Islam Ka Iqtasadi Nizam

Islam Ka Iqtasadi Nizam

اسلام کا اقتصادی نظام

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
اسلام

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ معرکۃ الآراء لیکچر اور انقلاب انگیز تقریر مورخہ 26 فروری 1945ء کو احمدیہ ہوسٹل واقع 23 ڈیوس روڈ لاہور میں احمدیہ انٹر کالیجئیٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام مختلف مذاہب کے لوگوں کے اجتماع میں ارشاد فرمائی۔ یہ تقریر قریبا اڑھائی گھنٹے جاری رہی جہاں احمدی احباب کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مسلم و غیر مسلم معززین بھی شامل تھےجن کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ، پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طلبہ پر مشتمل تھی۔اس  تقریب کی صدارت مسٹر رام چندر مچندہ صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور نے کی۔ صدر مجلس سمیت تما م حاضرین حضورؓ کے تبحر علمی، دور اندیشی اور وسیع النظری کے قائل نظر آئے۔ اس لیکچر میں حضورؓ نے اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول بیان فرمایا اور پھر اموال سے متعلق اسلامی نظریہ کی وضاحت اور تفصیل بیان فرمائی۔ اپنی تقریر کے دوسرے حصہ میں کمیونزم کی تحریک کا مذہبی ، اقتصادی، سیاسی، نظریاتی اور علمی لحاظ سے جائزہ لیااور آخر پر مختلف پیش گوئیوں کا ذکر فرمایا۔ الغرض حضرت مصلح موعودؓ کے اس لیکچر نے چوٹی کے علمی طبقوں میں ایک تہلکہ مچادیا۔


Book Content

Page 1

اسلام کا اقتصادی نظام معركة الآراء تقرير سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی بن اللحمة

Page 2

نام کتاب: تصنيف: اسلام کا اقتصادی نظام حضرت میرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب اشاعت ھذا ابار اول ( انڈیا ) 1000 تعداد: مطبع: ناشر المصلح الموعود خلیفه امسیح الثانی اپریل 2017ء فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان-143516 ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا Name of the Book: Islam ka Iqtesadi Nizam Written by: Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad Khalifatul Masih IIndra Present edition (India): 2017 Quantity: 1000 Printed at: Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Published by: Nazarat Nashr-o-Isha'at Qadian-143516 Distt:Gurdaspur, Punjab, India

Page 3

اسلام کا اقتصادی تعارف کتاب حضرت خلیفہ المسح الثانی نے یہ معرکۃ الآراء اور انقلاب انگیز تقریر مؤرخہ ۲۶ فروری ۱۹۴۵ء کو احمد یہ ہوسٹل واقع ۳۲ ڈیوس روڈ لاہور میں احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام مختلف مذاہب کے لوگوں کے اجتماع میں ارشاد فرمائی.یہ تقریر تقریباً اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی.اس تقریر میں احمدی احباب کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مسلم اور غیر مسلم معززین بھی شامل تھے جن کی اکثریت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ طبقہ اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طلباء سے تعلق رکھتی تھی.تقریر کے دوران پروفیسرز ، وکلاء اور دیگر اہلِ علم دوست کثرت سے نوٹ لیتے رہے.اس تقریر کی صدارت مسٹر رامچندر مچندہ صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور نے کی.تقریر کے خاتمہ پر صاحب صدر نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا :.میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سنے کا موقع ملا اور مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ تحریک احمدیت ترقی کر رہی ہے اور نمایاں ترقی کر رہی ہے.جو تقریر اس وقت آپ لوگوں نے سُنی ہے اُس کے اندر نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں حضرت امام جماعت احمدیہ نے بیان فرمائی ہیں مجھے اس تقریر سے بہت فائدہ ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں نے بھی ان قیمتی معلومات سے فائدہ اُٹھایا ہوگا.مجھے اس بات سے بھی خوشی ہے کہ اس جلسہ میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی شامل

Page 4

اسلام کا اقتصادی نظام ہوئے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات بہتر ہورہے ہیں.جماعت کے بہت سے معزز دوستوں سے مجھے تبادلۂ خیالات کا موقع ملتا رہتا ہے.یہ جماعت اسلام کی وہ تفسیر کرتی ہے جو اس ملک کے لئے نہایت مفید ہے.پہلے تو میں سمجھتا تھا اور یہ میری غلطی تھی کہ اسلام اپنے قوانین میں صرف مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے غیر مسلموں کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا مگر آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے یہ ٹن کر بہت خوشی ہے.میں غیر مسلم دوستوں سے کہوں گا کہ اس قسم کے اسلام کی عزت واحترام کرنے میں آپ لوگوں کو کیا عذر ہے؟ آپ لوگوں نے جس سنجیدگی اور سکون سے اڑھائی گھنٹہ تک حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سُنی اگر کوئی یورپین اس بات کو دیکھتا تو حیران ہوتا کہ ہندوستان نے اتنی ترقی کر لی ہے.جہاں میں آپ لوگوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے سکون کے ساتھ تقریر کو سنا وہاں میں اپنی طرف سے اور آپ سب لوگوں کی طرف سے حضرت امام جماعت احمدیہ کا بار بار اور لاکھ لاکھ شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ اُنہوں نے اپنی نہایت ہی قیمتی معلومات سے پر تقریر سے ہمیں مستفید فرمایا.تاریخ احمدیت جلد ۱۰ صفحه ۴۹۶،۴۹۵) سامعین پر اس تقریر کے اثر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس تقریر کو حاضرین نے ایسے شوق سے سنا کہ اتنے لمبے عرصہ تک لوگ اس طرح بیٹھے رہے کہ گویا اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں.ایک پروفیسر تو اس تقریر کو سن کر رو پڑے اور بعض کمیونزم کے حامی طلباء نے اس خیال کا اظہار کیا کہ وہ اسلامی سوشلزم کے قائل ہو گئے ہیں اور اب اسے صحیح اور درست تسلیم کرتے ہیں.یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے

Page 5

اسلام کا اقتصادی نظام ایم.اے کے بعض طلباء نے حضور کی اس تقریر کے متعلق یہ خواہش ظاہر کی کہ اس کا انگریزی ترجمہ چھپوا کر یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسروں کے پاس بھیجا جانا چاہئے.نیر انہوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں مختلف سکیمیں ہندوستان کی آئندہ ترقی اور بہبودی کیلئے دوسرے لوگوں کی طرف سے پیش ہو رہی ہیں وہاں یہ اسلامی نظام جو حضور نے پیش فرمایا ہے مسلمانوں کے خیالات کی نمائندگی کرے گا الغرض جوں جوں اس تقریر کی شہرت ہوئی بعض لوگ جو یونیورسٹی سے تعلق رکھتے تھے اور چوٹی کے پروفیسر تھے اُنہوں نے اپنے ملنے والوں سے معذرتیں کیں اور اس امر پر افسوس کیا کہ وہ بوجہ بعض دوسری مصروفیتوں کے اس عظیم الشان لیکچر کے سننے سے محروم رہے.حضور نے اپنے فاضلانہ خطاب کے آغاز میں سب سے پہلے نہایت لطیف پیرایہ میں اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول بیان فرمایا اور پھر اموال سے متعلق اسلامی نظریہ کی وضاحت کی اور نہایت تفصیل سے بتایا کہ اسلام نے کس طرح صرف دولت کے غلط استعمال ہی کو نہیں روکا بلکہ اس کے ناجائز طور پر حصول کا بھی مؤثر سد باب فرمایا ہے.حضور نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں کمیونزم کی تحریک کا مذہبی، اقتصادی، سیاسی، نظریاتی اور عملی لحاظ سے تفصیلی جائزہ لیا اور آخر میں اُس کے متعلق بائبل کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کا اُردو متن سنانے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اپنی پیشگوئی کا بھی ذکر فرمایا.الغرض حضرت مصلح موعودؓ کے اس لیکچر نے چوٹی کے علمی طبقوں میں ایک تہلکہ مچادیا اور اللہ تعالی کے فضل سے اُسے ہر سطح پر غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی.(بمطابق انوار العلوم جلد ۱۸)

Page 6

اسلام کا اقتصادی نظام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اسلام کا اقتصادی نظام ( تقریر فرموده ۲۶ فروری ۱۹۴۵ء بمقام احمد یہ ہوٹل واقع ۳۲ ڈیوس روڈ لا ہور ) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مضمون کی اہمیت میرا خطبہ آج اسلام کے اقتصادی نظام پر ہے.یہ مضمون اتنا وسیع ہے کہ اس کو تھوڑے سے وقت میں بیان کرنا ایک نہایت ہی مشکل کام ہے اور بعض دفعہ کسی چیز کو اُس کے اصل مقام سے جدا کر کے پیش کر دینا اسے مبہم بنا دیتا اور اس کی اہمیت کو کمزور کر دیتا ہے مگر پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ جہاں تک ہو سکے مختصر طور پر اور ایسی صورت میں کہ میرا مضمون سمجھ میں آسکے میں اسلام کے اقتصادی نظام کو آپ لوگوں کے سامنے پیش کروں اور وہ ضروری ضروری امور جو اُس کے ماحول سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے بنیادی اصول کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں بھی بیان کروں.چونکہ اسلام کا اقتصادی نظام ایک ایسی شکل رکھتا ہے جسے ایک رنگ میں اُس نظام سے مشابہت ہے جسے آجکل کمیونزم کہتے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں میرا مضمون اُدھورا رہے گا اگر میں اس تحریک کے متعلق بھی اسلامی نقطۂ نگاہ پیش نہ کروں اور وہ فرق بیان نہ کروں جو اسلامی اقتصادی تحریک اور کمیونزم کی اقتصادی تحریک میں ہیں.1

Page 7

یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح شاخیں اپنے درخت کی جڑوں میں سے نکلتی ہیں اسی طرح مختلف مسائل پہلے سے قائم شدہ بنیادی مسائل میں سے نکلتے ہیں اور اُن بنیادی مسائل کو سمجھے بغیر بعد میں پیدا ہونے والے مستخرج مسائل کی حقیقت کو لوگ آسانی کے ساتھ نہیں سمجھ سکتے اس لئے اسلام کے اقتصادی نظام کو بیان کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ یہ بھی بیان کر دوں کہ اسلام کے گلی نظام کی بنیاد کس امر پر ہے.اسلام سے قلمی نظام کی بنیاد اسلام اپنے تمام سیاسی، اقتصادی اور تمدنی اور دیگر ہر قسم کے نظاموں کی بنیاد اس امر پر رکھتا ہے کہ بادشاہت اور مالکیت خدا تعالیٰ کو ہی حاصل ہے چنانچہ سورۃ زخرف رکوع سات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ یعنی بہت برکت والا وہ خدا ہے جس کے قبضہ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اسی طرح جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ بھی اُسی کے قبضہ و تصرف میں ہے اور ان چیزوں کا اپنے مقصد اور مدعا کو پورا کر کے جب فناء کا وقت آئے گا تو اس کا علم بھی اُسی کو ہے اور پھر آخر ہر چیز خدا کی طرف ہی جانے والی ہے.اس آیت میں قرآن کریم نے یہ بات پیش کی ہے کہ در حقیقت آسمان اور زمین خدا تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہر چیز جو یہاں زندگی گزار رہی ہے اس کا منتہی اور مرجع خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اگر کوئی شخص کسی امر کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے یا کوئی امانت اُس کے سپرد کی جاتی ہے تو وہ اس ذمہ داری کی ادائیگی اور اس امانت میں خیانت نہ کرنے کے متعلق امانت 2

Page 8

سپر دکرنے والے کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے لیکن وہ شخص جو آزاد ہوتا ہے اپنے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ میں جس طرح چاہوں کروں میں کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں.پس قرآن کریم نے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ دنیا جہان کی حکومتیں، بادشاہتیں اور اقتدار چونکہ خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اور اُس کی طرف سے بطور امانت انسانوں کے سپرد ہیں اس لئے سب انسان بادشاہتوں اور ظاہری ملکیتوں کے متعلق اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھ سکتے.وہ بظاہر بادشاہ یا بظاہر مالک ہیں لیکن حقیقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے متوتی ہیں اس لئے جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے انہیں ان امانتوں کے صحیح مصرف کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہونا ہوگا.حکومت و بادشاہت کے متعلق اسلام کا نقطہ نگاہ پھر قرآن کریم یہ امر بھی صراحتا بیان فرماتا ہے کہ بادشاہت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس پر کسی کا ذاتی حق نہیں ہوتا.چنانچہ فرماتا ہے.قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ كوني الْمُلْكَ مَن نَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ عن نَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تقاء بييكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلى كُلِّ عَلى قَدِيرٌ یعنی اے مخاطب ! تو کہہ دے کہ اے اللہ! تمام بادشاہتوں کے مالک خدا! تو جس کو چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس کے ہاتھ سے واپس لینا چاہے اُس کے ہاتھ سے واپس لے لیتا ہے.جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے.ساری خیر اور نیکی تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے.اس آیت میں بھی بتایا گیا ہے کہ بادشاہت جب کسی شخص کے ہاتھ میں آتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت آتی ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر صورت میں ہر بادشاہ 3

Page 9

اور مقتدر کو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکومت ملتی ہے خواہ وہ کیسا ہی جابر بادشاہ ہو یا کیسا ہی ظالم ہو یا کیسا ہی گندہ اور خراب ہو وہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہت ملنے کے سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کئے جاتے ہیں.پس اگر کسی کو بادشاہت ملتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کے پیدا کردہ اسباب سے کام لینے کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے اور جبکہ بادشاہت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے تو جسے بھی بادشاہت یا کوئی اقتدار حاصل ہو وہ زیادہ سے زیادہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وکیل اور متوتی قرار دیا جاسکتا ہے حاکم مطلق یا مالک مطلق قرار نہیں دیا جا سکتا.آخری طاقت اور آخری فیصلہ کرنے والی ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.بہر حال جو بھی حاکم ہو، بادشاہ ہو، ڈکٹیٹر ہو یا پارلیمنٹ کی صورت میں بعض افراد کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہوا گر وہ کوئی آئین دنیا میں نافذ کرتے ہیں تو وہ اُس آئین کے نفاذ میں خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں.اگر وہ کوئی ایسی خرابی پیدا کریں گے جس سے خُدا تعالیٰ نے روکا ہوا ہے یا کوئی ایسی نیکی ترک کریں گے جس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہوا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت میں پیش ہوں گے.ویسے ہی جیسے ایک باغی غلام یا سرکش ملازم اپنے آقا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے اپنے ان افعال کی سزا پائیں گے خواہ وہ بادشاہ کہلاتے ہوں یاڈکٹیٹر کہلاتے ہوں یا پارلیمنٹ کہلاتے ہوں.پس اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر شخص جو بادشاہ بنتا ہے خدا تعالیٰ کی مرضی سے بنتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دائرہ عمل میں خدا تعالیٰ کی ملکیت پر قابض ہوتا ہے اس لئے اُسے خدائی آئین کے مطابق حکومت کرنی چاہئے اور خدا تعالیٰ کی نیابت میں اپنے اقتدار کو استعمال کرنا چاہئے ورنہ وہ گنہگار ہوگا.ہاں بعض حالات میں خدا تعالیٰ کی طرف 4

Page 10

سے بھی بادشاہ مقرر کئے جاتے ہیں جو بہر حال نیک اور منصف ہوتے ہیں مگر اُن کی بادشاہتیں دینی ہوتی ہیں دُنیوی نہیں.حکام کیلئے اسلامی احکام اسی طرح حکام کے بارے میں فرماتا ہے کہ بعض حاکم ایسے ہوتے ہیں کہ وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الفَسَاد کے یعنی دنیا میں کئی حاکم اور بادشاہ ایسے ہوتے ہیں کہ جب انہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ رعایا اور ملک کی خدمت کریں، بجائے اس کے کہ امن قائم کریں، بجائے اس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیر اختیار کرنی شروع کر دیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور ملک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے ملک کی تمدنی اور اقتصادی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بیکار ہو جاتی ہیں.حزث کے لغوی معنی تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حرث کا لفظ استعارہ وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع ملک کی اقتصادی ترقی کے یا جتنے ذرائع ملک کی مالی حالت کو ترقی دینے والے یا جتنے ذرائع ملک کی تمدنی حالت کو بہتر بنانے والے ہوتے ہیں اُن ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدن تباہ ہو، اقتصاد برباد ہو، مالی حالت میں ترقی نہ ہو اس طرح وہ نسلوں کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں اور ایسے قوانین بناتے ہیں جس سے آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپنی 5

Page 11

طاقتوں کوکھو بیٹھتی ہیں اور ایسی تعلیمات جن کو سیکھ کر وہ ترقی کرسکتی ہیں اُن سے محروم رہ جاتی ہیں.پھر فرماتا ہے وَاللهُ لاَ يُحِبُّ الفَسَادَ یعنی اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا.اس لئے ایسے بادشاہ اور حکمران خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مغضوب ہیں اور وہ اُن کو سخت نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اس آیت سے یہ نتیجہ نکل آیا کہ اسلام کے نزدیک وہی بادشاہ صحیح معنوں میں بادشاہ کہلا سکتا ہے جو لوگوں کے لئے ہر قسم کا امن مہیا کرے، اُن کی اقتصادی حالت کو درست کرے اور اُن کی جانوں کی حفاظت کرے.کیا بلحاظ صحت کا خیال رکھنے کے اور کیا بلحاظ اس کے کہ وہ غیر ضروری جنگیں نہ کرے اور اپنے ملک کے افراد کو بلا وجہ مرنے نہ دے.گویا ہر قسم کے امن اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلام کے نزدیک حکومت پر عائد ہوتی ہے اور وہ اس امر کی پابند ہے کہ ملک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی کا ہمیشہ خیال رکھے.حکام کو افراد و اقوام کے درمیان عدل قائم کرنے کی تاکید اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بیڑا یعنی اے لوگو! اللہ تعالی تم کوحکم دیتا ہے کہ جب تمہیں موقع ملے کہ تم بادشاہت کی امانتیں کسی کے سپر د کرو تو یا درکھو تم یہ امانتیں ہمیشہ اُن لوگوں کے سپرد کیا کرو جو تمہارے نزدیک بادشاہت اور حکومت کے اہل ہوں اور جن کے اندر یہ قابلیت پائی جاتی ہو کہ وہ حکومتی کاموں کو عمدگی سے سرانجام دے سکیں اور پھر اے وہ لوگو! جن کے سپر د ملک کے لوگ بادشاہت کی امانت کریں (جہاں ہم نے ملک 6

Page 12

کے لوگوں کو یہ حکم دیا ہے کہ تم حکومت کے لئے ایسے ہی لوگوں کا انتخاب کرو جو اس امانت کے سنبھالنے کے اہل ہوں جو ملک کے بہترین راہنما ہوں اور جو رعایا کے لئے ہر قسم کی ترقی کے سامان جمع کرنے کے قابل ہوں ) وہاں تم لوگوں کو جن کا حکومت کے لئے انتخاب کیا گیا ہے اور جن پر اعتماد کر کے ملک کے لوگوں نے حکومت کی امانت اُن کے سپرد کی ہم یہ حکم دیتے ہیں کہ إِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ یعنی جب تم کوئی فیصلہ کرو تو عدل سے کام لو.یہ نہ ہو کہ کسی فرد کو بڑھا دو اور کسی کو نیچے گرا دو، کسی قوم کو اونچا کر دو اور کسی قوم کو نیچا کر دو، کسی قوم میں تعلیم پھیلا دو اور کسی قوم کو جاہل رکھو، کسی کی اقتصادی ضروریات کو پورا کرو اور کسی کی اقتصادی ضروریات کو نظر انداز کر دو بلکہ جب تم لوگوں کے حقوق کا فیصلہ کرو تو ہمیشہ عدل و انصاف سے فیصلہ کرو.رعایت یا بے جا طرف داری سے کام نہ لو.پھر فرماتا ہے إِنَّ اللهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ به ہمارا یہ حکم ایسا نہیں جیسے بادشاہ بعض دفعہ بغیر کسی خاص مقصد یا بغیر کسی خاص حکمت کے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارا منشاء یوں ہے بس اسی طرح کیا جائے.ہم ان بادشاہوں کی طرح بغیر سوچے سمجھے یہ حکم نہیں دے رہے بلکہ ہم تمہارے خالق و مالک خدا ہیں اور ہم تمہیں جو کچھ حکم دے رہے ہیں اسی میں تمہارا فائدہ اور تمہارا سکھ ہے.اگر تم ایسے حاکم مقرر کرو گے جو اچھے ہوں گے، جو حکومت کے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے والے ہوں گے، جو اس امانت کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہونگے تو اس میں تمہارا اپنا فائدہ ہے اور اے حاکمو! اگر تم لوگوں کی جانوں کی حفاظت کرو گے، اگر تم ان کے اموال کی حفاظت کرو گے، اگر تم اپنے فیصلوں میں ہمیشہ عدل کو لحوظ رکھو گے، اگر تم افراد اور اقوام میں تفریق سے کام نہیں لو گے، اگر تم چھوٹوں اور بڑوں سب سے یکساں سلوک کرو گے، اگر تم ملک کی مجموعی حالت کو درست رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرو گے، اگر تم ان 7

Page 13

بادشاہوں کے نقش قدم پر نہیں چلو گے جو کسی کو بڑھا دیتے ہیں اور کسی کو گرا دیتے ہیں اور کسی کو نا واجب سزا دے دیتے ہیں اور کسی کی ناواجب رعایت کر دیتے ہیں تو تم صرف ہمارا حکم ہی پورا نہیں کرو گے بلکہ انجام کے لحاظ سے یہ امر خود تمہارے لئے بھی بہتر ہوگا.پھر فرماتا ہے إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا یعنی اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ لوگ دنیا کے ظالم بادشاہوں کی ایڑیوں کے نیچے کچلے گئے اور وہ تباہ و برباد کئے گئے.بادشاہوں نے اُن پر ظلم کیا اور ان کے حقوق کو انتہائی بیدردی کے ساتھ پامال کر دیا.یہ حالات خدا نے دیکھے اور اُس کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ بنی نوع انسان ہمیشہ ظلموں کے نیچے دبتے چلے جائیں اور حکام اپنی من مانی کارروائیاں کرتے رہیں پس اُس نے چاہا کہ اس بارہ میں خود ہدایات دے.چنانچہ جب ظلم اپنی انتہا تک پہنچ گیا اور لوگوں نے ہمارے حضور چلا کر کہا کہ اے خدا! اس قسم کے حاکم ہم پر مسلط ہو رہے ہیں جو ہمارے حقوق کو ادا نہیں کرتے تو خدا نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اپنی شریعت میں یہ حکم نازل فرمادے کہ ہمیشہ حکام انتخاب سے مقرر کئے جائیں.اور ایسے حاکم بچنے جائیں جو انصاف اور عدل کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہوں اور حکومت کے اہل ہوں.اسی طرح حکام کو خدا نے اپنی شریعت میں یہ حکم دے دیا کہ دیکھو! ہمیشہ عدل اور انصاف سے کام لو، ملک کی اقتصادی حالت کو ترقی دینے کی کوشش کرو، رعایا کے جان و مال کی حفاظت کرو، اقوام اور افراد میں تفریق پیدا نہ کرو، ایسی تدابیر اختیار نہ کرو جو ملک کی ترقی میں روک ڈالنے والی یا آئندہ نسلوں کو تباہ کرنے والی ہوں بلکہ ہمیشہ ایسے طریق اختیار کرو اور ایسے قوانین بناؤ جو ملک کی ترقی کا موجب ہوں.8

Page 14

اسلام کا اقتصادی نظا حکومت کے متعلق اسلام کی چار اصولی ہدایات یہ وہ ماحول ہے جس میں اسلام اقتصادی نظام پیش کرتا ہے اور بغیر کسی مناسب ماحول کے کوئی اچھے سے اچھا نظام بھی کامیاب نہیں ہو سکتا.اسلام دنیا میں پہلا مذہب ہے جس نے (۱) انتخابی حکومت کا اصول مقر ر کیا ہے اور حکومت کی بنیاد اہلیت پر قائم کی.(۲) جس نے حکومت کو ملکیت نہیں بلکہ امانت قرار دیا ہے.(۳) جس نے لوگوں کی عزت ، جان اور مال کی حفاظت کو حکومت کا مقصد قرار دیا ہے.(۴) جس نے حاکم کو افراد اور اقوام کے درمیان عدل کرنے کی تاکید فرمائی اور اُسے خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ قرار دیا ہے.غرض اسلام کے نزدیک کوئی نسلی بادشاہ نہیں وہ صاف اور کھلے طور پر فرماتا ہے کہ ان اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا لا یعنی خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم حکومت کی امانت ہمیشہ اہل لوگوں کے سپر د کیا کرو.پس اسلام کسی نسلی بادشاہت کا قائل نہیں بلکہ اسلام کے نزدیک حکومت انتخابی اصل پر قائم ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ غور وفکر کے بعد اپنی قوم میں سے بہترین شخص کے سپر دحکومت کی امانت کیا کریں.جب تک مسلمان قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے رہے وہ اسی رنگ میں حکام کا انتخاب کرتے رہے اور آئندہ بھی جب مسلمانوں کو قرآن کریم کے ان احکام پر عمل کرنے کی توفیق حاصل ہوگی اُن کے لئے پہلا حکم یہی ہوگا کہ تم خود کسی شخص کو حکومت کے لئے منتخب کرو.اور پھر دوسرا حکم یہ ہوگا کہ تم کسی کو اس لئے نہ چنو کہ وہ اعلیٰ خاندان میں سے ہے، کسی کو اس لئے نہ چنو کہ وہ جابر ہے، کسی کو اس لئے نہ چنو کہ وہ مالدار ہے، کسی کو اس لئے نہ چنو کہ اُس کے 9

Page 15

ساتھ جتھہ ہے بلکہ تم اس لئے چنو کہ وہ ملک کی حکومت کے لئے بہترین شخص ثابت ہوگا.دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حکام کو یہ حکم دیدیا کہ جب تمہارا انتخاب عمل میں آجائے تو عدل وانصاف سے کام لو.یہی وہ روح تھی جس نے بادشاہت پیدا ہو جانے کے بعد بھی مسلمانوں کے خیالات کو جمہوریت اور انصاف کی طرف مائل رکھا.اسلامی تاریخ کا ایک شاندار منظر گین جو ایک مشہور عیسائی مؤرخ ہے اُس نے روم کے حالات کے متعلق ایک تاریخی کتاب لکھی ہے وہ اس کتاب میں ملک شاہ CA کے متعلق جو الپ ارسلان CB کا بیٹا تھا بیان کرتا ہے کہ وہ بالکل نوجوان تھا جب اُس کا والد فوت ہوا.اُس کے مرنے کے بعد ملک شاہ کے ایک چچا ایک چچیرے بھائی اور ایک سگے بھائی نے بالمقابل بادشاہت کا دعویٰ کر دیا اور خانہ جنگی شروع ہو گئی.نظام الدین طوسی جو ملک شاہ کے وزیر تھے وہ (بوجہ شیعہ ہونے کے ) ملک شاہ کو امام موسیٰ رضا کی قبر پر دعا کے لئے لے گئے دعا کے بعد ملک شاہ نے وزیر سے پوچھا.آپ نے کیا دعا کی؟ وزیر نے جواب دیا یہ کہ خدا تعالیٰ آپ کو فتح بخشے.ملک شاہ نے کہا اور میں نے خدا سے یہ دعا کی ہے کہ اے میرے رب ! اگر میرا بھائی مسلمانوں پر حکومت کرنے کا مجھ سے زیادہ اہل ہے تو اے میرے رب ! آج میری جان اور میرا تاج مجھ سے واپس لے لے.گین ایک عیسائی مؤرخ اور نہایت ہی متعصب عیسائی مؤرخ ہے مگر اس واقعہ کے ذکر کے سلسلہ میں بے اختیار لکھتا ہے.اس ترک (مسلمان) شہزادہ کے اس قول سے زیادہ پاکیزہ اور وسیع نظر یہ تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنا مشکل ہے.مگر یہ روح کہاں سے آئی اور کیوں مسلمانوں کے دلوں اور اُن کے دماغوں میں یہ بات مرکوز تھی کہ حکومت 10

Page 16

سلام کا اقتصادی نظام کسی کا ذاتی حق نہیں بلکہ ایک امانت ہے جو ملک کے لوگ خود اپنے میں سے قابل ترین شخص کے سپر د کرتے ہیں اور پھر اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ انصاف سے کام لے اور حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھے.یہ پاکیزہ خیالات اور یہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ مسلمانوں میں اسی وجہ سے دکھائی دیتا ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں کے دماغوں میں شروع سے ہی یہ بات ڈال دی تھی کہ بادشاہت ایک امانت ہے اور یہ امانت صرف حقدار کو بطور انتخاب دینی چاہئے نہ کہ ورثہ کے طور پر لوگ اُس پر قابض ہوں.یا اہلیت کے سوا اور کسی وجہ سے انہیں اس کام پر مقرر کیا جائے.نیز یہ کہ جوشخص اس امانت پر مقرر ہو اس کا فرض ہے کہ اس امانت کے سب حقوق کو پوری طرح ادا کرے اور جو شخص اس کے تمام حقوق اور فرائض کے ساتھ اُسے ادا نہیں کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے سامنے ایک مجرم کی طرح کھڑا ہوگا.پس مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت یہ آیت رہتی تھی کہ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا یعنی جو لوگ حکومت کے قابل ہوں ، جو انتظامی امور کو سنبھالنے کی اہلیت اپنے اندر رکھتے ہوں اُن کو یہ امانت سپرد کیا کرو.اور پھر جب یہ امانت بعض لوگوں کے سپرد ہو جاتی تھی تو شریعت کا یہ حکم ہر وقت اُن کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا کہ دیانت داری اور عدل کے ساتھ حکومت کرو.اگر تم نے عدل کو نظر انداز کر دیا، اگر تم نے دیانت داری کو ملحوظ نہ رکھا، اگر تم نے اس امانت میں کسی خیانت سے کام لیا تو خدا تم سے حساب لے گا اور وہ تمہیں اس جرم کی سزا دیگا.11

Page 17

حضرت عمر کا عدیم المثال خدمات کے با وجو د وفات کے وقت غیر معمولی کرب یہی وہ چیز تھی جس کا اثر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت پر اس قدر غالب اور نمایاں تھا کہ اُسے دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.حضرت عمر جو اسلام میں خلیفہ ثانی گزرے ہیں اُنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے اس قدر قربانیوں سے کام لیا ہے کہ وہ یورپین مصنف جو دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں، جو رسول کریم سالی یا اسلام کے متعلق اپنی کتابوں میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ یہ لکھتے ہیں کہ نعوذباللہ ! آپ نے دیانت داری سے کام نہیں لیا وہ بھی ابوبکر اور عمر کے ذکر پر یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جس محنت اور قربانی سے ان لوگوں نے کام کیا ہے اس قسم کی محنت اور قربانی کی مثال دنیا کے کسی حکمران میں نظر نہیں آتی.خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کام کی تو وہ بے حد تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص تھا جس نے رات اور دن انہماک کے ساتھ اسلام کے قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں کی ترقی کے فرض کو سر انجام دیا.مگر عمر کا اپنا کیا حال تھا.اُس کے سامنے باوجود ہزاروں کام کرنے کے، باوجود ہزاروں قربانیاں کرنے کے باوجود ہزاروں تکالیف برداشت کرنے کے یہ آیت رہتی تھی کہ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا اور یہ کہ وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ یعنی جب تمہیں خدا کی طرف سے کسی کام پر مقرر کیا جاوے اور تمہارے ملک کے لوگ اور تمہارے اپنے بھائی حکومت کے لئے تمہارا انتخاب کریں تو تمہارا فرض ہے کہ تم عدل کے ساتھ کام کرو اور اپنی تمام قوتوں کو بنی 12

Page 18

نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے صرف کر دو.چنانچہ حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ کیسا دردناک ہے کہ وفات کے قریب جبکہ آپ کو ظالم سمجھتے ہوئے ایک شخص نے نادانی اور جہالت سے خنجر سے آپ پر وار کیا اور آپ کو اپنی موت کا یقین ہو گیا تو آپ بستر پر نہایت کرب سے تڑپتے تھے اور بار بار کہتے تھے اللهُمَّ لَا عَلَى وَلَالِى اللَّهُمَّ لَا عَلَى وَلَالى اے خدا! تو نے مجھ کو اس حکومت پر قائم کیا تھا اور ایک امانت تو نے میرے سپرد کی تھی.میں نہیں جانتا کہ میں نے اس حکومت کا حق ادا کر دیا ہے یا نہیں.اب میری موت کا وقت قریب ہے اور میں دنیا کو چھوڑ کر تیرے پاس آنے والا ہوں.اے میرے رب ! میں تجھ سے اپنے اعمال کے بدلہ میں کسی اچھے اجر کا طالب نہیں، کسی انعام کا خواہشمند نہیں بلکہ اے میرے ربّ! میں صرف اس بات کا طالب ہوں کہ تو مجھ پر رحم کر کے مجھے معاف فرمادے اور اگر اس ذمہ داری کی ادائیگی میں مجھ سے کوئی قصور ہو گیا ہو تو اُس سے درگز رفرما دے.عمر وہ جلیل القدر انسان تھا جس کے عدل اور انصاف کی مثال دنیا کے پردہ پر بہت کم پائی جاتی ہے.مگر اس حکم کے ماتحت کہ وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ جب وہ مرتا ہے تو ایسی بے چینی اور ایسے اضطراب کی حالت میں مرتا ہے کہ اُسے وہ تمام خدمات جو اُس نے ملک کی بہتری کے لئے کیں، وہ تمام خدمات جو اُس نے لوگوں کی بہتری کے لئے کیں.وہ تمام خدمات جو اس نے اسلام کی ترقی کے لئے کیں بالکل حقیر نظر آتی ہیں.وہ تمام خدمات جو اُس کے مُلک کے تمام مسلمانوں کو اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو اُس کے مُلک کی غیر اقوام کو بھی اچھی نظر آتی تھیں ، وہ تمام خدمات جوصرف اُس کے ملک کے اپنوں اور غیروں کو ہی نہیں بلکہ غیر ممالک کے لوگوں کو بھی اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جوصرف اُس کے زمانہ میں ہی لوگوں کو اچھی نظر آتی تھیں بلکہ آج تیرہ سو سال 13

Page 19

گزرنے کے بعد بھی وہ لوگ جو اُس کے آقا پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتے جب عمر کی خدمات کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں.بے شک عمر اپنے کارناموں میں ایک بے مثال شخص تھا.وہ تمام خدمات خود عمر کی نگاہ میں بالکل حقیر ہو جاتی ہیں اور وہ تڑپتے ہوئے کہتا ہے اللهُمَّ لَا عَلَى وَلالي اے میرے رب ! ایک امانت میرے سپرد کی گئی تھی.میں نہیں جانتا کہ میں نے اس کے حقوق کو ادا بھی کیا ہے یا نہیں.اس لئے میں تجھ سے اتنی ہی درخواست کرتا ہوں کہ تو میرے قصوروں کو معاف فرمادے اور مجھے سزا سے محفوظ رکھ.ہر چیز کیلئے اچھے ماحول کی ضرورت یہ ماحول میں نے اس لئے بیان کیا ہے کہ کوئی چیز اچھے ماحول کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی.اچھی سے اچھی گٹھلی لو اور اُسے ایسی زمین میں دباد و جو اُس کے مناسب حال نہ ہو یا گنٹھلی کو گانے کی قابلیت اپنے اندر نہ رکھتی ہوتو وہ کبھی اچھا درخت پیدا نہیں کرسکتی.لیکن اگر ماحول اچھا ہو تو معمولی اور ادنی بیج بھی نشو نما حاصل کر لیتا ہے.پس یہ وہ ماحول ہے جو اسلام نے پیش کیا اور ایسے ہی ماحول میں پبلک کے مفید مطلب اقتصادی نظام چل سکتا ہے.دنیا میں تین قسم کے اقتصادی نظام اس ماحول کے بیان کرنے کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ دنیا میں تین قسم کے اقتصادی نظام ہوتے ہیں.ایک نظام غیر آئینی ہوتا ہے یعنی ہم اُس کا نام اقتصادی نظام محض بات کو سمجھنے کے لئے رکھ دیتے ہیں ورنہ حقیت یہ ہے کہ بعض تو میں اور حکومتیں دنیا میں ایسی ہیں جنہوں نے کبھی بھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ انہوں نے اپنے اقتصادی نظام کو کس طرح 14

Page 20

چلانا ہے.جس طرح انسان بعض دفعہ رستہ میں چلتے ہوئے کسی چیز کو اُٹھالیتا ہے اسی طرح ان لوگوں کے سامنے اگر اقتصادی ترقی کے لئے کوئی قومی ذریعہ آجائے تو وہ اسے اختیار کر لیتے ہیں، فردی ذریعہ آجائے تو اُسے اختیار کر لیتے ہیں.کوئی معین اور مقررہ پالیسی ان کے سامنے نہیں ہوتی.دوسرا نظام قومی ہوتا ہے.یعنی بعض قو میں دنیا میں ایسی ہیں جو صرف قومی اقتصادی نظام کو اختیار کرتی ہیں اور وہ ملک کے نظام کو ایسے رنگ میں چلاتی ہیں جس سے بحیثیت مجموعی اُن کی قوم کو فائدہ ہو.تیسر ا نظام انفرادی ہوتا ہے جس میں افراد کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اپنے طور پر ملک کی اقتصادی حالت کو درست کرنے اور اُسے ترقی دینے کی کوشش کریں.مزدوروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جدو جہد کریں اور سرمایہ داروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جد و جہد کریں.اسی طرح ملازموں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے افسروں سے تنخواہوں وغیرہ کے متعلق بحث کر کے فیصلہ کریں اور افسروں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملازموں کے متعلق قواعد وضع کریں.گویا اس نظام میں انفرادیت پر زور دیا جاتا ہے.یہی تین قسم کے اقتصادی نظام اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیں.ایک بے قانون، دوسرا قومی اور تیسرا انفرادی.یعنی بعض میں کوئی بھی آئین نہیں بعض میں قومی کاروبار پر بنیاد ہوتی ہے اور بعض میں انفرادی کاروبار پر.اسلام غیر آئینی نظام کو تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ایک آئینی نظام کو قائم کرتا اور اُس کے ماتحت چلنے کی لوگوں کو ہدایت دیتا ہے.وہ ہر چیز کو حکمت اور دانائی کے ماتحت اختیار کرنے کا قائل ہے.وہ اس بات کا 15

Page 21

قائل نہیں کہ نظام اور آئین کو نظر انداز کر کے جو راستہ بھی سامنے نظر آئے اُس پر چلنا شروع کر دیا جائے.غیر آئینی نظام والوں کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے جنگل میں آپ ہی آپ جو بوٹیاں اُگ آتی ہیں انہیں کھانا شروع کر دیا جائے.مگر اسلام کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جو باقاعدہ ایک باغ لگا تا، اُس کی آبپاشی کرتا اور اُس کے پودوں کی نگرانی رکھتا ہے.وہ جانتا ہے کہ کونسی چیز مجھے اس باغ میں رکھنی چاہئے اور کونسی چیز نہیں رکھنی چاہئے.اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول میں نے اوپر جو ماحول اسلام کی تعلیم کا بیان کیا ہے وہ ماحول اسلام کی اقتصادی تعلیم کیلئے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی اقتصادی تعلیم دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتی چونکہ اس ماحول کا اسلام کی اقتصادی تعلیم کے ساتھ ایک گہرا تعلق تھا اس لئے ضروری تھا کہ میں اسے بیان کرتا اور بتاتا کہ کس ماحول میں اسلام نے دنیا کے سامنے ایک مفید اور اعلیٰ درجہ کا اقتصادی نظام رکھا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام غیر آئینی نظام کو تسلیم نہیں کرتا البتہ دوسرے دو نظاموں کے درمیان ایک راستہ پیش کرتا ہے مگر بنیادی اصول اسلام کے اقتصادیات کا ، ان ہی پہلے حقائق پر قائم ہے جن کو اوپر بیان کیا جا چکا ہے.اموال کے متعلق اسلام کا اقتصادی نظریہ اسلام کا اقتصادی نظریہ اموال کے متعلق یہ ہے.فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً لا یعنی جس قدر چیزیں دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں.اگر تمہیں دنیا میں پہاڑ 16

Page 22

نظر آتے ہیں، اگر تمہیں دنیا میں دریا نظر آتے ہیں، اگر تمہیں دنیا میں کا نہیں نظر آتی ہیں، اگر تمہیں دنیا میں ترقی کی اور ہزاروں اشیاء نظر آتی ہیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام کا نظر یہ ان اشیاء کے متعلق یہ ہے کہ یہ سب کی سب بنی نوع انسان میں مشترک ہیں اور سب بحیثیت مجموعی ان کے مالک ہیں.کانوں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، دریاؤں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، پہاڑوں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جا تا ہے،مثلاً بجلیاں پیدا کی جاتی ہیں، سونا چاندی اور دوسری قیمتی دھاتیں حاصل کی جاتی ہیں یا دوائیں وغیرہ وہاں پائی جاتی ہیں جن سے انسان فائدہ اُٹھاتا ہے علاج معالجہ کے رنگ میں بھی اور تجارت کے رنگ میں بھی یا اسی قسم کی اور ہزاروں چیزیں ہیں جو صنعت و حرفت میں کام آتی ہیں ان سب کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خَلَقَ لَكُم اے بنی نوع انسان! یہ سب کی سب چیزیں تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں.یہ زید کی خاطر نہیں ، یہ بکر کی خاطر نہیں، یہ نمرود کی خاطر نہیں، یہ ہٹلر کی خاطر نہیں ، یہ سٹالن کی خاطر نہیں، یہ چرچل کی خاطر نہیں، یہ روز ویلٹ کی خاطر نہیں بلکہ ہر فرد بشر جو دنیا میں پیدا ہوا ہے اُس کے لئے خدا نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں پس کوئی ہو، حاکم ہو محکوم ہو، بڑا ہو چھوٹا ہو،سید ہو چہار ہو، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں صرف میرے لئے پیدا کی گئی ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے.اے بنی نوع انسان یہ چیزیں تم سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور ان میں سے ہر چیز کے تم سب کے سب بحیثیت انسان مالک ہو.مال کے متعلق اسلام کا فیصلہ پھر اموال کے متعلق یہ قاعدہ بیان فرماتا ہے کہ اتُوهُمْ مِّنْ مَّالِ اللهِ الَّذِي اتا گھر اے لوگو ! جب تمہارے پاس غلام ہوں یعنی جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں آئیں 17

Page 23

مگر حالت یہ ہو کہ نہ اُن کی گورنمنٹ اُنہیں رہا کرانے کا کوئی احساس رکھتی ہو اور نہ اُن کے رشتہ دار اُن کی آزادی کیلئے کوئی کوشش کرتے ہوں اور دوسری طرف خود اُن کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ وہ خود فدیہ دے کر رہا ہو سکیں تو ایسی صورت میں ہم یہ حکم دیتے ہیں کہ اے جنگی قیدیوں کے نگرانو! اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں سے اس غلام کی مدد کرو.یعنی اسے اپنے پاس سے کچھ سرمایہ دے دو کہ اس ذریعہ سے وہ روپیہ کما کر اپنا فدیہ ادا کر سکے اور آزاد ہو جائے.گویا اگر وہ خود رہا ہونے کا اپنے پاس کوئی سامان نہیں رکھتا تو تم اپنے اموال میں سے کچھ مال اسے دے دو کیونکہ مال خدا کا ہے اور خدا کے مال میں سب لوگوں کا حق شامل ہے اس لئے اگر آزادی کے سامان اس کے پاس مفقود ہیں تو تم خودا سے خدا کے اموال میں سے کچھ مال دے دو.اسی طرح اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان حاکموں اور بادشاہوں سے بھی کہا ہے کہ اے مسلمان حاکمو اور بادشا ہو ! اللہ تعالیٰ کے اموال میں صرف تمہارا حق ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے حقوق شامل ہیں اس لئے اگر جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں آتے ہیں اور اس کے بعد اُن کی قوم اُن سے غداری کرتی ہے، اُن کے رشتہ دار ان سے غداری کرتے ہیں اور وہ انہیں چھڑانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے یا فرض کرو کوئی جنگی قیدی مالدار ہے اور اُس کے رشتہ دار چاہتے ہیں کہ قید ہی رہے تا کہ اُس کی جائدا پر قابض ہو جائیں تو ایسی صورت میں ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ اگر قوم نے اُن سے غداری کی ہے یا اُن کے رشتہ داران سے غداری کر رہے ہیں تو تم اُن سے غداری مت کرو بلکہ خود اپنے مال کا ایک حصہ اُن کی آزادی کے لئے خرچ کرو کیونکہ جو مال تمہارے قبضہ میں آیا ہے وہ تمہارا امال نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور جس طرح تم اللہ تعالیٰ کے بندے ہو اُسی طرح غلام بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں.ان حوالوں سے معلوم ہوتا 18

Page 24

اسلام کا اقتصادی زن ہے کہ اول اسلام کے نزدیک دنیا کی دولت سب انسانوں کی ہے.دوسرے اصل مالک دولت کا اللہ تعالیٰ ہے اس لئے انسان کو اپنے مال کو خرچ کرنے کا گلی اختیار نہیں بلکہ مالک کے حکم کے مطابق اُسے اپنی آزادی کو محدود کرنا ہوگا.یہ اصل اموال کی ملکیت کے بارہ میں قرآن کریم کے نزدیک ہمیشہ سے انبیاء علی السلام بتاتے چلے آئے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام کی نسبت آتا ہے کہ جب انہوں نے لوگوں سے کہا کہ دوسرے لوگوں کے حقوق غصب نہ کرو اور ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو اور اموال کمانے یا اس کو خرچ کرنے کے وہ طریق اختیار نہ کرو جن سے فساد ہوتا ہے تو لوگوں نے اُن سے کہا کہ اَصَلوتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ وحه بَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفَعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ یعنی اے شعیب ! یہ کیا بات ہے کہ روپیہ ہمارا ، مال ہمارا ، جائدادیں ہماری ہم جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں.جہاں چاہیں خرچ کریں اور جہاں چاہیں خرچ نہ کریں تم ان معاملات میں دخل دینے والے کون ہو.مال تمہارا نہیں کہ تم اس کی تقسیم یا خرچ کے ذمہ دار ہو.مال ہمارا ہے ہم اختیار رکھتے ہیں کہ جس طرح چاہیں خرچ کریں.کیا نمازیں پڑھ پڑھ کر تمہارا سر چکرا گیا ہے کہ اب ہمارے مالی معاملات میں بھی دخل دینے لگ گئے ہو کہ اس طرح خرچ کرو گے تو ثواب ہوگا.اس طرح خرچ کرو گے تو عذاب ہوگا.ہمیں نصیحت کرنے اور سمجھانے کا یہ حق تمہیں کہاں سے حاصل ہو گیا ہے.پھر وہ طنز کے طور پر کہتے ہیں کہ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ بڑا غریبوں کا ہمدرد آیا ہے تو تو بڑا حلیم اور بڑا بھلا مانس معلوم ہوتا ہے یعنی یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تم حلیم ہو اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تم 19

