Language: UR
اسلام سے نہ بھا گو راہ ہدیٰ یہی ہے اے سونے والو جا گوشس الضعفی نہیں ہے بچوں کے لئے ) اسلام کی پانچویں کتاب از چوہدری محمد شریف صاحب مولوی فاضل قادیان الناشر: نظارت نشر واشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان
نام کتاب مصنف اسلام کی پانچویں کتاب چوہدری محمد شریف $1986: $2013 : $2016 : قادیان 1000 : نظارت نشر واشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان، ضلع گوراد سپور، پنجاب 143516،انڈیا فضل عمر پرنٹنگ پریس قادریان : طبع اول کمپوز ڈایڈ یشن باراول حالیہ اشاعت مقام اشاعت تعداد شاعت ناشر مطبع ISBN: 978-81-7912-364-5 Islam Ki Panchveen Kitab by Choudary Muhammad Shareef Maulvi Fazil
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ عرض ناشر اسلام نام ہے اس دین کا اور اس طریقے پر زندگی گزارنے کا جو اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی سالی یا تم اللہ تعالی کی طرف سے لائے تھے اور جو قرآن شریف میں اور حدیث النبوی میں بتلایا گیا ہے اور حضور اکرم نے اپنے عملی نمونہ سے ہمیں سکھایا ہے.دین کا سیکھنا اور اسلام کی ضروری باتوں کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.دینی علوم حاصل کرنے والوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی اکرم نے فرمایا ہے کہ: مَنْ يُرِدُ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقَّةُ فِي الدِّينِ (بخاری) جس کو اللہ تعالیٰ بھلائی اور ترقی دینا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے.پس بچپن سے ہی دین اسلام کو سکھنے اور اس کی ضرورت اور بنیادی باتوں کے علم حاصل کرنے کا شوق دل میں پیدا ہونا چاہئے اور احکام اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں کو سنوارنے کی کوشش کرنے کی عادت بھی پیدا ہونی چاہئے.اور بچپن سے ہی بچوں میں دینی تعلیم اللہ اور اسکے رسول کی محبت اور غیرت کو راسخ کرنا چاہئے.محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم نے بڑی خوش اسلوبی اور عمدہ و آسان پیرائے میں اسلام کی بنیادی مسائل اور احمدیت کی مختصر تاریخ پر مشتمل پانچ کتب اسلام کی پہلی تا پانچویں کتاب سلسلہ وار تصنیف فرمائی ہیں.یہ کتب جہاں بچوں کی دینی تعلیم کے لئے نہایت دلچسپ ہیں وہاں بڑی عمر کے احباب بھی اس سے ضرور استفادہ کر
سکیں گے.اللہ تعالیٰ محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور ان کی تصنیف کردہ ان کتب کی اشاعت کو ان کے لئے خَيْرَ مَا يَخْلُفُ الرَّجُلُ میں سے بنائے.آمین محترم مولانا موصوف کی تصنیف کردہ اسلام کی پانچوں کتب پہلی بار ۱۹۸۶ء میں قادیان میں شائع ہوئی تھیں.اب کمپوزڈ ایڈیشن ۲۰۱۳ء میں سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے من وعن شائع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو سید نا حضور انور کے اعلیٰ توقعات کے مطابق نونہالان جماعت کی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاكسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان
پیش لفظ طبع دوم محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبشر بلا دعربیه وایڈیٹر رسالہ ”البشری ( فلسطین) کی سلسلہ وار تصنیف ”اسلام کی پہلی تا پانچویں کتاب احمدی بچوں اور بچیوں کی دینی وتربیتی ضروریات کو پورا کرنے کے اعتبار سے بفضلہ تعالیٰ بہت مفید ثابت ہوئی ہے.جماعت ہائے احمد یہ بھارت کی ضرورت کے پیش نظر اسے وقف جدید انجمن احمد یہ قادیان کی طرف سے دور حاضر کے تقاضوں اور معیار کے مطابق شائع کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نونہالان احمدیت کو اس سے بیش از بیش استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین سیدنا حضرت خلیفة ا ت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ و سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے حالات کا اضافہ خاکسار کے ذریعہ ہوا ہے.خاکسار ملک صلاح الدین ایم اے انچارج وقف جدید انجمن احمد یہ قادیان ۲۰ نومبر ۱۹۸۶
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نحمدهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عبده الْمَسِيحَ الموعُود اسلام کی پانچویں کتاب معاملات وو ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرے.اللہ تعالیٰ کے حقوق (توحید پر ایمان - نماز.روزہ وغیرہ) کو عربی زبان میں عبادات“ کہتے ہیں.اور اُس کے بندوں کے حقوق کو ” معاملات“ کہتے ہیں.ہر مسلمان پر ان ہر دو حقوق عبادات اور معاملات کا شریعت کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق بجالا نا فرض اور واجب ہے.اگر کوئی شخص ان ہر دو حقوق کے بجالانے میں سُستی کرے گا تو وہ کامل مسلمان نہیں کہلا سکتا.اور قیامت کے دن اُس سے مواخذہ ہوگا.اور سزا کا مستحق ہوگا.اس لئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ عبادات اور معاملات کے بجالانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے.اور اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہ چھوڑے.عبادات کا بیان پہلی چار کتابوں میں ہو چکا ہے یہاں سے معاملات کا بیان شروع ہوتا ہے.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ
نکاح نکاح کرنا سنت ہے.جو شخص نکاح کی طاقت رکھنے کے باوجود نکاح نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کے صریح احکام کی نافرمانی کرتا ہے.کیونکہ آپ نے نکاح کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے.نکاح کرنے سے علاوہ رشتہ داریاں بڑھنے کے انسان بہت سے گناہوں مثلاً بدنظری، زنا اور بہت سی خطر ناک بیماریوں سے بھی بچ جاتا ہے.اور امن سے اپنی زندگی بسر کرتا ہے.لیکن اگر کسی شخص کے پاس نکاح کرنے کے لئے مال وغیرہ نہ ہو یا اسے کوئی رشتہ دار نہ ملتا ہوتو اسے روزے رکھنے کا حکم ہے.نکاح کرتے وقت یہ بات خصوصا مد نظر رکھنے کا حکم ہے کہ عورت علاوہ اور خوبیوں کے دین دار، نیک اور پاک ضرور ہو.اگر کوئی عورت نیک اور دیندار نہیں تو اس کے ساتھ نکاح نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ پھر وہ فوائد حاصل نہ ہوسکیں گے جن کے لئے شریعت نے نکاح کرنے کا حکم دیا ہے.نکاح کے انعقاد کے لئے چند شرطیں ہیں :- اول :- مرد اور عورت سے دریافت کیا جائے کہ کیا وہ آپس میں نکاح کرنے پر رضامند ہیں.اگر ہر دورضامند ہوں تو پھر نکاح کیا جائے اگر اُن میں [2]
سے کوئی ایک بھی نا پسند کرے تو نکاح نہیں ہو سکتا.دوم :- عورت کی طرف سے اس کے ولی یعنی قریبی رشتہ دار مثلاً باپ یا بھائی کی منظوری بھی ضروری ہے.کیونکہ شریعت نے عورت کے لئے ایک ولی کا ہونا ضروری قرار دیا ہے اس لئے عورت کو بطور خود کسی سے نکاح کرنے کا حکم نہیں جب تک کہ اس کا ولی نکاح کی منظوری نہ دے.سوم مہر مقرر ہو.بغیر مہر کے نکاح نہیں ہوسکتا.شریعت نے مہر کی کوئی حد مقرر نہیں کی.مرد جس قدر اپنی حیثیت کے موافق دے سکتا ہو.اور ہا ہم فریقین کی رضامندی سے طے ہو.اُسی قدر مہر مقر رہونا چاہئے.کیونکہ اگر کوئی شخص میر تو زیادہ مقرر کر لیتا ہے.مگر اس کو ادا نہیں کرتا تو وہ گنہ گار ہے.چہارم :- نکاح کا اعلان ہونا چاہیئے.اعلان جتنے زیادہ لوگوں میں کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ خفیہ نکاح کوئی نکاح نہیں.نکاح کے اعلان کا یہ طریق ہے کہ کسی مجلس میں جہاں چند لوگ ( کم از کم دو مہر اس مال کو کہتے ہیں جو عورت کو بطور جائداد نکاح کے وقت خاوند کی طرف سے دیا جاتا ہے یا دیا جانے کا وعدہ کیا جاتا ہے.[3]
آدمی ) جمع ہوں وہاں کوئی عالم مسنون طریق پر نکاح کا اعلان کرے.یعنی پہلے خطبہ نكاح الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَاوَ مِنْ سَيِّاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ - أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُبِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَ لُوْنَ بِهِ وَالْاَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ، يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ، وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ، يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُوْلُوْاقَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ 1 ( ترجمہ ) سب تعریفوں کا مستحق چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئے ہم اُس کی تعریف کرتے ہیں.اور اُس سے مدد مانگتے ہیں.اور اپنے گناہوں کی اُس سے بخشش چاہتے ہیں.اور اُس پر ایمان لاتے ہیں.اور اُس کی ذات پر تو کل کرتے ہیں.اور اپنے شرور اور اپنی بداعمالیوں سے خدا کی پناہ میں آتے ہیں.(دیکھو!) جس کو خدا ہدایت دے تو اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے خدا گمراہ قرار دیدے.تو اُسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.اشهد ان لا اله الا الله وحده لاشريك له و اشهد ان محمدا عبده و رسوله ـ اما بعد فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم - بسم الله الرحمن الرحيم [4]
ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ، پڑھے پھر اس کے ط بعد اعلان کرے کہ فلاں عورت کا نکاح فلاں مرد سے اتنے مہر پر ہونا قرار پایا ہے.پھر ان ہر دو سے دریافت کرے کہ کیا انہیں یہ نکاح منظور ہے؟ اگر وہ اقرار کریں کہ انہیں منظور ہے تب نکاح ہوتا ہے.اسے اصطلاح میں ایجاب وقبول کہتے ہیں.چونکہ عورتوں کو پردہ کا حکم ہے لہذ اعورت کی طرف سے اس کا ولی ایجاب وقبول کرے گا.عورت کا مجلس میں ہونا ضروری نہیں.اسی طرح بعض (بقیہ ترجمہ) اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو کہ وہ ذات پاک وہ ہے کہ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا.اور اسی سے اس کے لئے بیوی بنائی.اور پھر اُن سے (اولاد پیدا کر کے ) بہت سے مرد اور عورتیں بنا کر پھیلا دئے.اور تم اللہ سے ڈرو.جس کا واسطہ دے کر مانگتے ہو.اور رشتہ داروں سے بھی.(دیکھو اگر خلاف شریعت کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ ہر وقت تم پر نگہبان ہے.اے مومنو اللہ سے ڈرو.اور چاہئے کہ ہر شخص محاسبہ کرتار ہے کہ قیامت کے دن کے لئے اُس نے کیا جمع کیا ہے.اللہ سے ڈرو.کیونکہ وہ تمہارے اعمال سے خبر دار ہے.اے مومنو! اللہ سے ڈرو.اور سیدھی باتیں کیا کرو.وہ تمہارے اعمال بھی درست کر دے گا.اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا.اور (دیکھو) جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کر یگا تو یقینا وہ کامیاب ہو جائے گا.ے نکاح پر مبارک دینے کے مسنون الفاظ یہ ہیں : - بَارَكَ اللهُ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْر - ( حدیث ترمذی ) ترجمہ:- اے مرد ! تجھے یہ نکاح اللہ تعالیٰ مبارک کرے اور تم دونوں پر اپنی برکات نازل فرمائے اور تم دونوں کو باہم شیر وشکر کر دے.[5]
مجبوریوں کے پیش نظر مرد کی طرف سے اُس کا ولی یا وکیل ایجاب وقبول کر سکتا ہے.اگر عورت کا ولی اس مجلس میں حاضر نہ ہو سکتا ہو تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی دوسرے شخص کو اپنا وکیل مقرر کر دے تاوہ اس کی طرف سے ایجاب وقبول کرے.جب ایجاب و قبول ہو جائے تو اب مرد و عورت خاوند اور بیوی بن گئے اب خاوند اپنی بیوی کو اپنے گھر لے جا سکتا ہے.جب خاوند کی اپنی بیوی کے ساتھ خلوت صحیحہ ہو جائے تو اسے چاہیے کہ حسب توفیق اپنے قریبی رشتہ داروں، دوستوں اور مسکینوں کی دعوت کرے اس دعوت کو ولیمہ کہتے ہیں یہ دعوت ( ولیمہ ) کرنا سنت ہے.اور اس کا قبول کرنا بھی سنت ہے.اور اس دعوت میں غریب اور مسکین لوگوں کو بلانے کا خاص حکم ہے.حقوق زوجین اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت اور فوقیت دی ہے.اور اس پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لئے تمام اخراجات خوراک، پوشاک اور رہائش وغیرہ کا انتظام حسب توفیق کرے.اس پر ناحق خفا نہ ہو.اور اس پر ناجائز بختی نہ کرے بلکہ ہمیشہ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ اور نیک سلوک کرے اور اس کے [6]
ساتھ محبت اور پیار سے رہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کو مرد کے ماتحت میں رکھا ہے اور اُس پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے.اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرے بشرطیکہ خلاف شرع نہ ہو.اُس کے مال کو ضائع نہ کرے کفایت شعاری اور قناعت سے کام لے خواہ مخواہ اس کو تنگ نہ کرے اُس کی عزت کی حفاظت کرے اور اولاد کی اچھی طرح سے پرورش کرے اور مرد کے لئے باعث راحت و آرام ہو.حقوق والدین شریعت نے حکم دیا ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اُسے مسل دیا جائے.مکسل دینے کے بعد اُس کے کانوں میں اذان و اقامت کہی جائے.(دائیں میں اذان اور بائیں میں اقامت) جب بچہ سات دن کا ہو جائے تو عقیقہ کرنا چاہیے.اگر لڑ کا ہوتو دو بکرے ذبح کرنے چاہئیں.اور اگر لڑ کی ہو تو ایک بکر اذ بح کرنا چاہیے.عقیقہ کرنا سنت ہے.اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کیا جا سکے تو جس وقت موقعہ ملے کردیں.اگر ماں باپ کسی وجہ سے عقیقہ نہ کر سکیں تو جب بچہ بڑا ہو.وہ خود اپنا عقیقہ [7]
کر سکتا ہے.عقیقہ کے ساتھ ہی ختنہ کر دینا چاہیے.اگر بچہ برداشت نہ کر سکتا ہو تو سن بلوغت سے پہلے پہلے اُس کا ختنہ کیا جائے.بہر حال ختنہ کرنا سنت اور نہایت ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے.جب بچہ دو سال کا ہو جائے تو اس کا دودھ چھڑا دینا چاہئے.(بوقت ضرورت پہلے بھی چھوڑایا جاسکتا ہے).ماں باپ پر فرض ہے کہ وہ بچوں کی ان کے بچپن سے ہی تربیت کرنا شروع کریں.اور اسلام کی تعلیم اور احکام ان کے ذہن نشین کریں.بیٹھنے، اُٹھنے اور کھانے پنے کے آداب سکھا ئیں.عبادات کے متعلق تمام ضروری مسائل ان کو یاد کرا ئیں.اور ان کی اچھی طرح سے تربیت کریں.ان کی ظاہری اور باطنی صفائی کا خاص خیال رکھیں.ان کو تعلیم دیں.اور ان کی تمام ضروریات کوشی الوسع پورا کریں.جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دیں....اور جب دس سال کا ہو جائے تو پھر اگر وہ نماز نہ پڑھے تو اسے مار پیٹ کر نماز پڑھانے کا حکم ہے.گویا ابتداء سے ہی اسے اسلام پر کار بند رہنے کی تلقین اور کوشش کرتے رہیں.بچے کا فرض ہے کہ وہ ماں باپ کی ہر بات کو مانے اور اس پر عمل کرے.جس کام کے کرنے کا وہ حکم دیں وہ کرے.اور جس کام سے وہ منع کریں اس سے رُک جائے.ہمیشہ اچھے کاموں میں مصروف رہے.بُری صحبتوں سے [8]
بچے.ماں باپ کی عزت کرے.اور ان کے سامنے اُف تک نہ کرے.کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے انکو تکلیف پیچھے.بلکہ ان کے لئے ہر وقت دعا ئیں کرتا رہے.اور جب وہ بوڑھے اور کمزور ہو جائیں تو ان کی تمام ضروریات کو پورا کرے اور ہر وقت ان کی خدمت میں لگار ہے.اگر کوئی بچہ یتیم ( باپ فوت ) ہو جائے.تو اس کے رشتہ داروں کو چاہیئے کہ وہ اس کی نگرانی اور پرورش کریں.اس کے مال کی اور اس کی حفاظت کریں.اور اس کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کریں.اپنے بچوں کی طرح اس کے ساتھ محبت کریں.اور اس کی اچھی طرح تربیت کریں.اور کسی قسم کی نا جائز تکلیف سے نہ پہنچائیں.تعدد ازدواج اگر کسی شخص کو حقیقی ضرورت ہو.یعنی اس کی بیوی بیمار ہو یا اس کے اولادنہ ہوتی ہو یا صحت پر برا اثر پڑتا ہو.یا فتنہ میں پڑنے کا خوف ہو تو وہ ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے.مگر ایک وقت میں چار سے زیادہ نہیں رکھ سکتا.یہ صرف اسلام کی ہی خوبی ہے کہ اس نے خاص حالات میں کثرت ازدواج (ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا حکم دیا ہے.باقی کسی مذہب میں یہ خوبی نہیں پائی جاتی.مگر شرط یہ ہے کہ وہ ہر ایک بیوی کے ساتھ عدل وانصاف کرے.کسی کا حق نہ [9]
