Islam Book 2

Islam Book 2

اسلام کی کتب (دوسری کتاب)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
بچوں کے لئے

Book Content

Page 1

اسلام سے نہ بھا گو راہ ہدیٰ یہی ہے اے سونے والو جا گوشس الطفی یہی ہے بچوں کے لئے ) اسلام کی دوسری کتاب از چوہدری محمد شریف صاحب مولوی فاضل قادیان الناشر: نظارت نشر و اشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان

Page 2

نام کتاب مصنف اسلام کی دوسری کتاب چوہدری محمد شریف طبع اول کمپوز ڈایڈیشن باراول حالیہ اشاعت $1986 : $2013 : $2016 : مقام اشاعت قادیان تعداد شاعت 1000 : ناشر مطبع نظارت نشر واشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان، ضلع گوراد سپور، پنجاب 143516 ، انڈیا فضل عمر پرنٹنگ پریس قادریان ISBN: 978-81-7912-364-5 Islam Ki Dusri Kitab by Choudary Muhammad Shareef Maulvi Fazil

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عرض ناشر اسلام نام ہے اس دین کا اور اس طریقے پر زندگی گذارنے کا جو اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی ساینا یہ ہم اللہ تعالی کی طرف سے لائے تھے اور جو قرآن شریف میں اور حدیث النبوی میں بتلایا گیا ہے اور حضور اکرم نے اپنے عملی نمونہ سے ہمیں سکھایا ہے.دین کا سیکھنا اور اسلام کی ضروری باتوں کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.دینی علوم حاصل کرنے والوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی اکرم نے فرمایا ہے کہ: مَنْ يُرِدُ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّةُ فِي الدِّينِ (بخاری) جس کو اللہ تعالیٰ بھلائی اور ترقی دینا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے.پس بچپن سے ہی دین اسلام کو سیکھنے اور اس کی ضرورت اور بنیادی باتوں کے علم حاصل کرنے کا شوق دل میں پیدا ہونا چاہئے اور احکام اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں کو سنوارنے کی کوشش کرنے کی عادت بھی پیدا ہونی چاہئے.اور بچپن سے ہی بچوں میں دینی تعلیم ، اللہ اور اسکے رسول کی محبت اور غیرت کو راسخ کرنا چاہئے.محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم نے بڑی خوش اسلوبی اور عمدہ وآسان پیرائے میں اسلام کی بنیادی مسائل اور احمدیت کی مختصر تاریخ پر مشتمل پانچ کتب اسلام کی پہلی تا پانچویں کتاب سلسلہ وار تصنیف فرمائی ہیں.یہ کتب جہاں بچوں کی دینی تعلیم کے لئے نہایت دلچسپ ہیں وہاں بڑی عمر کے احباب بھی اس سے ضرور استفادہ کر

Page 4

سکیں گے.اللہ تعالیٰ محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور ان کی تصنیف کردہ ان کتب کی اشاعت کو ان کے لئے خَيْرَ مَا يَخْلُفُ الرَّجُلُ میں سے بنائے.آمین محترم مولانا موصوف کی تصنیف کردہ اسلام کی پانچوں کتب پہلی بار ۱۹۸۶ء میں قادیان میں شائع ہوئی تھیں.اب کمپوزڈ ایڈ یشن ۲۰۱۳ء میں سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے من وعن شائع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدنا حضور انور کے اعلیٰ تو قعات کے مطابق نونہالان جماعت کی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاكسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

بسم اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ ط احمدةُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اسلام کی دوسری کتاب نماز اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے.اور اُس کی تمام ضروریات بھی پوری کیں اور اس کے لئے ہر قسم کے سامان مہیا کئے.رزق کھانے کو.لباس پہننے کو عطا فرمایا.ہمیں چاہیے کہ ہم اُس کا شکر کریں.اور اُس کی تمام نعمتوں کی قدر کریں.اور اُسی کی عبادت کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ کہ انسان صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے پیدا ہوا ہے.سب چیزیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں.اور انسان صرف خدا تعالیٰ کے لئے پیدا کیا گیا ہے.سب عبادتوں سے اعلیٰ عبادت نماز ہے.نماز مومنوں کی ترقی کا ذریعہ ہے.جس قدر ترقی چاہو اس سے حاصل ہوسکتی ہے.نماز انسان کو بے حیائیوں اور ناپسندیدہ کاموں سے روکتی ہے.نماز سے انسان کا دل پاک ہو جاتا ہے اور گناہوں کی میل دور ہو جاتی ہے.اور انسان ہر قسم کے گناہوں اور بدیوں سے [1]

Page 6

محفوظ ہو جاتا ہے.جو شخص بچے دل اور عاجزی سے نماز کو ادا کرتا ہے.اللہ تعالی اُسے عزت اور بزرگی عطا فرماتا ہے.اور اُس کو اپنے قرب میں جگہ دیتا ہے.أُوْلَئِكَ فِي جَنَّتٍ مُكْرَمُونَ نماز کیا ہے؟ وہ ذکر الہی ہے جس میں تسبیح تحمید، تقدیس اور استغفار اور درود اور دُعا عاجزی کے ساتھ مانگی جاتی ہے.جب تم نماز پڑھوتو نہایت ادب سے کھڑے ہو جاؤ.اور ایسا معلوم ہو جیسے تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو.یا کم از کم یہ سمجھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے.اور غم اُس کے سامنے کھڑے ہو.نماز کے اندر کسی دوسری طرف خیال نہ ہو بلکہ صرف اپنے رب کی طرف ہی پوری توجہ ہو.جو دُعا کرنی ہو نماز میں ہی کر لو.جو شخص نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا نہیں کرتا اس کی نماز حقیقی نماز نہیں.جو شخص یہ نہیں سمجھتا کہ وہ نماز میں کیا پڑھ رہا ہے.اُس کی بھی کوئی نماز نہیں.اس لئے تمہیں چاہئے کہ خوب سوچ سمجھ کر پڑھو.اور جیسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.ایسے ہی نماز ادا کرو.تا کہ تم کواللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو.اور تم اُس کے بندے بن جاؤ.اور تمام گناہوں سے پاک ہو جاؤ.اور دین ودنیا کی تمام نعمتیں تم کومل جائیں اور تمہارا خدائم سے راضی ہو جائے.کیونکہ اس کی رضامندی سے کوئی چیز بہتر نہیں.[2]

Page 7

شرائط نماز نماز کے ادا کرنے کے لئے چھ شرطیں ہیں:- (۱) بدن پاک ہو.(۲) کپڑے پاک ہوں.(۳) نماز پڑھنے کی جگہ پاک اور صاف ہو.(۴) قبلہ کی طرف منہ ہو.(۵) نماز کی نیت ہو.(۶) ستر ڈھانکا ہوا ہو.طہارت بدن اگر کسی نے پیشاب یا پاخانہ کیا ہو تو پہلے بائیں ہاتھ کے ساتھ استنجاء کرے، نہ کہ دائیں کے ساتھ.اور اگر پانی نہ ملے تو ڈھیلے یا پتھر سے بھی کام لے سکتا ہے.( گوبر، لید یا ہڈی سے استنجاء کرنا منع ہے ) پھر اپنے ہاتھ کو مٹی سے مل کر دھولے اور وضوء کر لے.اور اگر یہی ہو.یا عورت حائضہ ہو تو پہلے مسل کرے.غسل کرنے کا یہ طریق ہے کہ پہلے استنجاء کرے.پھر وضو کرے.اور پھر سر پر تین دفعہ پانی ڈال کر سارے بدن پر پانی بہادے( تین بار پانی ڈالنا سنت ہے لیکن [3]

Page 8

بدن کا کوئی حصہ سوکھا نہ ہو جائے مسل کے لئے پردہ دار جگہ اور کپڑا باندھنا بہتر ہے.وضو کر نے کا یہ طریق ہے :- پہلے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیم لے پڑھے.پھر دونوں ہاتھ تین بار پہونچوں تک دھوئے.اس کے بعد تین بار کلی کرے.پھر تین بار ناک میں پانی ڈال کر خوب اچھی طرح سے صاف کرے.اور تین بار چہرہ پر پانی ڈال کر منہ دھوئے.پھر تین بار دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے پھر سر کا مسح کرے.اس طرح کہ پہلے دونوں ہاتھ آگے لے آئے.پھر کانوں اور گردن کا مسح کرے.پھر دونوں پاؤں کو (پہلے دایاں اور پھر بایاں ٹخنوں تک ) تین تین بار دھوئے.اگر پاؤں میں گجر انہیں وغیرہ ہوں.اور وضو کے بعد پہنی گئی ہوں توسیع کر لینا چاہئے.مسح کرنے کا یہ طریق ہے کہ ہاتھوں کی انگلیوں کو تر کر کے پاؤں کی انگلیوں سے لے کر پنڈلیوں تک کھینچنا چاہئے.مسح کی مدت مقیم کے واسطے ایک دن رات اور مسافر کے لئے تین دن رات مقرر ہے.اس کے بعد بجر انہیں وغیرہ اتار کر پاؤں دھونے چاہئیں.اگر کوئی ایسی جگہ ہو جہاں پانی ڈالنے سے تکلیف کا اندیشہ ہو تو مسح کرنا چاہئے.اگر جراب وغیرہ اس قدر پھٹی ہوئی ہو کہ اس میں سے پاؤں کی تین انگلیاں نظر آ سکتی ہوں تو اُن پر مسح کرنا منع ہے.ے.اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں.جو بے حد رحم کرنے والا ، بار بار رحم کرنے والا ہے.[4]

Page 9

وضو مکمل کرنے کے بعد کلمہ شہادت اور وضو کی دعا پڑھے جو یہ ہے:.أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اللهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ وضو میں اعضاء کو تین تین بار دھونا سنت ہے.اور ایک ایک بار دھونا فرض ہے.اگر وضوٹوٹ جائے تو پھر دوبارہ وضو کرنا چاہیئے.نواقض وضوء پیشاب کرنے.پاخانہ کرنے © ہوا کے خارج ہونے O_ لیٹ کر یا کسی چیز سے سہارا لگا کر سونے.بے ہوشی.کسی عضو سے خون یا پیپ وغیرہ کے بہ نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے.اگر وضو کرنے کے لئے پانی نہ ملے یا پانی کے استعمال کرنے سے بیمار ہونے یا بیماری بڑھ جانے کا ڈر ہو.یا کنوئیں وغیرہ سے پانی نکالنے کا کوئی سامان نہ ہو.یا پانی پر دشمن یا درندہ کا قبضہ ہو تو تیم کر لینا چاہیئے.تیم کا طریق یہ ہے کہ پہلے ہاتھ پاک مٹی پر یا ایسی چیز پر جس پر مٹی ہو مار کر منہ پر ہاتھ مل لے.پھر دوسری دفعہ ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک مل لے.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.اور محمد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں.ہے.اے اللہ مجھے تو بہ کرنے والا اور پاک بنا.سے.وضو توڑنے والی چیز ہیں.[5]

