Language: UR
اسلام اور آزادئ ضمیر فرمودات سیدنا حضرت مرزا مسر و ر احمد خليفة أصبح الخامس ابيده الله تعالى بنصره العزيز المسیح امام جماعت احمدیہ الناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
نام کتاب : اسلام اور آزادی ضمیر فرمودات : حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سن اشاعت : 2013ء مقام اشاعت : قادیان تعداد 1000: : شائع کرده نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان مطبع ضلع گورداسپور، پنجاب-143516 (انڈیا) فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان
11......12 14 17 19......20 21......22......22......23 24 25 25 28 29 35 36 38 فہرست مضامین دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرستادوں کا احترام کیا جائے احمدی کے رد عمل کا طریق اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف سازشوں کا دفاع مسیح موعودؓ نے کرنا تھا آنحضور ﷺ کا اسوہ حسنہ دنیا کے سامنے پیش کرو جماعت احمدیہ کی کارٹونوں کی اشاعت کے خلاف فوری کارروائی احمدی نوجوانوں کو صحافت میں جانا چاہئے جھنڈے جلانے یا توڑ پھوڑ کرنے سے آنحضرت ﷺ کی عزت قائم نہیں ہوسکتی ایک احمدی کا حقیقی رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالیں اور آنحضرت ﷺ پر کثرت سے درود بھیجیں دوسروں کے جذبات سے کھیلنانہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی آزادی ضمیر آنحضرت ﷺ کی توہین پر مبنی حرکات پر اصرار غضب الہی کو بھڑ کانے کا موجب ہے ان حالات میں احمدی کا رد عمل کیا ہونا چاہئے؟ غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے متعلق اسلام کی خوبصورت تعلیم کفار مکہ اور دشمنان اسلام کی زیادتیوں اور ظلم کے بالمقابل آنحضور ﷺ کا عظیم الشان اسوہ حسنہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ حسن اخلاق اور آزادی ضمیر و مذہب کی تعلیم سے پھیلا ہے آنحضرت اللہ کے انصاف اور آزادی اظہار کے عدیم المثال معیار انسانی اقدار کو قائم کرنے اور مذہبی رواداری کے لئے آنحضرت ﷺ کا بے مثال عملی نمونہ آنحضور ﷺ کا یہود مدینہ سے امن کا معاہدہ آزادی مذہب اور اہل نجران کے لیے امان نامہ
42 43 44 46 46 48 49 ان امان الله 53 73......قیام امن اور غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی اعلی تعلیم اور تجویز ہر ایک کی ہمدردی کرنا ہی انسانیت ہے کسی مقبول پیغمبر اور مقبول الہامی کتاب کی توہین نہ کی جائے اصبح خیر دین کا اصل مقصد تو بہ کروتا آفتوں سے بچ جاؤ اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو کر کوشش کی جائے حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ۲۱ ستمبر ۲۰۱۲ء کے خطبہ جمعہ اور پریس کانفرنس پر عالمی میڈیا کے بعض تبصرے بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بارہ میں مستشرقین کی آراء ii
پیش لفظ بسم الله الرحمن الرحیم دنیا کا ابتداء ہی سے یہ دستور چلا آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کے بالمقابل ایک طبقہ ایہ کھڑا ہو جاتا رہا ہے جو ان فرستادوں کے خلاف بے بنیاد باتیں پھیلا کر فتنہ وفساد برپا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء علیہم السلام کا ذکر قرآن کریم میں فرمایا ہے اور اس طبقہ کی ان حرکات کا بھی تفصیل سے ذکر فرمانے کے بعد ان کے بد انجام کا بھی واضح طور پر ذکر فرمایا ہے.پہلے انبیاء تو چونکہ ایک مخصوص زمانہ کیلئے مبعوث ہوئے تھے اسلئے ان کے خلاف منصوبے بھی اس زمانہ تک محدود ہے.لیکن چونکہ آنحضرت ﷺ تمام اقوام اور زمانوں کیلئے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں اسلئے آپ کے خلاف سازشیں اور فتنے بھی رہتی دنیا تک سراٹھاتے رہتے ہیں.چنانچہ بھی ان کا ظہور مسیلمہ کذاب وغیرہ کی صورت میں ہوا اور کبھی رنگیلا رسول کتاب کی صورت میں یا Satanic Verses کتاب کی صورت میں ہوا اور کبھی انہوں نے دل آزار خاکوں کی صورت ڈھال لی اور اب اسکا ظہور Innocence of Muslims فلم کی صورت میں ہوا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے وقتوں میں مؤمنین کا امتحان بھی لیا کرتا ہے کہ وہ کیا ردعمل دکھاتے ہیں.امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم، حضرت بانی اسلام محمد مصطفی ﷺ اور بانی جماعت احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں ان حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر پر تفصیل سے روشنی اپنے iii =
خطبات اور خطابات میں ڈالی ہے جسے آئندہ صفحات میں پیش کیا جا رہا ہے.حضور انور کے خطبہ جمعہ فرموده ۲۱ ستمبر ۲۰۱۲ کے بعد حضور انور سے پریس کے نمائندگان نے ملاقات کے بعد جو تبصرے کئے ہیں ان میں سے بعض اس کتاب کے آخری حصہ میں دئے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم اس حقیقی روشنی کو دنیا کے مختلف حصوں میں جلد پہنچانے والے ہوں تا ساری دنیا اس سے منور ہو جائے اور ہر طرف امن و آشتی کا دور دورہ ہو اور ہم اس زمین پر بھی حقیقی جنت کا نظارہ اور زمین دیکھ سکیں.آمین iv منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف لندن دسمبر 2012
حضرت مرزا مسرور احمد امام جماعت احمد یہ عالمگیر خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالى بنصره العزيز
بسم اللہ الرحمن الرحیم حضرت امام جماعت احمد یہ مرزا سر احمد خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سوداحمد اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۲۸ ستمبر ۲۰۱۲ء بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن سرے یو کے میں فرمایا کہ: گزشتہ جمعہ کو جب میں یہاں مسجد میں جمعہ پڑھانے آیا تھا تو کار سے اترتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک بڑی تعداد اخباری نمائندوں کی سامنے کھڑی تھی.بہر حال میرے پوچھنے پر امیر صاحب نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں امریکہ میں جو انتہائی دل آزاری فلم بنائی گئی ہے اُس پر مسلمانوں میں جو ردعمل ہو رہا ہے، اس سلسلہ میں یہ لوگ دیکھنے آئے ہیں کہ احمدیوں کا رد عمل کیا ہے.میں نے کہا ٹھیک ہے.انہیں کہیں کہ میں نے اسی موضوع پر خطبہ دینا ہے اور وہیں جو بھی احمدیوں کا رد عمل ہوگا بیان کروں گا.یہ بھی خدا تعالیٰ کے ہی کام ہیں کہ وہ اتنی بڑی تعدادمیں میڈیا کو بیچ کر یہاں لایا اور پھر میرے دل میں بھی ڈالا کہ اس موضوع پر کچھ کہوں...علاوہ اخباری نمائندوں کے ٹی وی چینلز کے نمائندے بھی تھے جن میں نیوز نائٹ جو بی بی سی کے زیر انتظام ہے، اسی طرح بی بی سی کا نمائندہ، نیوزی لینڈ نیشنل ٹیلیویژن کا نمائندہ، فرانس کے ٹیلیویژن کا نمائندہ اور بہت سارے دوسرے نمائندے شامل تھے.نیوزی لینڈ کا نمائندہ جو میرے دائیں طرف بیٹھا تھا، اُس کو پہلے موقع مل گیا.اُس نے یہی سوال کیا کہ آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں.میں نے اُس کو بتایا کہ پیغام تو تم سُن چکے ہو.وہ خطبہ کی ریکارڈنگ سن رہے تھے اور ترجمہ بھی سن رہے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے بارہ میں میں بیان کر چکا ہوں کہ آپ کا بہت بلند مقام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہر مسلمان کے لئے قابل تقلید ہے.مسلمانوں کا 1
رد عمل جو غم و غصہ کا ہے وہ ایک لحاظ سے تو ٹھیک ہے کہ پیدا ہونا چاہئے تھا، گو بعض جگہ اس کا اظہار غلط طور پر ہورہا ہے.ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام ہے دنیا دار کی نظر اس تک نہیں پہنچ سکتی.اس لئے دنیا دار کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ کس حد تک اور کس طرح ہمیں ان باتوں سے صدمہ پہنچا ہے.ایسی حرکتیں دنیا کا امن برباد کرتی ہیں.نیوزی لینڈ کے ایک نمائندہ کا اس بات پر زور تھا کہ تم نے بڑے سخت الفاظ میں کہا ہے کہ یہ لوگ جہنم میں جائیں گے.یہ تو بڑے سخت الفاظ ہیں اور تم بھی اُن لوگوں میں شامل ہو گئے ہو.الفاظ تو یہ نہیں تھے لیکن ٹون ( Tone) سے یہی مطلب لگ رہا تھا کیونکہ وہ بار بار اس سوال کو دوہرا رہا تھا.اُس کو میں نے یہ کہا کہ ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے بارہ میں ایسی باتیں کریں، اُن کا استہزاء کرنے کی کوشش کریں اور کرتے چلے جائیں اور کسی طرح سمجھانے سے باز نہ آئیں اور تمسخر اور ہنسی کا نشانہ بناتے رہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی بھی ایک تقدیر ہے وہ چلتی ہے اور عذاب بھی آسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ پکڑتا بھی ہے ایسے لوگوں کو ہم شدت پسند مظاہرے اور توڑ پھوڑ پسند نہیں کرتے اور تم کبھی کسی احمدی کو نہیں دیکھو گے کہ اس کے فساد اور مفسدانہ رد عمل کا حصہ ہوں.خبریں پڑھنے والے نے میرا یہ جواب دکھا کر پھر آگے تبصرہ کیا کہ یہ جماعت مسلمانوں کی اقلیتی جماعت ہے اور ان کے ساتھ بھی مسلمانوں کی طرف سے اچھا سلوک نہیں ہوتا.بہر حال دیکھتے ہیں کہ یہ پیغام جو ان کے خلیفہ نے دیا ہے، اس کی آواز اور پیغام کا احمدی مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں پر بھی کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں؟...نیوز نائٹ جو یہاں کا چینل ہے، اُس کا نمائندہ کہنے لگا کہ میں نے یہ فلم دیکھی ہے.اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں جس پر اتنا زیادہ شور مچایا جائے اور مسلمان اس طرح رد عمل دکھا ئیں.اور تم نے بھی بڑی تفصیل سے اس پر خطبہ دے دیا ہے اور بعض جگہ بڑے سخت الفاظ میں اس کو رڈ کیا ہے.یہ تو ہلکا سا مذاق تھا.انا للہ.یہ تو ان لوگوں کے اخلاقی معیار کی حالت ہے.میں نے اُسے کہا کہ پتہ نہیں تم نے کس طرح دیکھا اور تمہارا کیا معیار ہے؟ تم اُس مقام کو جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں کی نظر 2
میں ہے، اُن کے دل میں ہے اور اس محبت کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مسلمان کے دل میں ہے، تم نہیں سمجھ سکتے.میں نے اُسے بتایا کہ میں نے فلم تو نہیں دیکھی لیکن ایک دو باتیں جس دیکھنے والے نے مجھے بتائی ہیں، وہ نا قابل برداشت ہیں اور تم کہتے ہو ایسی کوئی بات نہیں ہے.یہ باتیں سن کر تو میں کبھی فلم دیکھنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا.اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں، ان کو سن کر ہی خون کھولتا ہے.میں نے اُسے کہا کہ تمہارے باپ کو اگر کوئی گالی دے، برا بھلا کہے، بیہودہ باتیں کہے تو اُس کے متعلق تمہارا رد عمل کیا ہو گا؟ تم دکھاؤ گے رد عمل؟.یہ بتاؤ گے کہ ٹھیک ہے کہ نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو ایک مسلمان کی نظر میں اس سے بہت بلند ہے، اس جگہ تک کوئی پہنچ نہیں سکتا...یہ لوگ تو اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے اور نہ آئیں گے.عمومی طور پر مسلمان جو رد عمل دکھارہے ہیں، اس کو لے کر لگتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے دلوں کو مزید زخمی کرنے کے درپے ہیں.اپنی خبیثانہ حرکتوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک میں پھیلاتے چلے جارہے ہیں.اب دو دن پہلے پین کے کسی اخبار نے بھی یہ خاکے بنائے تھے اور شائع کئے ہیں اور یہ کہا ہے کہ یہ تو مذاق ہے اور یہ مسلمانوں کے رد عمل کا جواب بھی ہے.پس ہمیں ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے اور کم از کم شرفاء اور پڑھے لکھے لوگوں کو بتانے کے لئے بھر پور کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ غلط طریق دنیا کا امن برباد کر رہا ہے، تا کہ جس حد تک ممکن ہو ان کے ظالمانہ رویے کی حقیقت سے ہم دنیا کو آگاہ کر سکیں....ملکہ وکٹوریہ کی جب ڈائمنڈ جوبلی ہوئی تھی تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحفہ قیصریہ کے نام سے کتاب لکھ کر ملکہ کو بھجوائی تھی جس میں جہاں ملکہ کی انصاف پسند حکومت کی تعریف کی تھی وہاں اسلام کا پیغام بھی پہنچایا تھا اور دنیا میں امن کے قیام اور مختلف مذاہب کے آپس کے تعلقات اور مذہبی بزرگوں اور انبیاء کی عزت واحترام کی طرف بھی توجہ دلائی تھی.اور یہ بھی تفصیل سے 3
بتایا تھا کہ امن کے طریق کیا ہونے چاہئیں.اب جب ملکہ الزبتھ کی ڈائمنڈ جوبلی ہوئی ہے تو تحفہ قیصریہ کا ترجمہ پرنٹ کر کے خوبصورت جلد کے ساتھ ملکہ کو بھجوایا گیا تھا.ملکہ کا جو متعلقہ شعبہ ہے جس کو یہ کتاب تحفہ کے طور پر جا کے دی گئی تھی، اور ساتھ میرا خط بھی تھا، اُن کی طرف سے مجھے شکریہ کا جواب بھی آیا ہے اور یہ بھی کہ ملکہ کی کتابوں کی جو collection ہے وہاں رکھ دی گئی ہے اور ملکہ اس کو پڑھے گی.بہر حال پڑھتی ہے یا نہیں لیکن ہماری جوذ مہ داری تھی ہم نے ادا کرنے کی کوشش کی ہے.اس وقت بھی دنیا کی بدامنی کے وہ حالات ہیں جو اُس زمانہ میں بھی تھے بلکہ بعض لحاظ سے بڑھ رہے ہیں اور یہ لوگ اسلام پر حملہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ، آپ کا استہزاء کرتے چلے جارہے ہیں اور بہت آگے بڑھ رہے ہیں....دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرستادوں کا احترام کیا جائے انبیاء بھی جب خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام لانے کا دعوی کرتے ہیں اور اُن کی جماعتیں بھی بڑھ رہی ہوتی ہیں تو یہ بات ثابت کرتی ہے کہ یہ جماعت یا یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوؤں کا احترام کرنا چاہئے تا کہ دنیا کا امن قائم رہے.اس بارہ میں ایک حصہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کس طرح امن ہونا چاہئے اور انبیاء کا کیا مقام ہوتا ہے ، وہ میں اس وقت پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ: سو یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے (یعنی وہی قانون کہ اگر دنیاوی حکومتیں کسی ایسی بات کا اپنی طرف منسوب ہونا برداشت نہیں کرتیں جو نہیں کہی گئی تو اللہ تعالیٰ کس طرح برداشت کرے گا؟ فرمایا ”سو یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے کہ وہ نبوت کے جھوٹا دعویٰ کرنے والے کو مہلت نہیں دیتا.بلکہ ایسا شخص جلد پکڑا جاتا اور اپنی سزا کو پہنچ جاتا ہے.اس قاعدہ کے لحاظ سے 4
ہمیں چاہئے کہ ہم ان تمام لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کو سچا سمجھیں جنہوں نے کسی زمانہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور پھر وہ دعوی ان کا جڑ پکڑ گیا اور ان کا مذہب دنیا میں پھیل گیا.اور استحکام پکڑ گیا اور ایک عمر پا گیا اور اگر ہم ان کے مذہب کی کتابوں میں غلطیاں پائیں یا اس مذہب کے پابندوں کو بدچلنیوں میں گرفتار مشاہدہ کریں تو ہمیں نہیں چاہئے کہ وہ سب داغ ملالت ان مذاہب کے بانیوں پر لگاویں.کیونکہ کتابوں کا محرف ہو جانا ممکن ہے.اجتہادی غلطیوں کا تفسیروں میں داخل ہو جانا ممکن ہے.لیکن یہ ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص کھلا کھلا خدا پر افترا کرے اور کہے کہ میں اس کا نبی ہوں اور اپنا کلام پیش کرے اور کہے کہ یہ خدا کا کلام ہے.حالانکہ وہ نہ نبی ہو اور نہ اس کا کلام خدا کا کلام ہو.اور پھر خدا اس کو بیچوں کی طرح مہلت دے.( یہ سب کچھ ہو اور پھر خدا اس کو بچوں کی طرح مہلت دے) اور میچوں کی طرح اس کی قبولیت پھیلائے.لہذا یہ اصول نہایت صحیح اور نہایت مبارک اور باوجود اس کے صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا ہے کہ ہم ایسے تمام نبیوں کو سچے نبی قرار دیں.جن کا مذہب جڑ پکڑ گیا اور عمر پا گیا اور کروڑ ہا لوگ اس مذہب میں آگئے.یہ اصول نہایت نیک اصول ہے اور اگر اس اصل کی تمام دنیا پابند ہو جائے تو ہزاروں فساد اور توہین مذہب جو مخالف امن عامہ خلائق ہیں اٹھ جائیں.یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ کسی مذہب کے پا بندوں کو ایک ایسے شخص کا پیر و خیال کرتے ہیں جو ان کی دانست میں دراصل وہ کا ذب اور مفتری ہے تو وہ اس خیال سے بہت سے فتنوں کی بنیاد ڈالتے ہیں.اور وہ ضرور تو ہین کے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس نبی کی شان میں نہایت گستاخی کے الفاظ بولتے ہیں اور اپنے کلمات کو گالیوں کی حد تک پہنچاتے ہیں اور صلح کاری اور عامہ خلائق کے امن میں فتور ڈالتے ہیں.حالانکہ یہ خیال ان کا بالکل غلط ہوتا ہے.اور وہ اپنے گستاخانہ اقوال میں خدا کی نظر میں ظالم ہوتے ہیں.خدا جو رحیم وکریم ہے وہ ہرگز پسند نہیں کرتا جو ایک جھوٹے کو ناحق کا فروغ دے کر اور اسکے مذہب کی جڑ جما کر لوگوں کو دھو کہ میں ڈالے.اور نہ جائز رکھتا ہے کہ ایک شخص با وجود مفتری اور کذاب ہونے کے دنیا کی نظر میں سچے نبیوں 5
کا ہم پلہ ہو جائے.پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے.خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑ ہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی.اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا.یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا.اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آ گئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے.مگر افسوس کہ ہمارے مخالف ہم سے یہ برتاؤ نہیں کر سکتے اور خدا کا یہ پاک اور غیر متبدل قانون ان کو یاد نہیں کہ وہ جھوٹے نبی کو وہ برکت اور عزت نہیں دیتا جو بچے کو دیتا ہے اور جھوٹے نبی کا مذہب جڑ نہیں پکڑتا اور نہ عمر پاتا ہے جیسا کہ بچے کا جڑ پکڑتا اور عمر پاتا ہے.پس ایسے عقیدہ والے لوگ جو قوموں کے نبیوں کو کاذب قرار دے کر برا کہتے رہتے ہیں ہمیشہ صلح کاری اور امن کے دشمن ہوتے ہیں.کیونکہ قوموں کے بزرگوں کو گالیاں نکالنا اس سے بڑھ کر فتنہ انگیز اور کوئی بات نہیں.بسا اوقات انسان مرنا بھی پسند کرتا ہے مگر نہیں چاہتا کہ اس کے پیشوا کو بُرا کہا جائے.اگر ہمیں کسی مذہب کی تعلیم پر اعتراض ہو تو ہمیں نہیں چاہئے کہ اس مذہب کے نبی کی عزت پر حملہ کریں.اور نہ یہ کہ اس کو برے الفاظ سے یاد کریں بلکہ چاہئے کہ صرف اس قوم کے موجودہ دستور العمل پر اعتراض کریں (یعنی اگر وہ غلطیاں اُس قوم میں ہیں تو اُس قوم کی اُن غلطیوں پر اعتراض کریں، نہ کہ نبیوں پر.فرمایا) اور یقین رکھیں کہ وہ نبی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کروڑہا انسانوں میں عزت پا گیا اور صدہا برسوں سے اس کی قبولیت چلی آتی ہے یہی پختہ دلیل اس کے منجانب اللہ ہونے کی ہے.اگر وہ خدا کا مقبول نہ ہوتا تو اس قدر عزت نہ پاتا.مفتری کو عزت دینا اور کروڑ ہا بندوں میں اس کے مذہب کو پھیلانا اور زمانہ دراز تک اس کے مفتریا نہ مذہب کو محفوظ رکھنا خدا کی 6
عادت نہیں ہے.سو جو مذہب دنیا میں پھیل جائے اور جم جائے اور عزت اور عمر پا جائے وہ اپنی اصلیت کے رو سے ہرگز جھوٹا نہیں ہوسکتا.پس اگر وہ تعلیم قابل اعتراض ہے تو اس کا سبب یا تو یہ ہوگا کہ ( آپ نے اس کی تین وجوہات بتائی ہیں کہ اگر وہ مذہب موجودہ زمانہ میں قابل اعتراض ہوتا ہے تو اس کی تین وجو ہات ہیں.فرمایا اس کا سبب یہ ہوگا کہ نمبر ایک) '' اس نبی کی ہدایتوں میں تحریف کی گئی ہے.“ (یعنی نبی نے جو ہدایات دی تھیں، ان کو بدلا گیا.نمبر دو یہ ) اور یا یہ سبب ہوگا کہ ان ہدایتوں کی تفسیر کرنے میں غلطی ہوئی ہے." ( ان کی تفسیر غلط رنگ میں کی گئی.اور تیسری بات یہ ) ” اور یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود ہم اعتراض کرنے میں حق پر نہ ہوں.( ایک بات کی سمجھ ہی نہیں آئی اور اعتراض کر دیا.جس طرح آج کل اُٹھتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ نہ تاریخ پڑھی، نہ واقعات پڑھے، نہ قرآن کی سمجھ آئی.فرمایا کہ ”چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض پادری صاحبان اپنی کم فہمی کی وجہ سے قرآن شریف کی ان باتوں پر اعتراض کر دیتے ہیں جن کو توریت میں صیح اور خدا کی تعلیم مان چکے ہیں.سوایسا اعتراض خود اپنی غلطی یا شتاب کاری ہوتی ہے.“ پھر فرمایا ” خلاصہ یہ کہ دنیا کی بھلائی اور امن اور صلح کاری اور تقویٰ اور خداترسی اسی اصول میں ہے کہ ہم ان نبیوں کو ہرگز کاذب قرار نہ دیں جن کی سچائی کی نسبت کروڑ ہا انسانوں کی صدہا برسوں سے رائے قائم ہو چکی ہو.اور خدا کی تائیدیں قدیم سے ان کے شامل حال ہوں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک حق کا طالب خواہ وہ ایشیائی ہو یا یوروپین ہمارے اس اصول کو پسند کرے گا اور آہ کھینچ کر کہے گا کہ افسوس ہمارا اصول ایسا کیوں نہ ہوا.“ (ملکہ کو لکھتے ہیں کہ ) میں اس اصول کو اس غرض سے حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ ہند و انگلستان (اس وقت تو ہندوستان پر بھی ملکہ کی حکومت تھی " کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ امن کو دنیا میں پھیلانے والا صرف یہی ایک اصول ہے جو ہمارا اصول ہے اسلام فخر کر سکتا ہے کہ اس پیارے اور دلکش اصول کو خصوصیت سے اپنے ساتھ رکھتا ہے.کیا ہمیں روا ہے کہ ہم ایسے بزرگوں کی کسر شان کریں جو خدا کے 7
فضل نے ایک دنیا کو ان کے تابعدار کر دیا اور صدہا برسوں سے بادشاہوں کی گردنیں ان کے آگے جھکتی چلی آئیں ؟ کیا ہمیں روا ہے کہ ہم خدا کی نسبت یہ بدظنی کریں کہ وہ جھوٹوں کو سچوں کی شان دے کر اور بچوں کی طرح کروڑ ہا لوگوں کا ان کو پیشوا بنا کر اور ان کے مذہب کو ایک لمبی عمر دے کر اور ان کے مذہب کی تائید میں آسمانی نشان ظاہر کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہتا ہے؟ اگر خدا ہی ہمیں دھوکا دے تو پھر ہم راست اور ناراست میں کیونکر فرق کر سکتے ہیں؟“ فرمایا " یہ بڑا ضروری مسئلہ ہے کہ جھوٹے نبی کی شان وشوکت اور قبولیت اور عظمت ایسی پھیلنی نہیں چاہئے جیسا کہ بچے کی.اور جھوٹوں کے منصوبوں میں وہ رونق پیدا نہیں ہونی چاہئے جیسا کہ نیچے کے کاروبار میں پیدا ہونی چاہئے.اسی لئے بچے کی اول علامت یہی ہے کہ خدا کی دائمی تائیدوں کا سلسلہ اسکے شامل حال ہو اور خدا اسکے مذہب کے پودہ کو کروڑہا دلوں میں لگا دیوے اور عمر بخشے.پس جس نبی کے مذہب میں ہم یہ علامتیں پاویں ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی موت اور انصاف کے دن کو یاد کر کے ایسے بزرگ پیشوا کی اہانت نہ کریں بلکہ سچی تعظیم اور سچی محبت کریں.غرض یہ وہ پہلا اصول ہے جو ہمیں خدا نے سکھلایا ہے جس کے ذریعہ سے ہم ایک بڑے اخلاقی حصہ کے وارث ہو گئے ہیں.“ (تحفہ قیصریه، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ صفحه ۲۵۸-۲۶۲) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسی کا نفرنسیں ہونی چاہئیں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کے بارہ (ماخوذ از تحفہ قیصریه، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۷۹) میں خوبیاں بھی بیان کریں.اور اس وقت اگر دیکھا جائے، تو عملی رنگ میں اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے اور تعداد کے لحاظ سے یہ بہر حال دنیا کا دوسرا بڑا مذ ہب ہے.اس لئے دنیا کے دوسرے مذاہب کو بہر حال مسلمانوں کی عزت کرنی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت واحترام کا جو حق ہے وہ ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.نہیں تو دنیا میں فساد اور بے امنی پیدا ہوگی.پس جب ہم دنیا کے مذاہب کا احترام و عزت کرتے ہیں، اُن کے بزرگوں اور انبیاء کوخدا تعالیٰ کا فرستادہ سمجھتے ہیں تو صرف اس خوبصورت تعلیم کی وجہ 8