Page 25

رشید ہومگر اب تم حلیم اور رشید بن کر ہم پر رعب جمانا چاہتے ہو ہم تمہارے اس دعوی کو تسلیم نہیں کرتے.ابتدائے آفرینش سے اموال کے متعلق ایک ہی نظریہ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم نے اموال کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے وہی پہلے انبیاء کی طرف سے پیش ہوتا چلا آیا ہے.وہ بنی نوع انسان کو اموال کمانے اور خرچ کرنے میں آزاد نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اموال سب خدا کے ہیں اور خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف اُن کو خرچ کرنا جائز نہیں ہوسکتا.قومی ترقی کے لئے غرباء کو ابھارنے کی ضرورت ان اصول کے بعد میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے اپنی ابتدا میں ہی غرباء کے اُبھارنے اور اُن کی مدد کرنے کا اعلان کر دیا تھا.چنانچہ وہ سورتیں جو بالکل ابتدائی زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں جب ان کا مطالعہ کیا جائے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان ابتدائی سورتوں میں سب سے زیادہ غرباء کو ابھارنے ، اُن کی مدد کرنے اور اُن کو ترقی کی دوڑ میں آگے لے جانے کا ذکر آتا ہے اور مومنوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اگر قومی ترقی چاہتے ہیں، اگر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریق یہی ہے کہ غرباء کی مدد کریں اور اُن کی تکالیف کو دور کرنے کی کوشش کریں.حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی دوسرے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئے تھے.ابھی قرآن کریم نے نمازوں کی تفصیل بیان نہیں کی تھی ، ابھی قرآن کریم نے تجارت کے اصول بیان نہیں کئے تھے، ابھی قرآن کریم نے قضاء کے احکام لوگوں کے سامنے بیان نہیں کئے 20

Page 26

تھے، ابھی لین دین کے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئے تھے ، ابھی میاں بیوی کے حقوق یا راعی اور رعایا کے حقوق یا آقا اور ملازمین کے حقوق کی تفصیلات بیان نہیں ہوئی تھیں لیکن اس ابتدائی زمانہ میں قرآن نے غرباء کو اُبھارنے اور اُن کی مدد کرنے کی طرف لوگوں کو تو جہ دلائی بلکہ اُن کے نہ اُبھارنے اور اُن کی مدد نہ کرنے کے نتیجہ میں قوم کی تباہی کی خبر دی اور بتایا کہ وہ قوم اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن جاتی ہے جو غرباء کے حقوق.کو نظر انداز کر دیتی ہے.اسلام کی ابتدائی تعلیم میں غرباء کو ابھارنے کی تلقین تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی سورۃ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلق والی سورۃ ہے.اس سے یہ مراد نہیں کہ ساری سورۃ ایک ہی دن میں نازل ہوگئی تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اسی سورۃ کا ابتدائی ٹکڑا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور پھر رفتہ رفتہ ساری سورۃ نازل ہو گئی.اس سورۃ کے نزول کے بعد قریب ترین عرصہ میں جو سورتیں نازل ہوئیں اُن میں سے چار سورتیں ایسی ہیں جن کو سرولیم میور جو یو.پی کے لیفٹینٹ گورنر رہ چکے ہیں اور یورپین مصنفین میں خاص عظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.سولیلو کی (SOLILOQUY) یعنی محادثہ پالنفس کی سورتیں قرار دیتے ہیں.اُن کا خیال ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس میں دعوئی سے پہلے جو خیالات پیدا ہوا کرتے تھے ان چارسورتوں میں انہی خیالات کا ذکر آتا ہے.سرولیم میور کے نزدیک یہ چارسورتیں آخری پارہ کی سورۃ البلد.سورۃ الشمس.سورۃ اللیل اور سورۃ الضحیٰ ہیں.مفسرین کے نزدیک تو یہ سورتیں سورۃ العلق کے بعد نازل ہوئی ہیں اور تاریخی طور پر بھی یہی بات درست ہے لیکن میور کا خیال ہے کہ یہ...21

Page 27

سلام کا اقتصادی نظام سورتیں اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ والی سورۃ سے بھی پہلے کی ہیں.اُن کی بنائے استدلال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جب کہا اقرا یعنی پڑھ.تو بہر حال اس سے پہلے کوئی چیز موجود ہونی چاہئے تھی جس کو پڑھنے کا حکم دیا جاتا.اسلامی تاریخ کے لحاظ سے بھی یہ نہایت ابتدائی سورتیں ہیں اور میور کے خیال کے لحاظ سے تو یہ اتنی ابتدائی سورتیں ہیں کہ رسول کریم صلی یا ایم کے دعوئی سے بھی پہلے کی ہیں.ان چارسورتوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ان میں سے تین میں غرباء کی خبر گیری کو نجات اور ترقی قومی کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے.لوگوں کو غرباء کی خبر گیری اور اُن کی خدمات پر اُبھارا گیا ہے اور اُمراء کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.چنانچہ سورۃ البلد میں آتا ہے يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالاً تبَدًا أَيَحْسَبُ أَنْ لَّمْ يَرَةً أَحَدٌ أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ.وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ فَكُ رَقَبَةٍ أَوْ إِطْعَامُ فِي يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ يَّتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَثْرَبَةٍ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ فرماتا ہے ہر مالدار دنیا میں کہتا ہے کہ أَهْلَكْتُ مَالًا لبدائیں بڑا مالدار آدمی ہوں میں نے بڑا روپیہ دنیا میں خرچ کیا ہے.ہزاروں نہیں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ میں خرچ کر چکا ہوں.لبدا کے معنی ڈھیروں ڈھیر کے ہوتے ہیں.ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا ڈھیر میں خرچ کرتا چلا گیا اور میں نے روپیہ کی کچھ پرواہ نہ کی اب بتاؤ مجھ سے زیادہ اور کون شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اُسے عزت دی جائے اور اُسے پبلک میں عظمت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے.اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے.أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يرة أحد کیا وہ نادان یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے دیکھنے والا دنیا میں کوئی موجود نہیں ! وہ دعوتیں 22

Page 28

سلام کا اقتصادی نظام کرتا ہے اور ایک ایک دن میں سینکڑوں اونٹ ذبح کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے ملک پر بڑا احسان کیا.فرماتا ہے کیا دنیا اندھی ہے وہ یہ نہیں سمجھتی کہ یہ سو اونٹ جو قربان کیا گیا ہے محض اس لئے ہے کہ اُسے شہرت اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے.غرباء کی ہمدردی اور اُن کی محبت کا جذبہ اُس کے دل میں کام نہیں کر رہا.اگر واقعہ میں اس کے دل میں غریبوں کی تکالیف کا احساس ہوتا ، وہ ان کی غربت اور تکالیف کو دور کرنے کا جذبہ اپنے اندر رکھتا تو سو سو اونٹ ایک دن میں ذبح کرنے کی بجائے وہ سو دنوں میں ایک ایک اونٹ ذبح کرتا تا کہ غرباء ایک لمبے عرصے تک بھوک کی تکالیف سے بچے رہتے مگر اُس کے مد نظر تو یہ بات تھی ہی نہیں وہ تو یہی چاہتا تھا کہ پبلک میں میری شہرت ہو اور لوگ سمجھیں کہ میں بڑا امیر ہوں فرماتا ہے أَيَحْسَبُ أَنْ لَّمْ يَرَةً أَحَدٌ کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اُسے کوئی دیکھتا نہیں، اُس کے اعمال پر کوئی نظر نہیں رکھتا؟ یہ اُس کا خیال بالکل غلط ہے.دنیا اتنی اندھی اور بیوقوف نہیں ہے وہ جانتی ہے کہ اُس نے جو کچھ خرچ کیا بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے خرچ نہیں کیا بلکہ اپنے نفس کے لئے خرچ کیا ہے أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ فرماتا ہے کیا ہم نے اُسے آنکھیں نہیں دی تھیں کیا وہ نہیں دیکھتا تھا کہ ملک کا کیا حال ہے؟ غریب بھوکے مر رہے ہیں اور کوئی اُن کا پُرسانِ حال نہیں مگر یہ ایک ایک دن میں سوسو دودو سو اونٹ محض اپنی شہرت کیلئے ذبح کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے بڑا کام کیا ہے.کیا اُس کی آنکھیں نہیں تھیں کہ وہ ملک کا حال دیکھ لیتا.وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ اور اگر اُسے آنکھوں سے اپنے ملک کا حال نظر نہیں آتا تھا تو کیا اُس کے منہ میں زبان نہیں تھی اور کیا یہ لوگوں سے نہیں پوچھ سکتا تھا کہ روپیہ کا صحیح مصرف کیا ہے اور مجھے کہاں کہاں خرچ کرنا چاہے ؟ وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ پھر کیا ہم نے اُس کی دینی اور دنیوی ترقی کے لئے اُس کی 23

Page 29

فطرت میں مادہ نہیں رکھ دیا تھا؟ کیا ہم نے اُس کی فطرت میں یہ مادہ نہیں رکھا کہ یہ خدا تعالیٰ کو پانے اور اُس سے محبت پیدا کرنے کی تدابیر اختیار کرے؟ اور کیا ہم نے اُس کی فطرت میں یہ مادہ نہیں رکھا کہ یہ بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرے؟ اگر ان تین طریقوں کو اس نے استعمال نہیں کیا اور اپنے روپیہ کو بغیر اصول کے خرچ کر دیا تو اس نے روپیہ کو خرچ نہیں کیا بلکہ اُسے تباہ کیا ہے پھر فرماتا ہے.فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةُ باوجود اس کے کہ اُس کی آنکھیں موجود تھیں جن سے یہ غرباء کا حال دیکھ سکتا تھا.اُس کی زبان اور اُس کے ہونٹ سلامت تھے اور یہ لوگوں سے پوچھ سکتا تھا کہ مجھے تو روپیہ کے صحیح مصرف کا علم نہیں تم ہی بتاؤ کہ روپیہ کس طرح خرچ کروں؟ اور باوجود اس کے کہ ہم نے اُس کی فطرت میں نیکی اور حسن سلوک کے مادے رکھ دیئے تھے، ہم نے خدا کی محبت اُس کی فطرت میں رکھ دی تھی اور ہم نے بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے کا مادہ بھی اُس کی فطرت میں رکھ دیا تھا فَلَا اقْتَحَمَ العقبة مگر ان تمام باتوں کے باوجود وہ اس گھائی پر نہیں چڑھا اور چڑھائی پر چڑھنا اس کے لئے مشکل ہو گیا.جیسے موٹا آدمی پہاڑ کی چوٹی پر نہیں چڑھ سکتا اور راستہ میں ہی تھک کر بیٹھ جاتا ہے.یہ بھی گھائی کو عبور نہ کر سکا اور نام ونمود پر ہی اپنے روپیہ کو برباد کر تا رہا.اس قسم کے بیہودہ اور لغو کاموں پر روپیہ برباد کرنے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں.مثلاً بعض عیاش اُمراء کنچینیوں کے ناچ پر ہزاروں روپیہ برباد کر دیتے ہیں.بعض کو روپیہ صرف کرنے کا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو وہ مشاعرہ کی مجلس منعقد کر کے روپیہ ضائع کر دیتے ہیں.اُن کے پڑوس میں ایک بیوہ عورت ساری رات اپنے بھوکے بچوں کو سینہ سے چمٹائے پڑی رہتی ہے وہ بھوک سے بلبلاتے اور چیختے چلاتے ہیں مگر اُسے اُن یتیم بچوں کو کچھ کھلانے کی توفیق نہیں ملتی اور ہزار ہزار روپیہ مشاعرہ پر بر باد کر دیتا ہے.محض اس لئے

Page 30

کہ لوگوں میں شہرت ہو کہ فلاں رئیس نے یہ مشاعرہ کروایا ہے.فرماتا ہے یہ روپیہ کا خرچ کرنا نہیں بلکہ اُسے ضائع اور برباد کرنا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ تمہیں کچھ معلوم ہے کہ چوٹی پر چڑھنے کا کیا مطلب ہے یعنی ہم نے جو یہ کہا ہے کہ وہ چوٹی پر نہیں چڑھا تو تم نہیں سمجھ سکے ہو گے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ہمارا کیا مطلب ہے.فَكُ رَقَبَةٍ ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ غلام جو بنی نوع انسان کے قبضہ میں ہیں جو اپنے باپوں اور اپنی ماؤں اور اپنے بھائیوں اور اپنی بہنوں سے جدا ہیں کیا اس کے دل میں یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ ان کو آزاد کرے اور انہیں بھی آزادانہ زندگی کی فضا میں سانس لینے دے.او إِطْعَامُ فِي يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ یا بجائے اس کے سوسو دو دوسو اونٹ ایک ایک دن میں ذبح کرتا اور اُمراء کو ملا کر اُن کی ایک شاندار دعوت کر دیتا.کیوں اس نے ایسا نہ کیا کہ وہ غرباء اور مساکین کو کھانا کھلاتا.فِي يَوْمٍ ذى مَسْغَبَةٍ قحط کے دنوں میں جب کہ غرباء کو غلہ کی شدید تکلیف ہوتی ہے اور اُن میں سے اکثر فاقہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.یا سردی کے دنوں میں جبکہ غلہ میں کمی آجاتی ہے اُس کا فرض تھا کہ وہ غرباء کی خبر گیری کرتا ، بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہنگوں کو کپڑے دیتا اور اس طرح اپنے مال کو جائز طور پر صحیح مقام پر خرچ کرتا مگر اُس نے ایسا تو نہ کیا اور ایک ایک دن میں سوسود ودوسو اونٹ ذبح کر کے بڑے بڑے امراء کو کھانا کھلا دیا.محض اس لئے کہ اُس کی شہرت ہو اور لوگوں میں یہ بات مشہور ہو کہ وہ بڑا مالدار ہے يتيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ قتیموں ہی کو کھانا کھلا دیتا بجائے اس کے کہ دعوتوں پر یہ روپیه بر باد کرتا یا جوئے بازی اور مختلف کھیل تماشوں پر اپنی دولت کو ضائع کرتا.اگر اس کے دل میں غرباء کا سچا درد ہوتا ، اگر اس کے دل میں یتامی کی خبر گیری کا صحیح احساس ہوتا تو 25

Page 31

اُسے چاہئے تھا کہ اپنے روپیہ کو بجائے ضائع کرنے کے يَّتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ قرابت والے یتیم کو کھانا کھلاتا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی قرابت والے یتیم کو وہ کھانا کھلاتا کیونکہ اپنے قرابت دار یتیم کو تو بہت سے بخیل بھی کھانا کھلا دیا کرتے ہیں.بلکہ مطلب یہ ہے کہ یتیم دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ یتیم ہوتا ہے جس کا کوئی رشتہ دار موجود نہیں ہوتا اُسے دیکھ کر بعض دفعہ سنگدل سے سنگدل انسان کے دل میں رحم کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ اُسے کھانا کھلا دیتا ہے مگر ایک یتیم ایسا ہوتا ہے جس کے بھائی موجود ہوتے ہیں، جس کی بہنیں موجود ہوتی ہیں، جس کے چچا اور دوسرے رشتہ دار موجود ہوتے ہیں لوگ ایسے یتیموں کی طرف کم توجہ کرتے ہیں اس لئے فرماتا ہے اگر کوئی ایسا یتیم ہو جس کے اپنے رشتہ دار موجود ہوں تب بھی اُس کے دل میں اتنا درد ہونا چاہئے تھا کہ وہ اس یتیم کو دیکھ کر سمجھتا کہ یہ یتیم میرا ہے اُن کا نہیں.باوجود اس کے کہ اس کے اپنے رشتہ دار موجود ہوتے اس کے دل میں یتیم کی اپنی محبت ہوتی کہ وہ سمجھتا کہ میں ہی اس کا نگران اور پرسانِ حال ہوں وہ اس کے نگران نہیں ہیں.أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ یا اُس نے کیوں ایسے مسکین کو کھانا نہ کھلایا جوذَا مَتْرَبَةٍ تھا یعنی اپنی کمزوری اور ضعف کی وجہ سے پروٹسٹ اور احتجاج بھی نہیں کر سکتا تھا، کسی کے گھر پر دستک بھی نہیں دے سکتا تھا، بلکہ ایسا تھا جیسے مٹی پر گری پڑی کوئی چیز ہو.دنیا میں بعض ایسے مساکین ہوتے ہیں جولوگوں کے دروازوں پر پہنچ کر اپنی غربت اور مسکنت کا حال بیان کرتے اور اُن سے امداد کے طالب ہوتے ہیں.بعض ایسے ہوتے ہیں جو دروازوں پر پہنچ کر خوب شور مچاتے اور آخر گھر والوں سے کچھ نہ کچھ لے کر اگلے دروازہ پر جاتے ہیں اور بعض ایسے مسکین ہوتے ہیں جن کو اگر کچھ دیا نہ جائے تو وہ دروازے سے ہلتے ہی نہیں.ایسے مساکین کو خر گدا کہا جاتا ہے.پھر کئی ایسے مسکین بھی 26

Page 32

ہوتے ہیں جو باقاعدہ پروٹسٹ کرتے ہیں.مظاہرے کرتے ہیں اور وفد بنا بنا کر حکومت کے پاس پہنچتے ہیں یا امراء کے پاس جاتے ہیں اور اُن سے امداد کے طالب ہوتے ہیں.ایسے مساکین کو تو لوگ پھر بھی کچھ دے ہی دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم تو تم سے اس قدر ہمدردی اور محبت کی امید رکھتے تھے کہ وہ مسکین جومٹی پر گرا پڑا ہے، جو جنگل میں اکیلا بے کس اور بے بس پڑا ہے جس میں مظاہرہ کرنے کی بھی ہمت نہیں ، جس میں کسی کے دروازے تک پہنچنے کی بھی طاقت نہیں، نہ وہ ٹریڈ یونین کا ممبر ہے نہ کسی اور ایسی مجلس کا جو اپنے حقوق کیلئے شور مچاتی ہے، وہ بیمار، کمز ور ور نحیف الگ ایک گوشتی تنہائی میں پڑا ہوا ہے، اُس کا دنیا میں کوئی سہارا نہیں، معاش کا اُس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ، وہ بے بس اور بیکس نہایت کس مپرسی کی حالت میں پڑا ہوا ہے اور وہ اپنے اندر اتنی طاقت بھی نہیں رکھتا کہ کسی کے دروازہ پر چل کر جا سکے تمہارا فرض تھا کہ تم اُس سہارے کے محتاج کے پاس جاتے اور اُس خاک مذلت پر پڑے ہوئے مسکین کی خبر گیری کرتے ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا پھر یہ شخص اپنی ہمدردی اور اپنی محبت اور اپنے حسن سلوک میں اس قدر ترقی کرتا کہ جب وہ یہ سب کچھ کر چکتا تو ہم اُس سے یہ امید رکھتے کہ وہ یہ نہ کہتا کہ میں نے فلاں غریب کی پرورش کی، میں نے فلاں مسکین کی خبر گیری کی ، بلکہ وہ خدا کے حضور نہایت عجز اور انکسار کے ساتھ یہ عرض کرتا کہ اے میرے رب ! میں نے تیرے حکم کو پورا کرنے کی کس قدر کوشش کی ہے.مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس حکم کو صحیح طور پر ادا بھی کیا ہے یا نہیں.گویا بجائے احسان جتانے کے تم مومن بنتے اور سمجھتے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے کسی پر احسان نہیں کیا.اپنے مہربان آقا کے حکم کو پورا کیا ہے اور وہ بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اس کے عائد کردہ فرض کو صحیح طور پر ادا بھی کیا ہے یا نہیں وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ پھر اس سے بھی ترقی کر 27

Page 33

کے تم ملک کی مصیبتوں کے اپنے آپ کو ذمہ دار بناتے.یہی نہیں کہ خود تو عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے اور غرباء تکالیف میں دن گزار دیتے.جیسے آج کل کنٹرول کی وجہ سے امراء تو چیزیں لے جاتے ہیں مگر غرباء رہ جاتے ہیں.اور پھر یہی نہیں کہ تم قربانی کر کے غرباء کی مدد کرتے بلکہ اس سے بڑھ کر ہم تم سے یہ امید کرتے تھے کہ تم اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بھی اس راہ پر چلانے کی کوشش کرتے اور تمام کے تمام افراد ملک مل کر ملک کی بہتری کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے کو سہارا دیتے.پھر فرماتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہم یہ چاہتے تھے کہ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ یعنی سب نیکیاں کر کے پھر بھی سمجھتے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا اور ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہتے کہ اور زیادہ غریبوں اور کمزوروں پر رحم کرو اور اُن سے محبت کرو اور یہ نصیحت مرتے دم تک جاری رہتی.یہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ کی تعلیم ہے جب قرآن کریم کے نزول کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا، جب تفصیلی احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابھی نازل نہیں ہوئے تھے اور جب مکہ والے بھی ابھی اسلام سے پورے طور پر واقف نہیں ہوئے تھے.سر میور کے نزد یک رسول کریم صلی یا یتیم کے یہ وہ ابتدائی خیالات ہیں جن سے متاثر ہو کر آپ نے نَعُوذُ بِاللہ نبوت کا دعویٰ کیا اور ہمارے نزدیک یہ وہ ابتدائی الہامات ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقرا کا حکم ہوا تھا کہ جاؤ اور لوگوں کو ان کا قائل بناؤ.بہرحال اسلام کی بنیاد کے وقت کی یہ تعلیم صاف طور پر بتارہی ہے کہ اسلام نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ جہاں اسلام فرد کی آزادی اور اُس کی شخصی ترقی کے لئے جدو جہد کو جائز رکھتا ہے وہاں وہ اس امر کی بھی اجازت نہیں دے سکتا کہ کچھ لوگ تو عیش و آرام کی زندگی بسر کریں اور کچھ لوگ تکلیف اور دُکھ کی زندگی بسر کریں.28

Page 34

اسلام کا اقتصاد غلامی اسلام کا عدم مساوات کو روکنا یہ امر یا در رکھنا چاہئے کہ غیر طبعی اور غیر مساوی سلوک جو دنیا میں شروع زمانہ سے چلا آتا تھا اور جسے اسلام نے قطعا روک دیا اُس کی بڑی وجہ غلامی تھی.آجکل کے لوگ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ دنیا کی اقتصادیات کا غلامی کے ساتھ کیا تعلق ہے.مگر درحقیقت غلامی اور اقتصادیات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غلامی کو بالکل روک دیا.اسلام سے پہلے بلکہ ظہور اسلام کے بعد بھی دنیا کے ایک بڑے حصے میں غلامی کا طریق رائج رہا ہے.چنانچہ آپ رومن، یونانی، مصری اور ایرانی تاریخ کو پڑھ کر دیکھ لیں آپ کو ان میں سے ہر ملک کی ترقی کی بنیاد غلامی پر رکھی ہوئی نظر آئے گی.یہ غلام دو طرح بنائے جاتے تھے.ایک طریق تو یہ تھا کہ ہمسایہ قو میں جن سے جنگ ہوتی تھی اُن کے افراد کو جہاں اکا دُکا نظر آئے پکڑ کر لے جاتے اور انہیں غلام بنا لیتے.چنانچہ رومی لوگ ایرانیوں کو پکڑ کر لے جاتے اور ایرانیوں کو موقع ملتا تو وہ رومیوں کو پکڑ کر لے جاتے اور سمجھتے کہ اس طرح ہم نے دوسرے ملک کو سیاسی لحاظ سے نقصان پہنچایا ہے.دوسرا طریق یہ تھا کہ لوگ غیر مہذب ہمسایہ اقوام کی عورتیں ، ان کے بچے پکڑ کر لے جاتے اور اُنہیں اپنی غلامی میں رکھتے.اوّل الذکر جب موقع ملے اور ثانی الذکر طریق بطور دستور ان میں جاری تھا.بلکہ یہ طریق اٹھارویں صدی تک دُنیا میں رائج رہا ہے.چنانچہ مغربی افریقہ سے لاکھوں غلام یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ میں لے جائے گئے جو اب تک وہاں موجود ہیں اور گواب وہ آزاد ہو چکے ہیں مگر دو تین کروڑ باشندے اب بھی امریکہ میں ایسے موجود ہیں جو 29

Page 35

اسلام کا اقتصادی نظا مغربی افریقہ سے بطور غلام وہاں پہنچائے گئے تھے.متمدن اقوام کی غرض اس سے یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے ملک کی دولت کو بڑھائیں.چنانچہ ان غلاموں سے کئی قسم کے کام لئے جاتے تھے.کہیں اُن کو کارخانوں میں لگا دیا جاتا تھا، کہیں جہازوں کا کام اُن کے سپر د کر دیا جاتا تھا اس طرح محنت و مشقت کے سب کام جو قومی ترقی کے لئے ضروری ہوتے تھے وہ اُن غلاموں سے لئے جاتے تھے.مثلا سستی چیزیں پیدا کرنا اور زیادہ نفع کما نا مقصود ہوتا تو ان غلاموں کو زمینوں کی آب پاشی اور فصلوں کی کاشت اور نگرانی پر مقرر کر دیا جاتا.اسلام میں جنگی قیدیوں کے علاوہ غلام بنانے کی ممانعت غرض اس طریق سے ایک طرف تو بنی نوع انسان کے ایک حصہ کو مساوات سے محروم کیا جاتا تھا.قرآن کریم نے اِن دونوں طریقوں کو قطعا روک دیا ہے چنانچہ فرماتا ہے.ما كَانَ لِنَبِي أَنْ يَكُونَ لَةَ أَسْرَى حَتَّى يُفْخِنَ فِي الْأَرْضِ طَ تُرِيدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللهُ يُرِيدُ الْأَخِرَةَ وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ فرماتا ہے ہم نے کسی نبی کیلئے نہ پہلے یہ جائز رکھا ہے اور نہ تمہارے لئے جائز ہے کہ بغیر اس کے کہ کسی حکومت سے با قاعدہ لڑائی ہو اُن کے افراد کو غلام بنالیا جائے.اگر کسی حکومت سے جنگ ہو اور جنگ بھی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی تو عین میدانِ جنگ میں قیدی پکڑے جاسکتے ہیں اور اس کی ہماری طرف سے اجازت ہے لیکن تمہیں یہ حق نہیں کہ بغیر کسی مذہبی جنگ کے دوسری قوم کے افراد کو قیدی بناؤ.یا میدانِ جنگ میں تو نہ پکڑ ولیکن بعد میں اُن کو گر فتار کر کے قیدی بنالو.قیدی بنانا صرف اس صورت میں جائز ہے جب کسی قوم سے با قاعدہ جنگ ہو اور عین میدانِ جنگ میں دشمن قوم کے افراد کو بطور جنگی قیدی گرفتار کر لیا جائے.گویا وہ قوم جس کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں ہوا اُس کے افراد کو پکڑنا جائز نہیں ہے.اس طرح وہ قوم جس سے جنگ ہو اُس 30

Page 36

کے افراد کو بھی میدانِ جنگ کے علاوہ کسی جگہ سے بعد میں پکڑ نا جائز نہیں ہے.صرف لڑائی کے دوران میں لڑنے والے سپاہیوں کو یا ان کو جو لڑنے والے سپاہیوں کی مدد کر رہے ہوں پکڑ لیا جائے تو جائز ہوگا کیونکہ اگر اُن کو چھوڑ دیا جائے تو وہ بعد میں دوسرے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں پھر فرماتا ہے تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا اے مسلمانو! کیا تم دوسرے لوگوں کی طرح یہ چاہتے ہو کہ تم غیر اقوام کے افراد کو پکڑ کر اپنی طاقت اور قوت کو بڑھا لو وَاللهُ يُرِيدُ الآخِرَةَ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم دنیا کے پیچھے چلو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں اُن احکام پر چلائے جو انجام کے لحاظ سے تمہارے لئے بہتر ہوں اور اگلے جہان میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کا مستحق بنانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور انجام کے خوشگوار ہونے کے لحاظ سے یہی حکم تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم سوائے جنگی قیدیوں کو جنہیں دورانِ جنگ میں گرفتار کیا گیا ہو اور کسی کو قیدی مت بناؤ گویا جنگی قیدیوں کے سوا اسلام میں کسی قسم کے قیدی بنانے جائز نہیں.اس حکم پر شروع اسلام میں اس سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک دفعہ یمن کے لوگوں کا ایک وفد آپ کے پاس آیا اور اُس نے شکایت کی کہ اسلام سے پہلے ہم کو مسیحیوں نے ہلا کسی جنگ کے یونہی زور سے غلام بنالیا تھا ورنہ ہم آزاد قبیلہ تھے ہمیں اس غلامی سے آزاد کرایا جائے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گو یہ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے مگر پھر بھی میں اس کی تحقیقات کروں گا.اگر تمہاری بات درست ثابت ہوئی تو تمہیں فوراً آزاد کرا دیا جائیگا.لیکن اس کے برخلاف جیسا کہ بتایا جاچکا ہے یورپ اپنی تجارتوں اور زراعتوں کے فروغ کے لئے اُنیسویں صدی کے شروع تک غلامی کو جاری رکھتا چلا گیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی تاریخ سے ایک غیر اسلامی غلامی کا بھی پتہ لگتا ہے مگر پھر بھی 31

Page 37

غلاموں کے ذریعہ سے ملکی طور پر تجارتی یا نعتی ترقی کرنے کا کہیں پتہ نہیں چلتا.اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدیوں کی رہائی اب رہے جنگی قیدی.سوان کے بارے میں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ إِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء یعنی جب لڑائی میں تمہارے پاس قیدی آئیں تو تمہارے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ آب ہمیں ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے سویا درکھو ہمارا حکم یہ ہے کہ إِمَّا مَنَّا بعد یا تو احسان کر کے انہیں بلا کسی تاوان کے آزاد کر دو و إنما فداء یا پھر تاوان لے کر انہیں رہا کر دو.اِن دوصورتوں کے سوا کوئی اور صورت تمہارے لئے جائز نہیں.بہر حال تمہارا فرض ہے کہ تم ان دو میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرلو.یا تو یونہی احسان کر کے اُن کو رہا کر دو اور سمجھ لو کہ تمہارے اس فعل کے بدلہ میں خدا تعالیٰ تم سے خوش ہوگا اور اگر تم اقتصادی مشکلات کی وجہ سے احسان نہیں کر سکتے تو وہ تاوان جو عام طور پر حکومتیں وصول کیا کرتی ہیں وہ تاوان لے کر قیدیوں کو رہا کر دو.لیکن چونکہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ ایک شخص فدیہ دینے کی طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہو اور حکومت یا اُس کے رشتہ دار بھی اُس کو چھڑانے کی کوئی کوشش نہ کریں اور اس کے ساتھ ہی قیدی کے نگر ان کی بھی یہ حالت ہو کہ وہ بغیر فدیہ کے اُسے آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اس لئے اسلام نے اس کا یہ علاج بتایا کہ وہ غلام تاوانِ جنگ کی قسطیں مقرر کر کے آزاد ہو جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَاتُوهُمْ مِنْ مَّالِ اللَّهِ الَّذِی أَتَاكُمْ یعنی اگر کوئی ایسا قیدی ہو جسے تم احسان کر کے نہ چھوڑ سکو اور اُس کے رشتہ دار بھی اس کا فدیہ نہ دے سکیں تو اس صورت میں ہماری یہ ہدایت ہے کہ اگر وہ آزاد ہونا چاہے تو وہ نگران سے کہہ دے کہ میں 32

Page 38

خودرو پیہ کما کر قسط اور فدیہ ادا کرتا چلا جاؤں گا آپ مجھے آزاد کر دیں.اگر وہ قسط اور فدیہ ادا کرنے کا اقرار کرلے تو اسلامی تعلیم کے ماتحت وہ اُسی وقت آزاد ہو جائے گا.پھر فرمایا ہم تمہیں اس کے ساتھ یہ بھی نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تمہیں تو فیق ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا ہوا ہو تو چونکہ مال خدا کا ہے اور غلام بھی خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے اس لئے تم اپنے مال میں سے ایک حصہ اُسے بطور سرمایہ دے دو تا کہ وہ اُس پر اپنے کاروبار کی بنیا درکھ کر آسانی سے قسطیں ادا کر سکے.اب بتاؤ کیا کوئی بھی صورت ایسی رہ جاتی ہے جس میں کسی کو غلام بنایا جا سکتا ہو.اتنے وسیع احکام اور اتنی غیر معمولی رعایتوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص غلامی سے آزاد ہونا پسند نہیں کرتا اور اپنی مرضی سے کسی مسلمان کے پاس رہتا ہے تو سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود اپنے گھر کے ظلموں سے بیزار ہے اور جانتا ہے کہ اگر میں آزاد ہو کر اپنے گھر گیا تو مجھے زیادہ تکلیف اُٹھانی پڑے گی اس لئے میرے لئے یہی بہتر ہے کہ اس زندگی کو ترجیح دوں.ورنہ غور کر کے دیکھ لیا جائے کوئی ایک صورت بھی ایسی نہیں رہ جاتی جس میں کسی کو غلام بنایا جا سکتا ہوں.پہلے تو یہ حکم دیا کہ تم احسان کر کے بغیر کسی تاوان کے ہی اُن کو رہا کر دو.پھر یہ کہا کہ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو تاوان وصول کر کے آزاد کر دو اور اگر کوئی شخص ایسا رہ جائے جو خود تاوان ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کی حکومت بھی اُس کے معاملہ میں کوئی دلچسپی نہ لیتی ہو اور اُس کے رشتہ دار بھی لا پرواہ ہوں تو وہ تم کو نوٹس دے کر اپنی تاوان کی قسطیں مقرر کروا سکتا ہے.ایسی صورت میں جہاں تک اُس کی کمائی کا تعلق ہے قسط چھوڑ کر سب اُسی کی ہوگی اور وہ عملاً پورے طور پر آزاد ہوگا.حضرت عمر کی شہادت ایک غلام کے ہاتھ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک ایسے غلام نے ہی مارا تھا جس نے مکاتبت کی ہوئی...33

Page 39

تھی.وہ غلام جس مسلمان کے پاس رہتا تھا اُن سے ایک دن اُس نے کہا کہ میری اتنی حیثیت ہے آپ مجھ پر تاوان ڈال دیں میں ماہوار اقساط کے ذریعہ آہستہ آہستہ تمام تاوان ادا کر دونگا.انہوں نے ایک معمولی سی قسط مقرر کر دی اور وہ ادا کرتا رہا.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اُس نے شکایت کی کہ میرے مالک نے مجھ پر بھاری قسط مقرر کر رکھی ہے آپ اُسے کم کرا دیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس کی آمدن کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جتنی آمد کے اندازہ پر قسط مقرر ہوئی تھی اُس سے کئی گنا زیادہ آمد وہ پیدا کرتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ اس قدر آمد کے مقابلہ میں تمہاری قسط بہت معمولی ہے اسے کم نہیں کیا جاسکتا.اس فیصلہ سے اُسے سخت غصہ آیا اور اُس نے سمجھا کہ میں چونکہ ایرانی ہوں اس لئے میرے خلاف فیصلہ کیا گیا ہے اور میرے مالک کا عرب ہونے کی وجہ سے لحاظ کیا گیا ہے.چنانچہ اس غصہ میں اُس نے دوسرے ہی دن خنجر سے آپ پر حملہ کر دیا اور آپ انہی زخموں کے نتیجہ میں شہید ہو گئے.غرض اسلام نے یہ حق مقرر کیا ہوا تھا کہ اگر کوئی غلام آزاد ہونا چاہے تو وہ قسط وار تاوان کو ادا کرنا شروع کر دے اور اگر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی کام شروع کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں اتُوهُم مِّنْ مَّالِ اللَّهِ الَّذِي أَتَاكُمْ کا حکم تھا یعنی مالک خود مددکر کے یا حکومت مسلمہ مدد کر کے اُسے آزادی کا معاہدہ کروادے.جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک کی تعلیم کام کے بارہ میں یہ ہدایت دی کہ جب تک وہ گھر میں رہے اُس سے وہی کام لوجودہ کر سکتا ہو.اگر کوئی مشکل کام ہو تو اُس کے ساتھ شامل ہو جاؤ اُسے گالی نہ دو.اگر وہ مزدوری کرتا ہے تو اُس کی مزدوری اُسے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو.اگر کام کرنے 34

Page 40

والا آزاد ہے اور مالک اُسے مار بیٹھتا ہے تو وہ حق رکھتا ہے کہ عدالت میں جائے اور قصاص کا مطالبہ کر کے اسلامی قضاء سے اُسے سزا دلوائے.یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو میرا نوکر تھا اور مجھے اس کو پیٹنے کا حق تھا.اسلام اس قسم کے حق کو تسلیم نہیں کرتا.وہ نوکر کو اجازت دیتا ہے کہ اگر اسے پیٹا جائے تو قضاء میں اپنے مالک کے خلاف دعوی دائر کرے اور اُسے سزا دلوائے.اور اگر وہ آزاد نہیں بلکہ غلام ہے تو اگر وہ اُسے ایک تھپڑ بھی مار بیٹھے تو اسلامی حکومت کو حکم ہے کہ وہ اُسے فوراً آزاد کرا دے اور نگران سے کہے کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ کسی قیدی کو اپنے پاس رکھ سکو.پھر حکم دیا کہ جو کچھ خود کھاؤ وہ اپنے غلاموں کو کھلا ؤ، جو خود پہنو وہی اُن کو پہناؤ.یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زمانہ میں کئی غلام اپنے گھروں کو واپس جانا پسند ہی نہیں کرتے تھے.وہ جانتے تھے کہ اگر ہم گھر گئے تو ہمیں دال بھی نصیب نہیں ہوگی مگر یہاں تو ہمیں روزانہ اچھا کھانا کھانے کو ملتا ہے اور پھر مالک کی یہ حالت ہے کہ وہ پہلے ہمیں کھلاتا ہے اور بعد میں آپ کھاتا ہے.ایسے مزے ہمیں اپنے گھروں میں کہاں میسر آسکتے ہیں.چنانچہ جب مسلمان بادشاہ بنے اور حکومت اُن کے ہاتھ میں آئی تو وہ غلاموں کو اپنے گھروں سے نکالتے بھی تھے تو وہ نہیں نکلتے تھے.وہ کہتے تھے فدیہ دو اور آزاد ہو جاؤ مگر وہ فدیہ نہ دیتے.وہ کہتے تھے اگر فدیہ نہیں دے سکتے تو ہم سے قسطیں مقرر کر لو اور آزاد ہو جاؤ مگر وہ قسطیں بھی مقرر نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم آزاد ہوکر واپس چلے گئے تو پھر وہ مزے ہمیں حاصل نہیں ہوں گے جواب حاصل ہیں.ایسی صورت میں اگر کچھ لوگ غلام بھی رہے ہوں تو دنیا کو ایسی غلامی پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے.غلامی اور اقتصادیات یہ غلامی کا مضمون نہیں لیکن دنیا کی لمبی تاریخ میں غلامی اور ملکوں کے اقتصادی نظام 35

Page 41

آپس میں ملے چلے آتے ہیں.روس میں سائبیریا کی آبادی غلاموں یا سیاسی قیدیوں ہی کی رہین منت تھی.اسی طرح امریکہ کی آبادی غلاموں یا سیاسی قیدیوں ہی کی رہین منت تھی.وہ اپنے علاقوں کو کبھی خود آباد نہیں کر سکتے تھے.لاکھوں لاکھ غلام وہ مغربی افریقہ سے لائے اور وہ امریکہ کے بے آباد علاقوں کو آباد کر گئے.آج امریکہ اپنی دولت پر نازاں ہے، اپنی تجارت اور اپنی صنعت پر نازاں ہے مگر امریکہ کی یہ دولت اور امریکہ کی آبادی رہین منت ہے اُن حبشی غلاموں کی جن کو وہ مغربی افریقہ سے پکڑ کر لائے.اسی طرح یونان اور روما کی تاریخ بتاتی ہے کہ اُن کی آبادی بھی غلاموں کی خدمات کی رہین منت ہے ، مصر کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اس کی آبادی غلاموں کی خدمات کی وجہ سے ہوئی.فرانس اور سپین کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اُن کی ترقی اُن خدمات کی رہین منت تھی جو آج سے دو تین سو سال پہلے اُن ممالک میں غلاموں نے سر انجام دیں اور جنہوں نے اُن کی اقتصادی حالت کو ترقی دے کر کہیں سے کہیں پہنچادیا.پس غلامی اور اقتصادی مسائل چونکہ باہم لازم وملزوم ہیں اس لئے میں نے بتایا ہے کہ اسلام کا نظام کیسا کامل ہے کہ اُس نے شروع سے ہی غلامی پر تبررکھ دیا اور کہہ دیا کہ اس کے ذریعہ جو ترقی ہوگی وہ کبھی شریفانہ اور باعزت ترقی نہیں کہلا سکتی.36

Page 42

اسلام کا اقتصادی عام اقتصادی نظام اقتصادی نظام کے متعلق دو قسم کے نظریے اب میں عام اقتصادی نظام کو لیتا ہوں لیکن اس مضمون کو بیان کرنے سے پہلے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ مذاہب جو حیات مابعد الموت کے قائل ہیں اقتصادی نظام کے بارہ میں انفرادی آزادی کے قیام کے پابند ہیں.در حقیقت دنیا میں دو قسم کی قو میں پائی جاتی ہیں.ایک وہ ہیں جو مذہبی ہیں اور دوسری وہ ہیں جو لا مذہب ہیں.جو اقوام لا مذہب ہیں وہ تو ہر قسم کے نظام کو جو اُن کی عقل میں آجائے تسلیم کر سکتی ہیں لیکن وہ اقوام جو مذہب کو قبول کرتی ہیں وہ اصرار کریں گی کہ دنیا میں ایسا ہی نظام ہونا چاہئے جو مرنے کے بعد کی زندگی پر اثر انداز نہ ہوتا ہو.اس نقطہ نگاہ کے ماتحت وہ مذاہب جو حیات بعد الموت کے قائل ہیں لازماً اقتصادی نظام کے بارہ میں انفرادی آزادی کے قیام کے پابند ہوں گے کیونکہ جو لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کو زندہ کیا جائے گا وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جو لوگ نیک اعمال بجالائیں گے انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا ، اللہ تعالیٰ کا قرب ان کو حاصل ہوگا ، خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی اُن کے شامل حال ہوگی، اُس کی قدوسیت اور سبوحیت اُنہیں ڈھانپے ہوئے ہوگی ، وہ مقربانِ الہی میں شامل ہوں گے، ہر قسم کے اعلیٰ روحانی علوم اُن کو حاصل ہوں گے اور دنیا کی سب کمزوریاں دُور ہو کر علم وعرفان کا کمال اُن کو حاصل ہوگا.یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی شخص کہہ دے یہ عقیدہ بالکل غلط ہے، جھوٹ ہے، وہم ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں لیکن بہر حال جو شخص یقین رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی ہمیں ملنے والی ہے 37

Page 43

وہ لازماً اس دنیا میں ایسے ہی اعمال بجالائے گا جو اُس کے نزدیک اگلے جہان کی زندگی میں اُس کے کام آنے والے ہوں.وہ کبھی اِس مادی دنیا کے فوائد پر اخروی زندگی کے فوائد کو قربان نہیں کرسکتا کیونکہ اس دنیا کے فوائد تو پچاس ساٹھ یا سوسال تک حاصل ہو سکتے ہیں مگر اگلے جہان کی زندگی بعض اقوام کے نزدیک کروڑوں اور اربوں سال تک اور بعض کے نزدیک دائی ہے.یعنی وہ زندگی کبھی ختم ہونے والی نہیں.پس اگر یہ دونوں زندگیاں آپس میں تسلسل رکھتی ہیں، اگر یہ دنیا ہماری ایک منزل ہے آخری مقام نہیں ہے تو لازماً ہر شخص جو حیات بعد الموت کا قائل ہے وہ اُخروی زندگی کے لمبے سفر کے فوائد کو ترجیح دے گا اور اس دنیا کے چھوٹے سفر کے فوائد کو اگر وہ اُس کی اُخروی ترقی کے راستہ میں حائل ہوں قربان کر دے گا.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مذاہب جو اگلی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اُن کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ دنیا میں جو طوعی نیک کام کئے جاتے ہیں انہی پر اگلی زندگی کے اچھے یا بُرے ہونے کا دارو مدار ہے.چنانچہ جتنے لوگ اُخروی حیات کے قائل ہیں وہ سب کے سب اس دنیا کو دار المزرعہ سمجھتے ہیں.جس طرح ایک وقت کھیتی میں بیج بونے کا ہوتا ہے اور دوسرا وقت اُس بیچ سے پیدا شدہ فصل کو کاٹنے کا ہوتا ہے اور عقلمند زمینداروہی چیز ہوتا ہے جس کو وقت پر کاٹنے کی وہ خواہش رکھتا ہے اسی طرح جو شخص اس زندگی کو اگلے جہان کی زندگی کا ایک تسلسل سمجھتا ہے جو اس دنیا کو عالم مزرعہ قرار دیتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس جہان کے اعمال اگلی زندگی میں میرے کام آئیں گے وہ لازماً اس جہان کی کھیتی میں وہی جنس بوئے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہوگا کہ اگلے جہاں میں وہ جنس میرے کام آئے گی.آب خواہ آپ لوگ ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو پاگل کہیں ، دیوانہ کہیں ، جاہل کہیں بہر حال جو شخص مانتا ہے کہ مرنے کے بعد پھر ایک نئی زندگی بنی نوع انسان کو حاصل ہوگی وہ 38

