Language: UR
حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنی زندگی میں مختلف اغراض و ضروریات کے پیش نظر کسی تحریک ، تلقین ، تجویز ، وضاحت یا چیلنج پر مبنی چھوٹے بڑے اشتہارات شائع کرواکر لوگوں تک پہنچائے، ان کو بعد میں تبلیغ رسالت کے عنوان سے کتابی شکل دی گئی، بعد ازاں یہی مواد نسبتاً بہتر پیشکش اور اضافوں کے ساتھ مجموعہ اشتہارات کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔
۲۲۱ اپنی جماعت کے لیے ایک ضروری اشتہار بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ چونکہ مسلمانانِ ہند پر علی العلوم اور مسلمانانِ پنجاب پر بالخصوص گورنمنٹ برطانیہ کے بڑے بڑے احسانات ہیں.لہذا مسلمان اپنی اس مہربان گورنمنٹ کا جس قدر شکریہ ادا کریں اتنا ہی تھوڑا ہے کیونکہ مسلمانوں کو ابھی تک وہ زمانہ نہیں بھولا جبکہ وہ سکھوں کی قوم کے ہاتھوں ایک دہکتے ہوئے تنور میں مبتلا تھے اور ان کے دستِ تعدّی سے نہ صرف مسلمانوں کی دنیاہی تباہ تھی بلکہ ان کے دین کی حالت اس سے بھی بد تر تھی.دینی فرائض کا ادا کرنا تو درکنار بعض اذان نماز کہنے پر جان سے مارے جاتے تھے.ایسی حالت زار میں اللہ تعالیٰ نے دُورسے اس مبارک گورنمنٹ کو ہماری نجات کے لئے ابرِ رحمت کی طرح بھیج دیاجس نے ان کو نہ صرف اُن ظالموں کے پنجہ سے بچایا بلکہ ہر طرح کا امن قائم کر کے ہر قسم کے سامانِ آسایش مہیا کئے اور مذہبی آزادی یہاں تک دی کہ ہم بلا دریغ اپنے دین متین کی اشاعت نہایت خوش اسلوبی سے کرسکتے ہیں.ہم نے عید الفطر کے موقع پر اس مضمون پر مفصل تقریر کی تھی جس کی مختصر کیفیت تو انگریزی اخباروں میں جا چکی ہے اور باقی مفصل کیفیت عنقریب حبّی فِی اللّٰہ مرزاخدا بخش صاحب شائع کرنے والے ہیں.ہم نے اس مبارک عید کے موقع پر گورنمنٹ کے احسانات کا ذکر کر کے اپنی جماعت کو جو اس گورنمنٹ سے دلی اخلاص رکھتی اور دیگر لوگوں کی طرح منافقانہ زندگی بسر کرنا گناہ عظیم سمجھتی ہے
توجہ دلائی کہ سب لوگ تہ دل سے اپنی مہربان گورنمنٹ کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جنگ میں جوٹر نسوال میں ہو رہی ہے فتح عظیم بخشے اور نیز یہ بھی کہا کہ حق اللہ کے بعد اسلام کا اعظم ترین فرض ہمدردی خلایق ہے اور بالخصوص ایسی مہربان گورنمنٹ کے خادموں سے ہمدردی کرنا کارِ ثواب ہے جو ہماری جانوں اور مالوں اور سب سے بڑھ کر ہمارے دین کی محافظ ہے.اس لئے ہماری جماعت کے لوگ جہاں جہاں ہیں اپنی توفیق اور مقدور کے موافق سرکاربرطانیہ کے ان زخمیوں کے واسطے جو جنگ ٹرانسول میں مجروح ہوئے ہیں چندہ دیں.لہذا بذریعہ اشتہار ہذا اپنی جماعت کے لوگوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ہر اک شہر میں فہرست مکمل کر کے اور چندہ کو وصول کر کے یکم مارچ سے پہلے مرزا خدا بخش صاحب کے پاس بمقام قادیان بھیج دیں کیونکہ یہ ڈیوٹی ان کے سپرد کی گئی ہے.جب آپ کا روپیہ معہ فہرستوں کے آ جائے گا تو اس فہرست چندہ کو اس رپورٹ میں درج کیاجائے گا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ہماری جماعت اس کام کو ضروری سمجھ کر بہت جلد اس کی تعمیل کرے.والسّلام راقـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم میرزا غلام احمد از قادیان ۱۰ ؍فروری ۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ( یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے ) (روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۶۲۴،۶۲۵.تبلیغ رسالت جلد۹ صفحہ ۱،۲)
۲۲۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد جہاد کے مسئلہ کی فلاسفی اور اس کی اصل حقیقت ایسا ایک پیچیدہ امر اور دقیق نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کے باعث سے اس زمانہ اور ایسا ہی درمیانی زمانہ کے لوگوںنے بڑی بڑی غلطیاں کھائی ہیں اور ہمیں نہایت شرم زدہ ہو کر قبول کرنا پڑتا ہے کہ ان خطرناک غلطیوں کی وجہ سے اسلام کے مخالفوں کو موقع ملا کہ وہ اسلام جیسے پاک اور مقدس مذہب کو جو سراسر قانون قدرت کا آئینہ اور زندہ خدا کا جلال ظاہر کرنے والا ہے مورد اعتراض ٹھہراتے ہیں.جاننا چاہیے کہ جہاد کا لفظ جُہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا اور معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں میں جو لڑائی کو یُدّہ کہتے ہیںدراصل یہ لفظ بھی جہاد کے لفظ کا ہی بگڑا ہوا ہے.چونکہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے اور تمام زبانیں اسی میں سے نکلی ہیں اس لئے یُدّہ کا لفظ جو سنسکرت کی زبان میں لڑائی پر بولا جاتا ہے دراصل جُہد یا جہاد ہے اور پھرجیم کویا کے ساتھ بدل دیا گیا اور کچھ تصرف کرکے تشدید کے ساتھ بولا گیا.اب ہم اس سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کو جہاد کی کیوںضرورت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے.سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا پڑا تھا اور تمام قومیں اس کی دشمن ہو گئی تھیں جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک نبی یا رسول خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا
ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور با ہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور حسد پیدا ہو جایا کرتا ہے.بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اُس مرد خدا کے ظہور سے ان کی آمدنیوں اوروجاہتوں میں فرق آتا ہے.اُن کے شاگرد اور مرید اُن کے دام سے باہر نکلنا شروع کرتے ہیں کیونکہ تمام ایمانی اور اخلاقی اور علمی خوبیاں اس شخص میں پاتے ہیں جو خدا کی طرف سے پیدا ہوتا ہے.لہٰذا اہل عقل اور تمیز سمجھنے لگتے ہیں کہ جو عزت بخیال علمی شرف اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے اُن عالموںکو دی گئی تھی اب وہ اس کے مستحق نہیں رہے اور جو معزز خطاب اُن کو دیئے گئے تھے جیسے نَجْمُ الاُمّۃ اور شَمْسُ الاُمّۃ اور شَیْخُ المَشَائِخ وغیرہ اب وہ ان کے لئے موزوں نہیں رہے.سو ان وجوہ سے اہل عقل اُن سے مُنہ پھیر لیتے ہیں.کیونکہ وہ اپنے ایمانوں کو ضائع کرنا نہیں چاہتے.ناچار ان نقصانوں کی وجہ سے علماء او رمشائخ کا فرقہ ہمیشہ نبیوں اور رسولوں سے حسد کرتا چلا آیا ہے.وجہ یہ کہ خدا کے نبیوں اور ماموروں کے وقت ان لوگوںکی سخت پردہ دری ہوتی ہے کیونکہ دراصل وہ ناقص ہوتے ہیں اور بہت ہی کم حصہ نور سے رکھتے ہیں اور ان کی دشمنی خدا کے نبیوں اور راستبازوں سے محض نفسانی ہوتی ہے.اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے منصوبے سوچتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ایک پاک دل بندہ کو ناحق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آگئے ہیں اور ان کے اعمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لئے ہر وقت اُن سے سرزد ہوتے رہتے ہیں ان کے دل کی قصور وار حالت کو اُن پر ظاہرکرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی حسد کی آگ کا تیز انجن عداوت کے گڑھوں کی طرف ان کو کھینچے لئے جاتا ہے.یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا.لہٰذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحۂ دنیا سے مٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن کے مخالفوں نے بباعث اس تکبّر
کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں ،مال میں ، کثرتِ جماعت میں ،عزت میں، مرتبت میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اُس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتائو کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا اور اُن کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے.سو اسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رُعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی اُن کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر اُن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شرّ کا ہر گز مقابلہ نہ کرو چنانچہ اُن برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا اُن کے خونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی.خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بار ہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اُس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور اُنہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا.تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُس کا غضب شریروں پر بھڑکا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں مَیں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم
تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے :. ۱؎ یعنی خدا نے اُن مظلوم لوگوںکی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سُن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے.الجزو نمبر۱۷ سورۃ الحج.مگر یہ حکم مختص الزمان والوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے.لیکن افسوس کہ نبوت اور خلافت کے زمانہ کے بعد اس مسئلہ جہاد کے سمجھنے میں جس کی اصل جڑ آیت کریمہ مذکورہ بالا ہے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائیں اور ناحق مخلوق خدا کو تلوار کے ساتھ ذبح کرنا دینداری کا شعار سمجھا گیااور عجیب اتفاق یہ ہے کہ عیسائیوں کو تو خالق کے حقوق کی نسبت غلطیاں پڑیں اور مسلمانوں کو مخلوق کے حقوق کی نسبت.یعنی عیسائی دین میں تو ایک عاجز انسان کو خدا بنا کر اس قادر قیوم کی حق تلفی کی گئی جس کی مانند نہ زمین میں کوئی چیز ہے اورنہ آسمان میں اور مسلمانوں نے انسانوں پر ناحق تلوار چلانے سے بنی نوع کی حق تلفی کی اور اس کا نام جہاد رکھا غرض حق تلفی کی ایک راہ عیسائیوں نے اختیار کی اور دوسری راہ حق تلفی کی مسلمانوں نے اختیار کرلی.اور اس زمانہ کی بدقسمتی سے یہ دونوں گروہ ان دونوںقسم کی حق تلفیوں کو ایسا پسندیدہ طریق خیال کرتے ہیں کہ ہر ایک گروہ جو اپنے عقیدہ کے موافق ان دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی حق تلفی پر زور دے رہا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ گویا وہ اس سے سیدھا بہشت کو جائے گا اور اس سے بڑھ کر کوئی بھی ذریعہ بہشت کا نہیں.اور اگرچہ خدا کی حق تلفی کا گناہ سب گناہوں سے بڑھ کر ہے لیکن اس جگہ ہمارا یہ مقصود نہیں ہے کہ اس خطرناک حق تلفی کا ذکر کریں جس کی عیسائی قوم مرتکب ہے بلکہ ہم اس جگہ مسلمانوں کو اُس حق تلفی پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں جو بنی نوع کی نسبت اُن سے سرزد ہو رہی ہے.یاد رہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہرگز وہ صحیح نہیں ہے اور اس کا نتیجہ ۱؎ الحج : ۴۰،۴۱
بجزاس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پُر جوش وعظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بناویں.اور انسانیت کی تمام پاک خوبیوں سے بے نصیب کر دیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں یقینا جانتاہو ں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون اُن نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس و جہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی اُن سب کا گناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طور پر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خونریزیاں ہیں.یہ لوگ جب حکام وقت کو ملتے ہیں تو اس قدر سلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے طیار ہیں اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اِسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارالحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں اور تھوڑے ہیں جو اس خیال کے انسان نہیں ہیں.یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے بر خلاف ہو اُس کا نام دجال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں.چنانچہ میں بھی مدت سے اِسی فتویٰ کے نیچے ہوں اور مجھے جواس ملک کے بعض مولویوں نے دجّال اور کافر قرار دیا اور گورنمنٹ برطانیہ کے قانون سے بھی بے خوف ہو کر میری نسبت ایک چھپا ہوا فتویٰ شائع کیا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور اس کا مال لوٹنا بلکہ عورتوں کو نکال کر لے جانا بڑے ثواب کا موجب ہے.اس کا سبب کیا تھا؟ یہی تو تھا کہ میرا مسیح موعود ہونا اور اُن کے جہادی مسائل کے مخالف وعظ کرنا اور اُن کے خونی مسیح اور خونی مہدی کے آنے کو جس پر اُن کو لوٹ مارکی بڑی بڑی اُمیدیں تھیں سراسر باطل ٹھہرانا اُن کے غضب اور عداوت کا موجب ہو گیا مگر وہ یاد رکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ اُن کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے اور اِس کا پہلا قدم انسانی ہمدردی کا خون کرنا ہے.یہ خیال اُن کا ہر گز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روا رکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ کہ اب حرام ہو جائے.اِس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں.ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز ان لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیزگار مردوں اورعورتوں او
ر بچوں کو قتل کیا اور ایسے دردانگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے.دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تا ہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مسیح نہ تلوار اٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اُس کی دعا اُس کا حربہ ہوگا اور اُس کی عقدہمت اُس کی تلوار ہوگی وہ صلح کی بنیاد ڈالے گا اور بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا اور اس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہوگا.ہائے افسوس کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کلمہ یَضَعُ الْحَرْب جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا.اور اسی کی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے ۱؎ یعنی اس وقت تک لڑائی کرو جب تک کہ مسیح کا وقت آجائے.یہی تضع الحرب اوزارھاہے.دیکھو صحیح بخاری موجود ہے جو قرآن شریف کے بعد اَصَحُّ الکُتب مانی گئی ہے.اس کو غور سے پڑھو.اے اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو! میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے خدا کے پاک نبی کے نافرمان مت بنو مسیح موعود جو آنے والا تھاآچکا اور اُس نے حکم بھی دیا کہ آئندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کشت و خون کے ساتھ ہوتی ہیں باز آجائو تو اب بھی خونریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے مُنہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے جس نے مجھے قبول کیا ہے وہ نہ صرف ان وعظوں سے مُنہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت بُرا اور موجب غضبِ الہٰی جانے گا.اس جگہ ہمیں یہ بھی افسوس سے لکھنا پڑا کہ جیسا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کی مخفی رکھ کر لوٹ مار اور قتل انسان کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا ہے اِسی طرح دوسری طرف پادری صاحبوں نے بھی یہی کارروائی کی اور ہزاروں رسالے اور اشتہار اردو اور پشتو وغیرہ زبانوں میں چھپوا کر ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں اس مضمون کے شائع کئے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا ہے اور تلوار چلانے کا نام اسلام ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے جہاد ۱؎ محمد : ۵
کی دوگواہیاں پاکر یعنی ایک مولویوں کی گواہی اور دوسری پادریوں کی شہادت اپنے وحشیانہ جوش میں ترقی کی.میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان پادری صاحبوں کو اس خطرناک افتراسے روک دے جس کا نتیجہ ملک میں بے امنی اور بغاوت ہے.یہ تو ممکن نہیں کہ پادریوں کے اِن بے جا افترائوں سے اہل اسلام دین اسلام کو چھوڑ دیںگے ہاں ان وعظوں کا ہمیشہ یہی نتیجہ ہوگا کہ عوام کے لئے مسئلہ جہاد کی ایک یاددہانی ہوتی رہے گی اور وہ سوئے ہوئے جاگ اٹھیں گے.غرض اب جب مسیح موعود آگیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے.اگر مَیںنہ آیا ہوتا تو شائد اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا مگر اب تو میں آگیا اور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا.اس لئے اب مذہبی طور پر تلوار اٹھانے والوں کا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں.جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا او رقرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی کاربند ہو رہے ہیں.یہ اسلامی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ نفس امارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں.مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کرکے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھائو اورصبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا.وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا.اُن کے بچے اُن کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شرّ کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیرخوار بچے ہیں.کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تما م نبیوں کی اُمتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سُن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اِس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذا اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟
ہمارے سیدو مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جان نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبردآزما کوشکست دے دی.ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بُزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سُن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے.بیشک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی اُمت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے اور اگر پہلوں میں سے کسی کے صبر کا قصہ بھی ہم سُنتے ہیں توفی الفوردل میں گذرتا ہے کہ قرائن اِس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب در اصل بُزدلی اور عدمِ قدرت انتقام ہو مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو درحقیقت سپاہیانہ ہنر اپنے اندر رکھتا ہو اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دُکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اُس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اور آپ کے صحابہ سے ظہور میں آئی ہے اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلائوں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس کی دراز مدّت تک لمبا تھا درحقیقت بے نظیر ہے اور اگر کسی کو اس میں شک ہو تو ہمیں بتلاوے کہ گذشتہ را ستبازوں میں اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے؟ اور اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پرکیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی اُن کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کا حکم ہے.غرض ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک کہ آسمان سے حکم مقابلہ آگیا.اب اس قسم کے صبر کی نظیر تم تمام اول اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے
دستیاب کرکے ہمیں بتلائو.حاصل کلام یہ کہ جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شرّ اور اخلاق فاضلہ کا یہ نمونہ ہے جس سے تمام دنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بدبختی اور شامت اعمال ہے جو اب بالکل اس نمونہ کو چھوڑ دیا گیا ہے.جاہل مولویوں نے خدا اُن کو ہدایت دے عوام کا لانعام کو بڑے دھوکے دیئے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قراردے دیا ہے جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے برخلاف ہے.کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے اور ہم اس قدر اس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تاہم ہم نے اُس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجا لانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں.سبحان اللہ! وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوںکی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں اُن کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جائو.پس وہ اِس حکم کو پاکر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے نہ اُن کے بازوئوں میں طاقت.بعض اُن میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کرکے اُن کی ٹانگیں مضبوط طور پر اُن اونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑایا گیا پس وہ اک دم میں ایسے چِر گئے جیسے گاجر یا مولی چیری جاتی ہے.مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا اُن کا شکار ہے.اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اُس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پاکر بندوق کا فیر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں.انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا بلکہ اُن کے نزدیک خواہ نخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے ان میں وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں.کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ نخواہ بغیرثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اُسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل
پاکر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ بے جرم بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جائو اس سے تم بہشت میں داخل ہو جائو گے.افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے و جہ بے تعلق اس پرپستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنادیا.یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے! نادانوں نے جہاد کا نام سُن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے یا محض دیوانگی کے طور پر مرتکب خونریزی کے ہوئے ہیں.ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میںجو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اٹھائی وہ اس وقت اٹھائی گئی کہ جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئے آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں.خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے اور بڑا برداشت کرنے والا ہے.لیکن آخر کار راستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے.مجھے تعجب ہے کہ جبکہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تووہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں.کیوں اُن کے مولوی ان بے جاحرکتوںسے جن سے اسلام بدنام ہوتا ہے اُن کو منع نہیں کرتے.اس گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت کس قدر مسلمانوں کو آرام ہے کیا کوئی اس کو گِن سکتا ہے.ابھی بہتیرے ایسے لوگ زندہ ہوںگے جنہوں نے کسی قدر سکھوں کا زمانہ دیکھا ہوگا.اب وہی بتائیں کہ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں اور اسلام کا کیا حال تھا.ایک ضروری شعار اسلام کا جو بانگ نماز ہے وہی ایک جرم کی صورت میں سمجھا گیا تھا.کیا مجال تھی کہ کوئی اونچی آواز سے بانگ کہتا اور پھر سکھوں کے برچھوں اور نیزوں سے بچ رہتا.تو اب کیا خدا نے یہ بُرا کام کیا جو سکھوں کی بے جا دست اندازیوں سے مسلمانوں کو چھڑایا اور گورنمنٹ انگریزی کی امن بخش حکومت میں داخل کیا اور اس گورنمنٹ کے آتے ہی گویا
نئے سرے پنجاب کے مسلمان مشرف باسلام ہوئے.چونکہ احسان کا عوض احسان ہے اس لئے نہیں چاہیے کہ ہم اس خدا کی نعمت کو جو ہزاروں دعائوں کے بعد سکھوں کے زمانہ کے عوض ہم کو ملی ہے یوں ہی رد کر دیں.اور میں اس وقت اپنی جماعت کو جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پرہیز کریں.مجھے خدا نے جو مسیح موعود کرکے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پرہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجا لائو.اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جائو گے.کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے.سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو.تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو؟ نہیں بلکہ مذہب اُس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے جو خدا میں ہے اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں.خدا کے لئے سب پررحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو.آئومیں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدردِ نوع انسان ہو جائو اور خدا میں کھوئے جائو اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اُتر تے ہیں.مگر یہ ایک دن کا کام نہیں ترقی کرو ترقی کرو.اُس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اول بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیریں تمام میل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہیں.تب صبح اٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے تب وہ میل جو کپڑوں کے اندر تھی اور اُن کا جز بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اٹھاکر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مارکھا کر یکدفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں جیسے ابتدا میں تھے
انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے.یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎ یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے میلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا.دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے.اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے صحیح بخاری کی اُس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یَضَعُ الْحَرْبَ یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا.سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں.دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں.زمین پر صلح پھیلا ویں کہ اسی سے اُن کا دین پھیلے گا اور اِس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا.کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ رُوحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسّط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا.بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوںگے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوںگی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی.تب آخر میں لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو خدا کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا یہ سب غلطیاں تھیں.سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا اپنی توحید کے لئے تم سے زیادہ غیرتمند ہے اور دُعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نافرمانوں میں لکھے جائو.اے حق کے بھوکو اور پیاسو! سُن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتدا سے وعدہ تھا.خدا ان قصوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دور دور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں.ایسا ہی ان دنوں میں ہوگا کیونکہ خدا نے اپنی اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کہ مسیح کی منادی بجلی کی طرح دنیا میں پھر جائے گی یا بلند مینار کے چراغ کی طرح دنیاکے چار گوشہ میں پھیلے گی زمین پر ہر ایک سامان ۱؎ الشّمس : ۱۰
مہیا کر دیا ہے اورریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک کے احسن انتظاموں اور سیرو سیاحت کے سہل طریقوں کو کامل طور پر جاری فرما دیا ہے.سو یہ سب کچھ پیدا کیا گیا تا وہ بات پوری ہو کہ مسیح موعود کی دعوت بجلی کی طرح ہر ایک کنارہ کو روشن کرے گی اور مسیح کا منارہ جس کا حدیثوں میں ذکر ہے دراصل اُس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ مسیح کی ندا اور روشنی ایسی جلد دنیا میں پھیلے گی جیسے اونچے منارہ پر سے آواز اور روشنی دور تک جاتی ہے.اِس لئے ریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک اور تمام اسباب سہولت تبلیغ اور سہولت سفر مسیح کے زمانہ کی ایک خاص علامت ہے جس کو اکثر نبیوں نے ذکر کیا ہے.اور قرآن بھی کہتا ہے ۱؎ یعنی عام دعوت کا زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ ہے وہ۲؎ ہے جب کہ اونٹ بے کار ہو جائیں گے یعنی کوئی ایسی نئی سواری پیدا ہو جائے گی جو اونٹوں کی حاجت نہیں پڑے گی اور حدیث میں بھی ہے کہ یُتْرَکُ الْقَـلَاصُ فَـلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا یعنی اس زمانہ میں اونٹ بے کار ہو جائیں گے اور یہ علامت کسی اور نبی کے زمانہ کو نہیں دی گئی.سو شکر کرو کہ آسمان پر نور پھیلانے کے لئے طیاریاں ہیں.زمین میں زمینی برکات کا ایک جوش ہے یعنی سفر اور حضر میں اور ہر ایک بات میں وہ آرام تم دیکھ رہے ہو جو تمہارے باپ دادوں نے نہیںدیکھے گویا دنیا نئی ہوگئی بے بہار کے میوے ایک ہی وقت میں مل سکتے ہیں.چھ مہینہ کا سفر چند روز میں ہو سکتا ہے.ہزاروں کوسوں کی خبریں ایک ساعت میں آسکتی ہیں ہر ایک کام کی سہولت کے لئے مشینیں اور کلیں موجود ہیں.اگر چاہو تو ریل میں یوں سفر کر سکتے ہو جیسے گھر کے ایک بستان سرائے میں.پس کیا زمین پر ایک انقلاب نہیں آیا؟ پس جبکہ زمین میں ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو گیا اس لئے خدائے قادر چاہتا ہے کہ آسمان میں میں بھی ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو جائے اور یہ دونوں مسیح کے زمانہ کی نشانیاں انہی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو میری کتاب براہین احمدیہ کے ایک الہام میں جو آج سے بیس برس پہلے لکھا گیا پائی جاتی ہیں.اور وہ یہ ۱؎ التکویر : ۵ ۲؎ میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ مسیح موعود اسرائیلی نبی نہیں ہے بلکہ اس کی خو اور طبیعت پر آیا ہے جبکہ توریت میں ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی مثیل موسیٰ قرار دیا گیا ہے تو ضرور تھا کہ موسوی سلسلہ کی مانند محمدی سلسلہ کے اخیر پر بھی ایک مسیح ہو.منہ
ہے یعنی زمین اور آسمان دونوں ایک گٹھڑی کی طرح بند ھے ہوئے تھے جن کے جوہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونو ںکے جوہر ظاہر کر دیئے.۱؎ بالآخر یاد رہے کہ اگرچہ ہم نے اس اشتہار میں مفصل طور پر لکھ دیا ہے کہ یہ موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے کا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد رکھتے ہیں یہ شرعی جہاد نہیں ہے بلکہ صریح خدا اور رسول کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت ہے لیکن چونکہ اس طریق پر پابند ہونے کی بعض اسلامی قوموں میںپرانی عادت ہو گئی ہے اس لئے اُن کے لئے اس عادت کو چھوڑناآسانی سے ممکن نہیں بلکہ ممکن ہے کہ جو شخص ایسی نصیحت کرے اسی کے دشمن جانی ہو جائیں اور غازیانہ جوش سے اُس کا قصہ بھی تمام کرنا چاہیں ہاں ایک طریق میرے دل میں گذرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر امیر صاحب والیِ کابل جن کا رعب افغانوں کی قوموں پر اس قدر ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی پہلے افغانی امیر میں نہیں ملے گی نامی علماء کوجمع کرکے اس مسئلہ جہاد کو معرض بحث میں لاویں اور پھر علماء کے ذریعہ سے عوام کو اُن کی غلطیوں پر متنبہ کریں بلکہ اس ملک کے علماء سے چند رسالے پشتو زبان میں تالیف کراکر عام طور پر شائع کرائیں تو یقین ہے کہ اس قسم کی کارروائی کا لوگوں پر بہت اثر پڑے گا اور وہ جوش جو نادان مُلّا عوام میں پھیلاتے ہیں رفتہ رفتہ کم ہو جائے گا اور یقینا امیر صاحب کی رعایا کی بڑی بدقسمتی ہوگی اگر اس ضروری اصلاح کی طرف امیر صاحب توجہ نہیں کریں گے اور آخری نتیجہ اس کا اُس گورنمنٹ کے لئے خود زحمتیں ہیں جو مُلّا ئوں کے ایسے فتووں پر خاموش بیٹھی رہے کیونکہ آج کل ان مُلّائوں اور مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک ادنیٰ اختلاف مذہبی کی و جہ سے ایک شخص یا ایک فرقہ کو کافر ۱؎ کیا یہ سچ نہیں کہ اس زمانہ میں زمین کی گٹھڑی ایسی کھلی ہے کہ ہزار ہا نئی حقیقتیں اور خواص اور کلیں ظاہر ہوتی جاتی ہیں پھر آسمانی گٹھڑی کیوں بند رہے.آسمانی گٹھڑی کی نسبت گذشتہ نبیوں نے بھی پیشگوئی کی تھی کہ بچے اور عورتیںبھی خدا کا الہام پائیں گی اور وہ مسیح کا زمانہ ہو گا.منہ
ٹھہرا دیتے ہیں اور پھر جو کافروں کی نسبت اُن کے فتوے جہاد وغیرہ کے ہیں وہی فتوے ان کی نسبت بھی جاری کئے جاتے ہیں.پس اس صورت میں امیر صاحب بھی ان فتووں سے محفوظ نہیں رہ سکتے.ممکن ہے کہ کسی وقت یہ ملّالوگ کسی جزوی بات پر امیر صاحب پر ناراض ہو کر اُن کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیں اور پھر اُن کے لئے بھی وہی جہاد کے فتوے لکھے جائیں جو کفارکے لئے وہ لکھا کرتے ہیں پس بلا شبہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں مومن یا کافر بنانا اور پھر اس پر جہاد کا فتویٰ لکھنا ہے ایک خطرناک قوم ہے جن سے امیر صاحب کو بھی بے فکر نہیں بیٹھنا چاہیے اور بلا شبہ ہر ایک گورنمنٹ کے لئے بغاوت کا سرچشمہ یہی لوگ ہیں.عوام بے چارے ان لوگوں کے قابو میں ہیں اور ان کے دلوں کی َکل ان کے ہاتھ میں ہے جس طرف چاہیں پھیر دیں اور ایک دم میں قیامت برپا کر دیں.پس یہ گناہ کی بات نہیں ہے کہ عوام کو ان کے پنجہ سے چھڑا دیا جائے اور خود ان کو نرمی سے جہاد کے مسئلہ کی اصل حقیقت سمجھا دی جائے.اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمان رہزنوں اور ڈاکوئوں کی طرح بن جائیں اور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں اور چونکہ اسلام میں بغیر بادشاہ کے حکم کے کسی طرح جہاد درست نہیں اور اس کو عوام بھی جانتے ہیں.اس لئے یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ لوگ جو حقیقت سے بے خبر ہیں اپنے دلوں میں امیر صاحب پر یہ الزام لگاویں کہ اُنہی کے اشارہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے.لہٰذا امیر صاحب کا ضرور یہ فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس غلط فتوے کو روکنے کے لئے جہد بلیغ فرماویں کہ اس صورت میں امیر صاحب کی بریّت بھی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی اور ثواب بھی ہوگا کیونکہ حقوق عباد پر نظر کرکے اس سے بڑھ کر اور کوئی نیکی نہیں کہ مظلوموں کی گردنوں کو ظالموں کی تلوار سے چھڑایا جائے اور چونکہ ایسے کام کرنے والے اور غازی بننے کی نیت سے تلوار چلانے والے اکثر افغان ہی ہیں جن کا امیر صاحب کے ملک میں ایک معتدبہ حصہ ہے اس لئے امیرصاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی امارت کے کارنامہ میں اس اصلاح عظیم کا تذکرہ چھوڑ جائیں اور یہ وحشیانہ عادات جو اسلام کی بدنام کنندہ ہیں جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو قوم افغان سے چھڑا دیں ورنہ اب دورِ مسیح موعود آگیا ہے.اب بہرحال خدا تعالیٰ آسمان سے ایسے اسباب پیدا
کردے گاکہ جیسا کہ زمین ظلم اور ناحق کی خون ریزی سے پُر تھی اب عدل اور امن اور صلح کاری سے پُر ہو جائے گی.اور مبارک وہ امیر اور بادشاہ ہیں جو اس سے کچھ حصہ لیں.ان تمام تحریروں کے بعد ایک خاص طور پر اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں کچھ گذارش کرنا چاہتا ہوں اور گویہ جانتا ہوں کہ ہماری یہ گورنمنٹ ایک عاقل اور زیرک گورنمنٹ ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ اگر کوئی نیک تجویز جس میں گورنمنٹ اور عامہ خلائق کی بھلائی ہو خیال میں گذرے تو اُسے پیش کریں.اور وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ واقعی اور یقینی امر ہے کہ یہ وحشیانہ عادت جو سرحدی افغانوں میں پائی جاتی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی کسی بے گناہ کا خون کیا جاتا ہے اِس کے اسباب جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوںدو۲ ہیں (۱) اوّل وہ مولوی جن کے عقائد میں یہ بات داخل ہے کہ غیرمذہب کے لوگوں اور خاص کر عیسائیوں کو قتل کرنا موجب ثواب عظیم ہے اور اس سے بہشت کی وہ عظیم الشان نعمتیں ملیں گی کہ وہ نہ نماز سے مل سکتی ہیں نہ حج سے نہ زکوٰۃ سے اور نہ کسی اور نیکی کے کام سے.مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ درپردہ عوام الناّس کے کان میں ایسے وعظ پہنچاتے رہتے ہیں.آخر دن رات ایسے وعظوں کو سُن کر ان لوگوں کے دلوں پر جو حیوانات میں اور ان میں کچھ تھوڑا ہی فرق ہے بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور وہ درندے ہو جاتے ہیں اور ان میں ایک ذرہ رحم باقی نہیں رہتا اور ایسی بے رحمی سے خون ریزیاں کرتے ہیں جن سے بدن کانپتا ہے.اور اگرچہ سرحدی اور افغانی ملکوں میں اس قسم کے مولوی بکثرت بھرے پڑے ہیں جو ایسے ایسے وعظ کیا کرتے ہیں مگر میری رائے تو یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان بھی ایسے مولویوں سے خالی نہیں.اگر گورنمنٹ عالیہ نے یہ یقین کر لیا ہے کہ اس ملک کے تمام مولوی اس قسم کے خیالات سے پاک اور مبرّا ہیں تو یہ یقین بے شک نظر ثانی کے لائق ہے.میرے نزدیک اکثر مسجد نشین نادان مغلوب الغضب مُلّا ایسے ہیں کہ ان گندے خیالات سے َبرَی نہیں ہیں اگر وہ ایسے خیالات خدا تعالیٰ کی پاک کلام کی ہدایت کے موافق کرتے تو میں ان کو معذور سمجھتا.کیونکہ درحقیقت انسان اعتقادی امور میں ایک طور پر معذور ہوتا ہے لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جیسا کہ وہ گورنمنٹ کے احسانات کو فراموش کرکے اس عادل گورنمنٹ کے چھپے ہوئے دشمن ہیں
یسا ہی وہ خدا تعالیٰ کے بھی مجرم اور نافرمان ہیں.کیونکہ میں مفصل بیان کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہرگز نہیں سکھلاتا کہ ہم اس طرح پر بے گناہوں کے خون کیا کریں اور جس نے ایسا سمجھا ہے وہ اسلام سے برگشتہ ہے (۲) دوسرا سبب ان مجرمانہ خون ریزیوں کا جو غازی بننے کے بہانہ سے کی جاتی ہیں میری رائے میں وہ پادری صاحبان بھی ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اِس بات پر زور دیا کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموںکو قتل کرنامسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے.میرے خیال میں سرحدی لوگوں کو جہاد کے مسئلہ کی خبر بھی نہیں تھی یہ تو پادری صاحبوں نے یاد دلایا میرے پاس اس خیال کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ جب تک پادری صاحبوں کی طرف سے ایسے اخبار او رسالے اور کتابیں سرحدی ملکوں میں شائع نہیں ہوئے تھے اس وقت تک ایسی وارداتیں بہت ہی کم سُنی جاتی تھیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں تھیں.بلکہ جب سکھوں کی سلطنت اس ملک سے اُٹھ گئی اور اُن کی جگہ انگریز آئے تو عام مسلمانوں کو اس انقلاب سے بڑی خوشی تھی اور سرحدی لوگ بھی بہت خوش تھے.پھر جب پادری فنڈل صاحب نے ۱۸۴۹ء میںکتاب میزان الحق تالیف کرکے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں شائع کی اور نہ فقط اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی نسبت توہین کے کلمے استعمال کئے بلکہ لاکھوں انسانوں میں یہ شہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بڑا ثواب ہے.ان باتوں کو سُن کر سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں جاگ اُٹھے اور یقین کر بیٹھے کہ درحقیقت ہمارے مذہب میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کی بات ہے.میں نے غور کرکے سوچا ہے کہ اکثر سرحدی وارداتیں اور پُرجوش عداوت جو سرحدی لوگوں میں پیدا ہوئی اس کا سبب پادری صاحبوں کی وہ کتابیں ہیں جن میں وہ تیز زبانی اور باربار جہاد کا ذکر لوگوں کو سُنانے میں حد سے زیادہ گذرگئے یہاں تک کہ آخر میزان الحق کی عام شہرت اور اس کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو ۱۸۶۷ء میں ایکٹ نمبر۲۳ ۶۷ء سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کے روکنے کے لئے جاری کرنا پڑا.یہ قانون سرحد کی چھ ۶ قوموں کے لئے شائع ہوا تھا اور بڑی امید تھی کہ اس سے وارداتیں رُک جائیں گی لیکن افسوس کہ بعد اس کے پادری عمادالدین
امرتسری اور چند دوسرے بد زبان پادریوں کی تیز اور گندی تحریروں نے ملک کی اندرونی محبت اور مصالحت کو بڑا نقصان پہنچایا اور ایسا ہی اور پادری صاحبوں کی کتابوں نے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں دلوں میں عداوت کا تخم بونے میں کمی نہیں کی.غرض یہ لوگ گورنمنٹ عالیہ کی مصلحت کے سخت حارج ہوئے.ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کارروائی نہایت قابل تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا اور اس تیزی کے مقابل پر مسلمانوں کی طرف سے بھی کسی قدر تیز کلامی ہوئی مگر وہ تیزی گورنمنٹ کی کشادہ دلی پر دلیل روشن بن گئی اور ہتک آمیز کتابوں کی و جہ سے جن فسادوں کی توقع تھی وہ اس گورنمنٹ عالیہ کی نیک نیتی اور عادلانہ طریق ثابت ہو جانے کی و جہ سے اندر ہی اندر دب گئے.پس اگرچہ ہمیں اسلام کے ملائوں کی نسبت افسوس سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے ایک غلط مسئلہ جہاد کی پیروی کرکے سرحدی اقوام کو یہ سبق دیا کہ تا وہ ایک محسن گورنمنٹ کے معزز افسروں کے خون سے اپنی تلواروں کو سُرخ کیا کریں اور اس طرح ناحق اپنی محسن گورنمنٹ کو ایذا پہنچایا کریں مگر ساتھ ہی یورپ کے ملائوں پر بھی جو پادری ہیں ہمیں افسوس ہے کہ انہوں نے ناحق تیز اور خلاف واقعہ تحریروں سے نادانوں کو جوش دلائے ہزاروں دفعہ جہاد کا اعتراض پیش کرکے وحشی مسلمانوں کے دلوں میں یہ جمادیا کہ اُن کے مذہب میں جہاد ایک ایسا طریق ہے جس سے جلد بہشت مل جاتا ہے اگر ان پادری صاحبوں کے دلوں میں کوئی بد نیتی نہیں تھی تو چاہیے تھا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع کے جہادوں کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد سے مقابلہ کرکے اندر ہی اندر سمجھ جاتے اور چُپ رہتے.اگر ہم فرض کر لیں کہ اس فتنہ عوام کے جوش دلانے کے بڑے محرک اسلامی مولوی ہیں تاہم ہمارا انصاف ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اقرار کریں کہ کسی قدر اس فتنہ انگیزی میں پادریوں کی وہ تحریریں بھی حصہ دار ہیں جن سے آئے دن مسلمان شا کی نظر آتے ہیں.افسوس کہ بعض جاہل ایک حرکت کرکے الگ ہو جاتے ہیں اور گورنمنٹ انگلشیہ کو مشکلات پیش آتی ہیں اِن مشکلات کے رفع کرنے کے لئے میرے نزدیک احسن تجویز وہی ہے جو حال میں رومی گورنمنٹ نے اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ امتحاناً چند سال کے لئے ہر ایک فرقہ کو قطعاً روک دیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں میں اور نیز
زبانی تقریروں میں ہر گز ہرگز کسی دوسرے مذہب کا صراحۃً یا اشارۃً ذکر نہ کرے ہاں اختیار ہے کہ جس قدر چاہے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اس صورت میں نئے نئے کینوں کی تخم ریزی موقوف ہو جائے گی اور پرانے قصے بھول جائیں گے اور لوگ باہمی محبت اور مصالحت کی طرف رجوع کریںگے اور جب سرحد کے وحشی لوگ دیکھیں گے کہ قوموں میں اس قدر باہم انس اور محبت پیدا ہو گیا ہے تو آخر وہ بھی متاثر ہو کر عیسائیوں کی ایسی ہی ہمدردی کریںگے جیسا کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کی کرتا ہے اور دوسری تدبیر یہ ہے کہ اگر پنجاب اور ہندوستان کے مولوی درحقیقت مسئلہ جہاد کے مخالف ہیں تو وہ اس بارے میں رسالے تالیف کرکے اور پشتو میں ان کا ترجمہ کرا کر سرحدی اقوام میں مشتہر کریں بلا شبہ اُن کا بڑا اثر ہوگا.مگر ان تمام باتوں کے لئے شرط ہے کہ سچے دل اور جوش سے کارروائی کی جائے نہ نفاق سے.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشتھر خاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود عفی عنہ از قادیان المرقوم ۲۲ ؍مئی ۱۹۰۰ء (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد مطبوعہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۰ء صفحہ ۱ تا ۲۲.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳ تا ۲۲)
۲۲۳ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بشپ صاحب لاہور سے ایک سچے فیصلہ کی درخواست مَیں نے سُنا ہے کہ بشپ صاحب لاہور نے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت کی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ثابت کر کے دکھلاویں.میرے نزدیک بشپ صاحب موصوف کا یہ بہت عمدہ ارادہ ہے کہ وہ اس بات کا تصفیہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں بزرگ نبیوں میں سے ایسا نبی کون ہے جس کی زندگی پاک اور مقدس ہو.لیکن مَیں سمجھ نہیں سکتا کہ اس سے اُن کی کیا غرض ہے کہ کسی نبی کا معصوم ہونا ثابت کیا جائے یعنی پبلک کو یہ دکھلایا جائے کہ اس نبی سے اپنی عمر میں کوئی گناہ صادر نہیں ہوا.میرے نزدیک یہ ایسا طریق بحث ہے جس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں ہو گا.کیونکہ تمام قوموں کا اس پر اتفاق نہیں ہے کہ فلاں قول اور فعل گناہ میں داخل ہے اور فلاں گفتار اور کردار گناہ میں داخل نہیں.مثلاً بعض فرقے شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں اور بعض کے عقیدہ کے موافق جب تک روٹی توڑ کر شراب میں نہ ڈالی جائے اور ایک نو مریدمع بزرگان ِدین کے اس روٹی کو نہ کھاوے اور اُس شراب کو نہ پیوے تب تک دیندار ہونے کی پوری سند حاصل نہیں ہو سکتی.ایسا ہی بعض کے نزدیک اجنبی عورت کو شہوت کی نظر سے دیکھنا بھی زنا ہے مگر بعض کا یہ مذہب ہے کہ ایک خاوند والی عورت بیگانہ
مرد سے بے شک اس صورت میں ہم بستر ہو جائے جبکہ کسی وجہ سے اولاد ہونے سے نومیدی ہو اور یہ کام نہ صرف جائز بلکہ بڑے ثواب کا موجب ہے اور اختیار ہے کہ دس یا گیارہ بچوں کے پیدا ہونے تک ایسی عورت بیگانہ مرد سے بدکاری میں مشغول رہے.ایسا ہی ایک کے نزدیک جوُں یا پِسُّو مارنا بھی حرام ہے اور دوسرا تمام جانوروں کو سبز ترکاریوں کی طرح سمجھتا ہے اور ایک کے مذہب میں سُو ء ر کا چھونا بھی انسان کو ناپاک کر دیتا ہے اور دوسرے کے مذہب میں تمام سفید اور سیاہ سُو ء ر بہت عمدہ غذاہیں.اب اس سے ظاہر ہے کہ گناہ کے مسئلہ میں دنیا کو کلّی اتفاق نہیں ہے.عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح خدائی کا دعویٰ کر کے پھر بھی اوّل درجہ کے معصوم ہیں مگر مسلمانوں کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی بھی گناہ نہیں کہ انسان اپنے تئیں یا کسی اور کو خدا کے برابر ٹھہراوے.غرض یہ طریق مختلف فرقوں کے لئے ہرگز حق شناسی کا معیار نہیں ہو سکتا جو بشپ صاحب نے اختیار کیا ہے.ہاں یہ طریق نہایت عمدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مقدس محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا علمی اور عملی اور اخلاقی اور تقدسی اور برکاتی اور تاثیراتی اور ایمانی اور عرفانی اور افاضہ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل میں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے یعنی یہ دکھلایا جائے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں.کیونکہ جب ہم کلام کلّی کے طور پر تمام طرق فضیلت کومدّنظر رکھ کر ایک نبی کے وجوہ فضائل بیان کریں گے تو ہم پر یہ طریق بھی کھلا ہو گا کہ اُسی تقریب پر ہم اس نبی کی پاک باطنی اور تقدس اور طہا رت اور معصومیت کے وجوہ بھی جس قدر ہمارے پاس ہوں بیان کر دیں.اور چونکہ اس قسم کا بیان صرف ایک جزوی بیان نہیں ہے بلکہ بہت سی باتوں اور شاخوں پر مشتمل ہے.اس لئے پبلک کے لئے آسانی ہو گی کہ اس تمام مجموعہ کو زیر نظر رکھ کر اس حقیقت تک پہنچ جائیں کہ ان دونوں نبیوں میں سے درحقیقت افضل اور اعلیٰ شان کس نبی کو حاصل ہے اور گو ہر ایک شخص فضائل کو بھی اپنے مذاق پر ہی قرار دیتا ہے مگر چونکہ یہ انسانی فضائل کا ایک کافی مجموعہ ہو گا اس لئے اس طریق سے افضل اور اعلیٰ کے جانچنے میں وہ مشکلات نہیں پڑیں گی جو صرف معصومیت کی
بحث میں پڑتی ہیں.بلکہ ہر ایک مذاق کے انسان کے لئے اس مقابلہ اور مو ازنہ کے وقت ضرور ایک ایسا قدر مشترک حاصل ہو جائے گا جس سے بہت صاف اور سہل طریقہ پر نتیجہ نکل آئے گا کہ ان تمام فضائل میں سے فضائل کثیرہ کا مالک اور جامع کون ہے.پس اگر ہماری بحثیں محض خدا کے لئے ہیں تو ہمیں وہی راہ اختیار کرنی چاہیے جس میں کوئی اشتباہ اور کدورت نہ ہو.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ معصومیت کی بحث میں پہلے قدم میں ہی یہ سوال پیش آئے گا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے عقیدہ کی رو سے جو شخص عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر خدا یا خدا کا بیٹا ہونا اپنے تئیں بیان کرتا ہے وہ سخت گنہگار بلکہ کافر ہے تو پھر اس صورت میں معصومیت کیا باقی رہی.اور اگر کہو کہ ہمارے نزدیک ایسا دعویٰ نہ گناہ نہ کفر کی بات ہے تو پھر اُسی الجھن میں آپ پڑ گئے جس سے بچنا چاہیے تھا کیونکہ جیسا آپ کے نزدیک حضرت مسیح کے لئے خدائی کا دعویٰ کرنا گناہ کی بات نہیں ہے.ایسا ہی ایک شاکت مت والے کے نزدیک ماں بہن سے بھی زنا کرنا گناہ کی بات نہیں ہے اور آریہ صاحبوں کے نزدیک ہر ایک ذرّہ کو اپنے وجود کا آپ ہی خدا جاننا اور اپنی پیاری بیوی کو باوجود اپنی موجودگی کے کسی دوسرے سے ہم بستر کرا دینا کچھ بھی گناہ کی بات نہیں اور سناتن دھرم والوں کے نزدیک راجہ رام چندر اور کرشن کو اوتار جاننا اور پرمیشر ماننا اور پتھروں کے آگے سجدہ کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں اور ایک گبر کے نزدیک آگ کی پوجا کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں.اور ایک فرقہ یہودیوں کے مذہب کے موافق غیر قوموں کے مال کو چوری کر لینا اور ان کو نقصان پہنچا دیناکچھ گناہ کی بات نہیں اور بجز مسلمانوں کے سب کے نزدیک سُود لینا کچھ گناہ کی بات نہیں تو اب ایسا کون فارغ جج ہے کہ ان جھگڑوں کا فیصلہ کرے.اس لئے حق کے طالب کے لئے افضل اور اعلیٰ نبی کی شناخت کے لئے یہی طریق کھلا ہے جو مَیں نے بیان کیا ہے.اور اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ تمام قومیں معصومیت کی وجوہ ایک ہی طور سے بیان کرتی ہیں یعنی اس بیان میں اگر تمام مذہبوں والے متفق بھی ہوں کہ فلاں فلاں امر گناہ میں داخل ہے جس سے باز رہنے کی حالت میں انسان معصوم کہلا سکتا ہے تو گو ایسا فرض کرنا غیر ممکن ہے تاہم محض اس امر کی تحقیق ہونے سے
کہ ایک شخص شراب نہیں پیتا، رہزنی نہیں کرتا، ڈاکہ نہیں مارتا ،خون نہیں کرتا،جھوٹی گواہی نہیں دیتا.ایسا شخص صرف اس قسم کی معصومیت کی وجہ سے انسان کامل ہونے کا ہرگز مستحق نہیں ہو سکتا اور نہ کسی حقیقی اور اعلیٰ نیکی کا مالک ٹھہر سکتا ہے.مثلاً اگر کوئی کسی کو اپنا یہ احسان جتلائے کہ باوجودیکہ مَیں نے کئی دفعہ یہ موقع پایا کہ تیرے گھر کو آگ لگا دوں اور تیرے شیر خوار بچے کا گلا گھونٹ دوں مگر پھر بھی مَیں نے آگ نہیں لگائی اور نہ تیرے بچے کا گلا گھونٹا.تو ظاہر ہے کہ عقلمندوں کے نزدیک یہ کوئی اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں سمجھی جائے گی اور نہ ایسے حقوق اورفضائل کو پیش کرنے والا کوئی بھلا مانس انسان خیال کیا جائے گا.ورنہ ایک حجام اگر یہ احسان جتلا کر ہمیں ممنون بنانا چاہے کہ بالوں کے کاٹنے یا درست کرنے کے وقت مجھے یہ موقعہ ملا تھا کہ میں تمہارے سر یا گردن یا ناک پر اُسترہ ما ردیتا مگر مَیں نے یہ نیکی کی کہ نہیں مارا تو کیا اس سے وہ ہمارا اعلیٰ درجہ کا محسن ٹھیر جائے گا اور والدین کے حقوق کی طرح اس کے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں گے؟ نہیں بلکہ وہ ایک طور کے جُرم کا مرتکب ہے جو اپنی ایسی صفات ظاہر کرتا ہے اور ایک دانشمند حاکم کے نزدیک ضمانت لینے کے لائق ہے.غرض یہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احسان نہیں ہے کہکسی نے بدی کرنے سے اپنے تئیں بچائے رکھا کیونکہ قانون سزا بھی تو اسے روکتا تھا مثلاً اگر شریر نقب لگائے یا اپنے ہمسایہ کا مال چرانے سے رُک گیا ہے تو کیا اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس شرارت سے باز رہ کر اس سے نیکی کرنا چاہتا تھا بلکہ قانون سزا بھی تو اسے ڈرا رہا تھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر مَیں نقب زنی کے وقت یا کسی کے گھر میں آگ لگانے کے وقت یا کسی بے گناہ پر پستول چھوڑنے کے وقت یا کسی بچے کا گلا گھونٹنے کے وقت پکڑا گیا تو پھر گورنمنٹ پُوری سزا دے کر جہنم تک پہنچائے گی.غرض اگر یہی حقیقی نیکی اور انسان کا اعلیٰ جوہر ہے تو پھر تمام جرائم پیشہ ایسے لوگوں کے محسن ٹھہر جائیں گے جن کو انہوں نے کوئی ضرر نہیں پہنچایا.لیکن جن بزرگواروں کو ہم انسان کامل کا خطاب دینا چاہتے ہیں کیا ان کی بزرگی کے اثبات کے لئے ہمیں یہی وجوہ پیش کرنے چاہییں کہ کبھی انہوں نے کسی شخص کے گھر کو آگ نہیں لگائی.چوری نہیںکی، کسی بیگانہ عورت پر حملہ نہیں کیا،
کیا، ڈاکہ نہیں مارا، کسی بچے کا گلا نہیں گھونٹا.حَاشَا وَ کَـلَّا یہ کمینہ باتیں ہر گزکمال کی وجوہ نہیں ہو سکتیں بلکہ ایسے ذکر سے تو ایک طور سے ہجو نکلتی ہے.مثلاً اگر مَیں یہ کہوں کہ میری دانست میں زید جو ایک شہر کا معزز اور نیک نام رئیس ہے فلاں ڈاکہ میں شریک نہیں ہے یا فلاں عورت کو جو چند آدمی زنا کے لئے بہکا کر لے گئے تھے اس سازش سے زید کا کچھ تعلق نہ تھا تو ایسے بیان میں مَیں زید کی ایک طریق سے ازالہ حیثیت عرفی کر رہا ہوں کیونکہ پوشیدہ طور پر پبلک کو احتمال کا موقع دیتا ہوں کہ وہ اس مادہ کا آدمی ہے گو اس وقت شریک نہیں ہے.پس خدا کے پاک نبیوں کی تعریف اسی حدتک ختم کر دینا بلا شبہ اُن کی ایک سخت مذمّت ہے.اور اسی بات کو ان کا بڑا کمال سمجھنا کہ جرائم پیشہ لوگوںکی طرح ناجائز تکالیف عامہ سے انہوں نے اپنے تئیںبچایا اُن کے مرتبہ عالیہ کی بڑی ہتک ہے.اوّل تو بدی سے باز رہنا جس کومعصومیت کہاجاتا ہے کوئی اعلیٰ صفت نہیں ہے.دنیا میں ہزاروں اس قسم کے لوگ موجود ہیں کہ ان کو موقع نہیں ملا کہ وہ نقب لگائیں یادھاڑا ماریں یا خون کریں یا شیرخوار بچوں کا گلا گھونٹیں یابیچاری کمزور عورتوں کا زیور کانوں سے توڑ کر لے جائیں.پس ہم کہاں تک اس ترک شر کی وجہ سے لوگوں کو اپنا محسن ٹھہراتے جائیں اور ان کو محض اسی وجہ سے انسان کامل مان لیں؟ ماسوا اس کے ترک شر کے لئے جس کو دوسرے لفظوں میں معصومیت کہتے ہیں بہت سے وجوہ ہیں.ہر ایک کو یہ لیاقت کب حاصل ہے کہ رات کو اکیلا اُٹھے اور حربہ نقب ہاتھ میں لے کر اور لنگوٹی باندھ کر کسی کوچے میں گھس جائے اور عین موقع پر نقب لگا وے اور مال قابو میں کرے اور پھر جان بچا کر بھاگ جائے.اس قسم کی مشقیں نبیوں کو کہاں ہیں اور بغیر لیاقت اور قوت کے جرأت پید ا ہی نہیں ہو سکتی.ایسا ہی زنا کاری بھی قوت مردی کی محتاج ہے اور اگر مرد ہو بھی تب بھی محض خالی ہاتھ سے غیر ممکن ہے.بازاری عورتوں نے اپنے نفس کو وقف تو نہیں کر رکھا وہ بھی آخر کچھ مانگتی ہیں.تلوار چلانے کے لئے بھی بازو چاہیے اور کچھ اٹکل بھی اور کچھ بہادری اور دل کی قوت بھی.بعض ایک چڑیا کو بھی مارنہیں سکتے.اور ڈاکہ مارنا بھی ایک بُزدل کا کام نہیں.اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ مثلاً ایک
شخص جو ایک پُر ثمر باغ کے پاس پاس جا رہا تھا اس نے اس باغ کا اس لئے بے اجازت پھل نہیںتوڑا کہ وہ ایک بڑا مقدس انسان تھا.کیا وجہ کہ ہم یہ نہ کہیں کہ اس لئے نہیں توڑاکہ دن کا وقت تھا.پچاس محافظ باغ میں موجود تھے اگر توڑتا تو پکڑا جاتا، مار کھاتا، بے عزت ہوتا.اس قسم کی نبیوں کی تعریف کرنا اور بار بار معصومیت معصومیت پیش کرنا اور دکھلانا کہ انہوں نے ارتکاب جرائم نہیں کیا سخت مکروہ اور ترکِ ادب ہے.ہاں ہزاروں صفات فاضلہ کی ضمن میں اگر یہ بھی بیان ہو تو کچھ مضایقہ نہیں مگر صرف اتنی ہی بات کہ اس نبی نے کبھی کسی بچے کا دو چار آنے کی طمع کے لئے گلا نہیں گھونٹا یا کسی اور کمینہ بد ی کا مرتکب نہیں ہوا یہ بلا شبہ ہجو ہے.یہ ان لوگوں کے خیال ہیںجنہوں نے انسان کی حقیقی نیکی اور حقیقی کمال میں کبھی غور نہیں کی جس شخص کا نام ہم انسان کامل رکھتے ہیں.ہمیں نہیں چاہیے کہ محض ترکِ شر کے پہلو سے اس کی بزرگی کا وزن کریں کیونکہ اس وزن سے اگرکچھ ثابت ہو تو صرف یہ ہو گا کہ ایسا انسان بد معاشوں کے گروہ میں سے نہیں ہے.معمولی بھلے مانسوں میں سے ہے کیونکہ جیسا کہ ابھی مَیں نے بیان کیا ہے محض شرارت سے باز رہنا کوئی اعلیٰ خوبیوں کی بات نہیں.ایسا تو کبھی سانپ بھی کرتاہے کہ آگے سے خاموش گذر جاتا ہے اور حملہ نہیں کرتا اور کبھی بھڑیا بھی سامنے سے سرنگوں گذر جاتا ہے.ہزاروں بچے ایسی حالت میں مَر جاتے ہیں کہ کوئی ضرر بھی کسی انسان کو انہوں نے نہیں پہنچایا تھا.بلکہ انسان کامل کی شناخت کے لئے کسب خیر کا پہلو دیکھنا چاہیے یعنی یہ کہ کیا کیا حقیقی نیکیاں اس سے ظہور میں آئیں اور کیا کیا حقیقی کمالات اس کے دل اور دماغ اور کانشنس میں موجود ہیں اور کیا کیا صفات فاضلہ اُس کے اندر موجود ہیں.سو یہی وہ امر ہے جس کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح کے ذاتی کمالات اور انواع خیرات اور ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور خیرات کو ہر ایک پہلو سے جانچنا چاہیے مثلاً سخاوت، فتوت، مواسات، حقیقی حلم جس کے لئے قدرتِ سخت گوئی شرط ہے ، حقیقی عفو جس کے لئے قدرتِ انتقام شرط ہے.حقیقی شجات جس کے لئے خوفناک دشمنوں کا مقابلہ شرط ہے.حقیقی عدل جس کے لئے ظلم شرط ہے ، حقیقی رحم جس کے لئے قدرتِ سزا شرط ہے اور اعلیٰ کی
زیر کی اورا علیٰ درجہ کا حافظہ اور اعلیٰ درجہ کی فیض رسانی اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور اعلیٰ درجہ کا احسان جن کے لئے نمونے اور نظیریں شرط ہیں.پس اس قسم کی صفات فاضلہ میں مقابلہ اور موازنہ ہونا چاہیے نہ صرف ترک شر میں جس کا نام بشپ صاحب معصومیت ر کھتے ہیں کیونکہ نبیوںکی نسبت یہ خیال کرنابھی ایک گناہ ہے کہ انہوں نے چوری ڈاکہ وغیرہ کا موقع پا کر اپنے تئیں بچایا یایہ جرائم ان پر ثابت نہ ہو سکے بلکہ حضرت مسیح علیہ السّلام کایہ فرمانا کہ ’’ مجھے نیک مت کہہ‘‘ یہ ایک ایسی وصیّت تھی جس پر پادری صاحبوں کو عمل کرنا چاہیے تھا.اگر بشپ صاحب تحقیق حق کے درحقیقت شایق ہیں تو وہ اس مضمون کا اشتہار دے دیں کہ ہم مسلمانوں سے اسی طریق سے بحث کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نبیوں میں سے کمالات ایمانی و اخلاقی و برکاتی و تاثیراتی و قولی و فعلی و ایمانی و عرفانی و علمی و تقدسی اور طریق معاشرت کے رو سے کون نبی افضل و اعلیٰ ہے.اگر وہ ایسا کریں اور کوئی تاریخ مقرر کر کے ہمیں اطلاع دیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص تاریخ مقررہ پر ضرور جلسہ قرار دادہ پر حاضر ہو جائے گا ورنہ یہ طریق محض ایک دھوکہ دینے کی راہ ہے جس کایہی جواب کافی ہے اور اگر وہ قبول کر لیں تو یہ شرط ضروری ہو گی کہ ہمیں پانچ گھنٹہ سے کم وقت نہ دیا جائے.راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۵ ؍مئی ۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۶ × ۲۰ ۴ کے چار صفحہ پر ہے ) (تبلیغ رسالت جلد۹ صفحہ ۳ تا ۱۱)