Page 10

لے.ایک ضرب سے پہونچوں تک ملنا بھی آیا ہے.تیم وضو کے قائم مقام ہے.جب پانی مل جائے.تو تیم ٹوٹ جاتا ہے.اور جن چیزوں سے وضوٹوٹ جاتا ہے.اُن سے تم بھی ٹوٹ جاتا ہے.تیم مٹی کے علاوہ ریت.پتھر اور چونہ وغیرہ سے بھی ہوسکتا ہے.طہارت لباس کپڑوں کے پاک ہونے کا یہ مطلب ہے کہ کپڑوں پر پیشاب وغیرہ کے چھینٹے نہ گرے ہوں.یا اور کسی قسم کی نجاست یا خون وغیرہ اُن کو نہ لگا ہو.اگر پیشاب یا پاخانہ وغیرہ کپڑوں کو لگ جائے تو اُن کو پانی سے دھو لینا چاہئیے.لیکن اگر کپڑے نا پاک ہوں اور اُن کے دھونے کا کوئی سامان نہ ہو تو انہی کپڑوں سے ہی نماز پڑھ لینی چاہیئے.اگر کپڑے نہ ہوں تو بیٹھ کر نماز پڑھ لینی چاہیئے.اور رکوع اور سجدہ اشارہ سے کر لینا چاہیئے.[6]

Page 11

طہارت مصلی نماز پڑھنے کی جگہ پاک اور صاف ہونی چاہیئے.اگر زمین پر نجاست وغیرہ ہو.اور دُھوپ لگ کر خشک ہو جائے.اور اُس کا اثر جاتا رہے تو اُس پر نماز جائز ہے.بکریوں کے باڑہ میں نماز پڑھنا جائز ہے.لیکن اونٹوں کے باڑہ ، تمام قبرستان، لید والی جگہ، مذبح، راستہ میں، خانہ کعبہ کے او پر نماز پڑھنا جائز نہیں.قبلہ نماز کے لئے قبلہ کی طرف منہ ہونا شرط ہے.لیکن اگر کسی دشمن کا ڈر ہو، یا کوئی اور خطرہ ہو تو جس طرف ہو سکے اُسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے.اگر اندھیری رات ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ قبلہ کس طرف ہے تو جس طرف دل گواہی دے کہ ادھر قبلہ ہے اُسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے.اگر اُسے نماز پڑھ چکنے کے بعد معلوم ہو کہ جس طرف میں نے نماز پڑھی ہے قبلہ نہیں تھا تو دوبارہ نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں.اور اگر اُسے نماز کے درمیان ہی معلوم ہو جائے کہ قبلہ دوسری طرف ہے تو منہ اُس طرف پھیر لے.ے.نماز پڑھنے کی جگہ [7]

Page 12

w نيت نماز سے پہلے دل میں نیت کا ہونا ضروری ہے کہ کونسی نماز ہے.فرض ہیں یا سنت یانفل.ستر ڈھانکنا نماز کے لئے مرد کو اپنا بدن ناف سے لے کر گھٹنوں کے نچلے حصہ تک ڈھانکنا فرض ہے.اگر دونوں کندھے ننگے ہوں تو نماز مکر وہ ہوتی ہے.آزاد عورت کو منہ اور ہاتھ پاؤں کے سو اسب بدن ڈھانکنا فرض ہے.اگر ستر سے چوتھا حصہ نگا ہو جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے.اذان جس وقت نماز کا وقت ہوتا ہے.مسجدوں میں اذان دی جاتی ہے.اذان دینا سنت ہے.مؤزّن ( اذان دینے والا ) کو چاہیے کہ وہ قبلہ کی طرف منہ کر کے کانوں میں اُنگلیاں ڈال کر کھڑا ہو.پھر چار دفعہ اللہ اکبر کہے.پھر دو دفعہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ - پھر دو دفعہ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہے.پھر دائیں طرف منہ کر کے دو دفعہ حَتی عَلَى الصَّلوة کہے.پھر بائیں ا.خراب [8]

Page 13

طرف منہ کر کے دو دفعہ حَى عَلَى الفلاح کہے.پھر قبلہ کی طرف منہ کر کے واد دفعہ اللہ اکبر کہے اور ایک دفعہ لا إله إلا الله کہے.( اذان ختم ) لیکن فجر کی نماز میں حی علی الفلاح کے بعد قبلہ کی طرف مرد کر کے دو بار وو الصَّلوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ ہے.مؤذن کو باؤ ضواذان دینی چاہیئے.جو شخص اذان ٹن رہا ہو اُس کو وہی الفاظ دہرانے چاہئیں.لیکن جس وقت مُوذَن حَيَّ عَلَى الصَّلوۃ اور حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کے سُنے والا لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ الا باللہ سے کہے جب اذان ختم ہو جائے تو اذان کے بعد یہ دُعا پڑھے.اللّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَوَةِ الْقَائِمَةِ اتِ مُحَمَّدَ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَالرَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ وَابْعَثُهُ مَقَا مَّا مَّحْمُودًا الَّذِي وَعَدُلَّهُ إِنَّكَ لَا تُخَلِفُ الْمِيعَادي لے.اذان کا ترجمہ: اللہ سب سے بڑا ہے.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہی معبود ہے.محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں.نماز کی طرف آؤ کامیابی کے لئے آؤ.اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.ے.نماز نیند سے بہتر ہے.ے.سب قوت اور طاقت اللہ کو ہی ہے.ہے.اے میرے اللہ جو رب ہے اس کامل دعوت اور کھڑی ہونے والی نماز کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما.اور اس کو جس مقام محمود کا تو نے وعدہ کیا ہے اُس میں اُٹھا مجھے یقین ہے کہ تو وعدہ خلاف نہیں کرتا.[9]

Page 14

تمام کام کاج کھیل کو دچھوڑ کر نماز کے لئے مسجد کی طرف چلے جانا چاہیئے.اقامت جب نماز کھڑی ہونے لگے اور امام مصلی پر کھڑا ہو جائے تو لوگوں کو چاہئے کہ صفیں سیدھی کر لیں.کیونکہ صفوں کی درستی نماز کی مُتمم ہے.اور حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفیں سیدھی کرنے کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے.جب صفیں سیدھی ہو جائیں تو مؤذن کو چاہیے کہ اقامت کہے.مؤذن کے علاوہ کوئی دوسر اشخص بھی اس کی اجازت سے اقامت کہہ سکتا ہے.اقامت کے کلمات یہ ہیں.اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ.أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَدْ قَامَتِ الصَّلوة ».قَدْ قَامَتِ الصَّلوةُ الله أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اوقات نماز فجر کی نماز کا وقت صبح صادق سے لے کر سورج کے نکلنے تک ہے.ا.مُتیہ.پوری کرنے والی ے.نماز کھڑی ہے.[10]

Page 15

ظہر کی نماز کا وقت سورج کے زوال سے لے کر اصلی سایہ کے علاوہ ایک مثل تک ہے.عصر کی نماز کا صحیح وقت ظہر سے لے کر سُورج کے زرد نہ ہونے تک ہے.مغرب کی نماز کا وقت سورج کے ڈوبنے سے لے کر شفق ( وہ سُرخی جو سورج کے ڈوبنے کے بعد تک مغرب میں رہتی ہے ) کے غروب تک ہے.عشاء کی نماز کا غروب شفق سے لے کر آدھی رات تک کا وقت ہے.نوٹ : سوئے ہوئے یا بھولے ہوئے یارو کے ہوئے کی نماز کا وقت وہ ہے، جب جاگے یا یاد آئے یا اُس کی روک دُور ہو جائے.اوقات ممنوعه جب سورج نکل رہا ہو.غُروب ہورہا ہو.جس وقت سورج عین سر پر ہو.اور عصر کی نماز کے بعد سے سورج کے ڈوبنے تک.اور صبح کی نماز کے بعد سے شورج کے نکلنے تک کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیئے.ان وقتوں میں نماز پڑھنا منع ہے کیونکہ یہ سورج پرستوں کے وقت ہیں لے.نماز کی رکعات فجر : دو علت دو فرض ے.ان وقتوں میں جان بوجھ کر نماز پڑھنا منع ہے.[11]

Page 16

ظیر: چالا عنت.چانا فرض دو علت シ چالا فرض مغرب:- تین فرض دوست عشاء:- چار سنت _ چالا فرض و سنت.تین وتراه واو نماز پڑھنے کا طریق ( منقول از فتاوی احمدیه ) جب انسان نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو کعبہ کی طرف رُخ کر کے الله اكبر کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو او پر اُٹھائے یہاں تک کہ اُنگلیاں کانوں کے برابر ہو جائیں.اور پھر دونوں ہاتھوں کو نیچے لا کر سینہ یعنی دونوں پستانوں کے او پر یا اُن کے متصل نیچے اس طور پر باندھے کہ بایاں ہاتھ بیچے اور دایاں ہاتھ او پر ہو.پھر یہ دُعا پڑھے.ے.فرضوں اور سنتوں کی تعدا دلکھ دی گئی ہے.نفل جس قدر چاہو پڑھو.[12]

Page 17

اللَّهُمَّ بَاعِدُ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِب اللهم تقين من خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَا كَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرْدِ يا شنا، سُبحتك اللهم وبحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَبُّكَ وَلا إلهَ غَيْرُكَ عوذ : أعُوذُ بِالله مِن الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پھر ( تسمیہ ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ کے بعد سُورۃ فاتحہ پڑھے.لے.اے اللہ ڈوری ڈال میرے اور میری خطاؤں کے درمیان جیسا کہ ڈوری ڈالی تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان.اے اللہ صاف کر مُجھ کو میری خطاؤں سے.جیسا کہ صاف کیا جاتا ہے سفید کپڑا میل سے.اے اللہ دھوڈال میری خطاؤں کو پانی اور برف اور اولوں کے ساتھ..پاک ہے تو اے اللہ اور یکتا ہے اپنی تعریف میں اور برکت والا ہے تیرا نام اور بڑی ہے تیری شان.اور نہیں کوئی معبود تیرے سوا.۳.پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کی مدد کے ساتھ شیطان مردود سے.[13]