Page 44

سلام کا اقتصادی نظام لازماً اس دنیا کی زندگی کو تابع کرے گا اگلے جہان کی زندگی کے.اور چونکہ اس دنیا کے ایسے ہی کاموں پر اگلے جہان کی زندگی کا مدار ہے جو اپنی خوشی اور مرضی سے طوعی طور پر کئے جائیں اس لئے لازما وہ وہی اقتصادی نظام پسند کرے گا جس میں اقتصادی طور پر ایک وسیع دائرہ میں افراد کو آزادی دی گئی ہو کیونکہ اگر آزادی نہ دی گئی ہو تو جن کاموں کو وہ نیک سمجھتا ہے، جن کاموں کو اختیار کرنا وہ اپنی اُخروی حیات کے لئے ضروری قرار دیتا ہے اُن میں اُس کا دائرہ عمل وسیع نہیں ہوگا اور وہ سمجھے گا کہ دائر کا عمل کے تنگ ہونے کی وجہ سے میں گھاٹے میں رہوں گا.گویا مَا بَعْدَ الْمَوت اعلیٰ زندگی کا دارو مدار ہے اس دنیا کے طوعی نیک کاموں پر ، اور طوعی نیک کاموں کا مدار اقتصادی حریت پر ہے.اگر اقتصادی طور پر افراد کو ایک وسیع دائرہ میں آزادی نہ دی جائے تو طوعی نیک کاموں کا سلسلہ اور اخلاق فاضلہ کی وسعت بند اور محدود ہو جاتی ہے اور انسان اپنے آپ کو گھاٹے میں سمجھتا ہے.پس جو مذہب مرنے کے بعد کی زندگی کا قائل ہے اور اس دنیا کو عالم مزرعہ سمجھتا ہے وہ پابند ہے اِس کا کہ سوائے اشد مجبوری کی حالتوں کے انفرادی آزادی کو اقتصادیات میں قائم رکھے.میں انفرادی آزادی کو ملحوظ رکھنا اس مسئلہ کو خوب ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اسلام سب سے زیادہ حیات بعد الموت کا قائل ہے اس لئے اسلام مصر ہے اس بات پر کہ اقتصادیات میں انفرادی آزادی کو زیادہ سے زیادہ قائم رکھا جائے کیونکہ وہ جتنا زیادہ آزاد ہو گا اُسی قدر زیادہ اپنی مرضی سے کام کر کے اگلے جہان کی زندگی کو سدھار سکے گا.اگر زندگی کے ہر پہلو کو مختلف قسم کے جالوں میں جکڑ دیا گیا تو وہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکے گا اور جب کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکے گا تو اُسے اگلے جہان میں کسی ثواب کی بھی امید نہیں ہو سکے گی کیونکہ ثواب ملتا ہے 39

Page 45

طوعی نیک کاموں پر.اگر ایک شخص جبر کے ماتحت کوئی کام کرتا ہے تو گو وہ کام کیسا ہی اچھا ہو جب اگلے جہان میں اعمال کی جزاء کا وقت آئے گا تو اُسے کہا جائے گا کہ یہ کام تم نے نہیں کیا لینن نے کیا ہے، یہ کام تم نے نہیں کیا سٹالن نے کیا ہے، یہ کام تم نے نہیں کیا انگریزوں نے کیا ہے.غرض جتنے کام انسان جبر کے ماتحت کرتا ہے اُس میں وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہوتا.پس ایک سچے مسلمان کو جو اپنے مذہب کی بنیاد کو مجھتا ہے حریت شخصی کے مٹادینے کا قائل کرنا ناممکن ہے.اُسی صورت میں وہ اس امر کو تسلیم کرے گا جب وہ اپنے مذہب کی بنیاد کا ہی انکار کر دے گا.یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک شخص جو مسلمان کہلا تا ہو وہ اسلام کی تعلیم سے بدظن ہو جائے اور وہ اُس تعلیم کا قائل ہی نہ رہے جو اسلام نے اقتصادیات کے متعلق دی ہے مگر جو شخص اسلام کی تعلیم پر یقین رکھتا ہو جو اُس کے اقتصادی نظریات کو جز و ایمان قرار دیتا ہو وہ کبھی بھی حریت شخصی کو اصولی طور پر مٹادینے کا قائل نہیں ہوسکتا.اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیاد دو اصولوں پر ان حالات میں یہ امر آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر اسلام کوئی منصفانہ اور عادلانہ اقتصادی نظام قائم کرے گا تو اُس کی بنیاد ان دو اصولوں پر ہوگی.(۱) بنی نوع انسان میں منصفانہ تقسیم اموال اور مناسب ذرائع کسب کی تقسیم کا اصول طوعی فردی قربانی پر ہونا چاہئے تاکہ دنیا کی اقتصادی حالت بھی درست ہو اور اس کے ساتھ ہی انسان اپنی اُخروی زندگی کے لئے بھی سامان جمع کر لے.اسی لئے رسول کریم صالی ای ستم نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کے منہ میں ثواب اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی نیت سے لقمہ ڈالتا ہے وہ ایسا ہی کام کرتا ہے جیسا کہ صدقہ کرنے والا." اب دیکھو یہ فعل وہ ہے جس میں انسان کی اپنی خواہش کا دخل ہے.وہ اپنی بیوی سے 40

Page 46

محبت کرتا ہے، وہ اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے اور اُس سے محبت کرنے میں لذت حاصل کرتا ہے لیکن اگر وہ اپنی نیت کو بدل ڈالے اور بجائے اپنی محبت کے خدا تعالیٰ کے حکم اور اُس کی رضا اور خوشنودی کو محبت اور پیار کا موجب بنالے تو یہی چیز اس کے لئے ثواب کا موجب بن جائے گی.روٹی اُس کے پیٹ میں اُسی طرح جائے گی جس طرح پہلے جاتی تھی ، کپڑا اُس کی بیوی کے تن پر وہی مقصد پورا کرے گا جو مقصد وہ پہلے پورا کرتا تھا مگر اس صورت میں جب وہ خدا کے لئے اُس سے محبت کرے گا، جب وہ خدا کے لئے اُس سے پیار کرے گا نہ صرف وہ اپنی بیوی کو خوش کرے گا، نہ صرف وہ اپنے آپ کو خوش کرے گا بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی ثواب کا امیدوار ہوگا کیونکہ اُس نے یہ فعل خدا کی رضا کے لئے کیا ہوگا.(۲) دوسرا اصل اسلام کا یہ ہے کہ چونکہ اموال اللہ تعالیٰ کے ہیں اور اُس نے سب مخلوق کیلئے پیدا کئے ہیں اس لئے جو حصہ اوپر کی تدبیر سے پورا نہ کیا جا سکے اُس کیلئے قانونی طور پر تدارک کی صورت پیدا کی جائے.یعنی جو حصہ طوعی نظام سے پورا نہ ہو اور ادھورا رہ جائے اُسے قانونی طور پر مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور الہی نظام کو خراب نہیں ہونے دیا جائے گا.اسلامی اقتصاد کا لب لباب پس اسلامی اقتصاد نام ہے فردی آزادی اور حکومتی تداخل کے ایک مناسب اختلاط کا.یعنی اسلام دنیا کے سامنے جو اقتصادی نظام پیش کرتا ہے اُس میں ایک حد تک حکومت کی دخل اندازی بھی رکھی گئی ہے اور ایک حد تک افراد کو بھی آزادی دی گئی ہے ان دونوں کے مناسب اختلاط کا نام اسلامی اقتصاد ہے.فردی آزادی اس لئے رکھی گئی ہے تا کہ افراد 41

Page 47

آخرت کا سرمایہ اپنے لئے جمع کر لیں اور اُن کے اندر تسابق اور مقابلہ کی روح ترقی کرے.اور حکومت کا تداخل اس لئے رکھا گیا ہے کہ امرا کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ اپنے غریب بھائیوں کو اقتصادی طور پر تباہ کر دیں.گویا جہاں تک بنی نوع انسان کو تباہی سے محفوظ رکھنے کا سوال ہے حکومت کی دخل اندازی ضروری سمجھی گئی ہے اور جہاں تک تسابق اور اُخروی زندگی کے لئے زاد جمع کرنے کا سوال ہے حریت شخصی کو قائم رکھا گیا ہے اور فردی آزادی کو کچلنے کی بجائے اس کی پوری پوری حفاظت کی گئی ہے.پس اسلامی اقتصادیات میں فردی آزادی کی بھی پوری حفاظت کی گئی ہے تا کہ انسان طوعی خدمات کے ذریعہ سے آئندہ کی زندگی کے لئے سامان بہم پہنچا سکے اور تسابق کی رُوح ترقی پا کر ذہنی ترقی کے میدان کو ہمیشہ کیلئے وسیع کرتی چلی جائے.اور حکومت کا دخل بھی قائم رکھا گیا ہے تاکہ فرد کی کمزوری کی وجہ سے اقتصادیات کی بنیاد ظلم، بے انصافی پر قائم نہ ہو جائے اور بنی نوع انسان کے کسی حصہ کے راستہ میں روک نہ بن جائے.اس مضمون کے سمجھ لینے کے بعد یہ سمجھ لینا آسان ہے کہ اسلام خصوصاً اور دیگر مذاہب عموماً جو بعث بعد الموت کے قائل ہیں اس مسئلہ پر خالص اقتصادی نقطۂ نگاہ سے نہیں بلکہ مذہبی، اخلاقی اور اقتصادی تین نقطہائے نگاہ سے نظر کریں گے اور ان تین اصولوں کی مشترک راہنمائی سے اس کا فیصلہ کریں گے.اُن سے خالص اقتصادی نقطہ نگاہ سے نظر ڈالنے کی امید اُن کے مذہب میں تداخل کے برابر ہوگی جسے وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے.و شخص جو مذہب کو نہیں مانتا وہ تو بے شک صرف اقتصادی نقطۂ نگاہ سے اس مضمون کو دیکھے گا لیکن وہ شخص جو مذہب کو مانتا ہے وہ صرف یہ نہیں دیکھے گا کہ کس قسم کا اقتصادی نقطۂ نگاہ اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے بلکہ وہ یہ بھی چاہے گا کہ اُس کے سامنے ایک ایسا طریق عمل 42

Page 48

آجائے جو اقتصادی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو، اخلاقی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو اور مذہبی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو.اس تمہید کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اوپر کے دو اصولوں کے ماتحت اسلام نے ہر فرد کو تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ میں آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی ہے مگر اس کی آزادی کو ایسی حد بندیوں میں رکھ دیا ہے جو اُس کی جائز بلند پروازی کو روکیں بھی نہیں اور اُس کی انفرادیت کو کچلیں بھی نہیں اور پھر نا جائز آزادی کے خطرات سے بھی اُسے محفوظ کر دیں.سو یا درکھنا چاہئے کہ اقتصادی مقابلے جو دنیا میں ہوتے ہیں اُن میں مختلف قسم کی خرابیوں کے پیدا ہونے اور ظلم و بیداد کا دروازہ کھلنے کی وجہ چند خواہشات نفسانی ہوتی ہیں جو نفس انسانی میں پیدا ہوتی ہیں.اُن میں سے بعض خواہشات ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ روپیہ سمیٹنا چاہتا ہے.دنیا کی حالت خواہ کتنی ہی خراب ہو، غریب لوگ فاقہ سے مر رہے ہوں، بیوائیں روٹی کیلئے تڑپ رہی ہوں، یتیم کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہوں وہ یہی چاہتا ہے کہ میرے پاس زیادہ سے زیادہ دولت جمع ہو جائے.اس ظلم اور تعدی کے کئی محرکات ہوتے ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کون سے محرکات ہیں جو اس رُوح کے پس پردہ کام کر رہے ہوتے ہیں.دولت کمانے کے محرکات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُوَ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرُ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانُ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ 43

Page 49

اسلام کا اقتصادی : الْغُرُور یاد رکھو! دنیا کی زندگی میں جو لوگ روپیہ کمانے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی اس کوشش اور جدو جہد کے کچھ محرکات ہوتے ہیں جن کی بناء پر وہ ایسی کوشش کرتے ہیں.(۱) پہلی وجہ تو لعب ہے.اُن کے دلوں میں کھیل کود کی خواہش ہوتی ہے اور یہ کھیل کود کی خواہش اُن کے لئے روپیہ کمانے کا محرک بن جاتی ہے.لعب میں جوئے بازی، سٹہ بازی اور گھوڑ دوڑ وغیرہ سب شامل ہیں.انسان چاہتا ہے کہ میرے پاس روپیہ ہو اور میں جوا کھیلوں، روپیہ ہو اور میں سٹہ بازی کروں، روپیہ ہو اور میں گھوڑ دوڑ میں حصہ لیا کروں.یہ کھیل کود کی خواہش اُس کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح روپیہ جمع کر کے اپنی اس خواہش کو پورا کرے.(۲) دوسری وجہ لھو کی بتاتا ہے.لوگ اگر روپیہ کماتے ہیں تو اس کی ایک وجہ کھو بھی ہوتی ہے.یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس اتنی دولت ہو کہ انہیں کوئی کام نہ کرنا پڑے سارا دن شست اور بریکار بیٹھے رہیں یا تاش، گنجفہ اور شراب وغیرہ میں اپنا وقت گزار دیں.یہ چیز بھی ایسی ہے جولوگوں کے لئے مال جمع کرنے کا محرک بن جاتی ہے.(۳) تیسری وجہ جلب زر کی خواہش کی زِينَةٌ بتائی گئی ہے.یعنی انسان چاہتا ہے میرے کپڑے عمدہ ہوں ، لباس عمدہ ہو ، سواریاں عمدہ ہوں اور عمدہ عمدہ کھانے مجھے حاصل ہوں.(۴) چوتھا محرک روپیہ کمانے کا تَفَاخُرم بینَكُمْ بتایا گیا ہے.یعنی بعض لوگ اس بات کے لئے بھی روپیہ جمع کرتے ہیں کہ لوگوں میں اُن کی عزت بڑھے، وہ بڑے مالدار مشہور ہوں اور لوگوں سے کہہ سکیں کہ تم جانتے نہیں ہم کتنے امیر ہیں.میں نے دیکھا ہے یہ مرض اتنا بڑھا ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں تو بعض لوگ غلامی کے اقرار میں بھی اپنی 44

Page 50

بڑائی سمجھتے ہیں.وہ باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں آپ نہیں جانتے میں کون ہوں.میں انگریزی حکومت کا اتنا ٹیکس ادا کرنے والا ہوں.گو یا بجائے اُن کے دل میں یہ احساس پیدا ہونے کے کہ میں دوسری قوم کا ماتحت ہوں اور اُس کو ٹیکس ادا کرتا ہوں وہ اُسے فخریہ طور پر پیش کرتے ہیں کہ میں اتنا ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرتا ہوں بلکہ میں نے تو اس سے بھی زیادہ دیکھا ہے کہ بعض ہندوستانی اس پر بھی فخر کرتے ہیں کہ ”میں بڑے صاحب کا اردلی ہوں“.پس فرماتا ہے روپیہ کمانے کا ایک محرک یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں ہم دوسروں پر فخر کر سکیں، اُن پر رعب ڈال سکیں اور اُنہیں کہہ سکیں کہ ہم اتنے مالدار ہیں.تمہارا فرض ہے کہ ہماری باتیں مانو.(۵) پانچواں محرک مال زیادہ کمانے کا تَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ ہوتا ہے.یعنی محض روپیہ جمع کرنے کی خواہش بھی بعض لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روپیہ سمیٹنے پر آمادہ کر دیتی ہے.وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس دوسروں سے زیادہ روپیہ جمع ہوتا جائے.وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہمسایہ کے پاس اگر دس لاکھ روپیہ ہے تو ہمارے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو.یا اُس کے پاس اگر ایک کروڑ روپیہ ہو تو ہمارے خزانہ میں دو کروڑ روپیہ ہو.جہاں تک میں نے غور کیا ہے یہی امور دولت کمانے کے محرک ہوتے ہیں جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں.اسلام میں ناجائز اغراض کیلئے دولت کمانے کی ممانعت ان محرکات کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كَمَثَلِ غَيْبِ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ہم ان تمام امور کو اُس بادل کی طرح قرار دیتے ہیں جو آسمان پر چھا جاتا ہے اور زمیندار سمجھتا ہے کہ اب اس 45

Page 51

بادل کے برسنے سے میری کھیتی ہری بھری ہو جائے گی.ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَر الگر جب وہ بادل برستا ہے تو ایسے رنگ میں برستا ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ کھیتی ہری بھری ہو، بجائے اس کے کہ غلہ زیادہ پیدا ہو، بجائے اس کے کہ زمیندار کونفع ہو وہ کھیتی سوکھ جاتی ہے اُس کا دانہ سڑ جاتا ہے اور آخر رڈی ہو کر وہ کوڑا کرکٹ بن جاتی ہے.مثلاً زیادہ بارش ہو جاتی ہے اور کھیتی بر باد ہو جاتی ہے یا ضرورت سے کم بارش برستی ہے اور اس صورت میں بھی کھیتی کو نقصان پہنچتا ہے.وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَان اور علاوہ اس کے کہ اِن امور کا نتیجہ اس دنیا میں خراب نکلتا ہے مرنے کے بعد بھی ایسے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ ان محرکات کو دباتے ہیں اور ان کا شکار نہیں ہوتے اُن کو اللہ تعالیٰ اپنی بخشش سے ڈھانپ لیتا ہے اور اپنی رضاء اور خوشنودی سے مسرور کرتا ہے.پھر فرماتا ہے.وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ اور اس دنیا کی زندگی تو بالکل دھوکے کی زندگی ہے.جب ہمارے پاس مغفرت اور رضوان بھی ہے اور ہمارے پاس عذاب بھی ہے تو اے انسان! تو دنیا کی لغوخواہشات کی وجہ سے ہماری مغفرت اور ہماری رضوان کو کیوں نظر انداز کر رہا ہے اور کیوں اعلیٰ درجہ کی چیزوں کو چھوڑ کر ذلیل اور ادنی چیزوں کی طرف دوڑ رہا ہے.اس آیت میں قرآن کریم نے اُن محرکات و موجبات کو ذلیل اور حقیر اور مضر بتایا ہے جو دنیا کمانے کی طرف انسان کو متوجہ کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ یہ سب امور جو نا جائز دنیا کمانے کا موجب ہوتے ہیں نتیجہ کے لحاظ سے ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ عمدہ کھیتی سوکھ کر راکھ ہو جائے.یعنی جس طرح وہ کام نہیں آتی اسی طرح ایسی دولت بھی انسان کو کوئی حقیقی نفع نہیں بخشتی اس لئے تم ان اغراض کے ماتحت دولت مت کماؤ کہ یہ خدا تعالیٰ کا غضب بھڑ کانے کا موجب ہیں.جب 46

Page 52

سلام کا اقتصادی نظام اُس کے پاس فضل بھی ہے تو تم کیوں فضل کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور کیوں ان حقیر اور ذلیل خواہشات کے پیچھے چلتے ہو.اب ظاہر ہے کہ جو شخص اسلام پر عمل کرے وہ کبھی اوپر کے محرکات سے متاثر ہوکر دولت نہیں کما سکتا اور اگر اس حکم پر عمل کرتے ہوئے وہ کچھ کمائے گا بھی تو وہ نیک کاموں میں خرچ ہو جائے گا.اور اس طرح غربت و امارت کی خلیج وسیع نہ ہوگی بلکہ پائی جائے گی کیونکہ ان اغراض کے روک دینے کے بعد کوئی ایسا محرک باقی نہیں رہتا جس کی وجہ سے کوئی شخص اپنے نفس کیلئے اموال کما سکے کیونکہ مال کمانے کی تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں.(1) (r) اپنی ضرورت کے مطابق.اپنی ضرورت سے زیادہ لیکن اس لئے کہ اُس سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکے.(۳) مال اوپر کے برے محرکات کی وجہ سے کمائے.یعنی کھیل تماشے کیلئے ، عیاشی کیلئے فخر اور عزت کے لئے حرص مال کی وجہ سے.ظاہر ہے کہ آخر الذکر صورتوں میں ہی انسان ناجائز طور پر مال کمائے گا اور دوسرے انسانوں کے لئے نقصان کا موجب ہوگا.اوّل الذکر دونوں صورتوں میں یہ بات پیدا نہ ہوگی.جو شخص ضرورت کے مطابق کمائے گا وہ بھی دوسروں کے لئے نقصان کا موجب نہ ہوگا اور جو ضرورت سے زائد کمالے گا لیکن اُس مال کے کمانے کا محرک صرف خیر و نیکی میں مسابقت کی روح ہوگی اُس کا مال بھی دوسرے انسانوں کے فائدہ کے لئے خرچ ہوگا اور اس سے افراد ملک یا قوم کوکوئی نقصان نہ پہنچے گا.47

Page 53

اسلام کا اقتصادی اسلام میں دولت کے غلط استعمال کی ممانعت اب میں اس بارہ میں اسلامی احکام ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہوں کہ اسلام نے کس طرح دولت کے غلط خرچ کو روکا ہے.اول بچے مسلمان کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ، یعنی مسلمان وہی ہیں جو لغو کاموں سے بچیں.یعنی ایسے کاموں سے جن کا کوئی عقلی فائدہ نظر نہ آتا ہو.مثال کے طور پر شطرنج ہے، تاش ہے یا اور اسی قسم کی کئی کھیلیں ہیں جن سے وقت ضائع ہوتا ہے.اسلام ہر مومن کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ اس قسم کے لغو کاموں سے بچے اور شطر نج یا تاش یا اس قسم کی دوسری کھیلوں میں حصہ لے کر اپنے وقت کو ضائع نہ کرے یا مثلاً مجالس میں بیٹھ کر گپیں ہانکنا ہے یہ بھی لغو ہے.یا مثلاً بے کار زندگی بسر کرنا ہے یہ بھی لغو ہے.بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ سارا دن بے کار بیٹھے دوستوں کی مجلس میں گئیں ہانکتے رہتے ہیں اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے اوقات کا کس بے دردی کے ساتھ خون کر رہے ہیں.ایک شخص کا باپ مرجاتا ہے اور وہ اپنے پیچھے بہت بڑی جائداد چھوڑ جاتا ہے.اب لڑکے کا کام یہی رہ جاتا ہے کہ وہ سارا دن اپنے دوستوں کی مجلس میں بیٹھا رہتا ہے.ایک آتا ہے اور کہتا ہے نواب صاحب! آپ ایسے ہیں یا لالہ صاحب! آپ ایسے ہیں.یا پنڈت صاحب! آپ ایسے ہیں یا شاہ صاحب آپ ایسے ہیں.پھر دوسرا تعریف شروع کر دیتا ہے.وہ خاموش ہوتا ہے تو تیسرا اُس کی تعریف شروع کر دیتا ہے.اس طرح سارا دن یہی شغل جاری رہتا ہے کہ دوست آتے ہیں، گپیں ہانکتے ہیں اور اُس کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں یا اُسے بدراہ پر چلانے کے لئے عورتوں یا جوئے یا شراب یا اسراف کے دوسرے طریقوں کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں.اس پر وہ بھی اُن کی خوب 48

Page 54

خاطر تواضع کرتا ہے.اگر تھوڑی توفیق ہوئی تو پان الا بچی سے تواضع کر دیتا ہے اور اگر زیادہ توفیق ہوئی تو صبح شام اُن کو کھانا اپنے دستر خوان پر کھلاتا ہے.مگر اس لئے نہیں کہ وہ غریب ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ بھوکے ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ ہمدردی کے قابل ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اُس کے پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں اور مجلس میں خوشی کے ساتھ دن گزر جاتا ہے.اسلام اس قسم کے کاموں کی قطعاً اجازت نہیں دیتا.وہ فرماتا ہے مسلمان ہمیشہ لغو کاموں سے بچتے اور احتراز کرتے ہیں وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے اور کوئی ایسا کام اُن کو نہیں کرنا چاہئے جن کا کوئی عقلی فائدہ نہ ہو اور جس سے زندگی بے کار ہو جاتی ہو.وہ شخص جو اپنے ماں باپ کی کمائی کھاتا ہے اور خود کوئی کام نہیں کرتا آخر اسے سوچنا چاہئے کہ اُس کے اس فعل کا اُسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے یا اس کی قوم کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے.یہ چیز تو ایسی ہے جس کا اس کی ذات کو بھی فائدہ نہیں ہو سکتا.اُس کی قوم کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا اور دنیا کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا یہ زندگی کو محض بے کاری اور عیاشی میں ضائع کرتا ہے اور اسلام اس قسم کی بے کار زندگی کی اجازت نہیں دیتا.اگر ایک شخص کو اپنے باپ کے مرنے کے بعد دس کروڑ رو پی بھی جائداد میں ملتا ہے تو قرآن کریم کا حکم یہی ہے کہ وہ اتنی بڑی جائداد کا مالک ہونے کے باوجود اپنے وقت کو ضائع نہ کرے بلکہ اُسے قوم اور مذہب کے فائدہ کے لئے خرچ کرے.اگر اُسے اس قسم کی خدمات کی ضرورت نہیں جن کے نتیجہ میں اُسے روٹی میسر آئے تو وہ ایسی خدمات سر انجام دے سکتا ہے جو آنریری رنگ رکھتی ہوں.اس طرح وہ بغیر معاوضہ لئے اپنے ملک یا اپنی قوم یا اپنے مذہب کی خدمت کر کے اپنے وقت کو بھی ضائع ہونے سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور اپنے اوقات کا بھی صحیح استعمال کر کے اپنے آپ کو نافع الناس وجود بنا سکتا ہے.اسی طرح اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم وہ کھیلیں مت کھیلو جو 49

Page 55

۱۹ وقت کو ضائع کرنے والی اور زندگی کو بے کا رکھونے والی ہوں.اسی حکم کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ مرد زیور نہ پہنیں، وہ ریشم استعمال نہ کریں کے اسی طرح سونے چاندی کے برتن استعمال کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے عورتوں کے لئے زیور حرام نہیں مگر اُن کے لئے بھی عام حالات میں رسول کریم صلی الاسلام نے زیورات کو نا پسند فرمایا ہے.گو اس وجہ سے کہ وہ مقام زینت ہیں زیورات کا استعمال اُن کے لئے پوری طرح منع نہیں کیا.مگر اسلام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ زیورات پر اس قدر روپیہ خرچ کیا جائے کہ ملک کی اقتصادی حالت کو نقصان پہنچ جائے یا انہیں اس قدر زیورات بنوا کر دیئے جائیں کہ اُن میں تفاخر کی روح پیدا ہو جائے یا اس کے نتیجہ میں لالچ اور حرص کا مادہ اُن میں بڑھ جائے.اُن کے لئے زیورات کی اجازت ہے مگر ایک حد کے اندر لیکن مردوں کے لئے زیورات کا استعمال قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے اسی طرح وہ برتن جو سونے چاندی کے ہوں اُن کا استعمال رسول صلى الله کریم ﷺ نے ممنوع قرار دیا ہے.اس ضمن میں وہ اشیاء بھی آجاتی ہیں جو عام طور پر محض زینت یا تفاخر کے لئے امراء اپنے مکانوں میں رکھتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے مکان کی زینت کے لئے ایسی ایسی چیزیں خرید لیتے ہیں جن کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوتا.مثلاً بعض لوگ چینی کے پرانے برتن خرید کر اپنے مکانوں میں رکھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک بڑی قیمتی چیز خریدی ہے.یورپین لوگوں میں خصوصیت کیساتھ یہ نقص ہے کہ وہ پانچ پانچ دس دس ہزار روپیہ تک کے اس قسم کے برتن خرید لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ وہ برتن ہیں جو آج سے اتنے ہزار سال پہلے کے ہیں.یا پرانے قالین بڑی بڑی قیمت پر خرید کر اپنے مکانوں میں 50

Page 56

لٹکا لیتے ہیں.حالانکہ ویسے ہی قالین پچاس ساٹھ روپیہ میں آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن محض اس لئے کہ وہ لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ یہ قالین فلاں بادشاہ کا ہے یا فلاں زمانہ کا ہے وہ بہت کچھ روپیہ اُس کے خریدنے پر برباد کر دیتے ہیں.اسلام کے نزدیک یہ سب لغو چیزیں ہیں اور ان میں کوئی حقیقی فائدہ نہیں صرف دولت کے اظہار کے لئے لوگ ان چیزوں کو خریدتے اور اپنے روپیہ کو برباد کرتے ہیں.رسول کریم صلی یاتم نے ان باتوں کو عملاً ناجائز قرار دے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ ان لغو کاموں میں اپنے وقت کو ضائع کرے اور اس قسم کی بے کار چیزوں پر اپنے روپیہ کو برباد کرے آجکل کے لحاظ سے سینما اور تھیٹر وغیرہ بھی اس حکم کے نیچے آجائیں گے.کیونکہ سینما اور تھیروں وغیرہ پر بھی ملک کی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع چلا جاتا ہے.میں نے ایک دفعہ حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ کروڑوں کروڑ روپیہ سینما پر ہر سال خرچ ہوتا ہے.لاہورہی میں کوئی پچھیں کے قریب سینمائنا جاتا ہے اور اوسط آمد ہر سینما کی ہفتہ وار دو تین ہزار بتائی جاتی ہے اگر اڑھائی ہزار اوسط آمد شمار کی جائے تو ماہوار آمد دس ہزار ہوئی.اور سالانہ ایک لاکھ نہیں ہزار.بیس سینما بھی اگر شمار کئے جائیں تو صرف لاہور کا سالا نہ سینما کا خرچ چوبیس لاکھ کا ہوا.اگر ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبات کوسینما کے لحاظ سے لا ہور کے برابر سمجھا جائے گو یقیناً اس سے زیادہ نسبت ہوگی تو بھی ایک ہزار سینما سارے ہندوستان میں بن جاتا ہے اور بارہ کروڑ کے قریب سالانہ خرج سینما کا ہوجاتا ہے اور اگر سینما کے لوازمات کو بھی شامل کیا جاوے کہ ایسے لوگ بالعموم شراب خوری اور ایک دوسرے کی عیاشانہ دعوتوں میں بھی روپیہ خرچ کرتے ہیں تو پچیس تیس کروڑ روپیہ سے زائد خرچ سینما اور اس کے لوازمات پر اُٹھ جاتا ہے اور یہ رقم حکومت ہند کی آمد کا ۱/۴ حصہ ہے.گو یا صرف سینما 51

Page 57

پر اس قدر خرچ اُٹھتا ہے کہ جو سارے ملک پر سال میں ہونے والے خرچ کا ایک چوتھائی ہے.حالانکہ اس کا کوئی بھی فائدہ نہ ملک کو ہوتا ہے نہ قوم کو ہوتا ہے اور نہ خود سینما دیکھنے والوں کو ہوتا ہے.قرآن کریم اس قسم کے تمام راستوں کو بند کرتا ہے اور فرماتا ہے مومن وہی ہیں جو اس قسم کے لغو کاموں سے احتراز کریں اور اپنی کمائی کا ایک پیسہ بھی ان پر ضائع نہ کریں.یورپ کی آزاد حکومتیں جو اپنی اقتصادی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتی رہتی ہیں اُن کی تو یہ حالت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سینما اور تھیٹر بناتی ہیں.جتنے سنیما گھر آج انگلستان میں ہیں جنگ کے بعد یقیناً ان میں زیادتی کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ یہ سینما کم ہیں سینکڑوں اور سینما گھر بنائے جائیں.تا کہ وہ لوگ جو سینماؤں کی کمی کی وجہ سے اس تعیش سے محروم ہیں وہ بھی اس میں حصہ لے سکیں اور اُن کی دولت اور اُن کا وقت بھی اس پر صرف ہو.لیکن اسلام قطعی طور پر ان تمام چیزوں کو جو بنی نوع انسان کے لئے مفید نہیں بند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے.اگر اسلام کے ان احکام پر پوری طرح عمل کیا جائے تو امراء کی ظاہری حالت بھی ایک حد تک مساوات کی طرف لوٹ آئے کیونکہ ناجائز کمائی کا ایک بڑا محرک ناجائز اور بے فائدہ اخراجات ہی ہوتے ہیں.اسلام میں اسراف کی ممانعت دوسرے اسلام نے اسراف سے منع کیا ہے جس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ گو خرچ کا محل تو جائز ہومگر خرچ ضرورت سے زیادہ ہو.مثلاً اونچی اونچی عمارات بنانا یا زینت اور تفاخر کے طور پر باغ اور چمن تیار کرانا.ایک باغ ایسے ہوتے ہیں جو پھلوں کے لئے تیار کئے جاتے ہیں ایسے باغ بنانا اسلام کے رو سے منع نہیں ہیں لیکن بعض باغ اس قسم کے ن بعض باغ اس قم 52

Page 58

ہوتے ہیں جن کی غرض محض نمائش یا عیاشی ہوتی ہے.جیسے پرانے زمانہ میں بعض بادشاہ بڑے بڑے باغ تیار کرایا کرتے تھے جن سے اُن کی غرض محض یہ ہوا کرتی تھی کہ وہاں ناچ گانا ہو اور وہ اس سے لطف اندوز ہوں.اس طرح محض اپنے نفس کے اہتر از ۲ کے لئے وہ اتنا روپیہ خرچ کر دیتے تھے جو اسراف میں داخل ہو جا تا تھا.لیکن اس قسم کے باغ بنانے جیسے میونسپل کمیٹیاں تیار کروایا کرتی ہیں اور جن سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ وہاں جائیں، سیر کریں اور صحت میں ترقی کریں اسلام کی رو سے منع نہیں ہیں.اسلام کے نزد یک اگر ایک میونسپل کمیٹی دس لاکھ روپیہ بھی اس قسم کے باغ تیار کرنے پر صرف کر دے جس سے چار پانچ لاکھ آدمی فائدہ اُٹھا سکتے ہوں تو وہ بالکل جائز کام کرے گی.مثلاً لا ہور کی آبادی 9 لاکھ ہے اگر لاہور کی میونسپل کمیٹی متعدد پارک بنانے پر لاکھوں لاکھ روپیہ خرچ کر دے تو چونکہ نو لاکھ کی آبادی یا اس آبادی کی اکثریت اس سے فائدہ اُٹھائے گی اس لئے روپیہ کا یہ مصرف بالکل جائز سمجھا جائے گا بلکہ اگر ایک لاکھ آدمی بھی اس سے فائدہ اُٹھا ئیں گے تو یہ سمجھا جائے گا کہ میونسپل کمیٹی نے ایک آدمی کی صحت کے لئے چار یا پانچ روپے صرف کئے اور یہ بالکل جائز ہوگا.لیکن اگر ایک بادشاہ اپنے لئے یا اپنے بیوی بچوں کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کر کے ایک باغ تیار کراتا ہے اور اُس میں دوسروں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اُس نے ایک ایک نفس پر لاکھ لاکھ یا دودو لاکھ روپیہ خرچ کر دیا حالانکہ اگر وہی ایک لاکھ یا دو لاکھ یا تین لاکھ یا چار لاکھ روپیہ عام لوگوں کے لئے خرچ کیا جاتا تو لاکھوں لوگ اس سے فائدہ اُٹھاتے اور اُن کی صحت پہلے سے بہت زیادہ ترقی کر جاتی.پس اسلام جائز ضروریات پر روپیہ صرف کرنے سے نہیں روکتا بلکہ اس امر سے روکتا ہے کہ روپیہ کو صیح طور پر استعمال نہ کیا جائے اور بنی نوع انسان 53

Page 59

کے حقوق کو تلف کر کے ناجائز فائدہ اُٹھایا جاوے.اگر ایک دفتر بنانے کا سوال ہو اور ہزاروں لوگوں کے لئے کمروں کی ضرورت ہو تو خواہ ہمیں منزلہ مکان بنالیا جائے اور اُس میں سینکڑوں کمرے ہوں اسلام کی رو سے بالکل جائز ہو گا لیکن وہ لوگ جو بلا وجہ اپنی ضرورت سے زائد کمرے بنوا لیتے ہیں محض اس لئے کہ لوگ اُن کو دیکھیں اور تعریف کریں قرآن کریم کے رو سے وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتے ہیں اور اسلام اُسے اسراف قرار دیتا ہے.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پکڑے گا اور اُس سے جواب طلب کرے گا کہ اُس نے کیوں وہ روپیہ جو بنی نوع انسان کی خدمت یا اُن کی ترقی کے سامانوں پر صرف ہو سکتا تھا اس رنگ میں ضائع کیا اور ملک اور قوم کی اقتصادی حالت کو نقصان پہنچایا.دور کیوں جائیں تاج محل ہمارے گھر کی مثال ہے مجھے خود وہ بہت پسند ہے اور میں اُسے دیکھنے بھی جایا کرتا ہوں لیکن اسلامی اقتصاد کے لحاظ سے تاج محل کی تعمیر پر ناجائز طور پر روپیہ صرف کیا گیا ہے.تاج محل آخر کیا ہے؟ ایک بہت بڑی شاندار عمارت ہے جو محض ایک عورت کی قبر پر زینت کے لئے بنائی گئی اور اُس پر کروڑوں روپیہ صرف کیا گیا.اگر وہی روپیہ صدقہ وخیرات پر صرف کیا جاتا یا غرباء کے لئے کوئی ایسا ادارہ قائم کر دیا جاتا جس سے لاکھوں مساکین، لاکھوں یتیم ، اور لاکھوں بے کس ایک مدت دراز تک فائدہ اُٹھاتے چلے جاتے اور وہ اپنے کھانے اور اپنے پینے اور اپنے پہنے اور اپنے رہنے کے تمام سامانوں کو حاصل کر لیتے تو یہ زیادہ بہتر ہوتا.بے شک جہاں تک عمارت کا سوال ہے، جہاں تک انجنیئر نگ کا سوال ہے تاج محل کی ہم تعریف کرتے ہیں اور اُسے دیکھنے کے لئے بھی جاتے ہیں لیکن جہاں تک حقیقت کا سوال ہے ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس قسم کی عمارتیں جو بعض افراد محض اپنے نام ونمود کے لئے یا نمائش کے لئے دنیا میں تیار کرتے ہیں 54

Page 60

اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہیں.لیکن وہ عمارتیں جو قوم کے لئے یا پبلک کے مفاد کے لئے یا ایسی ہی اور ضروریات کے لئے تیار کی جاتی ہیں وہ خواہ کتنی ہی بلند ہوں جائز کہلائیں گی.غرض بلا ضرورت اونچی عمارات بنانا، زینت اور تفاخر کے طور پر باغات تیار کروانا، کھانا زیادہ مقدار میں کھانا یا بہت سے کھانے کھانا، لباس وغیرہ پر غیر ضروری رقوم خرچ کرنا، گھوڑے اور موٹریں ضرورت سے زیادہ رکھنا، فرنیچر وغیرہ ضرورت سے زیادہ بنوانا، عورتوں کا لیس اور فیتوں وغیرہ پر زیادہ رقوم خرچ کرنا ان سب امور سے قرآن کریم اور احادیث میں منع کیا گیا ہے اور اس طرح مال کمانے کی ضرورتوں کو محدود کر دیا گیا ہے.سیاسی اقتدار کیلئے روپیہ خرچ کرنا اسی طرح مال اور دولت کی وجہ سے کسی کو سیاسی اقتدار دینے سے بھی اسلام نے منع فرما دیا ہے.میں اس بارہ میں بیان کر چکا ہوں کہ قرآن کریم کا یہ صریح حکم ہے کہ اُن تُوَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا.کہ تم حکومتیں انہیں لوگوں کے سپر دکیا کرو جوحکومت کے کام کے اہل ہوں محض کسی کے مال یا اُس کی دولت کی وجہ سے اُس کو سیاسی اقتدار دے دینا اسلامی تعلیم کے ماتحت جائز نہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مال اور دولت کی وجہ سے نہیں بلکہ اہلیت اور قابلیت کی بناء پر لوگوں کے سپر دحکومتی کام کیا کرو.پس جولوگ مال و دولت اس لئے جمع کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہمیں حکومت میں حصہ مل جائے گا یا بڑے بڑے عہدے ہمیں حاصل ہو جائیں گے اسلام اُن کے اس نفع کو بھی ناجائز قرار دیتا ہے اور امت مسلمہ کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ حکام کے انتخاب کے وقت اہلیت کو مد نظر رکھا کریں.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ دولت وثروت کی وجہ سے کسی کو سیاسی اقتدار سونپ دیا جائے.55

Page 61

روپیہ جمع کرنے کی حرص b پھر بعض لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو بہت سارو پید اپنے پاس جمع کر لیتے ہیں.اسلام نے اپنے متبعین کو روپیہ جمع کرنے سے بھی روک دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِا فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكُوى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُم تَكْنِزُونَ فرماتا ہے وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اُس کو خرچ نہیں کرتے ہم اُن کو ایک درد ناک عذاب کی خبر دیتے ہیں.جب سونا اور چاندی جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور انہیں گلا کر اُن کے ہاتھوں اور اُن کے پہلوؤں اور اُن کی پیٹھوں پر داغ دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ خزانے ہیں جو تم نے اپنے لئے اور اپنے خاندان کی ترقی کے لئے روک رکھے تھے اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو تم نے اُن سے محروم کر دیا تھا.فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ پس چونکہ لوگوں نے اس سونے اور چاندی سے فائدہ نہیں اٹھا یا بلکہ تم نے اُسے صرف اپنے لئے جمع کر رکھا تھا اس لئے آج ہم یہ سونا اور چاندی تمہاری طرف ہی واپس لوٹاتے ہیں.مگر اُس جہان میں چونکہ سونا اور چاندی کسی کام نہیں آسکتے اس لئے ہم اس رنگ میں یہ سونا اور چاندی تمہیں دیتے ہیں کہ ان کو پگھلا پگھلا کر تمہارے ہاتھوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں پر داغ دینگے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ سونے اور چاندی کو روک رکھنا اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے اُسے صرف نہ کرنا کتنا بڑا گناہ تھا.گو یہ مثال جو میں نے دی ہے اس میں روپیہ کے غلط خرچ کا ذکر نہیں بلکہ روپیہ جمع کرنے کا ذکر ہے لیکن در حقیقت یہ بھی غلط خرچ کے مشابہہ ہے کیونکہ 56

Page 62

غلط خرچ کا نقصان بھی یہی ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اُس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جاتے ہیں اور روپیہ کو جمع کر رکھنے اور کام پر نہ لگانے سے بھی اس قسم کا نقصان ہوتا ہے.پس نتیجہ کے لحاظ سے یہ روپیہ کا جمع کرنا اور اُسے نامناسب مواقع پر خرچ کرنا ایک ساہی ہے.غرض جتنے محرکات دولت کے حد سے زیادہ کمانے یا اُس کو اپنے پاس جمع رکھنے کے دنیا میں پائے جاتے ہیں اسلام نے اُن سب کو رڈ کر دیا ہے.اور درحقیقت بعض محرکات و موجبات ہی دولت کے زیادہ کمانے یا اُسے لوگوں کے لئے خرچ نہ کرنے کے ہوا کرتے ہیں.جب ان تمام محرکات کو ناجائز قرار دے دیا جائے تو کوئی شخص اتنی دولت جمع نہیں کر سکتا جو بنی نوع انسان کی ترقی میں روک بن جائے.مثلاً لوگ گھوڑ دوڑ کے لئے اعلیٰ درجہ کے قیمتی گھوڑے رکھتے ہیں اور ان پر لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں.یا جوئے بازی پر ہزاروں روپیہ برباد کر دیتے ہیں لیکن اس تعلیم کے ماتحت جو اسلام نے بیان کی ہے ایک مسلمان ریس (RACE) کے لئے گھوڑے نہیں رکھ سکتا.وہ سواری کے لئے تو گھوڑا رکھے گا مگر یہ نہیں کر سکتا کہ ریس (RACE) میں حصہ لینے کے لئے لاکھوں روپیہ گھوڑوں کی خرید پر خرچ کرتا چلا جائے.جب اس قسم کے تمام محرکات جاتے رہیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ روپیہ کے زیادہ کمانے کی خواہش اس کے دل میں باقی نہ رہے گی.روپیہ کی زیادہ خواہش اسی لئے پیدا ہوتی ہے کہ انسان کہتا ہے فلاں کے پاس ایک لاکھ روپیہ جمع ہے میرے پاس بھی اتنا روپیہ جمع ہونا چاہئے.یا فلاں نے ریس کے لئے بڑے اچھے گھوڑے رکھے ہوئے ہیں میں بھی اعلیٰ درجہ کے گھوڑے خرید کر رکھوں.یا محض مال کی محبت ہو اور انسان روپیہ کو حض روپیہ کے لئے جمع کرے مگر جب اس قسم کی تمام خواہشات سے اسلام نے منع کر دیا تو وہ نا واجب حد تک روپیہ کمانے کی فکر ہی نہیں کرے گا.57

Page 63

سلام کا اقتصادی کمزور طبائع کا علاج مگر اس تعلیم کے باوجود پھر بھی کمزور طبائع ناجائز حد تک روپیہ کما سکتی تھیں اور صرف وعظ اس غرض کو پورا نہیں کر سکتا تھا.آخر میں نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ صرف ایک وعظ ہے جس سے انسان فائدہ اُٹھا سکتا ہے لیکن دنیا میں ایسے کمزور طبع لوگ پائے جاتے ہیں جو وعظ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.پس چونکہ دنیا میں ایک عنصر ایسے کمزور لوگوں کا بھی تھا جنہوں نے اس وعظ سے پورا فائدہ نہیں اُٹھا نا تھا اس لئے شریعت اسلامی نے بعض ایسے آئین تجویز کر دیئے ہیں جن پر عمل کرانا حکومت کے ذمہ ہے اور جن سے دولت ناجائز حد تک کمائی نہیں جاسکتی.وہ آئین جو اسلام نے مقرر کئے ہیں یہ ہیں.اسلام میں ناجائز طور پر روپیہ کے حصول کا سد باب شود کی مناعی اول اسلام نے سُود پر روپیہ لینے اور دینے سے منع کر دیا ہے اور اس طرح تجارت کو محمددو کر دیا.تعجب کی بات ہے کہ عام طور پر ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ایک طرف تو کمیونزم کے اصول کا دلدادہ ہے دوسری طرف شود کی بھی تائید کرتا نظر آتا ہے حالانکہ دنیا کی اقتصادی تباہی کا سب سے بڑا موجب یہی سود ہے.سود کے ذریعہ ایک ہوشیار اور عقلمند تاجر کروڑوں روپیہ لے لیتا ہے اور پھر اس روپیہ کے ذریعہ دنیا کی تجارت پر قبضہ کر لیتا ہے.بڑے بڑے کارخانے قائم کر لیتا ہے اور ہزاروں ہزار لوگوں کو ہمیشہ کی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتا ہے.اگر دنیا کے مالداروں کی فہرست بنائی جائے تو اکثر مالدارو ہی نکلیں گے جنہوں نے سُود کے ذریعہ ترقی کی ہوگی.پہلے وہ دو چار ہزار روپیہ کے سرمایہ سے کام شروع 58

Page 64

کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ اتنی ساکھ پیدا کر لیتے ہیں کہ بڑے بڑے بنکوں سے لاکھوں روپیہ قرض یا اوور ڈرافٹ (OVER DRAFT) کے طور پر نکلوالیتے ہیں اور چند سالوں میں ہی لاکھوں سے کروڑوں روپیہ پیدا کر لیتے ہیں.یا ایک شخص معمولی سرمایہ اپنے پاس رکھتا ہے مگر اُس کا دماغ اچھا ہوتا ہے وہ کسی بنک کے سیکرٹری سے دوستی پیدا کر کے اُس - سے ضرورت کے مطابق لاکھ دولاکھ یا چار لاکھ روپیہ لے لیتا ہے اور چند سالوں میں ہی اُس سے کئی گنا نفع کما کر وہ کروڑ پتی بن جاتا ہے.غرض جس قدر بڑے بڑے مالدار دنیا میں پائے جاتے ہیں اُن کے حالات پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں اپنی خالص کمائی سے بڑھنے والا شاید سو میں سے کوئی ایک ہی ہوگا باقی ننانوے فیصدی ایسے ہی مالدار نظر آئیں گے جنہوں نے سود پر بنکوں سے روپیہ لیا اور تھوڑے عرصہ میں ہی اپنے اعلیٰ دماغ کی وجہ سے کروڑ پتی بن گئے اور لوگوں پر اپنا رعب قائم کر لیا.پس سود دنیا کی اقتصادی تباہی کا ایک بہت بڑا ذریعہ اور غرباء کی ترقی کے راستہ میں ایک بہت بڑی روک ہے جس کو دور کرنا بنی نوع انسان کا فرض ہے.اگر ان لوگوں کو شود کے ذریعہ بنکوں میں سے آسانی کے ساتھ روپیہ نہ ملتا تو دوصورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوتی یا تو وہ دوسرے لوگوں کو اپنی تجارت میں شامل کرنے پر مجبور ہوتے اور یا پھر اپنی تجارت کو اس قدر بڑھانہ سکتے کہ بعد میں آنے والوں کے لئے روک بن جاتے اور ٹرسٹ وغیرہ قائم کر کے لوگوں کے لئے ترقی کا راستہ بالکل بند کر دیتے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مال ملک میں مناسب تناسب کے ساتھ تقسیم ہوتا اور خاص خاص لوگوں کے پاس حد سے زیادہ روپیہ جمع نہ ہوتا جو اقتصادی ترقی کے لئے سخت مُہلک اور ضرررساں چیز ہے.مگر افسوس ہے کہ لوگ سود کے ان نقصانات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر اس کے باوجود جس طرح مکڑی اپنے اردگرد 59