سے جو قرآنِ کریم نے ہمیں دی ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی.مخالفین اسلام باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، بیہودہ قسم کی تصویریں بھی بناتے ہیں، مگر ہم کسی مذہب کے نبی اور بزرگ کو جواب میں غلط الفاظ سے نہیں پکارتے یا اُن کا استہزاء نہیں کرتے.اس کے باوجود مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ امن بر باد کرنے والے ہیں.پہلے خود یہ لوگ امن بر باد کرنے والی حرکتیں کرتے ہیں ، جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب جذبات بھڑک جائیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو مسلمان ہیں ہی تشدد پسند، اس لئے ان کے خلاف ہر طرح کی کارروائی کرو....حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو جو میں نے پڑھا ہے، اس کی خوب تشہیر کریں تا کہ دنیا کوحقیقی اسلامی تعلیم کا پتہ چل سکے.دنیا داروں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہمارے دل میں اور حقیقی مسلمان کے دل میں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ کا اسوہ حسنہ کس قدر خوبصورت ہے اور اس میں کیا حسن ہے ؟ ایک حقیقی مسلمان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق اور محبت ہے، اس کا یہ لوگ اندازہ ہی نہیں کر سکتے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعشق کا اظہار آج سے چودہ سو سال پہلے صرف حسان بن ثابت نے ہی اپنے اس شعر میں نہیں کیا تھا کہ: كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِي فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھ اندھی ہو گئی.اب تیرے مرنے کے بعد کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں.میں تو تیری موت سے ہی ڈرتا تھا.یہ شعر آپ کی وفات پر حسان بن ثابت نے کہا تھا لیکن ہم میں اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت، ایک گہری عشق و محبت پیدا کی ہے.ہمارے دل میں اس عشق و محبت کی جوت جگائی ہے.آپ ایک جگہ اس عشق و محبت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں.9
آپ کا جو بڑ المباعربی قصیدہ ہے، اُس کے کچھ شعر ہیں کہ: قَوْمٌ رَأَوْكَ وَأُمَّةٌ قَدْ أُخْبِرَتْ مِنْ ذَالِكَ الْبَدْرِ الَّذِي أَصْبَانِيْ کہ ایک قوم نے تجھے دیکھا ہے اور ایک امت نے خبر سنی ہے، اُس بدر کی جس نے مجھے اپنا عاشق بنایا.يَبْكُوْنَ مِنْ ذِكْرِ الْجَمَالِ صَبَابَةً وَ تَأَلُّمًا مِّنْ لَوْعَةِ الْهِجْرَانِ وہ تیرے حسن کی یاد میں بوجہ عشق کے روتے ہیں اور جدائی کی جلن کے دُکھ اُٹھانے سے بھی روتے ہیں.وَأَرَى الْقُلُوْبَ لَدَى الْحَنَاجِرَ كُرْبَةً وَأَرَى الْغُرُوبَ تُسِيْلُهَا الْعَيْنَانِ اور میں دیکھتا ہوں کہ دل بیقراری سے گلے تک آگئے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں.یہ قصیدہ بہت ساروں کو بلکہ اب تو ہمارے بچوں کو بھی یاد ہے.اور اس لمبے قصیدہ کا آخری شعر یہ ہے کہ ) جسْمِيْ يَطِيْرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا يَا لَيْتَ كَانَت قُوَّةُ الطَّيَرَانِ کہ میرا جسم تو شوق غالب سے تیری طرف اُڑنا چاہتا ہے.اے کاش میرے اندراڑنے کی طاقت ہوتی.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۰-۵۹۴) پس ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے یہ سبق سکھائے گئے ہیں اور یہ دنیا دار کہتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے؟ ہلکا پھلکا مذاق ہے.جب اخلاق اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اخلاق کے معیار بجائے اونچے جانے کے پستیوں کو چھونے لگیں تو تبھی دنیا کے امن بھی برباد ہوتے ہیں...لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے، ہمارا کام ہے کہ زیادہ سے زیادہ کوشش کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کریں.اس کے لئے مختصر اور بڑی جامع کتاب Life of Muhammad یا دیباچہ تفسیر القرآن کا سیرت والا حصہ ہے، اس کو ہر احمدی کو پڑھنا 10
چاہیئے.اس میں سیرت کے قریباً تمام پہلو بیان ہو گئے ہیں یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ضروری پہلو بیان ہو گئے ہیں.اور پھر اپنے ذوق اور شوق اور علمی قابلیت کے لحاظ سے دوسری سیرت کی کتابیں بھی پڑھیں اور دنیا کو مختلف طریقوں سے، رابطوں سے ،مضامین سے، پمفلٹ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان سے آگاہ کریں.اللہ تعالیٰ اس اہم کام اور فریضہ کو سرانجام دینے کی ہر احمدی کو تو فیق عطا فرمائے اور دنیا کو عقل عطا فرمائے کہ اس کا ایک عقلمند طبقہ خود اس قسم کے بیہودہ اور ظالمانہ مذاق کرنے والوں یا دشمنیوں کا اظہار کرنے والوں کا رڈ کرے تاکہ دنیا بدامنی سے بھی بچ سکے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی بچ سکے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.احمدی کے رد عمل کا طریق از خطبه جمعه فرموده ۲۸ ستمبر ۲۰۱۲ء) جب ۲۰۰۶ ء میں ڈنمارک میں رحمۃ للعالمین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں انتہائی الظ، توہین آمیز اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے کارٹونوں کی اشاعت کی گئی تو حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ ایسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کی پرزور مذمت میں خطبات جمعہ ارشاد فرمائے.اس وقت مسلمان ممالک میں جبکہ اس کے خلاف احتجاج کے طور پر توڑ پھوڑ کی جارہی تھی اور اپنے ہی ملکوں میں آگئیں لگا کر اپنا ہی نقصان کیا جار ہا تھا تو حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت کی بالخصوص اور مسلمانوں کو بالعموم تا کیدی نصائح کرتے ہوئے رو عمل کی صحیح راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا.جیسا کہ میں نے کہا تھا شاید بلکہ یقینی طور پر سب سے زیادہ اس حرکت پر ہمارے دل چھلنی ہیں لیکن ہمارے رد عمل کے طریق اور ہیں.یہاں میں یہ بھی بتا دوں کہ کوئی بعید نہیں کہ ہمیشہ کی طرح وقتاً فوقتاً یہ ایسے شوشے آئندہ بھی چھوڑتے رہیں، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جائیں جس سے پھر مسلمانوں کی دل آزاری ہو.اور ایک مقصد یہ بھی اس کے پیچھے ہو سکتا ہے کہ قانونا مسلمانوں پر خاص 11
طور پر مشرق سے آنے والے اور برصغیر پاک و ہند سے آنے والے مسلمانوں پر اس بہانے پابندی لگانے کی کوشش کی جائے.بہر حال قطع نظر اس کے کہ یہ پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں، ہمیں اپنے رویے، اسلامی اقتدار اور تعلیم کے مطابق ڈھالنے چاہئیں ، بنانے چاہئیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اسلام کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابتداء سے ہی یہ سازشیں چل رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ اس کی حفاظت کرنی ہے، وعدہ ہے اس لئے وہ حفاظت کرتا چلا آ رہا ہے ، ساری مخالفانہ کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں.اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف سازشوں کا دفاع مسیح موعود نے کرنا تھا اس زمانہ میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے، اور اس زمانہ میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے ہوئے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور بعد میں آپ کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے آپ کے خلفاء نے جماعت کی رہنمائی کی اور رد عمل ظاہر کیا اور پھر جو اس کے نتیجے نکلے اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں تا کہ وہ لوگ جو احمدیوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہڑتالیں نہ کر کے اور ان میں شامل نہ ہو کر ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمیں آنحضرت ﷺ کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی درد نہیں ہے، ان پر جماعت کے کارنامے واضح ہو جائیں.ہمارا رد عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے.قرآن کریم کی تعلیم نکھر کر سامنے آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر نا پاک حملے دیکھ کر بجائے تخریبی کارروائیاں کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگنے والے ہم بنتے ہیں.اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی 12
عشق رسول کی غیرت پر دو مثالیں دیتا ہوں.پہلی مثال عبد اللہ آتھم کی ہے جو عیسائی تھا.اس نے اپنی کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے انتہائی غلیظ ذہن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دجال کا لفظ نعوذ باللہ استعمال کیا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اسلام اور عیسائیت کے بارہ میں ایک مباحثہ بھی چل رہا تھا، ایک بحث ہو رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سو میں پندرہ دن تک بحث میں مشغول رہا، بحث چلتی رہی اور پوشیدہ طور پر آتھم کی سرزنش کے لئے دعا مانگتا رہا.یعنی جو الفاظ اس نے کہے ہیں اس کی پکڑ کے لئے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ جب بحث ختم ہوئی تو میں نے اس سے کہا کہ ایک بحث تو ختم ہوگئی مگر ایک رنگ کا مقابلہ باقی رہا جو خدا کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب ” اندرونہ بائیل میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کے نام سے پکارا ہے.اور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور سچا جانتا ہوں اور دین اسلام کو من جانب اللہ یقین رکھتا ہوں.پس یہ وہ مقابلہ ہے کہ آسمانی فیصلہ اس کا تصفیہ کرے گا.اور وہ آسمانی فیصلہ یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے جو شخص اپنے قول میں جھوٹا ہے اور ناحق رسول کو کا ذب اور دجال کہتا ہے اور حق کا دشمن ہے وہ آج کے دن سے پندرہ مہینے تک اس شخص کی زندگی میں ہی جو حق پر ہے ہادیہ میں گرے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.یعنی راستباز اور صادق نبی کو دجال کہنے سے باز نہ آوے اور بے باکی اور بدزبانی نہ چھوڑے.یہ اس لئے کہا گیا کہ صرف کسی مذہب کا انکار کر دینا دنیا میں مستوجب سزا نہیں ٹھہرتا بلکہ بے با کی اور شوخی اور بد زبانی مستوجب سزا ٹھہرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جب میں نے یہ کہا تو اس کا رنگ فق ہو گیا، چہرہ زرد ہو گیا اور ہاتھ کانپنے لگے تب اس نے بلا توقف اپنی زبان منہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر دھر لئے اور ہاتھوں کو مع سر کے ہلانا شروع کیا جیسا ایک ملزم خائف ایک الزام کا سخت انکار کر کے تو بہ اور انکسار کے رنگ میں اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے اور بار بار کہتا تھا کہ تو ب تو بہ میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی اور پھر بعد میں بھی اسلام کے خلاف کبھی 13
نہیں بولا.تو یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت رکھنے والے شیر خدا کار د عمل.وہ للکارتے تھے ایسی حرکتیں کرنے والوں کو.پھر ایک شخص لیکھر ام تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوگالیاں نکالتا تھا.اس کی اس دریدہ دینی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو باز رکھنے کی کوشش کی.وہ باز نہ آیا.آخر آپ نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی درد ناک موت کی خبر دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک دشمن اللہ اور رسول کے بارہ میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے اور نا پاک کلمے زبان پر لاتا ہے جس کا نام لیکھرام ہے مجھے وعدہ دیا اور میری دعاسنی اور جب میں نے اس پر بددعا کی تو خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ 6 سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا.یہ ان کے لئے نشان ہے جو بچے مذہب کو ڈھونڈتے ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ بڑی درد ناک موت مرا.آنحضور ﷺ کا اسوہ حسنہ دنیا کے سامنے پیش کرو یہی اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سکھائے کہ اس قسم کی حرکت کرنے والوں کو سمجھاؤ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن بیان کرو، دنیا کو ان خوبصورت اور روشن پہلوؤں سے آگاہ کرو جو دنیا کی نظر سے چھپے ہوئے ہیں اور اللہ سے دعا کرو کہ یا تو اللہ تعالیٰ ان کو ان حرکتوں سے باز رکھے یا پھر خود ان کی پکڑ کرے.اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے اپنے طریقے ہیں وہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس طریقہ سے کس کو پکڑنا ہے.پھر خلافت ثانیہ میں ایک انتہائی بے ہودہ کتاب ”رنگیلا رسول“ کے نام سے لکھی گئی.پھر ایک رسالہ ”ورتمان نے ایک بیہودہ مضمون شائع کیا جس پر مسلمانان ہند میں ایک جوش پیدا ہو گیا.ہر 14
طرف مسلمانوں میں ایک جوش تھا اور بڑا سخت رد عمل تھا.اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خلیفہ اسیح الثانی نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بھائیو! میں دردمند دل سے پھر آپ کو کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جولڑ پڑتا ہے.وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے“.(اب یہ حدیث کے مطابق ہے کہ غصہ کو دبانے والا اصل میں بہادر ہوتا ہے.فرمایا کہ ” بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک اسے پورا نہ کرے اس سے پیچھے نہیں ہٹتا.آپ نے فرمایا اسلام کی ترقی کے لئے تین باتوں کا عہد کرو.پہلی بات یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے.پہلے خود اپنے عمل ٹھیک کرو.دوسرے یہ کہ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے.اسلام کی تعلیم دنیا کے ہر شخص کو پتہ لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں، محاسن خوبصورت زندگی پستہ لگے،اسوہ پتہ لگے.تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے.(انوار العلوم جلد نهم صفحه ۵۵۵-۵۵۶) اب ہر ایک مسلمان کا ، عام آدمی کا بھی ، لیڈروں کا بھی فرض ہے.اب دیکھیں باوجود آزادی کے یہ مسلمان ممالک جو آزاد کہلاتے ہیں آزاد ہونے کے باوجود ابھی تک تمدنی اور اقتصادی غلامی کا شکار ہیں.ان مغربی قوموں کے مرہون منت ہیں ان کی نقل کرنے کی طرف لگے ہوئے ہیں.خود کام نہیں کرتے.زیادہ تر ان پر ہمارا انحصار ہے.اور اسی لئے یہ وقتا فوقتا مسلمانوں کے جذبات سے یہ کھیلتے بھی رہتے ہیں.پھر آپ نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے بھی شروع کروائے.تو یہ طریقے ہیں احتجاج کے، نہ کہ توڑ پھوڑ کرنا فساد پیدا کرنا.اور ان باتوں میں جو آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کی تھیں سب سے زیادہ احمدی مخاطب ہیں.ان ملکوں کی بعض غلط روایات غیر محسوس طریقہ پر ہمارے بعض خاندانوں میں داخل ہو رہی ہیں.میں احمدیوں کو کہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی مخاطب تھے.یہ جو اچھی چیزیں ہیں ان کے تمدن کی وہ تو اختیار کریں لیکن جو غلط باتیں ہیں ان سے ہمیں بچنا چاہئے.تو ہمارا ری ایکشن (Reaction) یہی 15
ہونا چاہئے کہ بجائے صرف توڑ پھوڑ کے ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے ، ہم دیکھیں ہمارے عمل کیا ہیں، ہمارے اندر خدا کا خوف کتنا ہے، اس کی عبادت کی طرف کتنی توجہ ہے، دینی احکامات پر عمل کرنے کی طرف کتنی توجہ ہے، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی طرف کتنی توجہ ہے.پھر دیکھیں خلافت رابعہ کا دور تھا جب رشدی نے بڑی توہین آمیز کتاب لکھی تھی.اس وقت حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبات بھی دیئے تھے اور ایک کتاب بھی لکھوائی تھی.پھر جس طرح کہ میں نے کہا یہ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں.گزشتہ سال کے شروع میں بھی اس طرح کا ایک مضمون آیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارہ میں.اس وقت بھی میں نے جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی توجہ دلائی تھی کہ مضامین لکھیں خطوط لکھیں، رابطے وسیع کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی خوبیاں اور ان کے محاسن بیان کریں.تو یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حسین پہلوؤں کو دنیا کو دکھانے کا سوال ہے یہ توڑ پھوڑ سے تو نہیں حاصل ہو سکتا.اس لئے اگر ہر طبقہ کے احمدی ہر ملک میں دوسرے پڑھے لکھے اور سمجھدار مسلمانوں کو بھی شامل کریں کہ تم بھی اس طرح پر امن طور پر یہ رد عمل ظاہر کر واپنے رابطے بڑھاؤ اور لکھو تو ہر ملک میں ہر طبقہ میں اتمام حجت ہو جائے گی اور پھر جو کرے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے.جیسا کہ خود فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ ﴾ (سورة الانبياء ، آیت ۱۰۸) کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر.اور آپ سے بڑی ہستی ، رحمت بانٹنے والی ہستی نہ پہلے کبھی پیدا ہوئی اور نہ بعد میں ہوسکتی ہے.ہاں آپ کا اُسوہ ہے جو ہمیشہ قائم ہے اور اس پر چلنے کی ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے.اور اس کے لئے بھی سب سے بڑی ذمہ داری احمدی کی ہے ، ہم پر ہی عائد ہوتی ہے.تو بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ للعالمین تھے اور یہ لوگ آپ کی یہ تصویر پیش کرتے ہیں جس سے انتہائی بھیانک تصور ابھرتا ہے.پس ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار محبت اور رحمت کے اسوہ کو 16
دنیا کو بتانا چاہئے اور ظاہر ہے اس کو بتانے کے لئے مسلمانوں کو اپنے رویے بھی بدلنے پڑیں گے.دہشت گردی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگ سے بچنے کی بھی ہمیشہ کوشش کی ہے.جب تک کہ آپ پر مدینہ میں آ کر جنگ ٹھونسی نہیں گئی.پھر بہر حال اللہ تعالیٰ کی اجازت سے دفاع میں جنگ کرنی پڑی.لیکن وہاں بھی کیا حکم تھا کہ وَقَاتِلُوْا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا - إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴾ (سورة البقرة: آیت (۱۹) کہ اے مسلمانو! الڑ واللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو یقینا اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اپنے پر نازل ہونے والی شریعت پر عمل کرنے والے تھے.ان کے بارہ میں ایسے نازیبا خیالات کا اظہار کرنا انتہائی ظلم ہے...جماعت احمدیہ کی کارٹونوں کی اشاعت کے خلاف فوری کارروائی دوسرے مسلمانوں کو تو یہ جوش ہے کہ ہڑتالیں کر رہے ہیں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں کیونکہ ان کا رد عمل یہی ہے کہ توڑ پھوڑ ہو اور ہڑتالیں ہوں اور جماعت احمدیہ کا اس واقعہ کے بعد جو فوری رد عمل ظاہر ہونا چاہئے تھا وہ ہوا.احمدی کا رد عمل یہ تھا کہ انہوں نے فوری طور ان پر اخباروں سے رابطہ پیدا کیا.اور پھر یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے کہ 2006ء کی فروری میں ہڑتالیں ہو رہی ہیں.یہ واقعہ تو گزشتہ سال کا ہے.ستمبر میں یہ حرکت ہوئی تھی تو اُس وقت ہم نے کیا کیا تھا.یہ جیسا کہ میں نے کہا ستمبر کی حرکت ہے یا اکتوبر کے شروع کی کہہ لیں.تو ہمارے مبلغ نے اس وقت فوری طور پر ایک تفصیلی مضمون تیار کیا اور جس اخبار میں کارٹون شائع ہوا تھا ان کو یہ بھجوایا اور تصاویر کی اشاعت پر احتجاج کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے بارہ میں بتایا کہ یہ ہمارا احتجاج اس طرح ہے ہم جلوس تو نہیں نکالیں گے لیکن قلم کا جہاد ہے جو ہم تمہارے ساتھ کریں گے.اور تصویر کی اشاعت پر اظہار افسوس کرتے ہیں.اس کو بتایا کہ ضمیر کی آزادی تو ہو گی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ دوسروں کی 17
دل آزاری کی جائے.بہر حال اس کا مثبت رد عمل ہوا.ایک مضمون بھی اخبار کو بھیجا گیا تھا جو اخبار نے شائع کر دیا.ڈینیش عوام کی طرف سے بڑا اچھا رد عمل ہوا کیونکہ مشن میں بذریعہ فون اور خطوط بھی انہوں نے ہمارے مضمون کو کافی پسند کیا، پیغام آئے.پھر ایک میٹنگ میں جرنلسٹ یونین کے صدر کی طرف سے شمولیت کی دعوت ملی.وہاں گئے وہاں وضاحت کی کہ ٹھیک ہے تمہارا قانون آزادی ضمیر کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کے مذہبی رہنماؤں اور قابل تکریم ہستیوں کو بنک کی نظر سے دیکھو اور ان کی ہتک کی جائے.اور یہاں جو مسلمان اور عیسائی اس معاشرہ میں اکٹھے رہ رہے ہیں ان کے جذبات کا بہر حال خیال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا.پھر ان کو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر حسین تعلیم ہے اور کیسا اسوہ ہے اور کتنے اعلیٰ اخلاق کے آپ مالک تھے اور کتنے لوگوں کے ہمدرد تھے، کس طرح ہمدرد تھے خدا کی مخلوق سے اور ہمدردی اور شفقت کے مظہر تھے.چند واقعات جب ان کو بتائے کہ بتاؤ کہ جو ایسی تعلیم والا مشخص اور ایسے عمل والا شخص ہے اس کے بارہ میں اس طرح کی تصویر بنانی جائز ہے؟ تو جب یہ باتیں ہمارے مشنری کی ہو ئیں تو انہوں نے بڑا پسند کیا بڑا اسراہا.اور ایک کارٹونسٹ نے برملا یہ اظہار کیا کہ اگر اس طرح کی میٹنگ پہلے ہو جاتی تو وہ ہرگز کارٹون نہ بناتے ، اب انہیں پتہ چلا ہے کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے.اور ساروں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ٹھیک ہے ڈائیلاگ (Dialogue) کا سلسلہ چلتا رہنا چاہئے.پھر صدر یونین کی طرف سے بھی پریس ریلیز جاری کی گئی جس کا مسودہ بھی سب کے سامنے سنایا گیا اور ٹی وی پر انٹرویو ہوا جو بڑا اچھا رہا.پھر منسٹر سے بھی میٹنگ کی.تو بہر حال جماعت کوشش کرتی ہے.دوسرے ملکوں میں بھی اس طرح ہوا ہے.تو بہر حال جہاں بنیاد تھی وہاں جماعت نے کافی کام کیا ہے.اور کارٹون کی وجہ جو بنی ہے وہ یہ ہے کہ ڈنمارک میں ایک ڈینش رائٹر نے ایک کتاب لکھی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور قرآن جو مارکیٹ میں آچکی ہے.اس کتاب والے نے کچھ تصویر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا کر بھیجنے کو کہا تھا تو بعضوں نے بنائیں.18