Page 18

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ةُ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُهُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اس کے بعد قرآن شریف کی کوئی سورۃ پڑھے.مثلاً قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ ( اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ٢٥ یا قرآن کریم کی چند آیات پڑھے پھر الله اكبر کہہ کر رکوع میں چلا جاوے.اور دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں گھٹنوں کو انگلیاں پھیلا کر پکڑے اور دونوں بازوؤں کو سیدھا رکھے اور پیٹھ اور سر کو برابر رکھے اور تین بار یا تین بار سے.سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے بن مانگے دینے والا.سچی محنت کو ضائع نہ کرنے والا ہے.مالک ہے جزا سزا کے دن کا.ہم تیری عبادت کرتے ہیں.اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.دکھا ہم کو سیدھا راستہ.راہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا اور نہ اُن کی جن پر غضب کیا گیا اور نہ اُن کی جو سچی تعلیم کو بھول گئے.( قبول فرما )..کہ وہ اللہ ایک ہے.اور بے نیاز ہے.نہ اُس کی کوئی اولاد ہے.اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے.اور نہ اُس سے کوئی برابری کرنے والا ہے.[14]

Page 19

زیادہ طاق مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ لے پڑھے.اس کے بعد سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حمدل ہے کہتے ہوئے سیدھا کھڑا ہو جائے.اور رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمَّدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ سے کہے.پھر الله اكبر کہتے ہوئے سجدہ کرنے کے لئے نیچے جائے اور پہلے گھٹنے پھر ہاتھ اور ناک اور پیشانی زمین پر رکھ کر تین دفعہ یا زیادہ طاق مرتبه سُبحان ربي الأعلیٰ سے کہے اور جودُعا چاہے اپنی زبان میں یا عربی زبان میں کرلے (رکوع اور سجدہ کی حالت میں قرآن مجید کی آیات پڑھنا منع ہے ) سجدہ کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا رکھے.اور اُن کی اُنگلیوں کو بھی قبلہ کی طرف رکھے.اور دونوں ہاتھوں کے درمیان سر ہو.اور دونوں بازو پہلوؤں سے جدا ہوں.اس کے بعد الله اكبر کہتے ہوئے سر اُٹھا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ جائے یا اور دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لے اور اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي وَارْحَمْنِى وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَارْفَعْنِي وَاجْبُرْني وَارْزُقْنِی ہے پڑھے.اور جو دُعا کرنی ہو کر لے.پھر الله اكبر کہتے ہوئے ے.پاک ہے میرا رب جو بہت ہی بڑا ہے.ے.اللہ نے سُن لی اُس کی جس نے اُس کی تعریف کی..اے ہمارے رب سب تعریف تیرے لئے ہے.تعریف بہت زیادہ اور پاک کہ برکت ہو جس میں.ہے.پاک ہے میرا رب جو اعلیٰ مرتبہ والا ہے.ھے.اے اللہ بخش مجھے اور رحم کر مجھ پر اور ہدایت کر مجھے.اور عافیت دے مجھے اور بلند مرتبہ کر میرا.اور اصلاح کر میری اور رزق عطا کر مجھے.[15]

Page 20

دوسرے سجدہ کے لئے چلا جائے.اور جس طرح پہلے سجدہ کیا تھا اُسی طرح سجدہ کرے.اور وہی سُبْحَانَ رَبِّي الأعلى پڑھے پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہو.سُبحنك الله اور اَعُوذُ بِاللہ کو چھوڑ کر دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے.پھر اسی طرح رکوع اور سجدہ اور قعدہ کرے.دوسرے سجدہ کے بعد بیٹھ جائے.اور اپنے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھے.اُنگلیاں گھلی ہوں اور سیدھی قبلہ کی طرف ہوں اور دایاں پاؤں کھڑا ہو.اور بایاں بچھا ہو اہو.پھر تشہد يعنى التَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصلِحِينَ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ا ت پڑھے.جب اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ پر پہنچے تو اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اُٹھائے.تشہد کے بعد درود شریف یعنی اللهُم صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ ابْراهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ فَجيدٌ اللّهُمَّ بَارِك عَلى مُحَمَّدٍ و عَلَى آلِ مُحَمَّد ط ے.سب قسم کے تحفے اللہ ہی کے لئے ہیں.اور نمازیں اور پاکیزہ اعمال بھی.سلام ہو تجھ پر اے نبی.اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکتیں سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اُس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں.[16]

Page 21

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ تمجید کی پڑھے پھر اس کے بعد ادعیہ ماثورہ یا اور کوئی دعا جو چاہے مانگے.مثلاً رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النار رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ رَبَّنَا اغْفِرْلِي وَلِوَالِدَقَى وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الحِسَابُ سے کہے پھر اس کے بعد دائیں طرف مُنہ پھیر کر السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ ، پڑھے.پھر بائیں طرف مُنہ پھیر کر السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ کہے.گویا نماز تکبیر تحریمہ یعنی پہلے الله اکبر سے شروع ہوتی ہے اور اللہ پر ہی ختم ہو جاتی ہے.لے.اے اللہ تو اپنی بڑی رحمت نازل فرما محمد پر.اور اس کی آل پر جیسا کہ تو نے بڑی رحمت نازل کی ابراہیم پر اور ابراہیم کی آل پر بے شک تو تعریف کیا گیا اور بزرگ ہے.اے اللہ برکت نازل فرما محمد پر اور محمد کی آل پر جیسا کہ تو نے برکت نازل کی ابراہیم پر اور ابراہیم کی آل پر.بے شک تو تعریف کیا گیا بزرگ ہے.سے.اے ہمارے رب دے ہم کو دُنیا میں نیکی اور آخرت میں نیکی اور بچا ہمیں آگ کے عذاب سے.سے.اے رب بنا مجھ کو قائم کرنے والا نماز کا.اور نیز میری اولا د کو بھی.اے رب ہمارے قبول فرما ہماری دُعا.اے ہمارے رب بخش دے مجھ کو اور میرے والدین کو اور سب مومنوں کو اُس دن کہ قائم ہوگا حساب.ے.سلامتی ہو تم پر اور اللہ کی رحمت ہو.[17]

Page 22

لیکن اگر فرض تین یا چار رکعتیں پڑھنی ہوں تو تشہد پڑھ کر اٹھ کھڑا ہو.پھر ان رکعتوں میں صرف شورۃ فاتحہ پڑھے.لیکن وتر اور سکھوں کی تیسری اور چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد ایک شورۃ یا چند آیات قرآن کی پڑھنی چاہئیں.اور رکوع اور سجدہ کرے.اور تشہد اور درود اور دُعائیں پڑھ کر ختم کر دے.فرض نماز کے بعد دعا اور تسبیح پڑھے.اللَّهُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ وَ إِلَيْكَ يَرْجِعُ السَّلَامُ تبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ يَاذَا الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ سُبْحَانَ اللهِ ۳۳ بار - الحَمدُ لِلهِ ۳۳ بار الله اكبر ۳۴ بار ۲۰ نماز با جماعت جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ ثواب ہوتا ہے.جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت تاکید کی ہے.خصوصا صبح اور عشاء کی نماز با جماعت ادا نہ کرنے کی وعید شدید آئی ہے.حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ جولوگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے نہیں آتے میرا دل چاہتا ہے کہ اُن کے گھروں کو جا کر آگ لگا ہے.اے اللہ تو سلام ہے اور تجھ سے ہی سلامتی ہے.اور تیری طرف لوٹتا ہے سلام.بابرکت ہے تو اے ہمارے رب اور بلندشان والا ہے تو اے صاحب جلال اور صاحب اکرام.ہے.پاک ہے اللہ.ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے.اللہ ہی سب سے بڑا ہے.[18]

Page 23

دوں لیکن چونکہ گھروں میں عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں.اس لئے میں ایسا نہیں کرتا.جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا یہ طریق ہے کہ جس وقت امام کھڑا ہو.مُؤذِّن اقامت کہے.مقتدی صفیں درست کریں جب امام تکبیر تحریمہ کہے تو تمام مقتدی بھی نہایت آہستگی سے تکبیر کہہ لیں.اور سُبحَانَكَ اللهُم اخیر تک اور اعُوذُ باللہ اور بسم اللہ پڑھ لیں.جب امام شورۃ فاتحہ پڑھ رہا ہو تو مقتدی بھی اُس کے پیچھے اپنے دل میں پڑھ لیں.جب امام قرآن پڑھے.تو مقتدی خاموشی سے اور غور سے اُس کو سنتے رہیں.جب امام تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جاوے تو سب مقتدی بھی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے جاویں.جب امام سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہہ کر رکوع سے کھڑا ہو جاوے تو مقتدی بھی رکوع سے کھڑے ہو جائیں اور رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ حَمْداً كَثِيرًا طيبًا مُبَارَكَافِيْهِ کہیں.جب امام الله اکبر کہہ کر سجدہ میں چلا جاوے تو مقتدی بھی الله اكبر کہہ کر سجدہ میں چلے جاویں.اور سُبحان ربی الا علی ہیں.جب امام اللہ اکبر کہہ کر سجدہ سے اُٹھ کھڑا ہو تو مقتدی بھی اللہ اکبر کہہ کر سجدہ سے اُٹھ کھڑے ہوں.اور قعدہ میں بھی قعدہ کی دُعا پڑھیں.جب دوسری مرتبہ امام اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں چلا جاوے تو مقتدی بھی اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں چلے جاویں.اور سُبحان ربي الأعلی کہیں.اسی طرح دوسری رکعت پڑھیں.جو فعل امام کرتا جاوے.مقتدی بھی [19]