Page 65

اسلام کا اقتصادی نظام جالات نفتی چلی جاتی ہے اسی طرح وہ سود کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور اس بات پر ذرا بھی غور نہیں کرتے کہ اُن کے اس طریق کا ملک اور قوم کے لئے کیسا خطرناک نتیجہ نکلے گا اور اس الزام سے کمیونزم کے حامی بھی بری نہیں وہ بھی اس جڑ کو جو سرمایہ داری کا درخت پیدا کرتی ہے نہ صرف یہ کہ کاٹتے نہیں بلکہ وہ اُسے بُرا بھی نہیں کہتے.ہزاروں لاکھوں کمیونسٹ دنیا میں ملیں گے جو سود لیتے ہیں اور اس طرح بالواسطہ سرمایہ داری کی جڑیں مضبوط کرنے میں مدد کر رہے ہیں.شود کی وسیع تعریف اسلام نے شود کی ایسی تعریف کی ہے جس سے بعض ایسی چیزیں بھی جو عرف عام میں سود نہیں سمجھی جاتیں سود کے دائرہ عمل میں آجاتی ہیں اور وہ بھی بنی نوع انسان کے لئے ناجائز ہو جاتی ہیں.اسلام نے سود کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ کام جس پر نفع یقینی ہو.اب اس تعریف کے ماتحت جتنے ٹرسٹ ہیں وہ سب ناجائز سمجھے جائیں گے کیونکہ ٹرسٹ کی غرض یہی ہوتی ہے کہ مقابلہ بند ہو جائے اور جتنا نفع تاجر کمانا چاہیں اتنا نفع اُن کو بغیر کسی روک کے حاصل ہو جائے.مثلاً ایک ملک کے پندرہ بیس بڑے بڑے تاجر ا کٹھے ہو کر اگر ایک مقررہ قیمت کا فیصلہ کرلیں اور ایک دوسرے کا تجارتی مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک چیز جو دو روپے کو تجارتی اصول پر چکنی چاہئے اُس کے متعلق وہ کہہ سکتے ہیں ہم اُسے پانچ روپے میں فروخت کریں گے اور چونکہ سب کا متفقہ فیصلہ یہی ہوگا.اس لئے لوگ مجبور ہوں گے کہ پانچ روپے میں ہی وہ چیز خریدیں کیونکہ اس سے کم قیمت میں اُن کو وہ چیز کسی اور جگہ سے مل ہی نہیں سکے گی.وہ ایک کے پاس جائیں گے تو وہ پانچ روپے قیمت بتائے گا، دوسرے کے پاس جائیں گے تو وہ بھی پانچ روپے ہی بتاتا ہے، 60

Page 66

تیسرے کے پاس جائیں گے تو وہ بھی پانچ روپیہ ہی قیمت بتاتا ہے غرض جس کے پاس جائیں گے وہ پانچ روپیہی قیمت بتائے گا اور آخر وہ مجبور ہو جائے گا کہ وہی قیمت ادا کر کے چیز خریدے.چھوٹے تاجروں کو اول تو یہ جرات ہی نہیں ہوتی کہ اُن کا مقابلہ کریں اور اگر اُن میں سے کوئی شخص وہی چیز سستے داموں پر فروخت کرنے لگے مثلاً وہ اُس کی دو روپے قیمت رکھ دے تو وہ بڑے تاجر جنہوں نے آپس میں اتحاد کیا ہوا ہوتا ہے اُس کا سارا مال اُس گری ہوئی قیمت پر خرید لیتے اور اس طرح اُس کا چند دن میں ہی دیوالہ نکال دیتے ہیں.پس یہ ٹرسٹ سسٹم ایک نہایت ہی خطرناک چیز ہے اور دنیا کی اقتصادی حالت کو بالکل تباہ کر دیتا ہے.مجھے ایک دفعہ جماعت احمدیہ کی تجارتی سکیموں کے سلسلہ میں تحریک ہوئی کہ میں لاکھ کی تجارت کے متعلق معلومات حاصل کروں.لاکھ کی تجارت صرف چند لاکھ روپے کی تجارت ہے اور لاکھ صرف ہندوستان کے چند علاقوں میں تیار ہوتی ہے ریاست پٹیالہ میں بھی تیار کی جاتی ہے.مجھے تحقیق پر معلوم ہوا کہ ایک یورپین فرم اس کی تجارت پر قابض ہے.میں نے وجہ دریافت کی تو مجھے بتایا گیا کہ اور تاجروں کی حیثیت تو پندرہ سولہ لاکھ کی ہوتی ہے مگر اس یورپین فرم کا سرمایہ تیس چالیس کروڑ روپیہ کا ہے.پھر اُن کے پاس صرف یہی تجارت نہیں بلکہ گندم کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے، کپڑے کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے، جیوں سے کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے اسی طرح اور کئی قسم کی تجارتیں اُن کے ہاتھ میں ہیں.اُن کے مقابلہ میں جب کوئی تاجر چند لاکھ روپیہ صرف کر کے لاکھ کی تجارت شروع کرتا ہے تو وہ یورپین فرم لاکھ کی قیمت اتنی کم کر دیتی ہے کہ جس نے نئی نئی تجارت شروع کی ہوتی ہے اُن کے مقابلہ میں ایک دن بھی نہیں ٹھہر سکتا اور نقصان اُٹھا 61

Page 67

کر کف افسوس ملتا ہوا گھر واپس آجاتا ہے.فرض کرو ایک شخص کا اس تجارت پر دس لاکھ روپیہ صرف ہوا.اُسے توقع تھی کہ مجھے نفع حاصل ہوگا.پس اُس نے یورپین فرم کے مقابلہ کے لئے قیمت گرا کر رکھی مگر اُس کو میدان مقابلہ میں دیکھتے ہی وہ یورپین فرم لاکھ کی قیمت اس قدر گرا دے گی کہ اُس تاجر کو راس المال بچانا بھی مشکل ہو جائے گا اور آخر وہ مجبور ہوکر لاگت سے کم داموں پر اُسی یورپین فرم کو اپنا لاکھ کا سٹاک دینے پر مجبور ہو جائے گا.اس یورپین فرم کو قیمت گرانے سے نقصان نہ ہوگا کیونکہ اپنے حریف کو شکست دے کر وہ پھر قیمت بڑھا دے گی.اس رنگ میں وہ یورپین فرم لاکھ کی تجارت کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے اور کوئی اُس کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کرتا.غرض جس قدر ٹرسٹ ہیں وہ بنی نوع انسان کو تباہ کرنے والے ہیں اور چونکہ ٹرسٹ سسٹم میں نفع یقینی ہوتا ہے اس لئے اسلام کے مذکورہ بالا قاعدہ کے مطابق ٹرسٹ سسٹم اسلام کے رو سے ناجائز قرار دیا جائے گا.یہی حال کارٹل سسٹم کا ہے.کارٹل سسٹم بھی ایک ایسی چیز ہے جو اسلامی نقطہ نگاہ سے بالکل ناجائز ہے.ٹرسٹ سسٹم میں جہاں ایک ملک کے تاجر آپس میں سمجھوتہ کر کے تجارت کرتے ہیں وہاں کارٹل سسٹم میں مختلف ممالک کے تاجر آپس میں اتحاد پیدا کر لیتے ہیں اور وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں چیز فلاں قیمت پر فروخت کرنی ہے اس سے کم میں نہیں.ٹرسٹ سسٹم تو یہ ہے کہ ہندوستان کے تاجر آپس میں کسی امر کے متعلق سمجھوتہ کر لیں اور کارٹل سسٹم یہ ہے کہ مثلاً امریکہ اور انگلستان کے تاجر یا امریکہ، انگلستان اور جرمنی کے تاجر یا انگلستان اور ہندوستان کے تاجر آپس میں کسی تجارت کے متعلق سمجھوتہ کر لیں.فرض کروکیمیکلز (CHEMICALS) یعنی کیمیائی ساخت کی اشیاء کے متعلق سمجھوتہ کر لیں.مثلاً اس زمانہ میں امریکہ ، انگلستان اور جرمنی یہ تین ممالک ہی کیمیکلز بنانے والے 62

Page 68

ہیں ان تینوں ممالک کے تاجر سمجھوتہ کر لیں کہ ہم ایک دوسرے کا مقابلہ نہیں کریں گے بلکہ ایک ہی قیمت پر اپنی دواؤں کو فروخت کریں گے تو اس کے نتیجہ میں دنیا مجبور ہوگی کہ اُن سے اُسی قیمت پر دوائیں خریدے.اور جتنا نفع وہ مانگتے ہیں وہ اُن کو دے.یہ کارٹل سسٹم اتنا خطرناک ہے کہ اس سے حکومتیں بھی تنگ آگئی ہیں اور ابھی گزشتہ دنوں اس جرم میں اس کی طرف سے کئی تاجروں پر مقدمات چل چکے ہیں اور انہیں سزائیں بھی دی گئی ہیں مگر چونکہ یقینی نفع کی تمام صورتوں کو اسلام نے ناجائز قرار دے دیا ہے تا کہ دنیا کی دولت پر کوئی ایک طبقہ قابض نہ ہو جائے بلکہ مال تمام لوگوں میں چکر کھاتا رہے اور غرباء بھی اس سے اپنی اقتصادی حالت کو درست کر سکیں.اسلامی حکومتوں میں یہ طریق چل نہیں سکتے.سامان کا روک رکھنا منع ہے اسی طرح اسلام نے ایک حکم یہ بھی دیا ہے کہ تم جو مال بھی تیار کرو یا دوسروں سے خرید و اُسے روک کر نہ رکھ لیا کرو کہ جب مال مہنگا ہوگا اور قیمت زیادہ ہوگی اُس وقت ہم اس مال کو فروخت کریں گے.اگر ایک تاجر مال کو قیمت بڑھنے کے خیال سے روک لیتا ہے اور اُسے لوگوں کے پاس فروخت نہیں کرتا تو اسلامی نقطہ نگاہ کے ماتحت وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتا ہے.اگر ایک تاجر کے پاس گندم ہے اور لوگ اپنی ضروریات کے لئے اُس سے گندم خریدنا چاہتے ہیں اور وہ اس خیال سے کہ جب گندم مہنگی ہوگی اُس وقت میں اسے فروخت کروں گا اُس گندم کو روک لیتا ہے اور خریداروں کو دینے سے انکار کر دیتا ہے تو اسلام کی تعلیم کے رو سے وہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ چیزوں پر کنٹرول اس زمانہ میں ہی کیا گیا ہے حالانکہ کنٹرول اسلام میں ہمیشہ سے چلا آتا ہے.انگریزوں نے تو آج اس کو اختیار کیا لیکن اسلام نے آج سے 63

Page 69

تیرہ سو سال پہلے یہ حکم دیا تھا کہ احتکار منع ہے اور احتکار کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ کسی چیز کو اس لئے روک لیا جائے کہ جب اس کی قیمت بڑھ جائیگی تب اُسے فروخت کیا جائے گا.اگر کسی شخص کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ وہ احتکار کر رہا ہے اور اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ اُسے مجبور کرے گی کہ وہ اپنا مال فروخت کر دے اور اگر وہ خود فروخت کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو گورنمنٹ اُس کے سٹور پر قبضہ کر کے مناسب قیمت پر اُسے فروخت کر دے گی.بہر حال کوئی شخص اس بات کا مجاز نہیں کہ وہ مال کو روک رکھے اس خیال سے کہ جب مہنگا ہو گا تب میں اسے فروخت کروں گا.(اس میں کوئی شک نہیں کہ احتکار کے معنی غلہ کو روکنے کے ہیں لیکن تفقہ کے ماتحت جو اسلام کا ایک جز وضروری ہے اس حکم کو عام کیا جائے گا اور کسی شے کو جو عوام کے کام آنے والی ہے اس لئے روک رکھنا کہ قیمت بڑھ جائے گی تو فروخت کریں اسلامی تعلیم کے رو سے ناجائز قرار دیا جائے گا.) اسلام میں مال کی قیمت گرانے کی ممانعت اس کے علاوہ اسلام نے قیمت کو نا جائز حد تک گرانے سے بھی منع کیا ہے اور جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے قیمت کا گرانا بھی ناجائز مال کمانے کا ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ طاقتور تاجر اس ذریعہ سے کمزور تاجروں کو تھوڑی قیمت پر مال فروخت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ان کا دیوالہ نکلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے.حضرت عمر کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ بازار کا دورہ کر رہے تھے کہ ایک باہر سے آئے ہوئے شخص کو دیکھا کہ وہ خشک انگور نہایت ارزاں قیمت پر فروخت کر رہا تھا جس قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت نہیں کر سکتے تھے.آپ نے اُسے حکم دیا کہ یا تو اپنا مال منڈی سے اُٹھا کر لے جائے یا پھر اُسی قیمت پر فروخت کرے جس مناسب قیمت پر 64

Page 70

۲۵ مدینہ کے تاجر فروخت کر رہے تھے.جب آپ سے اس حکم کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے جواب دیا کہ اگر اس طرح فروخت کرنے کی اِسے اجازت دی گئی تو مدینہ کے تاجروں کو جو مناسب قیمت پر مال فروخت کر رہے ہیں نقصان پہنچے گا.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صحابہ نے حضرت عمرؓ کے اس فعل کے خلاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول پیش کیا کہ منڈی کے بھاؤ میں دخل نہیں دینا چاہتے ہے مگر اُن کا یہ اعتراض درست نہ تھا کیونکہ منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے کے یہ معنی ہیں کہ پیداوار اور مانگ ( SUPPLY AND DEMAND) کے اصول میں دخل دیا جائے اور ایسا کرنا بے شک نقصان دہ ہے اور اس سے حکومت کو بچنا چاہئے.ورنہ عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا اور تا جر تباہ ہو جائیں گے.ہم نے قریب زمانہ میں ہی اس کا تجربہ کیا ہے.جب حکومت نے جنگ کی وجہ سے گندم کی فروخت کی ایک ہی قیمت مقرر کر دی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصلی تجارت بالکل رُک گئی کیونکہ کوئی عقلمند یہ امید نہیں کر سکتا کہ تاجر اسی قیمت پر خرید کر اسی قیمت پر فروخت کر سکے گا.نتیجہ یہ ہوا کہ گندم کی باقاعدہ تجارت بالکل بند ہوگئی اور مقررہ قیمت چھ روپے کی جگہ سولہ روپیہ فی من تک گندم کی قیمت پہنچ گئی.لوگ گورنمنٹ کو خوش کرنے کیلئے اپنے بیوی بچوں کو فاقوں سے نہیں مار سکتے تھے.وہ ہر قیمت پر گندم خرید تے تھے اور چونکہ گندم پر زندگی کا انحصار ہے وہ ان تاجروں کی رپورٹ کرنے کے لئے بھی تیار نہ تھے جو بلیک مارکیٹ ریٹس پر اُن کو گندم دیتے تھے.میں نے اس کے خلاف کئی ماہ پہلے گورنمنٹ کو توجہ دلائی تھی کہ اُن کے اس قانون کا خطرناک نتیجہ نکلے گا مگر حکومت نے اس پر کان نہ دھرے اور آخر سخت ہنگامہ اور شور کے بعد معقول طریق اختیار کیا.پہلے قانون کی وجہ زمینداروں کی خدمت بتائی گئی تھی مگر نتیجہ اُلٹ نکلا.زمیندار ٹٹ گئے اور تاجر کئی گنے زیادہ قیمت حاصل کر گئے....65

Page 71

غرض ناواجب طور پر منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے اور پیداوار اور مانگ کے اصول کو نظر انداز کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے.ورنہ نا واجب بھاؤ میں خواہ وہ قیمت کی زیادتی کے متعلق ہو خواہ قیمت کی کمی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا.چنانچہ احتکار سے روکنا جو احادیث سے ثابت ہے اس امر کا یقینی ثبوت ہے کیونکہ احتکار سے روکنے کی غرض یہی ہے کہ ناجائز طور پر بھاؤ کو بڑھایا نہ جائے اور یہ مناعی یقیناً منڈی کے بھاؤ میں دخل دینا ہے مگر جائز دخل ہے.پس معلوم ہوا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منڈی کے بھاؤ میں دخل اندازی سے منع کیا تھا تو نا جائز دخل اندازی سے منع کیا تھا.اصولِ اقتصادیات کے ماتحت دخل اندازی سے منع نہیں فرمایا تھا اور حضرت عمرؓ کا فعل عین مطابق شریعت اور اسلام کے ایک زبر دست اصول کا ظاہر کرنے والا تھا.خلاصہ یہ کہ یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ لوگ ناجائز طور پر دولت اپنے قبضہ میں لیا کرتے ہیں اس لئے اسلام نے ان تینوں چیزوں سے روک دیا ہے اور اس طرح ناجائز اور حد سے زیادہ دولت کے اجتماع کے راستہ کو بند کر دیا ہے.حد سے زائد روپیہ جمع ہونے کے راستہ میں مزید روکیں مگر چونکہ پھر بھی بعض لوگ ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ سے ناجائز حد تک روپیہ کما سکتے تھے اور ہوسکتا تھا کہ ان تمام ہدایات اور قیود اور پابندیوں کے باوجود بعض لوگوں کے پاس حد سے زیادہ روپیہ جمع ہو جائے اور غرباء کو نقصان پہنچ جائے.اس لئے اسلام نے اس کا علاج مندرجہ ذیل ذرائع سے کیا.66

Page 72

اسلام کا اقتصادی زن زكوة اوّل زکوۃ کا حکم دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس قدر جائداد کسی انسان کے پاس سونے چاندی کے سکوں یا اموال تجارت وغیرہ کی قسم میں سے ہو اور اُس پر ایک سال گزر چکا ہو حکومت اُس سے انداز اڑھائی فیصدی سالا نہ ٹیکس لے لیا کرے گی جو ملک کے غرباء اور مساکین کی بہبودی پر خرچ کیا جائے گا.اگر کسی شخص کے پاس چالیس روپے جمع ہوں اور اُن چالیس روپوں پر ایک سال گزر جائے تو اس کے بعد لازماً اُسے اپنے جمع کردہ مال میں سے ایک روپیہ حکومت کو بطور ز کوۃ ادا کرنا پڑے گا.یادرکھنا چاہئے کہ یہ انکم ٹیکس نہیں جو آمد پر ادا کیا جاتا ہے بلکہ زکو جمع کئے ہوئے مال پر کیپیٹل ٹیکس ہے جوغر باء کی بہبودی کے لئے لیا جاتا ہے اور زکوۃ ہر قسم کے مال پر واجب ہوتی ہے.خواہ سگے ہوں یا جانور ہوں یا غلہ ہو یا زیور ہو یا کوئی دوسرا تجارتی مال ہو.صرف سونے چاندی کے وہ زیور جو عام طور پر عورتوں کے استعمال میں رہتے ہوں اور غرباء کو بھی کبھی کبھی عار بیتے دیئے جاتے ہوں اُن پر زکوۃ واجب نہیں ہے.لیکن اگر وہ زیورات خود تو عام طور پر استعمال کئے جاتے ہوں مگر غرباء کو عاریتہ نہ دیئے جاتے ہوں تو اس صورت میں اُن کی زکوۃ ادا کرنا بھی فقہائے اسلام زیادہ مناسب قرار دیتے ہیں.اور جو زیور عام طور پر استعمال میں نہ آتے ہوں اُن پر زکوۃ ادا کرنا تو نہایت ضروری ہے اور اسلام میں اس کا سختی سے حکم پایا جاتا ہے.یہ زکوۃ جب تک کسی کے پاس مال بقدر نصاب باقی ہو ہر سال ادا کرنی ضروری ہوتی ہے اور نہ صرف سرمایہ پر بلکہ سرمایہ اور نفع دونوں کے مجموعہ پر ادا کرنی ہوتی ہے.پس اگر کوئی شخص او پر بیان کردہ تمام قیود اور پابندیوں کے باوجود کچھ روپیہ پس انداز کر لے تو اسلامی حکومت اس ذریعہ سے ہر سال اُس سے ٹیکس وصول کرتی چلی جائے گی کیونکہ اسلامی نقطہ 67

Page 73

نگاہ یہ ہے کہ امراء کی دولت میں غرباء کے حقوق اور اُن کی محنت بھی شامل ہے اس لئے ایک ایسا قاعدہ مقرر کر دیا گیا ہے جس کے مطابق ہر سال زکوۃ کے ذریعہ سے غرباء کا حق امراء سے لے لیا جائے گا.خمس دوسری وجہ جس سے بعض لوگوں کے ہاتھ میں حد سے زیادہ مال جمع ہو جاتا ہے کانوں کی دریافت ہے.اسلام نے اس نقص کا علاج یہ کیا کہ اس نے کانوں میں حکومت کا خمس حق مقرر کر دیا ہے.یہ پانچواں حصہ تو اس مال میں سے ہے جو کان سے نکالا جاتا ہے خواہ اُس پر سال چھوڑ ایک ماہ بھی نہ گزرا ہو.اس کے علاوہ کانوں کے مالک جو اپنے حصہ کے نفع میں سے پس انداز کریں اور اس پر ایک سال گزر جائے اُس پر ز کوۃ الگ لگے گی اور سال بہ سال لگتی چلی جائے گی.گویا اس طرح حکومت کانوں میں بھی حصہ دار ہو جاتی ہے اور کانوں کے مالک جو رو پید اپنے حصہ میں سے بچاتے ہیں اُن سے بھی ہر سال غرباء کی ترقی کے لئے ایک مقررہ ٹیکس وصول کیا جائے گا.جب بھی کسی کے جمع کردہ مال پر ایک سال گزر جائے گا حکومت کے افراد اس کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ لاؤ جی غرباء کا حق ہمیں دے دو.طوعی صدقہ تیسرے اسلام نے طوعی صدقہ رکھا ہے.چنانچہ اسلام کا حکم ہے کہ ہر شخص کو صدقہ و خیرات کے طور پر یتیموں ،غریبوں اور مسکینوں کی خبر گیری اور اُن کی پرورش کے لئے کچھ نہ کچھ مال ہمیشہ خرچ کرتے رہنا چاہئے.یہ حکم بھی ایسا ہے کہ اس کی وجہ سے کسی شخص کے پاس حد سے زیادہ دولت جمع نہیں رہ سکتی.68

Page 74

اسلام کا اقتصادی نظر ورثہ کی تقسیم اگر ان تمام طریقوں سے کام لینے کے باوجود پھر بھی کسی انسان کے پاس کچھ مال بیچ جائے اور وہ اپنی جائداد بنالے تو اُس کے مرنے کے معابعد شریعت اس کی تمام جائداد کو اُس کے خاندان میں تقسیم کرا دے گی.چنانچہ ورثہ کا حکم شریعت میں اسی غرض کے ماتحت رکھا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی جائداد کسی ایک شخص کو نہ دے جائے بلکہ وہ اُس کے ورثاء میں تقسیم ہو جائے.شریعت نے اس تقسیم میں اولاد کا بھی حق رکھا ہے، ماں باپ کا بھی حق رکھا ہے، بیوی کا بھی حق رکھا ہے، خاوند کا بھی حق رکھا ہے اور بعض حالتوں میں بھائیوں اور بہنوں کا بھی حق رکھا ہے.قرآن کریم نے صاف طور پر حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اس تقسیم کو بدل سکے.یا کسی ایک رشتہ دار کو اپنی تمام جائدا دسپر د کر جائے.اُس کی جس قدر جائداد ہوگی شریعت جبراً اس کے تمام رشتہ داروں میں تقسیم کرا دے گی اور ہر ایک کو وہ حصہ دے گی جو قرآن کریم میں اُس کے لئے مقرر کیا گیا ہے.تعجب ہے کہ جہاں دنیا سود کی تائید میں ہے حالانکہ وہ دنیا کی بے جوڑ مالی تقسیم کا بڑا موجب ہے وہاں اکثر لوگ جبری ورثہ کے بھی مخالف ہیں اور اس امر کی اجازت دیتے ہیں کہ ایک ہی لڑکے کو مرنے والا اپنا مال دے جائے حالانکہ اس سسٹم سے دولت ایک خاندان میں غیر محدود وقت تک جمع ہوتی جاتی ہے لیکن اسلامی اصول وراثت کے مطابق جائداد خواہ کتنی بڑی ہو تھوڑے ہی عرصہ میں اولا د در اولاد میں تقسیم ہو کر مالدار سے مالدار خاندان عام لوگوں کی سطح پر آ جاتا ہے اور اس حکم کے نتیجہ میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جس کی بڑی سے بڑی جائداد یا بڑی سے بڑی دولت تین چار نسلوں سے آگے بڑھ سکے.وہ بمشکل تین چار نسلوں تک پہنچے گی اور پھر سب کی سب ختم ہو جائے گی اور آئندہ نسل کو اس بات کی ضرورت محسوس 69

Page 75

ہوگی کہ وہ اپنے لئے اور جائداد پیدا کرے.یورپ اور امریکہ میں بڑے بڑے مالدار اور لارڈز اسی لئے ہیں کہ انگلستان میں یہ قانون ہے کہ جائداد کا مالک صرف بڑا بیٹا ہوتا ہے.اور امریکہ میں اجازت ہے کہ باپ اپنی جائداد چاہے تو صرف ایک بیٹے کو دے جائے باقی ماں باپ، بھائی بہنیں ، خاوند بیوی سب محروم رہتے ہیں یا ر کھے جاسکتے ہیں.پھر بعض دفعہ وہاں بڑے بڑے مالدار یہ وصیت کر جاتے ہیں کہ ہماری دس لاکھ کی جائداد ہے اُس میں سے ایک لاکھ تو دوسرے رشتہ داروں کو دے دیا جائے اور نو لاکھ بڑے لڑے کو دے دیا جائے.اسلام کہتا ہے کہ یہ بالکل ناجائز ہے تمہارے خاندان کی عظمت سوسائٹی کے فائدہ کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی.ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تمہارا خاندان ملک میں چوٹی کا خاندان ہمیشہ سمجھا جاتا ہے یا نہیں.ہم یہ چاہتے ہیں کہ مال تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جائے تا کہ غرباء کو بڑے بڑے سرمایہ داروں کا مقابلہ نہ کرنا پڑے اور اُن کے لئے ترقی کا راستہ دنیا میں کھلا رہے.غرض ایک طرف اسلام نے جذبات پر قابو پایا اور ان تمام محرکات کو مسل دیا جن کے نتیجہ میں انسان یہ چاہتا ہے کہ اُس کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت جمع ہو.دوسری طرف اُس نے بیہودہ اخراجات کو حکماً روک دیا اور کہہ دیا کہ ہم ان اخراجات کی تمہیں اجازت نہیں دے سکتے.تیسری طرف روپیہ جمع کرنے کے تمام طریق جن میں یقینی نفع ہوا کرتا ہے اُس نے ناجائز قرار دے دیئے.چوتھی طرف زکوۃ اور طوعی صدقات وغیرہ کے احکام دے دیئے.اور اگر ان سب احکام کے باوجود پھر بھی کوئی شخص اپنی ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ سے کچھ زائد روپیہ کمالیتا ہے اور خطرہ ہے کہ اُس کا خاندان غرباء کے راستہ میں روک بن کر کھڑا ہو جائے تو شریعت اُس کے مرنے کے ساتھ ہی اُس کی تمام جائداد 70

Page 76

اس کے ورثاء میں تقسیم کر دیتی ہے.اگر کسی شخص کے پاس ایک کروڑ رو پیہ ہے اور اس کے دس بیٹے ہیں تو اس کے مرنے کے بعد ہر ایک کو دس دس لاکھ روپیل جائے گا اور اگر پھر ان میں سے ہر ایک کے دس دس لڑکے ہوں تو وہ دس لاکھ ایک ایک لاکھ میں تقسیم ہو جائے گا اور تیسری نسل میں وہ دس دس ہزار روپیہ تک آجائے گا.گویا زیادہ سے زیادہ تین چار نسلوں میں بڑے سے بڑے تاجر کا بھی تمام روپیہ ختم ہو جائے گا اور ایک بلاک غرباء کے راستہ میں کبھی کھڑا نہیں ہوگا.تقسیم ورثہ صرف وقف کی صورت میں روکی جاسکتی ہے مگر جس نے روپیہ کما کر غرباء اور رفاہ عام کیلئے جائداد وقف کر دینی ہو وہ ناجائز طور پر روپیہ کمائے گاہی کیوں.ان احکام پر اگر عمل کیا جائے تو لازماً جو روپیہ بھی زائد آئے گا یا وہ حکومت کے پاس چلا جائے گا یا وہ لوگوں کے پاس چلا جائے گا اور یا پھر اولا د میں بٹ جائے گا بہر حال کوئی شخص بڑا امیر نہیں رہے گا.اگر کوئی خود امیر ہو تو کوئی خاندان ایسا نہیں رہے گا جو مستقل طور پر اپنی خاندانی وجاہت یا اپنے خاندانی رُعب کی وجہ سے ملک کے غرباء کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ سکے.افسوس ہے کہ مسلمانوں نے ان احکام پر پوری طرح عمل نہیں کیا.زکوۃ کا حکم موجود ہے مگر وہ زکوۃ نہیں دیتے ، اسراف کے تمام طریقوں کو نا جائز قرار دیا گیا ہے مگر وہ اسراف سے باز نہیں آتے ، ورثہ کا حکم دیا گیا ہے مگر وہ ورثہ کے احکام پر عمل نہیں کرتے لیکن پھر بھی چونکہ کچھ نہ کچھ عمل ہوتا ہے اس لئے اسلامی ممالک میں امیروں اور غریبوں کا وہ فرق نہیں ہے جو دوسرے ممالک میں پایا جاتا ہے مگر ان تدابیر سے بھی پورا علاج نہیں ہوتا.ہوسکتا تھا کہ جو روپیہ حکومت کے پاس آئے وہ پھر امراء ہی کی طرف منتقل ہو جائے اور وہ دوبارہ اُسے اپنی طرف کھینچ لیں.قرآن کریم نے اس کا بھی علاج بتایا ہے چنانچہ اس 71

Page 77

نے اُس روپیہ پر جو حکومت کے پاس آئے کئی قسم کی پابندیاں عائد کر دی ہیں.حکومت کے روپیہ پر تصرف کہ وہ امراء کو طاقت دینے کیلئے خرچ نہ ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُوْلِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَاحَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَى لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا أَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو ارد گرد کی فتوحات کے ذریعہ جو روپیہ دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور اُس کے رسول کے لئے ہے اور قرابت والوں کے لئے ہے اور یتامی اور مساکین کیلئے ہے اور اُن مسافروں کے لئے ہے جو علوم پھیلانے اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں پھر رہے ہوتے ہیں اور ہم نے یہ احکام تمہیں اس لئے دیئے ہیں تا کہ یہ روپیہ پھر امیروں کے پاس نہ چلا جائے اور اُن ہی کے حلقہ میں چکر نہ کھانے لگے.ان آیات پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے غرباء کے حقوق کی حفاظت کی ہے اور اسلامی اقتصاد کی بنیادوں کو انتہائی طور پر مضبوط کر دیا ہے.فرماتا ہے ہم نے یہ اسلامی اقتصادی نظام اس لئے قائم کیا ہے تا کہ اقتصادی حالت کو کوئی دھگا نہ لگے.اگر ہم آزادی دے دیتے اور اپنی طرف سے حقوق مقرر نہ کرتے تو پھر یہ اموال امراء کی طرف منتقل ہو جاتے اور غرباء ویسے ہی خستہ حال رہتے جیسے پہلے تھے.پس ہم نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ وہ روپیہ جو حکومت کے قبضہ میں آئے پھر امیروں کے پاس ہی نہ چلا جائے.اس 72

Page 78

حکم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کے اموال کو غرباء اور اُن لوگوں کیلئے جن کی ترقی کے راستہ میں روکیں حائل تھیں مخصوص کر دیا ہے.یہاں اللہ اور رسول کا جو حق مقرر کیا گیا ہے درحقیقت اس سے مراد بھی غرباء ہی ہیں.اللہ اور اُس کے رسول کا نام صرف اس لئے لیا گیا ہے کہ کبھی حکومت کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ عبادت گاہیں بنائے ، کبھی حکومت کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ مدر سے بنائے کبھی حکومت کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہسپتال بنائے.اگر خالی غرباء کے حقوق کا ہی ذکر ہوتا تو جب کبھی حکومت اس روپیہ سے اس قسم کے کام کرنے لگتی اُس وقت لوگ اس پر اعتراض کرتے کہ تم کو کیا حق ہے کہ اس روپیہ سے عبادت گاہیں بناؤ یا شفاخانہ بناؤ یا سڑکیں بناؤ یا سکول بناؤ یہ تو صرف غرباء کے کھانے پینے ، پہننے پر ہی خرچ ہونا چاہئے.پس اس نقص کے ازالہ کے لئے اللہ اور اُس کے رسول کے الفاظ رکھ دیئے گئے ہیں.ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ کا حق بھی غرباء کو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ تو روپیہ لینے کیلئے نہیں آتا اور رسول کا حق بھی غرباء کو جائے گا کیونکہ رسول تو ایک فانی وجود ہوتا ہے.اُس کے نام سے مراد اُس کا قائم کردہ نظام ہی ہوسکتا ہے.پھر ذی القربی کا جوحق بیان کیا گیا ہے اُس سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ ذی القربی کے الفاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اُن کا بھی اس روپیہ میں حق ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صاف فرما دیا ہے کہ سادات کیلئے صدقہ یا ز کوۃ کا روپیہ لینا حرام ہے.در حقیقت اس سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی اللہ رشتہ دار نہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت اور اُس کے دین کی خدمت میں دن ۲۷ 73

Page 79

اسلام کا اقتصادی نظام رات مشغول ہوں اور اس طرح خدا اور اُس کے رسول کے عیال میں داخل ہو گئے ہوں.گویا ذِي الْقُرْبى کہہ کر بتایا کہ وہ لوگ جو دین کی خدمت پر لگے ہوئے ہوں اُن کو نکتا وجود نہیں سمجھنا چاہئے وہ خدا تعالیٰ کا قرب چاہنے والے اور دنیا کو خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھانے والے ہیں اُن پر بھی یہ روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے.پس وہ لوگ جو قرآن پڑھانے والے ہوں یا حدیث پڑھانے والے ہوں یا دین کی اشاعت کا کام کرنے والے ہوں اس آیت کے مطابق اُن پر بھی یہ روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب وہ دن رات دینی اور مذہبی کاموں میں مشغول رہیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ اپنے لئے دنیا کما نہیں سکیں گے.ایسی صورت میں اگر حکومت کی طرف سے اُن پر روپیہ خرچ نہیں کیا جائے گا تو دوصورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوگی.یا تو اُن کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو نگے اور یا پھر اس خدمت کو ہی ترک کر دیں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح دنیا کمانے میں لگ جائیں گے حالانکہ خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ صاف طور پر حکم موجود ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی موجود رہنی چاہئے جو اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کئے ہوئے ہو اور رات دن دین کی اشاعت کا کام سرانجام دے رہی ہو.پس ذِي الْقُرْبی سے مراد خدمت دین کا کام کرنے والے لوگ ہیں اور اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ جہاں اس روپیہ میں غرباء کا حق ہے وہاں ان لوگوں کا بھی حق ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ اُن پر روپیہ صرف کرے.پھر فرمایا کہ ہماری اس نصیحت کو یا درکھنا کہ یہ مال امراء کی طرف پھر منتقل نہ ہونے پائے.آخر میں وَمَا أَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوا کہہ کر امراء کو سمجھایا کہ دیکھو تم اس روپیہ کو کسی طرح حاصل کرنے کی کوشش نہ کرنا کہ تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت اپنی زندگی بسر کرو.74

Page 80

کا اسلامی حکومت کا ہر شخص کیلئے روٹی کپڑے کا انتظام کرنا اسلامی حکومت نے ان احکام پر اس طرح عمل کیا کہ جب وہ اموال کی مالک ہوئی تو اُس نے ہر ایک شخص کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب نظام مکمل ہوا تو اُس وقت اسلامی تعلیم کے ماتحت ہر فر دو بشر کے لئے روٹی اور کپڑا مہیا کرنا حکومت کے ذمہ تھا اور وہ اپنے اس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا کرتی تھی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس غرض کیلئے مردم شماری کا طریق جاری کیا اور رجسٹرات کھولے جن میں تمام لوگوں کے ناموں کا اندراج ہوا کرتا تھا.یورپین مصنفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی اور اُنہوں نے ہی رجسٹرات کا طریق جاری کیا.اس مردم شماری کی وجہ یہی تھی کہ ہر شخص کو روٹی کپڑا دیا جا تا تھا اور حکومت کیلئے ضروری تھا کہ وہ اس بات کا علم رکھے کہ کتنے لوگ اس ملک میں پائے جاتے ہیں.آج یہ کہا جاتا ہے کہ سوویٹ رشیا نے غرباء کے کھانے اور اُن کے کپڑے کا انتظام کیا ہے.حالانکہ سب سے پہلے اس قسم کا اقتصادی نظام اسلام نے جاری کیا ہے اور عملی رنگ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہر گاؤں، ہر قصبہ اور ہر شہر کے لوگوں کے نام رجسٹر میں درج کئے جاتے تھے، ہر شخص کی بیوی، اُس کے بچوں کے نام اور اُن کی تعداد درج کی جاتی تھی اور پھر ہر شخص کیلئے غذا کی بھی ایک حد مقرر کر دی گئی تھی تا کہ تھوڑا کھانے والے بھی گزارہ کر سکیں اور زیادہ کھانے والے بھی اپنی خواہش کے مطابق کھا سکیں.تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابتداء میں جو فیصلے فرمائے اُن میں دودھ پیتے بچوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور اُن کو اُس وقت غلہ وغیرہ کی صورت میں مدد ملنی شروع ہوتی تھی جب مائیں اپنے بچوں کا دودھ چھڑا دیتی تھیں.ایک رات حضرت عمر 75

Page 81

سلام کا اقتصادی نظام رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے گشت لگا رہے تھے کہ ایک خیمہ میں سے کسی بچہ کے رونے کی آواز آئی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں ٹھہر گئے مگر بچہ تھا کہ روتا چلا جا تا تھا اور ماں اُسے تھپکیاں دے رہی تھی تا کہ وہ سو جائے.جب بہت دیر ہوگئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس خیمہ کے اندر گئے اور عورت سے کہا کہ تم بچے کو دودھ کیوں نہیں پلاتی ، یہ کتنی دیر سے رورہا ہے؟ اُس عورت نے آپ کو پہچانا نہیں اُس نے سمجھا کہ کوئی عام شخص ہے چنانچہ اُس نے جواب میں کہا کہ تمہیں معلوم نہیں عمر نے فیصلہ کر دیا ہے کہ دودھ پینے والے بچہ کو غذا نہ ملے ہم غریب ہیں ہمارا گزارہ جنگی سے ہوتا ہے میں نے اس بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے تا کہ بیت المال سے اس کا غلہ بھی مل سکے.اب اگر یہ روتا ہے تو روئے عمرہ کی جان کو جس نے ایسا قانون بنایا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت واپس آئے اور راستہ میں نہایت غم سے کہتے جاتے تھے کہ عمر ! عمر !! معلوم نہیں تو نے اس قانون سے کتنے عرب بچوں کا دودھ چھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے اِن سب کا گناہ اب تیرے ذمہ ہے.یہ کہتے ہوئے آپ سٹور میں آئے دروازہ کھولا اور ایک بوری آٹے کی اپنی پیٹھ پر اُٹھالی.کسی شخص نے کہا کہ لائیے میں اس بوری کو اُٹھا لیتا ہوں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا.نہیں! غلطی میری ہے اور اب ضروری ہے کہ اس کا خمیازہ بھی میں ہی بھگتوں.چنانچہ وہ بوری آٹے کی اُنہوں نے اس عورت کو پہنچائی اور دوسرے ہی دن محکم دیا کہ جس دن بچہ پیدا ہو اُسی دن سے اُس کیلئے غلہ مقرر کیا جائے کیونکہ اُس کی ماں جو اُس کو دودھ پلاتی ہے زیادہ غذا کی محتاج ہے.قرآن مجید کا حکم کہ ہر فرد و بشر کی ضرورت کو پورا کیا جائے آب دیکھو! یہ انتظام اسلام نے شروع دن سے ہی کیا ہے بلکہ قرآن کریم سے تو پتہ لگتا 76

Page 82

ہے کہ اس انتظام کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے نہیں ہوئی بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہوئی ہے.چنانچہ پہلی وحی جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوئی اُس میں یہی حکم ہے کہ ہم تمہیں ایک جنت میں رکھتے ہیں.جس کے متعلق ہمارا یہ فیصلہ ہے که إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرُى.وَأَنَّكَ لَا تَطْمَؤُا فِيهَا وَلَا تَضْحَى يعنى اے آدم ! ہم نے تمہارے جنت میں رکھے جانے کا فیصلہ کر دیا ہے تم اُس میں بھو کے نہیں رہو گے تم اُس میں ننگے نہیں رہو گے.تم اُس میں پیاسے نہیں رہو گے اور تم اُس میں رہنے کی وجہ سے دھوپ میں نہیں پھرو گے.لوگ اس آیت سے غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد اُخروی جنت ہے اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ جب انسان جنت میں جائے گا تو وہاں اس کا یہ حال ہو گا.حالانکہ قرآن کریم سے صاف ظاہر ہے کہ آدم اسی دنیا میں پیدا ہوئے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً میں دنیا میں اپنا خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں اور دنیا میں جو شخص پیدا ہوتا ہے وہ بھوکا بھی ہوسکتا ہے، وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے، وہ نگا بھی ہو سکتا ہے، وہ دھوپ میں بھی پھر سکتا ہے.یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ دنیا میں تو پیدا ہو اور بھوک اور پیاس اور لباس اور مکان کی ضرورت اُسے نہ ہو اور جب کہ یہ آیت اسی دنیا کے متعلق ہے تو لا زما ہمیں اس کے کوئی اور معنی کرنے پڑیں گے اور وہ معنی یہی ہیں کہ ہم نے اپنا پہلا قانون جو دنیا میں نازل کیا اُس میں ہم نے آدم سے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم ایک ایسا قانون تمہیں دیتے ہیں کہ تجھ کو اور تیری اُمت کو جنت میں داخل کر دے گا اور وہ قانون یہ ہے کہ ہر ایک کے کھانے پینے ، لباس اور مکان کا انتظام کیا جائے.آئندہ تم میں سے کوئی شخص بھوکا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ ہر ایک کے لئے غذا مہیا کرے.آئندہ تم میں سے کوئی شخص نگا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا 77

Page 83

کام ہونا چاہئے کہ ہر ایک کیلئے کپڑا مہیا کرے.آئندہ تم میں سے کوئی شخص پیاسا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ وہ تالابوں اور کنوؤں وغیرہ کا انتظام کرے.آئندہ تم میں سے کوئی شخص بغیر مکان کے نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ وہ ہر ایک کے لئے مکان مہیا کرے.یہ وہ پہلی وحی ہے جو دنیا میں نازل کی گئی اور یہ وہ پہلا تمدن ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ دنیا میں قائم کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا پر اس حقیقت کو ظاہر فرمایا کہ خدا سب کا خدا ہے وہ امیروں کا بھی خدا ہے، وہ غریبوں کا بھی خدا ہے.کمزوروں کا بھی خدا ہے اور طاقتوروں کا بھی خدا ہے.وہ نہیں چاہتا کہ دنیا کا ایک طبقہ تو خوشحالی میں اپنی زندگی بسر کرے اور دوسرا روٹی اور کپڑے کیلئے تر ستار ہے.یہی وہ نظام تھا جو اسلام نے اپنے زمانہ میں دوبارہ قائم کیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نظام جلدی مٹ گیا مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں جتنے بڑے کام ہیں اُن میں بھی یہی قانون پایا جاتا ہے کہ وہ کئی لہروں سے اپنی بلندی کو پہنچتے ہیں.ایک دفعہ دنیا میں وہ قائم ہو جاتے ہیں تو کچھ عرصہ کے بعد پرانے رسم و رواج کی وجہ سے مٹ جاتے ہیں مگر دماغوں میں ان کی یاد قائم رہ جاتی ہے اور ایک اچھا بیج دنیا میں بویا جاتا ہے اور ہر شریف اور منصف مزاج انسان تسلیم کرتا ہے کہ وہ چیز اچھی تھی مجھے دوبارہ اس چیز کو دنیا میں واپس لانا چاہئے.پس گو یہ نظام ایک دفعہ مٹ گیا مگر اب اُسی نظام کو دوبارہ احمدیت دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے.وہ ایک طرف حد سے زیادہ دولت کے اجتماع کو روکے گی دوسری طرف غرباء کی ترقی کے سامان کرے گی اور تیسری طرف ہر شخص کے لئے کھانے پینے کپڑے اور مکان کا انتظام کرے گی.خلاصہ یہ کہ مبنی ہے :.78

Page 84

اسلام کا اقتصادی نظا (1) (r) (۳) (۴) دولت جمع کرنے کے خلاف وعظ پر.دولت حد سے زیادہ جمع کرنے کے محرکات کو روکنے پر.جمع شدہ دولت کو جلد سے جلد بانٹ دینے یا کم کر دینے پر.حکومت کے روپیہ کو غرباء اور کمزوروں پر خرچ کرنے اور اُن کی ضروریات کو مہیا کرنے پر.اور یہی نظام حقیقی اور مکمل ہے کیونکہ اس سے (1) (۲) (۳) (۴) (۵) مہیا کیا گیا ہے.(1) اُخروی زندگی کیلئے سامان بہم پہنچانے کا موقع ملتا ہے.سادہ اور مفید زندگی کی عادت پڑتی ہے.جبر کا اس میں دخل نہیں ہے.انفرادی قابلیت کو کچلا نہیں گیا.باوجود اس کے غرباء اور کمزوروں کے آرام اور اُن کی ترقی کا سامان اور پھر اس سے دشمنیوں کی بنیاد بھی نہیں پڑتی.کمیونزم اس نظام کے مقابلہ میں چونکہ کمیونزم کا نظام کھڑا کیا گیا ہے اور اس پر خاص طور پر زوردیا جاتا ہے اس لئے میں اب کچھ باتیں کمیونزم کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.کمیونزم کا دعوی ہے کہ: اول ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے.دوم ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق خرچ دیا جائے.سوم باقی روپیہ حکومت کے پاس رعایا کے وکیل (TRUSTEE) کی صورت میں جمع رہے.79

