Islam Book 4

Islam Book 4

اسلام کی کتب (چوتھی کتاب)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
بچوں کے لئے

Book Content

Page 1

اسلام سے نہ بھا گو راہِ ہدی یہی ہے اے سونے والو جا گوشس الٹی ہی ہے بچوں کے لئے ) اسلام کی چوتھی کتاب از چوہدری محمد شریف صاحب مولوی فاضل قادیان الناشر: نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان

Page 2

نام کتاب مصنف طبع اول کمپوز ڈایڈ یشن باراول حالیہ اشاعت مقام اشاعت تعداد شاعت ناشر مطبع : اسلام کی چوتھی کتاب چوہدری محمد شریف $1986: $2013 : $2016 : : قادیان 1000 : نظارت نشر واشاعت صدر انجمن احمد سیہ قادیان، ضلع گوراد سپور، پنجاب 143516 ، انڈیا فضل عمر پرنٹنگ پریس قادریان ISBN: 978-81-7912-364-5 Islam Ki Chothi Kitab by Choudary Muhammad Shareef Maulvi Fazil

Page 3

بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ عرض ناشر اسلام نام ہے اس دین کا اور اس طریقے پر زندگی گزارنے کا جو اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی سالیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے تھے اور جو قرآن شریف میں اور حدیث النبوی میں بتلایا گیا ہے اور حضور اکرم نے اپنے عملی نمونہ سے ہمیں سکھایا ہے.دین کا سیکھنا اور اسلام کی ضروری باتوں کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.دینی علوم حاصل کرنے والوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی اکرم نے فرمایا ہے کہ : مَنْ يُرِدُ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقَّةُ فِي الدِّينِ ( بخاری ) جس کو اللہ تعالیٰ بھلائی اور ترقی دینا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے.پس بچپن سے ہی دین اسلام کو سکھنے اور اس کی ضرورت اور بنیادی باتوں کے علم حاصل کرنے کا شوق دل میں پیدا ہونا چاہئے اور احکام اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں کو سنوارنے کی کوشش کرنے کی عادت بھی پیدا ہونی چاہئے.اور بچپن سے ہی بچوں میں دینی تعلیم ، اللہ اور اسکے رسول کی محبت اور غیرت کو راسخ کرنا چاہئے.محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم نے بڑی خوش اسلوبی اور عمدہ و آسان پیرائے میں اسلام کی بنیادی مسائل اور احمدیت کی مختصر تاریخ پر مشتمل پانچ کتب اسلام کی پہلی تا پانچویں کتاب سلسلہ وار تصنیف فرمائی ہیں.یہ کتب جہاں بچوں کی دینی تعلیم کے لئے نہایت دلچسپ ہیں وہاں بڑی عمر کے احباب بھی اس سے ضرور استفادہ کر

Page 4

سکیں گے.اللہ تعالیٰ محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور ان کی تصنیف کردہ ان کتب کی اشاعت کو ان کے لئے خَيْرَ مَا يَخْلُفُ الرَّجُلُ میں سے بنائے.آمین محترم مولانا موصوف کی تصنیف کردہ اسلام کی پانچوں کتب پہلی بار ۱۹۸۶ ء میں قادیان میں شائع ہوئی تھیں.اب کمپوز ڈایڈ لائن ۲۰۱۳ء میں سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے من وعن شائع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو سید نا حضور انور کے اعلیٰ تو قعات کے مطابق نونہالان جماعت کی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

پیش لفظ طبع دوم محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبشر بلا د عربیه وایڈیٹر رسالہ ”البشری ( فلسطین) کی سلسلہ وار تصنیف ”اسلام کی پہلی تا پانچویں کتاب احمدی بچوں اور بچیوں کی دینی وتربیتی ضروریات کو پورا کرنے کے اعتبار سے بفضلہ تعالیٰ بہت مفید ثابت ہوئی ہے.جماعت ہائے احمد یہ بھارت کی ضرورت کے پیش نظر اسے وقف جدید انجمن احمد یہ قادیان کی طرف سے دور حاضر کے تقاضوں اور معیار کے مطابق شائع کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نونہالان احمدیت کو اس سے بیش از بیش استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین سیدنا حضرت خلیفتہ انسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ و سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے حالات کا اضافہ خاکسار کے ذریعہ ہوا ہے.خاکسار ملک صلاح الدین ایم اے انچارج وقف جدید انجمن احمد سید قادیان ۲۰ نومبر ۱۹۸۶

Page 6

1 أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِي وَعَلَى عَبْدِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود هو الناصر اسلام کی چوتھی کتاب زكوة اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن زکوۃ ہے.زکوۃ عربی زبان میں پاک ہونے اور بڑھنے کو کہتے ہیں.اصطلاح شریعت میں اس مال کو کہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے ماتحت اپنے مال سے خدا کی راہ میں دیا جاتا ہے.ہر عاقل بالغ شخص پر ( خواہ مرد ہو یا عورت ) جس کے پاس اس قدر نصاب ہو جتنا شریعت نے مقرر کیا ہے زکوۃ فرض ہے.جس شخص پر زکوۃ فرض ہوا سے چاہیئے کہ وہ شریعت کے حکم کے مطابق زکوۃ ادا کرے.اللہ تعالیٰ اس کے مال کو بڑھائے گا.اور اس پر خوش ہو گا.لیکن جس شخص پر زکوۃ فرض ہے اور وہ ادا نہیں کرتا تو وہ مسلمان نہیں.اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتا ہے اور قیامت کے دن اس کو بڑے بڑے عذابوں میں مبتلاء کرے گا.اور کسی نہ کسی وقت ضرور اس کا

Page 7

مال تباہ ہو جائے گا.2 یہ خیال غلط ہے کہ زکوۃ ادا کرنے سے مال کم ہو جائے گا.مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ زیادہ ہوتا ہے.ہمارے کام آنے والا مال وہی ہے جس کو ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.جس مال میں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کیا جاتا وہ مال کسی کام کا نہیں.اور قیامت کے دن وبال جان بن جائے گا.جو لوگ خدا کی راہ میں اپنا مال اور اپنی جان خرچ کرتے ہیں اُن کی اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت تعریف کی ہے.اور جو لوگ بخل سے کام لیتے ہیں اور اس کی راہ میں اپنا مال اور جان خرچ نہیں کرتے ان پر اللہ تعالیٰ نے بہت ہی ناراضگی کا اظہار کیا ہے.اُن کو کبھی حقیقی خوشحالی نصیب نہیں ہوتی.اور نہ وہ آرام اور چین سے اپنی زندگی بسر کر سکتے ہیں.بلکہ ہر وقت تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں.رات دن ان کو ان کے مال کا غم اور فکر کھاتا چلا جاتا ہے اور ہر وقت اسی تجویز میں رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کا مال اور بڑھ جائے.آخر کسی دن موت آجاتی ہے اور ان کا خاتمہ کر دیتی ہے.اور وہ عذاب الہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اور وہی مال جسے وہ خدا کی راہ میں بھی خرچ نہیں کرتے تھے دوسروں کے قبضہ میں چلا جاتا ہے.اور وہ اُسے بے دردی سے اُڑا دیتے ہیں.اور قصہ ختم ہو جاتا ہے.لیکن جو لوگ اللہ تعالی کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے.اُس سے

Page 8

3 تعلق بڑھتا ہے.گناہ بخشے جاتے ہیں.مخلوق الہی سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے.ایثار پیدا ہوتا ہے.حرص اور بخل دور ہو جاتے ہیں.قربانی کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے.مال میں برکت ہوتی ہے.اور وہ پاک ہو جاتا ہے.اور انہیں حقیقی خوشحالی ، آرام اور چین نصیب ہوتا ہے اور مرنے کے بعد جنت میں داخل کئے جاتے ہیں.یاد رکھنا چاہیئے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے وہ دراصل اپنے لئے ہی خرچ کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کسی کے مال کا محتاج نہیں.بلکہ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ میرے بندے کہاں تک میرے احکام بجالاتے ہیں.اور کہاں تک میری فرمانبرداری کرتے ہیں.اس لئے جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے وہ نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا ، حلال اور اپنی پاک کمائی کا مال ہونا چاہیئے.اور ساتھ ہی نیت بھی پاک اور صاف ہونی چاہئے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنَيَاتِ نصاب زکوة چاندی ،سونا، سگے (روپیہ، کرنسی نوٹ وغیرہ) اونٹ، گائے، بیل، بھینس، بکری، بھیٹر ڈنبہ (خواہ نر ہوں یا مادہ) تمام غلوں، کھجور، انگور اور مال تجارت پر جب وہ شریعت کی مقرر کی ہوئی مقدار کے مطابق ہوں.اور مالک کے پاس

Page 9

4 ایک سال رہیں تو ان پر زکوۃ فرض ہے.ان میں سے ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ حد مقرر ہے.اسی مقرر کردہ حد کو نصاب کہتے ہیں.چاندی سونے کی زکوۃ چاندی اور سونے میں سے چالیسواں حصہ زکوة کی شرح مقرر ہے.ان ہر دو کا نصاب علیحدہ علیحدہ ہے.چاندی کا نصاب ۵۲ تولے ۶ ماشے ہے.اور سونے کا نصاب سے تولہ ۶ ماشہ ہے.یعنی جب کسی شخص کے پاس ۵۲ تولہ چاندی یا پے تولہ سونا ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ چاندی میں سے ۱۵ ماشے اور سونے میں سے ۲ ماشے ۲ رتی زکوۃ میں ادا کرے.آجکل کے روپئے بھی چاندی میں ہی شمار کر کے زکوۃ ادا کرنی ہوگی.پس جس کے پاس ۵۲ روپئے ۸ آنے ہوں.اُس پر ایک روپیہ ۵ آنے زکوۃ ادا کرنا فرض ہے.اشرفیوں اور کرنسی نوٹوں کا بھی اسی طرح حساب کر کے زکوۃ ادا کی جائے گی.زیوروں کی زکوۃ اگر عورتیں اپنے زیوروں کو پہنے رکھتی ہوں یا غریب لوگوں کو عاریہ پہنے کے لئے دے دیتی ہوں تو ان پر کوئی زکوۃ نہیں.لیکن اگر وہ اسی طرح پڑے رہتے ہوں اور کسی کو عاریہ بھی نہ دئے جاتے ہوں تو ان پر سونے اور چاندی

Page 10

5 کے حساب سے زکوۃ فرض ہوگی.اونٹوں کی زکوۃ پانچ اونٹوں سے کم پر زکوۃ نہیں لیکن اگر کسی شخص کے پاس پانچ اونٹ ہوں تو زکوۃ فرض ہو جاتی ہے.بشرطیکہ وہ جنگل میں چرتے ہوں.اور ان سے لا د نے یا جو تنے کا کام نہ لیا جاتا ہو.اونٹوں کی زکوۃ کی شرح حسب ذیل ہے: اونٹ سے لے کر ۹ اونٹ تک ایک بکری زکوۃ میں دینا فرض ہے ۱۴ دو بکریاں " "/ " // ایک اونٹنی اسال کی // ۱۹ // ۱۵ 11 ۲۴ ۳۵ ۲۵ ۴۵ // // // // My "/ // // N // // ۷۵ " // 71 // ۲ اونٹنیاں ۲ // // // // 24 " // ۱۲۰ // 91

Page 11

6 اگر ۱۲۰ سے زیادہ اونٹ ہوں تو یہ شرح ہوگی: ہر (۴۰) چالیس اونٹ میں ایک ۲ سال کی اونٹنی ہر پچاس اونٹ میں ایک ۳ سال کی اونٹنی گائے اور بھینسوں کی زکوۃ اگر کسی شخص کے پاس ۲۹ گائے بیل یا بھینسیں ہوں تو اس پر زکوۃ فرض نہیں.لیکن اگر ۳۰ ہوں تو زکوۃ فرض ہوجاتی ہے.کیونکہ گائے ،ہیل اور بھینسوں کی زکوۃ کے لئے یہ حد مقرر ہے.بشرطیکہ وہ جنگل میں چر کر خوراک حاصل کرتے ہوں.اور جو تنے یا لادنے کا کام ان سے نہ لیا جاتا ہو.گائے ،ہیل اور بھینس کی زکوۃ کی شرح حسب ذیل ہے: ۳۰ گائے بھینس سے لے کر ۳۹ تک ایک گائے ایک سال کی دینا فرض ہے." ۱ / ۵۹ // ۴۰ " // // ۲۶۹ // // // // ۶۰ " // 19 // اور ایک ۲ سال کی ۲ // اور دوا یک // // ۲ // اور ایک اسال کی // ۹۰ "/ // 1.9 " " " 1++ ۲ / ۱۱۹ " " 11 •

Page 12

7 ۱۲۰ گائے بھینس سے لے کر ۱۲۹ تک ۴ گائے ایک سال کی یا۲،۳ سال کی بھیڑ ، بکری اور دُنبہ کی زکوۃ اگر کسی کے پاس ۴۰ سے کم بھیڑ ، بکریاں وغیرہ ہوں تو ان پر کوئی زکوۃ نہیں.لیکن اگر ۴۰ ہوں تو زکوۃ فرض ہو جاتی ہے.کیونکہ ان کی زکوۃ کے لئے ۴۰ کی حد مقرر ہے.بشرطیکہ وہ جنگل میں چر کر اپنی خوراک حاصل کرتی ہوں.بھیڑ ، بکری، دنبہ وغیرہ (خواہ رہوں یا مادہ) کی زکوۃ کی شرح حسب ذیل ہے: ۴۰ سے ۱۲۰ تک ابکری دینا فرض ہے //۲۰۰ // ۱۲۱ ۲ بکریاں ۳ بکریاں " ۱۳۰۰ او پر ہر سینکڑہ پر ایک بکری دینا فرض ہے.لیکن اگر سینکڑہ پورا نہ ہو تو اس زائد کسر پر کوئی زکوۃ نہیں.مثلا ۴۹۹ پر صرف ۴ بکریاں ہی زکوۃ میں دینا فرض ہوگا.غلوں کی زکوۃ تمام مغلوں مثلاً گندم، جو، چنے ، جوار، باجرہ ملکی پر زکوۃ فرض ہے.بشرطیکہ

Page 13

8 وہ ۲۲ من ۲۵ سیر پختہ سے کم نہ ہوں.کیونکہ غلوں کی زکوۃ کے لئے ۲۲ من ۲۵ سیر حد مقرر ہے.غلوں کے لئے دسواں یا بیسواں حصہ مقرر ہے.دسواں حصہ اُن غلوں پر فرض ہے جن کی پرورش بارش، دریا یا نالے وغیرہ کے پانی سے (جس پر کوئی قیمت خرچ نہ کی گئی ہو ) ہوئی ہو.بیسواں حصہ ان غلوں پر فرض ہے جن کی پرورش پانی خرید کر یا کنویں وغیرہ کے پانی سے کی گئی ہو.کھجوروں اور انگوروں کی زکوۃ کھجوروں اور انگوروں کا نصاب بھی ۲۲ من ۲۵ سیر پختہ ہے.ان کا دسواں حصہ زکوۃ میں دینا فرض ہے.ان کی زکوۃ ادا کرنے کا یہ طریق ہے کہ اگر یہ درخت پر ہوں تو اندازہ کر لیا جائے.اور اگر اتار لئے گئے ہوں تو وزن کر کے جس قدر ز کوۃ فرض ہوا ان کے برابر خشک کھجور اور انگور دیدئے جائیں.مال تجارت کی زکوۃ مال تجارت کے راس المال اور اس کے اُس نفع پر جو سال بھر میں ہوا ہو ( خواہ یہ نفع نقدی یا جنس کی صورت میں ہو یا کسی پر قرض ہوجس کے وصول ہونے کی غالب امید ہو ) زکوۃ فرض ہے.

