Islam Ka Viraasti Nizam

Islam Ka Viraasti Nizam

اسلام کا وراثتی نظام

Author: Other Authors

Language: UR

UR
فقہ

اسلام کا نظام وراثت اپنے اعتدال، توازن اور ترتیب حقوق، نیز متوفی اور ورثاء دونوں کے جذبات کے احترام کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ دنیا کا کوئی دوسرا نظام وراثت خواہ وہ مذاہب عالم کا پیش کردہ ہو یا  نظریاتی حکومتوں کا مرتب کردہ، اسلامی نظام وراثت کا  مقابلہ نہیں کرسکتا۔ قرآن پاک اور دین اسلام کی اصل زبان چونکہ عربی ہے اس لئے جو لوگ عربی نہیں جانتے وہ اس نظام وراثت کے بے نظیر خوبیوں سے بھی پوری طرح واقفیت حاصل نہیں کرسکتے۔ علاوہ ازیں وارثوں کے حصول کا تعین کا علم حساب سے گہرا تعلق ہے اور پرانا طریق حساب بڑا مشکل اور پیچیدہ نوعیت کا ہے اس لئے بھی اس نظام کو سمجھنےمیں مشکل پیش آ جاتی ہے۔ ان ہر دو مشکلات کو بڑی خوبی اور قابلیت کے ساتھ حل کیا گیا ہے اور ہر مسئلہ کو متعدد مثالوں سے حل کرکے دکھایا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

اسلام کا وراثتی نظام عبدالرشید غنی ایم.ایس.سی پروفیسر تعلیم الاسلام کا لج ربود

Page 2

Page 3

12 19 28 39 89 51 51 52 57 63 64 65 68 88 74 صفح I فہرست مضامین عنوان نمبر شمار 1 مقدمه باب دوم اسلامی احکام وراثت کی ابتداء اور زمانہ جاہلیت کا ذکر باب سوم آیات قرآنی و احادیث نبوی درباره میراث باب چهارم ترکہ میراث- تجہیز و تکفین.ادا ئیگی قرض- وصیت باب پنجم وراثتی اصطلاحات ذوی الفروض عصبات ذوی الارحام موانع میراث حجب حجب حرمان حجب نقصان وہ رشتہ دار جو شرعا وارث نہیں ہو سکتے باب ششم ذوی الفروض اور مختلف حالات میں ان کے مختلف حصے 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 3 2

Page 4

صفحہ 74 78 79 80 84 86 88 91 96 98 99 102 107 110 118 124 126 128 135 138 II نمبر شمار عنوان 14 15 16 17 18 19 20 والد کا حصہ دادا کا حصہ شوہر کا حصہ اخیافی بھائی کا حصہ زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ بیٹی کا حصہ 21 پوتی کا حصہ حقیقی ہمشیرہ (عینی ہمشیرہ) کا حصہ علاقی ہمشیرہ کا حصہ اخیافی ہمشیرہ کا حصہ نانی ، دادی کا حصہ چار پشت تک اجداد کا نقشہ 22 23 24 25 26 27 28 نقشہ حصہ ذوی الفروض مشق نمبر 1 ( معہ جوابات ) باب ہفتم عصبات عصبہ بنفسہ کی اقسام درجہ اوّل کے عصبات درجہ دوم کے عصبات درجہ سوم کے عصبات 29 30 29 3 3 3 3 31 32 33

Page 5

141 146 158 161 165 166 169 177 178 179 179 191 191 200 202 صفحہ 208 210 220 222 III نمبر شمار 34 35 36 37 w w w عنوان درجہ چہارم کے عصبات عصبہ بنفسہ کا نقشہ چار پشتوں تک مشق نمبر 2 ( سوالات مع جوابات ) باب ہشتم ذوی الارحام 38 ذوی الارحام کا پہلا درجہ ( درجہ اول کے ذوی الارحام) درجہ اول کے ذوی الارحام کی ترتیب توریث 39 40 درمیانی مورث مختلف الجنس ہونے کی صورت میں ترکہ کی تقسیم 41 42 43 44 45 46 47 48 ذوی الارحام کا دوسرا درجہ ( درجہ دوم کے ذوی الارحام) درجہ دوم کے ارکان میں ترتیب توریث ذوی الارحام کا تیسرا درجہ (درجہ سوم کے ذوی الارحام) تیسرے درجہ کے ارکان کی ترتیب توریث ذوی الارحام کا چوتھا درجہ ( درجہ چہارم کے ذوی الارحام) چوتھے درجہ کے ارکان کی ترتیب توریث اعمام اور عمات اور ان کی تین پشت تک کی اولاد کا نقشہ سوالات مشق نمبر 3 باب نہم.( متفرق مسائل ) نقشہ حصہ جات ذوی الفروض مسئله عول سوالات مشق نمبر 4 مسئله رو 49 50 51 52

Page 6

کچھ 229 231 238 253 256 257 259 269 271 274 277 279 280 281 283 285 292 297 IV نمبر شمار 53 54 55 56 57 58 59 60 سوالات مشق نمبر 5 عنوان مسئله تخارج باب دہم مناسخہ یعنی میراث وابستہ کا بیان حمل کی میراث ممالک اسلامیہ میں مدت حمل کا تعین حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک اور اس کی مصلحت حمل کا حصہ مشق نمبر 6 ( سوالات مع جوابات ) 61 غرقی ، حرقی اور ہدی کی میراث کا بیان خنثی کی میراث 62 63 64 مفقودالخبر یعنی لا پتی شخص کی میراث کا بیان اسیر کی میراث کا بیان 65 ولد الملاعنہ اور ولد الحرام کی میراث کا بیان باب یاز دہم 66 دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کی میراث 67 یتیم پوتوں کی محرومی کے دلائل 68 69 70 یتیم پوتوں کی میراث کے حق میں دلائل مسئلہ کا صحیح اور شرعی حل سرمایه مضمون

Page 7

پروفیسر عبدالرشید غنی ایم ایس سی

Page 8

Page 9

انتساب سید نا حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد امیر المومنین خلیفة المسیح الثالث ایده الله تعالیٰ بنصره العزيز اطال الله عمرة ومتعنا بطول حیاتہ کی خصوصی اجازت سے حضور کا یہ ادنیٰ خادم اس تصنیف کو حضور کے اسم گرامی سے معنون کرتا ہے جنہوں نے حضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ کے کارناموں کو زندہ رکھنے اور حضوڑ کے مقاصد عالیہ کی تکمیل کی غرض سے فضل عمر فاؤنڈیشن کا اجرا فر مایا اور از راہ شفقت و ذرہ نوازی اس تصنیف و تدوین میں ہر مشکل مرحلہ میں اپنے اس ناچیز خادم کی راہنمائی فرمائی فجزاه الله احسن الجزاء والسلام حضور کا ادنیٰ خادم عبد الرشيد غنى ابن بابو عبدالغني صاحب انبالوی مرحوم

Page 10

( جملہ حقوق محفوظ ہیں ) ابَاؤُكُمْ وَابْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِّنَ اللهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ط ط (سورۃ النساء : ۱۲) تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ دادوں اور تمہارے بیٹوں میں سے کون تمہارے لئے زیادہ نفع رساں ہے یہ اللہ کی طرف سے فرض مقرر کیا گیا ہے.اللہ یقیناً بہت جاننے والا اور بہت حکمت والا ہے.( تفسیر صغیر ص 109)

Page 11

تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُرُهَا فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ ( سنن ابن ماجہ مترجم باب الفرائض ) علم میراث خود بھی سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھاؤ.کیونکہ یہ نصف علم ہے

Page 12

یا الہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا ( براہین احمدیہ حصہ سوم ص ۲۷۴) २

Page 13

3 قرآن کریم کی تعلیم احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانون فطرت کی ایک عکسی تصویر ! آج رؤے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلام الہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے جس کے اصول نجات کے بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہر یک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں توحید اور تعظیم الہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جناب الہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہر ایک مطلب اور مدعا کو حج اور براہین سے ثابت کرتا ہے اور ہر یک اصول کی حقیقت پر دلائل واضح بیان کر کے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں.اُن تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کا جاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہر یک فساد کی اُسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے.اُس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قومی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانون فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے.اور بینائی دلی اور بصیرت قلبی کے لئے ایک آفتاب چشم افروز ہے اور عقل کے اجمال کو تفصیل دینے والا اور اُس کے 66 نقصان کا جبر کرنے والا ہے.“.(براہین احمدیہ حصہ دوم ص ۹۱ - ۹۲)

Page 14

ایک بیش قیمت علمی تحقیق از قلم محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفتہ امسیح الرابع) فضل عمر فاؤنڈیشن ٹھوس علمی تحقیقات کو فروغ دینے کے لئے ہر سال جو صلائے عام دیتی ہے یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جسے خدا کے فضل سے پہلے ہی سال پھل لگنے شروع ہو گئے.ان پھلوں میں ایک خاص طور پر شیریں اور خوشنما اور معطر پھل وہ تحقیقی مضمون ہے جو برادرم مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب نے بڑی علمی کاوش اور محنت اور کرید کے بعد مرتب فرمایا اور فضل عمر فاؤنڈیشن کی خدمت میں حسن فتح کے فیصلہ کے لئے پیش کیا.عنوان اس مضمون کا ہے.جب یہ مضمون مختلف اندرونی اور بیرونی مصنفین کی خدمت میں فیصلہ کے لئے پیش کیا گیا تو سب نے اسے بہت سراہا اور بعض نے تو اچھے نمبر دینے کے علاوہ غیر معمولی تعریفی کلمات اس مضمون کے حق میں لکھے.چنانچہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے اس مضمون کو ایک نہایت اعلیٰ کوشش قرار دیتے ہوئے انعام کا مستحق قرار دیا اور اس قابل سمجھا کہ اگر مصنف خود اسے طبع کروا سکیں تو طباعت کے سلسلہ میں ان کی ہر ممکن امداد کی جائے.یہ مضمون اب ایک خوشنما کتاب کی صورت میں چھپ کر بام پر آ گیا ہے اور ہر عاشق علم کو دعوت نظارہ دے رہا ہے.اسلامی وراثت کے قوانین اگر چہ معدودے چند قرآنی آیات میں سمیٹ دیئے گئے ہیں لیکن حقیقت میں وہ وراثت کی سینکڑوں امکانی صورتوں پر پوری طرح حاوی اور ہر پیدا ہو نیوالی الجھن کا حل اپنے اندر رکھتے ہیں.اس قرآنی معجزہ کا پورا لطف اُٹھانا ہر کس ونا کس کا کام نہیں اور جب تک محققین کی سالہا سال کی محنتوں کے نتائج سے استفادہ نہ کیا جائے اور اہل علم کی آنکھ سے ان مسائل کو نہ دیکھا جائے اس معجزہ کی پوری شان ایک عامی کو نظر نہیں آسکتی.اس پہلو سے برادرم پروفیسر غنی صاحب کی تحقیق ایک بلند

Page 15

پا یہ کوشش ہے اور مختصر قرآنی آیات کی اندرونی وسعتوں میں جھانکنے میں بہت مدد دیتی ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.اس کے علاوہ یہ ایک علمی ضرورت کی بیش قیمت کتاب ہے جو وراثت کی نہایت مشکل اور پیچیدہ امکانی صورتوں کو بھی بڑے عمدہ اور سہل طریق پر حسابی رنگ میں حل کر دیتی ہے.دینی علوم سے شغف رکھنے والوں نیز قانون دانوں کے پاس تو اس کا ہونا از بس ضروری ہے.(الفرقان ربوہ.اکتوبر ۱۹۷۱ء)

Page 16

.مکرمی پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب کا مقالہ جواب کتاب کی صورت میں شائع ہوا ہے اسلامی فقہ کے ایک اہم حصہ پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے.پروفیسر صاحب نے نہایت محنت اور عرقریزی سے پوری تحقیقات کے بعد یہ مقالہ تیار کیا اور فضل عمر فاؤنڈیشن کے اعلامیہ کے مطابق اسے مستحق انعام قرار دیا گیا ہے.پروفیسر صاحب کی یہ تصنیف بہت قابلِ قدر ہے.جس سے ہمارے قانون دان اصحاب اور دار الافتاء سے تعلق رکھنے والے بہت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.اللہ تعالی پروفیسر صاحب کو جزاء خیر عطا فرمائے والسلام خاکسار ( ظفر اللہ خان ) ۱۱ جنوری ۱۹۷۱ء

Page 17

لاہور σ ۱۵ر جولائی ۱۹۷۱ء ، مصنفہ پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب کا مجھے جستہ جستہ مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا ہے اور میں بلا تو قف یہ بات کہنے میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ اسلامی قانون کی ایک مشکل اور اہم شق کو فاضل مصنف نے جس محنت اور تندہی سے آسان اور عام فہم بنانے کی کوشش کی ہے وہ یقینا قابل تحسین ہے.اسلامی قانون وراثت کے جملہ اصولوں کا وضاحت کے ساتھ بیان اور مثالوں کے ساتھ ان کی تشریحات اور سادہ اسلوب تحریر کے باعث متعلقہ اسلامی قانون کے باب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے.اسلام محض عقیدہ نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کا مدعی ہے اس لئے اس نے انسانی زندگی کے ہر قدم اور ہر موڑ کے لئے ایسے قانون وضع کر دیئے ہیں جو قوانین فطرت کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہیں اور جن میں ان انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف مدارج کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کی پوری طرح صلاحیت موجود ہے جن کا منتہائے مقصود ایک متوازن اور خوشحال معاشرہ کا قیام ہے جہاں انسانی اخوت اور مساوات کے بلند اصولوں پر عمل پیرائی زندگی کی کشمکشوں اور تلخیوں میں کمی پیدا کرتے ہوئے اسے خوشگوار بنا سکتی ہے.اس کے اقتصادی اور معاشرتی نظام کا ایک لازمی جزو ہے اور اسی لئے وراثتی حقوق کی ترتیب میں بھی وہی انصاف ، توازن اور اعتدال کے اصول کارفرما ہیں جو ہر شعبہ زندگی میں اسلام کا طرہ امتیاز ہیں.اسلامی قانون کی ہمہ گیری کا اندازہ کیجئے کہ یہ زندگی کے ہر گوشہ پر محیط ہے.اسلام نے ہی سب سے پہلے آج سے چودہ سو سال پیشتر عورت کا حق وراثت قائم کیا جس کی تقلید تہذیب یافتہ مغربی ممالک اب ضروری قرار دے رہے ہیں.پروفیسر غنی نے اپنی کتاب میں یہ بات بڑی خوبصورتی سے بتائی ہے کہ اسلام کا قانون وراثت بلاشبہ ایک علمی اور حسابی معجزہ ہے جس میں وراثت اور ترکہ کی تمام ممکنہ صورتوں کا حل موجود ہے اور اس ضمن میں کوئی ایسی گتھی نہیں جسے خوش اسلوبی کے ساتھ سلجھایا نہ جا سکے.مجھے امید واثق ہے کہ یہ کتاب اپنی افادیت کے لحاظ سے قانوی حلقوں میں پوری طرح مقبول ہوگی.سجاد احمد جان ( جسٹس ) سپریم کورٹ پاکستان

Page 18

لاہور ۷ ارجون ۱۹۷۱ء مکرمی پروفیسر صاحب السَّلامُ عَلَيْكُمُ آپ کی تصنیف ” بعض بنیادی شرعی حقائق کی بہت عمدہ شرح کرتی ہے.اس کتاب میں آپ نے ایک ایسے اہم مسئلے پر قلم اٹھایا ہے ، جو اسلامی نظام معاشرت اور دراصل ہر نظام معاشرت میں قدم قدم پر پیدا ہوتا ہے.مگر یہ شرف اسلام کے حصے میں آیا کہ اُس نے اس مسئلے کا ایسا منصفانہ اور سچاحل پیش کر دیا ، جس میں چون و چرا کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی.بلا شبہ اسلامی قانون وراثت قرآن حکیم کا عظیم الشان علمی و معاشرتی معجزہ ہے.آپ نے قرآن وحدیث کے حوالوں سے اس معجزہ کی تشریح و تفسیر ایسے منطقی اور مربوط انداز میں کی ہے کہ دل بے اختیار مرحبا اور بارک اللہ کہتا ہے.مسئلہ وراثت پر بحث کرتے ہوئے آپ نے استدلال و استخراج کا عمل اس خوبی سے کیا ہے کہ کتاب کے عام قاری کو بھی اس خاص مضمون میں فقہی بصیرت حاصل ہو جاتی ہے.اس سلسلے میں آپ نے بالتفصیل ایسے واقعات کا شمار کرا دیا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے مسئلہ وراثت کے کسی نہ کسی پہلو پر فیصلہ کن رائے کا اظہار فرمایا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.یہ کتاب اُردو کے علمی ذخیرہ میں ایک گرانقدر اضافہ ہے.یہاں ایک دقیق مسئلہ سادہ اور سلیس عبارت میں بیان ہوا ہے اور پڑھنے والے کو بات سمجھنے میں کہیں الجھن نہیں ہوتی.پھر یہ موضوع ایسا ہے کہ علمی و شرعی اصطلاحات کا بکثرت استعمال ناگزیر تھا لیکن آپ نے اپنے پاکیزہ اسلوب بیان سے ہر اصطلاح کا مفہوم آئینے کی طرح صاف کر دیا ہے.کتاب کے وہ سب حصے جن میں علمی مباحث کی وضاحت کرنے کے لئے حسابی تفصیلات پیش کی گئی ہیں حد درجہ بصیرت افروز ہیں.فقط والسلام مخلص پروفیسر حمید احمد خان سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ناظم مجلس ترقی ادب، لاہور

Page 19

تعارف اسلام کا نظام وراثت اپنے اعتدال، توازن اور ترتیب حقوق ، نیز متوفی اور ورثاء دونوں کے جذبات کے احترام کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے.دنیا کا کوئی دوسرا نظام وراثت خواہ وہ مذاہب عالم کا پیش کردہ ہو یا نظریاتی حکومتوں کا مرتب کردہ، اسلامی نظام وراثت کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اسلامی نظام وراثت میں ہر ایک وارث کے حقوق کو ایسے حسین اعتدال کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے کہ روح انسانی وجد میں آجاتی ہے قرآن پاک اور دین اسلام کی اصل زبان چونکہ عربی ہے اسی لئے جو لوگ عربی نہیں جانتے وہ اس نظام وراثت کی بے نظیر خوبیوں سے بھی پوری طرح واقفیت حاصل نہیں کر سکتے علاوہ ازیں وارثوں کے حصوں کی تعین کا علم حساب سے گہرا تعلق ہے اور پرانا طریق حساب بڑا مشکل اور پیچیدہ نوعیت کا ہے اس لئے بھی اس نظام کے سمجھنے میں مشکل پیش آ جاتی ہے ان ہر دو مشکلات کو ہمارے عزیز بھائی محترم پروفیسر عبدالرشید صاحب غنی ایم ایس ہی نے بڑی خوبی اور قابلیت کے ساتھ حل کیا ہے اس وقت تک اُردو میں جتنی بھی کتا بیں اسلامی نظام وراثت پر لکھی گئی ہیں وہ پرانی طرز کی اور بہت ہی پیچیدہ ہیں لیکن محترم غنی صاحب نے بڑے آسان اور حسین انداز میں اس مضمون کو واضح کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے آپ کی اس کتاب کو ایک ہزار روپیہ انعام کا مستحق قرار دیا ہے.عزیز مکرم نے نہایت پیچیدہ مسائل کو اپنی حساب دانی کی مدد سے آسان رنگ میں پیش کیا ہے اور ہر مسئلہ کو متعد د مثالوں سے حل کر کے دکھایا ہے میرے خیال میں یہ مضمون وکلاء اور جج صاحبان کے لئے بڑا مفید اور ان کے روزمرہ کے کاروبار میں ممد و معاون ثابت ہو گا.اس مضمون کی ترتیب ، اس کے دلائل ، جزیات کی تشریح بے انداز محنت سے کی گئی ہے میں اس قابل قدر سہل المفہوم اور فائدہ بخش کتاب کا تعارف لکھتے ہوئے دلی مسرت محسوس کرتا ہوں اور اس کتاب اور نادر کوشش پر لائق مصنف کی خدمت میں مخلصانہ مبارک باد پیش کرتا ہوں.فشکر اللہ تعالى سعيه ونفع به خلقه ووسع افادته.آمين يارب العلمين.خاکسار ملک سیف الرحمن دار الافتاء ربوه

Page 20

۱۲ بسم اللہ الرحمن الرحیم مقدمه اسلام دین فطرت ہے اس کی تعلیم فطرت کے ہر تقاضے کو باحسن طریق پورا کرتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تعلیم باری تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل فرمائی اور باری تعالیٰ عزاسمہ خالق دو جہان ہے لہذا یہ تعلیم نہایت مستقیم ، قوی، قابل عمل اور قانون فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے جس طرح عکس اپنے اصل کے ساتھ ہر جہت اور ہر لحاظ سے مطابقت رکھتا ہے بعینہ اسلامی تعلیم انسانی فطرت صحیحہ سے پوری پوری مطابقت رکھتی ہے.پہلے یہ فطرت کے تمام تقاضوں کو پوری طرح نمایاں کرتی ہے اور پھر ان کو احسن ترین اسلوب سے پورا کرتی ہے.پھر یہ تعلیم ہمہ گیر تعلیم ہے انسانی فطرت کا کوئی ایسا تقاضا ا نہیں یا انسان کی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کے بارہ میں اسلام نے تعلیم نہ دی ہو اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے موجودہ وقت کے امام حضرت میرزا غلام احمد صاحب ( قادیانی) مسیح موعود مهدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسانی فطرت کا پورا پورا نقشہ قرآن ہے“ ( البلاغ المبين ص 11) قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں میں سے اس کی تعلیم بھی ہے کیونکہ وہ انسانی فطرت اور انسانی مصالح کے سراسر مطابق ہے“ خاتمہ چشمہ معرفت ص ۴۳) سو یہ قرآن پاک ہی ہے جس کی تعلیم انسانی فطرت پر پوری اترتی ہے.دوسرے مذاہب والوں کی تعلیم نہ یہ تقاضے پورے کر سکتی ہے اور نہ ہی ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کا مذہب عین فطرت کے مطابق ہے اور تمام دنیا کے لئے ہے یہ خوبی صرف اور صرف قرآن پاک کو حاصل ہے جو اس بات کا دعوی بھی کرتا ہے اور اپنے اس دعوے کو براہین قاطعہ.

Page 21

۱۳ ثابت بھی کرتا ہے.انسان کی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کی تکمیل کے ذرائع کا بیان قرآن مجید میں موجود نہ ہو اس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے ایسے عظیم الشان علوم رکھ دیئے ہیں جن سے ہر طالب حق رہتی دنیا تک اپنی عقل اور فہم کے مطابق حصہ لیتا رہے گا.دوسری کتب فطرت کے تقاضوں کو مکمل طور پر تو کیا جزوی طور پر بھی پورا نہیں کرتیں ہمیشہ ہمیش کے لئے محفوظ رہنا اور رہنمائی کرنا کجا وہ تو اپنے وقت میں بھی نہ انسانی دست برد سے بچ سکیں اور نہ بہت سے فطرتی تقاضوں اور انسانی ضروریات کے بارہ میں کسی قسم کی تعلیم پیش کر سکیں.یہ خوبی صرف اور صرف قرآن پاک کو ہی حاصل ہے کہ اس نے ہر زمانہ میں پیدا ہونے والی ہر الجھن اور ہر مسئلہ کا تسلی بخش حل بنی نوع انسان کو دیا.اور اس کی تعلیم افراط و تفریط سے مبرا اور ہر لحاظ سے نقطہ وسط پر قائم ہے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.ا.قرآن شریف کی تعلیم جس پہلو اور جس باب میں دیکھو اپنے اندر حکیمانہ پہلو رکھتی ہے.افراط یا تفریط اس میں نہیں ہے بلکہ وہ نقطہ وسط پر قائم ہوئی ہے اور اسی لئے اس امت کا نام بھی اُمة وسطاً رکھا گیا ہے“ (الحکم ۳۰ را پریل ۱۹۰۳ء) ۲.قرآن شریف میں سب باتیں موجود ہیں اول آخر کے لوگوں کا اس میں ذکر موجود ہے وہ معارف سے بھرا ہوا ہے اور عین اعتدال کا مذہب ہے فطرت انسانی کی ہر ایک شاخ اور ہر ایک پہلو کا علاج اس میں درج ہے.( تقریر جلسه سالانه ۱۹۰۶ء) اسلام نے انسان کو زندگی کے ہر شعبہ کے بارہ میں ایک کامل اور بے مثال تعلیم دی ہے.جس پر اگر وہ عمل کرے تو دنیوی مشکلات سے بھی بچ جاتا ہے اور اپنے خالق و مالک کی رضا بھی حاصل کر لیتا ہے اس نے بنی نوع انسان کو ایسی اعلیٰ روحانی تعلیم پیش کی جو دوسرے مذاہب پیش نہ کر سکے.بہترین اقتصادی نظام دیا جو کسی اور کو نہیں ملا تھا.اسی طرح بہترین تمدنی و معاشرتی واخلاقی نظام دیا جو کسی اور کو نہیں ملا تھا.اسی طرح بہترین تمدنی و معاشرتی واخلاقی نظام پیش کئے اور بین الاقوامی تنازعات کے تصفیہ کے لئے ایسا دستور رائج کیا جس

Page 22

۱۴ کی بنیا د سراسر مساوات اور امن پر ہے.اسلام نے مذکورہ بالا نظاموں کی طرح دنیا کو ایک نظام وراثت بھی عطا فرمایا دوسرے مذاہب والے اس نظام کی حکیمانہ تعلیم کے بارہ میں عموماً خاموش ہیں.مرنے کے بعد انسان جو مال اور جائداد چھوڑ جاتا ہے اسے کیا کیا جائے؟ اسلام نے اس سوال کا ایسا پر معارف جواب دیا ہے جس کی نظیر باقی تمام مکتبہ ہائے فکر پیش نہیں کر سکتے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس ضرورت کو دیکھتے ہوئے چند ایسے اصول مقرر فرما دیئے جن سے ورثاء کے درمیان ترکہ کی تقسیم نہایت منصفانہ طریق پر عمل میں آتی ہے.انسان جب اس دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے تو ان چیزوں پر جنہیں وہ اپنی زندگی میں اپنی ملکیت سمجھ رہا تھا.اس کا کوئی تصرف نہیں رہتا.اس لئے ضرورت تھی کہ یہ جائداد لازماً میت کے ورثاء میں تقسیم کی جائے.سو اسلام نے اس تقسیم کے لئے ایسے اصول جاری کر دیئے جن سے ہر قسم کے اختلافات اور باہمی کشمکش جن کے نتیجہ میں نسلوں تک بغض، کینہ اور دشمنی کے جراثیم جنم لیتے ہیں ختم کر دیئے اور ہر ایک وارث کو اس کا پورا پورا حق دلا کر ایک باوقار طریق سے زندگی بسر کرنے کا اہل بنا دیا.نیز ہر قسم کے خاندانی تنازعوں کا ہمیشہ ہمیش کے لئے قلع قمع کر دیا.اسلام نے ترکہ کی تقسیم کے لئے ایک ایسا کارآمد ، مفید اور قابل عمل نظام وراثت رائج کیا ہے جو ہر ملک، ہر دور، ہر جگہ کے حالات پر پورا اتر سکے ، غرض اسلامی قانون وراثت قرآن کریم کے علمی معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے.ایک تو اس طرح کہ یہ قانون اسلام کے بے نظیر قانونِ اقتصاد کا ایک اہم جزو ہے.اسلامی قانونِ اقتصاد کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ انسان کو اس کی محنت کاوش اور دماغ سوزی کے جائز ثمرات سے محروم نہیں کرتا.جس طرح اشتراکیت کرتی ہے اور دوسری طرف ایسے منصفانہ اصولوں پر پیداوار اور ذرائع پیداوار کو تقسیم کرتا ہے کہ ذرائع پیداوار چند ہاتھوں میں جمع نہ ہونے پائیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند انسان ذرائع پیداوار پر قابض ہو کر باقی انسانوں کو ترقی سے محروم کر دیتے ہیں.جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے وہاں یہی کچھ ہو رہا ہے انسانوں کے درمیان اس مہلک تفاوت کو مٹانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو قوانین دیئے ہیں ان میں سے ایک نہایت اہم قانون.

Page 23

۱۵ قانون وراثت ہے اس کے نتیجہ میں جائداد کی تقسیم ایسے طور پر ہوتی چلی جاتی ہے کہ ایک فرد یا خاندان دوسرے افراد یا خاندان کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکتا اور یہ ممکن نہیں رہتا کہ کوئی طبقہ زیادہ دیر تک بغیر محنت کئے باپ دادا کی پیدا کردہ جائداد پر داد عیش دیتا رہے.دوسرے اس طرح کہ اس قانون میں تمام افراد کے جائز حقوق ادا کئے گئے ہیں اور کسی حقدار کو محروم نہیں رہنے دیا گیا اور خود یہ کتنا پیارا اور حکیمانہ اصول ہے کہ چونکہ رشتہ داریاں خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کر دہ ہیں اس لئے حقوق وراثت بھی اسی طرف سے قائم ہوں.کیونکہ وہی جانتا ہے کہ کس کا کتنا حق بنتا ہے.اگر یہ بات انسان کی عقل اور اس کے جذبات پر چھوڑی جاتی تو لازمی تھا کہ کسی نہ کسی رنگ میں اور کسی نہ کسی جگہ ہے انصافی اور ظلم راہ پا جاتا پھر اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ اگر انسان اپنی طرف سے تقسیم کا کوئی طریقہ اختیار کرتے تو شکایت کا موقع پیدا ہو جاتا.بیٹا کہتا کہ مجھے حق سے کم ملا اور بیٹی کہتی کہ میرا حق اس سے زیادہ تھا.اسلام میں چونکہ حقوق اور فرائض اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں اسی لئے کسی کو شکوہ کا موقع نہیں رہتا.اسی حکمت کی طرف اشارہ فرمایا فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ (النساء:۱۲) تیسرے اس طرح کہ یہ قانون ایک علمی اور حسابی معجزہ ہے.ورثے کے مسائل اور صورتیں چند ایک نہیں ہزاروں ہیں بلکہ ایک لحاظ سے لاتعداد ہیں اور کسی انسان کے لئے خواہ وہ کتنا ہی بڑا حساب دان کیوں نہ ہو اور خواہ وہ اپنی ساری عمر اسی ایک مسئلہ پر صرف کر دے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسا عمومی قانون وضع کر سکے جو وراثت کی تمام ممکنہ صورتوں پر منطبق ہوتا ہو.اور تمام مسائل کا حل اس میں آ جائے.چہ جائیکہ ایک ایسی قوم جو حساب میں اتنی کم مایہ تھی کہ اس کے اکثر افراد بس انگلیوں پر ہی گننا جانتے تھے.ایسی قوم سے تعلق رکھنے والا ایک امی (فداہ ابی وامی ) دنیا کو ایک ایسا قانون دیا کہ تقسیم وراثت کی جتنی بھی ممکن صورتیں ہیں یا ہوسکتی ہیں وہ قانون ان سب کا حل پیش کرتا ہو.ایسا قانون صرف علام الغیوب کی طرف سے ہی مہیا کیا جا سکتا ہے جس کے علم کامل سے کوئی چیز باہر نہیں.قرآن کریم کا دعوی ہے کہ اگر دنیا کے سارے انسان اور مدبر اور فلاسفر اور حکیم اور حساب دان بھی مل جائیں تو قرآن کریم کی سورتوں میں سے کسی ایک سورت اور اس کی تعلیمات میں سے

Page 24

17 کسی ایک تعلیم کا مقابلہ نہیں کر سکتے.فرماتا ہے:.اَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَلْ لَّا يُؤْ مِنُونَ ةَ فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِةٍ إِنْ كَانُوا صِدِقِينَ (الطُّور:۳۵،۳۴) یعنی کیا وہ یہ کہتے کہ یہ کلام اس بندے ( محمد ) نے خود بنا لیا ہے اور یہ اُس کی اپنی کاوش کا نتیجہ ہے فرمایا نہیں.ایسا نہیں اگر وہ قرآن پر غور کریں تو خود اپنے اعتراض کے بودے پن کو محسوس کر لیں گے اور انہیں اس نظریہ پر کبھی اطمینان قلب حاصل نہیں ہو سکتا کہ نعوذ باللہ کسی انسان نے یہ کلام بنایا ہے اور کسی بشر کی ذہنی کاوش اور عقلی عرق ریزی کا نتیجہ ہے فرمایا اس کا ثبوت ہم یہ دیتے ہیں کہ کوشش کر کے دیکھ لیں ان کو معلوم ہو جائے گا کہ انسان کی عقلی استعداد میں قرآنی تعلیمات کے بلند معیار تک پہنچنے سے قاصر ہیں اور کوئی دانا سے دانا آدمی ساری عمر کی محنت اور کاوش کے بعد بھی کوئی ایسی علمی تحقیق پیش نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی بیان کر دہ باتوں میں سے کسی ایک کا بھی مقابلہ کر سکے.یہی وراثت کا مسئلہ لے لیجیئے.دنیا کے تمام حساب دان ملکر کوشش تو کر دیکھیں کہ قرآنی فارمولا کے سوا کوئی ایسا فارمولا دنیا کے سامنے پیش کریں جو تقسیم وراثت کی تمام ممکنہ صورتوں پر حاوی ہو.اسلامی قانون کی حکمتوں کو چھوڑ دیں صرف ایسی حسابی صورت پیدا کر دیں خواہ وہ کتنی ہی بے حکمت کیوں نہ ہو، لیکن اس میں صرف اتنی خوبی ہو کہ تمام ممکنہ صورتوں پر منطبق ہو سکے.اگر وہ اس کی کوشش کریں تو انہیں پتا چل جائے گا کہ کتنا عظیم الشان اور کتنا سچا دعوی تھا جو قرآن کریم نے ان الفاظ میں کیا.فَلْيَا تُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِةٍ إِنْ كَانُوا صِدِقِينَ (الطور : (۳۵) پس اسلام کا قانون وراثت ایک ایسا ہمہ گیر قانون ہے جو وراثت کی ہرممکن صورت پر منطبق ہو جاتا ہے اور ترکہ کی تقسیم کے لئے ایک ایسا کارآمد، مفید اور قابل عمل نظام ہے جس کی نظیر دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی.دوسرے ادیان کے مقابلہ میں اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے اور یہ قرآن پاک کا عظیم الشان اعجاز ہے کہ اس نے بنی نوع انسان کو ایسا نظامِ وراثت دیا جو اُن کے ہر قسم کے مسائل اور ہر قسم کی مشکلات کا حل پیش کرتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن پاک دنیا کے تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور

Page 25

۱۷ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کی خاطر ہمیشہ ہمیش کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں.سورۃ نساء میں خدا تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ ترکہ کی تقسیم کے بارہ میں ہدایات بیان فرمائی ہیں اور تمام ورثاء کے حصے مقرر فرما دیئے ہیں جن کی پوری پوری وضاحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ نے فرما دی تھی چونکہ یہ علم خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ حصوں کے بارہ میں ہے اس لئے اسے علم الفرائض کہا جاتا ہے.فریضہ کے لفظی معنے ہیں مقرر شدہ.طے شدہ اور فرائض اس کی جمع ہے.تقسیم وراثت کا قانون بیان فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو خبر دار کیا کہ ممکن ہے کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ فلاں فرد کا حصہ اتنا کیوں ہے؟ فلاں شخص کا حصہ کیوں نہیں.فرمایا : - ابَاؤُكُمْ وَ اَبْنَاؤُكُمْ لَاتَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا.(النساء : ١٢ ) یعنی تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ دادوں اور تمہارے بیٹوں میں سے کون تمہارے لئے نفع رساں ہے یہ اللہ کی طرف سے فرض مقرر کیا گیا ہے.اللہ یقیناً بہت جاننے والا ہے اور حکمت والا ہے.“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ انسانی عقل اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کونسی چیز اس کے لئے بہتر ہے اس تقسیم یعنی حصوں کی حکمتوں کو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کی رہنمائی کے لئے یہ تعلیم نازل فرمائی ہے.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سیکھنے اور لوگوں کو سکھانے کے لئے تاکید فرمائی ہے.اور فرمایا ہے کہ یہ نصف علم ہے بہت سے صحابہ کرام نے اس علم کو خوب سیکھا اور دوسروں کو سکھلایا.اُن میں سے مندرجہ ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ماہرین فن کی حیثیت رکھتے تھے.ا.حضرت ابو بکر صدیق خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۲.حضرت عمر فاروق خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (عول کا مسئلہ انہی کا ایجاد کردہ ہے).حضرت عثمان غنی خلیفہ ثالث رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 26

۱۸ > ۴.حضرت علی مرتضی خلیفہ رابع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۵.حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۶.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ.حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ.حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام کے بعد تابعین نے بھی اس علم کو محنت سے سیکھا اور دوسروں کو سکھایا پھر ہمارے ائمہ اربعہ نے یعنی حضرت امام ابو حنیفہ ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور امام احمد نے سنت اور احادیث نبویہ اور اجماع امت کی روشنی میں نظامِ وراثت کے تمام مسائل کو کمال احسن بسط اور تفصیل سے منضبط کیا اور عامۃ الناس کی رہنمائی فرمائی.حضرت امام ابو حنیفہ کے بعد اُن کے نہایت قابل ، ذہین شاگردان رشید حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمدؐ نے اس شعبہ علم میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دیں.موجودہ دور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دور ہے اس لئے اس وقت ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے پیارے نبی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس علم کو خود سیکھیں اور دوسرے لوگوں کو سکھلائیں اور عملاً اسے اپنے درمیان رائج کریں اور کروائیں کیونکہ ایسا کرنے سے انسان جنت کا وارث بن جاتا ہے اور فلاح سے ہمکنار ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ اسی سورۃ میں فرماتا ہے.تِلْكَ حُدُودُ اللهِ ۖ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ خَلِدِينَ فِيهَا طَ وَذَلِكَ الْفَوْزُ (سورة نساء آیت : ۱۴) الْعَظِيمه یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں انہیں وہ ان باغوں میں جن کے اندر نہریں بہتی ہوں گی داخل کرے گا اور وہ اُن میں رہتے چلے جائیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے.

Page 27

۱۹ باب دوم اسلامی احکام وراثت کی ابتداء اور زمانہ جاہلیت کا ذکر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے زمانہ کو جس میں انتہا درجہ کے شرک و کفر اور ظلم کا دور دورہ تھا.زمانہ جاہلیت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.اس زمانہ میں گمراہی اپنے عروج پر تھی.طرح طرح کی بدرسوم، فسق و فجور ، لوٹ مار اور قتل و غارت جاری تھی.انسان حیوانیت کے درجہ سے بھی نیچے جا گرا تھا.غلامی کی رسم اپنے جو بن پر تھی اور غلاموں سے اس قسم کا ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتا تھا جس کو پڑھ کر انسانی روح کانپ اٹھتی ہے.عورتوں کو وہ انسان ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھے، ان سے نہایت بہیمانہ سلوک کیا جاتا تھا.لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینا ان کا معمول تھا.کمزور لوگ طاقت والوں کے ہر قسم کے ظلم و ستم کا تخیہ مشق بنے رہتے تھے.ظاہر ہے کہ گمراہی اور تاریکی کے ایسے عمیق اور گھناؤنے دور میں جب کہ زمین اپنے مکینوں (انسانوں) کے فساد سے اس قدر تنگ پڑ گئی وراثت کے منصفانہ اصول کیا ہوں گے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی قیاس ہوتا ہے کہ انسانی تمدن کی ابتداء ہی سے کچھ نہ کچھ اصول اور طریق ایسے ہوں گے جس کے مطابق مرنے والے کا ترکہ تقسیم کیا جاتا ہوگا.جب اس نقطہ نگاہ سے ہم اوراق تاریخ کو پلٹتے ہیں تو ہمیں وراثت کے بارہ میں توریت میں یہ تقسیم نظر آتی ہے.دو بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اُس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اُس کی میراث اُس کی بیٹی کو دینا اگر اُس کی کوئی بیٹی بھی نہ ہو تو اس کے بھائیوں کو اُس کی میراث دینا اگر اُس کے بھائی بھی نہ ہوں تو تم اُس کی میراث اُس کے باپ کے بھائیوں کو دینا.اگر اُس کے باپ کا بھی کوئی بھائی نہ ہو تو جو شخص اُس کے گھرانے میں اُس کا سب سے قریبی رشتہ دار

Page 28

۲۰ ہوا سے اُس کی میراث دینا وہ اس کا وارث ہوگا.اور یہ حکم بنی اسرائیل کے لئے جیسا خداوند نے موسی کو فر ما یا واجبی فرض ہوگا.“ (گنتی ۸-۱۱/ ۲۷) زمانہ جاہلیت میں بھی وراثت کی تقسیم کے کوئی خاص مستقل قسم کے قوانین نظر نہیں آتے البتہ یہ چند طریق بعض قبائل میں رائج تھے.عرب میں کہیں کہیں مشتر کہ جائیداد کا رواج تھا.یعنی ہر قسم کی جائیداد میں خاندان کے تمام مرد برابر کے حصے دار سمجھے جاتے تھے ہر شخص کی کمائی خاندانی ملکیت شمار ہوتی تھی اور کوئی فرد خاندانی جدی جائیداد کو اپنے لئے منتقل کرنے کا مجاز نہ تھا.نرینہ اولاد پیدا ہوتے ہی مشترکہ خاندانی جائیداد میں برابر کی حصہ دار ہو جاتی تھی ، اس جائیداد کے حصہ دار صرف خاندانی مرد ہی ہوتے تھے.عورتوں کا کوئی حصہ نہ ہوتا تھا.۲.کہیں یہ دستور تھا کہ باپ کی وفات کے بعد اس کا بڑا لڑکا ہی تمام جائیداد کا وارث ہوتا تھا.دوسرے چھوٹے لڑکے خواہ وہ جوان بھی ہوں حصہ دار نہیں ہوتے تھے اور میت کی بیوی بیویاں اور لڑکیاں بھی سب محروم ہوتی تھیں اگر میت کی کوئی اولاد نرینہ نہ ہوتی تو پھر اس کے بھائی یعنی میت کے بچوں کے چچا اس کے وارث ہوتے تھے..کہیں یہ دستور تھا کہ میت کا ترکہ خاندان کے اُن افراد ( ذکور ) میں برابر تقسیم کر دیا جا تا تھا جو عملی لحاظ سے جنگ میں حصہ لینے کے قابل ہوں.ان میں میت کے بیٹے بھائی شامل ہوتے تھے.اس طرح کمزور افراد یعنی کم سن بچے اور بچیاں اور بوڑھے ماں باپ محروم رہ جاتے تھے.۴.کہیں جائیداد کو عہد معاہدہ سے تقسیم کر دیا جاتا تھا.دو اشخاص با ہمی اقرار کر لیتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہوں گے.ایک کا قرضہ، تاوان اور قتل دوسرے کا قرضہ، تاوان اور قتل شمار ہوگا.جس کی ادائیگی کرنا یا بدلہ لینا زندہ رہنے والے ساتھی پر واجب ہوگا.اور زندہ رہنے والا مرنے والی کی جائیداد کا وارث ہوگا.اس طریق سے بھی میت کی تمام جائیداد اس کے ساتھی کو مل جاتی تھی اور اس کی اپنی اولا د اور قریبی رشتہ دار جائداد سے محروم رہ جاتے تھے.اس معاہدے کی ایک اور شکل یہ بھی تھی کہ

Page 29

۲۱ بعض لوگ کسی غیر کے بیٹے کو اپنے بیٹا یعنی متبنی بنا لیتے تھے اور بعض اس منہ بولے بیٹے کو کل جائیداد کا وارث بنالیتے (اگر نرینہ اولاد نہ ہو) یا اسے حقیقی بیٹوں کے برابر یا ان سے بھی زیادہ حصہ دے دیتے تھے.مندرجہ بالا صورتوں میں سے خواہ کوئی بھی صورت ہو عورت ہر حالت میں جائیداد سے محروم رہتی تھی.وہ اپنے والد، بھائی، خاوند اور بیٹے کی جائیداد سے بکلی محروم تھی عورت اپنے ان رشتہ داروں کی جائیداد پر غیروں کے قبضہ کو نہایت صبر سے برداشت کرتی.اس کے پاس سوائے آنسؤوں کے اور کچھ نہ ہوتا تھا.اہل مکہ کے مظالم سے تنگ آ کر جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق مکہ سے مدینہ کو ہجرت فرمائی تو آپ نے وہاں پہنچ کر ہر مہاجر صحابی کو کسی انصاری صحابی کا بھائی بنا دیا اس طرح وہ ایک دوسرے کی جائیداد کے وارث بھی بن گئے.کچھ عرصہ بعد سورہ بقرہ کی یہ آیات نازل ہوئیں جن سے رسول اکرم سمجھ گئے کہ اب وراثت کے بارہ میں احکام جلد نازل ہونے والے ہیں.كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرَا الوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (آیت : ۱۸۱) " جب تم میں سے کسی پر موت ( کا وقت) آ جائے تو تم پر بشرطیکہ وہ (مرنے والا ) بہت سا مال چھوڑے.والدین اور قریبی رشتہ داروں کو امر 66 معروف کی وصیت کر جانا فرض کیا گیا ہے.یہ بات متقیوں پر واجب ہے.“ (تفسیر صغیر) فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (بقرة : ١٨٣ ) خیر کے معنے مطلق مال کے بھی ہوتے ہیں اور بہت سے مال کے بھی.اس جگہ آیت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ مال کثیر مراد ہے.

Page 30

۲۲ مگر جو شخص اس وصیت کو سننے کے بعد بدل دے تو اس کا گناہ صرف انہی پر ہوگا جو اسے بدل دیں اللہ یقیناً خوب سننے والا اور بہت جاننے والا ہے.پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے لئے امر معروف کی (یعنی احکام وراثت پر عمل کرنے کی ) وصیت کرنے کو فرض قرار دیا ہے اور دوسری آیت میں موصی کی اس وصیت میں کسی قسم کی تبدیلی کے خلاف تنبیہ کی گئی ہے.غرض یہ ہے کہ ترکہ کی تقسیم اور وصیت احکام وراثت کے مطابق ہو.وصیت کرنے والا احکامِ وراثت کے مطابق وصیت کرے اور ترکہ تقسیم کرنے والے اس وصیت کی ایسی تشریح نہ کریں جو احکام وارثت کے خلاف ہو.ورنہ یہ لوگ گنہگار ہوں گے اور اس گناہ کا وبال ان پر پڑے گا.ان مندرجہ بالا آیات کی تفسیر فرماتے ہوئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تفسیر کبیر سورہ بقرہ حصہ دوم کے صفحہ ۶۶ - ۳۶۵ پر تحریر فرماتے ہیں :- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے متعلق مرنے والے کو جو وصیت کرنے کا حکم دیا ہے اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی وصیت ہے جس کی تعلیم دی گئی ہے.جب کے شریعت نے خود احکام وراثت کو سورۃ نساء میں تفصیلاً بیان کر دیا ہے اور ان کے نزول کے بعد رشتہ داروں کے نام وصیت کرنا بے معنے بن جاتا ہے سو اس کے متعلق یا د رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ وصیت کے احکام چونکہ دوسری آیات میں نازل ہو چکے ہیں اس لئے یہ آیت منسوخ ہے.اب پر عمل کی ضرورت نہیں.مگر ہمارے نزدیک قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں.قرآنی آیات کی منسوخی کا عقیدہ محض قلتِ تدبر کی بنا پر ظہور میں آیا ہے جب مسلمانوں کو کسی آیات کا مفہوم پوری طرح سمجھ میں نہ آیا تو انہوں نے یہ کہہ دیا کہ وہ منسوخ ہے اور اس طرح کئی کئی سو آیات تک انہوں نے منسوخ قرار دے دیں...یہی طریق انہوں نے یہاں بھی اختیار کر لیا ہے مگر اس آیت کے جو معنے ہم کرتے ہیں اگر اس کو مدنظر رکھا جائے تو یہ حکم بڑا ہی پر حکمت نظر آتا ہے اور اسے منسوخ قرار دینے اس پر

Page 31

۲۳ کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی.در حقیقت یہاں وصیت کا لفظ صرف عام تاکید کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے والدین اور اقربین کے متعلق تو وصیت کرنے کا حکم دیا ہے.مگر اولا د کو ترک کر دیا ہے.حالانکہ قلبی تعلق کے لحاظ سے اولا د کا ذکر بھی ضرور ہونا چاہئے تھا.یہ بات بتاتی ہے کہ یہاں مال کی تقسیم کا مسئلہ بیان نہیں کیا جا رہا.بلکہ ایک عام تاکید کی جارہی ہے اور اولاد کی بجائے والدین اور اقربین کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اس آیت کا سیاق و سباق بتا رہا ہے کہ یہ حکم جنگ اور اس کے مشابہ دوسرے حالات کے متعلق ہے چنانچہ اس سے چند آیات پہلے وَالصَّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَ حِيْنَ الْبَأْسِ میں لڑائی کا ذکر آچکا ہے.اس طرح آگے چل کر وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ میں پھر جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور چونکہ جنگ میں بالعموم نو جوان شامل ہوتے ہیں جن کے ہاں یا تو اولاد ہوتی ہی نہیں یا چھوٹی عمر کی ہوتی ہے.اس لئے والدین اور اقر بین کے حق میں وصیت کرنے کا حکم دیا اور اولاد کا ذکر چھوڑ دیا اور یہ ہدایت فرمائی کہ جب کسی شخص کی موت کا وقت قریب آجائے یا وہ کسی ایسے خطرناک مقام کی طرف جانے لگے جہاں جانے کا نتیجہ عام حالات میں موت ہوا کرتا ہے اور پھر اس کے پاس مال کثیر بھی ہو تو اسے چاہئے کہ وہ وصیت کر دے کہ اس کی جائیداد حکم الہیہ کے مطابق تقسیم کی جائے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو اور یہ تاکید بجائے اس کے کہ کسی اور کو کی جائے.اپنے رشتہ داروں کو کرے.رہا یہ سوال کہ معروف کیا ہے؟ سو ایک تو احکامِ وراثت معروف ہیں ان پر عمل کرنے کی تاکید ہونی چاہئے.دوسرے بعض حقوق ایسے ہیں جو احکام وراثت سے باہر ہیں اور جن کو قاعدہ میں تو بیان نہیں کیا گیا مگر مذہبی اور اخلاقی طور پر انہیں پسند کیا گیا ہے اور اُن کے لئے شریعت نے ۳ /۱ تک وصیت کر دینے کا دروازہ کھلا رکھا

Page 32

۲۴ ہے مثلاً اگر وہ چاہے تو کچھ روپیہ غرباء کی بہبودی کے لئے وقف کر دے اور اُس 66 کی اپنے رشتہ داروں کو تاکید کر جائے.“ اسی طرح صفحہ ۳۶۸ پر حضور فرماتے ہیں :- اگر کوئی شخص وصیت کرے اور بعد میں کوئی دوسرا شخص اس میں تغیر و تبدل کر دے تو اس صورت میں تمام تر گناہ اس شخص کی گردن پر ہو گا جس نے وصیت میں ترمیم و تنسیخ کی.یہ تغیر دوصورتوں میں ہوسکتا ہے ایک تو یہ کہ لکھانے والا تو کچھ اور لکھائے اور لکھنے والا شرارت سے کچھ اور لکھ دے یعنی لکھوانے والے کی موجودگی میں ہی اُس کے سامنے تغیر و تبدل کر دے دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد اُس میں تغیر و تبدل کر دے یعنی وصیت میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ اُس کے خلاف چلے.ان دونوں صورتوں میں اس طرح گناہ کا وبال صرف اُسی پر ہوگا جو اُسے بدل دے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں کسی قرآنی حکم کی طرف اشارہ ہے اور وہ حکم وراثت کا ہی ہے ورنہ اس کا کیا مطلب کہ بدلنے کا گناہ بدلنے والوں پر ہوگا وصیت کرنے والے پر نہیں ہوگا.کیونکہ اگر اس وصیت کی تفصیلات شرعی نہیں تو بدلنے والے کو گناہ کیوں ہو.اس کے گناہ گار ہونے کا سوال تبھی ہو سکتا ہے جب کہ کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہو.اور وہ اسی طرح ہوسکتی ہے کہ مرنے والا تو یہ وصیت کر جائے کہ میری جائیداد احکام اسلام کے مطابق تقسیم کی جائے ، لیکن وارث اس کی وصیت پر عمل نہ کریں ایسی صورت میں وصیت کرنے والا تو گناہ سے بچ جائے گا، لیکن وصیت تبدیل کرنے والے وارث گناہ گار قرار پائیں گے.66 حضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رقم فرمودہ تفسیر سے یہ بات بالکل ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ آیات اُن احکام وراثت پر ( جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے تھے ) عمل کرنے کے بارہ میں ہیں اور اس کی بڑی سختی سے تاکید کی گئی ہے.

Page 33

۲۵ اسی اثناء میں حضرت اوس بن ثابت کا انتقال ہو گیا.انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیوی اور تین بچیاں چھوڑیں.حضرت اوس کے کار پردازوں نے زمانہ جاہلیت کے رواج کے مطابق ان کی کل جائیداد ان کے چچازاد بھائیوں کے حوالہ کر دی.اُن کی بیوی اور بچیاں محروم رہ گئیں.حضرت اوس کی زوجہ محترمہ بہت گھبرائیں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سارا واقعہ سنایا کہ کس طرح اوس کے چچازاد بھائیوں نے اُن کی تمام جائیداد پر قبضہ کر لیا ہے.اور اب وہ خود اور اس کی بچیاں خالی ہاتھ رہ گئی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ معلوم ہو چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ہی وراثت کے بارہ میں احکام نازل فرمائے گا اس لئے آپ نے انہیں تسلی دے کر صبر سے کام لینے کا ارشاد فرمایا نیز فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کرو اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) خود بھی انتظار فرماتے رہے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی.ص لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوالِدان وَالْاَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوالِدان وَالْاَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَط نَصِيبًا مَّفْرُوضًاه (النساء : ٨) اور مردوں کا بھی اور عورتوں کا بھی اس مال میں سے جو اُن کے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ایک حصہ ہے خواہ اس ترکہ میں سے تھوڑا بچا ہو یا بہت.یہ ایک معین حصہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے.“ چنانچہ اس آیت کے نزول سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ شریعت اسلامیہ نے جائیداد میں عورت کا حصہ مقرر کر دیا ہے، لیکن یہ کہ کتنا؟ اس کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم ) منتظر تھے.اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اوس کے بھائیوں کو کہلا بھیجا کہ اوس کی جائیداد کو بحفاظت رکھیں اور خدا تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کریں.اسی دوران میں ایک اور جلیل القدر صحابی حضرت سعد بن ربیج جنگ اُحد میں شہید ہو گئے اور ان کی جائیداد پر بھی حسب رواج اُن کے بھائیوں نے قبضہ کر لیا اور ان کی بیوی اور دو بچیاں بالکل محروم رہ گئیں ان کی زوجہ محترمہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں

Page 34

۲۶ حاضر ہوئیں اور سارا واقعہ بیان کیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی تسلی دیکر صبر کرنے کو کہا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب اس کا فیصلہ فرما دیں گے.کچھ دنوں کے بعد حضرت سعد کی بیوی دوبارہ حاضر ہوئیں اور اپنے حالات سنائے.حضور پہلے ہی تقسیم کے بارہ میں ہدایت کے منتظر تھے.چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی :- يُوصِيكُمُ اللهُ فِى اَوْلادِكُمُ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَاتَرَكَ ۚ وَ إِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلَا بَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَّ وَرِثَةَ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ القُلْتُ ۚ فَإِنْ كَانَ لَهُ اِخْوَةٌ فَلُامِهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنِ (سوره نساء آیت ۱۲) اللہ تمہاری اولاد کے متعلق تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے اور اگر اولا دعورتیں ہی عورتیں ہوں جو دو سے اوپر ہوں تو ان کے لئے بھی جو کچھ اس مرنے والے نے چھوڑا ہو اس کا دو تہائی (۲/۳) مقرر ہے اور اگر ایک ہی عورت ہو تو اس کے لئے (ترکہ کا ) آدھا ہے اور اگر اس مرنے والے کے اولاد ہو تو اس کے ماں باپ کے لئے یعنی ان میں سے ہر ایک کے لئے ترکہ میں سے چھٹا حصہ مقرر ہے اور اگر اس کے اولاد نہ ہو اور اس کے ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا تیسرا حصہ مقرر ہے، لیکن اس کے بھائی بہن موجود ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ مقرر ہے.یہ سب حصے اس کی وصیت اور اس کے قرض کی ادائیگی کے بعد ادا ہوں گے.(تفسیر صغیر ) رض سو اس حکم کی تعمیل میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اوس کے بھائیوں کو کہلا بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے جائداد میں عورتوں کا حصہ معین طور پر مقررفرما دیا ہے اس لئے تم ۲/۳ اوس کی بچیوں کو اور ۱/۸ حصہ اس کی زوجہ کو دے دو اور باقی مال تمہارا حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ذوی الفروض کو حصہ دلانے کے بعد جو کچھ باقی بچا وہ میت کے قریبی رشتہ دار کو جو اس صورت میں عصبہ ( میت کے باپ کی طرف سے رشتہ دار یعنی چچا) کو دلوایا اور ہر قسم کے دیگر طریقے منسوخ ہو گئے.

Page 35

ہے.۲۷ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کے مال میں سے ۲/۳ ان کی بچیوں کو اور ۱/۸ ان کی زوجہ محترمہ کو دلوایا اور باقی مال حضرت سعد کے بھائیوں کو ملا.دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا دن تھا جب اس روئے زمین پر عورت کو بھی مرد کی طرح جائداد میں مستقل حصہ دار قرار دیا گیا کوئی اور مذہب یا تمدن ایسی مثال نہ پیش کر سکا.کسی ملک یا قوم نے ترکہ میں عورت کے حق کو تسلیم نہ کیا یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے عورتوں کو معاشرہ میں صحیح باوقار باعزت مقام دے کر انہیں ان کے حقوق عملی طور پر دلوائے.اور ان کی حالت کو یکسر بدل دیا.اس طرح ترکہ میں دوسرے متعلقہ رشتہ داروں کے حقوق معین کر کے اسلام نے بنی نوع انسان کو ایک ایسا وراثتی لائحہ عمل دیا جس کے ذریعہ ہر مستحق کو اس کا حق مل جاتا ہے ہر قسم کی خانہ جنگیاں ختم ہو جاتی ہیں اور کسی حقدار کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑا جاتا.یہ احکام وراثت ایسے مکمل ہیں کہ ہر ملک میں، ہر قوم کے لئے اور ہر دور میں قابل عمل مفید اور بابرکت ہیں.مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ احکام اس قدر واضح اور منصفانہ ہیں کہ اس کی مثال دنیا میں اور کسی جگہ نہیں ملتی یوں معلوم ہوتا ہے کہ احکام وراثت کے دفتر کے دفتر ان چند آیات میں قلمبند کر دیئے گئے ہیں.انہیں دیکھ کر عقل انسانی اس بات کو ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ احکام کسی انسانی ذہن کی کاوش کا نتیجہ نہیں ہو سکتے یقیناً یہ کسی علیم ، حکیم اور احکم الحاکمین ہستی کے نازل کردہ ہیں جس نے اس قدر اختصار کے ساتھ ایسے بلیغ و حکیمانہ احکام دیے.جن سے تمام حقوق باحسن طریق ادا ہو جاتے ہیں.دوسرے احسانوں کی طرح یہ بھی دنیا پر قرآن پاک کا ایک بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے دوسرے ضروری نظاموں کے ساتھ ساتھ ایک صحت مند، تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والا اور ہر حال میں قابل عمل وراثتی نظام جاری فرمایا اور ان کے ایک بہت اہم بنیادی ضروری اور فطری تقاضے کو پورا فرمایا.

Page 36

۲۸ باب سوم آیات قرآنی و احادیث نبوی دربارة میراث قرآن پاک کی ان آیات کو اور نیز احادیث نبوی کو مع ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے جن میں احکامِ وراثت بیان ہوئے ہیں.یا ان کی تشریح کی گئی ہے.ا وراثت میں عورتوں کا حق لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّاتَرَكَ لُوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ لُوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْكَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًاه (سورة نساء : آیت (۸) اور مردوں کا بھی اور عورتوں کا بھی اس ( مال ) میں سے جو ان کے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ایک حصہ ہے خواہ اس ترکہ میں سے تھوڑا بچا ہو.یا بہت.یہ ایک معین حصہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے.“ ۲.غیر وارثوں کا حق ( یعنی ان رشتہ داروں کو جن کے حصے شریعت نے معین نہیں فرمائے ) اور یشمی اور مساکین کو بھی کچھ دینے کا حکم ہے.

Page 37

۲۹ وَ إِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبَى وَالْيَتْمَى وَالْمَسْكِينُ فَارْزُقُوهُمُ مِنْهُ وَقُولُو الَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا.(سورة النساء آیت (۹) اور جب ترکہ کی تقسیم کے وقت (دوسرے) قرابت دار اور یتیم اور مسکین بھی آ جائیں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور انہیں مناسب ( اور عمدہ ) باتیں کہو.عام طور پرحسن سلوک کے علاوہ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اگر مرنے والے کی طرف سے غرباء کے لئے وظائف مقرر ہوں تو انہیں جاری رکھا جائے.“.یتیم پوتے یا بھتیجے کے متعلق خصوصا اور دوسرے بتائی کے بارے میں عموماً حالات کے مطابق ضرور کچھ نہ کچھ دینے کا تاکیدی ارشاد :- وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْتَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعفًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (سورة نساء آیت ۱۰) اور جو لوگ ڈرتے ہوں کہ اگر وہ اپنے بعد کمزور اولا دچھوڑ گئے تو اس کا کیا بنے گا.ان کو ( دوسرے تیموں کے متعلق بھی ) اللہ کے ڈر سے کام لینا چاہئے اور چاہئے کہ وہ صاف اور سیدھی بات کہیں.-۴- بیتامی کا مال کھانے والوں کے لئے انتباہ ان رشتہ داروں کے لئے سخت انتباہ ہے جو اپنے خاندان کے ان یتامی کی جائداد کو ضائع کر دیں جو ابھی چھوٹے ہیں اور اپنی جائداد کو بوجہ اپنی کم عمری کے سنبھال نہیں سکتے.اِنَّ الَّذِينَ يَأكُلُونَ اَمْوَالَ الْيَتمى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًاه (سورة نساء : آیت ۱۱) جو لوگ ظلم سے قتیموں کے مال کھاتے ہیں وہ یقیناً اپنے پیٹوں میں صرف آگے بھرتے ہیں اور وہ یقیناً شعلہ زن آگ میں داخل ہوں گے.

Page 38

.لڑکے اور لڑکی کے حصے میں نسبت يُوصِيكُمُ اللهُ فِي اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ (سورۃ النساء آیت ۱۲) اللہ تمہاری اولاد کے متعلق تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دوعورتوں کے حصہ کے برابر ہے (یعنی بیٹے کا حصہ بیٹی سے دگنا ہے) - اگر اولا دلڑ کیاں ہی لڑکیاں ہوں تو ان کا جائداد میں حصہ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَاتَرَكَ ۚ وَ إِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ (سورة نساء آیت (۱۲) اوراگر صرف لڑکیاں ہوں جو دو یا دو سے زیادہ ہوں تو اُن کے لئے جو کچھ مرنے والے نے چھوڑا ہو اس کا دو تہائی (۲/۳) مقرر ہے اور اگر میت کی صرف ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے ترکہ کا نصف (۱/۲) مقرر ہے..والدین یعنی ماں اور باپ کا حصہ الف- وَلَاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ (سورۃ نساء آیت ۱۲) اگر میت کی اولاد ہو تو اس کے ماں باپ کے لئے یعنی ان میں سے ہر ایک کے لئے اس ترکہ میں سے چھٹا (۱/۶) حصہ مقرر ہے.فَإِنْ لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَّ وَرِثَةٌ آبَوهُ فَلْامِهِ القُلْتُ ( سورة نساء آیت ۱۲) اگر میت کی اولاد نہ ہو اور اس کے ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا تیسرا (۱/۳) حصر مقرر ہے.(باقی کا ۲/۳ والد کو مل جائے گا) ج فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلُامِهِ السُّدُسُ اور اگر بھائی بہن موجود ہوں تو ماں کا حصہ ۱/۶ ہے.

Page 39

I مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنِ (سوره نساء آیت ۱۲) مذکورہ وارثوں میں حصوں کی تقسیم وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی.ترکہ کی تقسیم انسان کی رائے پر نہیں چھوڑی گئی بلکہ علیم وحکیم خدا تعالیٰ نے خود وارثوں کے حصے مقرر کر دیئے ہیں.ابَاؤُكُمْ وَ ابْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًاه (سورة نساء آیت ۱۳) تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ دادوں اور تمہارے بیٹوں میں سے کون تمہارے لئے زیادہ نفع رساں ہے یہ اللہ کی طرف سے فرض مقرر کیا گیا ہے.اللہ یقیناً بہت جاننے والا اور حکمت والا ہے.۹.ترکہ میں خاوند کا حصہ الف - وَلَكُمْ نِصْفُ مَاتَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ (سورۃ نساء آیت ۱۳) اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ جائیں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو ان کے ترکہ کا آدھا ) حصہ تمہارا ہے.فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ (سورة نساء آیت ۱۳) اگر ان کی اولاد موجود ہو تو جو کچھ انہوں نے چھوڑا اس کا چوتھا () حصہ تمہارا ہے.ج مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ( سورة نساء آیت ۱۲) خاوند کے یہ حصے وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد بچے ہوئے مال میں سے ادا ہوں گے.۱۰.بیوی کا حصہ

Page 40

۳۲ الف ولَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمُ اِنْ لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ (سورة نساء آیت ۱۳) اگر تمہارے ہاں اولاد نہ ہو تو جو کچھ تم چھوڑ جاؤ اس میں سے چوتھا () حصہ تمہاری بیویوں کا ہے.ب - فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمُ (سوره نساء آیت (۱۳) اور اگر تمہارے ہاں اولا د ہو تو جو کچھ تم چھوڑ جاؤ اس میں سے آٹھواں (4) حصہ تمہاری بیویوں کا ہے.ج.مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصى بها اَوْ دَينه ( سوره نساء آیت ۱۲) یہ حصے تمہاری وصیت اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ادا ہوں گے.ا.مادری (اخیافی) بہن بھائیوں کا حصہ الف وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُؤرَتْ كَللَةٌ أَوِ امْرَأَةٌ وَلَةٌ اَحْ اَوْ أُخْتٌ فَلِكُلّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ ، فَإِنْ كَانُوا اَكْثَرَ مِنْ ذلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ (سوره نساء آیت ۱۳) دو اور جس مرد یا عورت کا ورثہ تقسیم کیا جاتا ہے اگر اس کا باپ نہ ہو نہ اولاد ہو اس کا کوئی بھائی یا بہن (ماں کی طرف سے ) ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا (1) حصہ ہوگا اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب تیسرے حصے میں شریک ہوں گے.ج - مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصى بِهَا أَوْ دَيْنِ غَيْرَ مُضَارٌ ۚ وَصِيَّةٌ مِّنَ اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ ( سورہ نساء آیت ۱۳) یہ حصے تمہاری وصیت اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ( بچے ہوئے مال کے لحاظ سے ) ہوں گے.اس تقسیم میں کسی کو ضرر پہنچانا مقصود نہیں ہونا چاہئے (اور یہ ) اللہ کی طرف سے تمہیں حکم دیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا (اور ) بردبار ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو بھی اللہ (تعالی) اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرے گا انعام پائے گا اور جو نا فرمانی کرے گا عذاب کا مستحق ہوگا.تِلْكَ حُدُودُ اللهِ ۖ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ

Page 41

۳۳ تَحْتِهَا الْاَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورة نساء آیت (۱۴) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے انہیں وہ اُن باغوں میں جن کے اندر نہریں بہتی ہوں گی داخل کرے گا (اور) وہ ان میں رہتے چلے جائیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے.وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا (نساء: ۱۵) وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌه اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرر کردہ حدوں سے آگ نکل جائے.اسے وہ آگ میں داخل کرے گا جس میں وہ ایک لمبے عرصہ تک رہتا چلا جائے گا اور اس کے لئے رسوا کرنے والا عذاب مقدر ہے.۱۲.عینی (حقیقی) اور علاقی (باپ کی طرف سے ) بہن بھائیوں کا حصہ b يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللهُ يُفْتِيُكُمُ فِى الْكَلَلَةِ إِنِ امْرُوا هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَّلَةً أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَاتَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا التَّلْيْنِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةٌ رجَالًا وَّنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَ اللَّهُ بِكُلِّ شَى عَلِيمٌ (نساء: ۱۷۷) وہ تجھ سے کلالہ کے متعلق پوچھتے ہیں ( اس جگہ اس کلالہ کا ذکر ہے جس کے بہن بھائی ماں اور باپ کی طرف سے ہوں یا صرف باپ کی طرف سے ہوں تو کہہ دے اللہ تمہیں کلالہ کے متعلق حکم سناتا ہے.اگر کوئی ایسا شخص مر جائے کہ اس کے اولاد نہ ہو.اور اس کی ایک بہن ہو تو جو کچھ اس نے چھوڑا ہو اس کا نصف اس بہن کا ہوگا اور اگر وہ بہن مر جائے اور اس کے اولاد نہ ہو تو وہ ( یعنی اس کا بھائی) اس کے سب ترکہ کا وارث ہو گا اور اگر دو بہنیں ہوں تو جو کچھ اس بھائی نے چھوڑا ہواس کا دو تہائی (۲/۳) اُن کا ہوگا.اور اگر وہ وارث بھائی بہنیں ہوں مرد بھی اور عورتیں بھی تو ان میں سے مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہو گا.اللہ تعالیٰ تمہارے لئے یہ باتیں تمہارے گمراہ ہو جانے کے خدشہ کی بناء پر بیان کرتا ہے اور اللہ ہر ایک امر کو خوب جانتا ہے.

Page 42

۳۴ احکام وراثت کی تفسیری و تشریحی احادیث ا.ترکہ پہلے اہل فرائض کے لئے پھر زیادہ قریبی رشتہ داروں کے لئے ہے عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَم قَالَ الْحِقُو الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَابَقَى فَهُوَ لَا وُلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ ( صحیح بخاری کتاب الفرائض) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ” میراث کو اہل فرائض پر تقسیم کر دو اور جو باقی رہے وہ زیادہ قریبی مرد کا حصہ ہے ( یہاں ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو بیچ رہے وہ عصبہ کو دینے کا حکم ہے جسے اگلے باب میں بیان کیا جائے گا.) ۲.آیت میراث کا نزول وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَتِ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْهَا مِنْ سَعْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَارَسُوْلَ اللهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَاتَان ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبْيع قُتِلَ أَبُوهُمَا مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا وَّ إِنَّ عَمَّهُمَا اَخَذَمَا لَهُمَا وَلَمْ يَدَعُ لَهُمَا مَالاً وَلَا تُنْكِحَانِ إِلَّا لَهُمَا مَالٌ.قَالَ يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ فَنَزَلَت ايَةُ الْمِيْرَاتِ فَبَعَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَمِّهِمَا فَقَالَ اَعْطِ ابْنَتَى سَعْدِ الثُّلُثَيْن وَاعْطِ أُمَّهُمَا النُّمُنَ وَمَا بَقِيَ فَهُوَلَكَ ( ترمذی.ابواب الفرائض باب ۳) حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ سعد بن ربیع کی بیوی سعد بن ربیع کی دو بیٹیوں کے ہمراہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا ! یا رسول اللہ

Page 43

۳۵ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ دونوں لڑکیاں سعد بن ربیع کی ہیں جو اُحد کی لڑائی میں آپ کے ساتھ ( کافروں سے جنگ کرتے ہوئے ) شہید ہو گیا ہے.اب ان کے چچانے ان کا مال لے لیا ہے اور ان ( لڑکیوں ) کے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا.مال نہ ہونے کی صورت میں ان سے کوئی نکاح بھی نہیں کرتا.حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا.اس معاملہ کا فیصلہ خدا تعالیٰ کرے گا.(صبر کرو) چنانچہ میراث کی آیت نازل ہوئی (یعنی يُوصِيكُمُ اللهُ فِى..الخ آپ نے فورا لڑکیوں کے چچا کو بلایا اور فرمایا سعد کی بیٹیوں کو ۲/۳ اَوْلَادِكُمْ.دو تہائی مال دے دو اور ۱/۸ لڑکیوں کی والدہ کو اور باقی جس قدر بچے وہ تیرا ہے.۳.بھانجے کو میراث کا ملنا وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِفٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّتِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْ اَنْفُسِهِمْ - ( صحیح بخاری کتاب الفرائض) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہر قوم کا بھانجہ اُن ہی میں سے ہے یعنی بھانجہ کو بھی ذوی الارحام میں سے ہونے کی وجہ سے میراث میں حصہ ملتا ہے.وو ۴.مسلمان کا فر کا اور کا فرمسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا عَنْ أَسامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ (صحیح بخاری و صحیح مسلم باب الفرائض ) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مسلمان محارب کا فر کا وارث نہیں ہو سکتا اور نہ محارب کا فرمسلمان کا وارث ہوسکتا ہے.۵.قاتل مقتول کا وارث نہیں ہو سکتا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَّسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ الْقَاتِلُ لا يرت (سنن ابن ماجہ جلد دوم ابواب الفرائض صفحه ۳۶۵ (۸۹۸ح)

Page 44

۳۶ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوسکتا.۶.کلالہ کی میراث کے بارے میں سوال اور جواب عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ أَنَّ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَلَالَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْفِيكَ مِنْ ذَالِكَ الْآيَةُ الَّتِى أُنْزِلَتْ فِي الصَّيْفِ فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ (موطا امام مالک باب الفرائض صفحه ۶۵۱) زید بن اسلم سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کلالہ کی میراث کے بارہ میں دریافت کیا آپ نے فرمایا سورۃ نساء کی آخری آیت جو کہ گرمیوں میں نازل ہوئی ہے تیرے لئے کافی ہے.نوٹ : کلالہ کی میراث کے بارہ میں دو آیات نازل ہوئی ہیں.پہلی آیت تو (سورۃ نساء آیت ۱۳) وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَللَةٌ والی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی کلالہ ( مرد یا عورت ) فوت ہو جائے اور والدہ کی طرف سے اس کا ایک بھائی یا بہن ( یعنی اخیافی بھائی یا بہن ) ہو تو اسے چھٹا (۱/۶) حصے ملے گا.اگر زیادہ ہوں تو یہ سب (اخیافی بہن بھائی) ایک تہائی (۱/۳) میں برابر کے شریک ہوں گے.دوسری آیت يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيُكُمُ فِي الْكَللَةِ الخ (نساء: ۱۷۷) ہے.جو گرمیوں میں نازل ہوئی تھی.یہاں اس کلالہ کا ذکر ہے جس کے حقیقی ( مینی ) یا علاقی (باپ کی طرف سے ) بھائی بہن موجود ہوں.اسی لئے انہیں باپ کا حصہ دیا گیا ہے اور وہ آپس میں عصبہ بن جاتے ہیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے کہ اس کے اولاد نہ ہو اور اسکی ایک بہن ہو تو جو کچھ اس نے چھوڑا ہو اس کا نصف (۱/۲) اس بہن کا ہوگا.اور اگر وہ بہن مر جائے اس کے اولاد نہ ہو اور اس لے ایک ہی مذہب کے مختلف فرقے کے پیروکار ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں.

Page 45

۳۷ کا ایک بھائی ہو وہ اس کے سب ترکہ کا وارث ہو گا اگر فوت ہونے والے بھائی کی دو بہنیں ہوں (اس کی اولاد نہ ہو) تو جو کچھ اس بھائی نے چھوڑا اس کا دو تہائی (۲/۳) اُن بہنوں کا ہوگا.اگر میت کے وارث بھائی بہنیں ہوں مرد ( بھی ) اور عورتیں بھی تو ان میں سے مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا.ان دونوں آیات میں کلالہ کی دو مختلف صورتوں کا ذکر ہے پہلی آیت نمبر ۱۳ سورہ نساء میں اس کلالہ کا ذکر ہے جس کے صرف اور صرف مادری (اخیافی) بہن بھائی زندہ ہوں انہیں حسب حالات کلالہ کے ترکہ کا ۱/۶ یا ۱/۳ ملے گا.دوسری آیت نمبر۱۷۷ میں اس کلالہ کا ذکر ہے جس کے حقیقی ( یعنی عینی ) یا علاقی (باپ کی طرف سے ) بہن بھائی موجود ہوں انہیں مذکورہ بالا قواعد کے مطابق حصہ ملے گا اور اگر اس کلالہ کے حقیقی.علاتی بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ اخیافی (مادری) بہن بھائی بھی ہوں تو اخیافی کو ۱/۶ یا ۱/۳ (جو بھی صورت ہو ) دے کر باقی تر کہ دو اور ایک کی نسبت سے حقیقی اور علاقی بھائیوں بہنوں میں تقسیم ہوگا.ے.دادی اور نانی کا حصہ وَعَنْ بُرَيْدَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ لِلْجَدَّةِ السُّدُسَ إِذْلَمْ تَكُنْ دُونَهَا أُمِّ (ابوداؤد ) ( مشکوۃ باب الفرائض فصل ۳) حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.دادی اور نانی کا چھٹا (۱/۶) حصہ مقرر ہے اگر ماں حاجب نہ ہو.شرعی وارث کو اس کے حق سے زیادہ دینے سے اجتناب: ( یعنی کسی شرعی وارث کے حق میں وصیت نہیں ہو سکتی ) حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا.إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٌّ حَقَّهُ فَلَاوَصِيَّةَ لِوَارِثِ.ترندی.ابواب الوصایا.باب۴) اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کا حق مقرر کر دیا ہے اس لئے کسی ایسے وارث کے لئے جس

Page 46

۳۸ کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے وصیت نہیں ہوسکتی.احکام وراثت سیکھنے اور سکھلانے کا تاکیدی حکم تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِمُوْهَا فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ (سنن ابن ماجه مترجم صفحه ۳۵۲ جلد ۲) علم میراث خود سیکھو دوسروں کو بھی سکھلاؤ کیونکہ یہ نصف علم ہے.

