر یقین نہیں رکھتا ورنہ وہ ایسی ذلیل حرکتیں نہ کرتا.اس طرح قرآن کریم مسلسل کئی آیات میں اس مضمون کو بڑھا تا چلا جا رہا ہے.آیات بہت کثرت سے ہیں مگر اب میں مضمون کے آخری حصے کی طرف آتا ہوں.سید الانبیاء پر ارتداد کا الزام سب سے بڑھ کر ، سب سے برتر ، سب سے اعلیٰ، سب سے افضل، سب سے احسن ہمارے آقا و مولی حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جو سب نبیوں
131 کے سردار تھے.یہی ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور یہی قرآن سے ثابت ہے اور یہی سنت سے ثابت ہے.صرف دعوی نہیں بلکہ ہم اس کی دلیل رکھتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہی الزام لگا اور بعینہ اسی طرح آپ کو قوم کی طرف سے مخاطب کیا گیا اور کہا گیا کہ تو اپنے دین سے پھر گیا ہے اور اس کی لازماً سزا ملنی چاہئے.نہ صرف خود پھر گیا بلکہ دوسروں کو بھی اپنے دین سے پھرا رہا ہے.تیرا پھر نا تو کسی حد تک برداشت ہو سکتا تھا ، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم یہ برداشت کرتے چلے جائیں کہ تو مسلسل اپنے دین کی تبلیغ کرتا رہے اور دوسروں کو بھی اپنا ہم خیال بناتا رہے؟ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی مہذب قوم اس کی اجازت نہیں دے سکتی تھی، جیسا کہ آج پاکستان کی مہذب قوم کا خیال ہے.قوم کے جابر سربراہوں کا کہنا چاہئے کیونکہ قوم تو بڑی حد تک اس سے بری الذمہ ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ اے محمد ! تیرے متعلق بھی وہ جو کچھ ارادے رکھتے ہیں وہ میں تجھے بتا تا ہوں.وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ اَوْ يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ الله وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ (الانفال: ۳۱ ) ایک وہ وقت بھی تو تھا جب کہ یہ کفار تیرے خلاف طرح طرح کے مکر کر رہے تھے اور ان مکروں میں یہ بات بھی شامل تھی کہ یا تو تجھے قید کر دیں یا تجھے قتل کر دیں یا تجھے اپنی بستی سے نکال دیں.گویا انبیاء کے دشمنوں نے جو تدبیریں سوچی تھیں وہ ساری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے بھی سوچیں اور آپ کے خلاف ان کو استعمال کرنے
132 کا پورا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ پوری کوششیں شروع کر دیں.پھر فرمایا: وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ کہ انہوں نے بھی تدبیریں کیں اور خدا بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ تعالیٰ ہی سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تد بیر کرنے والا ہے.شرم تم کو مگر نہیں آتی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم جس تاریخ کو محفوظ فرما چکا ہے اور جسے مختلف رنگ میں بار بار اور بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور حضرت نوح کا نام لے کر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جملہ انبیاء کا نام لے کر بلا استثناء اور مسلسل یہ بحث ہمیں بتاتا چلا جا رہا ہے کہ انبیاء کے مخالفین اس عقیدے پر متفق تھے.ہر وقت کے نبی کا مخالف ہر دوسرے وقت کے نبی کے مخالف کے ساتھ یہ اتفاق و اجماع رکھتا تھا کہ مرتد کی سزا ضرور ہونی چاہئے ،خواہ اسے قید کرو یا گھروں سے نکال دو.( یہ تینوں قسم کی سزائیں علماء اسلام بھی آج کل بتا رہے ہیں.لیکن سزا ضرور دو.خصوصاً اس مرتد کو تو قتل کرنا لازم ہو جاتا ہے جو اپنے دین کی دوسروں کو تبلیغ بھی شروع کر دے..اور اس ساری تاریخ میں اللہ تعالیٰ مسلسل ہمیں بتاتا چلا جا رہا ہے کہ وہ لوگ جھوٹے اور ظالم تھے جو قتل یا کوئی اور سزا ارتداد کی تجویز کیا کرتے تھے.وہ دین میں جبر کے خواہاں تھے اور اسی کا ادعا کیا کرتے تھے.اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء نے بلا استثناء ان کے ان دعاوی کو رد کیا.نامراد قرار دیا اور جھوٹا اور ذلیل قرار دیا اور مذہب کی آزادی کا اعلان کیا.انسانی ضمیر کی آزادی کا اعلان کیا.