Page 14

9 رأس المال پر سال گزرنے پر نفع کو بھی اس میں شامل کر کے (اگر چہ اس نفع پر ابھی سال نہ گزرا ہو ) زکوۃ ادا کرنا واجب ہے.لیکن اگر نفع ایسے قرضہ کی صورت میں ہوجس کے وصول ہونے کی کوئی امید نہ ہو تو اس کو راس المال میں شامل نہیں کیا جائے گا.اور اگر وہی قرضہ کسی وقت وصول ہو جائے تو پھر اس کی زکوۃ ادا کرنا بھی واجب ہے.(1) ضروری باتیں ہر مال پر مالک کے پاس سال گزرنے کے بعد زکوۃ فرض ہوتی ہے.لیکن غلوں پر ان کی برآمدگی پر ہی زکوۃ واجب ہو جاتی ہے.ان میں سال شرط نہیں.ا غلوں اور باقی مالوں میں یہ بھی فرق ہے کہ غلوں پر ایک ہی دفعہ زکوۃ فرض ہوتی ہے.خواہ وہ مالک کے قبضہ میں کتنی دیر ہی کیوں نہ رہیں.لیکن باقی مال جب تک بقدر نصاب باقی ہوں ان پر ہر سال زکوۃ واجب ہوتی ہے.(4) جو حصہ زکوۃ میں شریعت کو دیا جانا ہو.اگر وہ موجود نہ ہو.یا اگر اسے مال سے جدا کیا جائے اور مال کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہو تو اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے.(۳) اگر سال کے آخر میں مال کم یا زیادہ ہو جائے لیکن بقدر

Page 15

10 نصاب ( اس قدر مال کہ اُس پر زکوۃ فرض ہو ) موجودر ہے تو آخر سال پر جس قدر مال موجود ہو گا اسی کے حساب سے اس پر زکوۃ لگائی جائے گی.اور اگر سال کے درمیان میں تمام مال بالکل ختم ہو جائے.اور پھر سال کے آخر میں دوبارہ حاصل ہو جائے تو اس کا سال اس کے دوبارہ حاصل ہونے کے وقت سے ہی سمجھا جائے گا.(۴) سال سے مراد قمری سال ہے.شمسی سی سال مراد نہیں.زکوۃ کے معاملہ میں ہر شخص کا سال اسی وقت سے شروع سمجھا جاتا ہے جب اس کے پاس اس قدر مال ہو جائے جس پرز کو ۃ واجب ہوتی ہے.(۵) مقروض پر اس وقت زکوۃ فرض ہوگی جب اس کا مال قرضہ کو نکال کر بقدر نصاب باقی رہے.لیکن اگر قرضہ مال کے برابر ہو یا زیادہ ہو تو مقروض پر کوئی زکوۃ نہیں.(1) وہ جانور جو ز کوۃ میں دئے جائیں.بیمار عیب دار اور ناقص نہیں ہونے چاہیئیں اور نہ اعلیٰ چیدہ جانور.(<) نابالغ اور مجنون کے مال پر بھی زکوۃ فرض ہے.اس کی طرف سے اس کے متولی کوز کو ۃ ادا کرنی چاہیئے.اگر کسی شخص کو کوئی دفینہ ملے تو اس کا پانچواں حصہ زکوۃ میں ادا کرنا فرض ل چاند کے لحاظ سے سال سے سورج کے لحاظ سے سال سے زمین میں دبایا ہوا مال

Page 16

11 ہے.(۸) صدقہ الگ چیز ہے اور زکوۃ الگ چیز ہے.اسی طرح چندہ عام، چندہ وصیت اور باقی ہر قسم کے چندے بھی الگ چیز ہیں.زکوۃ میں شامل (۹) جب امام وقت موجود ہو تو زکوۃ اس کے پاس ادا کرنی چاہیئے.امام وقت اس کو لے کر خود اس کے حق داروں یعنی محتاجوں وغیرہ پر خرچ کرے گا.(۱۰) ہر احمدی پر فرض ہے کہ وہ زکوۃ کا مال اور روپیہ بیت المال صدر انجمن احمد یہ قادیان دارالامان میں داخل کرے.مصارف زکوة مصارف زکوۃ یعنی جن جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کا مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے.مندرجہ ذیل ہیں : ۲..فقیر مسكين زکوۃ کو وصول کر کے لانے والے لوگوں کی تنخواہیں.نومسلم

Page 17

.غلاموں کا آزاد کرانا 12 جن لوگوں پر ایسا قرضہ یا جرمانہ ہو جسے وہ ادا نہ کر سکتے ہوں اُسے ادا کرنا _^ اشاعت اسلام مسافر حج اسلامی عبادتیں یا خادمانہ رنگ رکھتی ہیں یا عاشقانہ حج عاشقانہ عبادت ہے.اور اسلام کے ارکان میں سے پانچواں رکن ہے.یہ مالی اور بدنی عبادت ہے.ہر رمسلمان پر جو حج کرنے کی طاقت رکھتا ہو عمر میں ایک بار حج کرنا فرض ہے.اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت حج کے مہینوں یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحج میں بیت اللہ شریف کی طرف جانے کو جو ملک عرب کے پاک شہر مکہ معظمہ میں موجود ہے حج کہتے ہیں.حج بڑی اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے.اگر حج اُن تمام شرطوں کے مطابق کیا جائے جو اس کے لئے مقرر ہیں تو اللہ تعالیٰ حج کرنے والے (حاجی) کے گناہ بخش دیتا ہے اور ایسا حج کرنے والے سے اللہ تعالیٰ بہت محبت کرتا ہے.

Page 18

13 حج میں اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہوتی ہے.اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی قربانی کو ضائع نہیں کرتا.بلکہ قیامت تک اس کا نام زندہ رکھتا ہے اور اس پر اپنے بڑے بڑے انعام واکرام کرتا ہے.حج کرنے سے اللہ تعالیٰ کی قدرت یاد آتی ہے کہ اس نے بیت اللہ شریف کو جو سر زمین عرب میں واقعہ ہے.کس طرح عربات دی ہے کہ یہ سارے جہان کا قبلہ ہے اور ہر سال دنیا کے چاروں طرف سے لوگ اس کی زیارت کے لئے اپنا مال خرچ کر کے اور تکلیفیں برداشت کر کے اللہ تعالیٰ کی اس آواز پر کہ ”حج کے لئے آؤ لبيك لبيك (حاضر ہیں! حاضر ہیں) کہتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں.اور اس کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں.بیت اللہ شریف اور حرم میں کی ہوئی دعائیں قبول ہوتی ہیں.اور دنیا کے تمام علاقوں کے لوگوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کی قربانی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو انہوں نے خدا کے حکم سے کی.جس کی وجہ سے آپ کا نام خلیل اللہ رکھا گیا.اس چشمہ ( چاہ زمزم ) کی بھی زیارت ہو جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت دکھانے کے لئے اور تمام دنیا کے لئے نشان بنانے کے لئے اپنی فرمانبردار حضرت ہاجرہ کے لئے جس نے اس کے حکم سے ہجرت کی.اس کے معصوم بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے ریگستان عرب میں فوز اجاری کر دیا.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک وطن کی بھی زیارت ہو جاتی ہے.جس میں آپ نے اپنی پاک زندگی کے

Page 19

14 ۵۳ سال گزارے.جو دینِ اسلام کا سر چشمہ ہے.جہاں رمضان کے بابرکت مہینہ میں قرآن شریف نازل ہوا.اور اُن تمام مقامات مقدسہ کی بھی زیارت ہو جاتی ہے جہاں آپ پر وحی نازل ہوتی رہی.اور جہاں سے آپ خدا کی خاطر اور اس کے حکم سے ہجرت کر کے مدینہ شریف کی طرف روانہ ہو گئے جہاں آپ پر ایمان لانے والوں نے ہر قسم کی تکالیف اللہ تعالیٰ کی خاطر برداشت کیں.اور اپنا پیارا وطن ، گھر بار، عزیز وقریبی رشتہ دار اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑ کر حبشہ اور مدینہ کی طرف چلے گئے.جو اس کی زبان سے مہاجرین ( اپنا سب کچھ اللہ تعالی کی خاطر چھوڑ کر چلے جانے والے) کہلائے.جن کو خدا کی زبان سے طا رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کا خطاب ملا اور جنت میں داخل کئے گئے.حج کرنے کے بعد مدینہ منورہ کی بھی جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری دس سال گزارے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں نہایت محبوب شہر ہے.جہاں خدا کا پیارا اور برگزیدہ نبی آج تک اس پاک زمین میں آرام کر رہا ہے.جہاں آپ کے ساتھ آپ کے دو خلیفے اور اصحاب " بھی آپ کے پہلو میں جس طرح دنیا میں آخر وقت تک آپ کے ساتھ رہے.آرام کر رہے ہیں.جہاں آپ کی ازواج مطہرات اور آپ کی اولاد اور آپ پر اپنی جانیں قربان کرنے والے اصحاب بھی آرام کر رہے ہیں.جہاں قرآن شریف کا بہت سا حصہ نازل ہوا.جس کی گلیوں اور کوچوں میں خدا کا پیارا نبی دس سال تک چلتا پھرتا رہا.جہاں اس کے اللہ تعالیٰ ان پر خوش ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ پر خوش ہو گئے

Page 20

15 پیارے نبی کے چار خلیفے بھی چلتے پھرتے رہے.جو اسلامی بادشاہت کا مرکز ہے.جس کے رہنے والے خدا کے مددگار یعنی انصار کہلائے.جنہوں نے اپنی سینکڑوں اور ہزاروں جائیں اور اپنے مال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نثار اور قربان کئے.جنہوں نے آپ کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہایا.جنہوں نے خدا کے پیارے رسول کی خاطر سارے جہان سے دشمنی خرید لی.جنہوں نے اسلام کی اپنے خونوں سے پرورش کی.زیارت ہو جاتی ہے.حج کے شرائط حج کے لئے ضروری ہے کہ حج کو جانے والا : ا.عاقل بالغ ہو.-۲- اس کے پاس اس قدر رو پیہ وغیرہ ہو کہ اپنے اہل وعیال کو اپنے واپس آنے تک کا خرچ دے کر مکہ معظمہ پہنچ کر واپس آسکتا ہو.۳.صحت اچھی ہو.۴.حج کے راستہ میں امن ہو یعنی کوئی رکاوٹ وغیرہ نہ ہو.جب تک یہ شرطیں کسی شخص میں نہ پائی جائیں اس پر حج فرض ہی نہیں.جس طرح زکوۃ انہی لوگوں پر فرض ہے جن کے پاس بندر نصاب مال موجود ہو.اسی طرح حج بھی انہی لوگوں پر فرض ہے جن میں یہ چاروں شرطیں

Page 21

16 پائی جاتی ہوں.اگر کسی شخص میں یہ شرطیں نہ پائی جائیں اور وہ حج کے لئے جائے تو اس کا حج ، حج نہیں کہلا سکتا.کیونکہ اس نے اللہ تعالی کے حکم کی نافرمانی کی اور اگر کسی شخص میں یہ شرطیں پائی جاتی ہوں اور وہ حج نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کا سخت نا فرمان ہے.اس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.حج کا وقت اور میقات ۲ حج کے لئے شوال، ذی قعدہ ، ذی الحج تین مہینے مقرر ہیں.جو شخص حج کرنا چاہے اس کو چاہیئے کہ وہ ان میں حج کی نیت کر لے.حج کے لئے چار میقات مقرر ہیں.میقات اُن جگہوں کو کہتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کرنے والوں کے لئے مقرر فرمائی ہیں.کہ جب حج کو جانے والا وہاں سے گزرے تو احرام باندھ کر مکہ معظمہ کی طرف جائے.بغیر احرام باندھے اس جگہ سے آگے جانا نا جائز ہے.ہر طرف کے لوگوں کے لئے میقات علیحدہ علیحدہ ہیں.جو لوگ مدینہ منورہ کی طرف سے حج کے لئے آئیں.ان کے لئے ذوالحلیفہ میقات ہے.جو شام کی طرف سے آئیں.ان کے لئے جحفہ.جو نجد کی طرف سے آئیں اُن کے لئے لے ایک گاؤں کا نام ہے.

Page 22

17 قرن المنازل اور جو یمن کی طرف سے یا یمن کے راستہ سے حج کے لئے جائیں اُن کے لئے یلملم میقات مقرر ہیں.ہمارے ہندوستان کے لئے بھی یہی یلَمْلَم میقات ہے.ہندوستانیوں کو جہاز میں ہی احرام باندھنا پڑتا ہے.جو لوگ ان میقاتوں کے اندر یعنی حرم میں ہی رہتے ہوں اُن کو باہر جانے کی ضرورت نہیں.وہ اپنے گھروں سے ہی احرام باندھ سکتے ہیں.احرام باندھنے کا طریق احرام ( وہ کام کرنا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کے حرم میں جانے کے قابل ہو جائے.) باندھنے کا یہ طریق ہے کہ جب حاجی ( حج کو جانے والا ) میقات پر سنے تو پہلے غسل کرے.پھر دورکعت نفل پڑھ کر یہ دعا پڑھے:.اللَّهُمَّ إِنِّي أَرِيْدُ الْحَجَّ فَتَقَبَّلْ مِنَىٰ وَيَسِّرْهُ لِي اس کے بعد دو چادریں پہن لے.یعنی ایک کائنہ بند باندھ لے اور دوسری او پر اوڑھ لے.جب حاجی یہ لباس پہن لے اُس وقت وہ مُحرم یعنی اللہ تعالیٰ کے قرن المنازل ایک پہاڑ ہے جو مکہ معظمہ سے دو منزل کے فاصلہ پر ہے.ے سمندر میں ایک پہاڑ ہے جس کا پتہ وہاں پہنچنے پر جہاز والے دے دیتے ہیں.سے اے میرے اللہ ! میرا حج کا ارادہ ہے.تو میرے لئے آسانیاں پیدا کر دے اور مجھ سے میرا حج قبول فرما.

Page 23

18 حرم میں جانے کے قابل ہو جاتا ہے.محرم کے لئے ہدایات محرم کو چاہیئے کہ وہ ہر وقت علمیہ انگیر بکلہ اور نبیح وتحمید کہتا ہے.یعنی :- اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَكَ وَلَا شَرِيكَ لَكَ اللهُ اكبر لا إلهَ إِلَّا الله اور سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ " پڑھتا رہے اور اپنا تمام وقت انہی میں صرف کرے.محرم نہا سکتا ہے مگر بغیر صابن کے.کپڑے بھی دھوسکتا ہے.بحری شکار بھی کر سکتا ہے.مگر محرم کے لئے سلے ہوئے کپڑے پہنا مثلاً قمیص ہسلوار یا پاجامہ، کوٹ وغیرہ.سر کو ڈھانکنا.یعنی پگڑی یا ٹوپی وغیرہ پہننا.(جرابوں اور موزوں وغیرہ سے بھی پر ہیز کرنا چاہیئے.اگر جوتی نہ ہو تو مو زو کو ہی کاٹ کر جوتی کی طرح بنا کر پہن لینا جائز ہے.خوشبو لگانا یا خوشبودار رنگوں سے رنگے ہوئے کپڑے مکہ شریف اور اس کے ارد گر دکا علاقہ حرم کہلاتا ہے.(ترجمہ) اے میرے اللہ ! میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں.حاضر ہوں.تیرا کوئی شریک نہیں.میں حاضر ہوں.تمام تعریفوں کا تو ہی مستحق ہے.بادشاہت تیری ہے.تیرا کوئی شریک نہیں.اللہ سب سے بڑا ہے.اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.اللہ تمام نقصوں سے پاک اور تمام تعریفوں کا مستحق ہے.