Page 85

اسلام کا اقتصادی اُن کی بنیاد اس امر پر ہے کہ تمام انسانوں میں مساوات ہونی چاہئے کیونکہ اگر ہر شخص کام کرتا ہے تو ہر شخص مساوی بدلہ کا مستحق ہے اور کوئی شخص زائد دولت اپنے پاس رکھنے کا حقدار نہیں اور اگر کسی شخص کے پاس زائد دولت ہو تو وہ اُس سے لے لینی چاہئے.یہ اُس کا اقتصادی نظریہ ہے.اس نظریہ کا ایک سیاسی ماحول بھی ہے مگر چونکہ میرا مضمون سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی ہے اس لئے میں اُسے نہیں چھوتا.جہاں تک نتیجہ کا سوال ہے یہ بات بالکل درست ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو روٹی ملنی چاہئے ، ہر انسان کو کپڑا ملنا چاہئے ، ہر انسان کو رہائش کیلئے مکان ملنا چاہئے ، ہر انسان کے علاج کا سامان ہونا چاہئے ، ہر انسان کی تعلیم کی صورت ہونی چاہئے.یعنی بنی نوع انسان کی ابتدائی حقیقی ضرورتیں بہر حال پوری ہونی چاہئیں اور کوئی شخص بھوکا یا پیاسا یا نگا نہیں رہنا چاہئے.اسی طرح کوئی شخص ایسا نہیں ہونا چاہئے جو بغیر مکان کے ہو، جس کی تعلیم کی کوئی صورت نہ ہو اور جس کے بیمار ہونے کی صورت میں اُس کے علاج کا کوئی سامان موجود نہ ہو.پس جہاں تک اس نتیجہ کا سوال ہے اسلام کی تعلیم کو اس سے گلی طور پر اتفاق ہے.وہ سو فیصدی اس بات پر متفق ہے کہ پبلک کا اقتصادی نظام ایسا ہی ہونا چاہئے اور اسلام کے نزدیک بھی وہی حکومت صحیح معنوں میں حکومت کہلا سکتی ہے جو ہر ایک کیلئے روٹی مہیا کرے، ہر ایک کیلئے کپڑا مہیا کرے، ہر ایک کیلئے مکان مہیا کرے، ہر ایک کی تعلیم کا انتظام کرے اور ہر ایک کے علاج کا انتظام کرے.پس اس حد تک اسلام کمیونزم کے نظریہ سے بالکل متفق ہے گو یہ فرق ضرور ہوگا کہ اگر کوئی شخص اپنی قابلیت کا اظہار کرنا چاہے تو کمیونزم کے ماتحت وہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں انفرادی جدو جہد کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا ہے.80

Page 86

اسلام اور کمیونزم میں ایک فرق در حقیقت انفرادی آزادی ایک طرف انسانی قابلیت کی نشوو نما کے لئے ضروری ہوتی ہے اور دوسری طرف موت کے بعد کی اعلیٰ زندگی کا دارو مدار اقتصادیات میں انفرادی آزادی کے قیام پر ہے مگر کمیونزم انفرادی جدو جہد کا راستہ بند کرتی اور حریت شخصی کو مٹا دیتی ہے جو ایک بہت بڑا نقص ہے.یہ اختلاف ہے جو اسلام اور کمیونزم میں پایا جاتا ہے.مگر بہر حال نتیجہ سے اُسے کوئی اختلاف نہیں.روس نے اس نظریہ پر عمل کر کے جو اقتصادی پروگرام بنایا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُس نے اس میں خاص ترقی کی ہے اور وہاں کے عام لوگوں کی مالی حالت یا یوں کہو گوکمیونسٹ اس سے متفق نہ ہوں) کہ یورپین حصہ کی مالی حالت آگے سے اچھی ہے اور ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہاں غرباء کو روٹی ملی، کپڑ املا ، مکان ملا، علاج کیلئے دوائیں میسر آئیں اور تعلیم کیلئے مدر سے اُن کے لئے کھولے گئے.پس جہاں تک روس کی کمیونسٹ پارٹی کے اس نتیجہ کا تعلق ہے اسلامی روح اقتصادیات اس پر خوش ہی ہوگی لیکن جیسا کہ اوپر کے بیان سے ظاہر ہے ذرائع اور بعض نتائج سے اسلام موافق نہیں ہوسکتا.کمیونزم پر مذہبی لحاظ سے بعض اعتراضات میں چونکہ اسلام کی نمائندگی کر رہا ہوں.اس لئے سب سے پہلے میں کمیونسٹ اقتصادی نظام کے اُن حصوں کو لیتا ہوں جو مذہب پر اثر انداز ہوتے ہیں.سب سے پہلا اعتراض جو کمیونسٹ نظام پر مجھے اور ہر موت کے بعد کی زندگی کے ماننے والے کو ہونا چاہئے یہ ہے کہ اس میں شخصی طوعی جد و جہد جو زندگی کے مختلف شعبوں 81

Page 87

میں ظاہر ہو کر انسان کو اُخروی زندگی میں مستحق ثواب بناتی ہے اُس کے لئے بہت ہی کم موقع باقی رکھا گیا ہے.بجائے اس کے کہ اُس سے ضروری حصہ دولت کا لے کر باقی حصہ کے خرچ کو اُس پر چھوڑا جائے کہ وہ اُسے جس رنگ میں چاہے صرف کرے.اُس کی خوراک اور لباس کے سوا اُس کے پاس کچھ چھوڑا ہی نہیں گیا کہ وہ اپنی اُخروی زندگی کے لئے بھی کوئی جدو جہد کرے.وہ روٹی کھا سکتا ہے، وہ کپڑا پہن سکتا ہے، وہ رہائش کے لئے مکان لے سکتا ہے، وہ اپنا علاج کراسکتا ہے، وہ اپنی تعلیم سے بے فکر ہو سکتا ہے مگر اُخروی زندگی کے لئے اُس کے پاس ایک پیسہ بھی چھوڑا نہیں جاتا.گویا اُس کی چالیس پچاس سالہ زندگی کی تو فکر کی گئی ہے مگر اُس عقیدہ کے رو سے جو غیر متناہی زندگی آنے والی تھی اُس کو یونہی چھوڑ دیا گیا ہے.یہ ایک ایسی بات ہے جسے کوئی شخص جو مذہب کی سچائی پر یقین رکھتا ہو اور اُس کے احکام پر عمل کرنا اپنی نجات کے لئے ضروری سمجھتا ہو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا.مثلاً اسلام اُن مذاہب میں سے ہے جو اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور دنیا میں تبلیغ کرو، جاؤ اور لوگوں کو اپنے اندر شامل کرو کیونکہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے.وہ شخص جو اسلام سے باہر ر ہے گانجات سے محروم رہے گا اور اُخروی زندگی میں ایک مجرم کی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا.تم ایک مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے پاگل کہہ لو، بے وقوف کہہ لو، جاہل کہہ لو بہر حال جب تک وہ اسلام کی سچائی پر یقین رکھتا ہے، جب تک وہ بنی نوع انسان کی نجات صرف اسلام میں داخل ہونے پر ہی منحصر سمجھتا ہے اُس وقت تک وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ میں اپنے ہر اُس بھائی کو جو اسلام میں داخل نہیں اسلام کا پیغام پہنچاؤں، اُسے تبلیغ کروں اور اُس پر اسلام کے محاسن اس عمدگی سے ظاہر کروں کہ وہ بھی اسلام میں داخل ہو جائے.آخر اگر یہ بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہے، 82

Page 88

اگر یہ اُن کی بھلائی اور عاقبت کی بہتری کا خواہشمند ہے تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ یہ اُن کے سامنے اس پیغام کو پیش نہ کرے جو اُس کے عقیدہ کی رو سے انسان کی دائمی حیات کے لئے ضروری ہے.اگر یہ اپنے دوست کے متعلق پسند نہیں کرتا کہ وہ گڑھے میں جا گرے، اگر یہ اپنے دوست کے متعلق پسند نہیں کرتا کہ دشمن اُسے گولی کا شکار بنائے تو یہ کس طرح پسند کر سکتا ہے کہ ابدالآباد کی زندگی میں وہ دوزخ میں ڈالا جائے اور خدا تعالیٰ کی جنت اور اُس کے قرب اور اُس کی رضامندی سے محروم ہو جائے.چاہے تم کچھ کہہ لو ایک مذہب سے وابستہ انسان کی انتہائی آرزو یہی ہوگی کہ وہ اپنے بھائی کی اعتقادی اور عملی حالت کو درست کرے لیکن کمیونسٹ نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں.اُس کی جد و جہد کو اول تو سیاسی طور پر روکا جائے گا چنانچہ ہمارا اپنا تجربہ اس کی تصدیق کرتا ہے.میں نے ایک احمدی مبلغ روس میں بھجوایا مگر بجائے اس کے کہ اُسے تبلیغ کی اجازت دی جاتی اُسے قید کیا گیا.اُسے لوہے کے تختوں کے ساتھ نہایت سختی کے ساتھ باندھ کر اور کئی کئی دن بھوکا اور پیاسا رکھ کر مارا پیٹا گیا اور اسے مجبور کیا گیا کہ وہ سور کا گوشت کھائے اور یہ مظالم برابر ایک لمبے عرصہ تک اُس پر ہوتے چلے گئے.( حضور نے اس موقع پر مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد روس کو کھڑے ہونے کا حکم دیا اور ارشادفرمایا) یہ وہ صاحب ہیں جنہیں مبلغ بنا کر بھیجا گیا تھا.دو سال دو ماہ کم ان کو تاشقند ، عشق آباد اور ماسکو کے قید خانوں میں رکھا گیا اور لوہے کے تختوں کے ساتھ باندھ باندھ کر مارا گیا اور انہیں بار بار مجبور کیا گیا کہ سور کا گوشت کھاؤ یہاں تک کہ ان متواتر مظالم کے نتیجہ میں ان کی دماغی حالت خراب ہوگئی.اس پر وہ انہیں ایران کی سرحد پر لا کر چھوڑ گئے.وہاں کے برطانوی سفیر نے گورنمنٹ آف انڈیا کو اطلاع دی اور گورنمنٹ آف انڈیا نے مجھے تار دیا کہ آپ کے ایک مبلغ کو 83

Page 89

روسی حکومت ایران کی سرحد پر لا کر چھوڑ گئی ہے.چنانچہ میں نے گورنمنٹ کو لکھا کہ اس مبلغ کو آپ ہمارے پاس بھجوا دیں اور آپ کا جس قدر خرچ ہو وہ ہم سے وصول کریں.اس پر گورنمنٹ نے ان کو ہندوستان پہنچادیا.پس یہ وہ ہمارے مبلغ ہیں جنہیں دو ماہ کم دو سال شدید ترین عذابوں میں مبتلا رکھا گیا اور کسی ایک مرحلہ پر بھی ان کو مذہبی تبلیغ کی اجازت روس میں نہ دی گئی.پس اول تو وہ سیاسی طور پر تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے لیکن چونکہ یہ اقتصادی مضمون ہے اس لئے اسے نظر انداز بھی کر دو تو سوال یہ ہے کہ ایک اقلیت اکثریت کے مذہب کو بدلنے کے لئے کس قدر قربانی کے بعد لٹریچر وغیرہ مہیا کرسکتی ہے.مثلاً ہماری جماعت ہی کو لے لو.ہم اقلیت ہیں مگر دنیا میں اسلام کو پھیلانا چاہتے ہیں.ہمارے آدمی اگر روس میں تبلیغ کرنے کیلئے جاتے ہیں تو ہر شخص یہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ۱۷ کروڑ رشین کو مسلمان بنانے کے لئے کتنے کثیر لٹریچر کی ضرورت ہے اور کتنا مال ہے جو اس جدو جہد پر خرچ آ سکتا ہے.ہماری جماعت اس جدو جہد کو اُسی صورت میں جاری رکھ سکتی ہے جب اس کی کمائی اس سے پوری نہ چھین لی جائے اور کھانے پینے اور پہنے کے علاوہ بھی اس کے پاس روپیہ ہوتا وہ اس سے ان اخراجات کو پورا کر سکے جن کو وہ اپنی اُخروی بھلائی کیلئے ضروری سمجھتی ہے.لیکن کمیونزم کا اقتصادی نظام تو کسی کے پاس زائد رو پیداہنے ہی نہیں دیتا کیونکہ وہ اس جدو جہد کو کام ہی نہیں سمجھتا.اس کے نزدیک مادی کام کام ہیں لیکن مذہبی کام کام نہیں ہیں.وہ مشین چلانے کو کام سمجھتا ہے، وہ ہل چلانے کو کام سمجھتا ہے.وہ کارخانے میں کام کرنے کو کام سمجھتا ہے لیکن خدائے واحد کے نام کی بلندی اور اس کے دین کی اشاعت کے کام کو وہ کام نہیں سمجھتا کیونکہ وہ الہام کو نہیں مانتا.وہ شریعت کو نہیں مانتا.وہ.84

Page 90

مذہب کو نہیں مانتا.وہ سمجھتا ہے کہ یہ مذہبی لوگ پاگل ہیں اور اپنے وقت کو ضائع کر رہے ہیں.اس لئے ان مبلغوں کی خوراک یا لباس یا رہائش وغیرہ کی حکومت ذمہ دار نہیں ہوسکتی.حکومت اُن کی اسی صورت میں ذمہ دار ہو سکتی ہے جب وہ کام کریں جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ مادی کام کریں.مذہبی اور روحانی کاموں سے دست بردار ہو جائیں.پس کمیونزم کے ماتحت اسلام روس میں اپنی اس جدو جہد کو جاری ہی نہیں کر سکتا.جاری رکھنا اور مسلسل جاری رکھتے چلے جانا تو الگ رہا.ایک مسلمان کے نزدیک خواہ وہ بھوکا ر ہے مگر اُخروی زندگی درست ہو جائے تو وہ کامیاب ہے اور اپنے بھائی کے متعلق اس کا یہ نظریہ ہے کہ اگر دنیا بھر کی دولت اس کے پاس ہو لیکن اُخروی زندگی اُس کو نہ ملے.ہدایت اُس کو میسر نہ آئے خدا تعالیٰ کی رضا اس کو حاصل نہ ہو تو وہ ناکام ہے.جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اس کی خیر خواہی اُسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے گمراہ بھائی کی اُخروی زندگی کیلئے سامان مہیا کرے.مگر اُس سے اُس کا سارا مال لے لیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ ہم وطن کی جان بچاتے ہیں اور اُس کی روح کو مرنے دیا جاتا ہے.جہاں تک روٹی اور کپڑا اور مکان مہیا کرنے کا سوال تھا.جہاں تک تعلیم مہیا کرنے کا سوال تھا.جہاں تک علاج مہیا کرنے کا سوال تھا ہم اسلامی تعلیم کے ماتحت اُن سے متفق تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ اس قدر ٹیکس ضرور لگنا چاہئے کہ دنیا میں ہر فرد کو یہ تمام ضروریات میسر آجائیں.مگر یہاں تو دوسرا نقطہ یہ بھی ہے کہ اپنی روٹی کپڑے سے زائد سب کچھ حکومت کو دے دو اور اپنے عقیدہ کی اشاعت میں کوئی حصہ نہ لو.گویا ہم نے تو اُن کی تائید کی اور اس لئے کہ ہمارا مذہب بھی یہی تعلیم دیتا ہے.مگر انہوں نے بجائے مذہب کا شکر گزار ہونے کے اور اُس کی اشاعت کی اجازت دینے کے یہ کہہ دیا کہ ہم خدا اور اس کے رسول کا نام پھیلانے کی تمہیں 85

Page 91

اپنے ملک میں اجازت نہیں دے سکتے.یہ بیکاری اور قوم پر بوجھ بن کر بیٹھ جانا ہے اگر کمیونسٹ یہ کہتے کہ ہم مذہب کے مخالف ہیں اور اُسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں تو گو پھر بھی ہمیں اختلاف ہوتا.مگر ہمیں افسوس نہ ہوتا.ہم سمجھتے کہ جو کچھ ان کا دل میں عقیدہ ہے اسی کو اپنی زبان سے ظاہر کر رہے ہیں.مگر ہمیں افسوس ہے تو یہ کہ کمیونسٹ یہ بات ظاہر نہیں کرتے.وہ کھلے بندوں یہ نہیں کہتے کہ ہم اپنے نظام کے ماتحت تمہارے مذہب کو اپنے ملک میں پھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے بلکہ وہ گھر کے پچھلے دروازہ سے گھر میں گھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر مذہب کے ماننے والے اُس وقت اُن کی اس چالاکی سے واقف ہوتے ہیں جب کہ وہ اپنی شخصیت کھو چکے ہوتے ہیں اور کمیونزم سے ان کی ہمدردی اور محبت اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ اُن کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے.کمیونزم اگر کھلے بندوں کہے کہ ہم اُخروی زندگی کو کوئی وقعت نہیں دیتے ہم اس کے پر چارک کے لئے کوئی سامان تمہارے پاس نہیں چھوڑ نا چاہتے تو آنکھوں کھلے لوگ اُس میں داخل ہوں.مگر دوسرے ممالک میں اس حصہ کو پوری طرح مخفی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کمیونزم صرف ایک اقتصادی نظام ہے مذہب سے اس کا کوئی ٹکراؤ نہیں.حالانکہ مذہب نام ہے تبلیغ کرنے کا ، مذہب نام ہے ایک دوسرے کو خدا تعالیٰ کے احکام پہنچانے کا خواہ یہ تقریر کے ذریعہ ہو یا تحریر کے ذریعہ ہو، لٹریچر کے ذریعہ ہو یا کتابوں کے ذریعہ ہومگر کمیونزم تو کسی انسان کے پاس کوئی زائد روپیہ چھوڑتا ہی نہیں.پھر ایک مذہبی ٹریکٹ کس طرح چھپوائے اور کتا بیں کس طرح ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیلائے.اس پابندی کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مذہب کی اشاعت رُک جائے اور لامذہبیت کا دور دورہ ہو جائے.86

Page 92

دین کے لئے زندگی وقف کرنے میں کمیونسٹ نظام کی روکیں اب اس سوال کا دوسرا پہلو لے لو ہر مسلمان یہ کہتا ہے کہ میں روپیہ ہیں مانگتا لیکن میں اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیتا ہوں.وہ کہتا ہے کہ میں سارے روس میں پھروں گا اور اپنے خیالات اُن لوگوں پر ظاہر کروں گا.میں گاؤں بہ گاؤں اور قصبہ بہ قصبہ اور شہر بہ شہر جاؤں گا اور لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کروں گا.سوال یہ ہے کہ کیا کمیونسٹ گورنمنٹ ایک مسلمان کو اپنی زندگی وقف کرنے اور اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے ملک میں پھرنے کی اجازت دے گی.یا جبراً اُسے اس کام سے روکے گی اور اُسے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں محبوس کر دے گی.یقیناً اس کا ایک ہی جواب ہے کمیونسٹ گورنمنٹ اُسے جبراً اس کام سے روکے گی اُسے دین اور مذہب کا کام نہیں کرنے دے گی.اُسے قید خانہ میں بند کر دے گی اور اُسے کہے گی کہ یا تو کوئی اور کام کرو ورنہ یاد رکھو اس قسم کے کام کے ساتھ تمہیں روٹی اور کپڑا نہیں مل سکتا.گو یا خدا کے لئے میرا اپنی زندگی کو وقف کر دینا، میرا قرآن کی تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا، میر احدیث کی تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا جس کے بغیر میرے عقیدے کی رو سے میری اُخروی زندگی سدھر ہی نہیں سکتی کمیونزم کے نزدیک نکما پن ہے، یہ بے کاری اور وقت کا ضیاع ہے.کمیونسٹ حکومت اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے کو کہے گی کہ اگر تم نے مذہب کی اشاعت کا کام کیا تو یاد رکھو یا تو تمہیں قید کر دیا جائے گا اور یا تمہاری روٹی اور کپڑا بند کر دیا جائے گا.حالانکہ قرآن کریم اس قسم کے افراد کی جماعت کو قومی لحاظ سے نہایت ضروری قرار دیتا ہے اور مذہب کو ماننے والے اس امر کے قائل ہیں کہ ایک حصہ اُن کے افراد کا پوری طرح مذہبی نظام کے قیام کے لئے فارغ ہونا چاہئے.87

Page 93

2 ۳۰ یعنی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اے مسلمانو! تم میں سے ایک جماعت پورے طور پر مذہبی نگرانی کے لئے دنیوی کاموں سے فارغ ہونی چاہئے اور اس جماعت کے افراد کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ نیک باتوں کی طرف لوگوں کو بلائیں، عمدہ باتوں کی تعلیم دیں اور بُرے اخلاق سے لوگوں کو روکیں پس اسلامی تعلیم کے ماتحت ایک حصہ کلی طور پر اس غرض کے لئے وقف ہونا چاہئے.یہ صیح بات ہے کہ اسلام زندگی وقف کرنے والوں کو کوئی خاص حقوق نہیں دیتا مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک خاص کام ان کے سپرد کرتا ہے.اسلام پادریت (PRIESTHOOD) کا قائل نہیں مگر وہ مذہبی نظام کا ضرور قائل ہے.عیسائیت تو جن لوگوں کے سپر تبلیغ کا کام کرتی ہے ان کو دوسروں سے بعض زائد حقوق بھی دے دیتی ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو کوئی زائد حق نہیں دیں گے جو دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں گے لیکن یہ ضرور ہے کہ زندگی وقف کرنے والے کے سپر د خاص طور پر یہ کام ہوگا کہ وہ اسلام کو پھیلائے اور تبلیغی یا تربیتی نقطۂ نگاہ سے ہر وقت اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھے.اس قسم کے لوگوں کی نفی کر کے نظام اسلام کبھی باقی نہیں رہ سکتا.آخر ایک تفصیلی آئین بغیر اس کے ماہروں اور بغیر اس کے مبلغوں کے کس طرح چل سکتا ہے.اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا کے تمام مذاہب میں سے سب سے زیادہ مکمل ہے اور وہ ایک وسیع اور کامل آئین اپنے اندر رکھتا ہے.وہ عبادات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ اقتصادیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ سیاسیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ آقا اور ملازمین کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ معلم اور متعلم کے متعلق 88

Page 94

اسلام کا اقتصادی نظا بھی تعلیم دیتا ہے، وہ میاں اور بیوی کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ تجارت اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ ورثہ کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ بین الاقوامی جھگڑوں کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ قضاء کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے غرض ، ہزاروں قسم کی تعلیمیں اور ہزاروں قسم کے قانون ہیں جو اسلام میں پائے جاتے ہیں اور اُن میں سے ایک ایک امر مکمل تعلیم اور کامل معلموں کو چاہتا ہے جو رات دن اسی کام میں لگے رہیں.جب تک اس تفصیلی آئین کو سکھانے والے لوگ اسلام میں موجود نہیں ہوں گے لوگ سیکھیں گے کیا؟ اور کس سے؟ اور اسلام پر مسلمان عمل کس طرح کریں گے اور اسلام دنیا میں پھیلے گا کس طرح؟ تفسیر کا علم خود ایک مکمل علم ہے.جب تک مفتر نہ ہو یہ علم زندہ نہیں رہ سکتا اور مفتر بننے کے لئے سالہا سال تک تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، لغت کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، صرف ونحو کا مطالعہ کرنے کی ضرروت ہے، احادیث کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، پھر پرانی تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، دوسرے مذاہب کی کتب اور ان کی تاریخ خصوصاً تاریخ عرب اور تاریخ بنی اسرائیل اور بائیبل کے مطالعہ کی ضرورت ہے بغیر ان باتوں کے جانے کے کوئی شخص قرآن کریم کے مطالب کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست کسی کو سمجھائے مگر ایسے آدمی دنیا میں کتنے ہوتے ہیں.صدیوں میں کوئی ایک آدھ ایسا پیدا ہوتا ہے باقی تو کسب سے جو تقویٰ کے ساتھ ہو یہ مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں.لیکن کمیونسٹ تو اس کام کو کام ہی نہیں سمجھتے وہ کسی کو قرآن کریم اور تفسیر اور عربی بارہ سال تک پڑھنے اور پھر دوسروں کو پڑھانے کا موقع کب دے سکتے ہیں.وہ تو ایسے شخص کو یا قید کر دیں گے یا اس کا کھانا پینا بند کر دیں گے کہ وہ نکما 89

Page 95

اور قوم پر بوجھ ہے.اسی طرح حدیث کا علم بھی علاوہ درجنوں حدیث کی کتب کے ، درجنوں اُن کی تشریحات کی کتب کے اور اس کے ساتھ لغت اور صرف ونحو اور اسماء الرجال کی کتب پر مشتمل ہے بغیر حدیث کے علم کے مسلمانوں کو اسلام کی تفصیلات کا علم ہی نہیں ہو سکتا.اور بغیر اس علم کے ماہرین کے جو اپنی عمر اس علم کے حصول میں خرچ کریں مسلمانوں میں اس علم کی واقفیت پیدا ہی نہیں ہو سکتی مگر کمیونزم تو اس علم کے پڑھنے کو بھی لغو اور فضول اور بے کار قرار دیتی ہے.وہ اس علم کے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو اپنی عمر اس علم کے حصول میں قطعاً خرچ نہ کرنے دے گی.یا ایسے آدمی کو قید کرے گی یا اُسے فاقوں سے مارے گی کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بریکار وجود ہے اور قوم پر بار.مگر مسلمان بغیر اس علم کے ماہرین کے اپنے دین سے نہ واقف ہو سکتے ہیں نہ اس پر کار بند ہو سکتے ہیں.اسی طرح علم فقہ، علم قضاء، علم تاریخ اسلام، علم تصوف، علم معاش اسلامی علم اقتصاد اسلامی ایسے علوم ہیں کہ اُن کے جاننے والوں کے بغیر اسلامی جماعت کو جہاں تک اسلام کا تعلق ہے زندہ نہیں رکھا جا سکتا.مگر کمیونزم نہ اِن علوم کے پڑھانے والوں کو اپنے ملک میں رہنے دے سکتی ہے اور نہ پڑھنے والوں کو.کیونکہ وہ ان لوگوں کو بے کار قرار دے کر ان کے لئے گزارہ کی صورت پیدا نہیں کرتی اور عوام کے پاس سوویٹ اقتصادیات کے ماتحت اس قدر روپیہ نہیں ہوسکتا کہ وہ ان لوگوں کے گزارہ کی خود صورت پیدا کریں جیسا کہ ہندوستان ، چین، عرب وغیرہ ممالک میں مسلمان اسلامی علماء اور طلباء کے گزارہ کی صورت پیدا کر رہے ہیں.حق یہ ہے کہ اسلام اور دیگر مذاہب اور کمیونزم کے کام کی تشریح میں سخت اختلاف ہے.اسلام اور کمیونزم کے کام کی تشریح میں اختلاف ہمارے نزدیک جو شخص مشین چلا رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو شخص مذہب 90

Page 96

پھیلا رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو مذہب کی تعلیم دے رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو مذہب کی تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے.مگر اُن کے نزدیک جو شخص مشین چلاتا ہے.وہ تو کام کرنے والا ہے مگر جو شخص مذہب پڑھتا یا پڑھا تا یا پھیلا تا ہے وہ نکا اور بے کار ہے.اُن کے نزدیک لوگوں کو الف اور با سکھا نا کام ہے مگر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّد رَّسُولُ الله اگر لوگوں کو سکھایا جائے تو یہ کام نہیں بلکہ نکما پن ہے.پس گو لفظاً ہم اُن سے متفق ہیں اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کام کرنے والا ہی روٹی کا مستحق ہونا چاہئے مگر اس امر میں ہم ہرگز اُن سے متفق نہیں ہیں کہ جب تک ایک کمیونسٹ کسی کام کی تصدیق نہ کرے وہ کام ہی نہیں ہے.کمیونسٹ کے نزدیک اُخروی زندگی کے لئے کام کام نہیں بلکہ وقت کا ضیاع ہے.اُس کے نزدیک قرآن پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے،حدیث پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، فقہ پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے،اصول فقہ پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، تفسیر پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے ،تصوف پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے ، لوگوں کو اخلاق کا درس دینے والا وقت ضائع کر رہا ہے، ایک مسلمان کے نزدیک یہ اُس کی جان سے زیادہ قیمتی اشیاء ہیں اور ان علوم کو زندہ رکھنے اور پھیلانے کے لئے ہزاروں انسانوں کی ضرورت ہے.صرف روس میں کہ جہاں مسلمان تین کروڑ ہیں کم سے کم پچاس ہزار علماء اور اتنے ہی طلباء چاہئیں جو آئندہ اُن کی جگہ لیں.مگر کمیونزم نظام کے نزدیک یہ تمام لوگ جو قرآن پڑھانے والے،حدیث پڑھانے والے تفسیر پڑھانے والے ،تصوف پڑھانے والے، فقہ پڑھانے والے، اصول فقہ پڑھانے والے یا اخلاق کا درس دنیا کو دینے والے ہیں خون کو چوس لینے والے قوم کو تباہ کر دینے والے کیڑے ہیں یہ سکھے اور نالائق وجود ہیں.یہ اپنی قوم پر بار ہیں اور یہ لوگ اس قابل ہیں کہ ان کو جلد سے 91

Page 97

اسلام کا اقتصادی جلد دنیا سے مٹادیا جائے.اب دیکھو ہمارے نظریہ اور اُن کے نظریہ میں کتنا بڑا فرق ہے اور مشرق و مغرب کے اس قدر بُعد کو کس طرح دُور کیا جاسکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لوگ دھو کے باز بھی ہوتے ہیں اور وہ دین کی خدمت کا دعوی کر کے اپنے اعمال اس کے مطابق نہیں بناتے مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ شخص جو دین کی سچی خدمت کر رہا ہو، جو اسلام کی اشاعت کیلئے اپنی زندگی کو قربان کر رہا ہو ہم اُسے اپنا سردار سمجھتے ہیں، اُسے قومی زندگی کیلئے بمنزلہ رُوح سمجھتے ہیں اور ہم اُسے اپنا بڑے سے بڑا محسن سمجھتے ہیں مگر کمیونسٹ ایسے لوگوں کو ادنیٰ سے ادنی اور ذلیل سے ذلیل تر وجود قرار دیتے ہیں.وہ اُن کو نکما اور قوم کاغذ ار سمجھتے ہیں اور اُن کے نزدیک یہ لوگ اس قابل ہیں کہ یا تو ان کو قید کر دیا جائے اور یا اپنے ملک سے باہر نکال دیا جائے.کمیونسٹ نظام میں انبیاء علیہم السلام کا درجہ اس تفصیل کے ماتحت کمیونزم نظام میں وہ شخص جس کے پیروں کی میل کے برابر بھی ہم دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کو نہیں سمجھتے، جس کیلئے ہم میں سے ہر شخص اپنی جان کو قربان کرنا اپنی انتہائی خوش بختی اور سعادت سمجھتا ہے یعنی حضرت محمد مصطفی سالی یا یہ ہم جو رات اور دن خدا کی باتیں سنا کر بنی نوع انسان کی روح کو روشن کیا کرتے تھے اسی طرح مسیح ، موسی، ابراہیم، کرشن، رام چندر، بدھ ، زرتشت، گورونانک، کنفیوشس یہ سب کے سب نَعُوذُ ہاللہ نکمے اور قوم پر بار تھے اور ایسے آدمیوں کو اُن کے قانون کے ماتحت یا تو فیکٹریوں میں کام کے لئے بھجوا دینا چاہئے تا کہ اُن سے جوتے بنوائے جائیں یا اُن سے بوٹ اور گرگا بیاں تیار کرائی جائیں یا اُن سے کپڑے سلائے جائیں یا اُن کولوگوں کے بال کاٹنے 92

Page 98

اسلام کا اقتصادی نظا پر مقرر کیا جائے اور اگر یہ لوگ اس قسم کا کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر اُن کا کھانا پینا بند کیا جانا چاہئے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ لوگ نکمے اور قوم پر بار ہیں.کمیونسٹ نظام تصویر بنانے کو کام قرار دیتا ہے، وہ سیچو (STATUE) بنانے کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا بلکہ اسے نکما پن سمجھتا ہے.حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ روٹی ہی انسان کا پیٹ نہیں بھرا کرتی اور صرف غذا ہی اُس کے اطمینان کا موجب نہیں ہوتی بلکہ ہزاروں ہزار انسان دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ اگر اُن کو عبادت سے روک دو تو وہ کبھی بھی چین نہیں پائیں گے خواہ اُن کی غذا اور لباس کا کس قدر خیال رکھا جائے.کمیونزم کا کام کے متعلق عجیب و غریب نظریہ تعجب ہے کہ کمیونسٹ نظام چھ گھنٹہ فیکٹریوں میں کام کر کے سینما اور ناچ گھروں میں جانے والے اور شراب میں مست رہنے والے کو کام کرنے والا قرار دیتا ہے، وہ فوٹوگرافی اور میوزک کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی درستی اور اخلاق کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا.پچھلے دنوں مارشل مائی نووسکائی (MOTI NOOSKY) سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے لڑکے کس کام میں دلچسپی لیتے ہیں تو اُس نے ہنستے ہوئے کہا کہ "They are interested in photography, music and keeping rabbits." گو یا کمیونسٹ نظام میں ایک پندرہ سال کا بچہ جوفو ٹو گرافی میں اپنے وقت کو گزار دیتا ہے، جو میوزک میں دن رات مشغول رہتا ہے، جو خرگوشوں کو پال پال کر اُن کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے وہ تو کام کرنے والا ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اُسے روٹی دی جائے لیکن محمد رسول سی ایم ، مسیحی، موسی ، کرشن ، بدھ ، زرتشت، گورونانک یہ اگر خدا کے نام کو دنیا 93

Page 99

میں پھیلاتے ہیں تو وہ جاہل کہتے ہیں کہ یہ ( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذُلِكَ ) پیرا سائٹس (PARASITES) ہیں.یہ سوسائٹی کو ہلاک کرنے والے جراثیم ہیں.یہ اس قابل نہیں ہیں کہ اُن کو کام کرنے والا قرار دیا جائے حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دن کو بھی کام کیا اور رات کو بھی کام کیا.انہوں نے دن کو دن نہیں سمجھا اور راتوں کو رات نہیں سمجھا، تعیش کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بنی نوع انسان کی علمی اور اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لئے کام کیا مگر یہ لوگ اُن کے نزدیک نکھے اور قوم پر بار تھے.وہ سینما میں اپنے رات اور دن بسر کرنے والے تو کام کرنے والے ہیں اور یہ لوگ جو دن کو بنی نوع انسان کی اصلاح کا کام کرتے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے یہ کوئی کام کرنے والے نہیں تھے.وہ لوگ جو مظلوموں کی مدد کیا کرتے تھے ، جو اخلاق کو درست کیا کرتے تھے ، جو ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے دنیا میں نیکی کو پھیلاتے اور بدی کو مٹاتے تھے وہ تو نکھے تھے اور یہ سینما میں جانے والے اور شرابیں پی پی کرنا چنے والے اور بانسریاں منہ کو لگا کر پیں پیں کرنے والے کام کرنے والے ہیں.سچے مسلمان کے لئے غیرت کا مقام غرض جہاں تک واقعات کا سوال ہے کمیونسٹ نظام میں ان لوگوں کی کوئی جگہ نہیں.میں دوسری دنیا کو نہیں جانتا مگر میں اپنے متعلق یہ کہ سکتا ہوں کہ وہ نظام جس میں محمد رسول اللہ سی ایم کی جگہ نہیں خدا کی قسم ! اُس میں میری بھی جگہ نہیں.ہم اُسی ملک اور اُسی نظام کو اپنا نظام سمجھتے ہیں جس میں اِن لوگوں کو پہلے جگہ ملے اور بعد میں ہمیں جگہ ملے.وہ ملک اگر محمد رسول اللہ سا لیا ایم کے لئے بند ہے تو یقینا ہر سچے مسلمان کے لئے بھی بند ہے.وہ حقیقت پر پردہ ڈال کر مذاہب پر عقیدت رکھنے والوں کو اس نظام کی طرف لا سکتے ہیں مگر 94

Page 100

حقیقت کو واضح کر کے کبھی نہیں لا سکتے.کمیونسٹ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کسی مذہب کے خلاف نہیں ہیں مگر جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے یہ بات درست نہیں وہ لفظا خلاف نہیں لیکن عملاً خلاف ہیں اور جبکہ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ مذہب کی کوئی حیثیت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تو یہ کہنا کہ ہم مذہب کے خلاف نہیں ہیں جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے.مذہبی تعلیم میں روک ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع کا استعمال اس سلسلہ میں ضمنا یہ بات بھی کہے جانے کے قابل ہے کہ روس میں مذہبی تعلیم میں روک ڈالی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ماں باپ کا یہ ہرگز حق نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مذہبی باتیں سکھائیں اور پیدا ہوتے ہی اُس کے کانوں میں ایسی باتیں ڈالنی شروع کر دیں جن کے نتیجہ میں وہ مذہب کی طرف مائل ہو جائے.وہ کہتے ہیں کہ یہ بچے پر کتنا بڑا ظلم ہے کہ اسے پیدا ہوتے ہی ایک مسلمان اسلام کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے، ایک ہندو ہندو مذہب کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے اور ایک عیسائی عیسائی مذہب کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے.انصاف کا طریق یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتو بلوغت تک اُسے مذہب کی کوئی بات سکھائی نہ جائے.دوسری طرف ہم بھی اُسے کوئی بات نہیں بتائیں گے.جب وہ بڑا ہوگا تو خود بخود فیصلہ کرلے گا کہ اُسے کونسا طریق اختیار کرنا چاہئے.اب بظاہر یہ ایک منصفانہ طریق نظر آتا ہے مگر حقیقتا یہ بڑا بھاری ظلم اور تشدد ہے اس لئے کہ اسلام یا عیسائیت یا ہندومت یہ سب مثبت مذاہب ہیں.یہ دعوی کرتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز کا وجود ہے لیکن دہر یہ یہ کہتے ہیں کہ اس چیز کا وجود نہیں ہے.اب یہ سیدھی بات ہے کہ سکھانے کی تو مثبت والے کو ضرورت ہوتی ہے منفی والے کو کیا ضرورت ہے.پس یہ مساوات نہیں بلکہ دھو کے بازی اور فریب کاری ہے.جب وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو تم بھی کچھ 95

Page 101

نہ سکھاؤ اور ہم بھی کچھ نہیں سکھا ئیں گے تو دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم تو سکھائیں گے مگر تمہاری کوئی بات بچے کو سیکھنے نہیں دیں گے.اب بتاؤ کیا کوئی بھی معقول آدمی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ منصفانہ طریق ہے یہ تو صریح یکطرفہ طریق ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کے باپ کے پاس جائے اور اسے کہے کہ آپ بچے کو یہ نہ بتائیں کہ میں تمہارا باپ ہوں اور میں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ آپ اُس کے باپ نہیں ہیں اب بتاؤ اس کے نتیجہ میں بچہ کیا سیکھے گا؟ یہی سمجھے گا کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے.یا ایک شخص مدرسہ میں جا کر اُستاد سے کہے کہ آپ بچے کو یہ نہ بتائیے کہ الف ہے اور میں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ یہ الف نہیں.آپ بچے کو یہ نہ بتائیے کہ یہ با ہے اور میں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ یہ بانہیں.بتاؤ اس کے نتیجہ میں الف، با کا علم پیدا ہوگا یا جہالت پیدا ہوگی ؟ یا ایک شخص کسی کے پاس جائے اور کہے کہ تم بچے کو یہ نہ بتاؤ کہ امریکہ ایک ملک ہے اور میں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ امریکہ ملک نہیں ہے.اس کا نتیجہ آخر کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ اُسے امریکہ کا علم نہیں ہوگا.غرض کوئی بھی معقول آدمی اس سودے کو انصاف کا سودا نہیں کہہ سکتا.اور اس کی وجہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ ہے کہ مذہب مثبت ہے اور دہریت اگناسٹزم ہے یعنی نہ جاننے کا دعویٰ تعلیم کی نفی کی صورت میں اگناسٹک کا مدعا پورا ہو گیا اور نقصان صرف مثبت والے کو ہوا.پس یہ مساوات نہیں بلکہ دھو کے بازی ہے.اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا کے سامنے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَالَمْ يَعْلَمُ.ہم انسان کو قرآن کریم کے ذریعہ وہ علوم سکھائیں گے جن کو وہ اس سے پہلے نہیں جانتا تھا.پس جب کہ اسلام دعوی ہی یہ کرتا ہے کہ ہم وہ علوم تمہیں بتائیں گے جو اس سے پہلے تم نہیں جانتے تھے.تو اگر تم کسی کو وہ علوم بتانے ہی نہیں دو گے تو تم ایک مسلمان کے برابر کس طرح ہو گئے.تم تو اُس بے علم کو اس 96

Page 102

حالت میں لے گئے جو اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت کی حالت تھی اور مسلمان کو اس کے کام سے محروم کر دیا.اسی طرح بعض اور بھی سوالات ہیں جو اس جگہ پیدا ہوتے ہیں مگر چونکہ میں اس وقت اُن سیاسی علمی اور مذہبی سوالوں کو جو اقتصادیات سے جُدا ہیں نہیں چھو رہا اس لئے میں اُن کا ذکر نہیں کرتا.مکمل مساوات ناممکن ہے کمیونسٹ اقتصادیات کا جو اثر مذاہب پر پڑتا ہے اُس کی خرابیاں بتانے کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ یہ نظام عقلاً بھی ناقص ہے.پوری مساوات کو ئی شخص کر ہی نہیں سکتا.صرف روپیہ ہی تو انسان کی خوشی کا موجب نہیں ہوتا نہ صرف روٹی اُس کا پیٹ بھرتی ہے مگر پھر بھی سوال یہ ہے کہ کیا ہر شخص ایک سکی روٹی کھاتا ہے؟ کیا ہر شخص ایک سامزہ کھانے سے حاصل کر سکتا ہے؟ کیا ہر شخص کی نظر ایک سی ہے؟ کیا ہرشخص کی صحت ایک سی ہے اور کیا ان امور میں مساوات پیدا کی جا سکتی ہے؟ یہ چیزیں بھی تو انسان کا آرام بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں.ذہنی قابلیتیں کس قدر تسلی کا موجب ہوتی ہیں مگر دنیا میں کیا کوئی گورنمنٹ ان ذہنی قابلیتوں میں مساوات پیدا کرسکتی ہے؟ رشتہ داروں کی حیات انسان کے اطمینان قلب کا کس قدر موجب ہوتی ہے مگر کیا کوئی رشتہ داروں کی زندگی کا بیمہ لے سکتا ہے؟ کیا کوئی گورنمنٹ کہہ سکتی ہے کہ میں اس رنگ میں مساوات قائم کروں گی کہ آئندہ تیری بیوی بھی اتنے سال زندہ رہے گی اور فلاں شخص کی بیوی بھی اتنے سال زندہ رہے گی یا زید کے بھائی بھی اتنا عرصہ جیتے رہیں گے اور بکر کے بھائی بھی اتنا عرصہ زندہ رہیں گے؟ پھر اولا د کا وجود اور ان کی زندگی انسان کیلئے کس قدر تسلی کا موجب ہوتی ہے مگر کیا دنیا کی کوئی بھی گورنمنٹ ایسا کر سکتی ہے کہ سب کے ہاں ایک جتنی اولاد پیدا ہو، سب کی ایک جیسی 97

Page 103

قابلیت ہو اور سب کی ایک جتنی زندگی ہو؟ پھر رشتہ داروں کے دکھ سے انسان کو کیسا عذاب ہوتا ہے تم ہزار پلاؤ اور فرنیاں سامنے رکھ دو وہ ماں جس کا اکلوتا بچہ مرگیا ہے اُسے ان کھانوں میں کوئی مزا نہیں آئیگا لیکن وہ ماں جس کے سینہ سے اس کا بچہ چمٹا ہوا ہوا سے جومزا باسی روٹی کھانے میں آتا ہے وہ اس بڑے سے بڑے مالدار کو بھی نہیں آتا جس کے سامنے بارہ یا چودہ ڈشوں میں مختلف قسم کے کھانے پک کر آتے ہیں.رشتہ داروں کے متعلق انسانی جذبات کی شدت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابتداء میں جب بالشویک اور منشویک دو پارٹیاں بنیں تو مارٹوو (1923-1873 MARTOV, YULY) جولین کی طرح اپنی پارٹی میں مقتدر تھا اس نے کہا کہ ہمیں اپنے قوانین میں یہ بھی لکھ لینا چاہئے کہ آئندہ ہماری حکومت میں پھانسی کی سزا کسی کو نہیں دی جائے گی کیونکہ انسانی جان لینا درست نہیں اور لوگ بھی اس سے متفق تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پھانسی کی سزا کو اڑا دیا جائے مگر لین نے اُس سے اختلاف کیا اور کہا کہ گو اصولاً یہ بات درست ہے مگر اس وقت اگر یہ بات قانون میں داخل کر دی گئی تو زار کو پھانسی پر لٹکا یا نہیں جاسکے گا پس خواہ صرف زار کی جان لینے کیلئے اس قانون کو جاری رکھنا پڑے تب بھی یہ قانون ضرور قائم رہنا چاہئے ورنہ زار کو پھانسی پر لٹکا یا نہیں جاسکے گا.لینن کی زار سے یہ انتہا درجہ کی دشمنی جس کی وجہ سے اُس نے پھانسی کی سزا کو منسوخ نہ ہونے دیا محض اس وجہ سے تھی کہ اُس کے بھائی کو ز ارسٹ حکومت نے کسی جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا.لین کے دل میں اپنے بھائی کی شدید محبت تھی اس لئے اُس نے چاہا کہ پھانسی کا قانون قائم رہے تا کہ وہ اپنے بھائی کی موت کا بدلہ زار سے لے سکے اور اُسے پھانسی پر لٹکا کر اپنے دل کو ٹھنڈا کر سکے.غرض رشتہ داروں کا دکھ بھی اتنا سخت ہوتا ہے کہ روٹی کا دُکھ اُس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا.مگر کیا کوئی بھی گورنمنٹ 98