وہ تصویریں تھیں اور اپنا نام ظاہر نہیں کیا کہ مسلمانوں کا رد عمل ہوگا.تو بہر حال یہ کتاب ہے جو وجہ بن رہی ہے اس اخبار میں بھی کارٹون ہی وجہ بنی تھی تو اس بارہ میں بھی ان کو مستقل کوشش کرتے رہنا چاہئے اور دنیا میں ہر جگہ اگر اس کو پڑھ کر جہاں جہاں بھی اعتراض کی باتیں ہوں وہ پیش کرنی چاہئیں اور جواب دینے چاہئیں.لیکن وہاں ڈنمارک میں یہ بھی تصور ہے کہتے ہیں بعض مسلمانوں کے ذریعہ غلط کارٹون جو ہم نے شائع ہی نہیں کئے وہ دکھا کے مسلمان دنیا کو ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے.پتہ نہیں یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے لیکن ہماری اس فوری توجہ سے ان میں احساس بہر حال پیدا ہوا ہے.یہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا ان لوگوں کو تو آج پتہ لگ رہا ہے.جبکہ یہ تین مہینے پہلے کی بات ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ہر ملک میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے.خاص طور پر جو اسلام کے بارہ میں جنگی جنونی ہونے کا ایک تصور ہے اس کو دلائل کے ساتھ رد کرنا ہمارا فرض ہے.پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی کثرت سے لکھیں.اخباروں کو، لکھنے والوں کو سیرت پر کتابیں بھی بھیجی جاسکتی ہیں.احمدی نو جوانوں کو صحافت میں جانا چاہئے پھر یہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لئے ، یہ بھی جماعت کو پلان (Plan) کرنا چاہئے کہ نوجوان جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہوتا کہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی ، ان لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا نفوذ رہے.کیونکہ یہ حرکتیں وقتا فوقتا اٹھتی رہتی ہیں.اگر میڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وسیع تعلق قائم ہوگا تو ان چیزوں کو روکا جا سکتا ہے، ان بیہودہ حرکات کو روکا جاسکتا ہے.اگر پھر بھی اس کے بعد کوئی ڈھٹائی دکھاتا ہے تو پھر ایسے لوگ اس زمرہ میں آتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی.19
جیسا کہ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مهينا ( سورة الاحزاب: آیت ۵۸) یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی اور اس نے ان کے لئے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے.یہ حکم ختم نہیں ہو گیا.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں.آپ کی تعلیم ہمیشہ زندگی دینے والی تعلیم ہے.آپ کی شریعت ہر زمانہ کے مسائل حل کرنے والی شریعت ہے.آپ کی پیروی کرنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے.تو اس لئے یہ جو تکلیف ہے یہ آپ کے ماننے والوں کو جو تکلیف پہنچائی جارہی ہے کسی بھی ذریعہ سے اس پر بھی آج صادق آتی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات زندہ ہے وہ دیکھ رہی ہے کہ کیسی حرکتیں کر رہے ہیں.پس دنیا کو آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے.دنیا کو نہیں بتانا ہو گا کہ جو اذیت یا تکلیف تم پہنچاتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی سزا آج بھی دینے کی طاقت رکھتا ہے.اس لئے اللہ اور اس کے رسول کی دل آزاری سے باز آؤ.لیکن جہاں اس کے لئے اسلام کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ کے بارہ میں دنیا کو بتانا ہے وہاں اپنے عمل بھی ہمیں ٹھیک کرنے ہوں گے.کیونکہ ہمارے اپنے عمل ہی ہیں جو دنیا کے منہ بند کریں گے اور یہی ہیں جو دنیا کا منہ بند کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے رپورٹ میں بتایا تھا وہاں ایک مسلمان عالم پر یہی الزام منافقت کا لگایا جارہا ہے کہ ہمیں کچھ کہتا ہے اور وہاں جا کے کچھ کرتا ہے، ابھارتا ہے.وہ شاید میں نے رپورٹ پڑھی نہیں.تو ہمیں اپنے ظاہر اور باطن کو ، اپنے قول و فعل کو ایک کر کے یہ عملی نمونے دکھانے ہوں گے.جھنڈے جلانے یا توڑ پھوڑ کرنے سے آنحضرت ﷺ کی عزت قائم نہیں ہو سکتی مسلمان کہلانے والوں کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ قطع نظر اس کے کہ احمدی ہیں یا نہیں ،شیعہ ہیں یا سنی ہیں یا کسی بھی دوسرے مسلمان فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جب حملہ ہو تو وقتی جوش کی بجائے ، جھنڈے جلانے کی بجائے، توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے، ایمبیسیوں 20
پر حملے کرنے کی بجائے اپنے عملوں کو درست کریں کہ غیر کو انگلی اٹھانے کا موقع ہی نہ ملے.کیا یہ آگیں لگانے سے سمجھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی عزت اور مقام کی نعوذ باللہ صرف اتنی قدر ہے کہ جھنڈے جلانے سے یا کسی سفارتخانے کا سامان جلانے سے بدلہ لے لیا.نہیں ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جو آگ بجھانے آیا تھا، وہ محبت کا سفیر بن کر آیا تھا، وہ امن کا شہزادہ تھا.پس کسی بھی سخت اقدام کی بجائے دنیا کو سمجھائیں اور آپ کی خوبصورت تعلیم کے بارہ میں بتا ئیں.ایک احمدی کا حقیقی رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور سمجھ دے لیکن میں احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ ان کو تو پتہ نہیں یہ عقل اور سمجھ آئے کہ نہ آئے لیکن آپ میں سے ہر بچہ ، ہر بوڑھا، ہر جوان ، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے رد عمل کے طور پر اپنے آپ کو ایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو بھی نہ بجھنے والی آگ ہو، جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میں بجھ جائے.اب بڑے جوش سے لوگ کھڑے ہیں (پاکستان کی ایک تصویر تھی ) آگ لگا رہے ہیں جس طرح کوئی بڑا معرکہ مار رہے ہیں.یہ پانچ منٹ میں آگ بجھ جائے گی، ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو.وہ آگ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی آگ جو آپ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو.جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے.یہ آگ ایسی ہو جو دعاؤں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسماں تک پہنچتے رہیں.21
اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالیں اور آنحضرت ﷺ پر کثرت سے درود بھیجیں پس یہ آگ ہے جو ہر احمدی نے اپنے دل میں لگانی ہے اور اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالنا ہے.لیکن اس کے لئے پھر وسیلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بننا ہے.اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے کے لئے، دنیا کی لغویات سے بچنے کے لئے ، اس قسم کے جو فتنے اٹھتے ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دلوں میں سلگتا رکھنے کے لئے، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار درود بھیجنا چاہئے.کثرت سے درود بھیجنا چاہئے.اس پرفتن زمانہ میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈبوئے رکھنے کے لئے اپنی نسلوں کو احمدیت اور اسلام پر قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے کہ اِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ - يَأْيُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾ (سورة الاحزاب: آیت ۵۷) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجا کرو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.از خطبه جمعه فرموده افروری ۲۰۰۶، مسجد بیت الفتوح لندن، بحوالہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خاکوں کی حقیقت ایڈیشن دوم صفحہ ۹ تا ۲۰) دوسروں کے جذبات سے کھیلنا نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی آزادی ضمیر حضور انور نے مغرب کو بھی دوسروں کے جذبات سے کھیلنے پر تنبیہ بھی فرمائی اور وارننگ دی کہ یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے کا موجب ہوا کرتا ہے.آپ نے فرمایا کہ: جہاں ہم دنیا کو سمجھاتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کے بارہ میں کسی بھی قسم کا نازیبا اظہار خیال کسی بھی طرح کی آزادی کے زمرہ میں نہیں آتا.تم جو جمہوریت اور آزادی ضمیر کے چیمپین 22
بن کر دوسروں کے جذبات سے کھیلتے ہو یہ نہ ہی جمہوریت ہے اور نہ ہی آزادی ضمیر ہے.ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور کچھ ضابطہ اخلاق ہوتے ہیں.جس طرح ہر پیشہ میں ضابطہ اخلاق ہیں، اسی طرح صحافت کے لئے بھی ضابطہ اخلاق ہے اور اسی طرح کوئی بھی طرز حکومت ہو اس کے بھی قانون و قاعدے ہیں.آزادی رائے کا قطعا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے کے جذبات سے کھیلا جائے ، اس کو تکلیف پہنچائی جائے.اگر یہی آزادی ہے جس پر مغرب کو ناز ہے تو یہ آزادی ترقی کی طرف لے جانے والی نہیں ہے بلکہ یہ تنزل کی طرف لے جانے والی آزادی ہے.آنحضرت ﷺ کی توہین پر مبنی حرکات پر اصرار غضب الہی کو بھڑ کانے کا موجب ہے مغرب بڑی تیزی سے مذہب کو چھوڑ کر آزادی کے نام پر ہر میدان میں اخلاقی قدریں پامال کر رہا ہے اس کو پتہ نہیں ہے کہ کس طرح یہ لوگ اپنی ہلاکت کو دعوت دے رہے ہیں.ابھی اٹلی میں ایک وزیر صاحب نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ یہ بیہودہ اور غلیظ کارٹون ٹی شرٹس پر چھاپ کر پہنے شروع کر دیئے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی کہا ہے میرے سے لو.سنا ہے وہاں بیچے بھی جا رہے ہیں.کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا علاج یہی ہے.تو ان لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ تو ہمیں نہیں پتہ کہ مسلمانوں کا یہ علاج ہے یا نہیں لیکن ان حرکتوں سے وہ خدا کے غضب کو بھڑ کانے کا ذریعہ ضرور بن رہے ہیں.جو کچھ بیوقوفی میں ہو گیا ، وہ تو ہو گیا لیکن اس کو تسلسل سے اور ڈھٹائی کے ساتھ کرتے چلے جانا اور اس پر پھر مصر ہونا کہ ہم جو کر رہے ہیں ٹھیک ہے.یہ چیز اللہ تعالیٰ کے غضب کو ضرور بھڑکاتی ہے.23 223
ان حالات میں احمدی کا رد عمل کیا ہونا چاہئے؟ تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا باقی مسلمانوں کا رد عمل تو وہ جانیں لیکن ایک احمدی مسلمان کا رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ ان کو سمجھائیں، خدا کے غضب سے ڈرائیں.جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں اور اپنے قادر و مقتدر خدا کے آگے جھکیں اور اس سے مدد مانگیں.اگر یہ لوگ عذاب کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں تو وہ خدا جو اپنی اور اپنے پیاروں کی غیرت رکھنے والا ہے، اپنی قہری تجلیات کے ساتھ آنے کی بھی طاقت رکھتا ہے.وہ جو سب طاقتوں کا مالک ہے، وہ جو انسان کے بنائے ہوئے قانون کا پابند نہیں ہے، ہر چیز پر قادر ہے،اس کی چکی جب چلتی ہے تو پھر انسان کی سوچ اس کا احاطہ نہیں کر سکتی ، پھر اس سے کوئی بچ نہیں سکتا.پس احمدیوں کو مغرب کے بعض لوگوں کے یا بعض ملکوں کے یہ رویے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے حضور مزید جھکنا چاہئے.خدا کے مسیح نے یورپ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے اور امریکہ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے.یہ زلزلے، یہ طوفان اور یہ آفتیں جو دنیا میں آ رہی ہیں یہ صرف ایشیا کے لئے مخصوص نہیں ہیں.امریکہ نے تو اس کی ایک جھلک دیکھ لی ہے.پس اے یورپ ! تو بھی محفوظ نہیں ہے.اس لئے کچھ خوف خدا کرو اور خدا کی غیرت کو نہ للکارو.لیکن ساتھ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ممالک یا مسلمان کہلانے والے بھی اپنے رویے درست کریں.ایسے رویے اور ایسے رد عمل ظاہر کریں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کو دنیا کے سامنے رکھیں ، ان کو دکھا ئیں.تو یہ وہ صحیح رد عمل ہے جو ایک مومن کا ہونا چاہئے.از خطبه جمعه ۲۴ فروری ۲۰۰۶ء، مسجد بیت الفتوح لندن، بحوالہ اسوہ رسول اور خاکوں کی حقیقت ،صفحہ ۲۵.۲۷) 24 24
غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق اسلام کی خوبصورت تعلیم آزادی ضمیر و آزادی مذہب کے بارہ میں اسلام کی خوبصورت تعلیم کیا ہے.اس بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں." قرآن کریم میں متعدد جگہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا ذکر ملتا ہے جس میں غیر مسلموں سے حسنِ سلوک، ان کے حقوق کا خیال رکھنا ، ان سے انصاف کرنا، ان کے دین پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا، دین کے بارہ میں کوئی سختی نہ کرنا وغیرہ کے بہت سے احکامات اپنوں کے علاوہ غیر مسلموں کے لئے ہیں.ہاں بعض حالات میں جنگوں کی بھی اجازت ہے لیکن وہ اس صورت میں جب دشمن پہل کرے، معاہدوں کو توڑے، انصاف کا خون کرے ظلم کی انتہا کرے یا ظلم کرے لیکن اس میں بھی کسی ملک کے کسی گروہ یا جماعت کا حق نہیں ہے، بلکہ یہ حکومت کا کام ہے کہ فیصلہ کرے کہ کیا کرنا ہے، کس طرح اس ظلم کو ختم کرنا ہے نہ کہ ہر کوئی جہادی تنظیم اٹھے اور یہ کام کرنا شروع کر دے.کفار مکہ اور دشمنان اسلام کی زیادتیوں اور ظلم کے بالمقابل آنحضور ﷺ کا عظیم الشان اسوہ حسنہ آنحضرت لے کے زمانہ میں بھی جنگوں کے مخصوص حالات پیدا کئے گئے تھے جن سے مجبور ہو کر مسلمانوں کو جوابی جنگیں لڑنی پڑیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ آج کل کی جہادی تنظیموں نے بغیر جائز وجوہات کے اور جائز اختیارات کے اپنے جنگجویانہ نعروں اور عمل سے غیر مذہب والوں کو یہ موقع دیا ہے اور ان میں اتنی جرات پیدا ہوگئی ہے کہ انہوں نے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے آنحضرت ﷺ کی پاک ذات پر بیہودہ حملے کئے ہیں اور کرتے رہے ہیں جبکہ اس سراپا رحم اور 25
محسن انسانیت اور عظیم محافظ حقوق انسانی کا تو یہ حال تھا کہ آپ جنگ کی حالت میں بھی کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے جو دشمن کو سہولت نہ مہیا کرتا ہو.آپ کی زندگی کا ہر عمل، ہر فعل ، آپ " کی زندگی کا پل پل اور لمحہ لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپ مجسم رحم تھے اور آپ کے سینے میں وہ دل دھڑک رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورے نہیں کر سکتا جو آپ نے کئے ، امن میں بھی اور جنگ میں بھی ، گھر میں بھی اور باہر بھی ، روز مرہ کے معمولات میں بھی اور دوسرے مذاہب والوں سے کئے گئے معاہدات میں بھی.آپ نے آزادی ضمیر ، مذہب اور رواداری کے معیار قائم کرنے کی مثالیں قائم کر دیں.اور پھر جب عظیم فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو جہاں مفتوح قوم سے معافی اور رحم کا سلوک کیا ، وہاں مذہب کی آزادی کا بھی پورا حق دیا اور قرآن کریم کے اس حکم کی اعلیٰ مثال قائم کر دی کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ( سورۃ البقرہ: آیت ۲۵۷) کہ مذہب تمہارے دل کا معاملہ ہے، میری خواہش تو ہے کہ تم بچے مذہب کو مان لو اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار لو، اپنی بخشش کے سامان کرلو لیکن کوئی جبر نہیں.آپ کی زندگی رواداری اور آزادی مذہب و ضمیر کی ایسی بے شمار روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے.ان میں سے چند ایک کا میں ذکر کرتا ہوں.کون نہیں جانتا کہ مکہ میں آپ کی دعویٰ نبوت کے بعد کی 13 سالہ زندگی کتنی سخت تھی اور کتنی تکلیف دہ تھی اور آپ نے اور آپ کے صحابہ رضوان الله علیهم نے کتنے دکھ اور مصیبتیں برداشت کیں.دوپہر کے وقت تپتی ہوئی گرم ریت پر لٹائے گئے ، گرم پتھر ان کے سینوں پر رکھے گئے.کوڑوں سے مارے گئے ، عورتوں کی ٹانگیں چیر کر مارا گیا، قتل کیا گیا، شہید کیا گیا.آپ پر مختلف قسم کے مظالم ڈھائے گئے.سجدہ کی حالت میں بعض دفعہ اونٹ کی اوجھڑی لا کر آپ کی کمر پر رکھ دی گئی جس کے وزن سے آپ اٹھ نہیں سکتے تھے.طائف کے سفر میں بچے آپ پر پتھراؤ کرتے رہے، بیہودہ اور غلیظ زبان استعمال کرتے رہے.ان کے سردار ان کو ہلا شیری دیتے رہے ، ان کو ابھارتے رہے.آپ اتنے زخمی ہو گئے کہ سر سے پاؤں تک لہولہان ہیں، اوپر سے بہتا ہوا خون جوتی میں بھی آ گیا.شعب ابی طالب کا واقعہ ہے.آپ " کو ، آپ کے خاندان کو ، آپ کے ماننے والوں کو کئی سال تک محصور کر دیا گیا.کھانے 26
کو کچھ نہیں تھا، پینے کو کچھ نہیں تھا.بچے بھی بھوک پیاس سے بلک رہے تھے کسی صحابی کو ان حالات میں اندھیرے میں زمین پر پڑی ہوئی کوئی نرم چیز پاؤں میں محسوس ہوئی تو اسی کو اٹھا کر منہ میں ڈال لیا کہ شاید کوئی کھانے کی چیز ہو.یہ حالت تھی بھوک کی اضطراری کیفیت.تو یہ حالات تھے.آخر جب ان حالات سے مجبور ہو کر ہجرت کرنی پڑی اور ہجرت کر کے مدینہ میں آئے تو وہاں بھی دشمن نے پیچھا نہیں چھوڑا اور حملہ آور ہوئے.مدینہ کے رہنے والے یہودیوں کو آپ کے خلاف بھڑ کانے کی کوشش کی.ان حالات میں جن کا میں نے مختصر اذکر کیا ہے اگر جنگ کی صورت پیدا ہو اور مظلوم کو بھی جواب دینے کا موقع ملے ، بدلہ لینے کا موقع ملے تو وہ یہی کوشش کرتا ہے کہ پھر اس ظلم کا بدلہ بھی ظلم سے لیا جائے.کہتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے.لیکن ہمارے نبی ﷺ نے اس حالت میں بھی نرم دلی اور رحمت کے اعلیٰ معیار قائم فرمائے.مکہ سے آئے ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی گذرا تھا تمام تکلیفوں کے زخم ابھی تازہ تھے.آپ کو اپنے ماننے والوں کی تکلیفوں کا احساس اپنی تکلیفوں سے بھی زیادہ ہوا کرتا تھا.لیکن پھر بھی اسلامی تعلیم اور اصول وضوابط کو آپ نے نہیں توڑا.جو اخلاقی معیار آپ کی فطرت کا حصہ تھے اور جو تعلیم کا حصہ تھے ان کو نہیں تو ڑا.آج دیکھ لیں بعض مغربی ممالک جن سے جنگیں لڑ رہے ہیں ان سے کیا کچھ نہیں کرتے.لیکن اس کے مقابلہ میں آپ کا اسوہ دیکھیں جس کا تاریخ میں، ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے: جنگ بدر کے موقع پر جس جگہ اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہیں تھی.اس پر حباب بن منذر نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ جہاں آپ نے پڑاؤ ڈالنے کی جگہ منتخب کی ہے آیا یہ کسی خدائی الہام کے ماتحت ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے یا یہ جگہ آپ نے خود پسند کی ہے؟ آپ کا خیال ہے کہ فوجی تدبیر کے طور پر یہ جگہ اچھی ہے؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو محض جنگی حکمت عملی کے باعث میرا خیال تھا کہ یہ جگہ بہتر ہے، اونچی جگہ ہے تو انہوں نے عرض کی کہ یہ مناسب جگہ نہیں ہے.آپ لوگوں کو لے کر چلیں اور پانی کے چشمہ پر قبضہ کر لیں.وہاں ایک حوض بنالیں گے اور پھر جنگ کریں گے.اس صورت میں ہم تو پانی پی سکیں گے لیکن دشمن کو پانی پینے کے لئے نہیں ملے 27
گا.تو آپ نے فرمایا ٹھیک ہے چلو تمہاری رائے مان لیتے ہیں.چنانچہ صحابہ چل پڑے اور وہاں پڑاؤ ڈالا.تھوڑی دیر کے بعد قریش کے چند لوگ پانی پینے اس حوض پر آئے تو صحابہ نے روکنے کی کوشش کی تو آپ نے فرمایا: نہیں ان کو پانی لے لینے دو.(السيرة النبوية لابن هشام جلد نمبر۲ صفحه ۲۸۴ ، غزوة بدر الكبرى مشورة الحباب على الرسول ) اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ حسن اخلاق اور آزادی ضمیر و مذہب کی تعلیم سے پھیلا ہے تو یہ ہے اعلیٰ معیار آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا کہ باوجود اس کے کہ دشمن نے کچھ عرصہ پہلے مسلمانوں کے بچوں تک کا دانہ پانی بند کیا ہوا تھا.لیکن آپ نے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے دشمن کی فوج کے سپاہیوں کو جو پانی کے تالاب، چشمے تک پانی لینے کے لئے آئے تھے اور جس پر آپ کا تصرف تھا، آپ کے قبضے میں تھا، انہیں پانی لینے سے نہ روکا.کیونکہ یہ اخلاقی ضابطوں سے گری ہوئی حرکت تھی.اسلام پر سب سے بڑا اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ تلوار کے زور سے پھیلایا گیا.یہ لوگ جو پانی لینے آئے تھے ان سے زبر دستی بھی کی جاسکتی تھی کہ پانی لینا ہے تو ہماری شرطیں مان لینا.کفار کئی جنگوں میں اس طرح کرتے رہے ہیں.لیکن نہیں ، آپ نے اس طرح نہیں فرمایا.یہاں کہا جا سکتا ہے کہ ابھی مسلمانوں میں پوری طاقت نہیں تھی ، کمزوری تھی، اس لئے شاید جنگ سے بچنے کیلئے یہ احسان کی کوشش کی ہے.حالانکہ یہ غلط بات ہے.مسلمانوں کے بچہ بچہ کو یہ پتہ تھا کہ کفار مکہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور مسلمان کی شکل دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے.اس لئے یہ خوش فہمی کسی کو نہیں تھی اور آنحضرت ﷺ کو تو اس قسم کی خوش فہمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آپ نے تو یہ سب کچھ ، یہ شفقت کا سلوک سراپا رحمت ہونے اور انسانی قدروں کی پاسداری کی وجہ سے کیا تھا.کیونکہ آپ نے ہی ان قدروں کی پہچان کی تعلیم دینی تھی.28