Page 24

19 پہننا.سرمنڈوانا، جوئیں نکالنا یا ان کو مارنا ، جنگل کے کسی جانور کا شکار کرنا.شکار کے جانور کو ذبح کرنا.کسی کو شکار کے لئے کہنا.کسی شکاری کی مدد کرنا.جماع کرنا.بوسہ وغیر ہ لینا.شہوانی باتیں کرنا.بخش کلام یا بخش شعر پڑھنا.فسق و فجور کے کام اور لڑائی وغیرہ سب منع اور نا جائز ہیں.محرم عورت کو بھی پردہ کا خاص اہتمام کرنا یعنی برقعہ وغیرہ پہنے رکھنا یا نقاب ڈالے رکھنا.( بوقت ضرورت منہ ڈھانکا جاسکتا ہے.) دستانے پہننا،خوشبولگانا، خوشبودار رنگ سے رنگے ہوئے کپڑے پہننا سب ناجائز ہیں.محرم عورت کو بے سلے کپڑے پہنے کی ضرورت نہیں.اسے اپنے معمولی کپڑے پاجامہ تمہیں اور دو چہ ہی پہنے چاہئیں.اگر محرم عورت کو حج کے دوران میں حیض آجائے تو وہ بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتی.اگر ۱۰ ذی الحجہ کا طواف وہ نہ کر سکے تو پھر اسے وہیں ( مکہ معظمہ میں) ٹھہرنا پڑے گا.جب پاک ہو طواف کر لے.کیونکہ یہ طواف فرض ہے.اگر ۱۳ ذی الحجہ کے طواف (طواف الوداع) میں پاک نہ ہو تو یہ طواف اسے معاف ہے.وہ اپنے گھر کو جاسکتی ہے.آداب حرم مکہ معظمہ اور اس کے ارد گرد کا علاقہ حرم کہلاتا ہے.یہ خاص عزت اور

Page 25

20 محرمت والی جگہ ہے.اس میں داخل ہونے کے لئے کچھ آداب مقرر ہیں.جن کا لحاظ رکھنا ہر شخص پر فرض ہے.خواہ وہ محرم ہو یا نہ ہو.حرم میں سے کوئی درخت کاٹنا.کانٹا تو ڑنا، گھاس کاٹنا ( اذخر گھاس کاٹ لینا جائز ہے.کیونکہ اس کے کاٹ لینے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت فرما دی ہوئی ہے.) شکار کرنا، کسی جانور کو اس کی جگہ سے بھگانا کسی کی پڑی ہوئی چیز اٹھانا.(سوائے اس کے کہ اچھی طرح منادی کرے.) سب نا جائز ہیں.لیکن موذی جانوروں مثلاً با دلا سکتا، خونخوار درنده، سانپ ، کچھو کوا، چھیل ، چوہا وغیرہ کا قتل کرنا جائز ہے.اور اگر کوئی شخص ان جانوروں کے علاوہ کوئی دوسرا جانور قتل کرے گا.تو اس کو جود و عادل مسلمان فیصلہ کریں.مثلا کسی جانور کے بدلے کسی جانور کی قربانی کا حکم دیں یا مسکینوں کو کھانا کھلانے کے لئے کہیں.یا روزے رکھنے کا فیصلہ کریں تو اس کو وہ کام کرنا ہوگا.حج کرنے کا طریق حج کرنے والے کو چاہیئے کہ وہ گھر سے حج کی نیت باندھ لے.اور چل پڑے.جب میقات پر پہنچے تو غسل کر کے دورکعت نفل پڑھ کر یہ دعا کرے: اللَّهُمَّ إِنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ فَتَقَبَّلُ مِي وَيَسْرُهُ لِى اس کے بعد حاجیوں والا لباس یعنی دو بے سلی چادریں پہن لے.اس

Page 26

21 لیاس کو پہن لینے کے بعد حاجی محرم ہو گیا.اب اسے اپنے اوقات تلبیہ ہتکبیر بکلمہ اور سبیح وتحمید میں گزارنے چاہئیں.جب حرم میں داخل ہو تو ان باتوں پر عمل کرے جن پر عمل کر نامحرم کا فرض ہے.جب مکہ معظمہ میں داخل ہونے لگے تو اسے چاہئے کہ فسل کرلے.اور جب بیت اللہ پر نظر پڑے تو جو چاہے دعا کرے.کیونکہ یہ دعا کے قبول ہونے کا موقعہ ہے.جب بیت اللہ کے پاس پیتے تو حجر الشوڈ کو جو جنوب مشرقی کونے میں رکھا ہے بوسہ دے.اور یہاں سے خانہ کعبہ ( بیت اللہ ) کے اردگرد چکر لگانا یعنی طواف کرنا شروع کرے.اور سات چکر لگائے.اگر ہو سکے تو ہر طواف میں حجراسود کو بوسہ دے.اگر بوسہ نہ دے سکتا ہو تو ہاتھ لگالے.اگر ہاتھ بھی نہ لگا سکے تو اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ ہی کرلے اور جنوب مغربی کونہ کو بھی ہاتھ لگا تار ہے.اور حطیما کو بھی طواف میں شامل کر لے.جب حاجی کے دفعہ طواف کر چکے تو بہتر یہی ہے کہ مقام ابراھیم کے پیچھے کھڑے ہو کر ورنہ بیت اللہ کے کسی طرف کھڑے ہو کر دو رکعت نفل پڑھے نفل پڑھنے کے بعد صفا اور مروہ سے کی طرف جائے.لے حطیم بیت اللہ کا حصہ ہے.جب قریش بیت اللہ کو از سرنو تعمیر کرنے لگے تو سامان عمارت کم ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس حصہ کو چھوڑ دیا.منہ صفا اور مروہ مکہ معظمہ میں دو پہاڑیاں ہیں.یہ وہی پہاڑیاں ہیں جن پر حضرت ہاجرہ نے اپنے بچے حضرت اسماعیل کے لئے پانی تلاش کرنے کی خاطر سات چکر لگائے تھے.منہ

Page 27

22 جب صفا پر چڑھے تو اللہ اکبر کہے.اور بیت اللہ کی طرف منہ کر کے دعا کرے.پھر مروہ پر جائے.اسی طرح سات چکر لگائے.یعنی صفا اور مروہ کا طواف کرے.طواف سے فارغ ہونے کے بعد مکہ معظمہ میں ٹھہرا رہے.ذی الحجہ کی تاریخ آنے پر مینی کی طرف روانہ ہو جائے.اور ظہر سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جائے.اور ظہر عصر مغرب، عشاء اور 9 ذی الحجہ کی فجر کی نماز بھی وہیں پڑھے.فجر کی نماز کے بعد عرفات کی طرف روانہ ہو.ظہر کے وقت وادی نمرہ میں پہنچے.وہاں ظہر و عصر کی نماز جمع کر کے پڑھے.پھر عرفہ کے میدان میں داخل ہو.اور مغرب تک اسی عرفہ کے میدان میں ہی ٹھہرا رہے.(حج کا بڑا رکن عرفات میں جاتا ہے.جو شخص عرفات میں وقت پر پہنچ جائے.اس کا حج ہو جاتا ہے.اور جو شخص وہاں نہ پہنچ سکے اس کا حج نہیں ہوتا.) اور اپنا وقت دُعا اور ذکر الہی میں گزارے.سورج غروب ہونے پر عرفات سے واپس آ جائے اور مزدلفہ سے میں ٹھہرے.اور مغرب اور عشاء کی نماز جمع کر کے پڑھے.اور یہ رات بھی دعا اور ذکر الہی میں گزارے.جب لے مٹی ایک میدان ہے جو بیت اللہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے.عرفات ایک میدان ہے جو مٹی سے چھ میل کے فاصلہ پر ہے.منہ مزدلفہ: عرفات اور منی کے درمیان ایک میدان ہے.یہاں حاجیوں کو ذی الحجہ کی 9 اور ۱۰ تاریخ کی درمیانی رات کو ٹھہرنے کا حکم ہے.منہ

Page 28

23 فجر کی نماز کا وقت ہو تو اول وقت فجر کی نماز پڑھ کر مشعر حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعا کرے.اور سورج نکلنے سے پہلے یہاں سے منی کی طرف روانہ ہو جائے.مٹی پہنچنے پر رھی الجمار ملا کرے.اور ہر کنکر پھینکتے وقت اللہ اکبر کہے.رمی الجمار شروع کرنے کے وقت سے حاجی کا تلبیہ جو اس کا خاص کام تھا، ختم ہو گیا.رحی الجمار سے فارغ ہو کر مسجد خیف میں آکر خطبہ سنے پھر قربانی کرے.حجامت کے بنوائے.اور اپنا احرام کھول دے.غسل کر کے اپنے کپڑے بدل لے اور بیت اللہ میں جا کر اس کا طواف کرے.(اگر اس سے پہلے کسی حاجی کو طواف کرنے کا موقعہ نہ ملا ہو تو صفا اور مروہ کا بھی طواف کرے.) اس طواف کو طواف الإفاضَہ اور طَوَافُ الرِّيَا مرة کہتے ہیں.یہ طواف حاجی پر فرض ہے.طواف کرنے کے بعد چاہ زمزم پر چلا جائے.اور وہاں سے آب زمزم ہیئے.کیونکہ چاہ زمزم پر کھڑے ہو کر پانی پینا سنت ہے.اس کے بعد مٹی میں واپس آجائے.(حاجی پر حالت حج میں عید کی نماز واجب نہیں.) گیارھویں، بارھویں اور تیرہویں تاریخ کو مٹی میں ہی رہے.رمی الجمار ٹیلوں پر کنکر مارنے کو کہتے ہیں.وہاں تین ٹیلے ہیں.جن پر کنکر پھینکنے کا حکم ہے.ایک کا نام جمرۃ العقبہ ہے.یہ سب سے بڑا ٹیلہ ہے.اس سے چھوٹے ٹیلے کا نام جمرة الوسطی ہے.پھر اس سے چھوٹے ٹیلے کا نام جمرۃ الدنیا ہے.منہ ت حجامت میں سر کے بال منڈوانا، بال کتروانے سے افضل ہے.منہ

Page 29

24 اور زوال کے بعد پہلے کی طرح مرمي الجمار یعنی ہر ٹیلے پر سات سات کنکر پھینکتا رہے.تیرہویں تاریخ کو مٹی سے واپس آجائے اور آکر بیت اللہ کا طواف کرے.اس طواف کو طواف الوداع کہتے ہیں.طواف کے بعد دو رکعت نکل پڑھے.اس پر حج ختم ہو گیا.اب حاجی جہاں جانا چاہے جائے اس کا حج ہو گیا.حج اور عمرہ حج حج کے مہینوں یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ میں بیت اللہ کو جانے اور مندرجہ بالا کام جو حج کرنے کے طریق میں بیان کئے گئے ہیں.بجا لانے کو حج کہتے ہیں.عُمرہ : حج کے مہینوں کے علاوہ بیت اللہ کو جانے اور مندرجہ بالا کام بجالانے کو عمرہ کہتے ہیں.عمرہ میں جب عمرہ کرنے والا صفا اور مروہ کا طواف کرلے تو عمرہ ہو گیا.اب وہ احرام کھول دے.حجامت بنوا لے اور اگر قربانی کرنا چاہے تو قربانی بھی کرلے.رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنے سے بھی حج جتنا ثواب ملتا ہے.حرم کے باہر سے آنے والے تو اپنے اپنے میقات سے احرام باندھیں گے.حرم کے اندر رہنے والے حرم کے اندر سے ہی احرام باندھیں گے.مگر مکہ

Page 30

25 معظمہ کے رہنے والوں کے لئے تھیم جگہ سے جو مکہ معظمہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے.احرام باندھنا مستحب ہے.عمرہ کے لئے کوئی خاص دن یا وقت مقرر نہیں.انسان جب چاہے اور جتنی دفعہ چاہے عمرہ کر سکتا ہے.تمتع: اگر حج کے مہینوں میں پہلے عمرہ کا احرام باندھا جاوے اور عمرہ کے احکام بجا لا کر احرام کھول دیا جائے.اور مکہ معظمہ میں ٹھہر کر حج کے وقت کا انتظار کیا جائے اور ۸ / ذی الحجہ کے آنے پر پھر احرام باندھ کر حج کے احکام بجا لائے جائیں تو تمتع کہلاتا ہے.یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ بھی کیا گیا.اور حج بھی کیا گیا.مگر درمیان میں احرام کھول دیا گیا.اور ۸ / ذی الحجہ کو پھر احترام باندھ کر حج کیا گیا تو یہ مقتع کہلایا.تمتع کرنے والے پر قربانی فرض ہے.اگر اسے قربانی میسر نہ آسکے تو دس روزے رکھے.تین مکہ معظمہ میں ہی اور سات گھر میں واپس آکر رکھے.قرآن: حج کے مہینوں میں میقات سے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھنے اور ہر دو کے بجالانے کو قران کہتے ہیں.قران کا یہ طریق ہے کہ جو شخص حج کے مہینوں میں ہی عمرہ اور حج کرنا چاہتا ہے وہ میقات سے ہر دو کی نیت کر کے احرام باند ھے.مکہ معظمہ میں پہنچ کر عمرہ

Page 31

26 کے احکام بجالائے اور احترام نہ کھولے.جب ۸ / ذی الحج ہو تو پھر حج کے تمام احکام بجالائے تو اسے قران کہتے ہیں.قران کرنے والے پر قربانی واجب ہے.اگر قربانی میسر نہ آسکے تو دس روزے رکھے.تین مکہ معظمہ میں ہی اور باقی سات گھر میں واپس آکر ر کھے.-(1 ضروری باتیں اگر کسی شخص پر حج فرض ہو لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے خود حج نہ کر سکتا ہو تو وہ اپنی طرف سے کسی دوسرے شخص کو حج کروا سکتا ہے.۲.اگر کوئی شخص گھر سے تو جج کے لئے نکلے.مگر حرم میں جا کر کسی بیماری یا دشمن کی وجہ سے رُک جائے تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی قربانی کسی کے پاس مکہ معظمہ بھیج دے اور خود محرم ہی رہے.جب قربانی ذبح ہو جائے تو احرام کھول کر واپس آجائے.اس کو حج کا ثواب مل گیا اور اگر اپنی قربانی کو روانہ نہ کر سکے تو اسے وہیں ذبح کر دے اور احرام کھول دے.اور آئندہ سال پھر حج یا عمرہ جس کے لئے پہلے گیا تھا کرے.اور اگر حرم میں داخل ہونے سے پہلے ہی بیمار ہو جائے یا دشمن روک دے تو واپس آجائے اور اگلے سال پھر موقعہ ملنے پر نج کرے.اگر کوئی شخص گھر سے حج کے ارادہ سے نکلے مگر راستہ میں فوت -(μ

Page 32

27 ہو جائے تو اس کو حج کا ثواب مل گیا.۴.مکہ معظمہ میں داخل ہوتے ہی جب بیت اللہ پر نظر پڑے تو یہ دعا کے قبول ہونے کا موقعہ ہے اس وقت جو چاہے دعا کرے.۵.طواف باوضو کرنا چاہیئے.پہلے تین چکر دوڑ کر اور باقی چارمیانہ چال سے.اور اگر کوئی شخص بیمار ہو تو وہ سواری پر بھی طواف کر سکتا ہے.-(4 طواف سے فارغ ہو کر مُلتزم ( حجر اسود سے دروازہ تک اور دروازہ سے سے حطیم تک جو دیوار ہے اسے ملتزم کہتے ہیں.) کے ساتھ لپٹ کر دعا اور ذکر الہی کرنا چاہیئے.کیونکہ یہ نہایت ہی متبرک دیوار ہے.ے.اگر کوئی محرم عرفات سے واپس آنے سے قبل (4/ ذی الحجہ سے پہلے ) اپنی بیوی سے جماع کرلے تو اسے اپنا حج پورا کر لینا چاہیئے.مگر یہ اس کا وہ حج نہیں سمجھا جائے گا جو اس پر فرض تھا.بلکہ اس پر اگلے سال پھر حج فرض ہے.اگر طواف افاضہ (۱۰ / ذی الحجہ ) سے پہلے جماع کرلے تو حج ہو جائے گا.بشرطیکہ ایک اونٹ کی قربانی کرے.جو محرم اپنا سر منڈ والے.تو یا وہ تین دن کے روزے رکھے یا چھ مسہ کھانا کھلائے یا ایک بکرے کی قربانی کرے.مسکینوں کو اور اگر کوئی سلا ہوا کپڑا پہن لے یا خوشبو وغیرہ لگالے تو جو د و عادل مسلمان اس کو حکم دیں.مثلاً قربانی دینے کا یا روزے رکھنے کا حکم دیں تو اس پر عمل کرنا

Page 33

چاہیئے.28 28 (^ حج کے دنوں میں اگر کوئی شخص چاہے تو وہاں تجارت وغیرہ بھی کر سکتا ہے.مکہ معظمہ میں قربانی کے دن (۱۰ / ذی الحجہ کو ) حاجی اپنے دوسرے رشتہ داروں اور عزیزوں اور بزرگوں کی طرف سے بھی جو اُس وقت موجود نہ ہوں قربانی کرسکتا ہے.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی ازواج مطہرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام،حضرت اُم المؤمنين حضرت خلیفہ مسیح الاول اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی طرف سے قربانی کی جاوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے اور ایک حج _(9 کیا.جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں.۱۰.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیمار ہونے اور راستہ میں امن نہ ہونے کی وجہ سے حج کے لئے تشریف نہیں لے جاسکے.مدت ہوئی کہ آپ کی طرف سے حج کروا دیا گیا.حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ بھی حاجی تھے.اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بھی ۱۹۱۳ء میں حج کیا.