133 اس تمام اجماع کے بعد (نعوذ بالله من ذالك) ان علماء کے نزدیک یہ کیسا واقعہ ہو گیا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک اپنا موقف تبدیل فرمالیا اور انبیاء کے پاک زمرے سے ہٹ کر نعوذ باللہ من ذالک ان دشمنوں کے زمرے میں جا کھڑے ہوئے.میرا تصور اس خیال پر لعنت ڈالتا ہے.حیرت ہے کہ آج کے علماء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعوی کرتے ہوئے یہ ادعا کیسے کر سکتے ہیں؟ کیوں ان کو حیا نہیں آتی؟ کیوں شرم سے زمین میں گڑ نہیں جاتے؟ کیسے جرات ہوتی ہے ان کی زبانوں کو کہ ایسا دعوی کریں جبکہ تمام انبیاء بالا جماع مسلسل ایک دوسرے کے بعد، بلا استثناء مرتد کی سزا قتل کے عقیدے کو رد کرتے رہے اور خدا ہر مرتبہ یہ گواہی دیتا رہا کہ یہ رسول سچے تھے جو کہتے تھے کہ دین میں کوئی جبر نہیں اور دین میں جبر کو راہ دینے اور ارتداد کی سزا تجویز کرنے والے سارے جھوٹے اور لعنتی تھے اور سب کو خدا نے مٹا دیا اور ملیا میٹ کر دیا ؟ چھوڑ و باقی دلیلوں کو اتنا تو سوچو کہ ہمارے آقا اور مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم کس زمرے میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہے ہو.ہرگز ایسا نہیں ہوگا، ہرگز خدا تمہیں اس کی اجازت نہیں دے گا.یہ عقیدہ مرنے کا عقیدہ ہے اور مرکز رہے گا.اس راہ میں احمدیوں کو جان دینی پڑے تو وہ جان دیں گے لیکن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائے ہوئے داغوں کو دھوئیں گے خواہ اپنے خون سے ان داغوں کو دھونا پڑے.
134 زمانہ بدل چکا ہے اس پر مستزاد یہ ہے کہ اب تو ایک اور وقت آچکا ہے.ہم کسی اور زمانے میں نکل آئے ہیں.وہ تمام انبیاء جن کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ ان کے مخالفین نے ارتداد کی سزائیں تجویز کی تھیں.وہ سارے مخالفین اب اس عقیدے سے تو بہ کر بیٹھے ہیں.وہ سارے مخالفین اجتماعی صورت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر ابھرے تو انہوں نے اپنی تاریخوں کو بھلا کر خود یہ عقیدہ اختیار کر لیا تھا اور ان سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ دعوی کر کے کہ ارتداد کی سزا قتل ہے یا قید ہے یا بستی سے نکال دینا ہے گویا یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارے نبیوں کا دین جھوٹا تھا ہم ان کی طرف منسوب ہونے کے باوجود یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ بات سچی ہے.یا دوسرے لفظوں میں وہ یہ سمجھتے تھے ( جس طرح آج کے علماء سمجھتے ہیں) کہ ان انبیاء کی یہی تعلیم تھی.ان کے دین کی یہی تعلیم تھی اس لئے انہیں یہی کرنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دنیا میں جتنے دین تھے اگر ان سب کا اجتماعی فیصلہ یہ بھی تھا کہ مرتد کی سزا قتل ہے یا قید ہے یا بستی سے نکال دینا ہے تو اب تو زمانے کے رنگ بدل چکے ہیں.