Page 47

۳۹ باب چهارم تر که یا میراث تجهیز و تکفین ادائیگی قرض وصیت کسی شخص کی وفات پر اس کی تمام پس ماندہ اشیاء کو تر کہ یا میراث کہتے ہیں.اس میں ہر قسم کی جائداد منقولہ ہو یا غیر منقولہ، یا جو کسی کے ذمہ قرض ہو سب شامل ہے البتہ ایسی اشیاء جن پر متوفی کا مالک ہونا ثابت نہیں وہ اس کی میراث یا ترکہ میں شامل نہیں ہوں گی.میراث کی تقسیم سے پہلے تین چیزیں مقدم ہیں.ا تجهیز و تکفین ۲.ادائیگی قرض ۳.وصیت متوفی کے ترکہ میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کئے جائیں.یہ یاد رہے کہ تجہیز و تکفین نہایت سادہ رنگ میں ہو اور شرعی طریقوں سے سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کی جائے.مسلمانوں کے بعض فرقے میت کی تجہیز و تکفین پر اس قدر رقم خرچ کر دیتے ہیں اور ایسے ایسے چڑھاوے چڑھاتے ہیں.جن کی وجہ سے ترکہ کا بہت سا حصہ ضائع ہو جاتا ہے یہ اسراف بالآ خر یتیم بچوں کے حصوں پر بری طرح اثر انداز ہو کر انہیں معاشی لحاظ سے مفلوج کر دیتا ہے اور قیامت کے دن بھی یقیناً اس غلط طرز عمل کا مواخذہ ہو گا.کیونکہ یہ سب کچھ سنت نبوی اور شرعی طریقوں کے خلاف ہے.بلکہ اگر کوئی وارث یا قریبی رشتہ دارمیت کی تجہیز و تکفین کا خرچ خود برداشت کرنا چاہے تو ورثا کی رضا مندی سے برداشت کر سکتا ہے.اسی طرح اگر کوئی متمول آدمی کسی غریب کے کفن دفن کے اخراجات ادا کرنا چاہے تو اس غریب کے وارثوں پر یہ لازم نہیں کہ وہ اس کی پیشکش کو ضرور قبول کریں وہ اسے رڈ بھی کر سکتے ہیں.بیوی کی تجہیز و تکفین کے اخراجات بذمہ خاوند ہیں اس کے ترکہ سے وضع نہیں ہوتے.اگر کوئی متوفی بہت ہی غریب اور بالکل لاوارث ہو تو اس کی تجہیز و تکفین کے

Page 48

۴۰ اخراجات بیت المال سے ادا ہونے چاہئیں، لیکن اگر کوئی بیت المال وغیرہ قائم نہیں تو پھر یہ رقم اہالیان محلہ ، قصبہ یا شہر سے جمع کر لی جائے اور تجہیز و تکفین کر دی جائے.۲.قرض اگر مرنے والے کے ذمہ کچھ قرض ہو تو تجہیز و تکفین کے اخراجات کے بعد جو کچھ باقی بچے اس میں سے سب سے پہلے یہ قرض ادا کیا جائے.جیسا کہ سورۃ النساء آیت نمبر ۱۳ میں ارشاد ہے.سوال ہو سکتا ہے کہ قرآن پاک میں تو پہلے وصیت کا ذکر ہے پھر دین یعنی قرض کا، لیکن عملاً پہلے قرضہ ادا کیا جاتا ہے اور پھر موصی کی وصیت کو پورا کرتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے مال میں سے ہی وصیت کر سکتا ہے.کسی دوسرے کے مال کے بارہ میں وصیت نہیں کر سکتا.اب اگر ایک شخص پانچ ہزار روپے چھوڑ کر فوت ہوتا ہے اور اس نے زید کا ایک ہزار روپیہ قرض بھی دینا ہے تو اصل میں اس نے اپنے پیچھے صرف چار ہزار روپے چھوڑے ہیں اور وہ ان چار ہزار روپے کے بارہ میں ہی وصیت کر سکتا تھا زید کے ایک ہزار روپے کے بارہ میں وصیت کرنے کا مجاز نہیں تھا.اس لئے قرض کی ادا میکی وصیت پر مقدم ہے اور یہ بات سنت وحدیث سے بھی ثابت ہے.وَعَنْ عَلِيِّ أَنَّهُ قَالَ إِنَّكُمْ تَقْرَؤُنَ هَذِهِ الْآيَةَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُؤْصُونَ بِهَا أَوْدَيْنٍ وَّ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ وَإِنَّ اَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَرِثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ الرَّجُلُ يَرِثُ أَخَاهُ لَا بِيْهِ وَأُمِّهِ دُونَ أَخِيهِ لَابِيهِ b ( ترمذی.ابواب الفرائض باب ۵) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک روز لوگوں سے کہا کہ تم اس آیت کو پڑھتے ہو مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوْصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ جس میں قرض سے پہلے وصیت کا ذکر ہے.لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ آپ وصیت سے پہلے قرض کو ادا کرنے کا حکم دیتے تھے.اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ حقیقی بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں.ان کے ہوتے ہوئے سوتیلے بھائی وارث نہیں ہوتے.اس حدیث سے

Page 49

ظاہر ہے کہ وصیت پر عمل کرنے سے پہلے قرض کی ادائیگی ضروری ہے.ویسے بھی انسان کو اپنے قرضے اپنی زندگی میں ہی ادا کرنے کی اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگنی اور پوری پوری کوشش کرنی چاہئے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ آپ ان اشخاص کا جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جن کے ذمہ قرضہ ہو اور ان کا ترکہ اس قرضہ کی ادائیگی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو.چنا نچہ صحیح بخاری میں ہے.عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِندَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ فَقَالُوا صَلَّ عَلَيْهَا فَقَالَ هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَالُوْا لَا قَالَ فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا لَا فَصَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ أُتِيَ بجَنَازَةٍ أُخْرى فَقَالُوا يَارَسُوْلَ اللهِ صَلَّ عَلَيْهَا قَالَ هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقِيلَ نَعَمُ قَالَ فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ فَصَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ أتِيَ بِالثَّالِثَةِ فَقَالُوا صَلّ عَلَيْهَا قَالَ هَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا لَا قَالَ فَهَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَالُوا ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ قَالَ صَلُّوا عَلَى صَاحِبَكُمْ قَالَ اَبُوْ قَتَادَةَ صَلِّ عَلَيْهِ يَارَسُولَ اللَّهِ وَعَلَيَّ دَيْنُهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ ( صحیح بخاری کتاب حوالات ) حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا.لوگوں نے کہا حضور اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں.آپ نے دریافت فرمایا کیا اس پر کوئی قرض ہے لوگوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا کیا اس نے مال چھوڑا ہے، لوگوں نے کہا کہ نہیں پھر آپ نے اس کی نماز پڑھا دی.اس کے بعد دوسرا جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیں آپ نے فرمایا کیا اس پر کوئی قرض ہے لوگوں نے کہا ہاں حضور آپ نے دریافت فرمایا کیا اس نے کچھ مال چھوڑا ہے لوگوں نے کہا! تین اشرفیاں پس آپ نے نماز جنازہ پڑھا دی.اس کے بعد تیسرا جنازہ لایا گیا اور حضور کی خدمت میں عرض کی گئی کہ حضور اس کا جنازہ پڑھا دیں آپ نے دریافت فرمایا کیا اس نے کچھ مال چھوڑا ہے ( لوگوں نے جواب دیا ) حضور نہیں آپ نے فرمایا کیا اس کے ذمہ کچھ قرض ہے لوگوں نے کہا ہاں تین

Page 50

۴۲ اشرفیاں.آپ نے فرمایا تم لوگ خود ہی اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو.ابو قتادہ نے عرض کی یا رسول اللہ اس کے قرضہ کی ادائیگی میرے ذمہ رہی آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں.اس پر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی.اسی طرح حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کسی ایسے مرد کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہو تو آپ پوچھتے کیا اس نے اتنا مال چھوڑا ہے جس سے قرضہ ادا کیا جا سکے.اگر یہ کہا جاتا کہ قرضہ کی ادائیگی کے بقدر مال چھوڑا ہے تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے ورنہ صحابہ سے فرماتے تم اپنے دوست کی نماز جنازہ پڑھو.پھر جب خداوند تعالیٰ نے آپ کو فتوحات مرحمت فرما ئیں تو آپ نے فرمایا میں مومنوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب کا تعلق رکھتا ہوں.پس جو شخص کوئی مال چھوڑے بغیر فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ قرض ہو تو.اس قرض کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو مال وہ چھوڑے اور اس پر کوئی قرضہ نہ ہو تو یہ مال اس کے وارثوں کا ہے.( صحیح مسلم مع شرح علامه نوری صفحه ۹۸۲) مندرجہ بالا احادیث سے قرض کی ادائیگی کی اہمیت پر واضح روشنی پڑتی ہے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اسے بحالت مجبوری اگر قرض لینا پڑ ہی جائے تو قرض لیتے وقت خلوص دل سے اس کی ادائیگی کی نیت کرے اور ادائیگی کی کوشش بھی کرتا رہے کیونکہ اگر نیت صحیح ہو تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے پورا کرنے کی توفیق دے ہی دیتا ہے جیسا کہ ذیل کی حدیث سے ظاہر ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ اَدَاءَ هَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ وَمَنْ اَخَذَهَا يُرِيدُ اتُلافَهَا أَتْلَفَهُ اللهُ ( صحیح بخاری کتاب الاستقراض صفحه ۴۵۱) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص لوگوں کا مال قرض لے اور وہ اس کے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ اس کے ادا کرنے کے سامان کر دے گا اور جو شخص لوگوں کا مال لے اور ضائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ضائع کر دے گا.

Page 51

۴۳ متوفی کے ترکہ سے صرف وہی قرضہ قابل ادا ہے جس کی تحریر اس کی طرف سے اس کی زندگی میں ہی لکھی ہوئی موجود ہو یا اس نے اپنی وفات سے پہلے اس قرضہ کا اقرار اپنے ورثاء کے سامنے کیا ہو یا چند معتبر لوگوں کی گواہی سے وہ قرضہ ثابت ہو جائے ورنہ ایسے قرضہ کی ادائیگی کے ورثاء ذمہ دار نہیں جس کی نہ تو تحریر ملتی ہو اور نہ ہی متوفی نے کبھی اپنی زندگی میں اس کا اقرار کیا ہو اور نہ ہی کوئی ایسے معتبر لوگ ملتے ہوں جو اس قرضہ کی گواہی دے زوجہ کا حق مہر خاوند کے ذمہ ایک قرض ہوتا ہے جس کا وہ نکاح کے وقت لوگوں کے سامنے اقرار کرتا ہے اور نکاح فارم کی صورت میں فی زمانہ اس قرضہ کی تحریر بھی دی جاتی ہے اس قرضہ کی ادائیگی نہایت اہم اور ضروری ہے اس لئے چاہئے کہ اپنی بیویوں کے حق مہر اپنی زندگی میں ہی ادا کر دیئے جائیں لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں حق مہر ادا نہ کر سکے تو اس کے ورثاء کو چاہئے کہ ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس قرضہ کی بھی ادا ئیگی کر دیں.پھر ترکہ تقسیم کروائیں.جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے.ان تمام احادیث سے عیاں ہے کہ قرضہ کی ادائیگی از بس ضروری ہے خواہ متوفی خود اپنی زندگی میں ادا کرے یا وفات کے بعد اس کے ورثاء ادا کریں اس لئے اگر ترکہ قرضہ کا کفیل ہو سکتا ہو تو پھر پہلے تمام قرضہ ادا کیا جائے بعد میں میراث تقسیم ہو.لیکن اگر متوفی کے ذمہ قرضہ زیادہ ہو اور اس کا ترکہ کم ہو تو اس صورت میں اس کا کل ترکہ قرض خواہوں میں قرضہ کی نسبت سے تقسیم کر دیا جائے اور جو قر ضہ رہ جائے اس کو چاہے قرض خواہ معاف کر دیں چاہے آخرت پر چھوڑ دیں.یہ بات ایک مثال سے زیادہ واضح ہو جاتی ہے.فرض کیجئے.زید کے ذمہ ایک ہزار روپیہ قرض ہے جس کی تفصیل یہ ہے.۵۰۰ روپے الف کے ہیں ۳۰۰ روپے ب کے اور ۲۰۰ روپے ج کے.زید کا ترکہ صرف ۵۰۰ روپے ہے.اب یہ ترکہ الف - ب - ج میں ان کے قرضوں کی رقوم کے تناسب سے تقسیم ہو گا.یعنی ۵۰۰ روپے الف، ب اور ج میں ۳،۵ اور ۲ کی نسبت سے تقسیم ہوگا.اس لئے

Page 52

۴۴ الف کا حصہ ب کا حصہ ج کا حصہ = ۵/۱۰ × ۵۰۰ = ۳/۱۰ × ۵۰۰ = = ۲۵۰ رو.روپے = ۱۵۰ روپے ۵۰۰ × ۲/۱۰ = ۱۰۰ روپے یعنی الف کو اپنے ۵۰۰ قرضہ کی بجائے ۲۵۰ ملیں گے اور ب اور ج کو ۳۰۰ اور ۲۰۰ کی بجائے بالترتیب ۱۵۰ روپے اور ۱۰۰ روپے ملیں گے.باقی قرضہ کی رقم جو متوفی کے ترکہ سے پوری نہ ہو سکے اس کی ادائیگی وارثوں پر قانو نا لازم نہیں ہاں اگر وہ ( ورثاء ) ادا کر دیں تو مستحسن ضرور ہے اس لئے اگر ورثاء بآسانی قرضہ کی ادائیگی کر سکیں تو ضرور کر دینی چاہئے.( تا کہ مرنے والے کی گردن قرض سے آزاد ہو جائے ) لیکن اگر ورثاء ادا نہ کر سکیں یا نہ کرنا چاہیں تو قرض خواہ کو اپنا قرضہ معاف کو دینا چاہئے اور اس کی جزاء کی امید خداوند کریم سے رکھے چنانچہ روایت ہے کہ ایک بہت بڑا مالدار آدمی تھا اس نے اپنے ملازموں سے کہا ہوا تھا کہ وہ جب کسی مقروض کے پاس قرض وصول کرنے کے لئے جائیں اور وہ تنگ دست ہو تو اسے مہلت دے دیا کریں اور اگر وہ ادا ہی نہ کر سکے تو معاف کر دیا کریں.شائد اللہ تعالیٰ ہم پر بھی رحم فرمائے جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے سوا اس کا کوئی اور نیک عمل موجود نہیں تھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جیسا تو لوگوں کو معاف کر دیا کرتا تھا ہم نے بھی تیری خطائیں معاف کیں اور وہ جنت میں داخل ہوا..تیسری چیز جو تقسیم ترکہ پر مقدم ہے وہ وصیت ہے قرآن پاک کے مطالعہ سے بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مومن کو وصیت کرنے کا ارشاد فرمایا ہے ملاحظہ ہو آیت نمبر ۱۸۱ سورة بقره: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرَا بِالْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ جب تم میں سے کسی پر موت کا وقت آ جائے تو تم پر بشر طیکہ مرنے والا بہت سا مال چھوڑے والدین اور قریبی رشتہ داروں کو امر معروف کی وصیت کر جانا فرض کیا گیا ہے.یہ بات متقیوں پر واجب ہے اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تفسیر کبیر سورۃ بقرہ جلد دوم صفحہ ۳۶۷ پر تحریر فرماتے ہیں.

Page 53

۴۵ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس وصیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی وارث کو جس کا شریعت نے حصہ مقرر کر دیا ہے اس کے حق سے زیادہ دے دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے.إِنَّ اللَّهَ أَعْطى كُلَّ ذِى حَقِّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثِ (تَزِندی) اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کا حق مقرر کر دیا ہے اس لئے کسی وارث کے لئے جس کا اللہ تعالیٰ نے حصہ مقرر کر دیا ہے.وصیت نہیں ہو سکتی.پس یہ آیت نہ منسوخ ہے اور نہ بلا ضرورت.بہت دفعہ مرنے کے بعد ورثاء میں تقسیم مال پر جھگڑا ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ غیر رشتہ دار بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اتنا روپیہ دینے کا اس نے وعدہ کیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی کہ مرنے والے کو وصیت کر دینی چاہئے تاکہ کوئی جھگڑا نہ ہو اور یہ سوال نہ اُٹھے کہ مرنے والے نے علاوہ رشتہ داروں کے اوروں کے حق میں بھی وصیت کی ہے اور یہ وصیت رشتہ داروں کے سامنے ہونی چاہئے.“ پس ہر قسم کے جھگڑوں اور خاندانی فتنوں سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وصیت کر دی جائے کہ ترکہ احکام شریعت اسلامیہ کے مطابق تقسیم ہو اور ایسے رشتہ داروں کے حق میں حسب حالات کچھ وصیت کر دی جائے.جن کے حصے معین طور پر قرآن پاک میں مقرر تو نہیں ، لیکن ان کی مدد کرنا اخلاقی ، معاشرتی اور مذہبی طور پر واجب ہو ( مثلاً یتیم پوتا، یتیم بھتیجا اور یتیم بھانجا اسی طرح ترکہ کا کچھ حصہ مختلف نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کی جا سکتی ہے یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان اپنی میراث سے کتنے حصہ تک کی وصیت کر سکتا ہے؟ اس بارہ میں بھی شریعت اسلامی نے نہایت احسن رنگ میں بنی نوع انسان کی رہنمائی کی ہے.چنانچہ ذیل کی احادیث ملاحظہ ہوں.وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ مَرِضْتُ عَامَ الْفَتْحِ مَرَضًا أَشْفَيْتُ عَلَى الْمَوْتِ فَاتَانِى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَقُلْتُ يَارَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِى مَالًا كَثِيراً أَوَّلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي

Page 54

۴۶ اَفَأُوصِي بِمَا لِى كُلِّهِ قَالَ لَا قُلْتُ فَثُلُثَى مَالِي قَالَ لَا قُلْتُ فَالشَّطْرُ قَالَ أَقُلْتُ فَالتَّلْتُ قَالَ القُلتُ وَالقُلتُ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ اغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِّنْ اَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَإِنَّكَ لَن تُنْفِقَ نَفَقَةٌ تَبْتَغِي بِهَاوَجُهَ اللَّهِ إِلَّا أَجِرْتَ بِهَا حَتَّى لُقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ (صحیح بخاری ومسلم ) (مشکوۃ ربع دوم صفحه ۱۲۷۷) حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں میں ایسا سخت بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پہنچ گیا.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس بہت سا مال ہے اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے کیا میں اپنے سارے مال کی وصیت کر دوں آپ نے فرمایا نہیں میں نے عرض کیا دو تہائی مال کی وصیت کر دوں.آپ نے فرمایا کہ نہیں میں نے عرض کیا کہ آدھے مال کی وصیت کر دوں فرمایا نہیں میں نے عرض کی کیا ایک تہائی مال کی وصیت کر دوں آپ نے فرمایا ہاں تہائی مال کی.اور تہائی مال بھی بہت ہوتا ہے.اگر تو اپنے وارثوں کو خوشحال اور مال دار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تو اُن کو مفلس چھوڑے اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں اور تُو جو کچھ خدا کی خوشنودی اور رضا مندی کی خاطر اس کی راہ میں خرچ کرے گا.تجھے اس کا اجر (ضرور) دیا جائے گا.یہاں تک کہ تجھے اس لقمہ کا بھی ثواب ملے گا جو تو اپنی بیوی کے مونہہ میں ڈالے.گویا ورثاء کے لئے مال چھوڑ نا جب کہ رضاء الہی مقصود ہو یہ بھی نیکی ہے.۲.یہی حدیث یوں بھی بیان ہوئی ہے.عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاَنَا مَرِيضٌ فَقَالَ أَوْصَيْتَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ بِكُمْ قُلْتُ بِمَالِي كُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ فَمَا تَرَكْتَ لِوَلَدِكَ قُلْتُ هُمُ اَغْنِيَاءُ بِخَيْرٍ فَقَالَ اَوْصِ بِالْعُشْرِ فَمَا زِلْتُ أَنَاقِصُهُ حَتَّى قَالَ اَوْصِ بِالثُّلُثِ وَ ( مشکوۃ ربع دوم صفحه ۱۲۷۸) القُلتُ كَثِيرٌ حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میری علالت کے ایام میں رسول اکرم صلی

Page 55

۴۷ اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کی آپ نے دریافت فرمایا کیا تو نے وصیت کا ارادہ کیا ہے میں نے عرض کی ہاں.فرمایا کتنے مال کی.میں نے عرض کی خدا کی راہ میں سارے مال کی وصیت کرنے کا ارادہ ہے فرمایا.اپنی اولاد کے لئے تو نے کیا چھوڑا ہے میں نے عرض کی وہ مالدار ہیں.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.دسویں حصہ کی وصیت کر.میں اس مقدار کو کم ہی سمجھتا رہا یعنی زیادہ کا اصرار کرتا رہا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا تہائی کی وصیت کر دے اور تہائی بھی بہت زیادہ ہے.ان احادیث سے ثابت ہے کہ حضور علیہ السلام وصیت کرنے کے بارہ میں صحابہؓ کو تاکید فرمایا کرتے تھے اور کہ وصیت زیادہ سے زیادہ ترکہ کے ۱/۳ حصہ تک کی جاسکتی ہے اس سے زیادہ جائز نہیں.نیز یہ کہ یہ وصیت خدا تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے بارہ میں ہو یا ایسے رشتہ دار یا رشتہ داروں کے حق میں ہو جن کا حصہ قرآن نے مقرر نہیں فرمایا، لیکن ان کی مدد کرنے کو پسند فرمایا ہے.پس شرعی وارثوں کے حق میں وصیت منع ہے اس لئے اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں اپنے کسی غیر وارث رشتہ دار کے حق میں وصیت کی ہو، لیکن کچھ عرصہ بعد حالات بدل جائیں اور جس شخص کے حق میں وصیت کی گئی تھی وہ شرعی وارث بن جائے تو پھر اس صورت میں وہ وصیت خود بخو دمنسوخ ہو جائے گی.مثلاً فرض کیجئے رفیق نامی ایک شخص کا ایک بیٹا موجود ہے اور ایک حقیقی بہن.رفیق نے اپنی زندگی میں وصیت کی کہ اس کی جائداد کا 1/4 حصہ اس کی بہن کو دیا جائے.( بیٹے کے ہوتے ہوئے بہن وارث نہیں ہوتی ) بقضائے الہی رفیق کا بیٹا فوت ہو گیا تو اس صورت میں بہن شرعی وارث بن گئی اور شرعی وارث کے حق میں وصیت نہیں ہو سکتی اس لئے یہ وصیت اب خود بخود منسوخ ہو جائے گی اور بہن اپنا شرعی حصہ (۱/۲) حاصل کرے گی.وصیت کرتے وقت قرآن پاک کے اس ارشاد کو ضرور یا درکھنا چاہئے.مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍ (سورة نساء آیت ۱۳) یعنی وصیت سے کسی کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو.ایسی وصیت جس سے کسی شرعی وارث یا وارثوں کو نقصان پہنچے ممنوع ہے اور اس کا پورا کیا جانا واجب نہیں.اسی طرح اگر

Page 56

۴۸ کوئی شخص کسی ایسے کام کی وصیت کرتا ہے جس پر اس کے ترکہ کے ۱/۳ سے زائد خرچ ہوتا ہوتو اس وصیت کا پورا کرنا بھی واجب نہیں ترکہ کے ۱/۳ حصہ تک اس وصیت پر عمل کیا جا سکتا ہے یا پھر تمام ورثاء سے اجازت لے کر ثواب کی خاطر اسے پورا کیا جا سکتا ہے.مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میرے ترکہ سے ۳۵۰۰۰ ہزار سے فلاں جگہ مسجد بنا دیں اور اس کی جائداد یعنی ترکہ کا ۱/۳ حصہ صرف ۳۰۰۰۰ ہزار روپے بنتا ہو تو ۳۰۰۰۰ ہزار کی رقم سے مسجد تعمیر کرا دی جائے اور اگر اس کے تمام شرعی وارث اجازت دیں تو بقیہ ۵۰۰ بھی ترکہ سے تعمیر مسجد پر خرچ کئے جاسکتے ہیں ورنہ ترکہ کے ۱/۳ حصہ تک کی رقم خرچ کرنے سے وصیت کی تعمیل ہو جائے گی.مثال زید نے وصیت کی کہ اس کے ترکہ سے ۱۵۰۰ روپے خرچ کر کے محلہ کی مسجد میں کنواں بنوا دیں.مگر اس کی وفات پر اس کے ترکہ کی مالیت بعد از ادائیگی قرضہ ۳۶۰۰ روپے ثابت ہوئی اور اس نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی وارث چھوڑے تھے تو بیٹے اور بیٹی کا حصہ بتائیے.۳۶۰۰ روپے ۱۲۰۰ روپے ۱۵۰۰ روپے = = = کل تر که ترکہ کا چونکہ وصیت ۱/۳ سے زائد کی ہے اس لئے میت کے ورثاء بیٹا اور بیٹی کی اجازت مزید ۳۰۰ خرچ کے لئے ضروری ہے اگر یہ دونوں اس پر راضی ہوں کہ ان کے والد کی وصیت کو پورا کر دیا جائے تو پھر ترکہ سے ۱۵۰۰ روپے نکال کر کنواں بنوا دیں اور باقی ۱۰۰ روپے میں ۲: ا کی نسبت سے تقسیم کر دیں اس طرح سے بیٹے کا حصہ نوٹ: ۲/۳ = ۱۴۰۰ روپے ۲/۳ × ۲۱۰۰ = بیٹی کا حق = ۲۱۰۰ × ۱/۳ = ۷۰۰ روپے ہوگا.اور اگر دونوں اجازت نہ دیں تو پھر وصیت کی تعمیل میں صرف ۱۲۰۰ روپیہ ہی خرچ کیا جا سکتا ہے اور اگر ان میں سے ایک اجازت دے تو پھر اس کے حصہ سے بقیہ ۳۰۰ لے کر

Page 57

۴۹ وصیت پوری کریں.دوسرے کو اس کا پورا شرعی حصہ دے دیں.اسی طرح اگر اغراض وصیت کو پورا کرنے کے بعد وصیت کردہ مال میں سے کچھ بیچ جائے تو پھر وہ بقیہ رقم بھی باقی ترکہ کے ساتھ ملا کر وارثوں میں تقسیم کر دی جائے.اگر کوئی شخص اپنے یتیم یا مسکین رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے مثلاً ۵۰۰۰ ہزار روپے زید کے بچوں میں برابر تقسیم کر دیں اور زید کے تین لڑکے اور دولڑکیاں ہوں تو یہ رقم (۵۰۰۰ روپے) ان بچوں میں برابر برابر تقسیم ہونی چاہئے بشرطیکہ ۵۰۰۰ کی رقم میت کے ترکہ کے ۱/۳ سے کم یا زیادہ سے زیادہ ۱/۳ کے برابر ہو.جس شخص کے لئے وصیت کی جائے اس کا وصیت کے وقت زندہ ہونا لازمی موصی کی وفات کے وقت اس کا زندہ ہونا ضروری نہیں یا یوں سمجھ لیجئے کہ کسی وفات یافتہ شخص کے لئے وصیت جائز نہیں.البتہ اگر وہ شخص وصیت کئے جانے کے بعد موصی کی زندگی میں ہی فوت ہو جائے تو وصیت جاری رہے گی اور جس شخص کے لئے وصیت کی گئی تھی اب اس کی جگہ اس کے وارث وصیت کے مستحق ہوں گے.مثال: زید نے عمر کے لئے وصیت کی کہ اس کے ترکہ سے عمر کو ۲۵۰۰ روپے دے دیئے جائیں.عمر اس وصیت کے دو سال بعد فوت ہو گیا اور موصی زید اس کے ایک سال بعد فوت ہوا.اگر زید کا ترکہ ۹۰۰۰ روپے ہو اور زید کے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں وارث ہوں تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ اس طرح اگر عمر کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوں تو وصیت کی مالیت میں عمر کی اولاد کا حصہ بتائیے.زید کا حصہ وصیت کی مالیت = = قابل تقسیم تر که ما بین ورثاء زید ۹۰۰۰ رو.روپے ۲۵۰۰ ( جو کہ زید کے ترکہ کے ۱/۳ سے کم ہے) ۹۰۰۰ = - = ۲۵۰۰ ۲۵۰۰ روپے یه ۶۵۰۰ روپے زید کے ایک بیٹے اور تین بیٹیوں میں ۱:۲ کی نسبت سے تقسیم ہو گا.اس لئے زید کے بیٹے کا حصہ ۲/۵ × ۶۵۰۰ = = ۲۶۰۰ روپے زید کی ہر بیٹی کا حصہ = ۷۵۰۰ × ۱/۵ = ۱۳۰۰ روپے وصیت کی رقم (۲۵۰۰ روپے ) عمر کے ورثاء میں بطور ترکہ تقسیم ہوگی کیونکہ وہ خود

Page 58

فوت ہو چکے ہیں.اور اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی موجود ہیں اس لئے ۲۵۰۰ روپے ان میں ۱:۲ کی نسبت سے تقسیم ہوں گے.عمر کے ہر بیٹے کا حصہ = ۲۵۰۰ × ۲/۵ = ۱۰۰۰ روپے = ۵ × ۲۵۰۰ = 1/0 ۵۰۰ روپے عمر کی بیٹی کا حصہ قرض اور وصیت کی بحث سے اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ ایک مقروض آدمی جس کا ترکہ اس کے قرضہ کا بمشکل مستعمل ہے وصیت نہیں کر سکتا.اسی طرح موصی کو چاہئے کہ غیر شرعی چیزوں کے لئے یا بدرسوم کے لئے وصیت کرنے سے اجتناب کرے لیکن اگر کوئی شخص ایسے کاموں کے بارہ میں وصیت کر بھی دے تو وارثوں پر اس کا پورا کرنا ہرگز ہرگز واجب نہیں اور انہیں اس کی تعمیل نہیں کرنی چاہئے.وصیت کرتے وقت موصی کا ہوش و حواس میں ہونا لازمی ہے (بہتر ہے کہ وصیت رشتہ داروں کے روبرو کی جائے ) اور وصیت پر کم از کم دو اشخاص کی شہادت ضروری ہے جو وصیت کی تصدیق کریں اور اس بات کی گواہی دیں کہ متوفی نے اپنی زندگی میں بقائمی ہوش و حواس وصیت کی تھی.وصیت ترکہ کے ۱/۳ حصہ تک کی جاسکتی ہے.اگر میت کا کسی قسم کا کوئی وارث موجود نہیں اور اس کے ذمہ کسی قسم کا قرضہ بھی نہیں تو پھر وہ کل مال کی وصیت بھی کر سکتا ہے.اپنی جائداد کسی غیر شخص کو بھی دے سکتا ہے اور کل جائداد فی سبیل اللہ بھی وقف کر سکتا ہے.جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو وصیت کی ترغیب دلاتے رہتے تھے تاکہ بعد میں ورثاء کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو.چنانچہ اب ہمیں اس مقدس فریضہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس حدیث کے مطابق عمل کرنا چاہئے.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَاحَقُّ امْرِيُّ مُسْلِمٍ لَّهُ شَيْءٌ (يُرِيدُ أَنْ يُوْصِي فِيْهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ.( بخاری کتاب الوصایا.نیز مسلم.کتاب الوصیۃ ) حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مسلمان کے

Page 59

۵۱ پاس معاملات میں یا تعلقات میں کوئی بات وصیت کے قابل ہو اسے چاہئے کہ دو راتیں گزارنے سے پہلے یعنی بہت جلد اس کے متعلق وصیت لکھ دے.باب پنجم وراثتی اصطلاحات ذوی الفروض ذوی الفروض میت کے وہ رشتہ دار ( ورثاء ) ہیں جن کے حصے شریعت اسلامیہ نے مقرر کر دیئے ہیں.فرض کے معنے معین اور مقرر کے ہیں فروض اس کی جمع ہے.ذوی الفروض کے معنے ہوئے مقررہ حصوں والے یعنی ایسے وارث جن کے حصے شریعت اسلام میں مقرر شدہ ہیں.تجهیز و تکفین کے مصارف، قرضہ اور وصیت کی ادائیگی کے بعد متوفی کا جو ترکہ بچے اس میں سے سب سے پہلے انہیں (ذوی الفروض) کو ان کے مقرر شدہ حصوں کے مطابق مال و اسباب دیا جاتا ہے.ایسے وارث کل بارہ ہیں جن میں سے چار مردور آٹھ عورتیں ہیں.یعنی مرد ا.باپ دارا.شوہر ۴.اخیافی بھائی عورتیں : ا.ماں ۲.بیوی - بیٹی -۴ حقیقی بہن - علاتی بہن ۶.اخیافی (مادری) بہن ے.پوتی ہوتی.دادی اور نانی عصبات عصبات سے مراد میت کے وہ رشتہ دار ہیں جو اس کے نسب میں کسی عورت کے واسطہ کے بغیر شریک ہوں اور خود بھی ذکور ہوں.اس لحاظ سے بھتیجا متوفی کا عصبہ ہے کیونکہ

Page 60

۵۲ بھائی کا بیٹا ہے بھانجا عصبہ نہیں کیونکہ میت کی بہن کا بیٹا ہے یعنی اس کی وراثت میں عورت کا واسطہ ہے.اسی طرح بھتیجی عصبہ نہیں کیونکہ وہ خود عورت ہے بھا نجی یا نواسی وغیرہ بھی عصبہ نہیں کیونکہ بھی عورتیں ہیں اور ان کے اور میت کے درمیان واسطہ بھی عورت کا ہے.البتہ اگر مرد عصبہ کے کوئی عورت بھی شامل ہو تو وہ (عورت) بھی اس مرد کی وجہ سے عصبہ بن جاتی ہے (اسے عصبہ بالغیر کہتے ہیں ) مثلاً اگر میت کے بیٹے کے ساتھ اس کی بیٹی بھی موجود ہو تو پھر یہ بیٹی بھی بیٹے کے ساتھ (جو کہ عصبہ ہے ) عصبہ بن جاتی ہے.اگر میت کا کوئی بیٹا نہیں تو پھر اس کی بیٹی یا بیٹیاں بھی عصبہ نہیں بنیں گی بلکہ بمطابق حالات اپنا مقررہ حصہ حاصل کریں گی اور ذوی الفروض میں شمار ہوں گی.ترکہ میں عصبات کا کوئی معین حصہ مقرر نہیں بلکہ ذوی الفروض کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد جو کچھ بچ جاتا ہے وہ عصبات حاصل کرتے ہیں.ان کا تفصیلی ذکر ا گلے باب میں ملاحظہ فرمائیے.ذوی الارحام ذوی الارحام میت کے وہ رشتہ دار ہیں جن کا تعلق میت سے کسی عورت کے واسطہ سے ہو یا وہ خود ایسی عورت یا عورتیں ہوں جو ذوی الفروض میں یا عصبات میں شامل نہ ہو سکیں.گویا میت کے وہ تمام نسلی قرابت دار جو نہ ذوی الفروض میں شامل ہوں اور نہ عصبات میں.ذوی الارحام کہلاتے ہیں.مثلاً نواسہ، بھانجا، نواسی، بھانجی، پھوپھی بھیجی وغیرہ سب ذوی الارحام ہیں.ان کے اور میت کے درمیان عورت کا واسطہ ہے یا پھر وہ خود عورتیں ہیں یا ان میں سے بعض میں دونوں شرطیں پائی جاتی ہیں.یعنی واسطہ بھی عورت کا ہے اور خود بھی عورتیں ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ذوی الفروض یا عصبات میں شامل نہیں.لیکن بیٹی، پوتی ، بہنیں بے شک بذات خود تو عورتیں ہیں ، لیکن ذوی الارحام نہیں کیونکہ حسب حالات یہ سب یا تو ذوی الفروض میں شامل ہو جاتی ہیں یا عصبات میں.ا.شریعت اسلام میں ذوی الارحام کا کوئی حصہ مقرر یا معین نہیں ہے.یہ لوگ میت کی جائداد کے اس وقت وارث بنتے ہیں.جب نہ تو میت کے ذوی الفروض میں سے کوئی زندہ ہوں اور نہ ہی عصبات میں سے ، البتہ اگر ذوی الفروض میں سے صرف خاوند یا

Page 61

۵۳ بیوی زندہ ہوں اور کوئی ایسا رشتہ دار زندہ نہ ہو جو عصبہ ہو تو خاوند یا بیوی کو اس کا مقررہ حصہ دینے کے بعد جو کچھ باقی بچے وہ ذوی الارحام کو دیا جاتا ہے.کیونکہ مسئلہ رڈ کی صورت میں (جس کا ذکر آگے آئے گا) خاوند یا بیوی کو ان کے مقررہ حصہ کے علاوہ قابل رد مال میں سے اور کچھ نہیں دیا جاتا.مختصر آیا درکھیئے کہ خاوند یا بیوی با وجود ذوی الفروض ہونے کے ذوی الارحام کی توریث میں مانع نہیں ہوتے.جبکہ وہ متوفی کے تنہا وارث ہوں.ذوی الارحام کی تفصیل اور ان کی اقسام باب ہشتم میں ملاحظہ فرمائیے.جد صحیح اس سے مراد وہ وارث مرد ہیں کہ ان کے اور متوفی کے درمیان کوئی عورت واسطہ نہ ہو.مثلاً دادا، پڑدادا، سکٹر دادا، علی ہذا القیاس.(اس سلسلہ کے تمام دادا اجداد صحیح کہلاتے ہیں ) جد فاسد اس سے وہ وارث از قسم ذکور مراد ہیں کہ ان کے اور متوفی کے درمیان کوئی عورت واسطہ ہو مثلاً نانا، پڑنا نا، سکڑنا نا علی ہذا القیاس.(اس سلسلہ کے تمام نا نا اجداد فاسد کہلاتے ہیں ) جده صحیحه اس سے مراد وہ وارث عورتیں ہیں کہ ان کے اور متوفی کے درمیان کوئی جد فاسد واسط نہ ہو.مثلاً دادی، نانی ، پڑدادی، پڑنانی سکٹر دادی وغیرہ.جده فاسده اس سے مرادہ وہ وارث عورتیں ہیں کہ ان کے اور متوفی کے درمیان کوئی جد فاسد داخل ہو.مثلاً نانا کی ماں ، جدہ فاسدہ ہے.جد فاسد اور جدہ فاسدہ کی تعریف میں عورت کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جد فاسدہ اور جدہ فاسد تمام ذوی الارحام میں شامل ہوتے ہیں.

Page 62

۵۴ غرض مسلمان متوفی کی متروکہ جائداد میں سے مصارف تجہیز و تکفین قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد سب سے پہلے ذوی الفروض کو ان کے مقررہ حصے دیئے جاتے ہیں.اس کے بعد اگر کچھ بیچ رہے تو وہ عصبات میں تقسیم کیا جاتا ہے.اس طرح ذوی الفروض اور عصبات کی موجودگی میں ذوی الارحام کو متوفی کے ترکہ سے کچھ بھی نہیں ملتا.البتہ صرف اور صرف ایک صورت ہے جس میں ذوی الفروض کے ساتھ ذوی الارحام کو بھی حصہ مل جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عصبات میں سے کوئی فرد موجود نہ ہو.اور ذوی الفروض میں سے صرف متوفی کی زوجہ یا متوفیہ کا خاوند زندہ ہو.ان تمام صورتوں کو آسان اور عام فہم امثال سے واضح کیا جاتا ہے.مثال نمبر 1: ایک متوفیہ نے والدہ، دو اخیافی بہنیں اور شوہر وارث چھوڑے.اگر اس کا ترکہ بعد از ادائیگی وصیت و غیره ۶۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتائیے.حل متوفیہ کے تمام وارث والدہ ، اخیافی بہنیں اور شوہر ذوی الفروض ہیں.1/4 = ۱/۲ = = اس لئے والدہ کا حصہ خاوند کا حصہ دوا خیافی بہنوں کا حصہ اس طرح ذوی الفروض کا کل حصہ = + = P+r+1 ( یعنی پوری جائداد ذوی الفروض میں ہی تقسیم ہوگئی ) = = 1/4 ۶ × ۶۰۰۰ = 1/4 ۱۰۰ روپے ۶۰۰۰ روپے میں والدہ کا حصہ ۶۰۰۰ روپے میں ہرا خیافی بہن کا حصہ = ۲۰۰۰ × ۱/۲ = ۱۰۰۰ روپے = = ۳۰۰۰ رویی ۶۰۰۰ روپے میں خاوند کا حصہ نوٹ : اگر والده اخیافی بہنوں اور شوہر کے ساتھ اس متوفیہ کا کوئی بھتیجا یا چچا وغیرہ بھی ہوتے جن کا شمار عصبات میں ہوتا ہے تو وہ محروم رہتے.کیونکہ جائداد ذوی الفروض میں تقسیم

Page 63

۵۵ ہو کر ختم ہو جاتی ہے اور باقی کچھ نہیں بچتا.اگر ذوی الفروض کو دینے کے بعد کچھ بچتا تو وہ عصبہ کو ملتا ہے.اس مثال میں کچھ بچتا ہی نہیں.اس لئے بھیجا یا چا جو بھی موجود ہو محروم رہے گا.مثال نمبر ۲: ایک متوفی نے زوجہ، دو بیٹیاں، والدہ اور ایک بھائی چھوڑا.بعد منہائی ضروری مصارف وادائیگی وصیت و قرضہ اگر اس کی جائداد ۲۴۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتائیے.حل زوجہ، دو بیٹیاں ، والدہ ذوی الفروض ہیں اور بھائی عصبہ ہے.اس لئے ذوی الفروض کے حصے یہ ہوں گے.زوجہ کا حصہ = دو بیٹیوں کا حصہ والدہ کا حصہ باقی = 1 - $ + F + - ) ۲/۳ ہر ایک کا حصہ ۱/۳ = 1/4 = = pr-1 = 1+17+1 -1 = ۲۴ ۲۴ ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو یہ (۱/۲۴ حصہ ) بچا ہے یہ عصبہ کا حصہ ہے اور ۱/۸ × ۲۴۰۰ = = ۳۰۰ روپے بھائی کو ملے گا جو عصبہ ہے.اس لئے ۲۴۰۰ روپے میں بیوی کا حصہ اس لئے ۲۴۰۰ روپے میں ایک بیٹی کا حصہ = ۲۴۰۰ × ۱/۳= ۸۰۰ روپے اس لئے ۲۴۰۰ روپے میں دوسری بیٹی کا حصہ = ۲۴۰۰ × ۱/۳ = ۸۰۰ روپے اس لئے ۲۴۰۰ روپے میں والدہ کا حصہ ۲۴۰۰ × ۱/۲ = ۴۰۰ روپے اس لئے ۲۴۰۰ روپے میں بھائی کا حصہ ۲۴۰۰ × ۱/۲۴ = ۱۰۰ روپے مثال نمبر ۳ : ایک متوفی نے اپنے پیچھے ۴ بھانجے ۵ لڑکے اور لڑکیاں چھوڑیں.اگر اس کا ترکہ بعد منہائی ضروری مصارف وادائیگی وصیت و غیره ۱۴۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتائیے.اس مثال میں لڑکے اور لڑکیاں عصبات میں شامل ہیں.بھانجے ذوی الارحام ہیں.عصبات کے ہوتے ہوئے ذوی الارحام کو کچھ نہیں ملا کرتا یعنی یہ ( ذوی الارحام)

Page 64

محروم رہتے ہیں اس لئے جائداد تمام کی تمام عصبات میں تقسیم ہو گی اس طرح کہ ہر لڑکے کو لڑکی سے دگنا حصہ ملے یا یوں سمجھئے کہ حصوں کے لحاظ سے ایک لڑکا دولڑکیوں کے برابر ہوتا ہے.اس طرح اس جائداد کے کل ۱۴ سہام ( حصے ) ہوں گے جن میں سے ہر لڑکے کو دوسہام اور ہرلڑکی کو ایک سہم ملے گا.اس لئے ۱۴۰۰ روپے میں ہر ایک لڑکے کا حصہ = ۱۴۰۰ × ۲/۱۴ = ۲۰۰ روپے ۱۴۰۰ روپے میں ہر ایک لڑکی کا حصہ = ۱۴۰۰ × ۱/۱۴ = ۱۰۰ روپے نوٹ : اگر کسی متوفی کے تمام ورثاء صرف ذوی الفروض ہی ہوں ) اور عصبہ کوئی نہ ہو ) تو اُن کو اُن کے مقررہ حصے دینے کے بعد اگر کچھ باقی بچ جاوے تو وہ بھی ان ذوی الفروض کے درمیان ان کے شرعی حصوں کی نسبت کے لحاظ سے تقسیم کر دیا جاتا ہے (ماسوائے زوج یا زوجہ کے جنہیں قابل رق مال میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا ) مسئلہ رو کا مفصل بیان آگے آئے گا.البتہ اگر والد بھی زندہ ہو جو ذوی الفروض میں شامل ہے اور تمام ذوی الفروض کو (بشمول والد ) اُن کے مقررہ حصے دینے کے بعد کچھ ترکہ بیچ رہے.تو پھر والد (اپنے مقررہ حصے کے علاوہ باقی بچا ہوا ترکہ بھی بطور عصبہ حاصل کرے گا.زوج اور زوجہ کے ساتھ اگر والد کے علاوہ متوفی کا کوئی عصبہ ہو تو باقی ماندہ تمام تر کہ اس کا حق ہے.ہاں اگر زوج یا زوجہ کے ساتھ (والد کے بغیر ) ایک سے زیادہ ذوی الفروض موجود ہوں تو باقی ماندہ تر کہ ان ورثاء میں ان کے حصوں کے تناسب کے لحاظ سے تقسیم کر دیا جائے گا، لیکن اگر زوج یا زوجہ کے ساتھ کوئی دوسرا ذوی الفروض یا عصبہ موجود نہیں.ذوی الارحام میں سے کوئی وارث موجود ہے تب زوج یا زوجہ کا حصہ نکالنے کے بعد باقی ماندہ ترکہ ذوی الارحام میں تقسیم کر دیا جائے گا.گویا ذوی الفروض کی موجودگی میں ذوی الارحام کو صرف اسی صورت میں حصہ مل سکتا ہے جبکہ متوفی کا وارث صرف زوج یا زوجہ ہو اور دوسر کوئی ذوی الفروض یا عصبہ موجود نہ ہو.مثال نمبر ۴ : ایک متوفی نے زوجہ، دونو ا سے اور تین نواسیاں چھوڑیں اگر اس کا ترکہ قابل تقسیم مابین ورثا ء ۸۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتائیے؟ حل زوجہ کا حصہ / =

Page 65

۵۷ باقی = نسبت سے تقسیم ہو گا اس لئے ایک نواسے کا حصہ ایک نواسی کا حصہ >|- II vi< حصہ نواسے اور نواسیوں میں ۲ : ۱ کی ۲/۸ - ۲۷ × ۷/۸ = = ☑ ۸۰۰۰ روپے میں بیوی کا حصہ = ۸۰۰۰ × ۱/۸ = ۱۰۰۰ روپے ہر ایک نواسے کا حصہ ہر ایک نواسی کا حصہ = = ۸۰۰۰ × ۲/۸ = ۲۰۰۰ روپے ۸۰۰۰ × ۱/۸ = ۱۰۰۰ روپے اس طرح زوجہ کو ایک ہزار دونو اسوں کو چار ہزار اور تین نواسیوں کو تین ہزار روپے ملے.ا موانع میراث خدا وند تعالیٰ نے جو حکیم اور علیم ہستی ہے افراد کی ضروریات کے مدنظر اور اُن کی بھلائی اور بہبودی کی خاطر متوفی کے ترکہ میں مختلف حالات میں اس کے ورثاء کے مختلف حصے مقرر فرمائے ہیں.جن کی بناء متوفی کے ساتھ ان کے تعلق اور رشتہ داری پر ہے.اب اگر کسی وجہ سے ان تعلقات پر کوئی زد پڑے تو پھر لازماً ایسا وارث جو اس زد کا باعث ہو اپنے حصہ سے محروم کر دیا جاتا ہے.ایسے اسباب یا امور جن کی وجہ سے وارث میراث سے محروم ہو جاتا ہے انہیں موانع میراث کہتے ہیں.یہ چارا ہیں.ا.مورث کا قتل ۲..غلامی اختلاف مذہب یا دین موت کے وقت کا معلوم نہ ہوسکنا.یعنی جہل ترتیب موت.کہ کون پہلے فوت ہوا اور کون بعد میں.ا.مورث کا قتل ے بعض نے ۹ مانع میراث بیان کئے ہیں اور بعض نے پانچ

Page 66

۵۸ قاتل اپنے مقتول کے مال کا وارث نہیں ہوتا.خواہ ایسا قاتل ذوی الفروض میں شمار ہوتا ہو یا عصبات میں یا ذوی الارحام میں.چنانچہ مروی ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْقَاتِلُ لَا يَرتُ.نے فرمایا:.ترندی.ابواب الفرائض باب (۱۶) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ قاتل مقتول کے مال کا وارث نہیں ہوتا.“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بالغ وارث اپنے مورث کو قتل کر دے تو پھر وہ (وارث ) ترکہ سے بالکل محروم کر دیا جاتا ہے.یہاں قتل سے مراد وہ قتل ہے جس سے کفارہ یا قصاص لا زم آئے.اور اس کی تین قسمیں ہیں.قتل عمل : ( قتل بالا رادہ) وہ قتل ہے جو جان سے مار ڈالنے کے ارادہ سے ہو.خواہ کسی بھی ہتھیار سے کیا جائے.مثلاً تلوار، بندوق ، پستول ، کلہاڑی وغیرہ سے.ب مقتل شبہ عمد : وہ قتل جو ہو تو جان سے مار ڈالنے کے ارادہ سے مگر کسی ایسی چیز کے ذریعہ سے ہو جو ہتھیاروں Weapons میں شمار نہ ہوتی ہو.مثلاً لاٹھی وغیرہ.ج قتل خطاء : وہ قتل ہے جس میں قتل کی نیت نہ ہو.مثلاً غلطی سے بندوق کی صفائی کرتے وقت گولی کا چل جانا یا کسی شکار کو نشانہ بنانا، کسی غلطی سے کسی مورث کا مر جانا.قتل عمد کی صورت میں قصاص لازم آتا ہے.باقی دو میں کفارہ.نوٹ : قتل شبہ خطا اور قتل بسبب ( جو قتل شبہ میں ہی شامل ہے ) مانع میراث نہیں قتل بسبب یہ ہے کہ جیسے کسی شخص نے دوسرے شخص کی زمین میں کوئی گڑھا کھودا اور اس گڑھے میں اس کا کوئی مورث گر کر مر گیا.یہ قتل بسبب ہوگا.جو مانع میراث نہیں کیونکہ نہ اس میں قصاص واجب ہے اور نہ ہی کفارہ.البتہ اگر کوئی ظالم باپ اپنے بیٹے کو عمد آمار ڈالے تو اگر چہ شرعاً اس کا قصاص نہیں ہے جیسا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.لَا يُقْتَلُ الْوَالِدُ بوَلَدِهِ

Page 67

۵۹ لیکن حضور کے دوسرے ارشادت کی روشنی میں ایسا باپ اپنے بیٹے کی میراث محروم رہے گا.۲.غلامی فی زمانہ تو بظاہر کہیں غلامی کا رواج نہیں لیکن اگر کسی جگہ ہو یا آئندہ کہیں پیدا ہو جائے تو چونکہ غلام کی اپنی ملکیت تو ہوتی نہیں.کہیں سے اس کو کچھ ملے تو وہ بھی اس کے مالک کی ملکیت بن جاتا ہے.اس لئے اس کا کوئی رشتہ دار فوت ہو جائے تو متوفی کے مال میں سے غلام کو میراث نہ ملے گی.کیونکہ اگر کسی غلام کو ترکہ کا حصہ دلایا جائے تو وہ اس غلام کے مالک کو مل جائے گا.گویا یہ مال ایسے شخص کو پہنچ جائے گا جو کسی لحاظ سے بھی اس مال کا قطعاً حقدار نہ تھا.اسی طرح اگر کوئی غلام فوت ہو جائے تو اس کی وفات پر اس کے رشتہ داروں کو اس لئے کچھ نہیں ملتا کہ غلام کی اپنی ملکیت کچھ بھی نہیں ہوتی.لہذا غلامی بھی مانع میراث ہے.اختلاف دین (مذہب کا مختلف ہونا ) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَمَّادٌ عَنْ حَبِيْبِ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَمْرٍ و بُنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ وقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَتَوَارَتْ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ شَتّى.(سنن ابی داؤ د کتاب الفرائض جلد دوم) موسی بن اسماعیل ، حماد نے حبیب معلم سے اس نے عمرو بن شعیب سے اس نے اپنے والد سے اور اس نے اپنے دادا ( حضرت ) عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مختلف مذہب رکھنے والے ( جو محارب ہوں ) ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے یعنی اگر مورث اور وارث کے مذہب مختلف ہوں (اور حربی کیفیت رکھتے ہوں ) تو وارث کو مورث کی جائداد سے حصہ نہیں ملتا.نوٹ : حضور علیہ السّلام نے جس ماحول میں یہ ارشاد فرمایا اُس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اختلاف دین سے مراد صاف طور پر ایک کا مسلم اور دوسرے کا حربی غیر مسلم ہونا ہے،

Page 68

لیکن ہمارے بعض کو تاہ اندیش اور متعصب قسم کے مولویوں نے اس حدیث کو اسلام میں ہی مسلمانوں پر چسپاں کر دیا.اور اختلاف دین سے مراد انہوں نے اختلاف جماعت یا فرقہ لے کر ایک فرقے کے ممبروں کو دوسرے فرقے کے ممبروں کی میراث سے محروم کرنے کا فتوے صادر کر دیا.حالانکہ ایک مسلمان کہلانے والا وارث اپنے مسلمان کہلانے والے مورث کی جائداد سے کس طرح محروم ہو سکتا ہے اگر وہ کچھ بھی صحیح سوچتے تو انہیں علم ہو جاتا کہ یہاں اختلاف دین سے مراد عناد کی حد تک بڑھا ہوا اختلاف مذہب ہے نہ کہ اختلاف فرقہ اہل السنت والجماعت شعیه ، شافعی ، حنبلی، دیوبندی، چکڑالوی اور احمدی یہ تمام مذہب اسلام کے مختلف فرقے یا جماعتیں ہیں.یہ مذاہب ( یا ادیان ) نہیں.اس لئے مذہب اسلام کے ان فرقوں کے پیروکار ایک دوسرے کی میراث کے حق سے اس حدیث کی رو سے ہرگز ہر گز محروم نہیں کئے جا سکتے.۴.موت کے وقت کا معلوم نہ ہونا میراث سے محروم ہونے کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کی وفات بیک وقت ہو اور ان کی موت کے بارہ میں یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کون پہلے فوت ہوا اور کون بعد میں ایسے حالات حادثات کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.مثلاً فرض کیجئے کہ ایک باپ مع اپنی بیوی دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے کشتی کے ذریعہ دریا پار کر رہا تھا کہ اچانک کشی الٹ گئی اور وہ تمام غرق ہو گئے چونکہ یہ سب ایک ساتھ ہی دریا میں جا گرے اس لئے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کون پہلے فوت ہوا اور کون بعد میں.اسی طرح فرض کرو کہ ایک ہی خاندان کے کچھ افراد جو ایک ہی کمرہ میں تھے اچانک اس کمرہ کی چھت گرنے سے ایک ساتھ ہی فوت ہو گئے ان حالات میں ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ گویا یہ تمام لوگ ایک ہی ساتھ وفات پا گئے ہیں.پس ایسے وفات یافتہ لوگوں میں سے کوئی شخص بھی کسی دوسرے شخص کا وارث نہیں ہو گا.لہذا وقت موت کا معلوم نہ ہوسکنا بھی مانع میراث ہے.ہاں اگر کسی شخص کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ وہ حادثہ میں شامل بعض اشخاص سے بعد میں فوت ہوا ہے تو وہ اپنے سے پہلے فوت ہونے والے افراد کے موجودہ ورثاء میں شامل ہو گا.جن میں تمام تر کہ بعد منہائی ضروری

Page 69

۶۱ مصارف و ادا ئیگی دین و وصیت بمطابق احکام شریعت تقسیم ہو گا.چنانچہ ملا حظہ ہو.عَنْ رَبيْعَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِّنْ عُلَمَائِهِمْ أَنَّهُ لَمُ يَتَوَارَتْ مَنْ قُتِلَ يَوْمَ الْجَمَلِ وَيَوْمَ صِفِّينٍ وَّ يَوْمَ الْحَرَّةِ ثُمَّ كَانَ يَوْمَ قُدَيْدٍ فَلَمْ يُوْرَت اَحَدٌ مِّنْهُمْ مِّنْ صَاحِبِهِ شَيْئًا إِلَّا مِنْ عُلِمَ أَنَّهُ قُتِلَ قَبْلَ صَاحِبِهِ (موطا امام مالک کتاب الفرائض ) ربیعہ بن عبدالرحمن اور بعض علماء سے مروی ہے کہ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ 7ہ میں جو لوگ قتل ہوئے انہیں دوسرے کے ورثاء میں شریک نہیں کیا گیا تھا.پھر جنگ قدید ہوئی تب بھی اس جنگ میں مرنے والوں میں سے ) کوئی شخص اپنے (مرنے والے ساتھی کا وارث نہ بنایا گیا.سوائے اس شخص کے جس کے متعلق معلوم ہو گیا ک وہ اپنے ساتھی (وارث) سے پہلے قتل ہوا تھا.یعنی ایسے مقتول کا کوئی وارث اگر ان جنگوں میں شامل تھا اور یہ ثابت ہو گیا تھا کہ وہ وارث اپنے مورث سے بعد قتل ہوا تو اسے مقتول مورث کے ترکہ میں اپنے حصہ دیا گیا.مثال: ایک شخص محمد نعیم کے رشتہ داروں میں والدہ ، چار بیٹے ، دو پوتے دو بیٹیاں اور ایک زوجہ موجود ہیں.محمد نعیم مع اپنی بیوی اور دو بیٹوں محمد کریم اور محمد سلیم کے دریا پار کر کے اپنے سُسرال جانا چاہتا ہے.دو بیٹے محمد وسیم اور محمد حلیم اور دو پوتے محمد اور میں ابن محمد کریم اور محمد لقمان ابن محمد سلیم اور دو بیٹیاں اپنی والدہ کے پاس چھوڑ جاتا ہے.اچانک دوران سفر دریا میں حادثہ پیش آ جانے سے محمد نعیم اس کی زوجہ اور دونو بیٹے محمد کریم اور محمد سلیم فوت ہو گئے.اب محمد نعیم کی بیوی اور یہ دونوں بیٹے محمد نعیم کے ترکہ میں وارث نہیں ہوں گے.محمد کریم محمد سلیم محمد وسیم محمد حلیم رقیه محمد اور لیس محمد لقمان زنیب اور ترکہ اب نعیم کی والدہ، دو بیٹوں ( محمد سلیم اور محمد حلیم ) اور دو بیٹیوں ( رقیہ اور زینب ) میں

Page 70

۶۲ تقسیم ہوگا.1/1= نعیم کی والدہ کا حصہ = ۱/۲ باقی = 1 - ا = ۵/۶ حصہ عصبات یعنی دونو بیٹوں اور دونو بیٹیوں میں ۱:۲ کی نسبت.ہوگا.اس لئے محمد وسیم محمد حلیم میں سے ہر ایک کا حصہ = 2 × = = 2 محمد ادریس اور محمد لقمان جو متوفی محمد نعیم کے پوتے ہیں اپنے دادا کی میراث سے محروم رہیں گے البتہ اپنے اپنے والد محمد کریم اور محمد سلیم کے ترکہ کے وارث ہوں گے.نوٹ: بعض اماموں اور دوسرے مصنفوں نے اختلاف دارین کو بھی مانع وراثت قرار دیا ہے یعنی مختلف ممالک میں رہائش رکھنے والے ورثا ء اپنے مورث کے ترکہ سے محروم ہو جاتے ہیں.حضرت امام شافعی اختلاف دارین کو مطلقاً مانع میراث قرار نہیں دیتے.دراصل اختلاف ممالک کوئی مانع میراث نہیں.جائداد کا حصہ وارث کو ایک ملک سے دوسرے ملک میں بآسانی پہنچایا جا سکتا ہے.سوائے اس کے کہ متعلقہ ممالک میں ہر قسم کے سفارتی تعلقات ختم ہو چکے ہوں اور وہ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہوں لیکن بظاہر آج کل ایسی صورت حالات کہیں نظر نہیں آتی کیونکہ دنیا اس ترقی یافتہ سائنسی دور میں ایک خاندان کی حیثیت اختیار کر چکی ہے.وہ زمانہ گیا جبکہ انسان اپنے ہی ملک میں سفر کرنے کے لئے کئی کئی مہینے پیدل چلتے تھے.اب ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا ہر لحاظ سے نہایت سہل ہو چکا ہے.علاوہ ازاں سفیروں کے ذریعہ یہ کام بہت آسان ہو جاتا ہے ایک وارث جو ایران بیٹھا ہو اپنے مورث کی جائداد سے جو انگلستان میں فوت ہوا ہو اپنے ملک کے سفیر کے ذریعے اپنا حصہ وصول کر سکتا ہے.اسی سلسلہ میں ایک حوالہ تنویر الحواشی فی توضیح سراجی صفحہ ۱۳ سے درج ذیل ہے.اختلاف دارین کی علامت یہ ہے کہ دو ملک کے بادشاہ الگ الگ سلطنت میں اور مستقل فوج ولشکر کے ساتھ ایک دوسرے سے آمادہ جنگ و پیکار رہتے ہوں.کسی کی آبرو اور جان محفوظ نہ ہو، لیکن اگر دو مختلف ملک ہونے کے باوجود آپس میں صلح اور معاہدہ ہو تو اسے ایک ہی ملک مان کر آپس کی وراثت جاری رکھی جائے گی.“

Page 71

۶۳ اس لئے موجود دور میں اختلاف دارین بظاہر مانع میراث قرار نہیں پاتا.حجب ترکہ کی تقسیم کے بارے میں کچھ ضوابط اور قیود مقرر ہیں.مختلف درجوں میں ایک متوفی کے بہت سے وارث ہو سکتے ہیں ان وارثوں کے حصوں کے بارے میں آئندہ ہم پڑھیں گے کہ بعض رشتہ داروں کی موجودگی میں دوسرے ورثاء کے حصہ میں یا تو کمی آ جاتی ہے یا وہ بالکل محروم رہ جاتے ہیں.ایسے رشتہ داروں کو جو کسی دوسرے رشتہ داروں کی وجہ سے محروم ہو جاتے ہیں یا کسی قسم کی ان کے حصوں میں کمی آجاتی ہے علم وراثت میں محبوب کہا جاتا ہے.حجب کے لفظی معنی روک کے ہیں.حجب کی دو اقسام ہیں.حجب حرمان حجب نقصان ا.حجب حرمان یہ ہے کہ ایک وارث کسی دوسرے وارث کو کلیتا اس کے حصہ سے محروم کر دے.مثلاً اگر متوفی کا کوئی بیٹا زندہ ہو تو وہ متوفی کے ہر قسم کے بہن بھائیوں کو محروم کر دے گا.۲.حجب نقصان یہ ہے کہ ایک وارث کی موجودگی کی وجہ سے دوسرے وارث کے حصہ میں کمی ( نقصان ) پیدا ہو جائے.مثلاً.اگر خاوند کی کی کوئی اولا دکسی بیوی سے بھی موجود ہو تو بیوی کا حصہ سے 4 ہو جاتا ہے.اسی طرح خاوند کا حصہ پا سے رہ جاتا ہے اگر وفات یافتہ بیوی کی کوئی اولاد ہو خواہ موجودہ خاوند سے ہو یا پہلے کسی خاوند سے ظاہر ہے کہ اس حجب کی زد میں وہ رشتہ در آئیں گے جو کبھی بھی میراث سے کلیۂ محروم نہیں کئے جا سکتے البتہ حالات کے مطابق اُن کے حصے کم و بیش ہوتے رہتے ہیں.حجب کا اصول یہ ہے کہ الا قرب ابعد کو محجوب کرتا ہے.یعنی قریب تر بعید ترکو ترکہ سے محروم کر دیتا ہے.الاقرب ثم الاقرب کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے.مثلاً بیٹا تمام پوتے اور پوتیوں کو محروم کر دیتا ہے.باپ دادا کو ، دادا پڑدادا کو ( وعلی ہذا القیاس ) محجوب کرتے ہیں.

Page 72

۶۴ دونوں قسم کے حجب کا مفصل بیان :.حجب حرمان ( محجوب ورثاء کی فہرست ) پوتا پوتی محروم ہو جاتے ہیں اگر میت کا بیٹا ہو.دادا اور پڑدادا وغیرہ محروم ہو جاتے ہیں.اگر میت کا باپ زندہ ہو.بھتیجا محروم ہو جاتا ہے اگر میت کا بیٹا، پوتا ، بھائی کوئی بھی موجود ہو.چا محروم ہو جاتا ہے اگر میت کا بیٹا، پوتا، باپ، دادا، بھائی ، بھتیجا کوئی بھی موجود ہو.پڑپوتا محروم ہو جاتا ہے اگر میت کا بیٹا، پوتا موجود ہو.پوتی محروم رہے گی اگر میت کا کوئی بیٹا ہو یا میت کی دو بیٹیاں موجود ہوں.دادیاں اور نانیاں سب محروم ہو جاتی ہیں اگر میت کی والدہ موجود ہو.اخیافی (مادری) بہن بھائی سب محروم ہو جاتے ہیں.اگر میت کا بیٹا، بیٹی ، پوتا، پوتی، باپ، دادا میں سے کوئی بھی موجود ہو ( یعنی اصل یا فرع میں سے کوئی بھی موجود ہو ).ہر قسم کے بھائی بہن محروم ہو جاتے ہیں اگر میت کا باپ ، داد یا کوئی بیٹا، پوتا موجود ہو.۱۰ علاتی بہن محروم ہو جاتی ہے (بشرطیکہ عصبہ کی حیثیت اختیار نہ کرتی ہو ) جب کہ دو حقیقی بہنیں یا ایک حقیقی بھائی موجود ہو.پڑدادا محروم ہو گا جبکہ دادا موجود ہو.۱۲.ذوی الارحام میں سے نانا، نانی، خالہ، ماموں، پھوپھی، بھانجا، بھانجی وغیرہ محروم ہو جاتے ہیں اگر میت کا کوئی نواسہ نواسی موجود ہوں.۱۳.خالہ، ماموں ، پھوپھی، بھانجا، بھانجی محروم ہو جاتے ہیں.اگر نانا نانی موجود ہوں.۱۴.خالہ، ماموں، پھوپھی محروم ہو جاتے ہیں اگر بھانجا بھانجی موجود ہو.۱۵.دادی محروم ہو جاتی ہے اگر والد، والدہ یا کوئی قریب دادی موجود ہو.۱۶.نانی ، نانی کی ماں یا نانی البعد کو نانی اقرب اگر چہ دوسرے ہی سلسلہ میں کیوں نہ ہو محروم کر دیتی ہے.

Page 73

حجب نقصان وہ وارث جن کا حصہ دوسرے وارثوں کی موجودگی کی وجہ سے کم ہو جاتا ہے.باپ.باپ کا حصہ # سے کم ہو کر 4 ہو جاتا ہے اگر میت کی اولاد ہو یعنی بیٹا، بیٹی ، پوتا ، پوتی ، پڑپوتا، پڑپوتی کوئی ایک بھی ہو.ماں.ماں کا حصہ 7 سے کم ہو کر رہ جاتا ہے اگر میت کی اولاد یا ایک سے زیادہ بہن بھائی موجود ہوں.خاوند.خاوند کا حصہ سے کم ہو کر لے رہ جاتا ہے اگر زوجہ (متوفیہ ) کی اولاد ہو.خواہ کسی بھی خاوند سے ہو ( موجودہ سے ہو یا سابقہ سے ) بیوی.بیوی کا حصہ سے کم ہو کر رہ جاتا ہے اگر خاوند کی اولاد ہو ( خواہ کسی بھی بیوی کے بطن سے ہو ) ہوتی.پوتی کا حصہ آ سے کم ہو کر پا رہ جاتا ہے اگر میت کی ایک بیٹی بھی موجود ہو.علاقی ( پدری ) بہن.علاتی بہن کا حصہ نصف (7) سے کم ہو کر پا رہ جاتا ہے اگر حقیقی بہن بھی موجود ہو.دادا - دادا کو (اگر باپ زندہ نہ ہو تب) + کی بجائے ا ملے گا اگر میت کی اولا دموجود ہو.او پر ان رشتہ داروں کی تفصیل دی گئی ہے جن کے حصے کم ہو جاتے ہیں.نیچے ان رشتہ داروں کی تفصیل درج کی جاتی جن کی وجہ سے دوسرے رشتہ داروں کے حصے کم ہوتے ہیں.اس طرح دہرانے سے حجب نقصان کا مسئلہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے گا چونکہ تقسیم ترکہ کے لئے اس مسئلہ پر پورا عبور ضروری ہے.اس لئے اسے بڑے غور سے پڑھنا اور یاد کر لینا چاہئے.

Page 74

۶۶ ا.خاوند یا بیوی حجب نقصان (حاجب ورثاء کی فہرست ) اگر میت کی بیوی یا خاوند زندہ ہو اور ماں باپ بھی تو والدہ کو کل مال کا ثلث نہیں دیا جاتا بلکہ بیوی یا خاوند جو بھی ہو اس کے حصہ دلوانے کے بعد جو بچتا ہے.اس کا ثلث دیا جاتا ہے.۲.حقیقی بھائی اگر میت کے ۲ یا دو سے زیادہ حقیقی بھائی ہوں تو والدہ کو کم کر کے پے دلوایا جاتا ہے.اسی طرح اگر ایک بھائی اور ایک بہن ہو یا دو بہنیں ہوں تو بھی | دلوایا جاتا ہے.حقیقی بہن اگر ایک حقیقی بہن بھی ہو تو علاتی بہن کا حصہ ۱/۲ سے کم ہوکر ۱/۶ رہ جاتا ہے.اگر دو یا دو سے زیادہ ہوں تو والدہ کا حصہ ۱/۳ سے کم ہوکر ۱/۶ ہو جاتا ہے.۴.بیٹا یا پوتا اگر میت کا کوئی بیٹا یا پوتا ہوتو والدہ کا حصہ ۱/۳ سے کم ہوکر ۱/۶ رہ جاتا ہے.خاوند کا حصہ ۱/۲ سے کم ہوکر ۱/۴ رہ جاتا ہے.ج.بیوی کا حصہ ۱/۴ سے کم ہوکر ۱/۸ رہ جاتا ہے.۵.بیٹی اگر میت کی کوئی بیٹی ہو تو ) خاوند کا حصہ ۱/۲ سے کم ہوکر ۱/۴ رہ جاتا ہے.بیوی کا حصہ ۱/۴ سے کم ہوکر ۱/۸ رہ جاتا ہے.ج.باپ یا ماں کا حصہ ۱/۳ سے کم ہوکر ۱/۶ رہ جاتا ہے.ا اس میں بعض اماموں نے اختلاف کیا ہے وہ کل مال کا ۱/۳ دلانے کے حق میں ہیں.

Page 75

۶۷.پوتی یا پڑ پوتی اگر میت کی بیٹی نہ ہو تو پھر پوتی بیٹی والی حیثیت اختیار کر لیتی ہے.اور انہی وارثوں کے لئے حاجب نقصان ہے جن کے لئے بیٹی حاجب ہے یعنی وہ زوجہ شوہر اور ماں باپ کا حصہ اسی نسبت سے کم کر دیتی ہے جس نسبت سے بیٹی کرتی ہے.حجب حرمان ( حاجب ورثاء کی فہرست یعنی وہ وارث جو دوسروں کو محروم کر دیتے ہیں) ا.باپ (.دادا اور دادی کو محروم کر دیتا ہے.ب.ہر قسم کے بھائی بہنوں (اعیانی، علاقی اور اخیافی ) کومحروم کر دیتا ہے.۲.بیٹا ) - میت کے ہر قسم کے بہن بھائی کو محروم کر دیتا ہے.ب.پوتے پوتی، بھائی، چا، بھتیجا وغیرہ کو جو کہ عصبات میں شامل ہیں محروم کر دیتا ہے.۳.ہوتا یہ بھی انہی وارثوں کو محروم کرتا ہے جنہیں بیٹا محروم کرتا ہے.یعنی ا.میت کے ہر قسم کے بہن بھائی کو محروم کر دیتا ہے.ب.جملہ عصبات البعد کو محروم کر دیتا ہے.۴.ماں ہر قسم کی نانیوں اور دادیوں ( جدات صحیحہ ) کو محروم کر دیتی ہے.بیٹی (.اخیافی بہن بھائیوں کومحروم کر دیتی ہے.ب.اگر دو بیٹیاں ہوں تو پوتی کو محروم کر دیتی ہیں بشرطیکہ پوتی یا پوتیاں عصبہ نہ بن جاتی ہوں 4 - حقیقی بھائی : علاقی بھائیوں کو اور ہر قسم کے بھتیجوں کو اور بچاؤں کو اور ان عصبات کو جوان سے کم درجہ کے ہیں محروم کر دیتا ہے.

Page 76

۶۸ ے.علاقی بھائی: ہرقسم کے بھتیجوں ، چچاؤں اور ان کی اولاد کو محروم کر دیتا ہے.وہ رشتہ دار جو شرعاً وارث نہیں ہو سکتے.۱.سوتیلی ماں یا سوتیلا باپ اپنی سوتیلی اولاد کے ترکہ سے حصہ نہیں پا سکتے.اسی طرح سوتیلی اولاد اپنے سوتیلے ماں باپ کے ترکہ سے حصہ نہیں پاسکتی.یعنی پہلے خاوند سے بیوی کی اولاد موجود خاوند کے ترکہ میں حصہ کی حق دار نہیں ہو سکتی.اسی طرح موجودہ خاوند بیوی کے پہلے خاوند کے بچوں کے ترکہ میں حق دار نہیں ہو سکتا.خاوند کی وہ اولاد جو کسی دوسری بیوی کے بطن سے ہو اپنی ( سوتیلی ) ماں سے کسی قسم کا حصہ نہیں پاسکتی.اس طرح ماں اپنے اُن بچوں کے ترکہ سے حصہ نہیں پاتی.جو کہ اس کے بطن سے نہیں.البتہ ایسے رشتہ داروں کو کسی اور جہت سے میراث پہنچتی ہو تو وہ محض سوتیلے پن کی وجہ سے محروم نہیں ہوں گے.مثلاً اگر سوتیلا لڑکا بھتیجا بھی ہو.اسی طرح اگر سوتیلی ماں خالہ بھی ہو.سوتیلا باپ چا بھی ہو اور کوئی اور نزدیکی عصبہ یا ذوی الارحام موجود نہ ہوں جو انہیں مکمل طور پر مجوب کر دیں تو ان سوتیلے رشتہ داروں کو میراث سے حصہ ملے گا.۲.شوہر کے تمام رشتہ دار بیوی کے ترکہ سے کچھ حصہ نہیں.پاتے اسی طرح بیوی کے تمام رشتہ دار شوہر کے ترکہ سے کچھ حصہ نہیں پاتے.شوہر کے تمام رشتہ دار یعنی اس کے ماں باپ اپنی بہو کی جائداد سے اور بہن بھائی اپنی بھابھی کی جائداد سے بلحاظ کسی وراثت کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتے.اسی طرح بیوی کے تمام رشتہ داروں یعنی اس کے ماں باپ، بہن بھائی کو اپنے داماد یا بہنوئی کی وراثت سے کسی قسم کا تعلق نہیں سوائے اس کے کہ وہ متوفی کے ساتھ کوئی اور رشتہ دار بھی رکھتے ہوں.مثلاً دامادی کے علاوہ کوئی شخص متوفی یا متوفیہ کا بھتیجہ بھی ہو.اس طرح بہو ہونے کے ساتھ ساتھ و بھتیجی یا بھانجی بھی ہو تو انہیں اس جہت سے میراث پہنچنے کا جواز ہر وقت موجود ہے.بشرطیکہ کوئی اور نزدیکی عصبہ یا ذوی الارحام موجود نہ ہو جو ان کو محجوب کر دے.

Page 77

۶۹ ۳.پوتی اور نواسی کا خاوند پوتی کا میراث میں حصہ ہے.لیکن پوتی کے خاوند کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ (خاوند) میت کا پوتا یا نواسہ بھی ہو.اسی طرح نواسی کا میراث سے تعلق ہے.مگر نواسی کے خاوند کا کچھ تعلق نہیں.سوائے اس کے کہ وہ میت کا پوتا یا نواسہ بھی ہو.۴.پھوپھا خالو کا حصہ پھوپھی اپنے بھتیجوں کی وارث ہے اور بھتیجے اس کے وارث ہیں.لیکن پھوپھی کے خاوند ( پھوپھا ) کو اپنی بیوی کے بھتیجوں کی وراثت سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح خالو کو بھی اپنی بیوی کے بھانجوں کی وراثت سے کوئی تعلق نہیں.البتہ کسی اور جہت سے وارث ہونے کا امکان ہوسکتا ہے.-۵ خدمت گزاری غمخواری اور مالی امداد کسی کو کسی کا وارث نہیں بنا دیتی بعض لوگ اپنی ناواقفیت کی بناء پر اپنے مخلص خدمت گزاروں غمخواروں یا مالی طور پر امداد کرنے والوں کو شرعی وارث سمجھ لیتے ہیں.یہ درست نہیں.شرعی وارث وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرما دیئے ہیں.ہاں اگر کوئی شخص ایسے لوگوں کو اپنی جائداد سے ضرور کچھ دینا یا دلوانا چاہتا ہے تو اسے اپنے حق وصیت سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے دیا ہے فائدہ اٹھا کر ان کے حق میں وصیت کر دینی چاہئے.بہتر ہو کہ اس پر عمل درآمد بھی اپنی زندگی میں ہی کروا دے.۶ کوئی مونہہ بولا بیٹا یا دینی بھائی وارث نہیں ہو سکتا اسلامی احکام وراثت کے نزول کے بعد ہر قسم کے مونہہ بولے یا دینی بھائی اور مونہہ بولے بیٹے ، بھتیجے وغیرہ جائداد سے حصہ نہیں پاتے.مواخات کا سلسلہ (بھائی بھائی بنانا ) جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد انصار اور مہاجر

Page 78

صحابہ کرام میں جاری فرمایا تھا اور جس کی وجہ سے وہ وراثت میں بھی ایک دوسرے کے حق دار بن جاتے تھے.احکام وراثت کے نزول کے بعد ختم ہو گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل شروع ہو گیا تھا.اس لئے کوئی بھی مونہہ بولا بھائی یا بہن شرعی وارثوں کی طرح وارث نہیں ہو سکتے.ے.زنا کی وجہ سے ہرگز کوئی تعلق میراث قائم نہیں ہوتا اسلام نے زنا جیسی بدی کو ہر طرح سے معاشرہ سے دُور کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے اس بدی کے نتیجہ میں جو بچہ پیدا ہو وہ زانی کا وارث نہیں بن سکتا.اور نہ زانی اس کا وارث بن سکتا ہے.یہ امتناع اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ بنی نوع انسان ایک پاک اور صاف معاشرہ قائم کرسکیں اور کوئی کسی کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کسی طور پر نہ کر سکے اس لئے ولد الزنا اپنے زانی باپ کے ترکہ میں میراث کا حق دار نہیں اسی طرح یہ زانی باپ اپنے اس ولد الزنا کے ترکہ کا حق دار نہیں اور نہ زانیہ زانی کے ترکہ سے حصہ پاسکتی ہے اور نہ ہی زانی زانیہ کے ترکہ سے حصہ پاسکتا ہے.البتہ ایسا بچہ اپنی ماں کا وارث ہے اور ماں اس کی وارث.چند ایسے امور جن کی بنا پر شریعت اسلامی کی رُو سے کسی وارث کو قطعاً محروم نہیں کیا جا سکتا ، لیکن ناقص معاشرہ اور بدرسوم کے نتیجہ میں لوگ بعض وارثوں کو محروم کر دیتے ہیں.بعض خاندان اپنی نوجوان بیوہ بہو بیوہ بیٹی کو خواہ وہ جوانی میں ہی بیوہ ہو جائے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت نہیں دیتے.سروال والے یہی چاہتے ہیں کہ وہ جیسے بھی ہو اپنی بقیہ زندگی ان کے در پر ہی گزار دے اگر وہ نکاح ثانی کرے یا کرنے کی کوشش کرے تو اسے اس کے وفات یافتہ خاوند کی جائداد سے مع اس کے بچوں کے (اگر کوئی ہوں ) محروم کر دیتے ہیں.جائداد پر خود قبضہ کر بیٹھتے ہیں اور نکاح ثانی کو اپنی جھوٹی عزت کا سوال بنا لیتے ہیں.ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد اَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمُ ( نور :۳۳) کے مطابق بیواؤں کی دوسری شادی کرنے کا حکم ہے.پس انہیں وہی کرنا چاہئے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے کے لئے کوئی حیلہ اختیار نہ کیا جائے ورنہ ایسا شخص ہر لحاظ سے نقصان اٹھائے گا.کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کو جو کہ بیوگان کو نکاح ثانی سے اس لئے روکتے ہیں ا.