آنحضرت ﷺ کے انصاف اور آزادی اظہار کے عدیم المثال معیار پھر اس دشمن اسلام کا واقعہ دیکھیں جس کے قتل کا حکم جاری ہو چکا تھا.لیکن آپ نے نہ صرف اسے معاف فرمایا بلکہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے اسے اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت آپ نے عطا فرمائی.چنانچہ اس واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ: ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھر رسول اللہ ﷺ سے جنگیں کرتارہا.فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریم ﷺ کے اعلان عفو اور امان کے باوجود فتح مکہ کے موقع پر ایک دستہ پر حملہ آور ہوا اور حرم میں خونریزی کا باعث بنا.اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہرایا گیا تھا.لیکن مسلمانوں کے سامنے اس وقت کوئی نہیں ٹھہر سکا تھا.اس لئے فتح مکہ کے بعد جان بچانے کیلئے وہ یمن کی طرف بھاگ گیا.اس کی بیوی رسول اللہ ﷺ سے اس کی معافی کی طالب ہوئی تو آپ نے بڑی شفقت فرماتے ہوئے اسے معاف فرما دیا.اور پھر جب وہ اپنے خاوند کو لینے کیلئے خودگئی تو عکرمہ کو اس معافی پر یقین نہیں آتا تھا کہ میں نے اتنے ظلم کئے ہوئے ہیں، اتنے مسلمان قتل کئے ہوئے ہیں ، آخری دن تک میں لڑائی کرتا رہا تو مجھے کس طرح معاف کیا جا سکتا ہے.بہر حال وہ کسی طرح یقین دلا کر اپنے خاوند عکرمہ کو واپس لے آئی.چنانچہ جب عکرمہ واپس آئے تو آنحضرت ﷺ کے دربار میں حاضر ہوئے اور اس بات کی تصدیق چاہی تو اس کی آمد پر رسول اللہ ﷺ نے اس سے احسان کا حیرت انگیز سلوک کیا.پہلے تو آپ دشمن قوم کے سردار کی عزت کی خاطر کھڑے ہو گئے کہ یہ دشمن قوم کا سردار ہے اس لئے اس کی عزت کرنی ہے.اس لئے کھڑے ہو گئے اور پھر مکرمہ کے پوچھنے پر فرمایا کہ واقعی میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے.(موطا امام مالک، کتاب النکاح.نکاح المشرک اذا اسلمت زوجته قبلۂ ) عکرمہ نے پھر پوچھا کہ اپنے دین پر رہتے ہوئے ؟ یعنی میں مسلمان نہیں ہوا.اس شرک کی حالت میں مجھے آپ نے معاف کیا ہے، آپ نے مجھے بخش دیا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ ہاں.اس پر 29
عکرمہ کا سینہ اسلام کیلئے کھل گیا اور بے اختیار کہ اٹھا کہ اے محمد ( ﷺ ) آپ واقعی بے حد حلیم اور کریم اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں.رسول اللہ اللہ کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کر عکرمہ مسلمان ہو گیا.( السيرة الحلبیہ، جلد سوم، صفحہ ۱۰۹.مطبوعہ بیروت.باب ذکر مغازية ﷺ.فتح مکہ شرفها الله تعالی ) تو اسلام اس طرح حسن اخلاق سے اور آزادی ضمیر و مذہب کے اظہار کی اجازت سے پھیلا ہے.حسن خلق اور آزادی مذہب کا یہ تیر ایک منٹ میں عکرمہ جیسے شخص کو گھائل کر گیا.آنحضرت علی نے قیدیوں اور غلاموں تک کو یہ اجازت دی تھی کہ جو مذہب چاہو اختیار کرو.لیکن اسلام کی تبلیغ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسلام کی تعلیم کے بارہ میں بتاؤ کیونکہ لوگوں کو پتہ نہیں ہے.یہ خواہش اس لئے ہے کہ یہ تمہیں اللہ کا قرب عطا کرے گی اور تمہاری ہمدردی کی خاطر ہی ہم تم سے یہ کہتے ہیں.چنانچہ ایک قیدی کا ایک واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے.سعید بن ابی سعید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول کریم ﷺ نے نجد کی طرف مہم بھیجی تو بنو حنیفہ کے ایک شخص کو قیدی بنا کر لائے جس کا نام شمامہ بن اثال تھا.صحابہ نے اسے مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ دیا.رسول کریم ﷺہ اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے ثمامہ تیرے پاس کیا عذر ہے یا تیرا کیا خیال ہے کہ تجھ سے کیا معاملہ ہوگا.اس نے کہا میر اظن اچھا ہے.اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک خون بہانے والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر آپ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدردانی کرنے والا ہے.اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہے لے لیں.اس کے لئے اتنا مال اس کی قوم کی طرف سے دیا جا سکتا تھا.یہاں تک کہ اگلا دن چڑھ آیا.آپ یہ پھر تشریف لائے اور تمامہ سے پوچھا کیا ارادہ ہے.چنانچہ ثمامہ نے عرض کی کہ میں تو کل ہی آپ سے عرض کر چکا تھا کہ اگر آپ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدردانی کرنے والا ہے.آپ ﷺ نے اس کو وہیں چھوڑا.پھر تیسرا دن چڑھا پھر آپ اس کے پاس گئے آپ نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا ارادہ ہے؟ اس نے عرض کی جو کچھ میں نے کہنا تھا وہ کہہ چکا ہوں.آپ ﷺ نے فرمایا اسے آزاد کر دو.تو تمامہ کو آزاد کر دیا گیا.اس پر وہ مسجد کے قریب 30
کھجوروں کے باغ میں گیا اور غسل کیا اور مسجد میں داخل ہو کر کلمہ شہادت پڑھا.اور کہا اے محمد ﷺہ بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ نا پسند آپ کا چہرہ ہوا کرتا تھا اور اب یہ حالت ہے کہ مجھے سب سے زیادہ وب آپ کا چہرہ ہے.بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ آپ کا دین ہوا کرتا تھا.لیکن اب یہ حالت ہے کہ میرا محبوب ترین دین آپ کا لایا ہوا دین ہے.بخدا میں سب سے زیادہ ناپسند آپ کے شہر کو کرتا تھا.اب یہی شہر میرا محبوب ترین شہر ہے.آپ کے گھوڑ سواروں نے مجھے پکڑ لیا جبکہ میں عمرہ کرنا چاہتا تھا.آپ ا کہ اس کے بارہ میں کیا ارشاد فرماتے ہیں.رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ جا تو میں عمرہ کرنے کے لئے رہا تھا اب آپ کا کیا ارشاد ہے.تو رسول اللہ نے اُسے خوشخبری دی ، مبارکباد دی اسلام قبول کرنے کی اور اسے حکم دیا کہ عمرہ کرو، اللہ قبول فرمائے گا.جب وہ مکہ پہنچا تو کسی نے کہا کہ کیا تو صابی ہو گیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آیا ہوں اور خدا کی قسم اب آئندہ سے یمامہ کی طرف سے گندم کا ایک الله دانہ بھی تمہارے پاس نہیں آئے گا یہاں تک کہ نبی ﷺہ اسکی اجازت مرحمت فرماویں.( بخاری کتاب المغازی باب و فدینی حنیفہ - وحدیث شمامہ بن اثال ) ایک دوسری روایت میں ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ عمرہ کرنے گئے تو کفار مکہ نے ان کے اسلام کا معلوم ہونے پر انہیں مارنے کی کوشش کی یا مارا.اس پر انہوں نے کہا کہ کوئی دانہ نہیں آئے گا.اور یہ اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم ﷺ کی طرف سے اجازت نہ آ جائے.چنانچہ اس نے جا کے اپنی قوم کو کہا اور وہاں سے غلہ آنا بند ہو گیا.کافی بری حالت ہوگئی.پھر ابوسفیان آنحضرت ﷺ کی خدمت میں درخواست لے کر پہنچے کہ اس طرح بھوکے مررہے ہیں اپنی قوم پر کچھ رحم کریں.تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ غلہ اس وقت ملے گا جب تم مسلمان ہوجاؤ بلکہ فوراً ثمامہ کو پیغام بھجوایا کہ یہ پابندی ختم کرو، یہ ظلم ہے.بچوں، بڑوں ، مریضوں ، بوڑھوں کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ان کو مہیا ہونی چاہئے.(السيرة النبوية لابن ہشام، سرحمامة ابن اثال ابھی واسلام، خروجه الى ملكة وقصته مع قریش) تو دوسرے یہ دیکھیں کہ قیدی شمامہ سے یہ نہیں کہا کہ اب تم ہمارے قابو میں ہو تو مسلمان ہو 31
جاؤ.تین دن تک ان کے ساتھ حسن سلوک ہوتا رہا اور پھر حسن سلوک کے بھی اعلیٰ معیار قائم ہوئے.آزاد کر دیا اور پھر دیکھیں ثمامہ بھی بصیرت رکھتے تھے اس آزادی کو حاصل کرتے ہی انہوں نے اپنے آپ کو آپ ﷺ کی غلامی میں جکڑے جانے کیلئے پیش کر دیا کہ اسی غلامی میں میری دین و دنیا کی بھلائی ہے.پھر ایک یہودی غلام کو مجبور نہیں کیا کہ تم غلام ہو میرے قابو میں ہو اس لئے جو میں کہتا ہوں کرو، یہاں تک کہ اس کی ایسی بیماری کی حالت ہوئی جب دیکھا کہ اس کی حالت خطرہ میں ہے تو اس کے انجام بخیر کی فکر ہوئی.یہ فکر تھی کہ وہ اس حالت میں دنیا سے نہ جائے جبکہ خدا کی آخری شریعت کی تصدیق نہ کر رہا ہو بلکہ ایسی حالت میں جائے جب تصدیق کر رہا ہو.تا کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کے سامان ہوں.تب عیادت کے لئے گئے اور اسے بڑے پیار سے کہا کہ اسلام قبول کر لے.چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کا ایک خادم یہودی لڑکا تھا جو بیمار ہو گیا.رسول کریم ﷺہے اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اسکے سرہانے تشریف فرما ہوئے اور فرمایا تو اسلام قبول کر لے.ایک اور روایت میں ہے اس نے اپنے بڑوں کی طرف دیکھا لیکن بہر حال اس نے اجازت ملنے پر یا خود ہی خیال آنے پر اسلام قبول کر لیا.( صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب : اذا اسلم الصتمی فمات...حدیث نمبر ۱۳۵۶) تو یہ جو اسلام اس نے قبول کیا یہ یقیناً اس پیار کے سلوک اور آزادی کا اثر تھا جو اس لڑکے پر آپ کی غلامی کی وجہ سے تھا کہ یقینا یہ سچاند ہب ہے اس لئے اس کو قبول کرنے میں بچت ہے.کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ یہ سراپا شفقت و رحمت میری برائی کا سوچے.آپ یقینا برحق ہیں اور ہمیشہ دوسرے کو بہترین بات ہی کی طرف بلاتے ہیں، بہترین کام کی طرف ہی بلاتے ہیں، اسی کی تلقین کرتے ہیں.پس یہ آزادی ہے جو آپ نے قائم کی.دنیا میں کبھی اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی.آپ یہ دعویٰ نبوت سے پہلے بھی آزادی ضمیر اور آزادی مذہب اور زندگی کی آزادی پسند فرماتے تھے اور غلامی کو نا پسند فرماتے تھے.چنانچہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کے 32
بعد اپنا مال اور غلام آپ کو دے دیئے تو آپ نے حضرت خدیجہ کو فرمایا کہ اگر یہ سب چیزیں مجھے دے رہی ہو تو پھر یہ میرے تصرف میں ہوں گے اور جو میں چاہوں گا کروں گا.انہوں نے عرض کی اسی لئے میں دے رہی ہوں.آپ نے فرمایا کہ میں غلاموں کو بھی آزاد کر دوں گا.انہوں نے عرض کی آپ جو چاہیں کریں میں نے آپ کو دے دیا، میرا اب کوئی تصرف نہیں ہے، یہ مال آپ کا ہے.چنانچہ آپ نے اسی وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلاموں کو بلایا اور فرمایا کہ تم سب لوگ آج سے آزاد ہو اور مال کا اکثر حصہ بھی غرباء میں تقسیم کر دیا.جو غلام آپ نے آزاد کئے ان میں ایک غلام زید نامی بھی تھے وہ دوسرے غلاموں سے لگتا ہے زیادہ ہوشیار تھے ، ذہین تھے.انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا کہ یہ جو مجھے آزادی ملی ہے یہ آزادی تو اب مل گئی ، غلامی کی جو مہر لگی ہوئی ہے وہ اب ختم ہو گئی لیکن میری بہتری اسی میں ہے کہ میں آپ یہ کی غلامی میں ہی ہمیشہ رہوں.انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ نے مجھے آزاد کر دیا ہے لیکن میں آزاد نہیں ہوتا ہمیں تو آپ کے ساتھ ہی غلام بن کے رہوں گا.چنانچہ آپ آنحضور ﷺ کے پاس ہی رہے اور یہ دونوں طرف سے محبت کا، پیار کا تعلق بڑھتا چلا گیا.زید ایک مالدار خاندان کے آدمی تھے ، اچھے کھاتے پیتے گھر کے آدمی تھے ، ڈاکوؤں نے ان کو اغوا کر لیا تھا اور پھر ان کو بیچتے رہے اور بکتے بکاتے وہ یہاں تک پہنچے تھے تو ان کے جو والدین تھے رشتہ دار عزیز بھی تلاش میں تھے.آخر ان کو پتہ لگا کہ یہ لڑ کا مکہ میں ہے تو مکہ آگئے اور پھر جب پتہ لگا کہ آنحضرت ہوے کے پاس ہیں تو آپ کی مجلس میں پہنچے اور وہاں جا کے عرض کی کہ آپ جتنا مال چاہیں ہم سے لے لیں اور ہمارے بیٹے کو آزاد کر دیں، اس کی ماں کا رورو کے برا حال ہے.تو آپ نے فرمایا کہ میں تو اس کو پہلے ہی آزاد کر چکا ہوں.یہ آزاد ہے.جانا چاہتا ہے تو چلا جائے اور کسی پیسے کی مجھے ضرورت نہیں ہے.انہوں نے کہا بیٹے چلو.بیٹے نے جواب دیا کہ آپ سے مل لیا ہوں اتنا ہی کافی ہے.کبھی موقع ملا تو ماں سے بھی ملاقات ہو جائے گی.لیکن اب میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا.میں تو اب آنحضرت ﷺ کا غلام ہو چکا ہوں آپ سے جدا ہونے کا مجھے سوال نہیں.ماں باپ سے زیادہ محبت اب مجھے آپ مے سے ہے.زید کے باپ اور چچا 33
وغیرہ نے بڑا زور دیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا.زید کی اس محبت کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ زید آزاد تو پہلے ہی تھا مگر آج سے یہ میرا بیٹا ہے.اس صورتحال کو دیکھ کر پھر زید کے باپ اور چا وہاں سے اپنے وطن واپس چلے گئے اور پھر زید ہمیشہ وہیں رہے.(ملخص از دیباچہ تفسیر القرآن مصفقه حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدخلیفہ اسی الثانی صحی۱۱۳) تو نبوت کے بعد تو آپ کے ان آزادی کے معیاروں کو چار چاند لگ گئے تھے.اب تو آپ کی نیک فطرت کے ساتھ آپ پر اترنے والی شریعت کا بھی حکم تھا کہ غلاموں کو ان کے حقوق دو.اگر نہیں دے سکتے تو آزاد کر دو.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی اپنے غلام کو مار رہے تھے تو آنحضرت ﷺ نے دیکھا اور بڑے غصے کا اظہار فرمایا.اس پر ان صحابی نے اس غلام کو آزاد کر دیا.کہا کہ میں ان کو آزاد کرتا ہوں.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم نہ آزاد کرتے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آتے.( صحیح مسلم ، کتاب الایمان.باب صحبة المالک....حدیث نمبر ۴۳۰۸) تو اب دیکھیں یہ ہے آزادی.پھر دوسرے مذہب کے لوگوں کیلئے اپنی اظہار رائے کا حق اور آزادی کی بھی ایک مثال دیکھیں.اپنی حکومت میں جبکہ آپ کی حکومت مدینے میں قائم ہو چکی تھی اس وقت اس آزادی کا نمونہ ملتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کرنے لگے.ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی.مسلمان نے کہا اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر منتخب کر کے فضیلت عطا کی.اس پر یہودی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اور چن لیا.اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا.یہودی شکایت لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر ہوا جس پر آنحضرت ﷺ نے مسلمان سے تفصیل پوچھی اور پھر فرمایا: لَا تُخَيرُونى عَلی مُؤمنی کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو.( بخاری کتاب الخصومات باب مایز کرفی اشخاص والخصومت بین المسلم والیھود) 34
تو یہ تھا آپ کا معیار آزادی، آزادی مذہب اور ضمیر ، کہ اپنی حکومت ہے ، مدینہ ہجرت کے بعد آپ نے مدینہ کے قبائل اور یہودیوں سے امن و امان کی فضا قائم رکھنے کیلئے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یا مسلمانوں کے ساتھ جو لوگ مل گئے تھے، وہ مسلمان نہیں بھی ہوئے تھے ان کی وجہ سے حکومت آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھی.لیکن اس حکومت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ دوسری رعایا ، رعایا کے دوسرے لوگوں کے ، ان کے جذبات کا خیال نہ رکھا جائے.قرآن کریم کی اس گواہی کے باوجود کہ آپ تمام رسولوں سے افضل ہیں، آپ نے یہ گوارا نہ کیا کہ انبیاء کے مقابلہ کی وجہ سے فضا کو مکدر کیا جائے.آپ نے اس یہودی کی بات سن کر مسلمان کی ہی سرزنش کی کہ تم لوگ اپنی لڑائیوں میں انبیاء کو نہ لایا کرو.ٹھیک ہے تمہارے نزدیک میں تمام رسولوں سے افضل ہوں.اللہ تعالیٰ بھی اس کی گواہی دے رہا ہے لیکن ہماری حکومت میں ایک شخص کی دل آزاری اس لئے نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے نبی کو کسی نے کچھ کہا ہے.اس کی میں اجازت نہیں دے سکتا.میرا احترام کرنے کیلئے تمہیں دوسرے انبیاء کا بھی احترام کرنا ہوگا.تو یہ تھے آپ کے انصاف اور آزادی اظہار کے معیار جو اپنوں غیروں سب کا خیال رکھنے کیلئے آپ نے قائم فرمائے تھے.بلکہ بعض اوقات غیروں کے جذبات کا زیادہ خیال رکھا جاتا تھا.انسانی اقدار کو قائم کرنے اور مذہبی رواداری کے لئے آنحضرت ﷺ کا بے مثال عملی نمونہ آپ کے انسانی اقدار قائم کرنے اور آپ کی رواداری کی ایک اور مثال ہے.روایت میں آتا ہے عبدالرحمن بن ابی لیلہ بیان کرتے ہیں کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا.تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے.جب ان کو بتایا گیا کہ یہ ذمیوں میں سے ہے تو دونوں نے کہا کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ احتراماً کھڑے ہو گئے.آپ کو بتایا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے.اس پر رسول کریم تو نے 35
فرمایا کہ اليْسَتْ نَفْسًا کیا وہ انسان نہیں ہے.( صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب من قام بجنازة یہودی) پس یہ احترام ہے دوسرے مذہب کا بھی اور انسانیت کا بھی.یہ اظہار اور یہ نمونے ہیں جن سے مذہبی رواداری کی فضا پیدا ہوتی ہے.یہ اظہار ہی ہیں جن سے ایک دوسرے کے لئے نرم جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یہ جذبات ہی ہیں جن سے پیار، محبت اور امن کی فضا پیدا ہوتی ہے.نہ کہ آجکل کے دنیا داروں کے عمل کی طرح کہ سوائے نفرتوں کی فضا پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے فتح خیبر کے دوران تو رات کے بعض نسخے مسلمانوں کو ملے.یہودی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جائے اور رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کر دو.(السيرة الحلبية، باب ذکر مغازی، غزوہ خیبر.جلد ۳ صفحه ۴۹) باوجود اس کے کہ یہودیوں کے غلط رویہ کی وجہ سے ان کو سزائیں مل رہی تھیں آپ نے یہ برداشت نہیں فرمایا کہ دشمن سے بھی ایسا سلوک کیا جائے جس سے اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے.آنحضور ﷺ کا یہود مدینہ سے امن کا معاہدہ یہ چند انفرادی واقعات میں نے بیان کئے ہیں اور میں نے ذکر کیا تھا کہ مدینہ میں ایک معاہدہ ہوا تھا.اُس معاہدہ کے تحت آنحضرت ﷺ نے جو شقیں قائم فرمائی تھیں، جو روایات پہنچی ہیں ان کا میں ذکر کرتا ہوں کہ کس طرح اس ماحول میں جا کر آپ نے رواداری کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اُس معاشرہ میں امن قائم فرمانے کیلئے آپ کیا چاہتے تھے؟ تاکہ معاشرہ میں بھی امن قائم ہو اور انسانیت کا شرف بھی قائم ہو.مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے یہودیوں سے جو معاہدہ فرمایا اس کی چند شرائط یہ تھیں کہ: 36
1.مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی یا ظلم سے کام نہ لیں گے.(اور باوجود اس کے کہ ہمیشہ اس شق کو یہودی توڑتے رہے مگر آپ احسان کا سلوک فرماتے رہے یہاں تک کہ جب انتہا ہو گئی تو یہودیوں کے خلاف مجبوراً سخت اقدام کرنے پڑے.) 2.دوسری شرط یہ تھی کہ ہر قوم کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی.(باوجود مسلمان اکثریت کے تم اپنے مذہب میں آزاد ہو.) 3 تیسری شرط یہ تھی کہ تمام باشندگان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا سوائے اس کے کہ کوئی شخص ظلم یا جرم کا مرتکب ہو.(اس میں بھی اب کوئی تفریق نہیں ہے.جرم کا مرتکب چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو اس کو بہر حال سزاملے گی.باقی حفاظت کرنا سب کا مشترکہ کام ہے ، حکومت کا کام ہے.) 4.پھر یہ کہ ہر قسم کے اختلاف اور تنازعات رسول اللہ علیہ کے سامنے فیصلہ کیلئے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ خدائی حکم کے مطابق کیا جائے گا“.(اور خدائی حکم کی تعریف یہ ہے کہ ہر قوم کی اپنی شریعت کے مطابق.فیصلہ بہر حال آنحضرت علیہ کے سامنے پیش ہونا ہے کیونکہ اس وقت حکومت کے مقتدر اعلیٰ آپ تھے.اس لئے آپ نے فیصلہ فرمانا تھا لیکن فیصلہ اس شریعت کے مطابق ہوگا اور جب یہودیوں کے بعض فیصلے ایسے ہوئے ان کی شریعت کے مطابق تو اس پر ہی اب عیسائی اعتراض کرتے ہیں یا دوسرے مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ جی ظلم ہوا.حالانکہ ان کے کہنے کے مطابق ان کی شرائط پر ہی ہوئے تھے.) پھر ایک شرط یہ ہے کہ کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہ (ﷺ) کے جنگ کیلئے نہیں نکلے گا اس لئے حکومت کے اندر رہتے ہوئے اس حکومت کا پابند ہونا ضروری ہے.اب یہ جو شرط ہے یہ آجکل کی جہادی تنظیموں کیلئے بھی راہنما ہے کہ جس حکومت میں رہ رہے ہیں اس کی اجازت کے بغیر کسی 37
قسم کا جہاد نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ اس حکومت کی فوج میں شامل ہو جائیں اور پھر اگر ملک لڑے یا حکومت تو پھر ٹھیک ہے.) پھر ایک شرط ہے کہ اگر یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایک دوسرے کی امداد میں کھڑے ہوں گے.(یعنی دونوں میں سے کسی فریق کے خلاف اگر جنگ ہوگی تو دوسرے کی امداد کریں گے اور دشمن سے صلح کی صورت میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو اگر صلح میں کوئی منفعت مل رہی ہے، کوئی نفع مل رہا ہے، کوئی فائدہ ہورہا ہے تو اس فائدہ کو ہر ایک حصہ رسدی حاصل کرے گا.) اسی طرح اگر مدینہ پر کوئی حملہ ہو گا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے.پھر ایک شرط ہے کہ قریش مکہ اور ان کے معاونین کو یہود کی طرف سے کسی قسم کی امداد یا پناہ نہیں دی جائے گی.( کیونکہ مخالفین مکہ نے ہی مسلمانوں کو وہاں سے نکالا تھا.مسلمانوں نے یہاں آکر پناہ لی تھی اس لئے اب اس حکومت میں رہنے والے اس دشمن قوم سے کس قسم کا معاہدہ نہیں کر سکتے اور نہ کوئی مددلیں گے.) ہر قوم اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی“.( یعنی اپنے اپنے خرچ خود کریں گے.) اس معاہدہ کی رو سے کوئی ظالم یا آئم یا مفسد اس بات سے محفوظ نہیں ہو گا کہ اسے سزادی جاوے یا اس سے انتقام لیا جاوے“.(یعنی جیسا کہ پہلے بھی آچکا ہے کہ جو کوئی ظالم ہوگا، گناہ کرنے والا ہوگا غلطی کرنے والا ہو گا.بہر حال اس کو سزا ملے گی ، پکڑ ہوگی.اور یہ بلا تفریق ہوگی ، چاہے وہ مسلمان ہے یا یہودی ہے یا کوئی اور ہے.) (ملخص از سیرت خاتم النبیین ،مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ ۲۷۹) آزادی مذہب اور اہلِ نجران کے لیے امان نامہ پھر اسی مذہبی رواداری اور آزادی کو قائم رکھنے کیلئے آپ نے نجران کے وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی 38
اجازت دی اور انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی عبادت کی.جبکہ صحابہ کا خیال تھا کہ نہیں کرنی چاہئے.آپ نے کہا کوئی فرق نہیں پڑتا.پھر اہل نجران کو جو امان نامہ آپ نے دیا اس کا بھی ذکر ملتا ہے اس میں آپ نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری قبول فرمائی کہ مسلمان فوج کے ذریعہ سے ان عیسائیوں کی (جو نجران میں آئے تھے) سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی.ان کے گرجے ان کے عبادت خانے ، مسافر خانے خواہ وہ کسی دور دراز علاقے میں ہوں یا شہروں میں ہوں یا پہاڑوں میں ہوں یا جنگلوں میں ہوں ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے.ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہوگی اور اُن کی اس آزادی عبادت کی حفاظت بھی مسلمانوں پر فرض ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیونکہ اب یہ مسلمان حکومت کی رعایا ہیں اس لئے اس کی حفاظت اس لحاظ سے بھی مجھ پر فرض ہے کہ اب یہ میری رعایا بن چکے ہیں.پھر آگے ہے کہ اسی طرح مسلمان اپنی جنگی مہموں میں انہیں ( یعنی نصاری کو ) ان کی مرضی کے بغیر شامل نہیں کریں گے.ان کے پادری اور مذہبی لیڈر جس پوزیشن اور منصب پر ہیں وہ وہاں سے معزول نہیں کئے جائیں گے.اسی طرح اپنے کام کرتے رہیں گے.ان کی عبادت گاہوں میں مداخلت نہیں ہوگی وہ کسی بھی صورت میں زیر استعمال نہیں لائی جائیں گی.نہ سرائے بنائی جائیں گی نہ وہاں کسی کو ٹھہرایا جائے گا اور نہ کسی اور مقصد میں ان سے پوچھے بغیر استعمال میں لایا جائے گا.علماء اور راہب جہاں کہیں بھی ہوں ان سے جزیہ اور خراج وصول نہیں کیا جائے گا.اگر کسی مسلمان کی عیسائی بیوی ہو گی تو اسے مکمل آزادی ہوگی کہ وہ اپنے طور پر عبادت کرے.اگر کوئی اپنے علماء کے پاس جا کر مسائل پوچھنا چاہے تو جائے.گرجوں وغیرہ کی مرمت کیلئے آپ نے فرمایا کہ اگر وہ مسلمانوں سے مالی امداد لیں اور اخلاقی امداد لیں تو مسلمانوں کو مدد کرنی چاہئے کیونکہ یہ بہتر چیز ہے اور یہ نہ قرض ہوگا اور نہ احسان ہوگا بلکہ اس معاہدہ کو بہتر کرنے کی ایک صورت ہوگی کہ اس طرح کے سوشل 39