Page 24

اُسی طرح کرتے چلے جاویں جب دوسری رکعت میں امام سجدہ کے بعد اللہ اکبر کہہ کر بیٹھ جاوے تو مقتدی بھی بیٹھ جاویں.اور التحیات.تشہد.درود اور ادعیہ ماثورہ پڑھیں.اور اس کے علاوہ اور بھی کوئی دُعا کرنی ہو تو کر لیں.جب امام سلام پھیر دے تو مقتدی بھی سلام پھیر دیں.اگر نماز میں کہیں سہو ہو جاوے اور امام سجدہ سہو کرے تو مقتدی بھی سجدہ سہو کریں.اگر امام سجدۂ سہو نہ کرے تو مقتدیوں پر بھی سجدہ سہو نہیں.اگر کوئی آدمی نماز میں پیچھے سے آکر ملے تو جس وقت امام سلام پھیر دے.وہ اُٹھ کھڑا ہو.اور اپنی باقی رکعات پوری کر لے.اگر کسی رکعت کے رکوع میں مل جاوے تو اُس کو پوری رکعت شمار کرے.امام کے متعلق ضروری باتیں مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے لئے ایک ایسا امام مقرر کریں جو اُن سب سے زیادہ شریعت جاننے والا ہو.اگر علم میں سب برابر ہوں تو جو سب سے اچھا قرآن پڑھتا ہو اس کو اپنا امام بنائیں.اگر قرات میں بھی سب برابر ہوں تو جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو اُس کو امام بنا ئیں.اور اگر سب ایک جیسے پر ہیز گار ہوں تو جو سب سے زیادہ معمر ہو اُس کو اپنا امام بنالیں.امام ظہر اور عصر کی ساری نماز میں اور مغرب کی تیسری رکعت میں اور عشاء کی دو [20]

Page 25

آخری رکعتوں میں سب کچھ آہستہ پڑھے.اور صبح کے فرض اور مغرب کی پہلی داد رکعتوں اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں امام بلند آواز سے پڑھے.عید الفطر اور عبید الا ضحی اور صلوۃ الاستسقاء میں بھی امام بلند آواز سے پڑھے.جب امام اونچی آواز سے پڑھتا ہوتو مقتدیوں کو چاہیئے کہ وہ بنا کر ہیں.لیکن مقتدی صورۃ فاتحہ ضرور آہستگی سے پڑھ لیا کریں.امام کو چاہیے کہ نماز لمبی نہ کرے.کیونکہ اُس کے پیچھے بچے.بوڑھے بیمار اور کمزور اور صاحب حاجت بھی نماز پڑھنے والے ہوتے ہیں.اگر مقتدی ایک ہی ہو تو امام بائیں طرف کھڑا ہو.جب کوئی دوسرا مقتدی آ جائے تو امام آگے کھڑا ہو جائے.جب امام بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ وہ سُبحان اللہ کہیں.اور وہ آیت جہاں سے امام بھولتا ہوا سے بتادیں.عورتیں آپس میں جماعت کر لیں تو جائز ہے.لیکن نماز پڑھانے والی عورتوں کے درمیان ہی کھڑی ہو.اگر کسی امام کولوگ برا سمجھیں تو وہ اُن کا امام نہ رہے.[21]

Page 26

مکروہات نماز نگے سر نماز پڑھنا.نماز میں دائیں یا بائیں طرف یا آسمان کی طرف دیکھنا.بلا ضرورت کھانسنا.پیشاب اور پاخانہ روک کر جو کہ تو جہ کو ہٹائے نماز پڑھنا.نماز میں جمائی یا انگڑائی لینا.اگر پیشانی کو مٹی لگ جائے تو پیشانی سے مٹی صاف کرنا.کپڑے کو مٹی سے بچانے کے لئے سمیٹنا یا اُٹھانا پیشانی کے سامنے سے بلا ضرورت کنکریوں یا مٹی کو ہٹانا.نماز میں انگلیوں کو چٹانا.سجدہ کے وقت دونوں بازوؤں کو فرش پر بچھا دینا.یاران کو پیٹ سے میلانا.اگر کوئی حرکت بھی ان میں سے کرے گا تو اس کی نماز مکر وہ ہو جائے گی.سجدہ اور رکوع امام سے پہلے کرنے والا مقتدی بیوقوف ہے.وتر وتر کی تین رکھتیں ہیں.خواہ اکٹھی پڑھے یا دو رکعت پڑھ کر اور سلام پھیر کر تیسری رکعت الگ پڑھ لے.وتر کی تیسری رکعت میں رکوع کرنے سے پہلے یا رکوع کرنے کے بعد سیدھے کھڑے ہو کر یہ دُعا قنوت پڑھے :- اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَ نَشْكُرُكَ وَلَا تَكْفُرُكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ.اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَأَحْفِدُ [22]

Page 27

وَنَرجُوْرَحْمَتَكَ وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقُ.دوسری دُعا قنوت- اللّهُمَّ اهْدِنِي فِيْمَنْ هَدَيْتَ وَعَا فِنِي فِيْمَنُ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيْمَنْ تَوَلَّيْتَ رَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَفْسِن وَلا يُقْطَى عَلَيْكَ إنَّه لا يَذِلُّ مَن والَيْتَ.وَإِنَّهُ لَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللهُ عَلَى خَيْرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَاَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ..لے.اے اللہ ہم مد مانگتے ہیں تجھ سے اور ہم بخشش چاہتے ہیں تجھ سے اور ہم ایمان لاتے ہیں مجھ پر اور ہم بھروسہ رکھتے ہیں تجھ پر اور ہم تعریف کرتے ہیں تیری بہترین اور ہم شکر کرتے ہیں تیرا.اور نہیں ہم ناشکری کرتے تیری.اور علیحدہ ہوتے اور چھوڑتے ہیں اُس کو جو نافرمانی کرے تیری.اے اللہ ہم خالص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہی دوڑتے ہیں.اور تیرے حضور ہی کھڑے ہوتے ہیں اور ہم اُمید رکھتے ہیں تیری ہی رحمت کی اور ڈرتے ہیں تیرے عذاب سے.بیشک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے.ہے.اے اللہ ہدایت دے مجھے اس کے ساتھ جس کو تو نے ہدایت دی.اور عافیت دے مجھ کو اس کے ساتھ جس کو تو نے عافیت بخشی اور دوست رکھ مجھ کو اُس کے ساتھ جس کو دوست بنایا تو نے اور برکت دے مجھے اُس میں جو تو نے عطا فر مایا.اور بچا مجھ کو اس کے بڑے نتیجے سے جو تو نے فیصلہ کیا.کیونکہ توحکم کرتا ہے اور نہیں حکم کیا جاتا مجھ پر بے شک وہ ذلیل نہیں ہوتا جس کا تو دوست ہے.اور نہیں عزت پاتا جس کو تو برا سمجھے.تو برکت والا ہے اے ہمارے رب اور بلند مرتبہ والا ہے.اور رحمتیں نازل فرما اپنی بہترین خلقت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اور اُس کی آل اور اُس کے اصحاب پر.[23]

Page 28

وتر پڑھنے کا وقت عشاء کے بعد سے لے کر صبح صادق تک ہے.اگر کوئی مخص نماز تہجد کے لئے اُٹھ سکے تو اُس کو چاہئے کہ وہ آخری رات میں ہی پڑھے.لیکن اگر نہ اُٹھ سکتا ہو تو عشاء کے بعد ہی پڑھ لینے چاہئیں.سجدہ سہو اگر نماز میں بھولے سے کوئی رکن رہ جاوے تو پہلے رکن کو پورا کیا جاوے اور سجدہ سہو کیا جاوے.یا اُس کو یہ شک ہو کہ میں نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں.تو سجدہ سہو لازم ہوجاتا ہے.اور رکعتوں کی بنا یقین پر رکھے.سجدہ سہو کرنے کا یہ طریق ہے کہ پہلے دائیں طرف سلام پھیرے اور دو سجدے کرے.پھر دونوں طرف سلام پھیرے اور اگر رکعتوں کے کم یا زیادہ ہونے کا شک ہو تو پہلے اُس شک کو نکال لے.(یعنی رکعتیں اپنے خیال کے مطابق ہی پوری کر لے ) پھر سجدہ سہو کر لے.کچ و سہو سلام سے پہلے بھی کر سکتے ہیں.نماز قضاء اگر کوئی نماز کسی معقول عذر یا نسیان سے ترک ہو جائے.مثلاً سویا ہوا ہو.اور جاگ نہ آئے.یا نماز پڑھنی بھول گیا ہو تو یہ نماز ضائع نہیں ہوتی بلکہ جس وقت [24]

Page 29

یاد آئے یا جاگے نماز پڑھ لے.اُس نماز کا یہی وقت ہے.اگر پانچوں نمازیں قضاء ہوگئی ہوں تو ان کو ترتیب وارادا کرناہی بہتر ہے.نماز تہجد تہجد عشاء کے بعد سونے اور طلوع فجر سے پہلے اُٹھ کر نماز پڑھنے کا نام ہے.قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز تہجد اپنے اندر بہت سے فضائل رکھتی ہے.نماز تہجد کی اکثر دُعائیں عموماً قبول ہو جاتی ہیں.رات کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ قریبی آسمان پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے ”کیا کوئی میرا بندہ ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اُس کو دُوں؟“ عاہد اُس وقت اپنے رب کو یاد کرتے ہیں.غافل پڑے سوئے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اُس وقت اُٹھتے ہیں اور اُس سے بخشش مانگتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم ہمیشہ تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے.اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز تہجد کے لئے اُٹھایا کرتے تھے.اس کی آٹھ رکعتیں مسنون ہیں.رات کو جاگنے کے بعد قبل از نماز صبح تک وقت ہے.دو دو رکعتیں پڑھنی بہتر ہیں تین وتر کو آٹھ رکعت کے بعد پڑھنا مسنون ہے.[25]

Page 30

نماز اشراق فیٹی جب آفتاب نکل آئے اور نیزہ یا دو نیزہ بھر اونچا ہو جائے اُس وقت اشراق کی نماز پڑھی جاتی ہے.یہ نماز بھی اپنے اندر بہت ثواب رکھتی ہے.یہ نماز دو رکعتوں سے لے کر بارہ رکعتوں تک پڑھی جا سکتی ہے.اور جو نما ز نو دس بجے دن کے پڑھی جائے تو اُس کا نام صلوۃ الضحی ہے.اور اس میں دو رکعت سے آٹھ رکعت تک نماز پڑھنی چاہیئے.نماز قفر اسلام میں جہاں اور بہت سی آسانیاں ہیں.وہاں ایک یہ بھی آسانی ہے کہ اگر انسان مسافر ہو تو نماز کم کر لے.اور نماز کے کم کرنے کو نماز قصر کہتے ہیں.اگر ظہر عصر اور عشاء کی نماز قصر کرنی ہو تو اُس وقت اُن کے صرف دو دو فرض ہی پڑھیں گے.مغرب اور صبح کی نماز قصر نہیں ہوتی.قصر نماز میں سب سنتیں وغیرہ معاف ہو جاتی ہیں.لیکن صبح کی نماز کی دو سنتیں اور وتر معاف نہیں ہوتے.ہر انسان کو چاہیے کہ جب وہ سفر کرے تو نماز قصر پڑھے کیونکہ مسافر کے لئے نماز قصر ہی مقرر ہے.اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے جو اُس نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے.اس لئے اس کو خوشی سے قبول کرنا چاہیے.اگر کسی جگہ 19 دن [26]