Page 34

29 29 ۲.الوائح الہدے ( از حضرت خلیفہ اسیح الثانی) ا.نونهالان جماعت! مجھے کچھ کہنا ہے ! پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو باہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو ! تاکہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو.جب گزر جائیں گے ہم تم پہ پڑے گا سب بار ستیاں ترک کرد طالب آرام نہ ہو خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو دل میں ہوسوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تم میں اسلام کا ہو مغز فقط نام نہ ہو.سر میں نخوت نہ ہو آنکھوں میں نہ ہو برق غضب دل میں کینہ نہ ہو لب پہ کبھی دُشنام نہ ہو ۴.-Y ۷.خیر اندیشی احباب رہے مد نظر عیب چینی نہ کرو مفید و تمام نہ ہو

Page 35

30 _^ +1 ۱۲ چھوڑ دو حرص کرد زهد و قناعت پیدا زر نہ محبوب بنے سیم دل آرام نہ ہو رغبت دل سے ہو یابند نماز و روزه نظر انداز کوئی حصہ احکام نہ ہو پاس ہو مال تو دو اس سے زکوۃ و صدقہ فکر مسکیں رہے تم کو غم ایام نہ ہو ا.حسن اس کا نہیں گھلتا تمہیں یہ یاد رہے دوش مسلم پہ اگر چادر احرام نہ ہو عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں دل میں ہو عشق صنم لب پہ مگر نام نہ ہو ۱۳.عقل کو عقل کو دین پہ حاکم نہ بناؤ ہرگز ! یہ تو خود اندھی ہے گر نیز الہام نہ ہو ۱۴.جو صداقت بھی ہو تم شوق سے مانو اُس کو علم کے نام سے پر تابع اوہام نہ ہو ۱۵.دشمنی ہو نہ محبان محمد سے جو معاند ہیں تمہیں اُن سے کوئی کام نہ ہو تمہیں.امن کے ساتھ رہو فتنوں میں حصہ مت لو باعث فکر و پریشانی حکام نہ ہو

Page 36

31 سمجھو ۱۷.اپنی اس عمر کو اک نعمت عظمیٰ بعد میں تاکہ تمہیں شکوہ ایام نہ ہو ۱۸.حُسن ہر رنگ میں اچھا ہے مگر خیال رہے دانہ سمجھے ہو جسے تم وہ کہیں دام نہ ہو ہو ۱۹.تم مدبر ہو کہ جرنیل ہو یا عالم ہم نہ خوش ہوں گے کبھی تم میں گر اسلام نہ ہو -۲۰ سیلف رسپکٹ کا بھی خیال رکھو تم بے شک یہ نہ ہو پر کہ کسی شخص کا اکرام نہ ہو ۲۱.غیر ہو کیسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہو بند مگر دعوت اسلام نہ ہو ۲۲.تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا نفس وحشی و جفا کیش اگر رام نہ ہو ۲۳- من و احسان سے اعمال کو کرنا نہ خراب رشته وصل کہیں قطع سرِ بام نہ ہو ۲۴.بھولیو مت کہ نزاکت ہے نصیب نسواں مرد وہ ہے جو جفا کش ہو گل اندام نہ ہو ۲۵.شکل کے دیکھ کے گرنا نہ مگس کی مانند دیکھ لینا کہ کہیں درد یہ جام نہ ہو

Page 37

32 -۲۶ یاد رکھنا کہ کبھی بھی نہیں پاتا عزت یار کی راہ میں جب تک کوئی بدنام نہ ہو ۲۷.کام مشکل ہے بہت منزل مقصود ہے دُور اے مرے اہلِ وفا ست کبھی گام نہ ہو ۲۸.گام زن ہو گے رہِ صدق و صفا پر گر تم ! کوئی مشکل نہ رہے گی جو سرانجام نہ ہو ۲۹.حشر کے روز نہ کرنا ہمیں رسوا و خراب پیارو ! آموخته درس وفا خام نہ ہو ۳۰.ہم تو جس طرح بننے کام کئے جاتے ہیں آر کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو ۳۱ میری تو حق میں تمہارے یہ دعا ہے پیارو اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو ۳۲.ظلمت رنج و غم و درد سے محفوظ رہو مہر انوار درخشندہ رہے شام نہ نہ ہو

Page 38

33 حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام آج سے قریباً ساڑھے تین ہزار سال قبل بنی اسر ائیل میں پیدا ہوئے.جس زمانہ میں آپ کی پیدائش ہوئی اُس زمانہ میں فرعون بنی اسر ائیل کے لڑکوں کو قتل کروا دیتا تھا.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو آپ کی والدہ کو اللہ تعالیٰ نے الہام کیا کہ اپنے اس بچہ کوصند وق میں بند کر کے دریا میں ڈال دے.اس طرح یہ بچہ بھی زندہ رہے گا اور تجھے بھی مل جائے گا.چنانچہ آپ کی والدہ نے ایسا ہی کیا.جب آپ کا صندوق فرعون کے محل کے سامنے پہنچا تو فرعون نے اس کو پکڑ لیا.کھول کر دیکھا تو اس میں ایک بچہ تھا.فرعون کی بیوی کے دل میں رحم آیا.اس نے اپنے خاوند سے کہا کہ اس بچہ کی ہم پرورش کر لیتے ہیں ممکن ہے کہ یہ بڑا ہو کر ہمارے کام آئے.تب وہ آپ کو اپنے گھر لے گئے.اور آپ کی پرورش کا ارادہ کر لیا.آپ کو دودھ پلانے کی تجویز ہونے لگی تو آپ کی ہمشیر و نے جو اُن کے پاس ہی تھیں.( آپ کی والدہ کی طرف اشارہ کر کے کہا.) کہ یہ بچہ فلاں عورت کو دے دو.وہ اس کی اچھی طرح پرورش کرے گی.تب انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے آپ کو آپ کی والدہ کے ہی سپر د کر دیا.اور خدا کا وہ وعدہ جو آپ کی والدہ سے تھا، پورا ہو گیا.

Page 39

34 دودھ کی میعاد گزرنے کے بعد فرعون کے گھر میں ہی آپ نے پرورش پائی.جب آپ جوان ہوئے تو ایک دن آپ کہیں شہر میں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ دو شخص ایک اسرائیلی اور دوسرا قبطی با ہم لڑرہے ہیں.آپ نے قبطی کو ایک مکا مارا.جس سے وہ مر گیا.دوسرے دن پھر آپ اُسی طرف سے گزر رہے تھے تو پھر وہی پہلا اسرائیلی اور ایک اور شخص باہم لڑرہے تھے.اُس وقت پھر اس اسرائیلی نے آپ کو اپنی مدد کے لئے بلایا.تو آپ نے جواب دیا کہ تو بڑا خراب آدمی ہے.روز لڑائی جھگڑا کرتا رہتا ہے.ہی اثناء میں ایک شخص آپ کے پاس آیا کہ آپ یہاں سے کسی دوسری جگہ تشریف لے جائیں.کیونکہ فرعون کے وزیر آپ کو قتل کرنے کے مشورے کر رہے ہیں.اس پر آپ اُس شہر سے نکل پڑے.جب آپ مدین بستی میں پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک کنوئیں پر لوگ تو اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے ہیں مگر دولڑ کیاں اپنے مویشیوں کو لے کر پیچھے کھڑی ہو کر انتظار کر رہی ہیں کہ جب یہ لوگ چلے جائیں تو پھر پانی پلا ئیں.آپ کے دل میں رحم آیا اور آپ نے اُن کے مویشیوں کو پانی پلا دیا.فارغ ہونے کے بعد آپ نے وہاں دعا مانگی.رب إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ اے میرے رب تو مجھ پر اپنی طرف سے خیر نازل کر کہ میں محتاج ہوں.منہ 1

Page 40

35 آپ ابھی وہیں تشریف رکھتے تھے کہ اُن میں سے ایک لڑکی آئی اور اُس نے آپ کو یہ پیغام دیا کہ میرا باپ آپ کو بلا رہا ہے.آپ وہاں تشریف لے گئے.تو اُس کے باپ نے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں اپنی ایک لڑکی کا نکاح آپ سے کردوں.لیکن شرط یہ ہے کہ آپ آٹھ سال میرے ملازم رہیں.آپ نے اسے منظو رفر مالیا اور معاہدہ ہو گیا.جب آپ اُس میعاد کے بعد اپنی بیوی کو لے کر پھر اپنے وطن کی طرف چلے تو راستہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کیا.اور کہا اے موسیٰ ! جاؤ میں تم کو اپنا رسول بنا تا ہوں.تم فرعون کے پاس جاؤ.اُس کو وعظ ونصیحت کرو، اور اُس کو ایمان لانے کے لئے حکم دو.آپ نے جواب دیا.یا الہی اچونکہ میں اُن کا قصور وار ہوں.اس لئے وہ کہیں مجھے قتل ہی نہ کر دیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا.میں خود تمہاری حفاظت کروں گا.ید بیضاء اور آپ کے سوٹے کے سانپ بن جانے کا معجزہ آپ کو عطا فرمایا.آپ نے اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ غذر بھی پیش کیا کہ میری زبان میں کچھ لکوٹ ہے.(اچھی طرح تقریر وغیرہ نہیں کر سکتا.) تو اللہ تعالی نے آپ کے بڑے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی نبی بنا کر آپ کا مددگار بنادیا.جب آپ فرعون کے پاس آئے اور اُس کے سامنے اپنی نبوت اور رسالت کو پیش کیا تو وہ استہزاء کے ساتھ آپ سے پیش آیا.اور کہنے لگا کہ تو نے ہمارے گھر میں

Page 41

36 پرورش پائی اور آج رسول ہونے کا دغو می کرتا ہے.اور آپ کا انکار کر دیا.آپ نے وہ خدا کے دئے ہوئے نشانات بھی اُن کو دکھائے.مگر انہوں نے پھر بھی آپ کا انکار کر دیا.اور کہا کہ اے موسیٰ ! تو جادوگر ہے.اس لئے ہم تیرے مقابلہ کے لئے جادو گر بلاتے ہیں.تب انہوں نے آپ کے ساتھ مقابلہ کے لئے ایک دن اور وقت مقرر کر کے تمام بڑے بڑے جادوگر بلائے.جب جادو گر مقابلہ کے لئے آگئے تو انہوں نے لوگوں کے سامنے رسیاں پھینکیں جو سانپوں کی طرح نظر آنے لگیں.جب آپ نے ان کے مقابلہ میں اپنا عصا پھینکا.تو وہ اثر دہا بن کر سب رہتیوں کو نگل گیا.یہ معجزہ دیکھ کر جادو گر تو آپ پر ایمان لے آئے.مگر فرعون نے کہا کہ اے موسیٰ ! تو بڑا جادوگر ہے.اور یہ سب تیرے شاگز د ہیں.اس لئے تم نے ہمیں دھوکا دیا ہے اور ہمارے ساتھ چالا کی کی ہے.اور جادوگروں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ تم میری اجازت کے بغیر اس پر ایمان لے آئے ہو.اس لئے میں تم کو صلیب دوں گا.جادوگروں نے جواب دیا کہ جو چاہو کرو.اب ہم خدا کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں.اس لئے ہمیں کوئی ڈر نہیں.غرضیکہ فرعونیوں میں سے کوئی بھی آپ پر ایمان نہ لایا.بلکہ آپ پر ایمان لانے والے بنی اسرائیل کو بھی سخت تکلیفیں دینے لگے.تب آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو یہاں سے لے کر نکل جاؤ.جب آپ اُن کو لے کر نکلے.

Page 42

37 فرعون کو جب یہ معلوم ہو ا تو اس نے اپنی فوجوں کے ساتھ آپ کا تعاقب کیا.جب آپ بحیرۂ فکرم پر پہنچے تو سامنے پانی تھا اور پیچھے فرعون اور اُس کا لشکر.تب آپ کے ساتھی بہت گھبرائے.اُس وقت آپ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنا عصا اس پانی پر مارو.آپ نے جب عصا مارا تو پانی دوٹکڑے ہو گیا اور آپ اپنی جماعت کو لے کر پار نکل گئے.فرعون اور اُس کا لشکر بھی آپ کے تعاقب میں تھا.جب وہ اُس میں سے.گزرنے لگے تو اوپر سے پانی آگیا.اور فرعون اور اُس کا تمام لشکر غرق ہو گیا.فرعون نے غرق ہوتے وقت کہا.اے خدا! جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب ایمان لانے کا کیا فائدہ؟ تاہم میں تیری لاش کو قیامت تک رکھوں گا.تا دنیا میں نشان رہے.چنانچہ فرعون کی لاش آج تک اُسی طرح مصر کے عجائب گھر میں موجود ہے.جس سے اللہ تعالیٰ کے کلام کی تصدیق ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشیل ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے توریت عطا فرمائی تھی.جو بنی اسرائیل کے لئے شریعت تھی.جب بنی اسرائیل نے توریت کو بدل دیا اور گمراہ ہو گئے تو اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف دے کر دنیا میں بھیج دیا.جو قیامت تک سب دنیا کے لئے شریعت کی کتاب ہے.

Page 43

38 حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی اُمت میں چودھویں صدی میں حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کو بھیج دیا.اسی طرح آنحضرت صلے اللہ وسلم کی امت میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو چودھویں صدی میں مسیح موعود بنا کر بھیج دیا ہے.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذلِكَ علیہ و حضرت محمد رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ گزشتہ سے پیوستہ ( از حضرت خلیفة المسح الثانی) چونکہ ہر نبی کے لئے عام تبلیغ کرنی ضروری ہوتی ہے.آپ نے ایک دن ایک بلند جگہ پر کھڑے ہو کر مختلف گھرانوں کے نام لے کر بلانا شروع کیا.چونکہ لوگ آپ پر بہت ہی اعتبار رکھتے تھے.سب لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے.اور جولوگ خود نہ آسکتے تھے انہوں نے اپنے قائم مقام بھیجے تا کہ نہیں کہ آپ کیا کہتے ہیں.جب سب آکر جمع ہوئے تو آپ نے فرمایا.اے اہلِ مکہ ! اگر میں تم کو یہ ناممکن خبر دوں کہ مکہ کے پاس ہی ایک بڑا لشکر اترا ہو اہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ یہ بات بظاہر ناممکن تھی.کیونکہ مکہ اہل عرب کے نز دیک ایک متبرک

Page 44

39 مقام تھا اور یہ خیال بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی قوم اس پر حملہ کر کے آئے گی.اور پھر یہ بھی بات تھی کہ مکہ کے جانور دُور دُور تک چرتے تھے.اگر کوئی لشکر آتا تو ممکن نہ تھا کہ جانور چرانے والے اُس سے غافل رہیں.اور دوڑ کر لوگوں کو خبر نہ دیں.مگر باوجود اس کے کہ یہ بات ناممکن تھی سب لوگوں نے کہا کہ "ہم آپ کی بات ضرور مان لیں گے.کیونکہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے." آپ نے فرمایا کہ جب تم گواہی دیتے ہو کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا.تو میں تم کو بتا تا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے مبعوث فرمایا ہے کہ میں اُس کا پیغام تم کو پہنچاؤں.اور سمجھاؤں کہ جو کام تم کرتے ہواُس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا.یہ بات سنتے ہیں لوگ بھاگ گئے اور کہا کہ یہ شخص پاگل ہو گیا ہے یا جھوٹا ہے.اور تمام شہر میں شور پڑ گیا.جو لوگ آپ پر ایمان لائے تھے اُن پر نہایت سختیاں ہونے لگیں.بھائی نے بھائی کو چھوڑ دیا.ماں باپ نے بچوں کو نکال دیا.آقاؤں نے نوکروں کو ڈکھ دینا شروع کیا.چودہ چودہ ، پندرہ پندرہ سالہ نوجوانوں کو جو کسی رسم و رواج کے یابند نہ تھے بلکہ مذہب کی تحقیق میں اپنی معقل سے کام لیتے تھے اور اسی لئے جلد آپ پر ایمان لے آتے تھے، ان کے ماں باپ قید کر دیتے اور کھانا اور پانی دینا بند کر دیتے تا کہ وہ توبہ کرلیں.مگر وہ ذرہ بھی پروانہ کرتے تھے.اور بخشنگ ہونٹوں اور گڑ ہوں میں گھسی ہوئی آنکھوں سے اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول

Page 45

40 رہتے ، یہاں تک کہ ماں باپ آخر اس ڈر سے کہ کہیں مر نہ جائیں اُن کو کھانا پینا دے دیتے.مگر نو جوانوں پر تو رحم کرنے والے لوگ موجود تھے.جو غلام آپ پر ایمان لائے اُن کی حالت نہایت نازک تھی.اور یہی حال دوسرے غرباء کا تھا جن کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا.غلاموں کو لوہے کی زرہیں پہنا دیتے تھے.اور پھر ان کو سورج کے پاس کھڑا کر دیتے تھے تا کہ موسم گرم ہو کر ان کا جسم مجلس جائے.( یہ مد نظر رکھنا چاہیئے کہ وہ عرب کا سورج تھا نہ کہ انگلستان کا.بعض کی لاتوں میں رسیاں ڈال کر ان کو زمین پر گھسیٹتے تھے.بعض دفعہ لوگ لوہے کی سیخیں گرم کر کے اُن سے مسلمانوں کا جسم جلاتے تھے اور بعض دفعہ سوئیوں سے اُن کے چمڑوں کو اس طرح چھید تے تھے جس طرح کہ کپڑا سیتے ہیں.مگر وہ ان سب باتوں کو برداشت کرتے تھے.اور عذاب کے وقت کہتے جاتے تھے کہ وہ ایک خدا کی پرستش کو نہیں چھوڑ سکتے.ایک عورت جو نہایت ہی اختہ مسلمان تھی.اس کے پیٹ میں نیزہ مارکر اُس کو ماردیا.خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو بھی بہت دُکھ دیتے تھے.گوڈرتے بھی تھے.کیونکہ آپ کے خاندان کی مکہ میں بہت عزت تھی.لوگ آپ کو گالیاں دیتے.بعض دفعہ نماز میں جب آپ سجدہ کرتے تو سر پر اوجھڑی ڈال دیتے.کبھی سر پر راکھ پھینک دیتے.ایک دفعہ آپ سجدہ میں تھے کہ ایک شخص آپ کی

Page 46

41 گردن پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو گیا اور دیر تک اُس نے آپ کو اس طرح دبائے رکھا.ایک دفعہ آپ عبادت کے لئے مسجد مکہ میں گئے تو آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر گھونٹنا شروع کر دیا.مگر باوجود ان مخالفتوں کے آپ تبلیغ میں لگے رہتے اور ذرہ پروانہ کرتے.جہاں بھی لوگ بیٹھے ہوتے آپ وہاں جا کر اُن کو تعلیم دیتے کہ خدا تعالی ایک ہے.اُس کے سوا کوئی شخص معبود نہیں.نہ اُس کا کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی.نہ اُس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے.نہ زمین میں نہ آسمان میں اُس کا کوئی شریک نہیں.اُس پر ایمان لانا چاہیئے.اور اُس سے دعائیں مانگنی چاہیئیں.وہ لطیف ہے اُس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا.اُس میں سب طاقتیں ہیں.اُسی نے دنیا کو پیدا کیا ہے اور جب لوگ مرجاتے ہیں تو اُن کی روحیں اُسی کے پاس جاتی ہیں.اور ایک زندگی اُن کو دی جاتی ہے اور چاہیئے کہ انسان اس کی محبت کو اپنے دل میں پیدا کرے.اور اُس سے تعلق کو مضبوط کرے.اور اُس سے قریب ہونے کی خواہش کرے.اور اپنے خیالات اور اپنی زبان کو پاک کرے.جھوٹ نہ بولے قتل نہ کرے.فساد نہ کرے.چوری نہ کرے.ڈاکہ نہ مارے.عیب نہ لگائے.طعنہ نہ کرے.بدکلامی نہ کرے.ظلم نہ کرے.حسد نہ کرے.اپنے وقت کو اپنے آرام اور عیاشی میں صرف نہ کرے.بلکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی اور بہتری میں لگا ر ہے اور محبت اور امن کی اشاعت کرے.

