Islam Book 3

Islam Book 3

اسلام کی کتب (تیسری کتاب)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
بچوں کے لئے

Book Content

Page 1

اسلام سے نہ بھا گو راہِ ہدیٰ یہی ہے اے سونے والو جا گوشس العملی یہی ہے بچوں کے لئے ) اسلام کی تیسری کتاب از چوہدری محمد شریف صاحب مولوی فاضل قادیان الناشر: نظارت نشر واشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان

Page 2

نام کتاب مصنف طبع اول کمپوز ڈایڈ یشن باراول حالیہ اشاعت مقام اشاعت تعداد شاعت ناشر مطبع اسلام کی تیسری کتاب چوہدری محمد شریف $1986: 2013: $2016 : : قادیان 1000 : نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان، ضلع گوراد سپور، پنجاب 143516،انڈیا فضل عمر پر نٹنگ پریس قادریان ISBN: 978-81-7912-364-5 Islam Ki Tesri Kitab by Choudary Muhammad Shareef Maulvi Fazil

Page 3

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عرض ناشر اسلام نام ہے اس دین کا اور اس طریقے پر زندگی گزارنے کا جو اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی سلی لی لی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے تھے اور جو قرآن شریف میں اور حدیث النبوی میں بتلایا گیا ہے اور حضوراکرم نے اپنے عملی نمونہ سے ہمیں سکھایا ہے.دین کا سیکھنا اور اسلام کی ضروری باتوں کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.دینی علوم حاصل کرنے والوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی اکرم نے فرمایا ہے کہ: مَنْ يُرِدُ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّةُ فِي الدِّينِ ( بخاری ) جس کو اللہ تعالیٰ بھلائی اور ترقی دینا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے.پس بچپن سے ہی دین اسلام کو سیکھنے اور اس کی ضرورت اور بنیادی باتوں کے علم حاصل کرنے کا شوق دل میں پیدا ہونا چاہئے اور احکام اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں کو سنوارنے کی کوشش کرنے کی عادت بھی پیدا ہونی چاہئے.اور بچپن سے ہی بچوں میں دینی تعلیم، اللہ اور اسکے رسول کی محبت اور غیرت کو راسخ کرنا چاہئے.محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم نے بڑی خوش اسلوبی اور عمدہ و آسان پیرائے میں اسلام کی بنیادی مسائل اور احمدیت کی مختصر تاریخ پر مشتمل پانچ کتب اسلام کی پہلی تا پانچویں کتاب“ سلسلہ وار تصنیف فرمائی ہیں.یہ کتب جہاں بچوں کی دینی تعلیم کے لئے نہایت دلچسپ ہیں وہاں بڑی عمر کے احباب بھی اس سے ضرور استفادہ کر

Page 4

سکیں گے.اللہ تعالیٰ محترم مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور ان کی تصنیف کردہ ان کتب کی اشاعت کو ان کے لئے خیر يَخلُفُ الرَّجُلُ میں سے بنائے.آمین محترم مولانا موصوف کی تصنیف کردہ اسلام کی پانچوں کتب پہلی بار ۱۹۸۶ء میں قادیان میں شائع ہوئی تھیں.اب کمپیورڈ ایڈ یشن ۲۰۱۳ء میں سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے من وعن شائع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو سید نا حضور انور کے اعلیٰ تو قعات کے مطابق نونہالان جماعت کی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

پیش لفظ طبع دوم محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبشر بلا د عربیه وایڈیٹر رسالہ ”البشری ( فلسطین) کی سلسلہ وار تصنیف ”اسلام کی پہلی تا پانچویں کتاب احمدی بچوں اور بچیوں کی دینی و تربیتی ضروریات کو پورا کرنے کے اعتبار سے بفضلہ تعالیٰ بہت مفید ثابت ہوئی ہے.جماعت ہائے احمد یہ بھارت کی ضرورت کے پیش نظر اسے وقف جدید انجمن احمد یہ قادیان کی طرف سے دور حاضر کے تقاضوں اور معیار کے مطابق شائع کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نونہالان احمدیت کو اس سے بیش از بیش استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین سیدنا حضرت خا رت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ و سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے حالات کا اضافہ خاکسار کے ذریعہ ہوا ہے.خاکسار ملک صلاح الدین ایم اے انچارج وقف جدید انجمن احمد سیہ قادیان ۲۰ نومبر ۱۹۸۶

Page 6

اعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ هوال اصر اسلام کی تیسری کتاب روزه روزہ کو عربی میں صوم کہتے ہیں.اس کے معنی لغت میں رکنے کے ہیں.اصطلاح شریعت میں کھانے پینے اور تمام شریعت کی منع کی ہوئی باتوں سے رُک جانے کو کہتے ہیں.روزہ انسان کی روحانی ترقی کے لئے ایک بہترین ذریعہ ہے.جس طرح کھانا جسم کے لئے ضروری ہے اسی طرح روزہ روح کے لئے ضروری ہے.جس طرح جسم بغیر کھانے کے قائم نہیں رہ سکتا.اُسی طرح روح بغیر روزہ کے قائم نہیں رہ سکتی.روزہ سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.اور اس پر اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں.اسکی دعائیں قبول کی جاتی ہیں.اور اس کو گنا ہوں سے [1]

Page 7

بچایا جاتا ہے.اور اس کو پاک کیا جاتا ہے.گناہوں سے بچنے کے لئے روزہ بہترین ذرائع میں سے ہے.اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے روزہ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.اور تم جانتے ہو کہ جس پر اللہ تعالیٰ خوش ہو جائے.اُسے اور کیا چاہیئے.جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر خوش ہو جاتا ہے تو اسے اپنی نعمتوں سے مالا مال کر دیتا ہے.اور اس کے دل اور اس کی جان کو اپنے ٹور سے منور کر دیتا اور اس کی ہر چیز کے اندر برکت رکھ دیتا ہے.جو چیز اس کے ساتھ لگتی ہے بابرکت ہو جاتی ہے.جس چیز پر اس کی نظر پڑتی ہے وہ بابرکت ہو جاتی ہے.روزے رکھنا سنت خاندانِ نبوت ہے.کیونکہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب، اُس کی خوشنودی.اور اُس کی معرفت حاصل ہوتی ہے.اور بہت سے عجائبات پر اطلاع دی جاتی ہے.رمضان کے روزے رمضان کے مہینہ میں ہر مسلمان.عاقل.بالغ لے پر روزے رکھنے فرض ل اوسط عمر بلوغت ۱۸ سے ۲۱ سال تک ہے.منہ [2]

Page 8

ہیں.اگر کوئی شخص مسافر یا بیمار یا کوئی عورت حائضہ یا لمرضعہ ہوتو وہ رمضان میں روزے نہ رکھے.بلکہ اس کی بجائے کسی دوسرے موقعہ پر وہ روزے رکھ لے.جو شخص جان بوجھ کر بغیر کسی حقیقی کے عذر کے رمضان کے مہینہ میں روزہ نہیں رکھتا وہ خدا کا سخت نافرمان ہے.خدا تعالیٰ کی ناراضگی اُس پر بھڑکتی ہے.اور وہ خدا تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں کو نہیں بجالاتا.اس لئے وہ مسلمان نہیں.رمضان کا مہینہ بہت بابرکت مہینہ ہے.اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں.اور شیطان جکڑے جاتے ہیں.قرآن شریف اسی مہینہ میں نازل ہونا شروع ہوا.اور اسی مہینہ میں لیلتہ القدر ہوتی ہے.جو آخری عشرہ کی اکثر طاق راتوں (۲۳۲۱.۲۵.۲۷.۲۹) میں سے کسی رات میں ہوتی ہے.اور اسی ماہ کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا جاتا ہے.روزہ رکھنے کا طریق " جب رمضان کا مہینہ شروع ہو جائے.اور چاند دیکھ لیا جاوے.یا اگر مطلع صاف نہ ہو.اور شعبان کے تیس دن پورے ہو جائیں.تو عشاء کی نماز کے بعد تراویح پڑھ لی جاتی ہے اور صبح کو روزہ رکھا جاتا ہے پچھلی رات کو اٹھ کر صبح صادق بیمار یا مسافر یا شیخ فانی یا حاملہ ومرضعہ یا حائضہ ہونا.[3]

Page 9

سے پہلے سحری کھا کر نیت لے کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے.اور رات تک روزہ کا اہتمام کیا جاتا ہے.جب سورج غروب ہو جائے تو روزہ افطار کرنے کی دُعا اللهُم لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَتِ الْعُرُوقُ وَ ثَبَتَ الأَجْرُان شَاءَ اللهُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلْكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْنِي أَن تَغْفِرَ ان دانوبی پڑھ کر روز و افطار کرے.کھجور کے ساتھ روزہ افطار کرنا سنت ہے.اگر کھجور نہ ملے تو پانی کیساتھ روز و افطار کرلے.جو شخص روزہ رکھے اُس پر لازم ہے کہ وہ ذکر الہی میں مشغول رہے.اور جھوٹ.غیبت.حسد.کینہ.لڑائی جھگڑا.اور تمام اُن چیزوں سے جو منع ہیں بچے.جو شخص روزہ رکھنے کے باوجود ان چیزوں کو نہیں چھوڑتا.اُس کا روزہ حقیقی روزہ نہیں.وہ صرف فضول بھوکا اور پیاسا مرتا ہے.اُس کے روزہ کی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں اور ایسا شخص کسی اجر یا ثواب کا مستحق نہیں بلکہ گنہگار ہے.لے روزہ رکھنے کی دُعا.وَبِصَومِ غرِنَوَيْتُ مِنْ شَهرِ رمضان ترجمہ.میں نے رمضان کے روزے کی نیت کی.ترجمہ: اے میرے اللہ میں نے تیری خاطر روزہ رکھا.اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا.پیاس جاتی رہی اور رگیں (جو پہلے خشک تھیں ) تر ہو گئیں.اور اگر تو چاہیگا.تو اجر بھی مل جائیگا اے میرے اللہ میں تجھ سے تیری رحمت کا واسطہ دے کر جو ہر چیز پر وسیع ہے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ بخش دے.منہ [4]

Page 10

روزہ توڑنے کی سزا روزہ رکھنا اور پھر اس کو بغیر کسی عذر صیح شرعی کے توڑ دینا سخت گناہ ہے.جو شخص پہلے روزہ رکھتے.اور پھر جان بوجھ کر روزہ توڑ دے.وہ سخت گناہ گار ہے.اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوتا ہے.جو شخص محمد اروزہ توڑ دے.اُسے چاہیے کہ وہ اُس کا کفارہ ادا کرے.کفارہ یہ ہے کہ وہ ایک غلام آزاد کرے، اور اگر غلام آزاد کرنے کی طاقت نہ ہو.یا غلام نہ ملے تو ساٹھ دن کے متواتر روزے رکھے.اگر ان میں سے ایک روزہ بھی چھوٹ جائے گا تو پھر دوبارہ ساٹھ متواتر روزے رکھنے پڑیں گے.اور اگر روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے.نواقض روزہ روزہ عمد ا کھانے پینے اور جماع کرنے اور حیض و نفاس کے آنے سے ٹوٹ جاتا ہے.بھول کر کھا پی لینے کے کے آنے اور احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا.روزہ میں مسواک کرنا.نہانا.بدن کو تیل لگانا.تر کپڑا اوپر لینا.سُرمہ لگانا.آئینہ دیکھنا.خوشبوسونگھنا یا گانا جائز ہے.ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا.[5]

Page 11

روزہ کے اقسام فرضی روزے.وہ روزے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر فرض کئے ہیں.اور یہ صرف رمضان شریف کے روزے ہیں.نفلی روزے.یہ وہ روزے ہیں کہ اگر انسان روزے رکھ لے تو ثواب ملتا ہے.اگر نہ رکھتے تو کوئی گناہ نہیں.حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے نفلی روزے حسب ذیل ہیں:.ماہ شوال کے شروع میں چھ ہر ماہ میں تین (۱۳-۱۴-۱۵) عرفہ کے دن (ماہ ذی الحجہ کی نو تاریخ ) محرم کی نویں یا دسویں تاریخ کو یا ہر دو کے روزے.ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا.سال بھر لگا تار اور بلافصل روزے رکھنا.عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزے رکھنا منع ہیں.اگر کوئی شخص نفلی روزہ توڑ دے تو اس پر قضاء لازم نہیں.اگر چاہے تو کر لے.کفارہ کے روزے.یہ وہ روزے ہیں جو کسی حکم کے توڑنے کی وجہ سے یا کسی فرض کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے مقرر ہیں.تا کہ اُس گناہ کا کفارہ ہو.اور وہ حسب ذیل ہیں :- ] اگر کوئی شخص قسم کھائے.اور پھر اُسے توڑ دے تو اُس پر لازم ہے کہ وہ دس [6]