Page 31

سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو نماز پوری پڑھنی چاہئیے ورنہ قصر کرنی چاہیئے.اور کوئی شخص ہمیشہ سفر پر ہی رہے تو اُس کے لئے قصر نہیں.جس وقت انسان شہر سے نکل جائے تو قصر شروع کر دے.اور جس وقت شہر میں داخل ہو جائے.اُس وقت پوری نماز پڑھے.جمعہ جمعہ کا روز ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے.قرآن شریف نے خاص کر کے اس دن کو تعطیل کا دن ٹھہرایا ہے.اور اس بارہ میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے.اس کا نام سُورَةُ الجمعة ہے.اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی اذان دی جائے تو تم دُنیا کا ہر ایک کام بند کر دو.اور مسجدوں میں جمع ہو جاؤ.نماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو.اور جو شخص جمعہ عمد ا ترک کرتا ہے.وہ سخت گنہگار ہے.اور جس قدر جمعہ کی نماز اور خُطبہ سننے کی قرآن شریف میں تارکید ہے.اس قدر عید کی نماز کی تاکید نہیں.جمعہ کے دن صبح کی نماز میں پہلی رکعت میں الم السجدۃ اور دوسری رکعت میں سُورَة الدھر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے.جمعہ بیمار ، مسافر ، عورت، بچہ ، غلام ، نابینا اور قیدی کے سوا سب پر فرض ہے.اگر یہ لوگ بھی جمعہ پڑھ لیں تو اُن کو بھی ثواب مل جاتا ہے.[27]

Page 32

ہر مسلمان پر فرض ہے کہ جس وقت جمعہ کی اذان ہو.اُسی وقت تمام کاروبار چھوڑ دے.اور جمعہ کے لئے جامع مسجد میں جائے.اور جہاں جگہ پائے وہیں بیٹھ جائے.لوگوں کے کندھوں پر سے پھاند کر نہ جائے.اور جا کر دو چار سنتیں پڑھے.اور دُعا و استغفار میں مشغول ہو جائے.بیہودہ باتیں نہ کرے.جس وقت امام خطبہ شروع کرے.اُس وقت تو حجہ اور خاموشی سے خطبہ سنے خطبہ میں بولنے والے کو جمعہ کا ثواب نہیں ملتا.جمعہ کی نماز کے دو فرض ہیں.جن میں قراءة بالجھر ہوتی ہے.اور سُورۃ اعلی اور اور غاشیہ یا سورۃ جمعہ اور منافقون پڑھنا سنت ہے.اور فرضوں کے بعد ڈاو یا چار سنتیں پڑھنی چاہئیں.جمعہ کی نماز کا وقت بھی وہی ہے جو ظہر کی نماز کا وقت ہے.لیکن جمعہ کی نماز کے لئے زوال کی شرما نہیں ہے.جمعہ کے لئے غسل کرنا واجب ہے.اور اچھے کپڑے پہننا اور خوشبو لگا کر آنا سنت ہے.اگر کسی جگہ تین آدمی ہوں تو اُن کو ضرور جمعہ پڑھنا چاہیئے اگر کوئی شخص دیر سے آئے اور اُس کو امام کے ساتھ جمعہ کی نماز کی ایک رکعت مل جائے تو اُس کا جمعہ ہو جاتا ہے.ورنہ ظہر کی نماز پڑھے.[28]

Page 33

خُطبہ جمعہ أَشْهَدُ أنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدٌ عَبْدُهُ وَرَسُولُه.آقا بعْدُ فَأَعُوذُ بِالله مِن الشَّيْطنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ.b اس کے بعد ضرورت وقت کے مطابق خُطبہ پڑھے.جس میں لوگوں کو ضروری باتوں کی طرف توجہ دلائے.پھر ایک آدھ منٹ بیٹھ کر دوسرا خطبہ اس طرح پڑھے.اَلْحَمْدُ لِلهِ نَحْمَدُهُ وَ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَ نُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَاوَ مِنْ سَيَّاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يهده الله فلا مضل له وَمَن يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِي لَهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ عِبَادَ الله رحمكم الله إن الله يأمرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِى الْقُرْبى وينهى عَنِ الْفَحْشاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَني يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ ل أَمَّا بَعْدُ اِس کے بعد [29]

Page 34

تَذَكَرُونَ أذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرْكُمْ وَادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُمْ وَلَذِكْرُ الله اكبر عِيد مين مسلمانوں کے لئے ہر سال میں دو عیدیں آتی ہیں.ایک رمضان کے بعد یکم شوال کو ہوتی ہے.جسے عید الفطر کہتے ہیں.اور دوسری عید ۱۰/ ذوالحجہ کو ہوتی ہے جسے عبید الانی ( قربانی والی عید ) کہتے ہیں.ہر مسلمان پر عید کی نماز مرد ہو یا عورت سنت ہے.عید کی نماز کا وقت نیزہ بھر آفتاب سے لے کر زوال آفتاب تک ہے.جہاں تک ممکن ہو سکے عید کی نماز جلد ہی پڑھنی بہتر ہے.عید کے دن غسل کرنا.اچھے کپڑے پہننا اور خُوشبو وغیرہ لگانا لے سب تعریفیں اللہ کی ہیں.ہم سب اُس کی تعریف کرتے ہیں.اور اُسی سے مدد چاہتے ہیں.اور اُسی سے بخشش مانگتے ہیں اور اُسی پر ایمان لاتے ہیں اور اُسی پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اپنی نفسانی شرارتوں سے اور اپنے اعمال کے بُرے نتائج سے جس کو ہدایت کرے اللہ پس نہیں کوئی اُس کو گمراہ کرنے والا.جس کو گمراہ ٹھہر اوے اللہ پس نہیں کوئی ہدایت دینے والا اُس کو.اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے جو ایک ہے نہیں شریک اُس کا.اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اُس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں.اللہ کے بند ورحم کرے تم پر اللہ بیشک اللہ حکم کرتا ہے نیکی کا اور رشتہ داروں کو دینے کا اور منع کرتا ہے کھلم کھلا بدیوں اور مکروہ باتوں سے اور بغاوت سے وہ نصیحت کرتا ہے تم کو تا کہ یا در کھوٹم.یاد کرو اللہ کو وہ بھی تم کو یا در کھے گا اور اُسی کو پکارو وہ جواب دے گا تم کو.اور البتہ یا خُدا کی ہی بڑی بات ہے.منہ * [30]

Page 35

سنت ہے.عید الفطر میں نماز سے قبل کھا کر جانا عملت ہے.اور عید الاضحی میں نماز کے بعد آ کر کھانا سنت ہے.عید کی نماز کو جاتے وقت جس راستہ سے جائے آتے وقت اُس کے سوا کسی دوسرے راستہ سے آنا سنت ہے.عید الفطر کی نماز سے قبل نے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے.اور نماز عید الاضحی کے بعد جو شخص قربانی کرنے کی طاقت رکھتا ہے اُسے قربانی کرنی چاہئیے.اگر نماز سے قبل قربانی کر دی جائے تو قربانی نہیں ہوتی.دونوں عیدوں میں اذان اور اقامت کہنا منع ہے.دونوں عیدوں میں خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے.جس میں امام لوگوں کو صدقہ فطر - قربانی اور تکبیرات تشریق کے متعلق تعلیم دیتا ہے.خطبہ ضرور سننا چاہئے.دونوں عید میں شہر سے باہر یا کسی کھلی جگہ میں پڑھنی چاہئیں.بوقت ضرورت ( بارش یا آندھی وغیرہ ہو یا کوئی موزوں جگہ نہ ہو ) مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں.نماز عید کی دو رکعتیں ہیں.عید کی نماز سے پہلے یا پیچھے سنت یانفل پڑھنا منع ہیں.عید کی نماز میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں قراءۃ سے پہلے کہی جاتی ہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں قراء ۃ سے پہلے کہی جاتی ہیں.عید کی نماز میں سورۃ ق اور اقتربتِ السَّاعَةُ يا سورۃ اخلی اور غاشِيَة يا مُجمعة اور مُنَافِقُونَ پڑھنا سنت ہے.اگر شام کو بادل ہو اور چاند دکھائی نہ لے صدقۃ الفطر اور قربانی کے متعلق مسائل ”اسلام کی تیسری کتاب میں درج ہیں.[31]

Page 36

دے.لیکن لوگوں کو دُوسرے دن زوال کے بعد پتہ لگے کہ کل چاند نکلا ہے (عید الفطر کے موقعہ پر) تو زوال کے بعد عید کی نماز نہیں پڑھی جائے گی.بلکہ دوسرے دن صبح کو پڑھی جائے گی.لیکن اگر کوئی ایسا سبب پیدا ہو جائے کہ دوسرے دن بھی نہ پڑھی جاسکے تو پھر عید کی نماز نہیں پڑھی جائے گی.اگر عید الاضحی میں ایسا موقعہ پیش آ جائے تو ۲ ار تاریخ تک عید کی نماز پڑھی جاسکتی ہے.تکبیرات تشریق دو تکبیریں ہیں جو غرفہ (۹) تاریخ کی صبح کی نماز سے لے کر ۱۲ تاریخ کی عصر کی نماز تک ہر نماز کے پیچھے بلند آواز سے کہی جاتی ہیں.تکبیر تشریق یہ ہے.اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ نماز کسوف و خسوف یہ نماز چاند یا سورج گرہن کے وقت پڑھی جاتی ہے.اس نماز کی اذان اور اقامت نہیں ہوتی.لوگوں کو چاہیئے کہ جس وقت کسوف یا محسوف ہو.مسجد میں چلے جائیں اور امام اُن کو نماز پڑھائے.اس نماز کی دو رکعتیں ہیں.اور ہر ایک رکعت میں دو رکوع ہوتے ہیں.اور قراءة بالجبر ہوتی ہے.اور نماز لمبی ہوتی ہے.جب تک گرہن ڈور نہ ہو اُس وقت تک نماز پڑھنی چاہئیے.اور خُوب دُعا کرنی چاہئے.اگر امام نہ ہو تو اکیلے ا چاند گرہن اور سورج گرہن.[32]