Page 104

اس میں مساوات قائم کر سکتی ہے اور کیا کوئی شخص کسی گورنمنٹ سے اپنے رشتہ داروں کی زندگی کا بیمہ لے سکتا ہے؟ پس دل کا چین اور حقیقی راحت بغیر مذہب اور خدا تعالیٰ سے تعلق کے حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ امور اُسی کے اختیار میں ہیں.تم روٹی بینک برابر کی دے دو، کپڑا بے شک یکساں دے دو لیکن انسان کو حقیقی چین اُس وقت تک حاصل نہیں ہو گا جب تک اُس کا خدا سے تعلق نہ ہو کیونکہ روٹی کپڑے کے علاوہ ہزاروں چیزیں ہیں جن میں کمی بیشی سے دل کا چین جاتا رہتا ہے اور اُن کا دین محض اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.کمیونزم کی حق ملکیت میں دخل اندازی (۲) روس، زار کے زمانہ میں صنعتی ملک نہ تھا بلکہ بڑے بڑے زمینداروں کا ملک تھا اس لئے کمیونزم کو براہ راست تعلق زمینوں سے تھا نہ کہ صنعت سے.کارل مارکس نے اگر سرمایہ داری پر کچھ لکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جرمنی میں پکا اور وہیں کی یو نیورسٹی میں اُس نے تعلیم پائی.لین وغیرہ نے جب اُس کے فلسفہ کو اپنایا تو اس کی تعلیم سرمایہ داری کو زمینداری طریق پر چسپاں کرنے کی کوشش کی اور یہ اصول مقرر کیا کہ: (1) (r) زمین حکومت کی ہے.اس لئے ملک کی سب زمینوں کو لے کر اُس آبادی میں جو خود زمیندارہ کام کرے زمین تقسیم کر دینی چاہئے.(۳) جس قدر زمین میں کوئی ہل چلا سکے اُسی قدر زمین اُس کے پاس رہنے دینی چاہئے اس سے زائد نہیں (۴) چونکہ زمین حکومت کی ہے اس لئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا ضروری ہے.کاشتکار چونکہ حکومت کا نمائندہ ہے اُسے کاشت کے بارہ میں حکومت کی 99

Page 105

سلام کا اقتصادی زن دخل اندازی کو تسلیم کرنا چاہئے.اسلام میں حق ملکیت اسلام کی تعلیم جس کے اصول پہلے بتائے جاچکے ہیں اس بارہ میں یہ ہے کہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے حق ملکیت کو جو جائز طور پر ہو تسلیم کیا ہے مگر اس کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ زمین کا مالک اپنی زمین کو اپنی اولاد میں ضرور تقسیم کرے (لڑکے کا ایک حصہ لڑکی کا نصف حصہ اور والدین کا ۱/۳) اور کسی ایک بچے کے پاس نہ رہنے دے.اگر اولاد نہ ہو تب بھی وہ ماں باپ اور بہن بھائیوں میں تقسیم ہو.اگر وہ بھی نہ ہو تو اللہ تعالی کی نمائندہ حکومت کے پاس وہ زمین کوٹ جائے.۱/۳ سے زائد کوئی شخص اپنی جائدادکو وصیت میں نہیں دے سکتا لیکن یہ ۱/۳ حصہ وارثوں میں سے کسی کو نہیں دیا جا سکتا.کس قدر پر حکمت تعلیم ہے.(1) بوجہ ملکیت کو تسلیم کرنے کے ہر شخص جس کے پاس زمین ہوگی اُسے بہتر طور پر کاشت کرے گا کیونکہ اس کے گزارہ کا مدار اس زمین پر ہوگا (۲) اس کے بچے یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس زمین پر کاشت کریں گے اس فن میں مہارت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے (۳) اگر زمین نسبتی طور پر زیادہ بھی ہوگی تو تقسیم وارثت کے ذریعہ سے لازماً کم ہوتی چلی جائے گی (۴) چونکہ اسلام زمین کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت قرار دیتا ہے اس لئے ناجائز طور پر بہت سی زمین کسی کے پاس نہیں جاسکتی.ناجائز سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے سوا دوسرے نظاموں میں مفتوحہ ملکوں کی زمین بادشاہ کے ساتھیوں یا بارسوخ ہم قوموں میں تقسیم کر دی (100)

Page 106

جاتی ہے.اسی نظام کی وجہ سے نارمنڈی -B۳۱ کے بادشاہوں نے انگلستان، سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے بعض علاقوں کی زمینیں چند امراء میں تقسیم کر دیں اور باقی سب لوگ بغیر زمین کے رہ گئے حتی کہ لوگوں کو مکان بنانے کیلئے بھی زمین نہ ملتی تھی.بلکہ پرانے قانون کے ماتحت لوگ مکانوں تک کے لئے امراء سے زمین نہ خرید سکتے تھے اور آخر لمبے مقاطعہ کی صورت میں زمینوں کی خرید وفروخت کا طریق جاری ہوالیکن پھر بھی بہت سے قصبات کی عمارتیں بڑے زمینداروں کے قبضہ میں ہیں جو لوگوں کو کرایہ پر دے کر اپنا تصرف لوگوں پر قائم رکھتے ہیں.فرانس میں بھی اور جرمنی اور آسٹریا میں بھی ایک حد تک ایسا ہی ہوا.اٹلی میں بھی ایک لمبے عرصہ تک یہی حال رہا اور نپولین کی جنگوں کے بعد کسی قدر اصلاح ہوئی.یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی ترقی میں بھی بڑے زمینداروں کی ایک جماعت اسی طرح پیدا ہوگئی کہ پرانے باشندوں کی زمین کے جتنے وسیع رقبہ پر کوئی قبضہ کر سکا اس نے قبضہ کر لیا.آسٹریا میں بھی ایسا ہوا اور کینیا کالونی میں بھی اسی طرح ہوا کہ بعض انگریزوں نے لاکھ لاکھ ایکڑ پر قبضہ کر لیا اور پرانے باشندوں کو محروم کر دیا.مفتوحہ علاقہ کی زمین پر قبضہ کرنے کے متعلق اسلام کا بہترین نمونہ اس کے مقابل پر اسلامی فتوحات میں عرب میں تو فاتحین کو افتادہ زمینوں میں سے کچھ حصہ دیا گیا کیونکہ عرب میں تو زمین ہی کم ہے اس سے وہ ناجائز طور پر بڑے زمیندار نہیں ہو سکتے تھے لیکن یمن اور شام میں جو پرانے زمیندار تھے اُن ہی کے پاس زمین رہنے دی گئی.عراق کا علاقہ چونکہ غیر آباد تھا اور ایرانی اسلام کی فتح پر اس علاقہ کو چھوڑ گئے (101)

Page 107

تھے اور یہ علاقہ دو دریاؤں کے درمیان ہے اس لئے وہاں بہت سی اُفتادہ زمین مسلمانوں کو ملی مگر باوجود اس کے کہ لشکر اسلام کے بعض جرنیلوں نے اس وقت کے عام دستور کے مطابق اس زمین کو جو افتادہ اور سرکاری تھی فاتحین میں بانٹنے کی کوشش کی.حضرت عمر نے اس بناء پر تقسیم کرنے سے انکار کیا کہ اس سے آئندہ نسلوں اور عامۃ الناس مسلمانوں کو نقصان ہوگا اور اُسے گورنمنٹ کی ملکیت ہی رہنے دیا گیا.اسی طرح مصر میں بھی زمین وہاں کے سابق باشندوں کے پاس رہنے دی گئی.غرض اسلامی نظام کی جو تعبیر ابتدائے اسلام میں کی گئی اس میں یہ امر تسلیم کر لیا گیا کہ اُفتادہ زمین کو بجائے امراء میں بانٹ دینے اور بڑے بڑے زمینداروں کی جماعت تیار کرنے کے جیسا کہ یورپین نظام کے ماتحت ہوا ہے حکومت کے قبضہ میں رکھنا چاہئے تا کہ آئندہ نسل اور آبادی کی ترقی پر سب ملک کی ضرورت کا انتظام ہو سکے جس کی وجہ سے اسلامی نظام کے ماتحت بڑی زمینداریوں کا قیام عمل میں نہیں آیا.گو بعد میں اسلام کی تعلیم پر پورا عمل نہیں ہوا پھر بھی اسلامی تعلیم کے اثر سے مسلمان بادشاہ پوری طرح آزاد نہیں ہوئے اور ہندوستان میں جب اسلامی حکومت آئی تو یہاں بھی یہی فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ زمینیں پرانے باشندوں کے قبضہ میں رہنی چاہئیں اور افتاده زمین حکومت کے قبضہ میں.اور ہندوستان کی بڑی زمینداریاں سب کی سب انگریزی زمانہ کی پیداوار ہیں.جب انگریز آئے تو انہوں نے اپنے انتظام کی سہولت کے لئے پرانے تحصیلداروں یار یو نیو افسروں کو اُن کے علاقوں کا مالک قرار دے کر بنگال اور یو.پی میں بڑے زمینداروں کی جماعت قائم کر دی حالانکہ یہ لوگ اصل میں صرف تحصیلدار تھے.اس نئے انتظام کے ماتحت غریب زمینداروں کو ان کے حق سے محروم کر دیا گیا.(102)

Page 108

سلام کا اقتصادی نظام غرض اسلامی نظام زمیندارہ کے متعلق بھی ویسا ہی مکمل ہے جیسا کہ دوسرے اقتصادی امور میں.اس میں بڑے زمینداروں کی جگہ نہیں یعنی حکومت ملکی زمینوں سے بڑے زمیندار نہیں بنا سکتی.ہاں کوئی شخص زمین خرید کر اپنی زمین کچھ بڑھالے تو یہ اور بات ہے.اور یہ ظاہر ہے کہ زمین خرید کر بڑھانا معمولی کام نہیں کیونکہ جس روپیہ سے زمین خریدی جائے گی وہ اگر تاجر کا ہے تو وہ تجارت کے زیادہ فائدہ کو زمین کی خاطر نہیں چھوڑے گا اور اگر روپیہ زمیندار کا ہے تو بہر حال محدود ہوگا.زمیندار کی کمائی سے حاصل کردہ روپیہ سے خریدی ہوئی زمین کبھی بھی کسی زمیندار کو اتنا نہیں بڑھنے دے گی کہ وہ ملک کی اقتصادی حالت کو خراب کر سکے.پھر تقسیم وراثت کے ذریعہ سے اُس کی زمین کو بھی ایک دونسلوں میں کم کر دیا جائے گا.اسلام کی کمیونزم کے مقابل پر بڑی زمینداریوں کو مٹانے کی بہترین سیکیم یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ اسلامی قانون کے مطابق کسی شخص کو خواہ وہ بے اولا دہی کیوں نہ ہو ۱/۳ سے زائد کی وصیت کرنی جائز نہیں.پس اگر کوئی شخص صاحب اولا د ہو گا تو اُس کی زمین تقسیم ہو کر کم ہوتی جائے گی اور اگر وہ اپنے خاندان کی وجاہت کے قیام کے لئے ۱/۳ اپنی اولاد میں سے کسی کو دینا چاہے گا تو اس کی اسلام اُسے اجازت نہ دے گا کیونکہ وصیت وارثوں کے حق میں اسلام جائز نہیں قرار دیتا غیر وارثوں کے حق میں جائز قرار دیتا ہے.اور اس طرح زمین کی تقسیم سے روک کر بڑی رمینداریوں کے قیام کو ناممکن بنا دیتا ہے.اور اگر کوئی لاوارث ہو تو اسلام اُسے بھی ۱/۳ حصہ کی وصیت کی اجازت دیتا ہے باقی (103)

Page 109

زمین اُس کی گورنمنٹ کے پاس چلی جائے گی اور اس طرح پھر ملک کے عوام کے کام آئے گی.اس نظام میں بھی یہ خوبی ہے کہ بڑے زمیندار جونسلوں تک دوسروں کے لئے روک بن کر کھڑے رہیں اس کے ماتحت نہیں بن سکتے مگر اس کے ساتھ ہی شخصی آزادی میں بھی کوئی فرق نہیں آتا اور ذہنی ترقی ، عائلی ہمدردی اور ایسے نیک کاموں میں حصہ لینے کا راستہ کھلا رہتا ہے جن کو انسان اپنی عاقبت کی درستی کے لئے ضروری سمجھے.اس کے برخلاف کمیونزم نے جو تجاویز اپنے نظام کے لئے پسند کی ہیں وہ شخصی آزادی کو کچلنے والی ، عائلی ہمدردی کو مٹانے والی اور دین کی خدمت سے محروم کرنے والی ہیں اور پھر اُن کے جاری کرنے میں وہ کلی طور پر نا کام بھی رہے ہیں.کمیونزم نے زمین کے متعلق یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ زمین سب کی سب ملک کی ہے اور اس لئے حکومت کی ہے.اس طرح سب زمینداروں کو اُنہوں نے مزدور بنا دیا حالانکہ تاجرا اپنی جائداد کا جو سامان کی صورت میں ہو ایک حد تک مالک سمجھا جاتا ہے.اپنے مقرر کردہ اصل کو عملی شکل دینے کے لئے کمیونزم نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ زمین حکومت کی ہے اس لئے حکومت کو اختیار ہے کہ وہ جہاں جو چیز بونامناسب سمجھے زمیندار کو اسی کے بونے پر مجبور کرے اور چونکہ زمیندار اپنے تجربہ کی بناء پر خاص خاص اجناس کے بونے میں ماہر ہوتے ہیں اس لئے یہ بھی اصل تسلیم کیا کہ زمینداروں کو اُن کی قابلیت کے مطابق جس علاقہ میں چاہے بھجوا دے.جب اس نظام کو اُس کی تمام تفاصیل کے مطابق ملک میں رائج کیا گیا تو زمینداروں نے محسوس کیا کہ : (1) ان کو محض مزدور کی حیثیت دے دی گئی ہے اور عام تاجر اور صناع سے (104)

Page 110

سلام کا اقتصادی زن بھی اُن کا درجہ گرادیا گیا ہے.(۲) اُن کے عائلی نظام کو تہہ و بالا کر دیا گیا ہے کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ زمین کو عمدہ بنانے میں جو بھی محنت کریں اُن کی نسل اُن کی محنت سے فائدہ اُٹھانے سے روک دی جائے گی.(۳) (۴) اُن کو ہر وقت اپنے وطنوں سے بے وطن ہونے کا خطرہ ہوگا.وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات زمین سے پیدا نہ کر سکیں گے بلکہ وہی اشیاء بوسکیں گے جن کی حکومت انہیں اجازت دے اور اس طرح اُن کا وہ پرانا نظام جس کے ماتحت وہ اپنے گاؤں اور قصبہ میں مکمل زندگی بسر کر رہے تھے تباہ ہو جائے گا.ان حالات کو دیکھ کر انہوں نے بغاوت کر دی اور سالہا سال تک روس میں زمینداروں کی بغاوت زور پر رہی اور اجناس کی پیداوار بہت کم ہوگئی.آخر موسیو سٹالن نے اس نظام کو منسوخ کر کے پرانے نظام کو پھر قائم کیا.زمینداروں کو اُن کی زمینوں کا مالک قرار دیا گیا اور فصل بونے کے بارہ میں بہت حد تک اُن کو آزادی دے دی گئی.اس طرح بغاوت تو فرو ہو گئی لیکن خود بالشویک لیڈر کے فیصلہ کے مطابق کمیونسٹ نظام کی غلطی پر مہر لگ گئی.چنانچہ موسیوسٹالن کے دشمنوں نے اُن پر ایک یہ الزام بھی لگایا ہے کہ زمینوں کے متعلق لینن کے مقرر کردہ نظام کو انہوں نے توڑ کر کمیونزم سے بغاوت کی ہے.اور موسیوسٹالن نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اصل نصب العین کمیونزم کا عوام کی حکومت ہے سواس نصب العین کے حصول کے لئے اگر دوسرے اصول بدل دیئے جائیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں مگر بہر حال اُن کے جواب سے بھی یہ بات ثابت ہوگئی کہ کمیونزم ایک مستقل فلسفہ کی حیثیت میں کم سے کم زمینوں کے متعلق اقتصادی نظام قائم کرنے میں بالکل (105)

Page 111

ناکام رہی ہے اور خود اس کے لیڈروں نے اسے تسلیم کر لیا ہے کہ اس کے اصول بطور ایک فلسفہ کے جاری نہیں کئے جاسکتے بلکہ حسب ضرورت اُن میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے اور کمیونزم کے سوا دوسرے اصولوں کی مدد سے ملک اور قوم کا انتظام کرنا پڑتا ہے.اسلام کے کامیاب اقتصادی نظام کے مقابل پر یہ زبردست ناکامی اسلامی تعلیم کی برتری کا ایک بین ثبوت ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ کمیونزم کوئی اصولی فلسفہ نہیں بلکہ محض ایک سیاسی تحریک ہے جس کی اصل غرض روس کو طاقتور بنانا ہے اور اُسے مذہب کے مقابل پر کھڑا کرنا سچائی اور دیانت کا منہ چڑانا ہے.چنانچہ اسٹیفن کنگ حال ممبر پارلیمنٹ انگلستان حال ہی میں روس میں دورہ کر کے آئے ہیں اُن کا ایک مضمون "SOVIET UNION“ ماہ جون میں چھپا ہے.اس میں وہ لکھتے ہیں کہ روس کے اس وقت دو بڑے مقصد ہیں.(۱) روس کو ازسر نو تعمیر کرنا.(۲) روس کو دنیا میں سب سے بڑا ، سب سے اچھا، سب سے زیادہ مالدار قوم بنانا.(دیکھو 6.SOVIET UNION NEWS VOL-IV, No) پس کمیونزم محض ایک سیاسی تحریک ہے اور اس کی اصل غرض روس کو طاقتور بنانا ہے.کمیونزم تحریک کے نتیجہ میں علمی ترقی کی بندش (۳) تیسر انقص کمیونزم میں یہ ہے کہ اس نظام کی وجہ سے جو کمیونزم نے قائم کیا ہے گو روٹی کپڑا ملتا ہے مگر اس کا ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ اس سے آئندہ علمی ترقی بالکل رُک جائے گی اس لئے کہ روٹی اور کپڑے کے لئے جتنار و پید ایک شخص کو ملتا ہے وہ اتنانا کافی ہوتا ہے کہ اس میں سفر کرنا اور دنیا میں پھر نا ایک کمیونسٹ کے لئے بالکل ناممکن ہے.جب تک روسیوں کو اقتصادیات میں حریت شخصی حاصل تھی وہ اپنے روپیہ کا ایک حصہ مختلف سفروں (106)

Page 112

کے لئے رکھ لیتے تھے.وہ دنیا میں پھرتے تھے، مختلف ملکوں اور قوموں میں گھومتے تھے، غیر اقوام سے مل کر اُن کے حالات کا جائزہ لیتے تھے اور پھر اُن معلومات سے خود فائدہ اُٹھاتے تھے اور دوسروں کے فائدہ کے لئے اُن معلومات کو اپنے ملک میں شائع کر دیتے تھے اور ملک کے لوگ اُن کی معلومات سے فائدہ اُٹھا کر ترقی کی شاہراہ کی طرف پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ قدم بڑھانے لگتے تھے.یہی حقیقی مدرسہ ملکوں کی علمی ترقی کے لئے قانونِ قدرت نے قائم کیا ہے اور اس میں پڑھ کر تو میں ترقی کی طرف قدم اُٹھاتی چلی آئی ہیں.قرآن کریم نے بھی بار بار مختلف ملکوں کی سیر اور اُن کے حالات دیکھنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اس کے بغیر نکتہ نگاہ وسیع نہیں ہوتا اور مختلف ممالک کے علوم کا آپس میں تبادلہ نہیں ہوتا.مگر اب کمیونسٹ سسٹم کی وجہ سے اُن کا لوگوں سے ملنا، دنیا کے حالات معلوم کرنے کے لئے مختلف ممالک میں پھر نا بالکل ناممکن ہو گیا ہے اور جہاں جہاں کمیونزم پھیلے گی یہی نتیجہ وہاں بھی پیدا ہوگا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ قوم میں ذہنی تنزیل واقعہ ہو جائے گا.کمیونسٹ گورنمنٹ کا کوئی نمائندہ تو دوسرے ملکوں میں دیکھا جاسکتا ہے مگر کمیونسٹ خیالات کے کسی عام روسی کی شکل دیکھنا اب لوگوں کے لئے ایسا ہی ہو گیا ہے جیسے ہما کی تلاش ہوتی ہے.مجھے وسیع ذرائع حاصل ہیں مگر اب تک مجھے بھی کسی آزاد روسی کمیونسٹ کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا ہاں حکومت کے نمائندے مل جاتے ہیں.یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ لوگوں کے پاس کوئی زائد روپیہ رہنے ہی نہیں دیا جا تا.روٹی اور کپڑے کی ضروریات کے علاوہ جو کچھ ہوتا ہے حکومت لے جاتی ہے اور لوگ بالکل خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں.کہا جاتا ہے جب حکومت اپنے نمائندے باہر بھجوادیتی ہے تو اُن کے ذریعہ سے غیر ملکی خیالات اور ایجادات ملک میں آسکتی ہیں لیکن یہ درست نہیں کیونکہ (107)

Page 113

(1) اوّل حکومت کا نمائندہ انہی باتوں کے اخذ کرنے پر مجبور ہے جن کے لئے حکومت اُسے بھجوائے.(۲) انسانی ذہنوں اور میلانوں میں بے انتہا فرق ہے.کسی شخص کا اپنے شوق سے جانا اور اپنے میلان کے مطابق ایک بات کو اخذ کرنا یہ بالکل مختلف ہے اس سے کہ حکومت خود چن کر کسی شخص کو بھجوائے.ایسا منتخب کردہ شخص ہر میلان والے گروہ کی ترقی کا سامان پیدا نہیں کرسکتا.(۳) خود مختلف ممالک کے لوگوں کا کثرت سے باہم ملنا انسانی دماغ کی ترقی اور صلح اور امن اور اتحاد کے پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے اس نظام کی وجہ سے اس کا راستہ بالکل مسدود کر دیا گیا ہے.اس وقت جو آزاد روسی باہر ملتے ہیں وہ یا کمیونزم کے مخالف ہیں جو اپنے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں یا وہ کمیونسٹ ہیں جو حکومت کی طرف سے پروپیگنڈا کے لئے مقرر ہیں لیکن اپنے اثر کو وسیع کرنے کے لئے غیر ملکوں میں جا کر جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ آزادر وہی ہیں اور حکومت سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب زائد روپیہ عوام کے پاس ہوتا ہی نہیں تو وہ دُور دراز کا سفر کس طرح کر سکتے ہیں.کچھ عرصہ ہوا کراچی سے لاہور آتے ہوئے مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ائیر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں ایک روسی ہے جو اپنے آپ کو آزاد سیاح بتاتا ہے اور کمیونزم کی تائید میں بہت کچھ پرو پیگنڈا کر رہا ہے.میں نے اُس دوست سے کہا کہ اس سے کہو کہ تمہارا آزاد روسی ہونے کا دعویٰ سراسر جھوٹا ہے.تمہارے نقطہ نگاہ سے میں ایک بڑا زمیندار ہوں مگر میں سیکنڈ میں سفر کر رہا ہوں.تمہارے ہاں تو بڑے زمیندار ہوتے ہی نہیں تم ایک کسان ہو کر یا مزدور ہو کر کس طرح اتنے دُور (108)

Page 114

در از علاقہ کا سفر اس عیاشی کے ساتھ کر رہے ہو.اگر تمہارا مزدور اور کسان ائیرکنڈیشنڈ کمرہ میں ہزاروں میلوں کا سفر کر رہا ہے تو ہندوستان کے ان لوگوں کے خلاف تمہارا جوش کس امر پر مبنی ہے جو تم سے بہت کم آرام حاصل کر رہے ہیں اور جن کا حال درحقیقت تمہارے مزدوروں کا سا ہے.تم سے جو درحقیقت حکومت کے گماشتے ہو ان کو کوئی نسبت ہی نہیں کیونکہ تمہاری دولت اور ان کے گزارہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے.کمیونزم نظام قائم رکھنے کے لئے سونے کی ضرورت (۴) چوتھا نقص اس نظام میں یہ ہے کہ جب بھی اس میں خرابی پیدا ہوئی اور اس تحریک پر زوال آیا ملک میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگی اور نتائج پہلے سے بھی خطر ناک ہو جائیں گے.وجہ یہ ہے کہ اس نظام میں قابلیت کو مٹا کر دماغ کو ضائع کر دیا گیا ہے اس لئے جب بھی تنزل ہوگا یہ تحریک گلی طور پر گر جائے گی اور خلا کو پر کرنے کے لئے سوائے ڈکٹیٹر کے اور کوئی چیز میسر نہ آئے گی.جرمنی نے اگر ہٹلر کو قبول کیا تو کمیونسٹ میلانات کی وجہ سے، جو جرمنی میں شدت سے پیدا ہورہے تھے.فرانس کا تجربہ بھی اس پر گواہ ہے جب فرانس کے باغیوں میں تنزل پیدا ہوا تو اس کے نتیجہ میں نپولین جیسا جبار پیدا ہو گیا.جمہور میں سے جمہوریت کا کوئی دلدادہ اس جگہ کو نہ لے سکا.اسی طرح بے شک کمیونزم اپنی حکومت کو پرولی ٹیری ایٹ (PROLETARIAT) کہہ لے یااس کا نام ٹو ٹیلی ٹیرین (TOTALITARIAN) حکومت رکھ لے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نظام آخر چکر کھا کر ایک ڈکٹیٹر کی شکل اختیار کرلے گا بلکہ اس وقت بھی عملی رنگ میں یہی حالت ہے کیونکہ گو یہ لوگ اقتدار عوام کے حامی ہیں لیکن عملاً حکومت کا اقتدار عوام کے ہاتھ میں دینا پسند نہیں کرتے.چنانچہ روس میں ایک منٹ کے لئے بھی جمہوری حکومت قائم نہیں ہوئی بلکہ 109)

Page 115

اسلام کا اقتصادی ڈکٹیٹر شپ ہی چلی جارہی ہے.لین پہلا ڈکٹیٹر تھا اب دوسرا ڈکٹیٹر سٹالن بنا ہوا ہے.سٹالن کے بعد شاید موسیومولوٹوف ڈکٹیٹر بن جائیں گے اور جب مولوٹوف مرے تو کسی اور ٹوف یا خوف کی باری آجائے گی.بہر حال اس قسم کے نظام کو سونٹے کی مدد کے سوا کبھی قابو میں نہیں رکھا جا سکتا اور روس کا تجربہ اس امر پر شاہد ہے.(۵) پانچواں نقص کمیونزم کے اقتصادی نظام میں یہ ہے کہ اس میں سود کی ممانعت کو بطور فلسفہ کے اختیار نہیں کیا گیا.کہا جاتا ہے کہ وہاں انفرادی سودی بنک نہیں ہیں.اس وقت تک مجھے اس بارہ میں کوئی تحقیقی علم نہیں اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن انفرادی سودی بنکوں کا نہ ہونا اور سود کو اصولی طور پر برا سمجھنا دونوں بالکل متبائن باتیں ہیں.انفرادی سودی بنک کا نہ ہونا سامان میسر نہ آنے کے سبب سے بھی ہوسکتا ہے.اور بنگنگ کے اصول سے عام پبلک کی ناواقفیت کے سبب سے بھی ہو سکتا ہے، مصلحت وقتی کے ماتحت بھی ہوسکتا ہے.جب سامان میسر آجائیں یا پبلک کا ترقی کرنے والا حصہ بنکنگ سسٹم سے آگاہ ہو جائے یا وقتی مصلحت بدل جائے تو انفرادی بنک ملک میں جاری ہو سکتے ہیں لیکن اگر کوئی قوم کسی بات کو اصولی طور پر بُرا سمجھتی ہے تو خواہ حالات بدل جائیں، خواہ اس بات کا بار یک اور عملی علم حاصل ہو جائے ، خواہ سامان کثرت سے مہیا ہوں وہ قوم اس بات کو بھی اختیار نہیں کرے گی کیونکہ اُس کا اِس بات کو ترک کرنا اصولی بناء پر تھانہ وقتی مشکلات یا وقتی مصالح کی بناء پر.غرض روس میں اگر افراد سے لین دین کرنے والے بنک نہیں ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ کیپٹلزم کی جڑ کو جوسود ہے روس نے کاٹ دیا ہے.میں نے کہا ہے کہ مجھے اس بارہ میں ذاتی علم نہیں لیکن ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ کمیونزم کے لٹریچر میں سود کی

Page 116

ممانعت کا کوئی ذکر نہیں.اور یہ بات مجھے اس بات کا دعوی کرنے کا حق دیتی ہے کہ کمیونزم شود کی اصولی طور پر مخالف نہیں.پھر میں دیکھتا ہوں کہ روسی گورنمنٹ دوسری حکومتوں سے جو سود کے بغیر کوئی کام نہیں کرتیں روپیہ قرض لیتی ہے اس امر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کمیونزم سود کی مخالف نہیں ہے بلکہ اس کے حق میں ہے.کیونکہ اگر وہ سُود کے حق میں نہ ہوتی تو سود پر رقوم قرض کیوں لیتی.نیز موجودہ جنگ میں روس نے اپنے ملکی لوگوں سے بھی بہت روپیہ قرض لیا ہے.میں قیاس کرتا ہوں کہ یہ رو پی بھی شود پر ہی لیا گیا ہے.اگر میری یہ رائے درست ہے کہ کمیونزم شود کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ہے اور بہت سے واقعات میری رائے کی تائید کرتے ہیں تو یہ امر بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ روس میں سودی کاروبار کی کمی محض ایک وقتی امر ہے اور سابق نظام میں ایک غیر معمولی تغیر کا نتیجہ ہے لیکن جب کمیونسٹ لوگ روس سے باہر جانے لگیں گے تو وہاں کا روبار کے لئے وہ سود پر روپیہ لیں گے اور جب ملک زیادہ ترقی کرے گا اور صنعت وحرفت اور زراعت ترقی کریں گے تو یورپ کی دوسری اقوام کی طرح کمیونسٹ بھی ان کاموں کی ترقی کے لئے سود کا کاروبار کریں گے.اسی طرح جنگوں کو کامیاب طور پر چلانے اور وسیع صنعتی ترقی کے لئے سٹیٹ بنک کی شاخیں ملک میں کثرت سے کھولی جائیں گی اور آخر شود اُسی طرح کمیونزم کو کیپٹلزم کی طرف لے جائے گا جس طرح دوسرے مغربی ممالک کو لے گیا ہے.(۶) چھٹا نقص کمیونسٹ اقتصادی نظام کا جس کی وجہ سے کیپٹلزم کچلا نہیں جا سکتا یھینچ (EXCHANGE) کے طریق کا جواز ہے.وہی تبادلۂ سکہ کا طریق جو بنکوں کی وجہ سے اور حکومتوں کے تداخل کی وجہ سے اس زمانہ میں جاری ہوا ہے کمیونزم بھی اُسی کی تائید کرتا ہے اور اُسی کے مطابق عمل کرتا ہے.موجودہ زمانہ میں ایکسچینج ریٹ ( یعنی دو ملکوں 111.

Page 117

کے سکوں کی متبادل قیمتوں کی تعیین ) دو ملکوں کی تجارت کے طبعی توازن پر نہیں رہا بلکہ کمزور ملکوں کے مقابل پر تو بنکوں کے ہاتھ میں اُس کی کنجی ہے.اور طاقتور ملکوں کی شرح مبادلہ خود حکومتیں مقرر کرتی ہیں اور قیمت کی تعیین میں تجارت موجودہ کے علاوہ یہ غرض مدنظر ہوتی ہے کہ کس ملک سے کس قدر آئندہ تجارت کرنا اس حکومت کے مقصود ہے.ہمیشہ شرح تبادلہ پر غریب ملک شور مچاتے رہتے ہیں لیکن چونکہ اُن کے پاس جواب دینے کے لئے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ موجود نہیں ہوتی اس لئے خاموش ہو جاتے ہیں اور اس طرح زبر دست ملک کمزور ملک کو تجارتی طور پر کمزور کر دیتا ہے حالانکہ تبادلہ شرح ایک بناوٹی اصول ہے وہ اصول جس پر دو ملکوں کے تجارتی تعلقات کی بنیاد قائم ہونی چاہئے تبادلۂ اشیاء ہے یا تبادلۂ قیمت یعنی سونا چاندی.لیکن بجائے اشیاء کے تبادلہ یا سونے چاندی پر تجارت کی بنیا درکھنے کے ایکسچینج ریٹ پر تجارت کی بنیا درکھ دی گئی ہے جس کی وجہ سے غیر متمدن ممالک بنکوں کے ہاتھوں پر پڑ گئے ہیں اور متمدن ممالک میں بنکوں میں تجارت سیاست کے تابع چلی گئی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ایھنچ کی وجہ سے تجارت میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے اور موجودہ زمانہ کی بڑھی ہوئی تجارت بغیر کسی آسان طریق تبادلہ کے سہولت سے جاری نہیں رکھی جاسکتی لیکن یہ ضروری نہیں کہ شرح تبادلہ کو سیاسیات کے تابع رکھا جائے اور کمزور ملکوں کے ٹوٹنے کا ذریعہ بنایا جائے بلکہ اگر غور کیا جائے تو سابق بارٹر سسٹم کو جس میں اشیاء کا اشیاء کے مقابلہ میں تبادلہ ہوتا ہے نہ کہ ایکسچینج ریٹ کے اصول پر، ایسے طریق پر ڈھالا جاسکتا ہے کہ موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق وہ ہو جائے اور حکومتوں کا دخل اس سے ہٹا دیا جائے.بلکہ مختلف ممالک کے تاجروں اور حکومت کے نمائندوں کے مشورہ سے وقتا فوقتا مختلف ممالک کے لئے اینج کا ایک ایسا طریق مقرر کیا (112)

Page 118

جائے جس کا بنیادی اصول تبادلۂ اشیاء ہو نہ کہ کاغذی روپیہ کی مصنوعی قیمت پر.جرمنی نے گزشتہ جنگ کے بعد ایکسچینج (EXCHANGE) میں سیاسی دخل اندازی کر کے اپنے کاغذی روپیہ کو اس قدرستا کر دیا کہ سب دنیا کی دولت اس طرف کھنچی چلی آئی اور جب کافی سرمایہ غیر ملکوں سے تجارت کرنے کے لئے اُس کے پاس جمع ہو گیا تو اُس نے اپنے کاغذی سکہ کو منسوخ کر دیا اور اس طرح تمام دنیا کے ممالک میں بہت کم خرچ سے بہت بڑی رقوم غیر ملکی سکوں کی اپنی آئندہ تجارت کے لئے جمع کر لیں.اگر بارٹر سسٹم ( تبادلہ اشیاء ) پر بین الاقوامی تجارت کی بنیاد ہوتی تو جرمنی اس طرح ہر گز نہ کر سکتا تھا.روس نے بھی جرمنی کی نقل میں ایکھینچ کو بہت گرا دیا لیکن بوجہ جرمنی جیسا ہوشیار نہ ہونے کے اور بوجہ صنعتی تنظیم نہ ہونے کے اس نے فائدہ نہ اُٹھایا در حقیقت مصنوعی شرح تبادلہ ایک زبر دستوں کا ہتھیار ہے جس سے وہ کمزور قوموں کی تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور غیر طبعی طریقوں سے تجارت کے بہاؤ کو اپنی مرضی کے مطابق جدھر چاہتے ہیں لے جاتے ہیں.روس نے اس نظام کو تسلیم کر لیا ہے اور اس طرح ملکی کیپیٹلزم کی بنیاد کو قائم رکھا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جوں جوں روی صنعت و حرفت مضبوط ہوگی کمیونزم زیادہ سے زیادہ اس ہتھیار سے کام لے گی اور کمزور ممالک کی تجارتوں کو اپنے مطلب اور اپنے فائدہ کے لئے استعمال کرے گی اور اس طرح گو مادی دولت کو جمع کر لے گی لیکن اصولی طور پر خود اپنے اصول کو توڑنے والی اور غریب اور کمزور ممالک پر ظلم کر نیوالی ثابت ہوگی.کمیونزم کا اقتصادیات میں جبر سے کام لینا (۷) ساتویں اس نظام کے اقتصادی حصہ کو چلانے کیلئے جبر سے کام لیا جاتا ہے جو آخر ملک کے لئے مضر ثابت ہوگا.کمیونزم کہتی ہے کہ دولت مندوں کی دولت لوٹ لی جائے 113)

Page 119

اور سوائے ابتدائی انسانی ضروریات کے خرچ کے انہیں اور کچھ نہ دیا جائے.یہ نظریہ اپنی ذات میں اچھا ہو یا برا سوال یہ ہے کہ کمیونزم جبر کو جائز بجھتی ہے اور اس سے کام لیتی ہے اور بجائے اس کے کہ آہستہ آہستہ ترغیب اور تربیت سے لوگوں کی عادات درست کی جائیں اور اپنے سے کمزوروں پر رحم کی عادت ڈالی جائے اور غرباء کی محبت اور اُن سے مساوات کا خیال اُن سے اونچے طبقہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈالا جائے کمیونزم جبر کی طرف مائل ہوتی ہے اور اس کی تعلیم دیتی ہے اور اُس نے برسراقتدار آتے ہی یکدم آسودہ حال لوگوں کی دولت کو چھین لیا اور اُن کی تمام جائدادوں کو اپنے قبضہ میں کرلیا.یہ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جن کو شاہی محلات میں سے نکال کر چوہڑوں کے گھروں میں بٹھا دیا جائے اُن کے دلوں میں جتنا بھی اس تحریک کے متعلق بغض پیدا ہو کم ہے.یہی وجہ ہے کہ انہیں اس تحریک سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ اس سے انتہائی طور پر بغض رکھتے ہیں.اس کے مقابلہ میں بے شک اسلام نے بھی اُمراء سے اُن کی دولت لی ہے مگر جبر سے نہیں بلکہ پہلے انہیں وعظ کیا، پھر دولت کے محرکات کو مٹایا، پھر اُن کی ضروریات کو محدود کیا، پھر انہیں زکوۃ اورصدقہ وغیرہ احکام کا قائل کیا اور بالآخر ان تدابیر کے باوجود جو دولت اُن کے ہاتھوں میں رہ گئی اُسے اُن کی اولادوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا.اس طرح دولت اسلام نے بھی لے لی اور کمیونزم نے بھی مگر کمیونزم نے جبر سے کام لے کر امراء سے اُن کی دولت لی اور اسلام نے محبت سے اُن کی دولت لی.اس جبر کا یہ نتیجہ ہے کہ غیر ممالک میں ایک بہت بڑا عنصر اُن اُمراء کا موجود ہے جو روس کے خلاف ہیں کیونکہ کمیونزم نے اُن کی دولت کو چھین لیا اور انہیں تخت شاہی سے اُٹھا کر خاک مذلت پر گرادیا.کمیونسٹ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ آجکل اس تحریک کے خلاف کسی ملک میں جوش

Page 120

نہیں ہے اور وہ اس پر بہت خوش ہیں حالانکہ اس وقت کی خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ غیر ممالک اس وقت روس کی مدد کے محتاج ہیں.اس وقت انگلستان کوئی بات روس کے خلاف سننے کے لئے تیار نہیں، اس وقت امریکہ کوئی بات روس کے خلاف سننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ امریکہ اور انگلستان دونوں اس وقت روس کی مدد کے محتاج ہیں اور لوگ اس وجہ سے خاموش بیٹھے ہیں.جس دن لڑائی ختم ہوئی اور لوگوں کی آواز پر حکومت کی گرفت نہ رہی اُسی دن وہ لوگ جو آج مصلحت کے ماتحت خاموش بیٹھے ہیں روس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں گے اور اس تحریک کو مٹانے کی کوشش کریں گے.چنانچہ اس تقریر کے بعد جنگ جرمنی ختم ہو گئی اور مختلف ممالک میں روسی نظام کے خلاف آواز میں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں خصوصآًیونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں ) کمیونزم کے ذریعہ عائلی محبت کی موت (۸) آٹھواں نقص اس نظام میں یہ ہے کہ اس میں عائلی محبت کا سر کچل دیا گیا ہے جو آخر مضر ہوگا.کمیونزم میں ماں اور باپ اور بہنوں اور بھائیوں اور دوسرے تمام رشتہ داروں کی محبت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور بچوں کوکمیونزم کی تعلیم دینے اور مذہب سے بیگانہ کرنے کے لئے حکومت کے بچے قرار دے دیا گیا ہے.ہر بچہ بجائے اس کے کہ ماں کی گود میں رہے، بجائے اس کے کہ باپ کی آنکھوں کے سامنے پرورش پائے گلی طور پر گورنمنٹ کے اختیار میں چلا جاتا ہے یا کم سے کم قانونی طور پر ایسا ہے.اس طرح ماں باپ کی محبت کا خانہ بالکل خالی کر دیا جاتا ہے.یہ نظام بھی ایسا ہے جود یر تک نہیں چل سکتا.یا تو اس نظام کو بدلنا پڑے گا یا رشیا کا انسان انسان نہ رہے گا کچھ اور بن کر رہ جائے گا.لوگ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم کامیاب ہو گیا حالانکہ اس وقت کمیونزم کی کامیابی محض زار کے 115)

Page 121

مظالم کی وجہ سے ہے.جب پچاس ساٹھ سال کا زمانہ گزر گیا، جب زار کے ظلموں کی یاد دلوں سے مٹ گئی ، جب اُس کے نقوش دُھندلے پڑ گئے اگر اُس وقت بھی یہ نظام کامیاب رہا تب ہم سمجھیں گے کہ کمیونزم واقعہ میں ماں کی محبت اور باپ کے پیار اور بہن کی ہمدردی کو کچلنے میں کامیاب ہو گیا ہے.لیکن دنیا یا در کھے یہ محبتیں کبھی کچلی نہیں جاسکتیں.ایک دن آئے گا کہ پھر یہ محبتیں اپنا رنگ لائیں گی پھر دنیا میں ماں کو ماں ہونے کا حق دیا جائے گا، پھر باپ کو باپ ہونے کا حق دیا جائے گا، پھر بہن کو بہن ہونے کا حق دیا جائے گا اور پھر یہ گم گشتہ محبتیں واپس آئیں گی.لیکن اس وقت یہ حالت ہے کہ کمیونزم انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشین سمجھتا ہے.نہ وہ بچہ کے متعلق ماں کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ باپ کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ بہن کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ اور رشتہ داروں کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، وہ انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشینری کی حیثیت دے رہا ہے مگر یہ مشینری زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی.وقت آئے گا کہ انسان اس مشینری کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گا اور اُس نظام کو اپنے لئے قائم کرے گا جس میں عائلی جذبات کو اپنی پوری شان کے ساتھ برقرار رکھا جائے گا.دماغی قابلیت کی بے قدری (9) نواں نقص اس نظام میں یہ ہے کہ اس میں دماغ کی قدر نہیں اس لئے مجبوراً اعلیٰ دماغ کے لوگ روس میں سے باہر نکلیں گے اور اپنی دماغی ایجادات کی قیمت دنیا سے طلب کریں گے.بالشوزم کے نزدیک ہاتھ کا کام اصل کام ہے وہ دماغی قابلیتوں کو ہاتھ کے کام کے بغیر بے کار محض قرار دیتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہاتھ کا کام بھی کام ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دماغی کام بھی اپنی ذات میں بہت بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور پھر 116)

Page 122

فطرتِ انسانی میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنی خدمات کا صلہ چاہتی ہے.جب کمیونسٹ گورنمنٹ دماغی قابلیتوں کی قدر نہیں کرے گی تو فطرت کا مقابلہ زیادہ دیر تک نہیں ہو سکے گا.یا تو کمیونسٹ نظام خود اپنے اندر تبدیلی کرنے پر مجبور ہوگا اور دوسرے نظاموں کی صف میں آکر کھڑا ہو جائے گا اور اپنے فلسفہ کو ترک کرنے پر مجبور ہوگا یا پھر اعلیٰ دماغ رکھنے والے لوگ باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں اپنی ایجادات کو رجسٹرڈ کرا کے اُن سے فائدہ اُٹھائیں گے مگر روس اُن کی دماغی قابلیتوں کے فوائد سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا.اس وقت روسی گورنمنٹ سختی سے لوگوں کو باہر جانے سے روکے ہوئے ہے.مگر جب آپس میں میل جول شروع ہوا اور اس جنگ کے نتیجہ میں ایک حد تک ایسا ضرور ہوگا تو روسی موجد باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں دوسرے موجدوں کی حالت کو دیکھ کر خود بھی کمپنیاں قائم کر کے اپنی ایجادات سے نفع اُٹھانا شروع کر دیں گے.جیسے جرمنی نے جب یہودیوں پر مظالم شروع کئے تو یہودی جرمن میں سے نکل کر امریکہ میں چلے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی چیز میں اور وہی دوائیں جو پہلے جرمنی میں تیار ہوا کرتی تھیں اب امریکہ میں تیار ہونی شروع ہوگئی ہیں.بڑے بڑے کارخانے امریکہ میں اُن یہودیوں نے کھول رکھے ہیں اور اُن سے خود بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور امریکہ کو بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں حالانکہ وہ کارخانے پہلے جرمنی میں تھے جب اُن کے حقوق کو دبایا گیا تو وہ انگلستان اور امریکہ میں چلے گئے.اسی طرح روس میں جب بھی ڈھیل ہوئی اور لوگوں کو آمد و رفت کی آزادی ملی وہاں کے موجد باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں بس کر اپنی دفاعی قابلیتوں سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیں گے یا پھر بیرونی ملکوں سے میل جول کے بند ہونے کی وجہ سے روسی دماغ میں کمزوری آنی شروع ہو جائے گی اور آخر وہ ایک کھڑے پانی کے تالاب کی طرح سٹر کر رہ جائے گا.117

Page 123

روسی صنعت میں تنزیل کا خطرہ (۱۰) دسواں نقص کمیونسٹ نظام میں یہ ہے کہ چونکہ اس وقت کھانا اور کپڑا وغیرہ حکومت کے سپر د ہے اور صنعت و حرفت بھی اُس کے سپرد ہے اور امپورٹ (IMPORT) اور ایکسپورٹ (EXPORT) بھی اس کے قبضہ میں ہیں اور جس ملک میں وہ قائم ہوئی ہے وہ صنعت میں بہت پیچھے تھا اس لئے فورا حقیقی نتائج معلوم نہیں ہو سکتے مگر عقلاً یہ امر ظاہر ہے کہ جب تک صرف اس قدر صنعت وہاں ہے کہ ملک کی ضرورت کو پورا کرے نقصان کا پتہ نہیں لگ سکتا.جس قیمت پر بھی چیز بنے بنتی جائے گی اور ملک میں کھپتی جائے گی اُس کے مہنگا ہونے کا علم نہیں ہوگا.جب تک وہاں کارخانے صرف روسیوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اُس وقت تک یہ پتہ نہیں لگ سکتا کہ کارخانے نفع پر چل رہے ہیں یا نقصان کی طرف جارہے ہیں.وجہ یہ ہے کہ جس قیمت پر بھی کوئی چیز تیار ہوتی ہے وہ ملک میں کھپ جاتی ہے مگر ایک وقت آئے گا کہ صنعت ملک کی ضرورت سے زیادہ بڑھنے لگے گی اگر اُس وقت صنعت کو روکا گیا تو اس میں تنزل شروع ہو جائے گا.اور اگر بڑھنے دیا گیا تو اس صورت میں یہ امر لازمی ہوگا کہ روسی صنعت کی اشیاء دوسرے ملکوں کو بھجوائی جائیں تب یہ بھی ضروری ہوگا کہ روسی صنعت کی اشیاء کی وہی قیمت مقرر کی جائے جس پر وہ باہر کی منڈیوں میں فروخت ہوسکیں.اگر اس مجبوری کے ماتحت روسی پیداوار کو اس کی لاگت سے کم قیمت پر فروخت کیا گیا تو گویا روسی صناع غیر ملکوں کا غلام بن جائے گا کہ رات دن محنت کر کے لاگت سے کم قیمت پر انہیں اشیاء مہیا کرے گا لیکن اگر ایسانہ کیا گیا تو لازما ملک کی صنعت ایک حد تک ترقی کر کے رُک جائیگی.یا پھر روس کو امپیریلزم کا طریق اختیار کرنا ہوگا یعنی دوسرے ملکوں کو قبضہ میں لا کر اُن پر مصنوعات ٹھونسنی پڑیں گی اور اس (118)