Page 12

مسکینوں کو کھانا کھلائے.یا کپڑے پہنائے.یا غلام آزاد کرے.اگر ان کی طاقت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے.اگر کوئی شخص رمضان کا روزہ عمد اتوڑ دے.یار کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے.اور دیت دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو.یا اپنی بیوی سے ظہار کرے ( أَنْتِ عَلَى كَظهر أنى أو اخیی یعنی تو میری ماں بہن کی طرح ہے ) تو اُس پر لازم ہے کہ وہ ایک غلام آزاد کرے.یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اگر ان کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے متواتر روزے رکھتے.اگر ایک روزہ بھی چھوٹ جائے گا تو پھر دو ماہ کے متواتر روزے رکھنے ہوں گے.اگر کوئی شخص حج اور عمرہ کرے.اور قربانی نہ کر سکے تو وہ دس روزے رکھتے.تین مکہ معظمہ میں اور سات جب اپنے گھر میں آئے.اسی طرح جس شخص نے احرام باندھا ہوا ہو.لیکن کسی تکلیف کی وجہ سے احرام کی حالت میں سر منڈوائے ( کیونکہ منع ہے ) تو اس کے کفارہ میں تین روزے رکھے.[7]

Page 13

نماز تراویح رمضان کے مہینہ میں قیام اللیل خاص اہمیت رکھتا ہے.اسی قیام الیل کے - سلسلہ میں ہی نماز تراویح رمضان کے مہینہ میں پڑھی جاتی ہے.نماز تراویح دراصل تہجد کی نماز ہی ہے.جو پچھلی رات کی بجائے عشاء کی نماز کے بعد پڑھی جاتی ہے.چونکہ اس نماز میں ہر دو رکعت کے بعد کچھ آرام کیا جاتا ہے اسلئے اسے تراویح کہتے ہیں.نماز تراویح کی آٹھ رکعات ہیں.جو دو دورکعات کر کے پڑھی جاتی ہیں.نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنا بہتر ہے نماز تراویح کے بعد وتر بھی با جماعت پڑھے جاتے ہیں (وتر صرف رمضان کے مہینہ میں ہی نماز تراویح کے بعد با جماعت پڑھے جا سکتے ہیں ) جس طرح نماز تراویح پہلی رات کو پڑھی جاتی ہے.اسی طرح رات کے آخری حصہ میں بھی پڑھی جاسکتی ہے.نماز تراویح صرف رمضان کے مہینہ میں ہی پڑھی جاتی ہے.اور اسمیں خاص طور پر قرآن مجید کا دور کیا جاتا ہے.روزہ کے متعلق متفرق مسائل رمضان کے چاند کے لئے اگر مطلع صاف ہو تو بہت سے لوگ رؤیت ہلال [8]

Page 14

کے گواہ ہونے چاہئیں.اور اگر مطلع صاف نہ ہو اور کسی ایک کو بھی چاند دکھائی نہ دے تو شعبان کے تیس (۳۰) دن پورے کرنے چاہئیں.اسی طرح عید کے چاند کے لئے اگر مطلع صاف ہو تو بہت سے لوگوں کی گواہی اور اگر غبار آلود ہو تو دو آدمیوں کی گواہی چاہیئے ور نہ رمضان کے تیس دن پورے کئے جائیں.[۳] حائضہ روزے نہ رکھتے.رمضان کے بعد اُن کی قضاء کرے.اگر کوئی شخص رمضان میں روزے نہ رکھ سکے تو سال بھر میں جب موقعہ ملے روزے رکھ لے.خواہ ایک ایک کر کے یا اکٹھے ہی.حاملہ اور مرضعہ اگر رمضان میں روزے نہ رکھ سکیں تو کسی دوسرے موقعہ پر روزے رکھیں.اگر کسی دوسرے موقعہ پر بھی نہ رکھ سکتی ہوں تو فدیہ (فی روزہ ایک مسکین کا کھانا ) ادا کریں.اسی طرح دائم المریض اور پیر فرتوت بھی فدیہ فی روزہ ایک مسکین کا کھانا ) ادا کریں.تھ سفر کا اندازہ خود دل سے پوچھنا چاہیئے.جسے سفر کہا جا سکے وہی سفر ہے.خواہ چند میل ہی کیوں نہ ہو.( ریل گاڑی وغیرہ کا سفر بھی سفر ہی ہے ) اگر غلطی سے روزہ دار سمجھ لے کہ سورج غروب ہو گیا ہے اور روزہ افطار کرلے.حالانکہ سُورج غروب نہ ہوا ہو تو وہ اس روزہ کی قضاء کرے.کفارہ لازم نہیں آئیگا.اگر غلطی سے یہ معلوم ہو کہ سحری کھانے کا ابھی وقت ہے.اور سحری کھا [9]

Page 15

لے.حالانکہ سحری کھانے کا وقت نہ ہو.تو اس روزہ کی بھی قضاء ہوگی.کفارہ لازم نہیں آئیگا.جس شخص کا کاروبار ہی سفر رہتا ہو وہ مسافر نہیں.وہ رمضان میں ہی روزے رکھتے.[3] اگر کوئی مسافر یا بیمار روزہ رکھتا ہے تو اُس کا کوئی روزہ نہیں.اُس کو عِدے منْ أَيَّامٍ أُخَرُ کے ماتحت روزہ رکھنا ہوگا.اعتكاف رمضان شریف کے آخری عشرہ میں مسجد میں روزہ کے ساتھ اعتکاف بیٹھنا سنت ہے.اعتکاف استغفار اور ذکر الہی کے لئے ایک عمدہ ذریعہ ہے.اعتکاف میں دن رات استغفار.ذکر الہی.تلاوت قرآن مجید اور دُعا میں مشغول رہنا چاہئے.اور تمام لغو اور فضول باتوں سے پر ہیز کرنا چاہئے.مکان کو چاہئے کہ وہ حتی الوسع نیک اور ضروری بات ہی کرے.معتکف کو سوائے قضاء حاجت یا ادا ئیگی جمعہ کے مسجد سے باہر نکلنا منع ہے.اگر باہر جاتے ہوئے اُسے کوئی مریض راستہ میں مل جائے تو اُس کی عیادت بھی چلتے ے آخری دہا کہ ہے.اعتکاف بیٹھنے والا [10]

Page 16

چلتے کر سکتا ہے.اعتکاف میں پردہ لٹکا لینا بہتر ہے.ہیں " رمضان کو فجر کی نماز کے بعد معتکف اپنے اعتکاف کی جگہ میں بیٹھ جائے جو ایسی مسجد میں ہو جہاں کہ پانچ وقت نماز باجماعت پڑھی جاتی ہو.اور جمعہ کی نماز بھی اس میں ہوتی ہو تو بہتر ہے.اور جب عید کا چاند نظر آ جائے تب اعتکاف سے نکلنا چاہیے.اعتکاف عمد ایا سہؤ ا دن کے وقت یا رات کے وقت جماع کرنے سے ٹوٹ جاتا ہے.اور بغیر کسی حقیقی عذر کے مسجد سے باہر نکل جانے سے بھی اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے.صدقة الفطر اسلام نے غرباء اور مساکین کی امداد کے لئے صدقات مقر ر کئے ہیں.ان صدقات میں سے ایک صدقۃ الفطر بھی ہے.صدقۃ الفطر ہر مسلمان مرد.عورت.غریب.امیر.چھوٹے.بڑے آزاد.غلام پر واجب ہے.ہر شخص جو کسی کا کفیل ہے اس کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرے صدقۃ الفطر عید الفطر سے پہلے پہلے ادا کرنا ضروری ہے.شیر خوار بچہ پر بھی صدقۃ الفطر ہے.خواہ وہ رمضان کی آخری تاریخ کو پید اہو اہو.[11]

Page 17

صدقۃ الفطر ایک صاع غلہ یعنی ہو نے تین سیر انگریزی یا اس کی قیمت مقترر ہے.گندم سے نصف صاع یعنی ایک سیر چھ چھٹانک بھی جائز ہے.قربانی عید الاضحی کے بعد قربانی کرنا سنت ہے.جو لوگ قربانی کرنے کی توفیق رکھتے ہیں اُن کو ضرور قربانی کرنا چاہیئے.قربانی سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.اور غرباء ومساکین بھی اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں.قربانی اونٹ.گائے.دُنبہ.بھیڑ.بکری وغیرہ کی ہوسکتی ہے.بھینس کی قربانی کرنا بھی جائز ہے.اونٹ پانچ برس کا ہونا چاہئیے.اور اس کی قربانی میں سانگے آدمی یا دنیا آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں.گائے دوندی (دو سال کے بعد گائے دوندی ہوتی ہے ) ہونی چاہیئے.اس کی قربانی میں بھی سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں.دُنبہ.بھیڑ.بکری بھی دوندی ایک سال کے بعد دوندے ہوتے ہیں ) ہونی چاہئیں.بکری وغیرہ کی قربانی ایک آدمی کی طرف سے ہی ہوتی ہے.بیمار ہنگڑے، سینگ ٹوٹے ، کان کٹے اور بھینگے وغیرہ جانور کی قربانی ناجائز ہے.[12]

Page 18

قربانی عید الاضحی کے بعد کرنی چاہیے.اگر کوئی عید الاضعی سے پہلے کر دیا تو وہ قربانی نہیں ہوگی.عید کے دن کے علاوہ ایام تشریق (۱۱-۱۲-۱۳ ذی الحجہ ) میں بھی قربانی ہو سکتی ہے.قربانی کی کھال اور گوشت خواہ گھر میں استعمال کیا جائے.یا غرباء ومساکین اور اقارب میں تقسیم کیا جائے سب طرح جائز ہے.لیکن قربانی کی کوئی چیز فروخت کرنا جائز نہیں.قربانی کا گوشت سکھا لینا.اور پھر اُس کو بعد میں استعمال کر لینا بھی جائز ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام آج سے تین چار ہزار سال قبل عراق عرب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے.آپ کا باپ آذر بت پرست اور مشرک تھا.اور بت فروشی کا کام کرتا تھا.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کچھ ہوش سنبھالا تو آپ کا باپ آذر آپ کو بت بیچنے کے لئے بھیجا کرتا تھا.لیکن آپ اس بت کے گلے میں رسی ڈال لیتے تھے.اور یہ کہا کرتے تھے کہ اس بت کو جو نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان دے سکتا ہے.کون خرید یگا".کیونکہ ابتداء سے ہی آپ کی فطرت میں توحید تھی.جب آپ سن بلوغت نبوت کو پہنچے تو خدا تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا جب آپ مبعوث ہوئے تو آپ نے بنوں کے خلاف وعظ کرنا شروع کیا.اور [13]

Page 19

لوگوں کو توحید کی تعلیم دینے لگے.آپ کی قوم آپ کی مخالف ہو گئی.اور آپ کا انکار کر دیا.اور آپ کو تکلیف دینا شروع کیا.جب آپ کی قوم بت پرستی سے باز نہ آئی تو آپ نے اُن کو چیلنج دیدیا کہ میں تمہارے بتوں کو توڑ ڈالوں گا.چنانچہ ایک دن ایسا ہی ہوا کہ آپ نے جا کر اُن کے تمام بتوں کو توڑ ڈالا.لیکن ایک بت کو جو ان سب میں سے بڑا تھا نہ توڑا.لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے ان بتوں کو توڑا ہے.آپ نے فرمایا کہ جب تم ان کو خدا مانتے ہو تو اس سے (بڑے کی طرف اشارہ کر کے ) پوچھو کہ کس نے ان کو توڑا ہے.تمام بت پرست اس بات کو سُن کر شرمندہ اور لاجواب ہو گئے.تب اُنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ایک بہت بڑی آگ جلائی.اور اُس میں آپ کو پھینک دیا.اللہ تعالیٰ نے جب اُس کا پیارا بندہ ابراہیم آگ میں پھینکا گیا تو آگ کو کہا کہ تو ٹھنڈی ہو جا.ابراہیم کومت جلائیو.تب آگ ٹھنڈی ہوگئی.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے بچالیا اور آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ نے بہت تعریف فرمائی ہے.آپ ابو الانبیاء (بنی اسرائیل و اسماعیل خلیل اللہ ہیں.آپ صدیق نبی تھے.آپ اللہ تعالیٰ کے بہت فرمانبردار تھے.اور اُس کے حکموں کو بجالاتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے بیٹے اسماعیل کو جو آپ کا پلوٹھا اور [14]