Page 37

اکیلے ہی نماز پڑھ لینی چاہئیے.نماز استخاره جب انسان کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرے تو اُس کو چاہیے کہ وہ استخارہ کی نماز پڑھے.(استخارہ کرنا سنت ہے ) اور اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرے.اللہ تعالیٰ اس کے مفید مطلب پر آگاہ کر دے گا.یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ اطلاع دے.گو کبھی خواب یا کشف وغیرہ کے ذریعہ سے خبر مل بھی جاتی ہے.لیکن اللہ تعالی اُس کے دل کو اُس طرف پھیر دے گا جو اُس کے لئے بہتر ہے.نماز استخارہ کا یہ طریق ہے کہ انسان عشاء کی نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھے پھر استخارہ کی دُعا پڑھ کر سور ہے.اللَّهُمَّ اِنّى اَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَاسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ لے لے.اے اللہ میں بھلائی طلب کرتا ہوں تیرے علم سے اور قدرت چاہتا ہوں تیری قدرت سے اور مانگتا ہوں تیرے بڑے فضل سے بے شک تو قدرت رکھتا ہے اور مجھے کوئی قدرت نہیں.اور تو جانتا ہے میں نہیں جانتا اور تُو ہی جاننے والا ہے غیبوں کو.اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام بہتر ہے میرے لئے میرے دین اور میری دُنیا میں اور انجام کے لحاظ سے میرے کام میں تو میرے لئے مقدر کر اس کو اور آسان کر اس کو میرے لئے.پھر برکت ڈال میرے لئے اس میں اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام بُرا ہے میرے لئے میرے دین اور میری دُنیا میں اور انجام کے لحاظ سے میرے کام میں تو پھیر دے اس کو مجھ سے اور ہٹالے مجھ کو اس سے اور مہیا کر میرے لئے بھلائی جس جگہ ہو پھر راضی کر دے مجھ کو اس پر.منہ [33]

Page 38

وَاسْتَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذا الْأَمْرَ هذا الامر کی جگہ اپنے کام کا نام لے) خَيْرٌ نِّي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاقَيدُهُ لِي وَيَسْرَ دَلِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ وَإِنْ كُنتَ تَعْلَمُ اَنَّ هَذَا الْأَمْرَ اس جگہ بھی هذا الامر کی جگہ اپنے کام کا نام لے.) شَرَى فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاصْرِفُهُ عَنِّي واخير فين عنه وأفيد لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِلِي به نماز استسقاء اگر بارش نہ برستی ہو اور بارش کی سخت ضرورت ہو تو لوگوں کو چاہیے کہ وہ گھلے میدان میں شہر سے باہر جمع ہو جائیں.اور امام اُن کو دو رکعت نماز پڑھائے جس میں قراءة بالجبر ہو پھر خطبہ پڑھے.اور اپنی چادر اُلٹائے.پھر قبلہ کی طرف منہ کر کے سب لوگ دُعائیں کریں اور عاجزی اور استغفار کریں تا کہ وہ گناہ جس کی وجہ سے بارش نہیں برستی دُور ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو.[34]

Page 39

نماز خوف اگر کسی دشمن وغیرہ کا خوف ہو تو چار رکعت نماز فرض کی بجائے دو رکعت نماز پڑھنا جائز ہے.اگر دشمن کا مقابلہ ہورہا ہو.اور کچھ اطمینان ہو جائے تو ایک گروہ دشمن کا مقابلہ کرتا رہے.اور دوسرا آکر ایک رکعت جماعت کے ساتھ پڑھ لے.اور دوسرا اگر ایک رکعت امام سے علیحد و پڑھ کر تیل سلام چلا جاوے اور امام کھڑا رہے پھر دوسرا گروہ آ جائے اور وہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھ لے اور دوسری رکعت علیحد و پڑھ لیں.پھر امام اور دونوں گروہ سلام پھیر ہیں.اگر اس قدر فرصت اور موقعہ نہ ملے تو جس طرح ہو سکے سواریوں پر یا چلتے چلتے نماز پڑھ لیں خواہ رُخ قبلہ کی طرف ہو یا کسی دوسری طرف.نماز حاجت اگر کسی کو کوئی حاجت پڑے تو اُس کو چاہئیے کہ نماز حاجت پڑھے نماز حاجت کا یہ طریق ہے کہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے.پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور یہ دعائے حاجت پڑھے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ وَالْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ اَسْأَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ [35]

Page 40

مَغْفِرَتِكَ وَالْعَدِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِر وَ السَّلَامَةَ مِنْ كُلِ الْجِ لَا تَدَعْ إِلَى ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمَّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَا جَةً هِيَ لكَ رِضَى إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ مریض کی نماز بیمار اگر کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر ہی نماز پڑھ لے.اور اگر بیٹھ کر بھی نماز نہیں پڑھ سکتا تو پہلو پر یا پیٹھ پر لیٹ کر ہی اشاروں سے نماز پڑھ لے.غرضیکہ جس طرح بھی ہو نماز ضرور پڑھ لے.نماز جنازہ وضو کر کے نماز جنازہ کی نیت باندھ کر اللہ اکبر کہیں اور سُبْحَنَكَ اللهُم اور سورۃ فاتحہ پڑھیں.پھر اللہ اکبر کہہ کر التَّحِيَّاتُ والا درود شریف پڑھیں.ے کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے جو تل والا اور عزت والا ہے.پاک ہے اللہ جورب ہے عرش عظیم کا.اور سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.جو تمام جہان کا پالنے والا ہے ہیں چاہتا ہوں تجھ سے اُن کاموں کی توفیق جو تیری رحمت کا موجب ہوں.اور جن سے تیری بخشش ہو.اور ہر ایک نیکی کی غنیمت.اور سلامتی ہر ایک گناہ سے نہ چھوڑ دے تو کوئی گناہ بجز بخش دینے کے.اور نہ کوئی غم بجز دُور کر دینے کے اور نہ کوئی حاجت جو تیری مرضی کے موافق ہے.سوائے پورا کر دینے کے اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے.[36]

Page 41

پھر اللہ اکبر کہیں اور مندرجہ ذیل دونوں یا ایک دُعا پڑھیں.اللّهُمَّ اغْفِرْ حَيْنَا وَمَيتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَ كَبِيرِنَا وَ ذكر نا و أنفنَا اللهُم مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْته مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَى الإِيمَانِ اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَلَا تَفْتِنَا بعده ل دوسری دُعائے جنازہ اللهُمَّ اغْفِرْلَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَشِعُ مَنْ خَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ونقه من الخطايا كما نقيت القوتِ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَابيله دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَادْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ لے اے اللہ بخش دے ہمارے زندوں کو اور ہمارے مُردوں کو.اور ہمارے حاضروں کو اور ہمارے غائبوں کو اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو.اے اللہ جس کو تو ہم میں سے زندہ رکھے پس زندہ رکھیو اسلام پر.اور جسے تُو وفات دے ہم میں سے پس اُسے وفات دینا ایمان پر.اے اللہ نہ محروم رکھ ہم کو اُس کے اجر سے اور نہ آزمائش میں ڈال ہمیں اس کے بعد.ے.اے اللہ بخش دے اس کو اور رحم کر اُس پر اور آرام پہنچا اس کو اور درگذر کر اُس سے اور نہایت اعلیٰ درجہ کی مہمانی کر اور کشادہ کر اس کے داخل ہونے کی جگہ.اور نسل دے اس کو پانی اور اولوں اور برف سے اور پاک کر اس کو گنا ہوں سے جیسا کہ تو پاک کرے سفید کپڑے کو میل سے اور بدل دے اس کو بہتر گھر اُس کے گھر سے.اور اہل بہتر اس کے اہل سے اور ساتھی بہتر اس کے ساتھی سے اور اس کو داخل کر بہشت میں.اور بچا اس کو قبر کے عذاب سے.[37]

Page 42

نابالغ لڑکے کے جنازہ کی دُعاء اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرُطًا وَاجْعَلْهُ لَنَا اَجْرًا وَاجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَمُشَفّعًا.نماز ہے ------: (از حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری : ------ اللہ کی عجیب ہی نعمت نماز ہے دُنیا ودیں میں باعث راحت نماز ہے حکم خدا یہ ہے کہ پڑھو مل کے پانچ وقت افضل عبادتوں میں عبادت نماز ہے پھر یہ بھی حکم ہے کہ جماعت کے ساتھ ہو اس طرح اور جاذب رحمت نماز یہ ہو اہتمام خاص سب جان لیں کہ وجہ مسرت نماز ہے لازم ہے ذوق و شوق برائے نماز عید یہ مومنوں کی مظہر شوکت نماز ہے جو ظلمت گناہ کو آنے نہ دے قریب وہ نُورِ حق شمع ہدایت نماز ہے نہیں ملتا طعام کا دل صاف ہوں تو موجب لذت نماز ہے پیر بیمار نماز جمعه ہے پھیلا ہوا ہے اس کا اثر دو جہان میں جس کو نہیں زوال وہ دولت نماز اس کے سوا آب اور ذریعہ کوئی نہیں قُرب خُدا کی ایک ہی صورت نماز ہے کافی ہے بہر اُمت عاصی بس اتنی بات تسکین قلب شافع امت نماز ہے صحت ہو یا مرض ہو حضر ہو کہ ہو سفر مومن کی رُوح کیلئے فرحت نماز ہے لازم ہے یہ ادا ہو خشوع و خضوع سے بے شبہ اک وسیلہ جنت نماز ہے اے.اے اللہ بنا اس کو ہمارے لئے پیش خیمہ اور بنا اس کو شفاعت کر نیوالا.اور اس کی سفارش قبول فرما.نوٹ : اگر جناز ہ لڑکی کا ہو تو و اجعلہ کی بجائے واجعلھا پڑھیں.[38]

Page 43

مجرم و خطا سے ہم کو بچاتی ہے روز وشب فضل خدا سے دافع زحمت نماز ہے ہوتے ہیں راز ہائے نہاں اس سے آشکار گویا کلید قفل حقیقت نماز ہے ظاہر ہے اس سے دوستور تبہ نماز کا آرام جان ختم رسالت نماز ہے حضرت آدم علیہ السلام علیہ موجودہ نسلِ انسانی کا مورث اعلیٰ آدم علیہ السلام ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جمعہ کے روز پیدا کیا.پھر اس کے بعد اُن کی جنس سے حضرت حوا کو پیدا کیا.انہی دونوں سے موجودہ نسلِ انسان چلی.آج رُوئے زمین پر جو بھی آدمی پائے جاتے ہیں.وہ سب حضرت آدم علیہ السلام کی ہی اولاد ہیں.اسی لئے آدمی کہلاتے ہیں کیونکہ آدم کی طرف منسوب ہیں.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو تمام فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی اطاعت کا حکم دیا.تمام فرشتوں نے حکم مانا.لیکن ابلیس نے انکار کر دیا.اور کہا کہ میں اُس سے بہتر ہوں.کیونکہ میری پیدائش آگ سے ہے اور ان کی پیدائش میٹی سے ہے.اُسی وقت سے شیطان درگاہِ الہی سے راندہ گیا.کیونکہ اُس نے خدا کے حکم کی نافرمانی کی.پہلے حضرت آدم اور حوا جنت میں رہا کرتے تھے.اور خوشگوار زندگی بسر کرتے [39]