مارے.یعنی ہر ایک بیوی کو ایک جیسا خرچ دے اور برابر باری مقرر کرے.کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے.اگر کوئی شخص عدل و انصاف نہ کر سکتا ہو تو اس کے لئے ہر گز اجازت نہیں کہ وہ دوسری شادی کرے.و محمر مات نکاح محرمات وہ عورتیں جن سے نکاح کرنا حرام ہے یہ ہیں :- (۱) ماں (۲) باپ کی منکوحہ (۳) دادی (۴) نانی (۵) پھوپھی (۶) خاله (۷) رضاعی ماں (۸) رضاعی بہن (۹) ساس (۱۰) شادی شده عورت (۱۱) بہن (۱۲) بیٹی (۱۳) بھیجی (۱۴) بھانجی (۱۵) بیوی کے پر خاوند کی لڑکی (۱۶) ایک وقت میں دو حقیقی بہنیں (۱۷) ایک وقت میں خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی (۱۸) بیٹے کی بیوی (۱۹) مشرکہ اور (۲۰) زانیہ ان کے علاوہ سب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے.عورت مومن ہونی چاہیئے.اگر مومن عورت نہ ملے یا کوئی دوسری مصلحت ہو تو اہل کتاب ، مثلاً عیسائی، یہودی وغیرہ عورتوں سے بھی نکاح کرنا جائز ہے.[10]
رضاع ( دودھ پلانے ) کی مدت دو سال ہے.اگر دو سال کے اندر کسی عورت نے کسی بچہ کو کم از کم پانچ گھونٹ دودھ پلایا ہو تب وہ اس بچے کی رضاعی ماں اور اس کی اولاد بچے کے رضاعی بھائی بہن بن جاتے ہیں اور ان سے نکاح کرنا حرام ہوتا ہے اگر دو سال کے بعد پلایا جائے تو اس سے حرمت نکاح لازم نہیں آتی.نکاح شغار یعنی تبادلہ کا نکاح کہ ایک شخص اپنی لڑکی یا بہن کا کسی شخص سے نکاح کردے اور اس کی لڑکی یا بہن کا نکاح اپنے ساتھ کرائے اور مہر دونوں کا مقرر نہ کیا جائے بلکہ تبادلہ ہی مہر سمجھا جائے تو اسے شغار کہتے ہیں.یہ نکاح منع ہے.اور شریعت نے اسے حرام قرار دیا ہے.ایک خاص وقت تک کے لئے مثلاً گھنٹہ دو گھنٹے ، رات دورات یا مہینہ دو مہینے یا سال دو سال وغیرہ تک کے لئے نکاح کرنے کو متعہ کہتے ہیں.یہ نکاح بھی حرام ہے.[11]
طلاق اگر میاں بیوی میں نا چاتی ہو جائے اور وہ دونوں آپس میں شریعت کے حکم کے مطابق اپنی بقیہ زندگی نہ گزار سکتے ہوں یا عورت کسی خلاف شریعت فعل کی مرتکب ہو یا ماں باپ طلاق دینے کا حکم دیں تو خاوند کو چاہیئے کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے نکاح سے آزاد کر دے.یعنی طلاق دیدے.طلاق دینا اگر چہ جائز ہے مگر طلاق دینے کا اس وقت حکم ہے جبکہ سخت مجبوری ہو.اور بغیر طلاق دینے کے زندگی گزارنا محال ہو.اگر کوئی شخص یونہی بغیر کسی خاص مجبوری کے طلاق دیتا ہے تو وہ سخت بُرا کام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے.کیونکہ ایک پاک معاہدہ ( نکاح ) کو توڑتا ہے.طلاق دینے سے قبل غور اور فکر نہایت ضروری ہے.اس لئے شریعت نے حکم دیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے صلح وصفائی کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.اور عورت اور مرد ہر دو کو ہر ممکن طریق سے سمجھانا چاہئے.اگر وہ بالکل نہ سمجھیں تو پھر مرد کو طلاق دینی چاہیئے.طلاق دینے کا یہ طریق ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایام طہر میں طلاق دے.جس طہر میں اس کے پاس نہ گیا ہو.اور ہر ماہ میں ایک ایک کر کے تین طلاقیں دے.جب تین مہینے گزر جائیں یعنی عدت پوری ہو جائے تو وہ عورت جہاں چاہے نکاح کر لے.[12]
اگر مر در جوع کرنا چاہے تو پہلی دو طلاقوں تک اسے اختیار ہے کہ وہ رجوع کرلے.یعنی طلاق واپس لے لے.لیکن جب تیسری طلاق دیدے تو پھر اسے رجوع کا اختیار نہیں رہتا.اور نہ وہ اس عورت کے ساتھ اب نکاح کر سکتا ہے.ہاں اگر کوئی دوسرا شخص اس عورت کے ساتھ نکاح کرلے اور پھر وہ فوت ہو جائے یا اپنی مرضی سے کسی مجبوری کی وجہ سے طلاق دیدے تو پھر یہ اس عورت کے ساتھ اس کی رضامندی سے شادی کر سکتا ہے.لیکن اگر عمد ا کسی دوسرے کے ساتھ نکاح پڑھا جائے تاکہ وہ نکاح کے بعد اُس عورت کو طلاق دیدے اور یہ پھر اس سے شادی کر سکے تو ایسے نکاح کو حلالہ کہتے ہیں.اور حلالہ حرام ہے.عدت کے ایام میں مرد پر عورت کو نان ونفقه ( خرچ خوراک و پوشاک ) دینا فرض ہے.اور مہر تو عورت کی جائداد ہے جو ہر حال مرد پر ادا کرنا فرض ہے.اور اگر مہر کے علاوہ اور مال یا جائداد بھی مرد نے عورت کو دی ہوئی ہوتو وہ ان میں سے بھی کچھ واپس نہیں لے سکتا جب تک کہ وہ فاحشہ مبینہ ( ظاہرا بد کاری) کی مُرتکب نہ ہو.[13]
احکام عدت جدت اُس میعاد کو کہتے ہیں جس میں عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنا منع ہو.مُطلقہ ( وہ عورت جس کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی ہو ) اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے.اور اگر حاملہ نہ ہو تو پھر تین حیض.آئسہ (بوڑھی عورت ) اور نابالغہ مطلقہ کے لئے تین ماہ عدت مقرر ہے.اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل اور اگر حاملہ نہ ہو تو اس کے لئے چار ماہ دس دن بدت مقرر ہے.خلع کی عدت ایک حیض مقرر ہے.اور غیر مدخولہ مطلقہ کے لئے کوئی عدت نہیں.عدت کے ایام میں عورت کو اپنے مکان سے بلا ضرورت خاص باہر جانا منع ہے.اور اسے نکالنا بھی منع ہے.اگر ضرور تا کہیں جانا پڑے تو دن کے وقت جاسکتی ہے.نیز عدت کے ایام میں عورت کوئر مہ یا خوشبو وغیرہ لگا نابازی بنت کرنا سب منع ہیں اور سوگ کرنے کا حکم ہے.عدت کے ایام میں عدت والی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجنا منع ہے.جب بعدت گزر جائے.پھر نکاح کا پیغام بھیجا جا سکتا ہے.اگر مطلقہ عورت کا بچہ دودھ پی رہا ہو تو بچے کے باپ پر اسکا نان و نفقہ ایام رضاع ( دو سال کی عمر ) تک فرض ہے.[14]
خُلع شریعت نے جس طرح مرد کو یہ اجازت دی ہے کہ اگر اسے کوئی حقیقی مجبوری در پیش ہو تو وہ اپنی عورت کو طلاق دے سکتا ہے.اسی طرح شریعت نے عورت کو بھی یہ حق دیا ہے کہ اگر اسے کوئی حقیقی مجبوری در پیش ہو.مثلاً اس کا خاوند کسی خطر ناک بیماری میں مبتلا ہو یا اس کی ضرورت کو پورا نہ کر سکتا ہو تو وہ اپنے خاوند سے علیحدہ ہونے کے لئے طلاق حاصل کرلے.اس طلاق کو جو عورت اپنی مرضی سے حاصل کرتی ہے طلع کہتے ہیں.اگر مرد طلاق نہ دے تو عورت کو حکم ہے کہ وہ قضاء ( عدالت ) میں قاضی (حاکم و منصف) کے پاس درخواست کرے کہ اسے خاوند سے علیحدہ کیا جائے.اگر قاضی معقول وجہ دیکھے گا تو جو مال اس کے خاوند نے اُسے دیا ہو گا اس میں سے جس قدر اس کے پاس موجود ہو گا وہ اس کے خاوند کو دلا دیگا.اور حکما اسکوطلاق دلا دے گا.خلع میں مہر اور نان و نفقہ کی عورت حقدار نہیں بلکہ اگر خاوند اس سے کچھ مال لے کر ضلع کرنا چا ہے تو بھی اس کے لئے جائز ہے.مگر جس قدر مال اس نے خود عورت کو دیا ہے اس سے زیادہ لینا اس کے لئے منع ہے.مہر.کثرت ازدواج - طلاق اور ضلع وغیرہ یہ سب خوبیاں ہمارے مذہب [15]
اسلام کے علاوہ اور کسی مذہب میں نہیں پائی جاتیں.ایلاء اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ میں اپنی بیوی سے صحبت نہیں کروں گا.تو اسے چاہیے کہ جب چار ماہ گذر جائیں تو اپنی قسم کو توڑ دے اور قسم کا کفارہ دے (تین روزے رکھے یا دس مسکینوں کو کھانا کھلائے ) ورنہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے.کیونکہ چار ماہ سے زائد اپنی بیوی سے قطع تعلق کرنا منع ہے.ظہار اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تو میری ماں لگتی ہے تو اسے ظہار کہتے ہیں.ظہار سے طلاق واقع نہیں ہوتی لہذا اسے چاہئیے کہ یا تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے یار جوع کرلے اور ظہار کا کفارہ ادا کر دے.ظہار کا کفارہ یہ ہے کہ اگر غلام مل سکے اور اُس میں مالی استطاعت ہوتو وہ ایک غلام آزاد کر دے.یا پھر ساٹھ متواتر روزے رکھے.اگر روزے رکھنے کی طاقت بھی نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے.[16]
لعان اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر یہ الزام لگائے کہ اس نے زنا کیا ہے.اور جیسا کہ شریعت کا حکم ہے.چار گواہ رؤیت موجود نہ ہوں.مرد اپنی بات پر قائم ہو اور عورت انکار کرے تو اس صورت میں معاملہ قضاء ( عدالت ) میں قاضی (حاکم) کے سامنے پیش ہوگا.قاضی ہر دو سے دریافت کرے گا.اگر ہر دو اپنی اپنی بات پر مصر ہوں تو قاضی ہر دو سے تمہیں کھلائے گا.پہلے چار دفعہ مرد قسم کھا کر کہے گا کہ :- میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس عورت نے زنا کیا ہے“ اور پانچویں دفعہ کہے گا کہ :- اگر میں اس معاملہ میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو" اسی طرح عورت چار دفعہ تمہیں کھا ئیگی کہ :- اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے زنا نہیں کیا یہ جھوٹ بولتا ہے.اور پانچویں دفعہ کہے گی کہ: اگر میں نے اس معاملہ میں جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس کو لعان کہتے ہیں.لعان کے بعد ان کا نکاح فسخ ہو جائے گا اور ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں رہے گا.اور مہر مرد کو دینا پڑے گا.[17]
اگر مرد تم نہ کھائے اور کہہ دے کہ میں نے جھوٹ بولا تو اسے ۸۰ کوڑے لگائے جائیں گے اور اگر عورت قسم نہ کھائے اور کہے کہ یہ الزام صحیح ہے اور میں مُجرم ہوں تو پھر اسے زنا کی سزادی جائے گی.ذرائع معاش انسان کھانے پینے کا محتاج ہے.بغیر کھانے پینے کے اس کی زندگی محال ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی تب ہی ہو سکتی ہے جب انسان کے پیٹ میں کچھ ہو.بغیر اس کے عبادت بھی محال ہے.اگر چہ انسان کو رزق اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے مگر اس کا فضل بھی تب ہی نازل ہوتا ہے جب یہ محنت کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ ہر شے اس کے لئے مہیا کرتا ہے.اگر یہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے تو سوائے اس کے کہ بھوکا مر جائے اور کیا ہوگا.لہذا لازم ہے کہ محنت کی جائے.اب تین ہی صورتیں ہیں.(۱) لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور اپنا پیٹ پالے.یا (۲) کوئی زمین ہو تو زراعت کرے.یا (۳) تجارت کرے اور اپنا گزارہ چلائے یا شکار کرے.سوال کرنا تو شریعت اسلام میں سخت منع ہے.اور یوں بھی سوال کر کے کسی [18]
چیز کو حاصل کر لینا بہت ہی بد اخلاقی اور ذلت ہے.جو کبھی بھی کوئی مومن برداشت نہیں کرسکتا.زراعت اور تجارت تب ہی ہو سکتی ہیں جبکہ اس کے پاس کوئی نقدی ہو.نقدی دو طریق سے حاصل ہوسکتی ہے.کسی مالدار سے رو پیسو د پر لے لیا جائے.یا بطور قرضہ حسنہ لے.اور اپنا کام چلائے.اور پھر اس سے روپیہ ادا کردے.سُود اسلام نے سود کوحرام قراردیا ہے.جو شخص کسی سے سود لیتا ہے یا دیتا ہے خواہ سود کم ہو یا زیادہ وہ لعنتی ہے بلکہ جو گواہ ہوں وہ بھی لعنتی ہیں.شود ایک ایسا لعنت کا طوق ہے کہ اگر کسی کے گلے میں پڑ جائے تو پھر اس کی اس سے رہائی ناممکن ہے.دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کے باپ نے سُود پر روپیہ لیا تو وہ بھی اس کو ادا کرتا مر گیا.مگر روپیہ ادا نہ ہوسکا.پھر اس کی اولا داس کو ادا کرتی چلی گئی مگر پھر بھی وہ ادا نہ ہوسکا.لہذا اللہ تعالی نے مسلمانوں کو شود کی لعنت سے بچانے کے لئے سود کو حرام قرار دیدیا ہے.اور فرمایا ہے کہ جو مسلمان سود لیتا ہے یا دیتا ہے وہ گو یا اللہ [19]
تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتا ہے اور ہر عقلمند یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے مقابلہ کر کے کوئی شخص کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ سود کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا.یہ بات غلط ہے اور ایک شیطانی وسوسہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی.اگر کوئی شخص نیک نیتی سے سود کے بغیر بھی گزارہ کرنا چاہے تو ہوسکتا ہے.ہاں اگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے سود لینا پڑے مثلاً کوئی شخص کسی بینک میں روپیہ جمع کراتا ہے تو سود ضرور ملتا ہے.تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ سود کا روپیہ صرف اشاعت اسلام میں خرچ کرے اور اسے اپنے کسی مصرف میں نہ لائے.کیونکہ سود کارو پیدا اپنے کسی مصرف میں لانا حرام ہے.قرض قرض لینا اسلام نے جائز قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اگر تمہارے پاس روپیہ نہ ہو تو تم قرض لے سکتے ہو اور مالدار لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اگر کسی کو روپیہ کی ضرورت ہو تو تم اس کو قرض دو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور احسان کرنا ہر مومن کا فرض ہے.جو شخص ہمدردی کے طور پر کسی کو قرض دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہوتا ہے کہ [20]
اس نے میرے مسکین بندے پر احسان کیا اور اس کے مال میں ترقی دیتا ہے.قرض کے لئے یہ شر ما ضروری ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے قرض لے تو وہ تحریر کرلیں اور دو گواہ بنالیں اور ساتھ ہی مدت مقرر کر لیں کہ فلاں وقت تک یہ رو پیدا دا کر دیا جائے گا.بغیر لکھنے اور لکھوانے کے قرض لینا یا دینا درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر قرآن شریف میں حکم دیا ہے کہ قرضہ لیتے یا دیتے وقت تم ضرور تحریر کر لیا کرو، دوستی، عزت یا اعتبار کا اس میں کوئی سوال نہیں.قرض لینے کے لئے اپنی کوئی چیز مثلاً مکان یاز مین وغیرہ رہن رکھنا بھی جائز ہے بشرطیکہ اس کا قبضہ بھی مرتبہن کو دے دیا جائے.اگر قبضہ نہ دیا جائے تو یہ رہن جائز نہیں.قرض وصول کرنا اگر وقت مقررہ پر قرض وصول نہ ہو سکے تو دیکھنا چاہیئے کہ مقروض نے عمدا ادا نہیں کیا یا اس میں ابھی ادا کرنے کی توفیق نہیں؟ اگر اس وقت اس میں ادا کرنے کی توفیق نہ ہو تو پھر اسے کچھ مہلت دے دینی چاہیے تا کہ وہ رو پید ادا کردے کیونکہ یہ مناسب نہیں کہ ایک احسان مند [21]
مقروض ) کو تنگ کیا جائے اور اگر اس نے عمدا ادا نہ کیا ہو تو پھر قضاء ( عدالت) میں دعوی کرنا چاہئے قضاء اس سے حکما رو پید ادا کروائے گی.اگر مقروض فوت ہو جائے تو اس کے ترکہ میں سے سب سے پہلے قرضہ ادا کیا جائے گا.لیکن اگر مقروض کا ترکہ اس قدر نہ ہو جس قدر کہ قرضہ ہے تو پھر اس کی اولاد پر وہ قرضہ ادا کرنا فرض ہے.اور اگر کوئی سبیل بھی ادا ئیگی کی نہ ہو سکے تو پھر اسلامی حکومت کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ اس کی طرف سے قرضہ ادا کرے.بہر حال قرض خواہ کا روپیہ ضائع نہیں ہوگا لیکن یہ دوسری بات ہے کہ قرض خواہ بطور احسان کسی مفلس مقروض کو معاف کر دے.قرضہ ادا کرنا نہایت ضروری ہے اگر کوئی شخص اس جہان میں اپنا قرضہ ادا نہیں کرے گا تو قیامت کے دن اس سے اس قرض کا مطالبہ کیا جائے گا.اگر کوئی مقروض قرض ادا کرتے وقت اپنی طرف سے بطور شکر یہ احسان کہ اس کے کسی بھائی نے اس کے ساتھ نیک سلوک کیا ہے اخذ کردہ روپیہ سے زائد روپیہ دے دے تو یہ بھی بہت اچھی بات ہے مگر جس قدر قرض لیا ہے اسی قدر تو میعاد معینہ کے اندر ادا کرنا نہایت ضروری ہے.[22]
زراعت مومنوں کو حلال اور پاک رزق کھانے کا حکم ہے کیونکہ اگر حلال اور پاک مال نہ کھایا جائے تو نیک کام کی بھی توفیق نہیں ملتی.مال پاک اور حلال اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ خلاف شریعت طریقوں سے نہ کمایا گیا ہو.اگر پاک مال میں ذرا سا حرام مال بھی مل جائے تو وہ سارے مال کو حرام کر دیتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ مال کماتے وقت نہایت احتیاط کی جائے اور ذرہ بھر مال بھی خلاف شریعت طریقوں سے نہ کمایا جائے.زراعت میں ضروری ہے کہ جب کوئی شخص زراعت کرے تو اپنی زمین میں ہی کاشت کرے کسی دوسرے کی چپہ بھر زمین بھی نا جائز طور پر اپنی زمین میں شامل نہ کرے اور اپنی ہی کھیتی اور فصل اپنے استعمال میں لائے.کسی دوسرے کی فصل کو بالکل نقصان نہ پہنچائے.زمین کا مالک اپنی زمین کو بٹائی (حصہ) پر بھی دے سکتا ہے مثلاً حصہ مقرر کر لے کہ جس قدر اُس کی پیداوار ہوگی اس کے اس قدر حصے کئے جائیں گے.اتنے حصے تمہارے ہوں گے اور اتنے حصے میرے.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی زمین کسی کو زراعت کے لئے دیدے کہ میں سال میں تم سے اتنے روپئے لے لیا کروں گا.[23]