۲۲۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ جناب بشپ صاحب کے لیکچر ’’ زندہ رسُول‘‘ پرکچھ ضروری بیان چونکہ مسلمانوں کو بھی اس تقریرکے بعد میں بات کرنے کا موقعہ دیا گیا ہے.اس لئے مختصراً مَیں کچھ بیان کرتا ہوں.بشپ صاحب کی طرف سے یہ دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام زندہ اپنے خاکی جسم کی ساتھ آسما ن کی طرف چلے گئے تھے مگرافسوس کی ہم کسی طرح اس دعویٰ کو قبول نہیں کر سکتے.نہ عقل کے رو سے نہ انجیل کے رو سے.اور نہ قرآن شریف کے رو سے.عقل کے رو سے اس لئے کہ حال اور گذشتہ زمانہ کے تجارب ثابت کر تے ہیں کہ انسان سطح زمین سے چھ میل تک بھی اوپر کی طرف صعود کر کے زندہ نہیں رہ سکتا اور ثابت نہیں کیا گیا کہ حضرت مسیح علیہ السّلام کے وجودکی کوئی ایسی خاص بناوٹ تھی جس سے کرہ ز مہریرکی سردی ان کو ہلاک نہیں کر سکتی تھی بلکہ بر خلاف اس کے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تمام انسانوں کی طرح وہ کھاتے پیتے اور بھوکھ اور پیاس سے متاثر ہوتے تھے یہ تو عقل کے رو سے ہم نے بیان کیا اور انجیل کے رو سے اس لئے یہ دعوٰی قبول کے لائق نہیںکہ اوّل تو انجیلیں چالیس سے بھی کچھ زیادہ ہیں جن میں سے حضرات عیسائی صاحبوں کی رائے میںچار صحیح اور باقی جعلی ہیں.لیکن یہ محض ایک رائے ہے جس کی تائید میںکافی
وجود شائع نہیں کی گئیں اور نہ وہ تمام انجیلیںچھاپ کر عام طور پر شائع کی گئی ہیں تا پبلک کو رائے لگانے کا موقع ملتا.پھر قطع نظر اس سے یہ چار انجیلیں جن کے بیان پر بھروسہ کیا گیا ہے.یہ بھی کھلی کھلی اور یقینی شہادت اس بات کی نہیں دیتیں کہ درحقیقت حضرت مسیح آسمان پر مع جسم عنصری چلے گئے تھے.ان انجیلوں نے کوئی جماعت دو یا چار ثقہ آدمیوں کی پیش نہیں کی جن کی شہادت پر اعتماد ہو سکتا.اور اس واقعہ کے ذاتی اور عینی رؤیت کے مدعی ہوتے.پھر انہیں انجیلوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح ایک چور کو تسلّی دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ بہشت میں روزہ کھولے گا.بہت خوب.مگر اس سے لازم آتا ہے کہ یا تو چور بھی جسم عنصری کے ساتھ بہشت میں گیا ہو اور یا حضرت مسیح چور کی طرح محض روح کے ساتھ بہشت میں گئے ہوں.پھر اس صورت میں جسم کے ساتھ جانا صریح باطل یا یوں کہو کہ چور تو بدستور بہشت میں روحانی رنگ میںرہا لیکن حضرت مسیح تین دن بہشت میں رہ کر پھر اس سے نکالے گئے.اسی طرح اور کئی قسم کے مشکلات اور پیچید گیاں ہیں جو انجیل سے پیدا ہوتی ہیں چنانچہ یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح فوت ہونے پر بہشت کی طرف نہیں گئے تھے بلکہ دوزخ کی طرف گئے.اس سے سمجھا جاتا ہے کہ غالباً وہ چور بھی دوزخ کی طرف گیا ہو گا کیونکہ وہ تو خود دوزخ کے لائق ہی تھا.پس حق بات یہی تھی کہ انجیل کے متناقض بیان نے انجیل کو بے اعتماد کر دیا ہے.حضرت مسیح کا صلیب کے بعد اپنے حواریوں کو ملنا.کباب کھانا ، زخم دکھلانا، سڑک پر چلنا، ایک گائوں میں رات اکٹھے رہنا جو انجیلوں سے ثابت ہوتا ہے.یہ وہ امور ہیں جو قطعی طور پر ثابت کرتے ہیں جو حضرت مسیح آسمان پر نہیں گئے.اور قرآن شریف توہمیں بار بار یہ بتلاتا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں.ہاں جو رفع ایماندار لوگوں کے لئے فوت کے بعد ہوا کرتا ہے وہ ان کے لئے بھی ہوا جیسا کہ آیتَّ ۱؎سے سمجھاجاتا ہے کیونکہ لفظ رَافِعُکَ قرآن شریف میں لفظ مُتَوَفِّیْکَکے بعد مذکور ہے اور یہ قطعی قرینہ اس بات پر ہے کہ یہ وہ رفع ہے جو وفات کے بعد مومنوں کے لئے ہوا کرتا ہے.اصل جڑھ اس کی یہ تھی کہ یہودی حضرت مسیح کے رفع روحانی کے منکر ہیں اور کہتے ہیں ۱؎ اٰل عمران : ۵۶
کہ چونکہ وہ سُولی دیئے گئے تھے تو بموجب حکم توریت کے وہ اُس رفع سے بے نصیب ہیں جو مومنوں کو موت کے بعد خدا کی طرف سے بطور انعام ہوتا ہے اور خدا کے قرب کے ساتھ ایک پاک زندگی ملتی ہے.سو ان آیات میں یہودیوں کے اس خیال کا اس طرح پر رد کیا گیا کہ مسیح صلیب کے ذریعے قتل نہیں کیا گیا تھا اور اس کی موت صلیب پر نہیں ہوئی اس لئے وہ توریت کے اس حکم کے نیچے نہیں آ سکتا کہ جو شخص سُولی پر چڑھا یا جاوے اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوتا بلکہ وہ لعنتی ہو کر جہنم کی طرف جاتاہے.اب دیکھو کہ جسمانی رفع کا اس جگہ کوئی جھگڑا نہ تھا اور یہودیوں کا کبھی یہ مذہب نہیں ہوا.اور نہ اب ہے کہ جو شخص سُولی پر لٹکایا جاوے اس کا جسمانی طورپر رفع نہیں ہوتا.یعنی وہ مع جسم آسمان پر نہیں جاتاکیونکہ یہودیوں نے جو حضرت مسیح کے اس رفع کا انکار کیا جو ہر ایک مومن کے لئے موت کے بعد ہوتا ہے تو اُس کا سبب یہ ہے کہ یہودیوں اور نیز مسلمانوں کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ ایماندار کا فوت کے بعد خدا کی طرف رفع ہو جیسا کہ آیت ۱؎ صریح دلالت کرتی ہے اور جیسا کہ اِ ۲؎ میں بھی یہی اشارہ ہے لیکن جسمانی رفع یہودیوں کے نزدیک اور نیز مسلمانوں کے نزدیک بھی نجات کے لئے شرط نہیں ہے جیسا کہ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کا جسمانی رفع نہیں ہوا تو کیا وہ یہودیوں کے نزدیک نجات یافتہ نہیں.غرض اس قصّہ میں اکثر لوگ حقیقت کو چھوڑ کر کہیں کے کہیں چلے گئے ہیں.قرآن شریف ہر گز اس عقیدہ کی تعلیم نہیں کرتا کہ نجات کے لئے جسمانی رفع کی ضرورت ہے اور نہ یہ کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں.قرآن نے کیوں اس قصہ کو چھیڑا.اس کا فقط یہ سبب تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں رُوحانی طور پر رَفع اور عدمِ رفع میں ایک جھگڑا تھا.یہودیوں کو یہ حجت ہاتھ آ گئی تھی کہ یسُوع مسیح سُولی دیا گیا ہے لہذا وہ توریت کے رو سے اس رفع کا جو ایمانداروں کا ہو تا ہے بے نصیب رہا اور اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ وہ سچا نبی نہیں ہے جیسا کہ اب بھی وہ سُولی کا واقعہ بیان کر کے یہی مقام توریت کاپیش کرتے ہیں.اور مَیں نے اکثر یہودیوں سے جو دریافت کیاتو انہوں نے یہی ۱؎ الاعراف : ۴۱ ۲؎ الفجر : ۲۹
جواب دیا کہ ہمیں جسمانی رفع سے کچھ غرض نہیں.ہم تو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ شخص توریت کے رو سے ایماندار اور صادق نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ سُولی دیا گیا.پس توریت فتویٰ دیتی ہے کہ اس کا رفع رُوحانی نہیں ہوا.بمبئی اور کلکتہ میں بہت سے یہودی موجود ہیں جس سے چاہو پوچھ لو یہی جواب دے گا.سو یہی وہ جھگڑا تھا جو فیصلہ کے لائق تھا.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ سے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا کہ َّ یعنی یہ کہ وفات کے بعد حضرت مسیح کا رفع ہوا ہے اور وہ ایمان داروں کے گروہ میں سے ہے نہ اُن میں سے جن پر آسمان کے دروازے بند ہوئے ہیں.مگر جسمانی طور پر کسی کا آسمان میں جا بیٹھنا نجات کے مسئلہ سے کچھ بھی تعلق اس کو نہیں اور نہ کوئی قربِ الٰہی اس سے ثابت ہوتا ہے.آجکل تو ثابت کیا گیا ہے کہ آسمان پر بھی مجسم مخلوق رہتے ہیں جیسے زمین پر.تو کیا آسمان پر رہنے سے وہ سب نجات یافتہ ہیں.باایں ہمہ یہ خیال سخت غیر معقول ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ حضرت مسیح کے جسم کو آسمان پر پہنچا دے تو چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے جسم کے تمام ذرّات کو محفوظ رکھتا اور کوئی ذرّہ اُن کے جسم میں تلف ہونے نہ پاتا اور نہ تحلیل ہوتا.تا یہ ظلم صریح لازم نہ آتا کہ بعض حصّے مسیح کے جسم کے تو خاک میں مل گئے اور بعض حصے آسمان پر اٹھائے گئے اور اگر مسیح کے جسم کے ذرّات تحلیل نہیں ہوئے تو کم سے کم صلیب کے وقت میں حضرت مسیح کا جسم پہلے جسم سے دس حصّے زیادہ چاہیے تھا کیونکہ علم طبعی کی شہادت سے یہی ثبوت ملتا ہے اور یہ ثابت شدہ امر ہے کہ تین برس کے بعد پہلے جسم کے اجزاء تحلیل ہو کر کچھ توہوا میں مل جاتے ہیںاور کچھ خاک ہو جاتے ہیں.سو چونکہ مسیح نے تینتیس ۳۳برس کے عرصے میں دس جسم بدلے ہیں.اس کے آخری جسم کو آسمان پر پہنچانا اور پہلے جسموں کو خاک میں ملانا یہ ایک ایسی بیہودہ حرکت ہے جس کی فلاسفی یقینابشپ صاحب کو بھی معلوم نہیں ہو گی.اب جبکہ عقل اور انجیل اور قرآن شریف سے حضرت مسیح کا آسمان پر معہ جسم جانا ثابت نہیں بلکہ اس عقیدہ پر عقلی اور نقلی طور پر سخت اعتراضات کی بارش ہوتی ہے تو اس خیال کو پیش کرنا میرے نزدیک تو قابل شرم امر ہے کہ سچ ہے کہ لوگ اس طرح پر
اپنے رُسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر نہیں لے جاتے اور نہ روحانی قربوں کے لئے اس کی کچھ ضرورت ہے.مگر روحانی زندگی کے لحاظ سے ہم تمام نبیوں میں سے اعلیٰ درجے پر اپنے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو زندہ سمجھتے ہیں اور قرآن ِشریف آیت وَ ۱؎ میں اس زندگی کی طرف اشارہ فرماتا ہے کیونکہ اس کا یہی مطلب ہے کہ جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے باطنی فیض پایا ایسا ہی آخری زمانے میں ہو گا کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے فیض پائے گی جیسا کہ اب ظہور میں آ رہا ہے اور ایک بڑی دلیل اس بات پر کہ صرف ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم رُوحانی طور پر اعلیٰ زندگی رکھتے ہیں دوسرا کوئی نہیں رکھتا آپ کے تاثیرات اور برکات کا زندہ سلسلہ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سچے مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی پیروی کر کے خدا تعالیٰ کے مکالمات سے شرف پاتے ہیں اور فوق العادت خوراق اُن سے صادر ہوتے ہیں اور فرشتے ان سے باتیں کرتے ہیں،دُعائیںان کی قبول ہوتی ہیں.اس کا نمونہ ایک مَیں ہی موجود ہوں کہ کوئی قوم اس بات میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی.یہ تو دلیل حضرت محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ہے مگر حضرت مسیح کی زندگی پر کون سی دلیل آپ کے پاس ہے.اتنا بھی تو نہیں کہ کوئی پادری صاحب یا مسیح! یا مسیح!! کر کے پکاریں اور آسمان سے مسیح کی طرف سے کوئی ایسی آواز آوے کہ تمام لوگ سُن لیں اور اگر اس قدر ثبوت بھی نہیں تو محض دعویٰ قابل التفاف نہیں.اس طرح پر تو سِکّھ صاحب بھی کہتے ہیں کہ بابا نانک صاحب زندہ آسمان پر چلے گئے.پھر جب ہم ان سب باتوں سے الگ ہو کر تاریخی سلسلہ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ سارے پردے درمیان سے اُٹھ کر کھلی کھلی حقیقت نظر آ جاتی ہے کیونکہ تاریخ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر نہ جانے کے تین گواہ ایسے پیش کئے ہیں جن سے قطعی طور پر یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ بات صرف اتنی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے اس قول کے مطابق کہ اُن کا قصّہ یونس نبی کے قصّے سے مشابہ ہے قبر میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل نہیں ہو ئے تھے جیساکہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل نہیں ہوا تھا اور نہ وہ قبر میں مرے جیسا کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا تھا بلکہ یونس نبی ۱؎ الجمعۃ : ۴
کی طرح زندہ ہی قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے کیونکہ ممکن نہیں کہ مسیح نے اس مثال کے بیان کرنے میں جھوٹ بولا ہو.اس واقعہ پر پہلا گواہ تو یہی مثال ہے کہ مسیح کے منہ سے نکلی کیونکہ اگر مسیح قبر میں مُردہ ہونے کی حالت میں داخل کیا گیا تھا تو اس صورت میں یونس سے اس کو کچھ مشابہت نہ تھی پھر دوسرا گواہ اس پر مرہم عیسیٰ ہے.یہ ایک مرہم ہے جس کا ذکر عیسائیوں اور یہودیوں اور مجوسیوں اور مسلمانوں کی طبّ کی کتابوں میں اس طرح پر لکھا گیا ہے کہ یہ حضرت مسیح کے لئے یعنی ان کی چوٹوں کے لئے طیار کی گئی تھی اور یہ کتابیں ہزار نسخہ سے بھی کچھ زیادہ ہیں جن میں سے بہت سی میرے پاس بھی موجود ہیں.پس اس مرہم سے جس کا نام مرہم عیسیٰ ہے.یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر جانے کا قصّہ غلط اور عوام کی خود تراشیدہ باتیں ہیں.سچ صرف اس قدر ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر وفات پانے سے تو بچ گئے تھے مگر آپ کے ہاتھوں اور پیروںپر زخم ضرور آئے تھے اور وہ زخم مرہم عیسیٰ کے لگانے سے اچھے ہو گئے.آپ کے حواریوں میں سے ایک ڈاکٹر بھی تھا غالباً یہ مرہم اُس نے تیار کی ہو گی چونکہ مرہم عیسیٰ کا ثبوت ایک علمی پیرایہ میں ہم کو ملا ہے جس پر تمام قوموں کے کتب خانے گواہ ہیں.اس لئے یہ ثبوت بڑے قدرکے لائق ہے.تیسرا تاریخی گواہ حضرت مسیح کے آسمان پر نہ جانے کا یوز آسف کا قصہ ہے جو آج سے گیارہ سو برس پہلے تمام ایشیا اوریورپ میں شہرت پا چکا ہے.یوز آسف حضرت مسیح ہی تھے جو صلیب سے نجات پا کر پنجاب کی طرف گئے اور پھر کشمیر میں پہنچے اور ایک سو برس کی عمر میں وفات پائی.اس پر بڑی دلیل یہ ہے کہ یوز آسف کی تعلیم اور انجیل کی تعلیم ایک ہے اور دوسرے یہ قرینہ کہ یوز آسف اپنی کتاب کا نام انجیل بیان کرتا ہے تیسرا قرینہ یہ کہ اپنے تئیں شہزادہ نبی کہتا ہے چوتھا یہ قرینہ کہ یوز آسف کا زمانہ اور مسیح کا زمانہ ایک ہی ہے.بعض انجیل کی مثالیںاس کتاب میں بعینہ موجود ہیںجیسا کہ ایک کسان کی مثال.چوتھا تاریخی گواہ حضرت مسیح علیہ السّلام کی وفات پر وہ قبر ہے جو اب تک محلہ خانیار سری نگر کشمیر میں موجود ہے.بعض کہتے ہیں کہ یوز آسف شہردہ نبی کی قبر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عیسٰی صاحب کی قبر ہے اور کہتے ہیں کہ کتبہ پر یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ شہزادہ اسرائیل کے
خاندان میں سے تھا کہ قریباً اٹھارہ سو برس اس بات کو گزر گئے جب یہ نبی اپنی قوم سے ظلم اُٹھا کر کشمیر میں آیا تھا اورکوہِ سلیمان پر عبادت کرتا رہا.اور ایک شاگرد ساتھ تھا.اب بتلائو کہ اس تحقیق میں کونسی کسر باقی رہ گئی.سچائی کو قبول نہ کرنا یہ اور بات ہے کہ لیکن کچھ شک نہیں کہ بھانڈا پھوٹ گیا اور یوزآسف کے نام پر کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ یہ نام یسوع آسف کا بگڑا ہوا ہے.آسف بھی حضرت مسیح کا عبرانی میں ایک نام ہے جس کا ذکر انجیل میں بھی ہے اور اس کے معنے ہیں متفرق قوموں کو اکٹھا کرنے والا.اب بخوف اندیشہ طول اسی پر مَیں ختم کرتا ہوں اور مَیں تمام لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب آسمان کے نیچے اعلیٰ اور اکمل طور پر زندہ رسُول صرف ایک ہے یعنی محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم.اسی ثبوت کے لئے خدا نے مجھے مسیح کر کے بھیجا ہے جس کو شک ہو وہ آرام اورآہستگی سے مجھ سے یہ اعلیٰ زندگی ثابت کرالے.اگر میں نہ آیا ہوتا تو کچھ عذر بھی تھا مگر اب کسی کے لئے عذر کی جگہ نہیں کیونکہ خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا مَیں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم ہے.دیکھو مَیں آسمان اور زمین کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں اور خدا وہی ایک خدا ہے جو کلمہ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ میں پیش کیا گیا ہے.اور زندہ رسول وہی ایک رسول ہے جس کے قدم پر نئے سرے سے دنیا زندہ ہو رہی ہے.نشان ظاہر ہو رہے ہیں.برکات ظہور میں آ رہے ہیں غیب کے چشمے کھل رہے ہیں.پس مبارک وہ جو اپنے تئیں تاریکی سے نکال لے.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــھر مرزا غلام احمد از قادیان ۲۵ ؍مئی ۱۹۰۰ء مطابق ۲۵ محرم الحرام ۱۳۱۸ہجری روز جمعہ ( یہ اشتہار۲۰×۲۶ ۸ کے ۶ صفحہ پر ہے ) رفاہ عام سٹیم پریس لاہور (تبلیغ رسالت جلد۹ صفحہ ۱۱ تا ۱۹)
۲۲۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار معیار الاخیار اس اشتہار کو منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف صاحب اور اولاد مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی غور سے پڑھیں اور منشی الٰہی بخش صاحب جواب دیںکہ کیا ان کا الہام سچا ہے یا اُن کے مرشد مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کا.----------------------- اِنِّیْ اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ فَطُوْبٰی لِمَنْ عَرَفَنِیْ اَوْعَرَفَ مَنْ عَرَفَنِیْ اے لوگو میری نسبت جلدی مت کرو اور یقینا جانو کہ مَیں خد اکی طرف سے ہوں.مَیں اُسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مَیںاس کی طرف سے ہوں سمجھو اور سوچو کہ دنیا میں کس قدر مفتری ہوئے اور اُن کا انجام کیا ہوا.کیا وہ ذلّت کے ساتھ بہت جلد ہلاک نہ کئے گئے؟ پس اگر یہ کارو بار بھی انسانی افترا ہوتا تو کب کا تباہ ہو جاتا.کیا کسی ایسے مفتری کا نام بطور نظیر پیش کر سکتے ہو جس کو افتراء اور دعوٰی وحی اللہ کے بعد میری طرح ایک زمانہ دراز تک مہلت دی گئی ہو.وہ مہلت جس میں سے آج تک بقدر زمانہ وحی محمد ی علیہ السلام یعنی قریباً
چوبیس برس گزر گئے.اور آیندہ معلوم نہیں کہ ابھی کس قدر ہیں.اگر پیش کر سکتے ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ ایسے مفتری کانام لو اور اس شخص کی مدّت کا جس قدر زمانہ ہو اس کا میرے زمانہ بعث کی طرح تحریری ثبوت دو اور لعنت ہے اس شخص پر جو مجھے جھوٹا جانتا ہے اور پھر یہ نظیر مع ثبوت پیش نہ کرے. ۱؎ اور ساتھ اس کے یہ بھی بتلائو کہ کیا تم کسی ایسے مفتری کو بطور نظیر پیش کر سکتے ہو جس کے کھلے کھلے نشان تحریر اور ہزاروں شہادتوں کے ذریعہ سے میری طرح بپایۂ ثبوت پہنچ گئے ہوں.اے لوگو تم پر افسوس تم نے اپنے ایمانوں کو ایسے نازک وقت میں ضائع کیا جیسا کہ ایک نادان ایسے لق و دق بیابان میں پانی کو ضائع کر دے جس میں ایک قطرہ پانی کا میسر نہیںآ سکتا.خدا نے عین صدی کے سر پر عین ضرورت کے وقت میں تمہارے لئے مجدد بھیجا اور صدی بھی چودھویں صدی جو اسلام کے ہلال کو بدر کرنے کے لئے مقرر کی گئی تھی جس کی تم اور تمہارے باپ دادے انتظار کرتے تھے اور جس کی نسبت اہل کشف کے کشفوں کا ڈھیر لگ گیا تھا اور دوسری طرف مجدد کے ظہور کے لئے ضرورتیں وہ پیش آئی تھیں جو کبھی نبوت کے زمانہ کے بعد پیش نہ آئیں مگر آپ لوگوں نے پھر بھی قبول نہ کیا.اس مہدی کے وقت میں جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے خسوف کسوف بھی رمضان میں ہوا جو قریباً گیارہ سو برس سے تمہاری حدیث کی کتابوں میں لکھا ہوا موجود تھا مگر آپ لوگوںنے پھر بھی نہ سمجھا.چودھویں صدی میں سے سترہ برس گزر بھی گئے مگر پھر بھی آپ لوگوںکے دلوں میں کچھ سوچ پیدا نہ ہوئی.یہ ضرورتیں اور صدی خالی گئی.کیا تم کوئی بھی سوچنے والا نہیں؟ مَیں نے بار بار کہا کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں.مَیں نے بلند آواز سے ہر ایک کو پکار ا جیسا کہ کوئی پہاڑ پر چڑھ کر نعرے مارتا ہے.خدا نے مجھے کہا کہ اُٹھ اور ان لوگوں کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہی کو رد کردو گے.خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوا اس کے یہ الفاظ ہیں.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہ ۱؎ البقرۃ : ۲۵
َھَلْ اَنْتُمْ مُؤْمِنُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَقُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِ لَیْکُمْ جَمِیْعًا اَیْ مُرْسَلٌ مِّنَ اللّٰہِ.غرض خدا کے روشن نشان میرے ساتھ ہیں اسی کی مانند جو خدا کے پاک نبیوں کے ساتھ تھے مگر آپ لوگوں کی روحوں میں کچھ حرکت پیدا نہ ہوئی.اس سے دل درد مند ہے کہ آپ لوگوں نے ایسی قابل شرم غلطی کھائی اور نور کو تاریکی سمجھا.مگر آپ لوگ اے اسلام کے علماء اب بھی اس قاعدہ کے موافق جو سچے نبیوں کی شناخت کے لئے مقرر کیا گیا ہے قادیان سے کسی قریب مقام میں جیسا کہ مثلاً بٹالہ ہے یا اگر آپ کو انشراح صدر میسّر آوے تو خود قادیان میں ایک مجلس مقرر کر یں جس مجلس کے سرگروہ آپ کی طرف سے چند ایسے مولوی صاحبان ہوں کہ جو علم اور برداشت اور خوف باری تعالیٰ میں آپ لوگوں کے نزدیک مسلّم ہوں.پھر ان پر واجب ہو گا کہ منصفانہ طور پر بحث کریں اور اُن کا حق ہو گا کہ تین طورسے مجھ سے اپنی تسلّی کرلیں.(۱) قرآن اور حدیث کے رو سے (۲) عقل کی رو سے.(۳)سماوی تائیدات اور خوراق اور کرامات کی رو سے.کیونکہ خدا نے اپنی کلام میں مامورین کے پرکھنے کے لئے یہی تین طریق بیان فرمائے ہیں.پس اگر مَیں ان تینوں طوروں سے ان کی تسلّی نہ کر سکا یا اگر ان تینوں میں سے صرف ایک یا دو طور سے تسلّی کی تو تمام دنیا گواہ رہے کہ میں کاذب ٹھہروں گا.لیکن اگر میں نے ایسی تسلی کردی جس سے وہ ایمان اور حلف کی رو سے انکار نہ کر سکیں اور نیز وزن ثبوت میں ان دلائل کی نظیر پیش نہ کر سکیں تو لازم ہو گا کہ تمام مخالف مولوی اور اُن کے نادان پیرو خدا تعالیٰ سے ڈریں اور کروڑوں انسانوں کے گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر نہ لیں.اور اس جگہ مَیں بالخصوص اُن صاحبوں کو مندرجہ ذیل شہادت کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی نسبت جن کی اولاد مولوی عبد الواحد صاحب اور عبد الجبار صاحب امرتسر میں موجود ہیں راست بازی کا اعتقاد رکھتے ہیں یا خود اُن کے فرزند ہیں.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مجھے میرے مخالفوں کے گروہ میں سے دو شخص کے ذریعہ سے
خبر پہنچی ہے کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی نے میرے ظہور کی نسبت پیشگوئی کی تھی.ان دونوں صاحبوں میں سے ایک صاحب کا نام حافظ محمد یوسف ہے جو داروغہ نہر ہیں اور غالباًاب مستقل سکونت امرتسر میں رکھتے ہیں.دوسرے صاحب منشی محمد یعقوب نام ہیں اور یہ دونوں حقیقی بھائی ہیں اور یہ دونوں صاحب عبد اللہ صاحب کے خاص معتقدین اور مصاحبین میں سے ہیں جس سے کسی صاحب کو بھی انکار نہیں اور ان کی گواہیاں اگرچہ دو ہیں مگرحاصل مطلب ایک ہی ہے.حافظ محمد یوسف صاحب کا حلفی بیان جس کے غالباً دو سو کے قریب گواہ ہو ں گے یہ ہے کہ ـ’’ ایک دن عبد اللہ صاحب نے مجھے فرمایا کہ مَیں نے کشفی طورپر دیکھا ہے کہ ایک نو ر آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا ہے اورمیری اولاد اس سے محروم رہ گئی ہے یعنی اس کو قبول نہیں کیا اور وہ انکار اور مخالفت پر مرے گی اور منشی محمد یعقوب صاحب کا ایک تحریری بیان ہے جو ایک خط میں موجود ہے جو ابھی۳۰؍ اپریل ۱۹۰۰ء کو بذریعہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلہ سے مجھ کو پہنچا ہے جس کو انہوں نے بتاریخ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۰ء اپنے ہاتھ سے لکھ کر منشی ظفر احمد صاحب کے پاس بھیجا تھا اور انہوں نے میرے پاس بھیج دیا جو اس وقت میرے سامنے رکھا ہے اور جو شخص چاہے دیکھ سکتا ہے مگر مَیں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس تمام حقیقت کے سمجھانے کے لئے وہ حالات بھی لکھ دوں جو مجھے معلوم ہیں کیونکہ جو کچھ خط میں ایک کمزور عبارت میں لکھا گیا ہے اسی کو منشی محمد یعقوب صاحب ایک بڑے شدّ و مدسے میرے سامنے بیان کر چکے ہیں.مگر چونکہ اب وہ اور اُن کے دنیا سے پیار کرنے والے بھائی حافظ محمد یوسف شیعوں کی طرح خلافتِ حقّہ سے انکار کر کے تقیّہ کے رنگ میں بسر کررہے ہیں اس لئے اب اُن کے لئے ایک موت ہے کہ سچا واقعہ مجلس میں اُسی شدّ و مد کے ساتھ منہ پر لاویںتا ہم امید نہیں کہ وہ اس شہادت کو مخفی رکھیں کیونکہ حق کو چھپانا لعنتیوں کا کام ہے نہ قرآن شریف کے حافظوں کا.اس لئے ہم بھی منتظر ہیں کہ ان کی طرف سے کیا آواز آتی ہے.منشی محمد یعقوب صاحب تو بوجہ اس خط کے قابو میں آ گئے ہیں مگر حافظ محمد یوسف صاحب کے لئے اس وقت تک حیلہ بازی کی راہ کھلی ہے جب تک کہ قرآن شریف ہاتھ میں دے کر ایک مجمع
مسلمانوں میں قسم کے ساتھ ان سے پوچھا نہ جائے.۱؎ القصّہ جو میرے سامنے منشی محمد یعقوب صاحب نے کہا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب بمقام امرتسر مولوی عبد الحق غزنوی سے میرا مباہلہ ہوا تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری سچائی ظاہر کرنے کے لئے ستر کے قریب نشان ظاہر کئے جن کے ہزار ہا انسان گواہ ہیں.ایسا اس کے بعد ہزار ہانیک دل لوگوں کو میری بیعت میں داخل کیا جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں.جنہوں نے اپنا صدق ظاہر کرنے کے لئے ہمارے سلسلہ کی تائید میں تیس ہزار کے قریب روپیہ دیا ہو گا.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے مجھے اس مباہلہ کے بعد پیشگوئی کے موافق کئی فرزند عطا فرمائے اور ایک فرزند کی نسبت جس کا نام مبارک احمدہے ۲؎ ظاہر فرمایا کہ عبدالحق نہیں مرے گا جب تک وہ پیدا نہ ہو.۳؎ یعنی مباہلہ کے بعدیہ ذلّت بھی اس کو نصیب ہو گی کہ اس کی بیوی کا حمل خطا جائے گا اور اس کی پیشگوئی جھوٹی نکلے گی.مگر میری تصدیق کے لیے اس کی زندگی میں چوتھا لڑکا پیدا ہو گا.ایسا ہی خدا نے مباہلہ کے بعد لاکھوں انسانوں میں عزّت کے ساتھ مجھے شہرت دی اور مخالفون کی ذلّت اور نامرادی ثابت کر کے دکھلا دی.اس مباہلہ کے میدان میں ایک کثیر جماعت کے رو برو منشی محمدیعقوب صاحب نے کھڑے ہو کر میری نسبت بیان کیا تھا کہ مولوی عبد اللہ صاحب نے مجھے کہا تھا ۱؎ نوٹ.اگر حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے بھائی منشی محمد یعقوب صاحب نے اپنا انکار بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے شائع نہ کیا تو ہر یک منصف کو سمجھ لینا چاہیے کہ انہوں نے ہمارے اس بیان کو قبول کر لیا اور اگر اشتہار شائع کیا تو پھر عبد اللہ آتھم کی طرح قسم کے لیے ان کو مجبور کیا جائے گا تا سیہ روئے شود ہر کہ دردغش باشد.منہ ۲؎ دوسرا نام اس لڑکے کا ایک خواب کی بنا پر دولت احمد بھی ہے.منہ ۳؎ مباہلہ کے بعد وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جس میں لکھا تھا کہ اخویم مکرم مولوی حکیم نور الدین صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہو گا اور اس کے بدن میںبہت سے پھوڑے ہوں گے چنانچہ لڑکا پیدا ہو گیا اور خوفناک پھوڑے اس کے بدن پر موجود ہیں.منہ
کہ ایک نور پیدا ہو گا جس سے دنیا کے چاروں طرف روشنی ہو جائے گی اور وہ نور مرزا غلام احمد ہے جو قادیان میں رہتاہے.یہ وہ گواہی ہے کہ جو منشی محمد یعقوب نے بمقام امرت سر محمد شاہ صاحب کی مسجد کے قریب ایک میدان میں کھڑے ہو کر قریباً دو سو آدمی کے رو برو دی تھی اور اب جو ۳۰؍اپریل ۱۹۰۰ء کو منشی صاحب مذکور کا اس جگہ خط پہنچا اس کی عبارت یہ ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں.’’ میرے اشفاق فرمائے منشی ظفر احمد جی زَادَ لُطْفُہٗ.السّلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہٗ آج ۲۲؍ اپریل ۱۹۰۰ء کو آپ کا عنایت نامہ صادر ہوا.دریافت خیریت سے بہت خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ بامن خود رکھ کر خواہش دلی پر پہنچا وے.آپ میرے بیان کو بالکل بھول گئے.مَیں نے تو اس صورت میں بیان کیا تھا کہ میرے گھر میں خواب دیکھا تھا کہ آسمان سے چاند ٹوٹا اور درمیان آسمان اور زمین کے آ کر اُس کے چار ٹکڑے ہو کر ہر چہار ٹکڑے ہر ایک گوشہ دنیا میں گرے اور گرتے ہوئے ہر چہار گوشہ میں بہت شور سے شعلہ زن ہوئے.یہ خواب بندہ نے علی الصباح مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم سے بیان کر کے تعبیر دریافت کی.فرمایا قریب ہے کہ کوئی شخص اللہ کی طرف سے پیدا ہو جس کے سبب سے دنیا کے ہرچہارگوشہ سے دین کی ترقی ہو.اور ساتھ ہی ایسا بھی فرمایا کہ شاید مرزا قادیان سے ظہور ہو.یعنی اس نور کا ظہور مرزا قادیانی کے وجود سے ہو.فقط ‘‘ اب یہ دو گواہیاں ان دو انسانوں کی ہیں کہ اس وقت وہ اپنی ذلیل دُنیا کی مصلحت سے میرے مخالف ہیں.یہ دونوں مولوی عبد اللہ صاحب کے رفیق اور مصاحب تھے.ہر ایک طالب حق کو چاہیے کہ ان صاحبوں سے حلفاً دریافت کر لے منشی محمد یعقوب صاحب کا خط تو میں نے بجنسہٖ لکھ دیا ہے جو اوپر ذکر ہو چکا ہے.ان سے دریافت کر لو کہ ان کا یہ خط ہے یا نہیں.اور حافظ محمد یوسف صاحب کی گواہی کا نہ ایک نہ دو بلکہ دو سو آدمی گواہ ہے وَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْـکَاذِبِیْنَ.اب اگر مولوی عبد اللہ صاحب کی اولاد کے دل میں کچھ بھی خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو اپنے باپ کی پیشگوئی کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں.ہاں اس پیشگوئی میں یہ بھی ہے کہ وہ اس نور کو قبول نہیں کریں گے.اور محروم رہ جائیں
گے.سو جیسا کہ سمجھا جاتا ہے اگر محروم کے لفظ کے یہی معنے ہیں جوسمجھے گئے تو پھر قضا و قدر کے مقابل پر کیاپیش جا سکتی ہے.لیکن ہم خاص طور پر منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کو اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ یہ ان کے مرُشد کی پیشگوئی ہے جس کو وہ مسیح موعود سے بھی زیادہ عزت دیتے ہیں.ہاں اگراُن کو شک ہو تو حافظ محمد یوسف صاحب اور منشی محمد یعقوب سے قسمیہ دریافت کرلیں.اس قدر کافی ہو گا کہ ا گر وہ اس بیان کو تصدیق نہ کریں تو اتنا کہہ دیں کہ میرے پر خدا کی لعنت ہو اگر مَیںنے جھوٹ بولا ہے.اور نیز ذرہ شرم کر کے اس بات کو سوچیں کہ وہ میری نسبت کہتے ہیں کہ صد ہا الہامات سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص کافر اور بے ایمان اور دجّال اور مفتری ہے اور ان کا مرشد عبد اللہ غزنوی یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص خدا کا نور ہے اور اس سے محروم خدا سے محروم ہے.اب بابو الٰہی بخش صاحب بتلائیں کہ اُن کا کشف جھوٹا ہے یا اُن کے مُرشد مولوی عبد اللہ کا.اور اب ہم بہت انتظار کے بعد اس کے ذیل میں اپنا وہ خط درج کرتے ہیں جس کا ہم نے وعدہ کیا تھا اور وہ یہ ہے.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ از جانب مُتَوَکِّلْ عَلَی اللّٰہِ الْاَحَدْ غلام احمد عافاہ اللہ و ایّد.بخدمت مکرم بابو الٰہی بخش صاحب السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘ بعد ہذا اس عاجز کو اس وقت تک آں مکرم کے الہامات کی انتظار رہی.مگر کچھ معلوم نہیں ہوا کہ توقف کا کیا باعث ہے.مَیں نے سراسر نیک نیتی سے جس کو خدائے کریم جانتا ہے یہ درخواست کی تھی تا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ان متناقض الہامات میں کچھ فیصلہ ہو جائے کیونکہ الہامات کا باہمی تناقض اور اختلافات اسلام کو سخت ضرر پہنچاتا ہے اور اسلام کے مخالفوں کو ہنسی اور اعتراض کا موقع ملتاہے اور اس طرح پر دین کا استخفاف ہوتا ہے.بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ ایک شخص
کو تو خدا تعالیٰ یہ الہام کرے کہ تو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ اور اس زمانہ کے تمام مومنوں سے بہتر اور افضل اور مثیل الا نبیاء اور مسیح موعود کا مجدّد چودھویں صدی اور خدا کا پیارا اور اپنے مرتبہ میں نبیوں کی مانند اور خدا کا مرسل ہے اور اس کی درگاہ میں وجیہ اور مقرب اور مسیح ابن مریم کی مانند ہے اور اُدھر سے دوسرے کو یہ الہام کرے کہ یہ شخص فرعون اور کذاب اور مسرف اور فاسق اور کافر اور ایسااور ایسا ہے.ایسا ہی اس شخص کو تو یہ الہام کر ے کہ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہو گا.اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے اور پھر دوسرے کو یہ الہام کرے کہ جو اس کی پیروی کرتے ہیں وہ شقاوت کا طریق اختیار کرتے ہیں.پس آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر اسلام پر یہ مصیبت ہے کہ ایسے مختلف الہام ہوں اور مختلف فرقے پیدا ہوں جو ایک دوسرے کے سخت مخالف ہوں.اس لئے ہمدردیٔ اسلام اسی میں ہے کہ ان مختلف الہامات کافیصلہ ہو جائے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کوئی فیصلہ کی راہ پیدا کر دے گا.اور اس مصیبت سے مسلمانوں کو چھوڑائے گا.لیکن یہ فیصلہ تب ہو سکتا ہے کہ ملہمین جن کو الہام ہوتا ہے وہ زنانہ سیرت اختیار نہ کریں اور مرد میدان بن کر جس طرح کے الہام ہوں وہ سب دیانت کے ساتھ چھاپ دیں اور کوئی الہام جو تصدیق یا تکذیب کے متعلق ہو پوشیدہ نہ رکھیں تب کسی آسمانی فیصلہ کی امید ہے.اسی وجہ سے مَیں نے اللہ تعالیٰ کی قسمیں آپ کو پہلے خط میں دی تھیں تا آپ جلد تر اپنے الہام میری طرف بھیج دیں مگر آپ نے کچھ پرواہ نہیں کی اور میرے نزدیک یہ عذر آپ کا قبول کے لایق نہیں کہ آپ کو مخالفانہ الہام اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ ایک مدّت ان کی تشریح کے لئے چاہیے.میرے خیال میںیہ کام چند منٹ سے زیادہ کا کام نہیں ہے اور غایت درجہ دو گھنٹہ تک مع تشریح و تفسیر آپ لکھ سکتے ہیں اور اگر کسی کتاب کی تالیف کا ارادہ ہے تو اس کو اس سے کچھ تعلق نہیں.مناسب ہے کہ آپ اس امت پر رحم کر کے اور نیز خدا تعالیٰ کی قسموں کی تعظیم کر کے بالفعل دو تین سو الہام ہی جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کا کام ہے چھپوا کر روانہ فرماویں.یہ تو میںتسلیم نہیں کر سکتا کہ الہامات کی بڑی بڑی عبارات ہیں.بلکہ ایسی
ہوں گی جیسا کہ آپ کا الہام ’’ مُسْرِفٌ‘‘ ’’ کَذَّابٌ‘‘ تو اس صورت میں آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کے الہام کاغذ کے ایک صفحہ میں کس قدر آ سکتے ہیں.مَیں پھر آپ کو اللّٰہ جلّ شانہٗ کی قسم دیتا ہوں کہ مسلمانوں کی حالت پر رحم کر کے بمجرد پہنچنے اس خط کے اپنے الہامات چھپوا کر روانہ فرمائیں.مجھے اس بات پر بھی سخت افسوس ہوا ہے کہ آپ نے بے وجہ میری یہ شکایت کی کہ گویا مَیں نے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی کوئی بے ادبی کی ہے.آپ جانتے ہیں کہ میری گفتگو صرف اس قدر تھی کہ آپ مولوی محمد حسین کو کیوں بُرا کہتے ہیں حالانکہ آپ کے مُرشد مولوی عبد اللہ صاحب نے اس کے حق میں یہ الہام شائع کیا تھا کہ وہ تمام عالموں کے لئے رحمت ہے اور سب اُمت سے بہتر ہے.یہ قرآنی الہام تھے جن کا مَیں نے ترجمہ کر دیا ہے.اس صورت میں اگر شک تھا تو آپ مولوی محمد حسین سے دریافت کر لیتے.سچی بات پر غصہ کرنا مناسب نہیں ہے پھر ما سوا اس کے جس دعویٰ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس کے مقابل پر عبد اللہ صاحب کی کیا حقیقت اور سرمایا ہے.مَیں یقینا جانتا ہوں کہ اگر وہ اس وقت زندہ ہوتے تو وہ میرے تابعداروں اور خادموں میں داخل ہوجاتے.ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے آگے گردن خم کرنا اورغربت اور چاکری کی راہ سے اطاعت اختیار کر لینا ہر ایک دیندار اور سچے مسلمان کا کام ہے.پھر وہ کیونکر میری اطاعت سے باہر رہ سکتے تھے.اس صورت میں آپ کا کچھ بھی حق نہیں تھا.اگرمَیں حَکَمْ ہونے کی حیثیت سے اُن میں کچھ کلام کرتا.آپ جانتے ہیں کہ خدا اور رسول نے مولوی عبد اللہ کا کوئی درجہ مقرر نہیں کیا اور انہ اُن کے بارے میں کوئی خبر دی.یہ فقط آپ کا نیک ظن ہے جو آپ نے اُن کو نیک سمجھ لیا.ورنہ کسی حدیث یا آیت سے تو ثابت نہیں کہ درحقیقت پاک دل تھے.ہاں جہاں تک ہمیں خبر ہے وہ پابند نماز تھے.رمضان کے روزے رکھتے تھے اور بظاہر دیندار مسلمان تھے اور اندرونی حال خدا کو معلوم.حافظ محمد یوسف صاحب نے کئی دفعہ قسم یاد کرنے سے یقین کامل سے کئی مجلسوں میں میرے روبرو بیان کیا کہ ایک دفعہ عبد اللہ صاحب نے اپنے کسی خواب یا الہام کی بنا پر فرمایا تھا کہ آسمان سے
ایک نوُر قادیان میں گرا جس کے فیضان سے اُن کی اولاد بے نصیب رہ گئی.حافظ صاحب زندہ ہیں اُن سے پوچھ لیں۱؎.پھر آپ کی شکایت کس قدر افسوس کے لایق ہے.اور اللہ جل شانہ خوب جانتا ہے کہ ہمیشہ مولوی عبد اللہ غزنوی کی نسبت میرا نیک ظن رہا ہے اور اگرچہ بعض حرکات ان کی مَیں نے ایسی بھی دیکھیں کہ اس حُسن ظن میں فرق ڈالنے والی تھیں تا ہم مَیں نے اُن کی طرف کچھ خیال نہ کیا اور ہمیشہ سمجھتا رہا کہ وہ ایک مسلمان اپنی فہم اور طاقت کے موافق پابند سنت تھا.لیکن میں اس سے مجبور رہا کہ مَیں ان کو ایسے درجہ کا انسان خیال کرتا کہ جیسے خدا کے کامل بندے مامورین ہوتے ہیں.اور مجھے خدا نے اپنی جماعت کے نیک بندوں کی نسبت وہ وعدے دیئے ہیں کہ جو لوگ اُن وعدوں کے موافق میری جماعت میں سے رُوحانی نشوونما پائیں گے اور پاک دل ہو کر خدا سے پاک تعلق جوڑ لیں گے مَیں اپنے ایمان سے کہتا ہوں کہ مَیں ان کو صد ہا درجہ مولوی عبد اللہ غزنوی سے بہتر سمجھوں گا اور سمجھتا ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ ان کو وہ نشان دکھلاتا ہے کہ جو مولوی عبد اللہ صاحب نے نہیں دیکھے اور اُن کو وہ معارف سمجھاتا ہے جن کی مولوی عبد اللہ کو کچھ بھی خبر نہیں تھی اور انہوں نے اپنی خوش قسمتی سے مسیح موعود کو پایا اور اُسے قبول کیا مگر مولوی عبد اللہ اس نعمت سے محروم گزر گئے.آپ میری نسبت کیسا ہی بد گمان کریں اس کا فیصلہ تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے.لیکن مَیں بار بار کہتا ہوں کہ مَیںوہی ہوں اور اس نور میں میرا پودہ لگایا گیا ہے جس نور کا وارث مہدی آخر زمان چاہیے تھا.میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکرؓ کے درجہ پر ہے.تو انہوں نے جواب دیا کہ ابو بکرؓ کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عطا کی تقسیم ہے.اگر کوئی بخل سے مَر بھی جائے تو اس کو کیا پرواہ ہے.اورجو شخص مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے ذکر سے مجھ سے ناراض ہوتا ہے اس کو ذرا خدا سے شرم کر کے اپنے نفس سے ہی سوال کرنا چاہیے کہ کیا یہ عبد اللہ اس مہدی و مسیح موعود کے درجہ پر ہو سکتاہے.جس کو ۱؎ حاشیہ.حافظ صاحب کے بھائی محمد یعقوب نے ایک مجلس میں یہ بھی کہا کہ عبد اللہ صاحب نے نام بھی لیا تھا کہ وہ نور مرزا غلام احمد پر نازل ہوا.مگر مَیں ایسی روایتوں کا ذمہ وار نہیں.جھوٹ سچ ان دونوں صاحبوں کی گردن
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا اور فرمایا کہ خوش قسمت ہے وہ امت جو دوپنا ہوں کے اندر ہے ایک مَیں جو خاتم الانبیاء ہوں اور ایک مسیح موعود جو ولایت کے تمام کمالات کو ختم کرتاہے اور فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو نجات پائیں گے.اب فرمایئے کہ جو شخص مسیح موعود سے کنارہ کر کے عبداللہ غزنوی کی وجہ سے اس سے ناراض ہوتا ہے اس کا کیا حال ہے.کیا سچ نہیں ہے کہ تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ یہی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت کے صلحاء اور اولیاء اور ابدال اورقطبوں اور غوثوں میں سے کوئی بھی مسیح موعود کی شان اور مرتبہ کو نہیں پہنچتا.پھر اگر یہ سچ ہے تو آپ کا مسیح موعود ؑکے مقابل پر مولوی عبد اللہ غزنوی کا ذکر کرنا اور بار بار یہ شکایت کرنا کہ عبد اللہ کے حق میں یہ کہا ہے کس قدر خدا تعالیٰ کے احکام اور اس کے رسول کریمؐ کی وصیّتوں سے لا پروائی ہے.کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ عبد اللہ غزنی سے نکالا جائے گا اورپنجاب میں آئے گا اس کو تم مان لینا اور میرا سلام اس کو پہنچانا؟ یا یہ نصیحت فرمائی تھی کہ غلبہئِ صلیب کے وقت مسیح موعود ظاہر ہو گا اور وہ نبیوں کی شان لے کر آئے گا اور خدا اس کے ہاتھ پر صلیبی مذہب کو شکست دے گا اس کی نافرمانی نہ کرنا اور اس کو میری طرف سے سلام پہنچانا؟ اور اگر یہ کہو کہ وہ تو آ کرنصاریٰ سے لڑے گا اور ان کی صلیبوں کو توڑے گا اور ان کے خنزیروں کو قتل کرے گا تو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ علماء اسلام کی غلطیاں ہیں بلکہ ضرور تھا کہ مسیح موعود نرمی اور صلح کاری کے ساتھ آتا.اور صحیح بخاری میں بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود جنگ نہیں کرے گا اور نہ تلوار اٹھائے گا بلکہ اس کا حربہ آسمانی حربہ ہو گا اور اس کی تلوار دلائل قاطعہ ہو گی.سو وہ اپنے وقت پر آ چکا.اب کسی فرضی مہدی اور فرضی مسیح موعود کی انتظار کرنا اور خونریزی کے زمانہ کا منتظر رہنا سراسر کوتہ فہمی کا نتیجہ ہے جو خدا نے میرے ہاتھ پر بہت سے نشان دکھلائے اور ایسے یقینی طورپر ظاہر ہو ئے کہ تیرہ سو برس کے زمانہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ان کی نظیر نہیں پائی جاتی.اسلامی اولیاء کی کرامات ان کی زندگی سے بہت پیچھے لکھی گئی ہیں.اور اُن کی شہرت صرف اُن کے چند مُریدوں تک محدود تھی.لیکن یہ نشان کر وڑ ہا
انسانوں میں شہرت پا گئے ۱؎ مثلاً دیکھو کہ لیکھرام کی پیشگوئی کو کیونکر فریقین نے اپنے اشتہارات میں شائع کیا اور قبل اس کے جو وہ پیشگوئی ظہور میں آوے لاکھوں انسانوں میں اس پیشگوئی کا مضمون شہرت پا گیا اور تین قومیں ہندو ،مسلمان ،عیسائی اس پر گواہ ہو گئیں.پھر اسی کرو فر سے وہ پیشگوئی ظہور میں بھی آئی اور اُسی طرح لیکھرام قتل کے ذریعہ سے فوت ہوا.جیسا کہ پیش از قت ظاہر کیا گیاتھا.کیا ایسی ہیبت ناک پیشگوئی کو پورا کرنا انسان کے اختیار میں ہے؟ کیا اس ملک کی تین قوموں میں اس قدر شہرت پا کر اورایک کشتی کی طرح لاکھوں انسانوں کے نظارہ کے نیچے آ کر اس کاپورا ہو جانا ایسی پیشگوئی کی جو اس شان و شوکت کے ساتھ پوری ہوئی ہو تیرہ سو برس کے زمانہ میں کوئی نظیر بھی ہے؟ بعض کا یہ کہنا کہ بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اس کا جواب بجز اس کے ہم کیا دیں کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْـکَاذِبِیْنَ.ا گر ان لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ نور انصاف ہوتا تو وہ شُبہ کے وقت میرے پاس آتے تو مَیں اُن کو بتلاتا کہ کس خوبی سے تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئیں.ہاں ایک پیشگوئی ہے جس کا ایک حصّہ پورا ہو گیا اور ایک حصّہ شرط کے اثر کی وجہ سے باقی ہے جو اپنے وقت پر پورا ہو گا.افسوس تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی وہ سنتیں اور قانون بھی معلوم نہیں جو پیش گوئیوں کے متعلق ہیں.اُن کے قول کے مطابق تو یونس نبی بھی جھوٹا تھا جس نے اپنی پیشگوئی کے قطعی طورپر چالیس دن مقرر کئے تھے مگر وہ لوگ چالیس برس سے بھی زیادہ زندہ رہے.اور چالیس دن میں نینوا کا ایک تنکا بھی نہ ٹوٹا بلکہ یونس نبی تو کیا تمام نبیوں کی پیشگوئیوں میں یہ نظیریں ملتی ہیں.پھر اخیر پر خدا تعالیٰ ٰ کی قسم آپ کو دیتا ہوں کہ آپ وہ تمام مخالفانہ پیشگوئیاں جو میری نسبت آپ کے دل میں ہو لکھ کر چھاپ دیں.اب دس دن سے زیادہ مَیں آپ کو مہلت نہیں دیتا.جُون مہینے کی ۳۰ ؍تاریخ تک آپ کا اشتہار مخالفانہ پیشگوئیوں کا میرے ۱؎ ایسے نشان جو مجھ سے ظہور میں آئے جن کے کروڑ ہا انسان گواہ ہیں ان میں سے ایک سو نشان کتاب تریاق القلوب میں مع گواہوں کے ذکر کے درج ہیں.منہ
پاس آ جانا چاہیے.۱؎ ورنہ یہی کاغذ چھاپ دیا جائے گا اور پھر آیندہ آپ کو کبھی مخاطب کرنا بھی بے فائدہ ہو گا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی ۱۶؍ جون ۱۸۹۹ء بابو الٰہی بخش صاحب کو میں نے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے مخالفانہ پیشگوئیوں کے شائع کرنے کے لئے مہلت دی تھی مگر مَیں نے بجائے دس دن کے ایک برس سے زیادہ انتظار کر کے اب یہ خط شائع کیا ہے ان کو یاد کرنا چاہیے کہ ان کا کیا وعدہ تھا اور کیا ظہور میں آیا.المشتھر مرزا غلام احمد از قادیان.۲۵ ؍مئی ۱۹۰۰ء ۱؎ حاشیہ.اگر آپ ایک سو مخالفانہ الہام بھی جس میں مجھے کافر و دجّال و مسرف.کذّاب اور لعنتی وغیرہ کہا گیا ہو جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے چھاپ کر میری طرف روانہ کریں تو مَیں کاغذ کی چھپوائی سے دست کش رہوں گا بلکہ اگرتکفیر تکذیب کے الہام صرف پچاس ہی چھپوا کر بھیج دیں اور میعادکے اندر بھیجیں تب بھی مَیں اس خط کو نہیں چھپوائوں گا.لیکن اگر آپ نے اس مدت میں کم سے کم پچاس الہام بھی چھپوا کر میری طرف روانہ نہ کئے باوجود اس دعویٰ کے کہ بکثرت مخالفانہ الہام ہو چکے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کو چھاپ دوں گا.آپ اس وقت عبد الحق ملہم شاگرد رشید عبد اللہ غزنوی سے بھی مدد لیں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.(دستخط) المرسل خاکسار مرزا غلام احمد
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ( یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے ۱۴ صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۹ صفحہ ۲۰ تا ۳۲) ۲۲۶ ضمیمہ خطبہ الہامیہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْمِ اشتہار چندہ منارۃ المسیح ’’ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد‘‘ (یہ وہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے جس کو شائع ہوئے بیس برس گزر گئے ) خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے قادیاں کی مسجد جو میرے والد صاحب مرحوم نے مختصر طور پر دو بازاروں کے وسط میں ایک اونچی زمین پر بنائی تھی اب شوکتِ اسلام کے لئے بہت وسیع کی گئی اور بعض حصہ عمارات کے اَور بھی بنائے گئے ہیں لہٰذا اب یہ مسجد اور رنگ پکڑ گئی ہے.یعنی پہلے اس مسجد کی وسعت صرف اس قدر تھی کہ بمشکل دو سو آدمی اس میں نماز پڑھ سکتا تھا لیکن اب دوہزار کے قریب اس میں نماز پڑھ سکتا ہے اور غالباً آئندہ اور بھی یہ مسجد وسیع ہو جائے گی.میرے دعویٰ کی ابتدائی حالت میں اس مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے زیادہ سے زیادہ پندرہ یا بیس آدمی جمع ہوا کرتے تھے لیکن اب خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ تین سو یا چار سو نمازی ایک معمولی اندازہ ہے اور کبھی سات سو یا آٹھ سو تک بھی نمازیوں کی نوبت پہنچ جاتی ہے.لوگ دُور دُور سے نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں.یہ عجیب خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں نے بہت زور مارا کہ ہمارا سلسلہ ٹوٹ جائے اور درہم برہم ہو جائے لیکن جوں جوں وہ بیخ کنی کے لئے کوشش کرتے گئے اَور بھی ترقی ہوتی گئی اور ایک خارق عادت طور پر یہ سلسلہ اس ملک میں پھیل گیا.سو یہ ایسا امر ہے کہ ان کے
لئے جو آنکھیں رکھتے ہیں ایک نشان ہے.اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا تو ان مولویوں کی کوششوں سے کب کا نابود ہو جاتا.مگر چونکہ یہ خدا کا کاروبار اور اس کے ہاتھ سے تھا اس لئے انسانی مزاحمت اس کو روک نہیں سکی.اب اس مسجد کی تکمیل کے لئے ایک اَور تجویز قرار پائی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجد کی شرقی طرف جیسا کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء ہے ایک نہایت اونچا منارہ بنایا جائے اور وہ منارہ تین کاموں کے لئے مخصوص ہو:- اوّل یہ کہ تامؤذن اس پر چڑھ کر پنج وقت بانگِ نماز دیا کرے اور تا خدا کے پاک نام کی اونچی آواز سے دن رات میں پانچ دفعہ تبلیغ ہو اور تا مختصر لفظوں میں پنج وقت ہماری طرف سے انسانوں کو یہ ندا کی جائے کہ وہ ازلی اور ابدی خدا جس کی تمام انسانوں کو پرستش کرنی چاہئے صرف وہی خدا ہے جس کی طرف اس کا برگزیدہ اور پاک رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رہنمائی کرتا ہے.اس کے سوا نہ زمین میں نہ آسمان میں اَور کوئی خدا نہیں.دوسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہوگا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی بہت اونچے حصے پر ایک بڑا لالٹین نصب کر دیا جائے گا جس کی قریباً ایک سو روپیہ یا کچھ زیادہ قیمت ہوگی.یہ روشنی انسانوں کی آنکھیں روشن کرنے کے لئے دُور دُور جائے گی.تیسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہوگا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی اونچے حصے پر ایک بڑا گھنٹہ جو چار سو یا پانسو روپیہ کی قیمت کا ہوگا نصب کر دیا جائے گا تا انسان اپنے وقت کو پہچانیں اور انسانوں کووقت شناسی کی طرف توجہ ہو.یہ تینوں کام جو اس منارہ کے ذریعہ سے جاری ہوںگے ان کے اندر تین حقیقتیں مخفی ہیں.اوّل یہ کہ بانگ جو پانچ وقت اونچی آواز سے لوگوں کو پہنچائی جائے گی اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ اب واقعی طور پر وقت آگیا ہے کہ لا الٰہ الا اللّٰہ کی آواز ہر ایک کان تک پہنچے.یعنی اب وقت خود بولتا ہے کہ اُس ازلی ابدی زندہ خدا کے سوا جس کی طرف پاک رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی کی ہے اور سب خدا جو بنائے گئے ہیں باطل ہیں.کیوں باطل ہیں؟ اس لئے کہ اُن کے ماننے والے کوئی برکت اُن سے پا نہیں
سکتے.کوئی نشان دکھا نہیں سکتے.دوسرے وہ لالٹین جو اس منارہ کی دیوار میں نصب کی جائے گی اس کے نیچے حقیقت یہ ہے کہ تا لو گ معلوم کریں کہ آسمانی روشنی کا زمانہ آگیا اور جیسا کہ زمین نے اپنی ایجادوں میں قدم آگے بڑھایا ایسا ہی آسمان نے بھی چاہا کہ اپنے نوروں کو بہت صفائی سے ظاہر کرے تا حقیقت کے طالبوں کے لئے پھر تازگی کے دن آئیں اور ہر ایک آنکھ جو دیکھ سکتی ہے آسمانی روشنی کو دیکھے اور اُس روشنی کے ذریعہ سے غلطیوں سے بچ جائے.تیسرے وہ گھنٹہ جو اس منارہ کے کسی حصہ دیوار میں نصب کرایا جائے گا اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ تا لوگ اپنے وقت کو پہچان لیں یعنی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آگیا.اب سے زمینی جہاد بند کئے گئے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا.سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا.اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اُٹھاتا ہے اور غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے.صحیح بخاری کو کھولو اور اُس حدیث کو پڑھو کہ جو مسیح موعود کے حق میں ہے یعنی یَضَعُ الْحَرْبَ جس کے یہ معنے ہیں کہ جب مسیح آئے گاتو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا.سو مسیح آچکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے.غرض حدیث نبوی میں جو مسیح موعود کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ منارہ بیضاء کے پاس نازل ہوگا اس سے یہی غرض تھی کہ مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے کہ اُس وقت بباعث دنیا کے باہمی میل جول کے اور نیز راہوں کے کھلنے اور سہولت ملاقات کی وجہ سے تبلیغ احکام اور دینی روشنی پہنچانا اور ندا کرنا ایسا سہل ہوگا کہ گویا یہ شخص منارہ پر کھڑا ہے.یہ اشارہ ریل اور تار اور اگن بوٹ اور انتظام ڈاک کی طرف تھا جس نے تمام دنیا کوایک شہر کی مانند کر دیا.غرض مسیح کے زمانہ کے لئے منارہ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اُس کی روشنی اور آوا ز جلد تر دنیا میں پھیلے گی.اور یہ باتیں کسی اَور نبی کو میسّر نہیں آئیں.اور انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح کا آنا ایسے زمانہ میں ہوگا جیسا کہ بجلی آسمان کے ایک کنارہ میں چمک کر تمام کناروںکو ایک دم میں روشن کر دیتی ہے یہ بھی اِسی امر کی طرف اشارہ تھا یہی وجہ ہے کہ چونکہ مسیح تمام دنیا کو روشنی پہنچانے آیا ہے اس لئے اُس کو پہلے سے یہ سب سامان دیئے گئے.وہ خون بہانے کے
لئے نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے صلح کاری کا پیغام لایا ہے.اب کیوں انسانوں کے خون کئے جائیں.اگر کوئی سچ کا طالب ہے تو وہ خدا کے نشان دیکھے جو صدہا ظہور میں آئے اور آرہے ہیں.اور اگر خدا کا طالب نہیں تو اُس کو چھوڑ دو اور اس کے قتل کی فکر میں مت ہو کیونکہ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب وہ آخری دن نزدیک ہے جس سے تمام نبی جو دنیا میں آئے ڈراتے رہے.غرض یہ گھنٹہ جو وقت شناسی کے لئے لگایا جائے گا مسیح کے وقت کیلئے یاد دہانی ہے اور خود اس منارہ کے اندر ہی ایک حقیقت مخفی ہے اور وہ یہ کہ احادیث نبویہ میں متواتر آ چکا ہے کہ مسیح آنے والا صاحب المَنَارہ ہوگایعنی اُس کے زمانہ میں اسلامی سچائی بلندی کے انتہا تک پہنچ جائے گی جو اس منارہ کی مانند ہے جو نہایت اونچا ہو.اوردین اسلام سب دینوں پر غالب آجائے گا اُسی کے مانند جیسا کہ کوئی شخص جب ایک بلند منار پر اذان دیتا ہے تو وہ آواز تمام آوازوں پر غالب آجاتی ہے.سو مقدّر تھا کہ ایسا ہی مسیح کے دنوں میں ہوگا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.۱؎.یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے اور اسلامی حجت کی وہ بلند آوازجس کے نیچے تمام آوازیں دب جائیں وہ ازل سے مسیح کے لئے خاص کی گئی ہے اور قدیم سے مسیح موعود کا قدم اس بلند مینار پر قرار دیا گیا ہے جس سے بڑھ کر اَور کوئی عمارت اونچی نہیں.اِسی کی طرف طرف براہین احمدیہ کے اس الہام میں اشارہ ہے جو کتاب مذکورکے صفحہ ۵۲۲ میں درج ہے.اور وہ یہ ہے:- ’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد‘‘.ایسا ہی مسیح موعود کی مسجد بھی مسجد اقصٰی ہے کیونکہ وہ صدر اسلام سے دُور تر اور انتہائی زمانہ پر ہے.اور ایک روایت میں خدا کے پاک نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ مسیح موعود کا نزول مسجد اقصٰی کے شرقی منارہ کے قریب ہوگا.۲؎ ۱؎ الصف:۱۰ ۲؎ حاشیہ.بعض احادیث میں یہ پایا جاتا ہے کہ دمشق کے مشرقی طرف کوئی منارہ ہے جس کے قریب مسیح کا نزول ہوگا.سو یہ حدیث ہمارے مطلب سے کچھ منافی نہیں ہے کیونکہ ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ ہمارا یہ گاؤں جس کا نام قادیاں ہے اور ہماری یہ مسجد جس کے قریب منارہ طیار ہوگا دمشق سے شرقی طرف ہی واقع
اَب اے دوستو! یہ منارہ اس لئے طیار کیا جاتا ہے کہ تا حدیث کے موافق مسیح موعود کے زمانہ کی یادگار ہو اور نیز وہ عظیم پیشگوئی پوری ہو جائے جس کا ذکر قرآن شریف کی اِس آیت میں ہے کہ بقیہ حاشیہ.ہیں.حدیث میں اس بات کی تصریح نہیں کہ وہ منارہ دمشق سے ملحق اور اُس کی ایک جزو ہوگا بلکہ اس کے شرقی طرف واقع ہوگا.پھر دوسری حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ مسجد اقصیٰ کے قریب مسیح کا نزول ہوگا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ منارہ یہی مسجد اقصیٰ کا منارہ ہے اوردمشق کا ذکر اُس غرض کے لئے ہے جو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں.اور مسجد اقصٰی سے مراد اس جگہ یروشلم کی مسجد نہیں ہے بلکہ مسیح موعود کی مسجد ہے جو باعتبار بُعد زمانہ کے خدا کے نزدیک مسجد اقصیٰ ہے.اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ جس مسجد کی مسیح موعود بنا کرے وہ اس لائق ہے کہ اس کو مسجد اقصیٰ کہا جائے جس کے معنے ہیں مسجد اَبْعَد.کیونکہ جب کہ مسیح موعود کا وجود اسلام کے لئے ایک انتہائی دیوار ہے اورمقرر ہے کہ وہ آخری زمانہ میں اور بعید تر حصہ دنیا میں آسمانی برکات کے ساتھ نازل ہوگا.اس لئے ہرایک مسلمان کو یہ ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود کی مسجد مسجد اقصٰی ہے کیونکہ اسلامی زمانہ کاخط ممتد جو ہے اس کے انتہائی نقطہ پر مسیح موعود کا وجود ہے لہٰذا مسیح موعود کی مسجد پہلے زمانہ سے جو صدر اسلام ہے بہت ہی بعید ہے.سو اس وجہ سے مسجد اقصٰی کہلانے کے لائق ہے اور اس مسجد اقصٰی کا منارہ اس لائق ہے کہ تمام میناروں سے اونچا ہو کیونکہ یہ منارہ مسیح موعود کے احقاق حق اور صَرفِ ہمت اور اتمامِ حجت اور اعلاء ملّت کی جسمانی طور پر تصویرہے پس جیسا کہ اسلامی سچائی مسیح موعود کے ہاتھ سے اعلیٰ درجہ کے ارتفاع تک پہنچ گئی ہے اور مسیح کی ہمت ثریّا سے ایمان گم گشتہ کو واپس لارہی ہے اسی کے مطابق یہ مینار بھی روحانی امور کی عظمت ظاہر کررہا ہے.وہ آواز جو دنیا کے ہر چہار گوشہ میں پہنچائی جائے گی وہ روحانی طور پربڑے اونچے مینار کوچاہتی ہے.قریبًا بیس برس ہوئے کہ مَیں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کا یہ کلام جومیری زبان پر جاری کیا گیا لکھا تھا.یعنی یہ کہ اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ.وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ
.اور جس کے منارہ کا ذکر حدیث میں بھی ہے کہ مسیح کا نزول منارہ کے پاس ہوگا.دمشق کا ذکر اس حدیث میں جومسلم نے بیان کی ہے اس غرض سے ہے کہ بقیہ حاشیہ.وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.دیکھو براہین احمدیہ صفحہ۴۹۸.یعنی ہم نے اس مسیح موعود کو قادیاں میں اتارا ہے اور وہ ضرورتِ حقہ کے ساتھ اُتارا گیا اور ضرورت حقہ کے ساتھ اترا.خدا نے قرآن میں اور رسول نے حدیث میں جو کچھ فرمایاتھا وہ اُس کے آنے سے پورا ہوا.اس الہام کے وقت جیسا کہ مَیں کئی دفعہ لکھ چکا ہوں مجھے کشفی طور پر یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ یہ الہام قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے اور اس وقت عالم کشف میں میرے دل میں اس بات کا یقین تھا کہ قرآن شریف میں تین شہروں کا ذکر ہے.یعنی مکّہ اورمدینہ اور قادیاں کا.اس بات کو قریباً بیس برس ہوگئے جبکہ مَیں نے براہین احمدیہ میں لکھا تھااب اس رسالہ کی تحریر کے وقت میرے پر یہ منکشف ہوا کہ جو کچھ براہین احمدیہ میں قادیان کے بارے میں کشفی طورپر مَیں نے لکھا یعنی یہ کہ اس کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے درحقیقت یہ صحیح بات ہے کیونکہ یہ یقینی امر ہے کہ قرآن شریف کی یہ آیت کہ ۱؎ معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت ِ اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکات ِاسلامی کے زمانہ تک جومسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا ۲؎.۱؎ بنی اسراء یل : ۲ ۲؎ حاشیہ در حاشیہ.شوکت اسلام کا زمانہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا اُس کا اثر غالب یہ تھا کہ حضرت موسیٰ کی طرح مومنوں کو کفار کے حملہ سے نجات دی اس لئے بیت اللہ کا نام بھی بیت امن رکھا گیا.لیکن زمانہ برکات کا جومسیح موعود کا زمانہ ہے اس کا یہ اثر ہے کہ ہر قسم کے آرام زمین میں پیدا ہو جائیں اور نہ صرف امن بلکہ عیش رغد بھی حاصل ہو.منہ
تین خدا بنانے کی تخم ریزی اوّل دمشق سے شروع ہوئی ہے اور مسیح موعود کا نزول اِس غرض سے ہے کہ تا تین کے خیالات کومحو کر کے پھر ایک خدا کا جلال دنیا میں قائم کرے.پس اِس ایما کے لئے بیان کیا گیا کہ مسیح کا منارہ جس کے قریب اس کا نزول ہوگا دمشق سے شرقی طرف ہے اور یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ قادیان جو ضلع گورداسپور پنجاب میں بقیہ حاشیہ.پس اس پہلو کے رو سے جو اسلام کے انتہائِ زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر کشفی ہے مسجد اقصٰی سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیاں میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے.مبارک و مبارک وکل امر مبارک یجعل فیہ.اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا قرآن شریف کی آیت بَارَکْنَا حَوْلَہٗ کے مطابق ہے.پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے..اس آیت کے ایک تو وہی معنے ہیں جو علماء میں مشہور ہیںیعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانی معراج کا یہ بیان ہے.مگر کچھ شک نہیں کہ اس کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک زمانی معراج بھی تھا جس سے یہ غرض تھی کہ تا آپ کی نظر کشفی کا کمال ظاہر ہواور نیز ثابت ہو کہ مسیحی زمانہ کے برکات بھی درحقیقت آپ ہی کے برکات ہیں جو آپ کی توجہ اور ہمت سے پیدا ہوئی ہیں.اسی وجہ سے مسیح ایک طور سے آپ ہی کا روپ ہے.اور وہ معراج یعنی بلوغ نظر کشفی دنیا کی انتہا تک تھا جو مسیح کے زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس معراج میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصٰی یہی ہے جو قادیاں میں بجانب مشرق واقع ہے جس کا نام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے.یہ مسجد جسمانی طور پر مسیح موعود کے حکم سے بنائی گئی ہے اور روحانی طور پر مسیح موعود کے برکات اور کمالات کی تصویر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بطور موہبت ہیں اور جیسا کہ مسجد الحرام کی روحانیت حضرت آدم اور حضرت ابراہیم کے کمالات ہیں اور بیت المقدس کی روحانیت انبیاء بنی اسرائیل کے کمالات ہیں ایسا ہی مسیح موعود کییہ مسجد اقصیٰ جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے اس کے رُوحانی کمالات کی تصویر ہے.