Page 20

اُس وقت اکلوتا بیٹا تھا.ذبح کر رہا ہوں.جب آپ بیدار ہوئے تو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے.اور حضرت اسماعیل سے دریافت کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے ( انبیاء کی خواب بھی ایک قسم کی وحی ہوتی ہے ) کہ تجھے ذبیح.کر رہا ہوں.حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا افْعَلُ مَا تُو مَرُ سَتَجِدُنِي إِنْشَاءَ اللهُ مِنَ الصَّابِرِین.جو آپ کو حکم ہوا ہے.آپ اس کو پورا کر دیں.تب اس جواب کوشن کر حضرت ابراہیم ان کو باہر جنگل میں لے گئے.اور ان کو ذبح کرنے کے لئے لٹا دیا.اور مچھری چلانے لگے تو اللہ تعالی نے آپ کو آواز دی کہ اے ابراہیم “ تو نے اپنی خواب (میرے حکم ) کو پورا کر دکھایا (اسی لئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ کہتے ہیں ) جا اور جا کر اسماعیل کی جگہ دنبہ قربان کر دے.تب آپ نے دُنبہ کی قربانی کردی.آپ کے گھر میں حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے.اور ابھی بچے ہی تھے کہ آپ کی دوسری بیوی حضرت سارہ نے کہا کہ اپنے اس بچے اور اسکی والدہ حضرت ہاجرہ کو گھر سے نکال دو.اس پر حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اسماعیل اور اس کی والدہ ہاجرہ کو عرب میں چھوڑ آؤ.آپ نے اس حکم الہی پر عمل کیا.اور تھوڑی سی کھجوریں اور پانی لیکر عرب کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جہاں آج کل مکہ معظمہ آباد ہے.حضرت اسماعیل ( جو اسوقت آپ کے اکلوتے [15]

Page 21

بیٹے تھے ) اور اُن کی والدہ حضرت ہاجرہ کو اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے چھوڑ آئے.غرضیکہ آپ اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر پورا پورا عمل کرتے تھے.عید الاضحی کی قربانی آپ ہی کی یادگار ہے.مکہ معظمہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت عبادت الہی کیلئے آپ نے بیت اللہ تعمیر کیا.جس میں آپ معمار کا کام کرتے تھے.اور حضرت اسماعیل علیہ السلام مزدور کا کام کرتے تھے.جب بیت اللہ کی تعمیر ختم ہو چکی.تو آپ نے بیت اللہ کے کونے پر حجر اسود رکھدیا.تا کہ وہاں سے طواف شروع کیا جائے.جو آج تک موجود ہے.ہمارے ہادی.ہمارے رہنما.ہمارے پیشوا.ہمارے امام (فداہ ابی واقی) سید الکونین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی کی دعا کا نتیجہ اور آپ ہی کی اولاد میں سے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام آج سے قریباً دو ہزار سال قبل ملک شام میں حضرت عیسی علیہ السلام حضرت مریم کے پیٹ سے پید اہوئے.آپ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے.تاکہ نبی اسرائیل پر واضح ہو جائے کہ تمام بنی اسرائیل میں کوئی بھی ایسا مرد نہیں جس سے اب کوئی خُدا کا نبی پیدا ہو سکے.اس لئے اب ان سے نبوت [16]

Page 22

چھین لی جائے گی.اور ان کے بھائیوں بنی اسماعیل کو دے دی جائے گی.جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کی بن باپ پیدائیش پر یہود نے مختلف قسم کے ناپاک الزامات لگائے جن سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ کو بری قرار دیا ہے جب آپ بڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بنی اسرائیل کے لئے مبعوث فرمایا.جس وقت آپ مبعوث ہوئے.اُس وقت آپ کی قوم (بنی اسرائیل ) میں سخت بدکاری اور بد عملی پھیلی ہوئی تھی.تمام لوگ اللہ تعالی کو بھلا چکے تھے.اور نفسانی خواہشات میں مبتلاء تھے.اور توریت کی تعلیم پر عمل کرنا بالکل چھوڑ دیا تھا.اور روحانی طور پر بالکل مردہ ہو چکے تھے.لیکن جسوقت آپ نے اپنی قوم بنی اسرائیل ) کو دعوت دی.تمام فقیہوں اور فریسیوں ( علماء وفقہاء و یہود ) نے آپ کا انکار کر دیا.اور آپ کے مخالف ہو گئے.کیونکہ انہوں نے کہا کہ ہم تمہیں نہیں مان سکتے.کیونکہ ہماری کتاب توریت میں لکھا ہے کہ پہلے ایلیا نبی (حضرت الیاس ) آسمان سے اتریں گے.اور پھر بعد میں مسیح آئیگا.حضرت مسیح علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا کہ کوئی شخص آسمان پر نہیں جاسکتا.اس لئے ایلیا کے آنے سے مراد شخص ہے جو اسکی ٹھو ٹو پر ہے.اور وا ولع مثلا ( حضرت بیکینی علیہ السلام ) ہیں جس کے کان سُننے کے ہیں.وہ سنے.کوئی شخص آسمان سے نہیں آئیگا.چاہو تو مان لو.لیکن یہود نے انکار کر دیا.اور کہا کہ یہ شخص تاویلیں کرتا لے صحیفہ ملا کی نبی [17]

Page 23

ہے.کیونکہ صاف طور پر توریت میں لکھا ہے کہ ایلیا نبی آسمان پر چلا گیا.اور پھر دوبارہ آسمان سے اُتر یگا.پھر مسیح آئیگا.حضرت مسیح علیہ السلام نے انہیں بار ہا سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھے.اور انکار و مخالفت میں ترقی کرتے چلے گئے.آخر انہوں نے یہ تدبیر کی کہ کسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کر دیا جائے.یا صلیب پر دے کر مار دیا جائے اِس لئے اُنہوں نے اس کے لئے کوششیں کرنا شروع کیں.آخر انہوں نے یہ تدبیر کی کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو معلوم کے طور پر عدالت میں پیش کیا.اور حا کم سے کہا کہ یہ شخص باغی ہے.اس لئے اسکو صلیب دیا جائے.حاکم وقت جو کہ نیک اور غیر متعصب تھا حضرت مسیح علیہ السلام کو پھانسی دینا نہیں چاہتا تھا.اور ساتھ ہی اُس کی بیوی نے بھی خواب میں دیکھا تھا کہ اگر ؛ مسیح علیہ السلام کو پھانسی دیگا.تو سخت تکلیف میں مبتلا ہو جائیگا.لیکن تمام یہودیوں نے زور دیا کہ اس کو ضرور پھانسی دو.یہ شخص گورنمنٹ کا باغی ہے.ورنہ ہم تمہاری شکایت کر دیں گے.آخر اُس حاکم نے جس کا نام پیلاطوس تھا.دیکھا کہ یہودی باز نہیں آتے.تو اُس نے اپنے ہاتھ دھوئے (یعنی میں اس کے گناہ سے بری ہوں ) اور حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکانے کے لئے اُن کے حوالہ کر دیا.(اُس زمانہ میں صلیب اس شکل کی ہوا کرتی تھی.جس پر ملزم کو اُسکے ہاتھ پاؤں میں کیل گاڑ کر انکا یا جاتا تھا.اور کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا جاتا [18]

Page 24

تھا.تا کہ ملزم بھوک و پیاس سے مرجائے.اور اس کے بعد صلیب سے اُتار کر مصلوب کی ہڈیاں توڑی جاتی تھیں، تا کہ پوری طرح سے اس کی جان نکل جائے ) جب آپ کو صلیب پر لٹکایا گیا.تو کم بخت یہودی آپ سے مخول کرتے تھے.اور کہتے تھے کہ یہ یہودیوں کا بادشاہ ہے.اور کہتے تھے کہ اگر تو سچا ہے.تو صلیب پر سے اتر آ.ہم تجھ پر ایمان لے آئینگے.لیکن جب حضرت مسیح علیہ السلام کو لٹکایا گیا تو اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑ کی ( کیونکہ اُس کی غیرت اپنے پیاروں کے لئے بھڑکتی ہے ) اور فور اسخت آندھی چلی.جس سے تمام یہودی بھاگ گئے.اور حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر سے اُتار لیا گیا.اُس وقت آپ بیہوش تھے.لیکن آپ کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں.( دو چور بھی آپ کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے.اُن کی ہڈیاں توڑی گئیں.لیکن حضرت مسیح کی ہڈیاں توڑنے کے وقت اُنہوں نے کہا کہ یہ تو مر چکا ہے.اس کی ہڈیاں توڑنے کی کیا ضرورت ہے.اس لئے آپ کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں ) کیونکہ اللہ تعالیٰ کو آپ کا بچانا منظور تھا.وہاں سے آپ کے شاگرد آپ کو اُٹھا کر لے گئے.اور ایک قبر میں جو بہت وسیع تھی.اور زمین کے اندرکھودی ہوئی تھی.اور اندر سے نہایت صاف تھی.اور ایک مکان کیطرح تھی.( کیونکہ اُس زمانہ میں قبریں ایسی ہی ہوا کرتی تھیں) آپ کو جا کر رکھ دیا.اور آپ کا علاج شروع کر دیا.آپ کے زخموں کے لئے جو آپ کے ہاتھ پاؤں پر صلیب پر لٹکائے جانے کی وجہ سے ہو گئے [19]

Page 25

تھے.ایک مرہم تیار کی.جس کے استعمال کرنے سے حضرت مسیح علیہ السلام کو شفاء ہو گئی.اس مرہم کا نام مرہم عیسی ہے.(وہ مرہم جو حضرت عیسی علیہ السلام کے زخموں کے لئے تیار کی گئی ) جس وقت حضرت عیسی علیہ السلام کو شفاء ہوگئی تو آپ نے اپنے ملک شام سے کشمیر کی طرف ہجرت کر لی کیونکہ وہاں بھی بنی اسرائیل آباد تھے.اور آپ تمام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث تھے.آخر آپ کشمیر میں ہی اپنی قوم کو تبلیغ کرتے رہے.اور کشمیر میں ہی آپ نے ایک نسو نہیں سال کی عمر میں وفات پائی.اور آج تک آپکی قبر شہر سرینگر (سری نگر یعنی سری کا شہر اور حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق سریا کا لفظ قرآن مجید سورہ مریم میں آیا ہے.وَجَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سيريا) کے محلہ خانیار میں موجود ہے.[20]

Page 26

حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ( از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) تیرہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا کہ ۲۰ را پریل ۷ء کو عرب کے ملک میں بحیرہ احمر کے مشرقی کناروں کے قریب ساحل سمندر سے چالیس میل کے فاصلہ پر مکہ نامی گاؤں میں ایک لڑکا پیدا ہوا.ایک معمولی بچہ.اس قسم کا بچہ جس قسم کے بچے دنیا میں ہر روز پیدا ہوتے ہیں.مگر مستقبل اس کے لئے اپنے اختفاء کے پردہ میں بہت کچھ چھپائے ہوئے تھا.اس بچہ کی والدہ کا نام آمنہ تھا.اور باپ کا نام عبد اللہ اور دادا کا نام عبد المطلب.اس بچہ کی پیدا ئیش اُسکے گھر والوں کے دلوں میں دو متضاد جذبات پیدا کر رہی تھی.خوشی اور غم کے جذبات.خوشی اس لئے کہ ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے.جس سے ان کی نسل دُنیا میں قائم رہیگی.اور نام محفوظ رہیگا.اور غم اس وجہ سے کہ وہ بچہ اپنی ماں کو ایک نہایت ہی محبت کرنیوالے خاوند کی اور اپنے دادا کو ایک نہایت ہی اطاعت گزار بیٹے کی جو اپنے بچہ کی پیدائیش سے پہلے ہی اس دُنیا کو چھوڑ چکا تھا.یاد دلا رہا تھا.اس کی شکل اور شباہت.اس کا سادگی سے مُسکرانا.اس کا حیرت سے اس نئی دُنیا کو دیکھنا.جس میں وہ بھیجا گیا تھا.غرض اس [21]