Page 79

اے یا روکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں وہ وراثت کا حصہ اپنے ساتھ نہ لے جائیں.خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب سے بہت ڈرنا چاہئے اور وہی کچھ کرنا چاہئے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور جو سنت نبوی سے ثابت ہے کہ اسی میں بنی نوع انسان کی بہتری اور فلاح مضمر ہے.ایک عورت شریعت کی حدود و قیود کے اندر رہ کر یکے بعد دیگرے جتنے نکاح چاہے کر سکتی ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس وجہ سے اسے اس کے شرعی حصہ میراث اور حق مہر سے محروم کرے بیوگی میں رہ کر اپنی جوان عمر گزارنے کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا نیز اللہ تعالیٰ کی رضا اس کے احکام کی فرمانبرداری کرنے میں ہے نہ کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے میں اور فطرتی تقاضوں کو کچل دینے میں.دوسری شادی نہ کرنا یا نہ کروانا.ہندوؤں کی رسم ہے جس سے مسلمانوں کا کوئی واسطہ نہیں اس لئے اسے ترک کر کے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت زندگی گزارنی چاہئے اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے.-۲- میلان طبع یا رغبت بعض دفعہ ایک شخص جس کی ایک سے زیادہ ( چار تک ) بیویاں ہوں کسی خاص بیوی کی طرف بہت جھک جاتا ہے.انصاف کا پیمانہ اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے جس کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اور اپنی اس چہیتی بیوی کو یا اس کی اولاد کو دوسروں کی نسبت اپنی زندگی میں بذریعہ ہبر یا کسی اور طریقے سے زیادہ دے دیتا ہے یا دینا چاہتا ہے اور دوسری بیویوں کو نقصان پہنچاتا ہے جن کی طرف اسے رغبت کم ہے یا ہے ہی نہیں ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اس بات کی اجازت نہیں دیتے تمام بیویاں مساوی طور پر خاوند کے یا ترکہ کی وارث ہیں نیز کسی شرعی وارث کے حق میں وصیت بھی نہیں ہو سکتی.اس لئے کسی بھی وارث کو اس کے شرعی حصے سے زیادہ نہیں دیا جا سکتا.چنانچہ اس سلسلہ میں دو عن احادیث درج ذیل ہیں:.النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةٌ فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِئْتُ رَوَاحَةَ لَا ارْضى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاتى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم فَقَالَ إِنِّي

Page 80

۷۲ أَعْطَيْتُ ابْني مِنْ حَمْرَةً بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً فَأَمَرَتْنِيو أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُول اللَّهِ قَالَ أَعْطَيْتَ سَائِرَوَلَدِكَ مِثْل هَذَا قَالَ لَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاتَّقُوا الله وَاَعْدِ لُوْا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ قَالَ فَرَجَعَ ( صحیح بخاری کتاب الهبة ) فَرَدَّ عَطِيَّةٌ.حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کچھ عطیہ دیا تو میری والدہ عمرہ بنت رواحہ نے کہا کہ میں راضی نہیں ہوں.جب تک تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بناؤ جس پر وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں نے اپنے بیٹے کو جو عمرہ بنت رواحہ کے بطن سے ہے کچھ عطیہ دیا ہے.اور عمرہ کہتی ہے کہ میں آپ (رسول اللہ ) کو گواہ بناؤں.آپ نے دریافت فرمایا کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو اسی قدر دیا ہے.انہوں نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا.اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو.حضرت نعمان کہتے ہیں کہ پھر انہوں نے دی ہوئی چیز واپس لے لی.“ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کو بہر صورت اپنی اولا د اور بیویوں (اگر) ایک سے زائد ہوں ) کے درمیان انصاف قائم رکھنا چاہئے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہئے.جو لوگ احکام شریعت پر عمل نہیں کرتے اور اپنے کسی بھی وارث کو اس کا شرعی حصہ دینے سے گریز کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتے ہیں.چنانچہ مروی ہے.وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ فَرَّ مِنْ مِّيْرَاتِ وَارِثِهِ قَطَعَ اللَّهُ مِيَرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.(ابن ماجہ.ابواب الوصايا ) حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنے وارث کی میراث سے بھاگے (یعنی مرتے وقت ایسی تدبیریں کرے کہ وارثوں کو ان کا مفروضہ حصّہ نہ ملے ) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت کی میراث نہ دے گا.

Page 81

۷۳ ۳.نافرمانبرداری بعض دفعہ والدین اپنے نافرمانبردار بچوں کو ان کے کسی ناپسندیدہ سلوک کی وجہ سے اپنی جائداد سے محروم کر دیتے ہیں.ایسے والدین کو معلوم ہونا چاہئے کہ انہیں کسی وارث کو اس کے شرعی حصہ سے محروم کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں.شریعت نے اُن کے بچوں کا حق تسلیم کیا ہے اس لئے وہ انہیں ملے گا.سوائے اس کے کہ کوئی بچہ ذہنی لحاظ سے معذور ہو جس سے جائداد کے ضائع ہونے کا ڈر ہو.ایسی صورت میں ایسے بچوں کے لئے نگران مقرر کر دیے جائیں اور ان کا شرعی حصہ بطور امانت محفوظ رکھا جائے اور ان بچوں پر ان کی ضروریات کے مطابق خرچ ہوتا رہے.۴.کم سنی ، چھوٹی عمر ابھی تک مسلمانوں کے بعض خاندانوں میں رواج ہے کہ والد کے فوت ہونے پر یا ان کے بوڑھے ہو کر معذور ہونے پر بڑا بیٹا یا اگر بیٹا نہ ہو تو بڑی بیٹی تمام جائداد کی مالک بن جاتی ہے.چھوٹے بہن بھائیوں کو ان کا شرعی حق نہیں دیا جاتا.یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی خدمت میں رہ کر گزر اوقات کریں.اس طرح یہ بچے جو چھوٹی عمر میں یتیم ہو گئے تھے.بڑے ہو کر سخت معاشی بحران سے دوچار ہوتے ہیں اور بڑی کس مپرسی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں.حالانکہ اسلام نے تو اُس وارث کے حق کو تسلیم کیا ہے جو ابھی حمل کے مراحل سے گزر رہا ہو اور تاکید فرمائی ہے کہ اس کا انتظار کر کے یا اس کا حصہ نکال کر ترکہ تقسیم کیا جائے.اس لئے ایسے بچوں کے بالغ ہونے پر اُن کے حصے ضرور اُن کے حوالے کر دینے چاہئیں.کیونکہ اُن کی کم سنی کسی لحاظ سے بھی مانع میراث نہیں.اس قسم کے بہت سے اور امور بھی ہیں جولوگوں نے اپنے طور پر خود معاشرہ میں رائج کر لئے ہیں یہ سب کسی نہ کسی بد رسم کا نتیجہ ہیں.ہر مسلمان کو چاہئے کہ انیسی رسوم کو ترک کر کے اسلامی احکام وراثت کے مطابق تمام ورثاء کو وہ پورے پورے حصے دے دے.جو ان کا حق ہے اور ایسے لوگوں کو وراثتی مال میں سے حصہ دینے سے اجتناب کرنا چاہئے جن کا کوئی حق نہیں بنتا.

Page 82

۷۴ ذوی الفروض اور مختلف حالات میں اُن کے مختلف حصے ! پچھلے باب میں بیان ہو چکا ہے کہ ایسے رشتہ دار جن کے حصے خدائے علیم و حکیم نے مقرر و معین فرما دیئے ہیں وہ وراثتی اصطلاح میں ذوی الفروض کے نام سے پکارے جاتے ہیں اور ان کی تعداد ۱۲ ہے جس میں چار مرد اور آٹھ عورتیں ہیں جو یہ ہیں.باپ والده ۲.دادا ۴.اخیافی بھائی.شوہر ۶.بیوی ے.بیٹی پوتی حقیقی ہمشیرہ ۱۰ علاقی ہمشیرہ 11.اخیافی ہمشیرہ ۱۲.دادی و نانی (جدات صحیحہ ) جو حصے مختلف رشتہ داروں کو مختلف حالات میں دیئے جاتے ہیں وہ یہ ہیں.6 ے دیے دیے دیے در وY بعض انہیں اس طرح لکھتے ہیں.6 6 6 والد کا حصّہ والد کو مختلف حالات میں جو حصے دیئے جاتے ہیں وہ یہ ہیں.الف.جب میت نے کوئی بیٹا یا بیٹے کی مذکر اولا د یا پوتے کی مذکر اولا د چھوڑی ہو تو والد کو صرف + حصہ ملتا ہے.اگر میت کی اولاد نرینہ کسی درجہ میں بھی نہ ہو یعنی نہ بیٹا ہو نہ پوتا نہ پڑپوتا تو میت کے والد کو نہ صرف چھٹا حصہ ملتا ہے بلکہ تمام ذوی الفروض موجودہ کو ان کے حصے ادا کرنے کے بعد جو کچھ باقی بچے وہ بھی والد بطور عصبہ حاصل کر لیتا ہے.گویا

Page 83

۷۵ دوسرے ذوی الفروض کو دینے کے بعد باقی تمام تر کہ بھی والد کو ہی دے دیا جاتا ہے.ج.اگر میت کی کوئی بھی اولاد نہ ہو تو زوج یا زوجہ کو اس کا معین حصّہ (۱/۲ یا ۱/۴) دے کر باقی جو بچے اس کا ۳/ ا والدہ کو اور ۲/۳ والد کو دے دیا جاتا ہے.یعنی والد کسی صورت میں بھی کلیۂ محروم نہیں ہو سکتا.یہ تینوں صورتیں مثالوں کے ذریعے واضح کی جاتی ہیں.مثال نمبر 1: ایک متوفی نے دو بیویاں، والد ، ۵ لڑکے اور لڑکیاں چھوڑیں اگر اس کا ترکہ بعد منہائی مصارف تجہیز و تکفین و تدفین اور ادائیگی قرض و وصیت ۲۴۰۰۰ روپے ہو تو ہر کا حصہ بتاؤ.چونکہ متوفی کی اولا دموجود ہے اس لئے والد کو چھٹا (۱/۶) حصہ ملے گا.والد کا حصہ = ١/٦ دو بیویوں کا حصّہ = ۱/۸ باقی = 1- ( ) ہر بیوی کا حصہ = ۱/۱۶ =ا - ۳+۴ = ۲۴ ۲۴ یہ ۲۴ / ۱۷ جو باقی بچا ہے عصبات میں یعنی لڑکے اور لڑکیوں میں تقسیم ہو گا.اس طرح کہ ہر لڑکے کو لڑکی سے دُگنا ملے.اس طرح ۵ لڑکوں اور ے لڑکوں کے کل ۱۷ سہام ( حصّے ) بنے جن میں سے دوسہام ہر بیٹے کو اور ایک سہم ہر بیٹی کو ملے گا.+=+ x = ۱۷ ۲۴ #== x = r...= × rr...= ۲۴۰۰۰ اس لئے لڑکے کا حصہ لڑکی کا حصہ ۲۴۰۰۰ روپے میں دو بیویوں کا حصہ اس طرح ایک بیوی کا حصہ = ۱۵۰۰ روپے والد کا حصہ ۲۴۰۰۰ × = = ۴۰۰۰ روپے

Page 84

ایک لڑکے کا حصہ = ۷۶ ۲۴۰۰ × = = ۲۰۰۰ روپے ایک لڑکی کا حصہ مثال نمبر ۲: × ۲۴۰۰۰ = = ۰۰۰ اروپے ایک متوفی نے ایک بیوی، والدہ ، ایک بیٹی اور والد چھوڑے اگر اس کا قابل تقسیم تر که ۷۲۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.یہاں تمام ورثاء ذوی الفروض ہی ہیں اس لئے انہیں حصّے دینے کے بعد جو بچتا ہے وہ بھی والد بطور عصبہ حاصل کر لے گا.والد کا حصہ والدہ کا حصہ بیوی کا حصہ بیٹی کا حصہ 1/= ۲۴ الله -1 = اله+ له له له -=(+++++++) - = ig باقی =1-- ۲۳ ۲۴ ۲۴ یہ ۱/۲۴ بھی والد کو مل جائے گا کیونکہ اور کوئی عصبہ موجود نہیں ( یعنی میت کی ذکور اولا د نہیں ) اس لئے والد کا کل حصہ = 1 + = 1/4 ۲۴ ۲۴ ۲۰۰ ۷ روپے میں والد کا حصہ = ۷۲۰۰ × ۵/۲۴ = ۱۵۰۰ روپے ۲۰۰ ۷ روپے میں والدہ کا حصہ = ۷۲۰۰ × ۱/۲ = ۱۲۰۰ روپے ۲۰۰ ۷ روپے میں بیوی کا حصہ = ۷۲۰۰ × ۱/۸=۹۰۰ روپے ۷۲۰۰ روپے میں بیٹی کا حصہ = ۷۲۰۰ × ۱/۲=۳۶۰۰ روپے نوٹ :.یہ حصے اس طرح بھی نکال جا سکتے ہیں: والدہ ، بیوی ، بیٹی پ ، والد کا حصہ = 1 + + + + = - =F

Page 85

22 مثال نمبر ۳ : ایک متوفی نے ایک بیوی والدہ اور والد چھوڑے اس کے ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتائیے اگر تر کہ قابل تقسیم ما بین ورثاء۲۴۰۰ روپے ہو.زوجہ کا حصّہ باقی = : ١/٢ ( کیونکہ میت کی اولا د موجود نہیں ) 177 = 1 - 1 =14 والدہ کا حصہ = F کا = = = والد کا حصہ = باقی تمام =1-( + )= اس لئے ۲۴۰۰ میں زوجہ کا حصہ = ۲۴۰۰ × ۱/۴ = ۲۰۰ روپے ۲۴۰۰ میں والد کا حصہ × ۲۴۰۰ = ۱/۴ = ۴۰۰ روپے ۲۴۰۰ میں والد کا حصہ = ۲۴۰۰ × ۱/۲ = ۱۲۰۰ روپے مثال نمبر ۴ : ایک میت نے بیوی ، والدہ اور والد وارث چھوڑے.اس کے ذمہ بیوی کا حق مہر ۴۰۰۰ روپے قابل ادا ہے اگر اس کی جائداد ۱۲۰۰۰ مالیت کی ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.بیوی کا حق مہر خاوند کے ذمہ قرض ہے اس لئے تقسیم سے پہلے اس کی ادا ئیگی ہوگی.بیوی کا حق مہر = ۴۰۰۰ روپے قابل تقسیم ترکه بیوی کا حصہ باقی ۱۲۰۰۰ - ۴۰۰۰ = ۸۰۰۰ روپے ۱/۴ = = = = = = - 1 = والدہ کا حصہ = = ا = = = کا والد کا حصہ = باقی تمام =1-( + ) = } ( ۸۰۰۰ روپے میں بیوی کا حصہ = ۸۰۰۰ × ۱/۴ = ۲۰۰۰ روپے ۸۰۰۰ روپے میں والدہ کا حصہ × ۸۰۰۰ = ۱/۴ = ۲۰۰۰ روپے

Page 86

۷۸ حصہ = ۸۰۰۰ × ۱/۲=۴۰۰۰ روپے ۸۰۰۰ روپے والد کا حصہ میت کی بیوی کی کل رقم = ۲۰۰۰ + ۴۰۰۰ ( حق مہر ) = ۲۰۰۰ روپے ۲.دادا کا حصہ اگر میت کے والد زندہ ہوں تو دادا کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا.کیونکہ دادا کی نسبت باپ زیادہ قریب ہے اس لئے والد کی موجودگی میں دادا کو کسی قسم کا وراثتی حق حاصل نہیں ہے.جب والد زندہ نہ ہو تو دادا کو مکمل حقوق بینہ اسی طرح حاصل ہیں.جس طرح کہ والد کو اور وہ (دادا) اتنے ہی حصے کا وارث ہوتا ہے جتنے کا والد یعنی اگر میت کی نرینہ اولاد ہو تو باپ کی طرح ۱/۶حصہ کا مالک دادا ہو گا اگر نرینہ اولا د نہ ہو تو ۱/۶ حصہ جو اس نے بطور ذوی الفروض حاصل کرنا ہے.اس کے علاوہ باقی بچا ہوا مال بھی باپ کی طرح دادا حاصل کرے گا.متذکرہ بالا مشق (ج) یعنی تیسری صورت میں کچھ تھوڑا سا فرق ہے.ماں کو باقی جائداد کا ثلث نہیں بلکہ کل جائداد کا ثلث دیا جاتا ہے.اس طرح ماں کو قدرے زیادہ اور دادا کو قدرے کم ملتا ہے.مثال نمبر ۵ : ایک متوفی نے والدہ ایک بیوی اور دادا ورثاء چھوڑے اس کے ترکہ میں ان کے حصے بتائیے.یہاں باپ کی بجائے دادا وارث ہے اس لئے والدہ کو کل جائداد کا ۱/۳ حصہ ملے گا.والدہ کا حصہ بیوی کا حصہ 1/F= 1/8= باقی = 1- ( + ) =۱- ۳۴ = دادا کا حصہ ہے.=( ÷ یعنی اگر جائداد کے بارہ سہام کئے جائیں تو والدہ کے۴، بیوی کے ۳ اور دادا کے پانچ سہام ہوں گے.

Page 87

و نوٹ : الف.اگر کوئی متوفیہ خاوند ، والدہ اور دادا اور ثاء چھوڑے تو ان کے حصے یہ ہوں گے.÷ = (++)-1 = = = خاوند کا حصہ والدہ کا حصہ دادا کا حصہ یعنی جائداد کے ۶ سہام کئے جائیں تو خاوند کا ۳ ، والدہ ۲ اور دادا ایک حاصل کرے گا.ب اگر کوئی متوفی صرف دادا اور دادی وارث چھوڑے تو پھر دادی کا حصہ ۱/۶ ہوگا اور دادا کا ۵/۶ اگر دادی دادا کے درجہ کی نہیں بلکہ کسی اوپر کے درجہ کی ہے تو پھر وہ محروم ہوگی اور تمام جائداد دادا ہی حاصل کرے گا.۳.شوہر کا حصّہ شوہر بھی اپنی بیوی کے ترکہ سے کبھی محروم نہیں ہوتا.اس کے حصہ کی صرف دو صورتیں ہیں.الف.اگر بیوی کے بطن سے اولاد ہو تو شوہر کو ترکہ کا ۱/۴ حصہ ملے گا.اگر بیوی کی اولاد نہیں تو شوہر کو بیوی کے ترکہ کا ۱/۲ حصہ ملتا ہے.نوٹ :.بیوی کی اولا د خواہ پہلے خاوند سے ہو یا موجودہ خاوند سے ہو.اولا دموجود ہونے کی صورت میں موجودہ خاوند کو ۴ / ۱ حصہ ملے گا.یہ اولاد ( بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی وغیرہ) خواہ کسی بھی خاوند سے ہو موجودہ خاوند کو۱/۴ حصہ ہی ملے گا..اسی طرح کسی خاتون کے وہی بچے میراث سے حصہ لے سکیں گے جو کہ اس کے اپنے بطن سے ہوں.سوتیلے بچے اور بچیاں اس کے ترکہ سے حصہ نہ پاسکیں گے.مثال نمبر ۶ : ایک متوفیہ نے خاوند، والد اور ایک بیٹا چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتائیے.خاوند کا حصہ = ۱/۴ کیونکہ بیٹا موجود ہے.1/4 = والد کا حصہ

Page 88

۸۰ باقی = بیٹے کا حصہ = = # = ۲۳ -۱=( + ) - ۱ ۱۲ اس لئے اگر جائداد کے کل ۱۲ سہام کئے جائیں تو تین خاوند کے دو والد کے اور سات بیٹے کے ہوں گے.اسی طرح اگر کسی متوفیہ نے خاوند والدہ اور والد چھوڑے ہوں تو خاوند کا حصہ والدہ کا حصہ = = (1- { )کا = والد کا حصہ = 4 x = ا - = یعنی اگر جائداد کے ۶ حصے کریں تو خاوند کو تین ، والدہ کو ایک اور والد کو دو حصے ملیں گے.۴.اخیافی بھائی کا حصہ اخیافی (مادری) بھائی انہیں کہا جاتا ہے جو صرف والدہ کی طرف سے اشتراک رکھتے ہوں یعنی جن کی ماں تو ایک ہو والد مختلف ہوں ایسے بھائی بھی ذوالفروض میں شامل ہیں اور انہیں اس وقت میراث سے حصہ دیا جاتا ہے جب نہ میت کی اصل میں سے کوئی زندہ ہو اور نہ ہی فرع میں سے یعنی نہ تو میت کا باپ، دادا، پڑدادا وغیرہ کوئی زندہ ہو اور نہ ہی بیٹا، پوتا، بیٹی، پوتی وغیرہ کوئی موجود ہو اس لئے اگر باپ، دادا، پڑدادا، یا بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی میں سے کوئی بھی موجود ہو تو پھر یہ بھائی میراث سے محروم رہیں گے.لیکن اگر ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر دوصورتیں ہیں.الف.اگر صرف ایک اخیافی بھائی (یا ایک اخیافی بہن ) ہو تو وہ میت کے ترکہ سے چھٹا (۱/۶) حصہ حاصل کرے گی.اگر اخیافی بھائی ایک سے زیادہ ہوں خواہ یہ صرف اور صرف بھائی ہوں یا بہن بھائی ہوں یا صرف بہنیں ہوں تو انہیں کل ترکہ کا ثلث (۱/۳) دیا جائے گا.جس میں یہ تمام بھائی یا بہنیں یا بہن بھائی برابر کے شریک ہوں گے.اس تقسیم میں مرد اور عورت کی تمیز نہیں کی جاتی بلکہ یہ اخیافی بہن بھائی ۱/۳ حصہ میں برابر کے

Page 89

ΔΙ شریک ہوں گے.اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ حصہ انہیں صرف ماں کے مشترک ہونے کی وجہ سے مل رہا ہے.اس لئے ۲ : ۱ کی نسبت یعنی بھائی کو بہن سے دُگنا حصہ دیئے جانے کا اصول مد نظر نہیں رکھا جاتا اور تمام اخیافی بہن بھائی ۱/۳ میں برابر کے حصہ دار سمجھے جاتے ہیں.مثال نمبرے : ایک میت نے والدہ ، ایک اخیافی بھائی اور ایک حقیقی بھائی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والدہ کا حصہ 1/7= اخیافی بھائی کا حصہ = ۱/۶ باقی ١ - (۱/۶/۱/۶) = ۲/۳ حقیقی بھائی کا حصہ ہے یعنی اگر جائداد کے چھ سہام کئے جائیں تو ایک والدہ کو، ایک اخیافی بھائی کو اور ۴ حقیقی بھائی کو ملیں گے.مثال نمبر ۸ : کسی میت نے ایک زوجہ، تین اخیافی بہن بھائی اور ایک چا چھوڑے ہیں ہر ایک وارث کا علیحدہ علیحدہ حصہ بتائیے.ورثاء میں سے زوجہ، اخیافی بہن بھائی ذوی الفروض میں شامل ہیں اور چچا عصبہ ہے.زوجہ کا حصہ = ۱/۴ کیونکہ اولا دموجود نہیں.تین اخیافی بہن بھائیوں کا حصہ = ۱/۳ ہر ایک کا حصہ = ۱/۹ =( چچا کا حصہ = 1- ( + ) -- + = ۱۲ ۱۲ گویا اگر جائداد کے ۳۶ سہام کئے جائیں تو ۹ زوجہ کے ۴ ہر اخیافی بہن بھائیوں کے اور ۵ اسہام چچا کے ہوں گے.مثال نمبر ۸ : ایک کلالہ متوفی نے تین اخیافی بہن بھائی اور تین حقیقی بھائی وارث چھوڑے ہر

Page 90

ایک کا حصہ بتاؤ.۸۲ تین اخیافی بہن بھائیوں کا حصہ ۱/۳ ہر ایک کا حصہ = : = باقی = 1- = = تین حقیقی بھائیوں کا حصہ = ۲/۳ اور ایک حقیقی بھائی کا حصہ = ۲/۹ گویا اگر جائداد کے 9 سہام کئے جائیں تو ہر اخیافی بھائی بہن کا ایک سہم اور ہر حقیقی بھائی کے دوسہام ہوں گے.مثال نمبر ۱۰: ایک میت نے دوا خیافی بہنیں اور تین حقیقی بھائی اور ایک حقیقی بہن وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.دوا خیافی بہنوں کا حصہ ہر ایک اخیافی بہن کا حصہ باقی ۱/۳ = = = * * * = = ی ۲/۳ حقیقی بھائیوں اور بہن میں ۲: اسے تقسیم ہو گا.۱ ہر حقیقی بھائی کا حصہ F= Ex # = ہر حقیقی بہن کا حصہ = : = = ۲۱ گویا اگر جائداد کے ۴۲ سہام کئے جائیں تو ہرا خیافی بہن کو لے اور حقیقی بہن کو ہم اور ہر حقیقی بھائی کو ۸ سہام ملیں گے.مثال نمبر 1: ایک میت ( کلالہ) نے ایک اخیافی بہن اور ایک حقیقی بہن وارث چھوڑیں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.اخیافی بہن کا حصہ 1/4 = حقیقی بہن کا حصہ = ۱/۲ باقی +=( +++)-1 = ۱/۳ بھی اخیافی اور حقیقی بہن میں ان کے حصوں کی نسبت کے لحاظ سے انہیں

Page 91

۸۳ لوٹا دیا جائے گا.اس لئے اخیافی بہن کا کل حصہ = ۱/۴ اور حقیقی بہن کا کل حصہ = مثال نمبر ۱۲: ۳/۴ ایک میت ( کلالہ) نے دو اخیافی بھائی ، ایک حقیقی بھائی اور ایک علاقی بھائی وارث چھوڑے.ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/ = 1/4 = =(-1) = دوا خیافی بھائیوں کا حصہ ایک اخیافی بھائی کا حصہ حقیقی بھائی کا حصہ علاقی بھائی محروم مثال نمبر ۱۳: ایک میت ( کلالہ) نے خاوند ، والدہ، دو اخیافی بھائی اور دو حقیقی بھائی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/4 = = والدہ کا حصہ خاوند کا حصہ دوا خیافی بھائیوں کا حصہ دونوں حقیقی بھائی محروم رہتے ہیں، کیونکہ جائداد مندرجہ بالا ذوی الفروض میں ہی ختم ہو جاتی ہے.نوٹ : جیسا کہ اوپر کی مثال سے ظاہر ہے.بعض علماء کے نزدیک اخیافی بہن ، بھائیوں کی موجودگی میں حقیقی بھائی بہن محروم رہ جاتے ہیں جبکہ میت کے اخیافی بہن بھائی حصے پاتے ہیں.لیکن ایک روایت میں ایسی صورتوں کے لئے جائداد کو ایسے طریق پر تقسیم کرنا بھی تسلیم کیا گیا ہے جس سے حقیقی بہن بھائی محروم نہیں ہوتے اور وہ روایت یہ ہے.أَخْرَجَ الْحَاكِمُ عَنْ عُمَرَ وَ عَلِيَّ وَ ابْنِ مَسْعُودٍ وَزَيْدٌ فِى اُمّ وَ زَوْجِ وَ اِخْوَةٍ لَاب واُمِّ وَ اِخْوَةٍ لِامْ أَنَّ الْإِخْوَةَ مِنَ الابِ وَالْامَ شُرَكَاءُ الْاِخْوَةِ مِنَ الْاُمّ فِى قُلتُهِمْ وَذَلِكَ أَنَّهُم قَالُوا هُمْ بَنُو اُم كُلُّهُمْ وَلَمْ تَزِدْهُمُ الْابُ إِلَّا قُرُبًا فَهُمْ شُرَكَاءُ

Page 92

۸۴ في الثُّلُثِ، در منشور سورة النساء تحت آيت الكلالة ) حاکم نے (اپنی کتاب مستدرک میں بسلسلہ سند ) حضرت عمرؓ اور حضرت علی اور عبداللہ بن مسعود اور زیڈ (ابن حارثہ ) سے روایت کی ہے کہ فوت ہونے والا شخص اگر ورثاء ذیل چھوڑ جائے یعنی ماں اور خاوند ( یا بیوی) اور حقیقی بھائی اور مادری بھائی تو ان مادری بھائیوں کے تہائی حصہ میں حقیقی بھائی بھی شریک ہوں گے یہ فتویٰ انہوں نے اس بناء پر دیا کہ یہ سب ایک ماں کی اولاد ہیں اور باپ نے تو حقیقی بھائیوں کی قرابت کو اور بھی بڑھا دیا ہے (اس لئے وہ ورثہ سے کیوں محروم رہیں ) پس وہ مادری بھائیوں کے ساتھ ان تہائی حصہ میں شریک ہیں.“ (بحوالہ تفسیر در منثور مصنفه علامه جلال الدین سیوطی متوفی ۹۱۶ ھ زیر آیت کلالہ سورۃ نساء ) اس روایت کی روشنی میں حقیقی اور اخیافی بھائی ۱/۳ حصہ میں برابر کے شریک ہوں گے.اس لئے ہر ایک کو جائداد کا ۱/۱۲ حصہ ملے گا.اس طرح حقیقی بھائی جن کی قوت قرابت اخیافی بھائیوں کی نسبت زیادہ ہے محروم نہیں ہوتے.۵.زوجہ کا حصہ خاوند کی طرح بیوی بھی اپنے خاوند کے ترکہ سے کبھی محروم نہیں ہوتی البتہ اس کا حصہ حالات کے مطابق کم یا زیادہ ہو جاتا ہے اور اس کی بھی صرف دو صورتیں ہیں.الف.اگر خاوند کی اولاد ہو ( خواہ کسی بھی بیوی کے بطن سے ہو ) تو موجودہ بیوی کو یا موجودہ تمام بیویوں کو ترکہ کا ۱/۸ حصہ ملتا ہے.اگر اولاد ( کسی بیوی سے بھی) نہ ہو تو پھر انہیں ترکہ کا ۱/۴ حصہ ملتا ہے.نوٹ: بیوی کو حصہ دیتے وقت صرف یہ دیکھنا ہوگا کہ خاوند کی اولاد ہے یا نہیں یہ ضروری نہیں کہ اولا د موجودہ بیوی سے ہی ہو وہ کسی بھی بیوی کے بطن سے ہو سکتی ہے.خواہ وہ بیوی زندہ ہو یا نہ ہو.اس لئے جب بھی کوئی اولاد ہو تو زوجہ کو ۱/۸ حصہ ملے گا.اور اگر کوئی اولا د نہیں تو اس صورت میں بیوی کو یا بیویوں کو ۱/۴ حصہ ملے گا.جس میں یہ سب برابر کی

Page 93

شریک ہوں گی.۸۵ مثلاً اگر ایک میت تین لڑکے اور دولڑکیاں جو اس کی پہلی فوت شدہ بیوی کے بطن سے ہیں چھوڑے اور موجودہ بیوی سے کوئی اولاد نہ ہو تو اس صورت میں موجودہ بیوی کو خاوند کی جائداد کا ۱/۸ حصہ ہی ملے گا.مثال نمبر ۱۴: ایک میت نے دو بیویاں چھوڑیں.پہلی بیوی کے بطن سے ایک لڑکا اور دوسری کے بطن سے ایک لڑکی موجود ہے اس صورت میں دونوں موجودہ بیویوں کو جائداد کے ۱/۸ حصہ دیا جائے گا جسے یہ دونوں ( بیویاں ) با ہم برابر تقسیم کر لیں گی.اس لئے ہر ایک بیوی کا حصہ = ۱/۱۶ مثال نمبر ۱۵: ایک میت کی پہلی بیوی سے کوئی اولا د نہیں.دوسری بیوی سے ایک لڑکی ہے اگر بوقت وفات اس کی پہلی بیوی ہی زندہ ہو تو اسے بھی ترکہ کا ٨/ ا حصہ ہی ملے گا.مثال نمبر ۱۶: ނ ایک میت نے چار بیویاں چھوڑیں جن میں سے صرف تیسری بیوی کے بطن ایک لڑکا موجود ہے اس لئے یہاں بھی چاروں بیویوں کو ۱/۸ حصہ ملے گا.جو ان سب میں برابر برابر تقسیم ہو جائے گا اس لئے ہر بیوی کا حصہ = + x + = مثال نمبر۱۷: ایک شخص کے ہاں پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں اس نے دوسری شادی کی پھر بھی اولاد نہ ہوئی پھر تیسری شادی کی اسی طرح چوتھی کی لیکن اولاد نہ ہوئی.پھر یہ شخص وفات پا گیا.چونکہ کسی بھی زوجہ کے بطن سے اس کی اولاد نہیں اس لئے اس کی تمام بیویاں ترکہ کے ۱/۴ میں ( برابر کی شریک ہوں گی.لہذا ہر ایک بیوی کا حصہ = x = = ان تمام نہایت آسان اور عام فہم مثالوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ خاوند کی کوئی اولا د بھی ثابت ہو جائے تو بیوی یا بیویوں کا حصہ ۱/۴ کی بجائے ۱/۸ ہو جاتا ہے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور وہ عدت کے دن

Page 94

۸۶ گزار رہی ہو تو خاوند کا انتقال ہو جائے تو اس بیوی کو اس خاوند کی جائداد سے اپنا شرعی حصہ پانے سے محروم نہیں کیا جا سکتا.خواہ اس طلاق کا اعلان خاوند نے تندرستی میں کیا ہو یا بیماری میں اس بیوی کو اس کا حصہ ضرور ملے گا.کیونکہ عدت کے ایام کے دوران عورت دوسرا نکاح نہیں کر سکتی وہ پہلے ہی خاوند کی زوجہ سمجھی جاتی ہے تو پھر اس اثناء میں وہ جائداد سے کیونکر محروم کی جاسکتی ہے.اسے حسب قواعد بالا جنہیں مثالوں سے بھی واضح کیا گیا ہے اپنا حصہ ملے گا.اسی طرح عورت اگر خود طلاق (خلع ) مانگے اور خاوند دے دے تو پھر اگر عدت کے دوران بیوی کا انتقال ہو جائے تو خاوند بیوی کے ترکہ میں اپنے حصہ کا وارث ہوگا.جیسا کہ خاوند کے انتقال ہو جانے کی صورت میں بیوی اس کے ترکہ میں اپنے حصہ کی وارث ہوتی ہے کیونکہ دوران عدت وراثت کے لحاظ سے عورت اپنے سابقہ خاوند کی ہی بیوی شمار ہوتی ہے.۶.والدہ کا حصہ اسی طرح والدہ بھی کسی دوسرے رشتہ دار کی موجودگی کی بناء پر اپنے بیٹے یا بیٹی کے ترکہ سے نہ تو کلیتا محروم ہوسکتی ہے اور نہ ہی کسی صورت میں اس کا حصہ قابل تقسیم ترکہ کے /1 حصہ سے کم ہو سکتا ہے بلکہ بعض حالات میں ۱/۶ حصہ سے زیادہ مل جاتا ہے.والدہ کی میراث کی حسب ذیل صورتیں ہیں.الف.اگر میت کی کوئی اولاد ( بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، پڑپوتا، پڑپوتی ) موجود ہو تو ماں کو میت کی جائداد کا (۱/۶) چھٹا حصہ ملتا ہے.اگر میت کے دو یا دو سے زیادہ بہن بھائی ہوں ( یہ بھائی بہن خواہ کسی قسم کے ہوں عینی ہوں ، علاتی ہوں یا اخیافی ہوں ) والدہ کو میت کے ترکہ کا ۱/۶ حصہ ہی ملے گا.ج اگر کسی متوفی یا متوفیہ نے زوج، والد اور والدہ یا زوجہ، والد اور والدہ ورثا چھوڑے ہوں تو پھر زوج یا زوجہ کو ان کا شرعی حصہ دینے کے بعد باقی ترکہ کا ۱/۳ ماں کا حصہ ہے.اگر مذکورہ بالا صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہ ہو یعنی نہ میت کے بیٹا ، بیٹی ، پوتا، پوتی وغیرہ زندہ ہیں نہ دو یا دو سے زائد کسی قسم کے بہن بھائی موجود ہیں اور نہ ہی میت کی زوج یا زوجہ ہے تو اس صورت میں میت کی والدہ کو کل مال کا ایک تہائی

Page 95

(۱/۳) ملے گا.مثال نمبر ۱۸: ۸۷ ایک میت نے والدہ ، والد ، بیوی، دولڑ کے اور ایک لڑکی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والدہ کا حصہ والد کا حصہ 1/4 = 1/4 = بیوی کا حصہ = ۱/۸ باقی = 1 − 1 = ( 1 + 1 + 1) −1 = ۲۴ ۲۴ یه ۱۳/۲۴ حصہ کے دولڑکوں اور لڑکی میں اس طرح تقسیم ہو گا کہ ہر لڑکے کو دوحصے اور لڑکی کو ایک حصہ ملے.مثال نمبر ۱۹: ایک میت نے والدہ ، والد اور دو بہنیں وارث چھوڑیں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والدہ کا حصہ = والد کا حصہ نی تمام = تمام یعنی ۵/۶ بہنیں والد کی موجودگی کی وجہ سے محروم رہیں گی.اس لئے اگر جائداد کے چھ سہام کئے جائیں تو ایک سہم والدہ کا اور پانچ سہام والد کے ہوں گے.مثال نمبر ۲۰: ایک میت نے والدہ ، والد ، خاوند وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.خاوند کا حصہ باقی والدہ کا حصہ والد کا حصہ = = = = = باقی = = یعنی اگر جائداد کے چھ سہام کئے جائیں تو خاوند کوس، والدہ کو ایک اور والد کو دو

Page 96

سہام ملیں گے.۸۸ مثال نمبر ۲۱ ایک میت نے والدہ ، والد اور بیوی وارث چھوڑے.ہر کا حصہ بتاؤ.بیوی کا حصہ باقی والدہ کا حصہ ½ = =-= = = = 6 = = والد کا حصہ = باقی = اگر جائداد کے ۴ سہام کئے جائیں تو والدہ کا ایک، والد کے دو اور زوجہ کا ایک سہم ہو گا.ے.بیٹی کا حصہ بیٹی بھی کبھی کسی وارث کی موجودگی کی وجہ سے محروم نہیں ہوتی کبھی یہ عصبہ بالغیر (جس کا ذکر اگلے باب میں آئے گا) ہوتی ہے اور کبھی ذوی الفروض میں شمار ہوتی ہے اس کی وراثت کی تین صورتیں ہیں.الف.اگر میت کی صرف اور صرف ایک بیٹی ہو تو وہ ترکہ کا نصف (۱/۲) حاصل کرتی ہے.اور اگر میت کا اس کے سوا اور کسی قسم کا کوئی وارث نہ ہو تو یہ کل مال حاصل کر لیتی ہے ۱/۲ بطور ذوی الفروض کے اور باقی ۱/۲ بھی مسئلہ رد کے مطابق (جس کا ذکر آگے آئے گا ) اسے ہی دے دیا جائے گا.اگر میت کی بیٹیاں ہی بیٹیاں ہوں جو دو یا دو سے زائد ہوں (بیٹا کوئی نہ ہو) تو پھر یہ ترکہ کے ۲/۳ حصہ (دو ثلث) حاصل کرتی ہیں.جو ان میں باہم برابر تقسیم ہوتا ہے.ج اگر میت کا کوئی بیٹا بھی ان کے ساتھ موجود ہو تو پھر بیٹے کی وجہ سے بیٹیاں بھی عصبہ بن جاتی ہیں جسے عصبہ بالغیر کہتے ہیں.اس صورت میں ذوی الفروض کے حصے ادا کرنے کے بعد جو باقی بچے وہ بیٹے ، بیٹیوں میں ۱:۲ کی نسبت سے تقسیم کر دیا جاتا ہے گویا ترکہ میں بیٹے ، بیٹیوں کا حصہ معین نہیں ہوتا.ان کا حصہ موجود ذوی

Page 97

۸۹ الفروض کی تعداد اور ان کی اپنی تعداد کے اعتبار سے کم و بیش ہوتا رہتا ہے مگر ہر حال میں بیٹے کا حصہ بیٹی سے دُگنا ہوتا ہے یعنی حصوں کے لحاظ سے ایک بیٹا دو بیٹیوں کے برابر سمجھا جاتا ہے.مثال نمبر ۲۲: ایک میت نے والد ، زوجہ اور ایک بیٹی ورنا چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتائیے.۲۴ = ۱/۲ 1/4 = = لد الله - = ( + + ++Y) -1 = زوجہ کا حصہ بیٹی کا حصہ والد کا حصہ باقی ۴۴ ۲۴ ۲۴ یه ۲۴ ۵ حصہ والد کو بطور عصبہ مل جاوے گا.اس طرح والد کا کل حصہ + + = یعنی اگر جائداد کے ۸ حصے کئے جائیں تو بیوی کا ایک بیٹی کے چار اور باپ کے تین حصے ہوں گے.نوٹ : ایسے سوالوں کو مختصر طریق سے اس طرح بھی حل کیا جا سکتا ہے.ہوں گے.زوجہ کا حصہ بیٹی کا حصہ والد کا حصہ = 1/5 = = 1+1 باقی تمام = 1- ( + ) = 1 - 1 = یعنی جائداد کے کل آٹھ سہام میں سے ایک بیوی کا ۴ بیٹی کے اور تین والد کے مثال نمبر ۲۳: ایک میت نے والدین اور ۲ لڑکیاں چھوڑیں اگر اس کا ترکہ ۹۰۰۰ روپے ہو جس میں سے ۱/۳ کی وصیت کسی انجمن کے نام کی ہوئی ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1 = ۲ بیٹیوں کا حصہ ۲/۳ ہر ایک لڑکی کا حصہ = = x = = = 1 والد کا حصہ والدہ کا حصہ 1/4 = 1/4 =

Page 98

گویا تمام جائداد ذوی الفروض میں ہی پوری تقسیم ہو جائے گی مگر تقسیم سے پہلے ادا ئیگی وصیت لازمی ہے اس لئے وصیت کی رقم = باقی تر که قابل تقسیم مابین ورثاء= ۶۰۰۰ میں ہر ایک بیٹی کا حصہ : ۶۰۰۰ میں والد کا حصہ ۶۰۰۰ میں والدہ کا حصہ مثال نمبر ۲۵ : ۹۰۰۰ × ۱/۳ - ۳۰۰۰ روپے ۶۰۰۰: ۰ - ۳۰۰۰ - ۹۰۰۰ رو × ۶۰۰۰ = × ۶۰۰۰ = = پے ۱/۳ = ۲۰۰۰ روپے ۱/۲ = ۱۰۰۰ روپے ۶۰۰۰ × ۱/۲=۱۰۰۰ روپے ایک میت نے زوجہ ، والدہ ، والد، پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں وارث چھوڑے اس کا تر که ۵۰۰۰ روپے ہے قرضہ ۱۰۰۰ روپیہ ہے اور ۱/۱۰ کی وصیت بنام انجمن ہے.ہر ایک وارث کا حصہ بتائیے.والد کا حصہ والدہ کا حصہ زوجہ کا حصہ باقی 1/4 = 1/4 = 1 − ( + + + + \ ) = 1 − +√t = 144 1 +۴+۴ یہ ۱۳/۲۴ عصبات میں تقسیم ہو گا.یہاں عصبہ ۵ لڑکے اور لڑکیاں ہیں.ان میں یہ ۱:۲ کی نسبت سے تقسیم ہو گا.اس لئے ۱۳ حصوں میں سے دو حصے ہر لڑکے کو اور ایک حصہ ہر لڑکی کو ملے گا.ایک لڑکے کا حصہ ایک لڑکی کا حصہ قرضہ وصیت کی رقم قابل تقسیم ترکه ترکہ میں والد کا حصہ = = i ۱۳ ۱۲ = ۲۴ = ۲۴ ۱۳ ۲۴ == ۲۴ ۱۰۰۰ روپے ۴۰۰۰ T x = ۴۰۰ روپے ۱۰۰۰-۵۰۰۰ - ۴۰۰ = ۳۶۰۰ روپے ۳۰ × 7 = ۲۰۰ روپے

Page 99

۹۱ ترکہ میں والدہ کا حصہ = ۳۶۰۰ × = = ۶۰۰ روپے 1 ۳۶۰۰ × ۸ = ۴۵۰ روپے ۲ ۳۶۰ × ۲۴ = ۳۰۰ روپے = = زوجہ کا حصہ ہر لڑکے کا حصہ ہر لڑکی کا حصہ 1 ۳۶۰۰ × ۲۴ = ۱۵۰ روپے نوٹ: اگر میت مرد ہے تو یہ تمیز نہیں ہوگی کہ بیٹے بیٹیاں یا صرف بیٹے یا صرف بیٹیاں اس کی کسی بیوی سے ہیں اگر وہ اس کی اولاد ہیں تو خواہ وہ کسی بھی بیوی سے ہوں تقسیم مندرجہ بالا طریق سے ہی ہوگی.اسی طرح اگر میت عورت ہے تو اس سے بحث نہیں کہ بیٹے بیٹیاں وغیرہ کس خاوند سے ہیں اس کے پہلے خاوند سے ہیں یا موجودہ خاوند سے وراثت کے لئے متوفیہ سے صرف ان کا تعلق رحم مدنظر رکھا جاتا ہے..پوتی کا حصہ عام طور پر بیٹے کی بیٹی کو پوتی کہتے ہیں.لیکن وراثتی اصطلاح میں پوتے اور پڑپوتے کی بیٹی کو بھی پوتی ہی کہتے ہیں.میت کے بیٹے کی موجودگی میں پوتی وارث نہیں ہوتی اسی طرح دو بیٹیوں کی موجودگی میں بھی وہ وارث نہیں ہوتی ہوتی کی میراث کی مختلف صورتیں یہ ہیں.اگر میت کی صرف ایک بیٹی ہو ( کوئی بیٹا پوتا وغیرہ نہ ہو) اور ایک پوتی ہو تو پوتی کو /۱ حصہ ہی ملتا ہے جس میں یہ تمام برابر کی شریک ہوتی ہیں.(تکمای پینٹنگمین ) اگر میت کی دو یا دو سے زائد بیٹیاں ہوں اور بیٹا ، پوتا موجود نہ ہو.تو پوتیاں بالکل محروم ہوتی ہیں.اگر میت کا بیٹا ، بیٹی وغیرہ موجود نہ ہوں صرف ایک پوتی ہو تو وہ بیٹی کی طرح ترکہ کا نصف (۱/۲) حاصل کرے گی.اگر ہوتی نہ ہو تو ایک پڑپوتی ہو تو وہ بھی ۱/۲ حصہ حاصل کرے گی.اگر میت کا بیٹا، بیٹی وغیرہ کوئی موجود نہیں اور دو یا دو سے زائد پوتیاں موجود ہیں تو ان کو بیٹیوں کی طرح کل ترکہ کا ۲/۳ حصہ دیا جائے گا جو وہ باہم برابر برابر تقسیم

Page 100

۹۲ کرلیں گی.اگر میت کا بیٹا، بیٹی کوئی نہ ہو ، پوتی یا کئی پوتیاں ہوں اور ان کے ساتھ کوئی پوتا بھی ہو تو پھر پوتے کی موجودگی کی وجہ سے عصبہ ( بالغیر ) بن جاتی ہیں اور ذوی الفروض کو حصہ دینے کے بعد جو کچھ باقی بچے وہ ان میں لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْانْثَيَيْنِ کے تحت تقسیم ہو جائے گا.اگر صورت نمبر 4 میں پوتیوں کے ساتھ کوئی ہوتا تو موجود نہیں مگر پڑپوتا موجود ہے تب بھی یہ ( پوتیاں ) عصبہ بالغیر بن جاتی ہیں اور ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو باقی بچے یہ آپس میں ۱:۲ کی نسبت سے تقسیم کر لیتے ہیں.نوٹ : الف اگر میت کا کوئی بیٹا موجود ہے تو پوتیاں، پڑپوتیاں وغیرہ سب محروم رہیں گی اسی طرح اگر میت کی پوتیاں موجود ہیں تو پر پوتیاں محروم ہوں گی.اگر پر پوتیاں تو ہیں تو سکر پوتیاں محروم ہوں گی.علی ہذا القیاس.پوتیوں کی وراثت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ تمام پوتیاں ایک ہی بیٹے کی اولاد ہوں یا سب پڑپوتیاں ایک ہی پوتے کی اولاد ہوں اگر مختلف بیٹوں کی بیٹیاں اور بیٹے ہیں تب بھی تقسیم انہی اصولوں پر ہو گی.اس لئے ایک باپ کے تمام بیٹوں کی اولا د کو اکٹھا دیکھا جائے گا کہ اس کے کتنے پوتے پوتیاں یا صرف پڑپوتے ، پڑپوتیاں ) ہیں پھر اس کے مطابق پوتے اور پوتیوں کو حصہ دیا جائے گا اس طرح کہ پوتے کے دو حصے اور پوتی کا ایک حصہ مثلاً زید کے دو بیٹے تھے.رفیق اور لئیق اور رفیق کے پانچ لڑکے ہیں اور لئیق کی صرف ایک لڑکی ہے.لہذا زید کے ترکہ کی تقسیم یوں ہوگی کہ ذوی الفروض کے حصوں کی ادائیگی کے بعد جو باقی بچے گا وہ ان پانچ پوتوں اور ایک پوتی میں ۲: ا کی نسبت سے تقسیم کیا جائے گا یعنی پانچ پوتوں کو دس حصے اور پوتی کو صرف ایک حصہ دیا جائے گا.اسی طرح اگر ایک شخص اپنے پیچھے ایک بیٹا ، دوسرے بیٹے کے چند بیٹے اور تیسرے بیٹے کی کچھ بیٹیاں چھوڑ جائے تو پھر تمام پوتیاں خواہ میت کے کسی بیٹے کی اولاد ہوں میت کے اپنے بیٹے کے سامنے محروم رہیں گی.اور چونکہ کوئی اور وارث نہیں اس لئے تمام تر کہ بیٹا ہی حاصل کرے گا.مثال نمبر ۲۶

Page 101

۹۳ ایک میت نے والدین اور تین پوتیاں (ایک ایک بیٹے سے اور دو ، دوسرے بیٹے سے ایک ) وارث چھوڑیں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/4 = 1/4 ۲/۳ والد کا حصہ والدہ کا حصہ تین پوتیوں کا حصہ اس لئے ہر ایک پوتی کا حصہ = = x = = ☑ گویا جائداد کے ۱۸ سہام کئے جائیں تو والد کے سہام والدہ کے سہام اور ہر ایک پوتی کے ۴ سہام ہوں گے.مثال نمبر ۲۷: ایک متوفی نے والدین ایک بیٹی اور ۴ پوتیاں وارث چھوڑ ہیں.ہر ایک کا حصہ بتائیے.والد کا حصہ والدہ کا حصہ بیٹی کا حصہ چار پونیوں کا حصہ 1/4 = 1/4 = 1/F = = /۱ ہر ایک پوتی کا حصہ = ۱/۲۴ یعنی جائداد کے کل ۲۴ سہام میں سے والد کے ۴ سہام والدہ کے ۴ سہام بیٹی کے ۱۲ سہام اور ہر ایک سہم پوتی ملے گا.مثال نمبر ۲۸: ایک میت نے والد ، والدہ ، ۲ پوتیاں ، ایک پڑپوتی اپنے ورثاء چھوڑے اس کے ترکہ میں ہر وارث کا حصہ بتائیے.والد کا حصہ والدہ کا حصہ 1/4 1/4 ٢/٣ = ۱/۳ = پوتیوں کا حصہ ہر ایک کا حصہ پڑپوتی محروم ( پوتیوں کی وجہ سے محجوب ہے)

Page 102

۹۴ اس لئے اگر جائداد کے چھ حصے کئے جائیں تو ایک حصہ والدہ کا اور دو دو حصے دو پوتیوں کے ہوں گے.مثال نمبر ۲۹ ایک میت نے مندرجہ ذیل ورثا چھوڑے.ماں ، باپ، پوتی ، پڑپوتی ہر ایک کے حصے بتاؤ.حل والدہ کا حصہ والد کا حصہ پوتی کا حصہ پڑپوتی کا حصہ = 1/4 1/4 1/4 یعنی جائداد کے اگر چھ سہام کئے جائیں تو والد کا ایک سہم والدہ کا ایک سہم پوتی کے تین سہام پڑپوتی کا ایک سہم ہوگا.نوٹ : وراثت کا جو قاعدہ بیٹیوں اور پوتیوں میں ہے وہی بیٹیوں کے نہ موجود ہونے کی صورت میں اعلیٰ درجہ کی پوتیوں اور ادنے درجہ کی پوتیوں سے متعلق ہوگا.اس مثال میں ہوتی صرف ایک ہے اس لئے پڑپوتی اس کی وجہ سے محجوب نہیں ہوئی اسے ۱/۶ ملا جیسا کہ ہوتی کو ایک بیٹی کے ہوتے ہوئے ۱/۶ ملتا ہے جو پوتی کے ۱/۲ کے ساتھ مل کر (7) + ) ہو جاتا ہے.اور یہی بیٹیوں کے نہ ہونے کی صورت میں پوتیوں کا کامل حصہ ہے.مثال نمبر ۳۰: ایک میت نے زوجہ ، والدین ، تین پوتے اور سات پوتیاں چھوڑیں اگر اس کا ترکہ قابل تقسیم ما بین ورثاء ۷۲۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.= پوتیاں پوتوں کی وجہ سے عصبہ بالغیر بن جاتی ہیں اس لئے ذوی الفروض کو ادا کرنے کے بعد جو باقی بچے وہ ان میں ۲: ا کی نسبت ہوگا.ذوی الفروض کے حصے:.زوجہ کا حصہ والد کا حصہ والدہ کا حصہ 1/^= 1/4= 1/4= سراجیہ (۱۸) اس جگہ اگر دو پوتیاں ہوتی پڑپوتی بالکل محجوب ہو جاتی.

Page 103

۹۵ باقی = 1 + + + + + ) = 1- ۱۳ ایک پوتے کا ۴+۴+۳ ۲۴ -1=(4+ ۲۴ = عصبہ میں تقسیم ہو گا.اس طرح کہ ہر پوتے کو دو حصے اور پڑپوتی کو ایک حصہ اس لئے ۱۳ ۲۴ میں حصہ میں حصہ ایک پوتے کا میں ایک پوتی کا ﷺ میں حصہ = = ۱۳ === ۱۳ ۲۴ = ۱۳ × ۲۴ = ۷۲۰۰ روپے میں زوجہ کا حصہ = ۷۲۰۰ × ۱/۸ = ۹۰۰ روپے ۲۰۰ ۷ روپے میں والد کا حصہ = ۷۲۰۰ × ۱/۲ = ۱۲۰۰ روپے ۲۰۰ ۷ روپے میں والدہ کا حصہ = ۷۲۰۰ ×۱/۶ = ۱۲۰۰ روپے ۲۰۰ ۷ روپے میں ایک پوتے کا حصہ = ۷۲۰۰ × ۱/۱۲ = ۲۰۰ روپے ۷۲۰۰ روپے میں ایک پوتی کا حصہ = ۷۲۰۰ × = ۷۲۰۰ × ۱/۲۴=۳۰۰ روپے نوٹ : اگر پوتا موجود نہ ہو پڑ پوتا موجود ہو تب بھی پوتیاں پڑپوتے کی وجہ سے عصبہ بن جاتی ہیں اور تقسیم اسی طریق سے ہوتی ہے کہ مرد کو دگنا اور عورت کو اکہرا حصہ ملتا ہے.مثال نمبر ۳۱ : ایک میت نے زوجہ ، والدین، تین پوتیاں اور ایک پڑپوتا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.زوجہ کا حصہ والد کا حصہ والدہ کا حصہ = 1/4 1/4 = باقی = 1 +++ + + = 1 = ۲۴ پوتیاں پڑپوتے کی وجہ سے عصبہ ہوں گی.اس لئے یہ ۱۳/۲۴ حصہ ان میں ۲:۱ کی نسبت سے تقسیم ہو گا پس پڑپوتے کا حصہ ہر پوتی کا حصہ ۱۲۰ = ۲۴ = ۱۳ ۲۴ = x ۱۲۰ = اگر جائیداد کے ۱۲۰ سہام کئے جائیں تو زوجہ ۵ اسہام، والد کو ۲۰ سہام والدہ کو ۲۰ سہام پڑپوتے کو ۲۶ سہام اور ہر پوتی کو۱۳ سہام ملیں گے.

Page 104

۹۶ مثال نمبر ۳۲: ایک میت نے خاوند، پوتی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ ؟ 1/F = = خاوند کا حصہ پوتی کا حصہ و حقیقی ہمشیرہ (عینی ہمشیرہ) کا حصہ الف.اگر میت کے بیٹے ، بیٹی ، پوتے ، پوتی وغیرہ میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو اور نہ باپ دادا ہوں صرف ایک ہمشیرہ حقیقی ہو تو وہ ترکہ کا نصف ۱/۲ حصہ لیتی ہے.اگر میت کے بیٹے ، بیٹی ، پوتے پوتی وغیرہ میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو نہ باپ دادا ہوں البتہ دو یا دو سے زائد حقیقی ہمشیرہ ہوں تو پھر وہ ترکہ کا ۲/۳ حصہ لیتی ہیں جسے باہم برابر برابر تقسیم کر لیتی ہیں.ج.اگر میت کی بیٹی ، پوتی ، پڑپوتی اور سکڑ پوتی (ایک یا ایک سے زیادہ) ایک حقیقی ہمشیرہ اور بعض ذوی الفروض موجود ہوں ، لیکن باپ دادا نہ ہوں تو اس صورت میں ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ باقی بچے وہ میت کی ہمشیرہ کو مل جائے گا.کیونکہ اس صورت میں یہ عصبہ بن جاتی ہے.مثلاً ایک میت نے زوجہ ، بیٹی اور حقیقی ہمشیرہ اپنے ورثاء چھوڑے تو زوجہ کو ۱/۸ بیٹی کو ۱/۲ اور باقی ۱+ 1- = ہمشیرہ کومل جائے گا.اسی طرح اگر بیٹی نہ ہو.پوتی یا پڑپوتی ہو تب بھی باقی ماندہ حصہ ہمشیرہ کومل جائے گا.اگر میت کے کوئی حقیقی بھائی بھی حقیقی بہن کے ساتھ موجود ہوں تو پھر یہ بہن بھائیوں کے ساتھ عصبہ بن جائے گی.اور ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ باقی بچے اسے یہ بہن بھائی للذكر مثل حظ الانثیین کے تحت آپس میں تقسیم کر لیں گے.مثال نمبر ۳۳: Л ایک میت نے زوجہ، والدہ، ایک بیٹی ایک حقیقی ہمشیرہ اور دو حقیقی بھائی اپنے ورثاء چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ ا یہ شق کی مثال ہے.باقی شقوں کی مثالیں پہلے آچکی ہیں.

Page 105

لا 1/A 1/4 = = 1/F = ۱۲+۴+۳ - ۱ = ( T + ۲۴ ۲۴ ۶ + زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ بیٹی کا حصہ = باقی دگنا ملے.یه ۲۴/ ۵ حصہ دو بھائیوں اور ایک بہن میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ بھائی کو بہن.۲۴ اس لئے ۵/۲۴ میں ایک بھائی کا حصہ = x = = = اور ۵/۲۴ میں ایک بہن کا حصہ = x 1 = ۲۴ ۵ ۲۴ ۲۴ ۱۲ ނ اس لئے اگر جائداد کے ۲۴ حصے کئے جائیں تو زوجہ کو تین حصے والدہ کو ہم حصے بیٹی کو ۱۲ حصے اور ہر بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا.ترکہ کی تقسیم کرتے وقت یا درکھئے کہ حقیقی ہمشیرہ یا ہمشیرگان کو اسی وقت حصہ ملے گا جب کہ میت کے باپ دادا، پڑدادا ، یا بیٹا ، پوتا پڑ پوتا وغیرہ موجود نہ ہوں اگر ان میں سے کوئی بھی موجود ہو تو یہ میراث سے محروم رہیں گی اب وہ حدیث درجہ ذیل کرتا ہوں جس سے رض ہمشیرہ کا عصبہ ہونا ثابت ہوتا ہے.عَنْ هُزَيْل ابن شُرَجُدِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنِ ابْنَةٍ وَّ ابْنَةِ ابْنِ وَ اُخْتِ فَقَالَ لِاِبْنَةِ النِّصْفُ وَلِلْاحُتِ النِّصْفُ وَائْتِ بُنَ مَسْعُودٍ فَسَيْتَا بِعُنِى فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَّ أُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ.أَقْضِي فِيهَا بما قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنَةِ النِّصْفُ وَلَابْنَةِ الابْنِ السُّدُسُ تَحْمِلَةَ الظُّلُتَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلْلْاخُتِ فَأُخْبِرَ أَبُو مُوسَى بِقَولِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْتَلُوفِي مَادَامَ هَذَا الْحِبُرُ فِيكُمْ.(بخاری کتاب الفرائض) ہریل بن شرجیل کہتے ہیں کہ حضرت ابوموسی سے ایک بیٹی ایک پوتی اور

Page 106

۹۸ ایک بہن کے ( وراثتی حصوں کے متعلق پوچھا گیا.تو انہوں نے جواب دیا کہ آدھا بیٹی کا اور آدھا بہن کا ( حصہ ) ہے ( یعنی پوتی محروم رہے گی ) اور (بے شک ) ابن مسعودؓ کے پاس جاؤ.وہ ضرور میری (بات کی ) تصدیق کریں گے.چنانچہ ابن مسعود سے ( بھی یہی مسئلہ ) دریافت کیا گیا اور حضرت ابو موسی کے جواب سے بھی انہیں آگاہ کیا گیا.تو انہوں نے (یعنی ابن مسعودؓ نے) فرمایا کہ تب تو میں گمراہ ہوں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں ( شمار ) نہ ہوں گا.(یعنی) اگر میں ابوموسی کے فیصلہ سے اتفاق کروں.سو میں تو اس بارہ میں وہی فیصلہ دوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا.کہ بیٹی کا نصف (حصہ ترکہ کا ) اور پوتی کا چھٹا ( حصہ ہے ) جب حضرت ابو موسی سے حضرت ابن مسعودؓ کے فیصلہ کا ذکر کیا گیا تو فرمایا کہ جب تک یہ عقل مند تم میں موجود ہے.مجھ سے ( کچھ ) نہ پوچھنا.“ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک بیٹی یا ایک بیٹی اور ایک پوتی کے ساتھ حقیقی ہمشیرہ موجود ہو تو پھر وہ عصبہ بن جاتی ہے اور ذوی الفروض کو اُن کے حصے دینے کے بعد جو کچھ باقی بچتا ہے وہ اسے دیا جاتا ہے اسی طرح اگر ایک پوتی اور پڑپوتی کے ساتھ ہمشیرہ موجود ہو تب بھی وہ عصبہ بن جائے گی.۱۰.علاقی بہن کا حصہ علاقی ہمشیرہ جن کی تعریف پہلے بھی کئی بار کی جا چکی ہے ان بہنوں کو کہتے ہیں جن کی ماں مختلف ہوں.یعنی وہ صرف باپ کی طرف سے نسب میں اشتراک رکھتی ہوں اگر کسی میت کی حقیقی ہمشیرہ موجود نہ ہو علاتی ہو تو پھر علاتی بہن حقیقی ہمشیرہ کی قائم مقام ہوتی ہے.حقیقی بہنوں یا حقیقی بھائی کے سامنے تمام علاتی بہن بھائی محروم رہتے ہیں.علاتی بہن صرف بیٹی ، پوتی کی موجودگی میں عصبہ ہوتی ہے یا علاتی بھائی کے ساتھ مل کر عصبہ بالغیر بنتی ہے.چنانچہ مختلف حالات میں اس کے حصے یہ ہیں.

Page 107

۹۹ الف.اگر میت کے کوئی بیٹی ، پوتی ، پڑپوتی یا حقیقی ہمشیرہ موجود نہیں اور صرف ایک علاقی ہمشیرہ ہے تو پھر یہ (حقیقی ہمشیرہ کی طرح) نصف حصہ حاصل کرے گی.اگر ایک سے زائد علاقی بہنیں موجود ہوں تو پھر یہ سب کل ترکہ کے ۲/۳ حصہ کی حقدار ہوں گی.جسے باہم برابر برابر تقسیم کر لیں گی.اگر میت کی بیٹی ، پوتی یا پڑ پوتی خواہ ایک یا زیادہ موجود ہوں اور حقیقی ہمشیرہ کوئی نہ ہو تو پھر یہ عصبہ بن جاتی ہے اور ذوی الفروض کو ان کے حصے ادا کرنے کے بعد جو بیچ جاوے وہ اسے دے دیا جاتا ہے (جیسا کہ حقیقی بہن عصبہ بن کر حاصل کرتی ہے ) ج.اگر میت کی بیٹی، پوتی، پڑپوتی کوئی بھی موجود نہیں ایک ہمشیرہ حقیقی اور ایک علاقی بہن موجود ہے تو حقیقی بہن کو نصف (۱/۲) اور علاتی بہن کو سدس (۱/۶) حصہ دیا جاتا ہے.اگر ایک سے زیادہ علاقی بہنیں ہوں تو پھر یہ سب اسی ١/٦ حصہ میں برابر کی شریک ہوں گی.اگر میت کی علاتی بہنوں کے ساتھ علاتی بھائی بھی موجود ہوں خواہ ایسا بھائی ایک ہی ہو ( یا زیادہ ہوں ) تو پھر یہ بہنیں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر عصبہ بالغیر بن جاتی ہیں اور ذوی الفروض کو اُن کے حصے ادا کرنے کے بعد جو کچھ باقی بچے للذكر مثل حظ الانثیین کے تحت ان میں تقسیم کر دیا جاتا ہے.نوٹ : جو بھائی انہیں عصبہ بناتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ میت کا ان کی طرح ہی علاتی بھائی ہوا گر کوئی حقیقی بھائی موجود ہے تو پھر یہ علاتی بہنیں سب محروم رہیں گی اور اگر کوئی اخیافی بھائی ہے تو نہ وہ خود عصبہ ہو گا اور نہ ہی کسی کو عصبہ بنا سکے گا.علاقی بہن حقیقی ہمشیرہ کی قائم مقام ہے اس لئے حقیقی ہمشیرہ کے حصے کی مثالیں علاقی ہمشیرہ کے لئے بھی کافی ہیں.مزید مثالیں حل کرنے کی ضرورت نہیں.اخیافی بہن کا حصہ اخیافی بہن بھائی اس وقت جائداد سے حصہ پاتے ہیں جب میت کا بیٹا، بیٹی ، پوتا ، پوتی ، باپ، دادا، پڑدادا وغیرہ کوئی بھی موجود نہ ہو ایسی بہنوں کے لئے میراث میں حصہ

Page 108

پانے کی صرف دو ہی صورتیں ہیں.جو اخیافی بھائی کے حصہ کے بارے میں بھی بیان ہو چکی ہیں اور وہ یہ ہیں.الف.اگر صرف ایک اخیافی بہن ہو تو وہ میت کے ترکہ سے چھٹا (۱/۶) حصہ حاصل کرے گا.اگر دو یا دو سے زیادہ اخیافی بہنیں ہوں یا اخیافی بہن بھائی ملے جلے ہوں تو یہ سب کل ترکہ کا ۱/۳ حاصل کریں گے اور سب اس ۱/۳ میں برابر کے حصہ دار ہوں گے.اس ۱/۳ حصہ کو تقسیم کرتے وقت اخیافی بہن بھائیوں میں تذکیر و تانیث کی تمیز نہیں کی جاتی اب چند مثالیں بیان کی جاتی ہیں جن سے مختلف حالات میں بہنوں ( عینی ، علاقی ، اخیافی) کے حصوں کی تشریح ہو جائے گی.مثال نمبر ۳۴ ایک میت نے والدہ، دو حقیقی بہنیں ، ایک علاتی بہن اور ایک اخیافی بہن ورثاء چھوڑے اگر اس کا ترکہ قابل تقسیم ما بین ورثاء۳۶۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والدہ کا حصہ دو حقیقی بہنوں کا حصہ = 1/4 ۲/۳ ( کیونکہ بیٹی پوتی وغیرہ کوئی نہیں) اخیافی بہن کا حصہ 1/4 = علاتی بہن محروم ( کیونکہ حقیقی بہن کی وجہ سے محجوب ہو جاتی ہے) ۳۶۰۰ روپے میں والدہ کا حصہ = ۳۶۰۰ × + = ۶۰۰ روپے ہر ایک حقیقی بہن کا حصہ = ۳۶۰۰ × = x = ۲۰۰ روپے اخیافی بہن کا حصہ = ۳۶۰۰ × = = ۲۰۰ روپے مثال نمبر ۳۵: ایک میت نے اپنے پیچھے تین علاقی بہنیں اور دو اخیافی بھائی اور ایک اخیافی بہن چھوڑی اس کے ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتائیے.تین علاقی بہنوں کا حصہ ۲/۳ =

Page 109

= 1+1 = ایک علاتی بہن کا حصہ دوا خیافی بھائی اور ایک اخیافی بہن کا حصہ = ۱/۳ +=+ x + = ایک اخیافی بھائی یا بہن کا حصہ کیونکہ اخیافی بہن بھائیوں کو مساوی حصے ملتے ہیں ) اس لئے اگر ترکہ کے حصے کئے جائیں تو دو حصے ہر ایک علاتی بہن کو اور ایک ایک حصہ ہر ایک اخیافی بہن بھائی کو ملے گا.مثال نمبر ۳۶ : ایک میت نے ایک حقیقی بہن ، ۲ علاتی بہنیں اور دو اخیافی بہن بھائی اپنے ورثاء چھوڑے میت کے ترکہ میں ان کے حصے بتائیے.حقیقی بہن کا حصہ 1/5 = دو علاقی بہنوں کا حصہ = ۱/۲ اس لئے ہر ایک کا حصہ = ۱/۱۲ دوا خیافی بہنوں کا حصہ = ۱/۳ اس لئے ہر ایک کا حصہ = ۱/۶ چونکہ یہاں صرف ایک ہی حقیقی بہن ہے اس لئے علاتی بہنیں مجوب الارث نہیں ہیں.انہیں 1/4 حصہ ملتا ہے تا کہ حقیقی بہن کے حصے ۱/۲ کے ساتھ مل کر ۲/۳ ہو جائے جو کہ حقیقی بہنوں کا مجموعی حصہ ہے.(سراجیہ ۲۱) یعنی اگر ترکہ کے بارہ میں حصے کریں تو حقیقی بہن کے چھ ہر علاتی بہن کا ایک اخیافی بھائی کے دو اور اخیافی بہن کے دو حصے ہوں گے.مثال نمبر ۳۷ : ایک میت نے ایک حقیقی ہمشیرہ ایک علاقی ہمشیرہ اور ایک اخیافی ہمشیرہ وارث چھوڑیں.ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/5 1/4 1/4 = = ( ÷ + + + ) - حقیقی ہمشیرہ کا حصہ علاقی ہمشیرہ کا حصہ اخیافی ہمشیرہ کا حصہ =

Page 110

۱۰۲ ١/٦ بھی ان ہی وارثوں میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم (رڈ ) کر دیا جائے گا کیونکہ عصبہ موجود نہیں.لہذا آخر میں بالترتیب ان کے حصے ۳/۵، ۱/۵ اور ۱/۵ ہوں گے.مثال نمبر ۳۸ ایک شخص کی پہلی والدہ سے صرف ایک بہن ہے دوسری والدہ سے اکیلا وہی ہے یہ والدہ اس کی حقیقی والدہ ہے ) تیسری والدہ سے اس کی دو بہنیں ہیں چوتھی والدہ سے صرف ایک بھائی ہے اس طرح اس کی تین علاتی بہنیں اور ایک علاقی بھائی ہوا.اس کی اپنی والدہ کے علاوہ تینوں سوتیلی والدہ بھی زندہ تھیں.اس کی جائداد میں ہر ایک وارث کا حصہ بتائیے.جب کہ جائداد ۳۰۰۰ روپے کی مالیت کی ہو.میت کی حقیقی والدہ کا حصہ = ۱/۶ ( تینوں سوتیلی مائیں محروم ) باقی = 1 - + = یه فحص عصبات کا حق ہے جو ایک علاقی بھائی اور تین علاتی بہنوں میں ۱:۲ کی نسبت.تقسیم ہوگا.اس لئے ہر علاقی بھائی کا = F = x = ہر علاقی بہن کا حصہ = ۳۰۰۰ روپے میں والدہ کا حصہ = ۳۰۰۰ × ۱/۲=۵۰۰ روپے ۳۰۰۰ روپے میں علاقی بھائی کا حصہ = ۳۰۰۰ × ۱/۳=۱۰۰۰ روپے ۳۰۰۰ روپے میں ہر علاتی بہن کا حصہ = ۳۰۰۰ × ۱/۶ - ۵۰۰ روپے ۱۲.نانی، دادی کا حصہ باب پنجم میں وراثتی اصطلاحات کے تحت جد صحیح، جد فاسد ، جدہ صحیحہ اور جدہ فاسدہ کی تعریف بیان ہو چکی ہے.یہ بھی بتایا گیا کہ جد فاسد اور جدہ فاسدہ ذوی الارحام میں شامل ہیں.اس لئے وراثت میں ان کے حصہ کا ذکر ذوی الارحام کے باب میں آئے گا.

Page 111

۱۰۳ جد صحیح کا بیان او پر نمبر ۲ کے تحت آچکا ہے.یہاں جدہ صحیحہ کی میراث کا بیان ہوگا.جنہیں ہم (اردو میں) نانی یا دادی کے نام سے موسوم کرتے ہیں.اس کی وراثت کی صرف تین صورتیں ہیں ( جدہ صحیحہ میں نانی ، دادی، دادا کی ماں ، نانی کی ماں وغیرہ سب شامل ہیں.) الف.نانی ہو یا دادی اس کے لئے ترکہ کا چھٹا حصہ مقرر ہے بشرطیکہ یہ اپنے کسی ر قریبی رشتہ دار کی وجہ سے محجوب نہ ہوتی ہو.اگر ان کی تعداد زیادہ ہو خواہ والد کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے ہوں.لیکن ہوں مساوی الدرجہ یعنی ایک ہی درجہ کی ہوں تو یہ سب اس چھٹی (۱/۶) حصہ میں برابر کی حقدار ہوں گی اگر درجہ میں برابر نہیں تو دور کے رشتہ والی کو نزد یکی رشته والی محروم کر دے گی جیسے پڑدادی کو دادی محروم کرتی ہے کیونکہ پڑدادی دوسرے درجہ کی ہے.اور دادی پہلے درجہ کی.دادی کی موجودگی میں پڑنانی بھی محروم ہوگی.کیونکہ وہ بھی دوسرے درجہ کی ہے.اسی طرح اگر نانی موجود ہو تو پڑنانی ، پڑدادی دونوں محروم ہوں گی.کیونکہ پڑدادی، پڑنانی دوسرے درجہ کی ہیں اور نانی پہلے درجہ کی.ماں کی موجودگی میں ان میں سے کوئی بھی وارث نہ ہو گی.نہ نانی نہ دادی ، نہ پڑنا نی نہ پڑدادی وغیرہ سب محروم رہیں گی.ہمارے بعض فقہاء اور علماء کی رائے میں باپ کی موجودگی میں بھی دادی وارث ہوتی ہے، لیکن اکثریت اس کے خلاف ہے.چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی اس امر کے حق میں نہیں ہیں یہ تینوں امام باپ کی موجودگی میں دادی کے حصہ کے قائل نہیں اور صحیح بھی یہی ہے کہ باپ کے ہوتے ہوئے دادی وارث نہیں ہو سکتی.اسی طرح دادے کی موجودگی میں پڑدادی وارث نہیں ہوسکتی.اس بارہ میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے یعنی جب جدہ ایک سے زیادہ ہوں اور ان میں سے کسی جدہ کا میت سے ایک رشتہ ہو اور کسی دوسری کے دو یا دو سے زیادہ رشتے ہوں مثلاً ایک جدہ نانی کی ماں بھی ہے اور دادے کی ماں بھی اور ایک صرف دادی کی ماں ہے یہ دونوں تیسرے درجہ کی ہیں لیکن میت سے پہلی جدہ کا تعلق دو جہت سے ہے اور دوسری کا صرف ایک جہت سے ہے ایسی صورت میں چھٹا حصہ جو ان سب کو ملے گا اس کی تقسیم میں اختلاف ہے.

Page 112

۱۰۴ حضرت امام ابو یوسف فرماتے ہیں یہ چھٹا حصہ تعداد افراد کے لحاظ سے تقسیم ہو گا یعنی جتنی جدہ ہیں اتنے ہی حصے ہوں گے.دو جدہ ہیں تو دو برابر حصے ہوں گے تین ہیں تو تین برابر حصے ہوں گے.(علی ہذا القیاس) حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت امام محمد فرماتے ہیں کہ یہ چھٹا حصہ تعداد جہات کے لحاظ سے تقسیم ہو گا.یعنی میت کے ساتھ جتنے رشتے ہوں گے.اتنے ہی حصے ہوں گے.میت کے ساتھ جس جدہ کے دو یا تین رشتے ہوں وہ دو یا تین حصے (۱/۶ میں سے ) حاصل کرے گی اور جس کا ایک رشتہ ہو گا اس کو صرف ایک حصے ملے گا.مثال نمبر ۳۹ : ایک میت نے خاوند، دو اخیافی بھائی، باپ کی نانی اور ماں کی نانی جو کہ باپ کی دادی بھی ہے وارث چھوڑے ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.خاوند کا حصہ 1/ r = دوا خیافی بھائیوں کا حصہ = ۱/۳ دونو جدہ صحیحہ الف.باپ کی نانی ب.ماں کی نانی اور باپ کی دادی کا حصہ ۱/۶ امام ابو یوسف کے اصول کے مطابق یہ ۱/۶ باپ کی نانی اور ماں کی نانی (جو باپ کی دادی بھی ہے ) ہر دو میں برابر تقسیم ہو گا.یعنی ہر ایک کو ترکہ کا ۱/۱۲ حصہ ملے گا.امام محمد کے اصول کے مطابق یہ ۱/۲ باپ کی نانی اور ماں کی نانی ( جو باپ کی دادی بھی ہے ) ہر دو میں ۲:۱ کی نسبت سے تقسیم ہو گا کیونکہ متوفی سے دوسری ( دادی) کا ; = ۱۸ x + : = = رشتہ دوہرا ( دو جہت سے ) ہے.اس لئے باپ کی نانی کا حصہ ماں کی نانی اور باپ کی دادی کا حصہ یعنی اگر جائداد کے ۱۸ سہام کئے جائیں تو خاوند کے نو ہر ایک اخیافی بھائی کے تین، باپ کی نانی کا ایک اور دوسری جدہ کے دوسہام ہوں گے.مثال نمبر ۴۰ : ایک میت نے اپنے باپ کی نانی اور ماں کی نانی جو کہ باپ کی دادی بھی ہے

Page 113

۱۰۵ وارث چھوڑیں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.امام ابو یوسف کے اصول کے مطابق کل ترکہ پہلی اور دوسری دادی میں برا بر تقسیم ہو گا.یعنی ہر ایک کو نصف ملے گا.امام محمد کے اصول کے مطابق پہلی دادی کو ایک حصہ اور دوسری کو دو حصے ملیں گے کیونکہ میت سے دوسری کا رشتہ دو جہت سے ہے.اس لئے والد کی نانی کا حصہ = ۱/۳ ماں کی نانی ( باپ کی دادی) کا حصہ = ۲/۳ مثال نمبر ۴۱ : یہاں جہات کے اعتبار سے تقسیم ہوئی ہے ) ایک میت نے دادی، نانی اور باپ اپنے ورثاء چھوڑے اس کے ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.دادی کا حصہ نانی کا حصہ باپ کا حصہ = = صفر ( کیونکہ باپ زندہ ہے ) 0/7=1/4 1/4 - 1 = ( کیونکہ باقی کا تمام تر کہ باپ لے گا) یعنی اگر جائداد ۶ سہام کئے جائیں تو دادی و سکچھ نہیں ملے گا.نانی کو ایک سہم ملے گا اور باقی پانچ سہام والد کے ہوں گے.مثال نمبر ۴۲ : حصے بتاؤ.ایک میت نے دادی، نانی اور دادا اپنے ورثاء چھوڑے اس کے ترکہ میں ان کے دادی و نانی کا حصہ = 1/4 ( کیونکہ دادی نانی مساوی الدرجہ ہیں یعنی دوسرے درجہ کی ( اس لئے دونوں ہی حقدار ہیں) 1/15 لہذا دادی کا حصہ = نانی کا حصہ =

Page 114

دادا کا حصہ = 1+4 * =÷-1 یعنی اگر جائداد کے بارہ سہام کئے جائیں تو ایک سہم دادی کا اور ایک سہم نانی کا اور اسہام دادا کے ہوں گے.اگر کوئی میت دادا کی ماں اور دادا کو اپنے ورثاء چھوڑے تو دادا کی ماں دادا کی وجہ سے محجوب ہو گی.کیونکہ وہ (دادا) درمیان واسطہ ہے اور دادا کی ماں کا رشتہ اسی کے ذریعہ قائم ہوتا ہے.اس لئے دادا ہی تمام جائداد کا وارث ہوگا، لیکن اگر دادی کی ماں اور دادا میت کے ورثاء ہوں تو دادی کی ماں جو باپ کی جانب سے جدہ صحیحہ ہے دادا کی وجہ سے محروم نہیں ہوتی.کیونکہ وہ دادای کی قائم مقام ہے اور دادی دادا کی موجودگی سے محجوب نہیں ہوتی.دادی کا ماں کا حصہ 1/4 = باقی = 1 - + = = یہ تمام باقی حصہ دادا ہی حاصل کرے گا دو مثالیں اور لیجئے جن سے یہ تمام باتیں اچھی طرح ذہن نشین ہو جائیں گی.مثال نمبر ۴۳ : ایک میت نے مندرجہ ذیل ورثاء چھوڑے.دادی، دادا، پڑنانی اور والد ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والد کی وجہ سے دادی دادا محروم ہوں گے.دادی کی وجہ سے جو قریب تر جدہ صحیحہ ہے پڑنانی محروم ہو گی ) اس لئے کل متروکہ والد کو ملے گا.مثال نمبر ۴۴ : اگر ایک میت کے دادی ، دادا اور پڑنانی ورثاء ہوں تو ہر ایک کا حصہ بتائیے.دادی قریبی جدہ صحیحہ ہے اس لئے پڑنانی محروم ہوگی.لہذا دادی کا حصہ = دادا کا حصہ = 1/4 باقی تمام = 1 - + = م ایک بات یاد رکھیے جو خود محجوب ہو جائے وہ کسی دوسرے وارث کو بھی کلیتا یا جزاً محجوب کرسکتا ہے.مثلاً اگر کسی میت کا باپ، دادی اور پڑنانی وارث ہوں تو دادی باپ کی وجہ سے محروم رہتی ہے اور پڑنانی دادی کی وجہ سے محروم رہتی ہے.کیونکہ دادی قریب تر جدہ صحیحہ ہے یہ

Page 115

۱۰۷ نسبت پڑنانی کے.دادی کو باپ محجوب کرتا ہے اور دادی پڑ نانی کو مجوب کر دیتی ہے.یہ بھی یادرکھیئے کہ صرف جدہ صحیحہ ہی ذوی الفروض میں شامل ہیں.چار پشتوں تک ہر شخص کی پندرہ دادیوں میں دس جدہ صحیحہ ہیں اور پانچ فاسدہ جیسا کہ سامنے والے نقشہ سے ظاہر ہے.جدہ فاسدہ ذوی الارحام میں شامل ہیں.چار پشت تک جدہ صحیحہ کی تفاصیل درج ذیل ہیں :- ا.پہلی پشت میں صرف ایک والد کی والدہ (دادی) ۲.دوسری پشت میں دو الف.والد کے والد کی والدہ دادی کی ماں ) (ام اب الاب) ۳.تیسری پشت میں تین الف.والد کے والد (ام الاب) والد کی والدہ کی والدہ ( دادی کی ماں یا والد کی نانی ) (ام ام الاب) ب.والد کے والد ج.والد کی والدہ کے والد کی والدہ کی والدہ کی والدہ کی والدہ کی والدہ (پڑدادا کی ماں) (پڑ دادی کی ماں) (باپ کی نانی کی ماں) ام اب اب الاب) ام ام اب الاب) (ام ام ام الاب) چوتھی پشت میں چار الف.والد کے والد کے والد کے والد کی والدہ ب.والد کے والد کے والد کی والدہ کی والدہ پڑدادا کی دادی ام اب اب اب الاب پڑدادا کی نانی ام ام اب اب الاب ج.والد کے والد کی والدہ کی والدہ کی والدہ.والد کی والدہ کی والدہ کی والدہ کی والدہ پڑ دادی کی نانی باپ کی نانی کی نانی (ام ام ام اب الاب) (ام ام ام ام الاب)

Page 116

یہ جدہ صحیحہ دس ہیں جو ذوی الفروض میں شامل ہیں.انہیں حصہ دیتے وقت یاد رکھئے کہ قریب درجہ والی دادی بعید درجہ والی دادی کو محروم کر دیتی ہے.مثلاً اول درجے والی دوسرے درجہ والی دادیوں کو ، دوسرے درجہ والی تیسرے درجہ والیوں کو اور تیسرے درجے والی چوتھے درجہ والی تمام دادیوں کو محروم کر دیتی ہیں اور اگر ایک ہی درجہ میں کئی دادیاں نانیاں موجود ہوں تو وہ سب سدس (۱/۶) حصہ میں برابر کی حصہ دار ہوں گی.اگر کوئی نانی نیچے درجہ کی موجود ہو اور دادیاں اوپر والے درجے کی تو یہ نانی ان تمام دادیوں کو محروم کر دے گی.مثلاً دوسرے درجہ کی باپ کی نانی تیسرے درجہ کی پڑدادا کی ماں کو محروم کر دے گی.یعنی قرب درجہ کی نانی بعید درجہ کی دادی کو محروم کر دے گی.نانی صحیحہ ( جدہ صحیحہ ) ایک درجہ میں صرف ایک ہی ہو سکتی ہے.اس لئے چار پشت تک چار نانیاں صحیحہ ہوں گی.جو کہ سامنے نقشہ میں دکھائی گئیں ہیں اور نیچے بھی درج ہیں.ا.پہلی پشت والدہ کی والدہ ام الام ) ۲.دوسری پشت والدہ کی والدہ کی والدہ یا نانی کی والدہ یا والدہ کی نانی ام ام الام ۳.تیسری پشت والدہ کی والدہ کی والدہ کی والدہ یا نانی کی نانی یاماں کی پڑنانی، پڑنانی کی ماں ام ام ام الام ۴.چوتھی پشت والدہ کی والدہ کی والدہ کی والدہ کی والدہ یا والدہ کی نانی کی نانی یا نانی کی پڑ نانی یا پڑ نانی کی نانی

Page 117

ام ام ام ام الام 1+9 دادی.نانی کے حصے بیان کرنے کے بعد ذوی الفروض کا بیان ختم ہو جاتا ہے.ان تمام ذوی الفروض میں سے (جن کی تعداد بارہ ہے ) ۶ ایسے ذوی الفروض ہیں جو مخصوص حالات میں بطور عصبہ بھی ورثہ پاتے ہیں.وہ چھ یہ ہیں.ا.والد ۳.-Y جد صحیح ہوتی حقیقی بہن علاقی بہن ان کا تفصیلی ذکر عصبات کے باب میں آئے گا.) اب ذوی الفروض کے حصوں کو بطور نقشہ پیش کیا جاتا ہے.تا کہ یاد کرنے میں آسانی رہے.