Page 124

طرح خود اپنے ہاتھ سے روس اپنی آزادی کے دعوؤں کو دفن کر دے گا.غرض اس وقت مقابلہ نہ ہونے کی وجہ سے کم سے کم قیمت پر مال پیدا کرنے کی روح سخت کمزور ہے اور آئندہ اور بھی کمزور ہوتی جائے گی.اس وقت اُس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک غریب عورت دن میں پانچ سیر دانے پیس لیتی ہے تو گھر والے خوش ہو جاتے ہیں کہ اس نے خوب کام کیا ہے اور وہی آثارات کو پکا کر کھا لیتے ہیں لیکن جب وہ باہر جا کر مزدوری کرتی ہے تب اُسے پتہ لگتا ہے کہ میں نے کتنا کام کیا ہے اور کتنا کام مجھے کرنا چاہئے تھا.کیونکہ پانچ سیر دانوں کی پسائی کے مقابل پر باہر مزدوری اُسے بہت زیادہ ملتی ہے.اسی طرح جب تک روسی اپنی تیار کردہ اشیاء اپنے گھر میں استعمال کرتے رہتے ہیں یہ صیح طور پر قیاس نہیں کیا جا سکتا کہ روس تجارتی طور پر بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے.اس وقت بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ روس اقتصادی طور پر کامیاب ہو رہا ہے لیکن جب اس کی صنعت بڑھے گی اُس وقت اس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور اقتصادی طور پر وہ بالکل گر جائے گا.لیکن اگر کامیاب ہو گیا تو اس کا ایک اور خطرناک نتیجہ نکلے گا جو ذیل کے ہیڈ نگ کے نیچے بیان کیا گیا ہے.کمیونزم کے نظام میں عالمگیر ہمدردی کا فقدان.(۱۱) گیارہواں نقص کمیونزم نظام میں یہ ہے کہ اس کی بنیا دصرف ملکی ہمدردی پر ہے عالمگیر ہمدردی کا اصل اس میں نہیں ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر روسی کمیونزم نظام صنعتی ترقی میں کامیاب ہو گیا تو وہ مجبور ہوگا کہ ایک زبردست کیپٹلسٹ نظام جو پہلے نظام سے بھی بڑا ہو اور دنیا کیلئے پہلے نظام سے بہت زیادہ خطرناک ہو قائم کرے.میں حیران ہوں کہ اتنے اہم سوال کی موجودگی میں ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ کمیونزم کی حمایت کس بناء پر کرتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ روس نے اجتماعی سرمایہ داری کو ایک عظیم الشان شکل میں پیش کیا ہے اور 119)

Page 125

اس سے دنیا کو آخر بہت نقصان پہنچے گا.روس میں اور دوسرے ممالک میں جو کمیونسٹ ہیں وہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ کمیونزم نے ہر شخص کی روٹی اور کپڑے کا انتظام کر دیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک روٹی اور کپڑے کا سوال ہے ہم بھی خوش ہیں کہ لوگوں کی اس ضرورت کو پورا کیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اُس عظیم الشان خطرہ کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو ایک نئے کیپیٹل سٹم (CAPITAL SYSTEM) کی صورت میں دنیا کے سامنے آنے والا ہے.روس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ء تک اپنے ملک کی صنعتی پیداوار کو ۶۲۶۷ فیصدی بڑھا دیا ہے.یعنی پہلے اگر ایک ارب تھی تو اب چھ ارب پچیس کروڑ ہے.پہلے اگر سو موٹر روس میں بنتا تھا تو اب ۶۲۵ موٹر بنتا ہے یا پہلے اُس کے کارخانوں میں اگر ایک لاکھ تھان کپڑے کا تیار ہوا کرتا تھا تو اب چھ لاکھ پچیس ہزار تھان بنتا ہے.یہ ترقی واقعہ میں ایسی ہے جو قابل تعریف ہے.روسی کمیونزم کا یہ بھی دعوی ہے کہ ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ ء تک دس بلین روبلز سے اس کا صنعتی سرمایہ پچہتر بلین روبلز تک بڑھ گیا ہے ( روبل کی موجودہ قیمت بہت تھوڑی ہے ) گویا اس عرصہ میں اُس نے ساڑھے سات گنا اپنا سرمایہ بڑھا لیا ہے اور سوا چھ سو گنا اُس نے اپنی صنعتی پیداوار کو بڑھا لیا ہے.اُس کا یہ بھی دعوی ہے کہ صرف ۱۹۳۷ء میں اُس نے اپنی ملکی آمد کا ۱/۳ حصہ کارخانوں کی ترقی پر لگایا ہے یہ بھی بڑی شاندار ترقی ہے.مگر ایک بات پر غور کرنا چاہئے کیا روس بغیر دوسرے ملکوں سے تجارتی لین دین کرنے کے ہمیشہ کیلئے ایک بند دروازہ کی پالیسی پر عمل کر کے اپنی اس ترقی کی رفتار کو جاری رکھ سکتا ہے؟ اس وقت تو صورت یہ ہے کہ روس نہ بیرونی ملکوں کو اپنی بنی ہوئی چیزیں بھیجتا ہے اور نہ الَّا مَا شَاء اللہ باہر سے کوئی چیزیں (120)

Page 126

لیتا ہے.وہ اگر باہر سے کوئی چیز منگواتا ہے تو صرف اتنی جس سے اُس کے کارخانوں کی ضروریات پوری ہو سکیں.گویا روس کی مثال اس وقت ایسی ہی ہے جیسے ہندوستان کا کسان اپنی زمین پر گزارہ کرتا ہے.اُس کے کچھ حصہ سے گڑ پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے ماش پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے چاول پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے تل پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے گندم پیدا کر لیتا ہے اور اس طرح اپنی زندگی کے دن گزارتا رہتا ہے.مگر یہ صورت حالات تمدن کے ہر درجہ میں قائم نہیں رہ سکتی.اگر یہ صورت تمدن کے ہر درجہ میں جاری رہ سکتی تو وہ جھگڑے جو آج دنیا کے تمام ممالک میں نظر آرہے ہیں اور جن کی وجہ سے عالمگیر جنگوں تک نوبت آچکی ہے کیوں پیدا ہوتے.بہر حال یہ صورت متمدن ممالک میں قائم نہیں رہ سکتی.دنیا کیلئے اقتصادی طور پر ایک سخت دھنگا دنیا کی ساری قو میں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ کوئی ملک اکیلا زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ وہ اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ دوسروں سے تعلقات پیدا کرے اور تجربہ اس کی صداقت پر گواہ ہے.پس جب کہ روس ہمیشہ کیلئے ایک بند دروازہ کی پالیسی پر عمل کر کے ترقی نہیں کر سکتا تو کیا جب روسی کارخانوں کی پیداوار اُس کے ملک کی ضرورت سے بڑھ جائے گی تو وہ اپنی صنعت کو دوسرے ممالک میں پھیلانے کی کوشش نہیں کرے گا؟ دُور کیوں جائیں اِن جنگ کے دنوں میں ہی روس مجبور ہوا ہے کہ امریکہ اور انگلستان سے نہایت کثرت کے ساتھ سامان منگوائے اور جس سُرعت اور تیزی کے ساتھ روس صنعت میں ترقی کر رہا ہے وہ اگر جاری رہی تو چند سالوں میں ہی روس کے صنعتی کارخانے اس قدر سامان پیدا کریں گے کہ وہ اس بات پر مجبور ہو جائے گا کہ غیر ملکوں کے پاس اُسے فروخت کرے.ذرا سوچو 121

Page 127

کہ جب وہ دن آئے گا تو کیا اُس وقت روس کی وہی پالیسی نہیں ہوگی جو اب بڑے بڑے تاجروں کی ہوتی ہے؟ اور کیا وہ اس مال کو فروخت کرنے کیلئے وہی طریقے اختیار نہیں کرے گا جو امریکہ اور انگلستان کے بڑے بڑے تاجر اختیار کرتے ہیں؟ یعنی کیا وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے ممالک کو مجبور نہ کرے گا کہ وہ اُس سے مال خریدیں تا کہ اُس کے اپنے ملک کے مزدور بیکار نہ رہیں اور اُس کی صنعتی اور اقتصادی ترقی کو کوئی نقصان نہ پہنچے.جیسے ہندوستان کی سیاسی آزادی کا سوال آئے تو انگلستان کے بڑے بڑے مدبر ہاؤس آف کامنز میں دُھواں دھار تقریریں کرتے ہیں لیکن جب اقتصادی ترقی کا سوال آجائے تو فوراً اُس کے اقتصادی اکا بر کہنے لگتے ہیں کہ برطانوی مفاد کی حفاظت کر لی جائے.یہی حالت روس کی ہوگی لیکن جہاں انگلستان اور امریکہ کا مقابلہ دوسرے ملکوں سے صرف تاجروں کے زور پر ہو گا وہاں روس کا مقابلہ دوسرے ملکوں کے تاجروں کے ذریعہ سے نہ ہوگا بلکہ سارے روس کے اشتراکی نظام کا مقابلہ دوسرے ملکوں کے انفرادی تجار سے ہوگا.اور جس دن روس میں یہ حالت پیدا ہوئی اُس وقت روس یہ نہیں کہے گا کہ چلو ہم اپنے کارخانے بند کر دیتے ہیں، ہم اپنے مزدوروں کو بریکا ررہنے دیتے ہیں مگر ہم غیر ملکوں میں اپنے مال کو فروخت نہیں کرتے بلکہ اُس وقت وہ اپنے ہمسایہ ممالک کو مختلف ذرائع سے مجبور کرے گا کہ وہ اس سے چیزیں خریدیں اور حق یہ ہے کہ وہ ان تمام ذرائع کو استعمال میں لائے گا جو بڑے بڑے سرمایہ دار تاجر اپنے استعمال میں لاتے ہیں اور چونکہ روس کی صنعت حکومت کے ہاتھ میں ہے اس لئے حکومت کا سیاسی زور بھی اس کے ساتھ گلی طور پر شامل ہوگا.روس اس وقت بہت بڑی طاقت ہے.حکومت اُس کے ہاتھ میں ہے، رُعب اور دبدبہ اس کو حاصل ہے، ایسی حالت میں اس کا مقابلہ چھوٹے ملک کب کر سکیں گے بلکہ (122)

Page 128

انگلستان اور امریکہ کے تاجر بھی کب کر سکیں گے.اُس وقت روس کو صرف یہی خیال نہیں ہوگا کہ اِس طرح تجارتی نفوذ بڑھا کر اُسے روپیہ آئے گا بلکہ اُسے یہ بھی خیال ہوگا کہ اس کے نتیجہ میں ملک کا صنعتی معیار بلند ہو گا.مزدور بھوکا نہیں رہے گا، کارخانوں کو بند نہیں کرنا پڑے گا اور غیر ممالک کی دولت کو اپنی طرف زیادہ سے زیادہ کھینچا جاسکے گا.پس اس کے ہمسایہ کمزور ملک اسی طرح اُس کے لئے دروازے کھولنے پر مجبور ہونگے جس طرح مغربی تجار کے لئے وہ اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ اس سے کہیں اور زیادہ دنیا اقتصادی طور پر ایک سخت دھکا کھائے گی.بعض لوگ اس موقع پر یہ خیالات پیش کر دیا کرتے ہیں کہ ہم روسی حکومت میں شامل ہو جائیں گے اور اس طرح وہی فوائد حاصل کر لیں گے جو روسی باشندے کمیونزم کی وجہ سے حاصل کرتے ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو ہم کہتے ہیں دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو کمیونزم کی حمایت کی وجہ سے اپنے آپ کو روسی حکومت میں شامل کرنے کیلئے تیار ہیں.کمیونسٹ طبقہ میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو یہ تو چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں بھی وہی قوانین جاری ہو جا ئیں جو کمیونسٹ حکومت نے اپنے ملک میں جاری کئے ہوئے ہیں مگر وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ روسی حکومت کا اُنہیں جزو بنا دیا جائے.انگلستان کے کمیونسٹ اس بات کے تو خواہشمند پائے جاتے ہیں کہ روسی حکومت کے قواعد انگلستان میں بھی جاری ہو جائیں مگر وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ انگلستان روس کا جزو بن جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ روس کے قواعد اپنے طور پر ملک میں جاری کر کے اُس سے فوائد حاصل کریں.اسی طرح امریکہ کے کمیونسٹ یہ تو خواہش رکھتے ہیں کہ امریکہ کے لوگوں کے متعلق بھی وہی قواعد نافذ کئے جائیں جو روس نے اپنی حکومت میں جاری کئے ہوئے ہیں مگر وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ (123)

Page 129

امریکہ روس کا جزو بن جائے اور وہ اُس کی سیاسی حکومت میں شامل ہو جائے.میں ہندوستان کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں کے کمیونسٹ کیا رائے رکھتے ہیں کیونکہ ہمارے ہندوستانی کمیونسٹ عام طور پر سوچنے کے عادی نہیں ہوتے اور زیادہ تر کم علم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں.وہ نعرے لگانے کے عادی تو ہیں مگر ان نعروں کی حقیقت کو ان میں سے بہت کم طبقہ سمجھتا ہے باقی لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر عقل و فکر کو جواب دے دیتے ہیں.ممکن ہے ہندوستان کے نوے فیصدی کمیونسٹ یہی چاہتے ہوں کہ بیشک ہندوستان کو روس میں ملا دیا جائے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن باقی دنیا کے کمیونسٹ ایسا نہیں کہتے اور ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات اُن کی تباہی اور بربادی کا موجب ہوگی.روسی مقبوضات میں عدم مساوات پھر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ایشیائی مقبوضات اس امر کے شاہد ہیں کہ یورپین لوگوں کی حالت اور اُن کی حالت میں بہت بڑا فرق ہے.میں تمام خرچ برداشت کرنے کیلئے تیار ہوں کمیونسٹ پارٹی بیشک میرا آدمی اپنے ساتھ لے اور وہ اُسے بخارا اور ماسکو وغیرہ میں لے جائے اور پھر ثابت کرے کہ بخارا کے غرباء کو بھی وہی کچھ ملتا ہے جو ماسکو کے غرباء کوملتا ہے یا بخارا کے لوگوں کے لباس اور مکان اور تعلیم وغیرہ کا اُسی طرح انتظام کیا جاتا ہے جس طرح ماسکو کے لوگوں کے لباس اور مکان اور تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے.یقینا حالات کا جائزہ لینے پر یہی معلوم ہوگا کہ ماسکو میں اور طریق رائج ہے اور بخار اوغیرہ میں اور طریق رائج ہے.یہی حال دوسرے روسی ایشیائی مقبوضات کا ہے.کسی اور ثبوت کی کیا ضرورت ہے ابھی دو ہفتے ہوئے روسی حکومت کی طرف سے ایشیائی مقبوضات کے متعلق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان علاقوں کے (124) 124

Page 130

حالات کی درستی کے لئے بھی اب سکیمیں تیار کی جارہی ہیں اور آئندہ ان کی ترقی کے متعلق بھی ایک خاص پروگرام بنایا جائے گا.یہ اعلان ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جو اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ جیسا سلوک روس اپنے ملک کے باشندوں سے کرتا ہے ویسا ہی سلوک وہ ایشیائی مقبوضات کے باشندوں سے بھی کرتا ہے.اگر ایسا ہوتا تو یورپی روس اور ایشیائی روس میں ایک ساتھ اور ایک ہی قسم کی اقتصادی اصلاحات عمل میں لائی جاتیں اور دونوں ملک ایک ہی وقت میں ایک سے معیار ترقی پر پہنچ جاتے مگر ایسا نہیں ہوا.پس یہ خیال واقعات کے بالکل خلاف ہے.ان علاقوں میں ابھی غرباء موجود ہیں، ان علاقوں میں ابھی مفلوک الحال لوگ موجود ہیں مگر روی ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرتے جو اپنے ملک کے غرباء سے یا یورپین طبقہ سے کرتے ہیں اور ان دونوں کی حالت میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ کمیونزم کی بنیاد ہی مساوات پر ہے وہ ایسا نہیں کرے گی کہ اپنے ملک کی طاقت بڑھانے کے لئے دوسروں کے حقوق پر چھاپہ مارنے لگے.مگر یہ بھی محض وہم ہے اور عصمت بی بی از بے چارگی والی بات ہے.جب تک کمیونزم صنعتی پیداوار کی کمی کی وجہ سے بیرونی ملکوں یا اُن کی دولت کی ضرورت نہیں سمجھتی اُس وقت تک اُس کا یہ حال ہے لیکن جب یہ مجبوری دور ہوئی تو وہ دوسروں سے زیادہ غیر ممالک کولوٹنے اور اُن کی اقتصادی حالت کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کرے گی.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب تک سیلستا روس کا اپنے ملک میں اُلجھاؤ تھا جار جیا بھی آزاد تھا، فن لینڈ بھی آزاد تھا، لٹویا بھی آزاد تھا، لیتھونی بھی آزاد تھا، استھو نیا بھی آزاد تھا اور روس یہ کہا کرتا تھا کہ ہمارے نظام کی یہ خوبی ہے کہ وہ دوسرے ملکوں سے الجھاؤ نہیں کرتا.ہم تو حریت ضمیر کے قائل ہیں ہم نے ان تمام ممالک کو آزاد کر دیا ہے جو ہم سے آزاد ہونا چاہتے تھے ہم نے لٹویا، لیتھونیا، استھو نیا فن لینڈ، پولینڈ، جارجیا وغیرہ ممالک 125)

Page 131

سلام کا اقتصادی نظام کو آزاد کر دیا ہے، ترکوں کو آرمینیا کا وہ علاقہ جو اُن سے متعلق ہے دے دیا ہے مگر جوں ہی روس کے اندرونی جھگڑے کم ہوئے جار جیا کو روس میں شامل کر لیا گیا.جب اور طاقت آئی تو فن لینڈ سے سرحدوں کی بحث شروع کر دی اور طاقت پکڑی ولٹویا، لیتھونیا اور استھو نیا کو اپنے اندر شامل کرلیا.رومانیہ کے بعض علاقوں کو ہتھیا لیا پھر فن لینڈ کو مغلوب کر کے اُس کے کچھ علاقے لے لئے اور باقی ملک کی آزادی کو محدود کر دیا.اب پولینڈ کا کچھ حصہ لیا جارہا ہے باقی کی آزادی محدود کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ روسی سرحدوں پر وہی حکومت رہ سکتی ہے جو روسی حکومت سے تعاون کرے اور اس اصل کے ماتحت پولینڈ ، زیکوسلواکیہ اور رومانیہ کے اندرونی معاملات میں دخل دیا جارہا ہے.ایران کے چشموں پر قبضہ کرنے کی سکیم تیار کی جارہی ہے، ترکی سے آرمینیا کے حصوں کی واپسی اور درہ دانیال میں روسی نفاذ کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے.کیا پرانی امپیریل حکومتیں اس کے سوا کچھ اور کرتی تھیں؟ بلکہ کیا وہ اس سے زیادہ آہنگی اور بظاہر نرم نظر آنے والے طریق استعمال نہیں کرتی تھیں؟ انگلستان کو درہ دانیال کی ضرورت دیر سے محسوس ہو رہی ہے مگر اُس نے صدیوں میں ترکی پر اس قدر زور نہیں ڈالا جس قدر زور روس چند سالوں میں ڈال رہا ہے.اِن امور کے ہوتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ روس اپنی صنعتی ترقی کے بعد اس طرح اپنے ہمسایہ ملکوں کو اقتصادی غلامی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرے گا جس طرح کہ مغربی ڈیما کریسی کے تجار اپنی حکومتوں پر زور ڈال کر اُن کے ذریعہ سے دوسرے ملکوں کو مجبور کرتے ہیں ایک وہم نہیں تو اور کیا ہے.واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ جب روس کو طاقت حاصل ہوئی سیاسی مساوات اور حریت کے وہ تمام دعوے جو روس کرتا تھا دھرے کے دھرے رہ گئے اور اب اس دعوی کا نشان تک مٹا جارہا ہے کہ روس کا دوسرے ممالک سے کوئی تعلق نہیں.روس صرف اپنے ملک کے غرباء کی روٹی اور اُن کے کپڑے کا انتظام کرنا چاہتا ہے.جب سیاسی دنیا میں آکر 126)

Page 132

اسلام کا اقتصادی نظر کمیونزم کی رائے بدل گئی اور اُس نے خود اپنے بنائے ہوئے اصول کو اپنے ملک کے فائدہ اور برتری کے لئے واضح طور پر پس پشت ڈال دیا.جارجیا، بخارا فن لینڈہ لٹویا، لیتھونیا، استھو نیا پر قبضہ کر لیا فن لینڈ، پولینڈ، رومانیہ، زیکو سلواکیہ کوکم و بیش سیاسی اقتدار کے تلے لے آیا، ایران اور ترکی کو زیر اثر لانے کے لئے جوڑ توڑ کر رہا ہے، چین کے حصے بخرے کرنے کی تجویزیں ہو رہی ہیں آخر کس مساوات اور حریت ضمیر کے قانون کے ماتحت اُس کے لئے یہ جائز تھا کہ ان ممالک پر قبضہ کرتا.کیوں فن لینڈ اپنے ملک کا ایک حصہ کاٹ کر روس کو دیتا.یا کیوں لٹویا اور لیتھونیا اور استھونیا کی آزادی کو سلب کر لیا جاتا.کیا ان ممالک کا یہ فرض تھا کہ وہ وائٹ رشیا کی حفاظت کرتے اور اپنے آپ کو روس کے لئے قربان کر دیتے.یا جار جیا اور بخارا کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ روسی حکومت میں اپنے آپ کو شامل کر دیتے.اگر خریت ضمیر اور مساوات اسے جائز قرار دیتے ہیں تو اس کے الٹ کیوں نہ ہوا.کیوں روس کا کچھ حصہ کاٹ کر فن لینڈ کو نہ دے دیا گیا تاوہ مضبوط ہو کر اپنی حفاظت کر سکے، کیوں نہ کچھ حصے کاٹ کر پولینڈ، رومانیا، ترکی اور ایران کو نہ دیے گئے تاوہ مضبوط ہو جاتے.ان کمزور ملکوں کو حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے یا طاقتور روس کو ؟ پس حفاظت کے اصول کے لحاظ سے ان ملکوں کو اور علاقے ملنے چاہئیں تھے نہ کہ روس کو.مگر بات یہ ہے کہ پہلے اگر روس خاموش تھا تو محض اس لئے کہ اُس کے پاس طاقت نہیں تھی.جب اُس کے پاس طاقت آگئی تو یہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں اُس کا شکار بن گئیں مگر دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کے لئے کہا گیا کہ ہم ان ممالک پر اس لئے قبضہ کرتے ہیں کہ روی سرحدیں ان کے بغیر محفوظ نہیں ہیں.اگر یہ طریق درست ہے تو کل امریکہ والے بھی کہہ دیں گے کہ ہمارے لئے جاپانی جزیروں پر قبضہ کر ناضروری ہے کیونکہ ہمارے ملک کی حفاظت اس کے بغیر نہیں ہوسکتی.کہتے ہیں ”زبردست کا ٹھینگا سر پر جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ (127)

Page 133

کوئی نہ کوئی بہانہ پیدا کر ہی لیا کرتا ہے.جب روس کے پاس طاقت آئی تو اس نے بھی ڈیفنس آف سائبیریا، ڈیفنس آف لینن گریڈ ، ڈیفنس آف وائٹ رشیا اور ڈیفنس آف یوکرین کے بہانہ سے کئی ممالک کی آزادی کو سلب کر لیا.جب سیاسیات میں روس کی یہ حالت ہے تو اقتصادیات میں یہ کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ روس دوسرے ممالک کے ساتھ مساوات کا سلوک کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا.اگر کہو کہ نہیں ہم اقتصادیات کے متعلق نہیں سمجھ سکتے کہ روس ایسا کرے گا سیاسی صورت الگ ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ دور کیوں جاتے ہو مساوات پر زور دینے والی کمیونزم کی یہ حالت ہے کہ وہ آج ایران کے تیل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے.آخر سوال یہ ہے کہ کیا ایران کیلئے اپنے چشموں سے فائدہ اُٹھانا جائز نہیں کہ ایک دوسرا ملک اُس سے مطالبہ کرتا ہے کہ تیل کے چشموں سے اُسے فائدہ اُٹھانے دیا جائے.جب ایران کو خود اپنے تیل کے چشموں کی ضرورت ہے، جب اُس کے اپنے آدمی بھوکے مر رہے ہیں تو روس نے اُس سے یہ کیوں مطالبہ کیا؟ اگر مساوات اور بنی نوع انسان کی ہمدردی مقصود تھی تو کیوں ایران کو بغیر شود کے روپیہ نہ دے دیا کہ اپنے تیل کے چشموں کو کھودو اور اُن سے اپنے ملک کی حالت کو درست کرو.کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ طاقت حاصل ہونے کے نتیجہ میں روس اب یہ چاہتا ہے کہ ایران سے اُس کے تیل کے چشمے بھی چھین لے اور خود اُن پر قابض ہو جائے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ انگریزوں نے بھی تو ایران کے تیل کے چشموں پر قبضہ کیا ہوا ہے.میرا جواب یہ ہے کہ انہوں نے بھی اچھا نہیں کیا مگر میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر انگریزوں نے اچھا نہیں کیا تو روس نے بھی اچھا نہیں کیا.تم اُس کو بھی گالیاں دو اور اس کو بھی بُرا بھلا کہو مگر یہ کیا کہ انگریز ایک کام کریں تو انہیں برا بھلا کہا جائے اور ویسا ہی کام روسی کریں تو انہیں کچھ نہ کہا جائے بلکہ اُن کی تعریف کی جائے.اگر انگریزوں نے ابادان کے (128)

Page 134

.چشموں پر قبضہ کیا ہوا ہے تو روس کا مطالبہ بھی تو اس بات کا ثبوت ہے کہ اقتصادیات میں کمیونزم پرانے امپیریلسٹک کی پالیسی والے ملکوں سے کوئی جدا گانہ راہ نہیں رکھتا اور وہ بھی غیر ملکوں سے مساوات کا سلوک کرنے کے لئے تیار نہیں ہے.اگر وہ مساوات کے لئے تیار ہے تو کیا اگر ایرانی یہ مطالبہ کریں کہ ہمیں باکو کے چشموں سے فائدہ اُٹھانے دیا جائے تو روسی کہیں گے بہت اچھا آجاؤ اور باکو کے چشموں پر قبضہ کرلو؟ اگر مساوات کا سلوک کیا جاتا تو ایران سے کہا جاتا کہ تمہارا بھی حق ہے کہ مجھ سے مانگو اور میرا بھی حق ہے کہ میں تم سے مانگوں مگر روس اس طرف آتا ہی نہیں اور ابھی تو یہ ابتداء ہے جب کمیونزم کی صنعت وحرفت بڑھے گی دوسرے ملک اس طرح چلائیں گے کہ پہلے کبھی نہیں چلائے اور اس سے زیادہ ان کی صنعت کو کچلا جائے گا جس قدر کہ پہلے کبھی کچلا گیا.کیونکہ کمیونزم نے صرف فردی کیپٹلزم کو کچلا ہے اجتماعی کیپٹلزم کو نہیں بلکہ اجتماعی کیپیٹلزم کو اس قدر طاقت دے دی ہے کہ اس سے پہلے اسے کبھی نصیب نہیں ہوئی اور اجتماعی کیپٹلوم ہی سب سے زیادہ خطر ناک شے ہے.امریکہ نے ٹرسٹ سسٹم اور کارٹل سسٹم کے خلاف قانون اسی لئے پاس کیا ہے.ایک خطر ناک کیپٹلزم کا اجراء اور اُس کے انسداد کی دو صورتیں اقتصادی تجربہ اس بات کا شاہد ہے کہ انفرادی تاجر کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدر کہ کمپنیاں.اور کمپنیاں کبھی اتنی کامیاب نہیں ہوئیں جس قدر کہ ٹرسٹ.اور ٹرسٹ کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدر کہ کارٹل.اور کارٹل کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدر کہ وہ کمپنیاں کامیاب ہوں گی جن کے پیچھے سارے ملک کی دولت اور سیاست ہوگی 129)

Page 135

جیسا کہ روس میں کیا جا رہا ہے.افراد کی کمپنیوں کا مقابلہ چھوٹے ملک اور غیر منظم بڑے ملک کر سکتے تھے مگر اجتماعی حکومتی کیپٹلزم کا مقابلہ چھوٹے ملک اور بڑے( لیکن کمزور ) ملک کسی صورت میں نہیں کر سکتے.اور اس سے پہلے بھی بڑے صناع ملک چھوٹے ملکوں پر اقتدار پیدا کر لیتے تھے لیکن انفرادی کیپٹلزم کی موجودگی میں ضروری نہ تھا کہ جو ملک چھوٹا ہواُس میں کیپٹلسٹ نہ ہوں.چونکہ مقابلہ افراد میں تھا اس لئے باوجود ملک کے چھوٹا ہونے کے اس کے کچھ افراد بڑے ور منظم ملک کا مقابلہ کرتے رہتے تھے کیونکہ وہ بھی کیپٹلسٹ ہوتے تھے.انگلستان نہایت منظم صنعتی ملک ہے مگر باوجود اس کے ہالینڈ بیلجیئم ، سوئٹزر لینڈ جیسے ملکوں کے بعض کیپٹلسٹ انگلستان کے کیپٹلسٹوں کا مقابلہ کر سکتے تھے کیونکہ مقابلہ انگلستان اور ہالینڈ یا انگلستان اور چم اور انگلستان اور سوئٹزرلینڈ کا نہ تھا بلکہ مقابلہ انگلستان اور ہالینڈ کے اور انگلستان اور بیلجیئم اور انگلستان اور سوئٹزرلینڈ کے دو کیپٹلسٹوں کا تھا اور اُن کے آگے نکلنے سے ملک کا دوسرا طبقہ بھی فائدہ اُٹھا لیتا ہے.یہ فرق ایسا ہی ہے جیسا کہ انگلستان او بیلجیئم کی فوجیں سامنے آئیں تو بیلجیئم مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن انگلستان کا کوئی سپاہی بیجیم کے کسی سپاہی کے مقابلہ پر آجائے تو پیجیئم کا سپاہی انگلستان کے سپاہی پر غالب آ سکتا ہے.خلاصہ یہ کہ فردی کیپٹلزم بھی ایک خطرناک ٹھے ہے مگر اس کے باوجود خود اس ملک کے لوگوں اور اس کے حریف ملکوں کے لوگوں کے لئے کچھ نہ کچھ راستہ بچاؤ کا کھلا رہتا ہے لیکن حکومتی کیپٹلزم کے سامنے چھوٹے اور غیر منظم ملک بالکل نہیں ٹھہر سکتے اور ان کے بچنے کی کوئی ممکن صورت ہی باقی نہیں رہتی.اور یہ مقابلہ ایسا ہی عبث ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک مشین گن رکھنے والی فوج کے مقابل پرسونٹے لے کر نکلنے والی فوج عبث اور بے کار ہوتی 130)

Page 136

اسلام کا اقتصادی زن ہے.کمیونزم نے ملکی اجتماعی کیپٹلزم کا طریق جاری کر کے جس میں سارے ملک کی دولت اور اس کی سیاسی برتری مجموعی طور پر دوسرے ملکوں کے منفرد صناعوں اور تاجروں کے مقابل پر کھڑی ہوتی ہے ایک ایسا طریق رائج کیا ہے جو دنیا کے اقتصادی نظام کو بالکل تہہ و بالا کر دے گا.لوگ ٹرسٹوں اور کارٹلز کے خلاف شور مچارہے تھے اور ان کے ظلموں کے شا کی تھے مگر کمیونزم نظام کے ماتحت ترقی کرنے والی صنعت وحرفت تمام دوسرے ملکوں کے لئے ایسی خطرناک ثابت ہوگی کہ اس کے مقابلہ پر ٹرسٹ تو کیا کارٹلز بھی ایسے معلوم ہوں گے جیسے ایک دیو کے مقابلہ پر ایک پانچ سالہ لڑکا.انگلستان کا ایک بڑا تاجر امریکہ کے ایک بڑے تاجر کا مقابلہ تو کر سکتا تھا اگر مقابلہ نہ ہوسکتا تھا تو انگلستان کے چند تا جرمل کر ایک ٹرسٹ بنا لیتے تھے.اگر جرمنی کی سائنٹیفک مصنوعات کا مقابلہ امریکہ اور انگلستان کے صناعوں کے لئے مشکل ہوتا تو دونوں ملکوں کے تاجر مل کر ایک کارٹل کے حصہ دار ہو جاتے تھے مگر کمیونزم کی صنعت کا مقابلہ کوئی زبر دست سے زبر دست کارٹل بھی کس طرح کر سکتا ہے کیونکہ کمیونزم کے ترقی یافتہ کارخانوں کی مدد پر ایک یا دو تاجر نہ ہوں گے بلکہ سب ملک کی دولت ہوگی اور تاجروں کی دولت ہی نہ ہوگی روس کی ڈپلومیٹک فوج اور لڑنے والی فوج اور اس کا بحری بیڑا بھی ہوگا کیونکہ اس کے کارخانہ کی ناکامی کسی ایک فرد یا کمپنی کی نا کامی نہ ہوگی بلکہ خود روسی حکومت کی ناکامی ہوگی.کیونکہ کمیونزم کے نظام صنعت و حرفت کے کارخانے حکومت کے قبضہ اور انتظام میں ہوں گے.پس جس صنعت کو یہ مدد حاصل ہوگی اس کا مقابلہ غیر ملکوں کے تاجر یا ٹرسٹ یا کئی ملکوں کے اشتراک سے بنے ہوئے کارٹلز بھی کس طرح کر سکتے ہیں.پس رشین کمیونزم نے ایک نہایت خطر ناک کیپیٹلزم کا راستہ کھولا ہے جس کی مثال اس 131)

Page 137

سے پہلے نہیں ملتی.اس کا مقابلہ ان دو ہی صورتوں سے ہوسکتا ہے.(1) سب دنیا ایک ہی نظام میں پروئی جائے یعنی سب ملک روسی حکومت کا جزو بن جائیں اور اس طرح آئندہ غیر مساوی مقابلہ کو بند کر دیں.مگر کیا کمیونزم میں کوئی ایسے اشتراک کی گنجائش ہے؟ یا کیا غیر ملکوں کے لوگ مثلاً انگلستان، امریکہ، فرانس کے لوگ اس امر کے لئے تیار ہیں کہ اس آئندہ آنے والے خطرہ سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو روسی حکومت میں شامل کر دیں؟ اور کیا اس کی کوئی معقول امید ہے کہ اگر وہ ایسا کر بھی دیں تو وہ روسیوں کے ساتھ ہر جہت سے مساوی حقوق حاصل کرلیں گے؟ اگر یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں جیسا کہ میرے نزدیک ہر عقلمند انسان انہیں ناممکن کہے گا تو پھر یہ علاج تو بے کار ہوا.(۲) دوسرا ممکن علاج اس خطرہ کا یہ ہو سکتا ہے کہ سب دنیا کے ملک کمیونزم سسٹم کے مطابق الگ الگ نظام قائم کر لیں.مگر سب دنیا کمیونزم میں آجائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چند حکومتی ٹرسٹ ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے اور وہ حالت موجودہ حالت سے بہت زیادہ خطر ناک ہو جائے گی.اس تبدیلی سے صرف یہ فرق پڑے گا کہ پہلے تو ہندوستان کے تاجر کا رشیا کے تاجر سے مقابلہ ہوا کرتا تھا مگر پھر ہندوستانی حکومت کے صنعتی ادارہ کا مقابلہ روسی حکومت کے صنعتی ادارہ سے ہوگا.گو یا اب تو جنگ کبھی کبھار ہوتی ہے اس وقت ایک مستقل جنگ دنیا میں جاری ہو جائے گی.ہر تجارتی قافلہ کا افسر در حقیقت ایک سفیر ہوگا اور ہر تجارتی مال اپنی حفاظت کے لئے اپنے ملک کی فوج اور اُس کا بیڑا اساتھ رکھتا ہوگا.تجارتی نزاع تاجروں میں نہیں حکومتوں میں ہوں گے اور لین دین کے لئے کمپنیوں کے مینیجر نہیں بلکہ حکومتوں کے وزیر خط و کتابت کریں گے.اس نظام میں کسی چھوٹے ملک یا غیر منظم کو کوئی جگہ ہی نہیں مل سکتی.چھوٹے ملک اور غیر منظم ملک اس نظام کے جاری ہونے (132)

Page 138

پر اپنی حریت پوری طرح کھو بیٹھیں گے اور صرف بڑے ملکوں کی چراگاہیں بن کر رہ جائیں گے.اور جو ملک منظم اور بڑے ہوں گے اُن میں پہلے کی طرح مقابلہ جاری رہے گا صرف فرق یہ ہوگا کہ پہلے تو زید اور بکر کا تجارتی مقابلہ ہوتا تھا آئندہ حکومت کا حکومت سے تجارتی مقابلہ ہوگا.اگر یہ خیال کیا جائے کہ سب لوگ مل کر ایک با انصاف معاہدہ کرلیں گے تو یہ بھی درست نہیں.آج کا روس کل کا روس نہیں اور کل کا روس آج کا روس نہ ہوگا.جب اس کی صنعت و حرفت ترقی کرے گی اور جب اس کی دولت بڑھے گی وہ دوسروں سے اپنی دولت بانٹنے کے لئے تیار نہیں ہوگا بلکہ وہ تو آج بھی تیار نہیں.اگر ایسا ہوتا تو وہ ایران کے تیل پر کیوں قبضہ کرنا چاہتا.روس کا فعل اپنے قول کے خلاف روس کا تھری بگز (THREE BIGS) میں شامل ہونا بھی اُس کے اپنے اصول سے ہٹنے پر دلالت کرتا ہے.آخر ان تین بڑوں کے علاوہ جو دوسری حکومتیں ہیں وہ کیا چیز ہیں.سمجھ لو کہ طاقتور آدمی کے مقابل پر کمزور اور غریب آدمی کی حیثیت رکھتی ہیں.یتیم کیا ہے؟ ایک کمزور اور غریب آدمی.ہالینڈ کیا ہے؟ ایک کمزور اور غریب آدمی.روس، انگلستان اور امریکہ کیا ہیں ؟ مضبوط پہلوان اور کڑور پتی تاجر.اگر روس اپنے اصول میں سچائی پر قائم ہے تو اُسے ان کمزور اور غریب ممالک کے ساتھ ایک ہی صف میں اپنے آپ کو کھڑا کرنا چاہئے تھا اور کہنا چاہئے تھا کہ ہمارا اصول یہ ہے کہ سب انسان برابر ہیں.ہم اپنے اور ان کمزور حکومتوں میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہتے.جیسے ہمیں اپنی جان پیاری ہے ویسے ہی ان کو پیاری ہے، جیسے ہمیں اپنے ملک کا فائدہ مدنظر ہے ویسے ہی ان کو مدنظر 133)

Page 139

اسلام کا اقتصادی نظا ہے.پس حکومتوں کی مشاورتی مجالس میں ہم میں اور کمز ور حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے کہ ہر ایک نے اپنے حقوق کی حفاظت کرنی ہے.مگر روس کی کمیونسٹ حکومت نے ایسا نہیں کیا اُس نے یہ مطالبہ کیا کہ تین بڑوں کے مشورہ سے سب اصول اور امور طے ہوں.اُس نے اپنی آواز کی اور قیمت مقرر کی ہے اور بیلجیئم اور ہالینڈ کی اور.اور اگر میبینیم اور ہالینڈ کی آوازوں اور روس کی آواز میں فرق ہے، اگر کمزور قوم کو طاقتور قوم کے مقابل پر نہیں لایا جاسکتا، اگر ایک غریب قوم کے ساتھ مساوات کا سلوک نہیں کیا جاسکتا تو فر دکوفرد کے مقابل پر مساوات کیوں دی جائے.ایک عالم اور جاہل اور ذہین اور کند ذہن میں جو قدرتی فرق ہے اُسے کیوں مٹایا جائے.اور روس کا خود تھری بگز ( THREE BIGS) میں شامل ہونا اور اس تین بڑوں یا پانچ بڑوں کے اصول پر زورد ینا بتا تا ہے کہ کمیونزم کا مساوات کا اصول بالکل غلط اور دکھاوے کا ہے.اگر بڑی حکومت چھوٹی حکومت کے مقابل میں امتیازی سلوک کی مستحق ہے تو عالم جاہل کے مقابل پر اور فطرتی صناع اور تاجر ایک کو دن سے صناع اور غیر تجربہ کار تاجر کے مقابل پر اپنے فن سے فائدہ اُٹھانے کا کیوں مستحق نہیں.ایک بڑی قوم کے مقابل پر ایک چھوٹی قوم کو نیچا کر دینا اس سے زیادہ خطر ناک ہے جتنا کہ ایک شخص کا اپنی قابلیت سے دوسرے سے کچھ آگے نکل جانا خصوصاً جب کہ طبعی مساوات کے قیام کے لئے اسلام کے مقرر کردہ پاکیزہ اصول موجود ہوں.اس موقع پر مجھے ہندوستان کے ایک بڑے لیڈر کا ایک واقعہ یاد آ گیا.ایک دفعہ ایک مقام پر بعض مسائل کے متعلق غور کرنے کے لئے بہت سے لیڈر ہندوستان کے مختلف مقامات سے جمع ہو گئے مجھے بھی سر سکندر مرحوم اور سر فیروز خان نون نے تار دیگر بلوایا.یہ مجلس شملہ میں ہوئی تھی غالباً ۷۰ یا ۸۰ لیڈر تھے جومختلف مقامات سے شامل ہونے کے (134)

Page 140

لئے آئے تھے.جب اتنے بڑے لیڈروں کو اُس لیڈر نے اکٹھے دیکھا تو انہیں بہت بُرا لگا کہ ہندوستان کے اتنے لیڈر ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ بڑے معاملات اتنے بڑے اجتماعوں میں طے نہیں ہو سکتے بہتر ہوگا کہ ہم چند لیڈروں کے لیڈر ( We Leaders of Leaders) اس میں بیٹھ کر فیصلہ کر کے ان لوگوں کو سنا دیں یہی حال روس کا ہے.زید اور بکر کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ اُن میں مساوات ہونی چاہئے مگر جب حکومت کا سوال آتا ہے تو کہا جاتا ہے ہم تین بڑی حکومتیں مل کر جو فیصلہ کریں گی وہی تمام اقوام کو ماننا پڑے گا.ان کا حق نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہوں یا ہماری کانفرنس میں شریک ہوں.آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ سوائے اس کے کہ روس کے پاس تو ہیں زیادہ ہیں اور دوسروں کے پاس تو پیں کم ہیں، روس کے پاس ٹینک اور ہوائی جہاز اور فوجیں زیادہ ہیں لیکن بیلجیئم ،فرانس اور ہالینڈ کے پاس کم ہیں.اگر سامانِ حرب کی کثرت کی وجہ سے روس اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اُس کی آواز کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وقعت دی جائے اور وہ دوسرے چھوٹے ملکوں کے برابر ہونے کے لئے تیار نہیں ہے تو وہ گل کو اُن کو اپنے اقتصادی پروگرام میں شامل کس طرح کرے گا.جو ملک اس بات کے لئے تیار نہیں ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کی رائے کو کوئی وقعت دے یا ان کو مجلس صلح میں بٹھائے وہ اُن کو کھانا اور کپڑا دینے کے لئے کس طرح تیار ہوگا.یقیناً جب روس کی انڈسٹری بڑھے گی تو وہ اپنی منڈیوں کے لئے منڈیٹس (MANDATES) چاہے گا برابر کے شریک نہیں.غرض سرمایہ داری مردہ باد کا کوئی سوال نہیں یہ محض وہم ہے جو لوگوں کے اندر پایا جاتا ہے.اصل سلوگن یہ ہے کہ الف کی سرمایہ داری مُرده با داور ملک روس کی سرمایہ داری زندہ باد.اور اس کا انجام تم خود سوچ لو.الف اور ب کی سرمایہ داری کا تو لوگ مقابلہ کر سکتے تھے 135)

Page 141

سلام کا اقتصادی نظا مگر وہ روس کی حکومتی سرمایہ داری کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے.روس میں غیر روسی کے داخلے کا امتناع روس اپنی کمزوری کو خود بھی محسوس کرتا ہے اور اسی وجہ سے وہ غیر ممالک کے تعلقات کو سختی سے روکے ہوئے ہے چنانچہ حال ہی میں اسٹیفن کنگ حال ممبر پارلیمنٹ انگلستان روس میں دورہ کر کے آئے ہیں.انہوں نے اس دورہ کا مفصل ذکر ایک مضمون میں کیا ہے جو SOVIET UNION“ کے ماہ جون کے پرچہ میں شائع ہوا ہے.اس میں وہ وو لکھتے ہیں ” روسی گورنمنٹ نہیں چاہتی کہ روس کی قوم آزادی سے اور بغیر کسی روک کے ہمارے خیالات سے یا کسی اور خیال سے جو روسی نہ ہو واقف ہو سکے پھر کہتے ہیں.” کہ کوئی شخص روی طرز زندگی کو براہ راست نہیں سمجھ سکتا بجز روی سرکاری ذرائع کے.اور یہ مشکل ابھی کتنے ہی سال تک رہے گی پھر ابھی پچھلے دنوں روس کے ماہرین یہاں آئے تھے.امریکہ کے بعض ماہرین بھی اُن کے ساتھ تھے.وہ سب سے زیادہ ہندوستان کی حالت کو دیکھ کر حیران ہوئے کیونکہ اُن کے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ سفر کر سکیں لیکن ہندوستان کا ہر شخص جہاں جی چاہے آسانی کے ساتھ آجا سکتا ہے اس لئے جب انہوں نے اپنی حکومت کے خرچ پر ہندوستان کو دیکھا تو انہیں یہ ملک اس طرح نظر آیا جیسے مرکز انسان اگلے جہان کو دیکھتا ہے.یہ نتیجہ تھا اُن کی ناواقفیت کا مگر آخر یہ کولڈ سٹوریج میں رکھنے کا معاملہ کب تک چلے گا.ایک دن یہ دیوار ٹوٹے گی اور دُنیا ایک زبر دست تغیر دیکھے گی.روی اقتصادیات کے متعلق بعض غور طلب باتیں روس کی عملی مساوات میں بھی مجھے شبہ ہے.مگر وہاں کے پورے حالات چونکہ معلوم 136)