Page 27

کی ہر ایک بات اس نوجوان خاوند اور بیٹے کی یاد کو تازہ کرتی تھی.جو سات ماہ پہلے...اپنے بوڑھے باپ اور جوان بیوی کو داغ جدائی دیکر اپنے پیدا کرنے والے سے جاملا تھا.مگر خوشی غم پر غالب تھی.کیونکہ اس بچہ کی پیدائیش سے اس مرنے والے کا نام ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا.دادا نے اس بچہ کا نام جو پیدائیش سے پہلے ہی یتیم ہو چکا تھا.محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) رکھا.اور اس یتیم بچہ نے اپنی والدہ اور اپنے چچا کی ایک خادمہ کے دودھ پر پرورش پانی شروع کی.مکہ کے لوگوں میں رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو گاؤں کی عورتوں کو پرورش اور دودھ پلانے کے واسطے دے دیتے تھے.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بچہ کی پرورش شہر میں اچھی طرح نہیں ہو سکتی اور اس طرح صحت خراب ہو جاتی ہے.مکہ کے اردگرد کے تیس چالیس میل کے فاصلہ کے گاؤں کے لوگ وقتا فوقتا شہر میں آتے اور بچوں کو لے جاتے.اور جب وہ پال کر واپس لاتے تو ان کے ماں باپ پالنے والوں کو بہت کچھ انعام دیتے.محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی پیدائیش کے بعد جب یہ لوگ آئے تو ان کی والدہ نے بھی چاہا کہ آپ کو بھی کسی خاندان کے سپرد کر دیں.مگر ہر ایک عورت اس بات کو معلوم کر کے کہ آپ یتیم ہیں.آپ کو لیجانے سے انکار کر دیتی.کیونکہ وہ ڈرتی تھی کہ بن باپ کے بچہ کی پرورش پر انعام کون دیگا ؟ اس طرح یہ آئیندہ بادشاہوں کا سردار ہونے والا بچہ ایک ایک کے سامنے پیش کیا گیا.اور سب نے اس کے لیجانے سے انکار کر دیا.[22]

Page 28

مگر خدا تعالیٰ کی قدر میں بھی عجیب ہوتی ہیں.اس نے اس مبارک بچہ کی والدہ کا دل رکھنے کے لئے اور اس بچہ کے گاؤں میں پرورش پانے کے لئے اور سامان کر چھوڑے تھے.یہ لوگ جو بچے لینے آئے تھے.ان میں سے ایک غریب عورت حلیمہ نامی بھی تھی.جس طرح محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ایک ایک عورت کے سامنے کئے جاتے تھے اور نامنظور ہوتے تھے.اسی طرح وہ عورت ایک ایک گھر میں جاتی تھی اور خالی واپس ہوتی تھی.چونکہ وہ غریب تھی اور کوئی شخص پسند نہ کرتا تھا کہ اس کا بچہ غریب کے گھر پرورش پا کر تکلیف اُٹھائے.یہ عورت مایوس ہو گئی تو اپنے ساتھ والوں کے طعنوں سے ڈر کر اس نے ارادہ کیا کہ وہ آپ کو ہی ساتھ لے جائے.چنانچہ وہ آپ کو ہی اپنے ساتھ لے گئی.جب آپ نے کچھ ہوش سنبھالی تو آپ کی دائی آپ کو واپس آپ کی ماں کے پاس چھوڑ گئی.وہ آپ کو اپنے ماں باپ کے گھر مدینہ لے گئیں.اور وہاں کچھ عرصہ رہ کر جب مکہ کی طرف واپس آ رہی تھیں تو راستہ ہی میں فوت ہو گئیں.اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم چھ سال کی عمر میں اپنی ماں کی محبت بھری گود سے بھی محروم رو گئے.کسی نے آپ کو مکہ آپ کے دادا کے پاس پہنچادیا.جو دو سال کے بعد جب آپ آٹھ سال کے ہوئے فوت ہو گئے.اور آپ کو آپ کے چچا ابو طالب نے اپنی کفالت میں لے لیا.اس طرح یکے بعد دیگرے اپنے محبت کرنے [23]

Page 29

والوں کی گود سے آپ کجدا ہوتے رہے.حتی کہ آپ جوانی کو پہنچے.جن گھروں میں آپ نے پرورش پائی وہ امیر گھر نہ تھے.وہاں میز بچھا کر کھانا نہیں ملتا تھا.بلکہ مالی حالی اور ملکی رواج کے ماتحت جسوقت کھانے کا وقت آتا.بچے ماں کے گرد جمع ہو کر کھانے کے لئے شور مچادیتے.اور ہر ایک دوسرے سے زیادہ حصہ چھین لے جانے کی کوشش کرتا.آپ کے چچا کی نوکر بیان کرتی ہے کہ آپ کی یہ عادت نہ تھی جسوقت گھر کے سب بچے چھینا جھپٹی میں مشغول ہوتے.آپ ایک طرف خاموش ہو کر بیٹھ جاتے اور اس بات کی انتظار کرتے کہ پانی نخود آ کر کھا نا دے.اور جو کچھ آپ کو دیا جاتا.اُسے خوش ہو کر کھالیتے.جب آپ کی عمر میں سال کی ہوئی تو آپ ایک ایسی سوسائیٹی میں داخل ہوئے.جس کا ہر ایک ممبر اس امر کی قسم کھاتا تھا کہ اگر کوئی مظلوم خواہ کسی قوم کا ہو.اُسے مدد کے لئے بلائیگا تو وہ اس کی مدد کریگا.یہانتک کہ اُسکا حق اُس کومل جائے.اور اس نوجوانی کی عمر میں آپ کا یہ مشغلہ تھا کہ جب کسی شخص کی نسبت یہ معلوم ہوتا کہ اُسکا حق کسی نے دبا لیا ہے تو آپ اس کی مدد کر تے.یہانتک کہ ظالم مظلوم کا حق واپس کر دیتا.آپ کی سچائی.امانت اور نیکی اس عمر میں اس قدر مشہور ہو گئی کہ لوگ آپ کو صدیق اور امین کہا کرتے تھے.جب اس نیکی کا بہت چرچا ہونے لگا تو پچیں [24]

Page 30

سال کی عمر میں آپ کو مکہ کی ایک مالدار تا جر عورت خد بچہ نے نفع پر شراکت کا فیصلہ کر کے تجارت کے لئے شام کو بھیجا اور آپ کے ساتھ ایک غلام بھی گیا.اس سفر میں آپ کی نیکی اور دیانتداری کی وجہ سے اس قدر نفع ہوا کہ پہلے خدیجہ کو کبھی اس قدر نفع نہ ملا تھا.اور آپ کے نیک سلوک اور شریفانہ برتاؤ کا ان کے غلام پر جس کو انہوں نے ساتھ بھیجا تھا.اس قدر اثر ہوا کہ وہ آپ کو نہایت ہی پیار کرنے لگا.اور اس نے حضرت خدیجہ کو سب حال سنایا.اُن کے دل پر بھی آپ کی نیکی کا اسقدر اثر ہوا کہ انہوں نے آپ سے شادی کی درخواست کی.اور آپ نے اسے منظور کر لیا.خدیجہ کی عمر ۴۰ کے قریب تھی.اور آپ کی عمر صرف ۲۵ سال.خدیجہؓ نے نکاح کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جسقدر مال ان کے پاس تھا اور غلام ان کی خدمت میں تھے سب آپ کے سامنے پیش کر دیئے.اور کہا کہ یہ سب کچھ اب آپ کا ہے اور آپ نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ سب غلاموں کو آزاد کر دیا.اور اس طرح اپنی جوانی میں وہ کام کیا جو اس سے پہلے بوڑھے بھی نہیں کر سکتے تھے.آپ اپنے ملک کی خرابیوں کو دیکھکر بہت افسر وہ رہتے تھے.اور بالعموم شہر سے تیس میل کے فاصلہ پر جرانامی پہاڑ کی چوٹی پر ایک پتھروں کی غفار میں بیٹھ کر اپنے ملک کی خرابیوں اور شرک کی کثرت پر غور کیا کرتے تھے.اور اس جگہ ہی [25]

Page 31

ایک خدا کی پرستش کیا کرتے تھے.اس عبادت میں آپ کو اسقدر لطف آتا تھا کہ آپ گئی دفعہ کئی کئی دن کی غذا گھر سے لے کر جاتے تھے.اور کئی کئی دن اس غار میں رہتے تھے.آخر جبکہ آپ چالیس سال کی عمر کے تھے.آپ پر خدا کی طرف سے الہام نازل ہوا کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کر.اور اس سے علم کی ترقی اور روحانی عزت اور ان علوم کے حصول کے لئے دُعا کر جو پہلے دنیا کو معلوم نہ تھے.آپ کی طبیعت پر اس وحی کا ایسا اثر ہوا کہ آپ گھبرا کر گھر آئے.اور اپنی بیوی حضرت خدیجہ سے کہا کہ مجھے ایسا الہام ہوا ہے.میں ڈرتا ہوں کہ یہ میری آزمائیش ہی نہ ہو.حضرت خدیجہ نے جو آپ کی ایک ایک حرکت کا غور سے مطالعہ کرتی تھی.اس بات کو سن کر جواب دیا کہ نہیں.ہر گز نہیں کہ خدا تعالی اس طرح آپ کو ابتلاء میں ڈالے حالانکہ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں.اور جو لوگ کام نہیں کر سکتے.ان کی مدد کرتے ہیں.اور آپ سے وہ اخلاق ظاہر ہوتے ہیں.جو دنیا میں اور کسی سے ظاہر نہیں ہوتے.اور آپ مہمانوں کی خوب خاطر و مدارات کرتے ہیں.اور جو لوگ مصائب میں مبتلا ہیں.اُن کی مدد کرتے ہیں.یہ اُس عورت کی رائے ہے جو آپ کی پہلی بیوی تھی.اور جو آپ کے تمام اعمال سے واقف تھی اور اس سے زیادہ سچا گواہ اور کون ہوسکتا ہے؟ کیونکہ انسان کی [26]

Page 32

حقیقت ہمیشہ تجربہ سے معلوم ہوتی ہے.اور تجربہ جسقد ربیوی کو خاوند کے حالات کا ہوتا ہے دوسرے کو نہیں ہوسکتا.مگر آپ کی تکلیف اس تسلی سے دور نہ ہوئی.اور حضرت خدیجہ نے یہ تجویز کی کہ آپ میرے بھائی سے جو بائیبل کے عالم ہیں ان سے ملیں.اور اُن سے پوچھیں کہ اس قسم کی وحی کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے.اور ورقہ بن نوفل سے جو حضرت خدیجہ کے رشتہ میں بھائی تھے جا کر پہلے اُن کو سب حال سنایا.انہوں نے سُن کر کہا کہ گھبرائیں نہیں.تمہیں اسی طرح خدا تعالیٰ سے وحی ہوئی جس طرح کہ موسیٰ کو ہوا کرتی تھی.اور پھر کہا کہ افسوس کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں کاش کہ میں اُس وقت جوان ہوتا جب خدا تعالیٰ مجھے دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کر دیگا.اور تیری قوم تجھے شہر سے نکال دیگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو رات دن دُنیا کی بہتری کی فکر میں لگے ہوئے تھے.اور سب اہل شہر اُن سے خوش تھے.اس امر کو سنکر حیران ہوئے.اور حیرت سے دریافت فرمایا کہ کیا میری قوم مجھے نکال دے گی ؟ ورقہ نے کہا ہاں.کبھی کوئی شخص اس قدر بڑے پیغام کو لیکر نہیں آیا جوتو لایا ہے کہ اس کی قوم نے اس پر ظلم نہ کیا ہو.اور اس کو دُکھ نہ دیا ہو.اس سلوک اور محبت کی وجہ سے جو آپ لوگوں سے کرتے تھے.اس محبت کے سبب سے جو آپ کو ہر ایک آدمی کے ساتھ تھی.اور اس خدمت کے ماتحت جو آپ اپنے شہر کے غرباء کی کرتے تھے.یہ بات کہ شہر کے لوگ آپ کے دشمن ہو جائیں گے؟ آپ کو عجیب معلوم ہوئی.مگر مستقبل آپ [27]