زمین کے مالک کے لئے ہرگز جائز نہیں کہ وہ مزارع کو زمین کا کوئی حصہ دیدے کہ اس میں جو پیداوار ہوگی وہ تمہاری اور اپنے لئے کوئی خاص حصہ مقرر کرلے کہ اس میں جو پیداوار ہوگی وہ میری.کیونکہ یہ ایک قسم کا ظلم ہے.اجاره اجرت پر لگنا اور لگانا ہر دو جائز ہے.مگر یہ ضروری ہے کہ پہلے اجرت مقرر کر لی جائے اور جو اجرت مقرر ہو جائے اس سے کم اجرت دینا ہرگز جائز نہیں بلکہ اگر ہو سکے تو بطور احسان کچھ زیادہ ہی دینا چاہئیے.مزدور کی اُجرت فورا ادا کر دینی چاہئیے کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:- أعْطُوا الْآخِيرَ أَجُرَهُ قَبْلَ أَنْ يَحِفَّ عَرَقُهُ بہر حال مزدور کی اُجرت کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہے اور نہ صرف اُجرت کا لحاظ رکھنا ہی نہایت ضروری ہے بلکہ اسے گالی دینا اور مارنا وغیرہ بھی منع ہے.یہ ضروری نہیں کہ ضرور مسلمان کو ہی اُجرت پر لگایا جائے بلکہ کافر کو بھی اجرت پر لگایا جا سکتا ہے مگرکشی الوسع اپنے مسلمان بھائیوں کی ہی امداد کرنی چاہئیے.لے مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی اس کی اُجرت ادا کر دو.منہ [24]
غضب و عاریت کسی شخص کی کوئی چیز غصب کر لیتا ( چھین لینا ) یا جنسی خوشی اور مذاق میں اڑا لیتا سخت منع ہے اگر کوئی شخص خود بخو دخوش ہوکر کسی کو کوئی چیز دیدے تو یہ اور بات ہے.اگر کسی شخص نے کسی سے کوئی چیز چھینی ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ اس کو واپس کر دے اور اگر وہ غصب کر دہ چیز اس سے ضائع ہو جائے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس کی قیمت ادا کرے یا وہ چیز مہیا کرے.لوگوں کی فصلوں کو عمدا چرالینا، یہ بھی غصب میں ہی شامل ہے اس لئے یہ بھی منع ہے.ہاں کسی سے کوئی چیز عارضی طور پر استعمال کرنے کے لئے مانگ کر لے لینا، مثلاً کسی سے زیور، بیل یا گھوڑا وغیرہ لے لینا اور پھر اسے استعمال کرنے کے بعد واپس کر دینا جائز ہے.مگر یہ ضروری ہے کہ جو چیز عاریہ ( مانگ کر ) لی جائے وہ اپنے وعدہ کے مطابق اسی حالت میں ہی واپس کی جائے اگر بے احتیاطی سے ضائع ہو جائے تو پھر اس کو مہیا کر کے دینی پڑے گی.کیونکہ عاریۂ دینا (امانت رکھنا ) سمجھا جاتا ہے اور امانت میں خیانت کرنا منع ہے.[25]
خرید وفروخت رزق حاصل کرنے کا دوسرا طریق خرید وفروخت ہے.خرید وفروخت (تجارت) کرنے میں بہت برکت ہے.آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو تجارت کرنے کے متعلق خاص طور پر تاکید فرمائی ہے خود آنحضرت یہ دعوی نبوت سے قبل تجارت فرمایا کرتے تھے.اور آپ کے صحابہ بھی مدینہ منورہ میں تجارت کرتے تھے.خرید و فروخت بھی اسی طریق پر کرنی چاہیے جیسے شریعت نے حکم دیا ہے جن چیزوں کے خرید کرنے یا فروخت کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے ان چیزوں کی ہر گز خرید و فروخت نہیں کرنی چاہئیے.اگر کوئی شخص ایسا کرے گا اور خلاف شریعت طریقوں سے مال کمائے گا تو وہ مال ہرگز حلال اور طیب نہیں کہلائے گا.پس ہر شخص جو خرید وفروخت کرنا چاہتا ہے اس پر فرض ہے کہ وہ شریعت کے احکام کے مطابق اپنا کام کرے.[26]
آداب خرید وفروخت خرید وفروخت سے قبل وہ چیز جو خریدی جارہی ہے اسے اچھی طرح سے دیکھ لینے کا حکم ہے خریدار کو چاہیے کہ اپنی تسلی کر لینے کے بعد چیز کو خریدے.بغیر دیکھنے بھالنے کے خرید و فروخت منع ہے.فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ اگر اس کی چیز میں کوئی نقص ہو تو وہ خریدار کو پہلے بتادے تا کہ اگر خریدار کی مرضی ہو تو اس کو خریدے لیکن اگر فر وخت کرنے والا اس چیز کے نقص کو نہ بتائے تو خریدار کوحق حاصل ہے کہ وہ چیز واپس کر دے اور قیمت واپس لے لے.خریدار کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ اگر وہ چاہے تو یہ شرط کرلے کہ اگر یہ چیز پسند آئی تو خریدوں گا ورنہ واپس کر دوں گا.فروخت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ ایسا مال فروخت نہ کریں جونکتا ہو اور دھوکہ کے طور پر بھی کوئی مال فروخت نہ کریں.مثلا یہ کہ چیز محمدہ دکھا ئیں مگر ناقص دیں.مال کی دو قیمتیں مقرر نہ کریں کہ اگر نقد لوتو یہ قیمت ہے اور اگر اُدھار لو تو یہ قیمت ہے کیونکہ یہ سود ہے یا ایسا کریں کہ ہوشیار آدمی سے کم قیمت لیں اور بچے یا ناواقف سے زیادہ قیمت لے لیں.ہاں یہ ان کو اختیار ہے کہ کسی ذاتی تعلق والے سے کم قیمت لے لیں.[27]
اگر کسی وقت بائع ( فروخت کنند ه ) اور مشتری (خرید کننده ) کے درمیان جھگڑا ہو جائے یعنی بائع کہے کہ میں نے یہ چیز دس روپے میں فروخت کی ہے اور مشتری کہے کہ میں نے آٹھ روپے میں خریدی ہے تو بائع کی بات مانی جائے گی.مشتری کو اختیار ہے کہ خواہ وہ یہ قیمت قبول کرے یا سودا تو ڑ دے اور چیز نہ لے.ربیع سلم بھی جائز ہے یعنی ایک شخص ایک تاجر سے پر سودا کر لے کہ میں تم سے سارا سال اس نرخ پر غلہ خریدوں گا خواہ غلے کا نرخ بڑھ جائے یا گر جائے.ممنوعات (1) وہ چیزیں جو شریعت نے حرام قرار دی ہیں.مثلاً شراب، خنزیر، مردار وغیرہ کی خرید وفروخت.(۲) چاندی کے بدلے چاندی، سونے کے بدلے سونا، گندم کے بدلے گندم برابر برابر ، دست بدست ، یعنی ایک جنس اسی جنس کے بدلے فروخت کرنا منع ہے یہ ہوسکتا ہے کہ مثلاً ایک گندم ناقص ہو اور دوسری اچھی یا ایک چاندی اچھی ہو اور ایک چاندی ناقص تو ناقص کی قیمت ڈال کر پھر اس کے بدلے اچھی خرید لی جائے.(۳) پھلوں کی بیع کئی سالوں کے لئے کرنا.[28]
(۴) درختوں پر کچا پھل پکے ہوئے پھلوں کے بدلے فروخت کرنا.(۵) کھیتی کا اندازہ لگا لینا کہ اس میں اس قدر غلہ ہوگا پھر اس کو اسی قدر کسی سے غلہ لے کر فروخت کرنا.(۶) لاٹری (۷) ایسی چیز فروخت کرنا جس میں سراسر دھو کہ ہو یا فروخت کرنے والے کے قبضہ میں ہی نہ ہو.مثلاً پانی میں مچھلیاں یا ہوا میں پرندے.(۸) جو چیز کسی کی ملکیت میں ہی نہ ہو اس کو فروخت کرنا.(9) وہ بیع جس میں قیمت ادا کرنے کی میعاد کا علم نہ ہو.(۱۰) قبضہ کرنے سے قبل کسی چیز کو فروخت کرنا مثلاً ایک شخص نے کسی شخص سے پانچ سوروپے کی گندم میں سیر فی روپیہ کے حساب سے خریدی ابھی اسے اپنے پاس نہیں لایا یا اپنے قبضہ میں نہیں کیا تو اسے فروخت کرنا.(۱۱) کسی چیز کو اس نیت سے جمع کر کے رکھ چھوڑنا کہ جب مہنگی ہوگی تو فروخت کروں گا (احتکار ).(۱۲) کوئی شخص باہر سے کوئی چیز فروخت کرنے کے لئے لائے تو کوئی شہری اسے کہے کہ میرے پاس رکھ جاؤ جب مہنگی ہوگی تو فروخت کر دوں گا.(۱۳) کسی کو کوئی چیز اُدھار ایک قیمت پر دینا پھر وہی چیز اس سے نقد کم قیمت پر خریدنا.مثلاً سوروپیہ کوفروخت کر دی اور ۹۵ کوخرید لی اور پانچ روپے اس [29]
کے ذمہ قرار دیدئے.(۱۴) خریدنے کا ارادہ نہ ہومگر اس کی قیمت بڑھانے کے لئے بولی دینا.(۱۵) خریدار کے سودے پر سودا کرنا.یہ سب منع ہے.شفعہ اگر کوئی شخص اپنی جائداد فروخت کرے تو اُس پر فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے اس شخص کے پاس فروخت کرے جس کے ساتھ وہ ملحق ہے.اگر وہ نہ خریدے یا قیمت کم دے.تو پھر اسے اختیار ہے کہ کسی دوسرے شخص کے پاس فروخت کر دے.لیکن اگر اس سے دریافت کرنے کے بغیر کسی دوسرے کے پاس فروخت کر دے تو اس کا حق ہے (جس کے ساتھ وہ جائداد حق ہے ) کہ وہ قضاء میں حق شفعہ کا دعوی کرے کہ چونکہ یہ جائداد میرے ساتھ ملحق ہے لہذا میرا حق ہے کہ یہ میرے پاس فروخت کی جائے اگر وہ فی الواقعہ اس کے ساتھ ملحق ہو اور وہ اسی قدر قیمت دے جس قدر قیمت پر وہ فروخت ہو چکی ہے تو قاضی اس کے حق میں فیصلہ دے گا اور قیمت خریدار یا صاحب جائداد (جس کے پاس بھی وہ جائداد اُس وقت ہو ) کو دلا کر جائداد اس کے حوالے کر دے گا.لیکن اگر یہ خود [30]
خریدنا نہ چاہتا ہو یا قیمت کم دیتا ہو تو پھر مالک کو اختیار ہے کہ وہ جس کے پاس چاہے فروخت کرے.اس صورت میں حق شفعہ کا دعوا ہی نہیں ہو سکتا.مشارکت و وکالت تجارت اور زراعت ایسے کام ہیں کہ بعض دفعہ ایک اکیلا شخص ان کاموں کو نہیں کر سکتا.اس صورت میں شریعت نے اجازت دی ہے کہ وہ اپنے ساتھ کسی دوسرے شخص کو ( حسب ضرورت بہت سے اشخاص بھی ہو سکتے ہیں ) اپنے کام میں شریک کرلے لیکن یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ آپس میں نہایت صفائی کے ساتھ معاملہ رکھیں.اور ان میں سے کوئی بھی ذرہ بھر خیانت نہ کرے.اگر ان میں سے کوئی خیانت کرے گا تو علاوہ گنہ گار ہونے کے مال میں سے برکت بھی اڑ جائے گی.شریک ہونے سے قبل یہ ضروری ہے کہ وہ آپس میں حصہ مقرر کر لیں بغیر حصہ مقرر کرنے کے شراکت منع ہے.شراکت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہر دو مساوی سرمایہ کام پر لگائیں.بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سرمایہ صرف ایک کا ہی ہومگر دوسرا صرف کام کرے.اسی طرح شریعت نے اس بات کی بھی اجازت دی ہے کہ کوئی شخص اپنی [31]
طرف سے اپنا کوئی وکیل (نمائندہ ،مختار ) مقرر کر دے.اور وہ وکیل اس کی طرف سے اس کا کام کرے.صید و ذبائح شکار کرنا بھی اسلام میں جائز ہے مگر جوشکار بھی کیا جائے اس کو بسم الله الله اکبر کہہ کر ذبح کرنا ضروری ہے جو شکار تیر یا بندوق وغیرہ سے کیا جائے اگر بِسمِ اللهِ اللهُ اکبر کہہ کر نشانہ لگایا ہواور وہ پکڑے جانے سے پہلے ہی مر جائے تو اس کا کھا لینا حلال ہے.مگر جو نشانہ بغیر تکبیر کے لگایا گیا ہو جب تک اس جانور کو ذبح نہ کیا جائے اور اس میں سے خون نہ نکلے وہ کھانا جائز نہیں.اگر پالتو کتے وغیرہ سے شکار کیا جائے تو اگر وہ کتا اس میں سے نہ کھائے تو وہ حلال ہے اور کھالے تو حرام ہے.درندے مثلاً شیر، چیتا، بھیڑیے وغیرہ اور مخرب الاخلاق جانور یا گوشت مثلاً مردار خنزیر وغیرہ.اور وہ حلال جانور بھی جو چوٹ سے مر جائے یا کہیں سے گر کر مر جائے یا کسی جانور نے اس کو مار دیا ہو یا جسے درندہ وغیرہ کھا جائے.سب حرام ہیں.ان کے علاوہ جو جانور ہیں مثلاً اونٹ، گائے ہرن، بھیڑ ، بکری اور مختلف قسم کے اچھے پرندے سب حلال ہیں مگر ان کو ذبح کرتے وقت تکبیر یعنی بسم الله الله اكبر کہہ کر گردن سے ذبح کرنا چاہئیے.اگر کوئی [32]
جانور بغیر تکبیر کے ذبح کیا جائے یا غیر اللہ کے لئے ذبح کیا جائے تو وہ بھی حرام ہے.اور اگر کسی جانور میں سے ذبح کرتے وقت خون نہ نکلے تو وہ بھی کھانا منع ہے.اسی طرح ذبح کرتے وقت گردن بھی فورا اجسم سے الگ نہ ہو جانی چاہئیے.بادشاہت اور جہاد اصل بادشاہت تو اللہ تعالیٰ کی ہے.مگر دنیا میں خدا کی بادشاہت خدا کے ظل سے ظاہر ہوتی ہے.اور وہ دو قسم کے ہیں.جسمانی اور روحانی.جسمانی بادشاہ کہلاتے ہیں اور روحانی انبیاء اللہ اور اُن کے خلفاء کبھی یہ دونوں باتیں ایک شخص میں بھی جمع ہو جاتی ہیں.جیسے حضرت موسی“ ، داؤد اور سلیمان.اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم.ان ہر دو قسم کے بادشاہوں کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے.اگر کوئی شخص روحانی بادشاہ یا اس کے خلیفہ کی اطاعت اور فرمانبرداری نہیں کرتا.اور ان کا کوئی حکم نہیں مانتا تو اسے کافراور فاسق کہتے ہیں.اور اگر کوئی بادشاہِ وقت کی اطاعت نہیں کرتا تو اُسے باغی کہتے ہیں.اور بغاوت کی سزا قتل ہے.یہ ضروری نہیں کہ بادشاہ وقت مسلمان ہی ہو تو اس کی اطاعت کی جائے.بلکہ جو بھی ملک کا بادشاہ ہو خواہ مسلمان ہو یا کافر اس کی اطاعت فرض ہے.اور [33]
اس کا ہر ایک حکم واجب التعمیل ہے لیکن مذہب کے معاملہ میں اس کی کوئی بات ماننا جائز نہیں.اگر کوئی بادشاہ مذہب کے بارہ میں لوگوں پر جبر کرتا ہو.مثلاً مذہبی فرائض کے ادا کرنے سے روکتا ہو.یا کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنے کے لئے مجبور کرتا ہو تو اس کی یہ بات ماننا ہر گز ہرگز جائز نہیں.بلکہ ایسے ملک یا علاقہ کو چھوڑ جانے (ہجرت کر جانے ) کا حکم ہے.اور پھر اس کے علاقہ سے ہجرت کرنے کے بعد اگر طاقت ہو تو اس سے جہاد کرنے کا حکم ہے.مگر اس کے ملک میں رہ کر اس سے لڑائی کرنے یا فتنہ وفساد برپا کرنے کی اسلام نے ہرگز اجازت نہیں دی.جہاد کی صورت میں ہر عاقل بالغ مسلمان پر جہاد میں شامل ہو نا فرض ہے.جو شخص میدان جنگ میں شامل ہو پھر اُس پر وہاں سے بھاگنا یا دشمنوں کو پیٹھ دکھانا حرام ہے.اسے چاہیئے کہ یا تو فتح حاصل کرے یاد ہیں شہید ہو جائے.اگر شہید ہو جائے تو وہ سید حاخدا کے فضل سے جنت میں جائے گا.[34]
بادشاہ کے فرائض اسلام نے جس طرح رعایا کا فرض قرار دیا ہے کہ وہ بادشاہ کی اطاعت کرے اور مملک میں فتنہ وفساد برپا نہ کرے.اسی طرح بادشاہ کے لئے بھی فرائض مقرر کر دئے ہیں جن پر کار بند ہونا اس کے لئے ضروری ہے.اگر کوئی بادشاہ ان فرائض کو بیجا نہیں لاتا تو وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے.اور در حقیقت بادشاہ کہلانے کا مستحق نہیں.بادشاہ رعایا کے لئے ایک گڈریا ہے.جس طرح گڈریا اپنے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے.اور ہر ایک جانور کا خیال رکھتا ہے.اور ان کے لئے ہر ایک ضروری شے مہیا کرتا ہے.اسی طرح بادشاہ کا فرض ہے کہ ملک میں امن کو قائم رکھے.اور ہر ایک کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کرے.اور ان کے لئے کھانے پینے ، رہنے سہنے اور ان کی دیگر تمام ضروریات مثلاً تعلیم و تربیت کا انتظام کرے.اور ان کے اندر اخلاق حسنہ پیدا کرے.اور ہر ایک اپنے مذہب کی تبلیغ میں آزاد ہو.اگر ان میں آپس میں تنازعات ہوں تو عدالتوں کے ذریعے ان کے تصفیے کئے جائیں.غرضیکہ ہر لحاظ سے اس کی سلطنت کا انتظام اعلیٰ اور عمدہ ہو.[35]
قضاء با وجود کثیر احتیاط ، نرمی بصبر اور حسن سلوک کے بار ہا لوگوں کے آپس میں تنازعات اور مقدمات بر پا ہو جاتے ہیں.اگر ان تنازعات کا تصفیہ نہ ہو تو بہت خرابی پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے اسلام نے لوگوں کے باہمی تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک محکمہ عدالت قائم کیا ہے جس کا نام قضاء ہے.ہر شخص کا فرض ہے کہ اگر اس کا اپنے کسی بھائی کے ساتھ تنازعہ ہو جائے تو وہ بجائے اس کے کہ خود فیصلہ کرے قضاء میں دعوی کرے.قاضی ( منصف ) جو فیصلہ کرے خواہ وہ غلط ہو یا سی ہر شخص پر اس کا قبول کرنا اور اس کے مطابق عمل کرنا فرض ہے.مقدمات میں یہ ضروری ہے کہ جو شخص مدعی ہو وہ اپنی طرف سے ثبوت پیش کرے اگر وہ ثبوت پیش نہ کر سکے اور مدعی علیہ انکاری ہو تو مدعی علیہ سے قسم لی جائے.ثبوت کے لئے جو گواہ پیش کئے جائیں وہ کم سے کم دو عاقل بالغ اور قابل اختبار مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہونی چاہئیں.جھوٹے اور فاسق گواہوں کی شہادت قبول کرنے کا حکم نہیں.اگر کوئی شخص گواہی کے لئے بلایا جائے تو اس کا فرض ہے کہ صاف صحیح اور [36]
سچی گواہی دے.اور فریقین کا بھی فرض ہے کہ وہ گواہوں کو خواہ مخواہ تنگ نہ کریں.کیونکہ اگر کوئی بات کسی کے خلاف ہو تو گواہ کا کیا قصور ہے؟ اس نے تو جو دیکھا ہے وہی بیان کرنا ہے.قاضیوں کے لئے کسی کے متعلق سفارش وغیرہ قبول کرنا، کسی کی رعایت کرنا، کسی سے رشوت لینا، فریقین میں سے کسی سے کچھ ہدیہ وغیر ہ لینا سب منع ہیں.ان کا فرض ہے کہ ہر حال میں عدل کریں.اور لوگوں کے حقوق ان کو دلوائیں.حدود بعض جرائم مثلا قتل، ضربات شدید، زنا یا کسی پر زنا کی جھوٹی تہمت اور چوری وغیرہ ایسے جرائم ہیں کہ ان کی سزائیں اسی دنیا میں دی جاتی ہیں.ان سزاؤں کو جو ایسے جرائم کی پاداش میں اسی دنیا میں دی جاتی ہیں حدود کہتے ہیں.یہ سزائیں دنیا میں ہر شخص کے اختیار میں نہیں بلکہ حکومت کے اختیار میں ہیں.کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی مجرم کو اس لئے خود سزاد دینا شروع کر دے کہ شریعت نے اس کے لئے یہ سزا مقرر کی ہے.اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اس کو سزا دی جائے گی کیونکہ اس نے قانون حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور وہ کام کیا جس کا وہ اہل نہ تھا.[37]