Page 47

42 ی تعلیم تھی جو آپ دیتے.مگر باوجود اس کے کہ یہ تعلیم اعلیٰ درجہ کی تھی.لوگ آپ پر ہنستے.مکہ کے لوگ سخت بت پرست تھے.اور سینکڑوں بت بنا کر اپنے معبد میں رکھے ہوئے تھے جن کے سامنے وہ روزانہ عبادت کرتے تھے.اور جن کے آگے باہر سے آنے والے لوگ نڈرانے چڑھاتے تھے.جن پر کئی معزز خاندانوں کا گزارہ تھا.اُن لوگوں کے لئے ایک خدا کی عبادت بالکل عجیب تعلیم تھی.وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ کیوں انسان کی شکل میں کسی پتھر کے بت میں ظاہر نہیں ہوسکتا.وہ ایک نہ نظر آنے والے خدا کا تخیل ناممکنات سے سمجھتے تھے.پس جب وہ آپ کو دیکھتے.ملتے اور کہتے کہ دیکھو." اس شخص نے سب خداؤں کو اکٹھا کر دیا ہے.کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ کئی خداؤں کے ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں.پس محمد صلی یا تم جو کہتے ہیں کہ ایک ہی خدا ہے.اس سے مراد اُن کی یہ ہے کہ اُنہوں نے اب سب خداؤں کو اکٹھا کر کے ایک ہی بنا دیا ہے.اور اپنی اس خلاط منہمی کی بے ہودگی کو آپ کی طرف منسوب کر کے خوب قہقہے لگاتے.بعث بعد الموت کا عقیدہ بھی اُن کے لئے عجیب تھا.اور ہنستے اور کہتے کہ یہ شخص خیال کرتا ہے کہ جب ہم مر جائیں گے تو زند ہ ہوں گے.جب مسلمانوں کی تکلیفیں بہت بڑھ گئیں تو رسول اللہ سلاما یاتم نے صحابہ کو

Page 48

43 اجازت دے دی کہ وہ حبشہ کو جو اُس وقت بھی ایک مسیحی حکومت تھی ہجرت کر کے چلے جاویں.چنانچہ اکثر مسلمان مردو عورت اپنا وطن چھوڑ کر افریقہ کو چلے گئے.مکہ والوں نے وہاں بھی اُن کا پیچھا نہ چھوڑا.بادشاہ کے پاس ایک وفد بھیجا کہ ان لوگوں کو واپس کر دیں.تا کہ ہم ان کو سزاد ہیں.مسیحی بادشاہ بہت ہی منصف مزاج تھا.جب اُس کے پاس وفد پہنچا تو اُس نے دوسرے فریق کا بھی بیان سننا پسند کیا.اور مسلمان در بارشاہی میں بلائے گئے.یہ واقعہ نہایت ہی دردناک ہے.ہم قوموں کے ظلم سے تنگ آکر اپنے وطن کو خیر باد کہنے والے مسلمان ابی سینیا کے بادشاہ کے دربار میں اس خیال سے پیش ہوتے ہیں.کہ اب شاید ہم کو ہمارے وطن کو واپس کرا دیا جائے گا.اور ظالم اہلِ مکہ اور بھی زیادہ ظلم ہم پر کریں گے.جب وہ بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو اُس نے پوچھا کہ تم میرے ملک میں کیوں آئے ہو؟ مسلمانوں نے جواب دیا کہ اے بادشاہ! ہم پہلے جاہل تھے.اور ہمیں نیکی اور بدی کا کوئی علم نہ تھا.بنوں کو پوجتے تھے اور خدا تعالیٰ کی توحید سے نا واقف تھے.ہر ایک قسم کے برے کام کرتے تھے.فلم، ڈاکہ قبل، بدکاری ہمارے نزدیک معیوب نہ تھے.ابھی اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مبعوث کیا.اُس نے ہمیں ایک خدا کی پرستیش سکھائی.اور بدیوں سے ہمیں

Page 49

44 روکا.انصاف اور عزل کا حکم دیا.محبت کی تعلیم دی اور تقوی کا راستہ بتایا.تب وہ لوگ جو ہمارے بھائی بند ہیں.اُنہوں نے ہم پر ظلم کرنا شروع کیا.ہم کو طرح طرح کے دُکھ دینے شروع کئے.ہم آخر تنگ آکر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے.اور تیرے ملک میں آئے ہیں.اب یہ لوگ ہمیں واپس لے جانے کے لئے یہاں بھی آگئے ہیں.ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم اپنے خدا کے پرستار ہیں.اس تقریر کا بادشاہ پر ایسا اثر ہوا کہ اُس نے مسلمانوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا.مکہ کے وفد نے درباریوں سے ساز باز کر کے پھر بھی دوسرے دن بادشاہ کے سامنے وہی سوال پیش کیا اور کہا کہ یہ حضرت مسیح کو گالیاں دیتے تھے.بادشاہ نے پھر دوبارہ مسلمانوں کو بلایا.انہوں نے جو اسلام کی تعلیم مسیح کے متعلق ہے بیان کر دی.کہ ہم اُن کو خدا تعالیٰ کا پیارا اور نبی مانتے ہیں.ہاں ہم انہیں کسی طرح بھی خدائی کے قابل نہیں جانتے.کیونکہ ہمارے نزدیک خدا تعالیٰ ایک ہے.اس بات پر درباری جوش میں آگئے اور بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کو سزا دے.مگر بادشاہ نے کہا کہ میرا یہی عقیدہ ہے.اور اس عقیدہ کی وجہ سے اِن لوگوں کو ظالموں کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتا.پھر درباریوں سے کہا کہ مجھے تمہارے غصہ کی بھی پرواہ نہیں ہے.خدا

Page 50

45 کو بادشاہت پر ترجیح دیتا ہوں.ادھر اہل مکہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور زیادہ تکلیفیں دینی شروع کیں.اور آخر آپ کے چچا جو مکہ کے بڑے رئیس تھے اور ان کی وجہ سے لوگ آپ کو زیادہ دُکھ دینے سے ڈرتے تھے کہا کہ ” آپ کسی اور رئیس کا لڑکا اپنا لڑ کا بنالیں.اور محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہمارے حوالے کر دیں.تاہم اس کو سزاد ہیں.“ اُنہوں نے کہا.یہ عجیب درخواست ہے.تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے لڑکے کو لے کر اپنا مال اُس کے حوالے کردوں اور اپنے لڑکے کو تمہارے حوالے کر دوں کہ تم اُسے دُکھ دے دے کر ماردو؟ کیا کوئی جانور بھی ایسا کرتا ہے کہ اپنے بچہ کو مارے اور دوسرے کے لڑکے کو پیار کرے؟“ جب اہلِ مکہ نا اُمید ہوئے تو انہوں نے درخواست کی کہ اچھا.” آپ اپنے بھتیجے کو یہ سمجھائیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک ہونے پر اس قدر زور نہ دیا کرنے اور یہ نہ کہا کرے کہ بچوں کی پرستش جائز نہیں.اور جو کچھ چاہے کہے." چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے چانے بلا کر کہا کہ ملکہ کے رؤساء ایسا کہتے ہیں.کیا آپ اُن کو خوش نہیں کر سکتے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ " آپ کے مجھ پر بہت احسان ہیں.مگر میں آپ کے لئے خدا کو نہیں چھوڑ سکتا.اگر آپ کو لوگوں کی مخالفت کا خوف ہے تو آپ مجھ سے الگ ہو جائیں.مگر میں اس صداقت کو جو

Page 51

46 مجھے خدا سے ملی ہے ضرور پیش کروں گا.یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اپنی قوم کو جہالت 66 میں مبتلا دیکھوں.اور خاموش بیٹھا رہوں.“ جب اہلِ مکہ کو اس سے بھی ناامیدی ہوئی تو انہوں نے ایک رئیس کو اپنے میں سے بچنا.اور اُس کی معرفت آپ کو کہلا بھیجا کہ آپ یہ بتائیں کہ ملک میں یہ فساد آپ نے کیوں مچا دیا ہے؟ اگر آپ کی یہ غرض ہے کہ آپ کو عات مبل جائے.تو ہم سب شہر میں آپ کو معزز قرار دے دیتے ہیں.اگر مال کی خواہش ہے تو ہم سب شہر کے لوگ اپنے مالوں کا ایک ایک حصہ الگ کر کے دے دیتے ہیں.جس سے آپ سارے شہر سے زیادہ امیر ہوجائیں گے.اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہیں.اگر شادی کی خواہش ہے تو جس عورت سے آپ چاہیں.آپ کی شادی کرا دی جائے گی.مگر آپ ایک خدا کی پرستش کی تعلیم نہ دیں." جس وقت وفد نے یہ پیغام آپ کو آکر دیا.آپ نے فرمایا کہ دیکھو! اگر سورج کو میرے ایک طرف اور چاند کو میرے دوسری طرف لا کر کھڑا کر دو.یعنی یہ دنیا کا مال تو کیا ہے.اگر چاند اور سورج کو بھی میرے قبضہ میں دے دو.تب بھی میں اس تعلیم کو نہیں چھوڑوں گا.“ اس وقت تک گل آنی آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے.مگر جب مکہ کے ظلموں کی خبر باہر پہنچی تو لوگوں نے تحقیقات کے لئے مکہ آنا

Page 52

47 شروع کیا.اس پر اہل مکہ بہت گھبرائے.اور انہوں نے شہر کی سڑکوں پر پہرے مقرر کر دئے کہ کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ مل سکے.اور ارادہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیں.اس پر آپ کے چا اور دیگر رشتہ دار آپ سمیت ایک وادی میں چلے گئے.تا کہ آپ کی حفاظت کریں.پس جب اس طرح بھی کام نہ چلتا دیکھا تو سب اہل مکہ نے معاہدہ کر لیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کے خاندان اور تمام مسلمانوں کا مقاطعہ (بائی کاٹ ) کیا جائے.اور کوئی شخص ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز فروخت نہ کرے.اور نہ ان سے شادی بیاہ کا تعلق کیا جائے اور نہ اِن سے کبھی صلح کی جائے.جب تک کہ وہ آپ موقتل کے لئے نہ دے دیں.مکہ ایک اکیلا شہر ہے.اس کے اردگرد چالیس میل تک اور کوئی شہر نہیں.پس یہ فیصلہ سخت تکلیف دہ تھا.مکہ والوں نے پہرے لگا دئے کہ کوئی شخص ان کے ہاتھ کوئی کھانے کی چیز فروخت نہ کرے.اور برابر تین سال تک اُس سخت قید میں آپ گو رہنا پڑا.راتوں کے اند ھیروں میں پوشیدہ طور پر جس قدر غلہ وہ داخل کر سکتے تھے، کر لیتے.مگر پھر بھی اس قدر نگرانی میں وہ لوگ کہاں تک انتظام کر سکتے تھے.بہت دفعہ کئی دن جھاڑیوں کے پیتے اور شاخوں کے چھلکے کھا کر ان کو گزارہ کرنا پڑتا تھا.ایک صحابی کہتے ہیں کہ ان تکلیف کے دنوں میں سب کی بخشتیں خراب

Page 53

48 ہوگئیں.اور پیٹ پشت سے لگ گئے.ہفتہ نہیں.دو ہفتہ نہیں.تین سال متواتر وہ بہی خواہ بنی نوع انسان اپنے ماننے والوں کے ساتھ صرف اس لئے دُکھ دیا گیا کہ وہ کیوں خدائے واحد کی پرستش اور اخلاق کی اعلیٰ تعلیم دیتا ہے؟ مگر اُس نے ان تکالیف کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کی.تین سال کی متواتر تکلیف کے بعد بعض رؤساء مکہ کی انسانیت اس ظالمانہ فعل پر بغاوت کرنے لگی.اور اُنہوں نے اُس معاہدہ کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کیا گیا تھا چاک کر دیا.اور آپ اس وادی سے نکل کر باہر آگئے.مگر آپ کے بوڑھے چا اور وفادار بیوی ان صدمات کے اثر سے نہ بیچ سکے.اور کچھ دنوں کے بعد فوت ہو گئے.اہلِ مکہ کی بے پرواہی کو دیکھ کر آپ نے عرب کے دوسرے شہروں کی طرف توجہ کی.اور طائف کے لوگوں کو خدائے واحد کی پرستش کی دعوت دینے کے لئے تشریف لے گئے.طائف مکہ سے ساٹھ میل کے فاصلہ پر ایک پرانا شہر ہے.اس شہر کے لوگوں کو جب آپ نے خدا کا کلام سنایا تو وہ مکہ والوں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوئے.پہلے انہوں نے گالیاں دیں.پھر کہا شہر سے نکل جاویں.جب آپ واپس آرہے تھے تو بدمعاشوں اور کتوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا.پتھر پر پتھر چاروں طرف سے آپ پر پڑتے تھے اور مئے پیچھے دوڑتے تھے.سر سے پاؤں

Page 54

49 تک آپ خون سے تر بتر تھے.مگر اُس وقت اُن ظالموں کی نسبت جو خیالات آپ کے دل میں موجزن تھے وہ اُن الفاظ سے ظاہر ہیں جو اُس سنگساری کے وقت آپ کی زبان پر جاری تھے.آپ خون پو نچھتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اے خدا! ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ میں جو کچھ ان لوگوں کو کہتا ہوں سچ اور دُرست ہے.اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اچھا سمجھ کر کر رہے ہیں.اس لئے تو ان پر ناراض نہ ہو اور ان پر عذاب نازل نہ کر.بلکہ ان کو سچائی کے قبول کرنے کی توفیق دے.لیکن تکلیف کے وقت میں کیسے محبت سے بھرے ہوئے الفاظ کہے گئے ہیں.کیا ان سے بڑھ کر ہمدردی کی مثال کہیں مل سکتی ہے؟ سچ چھپا نہیں رہتا.آپ کی تعلیم کی خبریں باہر مشہور ہو ئیں.اور بیٹرب نامی ایک شہر کے لوگ ( جسے اب مدینہ کہتے ہیں.) حج کے لئے مکہ آئے تو آپ سے بھی ملے.آپ نے ان کو اسلام کی تعلیم دی.اور اُن کے دلوں پر اُس نے ایسا گہرا اثر کیا کہ اُنہوں نے واپس جا کر اپنے شہر کے لوگوں سے ذکر کیا اور ۷۰ آدمی دوسرے سال تحقیق کے لئے آئے.جو سب اسلام لے آئے.اور انہوں نے درخواست کی کہ آپ اُن کے شہر میں چلے جائیں.مگر آپ نے اس وقت اُن کی بات پر عمل کرنا مناسب نہ سمجھا.ہاں وعدہ کیا کہ جب ہجرت کا موقعہ ہوگا آپ مدینہ تشریف لائیں گے.جب اہل مکہ کو معلوم ہوا کہ اب باہر بھی آپ کی تعلیم پھیلنی شروع ہوئی ہے تو