Page 118

نمبر شمار الفروض زوی حصہ والد جد صحیح L بیوی م خاوند >>> ماں 11 + نقشہ حصہ ذوی الفروض ایک کا دو یا دو سے زائد جن حالات میں معمولی مخصوص حالات جن میں حصہ کا حصہ ✗ 1/4 1/4 ✗ ١/٨ ۱۸ ☑ ۱۴ 1/4 ✗ حصہ ملتا ہے بدلتا رہتا ہے جب بیٹا ہوتا جب نچلے سے نچلے درجہ کا بھی کوئی وغیرہ موجود ہو بیٹا ہوتا وغیرہ موجود نہ ہو تو باپ بحیثیت عصبہ ترکہ پاتا ہے جب کوئی بیٹا ہوتا جب بیٹا پوتا وغیرہ موجود نہ ہو اور وغیرہ موجود ہو، لیکن باپ یا کوئی قریب تر جد صحیح بھی والد یا قریب تر جد موجود نہ ہو تو جد صحیح بطور عصبہ ترکہ صحیح موجود نہ ہو.پاتا رہے.جب کہ اولاد ہوا جب کہ اولاد موجود نہ ہو جب اولا د ہو ۲ / ا جب اولا دموجود نہ ہو جب اولاد ہو اور یا ۱/۳ جب کہ اولاد موجود نہ ہو اور نہ دو یا دو سے ہی ایک بھائی یا بہن سے زیادہ زائد بھائی یا بہنیں موجود ہوں اور اگر زوج یا زوجہ اور یا بھائی بہن موجود باپ موجود ہو تو زوج یا زوجہ کا حصہ ہوں یہ بہن بھائی دینے کے بعد جو بچے اس کا ۱/۳ خواہ حقیقی ہوں، حصہ والدہ کو ملے گا علاقی ہوں، یا اخیافی

Page 119

زوی نمبر شمار ایک کا دو یا دو سے زائد جن حالات میں معمولی مخصوص حالات جن میں حصہ الفروض حصہ کا حصہ حصہ ملتا ہے بدلتا رہتا ہے ۶ جدة 1/4 1/4 الف.مادری صحیحہ جب ماں اور کوئی قریب تر جده صحیحه خواہ ماں کی طرف r/F ۱۲ بیٹی پوتی خواه ۱/۲ کتنے ہی نچلے درجہ کی ہو ۲/۳ سے ہو یا باپ کی طرف سے ہو موجود نہ ہو ب - پدوری جب نہ ماں نہ باپ موجود ہو نہ ہی اور کوئی قریب تر جدہ صحیحہ موجود ہو اور نہ ہی کوئی درمیانی جد صحیح موجود ہو اور نہ ہی بیٹا موجود ہو.جب بیٹا نہ ہو بیٹے کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہیں.ا.جب بیٹا موجود نہ ہو اگر ایک بیٹی یا اعلی درجہ کی پوتی موجود ۲.جب بیٹی موجود نہ ہو ہو تو ۱/۶ ملتا ہے مساوی الدرجہ پوتے.جب اعلی درجہ کا کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہے اگر اعلی درجہ کی پوتا یا پوتی موجود نہ ہو پوتی کے ساتھ بہت سی پڑ پوتیاں ہیں تو ۴.مساوی الدرجہ وہ ۱/۶ میں شامل ہوں گی.ہوتا موجود نہ ہو.N

Page 120

۱۱۲ زوی نمبر شمار الفروض ایک کا دو یا دو جن حالات میں معمولی مخصوص حالات جن میں حصہ بدلتا رہتا ہے اخیافی بھائی ١/٦ یا سے زائد حصہ ملتا ہے کا حصہ ۱/۳ جب کسی درجہ کی بھی اولاد اخیافی بہن بھائی میں برابر کی تقسیم 11 ۱۲ موجود نہ ہو.نیز باپ یا ہوتی ہے اس لئے جب یہ ایک سے اخیافی بہن جد مسیح موجود نہ ہو (یعنی زائد ہوں (بہن یا بھائی یا بہن نہ اصل موجود ہو نہ بھائی) تو ان کا حصہ ان کی تعداد پر فرع) منحصر ہوگا اگر تعداد کم ہو تو حصہ زیادہ ہو حقیقی بہن علاقی بہن ۱/۲ ۱۲ گا.تعداد زیادہ ہو تو حصہ کم ہو گا کیونکہ ۱/۳ کو برابر تقسیم کرنا ہو گا.۲/۳ جب اولاد یا یے کی اولاد اپنے حقیقی بھائی کے ساتھ عصبہ بن خواہ کتنے ہی نیچے درجہ کی جاتی ہے اور بھائی کی نسبت آدھا ہو موجود نہ ہو.باپ یا حاصل کرتی ہے.کوئی جد صیح موجود نہ ہو.کوئی حقیقی بھائی بھی موجود نہ ہو.حصہ ۲/۳ نمبر کی تمام شرائط ا.اگر حقیقی بہن صرف ایک ہے کے علاوہ حقیقی بہن اور علاتی بہن بطور عصبہ موجود نہ ہو.حقیقی بھائی پائے تو اسے خواہ ایک ہو یا زائد موجود نہ ہو یا علاتی بھائی 1/4 حصہ ملتا ہے.۲.علاقی بھائی موجود نہ ہو.کے ساتھ عصبہ ہو جاتی ہے.

Page 121

ذوی الفروض کے حصوں کی انفرادی اور اجتماعی صورتیں ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ قرآن پاک میں ذوی الفروض کے کل چھ حصے مقرر ہیں.وہ یہ ہیں.ہ ، ہ ، ، ، + اور = ذوی الفروض کی تقسیم میں کبھی یہ انفرادی طور پر آتے ہیں یعنی بعض دفعہ صرف ایک ہی ذوی الفروض ہوتا ہے.بعض تقسیم ترکہ کے وقت دو یا دو سے زائد ذوی الفروض موجود ہوتے ہیں.صرف ذوی الفروض کے جمع ہونے کی کل ۶۳ امکانی صورتیں (Possibilities) ہوسکتی ہیں.گوان میں سے ہر ایک صورت میں مختلف عصبات اور ذوی الارحام کی تعداد کی وجہ سے یہ ان گنت صورتیں بن جاتی ہیں.بہر حال ان چھ ذوی الفروض میں سے اگر ہم انفرادی صورتیں اور ایسی صورتیں لیں جن میں دو دو، تین تین، چار چار، پانچ پانچ ، چھ چھ کے گروپ بنا ئیں تو یہ تریسٹھ صورتیں یا گروپ بنتے ہیں انہیں اگر حساب کے طریق (Combination) سے حل کریں تو یہ شکل بنتی ہے.اگر چھ میں سے ایک ایک لیا جائے تو کل چھ بنتے ہیں.اگر چھ میں سے دو دو لئے جائیں تو پندرہ گروپ بنتے ہیں.۱۵ = Y! = ~ - C = = TX = 10 !۴ ! Y! ۳×۳ چھ میں سے تین تین لئے جائیں تو ہیں گروپ بنتے ہیں = ۲۰ = چھ میں سے چار چار لئے جائیں تو پندرہ گروپ بنتے ہیں = ۱۵ = اگر چھ میں سے پانچ پانچ لے کر گروپ بنا ئیں تو چھ بنتے ہیں.= Y! !۴x ! Y! !! Y! ! • XY! ۶۳=۱+۶+۱۵ + ۲۰ + ۱۵ + ۶ اگر چھ کا ہی گروپ بنایا جائے تو ایک بنتا ہے.اس لئے کل گروپ = ا= 02 ۶ = II +CA

Page 122

۱۱۴ آسان اور عام طریق سے مفصل طور پر لکھ دیا جاتاہے تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو.حصہ کیفیت شمار انفرادی سدس ربع ثلث نصف ثلثان اجتماعی صورتیں جبکہ ذوی الفروض چھ میں سے کوئی سے دو ہوں ۱۲ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ شمن و سدس شمن و ربع شمن و ثلث شمن و نصف شمن و ثلثان سدس و ربع سدس و ثلث سدس و نصف سدس و ثلثان ربع وثلث ربع ونصف ربع و ثلثان ثلث و نصف ممکن || || || || ممكن نا ممکن اختلافی ممکن || || || || || ||

Page 123

۱۱۵ نمبر شمار ۲۱ ثلث و ثلثان نصف و ثلثان یہ کل پندرہ ہیں.اجتماعی صورتیں جب ذوی الفروض تین موجود ہوں شمن و سدس و ربع ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۵ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۱ ۳۰ کے صالح کے حاکم کے کیے گئے شمن و سدس و ثلث شمن و سدس و نصف شمن و سدس و ثلثان شمن وربع وثلث شمن وربع ونصف شمن وربع وثلثان شمن و ثلث ونصف شمن و ثلث و ثلثان شمن و نصف وثلثان سدس و ربع وثلث سدس و ربع ونصف سدس و ربع وثلثان سدس و ثلث ونصف سدس و ثلث و ثلثان سدس و نصف و ثلثان ربع وثلث و نصف کیفیت ناممکن اختلافی ممکن || || || || ممکن || || || || ناممکن ۳۹ ربع و ثلث و ثلثان یہ کل ہیں ہیں.اختلافی

Page 124

117 ذوی الفروض جب چار موجود ہوں تو ایسے گروپ ۱۵ بنتے ہیں.نمبر شمار ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹.۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ حصہ شمن و سدس وربع وثلث شمن و سدس وربع ونصف شمن و سدس وربع و ثلثان شمن و سدس و نصف و ثلثان شمن وسدس و نصف و ثلثان شمن وسدس وثلث ونصف شمن دربع وثلث و نصف شمن وربع وثلث و ثلثان شمن و ثلث و نصف و ثلثان شمن وربع ونصف و ثلثان سدس و ربع وثلث و نصف سدس و ربع وثلث و ثلثان سدس و ربع و نصف و ثلثان سدس و ثلث ونصف وثلثان کیفیت ناممکن || || || اختلافی ممکن ممکن || ممکن || ربع وثلث و نصف و ثلثان چھ میں سے پانچ پانچ کے گروپ صرف ۶ ہی بنتے ہیں.شمن و سدس وربع وثلث ونصف شمن و سدس وربع وثلث و ثلثان شمن و سدس وربع ونصف و ثلثان شمن و سدس و ثلث و نصف و ثلثان ثمن وربع وثلث و نصف و ثلثان سدس و ربع وثلث و نصف و ثلثان ممکن ناممکن ناممکن || || || || || ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲

Page 125

جب چھ کے چھ ذوی الفروض ہوں تو ایک ہی گروپ بن سکتا ہے.نمبر شمار ۶۳ حصہ کیفیت ناممکن شمن وسدس وربع وثلث ونصف وثلثان اس طرح بھی کل تعداد تریسٹھ ہی بنتی ہے.ان ۶۳ ممکنات میں ۲۶ ناممکن ہیں کیونکہ ایسا مسئلہ پیش ہی نہیں آ سکتا مثلاً دو دو کی صورت نمبر ۸ ملاحظہ کیجئے جو کہ ثمن وربع ہے یعنی ۱/۸ اور ۱/۴ اب ۱/۸ زوجہ کا حصہ ہے جبکہ اولاد ہو.۱/۴ حصہ ہے جب کہ اولاد نہ ہو.اب دونوں حصے ایک ہی عورت کے لئے ( زوجہ ) کے لئے نہیں ہو سکتے.نیز ایک آدمی کی دو ایسی بیویاں بھی نہیں ہوسکتیں کہ ایک کا حصہ ۱/۴ ہو اور ایک کا ۱/۸.اس لئے یہ ناممکن ہے.اسی طرح سے چار چار کے گروپ میں نمبر ۵۶ کو دیکھئے جو کہ ربع ونصف و ثلث و ثلثان ہے ( یعنی ۱/۴، ۱/۲، ۱/۳ ۲/۳) اس میں ۱/۳ ۱/۲ والدہ کا حصہ ہے جب کہ اولاد نہ ہو ساتھ ہی ۲/۳ بیٹیوں کا حصہ ہے جب کہ دو سے زائد ہوں یا گر ۲/۳ ہمشیرگان کا حصہ ہو تو والدہ کا ۱/۳ نہیں ہوسکتا.بہر حال اس میں ہر جہت سے تضاد پایا جاتا ہے.اس لئے گو حسابی طریق سے ہم ایسے گروپ بنا سکتے ہیں ، لیکن عملی لحاظ سے یہ ممکن نہیں.ایسے گروپ جو عملی لحاظ سے ممکن نہیں ان ۶۳ میں سے ۲۶ ہیں.اور چار گروپ اختلافی ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ۶۳-۳۰ - ۳۳ گروپ عملی لحاظ سے ممکن ہیں جن میں ذوی الفروض آ سکتے، لیکن ان میں سے ہر گروپ اپنے عصبات کی موجودگی یا ذوی الارحام کی موجودگی سے ایک دوسرے سے مختلف ہوگا.جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا.لیکن انہیں حسب ضرورت اپنے اپنے موقعہ پر استعمال کیا جا سکتا ہے.

Page 126

۱۱۸ مشق نمبرا (مع جوابات) ایک شخص نے والد، دادا، ماں، نانی اور دو بیٹیاں پس ماندگان چھوڑے جائداد میں ہر کسی کا حصہ بتائیے.جواب : والد کا حصہ = ۱/۶، دادا محروم، والدہ کا حصہ = ١/٦ نانی محروم اور دو بیٹیوں کا حصہ = ۲/۳ ، یا ہر بیٹی کا حصہ = ۱/۳ ایک متوفی نے والد اور زوجہ چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتائیے.جواب: زوجہ کا حصہ والد کا حصہ ۱/۴ = = باقی کا تمام بطور عصبہ = ۳/۴.ایک متوفی نے اپنے پیچھے صرف والدین وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتائیے.جواب: والدہ کا حصہ والد کا حصہ = باقی تمام تر کہ = 1 - ۲۳ = ۱۳ ایک شخص نے اپنی وفات پر مندرجہ ذیل رشتہ دار چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتائیے.والد، والدہ اور دو بہنیں جواب: والدہ کا حصہ بہنوں کا حصہ والد کا حصہ = = = /۱ ( کیونکہ بہنیں موجود ہیں ) کچھ نہیں ( کیونکہ والد موجود ہے) باقی تمام تر که = 1 - - = 17 ایک میت نے والد، والدہ ، دو حقیقی بھائی، تین اخیافی بہن بھائی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتائیے.جواب: والدہ کا حصہ حقیقی بھائی کا حصہ اخیافی بہن بھائی کا حصہ والد کا حصہ = 1/4 = = صفر ( کیونکہ والد موجود ہیں ) صفر ( کیونکہ والد موجود ہیں ) باقی تمام تر که = 1 - + = نوٹ : اگر چہ تمام بہن بھائی باپ کی وجہ سے محجوب ہیں ، لیکن یہ بہن بھائی (حقیقی علاقی یا

Page 127

١١٩ اخیافی ) جو دو سے زائد ہیں والدہ کے بڑے حصے (۱/۳) میں حائل ہیں.اور والدہ کو ۱/۳ کی بجائے ۱/۶ دلاتے ہیں.ایک میت نے خاوند ، والد اور والدہ اپنے وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتائیے.جواب: خاوند کا حصہ والدہ کا حصہ والد کا حصہ = ١/٢ - + = = ( بطور عصبه ) ایک میت نے اپنے پیچھے خاوند ، والدہ ، دادا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتائیے.جواب: والدہ کا حصہ خاوند کا حصہ دادا کا حصہ = = = کل ترکہ کا ۱/۳ کل ترکہ کا ۱/۲ (اولا د موجود نہیں ) باقی تمام تر که = 1 - = - = = + نوٹ : خاوند یا بیوی ( یا بیویوں) کے زندہ ہونے کی صورت میں والدہ کے حصہ پر والد یا دادا کا اثر یکساں نہیں ہوتا.دادا کی موجودگی میں والدہ کا کل ترکہ کا ۱/۳ ملتا ہے اور والد کی موجودگی میں زوج یا زوجہ کا حصہ نکالنے کے بعد باقی ترکہ کا ۱/۳ ملتا ہے._A ایک آدمی نے اپنی وفات کے وقت بیوی اور والدین وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ والد کا حصہ / = + = ± 6 (-1) = +4 = - = ایک آدمی نے بیوی ، والدہ اور دادا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ دادا کا حصہ ۱/۴ 1/ = باقی تمام تر که = 1 - = - = = ۱۲ ۱۰.ایک میت نے دو بیویاں ، ایک لڑکی اور والدہ اپنے وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.١/٨ جواب: دو بیویوں کا حصہ = ۱/۸ ایک بیوی کا حصہ = ۱/۱۶

Page 128

۱۲۰ 1/F = = بیٹی کا حصہ والدہ کا حصہ جو باقی بچتا ہے (یعنی) - - - - - + = ) وہ سوائے بیویوں کے لڑکی اور والدہ کو بطور رڈان کے شرعی حصوں کی نسبت کے لحاظ ) : + یا ۳ : ۱) سے لڑکی اور والدہ کو دے دیا جائے گا.11.ایک میت نے دولڑکیاں ، والدہ اور دادا وارث چھوڑے.ہر ایک کا حصہ بتائیے.جواب: دولڑکیوں کا حصہ ایک لڑکی کا حصہ والدہ کا حصہ دادا کا حصہ = = ٢/٣ ۱/۳ 1/4 = 1/4 = ۱۲.ایک میت نے ایک بیوی ایک بیٹی ، والدہ اور والد وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.١/٢ 1/4 = جواب: بیوی کا حصہ بیٹی کا حصہ والدہ کا حصہ والد کا حصہ = باقی تمام تر که = ۵/۲۴ ۱۳.ایک میت نے ایک بیوی، بیٹا اور دادا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: بیوی کا حصہ دادا کا حصہ بیٹے کا حصہ / = 1/4 = = باقی تمام تر که = ۱۷/۲۴ ۱۴.ایک متوفیہ نے اپنے پیچھے خاوند ، پڑپوتا اور دادا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.خاوند کا حصہ دادا کا حصہ پڑپوتا کا حصہ = ۱/۴) کیونکہ اولا د پڑپوتا موجود ہے) 1/4 باقی تمام تر کہ = ۷/۱۲ ۱۵.ایک میت نے تین بیویاں ، دولڑکیاں اور دادا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 129

۱۲۱ ایک بیوی کا حصہ ایک لڑکی کا حصہ = = ۱/۲۴ ) کیونکہ سب بیویوں کا حصہ ۱/۸) ( کیونکہ دو کا حصہ = ۲/۳) یہاں ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ بھی دادا بطور عصبہ حاصل کرے گا.اس لئے دادا کا حصہ ۵/۲۴ = ۱۶.ایک میت نے خاوند ، ماں، پوتی ، دادی اور نانی ورثاء چھوڑے ان کے حصے بتاؤ.جواب: خاوند کا حصہ پوتی کا حصہ 1/8 = = والدہ کا حصہ 1/4 = ۱/۲ باقی =- - + - + = یہ جو باقی بچتا ہے وہ والدہ اور پوتی کوپا : یعنی ۱ : ۳ کی نسبت سے لوٹا دیا جائے گا اس کا ذکر رڈ کے باب میں آئے گا.دادی اور نانی محروم.ایک میت نے دو پوتیاں، خاوند اور ۴ اخیافی بہن بھائی اپنے ورثاء چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.۱/۴ دو پوتیوں کا حصہ = ۲/۳ جواب: خاوند کا حصہ = اخیافی بہن بھائی محروم ( کیونکہ پوتیاں موجود ہیں) اولا دموجود ہے باقی = 1 - ( + ) = + جو کسی عصبہ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے F پوتیوں کو ہی مل جائے گا.اس لئے ۱/۱۲ میں سے ہر پوتی کا حصہ = ۱/۲۴ لہذا ہر پوتی کا کل حصہ = + + = = = ۲۴ ۲۴ ۱۸.ایک میت نے ایک بیٹی ، ایک بہن اور ایک بھائی اپنے ورثاء چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/4 جواب: بیٹی کا حصہ = ۱/۲ بہن کا حصہ بطور عصبہ = ١/٦ بھائی کا حصہ بطور عصبہ 1/r= ۱۹.ایک میت نے والدہ دو حقیقی بہنیں ، ایک اخیافی بھائی اور ایک علاقی بھائی ورثاء چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : والدہ کا حصہ = ۱ حقیقی بہنوں کا حصہ = اخیافی بھائی کا حصہ = ١/٦ علاقی بھائی محروم ۲/۳

Page 130

۱۲۲ ۲۰.ایک میت نے والدہ ، والد اور پوتا اپنے وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/4 = والد کا حصہ 1/4 = جواب: والدہ کا حصہ = پوتے کا حصہ بطور عصبہ باقی تمام تر کہ = 1 - - - + = = ایک میت نے خاوند، والدہ، دو اخیافی ، دو حقیقی بھائی اور ایک حقیقی بہن اپنے ورثاء چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتائیے.جواب خاوند کا حصہ = ۱/۲، والدہ کا حصہ = ۱/۶، دوا خیافی بھائیوں کا حصہ = ۱/۳ باقی کچھ نہیں بچتا اس لئے حقیقی بہن بھائی محروم ( نوٹ ) اگر ہم حقیقی بھائیوں کو جن کی قوت قرابت زیادہ ہے ۱/۲ میں شامل کر لیں تو پھر یہ حصے ہوں گے.ہر حقیقی بھائی کا حصہ = ۲/۲۷ ہرا خیافی بھائی کا حصہ = ۲/۲۷ حقیقی بہن کا حصہ = ۱/۲۷ ۲۲.ایک میت نے ایک بیٹی ایک زوجہ اور ایک حقیقی ہمشیرہ ورثاء چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.بیٹی کا حصہ = ۱/۲، زوجہ کا حصہ = ۱/۸، ہمشیرہ کا حصہ = باقی تمام تر کہ = ۳/۸ ۲۳.ایک میت نے زوجہ، ایک بیٹی اور دو علاقی ہمشیرہ چھوڑیں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.زوجہ کا حصہ ۱/۸ = بیٹی کا حصہ ہمشیرگان علاقی کا حصہ = باقی تمام تر کہ = ۱ - ۱۸ 1/ = ۳۸ = ۱۲ ۲۴.ایک میت نے زوجہ والدہ ایک بیٹی اور دو حقیقی ہمشیرہ اور ایک حقیقی بھائی ورثاء چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/4 = 0/94 = والدہ کا حصہ ۱/۲ ہر ہمشیرہ کا حصہ = = 10/97 = زوجہ کا حصہ بیٹی کا حصہ بھائی کا حصہ ۲۵.ایک میت نے والدہ ، دولڑکیاں، دو ہمشیرگان اور ایک بھائی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والدہ کا حصہ 1/4 ۱/۶ ہر ایک لڑکی کا حصہ = ہر ایک بہن کا حصہ = ۱/۲۴ بھائی کا حصہ = = ۱۲ ۲۴ ۲۶.ایک میت نے دادا کی دادی، نانی کی نانی اور دو بیٹیاں وارث چھوڑیں ہر ایک کا

Page 131

۱۲۳ حصہ بتائیے.دو بیٹیوں کا حصہ = ۲/۳، ایک بیٹی کا حصہ = ۱/۳، دادی، نانی (جدہ صحیحہ ) دونوں کا حصہ = ۱/۶ دادی کا حصہ ۱/۱۲، نانی کا حصہ = ۱/۱۲ کیونکہ دونوں ایک ہی درجہ کی پشت کی) ہیں.باقی = 1 - = - = 4 ( چونکہ عصبہ موجود نہیں اس لئے یہ باقی حصہ ۱/۶ حصہ انہی دونوں ذوی الفروض کو : یعنی ۴ : ا کی نسبت سے دے دیا جائے گا.(بطور رڈ کے) ۲۷.ایک میت نے پڑدادی، پڑنانی ، دادا کی نانی، شوہر، ایک بیٹی اور ایک بھتیجا اپنے وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.دادی کی نانی یعنی پڑدادی کی ماں ، پڑدادی اور پڑنانی کی موجودگی کی وجہ سے محروم رہیں گی.پڑدادی اور پڑنانی ہر دو کا حصہ = ۱/۶ ہر ایک کا حصہ = ۱/۱۲، شوہر کا حصہ = ۱/۴، بیٹی کا حصہ = ۱/۲ باقی = 1 - پ - + - + = + حصہ بھتیجے کو بطور عصبہ ملے گا.- -

Page 132

۱۲۴ عصبات ذوی الفروض کو اُن کے مقررہ حصے دینے کے بعد جو کچھ بچ جاتا ہے وہ عصبات میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اگر ذوی الفروض میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو تمام تر کہ میت کے عصبات میں تقسیم کر دیا جاتا ہے یہ ترتیب تقسیم صحیح بخاری کتاب الفرائض کی اس حدیث کے مطابق ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَم قَالَ الْحِقُوالْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَا وُلَى رَجُلٍ ذَكَرِه ”حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مقررہ حصے ان کے مستحقین ( ذوی الفروض ) تک پہنچا دو اور جو باقی رہے وہ زیادہ قریبی مرد کے لئے ہے.“ ( یعنی عصبہ کے لئے ) عصبات عصبہ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں باپ کی جانب سے رشتہ دار، وراثتی اصطلاح میں اس شخص کو کسی کا عصبہ کہیں گے.جو اس کی نسل سے ہو یا وہ اس کی نسل سے ہو.چونکہ اسلام میں اولاد باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے اس لئے بیٹا اپنے باپ کا سب سے پہلا عصبہ قرار پائے گا.عصبہ کی دو قسمیں ہیں.عصبہ نسبی.عصبہ سبی.عصبه نسبی عصبہ نسبی وہ عصبہ ہے جو نسب ونسل کی بناء پر رشتہ دار ہو.اور اس کی بھی آگے تین ا.عصبہ بنفسم یا عصبہ بذاتہ: یعنی میت کا وہ مرد رشتہ دار کہ اس کے اور متوفی اقسام ہیں.

Page 133

۱۲۵ کے درمیان کوئی عورت واسطہ نہ ہو.مثلاً بیٹا ، پوتا، پڑپوتا، باپ، دادا، پڑدادا وغیرہ عصبہ بنفسہ ہیں.اگر میت اور کسی مرد رشتہ دار کے درمیان عورت کا واسطہ ہو تو وہ عصبہ نہیں ہوگا.اس لئے اخیافی بھائی، بھانجے ، نواسے ، نانا، پڑنا نا وغیرہ عصبات میں شامل نہیں.۲.عصبہ بالغیر : میت کے وہ رشتہ دار جو عصبہ بننے میں کسی دوسرے عصبہ کے محتاج ہوں عصبہ بالغیر کہلاتے ہیں.اس لحاظ سے میت کی وہ رشتہ دار عورتیں جن کو غیر ( یعنی کوئی دوسرا عصبہ بنفسم ) عصبہ بنا ئیں.عصبہ بالغیر کہلاتی ہیں.اس لئے بیٹی ، پوتی ، حقیقی ہمشیرہ اور علاقی ہمشیرہ عصبہ بالغیر ہیں.کیونکہ یہ بالترتیب بیٹے ، پوتے ( یا پوتے کے موجود نہ ہونے کی صورت میں پڑ پوتے ) حقیقی بھائی اور علاقی بھائی کی وجہ سے عصبہ قرار پاتی ہیں..عصبہ مع الغیر : میت کے وہ رشتہ دار جو عصبہ بننے میں کسی دوسرے کے محتاج تو ہوں ، لیکن وہ محتاج الیہ خود عصبہ بنفسہ نہ ہو تو وہ عصبہ مع الغیر کہلاتے ہیں.اس لحاظ سے میت کی وہ رشتہ دار عورتیں جو کسی ایسی عورت یا عورتوں کی موجودگی کی بنا پر جو خود عصبہ نہ ہوں، عصبہ بن جائیں تو وہ عصبہ مع الغیر کہلاتی ہیں.مثلاً بعض صورتوں میں بیٹی، بیٹیوں ، پوتی پوتیاں بذات خود عصبہ نہیں ہوتیں اس لئے ایسی رشتہ دار عورتیں جو دوسری عورتوں کی موجودگی کی وجہ سے عصبہ بن جائیں.عصبہ مع الغیر کہلاتی ہیں.۲.عصبہ سبی عصبہ سبی اسے کہتے ہیں جو رشتہ داری کے سوا کسی اور وجہ ( سبب ) سے عصبہ بنے.مثلاً مولی العناقه عصبہ سبی ہے مولیٰ کے معنی شریک کے ہیں اور علاقہ کے معنے آزاد ہونے کے ہیں.آزاد کرنے والا آقا اپنے آزاد شدہ غلام کا مولی العتاقہ کہلاتا ہے.کیونکہ آزاد کرنے والے آقا اور آزاد شدہ غلام کے درمیان ایک طرح کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے جس کو ولاء کہتے ہیں اس سبب سے آقا بعض اوقات اپنے آزاد شدہ غلاموں کا بطور عصبہ وارث بنتا ہے چنانچہ ایسے آقا کو عصبہ سبی کہا جاتا ہے چونکہ موجودہ دور میں ایسے عصبہ کے احکام کی ضرورت پیش نہیں آتی.اس لئے اس پر بحث نہیں کی جائے گی کیونکہ اس زمانہ میں عصبہ کی یہ قسم مفقود ہے.

Page 134

عصبہ نفسہ کی اقسام عصبه بنفسہ میں جس رشتہ دار کی قرابت زیادہ نزدیکی ہے اسے میراث میں مقدم کیا جائے گا اور ہر وارث کو الاقْرَبُ ثُمَّ الْاَقْرَبُ کے اصول کے تحت درجہ دیا جائے گا.لہذا ا درجہ اول کا عصبہ وہ ہے جو متوفی کا اپنا جز یعنی اس کی اپنی نسل ہو جیسے بیٹا، پوتا، پڑپوتا وغیرہ ان میں سے سب سے پہلے وراثت کا حقدار بیٹا ہے کیونکہ وہ قرابت کے لحاظ سے متوفی کے سب سے زیادہ نزدیک ہے پس وہ بہ نسبت پوتے کے وراثت کا زیادہ حقدار ہے.اسی طرح سے پوتا زیادہ قریب ہے بہ نسبت پڑپوتے کے علی ہذا القیاس اگر وراثت کے بیان میں قرابت کی نزدیکی کو قوت قرابت سے موسوم کریں تو بیٹے کی قوت قرابت درجہ اول میں سے زیادہ ہے.اس لئے بیٹے کی موجودگی میں پوتے ، پڑپوتے وغیرہ محروم ہوں گے.اور پوتے کی موجودگی میں پڑ پوتے محروم ہوں گے.۲.درجہ دوم کا عصبہ میت کی اصل ہے.جیسے باپ، دادا، پڑدادا وغیرہ اس درجہ میں باپ کی قوت قرابت سب سے زیادہ ہے.اس لئے باپ کی موجودگی میں دادا محروم ہوگا اور دادا کی موجودگی میں پڑدادا محروم ہوگا.۳.درجہ سوم کا عصبہ متوفی کے باپ کے جز ہے یعنی باپ کی نسل مثلاً بھائی، بھائی کا بیٹا ( بھتیجا) بھتیجا کا بیٹا ، بھتیجا کا پوتا وغیرہ.۴.درجہ چہارم کا عصبہ متوفی کے دادا کا جز ہے.یعنی دادا کی نسل ، پھر اس کی نسل کی نسل یعنی چا، چا کا بیٹا ، چا کا پوتا ، چچا کا پڑپوتا وغیرہ.عصبات میں تقسیم ترکہ کے وقت الْاَقْرَبُ ثُمَّ الاقْرَب کے اصول کو مد نظر رکھا جاتا ہے اس لئے سب سے پہلے باقی ماندہ تر کہ اُن عصبات میں (یا عصبہ ) میں تقسیم کیا جاتا ہے جن کی قوت قرابت سب سے زیادہ ہو.گویا عصبات کو حصہ دیتے وقت درجہ کا اور قوت قرابت کا خیال رکھا جائے.مثلاً اگر متعدد عصبات ہوں اور وہ مختلف درجوں کے ہوں اور مختلف قوت قرابت رکھتے ہوں تو ترکہ اعلیٰ درجہ کے عصبات میں تقسیم کیا جائے گا.یعنی درجہ اول کو درجہ دوم پر فوقیت حاصل ہو گی.درجہ دوم کو درجہ سوم پر.اور درجہ سوم کو درجہ

Page 135

۱۲۷ چہارم پر.گویا درجہ اول کے عصبات میں سے اگر کوئی موجود ہے تو وہ درجہ دوم اور اس.نچلے درجوں کے تمام عصبات محروم کر دے گا.اسی طرح درجہ دوم کا عصبہ، درجہ سوم کے عصبات کو، اور درجہ سوم کا عصبہ درجہ چہارم کے عصبات کو محروم کر دے گا.مثلاً اگر کسی میت کا کوئی پوتا موجود ہو جو درجہ اول کا عصبہ ہے تو وہ بطور عصبہ میت کے باپ، دادا بھائی، چچا وغیرہ سب کو محروم کر دے گا اور باقی ماندہ تر کہ خود حاصل کر لے گا.اگر ایک ہی درجے کے کئی عصبات موجود ہوں تو پھر اُن میں قوت قرابت دیکھی جاتی ہے.جس کی قوت قرابت زیادہ ہوگی وہی حق دار ہو گا مثلاً فرض کیجئے کہ ایک میت کے بیٹے اور پوتے بطور عصبہ وارث موجود ہیں اب یہ دونوں ہیں تو مساوی الدرجہ لیکن بیٹے کی قوت قرابت به نسبت پوتے کے زیادہ ہے.اس لئے باقی ترکہ بیٹے حاصل کر لیں گے اور پوتے محروم ہوں گے.اسی طرح اگر کسی میت کے ورثاء میں نہ پہلے درجہ کا نہ ہی دوسرے درجہ کا کوئی عصبہ موجود ہے تیسرے درجہ کے عصبات میں بھائی، بھائی کا بیٹا اور بھائی کا پوتا موجود ہیں تو اس صورت میں بھائی بطور عصبہ باقی ترکہ حاصل کر لے گا.کیونکہ تمام مساوی الدرجہ تو ہیں.لیکن اس تیسرے درجہ میں بھائی کی قوت قرابت سب سے زیادہ ہے اس لئے باقی ماندہ تر کہ اس حال میں بھائی حاصل کرے گا.اور بھتیجے محروم ہو جائیں گے.بعض دفعہ درجہ اور قوت قرابت بھی ایک جیسی نظر آتی ہے تو اس وقت جہت کو دیکھ لینا چاہئے.جس کی تعداد جہت زیادہ ہوگی.اس کی قوت قرابت بھی زیادہ سمجھی جائے گی.مثلاً میت کے حقیقی بھائی اور علاقی بھائی اگر بطور عصبہ موجود ہوں تو باوجود یکہ دونوں ایک ہی درجہ اور قوت قرابت کے عصبہ ہیں.لیکن چونکہ متوفی سے حقیقی بھائی کا تعلق دو جہت سے ہے یعنی باپ اور ماں دونوں کی طرف سے اور علاتی بھائی کا تعلق ایک جہت سے ہے یعنی صرف باپ کی طرف سے.اس لئے حقیقی بھائی کی قوت قرابت زیادہ ہے علاتی بھائی سے.لہذا حقیقی بھائی کے سامنے علاقی بھائی محروم ہو گا اور ذوی الفروض کو حصے دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ حقیقی بھائی کومل جائے گا.اسی طرح حقیقی چچا کے سامنے علاقی چا اور حقیقی بھیجا کے سامنے علاقی بھتیجے محروم رہیں گے.علی ہذا القیاس.

Page 136

۱۲۸ اگر تمام عصبات ایک ہی درجہ کے اور ایک ہی جیسی قوت قرابت کے مالک ہوں اور ان کی جہات تعلق بھی یکساں ہوں تو پھر باقی ماندہ ترکہ ان سب میں برابر برابر تقسیم ہو گا.مثلاً اگر کسی میت کے ایک بیٹے سے ۶ پوتے اور دوسرے بیٹے سے کے پوتے موجود ہوں (بیٹا کوئی نہ ہو ) تو پھر باقی ماندہ ترکہ کے ۱۳ حصے کر کے ان سب کو ایک ایک حصہ دیا جائے گا.یہ نہیں ہو گا کہ آدھا حصہ (باقی ماندہ ترکہ کا ایک بیٹے کے ۶ بیٹوں کو دیا جائے اور آدھا دوسرے بیٹے کے ساتھ لے بیٹوں میں تقسیم کیا جائے بلکہ باقی ماندہ تر کہ تیرہ پوتوں میں مساوی طور پر تقسیم ہوگا.یاد رکھئے کہ اوپر کے درجہ کا عصبہ تمام نیچے درجے کے عصبات کو محروم کرے گا اور ایک ہی درجہ کے ورثاء (عصبات) کے لئے قوت قرابت دیکھئے جس عصبہ کی قوت قرابت زیادہ ہو اس کے سامنے باقی مساوی الدرجہ اور دوسرے کم درجہ والے تمام عصبات محروم رہیں گے.اسی طرح اگر ایک ہی درجہ اور ایک جیسی قوت قرابت رکھنے والے ورثاء (عصبات ) ہوں تو پھر جہت قرابت دیکھئے جس کی جہت قرابت زیادہ ہو اس کے سامنے باقی مساوی الدرجہ اور مساوی قوت قرابت والے عصبات محروم ہوں گے.اب ہر ایک درجہ کے عصبات کو علیحدہ علیحدہ مختصر سی تفصیل اور مثالوں سے بیان کیا جاتا ہے تاکہ عصبات کا معاملہ پوری طرح سے ذہن نشین ہو جائے.درجہ اول کے عصبات عصبہ درجہ اوّل نمبرا بیٹا: بیٹا میت کا سب سے مقدم اور سب سے اہم عصبہ ہے یہ کسی دوسرے وارث کی موجودگی کی وجہ سے محروم نہیں ہو سکتا.اس کے سامنے باقی تمام کم درجہ والے اور کم قوت قرابت والے عصبات محروم رہ جاتے ہیں.اس کا کوئی خاص حصہ تو مقرر نہیں کیونکہ یہ ذوی الفروض میں داخل نہیں لیکن ذوی الفروض کو ان کے حصے ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچ جاتا ہے وہ اسے مل جاتا ہے اور اگر کوئی بھی ذوی الفروض موجود نہ ہو تو پھر تمام تر کہ کا یہی وارث ہوتا ہے.اگر میت کے دو یا دو سے زائد بیٹے ہوں تو بچا ہوا تر کہ تمام موجودہ بیٹے باہم برابر تقسیم

Page 137

۱۲۹ کر لیں گے اگر میت مرد ہے اور اس کی پہلی بیوی سے دو بیٹے دوسری سے تین بیٹے اور تیسری سے ایک بیٹا تو ترکہ ان تمام بیٹوں میں مساوی طور پر تقسیم ہو گا.اسی طرح اگر میت عورت ہے اور اس کے موجودہ بیٹے مختلف خاوندوں سے ہیں.تو یہ تمام بیٹے اپنی والدہ کے ترکہ میں برابر کے حصہ دار ہوں گے.اس بات کی تمیز نہیں کی جاتی کہ کوئی بیٹا کس خاوند سے ہے یا کس بیوی سے ہے.سب کو برابر حصہ دیا جاتا ہے مثلاً اگر پہلی زوجہ سے کسی متوفی کے چھ بیٹے ہوں اور دوسری سے دو بیٹے ہوں تو باقی ماندہ ترکہ کے آٹھ حصے کر کے ہر ایک کو ایک ایک حصہ دے دیا جائے گا.یہ نہیں ہو گا کہ باقی ماندہ ترکہ کے دو برابر حصے کئے جائیں اور ایک حصہ پہلی بیوی کے چھ بیٹوں کو دیا جائے اور دوسرا حصہ دوسری بیوی کے دو بیٹوں کو دیا جائے.ایک مورث کے تمام بیٹے خواہ وہ کسی بھی خاوند سے ہوں یا کسی بھی بیوی سے ہوں باقی ماندہ ترکہ میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں.مثال نمبر 1 ایک میت نے والد، والدہ ، بیوی اور دو بیٹے چھوڑے اگر اس کا ترکہ قابل تقسیم مابین ورثا ۴۸۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.۱۳ ۲۴ ۳+۴+۴ - ۱= ( + + ۲۴ 3/ ۴۸۰۰ × پا = ۸۰۰ روپے ۴۸۰۰× پا = ۸۰۰ روپے = ۲۰۰ روپے Δ = = × ۴۸۰۰ = ۱۷۴۸۰۰ = ۱۳۰۰ روپے = 1/4 = حل والد کا حصہ 1/4 والدہ کا حصہ = ١/٦ +) - = = بیوی کا حصہ باقی اس لئے دو بیٹوں کا حصہ ایک بیٹے کا حصہ ۴۸۰۰ روپے میں والد کا حصہ ۴۸۰۰ روپے میں والدہ کا حصہ ۴۸۰۰ روپے میں بیوی کا حصہ ۴۸۰۰ روپے میں ہر لڑکے کا حصہ

Page 138

اگر ذوی الفروض کم ہوں تو اولاد میں تقسیم کرنے کے لئے قدرے زیادہ تر کہ بیچ جاتا ہے.لیکن ذوی الفروض زیادہ ہوں تو اولا د کو قدرے کم حصہ ملتا ہے.مثال نمبر ۲: ایک میت نے اپنے پیچھے دو زوجہ اور پانچ بیٹے چھوڑے دو بیٹے پہلی بیوی سے اور تین بیٹے دوسری بیوی سے ہیں اگر اس کا قابل تقسیم تر که بعد از ادائیگی قرضه و وصیت ۸۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.دو بیویوں کا حصہ اس لئے ایک بیوی کا حصہ باقی پانچ بیٹوں کا حصہ اسلئے ایک بیٹے کا حصہ ۸۰۰۰ روپے میں ہرایک بیوی کا حصہ 1/14 = = -1 = LA = = = ۷/۴۰ ۸۰۰۰ روپے میں ہر ایک بیٹے کا حصہ مثال نمبر ۳ : = ۸۰۰۰ × ۱/۱۲=۵۰۰ روپے ۸۰۰۰ × ۴۰/ ۷ = ۱۴۰۰ روپے ایک میت کے ۶ بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں بڑا بیٹا اس کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا اور اس نے اپنے دولڑ کے حمید اور رشید چھوڑے.اگر میت نے ان کے علاوہ دو بیویاں اور والدہ اپنے ورثاء چھوڑے ہوں تو ہر ایک کا حصہ بتائیے جبکہ دادا نے اپنے یتیم پوتوں کے حق میں ۱/۶ حصہ کی وصیت کی ہوئی ہو.حل : میت کے ورثاء میں سے زوجگان اور والدہ ذوی الفروض میں سے ہیں.بیٹوں کی وجہ سے بیٹیاں عصبہ بالغیر ہیں.بیٹوں کی وجہ سے پوتے محروم ہوتے ہیں، لیکن اس مثال میں وصیت کی وجہ سے ۱/۶ کے حقدار ہیں.وصیت کردہ حصہ باقی جائداد 1/4 = - =

Page 139

۱۳۱ اس ۵/۶ میں سے پہلے ذوی الفروض کو ان کے حصے دیئے جائیں گے پھر جو اس سے بچے گا وہ عصبات کو ملے گا.= = = اس لئے دو بیویوں کا حصہ ۲۰+۱۵ 1.+10 - 0 = ( 24 + 2) - %/ ۶ ۳۶ ۱۴۴ ۸۵/۱۴۴ - ۳۵ -۱۲۰ ۱۴۴ = ایک بیوی کا حصہ والدہ کا حصہ باقی = || یه (۸۵/۱۴۴ حصہ ) عصبات (لڑکے، لڑکیوں) میں ۲ اور ا کی نسبت سے تقسیم ہو گا.میت کے چھ بیٹوں میں سے بڑا بیٹا فوت ہو چکا ہے.اس طرح اس کے ۵ بیٹے اور سات بیٹیاں موجود ہیں اس لئے باقی ماندہ جائداد یعنی ۸۵/۱۴۴ کے سترہ حصے کئے جائیں گے جن میں سے ہر بیٹے کے دو حصے اور ہر بیٹی کا ایک حصہ ہوگا.ہر بیٹے کا حصہ ہر بیٹی کا حصہ الله = 2 × الله ۸۵ ۱۴۴ ا حصہ ( وصیت کردہ) دونوں یتیم پوتوں میں تقسیم ہو گا.اس لئے ہر پوتے کا حصہ لہذا ہر بیوی کا حصہ ہر لڑکے کا حصہ # = ۱۴۴ والدہ کا حصہ = ۱۴۴ ہرلڑکی کا حصہ = ۱۴۴ = اور ہر پوتے کا حصہ یعنی اگر جائداد کے کل ۲۸۸ سہام کئے جائیں تو پندرہ سہام ہر بیوی کے چالیس والدہ کے ہیں ہر لڑکے کے دس ہر لڑکی کے اور ۲۴ سہام ہر پوتے کے ہوں گے پس اگر متوفی کی جائداد کی مالیت ۲۸۸۰۰ روپے ہو تو ۱۵۰۰ روپے ہر بیوی کے ۴۰۰۰ روپے والدہ کے ۲۰۰۰ روپے

Page 140

ہر بیٹے کے 1000 روپے ہر بیٹی کے اور ۲۴۰۰ روپے ہر پوتے کے حصہ میں آئیں گے.نوٹ: اگر میت نے پوتوں کے حق میں وصیت نہ کی ہوتی تو وہ جائداد سے محروم رہتے پھر باقی ماندہ ترکہ صرف بیٹے بیٹیوں میں ہی ۲ اور ا کی نسبت سے تقسیم ہو جاتا ہے.عصبہ درجہ اول نمبر ۲ پوتا: جب میت کا کوئی بیٹا موجود نہ ہو یا شرعی لحاظ سے بیٹا محروم الارث ہو تو پھر ذوی الفروض کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد باقی ماندہ تر کہ پوتے یا پوتوں کو مل جاتا ہے.اگر پوتوں کے ساتھ پوتیاں بھی موجود ہوں تو وہ عصبہ بالغیر بن جاتی ہیں.اور بچا ہوا ترکہ ان میں للذكر مثل حظ الانثیین کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے اگر کوئی بھی ذوی الفروض موجود نہ ہو تو تمام تر کہ پوتے پوتیوں میں ۲ : ا سے تقسیم کر دیا جاتا ہے.اگر پوتوں یا پوتے کے ساتھ میت کی بیٹی یا بیٹیاں بھی موجود ہوں تو یہ ( بیٹی بیٹیاں) ذوی الفروض ہوں گی.عصبہ نہیں اگر ایک ہو تو نصف ترکہ کی وارث ہوتی ہے اور دو یا دو.زائد ہوں تو ۲/۳ حصہ کی وارث ہوتی ہیں.جس طرح بیٹے کے سامنے تمام پوتے پوتیاں محروم رہ جاتے ہیں اسی طرح پوتے کے سامنے اس سے نیچے کے درجہ کے پڑپوتے پڑپوتیاں وغیرہ محروم ہوں گے.مثال نمبر ۴ : نظام دین کا ایک لڑکا روشن دین ہے اور ایک لڑکی زہرہ بانو ہے روشن دین کے دو لڑکے کرم دین اور علم دین اور ایک لڑکی کلثوم ہے.نظام دین کی بیوی بھی بقید حیات ہے.روشن دین نے اپنے والد نظام دین کو کسی جھگڑے کی بنا پر قتل کر دیا.اگر نظام دین کی قابل تقسیم جائداد ۴۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.حل بیٹا چونکہ باپ کا قاتل ہے اس لئے وہ محروم الارث ہو گا.لہذا میت کے پوتے پوتی بطور عصبہ جائداد سے حصہ لے لیں گے اور بیوی اور لڑکی بطور ذوی الفروض کے حصہ لیں گے.بیوی کا حصہ = ۱/۸ لڑکی کا حصہ 1/5 = =

Page 141

۱۳۳ باقی * = (+±)-1 = / حصہ دونوں پوتوں (کرم دین، علم دین) اور ایک پوتی ( کلثوم ) میں ۲ اور ا کی نسبت سے تقسیم ہو گا.یعنی پانچ سہام میں سے دوسہام پوتے کے اور ایک پوتی کا.اس لئے ۳/۸ میں کرم دین کا حصہ = ۳ × 5 = اسی طرح علم دین کا حصہ اور کلثوم کا حصہ ۴۰۰۰ روپے میں بیوی کا حصہ ۴۰۰۰ روپے میں زہرہ لڑکی کا حصہ ۴۰۰۰ میں پوتے کرم دین کا حصہ ۴۰۰۰ میں پوتے علم دین کا حصہ ۴۰۰۰ میں پوتی کا حصہ = = 1 × ۴۰۰۰ = Λ = - × ۴۰۰۰ = = × ۴۰۰۰ = ۲۰ × ۴۰۰۰ = = ۵۰۰ روپے ۲۰۰۰ روپے ۲۰۰ روپے = ۲۰۰ روپے ۴۰۰۰ × = ۳۰۰ روپے اسی طرح اگر بیٹا موجود ہی نہ ہوتا تب بھی پوتے بطور عصبہ وارث ہوتے اور ان کے ساتھ ہوتی بھی عصبہ بن جاتی.مثال نمبر ۵ : ایک میت نے زوجہ، تین بیٹیاں، دو پوتے اور ایک پوتی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.بیوی کا حصہ تین لڑکیوں کا حصہ = / / اس لئے ایک لڑکی کا حصہ = ۲/۹ باقی = 2 = 1+14 −1 = ( + + 1) − 1 - ۲۴ یہ باقی کا حصہ عصبات میں تقسیم ہو گا.جو یہاں دو پوتے اور ایک پوتی ہیں اس لئے باقی ماندہ ترکہ کے پانچ حصے کئے جائیں گے جن میں سے ہر پوتے کو دو اور پوتی کو ایک حصہ ملے گا.لہذا ہر پوتے کا حصہ پوتی کا حصہ = + = = × =x ۲۴ ۲۴ ۱۲ پس اگر جائداد کے ۷۲ سہام کئے جائے بیوی کے، ۱۶ ہرلڑکی کے، ہر لڑکی کے، ۶ ہر

Page 142

۱۳۴ پوتے کے اور ۳ سہام پوتی کے ہوں گے.مثال نمبر ۶ : ایک میت نے دولڑکیاں اور ایک پوتی وارث چھوڑیں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.دولڑکیوں کا حصہ ایک لڑکی کا حصہ باقی پوتی محروم = ۲/۳ ۱۳ = = #= =-۱ نوٹ : چونکہ کوئی عصبہ موجود نہیں اس لئے باقی ۱/۳ بھی بطریق رو میت کی لڑکیوں کومل جائے گا.پوتی بہر حال محروم ہو گی.لہذا ہرلڑکی کا حصہ = + + + x + = + + + =۱- ۳۱۲ = = = + عصبہ درجہ اول نمبر ۳ پڑپوتا : جب میت کا بیٹا، پوتا کوئی بھی موجود نہ ہو تو ذوی الفروض کو اُن کے حصے دینے کے بعد جو مال بچ جائے وہ پڑ پوتا یا پڑ پوتے حاصل کرتے ہیں اگر پڑ پوتیاں بھی موجود ہوں تو وہ پڑپوتے کے ساتھ مل کر عصبہ بن جاتی ہیں.پھر ان کے درمیان للذكر مثل حظ الانثيين کے اصول کے تحت تقسیم ہوگی.یعنی مرد کو دگنا اور عورت کو اکہرا حصہ ملے گا.اگر میت کی ایسی پوتی یا پوتیاں موجود ہوں جو ذوی الفروض میں شامل نہ ہو سکتی ہوں اور پڑپوتا بھی موجود ہو تو یہ ( پوتی پوتیاں ) پڑپوتے کے ساتھ مل کر عصبہ بن جاتی ہیں.اسی طرح اگر میت کی ایسی ہی پوتیاں بھی ہوں اور پڑپوتیاں بھی ہوں تو یہ سب پڑپوتے کے ساتھ مل کر عصبہ بن جاتی ہیں اور باقی ماندہ مال ان کے درمیان ۲ : ۱ سے تقسیم کیا جاتا ہے یعنی مرد کو دگنا اور عورت کو اکہرا حصہ دیا جاتا ہے.پڑپوتے کی موجودگی میں اس سے نیچے درجہ والے مرد بھی یعنی سکڑ پوتے وغیرہ محروم ہوتے ہیں اور یہ (پڑپوتا ) پوتے کے سامنے اور پوتا بیٹے کے سامنے محروم ہوتا ہے.مثال نمبر ے :

Page 143

۱۳۵ ایک میت نے والد، والدہ، دو پوتیاں اور ایک پڑپوتا وارث چھوڑے.ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والد کا حصہ والدہ کا حصہ = 1/4 = دو پوتیوں کا حصہ ۲/۳ ہر پوتی کا حصہ باقی 1 = = - (+ + + + = ) = صفر 1/ جائداد ذوی الفروض میں ہی پوری ہو جاتی ہے عصبہ کے لئے کچھ نہیں بچتا اس لئے پڑ پوتا کو کچھ نہیں ملے گا.مثال نمبر ۸ : ایک متوفیہ نے خاوند، دو پوتیاں، ایک پڑپوتی اور ایک پڑپوتا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.حل خاوند کا حصہ 1/8 = دو پوتیوں کا حصہ باقی = ۲/۳ = ^+1 −1 =( ×+ ±) - 1 = یہ ۱۲ / اعصبات میں جو یہاں ایک پڑپوتا اور ایک پڑپوتی ہیں.۲ ، اور ا کی نسبت سے تقسیم ہوگا.پڑپوتے کا حصہ پڑپوتی کا حصہ = = = Ex+ ۱۸ اس لئے اگر جائداد کے ۳۶ سہام کئے جائیں تو ۹ خاوند کے، ۱۲ ہر پوتی کے، دو پڑپوتے کے اور ایک سہم پڑپوتی کا ہوگا.درجہ دوم کے عصبات درجہ اول کے عصبات تین نمبروں تک بیان کرنے کے بعد ہم درجہ دوم کے عصبات کو لیتے ہیں کیونکہ ان سے نیچے کے عصبات بہت شاذ و نادر موجود ہوتے ہیں.اس لئے ان کی تفاصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں.عملاً کسی وقت ایسے عصبات موجود ہوں تو

Page 144

۱۳۶ پھر ان کا حال پڑ پوتوں کی مانند ہوگا.1/4 درجہ دوم کے عصبات وہ ہیں جو میت کی اصل ہوں.یعنی باپ، دادا، پڑدادا، سکر دادا وغیرہ کیونکہ یہ ذوی الفروض میں بھی شامل ہیں اور ۱/۶ حصہ پاتے ہیں.اس لئے درجہ اول کے عصبات میں سے اگر کوئی موجود ہو تو یہ لوگ بطور عصبہ کچھ نہیں پاتے صرف بطور ذوی الفروض اپنا حصہ پاتے ہیں.اگر درجہ اول کا کوئی عصبہ بھی موجود نہ ہو تو پھر یہ درجہ دوم کے عصبات ذوی الفروض ہونے کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ ترکہ بھی بطور عصبہ حسب ترتیب حاصل کر لیتے ہیں.اگر ذوی الفروض میں سے کوئی بھی نہ ہو تو پھر سارا تر کہ انہیں کو مل جاتا ہے.اگر کوئی ان سے نیچے درجہ کا عصبہ بھی موجود ہو تو اُسے یہ محروم کر دیتے ہیں.اب ہر ایک کے حالات بحیثیت عصبہ علیحدہ علیحدہ درج کئے جاتے ہیں تا کہ آسانی سے ان کے مسائل سمجھ آ سکیں.عصبہ درجہ دوم نمبر ا باپ: اگر درجہ اول کے عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو اور نہ ہی میت کی کوئی بیٹی پوتی وغیرہ موجود ہو تو ذوی الفروض کو حصہ دینے کے بعد جو کچھ بھی بچے گا وہ سب والد بطور عصبہ حاصل کرے گا.باپ کی موجودگی میں دادا محروم ہوتا ہے.بطور ذوی الفروض بھی اور بطور عصبہ بھی اور اگر درجہ اول کے عصبات میں سے کوئی بھی موجود ہو تو خود باپ کو بھی ترکہ میں سے بطور عصبہ کچھ نہیں ملے گا.البتہ بطور ذوی الفروض اپنا مقررہ حصہ ( یعنی صرف ۱/۶) لے گا.عصبه درجه دوم نمبر ۲ دادا: جب میت کا باپ زندہ نہ ہو تو دادا اس کا قائم مقام بن جاتا ہے اور اسے ہر وہ حق حاصل ہوتا ہے جو والد کو مختلف حالات میں حاصل ہوتا ہے.(سوائے ایک معمولی سے فرق کے جس کا ذکر آگے پڑدادا کے عنوان کے تحت آئے گا ) دادا بھی باپ کی طرح کسی وقت صرف ذوی الفروض میں شامل ہوتا ہے اور کسی وقت دونوں قسموں کے ورثاء میں یعنی ذوی الفروض میں بھی اور عصبات میں بھی.لیکن بطور عصبہ یہ اسوقت ہی کچھ مال حاصل کرے گا جب درجہ اول کے عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو.میت کے باپ کی موجودگی میں

Page 145

۱۳۷ دا دا مکمل طور پر محروم ہو جاتا ہے میت کے بیٹے کی موجودگی میں اسے صرف اپنا مقررہ حصہ (۱/۶) ملتا ہے.اور یہ خود اپنے سے کم قوت قرابت والوں مثلاً پڑدادا ، سکڑ دادا وغیرہ کو محروم کرتا ہے.عصبه درجه دوم نمبر ۳ پڑدادا: اگر باپ اور دادا موجود نہ ہوں تو پڑدادا باپ کا قائم مقام ہوتا ہے اور اسے وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو والد کو حاصل تھے (انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں ) جس طرح دادا پڑدادا کو محروم کرتا ہے اسی طرح پڑدادا اپنے سے کم قوت قرابت والوں کو مثلاً سکٹر دادا، لکڑ دادا وغیرہ سب کو محروم کر دے گا.پس یہ بھی یادرکھئے کہ اگر والد میت کا زندہ نہ ہو تو دادوں ( جد صحیح) میں سے وہ دادا وارث ہوگا.جو سب سے زیادہ قریب ہوگا اور وہ والد کا قائم مقام ہوگا.احکام وراثت میں والد اور دادے کے حق اور اثر میں کچھ معمولی سا اختلاف ہے جس کی تفصیل ذوی الفروض کے باب میں بیان ہو چکی ہے اور یہاں بطور یاد دہانی دوبارہ درج کی جاتی ہے.الف.حق کا فرق - اگر میت نے اپنے ورثاء زوج یا زوجہ ، والدہ اور والد چھوڑے ہوں تو زوج یا زوجہ کو اُن کا حصہ ادا کرنے کے بعد جو باقی بچے اس کا ۳/ ا والدہ کو اور ۲/۳ والد کو دیا جاتا ہے، لیکن اگر میت نے اپنے ورثاء زوج یا زوجہ، والدہ اور دادا چھوڑے ہوں تو والدہ کو کل ترکہ کا ۱/۳ اور زوج یا زوجہ کو اُن کا معین حصہ دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ دادا کو دیا جاتا ہے اس صورت میں دادا والد کی نسبت قدرے کم حصہ حاصل کرتا ہے.ب.اثر کا فرق.باپ کی موجودگی میں دادی محروم ہوتی ہے، لیکن دادا کی موجودگی میں دادی محروم نہیں ہوتی.پڑدادا سے اوپر کے عصبات بھی پڑدادا کی طرح باپ کے قائم مقام ہوتے ہیں.اس لئے ان کے ذکر کو چھوڑ دیا گیا ہے اور ہم درجہ دوم کے تین نمبر تک کے ہی عصبات پر اکتفا کرتے ہیں.نوٹ : درجہ دوم کا ہر عصبہ درجہ سوم کے ہر عصبہ کو محروم کرے گا.

Page 146

۱۳۸ درجہ سوم کے عصبات بھائی ، بھائی کا بیٹا ( بھتیجا ) بھائی کا پوتا ( بھتیجا کا بیٹا ) بھائی کا پڑپوتا ( بھتیجا کا پوتا ) وغیرہ جب درجہ اول اور درجہ دوم کے عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر ذوی الفروض سے بچا ہوا ( یا ذوی الفروض کے موجود نہ ہونے کی صورت میں تمام تر کہ ) درجہ سوم کا عصبہ یا عصبات حاصل کریں گے.اس درجہ میں بھی سب سے پہلے وہ عصبہ یا عصبات حقدار ہوں گے جو قرابت کے لحاظ سے دوسروں کی نسبت میت کے زیادہ نزدیک ہوں لیکن درجہ اول یا دوم میں سے کوئی بھی عصبہ موجود ہو تو درجہ سوم کے عصبات سب محروم رہتے ہیں.اب ان درجہ سوم کے عصبات کے احکام قدرے تفصیل سے درج کئے جاتے ہیں.عصبہ درجہ سوم نمبر ا حقیقی بھائی: جب درجہ اول اور درجہ دوم میں سے کوئی بھی عصبہ موجود نہ ہو تو ذوی الفروض کو حصے دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ حقیقی بھائی کو جو میت کے باپ کا جز ہے بطور عصبہ مل جاتا ہے اگر کوئی بھی ذوی الفروض موجود نہ ہو تو تمام تر کہ حقیقی بھائی حاصل کر لیتا ہے.اگر یہ حقیقی بھائی دو یا دو سے زائد ہوں تو باقی ماندہ ترکہ ان بھائیوں میں برابر برابر تقسیم ہو گا.اگر حقیقی بھائی یا بھائیوں کے ساتھ حقیقی بہن یا بہنیں بھی موجود ہوں تو یہ حقیقی بہنیں اپنے حقیقی بھائیوں کی وجہ سے عصبہ بالغیر بن جائیں گی اور باقی ماندہ ترکہ میں حصہ کی حقدار ہوں گی اور تقسیم للذكر مثل حظ الانثیین کے اصول کے تحت ہوگی.جب حقیقی بھائی موجود ہو.تو علاتی بھائی محروم ہوں گے کیونکہ حقیقی بھائیوں کی قوت قرابت علاقی بھائیوں کی نسبت زیادہ ہے.مثال نمبر ۹: ایک میت نے والدہ ، زوجہ، دو حقیقی بھائی، تین حقیقی بہنیں اور دو علاتی بھائی اپنے وارث چھوڑے ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/4 = والدہ کا حصہ

Page 147

۱۳۹ V/C = = 1+2 −1 = ( ++ +-1 = ۲۴ زوجہ کا حصہ باقی ۱۴/۲۴ حصہ حقیقی بھائی بہنوں کو بطور عصبہ مل جائے گا.( علاتی بھائی حقیقی بھائیوں کی وجہ سے محروم ہوں گے ) اس طرح کہ ہر بھائی کو دو حصے اور ہر بہن کو ایک حصہ ملے گا.اس لئے حقیقی بھائی کا حصہ = حقیقی ہمشیرہ کا حصہ = = ۲۴ گویا جائداد کے بارہ سہام کئے جائیں تو دو والدہ کے تین زوجہ کے، دو ہر بھائی کے اور ایک سہم ہر بہن کا ہوگا.عصبہ درجہ سوم نمبر ۲ علاقی بھائی: جب درجہ اول و دوم میں سے کوئی بھی عصبہ موجود نہ ہو اور تیسرے درجہ میں حقیقی بھائی بھی موجود نہ ہو تو پھر علاتی بھائی بطور عصبہ وہ سب کچھ حاصل کرتا ہے.جو حقیقی بھائی کو ملنا تھا.علاقی بہن علاقی بھائی کے عصبہ بالغیر بن جائے گی.علاقی بھائی حقیقی بھتیجا کو محروم کر دیتا ہے کیونکہ علاقی بھائی کی قوت قرابت زیادہ ہے بہ نسبت حقیقی بھتیجے کے.عصبہ درجہ سوم نمبر ۳ حقیقی بھتیجا : جب میت کے حقیقی یا علاتی بھائیوں میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو اور نہ ہی درجہ اوّل یا دوم کا عصبہ موجود ہو تو بھیجا وہ تمام تر کہ حاصل کر لے گا جو ذوی الفروض کے حصے ادا کرنے کے بعد بچ جائے.اگر حقیقی بھیجے دو یا دو سے زائد ہوں تو یہ تر کہ برابر برابر تقسیم کر لیں گے.نوٹ : حنفی مسلک کی رو سے بھیجی / بھتیجیاں کو بھتیجوں کے ساتھ عصبہ با الغیر نہیں سمجھتے.وہ بھتیجیوں کو ذوی الارحام میں شمار کرتے ہیں.لہذا بھتیجی / بھتیجیوں کو بھتیجوں کی موجودگی میں وارث قرار نہیں دیتے.یہ محروم رہتی ہیں.جماعت احمدیہ کا مسلک یہ ہے کہ بھتیجی / بھتیجیاں ، بھتیجوں کی موجودگی میں عصبہ باالغیر بن جاتی ہیں.لہذا ان میں بقیہ تر کہ ۲ : ۱ سے تقسیم کیا جائے گا.

Page 148

۱۴۰ عصبہ درجہ سوم نمبر ۴ علاقی بھتیجا : جب میت کے حقیقی بھائی ، علاقی بھائی اور حقیقی بھتیجا میں سے کوئی بھی موجود نہ ہوں اور نہ ہی درجہ اول یا دوم کا کوئی عصبہ موجود ہو تو علاتی بھیجا وہ سب مال حاصل کر لیتا ہے جو ذوی الفروض کے حصوں کی ادائیگی کے بعد بچ جاتا ہے یہ بھتیجے خواہ ایک ہی علاتی بھائی کے بیٹے ہوں یا مختلف علاتی بھائیوں کے بیٹے ہوں میراث میں برابر کے حقدار ہیں.اگر علاقی بھیجی بھی موجود ہو تو وہ علاتی بھتیجے کے ساتھ عصبہ باالغیر بن جائے گی.جب تک کوئی علاتی بھتیجا موجود ہو.اس وقت تک نہ حقیقی بھائیوں کے پوتوں کو کچھ ملے گا اور نہ ہی علاقی بھائیوں کے پوتوں کو کچھ ملے گا.عصبہ درجہ سوم نمبر ۵ بھتیجے کا بیٹا ( حقیقی بھائی کا پوتا): جب حقیقی بھائی ، علاتی بھائی ، حقیقی بھتیجا اور علاتی بھیجا کوئی بھی موجود نہ ہو.اور نہ ہی درجہ اول یا دوم کا کوئی عصبہ موجود ہو.تب ذوی الفروض سے بچا ہوا تر کہ حقیقی بھائی کا پوتا حاصل کرتا ہے اگر حقیقی بھائی کے پوتے دو یا دو سے زائد ہوں تو وہ سب اس میں برابر کے شریک ہوں گے اسی طرح اگر حقیقی بھائی ایک سے زائد ہوں تو وہ سب اس میں برابر کے شریک ہوں گے اسی طرح اگر حقیقی بھائی ایک سے زیادہ ہوں اور اُن کے پوتے مختلف تعداد میں ہوں تب بھی ان تمام بھائیوں کے تمام پوتے میراث میں برابر کے حق دار ہوں گے.اور حقیقی بھائی کا پوتا علاقی بھائی کے پوتے کا کو محجوب کرتا ہے.عصبہ درجہ سوم نمبر 4 علاتی بھیجے کا بیٹا (یعنی علاقی بھائی کا پوتا ): جب درجہ سوم کے عصبات میں سے حقیقی بھائی ، علاتی بھائی، حقیقی بھتیجا، علاتی بھتیجا اور حقیقی بھائی کا پوتا کوئی بھی موجود نہ ہوں اور نہ درجہ اول یا دوم کا کوئی عصبہ موجود ہو.تب علاقی بھائی کے پوتے کو ذوی الفروض سے بچا ہوا حصہ مل جاتا ہے اگر یہ پوتے دو یا دو سے زائد ہوں خواہ ایک علاتی بھائی کے پوتے ہوں یا متعدد علاقی بھائیوں کے پوتے ہوں باقی ماندہ ترکہ میں برابر کے حصہ دار ہوں گے اگر میت کی حقیقی بہن اور بیٹی موجود ہوں تو یہ تمام علاقی بھائی کے پوتے محروم ہو جاتے ہیں اور جب تک یہ علاقی بھائی کے پوتے)

Page 149

۱۴۱ موجود ہوں کسی قسم کے بھائی کے پڑ پوتوں کو کچھ نہیں ملتا.اس کے بعد ترتیب کے لحاظ سے حقیقی بھائی کے پڑپوتے یعنی بھیجے کے پوتے کا نمبر آتا ہے عملی لحاظ سے اس کی بہت ہی کم ضرورت پیش آتی ہے.اس لئے درجہ سوم کے عصبات یہیں تک بیان کئے گئے ہیں.لیکن بالفرض اگر ضرورت پڑ جائے تو یہ یاد رکھیں کہ بھائی کے پڑپوتے کے حقوق بالکل بھائی کے پوتے کے مانند ہیں.صرف اتنا فرق ہے کہ یہ (پڑپوتے ) علاتی بھائی کے پوتے کے سامنے محروم ہیں.جب کہ حقیقی بھائی کا پوتا علاقی بھائی کے پوتے کے سامنے محروم نہیں ہوتا اور جب تک یہ حقیقی بھائی کا پڑپوتا ) موجود ہو.اس وقت تک علاقی بھائی کے پڑپوتے کو کچھ نہیں ملتا.اگر حقیقی بھائی کا پڑپوتا بھی موجود نہ ہو تو پھر علاقی بھائی کے پڑپوتے کو میراث ملتی ہے.مانند علاتی بھائی کے پوتے کے.درجہ چہارم کے عصبات چچا، چچا کا بیٹا ، چا کا پوتا ، چچا کا پڑپوتا ، باپ کا چچا، اور اس کے بیٹے وغیرہ ، دادا کا چاو 0 اگر درجه اول ، دوم اور سوم کے عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر حسب ترتیب درجہ چہارم کے عصبات ذوی الفروض سے بچا ہوا مال حاصل کرتے ہیں.ان میں بھی اگر چند عصبات ایسے ہوں جو میت سے ایک ہی جیسی قوت قرابت رکھتے ہوں تو باقی مانده تر که مساوی طور پر ان میں تقسیم کر دیا جاتا ہے.عصبہ درجہ چہارم نمبر ا حقیقی چا: درجہ چہارم کا سب سے زیادہ قریبی عصبہ حقیقی چچا یعنی والد کا بھائی ہے (خواہ وہ والد سے چھوٹا ہو یا بڑا ) یہ میراث سے بطور عصبہ اسی وقت حصہ پاتا ہے.جب پہلے تینوں درجوں کے عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو.اگر بچے دو یا دو سے زائد ہوں تو پھر باقی ماندہ ترکہ کے مساوی حقدار ہوں گے.اگر ان کی بہنیں یعنی ( میت کی پھوپھیاں بھی میت کے چچا کے ساتھ موجود ہوں تو وہ عصبہ قرار نہیں پاتیں.حنفی مسلک کی رو سے پھوپھیاں ذوی الارحام میں شامل ہیں اور ذوی الارحام کو اس وقت حصہ ملتا ہے جب ذوی الفروض

Page 150

۱۴۲ اور عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو.لہذا پھوپھی محروم رہتی ہے.جماعت احمدیہ کے مسلک کی رو سے میت کی پھوپھیاں میت کے چا کی موجودگی میں عصبہ باالغیر بن جاتی ہیں.لہذا وارث قرار پائیں گی.اس لئے بقیہ تر کہ ان میں ۲ : ۱ سے تقسیم ہوگا.چاؤں کی وجہ سے ان کی بیویاں عصبہ نہیں بنتیں.یعنی میت کی بچی کو میراث نہیں پہنچتی.کیونکہ میت سے اس کا کوئی تعلق نبی نہیں ہے.اگر حقیقی چا موجود ہو تو میت کے درجہ چہارم کے باقی عصبات کو حصہ نہیں ملتا.عصبه درجه چهارم نمبر ۲ علاقی چا یعنی باپ کا علاتی بھائی : جب حقیقی چا موجود نہ ہو تو پھر باقی ماندہ تر کہ علاقی چا کو ملتا ہے اس کا حال حقیقی چچا کی مانند ہے.اور اس کے سامنے حقیقی و علاتی چچا کے بیٹے محروم رہتے ہیں.عصبہ درجہ چہارم نمبر ۳.حقیقی چا کا بیٹا: جب مندرجہ بالا عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر ذوی الفروض سے بچے ہوئے مال کا وارث حقیقی چا کا بیٹا ہوگا.اگر ایک ہی حقیقی چا کے ایک سے زائد بیٹے ہوں یا چند حقیقی چچاؤں کے مختلف تعداد میں بیٹے موجود ہوں تو وہ سب باقی ماندہ ترکہ میں بطور عصبہ برابر کے شریک ہوں گے کیونکہ یہ سب ایک ہی درجہ کے اور ایک ہی جیسی قوت قرابت رکھنے والے عصبات ہیں ان کی بہنیں (یعنی حقیقی چا یا چچاؤں کی بیٹیاں) ان کی وجہ سے عصبہ نہیں یتیں.کیونکہ ان کا شمار ذوی الارحام میں ہے (جس کا بیان آئندہ باب میں ہوگا ) حقیقی چچا کے بیٹے کے سامنے علاتی چچا کے بیٹے محروم ہوں گے.عصبہ درجہ چہارم نمبر ۴ علاقی چا کا بیٹا : اس کا حق بالکل حقیقی چچا کے بیٹے کی مانند ہے.یہ حقیقی چچا کے بیٹے کے سامنے محروم ہے اور اس کے سامنے حقیقی اور علاقتی چچا کے پوتے محروم ہوتے ہیں.عصبہ درجہ چہارم نمبر ۵ حقیقی چچا کا پوتا: جب مندرجہ بالا عصبات میں سے کوئی بھی عصبہ موجود نہ ہو تب درجہ چہارم کا یہ

Page 151

۱۴۳ عصبہ ( حقیقی چا کا پوتا ) ذوی الفروض سے بچا ہوا تر کہ حاصل کرتا ہے.اگر یہ (حقیقی چا کے پوتے ) ایک سے زیادہ ہوں.خواہ ایک حقیقی چچا کے پوتے ہوں یا چند حقیقی چچاؤں کے پوتے ہوں سب کے سب مساوی الدرجہ ہونے اور مساوی قوت قرابت رکھنے کی وجہ سے میراث ( باقی ماندہ ترکہ) میں مساوی حصہ کے حقدار ہیں.ان کی بہنیں یعنی حقیقی چچا کی پوتی / پوتیاں ان پوتوں کی وجہ سے، فقہ احمدیہ کی رو سے عصبہ باالغیر بن جاتی ہیں.لہذا بقیہ ان میں ۲ : ۱ سے تقسیم ہو گا.فقہ حنفیہ کی رو سے یہ نہیں بنتی یعنی حقیقی چچا کی پوتی / پوتیاں ان پوتوں کی وجہ سے عصبہ نہیں بنتی بلکہ ان کا شمار ذوی الارحام میں ہی ہو گا.اس لئے وہ بطور عصبہ محروم رہیں گی.مثال نمبر ۱۰: ایک میت نے ایک بیوی، ایک حقیقی بہن، دو حقیقی چا کے پوتے اور ایک حقیقی چا کی پوتی اپنے وارث چھوڑے اس کی جائداد میں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.نیز اگر جائداد ۸۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کو کتنی کتنی رقم ملے گی؟ جب کہ میت کے ذمہ کسی قسم کا قرض نہ ہو.بیوی کا حصہ بہن کا حصہ باقی = 1/M 1/M = = + = ( + ) - 1 یہ (۱/۴ حصہ ) درجہ چہارم کے پانچوں عصبات ( حقیقی چچاؤں کے پوتوں ) میں تقسیم ہوگا.کیونکہ ان سے پہلے درجوں اور نمبروں والے عصبات موجود نہیں.حقیقی چچا کی پوتی محروم رہے گی کیونکہ یہ ذوی الارحام میں شامل ہے.(فقہ حنفیہ کے مطابق ) اس لئے چچا کے دو پوتوں کا حصہ = ۱/۴ ایک کا حصہ 1/A = لہذا ۸۰۰۰ میں زوجہ کا حصہ ۸۰۰۰ میں بہن کا حصہ = ۸۰۰۰ × = ۲۰۰۰ روپے ۸۰۰۰ × + = ۲۰۰۰ روپے ہر ایک ( چچا کے ) پوتے کا حصہ = ۸۰۰۰ × | = ۱۰۰۰ روپے عصبہ درجہ چہارم نمبر ۶ علاقی چچا کا پوتا:

Page 152

۱۴۴ اس کی حالت بعینہ حقیقی چچا کے پوتے کی مانند ہے یہ خود حقیقی چچا کے پوتے کے سامنے محروم ہے کیونکہ حقیقی چچا کے پوتے کو علاتی چچا کے پوتے کی نسبت زیادہ قوت قرابت حاصل ہے.اس ( علاتی چچا کے پوتے) کے سامنے حقیقی و علاقی چا کے پڑپوتے محروم ہیں.کیونکہ یہ (ہوتا) متوفی سے زیادہ قریب ہے بہ نسبت پڑپوتے کے.اسی طرح اس کے بعد حقیقی چچا کے پڑپوتے اور پھر علاتی چا کے پڑپوتے وغیرہ کا نمبر آتا ہے، لیکن وہ اسی وقت میراث سے حصہ پاسکتے ہیں جب ان سے زیادہ قوت قرابت والے عصبات موجود نہ ہوں.اگر کسی میت کے دادا کی اولا دبھی موجود نہ ہو.تو پھر اس کے پڑدادا کی اولا د دیکھی جائے۲ گی یعنی میت کے باپ کے حقیقی چچا اور علاتی چا اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو پھر حقیقی چچا یا علاقی چا کی اولا د وارث ہوگی اور ترتیب حق میراث وہی ہوگی جو دادا کی اولاد میں اوپر بیان ہو چکی ہے.یہ تمام لوگ درجہ چہارم میں ہی شمار کئے جاتے ہیں نیچے ان کا بھی ذکر کیا جاتا ہے، لیکن اختصار کے ساتھ باپ کے حقیقی چا ( یعنی دادا کا بھائی ) جب مذکورہ بالا عصبات میں سے بھی کوئی بھی موجود نہ ہوں تو پھر یہ (باپ کا حقیقی چا ) ذوی الفروض سے بچا ہوا ترکہ حاصل کرتا ہے.اگر یہ تعداد میں دو یا دو سے زائد ہوں تو پھر یہ سب میراث میں برابر کے حقدار ہوتے ہیں.باپ کا علاقی بھائی باپ کے حقیقی چچا کے نہ ہونے کی صورت میں اس کا قائم مقام ہے.باپ کے حقیقی چا کے سامنے خود محروم ہے اور اپنے سے نیچے والوں کو محروم کر دیتا ہے.میت کے باپ کے حقیقی چچا کا بیٹا اور علاقی چا کا بیٹا یعنی میت کے باپ کا حقیقی چا زاد بھائی اور میت کے باپ کا علاتی چچا زاد بھائی.جب ان سے اوپر کے درجہ والے عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر میت کے باپ کے حقیقی چچا کا بیٹا یا بیٹے باقی ماندہ ترکہ کے وارث ہوں گے اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو پھر علاقی چا کا بیٹا یا بیٹے باقی ماندہ ترکہ کے برابر کے حصہ دار ہوں گے اگر یہ بھی موجود نہ ہوں تو پھر

Page 153

۱۴۵ باپ کے حقیقی چا کا پوتا وارث ہوگا اور اگر بہت سے ایسے پوتے ہوں تو وہ تمام برابر کے حصہ دار ہوں گے اور اگر یہ بھی موجود نہ ہوں تو پھر باپ کے علاقی چا کا پوتا یا پوتے وارث ہوں گے.اسی طرح سے یہ سلسلہ چلتا جائے گا.اس تقسیم میں یہ یادرکھئے کہ اوپر کے درجہ والے اپنے سے نیچے کے درجے والوں کو محروم کرتے ہیں اور اسی طرح ایک ہی درجہ میں زیادہ قوت قرابت رکھنے والے اپنے سے کم قوت قرابت رکھنے والوں کو محروم کرتے ہیں.انہیں اب ایک نقشہ کی صورت میں بھی لکھا جاتا ہے تا کہ یاد رکھنے میں آسانی رہے بنفسم کا یہ نقشہ چار پشتوں تک بہ ترتیب درجہ وقوت قرابت ہے.