Page 142

نہیں ہوتے اس لئے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن مجھے قطعی طور پر معلوم ہوا ہے کہ روسی سپاہی کا لباس نہایت بوسید ہوتا ہے.یہ رپورٹیں مجھے اپنی جماعت کے بعض احمدی افسروں اور بعض احمدی سپاہیوں نے پہنچائی ہیں جنہیں فوج میں ایسے مقامات پر کام کرنے کا موقع ملا جہاں روسی افسر اور روسی سپاہی بھی اُن کیساتھ تھے.انہوں نے بتایا کہ روسی سپاہی کا لباس خصوصاً ایشیائی سپاہی کا لباس نہایت ادنیٰ ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں مارشل تو موشنکو اور مارشل کو نیف کی تصویروں کو دیکھا جائے تو انہوں نے نہایت قیمتی تمنے لگائے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کا لباس بھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے.مارشل کا تمغہ ساٹھ ہزار کی قیمت کا ہوتا ہے.اس تمغہ سے ہی اقتصادی مساوات کا خاتمہ ہو جاتا ہے.مساوات کے دعوی کی عملاً تغلیط پھر کمیونزم میں جو مساوات پائی جاتی ہے اُس کا اِس سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ موسیوسٹالن نے اسی جنگ کے ایام میں مسٹر چرچل کی ایک ملاقات کے موقع پر اُن کے اعزاز میں ایک دعوت دی تو اُس موقع پر بڑی تعداد میں کھانے تیار کئے گئے جو موسیوسٹالن اور ان دوسرے لوگوں نے کھائے جو اس دعوت میں شریک تھے.مسٹر چرچل جب انگلستان واپس گئے تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس دعوت کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا کہ کاش! مجھے اپنے کیپٹلسٹ ملک میں وہ کھانے میسر آتے جو پرولی ٹیری ایٹ (PROLETARIAT) حکومت میں مجھے کھانے کو ملے.اگر وہاں واقعہ میں مساوات پائی جاتی ہے تو کیا ماسکو کے ہر شہری کو اسی طرح ساٹھ ساٹھ کھانے ملا کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو یہ امور صاف طور پر بتاتے ہیں کہ کامل مساوات کا سوال ابھی حل نہیں ہوا اور نہ حل ہو گا.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مجبوری تھی کیونکہ ان جنگ کے دنوں میں انگلستان کی حکومتی دعوتیں بھی (137)

Page 143

بہت سادہ ہوتی ہیں.اس سے بہت سادہ دعوت بھی کافی ہوسکتی تھی مگر اصل میں تو روسی دید بہ دکھانا مدنظر تھا اور یہ جذبہ مساوات کی روح کو کچلنے کا موجب ہوا کرتا ہے.دوسرے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ مساوات کے معنی روس میں بدل رہے ہیں اور ایک نیا طبقہ امراء کا وہاں پیدا ہو رہا ہے جس کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی میں پیدا کئے ہوئے رسوخ پر ہے.پس مساوات کی شکل بدلی ہے چیز اسی طرح قائم ہے جس طرح پہلے تھی.اس تقریر کے مسودہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایک خبر روس کی اس عدم مساوات کے بارہ میں ملی ہے جسے میں اس جگہ نقل کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ وہ میرے مضمون کے اس حصہ پر روشنی ڈالتی ہے اور اس کی تائید میں ہے.آسٹریلیا کے مشہور اخبار سن“ نے اپنے کنبرا کے نامہ نگار کی رپورٹ پر یہ خبر شائع کی ہے کہ آسٹریلین وزیر متعینہ روس نے اپنی رخصت کے ایام میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹری سنسر پارٹی کی ایک مجلس میں مندرجہ ذیل واقعات بیان کئے.(1) روس میں ایک نئی دولت مندوں کی جماعت پیدا ہو رہی ہے کیونکہ عام لوگوں کی نسبت کمیونسٹ پارٹی کے سربرآوردہ نمبروں اور صنعتی ماہروں سے بہت ہی زیادہ بہتر سلوک کیا جاتا ہے.(۲) ریسٹورمیٹوں(RESTAURANTS) میں پانچ قسم کی غذا تیار ہوتی ہے جس کے ٹکٹ کمیونسٹ پارٹی میں رسوخ اور کام کی نوعیت کے مطابق تقسیم ہوتے ہیں ( یعنی اول درجہ کو اول درجہ کا کھانا.دوسرے درجہ والے کو دوسرے درجہ کا کھانا اور اسی طرح آخر تک) (۳) یہ کہ ان امتیازی سلوکوں کے نتیجہ میں افراد کے درجوں کا فرق ویسا ہی (138)

Page 144

نمایاں ہے جیسا کہ زار روس کے زمانہ میں تھا.(۴) یہ کہ جہاں دوسرے ملکوں میں بلیک مارکیٹ چور تاجر چلاتے ہیں روس میں خود حکومت کی طرف سے علی الاعلان یہ مارکیٹ جاری ہے.(۵) اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے عہدہ والے لوگ قریباً ہر چیز حاصل کر سکتے ہیں جب کہ عام کاریگر اپنی ضروریات زندگی سے محروم ہے.آسٹریلین وزیر نے اس خبر کے شائع ہونے پر اظہار افسوس کیا ہے اور لکھا ہے کہ ہماری حکومت اور روس کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس خبر کا انکار نہیں کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انکار سیاسی ہے حقیقی نہیں.یہ خبر وضاحت سے اس انداز ہ کی تصدیق کرتی ہے جو میں نے اپنے لیکچر میں سوویٹ کے مستقبل کے متعلق لگایا تھا کہ آئندہ ایک نیا طبقہ امراء کا پیدا ہونا ضروری ہے کیونکہ لیاقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.یہ ظاہر ہے کہ چونکہ اسلامی حد بندیاں اس ممتاز طبقہ کو حدود کے اندر رکھنے کے لئے کمیونزم میں موجود نہیں یہ طبقہ آخر کمیونسٹ حکومتوں کو پھر پرانے اصول کی طرف لے جائے گا اور کمیونسٹ کی بغاوت کا صرف ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ روس کو اقوامِ عالم میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہو جائے گی اور امپیریلسٹک حکومتوں کی نفع اندوزی میں وہ بھی شریک ہو جائے گا اور ورلڈ پر الیٹریٹ یعنی دنیا کی حکومت عوام کا اصل ایک خواب کی شکل میں تبدیل ہو جائے گا ایسا خواب جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا کیونکہ کمیونزم فلسفہ انسانی ہمدردی کے اصول پر نہیں بلکہ زار کی حکومت سے انتقام کے اصول پر مبنی ہے.روسی سپاہیوں کا حمد نی معیار اس موقع پر ضمنا میں روسی سپاہیوں کے تمدنی معیار کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.(139)

Page 145

مجھے بتایا گیا ہے کہ ایران میں سے بنزائن کی ایک گاڑی گزر رہی تھی کہ ایک ڈرم میں سوراخ ہو گیا اور اس میں سے بنز ائن بہنے لگا.روسی سپاہیوں نے جب یہ دیکھا تو انہوں نے سمجھا کہ شاید رم (RUM) یا بیئر (BEER) ہے.چنانچہ انہوں نے بنز ائن کو شراب سمجھ کر پینا شروع کر دیا.قریباً ایک ہزار روسی سپاہیوں نے یہ بنز ائن استعمال کی اور اُن میں سے درجنوں اس زہر کی وجہ سے مرگئے اور سینکڑوں بیمار ہو گئے.قومی خدمت کا یہ ایک بہت برا نمونہ ہے.اتنے سپاہیوں کا اپنے قومی فرض کو بھول جانا اور بجائے قومی مال کی حفاظت کے اُسے اپنے استعمال میں لانے کی کوشش کرنا بتا تا ہے کہ عام سپاہی کی اقتصادی حالت اس قدرا اچھی نہیں کہ وہ حقیقی یا فرضی لالچوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں.یہ واقعہ بتا تا ہے کہ کم سے کم ایران میں رہنے والے روسی سپاہیوں کی حالت ایسی نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ روس نے اُن کی حالت کو بدل دیا ہے.کمیونزم کے دعویٰ مساوات کے متعلق بعض حل طلب سوالات انڈسٹری کے متعلق یہ حل طلب سوال ہے کہ کیا ہر انڈسٹری میں ایک سا کام ہے.کوئلہ کی کان میں اور قسم کا کام ہے اور دُکان میں بیٹھنے کا اور کام ہے.پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ درزی کو اور سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جو ہری کو اور کی اس کا کمیونزم میں کیا حل سوچا گیا ہے؟ کیا دُکانوں کا سرمایہ سب حکومت کا ہوتا ہے اور وہاں کی سب تجارت حکومت کے ہاتھ میں ہے پھر یہ بھی سوال ہے کہ اچھے اور بُرے ڈاکٹر اور اچھے اور بُرے وکیل کی فیس ایک ہی ہے یا اس میں اختلاف ہے؟ اگر اختلاف ہے تو کیوں؟ اگر نہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا سب لوگ اچھے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں؟ اگر جاتے ہیں تو بہر حال وہ سب کا علاج نہیں کر سکتا پھر وہ کیا کرتا ہے؟ یا سب لوگ اچھے وکیل کے پاس جاتے ہیں؟ اگر جاتے ہیں تو وہ 140

Page 146

سب کے مقدمات نہیں لڑ سکتا.اگر سب مقدمات نہیں لیتا تو وہ اُن کا انتخاب کس طرح کرتا ہے؟ ایسے ہی بیسیوں سوالات ہیں جن پر غور کر کے مساوات کا حقیقی علم حاصل ہوسکتا ہے.ان سوالات کے بغیر حقیقی مساوات کا علم ناممکن ہے.مگر ان کے معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے اور جب تک اِن باتوں کا جواب مہیا نہ کیا جائے کمیونزم کے حامی مساوات کا دعویٰ کرنے میں غلطی پر ہیں.صحیح اقتصادی نظام ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں ہر عقلمند انسان اس نتیجہ پر ہی پہنچے گا که اصل اقتصادی نظام وہی ہے جو مذہب کے لئے گنجائش رکھے کیونکہ تھوڑے عرصہ پر اثر انداز ہونے والی اقتصادیات پر ایک لمبے عرصہ پراثر انداز ہونے والی اقتصادیات کو قربان نہیں کیا جاسکتا.اور اقتصادیات وہی اچھی ہیں جن میں ہر فرد کی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان ہو مگر اس کے ساتھ ہی ایک حد تک فردی ترقی کا راستہ بھی کھلا ہوتا کہ نیک رقابت پیدا ہواور بری رقابت کچلی جائے.اصل بات یہ ہے کہ کمیونزم ایک رد عمل ہے لمبے ظلم کا.اسی وجہ سے یہ ظلم کے علاقوں میں کامیاب ہے لیکن امریکہ اور انگلستان وغیرہ میں کامیاب نہیں.اسی طرح نیشنلسٹ اور سوشلسٹ علاقوں میں بھی کامیاب نہیں.کچھ عرصہ ہوا امریکہ کے ایک اخبار نے مزدوروں سے یہ سوال کیا کہ تم اپنے آپ کو کیپٹلسٹ سمجھتے ہو یا مڈل کلاس MIDDLE) (CLASS میں سے سمجھتے ہو یا غریب کلاس میں سے سمجھتے ہو؟ اس سوال کے جواب میں اکثر جوابات میں یہ کہا گیا تھا کہ ہم اپنے آپ کو مڈل کلاس (MIDDLE CLASS) میں سے سمجھتے ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ کے مزدور کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ غرباء (141)

Page 147

میں سے ہے.یہی وجہ ہے کہ کمیونزم امریکہ میں انگلستان سے بھی زیادہ نا کام رہا ہے کیونکہ وہاں دولت بہت زیادہ ہے اور دولت کی کثرت کی وجہ سے مزدوروں میں یہ احساس ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ غریب ہیں یا انہیں اپنے لئے کسی ایسے نظام کی ضرورت ہے جو اُن کی اِس تکلیف کو دور کر سکے جس کا روٹی یا کپڑے کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.پس اصل علاج یہی ہے کہ (۱) اسلامی تعلیم کے ماتحت غرباء کو اُن کا حق دیا جائے اور (۲) اُمیدوں اور امنگوں کو بڑھادیا جائے جیسے جرمنی اور اٹلی نے اپنے ملک کے لوگوں کو روپیہ نہیں دیا لیکن اُس نے اُن کی اُمنگوں کو بڑھا دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو غالب اور فاتح اقوام میں سے سمجھنے لگے.ترقی کے لئے اُمنگ کا پیدا ہونا نہایت ضروری ہوا کرتا ہے.جس قوم کے دلوں میں سے اُمنگیں مٹ جائیں، اُس کی اُمید میں مر جائیں، اُس کے جذبات سرد ہو جائیں اور غرباء کے حقوق کو بھی وہ نظر انداز کر دے اُس قوم کی تباہی یقینی ہوتی ہے.غرباء کی ضروریات کے متعلق امیروں کا فرض پس ہمارے ملک کے اُمراء کو چاہئے کہ وہ وقت پر اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اُن حقوق کو ادا کریں جو اُن پر غرباء کے متعلق عائد ہوتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ کمیونزم کا پیدا ہونا ایک سزا ہے اُن لمبے مظالم کی جو اُمراء کی طرف سے غرباء پر ہوتے چلے آئے تھے لیکن اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلیں اور تو بہ سے اپنے گزشتہ گناہوں کو دور کرنے کی کوشش کریں.اگر وہ اپنی مرضی سے غرباء کو اُن کے حقوق ادا نہیں کریں گے تو خدا اس سزا کے ذریعہ اُن کے اموال اُن سے لے لیگا.لیکن اگر وہ تو بہ کریں گے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیں گے تو یہ مہیب آفت جو اُن کے سروں پر منڈلا رہی ہے اسی طرح چکر کھا کر گزر جائے گی جس طرح آندھی ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف اپنا رُخ موڑ (142)

Page 148

لیتی ہے.اب یہ تمہارا اختیار ہے کہ چاہو تو اللہ تعالیٰ کے اُس محبت کے ہاتھ کو جو تمہاری طرف بڑھایا گیا ہے ادب کے ساتھ تھا مو اور اپنے اموال کو غرباء کی بہبودی کے لئے خرچ کرو اور اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو برداشت کر لو اور دولت اپنے پاس رکھو جو کچھ دنوں بعد تم سے باغیوں اور فسادیوں کے ہاتھ چھنوا دی جائے گی.آخر میں میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کمیونزم کی ترقی اور روسی اقتصادیات پر غور کرتے وقت ہمیں ایک اور اہم بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے جو ایسے حالات میں کہی گئی ہے جبکہ روس کو دنیا میں کوئی جانتا بھی نہیں تھا.روس کے متعلق اڑہائی ہزار سال پہلے کی ایک پیشگوئی روس کیا ہے؟ ایک ایسا ملک ہے جس نے صرف تین چار سو سال سے اہمیت حاصل کی ہے اس سے پہلے وہ ایک پراگندہ قوم تھی.صرف چند قبائل تھے جو تھوڑے تھوڑے علاقہ پر قابض تھے مگر اپنے علاقہ میں بھی اُس کو کوئی خاص طاقت حاصل نہیں تھی.آج سے ایک ہزار سال پہلے وہ بہت ہی غیر معروف تھا اور اس قدر بے آباد اور ویران تھا کہ کوئی شخص اُس کی بے آبادی کی وجہ سے اس کی طرف منہ بھی نہیں کرتا تھا.اور آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے تو اس سے کوئی شخص واقف بھی نہیں تھا.شاذ و نادر کے طور پر جغرافیہ والوں کو اس کا علم ہو تو ہو ورنہ یہ اس قدر ویران تھا کہ کوئی شخص اس کی طرف منہ کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا تھا.اُس زمانہ میں جب کہ روس کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی حز قیل نبی نے آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے روس کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو آج تک بائبل میں موجود ہے اور حز قیل باب ۳۸ اور ۳۹ میں اس کا تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے چنانچہ لکھا ہے.(143)

Page 149

اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد! جوج کی طرف جو ماجوج کی سر زمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرمانروا ہے متوجہ ہو اور اس کے خلاف نبوت کر.اور کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ دیکھ اے جوج روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا ! میں تیرا مخالف ہوں اور میں تجھے پھرا دونگا اور تیرے جبڑوں میں آنکڑے ڈال کر تجھے اور تیرے تمام لشکر اور گھوڑوں اور سواروں کو جوسب کے سب مسلح لشکر ہیں جو پھریاں اور سپریں لئے ہیں اور سب کے سب تیغ زن ہیں کھینچ نکالوں گا.اور اُن کے ساتھ فارس اور گوش اور فوط جوسب کے سب سپر بردار اور خود پوش ہیں، جمر اور اس کا تمام لشکر اور شمال کی دور اطراف کے اہل تجرمہ اور اُن کا تمام لشکر یعنی بہت سے لوگ جو تیرے ساتھ ہیں تو تیار ہو اور اپنے لئے تیاری کر تو اور تیری تمام جماعت جو تیرے پاس فراہم ہوئی ہے اور تو اُن کا پیشوا ہو.اور بہت دنوں کے بعد تو یا د کیا جائے گا اور آخری برسوں میں اُس سرزمین پر جو تلوار کے غلبہ سے چھڑائی گئی ہے اور جس کے لوگ بہت سی قوموں کے درمیان سے فراہم کئے گئے ہیں اسرائیل کے پہاڑوں پر جو قدیم سے ویران تھے چڑھ آئے گا.لیکن وہ تمام اقوام سے آزاد ہے اور وہ سب کے سب امن و امان سے سکونت کریں گے.تو چڑھائی کرے گا اور آندھی کی طرح آئے گا.تو بادل کی مانند زمین کو چھپائے گا.تو اور تیرا تمام لشکر اور بہت سے لوگ تیرے ساتھ.خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ اُس وقت یوں ہوگا کہ بہت سے مضمون تیرے دل میں آئیں گے اور تو ایک بڑا منصوبہ باندھے گا اور تو کہے گا کہ میں دیہات کی سرزمین پر حملہ کرونگا ئیں اُن پر حملہ کرونگا جو راحت و آرام سے بستے ہیں.جن کی نہ فصیل ہے نہ اڑ ہنگے اور نہ پھاٹک ہیں تا کہ تو لوٹے اور مال کو چھین لے.اور اُن ویرانوں پر جواب آباد ہیں اور اُن لوگوں پر جو تمام قوموں میں سے فراہم ہوئے ہیں جو مویشی اور

Page 150

مال کے مالک ہیں اور زمین کی ناف پر بستے ہیں اپنا ہاتھ چلائے.سبا اور دوان اور ترسیس کے سوداگر اور اُن کے تمام جوان شیر بر تجھ سے پوچھیں گے کیا تو غارت کرنے آیا ہے؟ کیا تو نے اپنا غول اس لئے جمع کیا ہے کہ مال چھین لے اور چاندی سونا ٹوٹے اور مویشی اور مال لے جائے اور بڑی غنیمت حاصل کرے.اس لئے اے آدم زاد! نبوت کر اور جوج سے کہہ خداوند خدایوں فرماتا ہے کہ جب میری اُمت اسرائیل امن سے بسے گی کیا تجھے خبر نہ ہوگی؟ اور تو اپنی جگہ سے شمال کی دور اطراف سے آئے گا تو اور بہت سے لوگ تیرے ساتھ جو سب کے سب گھوڑوں پر سوار ہوں گے ایک بڑی فوج اور بھاری لشکر.تو میری اُمت اسرائیل کے مقابلہ کو نکلے گا اور زمین کو بادل کی طرح چھپالے گا.یہ آخری دنوں میں ہوگا اور میں تجھے اپنی سرزمین پر چڑھا لاؤنگا تا کہ قومیں مجھے جائیں.جس وقت میں اے جو ج! ان کی آنکھوں کے سامنے تجھ سے اپنی تنتقد میں کراؤں.خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ کیا تو وہی نہیں جس کی بابت میں نے قدیم زمانہ میں اپنے خدمت گذار اسرائیلی نبیوں کی معرفت جنہوں نے ان ایام میں سالہا سال تک نبوت کی فرمایا تھا کہ میں تجھے اُن پر چڑھا لا ؤ نگا اور یوں ہوگا کہ اُن ایام میں جب جوج اسرائیل کی مملکت پر چڑھائی کرے گا تو میرا قہر میرے چہرہ سے نمایاں ہوگا.خداوند خدا فرماتا ہے کیونکہ میں نے اپنی غیرت اور آتش قہر میں فرمایا کہ یقینا اُس روز اسرائیل کی سرزمین میں سخت زلزلہ آئے گا یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے اور میدان کے چرندے اور سب کیڑے مکوڑے جو زمین پر رینگتے پھرتے ہیں اور تمام انسان جو رؤے زمین پر ہیں میرے حضور تھر تھرائیں گے اور پہاڑ گر پڑیں گے اور کراڑے بیٹھ جائیں گے اور ہر ایک دیوار زمین پر گر پڑے گی اور میں اپنے سب پہاڑوں (145)

Page 151

سے اُس پر تلوار طلب کروں گا.خدا وند خدا فرماتا ہے اور ہر ایک انسان کی تلوار اُس کے بھائی پر چلے گی اور میں وبا بھیج کر اور خونریزی کر کے اُسے سزا دونگا اور اُس پر اور اُس کے لشکروں پر اور اُن بہت سے لوگوں پر جو اس کے ساتھ ہیں شدّت کا مینہہ اور بڑے بڑے اولے اور آگ اور گندھک برساؤنگا اور اپنی بزرگی اور اپنی تقدیس کراؤ نگا اور بہت سی قوموں کی نظروں میں مشہور ہوں گا اور وہ جانیں گے کہ خداوند میں ہوں.پس اے آدم زاد! تو جوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے دیکھ اے جوج ، روش، اور مسک اور توبل کے فرمانروا! میں تیرا مخالف ہوں اور میں تجھے پھر ا دونگا اور تجھے لئے پھر ونگا اور شمال کی دُور اطراف سے چڑھالا ؤ نگا اور تجھے اسرائیل کے پہاڑوں پر پہنچاؤں گا اور تیری کمان تیرے بائیں ہاتھ سے چھڑا دوں گا اور تیرے تیر تیرے داہنے ہاتھ سے گرا دونگا.تو اسرائیل کے پہاڑوں پر اپنے سب لشکر اور حمایتیوں سمیت گر جائے گا اور میں تجھے ہر قسم کے شکاری پرندوں اور میدان کے درندوں کو دوں گا کہ کھا جائیں.تو کھلے میدان میں گرے گا کیونکہ میں ہی نے کہا خداوند خدا فرماتا ہے اور میں ماجوج پر اور اُن پر جو بحری ممالک میں امن وسکونت کرتے ہیں آگ بھیجونگا اور وہ جانیں گے کہ میں خداوند ہوں اور میں اپنے مقدس نام کو اپنی امت اسرائیل میں ظاہر کرونگا اور پھر اپنے مقدس نام کی بے حرمتی نہ ہونے دونگا اور قومیں جائیں گی کہ میں خداوند اسرائیل کا قدوس ہوں.دیکھ ! وہ پہنچا اور وقوع میں آیا خداوند خدا فرماتا ہے یہ وہی دن ہے جس کی بابت میں نے فرمایا تھا.تب اسرائیل کے شہروں کے بسنے والے نکلیں گے اور آگ لگا کر ہتھیاروں کو جلائیں گے یعنی سپروں اور پھر یوں کو ، کمانوں اور تیروں کو اور بھالوں اور برچھیوں کو اور وہ سات برس تک اُن کو جلاتے رہیں گے.یہاں تک کہ وہ نہ میدان سے

Page 152

لکڑی لائیں گے اور نہ جنگلوں سے کاٹیں گے.کیونکہ وہ ہتھیار ہی جلائیں گے اور وہ اپنے لوٹنے والوں کو لوٹیں گے اور اپنے غارت کرنے والوں کو غارت کریں گے.خداوند خدا فرماتا ہے.اور اُسی دن یوں ہوگا کہ میں وہاں اسرائیل میں جوج کو ایک گورستان دوں گا یعنی را بگذروں کی وادی جو سمندر کے مشرق میں ہے اُس سے را بگذروں کی راہ بند ہوگی اور وہاں جوج کو اور اُس کی تمام جمعیت کو دفن کریں گے اور جمعیت جوج کی وادی اُس کا نام رکھیں گے اور سات مہینوں تک بنی اسرائیل اُن کو دفن کرتے رہیں گے تا کہ ملک کو صاف کریں.ہاں اُس ملک کے سب لوگ ان کو دفن کریں گے اور یہ اُن کے لئے ناموری کا سبب ہو گا جس روز میری تمجید ہوگی.خداوند خدا فرماتا ہے اور وہ چند آدمیوں کو چن لیں گے جو اس کام میں ہمیشہ مشغول رہیں گے اور وہ زمین پر گزرتے ہوئے را بگذروں کی مدد سے اُن کو جو سطح زمین پر پڑے رہ گئے ہوں دفن کریں گے تا کہ اُسے صاف کریں پورے سات مہینوں کے بعد تلاش کریں گے اور جب وہ ملک میں سے گزریں اور اُن میں سے کوئی کسی آدمی کی ہڈی دیکھے تو اس کے پاس ایک نشان کھڑا کرے گا جب تک دفن کر نیوالے جمعیت جوج کی وادی میں اُسے دفن نہ کریں اور شہر بھی جمعیت کہلائے گا یوں وہ زمین کو پاک کریں گے.اور اے آدم زاد! خداوند خدا فرماتا ہے ہر قسم کے پرندے اور میدان کے ہر ایک جانور سے کہہ جمع ہو کر آؤ میرے اس ذبیحہ پر جسے میں تمہارے لئے ذبح کرتا ہوں.ہاں اسرائیل کے پہاڑوں پے ایک بڑے ذبیحہ پر ہر طرف سے جمع ہوتا کہ تم گوشت کھاؤ اور خون پیو تم بہادروں کا گوشت کھاؤ گے اور زمین کے امراء کا خون پیو گے ہاں مینڈھوں، بڑوں، بکروں اور بیلوں کا.وہ سب کے سب بسن کے فربہ ہیں اور تم میرے ذبیحہ کی جسے (147)

Page 153

میں نے تمہارے لئے ذبح کیا یہاں تک چربی کھاؤ گے کہ سیر ہو جاؤ گے اور اتنا خون پیو گے کہ مست ہو جاؤ گے اور تم میرے دستر خوان پر گھوڑوں اور سواروں سے اور بہادروں اور تمام جنگی مردوں سے سیر ہو گے.خداوند خدا فرماتا ہے اور میں قوموں کے درمیان اپنی بزرگی ظاہر کروں گا اور تمام قومیں میری سزا کو جو میں نے دی اور میرے ہاتھ کو جو میں نے اُن پر رکھا دیکھیں گی“.۳۳ دیکھو! حز قیل نبی اُس زمانہ میں جب کوئی شخص روس کو نہ جانتا تھا اور جب کسی شخص کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ روس دنیا میں اس قدر ترقی کرے گا کہ اپنی حکومت اور شوکت کے ذریعہ سب پر چھا جائے گا روس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:.اے روس ، ماسکو اور ٹو بالسک کے بادشاہ! خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ میں دنیا کے آخری زمانہ میں تیری طاقت کو بڑھاؤں گا اور تیری شوکت میں غیر معمولی اضافہ کروں گا یہاں تک کہ تو اس گھمنڈ میں کہ تیری طاقت بہت بڑھ چکی ہے اور تیری عظمت میں اضافہ ہو گیا ہے غیر ملکوں کو اپنے قبضہ میں لانے اور ان کے اموال اور اُن کے مواشی اور ان کی دولت لوٹنے کی کوشش کرے گا یہاں تک کہ فارس اور ایران پر بھی تیرا قبضہ ہو جائے گا (جس کی بنیاد ڈالنے کے لئے روس اب ایران کے چشمے مانگ رہا ہے ) اے روس، ماسکو اور ٹو بالسک کے بادشاہ! اس لئے کہ تو غیر ملکوں کی دولت کولوٹ لے.اُن کا سونا اور چاندی اپنے قبضہ میں کرلے اور اُن کے مواشی اور ان کے اموال کو غصب کر لے اپنے ملک میں سے نکلے گا ( پیشگوئی کے اس حصہ سے ظاہر ہے کہ کمیونزم کا اقتصادی نظام پہلے نظاموں سے بھی زیادہ دوسرے ملکوں کے لئے خطرناک ہوگا) اور غیر ممالک پر حملہ کرتے ہوئے

Page 154

بڑھتا چلا جائے گا.یہاں تک کہ تو یروشلم پر حکومت کرنا چاہے گا جس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تب میر ا غضب تجھ پر بھڑ کے گا میں آگ اور گندھک کا مینہ تجھ پر برساؤں گا اور میں تجھے بنسیاں مار مار کر تیرے منہ اور جبڑوں کو چیر دونگا اور تجھے اس طرح تباہ و برباد کروں گا تیری لاشوں کے انبار جنگلوں میں لگ جائیں گے اور لوگ انہیں مہینوں تک زمین میں دفن کرتے رہیں گئے.وہ لوگ جو پیشگوئیوں کو نہیں مانتے میں اُن سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے اور اگر وہ اپنے انبیاء کو غیب کی خبروں سے اطلاع نہیں دیا کرتا تو آج سے اڑ ہائی ہزار سال پہلے حز قیل نبی کو یہ کس نے بتادیا تھا کہ ایک زمانہ میں روس دنیا کی زبر دست طاقت بن جائے گا اور وہ دنیا کا سونا اور چاندی لوٹنے کے لئے غیر ممالک پر حملہ کرے گا اور بادل کی طرح اُن پر چھا جائے گا مگر آخر خدا کا غضب اُس پر بھر کے گا اور وہ آسمانی عذاب کا نشانہ بن کر تباہ و برباد ہو جائے گا.اس نکتہ پر غور کرنے کے بعد انسان سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا کہ اس قسم کی قبل از وقت خبریں دینا خدا کا ہی کام ہے اور اگر دنیا کا ایک خدا ہے اور اُس خدا نے حز قیل نبی کو یہ خبر دی ہے جو آج تک بائبل میں لکھی ہوئی موجود ہے تو پھر اس خبر کے جو آج سے اڑہائی ہزار سال پہلے دی گئی سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں ہیں کہ خدا اس اقتصادی نظام کو دنیا میں رہنے دینے کے لئے تیار نہیں ہے.روس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ایک نئی پیشگوئی بھی سُن لو.اس زمانہ میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو زار روس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ اُس پر ایک نہایت ہی شدید عذاب آنے والا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا.(149)

Page 155

اسلام کا اقتصادی نظا زار بھی ہوگا تو ہو گا اُس گھڑی با حالِ زار ۳۴ یعنی وہ گھڑی آنے والی ہے جب کہ زار بھی باحال زار ہو جائے گا.چنانچہ اس پیشگوئی کے عین مطابق بالشویک لوگوں نے زار اور اُس کے خاندان کی مستورات کو ایسے ایسے سخت عذاب دیئے اور اِس اِس رنگ میں اُن کی بے حرمتی کر کے اُن کو مارا کہ وہ واقعات آج بھی سن کر دشمن سے دشمن انسان کا دل بھی کانپ اُٹھتا ہے اور اُس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے مگر اُس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک اور بھی خبر دی جو یہ ہے.۲۲ / جنوری ۱۹۰۳ ء کو میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آگیا ہے وہ بڑا لمبا اور خوب صورت ہے.پھر میں نے غور سے دیکھا تو وہ بندوق ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بندوق ہے بلکہ اُس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں گو یا بظاہر سونٹا معلوم ہوتا ہے اور وہ بندوق بھی ہے“.۳۵ رویا میں کسی حکومت کا عصا دیئے جانے کے معنی وہاں طاقت اور نفوذ کے حاصل ہونے کے ہوتے ہیں.پس جہاں حز قیل نبی کی خبر یہ بتارہی ہے کہ کمیونسٹ نظام اقتصا دکو اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم رکھنا پسند نہیں کرتا اور یہ کہ اگر اس نظام کے متولیوں نے اس سے تو بہ نہ کی اور وہ غیر قوموں میں دخل اندازی اور تصرف سے باز نہ آیا تو خدا تعالیٰ کا عذاب اُس پر نازل ہوگا اور وہ اس کی ہیبت ناک سزا کا نشانہ بن کر دنیا کے لئے ایک عبرت کا سامان پیدا کر جائے گا وہاں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ آخر روس کا نظام ہمارے ہاتھوں میں دیا جائے گا اور اس کی اصلاح کا کام ہمارے سپرد ہوگا.یہ خدائی کلام ہیں جو ایسے وقت میں کہے گئے ہیں جبکہ ان کے پورا ہونے کے کوئی بھی اسباب دنیا میں نظر نہیں آتے تھے اور نہ اب نظر آتے ہیں.میں ان

Page 156

ہزاروں لوگوں کے سامنے جو آج اس مقام پر جمع ہیں خدا تعالیٰ کے ان کلاموں کو پیش کرتا ہوں.حزقی ایل نبی کا کلام وہ ہے جو حضرت مسیح سے چھ سو سال پہلے یعنی آج سے دو ہزار پانچ سوسال پہلے نازل ہوا جبکہ روس کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وہ اتنی طاقت حاصل کر لے گا کہ غیر اقوام میں دخل اندازی شروع کر دے گا اور اُن کے سونے اور چاندی کو جمع کرنے لگ جائے گا.پس غور کرو کہ کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو روس کے متعلق کی گئی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئی موجود ہے جس میں آپ کو زار روس کی تباہی کی خبر دی گئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ پیشگوئی پوری ہو گئی.اب دوسری پیشگوئی یہ ہے کہ ایک دن روس کی حکومت بدل کر ایسے رنگ میں آجائے گی کہ اُس کا عصا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے ہاتھ میں دیا جائے گا.جس طرح رسول کریم صلی ہی تم نے یہ دیکھا کہ آپ کو قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں مگر وہ کنجیاں آپ کی بجائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئیں.اسی طرح گوزار روس کے عصا کے متعلق یہ دکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ عصا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں دیا مگر انبیاء کے ذریعہ جو پیشگوئیاں کی جاتی ہیں وہ سب کی سب اُن کے ہاتھ پر پوری نہیں ہوتیں بلکہ اُن میں سے اکثر اُن کی جماعتوں کے ذریعہ پوری ہوتی ہیں اور اس پیشگوئی کے متعلق بھی ایسا ہی ہوگا.یہ خیالی بات نہیں بلکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ روس کی خرابیوں کو درست کرنا اور اُس کے نظام کی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اور ایک دن روس کے لوگ جماعت احمد یہ میں داخل ہو کر اس کے بیان کردہ نظام کو اپنے ہاں جاری کریں گے.پس جلد یا بدیرکمیونزم کا نظر آنیوالا زبر دست خطرہ دُور ہو جائے گا اور لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کی خرابیوں....(151)

Page 157

کی اصلاح اور اُن کے دکھوں کا علاج صرف اسلامی تعلیم میں ہی پایا جاتا ہے.کمیونزم کی تباہی کے متعلق ایک رویا چوبیس سال کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا میدان ہے جس میں میں کھڑا ہوں.اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عظیم الشان بلا جو ایک بہت بڑے اثر دہا کی شکل میں ہے دُور سے چلی آرہی ہے.وہ اثر دہ دس ہیں گز لمبا ہے اور ایسا موٹا ہے جیسے کوئی بڑا درخت ہو.وہ اثر د ہا بڑھتا چلا آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ دنیا کے ایک کنارے سے چلا ہے اور درمیان میں جس قدر چیزیں تھیں اُن سب کو کھاتا چلا آ رہا ہے یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے وہ اثر رہا اُس جگہ پر پہنچ گیا جہاں ہم ہیں اور میں نے دیکھا کہ باقی لوگوں کو کھاتے کھاتے وہ ایک احمدی کے پیچھے بھی دوڑا.وہ احمدی آگے آگے ہے اور اثر د ہا پیچھے پیچھے.میں نے جب دیکھا کہ اثر رہا ایک احمدی کو کھانے کے لئے دوڑ پڑا ہے تو میں ہاتھ میں سونٹا لے کر اُس کے پیچھے بھا گا لیکن خواب میں میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اتنی تیزی سے دوڑ نہیں سکتا جتنی تیزی سے سانپ دوڑتا ہے.چنانچہ میں اگر ایک قدم چلتا ہوں تو سانپ دس قدم کے فاصلہ پر پہنچ جاتا ہے.بہر حال میں دوڑتا چلا گیا یہاں تک کہ میں نے دیکھا وہ احمدی ایک درخت کے قریب پہنچا اور تیزی سے اُس پر چڑھ گیا.اُس نے خیال کیا کہ اگر میں درخت پر چڑھ گیا تو میں اثر دہا کے حملہ سے بچ جاؤ نگا مگر ابھی وہ اس درخت کے نصف میں ہی تھا کہ اثر رہا اُس کے پاس پہنچ گیا اور سر اٹھا کر اُسے نگل گیا.اس کے بعد وہ پھر واپس لوٹا اور اس غصہ میں کہ میں احمدی کو بچانے کے لئے کیوں اُس کے پیچھے دوڑا تھا اُس نے مجھ پر حملہ کیا.مگر جب وہ مجھ پر حملہ کرتا ہے تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے قریب ہی ایک چار پائی پڑی ہوئی ہے مگر وہ بنی ہوئی نہیں صرف پٹیاں وغیرہ ہیں.152)

Page 158

جس وقت اثر دہا میرے پاس پہنچائیں کو دکر اُس چار پائی کی پیٹیوں پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا اور میں نے اپنا ایک پاؤں اُس کی ایک پٹی پر اور دوسرا پاؤں اُس کی دوسری پٹی پر رکھ لیا.جب اثر د ہا چار پائی کے قریب پہنچا تو کچھ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ اس کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ لايَدَانِ لا حَدٍ بقِتَالِهِمْ ۳۶ے اُس وقت مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سانپ کا حملہ دراصل یا جوج اور ماجوج کا حملہ ہے کیونکہ یہ حدیث اُن کے بارہ میں ہے.میں اُس وقت یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہ دجال بھی ہے.اتنے میں وہ اثر دہا میری چار پائی کے قریب پہنچ گیا اور میں نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا دیئے اور اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگنی شروع کر دی.اسی دوران میں اُن احمدیوں سے جنہوں نے مجھے مقابلہ کرنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ جب رسول کریم صا یہ ستم فرما چکے ہیں کہ یا جوج اور ماجوج کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکے گی میں کہتا ہوں کہ رسول کریم سایا ہی ہم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ لا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتالِھم کسی کے پاس کوئی ایسا ہاتھ نہیں ہوگا جس سے وہ اُن کا مقابلہ کر سکے مگر میں نے تو اپنے ہاتھ مقابلہ کے لئے اُس کی طرف نہیں بڑھائے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ خدا کی طرف اُٹھا دیئے ہیں اور خدا کی طرف ہاتھ اٹھا کر فتح پانے کے امکان کو رسول کریم سلانا ہی ہم نے رد نہیں فرمایا.غرض میں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اے خدا! مجھ میں تو طاقت نہیں کہ میں اس فتنہ کا مقابلہ کر سکوں لیکن تجھ میں سب طاقت اور قدرت ہے میں تجھ سے التجاء کرتا ہوں کہ تو اس فتنہ کو دور فرما دے.جب میں نے یہ دُعا کی تو میں نے دیکھا کہ آسمان سے اُس اثر دہا کی حالت میں تغیر پیدا ہونے لگا جیسے پہاڑی کیڑے پر نمک گرانے سے ہوتا ہے.اس کے نتیجہ میں اُس اثر دہا کے جوش میں کمی آنی شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ اس کی تیزی بالکل کم ہوگئی.چنانچہ پہلے تو وہ 153)

Page 159

میری چارپائی کے نیچے گھسا.پھر اُس کے جوش میں کمی آنی شروع ہوگئی.پھر وہ خاموشی سے لیٹ گیا اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی چیز بن گیا ہے.جیسے جیلی ہوتی ہے اور بالآخر وہ اثر دہا پانی ہو کر بہہ گیا اور میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو! دعا کا کیسا اثر ہوا.بے شک میرے اندر طاقت نہیں تھی کہ میں اُس کا مقابلہ کر سکتا مگر میرے خدا میں تو طاقت تھی کہ وہ اس خطرہ کو دور کر دیتا.ایک قابل ذکر امر یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور دشمن سے دشمن انسان کی بدخواہی کا خیال بھی ہمارے دل کے کسی گوشہ میں نہیں آتا.ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں اخلاق کی فتح ہو، روحانیت کی ترقی ہو، خدا اور اُس کے رسول کی حکومت قائم ہو.اور ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی نظام جاری ہو خواہ وہ اقتصادی ہو یا سیاسی جمد نی ہو یا معاشرتی بہر حال خدا اور اُس کے رسول کا خانہ خالی نہ رہے اور دنیا کو اُن کے احکام کی اتباع سے نہ روکا جائے.پس ہم روس یا کمیونزم کے دشمن نہیں بلکہ روس سے مجھے دلی ہمدردی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ قوم جو سینکڑوں سال فلموں کا شکار رہی ہے ترقی کرے اور اس کے دن پھریں.ہاں میں یا اور کوئی حریت پسند یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ ایک غلط فلسفہ کو بعض قوموں کی ترقی اور دوسروں کے تنزل کا موجب بنایا جائے.پس اسلام اور رسول کریم صلی ایتم کی بیان فرمودہ ہدایات کو اگر دنیا کا کوئی نظام اپنا لے اور اپنا نظام اسلامی رنگ میں ڈھال لے تو اُس کی باتیں ہمارے سر آنکھوں پر.لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو مذہبی لوگ اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اُس نظام کو قبول نہ کریں کیونکہ بے شک روٹی کی تکلیف بھی بڑی تکلیف ہے مگر مذہب ایسی چیز ہے جسے انسان کسی حالت میں بھی 154)

Page 160

قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.میں نے اس مضمون کے بیان کرنے میں بہت کچھ اختصار کر دیا ہے اور کئی باتیں چھوڑ دی ہیں لیکن پھر بھی میں نے لمبا وقت لے لیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اسلامی اقتصادیات اور کمیونزم کے اثرات کے متعلق میں نے جن امور پر روشنی ڈالی ہے دوست اُن پر غور کریں گے اور محض سنی سنائی باتوں کے پیچھے نہیں چلیں گے کیونکہ ذہنی ارتقاء کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ جس بات کو بھی اختیار کیا جائے اُس کے تمام پہلوؤں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر لیا جائے تا کہ انسان جس راستہ کو بھی اختیار کرے سوچ سمجھ کر کرے اور جس نظام کو بھی قبول کرے کھلی آنکھوں کے ساتھ کرے.یہی وہ طریق ہے جس پر عمل کرنے سے سچائی ظاہر ہو سکتی ہے اور فتنہ وفساد کا سد باب ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی رحم فرمائے اور اپنی ہدایت کی راہوں پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے اور خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو بھی اُس راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو آپ کے لئے بھی مفید ہو اور آپ کی اولادوں کے لئے بھی مفید ہو.آپ کے دین کے لئے بھی مفید ہو اور آپ کی دنیا کے لئے بھی مفید ہو.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ( مطبوعہ فیض اللہ پرنٹنگ پریس قادیان ۱۹۴۵ء) **** ***** (155) ***

Page 161

لے AC الزخرف:۸۶ النساء:۵۹ آل عمران: ۲۷ البقرة : ٢٠٦ الپ ارسلان (۱۰۲۹ - ۱۰۷۲ء): بانی سلطنت سلجوقیہ.نہایت دلیر اور نیک دل حکمران تھا.۱۰۶۴ء میں بزنطینی سلطنت کے صوبہ آرمینیا پر قبضہ کیا ۱۰۷۱ء میں اس نے تھوڑی سی فوج کے ساتھ شاہ قسطنطنیہ کو شکست فاش دی اور قید کر لیا.اتفاقاً ایک باغی کے ہاتھ سے مارا گیا.B.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحہ ۱۱۹.مطبوعہ لا ہور ۱۹۸۷ء ملک شاہ سلجوقی MALIK SHAH (۱۰۹۲۱۰۵۵ء): ترکیہ کے آخری سلجوقی سلاطین میں سے ایک (۱۰۷۲.۱۰۹۲ء) سائنس اور فنون لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا.اصفہان میں بہت سی مساجد تعمیر کرائیں.سن جلالی کی ابتداء اسی کے عہد میں ہوئی.سلطان الپ ارسلان کا بیٹا.سلطان کی ہلاکت پر ۷ اسال کی عمر میں ایران کا بادشاہ بنا.بخارا، شمر قند، شام و مصر فتح کر کے سلطنت مضبوط کی اور امیر کاشغر کو خراج ادا کرنے پر مجبور کیا.W (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۱۰.مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) اسدالغابۃ جلد ۴ صفحه ۷۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ البقرة:٣٠ ك النور: ٣٤ هود : ۸۸ العلق : نا البلد : ۷ تا ۱۸ ل الانفال: ۶۸ محمد : ۵ النور : ۳۴ بخاری کتاب الایمان باب ماجاء ان الاعمال بالنية الحديد: ۲۱ گنجفہ: ایک کھیل کا نام كا المؤمنون : ۴ ۱۹۱۸ بخاری کتاب اللباس باب خواتیم الذهب اهتزاز : خوشی ،مسرت (156)

Page 162

۲۴ ۲۵ النساء : ۵۹ ۲۲ التوبة : ۳۵،۳۴ لاکھ : ایک قسم کا گوند جیوٹ (JUTE): پٹ سن ۲۶ الحشر : بخاری کتاب الزکوۃ باب اخذ الصدقة التمر عند صرام النخل (الخ) ۱۲۰،۱۹۹ : ۲۸ BM العلق : ٢٩ البقرة : ۳۱ ۳۰ ال عمران : ۱۰۵ نارمنڈی (NORMANDY): فرانس کے قدیم صوبوں میں سے ایک صوبہ.اس علاقے میں دسویں صدی عیسوی میں ملحد سکنڈے نیویائی لوگوں نے قبضہ کیا.انگریزوں اور فرانسیسیوں کے مابین جنگوں میں متعدد بار ایک دوسرے نے اس پر قبضہ کیا.۱۴۵۰ء میں چارلس ہفتم نے اس پر قبضہ کیا.۱۹۴۴ء میں یہ پھر میدان جنگ بنا.برطانیہ اور امریکہ کے مشترکہ حملے سے نازی فوجوں کو (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۹۴.مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) پسپا ہونا پڑا.۳۲ کودن: کند ذہن حزقی ایل باب ۳۸ آیت ۱ تا ۲۳- باب ۳۹ آیت ۱ تا ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۳۵ تذکرہ صفحه ۵۴۰.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۴۵۸.ایڈیشن چہارم (مفہوم) مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال (157)

Page 162