تعلقات اور ایک دوسرے کی مدد کے کام کئے جائیں.تلخیص از زاد المعاد في هدي خير العباده فصل في قدوم وفد نجران ) تو یہ تھے آپ ﷺ کے معیار مذہبی آزادی اور رواداری کے قیام کیلئے.اس کے باوجود آپ پر ظلم کرنے اور تلوار کے زور پر اسلام پھیلانے کا الزام لگانا انتہائی ظالمانہ حرکت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: پس جبکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب نہایت درجہ بدچلن ہو چکے تھے اور بدی کر کے سمجھتے تھے کہ ہم نے نیکی کا کام کیا ہے اور جرائم سے باز نہیں آتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے تو خدا تعالیٰ نے اپنے نبی کے ہاتھ میں عنان حکومت دے کر ان کے ہاتھ سے غریبوں کو بچانا چاہا.اور چونکہ عرب کا ملک مطلق العنان تھا اور وہ لوگ کسی بادشاہ کی حکومت کے ماتحت نہیں تھے اس لئے ہر ایک فرقہ نہایت بے قیدی اور دلیری سے زندگی بسر کرتا تھا“.( کوئی قانون نہیں تھا کیونکہ کسی کے ماتحت نہیں تھے اور چونکہ ان کیلئے کوئی سزا کا قانون نہ تھا.اس لئے وہ لوگ روز بروز جرائم میں بڑھتے جاتے تھے.پس خدا نے اس ملک پر رحم کر کے آنحضرت ﷺ کو اس ملک کیلئے نہ صرف رسول کر کے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآن شریف کو ایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی ، فوجداری ، مالی سب ہدایتیں ہیں.سو آنحضرت ﷺ بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپ سے فیصلہ کراتے تھے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کو سچا کیا اور مسلمان پر اس کے دعوی کی ڈگری کی.(اس کا ذکر میں کر چکا ہوں.پس بعض نادان مخالف جو غور سے قرآن شریف نہیں پڑھتے وہ ہر ایک مقام کو آنحضرت ﷺ کی رسالت کے نیچے لے آتے ہیں حالانکہ ایسی سزائیں خلافت یعنی بادشاہت کی حیثیت سے دی جاتی تھیں“.(یعنی یہ حکومت کا کام ہے.) بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ" کے بعد نبی جدا ہوتے تھے اور بادشاہ جدا ہوتے تھے جو 40
امور سیاست کے ذریعے سے امن قائم رکھتے تھے مگر آنحضرت ﷺ کے وقت میں یہ دونوں عہدے خدا تعالیٰ نے آنجناب.(یعنی آنحضرت ﷺ ہی کو عطا کئے اور جرائم پیشہ لوگوں کو الگ الگ کر کے باقی لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ تھا وہ آیت مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے وَقُلْ لِلَّذِيْنَ ء أوتُوا الْكِتَبَ وَالْأُمِّيِّينَ أَسْلَمْتُمْ - فَإِنْ أَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا - وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ (الجز نمبر سورة آل عمران ) اور اے پیغمبر اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو.پس اگر اسلام قبول کر لیں تو ہدایت پاگئے.اور اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الہی پہنچا دو.اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم ان سے جنگ کرو.اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کیلئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے.اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھا، نہ بحیثیت رسالت.( یعنی کہ جب آپ حکومت کے مقتدر اعلیٰ تھے تب جنگ کرتے تھے اس لئے نہیں کرتے تھے کہ نبی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَاتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا - إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (الجزء نمبر ٢- سورة البقرة) " ( ترجمہ ) تم خدا کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں.یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو.خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“.(چشمه معرفت، روحانی خزائن ، جلد ۲۳ - صفحه ۲۴۲ ۲۴۳) پس جس نبی پاک ﷺ پر یہ شریعت اتری ہے کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے پر اترے ہوئے احکامات کے معاملہ میں زیادتی کرتا ہو.آپ ﷺ نے تو فتح مکہ کے موقع پر بغیر اس شرط کے کہ اگر اسلام میں داخل ہوئے تو امان ملے گی عام معافی کا اعلان کر دیا تھا.اس کی ایک مثال ہم دیکھ بھی چکے ہیں.اس کی مختلف شکلیں تھیں لیکن اس میں یہ نہیں تھا کہ ضرور اسلام قبول کرو گے تو معافی ملے گی.مختلف جگہوں میں جانے اور داخل ہونے اور کسی کے جھنڈے کے نیچے آنے اور خانہ کعبہ میں جانے اور 41
کسی گھر میں جانے کی وجہ سے معافی کا اعلان تھا.اور یہ ایک ایسی اعلیٰ مثال تھی جو ہمیں کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئی.مکمل طور پر یہ اعلان فرما دیا کہ لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم کہ جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے.ہزاروں درود اور سلام ہوں آپ ﷺ پر جنہوں نے اپنے یہ اعلیٰ نمونے قائم فرمائے اور ہمیں بھی اس کی تعلیم عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق دے.“ از خطبه جمعه امارچ ۲۰۰۶ ء - مسجد بیت الفتوح لندن، بحوالہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خاکوں کی حقیقت صفحہ ۹۲-۱۱۱) قیام امن اور غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی اعلیٰ تعلیم اور تجویز مختلف مذاہب اور افراد کے لیے غلط فہمیوں کو دور کرنے اور آپس میں پیار ومحبت اور صلح و صفائی کے ساتھ رہنے کی خاطر حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے جلسہ مذاہب کے انعقاد کی تجویز پیش فرمائی تھی.چنانچہ آپ نے ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقعہ پر اسے یہ تجویز دیتے ہوئے فرمایا کہ: ہاں یہ ضروری ہوگا کہ اس جلسہ مذاہب میں ہر ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے دوسروں سے کچھ تعلق نہ رکھے.“ تحفہ قیصریه، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۷۹) حضور علیہ السلام نے اس کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ بالعموم مذہبی لیڈر اور پادری صاحبان عوام کو غلط باتیں بتاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں اشتعال پھیلتا ہے.آپ مزید فرماتے ہیں کہ : اگر ان میں نیک نیتی ہوتی تو وہ قرآن پر ایسے اعتراض نہ کرتے جو موسیٰ کی توریت پر بھی ہو سکتے ہیں.اگر ان کو خدا کا خوف ہوتا تو وہ ان کتابوں کو اعتراض کے وقت تمسک بہا نہ ٹھہراتے.جو مسلمانوں کے نزدیک غیر مسلم اور یقینی سچائیوں سے خالی ہیں.اس لئے انصاف یہی حکم دیتا ہے کہ اگر سارا یورپ فرشتہ سیرت بھی ہو مگر پادری اس سے مستثنیٰ ہیں.یورپ کے عیسائی جو اسلام کو نفرت اور حقارت کی نظر 42
سے دیکھتے ہیں اس کا یہی سبب ہے کہ قدیم سے یہی پادری صاحبان خلاف واقعہ قصوں کو پیش کر کے تحقیر کا سبق ان کو دیتے چلے آئے ہیں.ہاں میں قبول کرتا ہوں کہ بعض نادان مسلمانوں کا چال چلن اچھا نہیں اور نادانی کی عادات ان میں موجود ہیں.جیسا کہ بعض وحشی مسلمان ظالمانہ خونریزیوں کا نام جہادر کھتے ہیں اور انہیں خبر نہیں کہ رعیت کا عادل بادشاہ کے ساتھ مقابلہ کرنا اس کا نام بغاوت ہے نہ کہ جہاد.اور عہد توڑنا اور نیکی کی جگہ بدی کرنا اور بے گناہوں کو مارنا اس حرکت کا مرتکب ظالم کہلاتا ہے نہ غازی...خدا کا کلام ظالمانہ تلوار اٹھانے والوں کیلئے تلوار کی سزا بیان فرماتا ہے نہ کہ امین قائم کرنے والوں، رعیت پرور اور ہر ایک قوم کو آزادی کے حقوق دینے والوں کی نسبت سرکشی کی تعلیم کرتا ہے.خدا کی کلام کو بدنام کرنا یہ بددیانتی ہے.لہذا انسانوں کی بھلائی کے لئے یہ بات نہایت قرین مصلحت ہے کہ جناب قیصرہ ہند کی طرف سے اصلیت مذاہب شائع کرنے کے لئے جلسہ مذاہب ہو.“ تحفہ قیصریه، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۸-۲۸۱) ہر ایک کی ہمدردی کرنا ہی انسانیت ہے آپ فرماتے ہیں کہ: وہ دین دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہو.اور نہ وہ انسان انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو.ہمارے خدا نے کسی قوم سے فرق نہیں کیا.مثلاً جو جو انسانی طاقتیں اور قو تیں آریہ ورت کی قدیم قوموں کو دی گئی ہیں.وہی تمام قو تیں عربوں اور فارسیوں اور شامیوں اور چینیوں اور جاپانیوں اور یورپ اور امریکہ کی قوموں کو بھی عطا کی گئی ہیں سب کے لئے خدا کی زمین فرش کا کام دیتی ہے اور سب کے لئے اُس کا سورج اور چاند اور کئی اور ستارے روشن چراغ کا کام دے رہے ہیں اور دوسری خدمات بھی بجا لاتے ہیں.اس کی پیدا کردہ عناصر یعنی ہوا اور پانی اور آگ اور خاک اور ایسا ہی اُس کی دوسری تمام پیدا کردہ چیزوں اناج اور پھل اور دوا وغیرہ سے تمام 43
قو میں فائدہ اٹھا رہی ہیں.پس یہ اخلاق ربانی ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہم بھی اپنے بنی نوع انسانوں سے مروت اور سلوک کے ساتھ پیش آویں اور تنگ دل اور تنگ ظرف نہ بنیں.دوستو! یقیناً سمجھو کہ اگر ہم دونوں قوموں میں سے کوئی قوم خدا کے اخلاق کی عزت نہیں کرے گی اور اس کے پاک خلقوں کے برخلاف اپنا چال چلن بنائے گی تو وہ قوم جلد ہلاک ہو جائے گی.اور نہ صرف اپنے تیں بلکہ اپنی ذریت کو بھی تباہی میں ڈالے گی جب سے کہ دُنیا پیدا ہوئی ہے تمام ملکوں کے راستبازیہ گواہی دیتے آئے ہیں کہ خدا کے اخلاق کا پیرو ہونا انسانی بقاء کے لئے ایک آب حیات ہے.اور انسانوں کی جسمانی اور روحانی زندگی اسی امر سے وابستہ ہے کہ وہ خدا کے تمام مقدس اخلاق کی پیروی کرے جو سلامتی کا چشمہ ہیں.“ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۳۹-۴۴۰) کسی مقبول پیغمبر اور مقبول الہامی کتاب کی توہین نہ کی جائے اپنی وفات سے ایک روز قبل تحریر کی جانے والی تقریر بعنوان ”پیغام صلح میں آپ مزید فرماتے ہیں کہ: ”ایسے نازک وقت میں یہ راقم آپ کو صلح کے لئے بلاتا ہے جب کہ دونوں کو صلح کی بہت ضرورت ہے.دنیا پر طرح طرح کے ابتلا نازل ہو رہے ہیں.زلزلے آ رہے ہیں.قحط پڑ رہا ہے اور طاعون نے بھی ابھی پیچھا نہیں چھوڑا.اور جو کچھ خدا نے مجھے خبر دی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دنیا اپنی بد عملی سے باز نہیں آئے گی اور بُرے کاموں سے تو بہ نہیں کرے گی تو دنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی.اور ایک بلا ابھی بس نہیں کرے گی کہ دوسری بلا ظاہر ہو جائے گی.آخر انسان نہایت تنگ ہو جائیں گے کہ یہ کیا ہونے والا ہے.اور بہتیری مصیبتوں کے بیچ میں آکر دیوانوں کی طرح ہو جائیں گے.سواے ہموطن بھائیو! قبل اس کے کہ وہ دن آویں ہوشیار ہو جاؤ.اور چاہیئے کہ ہندو مسلمان باہم صلح کر لیں اور جس قوم میں کوئی زیادتی ہے جو وہ صلح کی مانع ہو اس زیادتی کو وہ قوم چھوڑ دے.ورنہ با ہم عداوت کا تمام گناہ اسی قوم کی گردن پر ہو گا.44
اگر کوئی کہے کہ یہ کیونکر وقوع میں آسکتا ہے کہ صلح ہو جائے.حالانکہ باہم مذہبی اختلاف صلح کے لئے ایک ایسا امر مانع ہے جو دن بدن دلوں میں پھوٹ ڈالتا جاتا ہے.میں اس کے جواب میں یہ کہوں گا کہ در حقیقت مذہبی اختلاف صرف اُس اختلاف کا نام ہے جس کی دونوں طرف عقل اور انصاف اور اُمور مشہودہ پر بنا ہو.ورنہ انسان کو اسی بات کے لئے تو عقل دی گئی ہے کہ وہ ایسا پہلو اختیار کرے جو عقل اور انصاف سے بعید نہ ہو اور امور محسوسہ مشہورہ کے مخالف نہ ہو.اور چھوٹے چھوٹے اختلاف صلح کے مانع نہیں ہو سکتے.بلکہ وہی اختلاف صلح کا مانع ہوگا جس میں کسی کے مقبول پیغمبر اور مقبول الہامی کتاب پر تو ہین اور تکذیب کے ساتھ حملہ کیا جائے.“ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۴۴) اے عزیز و!! قدیم تجربہ اور بار بار کی آزمائش نے اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ مختلف قوموں کے نبیوں اور رسولوں کو تو ہین سے یاد کرنا اور اُن کو گالیاں دینا ایک ایسی زہر ہے کہ نہ صرف انجام کار جسم کو ہلاک کرتی ہے بلکہ رُوح کو بھی ہلاک کر کے دین اور دنیا دونوں کو تباہ کرتی ہے.وہ ملک آرام سے زندگی بسر نہیں کر سکتا جس کے باشندے ایک دوسرے کے رہبر دین کی عیب شماری اور ازالہ حیثیت عرفی میں مشغول ہیں.اور ان قوموں میں ہر گز سچا اتفاق نہیں ہو سکتا جن میں سے ایک قوم یا دونوں ایک دوسرے کے نبی یارشی اور اوتار کو بدی یا بد زبانی کے ساتھ یاد کرتے رہتے ہیں.اپنے نبی یا پیشوا کی ہتک سن کر کس کو جوش نہیں آتا.خاص کر مسلمان ایک ایسی قوم ہے کہ وہ اگر چہ اپنے نبی کو خدایا خدا کا بیٹا تو نہیں بناتی مگر آنجناب گوان تمام برگزیدہ انسانوں سے بزرگ تر جانتے ہیں کہ جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے پس ایک سچے مسلمان سے صلح کرنا کسی حالت میں بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ اُن کے پاک نبی کی نسبت جب گفتگو ہو تو بجر تعظیم اور پاک الفاظ کے یاد نہ کیا جائے.اور ہم لوگ دوسری قوموں کے نبیوں کی نسبت ہر گز بدزبانی نہیں کرتے.بلکہ ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس قدر دنیا میں مختلف قوموں کے لئے نبی آئے ہیں اور کروڑہا لوگوں نے ان کو مان لیا ہے اور دنیا کے کسی ایک حصہ میں اُن کی محبت اور عظمت جاگزیں ہوگئی ہے اور ایک زمانہ دراز اس محبت اور 45
اعتقاد پر گذر گیا ہے تو بس یہی ایک دلیل اُن کی سچائی کے لئے کافی ہے کیونکہ اگر وہ خدا کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ قبولیت کروڑ ہا لوگوں کے دلوں میں نہ پھیلتی خدا اپنے مقبول بندوں کی عزت دوسروں کو ہرگز نہیں دیتا اور اگر کوئی کا ذب اُن کی کرسی پر بیٹھنا چاہے تو جلد تباہ ہوتا اور ہلاک کیا جاتا ہے.“ الصلح خير (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۵۲-۴۵۳) آپ مزید فرماتے ہیں کہ : ”پیارو ! ! صلح جیسی کوئی بھی چیز نہیں.آو ہم اس معاہدہ کے ذریعہ سے ایک ہو جائیں.اور ایک قوم بن جائیں.آپ دیکھتے ہیں کہ باہمی تکذیب سے کسی قدر پھوٹ پڑ گئی ہے.اور ملک کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے.آداب یہ بھی آزمالو کہ با ہمی تصدیق کی کس قدر برکات ہیں.بہترین طریق صلح کا یہی ہے.ورنہ کسی دوسرے پہلو سے صلح کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسا کہ ایک پھوڑے کو جو شفاف اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے اسی حالت میں چھوڑ دیں اور اس کی ظاہری چمک پر خوش ہو جائیں.حالانکہ اس کے اندرسڑی ہوئی اور بد بودار پیپ موجود ہے.“ دین کا اصل مقصد (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۵۶) پیغام صلح ہی میں آپ فرماتے ہیں کہ : ”دین یہ ہے کہ خدا کی منہیات سے پر ہیز کرنا اور اس کی رضامندی کی راہوں کی طرف دوڑنا اور اس کی تمام مخلوق سے نیکی اور بھلائی کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا اور دنیا کے تمام مقدس نبیوں اور رسولوں کو اپنے اپنے وقت میں خدا کی طرف سے نبی اور مصلح ماننا اور اُن میں تفرقہ نہ ڈالنا.اور ہر یک نوع انسان سے خدمت کے ساتھ پیش آنا.ہمارے مذہب کا خلاصہ یہی ہے.مگر جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو 46
بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر نا پاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں.ان سے ہم کیونکر صلح کریں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں.لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے نا پاک حملے کرتے ہیں.خدا ہمیں اسلام پر موت دے.ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جا تا رہے...نہایت افسوس سے آہ کھینچ کر مجھے یہ کہنا پڑا ہے کہ اسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا.اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا.اور تمام دنیا میں یہ فخر خاص قرآن شریف کو حاصل ہے.جس نے دُنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی کہ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (سورة البقرة آيت ۱۳۷) یعنی تم اے مسلمانو! یہ کہو کہ ہم دنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں.اور ان میں تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو ما نہیں اور بعض کو رد کر دیں.اگر ایسی صلح کار کوئی اور الہامی کتاب ہے تو اس کا نام لو.قرآن شریف نے خدا کی عامہ رحمت کو کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا.اسرائیلی خاندان کے جتنے نبی تھے کیا یعقوب اور کیا الحق اور کیا موسیٰ اور کیا داؤد اور کیا عیسی سب کی نبوت کو مان لیا اور ہر ایک قوم کے نبی خواہ ہند میں گذرے ہیں اور خواہ فارس میں کسی کو مکار اور کذاب نہیں کہا بلکہ صاف طور پر کہہ دیا کہ ہر ایک قوم اور لبستی میں نبی گذرے ہیں اور تمام قوموں کے لئے صلح کی بنیاد ڈالی.مگر افسوس کہ اس صلح کے نبی کو ہر یک قوم گالی دیتی ہے اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے.اے ہموطن پیارو! میں نے یہ بیان آپ کی خدمت میں اس لئے نہیں کیا کہ میں آپ کو دکھ دوں یا آپ کی دل شکنی کروں بلکہ میں نہایت نیک نیتی سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن قوموں نے یہ عادت اختیار کر رکھی ہے اور یہ ناجائز طریق اپنے مذہب میں اختیار کر لیا ہے کہ دوسری قوموں کے نبیوں کو بدگوئی اور دشنام دہی کے ساتھ یاد کریں وہ نہ صرف بیجا مداخلت سے جس کے ساتھ ان کے پاس کوئی 47
ثبوت نہیں خدا کے گنہ گار ہیں.بلکہ وہ اس گنہ کے بھی مرتکب ہیں کہ بنی نوع میں نفاق اور دشمنی کا پیج ہوتے ہیں.آپ دل تھام کر اس بات کا مجھے جواب دیں کہ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے یا اس کی ماں پر کوئی تہمت لگاوے تو کیا وہ اپنے باپ کی عزت پر آپ حملہ نہیں کرتا.اور اگر وہ شخص جس کو ایسی گالی دی گئی ہے جواب میں اسی طرح گالی سنا دے تو کیا یہ کہنا بے حل ہوگا کہ بالمقابل گالی دیئے جانے کا در اصل وہی شخص موجب ہے جس نے گالی دینے میں سبقت کی اور اس صورت میں وہ اپنے باپ اور ماں کی عزت کا خود دشمن ہو گا.“ تو بہ کروتا آفتوں سے بچ جاؤ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۵۸-۴۶۰) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام فرماتے ہیں: یادر ہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیروز بر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے.اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام 48
ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ منفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا: وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (سورہ بنی اسرائیل آیت ۱۶) اور تو بہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں.انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہو گا یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں.اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم چشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تاتم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ “ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۸-۲۶۹) اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو کر کوشش کی جائے پس آج احیاء دین کے لئے اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس لانے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کھڑا ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس جری اللہ کو کھڑا کیا 49
ہے اس کے پیچھے چلنے سے اور اس کے دیئے ہوئے براہین اور دلائل سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے بتائے ہیں اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا پوری آب و تاب اور پوری شان و شوکت کے ساتھ دنیا میں لہرائے گا.انشاء اللہ.اور لہراتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اورلوگوں کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام پر کیسے سخت دن ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم فرمایا جو کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرے گا.اس لئے مسلمانوں کو فرمایا کہ اب اپنی ضدیں چھوڑو اور غور کرو کہ کیا اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں بھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں ان کی عزت قائم کرنے کے لئے جوش میں نہیں آیا جبکہ وہ درود بھیجتا ہے؟ اقتباس پورا اس طرح ہے.فرمایا کہ: یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا.میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک دردر کھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے.وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس زمانہ سے بڑھ کر اسلام پر گذرا ہے جس میں اس قدر سب وشتم اور تو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی ہو اور قرآن شریف کی ہتک ہوئی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بے قرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہ رہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کر لیں.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر اسب و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفین اسلام کے منہ بند کر کے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلا تا.جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں کہ اس تو ہین کے وقت میں اس صلوٰۃ کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس 50