ہے جو لاہور سے۱؎ گوشہ مغرب اور جنوب میں واقع ہے وہ دمشق سے ٹھیک ٹھیک شرقی جانب پڑی ہے.پس اِس سے ثابت ہوا کہ یہ منارۃ المسیح بھی دمشق سے شرقی جانب واقع ہے.بقیہ حاشیہ.پس اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج میں زمانہ گذشتہ کی طرف صعود ہے اور زمانہ آئندہ کی طرف نزول ہے اور ماحصل اس معراج کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیرالاولین والآخرین ہیں.معراج جو مسجد الحرام سے شروع ہوا اِس میں یہ اشارہ ہے کہ صفی اللہ آدم کے تمام کمالات اور ابراہیم خلیل اللہ کے تمام کمالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے اور پھر اس جگہ سے قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکانی سیر کے طور پر بیت المقدس کی طرف گیا اور اس میں یہ اشارہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام اسرائیلی نبیوں کے کمالات بھی موجود ہیں.اور پھر اس جگہ سے قدم آنجناب علیہ السلام زمانی سیر کے طور پر اس مسجد اقصٰی تک گیا جو مسیح موعود کی مسجد ہے یعنی کشفی نظر اس آخری زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ کہلاتا ہے پہنچ گئی.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو کچھ مسیح موعود کو دیا گیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجود ہے.اور پھر قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمانی سیر کے طور پر اوپر کی طرف گیا اور مرتبہ قَابَ قَوْسَیْن کا پایا.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر صفاتِ الٰہیہ اتم اور اکمل طور پر تھے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قسم کا معراج یعنی مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک جوزمانی مکانی دونوں رنگ کی سیر تھی اور نیز خدا تعالیٰ کی طرف ایک سیرتھاجو مکان اور زمان دونوں سے پاک تھا.اس جدید طرز کی معراج سے غرض یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیرالاولین والآخرین ہیں اور نیز خدا تعالیٰ کی طرف سیران کا اس نقطہ ارتفاع پر ہے کہ اِس سے بڑھ کر کسی انسان کوگنجائش نہیں.مگر اس حاشیہ میں ہماری صرف یہ غرض ہے کہ جیسا کہ آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں کشفی طور پر لکھا گیا تھا کہ قرآن شریف میں قادیاں کا ذکر ہے.یہ کشف نہایت صحیح اور درست تھا کیونکہ زمانی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج اور مسجد اقصٰے کی طرف سیرمسجد الحرام سے شروع ہو کر یہ کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا جب تک ایسی مسجد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر تسلیم نہ کیا جائے جو باعتبار بُعدِ زمانہ کے مسجد اقصٰی ہو.اور ظاہر ہے کہ مسیح موعود کا وہ زمانہ ہے جو اسلامی سمندر کا بمقابلہ زمانہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے دوسرا کنارہ ہے.ابتدا سیرکا مسجد الحرام سے بیان کیا گیااور انتہا سیر کا جو اس بہت دُور ۱؎ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے ’’لاہور جس سے‘‘ ہونا چاہیے.(ناشر)
اسی قسم کی ایک دلیل دلائل مرکبّہ مثبتہ حقیّت فرقان مجید سے تحریر کرتے ہیں اور وہ یہ ہے جو تعلیم اصولی فرقان مجید کی دلائل حکمیّہ پر مبنی اور مشتمل ہے یعنی فرقان مجید ہریک اصول اعتقادی کو جو مدار نجات کا ہے محقّقانہ طور سے ثابت کرتا ہے اور قوی اور مضبوط فلسفی دلیلوں سے بپایہء صداقت پہنچاتا ہے جیسے وجود صانع عالم کا ثابت کرنا توحید کو بپایۂ ثبوت پہنچانا ضرورتِ الہام پر دلائل قاطعہ کا لکھنا اور کسی احقاقِ حق اور ابطالِ باطل سے قاصر نہ رہنا پس یہ امر فرقان مجید کے منجانب اللہ ہونے پر بڑی بزرگ دلیل ہے جس سے حقیّت اور افضلیّت اس کی بو جہ کمال ثابت ہوتی ہے کیونکہ دنیا کے تمام عقائدِ فاسدہ کو ہریک نوع اور ہر صِنف کی غلطیوں سے بدلائل واضحہ پاک کرنا اور ہر قسم کے شکوک اور شبہات کو جو لوگوں کے دلوں میں دخل کرگئے ہوں.براہین قاطعہ سے مٹا دینا اور ایسا مجموعہ اصولِ مدلّلہ محقّقہ مُثبتہ کا اپنی کتاب میں درج کرنا کہ نہ پہلے اُس سے وہ مجموعہ کسی الہامی کتاب میں درج ہو اور نہ کسی ایسے حکیم اور فیلسوف کا پتا مِل سکتا ہو کہ جو کبھی کسی زمانہ میں اپنی نظر اور فکر اور عقل اور قیاس اور فہم اور ادراک کے زور سے اُس مجموعہ کی حقیقی سچائی کا دریافت کرنے والا ہوچکا ہو اور نہ کبھی کسی بھلے مانس نے ایک ذرہ اِس بات کا ثبوت دیا ہو جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کوئی ایک آدھ دن کسی مدرسہ یا مکتب میں پڑھنے بیٹھے تھے یا کسی سے کچھ عِلم معقول یا منقول
اتفاقیہ نہیں ہو سکتے بلکہ ان کے نیچے اسرار اور رموز ہوتے ہیں وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام باتیں رموز اور اسرار سے پُر ہیں.اب ہمارے مخالف گو اس دمشقی حدیث کو بار بار پڑھتے ہیں مگر وہ اس کا جواب نہیں بقیہ حاشیہ.تائیدات کابھی ایک دریا چل رہا تھا.فحاصل البیان ان الزمان زمانان.زمان التائیدات ودفع الاٰفات و زمان البرکات والطیبات والیہ اشار عزاسمہ بقولہ ۱؎ فاعلم ان لفظ مسجد الحرام فی قولہ تعالٰی یدل علٰی زمانٍ فیہ ظھرت عزۃ حرمات اللہ بتائید من اللّٰہ وظھرت عزۃ حدودہ واحکامہ و فرائضہ وتَرَاء ت شوکۃ دینہ ورعب ملّتہ.وھو زمان نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم.والمسجد الحرام البیت الذی بناہ ابراھیم علیہ السلام فی مکۃ وھو موجود الٰی ھٰذا الوقت حرسہ اللّٰہ من کلّ آفۃ.واما قولہ عزّاسمہ بعد ھٰذا القول اعنیفیدل علٰی زمانٍ فیہ یظھر برکاتٍ فی الارض من کل جھۃ کما ذکرناہ اٰنفا وھو زمان المسیح الموعود والمھدی المعہود والمسجد الاقصٰی ھو المسجد الذی بناہ المسیح الموعود فی القادیان سُمّی اَقْصٰی لبُعْدہ من زمان النبوّۃ ولما وقع فی اقصٰی طرفٍ من زمن ابتداء الاسلام فتدبر ھٰذا المقام فانہ اودع اسرارًا من اللّٰہ العلّام.خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج تین قسم پر منقسم ہے.سیر مکانی اور سیرزمانی اور سیر لامکانی ولا زمانی.سَیر مکانی میں اشارہ ہے طرف غلبہ اور فتوحات پر یعنی یہ اشارہ کہ اسلامی ملک مکہ سے بیت المقدس تک پھیلے گا.اور سیر زمانی میں اشارہ ہے طرف تعلیمات اور تاثیرات کے یعنی یہ کہ مسیح موعود کا زمانہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات سے تربیت یافتہ ہوگا جیسا کہ قرآن میں فرمایا ہے ۱؎.اور سیر لامکانی ولازمانی میں اشارہ ہے طرف اعلیٰ درجہ کے قُرب اللہ اور مدانات کی جس پر دائرہ امکانِ قرب کا ختم ہے.فَافْھَم.منہ ۱؎ بنی اسراء یل : ۲ ۲؎ الجمعۃ : ۴
دے سکتے کہ یہ جو اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ مسیح موعود دمشق کی شرقی طرف کے منارہ کے قریب نازل ہوگا اس میں کیا بھید ہے بلکہ انہوں نے محض ایک کہانی کی طرح اس حدیث کو سمجھ لیا ہے.لیکن یاد رہے کہ یہ کہانی نہیں ہے اور خدا تعالیٰ لغو کاموں سے پاک ہے بلکہ اس حدیث کے ان الفاظ میں جو اول دمشق کا ذکر فرمایا اور پھر اس کے شرقی طرف ایک منارہ قرار دیا ایک عظیم الشان راز ہے اور وہ وہی ہے جوابھی ہم بیان کرچکے ہیں.یعنی یہ کہ تثلیث اور تین خداؤں کی بنیاد دمشق سے ہی پڑی تھی.کیا ہی منحوس وہ دن تھا جب پولوس یہودی ایک خواب کا منصوبہ بنا کر دمشق میں داخل ہوا اور بعض سادہ لوح عیسائیوں کے پاس یہ ظاہر کیا کہ خداوند مسیح مجھے دکھائی دیا اور اس تعلیم کے شائع کرنے کیلئے ارشاد فرمایا کہ گویا وہ بھی ایک خدا ہے بس وہی خواب تثلیث کے مذہب کی تخم ریزی تھی.غرض یہ شرکِ عظیم کا کھیت اول دمشق میں ہی بڑھا اور پھُولا اور پھر یہ زہر اَور اَور جگہوں میں پھیلتی گئی.پس چونکہ خدا تعالیٰ کو معلوم تھا کہ انسان کو خدا بنانے کا بنیادی پتھر اول دمشق میں ہی رکھا گیا اِس لئے خدا نے اُس زمانہ کے ذکر کے وقت کہ جب غیرت خدا وندی اس باطل تعلیم کو نابود کرے گی پھر دمشق کا ذکر فرمایا اور کہا کہ مسیح کا منارہ یعنی اُس کے نور کے ظاہر ہونے کی جگہ دمشق کی مشرقی طرف ہے.اِس عبارت سے یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ منارہ دمشق کی ایک جزُ ہے اور دمشق میں واقع ہے جیسا کہ بدقسمتی سے سمجھا گیا بلکہ مطلب یہ تھا کہ مسیح موعود کا نور آفتاب کی طرح دمشق کے مشرقی جانب سے طلوع کر کے مغربی تاریکی کو دُور کرے گا اور یہ ایک لطیف اشارہ تھا کیونکہ مسیح کے منارہ کو جس کے قریب اس کا نزول ہے دمشق کے مشرقی طرف قرار دیا گیا اور دمشقی تثلیث کو اس کے مغربی طرف رکھا اور اس طرح پر آنے والے زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی کی کہ جب مسیح موعود آئے گا تو آفتاب کی طرح جو مشرق سے نکلتا ہے ظہور فرمائے گا اور اس کے مقابل پر تثلیث کا چراغ مردہ جو مغرب کی طرف واقع ہے دن بدن پژ مردہ ہوتا جائے گا کیونکہ مشرق سے نکلنا خدا کی کتابوں سے اقبال کی نشانی قرار دی گئی ہے اور مغرب کی طرف جانا ادبار کی نشانی اور اسی نشانی کی طرف ایما کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے قادیاں کو جو مسیح موعود کا
نزول گاہ ہے دمشق سے مشرق کی طرف آباد کیا اور دمشق کو اُس سے مغرب کی طرف رکھا.بڑا دھوکا ہمارے مخالفوں کو یہ لگا ہے کہ انہوں نے حدیث کے لفظوں میں یہ دیکھ کر کہ مسیح موعود اس منارہ کے قریب نازل ہوگا جو دمشق کی شرقی طرف ہے یہ سمجھ لیا کہ وہ منارہ دمشق میں ہی واقع ہے حالانکہ دمشق میں ایسے منارہ کا وجود نہیں اور یہ خیال نہیں کیاکہ اگر کہا جائے کہ اگر مثلاً فلاں جگہ فلاں شہر کے شرقی طرف ہے تو کیا ہمیشہ اس سے یہ مراد ہوا کرتا ہے کہ وہ جگہ اس شہر سے پیوستہ ہے؟ اور اگر حدیث میں ایسے لفظ بھی ہوتے جن سے قطعی طور پر یہی سمجھا جاتا کہ وہ منارہ دمشق کے ساتھ پیوستہ ہے اور دوسرے احتمال کی راہ نہ ہوتی تا ہم ایسا بیان دوسرے قرائن کے مقابل پر قابل قبول نہ ہوتا.مگر اب چونکہ حدیث پر غور کرنے سے صاف طور پر سمجھ آتا ہے کہ اس حدیث کا صرف یہ منشا ہے کہ وہ منارہ دمشق کی شرقی طرف ہے نہ درحقیقت اُس شہر کا ایک حصہ تو دیانت سے بعید اور عقلمندی سے دُور ہے کہ خدا تعالیٰ کی اُن حکمتوںاور بھیدوں کو نظر انداز کر کے جن کو ہم نے اس اشتہار میں بیان کر دیا ہے بیو جہ اس بات پرزور ڈالا جائے کہ وہ منارہ جس کے قریب مسیح کا نزول ہے وہ دمشق میں واقع ہے بلکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منارہ سے اُس مسجد اقصٰی کا منارہ مُراد لیا ہے جو دمشق سے شرقی طرف واقع ہے یعنی مسیح موعود کی مسجد جو حال میں وسیع کی گئی ہے اور عمارت بھی زیادہ کی گئی اور یہ مسجد فی الحقیقت دمشق سے شرقی طرف واقع ہے.اور یہ مسجد صرف اس غرض سے وسیع کی گئی اور بنائی گئی ہے کہ تا دمشقی مفاسد کی اصلاح کرے.اور یہ منارہ وہ منارہ ہے جس کی ضرورت احادیثِ نبویہ میں تسلیم کی گئی.اور اس منارۃ المسیح کا خرچ دس ہزار روپیہ سے کم نہیں ہے.اب جو دوست اس منارہ کی تعمیر کے لئے مدد کریں گے مَیں یقینا سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بھاری خدمت کو انجام دیں گے.اور مَیں یقینا جانتا ہوں کہ ایسے موقع پر خرچ کرنا ہرگز ہرگز ان کے نقصان کا باعث نہیں ہوگا.وہ خدا کو قرض دیں گے اور مع سود واپس لیں گے.کاش ان کے دل سمجھیں کہ اس کام کی خدا کے نزدیک کس قدر عظمت ہے.جس خدا نے منارہ کا حکم دیا ہے اُس نے اِس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ اسلام کی مُردہ حالت
میں اِسی جگہ سے زندگی کی رُوح پھونکی جائے گی اور یہ فتح نمایاں کامیدان ہوگا.مگر یہ فتح اُن ہتھیاروں کے ساتھ نہیں ہوگی جو انسان بناتے ہیں بلکہ آسمانی حربہ کے ساتھ ہے جس حربہ سے فرشتے کام لیتے ہیں.آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا.اب اس کے بعد جو شخص کا فر پر تلوار اُٹھاتا ہے اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اُس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے.سو اب میرے ظہور کے بعدتلوار کا کوئی جہاد نہیں.ہماری طرف سے امان اور صلحکاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کی ایک راہ نہیں.پس جس راہ پر نادان لوگ اعتراض کر چکے ہیں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ اُسی راہ کو پھر اختیار کیا جائے.اِس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے جن نشانوں کی پہلے تکذیب ہو چکی وہ ہمارے سید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیئے گئے.لہٰذا مسیح موعود اپنی فوج کو اس ممنوع مقام سے پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہے جو بدی کا بدی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے.اپنے تئیں شریر کے حملہ سے بچاؤ مگر خود شریرانہ مقابلہ مت کرو.جو شخص ایک شخص کو اس غرض سے تلخ دوا دیتا ہے کہ تا وہ اچھا ہو جائے وہ اس سے نیکی کرتا ہے ایسے آدمی کی نسبت ہم نہیں کہتے کہ اُس نے بدی کا بدی سے مقابلہ کیا.ہر ایک نیکی اور بدی نیت سے ہی پیدا ہوتی ہے.پس چاہیے کہ تمہاری نیت کبھی ناپاک نہ ہوتا تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ.یہ اشتہار منارہ کے بننے کے لئے لکھا گیا ہے مگر یاد رہے کہ مسجد کی بعض جگہ کی عمارات بھی ابھی نادرست ہیں اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ جو کچھ منارۃ المسیح کے مصارف میں سے بچے گا وہ مسجد کی دوسری
عمارت پر لگا دیا جائے گا.یہ کام بہت جلدی کا ہے.دلوں کو کھولو اور خدا کو راضی کرو.یہ روپیہ بہت سی برکتیں ساتھ لے کر پھر آپ لوگوں کی طرف واپس آئے گا مَیں اِس سے زیادہ کہنا نہیں چاہتا.اور ختم کرتا ہوں اور خدا کے سپرد.بالآخر مَیں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس منارہ میں ہماری یہ بھی غرض ہے کہ مینار کے اندر یا جیسا کہ مناسب ہو ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا کمرہ بنا دیا جائے جس میں کم سے کم سو آدمی بیٹھ سکے اور یہ کمرہ وعظ اور مذہبی تقریروں کے لئے کام آئے گا کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ سال میں ایک یا دو دفعہ قادیاں میں مذہبی تقریروں کا ایک جلسہ ہوا کرے اور اُس جلسہ میں ہر ایک شخص مسلمانوں اور ہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاںبیان کرے مگر یہ شرط ہوگی کہ دوسرے مذہب پر کسی قسم کا حملہ نہ کرے فقط اپنے مذہب اور اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہے تہذیب سے کہے اس لئے لکھا جاتا ہے کہ ہمارے دوست اس اشتہار کو ہرایک کاریگر معمار کو دکھلائیں اور اگر وہ کوئی عمدہ نمونہ اس منارہ کاجس میں دونوں مطلب مذکورہ بالا پورے ہو سکتے ہوں ۱؎ تو بہت جلد ہمیں اس سے اطلاع دیں.والسلام خاکســــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار مرزا غلام احمد از قادیان.۲۸؍ مئی ۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۶ × ۲۰ ۴ کے ۱۰ صفحہ پر ہے ) (ضمیمہ خطبہ الہامیہ مطبوعہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ا تا ر.روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ ۱۵تا۳۰) ۱؎ نقل مطابق اصل.غالباً یہاں لفظ ’’دے‘‘ تھا جو سہو کتابت سے رہ گیا ہے.( ناشر)
عرض ضروری بحالتِ مجبوری انسان کی کمزوریاں جو ہمیشہ اُس کی فطرت کے ساتھ لگی ہوئی ہیں ہمیشہ اُس کو تمدن اور تعاون کا محتاج رکھتی ہیں اور یہ حاجت تمدن اور تعاون کی ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ جس میں کسی عاقل کو کلام نہیں خود ہمارے وجود کی ہی ترکیب ایسی ہے کہ جو تعاون کی ضرورت پر اوّل ثبوت ہے ہمارے ہاتھ اور پائوں اور کان اور ناک اور آنکھ وغیرہ اعضا اور ہماری سب اندرونی اور بیرونی طاقتیں ایسی طرز پر واقع ہیں جب تک وہ باہم مل کر ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تب تک افعال ہمارے وجود کے علیٰ مجری الصحت ہرگز جاری نہیں ہوسکتے اور انسانیت کی کل ہی معطل پڑی رہتی ہے جو کام دو ہاتھ کے ملنے سے ہونا چاہیے وہ محض ایک ہی ہاتھ سے انجام نہیں ہوسکتا اور جس راہ کو دو پائوں مل کر طے کرتے ہیں وہ فقط ایک ہی پائوں سے طے نہیں ہوسکتا اسی طرح تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہورہی ہے کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے ہرگز نہیں کوئی کام دینی ہو یا دنیوی بغیر معاونت باہمی کے چل ہی نہیں سکتا ہریک گروہ کہ جس کا مدعا اور مقصد ایک ہی مثل اعضا یکدیگر ہے اور ممکن نہیں جو کوئی فعل جو متعلق غرض مشترک اُس گروہ کے ہے بغیر معاونت باہمی اُن کی کے بخوبی و خوش اسلوبی ہوسکے بالخصوص جس قدر جلیل القدر کام ہیں اور جن کی علّتِ غائی کوئی فائدہ عظیمہ جمہوری ہے وہ تو بجز جمہوری اعانت کے کسی طور پر انجام پذیر ہی نہیں ہوسکتے اور صرف ایک ہی شخص ان کا متحمل ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا انبیاء علیہم السلام جو توکّل اور تفویض
کیوں بھولتے ہوں تم یَضَعُ الْحَرْب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا ہے سیِدّ کونینِ مصطفیٰ عیسٰی مسیح جنگوں کا کردے گا التوا جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا پیویں گے ایک گھاٹ پہ شیر اور گو سپند کھیلیں گے بچے سانپوں سے بے خوف و بیگزند یعنی وہ وقت امن کا ہو گا نہ جنگ کا بھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشاں کر دے گا ختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں اب تم میں خود وہ قوت وطاقت نہیں رہی وہ سلطنت وہ رُعب وہ شوکت نہیں رہی وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی وہ عزم مقبلانہ وہ ہمت نہیں رہی وہ علم وہ صلاح وہ عفّت نہیں رہی وہ نور اور وہ چاند سی طلعت نہیں رہی وہ درد وہ گداز وہ رقّت نہیں رہی خلقِ خدا پہ شفقت و رحمت نہیں رہی دل میں تمہارے یار کی اُلفت نہیں رہی حالت تمہاری جازب نُصرت نہیں رہی حُمق آ گیا ہے سر میں وہ فطنت نہیںرہی کسل آ گیا ہے دل میں جلاوت نہیں رہی وہ علم و معرفت و فراست نہیں رہی وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت نہیں رہی دنیا و دیں میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی اب تم کو غیر قوموں پہ سبقت نہیں رہی وہ اُنس و شوق ووجد وہ طاعت نہیں رہی ظلمت کی کچھ بھی حد و نہایت نہیں رہی ہر وقت جھوٹ سچ کی تو عادت نہیں رہی نور خدا کی کچھ بھی علامت نہیں رہی سو سو ہے گند دل میں طہارت نہیں رہی نیکی کے کام کرنے کی رغبت نہیں رہی خوانِ تہی پڑا ہے وہ نعمت نہیں رہی دیں بھی ہے ایک قشر حقیقت نہیں رہی مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی دل مر گئے نیکی کی قدرت نہیں رہی سب پر یہ اک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی اک پھوٹ پڑ رہی ہے مودّت نہیں رہی
اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی بھید اس میں ہے یہی کہ وہ حاجت نہیں رہی اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم سے کرتی نہیں ہے منع صلوٰۃ اور صوم سے ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دیں کی راہ کو عادت میںاپنی کر لیا فسق و گناہ کو اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے مومن نہیں ہو تم کہ قدم کافرانہ ہے اے قوم تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں روتے رہو دعائوں میں بھی وہ اثر نہیں کیونکر ہو نظر کہ تمہارے وہ دل نہیں شیطاں کے ہیں خدا کے پیارے وہ دل نہیں تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہو گئے جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے کچھ کچھ جو نیک مرد تھے وہ خاک ہو گئے باقی جو تھے وہ ظالم و سفاّک ہو گئے اب تم تو خود ہی مورد خشمِ خدا ہوئے اس یار سے بشامت عصیاں جدا ہوئے اب غیروں سے لڑائی کہ معنے ہی کیا ہوئے تم خود ہی غیر بن کے محلِّ سزا ہوئے سچ سچ کہو کہ تم میں امانت ہے اب کہاں وہ صدق اور وہ دین و دیانت ہے اب کہاں پھر جبکہ تم میں خود ہی وہ ایماں نہیں رہا وہ نوُرِ مومنانہ وہ عرفاں نہیں رہا پھر اپنے کفر کی خبر اے قوم لیجئے آیت عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ یاد کیجئے ایسا گماں کہ مہدیٔ خونی بھی آئے گا اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا اے غافلو یہ باتیں سراسر دروغ ہیں بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آ چکا یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا اب سال سترہ۱۷ بھی صدی سے گزر گئے تم میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے تھوڑے نہیں نشاںجو دکھائے گئے تمہیں کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمہیں پر تم نے اُن سے کچھ بھی اُٹھایانہ فائدہ مونھ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ بخلوں سے یارو باز بھی آئو گے یا نہیں مخفی جو دل میںہے وہ سنائو گے یا نہیں آخر خدا کے پاس بھی جائو گے یا نہیں اُس وقت اس کو مونھ بھی دکھائو گے یا نہیں تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار اب اُس کا فرض ہے کہ وہ دل کر کے اُستوار لوگوں کو یہ بتائے کہ وقت مسیح ہے اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے
ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خدا المشــــــــــــــــــــــــــــــتھر۱؎ مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان ۷ ؍ جون ۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے ۴ صفحہ پر ہے ) عربی زبان میں ایک خط ۲؎ اہل اسلام پنجاب اور ہندوستان اور عرب اور فارس وغیرہ ممالک کی طرف جہاد کی ممانعت کے بارے میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اعلموا ایھا المسلمون رحمکم اللّٰہ ان اللّٰہ الذی تولی الاسلام.وکَفلَ امورہ العظام.جعل دینہ ھٰذا وصلۃ الی حکمہ وعلومہ.ووضع المعارف فی ظاھرہ ومکتومہ.فمن الحکم التی اودع ھٰذا الدین لیزید ھدی المھتدین.ھوالجھاد الذی امربہ فی صدر زمن ترجمہ از مرتب :.(اے مسلمانو! اللہ تم پر رحم کرے) جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہی اسلام کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اور وہی اس کے اہم امور کا کفیل ہے.اس نے اپنے اس دین کو اپنی حکمتوں اور اپنے علوم کے لیے تعلق کا ذریعہ بنایا ہے اور اس نے اس کے ظاہر و باطن میں معارف رکھ دیئے ہیں.اور ان حکمتوں ۱؎ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو اشتہار الگ سے شائع فرمایا تھا.اس میں المشتہر اور آگے دیئے گئے الفاظ موجود تھے جو حضرت نے کتاب میں درج نہیں فرمائے.(مرتب) ۲؎ نظم کے نیچے عربی خط ممانعت جہاد کا ہے جو درج ہے.(مرتب)
الاسلام.ثم نھٰی عنہ فی ھٰذہ الایام.والسرّفیہ انہ تعالٰی اذن للذین یقاتلون فی اوّل زمان الملّۃ دفعًا لصول الکفرۃ.وحفظا للدین ونفوس الصحبۃ ثم انقلب امرالزمان عند عھد الدولۃ البرطانیۃ.۱؎ وحصل الامن للمسلمین وما بقی حاجۃ السیوف والاسنّۃ.فعند ذالک اثم المخالفون المجاھدین.وسلکوھم مسلک الظالمین السفاکین.ولبس اللّٰہ علیھم سرّالغزاۃ والغازین.فنظروا الٰی محاربات الدین کلھا بنظر الزرایۃ.بقیہ ترجمہ.میں سے جو اس نے اس دین میں ہدایت پانے والوں کی ہدایت کی زیادتی کے لئے ودیعت کی ہیں ایک حکمت جہادہے جس کا ابتدائے اسلام میں حکم دیا گیا اور پھر اس زمانہ میں اسے ممنوع قرار دیا گیا.اور اس میںراز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے اسلام میں ان مسلمانوں کو جن پر حملے کئے جارہے تھے کفار کے حملوں سے دفاع کے لئے اور دین اسلام اور صحابہ کی جانوں کی حفاظت کے لئے جہاد کی اجازت دے دی تھی لیکن سلطنت برطانیہ کے دَور میں وہ زمانہ بدل گیا۱؎ اور مسلمانوں کو امن نصیب ہوا.اور اس طرح تلواروں اور نیزوں کی حاجت نہ رہی.پس اس وقت مخالفوں نے مجاہدین کو گنہ گار ٹھیرایا.اور انہیں ظالموں اور خون بہانے والوںکے مسلک پرچلنے والا قرار دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان غازیوں کے راز کو مخفی رکھا.اس لئے انہوں نے دین کی تمام لڑائیوں کو ۱؎ نوٹ.لا شک انا نعیش تحت ھذہ السلطنۃ البرطانیۃ بالحریۃ التامۃ.و حُفِظّت اموالنا و نفوسنا وملّتنا و اعراضنا من ایدی الظالمین بعنایۃ ھٰذہ الدولۃ فوجب علینا شکر من غمر نا بنوالہ.وسقا نأس الرحۃ بمٰا ثر خصالہ.و جب اِنْ نُرِی اعدائہ صقال العضب و نوقدلہ لا علیہ نارا الغضب.منہ ۱؎ ترجمہ نوٹ.بے شک ہم اس سلطنت برطانیہ کے زیر سایہ پوری آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس حکومت کی مہربانی سے ہمارے اموال ہماری جانیں ہماری ملّت اور ہماری عزتیں ظالموں کے ہاتھوں سے محفوظ ہیں.پس ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کی مہربانی کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ ہم کو اپنی عمدہ خصال کی وجہ سے راحت کا جام پلایاہے تہ دل سے اس کا شکریہ ادا کریں اور ہم پر یہ بھی واجب ہے کہ ہم اس کے دشمنوں کو تلواروں کی چمک دکھائیں اور اس کے خلاف نہیں بلکہ اس کی خاطر اپنے غصّہ کی آگ کو بھڑکائیں.منہ
ونسبوا کل من غزاالی الجبر و الطغیان والغوایۃ.فاقتضت مصالح اللّٰہ ان یضع الحرب والجھاد ویرحم العباد وقد مضت سنتہ ھٰذہ فی شیع الاولین.فان بنی اسرائیل قد طعن فیھم لجھادھم من قبل فبعث اللّٰہ المسیح فی اٰخر ز من موسٰی وارٰی ان الزارین کانوا خاطئین.ثم بعثنی ربّی فی اٰخرزمن نبینا المصطفٰی وجعل مقدار ھٰذا الزمن کمقدار زمن کان بین موسٰی وعیسٰی و ان فی ذالک لاٰیۃ لقوم متفکرین.والمقصود من بعثی وبعث عیسٰی واحد وھو اصلاح الاخلاق ومنع الجھاد.واراء ۃ الاٰیات لتقویۃ ایمان العباد.ولا شک ان وجوہ الجھاد معدومۃ فی ھٰذا الزمن وھذہ البلاد.فالیوم حرام علی المسلمین ان یحاربوا للدین.وان یقتلوا من کفر بالشرع المتین.فان اللّٰہ صرح حرمۃ الجھاد عند زمان الامن والعافیۃ.وندّد الرسول الکریم بقیہ ترجمہ.نکتہ چینی کی نظر سے دیکھا اور ہر مجاہد کو جبر، کشی اور گمراہی کی طرف منسوب کیا.پس اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں نے اس بات کا تقاضا کیا کہ وہ لڑائی اور جہاد کو منسوخ کر دے اور اسی طرح اپنے بندوں پر رحم کرے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سنت پہلے لوگوں میں بھی جاری رہی ہے.چنانچہ اس سے قبل بنواسرائیل پر بھی ان کے جہادکی وجہ سے طعن کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے زمانہ کے آخر میں حضرت مسیح کو مبعوث کیا اور اس طرح اس نے یہ دکھادیا کہ نکتہ چینی کرنے والے ہی خطا کار تھے.اب میرے ربّ نے نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے آخر میں مجھے مبعوث کیا اور اس زمانہ کی مقدار کو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السّلام کے درمیانی زمانہ کی مقدار کے مشابہ بنا دیا اور اس میں سوچ بچار کرنے والوں کے لئے بڑا نشان ہے اور میری بعثت او ر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی بعثت کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ مقصد اصلاحِ اخلاق اورجہاد کو ممنوع قرار دینا اور بنی نوع انسان کے ایمان کی تقویت کے لئے نشانات کا دکھانا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں اور اس ملک میںجہاد کی وجوہ معدوم ہیں اور آج مسلمانوں پر دین کے لئے شریعت اسلامیہ کے منکرین سے لڑائی کر نا حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امن و عافیت کے زمانہ میں جہاد کی حرمت
بانہ من المناھی عند نزول المسیح فی الامۃ.ولا یخفٰی انّ الزمان قد بدّل احوالہ تبدیلا صریحًا وترک طورًا قبیحًا ولا یوجد فی ھٰذا الزمان ملک یظلم مسلمًا لاسلامہ.ولا حاکم یجور لدینہ فی احکامہ.فلاجلِ ذالک بدل اللّٰہ حکمہ فی ھٰذا الاوان.ومنع ان یحارب للدین اوتقتل نفس لاختلاف الادیان.وامران یتم المسلمون حججھم علی الکفار.ویضعوا البراھین موضع السیف البتار.ویتورّدوا موارد البراہین البالغۃ و یعلوا قنن البراھین العالیۃ حتی تطأ اقدامھم کل اساس یقوم علیہ البرھان.ولا یفوتھم حجۃ تسبق الیہ الاذھان.ولا سلطان یرغب فیہ الزمان.ولا یبقی شبھۃ یولّدھا الشیطان.وان یکونوا فی اتمام الحجج مستشفّین.و اراد ان بقیہ ترجمہ.کی تصریح فرما دی ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کھول کر بیان کر دی ہے کہ اُمت ِ اسلامیہ میں مسیح کے نزول کے وقت جہاد ممنوع ہوگا.اور یہ بات مخفی نہیں کہ زمانہ کے حالات صریح طورپر بدل گئے ہیں اور اس نے بُرا طریق ترک کر دیا ہے اور اس زمانہ میں کوئی ایسا بادشاہ نہیں پایا جاتا جو ایک مسلمان پر صرف اسلام کی وجہ سے ظلم کرتا ہو اور نہ کوئی ایسا حاکم ہے جو اپنے احکام میں محض اس کے دین کی وجہ سے اس پر ظلم کرتا ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنے حکم کو بد ل دیا اور اس نے اس بات سے منع کر دیا کہ دین کی خاطر جنگ و جدال کی جائے یا کسی شخص کو محض اختلافِ دین کی وجہ سے قتل کیا جائے اور اس نے حکم دیا کہ مسلمان کفار پر اتمام حجت کریں اور دلائل کو تیز دھار والی تلواروں کی جگہ دیں اور بلیغ براہین کے گھاٹوں پر وارد ہوں اور براہین عالیہ کی چوٹیوں پر چڑھیں تا ہروہ بناء ان کے قدموں کے نیچے ہو جس پر برہان قائم ہے اور ان سے کوئی ایسی حجت فوت نہ ہو جس کی طرف اذہان سبقت لے جائیں اور کوئی ایسی دلیل فوت نہ ہو جس میں زمانہ رغبت کرے اور شیطان کا پیدا کردہ کوئی شُبہ باقی نہ رہے اور اتمام حجت کے سلسلہ میں وہ دوسروں کی شفاء کا موجب بن جائیں.اور اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ مسئلہ
یتصیّد شوارد الطبائع المنتفرۃ من مسئلۃ الجھاد.وینزل ماء الاٰی علی القلوب المجدبۃ کالعھاد.ویغسل وسخ الشبھات ودرن الوساوس وسوء الاعتقاد.فَقَدّر للاسلام وقتًا کابّان الربیع وھو وقت المسیح النازل من الرقیع.لیجری فیہ ماء الاٰیات کالینابیع.ویظھر صدق الاسلام.ویبیّن ان المتزرّین کانوا کاذبین.وکان ذالک واجبًا فی علم اللّٰہ ربّ العالمین.لیعلم الناس ان تضوّع الاسلام وشیعوعتہ کان من اللّٰہ لا من المحاربین.وانّی اناالمسیح النازل من السماء.و انّ وقتی وقت ازالۃ الظنون واراء ۃ الاسلام کالشمس فی الضیاء.ففکروا ان کنتم عاقلین.وترون ان الاسلام قد وقعت حذتہ ادیان کاذبۃ یسعٰی لتصدیقھا.واعین کلیلۃ یجاھد لتبریقھا.وان اھلھا اخذوا طریق الرفق والحلم فی دعواتھم وأروا التواضع والذل بقیہ ترجمہ.جہاد سے نفرت کرنے والی غیر مانوس طبائع کا شکار کرے اور موسم بہار کی پہلی بارش کی مانند خشک اور بنجر زمین سے مشابہ دلوں پر نشانات کی بارش نازل کرے.اور شبہات کی مَیل ، وساوس کی گندگی اور اعتقاد کے فساد اور برائی کو دھو دے.پس اس نے اوائل موسم بہار کی مانند اسلام کے لئے وقت مقدر کیا.اور وہ آسمان سے نازل ہونے والے مسیح کا وقت ہے.تا اس میں چشموں کی مانند نشانات کا پانی بہے اور اسلام کی سچائی کو ظاہر کرے اور واضح کرے کہ عیب چینی کرنے والے جھوٹے تھے.اور اللہ ربّ العالمین کے علم میں یہ ضروری تھا تا وہ لوگوں کو بتائے کہ اسلام کی مہک اور اس کی اشاعت کے سامان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوں گے نہ کہ لڑنے والوں کی طرف سے اور مَیں ہی وہ مسیح ہوں جو آسمان سے اُترا ہوں اور میرا زمانہ وساوس و ظنون کو زائل کرنے اور اسلام کی روشنی میں سورج کی مانند دکھانے کا زمانہ ہے.پس اگر تم عقل سے کام لینے والے ہو تو فکر اور سوچ سے کام لو.اور تم دیکھتے ہو کہ اسلام کے مقابل ایسے ادیان ہیں جن کو سچا قرار دینے کی جاتی ہے.اور ایسی کمزور نظرآنکھیں ہیںجن کو تیز نظرثابت کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے.اور ان ادیان کے پیروئوں نے اپنی تبلیغ میں رفق اور برُدباری کا طریق اختیار کیا ہے.اور وہ اپنی
عند ملاقاتھم.وقالوا ان الاسلام اولغ فی الابدان المدیٰ.لیبلغ القوۃ والعلٰی.وانا ندعوا الخلق متواضعین.فرأی اللّہ کیدھم من السماء.وما ارید من البھتان والازدراء والافتراء.فجلّی مطلع ھٰذا الدین بنور البرھان.واری الخلق انہ ھو القائم و الشایع بنورربّہ لا بالسیف والسنان.ومنع ان یقاتل فی ھذا الحین.وھو حکیم یعلّمنا ارتضاع کأس الحکمۃ والعرفان.ولا یفعل فعلا لیس من مصالح الوقت والاٰوان.ویرحم عبادہ ویحفظ القلوب من الصداء والطبائع من الطغیان.فانزل مسیحہ الموعود والمھدی المعھود.لیعصم قلوب الناس من وساوس الشیطان وتجارتھم من الخسران.ولیجعل المسلمین کرجل ھیمن مااصطفاہ.واصاب مااصباہ.فثبت ان الا سلام لا یستعمل السیف والسھام عند الدعوۃ.ولا یضرب الصعدۃ ولٰـکن یأتی بدلائل تحکی الصعدۃ فی اعدام الفریۃ.وکانت الحاجۃ قد بقیہ ترجمہ.ملاقات میں تواضع اور تذلل کو دکھاتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ اسلام نے طاقت اور بلندی کے حصول کے لئے ابدان میں چھرُے گھونپے ہیں.اور ہم مخلوق کو تواضع سے بلاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ان کی اس تدبیردیکھا اور اس کو بھی جو بہتان.تحقیر اور افتراء کے متعلق ان کے ارادے تھے.اس نے اس دین کے چہرہ کو براہین کے نور سے روشن کیا اور اس نے مخلوق کو دکھایا کہ یہ اپنے ربّ کے نور کے وجہ سے نہ کہ تلوار اور نیزہ سے قائم رہے گا اور پھیلے گا.اور اس نے اس زمانہ میں لڑائی ممنوع قرار دے دی.اور وہ حکیم ہے جو ہمیں حکمت اور عرفان کا پیالہ پینا تو سکھاتا ہے لیکن کوئی ایسا فعل نہیں کرتا جو وقت اور زمانہ کی مصلحت کے خلاف ہو.اور وہ اپنے بندوںپر رحم کرتا اور ان کے دلوں کی زنگ سے حفاظت کرتا اورطبائع کی سرکشی سے بچاتا ہے.اس لئے اس نے اپنے موعود مسیح اور مہدی معہود کو اتارا تاوہ لوگوں کے دلوں کو شیطانی وساوس سے اور ان کی تجارت کو گھاٹے سے بچائے اور تا وہ مسلمانوں کو اس شخص کی طرح بنا دے جو اپنی پسندیدہ ہستی پر عاشق ہو گیا ہو اور اس نے وہ کچھ پا لیا ہو جس نے اس کو فریفتہ بنا دیا ہو.پس ثابت ہوا کہ اسلام تبلیغ میں تلوار اور نیزے کے استعمال میں جلدی نہیں کرتا اور نیزہ نہیں مارتا بلکہ وہ ایسے دلائل پیش کرتا ہے جو افتراء کے مٹانے میں نیزہ کے مشابہ ہیں
اشتدت فی زمننا لرفع الالتباس.لیعلم الناس حقیقۃ الامر ویعرفوا السرّ کالاِکیاس.والاسلام مشرب قد احتویٰ کل نوع حفاوۃ.والقراٰن کتاب جمع کل حلاوۃ وطلاوۃ.ولٰـکن الاعداء لا یرون من الظلم والضیم.ویتسابون انسیاب الایم.مع ان الا سلام دین خصّہ اللّٰہ بھٰذہ الاٰثرۃ.وفیہ برکات لا یبلغھا احد من الملۃ.وکان الاسلام فی ھٰذا الزمان کمثل معصوم اُثّم وظُلم بانواع البھتان.وطالت الالسنۃ علیہ و صالوا علٰی حریمہ.وقالوا مذھب کان قتل النّاس خلاصۃ تعلیمہ.فَبُعِثت لیجد الناس ما فقدوا من سعادۃ الجد.ولیخلصوا من الخصم الالدّ.و انی ظھرت برثٍّ فی الارض وحلل بارقۃ فی السماء.فقیر فی الغبراء وسلطان فی الخضراء.فطوبٰی للذی عرفنی اوعرف من عرفنی من الاصدقاء وجئتُ اھل الدنیا ضعیفًا نحیفًا کنحافۃ الصب.وغرض القذف والشتم والسبّ.بقیہ ترجمہ.اور ہمارے زمانہ میں وساوس اور شبہات کو دُور کرنے کی حاجت زیادہ شدّت اختیار کر گئی ہے تا وہ لوگوں کو حقیقت امر سے آگاہ کرے اور تا لوگ دانائوں اور ذہین لوگوں کی طرح راز سے واقف ہو جائیں اور اسلام ایک ایسا گھاٹ ہے جو ہر قسم کے اعزاز اور ہر طرح کی خوشی کے اظہار پر حاوی ہے اور قرآن کریم نے اپنے اندر ہر قسم کی حلاوت اور شان و شوکت کو جمع کر لیا ہے.لیکن دشمن ظلم وجور کو نہیں دیکھتے اور اژدھا کی طرح تیز چلتے ہیں.اس کے باوجود اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے اس ترجیح سے مخصوص کیا ہے اور اس میں ایسی برکات ہیں جن تک کوئی امت نہیں پہنچ سکتی.اور اس زمانہ میں اسلام اس معصوم کی مانند ہے جس کو گنہگار قرار دیا گیا اور انواع و اقسام کے بہتان لگا کر اس پر ظلم کیا گیا اور اس پر زبانیں دراز ہوئیں اور اس کے محفوظ حصہ پر لوگوں نے حملہ کیا.اور انہوں نے کہا کہ اس کی تعلیم کا خلاصہ لوگوں کو قتل کرنا ہے.پس مَیں مبعوث کیا گیا تا لوگ بزرگی کی گم شدہ سعادت کو پا لیں اور تاوہ سخت جھگڑالو قسم کے لوگوں سے نجات پا جائیں.اور مَیں زمین میں بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس اور آسمانوں میں چمکیلے لباس میں ظاہر ہوا ہوں.مَیں زمین میں غریب اور آسمان میں بادشا ہ ہوں.پس خوش نصیب ہے وہ شخص جس نے مجھے یا میرے پہچاننے والے دوستوں کو پہچانا.اور مَیں اہل دنیا کے پاس ایک عاشق کی طرح نحیف و نزار اور لعن طعن اور گالی گلوچ کا نشانہ بن کر آیا ہوں.
ولٰـکنی کمیّ قوی فی العالم الاعلٰی.ولی عضب مذرب فی الافلاک وملک لا یبلٰی.وحسام یضاھی البرق صقالہ.ویمذّق الکذب قتالہ.و لی صورۃ فی السماء لا یراھا الانسان.ولا تدرکھا العینان.واننی من اعاجیب الزمان.وانی طُھّرت وبُدّلت وبُعّدت من العصیان.وکذالک یطھّر ویبدّل من احبّنی وجاء بصدق الجنان.وان انفاسی ھٰذہ تریاق سم الخطیّات وسدّ مانع من سوق الخطرات الٰی سوق الشبھات.ولا یمتنع من الفسق عبدٌ ابدًا الّاالّذی احبّ حبیب الرحمان.اوذھب منہ الاطیبان.وعطف الشیب شطاطہ بعد ما کان کقضیب البان.ومن عرف اللّٰہ اوعرف عبدہ فلا یبقی فیہ شی ئٌ من الحدّ والسنان.وینکسر جناحہ ولا یبقی بطش فی الکف والبنان.ومن خواص اھل النظر انھم یجعلون الحجرکالعقیان.فانھم قوم لا یشقٰی جلیسھم ولا یرجع رفیقھم بالحرمان.بقیہ ترجمہ.لیکن مَیں عالم اعلیٰ میں ایک بہادر اور مضبوط انسان ہوں.اور میرے لئے آسمانوں میں مرغن کھانا ہے اور ایسی حکومت ہے جو کبھی فنا نہیں ہو گی اور ایسی صیقل شدہ تلوار ہے جو بجلی کی مانند ہے اور اس کے ساتھ لڑنا جھوٹ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے اور آسمان میں میری ایسی صورت ہے جس کو انسان نہیں دیکھ سکتا.اور نہ اُس کو آنکھیں پا سکتی ہیں.اور مَیں عجائبات زمانہ میں سے ہوں.اور مَیں گناہ و نافرمانی سے پاک اور دُ ور کیا گیا ہوں.اور اسی طرح وہ شخص بھی پاک اور تبدیل کر دیا جاتا ہے.جو مجھ سے محبت کرے اور صدق دل سے میرے پاس آئے اور میرے انفاس خطائوں کے زہر کا تریاق ہیں اور خطرات کو شبہات کے بازار میں لے جانے سے روکنے والی دیوار ہیں اور فسق و فجور سے کوئی بندہ رُک نہیں سکتا مگر وہی جو خدائے رحمان کے محبوب سے محبت رکھتا ہو یا وہ جس کی دونوں آنکھیں جاتی رہی ہوں اور بڑھاپا اس کے قد و قامت کو جھکا دے بعد اس کے کہ وہ بان درخت کی ٹہنی کی مانند تھا.اور وہ شخص جو اﷲ تعالیٰ کو یا اس کے بندہ کو پہچان لے اس میں تیزی نہیں رہتی.اس کے پَر ٹوٹ جاتے ہیں اور اس کی ہتھیلی اور پوروں میں قوت گرفت نہیںرہتی.اور اہل نظر کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ پتھر کو سونے کی مانند بنا دیتے ہیں.وہ ایسے لوگ ہیں جن کا ہم مجلس بے نصیب نہیں رہتا اور جن کا دوست محروم نہیں لوٹتا
فالحمدللّٰہ علٰی مننہ انہ ھو المنّان.ذوالفضل والاحسان.واعلموا انی انا المسیح.وفی برکات اسیح.وکل یوم یزید البرکات ویزداد الاٰیات.والنور یبرق علٰی بابی.و یأتی زمان یتبرک الملوک فیہ اثوابی.وذالک الزمان زمان قریب.ولیس من القادر بعجیب.الاختبار اللطیف لمن کان یعدل اویحیف ایّھاالناس ان کنتم فی شک من امری.وممّا اوحی الیّ من ربّی.فناضلونی فی انباء الغیب من حضرۃ الکبریاء.وان لم تقبلوا ففی استجابۃ الدعاء.و ان لم تقبلوا ففی تفسیر القراٰن فی اللسان العربیۃ.مع کمال الفصاحۃ ورعایۃ الملح الادبیۃ.فمن غلب منکم بعد ماساق ھٰذا المساق.فھو خیر منّی ولا مِراء ولا شقاق.ثم ان بقیہ ترجمہ.پس اﷲ تعالیٰ کے لئے ہی اس کے احسانوں کی وجہ سے بہت تعریفیں ہیں کہ وہی بہت احسان کرنے والا اور فضل کرنے والا ہے.اور جان لو کہ مَیں ہی مسیح ہوں اوربرکات میں چلتا پھرتا ہوں اور ہر روز برکات اور نشانات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور نُور میرے دروازے پر چمکتا ہے.اور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ بادشاہ میرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اور یہ زمانہ اب قریب ہی ہے اور خدائے قادر سے یہ بات عجیب نہیں.عدل کرنے والے یا ظلم کرنے والے کا لطیف امتحان اے لوگو! اگر تم میرے معاملہ میں اور اس وحی کے بارہ میں جو میری طرف کی گئی ہے شک میں ہو تو تم مجھ سے ان غیبی پیش گوئیوں میں جو مجھے حضرت کبریاء کی طرف سے دی گئی ہیں مقابلہ کر لو.اور اگر تم اسے قبول نہ کرو تو قبولیت دُعا میںمیرا مقابلہ کر لو.اور اگر تم اسے بھی قبول نہ کرو تو مجھ سے تفسیر القرآن میںجو فصیح عربی زبان میں ہو اور جس میں ادبی عمدہ تراکیب کا لحاظ ہو مقابلہ کر لو.پس اس رستہ پر چلنے کے بعد اگر تم میں کوئی مجھ پر غالب آجائے تو وہ مجھ سے بہتر ہے.اور اس
کنتم تُعرضون عن الامرین الاوّلین.و تعتذرون وتقولون انا مااعطینا عین رؤیۃ الغیب ولا من قدرۃ علٰی اجراء تلک العین.فصارعونی فی فصاحۃ البیان مع التزام بیان معارف القراٰن واختاروا مسحب نظم الکلام.ولتسحبوا ولا ترھبوا ان کنتم من الادباء الکرام.وبعد ذالک ینظر الناظرون فی تفاضل الانشاء.ویحمدون من یستحق الاحماد والابراد و یلعنون من لعن من السماء.فھل فیکم فارس ھٰذا المیدان.و مالک ذالک البستان.وان کنتم لا تقدرون علی البیان.ولا تکفون حصائد اللسان.فلستم علی شیئٍ من الصدق والسداد.ولیس فیکم الامادۃ الفساد.اتحمون وطیس الجدال.مع ھٰذہ البرودۃ والجمود والجھل والکلال.موتوا فی غدیر او بارزونی کقدیر.و ارونی عینکم ولا تمشوا کضریر.واتقوا عذاب ملک خبیر.واذکروا اخذ علیم وبصیر.وان لم تنتھوا فیاتی زمان بقیہ ترجمہ.میں کوئی جھگڑا اور اختلاف نہ ہو گا.پھر اگر تم پہلے دو امور سے اعراض کرتے ہو اور عذر کرتے ہو اور یہ کہتے ہو کہ ہمیں غیب بین آنکھ نہیں دی گئی اور نہ اس چشمہ کو جاری کرنے کی قدرت عطا ہوئی ہے تو تم فصاحت بیان میں معارف قرآنیہ کے بیان کے التزام کے ساتھ مجھے پچھاڑو اور نظم کلا م کے راستہ کو اختیار کرو اور چلو اور ڈرو نہیں اگر تم معزز اُدباء سے ہو.( تو تم ضرور ایسا کرو گے) اور اس کے بعد دیکھنے والے انشاء پرداری میں ایک دوسرے پر فضلیت ظاہر کرنے کے بارہ میں غور کریں گے اور اس شخص کی تعریف کریں گے جو تعریف کا مستحق ہو گا اور اس شخص پر لعنت کریں گے جو آسمان میں ملعون قرار دیا گیا ہے.پس کیا تم میں سے کوئی اس میدان کا شہ سوار ہے.اور اس باغ کا کوئی مالک ہے.اور اگر تم قوت بیان نہیں رکھتے اور بد گوئیوں اور ہتک آمیز باتوں سے نہیں رُکتے تو تم صدق و سداد پر قائم نہیں.اور تم میں فساد کے مادہ کے سوا اور کچھ نہیں.کیا تم اس برودت، جمود، جہالت اور درماندگی کے باوجود لڑائی میںشدت اختیار کر رہے ہو.تالاب میں ڈوب مرو یا ایک طاقت ور کی طرح میرے ساتھ مقابلہ کرو.اور مجھے اپنی آنکھ دکھائو اور اندھے کی طرح نہ چلو.اور واقف حال چوکنے بادشاہ کے عذاب سے بچو اور علیم و خبیر کی پکڑ کو یاد کرو.
تحضرون عند جلیل کبیر.ثم تذوقون ما یذوق المجرمون فی حصیر.وان کنتم تدّعون المھارۃ فی طرق الاشرار.ومکائد الکفار.فکیدوا کلّ کیدٍ الٰی قوۃ الاظفار.و قَلّبوا امری ان کان عندکم ذرّۃ من الاقتدار.واحکموا تدبیرکم وعاقبوا دبیرکم.واجمعوا کبیرکم.وصغیرکم واستعملوا دقاریرکم.وادعوا لھذاالامرمشاھیرکم.وکل من کان من المحتالین.واسجدوا علٰی عتبۃ کل قریع زمن وجابرزمن لیمدّکم بالمال والعقیان ثم انھضوا بذالک المال وھدّمونی من البنیان ان کنتم علٰی ھدّ ھیکل اللّٰہ قادرین.واعلموا ان اللّٰہ یخزیکم عند قصد الشرّ.ویحفظنی من الضرّ.ویتم امرہ وینصر عبدہ ولا تضرونہ شیئًا ولا تموتون حتی یریکم ما اریٰ من قبلکم کل من عادا اولیاء ہ من النبیین والمرسلین بقیہ ترجمہ.اور اگر تم نہیں رُکتے تو وہ آنے والا ہے جب تم خدائے جلیل و کبیر کے دربار میں حاضر کئے جائو گے.پھر وہی چکھو گے جو مجرم جہنم میں چکھیں گے.اور اگر اشرار کے طریقوں اور کفّار کی تدبیروں میں مہارت کے دعویدار ہو تو تم ناخنو ں تک زور لگا کر پوری تدبیر کر لو.اور اگرتم میں ذرّہ بھی قدرت ہے تو تم میرے معاملہ کو اُلٹا کر دو.اور تم اپنی تدبیر کو محکم کر لو.اور اپنے دھاگے کو بار بار بٹ دواور اپنے بڑوں اور چھوٹوں کو اکٹھا کر و اور خوب جھوٹ بولو.اور اس کام کے لئے اپنے مشاہیر اور ہر یک حیلہ ساز کو بلا لو.اور اپنے ہر بوڑھے سردار اور ہرحاوی جابر کی دہلیز پر سجدہ کرو تا وہ مال اور سونے سے تمہاری مدد کریں.اور پھر اس مال کو لے کر اُٹھو اور مجھے بنیادوں سے گرا دو.اگر تم اللہ تعالیٰ کی اس بلند اور بالا عمارت کو گرانے پر قدرت رکھتے ہو.اور یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ شر کے ارادہ کے وقت تمہیں رسوا کرے گا اور مجھے تمہارے ضر رسے محفوظ رکھے گا.وہ اپنے کام کو پورا کرے گا اور اپنے بندہ کی مدد کریگا.اور تم اسے کچھ تکلیف نہ دے سکو گے اور تم اس وقت تک مرو گے نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ سب کچھ نہ دکھادے جو اُس نے ہر اُس شخص کو دکھایا جس نے اُس کے دوستوں یعنی نبیوں.رسولوں اور ماموروں سے دشمنی کی.
والمامورین واٰخرامرنا نصر من اللّٰہ وفتح مبین.واٰخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العالمین.المشتہر مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان ۷؍ جون ۱۹۰۰ء۱؎ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ مطبوعہ ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۲۶ تا ۳۲.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۷۷تا۸۶) بقیہ ترجمہ : اور ہمارے کام کا انجام اللہ تعالیٰ کی نصرت اور کھلی کھلی فتح ہے اور ہمارا آخری دعویٰ یہی ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.۱؎ تاریخ اور مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان کے الفاظ تحفہ گولڑویہ میں تحریر نہیں ہیں(ناشر)
۲۲۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اپنی جماعت کے خاص گروہ کے لئے منارۃ المسیح کے بارے میں توجہ دہانی اور اس کام کے لئے ان سے ایک درخواست منارۃ المسیح کے بارے میں اس سے پہلے ایک اشتہار۱؎ شائع ہو چکا ہے.لیکن جس کمزوری اور کم توجہی کے ساتھ اس کام کے لئے چندہ وصول ہو رہا ہے اس سے ہرگز امید نہیں کہ یہ کام انجام پذیر ہو سکے.لہٰذا میں آج خاص طور سے اپنے اُن مخلصوں کو اس کام کے لئے توجہ دلاتا ہوں جن کی نسبت مجھے یقین ہے کہ اگر وہ سچے دل سے کوشش کریں اور جیسا کہ اپنے نفس کے اغراض کے لئے اور اپنے بیٹوں کی شادیوں کے لئے پورے زور سے انتظام سرمایہ کر لیتے ہیں.ایسا ہی انتظام کریں تو ممکن ہے کہ یہ کام ہو جائے اگر انسان کو ایمانی دولت سے حصہ ہو تو گو کیسے ہی مالی مشکلات کے شکنجہ میں آجائے تا ہم وہ کار خیر کی توفیق پا لیتا ہے.نظیر کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ ان دنوں میں میری جماعت میں سے دو ایسے مخلص آدمیوں نے اس کام کے لئے چندہ دیا ہے جو باقی دوستون کے لئے درحقیقت جائے رشک ہیں.ایک ان میں سے منشی عبد العزیز نام ضلع ۱؎ یہ اشتہارجلد ھٰذا میں زیر نمبر۲۲۶ صفحہ ۴۹ سے شروع ہوتاہے (ناشر)
گورداسپور میں پٹواری ہیں جنہوں نے باوجود اپنی کم سرمائیگی کے ایک سو روپیہ اس کام کے لئے چندہ دیا ہے اور میں خیال کرتا ہوںکہ یہ سو روپیہ کئی سال کا ان کا اندوختہ ہو گا.اور زیادہ وہ قابلِ تعریف اس سے بھی ہیں کہ ابھی وہ ایک اور کام میں سو رما؍ وپیہ چندہ دے چکے ہیں.اور اب اپنے عیال کی بھی چنداں پروا نہ رکھ کر یہ چندہ پیش کر دیا.جَزَاہُمُ اللّٰہُ خَیْرَالْجَزَآئِ.دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے میاں شادیخاں لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں.ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں.اور اب اس کام کے لئے دو سو روپیہ چندہ بھیج دیا ہے.اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کاتمام اسباب دیکھا جائے تو شایدتمام جائداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو.انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’ چونکہ ایام قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں.اس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا.سب بھیج دیا.اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے کیا تھا.شاید ہمارے بعض مخلصوں کو معلوم نہیں ہو گا کہ یہ منارۃ المسیح کیا چیز ہے اور اس کی کیا ضرورت ہے.سو واضح ہو کہ ہمارے سیّد و مولیٰ خیر الاصفیا خاتم الانبیاء سیّدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیشگوئی ہے کہ مسیح موعودجو خدا کی طرف سے اسلام کے ضعف اور عیسائیت کے غلبہ کے وقت میں نازل ہو گا اس کا نزول ایک سفید منارہ کے قریبہو گا جو دمشق سے شرقی طرف واقع ہے.اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے دو مرتبہ اسلام میں کوشش کی گئی ہے.اوّل ۷۴۱ھ سے پہلے دمشق کی مشرقی طرف سنگِ مرمر کاپتھر سے ایک منارہ بنایا گیا تھا جو دمشق سے شرقی طرف جامع اموی کی ایک جزو تھی اورکہتے ہیں کہ کئی لاکھ روپیہ اس پرخرچ آیا تھا اور بنانے والوں کی غرض یہ تھی کہ تا وہ پیشگوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو جائے.لیکن بعداس کے نصاریٰ نے اس منارہ کو جلادیا.پھر اس حادثہ کے بعد ۷۴۱ھ میں دوبارہ کوشش کی گئی کہ وہ منارہ دمشق کی شرقی طرف پھر طیار کیاجائے.چنانچہ اس منارہ کے لئے بھی غالباً ایک لاکھ روپیہ تک چندہ جمع کیا گیا.مگر خدا تعالیٰ کی قضا و قدر سے جامع اموی کو آگ لگ گئی اور وہ منارہ بھی جل گیا.غرض
دونوں مرتبہ مسلمانوں کو اس قصد میں ناکامی رہی ۱ ؎.اور اس کا سبب یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ قادیان میں منارہ بنے کیونکہ مسیح موعود کے نزول کی یہی جگہ ہے.سو اب یہ تیسری مرتبہ ہے اور خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو موقع دیا ہے کہ اس ثواب کو حاصل کریں.جو شخص اس ثواب کو حاصل کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے انصار میں سے ہو گا.مَیں دیکھتا ہوں کہ اگرچہ لاکھوں انسان اس جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہو رہے ہیں مگر مقبول دو گروہ ہی ہی ہیں.(۱)اوّل وہ گروہ جنہوں نے بعد اس کے جو مجھے پہچان لیا جو میں خدا کی طرف سے ہوں بہت سے نقصان اُٹھا کر اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور قادیان میں اپنے گھربنالئے اور اس درد کی برداشت کی جو ترکِ وطن اور ترکِ احبابِ وطن میں ہوا کرتی ہے.یہ گروہ مہاجرین ہے.اور مَیں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کا بڑا قدر ہے.کیونکہ خدا کے واسطے اپنے وطنوں کو چھوڑنا اور اپنے چلتے ہوئے کاموں کو خاک میںملا دینا اور اپنے وطن کی پیاری مٹی کو خدا کے لئے الوداع کہہ دینا کچھ تھوڑی بات نہیں.فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَآئِ الْمُھَاجِرِیْنَ.دوسرا گروہ انصار ہے.۱؎ اس ملک کے بعض نادان مولویوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ منارہ پر روپیہ خرچہ کرنا اسراف ہے اور پھراس پر گھنٹہ رکھنا اور بھی اسراف.لیکن ہمیں تعجب ہے کہ ایسی گستاخی کی باتیں زبان پر لانے والے پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں.یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہو جائے.اسی غرض کے لئے پہلے دو دفعہ منارہ دمشق کی شرقی طرف بنایا گیا تھا جو جل گیا.یہ اسی قسم کی غرض ہے جیسا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک صحابی کو کسریٰ کے مال غنیمت میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تا ایک پیشگوئی پوری ہو جائے.اور نمازیوں کی تائید اور وقت شناسی کے لئے منارہ پر گھنٹہ رکھنا ثواب کی بات ہے نہ گناہ.اصل بات یہ ہے کہ یہ مولوی نہیں چاہتے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشگوئی پوری ہو.اگر قادیاں کے منارہ پر راضی نہیں تو چاہیے کہ دمشق میں جا کر منارہ بنا ویں.سنن ابن ماجہ کے صفحہ۳۰۶ پر جو حافظ ابن کثیر کا حاشیہ منارۃ المسیح کے بارے میں ہے اُس کو غور سے پڑھیں اور جہالتوں اورضلالتوں سے توبہ کریں.منہ
اور وہ اگرچہ اپنے وطنوں میں ہیں.لیکن ہر ایک حرکت اور سکون میں ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں اوروہ مال سے محض خدا کو راضی کرنے کے لئے مدد دیتے ہیں اور مَیں ارادہ کرتا ہوں اگر خدا تعالیٰ کا بھی ارادہ ہو کہ اس منارہ کے کسی مناسب پہلو میں ان مہاجرین کے نام لکھوں.جنہوں نے محض خدا کے لئے یہ دُکھ اپنے اُوپر لیا کہ اپنے پیارے وطنوں کو چھوڑ کر ایک خدا کے مامور کا قرب مکانی حاصل کرنے کے لئے قادیان میں سکونت اختیار کر لی اور ایسا ہی ان انصار کے نام بھی جنہوں نے اپنی خدمت اور نصرت کو انتہا تک پہنچایا اور میرا نورِ قلب مجھے اس وقت اس بات کی طرف تحریک کرتا ہے جو ایسے مبارک کام کے لئے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہوتی ہے اپنی مخلص جماعت کو اس مالی مدد کی تکلیف دوں جو مومن کے لئے جنت کو واجب کرتا ہے.پس مَیں اسی غرض سے چند مخلـصین کے نام ذیل میںلکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ہر ایک ان میں سے کم سے کم ایک سو روپیہ اس عظیم الشان کام کے لئے پیش کرے.اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ اگر انسان بے ہودہ عذرات کی طرف مائل نہ ہوتو اس قدر رقم ان لوگوں کے لئے کچھ مشکل نہیں جو چالیس یا پچاس یا اس سے زیادہ آمدنی رکھتے ہیں.مثلاً عورتوں کا زیور ہی ایک ایسی چیز ہے کہ اگر صدق دل ہو تو اس میں سے کچھ ایسے کام کے لئے آسکتا ہے.بلکہ دیکھا گیاہے کہ جب نیک بخت عورتیں اپنے دیندار خاوندوں اور باپوں اور بھائیوں کے مُنہ سے ایسی باتیں سُنتی ہیں تو خود ان کا ایمانی جوش حرکت کرنے لگتا ہے.اور بسا اوقات اپنے خاوندوں کے حوصلہ سے زیادہ ایک رقم کثیر پیش کر دیتی ہیں.بلکہ بعض عورتیں بعض مردوں سے صد ہا درجے اچھی ہوتی اور موت کو یاد رکھتی ہیں.وہ خوب جانتی ہیںکہ جبکہ کبھی کبھی اس زیور کو چور لے جاتے ہیں یا کسی اور طریق سے تباہ ہو جاتا ہے.تو پھر اس سے بہتر کیاہے کہ اس خدا کے لئے جس کی طرف عنقریب کوچ کرنا ہے.کوئی حصہ زیور کا خرچ کیا جائے.آخر یہ کام اسی جماعت نے کرنا ہے.اور دوسرے لوگ اس میں شریک نہیں ہو سکتے وہ تو اَور خیالات میں مبتلا ہیں.
سو اے مخلصو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں کو قوت بخشے.خدا تعالیٰ نے آپ کو ثواب حاصل کرنے اور امتحان میں صادق نکلنے کا یہ موقع دیا ہے.مال سے محبت مت کرو.کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ اگر تم مال کو نہیں چھوڑتے تو وہ تمہیں چھوڑ دے گا.مسیح موعود کے لئے جو وہی مہدی آخر الزمان ہے.دو پیشگوئیاں تھیں.ایک پیشگوئی آسمان کے متعلق تھی جو دعویٰ میں صادق ہونے کی نشانی تھی جس میں انسانی ہاتھوں کا دخل نہ تھا یعنی رمضان میں چاند کا پہلی رات میں میں اپنی خسوف کی راتوں میں گرہن لگنا اورسورج کا بیچ کے دن میں اپنے کسوف کے دنوں میں سے گرہن لگنا.دوسری پیشگوئی زمین کے متعلق تھی جو مسیح کے نازل ہونے کی نشانی تھی اور وہ یہ کہ دمشق کی شرقی طرف ایک سفید منارہ انسانی ہاتھوں سے طیار ہونا.سو وہ پیشگوئی جس میں انسانی ہاتھوں کا دخل نہ تھا یعنی رمضان میں خسوف کسوف مقررہ تاریخوں میں ہونا وہ تو کئی سال گزر چکے کہ ظہور میں آچکی لیکن یہ پیشگوئی جس میں انسانی ہاتھوں کا دخل ہے یعنی منارہ کا تیار ہونا یہ اب تک ظہور میں نہیں آئی اور مسیح موعود کا حقیقی نزول یعنی ہدایت اور برکات کی روشنی کا دُنیا میں پھیلنا۱؎ یہ اسی پر موقوف ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو یعنی منارہ طیار ہو کیونکہ مسیح موعود کے لئے جو ۱؎ وہ لوگ بڑی غلطی پر ہیں جویہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا تھا اور جسم عنصری کے ساتھ نازل ہو گا.یاد رہے کہ یہ خیال سراسر اافترا ہے حدیثوں میں اس کا نام و نشان نہیں.اگر کسی حدیث رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا تھا اور پھر کسی وقت جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر سے نازل ہو گا یعنی اگرچڑھنا اور اترنا دونوں امر جسم عنصری کے ساتھ کسی حدیث سے ثابت ہو جائیں تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ مَیں ایسی صحیح حدیث پیش کرنے والے کو ہزارر وپیہ انعام دوں گالیکن اگر فقط آسمان کا لفظ بغیر شرط جسم عنصری کے کسی حدیث میں پایا جائے تو وہ مخالف کے لئے مفید نہیں ہو گا کیونکہ آسمان سے نزول اور صعود کا لفظ ہمیشہ روحانی امور کے لئے آتا ہے.اور قرآن شریف میں جو لکھا ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ آسمانی تاثیرات سے نازل کیا.ورنہ مینہ کا پانی زمین کے ہی بخارات ہیں جو زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھ میل تک اوپر چڑھ سکتے ہیں.منہ
یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ وہ نازل ہو گا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بغیر وسیلہ انسانی اسباب کے آسمان سے ایک قوت نازل ہو گی جو دلوں کو حق کی طرف پھیرے گی اور مراد اس سے انتشار روحانیت اور بارش انوار و برکات ہے.سو ابتدا سے یہ مقدر ہے کہ حقیقت مسیحیہ کا نزول جو نور اور یقین کے رنگ میں دلوں کو خدا کی طرف پھیرے گا.منارہ کی طیاری کے بعد ہو گا.کیونکہ منارہ اس بات کے لئے علامت ہو گا کہ وہ لعنت کی تاریکی جو شیطان کے ذریعہ سے دنیا میں آئی ہے وہ مسیح موعود کے منارہ کے ذریعہ سے یعنی نور کے ذریعہ سے دنیا سے مفقود ہو اور منارہ بیضاء کی طرح سچائی چمک اُٹھے اور اونچی ہو.خدا کے بعض جسمانی کام اپنے اندر رُوحانی اسرار رکھتے ہیں.پس جیسا کہ توریت کے رو سے صلیب پر چڑھنے والا لعنت سے حصہ لیتا تھا ایسا ہی منارۃ المسیح پر صدق اور ایمان سے چڑھنے والا رحمت سے حصہ لے گا.اور یہ جو لکھا ہے کہ منارہ کے قریب مسیح کا نزول ہو گا.اس کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ اُسی زمانہ میں جبکہ منارہ طیار ہو جائے گا مسیحی برکات کا زورو شورسے ظہور و بروز ہو گا.اور اسی ظہور وبروز کو نزول کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے.پس جو لوگ اس عظیم الشان سعادت سے حصہ لیں گے یہ تو مشکل ہے کہ ان سب کے نام منارہ پر لکھے جائیں.لیکن یہ قرار دیا گیا ہے کہ بہرحال چندمہاجرین کے مقابل پر ایسے تمام لوگوں کے نام لکھے جائیں گے جنہوں نے کم سے کم سو روپیہ منارہ کے چندہ میں داخل کیا ہو.اور یہ نام ان کے زمانہ دراز تک بطور کتبہ کے منارہ پر کندہ رہیں گے جو آئندہ آنے والی نسلوں کو دعا کا موقع دیتے رہیں گے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی
فہرست اسماء چندہ دہندگان ۱ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی قادیان ۸ شیخ رحمت اللہ صاحب مالک بمبئی ہائوس لاہور ۲ نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ۹ محمد شادی جان صاحب چوب فروش سیالکوٹ (انہوں نے (دو صد)روپیہ ادا کر دیا) ۳ سیٹھ عبد الرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا ساجن کمپنی مدراس ۱۰ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایل ایل بی قادیان (انہوں نے ایک سو روپیہ ادا کر دیا) ۴ سیٹھ احمد صاحب حاجی اللہ رکھا مدراس ۱۱ حکیم محمد حسین صاحب مالک کارخانہ مرہم عیسیٰ لاہور ۵ سیٹھ علی محمد صاحب حاجی اللہ رکھا سوداگر بنگلور ۱۲ مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست جہلم ۶ سیٹھ صالح محمد صاحب حاجی اللہ رکھا مدراس ۱۳ سیّد فضل شاہ صاحب ٹھیکہ دار لاہور ۷ سیٹھ والجی لالجی صاحب سوداگر مدراس ۱۴ سیدناصر شاہ صاحب اوورسیئر سڑک کشمیر مقام دومیل
۱۵ مرزا خدا بخش صاحب اہلکار ریاست مالیرکوٹلہ ۲۸ ماسٹر غلام محمد صاحب بی.اے ماسٹر امریکن سکول سیالکوٹ ۱۶ مولوی ظہور علی صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدرآباد دکن ۲۹ منشی اﷲ دتہ صاحب ٹیچر یورپینی سیالکوٹ ۱۷ مولوی سید محمد رضوی صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن ۳۰ منشی تاج الدین صاحب اکونٹنٹ ایگزیمنر آفس لاہور ۱۸ مولوی ابوالحمید صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدرآباد دکن ۳۱ ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اسسٹنٹ سرجن فاضلکا ۱۹ مولوی میر مردان علی صاحب جنرل محاسب حیدر آباد دکن ۳۲ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن لکھنؤ ۲۰ منشی محمد نصیر الدین صاحب پیشکار ریونیو بورڈ حیدر آباد ۳۳ ڈاکٹر عبدالحکیم خانصاحب ایم ڈی اسسٹنٹ سرجن نارنول ریاست پٹیالہ ۲۱ مولوی میر محمد سعید صاحب مدرس مدرسہ سرکار نظام حیدر آباد دکن ۳۴ ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خاں صاحب ہاسپٹل اسسٹنٹ گڑھ شنکر ۲۲ مولوی غلام حسین صاحب سب رجسٹرار پشاور ۳۵ ڈاکٹر رحمت علی صاحب ممباسہ ملک افریقہ ۲۳ خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے ایل ایل بی پشاور ۳۶ شیخ عبدالرحمن صاحب کلرک ممباسہ افریقہ ۲۴ مولوی عزیز بخش صاحب بی اے ریکارڈ کیپر ڈیرہ غازی خاں ۳۷ منشی نبی بخش صاحب کلرک ممباسہ افریقہ ۲۵ خواجہ جمال الدین صاحب بی اے ہیڈماسٹر ہائی سکول کشمیر ۳۸ منشی محمد افضل صاحب ٹھیکہ دار ممباسہ افریقہ ۲۶ میر حامد شاہ صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ضلع سیالکوٹ ۳۹ منشی محمد نواب خاں صاحب تحصیل دار جہلم ۲۷ میاں مولابخش صاحب مالک کارخانہ بوٹ سیالکوٹ ۴۰ شیخ غلام نبی صاحب سوداگر راولپنڈی
۴۱ حکیم فضل الدین صاحب قادیان ۵۷ مرزا فضل بیگ صاحب مختار بٹالہ ۴۲ زوجگان حکیم فضل الدین صاحب موصوف ۵۸ منشی محمد اکبر صاحب ٹھیکہ دار بٹالہ ۴۳ خلیفہ نور الدین صاحب تاجر جموں ۵۹ حکیم فضل الٰہی صاحب محلہ ستھاں لاہور ۴۴ میاں اﷲ دتہ صاحب تاجر جموں ۶۰ حکیم محمد حسین صاحب قریشی لاہور ۴۵ شیخ عبدالرحمن صاحب کلرک آف دی کورٹ ڈویزنل جج ملتان ۶۱ منشی غلام حیدر صاحب ڈپٹی انسپکٹر سیالکوٹ ۴۶ منشی رستم علی خان صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ ۶۲ صو فی کرم الٰہی صاحب گورنمنٹ پریس شملہ ۴۷ بابو محمد صاحب ہیڈکلرک محکمہ انہار چھائونی انبالہ ۶۳ حافظ محمد اسحاق صاحب سب اوورسیرلاہور لالیاں ضلع جھنگ ۴۸ قاضی خواجہ علی صاحب ٹھیکہ دار لدھیانہ ۶۴ شیخ محمد جان صاحب سوداگر وزیر آباد ۴۹ میاں نبی بخش صاحب سوداگر پشمینہ امرت سر ۶۵ شیخ محمد کرم الٰہی صاحب تھانہ دار بٹھنڈہ ریاست پٹیالہ ۵۰ میر ناصر نواب صاحب پنشنر قادیان ۶۶ مفتی محمد صادق صا حب کلرک اکونٹنٹ جنرل پنجاب لاہور ۵۱ منشی عبدالعزیز صاحب کلرک محکمہ نہر جمن غربی دہلی ۶۷ شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحکم قادیان ۵۲ شیخ محمد اسمٰعیل صاحب ہیڈ ڈارفٹ مین محکمہ ریلوے دہلی ۶۸ شیخ چراغ الدین صاحب ٹھیکہ دار گجرات ۵۳ حکیم نور محمد صاحب مالک کارخانہ ہمدم صحت لاہور ۶۹ راجہ پایندہ خاں صاحب رئیس داراپورضلع جہلم ۵۴ میاں چراغ الدین صاحب ملازم پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ لاہور ۷۰ منشی محمد جان صاحب محرر جیل راولپنڈی برادر حقیقی منشی عبدالعزیز صاحب پٹوار ی ۵۵ چوہدری نبی بخش صاحب نمبردار بٹالہ ۷۱ ماسٹر شیر علی صاحب بی اے ہیڈ ماسٹر سکول قادیان ۵۶ میاں معراج الدین عمر صاحب وارث میاں محمد سلطان صاحب رئیس لاہور ۷۲ منشی گلاب خاں صاحب نقشہ نویسی لنڈی کوتل
۷۳ شیخ عطا محمد صاحب سب اوورسیئر فورٹ سنڈیمن بلوچستان ۸۷ منشی شمس الدین صاحب کمپازیٹر گورنمنٹ پریس شملہ ۷۴ بابو روشن دین صاحب سٹیشن ماسٹر اٹک ۸۸ چودہری حاکم علی صاحب جلال پور جٹاں ۷۵ منشی عبداللہ صاحب سنوری پٹواری ماچھی واڑہ ۸۹ سردار فضل حق صاحب رئیس دھر مکوٹ بگہ ۷۶ منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور کپورتھلہ ۹۰ مستری احمد الدین صاحب بھیرہ ۷۷ بابوشاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر دومیلی ۹۱ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب تاجر پشمینہ امرتسر ۷۸ مولوی صفدر حسین صاحب ڈسٹرکٹ انجینئر لنگسگور حیدر آباد دکن ۹۲ محمد ابراہیم صاحب ٹھیکہ دار ممباسہ.افریقہ ۷۹ منشی نبی بخش صا حب سٹور کیپر گورنمنٹ پریس شملہ ۹۳ انوار حسین خانصاحب شاہ آباد ضلع ہر دوئی ۸۰ منشی امام الدین صاحب سب اوورسیئرواٹر ورکس راولپنڈی ۹۴ سیّد تفضل حسین صاحب تحصیلدار ضلع متھرا ۸۱ شیخ نیاز احمد صاحب تاجر وزیر آباد ( (دو صد روپیہ) ادا کر دیا ) ۹۵ مولوی احمد جان صاحب پنشنرجالندھر ۸۲ قاضی یوسف علی نعمانی پولیس افسرسنگرور ۹۶ منشی کرم بخش صاحب پنشنر محلہ راجاں لدھیانہ ۸۳ منشی عمر الدین صاحب لدھیانہ.کوٹھی سردار عطر سنگھ ۹۷ منشی عبد العزیز صاحب پٹواری ساکن اوجلہ ضلع گوداسپور ( ایک سو روپیہ ادا کر دیا ) ۸۴ محمد صدیق صاحب معہ پسران میاں جمال الدین صاحب و امام الدین صاحب و خیرالدین صاحب سیکھواں ۹۸ مرزا اکبر بیگ صاحب ڈپٹی انسپکٹر ملتان ۸۵ منشی محمد بخش صاحب ٹھیکہ دار ساکن کڑیانوالہ گجرات ۹۹ حاجی مہدی صاحب بغدادی نزیل مدراس ۸۶ مولوی خدا بخش صاحب کمپازیٹر گورنمنٹ پریس شملہ ۱۰۰ مولوی غلام امام صاحب منی پور آسام
۱۰۱ مولوی محمد اکرم صاحب ساکن کملہ.مدرس مالیر کوٹلہ.ماسٹر قادر بخش لدھیانہ راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیاں.یکم جولائی ۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے چھ صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۹ صفحہ ۵۳ تا ۶۴)
۲۲۹ ضمیمہ رسالہ جہاد عیسٰی مسیح اور محمد مہدی کے دعویٰ کی اصل حقیقت او رجناب نواب وائسرائے صاحب بالقابہ کی خدمت میں ایک درخواست اگرچہ میں نے اپنی بہت سی کتابوں میں اس بات کی تشریح کر دی ہے کہ میری طرف سے یہ دعویٰ کہ میں عیسیٰ مسیح ہوں اور نیز محمد مہدی ہوں اس خیال پر مبنی نہیں ہیں کہ میں درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں اور نیز درحقیقت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے غور سے میری کتابیں نہیں دیکھیں وہ اس شبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ گویا میں نے تناسخ کے طور پر اس دعویٰ کو پیش کیا ہے اور گویا میں اس بات کا مدعی ہوں کہ سَچ مُچ ان دو بزرگ نبیوںکی روحیں میرے اندر حلول کر گئی ہیں.لیکن واقعی امر ایسا نہیں ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ آخری زمانہ کی نسبت پہلے نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک ایسازمانہ ہوگا کہ جو دو قسم کے ظلم سے بھر جائے گا.ایک ظلم مخلوق کے حقوق کی نسبت ہوگا اور دوسرا ظلم خالق کے حقوق کی نسبت.مخلوق کے حقوق کی نسبت یہ ظلم ہوگا کہ جہاد کا نام رکھ کر نوع انسان کی خون ریزیاں ہوںگی.یہاںتک کہ جو شخص ایک بے گناہ کو قتل کرے گا وہ خیال کرے گا کہ گویاوہ ایسی
خو ن ریزی سے ایک ثواب عظیم کو حاصل کرتا ہے اور اس کے سوا اور بھی کئی قسم کی ایذائیں محض دینی غیرت کے بہانہ پر نوع انسان کو پہنچائی جائیں گی چنانچہ وہ زمانہ یہی ہے کیونکہ ایمان اور انصاف کے رُو سے ہر ایک خدا ترس کو اس زمانہ میں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مثلاً آئے دن جو سرحدیوں کی ایک وحشی قوم ان انگریز حکام کو قتل کرتی ہے جو اُن کے یا ان کے ہم قوم بھائی مسلمانوں کی جانوں اور عزتوں کے محافظ ہیں.یہ کس قدر ظلم صریح اور حقوق عباد کا تلف کرنا ہے.کیا اُن کو سکھوں کا زمانہ یاد نہیں رہا جو بانگ نماز پر بھی قتل کرنے کو مستعد ہو جاتے تھے.گورنمنٹ انگریزی نے کیا گناہ کیا ہے جس کی یہ سزا اس کے معزز حکام کو دی جاتی ہے.اس گورنمنٹ نے پنجاب میں داخل ہوتے ہی مسلمانوں کو اپنے مذہب میں پوری آزادی دی.اب وہ زمانہ نہیں ہے جو دھیمی آواز سے بھی بانگ نماز دے کر مارکھاویں بلکہ اب بلند میناروں پر چڑھ کر بانگیں دو اور اپنی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھو کوئی مانع نہیں.سکھوں کے زمانہ میں مسلمانوں کی غلاموں کی طرح زندگی تھی اور اب انگریزی عملداری سے دوبارہ ان کی عزت قائم ہوئی.جان اور مال اور عزت تینوں محفوظ ہوئے.اسلامی کتب خانوں کے دروازے کھولے گئے تو کیا انگریزی گورنمنٹ نے نیکی کی یا بدی کی؟ سکھوں کے زمانہ میں بزرگوار مسلمانوں کی قبریں بھی اُکھیڑی جاتی تھیں.سرہند کا واقعہ بھی اب تک کسی کو بھولا نہیں ہوگا.لیکن یہ گورنمنٹ ہماری قبروں کی بھی ایسی ہی محافظ ہے جیسا کہ ہمارے زندوں کی.کیسی عافیت اور امن کی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہم لوگ رہتے ہیں جس نے ایک ذرہ مذہبی تعصب ظاہر نہیں کیا.کوئی مسلمان اپنے مذہب میں کوئی عبادت بجا لاوے.حج کرے زکوٰۃ دے.نماز پڑھے یا خدا کی طرف سے ہو کر یہ ظاہر کرے کہ میں مجدد وقت ہوں یا ولی ہوں یا قطب ہوںیا مسیح ہوں یا مہدی ہوں اس سے اس عادل گورنمنٹ کو کچھ سروکار نہیں بجز اس صورت کے کہ وہ خود ہی طریق اطاعت کو چھوڑ کر باغیانہ خیالات میں گرفتار ہو.پھر باوجود اس کے کہ گورنمنٹ کے یہ سلوک اور احسان ہیں مسلمانوں کی طرف سے اس کا عوض یہ دیا جاتا ہے کہ ناحق بے گناہ بے قصور اُن حکام کو قتل کرتے ہیں جو دن رات انصاف کی
پابندی سے ملک کی خدمت میں مشغول ہیں.اور اگریہ کہو کہ یہ لوگ تو سرحدی ہیں اس ملک کے مسلمانوں اور ان کے مولویوں کا کیا گناہ ہے تو اس کا جواب بادب ہم یہ دیتے ہیں کہ ضرور ایک گناہ ہے چاہو قبول کرو یانہ کرو اور وہ یہ کہ جب ہم ایک طرف سرحدی وحشی قوموں میں غازی بننے کا شوق دیکھتے ہیں تو دوسری طرف اس ملک کے مولویوں میں اپنی گورنمنٹ اور اس کے انگریزی حکام کی سچی ہمدردی کی نسبت وہ حالت ہمیں نظر نہیں آتی اور نہ وہ جوش دکھائی دیتا ہے.اگر یہ اس گورنمنٹ عالیہ کے سچے خیر خواہ ہیں تو کیوں بالاتفاق ایک فتویٰ طیار کرکے سرحدی ملکوں میں شائع نہیں کرتے تا ان نادانوں کا یہ عذر ٹوٹ جائے کہ ہم غازی ہیں اور ہم مرتے ہی بہشت میں جائیں گے.میں سمجھ نہیں سکتا کہ مولویوں اور اُن کے پیروئوں کا اس قدر اطاعت کاد عویٰ اور پھر کوئی عمدہ خدمت نہیں دکھلا سکتے.بلکہ یہ کلام تو بطریق تنزّل ہے.بہت سے مولوی ایسے بھی ہیں جن کی نسبت اس سے بڑھ کر اعتراض ہے.خدا ان کے دلوں کی اصلاح کرے.غرض مخلوق کے حقوق کی نسبت ہماری قوم اسلام میں سخت ظلم ہو رہا ہے.جب ایک محسن بادشاہ کے ساتھ یہ سلوک ہے تو پھر اوروں کے ساتھ کیا ہوگا.پس خدا نے آسمان پر اس ظلم کو دیکھا.اس لئے اُس نے اس کی اصلاح کے لئے حضرت عیسیٰ مسیح کی خو اور طبیعت پر ایک شخص کو بھیجا اور اس کا نام اسی طور سے مسیح رکھا جیسا کہ پانی یا آئینہ میںایک شکل کا جو عکس پڑتا ہے اس عکس کو مجازاًکہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے کیوںکہ یہ تعلیم جس پر اب ہم زور دیتے ہیں یعنی یہ کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور خدا کی مخلوق کی عموماً بھلائی چاہو.اس تعلیم پر زور دینے والا وہی بزرگ نبی گذرا ہے جس کا نام عیسیٰ مسیح ہے.اور اس زمانہ میں بعض مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنے دشمنوں سے پیار کریں ناحق ایک قابل شرم مذہبی بہانہ سے ایسے لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں جنہوں نے کوئی بدی اُن سے نہیں کی بلکہ نیکی کی ،اس لئے ضرور تھا کہ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے ایک ایسا شخص خدا سے الہام پاکر پیدا ہو جو حضرت مسیح کی خو اور طبیعت اپنے اندر رکھتا ہے اور صلح کاری کا پیغام لے کر آیا ہے.کیا اِس زمانہ میں ایسے شخص کی ضرورت نہ تھی جو عیسیٰ مسیح کا اوتار ہے؟ بیشک ضرورت تھی.جس
حالت میں اسلامی قوموں میں سے کروڑہا لوگ روئے زمین پر ایسے پائے جاتے ہیں جو جہاد کا بہانہ رکھ کر غیر قوموں کو قتل کرنا اُن کا شیوہ ہے بلکہ بعض تو ایک محسن گورنمنٹ کے زیر سایہ رہ کر بھی پوری صفائی سے اُن سے محبت نہیں کر سکتے.سچی ہمدردی کو کمال تک نہیں پہنچا سکتے اور نہ نفاق اور دورنگی سے بکلی پاک ہو سکتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح کے اوتار کی سخت ضرورت تھی.سو میں وہی اوتار ہوں جو حضرت مسیح کی رُوحانی شکل اور خو اور طبیعت پر بھیجا گیا ہوں.اور دوسری قسم ظلم کی جو خالق کی نسبت ہے وہ اس زمانہ کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو خالق کی نسبت کمال غلو تک پہنچ گیا ہے.اس میں تو کچھ شک نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کاآفتاب اور جناب الٰہی کا مقرب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچی محبت رکھتے ہیں اور اُس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایات کے کاربند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے لیکن باایں یہ سخت غلطی اور کفر ہے کہ اُس برگزیدہ کو خدا بنایا جائے.خدا کے پیاروں کو خدا سے ایک بڑا تعلق ہوتا ہے اس تعلق کے لحاظ سے اگر وہ اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہہ دیں یا یہ کہہ دیں کہ خدا ہی ہے جو اُن میں بولتا ہے اور وہی ہے جس کا جلوہ ہے تو یہ باتیں بھی کسی حال کے موقع میں ایک معنی کے رو سے صحیح ہوتے ہیں جن کی تاویل کی جاتی ہے.کیونکہ انسان جب خدا میں فنا ہو کر اور پھر اس کے نور سے پرورش پاکر نئے سرے ظاہر ہوتا ہے تو ایسے لفظ اُس کی نسبت مجازاً بولنا قدیم محاورہ اہل معرفت ہے کہ وہ خود نہیں بلکہ خدا ہے جو اُس میں ظاہر ہوا ہے.لیکن اس سے درحقیقت یہ نہیں کھلتا کہ وہی شخص درحقیقت ربّ العالمین ہے.اس نازک محل میں اکثر عوام کا قدم پھسل جاتا ہے اور ہزارہا بزرگ اور ولی اور اوتار جو خدا بنائے گئے وہ بھی دراصل انہی لغزشوں کی وجہ سے بنائے گئے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب روحانی اور آسمانی باتیں عوام کے ہاتھ میں آتی ہیں تو وہ اُن کی جڑ تک پہنچ نہیں سکتے.آخر کچھ بگاڑ کر اور مجاز کو حقیقت پر حمل کرکے سخت غلطی اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.سو اسی غلطی میں آج کل کے علماء مسیحی بھی گرفتار ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو
خدا بنا دیا جائے.سو یہ حق تلفی خالق کی ہے اور اس حق کے قائم کرنے کے لئے اور توحید کی عظمت دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک بزرگ نبی ملک عرب میں گذرا ہے جس کا نام محمدؐ اور احمد ؐ تھا خدا کے اُس پر بے شمار سلام ہوں.شریعت دو۲ حصوں پر منقسم تھی.بڑا حصہ یہ تھا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی توحید.اور دوسرا حصہ یہ کہ ہمدردی نوع انسان کرو اور ان کے لئے وہ چاہو جو اپنے لئے.سو ان دو حصوں میں سے حضرت مسیح نے ہمدردی نوع انسان پر زور دیا کیونکہ وہ زمانہ اسی زور کو چاہتا تھا.اور دوسرا حصہ جو بڑا حصہ ہے یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ و خدا کی عظمت اور توحید کا سرچشمہ ہے اس پر حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا کیونکہ وہ زمانہ اسی قسم کے زور کو چاہتا تھا.پھر بعد اس کے ہمارا زمانہ آیا جس میں اب ہم ہیں.اس زمانہ میں یہ دونوں قسم کی خرابیاں کمال درجہ تک پہنچ گئی تھیں یعنی حقوق عباد کا تلف کرنا اور بے گناہ بندوں کا خون کرنا مسلمانوں کے عقیدہ میں داخل ہو گیا تھا اور اس غلط عقیدہ کی وجہ سے ہزارہا بے گناہوں کو وحشیوں نے تہِ تیغ کر دیا تھا.اور پھر دوسری طرف حقوقِ خالق کا تلف کرنا بھی کمال کو پہنچ گیا تھا اور عیسائی عقیدہ میں یہ داخل ہو گیا تھا کہ وہ خدا جس کی انسانوں اور فرشتوں کو پرستش کرنی چاہیے وہ مسیح ہی ہے اور اس قدر غلو ہو گیا کہ اگرچہ اُن کے نزدیک عقیدہ کے رو سے تین اقنوم ہیں لیکن عملی طور پر دُعا اور عبادت میں صرف ایک ہی قرار دیا گیا ہے یعنی مسیح.یہ دونوں پہلو اتلافِ حقوق کے یعنی حق العباد اور حق رب العباد اس قدر کمال کو پہنچ گئے تھے کہ اب یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے کونسا پہلو اپنے غلو میں انتہائی درجہ تک جاپہنچا ہے.سو اس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق عباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام مسیح رکھا اور مجھے خو اور بو اور رنگ اور روپ کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ مسیح کا اوتار کرکے بھیجا ایسا ہی اُس نے حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے توحید پھیلانے کے لئے تمام خو اور بو اور رنگ اور روپ اور جامہ محمدی پہنا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اوتار بنا دیا.سو میں ان معنوں کرکے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی.مسیح ایک لقب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں خدا کو چھونے والا اور خدائی انعام میں سے کچھ لینے والا.اور اس کا خلیفہ اور صدق اوررا ستبازی کو اختیار کرنے والا.اور مہدی ایک لقب ہے جو
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں کہ فطرتًا ہدایت یافتہ اور تمام ہدایتوں کا وارث اور اسم ہادی کے پورے عکس کا محل.سو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے سو میں ان معنوں کے رو سے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں بروز عیسیٰ وبروز محمدؐ.غرض میرا وجود ان دونوں نبیوں کے وجود سے بروزی طور پر ایک معجون مرکب ہے.عیسیٰ مسیح ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں اور خونریزیوں سے روک دوں جیسا کہ حدیثوں میں صریح طور سے وارد ہو چکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دنیا میں آئے گا تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا.سو ایسا ہی ہوتا جاتا ہے.آج کی تاریخ تک تیس ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ میرے ساتھ جماعت ہے۱؎ جو برٹش انڈیا کے متفرق مقامات میں آباد ہے اور ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اُسی روز سے اُس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعًا حرام ہے کیونکہ مسیح آچکا.خاص کر میری تعلیم کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ اس کو بننا پڑتا ہے نہ محض نفاق سے اور یہ وہ صلح کاری کا جھنڈا کھڑا کیا گیا ہے کہ اگر ایک لاکھ مولوی بھی چاہتا کہ وحشیانہ جہادوں کے روکنے کے لئے ایسا پُرتاثیر سلسلہ قائم کرے تو اس کے لئے غیر ممکن تھا اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو چند سال میں ہی یہ مبارک اور امن پسند جماعت جو جہاد اور غازی پن کے خیالات کو مٹا رہی ہے کئی لاکھ تک پہنچ جائے گی اور وحشیانہ جہاد کرنے والے اپنا چولہ بدل لیں گے.اور محمد مہدی ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدائی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں کیونکہ ہمارے سیّدو مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے محض آسمانی نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت عرب کے بُت پرستوں کے دلوں میں ۱؎ اگرچہ خاص آدمی جو علم اور فہم سے کافی بہرہ رکھتے ہیں دس ہزار کے قریب ہوں گے مگر ایک قسم کے لوگ جن میں ناخواندہ بھی ہیں تیس ہزار سے کم نہیں ہیں بلکہ شاید زیادہ ہوں.منہ
قائم کی تھی.سو ایسا ہی مجھے رُوح القدس سے مدد دی گئی ہے.وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ پر بمقام طوُر ظاہر ہوا اور حضرت مسیح پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر فاران کے پہاڑ پر چمکا وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلی فرما ہوا ہے اُس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلیٰ وجود جس کی پرستش کے لئے تمام نبی بھیجے گئے میں ہوں.میں اکیلا خالق اور مالک ہوں اور کوئی میرا شریک نہیں اور میں پیدا ہونے اور مرنے سے پاک ہوں اور میرے پر ظاہر کیا گیاکہ جو کچھ مسیح کی نسبت دنیا کے اکثر عیسائیوں کا عقیدہ ہے یعنی تثلیث و کفارہ وغیرہ یہ سب انسانی غلطیاں ہیں اور حقیقی تعلیم سے انحراف ہے.خدا نے اپنے زندہ کلام سے بلا واسطہ مجھے یہ اطلاع دی ہے اور مجھے اُس نے کہا ہے کہ اگر تیرے لئے یہ مشکل پیش آوے کہ لوگ کہیں کہ ہم کیونکر سمجھیں کہ تو خدا کی طرف سے ہے تو انہیں کہہ دے کہ اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ اُس کے آسمانی نشان میرے گواہ ہیں دُعائیں قبول ہوتی ہیں.پیش از وقت غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں اور وہ اسرار جن کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں وہ قبل از وقت ظاہر کئے جاتے ہیں اور دوسرا یہ نشان ہے کہ اگر کوئی ان باتوں میں مقابلہ کرنا چاہے مثلاً کسی دُعا کا قبول ہونا اور پھر پیش از وقت اس قبولیت کا علم دیئے جانا یااور غیبی واقعات معلوم ہونا جو انسان کی حد علم سے باہر ہیں تو اس مقابلہ میں وہ مغلوب رہے گا گووہ مشرقی ہویا مغربی یہ وہ دو نشان ہیں جو مجھ کو دیئے گئے ہیں تا ان کے ذریعہ سے اس سچے خدا کی طرف لوگوں کو کھینچوں جو درحقیقت ہماری رُوحوں اور جسموں کا خدا ہے جس کی طرف ایک دن ہر ایک کا سفر ہے.یہ سچ ہے کہ وہ مذہب کچھ چیز نہیں جس میںالٰہی طاقت نہیں.تمام نبیوں نے سچے مذہب کی یہی نشانی ٹھہرائی ہے کہ اُس میں الٰہی طاقت ہو.یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ دونوں نام جو خدا تعالیٰ نے میرے لئے مقرر فرمائے یہ صرف چند روز سے نہیں ہیں بلکہ میری کتاب براہین احمدیہ میں جس کو شائع کئے قریباً بیس برس گذرگئے یہ دونوں نام خدا تعالیٰ کے الہام میں میری نسبت ذکر فرمائے گئے ہیں یعنی عیسیٰ مسیح اور محمد مہدی تا میں ان دونوں گروہ مسلمانوں اور
عیسائیوں کو وہ پیغام پہنچا دوں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.کاش اگر دلوں میں طلب ہوتی اور آخرت کے دن کا خوف ہوتا تو ہر ایک سچائی کے طالب کو یہ موقع دیا گیا تھا کہ وہ مجھ سے تسلی پاتا.سچا مذہب وہ مذہب ہے جو الٰہی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور فوق العادت کاموں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھاتا ہے.سو میں اس بات کا گواہ ِرؤیت ہوں کہ ایسا مذہب توحید کا مذہب ہے جو اسلام ہے جس میں مخلوق کو خالق کی جگہ نہیں دی گئی.اور عیسائی مذہب بھی خدا کی طرف سے تھا مگر افسوس کہ اب وہ اس تعلیم پر قائم نہیں اور اس زمانہ کے مسلمانوں پر بھی افسوس ہے کہ وہ شریعت کے اس دوسرے حصہ سے محروم ہو گئے ہیں جو ہمدردیٔ نوع انسان اور محبت اور خدمت پر موقوف ہے اور وہ توحید کا دعویٰ کرکے پھر ایسے وحشیانہ اخلاق میں مبتلا ہیں جو قابلِ شرم ہیں.میں نے بارہا کوشش کی جو ان کو ان عادات سے چھڑائوں لیکن افسوس کہ بعض ایسی تحریکیں ان کو پیش آجاتی ہیں کہ جن سے وحشیانہ جذبات ان کے زندہ ہو جاتے ہیں.اور وہ بعض کم سمجھ پادریوں کی تحریرات ہیں جو زہریلا اثر رکھتی ہیں.مثلاً پادری عماد الدین کی کتابیں اور پادری ٹھاکر داس کی کتابیں اور صفدر علی کی کتابیں اور امہات المومنین اور پادری ریواڑی کا رسالہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت درجہ کی توہین اورتکذیب سے پُر ہیں.یہ ایسی کتابیں ہیں کہ جو شخص مسلمانوں میں سے ان کو پڑھے گا اگر اس کو صبر اور حلم سے اعلیٰ درجہ کا حصہ نہیں تو بے اختیار جوش میں آجائے گا کیونکہ ان کتابوں میں علمی بیان کی نسبت سخت کلامی بہت ہے جس کی عام مسلمان برداشت نہیں کر سکتے.چنانچہ ایک معزز پادری صاحب اپنے ایک پرچہ میں جو لکھنؤ سے شائع ہوتا تھا لکھتے ہیں کہ اگر ۱۸۵۷ء کا دوبارہ آنا ممکن ہے تو پادری عماد الدین کی کتابوں سے اس کی تحریک ہوگی.اب سوچنے کے لائق ہے کہ پادری عماد الدین کا کیسا خطرناک کلام ہے جس پر ایک معزز مشنری صاحب یہ رائے ظاہر کرتے ہیں اور گذشتہ دنوں میں مَیں نے بھی مسلمانوں میں ایسی تحریروں سے ایک جوش دیکھ کر چند دفعہ ایسی تحریریں شائع کی تھیں جن میں ان سخت کتابوں کا جواب کسی قدر سخت تھا.ان تحریروں سے میرا مدعا یہ تھا کہ عوض معاوضہ کی صورت دیکھ کر مسلمانوں کا جوش
رُک جائے.سو اگرچہ ان حکمت عملی کی تحریروں سے مسلمانوں کو فائدہ تو ہوا اور وہ ایسے رنگ کا جواب پاکر ٹھنڈے ہو گئے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب بھی آئے دن پادری صاحبوں کی طرف سے ایسی تحریریں نکلتی رہتی ہیں کہ جو زُود رنج اور تیز طبع مسلمان ان کی برداشت نہیں کر سکتے.یہ نہایت خوفناک کارروائی ہے کہ ایک طرف تو پادری صاحبان یہ جھوٹا الزام مسلمانوں کو دیتے ہیں کہ ان کو قرآن میں ہمیشہ اور ہر ایک زمانہ میں جہاد کا حکم ہے گویا وہ ان کو جہاد کی رسم یاد دلاتے رہتے ہیں.اور پھر تیز تحریریں نکال کر اُن میں اشتعال پیدا کرتے رہتے ہیں نہ معلوم کہ یہ لوگ کیسے سیدھے ہیں کہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ان دونوں طریقوں کے ملانے سے ایک خوفناک نتیجہ کا احتمال ہے.ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف ہر گز جہاد کی تعلیم نہیں دیتا.اصلیت صرف اس قدر ہے کہ ابتدائی زمانہ میں بعض مخالفوں نے اسلام کو تلوار سے روکنا بلکہ نابود کرنا چاہا تھا سو اسلام نے اپنی حفاظت کے لئے اُن پر تلوار اُٹھائی اور اُنہی کی نسبت حکم تھا کہ یا قتل کئے جائیں اور یا اسلام لائیں.سو یہ حکم مختص الزمان تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا اور اسلام اُن بادشاہوں کی کارروائیوں کا ذمہ وار نہیں ہے جو نبوت کے زمانہ کے بعد سراسر غلطیوں یا خود غرضیوں کی وجہ سے ظہور میں آئیں.اب جو شخص نادان مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے بار بار جہاد کا مسئلہ یاد دلاتا ہے گویا وہ ان کی زہریلی عادت کو تحریک دینا چاہتا ہے.کیا اچھا ہوتا کہ پادری صاحبان صحیح واقعات کو مد نظر رکھ کر اس بات پر زور دیتے کہ اسلام میں جہاد نہیں ہے اور نہ جبر سے مسلمان کرنے کا حکم ہے جس کتاب میںیہ آیت اب تک موجود ہے کہ ۱؎ یعنی دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں کرنی چاہیے.کیا اس کی نسبت ہم ظن کر سکتے ہیں کہ وہ جہاد کی تعلیم دیتی ہے.غرض اس جگہ ہم مولویوں کا کیا شکوہ کریں خود پادری صاحبوں کا ہمیں شکوہ ہے کہ وہ راہ انہوں نے اختیار نہیں کی جو درحقیقت سچی تھی اور گورنمنٹ کے مصالح کے لئے بھی مفید تھی.اسی درد دل کی وجہ سے میں نے جناب نواب وائسرائے صاحب بہادر بالقابہ کی خدمت میں دو دفعہ درخواست کی تھی کہ کچھ مدت تک اس طریق بحث کو بند کر دیا جائے کہ ایک فریق دوسرے فریق ۱؎ البقرۃ : ۲۵۷
کے مذہب کی نکتہ چینیاں کرے.لیکن اب تک اُن درخواستوں کی طرف کچھ توجہ نہ ہوئی.لہٰذا اب بارسوم ۳ حضور ممدوح میں پھر درخواست کرتا ہوں کہ کم سے کم پانچ برس تک یہ طریق دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کا بند کر دیا جائے اور قطعاً ممانعت کر دی جائے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے عقائد پر ہرگز مخالفانہ حملہ نہ کرے کہ اس سے دن بدن ملک میں نفاق بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ مختلف قوموں کی دوستانہ ملاقاتیں ترک ہو گئی ہیں کیونکہ بسا اوقات ایک فریق دوسرے فریق پر اپنی کم علمی کی وجہ سے ایسا اعتراض کر دیتا ہے کہ وہ دراصل صحیح بھی نہیں ہوتا اور دلوں کو سخت رنج پہنچا دیتا ہے اور بسا اوقات کوئی فتنہ پیدا کرتا ہے.جیسا کہ مسلمانوں پر جہاد کا اعتراض بلکہ ایسا اعتراض دوسرے فریق کے لئے بطور یاد دہانی ہو کر بھولے ہوئے جوش اس کو یاد دلا دیتا ہے اور آخر مفاسد کا موجب ٹھہرتا ہے.سو اگر ہماری دانشمند گورنمنٹ پانچ برس تک یہ قانون جاری کر دے کہ برٹش انڈیا کے تمام فرقوں کو جس میں پادری بھی داخل ہیں قطعاً روک دیا جائے کہ وہ دوسرے مذاہب پر ہر گز مخالفانہ حملہ نہ کریں اور محبت اور خلق سے ملاقاتیں کریں اور ہر ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں ظاہر کرے تو مجھے یقین ہے کہ یہ زہر ناک پودہ پھوٹ اور کینوں کا جو اندر ہی اندر نشوو نما پا رہا ہے جلد تر مفقود ہو جائے گا اور یہ کارروائی گورنمنٹ کی قابل تحسین ٹھہر کر سرحدی لوگوں پر بھی بے شک اثر ڈالے گی اور امن اور صلح کاری کے نتیجے ظاہر ہوںگے.آسمان پر بھی یہی منشاء خدا کا معلوم ہوتا ہے کہ جنگ و جدل کے طریق موقوف ہوں اور صلح کاری کے طریق اور باہمی محبت کی راہیں کھل جائیں.اگر کسی مذہب میں کوئی سچائی ہے تو وہ سچائی ظاہر کرنی چاہیے نہ یہ کہ دوسرے مذاہب کی عیب شماری کرتے رہیں.یہ تجویز جو میں پیش کرتا ہوں اس پر قدم مارنا یا اس کو منظور کرنا ہر ایک حاکم کا کام نہیں ہے بڑے پرُمغز حکام کا یہ منصب ہے کہ اس حقیقت کو سمجھیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارے عالی جاہ نواب معلی القاب وائسرائے بہادر کرزن صاحب بالقابہ اپنی وسعت اخلاق اور موقع شناسی کی قوت سے ضرور اس درخواست پر توجہ فرمائیں گے اور اپنی شاہانہ ہمت سے اس پیش کردہ تجویز
کو جاری فرمائیں گے اور اگر یہ نہیں تو اپنے عہد دولت مہد میں اسی قدر خدا کے لئے کارروائی کرلیں کہ خود بدولت امتحان کے ذریعہ سے آزمالیں کہ اس ملک کے مذاہب موجودہ میں سے الٰہی طاقت کس مذہب میں ہے یعنی تمام مسلمانوں آریوں سکھوں سناتن دھرموں عیسائیوں برہموؤں یہودیوں وغیرہ فرقوں کے نامی علماء کے نام یہ احکام جاری ہوں کہ اگر اُن کے مذہب میں کوئی الٰہی طاقت ہے خواہ وہ پیشگوئی کی قسم سے ہو یا اور قسم سے وہ دکھائیں.اور پھر جس مذہب میں وہ زبردست طاقت جو طاقت بالا ہے ثابت ہو جائے ایسے مذہب کو قابل تعظیم اور سچا سمجھا جائے.اور چونکہ مجھے آسمان سے اِس کام کے لئے رُوح ملی ہے اس لئے میں اپنی تمام جماعت کی طرف سے سب سے پہلے یہ درخواست کرنے والا ہوں کہ اس امتحان کے لئے دوسرے فریقوں کے مقابل پر مَیں طیار ہوں اور ساتھ ہی دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس گورنمنٹ کو ہمیشہ اقبال نصیب کرے جس کے زیر سایہ ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم خدا کی طرف سے ہوکر ایسی درخواستیں خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے کریں.والسلام.۷ جولائی 1900ء الملتمس خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان مطبوعہ ضیاءالاسلام پریس قادیان ضمیمہ رسالہ جہاد مطبوعہ جولائی 1900ء صفحہ ۱ تا ۱۲.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۳ تا ۳۴
۲۳۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اﷲِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِٰایَاتِہٖ ۱؎ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی جو سخت مکذب ہیں اُن کے ساتھ ایک طریق فیصلہ مع ان علماء کے جن کا نام ضمیمہ اشتہار ہذا میں درج ہے ۲؎ یہ صاحب جن کا نام عنوان میں درج ہے یعنی مہر علی شاہ صاحب ضلع راولپنڈی کے سجادہ نشینوں میں سے ایک بزرگ ہیں.وہ اپنے رسمی مشیخت کے غرور سے اس خیال میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح اس سلسلہ آسمانی کو مٹادیں.چنانچہ اسی غرض سے انہوں نے دو کتابیں بھی لکھی ہیں جو اس بات پر کافی دلیل ہیں کہ وہ علم قرآن اور حدیث سے کیسے بے بہرہ اور بے نصیب ہیں.اور چونکہ ان لوگو ں ۱؎ الانعام : ۲۲ ۲؎ پنجاب اور ہندوستان کے سجادہ نشین یہ عذر نہیں پیش کر سکتے کہ ہم تو جاہل اور علم قرآن اور علم عربیت سے بے بہرہ اور بے نصیب ہیں.پھر تفسیر قرآن مجید اور بلاغت عربیت میں کیا مقابلہ کریں کیونکہ اگر وہ جاہل ہیں تو لوگوں سے بیعت کیوں لیتے ہیں اور مراتب سلوک میں مرتبہ کشف القرآن کیوں رکھا ہوا ہے.ماسوا اس کے جبکہ یہ مقابلہ خارق عادت کے طور پرہے تو علم کی ضرورت ہی کیا ہے کشف اور الہام سے کام لیں جس کا دعویٰ ہے.منہ
کے خیالات بالکل پست اور محدود ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے تمام ذخیرہ لغویات میں ایک بھی ایسی بات پیش نہیں کر سکتے جس کے اندر کچھ روشنی ہو.معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف اس دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ بعض حدیثوں میں لکھا ہے کہ مسیح موعود آسمان سے نازل ہوگا.حالانکہ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کبھی اور کسی زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے یا کسی آخری زمانہ میں جسم عنصری کے ساتھ نازل ہوں گے.اگر لکھا ہے تو کیوں ایسی حدیث پیش نہیں کرتے.ناحق نزول کے لفظ کے الٹے معنے کرتے ہیں.خدا کی کتابوں کا یہ قدیم محاورہ ہے کہ جو خدا کی طرف سے آتا ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوا.دیکھو انجیل یوحنا باب۱ آیت ۳۸ اور اسی راز کی طرف اشارہ ہے سورۂ اِنَّا اَنْزَلْـنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ۱؎ میں اور نیز آیت ذِکْرًا رَّسُوْلًا ۲؎میں.لیکن عوام جو جسمانی خیال کے ہوتے ہیں.وہ ہر ایک بات کو جسمانی طور پر سمجھ لیتے ہیں.یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ جیسے حضرت مسیح ان کے زعم میں فرشتوں کے ساتھ آسمان سے اُتریں گے.ایسا ہی ان کا یہ بھی تو عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی فرشتوں کے ساتھ آسمان پر گئے تھے بلکہ اس جگہ تو ایک براق بھی ساتھ تھا مگر کس نے آنحضرت ؐ کا چڑھنا اور اُترنا دیکھا.اور نیز فرشتوں اور براق کو دیکھا؟ ظاہر ہے کہ منکر لوگ معراج کی رات میں نہ دیکھ سکے کہ فرشتے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو آسمان پر لے گئے.اور نہ اُترتے دیکھ سکے.اسی لئے انہوں نے شور مچا دیا کہ معراج جھوٹ ہے.اب یہ لوگ جو ایسے مسیح کے منتظر ہیں جو آسمان سے فرشتوں کے ساتھ اُترتا نظر آئے گا یہ کس قدر خلاف سنت اﷲ ہے.سیّد الرسلؐ تو آسمان پر چڑھتا یا اُترتا نظر نہ آیا تو کیا مسیح اُترتا نظر آجائے گا.لَعْنَۃُ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.کیا ابوبکر صدیق ؓ نے سیّد المرسلین محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مع فرشتوں کے معراج کی رات میں آسمان پر چڑھتے یا اُترتے دیکھا؟ یا عمر فاروقؓ نے اس مشاہدہ کا فخر حاصل ۱؎ القدر : ۲ ۲؎ الطلاق : ۱۱، ۱۲
کیا.یا علیؓ مرتضیٰ نے اس نظارہ سے کچھ حصّہ لیا.پھر تم کون اور تمہاری حیثیت کیا کہ مسیح موعود کو آسمان سے مع فرشتوں کے اُترتے دیکھو گے.۱؎ !! خود قرآن ایسی رؤیت کا مکذّب ہے.سو اے مسلمانوں کی نسل ان خیالات سے باز آ جائو! تمہاری آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوئے اور کسوف خسوف تم نے رمضان میں دیکھ لیا اور صدی میں سے بھی سترہ برس گذر گئے.کیا اب تک مفاسد موجودہ کی اصلاح کے لئے مجدد پیدا نہ ہوا.خدا سے ڈرو اور ضدّ اور حسد سے باز آ جائو.اُس غیور سے ڈرو جس کا غضب کھا جانے والی آگ ہے.اور اگر مہر علی شاہ صاحب اپنی ضد سے باز نہیں آتے تو مَیں فیصلہ کے لئے ایک سہل طریق پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ درحقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.(۱) ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق یعنی مابہ الامتیاز رکھا جاتا ہے اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت ان سے صادر ہوتے ہیں جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتے جیسا کہ آیت یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا ۲؎ اس کی شاہد ہے.(۲) ان کو علم معارف قرآن دیا جاتاہے اور غیر کو نہیں دیا جاتا.جیسا کہ آیت لَایَمَسُّہٗ اِلَّاالْمُطَھَّرُوْنَ ۳؎ اس کی شاہد ہے.(۳) ان کی دعائیں اکثر قبول ہوجاتی ہیں اور غیر کی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیت اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۴؎ اس کی گواہ ہے.سو مناسب ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے ۱؎ اس تحقیق سے ثابت ہے کہ اس علامت کا منتظر رہنا کہ جب مسیح موعود کا دعویٰ کرنے والا آسمان سے اُترتا نظر آئے گا تبھی ہم اس کو قبول کریں گے سخت حماقت ہے.بلاشبہ ایسا مشاہدہ محال ہے.اور اگر جائز ہوتا تو ضرور ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم معراج کی رات میں چڑھتے اور اُترتے دکھائی دیتے.پس جو امر محال سے معلّق ہے.وہ بھی محال اور باطل ہے.منہ ۲؎ الانفال : ۳۰ ۳؎ الواقعۃ : ۸۰ ۴؎ المؤمن : ۶۱
صادق اور کاذب کے پرکھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکالیں اور اس میں چالیس آیت یا ساری صورت (اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو) لے کر فریقین یعنی یہ عاجز اور مہر علی شاہ صاحب اوّل یہ دُعا کریں کہ یا الٰہی ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اُس کو تُو اس جلسہ میں اس سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں عین اسی جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک رُوحانی قوت عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر۱؎ اور جو شخص ہم دونوںفریق میں سے تیری مرضی کے مخالف اورتیرے نزدیک صادق نہیں ہے اُس سے یہ توفیق چھین لے اور اس کی زبان کو فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے تا لوگ معلوم کر لیں کہ تو کس کے ساتھ ہے اور کون تیرے فضل اور تیری روح القدس کی تائید سے محروم ہے.۲؎ پھر اس دُعا کے بعد فریقین عربی زبان میں اس تفسیر کو لکھنا شروع کریں.اور یہ ضروری شرط ہو گی کہ کسی فریق کے پاس کوئی کتاب موجود نہ ہو اور نہ کوئی مددگاراور ضروری ہو گا کہ ہر ایک فریق چپکے چپکے بغیر آواز سُنانے کے اپنے ہاتھ سے لکھے تااس کی فصیح عبارت اور معارف کے سُننے سے دوسرا فریق کسی قسم کا اقتباس یا سرقہ نہ کر سکے.۱؎ پیر مہر علی شاہ صاحب اپنی کتاب شمس الہدایہ کے صفحہ ۸۱ میں یہ لاف زنی کر چکے ہیں کہ قرآن شریف کی سمجھ ان کو عطا کی گئی ہے.اگر وہ اپنی کتاب میں اپنی جہالت کا اقرار کرتے اور فقر کا بھی دم نہ مارتے تو اس دعوت کی کچھ ضرورت نہیں تھی.لیکن اب تو وہ اُن دونوں کمالات کے مدعی ہو چکے ہیں ؎ ندارد کسے با تو ناگفتہ کار ولیکن چوگفتی دلیلش بیار٭ ۲؎ یاد رہے کہ ہر یک نبی یا رسول یا محدّث جو نشان اتمام حجت کے لئے پیش کرتا ہے وہین نشان خدا تعالیٰ کے نزدیک معیار صدق و کذب ہوتا ہے اور منکرین کی اپنی درخواست کے نشان معیار نہیں ٹھہر سکتے.گو ممکن ہے کہ کبھی شاذو نادر کے طور پر ان میں سے بھی کوئی بات قبول کی جائے.کیونکہ خدا تعالیٰ انہی نشانوں کے ساتھ حجت پوری کرتا ہے جو آپ بغرض تحدّی پیش کرتا ہے.یہی سنت اللہ ہے.منہ ٭ ترجمہ شعر.اگر تو نے کوئی بات نہیں کی تو کسی کو تجھ سے کوئی واسطہ نہیں لیکن اگر کہے تو اس کی دلیل لانی پڑے گی
اور اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مُہلت دی جائے گی اور زانوبزانولکھنا ہو گا نہ کسی پردہ میں.ہر ایک فریق کو اختیار ہو گا کہ اپنی تسلّی کے لئے فریق ثانی کی تلاشی کر لے اس احتیاط سے کہ وہ پوشیدہ طور پر کسی کتاب سے مدد نہ لیتا ہو اور لکھنے کے لئے فریقین کو سات گھنٹہ کی مہلت ملے گی.مگرایک ہی جلسہ میں اور ایک ہی دن میں اس تفسیر کو گواہوں کے رو برو ختم کرنا ہو گا.اور جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گا.سُنائی جائیں گی.اور اُن ہرسہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہو گا کہ وہ حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونوں تفسیروں اور دونوں عربی عبارتوں میں سے کونسی تفسیر اور عبارت تائید رُوح القدس سے لکھی گئی ہے.اورضروری ہو گا کہ اُن تینوں عالموں میں سے کوئی نہ اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی شاہ کا مرید ہو اور مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور مولوی عبد اللہ پروفیسر لاہوری کو یاتین اور مولوی منتخب کر یں جو اُن کے مُرید اور پیرو نہ ہوں.۱؎ مگر ضروریہ ہو گا کہ یہ تینوں مولوی صاحبان حلفاًاپنی رائے ظاہر کریں کہ کس کی تفسیر اور عربی عبارت اعلیٰ درجہ اور تائیدالہٰی سے ہے.لیکن یہ حلف اس حلف سے مشابہ ہونی چاہیے جس کا ذکر قرآن میں قذفِ محسنات کے باب میں ہے جس میں تین دفعہ قسم کھانا ضروری ہے.اور دونوں فریق پر یہ واجب اور لازم ہو گا کہ ایسی تفسیر جس کا ذکر کیا گیا ہے کسی حالت میں بیس ورق سے کم نہ ہو.اور ورق سے مراد اس اوسط درجہ کی تقطیع اورقلم کا ورق ہو گا جس پر پنجاب اور ہندوستان کے صد ہا قرآن شریف کے نسخے چھپے ہوئے پائے جاتے ہیں.۲؎ پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ درحقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب ۱؎ یہ اس شرط سے کہ مولوی محمد حسین وغیرہ اس دعوت سے گریز کر جائیں جو ضمیمہ اشتہار ہذا میں درج ہیں.منہ ۲؎ کافی ہو گا جو بیس ورق کا اندازہ اُس قرآن کے ساتھ کیا جائے جو حال میں مولوی نذیر احمد خاں صاحب دہلوی نے چھپوایا ہے.منہ
تفسیر اور عربی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اور مجھ سے یہ کام نہ ہو سکا یا مجھ سے بھی ہو سکا مگر انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسا ہی کر دکھایا توتمام دنیا گواہ رہے کہ مَیں اقرار کروں گا کہ حق پیر مہر شاہ کے ساتھ ہے اور اس صورت میں مَیں یہ بھی اقرار کرتا ہوںکہ اپنی تمام کتابیں جو اس دعو ٰی کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوں گا.میری طرف سے یہی تحریر کافی ہے جس کو مَیں آج بہ ثبت شہادت بیس گواہان کے اس وقت لکھتا ہوں لیکن اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا اور مہر علی شاہ صاحب کی زبان بند ہو گئی.نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقایق و معارف سورۂ قرآنی میں سے کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا تو ان تمام صورتوں میں اُن پر واجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں اور لازم ہو گا کہ یہ اقرار صاف صاف لفظوں میں بذریعہ اشتہار دس دن کے عرصہ میں شائع کر دیں.مَیں مکرر لکھتا ہوں کہ میرا غالب رہنا اسی صورت میں متصور ہو گا کہ جبکہ مہر علی شاہ صاحب بجز ایک ذلیل اور قابلِ شرم اور رکیک عبارت اور لغو تحریر کے کچھ بھی نہ لکھیں سکیںاور ایسی تحریر کریں جس پر اہل علم تھوکیں اور نفرین کریں.کیونکہ مَیں نے خدا سے یہی دعا کی ہے کہ وہ ایسا ہی کرے.اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کرے گا.اور اگر مہر علی شاہ صاحب بھی اپنے تئیں جانتے ہیں کہ وہ مومن اور مستجاب الداعوات ہیں تو وہ بھی ایسی دُعا کریں.اور یاد رہے کہ خدا تعالیٰ اُن کی دُعا کو ہر گز قبول نہیں کرے گا.کیونکہ وہ خدا کے مامور اور مرسل کے دشمن ہیں اس لئے آسمان پر اُن کی عزت نہیں.غرض یہ طریق فیصلہ ہے جس سے تینوں علامتوں متذکرہ بالا جو صادق کے لئے قرآن میں ہیں ثابت ہو جائیں گی.یعنی فی البدیہہ عربی نویسی سے جس کے لئے بجز ایک گھنٹہ کے سوچنے کے لئے موقع نہیں دیا جائے گا.فریق غالب کا وہ مابہ الامتیاز ثابت ہو گا جس کا نام فرقان ہے.اور قرآنی معارف کے لکھنے سے وہ علامت متحقق ہو جائے گی جو آیت لَا یَمَسُّہٗ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْن کا منشاء رہے.اور دعا کے قبول ہونے سے جو پیش از مقابلہ فریقین کریں گے، فریق غالب کا
حسبِ آیت اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَـکُمْ مومن مخلص ہونا بپایہ ثبوت پہنچے گا.اور اس طرح پر یہ اُمّت تفرقہ سے نجات پا جائے گی.چاہیے کہ اس اشتہار کے وصول کے بعد جس کو مَیں رجسٹری کرا کر بھیجوں گا.مہر علی شاہ صاحب دس دن تک اپنی منظوری سے مجھے اطلاع دیں۱؎ لیکن ضروری ہو گا کہ یہ اطلاع ایک چھپے ہوئے اشتہار کے ذریعہ سے ہو.جس پر میرے اشتہار کی طرح بیس معززلوگوں کی گواہی ہو اور بحالت مغلوبیت اپنی بیعت کا اقرار بھی درج ہو.یاد رہے کہ مقام بحث بجز لاہور کے جو مرکز پنجاب ہے اور کوئی نہ ہو گا.اور ایک ہفتہ پہلے مجھے بذریعہ رجسٹری شدہ خط کے اطلاع دینا ہو گا تا اسی جگہ حاضر ہو جائوں.اگر مَیں حاضر نہ ہوا تو اس صورت میں مَیں بھی کاذب سمجھا جائوں گا.انتظام مکان جلسہ پیر صاحب کے اختیار میں ہو گا.اگر ضرورت ہوگی ۲؎ تو بعض پولیس کے افسر بُلالئے جائیں گے.ھٰذَا مَا أَرَانِیْ رَبِّیْ رَبُّ السَّمٰوَاتِ الْعُلٰـی فَادْعُوْکَ یَا قَرْنِیْ عَلٰـی بَصِیْرَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ تَخَلَّفَ مِنَّا اَوْأَبٰی وَالسَّـلَامُ عَلٰـی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی تَعَالَوْا إِلٰـی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ یَسْمَعُ وَ یَرٰی خاکســـــــــــــــــــــار المشتھــــــــــر مرزا غلام احمد از قادیان ۲۰؍ جولائی ۱۹۰۰ء ۱؎ دس دن تک پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے اشتہار کا شائع ہو جانا ضروری ہے.لیکن بلحاظ ضمیمہ اس اشتہار کے تمام علماء کی اطلاع کے لئے مقابلہ اشاعت اشتہار سے ٹھیک ٹھیک ایک مہینہ بعد ہو گا.منہ ۲؎ اگر پیر صاحب تجویز مکان سے دستکش ہوں تو پھر یہ تجویز میرے ذمہ ہو گی.منہ
گواہ شد ند مولوی حکیم نور الدین صاحب.مولوی محمد احسن صاحب امروہوی.مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.ایل ایل بی.مولوی حکیم فضل الدین صاحب بھیروی.مرزا خدا بخش صاحب مصاحب.نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ.حکیم شاہ نواز صاحب راولپنڈی.ماسٹر مولوی شیر علی صاحب بی.اے ہیڈماسٹر سکول تعلیم الاسلام قادیان.صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی.صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب جمالی نعمانی سرساوی اولاد چار قطب.میر ناصر نواب صاحب گورنمنٹ پیشنر دہلوی حال قادیان.ماسٹر عبد الرحمن صاحب ایف.اے سیکنڈ ماسٹر ہائی سکول قادیان.سیّد فضل شاہ صاحب ٹھیکہ دار.مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹندٹ ضلع جہلم.مولوی قطب الدین صاحب کمپونڈر شفاخانہ قادیان.مولوی محمد فضل صاحب چنگوی.مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری.مولوی حافظ احمد اللہ خان صاحب مدرس ہائی سکول قادیان.مولوی قاضی سیّد امیر حسین صاحب مدرس.شیخ عبد الرحیم صاحب سپرنٹنڈنٹ بورڑ نگ قادیان.(مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان)
ضمیمہ اشتہار دعوت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑی پیر مہر علی شاہ صاحب کے ہزار ہا مریدیہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ علم میں اور حقایق اور معارفِ دین میں اور علوم ادبیہ میں اس ملک کے تمام مولویوں سے بڑھ کر ہیں.اسی وجہ سے مَیں نے اس امتحان کے لئے پیر صاحب موصوف کو اختیار کیا ہے کہ تاان کے مقابلہ سے خدا تعالیٰ کا وہ نشان ظاہر ہو جائے جو اُس کے مرسلین اور مامورین کی ایک خاص علامت ہے.لیکن ممکن ہے کہ اس ملک کے بعض علماء ناحق کی شیخی سے یہ خیال کریں کہ ہم قرآن شریف کے جاننے اور زبان عربی کے علم ادب میں پیر صاحب موصوف پر فوقیت رکھتے ہیں.یا کسی آسمانی نشان کے ظاہر ہونے کے وقت یہ عذر پیش کردیں کہ پیر صاحب موصوف کا مغلوب ہونا ہم پر حجت نہیں ہے اور اگر ہمیں اس مقابلہ کے لئے بُلایا جاتا تو ضرور ہم غالب آتے.اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ان تمام بزرگوں کو بھی اس مقابلہ سے باہر نہ رکھا جائے اور خود ظاہر ہے کہ جس قدر مقابلہ کرنے والے کثرت سے میدان میں آئیں گے اسی قدر الہٰی نشان کی عظمت بڑی قوت اور سطوت سے ظہور میں آئے گی.اور یہ ایک ایسا زبردست نشان ہو گا کہ آفتاب کی طرح چمکتا ہوا نظر آئے گا اور ممکن ہے کہ اس سے بعض نیک دل مولویوں کو ہدایت ہو جائے اور وہ اسی الہٰی طاقت کو دیکھ لیں جو اس عاجزکے شامل حال ہے.لہذا اس ضمیمہ کے ذریعہ سے پنجاب اور ہندوستان کے تمام اُن مولویوں کو مَدعو کیا جاتا ہے جویہ خیال کرتے ہیں کہ وہ علم تفسیر قرآن اور عربی کے علم ادب اور بلاغت فصاحت میں سر آمد روز گار ہیں.مگر شرائط ذیل کی پابندی ضروری ہو گی.
(۱) اس مقابلہ کے لئے پیر مہر علی صاحب کی بہر حالت شمولیت ضروری ہو گی.کیونکہ خیال کیا گیا ہے کہ وہ علم عربی اور قرآن دانی میں ان تمام مولویوں سے بزرگ اور افضل ہیں.لہذا کسی دوسرے مولوی کو صرف اس حالت میں قبول کیا جائے گا کہ جب پیر مہر علی شاہ صاحب اس دعوت کو قبول کر کے بذریعہ کسی چھپے ہوئے اشتہار کے شائع کر دیں کہ مَیں مقابلہ کے لئے طیار ہوں۱؎ یامقابلہ کرنے والے علماء کی ایک ایسی جماعت پیش کریں جو چالیس سے کم نہ ہو.ہاں ضروری ہو گا کہ دوسرے مولوی صاحبوں کے لئے وقت اور گنجائش نکالنے کے لئے پیر صاحب موصوف مباحثہ کے لئے ایک مہینے سے کم تاریخ مقرر نہ کریں تا اس مدّت تک باور کرنے کی وجہ پیدا ہو جائے کہ ان تمام مولویوں کو پیر مہر علی شاہ صاحب کے اشتہار سے اطلاع ہو گئی ہے پہلے میں نے ایک ہفتہ مقررکیا تھا مگر اب اس لحاظ سے اس قدر تھوڑی میعاد عام اطلاع کے لئے کافی نہیں ہاں ضروری ہو گا کہ اس اشتہارکے شائع ہونے کے بعد پیر صاحب موصوف دس دن کے اندر اس دعوت کے قبول کے بارے میں ایک عام اشتہار شائع کر دیں.اور بہتر ہو گا کہ پانچ ہزار کاپی چھپوا کر بذریعہ چند نامی مولوی صاحبان پنجاب وہندوستان میں اس معرکہ مباحثہ کی عام شہرت دے دیں.(۲) دوسری شرط یہ ہو گی کہ مقام مباحثہ لاہور ہو گا جو صدر مقام پنجاب ہے اور تجویز مکان پیر صاحب کے ذمّہ ہو گی.لیکن اگر وہ اپنے اس اشتہار میں جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے تجویز مکان اپنے ذمہ نہ لیں تو پھر یہ تجویز میرے ذمہ ہو گی اور کچھ حرج نہیں تمام کرایہ مکان مباحثہ کا مَیں ہی دوں گا.(۳) تیسری یہ شرط ہے کہ بحث صرف ایک دن میں ہی ختم ہو جائے گی اور ہر ایک شخص مقابل کوسات گھنٹے تک لکھنے کے لئے مہلت ملے گی.(۴) چوتھی یہ شرط ہے کہ جس قدر اس مقابلہ کے لئے مولوی صاحبان حاضر ہوں گے اُن کے ۱؎ پیر مہر علی شاہ صاحب پر یہ فرض ہو گا کہ اگر وہ اپنے تئیں مرد میدان سمجھیں تو اشتہار ہذا کی اشاعت کی تاریخ سے یعنی اس روز سے جو بذریعہ رجسٹری اشتہار ہذا ان کو پہنچ جائے.دس روز کے اندر اپنی طیاری مقابلہ اور قبول شرائط سے ہمیں اور پبلک کو اطلاع دیں.منہ
لئے جائز نہ ہو گا کہ ایک دوسرے کو کسی قسم کی مدد دیں.نہ تحریر سے نہ تقریر سے نہ اشارات سے بلکہ ضروری ہو گا کہ ہر ایک صاحب ایک مناسب فاصلہ پر ایک ایک دوسرے سے دُور ہو کر بیٹھیں اور ایک دوسرے کی تحریر کو نہ دیکھیں.اور جو شخص ایسی حرکت کرے وہ کمرہ مقابلہ سے فی الفور نکال دیا جائے گا.اور ضروری ہو گا کہ ہر ایک صاحب اپنے ہاتھ سے ہی لکھے.ہر گز جائز نہیں ہو گا کہ آپ بولتاجائے اور دوسرا لکھتا جائے کیونکہ اس صورت میں اقتباس سے استراق کا اندیشہ ہے.(۵) ضروری ہو گا کہ ہر ایک صاحب جب اپنے مضمون کو تمام کر لیں جو کم سے کم حسب ہدایت اشتہار ہذا بیس ورق کا ہو گا جس میں کوئی عبارت اردو کی نہیں ہو گی بلکہ خالص عربی ہو گی تو اس کے نیچے اپنے پورے دستخط کریں اور اسی وقت ایک ایک نقل اس کی مع دستخط اور نیز مع ایک تصدیقی عبارت جو بدیں مضمون ہو کہ نقل ہذا مطابق اصل ہے.اس عاجز کے حوالہ کر دیں.اور یہ میرا بھی فرض ہو گا کہ مَیں بھی بعد اخذ تمام نقول کے ایک نقل اپنی تحریر کی بعد ثبت دستخط پیر مہر علی صاحب کو دے دوں۱؎ یہ میرے ذمہ نہیں ہو گا کہ ہر ایک صاحب کو ایک ایک نقل دوں کیونکہ اس تھوڑے وقت میں ایسا ہونا غیر ممکن ہے کہ مَیں مثلاً پچاس مولویوں کے لئے پچاس نقلیں اپنے ہاتھ سے لکھ کر دوں.ہاں ہر ایک مولوی صاحب کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنے لئے ایک ایک نقل میرے مضمون کی پیر مہر علی شاہ صاحب سے لے کر خود لکھ لیں.مگر یہ اس وقت ہو گا کہ جب اپنے مضمون کی نقل مجھے دے چکیں.(۶) ہر ایک شخص اپنا اپنا مضمون بعد لکھنے کے آپ سُنائے گا یا اختیار ہو گا کہ جس کو وہ پسند کرے وہ سُنا دے.(۷) اگر سُنانے کے لئے وقت کافی نہیں ہو گا تو جائز ہو گا کہ وہ مضمون دوسرے دن سُنا دیا ۱؎ یہ میرا بھی فرض ہو گا کہ مَیں بھی اپنے ہاتھ سے لکھ کر دوں.اور جائز ہو گا کہ مَیں اپنا فرض پورا ادا کر کے دوسروں کی نگرانی کے لئے کسی دوسرے کو مقرر کردوں اور یہی اختیار مخالفین کو ہو گا.منہ
جائے.مگر یہ ضروری شرط ہو گی کہ سُنانے سے پہلے اسی دن اور اسی وقت جبکہ وہ بالمقابل تحریر ختم کر چکے ہوں ایک نقل بعد ثبت دستخط مجھ کو دے دیں اور جائز نہیں ہو گا کہ نقل دینے کے بعد اس مضمون پر کچھ زیادہ کریں یا اصلاح کریں اور سہوونسیان کا کوئی عذر سُنا نہیں جائے گا.اور اس شرط کا ہم میں سے ہر ایک پابند ہو گا.(۸) تمام مضامین کے سُنانے کے بعد تین مولوی صاحبان جن کو پیر مہر علی شاہ صاحب تجویز کریں گے اس قسم کے تین مرتبہ کے حلف کے ساتھ جو قذفِ محسنات کے بارے میں قرآن شریف میں مندرج ہے اپنی رائے ظاہر کریں گے کہ کیا یہ تمام مولوی صاحبان مقابل میں غالب رہے یا مغلوب رہے اور وہ رائے منطبع ہو کر وہی آخری فیصلہ ہمارا اور ہمارے اندرونی مخالفوں کا قطعی طور پر قرار دیا جائے گا.۱؎ (۹) نویں شرط یہ ہے کہ اگر الٰہی رُعب کے نیچے آ کر پیر مہر علی شاہ صاحب اس مقابلہ سے ڈر جائیں اور دل میں اپنے تئیں کاذب اور ناحق پر سمجھ کرگریز اختیار کر لیں تو اس صورت میں یہ جائز نہیں ہو گا کہ دوسرے مولویوں میں سے صرف ایک یا دو شخص مقابلہ کا اشتہار دیں کیونکہ ایسا مقابلہ بے فائدہ اور محض تضیع اوقات ہے.وجہ یہ کہ بعد میں دوسرے مولویوں کے لئے یہ عذر بنا رہتا ہے کہ مقابلہ کرنے والے کیا چیز اور کیا حقیقت تھے یا جاہل اور بے علم تھے.لہٰذا یہ ضروری شرط ہو گی کہ اس حالت میں جبکہ پیر مہر علی شاہ صاحب اپنے مریدوں کو دریائے ندامت میں ڈال کر بھاگ جائیں اور اپنے لئے کنارہ کشی کا داغ قبول کر لیں تو کم سے کم چالیس نامی مولویوں کا ہونا ضروری ہے جو میدان میں آنے کی درخواست کریں اور ہمیں منظور ہے کہ وہ ان میں سے ہوں جن کے نام ذیل میں لکھے جائیں گے یا اسی درجہ کے اور مولوی صاحبان باہم مل کر اشتہار دیں کہ ۱؎ اگر بعض مولوی صاحبان جو لاہور سے کسی قدر فاصلہ پر رہتے ہیں یہ عذر پیش کریں کہ ہم بوجہ ناداری لاہور پہنچ نہیں سکتے تو مناسب ہے کہ وہ بطور قرضہ انتظام کرایہ سفر کر کے لاہور پہنچ جائیں.اگر فتحیاب ہو گئے تو میں کل کرایہ آمدورفت ان کادے دوں گا.منہ
جو چالیس سے کم نہ ہوں اور اس صورت میں ان سے بپابندی شرائط مذکور بالا مقابلہ کیا جائے گا.(۱۰) اگر اشتہار ہذاکے شائع ہو نے کی تاریخ سے جو ۲۲؍ جولائی ۱۹۰۰ء ہے ایک ماہ تک نہ پیرمہر علی شاہ صاحب کی طرف سے اس میدان میں حاضر ہونے کے لئے کوئی اشتہار نکلا اور نہ دوسرے مولویوں کے چالیس کے مجمع نے کوئی اشتہار دیا تو اس صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے اُن سب کے دلوں میں رُعب ڈال کر ایک آسمانی نشان ظاہر کیا کیونکہ سب پر رُعب ڈال کر سب کی زبان بند کر دینا اور ان کی تمام شیخیوں کو کچل ڈالنا یہ کام بجز الہٰی طاقت کے کسی دوسرے سے ہر گز نہیں ہو سکتا.وَتِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ مِنَ الْاَشْرَاطِ الَّتِیْ اَرَدْنَا ذِکْرَھَا.اب مَیں ذیل میں ان حضرات مولوی صاحبان کے نام لکھتا ہوں جو اس مقابلہ کے لئے بشرط شمولیت پیر مہر علی شاہ صاحب یا بشرط مجمع چالیس بُلائے گئے ہیں.اور اگر ان کے سوا اہل پنجاب اور ہندوستان میں سے یا اُن عربوں میں سے جو نزیل برٹش انڈیا ہوں اس ملک کے کسی گوشہ میں اور مولوی صاحبان موجود ہوں جو مکذّب ہوں تو وہ بھی اس اشتہار میں ایسے ہی مدعو ہیں جیسے یہ لوگ ہیں اور حضرات موصوفین کے نام یہ ہیں.۱ مولوی محمد صاحب لدھیانہ ۸ مولوی غلام حسن صاحب سیالکوٹ ۲ مولوی عبدالعزیز صاحب برادر ۹ مولوی محمد خلیل احمد صاحب مولوی محمد صاحب لدھیانہ انبیٹھہ ضلع سہارنپور ۳ مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ ۱۰ مولوی شاہ محمد حسین صاحب ۴ مولوی مشتاق احمد صاحب صابری محب الٰہی سنبل مراد آباد انبیٹھوی مدرس لدھیانہ ۱۱ مولوی نذیر احمد خان صاحب دہلوی ۵ مولوی شاہد ین صاحب مفتی لودھیانہ سابق ڈپٹی کلکٹر پنشنر سرکار نظام ۶ مولوی معظم الدین صاحب ۱۲ مو لوی عبداللطیف صاحب امروہی مرولہ والہ ضلع شاہ پور ڈاکخانہ کوٹ مومن مدرس مدرسہ اودے پورمیواڑ.راجپوتانہ ۷ مولوی عبد اللہ صاحب چکٹرالوی ۱۳ مولوی ولی محمد صاحب جالندھری معرفت میاںمحمد چٹو صاحب ساکن لاہور ساکن پتارہ
۱۴ قاضی عبدالقدوس صاحب چھائونی بنگلور ۲۷ مولوی محمد حسین صاحب تحصیل چکوال ۱۵ مولوی شیخ عبداﷲ صاحب ساکن چک عمر موضع بھین ضلع جہلم ضلع گجرات تحصیل کھاریاں ۲۸ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری ۱۶ مولوی محمد حسن صاحب مفسر ساکن ۲۹ مولوی کلیم اﷲ صاحب مچھیانہ.گجرات امروہہ محلہ ملانا ضلع مراد آباد ۳۰ مولوی محمد اسحاق صاحب اجراوری ۱۷ مولوی عبدالغفار صاحب مفتی پٹیالہ ریاست گوالیر ۳۱ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی ۱۸ مولوی عبداللہ صاحب یا جس مولوی کو اپنا وکیل کریں محلہ کھڈہ کرانچی ۳۲ مولوی تلطف حسین صاحب دہلوی ۱۹ مولوی احمد حسن صاحب مدرس ۳۳ مولوی کرامت اﷲ صاحب دہلوی مدرسہ پانواڑی امروہہ.ضلع مراد آباد محلہ باڑہ.بازار صدر ۲۰ مولوی قاسم شاہ صاحب سیفی ۳۴ مولوی فضل الدین صاحب گجرات پنجاب مجتہد لاہو ر ۳۵ مولوی عبدالوہاب صاحب امام مسجد ۲۱ مجتہد صاحب لکھنؤ صدر دہلی ۲۲ مولوی عنایت علی صاحب شیعی ۳۶ علماء ندوہ لکھنؤ جس عالم کو اپنا وکیل کریں سامانہ ریاست پٹیالہ ۳۷ مولوی منشی سلیمان صاحب ملازم ۲۳ مولوی سکندر صاحب شہر میسور ریاست پٹیالہ.مؤلف غایت المرام ۲۴ مولوی لطف اﷲ صاحب ۳۸ مولوی مسیح الزمان صاحب شاہجہانپور ۳۹ مولوی محمد صدیق صاحب حال مدرس بچھرایوں.مرادآباد ۴۰ مولوی محمد شفیع صاحب قصبہ رامپور ضلع سہارنپور
۴۱ مولوی محمد شبلی صاحب نعمانی سابق پروفیسر علیگڑھ کالج ۴۲ مولوی دیدار علی صاحب ریاست الور مسجد دائرہ ۴۳ شیخ خلیل الرحمن صاحب سرساوہ سہارنپور سجادہ نشین چار قطب ہانسوی ۴۴ مولوی نظام الدین صاحب قاضی مالیرکوٹلہ ۴۵ شیخ اﷲ بخش صاحب تونسوی سنگھڑ مع جماعت علماء ۴۶ مولوی عبداﷲ صاحب ٹونکی پروفیسر ۴۷ قاضی ظفر الدین صاحب پروفیسر ۴۸ مولوی عبدالحکیم صاحب پروفیسر ۴۹ مولوی عبداﷲ صاحب ساکن جلو خلیفہ پیر مہر شاہ صاحب گولڑی ۵۰ مولوی غلام محمد صاحب چکوال جہلم ۵۱ مولوی ابراہیم صاحب آرہ ۵۲ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ۵۳ مولوی شیخ حسین صاحب عرب یمانی.بھوپال ۵۴ مولوی اصغر علی صاحب پروفیسر حمایت اسلام ۵۵ مولوی محمد بشیر صاحب بھوپال ۵۶ مولوی عبد الجبار صاحب امرتسر ۵۷ مولوی احمد اللہ صاحب امرتسر ۵۸ مولوی رسل بابا صاحب امرتسر ۵۹ مولوی عبد الحق صاحب مفسر تفسیر حقاّنی دہلی ۶۰ مولوی عبد الحق صاحب امرتسر ۶۱ مولوی عبد الواحد صاحب امرتسر ۶۲ مولوی منہاج الدین صاحب کوٹ ۶۳ منشی الٰہی بخش صاحب ملہم بذریعہ الہام تفسیر لکھیں ۶۴ مولوی احمد صاحب ساکن سکندر پور.ہزارہ ۶۵ قاضی امیر عالم صاحب ساکن سکندر پور.ہزارہ ۶۶ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہ ضلع سہارنپور ۶۷ مولوی الطاف حسین صاحب عالی پانی پتی ۶۸ مولوی ابولخیر نقشبندی خانقاہ شریف حضرت مرزا مظہر جان ِجاناں صاحب خاص دہلی
۶۹ مولوی احمد علی صاحب واعظ سابق ۷۹ مولوی عبد السمیع صاحب رامپوری مدرس مدرسہ اسلامیہ سہارنپور حال مدرسہ حال ملازم شیخ الہٰی بخش صاحب اسلامیہ میرٹھ رئیس میرٹھ ۷۰ مُلاّ مانکی صاحب نوشہرہ.پشاور ۸۰ مولوی محمود حسن صاحب مدرس اوّل مدرسہ دیو بند ۷۱ مولوی عبد المنان صاحب وزیر آبادی ۸۱ مولوی احمد حسن صاحب ُکنج پوری صابری جس عالم بینا کو منتخب فرما ویں دہلی جامع مسجد ۷۲ قاضی سلطان محمود صاحب ۸۲ مولوی احمد حسن صاحب ایڈیٹر آئی آوان گجرات اخبار شحنہ ہند.میرٹھ ۷۳ مولوی غلام محمد صاحب بگہ والہ ۸۳ مولوی عبد الخالق صاحب مسجد شاہی لاہور جہان خیلان ضلع ہوشیار پور ۷۴ مولوی محمد زکریا صاحب انجمن حمایت ۸۴ مولوی عبد الرحمن صاحب اسلام لاہور یا جس مولوی صاحب کو انجمن تجویز کرے چھوہردی ضلع ہزارہ ۷۵ مولوی غلام محمد صاحب ملازم انجمن نعمانیہ لاہور ۸۵ مولوی فقیر محمد عزیز صاحب ۷۶ مولوی غازیخانصاحب گولڑہ راولپنڈی ترنواہ ضلع ہزارہ ۷۷ مولوی غلام رسول صاحب قطب ال.گوجر خاں ۸۶ شیخ نظام الدین صاحب سجادہ نشین شاہ نیاز صاحب خاص بریلی ۷۸ مولوی مفتی غلام محی الدین گڑھا ڈاکخانہ ڈومیلی المشتـــــــــــــــــــــــــــہر خاکســــــــــــــــــار مرزا غلام احمد از قادیان.۲۰ ؍جولائی ۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے ۱۴ صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۹ صفحہ ۶۴ تا ۸۱)
۲۳۱ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ اربعین نمبر او ّل آج مَیں نے اتمام حجت کے لئے یہ ارادہ کیا ہے کہ مخالفین اور منکرین کی دعوت میں چالیس اشتہار شائع کروں.۱ ؎ تا قیامت کو میری طرف سے حضرت احدیت میں یہ حجت ہو کہ میں جس امر کے لئے بھیجا گیا تھا اس کو مَیں نے پورا کیا.سو اب مَیں بکمال ادب و انکسار حضرات علماء مسلمانان و علماء عیسائیان و پنڈتان ہندوان و آریان یہ اشتہار بھیجتا ہوں اور اطلاع دیتاہوں کہ ۱؎ اس اشتہار کے بعد انشاء اللہ ہر ایک اشتہار پندرہ پندرہ دن کے بعد بشرطیکہ کوئی روک پیش نہ آجائے نکلا کرے جب تک کہ چالیس اشتہار پورے ہو جائیں یاجب تک کہ کوئی مخالف صحیح نیت کے ساتھ بغیر گندی حجت بازی کے جس کی بد بوہر ایک کو آ سکتی ہے میدان میں آکر میری طرح کوئی نشان دکھلا سکے.مگر یاد رہے کہ اس مقابلہ میں کسی شخص سے کوئی مباہلہ مقصود نہیں ہے اور نہ کسی مخالف کی ذات کی نسبت کوئی پیشگوئی ہے.بلکہ صرف یہ مقابلہ ہو گا کہ کس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ غیب کی باتیں اور خوارق ظاہر کرتا اور دعائیں قبول فرماتا ہے اور ذاتیات اور مباہلہ اور مُلَاعَنَہ یہ دونوں امر مستثنیٰ میں داخل رہیں گے اور ہر ایک ایسی پیشگوئی سے اجتناب ہو گا جو امن عامہ اور اغراض گورنمنٹ کے مخالف ہو یا کسی خاص شخص کی ذلّت یا موت پر مشتمل ہو.منہ
مَیں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں کی اصلاح کے لئے دُنیا میں بھیجا گیا ہوں اور میرا قدم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہے.انہی معنوں سے مَیں مسیح موعود کہلاتا ہوں کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ محض فوق العادت نشانوں اور پاک تعلیم کے ذریعہ سے سچائی کو دنیا میں پھیلائوں.میں اس بات کا مخالف ہوں کہ دین کے لئے تلوار اُٹھائی جائے اورمذہب کے لئے خدا کے بندوں کے خون کئے جائیں اور مَیں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے ان تمام غلطیوں کو مسلمانوں میں سے دُور کر دوں اور پاک اخلاق اور برُدباری اور حلم اور انصاف اور راستبازی کی راہوں کی طرف اُن کو بلائوں.مَیں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوئوں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.مَیں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.مَیں صرف اُن باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے.انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے.اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول.میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرک یہ ہے کہ مَیں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اُس کان سے ملا ہے اور اُس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اُس شخص سے زیادہ دولتمند ہو جائیںگے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا.اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور سچی برکات اس سے پانا.پس اس قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ مَیں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور مَیں عیش کروں.یہ مجھ سے ہرگز نہیں ہوگا.میرا دل ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے.ان کی تاریکی اور تنگ گذرانی پر میری جان گھٹتی جانی ہے.مَیں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے اُن کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے ملیں کہ ان کے دامن استعداد پُر ہو جائیں.
ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنے نوع سے محبت کرتی ہے یہاںتک کہ چیونٹیاں بھی اگر کوئی خود غرضی حائل نہ ہو.پس جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف بُلاتا ہے اس کا فرض ہے کہ سب سے زیادہ محبت کرے.سو مَیں نوعِ انسان سے سب سے زیادہ محبت کرتاہوں.ہاں ان کی بدعملیوں اور ہر ایک قسم کے ظلم اور فسق اور بغاوت کا دشمن ہوں.کسی کی ذات کا دشمن نہیں.اس لئے وہ خزانہ جو مجھے ملا ہے جو بہشت کے تمام خزانوں اور نعمتوں کی کنجی ہے.وہ جوش محبت سے نوع انسان کے سامنے پیش کرتا ہوں.اور یہ امر کہ وہ مال جو مجھے ملا ہے وہ حقیقت میں از قسم ہیرا اور سونا اور چاندی ہے کوئی کھوٹی چیزیں نہیں ہیں.بڑی آسانی سے دریافت ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ان تمام دراہم اور دینار اور جواہرات پر سلطانی سکّہ کا نشان ہے یعنی وہ آسمانی گواہیاں میرے پاس ہیں جو کسی دوسرے کے پا س نہیں ہیں.مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں سے دین اسلام ہی سچا ہے.مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے.مجھے سمجھایا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیّدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور مجھے خدا کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ مَیں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حَکـَم ہوں.یہ جو میرا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا ان دونوں ناموں سے رسُول اللہ صلیّ اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرف فرمایا.اور پھر خدا نے اپنے بلاواسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا اور پھر زمانہ کی حالت موجودہ نے تقاضا کیا کہ یہی میرا نام ہو.غرض میرے ان ناموں پریہ تین گواہ ہیں.میرا خدا جو آسمان اور زمین کا مالک ہے.مَیں اس کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ مَیںاس کی طرف سے ہوں اور وہ اپنے نشانوں سے میری گواہی دیتا ہے.اگر آسمانی نشانوں میںکوئی میرا مقابلہ کر سکے تو مَیں جھوٹا ہوں.اگر دعائوں کے قبول ہونے میں کوئی میرے برابراُتر سکے تو مَیں جھوٹا ہوں.اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرنے میں کوئی میرا ہم پلّہ ٹھہر سکے تو مَیں جھوٹا ہوں.اگر
غیب کی پوشیدہ باتیں اور اسرار جو خدا کی اقتداری قوت کے ساتھ پیش از وقت مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں کوئی میری برابری کر سکے تو مَیںخدا کی طرف سے نہیں ہوں.اب کہاں ہیں وہ پادری صاحبان جو کہتے تھے کہ نعوذ باللہ حضرت سیّدنا و سیّد الوریٰ محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئی یااور کوئی امر خارق عادت ظہور میں نہیں آیا.مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسان کامل گذرا ہے جس کی پیشگوئیاں اور دعائیں قبول ہونا اور دوسرے خوارق ظہور میں آنا ایک ایسا امر ہے جو اب تک امت کے سچے پیروئوں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے.بجز اسلام وہ مذہب کہا ں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں.اگر انسان صرف ایسے مذہب کا پیرو ہو جس میں آسمانی روح کی کوئی ملاوٹ نہیں تو وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے مذہب وہی مذہب ہے جو زندہ مذہب ہو اور زندگی کی رُوح اپنے اندر رکھتا ہو اور زندہ خدا سے ملاتا ہو.اور میںصرف یہی دعویٰ نہیں کرتا کہ خدا تعالیٰ کی پاک وحی سے غیب کی باتیں میرے پر کھلتی ہیں اور خارق عادت امر ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ جو شخص دل کو پاک کر کے اور خدا اور اس کے رسول پر سچی محبت رکھ کر میری پیروی کرے گا وہ بھی خدا تعالیٰ سے یہ نعمت پائے گا.مگر یاد رکھو کہ تمام مخالفوں کے لئے یہ دروازہ بند ہے.اور اگر دروازہ بند نہیں ہے تو کوئی آسمانی نشانوں میں مجھ سے مقابلہ کرے.اور یاد رکھیں کہ ہر گز نہیں کر سکیں گے.پس یہ اسلامی حقیت اور میری حقانیت کی زندہ دلیل ہے.ختم ہوا پہلا نمبر اربعین کا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشتہر مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان ۲۳؍ جولائی ۱۹۰۰ء (اربعین نمبر۱ مطبوعہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۱ تا۴.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳۴۳تا۳۴۶)
۲۳۲ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ عام لوگوں کو اس بات کی اطلاع کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے میری دعوت کے جواب میں کیا کارروائی کی ناظرین آپ لوگ میرے اشتہار کو پڑھ کر دیکھ لیں کہ مَیںنے پیر مہر علی شاہ صاحب کو یہ لکھا تھا کہ مجھ سے اس طرح پر فیصلہ کر لیںکہ بطور قرعہ اندازی کے قرآن شریف میں سے ایک ایک سُورۃ لی جائے اور اگر وہ سورہ چالیس آیت سے زیادہ ہو تو اس میں سے صرف چالیس آیت سورۃ کے ابتدا سے لی جائیں.اور پھر میں اور پیر مہر علی شاہ صاحب بغیر مددکسی دوسرے کے اُس سورہ کی عربی تفسیر لکھیں اور جو شخص اس طرح غالب قرار پاوے کہ تین گواہ جو وہ بھی پیر مہر علی شاہ صاحب کے فریق میں سے ہوں جیسے مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی تو اُسی کو فتحیاب قرار دیا جاوے.تب فریق مغلوب اپنے تئیں کاذب سمجھ لے اور اپنے کذب کا اقرار شائع کر دے.اور اس طرح یہ روز کا جھگڑا جو دن بدن موجب تفرقہ ہے فیصلہ پا جائے گا.کیونکہ اس سخت مشکل کام میں کہ فصیح عربی میں قرآن شریف کی تفسیر چند گھنٹہ میں بغیر کسی مدد کسی دوسرے شخص اور کتاب کے لکھیں.درحقیقت یہ ایسا کام ہے جوبجز تائید رُوح القدس ہر گز انجام پذیر نہیں ہو سکتا.اگر پیر صاحب اس طریق فیصلہ کو منظور کر لیتے تو اُن کے لئے بہت بہتر تھا کیونکہ وہ اہل علم بھی کہلاتے ہیں.اور اُن
کے مرید ان کو قطب اور صاحب ولایت بھی سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ انہوں نے منظور نہ کیا اور چونکہ کھلے کھلے انکار میں ان کی علمیّت اور قطبیت پر داغ لگتا تھا اس لیے ایک چال بازی کی راہ اختیار کر کے یہ حجت پیش کر دی کہ آپ کے شرائط منظور ہیں.مگر اوّل قرآن و حدیث کے رُو سے تمہارے عقائد کی نسبت بحث ہونی چاہیے.پھر اگر مولوی محمد حسین بٹالوی اور ان کے ساتھ کے دو اَور آدمیوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ تم اس بحث میں حق پر نہیں ہو تو تمہیں میری بیعت کرنی پڑے گی.پھر اس کے بعد تفسیر لکھنے کا بھی مقابلہ کر لینا.اب ناظرین خود سوچ لیں کہ کیا انہوں نے اس طرز کے جواب میں میری دعوت کو قبول کیا یا ردّ کیا.مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کس قسم کا ٹھٹھا اور ہنسی ہے کہ ایسے عقائد کے بحثوں میں جن میں ان کو خود معلوم ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی سب سے اوّل مخالف شخص ہے اُس کی رائے پر فیصلہ چھوڑتے ہیں.حالانکہ خوب جانتے ہیں کہ اس کا مجھے سچا قرار دینا گویا اپنی قدیم مخالفت کو چھوڑنا ہے.ہاں اعجازی مقابلہ پراگر اس کی قسم کا مدار رکھا جاتا تو یہ صورت اَور تھی کیونکہ ایسے وقت میں جبکہ خد اتعالیٰ ایک معجزہ کے طور پر ایک فریق کی تائید کرتا تو محمد حسین کیا بلکہ صد ہا انسان بے اختیار بول اُٹھتے کہ خدا نے اپنے رُوح القدس سے اس شخص کی مدد لی کیونکہ اس قدر انکشاف حق کے وقت کسی کی مجال نہیں جو جھوٹی قسم کھا سکے ورنہ منقولی مباحثات میں تو عادتاً ایک کو دن طبع اپنے تئیں سچ پر سمجھتا ہے.اور قسم بھی کھا لیتا ہے.ماسوا!اس کے پیر صاحب کویہ بھی معلوم ہے کہ میں رسالہ انجام آتھم میں شائع کر چکا ہوں کہ آیندہ مَیںایسی منقولی بحثیں ان علماء سے نہیں کروں گا.اور پھر کیونکر ممکن ہے کہ مَیں اس عہد کو توڑ دوں.اور پیر صاحب کی جماعت کی تہذیب کا یہ حال ہے کہ گندی گالیوں کے کھلے کارڈ میرے نام ڈاک کے ذریعہ سے بھیجتے ہیں.ایسی گالیاں کہ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ چوہڑہ یا چمار بھی زبان پر نہیں لا سکتا.پہلے میرا ارادہ تھا کہ پیر صاحب کا یہ گمان باطل بھی توڑنے کے لئے کہ گویا نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی رو سے کچھ بحث کر سکتے ہیں.اپنے دوستوں میں سے کسی کو بھیج دوں.اور اگر حبی فی اللہ فاضل جلیل القدر مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہی پیر صاحب کے ساتھ بحث
کرنا قبول فرماتے تو اُن کا فخر تھا کہ ایسے سیّد بزرگوار محدّث اور فقیہ نے اپنے مقابلہ کے لئے اُن کو قبول کیا.مگر افسوس کہ سیّد صاحب موصوف نے جب دیکھا کہ اس جماعت میں ایسے گندے لوگ موجود ہیں کہ گندی گالیاں اُن کا طریق ہے تو اس کو مشتے نمونہ ازخروارے پر قیاس کر کے ایسی مجلسوں میں حاضر ہونے سے اعراض بہتر سمجھا.ہاں مَیں نے پیر مہر علی شاہ صاحب کے لئے بطور تحفہ ایک رسالہ تالیف کیا جس کا نام مَیں نے تحفہ گولڑویہ رکھا ہے جب پیر صاحب موصوف اس کا جواب لکھیں گے تو خود لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے دلائل کیا ہیں اوران کا جواب کیا.اب ہم اپنے اس اشتہار کے مقابل پر جو بنا اس دعوت کی ہے.پیر مہر علی شاہ صاحب کا اشتہار لکھ دیتے ہیں.۱؎ ناظرین خود فیصلہ کر لیں کہ آیا ان کا جواب نیک نیتی اور حق پژوہی کی راہ سے ہے یا شطرنج کے کھیلنے والے کی طرح ایک چال ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی.المشتـــــــــــــــــــــــــــــــھر خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی ۲۵؍ اگست ۱۹۰۰ء۲؎ تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۱۳۵ تا ۱۳۷ ا اگلے صفحہ پر ملاحظہ کریں ۲ تاریخ کا ذکر مکرم میر قاسم علی صاحب ؓ نے تبلیغ رسالت میں کیا ہے اصل اشتہار میں تاریخ نہ ہے.ملاحظہ ہو تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحہ ۱۳۷ ناشر
ہمارا اشتہار مَیں فیصلہ کے لئے ایک سہل طریق پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ درحقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.(۱)ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق یعنی مابہ الامتیاز رکھا جاتا ہے اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت ان سے صادر ہوتے ہیں جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتے جیسا کہ آیت ۱؎ اس کی شاہد ہے.(۲) ان کو علم معارف قرآن دیا جاتاہے اور غیر کو نہیں دیا جاتا.جیسا کہ آیتلَا۲؎ اس کی شاہد ہے.(۳) اس کی دعائیں اکثر قبول ہوجاتی ہیں اور غیر کی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیت اُ ۳؎ اس کی گواہ ہے.سو مناسب ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے صادق اور کاذب کے پرکھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکالیں اور اس میں چالیس آیت یا ساری صورت (اگر ۱ ؎ الانفال : ۳۰ ۲؎ الواقعۃ : ۸۰ ۳؎ المومن : ۶۱ پیرمہر علی شاہ صاحب کا جواب مجھ کو دعوت حاضری جلسہ منعقدہ لاہور مع شرائط مجوزہ مرزا صاحب بسروچشم منظور ہے.میں امید کرتا ہوں کہ مرزا صاحب بھی میری ایک ہی گزارش کو بسلک شرائط مجوزہ کے منسلک فرماویں گے.وہ یہ ہے کہ پہلے مدعی مسیحیت و مہدویت و رسالت لسانی تقریر سے بمشافہ حصار جلسہ اپنے دعوے کو بپایۂ ثبوت پہنچا دے گا.بجواب اس کے نیاز مند کی معروضات عدیدہ کو حضرات حاضرین خیال فرما کر اپنی رائے ظاہر فرماویں گے.مجھ کو شہادت و رائے تینوںعلماء کرام مجوزہ مرزا صاحب (یعنی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی و مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی و مولوی عبد اللہ
چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو) لے کر فریقین یعنی یہ عاجز اور مہر علی شاہ صاحب اوّل یہ دُعا کریں کہ یا الٰہی ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اُس کو تُو اس جلسہ میں اس سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں عین اسی جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک رُوحانی قوت عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر۱؎ اور جو شخص ہم دونوںفریق میں سے تیری مرضی کے مخالف اورتیرے نزدیک صادق نہیں ہے اُس سے یہ توفیق چھین لے اور اس کی زبان فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے تا لوگ معلوم کر لیں کہ تو کس کے ساتھ ہے اور کون تیرے فضل اور تیری روح القدس کی تائید سے محروم ہے.۲؎ پھر اس دُعا کے بعد فریقین عربی زبان میں اس تفسیر کو لکھنا شروع کریںاور یہ ضروری شرط ہو گی کہ کسی فریق ۱؎ پیر مہر علی شاہ صاحب اپنی کتاب شمس الہدایہ کے صفحہ ۸۱ میں یہ لاف زنی کر چکے ہیں کہ قرآن شریف کی سمجھ ان کو عطا کی گئی ہے.اگر وہ اپنی کتاب میں اپنی جہالت کا اقرار کرتے اور فقر کا بھی دم نہ مارتے تو اس دعوت کی کچھ ضرورت نہیں تھی.لیکن اب تو وہ ان دونوں کمالات کے مدعی ہو چکے ہیں.؎ ندارد کسے باتو ناگفتہ کار ولیکن چو گفتی دلیلش بیار ۲؎ یہ اس شرط سے کہ مولوی محمد حسین وعیرہ اس سے دعوت سے گریز کر جائیں جو ضمیمہ اشتہار ھذا میں درج ہیں صاحب ٹونکی پروفیسر لاہوری) کے قبول کرنے میں کچھ عذر نہ ہو گا بعد ظہور اس کے کہ مرزا صاحب اپنے دعویٰ کو بپایۂ ثبوت نہیں پہنچا سکے.مرزا صاحب کو بیعت توبہ کرنی ہو گی.بعد اس کے عقائد معدودہ مرزا صاحب میں جن میں جناب ساری امت مرحومہ سے منفرد ہیں.بحث تقلیدی اور اظہار رائے ہو کر مرزا صاحب کو اجازت مقابلہ تحریری کی دی جاوے گی.یہ وہ شرط ہے کہ دعوے جناب اور تحقیق حق کے لئے عند العقلا مقتضے بالطبع ہے.ظاہر ہے کہ تیز نویسی اور قافیہ سنجی کو بعد بطلان مضامین کے کچھ بھی وقعت اور عظمت نہیں.حقیقت مضامین کا محفوظ رہنا عیارانِ صداقت کے لئے نہایت مہتم بالشان ہے.اظہار حقیت بغیر اس طریق کے متصور ہی نہیں.کیونکہ مرزا صاحب کے حقائق و معارف قرانیہ سے تو ان کی تصانیف بھری ہوئی ہیں اور وہی جناب کے دعویٰ کو عدم حقیت
کے پاس کوئی کتاب موجود نہ ہو اور نہ کوئی مددگاراور ضروری ہو گا کہ ہر ایک فریق چپکے چپکے بغیر آواز سُنانے کے اپنے ہاتھ سے لکھے تااس کی فصیح عبارت اور معارف کے سُننے سے دوسرا فریق کسی قسم کا اقتباس یا سرقہ نہ کر سکے اور اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مُہلت دی جائے گی اور زانوبہ زانو لکھنا ہو گا نہ کسی پردہ میں-ہر ایک فریق کو اختیار ہو گا کہ اپنی تسلّی کے لئے فریق ثانی کی تلاشی کر لے اس احتیاط سے کہ وہ پوشیدہ طور پر کسی کتاب سے مدد نہ لیتا ہو اور لکھنے کے لئے فریقین کو سات گھنٹہ کی مہلت ملے گی.مگرایک ہی جلسہ میں اور ایک ہی دن میںاس تفسیر کو گواہوں کے رو برو ختم کرنا ہو گا.اور جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گاسُنائی جائیں گی.اور ان ہرسہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہو گا کہ وہ حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونوں تفسیروں اور دونوں عربی عبارتوں میں سے کونسی تفسیر اور عبارت تائید رُوح القدس سے لکھی گئی ہے.اورضروری ہو گا کہ ان تینوں عالموں میں سے کوئی اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی شاہ کا مرید ہو اور مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کے لئے ۱؎ الاحزاب : ۶۳ کی وجہ سے دھبہ لگا رہے ہیں.علماء کرام کی تحریرات اور اہل دیانت و فہم کامل کی تقریرات اس پر شاہد ہیں.تیز نویسی جونکہ بروز عیسوی و بروز محمدی سے بالکل اجنبی و برطرف ہے.لہٰذا اس کو موخر رکھا جاوے گا.اس شرط کی منظوری سے مع تاریخ مقررہ کے مشرف فرماویں.نہایت ممنون ہو کر حاضر ہو جائوں گا قانون فطرت اور کرّات مرّات کا تجربہ مع شہادت () ۱؎ کے پیشین گوئی کر رہا ہے کہ آپ کو عین وقت بحث میں الہام سکوتی ہو جاویں آپ فرماویں.اس کا کیا علاج ہو گا.اپنے اشتہار میں اس الہام ضروری الوقوع کا مستثنیٰ نہ فرمانا صاف شہادت دے رہا ہے کہ ایسے الہامات عندیہ اور اپنے اختیاری ہیں ورنہ درصورت منجانب اللہ ہونے ان کے کیونکر زیرلحاظ نہ ہو اور مستثنیٰ نہ کئے جاویں.یہ بھی مانا کہ منجانب اللہ ہیں تو پھر ان
مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور مولوی عبد اللہ پروفیسر لاہوری کو یا تین اور مولوی منتخب کر یں جو اُن کے مُرید اور پیرو نہ ہوں.۱؎ مگر ضروری ہو گا کہ یہ تینوں مولوی صاحبان حلفاًاپنی رائے ظاہر کریں کہ کس کی تفسیر اور عربی عبارت اعلیٰ درجہ اور تائیدالہٰی سے ہے.لیکن یہ حلف اس حلف سے مشابہ ہونی چاہیے جس کا ذکر قرآن میں قَذْفِ مُحْسَنَات کے باب میں ہے جس میں تین دفعہ قسم کھانا ضروری ہے.اور دونوں فریق پر یہ واجب اور لازم ہو گا کہ ایسی تفسیر جس کا ذکر کیا گیا ہے کسی حالت میں بیس ورق سے کم نہ ہو.اور ورق سے مراد اس کے اوسط درجہ کے تقطیع اورقلم کا ورق ہو گا جس پر پنجاب اور ہندوستان کے صدہا قرآن شریف کے نسخے چھپے ہوئے پائے ۱؎ یاد رہے کہ ہر ایک نبی یارسول یا محدث جو نشان اتمام حجت کے لئے پیش کرتا ہے وہی نشان خدا تعالیٰ کے نزدیک معیار صدق و کذب ہوتا ہے اور منکرین کی اپنی درخواست کے نشان معیار نہیں ٹھیر سکتے گو ممکن ہے کہ کبھی شاذونادر کے طور پر ان میں سے بھی کوئی بات قبول کی جائے کیونکہ خدا تعالیٰ انہی نشانوں کے ساتھ حجت پوری کرتا ہے جو آپ بغرض تحدی پیش کرتا ہے.یہی سنت اللہ ہے.منہ پر تعمیل واجب ہو گی.مشائخ عظام و علماء کرام کو تشریف آوری سے بغیراز تضیع اوقات و تکلیف عبث کیا حاصل ہو گا.لہٰذا عرض کرتا ہوں کہ شرق سے غرب تک ان بزرگواروں کو آپ کیوں تکلیف محض دیتے ہیں.فقط یہ ایک ہی نیازمند ان کا حاضر ہو جائے گا.بشرط معروض الصدر نامنظوری شرط مذکور یا غیرحاضری جناب کی دلیل ہو گی.آپ کے کاذب ہونے پر آپ فرماتے ہیں کہ شمس الہدایت کے صفحہ۸۱ میں نیازمند نے علم اور فقر میں لاف زنی کی ہے.ناظرین صفحہ مذکورہ کے ملاحظہ فرمانے کے بعد انصاف کر سکتے ہیں کہ آیا لاف زنی ہے.اپنے بارہ میں یا تہدید ہے‘ بمقابلہ اس کے جو ’’اجماع کورانہ‘‘.’’حزب نادان‘‘.’’بے شرم‘‘.’’بے حیا‘‘.’’علماء یہود‘‘.ازالہ.ایام الصلح.میں دربارہ علمائِ سَلف خَلَف شَکَرَاللّٰہُ سَعْیَہُمْ کے مرزا صاحب نے دیانت اور تہذیب سے
جاتے ہیں.۱؎ پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ درحقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عربی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اور مجھ سے یہ کام نہ ہو سکا یا مجھ سے بھی ہو سکا مگر انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسا ہی کر دیکھایا توتمام دنیا گواہ رہے کہ مَیں اقرار کروں گا کہ حق پیر مہرعلی شاہ کے ساتھ ہے اور اس صورت میں مَیں یہ بھی اقرار کرتا ہوںکہ اپنی تمام کتابیں جو اس دعوے کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوں گا.میری طرف سے یہی تحریر کافی ہے جس کو مَیں آج بہ ثبت شہادت بیس گواہان کے اس وقت لکھتا ہوں لیکن اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا اور مہر علی شاہ صاحب کی زبان بند ہو گئی.نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقایق و معارف سورہ قرآنی میں سے کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا تو اس تمام صورتوں میں ان پر واجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں اور لازم ہو گا کہ یہ اقرار صاف صاف لفظوں میں بذریعہ اشتہار دس دن کے عرصہ میں شائع کر دیں.مَیں مکرر لکھتا ہوں کہ میرا غالب رہنا ۱؎ کافی ہو گا جو بیس ورق کا اندازہ اس قرآن کے ساتھ کیا جائے جو ۱۹۰۰ء میں مولوی نذیر احمد خانصاحب نے چھپوایا ہے.منہ لکھا ہے اور تفردفی فہم القرآن کا دعویٰ کیا ہے.آپ اس اشتہار کے صفحہ ۳ کے اخیر پر باریک قلم سے لکھتے ہیں.اگر وہ اپنی کتاب میں جہالت کا اقرار کرتے اور فقر کا بھی دم نہ مارتے تو اس دعوت کی کچھ ضرورت نہیں تھی.الخ.لاف زنی کی کیفیت تو ناظرین کو ملاحظہ صفحہ مذکورہ سے معلوم ہو جائے گی.بھلا آپ یہ تو فرمائیے کہ جب آپ اپنی دعوت میں مامور من اللہ ہیں تو پھر لاف زنی پر اس دعوت کی بنا ٹھرانی قول بالتناقضین نہیں تو کیا ہے.مرزا صاحب نیازمند کو مع علماکرام کے کسی قسم کا عناد یا حسد جناب کے ساتھ نہیں مگر کتاب اللہ و سنت رسول صلعم باعث انکار ہے.انصاف فرماویں مثل مشہور کا مصداق نہ بنیں (نالے چورتے نالے چتر) ظاہر تو عشق محمدی صلعم اور قرآن کریم سے دم مارنا اور درپردہ کیا بلکہ اعلانیہ تحریف کتاب و سنت کرنی.اور پھر
اسی صورت میں متصور ہو گا کہ جبکہ مہر علی شاہ صاحب بجز ایک ذلیل اور قابل شرم اور رکیک عبارت اور لغو تحریر کے کچھ بھی نہ لکھیں سکیںاور ایسی تحریر کریں جس پر اہل علم تھوکیں اور نفرین کریں.کیونکہ مَیں نے خدا سے یہی دعا کی ہے کہ وہ ایسا ہی کرے.اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کرے گا.اور اگر مہر علی شاہ صاحب بھی اپنے تئیں جانتے ہیں کہ وہ مومن اور مستجاب الداعوات ہیں تو وہ بھی ایسی ہی دُعا کریں.اور یاد رہے کہ خدا تعالیٰ اُن کی دُعا ہر گز قبول نہیں کرے گا.کیونکہ وہ خدا کے مامور اور مرسل کے دشمن ہیں اس لئے آسمان پر ان کی عزت نہیں.(مطبع ضیاء الاسلام قادیان) اس کمال پر مکتفی نہ رہنا بلکہ اوروں کو بھی اس کمال کے ساتھ ایمان لانے کی تکلیف دینے بھلا پھر علماء کرام کیسے خاموش بیٹھے رہیں.آپ اپنے اشتہار میں جو کچھ بڑے زوروشور سے ارشاد فرما چکے ہیں.اگر بلحاظ اس کے کچھ بھی لکھا جاوے.تو داخل گستاخی اور موردعتاب اہل تہذیب نہیں ہو سکتا.مگر تاہم لوگوں کی ہنسی سے شرم آتا ہے.اس سے زیادہ آپ کی اوقات گرامی کی تضیع نہیں کرتا ہوں.(یہ اشتہار خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے.)