Page 44

تھے.خدا تعالی نے انہیں ہر قسم کی آزادی دے رکھی تھی.صرف ایک درخت سے منع کیا تھا کہ اس کے پاس نہ جاتا.لیکن شیطان نے اُن کو بہکا دیا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں وہاں سے نکال دیا.پھر حضرت آدم نے اللہ تعالیٰ کے حضور تو بہ کی اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی توبہ قبول کرلی.سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے زمین پر کعبہ بنایا.اور اُس کے کونے پر حجرِ اسو درکھا کہتے ہیں کہ حضرت آدم کی عمر ۹۳۰ سال کی ہوئی.واللہ اعلم.[40]

Page 45

حضرت محمد رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ آپ ملک عرب میں پیدا ہوئے.جب آپ کا ظہور ہوا، دنیا گھر او ہو چکی تھی.تمام لوگ خدا کو چھوڑ چکے تھے.آپ کی آمد سے ذرا پہلے کوئی خال خال توحید کی طرف متوجہ ہونے لگا تھا.سب لوگ بُرائیوں میں مبتلا تھے.آپ نے جس وقت دعویٰ کیا.قریبا سب لوگ آپ کے مخالف ہو گئے.اور آپ کو ہر وقت تکلیفیں دینے لگ گئے.آپ کے حامی بہت ہی کم تھے.بلکہ آپ کو تکلیف دینا ثواب سمجھتے تھے.کوئی کہتا تھا جادوگر ہیں.کوئی کہتا تھا مجنون ہیں.(نعوذ باللہ ) اور کوئی کہتا تھا شاعر ہیں.جلد تباہ ہو جائے گا.اور کوئی کہتا تھا پرا گندہ خواب بین ہیں.اور کوئی کہتا تھا ابتر ہیں.اُن کے بعد اُن کا سلسلہ ختم ہو جائے گا غرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں.لیکن آپ نے فرمایا کہ میرا خدا کہتا ہے کہ تم میرا کچھ بگاڑ نہیں سکو گے.میرا خدا خود میری حفاظت کرے گا.اگر تم مجھے مان لو گے تو اس جہان میں بھی کامیاب ہو جاؤ گے اور اگلے جہان میں بھی تم کو نعمتیں ملیں گی.لیکن اگر غم باز نہیں آؤ گے اور میرا انکار کرو گے توئم اس جہان میں بھی ناکام و نامرادر ہو گے اور اگلے جہان میں بھی تم سخت تکلیفیں اٹھاؤ گے.اور تم کو دوزخ میں [41]

Page 46

ڈالا جائے گا.یہ باتیں سن کر لوگ ہنستے تھے.لیکن آپ اُن کی بالکل پرواہ تک نہیں کرتے تھے.آہستہ آہستہ لوگوں نے آپ پر ایمان لانا شروع کر دیا.اور بہت سے خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کے پرستار بن گئے.عورتوں میں سب سے پہلے آپ کی بیوی حضرت خدیجہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کو تسلی بھی دی.اور جوانوں میں سے حضرت ابوبکر صدیق سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے.اور بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی اور غلاموں میں سے زید اور بلال ایمان لائے.پہلے تین سال خفیہ طور پر جلیغ کی جاتی تھی.کیونکہ گھار کا بہت زور تھا.آخر جب اسلام پھیلنے لگا تو لوگ آپ کوقتل کر دینے پر آمادہ ہو گئے.آخر آپ نے خدا کے حکم اور اسلام کی خاطر اپنے پیارے وطن مکہ کو چھوڑا اور مدینہ روانہ ہو گئے.(اس کو ہجرت کہتے ہیں ) جب آپ وہاں تشریف لے گئے تو وہاں بھی آپ تبلیغ میں مشغول ہو گئے.اور اسلام جلد جلد پھیلنا شروع ہو گیا.آخر وہاں بھی کافر آپ کو تباہ کرنے کے لئے آئے.اور آپ نے خود حفاظتی کے طور پر لڑائیاں کیں.لیکن اکثر دفعہ کا فر شکست کھاتے رہے.اور خدا کے وعدہ کے مطابق ائمةُ الكُفر اے اِس دُنیا سے ناکام و نامراد اُٹھ گئے.اور آپ نے مکہ فتح کر لیا.اور اپنے تمام دشمنوں کو معاف کر دیا.آپ کی زندگی میں ہی تمام عرب مسلمان ہو گیا.اور آپ پر ایمان لے.ابو جہل.عتبہ.شیبہ وغیرہ [42]

Page 47

لانے والے لوگ گناہوں سے پاک ہو گئے.اور ساری دُنیا کے لئے نمونہ بن گئے.اور اس دُنیا میں ہی کامیاب ہو گئے اور اُن کو ہی بادشاہتیں ملیں.اور ہر قسم کا آرام ان کو اس دُنیا میں ہی مل گیا.اور سب کے سب آخرت میں بھی کامیاب ہو گئے.آپ کے اخلاق نہایت اعلے تھے.جس قدر اچھے اخلاق ہیں سب کے سب آپ میں پائے جاتے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار مال و دولت دیا.لیکن آپ نے سب کچھ خدا کی راہ میں خرچ کردیا.اور اپنے لئے کچھ بھی نہ رکھا.آپ نے اپنے لئے کوئی عمارت نہیں بنوائی بلکہ کچے مکانوں میں ساری عمر بسر کی.جن لوگوں نے آپ کے ساتھ برائی کی.آپ نے اُن سے نیکی کی.غریبوں کی امداد کی جنگوں میں آپ نے بہت بہادری دکھلائی آپ مہمان نوازی میں سب سے آگئے تھے.حلم اور عفو آپ میں بہت تھا.آپ کا رُعب اس قدر تھا کہ اگر آپ کو کوئی دور سے دیکھتا تو ڈر کے مارے کانپنے لگ جاتا.لیکن جب آپ کے پاس آتا تو سب ڈر دُور ہو جاتا تھا.جو شخص آپ کے پاس بیٹھ جاتا.اُس کا وہاں سے اُٹھنے کو دل نہ چاہتا تھا.آپ کو قرآن مجید دیا گیا.جو قیامت تک رہے گا.اور کبھی منسوخ نہیں ہوگا.اور آپ کا فیض بھی قیامت تک جاری رہے گا.کوئی شخص آپ سے الگ ہو کر کوئی نعمت حاصل نہیں کر سکتا.آپ کی گیارہ بیویاں تھیں.جن میں سوائے حضرت عائشہ صدیقہ کے سب [43]

Page 48

بیوہ تھیں.آپ کی ۴ لڑکیاں اور ۴ لڑکے پیدا ہوئے.لڑکے تو بچپن ہی میں فوت ہو گئے.اور لڑکیاں بڑی ہوئیں.لڑکیوں کے نام یہ ہیں.زینب.رقیہ - اُم کلثوم.فاطمہ حضرت رقیہ اور اُمّ کلقوم یکے بعد دیگرے حضرت عثمان کے ساتھ بیاہی گئیں.اور زینب ابو العاص سے بیاہی گئیں.اور حضرت فاطمہ حضرت علی سے بیاہی گئیں.سوائے حضرت فاطمہ کے کسی کی اولاد نہیں چلی.اور حضرت فاطمہ کی اولا دکوہی سید کہا جاتا ہے.لڑکوں کے نام یہ ہیں.قاسم.طاہر.طیب.ابراہیم.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر ابو قحافہ کے بیٹے تھے.آپ کی والدہ کا نام اُم الخیر سلمی تھا.آپ عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال چھوٹے تھے.حضرت ابوبکر قریش میں بڑے معزز اور مالدار تھے.آپ تجارت کیا کرتے تھے.جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی نبوت کیا تو سب سے پہلے آپ پر حضرت ابو بکر ہی ایمان لائے.ایمان لانے کے بعد آپ کو بہت سی تکالیف کا سامنا ہؤا.لیکن آپ نے حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ہرگز نہ [44]

Page 49

چھوڑا.بلکہ ہر مصیبت میں آگے ہی قدم بڑھایا.ہجرت کے بعد حضرت رسولِ پاک کے ساتھ غارِ ثور میں حضرت ابو بکر ہی تھے.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں آپ کی بہت تعریف کی ہے.آپ مسکینوں یتیموں پر بہت رحم کیا کرتے تھے اور غریبوں کا سہارا تھے.جس وقت آپ ایمان لائے اُس وقت سے اپنا سب مال اسلام اور مسلمانوں کی خاطر خرچ کرنا شروع کر دیا.حضرت رسول پاک نے فرمایا ہے کہ:- د مجھے سب سے زیادہ فائدہ ابوبکر کے مال نے دیا ہے.“ آپ تمام جنگوں میں آنحضرت کے ساتھ شریک ہوئے.کار ہائے نمایاں کئے.آپ کے اخلاق بہت اعلیٰ تھے.خصوصاً آپ کا دل بہت نرم تھا.اور عزم بھی حد درجہ کا تھا.آپ نے تبلیغ اسلام میں بہت حصہ لیا.آپ کی تبلیغ سے مختلف قبیلوں کے معز ز آدمی مسلمان ہوئے.حضرت عائشہ جو آنحضرت کی سب سے زیادہ پیاری بیوی تھیں.حضرت ابو بکر کی ہی لڑکی تھیں.آپ کے زمانہ میں ہی قرآن بھی ایک کتاب کی صورت میں جمع ہو ا.حضرت رسول پاک کے وصال کے بعد آپ سب سے پہلے خلیفہ ہوئے.اور آپ نے ۲ سال ۳ ماہ ۰ ادن خلافت کی.[45]