Page 154

۱۴۶ درجه اوّل 1 میت کا جز یعنی اولاد نمبر بلحاظ قرابت نام عصبه 1 ہوتا حالت و کیفیت یہ سب عصبات سے مقدم ہے جو کبھی محروم نہیں ہوتا.اس کے سامنے اس سے کم درجہ والے تمام آگے سکڑ پوتا وغیرہ محروم ہوتے ہیں.میت کی بیٹیاں اس ( بیٹے ) کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہیں.اپنے سے اوپر والوں کے سامنے بطور والد دوم II میت کی اصل وادا پڑدادا عصبہ محروم البتہ بطور ذوی الفروض اپنا مقررہ حصہ ۱/۶ حاصل کرے گا اپنے آگے سکڑ دادا وغیرہ سے کم درجہ والوں کو محروم کر دیتا ہے.حقیقی بھائی حقیقی بہن اگر موجود ہو تو وہ اس کے سوم III میت کے باپ کا جز یعنی باپ کی نسل ساتھ عصبہ بن جاتی ہے.علاقی بھائی اگر میت کی بیٹی اور حقیقی بہن موجود ہوں تو محروم ہوتا ہے.علاتی بہن اس کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہے.حقیقی بھائی کا بیٹا اوپر والوں کے سامنے خود محروم نیچے درجہ یعنی بھتیجا والے اس کے سامنے محروم ہیں ۶ علاقی بھائی کا بیٹا ( یعنی علاتی بھتیجا) حقیقی بھائی کا ہوتا || علاقی بھائی کا پوتا اوپر والوں کے سامنے خود محروم نیچے درجہ والے اس کے سامنے محروم ہیں

Page 155

حالت و کیفیت نام عصبه الد حقیقی بھائی کا پڑپوتا اوپر والوں کے سامنے خود محروم نیچے علاقی بھائی کا پیڑ پونا وغیرہ حقیقی چچا علاقی چا (باپ کا علاقی بھائی) حقیقی چا کا بیٹا علاقی چچا کا بیٹا حقیقی چچا کا ہوتا علاقی چچا کا ہوتا درجہ والے اس کے سامنے محروم ہیں || || || || || || || // || || || || حقیقی چچا کا پڑپوتا علاقی چا کا پڑپوتا باپ کا حقیقی چا باپ کا علاقی چا باپ کے حقیقی چا کا بیٹا باپ کے علاقی چا کا بیٹا باپ کے حقیقی چچا کا پوتا باپ کے علاقی چا کا پوتا باپ کے حقیقی چا کا پڑپوتا باپ کے علاقی چا کا پڑپوتا درجه نمبر بلحاظ قرابت 7 V 1 له ۶ ۹ 11 الد الله الله ۱۵ ۱۶ چهارم IV میت کے باپ کی اصل

Page 156

۱۴۸ ذوی الفروض اور عصبات کی توریث کے اصول کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کے ورثاء میں پانچ کس ایسے ہیں جنہیں وراثت سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ملتا ہے وہ کسی حالت میں کسی وارث سے بھی بکلی محجوب نہیں ہوتے اور وہ یہ ہیں:.والد، والدہ، زوجہ، خاوند، اولاد ( بیٹے بیٹیاں) ان پانچ ورثاء کو ”اصلی وارث کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.ان کے علاوہ تین اور وارث ہیں جو ان مذکورہ بالا وارثوں کی عدم موجودگی میں وارث قرار پاتے ہیں اس لئے یہ تین وارث ان کے قائم مقام کہلاتے ہیں اور وہ یہ ہیں.دادا.خواہ وہ کتنے ہی اوپر درجہ کا ہو.دادی.(جد صحیحہ ) خواہ وہ کتنے ہی اوپر درجہ کی ہو.اولاد.خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کی ہو.خاوند اور بیوی کا قائمقام کوئی اور وارث نہیں ہوسکتا.= والد، ،والدہ خاوند بیوی اولاد اصلی وارث قائمقام وارث = دادا نانی بیٹے کی اولاد ان قائم مقام وارثوں کا بیان ذوی الفروض اور عصبات کے ضمن میں بالتفصیل آچکا ہے.اب مثالیں حل کر کے ان کے حق میراث اور حصوں کی مزید تشریح کی جائے گی.مثال نمبر 1: ایک میت نے صرف دو بیٹے اور ایک بیٹی وارث چھوڑے اس نے اپنی زندگی میں کل جائداد کے ۱/۱۰ حصہ کی وصیت ایک انجمن کے حق میں کی ہوئی تھی.اگر اس کی جائداد ۵۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.وصیت کا حصہ باقی = = = یہ ۹/۱۰ حصہ پہلے ذوی الفروض میں تقسیم ہوگا اور جو کچھ اس سے بیچ رہے وہ عصبات میں تقسیم ہو گا.اس مثال میں ذوی الفروض کوئی بھی نہیں.بیٹی بیٹے کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہے اس لئے یہ باقی ترکہ عصبات میں تقسیم کر دیا جائے گا.(اس طرح کہ بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ )

Page 157

یک بیٹے کا حصہ بیٹی کا حصہ = = ۱۴۹ ۹ = گویا اگر جائدا کے ۵۰ حصے کئے جائیں تو ۵ حصے انجمن کے، ۱۸ حصے ہر بیٹے کے اور حصے بیٹی کے ہوں گے.۵۰۰۰ روپے انجمن کا حصہ ۵۰۰۰ روپے ہر بیٹے کا حصہ = = ۵۰۰۰× | = ۵۰۰ روپے ۵۰۰۰ × = ۱۸۰۰ روپے مثال نمبر ۱۲: حصہ بتاؤ.۵۰۰۰ روپے بیٹی کا حصہ = ۵۰۰۰ × ۵۰ = ۹۰۰ روپے ایک میت نے دو بیویاں ، والدہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں وارث چھوڑے ہر ایک کا ذوی الفروض والدہ کا حصہ دو بیویوں کا حصہ اس لئے ہر ایک بیوی کا حصہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں عصبہ ہیں.1/4 = 1/A = 1/14 = باقی = 1 + + = 1- ۳۱۴ = جو عصبہ کا حق ہے ۲۴ لہذا یہ باقی کا ( ۱۷/۲۴ حصہ ) دو بیٹوں اور تین بیٹیوں میں تقسیم ہو گا.اس لئے ہر ایک بیٹے کا حصہ ہر ایک بیٹی کا حصہ ۳۴ = = ۱۶۸ ۲۴ ۱۷ = ۱۶۸ ㅎ ۱۷ ✗ = ۲۴ گویا اگر جائداد کے ۳۳۶ سہام کئے جائیں تو ۵۶ سہام والدہ کے ۲۱ سہام ہر بیوی کے ۶۸ سہام ہر بیٹے کے اور ۳۴ سہام ہر بیٹی کو ملیں گے.

Page 158

۱۵۰ ۲.پوتے اور پوتیاں (خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کی ہوں ) : مثال نمبر ۱۳: ایک میت نے دو پوتے اور تین پوتیاں وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ اور حیثیت بتاؤ.جب پوتا موجود ہو تو ہوتی ذوی الفروض نہیں ہوتی عصبہ ہوتی ہے.اس لئے دونوں بطور عصبہ حصہ پائیں گے اس طرح کہ پوتا پوتی کی نسبت دگنا حصہ لے گا.اس لئے اگر جائداد کے کے سہام کئے جائیں تو ہر پوتا دوسہام کا اور ہر پوتی ایک سہم کی وارث ہوگی.مثال نمبر ۱۴: ایک میت نے ایک بیٹی ، ایک پوتا، ایک پوتی اور ایک پڑپوتی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ اور حیثیت بتائیے.بیٹی کا حصہ باقی ۱/۲ بطور ذوی الفروض + = = - 1 = یه (۱/۲احصہ) پوتے اور پوتی میں بطور عصبہ ۲ اور ا کی نسبت سے تقسیم ہوگا اور پڑپوتی محروم ہو گی.اس لئے پوتے کا حصہ پوتی کا حصہ = += + x + = یعنی اگر جائداد کے ۶ سہام کئے جائیں تو ۶ سہام بیٹی کو دو پوتے کو اور ایک پوتی کو ملے گا.نوٹ : پوتی.پوتے کی موجودگی میں عصبہ قرار پائے گی.ذوی الفروض میں شمار نہیں ہوسکتی.مثال نمبر ۱۵: ایک میت نے تین پوتیاں اور دو پڑ پوتے چھوڑے ہر ایک کا حصہ مع حیثیت بتائیے.تین پوتیاں ذوی الفروض ہیں اور پڑپوتے عصبہ ہوں گے.اگر پوتیوں کے علاوہ کوئی اور ذوی الفروض ہوتا تو پھر یہ بھی پڑپوتے کی وجہ سے عصبہ بن جاتیں.موجودہ صورت میں یہ ذوی الفروض ہیں کیونکہ ان کے ذوی الفروض بنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے.اس لئے تین پوتیوں کا حصہ = ۲/۳ ہر ایک پوتی کا حصہ = ۲/۹

Page 159

۱۵۱ + = -1 = باقی یہ (۱/۳) عصبہ میں تقسیم ہوگا جو یہاں دو پڑ پوتے ہیں.اس لئے ہر پڑپوتے کا حصہ = * یعنی اگر جائداد کے ۱۸ سہام کئے جائیں تو ۴ سہام ہر پوتی کو اور تین سہام ہر پڑ پوتے کوملیں گے.مثال نمبر ۱۶ ایک میت نے ایک زوجہ، ایک بیٹی ، ایک پوتی ، ایک پڑپوتا اور ایک پڑپوتی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.زوجہ ، بیٹی اور پوتی ذوی الفروض ہیں.پڑپوتا اور پڑپوتی عصبہ ہیں.١/٨ 1/F = = 1/4 = زوجہ کا حصہ بیٹی کا حصہ پوتی کا حصہ A= ( ۲۴ باقی = 1 + + + + + =۱ - ۱۲+۲+۳ = ۲۴ یہ ۲۴/ ۵ حصہ عصبات میں دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہو گا.اس لئے پڑپوتے کا حصہ پڑپوتی کا حصہ = * = 1 × 00 = ۲۴ گویا اگر جائداد کے ۷۲ حصے کئے جائیں تو ۹ حصے زوجہ کے، ۳۶ بیٹی کے ۱۲ پوتی کے ۱۰ پڑپوتے کے اور پانچ پڑپوتی کے ہوں گے.نوٹ :.بیٹی صرف ایک ہے اس لئے ہوتی یا پوتیاں بطور ذوی الفروض کے ۱/۶ کی وارث ہوں گی.کیونکہ ان کے ذوی الفروض میں شامل ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں.اس لئے یہاں یہ پڑپوتے کے ساتھ جو اس سے ایک درجہ نیچے ہے.عصبہ نہ بنیں گی.بلکہ بیٹی کے حصے ۱/۲ میں ۱/۲ جمع کر کے ۲/۳ بنا ئیں گی.مثال نمبر۱۷: ایک میت نے دو بیٹیاں، ایک پوتی اور ایک پڑپوتا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ

Page 160

۱۵۲ اور حیثیت بتاؤ.دو بیٹیوں کے ہوتے ہوئے ہوتی ذوی الفروض نہیں.بلکہ پڑپوتے کے ساتھ مل کر عصبہ ہوگی.دو بیٹیوں کا حصہ = ۲/۳ ہر بیٹی کا حصہ باقی 1 = پڑپوتے کا حصہ = ۱۳ = یوٹی کا حصہ یعنی اگر جائداد کے 9 سہام کئے جائیں تو تین ہر بیٹی کے، ایک پوتی کا اور دو پڑپوتے کے ہوں گے.مثال نمبر ۱۸: ایک میت نے دو پوتیاں ، ۲ پڑ پوتے اور ۳ پڑپوتیاں چھوڑیں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.دو پوتیاں ذوی الفروض ہوں گی.کیونکہ ان کے ذوی الفروض ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے.دو پڑپوتے اور ۳ پڑ پوتیاں عصبہ ہوں گی.دو پوتیوں کا حصہ باقی الله ۲/۳ اس لئے ہر پوتی کا حصہ = ۱/۳ = 1 = ½ - 1 = یہ (۱/۳ حصہ ) دو پڑ پوتوں اور تین پڑ پوتیوں میں ۲ اورا کی نسبت سے تقسیم ہو گا.اس لئے ہر پڑپوتے کا حصہ = ہر پڑپوتی کا حصہ = + x =# گویا اگر جائداد کے ۲۱ سہام کئے جائیں تو ے سہام ہر پوتی کے، دوسہام ہر پڑپوتے کے اور ایک سہم ہر پڑپوتی کا ہوگا.مثال نمبر ۱۹: ایک میت نے دو بیٹیاں، ایک پڑپوتا ، دو پڑ پوتیاں اور دو پوتیاں وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.دو بیٹیوں کا حصہ = ۲/۳ (بطور ذوی الفروض )

Page 161

۱۵۳ #= -۱ = باقی یہ (۱/۳) عصبات میں (جو یہاں پوتیاں، پڑپوتیاں اور پڑ پوتا ہیں ) تقسیم ہو گا.= × = = اس لئے ہر پوتی کا حصہ ہر پڑپوتی کا حصہ پڑپوتے کا حصہ گویا اگر جائداد کے ۱۸ سہام کئے جائیں تو ہر بیٹی کو چھ ، ہر پوتی کو ایک ، ہر پڑپوتی کو ایک اور پڑپوتے کو دوسہام ملیں گے.مثال نمبر ۲۰: درجہ دوم کے عصبات، باپ ( دادا، پڑدادا وغیرہ) اگر ایک میت کے صرف والدین ہی وارث ہوں تو والدہ کو ۱/۳ حصہ ملے گا اور باقی (۲/۳ حصہ ) باپ حاصل کرے گا.مثال نمبر ۲۱: ایک میت نے ایک بیٹی اور والد وارث چھوڑے ہوں تو بیٹی ۱/۲ حصہ حاصل کرے گی اور والد بحیثیت ذوی الفروض ۱/۶ حصہ حاصل کرے گا.اور جو باقی بچے گا وہ بھی بطور + + باقی (1) - ) = += + + + # = عصبہ حاصل کرے گا.اس طرح والد کا حصہ نوٹ : مثال نمبر ۱۲۰ اور ۲۱ میں باپ کی بجائے جد صحیح کو تصور کیا جا سکتا ہے.پس دادا وغیرہ کی وہی حیثیت ہوگی اور انہیں وہی حصہ ملے گا جو باپ کو مندرجہ بالا مثالوں میں ملنا تھا.اگر وہ ( باپ ) زندہ ہوتا.

Page 162

۱۵۴ درجہ سوم کے عصبات حقیقی بھائی ، حقیقی بھائی مع بہنیں ، علاقی بھائی ، علاقی بھائی مع بہنیں مثال نمبر ۲۲: ایک میت نے زوجہ والدہ اور دو بھائی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ اور ان کی حیثیت لکھو.١/٢ (بطور ذوی الفروض ) ۱/۴ (بطور ذوی الفروض ) = = == 0 - 1 = 1+1 -1=(↓ +±) − 1 - والدہ کا حصہ زوجہ کا حصہ باقی = یہ ۷/۱۲ حصہ دونوں بھائیوں میں جو عصبہ ہیں برابر برابر تقسیم ہوگا.اس لئے ہر بھائی کا حصہ = ۲۴ = + x گویا اگر جائداد کے ۲۴ سہام کئے جائیں تو ۴ والدہ کے ، ۶ زوجہ کے اور سات ہر بھائی کے ہوں گے.مثال نمبر ۲۳: ایک متوفی نے زوجہ ، چھ بھائی اور تین بہنیں وارث چھوڑے.ہر ایک کا حصہ بتاؤ.بیوی کا حصہ باقی 1/8 ۳/۴ - ۱/۴ - ۱ = = یہ (۳/۴ حصہ ) چھ بھائیوں اور تین بہنوں میں بطور عصبہ تقسیم ہو گا.دو حصے بھائی کے اور 11/12 = 1/16 × 1/1 ۳/۴ ۱۵ 1/12 = 1/15 × 1/1r ☑ = = ایک حصہ بہن کا.اس لئے ہر بھائی کا حصہ ہر بہن کا حصہ یعنی اگر جائداد کے ہیں سہام کئے جائیں تو پانچ بیوی کے، دو ہر بھائی کے اور ایک ہر بہن کا ہوگا.مثال نمبر ۲۴: ایک میت نے دو بیٹیاں، دو حقیقی بہنیں اور چار بھتیجے وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ

Page 163

۱۵۵ اور حیثیت بتاؤ.بیٹیاں ذوی الفروض اور بہنیں عصبہ ہوں گی.بھتیجے جن کی قوت قرابت حقیقی بہنوں سے کم ہے.ان بہنوں کی وجہ سے محروم ہوں گے.= دو بیٹیوں کا حصہ ۲/۳ ہر بیٹی کا حصہ √r = دو حقیقی بہنوں کا حصہ = اس لئے ہر بہن کا حصہ مثال نمبر ۲۵ 1/4 = 1/1 - 1 ۱/۳ ۲/۳ 1/4 = ایک میت نے والدہ بیٹی ، پوتی اور حقیقی بہن وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والدہ کا حصہ بیٹی کا حصہ پوتی کا حصہ 1/4 = ۱/۲ (بطور ذوی الفروض ) = 1/4 = باقی = 1- ++ جو حقیقی بہن کو بطور عصبہ ملے گا.+= 1+1+1 −1 = ( + ایک میت نے والد، والدہ ، بیٹی، پوتی اور حقیقی ہمشیرہ وارث چھوڑے ہر ایک کا مثال نمبر ۲۶ حصہ بتاؤ.والد کا حصہ = ١/٢ ( بطور ذوی الفروض ) والدہ کا حصہ = ۱/۶ (بطور ذوی الفروض ) بیٹی کا حصہ = ۱/۲ (بطور ذوی الفروض ) پوتی کا حصہ = ۱/۶ (بطور ذوی الفروض ) باقی -۱-صفر =1- 1 =1+1+1+1=( + + + + + + + )−1 = حقیقی ہمشیرہ بیٹی اور پوتی کی موجودگی میں عصبہ مع الغیر ہوتی ہے.اس مثال میں ذوی

Page 164

۱۵۶ الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد کچھ نہیں بچتا.اس لئے حقیقی ہمشیرہ محروم رہے گی.نوٹ : حقیقی بہن کی غیر موجودگی میں علاتی بہن اس کی قائم مقا ہوتی ہے اور یہ مختلف حالات میں انہی حصوں کی حقدار ہوگی جن کی حقیقی بہن حقدار ہوتی ہے.حقیقی بہن کے ساتھ بہن عصبہ نہ ہوگی بلکہ علاتی بھائی کے ساتھ ہی عصبہ قرار پائے گی.اس لئے ان کے لئے علیحدہ مثالیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں اصولی طور پر یوں سمجھ لیجئے کہ حقیقی بھائی کا قائمقام علاقی بھائی اور حقیقی بہن کی قائم مقام علاتی بہن ہوتی ہے.مثال نمبر ۲۷: ایک میت نے ایک حقیقی بہن ، دو علاتی بہنیں ، دو بھتیجے اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والدہ کا حصہ = = حقیقی بہن کا حصہ دو علاقی بہنوں کا حصہ اس لئے ایک علاقی بہن کا حصہ /۱ (بطور ذوی الفروض ) ۱/۲ (بطور ذوی الفروض ) = = /۱ (بطور ذوی الفروض ) ۱/۱ (بطور ذوی الفروض ) باقی = 1- (+ + + + + ) = =1+1+1 −1 =( ++ +++)−1 + = ۳++++ یہ باقی حصہ عصبات میں جو یہاں دو بھتیجے ہیں برابر برابر تقسیم ہوگا.اس لئے ہر بھتیجے کا حصہ 1/15 = گویا اگر جائداد کے ۱۲ سہام کئے جائیں تو والدہ کو دوسہام، حقیقی بہن کو چھ سہام ہر علاتی بہن کو ایک سہم اور ہر بھتیجے کو ایک سہم ملے گا.مثال نمبر ۲۸: درجہ چہارم کے عصبات ایک میت نے زوجہ، والدہ اور پانچ بچے حقیقی اور دو علاقی بھائی چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والدہ کا حصہ = ۱/۳ (بطور ذوی الفروض کے ) کیونکہ میت کی اولاد اور دو بہن بھائی بھی نہیں )

Page 165

۱۵۷ ۱/۴ (بطور ذوی الفروض کے ) 2 = ( ½ + ½ ) - 1 = = زوجہ کا حصہ باقی یه (۱۲/ ۵ حصہ) نزدیکی عصبات میں تقسیم ہو گا.حقیقی چا بہ نسبت علاتی چچا کے میت نزدیک ہے اس لئے علاقی چا محروم ہوں گے لہذا پانچ حقیقی چچاؤں کا حصہ ہر ایک چچا کا حصہ ۵/۱۲ = x یعنی اگر جائداد کے بارہ سہام کئے جائیں تو ۴ والدہ کے ،۳ بیوی کے اور ایک ہر حقیقی چا کا ہوگا.مثال نمبر ۲۹: ایک میت نے صرف ایک بہن اور ایک چا زاد بھائی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ اور حیثیت بتاؤ.حقیقی بہن کا حصہ باقی = ۱/۲ (بطور ذوی الفروض کے ) = 1/5 = 1/5 - 1 جو چچا زاد بھائی کا حصہ بطور عصبہ ہوگا کیونکہ کوئی اور عصبہ موجود نہیں.مثال نمبر ۳۰ : ایک میت نے زوجہ ، بیٹی ، چچا اور حقیقی بھائی کا پوتا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.= = زوجہ کا حصہ بیٹی کا ح باقی = ا -( + ) = 1 - =F یہ (۳/۸ حصہ ) عصبات میں تقسیم ہو گا.حقیقی بھائی کا پوتا تیسرے درجہ کا عصبہ ہے جب کہ چچا چوتھے درجہ کا عصبہ ہے اس لئے چچا محروم رہے گا.لہذا بھائی کے پوتے کا حصہ = ٣/٨ گویا اگر جائداد کے ۸ سہام کئے جائیں تو ایک زوجہ کا ہم بیٹی کے اور تین بھائی کے پوتے کے ہوں گے.

Page 166

۱۵۸ مشق نمبر ۲ سوالات مع جوابات ایک میت نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی وارث چھوڑے بتائیے وہ کس کس حیثیت سے کتنا کتنا حصہ حاصل کریں گے.جواب: ہر دو بطور عصبہ، بیٹا ۲/۳ حصہ، بیٹی ۱/۳ حصہ جوار ایک میت نے تین بیٹے اور چار بیٹیاں وارث چھوڑے بتائیے وہ کس کس حیثیت سے کتنا کتنا حصہ حاصل کریں گے؟ سب بطور عصبہ ہر بیٹا ۱/۵حصہ، ہر بیٹی ۱/۱۰حصہ.ایک میت نے زوجہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی وارث چھوڑے بتائیے یہ کس کس حیثیتہ سے کتنا کتنا حصہ حاصل کریں گے.جواب : زوجہ بطور ذوی الفروض ۱/۸ حصہ، بیٹا بطور عصبہ ۱۲/ ۷ حصہ، بیٹی بطور عصبہ ۲۴ / ۷ حصہ.۴.ایک میت نے ایک پوتا اور ایک پوتی وارث چھوڑے بتائیے وہ کس کس حیثیت سے کتنا کتنا حصہ حاصل کریں گے؟ جواب: ہر دو بطور عصبہ، پوتا ۲/۳ حصہ، پوتی ۱/۳ حصہ.ایک میت نے دو بیٹیاں، ایک پوتا، ایک پڑپوتا اور ایک پڑپوتی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بمعہ اس کی حیثیت کے بتاؤ.جواب: ہر ایک بیٹی کا حصہ ۳/ ۱ بطور ذوی الفروض ، پوتے کا حصہ ۳/ ۱ بطور عصبہ ( پڑپوتا اور پڑپوتی پوتے کی وجہ سے محجوب ہوں گے ) ایک میت نے ایک پوتی اور ایک پڑپوتا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ مع اس کی حیثیت کے لکھئے نیز بتائیے کہ پوتی کن حالات میں بطور ذوی الفروض حصہ پاسکتی ہے.جواب : پوتی کا حصہ بطور ذوی الفروض ۱/۲ ، پڑپوتے کا حصہ بطور عصبہ ۱/۲ ایک میت نے ایک بیٹی ، ایک پوتی، ایک پڑپوتا اور ایک پڑپوتی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : بیٹی کا حصہ ۱/۲ ، پوتی کا حصہ ۱/۶، پڑپوتے کا حصہ ۲/۹ ، پڑپوتی کا حصہ ۱/۹

Page 167

۱۵۹ ایک میت نے ۲ پوتیاں ، ایک پڑپوتا اور ایک پڑپوتی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ اور ان کی حیثیت بتاؤ.جواب: دو پوتیاں، ذوی الفروض ہوں گی کیونکہ ان کے ذوی الفروض ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں یہ متوفی کی دو بیٹیوں کی مانند ہیں.باقی وارث عصبہ ہیں لہذا ہر پوتی کا حصہ ۱/۳ ، پڑپوتے کا حصہ ۲/۹ ، پڑپوتی کا حصہ ۱/۹ ایک میت نے دو بیٹیاں اور والد وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ علیحدہ علیحدہ بتاؤ.جواب: ہر بیٹی کا حصہ ۱/۳، والد کا حصہ بطور ذوی الفروض ١/٦ + بطور عصبہ ١/۶=١/٣ ۱۰.ایک میت نے خاوند ، ماں، ایک بھائی اور ایک بہن اپنے وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: خاوند کا حصہ = ۱/۲ ماں کا حصہ بھائی کا حصہ = ۲/۹، بہن کا حصہ = 11/4 1/9 = ایک میت نے ایک بیٹی ، ایک حقیقی بہن، اور ایک بھتیجا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : بیٹی کا حصہ ۱/۲، بہن کا حصہ ۱/۲ ( بھتیجا محروم ) ۱۲.ایک میت نے بیٹی ، پوتی اور حقیقی بہن وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : بیٹی کا حصہ ۱/۲ پوتی کا حصہ ۱/۶، بہن کا حصہ ۱/۳ ۱.ایک میت نے بیٹی ، پوتی، حقیقی بہن اور خاوند وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: بیٹی کا حصہ ۱/۲، پوتی کا حصہ ۱/۶، خاوند کا حصہ ۱/۴، حقیقی بہن کا حصہ ۱/۱۲ ۱۴.ایک میت نے ایک حقیقی بہن ، ایک علاتی بہن ، والدہ اور ایک بھتیجا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب حقیقی بہن کا حصہ ۱/۲ ، علاقی بہن کا حصہ ١/۶ ، والدہ کا حصہ ۱/۶، بھتیجے کا حصہ ۱/۶ ۱۵.ایک میت نے دو دا دیاں ، ۵ بہنیں اور ۵ چاوارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/10 ہر بہن کا حصہ 1/15 = جواب: ہر دادی کا حصہ

Page 168

ہر چچا کا حصہ ۱۶۰ 1/r.=.ایک میت نے دو زوجہ ، چھ دادی، نانی ،.الڑکیاں اور ے چا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: ہر زوجہ کا حصہ 1/174= ہر دادی نانی کا حصہ ہر لڑکی کا حصہ = ۱/۱۵ ، چچا کا حصہ 1/14= 1/17A = ۱۷.ایک میت نے ایک زوجہ ، ۸ لڑکیاں ، ۵ چچا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: زوجہ کا حصہ ،۱/۸ لڑکیوں کا حصہ ۲/۳ ، ہرلڑکی کا حصہ ۱/۱۲، ہر چچا کا حصہ ۱/۲۴ ۱۸.ایک میت نے چار بیویاں، تین دادیاں اور ۵ چچا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: ہر بیوی کا حصہ ہر چچا کا حصہ 1/14 = 2/40 = = ہر دادی کا حصہ ١/١٨ = ۱۹.ایک میت نے دو بیویاں ، والدہ اور حقیقی چچا کے دو بیٹے وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: ایک بیوی کا حصہ = ۱/۸ والدہ کا حصہ 6 حقیقی چچا کے ہر بیٹے کا حصہ = ۵/۲۴ ۲۰.ایک میت نے زوجہ، والدہ، حقیقی چچا کا پوتا، اور باپ کا حقیقی چا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : زوجہ کا حصہ ۱/۴، والدہ کا حصہ ١/٣ حقیقی چچا کے پوتے کا حصہ = ۵/۱۲، ( باپ کا حقیقی چا محروم ) ۲۱.ایک میت نے زوجہ ، والدہ ، علاتی چا، حقیقی چچا کا پوتا اور والد کا علاتی چچا وارث چھوڑے.ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : زوجہ کا حصہ علاقی چا کا حصہ 6 1/8 = ۵/۱۲ = حقیقی چہا کا ہوتا اور والد کا علاقی چچا محروم ) والدہ کا حصہ 1/r=

Page 169

171 ذوی الارحام کا بیان ذوی الارحام ارحام رحم کی جمع ہے وراثتی اصطلاح میں ذوی الارحام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن سے رشتہ داری بذریعہ رحم ہو مگر ان کا شمار ذوی الفروض اور عصبات میں نہ ہو.مثلاً نواسہ نواسی، بھانجا، بھانجی، نانا، پھوپھی اور پھر ان کی اولادیں وغیرہ.ذوی الارحام کے میراث پانے کے بارہ میں صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) اور ائمہ کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے.اکثر صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ احناف اس بات کے قائل ہیں کہ ذوی الارحام حالات کے مطابق ترکہ کے مطلقاً وارث ہو سکتے ہیں خواہ بیت المال کا انتظام موجود ہو یا نہ ہو.چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی، عبداللہ بن مسعودؓ ، معاذ بن جبل ، ابوالد روا ، ابو عبیدہ بن الجراح اس امر کے حق میں ہیں کہ جب ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر ترکہ ذوی الارحام میں تقسیم ہوتا ہے اور یہی لوگ مطلقاً ترکہ کے وارث ہوتے ہیں.یہی رائے حضرت عمر بن عبد العزیز ، قاضی حسن بصریؒ ، حضرت ابو حنیفہ اور ان کے دو لائق اور قابل شاگردان رشید امام محمد اور حضرت امام ابو یوسف کی ہے.بعض صحابہ کی رائے یہ ہے کہ اگر ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو میت کا ترکہ تمام کا تمام بیت المال میں داخل کر دیا جائے کیونکہ ذوی الارحام کسی طور پر بھی میراث کے حقدار نہیں.اس رائے کے حق میں حضرت زید بن ثابت اور ائمہ کرام میں سے حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک ہیں.ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر ذوی الارحام میراث میں حصہ پانے کے حقدار ہوتے تو ان کا ذکر بھی سورہ نساء کی آیت میراث میں کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا.نیز حدیث اَنَا وَارِتُ مَنْ لا وَارِتْ لَهُ ظاہر کرتی ہے کہ

Page 170

۱۶۲ جب کوئی بھی وارث ذوی الفروض اور عصبات میں سے موجود نہ ہو تب یہ ترکہ ذوی الا رحام میں تقسیم کیا جائے.ذوی الارحام کو میراث دلوانے والوں کی دلیل یہ ہے کہ اگر چہ قرآن کریم میں جہاں وراثت کا ذکر ہے وہاں ذوی الارحام کا ذکر نہیں.لیکن سورۃ انفال کی آخری آیت کے آخری حصہ میں ان کا ذکر موجود ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَبِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ بعض رحمی رشتہ دار بعض کی نسبت اللہ کی کتاب کی رو سے زیادہ قریبی ہوتے ہیں اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے.( تفسیر صغیر صفحه ۲۳۰) اس جگہ اولوالارحام سے ذوی الارحام ہی مراد ہیں کیونکہ ذوی الفروض اور عصبات کا ذکر آیات میراث (سورۃ نساء) میں آچکا ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ ذوی الارحام بھی درجہ اور قوت قرابت مختلف ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں.پھر اس امر کی تائید سنت رسول اور احادیث نبوی سے بھی ہوتی ہے.چنانچہ حضرت سعید بن منصورہ سے مروی ہے کہ ثابت بن وحداح رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب فوت ہوئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیس بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اس کی نسبت تم جانتے ہو؟ قیس بن عاصم نے کہا کہ یہ ہم میں غیر تھا، ہم صرف اس کے بھانجے کو پہچانتے ہیں.وہ ابولیا بہ بن منذر ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ( معنی ابن قدامه جلد ۷ صفحه ۵۸ ) میراث اس کے بھانجے کو دے دی.اسی طرح سے یہ حدیث کہ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَّا وَارِثَ لَهُ (مشکوۃ باب الفرائض) یعنی جس کا اور کوئی بھی وارث نہ ہو تو پھر اس کا وارث اس کا ماموں ہوتا ہے.ثابت کرتی ہے کہ اگر ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر میت کے ذوی الارحام اس کے ترکہ کے حق دار ہوتے ہیں.

Page 171

۱۶۳ ایک اور حدیث ہے.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْ أَنفُسِهِمْ.(صحیح بخاری کتاب الفرائض) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قوم کا بھانجا انہیں میں سے ہوتا ہے یعنی بھانجے کو میراث پہنچتی ہے.پس قرآن پاک ، سنت رسول اور احادیث نبوی سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو ذوی الارحام کو میراث پہنچتی.اور حضرت ابو حنیفہ اسی مسلک کے قائل ہیں.چنانچہ جماعت احمد یہ بھی اسی امر کی قائل ہے کہ ذوی الارحام حالات کے مطابق اپنا اپنا حصہ پاتے ہیں.باوجود یکہ جماعت کے پاس بیت المال کا خاطر خواہ انتظام موجودہ ہے.لیکن پھر بھی میت کا ترکہ اس کے ورثاء میں بمطابق شریعت تقسیم کر دیا جاتا ہے.اس مختصر سی بحث کے بعد اب ذوی الارحام کی اقسام ان کے درجہ اور قوت قرابت کے لحاظ سے بیان کی جاتی ہیں.یہ یا درکھئے کہ ذوی الارحام کو میراث اس وقت ہی پہنچتی ہے جب ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو.ہمارے فقہا کرام کے نزدیک وہ ذوی الفروض جو ذوی الارحام کی میراث میں روک ہیں یہ ہیں.باپ، دادا، اخیافی بھائی، بیٹی ، پوتی ، حقیقی بہن ، علاتی بہن ، اخیافی بہن ، والدہ ، جدہ صحیحہ یعنی نانی ، دادی.پس اگر ذوی الفروض میں سے خاوند یا بیوی زندہ ہوں تو ان کی موجودگی ذوی الارحام کی توریث میں مانع نہیں.ان کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد باقی کا ترکہ ذوی الارحام میں تقسیم کر دیا جاتا ہے.جبکہ دوسرے ذوی الفروض میں ان کے حصوں کی نسبت سے تقسیم کر دیا جاتا ہے.شوہر یا بیوی کے ہوتے ہوئے ذوی الا رحام کو کیوں حصہ مل جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ رشتہ ( زوجیت ) انسان خود قائم کرتا ہے اس لئے یہ خود قائم کردہ رشتہ رحمی رشتہ داروں کو میراث پہنچنے میں مانع نہیں ہو سکتا.یہی وجہ ہے کہ بقیہ ترکہ ان دونوں قسم کے وارثوں (خاوند اور بیوی) کی طرف رڈ نہیں ہوتا.بلکہ دوسرے موجود ذوی الفروض یا عصبات کومل جاتا ہے اور اگر اور کوئی ذوی الفروض

Page 172

۱۶۴ اور عصبات بھی نہ ہوں تو پھر ذوی الارحام کو مل جائے گا.عصبات کی طرح ذوی الارحام کے بھی چار درجے ہیں اول : متوفی کی وہ اولاد (خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کی ہو ) جو نہ ذوی الفروض میں شامل ہو نہ عصبات میں مثلاً نواسہ، نواسی ، پوتیوں کی اولا دوغیرہ.دوم: متوفی کے وہ آباؤ اجداد ( خواہ وہ کتنے ہی اوپر درجہ کے ہوں ) جو نہ ذوی الفروض میں شامل ہوں اور نہ ہی عصبات میں مثلاً نانا، باپ کا نانا یعنی دادی کا باپ، ماں کا دادا، ماں کا نانا ، ماں کی دادی وغیرہ.سوم : متوفی کے والدین کی وہ اولاد جو نہ ذوی الفروض میں شامل ہو اور نہ ہی عصبات میں مثلاً بھانجا، بھانجی بھیجی وغیرہ.چهارم : متوفی کے دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ آباؤ اجداد کی اولا د مثلاً پھوپھی، خالہ، ماموں وغیرہ.نوٹ : ذوی الارحام میں میراث تقسیم کرتے وقت متوفی کی اپنی اولاد کو اس کے آباؤ اجداد پر ، آباؤ اجداد کو اس کے والدین کی اولاد پر اور اس کے والدین کی اولا د کو اس کے دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ کی اولاد پر ترجیح دی جاتی ہے یعنی پہلے درجہ کو دوسرے درجہ پر دوسرے درجہ کو تیسرے درجہ پر ، تیسرے درجہ کو چوتھے درجہ پر فوقیت حاصل ہے.ذوی الارحام میں تقسیم ورثہ کے وقت بھی اَلا قَرُبُ ثُمَّ الأَقْرَبُ کے اصول کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اگر ذوی الارحام ایسے لوگ ہوں جو ذوی الفروض اور ذوی الارحام دونو کی اولادیں ہیں.تو ذوی الفروض کی اولادکو ذوی الارحام کی اولاد پر ترجیح دی جائے گی اسی طرح اگر عصبات اور ذوی الارحام ہر دو کی اولادیں موجود ہوں تو پھر عصبات کی اولا دکو ذوی الارحام کی اولاد پر فوقیت حاصل ہوگی.مثلاً اگر کسی میت نے اپنے پیچھے اپنی پوتی کی ایک بیٹی اور نواسی کے دو ا بیٹے چھوڑے ہیں تو اس کا ترکہ تمام کا تمام اس کی پوتی کی بیٹی کو (جو ذوی الفروض کی اولاد ہے ) مل جائے گا.اور نواسی کے دونو بیٹے ( جو ذوی الارحام کی اولاد ہیں ) محروم رہیں گے.

Page 173

۱۶۵ ذوی الارحام کا پہلا درجہ ! ذوی الارحام کے ہر درجہ کو میراث پہنچاتے وقت عام طور پر دو قاعدوں کو محوظ رکھا جاتا ہے.الف.توریت کی ترتیب بلحاظ درجہ اور قوت قرابت تقسیم ترکہ کے وقت یہ دیکھنا ہو گا کہ ذوی الارحام میں سے کون کون سے شخص یا اشخاص میراث پانے کے حقدار بنتے ہیں.اس غرض کے لئے قواعد حجب سے کام لیا جاتا ہے..ایسے ورثاء کے حصوں کا تعین ! یہ معلوم کر لینے کے بعد کہ کون کون اشخاص شرعی وارث ہیں.ان کے حصوں کا تعین کیا جائے گا.اس بارہ میں للذكر مثل حظ الانثیین کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے.جب ہم ذوی الارحام کے حصوں کے تعین کی بحث میں پڑتے ہیں تو ہمیں حضرت امام ابو حنیفہ کے دو بڑے مشہور شاگردوں امام محمد اور امام ابو یوسف کی رائے میں اختلاف نظر آتا ہے امام محمد کی رائے یہ ہے کہ موجودہ ورثاء کو حصہ دیتے وقت درمیانی مورثوں کی (جن کی وجہ سے یہ رشتہ دار وارث بنتے ہیں ) جنس اور قرابت کا لحاظ کیا جانا ضروری ہے.امام ابو یوسف کی رائے ہے کہ موجودہ وارثوں کو حصہ دیتے وقت ان کے درمیانی مورثوں کی جنس اور قرابت کا لحاظ نہیں کرنا چاہئے بلکہ موجودہ وارثوں میں للذكر مثل حظ الانثیین کے تحت تمام ترکہ تقسیم کر دیا جائے یعنی فروع (اولاد) کی جنس و قرابت کا ہی لحاظ کرنا چاہئے ان کے اصول ( مورثوں) کی جنس اور قرابت کا لحاظ مطلقاً نہیں کرنا چاہئے.ظاہر ہے کہ ان دونوں اماموں کی رائے کے مطابق حصوں کے تعین میں نمایاں فرق پڑ جاتا ہے.جبکہ دعویدار فروع ہوں.خواہ وہ درجہ اول کے ہوں (یعنی متوفی کی اولاد ہوں ) یا درجہ سوم کے (یعنی بہن بھائی کی اولاد ہوں ) یا درجہ چہارم کے ہوں (یعنی چچاؤں اور پھپھوں کی اولاد ہوں ) یہ اختلاف درجہ اوّل قسم نمبرا اور درجہ دوم میں ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ ان دونوں صورتوں میں درمیانی مورث کی جنس کے اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں

Page 174

۱۶۶ ہوتا.درجہ سوم میں یہ اختلاف زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے جبکہ موجودہ وارث کچھ حقیقی یا علاقی اور اخیافی بہن بھائیوں کی اولاد ہوں.ان تمام امور کو ہر درجہ کی مثالوں سے اچھی طرح واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی.وما توفیقی الا بالله العلی العظیم.درجہ اول کے ذوی الارحام کی ترتیب توریث بیٹی کی اولاد ( یعنی نواسے نواسیاں) پوتی کی اولاد (یعنی میت کے بیٹے کے نواسے نواسیاں (خواہ وہ کتنے بھی نیچے درجہ کے ہوں ).بیٹی کے پوتے اور پوتیاں.۴.پوتے کی بیٹی کی اولاد بیٹی کے پڑپوتے اور پڑپوتیاں اور پوتیوں کے پوتے اور پوتیاں علی ہذا القیاس نوٹ: عملاً ترکہ تقسیم کرتے وقت صرف نمبر ۲ تک کے قواعد کی ہی ضرورت پڑتی ہے.کیونکہ نمبر ۱ اور ۲ کے افراد میں سے عموماً متوفی کا کوئی نہ کوئی ایسا رشتہ دار مل ہی جاتا ہے جو شرعاً وارث ہو.تقسیم کے وقت درجہ اول کے نمبر ا ) کے ورثاء ) کو اسی درجہ کے نمبر ۲ (کے ورثاء) پر ترجیح دی جائے گی.نمبر ۲ کو نمبر ۳ پر نمبر ۳ کو نمبر ۴ پر.یعنی اقسام بالا میں سے کسی قسم (نمبر ) کے تمام ارکان کا موجود نہ ہونے پر ہی اگلی قسم (نمبر) کے ارکان وراثت کے حقدار ہوسکیں گے.اگر درمیانی مورث مختلف الجنس نہیں تو جائداد عورتوں اور مردوں میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر مرد کو عورت سے دگنا حصہ ملے.درجہ اول نمبر ۱ اور ۲ کی تفصیل درج ذیل ہے.درجہ اول نمبر ا.میت کے نواسے نواسیاں: یہ ذوی الارحام میں سب سے مقدم وارث ہیں.ان کی موجودگی میں کوئی اور ذوی الارحام وارث نہیں ہو سکتے.اگر صرف ایک نواسہ اور ایک نواسی ہے تو پھر کل جائداد کے وہی مالک ہوں گے.بشرطیکہ خاوند یا کوئی بیوی موجود نہ ہو.ورنہ خاوند یا بیوی یا بیویوں

Page 175

۱۶۷ کا حصہ نکال کر باقی جائداد نواسہ نواسی کے درمیان تقسیم ہوگی.اگر صرف نواسے ہی نواسے ہیں یا نواسیاں ہی نواسیاں ہیں تو جائداد آپس میں برابر تقسیم کریں گے.اگر نواسے نواسیاں دونوں ہیں تو پھر مرد کو دہرا اور عورت کو اکہرا حصہ ملے گا.یہ تمام نو ا سے یا نواسیاں یا نواسے نواسیاں وارث ہوں گے خواہ یہ میت کی ایک ہی مرحوم بیٹی کی اولاد ہوں یا ایک سے زیادہ مرحوم بیٹیوں کی اولاد ہوں ورثہ میں یہ سب حق دار ہوں گے.مثال الف.اگر ایک میت ایک نواسہ اور ایک نواسی چھوڑے تو ۲/۳ حصہ جائداد کا نواسے کو اور ۱/۳ نواسی کو ملتا ہے.ایک میت نے اپنی مرحومہ دختر رشیدہ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ، دختر سعیدہ کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں اور دختر مجیدہ کی ایک بیٹی وارث چھوڑے.ہر ایک کا حصہ بتاؤ.میت کے کل ۳ نواسے اور ۴ نواسیاں وارث ہیں.اس لئے کل جائداد کے دس سہام ہوں گے جن میں ہر نواسے کو دو سہام اور ہر نواسی کو ایک سہم ملے گا یہ طریق تقسیم بالر اس کہلاتا ہے.اس کے برخلاف بالنسب تقسیم یہ ہے کہ تینوں دختروں کو زندہ تصور کر کے جائدادان میں برابر تقسیم کر دی جائے پھر ان کے اپنے اپنے حصے کو ان کی اپنی اولادوں میں للذكر مثل حظ الانثیین کے اصول کے تحت بانٹ دیا جائے.درجه اول نمبر ۲: اگر نواسے نواسی میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر میت کی پوتی کی اولاد میں جائداد تقسیم ہوگی.اس میں بھی قریب تر بعید تر کو محروم کر دے گا اور اگر ایک سے زائد مرد یا عورتیں وارث ہوں تو جائداد اس طرح تقسیم ہوگی کہ مرد کو دو حصے اور عورت کو ایک حصہ ملے گا.اگر نمبر ۲ میں سے بھی کوئی وارث موجود نہ ہو تو نمبر ۳ یعنی بیٹی کے پوتے پوتیاں وارث ہوں گے.اگر نمبر ۳ میں سے بھی کوئی موجود نہ ہو تو نمبر ۴ کے ارکان میں سے سب سے قریبی ارکان وارث ہوں گے.جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر درمیانی مورث ایک ہی جنس کے ہیں تو

Page 176

۱۶۸ دعویداروں کے حصہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا.لیکن اگر مختلف الجنس ہیں تو پھر نمایاں فرق پڑ جاتا ہے.اب مختلف الجنس مورتوں سے پہلے ایک ہی جنس کے درمیانی مورثوں کی اولاد کی تو ریت کا ذکر کیا جاتا ہے.فرض کیجئے کہ ایک میت نے تین بیٹے دختر کی دختر زاہدہ کے اور دو بیٹیاں دختر کی دختر عابدہ کے چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.مورث مورث دختر (زاہدہ) بیٹا بیٹا دختر ( عابده) اس مثال میں درمیانی مورث ایک ہی جنس کے ہیں.یعنی (عورت) اس لئے تقسیم بالراس ہو گی.یعنی ذکور کو اناث سے دُگنا ملے.نواسی زاہدہ کے ۳ لڑکے اور نواسی عابدہ کی دولڑ کیاں ہیں.اس لئے جائداد کل آٹھ سہام ہوں گے.جن میں سے ہر بیٹے کو دوسہام اور ہر بیٹی کو ایک سہم ملے گا.نوٹ نمبر 1: امام محمد اور امام ابو یوسف ہر دو کی رائے کے مطابق یہی تقسیم ہوگی.کیونکہ یہاں مورتوں کی جنس میں اختلاف نہیں.نوٹ نمبر ۲: اس عنوان کے تحت ہر جگہ تقسیم ترکہ کے لئے جو طریق اختیار کیا گیا ہے.وہ لازماً حضرت امام محمد کی رائے کے مطابق ہے.کیونکہ زیادہ تر ان کی رائے پر ہی عمل کیا جاتا ہے.حضرت ابو یوسف تو مورثوں میں اختلاف جنس کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتے لہذا جہاں جہاں مؤخر الذکر امام کی رائے پر عمل کرنے سے ورثا کے حصوں کی مقدار میں کچھ فرق پڑتا ہو.اسے نوٹ کی شکل میں ظاہر کر دیا گیا ہے تا جن علاقوں میں مؤخر الذکر امام کی رائے پر عمل کرنے کا دستور ہو.وہ ان نوٹوں سے فائدہ اٹھا سکیں.

Page 177

۱۶۹ درمیانی مورث مختلف الجنس ہونے کی صورت میں ترکہ کی تقسیم ایک صورت تو یہ ہے کہ صرف دو دعویدار ہوں ایک مورثوں کے ایک سلسلہ سے دعوی کرتا ہو اور دوسرا دوسرے سلسلے سے.ایسی صورت میں جہاں درمیانی مورثوں کی جنس مختلف ہو وہاں ( ٹھہر کر ) مرد مورث کو عورت مورث کی نسبت دُگنا حصہ دیا جائے گا.مرد مورث کو جو حصہ دیا جائے وہ اس دعویدار کو ملے گا جو اس مرد کے ذریعہ دعویٰ کرتا ہے اور جو حصہ عورت مورث کو دیا گیا وہ اس دعوی دار کو ملے گا جو ( عورت ) کے ذریعہ دعویٰ کرتا ہے اس صورت میں خود دعویداروں کی جنس یعنی تذکیر و ثانیت کی تمیز نہیں کی جاتی.دوسری صورت یہ ہے کہ دو سے زائد دعویدار موجود ہوں اور ہر دعویدار مختلف مورثوں کے سلسلے سے دعویٰ کرتا ہو یا بعض دعویدار ایک سلسلہ سے دعوی کرتے ہوں اور بعض کسی اور سلسلہ سے.تو اس صورت میں بھی یہی قاعدہ ہے کہ جس پشت میں بھی درمیانی مورثوں کو جنس میں اختلاف واقع ہو وہاں مورث مرد کو مورث عورت سے دوگنا دے دیا جائے اور پھر ان کے حصے ان کی اپنی اپنی اولا دوں میں تقسیم کئے جائیں مگر اس حالت میں ہر مورث کا انفرادی حصہ اس کی اولا د کو اس طرح نہیں ملتا جس طرح پہلی صورت میں مل جاتا ہے.بلکہ تمام مورث مردوں کا مجموعی حصہ اس اولاد میں جو ان کے ذریعے سے دعویدار بنتی ہیں اور تمام مورث عورتوں کا مجموعی حصہ اس اولاد میں جو ان کے ذریعے سے دعویدار بنتی ہے تقسیم ہوتا ہے اُسی قاعدہ کے ماتحت کہ ایک ہی طبقہ کے وارثوں میں مرد کو عورت سے دگنا حصہ دیا جائے.اب ان ہر دو صورتوں کو بذریعہ امثال بیان کیا جاتا ہے.مثال نمبر 1: ایک میت اپنی بیٹی کے بیٹے کی بیٹی اور بیٹی کی بیٹی کا بیٹا چھوڑ کر فوت ہو تو ہر وارث کا حصہ بتاؤ.

Page 178

پہلی پشت ۱۷۰ دوسری پشت بیٹا ۲/۳ تیسری پشت / بیٹی اس مثال میں درمیانی مورثوں کی جنس میں اختلاف دوسری پشت میں واقع ہوتا ہے.اس لئے دوسری پشت میں ہی مرد کو عورت سے دگنا دے دیجئے.یعنی بیٹی کے بیٹے کو اور بیٹی کی بیٹی کو ۱/۳ حصہ جائداد کا دے دیا جائے.پھر بیٹی کے بیٹے کا ۲/۳ اس کی بیٹی کو ، اور بیٹی کی بیٹی کا ۱/۳ اس کے بیٹے کومل جاتا ہے.نتیجتاً = / بیٹی کی بیٹی کے بیٹے کا حصہ = ۱/۳ بیٹی کے بیٹے کی بیٹی کا حصہ نوٹ : امام ابو یوسف کی رائے کے مطابق جائداد فروع (اولاد) میں ان کی اپنی جنسیت کے مطابق تقسیم ہوتی ہے اس لئے ان کے نزدیک بیٹی کے بیٹے کی بیٹی کا حصہ بیٹی کے بیٹی کے بیٹے کا حصہ = ۲/۳ = اور مثال نمبر ۲: ایک میت نے ایک بیٹی کے بیٹے کی بیٹی دوسری بیٹی کی بیٹی کا بیٹا اور تیسری بیٹی کی بیٹی کی بیٹی چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 179

پہلی پشت دوسری پشت تیسری پشت ۲/۴ ا بیٹی ۱/۴ بیٹی بیٹا ج اس مثال میں بھی دوسری پشت میں ہی مورثوں کی جنس میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے اس لئے یہیں مرد کو عورت سے دگنا حصہ دے دیتے ہیں.اس لئے بیٹی کے بیٹے کا حصہ = ۲/۴ = ۱/۲ دوسری بیٹی کی بیٹی کا حصہ تیسری بیٹی کی بیٹی کا حصہ ۱۴ مورث عورتوں کا مجموعی حصہ = ۱/۲ = ۱/۴ = اب بیٹی کا بیٹا اکیلا ہے اس لئے اس کا حصہ (۱/۲) اس کی بیٹی حاصل کرے گی.دو مورث عورتیں یعنی بیٹیوں کی بیٹیاں ہیں جو ایک ہی جنس کی ہیں اور ان کے حصوں کے مجموعہ ۱/۴ + ۱/۴ - ۱/۲ ہے جو اُن کی اولاد میں یعنی بیٹی کی بیٹی کے بیٹے اور بیٹی کی بیٹی کی بیٹی کے در ميان للذكر مثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم ہو گا یعنی یہ نصف (۱/۲ حصہ ) ان کے درمیان دو اور ایک کی تقسیم سے تقسیم ہو گا.اس لئے بیٹی کی بیٹی کے بیٹے کا حصہ بیٹی کی بیٹی کی بیٹی کا حصہ = += + x + = اور ہم پہلے معلوم کر چکے ہیں کہ بیٹی کے بیٹے کی بیٹی کا حصہ = ہے یعنی جائداد کے کل چھ سہام ہوں گے اور نقشہ کے مطابق الف کو ۳ سہام ، ب کو ۲ سہام اور ج کو ایک سہم ملے گا.نوٹ : امام ابو یوسف کی رائے کے مطابق یہ حصے علی الترتیب ۱/۲،۱/۴ اور ۱/۴ ہوں گے.

Page 180

۱۷۲ مثال نمبر ۳ : ایک میت نے ایک بیٹی کی بیٹی کا بیٹا، دوسری بیٹی کے بیٹے کا بیٹا اور تیسری بیٹی کے بیٹے کی بیٹی وارث چھوڑے ہیں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.پہلی پشت دوسری پشت بیٹی ۱/۵ ۲/۵ بیٹا ۲/۵ بیٹا تیسری پشت ج اس مثال میں بھی دوسری پشت میں ہی درمیانی مورث کی جنس میں اختلاف واقع ہو جاتا ہے مثال نمبر ۲ میں دوسری پشت میں دولڑکیاں اور ایک لڑکا تھا یہاں دولڑکے اور ایک لڑکی ہے بہر حال دوسری پشت میں ہی مردوں اور عورتوں کو ان کے شرعی حصے دے دیں.اس لئے پہلی بیٹی کی بیٹی کا حصہ دوسری بیٹی کے بیٹے کا حصہ تیسری بیٹی کے بیٹے کا حصہ 1/ = ۱/۵ ۲/۵ = 1/ = لہذا مورث مردوں کا مجموعی حصہ = = یہ مجموعی حصہ (۴/۵) بیٹیوں کے بیٹوں کی اولاد میں دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوگا.ان کی اولاد میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے.اس لئے بیٹی کے بیٹے کے بیٹے کا حصہ بیٹی کے بیٹے کی بیٹی کا حصہ ہر ایک کا حصہ یہ ہوگا.بیٹی کے بیٹے کی بیٹی کا حصہ = = ०/२०/२ X ۴/۱۵ 2/2 -|2 || ۱۵ ۱۵

Page 181

۲.بیٹی کے بیٹے کے بیٹے کا حصہ : بیٹی کی بیٹی کے بیٹے کا حصہ ۱۷۳ 1/10 5/10 = 1/0 = = نوٹ : امام ابو یوسف کی رائے کے مطابق یہ حصے علی الترتیب ۲/۵، ۲/۵ اور ۱/۵ ہوں گے.ان صورتوں کو مورثوں کی تعداد کے لحاظ سے بڑھایا جا سکتا ہے اور طریقہ عمل وہی ہو گا جو کہ دو کے لئے اور تین کے لئے ہے.ایک مثال اور لے لیجئے جس میں چار مورث ہوں.اس کے بعد بھی اگر ضرورت ہو تو پھر پانچ ، چھ یا اس سے بھی زیادہ مورثوں کی اولادوں میں یہی طریق عمل اختیار کیا جائے گا.مثال نمبر ۴ : ایک میت نے ایک بیٹی کے بیٹے کا بیٹا ، دوسری بیٹی کے بیٹے کی بیٹی ، تیسری بیٹی کی بیٹی کا بیٹا اور چوتھی بیٹی کی بیٹی کی بیٹی وارث چھوڑے ہیں.ہر ایک کا حصہ بتاؤ.پہلی پشت دوسری پشت بیٹا ۲/۶ ٢/٦ بیٹا تیسری پشت بیٹا 1/4 بیٹی / بیٹی بیٹا ج یہاں بھی پہلی مثالوں کی طرح دوسری پشت میں ہی درمیانی مورثوں کی جنس میں اختلاف واقع ہو جاتا ہے البتہ یہاں دو مذکر اور دو مونث مورث ہیں انہیں یہیں ان کے شرعی حصہ دے دیں.پس پہلی بیٹی کے بیٹے کا حصہ دوسری بیٹی کے بیٹے کا حصہ ٢/٠ = ٢/٦ = = دونوں مذکر مورثوں کا مجموعی حصہ == + + +

Page 182

تیسری بیٹی کی بیٹی کا حصہ تیسری بیٹی کی بیٹی کا حصہ ۱۷۴ 1/4 = 1/4 = دونوں مونث مورثوں کا مجموعی حصہ = + = + + + ۶ اب دونوں مرد مورثوں کا مجموعی حصہ (۲/۳) ان کی اولادوں میں اور دونوں عورت مورثوں کا مجموعی حصہ (۱/۳) ان کی اولا دوں میں للذكر مثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم ہو گا.اس لئے الف.بیٹی کے بیٹے کے بیٹے کا حصہ ب.بیٹی کے بیٹے کی بیٹی کا حصہ ج.بیٹی کی بیٹی کے بیٹے کا حصہ و.بیٹی کی بیٹی کی بیٹی کا حصہ = 2222 - 2 1 × 1 = = II = ,20 نوٹ : امام ابو یوسف کی رائے کے مطابق یہ حصے علی الترتیب ،٢/٦، ١/٦، ٢/٦ اور ١/٦ ہوں گے.اس قسم کی اور مثالیں بھی ہو سکتی ہیں ایک مثال اور لے لیجئے جب کہ دوسری پشت میں تین عورتیں اور ایک مرد ہو.نقشہ حسب ذیل ہوگا.پہلی پشت بیٹی دوسری پشت بیٹا ۲/۵ ۱/۵ بیٹی ۵ ابیٹی تیسری پشت بیٹا ج دوسری پشت میں مرد کو اور عورتوں کو ان کا حصہ دے دیں.پہلی بیٹی کے بیٹے کا حصہ ۲/۵ =

Page 183

۱۷۵ دوسری بیٹی کی بیٹی کا حصہ = 1/0 1/0 تیسری بیٹی کی بیٹی کا حصہ = ۱/۵ متینوں مورث عورتوں کا مجموعی حصہ = چوتھی بیٹی کی بیٹی کا حصہ 5 = + + + + ۱/۵ 1/0 = اب بیٹی کا بیٹا چونکہ اکیلا ہے اس لئے اس کا ۲/۵ حصہ اس کی اولا د یعنی بیٹے کو مل جائے گا باقی تین بیٹیوں کا مجموعی حصہ (۳/۵) ان کی اولادوں میں للذكر مثل حظ الانثیین کے مطابق تقسیم ہو گا اس لئے الف.پہلی بیٹی کے بیٹے کے بیٹے کا حصہ = 5 II شاء ب.دوسری بیٹی کی بیٹی کی بیٹی کا حصہ = 20 LG LG LG = + x || ج.تیسری بیٹی کی بیٹی کے بیٹے کا حصہ = =x چوتھی بیٹی کی بیٹی کی بیٹی کا حصہ = = x = = نوٹ : امام ابو یوسف کی رائے کے مطابق یہ حصے بالترتیب ،٢/٦، ١/٦ ١/٦، ٢/٦ اور ہوں گے یعنی پچھلی مثال والے ہی ہوں گے.کیونکہ امام ابو یوسف درمیانی مورثوں کی جنس کے اختلاف کو ملحوظ نہیں رکھتے.بعض مزید صورتیں بھی ممکن ہیں مثلاً کسی درمیانی مورث کے ذریعہ سے بعض دفعہ دو یا دو سے زائد دعویدار ہو سکتے ہیں ایسی حالت میں مندرجہ بالا قواعد کے ساتھ یہ مزید قاعدہ زیر عمل آئے گا کہ ہر ایسے مورث کے لئے اگر وہ مرد ہو، اتنے ہی مرد فرض کر لیں جتنے اس مورث کے ذریعے سے دعویدار بنتے ہیں اور اگر وہ مورث عورت ہے تو اتنی ہی عورتیں فرض کر لیں جتنے اس کے ذریعے سے دعویدار بنتے ہیں.ایسا فرض کرنے میں دعویداروں کی جنس کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جا تا.مثال نمبر 1: ایک میت نے اپنی ایک بیٹی کے دو پوتے اور دوسری بیٹی کے دو نو ا سے اور ایک نواسی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 184

بیٹا یہاں درمیانی مورث دوسری پشت میں مختلف الجنس ہو جاتے ہیں جس میں ایک مرد ہے اور ایک عورت.بیٹی کے بیٹے کے ذریعے اس کے دو بیٹے دعویدار ہیں اس لئے بیٹی کا بیٹا دو مرد تصور کیا جائے گا دوسری بیٹی کی بیٹی کے ذریعے اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی یعنی کل تین دعویدار ہیں اس لئے وہ ( بیٹی کی بیٹی ) تین عورتیں تصور کی جائیں گی.اس لحاظ سے دوسری پشت میں تقسیم یوں ہوگی.بیٹی کے بیٹے کا حصہ بیٹی کی بیٹی کا حصہ M/L = بیٹی کے بیٹے کا حصہ (۴/۷) اس کے دو بیٹوں میں برابر تقسیم ہوگا.اس لئے ہر بیٹے کا حصہ ۱۰/۳۵ - ۲/۷ - ۴/۱۴ = = بیٹی کی بیٹی کا حصہ (۳/۷) اس کی اولا د دو بیٹے اور ایک بیٹی میں تقسیم ہوگا.اس لئے بیٹی کی بیٹی کے ہر ایک بیٹے کا حصہ بیٹی کی بیٹی کی بیٹی کا حصہ = = = نوٹ : امام ابو یوسف کے اصول کے مطابق حصے مندرجہ ذیل ہوں گے.ہر ایک بیٹی کے بیٹے کے بیٹے کا حصہ ہر ایک بیٹی کی بیٹی کے بیٹے کا حصہ ہر ایک بیٹی کی بیٹی کا حصہ ٢/٩ ٢/٩ = 1/9 = =

Page 185

122 نوٹ ب: جب مورث چوتھی یا اس کے بعد کی کسی پشت کی اولا د چھوڑ جاتا ہے، تو جو عمل اوپر کی مثال میں کیا گیا ہے وہ ہر ایسے موقع پر کیا جائے گا جہاں جنسوں کو ایک جگہ جمع کر لینے کی ضرورت پڑے.ایسی صورتیں عملاً بہت ہی کم پیش آتی ہیں اس لئے اس قسم کی اوپر والی ایک ہی مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے جس کی مدد سے اسی قسم کی باقی تمام صورتیں بھی حل کی جاسکتی ہیں.ذوی الارحام کا دوسرا درجہ اگر ذوی الفروض اور عصبہ اور ذوی الارحام درجہ اول میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر تمام جائداد ذوی الارحام درجہ دوم کے ارکان میں بلحاظ قوت قرابت تقسیم ہوتی ہے اس درجہ کے ارکان میں وراثت کی تقسیم کے قواعد حسب ذیل ہیں.قریب تر بعید تر کو محجوب کرتا ہے.(الا قرب ثم الا قرب) ނ ایک ہی درجہ کا دعویداروں میں سے.ان دعویداروں کو جن کا تعلق متوفی بذریعہ ذوی الفروض ہے ان دعویداروں پر جن کا تعلق ذوی الارحام کے ذریعے سے ہے فوقیت حاصل ہے.اگر دعویدار میں کچھ دعویدار پدری سلسلے کے ہیں اور کچھ مادری سلسلہ کے تو پدری سلسلہ والوں کو جائداد کا ۲/۳ اور مادری سلسلہ والوں کو ۱/۳ دیا جاتا ہے اور اگر تمام دعویدار ایک ہی سلسلہ کے ہیں تو پھر تمام جائداد کے وارث وہی ہیں اور جائدادان میں للذكر مثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم ہوگی.امام ابو یوسف کا اصول تین پشتوں تک درمیانی مورثوں کے مختلف الجنس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اس لئے تین پشتوں تک دونوں اماموں کا ایک ہی مسلک ہے چوتھی پشت میں اختلاف ممکن ہے جس کا اثر پانچویں پشت کے ارکان پر پڑ سکتا ہے، لیکن عملاً اتنی دور تک وراثت کا سلسلہ شاذ ہی چلتا ہے اس لئے ان کی مثالیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں.

Page 186

12A درجہ دوم کے ارکان میں ترتیب تو ریث ! الف.ماں کا باپ یعنی نانا دادی کا باپ اور نانی کا باپ یعنی باپ کا نانا اور ماں کا نانا ج.نانا کا باپ، نانا کی ماں اس کے بعد کے یعنی چوتھی پشت کے اجداد فاسد ہیں جو عموماً موجود بھی نہیں ہوتے اس لئے ان کے ذکر کو چھوڑ دیا گیا ہے.مثال نمبر 1: ایک میت نے اپنے وارث ایک زوجہ اور ایک نا نا چھوڑے تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/8 ۳/۴ - ۱/۴ - ۱ = = = زوجہ کا حصہ نانا کا حصہ مثال نمبر ۲: ایک عورت نے اپنی وفات پر مندرجہ ذیل ورثاء چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.خاوند، دادی کے والد اور نانی کے والد.1/ = خاوند کا حصہ باقی = 1/5 = 1/5 - 1 ۱/۲ ۱/۲ یہ باقی کا (۱/۲) ذوی الارحام میں اس طرح تقسیم ہو گا کہ پدری سلسلہ والوں کو مادری سلسلہ والوں سے دُگنا ملے.اس لئے دادی کے والد کا حصہ نانی کے والد کا حصہ 사자 یعنی جائداد کے کل چھ سہام کئے جائیں تو ۳ سہام خاوند کے دو سهام دادی کے والد کے اور ایک سہم نانی کے والد کا ہو گا.مثال نمبر ۳ : ایک میت نے نانا کا والد اور نانا کی والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 187

129 متوفی سے ان دونوں (وارثوں) کا تعلق مادری سے اور درمیانی اجداد بھی ہم جنس ہیں اس لئے نانا کے والد کو بوجہ مرد ہونے کے جائداد کا ۲/۳ حصہ اور نانا کی والدہ کو بوجہ عورت ہونے کے۱/۳حصہ ملے گا.انہی قواعد کی مدد سے ذوی الارحام درجہ دوم کے باقی ارکان کی میراث بھی معلوم کی جاسکتی ہے.ذوی الارحام کا تیسرا درجہ اگر درجہ اول اور دوم کے ذوی الارحام میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر ترکہ تیسرے درجہ کے ذوی الارحام میں تقسیم ہوتا ہے یہ درجہ اُن بھائیوں اور بہنوں کی اولا دوں مشتمل ہے جو کہ نہ ذوی الفروض ہوں اور نہ ہی عصبہ.اس درجہ کے ارکان کے درمیان میراث کی تقسیم کے قواعد یہ ہیں.الف.قریب تر بعید تر کو محروم کرتا ہے.(الا قرب ثم الاقرب ) ایک ہی درجہ کے دعویدار رشتہ داروں میں سے، عصبات کی اولاد کو ذوی الارحام کی اولاد پر فوقیت حاصل ہے یعنی حقیقی بھائی کے بیٹے ( بھتیجے ) کی بیٹی جو عصبہ کی اولاد ہے حقیقی بہن کی بیٹی ( بھانجی ) کے بیٹے کو جو ذی رحم کی اولاد ہے محروم کر دیتی ہے.ج اخیافی بھائیوں اور بہنوں کی اولا د حقیقی اور علاقی بھائی بہنوں کی اولاد سے محجوب نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے ”اصل“ کے لحاظ سے حصہ پاتے ہیں.یعنی اگر اخیافی بہن یا بھائیوں کے توسط سے دعویدار ایک سے زائد ہیں تو ۱/۳ حاصل کریں گے اگر صرف ایک ہی دعویدار ہے تو ۱/۶ حاصل کرے گا.تیسرے درجہ کے ارکان کی ترتیب توریت ! حقیقی بھائیوں کی بیٹیاں (حقیقی بھیجا عصبہ ہے) حقیقی بہنوں کی اولاد اخیافی بہن بھائیوں کی اولاد

Page 188

۱۸۰ علاقی بھائی کی بیٹیاں ( علاتی بھتیجہ بھی عصبہ ہے ) علاقی بہنوں کی اولاد حقیقی بھیجے کی بیٹیاں یعنی اولا د عصبات علاقی بھتیجے کی بیٹیاں یعنی اولا د عصبات اخیافی بہن بھائیوں کے پوتے پوتیاں اور علاتی بہن بھائیوں کے پوتے پوتیاں حقیقی ، علاتی اور اخیافی بھتیجوں ، بھتیجیوں، بھانجوں اور بھانجیوں کے پوتے پوتیاں جو عصبہ نہ ہوں، اسی طرح سے یہ سلسلہ مزید نیچے تک لے جایا جا سکتا ہے چونکہ عملاً اس کی ضرورت شاذ ہی پڑتی ہے اس لئے اس سلسلہ کو یہیں تک رہنے دیتے ہیں.یہ یاد رکھئے کہ جب پہلے زمرہ کا کوئی رکن بھی موجود نہ ہو تو پھر کسی دوسرے زمرے کے ارکان کو وراثت پہنچے گی.ذوی الارحام درجہ سوم تم اول امام ابو یوسف کا اصول امام موصوف کے نزدیک حقیقی بھائیوں اور بہنوں کی اولاد کے سامنے علاقی ، بھائی ، بہنوں کی اولا دمحروم ہوتی ہے اور علاقی بھائی بہنوں کی اولاد کے سامنے اخیافی بھائی بہنوں کی اولا دمحروم ہوتی ہے.اس اختلاف کی وجہ وہی ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے کہ امام موصوف دعویداروں کی نسل یعنی ” فرع“ کا خیال رکھتے ہیں جب کہ امام محمد اصول کا جس کے نتیجہ میں امام ابو یوسف کی ترتیب تو ریث امام محمد کی ترتیب تو ریث سے مختلف ہو جاتی ہے.یہ معلوم کرنے کے بعد کہ ہر قسم کے بہن بھائیوں کی اولاد میں سے کون کون سے لوگ وارث قرار پاتے ہیں ان میں جائداد تقسیم کرنے کے ضمنی قواعد یہ ہیں.قاعدہ نمبرا: جائدادا بتداء اصول میں تقسیم کر دو.یعنی بھائیوں اور بہنوں میں ( یہ تصور کرتے ہوئے کہ وہ زندہ ہیں) اور ہر بھائی کو جس کی دو یا دو سے زائد اولا دیں، دعویدار ہوں ، دعویداروں کی تعداد کے برابر بھائی فرض کر لو، اور اسی ہر بہن کو جس کی دو یا دو سے زائد

Page 189

۱۸۱ اولا دیں دعویدار ہوں، دعویداروں کی تعداد کے برابر بہنیں فرض کر لو.اس درجہ میں حقیقی ، علاقی اور اخیافی بھائی بہن سب اصول ہیں.اخیافی بہن بھائی بطور ذوی الفروض کے حصہ پاتے ہیں.اگر ایک ہے تو اس کا مفروضہ حصہ ۱/۶ اور اگر زائد ہیں تو ۱/۳ ہوگا.حقیقی اور علاقی بھائیوں کو ہمیشہ بطور عصبہ حصہ ملتا ہے.حقیقی بھائی کی غیر موجودگی میں حقیقی بہنیں بھی ذوی الفروض بن جاتی ہیں.اس لئے اگر ایک ہے تو اسے ۱/۲ حصہ اور اگر دو یا دو سے زائد ہیں تو انہیں ۲/۳ حصہ ملتا ہے اور اگر بہن بھائی دونوں موجود ہیں تو پھر حقیقی بہن حقیقی بھائی کے ساتھ عصبہ بالغیر ہو کر حصہ پاتی ہیں.یہی حالت علاتی بہنوں کی ہے اگر دعویداران وراثت کے اصول میں ایک اخیافی اور ایک یا زیادہ حقیقی بھائی ہوں تو اخیافی بھائی کو ١/٦ حصہ بطور ذوی الفروض اور حقیقی بھائی یا بھائیوں کو ۵/۶ حصہ بطور عصبہ ملے گا، لیکن اگر اخیافی بھائی کی اولاد میں سے دو یا دو سے زیادہ دعویدار ہوں تو اخیافی بھائی کا مفروضہ حصہ ۱/۳ ہو جائے گا.(جو دو یا دو سے زائد ا خیافی بہن بھائیوں کا حصہ ہے) اور حقیقی بھائی یا بھائیوں کا مفروضہ حصہ (۱ - + ) = رہ جائے گا.اسی طرح اگر دعویداروں میں اخیافی بہن کی پانچ اولادیں ہیں، اور حقیقی بہن کی چھ اولادیں ہیں تو اخیافی بہن کا حصہ ۱/۳ ہو گا جو دو یا دو سے زیادہ اخیافی بہنوں کا حصہ ہے اور حقیقی بہن کا حصہ ۲/۳ ہوگا جو دو یا دو سے زائد حقیقی بہنوں کا حصہ ہے اگر دعویداروں کے اصول میں حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں ہوں تو وہ بطور عصبات حصہ پاتے ہیں.اس طرح کہ ہر بھائی کو دو حصے اور ہر بہن کو ایک حصہ ملتا ہے.اب اگر ایک ہی حقیقی بھائی اور ایک ہی حقیقی بہن کی اولادیں حصہ دار ہوں اور حقیقی بھائی کی دو بیٹیاں ہوں اور حقیقی بہن کی تین اولادیں (بیٹے یا بیٹیاں) ہوں تو حقیقی بھائی دو مردوں (یعنی چار عورتوں) کے برابر اور حقیقی بہن تین عورتوں کے برابر سمجھی جائے گی.اس طرح جائداد کے کل سات حصے ہوں گے جس میں حقیقی بھائی کی بیٹیوں کا حصہ ۴۷ اور حقیقی بہن کی اولاد کا حصہ ۳۷ ہوگا.قاعدہ نمبر ۲:.اصول کے حصے معلوم کرنے کے یہ حصے ان کی اولادوں میں حسب ذیل طریق سے تقسیم کئے جاتے ہیں.