۲۳۳ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ پیر مہر علی شاہ صاحب کے توجہ دلانے کے لئے آخری حیلہ ناظرین کو خوب یاد ہو گا کہ مَیںنے موجودہ تفرقہ کے دُور کرنے کے لئے پیر مہر علی شاہ صاحب کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہم دونوں قرعہ اندازی کے ذریعہ سے ایک قرآنی سورہ لے کر عربی فصیح بلیغ میں اس کی ایسی تفسیر لکھیں جو قرآنی علوم اور حقایق اور معارف پر مشتمل ہو اور پھر تین کس مولوی صاحبان جن کا ذکر پہلے اشتہار میں درج ہے.قسم کھا کر ان دونوںتفسیروں میں سے ایک تفسیر کوترجیع دیں کہ اس کی عربی نہایت عمدہ اور اس کے معارف نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں.پس اگر پیر صاحب کی عربی کو ترجیح دی گئی تو مَیںسمجھ لوں گا کہ خدا میرے ساتھ نہیں ہے تب اُن کے غلبہ کا اقرار کروں گا اور اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اور اس طرح پر فتنہ جو ترقی پر ہے فرو ہوجائے گا.اور اگر مَیں غالب رہا تو پھر میرا دعویٰ مان لینا چاہیے.اب ناظرین خود سوچ سکتے ہیں کہ اس طرح سے بڑی صفائی سے فیصلہ ہو سکتا تھا.اور پیر صاحب کے لئے مفید تھا کیونکہ قسم کھانے والا جس کے فیصلہ پر حصر رکھا گیا تھا وہ مولوی محمد حسین بٹالوی ہے اور دواُن کے اَور رفیق تھے.مگر پیر صاحب نے اس دعوت کو قبول نہ کیا اور اس کے جواب میں یہ اشتہار بھیجا کہ پہلے نصوص قرآنیہ حدیثیہ کے رو سے مباحثہ ہونا چاہیے اور اس مباحثہ کے حَکَمْ وہی مولوی محمد حسین
صاحب اور ان کے دو رفیق تھے.اگر وہ قسم کھا کر کہہ دیں کہ اس مباحثہ میںپیر مہر علی شاہ صاحب جیت گئے تو اسی وقت لازم ہو گا کہ مَیں ان کی بیعت کر لوں.پھر بالمقابل تفسیر بھی لکھوں.اب ظاہر ہے کہ اس طرح جواب میں کیسی چال بازی سے کام لیا گیا ہے مُنہ سے تو وہ میری تمام شرطیں منظور کرتے ہیں مگر تفسیر لکھنے کے امر کو ایک مکر سے ٹال کر زبانی مباحثہ پر حصر کر دیا ہے اور ساتھ ہی بیعت کی شرط لگا دی ہے.بہت زور دیا گیا مگر اُن کے مُنہ سے اب تک نہیں نکلا کہ ہاں مجھے بغیر زیادہ کرنے کسی اور شرط کے فقط بالمقابل عربی میں تفسیر لکھنا منظور ہے اور باایں ہمہ ان کے مرید لاہور کے کوچہ وبازار میں مشہور کر رہے ہیں کہ پیر صاحب نے شرطیں منظور کر لی تھیں.اور مرزا ان سے خوف کھا کر بھاگ گیا.یہ عجیب زمانہ ہے کہ اس قدر مُنہ پر جھوٹ بولا جاتا ہے پیر صاحب کا وہ کونسا اشتہار ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ مَیں کوئی زیادہ شرط نہیں کرتا.مجھے بالمقابل عربی فصیح میں تفسیر لکھنا منظور ہے اور اسی پر فریقین کے صدق و کذب کا فیصلہ ہو گا اور اس کے ساتھ کوئی شرط زائد نہیں لگائی جائے گی.ہاں مُنہ سے تو کہتے ہیں کہ شرطیں منظورہیں مگر پھر ساتھ ہی یہ حجت پیش کر دیتے ہیں کہ پہلے قرآن اور حدیث کے رُو سے مباحثہ ہو گا.اور مغلوب ہو گئے تو اسی وقت بیعت کرنی ہو گی.افسوس کہ کوئی صاحب پیر صاحب کی اس چال کو نہیں سوچتے کہ جبکہ مغلوب ہونے کی حالت میں کہ جو صرف مولوی محمد حسین کی قسم سے سمجھی جائے گی میرے لئے بیعت کرنے کا قطعی حُکم ہے.جس کے بعد میرا عذر نہیں سنا جائے گا.تو پھر تفسیر لکھنے کے لئے کونسا موقع میرے لئے باقی رہا.گویا مجھے تو صرف مولوی محمد حسین صاحب کے ان چند کلمات پر بیعت کرنی پڑے گی کہ جو پیر صاحب کے عقائد ہیں وہی صحیح ہیں گویا پیر صاحب آپ ہی فریق مقدمہ اور آپ ہی منصف بن گئے.کیونکہ جبکہ مولوی محمد حسین صاحب کے عقائد حضرت مسیح اور مہدی کے بارے میں بالکل پیر صاحب کے مطابق ہیں تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ مولوی محمدحسین صاحب اور پیر صاحب گویا ایک ہی شخص ہیں، دو نہیں ،تو پھر فیصلہ کیاہوا.انہی مشکلات اور انہی وجوہ پر تو مَیں نے بحث سے کنارہ کر کے یہی طریق فیصلہ نکالا تھا جو اس طرح پر ٹال دیا گیا
بہر حال اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ لاہور کے گلی کوچے میں پیر صاحب کے مرید اور ہم مشرب شہرت دے رہے ہیں کہ پیر صاحب تو بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے لاہور پہنچ گئے تھے مگر مرزا بھاگ گیا اور نہیں آیا.اس لئے پھر عام لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ تمام باتیں خلاف واقعہ ہیں بلکہ خود پیر صاحب بھاگ گئے ہیں.اور بالمقابل تفسیر لکھنا منظور نہیں کیا اور نہ ان میں یہ مادہ اور نہ خدا کی طرف سے تائید ہے.اور مَیں بہرحال لاہور پہنچ جاتا.مگر مَیں نے سُنا ہے کہ اکثر پشاور کے جاہل سرحدی پیر صاحب کے ساتھ ہیں.اور ایسا ہی لاہور کے اکثر سفلہ اور کمینہ طبع لوگ گلی کوچوں میں مستوں کی طرح گالیاں دیتے پھرتے ہیں اور نیز مخالف مولوی بڑے جوشوں سے وعظ کر رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے.تو اس صورت میں لاہور میں جانا بغیر کسی احسن انتظام کے کس طرح مناسب ہے.ان لوگوں کا جوش اس قدر بڑھ گیا ہے کہ بعض کارڈ گندی گالیوں کے ان لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچے ہیں جو چوہڑوں چمارون کی گالیوں سے بھی فحش گوئی میں زیادہ ہیں جو میرے پاس محفوظ ہیں.بعض تحریروں میں قتل کی دھمکی دی ہے.یہ سب کاغذات حفاظت سے رکھے گئے ہیں.مگر باوجود اس کے اس درجہ کی گندہ زبانی کو ان لوگوں نے استعمال کیا ہے کہ مجھے امید نہیں کہ اس قدر گندہ زبانی ابوجہل نے آنحضرت صلے اللہ وعلیہ وسلم کے مقابل پر یا فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے مقابلے پر دکھلائی ہو.پھر بھی اگر پیر صاحب نے اپنی نیّت کو درست کر لیا ہے اور سیدھے طور پر بغیر زیادہ کرنے کسی شرط کے وہ میرے مقابل پر عربی میں تفسیر لکھنے کے لئے طیار ہو گئے ہیں تو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیںبہرحال اس مقابلے کے لئے جو محض بالمقابل عربی تفسیر لکھنے میں ہو گا لاہور میں اپنے تئیں پہنچائوں گا صرف دو امر کا خواہشمند ہوں جن پر لاہور میں میر ا پہنچنا موقوف ہے.(۱)اوّل یہ کہ پیر صاحب سیدھی اور صاف عبارت میں بغیر کسی پیچ ڈالنے یا زیادہ شرط لکھنے کے اس مضمون کا اشتہار اپنے نام پر شائع کردیں جس پر پانچ لاہور کے معزز اور مشہور ارکان کے دستخط بھی ہوں کہ مَیں نے قبول کر لیا کہ مَیں بالمقابل مرزا غلام احمد قادیانی کے عربی فصیح بلیغ میں تفسیر قرآن شریف
لکھوں گا.اور (۱) پہلے اس طرح پر قرعہ اندازی کی جائے گی کہ تمام قرآنی سُورتوں کے متفرق پرچوں پر نام لکھ کر فریقین میں سے ایک فریق کی جھولی میںڈال دیئے جائیں گے اور وہ فریق ان پرچوں کو پوشیدہ رکھے گا اور دوسرا فریق اس جھولی میں ہاتھ ڈال کر ایک پرچہ نکال لے گا اور اس پرچہ کی سورۃ اگر بہت لمبی ہو گی تو اس میں سے چالیس آیت تک یا پوری سورۃ اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو تفسیر لکھنے کے لئے اختیار کی جائے گی.(۲)فریقین کا اختیار ہو گا کہ اپنی تسلّی کے لئے ایک دوسرے کی بخوبی تلاشی لے لیں تا کہ کوئی پوشیدہ کتاب ساتھ نہ ہو اور یہ امر موجب رنج نہ سمجھا جائے گا.(۳)اگر کوئی فریق کسی ضروری حاجت کے لئے باہر جانا چاہے تو دوسرے فریق کا کوئی نگرانی کرنے والا اس کے ساتھ ہو گا اور وہ تین آدمی سے زیادہ نہ ہوں گے.(۴)ہر گزجائز نہ ہو گا کہ تفسیر لکھنے کے وقت کسی فریق کو کوئی دوسرا مولوی مل سکے بجز کسی ایسے نوکر کے جو مثلاًپانی پلانا چاہتا ہے اور فی الفور خدمت کے بعد واپس جانا ہو گا.(۵)فریقین ایک دوسرے کے مقابل صرف دو تین ہاتھ کے فاصلہ پر بیٹھیں گے اس سے زیادہ دُوری نہیں ہوگی تا وہ دونوں ایک دوسرے کے حالات کے نگران رہ سکیں.اگر کسی فریق کی کوئی خیانت ثابت ہو تو مقابلہ اسی جگہ ختم ہو جائے گا اور اس فریق کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس حالت میں کیا جاتا جو وہ مغلوب رہتا.(۶)ہر ایک فریق اپنی تفسیر کے دو دو ورق لکھ کر ان کی نقل فریق ثانی کو بعد دستخط دیتا رہے گا.اور اسی طرح اخیر تک دو دو ورق دیتا جائے گا.تایک دفعہ نقل لکھنے میں کسی خیانت کا کسی فریق کو موقع نہ ملے.(۷)تفسیر کے بہرحال بیس ورق ہو ں گے اس قلم اور تقطیع کے موافق جو مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی کا قرآن شریف شائع ہوا ہے (۸)صبح کے چھ بجے سے ایک بجے تک یا اگر کوئی ہرجہ پیش آ جائے تو دو بجے تک دونوں فریق لکھتے رہیں گے.(۹)ہر گز اختیار نہ ہو گا کہ کوئی فریق اپنے پاس کوئی کتاب رکھے یا کسی مددگار کو پاس بٹھاوے یا کسی اشارہ کنایہ سے مدد لے.(۱۰)تفسیر میں کوئی غیر متعلق بات نہیں لکھی جائے گی.صرف قرآن شریف کی اُن آیا ت کی تفسیر ہو گی جو قرعہ اندازی سے نکلی ہیں.اگر کوئی اس شرط کی
خلاف ورزی کرے گا تو وہ بھی مغلوب سمجھا جائے گا.(۱۱) اس بات پر کوئی بات زیادہ نہیں کی جائے گی کہ فریقین بالمقابل بیٹھ کر عربی میں تفسیر لکھیں اور نہ یہ کہا جائے گا کہ اوّل کوئی بحث کر لو یا کوئی اور شرائط قائم کر لو.فقط عربی میں تفسیر لکھنا ہو گا.وبس.(۱۲) جب دونوں فریق قرعہ اندازی سے معلوم کر لیں کہ فلاں سورۃ کی تفسیر لکھنی ہے تو اختیار ہو گا کہ قبل لکھنے کے گھنٹہ یا دو گھنٹہ سوچ لیں مگر کسی سے مشورہ نہیں لیا جائے گا اور نہ مشورہ کا موقعہ دیاجائے گا بلکہ گھنٹہ دو گھنٹہ کے بعد لکھنا شروع کر دیا جائے گا.۱؎ یہ نمونہ اشتہار ہے جس کی ساری عبارت بلا کم و بیش پیر صاحب کو اپنے اشتہاروں میں لکھنی چاہیے اور اس پر پنج کس معززین لاہور کی گواہیاں ثبت ہونی چاہییں.اور چونکہ موسم برسات ہے اس لئے ایسی تاریخ اس مقابلہ کی لکھنی چاہیے کہ کم سے کم تین دن پہلے مجھے اطلاع ہو جائے.(۲) دوسرا امر جو میرے لاہور پہنچنے کے لئے شرط ہے وہ یہ ہے کہ شہر لاہور کے تین رئیس یعنی نواب شیخ غلام محبوب سبحانی صاحب اور نواب فتح علی شاہ صاحب اور سیّدبرکت علی خان صاحب سابق اکسٹرااسسٹنٹ ایک تحریر بالاتفاق شائع کر دیں کہ ہم اس بات کے ذمّہ دار ہیں کہ پیر مہرعلی شاہ صاحب کے مریدوں اور ہم عقیدوں اور اُن کے ہم جنس مولویوں کی طرف سے کوئی گالی یا کوئی وحشیانہ حرکت ظہور میں نہیں آئے گی.اور یاد رہے کہ لاہور میں میرے ساتھ تعلق رکھنے والے پندرہ یا بیس آدمی سے زیادہ نہیں ہیں.مَیں اُن کی نسبت یہ انتظام کر سکتا ہوں کہ مبلغ دو ہزار روپیہ ان تینوںرئیسوں کے پاس جمع کرادوں گا.اگرمیرے ان لوگوں میں سے کسی نے گالی دی یا زد وکوب کیا تو وہ تمام روپیہ میرا ضبط کر دیا جائے.مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ جن کو لاہور کے بعض رئیسوں سے بہت تعلقات ہیں اور شاید پیری مرید ی بھی ہے ان کو روپیہ جمع کرانے کی کچھ ضرورت نہیں کافی ہو گا کہ حضرات معزز رئیسان موصوفین بالا ان تمام سرحدی پُرجوش لوگوں کے ۱ پیر صاحب کو اس فیصلہ کے لئے پانچ دن کی مہلت دی جاتی ہے.اگر پانچ دن تک انکا جواب نہ آیا تو ان کی گریز قطعی طور پر سمجھی جائے گی.
قول اور فعل کے ذمہ دار ہو جائیں جو پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور نیزان کے دوسرے لاہوری مریدوں خوش عقیدوں اور مولویوں کی گفتار کردار کی ذمہ داری اپنے سر پر لیں.جو کھلے کھلے طور پر میری نسبت کہہ رہے ہیں اور لاہور میں فتوے دے رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے.ان چند سطروں کے بعد جو ہرسہ معزز رئیسان مذکورین بالا اپنی ذمہ داری سے اپنے دستخطوں کے ساتھ شائع کر دیں گے اور پیر صاحب کے مذکور ہ بالا اشتہار کے بعد پھر مَیں اگر بلا توقف لاہور میں نہ پہنچ جائوں تو کاذب ٹھہروں گا.ہر ایک شخص جو نیک مزاج اور انصاف پسند ہے اگر اس نے لاہور میں پیرمہر علی شاہ صاحب کی جماعت کا شور و غوغا سُنا ہو گا اور ان گالیوں اور بد زبانیوں اور سخت اشتعال کے حالات کو دیکھا ہو گا تو وہ اس بات میں مجھ سے اتفاق کرے گا کہ اس فتنہ اور اشتعال کے وقت میں بجز شہر کے رئیسوں کی پورے طور کی ذمہ داری کے لاہور میں قدم رکھنا گویا آگ میں قدم رکھنا ہے.جو لوگ گورنمنٹ کے قانون کی بھی کچھ پرواہ نہ رکھ کر علانیہ فتویٰ پر فتویٰ میری نسبت دے رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے کیا ان کا وجود خطرناک نہیں ہے اور کیا شرع اور عقل فتویٰ دے سکتے ہیں کہ یہ پُر جوش اور مشتعل لوگوں کے مجمعوں میں بغیر کسی قانونی بندوبست کے مضائقہ نہیں ہے؟ بے شک لاہور کے معزز رئیسوں کا یہ فرض ہے کہ آئے دن کے فتنوں کے مٹانے کے لئے یہ ذمہ داری اپنے سر پر لے لیں اور اپنی خاص تحریروں کے ذریعہ سے مجھے لاہور میں بُلا لیں اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب بالمقابل عربی تفسیر لکھنے سے عاجز ہوں جیسا کہ درحقیقت یہی سچا امر ہے تو ایک اَور سہل طریق ہے جو وہ طرز مباحثہ کی نہیں جس کے ترک کے لئے میرا وعدہ ہے.اور وہ طریق یہ ہے کہ اس کے ذمہ واری مذکورہ بالا کے بعد میں لاہور میں آئوں اور مجھے اجازت دی جائے کہ مجمع عام میں جس میں ہر سہ رئیس موصوفین بھی ہوں.تین گھنٹہ تک اپنے دعوٰی اور دلائل کو پبلک کے سامنے بیان کروں.پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے کوئی خطاب نہ ہوگا.اور جب میں تقریر ختم کر چکوں تو پھر پیر مہر علی شاہ صاحب اُٹھیں اور وہ بھی تین گھنٹے تک پبلک کو
مخاطب کر کے یہ ثبوت دیں کہ حقیقت میں قرآن اور حدیث سے یہی ثابت ہے کہ آسمان سے مسیح آئے گا.پھر بعد اس کے لوگ ان دونوں تقریروں کا خود موازنہ اور مقابلہ کر لیں گے.ان دونوں باتوں میں سے اگر کوئی بات پیر صاحب منظور فرمائیں تو بشرط تحریری ذمہ واری رئو سا مذکورین مَیں لاہور میں آ جائوں گا.وَاللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوْلُ شَہِیْدٌ.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی.۱؎ گواہ شـــــــــــــــــــــــد مولوی حکیم نور الدین صاحب گواہ شـــــــــــــــــــــــد مولوی عبد الکریم صاحب گواہ شـــــــــــــــــــــــد مولوی سیّد محمد سعید صاحب حیدر آبادی گواہ شـــــــــــــــــــــــد صاحبزادہ سراج الحق جمالی نعمانی گواہ شـــــــــــــــــــــــد شیخ غلام حیدر صاحب ڈپٹی انسپکٹر ضلع سیالکوٹ گواہ شـــــــــــــــــــــــد کاتب اشتہار منظور محمد لدھیانوی المشتــــــــــــــــــــــــــھـر مرزا غلام احمد قادیانی ۲۸ ؍اگست ۱۹۰۰ء (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۱۳۷ تا ۱۴۳) ۱؎ یاد رہے کہ جس اشتہار کے شائع کرنے کا نمونہ پیر صاحب کے لئے اس اشتہار میں لکھا گیا ہے یا جو دوسری شرط رئیسوں کی ذمہ واری کی بابت لکھی گئی ہے اس میں کوئی ترمیم نہیں ہو گی.منہ نوٹ: یہ دونوں اشتہار ’’ واقعات صحیحہ‘‘ مرتبہ مفتی محمد صادق صاحب مطبوعہ نومبر ۱۹۰۰ء انوار احمدی پریس لاہور کے صفحات ۵۰ لغایت ۵۶ پر درج ہے مرتب
۲۳۴ ضمیمہ اربعین نمبر ۲ اعلان اس امر کا اظہار ضروری سمجھایا گیا ہے کہ اربعین نمبر ۲ کے صفحہ ۲۰ پر جو تاریخ انعقاد مجمع قراردی گئی ہے.یعنی ۱۵ ؍اکتوبر ۱۹۰۰ء وہ اس وقت تجویز کی گئی تھی جبکہ ہم نے ۷ ؍اگست ۱۹۰۰ء کو مضمون لکھ کر کاتب کے سپرد کر دیاتھا.لیکن اس اثناء میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ اشتہارات جاری ہونے اور رسالہ گولڑویہ کے تیار کرنے کی وجہ سے اربعین نمبر ۲ کا چھپنا ملتوی رہا.اس لئے میعاد مذکور ہماری رائے میں اب ناکافی ہے.لہذا ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ بجائے ۱۵؍ اکتوبر کے ۲۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء قرار دی جائے تا کہ کسی صاحب کو گنجایش اعتراض نہ رہے اور مولوی صاحبان کو لازم ہو گا کہ تاریخ مقررہ کے تین ہفتہ پہلے اطلاع دیں کہ کہاں اور کس موقعہ پر جمع ہونا پسند کرتے ہیں.آیا لاہور میں یا امرتسر میں یا بٹالہ میں.اور یہ بھی یاد رہے کہ جب تک کم از کم چایس علماء فقراء نامی کی درخواست ہمارے پاس نہیں آئے گی تب تک ہم مقام مقررہ پر وقت مقررہ پر حاضر نہیں ہو ں گے.الراقم مرزا غلام احمد از قادیان ۲۹ ؍ستمبر ۱۹۰۰ء (ضیاء الاسلام پریس قادیان ) (اربعین ، روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۷۸)
۲۳۵ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار واجب الاظہار اپنی جماعت کے لئے اور گورنمنٹ عالیہ کی توجہ کے لیے چونکہ اب مردم شماری کی تقریب پر سرکاری طور پر اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ہر ایک فرقہ جودوسرے فرقوں سے اپنے اصولوں کے لحاظ امتیاز رکھتا ہے علیٰحدہ خانہ میں اس کی خانہ پُری کی جائے اور جس نام کو اس فرقہ نے اپنے لئے پسند اور تجویز کیا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں اس کا لکھا جائے.اس لئے ایسے وقت میں قرین مصلحت سمجھا گیا ہے کہ اپنے فرقہ کی نسبت ان دونوں باتوں کو گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یادد لایا جائے اور نیز اپنی جماعت کو ہدایت کی جائے کہ وہ مندرجہ ذیل تعلیم کے موافق استفسار کے وقت لکھوائیں.اور جو شخص بیعت کرنے کے لئے مستعد ہے گو ابھی بیعت نہیں کی اس کو بھی چاہیے کہ اس ہدایت کے موافق اپنا نام لکھوائے اور پھر مجھے کسی وقت اپنی بیعت سے اطلاع دے دے.یاد رہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقررفرمایا ہے ایک بڑا امتیازی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد
بالکل نہیں اور نہ اس کی انتظار ہے.بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر اور نہ پوشیدہ طور پر جہاد کی تعلیم کو ہر گز جائز نہیں سمجھتا اور قطعاً اس بات کو حرام جانتا ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے لڑائیاں کی جائیں یا دین کے بغض اور دشمنی کی وجہ سے کسی کو قتل کیا جائے یا کسی اور نوع کی ایذادی جائے یا کسی انسانی ہمدردی کا حق بوجہ کسی اجنبیت مذہب کے ترک کیا جائے.یا کسی قسم کی بے رحمی اور تکبّر اور لا پرواہی دکھلائی جائے بلکہ جو شخص عام مسلمانوں میں سے ہماری جماعت میں داخل ہو جائے اس کا پہلا فرض یہی ہے کہ جیسا کہ وہ قرآن شریف کے سورہ فاتحہ میں پنجوقت اپنی نماز میںیہ اقرار کرتا ہے کہ خدا ربّ العالمین ہے اور خدا رحمان ہے اور خدا رحیم ہے اور خدا ٹھیک ٹھیک انصاف کرنے والا ہے، یہی چاروں صفتیں اپنے اندر بھی قائم کرے.ورنہ وہ اس دُعا میں کہ اسی سُورت میں پنجوقت اپنی نماز میں کہتا ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ یعنی اے ان چاروں صفتوں والے اللہ میں تیرا ہی پرستار ہوں اور تو ہی مجھے پسند آیا ہے.سراسر جھوٹا ہے کیونکہ خدا کی ربوبیّت یعنی نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مربی بننا اور ادنیٰ سے ادنیٰ جانور کو بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بے بہرہ نہ رکھنا یہ ایک ایسا امر ہے کہ اگر ایک خدا کی عبادت کا دعویٰ کرنے والا خدا کی اس صفت کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو پسند کرتا ہے یہاں تک کہ کمال محبت سے اس الہٰی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ آپ بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر حاصل کر لے تا اپنے محب کے رنگ میں آ جائے.ایسا ہی خدا کی رحمانیت یعنی بغیر عوض کسی خدمت کے مخلوق پر رحم کرنا یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جس کو یہ دعویٰ ہے کہ مَیںخدا کے نقشِ قدم پر چلتا ہوں ضرور یہ ُخلق بھی اپنے اندر پیدا کرتا ہے.ایسا ہی خدا کی رحیمیت یعنی کسی کے نیک کام میں اس کام کی تکمیل کے لئے مدد کرنا.یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جو خدا کی صفات کا عاشق ہے اس صفت کو اپنے اندر حاصل کرتا ہے.ایسا ہی خدا کا انصاف جس نے ہر ایک حکم عدالت کے تقاضا سے دیا ہے نہ نفس کے جوش سے.یہ بھی ایک ایسی صفت ہے کہ سچا عابد کہ جو تمام الٰہی صفات اپنے اندر لینا چاہتا ہے اس صفت کو چھوڑ نہیں سکتا اور راستباز کی خود بھاری نشانی یہی ہے
کہ جیسا کہ وہ خدا کے لئے ان چار صفتوں کو پسند کرتا ہے ایسا ہی اپنے نفس کے لئے بھی یہی پسند کرے.لہذا خدا نے سُورۃ فاتحہ میں یہی تعلیم کی تھی جس کو اس زمانہ کے مسلمان ترک کر بیٹھے ہیں.میری رائے یہ ہے کہ دنیا میں اکثر مسلمان باستثناء قدر قلیل کے دو قسم کے ہیں.ایک وہ علماء جو آزادی کے ملکوں میں رہ کر علانیہ جہاد کی تعلیم کرتے اور مسلمانوں کواس کے لئے اُبھارتے ہیں اور ان کے نزدیک بڑا کام دینداری کا یہی ہے کہ نوعِ انسان کو مذہب کے لئے قتل کیا جائے.وہ اس بات کو سنتے ہی نہیں کہ خدا فرماتا ہے کہ ۱؎ یعنی دین کو جبر سے شائع نہیں کرنا چاہیے.(۲)دوسرا فرقہ مسلمانوں کا یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ خُفیہ طور پر تو اس پہلے فرقہ کے ہمرنگ ہیں مگر اسی گورنمنٹ کو خوش کرنے کے لئے تقریراً یا تحریراً ظاہرکرتے رہتے ہیں کہ ہم جہاد کے مخالف ہیں.اُن کے امتحان کا ایک سہل طریق ہے مگر اس جگہ اس کے لکھنے کا موقع نہیں.جس شخص کو خدا نے قوتِ کانشنس عطا کی ہے.اور نور قلب بخشا ہے وہ ایسے لوگوں کو اس طرح پر پہچان لے گا کہ اُن کے عام تعلقات کس قسم کے لوگوں سے ہیں مگر اس جگہ ہمارا مدّعا صرف اپنا مشن بیان کرنا ہے.اور وہ یہ ہے کہ ہم ایسے جہادوں کے سخت مخالف اور نہایت سخت مخالف ہیں.ہمارے اس الہٰی فرقہ کی مختصر طور پر لائف یہ ہے کہ خدا نے پہلی قوموں کو دنیا سے اُٹھا کر دنیا کو نیکی کا سبق دینے کے لئے ابراہیم کی نسل سے دو سلسلے شروع کئے.ایک سلسلہ ٔموسیٰ جس کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے شروع کر کے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر ختم کیا گیا.دوسرا سلسلہ مثیل موسیٰ یعنی سلسلہ حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم جو خدا کے اس وعدہ کے موافق ہے جو توریت استثناء باب۱۸ آیت۱۸ میں کیا گیا تھا.یہ سلسلہ موسویہ کی ایک پوری نقل ہے جو مثیل موسیٰ سے شروع ہو کر مثیل مسیح تک ختم ہوا.اور عجیب تر یہ کہ جو مدت خدا نے موسیٰ سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام تک رکھی تھی یعنی چودہ سو برس.اسی مدت کی مانند اس سلسلہ کی مدت بھی ۱ البقرہ:۲۵۷
رکھی گئی اور موسوی خلافت کا سلسلہ جس نبی پر ختم ہوا یعنی مسیح پر، نہ وہ بنی اسرائیل میں سے پیدا ہوا کیونکہ اس کا کوئی اسرائیلی باپ نہ تھا اور نہ وہ موسیٰ اور یشوعا کی طرح تلوار کے ساتھ ظاہر ہوا، اور نہ وہ ایسے ملک اور وقت میں جس میں اسرائیلی سلطنت ہوتی پیدا ہوا.بلکہ وہ رُومی سلطنت کے ایّام میں ان اسرائیلی آبادیوں میں وعظ کرتا رہا جو پیلاطوس کے علاقہ میں تھیں.اب جبکہ پہلے مسیح نے نہ تلوار اُٹھائی اور نہ وہ بوجہ نہ ہونے باپ کے بنی اسرائیل میں سے تھا اور نہ اسرائیلی سلطنت کو اس نے اپنی آنکھ سے دیکھا.اس لئے دوسرا مسیح جو انجیل متی ۱۷ باب آیت ۱۰و۱۱و ۱۲ کے رُو سے پہلے مسیح کے رنگ اور طریق پر آنا چاہیے تھا جیسا کہ یوحنا نبی ایلیا کے رنگ پر آیا تھا ضرور تھا کہ وہ بھی قریش میں سے نہ ہوتا.جیسا کہ یسوع مسیح بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا.اور ضرور تھا کہ دوسرا مسیح اسلامی سلطنت کے اندر پیدا نہ ہوتا اور ایسی سلطنت کے ماتحت مبعوث ہوتا جو رُومی سلطنت کے مشابہ ہوتی.سو ایسا ہی ظہور میں آیا.کیونکہ جہاں تک ہمیں علم ہے ہم جانتے ہیں کہ ہماری یہ سلطنت برطانیہ (خدا اس پر دین و دنیا میں فضل کرے) رُومی سلطنت سے نہایت درجہ مشابہ ہے اور ضرور تھا کہ دوسرا مسیح بھی تلوارکے ساتھ نہ آتا.اور اس کی بادشاہت صرف آسمان میں ہوتی سو ایسا ہی ظہور میں آیا اور خدا نے مجھے تلوار کے ساتھ نہیں بھیجا اور نہ مجھے جہاد کا حکم دیا.بلکہ مجھے خبر دی کہ تیرے ساتھ آشتی اور صلح پھیلے گی.ایک درندہ بکری کے ساتھ صلح کرے گا اورایک سانپ بچوں کے ساتھ کھیلے گا.یہ خدا کا ارادہ ہے گو لوگ تعجب کی راہ سے دیکھیں.غرض مَیںاس لئے ظاہر نہیں ہوا کہ جنگ و جدل کا میدان گرم کروں بلکہ اس لئے ظاہر ہوا ہوں کہ پہلے مسیح کی طرح صلح اور آشتی کے دروازے کھول دوں.اگر صلح کاری کی بنیاد درمیان نہ ہو تو پھر ہمارا سارا سلسلہ فضول ہے اور اس پر ایمان لانا بھی فضول.حقیقت یہ ہے کہ پہلا مسیح بھی اس وقت آیا تھا.۱؎ جب یہود میں خانہ جنگیاں کثرت سے پھیل گئی تھیں اور ان کے گھر ظلم اور تعدی ۱؎ پہلے مسیح کو جو خدا بنایا گیا یہ کوئی صحیح اور واقعی امر نہیں تھا تا دوسرے مسیح میں اس کی مشابہت تلاش کی جائے.بلکہ انسانی غلطیوں میں سے یہ بھی ایک غلطی تھی.اور اصل فلاسفی اس مسئلہ میںیہ ہے کہ کوئی
سے بھر گئے تھے.اور سخت دلی اُن کی عادت ہو گئی تھی اور سرحدی افغانوں کی طرح وہ لوگ بھی دوسروں کو قتل کر کے بڑا ثواب سمجھتے تھے.گویا بہشت کی کُنجی بے گناہ انسانوں کو قتل کرنا تھا بقیہ حاشیہ.نبی نبیوں میں سے خدا کا پیار ا نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ولی ولیوں میں سے اس کا محبوب ٹھہر سکتا ہے.جب تک کہ ایک مرتبہ موت کا خوف یا موت کے مشابہ اُس پر ایک واقعہ واردنہ ہو لے اور اسی پر سُنّت اللہ قدیم سے جاری ہے.جب ابراہیم آگ میں ڈالا گیا تو کیا یہ نظارہ صلیب کے واقعہ سے کچھ کم تھا.اور جب اس کو حکم ہوا کہ تُو اپنے پیارے فرزند کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر.تو کیا یہ واقعہ ابراہیم کے لئے اور اس کے اس فرزند کے لئے جس پر چھری چلائی گئی سُولی کی دہشت سے کچھ کم درجہ پر تھا.اور یعقوب کے خوف کا وہ نظارہ جبکہ اس کو سُنایا گیا کہ تیرا پیار ا فرزند یوسف بھیڑیئے کا لقمہ ہو گیا.اور اس کے آگے یوسف کا مصنوعی طورپر خون آلودہ کُڑتہ ڈال دیا گیا اور پھر مدّت دراز تک یعقوب کو ایک مسلسل غم میں ڈالا گیا.کیا یہ نظارہ بھی کچھ کم تھا.اور جب یوسف کو مشکیں باندھ کر کوئیں میں پھینک دیا گیا تو کیا یہ دردناک نظارہ اس نظارہ سے کچھ کم تھا.جب مسیح کو صلیب پر چڑھایا گیا.اور پھر کیا نبی آخرالزمان کی مصیبت کا وہ نظارہ کہ جب غار ثور کا ننگی تلواروں کے ساتھ محاصر ہ کیا گیا کہ اسی غار میں وہ شخص ہے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اس کو پکڑو اور قتل کرو.تو کیا یہ نظارہ اپنی رُعبناک کیفیت میں صلیبی نظار ہ سے کچھ کم تھا.اور کیا ابھی اسی زمانہ کا یہ نظارہ کہ جب ڈاکٹر مارٹن کلارک نے مثیل مسیح پر جو یہی عاجزہے، اقدام قتل کا ایک جھوٹا دعویٰ کیا اور تینوں قوموں ہندوئوں اور مسلمانوں اور عیسائیوں میں سے سربرآوردہ علماء کوشش کرتے تھے کہ یہ سزا پاوے تو کیا یہ نظارہ مسیح کے صلیبی نظارہ سے کچھ مشابہت نہیں رکھتا تھا.پس سچ بات یہ ہے کہ ہر ایک جو خدا کے پیار کا دعویٰ کرتا ہے ایک وقت میں ایک حالت موت کے مشابہ ضرور اس پر آ جاتی ہے.سو اسی سنّت اللہ کے موافق مسیح پر بھی وہ حالت آ گئی.مگر جتنی نظیریں ہم نے پیش کی ہیں وہ گواہی دے رہی ہیں کہ ان تمام نبیوں میں سے ایسے امتحان کے وقت کوئی بھی نبی ہلاک نہیں ہوا.آخر قریب موت پہنچ کر جبکہ اس کے روحوں سے ایلی ایلی لما سبقتانی کا نعرہ نکلا تب یک مرتبہ خدا کے فضل نے اُن کو بچا لیا.پس جس طرح ابراہیم آگ سے اور یوسف کوئیں سے اور ابراہیم کا ایک پیارا بیٹا ذبح سے اور اسمٰعیل پیاس کی موت سے بچ گیا اسی طرح مسیح بھی صلیب سے بچ گیا.وہ موت کا حملہ ہلاک کرنے کے لئے نہیں تھا.بلکہ ایک نشان دکھلانے کے لئے تھا.منہ
تب خدا نے حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد اپنا مسیح بھیجا جو لڑائیوں کا سخت مخالف تھا.وہ درحقیقت صلح کا شہزادہ تھا اور صلح کا پیغام لایا لیکن بد قسمت یہودیوں نے اس کا قدر نہ کیا.اس لئے خدا کے غضب سے عیسیٰ مسیح کو اسرائیلی نبوت کے لئے آخری اینٹ کر دیا اور اس کو بے باپ پیدا کر کے سمجھا دیا کہ اب نبوت اسرائیل میں سے گئی.تب خدا وند نے یہودیوں کو نالائق پا کر ابراہیم کے دوسرے فرزندکی طرف رُخ کیا.یعنی اسمٰعیل کی اولاد میں سے پیغمبر آخر الزّمان پیدا کیا.یہی مثیل موسیٰ تھا جس کا نام محمدؐ ہے.اس نام کا ترجمہ یہ ہے کہ نہایت تعریف کیا گیا.خدا جانتا تھا کہ بہت سے نا فہم مذمت کرنے والے پیدا ہوں گے اس لئے اس کا نام محمدؐ رکھ دیا جبکہ آنحضرت شکمِ آمنہ عفیفہ میں تھے.تب فرشتہ نے آمنہ پر ظاہر ہو کر کہا تھا کہ تیرے پیٹ میں ایک لڑکا ہے جو عظیم الشّان نبی ہو گا.اس کا نام محمد رکھنا.غرض آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ کی طرح اپنی قوم کے راست بازوں کو درندوں اور خونیوں سے نجات دی.اور موسیٰ کی طرح ان کو مکّہ سے مدینہ کی طرف کھینچ لایا.اور ابوجہل کو جو اس امت کا فرعون تھا بدر کے میدان جنگ میں ہلاک کیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت باب ۱۸ آیت ۱۸ کے وعدہ کے موافق موسیٰ کی طرح ایک نئی شریعت ان لوگوں کو عطا کی جو کئی سَو برس سے جاہل اور وحشی چلے آتے تھے اور جیسے بنی اسرائیل چار سو برس تک فرعون کی غلامی میں رہ کر وحشیوں کی طرح ہو گئے تھے.یہ لوگ بھی عرب کے جنگلوں میں رہ کر ان سے کم نہ تھے بلکہ وحشیانہ حالت میں بہت بڑھ گئے تھے یہاں تک کہ حلال حرام میں بھی کچھ فرق نہیں کر سکتے تھے.پس ان لوگوں کے لئے قرآن شریف بالکل ایک نئی شریعت تھی اور اُسی شریعت کے موافق تھی جو کوہ سینا پر بنی اسرائیل کو ملی تھی.تیسر۳ی مماثلت حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ سے یہ تھی کہ جیسا کہ حضرت موسیٰ نے فرعون کو ہلاک کر کے اپنی قوم کو سلطنت عطا کی تھی اسی طرح آنحضرت ـصلے اللہ علیہ وسلم نے بھی مثیل فرعون یعنی ابو جہل کو جو والی مکہ سمجھا جاتا تھا اور
عرب کے نواح کا فرمان روا تھا ہلاک کر کے اپنی قوم کو سلطنت عطا کی اور جیسا کہ موسیٰ نے کسی پہلے نبی سے اصطباغ نہیں پایا خود خدا نے اس کو سکھلایا ، ایسا ہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا اُستاد بھی خدا تھا.کسی نبی کی مریدی اختیار نہیں کی.غرض ان چار باتوں میں محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ علیہ السّلام میں مماثلت تھی.اور مَیںابھی بیان کر چکا ہوں کہ جیسا کہ حضرت موسیٰ کا سلسلہ ایک ایسے نبی پر ختم ہوا جو چودہ سو برس کے ختم ہونے پر آیا اور باپ کی رُو سے بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا اور نہ جہاد کے ساتھ ظاہر ہوا تھا اور نہ اسرائیلی سلطنت کے اندر پیدا ہوا.یہی تمام باتیں خدا نے محمدی مسیح کے لئے پیدا کیں.چودھویں صدی کے سر پر مجھے مامور کرنا اسی حکمت کے لئے تھا کہ تا اسرائیلی مسیح اور محمدی مسیح اس فاصلہ کے رُو سے جو اُن میں اور اُن کے مورث اعلیٰ میں ہے باہم مشابہ ہوں.اور مجھے خدا نے قریش میں سے بھی پیدا نہیں کیا تا پہلے مسیح سے یہ مشابہت بھی حاصل ہو جائے کیونکہ وہ بھی بنی اسرائیل میں سے نہیں اور مَیں تلوار کے ساتھ بھی ظاہر نہیں ہوا.اور میری بادشاہت آسمانی ہے اور یہ بھی اس لئے ہے کہ تا وہ مشابہت قائم رہے.اور مَیں انگریزی سلطنت کے ماتحت مبعوث کیا گیا.اور یہ سلطنت رُومی سلطنت کے مشابہ ہے.اور مجھے امید ہے کہ اس سلطنت کے میرے ساتھ شاہانہ اخلاق رُومی سلطنت سے بہتر ظاہر ہوں گے.اور میری تعلیم وہی ہے جو مَیں اشتہار ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء میں ملک میں شائع کر چکا ہوں.اور وہ یہ کہ اُسی خدا کو مانو جس کے وجود پر توریت ، انجیل اور قرآن تینوں متفق ہیں.کوئی ایسا خدا اپنی طرف سے مت بنائو.جس کا وجود ان تینوں کتابوں کی متفق علیہ شہادت سے ثابت نہیں ہوتا.وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشنس کی گواہی ہے.اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں.خدا کو ایسے طور سے نہ مانو جس سے خدا کی کتابوں میں پھوٹ پڑ جائے.زنا نہ کرو، جھوٹ نہ بولو ،اور بد نظری نہ کرو.اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو اور نفسانی جوشوں کے مغلوب مت ہو.پنجوقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنج طور پر ہی انقلاب آتے ہیں.اور اپنے
نبی کریم کے شکر گزار رہو اور اس پر درود بھیجو کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانہ کے بعد نئے سرے خدا شناسی کی راہ سکھلائی.(۴) عام خلق اللہ کی ہمدردی کرو اور اپنے نفسانی جوشوں سے کسی کومسلمان ہو یا غیر مسلمان تکلیف مت دو.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.(۵) بہرحال رنج و راحت میں خدا تعالیٰ کے وفا دار بندے بنے رہو.اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے مُنہ نہ پھیرو بلکہ آگے قدم بڑھائو.(۶) اپنے رسول کی متابعت کرو اور قرآن کی حکومت اپنے سر پر لے لو کہ وہ خدا کا کلام اور تمہارا سچا شفیع ہے.(۷) اسلام کی ہمدردی اپنی تمام قوتوں سے کرو.اور زمین پر خدا کے جلال اور توحید کو پھیلائو.(۸) مجھ سے اس غرض سے بیعت کرو کہ تا تمہیں مجھ سے رُوحانی تعلق پیدا ہو.اور میرے درخت وجود کی ایک شاخ بن جائو اور بیعت کے عہد پر موت کے وقت تک قائم رہو.یہ وہ میرے سلسلہ کے اصول ہیں جو اس سلسلہ کے لئے امتیازی نشان کی طرح ہیں.جس انسانی ہمدردی اور ترک ایذاء بنی نوع اور ترکِ مخالفت حکام کی یہ سلسلہ بنیاد ڈالتا ہے.دوسرے مسلمانوں میں اس کا وجود نہیں.ان کے اصول اپنی بے شمار غلطیوں کی وجہ سے اور طرز کے ہیں جن کی تفصیل کی حاجت نہیں اور نہ یہ ان کا موقع ہے.اور وہ نام جوا س سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمدیّہ ہے.اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں.یہی نام ہے جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات میں مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے.یعنی مسلمان فرقہ احمدیّہجہاں تک میرے علم میں ہے مَیں یقین رکھتا ہوں کہ آج تک
تیس ہزار کے قریب متفرق مقامات پنجاب اور ہندوستان کے لوگ اس فرقہ میں داخل ہو چکے ہیں.اور جو لوگ ایک قسم کی بد عات اور شرک سے بیزار ہیں اور دل میںیہ فیصلہ بھی کر لیتے ہیں کہ ہم اپنی گورنمنٹ سے منافقانہ زندگی بسر کرنا نہیں چاہتے اور صلح کاری اور بُردباری کی فطرت رکھتے ہیں.وہ لوگ بکثرت اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور عموماً عقل مندوں کی اس طرف ایک تیز حرکت ہو رہی ہے اور یہ لوگ محض عوام میں سے نہیں ہیں بلکہ بعض بڑے بڑے معزز خاندانوں میں سے ہیں.اور ہر ایک تاجر اور ملازمت پیشہ اور تعلیم یافتہ اور علماء اسلام اور رئوسا اس فرقہ میں داخل ہیں.گو بہت کچھ عام مسلمانوں کی طرف سے یہ فرقہ ایذا بھی پارہا ہے لیکن چونکہ اہل عقل دیکھتے ہیں کہ خدا سے پوری صفائی اور اس کی مخلوق سے پوری ہمدردی اور حکام کی اطاعت میں پوری طیاری کی تعلیم اسی فرقہ میں دی جاتی ہے اس لئے وہ لوگ طبعاً اس فرقہ کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں.اور یہ خدا کا فضل ہے کہ بہت کچھ مخالفوں کی طرف سے کوششیں بھی ہوئیں کہ اس فرقہ کو کسی طرح نابود کر دیں.مگر وہ سب کوششیں ضائع گئیں.کیونکہ جو کام خدا کے ہاتھ سے اور آسمان سے ہو انسان اس کو ضائع نہیں کر سکتا اور اس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمدیّہاس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے.ایک محمد صلی اللہ علیہ و سلم.دوسرا احمد صلی اللہ علیہ و سلم.اور اسم محمدؐ جلالی نام تھا اور اس میں مخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اُن دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا.لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم دُنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے.سو خدا نے ان دو ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اوّل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی مکّہ کی زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا.اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمدؐ کا ظہور ہوا.اورمخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی.لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اِسمِ احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی
صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا.پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کوکچھ سروکار نہیں.سو اے دوستو آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک کو جو امن اور صلح کا طالب ہے یہ فرقہ بشارت دیتا ہے.نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں.زیادہ کیا لکھا جائے خدا اس نام میں برکت ڈالے.خداایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں.تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلّی ان کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا ان کا ہو جائے.اے قادر و کریم تو ایسا ہی کر.آمین وَاٰخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ مرزا غلام احمد از قادیان ۴ ؍نومبر ۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان تعداد ۲۸۰۰ (یہ اشتہار بڑے سائز کے ۴ صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد نہم صفحہ ۸۱ تا ۹۱)
۲۳۶ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی ناظرین کو معلوم ہو گا کہ مَیں نے مخالف مولویوں اور سجادہ نشینوں کی ہر روز کی تکذیب اور زبان درازیاں دیکھ کر اور بہت سی گالیاں سُن کر اُن کی درخواست کے بعد کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جائے ایک اشتہار۱؎ شائع کیا تھا جس میں ان لوگوں میں سے مخاطب خاص پیر مہر علی شاہ صاحب تھے.اس اشتہار کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ اب تک مباحثات مذہبی بہت ہو چکے جن سے مخالف مولویوں نے کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھایا.اور چونکہ وہ ہمیشہ آسمانی نشانوں کی درخواست کرتے رہتے ہیںکچھ تعجب نہیں کہ کسی وقت ان سے فائدہ اُٹھالیں.اس بنا پر یہ امر پیش کیا گیا تھا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جو علاوہ کمالات پیری کے علمی توغل کا بھی دم مارتے ہیں اور اپنے علم کے بھروسہ پر جوش میں آ کر انہوں نے میری نسبت فتویٰ تکفیر کو تازہ کیااور عوام کو بھڑکانے کے لئے میری تکذیب کے متعلق ایک کتاب لکھی اور اس میں اپنے مایۂ علمی پر فخر کر کے میری نسبت یہ زور لگایا کہ یہ شخص علم حدیث اور قرآن سے بے خبر ہے.اور اس طرح سرحدی لوگوں کو میری نسبت مخالفانہ جوش دلایا اور علم قرآن کا دعویٰ کیا.اگر یہ دعویٰ ان کا سچ ہے کہ ان کو علم کتاب اللہ میں بصیرت تام عنایت کی گئی ہے تو پھر کسی کو ان کی پیروی سے انکار نہیں کرنا چاہیے.اور علم قرآن سے بلا شبہ با خدا اور ۱؎ یہ اشتہار جلد ھٰذا میں زیر نمبر ۲۲۹ جلد ہذا میں درج ہے.(مرتب)
راست باز ہونا بھی ثابت ہے.کیونکہ بموجب آیت لَا ۱؎ صرف پاک باطن لوگوں کو ہی کتاب عزیز کا علم دیا جاتا ہے.لیکن صرف دعویٰ قابل تسلیم نہیں بلکہ ہر ایک چیز کا قدر امتحان سے ہو سکتا ہے.اور امتحان کا ذریعہ مقابلہ ہے کیونکہ روشنی ظلمت سے ہی شناخت کی جاتی ہے.اور چونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس الہام سے مشرف فرمایا کہ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنُ کہ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا اس لئے میرے لئے صدق یا کذب کے پرکھنے کے لئے یہ نشان کافی ہو گا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب میرے مقابل پر کسی سورۃ قرآن شریف کی عربی فصیح بلیغ میں تفسیرلکھیں.اگر وہ فائق اور غالب رہے تو پھر ان کی بزرگی ماننے میں مجھ کو کلام نہیں ہو گا.پس مَیں نے اس امر کو قرار دے کر ان کی دعوت میں اشتہار شایع کیا جس میں سراسر نیک نیتی سے کام لیا گیا تھا لیکن اس کے جواب میں جس چال کو انہوں نے اختیار کیا ہے.اس سے صاف ثابت ہو گیا کہ اُن کو قرآن شریف سے کچھ بھی مناسبت نہیں اور نہ علم میں کچھ دخل ہے یعنی انہوں نے صاف گریز کی راہ اختیار کی.اور جیسا کہ عام چال بازوں کا دستور ہوتا ہے.یہ اشتہار شایع کیا کہ اوّل مجھ سے حدیث اور قرآن سے اپنے عقائد میں فیصلہ کر لیں پھر اگر مولوی محمد حسین اور ان کے دوسرے دو رفیق کہہ دیں کہ مہر علی شاہ کے عقائد صحیح ہیں تو بلا توقف اسی وقت میری بیعت کر لیں.پھر بیعت کے بعد عربی تفسیر لکھنے کی بھی اجازت دی جائے گی مجھے اس جواب کو پڑھ کر بلا اختیار ان کی حالت پر رونا آیا ا ور ان کی حق طلبی کی نسبت جو امیدیں تھیں.سب خاک میں مل گئیں.اب اس اشتہار لکھنے کا یہ موجب نہیں ہے کہ ہمیں ان کی ذات پر کچھ امید باقی ہے بلکہ یہ موجب ہے کہ باوصف اس کے کہ اس معاملہ کو دو مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا مگر اب تک ان کے متعلقین سبّ وشتم سے باز نہیں آتے۲؎ اور ہفتہ میں کوئی نہ کوئی ایسا اشتہار پہنچ جاتا ہے جس میں پیر ۱؎ الواقعۃ : ۸۰ ۲؎ منشی الہٰی بخش صاحب اکونٹنٹ نے بھی اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں پیر صاحب کوئی جھوٹی فتح کا ذکر کر کے جو چاہا کہا ہے.بات تو تب ہے کہ کوئی انسان حیا اور انصاف کی پابندی کرکے کوئی امرثابت بھی کرے.ظاہر ہے کہ اگر منشی صاحب کے نزدیک پیر مہر علی شاہ صاحب علم قرآن اور زبان عربی سے
مہر علی شاہ کو آسمان پر چڑھایا ہوا ہوتا ہے اور میری نسبت گالیوںسے کاغذ بھرا ہوا ہوتا ہے اور عوام کو دھوکہ پر دھوکہ دے رہے ہیں اور میری نسبت کہتے ہیں کہ دیکھو اس شخص نے کس قدر ظلم کیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے مقدس انسان بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے صعوبت سفر اُٹھا کر لاہور میںپہنچے مگر یہ شخص اس بات پر اطلاع پاکر درحقیقت وہ بزرگ نابغہ زمان اور سحبان دوران اور علم معارف قرآن میں لاثانی روز گارہیں اپنے گھر کے کسی کوٹھہ میں چھپ گیا ورنہ حضرت پیر صاحب کی طرف سے معارف قرآنی کے بیان کرنے اور عربی کی بلاغت فصاحت دکھلانے میں بڑا نشان ظاہر ہوتا.لہذا آج میرے دل میں ایک تجویز خدا تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی جس کو مَیں اتمام حجت کے لئے پیش کرتا ہوں اور یقین ہے کہ پیر مہر علی صاحب کی حقیقت اس سے کھُل جائے گی کیونکہ تمام دُنیا اندھی نہیں ہے.انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو کچھ انصاف رکھتے ہیں.اور وہ تدبیریہ ہے کہ آج بقیہ حاشیہ : کچھ حصّہ رکھتے ہیں جیسا کہ وہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں.تو اب چارجز عربی تفسیر سورۃ فاتحہ کی ایک لمبی مہلت ستر ۷۰دن میں اپنے گھر میں ہی بیٹھ کر اور دوسروں کی مدد بھی لے کر میرے مقابل پر لکھنا ان کے لئے کیا مشکل بات ہے.ان کی حمایت کرنے والے اگر ایمان سے حمایت کرتے ہیں تو اب تو اُن پر زور دیں ورنہ ہماری یہ دعوت آئندہ نسلوں کے لئے بھی ایک چمکتا ہوا ثبوت ہماری طرف سے ہو گا کہ اس قدر ہم نے اس مقابلہ کے لئے کوشش کی.پانسو ۵۰۰روپیہ انعام دینا بھی کیا لیکن پیر صاحب اور ان کے حامیوںنے اس طرف رُخ نہ کیا.ظاہر ہے کہ اگر بالفرض کوئی کُشتی د۲و پہلوانوں کی مشتبہ ہو جائے تو دوسری مرتبہ کشتی کرائی جاتی ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ ایک فریق تو اس دوبارہ کُشتی کے لئے کھڑا ہے تا احمق انسانوں کا شبہ دُور ہو جائے اور دوسراشخص جیتتا ہے اور میدان میں اس کے مقابل پر کھڑا نہیں ہوتا اور بے ہودہ عذر پیش کرتا ہے.ناظرین برائے خدا ذرا سوچو کہ کیا یہ عذر بد نیتی سے خالی ہے کہ پہلے مجھ سے منقولی بحث کرو.پھر اپنے تین۳ دشمنوں کی مخالفانہ گواہی پر میری بیعت بھی کر لو اور اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ تمہارا خدا سے وعدہ ہے کہ ایسی بحثیں مَیں کبھی نہ کروں گا.پھر بیعت کرنے کے بعد بالمقابل تفسیر لکھنے کی اجازت ہو سکتی ہے.یہ پیر صاحب کا جواب ہے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شرط دعوت منظور کر لی تھی.منہ
میں ان متواتر اشتہارات کا جو پیر مہرعلی شاہ صاحب کی تائید میں نکل رہے ہیں یہ جواب دیتا ہوں کہ اگردرحقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب علم معارف قرآن اور زبان عربی کی ادب اور فصاحت بلاغت میں یگانہ روزگار ہیں تو یقین ہے کہ اب تک وہ طاقتیں ان میں موجود ہوں گی.کیونکہ لاہور آنے پر ابھی کچھ بہت زمانہ نہیں گذرا.اس لئے مَیں یہ تجویز کرتا ہوں کہ میں اسی جگہ بجائے خود سورۃ فاتحہ کی عربی فصیح میں تفسیر لکھ کر اس سے اپنے دعویٰ کو ثابت کروں اور اس کے متعلق معارف اور حقایق سورہ ممدوحہ کے بھی بیان کروں اور حضرت پیر صاحب میرے مخالف آسمان سے آنے والے مسیح اور خونی مہدی کا ثبوت اس سے ثابت کریں اور جس طرح چاہیں سُورۃ فاتحہ سے استنباط کر کے میرے مخالف عربی فصیح بلیغ میں براہین قاطعہ اور معارف ساطعہ تحریر فرما ویں.یہ دونوں کتابیں دسمبر ۱۹۰۰ء کی پندرہ تاریخ سے ستر۷۰ دن تک چھپ کر شائع ہو جانی چاہیے.۱؎ تب اہل علم لوگ خود مقابلہ اور موازنہ کر لیں گے.اور اگر اہل علم میں سے تین۳ کس جوادیب اور اہل زبان ہوں اور فریقین سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں قسم کھا کر کہہ دیں کہ پیر صاحب کی کتاب کیا بلاغت اور فصاحت کے رُو سے اور کیا معارف قرآنی کے رُو سے فائق ہے تو میں عہد صحیح شرعی کرتا ہوں کہ پانسو روپیہ نقدبلا توقف پیر صاحب کی نذر کروں گا.اور اس صورت میں اس کوفت کا بھی تدارک ہو جائے گا جو پیر صاحب سے تعلق رکھنے والے ہر روز بیان کرکے روتے ہیں جو ناحق پیر صاحب کو لاہور آنے کی تکلیف دی گئی.اور یہ تجویز پیر صاحب کے لئے بھی سراسر بہتر ہے.کیونکہ پیر صاحب کو شاید معلوم ہو یا نہ ہو کہ عقل مند لوگ ہر گز اس بات کے قائل نہیں کہ پیر صاحب کو علم قرآن میں کچھ دخل ہے یا وہ عربی فصیح بلیغ کی ایک سطر بھی لکھ سکتے ہیں.بلکہ ہمیں اُن کے خاص دوستوں سے یہ روایت پہنچی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بہت خیر ہوئی کہ پیر صاحب کو بالمقابل تفسیر عربی لکھنے کا اتفاق پیش نہیں آیا.ورنہ اُن کے تمام دوست اُن کے طفیل سے شَاھَتِ الْوُجُوْہُ سے ۱؎ یعنی ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۲۵؍فروری ۱۹۰۱ء تک میعاد تفسیر لکھنے کی ہے اور چھپائی کے دن بھی اسی میں ہیں.ستر۷۰ دن میں دونوں فریق کی کتابیں شائع ہو جانی چاہئیں.منہ
ضرور حصہ لیتے.سو اس میں کچھ شک نہیں کہ اُن کے بعض دوست جن کے دلوں میں یہ خیالات ہیں.جب پیر صاحب کی عربی تفسیر مز ّین بہ بلاغت و فصاحت دیکھ لیں گے تو اُن کے پوشیدہ شبہات جو پیر صاحب کی نسبت رکھتے ہیں جاتے رہیں گے اور یہ امر موجب رجوع خلائق ہو گا جو اس زمانہ کے ایسے پیر صاحبوں کا عین مدعا ہوا کرتا ہے.اور اگر پیر صاحب مغلوب ہوئے تو تسلیّ رکھیں کہ ہم اُن سے کچھ نہیں مانگتے اور نہ اُن کو بیعت کے لئے مجبور کرتے ہیں.صرف ہمیں یہ منظور ہے کہ پیر صاحب کے پوشیدہ جوہر اور قرآن دانی کے کمالات جس کے بھروسہ پر انہوں نے میرے ردّ میں کتاب تالیف کی لوگوں پر ظاہر ہو جائیں اور شاید زلیخاؔ کی طرح اُن کے منہ سے بھی اَ نکل آئے.اور ان کے نادان دوست اخبار نویسوں کو بھی پتہ لگے کہ پیر صاحب کس سرمایہ کے آدمی ہیں.مگر پیر صاحب دلگیر نہ ہوں ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور محمد حسین بھیں وغیرہ کو بلا لیں بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دوچار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں.فریقین کی تفسیر چا۴رجز سے کم نہیں ہونی چاہیے اور اگر میعاد مجوزہ تک یعنی ۱۵ ؍ دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۲۵؍ فروری ۱۹۰۱ء تک جو ستر۷۰ دن ہیں.فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تووہ جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مرزا غلام احمد از قادیاں ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے چار صفحہ پر ہے) (روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۷۹ تا ۴۸۴)
شتاب کار نکتہ چینیوں کے لئے مختصر تحریراور براہین احمدیہ کا ذکر (ملحقہ اربعین نمبر۴) چونکہ یہ بھی سنت اﷲ ہے کہ ہر ایک شخص جو خدا کی طرف سے آتا ہے بہت سے کوتہ اندیش ناخدا ترس اس کی ذاتیات میں دخل دے کر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کیا کرتے ہیں.کبھی اس کو کاذب ٹھہراتے ہیں کبھی اس کو عہد شکن قرار دیتے ہیں اور کبھی اس کو لوگوں کے حقوق تلف کرنے والا اور مال خور اور بددیانت اور خائن قرار دیتے ہیں.کبھی اس کا نام شہوت پرست رکھتے ہیں اور کبھی اس کو عیاش اور خوش پوش اور خوش خور سے موسوم کرتے ہیں اور کبھی جاہل کر کے پکارتے ہیں.۱؎ ا ور کبھی اس کو ان صفت سے شہرت دیتے ہیں کہ وہ ایک خود پرست متکبّر بدخلق ہے.لوگوں کو گالیاں دینے والا اور اپنے مخالفین کو سبّ و شتم کرنے والا بخیل زر پرست کذّاب دجّال ۱؎ افسوس کہ علمی نشان کے مقابلہ میں نادان لوگوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی نسبت ناحق جھوٹی فتح کا نقارہ بجا دیا اور مجھے گندی گالیاں دیں اور مجھے اس کے مقابلہ پر جاہل اور نادان قرار دیا.گویا مَیں اس نابغہ وقت اورسحبان زمان کے رعب کے نیچے آکر ڈر گیا ورنہ وہ حضرت تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے طیار ہو گئے تھے اور اسی نیّت سے لاہور تشریف لائے تھے پر مَیں آپ کی جلالت شان اور علمی شوکت کو دیکھ کر بھاگ گیا.اے آسمان جھوٹوں پر لعنت کر.آمین.پیارے ناظرین کاذب کے رسوا کرنے کے لئے اس وقت جو ۷ ؍ دسمبر ۱۹۰۰ء روز جمعہ ہے.خدا نے میرے دل میں ایک بات ڈالی
بے ایمان خونی ہے.یہ سب خطاب ان لوگوں کی طرف سے خدا کے نبیوں اور مامورین کو ملتے ہیں جو سیاہ باطن اور دل کے اندھے ہوتے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت بھی یہی اعتراض اکثر خبیث فطرت لوگوں کے ہیں کہ اس نے اپنی قوم کے لوگوں کو رغبت دی کہ تا وہ مصریوں کے سونے چاندی کے برتن اور زیور اور قیمتی کپڑے عاریتاً مانگیں اور محض دروغگوئی کی راہ سے کہیں کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں.چند روز تک یہ تمہاری چیزیں واپس لا کر دے دیں گے اور دل میں دغا تھا.آخر عہد شکنی کی اور جھوٹ بولا اور بیگانہ مال اپنے قبضہ میں لا کر کنعان کی طرف بھاگ گئے.اور درحقیقت یہ تمام اعتراضات ایسے ہیں کہ اگر معقولی طور پر اُن کا جواب دیا جائے تو بہت سے احمق اور پست فطرت ان جوابات سے تسلّی نہیں پا سکتے.اس لئے خدا تعالیٰ کی عادت بقیہ حاشیہ.ہے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کا جہنّم جھوٹوں کے لئے بھڑک رہا ہے کہ مَیں نے سخت تکذیب کو دیکھ کر خود اس فوق العادت مقابلہ کے لئے درخواست کی تھی.اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب مباحثہ منقولی اور اس کے ساتھ بیعت کی شرط پیش نہ کرتے جس سے میرا مدّعا بکلّی کالعدم ہو گیا تھا تو اگر لاہور اورقادیان میں برف کے پہاڑ بھی ہوتے اور جاڑے کے دن ہوتے تو مَیں تب بھی لاہور پہنچتا اور ان کو دکھلاتا کہ آسمانی نشان اس کو کہتے ہیں.مگر انہوں نے مباحثہ منقولی اور پھر بیعت کی شرط لگا کر اپنی جان بچائی اور اس گندے مکر کے پیش کرنے سے اپنی عزت کی پر وا نہ کی.لیکن اگر پیر جی حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیںکیا تو اب بھی وہی قدرت ان میں ضرور موجود ہوگی.لہٰذا مَیں اُن کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اس میری درخواست کو اس رنگ پر پورا کردیں کہ میرے دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں سورۃ فاتحہ کی ایک تفسیر لکھیں جو چارجز سے کم نہ ہو.اور مَیں اسی سورۃ کی تفسیر بِفَضْلِ اﷲِ وَقُوَّتِـہٖ اپنے دعویٰ کے اثبات سے متعلق فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا.انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیر میں تمام دُنیا کے علماء سے مدد لے لیں.عرب کے بلغاء فصحاء بلالیں.لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لئے طلب کر لیں.۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء سے ستر۷۰ دن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے.ایک دن بھی زیادہ نہیں ہو گا.اگر
یسے نکتہ چینوں کے جواب میں یہی ہے کہ جو لوگ اس کی طرف سے آتے ہیں ایک عجیب طور پر اُن کی تائید کرتا ہے اور متواتر آسمانی نشان دکھلاتا ہے یہاں تک کہ دانشمند لوگوں کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر یہ شخص مفتری اور آلودہ دامن ہوتا تو اس قدر اس کی تائید کیوں ہوتی کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا ایک مفتری سے ایسا پیار کرے جیسا کہ وہ اپنے صادق دوستوں سے کرتا رہا ہے.اسی کی طرف اﷲ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے..َ.۱؎ یعنی ہم نے ایک فتح عظیم جو ہماری طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے تجھ کو عطا کی ہے تاہم وہ تمام گناہ جو تیری طرف منسوب کئے جاتے ہیں اُن پر اس فتح نمایاں کی نورانی چادر ڈال کر نکتہ چینوں کا خطاکار ہونا ثابت کروں.غرض قدیم سے اور جب سے کہ سلسلۂ انبیاء علیہم السلا م شروع ہوا ہے سنت اﷲ یہی ہے کہ وہ ہزاروں نکتہ چینیوں کا ایک ہی جواب دے دیتا ہے یعنی تائیدی نشانوں سے مقرب ہونا بقیہ حاشیہ.بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب اُن کی تفسیر کو جامع لوازم بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پُرخیال کریں تو مَیں پانسو۵۰۰ روپیہ نقد ان کو دوں گا.اور تمام اپنی کتابیں جلادوں گا اور اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا.اور اگر قضیہ برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی ستر۷۰ روز تک وہ کچھ بھی لکھ نہ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش.صرف یہی دکھلائوں گا کہ کیسے انہوں نے پیر کہلا کر قابل شرم جھوٹ بولا اور کیسے سراسر ظلم اور سفلہ پن اور خیانت سے بعض اخباروالوں نے ان کی اپنی اخباروں میں حمایت کی.مَیں اس کام کو انشاء اﷲ تحفہ گولڑویہ کی تکمیل کے بعد شروع کردوں گا.اور جو شخص ہم میں سے صادق ہے.وہ ہرگز شرمندہ نہیں ہو گا.اور اب وقت ہے کہ اخباروں والے جنہوں نے بغیر دیکھے بھالے کے اُن کی حمایت کی تھی اُن کو اس کام کے لئے اُٹھاویں.ستّر ۷۰دن میں یہ بات داخل ہے کہ فریقین کی کتابیں چھپ کر شایع ہو جائیں.منہ ۱؎ الفتح : ۲ ، ۳
ثابت کردیتا ہے.تب جیسے نور کے نکلنے اور آفتاب کے طلوع ہونے سے یکلخت تاریکی دُور ہو جاتی ہے ایسا ہی تمام اعتراضات پاش پاش ہو جاتے ہیں.سو مَیں دیکھتا ہوں کہ میری طرف سے بھی خدا یہی جواب دے رہا ہے.اگر مَیں سچ مچ مفتری اور بدکار اور خائن اور دروغگو تھا تو پھر میرے مقابلہ سے ان لوگوں کی جان کیوں نکلتی ہے.بات سہل تھی.۱؎ کسی آسمانی نشان کے ذریعہ سے میرا اور اپنا فیصلہ خدا پر ڈال دیتے اور پھر خدا کے فعل کو بطور ایک حَکم کے فعل کے مان لیتے.۱؎ مَیں اس مقام تک پہنچا تھا کہ منشی الٰہی بخش اکونٹنٹ کی کتاب عصائے موسیٰ مجھ کو ملی جس میں میری ذاتیات کی نسبت محض سو ئِ ظن سے اور خدا کی بعض سچی اور پاک پیشگوئیوں پر سراسر شتابکاری سے حملے کئے گئے ہیں.وہ کتاب جب مَیں نے ہاتھ سے چھوڑی تو تھوڑی دیر کے بعد منشی الٰہی بخش صاحب کی نسبت یہ الہام ہوا.یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّرَوْا طَمَثَکَ وَاﷲُ یُرِیْدُاَنْ یُّرِیَکَ اِنْعَامَہٗ.اَ لْاِنْعَامَاتِ الْمُتَوَاتِرَۃِ.اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ.وَاﷲُ وَلِیُّکَ وَ رَبُّکَ.فَقُلْنَا یَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًا.اِنَّ اﷲَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ یُحْسِنُوْنَ الْحُسْنٰی.ترجمہ.یہ لوگ خون حیض تجھ میں دیکھنا چاہتے ہیں یعنی ناپاکی اور پلیدی اور خباثت کی تلاش میں ہیں اور خدا چاہتا ہے کہ اپنی متواتر نعمتیں جو تیرے پر ہیں دکھلاوے.اور خون حیض سے تجھے کیونکر مشابہت ہو اور وہ کہاں تجھ میں باقی ہے.پاک تغیرات نے اس خون کو خوبصورت لڑکا بنا دیا اور وہ لڑکا جو اس خون سے بنا میرے ہاتھ سے پیدا ہوا.اس لئے تو مجھ سے بمنزلہ اولاد کے ہے یعنی گو بچوں کا گوشت پوست خون حیض سے ہی پیدا ہوتا ہے.مگر وہ خون حیض کی طرح ناپاک نہیں کہلا سکتے.اسی طرح تو بھی انسان کی فطرتی ناپاکی سے جولازم بشریت ہے اور خون حیض سے مشابہ ہے ترقی کر گیا ہے.اب اس پاک لڑکے میں خون حیض کی تلاش کرنا حمق ہے.وہ تو خدا کے ہاتھ سے غلام زکی بن گیا اور اس کے لئے بمنزلہ اولاد کے ہو گیا اور خدا تیرا متولی اور تیرا پرورندہ ہے اس لئے خاص طور پر پدری مشابہت درمیان ہے جس آگ کو اس کتاب عصائے موسیٰ سے بھڑکانا چاہا ہے ہم نے اس کو بجھا دیا ہے.خد اپرہیزگاروں کے ساتھ ہے جو نیک کاموں کو پوری خوبصورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور تقویٰ کے باریک پہلوئوں کا لحاظ رکھتے ہیں.