شریعت نے بڑے بڑے جرموں کی مندرجہ ذیل سزائیں مقرر کی ہیں :.قتل کی سزا:- قاتل کا قتل، بشرطیکہ اس نے عمد اقتل کیا ہو.اگر غلطی سے قتل ہو گیا ہو تو دیت یعنی مقتول کے وارثوں کو سو اونٹ یا دس ہزار دینار یا ان کی قیمت ادا کرنا.ضربات شدیدہ کی سزا: - بطور قصاص ( بدلہ ) ضربات شدیدہ ،اگر کوئی عضو بریکار ہو جائے یا ضائع ہو جائے تو دیت کا حصہ (جو قاضی مقرر کرے ) ادا کرنا.زنا کی سزا:- مجرم کو سنگسار کرنا بشر طیکہ شادی شدہ ہو.اگر غیر شادی شدہ ہو تو برسر عام سو کوڑے لگانا.نہ ہو.کسی پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانے والے کی سزا:- برسر عام۰ ۸ کوڑے.شراب پینے کی سزا :- ۴۰ چھٹڑیاں.چوری کی سزا:- چور کا ہاتھ کاٹنا.بشرطیکہ مال مسروقہ • اور ہم سے کم قیمت کا نوٹ:.درہم ۱۴.دینار = دو ۲ روپے آنے.[38]
وصیت اور ہبہ ہر شخص جو اپنے مال کا مالک ہے اسے اپنے مال کے متعلق پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنے مال کو اپنے استعمال میں لائے.خواہ کسی کو اپنی زندگی میں ہی ہبہ ( بخشش ) کر دے یا کسی کے حق میں یہ وصیت ( اپنے ورثاء کو تاکید کر جائے کہ میری وفات کے بعد میرے مال میں سے اس قدر مال فلاں شخص کو دے دیا جائے پھر اس کے ورثاء کا فرض ہوگا کہ وہ اس کی وصیت پر عمل کریں.اور اس کے مال میں سے اسی قدر حصہ اس کو (جس کے حق میں اس نے وصیت کی ہو ) دے دیں اور ذرہ بھر بھی اس کے حکم کے خلاف نہ کریں.اگر ذرہ بھر بھی خلاف کریں گے تو گناہ گار ہوں گے.موصی ( وصیت کرنے والا ) زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ کی وصیت کر سکتا ہے.اس سے زیادہ حصہ کی وصیت کرنے کا اسے حکم نہیں.اور وارث کے لئے بھی وصیت نہیں ہوسکتی.موصی اپنی زندگی میں وصیت میں کمی و بیشی کر سکتا ہے.اور منسوخ بھی کر سکتا ہے.مگر ہبہ کر دینے والے کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کچھ واپس لے سکے.آج کل ہبہ اور وصیت کرنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق اپنے مال کی وصیت اشاعت [39]
اسلام کے لئے صدر انجمن احمد یہ قادیان دارالامان کے نام کریں.اور کم از کم اپنی جائداد اور آمدنی کے دسویں حصہ کی وصیت کریں یا ہبہ کریں کیونکہ اس وقت اسلام سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کے لئے وصیت کی جائے.تجهيز وتكفين بیزو وفات ہر شخص کے لئے ضروری ہے اس لئے جب کوئی شخص وفات پانے لگے تو اسے کلمہ طیبہ لا الهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھانے اور سورۃ یس سنانے کا حکم ہے.دیں.جب وہ فوت ہو جائے تو إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کہے.اور اس کی تجہیز و تکفین اور اسے دفن کرنے کا حکم ہے.اس کے فوت ہو جانے کے بعد اس کو نسل دینا چاہئے.اگر میت مرد ہو تو اسے مرد کسل دیں اور اگر عورت ہو تو اسے عورتیں غسل مکسل دینے کا یہ طریق ہے کہ پہلے اُس کا استنجاء کیا جائے بعدہ با قاعدہ وضو کیا جائے.مگر ناک اور منہ میں پانی نہ ڈالا جائے.وضو کے بعد میت کے جسم کو غسل دیا جائے.اور بعدہ کا فور وغیرہ لگا دیا جائے.(غسل کے پانی میں بیری [40]
کے پتے ڈال لینے چاہئیں ) جب غسل دیا جاچکے تو پھر میت کو کفن میں لپیٹ دیا جائے.مرد کے کفن کے لئے تین کپڑےسنت ہیں.ا.نہ بند ۲.قمیص * ۳_ لفافہ* اور عورت کے لئے ا.تہ بند ۲ قمیص ۳.سینہ بند (ایک کپڑا چھاتی کے لئے ) ۴.اوڑھنی اور ۵.لفافہ مقرر ہیں.جب کفن پہنایا جا چکے تو پھر میت کو دفن کرنے کے لئے لے جانا چاہیئے.دفن کرنے سے قبل جنازہ پڑھنا نہایت ضروری ہے.اس لئے حتی الوسع جنازہ میں شامل ہونا چاہئیے.۲ جب جنازہ پڑھایا جاچکے تو میت کو قبر میں دفن کر دینا چاہئیے.قبر گہری ہو اور اگر لکھ دار ہو تو بہتر ہے.میت کو لحد میں رکھ کر اس پر مٹی ڈال دینی چاہئے اور قبر کو ایک لمبی چادر جواو پر اور نیچے گھٹنوں تک آسکے اسکو درمیان سے پھاڑ کر سر درمیان میں * سے گزار دیا جائے.ید یعنی وہ چادر جو اوپر لیٹی جائے.ا جنازہ فرض کفایہ ہے.یعنی اگر چند آدمی جنازہ میں شامل ہو جائیں تو سب کی طرف سے یہ فرض ادا ہو جائے گا.اور اگر کوئی بھی شامل نہ ہوگا تو سب گنہ گار ہوں گے.جنازہ کے متعلق اسلام کی دوسری کتاب دیکھیں.منہ [41]
زمین سے اونچا کر دینا چاہئیے اور اونٹ کے کو ہان کی مانند بنادینا چاہیئے اس کے بعد میت کے لئے دعائے خیر کر کے واپس آ جانا چاہیئے.میت کے لئے نوحہ (سیاپا ) کرنا یا بلند آواز سے رونا پیٹنا کپڑے وغیرہ پھاڑ ڈالنا یا کوئی اور خلاف سنت کام کرنا مثلا فاتحہ خوانی ، قبل خوانی یا تیسرا، دسواں، چالیسواں وغیرہ سب منع ہیں.میت کے لئے تین دن سے زیادہ سوگ کرنا منع ہے ہاں اگر متوفی عورت کا خاوند ہو تو اُس عورت کے لئے ۴ مہینے ۱۰ دن سوگ ہے.وہ اس عرصہ میں زینت وغیرہ نہ کرے.احمدی کو غیر احمدی کا جنازہ پڑھنے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے.اس لئے کسی احمدی کو غیر احمدی کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے.قبرستان میں داخل ہوتے وقت السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا هْلَ القُبُوْرِ مِنَ المسلمين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون پڑھنا چاہیے اور قبروں پر سے نہیں گذرنا چاہئے اور نہ ہی کسی قبر پر سجدہ کرنا چاہیے.قبرستان میں جا کے اہل قبور کے حق میں دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو مغفرت کرے اور ان کو اپنے قرب اور جنت میں جگہ دے.ترجمہ: اے مسلمان اہل قبور ! السلام علیکم ہم بھی انشاء اللہ آ کر تم سے ملیں گے.[42]
وراثت ہر شخص جس وقت فوت ہوتا ہے تو وہ اپنے پیچھے اپنا مال اور جائداد و غیرہ چھوڑ جاتا ہے اس مال کو تر کہ کہتے ہیں.شریعت نے حکم دیا ہے کہ سب سے پہلے عوفی کے ترکہ میں سے اگر اس نے کسی کا قرضہ دینا ہو یا کسی کے حق میں وصیت کی ہو تو ان کو ادا کیا جائے.ان ہر دو کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی مال بچے تو وہ اس کے قریبی رشتہ داروں میں جنہیں شریعت نے وارث قرار دیا ہے شریعت کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تقسیم کیا جائے.اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا مال بیت المال میں جمع کرا دیا جائے.ذیل میں وہ رشتہ دار درج کئے جاتے ہیں جو ٹوٹی کے وارث ہوتے ہیں.(۱) بیٹا.(۲) پوتا.(۳) باپ.(۴) دادا.(۵) بھائی.(۶) بھیجا.(۷) چچا.(۸) چچازاد بھائی.(۹) خاوند (۱۰) بیٹی.(۱۱) پوتی.(۱۲) ماں.(۱۳) دادی.(۱۴) بہن.(۱۵) بیوی.مندرجہ ذیل رشتہ دار کسی صورت میں بھی متوفی کے ورثہ کے حقدار نہیں :- (۱) غلام (۲) میت مقتول ہو تو اس کا قاتل (۳) مرتد (۴) مسلمان کا لے ان میں سے بعض صرف بعض صورتوں میں ہی وارث ہو سکتے ہیں.[43]
کافر اور کافر کا مسلمان.وارثوں میں سے ہر ایک کو مندرجہ ذیل حصوں میں سے مختلف صورتوں کے لحاظ سے کوئی نہ کوئی حصہ ملے گا.نصف ، دوتہائی، ایک تہائی ، چوتھا حصہ، چھٹا حصہ، آٹھواں حصہ.جنت و دوزخ جب مُردہ قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جن کا نام منکر ونکیر ہے وہ آکر اس سے عقائد کے متعلق سوال کرتے ہیں جو شخص مومن ہوتا ہے وہ صحیح جواب دیتا ہے اور جو کافر ہوتا ہے وہ صحیح جواب نہیں دے سکتا.تب وہ فرشتے اس کو جزا یا سزا دینا شروع کر دیتے ہیں.اگر کافر ہو تو اس کو عذاب ملنا شروع ہو جاتا ہے.اس عذاب کو عذاب قبر کہتے ہیں.اور اگر مومن ہوتو اس کے لئے آرام و آسائش کے سامان کر دئے جاتے ہیں اور وہ بڑے مزے سے وہاں آرام کرتا ہے.پھر جب حشر کا دن ہو گا اُس دن صور ( پگل ) پھونکا جائے گا.تب تمام لوگ اپنی اپنی قبروں سے اُٹھ کر حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جمع ہو جائیں گے.اس دن حساب کتاب ہوگا.کر اما کاتبین.ہر ایک کے اعمال اس کے لاوہ دو فرشتے جو ہر وقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور اس کے ہر عمل کو لکھتے رہتے ہیں.[44]
سامنے پیش کردیں گے جن کے عقائد صحیح اور نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیدھے جنت میں داخل ہو جائیں گے.جن کی بدیاں اور نیکیاں برابر ہوں گی اللہ تعالیٰ کا فضل ان کو بھی جنت میں لے جائے گا اور جن کے عقائد فاسد اور بدیاں زیادہ ہوں گی وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے.جہنم میں ہر طرح کے عذاب دکھ اور تکلیفیں ہوں گی بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی.پینے کے لئے گرم پانی اور پیپ، کھانے کے لئے زقوم ( تصوہر) ہوگی دھوئیں کا سایہ ہوگا.جہنمی اس سے نکلنے کے لئے کوشش کریں گے مگر کوئی راستہ اور سہیل اس سے نکلنے کی نہ ہوگی.آخر جب وہ اپنی سزا یا چکیں گے تو وہاں سے اللہ تعالی اپنے رحم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے گا.جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے وہاں ہر طرح کا ابدی آرام آسائشیں اور نعمتیں ہوں گی باغات اور نہریں حور و قصو ر ہوں گے.ہر قسم کے پھل انار ، انگور اور کھجور ہوں گے.جنتی جو چاہیں گے ان کو ملے گا غرضیکہ ہر ایک نعمت وہاں ہوگی ان نعمتوں کا احاطہ ہماری عقل نہیں کر سکتی.کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے.مَالَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرٍ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ خدا کا فضل جنتیوں کے شامل حال ہوگا.وَاخِرُ دَعْوَاهُمْ فِيْهَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَط لے نہ آنکھوں نے اسے دیکھا، نہ کانوں نے اسے سنا اور نہ ہی کسی بشر کے دل پر اس کا خیال تک گزرا.منہ [45]
نظ از حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ) عہد شکنی نہ کرو اہل وفا ہو جاؤ! اہل شیطاں نہ بنو اہلِ خدا ہو جاؤ! گرتے پڑتے در مولیٰ پہ رسا ہو جاؤ اور پروانے کی مانند فدا ہو جاؤ جو ہیں خالق سے خفا اُن سے خفا ہو جاؤ جو ہیں اُس در سے جدا اُن سے جُدا ہو جاؤ حق کے پیاسوں کے لئے آب بقا ہو جاؤ خشک کھیتوں کے لئے کالی گھٹا ہو جاؤ غنچه دیں کے لئے بادِ صبا ہو جاؤ گفر و بدعت کے لئے دست قضا ہوجاؤ سرخرو رُو بروئے داور محشر ہو جاؤ! کاش تم حشر کے دن عہدہ برآ ہو جاؤ ے بادشاہی کی تمنا نہ کرو ہر گز تم! کوچہ یار یگانہ کے گدا ہو جاؤ [46]
بحر عرفان میں تم غوطے لگاؤ ہر دم بانٹی کعبہ کی تم کاش دعا ہو جاؤ وصل مولیٰ کے جو بھو کے ہیں انہیں سیر کرو وہ کرو کام کہ تم خوانِ ھدی ہو جاؤ قطب کا کام دو تم ظلمت و تاریکی میں بھو لے بھٹکوں کے لئے راہ نما ہو جاؤ پنبه مرہم کافور ہو تم زخموں پر دل بیمار کے درمان و دوا ہو جاؤ ۱۲ طالبان ریخ جاناں کو دکھاؤ دلبر عاشقوں کے لئے تم قبلہ نما ہو جاؤ ۱۳ امر معروف کو تعویذ بناؤ جاں کا بے کسوں کے لئے تم عقدہ کشا ہو جاؤ ۱۴ دم عیسی سے بھی بڑھ کر ہو دُعاؤں میں اثر ید بیضا بنو موسنے کا عصا ہو جاؤ ۱۵ رہ مولیٰ میں جو مرتے ہیں وہی جیتے ہیں موت کے آنے سے پہلے ہی فنا ہو جاؤ مورد فضل وکرم وارث ایمان و بدی عاشق احمد و محبوب خدا ہو جاؤ [47]
تذكرة الأنبياء اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس میں نیکی کرنے اور بدی کرنے کی بھی طاقت رکھ دی ہے جو شخص چاہے نیکی کر سکتا ہے اور نیکی میں ترقی کر سکتا ہے اور جو شخص چاہے وہ بدی کر سکتا ہے اور بدی میں ترقی کر سکتا ہے.اللہ تعالی نے اس کو مختار بنایا ہے کہ جو کام چاہے کرے مگر انسان ہمیشہ بدی کی طرف راغب ہوتا ہے کیونکہ شیطان اسے ترغیب دیتا ہے کہ تم یہ کام کر لو.تم سے کوئی مُحاسبہ نہ ہوگا اس لئے انسان اس کی باتوں میں آجاتا ہے اور اگر تو بہ نہ کرے تو آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے شیطان کا بھائی بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ایسا بھول جاتا ہے کہ گویا وہ اس کا خالق ہی نہیں اور نہ ہی یہ کسی کے ماتحت ہے.اور قیامت کے دن کو جس میں حساب کتاب ہوگا ایک غلط عقیدہ اور ناممکن خیال کرتا ہے اور ایسا دلیر ہو جاتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کی شان میں بھی گستاخی کرنے لگ جاتا ہے اور دوسروں کو بھی اپنا ہم خیال بنالیتا ہے بھی کہ ایسے لوگوں کی کثرت ہو جاتی ہے اور کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نظر نہیں آتا تب انسان اللہ تعالی کے غضب کا مستحق ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایسے بدکردار انسانوں کو اگر وہ راہ راست پر نہ آویں اور اس کے بتائے ہوئے احکام کی فرمانبرداری نہ کریں اور اس کی فرمانبرداری میں مشغول نہ ہو جائیں اور اپنے پہلے [48]
گناہوں سے تو بہ نہ کریں تو ان کو ہلاک کر دے اُس وقت اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے کسی نبی ورسول کو بھیج دیتا ہے جو نہایت درجہ نیک پاک.اور نیکی کا مجسمہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر چلنے والا اور دنیا کے لئے ایک نمونہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اُس کو حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں میں اعلان کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا نبی اور رسول ہے، لوگ اس پر ایمان لائیں، نیک اعمال کریں اور تمام بُرے کاموں کو ترک کر دیں.اگر وہ اس پر ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ جائیں گے.اور اگر وہ اُس کا انکار کریں گے تو اللہ تعالی کا غضب اُن پر بھڑ کے گا اور ان کو ہلاک کر دے گا.چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے دنیا میں اعلان کر دیتے ہیں کہ ہم کو اللہ تعالی نے نجی بنایا ہے اور تمہیں ہم پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے اس لئے تم ہم پر ایمان لاؤ اور ہماری تمام باتوں پر عمل کرو.مگر دنیا کے بندے دلوں کے گندے اور عیش وعشرت میں مشغول رہنے والے خدا کی یاد سے غافل مال و دولت کے نشہ میں مخمور اور اللہ تعالیٰ سے مہجور انسان يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ.اور كَذلِكَ مَا أَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا قَالُوا اے (ترجمہ) اے افسوس بندوں پر کہ نہیں آیا اُن کے پاس کوئی رسول مگر وہ اس کے ساتھ ہنسی اور ٹھٹھا کرتے رہے.[49]
سحر او مجنون کوحرف بحرف پورا کر دیتے ہیں اور ان انبیاء کی تکذیب کر دیتے ہیں اور ان کو پاگل، مجنون ، جھوٹے ، دغا باز ، فریبی کے خطابات دیتے ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ اُن کی تکلیف اور ایذارسانی کے لئے اپنی تمام تدبیریں اور چالاکیاں ختم کر دیتے ہیں اگر ہو سکے تو ان کو ان کے گھروں ، وطنوں اور ملکوں سے بھی جلا وطن کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور ہر وقت ان کے قتل کر دینے یا ذلیل کر دینے کی فکر میں لگے رہتے ہیں مگر یہ خدا کے پیارے بندے (صلوات الله وَسَلَامُهُ عَلَيْهِمُ ( گالیاں سنتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں تکلیف اور دکھ برداشت کرتے ہیں مگر ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحم کی درخواست کرتے ہیں وطنوں سے جلا وطن ہوتے ہیں مگر اُف تک نہیں کرتے وہ نہ عزت چاہتے ہیں اور نہ کوئی جاہ و مرتبت.بلکہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کو جو حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے وہ ان تک پہنچائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سُر خرو ہوں دن کو تبلیغ کرتے ہیں تو رات کو اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کے آگے روتے ہیں کہ وہ لوگوں کو سمجھ دے.آخر ان کی دن کی کوششیں اور رات کی دعائیں بے اثر نہیں جاتیں اللہ تعالیٰ نیک اور پاک بندوں کو ان کے ارد گرد جمع کر دیتا ہے اور ان کو ایک جماعت عطا کر دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں اور اس کی ا (ترجمہ) جو رسول بھی ان لوگوں کے پاس جو ان سے پہلے تھے آیا انہوں نے کہا اُس کو کہ یہ جادوگر یا پاگل ہے.[50]