اب تو یہودی بھی یہی کہتے ہیں کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے.یہ ظلم ہے انسانیت کے نام پر.یہ داغ ہے مذہب کے نام پر.آج تو عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ عیسائیوں کو بے دریغ قتل کیا ہے تو بہت ظلم کیا ہے اور اس تاریخ کو دیکھ کر ہم شرمندہ ہیں.ہمارے سر جھک جاتے ہیں جب ہم پین کی انکویزیشن (INQUISITION) کی تاریخ کے واقعات پڑھتے ہیں یا انگلستان میں ارتداد کے جرم میں سزائیں دینے کی تاریخ پڑھتے ہیں، تو بہ کر چکے ہیں.آج
135 بدھ بھی تو بہ کر چکے ہیں.آج جین بھی تو بہ کر چکے ہیں.آج ہر قسم کے مشرکین ، اپنی مسٹ بھی تو بہ کر چکے ہیں.آج منوسمرتی کے ماننے والے جو کل تک یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اپنے دین سے پھرنے والے پر ہر قسم کے ظلم کرو اور جو شو در کلام الہی کو سن لیں ان کے کانوں میں سکہ پگھلا کر ڈالو وہ بھی تو بہ کر چکے ہیں.یہ کیسا منظر الٹا ہے کہ آج قتل مرتد کا دعوی کرنے والوں میں سوائے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کے اور کوئی اس میدان میں نہیں ملتا.اس سے زیادہ دردناک منظر بھی کوئی سوچا جاسکتا ہے؟ سنبھلو کہ تم بہک رہے ہو جہالت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے.یہ بات تو جہالت کی ساری حدیں پھلانگ چکی ہے.مجھے تو اس بات پر جب شدت سے جذبات پیدا ہوتے ہیں تو جہاں غصہ بھی آتا ہے وہاں دکھ بھی بے انتہا ہوتا ہے، اور جہالت کی حد ایسی ہے کہ بعض دفعہ ہنسی بھی آتی ہے کہ انہیں ہو کیا گیا ہے؟ ان کی عقلیں کہاں بھٹک رہی ہیں؟ کیا گھاس چر رہی ہیں؟ پتہ ہی نہیں کہ کیا کر رہے ہیں.اپنے دین پر، سید ولد آدم پر کیا ظلم کر رہے ہیں؟ اور زمانے کے سامنے کیا تصویر پیش کر رہے ہیں؟ مجھے تو اس پر وہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ انگلینڈ میں کوئی نیوڈز (Nude's) کلب تھی.( نیوڈ ز کلب کا رواج آجکل عام ہے.بعض لوگ ایک کلب میں سارے ننگے ہوتے ہیں) انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو دعوت دی کہ ایک دن ہمارے ساتھ گزار ہیں.وہ صاحب سوٹڈ بوٹڈ پوری طرح تیار ہو کر تشریف لائے.لنج پر یہ منظر دیکھا کہ سارے ننگے بیٹھے ہوئے تھے اور وہ
136 بیچارے اکیلے سوٹ پہن کر بیٹھے ہوئے تھے.شام کو ان کی تقریر بھی تھی.ان کو خیال آیا کہ یہ تو بڑا اظلم ہے.روم میں اسی طرح کرنا چاہئے جیسے رومن کیا کرتے ہیں.مجھے کون دیکھے گا.ننگے ہی دیکھیں گے نا.کوئی فرق نہیں پڑتا.ایک دن میں ان کی خاطر سوٹ اتار دیتا ہوں.ادھر نگوں کو خیال آیا کہ آخر ہمارا مہمان ہے کوئی عزت افزائی ہونی چاہیئے.ایک دن اس کی خاطر ہم کپڑے پہن لیں تو کیا حرج ہے؟ پس شام کو اس جگہ کے زمین و آسمان نے ایک مختلف نظارہ دیکھا.