Page 50

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت مسیح موعود میرزا غلام احمد صاحب قادیانی“ خدا کے ان بندوں میں سے تھے جن کو خدا تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے.اور اُن کے ذریعہ دُنیا میں ایمان قائم کرتا ہے.اور اپنے بندوں کو گمراہی سے نکالتا ہے.آپ خدا کے برگزیدہ تھے.آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو تمام مذاہب پر غالب کیا.اور اسلام کے چہرہ پر جو گرد و غبار آ گیا تھا اسے دور کیا.آپ کا دعوی تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خلق اللہ کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور وہی مسیح موعود ہوں جس کا ذکر احادیث میں آتا ہے اور وہی مہدی ہوں جس کا وعدہ آنحضرت نے دیا ہے.اور وہی مصلح ہوں جو آخری زمانہ میں آنے والا تھا.اور تمام مذاہب کے اندر اس کے آخری زمانہ میں آنے کی پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں.اور مجھ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نصرت اور تائید کے لئے بھیجا ہے اور مجھے قرآن کریم کا علم دیا گیا ہے.اور اس کے معارف و حقائق مجھ پر کھولے گئے ہیں.اور حضرت رسولِ پاک کی شان اور عظمت قائم کرنے کے لئے مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور اسلام کو دُوسرے مذاہب پر غالب کرنا میرا کام ہے.میں عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے مسیح ہوں.اور ہندوؤں کے لئے کرشن.آپ کا دعویٰ سنتے ہی مصل [46]

Page 51

لوگ آپ کے مخالف ہو گئے.آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا.آپ کو اور آپ کی جماعت کو واجب القتل قرار دیا گیا.اور ہر طرح کی تکالیف آپ کو دی گئیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کا ساتھ دیا.اور آپ سے اپنے رسولوں اور پیاروں والا معاملہ کیا.ہر میدان میں آپ کو فتح دی.اور ہر شر سے آپ کو بچا یا.آپ کے دشمن تباہ و برباد ہو گئے.آپ کی سچائی ثابت کرنے کے لئے سورج اور چاند کو رمضان میں گرمین ہوا.کاٹون نے آپ کے مخالفوں کی صفائی کر دی.آریہ سماج اور عیسائیت کی بنیادوں کو آپ نے ہلا دیا.اور اسلام کی صداقت پر آپ نے اسی کے قریب کتا ہیں لکھیں.اور سینکڑوں اشتہار شائع کئے.دشمنوں نے بھی گواہی کتابیں.دی کہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں کوئی ایسا بے نظیر آدمی پیدا نہیں ہو ا.وہی اسلام جو آپ کے آنے سے پیشتر بے کسی اور بے بسی کی حالت میں تھا.اپنی پہلی حالت پر واپس آ گیا.آج اس سے تمام مذاہب کا نپتے ہیں.اور اس کے سامنے آنے سے گھبراتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دُنیا میں ایک ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو صحیح معنوں میں اسلام پر چلنے والی ہے اور شریعت کا بجوار اپنی گردن پر اُٹھائے ہوئے ہے.اور خدا اور اُس کے رسول پر اپنی جان قربان کرنے والی ہے اور دین کو دُنیا پر مقدم رکھتی ہے.اور ساری دُنیا میں تبلیغ اسلام کرتی ہے.حتی کہ مرکز عیسائیت (لندن) میں بھی ایک مسجد بنا دی ہے.جس کا نام مسجد فضل ہے.[47]

Page 52

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت یعنی جماعت احمد یہ اس وقت دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلی ہوئی ہے.شاید ہی کوئی ایسا بر اعظم یا ملک ہو جہاں جماعت نہ پائی جاتی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے مُردے زندہ کئے ہیں کہ وہ اب دوسروں کو بھی زندہ کر رہے ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَ عَلَى مُطَاعِهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [48]

Page 53

حضرت خلیفہ المسیح الا قول رضی اللہ عنہ الاوّل آپ بھیرہ ضلع شاہ پور میں ۱۸۴۱ء کے قریب پیدا ہوئے.بچپن کا زمانہ و ہیں گزارا.اپنے بڑے بھائی سے تعلیم دینی ورواجی حاصل کی.اور راولپنڈی سے نارمل امتحان پاس کر کے پنڈ دادن خاں میں اول مدرس مقرر ہوئے.مگر مزید تعلیم کے شوق سے ملازمت اور وطن چھوڑ کر دہلی کی طرف چلے گئے.ہندوستان کی مشہور درسگاہوں رامپور لکھنو.اور بھوپال وغیرہ میں تعلیم طب و دینیات حاصل کرتے رہے.اسی زمانہ طالب علمی میں حج کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے.وہاں مختلف محد ثین سے علم حدیث حاصل کیا.اور اس میں کامل مہارت پیدا کی.عرب سے واپس آ کر اپنے وطن بھیرہ میں مطب جاری کیا.دُور ونزدیک سے بیماروں کا ہجوم ہونے لگا.لیکن ایک خواب کی بناء پر آپ نے مہاراجہ صاحب کشمیر کا شاہی طبیب ہو نا منظور کر لیا.۱۸۹۱ء تک وہاں رہے.اور دربار میں بڑی عزت حاصل کی.اس کے بعد آپ پھر اپنے وطن بھیرو تشریف لے گئے.اور اپنی رہائش اور مطب کے لئے مکانات بنوانے شروع کئے.دورانِ تعمیر میں آپ کو کسی کام کے لئے لاہور آنا پڑا.جب لاہور پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ گہری محبت اور تعلقات کی وجہ سے گوارا نہ کیا کہ قادیان [49]

Page 54

آنے کے بغیر واپس چلے جائیں.یہاں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بھی موجود تھے.انہوں نے آپ سے ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اب یہیں رہیں.فرمایا بہت اچھا.اور یہیں رہنے لگ پڑے.آپ صبح قرآن مجید کا درس عورتوں میں دیتے اور شام کے وقت مسجد اقصٰی میں مردوں کو درس قرآن شریف کا روزانہ دیتے.اور دن بھر طالب علموں کو حدیث اور طبی کتب کا درس فرماتے.اور مریضوں کا علاج کرتے یا حضرت مسیح موعُودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر رہتے.۱۹۰۸ ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہو ا تو تمام جماعت احمدیہ نے آپ کو حضور کا خلیفہ تسلیم کیا.اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تعلیم الاسلام ہائی سکول اور بورڈنگ ہاؤس کی عظیم الشان عمارتیں آپ ہی کے عہد خلافت میں تیار ہوئیں.ٹور ہسپتال اور مسجد نور بھی آپ کے زمانہ کی یادگار ہیں اور آپ کے نام پر نامزد ہوئیں.اخبار الفضل اور اخبار نور بھی آپ کے زمانہ میں ہی جاری ہوئے.اور لندن میں تبلیغی مشن کا اجراء بھی آپ ہی کے زمانہ مبارک میں ہوا.ایک اور بات جو خاص طور پر قابل ذکر ہے.وہ یہ ہے کہ صوبہ بنگال کے مشہورو معروف عالم و فاضل مولوی سید عبد الواحد صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمد یہ بھی آپ ہی کے زمانہ میں داخل سلسلہ ہوئے.جن کے واسطہ سے صد ہالوگوں نے بیعت کی.آپ نے ۱۳ مارچ ۱۹۱۷ ء کو بروز جمعہ وفات پائی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ย رض [50]

Page 55

ย آپ اپنے اخلاص اور تقویٰ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں اس حد تک محبوب تھے کہ حضور علیہ السلام نے ایک شعر میں آپ کی تعریف میں فرمایا چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے نہیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے لے آپ کا فیض عام تھا.ہزار ہا ہندو مسلم، عیسائی اب تک آپ سے کسی نہ ہزار ہا ، کسی رنگ میں فیض یافتہ ہونے کے سبب ممنون ہیں.اور آپ کی یاد میں چشم پر آب ہو جاتے ہیں.بہت سے طلباء کو آپ نے اپنے خرچ سے تعلیم دلائی.صد ہا کو خود علوم پڑھائے.کئی لوگوں کو حج کرائے بہت سے محتاجوں کے قرض ادا کئے.سب کو نیک نصیحت کرتے رہتے.بیماروں کو ادویہ مفت دیتے تھے.علاج کے واسطے کبھی فیس نہ مانگتے تھے.جو کچھ کوئی دیتا تھا قبول کرتے تھے.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں بلند مقامات اور بڑے بڑے درجات عطا کرے.آمین.آپ نے ۵ سال ۹ ماه ۱۸ دن خلافت کی.لے کیا ہی اچھا ہو اگر جماعت میں سے ہر ایک ہی نور دین ہو.نور دین جیسا ہی ہو.اگر ہر ایک دل یقین کے نور سے پر ہو.[51]

Page 56

قرآن شریف کی تعلیم O.اللہ تعالیٰ واحد لاشریک و قادر و مالک وحی و قیوم ہے.اُس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں..ہر وقت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے رہو..حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو.اور آپ کو اپنی جان سے بھی عزیز سمجھو..ہر وقت تو بہ اور استغفار کرتے رہا کرو..گناہ ایک زہر ہے اس کو مت کھاؤ..ہر وقت دُعا میں لگے رہو.ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہو..عاجزانہ زندگی بسر کرو..آپس میں مت لڑو جھگڑو..کسی پر ظلم نہ کرو..پنجگانہ نماز ادا کرو.O.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر یہ ادا کرو.قریبی رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرو.[52]

Page 57

ہے..حلال اور پاکیزہ کھانا کھاؤ.کسی پر جھوٹا الزام ( بہتان ) مت لگاؤ..فضول خرچی مت کرو..زنا کے قریب تک نہ جاؤ..صادقوں کی مجلس اختیار کرو..ہمیشہ اچھے اور نیک کام کرو..بُری باتوں سے پر ہیز کرو.حدیث کی باتیں.خدا کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھتے ہو.یا وہ تمہیں دیکھتا.بُرائیوں سے بچو.تواضع اور فروتنی اختیار کرو..دُنیا سے دل برداشتہ رہو..بڑوں کی عزت کرو اور چھوٹوں پر رحم کرو..خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول سے محبت کرو.[53]

Page 58

.رسول پاک کے اہل بیت اور صحابہ سے محبت رکھو..حسد اور کینہ چھوڑ دو..فضول باتوں سے پر ہیز کرو..مظلوم کی مددکرو.ظالم کی مدد کرو ( یعنی اس کو ظلم سے روکو ).ہر ایک کے ساتھ نیک سلوک کرو..جھوٹی گواہی مت دو..نجومیوں کی باتوں کو سچا مت سمجھو..حاکم وقت کی اطاعت کرو.اپنے ماتحتوں کے ساتھ نیک سلوک کرو.- رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ پر چلو..کثرت سے صدقہ و خیرات دو.خصوصا رمضان میں..خدا کو کثرت سے یاد کرو..کسی کا دل مت دکھاؤ.[54]

Page 58