Page 33

کے لئے کچھ اور چھپائے ہوئے تھا.اس واقعہ کے چند ہی ماہ کے بعد آپ کو پھر وحی ہوئی اس میں آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ سب لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلائیں.اور بدی کو دُنیا سے مٹائیں.اور شرک دُور کریں.اور نیکی اور تقویٰ کو قائم کریں.اور ظلم کو دور کریں.اس وحی کے ساتھ آپ کو فوت کے مقام پر کھڑا کیا گیا.اور آپ کے ذریعہ سے استثنا باب ۱۸ - آیت ۱۸ - کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ میں تیرے بھائیوں میں تجھ سا ایک نبی بر پا کرونگا.آپ بنو اسماعیل میں سے تھے.جو بنی اسرائیل کے بھائی تھے.اور آپ اسی طرح ایک نیا قانون لے کر آئے.جس طرح کہ حضرت موسیٰ “ ایک نیا قانون لے کر آئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نبوت کا عہد و ملنا تھا کہ یکدم آپ کے لئے دنیا بدل گئی.وہ لوگ جو پہلے محبت کرتے تھے نفرت کرنے لگے.اور جو عزت کرتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے.جو تعریف کرتے تھے مذمت کرنے لگے.اور جو لوگ پہلے آپ کو آرام پہنچاتے تھے تکلیف پہنچانے لگے.مگر چار آدمی جن کو آپ سے بہت زیادہ تعلق کا موقعہ ملا تھا.وہ آپ پر ایمان لائے.یعنی خدیجہ آپ کی بیوی علی آپ کے چا زاد بھائی.اور زیڈ آپ کے آزاد کردہ غلام.اور ابوبکر آپ کے دوست اور ان سب کے ایمان کی دلیل اسوقت یہی تھی کہ آپ [28]

Page 34

جھوٹ نہیں بول سکتے.ان چاروں میں سے حضرت ابوبکر" کا ایمان لانا عجیب تر تھا.جسوقت آپ کو وحی ہوئی کہ آپ منبوت کا دعوی کریں.اسوقت حضرت ابو بکر مکہ کے ایک رئیس کے گھر میں بیٹھے تھے.اس رئیس کی لونڈی آئی اور اس نے آ کر بیان کیا کہ خدیجہ کو معلوم نہیں کہ کیا ہو گیا ہے؟ کہ وہ کہتی ہے کہ میرے خاوند اس طرح نبی ہیں جس طرح حضرت موسیٰ “ تھے.لوگ تو اس خبر پر ہنسنے لگے.اور اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو پاگل قرار دینے لگے.مگر حضرت ابو بکر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حالات سے بہت گہری واقفیت رکھتے تھے.اسی وقت اٹھ کر رسول کریم کے دروازہ پر آئے اور پوچھا کہ کیا آپ نے کوئی دعویٰ کیا ہے.آپ نے بتایا ہاں.اللہ تعالیٰ نے مجھے دُنیا کی اصلاح کیلئے مبعوث کیا ہے اور شرک مٹانے کا حکم دیا ہے.حضرت ابوبکر نے بغیر اس کے کہ کوئی اور سوال کرتے جواب دیا کہ مجھے اپنے باپ اور ماں کی قسم ! کہ تو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا.اور میں نہیں مان سکتا کہ تو خدا پر جھوٹ بولیگا.پس میں ایمان لاتا ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں.اور یہ کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے رسُول ہیں.اس کے بعد ابو بکر نے ایسے نوجوانوں کو جمع کر کے جو ان کی نیکی اور تقویٰ کے قائل تھے سمجھانا شروع کیا.اور سات آدمی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان لائے یہ سب نوجوان تھے.جن کی عمر ۱۲ سال سے لیکر ۲۵ سال تک تھی.[29]

Page 35

کا قبول کرنا آسان کام نہیں مکہ کے لوگ جن کا گزارہ ہی بتوں کے معبدوں کی حفاظت اور مجاورت پر تھا وہ کب اس تعلیم کو برداشت کر سکتے تھے کہ ایک خدا کی پرستش کی تعلیم دی جائے جو نہی ایمان لانے والوں کے رشتہ داروں کو معلوم ہوا کہ ایک ایسا مذہب مکہ میں جاری ہو ا ہے اور ان کے عزیز اس پر ایمان لے آئے ہیں.انہوں نے ان کو تکلیف دینی شروع کی.حضرت عثمان کو اُن کے چچا نے باندھ کر گھر میں قید کر دیا.اور کہا کہ جبتک اپنے خیالات سے تو بہ نہ کرے.میں نہیں چھوڑوں گا.اور زبیر ایک اور مومن تھے.جن کی عمر پندرہ سال کے قریب تھی.ان کو ان کے رشتہ داروں نے قید کر لیا.اور تکلیف دینے کے لئے جس جگہ اُن کو بند کیا ہو ا تھا.اسمیں دھواں بھر دیتے تھے.مگر وہ ایمان پر پختہ رہے.اور اپنی بات کو نہ چھوڑا.ایک اور نوجوان کی والدہ نے ایک نیا طریق نکالا.اس نے کھانا کھانا چھوڑ دیا.اور کہا کہ جب تک تو اپنے ابا کی طرح عبادت نہیں کرے گا.اس وقت تک میں کھانا نہیں کھاؤں گی.مگر اس نوجوان نے جواب دیا کہ میں دُنیا کے ہر معاملہ میں ماں باپ کی فرمانبرداری کروں گا.مگر خدا تعالی کے معاملہ میں اُن کی نہیں مانوں گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہے.غرض سوائے ابو بکر اور خدیجہ کے آپ پر ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والے سب نوجوان تھے ، جن کی عمریں ۱۵ سال سے لے کر ۲۵ سال کی تھیں.پس [30]

Page 36

یوں کہنا چاہئے کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم جنہوں نے بوجہ یتیم ہونے کے نہایت چھوٹی عمر سے اپنے لئے راستہ بنانے کی مشق کی.جب ان کو خدا تعالیٰ نے مبعوث کیا تو اس وقت بھی آپ کے گرد نوجوان ہی آکر جمع ہوئے.پس اسلام اپنی ابتداء کے لحاظ سے نو جوانوں کا دین تھا.حضرت ابوبکر صدیق می شوند زمانہ جاہلیت میں آپ کا نام عبدالکعبہ تھا.زمانہ اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبد اللہ رکھا.اور صدیق کا لقب عطاء فرمایا.آپ کے والد ماجد کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہ تھی.آپ ان لوگوں میں سے ہیں.جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی اور رضاء کا اظہار کیا ہے.اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں.جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ جنتی ہیں.آپ سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے.اسلام لانے سے قبل بھی آپ اپنی قوم میں معزز اور بڑے پایہ کے آدمی مجھے جاتے تھے.آپ کے اخلاق نہایت عمدہ اور لوگوں سے سلوک نہایت اعلیٰ تھا.ایک دفعہ جب مشرکین مکہ نے آپ کو بہت تکلیف دی.تو آپ مکہ شریف سے [31]

Page 37

ہجرت کے ارادے سے نکلے.راستہ میں ایک کافر رئیس جس کا نام ابن دغنہ تھا.آپ کو ملا اور اس نے پوچھا ابو بکر کہاں جارہے ہو؟ آپ نے جواب دیا.لوگ مجھے تنگ کرتے ہیں.اسلئے میں مکہ چھوڑ چلا ہوں.وہ آپ کو واپس لے آیا.اور ย اُس نے آ کر لوگوں سے کہا کہ کیا تم ایسے نیک اور شریف آدمی کو نکالتے ہو.آپ بڑے عابد اور زاہد تھے اور پرہیز گار اور متقی ایسے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی جبکہ شراب پانی کی طرح استعمال کی جاتی تھی آپ نے کبھی شراب استعمال نہیں کی.آپ کپڑے کی تجارت کرتے تھے.اور آپ کا راس المال چالیس ہزار درہم تھا.اسلام لانے کے بعد آپ نے پینتیس ہزار درہم دین اسلام اور غریب مسلمانوں کی خاطر خرچ کر ڈالا.اور باقی پانچ ہزار سے تجارت کرتے رہے.آپ ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہتے.اور سخت سے سخت اور خوفناک گھڑیوں میں بھی آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کو نہیں چھوڑا.حتی کہ غار ثور میں بھی آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے.جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے.ثانی اثنین از همافی الغار.اور ان تمام لڑائیوں میں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شامل ہوتے رہے.اور مخالفین سے جنگ کرتے رہے اور ان تمام لڑائیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے.آپ اس قدر دلیر اور بہادر تھے کہ کبھی میدان [32]

Page 38

جنگ سے نہیں بھاگے اور ہر میدان میں آپ نے ثابت قدمی دکھائی.آپ کے دل میں مسلمانوں کے لئے بہت درد تھا.اگر کسی غلام کو اسلام لانے کی وجہ سے تکلیف دی جاتی تو آپ حتی الوسع اُسے خرید کر آزاد کر دیتے.تمام صحابہ کرام آپ کی قدر کرتے تھے.اور آپ کو عزت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ادب آپ کے دل میں کمال درجہ کا تھا.ایک دفعہ حضور علیہ السلام کسی کام کے لئے باہر تشریف لے گئے.نماز کا وقت ہو گیا.لوگوں نے آپ کو امام بنالیا.اور نماز شروع کر دی.اثنائے نماز میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم بھی تشریف لے آئے.آپ فور ایچھے ہٹ گئے.نماز کے بعد حضور علیہ السلام کے دریافت کرنے پر فرمایا.ابوبکر اور پھر رسول اللہ کے آگے.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے راتوں بیدار رہتے.اور اپنی جان کا بالکل خیال تک دل میں نہ لاتے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو صحا بہ مارے غم کے دیوانہ ہو گئے اور انہیں کچھ نہ سُوجھتا تھا.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہنا شروع کر دیا کہ آپ زندہ ہیں.اور آسمان پر تشریف لے گئے ہیں.حضرت ابوبکر اندر تشریف لے گئے.اور حضور کے رُوئے مبارک سے کپڑا اٹھا کر بوسہ دیا.اور لوگوں میں آکر مخطبہ پڑھا.اور آیت مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ الآیۃ پڑھی یعنی اے لوگو! حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی تو [33]

Page 39

ایک رسول ہیں.جس طرح آپ سے پہلے جس قدر رسول دُنیا میں آئے وہ فوت ہو گئے.اور کوئی اُن میں سے باقی نہیں رہا.اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمام صحابہ نے آپ کو خلیفہ منتخب کر لیا.آپ کی خلافت کے شروع میں اکثر عرب مرتد ہو گیا.اور زکوۃ دینے سے انکار کر دیا.آپ نے حُسن انتظام اور حسن تدبیر سے کام لیا اور وہ تمام فتنہ جو عرب کے مختلف حصوں سے اُٹھا تھا فر و ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کو حضرت اسامہ بن زید کی قیادت میں شام کی طرف جانے کا ارشاد فر ما یا تھا.لیکن ؛ ولشکر آپ کی بیماری کی خاطر ٹک گیا تھا.حتی کہ آپ کی وفات ہو گئی.اور وہ لشکر روانہ نہ ہوسکا.حضرت ابوبکر کو آپ کے ارشاد کا اس قدر پاس تھا کہ آپ نے باوجود یکہ اکثر صحابہ اس لشکر کو روانہ کرنے کے خلاف تھے.اس کو روانہ کر دیا.اور کہا کہ میں اُس لشکر کو جس کو اللہ تعالیٰ کے رسول نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا کس طرح روک سکتا ہوں.آپ کا زمانہ بھی فتوحات کا زمانہ ہی تھا.آپ کے عہد خلافت میں عراق عرب اور شام کا کچھ حصہ فتح ہوا.اور آپ کے زمانہ میں ہی قرآن مجید ایک کتاب کی صورت میں جمع ہوا.[34]

Page 40

آپ ۲۲ / جمادی الاول ۳ ہجری کو ۶۳ سال کی عمر میں دو سال تین ماہ وش دن خلافت کر کے اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون جس طرح آپ دنیا میں اپنی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ہر وقت رہتے تھے.اسی طرح فوت ہو کر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں آپ کے پہلو میں دفن ہو گئے.آپ کی اولا د حسب ذیل ہے.عبد اللہ.عبدالرحمن محمد.اسماء.ام المومنین حضرت عائشہ.ام کلثوم.حضرت عمر بن الخطاب می شوند حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں معزز اور مشہور بہادر اور دلیر مانے گئے ہیں.آپ تاجر تھے.آپ کے اسلام لانے سے قبل لوگ اہلِ اسلام کو طرح طرح کے دُکھ دیتے تھے.اور عبادت الہی سے روکتے تھے.یہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا فرمائی کہ یا الہی ابو جہل اور معمر بن الخطاب دو میں سے ایک کو مسلمان کر دے آپ کی یہ دُعا قبول ہوگئی.حضرت [35]