Page 55

50 اُنہوں نے ہر قبیلہ میں سے ایک ایک آدمی چنا.تا کہ سب مل کر آپ گورات کو قتل کر دیں.اور یہ اس لئے کیا کہ اگر آپ کی قوم اس کو نا پسند کرے تو وہ سب قوموں کے اجتماع سے ڈر کر بدلہ نہ لے سکیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بتا دیا تھا.آپ اُسی رات مکہ سے نکل کر ابوبکر کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے.جہاں کے لوگوں پر اسلام کی تعلیم کا ایسا اثر ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں قریبا سب مدینہ کے لوگ اسلام لے آئے.اور آپ کو انہوں نے اپنا بادشاہ بنالیا.اور اس طرح وہ کونے کا پتھر جسے اُس شہر کے معماروں نے رڈ کر دیا تھا، مدینہ کی حکومت کا تاج بنا.اس ترقی کے زمانہ میں بھی آپ نے اپنا فعل تعلیم اور وفظ ہی رکھا.اور اپنی سادہ زندگی کو کبھی نہیں چھوڑا.آپ کا شغل یہ تھا کہ آپ لوگوں کو خدائے واحد کی پرستش کی تعلیم دیتے.اخلاق فاضلہ اور معاملات کے متعلق اسلامی احکام لوگوں کو سکھلاتے.پانچ وقت نماز خود آکر مسجد میں پڑھاتے.( مسلمانوں میں بجائے ہفتہ میں ایک مرتبہ عبادت کرنے کے پانچ دفعہ روز مسجد میں جمع ہوکر عبادت کی جاتی ہے.جن لوگوں میں جھگڑے ہوتے آپ فیصلہ کرتے.ضروریات قومی کی طرف توجہ کرتے.جیسے تجارت تعلیم ، حفظانِ صحت وغیرہ.اور پھر غرباء کے حالات معلوم کرتے اور اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کی کو شش کرتے.مٹی کہ جن لوگوں کے گھروں میں کوئی عود الا دینے والا نہ ہوتا

Page 56

51 اُن کے لئے سودالا دیتے.پھر باوجود ان سب کاموں کے کبھی بچوں کے اندر قومی رُوح پیدا کرنے کے لئے اُن میں جا کر شامل ہو جاتے اور اُن کو اُن کی کھیلوں میں جوش دلاتے.جب گھر میں داخل ہوتے تو اپنی بیویوں سے مل کر گھر کا کام کرنے لگتے.اور جب رات ہوتی اور سب لوگ آرام سے سو جاتے.تو آپ آدھی رات کے بعد اٹھ کر رات کی تاریکی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے.یہاں تک کہ بعض مرتبہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں شوج جاتے.(باقی) حضرت عثمان رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسرے خلیفہ تھے.آپ کے والد کا نام علمان تھا.آپ کی کنیت ابو عبد اللہ اور ابوعمر تھی.آپ کپڑے کی تجارت فرماتے تھے.اور کافی دولت مند تھے.آپ بنو امیہ میں سے تھے اور کافی عزت و وجاہت رکھتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لحاظ سے آپ کا چوتھا پانچواں نمبر ہے.جس وقت آپ ایمان لائے اُس وقت آپ کی عمر ۳۰ سال کی تھی.ایمان لانے کی

Page 57

52 وجہ سے آپ کو بھی کافی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا.چنانچہ ایک دفعہ آپ کے چچا نے آپ کو رسیوں سے باندھ کر خوب پویا.مگر آپ نے ان تکالیف کو بڑی خوشی سے برداشت کیا.اور اُف تک نہ کی.جب تکالیف بہت بڑھ گئیں تو آپ اپنے اہل وعیال سمیت صفحہ کی طرف ہجرت کر گئے.جہاں چند سال بسر کرنے کے بعد جب پھر آپ مکہ تشریف لائے تو پھر وہی تکالیف بدستور تھیں.ہجرت کے حکم کے بعد پھر آپ مدینہ تشریف لے گئے.اور تا شہادت وہیں قیام فرمار ہے.آپ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ย ہونے کے علاوہ آپ کے داماد بھی تھے.پہلے آپ سے حضور کی صاحبزادی رقیہ کی شادی ہوئی.جب آپ فوت ہوگئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی اُم کلھوم سے آپ کی شادی ہوئی.اسی لئے آپ کوڈ والنورین کہا جاتا ہے.جب آپ بھی وفات پا گئیں تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میری کوئی اور لڑکی بھی ہوتی تو میں اُس کی بھی عثمان کے ساتھ شادی کر دیتا.غرض یہ سب آپ کے اوصاف حمیدہ اور خصائل پسند یدہ کی وجہ سے ہی تھا.آپ نے اپنے مال وجان کے ساتھ اسلام کی بہت مدد کی.اپنا سارا مال اسلام کی راہ میں پانی کی طرح بہادیا.اور کئی جنگوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے.مسلمانوں کی ہر تکلیف کو دور کرنے میں آپ لگے

Page 58

53 رہتے تھے.چنانچہ جب مسلمانوں کو مدینہ میں پانی کی تکلیف تھی تو آپ نے ایک کنواں جس کا نام روعہ تھا.۲۰ ہزار درہم کو خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا.اور جب جیش العسرة کی تیاری کی جارہی تھی.اور اس کے لئے ہر قسم کی مدد کی ضرورت تھی تو آپ نے ہزار اونٹ ۵۰ گھوڑے اور ہزار دینار بطور امداد دے - تجزا الله احسن الجزاء ئے.آپ عشرہ مبشر و ( یعنی وہ دس آدمی جن کو اسی جہان میں جنتی ہونے کی خوش خبری دی گئی.) میں سے ہیں.آپ نہایت ہی باحیا، با وفا نرم دل ، عابد وزاہد اور اوّل درجہ کے پرہیز گار اور متقی تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے حیا اور حسن خلق کی بہت تعریف فرمائی ہے.آپ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب واحترام کمال درجہ کا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خلافت ملنے سے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا کہ ” اے عثمان ! اللہ تعالیٰ آپ کو خلیفہ بنائے گا اور باقی لوگ آپ سے خلافت چھینا چاہیں گے.مگر آپ خلافت نہ چھوڑیں.“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ خلیفہ بنائے گئے.آپ نے خلافت کے کام کو نہایت ہی اعلیٰ طریق پر سرانجام دیا.آپ کے زمانہ خلافت سے پہلے قرآن شریف جمع تو تھا مگر مسلمانوں کے

Page 59

54 پاس جو نئے تھے وہ کسی خاص ترجیب کے ماتحت نہ تھے.ہر شخص نے اپنی اپنی طبیعت اور مذاق کے مطابق آگے پیچھے عورتیں رکھی تھیں.آپ نے اس نسخہ کی جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کروایا تھا.اور اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عورتوں کی ترجیب فرمائی تھی.اس کے ماتحت ترجیب ولا ئی تھی نقل فرما کر مختلف علاقوں میں بھیج دئے.اور باقی تمام نسخوں کو جلا دیا.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف آج تک ایک ہی ترتیب اور قرآت سے چلا آتا ہے.ورنہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو سخت گڑ بڑ ہو جاتی.اور کئی بے وقوف ٹھوکر کھا جاتے.درحقیقت یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ اور عظیم الشان خدمت ہے جو آپ بجالائے.مسجد حرام اور مسجد نبوی کو آپ نے وسیع کیا.گوفہ میں لوگوں کے آرام کے لئے سرائیں بنوائیں.دار القضنا بنایا.لوگوں کو جاگیریں عطا فرمائیں.تا زمینیں آباد ہوں.مؤذنوں کا وظیفہ مقرر کیا.اس کے علاوہ آپ نے اور بھی بہت سے اعلیٰ درجہ کے کام سر انجام دئے.آرمینیا، قوقاز، قبرص، مغربی علاقہ جات اور وہ تمام شہر جو فارس وخر اسان وطبرستان سے ابھی تک فتح نہ ہوئے تھے.آپ کے عہد مبارک میں فتح ہوئے.غرضیکہ آپ کا عہد خلافت بھی نہایت ہی بابرکت عہد تھا.اسلام کی شان و شوکت اور رُعب و دبدبہ کو دیکھ کر بعض معاند اور مفید عیسائی اور یہودی بھی اسلام کو تباہ کرنے کی خاطر اسلام میں داخل ہو چکے

Page 60

55 تھے.جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ڈر سے باہر سر نہ نکالتے تھے.مگر آپ کی نرمی، رحم دلی اور لطف وکرم کی وجہ سے باہر نکل آئے اور امت میں تفرقہ برپا کرنے اور اسلام کو تباہ کرنے کی کوششوں میں لگ گئے.اور خواہ مخواہ حضرت عثمان پر برس پڑے.اور آپ پر طرح طرح کے الزامات لگا کر آپ کو خلافت سے علیحدہ کرنا چاہا.مگر آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق خلافت سے علیحد ہ ہونے سے انکار کر دیا.ان حالات کو دیکھ کر حضرت معاویہ نے آپ سے عرض کی کہ آپ میرے پاس ملک شام میں تشریف لے چلیں.مگر آپ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ کی ہمسائیگی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.اس پر انہوں نے عرض کی کہ میں آپ کی حفاظت کے لئے ایک لشکر بھیج دیتا ہوں.( اُن دنوں حضرت معاویہ شام کے گورنر تھے.مگر آپ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ کے دوسرے ہمسایوں یعنی مدینہ کے رہنے والوں کوتنگ کرنا نہیں چاہتا.حضرت معاویہؓ نے عرض کی کہ پھر تو یہ لوگ آپ کو قتل کردیں گے.آپ نے فرمایا.حَسْبِيَ اللهُوَ نِعْمَ الْوَكِيْل.آخر کچھ دنوں بعد ان معاندین اور آپ کے باغیوں نے جو ۳ ہزار کے قریب تھے مدینہ کا محاصرہ کر لیا.اور آپ کو بڑی سخت تکالیف دیں.نماز

Page 61

56 پڑھانے سے آپ کو روکا گیا.آپ کا پانی بند کر دیا گیا.اور یہ اعلان کر دیا کہ جو آپ کے ساتھ آمد ورفت رکھے گا اسے ہم مل کر دیں گے.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہر چند اُن باغیوں کو سمجھایا.مگر وہ باز نہ آئے.اور تکالیف دن بدن زیادہ ہوتی گئیں.آخر آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے اردگرد بہرہ مقرر کر دیا.تا دشمن آپ تک نہ پہنچ سکے.ایک دن (۱۸ / ذی الحجہ ۱۳۵ھ مطابق ۲۰ مئی ۱۵۶ء) جبکہ حضرت امام حسن اور مروان پہرہ دے رہے تھے چند باقی حضرت امام حسن کو زخمی کر کے اور مروان کو قتل کر کے دیوار میں پھاند کر اندر جا گھسے.اور آپ کو ایسی حالت میں شہید کر دیا جب کہ آپ قرآن شریف کی تلاوت فرمارہے تھے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُون یہ دن ایک ایسا دن تھا جس دن سے اسلام کے اند رفتنوں کا دروازہ گھل گیا اور اُمتِ اسلامیہ میں ایک خطر ناک تشتت وافتراق پیدا ہو گیا.اور یہ وہ دن تھا جس دن حیا ووفا کا مجسمہ، اسلام کا ایک جواں مرد سپا ہی ، حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا داماد اور آپ کا جاں نثار خلیفہ ۱۲ سال خلافت کر کے ۸۲ سال کی عمر میں اس جہان سے اُٹھ گیا.اور اپنے محبوب حقیقی سے جا ملا.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِرُ جِعُون

Page 62

57 حضرت مسیح موعود عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ آج سے ۵۰ سال قبل دنیا کی حالت بہت خراب تھی.تمام لوگ گمراہ ہو چکے تھے.کفر ، شرک اور بدعت کا دُنیا میں زور تھا.مسلمان بھی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ چکے تھے.قرآن شریف کو الماریوں میں بند کر کے رکھ دیا گیا تھا.ہر طرف پیر پرستی ،قبر پرستی کا رواج اور تعویذ گنڈے پر ایمان تھا.نماز ، روزہ کی جگہ رسموں نے لے لی تھی.لوگ بے نماز اور نام کے مسلمان تھے.اُس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت میرزاغلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا کی ہدایت کے لئے مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر بھیج دیا.آپ کے دعوی فرمانے پر باطل کے شیدائی آپ کے مخالف اور منکر ہو گئے.اور آپ کے مٹانے کے لئے انہوں نے ہر کوشش کی.مگر آپ کے الہام إلى مُعِينَ مَنْ أَرَادَ إعَانَتَكَ وَإِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَاهَا نَتَكَ کے مطابق آپ کے سب دشمن ذلیل ہوئے.اور اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے.حق پر فدا ہونے والے آپ پر ایمان لائے اور آپ کے ساتھ ہوئے.اللہ تعالیٰ نے اُن کو بے حد عزت دی.اور ہر مقام میں اُن کی مدد کی اور لے جو تیری مدد کرنے کا ارادہ کرے گا.میں اُس کی مدد کروں گا.اور جو تیرے ذلیل کرنے کا ارادہ کرے گا.میں اُسے ذلیل کر دوں گا.منہ

Page 63

58 انہیں ہر میدان میں کامیاب و کامران کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے اسلام کو بہت فائدہ پہنچا ہے.آپ کے آنے سے قبل ۱۲۹ اکھ مسلمان مرتد ہو کر عیسائی ہو چکے تھے.اگر آپ نہ آتے تو سارے مسلمان آج تک عیسائی ہو جاتے.کیونکہ قرآن وحدیث سے ناواقف مولویوں نے یہ غلط مشہور کر رکھا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اس خاکی جسم کے ساتھ بغیر کھانے پینے کے زندہ بیٹھے ہیں.جب مسلمان خراب ہو جائیں گے تو پھر وہ اُن کو سیدھے راستہ پر چلانے کے لئے اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے.عیسائی پادری یہی بات مسلمانوں کے سامنے پیش کر کے کہتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا کا بیٹا ہے.اسی لئے وہ خدا کے پاس زندہ آسمان پر بیٹھا ہے.جس طرح خدا کھانے پینے کا محتاج نہیں.ای طرح مسیح بھی کھانے پینے کا محتاج نہیں.اور تمہارے نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہے.کیونکہ آپ تو ۶۳ سال کی عمر پا کر وفات پاگئے اور مدینہ منورہ میں آپ کی قبر موجود ہے.مگر ہمارا مسیح تو دو ہزار سال سے زندہ چلا آرہا ہے.اور جب تمہارے نبی کی اُمت بگڑ جائے گی.پھر وہی آئے گا اور پھر اس کے بعد قیامت آجائے گی.ان باتوں کوشن کر بہت سے نادانوں نے اسلام جیسے پاک مذ ہب اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نبی کو جو سب نہیوں کا سردار ہے، چھوڑ

Page 64

59 دیا.اور عیسائی ہو گئے.اور نہ صرف نادان ہی بلکہ بڑے بڑے مولوی بھی ان باتوں کا جواب نہ پا کر عیسائی اور اسلام کی تکذیب کے لئے کمر نہ ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر قرآن شریف صحیح احادیث ،توریت وانا جیل اور تواریخ و تفاسیر وغیرہ سے ثابت کر دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہوئے ہیں اور ان کی قبر بھی ہر مانگر محلہ خان یارکشمیر میں موجود ہے.اور وہ آنے والا مسیح موعود خدا کے حکم کے موافق میں ہوں.جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اور آپ کا شاگرد ہے اور آپ ہی کی پیروی کی برکت سے اس درجہ پر پہنچا ہے.آپ کا فیض قیامت تک جاری ہے.آپ کی پیروی آپ کی اُمت کو نبی بنا دیتی ہے.اور اُس کو بلند سے بلند مقامات پر پہنچادیتی ہے.اسلام ایک زندہ مذہب ہے.ہمارا نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی ہے.ہماری کتاب قرآن شریف ایک زندہ کتاب ہے.اب اسلام کے سوا کوئی مذہب ایسا نہیں جو نشان دکھلا سکے.اور قرآن شریف کے سوا کوئی کتاب ایسی نہیں جو ایک انسان کو خدا تک پہنچا سکے.اور نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نبی ایسا نہیں جو کسی مردہ کو زندہ کر سکے.اور اپنے اس دعوی کے ثبوت میں متعد د نشانات لوگوں کو دکھلائے.اور آپ نے مسلمانوں کو نہ صرف عیسائیوں کے فتنہ سے ہی محفوظ کر دیا ہے.بلکہ ہمیشہ کے لئے ایک ایسی جماعت ( جماعت احمدیہ ) کو قائم کر دیا ہے جو