Page 190

۱۸۲ الف حقیقی بھائیوں کی سب بیٹیاں اپنے ”اصل“ کے مجموعی حصہ میں برابر کی شریک ہوں گی اسی طرح علاقی بھائیوں کی تمام بیٹیاں اپنے اصل کے مجموعی حصہ میں برابر کی حصہ دار ہوں گی.حقیقی بہنوں کا مجموعی حصہ ان سب کی اولاد میں اور علاقی بہنوں کا مجموعی حصہ ان کی تمام اولاد میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر مرد کو دو حصے اور ہر عورت کو ایک حصہ ملے.ج.اخیافی بہن بھائیوں کی اولاد میں اپنے ”اصل‘ کے حصہ میں برابر کی شریک ہوتی ہیں.خواہ مرد ہوں یا عورتیں.امام ابو یوسف موصوف کی رائے میں یہاں بھی دعویداروں کی تذکیر و تانیث کے لحاظ سے تقسیم ہونی چاہئے یعنی ہر مرد کو عورت سے دُگنا ملے.اب ان تمام امور کو بذریعہ امثال واضح کیا جاتا ہے.مثال نمبر 1: ایک میت نے اپنے پیچھے تین بھتیجیاں ، ایک بھانجا اور دو بھانجیاں وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.بہن تین بیٹیاں بیٹا بھائی کے توسط سے تین دعویدار ہیں.دو بیٹیاں اس لئے بھائی تین مرد یعنی 4 عورتیں تصور ہوگا.بہن کے توسط سے بھی تین دعویدار ہیں اس لئے بہن تین عورتیں تصور ہوگی.اس لئے کل 9 حصے متصور ہوں گے جن میں سے بھائی کا حصہ ۶/۹ ہوگا.اور بہن کا حصہ ۳/۹

Page 191

۱۸۳ اب ۶/۹ حصہ بھائی کی تین بیٹیوں میں برابر تقسیم ہو گا اس لئے متوفی کی ہر بھتیجی کا حصہ = = = = X اور ۳/۹ حصہ بہن کی اولاد میں تذکیر و تانیث کے لحاظ سے تقسیم ہوگا.اس لئے بھانجے کا حصہ ہر ایک بھانجی کا حصہ = ** += = + x = اگر متوفی کی جائداد ۳۶۰۰ روپے کی مالیت کی ہو تو ہر بھتیجی کا حصہ ہر بھانجی کا حصہ بھانجے کا حصہ = 1/15 x Fyoo = ۳۶۰۰ × ۲/۹ = ۸۰۰ روپے = = 1/4 x 400 ۳۰۰ روپے = ۲۰۰ روپے نوٹ: یہ بھتیجیاں ایک ہی بھائی کی بیٹیاں بھی ہو سکتی ہیں اور ایک سے زائد بھائیوں کی بیٹیاں بھی ، اسی طرح بھانجے ، بھانجیاں بھی، ایک سے زیادہ بہنوں کی اولاد ہو سکتی ہے.دونوں صورتوں میں کچھ فرق نہیں پڑتا.یکساں عمل ہو گا.مثال نمبر ۲: ایک میت نے دو بیویوں ، ایک بھتیجی اور دو بھانجیاں وارث چھوڑیں اگر قابل تقسیم جائداد ۱۶۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.زوجہ ذوی الفروض ہے اس لئے دو بیویوں کا حصہ 1/3 = ہر بیوی کا حصہ باقی = = الله الله = الله - اب عصبات موجود نہیں اور زوجہ ذوی الارحام کی توریث میں مانع نہیں ہوتی.اس لئے باقی (۳/۴ حصہ ) ذوی الارحام میں تقسیم ہوگا.

Page 192

۱۸۴ بھائی بیٹی | بہن دو بیٹیاں بھائی کی ایک اولاد ہے اس لئے وہ ایک ہی مرد یعنی دو عورتیں تصور ہوگا اور بہن کی اولادیں دو ہیں اس لیئے بہن دو عور تیں تصور ہوگی اور کل حصے چار ہوں گے.۳/۴ میں بھتیجی کا حصہ ۳/۴ میں ہر بھانجی کا حصہ = = + x = || = ۱۶۰۰ × ۱/۸ = ۲۰۰۰ روپے ۱۶۰۰۰ روپے میں ہر بیوی کا حصہ ۶۰۰۰ ۱ روپے میں ہر تیجی کا حصہ ۱۶۰۰۰ روپے میں ہر بھانجی کا حصہ = = نوٹ : امام ابو یوسف کے اصول کے مطابق یہ حصے بالترتیب ۱/۸ ۱/۴ ۱/۴، ۱/۴ ہوں گے.یعنی ہر بیوی کا ۶۰۰۰ میں حصہ بھتیجی کا ۶۰۰۰ میں حصہ مثال نمبر ۳ : ہر بھانجی کا ۶۰۰۰ میں حصہ = = = ۱۶۰۰۰ × ۳/۸ = ۲۰۰۰ روپے ۱۶۰۰۰ ×۳/۱۶ = ۳۰۰۰ روپے ۲۰۰۰ روپے ۴۰۰۰ روپے ۴۰۰۰ روپے ایک میت نے تین اخیافی بھیجے، تین اخیافی بھتیجیاں ، دو حقیقی بھانجے اور ایک حقیقی بھانجی وارث چھوڑے.اگر جائداد ۹۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 193

۱۸۵ اخیافی بھائی بیٹا بیٹا بیٹا بیٹی حقیقی بہن بیتا چونکہ اخیافی زمرے میں چھ دعویدار ہیں اس لئے اخیافی بھائی کا حصہ ۱/۳ ہو گا اور یہ اس کی اولاد میں بلا تمیز تذکیر وتانیث مساوی طور پر تقسیم ہو جائے گا.اس لئے ہر اخیافی بھتیجے بھتیجی کا ح = # = + x + ۱۸ حقیقی بہن کی تین اولاد میں ( دعویدار ہیں اس لئے یہ بہن تین بہنوں کے برابر شمار ہوگی اور تین بہنوں کا حصہ یعنی ۲/۳ پائے گی اور یہ ۲/۳ اس کی اولاد میں بلحاظ تذکیر وتانی تقسیم ہوگا.اس لئے ہر بھانجے کا حصہ بھانجی کا حصہ = = ۹۰۰۰ روپے میں ہر اخیافی بھتیجا نتیجی کا حصہ ۹۰۰۰ روپے میں ہر بھانجے کا حصہ ۹۰۰۰ روپے میں بھانجی کا حصہ مثال نمبر ۴ : || = = = = x ۱۵ ۹۰۰۰ × ۱/۱۸ = ۵۰۰ روپے ۹۰۰۰ × ۴/۱۵ = ۲۴۰۰ روپے ۹۰۰۰ × ۲/۱۵= ۱۲۰۰ روپے ایک میت نے اخیافی بھتیجی ، اخیافی بھانجی ، حقیقی بھانجا اور علاتی بھیجی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.اصل اخیافی بھائی اخیافی بہن حقیقی بہن علاقی بھائی اولاد بیٹی بیٹی

Page 194

۱۸۶ چونکہ اصل میں حقیقی بھائی کوئی نہیں.اس لئے یہاں علاتی بھائی عصبہ ہوگا.اخیافی زمرہ میں دو اولادیں ہیں اس لئے یہ دو بہن بھائی تصور ہوں گے اور ان کے مجموعی حصہ ۱/۳ ہوگا جو ان کی اولاد میں برابر برابر تقسیم ہو گا.اس لئے ہر ایک دعویدار کو ١/٦ حصہ ملے گا.حقیقی بہن کی اولا دصرف ایک ہے اس لئے اس کا حصہ ۱/۲ ہو گا.جو اس کے بیٹے کو ملے گا.علاقی بھائی عصبہ ہے اس لئے باقی جائداد یعنی = 1 - + + + ) = + حصہ حاصل کرے گا.جو اس کی اولاد ( بیٹی ) کو ملے گا.) لہذا اخیافی بھتیجی کا حصہ اخیافی بھانجی کا حصہ حقیقی بھانجے کا حصہ علاقی بھتیجی کا حصہ 1/4 = = = = 1/4 ۱/۲ 1/4 نوٹ : امام ابو یوسف کی رائے کے مطابق اخیافی اور علاتی بہن بھائیوں کی اولاد حقیقی بہن بھائیوں کی اولاد کے سامنے محروم ہوتی ہے اس لئے ساری جائداد حقیقی بھانجے کومل جائے گی.ایک میت نے دو بیویاں، دو حقیقی بھانجے، دو حقیقی بھانجیاں اور دو علاتی بھتیجیاں مثال نمبر ۵ : وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.دو بیویوں کا حصہ = ہر ایک کا حصہ = حقیقی بہن کی اولاد کا حصہ 1/ باقی = = ۲/۳ ( کیونکہ اس کی چار اولادیں ہیں اور یہ بہن چار بہنوں کے برابر تصور ہوگی.) ا - + + ) = + 1 ۱۲ یہ ۱/۱۲ حصہ علاتی بھائی ( عصبہ ) کی اولا د یعنی اس کی دو بیٹیوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا.پس ہر ایک بیوی کا حصہ =

Page 195

IAZ = =* X 2 222- 2 = + x + = ہر حقیقی بھانجے کا حصہ ہر حقیقی بھانجی کا حصہ ہر علاقی بھتیجی کا حصہ یعنی جائداد کے کل ۷۲ سہام کئے جائیں گے اور ۹ ہر بیوی کے ، ۱۶ ہر حقیقی بھانجے کے ، ۸ ہر حقیقی بھانجی کے اور ۳ ہر علاقی بھیجی کے ہوں گے.مثال نمبر ۶ : ایک میت نے حقیقی بھتیجی، حقیقی بھانجا اور حقیقی بھانجی ، علاتی بھیجی اور علاقی بہن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ، اخیافی بھائی کی ایک بیٹی اور اخیافی بہن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.قیقی بھائی حقیقی ہے لائی ہائی لاتی ہے ایمانی بائی اصل حقیقی بھا حقیقی بہن علاقی بھائی علاتی بہن اخیافی بھائی اخیافی بہن بیٹا بیٹی بیٹی بیٹا بیٹی بیٹی بیٹا بینی اولاد بینی (۱/۳) (۲/۹) (۱/۹) (محجوب) (محجوب) (1/4) (1/9) (1/4) پہلے ہم ہر اصل کو زندہ تصور کر کے اُن کے حصے دیں گے.حقیقی بہن بھائیوں کی موجودگی میں علاتی بہن بھائی محروم ہوتے ہیں اس لئے ان کی اولادیں بھی محروم ہوں گی.اخیافی زمرے کے تین دعویدار ہیں اس لئے ان کا مجموعی حصہ ۱/۳ ہوگا جو ان کی اولا دوں میں بلا تمیز تذکیر و تانیث مساوی طور پر تقسیم ہو گا.اس لئے ہر ایک کا حصہ ۱/۹ ہوگا.باقی یعنی ۱ - ۱/۳ - ۲/۳ حصہ حقیقی بھائی اور بہن کو بطور عصبہ کے ملے گا = اور ان کی اولادوں میں تقسیم ہو گا.اب حقیقی بھائی کی صرف ایک اولاد ہے اس لئے یہ ایک مرد یا دو عورتیں تصور ہوگا.اور حقیقی بہن کی دو اولادیں ہیں اس لئے یہ بہن دوعورتیں تصور ہوگی.

Page 196

#= Fx # = 22 = = ۱۸۸ اس لئے باقی ۲/۳ حصہ میں حقیقی بھائی کا حصہ حقیقی بہن کا حصہ حقیقی بھائی کا حصہ ۱/۳ حصہ اس کی بیٹی کو مل جائے گا اور حقیقی بہن کا ۱/۳ حصہ اس کی اولاد میں مرد د گنا اور عورت کو کہرا حصہ کے اصول پر تقسیم ہوگا.لہذا حقیقی بہن کے بیٹے کا حصہ حقیق بہن کی بیٹی کا حصہ = ㅎ نوٹ : امام ابو یوسف کی رائے کے مطابق تمام جائداد صرف حقیقی بہن بھائیوں کی اولاد میں للذكر مثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم ہو گی اور اس طرح حقیقی بھائی کی بیٹی کو ۱/۴ حقیقی بہن کے بیٹے کو ۱/۲ اور حقیقی بہن کی بیٹی کو ۱/۴ حصہ ملے گا.مثال نمبرے : ایک میت نے اخیافی بہن کی ایک بیٹی اور علاتی بہن کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ نیز اگر جائداد قابل تقسیم ما بین ورثاء ۱۵۰۰ روپے ہو تو بیٹا ہر ایک کے حصہ کی رقم بتائیے.اصل اخیافی بہر بہن علاقی بہن اولاد بیٹی بیٹی اخیافی بہن کی صرف ایک اولاد ہے اس لئے یہ ایک ہی بہن تصور ہوگی اور اخیافی بہن کا حصہ پائے گی یعنی ۱/۶ علاتی بہن کے دو دعویدار ( اولادیں ) ہیں اس لئے علاتی بہن دو بہنوں والا حصہ یعنی (۲/۳) پائے گی.اس طور سے ۱/۶ حصہ باقی بچ جاتا ہے چونکہ اصول میں کوئی عصبہ موجود نہیں اس لئے یہ باقی ماندہ حصہ بھی اخیافی اور علاتی بہنیں اپنے حصوں کی نسبت کے لحاظ سے حاصل کر لیں گی.یعنی یہ حصہ بھی انہیں کے درمیان ۱/۲ : ۲/۳ = ۱ : ۴ کے حساب

Page 197

۱۸۹ سے تقسیم کر دیا جائے گا.پس ١/٦ حصہ میں اخیافی بہن کا حصہ اور علاقی بہن کا حصہ لہذا اخیافی بہن کا کل حصہ اور علاقی بہن کا حصہ = = = -| -| - X + -| - -|3 || X = f = 1/2 + 1/ r = اخیافی بہن کا حصہ ۱/۵ حصہ اس کی بیٹی کو مل جائے گا اور علاتی بہن کا ۴/۵ حصہ اس کے بیٹے بیٹی میں تقسیم ہو گا.اس لئے اخیافی بہن کی بیٹی کا حصہ علاقی بہن کے بیٹے کا حصہ = علاقی بہن کی بیٹی کا حصہ = ۱۵۰۰ روپے میں اخیافی بہن کی بیٹی کا حصہ ۱۵۰۰ روپے میں اخیافی بہن کے بیٹے کا حصہ ۱۵۰۰ روپے میں علاقی بہن کی بیٹی کا حصہ 1/0 = ۱۵ ۱۵ = = ۱/۵ × ۱۵۰۰ = = × ۱۵۰۰ = = ۳۰۰ روپے ۸/۱۵ = ۸۰۰ روپے ۱۵۰۰ × ۴/۱۵ = ۴۰۰ روپے نوٹ: امام ابو یوسف کی رائے کے مطابق کل جائداد علاقی بہن کی اولاد کو ملے گی.۲/۳ حصہ بیٹے کو اور ۱/۳ حصہ بیٹی کو.مثال نمبر ۸ : ذوی الارحام درجہ سوم مقسم دوم ایک میت نے اخیافی بھیجے کی بیٹی ، اخیافی بھانجی کا بیٹا ، علاتی بھتیجی کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ، علاتی بھانجے کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور علاقی بھانجی کا ایک بیٹا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.ان تمام ذوی الارحام کو ایک نقشہ سے ظاہر کیجئے.

Page 198

190 اصل اولاد الیافی بھائی اخیافی ہیں علاقی بھائی علاقی بہن (1/10) (1/100) (14/100) (A/T) (1/4) (14/11) (1/4) اخیافی زمرے میں دو دعویدار ہیں.اس لئے اخیافی بھائی اور اخیافی بہن کا مجموعی حصہ ۱/۳ ہوگا.اور ہر ایک کا حصہ ١/٦ ہوگا.اخیافی بہن بھائیوں کو حصہ دینے کے بعد جائداد کا ۲/۳ حصہ باقی رہ جاتا ہے جو علاتی بھائی اور علاقی بہن کے درمیان ) بحیثیت عصبات) اُن کی دعویدار اولاد کی تعداد کے لحاظ سے تقسیم ہو گا.اب علاتی بھائی کی اولاد میں دو دعویدار ہیں.اس لئے وہ دو مرد یعنی چار عورتیں تصور ہو گا.علاتی بہن کی اولاد میں تین دعویدار ہیں اس لئے وہ تین عورتیں تصور ہو گی.اس طرح سے اس باقی ۲/۳ حصہ کے سات حصے ہوں گے ۴ علاتی بھائی کے اور تین علاتی بہن کے.لہذا ۲/۳ میں علاقی بھائی کا حصہ اور علاقی بہن کا حصہ ۲۱ A = Ex F = x = = علاقی بھائی کا حصہ ۸/۲۱ حصہ اس کی بیٹی کو ملے گا اور اس (بیٹی) کے بیٹے اور بیٹی کے درمیان ۲ اور ا کی نسبت سے تقسیم ہو گا.اس لئے علاقی بھتیجی کے بیٹے کا حصہ علاقی بھتیجی کی بیٹی کا حصہ علاتی بہن کا حصہ ۶/۲۱ حصہ پہلے اس کے بیٹے اور بیٹی کے درمیان تقسیم کیا جائے گا.بیٹے = ExA = + = + x + = کی اولاد میں دو دعویدار ہیں اس لئے وہ دو مردوں یا ۴ عورتوں کے برابر شمار ہوگا.بیٹی کا

Page 199

=x ۳۵ ۲ اور ۱۹۱ صرف ایک بیٹا دعویدار ہے اس لئے وہ ایک ہی عورت شمار ہوگی.= لہذا ۶/۲۱ حصہ میں سے بیٹے کا حصہ اور ۶/۲۱ حصہ میں بیٹی کا حصہ اب بیٹے کا ۸/۳۵ حصہ اس کی دو اولادوں میں یعنی بیٹے اور بیٹی میں = ۱۰۵ ۱۶ = = نسبت سے تقسیم ہو گا.پس علاقی بھانجے کے بیٹے کا حصہ علاقی بھانجے کی بیٹی کا حصہ نوٹ : امام ابو یوسف کے اصول کے لحاظ سے جائداد علاتی زمرے میں تقسیم ہو گی.اور اخیافی زمرہ بالکل محروم رہے گا.اس لحاظ سے حصے یہ ہوں گے.علاقی بھیجی کے بیٹے کا حصہ علاقی بھتیجی کی بیٹی کا حصہ علاقی بھانجے کے بیٹے کا حصہ علاقی بھانجے کی بیٹی کا حصہ علاقی بھانجی کے بیٹے کا حصہ : = = = V/C = /^ = I/A = = ۱/۴ - ۲/۸ ذوی الارحام کا چوتھا درجہ اگر پہلے دوسرے اور تیسرے درجہ کے ذوی الارحام میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو ترکہ چوتھے درجہ کے ذوی الارحام میں تقسیم ہوتا ہے.ان کی ترتیب تو ریث یہ ہے:.قسم نمبر 1: متوفی کے وہ چا، پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں جو عصبات میں شمار نہ ہوں (اس لحاظ سے اس نمبر میں حقیقی اور علاتی چچا شامل نہیں کیونکہ وہ عصبہ ہیں ) قسم نمبر ۲: متوفی کے چچاؤں، پھوپھیوں ، ماموؤں اور خالاؤں کی اولاد (خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کی ہو لیکن ان میں متوفی کے حقیقی اور علاقی چاؤں کی نرینہ اولا د شامل نہ ہو گی

Page 200

۱۹۲ کیونکہ وہ عصبات میں شامل ہے.قسم نمبر ۳: قسم نمبر ۴ : متوفی کے والدین کے چا اور ماموں جو باپ کے حقیقی اور علاتی چچاؤں کے علاوہ ہوں.متوفی کے والدین کے چاؤں، ماموؤں ، پھوپھیوں اور خالاؤں کی اولا د خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کی ہو ، لیکن ان میں باپ کے حقیقی اور علاتی چچاؤں کی نرینہ اولا د شامل نہ ہو گی.کیونکہ وہ عصبات میں داخل ہے.قسم نمبر ۵: دادا اور دادی کے چچا اور ماموں اور جو دادا کے حقیقی یا علاتی چچا اور ماموں نہ ہوں کیونکہ وہ عصبات ہیں.قسم نمبر ۶: دادا، دادی کے چچاؤں، ماموؤں، پھوپھیوں اور خالاؤں کی اولا دخواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کی ہو.لیکن دادا کے حقیقی اور علاتی چچاؤں کے بیٹوں کی اولاد ان میں شامل نہ ہو گی.( کیونکہ وہ عصبات ہیں ) قسم نمبر ے: بعید کے چچا، ماموں، پھوپھیاں اور خالائیں اور پھر ان کی اولادیں اسی ترتیب اور طریقے سے (بشرطیہ وہ عصبات میں شامل نہ ہوں ).چوتھے درجہ کے ذوی الارحام میں میراث تقسیم کرتے وقت حسب ذیل قواعد پر عمل کیا جاتا ہے.الاقرب ثم الا قرب یعنی قریب تر بعید تر کو محروم کر دیتا ہے.اس لحاظ سے ہر قسم ( زمرے) کے دعویداروں میں حقیقی کو علاقی پر اور علاقی کو اخیافی پر ترجیح دی جائے گی.اسی طرح ایک قسم کے تمام ارکان کے ختم ہو جانے کے بعد ہی کسی دوسری قسم کے ارکان کو میراث پہنچے گی.

Page 201

۱۹۳ ۲.اگر دعویداران میراث میں صرف پدری یعنی باپ کی طرف کے ) رشتہ دار ہی ہوں یعنی صرف اخیافی چا یا صرف اخیافی پھوپھیاں یا اخیافی چچا اور اخیافی پھوپھیاں (دونوں) تو پھر ان کے درمیان تمام جائداد برابر برابر تقسیم ہوگی.اگر دعویداری میں صرف مادری ( یعنی ماں کی طرف کے ) رشتہ دار موجود ہوں یعنی صرف ماموں ، یا صرف خالائیں یا ماموں اور خالائیں دونوں تو پھر تمام جائدادان میں ہی حسب قواعد تقسیم ہوگی.اگر دعویداران میراث میں پدری اور مادری دونوں قسم کے رشتہ دار موجود ہوں تو پھر مجموعی طور پر پدری رشتہ داری کو جائداد کا ۲/۳ حصہ اور مادری رشتہ داروں کو ۱/۳ حصہ ملے گا اور ان کا ہر گروہ اپنا مجموعی حصہ اس طور سے تقسیم کرے گا کہ مرد کو عورت سے دُگنا حصہ ملے.سوائے اخیافی قسم کے رشتہ داروں کے جن کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگی.نوٹ: یادر کھیئے کہ کوئی بھی پدری رشتہ دار کسی بھی مادری رشتہ دار کی وجہ مجوب نہیں ہوتا اسی طرح کوئی بھی مادری رشتہ دار کسی بھی پدری رشتہ دار سے محجوب نہیں ہوتا.یہ دونوں سلسلے علیحدہ علیحدہ اپنا مفروضہ حصہ حاصل کرتے ہیں.اگر ایک سلسلہ کے افراد میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر تمام جائداد کے مالک دوسرے موجو د سلسلہ کے لوگ ہوں گے.یہ بھی خیال رکھیئے کہ حقیقی چا، علاتی چچا اور ان کی اولادیں (یعنی ان کے بیٹے ) عصبات میں شامل ہیں اس لئے اس جگہ پر ان کا ذکر نہیں آئے گا.ویسے ان میں سے اگر کوئی فرد موجود ہو تو ہر قسم کے ذوی الارحام محروم ہو جائیں گے.امام ابو یوسف کا اصول چاؤں ، ماموؤں اور پھوپھیوں اور خالاؤں کی تو ریث کے متعلق امام ابو یوسف اور امام محمد کی رائے میں کوئی اختلاف نہیں ہے.چاؤں، پھوپھیوں ، خالاؤں اور ماموؤں کی اولاد میں تقسیم وراثت کے بارے میں ان دونو اماموں میں صرف اس قدر اختلاف ہے کہ امام ابو یوسف کے نزدیک جو حصہ پدری اور مادری رشتہ داروں کو دیا جائے وہ دعویداروں میں جالراس

Page 202

۱۹۴ (للذكر مثل حظ الانثیین کے اصول کے تحت تقسیم ہونا چاہئے لیکن امام محمد کے نزدیک اسی طریق سے تقسیم ہونی چاہئے جس طرح سے ذوی الارحام کے درجہ اول کے باب میں بیان کی گئی ہے.ذوی الارحام درجہ چہارم مقسم اول میت کی ہر قسم کی پھوپھیاں (حقیقی، علاتی اور اخیافی) ہر قسم کی خالائیں اور ہر قسم کے ماموں.اخیافی چچا.ان میں سے باپ کی طرف سے پھوپھیاں ( ہر سہ قسم ) اور اخیافی چاوارث بنتے ہیں.اور ماں کی طرف سے ماموں اور خالائیں ( دونو ہر قسم ) گویا باپ کی طرف سے اس قسم میں چار رشتہ دار اور ماں کی طرف سے ۶ رشتہ دار شامل ہوتے ہیں.یہ کل دس بنے.اب ہم ان کے درمیان میراث کی تقسیم کی چند ایک مثالیں بیان کرتے ہیں.مثال نمبر 1: ایک میت نے دو حقیقی پھوپھیاں، ایک علاتی پھوپھی ، دو حقیقی خالائیں اور ایک حقیقی ماموں وارث چھوڑے ہیں.ہر ایک کا حصہ بتاؤ.علاقی پھوپھی، حقیقی پھوپھی کی وجہ سے محروم رہے گی.دو حقیقی پھوپھیوں کا حصہ ایک حقیقی پھوپھی کا حصہ = ۲/۳ (پدری حصہ) = 4/1 دو حقیقی خالاؤں اور ایک حقیقی ماموں کا حصہ = ۱/۳ (مادری حصہ) = +=+x = = اس لئے ماموں کا حصہ اور ہر خالہ کا حصہ مثال نمبر ۲: ایک میت نے ایک علاقی پھوپھی ، دو اخیافی چا اور ایک حقیقی خالہ اور ایک حقیقی ماموں وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.اخیافی چچا علاقی پھوپھی کی وجہ سے محروم ہوں گے.

Page 203

۱۹۵ اس لئے پدری سلسلہ میں علاقی پھوپھی کا حصہ مادری سلسلہ میں حقیقی ماموں کا حصہ مثال نمبر ۳ : اور خالہ کا حصہ = = ۲/۳ = + = + = ایک میت نے زوجہ، اخیافی چچا، اخیافی پھوپھی ، حقیقی ماموں اور حقیقی خالہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.زوجہ کا حصہ باقی ۱/۴ (بطور ذوی الفروض ) ۳/۴ - ۱/۴ - ۱ = اس باقی (۳/۴) کا ۲/۳ حصہ پدری سلسلہ کے رشتہ داروں کو اور ۱/۳ حصہ مادری سلسلہ کے رشتہ داروں کو ملے گا.اس لئے اخیافی چا اور اخیافی پھوپھی کا حصہ ہر ایک کا حصہ حقیقی ماموں اور حقیقی خالہ کا حصہ حقیقی ماموں کا حصہ حقیقی خالہ کا حصہ = = = = -222-12 X = = || -| -| -| + = یعنی اگر جائداد کے ۱۲ سہام کئے جائیں تو ۳ سهام زوجہ کو ۳ سهام اخیافی چچا کو سهام اخیافی پھوپھی کو ۲ سہام حقیقی ماموں کو اور ایک سہم حقیقی خالہ کو ملیں گے.مثال نمبر ۴ : ایک میت نے خاوند، علاتی ماموں ، علاتی خالہ اور اخیافی پھوپھی وارث چھوڑے اگر تر که قابل تقسیم ۱۸۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.خاوند کا حصہ باقی اخیافی پھوپھی کا حصہ علاقی ماموں کا حصہ ۱/۲ = ۱/۲ ۱/۲ = 1/8= 1/5 - 1 = × +== -| -|

Page 204

١٩٦ علاقی خالہ کا حصہ ۱۸۰۰ روپے میں خاوند کا حصہ = ۱۸۰۰ روپے میں اخیافی پھوپھی کا حصہ ۱۸۰۰ روپے میں علاقی ماموں کا حصہ ۱۸۰۰ روپے میں علاقی خالہ کا حصہ = + × ۱۸۰۰ = ۱/۳ × ۱۸۰۰ = ١/٩ ۱۸۰۰ = = = ۹۰۰ روپے ۶۰۰ روپے = = ۲۰۰ روپے ۱۸۰۰ × ۱/۱۸ = ۱۰۰روپے ذوی الارحام درجه چهارم قسم نمبر ۲ اعمام اور عمات کی اولا د درجہ چہارم مقسم نمبر ۲ میں شامل ہے یعنی چچاؤں پھیپھیوں ماموؤں اور خالا ؤں کی ایسی اولا د خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کی ہو جو عصبات میں شامل نہیں (گویا حقیقی اور علاتی چچاؤں کے بیٹے جو عصبات میں شامل ہیں.وہ ذوی الارحام میں شامل نہیں ہو سکتے ) اس قسم میں ترتیب تو ریث حسب ذیل ہے.(۱) پدری سلسله الف.حقیقی چچاؤں کی بیٹیاں لیے حقیقی پھپھیوں کی اولا د ( بیٹے بیٹیاں) ج.علاقی چا کی بیٹیاں ہے علاقی پھپھیوں کی اولاد ( بیٹے بیٹیاں) اخیافی چچاؤں اور پھپھیوں کی اولاد جن میں برابر برابر تقسیم ہوگی تذکیر و تانیث کا فرق نہیں کیا جائے گا.جو زمرہ بھی میراث کا حقدار بنے گا اس میں جائداد اس طرح تقسیم ہو گی جس طرح درجہ دوم کے ذوی الارحام میں ہوتی ہے نیز ایک زمرے کے تمام ارکان کے ختم ہو جانے کے بعد اس سے اگلے زمرے کا رکن یا ارکان وارث ہوں گے.(۲) مادری سلسله الف.حقیقی ماموؤں اور خالاؤں کی اولاد.علاقی ماموؤں اور خالاؤں کی اولاد.ج اخیافی ماموؤں اور خالاؤں کی اولاد ( جن کا حصہ ۱/۳ برابر برابر تقسیم ہو گا ) لے و سے حقیقی اور علاتی چچا کے بیٹے عصبات میں شامل ہیں.

Page 205

۱۹۷ نوٹ: اس دوسری قسم کے دعویدار عمام اور عمات کی اولادیں ہیں اس لئے امام محمد اور امام ابو یوسف کے اصول کے تحت دعویداروں کے حصوں میں فرق پڑ جائے گا.یعنی امام ابو یوسف کے نزدیک پدری اور مادری دونو سلسلوں کی اولادوں کو للذكر مثل حظ الانثیین کے اصول کے تحت حصے دیئے جائیں گے.مثال نمبر 1: ایک میت نے حقیقی پھوپھی کی ایک لڑکی اور ایک لڑکا ، اخیافی چچا کا بیٹا اور حقیقی ماموں کا ایک لڑکا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.حقیقی پھوپھی کی اولاد کی موجودگی کی وجہ سے اخیافی چچا کی اولا د محروم ہو گی.لہذا پدری سلسلہ کی اولاد کا حصہ (۲/۳) پھوپھی کی اولاد میں ۲ اور ا کی نسبت سے لڑکے اور لڑکی میں تقسیم ہو گا.اس لئے ان کے حصے بالترتیب ۴/۹ اور ۲/۹ ہوں گے.مادری سلسلہ میں صرف ایک ہی دعویدار ہے اس لئے اس سلسلہ کا حصہ (۱/۳) حقیقی ماموں کے لڑکے کومل جائے گا.مثال نمبر ۲: ایک میت نے اخیافی چچا کا ایک لڑکا اور دو لڑکیاں، حقیقی ماموں کی بیٹی اور حقیقی خالہ کا ایک بیٹا مع ایک زوجہ کے وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.پدری سلسله (۲/۳) مادری سلسله (۱/۳) حقیقی ماموں حقیقی خاله اخیافی چچا بیٹا زوجہ کا حصہ باقی پدری سلسلہ کا حصہ 1/M - 1 = = 1/3 = 1/3 بینا

Page 206

= اخیافی چچا کے بیٹے کا حصہ اخیافی چا کی ہر ایک بیٹی کا حصہ = مادری سلسلہ کا حصہ حقیقی ماموں کی بیٹی کا حصہ = حقیقی خالہ کے بیٹے کا حصہ ۱۹۸ 7|27|2 2/2-2 -L + # = + x + = امام ابو یوسف کے اصول کے مطابق جو حصے بنتے ہیں وہ یہ ہیں.زوجہ کا حصہ 1/ = اخیافی چچا کے ہر بیٹے بیٹی کا حصہ حقیقی ماموں کی بیٹی کا حصہ حقیقی خالہ کے بیٹے کا حصہ 1/4 = = 1/4 = مثال نمبر ۳ : ایک میت نے اپنے حقیقی چا سعید کی پوتی اور حقیقی چا حمید کی نواسی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.حقیقی چچا حقیقی چچا سع اس مثال میں صرف پدری رشتہ دار موجود ہیں اس لئے کل جائداد ان میں تقسیم ہوگی.درمیانی مورثوں میں پہلی پشت میں اختلاف واقع ہوتا ہے بیٹے کی وساطت سے صرف ایک دعویدار ہے اس لئے یہ ایک مرد یا دو عورتیں تصور ہوگا اور بیٹی کی وساطت سے بھی ایک ہی دعویدار ہے اس لئے یہ ایک ہی عورت تصور ہوگی.اس لئے بیٹے کو ۲/۳ اور بیٹی کو ۱/۳ ملے گا جو کہ بیٹے کی بیٹی کو اور بیٹی کی بیٹی کو بالترتیب مل جائے گا.امام ابو یوسف

Page 207

١٩٩ کے اصول کے مطابق دونوں یعنی سعید کی پوتی اور حمید کی نواسی کو ۱/۲، ۱/۲ حصہ ملے گا.مثال نمبر ۴ : ایک میت نے اپنے دو حقیقی چچاؤں زید و بکر کی اولاد جو نقشہ میں ظاہر ہے اپنے وارث چھوڑے اور حقیقی پھوپھی کے نواسے کی بیٹی بھی ہر ایک کا حصہ بتاؤ.حقیقی چچا زید کلازید حقیقی چا بکر بیٹا حقیقی پھوپھی بیٹا 3:- بیٹا بیٹی نقشہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سب وارث ایک ہی قوت قرابت رکھنے والے ہیں یعنی حقیقی چاؤں اور حقیقی پھوپھی کی اولاد ہیں مگر زید کے بیٹے کا بیٹا عصبہ ہے اس لئے اس کی بیٹی عصبہ کی اولاد ہے.بکر کے بیٹے کی بیٹی ذی رحم ہے اس لئے اس کی اولا دزی رحم کی اولاد ہے.اسی طرح پھوپھی کی بیٹی کے بیٹے کی بیٹی بھی ذوی الارحام کی اولاد ہے اب عصبہ کی اولا دکو ذوی الارحام کی اولاد پر فوقیت حاصل ہے.اس لئے حقیقی چچا زید کے بیٹے کے بیٹے کی بیٹی تمام تر کہ حاصل کرے گی اور دوسرے تمام دعویدار با وجود ایک ہی درجہ اور ایک ہی قوت قرابت رکھنے کے محروم ہوں گے.امام ابو یوسف کے اصول کے مطابق ان کے حصے بالترتیب ۱/۵ ، ۲/۵، ۱/۵ اور ۱/۵ ہوں گے.مثال نمبر ۵ ایک میت نے نقشہ کے مطابق اپنے یہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 208

حقیقی پھوپھی بیٹا اس میں پہلی ہی پشت میں اختلاف جنس ہے اور حقیقی چا کی اولاد میں دو دعویدار ہیں.اس لئے وہ دو مرد یعنی چار عورتیں شمار ہو گا.حقیقی پھوپھی کی اولاد میں صرف ایک دعویدار ہے اس لئے وہ ایک عورت شمار ہوگی اس لئے جائداد پانچ حصوں میں تقسیم ہو گا چار حصے حقیقی چا اور ایک حصہ حقیقی پھوپھی کو ملے گا.حقیقی چچا کا حصہ (۴/۵) اس کی دو اولا دوں بیٹا ، بیٹی یعنی موجودہ دعویداروں ) میں تقسیم ہو گا.اس لئے حقیقی چچا کے بیٹے کی بیٹی کے بیٹے کا حصہ حقیقی چا کے بیٹے کی بیٹی کی بیٹی کا حصہ = - = x حقیقی پھوپھی کا حصہ (۱/۵) اس کی بیٹی کے بیٹے کی بیٹی کو مل جائے گا.امام ابو یوسف کے مطابق یہ حصے بالترتیب ۱/۲ ۱/۴ اور ۱/۴ ہوں گے.یه نقشه اسی طریق سے اگلی نسلوں تک لے جایا سکتا ہے اور اسی طریق سے اُن کے حصے مقرر کئے جاتے ہیں.لیکن چونکہ عملاً اس کی ضرورت نہیں پڑتی.اس لئے ان کے متعلق بحث نہیں کی گئی.(اگلے ) صفحہ پر اعمام اور عمات کی تین پشت تک کی اولاد یکجائی طور پر دکھائی گئی ہے.تا ایک ہی نظر میں یہ معلوم ہو سکے کہ ان میں سے کون کون بطور ذوی الارحام حصہ پانے کے مستحق ہیں.اور کون کون عصبات میں شامل ہونے کی وجہ سے ذوی الارحام میں شمار نہیں ہوتے.بلکہ بطور عصبہ حصہ پاتے ہیں اور ان (عصبات) کی موجودگی کن ذوی الا رحام کو وراثت سے محروم کر دیتی ہے.

Page 209

درجہ چہارم کی تیسری قسم تیسری قسم میں متوفی کے والدین کے اعمام اور عمات شامل ہیں یعنی والد کی طرف سے اس (یعنی والد ) کی حقیقی علاتی اور اخیافی پھوپھیاں، اخیافی چا، حقیقی علاقی اور اخیافی ماموں اور حقیقی علاتی اور اخیافی خالائیں اور والدہ کی طرف سے اس (یعنی والدہ) کی حقیقی ، علاقی و اخیافی پھوپھیاں ، اخیافی چچا اور حقیقی ، علاتی ، اخیافی ماموں اور خالائیں.ان کے درمیان ترکہ کی تقسیم بینہ درجہ چہارم کی قسم اول کی طرح ہوتی ہے.نیز انہیں اسی وقت حصہ مل سکتا ہے جب قسم اول اور دوم کا کوئی بھی وارث موجود نہ ہو.درجہ چہارم کی چوتھی قسم اس قسم میں متوفی کے والدین کے اعمام اور عمات کی وہ اولا د شامل ہے (خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کی ہو ) جو عصبات میں شامل نہ ہو.ان کے لئے طریقہ تقسیم بھی بالکل وہی ہے جو درجہ چہارم قسم نمبر ۲ کے لئے ہے، لیکن عموماً کسی متوفی کے اتنے دور کے ورثا کو میراث سے حصہ دینے کا موقعہ ہی پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ تمام تر کہ ان سے زیادہ قریبی رشتہ داروں میں ہی تقسیم ہو چکا ہوتا ہے.اس لئے ان کے متعلق کسی تفصیل کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.

Page 210

۲۰۲ مشق نمبر ۳ سوالات مع جوابات ایک میت نے اپنی بیٹی رشیدہ کے بطن سے دولڑ کے اور ایک لڑکی اور دوسری بیٹی حمیدہ سے ہم لڑکیاں اور ایک لڑکا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: ہر نواسے کا حصہ = ۲/۱۱ نواسی کا حصہ = ۱/۱۱ ، ۲.ایک میت نے اپنی نواسی زینب کے دولڑکے اور ایک لڑکی اور نواسی کلثوم کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.ورثاء کا درجہ ایک ہی ہے اور جنس بھی ایک ہی ہے.اس لئے ہر لڑکے کا حصہ ( خواہ وہ زینب کا ہو یا کلثوم کا ہو ) ہرلڑکی کا حصہ (خواہ وہ زینب کی ہو یا کلثوم کی ) = ١/ = ایک میت نے اپنے نواسے کی بیٹی اور نواسی کا بیٹا چھوڑے ہر ایک وارث کا حصہ بتاؤ.جواب : نواسے کی بیٹی کا حصہ نواسی کے بیٹے کا حصہ ۲/۳ = ۱۳ =.ایک میت نے اپنی بیٹی زاہدہ کے بیٹے کی بیٹی ، دوسری بیٹی عابدہ کے بیٹے کی بیٹی اور تیسری بیٹی ساجدہ کی بیٹی کی بیٹی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: زاہدہ کے بیٹے کی بیٹی کا حصہ = ٢/٥ عابدہ کے بیٹے کی بیٹی کا حصہ ساجدہ کی بیٹی کی بیٹی کا حصہ ۲۵ = 1/0 = ایک میت نے زوج (یعنی خاوند) اور دادی کے والد اور نانی کے والد وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: زوج کا حصہ نانا کی والدہ کا حصہ = = 1/4 ۱/۲ دادی کے والد کا حصہ 1/F = ۱/۳ ایک میت نے اپنے نانا کے والد اور والدہ کے علاوہ زوجہ بھی وارث چھوڑی ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 211

جواب: زوجہ کا حصہ = نانا کی والدہ کا حصہ = ۲۰۳ ۱/۴ نانا کے والد کا حصہ = ۱/۲ = ایک میت نے زوجہ اور دادی کا والد وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : زوجہ کا حصہ دادی کے والد کا حصہ V/M ۳/۴ = ایک میت نے دادی کا والد اور نانی کے والد اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب دادی کے والد کا حصہ نانی کی والدہ کا حصہ ۲/۳ نانی کے والد کا حصہ = ۲/۹ = 19 = ایک میت نے زوجہ، دادی کا والد اور نانی کے والد اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: زوجہ کا حصہ نانی کے والد کا حصہ = 1/8 = ١/١٢ دادی کے والد کا حصہ = 4/1 ۱۰.ایک میت نے اپنے ورثاء تین بھتیجیاں، دو بھانجے اور دو بھانجیاں چھوڑیں اگر اس کی کل جائداد ۳۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتائیے.جواب: ہر بھتیجی کا حصہ ہر بھانجی کا حصہ = = ۲۰۰ روپے ہر بھانجے کا حصہ ۲۰۰ روپے = ۴۰۰ روپے ایک میت نے خاوند، ایک اخیافی بھتیجا، ایک اخیافی بھتیجی، ایک بھانجا اور ایک بھانجی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: خاوند کا حصہ اخیافی بھتیجی کا حصہ بھانجی کا حصہ ۱/۲ اخیافی بھتیجا کا حصہ 1/4 = بھانجے کا حصہ 1/4 = 1/9 = ایک میت نے تین اخیافی بھانجے اور دو اخیافی بھانجیاں اور دو حقیقی بھانجے اور ایک حقیقی بھانجی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 212

۲۰۴ جواب: ہرا خیافی بھانجے یا بھانجی کا حصہ ہر حقیقی بھانجے کا حصہ حقیقی بھانجی کا حصہ = 1/10 ۴/۱۵ ۲/۱۵ = ۱۳.ایک میت نے زوجہ ، دو حقیقی بھانجیاں اور ایک علاقی بھیجی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : زوجہ کا حصہ علاقی بھتیجی کا حصہ = ۱/۴ ہر بھانجی کا حصہ = ۱/۳ اور 1/15 = ۱۴.ایک میت نے حقیقی بھائی کی ۲ بیٹیاں، حقیقی بہن کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ، علاقی بھائی کی دو بیٹیاں، علاتی بہن کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا، اخیافی بہن کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا اور اخیافی بھائی کا ایک بیٹا اور بیٹی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: حقیقی بھائی کی ہر بیٹی کا حصہ = ۲/۹ حقیقی بہن کی بیٹی کا حصہ = ۲/۲۷ حقیقی بہن کے بیٹے کا حصہ = ۴/۲۷ علاتی بھائی کی بیٹیاں اور بیٹے محروم علاقی بہن کے بیٹے اور بیٹیاں مرحوم ہرا خیافی بھیجے بھتیجی ، بھانجی اور بھانجے کا حصہ 1/15 امام ابو یوسف کے اصول کے لحاظ سے صرف حقیقی بھائی کی بیٹیاں اور حقیقی بہن کی اولا د وارث ہو گی اور ان کے حصے بالترتیب ۱/۵ ،۱/۵، ۲/۵ اور ۱/۵ ہوں گے.۱۵.ایک میت نے ایک حقیقی پھوپھی، ایک علاتی پھوپھی ، ایک حقیقی ماموں ایک علاتی ماموں اور ایک حقیقی خالہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: حقیقی پھوپھی کا حصہ حقیقی ماموں کا حصہ حقیقی خالہ کا حصہ = ۲/۳ علاقی پھوپھی محروم ۲/۹ علاقی ماموں محروم = 1/9 ایک میت نے ایک علاتی پھوپھی ، دو اخیافی چا اور ایک اخیافی پھوپھی اور ایک حقیقی خالہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: علاقی پھوپھی کا حصہ = ۲/۳ اخیافی چچا محروم

Page 213

اخیافی پھوپھی ۲۰۵ محروم حقیقی خالہ کا حصہ ۱۳ = ۱۷.ایک میت نے زوج، ایک اخیافی چچا، ایک اخیافی پھوپھی اور ایک حقیقی خالہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: زوج کا حصہ ۱/۲ اخیافی چچا کا حصہ اخیافی پھوپھی کا حصہ = ١/٦ حقیقی خالہ کا حصہ 1/4 = 1/4 = ۱۸.ایک میت نے زوجہ ، حقیقی پھوپھی ، اخیافی چا، اخیافی پھوپھی اور تین علاقی خالائیں وارث چھوڑیں.اگر میت کی جائداد قابل ۲۷۰۰ روپے مالیت کی ہو تو علاقی خالہ کا حصہ بتاؤ.جواب : ۳۰۰ روپے

Page 214

ے._^ ۲۰۶ خاوند ۱۲ ذوی الارحام میں تقسیم وراثت کی چند مزید مثالیں ماخوذ از فتاوی عالمگیری بمطابق فیصلہ امام محمد ) نواسی ۱/۲ پوتی کی بیٹی نواسی کا بیٹا خاله محروم چچا کی بیٹی محروم کل مال محروم پوتی کا بیٹا نواسی کا بیٹا کل مال محروم نواسی کا بیٹا نواسی کی بیٹی نواسے کا بیٹا نواسے کی بیٹی ٢/٩ 1/9 بھائی کی پوتی بھائی کی نواسی کل مال نانا کل مال محروم و/ نانی کا باپ دادی کا باپ محروم نانی کا والد نانا کا والد ١/٣ ۲/۳ محروم ٢/٩ دادا کا نانا دادی کا دادا نانا کا نانا نانی کا دادا ۹.سوتیلے چا کی پوتی محروم ٢/٩ ٢/٩ سگی پھوپھی کا پوتا کل مال 1/9

Page 215

۲۰۷ ۱۰.حقیقی بھائی کا نواسہ -11 محروم علاقی بھائی کا نواسہ کل مال سگی پھوپھی علاقی پھوپھی اخیافی پھوپھی سگی خالہ ٢/٣ سوتیلی خاله مادری (اخیافی) خاله ۱/۳ محروم محروم محروم ۱۲.سگی خالہ سگا ماموں سگی پھوپھی سوتیلی پھوپھی 1/9 7/9 = 17 ٢/٩ محروم اله ماموں کی بیٹی خالہ کا بیٹا ۲/۳ ۱/۳ والد کی پھوپھی والد کی خالہ ماں کی پھوپھی ماں کی خالہ و/ ۱۵.۴ زوجه ٢/٩ علاقی خالہ کی بیٹی علاقی پھوپھی کی بیٹی 1/9 ۱/۲ 1/M ۱/۴ اخیافی خالہ اور پھوپھی کی بیٹیاں محروم

Page 216

۲۰۸ باب نہم نقشہ حصہ جات ذوی الفروض حصـ نصف (۱/۲) ۵ وارثوں کو ملتا ہے تفصیل وارث یا ورثاء مع مختصر تشریح الف.شوہر کو ملتا ہے جب کہ مرنے والی بیوی کی اولاد نہ ہو.بیٹی کو ملتا ہے جب کہ صرف ایک ہوا میت کی نرینہ اولاد نہ ہو.اور ج پوتی کو ملتا ہے جب کہ میت کی بیٹی، بیٹا ، پوتا وغیرہ موجود نہ ہوں.عینی (حقیقی) ہمشیرہ کو ملتا ہے جب کہ صرف ایک ہی ہو اور میت کا بیٹا، بیٹی کوئی نہ ہو اور باپ بھی نہ ہو.علاقی ہمشیرہ کو ملتا ہے جب کہ حقیقی ہمشیرہ بھی موجود نہ ہو.الف.بیوی کو ملتا ہے جب کہ مرنے والے خاوند کی اولا د موجود نہ ہو شوہر کو ملتا ہے جب کہ مرنے والی بیوی کی اولا د موجود ہو.ربع (۱/۴) ۲ وارثوں کو ملتا ہے ثمن (۱/۸) ایک ہی وارث کو ملتا ہے ۴- دو ثلث (۲/۳) الف.بیٹیوں کو ملتا ہے جب کہ دو یا دو سے زائد چار وارثوں کو ملتا ہے صرف بیوی کو ملتا ہے جب کہ مرنے والے خاوند کی اولا د موجود ہو ہوں اور ان کا کوئی موجود نہ ہو.

Page 217

۲۰۹ تفصیل وارث یا ورثاء مع مختصر تشریح پوتیوں کو ملتا ہے جب کہ دو یا دو سے زائد ہوں اور بیٹے بیٹیاں موجود نہ ہوں اور کوئی پوتا بھی نہ ہو.ج.حقیقی بہنیں حاصل کرتی ہیں جب کہ دو یا دو سے زائد ہوں اور میت کی نہ اصل ہو اور نہ ہی فرع.علاقی بہنوں کو ملتا ہے جب کہ حقیقی بہنیں نہ ہوں بشرائط بالا ۵- ثلث (۱/۳) الف.والدہ کو ملتا ہے جب کہ میت کی اولاد نہ دو وارثوں کو ملتا ہے.۶.سدس (۱/۶) ہو اور دو بہن بھائی بھی نہ ہوں.اخیافی بہن بھائی کو ملتا ہے جب کہ ایک سے زائد ہوں اور میت کلالہ ہو.الف.والدہ کو ملتا ہے جب کہ میت کی اولا د ہو.چار وارثوں کو ملتا ہے.والدہ کو ملتا ہے جب کہ میت کی اولاد ہویا کسی قسم کے دو بھائی ہوں.ج اخیافی بھائی کو ملتا ہے جب کہ صرف ایک ہو اور میت کلالہ ہو.اخیافی بہن کو ملتا ہے جب کہ صرف ایک ہو اور میت کلالہ ہو.

Page 218

۲۱۰ عول عول کے لغوی معنے نقصان کے ہیں.یعنی ایک طرف سے حصے کاٹ کر دوسری طرف منتقل کرنا.تقسیم ترکہ کے وقت بعض دفعہ ذوی الفروض اتنی تعداد میں موجود ہوتے ہیں کہ ان کے حصوں کا مجموعہ اکائی سے بڑھ جاتا ہے.ایسے حالات میں تمام ورثاء کو ان کے پورے حصے نہیں مل سکتے اور تقسیم میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ کسی بھی ذوی الفروض کو اس کے حصے سے محروم نہیں کیا جا سکتا.اس مشکل کو سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس حسابی طریق سے حل فرمایا وہ عول کہلاتا ہے.اور اسے ایک مثال کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے.مثال : ایک میت نے خاوند ، دو اخیافی بہنیں اور دو حقیقی بہنیں وارث چھوڑیں ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتائیے.یہ تینوں قسم کے ورثاء ذوی الفروض میں شامل ہیں اور ان کے حصے بالترتیب ۱/۲، ۱/۳ ۴+۲+ = = = 2 بن جاتا ہے +۲+ لکھا اور ۲/۳ ہیں جن کا مجموعی + + + + یعنی مفروضہ حصوں کا مجموعہ ترکہ کی اکائی (یعنی کل ترکہ) سے بڑھ جاتا ہے اور ورثاء کو ان کے پورے حصے نہیں ملتے اس کا حل یہ ہے کہ مفروضہ حصوں کو ان کی اپنی نسبت سے اتنا اتنا گھٹایا جاوے کہ ان کا مجموعہ ایک کے برابر ہو جائے جس کا آسان طریق یہ ہے کہ اصل حصوں کے مجموعہ (۹/۶) کے نسب نما (Denominator) ۶ کو بڑھا کر شمار کنندہ (Numerator) کے برابر کر دیں اس طرح حصوں کا مجموعہ جاتا ہے یعنی ذوی الفروض کے حصے علی الترتیب ۱/۲ ، ۱/۳ اور ۲/۳ کی بجائے ۳/۹، ۲/۹ اور ۴/۹ رہ جاتے ہیں.ان حصوں میں وہی نسبت قائم رہتی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے اور کوئی بھی ذوی الفروض محروم نہیں رہتا بلکہ ہر فر دحصہ رسدی اپنا مفروضہ حصہ حاصل کر لیتا ہے.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ طریق تقسیم یعنی عول شرعاً جائز ہے؟ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت اور احادیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی وقت اس طرح بھی ترکہ تقسیم کیا

Page 219

۲۱۱ گیا ہو.اس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا واقعہ جس میں ذوی الفروض کے حصوں کا مجموعہ اکائی سے بڑھ گیا ہو ایسا واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی پیش آیا.اور اس حدیث که مطابق فَعَلَيْكُمُ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ( مشکوۃ باب الاعتصام بالكتاب والسنة ) تَمَسَّكُوابها - یعنی تم پر میری (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ) اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی لازم ہے تمہیں چاہئے کہ تم اسے مضبوطی سے پکڑے رکھو.“ پس یہی طریق درست اور واجب العمل ہے اگر کوئی شخص اس طریق سے متفق نہ ہو تو اسے چاہئے کہ کوئی اور اس سے بہتر طریق بتلائے ورنہ سید نا حضرت عمرؓ کے بتلائے ہوئے طریق کو اپنائے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور ادب اور سلامت روی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ برضا و رغبت خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی کی جائے.یہاں دو احادیث بھی درج کئے دیتا ہوں جن سے یہ پتہ لگتا ہے کہ سید نا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت عمرؓ کا کیا مقام ہے.عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِ الْخُدْرِيِّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ وَعَلَيْهِمُ قُمُصٌ مِنْهَا مَايَبْلُغُ الشَّدْيَ وَمِنْهَا (مَايُبْلُغُ) دُونَ ذَلِكَ وَمَرَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَيْهِ تَمِيصٌ يَجُرُّهُ قَالُوا مَاذَا اَوَّلْتَ ذَالِكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ الدِّينُ.(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابه ) ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز فرمایا میں سو رہا تھا کہ لوگوں کو میرے سامنے پیش کیا گیا تمام لوگ میض پہنے ہوئے تھے ان میں سے بعض کی قمیض سینہ تک تھی اور بعض کی اس سے بھی کم پھر عمر بن خطاب میرے سامنے سے گزرے جو اپنی لمبی قمیض پہنے ہوئے تھے کہ اسے گھسیٹتے ہوئے چل رہے تھے صحابہ نے پوچھا اس خواب کی تعبیر آپ نے کیا لی ہے.حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میں نے لله

Page 220

۲۱۲ اس کی تعبیر دین سے لی ہے.۲ - عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ اذْرَأَيْتُ قَدْحًا اُتِيْتُ بِهِ فِيْهِ لَبَنٌ فَشَرِبْتُ مِنْهُ حَتَّى أَنِّي لَارَى الرَّيَّ يَجْرِى فِى أَظْفَارِى ثُمَّ اَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالُوا انَمَا أَوَّلْتَ ذَلِكَ يَارَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْعِلْمُ ( صحیح مسلم کتاب فضائل صحابه ) ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سو رہا تھا کہ مجھے دودھ کا پیالہ دیا گیا میں نے اس دودھ میں سے کچھ پیا جس کا اثر میں نے اپنے ناخنوں تک محسوس کیا پھر میں نے بچا ہوا دودھ عمر بن ا الخطاب کو دے دیا.صحابہ نے پوچھا اس خواب کی تعبیر آپ نے کیا لی ہے.آپ نے فرمایا ! علم ہے یہ دو احادیث صرف اس لئے نقل کی ہیں تا ہمیں حضرت عمر فاروق کی علمی شخصیت اور فقہی اور دینی مسائل کو سمجھنے کی اہلیت کے بارے میں علم ہو جائے.اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان خوبیوں سے کس قدر متصف فرمایا تھا.مسئلہ عول ان کا ایک عظیم الشان علمی حسابی کارنامہ ہے جس کے ذریعہ تمام ذوی الفروض کو حصوں کے تناسب سے ترکہ پہنچ جاتا ہے اور کوئی بھی محروم نہیں رہتا.سو تقسیم ترکہ کر کے ایسے سوالات جن میں وارثوں کے حصوں کا مجموعہ اکائی سے بڑھ جائے یعنی مسئلہ عول کو بروئی کا رلانے کی ضرورت ہو تو حسب ذیل دو طریقوں سے ترکہ تقسیم کیا جا سکتا ہے.الف.مفروضہ حصوں کے نسب نما کو بڑھا کر ان حصوں کے مجموعہ کے شمار کنندہ کے برابر کر دیں پھر ضمنی شمار کنندگان کے مطابق ورثاء کے حصے متعین کریں.یا اہل عبارت ( تعبیر ) کا قول ہے کہ قمیض کا خواب میں دیکھنا دین سے مراد ہوتا ہے اور اس کا گھسٹینا آثار جمیلہ اور سنن حسنہ کی بقا سے مراد ہے (نووی دوم صفحه ۲۷۴) کے دودھ کو خواب میں دیکھنا علم سے مراد ہے جیسے دودھ بچوں کی غذا اور ان کی تندرستی کا سبب ہے.اسی طرح علم صلاح آخرت اور دنیا کا سبب ہے.(نووی دوم صفحہ ۲۷۴)

Page 221

۲۱۳ کل جائداد کوا کائی تصور کر کے اس کو ذوی الفروض کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دیں.نوٹ نمبر ا عول کی صورت میں عصبات کو زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں پڑتی.کیونکہ وہ تو صرف ذوی الفروض سے بچا ہوا ترکہ حاصل کرتے ہیں اور یہاں بچت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.نوٹ نمبر ۲:.اگر میت کے وارثوں میں کوئی بیٹا موجود ہو تب بھی عول کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ خدائے علیم و حکیم نے فرقان مجید میں جو احکام نازل فرمائے ہیں.ان کے تحت بیٹے یا پوتے کی موجودگی میں یا تو بہت سے ذوی الفروض مکمل طور پر گر جاتے ہیں یا پھر ان کے حصوں میں اس قدر کمی آ جاتی ہے کہ ان کے حصے دینے کے بعد کافی مال بچ جاتا ہے جسے بیٹا یا پوتا حاصل کر لیتا ہے.جس سے اولاد کی اولیت، اہمیت ظاہر ہوتی ہے.مثال نمبر 1: ایک میت نے خاوند والدہ ، والد اور ایک بیٹی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.پہلا طریقہ = خاوند کا حصہ 1/ = والد کا حصہ والدہ کا حصہ = ۱/۶ بیٹی کا حصہ مجموعه =+ + + + + + + = ۶+۲+۲+ = نسب نما کو شمار کنندہ کے برابر کر دیں تو پھر بالترتیب یہ حصے ہوں گے.1/4 = ۱/۲ = ۳/۱۳ ۲/۱۳ ۲/۱۳ ، اور ۶/۱۳ یعنی اگر جائداد کے کل ۱۳ سہام کریں تو ۳ خاوند ، صرف ۲ والدہ کو، دو والد کو اور چھ سہام بیٹی کوملیں گے.دوسرا طریقہ = ورثاء کے حصوں میں تناسب ۶:۲:۲:۳ = ۶:۲:۲:۳ = +: +: +: + - اور تناسبی مجموعہ اس لئے ترکہ میں خاوند کا حصہ والدہ کا حصہ والد کا حصہ ۱۳ - ۲ +۲ + ۲ + = ٣/١٣ = ۲/۱۳ = ٢/١٣ =

Page 222

۲۱۴ ٦/١٣ = اور بیٹی کا حصہ مثال نمبر ۲: ایک میت نے زوجہ ، بیٹی ، پوتی ، والدہ اور والد وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.پہلا طریقہ : زوجہ کا حصہ = = ۱/۸ بیٹی کا حصہ 1/4 والدہ کا حصہ 1/r= 1/4 = 1/4 = + + + + + +++ = ۲۷ = = ۴+۴+۴+۱۲+۳ ۲۴ پوتی کا حصہ والد کا حصہ حصوں کا مجموعہ نسب نما (۲۴) کو شمار کننده (۲۷) کے برابر کرنے سے یہ حصے بالترتیب ۳/۲۷، ۱۲/۲۷، ۴/۲۷، ۴/۲۷، ۱۴/۲۷ ہوں گے یعنی اگر جائداد کے ۲۷ سہام کئے جائیں تو تین زوجہ کے ۱۲ بیٹی کے ۴ پوتی کے ۴ والدہ کے اور ۴ سہام والد کے ہوں گے.دوسرا طریقہ ورثاء کے حصوں کا تناسب ۴:۴:۴ : ۱۲ : ۳ = ۴:۴:۴:۱۲:۳ ۲۴ +:+:+:+:+ ۲۷ = ۴ + ۴ + ۴ + ۱۲ + ۳/۲۷ = ۱۲/۲۷ = ۴/۲۷ = ۴/۲۷ = لہذا تناسبی مجموعہ اس لئے ترکہ میں زوجہ کا حصہ بیٹی کا حصہ پوتی کا حصہ والدہ کا حصہ والد کا حصہ ۴/۲۷ اگر ترکہ کی مالیت ۲۷۰۰۰ روپے ہو تو زوجہ کو تین ہزار، بیٹی کو بارہ ہزار پوتی کو چار ہزار والدہ کو چار ہزار اور والد کو چار ہزار روپے ملیں گے.مثال نمبر ۳ :

Page 223

۲۱۵ ایک میت نے ایک زوجہ، دو حقیقی بہنیں ، ایک اخیافی بھائی اور ایک بھتیجا وارث چھوڑے اگر ترکہ کی مالیت ۱۳۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.پہلا طریق: زوجہ کا حصہ دو حقیقی بہنوں کا حصہ ہر بہن کا حصہ اخیافی بھائی کا حصہ = 1/8 ٢/٣ 1/4 حصوں کا مجموعہ = + = ۱۲ یہ عمول کی صورت میں اس میں بھتیجا جو عصبہ ہے محروم رہے گا.نسب نما کو شمار کنندہ کے برابر کرنے سے ورثاء کے حصے بالترتیب یہ ہوں گے ۳/۱۳ ۱۳/ ہر ایک کا ۴/۱۳) اور ۲/۱۳ یعنی اگر جائداد کے ۱۳ سہام کریں تو تین سهام بیوی کے ، چار ہر بہن کے اور دوا خیافی بھائی کے ہوں گے.دوسرا طریقہ ورثاء کے حصوں کا تناسب = + : : + = ۲:۸:۳ تناسبی مجموعه = ۳ + ۸ + ۲ اس لئے زوجہ کا حصہ ہر بہن کا حصہ = = ۱۲ ۳/۱۳ دو حقیقی بہنوں کا حصہ ۴/۱۳ اخیافی بھائی کا حصہ 1/15 = ۲/۱۳ = اس لئے ۱۳۰۰۰ روپے میں ۳۰۰۰ زوجہ کے ۴۰۰۰ روپے ہر بہن کے اور روپے اخیافی بھائی کے ہوں گے اور بھتیجا محروم رہے گا.مثال نمبر ۴ : ایک میت نے خاوند ، والدہ حقیقی بہن اور دوا خیافی بہنیں وارث چھوڑے اگر ترکہ قابل تقسیم ما بین ورثاء۹۰۰۰ روپے ہوتو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 224

1/4 ۲۱۶ = = پہلا طریقہ خاوند کا حصہ والدہ کا حصہ حقیقی بہن کا حصہ دوا خیافی بہنوں کا حصہ ++ + ++ = = ۲+۳+٣+١ = حصوں کا مجموعہ نسب نما کو شمار کنندہ (۹) کے برابر کرنے سے ورثاء کے حصے بالترتیب یہ ہوں گے ۱/۹، ۳/۹ اور ۲/۹ یعنی کل ۹ سہام میں سے تین خاوند کے، ایک والدہ کا تین حقیقی بہن کے اور ایک ہرا خیافی بہن کا ہوگا.1/9 = = ورثاء کے حصوں کا تناسب ۲:۳:۱:۳ ٢:٣:١:٣ دوسرا طریقہ =+:+:+: += 9 = 1 + 1 + 1 + 1 = ٣/٩ والدہ کا حصہ ٣/٩ ۳/۹ دوا خیافی بہنوں کا حصہ = = 1/9 اور تناسبی مجموعہ اس لئے خاوند کا حصہ حقیقی بہن کا حصہ ہر ایک کا حصہ اس لئے ۹۰۰۰ روپے میں سے ۳۰۰۰ خاوند کو، ۱۰۰۰ والدہ کو ۳۰۰۰ حقیقی بہن کو اور ۱۰۰۰ روپے ہرا خیافی بہن کو ملے گا.مثال نمبر ۵ ایک میت نے زوجہ، دو حقیقی بہنیں ایک اخیافی بہن اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ جب کہ ترکہ کی مالیت ۳۰۰۰ روپے ہو.1/7 پہلا طریقہ زوجہ کا حصہ

Page 225

۲/۳ 1/4 ۲۱۷ II دو حقیقی بہنوں کا حصہ اخیافی بہن کا حصہ والدہ کا حصہ حصوں کا مجموعہ 1/4 = ++ + ۱۵ ۱۲ ۲+۲+۸ +۳ = نسب نما کو شمار کنندہ کے برابر کرنے سے ورثاء کے حصے بالترتیب یہ ہوں گے ۳/۱۵، ۸/۱۵، ۲/۱۵ اور ۲/۱۵ دوسرا طریقہ ورثاء کے حصوں کا تناسب ۲:۲:۸ : ۳ ۲:۲:۸:۳ + =.+:: += تناسبی مجموعه ۱۵ = ۲ + ۲ + ۸ + ۳ = اس لئے ترکہ میں زوجہ کا حصہ دو حقیقی بہنوں کا حصہ اخیافی بہن کا حصہ والدہ کا حصہ ۳/۱۵ = = ۸/۱۵ ہر حقیقی بہن کا حصہ = ۴/۱۵ ۲/۵ ۲/۱۵ اس لئے ۳۰,۰۰۰ روپے میں سے زوجہ کے ۶۰۰۰ رو.روپے ہر ایک حقیقی بہن کے ۸۰۰۰ روپے اخیافی بہن کے ۲۰۰۰ روپے اور والدہ کے ۴۰۰۰ روپے ہوں گے.مثال نمبر ۶ : ایک میت نے زوجہ، دو حقیقی بہنیں ایک اخیافی بھائی اور ایک اخیافی بہن وارث چھوڑے.ہر ایک کا حصہ بتاؤ جبکہ ترکہ کی مالیت ۲۰۰۰ روپے ہو.1/7 ۲/۳ = = پہلا طریقہ زوجہ کا حصہ دو حقیقی بہنوں کا حصہ

Page 226

۱۲ ١/٣ + ۲۱۸ ۴+A+۳ ۱۲ = اخیافی بہن بھائی کا حصہ حصوں کا مجموعہ = نسب نما کو شمار کنندہ کے برابر کرنے سے ورثاء کے حصے بالترتیب یہ ہوں گے ۳/۱۵ ، ۸/۱۵ ۸/۱۵ اور ۴/۱۵ دوسرا طریقہ ورثاء کے حصوں کا تناسب ۴:۸:۳ ۴:۸:۳ = +::+ تناسبی مجموعه ۴ + ۸ + ٣ = = ۱۵ اس لئے ترکہ میں زوجہ کا حصہ = ۳/۱۵ دو حقیقی بہنوں کا حصہ = اخیافی بہن بھائی کا حصہ ۸/۱۵ ہر ایک کا حصہ = ۴/۱۵ = ۴/۱۵ ہر ایک کا حصہ = ۲/۱۵ لہذا ۶۰,۰۰۰ روپے میں سے زوجہ کے ۱۲۰۰۰ روپے، ہر حقیقی بہن کے ۱۶۰۰۰ روپے اخیافی بھائی کے ۸۰۰۰ روپے اور اخیافی بہن کے ۸۰۰۰ روپے ہوں گے.مثال نمبرے : ایک میت نے زوجہ، دو حقیقی ہمشیرگان، تین اخیافی ہمشیرگان اور والد وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ ؟ دوسرے طریقہ پر : ورثا کے حصوں کا تناسب ۲:۴:۸:۳ ۲:۴:۸:۳ = +:+:: # = ۱۷ = ۲ + ۴ + ۸ + ٣ = ۳/۱۷ 1/12 = = تناسبی مجموعه زوجہ کا حصہ دو حقیقی بہنوں کا حصہ

Page 227

۲۱۹ ہر ایک کا حصہ تین اخیافی بہنوں کا حصہ ہر ایک کا حصہ والد کا حصہ = /۱۷ /۱۷ ۴۵۱ 1/12 = یعنی اگر جائداد کے ۵۱ سہام کئے جائیں تو ۹ زوجہ کے، ۱۲ ہر حقیقی بہن کے، ہرا خیافی بہن کے ۴ اور ۶ سہام والد کے ہوں گے.

Page 228

۲۲۰ مشق نمبر ۴ سوالات مع جوابات ایک میت نے خاوند ، ایک عینی بہن اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: خاوند ۳/۷ مینی بہن ۳/۷، اور والدہ ۱/۷ ایک میت نے زوجہ ، ایک حقیقی بہن، ایک علاتی بہن اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : زوجہ کا حصہ ۳/۱۳ حقیقی بہن کا حصہ ٦/١٣ = ٢/١٣ علاقی بہن کا حصہ ۲/۱۳ اور والدہ کا حصہ =.ایک میت نے زوج، والدہ اور دو بیٹیاں وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: زوج کا حصہ ۳/۱۳ والدہ کا حصہ = ۲/۱۳، ہر ایک بیٹی کا حصہ = ۴/۱۳ ۴.ایک میت نے زوج والدہ ، بیٹی اور پوتی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : زوج کا حصہ ۳/۱۳، والدہ کا حصہ = ۲/۱۳، بیٹی کا ۶/۱۳، اور پوتی کا حصہ ۲/۱۳ ایک میت نے زوجہ، دو حقیقی بہنیں اور دو اخیافی بہنیں وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: زوجہ کا حصہ ہرا خیافی بہن کا حصہ = ۳/۱۵ ہر حقیقی بہن کا حصہ = ۴/۱۵ ۴/۱۵ ایک میت نے بیوی ، دو حقیقی بہنیں ، دو اخیافی بہنیں اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: بیوی کا حصہ = ۳/۱۷ ہر حقیقی بہن کا حصہ ہرا خیافی بہن کا حصہ = ۲/۱۷ والدہ کا حصہ ۴/۱۷ = ۲/۱۷ = ایک میت نے زوجہ ، دو بیٹیاں والد اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : زوجہ کا حصہ والد کا حصہ = ۳/۲۷ ہر بیٹی کا حصہ ۴/۲۷ والدہ کا حصہ A/PL = ۴/۲۷ = ایک میت نے خاوند، دو حقیقی بہنیں ، ۱۳ خیافی بہنیں اور ۵ اخیافی بھائی اور والدہ

Page 229

۲۲۱ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: خاوند کا حصہ = ۳/۱۰ ہر حقیقی بہن کا حصہ ہرا خیافی بہن یا بھائی کا حصہ = ۱/۴۰ اور والدہ کا حصہ = ٢/١٠ = 1/1.ایک میت نے خاوند، دو حقیقی بہنیں اور دو اخیافی بھائی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : خاوند کا حصہ ہرا خیافی بھائی کا حصہ = ۳/۹ ہر حقیقی بہن کا حصہ 1/9 = ٢/٩ = ۱۰.ایک میت نے خاوند ، والدہ، دو حقیقی بہنیں، اور ایک اخیافی بھائی اور بہن وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: خاوند کا حصہ = 1/10 = ٣/١٠ والدہ کا حصہ ہر حقیقی بہن کا حصہ = ۲/۱۰ ہر اخیافی بھائی بہن کا حصہ = ۱/۱۰ ایک میت نے خاوند ، والدہ اور حقیقی بہن وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: خاوند کا حصہ حقیقی بہن کا حصہ ۳/۸ والدہ کا حصہ = ٣/٨ = ٢/٨ = ۱۲.ایک میت نے خاوند، حقیقی بہن ، علاتی بہن اور مادری بہن وارث چھوڑے.ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: خاوند کا حصہ علاقی بہن کا حصہ ۳/۸ حقیقی بہن کا حصہ = ١/٨ = مادری بہن کا حصہ = ٣/٨ = 1/A

Page 230

۲۲۲ ۳.مسئلہ رو بعض حالات میں ذوی الفروض کو ان کے شرعی حصے دینے کے بعد کچھ ترکہ بیچ رہتا ہے اور عصبہ کوئی بھی موجود نہیں ہوتا.اس صورت میں باقی ماندہ تر کہ بھی ذوی الفروض میں ہی تقسیم کر دیا جاتا ہے یہ عمل وراثتی اصطلاح میں ”رڈ“ کہلاتا ہے.جس کے لغوی معنے لوٹانے، گویا ردّ عول کی ضد ہے عول کا عمل اس وقت ہوگا جب مفروضہ حصوں کا مجموعہ مخرج ( یعنی اکائی) سے بڑھ جائے اور رڈ کے عمل کی اس وقت ضرورت پیش آتی ہے جب یہ مجموعہ اکائی سے کم رہ جائے.رڈ کے مال میں سے زوجین (میاں، بیوی) کو کچھ نہیں دیا جاتا.یہ امر سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے اکابر صحابہ کرام کے اقوال سے ثابت ہے اور علماء احناف کا بھی یہی مسلک ہے اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ خاوند اور بیوی نسبی رشتہ دار نہیں بلکہ ان کا رشتہ انسان کا خود پیدا کردہ ہے اس لئے نسبی رشتہ کو اس پر ترجیح حاصل ہے.لہذا میاں بیوی کو مقررہ حصہ ہی ملتا ہے.اور رڈ کا مال صرف نسبی ذوی الفروض کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے یہ نسبی ذوی الفروض سات ہیں.والده، د ۲.جدہ، ۳.بیٹی، ۴.پوتی حقیقی بہن،.علاقی بہن ے.اخیافی بہن اور بھائی والد کا شمار ذوی الفروض کے علاوہ عصبہ میں بھی ہے لہذا والد کے ہوتے ہوئے رو کی صورت پیش نہیں آتی.کیونکہ تمام بچا ہوا مال والد حاصل کر لیتا ہے.اگر صرف زوج یا زوجہ وارث ہوں تو فقہاء احناف کے نزدیک ان کو ان کے شرعی حصے دینے کے بعد باقی کا ترکہ بیت المال میں داخل کروا دینا چاہئے.ہاں اگر بیت المال کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو تو پھر باقی ماندہ تر کہ زوجین پر رڈ ہو گا.مسئلہ رڈ کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا بھی یہی مسلک ہے! حضرت زید بن ثابت کی رائے یہ ہے کہ باقی ماندہ تر کہ کسی صورت میں بھی ذوی

Page 231

۲۲۳ الفروض پر رڈ نہ کیا جائے بلکہ باقی ماندہ تر کہ تمام کا تمام بیت المال میں داخل ہونا چاہئے.یہی مسلک امام مالک اور امام شافعی کا ہے.حنفی علما اپنے مسلک کی تائید میں اس حدیث سے استدلال کرنے ہیں.اَلْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ (ابوداؤد) دد یعنی جس کا اور کوئی وارث موجود نہیں تو ( پھر ) ماموں اس کا وارث ہے.“ اس حدیث سے تین باتیں ظاہر ہوتی ہیں.اول : ذوی الارحام کو میراث کا پہنچنا.جس کا ذکر پچھلے باب میں ہو چکا ہے.دوم یہ کہ ذوی الارحام کو بھی ورثہ ملے گا.جب اور کوئی وارث نہ ہو.ورنہ اگر کوئی عصبہ موجود ہو تو متروکہ اسے مل جاتا ہے.ماموں تک نہیں پہنچتا.سوم جب کوئی عصبہ موجود نہ ہو تو ذوی الفروض کو اُن کے مقررہ حصے دینے کے بعد جو مال بچے وہ ذوی الارحام کو نہیں مل سکتا کیونکہ ذوی الارحام کو اسی وقت میراث پہنچتی ہے جب اور کوئی وارث نہ ہو اور یہاں ذوی الفروض موجود ہیں.پس ان کے مقررہ حصوں سے زائد مال بھی انہیں کے درمیان تقسیم ہو گا.اور اسی کو رڈ کہتے ہیں سو اس حدیث سے واضح ہے کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں جو بعد میں بنالیا گیا ہو.اب ہم ایسی مثالیں لیتے ہیں جس میں رڈ کی ضرورت پیش آتی ہے اور پھر یہ کہ کس طرح اسے حل کیا جا سکتا ہے.مثال نمبر 1: ایک میت نے والدہ ، دوا خیافی بہنیں وارث چھوڑیں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/4 = ۱/۳ = = = = 1+1 = والدہ کا حصہ دوا خیافی بہنوں کا حصہ ورثاء کا کل حصہ = اس صورت میں آدھی جائداد بچ جاتی ہے.اب یہ ۱/۲ جائداد بھی والدہ اور دو اخیافی بہنوں کو ان کے حصہ کی نسبت کے لحاظ سے یعنی ۱/۶ : ۱/۳ = ۱ : ۲ سے رڈ ہوگی.یعنی

Page 232

۲۲۴ لوٹا دی جائے گی.اس لئے باقی (۱/۲) میں والدہ کا حصہ = اور اخیافی بہنوں کا حصہ اس لئے والدہ کا کل حصہ دوا خیافی بہنوں کا حصہ = || -15-2 + + + = = یا ہر ایک کا کل حصہ = اس عمل کو یوں آسان کیا جا سکتا ہے کہ رڈ کی صورت میں شروع سے ہی کل جائداد کو ورثاء کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دو.یہاں والدہ اور اخیافی بہنوں کے حصوں میں نسبت 5 : 1 = 1/1 : 1/4 = پس کل جائداد کو ۱ : ۲ سے تقسیم کر دو.× 1 = = = = × 1 14 = اس لئے والدہ کا کل حصہ دوا خیافی بہنوں کا حصہ نوٹ رڈ میں خاوند یا بیوی کو حصہ نہیں دیا جاتا اس لئے ایسی صورتوں ( مثالوں) میں جب که زوج یا زوجہ موجود ہو تو اُن کے مقررہ حصے جائداد سے نکالنے کے بعد باقی کو دوسرے الفروض میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دو.مثال نمبر ۲: ایک میت نے زوج، والدہ اور بیٹی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.1/M 1/3 = 1/3 1 = 1/4 ۳: = = زوج کا حصہ باقی والدہ کا مقررہ حصہ = بیٹی کا مقررہ حصہ = والدہ اور بیٹی کے حصوں میں نسبت اس لئے باقی (۳/۴ حصہ ) کو ۳:۱ سے والدہ اور بیٹی میں تقسیم کر دو.پس والدہ کا کل حصہ = بیٹی کا کل حصہ = x = ۳ (۶/ البطور مقررہ حصہ اور ۱/۴۸ بطور رڈ) x = ۱۶ (۱/۲ بطور مقررہ حصہ اور ۱۶/ ۱ بطور رڈ)

Page 233

۲۲۵ یعنی اگر جائداد کے کل ۱۶ سہام کئے جائیں تو چار خاوند کو تین والدہ کو اور ۹ سہام بیٹی کو ملیں گے.اس اصول کو مد نظر رکھ کر ہم رڈ کی ہر صورت کو حل کر سکتے ہیں.مثال نمبر ۳ ایک میت نے زوجہ اور ایک بیٹی وارث چھوڑے تو ان کے حصے یہ ہوں گے.زوجہ کا حصہ بیٹی کا حصہ مثال نمبر ۴ : = = ۱/۲ بطور ذوی الفروض کے اور ۳/۸ بذریعہ رد) اگر ایک میت نے والدہ اور پوتی وارث چھوڑے ہوں تو ان کے حصے یہ ہوں گے.والدہ اور پوتی کے حصوں میں تناسب = اس لئے والدہ کا کل حصہ اس لئے ہوتی کا کل حصہ ۳:۱ = +: + / = ۳/۴ = مثال نمبر ۵ اگر ایک میت نے ایک دادی، ایک نانی اور دو بیٹیاں وارث چھوڑے ہوں تو ان کے حصے بتاؤ.دادای اور نانی کا حصہ 1/4 دو بیٹیوں کا حصہ ان کے حصوں میں تناسب ٢/٣ r: 1 = : = اس لئے دادی اور نانی کا کل حصہ دو بیٹیوں کا حصہ مثال نمبر ۶ : = = ۱/۵ ہر ایک کا کل حصہ = ۱/۱۰ ۴/۵ ایک بیٹی کا کل حصہ = ۲/۵ ایک میت نے والدہ ایک حقیقی بہن اور ایک علاتی بہن وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والدہ کا حصہ مقررہ حصے حقیقی بہن کا حصہ = 1/4 ۱/۲ =

Page 234

= ۲۲۶ ۱۵ ۳/۵ 1/0 = = = || علاقی بہن کا حصہ ان کے حصوں میں نسبت نسبتی مجموعه اس لئے والدہ کا کل حصہ حقیقی بہن کا کل حصہ علاقی بہن کا کل حصہ مثال نمبرے : ایک میت نے ایک حقیقی بہن ، ایک علاقی بہن اور ایک اخیافی بہن وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.حقیقی بہن کا حصہ مقررہ حصے علاقی بہن کا حصہ اخیافی بہن کا حصہ 1/F = 1/4 = 1:1: = +: + = ۳/۵ ان کے حصوں میں نسبت اس لئے حقیقی بہن کا کل حصہ = علاقی بہن کا کل حصہ اخیافی بہن کا کل حصہ مثال نمبر ۸ : || = || 1/ 1/0 ایک میت نے والدہ حقیقی بہن اور اخیافی بھائی وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.والدہ کا حصہ مقررہ حصے حقیقی بہن کا حصہ اخیافی بھائی کا حصہ ان کے حصوں کا نسبت نسبتی مجموعه اس لئیوالدہ کا کل حصہ 1/4 = 1/ 1/4 = = = = ۱/۵ -12 1:7:1 =

Page 235

1/4 ۲۲۷ 1/0 = حقیقی بہن کا کل حصہ اخیافی بھائی کا کل حصہ مثال نمبر ۹: ایک میت نے زوجہ ، والدہ اور بیٹی وارث چھوڑے ہر ایک کے حصے بتاؤ.2/^= ۲۱ ۳۲ ۱/۸ اس لئے باقی = x 1/7 1/F = زوجہ کا حصہ والدہ کا مقررہ حصہ بیٹی کا مقررہ حصہ والدہ اور بیٹی کے حصوں میں نسبت = : + = اس لئے ۷/۸ میں والدہ کا حصہ اس لئے ۷/۸ میں بیٹی کا حصہ گویا اگر جائداد کے ۳۲ سہام کئے جائیں تو چار سهام بیوی کو سات والدہ کو اور ۲۱ ایک میت نے زوجہ ، اخیافی بھائی ، اخیافی بہن اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا بیٹی کو ملیں گے.مثال نمبر ۱۰: حصہ بتاؤ.زوجہ کا حصہ = ۳/۴ = ۱/۴ اس لئے باقی 1/4 = = 1 1:1: -le-le-le II 1/4 1 1 ۶ -|2 자 X اخیافی بھائی کا حصہ مقررہ حصے اخیافی بہن کا حصہ والدہ کا حصہ = 1/4 = اخیافی بھائی ، بہن اور والدہ کے حصوں کا تناسب = نسبتی مجموعه اس لئے اخیافی بھائی کا کل حصہ اخیافی بہن کا کل حصہ والدہ کا حصہ =

Page 236

۲۲۸ یعنی اگر جائداد کے چار حصے کئے جائیں تو ہر ایک کو ایک ایک حصہ دیا جائے گا.مثال نمبر 11 ایک میت نے خاوند اور نواسہ چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.خاوند کا حصہ باقی ١/٢ = ١/٢ = یہ نواسہ کو مل جائے گا کیونکہ خاوند کو باقی جائداد بذریعہ رڈ نہیں مل سکتی زوج یا زوجہ ا گر چه ذوی الفروض ہیں.لیکن ان کے ہوتے ہوئے بھی ذوی الارحام کو میراث پہنچتی.ہے.مسئلہ رڈ کے سوالات کو بعض مصنفین نے اس طریق سے بھی حل کیا ہے کہ تمام موجود ذوی الفروض کے حصے لکھ دیئے اور ان کو جمع کیا.رڈ میں نسب نما شمار کنندہ سے بڑا ہوتا ہے اس لئے نسب نما کو شمار کنندہ کے برابر کر دو.( یعنی نسب نما کو اتنا کم کر دو کہ شمار کنندہ کے برابر ہو جائے ) اس نئے نسب نما کو لے کر اس پر الگ الگ ضمنی شمار کنندگان لکھ دو.ورثا کے مکمل حصوں کی مقدار میں حاصل ہو جائیں گی مثلاً :- فرض کیجئے کہ ایک میت نے بیٹی ، پوتی اور والدہ وارث چھوڑے اور ہم نے ان کے حصے معلوم کرنے ہیں اب.بیٹی کا حصہ پوتی کا حصہ والدہ کا حصہ ان حصوں کا مجموعہ = ۱/۲ = 1/4 = 1/4 = = 1+1+1 = ++ + + + یہاں نسب نما ۶ ہے اور شمار کننده ۵.نسب نما کو شمار کنندہ کے برابر کر دو.تو پھر علی الترتیب مکمل حصے یہ ہوں گے.۱/۵ ، ۱/۵ ، ۳/۵ پہلا طریق زیادہ آسان ہے یعنی ذوی الفروض کے مقررہ حصوں کے تناسب سے کل جائداد تقسیم کر دی جائے.اگر زوج یا زوجہ زندہ ہو تو اس کا شرعی حصہ نکالنے کے بعد باقی ترکہ کو دوسرے ذوی الفروض میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کریں.اس لئے رڈ کے تمام سوالات پہلے طریق سے ہی حل کرنے چاہئیں.