سلسلہ کی صورت میں کیا ہے".(ملفوظات، جلد ۳ صفحه ۸-۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) یہ فقرہ دیکھیں کہ اس طرح جماعت احمدیہ پر بہت بڑی ذمہ داری پڑتی ہے جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود کی طرف منسوب کرتے ہیں.پس جہاں ایسے وقت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے یقینا اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر درود بھیجتے ہوں گے بھیج رہے ہوں گے بھیج رہے ہیں.ہمارا بھی کام ہے جنہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور امام الزمان کے سلسلہ اور اس کی جماعت سے منسلک کیا ہوا ہے کہ اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا در و دصدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعا ئیں اس درود کے وسیلہ سے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں.یہ ہے اس پیار اور محبت کا اظہار جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہونا چاہئے اور آپ کی آل سے ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بھی عقل دے، سمجھ دے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرستادہ کو پہنچا نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کی جماعت میں شامل ہوں جو صلح، امن اور محبت کی فضا کو دوبارہ دنیا میں پیدا کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بلند کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کے باوجود آج پھر دیکھ لیں چودہ سو سال کے بعد بھی اسی مہینے میں جب محرم کا مہینہ ہی چل رہا ہے اور اسی سرزمین میں پھر مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے مگرسبق کبھی بھی نہیں سیکھا اور ابھی تک خون بہاتے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور اس عمل سے باز آئیں اور اپنے دل میں خدا کا خوف پیدا کریں اور اسلام کی سچی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.یہ سب کچھ جو یہ کر رہے ہیں زمانہ کے امام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہو رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انکار کی وجہ سے ہو رہا ہے.پس آج ہر احمدی کی ذمہ داری ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جس نے اس زمانہ کے امام کو 51
52 52 پہچانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبے کی وجہ سے بہت زیادہ درود پڑھیں ، دعائیں کریں، اپنے لئے بھی اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی تا کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو تباہی سے بچالے.آنحضرت ﷺ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی دعاؤں میں امت مسلمہ کو بہت جگہ دیں.غیروں کے بھی ارادے ٹھیک نہیں ہیں.ابھی پتہ نہیں کن کن مزید مشکلوں اور ابتلاؤں میں اور مصیبتوں میں ان لوگوں نے گرفتار ہونا ہے اور ان مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑنا ہے.اور کیا کیا منصوبے ان کے خلاف ہورہے ہیں.اللہ ہی رحم کرے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ سیدھے راستے پر چلاتا رہے.اللہ تعالیٰ کے ہم شکر گزار بندے ہوں اور اس کا شکر کریں کہ اس نے ہمیں اس زمانہ کے امام کو ماننے کی توفیق دی ہے.اور اب اس ماننے کے بعد اس کا حق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلانے والا بنائے.“ از خطبه جمعه ۲۴ فروری ۲۰۰۶ء، فرمود و بیت الفتوح لندن، بحوالہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خاکوں کی حقیقت صفحہ ۶۲ - ۶۵)
حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ۲۱ ستمبر ۲۰۱۲ء کے خطبہ جمعہ اور پریس کانفرنس پر عالمی میڈیا کے بعض تبصرے 53
54
Press Dest Ahmadiyya Muslim Jamaat INTERNATIONAL پریس ڈیسک لندن بسم اللہ الرحمن الرحیم 22 ستمبر 2012 مسلمانوں کے عالمی رہنما کی اسلام مخالف فلم کی مذمت احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کا غم وغصہ مکمل طور پر بجا ہے مگر پر شد دردعمل کی مذمت کی جانی چاہئے.جماعت احمد یہ عالمگیر کے سر براہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دُنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات انگیخت کرنے والی فلم Innocence of Muslims کے خلاف احتجاج کیلئے پوری دُنیا کے مسلمانوں کو پُر امن طور پر متحد ہونے کی تلقین فرمائی ہے.آپ نے تجویز دی کہ آزادی اظہار کی حدود مقرر ہونی چاہئیں تا کہ تمام لوگوں کے مذہبی جذبات کی حفاظت ہو سکے.اپنے ہفتہ وار خطبہ جمعہ میں جو آپ نے مسجد بیت الفتوح لندن میں ۲۱ ستمبر کو دیا، آپ نے فرمایا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس فلم نیز ایک مشہور فرانسیسی مجلہ کی طرف سے رسول اکرم ﷺ کے خاکے دوبارہ چھاپنے کے فیصلہ سے بہت صدمہ پہنچا ہے.ذرائع ابلاغ کے نمائندے جن میں بی بی سی نیوز ، بی بی سی نیوز نائٹ، سکائی نیوز، سکائی عربی، رائٹرز، پریس ایسوسی ایشن اور بہت سے دوسرے ادارے بھی شامل ہیں، اس موقعہ پر موجود تھے.انھوں نے خطبہ جمعہ کے بعد حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.اپنے خطاب میں حضور انور نے فرمایا کہ اسلام مخالف فلم اور اس طرح کے دوسرے حملوں کے پیچھے اسلام سے ایک مستقل خوف ہے.آپ نے فرمایا: پس یہ ان کی اسلام کے مقابل ہزیمت اور شکست ہے جو انکو آزادی خیال کے نام پر بیہودگی پر آمادہ کر 55
" رہی ہے." حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے مختلف مسلمان ملکوں میں انتہا پسندوں کی جانب سے پر تشد در عمل کی پر زور مذمت کی.آپ نے فرمایا سفیروں اور دوسرےسفارتی عملہ سمیت بیگناہ لوگوں کو قتل کرنا اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے.آپ نے فرمایا کہ جائدادوں اور عمارات کو نظر آتش کرنا سراسر غلط ہے اور اس سے صرف ان لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے جو اسلام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں.بعض حقوق کو بعض پر ترجیح دینے کے بارہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا : ایسا نہ ہو کہ آزادی اظہار کے نام پر ساری دُنیا کا امن تباہ ہو جائے.“ حضور انور نے عالمی رہنماؤں اور عوام سے بھی کہا کہ ان کو سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ ایسی فلمیں اور خاکے بنانے والے لوگوں کے حق کی ہر قیمت پر حمایت کر کے، جو دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے اور معصوم لوگوں کے لیے باعث تکلیف ہوتے ہیں، دُنیا میں نفرتوں کو ہوا دینے میں کوئی کردار تو نہیں ادا کر رہے.ان اشتعال انگیزیوں پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے حضور انور نے ساری دُنیا کے مسلمانوں کو ایک اجتماعی اور مؤثر جواب دینے کی تلقین فرمائی.آپ نے فرمایا کہ مسلمان حکومتوں اور مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مل کر اسلام اور قرآن کریم کی پرامن تعلیمات کو دُنیا کے سامنے اُجا گر کریں.حضور انور نے انہیں ہمیشہ ہر سطح پر ، اسلام اور آنحضرت ﷺ کے پاکیزہ اخلاق کے دفاع کیلئے متفقہ اور پُر امن موقف اختیار کرنے کی تلقین فرمائی.حضور انور نے فرمایا.پس شدت پسندی اس کا جواب نہیں ہے.اس کا جواب وہی ہے جو میں بتا آیا ہوں کہ اپنے اعمال کی اصلاح اور اس نبی ﷺ پر درود و سلام جو انسانیت کا نجات دہندہ ہے اور دُنیاوی کوششوں کیلئے مسلمان ممالک کا ایک ہونا، مغربی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے ووٹ کی طاقت منوانا.“ 56
حضور انور نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ گذشتہ چند سالوں سے اسلام پر ایسے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، تاہم بعض مسلمانوں کے نامناسب رویے بھی قابل مذمت ہیں.آپ نے مزید فرمایا کہ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اکثر اوقات دوسروں نے فساد کا محرک بننے میں پہل کی ہے.آپ نے اسلام کا صحیح چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جماعت احمدیہ کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ہم احمدی مسلمان دنیا کی خدمت کے لئے کوئی بھی دقیقہ نہیں چھوڑتے.امریکہ میں خون کی ضرورت پڑی گذشتہ سال ہم احمدیوں نے بارہ ہزار بوتلیں جمع کر کے دیں اس سال پھر وہ جمع کر رہے ہیں.آج کل یہ ڈرائیو (Drive) چل رہی تھی.اُن کو میں نے کہا کہ ہم احمدی مسلمان تو زندگی دینے کیلئے اپنا خون دے رہے ہیں اور تم لوگ اپنی ان حرکتوں سے اور ان حرکت کرنے والوں کی ہاں میں ہاں ملا کر ہمارے دل خون کر رہے ہو.“ حضرت خلیفہ اسیح نے آخر پر حضور اکرم نے کی ہتک اور توہین کی تمام تر کوششوں کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: امام الزماں کی یہ بات یادرکھیں کہ ہر فتح آسمان سے آتی ہے اور آسمان نے یہ فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ جس رسول کی تم ہتک کرنے کی کوشش کر رہے ہو اس نے دنیا پر غالب آتا ہے.“ خطبہ جمعہ کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور نے پریس کے نمائندوں کو بتایا کہ مسلمان رسول اکرم ﷺ سے بے مثال محبت کرتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کی محبوب ہستی کا مذاق اُڑایا جائے تو ہر کسی کو تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح حضرت رسول پاک ﷺ پر ہونے والا ہر حملہ تمام مسلمانوں کو زخمی کرتا ہے.مذکورہ فلم کے جاری ہونے کے نتیجہ میں ہونے والے ایک پر تشد داحتجاج کے بارہ میں سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ایسے احتجاج نامناسب تھے اور سفیروں اور سفارتی عملہ سمیت کسی بھی 57
بے گناہ کو قتل کرنا اسلامتی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے.آپ نے فرمایا کہ ہر قسم کے احتجاج قانون کے دائرہ میں رہ کر اور پر امن طریق پر ہونے چاہئیں.58
THE EXPRESS TRIBUNE The Express Tribune September 23, 2012 اسلام دشمن فلم : امام جماعت احمد یہ فرماتے ہیں کہ اسلام دشمن فلم پر مسلمانوں کی طرف سے غم وغصہ ہر لحاظ سے جائز ہے آزادی رائے کے اظہار کی حدود کا تعین کیا جائے تاکہ لوگوں کے مذہبی جذبات کی حفاظت ہو سکے.امام جماعت احمد یہ فرماتے ہیں کہ اسلام دشمن فلم کے حوالے سے مسلمانوں کاغم وغصہ ہر لحاظ سے جائز ہے تا ہم پر تشد در عمل قابل مذمت ہے.مرزا مسرور احمد (امام جماعت احمدیہ) نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں موجود تمام مسلمانوں کو متحد ہو کر اس فلم کے خلاف پر امن احتجاج کرنا چاہئے جس نے تمام عالم اسلام میں شدید دکھ اور غم وغصہ کے جذبات کو انگیخت کیا ہے.مرزا مسرور احمد صاحب نے اس بات کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ آزادی رائے کے اظہار کی حدود کا تعین کیا جائے تاکہ لوگوں کے مذہبی جذبات کی حفاظت کی جاسکے.جاری کردہ بیان میں امام جماعت احمدیہ کا مندرجہ ذیل اقتباس درج کیا گیا ہے: پس یہ ان کی اسلام کے مقابل ہزیمت اور شکست ہے جو انکو آزادی خیال کے نام پر بیہودگی پر آمادہ کر رہی ہے.آزادی اظہار رائے کے نام پر ساری دنیا کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے.انہوں نے متعدد ممالک میں ہونے والے مبینہ پر تشد د رد عمل کی شدید مذمت کی جس کے نتیجہ میں کئی معصوم لوگ جن میں بعض ممالک کے سفیر بھی شامل تھے قتل کیے گئے.انہوں نے فرمایا: املاک کو نقصان پہنچانا اور عمارتوں کو آگ لگا نا قطعانا جائز حرکت ہے اور اس سے کسی بھی فریق کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا.59
THE TIMES OF INDIA Times of India 26 September, 2012 ٹائمز آف انڈیا اپنی ۲۶ ستمبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں رپورٹ کرتا ہے.اسلام مخالف فلم : جماعت احمدیہ امن کا نفرنس منعقد کرے گی امرتسر : جہاں ایک طرف ساری دنیا کے مسلمان متنازعہ فلم Innocence of Muslims جس نے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے، پر شدید غم وغصہ کا اظہار کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف جماعت احمدیہ نے اپنے مرکز قادیان ، ضلع گورداسپور میں ۳۰ ستمبر کو ایک امن کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے.یہ فیصلہ امام جماعت احمد یہ عالمگیر کے اس ارشاد کی تعمیل میں کیا گیا ہے جس میں انہوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں سے اس فلم کے خلاف پر امن طور پر متحد ہو جانے کا مطالبہ کیا ہے.اس فلم کے ٹریلر کی اشاعت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تشدد کی لہر اور معصوم لوگوں کے قتل کے واقعات پر اظہار اختلاف کرتے ہوئے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے متعدد ممالک میں دیکھے جانے والے پر تشد دردعمل کی مذمت کی.انہوں نے فرمایا کہ معصوم لوگوں کو قتل کرنا جن میں ممالک کے سفارتکار بھی شامل ہیں، ایک ایسا عمل ہے جو سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے.جائیدادوں کو نقصان پہنچانا یا عمارتوں کو آگ لگانا قطعا نا جائز حرکت ہے اور اس سے سوائے ان لوگوں کے جو اسلام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں کسی بھی فریق کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم نفرتوں کو ہوا دینے میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں یا ہم ایک اجتماعی اور باشعور رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں.60
آپ نے فرمایا کہ مسلمان حکومتوں اور مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو دنیا میں اسلام اور قرآن کی حقیقی اور امن پسندانہ تعلیمات کے فروغ کے لیے یکجا ہو جانا چاہیے.آپ نے فرمایا: انہیں ہر موقعہ اور مقام پر اسلام اور آنحضرت ﷺ کے پاکیزہ کردار کے دفاع میں ایک متحد اور امن پسندانہ موقف اختیار کرنا چاہیے.جماعت احمدیہ کے پریس کمیٹی کے انچارج مکرم سید طفیل احمد شہباز صاحب نے کہا کہ انہوں نے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ تمام مذاہب کے نمائندوں کو اس امن کا نفرس میں شرکت کی دعوت دی ہے.61
OTTAWA CITIZEN Ottawa Citizen Newspaper September 30, 2012 کینیڈا کا ایک مشہور روزنامہ Ottawa Citizen ۳۰ ستمبر کی اشاعت میں لکھتا ہے.Ottawa کے مسلمان رہنما کی اسلام مخالف فلم کے خلاف فساد کی مذمت Ottawa میں مقیم ایک مسلمان فرقہ کے رہنما نے انتہائی لغو، بے ہودہ اور اشتعال انگیز فلم کے خلاف ایسے پر تشد درد عمل کی مذمت کی ہے جس میں خونی مظاہرے کیے گئے اور Benghazi لیبیا میں قونصل خانہ پر حملہ کے نتیجہ میں ایک امریکی سفیر اور سفارت خانہ کے عملہ کے تین افراد کو قتل کر دیا گیا.Cumberland میں احمدیہ مسلم جماعت کے روحانی مرکز میں ہفتہ کی شام کو ایک اجتماع میں امام امتیاز احمد نے افراد جماعت کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ فلم Innocence of Muslims کے خلاف پر امن طور پر بھی احتجاج کیا جا سکتا ہے.یہ ۴ منٹ دورانیہ کی ایک گھٹیا معیار کی غیر کاروباری فلم ہے جو امریکہ میں تیار کی گئی اور انٹرنیٹ پر ریلیز کی گئی.انہوں نے کہا کہ فلم کے پروڈیوسر نے یہ فلم بنا کر ایک شرمناک ، لغواور بیہودہ فعل کا ارتکاب کیا ہے جس نے تمام عالم اسلام میں بے چینی پیدا کر دی ہے.ہر ایک مسلمان اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہا ہے.وہ جھنڈوں کو جلا کر ، توڑ پھوڑ کر کے اور سفارت خانوں پر حملہ کر کے اپنے غصہ کا اظہار کر رہے ہیں.انہوں نے کہا: کیا وہ (یعنی مظاہرین) یہ سمجھتے ہیں کہ جھنڈوں کو جلا کر اور املاک اور سفارت خانوں کو جلا کر اور سفیر کو قتل کر کے انہوں نے اپنا انتقام لے لیا ہے؟ یقیناً یہ اسلامی تعلیمات کے منافی حرکات ہیں.یہ حقیقی اسلام نہیں ہے.احمدی ایک مسلم اقلیتی فرقہ ہے جو بین المذاہب مکالمہ کا حامی ہے.بقول احمد صاحب 62
Cumberland میں ہونے والے اجتماع میں شرکاء کی تعداد ۵۰۰ تھی.احمد صاحب نے دنیا کے متعدد مسلم رہنماؤں کی طرح بعض لوگوں کے اس موقف کی پر زور تنقید کی جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فلم آزادی اظہار رائے کے اصول کے دائرہ کار میں آتی ہے.احمد صاحب نے کہا کہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والی مقدس ہستی کے بارہ میں ہر طرح کی بیہودہ گوئی کوکسی بھی لحاظ سے آزادی اظہار رائے کا نام نہیں دیا جا سکتا.گزشتہ ہفتہ لندن میں امام جماعت احمد یہ عالمگیر نے تمام مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وہ اس فلم کے خلاف پر امن طور پر متحد ہو جائیں اور انہوں نے فساد کی مذمت کی.حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ مذہبی اعتقادات کی حفاظت کے لیے آزادی اظہار رائے کی کچھ حدود متعین ہونی چاہئیں.انہوں نے فرمایا: اظہار رائے کی آزادی کے نام پر امن عالم کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے.“ مجلس خدام الاحمدیہ Ottawa کے قائد اولیس محمود نے کہا کہ وہ پاکستان میں اپنی فیملی کے افراد کے بارہ میں فکرمند ہیں جہاں AFP کی خبر کے مطابق اس فلم کے نتیجہ میں ہونے والے ہنگاموں میں ۲۱ افراد قتل اور ۲۰۰ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں.محمود صاحب نے کہا کہ اسلام ہمیں وفاداری کا درس دیتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے.پاکستان میں یہ ہو رہا ہے کہ لوگ اپنی ہی املاک کو تباہ کر رہے ہیں اور اپنے ہمسایوں کو نقصان پہنچارہے ہیں.اپنے خیالات کے اظہار کا یہ مناسب طریق نہیں ہے.عورتوں کی تنظیم کی سربراہ یا مین ملک صاحبہ نے ایک پر امن حل تجویز کرتے ہوئے کہا: ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہنگامے کرنا اور جلاؤ گھیراؤ کرنے کے بجائے ہمیں قلم کے ساتھ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانا چاہیے.“ 63
Wandsworth, Wandsworth Guardian UK 24th September 2012 ایک اسلامی پہنما نے فلم کے خلاف ہونے والے ہلاکت خیز مظاہروں کی مذمت کی ہے ایک مذہبی جماعت کے روحانی سربراہ نے جمعہ کے دن ہزاروں افراد کے سامنے جو عبادت گاہ میں ان کا خطاب سننے کے لئے حاضر تھے ایک اسلام دشمن فلم کے خلاف تمام دنیا میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کی مذمت کی.جماعت احمدیہ کے افراد مسجد بیت الفتوح لندن ، مورڈن میں حضرت مرزا مسرور احمد کا خطاب سننے کے لیے جمع ہوئے جو ایک گھنٹہ طویل تھا.پوری دنیا میں براہ راست نشر ہونے والے اپنے اس خطاب میں انہوں نے مظاہرین کے رویہ پر افسوس کا اظہار کیا، اور فرمایا کہ پر امن طریق پر اس فلم کی مذمت کی جانی چاہئے تھی.امریکہ میں تیار کی گئی ایک گھٹیا معیار کی غیر کاروباری فلم Innocence of Muslims کے چودہ منٹ کے اشتہار نے اس ماہ مشرق وسطی ، شمالی افریقہ، ایشیا اور آسٹریلیا میں ہلاکت خیز فساد کو بھڑ کایا ہے.اس فلم کے کئے حصے یوٹیوب پر جاری کئے گئے ہیں جس میں ایک ادا کار حضرت محمد ﷺ کا کردار ادا کر رہا ہے جبکہ یہ حرکت اسلامی دنیا میں سخت حرام کبھی جاتی ہے.یہ بات مسلمانوں کے غصہ کو مزید بھڑ کانے کو موجب بنی ہے کہ اس فلم میں محمد ﷺ کو مختلف عورتوں کے ساتھ (نعوذ باللہ) زنا کرتا ہوئے اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اجازت دیتے ہوئے دکھایا گیا.خطبہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: 64
ہم آنحضرت ﷺ کی شان میں ادنی ترین گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتے.کیا اس بات کو آزادی رائے کا نام دیا جا سکتا ہے کہ کوئی آپ کے سامنے آپ کے باپ کی توہین کرے؟ آپ یقیناً اس قسم کی حرکت پر سخت رد عمل دکھا ئیں گے.آپ نے دوسرے مذاہب کی تحقیر کو خلاف قانون قرار دیئے جانے کی بھی تجویز دی.آپ نے فرمایا کہ پر تشدد مظاہرے کرنے والے یقیناً اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے.یہ سب کچھ قیادت کے فقدان کا نتیجہ ہے.آپ نے مزید فرمایا : دو یہ مسلمان جس طرح احتجاج کر رہے ہیں یہ طریق درست نہیں ہے.“ امریکہ میں تیار کی گئی فلم نے تمام اسلامی دنیا میں مسلمانوں کو خونی فساد پر اکسایا ہے.پاکستان میں جمعہ ۲۱ ستمبر کو ہونے والے پر تشدد مظاہروں میں ۲۱ افراد کو قتل کر دیا گیا تھا.ہفتہ کے روز حکومت پاکستان کے ایک وزیر نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص بھی امریکہ میں بنے والی اس فلم کے پروڈیوسر کوقتل کرے گا وہ اسے ایک لاکھ ڈالر انعام دے گا اور مزید برآں اس نے دہشت گرد تنظیموں مثلاً القاعدہ اور طالبان سے بھی اس فلم بنانے والے کو جواس وقت روپوش ہے پکڑنے میں مدد طلب کی ہے.صدر لجنہ اماءاللہ ناصرہ رحمان نے کہا کہ جماعت احمدیہ کو شدید دکھ پہنچا ہے اور آنحضرت اے کے پاکیزہ کردار کو دھبہ لگانے کی کوشش ایک انتہائی دل شکن فعل ہے.ہمارے دل خون کے آنسورو رہے ہیں.احتجاج کرنے والوں کے بارہ میں انہوں نے کہا کہ یہ مسلمانوں کا کام نہیں کہ وہ اس قسم کی شرارت کرنے والوں کو خود ہی سزا دیں بلکہ اس مسئلہ کے حل کے لیے لوگوں کو خدا سے دعا کرنی چاہیے اور معاملات کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لینا چاہیے.65
99 66 ایک نمازی احمد مرتضی آف پٹنی نے کہا کہ ایسی حرکات کا جواب ایک پر امن اور پر مغز مباحثہ کی صورت میں ہی دیا جانا چاہیے.انہوں نے کہا : حضرت محمد ﷺ سے تمام مسلمان عشق کرتے ہیں اس بات کی ہمیں بچپن سے ہی تعلیم دی جاتی ہے کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو تمام انسانوں سے زیادہ محبوب رکھنا ہے.ہمیں دوسروں کے حقوق کو تلف نہیں کرنا چاہیے.ہر ایک کی آزادی اظہار کا دائرہ کا روہاں ختم ہو جاتا ہے جہاں دوسروں کے جذبات کی حد آ جاتی ہے.جماعت احمدیہ کے افراد خود پاکستان جیسے متشد د اسلامی ممالک میں ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں.کیونکہ وہ اپنے روحانی رہنما ( حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ) کو اسلام میں ظاہر ہونے والا ایک نبی تسلیم کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی اکثریت یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ محمد ﷺ آخری نبی تھے.۲۰۱۰ء میں اسی اخبار نے اس بات سے بھی پردہ اٹھایا تھا کہ جنوبی لندن میں سخت متعصب مذہبی افراد نے احمدیہ فرقہ کے لوگوں کے ساتھ کس طرح علی الاعلان اہانت آمیز اور امتیازی سلوک رکھا اور Tooting میں ان کے ذرائع معاش اور سیاسی امیدواروں کو نشانہ بنایا.اسی سال میں لاہور میں دہشت گردوں نے ۹۳ احمد یوں کو قتل کر دیا جبکہ وہ ایک مسجد میں عبادت کر رہے تھے.ان مقتولین میں Sispara Gardens, Southfields کے رہنے والے محمد اشرف بلال بھی شامل تھے جو اپنے کاروبار کے سلسلہ میں پاکستان گئے ہوئے تھے.