Page 65

60 قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے والی تمام رسوم ورواج اور بدعتوں سے بچنے والی اور دین کو دُنیا پر مقدم کرنے والی ہے.آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ، قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت اور عشق تھا.ایسی محبت اور ایسا عشق آج تک کسی شخص میں نہیں دیکھا گیا.آپ کی ہر تقریر اور تحریر میں یہ بات نمایاں نظر آتی ہے.قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی تعریف آپ نے لکھی ہے، آج تک کسی نے نہیں لکھی.ہر مقام سے ہی نظر آتا ہے کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے ہیں.آپ کی ہر بات سے اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت کا پتہ چلتا ہے.آپ کو ہر وقت یہی فکر رہتا تھا کہ کسی طرح دُنیا میں اللہ تعالیٰ کا جلال اور عات قائم ہو جائے.اور سب لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں.اور آپ کے ساتھ محبت رکھیں.تاوہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور محبت حاصل کریں.آپ نے آکر دنیا پر اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت دے دیا ہے.کوئی نیک بخت اس کا انکار نہیں کرسکتا.ہر روز آپ کے ذریعہ تازہ بتازہ بارش کی طرح اللہ تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہوتے تھے اور آج بھی ظاہر ہور ہے ہیں.کیا ہی مُبارک ہیں وہ لوگ ! جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اُن نشانات کو پورے ہوتے دیکھا.فَتَبَارَكَ من عَلَّمَوَتَعَلَّمَ

Page 66

61 اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن شریف کا علم دے کر تمام دنیا کے علوم پر حاوی کر دیا تھا.عربی ، فارسی، اردو و غیرہ میں آپ ایسے کامل اور ماہر تھے کہ آپ کے دشمنوں کو بھی اس کا اعتراف ہے.عربی زبان تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی اعلیٰ درجہ کی عطا کی تھی کہ ساری دنیا باوجود ہزاروں روپیہ انعام مقرر کرنے کے اس کے مقابلہ سے عاجد آگئی.آپ کی عربی ایسی تصیح وبلیغ ہے کہ عرب بھی اس پر حیران ہوتے ہیں.آپ کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے.طبیعت میں سکینت ، اطمینان، فروتنی اور عاجزی انکسار اور وقار بہت تھا.ہر ایک شخص سے آپ حسن سلوک سے پیش آتے.قصور واروں کے قصور معاف فرماتے.پردہ پوشی سے بہت کام لیتے تھے.غرضیکہ آپ ہر رنگ میں اسلام کی تعلیم کا صحیح اور مکمل نمونہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل بروز تھے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَعَلَى مُطَاعِهِ الصَّلوةُ والسَّلَامُ

Page 67

29 62 حضرت خلیفة المسیح الاول رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ حضرت حافظ حاجی حکیم مولوی نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بے نظیر انسان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پہلے خلیفہ اور سب سے پہلے آپ کی بیعت کرنے والے تھے.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات ہوئی.اُس وقت دنیا میں ایک عام رو جماعت کی مخالفت کی چلی.مخالفوں نے یہ خیال کر لیا کہ اب یہ سلسلہ بالکل میٹ جائے گا.کیونکہ اس کو قائم رکھنے والے تو حضرت مسیح موعود ہی تھے.اور وہ فوت ہو چکے.لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس سلسلہ کے قیام اور اس کی حفاظت کے لئے حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کوحضور کا خلیفہ اور جانشین بنادیا ہے.جس وقت آپ نے یہ کام ہاتھ میں لیا اُس وقت بہت سی مشکلات در پیش تھیں.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی دستگیری فرمائی.اور ان تمام مصائب اور مشکلات کو فوراً دور کردیا اور جماعت احمدیہ جسے لوگ مٹانا چاہتے تھے.ترقی کرنے لگی.چنانچہ آپ کے زمانہ میں جماعت نے کافی ترقی کی.آپ نے اپنے زمانہ میں جماعت کی بہت تربیت کی ہے.قرآن کا پڑھنا

Page 68

63 پڑھانا تو آپ کی غذا تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن شریف کا علم عطا کیا تھا.اور آپ ہمیشہ اور ہر وقت اسے تقسیم فرماتے رہتے تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات بابرکات کے ساتھ بے حد محبت تھی.اور آپ کا ادب بھی آپ کے دل میں بے حد تھا.حضور کی مجلس میں آپ نے بات کرنے میں کبھی سبقت نہیں کی.جب آپ سے حضور کوئی بات دریافت فرماتے تو آپ خود اس کا جواب دیتے.ورنہ بالکل خاموشی کے ساتھ تشریف رکھتے.آپؐ کا علم بہت وسیع تھا.ہر مذہب کے متعلق آپ کو کافی واقفیت تھی.کتابوں کے مُطالعہ کا بھی آپ کو بے حد شوق تھا.وفات کے وقت جو آپ نے کتب خانہ چھوڑا وہ ایک مکمل کتب خانہ ہے.اُس میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی کتب موجود ہیں.بعض ایسی کتابیں بھی ہیں کہ بڑے سے بڑے کتب خانوں میں بھی اس وقت نہیں ملتیں.مگر آپ کے کتب خانہ میں موجود ہیں.آپ مصنف بھی اعلیٰ درجہ کے تھے.آپ کی مصلہ کتب بہت پسند کی گئی ہیں.اُن میں آپ نے علم و حکمت کے دریا بہادئے ہیں.آپ کی تحریر میں یہ ایک خاص خوبی ہے کہ وہ مختصر اور جامع ہوتی ہے اور ایسے ہی آپ کی کلام بھی مختصر اور جامع ہوتی تھی.تمام اخلاق فاضلہ آپ میں پائے جاتے تھے.اللہ تعالی پر توکل تو آپ کو

Page 69

64 اعلیٰ درجہ کا حاصل تھا.سینکڑوں ہزاروں لوگوں نے آپ سے ہر قسم کے فائدے حاصل کئے ہیں.خصوصاً لوگوں نے آپ کے قرآن شریف کے درس اور طب سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی بہت بہت رحمتیں نازل فرمائے.آمین.حضرت خلیفة المسیح الثانی رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت میرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے صاحبزادہ اور آپ کے دوسرے خلیفہ ہیں.آپ کا یہ نام حضور نے الہام الہی کی بناء پر رکھا تھا.آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سی بشارتیں دی گئی ہیں.اور احادیث میں بھی آپ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی موجود ہے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں بشیر محمود، فضل عمر مصلح موعود، دین کا چراغ، فرزند دلبند گرامی از حمد - مَظْهَرُ الْحَق والعلاء كَأَنَّ الله نَزَلَ مِنَ السَّمآء ، اسیروں کی رستگاری کا موجب قومیں اُس سے برکت پائیں گی بحسن و احسان میں آپ کا نظیر، دنیا کے کناروں تک

Page 70

65 شہرت پانے والا ،خلیفہ اللہ کہا گیا ہے.چنانچہ یہ پیشگوییاں حضور نے آپ کی پیدائش سے پہلے شائع کی تھیں.آپ کی پیدائش پر حضور نے الہام الہی کے مطابق آپ کا نام بشیر الدین محمود احمد رکھا اور آپ جلد جلد بڑھے.جب حضور کا ۱۹۰۸ ء میں وصال ہو ا.اُس وقت آپ کی عمر ۱۹.۲۰ سال کے قریب تھی.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی وفات پر جماعت کے کثیر حصہ نے آپ کو خلیفہ منتخب کر لیا.جس وقت آپ خلیفہ ہوئے ہیں.اُس وقت بیرونی مخالفین کے علاوہ لے سلسلہ کے اندرونی مخالفین بھی زور پر تھے.اور وہ فتنہ جو حضرت خلیفہ اسیح ย الاول کے رُعب کی وجہ سے دبا ہوا اور آپ کی وفات کا انتظار کر رہا تھا.اُس فتنہ نے جماعت کے دو حصے کر دئے.اور جماعت میں سخت اختلاف رونما ہو گیا.سلسلہ کے بیرونی دشمنوں نے بھی جماعت کے اس اختلاف کو دیکھ کر اس کے مٹانے کے لئے خوب زور لگایا.مگر چونکہ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا قائم کیا ہوا ہے.اس لئے آپ کی حسن سیاست اور حسنِ تدبر سے وہ مصیبت اور ظلمت کے بادل یکا یک پھٹ گئے.اور وہ فتنہ جس کی وجہ سے اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ اب ا غیر مبایعین

Page 71

66 یہ سلسلہ مٹ جائے گا ، غلط ہو گیا.آپ کی خلافت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کے مطابق کہ بڑے چھوٹے کئے جائیں گے اور چھوٹے بڑے کئے جائیں گے“ تمام وہ لوگ جو اپنے آپ کو بڑے سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ یہ سلسلہ اُنہی کی وجہ سے چل رہا ہے آپ کے مخالف ہو گئے.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے حرم کو اُن سے پاک کر دیا.اور وہ خود بخود قادیان دار الامان کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے.جس وقت وہ علیحدہ ہوئے اُس وقت اُن کا دعویٰ تھا کہ ۱۰۰ میں سے ۹۹ احمدی اُن کے ساتھ ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا.إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ أَهْلِكَ.کہ میں تیرے ساتھ بھی ہوں اور تیرے گھر والوں کے ساتھ بھی ہوں.اس لئے اللہ تعالی ان تمام سعید لوگوں کو جو غلطی کے ساتھ اُن کے ساتھ شامل ہو گئے تھے بھی لی لایا اور 100 میں سے ۹۹ آپ کی طرف آگئے.چنانچہ آج کل اُن منکرین خلافت کی تعداد ۵ ہزار کے قریب ہے.اور آج اُن بڑوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.مگر آپ کے مبایعین کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۰ لاکھ سے بھی زیادہ ہے.کیا یہ آپ کے خلیفہ برحق ہونے کی منکرین خلافت کے لئے دلیل نہیں؟ بیرونی دشمنوں نے بھی آپ سے بری طرح شکست کھائی ہے.سینکڑوں میانے اور مناظرے ہوئے.ہر مذہب دل کھول کر آگے بڑھا.مگر تاب مقابلہ

Page 72

67 لاکر خود بخود پیچھے ہٹ گیا.آریوں، عیسائیوں، غیر احمد یوں سب نے مناظرے کئے.مگر آج قوت مقابلہ نہ پا کر میدان سے بھاگ چکے ہیں.اور اب کوئی حتی الوسع مناظرہ کا نام تک نہیں لیتا.۱۹۲۶ میں ملکانہ میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو مرتذ کرنا شروع کر دیا.اور بہت سے مسلمانوں کو مرتد بھی کرلیا.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور آپ کی کوششوں سے یہ فتنہ بھی دور ہو گیا.اُس وقت تمام ہندوستان کے مسلمان لیڈروں نے آپ کی بے حد تعریف کی تھی کہ فی الواقعہ یہ آپ کا ایک شاندار کارنامہ ہے.ہندوستان میں ہندو مسلم کشیدگی بہت بڑھ چکی تھی.آئے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات پر گندے سے گندے حملے کئے جاتے تھے.اور قتل ہوتے تھے.آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے اور ان آئے دن کے حملوں کی روک تھام کے لئے بہت بڑا کام سرانجام دیا ہے.اور وہ یوم سیرۃ النبی “ ہے.اس دن جماعت احمد یہ تمام دنیا میں جلسے منعقد کرتی ہے.جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر تقریریں کی جاتی ہیں.اور غیر مسلموں سے بھی آپ کی سیرت پر تقریریں کروائی جاتی ہیں.اور اس طرح لوگوں کو آپ کی سیرت سے واقف کیا جاتا ہے اور اُن کے دلوں میں آپ کی عزت اور احترام بٹھایا جاتا ہے.یہ تحریک ایک بہت ہی بابرکت تحریک ہے.جو آپ کے ذریعہ سے ظہور

Page 73

پذیر ہوئی ہے.68 99 اللہ تعالی نے آپ کو اعلی درجہ کا سیاست دان بنایا ہے.تحریک کشمیر میں مسلمانوں کے حقوق کے حفاظت اور ان کی فلاح و بہبودی کے لئے تمام ہندوستان کے مسلّمہ مسلماں لیڈروں نے متفقہ طور پر ایک کمیٹی بنائی.جس کا نام " آل انڈ یا کشمیر کمیٹی " رکھا اور ان تمام لیڈروں نے مطلقہ طور پر آپ کو اُس کا صدر بنایا.سبحان اللہ! کتنا بڑا درجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا کہ خود مخاضین کے مسلمہ لیڈروں نے بالا تفاق تسلیم کر لیا کہ اگر کوئی شخص ہم میں سے اس معہدہ کے قابل اور اس کام کو کر سکنے والا ہے تو وہ آپ ہی ہیں.چنانچہ آپ کی صدارت میں یہ کام بڑی اچھی طرح ہوتا رہا.اور اُن کشمیری مسلمانوں کو اُن کے بہت سے حقوق مل گئے.اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوئی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.مگر مسلمانوں کی بدقسمتی کہ بعض غذاروں نے جو نہ تو خود کام کرتے ہیں اور نہ کسی کو کرتا ہوا اور کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں.حسد وعداوت سے آپ کے کام میں آپ کی مخالفت کی.اس پر آپ نے استعفاء دے دیا.آپ کے بعد ایک مشہور لیڈر صدر تجویز کیا گیا اور ایک دوسری الجھن بھی بن گئی.مگر کام وہیں ختم ہو گیا.اور کسی سے کچھ بھی نہ بن سکا.اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکمت تھی کہ تا وہ لوگوں پر یہ ظاہر

Page 74

69 کر دے کہ یہ میرا بندہ ہے.میں اس پر خوش ہوں.اسی لئے جس طرف یہ تو مجہ کرتا ہے کامیاب ہو جاتا ہے.لیکن چونکہ میں تم پر ناراض ہوں.اس لئے تم جو کام بھی کرو گے اُس میں ناکام ہی رہو گے.جماعت احمدیہ کی تعظیم آپ کا ایک خاص کارنامہ ہے.یہ موجودہ تنظیم جو نظر آرہی ہے.آپ ہی کے حسن سیاست اور حسن تقدیر کا کرشمہ ہے.پہلے ایسی تنظیم نہ تھی.اب تو خدا تعالی کے فضل سے ایسی تنظیم ہے کہ دشمن بھی اس تنظیم کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے.اور آج اگر کسی کو اعلیٰ تعظیم کی مثال دینا ہو تو جماعت احمدیہ کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.آپ کی تبلیغ کی طرف بھی بہت توجہ ہے.جب آپ منصب خلافت پر مامور ہوئے.اُس وقت آج کل کی طرح کوئی باقاعدہ مبلغ نہ ہوتے تھے.بلکہ چند بزرگ ہی اس کام کو سر انجام دیا کرتے تھے.اور جہاں بھی ضرورت ہوتی تھی انہیں ہی بھیجا جاتا تھا.مگر آپ نے مبلغین کی طرف اس طرح توجہ کی ہے کہ مدرسہ احمدیہ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی مبلغ تیار کرتا ہے اور آج بہت زیادہ مبلغ سلسلہ میں موجود ہیں.اور یہ مبلغ نہ صرف ہندوستان میں ہی بلکہ ہندوستان کے باہر بھی کام کر رہے ہیں.آپ کی توجہ اگر اندرون ہند میں تبلیغ کی طرف ہے تو بیرون ہند کی طرف بھی آپ کی خاص توجہ ہے.

Page 75

70 بیرونی ممالک میں جو مشن قائم ہیں وہ بھی آپ ہی کی مساعی جمیلہ سے قائم ہوئے ہیں.جن کے ذریعہ ہزار ہا لوگ حضور پر ایمان لاکر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو چکے ہیں.آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.قومیں اس سے برکت پائیں گی.وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.ہم اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں.فَالْحَمْدُ لِله عَلَى ذَلِكَ اور آپ ہی وہ وجود باجود ہیں جس نے دنیا کے کناروں تک شہرت پائی اور آپ ہی کا وجود باجود ہے جس کے ذریعہ قوموں نے آپ کے حلقہ غلامی میں آکر اور آپ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاکر برکت پائی.وَنَحْنُ أَيْضًا مِنْهُمْ فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ آمين

Page 76

71.۴..ے.قرآن شریف کی تعلیم اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو.اللہ تعالیٰ سے ہر وقت ڈرتے رہو.اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء پر ایمان لاؤ.اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی مت کرو.اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے ہر فیصلہ کو مانو.اللہ تعالیٰ کے خلفاء کا انکار فسق ہے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتے رہو.ہمیشہ سچی بات کہو.و.+17 -11 امانت واپس کرو.جھوٹی قسم مت کھاؤ.آپس میں صلح کرو.۱۲.کافروں سے دوستی مت رکھو.۱۳.ستیاں چھوڑ دو.الد اگر کسی کو قرض دو یا کسی سے قرض لو تو لکھ لو.۱۵.سور شود، جو آ اور شراب سب حرام ہیں.