Page 237

۲۲۹ مشق نمبر ۵ سوالات مع جوابات ایک میت نے ایک جدہ اور ایک اخیافی بہن وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.۱/۲ اخیافی بہن 1/M = ایک میت نے ایک بیٹی ، ایک پوتی اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: جدہ کا حصہ جواب : بیٹی کا حصہ والدہ کا حصہ ۳/۵ پوتی کا حصہ 1/0 = 1/ =.ایک میت نے ایک بیٹی اور تین پوتیاں وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : بیٹی کا حصہ = ۳/۴ ہر پوتی کا حصہ 1/15 = ۴.ایک میت نے چار جدہ ، ایک زوجہ اور چھ اخیافی بہنیں وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: ہر جدہ کا حصہ ہرا خیافی بہن کا حصہ = ۱/۱۶ زوجہ کا حصہ = ١/١٢ ۱/۴ = ایک میت نے ۴ بیویاں ، نو بیٹیاں، اور چھ دادیاں نانیاں چھوڑیں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: ہر بیوی کا حصہ ہر دادی نانی کا حصہ = ۱/۳۲ ہرلڑکی کا حصہ = ۷/۲۴۰ = 2/90 ایک میت نے زوجہ ، والدہ اور دو پوتیاں وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : زوجہ کا حصہ دو پونیوں کا حصہ = 2/10 = والدہ کا حصہ ۷/۴۰ = ایک متوفیہ نے خاوند ، ایک اخیافی بھائی اور ایک اخیافی بہن وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب: خاوند کا حصہ اخیافی بھائی کا حصہ = ۱/۲ اخیافی بہن کا حصہ = ۱/۴ ایک میت نے زوجہ، اخیافی بھائی اور اخیافی بہن وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 238

جواب: زوجہ کا حصہ اخیافی بہن کا حصہ ۱/۴ اخیافی بھائی کا حصہ = = M/A = ٣/٨ ایک میت نے زوجہ ، اخیافی بھائی، اخیافی بہن اور والدہ وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ بتاؤ.جواب : زوجہ کا حصہ ۱/۴ اخیافی بہن کا حصہ = اخیافی بھائی کا حصہ = ۱/۴ والدہ کا حصہ 1/8 1/ = ۳/۴ = ۱۰.ایک میت نے زوجہ اور بھیجی وارث چھوڑے ہرا یک کا حصہ بتاؤ.جواب : زوجہ کا حصہ = ۱/۴ بھتیجی کا حصہ نوٹ بھیجی ذوی الارحام میں ہے یہ اس لئے بقیہ جائداد کو اسی کو ہی ملے گی.کیونکہ زوجہ رڈ کی مستحق نہیں.

Page 239

۲۳۱ ۴.مسئلہ تخارج تخارج خرج سے ہے اور اس کے معنے آپس میں ایک دوسرے کو خارج کرنے کے ہیں.وراثتی اصطلاح میں جب ایک یا زیاد وارث باہمی رضا مندی سے ترکہ میں سے کچھ مال لے کر باقی ترکہ سے دستبرداری اختیار کر لیں تو ایسے وارث کے باقی ترکہ کی تقسیم سے نکل جانے کو تخارج کہتے ہیں.اب ظاہر ہے کہ نکلنے والا وارث جو کچھ لے کر دستبرداری اختیار کرتا ہے وہ اس کے شرعی حصہ سے کم بھی ہو سکتا ہے، زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور برابر بھی ہوسکتا ہے.پہلی صورت میں جب وہ ایسی رقم پر راضی ہو جاتا ہے جو اس کے شرعی حصہ سے کم ہو تو بچی ہوئی رقم دوسرے ورثاء میں اُن کے حصوں کی نسبت سے تقسیم کر دی جاتی ہے اسے طرح دوسرے ورثاء اپنے شرعی حصوں سے کچھ زائد حاصل کرتے ہیں.دوسری صورت میں جب وہ ایسی رقم پر راضی ہوتا ہے جو اس کے شرعی حصہ سے زیادہ ہے تو پھر یہ زیادہ رقم دوسرے ورثاء کے حصوں سے اُن کے حصوں کے تناسب سے وضع کی جاتی ہے.اس طرح دوسروں کو قدرے کم ملتا ہے.بہر حال یہ معاملہ صلح اور رضا مندی کا ہے تخارج میں یہ شرط ہے کہ جو کچھ لیا ہو وہ مورث کے متروکہ میں سے ہو اگر باقی وارثوں نے اپنی ذاتی جائداد میں سے کچھ دیا تو اس کو تخارج نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ وہ اپنے حصہ کی بیع ہے جس پر شرائط بیع عائد ہوں گی.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایسی صلح ، ملعجائز ہے؟ اور اس کی دلیل جواز کیا ہے.اس کا ثبوت وہ واقعہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں پیش آیا تھا.حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی چار بیویوں میں سے ایک بیوی تماضر الشجیہ کو اپنی آخری بیماری کے ایام میں طلاق دے دی.ابھی وہ بیوی اپنی عدت کے ایام ہی گزار رہی تھی کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کا انتقال ہو گیا.چونکہ یہ طلاق شرعی لحاظ سے تکمیل کو نہیں پہنچی تھی اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بیوی کو بھی اُن کے ترکہ کا وارث قرار دیا.سو یہ بیوی بھی اُن کے ترکہ میں دوسری بیویوں کی طرح ۱/۳۲ حصہ کی وارث قرار پائی ، لیکن اس نے دوسری بیویوں کے ساتھ تر اسی ہزار دینار کے بدلے صلح کر کے ترکہ

Page 240

۲۳۲ سے دستبرداری اختیار کر لی.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تخارج جائز ہے.اس مسئلہ کی تفاصیل ذہن نشین کرنے کے لئے نیچے چند مثالیں درج کی جاتی ہیں.مثال نمبر ا : ایک میت نے زوجہ ، والدہ ، ایک بھائی وارث چھوڑے اس کا ترکہ ایک مکان تھا.جس کی مالیت ۱۸۰۰۰ روپے تھی اور ایک رقم ۳۰۰۰ روپے جو بنک میں تھی.اس کی زوجہ نے دوسرے ورثاء کی رضا مندی سے ۳۰۰۰ روپے کی رقم کے بدلہ میں اپنے حق سے دستبرداری اختیار کر لی.والدہ اور بھائی کا حصہ بتاؤ.حل کا ایک طریقہ کل ترکه زوجہ کا مقررہ حصہ = اس لئے ۲۱۰۰۰ روپے میں زوجہ کا حصہ = والدہ کا مقررہ حصہ = = ۳۰۰۰ + ۱۸۰۰۰ = 1/M = ۱/۴ × ۲۱۰۰۰ ۱/۳ = ۱/۳ × ۲۱۰۰۰ اس لئے ۲۱۰۰۰ روپے میں والدہ کا حصہ = ۲۱۰۰۰ روپے ۵۲۵۰ روپے ۷۰۰۰ روپے ( بھائی کا مقررہ حصہ = باقی کا ترکہ = 1 + + +) = $ 1 ) - ۱۲ اس لئے ۲۱۰۰۰ روپے میں بھائی کا حصہ = ۲۱۰۰۰ ☑ ۱۲ ۸۷۵۰ = اگر زوجہ صلح نہ کرتی تو ورثاء کے حصے اسی طرح ہوتے.جس طرح اوپر دکھائے گئے ہیں اب چونکہ اس نے ۳۰۰۰ روپے کے بدلے اپنا حق چھوڑ دیا اس لئے اس کے حصے سے بچا ہوا روپیہ (۲۲۵۰) والدہ اور بھائی میں ان کے حصوں کے تناسب سے یعنی = : = ۵:۴ سے تو کر دیا جائے گا.۱۲ تقسم لہذا ۲۲۵۰ روپے میں والدہ کا حصہ اور بھائی کا حصہ پس والدہ کا کل حصہ بھائی کا کل حصہ = = ۲۲۵۰ × = = ۱۰۰۰ روپے ۲۲۵۰۰ × ۵ = ۱۲۵۰ روپے = 1 + 2*** = ۸۰۰۰ روپے = ۸۷۵۹ + ۱۲۵۰ = ۱۰۰۰۰ روپے دوسرا طریقہ ایسے سوالات اس طریق سے بھی حل کئے جا سکتے ہیں کہ تقسیم کرتے وقت پہلے زوجہ ( صلح کرنے والے وارث ) کو تقسیم میں شامل سمجھا جائے پھر جب دوسرے وارثوں کو حصہ

Page 241

۲۳۳ دینے لگیں تو اسے کالعدم سمجھا جائے.اور جائداد میں سے وہ جائداد بھی خارج کر دی جائے جو خارج ہونے والا حصہ دار وصول کر چکا ہو اور باقی حصہ داروں میں باقی جائداد کو ان کے حصوں کی نسبت سے تقسیم کیا جائے جو خارج ہونے والے حصہ دار کو شامل کر کے متعین کئے گئے تھے مثلاً مندرجہ بالا مثال میں بیوی کا مقررہ حصہ = والدہ کا مقررہ حصہ = V/c ۱/۳ بھائی کا مقررہ حصہ = باقی کا = ۵/۱۲ اب زوجہ کو اور اس کے وصول کردہ حصہ کو نکال دیں تو باقی جائداد یعنی صرف مکان کی مالیت ۱۸۰۰۰ روپے قابل تقسیم رہ جاتی ہے یہ رقم والدہ اور بھائی میں اُن کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دیں یعنی یہ : م = ۴ : ۵ سے.:- ۱۲ = = ۱۸۰۰۰ × ۴/۹ = ۸۰۰۰ روپے ۱۸۰۰۰ × ۵/۹ = ۱۰۰۰۰ روپے اس لئے والدہ کا کل حصہ بھائی کا کل حصہ نوٹ: اگر شروع میں حصے متعین کرتے وقت زوجہ کو شامل نہ کریں تو پھر دوسروں کے حصوں میں فرق پڑ جاتا ہے یعنی ذوی الفروض کے حصے کم ہو جاتے ہیں اور عصبات یا عصبہ کے بڑھ جاتے ہیں اور یہ جائز نہیں.مثلاً اگر بیوی کو شروع سے ہی خارج از تقسیم ترکہ کر دیں اور دوسروں کے حصے متعین کرنے میں اسے شامل نہ کریں تو 1/12 = (1/12 - 1) والدہ کا حصہ ۱/۳ = بھائی کا حصہ = لہذا ۱۸۰۰۰ روپے میں والدہ کا حصہ = اور بھائی کا حصہ = ۲۰۰۰ روپے ۱۲۰۰۰ روپے اس طرح والدہ کو اپنے حق سے ۲۰۰۰ کم ملتے ہیں.پس شروع میں حصے متعین کرتے وقت تخارج اختیار کرنے والے وارث کو شامل کیا جائے گا پھر باقی جائداد میں سے دوسروں کو ا جس کے بدلے میں وارث باقی ترکہ سے دستبرداری اختیار کرتا ہے یعنی تخارج

Page 242

۲۳۴ حصے دیتے وقت اسے کالعدم سمجھا جائے گا.مثال نمبر ۲: ایک میت نے خاوند، والدہ اور چچا وارث چھوڑے.اس نے مرتے وقت اپنے حق مہر بذمہ خاوند کے علاوہ ۲۰۰۰ روپے چھوڑے.خاوند نے تقسیم ترکہ کے وقت یہ کہہ کر کہ میں اپنا حق (حصہ ( حق مہر کے بدلہ چھوڑتا ہوں باقی جائداد سے دستبرداری اختیار کر لی 1/F ۱/۳ += = ( + ) - 1 = والدہ اور چچا کے حصے بتاؤ.خاوند کا مقررہ حصہ والدہ کا مقررہ حصہ چچا کا مقررہ حصہ اب باقی جائداد کی تقسیم کے وقت خاوند کو چھوڑ دیا جائے اور باقی ترکہ ۶۰۰۰ ۲۰۰۰ روپے والده اور چچا میں + : 4 یعنی ۲: ا سے تقسیم کر دیا جائے گا.اس لئے والدہ کا حصہ چا کا حصہ = = ۶۰۰۰ × ۲/۳ = ۴۰۰۰ روپے ۶۰۰۰ × ۱/۳ = ۲۰۰۰ روپے نوٹ : اگر پہلے ہی خاوند کو ترکہ سے نکال دیا جاتا تو تقسیم بالکل الٹ ہو جاتی ہے یعنی والدہ کا حصہ چا کا حصہ 1/M = = باقی جائداد = ۱ - ۱/۳ - ۲/۳ اس صورت میں ۶۰۰۰ روپے والدہ اور چچا میں ۲:۱ سے تقسیم ہوں گے اور والدہ کو ۲۰۰۰ روپے اور چا کو ۴۰۰۰ روپے ملیں گے جو کہ صحیح نہیں.اس لئے ضروری ہے کہ شروع میں حصے متعین کرتے وقت تخارج اختیار کرنے والے وارث کو شامل رکھا جائے پھر باقی جائداد کی تقسیم کے وقت اسے نکال دیا جائے.مثال نمبر ۳ : ایک میت نے بیوی، والدہ اور ایک حقیقی بھتیجا چھوڑے.متوفی کی جائداد کچھ نقدی اور کچھ اراضی پر مشتمل ہے جس کی مجموعی مالیت ۱۲۰۰۰ روپے ہے بیوی اس بات پر راضی ہوگئی کہ اگر اس کو نقد رقم سے ۲۰۰۰ روپیہ دے دیا جائے تو اسے باقی ترکہ سے کوئی

Page 243

۲۳۵ سرو کار نہیں ہو گا.دوسرے ورثاء بھی اس پر رضامند ہیں والدہ اور بھتیجے کا حصہ بتا ئیں.پہلا طریقہ : بیوی کا مقررہ حصہ = 1/8 والدہ کا مقررہ حصہ = 1/F بھتیجے کا مقررہ حصہ = ۵/۱۲ ۱۲۰۰۰ روپے میں بیوی کا حصہ = ۱۲۰۰۰ × ۱/۴ = ۳۰۰۰ روپے والدہ کا حصہ ۱۲۰۰۰ × ۱/۳ = ۴۰۰۰ روپے بھتیجے کا حصہ = ۱۲۰۰۰ × ۵/۱۲ = ۵۰۰۰ روپے بیوی نے ۲۰۰۰ روپے کے بدلے اپنے حق سے دستبرداری اختیار کی اس لئے اس کے حصے سے بچی ہوئی رقم یعنی ۳۰۰۰ - ۲۰۰۰ - ۱۰۰۰ روپے والدہ اور بھتیجے میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کی جائے گی.یعنی ۴ : ۵ سے لہذا ۱۰۰۰ روپے میں والدہ کا حصہ = ۴ = = ۲ ۲۴۴ روپے ۱۰۰۰ روپے میں بھتیجے کا حصہ پس والدہ کا کل حصہ بھتیجے کا حصہ - ۵ × ۱۰۰۰ ۵ ۵۰۰ = ۲ ۵۵۵ روپے = ۴۴۴ ۴ + ۴۰۰۰ + ۵۰۰۰ = || ۹ ۹ ۴۴۴۴ روپے ۵۵۵ = ۴ ۵۵۵۵ رو - روپے ۹ دوسرا طریقہ: حصے معلوم کرنے کے بعد بیوی کو معدوم سمجھیں اور باقی ترکہ یعنی ۱۰,۰۰۰ روپے والدہ اور بھتیجے کے درمیان اُن کے مقررہ حصوں کے تناسب : ۵:۴ سے تقسیم کریں.تو والدہ کا حصہ بھتیجے کا حصہ = = ۵/۹ × ۱۰۰۰۰ = = ۱۲ ۴ = ۹ ۴۴۴۴ روپے ۵۵۵۵ رو روپے

Page 244

مثال نمبر ۴ : ۲۳۶ ایک میت نے ایک زوجہ اور چار بیٹے وارث چھوڑے.ایک بیٹے نے کچھ مال کے عوض دوسرے ورثاء کی رضا مندی سے باقی ترکہ سے دستبرداری اختیار کر لی.بتائیے اب باقی تر کہ زوجہ اور باقی بیٹوں میں کس نسبت سے تقسیم ہو گا ؟ زوجہ کا مقررہ حصہ = ۱/۸ لہذا ایک بیٹے کا حصہ = ہے کیونکہ چار بیٹوں کا مقررہ حصہ = باقی کا = ۱ - ۷/۸ ایک بیٹا کچھ مال کے عوض ترکہ سے دستبردار ہو گیا.اس لئے اب ہم اسے معدوم سمجھیں تو زوجہ اور تین بیٹے رہے اور ان کے مقررہ حصوں کی نسبت 4 : ہے.اس لئے باقی کا ترکہ ان میں ۴ : ۲۱ سے تقسیم ہو گا.یعنی اگر اس باقی ترکہ کے ۲۵ سہام کئے جائیں تو چار زوجہ کو اور ۲۱ تین بیٹوں کو یاسے ہر بیٹے کو ملیں گے.مثال نمبر ۵ ایک میت نے زوجہ ، والدہ ، ایک اخیافی بھائی اور ایک بھتیجا وارث چھوڑے اخیافی ائی نے ۳۰۰۰ روپے کے عوض اپنے حق سے دستبرداری اختیار کر لی دوسرے ورثاء بھی اس پر راضی ہو گئے.اگر متوفی کا کل ترکہ ۲۷۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک کا حصہ بتائیے.اخیافی بھائی کا مقررہ حصہ والدہ کا مقررہ حصہ بیوی کا مقررہ حصہ بھتیجے کا مقررہ حصہ = 1 - ( ½½ + ½ + ½ ) - 1/4 = = 1/ = = == ۳+۲+۲ - ۱ ۱۲ اخیافی بھائی روپے کے عوض تخارج اختیار کیا.اس لئے اس کو ورثاء سے اور ۳,۰۰۰ روپے کو ترکہ سے نکال دیں باقی رقم ۲۴,۰۰۰ روپے والدہ ، بیوی اور بھتیجے کے مقررہ حصوں کے تناسب کے لحاظ سے تقسیم کریں.یعنی ہے : : ==۴ : ۳ : ۳ سے.اس لئے والدہ کا حصہ بیوی کا حصہ ہے ۴/۱۰ × ۲۴۰۰۰ = ٣/١٠ ۱۰ × ۲۴۰۰۰ = = ۸۶۰۰ روپے = ۲۰۰ ۷ روپے

Page 245

بھتیجے کا حصہ = ۲۳۷ = ٣/١٠ ۱۰ × ۲۴۰۰۰ ۲۰۰ ۷ روپے سوال نمبر 1: ایک میت نے بیوی، والدہ ، اخیافی بھائی اور چچا وارث چھوڑے اگر اس کی کل جائداد ۳۰۰۰۰ روپے مالیت کی ہو اور اس کے اخیافی بھائی نے برضا مندی دیگر ورثاء ایک زمین کے ٹکڑے کے بدلے میں جس کی مالیت ۳۰۰۰ روپے ہے اپنے حصہ سے دستبرداری اختیار کر لی ہو تو دوسرے ورثاء کے حصے بتاؤ.جواب: بیوی کا حصہ والدہ کا حصہ چچا کا حصہ = = = ۱۰۰ روپے ۱۰۸۰۰ روپے ۸۱۰۰ روپے سوال نمبر ۲: ایک میت نے ایک بیوی ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں وارث چھوڑیں اس کا کل ترکہ ۲۳۰۰۰ روپے مالیت کا ہے جس میں ایک مکان جس کی قیمت ۵۰۰۰ روپے ہے.شامل ہے.میت کے ایک لڑکے نے بارضا مندی دیگر ورثاء مکان کے بدلہ میں اپنے شرعی حد سے دستبرداری اختیار کر لی.دوسرے ورثاء کے حصے بتائیے.بیوی کا حصہ بیٹے کا حصہ ہر بیٹی کا حصہ = = || ۳۰۰۰ روپے ۲۰۰۰ روپے ۳۰۰۰ روپے

Page 246

۲۳۸ باب دہم مناسخہ یعنی میراث وابستہ کا بیان مناسخہ سخ سے ہے جس کے معنی نقل کرنے کے ہیں اور وراثتی اصطلاح میں یہ لفظ بمعنی انتقال و تحویل استعمال ہوتا ہے.یعنی اگر کوئی وارث قبل تقسیم ترکہ فوت ہو جائے تو دوسرے متوفی کے ورثاء کو براہ راست پہلے متوفی کے رشتہ داروں میں شمار کر کے ان سب کے درمیان ( متوفی اول) کا ترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا.(سوائے کسی مخصوص صورت کے جس کا ذکر آگے آئے گا ) بلکہ پہلے مورث (متوفی دوم) کو زندہ تصور کر کے متوفی اول کا ترکہ تقسیم کر دیا جاتا ہے اور پھر متوفی دوم کا حصہ اس کے وارثوں کی طرف منتقل کیا جاتا ہے.یا یوں سمجھ لیجئے کہ متوفی دوم کے ورثاء براہ راست متوفی اوّل کے وارث قرار نہیں پاتے بلکہ متوفی دوم کے قائم مقام بن کر متوفی اول کے ترکہ میں شریک ہوتے ہیں.اور اسے مناسخہ کہا جاتا مثلاً ایک شخص عبدالرحیم فوت ہوا جس کے وارث اس کے بیٹے عبدالکریم اور ہے.عبدالرحمن ہیں جو اس کے ترکہ میں برابر کے شریک ہیں.لیکن ابھی ان کے درمیان ترکہ تقسیم نہ ہوا تھا کہ عبدالکریم بھی فوت ہو گیا.اب عبدالرحیم کا ترکہ عبد الرحمن اور عبد الکریم کے ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں ہو گا.بلکہ اب یہ ترکہ پہلے عبد الکریم کو زندہ تصور کر کے اس کے اور عبدالرحمن کے درمیان برابر تقسیم ہو گا.اس طرح عبد الکریم کو جائداد کا نصف حصہ ملے گا اور پھر یہ نصف حصہ عبد الکریم کے ورثاء کے مابین تقسیم ہو گا.اب اگر ایسا نہ کیا جائے یعنی مناسخہ کا طریق اختیار نہ کیا جائے تو بعض صورتوں میں ورثاء کے حصوں میں نہایت ہی ناواجب فرق پڑ جاتا ہے.مثلاً اگر زیر نظر مثال میں ہی عبد الکریم کے فوت ہونے پر (جس نے فرض کرو دو بیٹے چھوڑے ہوں ) عبدالکریم کا ترکہ اس کی زندہ اولاد میں ہی تقسیم کیا جائے تو تمام ترکہ عبدالرحمن کو ہی مل جائے گا اور عبدالکریم کے دونوں بیٹے محروم رہ جائیں گے اور یہ کسی طرح بھی جائز نہیں.کہ تقسیم ترکہ میں دیر ہو جانے سے کسی ایسے وارث کو محروم کر دیا جائے جسے بر وقت ترکہ کی تقسیم ہونے کی صورت میں برابر حصہ ملنا تھا.البتہ بعض مخصوص صورتوں میں جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے مناسخہ کا طریق استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی.

Page 247

۲۳۹ جبکہ دوسرے متوفی کی وفات سے پہلے متوفی کے باقی ورثاء کے حصوں کی باہمی نسبت میں کچھ تبدیلی واقع نہ ہوتی ہو.اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے متوفی کی اولاد نہ ہو یا اس کے بھی وہی ورثاء ہوں جو اس کے علاوہ متوفی اوّل کے ورثاء تھے مثلاً اگر کسی متوفی کے تین بھائی وارث ہوں اور کوئی دوسرا رشتہ دار موجود نہ ہو جو ترکہ میں حصہ دار بن سکتا ہو اور ابھی یہ تینوں غیر شادی شدہ ہوں تو اگر تقسیم ترکہ سے پہلے کوئی بھائی فوت ہو جائے تو پہلے متوفی کا ترکہ باقی دو بھائیوں میں براہِ راست تقسیم کر دیا جاتا ہے.ایسی صورت میں مناسخہ کی ضرورت پیش نہیں آتی.کیونکہ ورثاء موجودہ کے حصوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا.اس سلسلہ میں مثال نمبر ۱۰ ملاحظہ فرمائیے.مثال نمبر 1: ایک میت نے زوجہ، دولڑ کے اور دو لڑکیاں وارث چھوڑے.زوجہ قبل تقسیم ترکہ اپنی مذکورہ اولاد اور اپنی والدہ چھوڑ کر فوت ہو گئی اور پھر ایک لڑکی اپنا شو ہر دو بھائی اور ایک بہن چھوڑ کر فوت ہوگئی پہلی میت کے ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.پہلی میت کے ورثاء زوجہ، دولڑ کے اور دولڑکیاں ہیں.ابتدائی تقسیم :.زوجہ کا حصہ باقی ۱/ √/A = =-= یہ / حصہ دولڑکوں اور دولڑکیوں میں ۲: اسے تقسیم ہوگا.اس لئے والد کے ترکہ میں سے ہر لڑکے کا حصہ اور ہرلڑکی کا حصہ 14117 = 4 × 14/1414 = = + x Λ = دوسری میت یعنی زوجہ کے ورثاء والدہ ، دولڑ کے اور دولڑ کیاں تھیں اور اس کا قابل 3/0 = = ۴۸ = تقسیم حصہ ۱/۸ تھا.لہذا زوجہ کی والدہ کا حصہ باقی یہ ۴۸/ ۵ حصہ اس کے دولڑکوں اور دولڑکیوں میں ۲: ا سے تقسیم ہوگا.اس لئے والدہ کے ترکہ میں سے ہر لڑکے کا حصہ = = ۱۴۴ ۴۸

Page 248

۲۴۰ اور ہر لڑکی کا حصہ = = = 30 ۲۸۸ پس ماں اور باپ کی جائداد میں سے ہر لڑکے کا کل حصہ = + = اور ہر لڑکی کا کل حصہ ۴۷ ۱۴۴ ۱۴۴ ۴۷ + ۲۸۸ ۲۴ ۱۴۴.تیسری میت لڑکی کا قابل تقسیم حصہ (۴۷/۲۸۸) ہے اور اس کے ورثاء خاوند ، دو بھائی اور ایک بہن کے درمیان تقسیم ہو گا.اس لئے خاوند کا حصہ باقی ۴۷ = = ۵۷۶ ۱۴۴ ۴۷ = ۵۷۶ ۵۷۶ ۲۸۸ یه ۴۷/۵۷۶ حصہ دو حقیقی بھائیوں اور ایک حقیقی بہن میں ۲: اسے تقسیم ہوگا.لہذا بہن کے ترکہ میں سے ہر حقیقی بھائی یعنی متوفی کے بیٹے کا حصہ R ۴۷ = ✗ ۱۴۴۰ ۵۷۶ ۴۷ = ۵۷۶ اور حقیقی بہن کا حصہ = ۴۷ = ۲۸۸۰ پس میت کے وارثوں کے آخری طور پر کل حصے مندرجہ ذیل ہوں گے.زوجہ کی والدہ (خوش دامن ) کا حصہ ہر لڑکے کا حصہ موجودہ لڑکی کا حصہ ۱/۴۸ = ۵۱۷ ۴۷ ۴۷ = + = ۱۴۴۰ ۱۴۴۰ ۵۷۶ ۵۱۷ = + ۲۸۸۰ ۲۸۸۰ ۴۷ = متوفیہ لڑکی کے خاوند ( میت کے داماد) کا حصہ = یعنی اگر جائداد کے ۲۸۸۰ سہام کئے جائیں تو زوجہ کی والدہ کو ۶۰ ہر لڑکے کو ۱۰۳۴ زندہ لڑکی کو ۵۱۷ اور فوت شدہ لڑکی کے خاوند کو ۲۳۵ سہام ملیں گے.مثال نمبر ۲: ایک میت نے خاوند، والدہ، دو بیٹے اور ایک بیٹی وارث چھوڑے قبل تقسیم ترکہ ایک بیٹا اپنی بیوی اور ایک بیٹی چھوڑ کر فوت ہو گیا.متوفیہ کے ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتاؤ؟ متوفیہ کے ورثاء خاوند ، والدہ، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں.ابتدائی تقسیم خاوند کا حصہ والدہ کا حصہ 1/ = = 1/4

Page 249

باقی ۲۴۱ (+) - 1 = ۳ + ۲ -1 = = ۱۲ یہ ۱۲/ ۷ حصہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی میں ۱:۲ سے تقسیم ہو گا.ہر بیٹے کا بیٹی کا حصہ = متوفی بیٹے کا قابل تقسیم حصہ = ۷/۳۰ ہے اور ورثاء اس کی بیوی، بیٹی اور والد ہیں.بھائی.بہن اور نانی محروم رہیں گے.کیونکہ متوفی کی اولا دموجود ہے.اس لئے متوفی کی بیوی کا حصہ اور بیٹی کا حصہ = 11/17 = 1 × 1/1 L اور والد کا حصہ = باقی کا تمام تر کہ ۷ = = ۲۸-۷-۵۶ ۲۴۰ آخری طور پر کل حصے یہ ہوں گے.1/4 = = + + = ۷/۳۰ والدہ کا حصہ خاوند کا حصہ موجود بیٹے کا حصہ = (4 متوفی بیٹے کی بیوی ( بہو ) کا حصہ متوفی بیٹے کی بیٹی (متوفیہ کی پوتی ) کا حصہ = ۴۰ خاوند کو ۸۱، بیٹے کو ۵۶ ، بیٹی کو ۱۸ یعنی اگر جائداد کے ۲۴۰ سہام کئے جائیں تو والد کو بیٹے کی بیوی کوے، بیٹے کی بیٹی (پوتی) کو ۲۸ سہام ملیں گے.مثال نمبر ۳ : ایک میت نے زوجہ، دو بیٹیاں، اور ایک بھائی وارث چھوڑے قبل تقسیم تر کہ ایک بیٹی اپنے تین بیٹے دو بیٹیاں اور خاوند چھوڑ کر فوت ہو گئی ان کے علاوہ اس کا ایک چچا بھی موجود ہے.میت کے ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.

Page 250

۲۴۲ ابتدائی تقسیم میت کے ورثاء زوجہ، دو بیٹیاں اور بھائی ہیں.۱۳ = ۲/۳ ہر بیٹی کا حصہ 2 = 14+1 -1 = (1 +) - 1 ۲۴ = = = زوجہ کا حصہ دو بیٹیوں کا حصہ باقی جو بھائی کو ملے گا.۲.متوفیہ بیٹی کا قابل تقسیم حصہ ۱/۳ ہے اور اس کے ورثاء تین بیٹے ، دو بیٹیاں، خاوند اور والدہ ہیں.بہن اور چچا محروم رہیں گے.کیونکہ متوفیہ کی اولا د موجود ہے.متوفیہ کی والدہ یعنی متوفی کی زوجہ کا حصہ متوفیہ کے خاوند کا حصہ باقی - = = + x + = ۳-۲-۱۲ = + یہ ۷/۳۶ حصہ متوفیہ کے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں میں ۲: ا سے تقسیم ہوگا.۱۴ ۱۴۴ لہذا متوفیہ کے ہر ایک بیٹے کا حصہ متوفیہ کی ہر ایک بیٹی کا حصہ آخری طور پر کل حصے مندرجہ ذیل ہوں گے.= ۷ = x = ۲۸۸ 9 = 1 + = + + = ۱۸ ۱/۳ = زوجہ کا حصہ موجودہ بیٹی کا حصہ متوفیہ بیٹی کے خاوند یعنی متوفی کے داماد کا حصہ متوفیہ بیٹی کے ہر بیٹے یعنی متوفی کے نواسہ کا حصہ متوفیہ بیٹی کی بیٹی یعنی متوفی کی نواسی کا حصہ متوفی کے بھائی کا حصہ = 2/133 = ۷۲۸۸ = ۵/۲۴ یعنی اگر جائداد کے ۲۸۸ سہام کئے جائیں تو زوجہ کو ۵۲ ، بیٹی کو ۹۶ داماد کو ۲۴ ہر

Page 251

۲۴۳ نواسہ کو ۱۴ نواسی کو ۷ اور بھائی کو ۶۰ سہام ملیں گے.مثال نمبر ۴ : ایک میت نے زوجہ، والدہ، بیٹی اور چا وارث چھوڑے قبل تقسیم ترکہ بیٹی اپنی دو بیٹیاں چھوڑ کر فوت ہو گئی.میت کے ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.میت کے ورثاء زوجہ، والدہ ، بیٹی اور چچا ہیں.1/4 ۱/۸ (۱) ابتدائی تقسیم = = ١/٢ = والدہ کا حصہ زوجہ کا حصہ بیٹی کا حصہ چچا کا حصہ باقی = 1 + + + + + = ۱- ۲+۳+۱۲ = ( ۲۴ ۲۴ متوفیہ بیٹی کا قابل تقسیم ترکہ ۱/۲ اور ورثاء والدہ ( میت کی زوجہ ) اور دو بیٹیاں (متوفی کی نواسیاں) ہیں.متوفیہ کے ترکہ سے اس کی دادی ( یعنی متوفی کی والدہ ) محروم رہے گی.کیونکہ متوفیہ کی والدہ موجود ے لہذا متوفیہ کی والدہ کا حصہ ۱/۶ اور دو بیٹیوں کا حصہ ۲/۳ کوئی عصبہ موجود نہیں اس لئے یہ رڈ کی صورت ہے لہذا متوفیہ کے ۱/۲ حصہ کو اس کی والدہ اور بیٹیوں کے حصوں کے تناسبت سے یعنی ! : = = ۴:۱ سے تقسیم کریں گے.لہذا والدہ یعنی ( میت کی زوجہ ) کا حصہ دو بیٹیوں کا حصہ ایک بیٹی کا حصہ آخری طور پر کل حصے یہ ہوں گے.= = II X −B TB || 1/4 = = والدہ کا حصہ زوجہ کا حصہ بیٹی کی بیٹی یعنی ( نواسی) کا حصہ چا کا حصہ 1/0 = ۵/۲۴ یعنی اگر جائداد ۱۲۰ سہام کئے جائیں تو والدہ کے ۲۰ سہام زوجہ کے ۲۷ سهام بیٹی کی

Page 252

۲۴۴ بیٹی کے ۲۴ سہام اور چچا کے ۲۵ سہام ہوں گے.مثال نمبر ۵ ایک میت ایک زوجہ اور اس کے بطن سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں دسری زوجہ اور اس کے بطن سے صرف ایک لڑکی وارث چھوڑے.قبل تقسیم ترکہ پہلی زوجہ اور پھر اس کے دو بیٹے وفات پاگئے بعد میں زوجہ ثانی کی لڑکی بھی فوت ہوگئی باقی وارثوں کے حصے بتاؤ.میت کے ورثاء دو بیویاں ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.1/14 ابتدائی تقسیم : دو بیویوں کا حصہ = ۱/۸ ہر ایک کا حصہ باقی = - = یہ ۷/۸ حصہ تین بیٹوں اور تین بیٹیوں میں ۲: ا سے تقسیم ہو گا.== ✓ ۹ ✗ = = اس لئے باپ کے ترکہ میں سے ہر بیٹے کا حصہ : اور ہر بیٹی کا حصہ ۲.متوفیہ (متوفی کی پہلی زوجہ ) کا حصہ قابل تقسیم ۱/۱۶ ہے.اور اس کے ورثاء تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.پس والدہ کے ترکہ ۱۶/ ۱ حصہ میں ہر لڑکے کا حصہ اور ہرلڑکی کا حصہ گویا اس وقت تک اس متوفیہ بیوی کے ہر بیٹے کا حصہ = = ۶۴ ۱۶ 1 ۱۲۸ == × 1/14 = ہے اور ان کے ۱۲۱ = ۹ + ۱۱۲ ۵۷۶ ۵۷۶ = + ١٢١ = ۹ + ۱۱۲ ۱۱۵۲ ۱۱۵۲ = اور ہر بیٹی کا حصہ = + + + پہلی بیوی کے متوفی بیٹوں کا حصہ قابل تقسیم ہے ۲۸۸ = ۲ × ۱۲۱ ۵۷۶

Page 253

۲۴۵ ورثاء ایک حقیقی بھائی اور دوحقیقی بہنیں ہیں اس لئے ۱۳۱ میں ایک بھائی کا حصہ = ۲۸۸ ۱۲۱ اس لئے میں ایک بہن (متوفی کی ہر بیٹی ) کا حصہ ۲۸۸ ۱۲۱ = ✓ ✓ ۱۲۱ ۴ ۲۸۸ لہذا یہاں تک پہلی بیوی کے بطن سے زندہ بیٹے کا حصہ ۱۲۱ = = 1x ۱۲۱ = ۱۱۵۲ ۲۸۸ ۱۲۱ - ۲۸۸ ۱۲۱+ ۱۱۵۲ ۱۲۱ = ۵۷۶ ۲۱ + = ۱۲۱ = ۵۷۶ ۱۱۵۲ ۱۱۵۲ اور ہر بیٹی کا حصہ ۴.دوسری بیوی کی متوفیہ بیٹی کا قابل تقسیم حصہ ۷۷۲ ہے اور اس کے ورثاء اس کی والدہ ، دو علاتی بہنیں اور ایک علاتی بھائی ہے.اس لئے ۷۲ ۷ حصہ میں سے والدہ (متوفی کی زوجہ ثانی) کا حصہ باقی == ☑ = ۴۳۲ ۳۵ 1 = 1/4 - 41= ۴۳۲ ۴۳۲ ۳۵/۴۲۳۲ حصہ علاقی بھائی اور دو علاتی بہنوں میں بطور عصبہ ۲: ا سے تقسیم ہو گا.اس لئے علاتی بھائی (متوفی کے بیٹے ) کا حصہ = × = = ۳۵/۸۶۴ اور ہر علاتی بہن ( یعنی متوفی کی بیٹی ) کا حصہ اب آخری طور پر کل حصے یہ ہوں گے.۳۵ ۴۳۲ ۳۵ ۱۷۲۸ ۳۵ = ۴۳۲ دوسری بیوی کا حصہ پہلی بیوی کے لڑکے کا حصہ پہلی بیوی کی ہرلڑکی کا حصہ ۶۸ ۳۴ = ۷ + ۲۷ = = ۸۶۴ ۴۳۲ ۴۳۲ ۴۳۲ ۸۶۴ = 297 2++2M ۱۷۲۸ = + ۱۷۲۸ ۸۶۴ ۲۸۸ ١٩٩ ۸۶۴ = ۳۹۸ - ۳۵ + ۳۶۳ = ۱۲۱ ۳۵ + = ۱۷۲۸ ۱۷۲۸ ۱۷۲۸ ۵۷۶ یعنی اگر جائداد کے ۸۶۴ سہام کئے جائیں تو بیوی کو ۶۸ لڑکے کو ۳۹۸ اور ہرلڑکی کو ۱۹۹ سہام

Page 254

۲۴۶ ملیں گے.مثال نمبر ۶ : ایک میت نے زوجہ، والدہ ، بیٹا اور بھائی وارث چھوڑے قبل تقسیم ترکہ بیٹا فوت ہو گیا.پھر والدہ فوت ہوگئی ہر ایک کے حصے بتاؤ.میت کے ورثاء : والدہ ، زوجہ اور بیٹا ہیں ( بھائی محروم ہے کیونکہ بیٹا موجود ہے ) 1/7 = ابتدائی تقسیم : والدہ کا حصہ باقی = زوجہ کا حصہ / ۱ - ( + ) = 1- ۳۴ = جو بیٹے کو ملے گا.اور اس کی وجہ سے بھائی محروم رہے گا.۲.۲۴ متوفی بیٹے کا قابل تقسیم حصہ ۲۴ / ۱۷ تھا اور اس کے ورثاء اس کی والدہ ( پہلے متوفی کی زوجہ ) اور چا ( پہلے متوفی کا بھائی) تھے.پس والدہ ( پہلے متوفی کی زوجہ ) کا حصہ = x = = اور چچا ( پہلے متوفی کے بھائی ) کا حصہ = ہے.اس لئے اس وقت تک والدہ ( پہلے متوفی کی زوجہ ) کا حصہ ۳۴ ۷۲ ۱۳ = = 1 + + zr 1/4 ۳۴۷۲ = = = دادی ( پہلے متوفی کی والدہ ) کا حصہ اور چچا کا حصہ متوفیہ والدہ کا قابل تقسیم ترکہ ۱/۶ ہے اور اس کا وارث صرف اس کا اپنا بیٹا ہے یعنی پہلے متوفی کا بھائی.۲۴ M اس لئے بھائی کا کل حصہ = + + = ۱۲۶۳۴ = = ۷۲ ۷۲ اس لئے آخری طور پر زندہ ورثاء کے کل حصے یہ ہوں گے.۲۳ 14/F4 = زوجہ کا حصہ

Page 255

۲۴۷ ٢٣/٣٦ = بھائی کا حصہ گویا اگر جائداد کے ۳۶ سہام کئے جائیں تو ۱۳ زوجہ کے اور ۲۳ سہام بھائی کے ہوں گے.مثال نمبر ے : ایک میت نے دو بیویاں اور ایک لڑکی وارث چھوڑے.قبل تقسیم ترک ایک بیوی جس نے اپنے سابقہ شوہر سے لڑکی کا ایک بیٹا چھوڑا.فوت ہوگئی.مابعد دوسری بیوی (جس کے بطن سے میت کی ایک لڑکی ہے ) فوت ہو گئی ہر ایک کا حصہ بتاؤ.ا.دو بیویوں کا حصہ = ۱/۸ ایک بیوی کا حصہ = ۱/۱۶ لڑکی کا حصہ / ۱/۲ بطور ذوی الفروض کے ۳/۸ بطور رڈ کے ) - پہلی متوفیہ بیوی کا حصہ قابل تقسیم ۱/۱۶ ہے اور اس کا وارث صرف اس کے سابقہ شوہر کی بیٹی کا بیٹا یعنی اس کا نواسا ہے.اس لئے یہ ۱/۱۶ حصہ اس نو ا سے کو مل جائے گا..دوسری متوفیہ بیوی کا حصہ قابل تقسیم ۱/۱۶ ہے اور اس کی وارث صرف ایک بیٹی ہے جو یہ ۱/۱۲ حصہ حاصل کر لے گی.(۳۲/ ۱ بطور ذوی الفروض اور ۳۲/ البطور رڈ کے ) آخری طور پر حصے یہ ہوں گے.بیٹی کا حصہ زوجہ کے نواسہ کا حصہ = 1/14 = = + + گویا جائداد کے ۱۶ سہام ہوں گے جن میں سے ۱۵ میت کی بیٹی کو اور ایک سہم زوجہ کے نواسے کو ملے گا.مثال نمبر ۸ : ایک میت کی دو بیویاں ، والدہ اور بیٹا وارث ہیں، قبل تقسیم ترکہ والدہ فوت ہوگئی ما بعدلڑکے کی والدہ بھی فوت ہو گئی ہر ایک کا حصہ بتاؤ.ابتدائی تقسیم : 1/17 = ا.= دو بیویوں کا حصہ ۱/۸ ہر ایک بیوی کا حصہ والدہ کا حصہ 1/4 =

Page 256

۲۴۸ باقی = - + = ۱ - ۴۳ = جو بیٹے کو مل جائے گا.پہلی متوفیہ یعنی متوفی کی والدہ کا حصہ قابل تقسیم ۱/۶ ہے اور وارث صرف اس کا پوتا ( میت کا بیٹا ) جو کہ بطور عصبہ تمام کا تمام تر کہ (۱/۶حصہ) حاصل کرے گا.۲.۱۷ ۲۴ ۲۴ اس لئے اس وقت تک میت کے بیٹے کا حصہ = + + = بن جائے گا.متوفی کی دوسری متوفیہ بیوی (مادر فرزند) کا حصہ قابل تقسیم ۱/۱۶ ہے اور وارث صرف بیٹا ، اس لئے یہ حصہ بھی بیٹے کو مل جائے گا.لہذا بیٹے کا کل حصہ = + + = ۳۴۲ = ۲۴ اس لئے آخری طور پر کل حصے یہ ہوں گے.۴۸ زوجہ ( جو بقید حیات ہے اس کا حصہ = ١/١٦ بیٹے کا حصہ = ۴۵ ۴۸ ۴۵ /۴۸ یعنی اگر جائداد کے ۴۸ سہام کئے جائیں تو تین سہام بیوی کے اور ۴۵ سہام بیٹے کے ہوں گے.مثال نمبر ۹ : ایک میت نے زوجہ، دو بیٹے اور چار بیٹیاں وارث چھوڑے قبل تقسیم تر کہ ایک بیٹا تین بیٹے چھوڑ کر فوت ہو گیا.ہر ایک کے حصے بتاؤ.ابتدائی تقسیم زوجہ کا حصہ : باقی ١/٨ = 1 = یہ ۷۸ دو بیٹوں اور چار بیٹیوں میں ۲: اسے تقسیم ہو گا.اس لئے ہر بیٹے کا حصہ اور ہر بیٹی کا حصہ = = ㅊ = متوفی بیٹے کا قابل تقسیم حصہ ۷/۳۲ ہے اور اس کے وارث اس کے تین بیٹے اور والده (زوجہ میت اول ) ہیں.اور بھائی اور بہنیں محروم ہوں گی.کیونکہ اولا دموجود ہے.

Page 257

۲۴۹ اس لئے والدہ کا حصہ باقی = اس لئے ہر بیٹے کا حصہ ۱۹۲ = ۳۵ ۲ - ۲ = تین بیٹوں میں تقسیم ہو گا.= ۳۵ ۳۵ = ☑ ۵۷۶ ۱۹۲ آخری طور پر کل حصے یہ ہوں گے.۱۹۲ ۳ + ۲۴ ۱۹۲ + ۱۹۲ ۷۳۲ = ۳۵/۵۷۶ = 6/47 = زوجہ کا حصہ بیٹے کا حصہ ہر پوتے کا حصہ ہر بیٹی کا حصہ یعنی اگر جائداد کے ۵۷۶ سہام کئے جائیں تو زوجہ کے ۹۳ بیٹے کے ۱۲۶ ہر پوتے کے ۳۵ اور ہر بیٹی کے ۶۳ سہام ہوں گے.مثال نمبر ۱۰: ایک میت نے ۴ بیٹے اور تین بیٹیاں وارث چھوڑے.قبل تقسیم تر کہ ایک بیٹا فوت ہو گیا ہر ایک کا حصہ بتاؤ.ابتدائی تقسیم.چونکہ صرف عصبات ہی موجود ہیں اس لئے انہیں میں تمام جائداد تقسیم ہوگی اس طرح کہ بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ.لہذا ہر بیٹے کا حصہ ہر بیٹی کا حصہ r/11 = 1/11 = متوفی بیٹے کا قابل تقسیم حصہ ۲/۱۱ ہے اور اس کے ورثاء تین بھائی اور بہنیں ہیں.اس لئے ۲/۱۱ حصہ میں ہر بھائی ( پہلے متوفی کے بیٹے کا ح کا حصہ = x = = ہر بہن ( پہلے متوفی کی بیٹی ) کا حصہ = 7 × 4 = 1 ۹۹ پس متوفی والد کے ہر زندہ بیٹے کا کل حصہ = A = F + F = = ۹۹ ۲۲ ۹۹ ۹۹ 11 = ۲ + ۹۹ = ۹۹ ہر بیٹی کا کل حصہ = + +

Page 258

۲۵۰ نوٹ :.یہ حصے براہ راست یکجائی تقسیم سے بھی حاصل ہو سکتے ہیں.کیونکہ ایک بیٹے کے فوت ہونے سے باقی وارث بھی وہی رہتے ہیں.جو باپ کے وارث تھے اور دو دفعہ یا ایک ہی دفعہ تقسیم کرنے سے ان کے حصوں میں بھی کچھ فرق نہیں پڑتا.پس فوت شدہ لڑکے کو تقسیم شروع کرنے سے پہلے ہی خارج کر دیا جائے اور جائداد تین زندہ بیٹوں اور تین بیٹیوں میں ۱:۲ سے تقسیم کر دی جائے تو ہر بیٹے کا حصہ ۲/۹ اور ہر بیٹی کا حصہ ۱/۹ ہوگا اور یہ وہی حصے ہیں جو او پر دو مرتبہ یعنی مناسخہ کے طریق پر تقسیم کرنے سے حاصل ہوئے تھے.اس لئے اگر کسی وارث کے فوت ہونے سے ورثاء وہی رہیں جو پہلے تھے اور ان کے حصوں میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو ترکہ کو ایک بار ہی ان میں تقسیم کر دینا چاہئے.مثال نمبر 1: ایک میت نے ایک بیٹا ایک بیٹی اور ایک بہن وارث چھوڑے.قبل تقسیم ترکہ بیٹا فوت ہو گیا.ہر ایک کا حصہ بتاؤ.اس مثال میں براہ راست تقسیم نہیں کر سکتے کیونکہ بیٹے کی غیر موجودگی میں میت کی بہن بھی وارث بن جاتی ہے اور دوسرے ورثاء کے حصوں میں بھی فرق پڑ جاتا ہے مثلاً اگر لڑکے کو ابتدائے تقسیم پر ہی نکال دیں تو حصے یہ ہوں گے.بیٹی کا حصہ بہن کا حصہ 1/4 = یہ رڈ کی صورت ہے اس لئے ان کے حصوں کے لحاظ سے ترکہ تقسیم ہو گا.یعنی ۳: ا سے.اس لئے بیٹی کا حصہ بہن کا حصہ ۳/۴ 1/8 = = لیکن اگر ہم ابتدائی تقسیم میں متوفی کے بیٹے کو بھی شامل کریں جو پہلے متوفی کی وفات کے وقت زندہ تھا (اور یہی طریق درست ہے ) اور پھر فوت ہونے والے بیٹے کا حصہ اس کے ورثاء کو دیں تو حصے یہ ہوں گے.r/F = ابتدائی تقسیم : بیٹے کا حصہ

Page 259

۲۵۱ ۱/۳ = بیٹی کا حصہ بہن محروم رہے گی کیونکہ اس کے بھائی کی وفات کے وقت بھائی کا بیٹا موجود تھا.- متوفی بیٹے کا قابل تقسیم ترکہ ۲/۳ ہے اور اس کی وارث صرف اس کی بہن ہے اس لئے اس کا (۲/۳) حصہ اس کی بہن ( یعنی میت کی بیٹی کومل جائے گا.اس طرح بیٹی کا حصہ + + F = ا ہوگا یعنی وہ کل جائداد کی مالک ہوگی اور ( میت کی ) بہن محروم رہے گی.اس لئے یاد رکھیئے کہ ایک بار ہی براہ راست تر کہ اسی وقت تقسیم ہو سکتا ہے جب کسی وارث کے فوت ہو جانے کے بعد ورثاء اور ان کے حصوں میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوتی ہو.اگر کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہو تو ہر میت کا حال علیحدہ علیحدہ لکھیئے اور ان کے حصے یکے بعد دیگرے تقسیم کیجئے.مثال نمبر ۱۲: ایک میت نے ایک بیٹا اپنی موجودہ بیوی کے بطن سے اور دو بیٹے اور ایک بیٹی سابقہ بیوی کے بطن سے وارث چھوڑے قبل تقسیم ترکہ سابقہ زوجہ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا ما بعد اس کا دوسرا بیٹا بھی فوت ہو گیا اور اس نے تین بیٹیاں پیچھے وارث چھوڑیں.پہلی میت کے ترکہ میں ہر ایک کا حصہ بتاؤ.ابتدائی تقسیم زوجہ کا حصہ : باقی V/A = 1 = - یہ ۷/۸ حصہ تین بیٹوں اور ایک بیٹی میں ۲: اسے تقسیم ہو گا.اس لئے ہر بیٹے کا حصہ = = x = = = = اور ہر بیٹی کا حصہ = = x = = 1 سابقہ زوجہ کے پہلے متوفی بیٹے کا قابل تقسیم حصہ ۲/۸ ہے اور اس کے وارث اس کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہن ہیں.پہلے متوفی کی زوجہ یعنی اس متوفی بیٹے کی سوتیلی ماں محروم رہے گی.اسی طرح اس کا علاقی بھائی بھی محروم رہے گا کیونکہ حقیقی بھائی موجود ہے.= حقیقی بھائی کا حصہ اور حقیقی بہن کا حصہ = ۱۲ لہذا اس وقت تک سابقہ زوجہ کے بطن سے پہلے متوفی کے لڑکے کا حصہ

Page 260

۲۵۲ ۵ ۱۲ G = = ۱۰ ۲۴ ۴ + = ۲۴ + = = ۳ ۲۴ ۲ + = +++ = اور لڑکی کا حصہ.سابقہ زوجہ کے دوسرے متوفی بیٹے کا حصہ قابل تقسیم حصہ ۱۲/ ۵ ہے اور اس کے وارث اس کی اپنی تین بیٹیاں ( پہلے متوفی کی پوتیاں) اور حقیقی بہن ( پہلے متوفی کی بیٹی ) ہیں.اس لئے علاقی بھائی اور سوتیلی والدہ محروم رہیں گی.کیونکہ اس متوفی کی اولا دموجود ہے.چونکہ بیٹیوں کی موجودگی میں ہمشیرہ عصبہ بن جاتی ہے.اس لئے ۱۲/ ۵ حصہ میں تین بیٹیوں ( پہلے متوفی کی پوتیوں) کا حصہ = اور بہن ( پہلے متوفی کی بیٹی ) کا حصہ ایک بیٹی کا حصہ = = 이르 이드 ۱۸ اس لئے آخری طور پر کل حصے مندرجہ ذیل ہوں گے.زوجہ کا حصہ 1/A = موجودہ زوجہ کے بطن سے لڑکے کا حصہ = ۱/۴ X +10 ۱۸ ۱۸ II ۳۶ ۵۴ سابقہ زوجہ کے بطن سے لڑکی کا حصہ = + = ۱۵ ۱۰ = اور ہر پوتی کا حصہ ۵/۵۴ = ۳۶ ۲۵ ۷۲ لہذا اگر جائداد کے ۲۱۶ حصے کئے جائیں تو زوجہ کو ۲۷ لڑکے کو ۵۴ لڑکی کو ۷۵ اور ہر پوتی کو ۲۰ حصے ملیں گے.

Page 261

۲۵۳ حمل کی میراث اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کی بیوی یا اس کے خاندان کی کوئی ایسی عورت جس کی اولاد کو میت کے ترکہ میں سے حصہ پانے کا حق پہنچتا ہو.حاملہ ہو تو ان حالات میں بہتر تو یہ ہوتا ہے کہ وضع حمل کا انتظار کر لیا جائے اور اس کے بعد ہی ترکہ تقسیم ہو کیونکہ اولاد پیدا ہونے کی صورت میں یا بچوں کی تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے مختلف رشتہ دار یا تو کلیۂ مجوب ہو جاتے ہیں یا بعض کے حصوں میں کمی ہو جاتی ہے.اس لئے بعد کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے صحیح صورت حال کا انتظار کر لینا بہتر ہوتا ہے.لیکن اگر بعض ورثاء اس انتظار میں کچھ حرج یا تنگی محسوس کریں یا یہ ڈر ہو کہ کہیں ترکہ ضائع نہ ہو جائے یا خرد برد نہ ہو جائے تو پھر موجودہ ورثاء ترکہ تقسیم کروا سکتے ہیں.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وضع حمل کے لئے کتنا عرصہ انتظار کیا جائے.اور اگر انتظار نہ کیا جا سکتا ہو تو پھر ترکہ میں سے حمل کے لئے کتنا حصہ محفوظ (Reserve) کرنا چاہئے؟ مدت حمل ! مدت حمل کے بارہ میں حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک کم سے کم مدت چھ ماہ بعد از نکاح ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت دو سال بعد از وفات ہے.یہ خیال رہے کہ کم سے کم مدت حمل ( یعنی چھ ماہ) کے تقرر کا تعلق تقسیم ترکہ کے التوا سے نہیں.التوا سے صرف زیادہ سے زیادہ مدت حمل کا تعلق ہے.کم سے کم مدت حمل کے تقرر کی غرض صحت نسب کی جانچ پڑتال ہے مثلاً جو بچہ تاریخ نکاح سے چھ ماہ کے اندر پیدا ہوا اسے شرعا متوفی کی اولا د قرار نہیں دیا جاتا اور نہ ہی وراثت میں شامل کیا جاتا ہے.اس مدت کا استدلال قرآن پاک کی ان آیات کریمہ سے کیا جاتا ہے.وَحَمْلُهُ وفِصْلُهُ ثَلْثُونَ شَهْرًا اس (یعنی بچہ ) کے اُٹھانے (حمل قرار پانے) اور اس کا دودھ چھڑانے میں تھیں ماہ (دوسال چھ مہینے ) لگے تھے.‘ (سورۃ احقاف آیت ۱۶)

Page 262

۲۵۴.ii وَفِصْلُهُ فِي عَامَيْنِ.اور دودھ چھڑانے کا عرصہ چوبیس ماہ یعنی دو سال تک ہے.“ اس لحاظ سے حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ بنتی ہے.66 ( سورة لقمان آیت (۱۵) زیادہ سے زیادہ مدت حمل کے تقرر کی غرض و غایت اور وجوہات ذہن نشین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قوانین طب، اسلامی ممالک کے قوانین اور حضرت امام ابو حنیفہ کی رائے کو بالتفصیل بیان کیا جائے.طب کی رو سے مدت حمل کا عرصہ زیادہ سے زیادہ گیارہ ماہ قرار دیا گیا ہے لیکن دسویں اور گیارہویں مہینوں پیدا ہونے والے بچے شاذ و نادر ہی زندہ پیدا ہوتے ہیں.یا زندہ بچتے ہیں.کیونکہ ان کی پیدائش عمومی مدت حمل کے بعد (Post-Mature) ہوتی ہے.جس کے نتیجہ میں ان بچوں میں غیر معمولی خصوصیات (Abnormalities) پائی جاتی ہیں.مثلاً ان کا وزن قد یا سر کا حجم عام نو زائیدہ بچوں کی نسبت زیادہ بڑا ہوتا ہے.ایک مشہور و معروف اور اعلیٰ پایہ کے طبیب شیخ بوعلی سینا نے جنہیں سائنسدان موجد طب (Father of Medicine) کے نام سے یاد کرتے ہیں اپنی کتاب "القانون فی الطب" میں لکھا ہے کہ قرار حمل کے بعد عام طور پر اور اکثر 9 ماہ کی مدت میں وضع حمل ہوتا ہے کم سے کم سات ماہ اور زیادہ سے ( جلد دوم صفحه ۵۷۰ مطبوعه مصر ) موجودہ طب (Medicine) میں بھی عام حالات میں مدت حمل ۲۶۵ دن کے قریب تسلیم کی گئی ہے اور زیادہ سے زیادہ ۳۰۰ دن.برطانوی عدالت میں سب سے زیادہ لمبا عرصه حمل ۳۴۹ دن تک بھی مانا گیا ہے.ملا حظہ ہو.زیادہ ۱۰ ماہ ہیں.جس میں لکھا ہے کہ A text book of Midwifery by Johnston and Keller.Modern scientific evidence, therefore, indicates that in women the duration of pregnancy, i.e., the conception -- delivery interval, is nearer 265 days than 273.(page 108) The medico-legal bearings of the subject lie in relation to the question of the legitmacy of children born more than nine

Page 263

۲۵۵ months after the death or the depature of the mother's husband.Fully developed children have been recorded as being born after the gestation lasting for considerably more than 300 days from the commencement of the last period.In English and Scots law there is no legal limit to the length of pregnancy.The longest periods of gestation ever admited in the law courts in Great Britain are 349, 346 and 331 days.(page 110) الاسرة فی الشرع الاسلامی صفحه ۹۹ ( مصنفه عمر فروخ بیروت) سے اسی مضمون کا ایک اقتباس بھی پیش کیا جاتا ہے.وہ لکھتے ہیں.اَقَلُّ مُدَّةِ الْحَمْلِ طِبّيًّا فَهِيَ سُبْعَةُ أَشْهُرٍ كَامِلَةٍ وَلَكِنَّ الطَّفْلَ لا يَعيشُ حِينَئِذٍ إِلَّا إِذَا كَانَ وَزُنُهُ عِنْدَ وَلَادَتِهِ اَكْثَرَ مِنْ الْفِ وَخَمْسِمِائَةِ غَرَامٍ اَمَّا الْمُدَّةُ الْعَادِيَةُ فَهِيَ مَائَتَانِ وَ جَمَانُونَ يَوْمًا إِلَّا أَنَّ مَكْتَةَ فِى الرّحمِ إِذَا زَادَ عَلَى ٣٣٠ يَوْمًا فَإِنَّهُ يُسَبِّبُ مَوْتِهُ وَقَدْ يَتَّفِقُ أَنْ يَبْقَى الْجَنِينُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ سَنَةً اَوْاَكْثَرَ وَلَكِنَّهُ يَكُونُ عِنْدَئِذٍ مَيْتًا وَاَكْثَرُ الْأَحْوَالِ الَّتِي تَدَّعِى فِيهَا الْمَرْأَةُ أَنَّهَا وَلَدَتْ لَا قَل ۲۸۰ يَوْمًا أَوْلَا كُثَرِ مِنْ ذَالِكَ رَاجِعٌ فِي الْأَغْلَبِ إِلَى خَطَهِ الْحَامِلِ فِي الْحِسَابِ زِيَادَةً اَوْنُقْصَانًا.طب کی رو سے حمل کی کم از کم مدت پورے سات ماہ ہے لیکن اس صورت میں بچہ زندہ نہیں رہتا.سوائے اس کے کہ ولادت کے وقت اس کا وزن ۱۵۰۰ گرام سے زیادہ.بالعموم یہ مدت ۲۸۰ دن ہوتی ہے، لیکن ممکن ہے کہ کوئی بچہ ۳۳۰ دنوں تک رحم میں رہ جائے.البتہ اگر رحم میں اس کا قیام ۳۳۰ دن سے بڑھ جائے تو یہ امر اس کی موت کا باعث بن جاتا ہے کبھی کبھی ایسا اتفاق بھی ہو جاتا ہے کہ بچہ ایک سال تک یا اس سے بھی زیادہ اپنی ماں کے پیٹ میں رہے، لیکن اسی صورت

Page 264

۲۵۶ میں جب وہ مرا ہوا ہو.نیز اکثر ایسے حالات سے جن میں عورت یہ دعویٰ کرے کہ اس نے ۲۸۰ دنوں سے کم یا اس سے زیادہ عرصہ میں بچہ جنا ہے یہی ظاہر ہوا کرتا ہے کہ اغلبا اس حاملہ عورت نے حساب لگانے میں غلطی کھائی ہے.خواہ زیادتی کی طرف یا کمی کی طرف.“ مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہے کہ جہاں تک علم طب کا تعلق ہے.زیادہ سے زیادہ عرصه حمل گیارہ ماہ پندرہ دن یعنی تقریباً ۳۴۹ دن ہے.ممالک اسلامیہ میں مدت حمل کا تعین عرصہ حمل سے متعلق اسلامی ممالک میں جو قانون پائے جاتے ہیں.اُن کے تحت کم سے کم عرصہ چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ ایک سال ہے.اس بارہ میں چند ایک ممالک کے قوانین کے اقتباسات درج ذیل ہیں.مصر: دفعه ۱۵ ( مرد کے ) انکار کی صورت میں بچے کے لئے نسب کا دعویٰ مسموع نہ ہو گا.جبکہ زوجین کے درمیان وقت عقد سے ملاقات ثابت نہ ہو اور نہ اس صورت میں جبکہ عورت نے اس بچے کو شوہر کے غائب ہونے سے ایک سال بعد جنا ہو اور نہ مطلقہ کا بچہ (بصورت انکار ) شوہر کی طرف منسوب کیا جائے گا.نہ اُس زوجہ کا بچہ جس کا شوہر مر چکا ہوا گر اس عورت نے طلاق یا وفات سے ایک سال کے بعد جنا ہوا عراق: دفعه ۵۱ ۲۹ ہر زوجہ کا بچہ حسب ذیل شرائط کے ساتھ اس کے شوہر کی طرف منسوب کیا جائے گا.زوجین کے عقد کے بعد وضع حمل کم از کم چھ ماہ یا اس کے بعد ہوا ہو.زوجین میں ملاقات کا امکان ہو.بچے کا نسب ثابت نہ ہو گا.مرد کے انکار کی صورت میں جبکہ زوجین کے درمیان ملاقات ثابت نہ ہو اور نہ اس بچے کا نسب ثابت ہو گا جس کو عورت نے شوہر کے غائب ہونے کے یا اس کی وفات کے یا تاریخ طلاق سے ایک سال بعد جنا ہو لے

Page 265

۲۵۷ تیونس : دفعہ اے: جب زوجہ عقد کے بعد چھ ماہ کے اختتام پر یا اس کے بعد بچہ جنے تو بچہ کا نسب شوہر سے ثابت ہوگا.خواہ عقد صحیح ہو یا فاسد ہے شام: دفعه ۱۲۸ حمل کی کم سے کم مدت ۱۸۰ یوم ارزیادہ سے زیادہ ایک سال شمسی ہے سکے پاکستان : دفعه ۱۱۲ قانون شہادت ،۱۸۷۴ ( صحیح النسی کے بارے میں ) یہ واقعہ کہ کوئی شخص ( بچہ ) اپنی ماں کے کسی مرد کے جائز نکاح میں رہنے کی حالت میں یا اس نکاح کے انفساخ سے ۲۸۰ یوم کے اندر پیدا ہوا اور اس اثناء میں اس کی ماں بے زوج رہی.اس امر کا قطعی ثبوت ہوگا کہ وہ شخص ( بچہ ) اس مرد کا صحیح النسب بیٹا ہے.بجز اس صورت کے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ اس عرصہ میں زوجین کو کسی وقت بھی ایک دوسرے سے ملنے کا ایسا موقع نہ ملا تھا کہ حمل قرار پا سکتا.“ حضرت امام ابو حنیفہ کا مسلک اور اُس کی مصلحت ماہرین طب کے نزدیک زیادہ سے زیادہ عرصہ حمل ۳۴۹ دن تک اور اسلامی ممالک کے قوانین میں یہ عرصہ ایک سال تک تسلیم کیا گیا ہے، لیکن حضرت ابو حنیفہ نے زیادہ سے زیادہ عرصہ حمل دو سال تک قرار دیا ہے.اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسلام صحیح النسمی کے لئے ہر امکانی صورت کو قبول کرتا ہے.خواہ وہ کتنی ہی غیر معمولی ہو.اس معاملہ میں اُسے اس سے بحث نہیں کہ حقیقت کیا ہے یہ مدنظر ہے کہ ایک انسان کی زندگی بچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ قانونی امکان کیا ہے.کیونکہ اس لچک میں بہت سے معاشرتی اور معاشی فوائد مضمر ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوحنیفہ نے بچہ کو صحیح النسب قرار دینے کی خاطر بعض بعید الوقوع اور نادر الوجود صورتوں کو بھی سامنے رکھا ہے اور محض احتیاط کی خاطر زیادہ سے زیادہ عرصہ حمل دو سال تک مانا ہے یعنی اگر ایک عورت اپنی عدت کے دوران یہ ظاہر کر دے کہ وہ حاملہ ہے اور اس کا بچہ دو سال کے اندر اندر پیدا ہو تو وہ صحیح النسب تصور ہوگا اور ترکہ کا بھی وارث ہوگا.

Page 266

۲۵۸ ، دو سال کے بعد پیدا ہونے والا بچہ نہ صحیح النسب تصور ہوگا اور نہ ہی ورثاء میں شمار ہو گا.اسی طرح اگر ایک عورت عدت کے دوران یہ ظاہر کر دے کہ وہ حمل سے آزاد ہے تو اس کے بعد کسی وقت بھی اس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو وہ وارث نہیں ہوگا.یہ یاد رہے کہ مدت حمل کے دو سال تک ممتد ہونے کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں.بلکہ ایک حد تک ناممکن ہیں.لیکن یہ عرصہ فقہا احناف نے محض اور محض احتیاط کی خاطر مانا ہے تاکہ بچے کو اپنے والد کی صحیح اولا د تسلیم کرایا جا سکے اور اس طرح حتی الامکان اسے ناجائز ولادت کے الزام سے بچا لیا جائے.تاکہ اس کی زندگی اجیرن نہ ہو اور معاشرہ میں وہ ایک معزز مقام حاصل کر سکے.غرض احتیاط کے اس پہلو کوحضرت امام ابو حنیفہ نے بطور خاص ملحوظ رکھا ہے حضرت امام ابو حنیفہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے استخراج مسائل قرآن میں ایک خاص مقام عطا فرمایا تھا.وہ اپنی قوتِ اجتہاد، علم اور معرفت میں باقی تمام اماموں سے بلند اور فائق نظر آتے ہیں بلکہ بہت سے لوگ تو ان کے اعلیٰ مقام کو سمجھنے تک سے قاصر ہیں.حضرت امام ابو حنیفہ کے مسلک فقہ کے بارہ میں حضرت میرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.وہ ایک بحر اعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں.اس کا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے امام بزرگ حضرت ابو حنیفہ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں یدطولیٰ تھا.خدا تعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے.انہوں نے مکتوب صفحہ ۳۰۷ میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنے والے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے.“ (الحق مباحثہ لدھیانہ صفحہ ۱۰۱) اسی طرح آپ اپنی کتاب ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۵۳۰ -۵۳۱ پر فرماتے ہیں.اصل حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے قانون المصری نمبر ۲۵ بابت ۱۹۲۹ء

Page 267

۲۵۹ علم اور درایت اور فہم و فراست میں ائمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خدا داد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطرت کو کلام الہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے.اسی وجہ سے اجتہاد و استنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلم تھا.جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے.“ حمل کا حصہ یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ ایسا حمل موجود ہے کہ پیدا ہونے پر اس بچے کا شمار ورثاء میں ہو گا.دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے حمل کے لئے ترکہ کا کس قدر حصہ محفوظ (Reserve) رکھا جائے.حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک حمل کے لئے چار بیٹوں یا چار بیٹیوں کے حصہ میں سے جو زیادہ ہو وہ محفوظ رکھا جائے.حضرت امام محمد کے نزدیک تین بیٹوں یا تین بیٹیوں میں سے جو زیادہ ہو وہ محفوظ رکھا جائے.دوسری روایت یہ ہے کہ دو بیٹوں کے برابر رکھ لیا جائے.یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں البتہ اس قدر احتیاط ضرور لازم ہے کہ جو کچھ بھی حمل کے لئے محفوظ رکھا جائے وہ زیادہ سے زیادہ حصہ ہو بلحاظ تعدا د و کمیت.اور پھر بھی ممکن ہے کہ وہ کسی وجہ سے کم ہو جائے اس لئے ورثاء سے تحریر ضمانت لے لینی چاہئے کہ وہ اس کو اپنے حاصل کردہ حصوں سے پورا کر دیں گے.اگر محفوظ کئے گئے حصہ میں سے کچھ بچ جائے تو اسے ورثاء میں اُن کے شرعی حصوں کے مطابق واپس لوٹا دیا جائے اسی طرح اگر کسی وقت یہ ثابت قانون الاحوال الشخصیة ۱۹۵۹ءعراق مجلة الاحوال الشخصية تیونس قانون الاحوال الشخصية شام

Page 268

ہو جائے کہ حمل نہیں تھا یا اسقاط ہو جائے.یا بچہ مردہ پیدا ہو تو اس صورت میں بھی محفوظ کیا گیا ترکہ ورثاء میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دیا جائے اب یہ تمام صورتیں مثالوں سے واضح کی جاتی ہیں.مثال نمبر ا ایک میت نے والدہ ، چچا اور ایک زوجہ ( جو حاملہ ہے ) وارث چھوڑے ورثاء نے قبل از وضع حمل تقسیم ترکہ کی خواہش کی اور حمل کو لڑ کا تصور کر کے تقسیم کر دی گئی.لیکن بعد میں لڑکی تولد ہوئی.دونوں صورتوں میں ہر ایک وارث کا حصہ بتاؤ.ولادت سے قبل تقسیم ترکہ بیٹی کی ولادت کے بعد تقسیم ترکہ = 1/4 = 1/F + - 1 = ۲۴ ۱۲+۴+۳ ۲۴ - 1 = زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ بیٹی کا حصہ = باقی ١/٨ = 1/4 = زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ 1 1/2 = 1 + 1 − 1 = ( + 1 + 1 ) − 1=3 ۲۴ ۱۷ / ۲۴ = ۲۴ لہذا حمل (لڑکے کا حصہ ) جو محفوظ رکھا گیا ( چا محروم ) جو چچا کو بطور عصبہ ملے گا.۱۲/۲۴ حصہ اس طرح ۲۴ / ۱۷ حصہ جو حمل کے لئے محفوظ رکھ لیا تھا اس میں سے نوزائیدہ لڑکی کو ملا اور باقی ۵/۲۴ حصہ چانے حاصل کر لیا.جو قبل از میں محروم رہ گیا تھا.نوٹ : ولا دت کے بعد بظاہر تو یہ طریق عمل ہونا چاہیئے کہ صرف محفوظ کر دہ حصہ کو نو مولود اور موجودہ ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ، لیکن اس طریق کو اختیار کرنے میں طول عمل کے علاوہ کئی الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں.کیونکہ محفوظ حصہ میں سے نو مولود کا حصہ عموماً بڑے پیچیدہ جسمانی عمل سے ہی متعین کیا جا سکتا ہے.مزید براں بعض ایسے رشتہ دار بھی جو وضع حمل سے قبل کی تقسیم میں محروم رہ گئے تھے.واضح حمل کے بعد ورثاء میں شامل ہو سکتے ہیں.اس لئے سہل ترین طریق جو عملاً اختیار کیا جاتا ہے یہی ہے کہ وضع حمل کے بعد جو رشتہ دار وارث قرار پائیں تمام تر کہ ان میں تقسیم کر دیا جائے اور پہلے حاصل کردہ حصوں اور بعد میں قائم شدہ حصوں

Page 269

۲۶۱ میں جو فرق ہو.وہ محفوظ کردہ حصہ سے پورا کیا جائے.ان مثالوں میں یہی طریق اختیار کیا گیا ہے.البتہ ہر مثال میں محفوظ کر دہ حصہ کی تقسیم بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی.کیونکہ ابتدائی اور آخری حصوں کے معلوم ہو جانے کے بعد بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ محفوظ کردہ حصہ میں سے کتنا کتنا کس کس وارث کو ملنا چاہئے تا ہر ایک کا آخری قائم شدہ حصہ پورا ہو جائے.مثال نمبر ۲: ایک میت نے زوجہ ، والدہ ، چچا اور دولڑکیاں وارث چھوڑے.زوجہ حاملہ ہے اگر تر که قبل از وضع حمل تقسیم ہو تو ہر ایک وارث کا حصہ بتاؤ.جب کہ حمل کو لڑ کا تصور کر لیا جائے اور اگر بعد میں لڑکی تولد ہو جائے تو پھر وارثوں کے حصے بتائیے.قبل از ولادت ورثاء کے حصے زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ ( باقی = 1 - + + + = 1/A = 1/4 = ۲۴ بیٹی کی ولادت کے بعد تقسیم ترکہ زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ تین لڑکیوں کا حصہ حمل کو لڑ کا تصور کیا گیا ہے اس لئے لڑکیاں اس ہر لڑکی کا حصہ = ١/ 1/4 ٢/٣ ٢/٩ = = کے ساتھ عصبہ بن جائیں گی.لہذا حمل ( لڑکے ) کا محفوظ حصہ ۱۷ ۴۸ ۱۷ 1⁄4 = 1 × 1 = ㅎ ہر ایک لڑکی کا حصہ = x = ۲۴ ۱۷ ۹۶ باقی = ( + + + +) - 1 = ۲۴ = ۱۶+۴+۳ - 1 = ۲۴ جو چا کا حصہ ملے گا.یعنی محفوظ کئے گئے حصے (۱۷/۴۸) میں سے ۲/۹ حصہ نوزائیدہ بیٹی کو ۱۳/۲۸۸.حص پہلے سے موجود ہر بیٹی کو اور ۱/۲۴ حصہ چچا کو ملا.اور پہلی دونو لڑکیوں میں سے ہر ایک کا کل حصہ لا ۹۶ مثال نمبر ۳ : ۱۳ + ۲۸۸ = ۱۳۵۱ = = = بن گیا.۲۸۸ ۶۴ ۲۸۸ ایک میت نے زوجہ ، والد اور بیٹے کی بیوہ (جو ایام حمل گزار رہی ہے ) وارث چھوڑے حمل کو لڑ کا تصور کر کے ورثاء نے ترکہ تقسیم کر لیا.اگر بعد میں لڑکی پیدا ہوئی ہو تو

Page 270

۲۶۲ دونوں صورتوں میں ہر وارث کا حصہ بتائیے.قبل از ولادت ورثاء کے حصے بعد از ولادت (لڑکی) ورثاء کے حصے باقی = = * = ( + ± − 1 = - زوجہ کا حصہ پوتی کا حصہ والد کا حصہ باقی ١/٨ = 1/4 = ۲۴ زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ باقی = 1 + + + ) جو حمل کے لئے محفوظ رہے گا.کیونکہ بیٹا پیدا ۱/۶) بطور ذوی الفروض اور ۵/۲۴ بطور عصبہ کے ) ہونے کی صورت میں یہ کل حصہ اس کا حق ہوگا.بیٹے کی بیوہ یعنی متوفی کی بہو = محروم یعنی پوتے کے لئے محفوظ کئے گئے ۲۴ / ۱۷ حصہ میں سے اب ۱۲/۲۴ پوتی کو اور ۵/۲۴ والد کو مل گیا.مثال نمبر ۴ : ایک میت نے زوجہ والدہ ، پوتی اور پوتی کی والدہ (جو حاملہ ہے) وارث چھوڑے.اگر حمل کو لڑ کا تصور کر کے تقسیم کر لی جائے تو تمام ورثاء کے حصے بتائیے.نیز اگر بعد میں لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہو تو بھی ہر ایک وارث کا حصہ بتائیے.