سارے ننگے کلب کے ممبر کپڑے پہن کر آئے ہوئے تھے.وہ پروفیسر بیچارہ اکیلا نگا تھا.پس خدا کی قسم ! آج کی اس دنیا میں تاریخ کے سارے ننگوں نے کپڑے پہن لئے ہیں.اگر ننگا ہے تو صرف ملاں نگا ہے.اگر ننگا ہے تو صرف ملاں ننگا ہے.صلى الله دعاء مصطفوی علیہ کا معجزہ اب میں اس تقریر کو ختم کرنا چاہتا ہوں.خدا کرے کہ کچھ کان ایسے بھی ہوں جو سننے والے ہوں.کچھ دل ایسے بھی ہوں جن پر ہدایت کی بات اثر رکھتی ہو.کوئی مانے یا نہ مانے ، میرا اور آپ کا مقام تو وہی رہے گا جو ہمارے آقا ومولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تھا اور اسی سنت سے ہم چمٹے رہیں گے جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی.فَذَكَّرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرُهُ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرٍه (الغاشية: ۲۳،۲۲) ہم آج کی دنیا کے زخم دھونے کے لئے تو آئے ہیں.ہم آج کی دنیا کی
137 کجیاں دور کرنے کی کوشش تو ضرور کریں گے، نصیحت کے ذریعے، دلیل کے ذریعہ، پیار محبت سے سمجھا کر ، لیکن ہم داروغہ نہیں ہیں.اگر کوئی نہیں مانتا تو اسے اختیار ہے چاہے تو انکار کر دے.فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الكهف:۳۰) ہمارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے.لیکن اس پیغام کے ساتھ ہمیں دعا بھی کرنی چاہئے کیونکہ دعا کا ہتھیار سب سے بڑا ہتھیار ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے ایسے ایسے معجزے جزیرہ نما عرب نے دیکھے تھے کہ حیرت سے آج دنیا ان کو تکتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جزیرہ نما عرب میں جو عظیم انقلاب چند سالوں کے اندر اندر واقع ہوا وہ دلیل سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے نتیجہ میں واقعہ ہوا تھا.ایک حدیث میں آپ نے ایک بات سنی اور ہو سکتا ہے آپ کی توجہ اس طرف نہ گئی ہو کہ وہ علاقے جو مرتد ہوئے تھے ان میں طائف شامل نہیں ہوا، مدینے اور مکے کے علاوہ کہ وہ آپ کی اپنی تربیت سے فیضیاب تھے.طائف کی بستی اس لئے ارتداد میں شامل نہیں ہوئی تھی کہ یہ بستی خالصتاً آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں مسلمان ہوئی تھی.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر طائف میں ظلم کئے گئے.آپ پر پتھراؤ کیا گیا.جب خدا کے فرشتے نازل ہوئے اور انہوں نے آپ سے پیشکش کی کہ چاہو تو ہم اس بستی کو تباہ کر دیتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تباہی کی بجائے اس کی ہدایت کی دعا کی تھی.دیکھو! میرے آقا ومولا کی ہدایت کی دعا کو.دیکھو تو سہی کس شان کی دعا تھی؟ کہ جب عرب کے لوگ کثرت سے ارتداد اختیار کر رہے تھے تو یہ سب بستیوں