فرمانبرداری میں رات دن گزار دیتے ہیں اور اس کے لئے ہر قربانی کر گزرتے ہیں.اگر سارا مال اس کی راہ میں خرچ کرنا پڑے تو سارا مال خرچ کر دیتے ہیں اور اگر اپنی جان بھی اس کی راہ میں قربان کرنی پڑے تو بڑی خوشی سے کر دیتے ہیں تب اللہ تعالیٰ ان کو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کا خطاب دے دیتا ہے اور ان کی عزت افزائی کرتا ہے اور ساری دنیا ان کے قدموں میں لا ڈالتا ہے.وہی جو دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل سمجھے جاتے ہیں انہیں عزتیں عطا کرتا ہے اور حکومتیں ان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اور اپنی ظاہری بادشاہت سے انہیں حصہ عطا کرتا ہے مگر جولوگ ان پر ایمان نہیں لاتے وہ اللہ تعالیٰ کے عذابوں کے مورد ہو جاتے ہیں چاروں طرف سے ان پر عذاب آنے شروع ہو جاتے ہیں ان کی سلطنتیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں ملک اور علاقے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں عزتیں ان سے منتقل ہو کر مومنوں کو ٹل جاتی ہیں اور آخر بصد حسرت اس دنیا سے گذر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ابدی عذاب میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَئِكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ.کے مصداق ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے یہ برگزیدہ بندے انبیاء ورسل ہر زمانہ میں ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے.جس طرح کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا کہ اس میں ہمارے جسموں کا کوئی بادشاہ نہ ہو اسی طرح کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جس میں ہماری ا (ترجمہ) یہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی.[51]
روحوں کا کوئی بادشاہ نہ ہو.انبیاء میھم السلام کا سلسلہ جب سے کہ دنیا شروع ہوئی ہے اور بے شمار انبیاء آج تک آئے کوئی قوم ایسی نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی نہ گذرا ہو چنانچہ ان تمام انبیاء میں سے قرآن شریف نے مشہور اور خاص خاص انبیاء کے مندرجہ ذیل نام لئے ہیں.حضرت آدم - حضرت نوح - حضرت ابراہیم.حضرت ہود حضرت صالح - حضرت شعیب - حضرت لوط - حضرت اسماعیل.حضرت اسحاق - حضرت یعقوب - حضرت یوسف - حضرت موسی - حضرت ہارون حضرت داؤد - حضرت سلیمان - حضرت یونس - حضرت الیاس - حضرت زکریا - حضرت یحی - حضرت الیسع - حضرت ادریس - حضرت ایوب حضرت ذوالکفل - حضرت ذوالقرنین.حضرت لقمان - حضرت عیسی علیهم السلام اجمعین اور خاتم الانبیاء یعنی افضل الانبیاء حضرت محمد مصطفی ملے اور آپ کے غلام حضرت احمد علیہ السلام.یہ سب نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کی ہدایت کے لئے اپنے اپنے وقت پر دنیا میں آئے اور اس زمانے میں جری الـلـه فـــي حُلل الانبياء حضرت [52]
احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث کئے گئے ہیں.یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب تک دنیا میں کوئی قانون اور دستور العمل نہ ہو امن قائم نہیں رہ سکتا اور حقیقی امن اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ قانون مکمل ہو.اور کوئی انسان اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ خود اپنے تک پہنچنے کا طریق نہ بتائے کسی انسان میں کہاں طاقت ہے کہ وہ کوئی ایسا قانون وضع کر سکے جو واضح اور مکمل ہو کیوں کہ انسان تو خود کامل علم نہیں رکھتا.اور کس طرح یہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ دریافت کر سکتا ہے جب تک کہ خود اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف آنے کا راستہ نہ بتائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا ہے کہ اپنے بعض انبیاء پر وحی کے ذریعہ ایک قانون (کتاب) نازل کرتا ہے جس کو شریعت کہتے ہیں.اس شریعت میں دونوں باتیں ہوتی ہیں کہ انسان دنیا میں کس طرح رہے اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا کیا طریق ہے.مگر جیسا کہ کوئی چیز جو انسان کے ہاتھ میں دی جاتی ہے وہ دشت بُرد سے محفوظ نہیں رہ سکتی.اسی طرح یہ کتابیں بھی جب انسانی دست بُرد کا شکار ہو جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے کسی آنے والے نبی پر دوسری کتاب نازل کر دیتا ہے.لیکن یہ یادرکھنا نہایت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر نبی پر وحی والہام تو ضرور نازل کرتا ہے مگر ہر نبی پر شریعت نازل نہیں کرتا.کیوں کہ نئی شریعت اتارنے کی اس وقت ضرورت ہوتی ہے جب شریعت بگڑ جائے.جب شریعت کولوگ بگاڑ دیتے [53]
ہیں اس وقت وہ شریعت نازل کرتا ہے.اور جو نبی اس شریعت کے بعد آتے ہیں وہ لوگوں کے لئے نئی شریعت نہیں لاتے بلکہ اس شریعت پر لوگوں کو چلانے کے لئے اور نمونہ بن کر آتے ہیں جیسے حضرت موسی علیہ السلام کو توریت دی گئی اور جس قدر آپ کے بعد نبی ہوئے وہ سب تو ریت پر ہی عمل کرتے تھے.اور لوگوں کو تو ریت پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام خود توریت کے پیرو تھے.اور لوگوں کو توریت پر چلانے کے لئے آئے تھے.یا جیسے ہمارے آنحضرت ﷺ (فداه ابی و اُمّی ) ہیں کہ آپ کو قرآن شریف دیا گیا.جب اس زمانہ میں لوگوں نے قرآن شریف پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے غلام حضرت میرزاغلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی بنا کر بھیج دیا.تا کہ آپ لوگوں کو قرآن شریف پر عمل کرنے کی تلقین کریں اور خود ان کے لئے نمونہ ہوں.مگر توریت اور باقی گزشتہ شریعتوں اور قرآن شریف میں یہ فرق ہے کہ وہ سب قرآن شریف کے آنے تک تھیں.مگر قرآن شریف چونکہ محفوظ رہنے والی اور کامل کتاب ہے.اس لئے اس کا وقت اب قیامت تک ہے.اب اللہ تعالیٰ قیامت تک نبی جس وقت ضرورت ہوگی بھیجتا رہے گا.مگر کتاب نہیں بھیجے گا.اب جو نبی بھی قیامت تک ہو گاوہ لوگوں کو قرآن شریف پر چلانے کے لئے ہی آئے گا.ہر شخص کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اس کے ہر [54]
نبی اور رسول پر ایمان لانا چاہیئے.خواہ وہ شریعت لے کر آنے والا ہو یا بغیر شریعت کے.کیونکہ شریعت لانے والا بھی نبی اور رسول ہے اور شریعت نہ لانے والا بھی نبی اور رسول ہے.بلحاظ نبوت کے ان میں کوئی فرق نہیں.اس لئے کسی نبی کے متعلق یہ کہنا کہ اس پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ وہ شریعت لے کر نہیں آیا بے ایمانی اور گفر ہے.کیونکہ ہر ایک نبی اپنے وقت کا بادشاہ ہے.اور جو شخص اپنے زمانہ کے بادشاہ کا باغی ہو.خواہ وہ گزشتہ تمام بادشاہوں کا وفادار ہو.جو ہو.وفادار نہیں کہلا سکتا.اسی طرح ہر وہ شخص جو اپنے زمانے کے نبی کا منکر ہے وہ نبی کبھی مومن کہلانے کا حق دار نہیں.انبیاء علیہم السلام وہ ہستیاں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی اللہ جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ہر رسولے آفتاب صدق بود ہر رسولی بود مہر انورے گر بدنیا نامدے ایں خیل پاک کار دیں ماند سراسر ابترے [55]
حضرت محمد رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمُ (گزشتہ سے پیوستہ) ( از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ ) جو مذہبی تعلیم آپ دیتے تھے اس کا خلاصہ یہ تھا:- (۱) آپ اس تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے.باقی جو کچھ بھی خواہ فرشتے ہوں خواہ انسان سب اسی کی مخلوق ہے.یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی ہتک ہے کہ وہ انسانوں کے جسم میں آجاتا ہے.یا اس سے کوئی اولاد ہوتی ہے.یا وہ بچوں میں داخل ہو جاتا ہے.وہ اِن سب باتوں سے پاک ہے.وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے.جس قدر مصلح گزرے ہیں سب اس کے بندے تھے.کسی کو الو ہیت کی طاقتیں حاصل نہ تھیں.سب کو اسی کی عبادت کرنی چاہیئے.اور صرف اس سے دعائیں مانگنی چاہئیں.اسی پر اپنے تمام کاموں کا بھروسہ رکھنا چاہیئے.(۲) یہ کہ خدا تعالیٰ نے انسانوں کو ایک اعلیٰ درجہ کی روحانی اور اخلاقی اور [56]
حمد نی ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے.وہ ہمیشہ دنیا میں اس غرض کو جاری رکھنے کے لئے نبی بھی ہار ہا ہے.اور ہر قوم میں بھیجتا رہا ہے.آپ اس امر کے سخت مخالف تھے کہ نبوت کو کسی ایک قوم میں محدود رکھا جاوے.کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ پر جانبداری کا الزام آتا ہے جس سے وہ پاک ہے.اور دنیا کی ہر قوم کے نبیوں کی تصدیق کرتے تھے.(۳) آپ اس امر پر زور دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہر زمانہ کی ضروریات کے مطابق اپنا کلام نازل کرتا رہا ہے.اور آپ کا دعوی تھا کہ آخری زمانہ کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے.اور اس بناء پر آپ قرآن کریم کو سب پہلی کتابوں سے مکمل سمجھتے تھے اور اس کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے.(۴) آپ کا یہ دعوی تھا کہ خدا تعالی اپنی ہستی کا یقین دلانے کے لئے ہمیشہ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے.اور ان کے لئے نشان دکھاتا رہتا ہے.اور آپ دعوی کرتے تھے کہ جو لوگ بھی آپ کی تعلیم پر عمل کریں گے وہ اپنے تجربہ سے ان باتوں کی صداقت معلوم کرلیں گے.اور میں اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات بالکل درست ہے.اور میں نے خود بھی اسلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی باتیں سنی ہیں.جس طرح موسی اور مسیح کے زمانہ کے لوگ سنتے تھے اور خدا تعالیٰ نے کئی دفعہ مجھے ایسے نشان دکھائے ہیں جو انسانی طاقت سے بالا تھے.[57]
(۵) آپ کہتے تھے کہ بچے مذہب کی علامت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی زندگی کے سامان کرتا ہے اور فرماتے تھے کہ اسلام کو انسانی خیالات کی تعدی سے محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے نبی بھیجتا رہے گا جو اس کی حفاظت کریں گے.چنانچہ ابھی ایک نبی احمد ہندوستان میں اسی غرض سے ظاہر ہوا ہے.اور میں اُس کا خلیفہ ہوں اور میرے ساتھی اس کی جماعت میں سے ہیں.(1) آپ فرماتے تھے کہ باوجود مذہبی اختلافات کے لوگوں کو آپس میں محبت سے رہنا چاہیے اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے جھگڑنا نہیں چاہیے کیوں کہ اگر اس کے پاس سچائی ہے تو اسے لڑنے کی کیا ضرورت ہے وہ سچائی کو پیش کرے خود ہی لوگ متاثر ہوں گے.چنانچہ آپ اپنی مسجد میں عیسائیوں کو بھی عبادت کرنے کی اجازت دیتے تھے.اور یہ ایسی وسیع حوصلگی ہے کہ اُس وقت کے لوگ تو الگ رہے آج کل کے لوگ بھی اس کی مثال نہیں پیش کر سکتے.(۷) آپ اس امر پر بہت زور دیتے تھے کہ انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں.ایک روحانی اور ایک جسمانی.اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ایسے وابستہ ہیں کہ الگ نہیں ہو سکتے.جسمانی حصہ روحانی حصہ پرزور ڈالتا ہے اور روحانی جسمانی پر.پس آپ کی تعلیم میں اس امر پر خاص زور تھا کہ بغیر دلی پاکیزگی کے ظاہری عبادتیں فائدہ نہیں دے سکتیں.اور یہ بھی کہ ظاہری عبادتوں کے بغیر خیالات کی بھی تربیت نہیں ہو سکتی.اس لئے کامل تربیت کے لئے انسان کو [58]
دونوں باتوں کا خیال رکھنا چاہیئے.(۸) آپ انسان کی اخلاقی طاقتوں کے متعلق یہ تعلیم دیتے تھے کہ سب انسان پاک فطرت لیکر پیدا ہوتے ہیں.اور جو خرابی پیدا ہوتی ہے وہ پیدائش کے بعد نمایا تعلیم یا تربیت سے پیدا ہوتی ہے.پس آپ بچوں کی نیک تربیت اور اعلی تعلیم پر خاص طور پر زور دیتے تھے.(۹) آپ اس امر پر بھی زور دیتے تھے کہ اخلاق کی اصل غرض انسان کی اپنی اور دوسرے لوگوں کی اصلاح ہے.پس اخلاق فاضلہ وہی ہیں جن سے انسان کا نفس اور دوسرے لوگ پاکیزگی حاصل کریں.پس آپ کبھی ایک تعلیم پر زور نہیں دیتے تھے.بلکہ ہمیشہ ہر چیز کے سب پہلوؤں کو بیان کرتے تھے.مثلاً یہ نہیں کہتے تھے کہ نرمی کرو.عفو کرو.بلکہ یہ فرماتے تھے کہ جب کوئی شخص تم کو تکلیف دے تو یہ سوچو کہ اس شخص کی اصلاح کس بات میں ہے.اگر وہ شخص شریف الطبع ہے اور معاف کرنے سے آئندہ ظلم کی عادت کو چھوڑ دے گا.اور اس نمونہ سے فائدہ حاصل کرے گا.تو اسے معاف کر دو.اور اگر یہ دیکھو کہ وہ شخص بہت گندہ ہو چکا ہے.اور اگر تم اسے معاف کرو گے تو وہ یہ سمجھ لے گا کہ اس شخص نے مجھ سے ڈر کر مجھے سزا نہیں دی یا نہیں دلوائی.اور اس وجہ سے وہ بدی پر دلیر ہو جائے گا.اور اور لوگوں کو بھی دُکھ دے گا.تو اسے اس کے جرم کے مطابق سزا دو کیونکہ ایسے شخص کو معاف کرنا دوسرے نا کردہ گناہ [59]
لوگوں پر ظلم ہے.جو ایسے شخص کے ہاتھ سے تکلیف اٹھارہے ہیں یا آئندہ اٹھا سکتے ہیں.(۱۰) آپ کی یہ بھی تعلیم تھی کہ کبھی کسی دوسری حکومت پر حملہ نہیں کرنا چاہیئے بلکہ جنگ صرف بطور دفاع کے جائز ہے.اور اُس وقت بھی اگر دوسرا فریق اپنی غلطی پر پشیمان ہو کر صلح کرنا چاہے تو صلح کر لینی چاہیئے.(11) آپ کی یہ بھی تعلیم تھی کہ انسان کی روح مرنے کے بعد ترقی کرتی چلی جائے گی.اور کبھی فنانہ ہوگی.حتی کہ گنہ گار لوگ بھی ایک مذت اپنے اعمال کی سزا بھگت کر خدا کے رحم سے بخشے جائیں گے.اور دائی ترقی کی سڑک پر چلنے لگیں گے.اہل مکہ نے جب دیکھا کہ مدینہ میں آپ کو اپنی تعلیم کے عام طور پر پھیلانے کا موقعہ مل گیا ہے.اور لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہونے لگے ہیں.تو انہوں نے متواتر مدینہ پر چڑھا ئیاں کرنی شروع کیں.مگر ان لشکر کشیوں کا نتیجہ بھی اُن کے حق میں بُرا نکلا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے بھی برتری ثابت ہوئی.کیونکہ گو بڑی بڑی تیاریوں کے بعد مکہ والوں نے مدینہ پر حملہ کیا.اور مسلمان ہر دفعہ تعداد میں اُن سے کم تھے.عموما ایک مسلمان تین ۳ اہل مکہ کے مقابلہ پر ہوتا تھا.مگر پھر بھی غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی.اور اہل مکہ کو شکست ہوئی.بعض دفعہ بے شک مسلمانوں کو عارضی تکلیف بھی پہنچی.مگر حقیقی معنوں میں کبھی شکست نہیں ہوئی.[60]
اور ان لشکر کشیوں کے دو نتیجے نکلے.ایک تو یہ کہ بجائے اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تباہ ہوتے آپ سارے عرب کے بادشاہ ہو گئے.اور دوسرے یہ کہ ان لڑائیوں میں آپ کو کئی ایسے اخلاق دکھانے کا موقعہ ملا جو بغیر جنگوں سے مخفی رہتے.اور اس سے آپ کی اخلاقی برتری ثابت ہوگئی.اسی طرح یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ آپ نے وفاداری اور قربانی کی روح ایک مردہ قوم میں پھونک دی تھی.چنانچہ مثال کے طور پر میں اُحد کی جنگ کا واقعہ بیان کرتا ہوں :- مدینہ آنے کے تین سال بعد کفار نے تین ہزار کا لشکر تیار کر کے مدینہ پر حملہ کر دیا.مدینہ مکہ سے دو سو میل کے فاصلہ پر ہے.دشمن اپنی طاقت پر ایسا نازاں تھا کہ مدینہ تک حملہ کرتا ہوا چلا آیا.اور مدینہ سے آٹھ میل پر اُحد کے مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو روکنے کے لئے گئے آپ کے ساتھ ایک ہزار سپاہی تھے.آپ نے جو احکام دئے اس کے سمجھنے میں ایک دستہ فوج سے غلطی ہوئی نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کو پہلے فتح ہو چکی تھی دشمن پھر لوٹ پڑا.اور ایک وقت ایسا آیا کہ دشمن نے زور کر کے مسلمانوں کو اس قدر پیچھے دھکیل دیا کہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کے نرغے میں رہ گئے.آپ نے جرأت اور دلیری کا یہ نمونہ دکھایا کہ باوجود اس کے کہ اپنی فوج ہٹ گئی تھی مگر آپ یکھے نہ بنے اور دشمن کے مقابلہ پر کھڑے رہے.[61]