Page 41

عمر کی قسمت میں اسلام لکھا تھا.اس لئے آپ مسلمان ہو گئے.آپ کے اسلام لانے کا واقعہ عجیب ہے.ایک دن آپ کو خیال آیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ ولہ وسلم ) نے شور مچارکھا ہے.ان کا کام تمام کر دینا چاہئے.تا کہ روز کا جھگڑ اٹھے ہو جائے.اس خیال کو دل میں لے کر آپ گھر سے نکلے.اور جس مکان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اس کا قصد کیا.تلوار کھینچی ہوئی تھی.اور آنکھیں غضہ سے سرخ ہو رہی تھیں.راستہ میں ایک شخص آپ سے ملا.اُس نے پوچھا.عمرا کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے جواب دیا.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کرنے کے لئے جا رہا ہوں.کیونکہ اس نے فتنہ وفساد بر پا کر رکھا ہے.اُس شخص نے جواب میں کہا کہ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو.تمہاری بہن بھی مسلمان ہو گئی ہے.حضرت عمررؓ اس بات کو سُن کر اور بھی جوش میں آگئے.اور اُسی وقت یہ قصد کر لیا کہ سہلے اپنی بہن کو قتل کرتا ہوں.پھر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف جاؤں وسلم) گا.چنانچہ اسی وقت اپنی بہن کے گھر کی طرف رخ کیا.جب دروازہ پر پہنچے تو دروازہ اندر سے بند تھا.اور اندر سے قرآن مجید کی تلاوت کی آواز آ رہی تھی.حضرت عمرؓ نے دستک دی.آپ کی بہن آپ سے ڈر گئیں.اور جھٹ قرآن مجید کے اوراق چھپا دیے.اور دروازہ کھول دیا.حضرت عمر اندر داخل ہو گئے.اور اپنی بہن کو اتنا مارا کہ خون بہنے لگا.مگر پھر بھی وہ کہتی تھیں کہ عمر تم جو چا ہو کر لو.ہم اب اسلام نہ چھوڑیں گے.اسی اثناء میں بہن سے قرآن مانگا.مگر اُنہوں نے [36]

Page 42

انکار کر دیا.اور کہد یا کہ تم نا پاک ہو.اور نا پاک قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتا.اس لئے اگر تم دیکھنا چاہتے ہو تو پہلے نہا کر آؤ.چنانچہ حضرت عمر نہا کر آئے.اور پھر آپ کی بہن نے آپ کو قرآن مجید دیا.اور آپ نے اسے ایک جگہ سے کھول کر پڑھنا شروع کیا.جب امنوا بالله ورسوله إن كنتم مومنین (اگر تم ایماندار ہو تو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ ) پر پہنچے تو آپ نے فوز اکلمہ شریف پڑھ لیا.اور مسلمان ہو گئے.وہاں سے آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا قصد کیا.تلوار اسی طرح آپ کے ہاتھ میں تھی.دروازہ پر پہنچ کر آپ نے دستک دی.صحابہ تلوار کھینچی ہوئی دیکھ کر ڈر گئے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور فرمایا کہ اگر آج عمر دارادہ سے آیا ہوگا تو بیچ کر نہیں جائیگا.اور دروازہ کھول دیا.حضرت عمر” اندر داخل ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی قمیص کے دامن کو پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا.اور دریافت فرمایا.عمر! سچ بتاؤ رکس ارادہ سے یہاں آئے ہو.حضرت عمرؓ نے جواب دیا.یا رسول اللہ میں آپ پر ایمان لے آیا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام آپ کے ایمان لانے پر بہت خوش ہوئے.صحابہ کرام نے مارے خوشی کے اس قدر نعرے لگائے کہ مکہ شریف تکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھا.کفار کو آپ کے ایمان لانے کا واقعہ سُن کر بہت افسوس ہوا.اور انہوں نے [37]

Page 43

کہا کہ آج عمر صابی ( مرتد ) ہو گیا ہے.اور آج ہم نصف رہ گئے.حضرت عمر کے ایمان لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی.اب مسلمانوں نے جو پہلے ایک مکان میں نمازیں پڑھتے تھے برملا نمازیں پڑھنا شروع کیں.اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر ۲۳۳ برس کی تھی.اسلام لانے کے بعد آپ نے وہ نمونہ دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی مدد اور کفار کے مقابلہ کرنے میں آپ نے جان تک کی پرواہ نہ کی.ہجرت کے وقت سب لوگ چھپ چھپ کر مکہ سے نکل آئے.مگر حضرت عمر تلوار گلے میں لٹکا ، تیروکمان ہاتھ میں لے کعبہ کے صحن میں آئے.وہاں قریش سب کے سب بیٹھے تھے.پہلے آپ نے اطمینان سے طواف کر کے نماز پڑھی.پھر اُن سے مخاطب ہو کر فرمایا."اے ذلیل لوگو ! تم میں سے جو اپنی ماں کو بے فرزند، بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ بنانا چاہتا ہے وہ اس وقت آئے اور لڑے.مگر کسی کا فر کو جرات نہ ہوئی.آپ اکثر جنگوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے.اور ہمیشہ ثابت قدم رہے.اور کبھی میدان جنگ سے نہیں بھاگے.جنگ بدر کے موقعہ پر جب کافروں نے بتوں کی بجے کا نعرہ لگایا تو حضرت عمر نے اللہ اعلیٰ واجل د یعنی اللہ ہی سب سے بڑا اور بزرگ ہے.“ کا نعرہ لگایا.لے اس وقت اسلام لانے والوں کو لوگ صابی ( مرتد ) کہا کرتے تھے.ย [38]

Page 44

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد آپ تخت خلافت پر متمکن ہوئے.آپ تمام خلفاء کے لئے عدالت وخلافت میں کامل نمونہ تھے.تمام مصنفین اور مؤرخین مانتے ہیں کہ آپ ایک عظیم الشان مدبر اور حکمران تھے.آپ نے ملک عرب کو مسلمانوں کے لئے خاص کر دیا.شام ( بمع بیت المقدس ) عراق، فارس، مصر.اور برقہ وغیرہ آپ ہی کے زمانہ میں فتح ہوئے.بصرہ اور کوفہ کو بنوایا.مسجد نبوی اور مسجد حرام کو وسیع کیا.علم تاریخ سکہ سازی.ڈاک رسانی.مساحت زمین.تجارت کو پھیلانا.مسافر خانے اور بیت المال بنوانا.سرحدوں پر چھاؤنیاں بنوانا.شہروں میں قاضی مقرر کرنا.سب آپ سے ہی شروع ہوئے.آخر آپ کی شہادت کا دن آ پہنچا.ایک دن جبکہ آپ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے.ایک بد بخت غلام نے جس کا نام فیروز اور کنیت ابولولو تھی.۲۷ رزی الحمد ۲۳ھ کو تیر مار کر شہید کر دیا.مرتے دم تک آپ کے چہرہ پر بہادری کے آثار نمایاں تھے.جب آپ کا آخری وقت تھا تو آپ نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا کہ جس طرح میں اپنی زندگی میں اپنے دونوں یاروں (حضرت رسول پاک اور حضرت ابوبکر کے ساتھ رہا ہوں اب بھی مجھے اُن کے ساتھ ہی دفن [39]

Page 45

ہونے کی حجرہ نبوی ( جہاں اب آپ کی قبر ہے) میں اجازت دی جائے.حضرت عائشہ نے آپ کی درخواست کو منظور فرمالیا.اور کہا کہ اچھا عمر سے کہو کہ یہ جگہ تو میں نے اپنے لئے رکھی ہوئی تھی.لیکن آج میں ایثار کر کے وہ جگہ آپ کو دیتی ہوں.( کیونکہ حجرہ نبوی میں صرف تین قبروں ہی کی جگہ تھی ) حضرت عمر اس بات کو سن کر بہت خوش ہوئے اور روح کے پرواز کر جانے کے بعد اُسی جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہوئے.اور جس طرح اپنی اس زندگی میں اُن کے ساتھ رہتے تھے.وفات پا کر بھی اُن کے ساتھ ہی رہے.آپ ساڑھے دس سال خلیفہ رہے.اور ۶۳ سال کی عمر پائی.آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں.آپ اسقدر نیکی اور تقومی رکھتے تھے کہ اللہ تعالی کی نظر میں بھی مقبول تھے.اور ان لوگوں میں سے ہیں جنکو اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی اور رضا کاسرٹیفکیٹ دیا ہے آپ کی اولا د حسب ذیل ہے:.عبدالله - ۲ عبد الرحمن اکبر ۳ عبید الله " عاصم ۵ زید عبد الرحمن اصغر ہے ام المومنین حضرت حفصہ ۸ فاطمه و رقیہ [40]

Page 46

حضرت مسیح موعود و مہدی معهود علی صلوة والسلام حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلواۃ والسلام جمعہ کے دن ۱۸۳۶ء یا ۱۸۳۷ء میں حضرت میرزا الغلام مرتضی صاحب کے گھر قادیان میں پیدا ہوئے.چونکہ آپ معزز اور ممتاز خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے جب آپ کچھ بڑے ہوئے تو آپ کی تعلیم کے لئے وقتا فوقتا تین استا در کئے گئے.جن سے آپ نے قرآن مجید - چند فارسی کتب اور نحو و منطق کی چند کتب پڑھیں.بعدہ جب آپ کی عمر سولہ سترہ سال کی ہوئی تو آپ نے اپنے والد صاحب سے ( کیونکہ وہ ایک بڑے اور مشہور حاذق طبیب تھے ) طب کی چند کتب پڑھیں.بعدہ جب آپ کی عمر ۲۰-۲۲ سال کی ہوئی تو آپ کچہری سیالکوٹ میں ملازم ہو گئے.وہاں آپ قریبا تین چار سال تک ملازم رہے.اسکے بعد آپ نے اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت استعفی دیگر ملازمت کو چھوڑ دیا.اور واپس قادیان تشریف لے آئے.ملازمت کے دوران میں آپ کو یہ تجربہ حاصل ہوا کہ وہ لوگ جو ملازم ہیں.صرف دُنیا میں ہی غرق ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی خشیت کسی کے دل میں بھی نہیں.اور کسی کو بھی دُنیا سے بے رغبتی نہیں.اور تمام ملازم لوگ مخلوق خدا کی ہمدردی سے [41]

Page 47

خالی ہیں.اور فسق و فجور میں مبتلاء ہیں.آپ کے والد صاحب چاہتے تھے کہ آپ دُنیا کے کاموں میں مشغول ہوں.اور آپ چاہتے تھے کہ تمام دنیا کو ترک کر کے خلوت میں یاد الہی میں مشغول رہیں.آخر آپ کو اپنے والد کی منشاء کے مطابق مجبور اد نیا کے کاموں میں لگنا پڑا.لیکن آپ کی طبیعت ہر گز نہیں چاہتی تھی کہ دنیا کے کاموں میں مشغول ہوں.لیکن باوجود کاروبار میں مشغول ہونے کے آپ ہر وقت یا دالہی میں ہی مصروف رہتے.آخر آپ کے والد ماجد کا ۱۸۷ء میں انتقال ہو گیا.اور آپ کو دُنیا کے کاموں سے گونہ فراغت حاصل ہوگئی.اس وقت زمانہ کی یہ حالت تھی کہ تمام دنیابد یوں اور بدکاریوں میں مشغول تھی.امیر وغریب شاہ و گدا.نوجوان وبوڑھا.سب فسق و فجور میں مبتلاء تھے.اور اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہورہے تھے.آریوں اور عیسائیوں نے مسلمانوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا.اور قرآن مجید پر طرح طرح کے اعتراضات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے تھے.ان باتوں کو دیکھ کر آپ کا دل بہت گڑھتا تھا.آخر آپ نے مخالفین اسلام کے حملوں کے جواب میں مضامین لکھنے شروع کئے.جو مختلف اخبارات میں شائع ہونے شروع ہوئے.اور بہت مقبول اور پسند ہوئے.اس کے بعد آپ نے اعلام واذن الہی کے ماتحت براہین احمدیہ کھنی شروع کی.اور اس کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی شخص اس کا جواب لکھے گا تو میں اُس کو دس ہزار روپیہ انعام [42]