138 سے ظالم بستی اس وقت بھی اس دعا کے نتیجہ میں ہدایت پر قائم رہی.پس امر واقعہ یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ باقی عرب اور باقی دنیا میں بھی اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے طفیل ہی پھیلا ہے مگر جہاں دعائیں مرکوز ہو جائیں جہاں نگاہ کے سامنے ایک چہرہ نظر آ جائے اور اسے سامنے رکھ کر دعا کی جائے وہ دعا اور طرح کے رنگ دکھاتی ہے اور طرح کے اثر دکھاتی ہے.ورنہ عمومی دعا تو ہر ایک کے لئے انسان کرتا ہی ہے.کیوں نظر میں آ جاتا ہے؟ کیوں نظر کے سامنے آ کر چاہتا ہے کہ میں کسی بزرگ سے دعا کرواؤں؟ پس وہ ہستی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں اس طرح جمی ہوئی تھی اور درد کا ایک ایسا خاص وقت تھا کہ اس دعا نے طائف کی بستی کے حق میں وہ جو ہر دکھائے کہ جن سے بعض دوسرے بدقسمت علاقے محروم رہ گئے.پس دعائیں کرو.پاکستان کے لئے بھی دعائیں کرو کیونکہ سب سے زیادہ محبت ہمیں پاکستان سے صرف اس لئے نہیں کہ وہ ہمارا یعنی پاکستان سے آنے والوں کا وطن ہے بلکہ جیسا کہ میں نے بارہا توجہ دلائی ہے یہ ایک ایسا ملک ہے جو خالصہ اسلام کے نام پر لیا گیا اور آج اسے خالصہ اسلام کی بیخ کنی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے.یہ ایک ہی ملک ہے ساری دنیا میں جو کلمے کے نام پر وجود میں آیا تھا اور یہ ایک ہی بد بخت ملک ہے جو کلے کو مٹانے کے در پے ہے.یہاں سازشیں چل رہی ہیں عالم اسلام کے خلاف، یہاں ہر وہ حرکت کی جا رہی ہے جو ساری دنیا میں اسلام کو بدنام کر دے.پس چونکہ آغاز میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور خدا کے نام پر یہ ملک جیتا گیا اس لئے ہماری وہ محبت بہرحال قائم رہے گی.اس ملک کے برعکس استعمال پر ہمارا دل لازماً زیادہ کڑھے گا.عام صحت مند بچوں سے
139 بھی پیار ہوتا ہے مگر جب کوئی بچہ بیمار ہو جائے تو پیار بڑھ جایا کرتا ہے، کم تو نہیں ہو جایا کرتا.اس بچے کی بات آپ کو یاد نہیں جسے خیال آیا تھا کہ میری ماں مجھ سے شاید پیار کم کرنے لگی ہے.چنانچہ ایک کرسی پر کھڑے ہو کر اس نے اس طرح اپنا زاویہ بدلا کہ اس کا بیلنس بگڑ گیا اور وہ جان بوجھ کر زمین پر گر گیا.ماں دوڑ کر آئی اور کہا: بیٹا! کیا بات ہوئی؟ اس نے کہا: کچھ بھی نہیں.میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آپ کو مجھ سے پیار ہے بھی کہ نہیں.پس اے پاکستان، عزیز وطن ! خدا کی قسم ہمیں تجھ سے پیار ہے.تو ظلموں میں بڑھ رہا ہے تو یہ پیار اور بھی بڑھ گیا ہے تا کہ تجھے ہلاکت سے بچالے.اور وہ سارے احمدی بھی جن تک تیری سرزمین میں پیدا ہونے والوں نے پیغام حق پہنچایا تھا ، وہ بھی تیرے ممنون احسان رہیں گے، اس لئے وہ بھی تیرے لئے دعا کرتے رہیں گے.