Page 77

72 مصیبت کے وقت إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھو.۱۶.-12 _IA فساد مت کرو.خیرات کیا کرو.۱۹.۲۰.۲..۴.۵.ے._^ - 1 + ا.مسافروں کے ساتھ نیک سلوک کرو.کسی کے ساتھ تمسخر مت کرو.حدیث کی باتیں اچھا مسلمان وہ ہے جو دین کا علم رکھتا ہو.سچ بولو.تا نیک کام کی توفیق ملے.گناہوں سے تو بہ کرتے رہا کرو.بدعت مت اختیار کرو.عنت پر عمل کرو.بری محبتوں سے بچو.اپنے بھائیوں کے کام کر دو.بیواؤں اور یتیموں کا خیال رکھو.ہمیشہ محمد ہ مال خدا کی راہ میں دو.مہمانوں کی عزت کرو.اور اُن کی خاطر ومدارت کرو.کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھو.اور بعد میں اَلْحَمْدُ لِلهِ

Page 78

73 ۱۲.۱۳.۱۴.۱۵.۱۷.۱۸.وا.۲۰.پانی پیتے وقت اُس میں سانس مت لو.اگر کسی مجلس میں آؤ تو جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جاؤ.چھینک مارنے والے کو جواب دو لے بیمار کے لئے دعا کرو اور عیادت بھی کرو.جنازہ کے ساتھ جاؤ.مسکینوں کوکھانا کھلاؤ.رشتہ داروں سے میل ملاپ رکھو.بڑوں کی عزت کرو اور چھوٹوں پر رحم کرو.ہر ایک کو السَّلَام عَلَيْكُمُ کہو.ا چھینک مارنے والا الحمد للہ کہے جو اس کے پاس ہو وہ بَرحَمُكَ الله کہے.پھر يَهْدِيكَ اللہ کہے.

Page 79

74 ا.اسلام اسلام از حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نہ بھاگو راہ ھدی یہی ہے اے سونے والو جاگو ! شمس الضحیٰ یہی ہے ۲.مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا اب آسماں کے نیچے دین خدا یہی ہے.وہ دلستاں نہاں ہے کس رہ سے اُس کو دیکھیں ان مشکلوں کا یارو مشکل کشا یہی ہے ۴.باطن سیہ ہیں جن کے اس دیں سے ہیں وہ منکر پر اے اندھیرے والو ! دل کا دیا یہی ہے ۵.دنیا کی سب دکانیں ہیں ہم نے دیکھیں بھالیں.ے.آخر ہوا ثابت دار الشفا یہی ہے خشک ہو گئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے ہر طرف میں نے دیکھا بستاں ہرا یہی ہے دنیا میں اس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت پی لو تم اس کو یارو آب بقا یہی ہے

Page 80

75 15 و.جب.اسلام کی سچائی کی سچائی ثابت ثابت ہے جیسے سورج دیکھتے نہیں ہیں دشمن بلا یہی ہے گھل گئی سچائی پھر اس کو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے جو ہو مفید لینا جو بد ہو اُس سے بچنا عقل و خرڈ یہی ہے فہم وذکا یہی ہے - 1 + ا.آسمانی ملتی ہے بادشاہی اس دیں سے اے طالبان دولت ! ظل ہما یہی ہے ۱۲.سب دیں ہیں اک فسانہ شرکوں کا آشیانہ اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما یہی ہے سو سو نشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بُلا کر ! مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس مدعا یہی ہے خاکسار چوہدری محمد شریف مولوی فاضل قادیان

Page 81

76 اسلام کی دوسری اور تیسری کتاب کے متعلق بعض شاندار آراء اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کتب اسلام نے جس قدر شہرت اور مقبولیت ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں حاصل کی ہے اور جس قدر مفید ثابت ہوا ہے اس کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر سلسلہ عالیہ احمدیہ کے علماء کرام و بزرگانِ عظام نے نہایت شاندارر یو یو لکھے ہیں.اسلام کی پہلی کتاب کے متعلق بعض ریویو اسلام کی دوسری کتاب میں درج کئے جاچکے ہیں.ذیل میں ہم اسلام کی دوسری اور تیسری کتاب کے متعلق بعض شاندار یو یو درج کرتے ہیں :- حضرت مولوی شیر علی صاحب بی اے.ناظر (1) تالیف و تصنیف فرماتے ہیں:.مولوی محمد عنایت اللہ صاحب منیجر نصیر بک ایجنسی قادیان نے بچوں کی تعلیم کے لئے ایک دینی سلسلہ کتابوں کا شائع کرنا شروع کیا ہے.اور اس سلسلہ کے چار رسالے چھوٹی تقطیع پر شائع ہو چکے ہیں.ان میں بچوں کو اسلامی تعلیم اور فقہی مسائل اور اسلامی تاریخ اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ اور بزرگان اسلام اور بزرگان بندگان سلسلہ احمدیہ اور انبیاء سابقین علیہم السلام کے حالات زندگی سے آگاہ کیا

Page 82

77 گیا ہے.اسباق میں تدریج کو مدنظر رکھا گیا ہے.اور عبارت آسان ہے تاکہ بچے ان کو سمجھ سکیں.اس سلسلہ کتب کے مرتب مولوی محمد شریف صاحب مولوی فاضل و مبلغ اسلام ہیں جو بچوں کے فائدہ کو مدنظر رکھ کر اس سلسلہ کی تصنیف میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں.یہ سلسلہ بچوں کی دینی اور مذہبی واقفیت کے لئے بہت مفید ہے.“ (۲) حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب پرائیویٹ سیکریٹری حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :- سلسلہ عالیہ حقہ احمدیہ میں عام تعلیم وتربیت جماعت کے واسطے کافی لٹریچر چھپ چکا ہے.لیکن چھوٹے بچوں کے لئے ابتدائی درسی ایسی کتابوں کا ہونا ضروری ہے.جو احمدی نقطہ نگاہ سے تالیف کی گئی ہوں.محمد عنایت اللہ صاحب تاجر کتب قادیان نے ہمت کر کے سلسلہ کے مبلغ چوہدری محمد شریف صاحب مولوی فاضل سے ایسی کتابوں کا سلسلہ لکھانا شروع کیا ہوا ہے جس کے تین حصے پہلے چھپ چکے ہیں اور اسلام کی چوتھی کتاب گزشتہ سالانہ جلسہ پر شائع ہوئی ہے.میں نے اس کا ذکر اپنے پیچر میں بھی کیا تھا.اس کے مضامین بچوں کے واسطے بہت مفید اور ضروری ہیں.ہر شہر کے

Page 83

78 احمدیوں کو چاہیئے کہ اپنے ہاں کے بچوں کو گھر میں بھی پڑھائیں اور اسلامی اسکولوں میں بھی انکا رواج دینے کی کوشش کریں.“ (۳) مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ حضرت مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب فرماتے ہیں:.یہ کتابیں احمدی بچوں اور بچیوں کے لئے نہایت مفید ہیں.بلکہ ان میں ایسے مسائل بھی آگئے ہیں جن کے جانے کی بڑوں کو بھی ضرورت ہے.اور ان کی سلیس عبارت کی وجہ سے عام فہم ہیں جن سے ہر طبقہ کے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ احباب ان کے مصنف اور ناشر صاحبان کی حوصلہ افزائی فرمائیں گے.جس سے ایسی تصنیفات کی تالیف واشاعت کو مدد پہنچ سکے گی.(۴) حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعه احمدیہ فرماتے ہیں :- اسلام کی پہلی، دوسری اور تیسری کتاب مرتب کردہ مولوی محمد شریف صاحب مولوی فاضل مبلغ سلسلہ احمدیہ (جو ایک ہونہار اور قابل نوجوان ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں علم میں اور جمیع امور خیر میں برکت بخشے.آمین ) شائع کردہ

Page 84

79 مولوی عنایت اللہ صاحب تاجر کتب قادیان میں نے دیکھی ہیں.یہ کتا ہیں 30020 یعنی سرکاری درسی کتابوں کے سائز پر چھپوائی گئی ہیں.16 پہلی کتاب ۲۷ صفحات کی ہے.مضمون کے لحاظ سے اس کتاب کے تین حصے ہیں.پہلے حصہ میں اسلام کی حقیقت اور ضروریات ایمان یعنی اسلام کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات ،فرشتوں ، الہی کتابوں، خدا تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں اور قیامت کے متعلق ابتدائی تعلیمی باتیں بیان کی گئی ہیں.دوسرے حصہ میں مختصر طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات ، قرآن شریف اور سنت وحدیث کے متعلق واقفیت پیدا کرائی گئی ہے.اور تیسرے حصہ میں بعض متفرق امور دین ، قرآن کریم کے بعض احکام اور احادیث نبویہ کی بعض تعلیمات بیان کی گئی ہیں.یہ رسالہ چھوٹے بچوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہائی اسکولوں تک کے طالب علموں کے لئے بہت ہی مفید ہے.کاغذ بہت اعلیٰ ہے.لکھائی اور چھپائی بھی بہت اچھی ہے.دوسری کتاب ۶۶ صفحات کی ہے.اس کتاب کے بھی تین حصے ہیں.پہلے حصہ میں نماز کے ضروری مسائل نہایت عمدگی کے ساتھ بیان کئے ہیں.اور دوسرے حصہ میں حضرت آدم ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفۃ اسبح الاول رضی

Page 85

80 اللہ عنہ کے حالات بیان ہوئے ہیں.اور تیسرے حصہ میں قرآن کریم کے بعض مزید احکام، احادیث نبویہ کی بعض مزید تعلیمات اور جماعت احمدیہ کے بعض فرائض بیان کئے گئے ہیں.اور آخر میں ایک نظم دارالامان کے متعلق اور ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم قرآن کریم کی شان میں درج کی گئی ہے.یہ کتاب بھی بچوں کے لئے اور اسکولوں کے طلباء کے لئے بہت مفید ہے.تیسری کتاب ۸۰ صفحات کی ہے.لکھائی ، چھپائی کا معیار بہت اچھا ہے.اس کے بھی تین حصے ہیں.پہلے حصہ میں رمضان شریف کے روزوں، اعتکاف ، صدقۃ الفطر اور قربانی کے ضروری مسائل بہت خوبی سے بیان کئے گئے ہیں.دوسرے حصہ میں حضرت ابراہیم ، حضرت عیسی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر بن خطاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت خلیفتہ امسیح الاول اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے بعض حالات بیان کئے گئے ہیں.اور تیسرے حصہ میں قرآن کریم کی بعض مزید تعلیمات اور حدیث شریف کی بعض ہدایات بیان کی گئی ہیں.اور آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان والا کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ.الصلوۃ والسلام کی ایک نظم درج کی گئی ہے.یہ مجموعہ بھی بچوں اور طالب علموں کے لئے بہت ہی مفید ہے.میں ان تینوں کتابوں کا خلاصہ مضمون بیان کرنے کے بعد پرزور سفارش

Page 86

81 کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ان کتابوں سے پورے طور پر فائدہ اٹھایا جائے.اللہ تعالیٰ ان کتابوں کے مرتب اور شائع کنندہ کو اس محنت اور خدمت خلق کا بہتر سے بہتر اجر دے.آمین (۵) فاضل اجلال حضرت مولانا ابوالبرکات غلام رسول صاحب را جیکی مبلغ سلسلہ عالیہ احمد یہ فرماتے ہیں:.اسلام کی دوسری اور تیسری اور چوتھی کتاب جو اسلام کی پہلی کتاب کے بعد طبع ہوئی.حد یہ لٹریچر میں بلحاظ بچوں کی تعلیم کے ایک مفید اضافہ ہے.علاوہ مسائل فقہیہ کے جو ارکان اسلام کے متعلق ضروری تشریح کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کے حالات بھی لکھے گئے ہیں.اور سلسلہ احمدیہ کے مسائل مخصوصہ پر بھی بقدر ضرورت روشنی ڈالی گئی ہے.جن سے واقف ہونے کے بعد بچوں کو معلومات میں اس قدر وسعت پیدا ہوسکتی ہے.جس قدر کہ سلسلہ احمدیہ کے نو خیز بچوں کے لئے از بس ضروری ہے.خدا تعالیٰ عزیز مولوی محمد شریف صاحب کو جزائے خیر دے کہ جن کے قلم فیض رقم کے نتیجہ میں یہ مفید سلسلہ تالیفات ظہور میں آیا.اور پھر مولوی محمد عنایت اللہ صاحب تاجر کتب کو جن کی کوشش سے یہ سلسلہ طبع ہو کر شیوع پذیر ہوا.خدا تعالیٰ یہ مفید لٹریچر فائدہ عام کے لحاظ سے مفید اور بابرکت بنائے.آمین

Page 87

82 (Y) جناب ملک غلام فرید صاحب ایم اے.ایڈیٹر یویو آف ریلیجنز (انگریزی) فرماتے ہیں :- ”مولوی محمد عنایت اللہ صاحب تاجر کتب قادیان نے بچوں کے لئے ایک نہایت مفید سلسلہ کتب شائع کرنا شروع کیا ہے.گزشتہ سال انہوں نے اسلام کی پہلی کتاب مصنفہ مولوی محمد شریف صاحب شائع کی تھی.جس میں خدا تعالیٰ کی ہستی ، انبیاء، کتب سماویہ، قیامت وغیرہ سب ضروری عقاید کے متعلق بچوں کی استعداد کے مطابق ضروری مصالحہ مہیا کر دیا گیا تھا.اب انہوں نے اسلام کی دوسری اور تیسری کتاب شائع کی ہیں.یہ دونوں کتابیں بھی مولوی محمد شریف صاحب کی تصنیف کردہ ہیں.اور چھوٹی عمر کے بچوں کے لئے ویسی ہی مفید ہیں جیسی اسلام کی پہلی کتاب.“ (۷) جناب مولوی محمد یعقوب صاحب مولوی فاضل اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل فرماتے ہیں :- ”مولوی محمد عنایت اللہ صاحب تاجر کتب و مینیجر نصیر بک ایجنسی قادیان نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ جماعت احمدیہ کے بچوں کے لئے ایسے رسائل کی ضرورت ہے جن میں اسلامی عقائد اور جماعت احمدیہ کے حالات کا عام فہم اور آسان عبارت میں ذکر ہو.تا وہ چھوٹی عمر میں ہی عام دینی معلومات حاصل کر کے اپنی آئندہ زندگی کو بہتر بناسکیں.سلسلہ احمدیہ کے مبلغ مولوی محمد شریف

Page 88

83 صاحب مولوی فاضل سے اس وقت تک تین کتب لکھوائی ہیں.جو اسلام کی پہلی کتاب ، اسلام کی دوسری کتاب اور اسلام کی تیسری کتاب کے نام سے شائع ہو چکی ہیں ان کتب میں اسلام کیا ہے، ہستی باری تعالیٰ، فرشتے، الہامی کتب، خدا تعالیٰ کے نبی ، قیامت ، قرآن شریف اور نماز ، روزہ وغیرہ مسائل پر بچوں کی استعداد کے مطابق تمام ضروری امور بیان کئے گئے ہیں.علاوہ ازیں انبیاء سابقین حضرت آدم ، حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی کے مختصر حالات کا بھی ذکر ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوانح حیات بھی دل آویز طور پر بیان کئے گئے ہیں.خلفاء راشدین حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ضی اللہعنہاکے تاریخی واقعات بھی درج کئے گئے ہیں.پھر حضرت میں موجود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حالات بھی مختصر طور پر بیان کئے گئے ہیں.اسی طرح شرائط بیعت اور مفید نظمیں بھی بعض موقعوں پر درج ہیں.میں سمجھتا ہوں یہ سلسلہ کتب اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف بچوں کے لئے مفید ہے بلکہ نو مسلم اصحاب بھی اس سے بہت کچھ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.چونکہ بچوں کی تعلیم وتربیت سے آئندہ نسل کی ترقی ہوتی ہے.اس لئے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ ان کتب کو خریدیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں.یہ کتب

Page 89

84 نظارت تالیف وتصنیف کی منظور شدہ ہیں.اور قیمت بھی واجبی رکھی گئی ہے.“ (۸) محترم جناب شیخ عبد الرحمن صاحب مصری مولوی فاضل وبی.اے.ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ قادیان فرماتے ہیں :- مولوی محمد عنایت اللہ صاحب تاجر کتب قادیان نے اسلامی کتب کا ایک سلسلہ تالیف کروانا شروع کیا ہے.میں نے اس سلسلہ کی تین کتابوں کو دیکھا ہے.میری رائے میں یہ سلسلہ نہ صرف بچوں کے لئے بلکہ اکثر بڑوں کے لئے بھی مفید ہے.احمدی احباب کو چاہیئے کہ مولوی صاحب موصوف کی ہمت افزائی کریں اور کثرت سے ان کتب کو خرید کر کے خود بھی پڑھیں اور بچوں کو بھی پڑھا ئیں.“ (9) جناب چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے.(علیگ ) ہیڈ ماسٹر نصرت گرلز ہائی اسکول قادیان فرماتے ہیں :- میں نے سلسلہ کتب اسلام مصنفہ چوہدری محمد شریف صاحب مولوی فاضل کی پہلی تین کتابیں مختلف جگہوں سے پڑھ کر دیکھی ہیں.ان میں ان اسلامی مسائل کو جن کا بچوں کو سکھانا اشد ضروری ہے بہت آسان اردو میں بیان کیا ہوا ہے.میرے خیال میں مسلمان بچوں کے لئے یہ بہت مفید ہیں.“

Page 89