ہو جب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں ہے اور وہیں کھڑے ہیں تو انہوں نے یکدم حملہ کر کے آپ تک پہنچنا چاہا.لیکن صرف چودہ آدمی آپ تک پہنچ سکے.اُس وقت ایک شخص نے ایک پتھر مارا.اور آپ کا سر زخمی ہو گیا اور بیہوش ہو کر زمین پر گر گئے.اور آپ کو بچاتے ہوئے کئی اور مسلمان قتل ہو کر آپ پر جا کرے.اور لوگوں نے یہ مجھ لیا کہ آپ شہید و گئے ہیں.وہ لوگ ایک عاشق کی طرح تھے.کئی لوگ میدان جنگ میں ہی ہتھیار ڈال کر بیٹھ گئے اور رونے لگے ایک مسلمان جس کو اس امر کا علم نہ تھا وہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گذرا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو شہید ہو گئے ہیں اس نے کہا.تو آہ ! اس سے بڑھ کر لڑنے کا موقعہ کب ہوگا؟ جہاں وہ ہمار امحبوب گیا ہے وہیں ہم جائیں گے.یہ کہ کر تلوار ہاتھ میں لے کر دشمنوں کی صفوں میں ٹوٹ پڑا.اور آخر مارا گیا.جب اس کی لاش کو دیکھا گیا تو ستر زخم اس پر لگے تھے.جو لوگ آپ کے پاس کھڑے تھے انہوں نے جب آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے سے نکالا تو معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں.اسی وقت پھر لشکر اسلام جمع ہونا شروع ہو گیا.اور دشمن بھاگ گیا.اُس وقت ایک مسلمان سپاہی اپنے ایک رشتہ دار کو نہ پا کر میدان جنگ میں تلاش کرنے لگا.آخر اسے میدان جنگ میں اس حالت میں پایا کہ اُس کی دونو [62]
لاتیں کٹی ہوئی تھیں.اور سب جسم زخمی تھا اور اس کی آخری حالت معلوم ہوتی تھی.اس کو دیکھتے ہی اس زخمی نے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ آپ خیریت سے ہیں.یہ بات سُن کر اس کا چہرہ خوشی سے ٹمٹما اُٹھا.اور اس نے کہا کہ اب میں خوشی سے جان دوں گا.پھر اس عزیز کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ میری ایک امانت ہے جو میرے عزیزوں کو پہنچادینا.اور وہ یہ ہے کہ اُن سے کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی امانت ہے.اس کی حفاظت تمہارے ذمہ ہے.دیکھنا اس کی حفاظت میں کو تاہی نہ کرنا.اور یہ کہتے ہوئے مسکرا کر جان دے دی.یہ تو مردوں کی وفاداری کا حال ہے عورتیں بھی اس سے کم نہ تھیں.مدینہ میں بھی یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.اور سب عورتیں اور بچے شہر سے نکل کر میدان جنگ کی طرف گھبرا کر چل پڑے تھے.اتنے میں ان کو اسلامی لشکر ملا.جو خوشی سے آپ کسمیت واپس لوٹ رہا تھا.ایک عورت نے ایک سپاہی سے آگے بڑھ کر پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اسے چونکہ معلوم تھا کہ آپ خیریت سے ہیں اس نے اس کی پرواہ نہ کی اور کہا کہ تیرا باپ مارا گیا ہے.اُس عورت نے کہا کہ میں تجھ سے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھتی.میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پوچھتی ہوں.[63]
اس نے پھر بھی پروانہ کی.اور کہا کہ تیرے دونوں بھائی بھی مارے گئے ہیں.اس نے پھر چڑ کر کہا کہ میں تجھ سے بھائیوں کے متعلق نہیں پوچھتی.اس نے کہا کہ وہ تو خیریت سے ہیں.اس پر اس عورت نے کہا.الحمد للہ ! اگر آپ زندہ ہیں تو سب دنیا زندہ ہے.مجھے پرواہ نہیں کہ میرا باپ مارا گیا ہے یا میرے بھائی مارے گئے ہیں.یہ اخلاص اور یہ محبت اُس کامل نمونہ کے بغیر جو آپ نے دکھایا ہے.اور اُس گہری محبت کے بغیر جو آپ کو بنی نوع انسان سے تھی.کس طرح پیدا ہو سکتا ہے؟ اسی طرح ایک دفعہ اسلامی لشکر ایک پہاڑی راہ سے گزر رہا تھا جس کے دونوں طرف دشمن کے تیر انداز چھپے ہوئے تھے.مسلمانوں کو اس جگہ کا علم نہ تھا.ایک تنگ سڑک درمیان سے گزرتی تھی.جب اسلامی لشکر عین درمیان میں آگیا تو دشمن نے تیر مارنے شروع کئے.اس اچانک حملہ کا یہ نتیجہ ہوا کہ گھوڑے اور اونٹ اڑ کر دوڑ پڑے.اور سوار بے قابو ہو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چار ہزار دشمن تیر اندازوں کے اندر صرف ۱۶ آدمی سمیت رہ گئے.باقی سب لشکر پراگندہ ہو گیا.آپ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی.اور دشمن کی طرف بڑھنا شروع کر دیا.جو ساتھی باقی رہ گئے تھے وہ گھبرا گئے.اور اُتر کر آپ کے گھوڑے کی باگیں پکڑ لیں.اور کہا.جناب اس وقت دشمن فاتحانہ بڑھا چلا آرہا ہے.اسلامی لشکر بھاگ چکا ہے.آپ کی جان پر اسلام کا مدار ہے پیچھے ہٹیئے تاکہ [64]
اسلامی لشکر کو جمع ہونے کا موقع ملے.آپ نے فرمایا کہ میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو.اور پھر بلند آواز سے کہا.میں خدا کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں.کون ہے جو مجھے نقصان پہنچا سکے؟ یہ کہہ کر دشمن کے لشکر کی طرف ان ۱۶ آدمیوں سمیت بڑھنا شروع کیا جو پیچھے رہ گئے تھے.مگر دشمن آپ کو نقصان نہ پہنچا سکا.پھر آپ نے ایک شخص کو جو بلند آواز والا تھا کہا کہ: بلند آواز سے کہو کہ اے اہل مدینہ ! خدا کا رسول تم کو بلا تا ہے.ایک صحابی کہتا ہے کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ اس وقت سخت ڈرے ہوئے تھے اور بھاگے جاتے تھے.ہم ان کو واپس موڑتے تھے.اور وہ مڑتے نہ تھے جس وقت یہ آواز آئی.اُس وقت میکدم ہماری حالت ایسی ہوگئی گویا ہم مردہ ہیں.اور خدا کی آواز ہمیں بلاتی ہے.وہ کہتا ہے کہ اُس آواز کے آتے ہی میں بیتاب ہو گیا.میں نے اپنے اونٹ کو واپس لے جانا چاہا.مگر وہ باگ کے کھینچنے سے دو ہرا ہو جاتا تھا.میرے کان میں یہ آواز گونج رہی تھی کہ خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.جب میں نے دیکھا کہ اونٹ مجھے دُور ہی دُور لے جاتا ہے تو میں نے تلوار نکال کر اُس کی گردن کاٹ دی.اور پیدل دیوانہ وار اس آواز کی طرف بھاگ پڑا.اور بے اختیار کہتا جاتا تھا کہ حاضر ہوں حاضر ہوں !! وہ کہتا ہے کہ یہی حال سب لشکر کا تھا.جوسواری کو موڑ سکا وہ اس کو موڑ کر [65]
آپ کے پاس آ گیا.اور جو سواری کو نہ موڑ سکا وہ سواری سے گو دکر پیدل دوڑ پڑا.جو یہ بھی نہ کر سکا اس نے سواری کوقتل کر دیا اور آپ کی طرف دوڑ پڑا.اور چند ہی منٹ میں سب لوگ اسی طرح آپ کے گرد جمع ہو گئے جس طرح کہ کہتے ہیں کہ مُردے اسرائیل کے طور (انگل ) پر قبروں سے اُٹھ کھڑے ہوں گے.آپ گڑائی میں ہمیشہ تاکید کرتے تھے کہ مسلمان کبھی پہلے خود حملہ نہ کرے.ہمیشہ دفاعی طور پر لڑے اور یہ کہ عورتوں کو نہ ماریں بچوں کو نہ ماریں پادریوں کو نہ ماریں.بوڑھے اور معذوروں کو نہ ماریں.جو ہتھیار ڈال دیں ان کو نہ ماریں درخت نہ کاٹیں عمارتیں نہ گرائیں قصبوں اور گاؤں کو نہ ٹوٹیں اور اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کسی نے ایسی غلطی کی ہے تو اس پر سخت ناراض ہوتے.جب اللہ تعالی نے آپ کو اہل مکہ پر فتح دی تو مکہ کے لوگ کانپ رہے تھے کہ اب نہ معلوم ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوگا ؟ مدینہ کے لوگ جنہوں نے خود اُن تکلیفوں کو نہ دیکھا تھا جو آپ کو دی گئیں مگر دوسروں سے سنا تھا وہ آپ کی تکلیف کا خیال کر کے ان لوگوں کے خلاف جوش میں بھرے ہوئے تھے مگر جب آپ مکہ میں داخل ہوئے سب لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ اے لوگو ! آج میں اُن سب قصوروں کو جو تم نے میرے حق میں کئے ہیں معاف کرتا ہوں تم کو کوئی سز انہیں دی جائے گی.اگر جنگیں نہ ہوتیں اور آپ کو بادشاہت نہ ملتی تو آپ کامل نمونہ کس طرح [66]
دکھاتے ؟ اور انسانی اخلاق کے اس پہلو کو کس طرح دکھاتے؟ غرض کہ جنگوں نے بھی آپ کے اخلاق کے ایک پہلو سے پردہ اٹھایا اور آپ کی صلح اور امن سے محبت اور آپ کے رقم کو ظاہر کیا کیوں کہ سچار تم کرنے والا اور عفو کر نے والا وہی ہے جسے طاقت ملے اور وہ رحم کرے اور سچاخی وہی ہے جسے دولت ملے اور وہ اسے تقسیم کرے.آپ کو خدا تعالی نے ظالم بادشاہوں پر فتح دی اور آپ نے انکو معاف کر دیا آپ کو اس نے بادشاہت دی اور آپ نے اس بادشاہت میں بھی غربت سے گزارہ کر کے اور سب مال حاجت مندوں میں تقسیم کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کہ آپ غربا کی خبر گیری کی تعلیم اس لئے نہیں دیتے تھے کہ آپ کے پاس کچھ تھا ہی نہیں.بلکہ آپ جو کچھ کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے.آپ نے زندگی کے ہر ایک لمحہ کو خدا کے لئے تکلیف اٹھانے میں خرچ کیا اور گویا آپ روز ہی خدا کے لئے مارے جاتے تھے.تریسٹھ سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی.اور بیماری کی حالت میں بھی آپ " کو یہی خیال تھا کہ کہیں لوگ میرے بعد شرک نہ کرنے لگیں.چنانچہ بیماری موت میں آپ بار بار گھبرا کر فرماتے تھے کہ خُدا بُرا کرے اُن لوگوں کا جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت کی جگہ بنالیا ہے.یعنی اپنے نبیوں کو اُلوہیت کی صفات دے کر اُن سے دعائیں وغیرہ مانگتے ہیں.جس سے آپ کا [67]
مطلب یہ تھا کہ مسلمان ایسا نہ کریں اسی طرح شرک کی تردید کرتے ہوئے آپ اپنے پیدا کرنے والے سے جاملے اور باوجود اس کے لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ سب سے زیادہ شرک مٹانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں انہوں نے اپنی سب عمر اسی کام میں خرچ کی ہے اور دنیا میں جو خیالات توحید کے نظر آتے ہیں وہ سب ان کی اور اُن کے متبعین کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہیں.اَللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ.[68]
حضرت علی رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حضرت علی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چوتھے خلیفہ تھے.آپ کے والد کا نام ابو طالب تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چا تھے.آپ قریش قوم میں سے تھے اور آپ کے قبیلہ کا نام ہٹو باشم تھا.آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا.آپ ہجرت سے ۲۱ سال قبل پیدا ہوئے.آپ دس سال کی عمر میں مسلمان ہوئے.اور سابقین الی الاسلام میں سے تھے.اور عالم ربانی اور مشہور جوانمر داور زاہد تھے.علاوہ ان خصوصیات کے آپ کو یہ فضیلت بھی حاصل تھی کہ ہجرت کی رات آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ آپ کے بستر پر گذاری جس سے گلار کو یہ شبہ رہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی لیٹے ہوئے ہیں اور پھر تمام وہ امانتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سپرد فرمائیں تھیں ادا کر کے ہجرت کی.مدینہ پہنچنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمۃ الزہراء سے آپ کی شادی کر دی.اس طرح پر آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا.[69]
آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوائے غزوہ تبوک کے باقی تمام غزوات ( جنگوں) میں شامل ہوئے اس موقعہ پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی آپ کو فرمایا تھا کہ تم مدینہ میں رہو.چونکہ آپ بہادر تھے اس لئے آپ نے عرض کیا کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بناتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کیا تو راضی نہیں ہوتا کہ میں تجھ کو وہ مرتبہ دیتا ہوں جو کہ موسی نے ہارون کو دیا تھا جبکہ وہ پہاڑ پر جاتے ہوئے ان کو خلیفہ بنا گئے تھے.لیکن بارون تو موسیٰ کے بعد نبی تھے مگر تو میرے بعد نبی نہیں.اور آپ کو اپنے بعد خلیفہ مقرر فرما کر فرمایا کہ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوسى.آپ نے تمام جنگوں میں کار ہائے نمایاں کئے ہیں.کئی جنگوں میں قَالَ (عَلَيْهِ السَّلَامُ يَا عَلِيٌّ اَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي كَهَا رُوْنَ مِنْ مُوسَىٰ غَيْرَ إِنَّكَ لَسْتَ نَبِيًّا (طبقات کبیر جلد ۵ ص ۱۵) ( ترجمہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اے علی ! کیا تو خوش نہیں کہ تو میرے بعد ایسا ہی خلیفہ ہے جس طرح موسیٰ کے بعد ہارون تھے مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد تو نبی نہیں گویا لَسْتَ نَبِيًّا نے لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی تشریح کر دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب عام نہیں تھا بلکہ وہ خاص حضرت علی کے لئے تھا.تو میرے بعد میری غیر حاضری میں میرا خلیفہ ہوگا.جس طرح پر حضرت موسی کے بعد حضرت ہارون خلیفہ تھے.[70]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو علمبر دار بنایا.خیبر کے موقعہ پر آپ کے ہاتھ میں جھنڈا دے کر فر مایا کہ فتح اس کے ہاتھ پر ہوگی.اور ایسا ہی ہوا.آپ بنو ہاشم میں سے پہلے خلیفہ تھے.آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی تھے.آپ کی شجاعت اور بہادری کا سکہ تمام مخالفین و موافقین پر بیٹھا ہوا تھا.آپ اس قدر بہادر تھے کہ لڑائیوں میں خوفناک مقامات میں بے خوف و بے خطر ٹھس جاتے اور شدائد اور تکالیف کی مطلق پروانہ کرتے تھے.خصوصا آپ کی شجاعت اس واقعہ سے ثابت ہوتی ہے جس دن آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر رات گذاری.آپ فقہ کے لحاظ سے بھی ممتاز درجہ رکھتے تھے.کیونکہ آپ بچپن سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے.اور آپ سے قرآن سیکھا.چنانچہ خلفاء ثلاثہ (حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان) کئی اختلافی مسائل میں آپ کی رائے پر ہی عمل کرواتے تھے.اسی طرح آپ فصاحت میں بھی ممتاز حیثیت رکھتے تھے.چنانچہ آپ کی فصاحت آپ کے خطبات اور خطوط سے اظہر من الشمس ہے.آپ نے نو شادیاں کیں اور سب سے پہلے آپ کی شادی حضرت فاطمہ [71]
اگز ہرانے سے ہوئی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں.حضرت فاطمتہ الزہراء سے شادی کے بعد آپ نے ابو جہل کی لڑکی سے شادی کرنی چاہی تو آپ نے فرمایا کہ میری لڑکی کو طلاق دے دو.کیونکہ عدو اللہ ( اللہ کے دشمن ) اور حبیب اللہ ( خدا کے دوست ) دونوں کی لڑکیاں ایک آدمی کے ماتحت نہیں رہنی چاہئیں.اس پر آپ نے شادی نہ کی.حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ نے ابو جہل کی لڑکی سے شادی کی جبکہ حضرت فاطمۃ الزہراء فوت ہو چکی تھیں.ان کی زندگی میں آپ نے کسی اور عورت سے شادی نہیں کی.حضرت فاطمۃ الزہراہ سے آپ کے چار بچے حضرت حسن حضرت حسین.حضرت زینب گبری.حضرت اُم کلثوم گبری پیدا ہوئے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ کا بہت بڑا رتبہ تھا.چنانچہ احادیث میں آپ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل ارشادات درج ہیں.جن سے آپ کے علو مرتبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.فرمایا:- لَا يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَا فِقٌ وَلَا يُبْغِضُهُ مُؤْمِن ترندی) اور فرمایا مَنْ سَبِّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي ( ترمذی ) اور فرمایا میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے.کوئی منافق ایسا نہیں جو حضرت علی سے محبت رکھتا ہو اور کوئی مومن نہیں جو اُن سے بغض رکھتا ہو.ے جس نے حضرت علی کو بُرا کہا اُس نے مجھے برا کہا.[72]