Page 48

دوں گا.اس کتاب نے دُنیا میں تہلکہ مچادیا.اور تمام مخالفین اسلام اس کا جواب لکھنے سے عاجز رہ گئے.براہین احمدیہ کو دیکھ کر تمام لوگ دنگ رہ گئے.اور تمام عقلمند اور ضرورت شناس لوگ آپ کے معتقد ہو گئے اور لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ اُس نے ایک ایسا خادم اسلام پیدا کر دیا ہے جس نے اس کی خدمت کا بیڑا اٹھا لیا ہے.جب آپ براہین احمدیہ تصنیف فرما رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مامور کر دیا.اور دُنیا کی اصلاح کا اہم کام آپ کے سپرد کر دیا.شروع ۱۸۸۹ء میں آپ نے لدھیانہ میں بیعت لی.شرایط بیعت مندرجہ ذیل ہیں: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ط نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ شرائط بیعت سلسلہ احمدیہ از حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت اول ہیں کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مکتب رہیگا.یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت دوم اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا ر ہیگا.اور نفسانی جوشوں [43]

Page 49

کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا.اگر چہ کیسا ہی جدہ یہ پیش آوے.یہ کہ بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہیگا.اور سوم حتی الوسع نماز مجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کریگا.اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا.یہ کہ عام خلق اللہ کو عموما اور مسلمانوں کو خصوصا اپنے نفسانی چہارم : جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.پنج یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور ٹیسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا بہر حالت راضی بقضاء ہوگا.اور ہر ایک ذلّت اور دُکھ کے قبول کرنے کے لئے اسکی راہ میں تیار رہیگا.اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اُس سے منہ نہیں پھیرے گا.بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائیگا اور قرآن شریف کی حکومت کو انگلی اپنے سر پر قبول کریگا.اور قال اللہ وقال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دیگا.ہفتہ یہ کہ تکبر اور نخوت کو بگلی چھوڑ دے گا.اور فروتنی اور عاجزی اور خوش [44]

Page 50

خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم:- نهم : یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہیگا.اور جہاں تک بس چل سکتا ہے.اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ باقر ار طاعت در معروف باندھ و ہم کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا.اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.(دیکھواشتہار تکمیل تبلیغ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء) ۱۸۹۱ ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دی کہ حضرت عیسی علیہ السلام جن کو لوگ غلطی سے اب تک زندہ سمجھتے ہیں.فوت ہو چکے ہیں.اور وہ مسیح اور مہدی جس کے آخری زمانہ میں آنے کا وعدہ ہے.وہ آپ ہی ہیں.اور اس بات کے اعلان کرنے کا حکم آپ کو دیا گیا تو آپ نے یہ اعلان کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو فوت ہو چکے ہیں.اور وہ صیح اور مہدی جسکے آنیکا وعدہ ہے وہ میں ہی ہوں.اس اعلان کا ہونا تھا کہ چاروں طرف سے لوگوں کی مخالفت کا طوفان برپا ہو گیا.اپنے بیگانے ہو گئے دوست دشمن ہو گئے.آپ سے مباحثات ہونے [45]

Page 51

شروع ہوئے.علماء نے آپ کے دلائل کا جواب نہ پا کر آپ پر کفر کا فتوی لگایا.اور آپ کو واجب القتل قرار دیا گیا.اور آپ کا اور آپ کی جماعت کا مال لوٹ لینا حلال قرار دیا گیا.آپ سے سلام و کلام قلع کرنے کا حکم دیا گیا.کہیں آپ پر اقدام قتل کے جھوٹے مقدمے کھڑے کئے گئے.اور مولویوں پنڈتوں اور پادریوں نے اس میں جھوٹی گواہیاں دیں.تاکہ کسی طرح آپ کو پھانسی پر لٹکایا جائے کہیں گورشمنٹ کو آپ کے خلاف اکسایا گیا کہ یہ شخص گورنمنٹ کا باغی ہے.گورنمنٹ اس کو پکڑے اور سزا دے.غرضیکہ ہر طرح کا مکر اور فریب آپ کو نیست و نابود کرنے کے لئے کیا گیا.لیکن لوگوں کی مخالفتیں کیا کر سکتی تھیں.اور کب آپ کو اس کام سے جس کے کرنے کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے.روک سکتی تھیں.اور کب اس پودے کو جسے خدا نے خود اپنے ہاتھ سے لگایا تھا.اور جس کی حفاظت اس نے اپنے ذمہ لی تھی.ان لوگوں کے مکر و فریب سے کا نا جا سکتا تھا.آپ کا اپنے مسیح ہونے کا اعلان کرنا ہی تھا کہ سعید اور عقلمند لوگوں نے آپ کو قبول کرنا شروع کر دیا.کیونکہ زمانہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ اسوقت ضرور کسی مصلح کی ضرورت ہے.اور ایک ایک کر کے آپ کی جماعت بڑھنی شروع ہوئی.وہ لوگ جو حق اور صداقت کے طالب تھے.بھلا کب ان فتنوں اور مخالفتوں سے ڈرنے والے تھے.اُنہوں نے اپنے گھر بار.مال و دولت بیوی بچے سب اپنے اس پیارے محبوب کے لئے ترک کر دیئے.مباحثات میں مخالفین نے سخت شکست [46]

Page 52

کھائی.اور ان دلائل کے آگے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء ہوئے تھے.عاجز آگئے.آپ نے مخالفین کو دعوت دی کہ آؤ میرے بالمقابل نشان دکھاؤ! یا مجھے قبول کرو لیکن اُن میں کب نشان نمائی کی طاقت تھی کہ وہ آ کر مقابلہ کرتے.اور ان کے دلوں میں کب سچائی کی تڑپ تھی کہ وہ عاجز آ کر آپ کو قبول کرتے.کیونکہ اُن کے دلوں میں تو صرف حسد ہی تھا.کہ کیوں اس شخص کو اللہ تعالی نے یہ ضلعت مامور یت اور مسیحیت پہنا دیا ہے.جب نشان نمائی کے لئے بھی کوئی مقابلہ کے لئے نہ آیا.اور نہ ہی تکفیر تفسیق سے علماء باز آئے تو آپ نے ایک اور طریق فیصلہ اختیار کیا.کہ آپ نے تمام بڑے بڑے علماء اور گڈی نشینوں کو دعوت دی کہ آؤ میرے ساتھ مباہلہ کرو! اگر میں جھوٹا ہوا تو میں ہلاک ہو جاؤں گا.اور اگر تم جھوٹے ہوئے تو تم ہلاک ہو جاؤ سے.لیکن یاد رکھو کہ میں سچا ہوں.جو بھی تم میں سے میرے مقابلہ پر آئے گا.وہ تباہ و برباد اور ہلاک ہو جائے گا.اور اگر سب مل کر میرے سامنے مباہلہ کے لئے آئیں گے تو سب ہی ہلاک ہو جائیں گے.لیکن مباہلہ کیلئے بھی کوئی میدان میں نہ نکلا.اور آپ سے نبرد آزما نہ ہوا.اس کے بعد پھر ایک اور طریق فیصلہ آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ آؤ میرے مقابل پر قرآن شریف کی تفسیر لکھو.اگر میں تم پر غالب رہا تو پھر [47]

Page 53

مجھو کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.لیکن یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا.اس میں بھی تمام لوگ عاجز آ گئے.پھر آپ نے فرمایا کہ آؤ.مجھے قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہے.میرے بالمقابل آؤ.اور قرعہ اندازی سے نصف نصف مریض لے لو.اگر میرے تمام مریض اچھے ہو گئے تو سمجھو کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.اور تم میرے ساتھ ہو جاؤ.لیکن؎ آزمائیش کیلئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے آپ نے آریوں اور عیسائیوں کو بھی چیلنج دیئے کہ آؤ میرا مقابلہ کرو.لیکن ان میں سے بھی کوئی میدان میں نہ نکلا.چونکہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے.اور اُسی نے آپ کو مبعوث کیا تھا.اس لئے اس نے آپ کی صداقت کے لئے زمین و آسمان میں نشانات دکھلائے.آسمان پر جیسا کہ حدیث میں لکھا تھا.مہدی کے وقت سورج اور چاند کو رمضان کے مہینہ میں ۱۳ اور ۲۸ کو گرہن لگے گا.۱۸۹۳ء میں گرہن لگا زمین پر آپ کی سچائی ثابت کرنے کیلئے طاعون بھیجی.جس نے دُنیا میں جھاڑو پھیر دیا.اور زلزلوں سے زمین ہل گئی دشمن آپ کی پیشگوئیوں کے ماتحت تباہ و برباد اور ذلیل وخوار ہو گئے.وہ متقدمات جولوگوں نے شرارت کے طور پر آپ پر کھڑے کئے تھے.ان میں سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت کے ساتھ بری کیا.اور تمام دشمن اپنی تدابیر میں ناکام ہوئے جو آپ کے ہلاک کرنے [48]

Page 54

کے لئے کھڑے ہوئے تھے.خود ہلاک ہو گئے لیکھرام.ڈپٹی عبد اللہ آتھم.ڈوئی.پگٹ احمد بیگ.سعد اللہ لدھیانوی.مولوی اسمعیل علیگڑھی.غلام و قصوری.وغیرہ آپ کی پیشگوئیوں کے دُنیا سے چل بسے.اور آپ کی جماعت جو پہلے چند انگلیوں پر شمار کی جاسکتی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھنی شروع ہوئی.اور سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئی.تمام دشمن آپ کا لوہا مان گئے.اللہ تعالیٰ نے ہر میدان میں آپ کی نصرت کی.اور آپ کو فتح نصیب کی.اللهم صل علیہ و على مطاعہ الی یوم الحساب آپ نے اسلام کی صداقت کے وہ زبردست دلائل پیش کئے کہ مخالفین اسلام تا قیامت ان دلائل کو باطل نہیں کر سکتے.آپ نے اپنی کے قریب کتب لکھیں.جن میں آپ نے حقائق و معارف کے دریا بہا دیئے ہیں.ان کتب میں سے بہت سی کتب ایسی ہیں جن پر آپ نے انعام مقرر فرمائے ہیں کہ اگر ان جیسی کوئی کتاب لکھ لائے تو اُسکو اس قدر انعام دیا جائیگا.لیکن جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ مہدی مال کو تقسیم کر دیگا لیکن اُسے کوئی ریگا نہیں.کسی کو اس مال کے لینے کی جرات نہ ہوئی اور نہ ہی ہو سکتی ہے.اور آپ نے ایک ایسی جماعت دُنیا میں پیدا کردی ہے جماعت احمدیہ ) جو اسلام کی سچائی کا زندہ ثبوت ہے.آپ نے بہت کی پیشگوئیاں کیں جن میں سے سینکڑوں آپ کی زندگی میں پوری ہو گئیں.اور باقی اپنے اپنے وقت پر پوری ہورہی ہیں.اور ہوتی رہیں گی.[49]

Page 55

آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات بابرکات سے از حد درجہ کا عشق تھا.اور ایسا عشق تھا کہ آجنگ کسی میں ایسا عشق نہیں دیکھا گیا.آپ کو جو کچھ حاصل ہوا.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہی پیروی کے ذریعہ حاصل ہوا.اور آپ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے غیرت بھی بہت تھی.آپ کو کوئی ہزاروں گالیاں دے.آپ در گذر فرماتے تھے.لیکن اگر آپ کے پیارے آقا کی شان میں کوئی شخص گستاخی کرتا تو آپ اس کی ہرگز برداشت نہیں کر سکتے تھے.اور اس کے لئے آپ اس قدر غیرت دکھلاتے تھے جس کو فلم بیان نہیں کر سکتا.قرآن شریف کی از حد درجہ کی علات آپ کے دل میں تھی.آپ کے سب کام قرآن کریم و سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق تھے.آپ ہر وقت ذکر الہی اور درود میں مشغول رہتے تھے.آپ دُنیا میں ایسے زندگی ہر کرتے تھے جیسے مسافر.آپ کو دنیا سے بالکل محبت نہ تھی.ہمدردی خلق اللہ آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.آپ اپنی ساری عمر قلم کے ساتھ جہاد کرتے رہے.حتی کہ جہاد کی حالت میں ہی آپ کا ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء مطابق ۲۴ ؍ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ کو وصال ہو گیا.اللهم صل علیہ و علی مطاعه محمد الصلوة والسلام آپ کے بعد جماعت نے بالا تفاق حضرت حافظ حاجی حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کا خلیفہ تسلیم کر لیا.[50]