.مگر ان لوگوں کو اس قسم کے مقابلہ کا نام سننے سے بھی موت آتی ہے.مہر علی شاہ گولڑوی کو سچا ماننا اور یہ سمجھ لینا کہ وہ فتح پا کر لاہور سے چلا گیا ہے کیا یہ اس بات پر قوی دلیل نہیں ہے کہ ان لوگوں کے دل مسخ ہو گئے ہیں.نہ خدا کا ڈر ہے نہ روزِ حساب کا کچھ خوف ہے.ان لوگوں کے دل جرأت اور شوخی اور گُستاخی سے بھر گئے ہیں گویا مرنا نہیں ہے.اگر ایمان اور حیا سے کام لیتے تو بقیہ حاشیہ.یعنی وہ لوگ جو بغیر تفتیش کے آیت کریمہ ۱؎ کا مصداق بنتے ہیں خدا ان کے ساتھ نہیں ہے اور ان کے لئیوَیْل یعنی جہنّم کا وعدہ ہے.افسوس کہ منشی صاحب نے ان بے ہودہ نکتہ چینیوں کے پہلے اس آیت پر غور نہیں کی.مگر اچھا ہوا کہ انہوں نے باقرار ان کے اس بدگوئی کا خدا تعالیٰ سے دست بدست جواب بھی پالیا یعنی بارہا ان کو وہ الہام ہوا جو کتاب عصائے موسٰی میں درج ہے.یعنی اِنِّیْ مُھِیْنٌ لِّمَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.یعنی مَیں تجھے اس شخص کی حمایت میں ذلیل کروں گا جس کی نسبت تیرا خیال ہے جو وہ مجھے ذلیل کرنا چاہتا ہے یعنی یہ عاجز.اب دیکھو کہ یہ کیسا چمکتا ہوا نشان ہے جس نے آیت کی بلاتوقف تصدیق کر دی.دُنیا کے تمام مولویوں سے پوچھ لو کہ اس الہام کے یہی معنے ہیں.اور لفظ مُھِیْنٌ قائم مقام مُھِیْنُکَ کا ہے.اور یہ ایک بڑا نشان ہے.اگر منشی الٰہی بخش صاحب خدا سے ڈریں.اہانت کے لئے منشی صاحب کو د۲و ہی راہیں سوجھی ہیں.(۱) ایک یہ کہ جس قدر کتابوں کا وعدہ کیا تھا.وہ سب شائع نہیں کیں.یہ خیال نہ کیا کہ اگر کچھ دیر ہو گئی تو قرآن شریف بھی تو ۲۳ برس میں ختم ہوا.آپ کو بدنیتی پر کیونکر علم ہو گیا.انسان خدا کی قضاء و قدر کے نیچے ہے.وَاِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ جبکہ یہ بھی بار بار اشتہار دیا گیا کہ جس شتاب کار نے کچھ دیا ہے وہ واپس لے لے تو پھر اعتراض کی کیا گنجائش تھی.بجز خبث نفس (۲) دوسرا یہ اعتراض ہے کہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں.اس کا جواب تو یہی ہے کہ لَعْنَۃُ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.سو سے زیادہ پیشگوئی پوری ہو چکی.ہزاروں انسان گواہ ہیں.اور آتھم کی پیشگوئی شرطی تھی.اپنی شرط کے موافق پوری ہوئی.بھلا فرمایئے کیا وہ الہام شرطی نہیں تھا.سچ ہے انکار کرنا لعنتیوں کا کام ہے.اگر اجتہاد سے ہمارا یہ بھی خیال ہو کہ آتھم میعاد کے اندر مرے گا تو یہ اعتراض صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ پہلے ۱؎ الھمزۃ : ۲
اس کارروائی پر نفرین کرتے جو مہر علی گولڑوی نے میرے مقابل پر کی.کیا مَیں نے اس کو اس لئے بُلایا تھا کہ مَیں اس سے ایک منقولی بحث کر کے بیعت کر لوں؟ جس حالت میں مَیں بار بار کہتا ہوں کہ خدا نے مجھے مسیح موعود مقرر کر کے بھیجا ہے اور مجھے بتلا دیا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی ہے.قرآن کے صحیح معنوں سے مجھے اطلاع بخشی ہے تو پھر مَیں کس بات میں اور کس غرض کے لئے ان لوگوں سے منقولی بحث کروں جب کہ مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن کریم پر.تو کیا انہیں مجھ سے یہ توقع ہو سکتی ہے کہ مَیں اُن کے ظنیات بلکہ موضوعات کے ذخیرہ کو سُن کر اپنے یقین کو چھوڑ دوں جس کی حق الیقین پر بنا ہے اور وہ لوگ بھی اپنی ضد کو چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ میرے مقابل پر جھوٹی کتابیں شائع کر چکے ہیں.اور اب اُن کو رجوع اَشَدُّ مِنَ الْمَوْتِ ہے تو پھر ایسی حالت میں بحث سے کونسا فائدہ مترتب ہو سکتا تھا.اور جس حالت میں مَیں نے اشتہار دے دیا کہ آئندہ کسی مولوی وغیرہ سے منقولی بحث نہیں کروں گا تو انصاف اور نیک نیتی کا تقاضا یہ تھا کہ ان منقولی بحثوں کا میرے سامنے نام بھی نہ لیتے.کیا مَیں اپنے عہد کو توڑ سکتا تھا؟ پھر اگر مہر علی شاہ کا دل فاسد نہیں تھا تو اس نے ایسی بحث کی مجھ سے بقیہ حاشیہ.آپ اسلام سے مُرتد ہو جائیں کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اجتہاد بھی حدیث ذَہَبَ وَہْلِیْ کی رو سے غلط نکلا.لہٰذا اس غلطی کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ کے اصول کی رُو سے کاذب ٹھیرے.پہلے اس سوال کا جواب دو.پھر میرے پر اعتراض کرو.اسی طرح احمد بیگ کے داماد کے متعلق بھی شرطی پیشگوئی ہے.اگر کچھ ایمان باقی ہے تو کیوں شرط کی انتظار نہیں کرتے اور یہ کیسی دیانت تھی کہ ساری کتاب میں لیکھرام کے متعلق کی پیشگوئی کا ذکر بھی نہیں کیا.کیا وہ پیشگوئی پوری ہوئی یا نہیں؟ کیا احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر مر گیا یا نہیں؟ ابھی کل کی بات ہے کہ آپ کے معزز دوست ڈپٹی فتح علی شاہ صاحب نے میرے استفسار پر بڑے یقین سے گواہی دی تھی کہ نہایت صفائی سے لیکھرام کے متعلق کی پیشگوئی پوری ہو گئی.اب اسی جماعت میں سے ہو کر آپ تکذیب کرنے لگے.منہ
کیوں درخواست کی جس کو مَیں عہد مستحکم کے ساتھ ترک کر بیٹھا تھا اور اس درخواست میں لوگوں کو یہ دھوکا دیا کہ گویا وہ میری دعوت کو قبول کرتا ہے دیکھو یہ کیسے عجیب مکر سے کام لیا اور اپنے اشتہار میں یہ لکھا کہ اوّل منقولی بحث کرو.اور اگر شیخ محمد حسین بٹالوی اور اس کے دو رفیق قسم کھا کر کہہ دیں کہ عقائد صحیح وہی ہیں جو مہر علی شاہ پیش کرتا ہے تو بلاتوقف اسی مجلس میں میری بیعت کر لو.اب دیکھو دنیا میں اس سے زیادہ بھی کوئی فریب ہوتا ہے.؟ مَیں نے تو اُن کو نشان دیکھنے اور نشان دکھلانے کے لئے بُلایا اور یہ کہا کہ بطور اعجاز دونوں فریق قرآن شریف کی کسی سورۃ کی عربی میں تفسیر لکھیں اور جس کی تفسیر اور عربی عبارت فصاحت اور بلاغت کے رُو سے نشان کی حد تک پہنچی ہوئی ثابت ہو وہی مؤید من اﷲ سمجھا جائے اور صاف لکھ دیا کہ کوئی منقولی بحثیں نہیں ہوں گی صرف نشان دیکھنے اور دکھلانے کے لئے یہ مقابلہ ہو گا لیکن پیر صاحب نے میری اس تمام دعوت کو کالعدم کر کے پھر منقولی بحث کی درخواست کر دی اوراسی کو مدار فیصلہ ٹھہرا دیا اور لکھ دیا کہ ہم نے آپ کی دعوت منظور کر لی صرف ایک شرط زیادہ لگا دی.اے مکّار! خدا تجھ سے حساب لے.تُونے میری شرط کا کیا منظور کیا جبکہ تیری طرف سے منقولی بحث پر بیعت کا مدار ہو گیا جس کو مَیں بوجہ مشتہر کردہ عہد کے کسی طرح منظور نہیں کر سکتا تھا تو میری دعوت کیا قبول کی گئی؟ اور بیعت کے بعد اس پر عمل کرنے کا کونسا موقع رہ گیا.کیا یہ مکر اس قسم کا ہے کہ لوگوں کا یہ ایمان ہے.اس قدر ظلم کر کے پھر اپنے اشتہاروں میں ہزاروں گالیاں دیتے ہیں گویا مرنا نہیں.اور کیسی خوشی سے کہتے ہیں کہ مہر علی شاہ صاحب لاہور میں آئے ان سے مقابلہ نہ کیا.جن دلوں پر خدا لعنت کرے مَیں ان کا کیا علاج کروں.میرا دل فیصلہ کے لئے دردمند ہے.ایک زمانہ گذر گیا میر ی یہ خواہش اب تک پوری نہیں ہوئی کہ ان لوگوں میں سے کوئی راستی اور ایمانداری اور نیک نیتّی سے فیصلہ کرنا چاہے مگر افسوس کہ یہ لوگ صدق دل سے میدان میں نہیں آتے.خدا فیصلہ کے لئے طیاّر ہے اور اُس اُونٹی کی طرح جو بچہ جننے کے لئے دُم اُٹھاتی ہے زمانہ خود فیصلہ کا تقاضا کرتارہا ہے.کاش اُن میں سے کوئی فیصلہ کا طالب ہو.کاش ان میں سے کوئی رشید ہو.مَیں بصیرت سے
دعوت کرتا ہوں اور یہ لوگ ظن پر بھروسہ کر کے میرا انکار کر رہے ہیں.ان کی نکتہ چینیاں بھی اسی غرض سے ہیں کہ کسی جگہ ہاتھ پڑ جائے.اے نادان قوم!یہ سلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے.تم خدا سے مت لڑو.تم اس کو نابود نہیں کر سکتے.اس کا ہمیشہ بول بالا ہے.تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟بجز ان چند حدیثوں کے جو تہتّر فرقوں نے بوٹی بوٹی کر کے باہم تقسیم کر رکھی ہیں.رئویت حق اور یقین کہاں ہے؟ اور ایک دوسرے کے مکذّب ہو.کیا ضرور نہ تھا کہ خدا کا حکم یعنی فیصلہ کرنے والا تم میں نازل ہو کر تمہاری حدیثوں کے انبار میں سے کچھ لیتا اور کچھ ردّ کر دیتا.سو یہی اس وقت ہوا.وہ شخص حَکَم کس بات کا ہے جو تمہاری سب باتیں مانتا جائے اور کوئی بات ردّ نہ کرے.اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو.اور اس سلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے پید اہوا.اور یقینا سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری ایسی جلدی ہلاک ہو جاتا کہ اب اس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ ملتا.سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو.کم سے کم یہ تو سوچو کہ شاید غلطی ہو گئی ہو اور شاید یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو.اور کیوں مجھ پر یہ الزام لگاتے ہو کہ براہین احمدیہ کا روپیہ کھا گیا ہے۱؎ اگر میرے پر تمہارا کچھ حق ہے جس کاا یماناً تم مؤاخذہ کر سکتے ہو.یا اب تک مَیں نے تمہارا کوئی قرضہ ادا نہیں کیا.یاتم نے اپنا حق مانگا اور میری طرف سے انکار ہوا تو ثبوت پیش کر کے وہ مطالبہ مجھ سے کرو.مثلاً اگر مَیں نے براہین احمدیہ کی قیمت کا روپیہ تم سے وصول کیا ہے تو تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے جس کے سامنے حاضر کئے جائو گے کہ براہین احمدیہ کے وہ چاروں حصے میرے حوالے کرو اور اپنا روپیہ لے لو.دیکھو مَیں کھول کر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ اب اس کے بعد اگر تم براہین احمدیہ کی قیمت کا مطالبہ کرو اور چاروں حصے بطور ویلیو پی ایبل میرے کسی دوست کو دکھا کر میری طرف بھیج دو اور مَیں ان کی قیمت بعد لینے ان چہار حصوں کے ادا نہ کروں تو میرے پرخدا کی لعنت.اور اگر تم اعتراض سے باز نہ آئو اور نہ کتاب کو واپس کر کے اپنی قیمت لو تو پھر تم پر ۱؎ منشی الہٰی بخش صاحب نے جھوٹے الزاموں اور بہتان اور خلاف واقعہ کی نجاست
خدا کی لعنت ہو.اسی طرح ہر ایک حق جو میرے پر ہو ثبوت دینے کے بعد مجھ سے لے لو.اب بتلائو اس سے زیادہ مَیں کیا کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی حق کا مطالبہ کرنے والا یوں نہیں اُٹھتا تو مَیں بقیہ حاشیہ.سے اپنی کتاب عصائے موسیٰ کو ایسا بھر دیا ہے جیسا کہ ایک نالی اور بدررو گندی کیچڑسے بھری جاتی ہے یا جیسا کہ سنڈاس پاخانہ سے.اور خدا سے بے خوف ہو کر میری عزت پر افترا کے طور پر سخت دشمنوں کی طرح حملہ کیا ہے.وہ یقینا سمجھ لیں کہ یہ کام انہوں نے اچھا نہیں کیا اور جو کچھ انہوں نے لکھا ہے ان گالیوں سے زیادہ نہیں جو حضرت موسیٰ کو دی گئیں اور حضرت مسیح کو دی گئیں.اور ہمارے سیّد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں.افسوں انہوں نے آیت ۱؎کے ویل کے وعید سے کچھ بھی اندیشہ نہیں کیا اورنہ انہوں نے آیت ۲؎ کی بھی کچھ پروا کی.وہ بار بار میری نسبت لکھتے ہیں کہ مَیں نے ان کو تسلّی دے دی کہ آپ کے افترا کی وجہ سے کسی انسانی عدالت میں آپ پر نالش نہیں کروں گا بلکہ میں خدا کی عدالت میں بھی نالش نہیں کرتا.لیکن چونکہ آپ نے محض جھوٹے اور قابل شرم الزام میرے پر لگائے ہیں اور مجھے ناکردہ گناہ دُکھ دیا ہے اس لئے مَیں ہر گز یقین نہیں رکھتا کہ میں اس وقت سے پہلے مروں جب تک کہ میرا قادر خدا ان جھوٹے الزاموں سے مجھے بری کر کے آپ کا کاذب ہونا ثابت نہ کر دے.اَلَا اِنَّ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.اسی کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر مجھ کو ۱۱؍ دسمبر ۱۹۰۰ ء روز پنج شنبہ کو یہ الہام ہوا.بر مقام فلک شدہ یا رب.گر امیدے دہم مدارعجب بعد ۱۱.انشاء اللہ تعالیٰ.مَیں نہیں جانتا کہ گیاراں دن ہیں یا گیاراں ہفتہ یا گیاراں مہینے یا گیاراں سال.مگر بہرحال ایک نشان میری بریّت کے لئے اس مدت میں ظاہر ہو گا جو آپ کو سخت شرمندہ کرے گا.خدا کے کلام پر ہنسی نہ کرو.پہاڑ ٹل جاتے ہیں.دریا خشک ہو سکتے ہیں.موسم بدل جاتے ہیں مگر خدا کا کلام نہیں بدلتا جب تک پورا نہ ہو لے.اور منکر کہتا ہے کہ فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اے سخت دل خدا سے شرم کر ،وہ تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئیں اور یہ زمانہ نہیں گذرے گا.جب تک باقی ماندہ حصہ پورا نہ ہو جائے.اب تک سو۱۰۰ سے زیادہ پیشگوئیاں دنیا نے دیکھ لیں.کیوں حیا کو ترک کرتے اور انصاف کو چھوڑتے ہو.منہ ۱؎ الھمزۃ : ۲ ۲؎ بنی اسراء یل : ۳۷
لعنت کے ساتھ اس کو اُٹھاتا ہوں.اور مَیں پہلے سے براہین کی قیمت کے بارے میں تین اشتہار شائع کر چکا ہوں جن کا یہی مضمون تھا کہ مَیں قیمت واپس دینے کو طیاّرہوں.چاہیے کہ میری کتاب کے چاروں حصے واپس دیں اور جن دراہم معدودہ کے لئے مَر رہے ہیں وہ مجھ سے وصول کر یں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ تَّبَعَ الْہُدٰی المشتــــــــــــــــہر مرزا غلام احمد قادیانی ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء (اربعین نمبر۴، روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۸ ۴تا ۴۵۸)
۲۳۸ اسلام کے لیے ایک رُوحانی مقابلہ کی ضرورت (ملحقہ اربعین نمبر ۴) اَیُّہَا النَّاظرین! انصافاً اور ایماناً سوچو کہ آج کل اسلام کیسے تنزّل کی حالت میں ہے اور جس طرح ایک بچہ بھیڑیئے کے منہ میں ایک خطر ناک حالت میں ہو تا ہے.یہی حالت ان دنوں میں اسلام کی ہے.اور دو آفتوں کا سامنا اس کو پیش آیا ہے.(۱)ایک تو اندرونی کہ تفرقہ اور باہمی نفاق حد سے بڑھ گیا ہے اور ایک فرقہ دوسرے فرقہ پر دانت پیس رہا ہے.(۲)دوسرے بیرونی حملے دلائل باطلہ کے رنگ میں اس زور شور سے ہو رہے ہیں کہ جب سے آدم پیدا ہوا یا یُوں کہو کہ جب سے نبوت کی بنیاد پڑی ہے.ان حملوں کی نظیر دُنیا میں نہیں پائی جاتی.اسلام وہ مذہب تھا جس میں آدمی کے مرتد ہو جانے سے قومِ اسلام میں نمونہ ئِ محشر برپا ہوتا تھا اور غیر ممکن سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص حلاوتِ اسلام چکھ کر پھر مُرتد ہو جائے.اور اب اسی ملک برٹش انڈیا میں ہزار ہا مُرتد پائو گے بلکہ ایسے بھی جنہوں نے اسلام کی توہین اور رسول کریم کی سبّ وشتم میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی.پھر آج کل علاوہ اس کے یہ آفت برپا ہو گئی ہے کہ جب عین صدی کے سر پر خدا تعالیٰ نے تجدید ۱؎ اور اصلاح کے لئے اورخدمات ضروریہ کے مناسب ِحال ایک بندہ بھیجا اور اس کا نام مسیح موعود رکھا.یہ خدا کا فعل تھا جو عین ضرورت کے دنوں میں ظہور ۱؎ اس حدیث کو تمام اکابر اہل ِسنت مانتے چلے آئے ہیں کہ ہر یک صدی کے سرپر مجدد پیدا ہو گا.مگر مجددین
میں آیا.اور آسمان نے اس پر گواہی دی اور بہت سے نشان ظہور میں آئے لیکن تب بھی اکثر مسلمانوں نے اس کو قبول نہ کیا بلکہ اس کا نام کافر اور دجّال اور بے ایمان اور مکاّر اور خائن اور دروغگو اور عہد شکن اور مال خور اور ظالم اور لوگوںکے حقوق دبانے ولا اور انگریزوں کی خوشامد کرنے والا رکھا اور جو چاہا اس کے ساتھ سلوک کیا.اور بہتوں نے یہ عذر پیش کیا کہ جو الہامات اس شخص کو ہوتے ہیں وہ سب شیطانی ہیں یا اپنے نفس کا افترا ہے.اور یہ بھی کہا کہ ہم بھی خدا سے الہام بقیہ حاشیہ.کے نام جو پیش کرتے ہیں یہ تصریح اور تعیین وحی کے روسے نہیں صرف اجتہادی خیال ہے.اور وہ نشان جو خدا نے میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائے وہ سو۱۰۰ سے بھی زیادہ ہیں جو کتاب تریاق القلوب میں درج کئے گئے ہیں.لیکن افسوس کہ ہمارے مخالف ان پہلے منکروں کی طرح بن گئے ہیں جو بار بار حدیبیہ کے متعلق کی پیشگوئی کو پیش کرتے تھے یا اُن یہود کی طرح جو حضرت مسیح کی تکذیب کے لئے اب تک یہ اُن کی پیشگوئیاں پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ مَیں دائود کا تخت قائم کروں گا اور نیز یہ پیشگوئی کی تھی کہ ابھی بعض لوگ زندہ ہوں گے جو مَیں واپس آئوں گا.ایسا ہی یہ لوگ بھی ان تمام پیشگوئیوں پر نظر نہیں ڈالتے جو ایک سو ۱۰۰سے بھی زیادہ پوری ہو چکی ہیں اور ملک میں شائع ہو چکیں.اور جو دو ایک پیشگوئی بباعث ان کی غباوت اور کمی توجہ کے ان کو سمجھ نہیں آئیں.بار بار انہیں کا راگ گاتے رہتے ہیں نہیں سوچتے کہ اگر اس طور پر تکذیب جائز ہے تو اس صورت میں یہ اعتراض تمام نبیوں پر ہو گا اور ان کی پیشگوئیوں پر ایمان لانے کی راہ بند ہو جائے گی مثلاً جو شخص آتھم کی پیشگوئی یا احمد بیگ کے داماد کی پیشگوئی پر اعتراض کرتا ہے کیا وہ حدیبیہ کے متعلق کی پیشگوئی کو بھول گیا ہے جس پر یقین کر کے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کثیر کے ساتھ مکّہ معظمہ کا سفر اختیار فرمایا تھا.اور کیا یونس نبی کی پیشگوئی چالیس دن والی یاد نہیں رہی.افسوس کہ میری تکذیب کی وجہ سے مولوی عبد اللہ غزنوی کی پیشگوئی کی بھی خوب عزت کی کہ قادیان پر نور نازل ہوا اور وہ نور مرزا غلام احمد ہے جس سے میری اولاد محروم رہ گئی ( اولاد میں مُرید بھی داخل ہیں.اور پھر جس حالت میں
پاتے ہیںاور خدا ہمیں بتلاتا ہے کہ یہ شخص درحققیت کافر اور دجّال اور دروغ گو اور بے ایمان اور جہنمی ۱؎ہے.چنانچہ جن لوگوں کو یہ الہام ہوا ہے وہ چار سے بھی زیادہ ہوں گے.غرض تکفیر کے الہامات یہ ہیں اور تصدیق کے لئے میرے وہ مکالمات اور مخاطبات الہٰیہ ہیںجن میں سے کسی قدر بطور نمونہ اس رسالہ۲؎ میںلکھے گئے ہیں.اور علاوہ اس کے بعض واصلانِ حق نے میرے زمانہ بلوغ سے بھی پہلے میرا اور میرے گائوں کا نام لے کر میری نسبت پیشگوئی کی ہے کہ وہی مسیح موعود ہے.اور بہتوں نے بیان کیا کہ نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو ہم نے خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ یہ شخص حق پر بقیہ حاشیہ.موت کی پیشگوئیاں صرف ایک نہیں چار پیشگوئیاں ہیں (۱) آتھم کی نسبت (۲) لیکھرام کی نسبت (۳) احمد بیگ کی نسبت(۴) احمد بیگ کے داماد کی نسبت.اور چار میںسے تین مر گئے اور ایک باقی ہے.جس کی نسبت شرطی پیشگوئی ہے جیسا کہ آتھم کی شرطی تھی.اب بار بار شور مچانا کہ یہ چوتھی بھی کیوں جلدی پوری نہیں ہوتی اور اس وجہ سے تمام پیشگوئیوں کی تکذیب کرنا کیا یہ ان لوگوں کاکام ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں؟ اے متعصب لوگو! اس قدر جھوٹ بولنا تمہیں کس نے سکھایا؟ ایک مجلس مثلاً بٹالہ میں مقرر کرو اور پھر شیطانی جذبات سے دُور ہو کر میری تقریر سنو.پھر اگر ثابت ہو کہ میری سو ۱۰۰پیشگوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی ہو تو مَیں اقرار کروںگا کہ مَیں کاذب ہوں.اور اگر یوں بھی خدا سے لڑنا ہے تو صبر کرو اور اپنا انجام دیکھو.منہ ۱؎ منشی الہٰی بخش صاحب اکونٹنٹ نے جو دعویٰ الہام کرتے ہیں، حال میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام عصائے موسیٰ رکھا ہے جس نے اشارۃً مجھ کو فرعون قرار دیا ہے.اور اپنی کتاب میں بہت سے الہام ایسے پیش کئے ہیں جن کا یہ مطلب ہے کہ یہ شخص کذّاب ہے اور اس کو من جانب اللہ جاننے والے اور اس کے دعویٰ کی تصدیق کرنے والے گدھے ہیں.چنانچہ یہ الہام بھی ہے کہ عیسیٰ نتواں گشت بتصدیق خرے چند.صلوٰۃ بر آنکس کہ ایں وردبگوید.اس کے جواب میں بالفعل اس قدر لکھنا کافی ہے کہ اگر میرے مصدّقین گدھے ہیں تو منشی صاحب پر بڑی مصیبت پڑے گی کیونکہ اُن کے اُستاد اور مُرشد جن کی بیعت سے ان کو بڑا فخر ہے میری نسبت گواہی دے گئے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے اور آسمانی نور یعنی رسالہ اربعین مرتب
ہے اور ہماری طرف سے ہے.چنانچہ پیر جھنڈے والا سندھی نے جن کے مُرید لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہوں گے یہی اپنا کشف اپنے مریدوں میں شائع کیا اور دیگر صالح لوگوں نے بھی دو سو مرتبہ سے بھی کچھ زیادہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صاف بقیہ حاشیہ.ہے.اگرچہ اس بارے میں انہوں نے ایک اپنا الہام مجھے بھی لکھا تھا لیکن میری شہادت یہ لوگ کب قبول کریں گے.اس لئے مَیں عبد اللہ صاحب کے اس بیان کی تصدیق کے لئے وہ دو گواہ پیش کرتا ہوںجو منشی صاحب کے دوستوں میں سے ہیں.(۱) ایک حافظ محمد یوسف صاحب جو منشی الٰہی بخش صاحب کے دوست ہیں ممکن تھا کہ حافظ صاحب منشی صاحب کی دوستی کے لحاظ سے اس گواہی سے انکار کریں لیکن ہمیں ان کا قائل کرنے کے لئے وہ ثبوت مل گیا ہے جس سے وہ اب قابو میں آ گئے ہیں.عین مجلس میں وہ ثبوت پیش کیا جائے گا.(۲) دوسرا گواہ اس بار ہ میں اُن کے بھائی منشی محمد یعقوب ہیں.ان کی بھی دستخطی تحریر موجود ہے.اب منشی الہٰی بخش صاحب کا فرض ہے کہ ایک جلسہ کر کے اور ان دونوں صاحبوں کو اس جلسہ میں بُلا کر میرے رو برو یا کسی ایسے شخص کے رو برو جو مَیں اس کو اپنی جگہ مقرر کروں حافظ صاحب اور منشی محمد یعقوب صاحب سے یہ شہادت حلفاً دریافت کریں.اور اگر حافظ صاحب نے ایمان کو خیر باد کہہ کر انکار کیا تو اس ثبوت کو دیکھیں جو ہماری طرف سے پیش ہو گا اور پھر آپ ہی انصاف کر لیں.اسی پر منشی صاحب کے تمام الہامات پر قیاس کر لیا جائے گا جبکہ اُن کے پہلے الہام نے ہی مُرشد کی پگڑی اُتاری اور اُن کا نام خر رکھا بلکہ سب خروں سے زیادہ کیونکہ وہی تواوّل المصدقین ہیں تو پھر دوسروں کی حقیقت خود سمجھ لو.ہاں وہ جواب دے سکتے ہیں کہ میرے الہام نے جیسا کہ میرے مُرشد پر حملہ کر کے اس کو بے عزت کیا ایسا ہی میری عزت بھی تو اس سے محفوظ نہیں رہی کیونکہ وہ الہام جو انہوں نے اپنی کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۳۵۵ میںلکھا ہے یعنی اِنّیْ مُھِیْنٌٔ لِّمَنْ اَرَادَاِھَانَتَکَ جو بوجہ صلہ لام کے اس جگہ بموجب قاعدہ نحو کے فریق مقابل کو حق انتفاع بخشتا ہے.اس کے یہ معنی ہوتے ہیں جو مَیں تیرے مخالف کی تائید اور نُصرت کے لئے تجھے ذلیل کروں گا اور رُسوا کروں گا.اور اگر کہو کہ اس میں سہو کاتب ہے اور دراصل لام نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہی الہام اس کتاب میںکئی جگہ نام کے ساتھ بار بار آیا ہے بلکہ کتاب کے اوّل میں بھی اور آخر
لفظوں میں اس عاجز کے مسیح موعود ہونے کی تصدیق کی.اور ایک شخص حافظ محمد یوسف نام نے جو ضلعدار نہر ہیں بلاواسطہ مجھ کو یہ خبر دی۱؎ کہ مولوی عبداﷲ صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ایک نور آسمان سے قادیان پر گرا (یعنی اس عاجز پر) اور فرمایا کہ میری اولاد اس نُور سے محروم رہ گئی.پھر حافظ محمد یوسف صاحب کا بیان ہے جس کو مَیں نے بلاکم و بیش لکھ دیا.وَلَعْنَۃُ اﷲِ عَلَی الْـکَاذِبِیْنَ.اور اس پر اور دلیل یہ ہے کہ یہی بیان دوسرے پیرایہ اور ایک دوسری تقریب کے وقت عبداﷲ صاحب موصوف غزنوی نے حافظ محمد یوسف صاحب کے حقیقی بھائی منشی محمد یعقوب صاحب کے پاس کیا اور اس بیان میں میرا نام لے کر کہا کہ دنیا کی اصلاح کے لئے جو مجدّد آنے والا تھا وہ میرے خیال میں مرزا غلام احمد ہے.یہ لفظ ایک خواب کی تعبیر میں فرمایا.اور کہا کہ شاید۲؎ اس نور سے مراد جو آسمان سے اُترتا دیکھا گیا مرزا غلام احمد ہے.یہ دونوں صاحب زندہ موجود ہیں اور دوسرے صاحب کی بقیہ حاشیہ.میں بھی اور ممکن نہیں کہ ہر جگہ سہو کاتب ہو.غرض یہ خوب الہامات ہیں جو کبھی مولوی عبد اللہ صاحب کو جا پکڑتے ہیں اور کبھی خود ملہم صاحب کو اہانت کا وعدہ دیتے ہیں.منہ ۱؎ حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار نہر نے بہت سے لوگوں کے پاس مولوی عبداﷲ صاحب کے اس کشف کا ذکر کیا تھا.ایسے ثبوت بہم پہنچ گئے ہیں کہ اب حافظ صاحب کو مجال گریز نہیں.حافظ صاحب کی اب آخری عمر ہے.اب ان کی دیانت اور تقویٰ آزمانے کے لئے ایک مدّت کے بعدہمیں موقعہ ملا ہے.منہ ۲؎ یاد رہے کہ جب منشی محمد یعقوب صاحب برادر حقیقی حافظ محمد یوسف صاحب نے بمقام امرت سر بتقریب مباہلہ عبدالحق غزنوی مولوی عبداﷲ صاحب غزنوی کا یہ بیان لوگوں کو سُنایا تھا جو چار ۴۰۰سو کے قریب آدمی ہوں گے اس وقت انہوں نے شاید کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا بلکہ رو رو کر اسی حالت میں ان کا منہ آنسوئوں سے تر تھا یقینی اور قطعی الفاظ میں بیان کیا تھاکہ مولوی عبداﷲ صاحب نے میری بیوی کی خواب سن کر فرمایا تھا کہ وہ نور جو خواب میں دیکھا گیا کہ آسمان سے نازل ہوا اور دنیا کو روشن کر دیا.وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے.منہ
دستی تحریر اس بارے میں میرے پا س موجود ہے.اب بتلائو کہ ایک فریق تو مجھے کافر کہتا ہے اور دجّال نام رکھتا ہے اور اپنے مخالفانہ الہام سُناتا ہے جن میں سے منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ ہیں جو مولوی عبداﷲ صاحب کے مُرید ہیں اور دوسرا فریق مجھے آسمان کا نور سمجھتا ہے اور اس بارے میں اپنے کشف ظاہر کرتا ہے جیسا کہ منشی الٰہی بخش صاحب کا مرشد مولوی عبدا ﷲ صاحب غزنوی اور پیرصاحب العلم ہیں.اب اس قدر اندھیر کی بات ہے کہ مرشد خدا سے الہام پاکر میری تصدیق کرتا ہے اورمُرید مجھے کافر ٹھیراتا ہے.کیا یہ سخت فتنہ نہیں ہے؟ کیا ضروری نہیں کہ اس فتنہ کو کسی تدبیر سے درمیان سے اُٹھایا جائے؟ اور وہ یہ طریق ہے کہ اوّل ہم اس بزرگ کو مخاطب کرتے ہیں جس نے اپنے بزرگ مرشد کی مخالفت کی ہے یعنی منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کو.اور ان کے لئے دو طور پر طریق تصفیہ قرار دیتے ہیں.اوّل یہ کہ ایک مجلس میں ان ہر دوگواہوں سے میری حاضری میں یا میرے کسی وکیل کی حاضری میں مولوی عبداﷲ صاحب کی روایت کو دریافت کر لیں اور اُستاد کی عزت کا لحاظ کر کے اس کی گواہی کو قبول کر لیں اور پھر اس کے بعد اپنی کتاب عصائے موسیٰ کو مع اس کی تمام نکتہ چینیوں کے کسی ردی میں پھینک دیں ۱؎ جبکہ منشی الٰہی بخش صاحب کو الہام ہو چکے ہیں کہ مولوی عبداﷲ صاحب کی مخالفت ضلالت ہے تو ان کو چاہیے کہ اپنے اس الہام سے ڈریں اور لَاتَـکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍبِہٖ کا مصداق نہ بنیں اور حافظ محمدیوسف صاحب کے کسی غائبانہ انکار پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں.حافظ صاحب کی ایک مضبوط کل ہمارے ہاتھ میں آ گئی ہے.اوّل ہم اُن کو ایک مجلس میں قسم دیں گے اور پھر وہ قطعی ثبوت کی حقیقت ظاہر کریں گے.پھر منشی الٰہی بخش صاحب اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں مولوی عبداﷲ صاحب غزنوی کی نسبت لکھتے ہیں کہ وہ بڑے بزرگ صاحب ِ انفاس اور صاحب ِکشف اور الہام تھے.ان کی صحبت میں تاثیرات تھیں ہم ان کے ادنیٰ غلام ہیں.میں کہتا ہوں کہ جبکہ وہ ایسے بزرگ تھے اور آپ اُن کے ادنیٰ مرید ہیں تو آپ کیوں ایسے بزرگ پر ہاتھ صاف کرنے لگے.تعجب کہ وہ یہ کہیں کہ
کیونکہ مرشد کی مخالفت آثار سعادت کے برخلاف ہے اور اگر وہ اب مرشد سے عقوق اختیار کرتے ہیں اور عاق شدہ فرزندوں کی طرح مقابلہ پر آتے ہیں تو وہ تو فوت ہو گئے ان کی جگہ مجھے مخاطب کریں اور کسی آسمانی طریق سے میرے ساتھ فیصلہ کریں.مگر پہلی شرط یہ ہے کہ اگر مُرشد کی ہدایت سے سرکش ہیں تو ایک چھپا ہوا اشتہار شائع کردیں کہ مَیں عبداﷲ صاحب کے کشف اور الہام کو کچھ چیز نہیں سمجھتا اور اپنی باتوں کو مقدم رکھتا ہوں.اس طریق سے فیصلہ ہو جائے گا مَیں اس فیصلہ کے لئے حاضر ہوں.جواب باصواب دو ہفتہ تک آنا چاہیے.مگر چھپا ہوا اشتہار ہو.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء (ملحقہ اربعین نمبر۴ مطبوعہ ۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء صفحہ ۲۳ تا ۲۸.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۵۹تا۴۶۷) بقیہ حاشیہ.مرزا غلام احمد قادیانی نور آسمانی ہے اور اس طرح پر وہ میری تصدیق کریں اور آپ یہ الہام پیش کریں کہ موسیٰ ۱ ؎ نتواں گشت بتصدیق خرے چند.اب آپ ہی بتلاویں کہ جو شخص اپنے ایسے مرشد کو گدھا قرار دے وہ کیسا ہے اور اس کا یہ الہام کس قسم کا ہے.شرم ! شرم! شرم! منہ ۱؎ سہو کاتب معلوم ہوتا ہے دراصل لفظ عیسٰی ہو گا.(ناشر)
۲۳۹ (ضمیمہ اربعین نمبر ۳ و ۴) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ دردِدِل سے ایک دعوت قوم کو مَیں نے اپنا رسالہ اربعین اس لئے شائع کیا ہے کہ مجھ کو کاذب اور مفتری کہنے والے سوچیں کہ یہ ہر ایک پہلو سے فضل خدا کا جو مجھ پر ہے ممکن نہیں کہ بجز نہایت درجہ کے مقرب اﷲ کے کسی معمولی ملہم پر بھی ہو سکے.چہ جائیکہ نعوذ باﷲ ایک مفتری بدکردار کو یہ نشان اور مرتبہ حاصل ہو.اے میری قوم! خدا تیرے پر رحم کرے.خدا تیری آنکھیں کھولے.یقین کر کہ مَیں مفتری نہیں ہوں.خد اکی ساری پاک کتابیں گواہی دیتی ہیں کہ مفتری جلد ہلاک کیا جاتا ہے.اس کو وہ عمرہرگز نہیں ملتی جو صادق کو مل سکتی ہے.تمام صادقوں کا بادشاہ ہمارانبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے.اس کو وحی پانے کے لئے تئیس برس کی عمر ملی.یہ عمر قیامت تک صادقوں کا پیمانہ ہے.اور ہزاروں لعنتیں خدا کی اور فرشتوں کی اور خدا کے پاک بندوں کی اس شخص پر ہیں جو اس پاک پیمانہ میں کسی خبیث مفتری کو شریک سمجھتا ہے.اگر قرآن کریم میں آیت لَوْتَقَوَّلَ بھی نازل نہ ہوتی اور اگر خدا کے تمام پاک نبیوں نے نہ فرمایا ہو تاکہ صادقوں کا پیمانہ عمر وحی پانے کا کاذب کو نہیں ملتا تب بھی ایک سچے مسلمان کی وہ محبت جو اپنے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہونی چاہیے.کبھی اس کو اجازت نہ دیتی کہ وہ یہ بے باکی اور بے ادبی کا کلمہ منہ پر لا سکتا کہ یہ پیمانہ وحی نبوت یعنی تئیس برس جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو
دیا گیا یہ کاذب کو بھی مل سکتا ہے.پھر جس حالت میں قرآن شریف نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ اگر یہ نبی کاذب ہوتا تو یہ پیمانہ عمر وحی پانے کا اس کو عطا نہ ہوتا.اور توریت نے بھی یہی گواہی دی اور انجیل نے بھی یہی تو پھر کیسا اسلام اور کیسی مسلمانی ہے کہ ان تمام گواہیوں کو صرف میرے بغض کے لئے ایک ردّی چیز کی طرح پھینک دیا گیا اور خدا کے پاک قول کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا.میں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ کیسی ایمانداری ہے کہ ہر ایک ثبوت جو پیش کیا جاتا ہے اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور وہ اعتراضات بار بار پیش کرتے ہیں جن کا صدہا مرتبہ جواب دیا گیا ہے اور جو صرف میرے پر ہی نہیں ہیں بلکہ اگر اعتراض ایسی باتوں کا ہی نام ہے جو میری نسبت بطور نکتہ چینی ان کے مُنہ سے نکلتے ہیں تو اُن میں تمام نبی شریک ہیں.میری نسبت جو کچھ کہا جاتا ہے پہلے سب کچھ کہا گیا ہے.ہائے ! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیا ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچافلاں آدمی ہے.ہائے ! یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ اگر مہدی معہود موجود نہیں تھا تو کس کے لئے آسمان نے خسوف کسوف کا معجزہ دکھلایا.افسوس یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ دعویٰ بے وقت نہیں.اسلام اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر فریاد کر رہا تھا کہ مَیں مظلوم ہوں اور اب وقت ہے کہ آسمان سے میری نصرت ہو.تیرھویں صدی میں ہی دل بول اُٹھے تھے کہ چودھویں صدی میں ضرور خدا کی نصرت اور مدد آئے گی.بہت سے لوگ قبروں میں جا سوئے جو رو رو کر اس صدی کی انتظار کرتے تھے اور جب خدا کی طرف سے ایک شخص بھیجا گیا تو محض اس خیال سے کہ اس نے موجودہ مولویوں کی ساری باتیں تسلیم نہیں کیں اس کے دشمن ہو گئے.مگر ہر ایک خدا کا فرستادہ جو بھیجاجاتا ہے ضرور ایک ابتلا ساتھ لاتا ہے.حضرت عیسیٰ جب آئے تو بدقسمت یہودیوں کو یہ ابتلا پیش آیا کہ ایلیا دوبارہ آسمان سے نازل نہیں ہوااور ضرور تھا کہ پہلے ایلیا آسمان سے نازل ہوتا تب مسیح آتا جیسا کہ ملاکی نبی کی کتاب میں لکھا ہے.اور جب ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اہل کتاب کو یہ ابتلا پیش آیا کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے نہیں آیا.اب کیا ضرور نہ تھا کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت بھی کوئی ابتلا ہو.اور اگر مسیح موعود تمام باتیں اسلام کے تہتر فرقہ کی مان لیتا تو
پھر کن معنوں سے اُس کا نام حَکَـم رکھا جاتا.کیا وہ باتوں کو ماننے آیا تھا یا منوانے آیا تھا؟ تو اس صورت میں اس کا آنا بھی بے سود تھا.سوا ے قوم! تم ضد نہ کرو.ہزاروں باتیں ہوتی ہیں جو قبل از وقت سمجھ نہیں آتیں.ایلیا کے دوبارہ آنے کی اصل حقیقت حضرت مسیح سے پہلے کوئی نبی سمجھا نہ سکا تا یہود حضرت مسیح کے ماننے کے لئے تیار ہو جاتے.ایسا ہی اسرائیلی خاندان میں سے خاتم الانبیاء آنے کا خیال جو یہود کے دل میں مرکوز تھا.اس خیال کو بھی کوئی نبی پہلے نبیوں میں سے صفائی کے ساتھ دُور نہ کر سکا.اسی طرح مسیح موعود کا مسئلہ بھی مخفی چلا آیا تا سنت اﷲ کے موافق اس میں بھی ابتلا ہو.بہتر تھا کہ میرے مخالف اگر ان کو ماننے کی توفیق نہیں دی گئی تھی تو بارے کچھ مدت زبان بند رکھ کر اورکفِّ لساَن اختیار کر کے میرے انجام کو دیکھتے.اب جس قدر عوام نے بھی گالیاں دیں یہ سب گناہ مولویوں کی گردن پر ہے.افسوس یہ لوگ فراست سے بھی کام نہیں لیتے.میں ایک دائم المرض آدمی ہوں اور وہ د۲و زرد چادریں جن کے بارے میں حدیثوں میں ذکر ہے کہ ان دو چادروں میں مسیح نازل ہو گا اور وہ دو زرد چادریں میرے شامل حال ہیں جن کی تعبیر علم تعبیر الرؤیا کی رُو سے دو بیماریاں ہیں.سو ایک چادر میرے اُوپر کے حصہ میں ہے کہ ہمیشہ سردرد اور دورانِ سر اور کمیئِ خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے اور دوسری چادر جو میرے نیچے کے حصہ بدن میں ہے وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں.بسا اوقات میرا یہ حال ہوتا ہے کہ نماز کے لئے جب زینہ چڑھ کر اوپر جاتا ہوں تو مجھے اپنی ظاہر حالت پر امید نہیں ہوتی کہ زینہ کی ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر پائوں رکھنے تک مَیں زندہ رہوں گا.اب جس شخص کی زندگی کا یہ حال ہے کہ ہر روز موت کا سامنا اس کے لئے موجود ہوتا ہے اور ایسے مرضوں کے انجام کی نظیریں موجود ہیں تو وہ ایسی خطرناک حالت کے ساتھ کیونکر افترا پر جُرأت کر سکتا ہے اور وہ کس صحت کے بھروسے پر کہتا ہے کہ میری اسّی برس کی عمر ہوگی حالانکہ ڈاکٹری تجارب تو اس کو موت کے پنجہ میں ہر وقت پھنسا ہوا خیال کرتے ہیں.ایسی مرضوں والے مدقوق کی
طرح گداز ہو کر جلد مرجاتے ہیں یا کار بینکل یعنی سرطان سے اُن کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو پھر جس زور سے میں ایسی حالتِ پُرخطر میں تبلیغ میں مشغول ہوں کیا کسی مفتری کا کام ہے.جب مَیں بدن کے اُوپر کے حصہ میں ایک بیماری اور بدن کے نیچے کے حصہ میں ایک دوسری بیماری دیکھتا ہوں تو میرا دل محسوس کرتاہے کہ یہ وہی دو چادریں ہیں جن کی خبر جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے.مَیں محض نصیحتاً ﷲ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی.لیکن اگر مجھے آپ لوگ کاذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددُعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں.پھر اگر مَیں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی.اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوئوں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ و زاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہوجائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں.جو شخص میرے پر بددعا کرے گا وہ بددُعا اسی پر پڑے گی.جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر لعنت ہو وہ لعنت اس کے دل پر پڑتی ہے مگر اس کو خبر نہیں.اور جو شخص میرے ساتھ اپنی کشتی قرار دے کر یہ دعائیں کرتا ہے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے.اس کا نتیجہ وہی ہے جو مولوی غلام دستگیر قصوری نے دیکھ لیا.کیونکہ اس نے عام طور پر شائع کر دیا تھا کہ مرزا غلام احمد اگر جھوٹا ہے.اورضرور جھوٹا ہے تو وہ مجھ سے پہلے مرے گا اور اگر مَیںجھوٹا ہوں تو مَیں پہلے مَر جائوں گا اور یہی دعابھی کی تو پھر آپ ہی چند روز کے بعد مَر گیا.اگر وہ کتاب چھپ کر شائع نہ ہو جاتی تو اس واقعہ پر کون اعتبار کر سکتا.مگر اب تو وہ اپنی موت سے میری سچائی کی گواہی دے گیا.پس ہر ایک شخص جو ایسا مقابلہ کر ے گا اور ایسے طور کی دعا کرے گا تو وہ ضرور غلام دستگیر کی طرح میری سچائی کا گواہ بن جائے گا.بھلا سوچنے کا مقام ہے کہ اگر لیکھرام کے مارے جانے کی نسبت بعض شریروں ظالم
طبع نے میری جماعت کو اس کا قاتل قرار دیا ہے حالانکہ وہ ایک بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا اور ایک میری پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی.تو یہ تو بتلا ویں کہ مولوی غلام دستگیر کو میری جماعت میں سے کس نے مارا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ بغیر میری درخواست کے آپ ہی ایسی دعا کر کے دنیا سے کوچ کر گیا.کوئی زمین پر مَر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے میری رُوح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السّلام کو دی گئی تھی.مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے.کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا.مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں.مَیں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اُکھڑ سکوں.اگر اُن کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مُردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کے لئے دُعائیں کریں تو میرا خدا اُن تمام دعائوں کو لعنت کی شکل پر بنا کر اُن کے مُنہ پر مارے گا.دیکھو صد ہا دانش مند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو وہ تمام مکرو فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اُٹھا نہ رکھو ناخنوںتک زور لگائو.اتنی بد دُعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جائو.پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟ خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر بد قسمت انسان دُور سے اعتراض کرتے ہیں جن دلوں پر مُہریں ہیں اُن کا کیا ہم علاج کریں.اے خدا! تُو اس امت پر رحم کر.آمین المشتھــــــــــــــــــــــر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۹؍ دسمبر ۱۹۰۰ء (مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ) (ضمیمہ اربعین نمبر۳،۴ صفحہ ۱ تا۷ مطبوعہ ۱۹۰۰ء.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۶۸ تا۴۷۳)
۲۴۰ ایک ضروری تجویز بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یہ امر ہمیشہ میرے لئے موجبِ غم اور پریشانی کا تھا کہ وہ تمام سچائیاں اور پاک معارف اور دین ِ اسلام کی حمایت پختہ دلائل اور انسانی رُوح کو اطمینان دینے والی باتیں جو میرے پر ظاہر ہوئیں اور ہو رہی ہیں.ان تسلّی بخش براہین اور مؤثر تقریروں سے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں اور یورپ کے حق کے طالبوں کو اب تک کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا.یہ درد دل اس قدر تھا کہ آیندہ اس کی برداشت مشکل تھی.مگر چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ قبل اس کے کہ ہم اس ناپائدار گھر سے گزر جائیںہمارے تمام مقاصد پورے کر دے اور ہمارے لئے وہ آخری سفر حسرت کا سفر نہ ہو.اس لئے اس مقصد کے پورا کرنے کے لئے جو ہماری زندگی کا اصل مقصود ہے ایک تدبیر پیدا ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ آج چند ایک احباب نے اپنے مخلصانہ مشورہ سے اس طرف مجھے توجہ دلائی ہے کہ ایک رسالہ ( میگزین) بزبان انگریزی مقاصد مذکوہ بالا کے اظہار کے لئے نکالا جائے جس میں مقصود بالذات ان مضامین کا شائع کرنا ہو گا جو تائید اسلام میں میرے ہاتھ سے نکلے ہوں.اور جائز ہو گا کہ اور صاحبوں کے مذہبی یا قومی مضامین بھی بشرطیکہ ہم ان کو پسند کرلیں اس رسالہ میں شایع ہوں.اس رسالہ کی اشاعت کے لئے سب سے زیادہ دو امر قابل غور ہیں.ایک یہ کہ اس رسالہ کا نظم و نسق کس کے ہاتھ میں ہو.اور دوسرا یہ کہ اس کے مستقل سرمایہ کی کیا تجویز ہو.سو امر اوّل کے متعلق ہم نے یہ پسند کیا ہے کہ اس اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد علی صاحب ایم.اے پلیڈ ر اور خواجہ کمال الدین صاحب
بی اے پلیڈر مقرر ہوں.اور ان ہردو صاحبان نے اس خدمت کو قبول کر لیا ہے.امر دوم سرمایہ ہے.سو اس کے متعلق بالفعل کسی قسم کی رائے زنی نہیں ہو سکتی.اور یہی ایک بڑا بھاری امر ہے جو سوچنے کے لائق ہے.اس لئے قرین مصلحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مجلس دوستوں کی منعقد کر کے اس کے متعلق بحث کی جائے اور جو طریق بہتر اور اولیٰ معلوم ہو وہی اختیار کیا جائے مگر یہ بات ظاہر کرنے کے لائق ہے کہ مجھے اس سرمایہ کے انتظام میں کچھ دخل نہیں ہو گا.اور غالباً اس کو ایک امر تجارتی تصور کر کے ایسے ممبر مقرر کئے جائیں گے جو اس تجارت کے حصّہ دار ہوں گے اور انہی کی تجویز اور مشورہ سے جس طور سے مناسب سمجھیں گے یہ روپیہ جمع ہو کر کسی بینک میں جمع کیا جاوے گا.لیکن چونکہ ایسے مامور صرف اشتہارات سے تصفیہ نہیں پاسکتے لہذا مَیں نے مناسب سمجھا ہے کہ اس جلسہ کے لئے بڑی عید کا دن قرار پاوے اور جہاں تک ممکن ہو سکے ہمارے دوست کوشش کریں کہ اس دن قادیان پہنچ جائیں.تب سرمایہ کے متعلق بحث اور گفتگو ہو جائے گی کہ کس طور سے یہ سرمایہ جمع ہونا چاہیے.اور اس کے خرچ کے لئے انتظام کیا ہو گا.یہ سب حاضرین جلسہ کی کثرت رائے پر فیصلہ ہو گا.بالفعل اس کا ذکر قبل از وقت ہے.ہاں ہر ایک صاحب کو چاہیے کہ اس رائے کے ظاہر کرنے کے لئے طیار ہو کر آئیں.اور یہ یاد رکھیں کہ یہ چندہ صرف تجارتی طور پر ہو گا.اور ہر ایک چندہ دینے والا بقدر اپنے روپیہ کے اپنا حق اس تجارت میں قائم کر ے گا.اوراس کے ہر ایک پہلو پر بحث جلسہ کے وقت میں ہو گی.یہ خیراتی چندہ نہیں ہے.ایک طور کی تجارت ہے جس میں شراکت صرف دینی تائید تک ہے.اس سے زیادہ کوئی امر نہیں ہے.وَالسّلام.اس امر کے متعلق خط و کتابت خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر پشاور سے کی جائے.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۱ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ایک صفحہ کا فل سکیپ سائز پر ہے ) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ۱تا۳)
۲۴۱ خدا کے فضل سے بڑا معجزہ ظاہر ہوا ہزار ہزار شکر اُس قادر یکتا کا ہے جس نے اس عظیم الشّان میدا ن میں مجھ کو فتح بخشی اور باوجود اس کے کہ ان ستر۷۰ دنوں میں کئی قسم کے موانع پیش آئے چند دفعہ مَیں سخت مریض ہوا.بعض عزیز بیمار ہوئے.مگر پھر بھی یہ تفسیر اپنے کمال کو پہنچ گئی.جو شخص اس بات کو سوچے گا.کہ یہ وہ تفسیر ہے جو ہزارون مخالفوں کو اسی امر کے لئے دعوت کر کے بالمقابل لکھی گئی ہے.وہ ضرور اس کو ایک بڑا معجزہ یقین کرے گا.بھلا مَیںپوچھتا ہوں کہ اگر یہ معجزہ نہیں تو پھر کس نے ایسے معرکہ کے وقت کہ جب مخالف علماء کو غیرت دِہ الفاظ کے ساتھ بلایاگیا تھا تفسیر لکھنے سے ان کو روک دیا.اور کس نے ایسے شخص یعنی اس عاجز کو جو مخالف علماء کے خیال میں ایک جاہل ہے جو اُن کے خیال میں ایک صیغہ عربی کا بھی صحیح طور پر نہیں جانتا ایسی لا جواب اور فصیح بلیغ تفسیر لکھنے پر باوجود امراض اور تکالیف بدنی کے قادر کر دیا کہ اگر مخالف علماء کوشش کرتے کرتے کسی دماغی صدمہ کا بھی نشانہ ہو جاتے تب بھی اس کی مانند تفسیر نہ لکھ سکتے.اور اگر ہمارے مخالف علماء کے بس میں ہوتا یا خدا اُن کی مدد کرتا تو کم سے کم اس وقت ہزار تفسیر اُن کی طرف سے بالمقابل شایع ہونی چاہیے تھی.لیکن اب ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ ہم نے اس بالمقابل تفسیر نویسی کو مدار فیصلہ ٹھیرا کر مخالف علماء کو دعوت کی تھی اور ستر دن کی میعاد تھی جو کچھ کم نہ تھی.اور مَیں اکیلا اور وہ ہزار ہا عربی دان اور عالم فاضل کہلانے والے تھے تب بھی وہ تفسیر لکھنے سے نامراد رہے.اگر وہ تفسیر لکھتے اور سورۃ فاتحہ سے میرے مخالف ثبوت پیش کرتے تو ایک دُنیا اُن کی طرف اُلٹ
پڑتی.پس وہ کونسی پوشیدہ طاقت ہے جس نے ہزاروں کے ہاتھوں کو باندھ دیا اور دماغوں کو پست کر دیا اور علم اور سمجھ کو چھین لیا.اور سورۃ فاتحہ کی گواہی سے میری سچائی پر مُہر لگادی اور ان کے دلوں کو ایک اور مُہر سے نادان اور نا فہم کر دیا.ہزاروں کے رو برو ان کے چرک آلودہ کپڑے ظاہر کئے اور مجھے ایسے سفید کپڑوں کی خلعت پہنا دی جو برف کی طرح چمکتی تھی اور پھر مجھے ایک عزت کی کُرسی پر بٹھا دیا.اور سورہ فاتحہ سے ایک عزت کا خطابمجھے عنایت ہوا.وہ کیا ہے اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ.اور خدا کے فضل اور کرم کو دیکھو کہ تفسیر کے لکھنے میں دونوں فریق کے لئے چار جُز کی شرط تھی یعنی یہ کہ ستر دن کی میعاد تک چار جُز لکھیں لیکن وہ لوگ باوجود ہزاروں ہونے کے ایک جُز بھی نہ لکھ سکے اور مجھ سے خدائے کریم نے بجائے چار جُز کے ساڑھے باراں جُز لکھوا دیئے.اب مَیں علماء مخالفین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ معجزہ نہیں ہے اور اس کی کیا وجہ ہے کہ معجزہ نہ ہو.کوئی انسان حتی المقدور اپنے لئے ذلت قبول نہیں کرتا.پھر اگر تفسیر لکھنا مخالف مولویوں کے اختیار میں تھا تو وہ کیوں نہ لکھ سکے.کیا یہ الفاظ جو میری طرف سے اشتہارات میں شائع ہوئے تھے کہ جو فریق اب بالمقابل ستر دن میں تفسیر نہیں لکھے گا وہ کاذب سمجھا جائے گا.یہ ایسے الفاظ نہیں ہیں جو انسان غیرت مند کو اس پر آمادہ کرتے ہیں کہ سب کام اپنے پر حرام کر کے بالمقابل اس کام کو پورا کرے تا جھوٹا نہ کہلاوے.لیکن کیونکر مقابلہ کر سکتے.خدا کا فرمودہ کیونکر ٹل سکتا کہ .۱؎ خدا نے ہمیشہ کے لئے جب تک کہ دنیا کا انتہا ہویہ حجت اُن پر پوری کرنی تھی کہ باوجود یہ کہ علم اور لیاقت کی یہ حالت ہے کہ ایک شخص کے مقابل پر ہزاروں اُن کے عالم و فاضل کہلانے والے دم نہیں مار سکتے پھر بھی کافرکہنے پر دلیر ہیں.کیا لازم نہ تھا کہ پہلے علم میں کامِل ہوتے پھر کافر کہتے.جن لوگوں کے علم کا یہ حال ہے کہ ہزاروں مل کر بھی ایک شخص کا مقابلہ نہ کر سکے.چار جُز کی تفسیر نہ لکھ سکے ان کے بھروسہ پر ایک ایسے مامور من اللہ کی مخالفت اختیار کرنا جو نشان پر نشان دکھلا رہا ہے.بڑے بد قسمتوں کا کام ہے.بالآخر ایک اور ہزار شکر کا مقام ہے کہ اس موقعہ پر ایک پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ ۱؎ المجادلۃ : ۲۲
وسلم کی بھی پوری ہوئی.اور وہ یہ ہے کہ اس ستر دن کے عرصہ میںکچھ بباعث امراض لاحقہ اور کچھ بباعث اس کے بوجہ بیماری بہت سے دن تفسیر لکھنے سے سخت معذوری رہی اُن نمازوں کو جو جمع ہو سکتی ہیں جمع کرنا پڑا.اور اس سے آنحضرت ـصلے اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو در منثور اور فتح باری اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ کتب میں ہے کہ تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ یعنی مسیح موعود کے لئے نماز جمع کی جائے گی.اب ہمارے مخالف علماء یہ بھی بتلا ویں کہ کیا وہ اس بات کو مانتے ہیں یا نہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو کر مسیح موعود کی وہ علامت بھی ظہور میں آ گئی.اور اگر وہ نہیں مانتے تو کوئی نظیر پیش کر یں کہ کسی نے مسیح موعود کا دعویٰ کر کے دو ماہ تک نمازیں جمع کی ہوں.یا بغیر دعویٰ ہی نظیر پیش کرو.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشتہر مرزا غلام احمد قادیانی ۲۰ ؍ فروری ۱۹۰۱ء یہ اشتہار ۲۰ × ۲۶ ۸ کے ۳ صفحہ پر ہے جس پر پریس کا نام نہیں) (روحانی خزائن جلد۱۸ ملحقہ اعجاز المسیح صفحہ الف تا ج)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَلصُّلْحُ خَیْرٌ اے علماء قوم جو میرے مکذب اور مکفر ہیں یا میری نسبت متذبذب ہیں.آج پھر میرے دل میں خیال آیا کہ مَیں ایک مرتبہ پھر آپ صاحبوں کی خدمت میں مصالحت کے لئے درخواست کروں.مصالحت سے میری یہ مراد نہیں ہے کہ مَیں آپ صاحبوں کو اپناہم عقیدہ بنانے کے لئے مجبور کروں یا اپنے عقیدہ کی نسبت اس بصیرت کے مخالف کوئی کمی بیشی کروں.جو خدا نے مجھے عطا فرمائی ہے بلکہ اس جگہ مصالحت سے صرف یہ مراد ہے کہ فریقین ایک پختہ عہد کر یں کہ وہ اور تمام وہ لوگ جو اُن کے زیر اثر ہیں.ہر ایک قسم کی سخت زبانی ۱؎ سے باز رہیں.اور کسی تحریر یا تقریر یا اشارہ کنایہ سے فریق مخالف کی عزت پر حملہ نہ کریں.اور اگر دونوں فریق میں سے کوئی صاحب اپنے فریق مخالف کی مجلس میں جائیں تو جیسا کہ شرط تہذیب اور شائستگی ہے، فریق ثانی مدارات سے پیش آئیں.۱؎ سخت زبانی میں یہ بات داخل ہو گی کہ ایک فریق دوسرے فریق کو ان الفاظ سے یاد کرے کہ وہ دجّال ہے یا بے ایمان ہے یا فاسق ہے.مگر یہ کہنا کہ اس کے بیان میں غلطی ہے یا وہ خاطی یا مخطی ہے سخت زبانی میں داخل نہیں ہو گا.منہ
یہ تو ظاہر ہے کہ انجام کار انہی اصولوں یا مدارات کی طرف لوگ آجاتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ ایک فریق دنیا میں بکثرت پھیل گیا ہے جیسا کہ آج کل حنفی شافعی مالکی حنبلی باوجود اُن سخت اختلافات کے جن کی وجہ سے مکہ معظمہ کی ارض ِمقدسہ بھی ان کو ایک مصلّے پر جمع نہیں کر سکی.ایک دوسرے سے مخالطت اور ملاقات رکھتے ہیں.لیکن بڑی خوبی کی یہ بات ہے کہ کسی اندرونی فرقہ کی ابتدائی حالت میں ہی اس سے اخلاقی برتائو کیا جائے.خدا جس کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے وہی نابود ہوتا ہے.انسانی کوششیں کچھ بگاڑ نہیں سکتیں.اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں ہے تو خود یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور اگر خدا کی طرف سے ہے تو کوئی دشمن اس کو تباہ نہیں کر سکتا.اس لئے محض قلیل جماعت خیال کر کے تحقیر کے درپَے رہنا طریق تقویٰ کے برخلاف ہے.یہی تو وقت ہے کہ ہمارے مخالف علماء اپنے اخلاق دکھلائیں.ورنہ جب یہ احمدی فرقہ دنیا میں چند کروڑ انسانوں میں پھیل جائے گا اور ہر ایک طبقہ کے انسان اور بعض ملوک بھی اس میں داخل ہو جائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے تو اُس زمانہ میں تو یہ کینہ اور بغض خودبخود لوگوں کے دلوں سے دُور ہو جائے گا.لیکن اس وقت کی مخالطت اور مدارات خدا کے لئے نہیں ہو گی.اور اُس وقت مخالف علماء کا نرمی اختیار کرنا تقویٰ کی وجہ سے نہیں سمجھا جائے گا.تقویٰ دکھلانے کا آج ہی دن ہے جب کہ یہ فرقہ دُنیا میں بجز چند ہزار انسان کے زیادہ نہیں.اور مَیں نے یہ انتظام کر لیا ہے کہ ہماری جماعت میں سے کوئی شخص تحریر یا تقریر کے ذریعہ سے کوئی ایسا مضمون شائع نہیں کرے گا جس میں آپ صاحبوں میں سے کسی صاحب کی تحقیر اور توہین کا ارادہ کیا گیا ہو.اور اس انتظام پر اس وقت سے پورا عملدرآمد ہو گا جب کہ آپ صاحبوں کی طرف سے اسی مضمون کا ایک اشتہار نکلے گا کہ آئندہ آپ پورے عہد سے ذمہ دار ہو جائیں گے کہ آپ صاحبان اور نیز ایسے لوگ جو آپ کے زیر اثر ہیں یا زیر اثر سمجھے جا سکتے ہیں ہر ایک قسم کی بدزبانی اور ہجو اور سب و شتم سے مجتنب رہیں گے اور اس نئے معاہدہ سے آیندہ اس بات کا تجربہ ہو جائے گا کہ کس فریق کی طرف سے زیادتی ہے.اس سے آپ صاحبوں کو ممانعت نہیں کہ تہذیب سے ردّ لکھیں اور نہ ہم اس
غالب ہوتا جائے گا.دُنیا میں سچائی اوّل چھوٹے سے تخم کی طرح آتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے جو پھل اور پھول لاتا ہے اور حق جوئی کے پرندے اس میں آرام کرتے ہیں.۱؎ المشتہر میرزا غلام احمد از قادیان ۵؍ مارچ ۱۹۰۱ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان.۷۰۰ کاپی (یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے دو صفحوں پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۶ تا ۸) ۱؎ کم سے کم تین برس کے لئے یہ مصالحہ ضروری ہے اور اس خیال سے کہ حساب میں غلطی نہ ہو اس مصالحہ کی ابتدائی تاریخ یکم اپریل ۱۹۰۱ء مقرر کی گئی ہے کیونکہ معلوم نہیں کہ آپ صاحبوں کی طرف سے بعد باہمی مشورہ کب سب کے دستخطوں کے ساتھ جو پانچ علماء سے کم نہ ہوں جواب اشتہار نکلے گا.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰ ی.منہ
۲۴۳ طاعون بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ناظرین کو یاد ہو گا کہ ۶؍ فروری ۱۸۹۸ء کو مَیں نے طاعون کے بارے میں ایک۱؎ پیشگوئی شائع کی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ مجھے یہ دکھلایا گیا ہے کہ اس ملک کے مختلف مقاموں میں سیاہ رنگ کے پودے لگائے گئے ہیں اور وہ طاعون کے پودے ہیں.مَیں نے اطلاع دی تھی کہ توبہ اور استغفار سے وہ پودے دُور ہو سکتے ہیں.مگر بجائے توبہ اور استغفار کے وہ اشتہار بڑی ہنسی اور ٹھٹھے سے پڑھا گیا.اب مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ پیشگوئی ان دنوں میں پوری ہو رہی ہے.خدا مُلک کو اس آفت سے بچاوے.اگر خدانخواستہ اس کی ترقی ہوئی تو وہ ایک ایسی بلا ہے جس کے تصور سے بدن کانپتا ہے.سو اے عزیزو اسی غرض سے پھر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ سنبھل جائو اور خدا سے ڈرو اور ایک پاک تبدیلی دکھلائو تا خدا تم پر رحم کرے اور وہ بلا جو بہت نزدیک آ گئی ہے خدا اس کو نابود کرے.اے غافلو! یہ ہنسی اور ٹھٹھے کا وقت نہیں ہے.یہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتی اور صرف آسمان کے خدا کے حکم سے دُور ہوتی ہے.اگرچہ ہماری گورنمنٹ عالیہ بہت کوشش کر رہی ہے اور مناسب تدبیروں سے یہ کوشش ہے.مگر صرف زمینی کوششیں کافی نہیں.ایک پاک ہستی موجود ۱؎ یہ اشتہار جلد ۲ میںزیرنمبر۱۸۸ آیا ہے.(ناشر)
ہے جس کا نام خدا ہے.یہ بلا اسی کے ارادہ سے ملک میں پھیلی ہے.کوئی نہیں بیان کر سکتا کہ یہ کب تک رہے گی اور اپنے رخصت کے دنوں تک کیا کچھ انقلاب پیدا کرے گی.اور کوئی کسی کی زندگی کا ذمہ وار نہیں.سو اپنے نفسوں اور اپنے بچوں اور اپنی بیویوں پر رحم کرو.چاہیے کہ تمہارے گھر خدا کی یاد اور توبہ اور استغفار سے بھر جائیں اور تمہارے دل نرم ہو جائیں.بالخصوص مَیں اپنی جماعت کو نصیحتاً کہتا ہوں کہ یہی وقت توبہ اور استغفار کا ہے.جب بلا نازل ہو گئی تو پھر توبہ سے بھی فائدہ کم پہنچتا ہے اب اس سخت سیلاب پر سچی توبہ سے بند لگائو.باہمی ہمدردی اختیار کرو.ایک دوسرے کو تکبّر اور کینہ سے نہ دیکھو.خدا کے حقوق ادا کرو اور مخلوق کے بھی تا تم دوسروں کے بھی شفیع ہوجائو.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ایک شہر میں جس میں مثلاً دس لاکھ کی آبادی ہو ایک بھی کامل راستباز ہو گا تب بھی یہ بلا اس سے دفع کی جائے گی.پس اگر تم دیکھو کہ یہ بلا ایک شہر کو کھاتی جاتی اور تباہ کرتی جاتی ہے تو یقینا سمجھو کہ اس شہر میں ایک بھی کامل راستباز نہیں.معمولی درجہ کی طاعون یا کسی اور و با کا آنا ایک معمولی بات ہے.لیکن جب یہ بلا ایک کھاجانے والی آگ کی طرح کسی شہر میں اپنا منہ کھولے تو یقین کرو کہ وہ شہر کامل راست بازوں کے وجود سے خالی ہے.تب اس شہر سے جلد نکلو یا کامل توبہ اختیار کرو.ایسے شہر سے نکلنا طبی قواعد کے رو سے مفید ہے.ایسا ہی رُوحانی قواعد کے رُو سے بھی.مگر جس میں گناہ کا زہریلہ مادہ ہو وہ بہرحال خطرناک حالت میں ہے.پاک صحبت میں رہو کہ پاک صحبت اور پاکوں کی دُعا اس زہر کا علاج ہے.دُنیا ارضی اسباب کی طرف متوجہ ہے مگر جڑ اس مرض کی گناہ کا زہر ہے اور تریاقی وجود کی ہمسائیگی فائدہ بخش ہے.اﷲ جَلَّ شَانُہٗ اپنے رسُول کو قرآن شریف میں فرماتا ہے.مَاکَانَ ۱؎ یعنی خدا ایسا نہیں ہے کہ وبا وغیرہ سے ان لوگوں کو ہلاک کر ے جن کے شہر میں تُورہتا ہو.پس چونکہ وہ نبی علیہ السلام کامل راست باز تھا اس لئے لاکھوں کی جانوں کا وہ شفیع ہو گیا.یہی وجہ ہے کہ مکہ جب تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس میں تشریف رکھتے رہے امن کی جگہ رہا اور پھر جب مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کا اس وقت نام یثرب تھا جس الانفال ۳۴
کے معنے ہیں ہلاک کرنے والا.یعنی اس میں ہمیشہ سخت وبا پڑا کرتی تھی.آپ نے داخل ہوتے ہی فرمایا کہ اب اس کے بعد اس شہر کا نام یثرب نہ ہو گا.بلکہ اس کا نام مدینہ ہو گا یعنی تمدّن اور آبادی کی جگہ.اور فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ مدینہ کی وبا اس میں سے ہمیشہ کے لئے نکال دی گئی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور اب تک مکہ اور مدینہ ہمیشہ طاعون سے پاک رہے میں اُس خدائے کریم کا شکر کرتا ہوں کہ اسی آیت کے مطابق اس نے مجھے بھی الہام کیا اور وہ یہ ہے.اَ لْاَ مْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ.اِنَّ اﷲَ لَایُغَیِّرُ مَابِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ.یہ الہام اشتہار ۲۶؍ فروری ۱۸۹۸ء میں شائع ہو چکا ہے.اور یہ طاعون کے بارے میں ہے.اس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ موتوں کے دن آنے والے ہیں مگر نیکی اور توبہ کرنے سے ٹل سکتے ہیں اور خدا نے اس گائوں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے اور متفرق کئے جانے سے محفوظ رکھا.یعنی بشرط توبہ.اور براہین احمدیہ میں یہ الہام بھی درج ہے کہ مَاکَانَ اﷲُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَ اَنْتَ فِیْھِمْ یہ خدا کی طرف سے برکتیں ہیں اور لوگوں کی نظر میں عجیب.اور یاد رہے کہ یہ ہماری تحریر محض نیک نیتی اور سچی ہمدردی کی راہ سے ہے.وَمَاعَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغُ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشــــــــتھر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۱ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ضلع گورداسپور یہ اشتہار صفحہ۲۶×۴۲۰ کے دو صفحوں پر ہے.(تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۹ تا ۱۱)
۲۴۴ الاعلان ایّھا الاخوان من العرب وفارس والشام.وغیرھا من بلاد الاسلام.اعلموا رحمکم اللّٰہ انی کتبت ھٰذا الکتاب لکم ملھمًا من ربّی.واُمرت ان ادعوکم الٰی صراط ھُدیتُ الیہ و اُؤدبکم بأدبی.وھٰذا بعدما انقطع الامل مِن علماء ھٰذہ الدیار.وتحقق انھم لا یبالون عقبی الدار.وانقطعت حرکتھم الی الصدق من تفالجٍ لامن فالجٍ.وما نفعھم اثر دواء ولاسعی معالج.ومابقی لِاَجَارِد المعارف فی ارضھم مرتع.ولا فی اھلھا مطمع.فعند ذالک القی فی (ترجمہ) اعلان اے عرب، فارس ، شام اور دوسرے ممالک کے مسلمان بھائیو! اللہ تم پر رحم کرے.تم یہ جان لو کہ مَیںنے تمہارے لئے یہ کتاب اپنے رب سے الہام پا کر لکھی ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیاہے کہ مَیں تمہیں اس راستہ کی طرف بلائوں جس کی طرف مجھے راہنمائی کی گئی ہے اور مَیں تمہیں اپنے آداب سکھائوںاور یہ اس بات کے بعد ہوا ہے جبکہ مَیں اس علاقہ کے علماء سے ناامید ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ انہیں آخرت کے گھر کی کوئی پرواہ نہیں اور بناوٹی فالج زدہ بننے کی وجہ سے نہ کہ (حقیقہً ) فالج ہونے کی وجہ سے سچائی کی طرف ان کی حرکت منقطع ہو گئی.اور ان پر کسی دوا کا اثر نہ ہوا.اور نہ کسی معالج کی کوشش نے انہیں فائدہ پہنچایا.اور معارف کے گھوڑوں کے لئے ان کے علاقہ میں کوئی چراگاہ باقی نہ رہی اور نہ اس کے اہل میں کوئی طمع کی جگہ.