News Track India Mon, 24 September 2012 ANI آزادی اظہار کے نام پر تمام دنیا کا امن برباد نہ ہونے دیا جائے.جماعت احمدیہ کے عالمی سربراہ جماعت احمدیہ پاکستان کے سربراہ نے فرمایا ہے کہ اسلام دشمن فلم کے حوالہ سے مسلمانوں کا غم و غصہ ہر لحاظ سے جائز ہے اسلام آباد ۲۴ ستمبر۲۰۱۲.اے این آئی.جماعت احمد یہ پاکستان کے سر براہ نے فرمایا ہے کہ اسلام دشمن فلم کے حوالہ سے مسلمانوں کا غم وغصہ ہر لحاظ سے جائز ہے تاہم انہوں نے پر تشد در عمل کی مذمت کی.The Express Tribune حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے بیان سے اقتباس درج کرتے ہوئے لکھتا ہے: پس یہ ان (یعنی غیر مسلموں) کی اسلام کے مقابل ہزیمت اور شکست ہے جو انکو آزادی خیال کے نام پر بیہودگی پر آمادہ کر رہی ہے.“ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے کہا کہ دنیا میں موجود تمام مسلمانوں کو متحد ہو کر اس فلم کے خلاف پر امن احتجاج کرنا چاہئے جس فلم نے تمام عالم اسلام میں شدید دکھ اور غم وغصہ کے جذبات کو انگیخت کیا ہے.حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے اس بات کا بھی مطالبہ کیا کہ آزادی رائے کے اظہار کی حدود کا تعین کیا جائے تاکہ لوگوں کے مذہبی جذبات کی حفاظت کی جاسکے.انہوں نے متعدد ممالک میں دیکھے گئے پر تشد درد عمل کی شدید مذمت کی جن کے نتیجہ میں معصوم لوگوں کو جن میں بعض ممالک کے سفیر اور سفارتی عملہ کے ارکان بھی شامل تھے قتل کیا گیا.(اے.این آئی) 67
ایک اسرائیل نژاد امریکی کی بنائی ہوئی فلم نے جس میں محمد رسول اللہ ﷺ کو نعوذ باللہ ) دھوکہ باز، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والا اور عورتوں کے رسیا کے طور پر دکھایا گیا ہے، تمام عالم اسلام میں ایک ہلچل پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں امریکہ کے خلاف پر تشد داور عالمی مظاہرے دیکھنے میں آئے.68
metro Metro News Ottawa, Canada By Graham Lanktree September 28, 2012 مسلم سر براہ کی امن کی اپیل اشتعال انگیز فلم اظہار رائے کی حدوں سے بالا ہے امام جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے ۲۱ ستمبر کو تمام مسلمانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس فلم Innocence of Muslims کے خلاف پر امن طور پر متحد ہو جائیں.ایک غیر کاروباری فلم جس میں مسلمانوں کے مذہب پر سخت تنقید کی گئی ہے، کے خلاف کئی ہفتوں سے جاری پر تشدد مظاہروں کے بعد Ottawa کی ایک مسلم جماعت ہفتہ کے روز ایک اجتماع میں اس تشدد کو ختم کرنے اور آزادی اظہار رائے کی حدود متعین کرنے کا مطالبہ کرے گی.ایک اسلامی مبلغ اور جماعتی عہدہ دار امتیاز احمد نے کہا: جھنڈے جلانا، املاک کو آگ لگانا اور معصوم لوگوں کو جن میں سفیر بھی شامل ہیں قتل کرنا سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.یقیناً آزادی اظہار رائے اور دوسروں کے جذبات کے احترام کرنے میں انتہائی بار یک حد فاصل ہے.جب ہماری آزادی رائے کے نتیجہ میں دوسروں کے جذبات مجروح ہوں تو ہمیں اس کی ایک حد متعین کرنا چاہیے.امتیاز احمد کے بقول اس پر تشدد رویہ کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے Ottawa میں موجود احمد یہ جماعت جو کہ ایک اقلیتی اسلامی فرقہ ہے اور پاکستان میں امتیازی سلوک کا شکار ہے، کے ۴۰۰ افراد اکٹھے ہوں گے.انہوں نے کہا: 69 69
ایسی حرکات کے خلاف احتجاج کا بہترین طریق یہ ہے کہ ہم خدا سے دعا کے ذریعہ اس کی مدد طلب کریں اور عملی طور بہترین اسلامی نمونہ پیش کریں.تشد د کسی مسئلہ کا حل نہیں.اسی طرح ہم امریکہ میں بنائی جانے والی فلم اور فرانس میں شائع ہونے والے کارٹونوں کی پر زور مذمت کرتے ہیں.جماعت احمدیہ کے روحانی سربراہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے ۲۱ ستمبر کو اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ آزادی اظہار رائے کی حدود متعین ہونی چاہیں تا کہ تمام لوگوں کے مذہبی جذبات کی حفاظت کی جا سکے.امتیاز احد نے کہا کہ ہم کینیڈا کی حکومت کے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی ہوئی ہے حالانکہ ہم اپنے ملک (پاکستان) میں اپنے آپ کو مسلمان بھی نہیں کہہ سکتے.انہوں نے پاکستان میں موجود دو سے پانچ ملین احمدیوں پر ہونے والے متعدد مظالم اور حملوں کا بھی ذکر کیا.انہوں نے کہا: ہر مذہب اپنے نبی کا احترام کرتا ہے.عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں.لیکن بعض وقت جاہل پادری لوگوں کے جذبات کو ذاتی فوائد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں.حضرت محمد ﷺ نے کبھی یہ تعلیم نہیں دی کہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلا جائے اور فساد برپا کیا جائے.“ امتیاز احمد ۲۹ ستمبر بروز ہفتہ شام پانچ بجے مارکیٹ سٹریٹ، کمبرلینڈ میں ایک گفتگو کا اہتمام کریں گے جس میں اس پر تشد درویہ کی مذمت کی جائے گی.70
ONENEWS NEW ZEALAND'S NEWS ایک ٹی وی چینل One News کی رپورٹ....یورپ میں اعتدال پسند مسلم رہنما یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان پر تشدد احتجاجوں سے اپنے علاقہ کو بچائیں.یورپ میں ہمارے نمائندہ Garth Bray کولندن میں ایک مسجد میں داخلہ کی خصوصی اجازت ملی.جیسا کہ ایشیا اور مشرق وسطی میں امریکی جھنڈے جلائے جارہے ہیں اور پیرس میں حضرت محمد کے ننگے کارٹونوں کی اشاعت سے، پر امن رہنے کی تمام اپیلیں بریکار جارہی ہیں اور ایسا ہی برطانیہ میں بھی ہے.مجھے بڑے شوق سے اپنے معتدل خیالات سنانے کے لیے بلایا گیا اور ان دو خاتون نمائندوں کو بھی خوش آمدید کہا گیا.“ خلیفہ نے فلم اور کارٹون بنانے والوں کی مذمت کی اور فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ یقینا ان لوگوں سے جہنم کو بھر دے گا.“ لیکن ساتھ ہی سامعین کو یہ یاد دہانی بھی کروائی کہ یہ ان کا کام نہیں کہ وہ شرارت کرنے والے کو از خودسزا دیتے پھریں.ہم کسی قسم کے فساد اور تشدد پر یقین نہیں رکھتے.آپ نے کبھی یہ نہیں دیکھا ہوگا کہ کوئی احمدی کسی قسم کے احتجاج یا فساد میں ملوث پایا گیا ہو.“ جن لوگوں نے لندن کے جنوب مغرب میں یہ مسجد تعمیر کی ہے ان کا دعوی ہے کہ یہ جنوبی یورپ میں سب سے بڑی مسجد ہے.اس مسجد میں دیا جانے والا خطبہ دنیا کے سینکڑوں ملکوں میں موجود لوگوں نے سنا ہوگا جس میں انہیں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ کارٹونوں اور فلم سے ہونے والی ان کے مذہب کی توہین کا جواب صرف زبان سے دینا ہے.71
لیکن ان کے خلیفہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بہت سے مسلمان اس سے بھی زیادہ پر تشدد احتجاج کرنے پر تلے ہوئے ہیں.انہوں نے کہا: یہ صرف مغرب سے نفرت کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کچھ ایسے لوگ ملوث ہیں جو تشدد کے ذریعہ اپنے پیروکاروں میں اضافہ چاہتے ہیں.یقیناً ایک اقلیتی فرقہ کے رہنما کی حیثیت سے یہ امید نہیں رکھی جاسکتی کہ ان کی نصیحت پر زیادہ لوگ کان دھریں گے یا پیشاور جیسے علاقوں میں یہ نصیحت تشد دکو دبانے میں کسی لحاظ سے مد ثابت ہوگی.72
الْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ [ فضیلت وہ ہے جس کا دشمن بھی معترف ہو ] بائی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ہے کے بارہ میں بعض راہنماؤں ، مؤرخین اور مستشرقین کی چند آراء 73
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غیروں کا خراج عقیدت جارج سیل George Sale ایک مصنف ہیں جنہوں نے انگریزی میں ترجمہ قرآن کیا ہے.ترجمہ سے پہلے ایک لمبا تعارفی مضمون تحریر کیا.جس کے باب To the reader میں Spanhemius کے حوالہ سے لکھتا ہے کہ: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کامل طور پر فطری قابلیتوں سے آراستہ تھے، شکل میں نہایت خوبصورت ، فہیم اور دُور رس عقل والے.پسندیدہ و خوش اطوار.غرباء پرور، ہر ایک سے متواضع.دشمنوں کے مقابلہ میں صاحب استقلال و شجاعت.سب سے بڑھ کر یہ کہ خدائے تعالیٰ کے نام کا نہایت ادب و احترام کرنے والے تھے.جھوٹی قسم کھانے والوں، زانیوں، سفاکوں، جھوٹی تہمت لگانے والوں ، فضول خرچی کرنے والوں، لالچیوں اور جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف نہایت سخت تھے.بردباری، صدقہ و خیرات ، رحم و کرم شکر گزاری، والدین اور بزرگوں کی تعظیم کی نہایت تاکید کرنے والے اور خدا کی حمد و تعریف میں نہایت کثرت سے مشغول رہنے والے تھے.“ (George Sale.To the Reader.In:The Koran: Commonly called the Alkoran of Mohammed.J.B.Lippincott & Co., PA.pp.vi-vii (1860)) ایک مصنف سٹینلے لین پول (Stanley Lane-Poole) لکھتا ہے کہ: محمد (ﷺ) اپنے آبائی شہر مکہ میں جب فاتحانہ داخل ہوئے اور اہل مکہ آپ کے جانی دشمن اور خون کے پیاسے تھے تو اُن سب کو معاف کر دیا.یہ ایسی فتح تھی اور ایسا پاکیزہ فاتحانہ داخلہ تھا جس کی مثال ساری تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی.(Stanley Lane-Poole.Introduction.In: Speeches and Table Talk of the Prophet Muhammad Macmillan & Co., London.p xlvi (1882)) 75
The Outline of History کے مصنف ہیں پروفیسر ایچ جی ویلز (H.G.Wells) یہ کہتے ہیں: ”پیغمبر اسلام کی صداقت کا یہی بڑا ثبوت ہے کہ جو آپ کو سب سے زیادہ جانتے تھے ، وہی آپ پر سب سے پہلے ایمان لائے...حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہرگز جھوٹے مدعی نہ تھے...اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام میں بڑی خوبیاں اور باعظمت صفات موجود ہیں.پیغمبر اسلام نے ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس میں ظلم اور سفا کی کا خاتمہ کیا گیا.“ (H.G.Wells.Part II: Muhammad and Islam.In: The Outline of History.University of Michigan Library., MI.p 269 (1920)) ڈی لیسی اولیری (De Lacy O'Leary) اپنی کتاب اسلام ایٹ دی کراس روڈز Islam at the Cross roads) میں لکھتا ہے کہ: تاریخ نے اس بات کو کھول کر رکھ دیا ہے کہ شدت پسند مسلمانوں کا دنیا پر فتح پالینا اور تلوار کی نوک پر مقبوضہ اقوام میں اسلام کو نافذ کر دینا تاریخ دانوں کے بیان کردہ قصوں میں سے فضول ترین اور عجیب ترین قصہ ہے.“ (De Lacy O'Leary.Islam at the Crossroads.Kegan Paul., London, p.8 (1923)) پھر مہاتما گاندھی ایک جریدہ Young India میں لکھتے ہیں کہ : میں اُس شخص کی زندگی کے بارہ میں سب کچھ جانا چاہتا تھا جس نے بغیر کسی اختلاف کے لاکھوں پر حکومت کی.اُس کی زندگی کا مطالعہ کر کے میرا اس بات پر پہلے سے بھی زیادہ پختہ یقین ہو گیا کہ اسلام نے اُس زمانے میں تلوار کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں بنائی بلکہ اس پیغمبر کی سادگی ، 76
اپنے کام میں مگن رہنے کی عادت، انتہائی باریکیوں کے ساتھ اپنے عہدوں کو پورا کرنا اور اپنے دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ انتہائی عقیدت رکھنا، بیباک و بے خوف ہونا اور خدا کی ذات اور اپنے مشن پر کامل یقین ہونا، اس کی یہی باتیں تھیں جنہوں نے ہر مشکل پر قابو پایا اور جوسب کو ساتھ لے کر چلیں.جب میں نے اس پیغمبر کی سیرت کے متعلق لکھی جانے والی کتاب کی دوسری جلد بھی ختم کر لی تو مجھ پر اس کتاب کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اداسی طاری ہوگئی.“ (Mahatma Gandhi.Young India.September 23rd 1924) سر جان بگٹ گلب Sir John Bagot Glubb جو لیفٹیننٹ جنرل تھے.1986ء میں ان کی وفات ہوئی.یہ لکھتے ہیں کہ: قاری اس کتاب کے آخر پر جو بھی رائے قائم کرے اس بات کا انکار ممکن نہیں کہ محمد (ع) کے روحانی تجربات اپنے اندر پرانے اور نئے عہد ناموں کے قصوں اور عیسائی بزرگوں کے روحانی تجربات سے حیران کن حد تک مشابہت رکھتے ہیں.اسی طرح ممکن ہے کہ ہندؤں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے افراد کے ان گنت رؤیا اور کشوف سے بھی مشابہت رکھتے ہوں.مزید یہ کہ اکثر اوقات ایسے تجربات تقدس اور فضیلت والی زندگی کے آغاز کی علامت ہوتے ہیں.ایسے واقعات کو نفسانی دھو کہ قرار دینا کوئی موزوں وضاحت معلوم نہیں ہوتی کیونکہ یہ واقعات تو بہت سے لوگوں میں مشترک رہے ہیں.ایسے لوگ جن کے درمیان ہزاروں سالوں کا فرق اور ہزاروں میلوں کے فاصلے تھے.جنہوں نے ایک دوسرے کے بارے میں سنا تک نہ ہوگا لیکن اس کے باوجود ان کے واقعات میں ایک غیر معمولی یکجائی پائی جاتی ہے.یہ رائے معقول نہیں کہ ان تمام افراد نے حیران کن حد تک مشابہ رویا اور کشوف اپنے طور پر ہی بنالئے ہوں.باوجود اس کے کہ یہ افراد ایک دوسرے کے وجود ہی سے نابلد تھے.“ 77
پھر جن لوگوں نے ہجرت حبشہ کی تھی اُن کے بارے میں لکھتا ہے : ” اس فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تقریباً تمام وہ افراد شامل تھے جو کہ اسلام قبول کر چکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے متشدد باسیوں کے درمیان یقیناً بہت کم پیروکاروں کے ساتھ رہ گئے تھے.یہ ایک ایسی حالت ہے جو ثابت کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی جرات اور ایمان کی مضبوطی کے اعلیٰ معیار پر قائم تھے.(John Bagot Glubb.The Life and Times of Muhammad.Hodder & Stoughton.1970 (reprint 2002)) History of the ✓✓ ✓ John William Draper intellectual Development of Europe میں لکھتے ہیں کہ : 'Justinian کی وفات کے چار سال بعد 569 عیسوی میں مکہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نے تمام شخصیات میں سب سے زیادہ بنی نوع انسان پر اپنا اثر چھوڑا اور وہ شخص محمد ہے ( ع ) جسے بعض یورپین لوگ جھوٹا کہتے ہیں لیکن محمد (ﷺ) کے اندر ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے کئی قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوا.وہ ایک تبلیغ کرنے والے سپاہی تھے.ممبر فصاحت سے پُر ہوتا.میدان میں اترتے تو بہادر ہوتے.اُن کا مذہب صرف یہی تھا کہ خدا ایک ہے.اس سچائی کو بیان کرنے کے لئے انہوں نے نظریاتی بحثوں کو اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے پیروکاروں کو صفائی ،نماز اور روزہ جیسے امور کی تعلیم دیتے ہوئے اُن کی معاشرتی حالتوں کو عملی رنگوں میں بہتر بنایا.اُس شخص نے صدقہ و خیرات کو باقی تمام کاموں پر فوقیت دی.“ (John William Draper, M.D., L.L.D.A History of the Intellectual Development of Europe.Harper and Brothers Publishers., NY.P.244 (1863)) 78
ایک مشہور مستشرق ہیں William Montgomery، اپنی کتاب Muhammad at Madina میں لکھتے ہیں کہ: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اسلام کی ابتدائی تاریخ پر جتنا غور کریں، اتنا ہی آپ کی کامیابیوں کی وسعت کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے.اُس وقت کے حالات نے آپ کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے.گویا آپ اُس زمانے کے لئے موزوں ترین انسان تھے.اگر آپ کے پاس دوراندیشی حکومت کرنے کی انتظامی صلاحیتیں، تو کل علی اللہ اور اس بات پر یقین کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے، نہ ہوتا تو انسانی تاریخ میں ایک اہم باب رقم ہونے سے رہ جاتا.مجھے امید ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سیرت کے متعلق یہ کتاب ایک عظیم الشان ابن آدم کو سمجھنے اور اُس کی قدر کرنے میں مدد کرے گی.“ (William Montgomery Watt.Muhammad at Madina Oxford University Press.pp.335 (1981)) مشہور عیسائی مورخ Reginald Bosworth Smith لکھتا ہے کہ: مذہب اور حکومت کے رہنما اور گورنر کی حیثیت سے پوپ اور قیصر کی دو شخصیتیں حضرت محمد (ع) کے ایک وجود میں جمع تھیں.آپ پوپ تھے مگر پوپ کی طرح ظاہر داریوں سے پاک.آپ قیصر تھے مگر قیصر کے جاہ وحشمت سے بے نیاز.اگر دنیا میں کسی شخص کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ اُس نے با قاعدہ فوج کے بغیر محل شاہی کے بغیر اور لگان کی وصولی کے بغیر صرف خدا کے نام پر دنیا میں امن اور انتظام قائم رکھا تو وہ صرف حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں.آپ کو اس ساز وسامان کے بغیر ہی سب طاقتیں حاصل تھیں.“ (Rev.Bosworth Smith.Character of Mohammad.In:MOHAMMAD AND MOHAMMADANISM Smith, Elder & Co., London.p.235 (1876)) 79
یہی Bosworth Smith اپنی کتاب Muhammed and Muhammedanism میں لکھتا ہے کہ: آپ کے مشن کو سب سے پہلے قبول کرنے والے وہ لوگ تھے جو آپ (ع) کو اچھی طرح جانتے تھے.مثلاً آپ کی زوجہ، آپ کا غلام، آپ کا چچا زاد بھائی اور آپ کا پرانا دوست، جس کے بارے میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا تھا کہ اسلام کے داخل ہونے والوں میں سے وہ واحد انسان تھا جس نے کبھی اپنی پیٹھ نہیں موڑی تھی اور نہ ہی وہ کبھی پریشان ہوا تھا.عام پیغمبروں کی طرح حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی قسمت معمولی نہ تھی کیونکہ آپ کی عظمت کا انکار کرنے والے صرف وہی لوگ ہیں جنہیں آپ کی ذات کا صحیح علم حاصل نہیں تھا.“ (ایضاً صفحہ 127) یہی مصنف آگے لکھتا ہے کہ : وہ رسوم و رواج جن سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا، نہ صرف آپ نے ان کی ممانعت فرمائی بلکہ اُن کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیا.جیسے انسانی قربانیاں چھوٹی بچیوں کے قتل، خونی جھگڑے، عورتوں کے ساتھ غیر محدود شادیاں، غلاموں کے ساتھ نہ ختم ہونے والے ظلم و ستم ، شراب نوشی اور جو ابازی.یہ سلسلہ بلا روک ٹوک عرب اور اس کے ہمسائے ملکوں میں جاری رہتا.اور آپ نے ان سب کو ختم کر دیا.“ پھر یہی آگے لکھتا ہے کہ: ( ایضاً صفحہ 125) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے مقصد کی سچائی اور نیکی میں عمیق ترین ایمان رکھ کر جو کچھ کیا تھا، کوئی دوسرا شخص اس میں گہرے یقین کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا“.وہ کہتا ہے کہ: (ایضاً صفحہ 127) 60 80
آپ کی زندگی کا ہر واقعہ آپ کو ایسا حقیقت پسند اور پُر جوش انسان ثابت کرتا ہے جو اپنے مسلمہ عقائد اور نظریات تک آہستہ آہستہ تکالیف برداشت کرتے ہوئے پہنچنے کی کوشش کرتا ہے.“ (ایضا صفحہ 127) پھر مزید لکھتا ہے کہ: یہ کہنا کہ عرب کو انقلاب کی ضرورت تھی یا بالفاظ دیگر یہ کہنا کہ نئے پیغمبر کے ظہور کا وقت آ گیا تھا.اگر ایسا ہی تھا تو پھر حضرت محمد ہی وہ پیغمبر کیوں نہ ہوں؟ اس موضوع پر موجودہ زمانے کے مصنف سپر نگر نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آمد سے سالہا سال قبل ایک پیغمبر کے ظہور کی توقع بھی تھی اور پیشگوئی بھی تھی.66 پھر آگے یہی Bosworth ہی بیان کرتا ہے کہ: ( ایضاً صفحہ 133) مجموعی طور پر مجھے یہ حیرانی نہیں کہ حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) مختلف حالات میں کتنے بدل گئے تھے.بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ آپ کی شخصیت میں کتنی کم تبدیلی پیدا ہوئی تھی.صحرائی گلہ بانی کے ایام میں شامی تاجر کے طور پر، غار حرا کی خلوت گزینی کے ایام میں ، اقلیتی جماعت کے مصلح کی حیثیت سے، مدینہ میں جلا وطنی کے ایام میں ، ایک مسلمہ فاتح کی حیثیت سے، یونانی بادشاہوں اور ایرانی ہر قلوں کے ہم مرتبہ ہونے کی حالت میں ہم آپ کی شخصیت میں ایک غیر متزلزل استقلال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں.“ کہتا ہے کہ : " مجھے نہیں لگتا کہ اگر کسی اور آدمی کے خارجی حالات اس قدر زیادہ بدل جاتے تو کبھی اُس کی ذات میں اس قدر کم تبدیلی رونما ہوتی.حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خارجی حالات تو تبدیل ہوتے رہے مگر ان تمام حالتوں میں مجھے اُن کی ذات کا جو ہر ایک جیسا ہی دکھائی دیتا ہے.“ (ایضاً صفحہ 133 ) واشنگٹن ارونگ ( Washington Irving) اپنی کتاب Life of Mahomet میں لکھتا ہے کہ: آپ کی جنگی فتوحات نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر نہ تو تکبر پیدا کیا، نہ کوئی غرور اور نہ کسی قسم 81
کی مصنوعی شان و شوکت پیدا کی.اگران فتوحات میں ذاتی اغراض ہوتیں تو یہ ضرور ایسا کرتیں.اپنی طاقت کے جو بن پر بھی اپنی عادات اور حلیہ میں وہی سادگی برقرار رکھی جو کہ آپ کے اندر مشکل ترین حالات میں تھی.یہاں تک کہ اپنی شاہانہ زندگی میں بھی اگر کوئی آپ کے کمرہ میں داخل ہوتے وقت غیر ضروری تعظیم کا اظہار کرتا تو آپ اسے ناپسند فرماتے.“ (Washington Irving.The Life of Mahomet Bernard Tauchnitz,.Leipzig.pp.272-3(1850)) سرولیم میور (Sir William Muir) اپنی کتاب Life of Mahomet میں لکھتا ہے کہ : اپنا ہر ایک کام مکمل کرتے اور جس کام کو بھی ہاتھ میں لیتے جب تک اس کو ختم نہ کر لیتے اُسے نہ چھوڑتے.معاشرتی میل جول میں بھی آپ کا یہی طریق رہتا.جب آپ کسی کے ساتھ بات کرنے کے لئے اپنا رخ موڑتے تو آپ آدھا نہ مڑتے بلکہ پورا چہرہ اور پورا جسم اُس شخص کی طرف پھیر لیتے.کسی سے مصافحہ کرتے وقت آپ اپنا ہاتھ پہلے نہ کھینچتے.اسی طرح کسی اجنبی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے درمیان میں نہ چھوڑتے اور اگلے شخص کی بات پوری سنتے.آپ کی زندگی پر آپ کی خاندانی سادگی غالب تھی.آپ کو ہر کام خود کرنے کی عادت تھی.جب بھی آپ صدقہ دیتے تو سوالی کو اپنے ہاتھ سے دیتے.گھریلو کام کاج میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے.پھر لکھتا ہے: آپ تک ہر کس و ناکس کی پہنچ ہوتی جیسے دریا کی پہنچ کنارے تک ہوتی ہے.باہر سے آئے ہوئے وفود کو عزت و احترام سے خوش آمدید کہتے.ان وفود کی آمد اور دیگر حکومتی معاملات کے متعلق تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر ایک قابل حکمران کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں.سب 82
سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے.“ پھر یہی ولیم میورلکھتا ہے کہ: ایک اہم خوبی وہ خوش خلقی اور وہ خیال تھا جو آپ اپنے معمولی سے معمولی پیروکار کا رکھا کرتے.حیا، شفقت، صبر ، سخاوت، عاجزی آپ کے اخلاق کے نمایاں پہلو تھے اور ان کے باعث آپ اپنے ماحول میں ہر شخص کو اپنا گرویدہ کر لیتے.انکار کرنا آپ کو نا پسند تھا.اگر کسی سوالی کی فریاد پوری نہ کر پاتے تو خاموش رہنے کو ترجیح دیتے.کبھی یہ نہیں سنا کہ آپ نے کسی کی دعوت رڈ کی ہو خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو.اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ آپ نے کسی کا پیش کیا ہوا تحفہ رد کر دیا ہوخواہ وہ کتناہی چھوٹا کیوں نہ ہو.آپ کی ایک نرالی خوبی یہ تھی کہ آپ کی محفل میں موجود ہر شخص کو یہ خیال ہوتا کہ وہی اہم ترین مہمان ہے.اگر آپ کسی کو اپنی کامیابی پر خوش پاتے تو گرمجوشی سے اس سے مصافحہ کرتے اور گلے لگاتے اور محروموں اور تکلیف میں گھرے افراد سے بڑی نرمی سے ہمدردی کا اظہار کرتے.بچوں سے بہت شفقت سے پیش آتے اور راہ کھیلتے بچوں کو سلام کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے.وہ قحط کے ایام میں بھی دوسروں کو اپنے کھانے میں شریک کرتے اور ہر ایک کی آسانی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہتے.ایک نرم اور مہربان طبیعت آپ کے تمام خواص میں نمایاں نظر آتی تھی.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک وفادار دوست تھا.اس نے ابوبکر سے بھائی سے بڑھ کر محبت کی.علی سے پدرانہ شفقت کی.زید، جو آزاد کردہ غلام تھا، کو اس شفیق نبی سے اس قدر لگاؤ تھا کہ اس نے اپنے والد کے ساتھ جانے کی بجائے مکہ میں رہنے کو ترجیح دی.اپنے نگر ان کا دامن پکڑتے ہوئے اس نے کہا، میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا ، آپ ہی میرے ماں اور باپ ہیں.دوستی کا یہ تعلق زید کی وفات تک رہا اور پھر زید کے بیٹے اسامہ سے بھی اس کے والد کی وجہ سے آپ نے ہمیشہ بہت مشفقانہ سلوک کیا.عثمان اور عمر بھی آپ سے ایک خاص تعلق رکھتے تھے.آپ نے حدیبیہ کے مقام پر بیعت رضوان کے وقت اپنے محصور داماد کے دفاع کے لئے جان تک دینے کا جو عہد کیا وہ اسی سچی دوستی کی ایک مثال ہے.دیگر بہت سے مواقع ہیں جو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی غیر متزلزل 83
محبت کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں.کسی بھی موقع پر یہ محبت بے محل نہ تھی، بلکہ ہر واقعہ اسی گرمجوش محبت کا آئینہ دار ہے.“ پھر لکھتا ہے کہ: اپنی طاقت کے عروج پر بھی آپ منصف اور معتدل رہے.آپ اپنے اُن دشمنوں سے نرمی میں ذرہ بھی کمی نہ کرتے جو آپ کے دعاوی کو بخوشی قبول کر لیتے.مکہ والوں کی طویل اور سرکش ایذارسانیاں اس بات پر منتج ہونی چاہئے تھیں کہ فاتح مکہ اپنے غیظ وغضب میں آگ اور خون کی ہولی کھیلتا.لیکن محمد (ﷺ) نے چند مجرموں کے علاوہ عام معافی کا اعلان کر دیا اور ماضی کی تمام تلخ یادوں کو یکسر بھلا دیا.ان کے تمام استہزاء، گستاخیوں اور ظلم و ستم کے باوجود آپ نے اپنے سخت ترین مخالفین سے بھی احسان کا سلوک کیا.مدینہ میں عبد اللہ اور دیگر منحرف ساتھی جو کہ سالہا سال سے آپ کے منصوبوں میں روکیں ڈالتے اور آپ کی حاکمیت میں مزاحم ہوتے رہے، ان سے در گزر کرنا بھی ایک روشن مثال ہے.اسی طرح وہ نرمی جو آپ نے اُن قبائل سے برتی جو آپ کے سامنے سرنگوں تھے.اور قبل ازیں جو فتوحات میں بھی شدید مخالف رہے تھے، ان سے بھی نرمی کا سلوک فرمایا “ (Sir William Muir.Life of Muhammad.(Volume IV).Smith, Elder and Company., London.pp.303-307 (1861)) پھر یہی ولیم میورلکھتا ہے کہ: یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی سچائی کے لئے ایک تائیدی نشان تھا کہ جو بھی آپ پر اول اول ایمان لائے وہ اعلیٰ کردار کے مالک تھے.بلکہ آپ کے قریبی دوست اور گھر کے افراد بھی ، جو کہ آپ کی ذاتی زندگی سے اچھی طرح واقف تھے آپ کے کردار میں وہ خامیاں نہ دیکھ سکے جو عام طور پر ایک منافق دھوکہ باز کے گھریلو تعلق اور باہر کے رویہ میں ہوتی ہیں.“ (Sir William Muir.Life of Muhammad.(Volume II).Smith, Elder and Company., London.pp.97-8 (1861)) 84
سرٹامس کارلائل Sir Thomas Carlyle آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے متعلق لکھتے ہیں کہ : ایک اور بات ہمیں ہرگز بھولنی نہیں چاہئے کہ اُسے کسی مدرسہ کی تعلیم میسر نہ تھی.اس چیز کو جسے ہم سکول لرنگ (School Learning) کہتے ہیں، ایسا کچھ بھی نہیں تھا.لکھنے کا فن تو عرب میں بالکل نیا تھا.یہ رائے بالکل سچی معلوم ہوتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کبھی خود نہ لکھ سکا.اس کی تمام تر تعلیم صحراء کی بود و باش اور اس کے تجربات کے گرد گھومتی ہے.اس لا محدود کائنات، اپنے تاریک علاقہ اور اپنی انہی مادی آنکھوں اور خیالات سے وہ کیا کچھ حاصل کر سکتے تھے؟ مزید حیرت ہوتی ہے جب دیکھا جائے کہ کتابیں بھی میسر نہ تھیں.عرب کے تاریک بیابان میں سنی سنائی باتوں اور اپنے ذاتی مشاہدات کے علاوہ وہ کچھ بھی علم نہ رکھتے تھے.وہ حکمت کی باتیں جو آپ سے پہلے موجود تھیں یا عرب کے علاوہ دوسرے علاقہ میں موجود تھیں، ان تک رسائی نہ ہونے کے باعث وہ آپ کے لئے نہ ہونے کے برابر تھیں.ایسے حکام اور علماء میں سے کسی نے اس عظیم انسان سے براہِ راست مکالمہ نہیں کیا.وہ اس بیابان میں تن تنہا تھے اور یونہی قدرت اور اپنی سوچوں کے محور میں پروان چڑھا.“ (Thomas Carlyle.On Heroes, Hero-Worship and the Heroic in History Wiley and Putnam., NY.p.47 (1846)) پھر آپ کی شادی کے بارے میں اور آپ کے گھر یلو تعلقات کے بارہ میں لکھتا ہے کہ: وہ کیسے خدیجہ کا ساتھی بنا؟ کیسے ایک امیر بیوہ کے کاروباری امور کا مہتم بنا اور سفر کر کے شام کے میلوں میں شرکت کی؟ اُس نے یہ سب کچھ کیسے کر لیا؟ ہر ایک کو بخوبی علم ہے کہ اُس نے یہ انتہائی وفاداری اور مہارت کے ساتھ کیا.خدیجہ ( رضی اللہ عنہا) کے دل میں اُن کا احترام اور ان کے لئے شکر کے جذبات کیونکر پیدا ہوئے ؟ ان دونوں کی شادی کی داستان ، جیسا کہ عرب کے مصنفین نے ذکر کیا ہے، بڑی دلکش اور قابل فہم ہے.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عمر 25 سال تھی اور خدیجہ کی عمر 40 سال تھی.“ 85
پھر لکھتا ہے کہ: "معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس محسنہ کے ساتھ انتہائی پیار بھری، پرسکون اور بھر پور زندگی بسر کی.وہ خدیجہ سے حقیقی پیار کرتے تھے اور صرف اُسی کے تھے.اس کو جھوٹا نبی کہنے میں یہ حقیقت روک ہے کہ آپ نے زندگی کا یہ دور اس انداز سے گزارا کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.یہ دور انتہائی سادہ اور پُر سکون تھا یہاں تک کہ آپ کی جوانی کے دن گزر گئے.“ (Thomas Carlyle.On Heroes, Hero-Worship and the Heroic in History Wiley and Putnam., NY.p.48 (1846)) پھر Thomas Carlyle ہی لکھتے ہیں کہ: ہم لوگوں یعنی عیسائیوں میں جو یہ بات مشہور ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک پرفن اور فطرتی شخص اور جھوٹے دعویدار نبوت تھے اور ان کا مذہب دیوانگی اور خام خیالی کا ایک تو وہ ہے، اب یہ سب باتیں لوگوں کے نزدیک غلط ٹھہرتی چلی جاتی ہیں.کہتا ہے ” جو جھوٹ باتیں متعصب عیسائیوں نے اس انسان کی نسبت بنائی تھیں اب وہ الزام قطعاً ہماری روسیاہی کا باعث ہے اور جو باتیں اس انسان نے اپنی زبان سے نکالی تھیں، بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ آدمیوں کے لئے بمنزلہ ہدایت کے قائم ہیں اس وقت جتنے آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتقاد رکھتے ہیں اس سے بڑھ کر اور کسی کے کلام پر اس زمانے کے لوگ یقین نہیں رکھتے.میرے نزدیک اس خیال سے بدتر اور ناخدا پرستی کا کوئی دوسرا خیال نہیں ہے کہ ایک جھوٹے آدمی نے یہ مذہب پھیلایا.“ (Thomas Carlyle.On Heroes, Hero-Worship and the Heroic in History.Wiley and Putnam., NY.pp.60-1 (1846)) ایک فرنچ فلاسفر لا مانٹین (Lamartine) اپنی کتاب History of Turkey میں لکھتا ہے کہ: گر کسی شخص کی قابلیت کو پرکھنے کیلئے تین معیار مقرر کئے جائیں کہ اس شخص کا مقصد کتنا عظیم ہے، 86
اُس کے پاس ذرائع کتنے محدود ہیں اور اُس کے نتائج کتنے عظیم الشان ہیں تو آج کون ایسا شخص ملے گا جو محمد (ع) سے مقابلہ کرنے کی جسارت کرے.دنیا کی شہرہ آفاق شخصیات نے صرف چند فوجوں، قوانین اور سلطنتوں کو شکست دی.اور انہوں نے محض دنیاوی حکومتوں کا قیام کیا اور اُن میں سے بھی بعض طاقتیں اُن کی آنکھوں کے سامنے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئیں.مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے نہ صرف دنیا کی فوجوں، قوانین ، حکومتوں، مختلف اقوام اور نسلوں بلکہ دنیا کی کل آبادی کے ایک تہائی کو یکجا کر دیا.مزید برآں اُس نے قربانگاہوں، خداؤں، مذاہب، عقائد، افکار اور روحوں کی تجدید کی.محمد (ﷺ) کی بنیاد صرف ایک کتاب تھی جس کا حرف حرف قانون بن گیا.اُس شخص نے ہر زبان اور ہر نسل کو ایک روحانی تشخص سے نوازا.“ پھر لکھتا ہے: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک فلسفہ دان ، خطیب، پیغمبر، قانون دان، جنگجو، افکار پر فتح پانے والا، عقلی تعلیمات کی تجدید کرنے والا، بیسیوں ظاہری حکومتوں اور ایک روحانی حکومت کو قائم کرنے والا شخص تھا.انسانی عظمت کو پرکھنے کا کوئی بھی معیار مقرر کر لیں، کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے بڑھ کر کبھی کوئی لیم شخص پیدا ا پیدا ہوا؟ (A.De Lamartine.History of Turkey (English Translation).D.Appleton & Co., NY.p.154-155 (1855-7)) جان ڈیون پورٹ (John Davenport) لکھتا ہے کہ: کیا یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ جس شخص نے حقیر و ذلیل بت پرستی کے بدلے، جس میں اُس کے ہم وطن یعنی اہل عرب مبتلا تھے، خدائے برحق کی پرستش قائم کر کے بڑی بڑی ہمیشہ رہنے والی اصلاحیں کیں، وہ جھوٹا نبی تھا؟ کیا ہم اس سرگرم اور پُر جوش مصلح کو فریبی ٹھہرا سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے شخص کی تمام کارروائیاں مکر پر بنی تھیں؟ نہیں ، ایسا نہیں کہہ سکتے.بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بجز دلی 87
نیک نیتی اور ایمانداری کے اور کسی سبب سے ایسے استقلال کے ساتھ ابتدائے نزول وحی سے اخیر دم تک مستعد نہیں رہ سکتے تھے.جو لوگ ہر وقت اُن کے پاس رہتے تھے اور جو اُن سے بہت کچھ ربط ضبط رکھتے تھے اُن کو بھی کبھی آپ کی ریا کاری کا شبہ نہیں ہوا.“ (John Davenport.An Apology for Mohammed and the Koran J.Davy & Sons., London.p.139 (1869)) پھر لکھتا ہے کہ: ” یہ بات یقینی طور پر کامل سچائی کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر مغربی شہزادے مسلمان مجاہدین اور ترکوں کی جگہ ایشیا کے حکمران ہو گئے ہوتے تو مسلمانوں کے ساتھ اس مذہبی رواداری کا سلوک نہ کرتے جو مسلمانوں نے عیسائیت کے ساتھ کیا.کیونکہ عیسائیت نے تو اپنے ان ہم مذہبوں کو نہایت تعصب اور ظلم کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا جن کے ساتھ اُن کے مذہبی اختلافات تھے.“ (ايضاً صفحه 82) پھر یہی جان ڈیون پورٹ لکھتا ہے کہ: ”اس میں کچھ شبہ نہیں کہ تمام منصفوں اور فاتحوں میں ایک بھی ایسا نہیں جس کی سوانح حیات محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سوانح حیات سے زیادہ مفصل اور سچی ہو.66 (ايضاً صفحه 82) پھر مائیکل ایچ ہاٹ ( Michael H.Hart) اپنی کتاب A Ranking of the Most Influential Persons in History میں لکھتے ہیں کہ : دنیا پر اثر انداز ہونے والے لوگوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نام پہلے نمبر کیلئے منتخب کرنا بعض پڑھنے والوں کو شاید حیرت زدہ کرے اور بعض اس پر سوال بھی اُٹھائیں گے.لیکن تاریخ میں وہ واحد خص تھا جو کہ مذہبی اور دنیاوی ہر دو سطح پر انتہائی کامیاب تھا.“ (Michael H.Hart.THE 100: A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY.Carol publishing group., p.3.) 88
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی اس بات کا کیسے اندازہ کرے کہ انسانی تاریخ پر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کس طرح اثر انداز ہوئے؟ دیگر مذاہب کی طرح اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے.یہی وجہ ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے عظیم مذاہب کے بانیوں کو اس کتاب میں اہم مقام دیا گیا ہے.“ لکھتا ہے کہ: ایک اندازہ کے مطابق دنیا میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے دو گنا ہے.اس لحاظ سے محمد (ع) کو عیسی سے پہلے رکھنا شاید آپ کو عجیب لگے.لیکن میرے اس فیصلہ کے پیچھے دو بڑی وجوہات ہیں.پہلی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کے فروغ میں عیسی (علیہ السلام) کے کردار کی نسبت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اسلام کے فروغ میں کہیں زیادہ اہم کردار تھا.گو کہ عیسی (علیہ السلام ) ہی عیسائیت کے روحانی اور اخلاقی ضابطہ حیات کے موجب ہوئے مگر عیسائیت کو فروغ دینے کے حوالہ سے سینٹ پال نے بنیادی کردار ادا کیا.عیسائیت کو موجودہ شکل دینے والا اور نئے عہد نامہ کے ایک بڑے حصے کو لکھنے والا سینٹ پال ہی تھا.“ پھر لکھتا ہے: ” جبکہ مذہب اسلام اور اس میں موجود تمام اخلاقی و مذہبی اصولوں کے ذمہ دار محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس نئے مذہب کو خود شکل دی اور اسلامی تعلیمات کے نفاذ میں بنیادی کردار ادا کیا.علاوہ ازیں مسلمانوں کے مقدس صحیفہ یعنی قرآن جو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بصیرت پر مشتمل ایک کتاب تھی کو بھی لکھنے وال محمد تھا.“ کہتا ہے کہ "جس کے بارے میں وہ ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن پر وحی کیا گیا.قرآن کے ایک بڑے حصہ کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زندگی میں ہی نقل کر کے محفوظ کر لیا گیا تھا.اور آپ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کو مجموعہ کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا.اس لئے قرآن محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تعلیمات اور تصورات کی حقیقی عکاسی کرتا ہے اور ایک مکتبہ فکر 89
کے مطابق وہ آپ کے ہی الفاظ ہیں.جبکہ عیسی (علیہ السلام) کی تعلیمات کا اس طرح سے کوئی مجموعہ نہیں ہے.مسلمانوں کے نزدیک قرآن کی وہی اہمیت ہے جو عیسائیوں کے نزدیک بائبل کی ہے.اس لئے قرآن کے ذریعہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) لوگوں پر بھر پور طریق سے اثر انداز ہوئے.اغلب گمان یہی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اسلام پر زیادہ اثر ہے بہ نسبت اس اثر کے جو عیسی (علیہ السلام ) اور سینٹ پال نے مجموعی طور پر عیسائیت پر ڈالا.خالصتاً مذہبی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو محمد (ﷺ) بھی انسانی تاریخ پر اتناہی اثر انداز ہوئے جتنا کہ عیسی (علیہ السلام) - (ایضاً صفحہ 9-8) کیرن آرم سٹرانگ ( Karen Armstrong) اپنی کتاب Muhammad - A Biography of the Prophet میں تحریر کرتی ہے کہ: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بنیادی توحید پر مبنی روحانیت کے قیام کے لئے عملاً صفر سے کام کا آغاز کرنا پڑا.جب آپ نے اپنے مشن کا آغاز کیا تو ناممکن تھا کہ کوئی آپ کو اپنے مشن پر کام کرنے کا موقع فراہم کرتا.عرب قوم تو حید کے لئے بالکل تیار نہ تھی.وہ لوگ ابھی اس اعلیٰ معیار کے نظریہ کے قابل نہ ہوئے تھے.در حقیقت اس متشدد اور خوفناک معاشرہ میں اس نظریہ کو متعارف کروانا انتہائی خطر ناک ہوسکتا تھا اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) یقیناً بہت ہی خوش قسمت ہوتے اگر اس معاشرہ میں اپنی زندگی کو بچا پاتے.در حقیقت محمد کی جان اکثر خطرہ میں گھری رہتی اور ان کا بچ جانا قریب قریب ایک معجزہ تھا، پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی کامیاب ہوئے.اپنی زندگی کے اختتام تک محمد (ﷺ).قبائلی تشدد کی پرانی روایت کا قلع قمع کر دیا اور عرب معاشرہ کے لئے لادینیت کوئی مسئلہ نہ رہا.اب عرب قوم اپنی تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کے لئے تیار تھی.(Karen Armstrong.Muhammad - A Biography of the Prophet.Harper Collins Publishers., NY.p.53-54 (1993)) 90
پھر کیرن آرم سٹرانگ ہی لکھتی ہیں کہ : آخر یہ مغرب ہی تھا نہ کہ اسلام، جس نے مذہبی مباحثات پر پابندی لگائی.صلیبی جنگوں کے وقت تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یورپ دوسروں کے نظریات کو دبانے کی آرزو میں جنونی ہو چکا تھا اور جس جوش سے اس نے اپنے مخالفین کو سزائیں دی ہیں ، مذہب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی.اختلاف رائے کرنے والوں پر مظالم Protestants پر Catholics کے مظالم اور اسی طرح Catholics پر Protestants کے مظالم کی بنیاد اُن پیچیدہ مذہبی عقائد پر تھی جن کی اجازت یہودیت اور اسلام نے ذاتی معاملات میں اختیاری طور پر دی ہے.عیسائی ملحدانہ عقائد کا یہودیت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں جن کے مطابق الوہیت کے بارے میں انسانی تصورات کو نا قابلِ قبول حد تک لے جاتا ہے بلکہ اسے مشرکانہ بنادیتا ہے.“ (ایضاً صفحہ 27) اپنی بسانٹ (Annie Besant) اپنی کتاب The Life and Teachings of Muhammad میں لکھتی ہے کہ: ایک ایسے شخص کیلئے جس نے عرب کے عظیم نبی کی زندگی اور اس کے کردار کا مطالعہ کیا ہو اور جو جانتا ہو کہ اُس نبی نے کیا تعلیم دی اور کس طرح اُس نے اپنی زندگی گزاری، اس کیلئے ناممکن ہے کہ وہ خدا کے انبیاء میں سے اس عظیم نبی کی تعظیم نہ کرے.میں جو باتیں کہہ رہی ہوں اُن کے متعلق بہت لوگوں کو شاید پہلے سے علم ہو گا لیکن میں جب بھی ان باتوں کو پڑھتی ہوں تو مجھے اس عربی استاد کی تعظیم کیلئے ایک نیا احساس پیدا ہوتا ہے اور اُس کی تعریف کا ایک نیا رنگ نظر آتا ہے.“ (Annie Besant.The Life and Teachings of Muhammad Theosophical Publishing House., India.p.4 (1932)) 91
ہیں کہ: روتھ کرینسٹن (Ruth Cranston) اپنی کتاب World Faith میں لکھتی محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی بھی جنگ یا خونریزی کا آغاز نہیں کیا.ہر جنگ جو انہوں نے لڑی ، مدافعانہ تھی.وہ اگر لڑے تو اپنی بقا کو برقرار رکھنے کے لئے اور ایسے اسلحے اور طریق سے لڑے جو اُس زمانے کا رواج تھا.یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ چودہ کروڑ عیسائیوں میں سے جنہوں نے حال ہی میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کو ایک بم سے ہلاک کر دیا ہو، کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو ایک ایسے لیڈر پر شک کی نظر ڈال سکے جس نے اپنی تمام جنگوں کے بدترین حالات میں بھی صرف پانچ یا چھ سو افراد کو تہ تیغ کیا ہو.عرب کے نبی کے ہاتھوں ساتویں صدی کے تاریکی کے دور میں جب لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہوں، ہونے والی ان ہلاکتوں کا آج کی روشن بیسویں صدی کی ہلاکتوں سے مقابلہ کرنا ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں.اس بیان کی تو حاجت ہی نہیں جو قتل انکوزیشن (Inquisition) اور صلیبی جنگوں کے زمانے میں ہوئے جب عیسائی جنگجوؤں نے اس بات کوریکارڈ کیا کہ وہ ان بے دینوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے درمیان ٹخنے ٹخنے خون میں پھر رہے تھے.“ (Ruth Cranston.World Faith.Harper and Row Publishers., NY.P.155 (1949)) گاڈ فرے ہیکنز (Godfrey Higgins) لکھتے ہیں کہ: اس بات سے زیادہ عام طور پر کوئی بات سننے میں نہیں آتی کہ عیسائی پادری محمد (ﷺ) کے مذہب کو اُس کے تعصب اور غیر رواداری کی وجہ سے گالیاں دیتے ہیں، عجیب یقین دہانی اور منافقت ہے یہ.کون تھا جس نے سپین سے ان مسلمانوں کو جو عیسائی ہو چکے تھے، بھگایا تھا کیونکہ وہ بچے عیسائی نہ تھے ؟ اور کون تھا جس نے میکسیکو اور پیرو میں لاکھوں لوگوں کو تہ تیغ کر دیا تھا اور اُن کو غلام بنالیا تھا کیونکہ وہ عیسائی نہ تھے ؟ اور کیا ہی عمدہ اور مختلف نمونہ تھا جو مسلمانوں نے یونان میں دکھایا.صدیوں تک 92
عیسائیوں کو ان کے مذہب، اُن کے پادریوں ، لاٹ پادریوں اور راہبوں اور اُن کے گرجا گھروں کو اپنی جاگیر پر پُر امن طور سے رہنے دیا.“ (Godfrey Higgins.Apology for Mohammed.Lahore.pp.123-4 (1829)) پھر یہی Godfrey Higgins آگے لکھتے ہیں کہ: خلفائے اسلام کی تمام تر تاریخ میں انکوزیشن (Inquisition) جیسی بدنام چیز سے نصف سے بھی کم بد نام چیز ہمیں نہیں ملتی.کوئی ایک واقعہ بھی کسی کو مذہبی اختلاف کی بنا پر جلا دینے یا کسی کو محض اس وجہ سے موت کی سزا دینے کا نہیں ہوا کہ مذہب اسلام کو قبول کیوں نہیں کرتا ؟“ (ایضاً صفحہ 52) ایڈورڈ گین (Edward Gibbon) اپنی کتاب History of the Saracen Empire میں لکھتے ہیں کہ : " آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کی تبلیغ کے بجائے اُس کا دوام ہماری حیرت کا موجب ہے.حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مکہ اور مدینہ میں جو خالص اور مکمل نقش جمایا وہ بارہ صدیوں کے انقلاب کے بعد بھی قرآن کے انڈین، افریقی اور ترک نو معتقدوں نے ابھی تک محفوظ رکھا ہوا ہے.مریدان محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے مذہب اور عقیدت کو ایک انسان کے تصور سے باندھنے کی آزمائش اور وسوسے کے مقابل پر ڈٹے رہے.اسلام کا سادہ اور نا قابل تبدیل اقرار یہ ہے کہ میں ایک خدا اور خدا کے رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لاتا ہوں.خدا کی یہ ذہنی تصویر بگڑ کر مسلمانوں میں کوئی قابلِ دید ہت نہیں بنی.پیغمبر اسلام کے اعزازات نے انسانی صفت کے معیار کی حدود سے تجاوز نہیں کیا اور ان کے زندہ فرمودات نے ان کے پیروکاروں کے شکر اور جذبہ احسان کو عقل اور 93 33
مذہب کی حدود کے اندر رکھا ہوا ہے.“ (Edward Gibbon, Simon Oakley.History of the Saracen Empire.Alex Murray & Son., London.P.54 (1870)) مزید معلومات ہماری ویب سائٹ www.alislam.org سے حاصل فرما سکتے ہیں 94