جب حضرت عثمان کی شہادت کے بعد آپ خلیفہ ہوئے تو حضرت طلحہ حضرت زبیر اور حضرت عائشہ اور آپ کے ساتھیوں نے مل کر حضرت عثمان کے قاتلوں کا مطالبہ کیا.تا وہ اُن سے حضرت عثمان کا بدلہ لیں.مگر حضرت علی کرم اللہ وجہ اس خیال میں اُن سے متفق نہ تھے.کیونکہ وہ اپنے آپ کو معذور کھتے تھے.آخر کار بصرہ کے مقام پر فریقین کی سخت لڑائی ہوئی.اس لڑائی کو جنگ جمل کہتے ہیں.جس میں دس ہزار آدمی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر قتل ہوئے.اس کے بعد حضرت علی اور امیر معاویہ کے لشکر مقام صفین پر جمع ہوئے.اور کسی جنگ ہوئے بغیر آپس میں صلح ہوگئی.اس کے بعد خوارج نے بغاوت کی.اُن سے آپ نے کئی جنگیں کیں.اسی دوران میں عمر و بن العاص نے ایک چال کھیل کر آپ کو معلول قرار دیا اور معاویہ کوخلیفہ بنا دیا.جس کی تفصیل یہ تھی :- جنگ صفین میں حضرت علی کا پلہ بھاری تھا.مگر عمرو بن العاص کے مشورہ سے حضرت معاویہ کی فوج نے قرآن نیزوں پر بلند کر دیا.اس لئے حضرت علیؓ کی فوج قرآن کریم کو دیکھ کر جنگ سے رُک گئی.حضرت علی نے اپنی فوج کو بہتیرا سمجھایا کہ یہ تمہیں دھوکہ دیا جارہا ہے.اور یہ ایک چالا کی ہے.جو تمہارے ساتھ کھیلی جا رہی ہے.وہ قرآن صامت ہے اور میں قرآن ناطق ہوں.اس کے بعد فسادزیادہ بڑھ گیا.اور مفسد وں نے آپ کے قتل کی ٹھان لی.[73]
یہاں تک کہ ابن ملجم نے قطان بنت مجنہ کے کہنے سے جو ایک نہایت خوبصورت عورت تھی.جس کے باپ اور بھائی کو حضرت علی نے یوم القمر میں قتل کیا تھا.اور جس سے وہ شادی کرنا چاہتا تھا.مگر اُس نے کہا کہ میں تم سے اس وقت تک شادی نہیں کروں گی جب تک حضرت علی کا سر میرے پاس نہیں لاؤ گے.چنانچہ وہ بد بخت کوفہ میں آیا اور ۱۵ رمضان المبارک کو جبکہ حضرت علی صبح کی نماز کے لئے تشریف لا رہے تھے آپ پر حملہ کیا جس سے آپ کے سر کے پچھلے حصہ میں ایک کاری زخم آیا اور آپ شسترہ رمضان المبارک کو اسی زخم کی وجہ سے شہید ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ اُس وقت آپ کی عمر ۵۸ برس کی تھی.آپ نے قریبا چار سال ۹ ماہ خلافت کی اور گوفہ میں دفن کئے گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ [74]
حضرت مسیح موعود عَلَيْهِ الصَّلُوةُ وَالسَّلَامِ اللہ تعالیٰ نے حضرت میرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانہ میں لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا ہے.اور لوگوں کو آپ پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے.جو شخص آپ کو مسیح موعود اور امام مہدی معہود نہیں مانتا وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں مانتا کیونکہ آپ کے آنے کی خبر اور آپ پر ایمان لانے کا ارشاد بھی اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا ہے اور یہ ہو بھی کس طرح سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوحکم دے کہ تو اس زمانہ میں میرا مامور اور مرسل ہے اور لوگوں کوحکم دے کہ آپ پر ایمان لائیں مگر لوگ آپ پر ایمان نہ لائیں اور پھر بھی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور مومن ہی کہلا ئیں؟ وہ لوگ جو آپ پر ایمان نہیں لاتے انہوں نے آپ کے درجہ اور مرتبہ کو شناخت ہی نہیں کیا.اگر ان کو آپ کے درجہ اور مرتبہ کا علم ہوتا تو وہ یقینا آپ پر ایمان لانے سے دیکھے نہ رہتے.آپ اللہ تعالیٰ کے مسیح اور جری اللہ فی خلل الانبیاء اور تمام امتوں کے موعود ہیں.ہر نبی نے اپنے اپنے زمانہ میں آپ کے آنے کے متعلق پیشگوئی کی ہے.[75]
اور اپنی اپنی امت کو آپ پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بہت بابرکت وجود قرار دیا ہے.اور آپ پر ایمان لانے کی تاکید اور آپ کی مدد کرنے کا ارشاد فرمایا ہے اور حکم دیا ہے کہ جب وہ ظاہر ہو تو اُسے میرا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا جائے.اسی لئے گزشتہ زمانہ کے تمام مسلمان یہ خواہش رکھتے رہے ہیں کہ وہ آپ کے زمانہ میں ہی ہوں.تا وہ آپ پر ایمان لائیں.اور سعادت دارین حاصل کریں.اور تو اور بڑے بڑے اولیاء نے بھی آپ کے دیکھنے کی خواہش کی ہے.کاش! لوگ اپنی آنکھیں کھولیں.اور آپ کے درجہ اور مرتبہ کو سمجھیں.جس قدر نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ظہور کے متعلق بیان فرمائے ہیں وہ سب پورے ہو چکے ہیں.آپ جمعہ کے روز تو ام پیدا ہوئے.اور چودہویں صدی کے سر پر آپ مبعوث ہوئے.آپ کا نام بھی احمد ہے.فارسی الاصل بھی ہیں.رنگ گندم گوں ہے اور بال سیدھے ہیں.دمشق سے مشرقی طرف سفید منارہ کے قریب آپ کا نزول ہوا ہے.قادیان ( کدعہ ) کی بستی سے آپ کا ظہور ہوا ہے.دقبال اور یاجوج ماجوج کدعہ اور قادیان میں کوئی فرق نہیں ہے.کیونکہ ایک زبان کا لفظ جب دوسری زبان میں جاتا ہے تو اس زبان والے اپنی سہولت کے لئے اس کو اپنے لہجہ کے سانچہ میں ڈھال لیتے ہیں.جیسے عربی میں لنڈن کو لندرا اور انگلستان کو انگلترا کہتے ہیں.اسی طرح یہ لفظ بھی ہے.منہ [76]
( روس اور انگریز پادری ) ایک جزیرہ سے جہاں صدیوں سے جکڑے ہوئے اور پا بز نجیر تھے نکل چکے ہیں.اور دنیا کے اکثر حصے پر ان کی حکومت ہے.کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں.اس کا گدھا (ریل.موٹر وغیرہ ) ساری دنیا کا صبح و شام سیر کرتا ہے، اور اونٹ جو دُور دراز ملکوں میں تجارت کے لئے جاتے تھے اپنے اس کام سے مُعطل ہو چکے ہیں.اس کے پرندے ( ہوائی جہاز ) ساری دنیا میں اُڑتے ہیں.اس کے زندہ کئے ہوئے مُردے ( گراموفوں ) بول رہے ہیں.اور خوشی کے گیت گاتے ہیں.کان اس کے بڑے بڑے ہیں.مشرق اور مغرب کی باتیں سنتے ہیں.( ٹیلی گراف ٹیلی فون.وائرلس.ریڈیو کاسٹ وغیرہ).اور دنیا میں تجارت کرتے ہیں.اور ایک عاجز بندہ (حضرت مسیح ) کو خدا بنا رکھا ہے.۱۳ اور ۲۸ / تاریخ کو۱۸۹۴ء میں رمضان کے مہینہ میں چاند وسورج کو گرہن لگ چکا ہے.دُم دارستارہ کا طلوع ہو چکا ہے.دابه الارض (طاعون ) مدت سے ظاہر ہو کر اپنا اثر دکھا چکی ہے.[77]
خسف اور مسخ ( زلزلوں اور لڑائیوں ) نے کمال کر دکھایا ہے.اور ہر روز یہی سننے میں آتا ہے کہ آج فلاں علاقہ اور کل فلاں ملک تباہ ہو گیا یا زمین میں دب گیا ہے.قسم قسم کی بیماریاں آرہی ہیں.مسلمانوں کے ۷۳ فرقے ہو چکے ہیں.نہ ان کی کوئی طاقت ہے.نہ عظمت نہ رُعب نہ شوکت سلطنتیں سب ان کے ہاتھوں سے نکل کر غیروں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں.مسلمان نام کے رہ گئے ہیں.ان نشانوں کے بعد کوئی نیک بخت آپ کی صداقت میں طلبہ نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ کا ہر رنگ میں آپ پر بڑا افضل تعاملات آپ کو دی.شہرت آپ کو دی.اولا د اور پھر وہ اولاد جو خاص روحانی اور جسمانی خوبیوں کی مالک ہے.وہ آپ کو دی.مال بھی دیا جائدادیں بھی دیں.لاکھوں کی آپ کو جماعت بھی دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کے نام یہ ہیں:.پہلی بیوی سے :.مرزا سلطان احمد - مرز افضل احمد.حضرت اُم المومنین سے:.عصمت.بشیراؤل.میرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفة المسیح الثانی.شوکت.میرزا بشیر احمد.میرزا شریف احمد.میرزا مبارک احمد.مبارکہ بیگم.امتہ النصیر - امتہ الحفیظ.آپ نے وفات کے وقت مندرجہ ذیل اولا د چھوڑی.مرزا سلطان احمد مرحوم.حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفہ مسیح الثانی.حضرت میرزا بشیر احد صاحب.حضرت میرزا شریف احمد صاحب.نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اور حفیظ بیگم صاحبہ کلہم اللہ تعالی.[78]
اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو اپنا قرب عطا فرمایا.اور درجہ مسیحیت و مہدویت و نبوت آپ کو عطا فرمایا.اور ہزارہا معجزات دئے.قرآن شریف خود آپ کو پڑھایا.اور ایسے ایسے علوم کا آپ پر انکشاف کیا کہ دنیا دنگ اور عقل حیران ہے.دُعا ئیں آپ کی سنی جاتی تھیں.وحی الہی کا سلسلہ جاری تھا.بڑے بڑے دشمنوں سے مقابلے ہوتے تھے.اور فتح ونصرت آپ کا ساتھ دیتی تھی.کئی جو آپ کو ذلیل کرنے کی نیت سے اٹھے تھے.خود ذلیل ہو گئے.اور آپ کو خدا کی طرف سے عزت کے خطاب ملے.دنیا چاہتی تھی کہ آپ کو قتل کر دیا جائے.مگر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تجھے کوئی قتل نہیں کر سکے گا.اور ایسا ہی ہوا.دنیا کو آپ سے روکا جا تا تھا.مگر خدا نے اپنے پاک بندوں کو پروانوں کی طرح جو شع پر جان نار کرتے ہیں.لاکر آپ کے قدموں میں ڈال دیا.د نیا چاہتی تھی کہ آپ کا نام دنیامیں نہ پھیلے مگر اللہ تعالیٰ نے وَاللهُ منم ے مولوی عبد الرحمن صاحب شہید.صاحبزادہ سیدعبداللطیف صاحب شہید.وغیر ہم بھی انہی پروانوں میں سے تھے جو آپ پر جان شار کرنے کی وجہ سے ملک کابل میں شہید کئے گئے.مگر انہوں نے استقامت کا وہ نمونہ دکھایا کہ جس کی نظیر سوائے آنحضرت صلی 09-080 mo اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے کسی دوسری جگہ نہیں ملتی.مِنْهُمْ مِّنْ قَدْ ضى نَحْبَهُ وَمِنهم من ينتَظِرُط [79]
نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ کے ماتحت آپ کی تبلیغ کوز مین کے کناروں تک پہنچا دیا.اور ہر قسم اور ہر طبقہ کے لوگ، بڑے اور چھوٹے ، امیر اور غریب ، سیاہ اور سفید ، زرد اور سُرخ آپ کی جماعت میں داخل کر دئے.اور وہ دن دور نہیں جبکہ آپ کی پیشگوئیوں کے ماتحت بادشاہ بھی آپ کے اس سلسلہ میں داخل ہوں گے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَ عَلَى مُطَاعِهِ الصلوةُ وَالسَّلَامُ.مبارک ہے وہ ! جس نے آپ کے زمانہ کو پایا اور آپ پر ایمان لایا.رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَا كُتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِيْنَ طَ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِ يَا يُنَادِي لِلايْمَانِ أَنْ طَامِنُوا بِرَبِّكُمْ فَا مَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَيِّاتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ - ا (ترجمہ) اللہ تعالیٰ اپنے نور کو کامل طور پر پھیلا کر رہے گا اگر چہ کافروں کو بُرا ہی کیوں نہ لگے.ے اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے.پس تو ہمارا نام شاہدین (گواہوں) میں درج کرلے.اے ہمارے رب! ہم نے تیرے نبی کی آواز سنی.جو یہ منادی کر رہا تھا کہ اے لوگو! تم اپنے رب پر ایمان لاؤ.پس ہم ایمان لے آئے.اس لئے اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے.اور ہماری بُرائیاں ہم سے دور کر دے.اور ہمیں نیک کر کے وفات دے.(آمین) [80]
حضرت خلیفہ اسیح الثانی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایک ایسی ذات ہے جو حتی وقیوم ہے.باقی سب چیزیں اپنے اپنے وقت مقررہ پر موت کا پیالہ پی کر اس جہاں سے کوچ کر جاتی ہیں.اسی سنت کے مطابق ہر نبی اپنی طبعی عمر پا کر اس جہاں سے رخصت ہو جاتا ہے.اور ان کے پیچھے ان کی جماعت رہ جاتی ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ جب تک اتحاد.اتفاق اور تنظیم نہ ہو کوئی کام نہیں ہو سکتا.اور جب تک ہر ایک کا ایک ہی قبلہ اور مرکز نہ ہو.تو سخت گڑ بڑ اور ابتری پھیل جاتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعتوں کو تشقت اور افتراق سے بچانے کے لئے یہ انتظام کیا ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کا کوئی جانشین مقرر کر دیتا ہے.تا وہ سب اس کی بیعت اطاعت کر کے ایک ہی سلک میں منسلک ہو جائیں.اُس وجود کو جو نبی کا جانشین ہوتا ہے خلیفہ کہتے ہیں.خلیفہ کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے نہایت ضروری قرار دیا ہے.اور اس کے وجود کو نبی کے وجود کا قائم مقام قرار دیا ہے.اور اس کی بیعت نہ کرنے والے کو فاسق کہا ہے.جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کچھ عرصہ تک آپ کی خلافت چلی.اور مسند خلافت پر آپ کی پیشگوئی کے مطابق یکے بعد دیگرے باتلاق [81]
رائے مومنین حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ.حضرت عمر رضی اللہ عنہ.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ.اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خُلفاء مقرر ہوئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپ کی پیشنگوئیوں کے مطابق باتفاق رائے مومنین حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اور آپ کی وفات کے بعد 1910ء سے حضرت میرزا بشیر الدین محمد احمدخلیفہ اسی الثانی قرار پائے.حضرت خلیفہ اسیح الله نی جو حُسن واحسان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نظیر ہیں.جماعت احمدیہ کے لئے ایک نہایت ہی بابرکت وجود ہیں.جماعت احمدیہ کی موجودہ ترقی (اس وقت دس اور پندرہ لاکھ کے درمیان تعداد ہے) اور جماعت کی تنظیم ( کہ اس وقت اسے با قاعدہ انجمنیں قائم ہیں ).اور ان کا ۱۳ لاکھ روپیہ سالانہ بجٹ ہے.یہ سب آپ ہی کی برکت اور آپ کا ہی قابل تعریف کام ہے.جس وقت آپ مسند خلافت پر متمکن ہوئے اس وقت ایسا انتظام اور کام نہ تھا.آپ کی خلافت سے قبل ہندوستان سے باہر غیر ممالک میں کوئی مشن نہ تھا، سوائے لندن مشن کے.مگر اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف پینتالیس مشن ہی غیر ممالک یعنی انگلستان - شمالی امریکہ مغربی افریقہ.مشرقی افریقہ بلاد عربیہ.جزائر شرق الہند.ماریشس میں باقاعدہ کام کر رہے ہیں.[82]
بلکہ ۴۸ با قاعدہ جماعتیں بھی قائم ہیں.جو روز بروز ترقی کر رہی ہیں.اور ہر چڑھنے والا دن اپنے ساتھ ترقی اور مزید اضافہ کی خوشخبری لاتا ہے.ایک دن وہ بھی تھا کہ صدر انجمن احمد یہ قادیان کا صرف ایک سکرٹری ہی سکرٹری تھا مگر آج خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ دن ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کے یہ ماتحت آپ کی قائم کردہ متعد د نظارتیں ہیں.ہر ایک نظارت کا ایک ناظر ہے.جس کے ماتحت الگ الگ عملہ ہے.مگر کام اس قدر ہے کہ روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے.اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدْ.ایک دن وہ بھی تھا کہ جماعت احمدیہ کا کوئی اخبار قادیان سے نہیں نکلا کرتا تھا.پھر اس کے بعد قادیان سے الحکم.البدر اور تفخیذ بعدۂ الفضل اور دور سالے ریو یو آف ریلیجنز نکلا کرتے تھے.مگر آج خدا کے فضل سے وہ دن ہے کہ صرف قادیان سے ہی ۹ اخبارات ورسالہ جات نکل رہے ہیں.اور باقی ہندوستان.لندن.امریکہ.حیفا - فلسطین.مشرقی افریقہ.سماٹرا.ماریشس وغیرہ سے نکلنے والے اخبارات و رسالہ جات علیحدہ ہیں.ا (۱) نظارت تعلیم و تربیت.(۲) نظارت دعوة وتبلیغ.(۳) نظارت مقبرہ بہشتی.(۴) نظارت امور عامہ.(۵) نظارت امور خارجہ.(۶) نظارت خاص.(۷) نظارت بیت المال.(۸) نظارت ضیافت - (۹) صیغہ تحریک جدید.اور ان سب نظارتوں کی نگرانی کے لئے نظارت اعلیٰ ہے.[83]
بیعت کی رفتار اگر دیکھی جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے يَدْخُلُونَ فِي دینِ اللهِ أَفْوَاجًا.کا نظارہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.جلسہ سالانہ پر حاضری کی تعداد اگر دیکھی جائے تو يَتُونَ مِنْ كُلِّ فَةٍ عَمِيقٍ وَيَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کا نظارہ دیکھ کر ہر ایک احمدی شکر الہی میں سرشار اور محبت الہی کے نشہ میں مخمور ہو کر بے اختیار اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَ عَلَى مُطَاعِهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام کا ورد کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سب پیشگوئیاں مثلاً وہ ( آپ ) مسیح سے علیہ السلام کا مثیل ہوگا.قو میں اُس سے برکت پائیں گی.اور وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.آپ کے وجود باجو د میں ہمارے سامنے پوری ہو رہی ہیں.آپ کی معجزانہ تقاریر بچپن سے آج تک آپ کے دشمنوں کو ورطہ حیرت میں ڈال رہی ہیں.فصاحت و بلاغت کے علاوہ حقائق ومعارف کا دریا انڈتا ہوا معلوم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے جب سے آپ کو خلافت کے منصب پر فائز کیا ہے ہر خطبہ جمعہ اور ہر خطبہ نکاح نیا.ہر تقریرنئی ہے.اور ہر لیکچر نیا اور اچھوتا ہے.ا ترجمہ اللہ کے دین میں فوج در فوج لوگ داخل ہورہے ہیں.سے گزشتہ جلسہ سالانہ ۱۹۳۵ء پر آنے والوں کی تعداد.۴۰ ہزار کے قریب تھی.يُكَلِّمُ النَّاسُ فِي المَهْدِ وَ كَهْلًا اور آتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا - ہ ہستی باری تعالی.ملا گئے اللہ.تقدیر نہی.دنیا کا حسن.فضائل القرآن.ذکر الہی.[84]