Page 271

۲۶۳ قبل از وضع حمل ورثاء کے حصے زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ باقی = 1 + + + ) = 1/A = 1/4 = ۲۴ پوتی ولادت کے بعد ورثاء کے حصے زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ دو پوتیوں کا حصہ = 1/7 = = چونکہ حمل کو لڑ کا تصور کیا گیا ہے اس لئے وہ میت کا کوئی عصبہ موجود نہیں اس لئے باقی کا ترکہ بھی پوتا ہوگا اور پوتی اس کے ساتھ عصبہ قرار پائے گی.اس لئے پوتے (حمل) کا محفوظ حصہ 11⁄4 = 1 × 1/1 = پوتی کا حصہ = x + = K ۷۲ انہی ذوی الفروض کو ماسوائے زوجہ کے رڈ کیا جائے گا.لہذا ورثا کے کل حصے یہ ہوں گے.زوجہ کا حصہ 1/A = باقی = 1 - = = Δ والدہ اور پوتیوں کے حصوں کا تناسب ۴:۱ = : + #: انہی ذوی الفروض کو ماسوائے زوجہ کے رڈ کیا جائے گا.لہذا ورثا کے کل حصے یہ ہوں گے.زوجہ کا حصہ 1/A = باقی =1 - + = والدہ اور پوتیوں کے حصوں کا تناسب نسبتی مجموعه ۴:۱= =: + 1 = 2 + 1 = پس والدہ کا حصہ = = d x = دو پوتیوں کا حصہ = ۷۸ × 5 = اور ہر ایک پوتی کا حصہ = ۱۴/۴۰ = یعنی اگر کل جائداد کے ۴۰ سہام کئے جائیں تو ۵ زوجہ کے، سات والدہ کے اور ۱۴ ہر پوتی کے ہوں گے.یاد رکھئے کہ حمل کے لئے جو حصہ محفوظ رکھا جاتا ہے وہ صرف اسی صورت میں نوزائیدہ بچے یا بچوں کو ملتا ہے جب وہ زندہ پیدا ہوں اگر کوئی مردہ بچہ پیدا ہو یا حمل کے دوران اسقاط ہو جائے تو پھر اس کی خاطر محفوظ کیا گیا حصہ دوسرے ورثاء میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دیا جاتا ہے.

Page 272

مثال نمبر ۵ : ۲۶۴ ایک میت نے والد، بھائی اور حاملہ بیوی وارث چھوڑے.حمل کولر کا تصور کر کے ترکہ گیا.بعد میں بچہ مُردہ پیدا ہوا.دونوں صورتوں میں ہر ایک وارث کا حصہ بتاؤ.قبل از ولادت تقسیم والد کا حصہ زوجہ کا حصہ 1/4 = 1/A = زوجہ کا حصہ والد کا حصہ بعد از وفات تقسیم = ( کیونکہ اولا دموجود نہیں ) = باقی = ۳/۴ حمل بیٹے کا محفوظ حصہ = باقی = ۱۷/۲۴ (۶/ الطور ذوی الفروض اور ۱۲ ۷ بطور عصبہ کے ) ( بھائی محروم ، بوجہ والد کی موجودگی کے ) ( بھائی محروم کیونکہ بیٹا موجود ہے ) مثال نمبر ۶ : محمد نواز نے اپنی وفات پر اپنی والدہ اور تین بیٹیاں وارث چھوڑے ان کے علاوہ اس کے مرحوم بھائی محمد نیاز کی بیوی بھی موجود ہے.( جو حاملہ ہے اور جس کی پہلے کوئی اولاد نہیں ) اگر حمل کولڑ کا تصور کر کے ترکہ تقسیم کر لیا جائے تو ہر ایک وارث کے حصے بتائیے؟ نیز والدہ کا حصہ 1/4 = تین بیٹیوں کا حصہ = ۲/۳ اگر بعد میں لڑکی پیدا ہو تو بھی تمام ورثاء کے حصے بتاؤ.قبل از ولادت ورثاء کے حصے بھتیجی کی ولادت کے بعد ورثاء کے حصے بھائی کے ہاں بیٹی یعنی متوفی کی بھتیجی پیدا ہوئی جو ذوی الارحام میں شامل ہے اس لئے ذوی الفروض کے ہوتے ہوئے وہ محروم رہے گی لہذا یہ رڈ کی صورت بن گئی اور جائداد والدہ اور تین بیٹیوں میں اُن کے حصوں کے تناسب سے تقسیم ہو جائے گی.یعنی ہے : سے تقسیم ہو گی لہذا ہر ایک کا حصہ ۲/۹ = حمل ( بھتیجے ) کا محفوظ حصہ = باقی ± 9 - 1 = ( + + ) -1= ±)-1= والدہ کا حصہ تین بیٹیوں کا حصہ = M:1 = 1/0 /۵ = مثال نمبرے : اور ہر ایک بیٹی کا حصہ = ۴/۱۵ ایک آدمی کی والدہ ، بھائی ، دو بہنیں ، ایک بیوی اور ایک لڑکی موجود ہیں.اس نے

Page 273

۲۶۵ دوسری شادی کی.کچھ عرصہ بعد اس کی وفات ہو گئی.اور یہ اپنی دوسری بیوی کو حاملہ چھوڑ گیا.ورثاء نے تقسیم ترکہ کا مطالبہ کیا اور حمل کو لڑکا قرار دے کر تقسیم کر دی گئی بعد میں لڑکی پیدا ہوئی.دونوں صورتوں میں ورثاء کے حصے بتائیے.قبل از ولادت تقسیم دو بیویوں کا حصہ = ۱/۸ بعد از ولادت دختر تقسیم = دو بیویوں کا حصہ ہر ایک بیوی کا حصہ = ۱/۱۶ ہر ایک بیوی کا حصہ والدہ کا حصہ 1/4 = دو بیٹوں کا حصہ باقی = 1 - 1 ++) = والدہ کا حصہ ١/ 1/17 F/F 1/4 = = یہ ( ۱۷/۲۴) حمل ( بیٹے) اور بیٹی میں ۱:۲ باقی = 1 - ( + + + + )= سے تقسیم ہو گا.پس حمل ( بیٹے ) کا محفوظ حصہ ۳۴ = Ex ۱۷ بیٹی کا حصہ = x = = ۲۴ ( بھائی اور بہنیں محروم ) مثال نمبر ۸ : ۱۷ ۲۴ جو متوفی کے بھائی کو جو عصبہ ہے ملے گا اور بہنیں محروم رہیں گی کیونکہ اُن کا شمار ذوی الارحام میں ہے.ایک آدمی کی والدہ ، ہمشیرہ اور ایک زوجہ جس سے اولاد نہیں موجود ہیں.اس نے دوسری شادی کی ، کچھ عرصہ بعد یہ اپنی دوسری بیوی کو حاملہ چھوڑ کر فوت ہو گیا.ورثاء نے حمل کولر کا تصور کر کے ترکہ کی تقسیم کر لی.بعد میں دولڑکیاں پیدا ہوئیں ہر دو صورتوں میں ورثاء کے حصے بتاؤ.

Page 274

۲۶۶ قبل از ولادت ورثاء کے حصے دونوں بیویوں کا حصہ = ۱/۸ اس لئے ایک بیوی کا حصہ = ۱/۱۶ والدہ کا حصہ 1/4 = دو بیٹیوں کا حصہ بعد از ولادت دختران ورثاء کے حصے دونوں بیویوں کا حصہ = والدہ کا حصہ ہر بیٹی کا حصہ والدہ کا حصہ = = = ۱۸ 1/4 ۲/۳ 1/7 ( ++ + + + ) - ۲۴ ۲۳ ۲۴ - 1 = - 1 = باقی حمل ( بیٹے ) کا محفوظ حصہ = باقی = 1/4= + 1 = ( + + ±)-1 + ۲۴ ( ہمشیرہ محروم ) جو ہمشیرہ کو بطور عصبہ ملے گا.یعنی دوسری صورت میں اگر جائداد کے ۹۶ سہام کئے جائیں تو ہر زوجہ کو ۶ سہام ہر بیٹی کو ۳۲ سہام، والدہ کو ۱۶ سہام اور ہمشیرہ کو ۴ سہام ملیں گے.مثال نمبر ۹: ایک میت نے والدہ ، والد ، ایک بیٹی اور ایک حاملہ زوجہ وارث چھوڑے.حمل کو ایک لڑکا تصور کر کے قبل از وضع حمل تقسیم کر لی گئی.بعد میں ایک لڑکا اور لڑکی اکٹھے پیدا ہوئے ہر دوصورتوں میں ورثاء کے حصے بتاؤ.

Page 275

۲۶۷ قبل از ولادت ورثاء کے حصے بیوی کا حصہ والدہ کا حصہ والد کا حصہ 1/A = 1/4 = 1/4 = بعد از ولادت ورثاء کے حصے بیوی، والدہ اور والدہ کے وہی حصے رہیں گے جو پہلے ہیں البتہ باقی (۱۳/۲۴ حصہ) اب دو لڑکیوں اور ایک لڑکے میں تقسیم ہوگا.باقی = 1 + + + + + = ۲۴ یه ( ۱۳/۲۴ حصہ ) بیٹی اور حمل ( بیٹے ) میں ۲:۱ ۱۳ سے تقسیم ہو گا.اس لئے بیٹی کا حصہ = x + = بیٹے کا محفوظ حصہ = = = = ۲۴ ۱۳ ۱۳ ۷۲ ۱۳ ۷۲ اس لئے (لڑکے ) کا حصہ == ہر ایک (لڑکی) کا حصہ = ۱۳ ۲۴ ۱۳ ۹۶ ۲۶ ۹۶ یعنی پہلے سے موجودہ بیٹی کا حصہ بقدر ۳۳۸ - ۳۹+۵۲ - ۳ - ۱ ۲۸۸ = مثال نمبر ۱۰: کم ہو جائے گا اس سے یہ حصہ واپس لے کر بیٹے کے محفوظ حصہ میں شامل کیا جائے تو دونو حصوں کی میزان ۱۷ ۱۳ ۲۶ ۱۳+۱۰۴ = + ۲۸۸ ۲۸۸ ۷۲ ۲۸۸ = ۱۳/۳۲ بنی اس میں نومولود بیٹے کو ۲۶/۹۶ اور نومولود بیٹی کو ۱۳/۹۶ حصہ دیا جائے گا.ایک میت نے والدہ ، والد ، چچا اور ایک حاملہ زوجہ وارث چھوڑے ورثاء نے حمل کو ایک لڑکا تصور کر کے تقسیم تر کہ کر لی.بعد میں دو تو ام لڑکے پیدا ہوئے ہر دو صورتوں میں ورثاء کے حصے بتائیے.جبکہ ترکہ کی مالیت ۴۸۰۰۰ روپے ہو.قبل از ولادت ورثاء کے حصے بعد از ولادت ورثاء کے حصے زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ والد کا حصہ 1/A = 1/4 = 1/4= زوجہ کا حصہ والدہ کا حصہ والد کا حصہ = 1/4 = 1/4 =

Page 276

حمل ( بیٹے ) محفوظ حصہ = ۲۶۸ دو بیٹوں کا حصہ = باقی : = - 1 = + + + + + ۲۴ - ۱ ۲۴ # = + + + + + اس لئے ۴۸۰۰۰ روپے میں زوجہ کا حصہ = ہر ایک بیٹے کا حصہ = ۱۳/۴۸ ۴۸۰۰۰ × = ۲۰۰۰ روپے اس لئے ۴۸۰۰۰ روپے میں سے ۶ ہزار والد کا حصہ = ۴۸۰۰۰ × + = ۸۰۰۰ روپے زوجہ کو ۸ ہزار روپے والدہ کو، ۸ ہزار والد کو والدہ کا حصہ = ۴۸۰۰۰ × 4 = ۸۰۰۰ روپے اور ۱۳ ہزار روپے ہر بیٹے کو ملیں گے.حمل ( بیٹے ) کا حصہ ۱۳ ۲۴ × ۴۸۰۰۰ = = ۲۶۰۰۰ روپے نوٹ :.اس دور میں طبی سائنس نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ حمل کے وجود میں آنے کے بعد حقائق کا علم بآسانی طبی ٹیسٹ سے ہو جاتا ہے اس کے مطابق عمل کیا جا سکتا ہے.لیکن احتیاط بہر حال اختیار کر لینی چاہئے.ولادت کا انتظار ہی بہتر ہے.بصورت دیگر رثاء سے تقسیم ترکہ احتیاط کو مدنظر ان کی تحریری اجازت سے شریعت کے مطابق کی جاسکتی ہے.

Page 277

۲۶۹ مشق نمبر 4 سوالات مع جوابات ایک میت نے زوجہ دو ہمشیرہ اور والدہ وارث چھوڑے اس کی زوجہ حاملہ ہے.(الف) اگر حمل کولڑ کا تصور کر لیں تو تقسیم ترکه قبل از وضع حمل کیا ہو گی (ب) نیز اگر بعد میں لڑکی پیدا ہو تو پھر حصے کیا ہوں گے؟ جواب الف.زوجہ کا حصہ = ۱/۸ والدہ کا حصہ 1/4= حمل (لڑکا) کا محفوظ حصہ = ۱۷/۲۴، دونو ہمشیرہ محروم زوجہ کا حصہ = ۱/۸ بیٹی کا حصہ = ۱/۲ والدہ کا حصہ 1/4= ہر ایک ہمشیرہ کا حصہ = ۵/۴۸ نعیم خان نے اپنا والد ایک زوجہ اور ایک بیٹا ( جمیل خان ) وارث چھوڑے دو ماہ بعد اس کا بیٹا جمیل بھی اپنی حاملہ بیوی چھوڑ کر فوت ہو گیا.( الف ) اس وقت حمل کو لڑ کا تصور کر کے جائدا و تقسیم کر لی گئی (ب) بعد میں لڑکی تولد وئی دونو صورتوں میں ہر ایک وارث کا حصہ بتاؤ.جواب: الف.زوجہ کا حصہ = ۱/۸ والد کا حصہ 1/4= حمل ( پونے) کا محفوظ حصہ = ۲۴ / ۱۷ ، اور بیٹے کی زوجہ محروم ہوتی تولد ہونے کی صورت میں زوجہ کا حصہ والد کا حصہ √/A = ٣/٨ = نوزائید پوتی کا حصہ 1/5= اور بیٹے کی زوجہ محروم ایک شخص کی وفات پر اس کی والدہ ، حاملہ زوجہ اور ایک بھائی موجود تھے.(الف) اگر حمل کولڑ کا تصور کر کے ترکہ تقسیم کر دیا جائے تو ہر ایک وارث کا حصہ بتاؤ.نیز اگر بعد میں مُردہ بچہ پیدا ہو تو اس صورت میں بھی ہر ایک وارث کا حصہ بتاؤ.جواب: الف.زوجہ کا حصہ = ۱/۸ والدہ کا حصہ حمل کا محفوظ حصہ = ۱۷/۲۴، اور بھائی زوجہ کا حصہ = ۱/۴ والدہ کا حصہ 1/4= محروم 1/F=

Page 278

۲۷۰ جواب: اور بھائی کا حصہ = ۴/۱۲ نذیر احمد نے اپنی والدہ اور دو بیٹیاں وارث چھوڑے اور اس کے بھائی سعید احمد مرحوم کی زوجہ بھی (جو حاملہ ہے ) موجود تھی.(الف) اگر حمل کو لڑ کا تصور کریں تو ہر ایک وارث کے حصے بتاؤ ؟ نیز ا گر لڑکی پیدا ہو تو پھر بھی ورثاء کے حصے بتائیے الف.والدہ کا حصہ = ١/٦ بھتیجا (حمل) کا محفوظ حصہ = ۱/۶، والدہ کا حصہ = ۱/۳ اور بھتیجی ( بھائی کی بیٹی ) محروم ہر بیٹی کا حصہ ۱/۳ ہر دختر کا حصہ = ۱/۳ ایک میت نے ایک بیٹی ، والدین اور حاملہ زوجہ ورثاء چھوڑے (الف) اگر حمل کو لڑکا تصور کر لیں تو ورثاء کے حصے بتائیے.(ب) نیز اگر بعد میں لڑکی پیدا ہو تو پھر حصے کیا ہوں گے؟ جواب: الف.زوجہ کا حصہ = ۱/۸ والد کا حصہ 1/4= والدہ کا حصہ = ۱/۶، حمل (لڑکے ) کا محفوظ حصہ = ۱۳/۲۴ زوجہ کا حصہ = ۱/۹ والد کا حصہ ۴/۲۷ = والدہ کا حصہ = ۴/۲۷ اور ہر ایک لڑکی کا حصہ = ۸/۲۷

Page 279

۲۷۱ غرقی ، حرقی اور ہدی کی میراث کا بیان ڈوب کر ، جل کر یا دب کر مرنے والوں ( یعنی علی الترتیب غرقی ، حرقی اور ہدی ) کی میراث کے بارہ میں جب کہ یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کون پہلے فوت ہوا.اور کون بعد میں تو صحیح طریق یہ ہے کہ ان سب کو ایک ہی وقت کے وفات یافتہ مانا جائے اور کسی کو بھی کسی دوسرے کا وارث قرار نہ دیا جائے.اس لئے ان میں سے ہر ایک کا ترکہ براہ راست اپنے اپنے ورثاء میں تقسیم ہو گا.یہی حکم جنگ میں قتل ہونے والوں کے متعلق ہے کہ وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے خواہ ان میں سے بعض کی بعض دوسروں کے ساتھ کتنی ہی گہری رشتہ داری کیوں نہ ہو.ان کا ترکہ صرف ان کے اپنے اپنے ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے.حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق اور زید بن ثابت سے یہی طریق مروی ہے اور امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی بھی اسی مسلک کے قائل ہیں اور یہی مسلک جماعت احمدیہ کا ہے.مثال : ایک آدمی اپنے بیٹے اور ایک بیٹی کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوا.گھر پر وہ اپنی بیوی ، دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو چھوڑ گیا.دوران سفر حادثہ پیش آ جانے کی وجہ سے یہ تینوں مسافر جان بحق ہو گئے.بیٹا جو ان کے ہمراہ تھا اس کی دو بیٹیاں اور بیوی موجود ہے اگر اس بیٹے کا ترکہ ۱۲٫۰۰۰ روپے ہواور اس کے والد کا ترکہ ۴۰٫۰۰۰ روپے ہو تو ہر ایک وارث کا حصہ بتاؤ.والد، بیٹا اور ایک بیٹی ایک ہی حادثہ میں فوت ہوئے اس لئے یہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے.والد کے ترکہ کی تقسیم جس کے ورثاء بیوی ، دو بیٹے بیٹے کے ترکہ کی تقسیم جس کے ورثاء والدہ، بیوی ، دو بیٹیاں ، دو بھائی اور ایک بہن ہیں.1/4 1/A = والدہ کا حصہ بیوی کا حصہ اور ایک بیٹی ہیں بیوی کا حصہ باقی /A = 2/A= 1/A - 1 ۱/۸ =

Page 280

۲/۳ = ۲۷۲ یہ ۷/۸ حصہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی میں ۲ : اسے دو بیٹیوں کا حصہ (++++) - 1 = ۲۴ :17+1+2 -1 = ۲۴ تقسیم ہو گا اس لئے ہر ایک بیٹے کا حصہ = باقی = ☑ اور بیٹی کا حصہ = = x = = پس ۴۰۰۰۰ رو پے میں بیوی کا حصہ = ۵۰۰۰ روپے ہر ایک بیٹے کا حصہ = ۱۴۰۰۰ روپے اور بیٹی کا حصہ مثال نمبر ۲: -9] 4+*+ = روپے ۱/۲۴ حصہ اس کے دو بھائیوں اور ایک بہن ۲ : اسے تقسیم ہوگا.پس ایک بھائی کا حصہ = 7 × 5 = ۲۴ ا بہن کا حصہ = 7 × 4 = ۲۴ ۱۲۰ لہذا ۱۲۰۰۰ روپے میں والدہ کا حصہ = ۲۰۰۰ روپے لہذا ۲۰۰۰ ۱ روپے میں ہر بیوی کا حصہ = ۱۵۰۰ روپے ۱۲۰۰۰ روپے میں ہر ایک بیٹی کا حصہ = ۴۰۰۰ روپے ۱۲۰۰۰ روپے میں ہر ایک بھائی کا حصہ = ۲۰۰ روپے ۱۲۰۰۰ روپے میں بہن کا حصہ = ۱۰۰ روپے ایک جنگ میں باپ اور اس کا ایک بیٹا شریک ہوئے اور دونوں ہی مارے گئے والد نے اپنے پیچھے بیوی ، دو بیٹیاں اور مارے جانے والے بیٹے کے علاوہ ایک بیٹا چھوڑے اور بیٹے نے اپنے پیچھے اپنی بیوی چھوڑی.اپنے اپنے مورث کی جائداد میں ہر ایک وارث کا حصہ بتاؤ.یہاں مقتول والد کے ورثاء ایک بیوی دو بیٹیاں اور بیٹے کے ورثاء والدہ ، بیوی کے علاوہ دو حقیقی بہنیں ایک بیٹا ہے اور ایک بھائی ہے.1/4 = 1/8 = والدہ کا حصہ بیوی کا حصہ باقی = 1 - ( + ) ( + +) ۷ ۳+۲ ۱۲ = -1 = لہذا بیوی کا حصہ = ۱/۸ باقی = 1 - = Δ یہ ۷۸ حصہ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں میں تقسیم ہو گا.= x ۱۶ = اس لئے بیٹے کا حصہ

Page 281

۲۷۳ ہر ایک بیٹی کا حصہ = = x اور مقتول بیٹے کی بیوی = محروم = ۳۲ یہ ۷/۱۲ حصہ حقیقی بھائی اور دو حقیقی بہنوں میں ۱:۲ سے تقسیم ہوگا.پس اگر جائداد ۳۲ سہام کئے جائیں تو ۴ بیوی کے ۱۴ بھائی کا حصہ = x = زندہ بیٹے کے اور کے سہام ہر ایک بیٹی کے ہوں گے.ہر ایک بہن کا حصہ = x + = ۲۴

Page 282

۲۷۴ خنثی کی میراث کا بیان لغت میں خنثی اس شخص کو کہتے ہیں جس میں مرد، عورت دونوں کی علامتیں موجود ہوں.اگر مرد کی علامتیں غالب ہوں تو اسے مرد تصور کیا جائے گا اور اسے مردوں جیسا حصہ ملے گا.اگر عورت کی علامتیں غالب ہوں تو اسے عورتوں جیسا حصہ ملے گا اگر دونوں قسم کی علامتیں برابر ہوں تو اس کو وراثتی اصطلاح میں خنثی مشکل کہتے ہیں.ایسے شخص کے لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کو ترکہ کا کون سا حصہ دیا جائے آیا مرد والا حصہ یا عورت والا حصہ.اس بارہ میں حضرت امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ خلفی کو ان دونو حصوں میں سے چھوٹا حصہ دیا جائے جو اسے مرد فرض کرنے کی صورت میں یا عورت فرض کرنے کی صورت میں مل سکتے ہوں.دوسرے لفظوں میں اس کی وہی جنس تصور کی جاوے جس سے لف دوسری جنس تصور کرنے کی نسبت کم حصہ ملتا ہو.یا کچھ بھی نہ ملتا ہو مثلاً اگر ایک میت کے وارث اس کا ایک لڑکا ، ایک لڑکی اور ایک خنثی ہوں تو ہم سے امام ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق لڑکی تصور کر لیں گے کیونکہ اس طور سے اسے ترکہ کا ۱/۴ حصہ ملتا ہے اگر لڑ کا تصور کریں تو اسے ۲/۵ مل جائے گا.اس کو اسی صورت میں نسبتا کم حصہ مل سکتا ہے جب اسے لڑکی (عورت) تصور کریں.لیکن اگر کسی میت کے ورثاء خاوند ، والدہ ، اخیافی بہن اور علاتی خفی ہوں تو اسے ہم مرد تصور کریں گے کیونکہ اس طور پر اسے ترکہ کا ۱/۶ حصہ بطور عصبہ ملتا ہے.اگر ہم اسے عورت تصور کر لیتے تو پھر یہ ذوی الفروض میں شامل ہو کر ۳/۸ حصہ پا جاتا.کیونکہ اس صورت میں تقسیم اس طرح ہوتی ہے.خاوند ۱/۲، والده ۱/۶ ، اخیافی بہن ۱/۶، علاقی خنثی بہن ۱/۲ اور یہ عول کی صورت ہے کیونکہ ان حصوں کا مجموعہ + + + + + + + ۳۱+۱+۳ = A اکائی سے بڑھ جاتا ہے.اس لئے نسب نما کو شمار کنندہ کے برابر کرنے سے ورثاء کے حصوں کی نسبت علی الترتیب ۳ : ۱ : ۱ : ۳ اور ان نسبتوں کا مجموعہ ۸ بنتا ہے.اس لئے ان کے حصے یہ ہوں گے.

Page 283

۲۷۵ خاوند کا حصہ = ۳/۸، والدہ کا حصہ ۱/۸ ، اخیافی بہن کا حصہ ۱/۸، اور علاقی حنفی کا حصہ = ۳/۸ یعنی عورت تصور کرنے سے اسے ۳/۸ حصہ ملتا ہے.مرد تصور کرنے سے یہ خلفی علاتی بھائی بنتا ہے اور صرف ۱/۶ حاصل کرتا ہے.±=( +)− کیونکہ اس صورت میں خاوند کا حصہ = ۱/۲، والدہ کا حصہ = ۱/۶، اخیافی بہن کا حصہ = ١/٢ ( خنٹی ) علاقی بھائی کا حصہ = باقی = 1 + + + + + ) = سو چونکه مرد تصور کرنے کی صورت میں خنثی کو نسبتا کم حصہ ملتا ہے اس لئے اسے مرد ہی تصور کیا جائے گا.اسی طرح اگر کوئی میت صرف ایک نواسہ اور ایک خنثی نواسہ چھوڑے تو ہم اسے عورت تصور کریں گے کیونکہ اس طرح اسے جائداد کا ۱/۳ حصہ ملے گا.اور نواسے کو ۲/۳ اگر خلفی کو مرد تصور کریں تو وہ آدھی جائداد کا وارث بن جائے گا.چونکہ اسے عورت تصور کرنے میں ہی نسبتا کم حصہ ملتا ہے.اس لئے اسے عورت تصور کریں گے.مثال: خاوند = 1/5 اگر ایک میت خاوند سگی بہن اور ایک خنثی ( علاتی ) وارث چھوڑے تو ہر ایک کا حصہ بتاؤ.الف.اگر خفی ( علاقی ) کو مرد تصور کریں گے ورثاء کے حصے یہ ہوں گے.سکی بہن = ۱/۲ علاتی بھائی یعنی خلفی عصبہ ہو گا.اس لئے محروم رہے گا ( کیونکہ جائداد ذوی الفروض میں ہی پوری ہوگئی ) اگر خنٹی کو عورت تصور کریں تو پھر وہ علاتی بہن بن جائے گا اور حقیقی ہمشیرہ کے ساتھ اس کا مقررہ حصہ ۱/۶ ہوگا.اگر عول کی صورت بن جانے سے اس کا صحیح حصہ ۱۷ رہ جائے گا پھر بھی یہ حصہ پہلی صورت کے حصہ سے زیادہ ہے جس میں اسے کچھ بھی نہیں ملنا تھا.لہذا اس مثال میں ہم اس خلفی کو مرد تصور کریں گے.مثال نمبر ۲: اگر کسی میت کے وارث صرف اس کے چچا کی اولاد ہو جو ایک بیٹے اور ایک خلفی پر مشتمل ہے ہو تو ہر ایک وارث کا حصہ بتاؤ.چا کا بیٹا عصبہ میں شامل ہے اور چچا کی بیٹی ذوی الارحام میں شامل ہے.

Page 284

کے ہوتے ہوئے ذوی الارحام محروم ہوتے ہیں.اس لئے خنثی کو عورت یعنی چا کی بیٹی تصور کریں گے لہذا وہ محروم رہے گی اور تمام جائداد کا مالک چا کا بیٹا ہو گا.نوٹ : امام شافعی کے نزدیک خلفی کا حکم وہی ہے جو امام ابو حنیفہ کے نزدیک ہے.صرف اتنا فرق ہے کہ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ ابتدائی تقسیم تو اس طرح کی جائے کہ خلفی کو بڑا حصہ ملے، لیکن عملاً اسے صرف چھوٹا حصہ دیا جائے یعنی جو نسبتا کم ہو.بقیہ حصہ یعنی بڑے اور چھوٹے حصہ میں جو فرق ہے اسے امانت رکھا جائے اور خنثی کی حالت میں کسی تبدیلی کا انتظار کیا جائے ممکن ہے بڑا ہو کر اس میں مرد یا عورت کی کوئی نمایاں علامات ظاہر ہو جائے.ایسی علامت ظاہر ہونے کے بعد جو بھی صورت ہو اگر اس کے مطابق خنثی کا حصہ پورا کرنے کے بعد زیر امانت حصہ میں سے کچھ باقی بچتا ہو تو وہ دوسرے وارثوں میں اُن کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دیا جائے اور اگر کوئی فیصلہ کن علامت ظاہر نہ ہو تو پھر مصالحت کی صورت یعنی رضا مندی سے جیسے مناسب سمجھا جائے.عمل کر لیا جائے.اس مصالحت کے لئے خنٹی کا بالغ ہونا ضروری نہیں.

Page 285

۲۷۷ مفقود الخبر یعنی لا پتی شخص کی میراث کا بیان مفقود الخمر کے لغوی معنے لا پتہ کے ہیں.وراثتی اصطلاح میں مفقود الخبر اسے کہا جاتا ہے جس کے بارہ میں یہ علم نہ ہو سکے کہ وہ کہیں زندہ موجود ہے یا وفات پا چکا.حنفیوں کے نزدیک مفقود الخبر کے لئے انتظار کرنے کی مدت نوے برس ہے.یعنی جب تک اس کی عمر ۹۰ برس نہ ہو جائے اس کی موت کا حکم نہ لگایا جائے.یعنی اس کا ترکہ تقسیم نہ کیا جائے.یہ مدت انتظار اپنی طوالت کی وجہ سے بہت سی الجھنیں پیدا کرتی ہے خاص طور پر جب کہ مفقود الخبر کی بیوی بھی موجود ہو.اس لئے اب علمائے احناف نے حضرت امام مالک کے مسلک کو تسلیم کر لیا ہے یعنی جس روز سے وہ شخص مفقود الخبر ہو اس روز سے چار سال کے بعدا کی زوجہ قضائی فیصلہ حاصل کر کے اور عدت گزار کر نکاح ثانی کر سکتی ہے گویا چار سال کے بعد مفقود الخبر کو وفات یافتہ قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کا ترکہ تقسیم کیا جا سکتا ہے، لیکن فقہا نے اس بارہ میں امام وقت کی اجازت کی شرط لگائی ہے.جیسا کہ مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ظاہر ہے.قَالَ بَعْضُهُمُ مَالُ الْمَقْوُدِ مَوْقُوق إِلَى اِجْتِهَادِ الْإِمَامِ وَمَوْقُوفٌ الْحُكْمُ فِى حَقِّ غَيْرِهِ حَتَّى يُوْقِفَ نَصِيبَهُ مِنْ مَالٍ مُورِثِهِ ( تنویر الحواشی شرح سراجی صفحه ۱۱۳) بعض فقہاء کے نزدیک مفقود الخبر کے مال کو ترکہ قرار دینے کا فیصلہ امام (وقت ) کے اجتہاد پر موقوف ہے اور دوسرے کے ترکہ میں اُس کے حصہ کا فیصلہ بھی ایسے ہی حکم پر موقوف ہے پس مورث کے مال میں اس کا حصہ کیا ہے اور کتنا ہے یہ بھی عدالتی فیصلہ پر موقوف ہوگا.فَوَّضَهُ بَعْضُهُمْ إِلَى الْقَاضِي فَايَّ وَقْتٍ رَأَى الْمَصْلِحَةَ حَكَمَ بِمَوْتِهِ ( قال الشارح وهو المختار بحر الرائق صفحه ۱۶۵) بعض لوگوں نے اس معاملہ کو قاضی کے سپرد کیا ہے جب بھی وہ مناسب خیال کرے ایسے شخص کی موت کا فیصلہ کر دے.

Page 286

۲۷۸ قَالَ بَعْضُهُمُ إِذَا انْقَطَعَتْ اَخْبَارُ الْمَفْقُودِ فِي الْحَرْبِ عَامِينِ أَوْعَامًا وَاحِداً عُدَّ هَالِكًا (الاسره فی الشراع اسلامی ) بعض کا خیال ہے کہ جنگ کے دوران مفقود الخبر شخص کے بارہ میں دو سال تک یا ایک سال تک کوئی خبر نہ آئے تو اس کو ہلاک ہونے والوں میں شمار کیا جائے.ان تمام حوالوں سے ظاہر ہے کہ آخری فیصلہ امام وقت یا اس کے قائم کردہ عدالتی ادارہ قضا پر موقوف ہے.بہر حال عام قاعدہ یہ ہے کہ ایسی صورتوں میں زوجہ کے نکاح ثانی کے لئے مدت بالعموم ایک سال چار ماہ دس دن سے کم نہیں ہونی چاہئے اور جائداد کی تقسیم کے لئے ۴ سال سے کم نہیں ہونی چاہئے.نوٹ : عدالت یا قضا جب بھی مفقود الخبر کی موت کے متعلق حکم صادر کرے تو جو وارث حکم جاری ہونے کے وقت زندہ موجود ہوں وہی اس کے وارث متصور ہوں گے کیونکہ ورثاء یا وارث کا موروث کی وفات کے وقت زندہ ہونا ضروری ہے.وہ رشتہ داری جو مفقود الخبر کی وفات کا حکم جاری ہونے سے پہلے ہی وفات پاگئے وہ وارث نہیں ہوں گے.

Page 287

۲۷۹ اسیر کی میراث کا بیان ! مسلمان قیدی کے لئے میراث کا وہی حکم ہے جو دیگر آزاد مسلمانوں کے لئے ہے یعنی اس کے ترکہ کی تقسیم کے بارے میں اور دوسرے مورثوں کی جائداد میں اس کے حصہ کے بارے میں جب تک وہ قیدی اسلام پر قائم ہے وہی ضوابط اور قواعد ملحوظ رکھے جاتے ہیں جو دیگر مسلمانوں کے بارے میں ملحوظ رکھے جاتے ہیں.اگر وہ قید ہونے کے بعد کسی بھی وجہ سے مذہب اسلام سے روگردانی کرے یعنی مرتد ہو جائے تو اس کا حکم مرتد کا ہوگا اور اگر اس کے زندہ یا فوت ہونے کی خبر کسی بھی ذریعہ سے نہیں ملتی اور اغلب خیال اس کی وفات کا ہو تو اس صورت میں اس کا حکم مفقود الخبر کا ہوگا.موجودہ دور میں سفیروں کے ذریعہ اس بات کا علم آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے کہ کس ملک کے کتنے قیدی کہاں کہاں تھے اور اُن میں سے کون کون زندہ ہیں.اس لئے حالات کے مطابق ان کی اپنی جائداد اور دوسروں کی جائداد میں ان کے حصوں کے بارہ میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے.

Page 288

۲۸۰ ولد الملاعنہ اور ولد الحرام کی میراث کا بیان ولد الملاعنہ اس بچے کو کہتے ہیں جس کا حمل میں آنا تو اثنائے ازواج میں ہو لیکن اس کی ماں کے خاوند نے بچے کے والد ہونے سے انکار کیا ہو اور قرآن میں مذکور طریق کے مطابق با ہم لعنت کرنے کے بعد میاں بیوی علیحدہ ہو گئے ہوں.ایسا بچہ والدہ کی جہت سے یعنی ماں کی طرف سے ترکہ میں وارث ہو گا اور والدہ ایسے بچے کی وارث ہو گی.وہ اس مشکوک والد اور اس کے رشتہ داروں کا وارث نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ رشتہ دار اس کے وارث ہوتے ہیں.ولد الحرام اس مشکوک بچے کو کہتے جس کا حمل اثنائے نکاح میں قرار نہ پایا ہو اور نہ ہی وہ اقرار سے جائز بچہ تسلیم کیا گیا ہو.ایسے بچے کی وراثت بھی اس کی ماں فرضاً ورداً حاصل کرے گی اور اگر ماں موجود نہ ہو.تو ماں کے ذوی الارحام اس کے وارث ہوں گے ولد الزنا کا اخیافی بھائی اس کا عصبہ نہ ہو گا.البتہ مادری ( اخیافی ) جہت سے میراث حاصل ( بحوالہ کنز الفرائض صفحه ۱۰۱) کر سکے گا.

Page 289

۲۸۱ باب یاز دہم دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کی میراث اسلامی قانونِ وراثت میں ، یتیم پوتا اپنے چا یا چاؤں کی موجودگی میں خواہ وہ حقیقی ہوں یا علاقی اپنے دادا کے ترکہ سے کیوں محروم رہتا ہے یہ ایک نہایت ہی اہم اور ضروری سوال ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ایک شخص جس کے چند بیٹے بیٹیاں ہیں اس کے بیٹوں میں سے اگر کوئی بیٹا فوت ہو جائے اور اپنے پیچھے ایک یا زیادہ بیٹے یتیم چھوڑ جائے تو دادا کے فوت ہونے پر یہ یتیم پوتے جن کا کفیل باپ کے بعد صرف اور صرف دادا ہی تھا وہ اپنے دادے کے ترکہ سے کیوں حصہ نہ پائیں اور سارا مال ان کے چچا کیوں لے جائیں حالانکہ ان کے چچاؤں کی نسبت ان یتیم پوتوں کو اس مال کی بہت زیادہ ضرورت ہے.بچا تو عموماً جوان اور مضبوط ہونے کی بنا پر اپنی روزی خود کما سکتے ہیں.لیکن یہ کم عمر اور کمزور پوتے دادا کے ورثہ کے شدید محتاج ہوتے ہیں.پھر بھی انہیں خالی ہاتھ چھوڑ کر تمام جدی جائداد چچاؤں کے حوالہ کر دی جاتی ہے.اگر ان یتیموں کا والد زندہ رہتا اور دادا کے بعد فوت ہوتا تو پھر اپنے والد کے توسط سے یہ یتیم پوتے بھی اس جدی جائداد سے حصہ پاتے جس کے مالک اب ان کے چا ہیں.گویا اس طرح انہیں تین صد مے دیکھنے پڑے.اول اپنے کفیل والد کی وفات دوم : والد کے بعد اپنے دادا کی وفات سوم دادا کی وفات کے بعد اس کے ترکہ سے بکلی محرومی.: یہ محرومی اور بھی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ جب کسی خاندان میں جدی جائداد کا رواج ہو.یعنی سب دا دا، باپ بیٹے وغیرہ اکٹھے کام کرتے ہوں اور جائداد مشتر کہ ہو.اگر درمیان میں کسی بیٹے کا انتقال ہو جائے تو یتیم پوتے دادا کی وفات کے بعد اس کے ترکہ سے مکمل طور پر محروم رہ جاتے ہیں اور ان کے زندہ چچا اس تمام جائداد کے وارث بن جاتے ہیں جس جائداد کے فراہم ہونے میں ان کے والد کی کمائی بھی شامل ہے.اس طرح سے ایک ہی خاندان میں افراط و تفریط پیدا ہو جاتی ہے.ایک حصہ بہت امیر ہو جاتا ہے دوسرا

Page 290

۲۸۲ نہایت ہی غریب رہ جاتا ہے.زندہ چچا اور ان کی اولا دیں تو اس جڑی جائداد پر داد عیش حاصل کر رہی ہیں اور یہ یتیم بھتیجے اپنی گزر اوقات کے فکر میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں.اس مسئلہ کی اہمیت مختلف خاندانوں میں مختلف انداز سے شدت اختیار کرتی ہے.یہ مسئلہ کوئی فرضی یا جذباتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک حقیقی اور سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس امر کا متقاضی ہے کہ پوری متانت اور توجہ سے اس کا حل تلاش کیا جائے خصوصاً ہمارے معاشرہ میں ایسے حالات سے اکثر واسطہ پڑتا ہے.اس لئے ہر قسم کے تعصبات سے ہو کر نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ اس معاملہ پر غور کرنا چاہئے عام لوگوں نے یتیموں کے حقوق ادا کرنے میں مروجہ اسلامی قانون وراثت کو ایک روک سمجھ رکھا ہے.حالانکہ اسلام نے یتیموں کے حقوق کے بارے میں بڑی شدت سے تاکید فرمائی ہے.معاندین اسلام اور خود بعض کم علم مسلمان بھی اس مسئلہ کی آڑ لے کر اسلامی نظام وراثت پر بے جا اعتراض کرتے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی جائے اور پتہ لگایا جائے کہ وہ کون سی نصوص ہیں جس پر اس مسئلہ کی بنیاد ہے.آئیے سب سے پہلے ہم اس معاملہ کے دوسرے رُخ پر بھی نظر ڈالیں.جہاں یتیم پوتوں کے مندرجہ بالا حالات متصور ہو سکتے ہیں وہاں یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وقت چا بھی بے کسی ، کسمپرسی اور غربت کی حالت میں گزر بسر کر رہے ہوں اور اپنے باپ کی کمائی کی وجہ سے پوتے خوشحال ہوں.اگر ایک آدمی کے بعض بچے بہت چھوٹے ہوں تو وہ بڑھاپے کی وجہ سے اس چھوٹی اولاد کی نگہداشت اس انداز سے یا اس حد تک نہیں کر پاتا جتنی کہ وہ پہلی یا بڑی اولاد کی کرتا تھا.جب کہ وہ جوان اور توانا تھا.اس لئے اگر بوڑھا دادا فوت ہو جائے جس کے چند ایک چھوٹے بیٹے بھی ہوں اور اس کی جو تھوڑی بہت جائداد ہو اس میں بھی بڑے بیٹے کے یتیم مگر زیادہ خوشحال بیٹے حصہ دار بن بیٹھیں تو پھر ان بیچاروں ( یتیم چاؤں) کو نہ ملنے کے برابر ہی حصہ ملے گا غرضیکہ جس طرح متوفی بیٹے کے یتیم رہ جانے والے بیٹوں کے حالات قابل رحم ہو سکتے ہیں.اسی طرح متوفی باپ کے یتیم رہ جانے والے چھوٹے بیٹوں کے حالات بھی قابل رحم ہو سکتے ہیں اس لئے کسی حسابی قاعده یا گلیہ کے ذریعہ جو تمام ورثاء پر یکساں طور پر حاوی ہو.ان مشکلات کا حل کیا جانا مشکل نظر آتا ہے، لیکن جو تعلق اشتراک

Page 291

۲۸۳ اور محبت قدرت نے دادا، بیٹے ، پوتے اور دوسرے رشتہ داروں کے درمیان ودیعت کر رکھی ہے وہ متقاضی ہے کہ کوئی ایسی مؤثر وجہ ضرور موجود ہو جس کی بناء پر اسلامی شریعت میں یتیم پوتے اپنے دادا کے ترکہ سے محروم سمجھے جاتے ہیں.اس لئے اس مسئلہ پر دونوں پہلوؤں سے بحث کی جائے گی کہ کن دلائل سے یتیم پوتا دادا کی میراث سے محروم رہ سکتا ہے اور کن دلائل کی رو سے میراث کا حقدار قرار دیا جا سکتا ہے.یتیم پوتوں کی محرومی کے دلائل : پہلی دلیل جو بطور بنیاد اس سلسلہ میں پیش کی جاتی ہے وہ حضرت ابن عباس کی یہ روایت که رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اَلْحِقُو الْفَرَائِضَ بِاَهْلِهَا فَمَا بَقَى فَهُوَ لَا وَلَى رَجُلٍ ذَكَرٌ.(صحیح بخاری، کتاب الفرائض.ترکہ کا بیان) یعنی ذوی الفروض کو حصہ دینے کے بعد جو کچھ باقی بچے وہ اس مرد رشتہ دار کو دیا.جائے جو عصبی رشتہ کے لحاظ سے متوفی کے سب زیادہ قریب ہو.مثلاً ایک میت کے رشتہ دار اس کا ایک بیٹا ، والدہ ، ایک زوجہ، ایک پوتا اور ایک بھائی موجود ہوں تو اس میت کے ترکہ کی تقسیم اس طرح ہو گی.کہ ذوی الفروض کو ان کے حصے ( یعنی والدہ کو ۱/۶ حصہ اور زوجہ کو ۱/۸ حصہ) دینے کے بعد جو باقی بچے وہ بیٹے کو دے دیا جائے یعنی اس صورت میں ۱۷/۲۴ حصہ بیٹے کو ملے گا اور بھائی اور پوتا دو نو محروم رہیں گے.کیونکہ بیٹا بھائی کی نسبت متوفی کا زیادہ نزد یکی رشتہ دار ہے بیٹا میت کا اپنا جز ہے.بھائی میت کے والد کا جز ہے پس بیٹا درجہ اول کا عصبہ ہے اور بھائی درجہ دوم کا ، اس لئے بیٹے کے مقابلے میں محروم رہے گا.گویا عصبات میں قریب ترین رشتہ دار کے ہوتے ہوئے دُور کا رشتہ دار ترکہ سے محروم رہتا ہے.اسی طرح ظاہر ہے کہ بیٹے اور پوتے میں سے بھی بیٹا زیادہ قریبی رشتہ دار ہے بیٹا اور پوتا ایک ہی درجہ کے عصبات یعنی میت کے جز ہیں، لیکن بیٹے کی قوت قرابت پوتے کی نسبت زیادہ ہے.اس لئے اگر کسی میت کا بیٹا زندہ ہے تو اس کے فوت شدہ بیٹے کی اولاد یعنی میت کے یتیم پوتے اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ نہیں پاسکتے..

Page 292

۲۸۴ ② دوسری دلیل حضرت زید بن ثابت کا اپنا قول ہے جو بخاری نے نقل کیا ہے.لَا يَرِثُ وَلَدُ الْإِبِنِ مَعَ الْإِبْنِ“ یعنی بیٹے کے ساتھ ، بیٹے کا بیٹا ( یعنی پوتا ) وارث نہیں ہوتا.اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر بیٹا موجود ہو تو یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ نہیں پاتا.اب یہ قول اس شخص کا ہے جس کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.وعلمها بالفرائض زيد بن ثابت (مسند امام احمد ) یعنی فرائض ( وراثت) کے مسائل کو جتنا زید بن ثابت جانتے ہیں اتنا اور کوئی نہیں جانتا اس لئے اس قول کی پابندی ضروری ہے لہذا اگر بیٹا موجود ہو تو یتیم پوتا اپنے دادا کی جائداد سے حصہ نہیں پائے گا.(3 تیسری دلیل حجب و حرمان کا وہ اصول ہے جو فقہا نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں وضع کیا ہے یعنی الاقرب فالاقرب یعنی عصبات میں قریب تر بعید تر کو محروم کر دیتا ہے بیٹا زیادہ قریب ہے بہ نسبت پوتے کے اس لئے بیٹے کی موجودگی میں یتیم پوتا وارث نہیں ہو سکتا.(4) چوتھی دلیل اُمت کے تمام فقہاء اور علماء کا اتفاق ہے صحابہ کرام کے زمانہ سے لے کر آج تک کوئی ایک فقیہ یا کوئی ایک محدث بھی ایسا نہیں ملتا جس نے اس مسئلہ سے اختلاف کیا ہو اور وہ پوتے کو دادے کی جائداد سے حصہ دلوانے کا حامی ہو.اُمت کا یہ اتفاق اس مسئلہ کو شرعی لحاظ سے بہت مضبوط کر دیتا ہے.یعنی تعامل اس کے حق ہے.

Page 293

۲۸۵ ⑤ پانچویں دلیل یہ ہے کہ جس طرح بیٹا وارث ہے اسی طرح بیٹی بھی وارث ہے (صرف حصوں میں فرق ہے ) پس اگر چا کی موجودگی میں یتیم پوتا اپنے والد کے قائم مقام کی حیثیت سے دادا کے ترکہ کا وارث قرار پائے تو پھر اسی طرح نواسہ اپنی وفات یافتہ والدہ کے قائم مقام کی حیثیت سے اپنے نانا کے ترکہ سے حصہ پائے گا جو وراثت کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے یعنی نوا سے براہ راست نانا کی جائداد کے وارث نہیں ہو سکتے ان کا شمار ذوی الارحام میں ہے اور انہیں اسی وقت حصہ ملتا ہے جبکہ ذوی الفروض میں سے بھی (سوائے زوج یا زوجہ کے ) اور عصبات میں سے بھی کوئی موجود نہ ہو.اس لئے یتیم پوتے کو اپنے باپ کے قائمقام ہو کر میراث حاصل کرنے سے نواسے نواسی کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی والدہ کے حصے کے حقدار ہوں اور اس طرح وراثت کے مسلمہ اصولوں پر زد پڑتی ہے.یتیم پوتے کی میراث کے حق میں دلائل اب ان دلائل کو پیش کیا جاتا ہے جن کی رو سے یتیم پوتا اپنے چچا کے ہوتے ہوئے دادا کے ترکہ میں حصہ دار سمجھا جاسکتا ہے.ایسی کوئی بھی آیہ کریمہ یا حدیث نبوی موجود نہیں جس سے چا کی موجودگی میں اپنے دادا کے ترکہ سے یتیم پوتے کی محرومی واضح طور پر ثابت ہوتی ہو.بلکہ اس کے برعکس قرآن پاک کی جتنی بھی آیات مسئلہ وراثت کی بنیاد ہیں ان سب میں پوتے کے وارث ہونے کا جواز موجود ہے.اسلام نے وراثت کے تین اسباب بیان کئے ہیں.حسب و نسب تعلق زوجیت تعلق ولاء

Page 294

۲۸۶ ان تین اسباب میں سے نسبی سبب یا تعلق سب سے زیادہ مؤثر اور قومی تسلیم کیا جاتا ہے.اس میں سے جزئیت یعنی ولدیت کے تعلق کو بہت زیادہ مضبوط اور دائمی وراثت کا باعث سمجھا گیا ہے اور ترکہ کی تقسیم میں اس باب کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ کسی رشتہ دار سے بلحاظ ذمہ دار جس نسبت سے نفع اور آرام میسر ہو اسی نسبت سے وراثت میں اس کا حق مقدم رکھا جائے.سورۃ نساء آیت ۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْاقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْكَثُرَ نَصِيبًا مفروضاه یعنی مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے اس ترکہ میں حصہ ہے جو اُن کے ماں باپ یا قریبی رشتہ دار چھوڑ کر فوت ہو گئے ہوں جائداد (ترکہ) قلیل ہو یا کثیر ہر دوصورت میں ہر ایک کا حصہ مقرر ہے گویا اس آیت میں وارث ہونے کے لئے دو وجوہ بیان کی گئی ہیں.باپ بیٹے یا ماں بیٹے کا رشتہ جس کی طرف لفظ والدان اشارہ کرتا ہے.قرابت کا رشتہ جس کی طرف لفظ اقربون توجہ دلاتا ہے.لہذا جو رشتہ دار زیادہ قریبی ہو گا وہ ورثہ پائے گا.اور دُور کے رشتہ دار کو محروم کر دے گا.اب دیکھنا یہ ہے کہ پوتے کا تعلق کس رشتہ سے ہے پہلے سے یا دوسرے سے پھر اس کے مطابق اس سے سلوک کیا جائے گا یہ صاف ظاہر ہے اور اس نقطہ نظر کے تمام علماء اور فقہاء امت اس سے متفق ہیں کہ پوتے کے وارث ہونے کی بنیاد ” ولدیت پر ہے یعنی وہ اولاد کے زمرہ اور مفہوم میں شامل ہے اس لئے یتیم ہونے کی صورت میں بھی اپنے دادا کی جائداد کا وارث ہو گا.کیونکہ وہ ( پوتا ) اپنے باپ کا جز ہے اور باپ اپنے باپ (دادا) کا حجز ہے اور جز کا جو بھی اصل کا جز ہی ہوتا ہے سو اسی بناء پر جب درمیانی جو نہ رہے یعنی پوتے کا والد فوت ہو جائے تو پھر یہ (ہوتا) دادا کے ترکہ کا بلا واسطہ وارث بن جاتا ہے.اور اس آیت کے مطابق ترکہ کے حصہ کا حق دار ہے.

Page 295

۲۸۷ ② دوسری دلیل جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دادا کے ترکہ میں پوتا بھی حصہ دار ہے یہ آیت کریمہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يُوصِيكُمُ اللهُ فِى اَوْلَادِكُمُ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَاتَركَ وَ إِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلَاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَّ وَرِثَةٌ اَبَوَاهُ فَلأُمِّهِ الثَّلث ( سوره نساء آیت ۱۲) یہ آیت جس طرح باپ اور بیٹے کو ایک دوسرے کا وارث قرار دیتی ہے بعینہ اسی طرح یہ دادے اور پوتے کو بھی ایک دوسرے کا وارث قرار دیتی ہے.اسی لئے جب باپ موجود نہ ہو دادا پوتے کے ترکہ میں باپ کا قائم مقام ہو کر اس کا شرعی حصہ بمطابق حالات حاصل کرتا ہے.دوسرے عربی زبان میں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ والد اور اب کا اطلاق جس طرح باپ پر ہوتا ہے اسی طرح دادے پر بھی ہوتا ہے جس طرح ولد اور ابن کا لفظ بیٹے کے لئے بولا جاتا ہے اسی طرح پوتوں پڑ پوتوں وغیرہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے سو اس آیت میں صرف ولد“ کے معنے کیوں محدود کئے جائیں جب کہ حالات کے مطابق اس لفظ میں پوتے یا ان سے نیچے پڑپوتے وغیرہ بھی شامل کر لئے جاتے ہیں.”اب“ کا لفظ تو ہم دادا اور پڑدادا وغیرہ سب کے لئے استعمال کریں اور اس بناء پر باپ کی عدم موجودگی میں دادا وغیرہ کو وارث قرار دے دیں، لیکن جب یتیم پوتے کا سوال آئے تو لفظ ” ولد“ کو اس کی میراث میں روک قرار دے دیں اور کہیں کہ پوتا ولد“ میں شامل نہیں سمجھا سکتا.ولد کے بھی اسی طرح لغوی اور شرعی معنے لینے چاہئیں جس طرح آپ کے لئے جاتے ہیں اور یتیم پوتے کو بھی اپنے باپ کا قائمقام سمجھتے ہوئے اُسی طرح سے دادا کے ورثا میں سے بیٹا کا حصہ دینا چاہئے جس طرح کہ دادا اپنے بیٹے کا قائمقام ہو کر پوتے کے ترکہ میں والد کا حصہ 66 " 66 حاصل کرتا ہے.شریعت اسلامیہ میں یہ بات مسلمہ ہے کہ دادے کو باپ کا مقام حاصل ہے.تو پھر کیا ان حالات میں یہ ضروری نہیں کہ یتیم پوتے کو بھی بیٹے کا مقام حاصل ہو.جہاں

Page 296

۲۸۸ تک اس اصل کا تعلق ہے تمام علماء نے اس کو تسلیم کیا ہے.چنانچہ ابن رشید اپنی کتاب برایۃ المجتہد جلد ۲ صفحہ ۲۸۳ پر لکھتے ہیں.وَلَدُ الْوَلَدِ وَلَدٌ مِنْ طَرِيقِ الْمَعْنَى وَعَلَى هَذا أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ بَنِى الْبِنِيْنَ يَقُومُونَ مَقَامَ الْبَنِينَ عِندَ فَقَدِ الْبَنِيْنَ يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ وَيَحْجُبُوانَ كَمَا يَحْجُبُونَ.یعنی پوتا معنوی لحاظ سے بیٹا ہی ہے اسی لئے علماء نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ اگر بیٹے نہ ہوں تو پوتے ان کے قائم مقام ہوں گے.وہ اسی طرح وارث بنیں گے جس طرح بیٹے وارث بنتے ہیں اور اسی طرح وہ دوسرے ورثاء کی محرومی کا باعث ہوں گے جس طرح کہ ان کی محرومی کا باعث بنتے ہیں.حجب کے اسی اصول کے مطابق جب کوئی متوفی ایک زوجہ والدہ اور پوتا اپنے وارث چھوڑے تو پوتے کو بمنزلہ بیٹا تصور کر کے یعنی ولد کے مفہوم میں شامل کر کے زوجہ کو ۱/۸ حصہ اور والدہ کو ١/۶ حصہ دیا جاتا ہے.اسی طرح سے اور بہت سی مثالیں ہیں جہاں پوتے کو بیٹے کی عدم موجودگی میں بیٹے کا قائم مقام تصور کیا گیا ہے اس لئے یتیم ہونے کی صورت میں اسے اس کے باپ کا قائم مقام تصور کرنے میں ہم حق بجانب ہیں.مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت یعنی اہل تشیع بعض حالات میں یتیم پوتے کو ا.والد کا قائم مقام تصور کرتی ہے اور اسے دادا کے ترکہ میں سے حصہ دلاتی ہے.اگر یہ اعتراض ہو کہ پھر اسی قاعدے کی رو سے نوا سے بھی (جن کی والدہ فوت ہو جائے ) اپنے نانا کے ترکہ کے وارث ہوں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں اولاد باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے نہ کہ ماں کی طرف یہاں لفظ ولد پر بحث ہے نواسے صلبی اور نسبی لحاظ سے نانا کی نرینہ اولا د اور صلبی اولاد نہیں سمجھے جا سکتے.حضرت ابن عباس سے مروی حدیث کے یہ الفاظ

Page 297

۲۸۹ فَمَابَقَى فَهُوَ لَا وَلَى رَجُلٍ ذَكَرٌ.عصبات کے مختلف درجات کی طرف اشارہ کرتے ہیں.یعنی پہلے درجہ کے عصبات ( میت کا جز ) جو کہ مرد ہو وارث ہو گا.اس کی غیر موجودگی میں میت کے جز کا جز وارث ہو گا.اگر میت کے جز میں سے کوئی بھی نہ ہو تو پھر دوسرے درجہ کے عصبات یعنی میت کے باپ کے جز وارث ہوں گے.اسی طرح سے یہ سلسلہ چلتا ہے بہر حال اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اگر واسطہ قائم نہ رہے تو وارث جو بالواسطہ حقدار تھا.محروم ہو جائے گا.پھر اگر اسے لفظی رنگ میں ہی چسپاں کرنا چاہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ فقہا نے بہت سے وراثت کے مسائل کو حل کرتے وقت اس کو پیش نظر نہیں رکھا مثلاً اگر ایک میت دو بیٹیاں ، ایک بہن اور ایک بھتیجا چھوڑے تو ان کے حصے یہ ہوں گے.دو بیٹیوں کا حصہ = ۲/۳ ہمشیرہ بھتیجا +== -1 = = محروم اب اس میں اولیٰ رجل ذکر کے تحت جو کچھ ذوی الفروض ( بیٹیوں ) کو دینے کے بعد بچے وہ یتیم بھتیجے کو ملنا چاہئے تھا، لیکن وہ محروم ہو گیا اور ہمشیرہ کو بقیہ حصہ مل گیا.مثال نمبر ۲: ایک میت نے دو بیٹیاں، دو پوتیاں، ایک پڑپوتی اور ایک پڑپوتا وارث چھوڑے ہر ایک کا حصہ یہ ہوگا.دو بیٹیاں باقی ۲/۳ = 1/4 = بطور ذوی الفروض دونوں پوتیاں، ایک پڑپوتی اور ایک پڑپوتا بطور عصبہ ۱:۴ سے حاصل کریں گی.اس لئے حصے یہ ہوں گے.، ، ۱۵ 6 ۱۵ اولی رجل ذکر کے تحت چاہئے تو یہ تھا کہ باقی ۱/۳ صرف پڑپوتے کو ہی دے دیا جا تا لیکن ایسا نہیں کیا گیا.مثال نمبر ۳ :

Page 298

۲۹۰ اگر ایک میت والدہ ، بیٹی ، ایک بھائی اور بہن وارث چھوڑے تو اس کے حصے یہ ہوں گے.والده = ١/٦، بیٹی ۱/۲ : 1/9 = بھائی کا حصہ ۲/۹ ، بہن کا حصہ = ۱/۹ = اولی رجل ذکر کے تحت چاہئے تو یہ تھا کہ ذوی الفروض کو دینے کے بعد باقی کا ۱/۳ بھائی کو ہی دے دیا جاتا اور بہن محروم رہتی.ان مثالوں یا ان جیسی اور بہت سی مثالوں سے یہ ظاہر ہے کہ اولی رجل ذکر کو اُس صورت میں محوظ رکھا جاتا ہے جب کہ مختلف درجات کے عصبات موجود ہوں لیکن اگر ہی درجہ میں اپنی قوت قرابت کے لحاظ سے مختلف قسمیں ہوں تو ان میں واسطہ کا بھی خیال رکھا جاتا ہے مثلاً عصبات میں اگر بیٹا اور بھائی موجود ہوں تو بھائی دوسرے درجہ کا عصبہ ہے اور بیٹا پہلے درجہ کا اس لئے بھائی اس حدیث کی رُو سے محروم ہو گا.لیکن بیٹا اور پوتا ایک ہی درجہ کے وارث ہوں گے گو اپنی قوت قرابت کے لحاظ سے وہ مختلف ہیں.اب اگر بیٹا نہ ہو تو پوتا اس کا قائم مقام ہو کر وارث ہو گا.اس لئے یہ حدیث یتیم پوتے کی میراث میں روک نہیں.الاقرب فالاقرب کا اصول جو کہ فقہا نے قرآن اور حدیث کی تعلیم کی روشنی میں بنایا ہے.یتیم پوتے کو اپنے دادے کے ترکہ سے میراث حاصل کرنے سے نہیں روکتا.کیونکہ فقہا نے حجب وحرماں کے لئے دو اصول وضع کئے ہیں.الف- كُلُّ مَنْ يُدْلِى إِلَى الْمَيَّتِ بِشَخْصٍ لَايرِتُ مَعَ وَجُوْدِ ذَالِكَ الشَّخص (سراجیہ) یعنی ہر وہ شخص جو کسی واسطے سے میت سے قرابت رکھتا ہو وہ واسطہ کے وارث ہوتے ہوئے وارث نہیں ہوسکتا.الاقرب فا الاقرب (سراجیه) یعنی قریب تر بعید تر کو محروم کر دے گا.اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ پوتا دادے سے کس واسطہ سے تعلق ہے یا کسی اور قریبی تعلق سے.

Page 299

۲۹۱ قریبی تعلق سے ظاہر ہے کہ پوتا اپنے باپ کی وساطت سے دادا کا رشتہ دار ہے.اس لئے پہلا اصول اس پر منطبق ہوگا.یعنی واسطہ کے ہوتے ہوئے پوتا وارث نہیں ہو گا.لیکن جب یہ واسطہ نہ رہے تو پھر یہ اس کا قائم مقام ہو کر اپنا حصہ حاصل کرے گا.دوسرا اصول الاقرب فالاقرب (اولی رجل ذکر کی تفسیر سے جبکہ مختلف درجات کے عصبات موجود ہوں تو اس وقت سب سے زیادہ نزدیکی عصبہ باقی ترکہ کا حقدار ہوگا اور بعید محروم ہو گا.پہلا اصول یعنی كل من يدني.مع وجود ذلك الشخص حضرت زید بن ثابت کے اس قول کی تشریح ہے.لَا يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الْإِبْنِ 66 د یعنی بیٹے کے ساتھ بیٹے کا بیٹا وارث نہیں ہوتا.“ نیز اس قول سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بیٹے کے بعد بیٹے کا بیٹا وارث ہوتا ہے.یعنی پوتا اپنے باپ کا قائم مقام ہو کر حصہ حاصل کر سکتا ہے اس قول سے تو پوتے ( یتیم ) کی میراث اپنے دادا کے ترکہ میں ثابت ہوتی ہے.⑤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا کوئی بھی ایسا فیصلہ تاریخ سے نہیں ملتا جس سے یہ معلوم ہو کہ ان بزرگوں نے یتیم پوتے کو اپنے موجود چا کی وجہ سے ترکہ سے محروم قرار دیا ہو.⑥ یتیم پوتوں کو دادا کے ترکہ سے میراث نہ دینے کی وجہ سے خاندانی لحاظ سے بغض، حسد قتل تک کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.اچھا بھلا اتفاق و اتحاد سے رہنے والا خاندان دادا کی وفات کے بعد خاندانی جھگڑوں کا شکار ہو جاتا ہے.مثلاً اگر ایک آدمی کے دو بیٹے ہیں بڑے بیٹے سے اس کا ایک بیٹا ہے اور چھوٹے بیٹے سے تین بیٹے ہیں اس آدمی کا چھوٹا

Page 300

۲۹۲ لڑکا اپنے تین بیٹے چھوڑ کر والد کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا جائداد چونکہ مشترکہ ہے اس لئے پوتے اپنے دادا کی کفالت میں آگئے چند سال کے بعد دادا بھی فوت ہو گئے اب چا تمام جائداد کا وارث بن گیا.جس کے واسطہ سے اس کا اپنا بیٹا تمام جائداد کا وارث بن جائے گا.اب اگر چا یہ سوچے کہ اس کی وفات کے بعد جائدادا گر چار پوتوں میں تقسیم ہو تو اس کے اپنے بیٹے کو صرف ۱/۴ملے گا.اور یتیم بھتیجے کل جائداد کا ۳/۴ حاصل کر لیں گے.اس لئے وہ تمام جائداد کا کل وارث خود بن جائے گا اور جائداد اپنے نام کروا لے گا تا کہ اس کی وفات کے بعد اُسی کا بیٹا وارث ہو.اس کے مقابلہ پر یہ تینوں یتیم پوتے سوچیں گے کہ چچا کے ہوتے ہوئے ان کے دادا کے ترکہ میں سے تو کیا اُن کے باپ کے ترکہ میں سے بھی انہیں حصہ نہیں ملے گا.کیونکہ جائداد مشتر کہ تھی اور ہے.اور ان کے باپ کی کمائی بھی اس میں جاتی رہی ہے.اس لئے وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے ہر طریق بروئے کار لانے کے لئے سوچیں گے اور کوشش کریں گے کہ اگر چچا کو قتل کر دیا جائے تو پھر اس طرح وہ وارث قرار پا جائیں گے.اور جائداد کا ۳/۴ یعنی بڑا حصہ حاصل کریں گے.سو یتیم پوتوں کو میراث سے محروم کرنے کی وجہ سے خاندانی طور پر بد نتائج کا سخت خطرہ ہے.اس لئے ان سے بچنے کے لئے یتیم پوتوں کو ان کا حق ضرور دے دینا چاہئے.مسئلہ کا صحیح اور شرعی حل مخالف اور موافق دلائل اس لئے درج کئے گئے ہیں کہ مسئلہ کا ہر پہلو اجاگر ہو جائے اور اس کی شدت اور ضرورت کا احساس ہو جائے.اس امر کا فیصلہ کرنا کہ یتیم پوتا وارث ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کتنے حصہ کا ہے اس کتاب کا مقصد نہیں.یہ کام مجلس افتاء کا ہے.سچ تو یہ ہے کہ اگر یتیم پوتے کو اپنے باپ کا قائم مقام بنا کر حصہ دے بھی دیں تو بھی یتامی کے مسائل حل نہیں ہو جاتے عام حالات میں تھوڑا سا سرمایہ یا جائداد کا کچھ حصہ ہی ملے گا.جو معاشی لحاظ سے والد کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا.اگر ہم قرآن کریم سے اس مسئلہ کا حل تلاش کریں تو ہمیں یہ آیات رہنمائی کے لئے ملتی ہیں.

Page 301

۲۹۳ وَ إِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبَى وَالْيَتْمَى وَالْمَسْكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوالَهُمْ قَوْلًا مَّعُرُوفًا.(النساء:9) اور جب (ترکہ کی) تقسیم کے وقت (دوسرے ) قرابت دار اور یتیم اور مسکین ( بھی ) آجائیں تو اس میں سے کچھ انہیں ( بھی ) دے دو اور انہیں مناسب ( اور عمدہ) باتیں کہو.“ " وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوتَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعفًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (النساء :١٠) 66 اور جو لوگ ڈرتے ہوں کہ اگر وہ اپنے بعد کمزور اولا د چھوڑ گئے تو اس کا کیا بنے گا.ان کو ( دوسرے تیموں کے متعلق بھی اللہ کے ڈر سے کام لینا چاہئے کہ وہ صاف اور سیدھی بات کہیں.“ ان قرآنی ارشادات کی روشنی میں یتیم پوتا کسی دوسرے کی نسبت رحم کا زیادہ مستحق ہے سو اس حکم کی اطاعت کرتے ہوئے دادا کو چاہئے کہ وہ اپنے یتیم پوتے یا پوتوں کے حق میں جائداد کے کچھ حصہ کی وصیت کر دے اور اگر ممکن ہو تو انہیں اتنا حصہ ضرور دیا جائے کہ وہ اس کی وفات کے بعد بے یار و مددگار نہ رہ جائیں اگر بالفرض دادا ان کے حق میں وصیت کرنے سے پہلے فوت ہو گیا ہو.یا جائداد کی مالیت کم ہو تو پھر چچاؤں کو چاہئے کہ وہ قرآن کے ارشاد کے مطابق خدا تعالیٰ کا خوف کرتے ہوئے ان یتیموں کی گذر اوقات کے لئے ضروری انتظام کریں.نیز کتب علیکم الوصیة کے مطابق حکومت یہ قانون بنا دے کہ مستحق یتیم پوتوں کے امکان حصہ کی حد تک بہر حال دادا کی وصیت ثابت شدہ متصور ہو گی چاہے دادا کو وصیت کرنے کا موقع ملا ہو یا نہ ملا ہو.اس طرح سے یہ مسئلہ اپنی ہر انفرادی صورت میں باحسن وجوہ طے ہو جاتا ہے.یتامی کو باپ کا قائمقام بنا کر جائداد سے حصہ دلانے سے بعض بڑی جائداد والوں کے لئے تو شائد یہ مشکل حل ہو جائے.لیکن عام طور پر صرف ترکہ سے حصہ دلانے سے یتامی کی ضرورت پوری نہیں ہو سکتیں.مثلاً فرض کیجئے کہ ایک شخص نے زوجه، والدہ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں زندہ چھوڑیں.ان کے علاوہ اس کے دو یتیم پوتے ہیں.جن کا والد اس کی زندگی میں ہی وفات پا گیا تھا.اب اگر ان یتیم پوتوں کو ان کے والد

Page 302

۲۹۴ کا قائمقام تصور کر لیں تو اس طرح اس میت کے چار بیٹے ، تین بیٹیاں ، زوجہ اور والدہ وارث ہوں گی اور تقسیم یوں ہوگی.والدہ کا حصہ زوجہ کا حصہ باقی = 1 - 4 1/4 = ۲۴ = 1 + 2 ٢٤ - 1 = ( ± + اس لئے ہر بیٹے کا حصہ = ہے ہر بیٹی کا حصہ ✓ = ۲۴ ۱۷ ۲۶۴ = یتیم پوتوں کے والد کا حصہ = ہے جس میں سے ۳۴ ۲۶۴ ۱۷ ۲۶۴ = + x = ۳۴ ۲۶۴ ہر یتیم پوتے کا حصہ اب اگر دادا کی جائداد ۲۶۴۰۰ روپے مالیت کی ہو تو ہر یتیم پوتے کو ۲۶۴۰۰ = ۱۷۰۰ روپے ملیں گے.× ۱۷ ۲۶۴ اگر دادا یتیم پوتوں کے حق میں اُن کے حالات کے مطابق وصیت کر جائے تو انہیں جائداد کے ۱/۳ حصہ کی مالیت تک ترکہ مل سکتا ہے.اس طرح دونوں یتیم پوتوں کو مبلغ ۲۶۴۰۰ × = = ۸۸۰۰ روپے تک مل سکتا ہے یعنی ہر ایک یتیم پوتے کو ۴۴۰۰ روپے جو قائم مقامی کی صورت سے بہت بہتر ہے.اس طریق سے یتیم پوتوں کے حقوق دادا کے ترکہ میں پوری طرح محفوظ ہو جاتے ہیں کیونکہ ترکہ وصیت کے بعد ہی ورثاء میں تقسیم ہوتا ہے.اس لئے پہلے یتیم پوتے حصہ حاصل کریں گے پھر جوان چا اور دوسرے وارث حصہ پائیں گے.مصر میں بھی ۱۹۵۰ء میں بموجودگی چا یتیم پوتے کے وارث ہونے کا سوال قانون دانوں کے سامنے اٹھایا گیا انہوں نے اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر علماء کی ایک کمیٹی مقرر کر دی.علماء نے اس کے لئے اس سے ملتی جلتی تجویز پیش کی جس کے مطابق.مندرجہ ذیل قانون وہاں نافذ ہوا.و یتیم پوتے کی صورت میں دادا کے لئے لازمی ہے کہ وہ یتیم پوتے کے حق میں اپنی جائداد کے ۱/۳ حصہ تک وصیت کر جائے.اگر وصیت نہ

Page 303

۲۹۵ کر سکا ہو تو متصور کر لیا جائے کہ اس نے ۱/۳ کی وصیت کر دی نیز اگر اس نے کسی وصیت کے ذریعے سے اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں وغیرہ کے علاوہ کسی اور رشتہ دار کے حق میں وصیت کی ہو تو یہ وصیت ۱/۳ حصہ ترکہ کے اس مابقی کی حد تک پوری ہونی چاہئے.جو یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی مقدم تر قانونی وصیت کے مطابق ان کا حق ادا کرنے کے بعد بیچ رہے.“ ، ( المواریث الاسلامیہ دفعہ ۱۳۷.۱۳۸ مولفه اطر کامل ۱۹۵۰ء) اسی قسم کا ایک سوال عرب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا تھا جو مع جواب درج کر کے حضور علیہ السّلام کی عبارت پر ہی میں اس کتاب کو ختم کرتا ہوں.بیٹوں کی موجودگی میں پوتے کو محروم الارث قرار دینے کی وجہ عرب صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ شریعت اسلام میں پوتے کے واسطے کوئی حصہ وصیت میں نہیں ہے ایک شخص کا پوتا اگر یتیم ہے تو جب یہ شخص مرتا ہے تو اس کے دوسرے بیٹے حصہ لیتے ہیں اور اگر چہ وہ یتیم بھی اس کے بیٹے کی اولا د ہے مگر وہ محروم رہتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ” دادے کو اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دے دیوے بلکہ جو چاہے دے دے اور باپ کے بعد وارث بیٹے قرار دیئے گئے ہیں.تا کہ ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ کہا جاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو جاوے اور پھر آگے اس کے اولاد ہو تو وہ وارث ہو.اس صورت میں دادے کا کیا گناہ ہے.یہ خدا کا قانون ہے اور اس

Page 304

۲۹۶ سے حرج نہیں ہوا کرتا ورنہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں تو ہم کو چاہئے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کریں.چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جا کر کمزوری ہو جاتی ہے اور آخر ایک حد پر آ کر تو برائے نام رہ جاتا ہے خدا تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اور ناطہ میں ہو جاتی ہے اس لئے یہ قانون رکھا ہے ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر اللہ تعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے جیسے قرآن شریف میں ہے.واذا حضر القسمة اوالوالقربى واليتمى و المسكين فارزقوهم و قولو الهم قولا معروفاً ( ۱۲ ) ( یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خویش و اقارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو ان کو کچھ دیا کرو) تو وہ پوتا جس کا باپ مر گیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رحم کا ہے اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں.(جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا) خدا تعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتے میں کمزوری بڑھ جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے.“ (البدر جلد اوّل نمبر ۱۰ مورخه ۲ /جنوری ۱۹۰۳ء بحوالہ ملفوظات جلد چہارم صفحه ۲۹۷، ۲۹۸)

Page 305

۲۹۷ سرمایہ مضمون اس کتاب کو لکھتے وقت مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا.تفسیر صغیر از فاضات حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد تفسیر سوره بقره.صحیح بخاری.صحیح مسلم خلیفہ المسیح الثانی از امام محمد بن اسماعیل بخاری از امام مسلم ابوالحسن -- مشکوۃ مترجم ( اُردو جلد دوم) ۶ - موطاء امام مالک ۷.براہین احمدیہ مصنفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام - ملفوظات (جلد چہارم) حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹.اسلام کا اقتصادی نظام از حضرت اصلح الموعود رحمہ اللہ تعالیٰ ۱۰ تنویر الحواشی فی توضیح السراجی تالیف مولانا سید حسن صاحب مدرس دارالعلوم دیو بند ۱۱.مفید الوارثین ۱۲.اسلامی قانون وراثت تالیف ابوالافضل پیر غلام دستگیر نامی ۱۳.المیراث ۱۴.وراثت اسلامی ۱۵.پوتے کی میراث مصنفہ سید اصغر حسین صاحب محدث دارالعلوم دیوبند مرتبہ رشید احمد لدھیانوی مدرس اعلیٰ دارالعلوم کراچی نمبرا حافظ عبداللہ صاحب رو پڑی مولا نا مفتی جمیل صاحب تھانوی ۱۶.رسالہ محجوب الارث نوشته مولانا حافظ محمد اسلم صاحب جے راج پوری دادا کا ترکہ اور یتیم پوتا مصنفہ ملک سیف الراحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ ۱.ریویو آف ریلیجن ۱۹.رسالہ الفرقان ماہ اگست ۱۹۴۷ء ۱۹۵۳ء - ۱۹۵۴ء ۲۰.کتاب المیراث مولوی محمد منور الدین ۲۱ - الاسرة في الشرع الاسلامی مصنفه عمر فروغ منورالدین

Page 306

۲۹۸ سابق سیشن جج ۲۲.اصول شرع اسلام تالیف سر ڈنشا فرید ترجمہ مولوی مسعود علی صاحب ۲۳.اصول شرع محمدی تالیف رائٹ آنریبل سرسیدا میر علی صاحب ۲۴ قانون وراثت شرعی سید عبد السلام.ایم اے (انگریزی تاریخ ) ایڈووکیٹ ۲۵ مجموعه قوانین اسلام ہر سہ جلد تنزیل الرحمن صاحب.ایم اے.ایل.ایل.بی.ایڈووکیٹ A text book of Midwifery by johnston & Keller.Dictonary of Islam by Thomas Patrick Hughes, B.D.M.R.A.S.The Dearner's guide to the division of inheritance by Malik Bashir Ahmad.Principle and Digest of Muslim law by Shaukat Mahmood.۲۷.۲۹.

Page 306