Page 56

حضرت خلیفہ امسیح الاول مولوی نورالدین صاحب بھیروی هند حضرت خلیفة المسح الاول حافظ حاجی حکیم مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۸۴۱ء میں حافظ غلام رسول صاحب کے گھر بھیرہ ضلع شاہ پور میں پیدا ہوئے.آپ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں.بچپن میں ہی آپ نے قرآن مجید اور کچھ دینی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کر لی.جب آپ بڑے ہوئے تو آپ نے مختلف اُستادوں سے عربی اور فارسی پڑھی.لیکن آپ کو علم کا شوق بہت زیادہ تھا.اس لئے آپ نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا.اور ہندوستان کے بڑے بڑے مشہور اور جید علماء سے مختلف علوم حاصل کئے.اور ان علوم میں کامل مہارت پیدا کر لی.آپ نے علم حاصل کرنے کی خاطر بہت بڑی بڑی تکلیفیں اور صعوبتیں اُٹھا ئیں.آج اس زمانہ میں ان تکلیفوں کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا.ہندوستان سے علم حاصل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو تو فیق دی.اور آپ پر حج فرض ہو گیا.اسلئے آپ حج کے لئے روانہ ہو گئے.جب آپ مکہ [51]

Page 57

معظمہ پہنچے تو وہاں آپ نے حج ادا کیا.اور وہاں سے بھی آپ نے حدیث کا علم حاصل کیا.پھر آپ وہاں سے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے.اور وہاں بھی تحصیل علم میں ہی مشغول رہے.وہاں سے آپ فارغ ہو کر پھر مکہ معظمہ تشریف لائے.اور پھر حج کر کے واپس ہندوستان تشریف لے آئے.اور اپنے وطن بھیرہ میں پہنچے.اب آپ ایک بہت بڑے عالم اور جید علّامہ.اور ایک خاص طبیب تھے کہ ہندوستان بھر میں آپ جیسا کوئی عالم و فاضل اور طبیب نہ تھا.لوگوں نے آپ کی قدرشناسی کی.اور آپ کی بہت عزت و تکریم ہونی شروع ہوئی.اور چاروں طرف سے مریضوں نے بھیرہ کا رُخ کیا.کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو شفا بخشتا تھا.کچھ دیر آپ بھیرہ میں رہے اور ایک رؤیا کی بناء پر جموں و کشمیر تشریف لے گئے.وہاں آپ مہاراجہ صاحب جموں کے خاص طبیب مقرر ہو گئے.چند سالوں کے بعد وہاں سے علیحدہ ہو کر آپ پھر بھیرہ میں تشریف لے آئے.اور وہاں اپنے مکانات وغیرہ بنوانے شروع کئے.ابھی مکانات بن ہی رہے تھے کہ آپ ایک کام کیلئے لاہور تشریف لائے.اور لاہور سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ملاقات کے لئے قادیان تشریف لائے.لیکن حضرت مسیح موعود کے حکم سے چند دن قادیان ٹھہر گئے.لیکن پھر جب واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ منشاء معلوم کر کے کہ آپ قادیان میں ہی رہائش اختیار کر لیں.آپ واپس نہیں گئے.اور اپنے وطن بھیرہ [52]

Page 58

کو بالکل بھلا دیا.اور اپنے متعلقین کو بھی وہاں سے خط لکھ کر منگوالیا.اللہ اللہ کیا ہی یہ اعلیٰ درجہ کی قربانی ہے.مکانات تعمیر ہورہے ہیں.اپر چھ سات ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے.لیکن اپنے پیارے آقا کے فرمان پر سب کچھ چھوڑ دیا.اور وطن کا خیال تک بھی نہیں کیا.اور قادیان میں مستقل طور پر رہائش اختیار کر لی.حتی کہ باہر کہیں سفر پر بھی بجو حکم حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف نہیں لے جاتے تھے.قادیان میں آپ ہر وقت درس و تدریس قرآن وحدیث اور طب اور بیماروں کو دیکھنے اور ان کا علاج کرنے اور ہمدردی خلق اللہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں مشغول رہتے.آپ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حد درجہ کا عشق اور ادب تھا.در حقیقت آپ نے اپنے بیعت کے مفہوم کو پورا کر دیا تھا.اور دین کو دنیا پر مقدم کر کے دکھا دیا تھا.آپ تمام لوگوں سے بڑھ کر قربانی کرتے تھے اور آپ نے اپنا مال اور جان سب خدا کی راہ میں وقف کر دیا تھا.آپ کے صدق.تقویٰ.اخلاص اور قربانیوں کو دیکھ کر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو صدیق کا لقب عطا فر مایا.جب ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و اسلام کا وصال ہوا تو آپ کو تمام جماعت نے بالا تفاق آپ کا خلیفہ منتخب کر لیا.آپ نے اپنے زمانہ خلافت میں جماعت کی اندر ہی اندر اعلیٰ درجہ کی تربیت کی.اور آپ کے زمانہ میں بھی [53]

Page 59

جماعت نے کافی ترقی کی.اور وہ اہم کام جو آپ کے سپرد کیا گیا تھا.آپ نے اُسے نہایت اچھی طرح سرانجام دیا.آپ کے زمانہ خلافت میں ایک باغیوں کا گروہ پیدا ہو گیا.جس نے بی ارادہ کر لیا کہ خلیفہ کو صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت قرار دیا جائے.جب اُن کو اس میں کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے یہ ارادہ کر لیا کہ خلافت کو ہی بالکل اڑادیا جائے.اور آپ کو مسند خلافت سے اُتار دیا جائے.لیکن یہ لوگ اپنے اس ارادہ میں بھی تا کام ہوئے.اور یہ فتنہ آپ کے رعب کی وجہ سے دب گیا.جس نے آپ کی وفات پر خطرناک صورت اختیار کر لی.لیکن چونکہ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ ہے.اسلئے اللہ تعالیٰ نے ان کو جماعت سے الگ کر دیا.اور اُنہوں نے قادیان کو چھوڑ اپنا ایک علیحدہ مرکز بنا لیا اور اس طرح باقی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اُن سے محفوظ کر دیا.آپ ہمیشہ اور باقاعدہ مردوں اور عورتوں میں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے.اور ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے آپ سے اس رنگ میں استفادہ کیا ہے.ا فصل الخطاب سے تصدیق براہین احمدیہ سے نورالدین - سے رسالہ تناسخ ۵ ابطال الوہیت مسیح - 1 دینیات کا پہلا رسالہ اور کے بیاض نورالدین آپ کی مصنفہ کتب آپ کی خاص یادگار اور آپ کی علمیت کا ادنی ثبوت ہیں.آپ نے بوقت وفات مندرجہ ذیل اولاد چھوڑی.مولوی عبد الحی مرحوم.[54]

Page 60

مولوی عبد السلام.مولوی عبدالوہاب.مولوی عبد المنان عبد اللہ مرحوم.امتہ المی مرحومہ ( حرم محترم حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) حفصہ مرحومہ.ان کے علاوہ آپ کے اور بھی بہت سے بچے ہوئے جو چھوٹی عمر میں ہی انتقال کرتے رہے.آپ کو یہ بجا طور پر فخر حاصل ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام جری اللہ فی حلل انبیاء کے پہلے خلیفہ ہیں.اور فضل عمر مصلح موعود مظهر الحق والعلاء كأن الله نزل من السماء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے پیارے فرزند.اور حسن و احسان میں آپ کے نظیر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ البیع الثانی رضی اللہ عنہ کے استاد ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ سے ترجمہ قرآن مجید.بخاری شریف اور مثنوی مولانا روم پڑھی.بالآخر آپ کا ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ ء مطابق ۱۵ ربیع الثانی ۱۳۳۲ھ کو بروز جمعہ انتقال ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَانَّا إِلَيهِ راجِعُون ย اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے (جو آپ کے بعد خلیفہ منتخب ہوئے ) آپ کا جنازہ پڑھایا.اور آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دائیں پہلو میں بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.[55]

Page 61

حضرت خلیفة المسیح الثانی الله حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ بتاریخ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر قادیان میں پیدا ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں آپ کو فضل عمر مصلح موعود.حسن و احسان میں آپ (حضرت مسیح موعود ) کا نظیر مظهر الحق و العلاء كان الله نزل من السماء - اسیروں کی رستگاری کا موجب.وغیر ذلک قرار دیا گیا ہے.مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں آپ نے دسویں جماعت تک تعلیم پائی.اور حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے ترجمہ قرآن مجید.بخاری شریف اور مثنوی مولا ناردم پڑھی.۱۹۱۲ ء میں آپ نے فریضہ حج ادا کیا.۱۹۱۴ ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات پر آپ کو جماعت نے خلیفہ منتخب کر لیا.آپ کے عہد خلافت میں جماعت احمدیہ نے بہت ترقی کی ہے.اور غیر ممالک میں بھی آپ کے ہی عہد میں جماعتیں قائم ہوئی ہیں.اسوقت غیر ممالک میں چوبیس دار التبلیغ قائم ہیں.مسجد فضل لنڈن آپ کے ہی عہد میں تعمیر ہوئی اور آپ نے ہی اس کا جب آپ ۱۹۲۴ء میں مذاہب کانفرنس میں شمولیت کے لئے انگلستان تشریف لے [56]

Page 62

گئے.سنگ بنیا درکھا.منارة اسبی بھی آپ ہی کے عہد خلافت میں تکمیل کو پہنچا.رسالہ تشحید الا ذبان (جو بعد میں ریویو کے ساتھ ملا دیا گیا) اور اخبار الفضل آپ ہی کے جاری کردہ ہیں.مدرسہ احمدیہ کا موجودہ طرز تعلیم آپ ہی کا جاری کردہ ہے صدر انجمن احمدیہ کے موجودہ شعبے آپ ہی کے قائم کردہ ہیں.جماعت احمد یہ میں جو تنظیم اس وقت نظر آ رہی ہے آپ ہی کا کارنامہ ہے.آپکو اللہ تعالیٰ نے علم قرآن عطاء کیا ہے.اور ہر میدان میں خواہ سیاسی ہو یا مذہبی آپ کو فتح عطا کی ہے.(مفصل آئندہ انشاء اللہ ) قرآن مجید کی تعلیم (۱).ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہو.(۲).حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نمونہ پر چلو.(۳).ماں باپ کا حق ادا کرو.(۴).ہمسایہ کا حق ادا کرو.( نیک سلوک کرو) [57]

Page 63

(۵).ہمدردی خلق اللہ میں مشغول رہو.(1).قرض ادا کرو.(۷).کسی کے مال کو نقصان مت پہنچاؤ.(۸).لوگوں کے عیب مت تلاش کرو.(۹).کسی کے گھر بغیر اجازت مت داخل ہو.(۱۰).نیک کاموں میں لوگوں کی مدد کرو.(۱۱).یتیموں کے ساتھ نیک سلوک کرو.(۱۲).چوری مت کرو.(۱۳).کسی کے ساتھ بد معاملگی نہ کرو.(۱۴).چغلی نہ کھاؤ.(۱۵).بد نظری نہ کرو.(۱۶).جس بات کا علم نہیں و ہ مت کرو.(۱۷).گواہی مت چھپاؤ.(۱۸).پورا تولو.(۱۹).تکلیف کے وقت صبر کرو.(۲۰).ہر کام کے کرنے کی اللہ تعالی سے ہی توفیق چاہو.[58]

Page 64

حدیث کی باتیں (۱).ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو.(۲).اپنے دل کو پاک اور صاف بناؤ.(۳).سنت کو اختیار کرو.اور بدعت کو ترک کرو.(۴).جو اپنے لئے پسند ہو وہی دوسروں کیلئے پسند کرو.(۵).دُنیا میں مسافر کی طرح رہو.(1).ہر مسلمان کے خیر خواہ رہو.(۷).کسی کے ساتھ تین دن سے زیاد و قطع کلامی مت کرو.(۸).کسی کا دل مت دکھاؤ.(۹).پردہ پوشی سے کام لو.(۱۰).غیر قوموں کے معزب زمین کی بھی عزت کرو.(۱۱).باتونی مت بنو.(۱۲).کپڑے پاک اور صاف رکھو.(۱۳).مسواک کرتے رہا کرو.(۱۴).دائیں ہاتھ سے کھاؤ.[59]

Page 65

(۱۵).اپنے آگے سے کھاؤ.(۱۶) طبع اور حرص نہ کرو.(۱۷) عیش و عشرت میں نہ پڑو.(۱۸).ہر واقف و نا واقف سے السّلامُ عَلَيْكُمْ ، (۱۹).سوال کرنے سے بچو.(۲۰).اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو.[60]

Page 65