ایک عرصہ ہوا کہ رمضان شریف کے آخر میں معوذتین ( قرآن شریف کی آخری دوسورتوں ) کا درس حضور سے سنتے چلے آرہے ہیں.مگر ہر سال نئے نئے حقائق اور نئے نئے معارف ہوتے ہیں.اور پھر تعجب پر تعجب کہ ظاہری تعلیم بھی.کوئی نہیں.اور تیاری و عدم تیاری کا کوئی سوال نہیں.تب بے اختیار یہی منہ سے نکل جاتا ہے.چوں دور آن شود تمام بکام پسرش یادگار می بینم اگر تحریر دیکھو تو آپ کے قلم کے آگے تلوار کیا حقیقت رکھتی ہے؟ جو کتابیں آپ نے لکھی ہیں وہ اپنا جواب آپ ہیں.قلم میں روانی کہ الامان اچھصہ شہزادہ ویلز پڑ ھو تو معلوم ہو کہ انجیل لکھ دی ہے.دعوۃ الامیر دیکھو تو علم کلام کا دریا کوزو میں بند کر دیا ہے.اگر احمدیت یعنی حقیقی اسلام پڑھوتو یہ معلوم ہو جائے گا کہ اگر اس زمانہ میں کسی کو اسلام کا اجمالی اور تفصیلی معلم ہے تو صرف آپ کو.غرضیکہ کوئی کتاب آپ کی تصنیف شدہ دیکھو ایک غیر معمولی طاقت پیچھے کام ا نعمت اللہ ولی مرحوم جون ۵۶ ھ میں گزرے ہیں وہ فرماتے ہیں.جب مسیح و مہدی موعود جس کا نام احمد ہو گا اُس کا دور پورا ہو جائے گا تو اس کے بعد اس کا بیٹا اس کی یادگار ہوگا.کے موجودہ ملک معظم ایڈورڈ ہشتم قیصر ہند.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ قیصرہ بحضور ملکہ معظمہ قیصرہ ہند پیش کیا اور حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے تحفہ شہزادہ ویلز.[85]
کرتی نظر آتی ہے جو دنیا میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی.وہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ.احمدیت وہی کتاب ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی ازالہ اوہام میں موجو د ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میں خاص شہر لندن میں ایک منبر پر تقریر کر رہا ہوں.یہ وہی پیشگوئی ہے جو آپ کے وجود باجود کے ذریعہ سے پوری ہوئی.جب آپ لندن تشریف لے گئے.اور آپ کی یہ تقریر کا نفرنس مذاہب عالم میں پڑھی گئی.اور یہ وہی کتاب ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اسلام کے متعلق ایک کتاب لکھی جائے.جس میں اسلام کو صیح طور پر پیش کیا گیا ہو.فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْاعَادِي وَقَطَعَ ا انُوْفَ الْأَعَادِي بِالْآيَادِي آپ کے ذریعہ سے دنیا کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ پہنچی ہے.اور آپ ہی وہ وجو د باجود ہیں جس نے دنیا کے کناروں تک شہرت پائی.اور آپ ہی کا وجود باجود ہے جس کے ذریعہ قوموں نے آپ کے حلقہ غلامی میں آکر اور آپ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا کر برکت پائی.وَنَحْنُ أَيْضًا مِّنْهُمْ فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ والصلواة وَالسَّلَامُ على رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ لے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تقریر تحریر فرمایا کرتے تھے اور پھر وہ مجمع میں پڑھی جایا کرتی تھی.حضور خود نہیں پڑھا کرتے تھے.بعینہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی یہ تقریر بھی ایسی ہے کہ کبھی آپ نے ہے اور پڑھنے والا آپ کا ایک خادم تھا.منہ [86]
قرآن شریف کی باتیں ا.اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرو.۲.اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو..اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندر پیدا کرو.۴.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہر فیصلہ مانو.۵.شعائر اللہ کی عزت کرو.۶.جس وقت قرآن کریم پڑھا جائے تو اُسے خاموش ہو کر سُنو.ے.لوگوں کے لئے نمونہ بنو.۸.جماعت سے کبھی الگ نہ ہو.۹.معاہدہ مت توڑو.۱۰.کسی مسلمان بھائی کو حقیر مت سمجھو.۱۱.نمازیں پابندی سے ادا کرو.۱۲.جھوٹی اور فضول قسمیں مت کھاؤ.۱۳.نیکیوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرو.۱۴.ہمساؤں اور مسافروں سے نیک سلوک کرو.۱۵.قتیموں کا مال مت کھاؤ.[87]
۱۶.دھوکہ سے کسی کا مال مت کھاؤ.۱۷.والدین، قریبی رشتہ دار، یتیموں اور مسکینوں پر اپنے اموال خرچ کرو.۱۸.کوئی ایسی چیز لاٹھی، تلوار وغیرہ ضرور تمہارے پاس ہونی چاہئے جس کے ذریعہ تم دشمن کے حملہ کو دور کر سکو اور اپنی حفاظت کر سکو.۱۹.سست اور کاہل مت بنو.۲۰.دشمن کے مقابلہ کے لئے خوب تیار رہو.حدیث شریف کی باتیں ا.امام جو حکم دے وہی کرو.۲.ہر مسلمان کی خیر خواہی کرو.۳.بدظنی مت کرو.تجسس مت کرو.۵.بلا اجازت کسی کے گھر مت جاؤ.اگر جانا چاہو تو صاحب خانہ سے پہلے [88]
اجازت لو..جب تمہارے پاس کوئی معزز آدمی آئے تو اس کی عزت کرو.ے.دشخص ہوں تو ان میں سے ایک کو علیحدہ کر کے اس سے بات مت کرو..دو شخص باتیں کر رہے ہوں تو تم خواہ مخواہ ان میں دخل مت دو.۹.اگر تم سفر کر رہے ہو تو ایک کو اپنا امیر بنالو.۱۰.بیواؤں، قیموں اور مسکینوں کی خبر گیری اور پرورش کرو..کھانا تھوڑا کھاؤ.دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور پانی بھی دائیں ہاتھ سے ہو.۱۲.مہمان کو کھانا کھلاؤ.۱۳.میزبان کے پاس اتنی دیر مت ٹھہرو کہ اسے تکلیف ہو.۱۴.کسی کی جھوٹی تعریف مت کرو.۱۵.لوگوں کو خوش کرنے کے لئے جھوٹی بات مت کرو.۱۶.بیہودہ بکواس مت کرو.۱۷.نیک بات کرو ورنہ خاموش رہو.۱۸.جہاد کرو.۱۹.ایک جگہ سے دو دفعہ مت دھو کہ کھاؤ.۲۰.صحت اور فراغت کی قدر کرو.[89]
دعا اسلام کا ایک نہایت ہی اہم جزو ہے.جو شخص دعا نہیں کرتا وہ دعا کی حقیقت سے ہی ناواقف ہے.کیونکہ دعا ہی وہ حربہ ہے جس سے ہر کام سرانجام پاسکتا ہے.کتنا ہی مشکل سے مشکل یا بڑے سے بڑا یا ناممکن سے ناممکن کام ہی کیوں نہ ہو وہ دعا کے ذریعہ ہوسکتا ہے.کیونکہ ہمارا خدا ایک قادر خُدا ہے.وہ جو چاہے کرسکتا ہے.کوئی چیز اس کے آگے مشکل نہیں.صرف بندہ کو اس کے در پر گرنے کی ضرورت ہے.وہ بڑا اَرْحَمُ الرّاحمين خدا ہے.وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کوسنتا ہے اور ان کو قبول کرتا ہے.جب ہمارا خدا ایسا قادر خدا ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کے آگے سر بسجود نہ ہوں اور اپنی ہر ضرورت اس سے نہ مانگیں؟ یاد رکھو! کوئی کام سرانجام نہیں ہو سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو.اور اس کی مدد کو شامل حال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس سے مدد مانگیں.پس ہر وقت دعا مانگنا اور ہر کام کرتے وقت اس سے مدد طلب کرنا ہمارا فرض ہے.تا ہمارا ہر کام احسن طریق پر سر انجام اور بابرکت ہو سکے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّا كَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّا لِّيْنَ.(آمين) خاکسار چودھری محمد شریف مولوی فاضل قادیان [90]
۴.درس توحید (از حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ا.اک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہوگی تجھے دنیائے فانی ایک دن ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا رنج و غم یاس و الم فکرو بلا کے سامنے -۴ بارگاہ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل گشا کے سامنے -۵ حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دُوئی! سر جھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے ے.چاہیئے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار ایک دن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے [91]
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نائب نا ظر تعلیم و تربیت فرماتے ہیں ”مولوی محمد عنایت اللہ صاحب نے ایک سلسلہ کتب اسلام شائع کیا ہے.یہ کتب مولوی محمد شریف صاحب مولوی فاضل کی تصنیف کردہ ہیں.اس سے قبل ہماری جماعت میں اس نوعیت کی کتب شائع نہیں ہوئیں.میں امید کرتا ہوں کہ یہ کتب نہ صرف بچوں کے لئے مفید ہوں گی بلکہ بڑی عمر کے لوگ بھی ان سے مستفید ہوسکیں گے.اس سلسلہ کتب میں اسلامی مسائل کے علاوہ اسلامی تاریخ بھی شامل ہے.اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خصوصی مسائل بھی ساتھ ساتھ بیان کئے گئے ہیں“.لے دیگر بزرگان کرام کی سلسلہ کتب اسلام کے متعلق شاندار آراء اسلام کی دوسری تیسری اور چوتھی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں.منہ [92]
سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ جماعت احمدیہ کے تیسرے امام سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے (آکسن ) رحمۃ اللہ علیہ ۱۶/ نومبر ۱۹۹۹ء کو پیدا ہوئے.آپ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتے اور سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے.بچپن سے ہی آپ کی تربیت ام المومنین حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا کی آغوش شفقت میں ہوئی.۱/۱۷اپریل ۱۹۲۲ء کوصرف تیرہ (۱۳) سال کی عمر میں آپ نے قرآن کریم حفظ کیا اور عربی واردو کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.جولائی ۱۹۲۹ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا اور ۱۹۳۴ ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کیا.اگست ۱۹۳۴ء میں آپ کی شادی حضرت سیدہ نواب منصورہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور ۳ / دسمبر ۱۹۸۱ء کو حضرت سیدہ موصوفہ کی [93]
وفات کے بعد ا ا ر اپریل ۱۹۸۲ء کو آپ نے محترمہ سیدہ ڈاکٹر طاہرہ صدیقہ صاحبہ بنت محترم خان عبدالمجید خان صاحب سے عقد ثانی فرمایا.۶ /ستمبر ۱۹۳۴ء کو آپ مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان تشریف لے گئے اور آکسفورڈ یو نیورسٹی سے بی.اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 9 نومبر ۱۹۳۸ء کو واپس قادیان تشریف لائے.قبل از خلافت ممتاز جماعتی خدمات یورپ سے واپس تشریف لانے کے بعد سے لے کر منصب خلافت پر متمکن ہونے تک آپ نے مختلف وقتوں میں پروفیسر و پرنسپل جامعہ احمدیہ صدر و نائب صدر مجلس خدام الاحمد یه مرکزیہ، پر نیل تعلیم الاسلام کالج، صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ، صدر صدر انجمن احمد یہ اور متعدد دوسری حیثیتوں سے جماعت کی ممتاز اور نمایاں خدمات انجام دیں.انتخاب خلافت حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات کے بعد ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو مجلس انتخاب خلافت نے آپ کو خلیفہ اسیح الثالث منتخب کیا جس سے بنی اسرائیل کی مشہور حدیث طالمود کی پیشگوئی کہ جب مسیح فوت ہوگا تو اس کی روحانی بادشاہت پہلے اس کے بیٹے اور پھر اس کے پوتے کو ملے گی حرف بحرف پوری ہوئی.[94]
با برکت تحریکات سید نا حضرت خدیه امسیح الثالث نے اپنے بابرکت دور خلافت میں جواہم تحریکات جاری فرما ئیں اُن میں سے بعض کے نام یہ ہیں :- (۱) دفتر سوئم تحریک جدید کا اجراء.(۲) فضل عمر فاؤنڈیشن فنڈ.(۳) نصرت جہاں ریزروفنڈ.(۴) لیپ فارورڈ پروگرام.(۵) تعلیم القرآن اسکیم.(۶) تحریک وقف جدید کی مالی ذمہ داری بچوں پر.(۷) صد سالہ جو بلی فنڈ.(۸) بدرسوم کے خلاف جہاد.(۹) مجلس موصیان کا قیام.(۱۰) ریٹائر ڈ ا حباب کو وقف جدید میں کام کرنے کی تحریک.(۱۱) تسبیح وتحمید اور درود شریف پڑھنے کی تحریک.(۱۲)سورہ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کرنے کی تحریک.تائید ونصرت الہی خلافت ثالثہ کے بابرکت عہد میں جماعت نے تائید ونصرت الہی کے بے شمار نشان مشاہدہ کئے.مثلاً (۱) گورنر جرنل گیمبیا سرایف سنگھاٹے کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ذریعہ حضور علیہ السلام کی پیشگوئی کہ میرے فرقہ کے لوگ علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے بڑی شان سے پوری ہوئی.(۲) ۱۹۶۷ء میں حضور نے ممالک یورپ کا [95]
اورت ۱۹۷ء میں ممالک مغربی افریقہ کا انتہائی کامیاب اور بابرکت سفر فرمایا.(۳) گوٹن برگ (سویڈن)، سرینگر (بھارت)، پیڈ روآباد (اسپین)، اوسلو(ناروے) اور بہت سے دوسرے مقامات پر عالیشان مساجد اور مشن ہاؤسوں کی تعمیر ہوئی.(۴) لنڈن میں عالمی کسر صلیب کا نفرنس کا انعقاد عمل میں آیا.(۵) مختلف زبانوں میں قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کی وسیع پیمانہ پر اشاعت ہوئی.(۶) ادا ئیگی حقوق طلباء کے بابرکت نظام کا اجراء عمل میں آیا.(۷) مرکز سلسلہ میں متعد دنئی عمارات کی تعمیر اور نئے اداروں کا قیام ہوا.پاکستان میں شدید مخالفت پاکستان کی قومی اسمبلی نے ہے ؟1 ء میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کیا.احمدیوں کو شہید کیا گیا.ان کا بائیکاٹ کیا گیا.جماعت کو حوصلہ مند اور استقامت پر قائم رکھنے اور حکومت کی پشت پناہی سے علماء وعوام کے شدید مظالم کا نصرت الہی سے آپ نے کامیاب مقابلہ فرمایا جس سے جماعت میں معتد بہ اضافہ تعداد میں اور تبلیغی اور مالی قربانیوں میں ہوا.وفات قریبا سترہ سال تک جماعت کی بہترین قیادت فرمانے کے بعد آپ ۹/۸ جون ۱۹۸۲ ء کی درمیانی شب اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.[96]
سیدنا حضرت مرزا طاہر احد خلیفة المسیح الرابع جماعت احمدیہ کے موجودہ امام سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں.آپ کی ولادت ۱۸؍ دسمبر ۱۹۲۸ء کو ہوئی.پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور جامعہ احمدیہ ربوہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ آپ نے قریبا دو سال یورپ میں بھی تعلیم حاصل کی.فارغ التحصیل ہونے کے بعد سے لیکر مسند خلافت پر جلوہ افروز ہونے تک حضور نے یکے بعد دیگرے صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ، صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ، ناظم وقف جدید انجمن احمد یہ اور متعدد دوسرے اہم عہدوں پر فائز رہ کر جماعت کی مثالی خدمات انجام دیں.آپ رکن مجلس بھی تھے.آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اعلیٰ پایہ کے مصنف، جادو بیان مقر راور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل قائد ہیں.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد مجلس انتخاب خلافت کے ذریعہ 9 جون ۱۹۸۲ء کو بحیثیت خلیفہ اسیح الرابع آپ کا با برکت انتخاب عمل میں آیا.گویا اس وقت آپ کو اس منصب جلیلہ پر فائز ہوئے قریبا ساڑھے چار سال کا عرصہ ہو رہا ہے.اس دوران پاکستان میں جماعت [97]
احمد یہ کوعلماء اور حکومت کی طرف سے شدید مخالفت اور ظالمانہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا جن کے باعث حضور انور اور جماعت کے بہت سے احباب کو ترک وطن کرنے پر مجبور ہونا پڑا انگر حضور کی اولوالعزم قیادت کے طفیل جماعت احمدیہ کو گزشتہ ساڑھے چارسالوں میں جو نمایاں کامیابیاں اور ترقیات حاصل ہوئی ہیں وہ اپنی شان میں بے نظیر ہیں.اس وقت حضور انورلنڈن میں فروکش ہیں.تائیدات الهیه اس عرصہ کی تمام تائیدات الہیہ کا شمار کرنا اس جگہ مشکل ہے.قرآن مجید کے متعدد زبانوں میں تراجم توسیع تبلیغ و تربیت کے پروگرام.یورپ.کینیڈا.امریکہ.آسٹریلیا وغیرہ ممالک میں احمدیہ مشنوں کے وسیع قطعات کی خرید.خلافتِ ثالثہ میں اسپین میں ساڑھے سات صد سال کے بعد جو پہلی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی.آپ نے اس کا شاندار افتتاح فرمایا.آسٹریلیا.تھی.سنگا پور اور سری لنکا ممالک میں آپ پہلے خلیفہ ہیں جو تشریف لے گئے.آپ نے یورپ.امریکہ اور کینڈا کے بھی دورے فرمائے.اب دنیا بھر میں مساجد کا قیام تیزی سے فرمار ہے ہیں اور صد سالہ جو بلی ۱۹۸۹ء میں منانے کی کاروائیاں بھی جو بن پر ہیں.اللہ تعالیٰ پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور اس فتح کی صدی میں کامیاب و کامران فرمائے.اور تمام شرور سے محفوظ و مامون رکھتے.آمین [98]