پس سب سے بڑھ کر پاکستان کو دعاؤں میں یاد رکھیں اور پھر سارے عالم اسلام کو بھی جس کے خلاف شدید عالمی سازشیں پنپ رہی ہیں، اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.سارے بنی نوع انسان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.پاکستانی احمدیوں کو جو طرح طرح کے مصائب اور دکھ جھیل رہے ہیں ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اور جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں نہیں بھی اٹھائیں وہ بھی انتہائی کرب کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں.ایسا شدید ظلم ان پر ہورہا ہے اور اس طرح ان کے بنیادی حق چھینے گئے ہیں کہ ان کی زندگی بے چین اور بے قرار ہو چکی ہے.نہ ان کے دن کا چین رہا ہے، نہ ان کی راتوں کا چین رہا ہے.ان سب کے لئے بھی دعائیں کریں.پھر یہاں کے مقامی باشندوں کے لئے جنہوں نے جلسہ پر آنے والوں کی مہمان نوازی
140 کی ہے، ان کے لئے بھی دعائیں کریں.ان کے لئے بھی دعائیں کریں جو شامل ہوئے اور ان کے لئے بھی جو شامل نہیں ہو سکے خصوصا انہیں بھی یاد رکھیں جو شامل ہونے کے لئے آ رہے تھے مگر کراچی میں قید کر لیے گئے ، اس جرم میں کہ انہوں نے اپنے ساتھ کچھ دینی کتب اٹھائی ہوئی تھیں.ان سب کے لئے دعا کریں.پھر بنی نوع انسان کی عمومی بہبود کے لئے دعائیں کریں.جنگیں بڑی بلا ہوتی ہیں اور جتنا زیادہ انسان ترقی کرتا چلا جائے اتنی ہی زیادہ اس کی جنگیں بھیانک ہوتی چلی جاتی ہیں.تہذیب کے کوئی تقاضے پھر جنگ میں ظلم اور سفا کی سے اس انسان کو نہیں روک سکتے جس کی تہذیب سطحی ہو اور اس کی گہری بنیاد ا انسانیت اور مذہب میں نہ ہو.ہم بار بار یہ نظارہ دیکھ چکے ہیں کہ نہایت مہذب کہلانے والی قوموں نے بھی جنگ کے دوران انتہائی سفا کی اور ظلم کا ثبوت دیا ہے.عیسائی نے عیسائی کے خلاف انتہائی ظلم کئے ہیں، یہاں تک کہ اشتراکی نے اشترا کی کے خلاف انتہائی ظلم کئے ہیں.ان کی تہذیبیں سطحی تھیں.بظا ہر نظر آنے والی ایک ملمع کاری تھی.گہری انسانیت موجود نہیں تھی.مذہب کی پوری حقیقت سے یہ لوگ آشنا نہیں تھے.آج اس سے بھی بدتر حال ہو چکا ہے.پس کل کی جنگ گزرے ہوئے کل کی جنگ سے زیادہ بھیانک اور زیادہ شدید اور زیادہ خطرناک ہوگی.اس لئے یہ دعا ئیں بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ اس بلا کو ٹال دے اور ان کجیوں کو دور فرمائے جو بالآخر جنگ پر منتج ہو جایا کرتی ہیں.غریبوں کے لئے دعا کریں.مفلوک الحالوں کے لئے دعا کریں.بیواؤں کیلئے دعا کریں.یتیموں کے لئے دعا کریں.ہر قسم کے دکھ اٹھانے والے فاقہ زدوں کے لئے دعا کریں.غریب ملکوں کے لئے دعا کریں.سود کی چکی میں پیسے جانے
141 والے ملکوں اور افراد کے لئے دعا کریں.بنی نوع انسان کی عمومی بہبود کو بھی یاد رکھیں.یہ سب دعا ئیں جو آپ کریں گے اللہ کے فضل کے ساتھ آپ کے حق میں دعائیں بن کر، آپ پر رحمتیں بن کر نازل ہوں گی.
143 1984 ء سے 2010ءتک جماعتی مقدمات کی تفصیل 1 احمد یہ بیوت الذکر جو مسمار کی گئیں 2 احمد یہ بیوت الذکر جو جلائی گئیں احمد یہ بیوت الذکر جو سیل کی گئیں 4 ایسی بیوت الذکر جن کے باہر یا اندر سے کلمہ مٹایا گیا 5 بے گناہ احمدی شہید کئے گئے 6 قید کی سزا پانے والے اپنا مذہب اسلام قرار دینے پر مقدمات 30 30 12 28 85 203 افراد 224 افراد 434 افراد قرآنی آیات، کلمہ لکھنے یا اس کا بیج لکھانے پر مقدمات 764 افراد اذان دینے کے جرم میں مقدمات 10 اسلامی طرز پر نماز ادا کرنے پر مقدمات 11 تبلیغ اور دعوت الی اللہ پر مقدمات 38 افراد 93افراد 724 افراد 12 اسلام، رسول ﷺ اور قرآن سے محبت کے اظہار پر مقدمات 161 افراد 13 دیگر متفرق مقدمات 981 افراد
144
145 قرآن کریم مراجع و مصادر تفسیر روح البیان ، اسماعیل حقی البروسوی معارف القرآن ، مولوی محمد شفیع.سابق مفتی پاکستان ضیاء القرآن، پیر محمد کرم شاہ ترجمان القرآن ، مولانا ابوالکلام آزاد المفردات للراغب الاصفہانی صحاح ستہ سنن الدار قطنی کنز العمال، العلامہ علاء الدین علی انتقی بن حسام الدین السیدی نیل الاوطار فی شرح منتقی الاخبار من حدیث سید الاخیار، الامام محمد بن على الشوکانی التعليق المغنی علی الدار قطنی ،شمس الدین عظیم آبادی عمدة القاری شرح صحیح البخاری علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد العینی.الرفع التكميل میزان الاعتدال فی نقد الرجال، محمد بن احمد بن عثمان الذهبی الضعفاء الكبير، ابو جعفر محمد بن عمر بن موسیٰ بن حماد المکی * * * * * * * * * * * * * *
146 تہذیب التہذیب، امام حافظ شہاب الدین احمد بن حجر العسقلانی کتاب مقدس (عہد نامہ قدیم و جدید) المبسوط، علامہ شمس الدین السرحسی الھدایہ شرح بدایۃ المبتدیں علی بن ابو بکر المرغینانی شرح فتح القدير على الحدانہ ، امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد السيرة النبوية، ابومحمد عبدالملک بن ہشام تاریخ ابن خلدون.عبدالرحمان بن محمد بن خلدون المغر بی تاریخ الطبری، محمد بن جریر الطبری الائمہ الاربعہ ، ڈاکٹر مصطفی الشلعہ تاریخ الخمیس ،حسن بن محمد الدیار بکری سیرت محمد علی، رئیس احمد جعفری لسان العرب رتاج العروس الحجم الوسيط الاسلام.عقیدہ و شریعہ، العلامه محمود الشلتوت، شیخ الازهر حقيقة الحكم بما انزل الله محمد محمود زغلف.ڈاکٹر علاؤ الدین زیدان عبد المنعم سکی کامل رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء، مسٹر جسٹس محمد منیر اور مسٹر جسٹس ایم.آر.کیانی * * * * * * * * * * * * * * * *
147 محاسبہ، تبصرہ بر رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب مرتضی احمد خان درانی مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی مجله الشهاب لرجم الخاطف المرتاب، مولوی شبیر احمد عثمانی.مرتد کی سزا اسلامی قانون میں.مولانا ابوالاعلیٰ مودودی.روئیداد جماعت اسلامی - مکتبہ جماعت اسلامی داستان اسلام.شیخ محمد اقبال ایم اے اسلام کا نظام حیات ، غلام احمد حریری نقطہ پر کار حیات ، غلام احمد پرویز اعظم الكلام في ارتقاء الاسلام.نواب احمد یار جنگ چراغ علی اسلام اور مسیحیت.مولوی ثناء اللہ امرتسری قتل مرتد کی شرعی حیثیت.رحمت اللہ طارق * * * * * * * * * * PUNISHMENT OF APOSTASY IN ISLAM * جسٹس ایس.اے رحمان قادیانیوں کے بارہ میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ (اردو ترجمہ) محمد بشیر ایم.اے، ناشر : دار العلم (اسلام آباد) طبع اول ۱۹۸۵، شرکت پرنٹنگ پریس لاہور درخواست فارم برائے رجسٹریشن ، حکومت پاکستان ڈائریکٹوریٹ جنرل آف رجسٹریشن.*