قلبی من الحضرۃ.ان اٰوی الیکم لطلب النصرۃ.لتکونوا انصاری کأھل المدینۃ ومن نصرنی وصدقنی فقد أرضی ربہ وخیرَالْبریۃ.وان شرالد واب الصّم البکم الذین لا یصغون الی الحق والحکمۃ.ولا یسمعون برھانًا ولوکان من الحجج البالغۃ.واذا قیل لھم اٰمنوا بما اتاکم من ربّکم من الحقّ والبیّنۃ.بعد ایام کثرت الفِرق واختلافھم فیھا وتلاطم بحرالضلالۃ.قالوا لانعرف ماالحق وانا وجدنا اٰبَاء نا علی عقیدۃ.واناعلیھا الی یوم المنیّۃ.وماقلت لھم الاما قال القراٰن.فما کان جوابھم الاالسب والھذیان.وان اللّٰہ قد علّمنی ان عیسی ابن مریم قد مات.ولحق الاموات.واماالذی کان نازلا من السماء.فھو ھٰذا القائم بینکم کما اوحی اليّ من حضرۃ الکبریاء.بقیہ ترجمہ.پس اس وقت بارگاہ ِایزدی سے میرے دل میں یہ ڈالا گیاکہ مَیں تمہارے ہاں مدد طلب کرنے کے لئے پناہ لوں تا تم اہل مدینہ کی طرح میرے انصار بن جائو.اور جس نے میری مدد کی اور میری تصدیق کی اس نے اپنے ربّ کو اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو راضی کر لیا.اور جانوروں سے بھی بد تر وہ لوگ ہیں جو بہرے اور گونگے ہیں.اور حق اور حکمت کی طرف کان نہیں دھرتے اور نہ وہ کسی دلیل کو سننا چاہتے ہیں اگر چہ وہ حجج بالغہ ہی سے کیوں نہ ہو.اور جب انہیں کہا گیاکہ تم اس پر ایمان لائو جو تمہیں اپنے رب سے حق اور واضح دلائل سے دیا گیا ہے بعد ان ایام کے جبکہ بڑی تعداد میں فرقے پیدا ہو گئے اور ان کا باہمی اختلاف بڑھ گیا اور بحرضلالت میں تلاطم برپا ہو گیا.تو انہوںنے کہا.ہم نہیں جانتے کہ حق کیا ہے ہم نے تو اپنے آباء و اجداد کو ایک عقیدہ پر پایا ہے اور اس عقیدہ پر تاموت قائم رہیں گے.انہیں مَیں نے وہی کہا جو قرآن کریم نے کہاہے لیکن ان کا جواب سوائے گالی گلوچ اور بکواس کے کچھ نہ تھا.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ علم دیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السّلام فوت ہو گئے ہیں اور مُردوں سے مل گئے ہیں.اور وہ شخص جو آسمان سے اُترنے والا تھا وہ یہی ہے جو تمہارے درمیاں کھڑا ہے.جیسا کہ مجھے خدا کی طرف سے وحی کی گئی ہے.
وکانت حقیقۃ النزول۱؎ ظھورالمسیح الموعود عند انقطاع الاسباب.وضعف الدولۃ الاسلامیۃ وغلبۃ الاحزاب.وکان ھٰذا اشارۃ الی ان الامرکلہ ۱؎ الحاشیۃ.اعلموا انّ لفظ النزول قد اختیر للمسیح الموعود للوجھین (۱)احد.ھما لاظہار انقطاع الاسباب الارضیۃ کالحکومۃ والریاسۃ والوسائل الحربیۃ فی مُلک یُبعث فیہ من الحضرۃ الاحدیّۃ.کانّہ کانت اشارۃ الٰی ان المسیح الموعود لایأتی الا فی مُلک لایبقٰی فیہ للاسلام قوۃٌ ولا للمسلمین طاقۃ ومع ذالک یقومون للانکار و یریدون اَن یطفئوا نور اللّٰہ فضلا من ان یکونوا من الانصار فیؤیّد المسیح من لدن ربّ السماء ولایکون علیہ منّۃ احد من ملوک الارض واھل الدول والامراء ولایستعمل السیف والسنان فکانّہ نزل من السماء ونصرہ اللّٰہ من لدنہ و أعان.۱؎ ترجمہحاشیہ.جان لو کہ مسیح موعود کے لئے لفظ نزول دو وجوہ سے اختیار کیا گیا ہے (۱) ان میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس بات کو ظاہر کرنا تھا کہ جس ملک میں وہ خدا ئے یگا نہ کی طرف سے مبعوث ہو گا.اس میں زمینی اسباب ( جیسے حکومت ، ریاست اور جنگی وسائل) منقطع ہو چکے ہوںگے.گویا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود ایسے ملک میں آئے گا جس میں اسلام کے لئے کوئی قوت باقی نہیں رہے گی نہ مسلمانوںمیںکوئی طاقت ہو گی.اس کے باوجود وہ انکار کے لئے کھڑے ہوں گے اوربجائے اس کے کہ وہ انصارمیں سے ہوتے وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھانے کا ارادہ کریں گے.پس آسمانوں کے ربّ کی طرف سے مسیح کی تائید ہو گی.اور اس پر دنیا کے بادشاہوں، نوابوں اور امراء ،میں سے کسی کا احسان نہ ہو گا.اور تلوار اور نیزہ کا استعمال نہیں ہو گا.(پس یوںسمجھا جائے گا کہ ) گویا وہ آسمان سے نازل ہوا.اور اللہ تعالیٰ بقیہ ترجمہ : کی حقیقت یہ تھی کہ مسیح موعود اسباب کے منقطع ہو جانے اسلامی حکومت کے کمزور ہونے اور دوسرے گروہوں کے غلبہ کے بعد ظاہر ہو گا.اوریہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ یہ امر سارے کا سارا
ینزل من السماء.من غیر ضرب الاعناق وقتل الاعداء.ویُریٰ کالشمس فی الضیاء.ثم نقل اھل الظاھر ھٰذہ الاستعارۃ الی الحقیقۃ.فھٰذہ اوّل مصیبۃ نزلت علٰی ھٰذہ الملۃ.وما اراد اللّٰہ من انزال المسیح.الّا لیُری مقابلۃ الملتین بالتصریح.فان نبینا المصطفٰی کان مثیل موسٰی.وکانت سلسلۃ خلافۃ الاسلام.کمثل سلسلۃ خلافۃ الکلیم من اللّٰہ العلّام.فوجب من ضرورۃ ھٰذہ المماثلۃ والمقابلۃ ان یظھر فی اٰخر ھٰذہ السلسلۃ مسیح کمسیح السلسلۃ الموسویۃ.ویھود کالیھود الذین کفّروا بقیہ ترجمہ.بغیر گردنوں کے اُڑانے اور دشمنوں کے قتل کرنے کے آسمان سے نازل ہو گا اور روشنی میں سُورج کی مانند دکھائی دے گا.لیکن اہل ظاہر نے اس استعارہ کو حقیقت پر محمول کر لیا.اور یہ پہلی مصیبت تھی جو اس قوم پر نازل ہوئی.اور انزال مسیح سے خدا تعالیٰ کا ارادہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ دونوں اقوام کا مقابلہ صراحت سے دکھائے.کیونکہ ہمارے نبی محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم مثیل موسٰی تھے اور خلافت اسلامیہ کا سلسلہ خدائے علّام کی طرف سے خلافت موسویہ کے سلسلہ کی مانند تھا.پس اس مماثلت اور مقابلہ کی ضرورت کی وجہ سے یہ ضروری تھا کہ اس سلسلہ کے آخر میں بھی سلسلہ موسویہ کے مسیح کی مانند ایک مسیح ظاہر ہو اور ان یہود کی طرح یہود بھی پیدا ہوں بقیۃ الحاشیۃ.(۲) ثانیھما لاظہار شھرۃ المسیح الموعود فی اسرع الاوقات والزمان فی جمیع البلدان.فان الشیٔ الذی ینزل من السماء یراہ کل احدٍ من قریبٍ وبعیدٍ ومن الاطراف والانحاء.ولایبقٰی علیہ سِتْرٌ فی اَعْین ذوی الانصاف.ویشاھد کبرقٍ یبرق من طرفٍ الی طرفٍ حتّی یحیط کدائرۃٍ علی الاطراف.منہ بقیہ ترجمہ حاشیہ.(۲) دوسری وجہ مسیح موعود کے لئے لفظ نزول کے اختیارکرنے کی یہ ہے کہ اس سے اس بات کا اظہار کرنا مقصود تھا کہ مسیح موعود (وقت اور زمانہ کے لحاظ سے) بہت جلد تمام ممالک میں شہرت پا جائے گا اور جو چیز آسمان سے نازل ہوتی ہے اس کو ہر ایک دیکھ لیتا ہے قریب ہو یا دُور یا اطراف و جوانب سے ہو اور منصف مزاج لوگوں کی نظر میں کوئی پردہ باقی نہیں رہتا اور وہ اس بجلی کی طرح دکھائی دیتی ہے جو ایک طرف سے چمکتی ہے اور پھر تمام اطراف پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہو جاتی ہے.منہ
عیسٰی وکذبوہ و ارادوا قتلہ وجروہ الٰی ارباب الحکومۃ فمن العجب ان علماء الاسلام اعترفوا بان الیھود الموعودون فی اٰخر الزمان لیسوا یھودًا فی الحقیقۃ بل ھم مثلھم من المسلمین فی الاعمال وَالعادۃ.ثم یقولون مع ذالک ان المسیح ینزل من السماء.وھو ابن مریم رسول اللّٰہ فی الحقیقۃ لامثیلہ من الاصفیاء.فکانھم حسبوا ھٰذہ الامۃ اردء الامم واخبثھم فانھم زعموا ان المسلمین قوم لیس فیھم احد یقال لہ انہ مثیل بعض الاخیار السابقین.وامّا مثیل الاشرار فکثیرفیھم ففکروا فیہ یامعشر العاقلین.ثم ان مسئلۃ نزول عیسٰی نبی اللّٰہِ کانت من اختراعات النصرانیین.واماالقراٰن فتوفاہ والحقہ بالمیتین.وما اضطرت النصارٰی الٰی نحت ھٰذہ العقیدۃ الواھیۃ ِ بقیہ ترجمہ.جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی اور انہیں قتل کرنا چاہا اور انہیں ارباب حکومت کی طرف کھینچ کر لے گئے.اور تعجب کی بات ہے کہ علماء اسلام نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آخری زمانہ میں جن یہودیوں کا وعدہ دیا گیا ہے وہ فی الحقیقت یہودی نہیں ہوں گے بلکہ وہ مسلمانوں میں سے اپنی عادات اور اعمال کے لحاظ سے ان جیسے ہی ہوں گے اور پھر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ مسیح آسمان سے نازل ہو گا.اور وہ فی الحقیقت مریم کے بیٹے اﷲ کے رسول ہوں گے.یوں نہیں کہ اصفیاء میں سے ان کا کوئی مثیل ہو گا.گویا انہوں نے اس امت کو سب امتوں سے زیادہ ردّی اور ناپاک سمجھا.کیونکہ انہوں نے یہ گمان کیا کہ مسلمانوں میں سے کوئی فرد بھی ایسا نہیں جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ وہ بعض گذشتہ اخیار کا مثیل ہے.اور جہاں تک اشرار کے مثیلوں کا سوال ہے وہ ان میں بڑی تعداد میں ہیں.پس اے عقلمند گروہ تم اس بارہ میں غور کرو.پھر یہ بھی سنو کہ نزول عیسٰی کا مسئلہ عیسائیوں کی ایجاد ہے.قرآن کریم نے تو مُردہ قرار دے کر اسے مُردوں میں شامل کیا ہے.اور عیسائی اس ردّی عقیدہ کو اختراع کرنے پر اس وقت مجبور ہو ئے
ِالّافی ایام الیأس وقطع الامل من النصرۃ الموعودۃ.فان الیھود کانوا یسخرون منھم ویضحکون علیھم ویؤذونھم بانواع الکلمات.عندما رَأَوْا خذلانھم وتقلبھم فی الاٰفات.فکانوا یقولون این مسیحکم الذی کان یزعم انہ یرث سریر داوٗد وینال السلطنۃ وینجی الیھود فتألم النصارٰی من سماع ھٰذہ المطاعن.و الام الصبرُ باللّاعن.فنحتوا الجوابَین.عند ہٰذین الطعنین والخطابین.فقالوا ان یسوع ابن مریم وان کان مانال السلطنۃ فی ھٰذہ الاٰوان.ولٰـکنہ ینزل بصورۃ الملوک الجبارین القھارین فی اٰخر الزمان.فیقطع ایدی الیھود وارجلھم وانوفھم ویھلکھم باشد العذاب والھوان.ویجلس احبابہ بعد ھٰذا العقاب.علی سرر مرفوعۃ موعودۃ فی الکتاب.و اما قول المسیح انہ من اٰمن بہ فینجیہ من الشدائد التی نزلت علٰی بقیہ ترجمہ.جب وہ نااُمید ہو گئے اور اس نصرت الٰہی کی طرف سے ان کی امیدیں ٹوٹ گئیں جس کا انہیں وعدہ دیا گیا تھا اور یہودی ان سے تمسخر کرتے، ان پر ہنستے اور ان کو مختلف کلمات کے ساتھ دکھ دیتے.اُس وقت انہوں نے اپنے آپ کو بے یارو مددگار اور آفات میں مبتلا دیکھا.یہود کہتے تھے.کہاں ہے تمہارا وہ مسیح جو یہ خیال کرتا تھا کہ وہ دائود کے تخت کا وارث ہو گا؟ حکومت حاصل کرے گا.اور یہود کو نجات دے گا.یہود کے ان طعنوں سے عیسائی لوگ بہت دکھی ہوئے.بھلا لعنت کرنے والے پر کب تک صبر کیا جا سکتا ہے.چنانچہ انہوں نے ان دونوں طعنوں اور خطابوں کے موقعہ پر دو جواب گھڑے.انہوں نے یہ کہا کہ یسوع ابن مریم نے گو اس زمانہ میں حکومت حاصل نہیں کی.لیکن وہ آخری زمانہ میں جبّار اور قہّار بادشاہوں کے رُوپ میں نازل ہو گا اور یہودیوں کے ہاتھ اور پائوں اورناک کاٹے گا اور گا اور ان کو سخت عذاب دے گا.اور ذلّت سے ہلاک کرے گا.پھر اس سزا کے بعد اپنے ساتھیوں کو ان بلند تختوں پر بٹھائے گا جن کا تورات میں وعدہ دیا گیا ہے اور مسیح کا یہ کہنا کہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے گامَیں اسے ان سختیوں سے نجات
بنی اسرائیل.فمعناہ انہ ینجیہ بدمہ من الذنوب لامن جور الحکومۃ الرومیۃ کما ظنّ وقیل.فحاصل الکلام ان النصارٰی لمّا اٰذاھم طول مکثھم فی المصائب.واطال الیھود السنھم فی امرھم وحسبوھم کالخاسر الخایب.شق علیھم ھٰذا الاستھزاء.فنحتوا العقیدتین المذکورتین لیسکت الاعداء.وانّ من عادات الانسان.انہ یتشبّث بامانی عند ھبوب ریاح الحرمان.واذا رأی انہ مابقی لہ مقام رجاء.فیسرّ نفسہ باَھْوائٍ.فیطلب ما ندّ عن الاذھان.وشذّ عن الاٰذان.فقد یطلب الکیمیاء عند نفاد الاموال.وقد یتوجہ الی تسخیر النجوم والاعمال.وکذالک النصارٰی اذا وقع علیھم قول الاعداء.وما کان مَفَرٌّ من ھٰذا البلاء.فنحتوا مانحتوا واتّکئوا علی بقیہ ترجمہ.دلائوں گاجو بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ ان کو اپنے خون کے ساتھ گناہوں سے نجات دلائے گا نہ کہ رُومی حکومت سے ظلم سے جیسا کہ خیال کیا جاتا اور کہا جاتا ہے.حاصل کلام یہ ہے کہ جب نصارٰی کو مصائب میں ایک لمبے عرصہ تک پڑے رہنے سے دکھ پہنچا.اور یہودیوں نے ان کے بارہ میں زبانیںدراز کیں.اور انہیں خائب و خاسر انسان کی مانند خیال کیا.تو اُن پر یہ استہزاء شاق گذرا.تب انہوں نے مذکورہ دونوں عقیدے گھڑ لئے تا دشمن خاموش ہوجائیں.انسان کی عادت ہے کہ جب اس پر محرومی کی اندھیریاں چلنے لگتی ہیں.تو وہ اپنے لئے آرزوئوں کا سہارا لیتا ہے اور جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کے لئے امید کا کوئی مقام باقی نہیں رہا تو وہ اپنے نفس کو خواہشات کے ساتھ خوش رکھتا ہے.اور ایسی ایسی باتیں تلاش کرتا ہے جو ذہن سے نکل گئی ہوں اور کانوں سے جدا ہو گئی ہوں.پس کبھی تو وہ اموال ختم ہو جانے کے بعد کیمیاء کی تلاش میں لگ جاتا ہے اور کبھی نجوم اور اعمال کے مسخر کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے.اسی طرح جب نصاریٰ پر دشمنوں کی طعن آمیز باتوں کی زد پڑی.اور انہیں اس سے کوئی جائے فرار نہ ملی تب انہوں نے وہ گھڑا جو گھڑا.اور اپنے لئے آرزوئوں کا سہارا لیا
الامانی.کماھوسیرۃ الاسیر والعانی.فاشاعوا الاصولین المذکورین کما تعلم وترٰی.ووفّوا حق العمٰی.ولما صار اعتقاد نزول المسیح جزو طبیعتھم.واحاط علی مجاری الفھم وعادتھم.کانت عنایتھم مصروفۃ لامحالۃ الی نزول عیسٰی.لیھلک اعداء ھم ویجلسھم علی سرر العزۃ والعُلٰی.فھٰذا ھوسبب سریان ھٰذہ العقیدۃ فی الفِرق المسیحیۃ.ومثلھم فی الاسلام یوجدفی الشیعۃ.فانّہ لمّا طال علیھم امد الحرمان.وما قام فیھم ملک الی قرون منالزمان.نحتوا من عند انفسھم ان مھدیھم مستتر فی مغارۃ.ویخرج فی اٰخرالزمان و یحیی صحابۃ رسول اللّٰہ لیقتلھم بِاذِیّۃٍ.وان حسینًا بن علی وان کان مانجّاھم من ظلم یزید.ولٰکن ینجّیھم بدمہ فی الیوم الاٰخرمن عذاب شدید.وکذالک کل من خسر وخاب نَحَتَ ھٰذا الجواب.وسمعت ان فرقۃ من الوھابیین بقیہ ترجمہ.جیسا کہ ایک قیدی کی سیرت ہے.پس انہوں نے جیسا کہ تو جانتا اور دیکھتا ہے ان دونوں اصولوں کی اشاعت کی اور انہوں نے نابینائی کا حق ادا کیا.اور جب نزول مسیح کا عقیدہ ان کی طبیعت کا جزو بن گیا اور ان کی عادت کے راستوں پر چھا گیا تو ان کی توجہ لامحالہ نزول عیسیٰ کی طرف منعطف ہوئی.تا وہ ان کے دشمنوں کو ہلاک کرے.اور انہیں عزت اور بلندی کے تختوں پر بٹھائے.غرض مسیحی فرقوں میں اس عقیدہ کے شائع ہونے کا یہی سبب ہے.اور اسلام میں ان کی مثال شیعوں میں پائی جاتی ہے.جب ان پر محرومی کا عرصہ لمبا ہو گیا.اور صدیوں تک ان میں کوئی بادشاہ نہ ہوا تو انہوں نے اپنی طرف سے یہ عقیدہ گھڑا کہ ان کا مہدی غار میں چھپا ہوا ہے.اور وہ آخری زمانہ میں باہر نکلے گا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ بھی زندہ کئے جائیں گے.تا وہ انہیں اذیّت دے دے کر قتل کرے.اور حسین بن علیؓ نے تو انہیں یزید کے ظلم سے نجات نہ دلائی.لیکن وہ آخرت میں اپنے خون کے ساتھ انہیں عذاب شدید سے نجات دلائے گا.اور اس طرح ہر وہ شخص جس نے بھی خسارہ اُٹھایا اور ناکام ہوا.اس نے یہی جواب گھڑا.اور مَیں نے سنا ہے کہ ہندوستانی وہابیوں کا ایک فرقہ بھی ان
الھندیین ینتظرون کمثل ھٰذہ الفرق شیخھم سید احمد انلبریلوی وانفدوا اعمارھم فی فلوات منتظرین فھٰؤلاء کلھم محل رحم بمالم یرجع احد من کبراء ھم الی ھٰذا الحین.بل رجع المنتظرون الیھم وکم حسرات فی قلوب المقبورین.فملخّص القول ان عقیدۃ رجوع المسیح وحیاتہ کانت من نسج النصارٰی ومفتریاتھم.لیطمئنوا بالامانی ویذبّوا الیھود وھمزاتھم.واما المسلمون فدخلوھا من غیر ضرورۃ.و اُخذوا من غیر شبکۃ.واکلوا السم من غیر حلاوۃ.واذا قبلوا رکنًا من رکنی الملۃ النصرانیۃ.فما معنی الانکار من الرکن الثانی اعنی الکفّارۃ.وانا فصّلنا ھٰذہ الامور کلھا فی الکتاب.وکفاک ھٰذا ان کنت من الطُّلّاب.ان الذین ظنوا من المسلمین ان عیسٰی نازل من السماء مااتبعوا الحق بل ھم فی وادی الضلال یتیھون.ما لھم بذالک من بقیہ ترجمہ.فرقوں کی طرح اپنے بزرگ حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی کا انتظار کر رہے ہیں.انہوں نے ان کا انتظار کرتے کرتے جنگلوں میں اپنی زندگیاں گذار دی ہیں.یہ سب لوگ اس لحاظ سے قابل رحم ہیں کیونکہ اس وقت تک ان کے بزرگوں میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا بلکہ انتظار کرنے والے ان بزرگوں کی طرف لوٹ گئے اور ان دفن شدہ لوگوں کے دلوں میں کتنی ہی حسرتیں ہیں.خلاصہ کلام یہ ہے کہ رجوع عیسیٰ اور ان کی زندگی کا عقیدہ عیسائیوں کی اختراع اور ان کا افتراء ہے تا وہ اپنے نفس کو خواہشات کے ذریعہ اطمینان دلائیں.اور یہود کے ان اعتراضات کا ردّ کریں.مسلمان تو بغیر کسی ضرورت کے ان وساوس میں پڑ گئے.اور وہ بغیر کسی جال کے پکڑے گئے اور انہوں نے بغیر کسی مٹھاس کے زہر کو کھایا ہے اور جب انہوں نے ملّتِ نصرانیہ کے دو ارکان میں سے ایک رُکن کو قبول کر لیا ہے تو دوسرے رُکن یعنی کفّارہ سے انکار کی کیا وجہ ہے.اور ہم نے ان تمام امور کو اپنی کتاب میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے.اور اگر تو حق کا متلاشی ہے تو تجھے اس قدربیان کافی ہے.مسلمانوں میں سے جنہوں نے یہ گمان کیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے انہوں نے حق کی پیروی نہیں کی بلکہ وہ گمراہی کی وادی میں بھٹک رہے ہیں.انہیں اس کے
علم ان ھم الا یخرصون.اَمْ اُوْتوا من البرھان اوعُلّموا من القراٰن فھم بہ مستمسکون.کلّا بل اتبعوا أھواء الذین ضلّوا من قبل وترکوا ما قال ربّھم ولا یبالون.وقد ذکر الفرقان ان عیسٰی قد توفّی فبأی حدیث بعد ذالک یؤمنون.الایفکرون فی سرّ مجیٔ المسیح ام علی القلوب اقفالھا ام ھم قوم لایبصرون.ان اللّٰہ کان قد مَنّ علی بنی اسرائیل بموسٰی و النبیین الذین جاء وا من بعدہ منھم فعصوا انبیاء ھم ففریقًاکذبوا وفریقًا یقتلون.فاراد اللّٰہ ان ینزع منھم نعمتہ ویؤتیھا قومًا ٰاخرین ثم ینظرکیف یعملون.فبعث مثیل موسٰی من قوم بنی اسماعیل وجعل علماء امتہ کانبیاء سلسلۃ الکلیم وکسرغرور الیھود بھا بما کانوا یستکبرون.واٰتٰی نبینا کلّما اوتی موسٰی وزیادہ.واٰتاہ من الکتاب والخلفاء کمثلہ واحرق بہ قلوب الذین ظلموا بقیہ ترجمہ.متعلق کوئی علم نہیں وہ صرف اٹکل سے کام لے رہے ہیں.کیا انہیں کوئی دلیل دی گئی ہے.یا قرآن کریم سے انہوں نے علم حاصل کیا اوروہ اسے مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں.ایسا ہر گز نہیں.بلکہ انہوں نے فرمان خداوندی کوچھوڑا.اور اس کی پروا نہ کی اور قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ عیسٰی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں پس اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے.کیا وہ مسیح علیہ السّلام کے آنے کے راز میں غور نہیں کرتے یا اُن کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں.یا وہ ایسی قوم ہے جو بصیرت نہیں رکھتی.اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کے ذریعہ احسان کیا، لیکن انہوں نے اپنے انبیاء کی نافرمانی کی.ایک فریق نے انہیں جھٹلایا اور ایک فریق ان کے قتل کے درپے ہوا.پس اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ وہ ان سے اپنی نعمت چھین لے اور دوسری قوم کو دیدے.پھر وہ دیکھے کہ وہ کیا کرتے ہیں.پس اس نے بنو اسمٰعیل میں مثیل موسیٰ کو مبعوث فرمایا اور اس کی امّت کے علماء کو موسوی سلسلہ کے انبیاء کی مانند بنایا اور اس طرح یہود کے غرور کو ان کے تکبر کرنے کے سبب توڑ دیا اور اس نے ہمارے نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کو وہ سب کچھ دیا جو اس نے موسیٰ علیہ السلام کو دیابلکہ اس سے زیادہ دیا.پھر اس نے آپ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند کتاب اور خلفاء دیئے اور اس کے ساتھ ظالم اور متکبر لوگوں کے
واستکبروا لعلھم یرجعون.فکما انہ خلق الازواج کلّھا کذالک جعل السلسلۃ الاسماعیلیۃ زوجًا للسلسلۃ الاسرائیلیۃ.وذالک امرنطق بہ القراٰن ولا ینکرہ الاالعمون.الا تری قولہ تعالٰی فی سورۃ الجاثیۃ.. . .۱؎ فانظر کیف ذکر اللّٰہ تعالٰی ھٰھنا سلسلتین متقابلتین سلسلۃ موسٰی الٰی عیسٰی.وسلسلۃ نبینا خیر الوریٰ الی المسیح الموعود الذی جاء فی زمنکم ھٰذا.وانہ ماجاء من القریش کما ان عیسٰی ماجاء من بنی اسرائیل.وانہ علم لساعۃ کافۃ الناس کما بقیہ ترجمہ.دلوں کو جلایا تا وہ رجوع کریں.پس جیسا کہ اللہ نے تمام جوڑے پیدا کئے ہیں اسی طرح اللہ نے سلسلہ اسماعیلیہ کو سلسلہ اسرائیلیہ کا جوڑا بنایا.او ر یہ وہ نکتہ ہے جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس کا انکار صرف اندھے ہی کر سکتے ہیں.کیا تو اللہ تعالیٰ کا قول نہیں دیکھتاجو سورہ جاثیہ میں فرمایا ہے.. . .پس دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں دو متقابل سلسلوں کو ( حضرت موسیٰؑ سے حضرت عیسٰی ؑ تک کے سلسلہ اور ہمارے نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم سے اس مسیح موعودتک کے سلسلہ کو جو تمہارے اس زمانہ میں آیا) کس طرح بیان کیا ہے.اور پھر یہ کہ وہ (مسیح موعود)قریش سے نہیں آیا جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل سے نہیں آئے تھے اور یہ کہ وہ تمام لوگوں ۱؎ الجاثیۃ : ۱۷ تا ۱۹
کان عیسٰی علما لساعۃ الیھود.ھٰذا ما اشیر الیہ فی الفاتحۃ.وما کان حدیث یفتریٰ.وقد شھدت السماء باٰیاتھا وقالت الارض الوقت ھٰذا الوقت فاتق اللّٰہ ولاتیئس من روح اللّٰہ والسلام علی من اتبع الھُدٰی.فحاصل الکلام ان القراٰن مملو من ان اللّٰہ تعالٰی اختار موسٰی بعد ما اھلک القرون الاولٰی واٰتاہ التوراۃ وارسل لتائیدہ النبیین تترا.ثم قفا علٰی اٰثارھم بعیسٰی۱؎.واختار محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد ما اھلک الیھود واردیٰ.لا شک ولاریب ان السلسلۃ الموسویۃ والمحمدیۃ قد تقابلتا بقیہ ترجمہ.کے لئے آخری گھڑی کے عَلَمْ کے طور پر ہے جیساکہ حضرت عیسیٰ ؑیہود کی آخری گھڑی کے لئے بطور علم تھے.یہ وہ بات ہے جس کی طرف سورہ ٔفاتحہ میں بھی اشارہ کیا گیا ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جو افتراء کی گئی ہو بلکہ اس پر آسمان نے اپنے نشانات کے ذریعہ شہادت دی ہے اور زمین نے کہا کہ وقت یہی ہے.پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو.اور اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے.حاصل کلا م یہ کہ قرآن کریم اس بات سے بھراپڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السّلام کو برگزیدہ فرمایا اور انہیں تورات دی اور پھر ان کی تائید کے لئے متواتر نبی بھیجے پھر ان انبیاء کے نقشِ قدم پر عیسیٰ ؑ کو مبعوث فرمایا.اور یہود کو تباہ اور ہلاک کرنے کے بعدمحمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو بر گزیدہ بنایا.اور بلا شک اور بلا ریب سلسلہ موسویہ اور سلسہ محمدیہ دونوں متقابل ۱؎ الحاشیۃ.اعترض عليّ جاھل من بلدۃٍ اسمھا جھلٌ یا ذوی الحصاتِ.وفی اٰخرھاحرف المیم لیدل علٰی مسخ القلب والممات.وفرح فرحًا شدیدًا باعتراضہ وشتمنی وذکرنی بأقبح الکلمات.وقال انّ ھٰذا الرجل یزعم ان عیسٰی کان من مُتّبعی موسٰی ولیس ترجمہ حاشیہ.مجھ پر ایک جاہل نے ( جو اس شہر کا باشندہ ہے جس کا نام اے عقل مندو! جہل ہے.اور اس کے آخر میں میم کا حرف ہے جو قلوب کے مسیح ہونے اور موت پر دلالت کرتا ہے.) اعتراض کیا اور وہ اپنے اعتراض کی وجہ سے بہت خوش ہوا.اور اس نے مجھے گالیاں دیں.اور مجھے بُرے
وکذالک اراد اللّٰہ وقضٰی.واما عیسٰی فھومن خدام الشریعۃ الاسرائیلیۃ ومن انبیاء سلسلۃ موسٰی.وما اوتی لہ شریعۃ کاملۃ مستقلّۃ ولا یوجد فی کتابہ تفصیل الحرام والحلال والوراثۃ والنکاح ومسائل اخرٰی.والنصارٰی یُقِرُّون بہ بقیہ ترجمہ.واقع ہوئے ہیں اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ارادہ اور فیصلہ فرمایا ہے.عیسیٰ علیہ السّلام تو شریعت اسرائیلیہ کے خدّام میں سے اور سلسلہ موسویہ کے انبیاء میں سے تھے.اور انہیں کوئی کامل اور مستقل شریعت نہیں دی گئی تھی اور نہ ہی ان کی کتاب میں حلال و حرام ، وراثت ، نکاح وغیرہ کے مسائل تھے بقیۃ الحاشیۃ.زعمہ ھٰذا الّا باطلًا وانّ کذبہ من اَجْلی البدیھیّات.بل اُوْتی عیسٰی شریعۃً مستقلۃً بالذّات.فاغنی الذین کانوا مجتمعین علیہ من شریعۃ الکلیم واقام الانجیل مقام التوراۃ فاعلم ان ھٰذا قولٌ لایخرج من فَمٍ اِلّامن فم الذی نُجس بنجاسۃ الجھل والجھلات.وذاب انف فطنتہ بجذام التعصّبات.وزعم ھٰذا الجاھل کانّہ یستدل علی دعواہ بالفرقان الذی ھوالحَکَم عند الخصومات.وقرء قولہ تعالٰی. .۱؎ (ترجمہ بقیہ حاشیہ)کلمات سے یاد کیا.اور کہا کہ یہ شخص خیال کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متبعین سے تھے اور اس کا خیال باطل ہے اور اس کا جھوٹ اجلٰی بدیہیات سے ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو ذاتی طور پر ایک مستقل شریعت عطا کی گئی تھی اور جو لوگ آپ پر ایمان لائے انہیں آپ کی شریعت ِکلیمیّہ سے مستعنی کر دیا.اور آپ نے انجیل کو تورات کی جگہ رکھا.پس جان لے کہ یہ بات اس مُنہ سے نکل سکتی ہے جو جہالت کی پلیدی سے ملوث ہو.اور جس کی سمجھ اور فہم کا ناک تعصب کے جذام سے گل سٹر گیا ہو.اس جاہل نے خیال کیاہے کہ گویا اپنے اس دعویٰ پر قرآن کریم سے جو تمام جھگڑوں میںبطور حَکَم ہے استدلال کرتا ہے اور اس نے ( اپنے دعویٰ کے ثبوت میں) یہ آیات پڑھیں. .۱؎ المائدۃ : ۴۷، ۴۸
ولذالک تری التورات فی ایدیھم کما تری الانجیل وقال بعض فرقھم انانجینامن اثقال شریعۃ التورات بکفارۃ دم عیسٰی.واما بعضھم الاٰخرون فیحرّمون ماحرّم التوراۃ ولایاکلون الخنزیر کمثل نصاریٰ اٰرمینیا وھم اقدم من فرق اخری فی المدی.بقیہ ترجمہ.اور عیسائیوں کو بھی اس بات کا اقرار ہے اس لئے تو اُن کے ہاتھوں میں جیسے انجیل دیکھتا ہے ویسے تورات بھی دیکھتا ہے.ان کے بعض فرقے یہ کہتے ہیں کہ ہم عیسیٰ علیہ السّلام کے خون کے کفارہ کی وجہ سے تورات کی شریعت کے بوجھ سے نجات پاگئے.لیکن اُن کے بعض توارۃ کے بیان کردہ حرام کو حرام قراردیتے ہیں.اور وہ سؤر کا گوشت نہیں کھاتے جیسے آرمینیا کے عیسائی.اور وہ زمانے کے لحاظ سے تمام فرقوں سے پرانے ہیں.بقیۃ الحاشیۃ.یعنی ببشارۃ خیر الکائنات.ومافھم سرّھذہ الاٰیۃ وصال علیّ بصوت ھواَنْکر الاصوات.وظنّ انّہ اویٰ الٰی رکن شدید وسبّنی کالقاذفاتِ المفحشات.وقال انّھا دلیل واضح علی ان الانجیل شریعۃ مستقلّۃ فیااسفًا علیہ وعلی غیظہ الذی اخرجہٗ من الارض کالحشرات.وان من اشقی الناس من لاعقل لہ ویعدّ نفسہ من ذوی الحصاۃ.ویعلم کل صبیٍّ وصبیۃ من المسلمین والمسلمات فضلا من البالغین والبالغات.ان القراٰن لایامر الیھود ولاالنصاریٰ ان یتبعوا کتبھم ویثبتوا بقیہ ترجمہ حاشیہ.یعنی خیر الکائنات محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے متعلق.اور اس شخص نے اس آیت کے مفہوم کو نہ سمجھا.اور اس نے مجھ پر ایسی آواز سے حملہ کیا ہے جو سب آوازوں میں سے مکروہ تر ہے اور گمان کیا کہ اس نے ایک مضبوط رکن کی پناہ لی ہے اور اس نے مجھے تہمت لگانے والی بد کار عورتوں کی طرح گالیاں دیں اور کہا کہ ایک واضح دلیل ہے اس بات پرکہ انجیل ایک مستقل شریعت ہے.ہائے افسوس اس پر اور اس کے غصّہ پر جواس نے اس طرح نکالا جیسے زمین سے کیڑے نکل آتے ہیںاور لوگوں میں سے بد بخت ترین وہ شخص ہے جو بے عقل ہو اور پھر وہ اپنے آپ کو عقل مندوں سے شمار کرے اور بالغ مردوں اور عورتوں کو جانے دو ہر مسلمان بچہ اور ہر مسلمان بچی یہ جانتی ہے کہ قرآن کریم یہود اور نصارٰی کو اس
واتفق کلھم علٰی ان عیسٰی اتٰی بفضل من اللّٰہ وان موسٰی اتٰی بالشریعۃ وسموھما عھد الشریعۃ وعھد الفضل وسمّوا الاوّل عتیقًا والاٰخر جدیدًا فاسئلھم ان کنت تشک فی ھٰذا.فملخّص کلامنا ان اللّٰہ توجّہ الٰی بنی اسرائیل رحمۃ منہ فاقام بقیہ ترجمہ.اور ان سب نے اس بات پر اتفا ق کیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مبعوث ہوئے اور موسیٰ علیہ السّلام شریعت لائے تھے اور انہوں نے اس کا نام عہد شریعت اور عہد فضل رکھا ہے اور اسے عہد نامہ قدیم بھی کہتے ہیں اور ثانی الذکر کو عہدنامہ جدید.اگر تجھے اس میں کوئی شبہ ہے تو تُو خود اُن سے پوچھ لے.پس ہمارے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنی رحمت کے ساتھ متوجہ ہوا.اور اس نے ان میں سلسلہ موسویہ قائم فرمایا بقیۃ الحاشیۃ.علی شرائعھم بل یدعوھم الی الاسلام واوامرہ وقد قال اللّٰہ فی کتابہ العزیز. ۱؎ ۲؎.فکیف یُظنُّ فی اللّٰہ القدوسِ انّہ یدعوا الیھود والنصاریٰ فی ھٰذہ الاٰیۃ الی الاسلام ویقول انّکم لا تفلحون ابدًا ولا تدخلون الجنّۃ الابعد ان تکونوا مسلمین.ولا ینفعکم توراتکم ولاانجیلکم الاالقرآن.ثم ینسٰی قولہ بقیہ ترجمہ حاشیہ.بات کا حکم نہیں دیتا کہ وہ اپنی کتابوں کی پَیروی کریں اور اپنی شریعتوں پر ثابت قدم رہیں بلکہ وہ وہ تو انہیں اسلام اور اس کے احکام کی طرف بُلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی معزز کتاب میں فرمایا ہے.. .پس خدائے قدوس کے متعلق یہ گمان کیسے کیا جا سکتا ہے.جبکہ وہ یہود و نصاریٰ کو اس آیت میں اسلام کی طرف بُلاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے.اور جنت میں داخل نہیں ہو سکتے سوائے اس کے کہ تم مسلمان ہو جائو.اورقرآن کریم کے علاوہ تورات اور انجیل تمہیں نفع نہیں دیں گی.یہ کہہ کر پھر وہ ال عمران ۲۰ ۲ ال عمران ۸۶
فاقام سلسلۃ بموسٰی واتمّھا بعیسٰی.وھو اٰخرلبنۃٍ لھا.ثم توجہ الٰی بنی اسماعیل فاقام سلسلۃ نبینا المصطفٰی.وجعلہ مثیل الکلیم لیری المقابلۃ فی کل ما اتٰی.وختم ھٰذہ السلسلۃ علٰی مثیل عیسٰی.لیتم النعمۃ علی ھٰذہ السلسلۃ کما اتمھا علی السلسلۃ بقیہ ترجمہ.اور عیسیٰ علیہ السّلام کے ساتھ اس سلسلہ کو مکمل کیا اور آپ اس سلسلہ کی آخری اینٹ تھے.پھر وہ بنو اسمعٰیل کو طرف متوجہ ہوا.اور اُن میں ہمارے نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ قائم کیا.اور آپ کو موسیٰ کلیم اللہ کا مثیل بنایا تا وہ ہربات میں ان دونوں سلسلوں کا تقابل دکھائے اور اس سلسلہ ( محمدیہ )کومثیل عیسیٰ پر ختم کیا.تا وہ اس نعمت کو اس سلسلہ پر پہلے سلسلہ کی طرح مکمل کرے.بقیۃ الحاشیۃ.الاوّل ویامرکل فرقۃ من الیھود والنصارٰی ان یثبتوا علی شرائعھم یتمسکوا بکتبھم ویکفیھم ھٰذا لنجاتھم وان ھٰذا الاجمع الضدّین واختلاف فی القراٰن.واللّٰہ نزّہ کتابہ عن الاختلاف بقولہ .۱؎ بل الاٰیۃ التی حَرَّف المُعتَرِض معناھا کمثل الیھود تشیر الی ان بشارۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانت موجودۃً فی التورات والانجیل فکان اللّٰہ یقول مالھم لایعملون علٰی وصایا التوراۃ والانجیل ولایُسلمون.بقیہ ترجمہ حاشیہ.اپنی پہلی بات کو بھول جائے اور یہود اور نصاریٰ کے ہر فرقہ کو اس بات کا حکم دے کہ وہ اپنی شرائع میں ثابت قدم رہیں اور اپنی کتابوں کومضبوطی سے پکڑے رکھیں اور یہ ان کی نجات کے لئے کافی ہے.یہ تو اجتماع ضدین ہے اور قرآن کریم میں اختلاف ہے.اور اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر اپنی کتاب کو اختلاف سے پاک ٹھہرا دیا ہے کہ .بلکہ وہ آیت جس کے معنی کو معترض نے یہود کی طرح محرف و مبدّل کر دیا ہے.وہ تو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے متعلق اس بشارت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو تورات اور انجیل میں موجود تھی گویا خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ تورات اور انجیل کی وصایا پر عمل نہیں کرتے اور اسلام قبول نہیں کرتے.النساء ۸۳
الاولٰی.وان کانت السلسلۃ المحمدیۃ خالیۃً من ھٰذا المسیح المحمدی.فتلک اذا قسمۃٌ ضیزیٰ.ففکروا کل الفکر ولیس النُھٰی الا لھٰذا الامریا اولی النُھٰی.ولا ینجی بقیہ ترجمہ : اور اگر سلسلہ محمدیہ اس مسیح محمدی سے خالی ہوتا تو یہ تقسیم ناقص اور ظالمانہ ہوتی.پس اے عقل مندو! اس میں خوب غور کرو.عقل اسی لئے تو دی گئی ہے.اور انسان کو صرف صداقت ہی نجات دے سکتی ہے.بقیۃ الحاشیۃ.نعم لوکانت عبارۃ القراٰن بصیغۃ الماضی ولم یقل وَلْیَحْکُمْ بل قال وکان النصاریٰ یحکمون بالانجیل فقط مکان ذالک دلیلًا علٰی مدعاہُ و اما بقیۃ الفاظ ھٰذہ الاٰیات اعنی لفظ فیہ نوروھدًی فلیس ھٰذا دلیلًا علی کون الانجیل شریعۃً مستقلّۃً الیس الزبور وغیرہ من کتب انبیاء بنی اسرائیل ھُدًی للناس أ یوجد فیھا ظلمۃ ولایوجد نور فتفکر و لا تکن من الجاھلین.وانّ النصارٰی قد اتفقوا علٰی ان عیسی بن مریم ما ا تاھم بالشریعۃ واِنّا نکتب ھٰھنا شھادۃ جی.اے لیفراے الذی ھوبشپ لاھور اعنی امام قسوس ھٰذہ الناحیۃ وکفاک ھٰذا ان کنت تخشی من سواد الوجہ والذلّۃ.ورأینا ان نکتب علیحدۃ ھٰذہ الشھادۃ فی الحاشیہ.منہ.۱؎ بقیہ ترجمہ حاشیہ : ہاں اگر قرآن کریم کی عبارت میں صیغہ ماضی کا ہوتا اور وہ یہ نہ کہتا کہ وَلْیَحْکُمْ.بلکہ یہ کہتا وَکَانَ النَّصَارٰی یَحْکُمُوْنَ بِالْاِنْجِیْلِ فقط یعنی عیسائی لوگ صرف انجیل کے مطابق فیصلے کرتے تھے تو یہ اس کے دعویٰ پر ایک دلیل ہوتی.پھر آیت کے بقیہ الفاظ یعنے نُورٌوَّھُدًی بھی انجیل کے مستقل شریعت ہونے پر کوئی دلیل نہیں.کیا زبور اور اس کے علاوہ انبیاء بنی اسرائیل کی دوسری کتابیں لوگوںکے لئے ہدایت نہ تھیں.کیا ان میں ظلمت اور تاریکی پائی جاتی تھی ار کوئی نُور اُن میں نہیں تھا.پس تو فکر کر اور جاہلوں سے نہ بن.اور عیسائی خود اس بات پر متفق ہیںکہ عیسیٰ علیہ السّلام ان کے پاس کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے چنانچہ ہم یہاں جی.اے لیفرائے بشپ لاہور ( یعنی اس علاقہ کے علاقہ کے عیسائیوں کے امام )کی شہادت نقل کرتے ہیں.اگر تو رو سیاہی اورذلّت سے ڈرتا ہے تو یہ شہادت تیرے لئے کافی ہے.اور ہم نے مناسب سمجھا ہے کہ ہم اس شہادت کو علیحدہ حاشیہ۱؎ میں نقل کریں.منہ ۱؎ یہ حاشیہ اس اشتہار کے آخر میں درج ہے.( مرتب )
المرء الاالصدق فاطلبوہ بدقّ باب الحضرۃ.واقبلوا علی اللّٰہ کل الاقبال لھٰذہ الخطّۃِ.وادعوہ فی جوف اللیالی وخرّوا باکین للّٰہ ذی العزۃ والجبروت ولا تمرّوا ضاحکین ھامزین واستعیذوا باللّٰہ من الطاغوت.یاعباد اللّٰہ تذکروا وتیقظوا فان المسیح الحَکَم قدأَتٰی.فاطلبوالعلم السماوی ولا تقوِّ موا متا عکم فی حضرۃ المولٰی.وواللّٰہ انّی من اللّٰہ اتیتُ وما افتریتُ وقدخاب من افتریٰ.انّ ایاّم اللّٰہ قداَتَتْ وحسراتٌ علی الذی ابٰی.ولا یُفلح المُعرض حیث أَتٰی.والحق والحق اقول ان مجیٔ المسیح من ھٰذہ الامۃ کان امرا مفعولا من الحضرۃ من مقتضی الغیرۃ.وکان قدّر ظہورہ من یوم الخلقۃ.والسرّفیہ ان اللّٰہ اراد ان یجعل اٰخرالدنیا کأولھا فی نفی الغیر والمحوفی طاعۃ الحضرۃ الاحدیۃ.واسلاک الناس فی سلک الوحدۃ بقیہ ترجمہ.اس لئے خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے طلب کرو.اور اس کام کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جائو.اس سے راتوں میں دعائیں کرو اور اس صاحب عزّت و جبروت کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے گِرجائو اور ہنستے ہوئے اور چٹکی لیتے ہوئے نہ گذر جائو.اور شیطان سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو.اے بندگان خدا! نصیحت پکڑو اور بیدار ہو جائو کہ مسیح جو حَکَم ہے آگیا ہے.پس تم آسمانی علم کو حاصل کرو اور خدا تعالیٰ کے حضور اپنے ناقص متاع کی کوئی قیمت نہ سمجھو.اور اﷲ تعالیٰ کی قسم مَیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں.اور مَیں نے کوئی افتراء نہیں کیا اور جو افتراء کرے وہ ناکام ہوتا ہے.اﷲ تعالیٰ کے دن آ گئے ہیں اور جو انکار کرے اس پر افسوس ہے اور اعراض کرنے والا جہاں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا.اور حق (مَیں حق ہی کہتا ہوں) یہ ہے کہ مسیح موعود نے اسی امت سے آنا تھا اور یہ امر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے تقاضائے غیرت کی وجہ سے ہو کر رہنا تھا اور اس نے اس کے ظہور کو ابتدائے آفرینش سے مقدر کر رکھا تھا اور اس میں یہ راز تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ وہ دنیا کے آخری حصّہ کو غیر اﷲ کی نفی کرنے اور حضرت احدیت کی اطاعت میں محو ہو جانے میں اور لوگوں کو بعد اس کے کہ وہ قہری وحدت کی طرف بلائے گئے طبعی وحدت کی لڑی میں پرونے کے
الطبعیۃ بعدما دعوا الی الوحدۃ القھریۃ.وکان الناس مُفْترقین الی الفرق المختلفۃ.والاٰراء المتنوعۃ.والاھواء المتخالفۃ.ومطیعین للحکومۃ الشیطانیۃ الدجالیۃ الظلمانیۃ.وماکانوا منفکین حتی تنزل علیھم فوج من السکینۃ.والشیطان الذی ھوثعبان قدیم ودجال عظیم ماکان مخلصھم من اسرہ.وکان یرید ان یاکلھم کلھم ویجعلھم وقود النار لانہ نظر الٰی ایّامہ و رَأَی انہ مابقی من ایام الانظار الا قلیلا فخاف ان یکون من المغلوبین.بمالم یکن من المنظرین اِلّا الٰی ھٰذا الحین فراٰی انہ ھالک بالیقین.فاراد اَنْ یصول صولا ھو خاتم صولا تہ واٰخر حرکاتہ.فجمع کلما عندہ من مکائدہ وحِیَلہ وسلاحہ وسائر الاٰلات الحربیّۃ.فتحرک کالجبال السائرۃ.والبحار الزاخرۃ بجمیع افواجہ لیدخل حمی الخلافۃ مع ذُرّیاتہ.فعند ذالک انزل اللّٰہ مسیحہ من السماء بالحربۃ السماویۃ.لیکون بین بقیہ ترجمہ.لئے اس کے پہلے حصّہ کی مانند بناوے.اور لوگ مختلف فرقوں اور قسما قسم کی آراء اور متضاد خواہشات میں بٹ چکے تھے اور وہ شیطانی دجّالی اور ظلمانی حکومت کے مطیع تھے اور وہ اس سے اس وقت تک ہٹے نہیں جب تک کہ ان پر سکینت کی فوج نازل نہ ہوئی.اور شیطان جو قدیم اژدھا اور عظیم دجّال ہے ا س کی قید سے وہ مخلصی نہیں پا سکتے تھے.اور وہ چاہتا تھا کہ انہیں سارے کا سارا کھالے اور انہیں آگ کا ایندھن بنا دے.کیونکہ اس نے اپنے ایّام کی طرف نظر کی.اور اس نے دیکھا کہ اب مہلت کی گھڑیوں کا کم حصّہ ہی باقی رہ گیا ہے پس وہ اس بات سے ڈرا کہ کہیں وہ مغلوب نہ ہو جائے کیونکہ اسے صرف اسی وقت تک کے لئے مہلت دی گئی تھی اور اس نے سمجھا کہ وہ اب یقینا ہلاک ہو جائے گا.تب اس نے اپنا آخری حملہ کیا جو اس کا عظیم حملہ اور آخری حرکت تھی.پس اس نے اپنی سب تدبیروں، حیلوں، ہتھیاروں اور سارے جنگی آلات کو جمع کیا اور متحرک پہاڑوں اور موجزن سمندروں کی طرح اپنی سب افواج سمیت حرکت کی تا وہ اپنی نسل کے ساتھ خلافت کے رمنہ میں داخل ہو جائے.پس اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اپنے مسیح کو حربہ سماوی دے کر آسمان سے نازل کیا تا کفر اور ایمان میں تقسیم
الکفروالایمان فیصلۃ القسمۃ.وانزل معہ جندہ من اٰیاتہ وملا ئکۃ سماواتہ.فالیوم یوم حرب شدید وقتال عظیم بین الداعی الی اللّٰہ وبین الداعی الی غیرہ.انھا حرب ماسمع مثلھا فی اول الزمن ولا یسمع بعدہ.الیوم لایترک الدجال المفتعل ذرۃ من مکائدہ الا یستعملھا.ولاالمسیح المبتھل ذرۃ من الاقبال علی اللّٰہ والتوجہ الی المبدء الا ویستوفیھا.ویحاربان حربًا شدیدًا حتی یعجب قوتھما وشدتھما کُلّ من فی السّمآء وتری الجبال قدمُ المسیح ارسخ من قدمھا.والبحار قلبہ ارق واجرٰی من ماء ھا.وتکون محاربۃ شدیدۃ وتنجّر الحرب الی اربعین سنۃ من یوم ظہور المسیح حتّی یُسْمع دُعاء المسیح لتقواہ و صدقہ.وتنزل ملا ئکۃ النصرۃ ویجعل اللّٰہ الھزیمۃ علی الثعبان وفوجّہ منّۃ علٰی عبدہ.فترجع قلوب الناس من الشرک الی التوحید ومن حب الشیطان الی حب بقیہ ترجمہ.کا فیصلہ ہو اور اس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نشانات اور اپنے آسمان کے فرشتوں کے لشکر اُتارے.پس آج سخت لڑائی کا دن ہے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف پکارنے والے اور اس کے غیر کی طرف پکارنے والے کے درمیان ایک عظیم جنگ ہے.یہ جنگ ایسی ہے کہ نہ پہلے زمانہ میں اس کی کوئی مثال سُننے میں آئی اور نہ اس کے بعد سُنی جائے گی آج مفتری دجّال اپنی کوئی تدبیر استعمال کئے بغیر نہیں چھوڑے گا اور تضرّع اور انکسار سے کام لینے والا مسیح اﷲ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے میں بھی کوئی کثر باقی نہیں چھوڑے گا اور یہ دونوں(مسیح اور دجّال) شدید جنگ کریں گے یہاں تک کہ ان دونوں کی قوت آسمان میں رہنے والوں کو تعجب میں ڈال دے گی اور پہاڑ دیکھیں گے کہ مسیح کا قدم ان کے قدم سے زیادہ راسخ ہے.اور سمندر دیکھیں گے کہ اس کا دل ان کے پانی سے زیادہ رقیق اور بہنے والا ہے اور لڑائی سخت ہو گی اور یہ لڑائی ظہور مسیح کے دن سے چالیس برس تک جاری رہے گی.آخر مسیح کی دُعا.اُس کے صدق اور تقوٰی کی وجہ سے سُنی جائے گی اور نصرت خداوندی کے فرشتے نازل ہوں گے اور اﷲ تعالیٰ اپنے بندہ پر احسان کرتے ہوئے اس اژدہا اور اس کی فوج کو شکست دے گا.تب لوگوں کے دل شرک سے توحید کی طرف رجوع کریں گے اور شیطان سے محبت کرنے کی
حب اللّٰہ الوحید.والی المحویۃ من الغیریۃ.والی ترک النفس من الاھواء النفسانیۃ.فان الشیطان یدعو الی الھویٰ والقطیعۃ والمسیح یدعو الی الاتحاد والمحویۃ.وبینھما عداوۃ ذاتیۃ من الازل واذا غلب المسیح فاختتم عند ذالک محاربات کلھا التی کانت جاریۃ بین العساکر الرحمانیۃ والعساکر الشیطانیۃ.فھناک یکون اختتام دور ھٰذہ الدنیا ویستدیر الزمان وترجع الفطرت الانسانیۃ الی ھیئتھا الاولٰی.الّا الذین احاطتھم الشقوۃ الازلیۃ.فاولٰئک من المحرومین.ومن فضل اللّٰہ واحسانہ انہ جعل ھٰذا الفتح علٰی ید المسیح المحمدی لیری الناس انہ اکمل من المسیح الاسرائیلی فی بعض شیونہ وذالک من غیرۃ اللّٰہ التی ھیّجھا النصاریٰ باطراء مسیحھم.ولما کان شان المسیح المحمدی بقیہ ترجمہ.بجائے خدائے یگانہ کی طرف لوٹیں گے.کیونکہ شیطان تو خواہشات نفسانیہ اور قطع تعلق کی طرف بلاتا ہے اور مسیح اتحاد اور محویت کی طرف بُلائے گا.اور ان دونوں کے درمیان ازل سے ذاتی عداوت ہے اور جب مسیح غالب آ جائے گا تو اس وقت سب جنگیں جو رحمانی اور شیطانی لشکروں کے درمیان جاری تھیں ختم ہو جائیں گی.پس اس وقت اس دنیا کا ایک دَور ختم ہو گا.اور زمانہ چکر لگائے گا اور فطرت انسانیہ اپنی پہلی ہیئت کی طرف رجوع کرے گی سوائے ان لوگوں کے جن پر ازلی بدبختی نے احاطہ کر لیا ہو گا.یہ لوگ محروم رہیں گے اور یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے یہ فتح مسیح محمدی کے ہاتھ میں دی ہے تا وہ لوگوں کو یہ دکھائے کہ وہ مسیح اسرائیلی سے اپنے بعض کاموں میں زیادہ کامل ہے اور یہ اﷲ تعالیٰ کی غیرت کی وجہ سے ہوا جسے عیسائیوں نے اپنے مسیح کی زیادہ تعریف کرنے کی وجہ سے بھڑکا دیا تھا.اور جب مسیح محمدی کی یہ شان ہے تو اس نبی کی
کذالک فما اکبر شان نبی ھو من اُمّتہٖ.اللّٰھم صلّ علیہ سلامًالا یغادر برکۃ من برکاتک وسَوّد وجوہ اعداء ہ بتائیداتک واٰیاتک اٰمین.الراقم میرزا غلام احمد من مقام القادیان الفنجاب.لخمس و عشرین من اغسطوس سنہ۱۹۰۱م بقیہ ترجمہ.کتنی بڑی شان ہو گی جس کی امت سے وہ ہے.اے اﷲ تو اس پر درود اور سلا م بھیج اس طرح کہ تیری برکات میں سے کوئی برکت باقی نہ رہ جائے اور اپنی تائیدات اور نشانات کے ساتھ اس کے دشمنوں کے چہروں کو سیاہ کر.آمین الراقم میرزا غلام احمد از مقام قادیان پنجاب ۲۵؍ اگست ۱۹۰۱ء (تتمہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو)
از مقام بشپس بورن واقعہ لاہور مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۱ء خداوند یسوع مسیح ہرگز شارع نہ تھا جن معنوں میں کہ حضرت موسیٰ صاحب شریعت تھا.جس نے ایک کامل مفصل شریعت ایسے امور کے متعلق دی کہ مثلاً کھانے کے لئے حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے وغیرہ.کوئی شخص انجیل کو بغیر غور کے سرسری نگاہ سے بھی دیکھے تو اس پر ضرور ظاہر ہو جائے گا کہ یسوع مسیح صاحب شریعت نہ تھا.موسیٰ کی شریعت کھانے وغیرہ امور کے متعلق اس واسطے نازل ہوئی تھی کہ انسان کا دل تربیت پاکر شریعت کے مفہوم کو پالے اور رفتہ رفتہ مقدس اور غیر مقدس کو سمجھنے لگے کیونکہ انسان اس وقت تعلیم و مذہب کی ابتدائی منزل میں تھا.اس لئے انجیل میں کہا گیا ہے کہ موسیٰ کی شریعت ایک اُستاد تھی جو ہمیں مسیح تک لائی کیونکہ اس شریعت نے انسان کے دل میں ایک ایسی فطرت پیدا کر دی جو کہ ترقی پاکر صرف بیرونی اور رسمی اعمال پر قانع نہ ہوئی بلکہ دل اوررُوح کی اندرونی راستی کی تلاش کرنے والی ہوئی.اس راستی کے لانے کے واسطے مسیح آیا.اپنی زندگی اور موت کے ذریعہ سے اُس نے لوگوں کے دلوں میں یہ سمجھ ڈال دی کہ گناہ کیا ہے اور وہ کیسا خوفناک ہے اور گناہوں کی معافی حاصل کر کے اور روح القدس کے عطیہ سے ہم تقدس کی نئی زندگی پاکر اورخدا اور انسان کے درمیان محبت قائم کر کے خدا کو پھر راضی کر سکتے ہیں.متی باب ۵ و۷ میں پہاڑی تعلیم کے پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس نئی زندگی کا طرز طریق کیاتھا.دستخط جے.اے لیفرائے بشپ لاہور (خطبہ الہامیہ ’’الاعلان‘‘ صفحہ ا تاج مع تتمہ حاشیہ.روحانی خزائن جلد۱۶صفحہ ۳ تا ۱۴)
۲۴۵ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار مفید الاخیار چونکہ یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ ہماری اس جماعت میں کم سے کم ایک سو آدمی ایسا اہلِ فضل اور اہلِ کمال ہو کہ اس سلسلہ اور اس دعویٰ کے متعلق جو نشان اور دلائل اور براہین قویہ قطعیہ خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں ان سب کا اس کو علم ہو اور مخالفین پر ہر ایک مجلس میں بوجہ احسن اتمام حجت کر سکے اور ان کے مفتریانہ اعتراضات کا جواب دے سکے اور خدا تعالیٰ کی حجت جو اُن پر وارد ہو چکی ہے جو بوجہ احسن اس کو سمجھا سکے اور نیز عیسائیوں اور آریوں کے وساوس شائع کردہ سے ہر ایک طالبِ حق کو نجات دے سکے اور دینِ اسلام کی حقیت اکمل اور اتم طور پر ذہن نشین کر سکے.پس ان تمام امور کے لئے یہ قرار پایا ہے کہ اپنی جماعت کے تمام لائق اہلِ علم اور زیرک اور دانشمند لوگوں کو اس طرف توجہ دی جائے کہ وہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۱ء تک کتابوں کو دیکھ کر اس امتحان کے لئے طیار ہو جائیں اور دسمبر آئندہ کی تعطیلوں پر قادیان میں پہنچ کر امور متذکرہ بالا میں تحریری امتحان دیں.اس جگہ اسی غرض کے لئے تعطیلات مذکورہ میں ایک جلسہ ہو گا اورمباحث مندرجہ کے متعلق سوالات دیئے جائیں گے.ان سوالات میں وہ جماعت جو پاس نکلے گی ان کو ان خدمات کے لئے منتخب کیا جائے گا اور وہ اس لائق ہوں گے کہ ان میں سے بعض دعوت حق کے
لئے مناسب مقامات میں بھیجے جائیں.اور اسی طرح سال بسال یہ مجمع انشاء اﷲ تعالیٰ اسی غرض سے قادیان میں ہوتا رہے گا جب تک کہ ایسے مباحثین کی ایک کثیر العدد جماعت طیار ہو جائے.مناسب ہے کہ ہمارے احباب جو زیرک اور عقلمند ہیں اس امتحان کے لئے کوشش کریں اور ۲۵؍دسمبر یا ۲۶؍ دسمبر ۱۹۰۱ء کو بہرحال قادیان میں پہنچ جائیں.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مرزا غلام احمد از قادیان ۹؍ ستمبر ۱۹۰۱ء ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۶×۲۰ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۱۲، ۱۳)
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ایک غلطی کا ازالہ ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعوے اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کر سکے.وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے.اس لئے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اُٹھانی پڑتی ہے.چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے.حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مُرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ.پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں ہیں چنانچہ وہ مکالمات الٰہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں اُن میں سے ایک یہ وحی اللہ ہے ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ دیکھو صفحہ ۴۹۸
براہین احمدیہ.اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے.پھر اس کے بعد اِسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی اللہ ہے جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ یعنی خدا کا رسول نبیوں کے حلوں میں.دیکھو براہین احمدیہ صفحہ۵۰۴ پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ.اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی.پھر یہ وحی اللہ ہے جو صفحہ ۵۵۷ براہین میں درج ہے ’’دنیا میں ایک نذیر آیا‘‘ اس کی دوسری قراء ت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا.اسی طرح براہین احمدیہ میں اور کئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا.سو اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم النبییّن ہیں پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آ سکتا ہے.اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اُس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پُرانا نہیں آ سکتا جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اُتارتے ہیں اور پھر اس حالت میں اُن کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے.بے شک ایسا عقیدہ تومعصیت ہے اور آیت ۱؎ اور حدیث لَانَبِیَّ بَعْدِیْ اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے.لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے.نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلّی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے.اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ
اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لئے.اس لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ محمدکی نبوت آخر محمد کو ہی ملی گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو.پس یہ آیت کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ لَیْسَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِ الدُّنْیَا وَلٰـکِنْ ھُوَاَبٌ لِرِجَالِ الْاٰخِرَۃِ لِاَنَّہٗ خَاَتَمَ النّبِیِّیْن وَلَا سَبِیْل اِلٰی فَیُوْضِ اللّٰہِ مِنْ غَیْرِتُوَسُّطِہٖ غرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملا لہٰذا خاتم النبیّٖن کے مفہوم میں فرق نہ آیا لیکن عیسیٰ ؑکے اُترنے سے ضرور فرق آئے گا.اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کے معنی لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کرغیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنی صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا.اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفّٰی کی خبر اس کو مل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے ۱؎.اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان معنوں کے رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ اُمت مکالمات و مخاطبات الٰہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اسی کو ہم رسول کہیں گے.فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا نبی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجناب اور ایسی فنافی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمد اور احمد رکھا جائے یونہی نبوت کا لقب عنایت کیا جائے وَمَنِ ادَّعٰی فَقَدْکَفَرَ.اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبییّن کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغایرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہوگا جو خاتم النبییّن پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اُسی خاتم النبییّن میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پا لیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مُہر
مُہر توڑنے کے نبی کہلائے گا کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلّی طور پر.پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلّی طورپر محمداور احمد رکھا گیا پھر بھی سیدنا محمدؐ خاتم النبییّن ہی رہا کیونکہ یہ محمد ثانی اُسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اور اسی کا نام ہے مگر عیسیٰ بغیر مُہر توڑنے کے آ نہیں سکتا کیونکہ اس کی نبوت ایک الگ نبوت ہے اور اگر بروزی معنوں کے رو سے بھی کوئی شخص نبی اور رسول نہیں ہو سکتا تو پھر اس کے کیا معنی ہیں کہ. ۱؎ ٭ سو یاد رکھنا چاہیے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں ہے.اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا.اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنی اظہار امر غیب ہے اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنی عبرانی میں اِسی لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنی ہیں خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں.اور جب کہ خود خدا تعالیٰ نے یہ نام میرے
رکھے ہیں تو میں کیونکر ردّ کر دوں یا کیونکر اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں.مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کرنا لعنتیوںکا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرّہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتاہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا تھا.میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی.اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولااور زمین بھی کہ میں خلیفۃ اللّٰہہوں مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے.میں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے.کوئی نہیں کہ میرے مقابل پر ٹھہر سکے کیونکہ خدا کی تائیداُن کے ساتھ نہیں.اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.اور میرا یہ قول کہ ’’من نیستم رسول و نیا وردہ اَم کتاب‘‘ ۱؎ اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.ہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بِلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک نہ تو میں رسول ہون اور نہ تو میں کتاب لے کر آیا ہوں(نا شر)
ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمّٰی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی.اور اس طور سے خاتم النبییّن کی مُہر محفوظ رہی کیونکہ میں نے انعکاسی اور ظلّی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا.اگر کوئی شخص اس وحی الٰہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مُہر نہیں ٹوٹتی٭ یہ بات ظاہر ہے کہ جیساکہ میں اپنی نسبت کہتا ہوں کہ خدا نے مجھے رسول اور نبی کے نام سے پکارا ہے ایسا ہی میرے مخالف حضرت عیسیٰ ابن مریم کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوبارہ دنیا میں آئیں گے.اور چونکہ وہ نبی ہیں اس لئے ان کے آنے پر بھی وہی اعتراض ہوگا جو مجھ پر کیا جاتا ہے یعنی یہ کہ خاتم النبییّن کی مہر ختمیت ٹوٹ جائے گی.مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو درحقیقت خاتم النبییّن تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں.اور نہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت ۱؎ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظلّ اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلّی طور پر محمدہوں صلی اللہ علیہ وسلم پس اس طور یہ کیسی عمدہ بات ہے کہ اس طریق سے نہ تو خاتم النبییّن کی پیشگوئی کی مُہر ٹوٹی اور نہ اُمت کے کل افراد مفہوم نبوت سے جو آیت کے مطابق ہے محروم رہے مگر حضرت عیسیٰ کو دوبارہ اُتارنے سے جن کی نبوت اسلام سے چھ سَو برس پہلے قرار پا چکی ہے اسلام کا کچھ باقی نہیں رہتا اور آیت خاتم النبییّن کی صریح تکذیب لازم آتی ہے.اس کے مقابل پر ہم صرف مخالفوں کی گالیاں سنیں گے.سو گالیاں دیں.َ.۲؎ منہ
خاتم النبییّن کی مُہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی یعنی بہرحال محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی رہا نہ اور کوئی یعنی جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا.بھلا اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو یوں سمجھ لو کہ تمہاری حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی موعود خَلق اور خُلق میں ہمرنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا اور اس کا اسم آنجناب کے اسم سے مطابق ہوگا یعنی اس کا نام بھی محمد اور احمد ہوگا اور اس کے اہل بیت میں سے ہوگا ۱؎ اور بعض حدیثوں میں ہے کہ مجھ میں سے ہوگا.یہ عمیق اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ روحانیت کے رو سے اسی نبی میں سے نکلا ہوا ہوگا اور اسی کی روح کا روپ ہوگا اس پر نہایت قوی قرینہ یہ ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق بیان کیا یہاں تک کہ دونوں کے نام ایک کر دیئے ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس موعود کو اپنا بروز بیان فرمانا چاہتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ کا یشوعا بروز تھا اور بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحب بروز کا بیٹا یا نواسہ ہو ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص مورد بروز صاحب بروز میں سے نکلا ہوا ہو اور ازل سے باہمی کشش اور باہمی تعلق درمیان ہو.۱؎ حاشیہ.یہ بات میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات اور بنی فاطمہ میںسے تھی.اس کی تصدیق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے بھی کی اور خواب میں مجھے فرمایا کہسَلْمَانُ مِنَّااَہْلَ الْبَیْتِ عَلٰی مَشْرَبِ الْحَسَنِ.میرا نام سلمان رکھا یعنی دو سِلم اور سِلم عربی میں صلح کوکہتے ہیں.یعنی مقدر ہے کہ دو صلح میرے ہاتھ پر ہو ں گی.ایک اندرونی کہ جو اندرونی بغض اورشحنا کو دُور کرے گی.دوسری بیرونی کہ جو بیرونی عداوت کے وجوہ کو پامال کر کے اور اسلام کی عظمت دکھا کر غیر مذہب والوں کو اسلام کی طرف جھکا دے گی.معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جو سلمان آیا ہے اس سے بھی مَیں مراد ہوں ورنہ اس سلمان پر دو صلح کی پیشگوئی صادق نہیں آتی اور میں خدا سے وحی پا کر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں اور بموجب
سو یہ خیال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان معرفت کے سراسر خلاف ہے کہ آپ اس بیان کو تو چھوڑ دیں جو اظہار مفہوم بروز کے لئے ضروری ہے اور یہ امر ظاہر کرنا شروع کر دیں کہ وہ میرا نواسہ ہوگا بھلا نواسہ ہونے سے بروز کو کیا تعلق.اور اگر بروز کے لئے یہ تعلق ضروری تھا تو فقط نواسہ ہونے کی ایک ناقص نسبت کیوں اختیار کی گئی بیٹاہونا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام پاک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے باپ ہونے کی نفی کی ہے لیکن بروز کی خبر دی ہے.اگر بروز صحیح نہ ہوتا تو پھر آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ میں اُس موعود کے رفیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کیوں ٹھہرتے اور نفی بروز سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے جسمانی خیال کے لوگوں نے کبھی اُس موعود کو حسن کی اولاد بنایا اور کبھی حسین کی اور کبھی عباس کی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ مقصود تھا کہ وہ فرزندوں کی طرح اس کا وارث ہوگا، اس کے نام کا وارث، اس کے ُخلق کا وارث، اس کے علم کا وارث، اس کی روحانیت کا وارث اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر اس کی تصویر دکھلائے گا اور وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ سب کچھ اس سے لے گا اور اس میں فنا ہو کر اس کے چہرہ کو دکھائے گا.پس جیسا کہ ظلی طور پر اُس کا نام لے گا، اُس کا ُخلق لے گا، اُس کا علم لے گا ایسا ہی اس کا نبی لقب بھی لے گا کیونکہ بروزی تصویر پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کے کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو.پس چونکہ نبوت بھی نبی میں ایک کمال ہے اس لئے ضروری ہے کہ تصویر بروزی میں وہ کمال بھی نمودار ہو.تمام نبی اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے یہاں تک کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ جس طرح بروزی طور پر محمد اور احمد نام رکھے جانے سے دو محمد اور دو احمد نہیں ہوگئے اسی طرح بروزی طور پر نبی یا رسول بقیہ حاشیہ : اس حدیث کے جو کنزالعمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں اور حضرت فاطمہؓ نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ مَیں اس میں سے ہوں چنانچہ یہ کشف براہین احمدیہ میں موجود ہے.منہ
کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خاتم النبییّن کی مُہر ٹوٹ گئی کیونکہ وجود بروزی کوئی الگ وجود نہیں.اس طرح پر تو محمد کے نام کی نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہی محدود رہی.تمام انبیاء علیہم السلام کا اس پر اتفاق ہے کہ بروز میں دوئی نہیں ہوتی کیونکہ بروز کا مقام اس مضمون کا مصداق ہوتا ہے کہ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی ۱؎ تا کس نہ گوید بعد زیں من دیگرم تو دیگری لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئے تو بغیر خاتم النبییّن کی مُہر توڑنے کے کیونکر دنیا میں آ سکتے ہیں.غرض خاتم النبییّن کا لفظ ایک الٰہی مُہر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر لگ گئی ہے اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مُہر ٹوٹ جائے ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آ جائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور انبیاء کو اپنے بروز پر غیرت نہیں ہوتی کیونکہ وہ انہی کی صورت اور انہی کا نقش ہے لیکن دوسرے پر ضرور غیرت ہوتی ہے دیکھو حضرت موسیٰ نے معراج کی رات جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مقام سے آگے نکل گئے تو کیونکر رو رو کر اپنی غیرت ظاہر کی.تو پھر جس حالت میں خدا تو فرمائے کہ تیرے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا اور پھر اپنے فرمودہ کے برخلاف عیسیٰ کو بھیج دے تو پھر کس قدر یہ فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دلآزاری کا موجب ہوگا.غرض بروزی رنگ کی نبوت سے ختم نبوت میں فرق نہیں آتا اور نہ مُہر ٹوٹتی ہے لیکن کسی دوسرے نبی کے آنے سے اسلام کی بیخ کنی ہو جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں سخت اہانت ہے کہ عظیم الشان کام دجال کشی کا عیسیٰ سے ہوا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے
اور آیت کریمہ نعوذباللہ اس سے جھوٹی ٹھہرتی ہے.اور اس آیت میں ایک پیشگوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب نبوت پر قیامت تک مُہر لگ گئی ہے اور بجز بروزی وجود کے جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے کسی میں یہ طاقت نہیں جو کھلے کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے اور چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بے دست و پا ہے کیونکہ نبوت پر مُہر ہے.ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا سو وہ ظاہر ہو گیا اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں.خلاصہ کلام یہ کہ بروزی طور کی نبوت اور رسالت سے ختمیت کی مُہر نہیں ٹوٹتی اور حضرت عیسیٰ کے نزول کا خیال جو !مستلزم تکذیب آیت َ ہے وہ ختمیت کی مُہرکو توڑتا ہے اور اس فضول اور خلاف عقیدہ کا تو قرآن شریف میں نشان نہیں اور کیونکر ہو سکتا کہ وہ آیت ممدوحہ بالا کے صریح برخلاف ہے لیکن ایک بروزی نبی اور رسول کا آنا قرآن شریف سے ثابت ہو رہا ہے جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے اس آیت میں ایک لطافت ِ بیان یہ ہے کہ اس گروہ کا ذکر تو اس میں کیا گیا جو صحابہ میں سے ٹھہرائے گئے لیکن اس جگہ اس مورد بروز کا بتصریح ذکر نہیں کیا یعنی مسیح موعود کا جس کے ذریعہ سے وہ لوگ صحابہ ٹھہرے اور صحابہ کی طرح زیر تربیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمجھے گئے.اس ترک ذکر سے یہ اشارہ مطلوب ہے کہ مورد بروز حکم نفی وجود کا رکھتا ہے اس لئے اس کی بروزی نبوت اور رسالت سے مُہر ختمیت نہیں ٹوٹتی.پس آیت میں اس کو ایک وجود منفی کی طرح رہنے دیا اور اس کے عوض میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیا ہے اور اسی طرح آیت ۱؎ میں ایک بروزی وجود کا وعدہ دیا گیا جس کے زمانہ میں کوثر ظہور میں آئے گا یعنی دینی برکات کے چشمے بہہ نکلیں گے اور بکثرت دنیا میں سچے اہل اسلام ہو
جائیں گے.اس آیت میں بھی ظاہری اولاد کی ضرورت کو نظر تحقیر سے دیکھا اور بروزی اولاد کی پیشگوئی کی گئی.اور گو خدا نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی اور دونوں خونوں سے حصہ رکھتا ہوں لیکن میں روحانیت کی نسبت کو مقدم رکھتا ہوں جو بروزی نسبت ہے.اب اس تمام تحریر سے مطلب میرا یہ ہے کہ جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں.میں اس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول ہوں.ہاں میں اس طور سے نبی اور رسول ہوں جس طور سے ابھی میں نے بیان کیا ہے.پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ نبوت اور رسالت کا کرتے ہیں وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے.مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بنا پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا مگر بروزی صورت میں.میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا.پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی، علیہ الصلوٰۃ والسلام.خاکســـــــــــــــــــــــــــار میرزا غلام احمد از قادیان ۵؍نومبر۱۹۰۱ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ( یہ اشتہار ۲۶ ×۲۰ ۴ کے۶ صفحات پر ہے) (ایک غلطی کا ازالہ ایڈیشن اوّل صفحہ ۱ تا ۶.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۰۶ تا ۲۱۶)
اشتہار کتاب آیات الرحمان یہ قابل قدر کتاب مکرمی مولوی سیدمحمداحسن صاحب نے کتاب عصائے موسیٰ کے ردّ میں لکھی ہے اور مصنف عصائے موسیٰ کے اوہام کا ایسا استیصال کر دیا ہے کہ اب اُس کو اپنی وہ کتاب ایک دردانگیز عذاب محسوس ہو گی.یہ تجویز قرار پائی ہے کہ اس کے چھپنے کے لئے اس طرح پر سرمایہ جمع ہو کہ ہر ایک صاحب جو خریدنا چاہیں ایک روپیہ جو اس کتاب کی قیمت ہے بطور پیشگی روانہ کر دیں.یہ خواہش ہے کہ جلد تر یہ کتاب چھپ جائے اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے.والسلام خاکسار میرزا غلام احمد عفی عنہ (’’ ایک غلطی کا ازالہ‘‘کے صفحہ ۶ کے حاشیہ پر یہ اشتہار درج ہے.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۱۶ حاشیہ
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ الـمـنـار قاہرہ سے ایک اخبار نکلتا ہے جس کا نام منار ہے.جب فروری ۱۹۰۱ء میں ہماری طرف سے پیر گولڑوی صاحب کے مقابل پر رسالہ اعجاز المسیح لکھا گیا جو فصیح بلیغ عربی میں ہے اور اُس کے جواب میں نہ صرف پیر صاحب موصوف عاجز رہ گئے بلکہ پنجاب اور ہندوستان کے تمام علماء بھی عاجز آ گئے تو مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس رسالہ کوبلاد عرب یعنی حرمین اور شام اور مصر وغیرہ میں بھی بھیج دوں کیونکہ اس کتاب کے صفحہ ۱۵۲ میںجہاد کی مخالفت میں ایک مضمون لکھا گیا ہے اور مَیں نے بائیس برس سے اپنے ذمہ فرض کر رکھا ہے کہ ایسی کتابیں جن میں جہاد کی ممانعت ہو اسلامی ممالک میں ضرور بھیج دیا کرتا ہوں اسی وجہ سے میری عربی کتابیں عرب کے ملک میں بھی بہت شہرت پاگئی ہیں.جولوگ درندہ طبع ہیں اور جہاد کی مخالفت کے بارے میں میری تحریریں پڑھتے ہیں وہ فی الفور چڑ جاتے ہیں اور میرے دشمن ہو جاتے ہیں.مگر جن میں انسانیت ہے وہ معقول بات کو پسند کر لیتے ہیں.پھر دشمنی کی حالت میں کون کسی کی کتاب کی تعریف کر سکتا ہے.سو اسی خیال سے یہ رسالہ کئی جگہ مصر میں بھیجا گیا.چنانچہ منجملہ ان کے ایڈیٹر المنار کو بھی پہنچا دیا گیا تا اس سے جہاد کے غلط خیالات کی بھی اصلاح ہو.اور مجھے معلوم ہے کہ اس مسئلہ جہاد کی غلط فہمی
میں ہر ایک ملک میں کسی قدر گروہ مسلمانوں کا ضرور مبتلا ہے.بلکہ جو شخص سچے دل سے جہاد کا مخالف ہو اس کو یہ علماء کافر سمجھتے ہیں.بلکہ واجب القتل بھی.لیکن چونکہ اسلام کی تعلیم میں یہ بات داخل ہے کہ جو شخص انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خد اکا شکر بھی نہیں کرتا.اس لئے ہم لوگ اگر ایمان اور تقویٰ کو نہ چھوڑیں تو ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنے قول اور فعل سے ہر طرح اس گورنمنٹ برطانیہ کی نصرت کریں.کیونکہ ہم اس گورنمنٹ کے مبارک قدم سے پہلے ایک جلتے ہوئے تنور میں تھے.یہی گورنمنٹ ہے جس نے اس تنور سے ہمیں باہر نکالا.غرض اسی خیال سے جو میرے دل میں مستحکم جما ہوا ہے.اعجاز المسیح میں بھی یعنی اس کے صفحہ ۱۵۲ میںجہاد کی مخالفت اور گورنمنٹ کی اطاعت کے بارے میں شدّ و مد سے لکھا گیا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسی تحریر سے صاحب جریدہ منار اپنے تعصّب کی وجہ سے جل گیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں اور سخت گوئی اور گالیوں پر آگیا اور منار میں بہت تحقیر اور توہین سے مجھے یاد کیا اور وہ پرچہ جس میں میری بد گوئی تھی کسی تقریب سے پنجاب میں پہنچ گیا.پنجاب کے پُر حسد مُلّا تو آگے ہی مجھ سے ناراض تھے.اور پیر گولٹروی کی کمر ٹوٹ چکی تھی اس لئے منار کی وہ دوچار سطریں مرتے کے لئے ایک سہارا ہو گئیں.تب ان لوگوں نے اپنی طرف سے اَور بھی نُون مرچ لگا کر اور اُن چند سطروں کا اُردو میں ترجمہ کر کے وہ مضمون پرچہ اخبار چودھویں صدی میں جو راولپنڈی سے نکلتا ہے چھپوا دیا اور جا بجا بغلیں مارنے لگے کہ دیکھو اہل زبان نے اور پھر منار کے ایڈیٹرجیسے ادیب نے ان کی عربی کی کیسی خبر لی.بیوقوفوں کو معلوم نہ ہواکہ یہ تو سارا جہاد کی مخالفت کامضمون پڑھ کر جوش نکالا گیا ہے.ورنہ اسی قاہرہ میں پرچہ مناظر کے ایڈیٹر نے جو ایک نامی ایڈیٹر ہے جس کی تعریف منار بھی کرتا ہے اپنے جریدہ میں صاف طور پر اقرار کر دیا ہے کہ کتاب اعجاز المسیح درحقیقت فصاحت بلاغت میں بے مثل کتاب ہے اور صاف گواہی دے دی ہے کہ اس کے بنانے پر دوسرے مولوی ہر گز قادر نہیں ہوں گے.ان مخالفوں کو چاہیے کہ جریدہ مناظر کو طلب کر کے ذرہ آنکھیں کھول کر پڑھیں اور ہمیں بتائیں کہ اگر ایڈیٹر منار اہل زبان ہے تو کیا ایڈیٹر مناظر اہل زبان نہیں ہے؟ بلکہ مناظر نے صاف طور پر
پربیان کر دیا ہے کہ اعجاز المسیح کی فصاحت بلاغت درحقیقت معجزہ کی حد تک پہنچ گئی ہے.اور پھر ایڈیٹر ہلال نے بھی جو عیسائی پرچہ ہے.اعجاز المسیح کی بلاغت فصاحت کی تعریف کی اور وہ پرچہ بھی قاہرہ سے نکلتا ہے.اب ایک طرف تو دو گواہ ہیں اور ایک طرف بیچارہ منار اکیلا.اور ایڈیٹر منار نے باوجود اس قدر بدگوئی کے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ’’میں اس بات کا قائل نہیں ہو سکتا کہ اس کتاب کی مانند کوئی اور کتاب اہل عرب بھی نہیں لکھ سکتا.اگر ہم چاہیں تو لکھ دیں‘‘ لیکن یہ قول اُس کا محض ایک فضول بات ہے اور یہ اسی رنگ کا قول ہے جو کفار قرآن شریف کی نسبت کہتے تھے کہ لَوْنَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَا ۱؎.پھر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر وہ کتاب فصیح نہیں تو پھر تمہارے اس قول کے کیا معنے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس کی مثل چند روز میں لکھ دیں.کیا تم بھی غلط کتاب کے مقابل پر غلط لکھو گے.غرض جس پرچہ کی تحریر پر اتنی خوشی کی گئی ہے اس کا یہ حال ہے کہ اسی ملک کے اہلِ زبان وہی پیشہ رکھنے والے اس کو جھوٹا ٹھہراتے ہیں.اور جہاد کی وجہ سے بھی اس کا اشتعال بے معنی ہے کیونکہ یہ مسئلہ اب بہت صاف ہو گیا ہے اور وہ زمانہ گذرتا جاتا ہے جبکہ نادان مُلاّ بہشت کی کل نعمتیں جہاد پر ہی موقوف رکھتے تھے.اس جگہ بارہا بے اختیار دل میں یہ بھی خیال گذرتا ہے کہ جس گورنمنٹ کی اطاعت اور خدمت گذاری کی نیّت سے ہم نے کئی کتابیں مخالفت جہاد اور گورنمنٹ کی اطاعت میں لکھ کر دنیا میں شائع کیں اور کافر وغیرہ اپنے نام رکھوائے اُسی گورنمنٹ کو اب تک معلوم نہیں کہ ہم دن رات کیا خدمت کر رہے ہیں.ہم نے قبول کیا کہ ہماری اردو کی کتابیں جو ہندوستان میں شائع ہوئیں ان کے دیکھنے سے گورنمنٹ عالیہ کو یہ خیال گذرا ہو گا کہ ہماری خوشامد کے لئے ایسی تحریریں لکھی گئی ہیں کیونکہ انسان عالم الغیب نہیں.لیکن یہ دانشمند گورنمنٹ ادنیٰ توجہ سے سمجھ سکتی ہے کہ عرب کے ملکوں میں جو ہم نے ایسی کتابیں بھیجیں جن میں بڑے بڑے مضمون اس گورنمنٹ کی شکر گذاری اور جہاد کی مخالفت کے بارے میں تھے ان میں
ہندیوں کی لوح طبیعت غلطی سے مبرّا اور صحیح طریق قبول کرنے کے لئے مستعد ہے.اسی وجہ سے کتاب انسکلوپیڈیا میں ایک محقق انگریز لکھتاہے کہ عرب کی تمام زبانوں میں سے بدتر زبان وہ ہے جو مصر میںر ائج ہے.غرض مولویانِ پنجاب اب عنقریب دیکھ لیں گے کہ جس شخص پر ناز کیا ہے اس کو علم ادب میں کہاں تک دخل ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشتہر خاکسار میرزاغلام احمد از قادیان مورخہ ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۱ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۶ × ۲۰ ۴ کے دو صفحوں پر ہے ) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۲۵ تا ۲۹)
اَلطَّاعُوْن بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی.اَمَّا بَعْدُ حمد مر خدارا و سلام بر بندگان برگزیدہ وے.اما بعد خدا کی حمد اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام فَاعْلَمُوْا اَیُّھَا الْاِخْوَان اُولُو النّھٰی.رَحِمکُم اﷲ فِی الْاُولٰی اے برادران دانشمند خدا در ہر دو جہاں برشما رحم فرماید بھائیو اے دانشمندو خدا تعالیٰ تم پر دونوں جہانوں میں رحم وَالْاُخْریٰ.ان الطاعون قدحلت بلادکم.و فلت اکبادکم.بدانید کہ طاعون در شہرہائے شما رخت اقامت انداختہ و جگر ہائے شمارا کرے طاعون نے تمہارے شہروں میں ڈیرے ڈال دئے اور تمہارے جگروں کو پارہ پارہ کر دیا و تخطف کثیرا من احباء کم.و اباء کم و ابناء کم و بنا تکم و نساء کم پارہ پارہ کردہ ست و بسیاروے را از دوستان و پدران و پسران و دختران و زنان اور تمہارے بہت سے دوستوں باپوں بیٹوں بیٹیوں اور جورئوں اور ہمسائیوں
و جیر انکم و خلّا نکم و لکم فیہ بلاء عظیم من اﷲ العلیم الحکیم و ہمسائیگان از شما ربودہ دریں مصیبت برائے شما از خداوند دانا و مہربان آزمایش بزرگ ست کو اچک کر لے گئی اور تمہارے لئے اس میں خداوند علیم حکیم کی طرف سے بڑا ابتلا اور امتحان ولا ینزل بلاء الّا بسبب من الاسباب الاربعہ.و کذالک وہربلائے را کہ نازل می شود چار سبب است و از ہے.اور جو بَلا نازل ہوتی ہے اس کے چار ہی سبب ہوتے ہیں اور ابتدائے جرت سـنۃ اﷲ من بدو الفطـرۃ الاوّل اذا تخطی النّاس آغاز آفرینش سنت خداوندی بر ہمیں منوال جاری است اوّل آنکہ چوں مردم از راہِ فطرت سے خدا کی سنت اسی طرح جاری ہے.پہلا یہ ہے کہ جب لوگ خدا کی خوشنودی کی مراضی اﷲ واتلفو ا حقوقہ بترک العبادۃ والعفۃ.و جعلوا رضائے حق دور افتند و عفت و عبادت را ترک گفتہ حقوق و یرا ضائع سازند و زندگی راہوں سے نکل جاتے اور عفت اور عبادت کو چھوڑ کر اس کے حقوق تلف کر دیتے ہیں.اور خودی یعیـشـون بطرً ا و فخرًا و لا یلتـفتـون الی الاخـرۃ.ولا درخوبینی و ناسپاسی و پند اکبر برند و نگاہے بسوئے آخرت نکنند و از ارتکاب اور گھمنڈ میں زندگی بسر کرتے ہیں اور آخرت کی طرف دھیان نہیں کرتے اور یبالون فسقًا و فجورًا ولا یقومون علٰی حدود فسق و فجور باکے ندارند و رعایت حدود خداوندی بجا فسق و فجور کی پرواہ نہیں کرتے اور خدا کی حدوں کی پاسداری نہیں کرتے حضـرۃ العـزۃ.و یدوسون احکامہ و یفسقون نیا ورند و احکام وے را در زیر پا بسپرند و پیش اور اس کے حکموں کو پامال کرتے اور اس کے سامنے
امامہ و یغضبونہ بالا صرار علی الجرائم دیدہ وے سیاہ کاریہا بکنند.و از پا فشرون درگناہانِ بدکاری کرتے اور کھلے جرموں پر اصرار کر کے اسے غصّہ دلاتے ہیں.الفاحشۃ.الثانی اذا لم یطیعوا اولی الامر بزرگ ویرا درخشم آورند.دوم آنکہ چوں سر از اطاعت آں اولی الامران دوسرا جب لوگ ان اولوالامروں کی نافرمانی الذین ید عونھم الی المصالح الدینیۃ و الدنیویۃ بیرون کشندکہ ایشاں سوئے مصالح دنیا و دین می خوانند کرتے ہیں جو مصلحتِ الٰہی سے انہیں دیئے جاتے ہیں اور رعیت کے وقد اوتوھم بالمصلحۃ الالٰھیۃ و جعلوا کرو شم و مصلحت ایزدی اوشاں را بر سر ایشاں مسلّط گردانیدہ واوشاں انبار غلہ کے لئے بجائے مہر کے ہوتے ہیں.لعرمۃ الرعیۃ و کذالک اذا عصوا ملوکھم در حق رعیت بمنزلہ مہرے بر انبار غلہ می باشد و رعایا مفسد و باغی گردد اور رعایا مفسد اور باغی بن جاتی اور و افسدوا و ابغوا و خر جوا من ربقۃ الاطاعۃ و پا از جادہ فرمان پذیری بیرون نہد اطاعت کی رسّی اتار ڈالتی ہے.اور معروف باتوں اور و ما نصر و ھم فی المعروف و الامور المندوبۃ و در امورِ معروفہ و مندوبہ مددگار آں حکام نباشند جائز امروں میں ان کی مدد نہیں کرتی
و ظنّوا فیھم ظن السوء و قلبوا امورھم و درحق ایشاں گمانِ بدرا در دل راہ بدہد و از راہ اور ان کی نسبت بد گمانی کرتی اور لڑائی اور مقابلہ کر کے ان کے بالمعاوضۃ و المقابلۃ و المجادلۃ.وما تأدّ بوا معـھم و ما انقادوا ستیزد آویز کاروبار ایشاں را شیرازہ وایکند و در رنگِ سعادت منداں معاملات کو درہم برہم کرتی ہے اور وفاداروں اور سعادت مندوں کی طرح لِاَوامر ھم کأھل الوفاء والسعادۃ و ارادوا ان یقطعوا ما وفاکیشاں با ایشاں رفتار نہ نماید و از قبول احکام ایشاںسرباز بزند و بخواہد کہ اُن سے بادب پیش نہیں آتی اور ان کے حکموں کو نہیں مانتی اور خدا کے جوڑے ہوئے وصل اﷲ و ید فعوا ما اتی بہ اﷲ بالحمکۃ العظمیۃ.الثالث آںچیز را ببرد کہ خدا پیوستن آنرا می خواہد و آں چیز را دفع بکند کہ خدا آنرا نظر بر مصالح بزرگ آوردہ سوم آنکہ کو کاٹنا چاہتے اور دفع کرتے ہیں اس شے کو جسے خدا بڑی بھاری مصلحت سے لایا ہے.تیسرا اٰذا ضنوابقبول امام بعث علٰی رأس المائۃ.وارسل چوں در قبول کردن آں امام بخل بورزند کہ بر سر صد مبعوث شدہ.و با دلائل جب لوگ اس امام کے قبول کرنے میں بخل کریں جو صدی کے سر پر مبعوث ہوا.اور باالدلائل الساطعۃ.و جحدوا باٰیاتہ و استیقنتھا روشن آمدہ و دانستہ از بخل و کمینگی نشانہائے ویرا روشن دلیلوں کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہو اور جان بوجھ کر بخل اور کمینہ پن سے اس کے نشانوں انفسھم بالبخل والدناء ۃ.و اٰ ذوہ و حقروہ و کفّروہ انکار بنمایند و بر آزار و تکفیر و تحقیرش کمر بہ بندند کا انکار کریں اور اس کی ایذادہی اور تحقیر اور تکفیر کریں
و ظنّوا فیھم ظن السوء و قلبوا امورھم و درحق ایشاں گمانِ بدرا در دل راہ بدہد و از راہ اور ان کی نسبت بد گمانی کرتی اور لڑائی اور مقابلہ کر کے ان کے بالمعاوضۃ و المقابلۃ و المجادلۃ.وما تأدّ بوا معـھم و ما انقادوا ستیزد آویز کاروبار ایشاں را شیرازہ وایکند و در رنگِ سعادت منداں معاملات کو درہم برہم کرتی ہے اور وفاداروں اور سعادت مندوں کی طرح لِاَوامر ھم کأھل الوفاء والسعادۃ و ارادوا ان یقطعوا ما وفاکیشاں با ایشاں رفتار نہ نماید و از قبول احکام ایشاںسرباز بزند و بخواہد کہ اُن سے بادب پیش نہیں آتی اور ان کے حکموں کو نہیں مانتی اور خدا کے جوڑے ہوئے وصل اﷲ و ید فعوا ما اتی بہ اﷲ بالحمکۃ العظمیۃ.الثالث آںچیز را ببرد کہ خدا پیوستن آنرا می خواہد و آں چیز را دفع بکند کہ خدا آنرا نظر بر مصالح بزرگ آوردہ سوم آنکہ کو کاٹنا چاہتے اور دفع کرتے ہیں اس شے کو جسے خدا بڑی بھاری مصلحت سے لایا ہے.تیسرا اٰذا ضنوابقبول امام بعث علٰی رأس المائۃ.وارسل چوں در قبول کردن آں امام بخل بورزند کہ بر سر صد مبعوث شدہ.و با دلائل جب لوگ اس امام کے قبول کرنے میں بخل کریں جو صدی کے سر پر مبعوث ہوا.اور باالدلائل الساطعۃ.و جحدوا باٰیاتہ و استیقنتھا روشن آمدہ و دانستہ از بخل و کمینگی نشانہائے ویرا روشن دلیلوں کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہو اور جان بوجھ کر بخل اور کمینہ پن سے اس کے نشانوں انفسھم بالبخل والدناء ۃ.و اٰ ذوہ و حقروہ و کفّروہ انکار بنمایند و بر آزار و تکفیر و تحقیرش کمر بہ بندند کا انکار کریں اور اس کی ایذادہی اور تحقیر اور تکفیر کریں
و ارادوا ان یقتلوہ بالسیوف والأسنۃ و رفعوا و بخواہند کہ باتیغ و سنانش بکشند و از بیداد و اور تیغ و سنان سے اسے مار ڈالنا چاہیں اور ظلم اور فریب سے الامر الی الحکام ظُلمًا و زورا واخفوا وجہ الحقیقۃ ستم سگالی قضیہہارا بہ حکام ببرند و بر چہرہ حقیقت کار پردہ ہا بیگفنند حکام تک مقدمے لے جائیں اور اصل بات کو پوشیدہ کر دیں.الرابع اذا صار النّاس کدود یأکل بعضہ بعضا و ما چہارم آنکہ چوں مردم مانند مور و مار و دام یکدیگر رابخورند و نشانے چوتھا جبکہ لوگ کیڑوں مکوڑوں کی طرح ایک دوسرے کو کھانے لگ جائیں.اور بقی فیھم ذرۃ من الرحمۃ.ولم یبق فیـھم رحـم از رحم در دل شاں نماند و رحم آوردن بر خلق ذرا بھی ان میں رحم نہ رہے اور مخلوق پر ترس کھانا علی الخلیقۃو ما رعوا حق الصغار و لا حقوق العلیۃ و پاسِ حق کوچک و بزرگ را بگذارند اور چھوٹے بڑے کی حق کی رعایت ترک کر دیں.فھذہ اربع من علل الطواعین الحاطمۃ نسئل اللّٰہ آگاہ باشید کہ طاعون نابود سازندہ خانہ برانداز را ہمیں چار سبب است.از خدا مسئلت یاد رکھو نابود کرنے والی طاعون کے یہی چار سبب ہیں.ہم خدا سے دعا کرتے ہیں ان یحفظنا و احبابنا منھا بالفعل والرأفۃ و عندی شرّالاسباب می نمائیم کہ مارا و دوستانِ مارا بفضل و کرم خویش ازاں نگہ بدارد و ہمیں سبب ہائے بد کہ وہ ہمیں اور ہمارے دوستوں کو اپنے فضل سے اس سے محفوظ رکھے اور میرے نزدیک یہی
ھی ھذہ ولایعرفھا الّا ذوالفطنۃ.فاتقوا اﷲ در گمان من است وے دانشمندان پے بفہم آں مے برند.پس از خدا ترسید بڑے سبب ہیں مگر دانشمند ان اسباب کو سمجھتے ہیں.سو خدا سے ڈرو ولا تقربوھا ان کنتم ترتادون طرق السلامۃ و اگر سلامت می خواہید بر گرد ایں اسباب مگردید اور سلامتی چاہتے ہو تو ان سببوں کے نزدیک نہ جائو وقدقلت من قبل فما اصغیتم.وھدیت فما و من پیش ازیں بار نیز بشما گفتم و لیکن شما گوش نہ کردید.و راہ بشما نمودم ولے شما اور مَیں نے اس سے پہلے بھی کہا مگر تم نے کان نہ دھرے اور مَیں نے راہ بتائی اھتدیتم.وأریت فما رأیتم والیوم القی فی روعی ہدایت نیافتید.و شمارا وا نمودم ولے شما ندیدید.امروز در دلم انداختندکہ آں وصیّت را پر تم نے ہدایت نہ پائی اور مَیں نے تم کو دکھایا پر تم نے نہ دیکھا.آج میرے دل میں آیا ہے ان اکرر تلک الوصیۃ.واستخلص باتمام الحجۃ.لنفسی البریۃ بر شما تکرار کنم و برائے استخلاص بریت نفس خود حجتے دردست آورم کہ پھر ایک دفعہ تمہیں وصیت کردوں اور اپنی بریت کے لئے حجت پیدا کرلوں.فاسمعوا ولاتعرضوا.واتقوا ولاتفسقوا.وقوموا ﷲ ولا پس بشنوید و رو برنتابید و از خدا ترسید و از فرمان وے سر بازنزنید و برائے خدا ایستادہ سنو اور منہ نہ پھیرو اور خدا سے ڈرو اور اس کے حکموں کو نہ توڑو اور خدا کے لئے تقعدوا واطعیو ولاتتمرّدوا.واذکروا اﷲ ولاتغفلوا باشید و سست منشینید و گفتار مرا بپذیرید و ترک سرکشی بکنید و خدارا یاد آوریدو از غفلت باز آئید کھڑے ہو جائو اور سست مت بیٹھو اور کہا مانو اور سرکشی نہ کرو اور خدا کو یاد کرو اور غفلت چھوڑ دو
واعتصموا بحبل اﷲ جمیعًا ولاتتفرقوا و زکّوا نفوسکم و لاتتدنسوا وہمہ فراہم شدہ ریسمان خداوندی راپنجہ بزنید و پراگندہ و پریشان نشوید و نفس ہائے خود را پاک بکنید و آلودہ اور سب مل کر خدا کی رسی کو پکڑلو اور فرقہ فرقہ نہ بنو اور اپنے نفسوں کو پاک کرو اور میلے کچیلے نہ وطہّروا بواطنکم ولاتلطخوا واعبدوا ربکم مخلصین وچرکیں نگردید و باطن ہائے خودرا صاف بنمائید و از آلودگی ہا بپرہیزیدو پروردگار خودرا بپرستید وباوے کسے را رہو اور اپنے باطنوں کو پاک کرو اور آلودگی سے بچو.اور اپنے رب کی عبادت کرو اور شرک ولاتشرکوا.وتصدقوا ولاتبخلوا.واصعدوا الی انبار نسازید.و از مال خود صدقات بکشید و بخیل نباشید.و کوشش بکنید نہ کرو اور صدقے دو اور بخیل نہ بنو اور آسمان پر چڑھنے السماء و الی الارض لاتخلدوا وارحموا کہ بر آسمان بالا رفتن میسر آید و بر زمین سرفرود نیارید و بر زیردستاں کی کوشش کرو اور زمین کی طرف نہ جھکو اور ضعفائکم فی الارض ترحموا فی السماء و تنصروا بخشائید تا برشما بخشایش آورند ضیعفوں پر رحم کرو تاکہ تم پر بھی آسمان میں رحم کیا جائے واطیعوا اﷲ و ملولکم و لاتفسدوا.ولا تخالفوا و غاشیہ اطاعت خدا و شاہانِ خود بردوش بردارید و شورو فساد برپانکنید اور خدا اور اپنے بادشاہوں کی اطاعت کرو اور فساد نہ کرو اور حکام کے حکموں اور الحکّام فی احکامھم و قضاء ھم و فصلھم و امضاء ھم و درپیش احکام و فرامین و امضاہائے حکام سرنیاز خم بنائید فیصلوں اور پروانوں وغیرہ میں ان کی مخالفت نہ کرو اور ان کی رضا کے خلاف ایک
ولاتقدموا القدم ولا تؤخروا خلاف رضاء ھم وخلاف رضائے ایشاں گامے پیش و پس ننہید قدم بھی آگے پیچھے نہ رکھو اور جب کوئی ان کی طرف سے کوئی حکم آوے و اذا امرتم فاحضروا و لاتقوموا کسالٰی عند دعائھم و ہرگاہ فرمانے از سوئے ایشاں فرارسد در ساعت بپائید و برآوا ایشاں کوفتہ و خستہ وار تو حاضر ہو جائو اور ان کے بُلانے پر سست اور ہار کھائے ہوئے نہ بنو.ولاتجاوزوا قوانینھم ولاتقربوا توھینھم.واذا أُشرتم نہ نشینید و خلاف قوانین ایشاں را نہ روید و توہین و اہانت ایشاںرواندارید و چوں خدمتے اور ان کے قانون کی خلاف ورزی نہ کرو اور ان کی توہین نہ کرو اور جب کوئی خدمت الٰی خدمۃ فسارعوا الی الامتـثال.واسعوا ولو علٰی بشما تفویض کنند در بجا آورہ نش بجان دل بکوشید اگرچہ بر قلہ کوہ ہائے تمہیں سپرد کی جائے تو بہت جلد حکم مانو اور اس کے پورا کرنے کی سعی کرو خواہ پہاڑوں کی قنن الجبال.ولاتنحتوا معاذیر کالجھال.ولاتابوا بلند بر آمدن ضرورت افتد.و چوں جاہلاں بہانہ پیش نیاورید و چوں دوں ہمتاں چوٹیوں پر چڑھنا پڑے اور جاہلوں کی مانند عذر نہ تراشو اور خوب سمجھ لو کہ کالقوم الارذال.واعملوا ان السلامۃ کلھا سرباز نزنید.وبدانید کہ سلامت در قبول احکام سلامتی حکموں کے قبول کرنے میں ہے فی قبول الاحکام و الملامۃ کلھا فی الاباء است و ملامت در نافرمانی و پیکار کردن.اور ملامت نافرمانی اور جھگڑے میں
والخصام.وانا نشکراﷲ علٰی ما منّ علینا بعھد و ماسپاس خدا بجا می آریم کہ مارا در زیر سایہ عہد ہے اور ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں سلطنت برطانیہ السلطنۃ البرطانیۃ وافاض علینا بتوسطھا سعادت مہد دولت برطانیہ با کرامت فرمودہ و بتوسط ایں دولت بزرگ کا عہد بخشا اور اس کے ذریعہ سے بڑی بڑی مہربانیاں اور انواع الاٰلاء بالالطاف الرحمانیۃ فوجدنا بقدومھا در حق ما مہربانی ہا کردہ از قدوم ایں دولت عظمٰی فضل ہم پر کئے ہم نے اس سلطنت کے آنے سے انواع اقسام کی انواع النعم و ھذب قومنا و علّموا واخرجوا نعمتہا دیدیم قوم ما بحلیہ علم و ادب نعمتیں پائیں ہماری قوم نے علم اور تہذیب سیکھی اور بہائم کی من عیشۃ النعم ونقلوا الی الکمالات الانسانیۃ آراستہ شدہ و از طور زندگی بہائم بیرون آمدن و یرا میسّر آمدہ زندگی سے نکلنا انہیں نصیب ہوا اور حیوانی جذبوں سے نکل کر انسانی کمالات من الجذبات الحیوانیۃ.فحصل لنا امن و امان و پوشش جذبات حیوانیہ را از تن برون کردہ حلہ فاخرہ کمالات انسانی پر پہنچنا میسّر آیا سو ہمیں اس گورنمنٹ کے طفیل فوق الامل بل فوق حدود الافکار و طفقنا نَدِجُّ در بر کردہ مارا فی الحقیقت از طفیل ایں دولت کبریٰ بیرون از وہم و گمان امن و امان حاصل شدہ امید اور فکر سے بڑھ کر امن اور امان ملا.اب ہم زمین پر گایوں کی
علی الارض دجّ الصوار بل کالعشار.بالتؤدۃ والھون مکنون ما می توانیم کہ چوں گاواں بلکہ چوں شتراں بآرام و آسانی طرح نہیں بلکہ باردار اونٹنیوں کی مانند بڑے وقار اور سہولت سے سفر و الوقار.من غیر خوف المتخطفین و الشانین بر روئے زمین سیر و ساحت کنیم و مارا ہیچ باک از رہزناں و بداندیشاں کرتے ہیں اور ہمیں ڈاکوئوں اور بد ذات دشمنوں کا کچھ بھی ڈر نہیں ہوتا من الاشرار و ندلج ندّلِجُ وحدانا فی الفلا نیست و در پارہ اوّل شب و آخری آں تنہا بے خوف و خطر از اور ہم رات کے پہلے حصہ میں اور پچھلے میں اکیلے بلاخوف و خطر و بلا خـوفٍ من الاغیـار.و اُجـری الوابورۃ فما اغیار و ُشطار می توانیم کہ راہ بردیم و جاری شدن گاری آتشیں سفر کرتے ہیں.اور ریل گاڑی کے چلنے سے اونٹوں بقی حاجۃ الی الأفائیل و القوافل و المحصار فاصلحوا شتران و قافلہ ہا و اسپان را از کار بر انداختہ ہیچ احتیاجے بآنہا نماندہ اور قافلوں اور گھوڑوں کی کوئی ضرورت نہیں رہی.اب مناسب ہے نیاتکم و احسنوا الظن فی ھذہ الدولۃ.و أتوھا اکنوں باید کہ نیت ہائے خود را راست بکنید و درحق ایں دولت بزرگ گمان نیک بکنید و بادل صاف و کہ اپنی نیتوں کو درست کرو اور اس سلطنت کی نسبت نیک گمان کرو اور صاف دلی مطیعین بصفاء الطویّۃ و لاتعثوا فی الارض باغین پاک در حضور وے حاضر بیائید و چوں باغیاں در زمین فتنہ و غوغا برمی نگیرید.اور پاک نیت سے اس کے حضور حاضر ہو.اور زمین میں باغیوں کی طرح فساد کرتے
ولاتشردوا کالطاغین واعملوا ان ھذہ الدولۃ و مانند تبہ کاران راہ گریز پیش نگیرید دیدانید کہ ایں سلطنت دست ستمگاران اور شریروں کی طرح بھاگے بھاگے نہ پھرو اور خوب سمجھ لو کہ سلطنت نے تمہیں ایذا کفت عنکم اکفّ الظالمین و ایقظتکم بعد ماکنتم از آزار و ایذائی شما بربست شما در خواب بودید ایں سلطنت شما را بیدار دینے سے ظالموں کے ہاتھ بند کر دیئے اور تم سوتے تھے اور اس نے تمہیں جگایا اور نائمین.وقامت لحفظکم فی تربتکم و غربتکم وجعلت ساخت و در سفر و حضر پاسبانی شما کرد و چوں شما بیروں برائے طلب رزق تمہارے سفر اور حضر میں تمہاری پوری نگہبانی کی اور جب تم کہیں کا روزگار کرنے علیکم حافظین عند نجعتکم و رجعتکم و کلأ ت می روید و بسوئے خانہ باز می آید در ہردو صورت از طرف حکومت برائے شما اور معاش کی تلاش میں جاتے ہو اور پھر وطن کو واپس آتے ہو عَرضکم و عِرضکم.وتولّت صحتکم و مرضکم محافظان متعین اند حکومت نگہبانی مال و آبروئے شما کرد.چنانچہ باید نمود و در حالت بیماری و دونوں صورتوں میں گورنمنٹ کی طرف سے تم پر محافظ مقرر ہیں اور اس نے تمہاری آبرو اور مال کی خوب نگہداشت کی و اٰمنـکم فصارت سببا لزیـادۃ عـددکم.وعـدۃ تندرستی از خبر گیری شما کوتاہی نہ کرد و شمارا امنے بخشید کہ از واسطہ آں در مال و دولت و کثرت نفوس و اور صحت میں اور بیماری میں تمہاری خبر گیری کی اور تم کو امن بخشا جس کے سبب سے تم دولت اور مال میں اور کثرت میں عدکم.و قامت فی کل مواطن لمددکم و حسن سلوکھا سامان شما افزونی پدید آمد.وایں سلطنت در ہر میدان بجہت اعانت شما قدم محکم فشرد و بایارانِ شما و ترقی کر گئے اور یہ سلطنت ہر میدان میں تمہاری مدد کو کھڑی ہوئی اور تمہارے یاروں اور دوستوں
فی سکنکم و مسکنکم.و اثبتت انھا لکم کموئلکم.جاہائے شما حسن سلوک بجا آورد و آشکار کرد کہ او برائے شما جائے پناہ و امن اور مکانوں کی نسبت خوب سلوک کیا اور ثابت کر دیا کہ وہ تمہاری پناہ اور جائے امن ہے وما منکم و قدحقّت لھا علیکم حقوق المن است.برگردن شما حقوق منت وے ثابت است اب تم پر اس کے احسان کے حقوق ثابت ہیں.و حفظتکم من الاغارۃ و الشن و ادت حق الکلأ ۃ او شمارا محفوظ داشت از غارتگران و ناگہ بر سر ریزندگان و درحق مال و عیال شما حق اور اس نے تمہیں ڈاکوئوں اور چوروں سے بچایا اور تمہارے مال و عیال کی نسبت نگہبانی فی مالکم وعیالکم.وصار طولھا سببا لطول پاسداری ادا کرد.و مہربانی و فضل وے سبب درازیٔ عمرہائے شماشد کا حق ادا کر دیا.اور اس کی مہربانی تمہاری عمروں کی درازی کا سبب اٰجالکم.ونالتکم منھا عافیۃ غیر عافیۃ.و رزقتم و ازوے شمارا عافیتے بدست آمد کہ ناپدید کنندہ نشانہانیست و آرامی ہرچہ ہوئی اور اس سے تمہیں ایسی عافیت ملی جو تباہ و برباد کرنے والی نہیں اور تمہیں پرلے درجہ رفاھیۃ بدرجۃ کافیۃ.و کفئتکم مخاشی اللأواء تمامتر در پہرۂ شما آمد و شمارا رستگاری بخشید از جا ہائے دہشتناک کی رفاہیت حاصل ہوئی اور اس نے تمہیں دکھوں اور دردوں کی خوفناک جگہوں سے وکنفتکم بغواشی الاٰلآء حتی ماظفربکم اظفار درد و رنج و باغاشیہ ہائے نعمت و مکرمت شما در پناہ و سایہ خویش در آورد تا ایں کہ اکنوں بچایا اور اپنے فضل و کرم کی حمایت اور پناہ میں لیا.اب یہ حال ہے کہ دشمنوں
الاعداء فلا تخرسنکم غشیۃ فی اداء شکرھا ناحق بیداد دشمنان بشما نمی رسد.پس گنگ نساز و شمارا بیہوشی در ادائے شکروے کے ناخن بیداد کی تم تک رسائی نہیں ہو سکتی.سو مناسب ہے کہ اس گورنمنٹ کے شکر ادا کرنے میں ولالکنۃ فی تکرار ذکرھا فان جزاء الاحسان وراگنگلاجی در تکرار ذکر وے چہ کہ کیفر نیکی نیکی است اور ذکر و تذکرہ میں گونگے اور بے ہوش نہ بن جائو.اس لئے کہ احسان کا بدلہ احسان احسان.والتغافل من الشکر کفران.واﷲ اِنّھا وچشم برہم بستن از سپاس گذاری ناسپاسی است و سوگند بخدا کہ ایں ہے اور شکر سے غفلت کرنا کفران ہے اور میں اﷲ کی قسم کھا کر کہتا لکم من ایمن العوذ.واغنی عنکم من لابسی الخوذ سلطنت بجہت شما تعویذے شگرف و ہمایوں است و باوجود وے ہیچ حاجت بہ یاوران خود پوش نماندہ ہوں کہ یہ سطلنت تمہارے لئے بڑا امن بخش تعویذ ہے اور اس کے ہوتے کسی خود پوش مددگار کی ہمیں ضرورت نہیں والمحامد کلھا ﷲ علی ما اٰتانا قیصر لا یقصر فی تفقد درحقیقت ہرگونہ حمدمر خدائے راست کہ مارا قیصر عطا فرمودہ کہ از باز جستن احوال مادمے غفلت اور درحقیقت میں ساری حمدیں خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیںایسا قیصر عطا فرمایا جو ہمارے حال کی احوالنا.ویسعٰی لیخرجنا من ادحالنا.ورد الینا نمی ورزد.و می کو شد کہ مارا از مغاک و مستی ہا برون آرد و ایزد مہربان خبر گیری اور پرداخت میں کوئی قصور اور کوتاہی نہیں کرتا اور کوشش کرتا ہے کہ ہمیں پستی سے باہر لائے.اس نے ہمارا دیننا بعد ما زالت الملۃ عن اماکنھا وجعل قیصرۃ دین مارا ہما باز داد و بعد ازاں کہ ملتِ از مکان خود زائل گردیدہ بود و قیصرۂ ہند و قیصر دین ہمیں پھر دیا بعد اس کے کہ مذہب مکانوں سے اُکھڑچکا تھا اور اسی نے قیصرئہ ہند اور
الھند و قیصرھا کمثل مأمنھا فہذہ رحمۃ من را مامن وے گردانید پس ایں ہمہ رحمتِ رَحمان و منت قیصر کو اس کا مامن بنایا سو یہ رحمان کی رحمت الرحمٰن و منۃ من المنّان.و ان العبد اذا کان لا مناّن است و ثابت است کہ چوں بندہ در ہنگام اور منان کی منت ہے.اور اگر بندہ نزول نعمت کے وقت خدا یشکر اﷲ عند نزول النعماء.فتنزل علیہ قارعۃ من فرود آمدن نعمت شکر خدا نکند البتہ بروے کوفتے از بلا نازل کا شکر نہ کرے تو بلا اُس پر نازل ہوتی ہے البلاء.فلاشک ان ھذا الطاعون قدحلت دیارکم می شود.پس شک نیست کہ ایں طاعون از ایں گناہاں در دیار شما فرود سو اس میں شک نہیں کہ انہی گناہوں کے سبب سے طاعون نے تمہارے شہروں میں لھذہ الخطیات.فانقلوا الی الطاعات باسرع الخطوات آمدہ پس بسوئے طاعت الٰہی باگام ہائے شتاب و تیز حرکت بکنید ڈیرے جما دیئے ہیں.اب بہت جلد طاعت کی طرف قدم اُٹھائو واحفظوا انفسکم من السیّاٰت و ان عملتم علی قولی و خود از گناہاں رستگاری بخشید و اگر برگفتار من عمل کردید اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچائو اور اگر تم میری بات پر عمل کرو گے تو فاترجّی ان یدفع منکم ھذا البلاء.و تزول الضراء امید دارم کہ ایں بلا از سر شما دفع کردہ شود و سختی دور شود مجھے امید ہے کہ درد تم سے دُور ہو جائیں گے اور آرام اور چین ترقی کرے گا.
وتکثر النعماء.فاجیبونی ماالاٰراء.أ قبول منکم اوالاباء و آسانی افزوں گردد.پس جواب بدہید کہ چہ رائے می زنید.آیا قبول می دارید آیا انکار می آرید اب جواب دو کہ تمہاری کیا رائے ہے.مانتے ہو یا انکار کرتے ہو وماعلاج الطاعون الا الاتقاء و التضرع و الدعاء.أترون و علاج طاعون بجز تقویٰ و زاری کردن و دعا نیست.و می بینید اور طاعون کا کوئی علاج بجز پرہیز گاری اور گڑگڑانے اور دعا کے نہیں اور تم دیکھ انہ نزلت بساحتکم لارداء کم ودنت فناء کم لافناء کم کہ طاعون برائے ہلاک کردن شما فرود آمدہ و برائے فنا کردن شما رہے ہو کہ وہ تمہیں ہلاک کرنے کو تمہاری آنگنوں میں آ اُتری ہے اور تمہیں فنا کرنے کو تمہارے صحنوں و کأین من اٰباء کم و ابنا ء کم.صاروا صیدہ فتدبروا در صحن خانہ شما خیمہ زدہ و بسیارے از پدران و پسران شما نخچیر وے گردیدہ اند پس باید کہ میں داخل ہو گئی ہے اورکس قدر تمہارے باپ اوربیٹے اس کا شکار ہو گئے.سو اب دانائی اور مالکم بدھائکم.و کم منکم ادخلوا فی جرابہ و بہ زیر کی در انجام خود اندیشہ بفرمائید و بسیارے از شما در جوال وے داخل کردہ شدند و زیر کی سے اپنے انجام میں غور کرو اور کتنے تم میں سے اس کے تھیلے میںڈال دیئے گئے اور شواھم القدر لکبابہ.أ تعلمون من این قضا و قدر ایشاں را برایٔ کباب وے بریاں کرد.آیا می دانید کہ ایں قضاء و قدر نے اس کے کباب کے لئے انہیں بریاں کیا.تمہیں کچھ علم بھی ہے کہ اس اثرہ.و کیف عجرہ و بجرہ.فاعلموا انہ نتیجۃ داروگیر و اثر طاعون از چہ چیز است پس بدانید کہ آں نتیجہ ساری کارروائی کی جڑ کیا ہے سو یاد رکھو کہ یہ سب نتیجہ
فسقکم و فجورکم.فابکوا ولیس وقت سرورکم بدکاری و ناہنجاری شما است پس گریہ بکنید کہ وقت شادمانی نیست تمہارے فسق و فجور کا ہے اب بیٹھ کر روئو کہ یہ خوشی کا وقت نہیں ہے وطہروا امام اﷲ دخیلۃ امرکم.وادفعوا غیم و نہاں خود را پیش دیدۂ خدا پاک بسازید و ابر ماہ خود را دفع اور اپنے اندرونی معاملات کو خدا کے سامنے پاک کرو اور اس ابر کو جو تمہارے چاند پر قمرکم لیبعد اﷲ منکم ھذا الذئب و ھذہ المفازۃ بکنید تا خدا ایں گرگ و دشت را از نزد شما دور گرداند و شمارا عزت و آ گیا ہے دور کرو.اس لئے کہ خدا اس بھیڑیئے اور خوفناک جنگل کو تم سے دور کرے اور تمہیں و یھب لکـم الکـرامۃ و العـزازۃ.فقموا عنانکم بزرگی بخشد پس گرداگرد خانہئِ خود را رفت و عزّت اور بزرگی عطا کرے اور اپنے گھروں کی ساری طرفوں کو خوب واخلعوا الصلف.وتلافوا ماسلف.و ان لم تنتھوا روب بنمائید ولاف و گزاف را ترک بکنید و چارۂ کار گذشتہ بسازید.و اگر باز نیامدید پاک صاف کرو اورلاف و گزاف چھوڑدو اور جو گذر چکا ہے اس کی تلافی کرو.اور اگر تم نہ باز آئو فاعلموا ان قولی لیس کقول السامر.و قد دخل ملککم پس بدانید کہ گفتار من گفتار فسانہ گو نیست و ہر آئینہ بلا چوں سیل تو جان لو کہ میری بات کسی افسانہ گو کی بات نہیں دیکھو بلا جرار سیل کی طرح بلاء کالسیل الھامر.فمن تلقف قولی شیخا رواں در ملک شما در آمدہ پس ہرکہ گفتار مرا پذیرفت پیر باشد تمہارے ملک میں داخل ہو چکی ہے.سو جو شخص میری بات کو قبول کرے گا بوڑھا ہو
کان اوحدثا واستخلصہ جد ا لاعبثا.وقبل یا برنا و آنراسختہ دانست نہ ہرزہ و ایں سخن را بگوش یا جوان ہو اسے ہزل نہیں سنجیدہ بات سمجھے گا.الکلام.و قطع الخصام فقد نال المرام.فارجعوا.قبول شنید و ہمہ ستیزہ و جنگ را بگذاشت او بالیقین برسر مراد برسد پس بسوئے اور سب جھگڑے چھوڑ دے گا وہ کامیاب ہو گا سو اب تم الی الحکم القاضی.و ھیجوا انفسکم علی الماضی.حَکم قاضی رجوع بیارید و برآنچہ بگذشت پشیمانی و افسوس بخورید و حاکم قاضی کی طرف آ جائو اور اپنی گذشتہ کرتوتوں پر پشیمان ہو جائو اور و احسبوا قولی ھذا من ضیعتی و مبرتی.و فیہ مسرتکم گفتہ مرا نیکی و احسان از من در حق خود بشمرید و دریں شادمانی من و شماست میری بات کو اپنے حق میں میرا بڑا احسان یاد کرو اسی میں میری خوشی اور تمہاری خوشی ہے و مسرتی.و من قبل قولی فارجوا ان یجیر لہ بالہ و آنکہ قول مرا قبول داشت امید دارم کہ شکست دل وے بستہ گردد اور جو شخص میری بات کو قبول کرے گا مجھے امید ہے کہ خدا اس کے دل کی شکست درست و یبعد عند بلبالہ.ایھا النّاس قد اُشرب حسی و رنج و سختی از وے دور کردہ شود و احوال وے نیکو ای مردم حس من فرو خورانیدہ کر دے گا اور اس کے رنج و غم کو دُور اور اس کے احوال کو ٹھیک کر ے گا.اے لوگو! مجھے معلوم ہو رہا ونبأنی حدسی.ان البـلاء قد نـزل من کثـرۃ العصیان شدہ است و فراست من مرا خبردادہ کہ ایں بلا از کثرت گناہاں نازل شدہ ہے اور میری فراست کہہ رہی ہے کہ یہ بلا گناہوں کی کثرت کی وجہ سے آئی ہے
کما کان ینزل فی سابق الزمان فاستخلصوا مراضی رب ہمچناں کہ در زماں پیشین نازل می شد پس برائے بدست آوردن خوشنودی جس طرح پہلے زمانوں میں آیا کرتی تھی اب تم خداوند تعالیٰ کی خوشنودی العباد.واجتنبوا انواع الفسق والفساد.تنجون پروردگار بکوشید و از ہرگونہ فسق و فساد بہ پرہیزید انشاء اﷲ حاصل کرنے کی فکر کرو اور ہر قسم کی بد کاری اور فساد سے بچ جائو تو خدا چاہے تم من موت کموت الجراد.و انی اخاف ان رستگاری خواہید شد از مر گے کہ مانند مرگ مور و ملخ است و من خوف آں دارم کہ ایں ضرور کیڑوں مکوڑوں کی موت مرنے سے نجات پا جائو گے مجھے ڈر ہے کہ یہ مرض یدخل ھذا المرض کل مدینۃ و یلج کل عرینۃ مرض در ہرشہر در آید و در ہربیشہ درون شود کہیں ہر شہر میں داخل نہ ہو جائے اور ہر پیشہ میں راہ نہ پا جائے فیأکل سباعھا و ظباء ھا.وینفد مرعاھا و ماء ھا پس درندگان و آہوان وے را فرو خورد و چراگاہ و آب آں را پاک بخورد پھر وہاں کے درندوں اور ہرنوں سب کو کھا جائے اور چراگاہوں اور پانیوں کو بالکل کھا جائے فسارعوا الی الصالحات.و اخرجوا مال الصدقات.پس بشتابید بسوئے نیکوکاری ہا و مال صدقات را بیروں کنید و اور پی جائے سو نیکیوں میں لگ جائو اور صدقات خیرات نکالو اور وقضوہ علی ذوی الفاقات و واﷲ انی ارجو ان ینجی ربّی بر ستمندان و بے نوایان خرچ بنمائید و سوگند بحق کہ من امید دارم کہ پروردگار من محتاجوں کو دو قسم بخدا مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو طاعون
قوما من الطاعون الذین تبعوا قولی و اطاعون.فانضوا عنکم قومے را ازچنگال طاعون ایمنی و خلاصی بخشد کہ پیروی قول من کنند و مطیع من شوند پس جامۂ تن پروراں سے بچائے گا جو میرا کہا مانیں گے سو تم عیش پسندوں لبوس المتنعمین واجتنبوا تغافل النائمین و صلوا مع از خود بکشید و از غفلت خوابیدگان برکنار باشید و باراکعان و قائمان کی پوشاک بد ن سے اُتار پھینکواور سونے والوں کی غفلت سے الگ ہو جائو اور راکعین اور الراکعین و القائمین واستعینوا بالصبر و الصلٰوۃ نماز بگزارید و باصبر و صلوٰۃ یاری بجوئید قائمین سے مل کر نماز پڑھو اور صبر اور صلٰوۃ اور خیرات سے مدد لو.و الصدقات والصلات.یفرخ کربکم و یأمن سربکم سختی و رنج از سر شما دفع شود و ایمنی و آرام بدلہائے شما اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خدا تمہیں ہر طرح کے دُکھ سے محفوظ رکھے گا.وبعد مانزعتم عن الغی.سترون رحم القیّوم حاصل آید.و بعد از گذاشتن گمراہی انشاء اﷲ رحم خداوند بزرگ خواہید دید اور تم گمراہی کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کا رحم دیکھو گے.الحیّ.وانّی قلت کما یقول الملھمون فسوف تعلمون.ومن ہماں طور گفتہ ام کہ ملہمان می گویند پس شما عنقریب خواہید دانست.مَیں نے تمہیں اسی طرح کہہ دیا جس طرح ملہم کہا کرتے ہیں سو تم عنقریب جان لو گے.المشتــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہر میرزا غلام احمد من مقام قادیان ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۰۱ء (یہ اشتہار الحکم نمبر۴۷ جلد ۵ مورخہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۱ء کے صفحہ ۴ سے صفحہ۹ تک شائع ہوا ہے.) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۳۰ تا ۴۷)
بزبان پشتو الطاعون بسم الله الرحمن الرحيم حمد خداي لرا او سلام دوي د هغه په برګزيد و بندګانو په رونړو په هوښيارانو خدائ دے په دواړه جهان په تاسو رحم و کاند پوه شئ چه طاعون ستاسو په ښهرونو کښ ډيري وا چولے او ستاسو جګرونه يي ټوټي ټوټي کړل او ستاسو ډير دوستان پلاران زامن لونړان خزئي او همسايګان يي درنه و تښتول او ستاسو ده پاره په دے کښ د حکيم او د کريم خدائ د طرف نه لوئ ابتلا او امتحان دے او واورئ چه هره يوه بلا چه نازليږي د هغي څلور سببونه وي او د ابتدا نه فطرت نه سنت د خدائ هم دغه شان جاري دي.اول سبب دا دے چه خلق د خدائ د خوشحالي د لارونه واوړي او عفت او عبادت پريږدي او د هغه حقونه تلف کاند او په غرور او تکبر ژوندون تيروي او د آخرت فکر او د فسق او د فجور پرواه او د خدائ د حدونو لحاظ نه کوي او د هغه حکمونه د پښو د لاندي مږي او دهغه په مخامخ بدکاري اور بيباکئ سره په جرمونو باند اصرار کوي او هغه له قهر ورولي دويم سبب دا دے چه خلق د هغه د اولوالامرو نافرماني کوي چه د خدائ د مصلحت نه هغوئ له ورکيږي او هغوي د رعيت د غلي د انبار د پاره په مثال د ټاپي وي او چه رعا يا مفسده او باغي شئ او پښي د اطاعت د پړي نه اوباسي او په معروفو خبرو او په جائزو امرونو کښ د هغوي مدد نه کوي او د هغوي په نسبت
بدګماني کوي او په جنګونو او په مقابلو د هغوي په معاملو کښ خلل راولي او په شان د وفادارانو او د سعادتمندو دهغوئ ادب نۀ کوي او دهغوئ حکمونه نه مني او غواړي پريکول دهغي څيز چه خدائ ساز کړي دے او غواړي دفع کول د هغه شي چه خدائ په ډير لوئ حکمت راوړي دے.دريم سبب دادي چه خلق د هغه امام په قبلولو کښ بخل و کاند چه د صدئ په سر کښ مبعوث شي او سره د ځليدونکو دليلونو راليږلي شوي دي او د قصد د بخل او د کيني نه د هغه د نشانونو انکار وکاند او دهغه ايزادهي او تحقير او تکفير وکړي او دا غواړي چه په تُروُ او په بلو قتل د هغه امام وکړي او د ظلم او د فريب مقدمي تر حاکمانو ورسوي او اصلي خبره پټه کړي څلورم سبب دادي چه خلق په مثال د ميږو او د چنجو د يو بل په خوراک راولګي او څه د رحم په هغوئ کښ پاتي نه شي او رحم په مخلوق باندي کول او د لوئ وړکي د حق رعايت کول پريږدي ياد ولرئ چه د دے ورکونکي طاعون هم دغه څلور سببونه دي زه د خدائ نه دعا کوم چه هغه مونږ او زمونږ خپلوان په خپل فضل او کرم د دے بلا نه وساتي او ځما په نزدهم دغه لويي سببونه دي او نه پوهيږي په دے ليکن چه هوښياران وي نو د خداے نه ويره و کړئے او که سلامتي غواړے نو ددے سببونو نه ځان و ساتي او ما اول له دے نه هم ويلي وو خو تاسو ورباندے غوږ و نساته او مادرته لارښيلي وه ولي تاسو هدايت وانه خست او ما وښو ليکن تاسوونه ليدنن ځما په زړه کښ راغلي دي چه يو ځل بيا درته وصيت وکړم او د ځان بريت د پاره حجت پيدا کړم واورئ او مخ مه جارباسئ اتقا ونسئ او فسق او فجور پريږدئ او ودريږئے د خدائ دپاره او مه کيښنئ او
اطاعت وکړي او سر کشي مه کوئ او خدائ يادوئ او غفلت پريږدئ او ټول په اتفاق د خدائے پړي ونسئ او تفرقه د منز نه وباسئ او تزکئ د نفسونو وکړے نه چه ضد ددے او طهارت د باطن پيدا کړئ نۀ چه پليدي او عبادت د خپل خدائ په اخلاص کوئ او شريک ورله مه نسئ او صدقے ورکوئے او بخل پريږدئ کوشش و کړي د اسمان په طرف د ختلونه چه په زمکه کښ د ننوتلو اوپه خپلو ضعيفانو باندي رحم کوئ چه په تاسو باندي هم رحم وکړي شي او دخداي او دخپلو بادشاهانو اطاعت کوئ مخلافت مه کوئ او د حاکمانو په حکمونو او فيصلو او پروانو وغيره کښ د هغوي مخالفت مه کوئ او دهغوي د رضا نه بر خلاف يو قدم هم مخکي ورستو مه اګدئ او هر کله چه هغوي حکم وکړي نو فورا حاضر شئ او دهغي په بللو سستي مه کوئ او دهغوي د قانون نه خلاف ورزي مه کوئ او دهغوي بد مه وايئي او هر کله چه يو خدمت درته وسپارلي شي نو ډير زر حکم منئي او دهغئ د تعميل سعي کوئ ان که د غرپه سر ختل راشي هم او د جاهلانو په شان عذرونه مه جوړوئ او د ناکاره سړو په شان انکار مه کوئ او ښه پوي شئ چه ټوله سلامتيا په قبلولو د حکمونو کښ ده او ټوله ملامتيا په نافرماني او په جګړو کښ او زه ده خدائ شکر کوم چه هغه مونږ له زمانه د سلطنت د برطاني راکړے ده او د هغي په ذريعه يي ډيرے ډيرے مهربانيئ او فضل يي په مونږ کړي دے مونږ د دے سلطنت په راتلو د قسم قسم نعمتو نه وموندل.زمونږ قوم علم او تهذيب زده کړه او د ډنګرو د ژوندانه نه خلاصي د هغوي نصېب شو.او د حيواني جذبونه وتل او په انساني کمالات باند رسيدل هغوي لرا نصيب شو ګويا مونږ په طفيل د دي ګورنمنټ د اميد او د فکر نه تير
امن او امان و موند اوس مونږ په زمکه باندے د غواو په شان نه بلکه د بار دارو او ښو په شان په ډير وقار او آرام سفر کوو او د لوټ مارو او ده بد ذاتو دښمنانو هس ويره نه وي او مونږ داشپي په اول او په اخر وقت يوازي بي د خوف نه او د خطر نه سفر کوو او د ريل ګاډي په وتو د او ښانو او د قافلو او د اسونو هس ضرورت پاتي نه شه اوس مناسب دي چه خپل نيتونه درست کړے او ددي سلطنت په حق کښ نيک ګمان شي او ددے په حضور کښ په صاف زړه او پاک نيت حاضر شئ او په زمکه باندے د باغيانو په شان فساد ګډونکي او د شريرانو په شان زغليدونکي مه ګرزي او ښه پوئ شئ چه دي سلطنت د ظالمانو لاسونه په تاسو باندے د ظلم کولو نه تړلي دي او تاسو او ده وئ او دي پاسولئ او په سفر او په حضر کښ يي ستاسو پوره پوره نګهباني و کړله او هر کله چه تاسو چرته د کار روزګار د کولو او د معاش په تلاش کښ ووزئ او بيا وطن ته واپس رازي په دواړو صورتونو کښ د ګورنمنټ د ډډي په تاسو محافظان مقرر دي او هغي ستاسو د عزت او د مال پوره پوره حفاظت او په صحت او په ناجوړتيا کښ ستاسو پالنه کړي ده او امن يي درته بخښلي دي چه د هغي نه تاسو په دولت او په مال او په کثرت ترقي وکړله او دا سلطنت په هر ميدان کښ ستاسو د مدد د پاره ودريد او ستاسو يارانو دوستانو او د کورونو په نسبت پوره سلوک يي وکړه او ثابته يي کړه چه ستاسو پناه او د امن ځائي هم دغه سلطنت دي اوس په تاسو باندي ددے سلطنت د احسان حق ثابت دے او هغي تاسو د لوټمارو او د غلونه بچ کړئے او ستاسو د مال او دعيال په نسبت د نګهبانئي حق يي ادا کړو او مهرباني د هغي ستاسو د عمرونو د زيادتي سبب شوه او د هغي نه تاسو
داسي عافيت بياموند چه تباه کونکي او برباد کونکي نۀ دي او تاسو ته د حد درجي رفاهيت حاصل شه او هغي تاسو د غمونو او د دړدونو د خوفناک ځنګل نه بچ کړلئي او دخپل فضل او دکرم په حمايت کښ يي واغستلئي اوس دا حال دي چه د دښمنانو د ظلم کاري تاسو پوري رسيد لي نه شي نو مناسب دي چه د ګورنمنټ د شکريه ادا کولو کښ ځان چاړا اوليوني نکړي ځکه چه د احسان بدل احسان دي او د شکر نه غفلت کول کفران دي او زه په قسم سره دا خبره وايم چه دا سلطنت ستاسو د پاره دامن يو ډير ښه تعويذ دي او ددي په موجودګئي کښ مونږ لرا د خود پوش مددګار ضرورت نشته او په حقيقت کښ ټول حمدونه خدائ لرادي چه هغه مونږ له داسي قيصر راکړي دي چه زمونږ د حال په خبرګيرئ او په غور پرداخت کښ هس قدر قصور او کوتاهي نه کوي او کوشش کوي چه مونږ د پستئ نه راوباسي هغه زمونږ دين مونږ له بيا راکړه پس له دي نه چه د مذهب جړي د خپل ځاي نه خوزيدلي وي او هغه قيصره د هند او د قيصر د هغه مددګار کړل نو دا د رحمان رحمت او د منان منت دي او که چري بنده د نعمت په نزول د خدائ شکرونه کاندي نوپه هغه باندي بلا نازليږي نو په دي کښ شک نشته چه هم ددغي ګناهونو نه طاعون ستاسو په ښاريو کښ ډيري اچولي دي اوس ډير زر د اطاعت د پاره قدمونه پورته کړي او ځان د ګناهونو نه بچ کړي او که تاسو ځما خبره ومنله نو زه اميد کوم چه دا درد و غم په تاسو نه لري شي او ارام او خوشحالي په ترقي و کاندي اوس ووائي چه ستاسو څۀ صلاح دامنئي او که انکار کوئ او د طاعون علاج بي له پرهيزګاري او د ژړيدلو او د دعا نه هس نشته او تاسو وينئي چه هغه ستاسو د هلاکت د پاره ستاسو په
سترګو کښ راکوز شوي دي او ستاسو د فناکولو د پاره ستاسو د کورونو په غولو کښ داخل شوي دي او څه قدر ستاسو پلاران او هلکان دهغه په ښکار کښ راغلي دي باري اوس په دانائ او په هوښيارتيا په خپل انجام کښ غور وکړي او ډير ستاسو نه دهغه په زنبيل کښ واچولي شو او قضا و قدر د هغه د کبابونو د پاره هغه وراته کړل.تاسو څۀ پوهيږئ چه د هغي د ټولي کارروائ جړه څۀ ده باري پوي شئي چه دا ټوله نتيجه ستاسو د فسق او د فجورده اوس کښينئ او په سروسترګو وژاړئ چه دا د خندلو او د خوشځالي وقت نه دي او خپل اندروني معاملات د خدائ په مخ کښ پاک کړي او دا وريز چه ستاسو په سپوګمئي باندي راغلي ده هغه لري کړي چه خدائ هغه شرمخ او خوفناک ځنګل تاسو نه لري کړي او تاسو له عزت او بزرګي در کړي او د خپلو کورنو هر يو طرف ښه پاک او صاف ساتئي اولاف و ګزاف پريږدي او څۀ تير شوي دي دهغي تلافي وکړي او که تاسو منع نۀ شوئ نو پوي شئ چه ځما ويل د يو افسانه ګو د ويلو په شان نه دي وګورئ چه دا زورآور سيلاب څۀ رنګ ستاسو په ملک کښ داخل شه نو هر هغه سړي که زوړ دي او که ځوان دي چه ځما ويل قبول کړي او هزيان نۀ بلکه معتبريي وګنړي او ټولي جګړي پريږدئ هغه به کامياب شي نو مناسب دي اوس تاسو د حکم قاضي په طرف راشئ او په تيرو کړو باندي پښيمانه شئي او ځما ويل په خپل حق کښ ځما يولوئ احسان وګنړئ هم په دغه کښ ځما او ستاسو خوشحالي ده او هر يو سړے چه ځما خبره قبوله کاندي زه اميد کوم چه خدائ به د هغه د زړه کمزورتيا لري او دهغه رنج و غم ورک او دهغه احوال درست کاندي يه خلق ماته معلوميږي او ځما فراست وائ چه دا بلا د
ګناهونو د زياتي نه راغلي ده لکه چه په وړنبو زمانو کښ به راتله اوس تاسو د خدائ د خوشحالولو فکر وکړئ او د هر قسم بدي او فساد پريږدئ تاسو به ضرور د ميږو او د چنجو په شان د مرګ نه بچ شئ زه يريږم چه دا مرض چرته په هر ښهر داخل نۀ شي او په هر ځنګل ننه نه وزي او بيا د هغه ځائي ټول درند پرند و نۀ خوري او ټول سبزه زار او اوبه و نۀ خوري او ونسکي نو په نيکئ وه لږئ او صدقي او خيراتونه وباسئ او محتاجانو له ور کوئ ځما قسم دي وي په خدائ چه هغه به هغه خلق د طاعون نه وساتي چه څوک ځما ويل ومني نو تاسو د عياشانو جامه لهتن نه لري کړي او د اودو غافلانو د غفلت نه بيرته شئ او راکعين او قائمين سره جمع منزونه کوئ او په ذريعه د صبر او د صلوٰة او د صدقے او د خيرات مدد غواړئ د دي نتيجه به دا وي چه خدائ به تاسو د هر قسم درد او د غم نه محفوظ ساتي او که تاسو ګمراهي پريښودله نو د خدائ رحيم به وه وينئ او ماتاسو ته هم په هغي شان ووے لکه چه ملهمان وايي او تاسو به په دي پويي شئ.ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ لنگر خانہ کے انتظام کے لئے چونکہ کثرت مہمانوں اور حق کے طالبوں کی وجہ سے ہمارے لنگر خانہ کا خرچ بہت بڑھ گیاہے اور کل مَیں نے جب لنگر خانہ کی تمام شاخوں پر غور کر کے اور جو کچھ مہمانوں کی خوراک اور مکان اور چراغ اور چارپائیاں اور برتن اور فرش اور مرمت مکانات اور ضروری ملازموں اور سقاّ اور دھوبی اور بھنگی اور خطوط وغیرہ اور ضروریات کی نسبت مصارف پیش آتے رہتے ہیں.ان سب کو جمع کر کے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ان دنوں میں آٹھ سو۸۰۰ روپیہ اوسط ماہواری خرچ ہوتا ہے اس خرچ کے لئے خاص خدا تعالیٰ نے ہی ایسے اتفاقات پیش کئے کہ اب تک ہمیں محض خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے کوئی فاقہ نہیں آیا.مگر چونکہ ہر ایک امر جس کے ساتھ کوئی انتظام نہیںموجب ابتلا ہوتا ہے اور سلسلہ غموںکا اندازہ سے زیادہ بڑھ جاتا ہے اس لئے اس پُر تشویش وقت میں کہ جبکہ آمدن مستقل طور پر ساٹھ روپیہ ماہواری بھی نہیں اور خرچ آٹھ سو روپیہ ماہواری سے کم نہیں، کوئی انتظام توکّلا عَلَی اللّٰہ ضروری ہے
بالخصوص جبکہ قحط کے دن بھی شدت کر تے جاتے ہیں اور طاعون۱؎ کے دن بھی ہیں اس لئے مَیں نے سخت گھبراہٹ کے وقت میں بلحاظ ہمدردی اس جماعت کی جس کو مَیں اپنے ساتھ رکھتا ہوں، اس انتظام کو اپنا فرض سمجھا اور نیز اس خیال سے بھی کہ عمر کا اعتبار نہیں لہذا مَیں چاہتا ہوں کہ غرباء اورضُعفاء کی ایک جماعت میرے ساتھ رہے اور جو میری باتوں کو سُنے اور سمجھے اگرچہ ہمارے سلسلہ کے ساتھ اور مصارف بھی لگے ہوئے ہیں لیکن میں سُنت انبیاء علیہم السّلام کے مطابق سب سے زیادہ اس فکر میں رہتا ہوں کہ ایک گروہ حق کے طالبوں کا ہمیشہ میرے پاس رہے.اور نیز دُور دُور سے لوگ آویں اور اپنے اپنے شُبہات پیش کریں اور مَیں ان شُبہات کو دُور کروں اور نیز ایسے لوگ آویں جو خد اتعالیٰ کی راہ مجھ سے سیکھنا چاہتے ہیں اور نیز یہ کہ جو کچھ مَیں لکھوں وہ کتابیں چھپتی رہیں.اگرچہ ہمارے ساتھ مدرسہ کا بھی تعلق ہے اور اس کا انتظام خرچ بھی ابھی ناقص اور بالکل ناقابل اطمینان ہی ہے اور مَیں یہ بھی خوب جانتا ہوں کہ جو لڑکے اس مدرسہ میں پڑھیں گے وہ نسبتاً کچھ نہ کچھ سچائی اور دینداری اور پرہیز گاری اور نیک چلنی کی راہ سیکھیں گے.لیکن ان میں اور ہم میں بڑے پہاڑ اور کانٹے اور شور دریا ہیں.بہت تھوڑے ہیں جو اُن سب کو چیر کر ہم تک پہنچ سکتے ہیں ورنہ عموماً سب پڑھنے والے اپنی دنیا کے لئے مر رہے ہیں اور اس کتا کی مانند ہیں جو ایک دفن کئے ہوئے مُردار کی مٹی اپنے پیروں سے کھودتا ہے اور جب وہ مُردار ننگا ہو جاتا ہے تو اُسے کھاتا ہے.اسی طرح ان پڑھنے والوں میں بڑا گروہ تو ایسا ہی ہے کہ اس مُردار کی تلاش میں ہیں اور جب وہ مُردار انہیں مل گیا تو پھر ہم کہاں اور وہ کہاں.آخر انہیں باپوں کے وہ ۱؎ چونکہ شرعاً یہ امر ممنوع ہے کہ طاعون زدہ علاقہ کے لوگ اپنے دیہات کو چھوڑ کر دوسری جگہ جائیں اس لئے میں اپنی جماعت کے ان تمام لوگوں کو جو طاعون زدہ علاقوں میں ہیں منع کرتا ہوں کہ وہ اپنے علاقوں سے نکل کر قادیان یا کسی دوسری جگہ جانے کا ہرگز قصد نہ کریں اور جہاں تک ممکن ہو دوسروں کو بھی روکیں.اپنے مقامات سے نہ ہلیں.توبہ و استغفار کریں اور راتوں کو اُٹھ کر دعائیں کریں کہ یہی ضروری چیز اورحرز ہے.منہ
فرزند ہیں جنہوں نے دُنیا کو قبول کر رکھا ہے.کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دنیا کو تین طلاق بھیج کر ہماری راہ پر چلیں گے اور ہمارے سلسلہ کے لئے اپنی عمریں وقف کر دیں گے.یہ بالکل جھوٹ ہے.ہمارا کانشنس ہرگز اس بات کو قبول نہیں کرتا بلکہ اکثر لڑکے اپنی دنیا کے لئے ہی مرتے ہیں اور جب اس قدر کوئی ڈگری حاصل کر لیں گے کہ جس سے وہ نوکر ہو سکیں تب وہ فی الفور روحانی تناسخ کو قبول کر کے ایک اَور جُون میں آ جائیں گے بھلا جوش جوانی کی ہزاروں ظلمتوں اور جذبات سے باہر آنا سہل بات ہے یا ہر ایک کا کام ہے نہیں بلکہ نہایت ہی مشکل ہے.لیکن میری اُمیدیں ان غریبوں پر بہت ہیں جو نہ بی اے بننا چاہتے ہیں اور نہ ایم.اے بلکہ بقدر کفایت معاش دنیا اختیار کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں ہر دم یہ خلش ہے کہ کسی طرح ہم نیک انسان بن جائیں اور خدا ہم سے راضی ہو.سو وہ ہدایت پانے سے بہت قریب ہیں کیونکہ ان کے خیالات میں تفرقہ نہیں ہے.وہ میرے پاس رہ کر ہر روز تازہ بتازہ ہدایت پا سکتے ہیں.سو انہیں کا سب سے زیادہ مجھے فکر ہے کیونکہ ہم عمر کا بہت سلسلہ طے کر چکے ہیں اور تھوڑا باقی ہے.اسی اطمینان کے حاصل کرنے کے لئے مَیں یہ اشتہار شائع کرتا ہوں.یہ اشتہار کوئی معمولی تحریر نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ جو مرید کہلاتے ہیں یہ آخری فیصلہ کرتا ہوں.مجھے خدا نے بتلایا ہے کہ میرا انہیں سے پیوند ہے یعنی وہی خدا کے دفتر میں مُرید ہیں جو اعانت اور نصرت میں مشغول ہیں.مگر بہتیرے ایسے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں.سو ہر ایک شخص کو چاہیے کہ اس نئے انتظام کے بعد نئے سرے عہد کر کے اپنی خاص ۱؎ تحریر سے اطلاع دے کہ وہ ایک فرض ؎ تقسیم اشتہارات کا یہ قاعدہ ہے کہ ہر ایک شہر میں چند اشتہار ایک آدمی کی طرف بھیجے جاتے ہیں.پس ہر ایک صاحب کو جس کے پاس ان اشتہارات کا پیکٹ پہنچے ‘ لازم ہے کہ وہ اپنے شہر اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو جو سلسلہ بیعت میں داخل ہیں اس اشتہار کا مضمون بخوبی سمجھا کر ازسرنو اس سے عہد اس چندہ کا لے.پھر ان تمام لوگوں کے ناموں کی ایک فہرست مرتب کر کے بھیج دے.اگر وہ لوگ خواندہ ہوں تو ان کے دستخط بھی کرا دے.منہ
حتمی کے طور پر اس قدر چندہ ماہواری بھیج سکتا ہے.مگر چاہیے کہ اس میں لاف گزاف نہ ہو جیسا کہ پہلے بعض سے ظہور میں آیا کہ اپنی زبان پر وہ قائم نہ رہ سکے.سو اُنہوں نے خدا کا گناہ کیا جو عہد کو توڑا.اب چاہیے کہ ہر ایک شخص سوچ سمجھ کر اس قدر ماہواری چندہ کا اقرار کرے جس کو وہ دے سکتا ہے گو ایک پیسہ ماہواری ہو.مگر خدا کے ساتھ فضول گوئی اور دروغ گوئی کا برتائو نہ کرے.ہر ایک شخص جو مرید ہے اس کو چاہیے جو اپنے نفس پر کچھ ماہواری مقرر کر دے خواہ ایک پیسہ ہو اور خواہ ایک دھیلہ اور جو شخص کچھ بھی مقرر نہیں کرتا اور نہ جسمانی طور پر اس سلسلہ کے لئے کچھ بھی مدد دے سکتا ہے، وہ منافق ہے.اب اس کے بعد وہ سلسلہ میں رہ نہیں سکے گا.اس اشتہار کے شائع ہونے سے تین۳ ماہ تک ہر ایک بیعت کرنے والے کے جواب کا انتظار کیا جائے گا کہ وہ کیا کچھ ماہواری چندہ اس سلسلہ کی مدد کے لئے قبول کرتا ہے اور اگر تین۳ ماہ تک کسی کا جواب نہ آیا تو سلسلہ بیعت سے اُس کا نام کاٹ دیا جائے گا اور مشتہر کر دیا جائے گا.اگر کسی نے ماہواری چندہ کا عہد کر کے تین ماہ تک چندہ کے بھیجنے سے لاپرواہی کی اس کا نام بھی کاٹ دیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی مغرور اور لاپرواہ جو انصار میں داخل نہیں اس سلسلہ میں ہرگز نہیں رہے گا.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر میرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان.ضلع گورداسپور ۵؍ مارچ ۱۹۰۲ء ---------------------------------- تتمہ یاد رہے کہ مدرسہ کا قیام اور بقا بھی چونکہ بہت سے مصالح پر مبنی ہے.لہٰذا از بس ضروری ہے کہ حسب استطاعت ہر شخص اس کے لئے بھی ایک ماہوار رقم اپنے اوپر لازم کر لے.اور یہ
بات مَیں پھر دوبارہ یاد دلادیتا ہوں کہ ہر شخص اپنی حالت اور استطاعت کو دیکھ کر چندہ مقرر کرے.ایسا نہ ہو کہ تھوڑی دیر کے بعد اُسے فوق الطاقت بوجھ سمجھ کر ملول ہو جائے کہ اس طرح اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ گنہہ گار ٹھیرے گا اور اس تجدید اور تعیین چندہ کی سب درخواستیں اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کے پاس آنی چاہییں.یہ بھی واضح رہے کہ صدقات اور زکوٰۃ اور اس طرح کی ہر ماہ کا روپیہ بھی یہاں آنا چاہیے.(یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے چار صفحات پر ضیاء الاسلام پریس قادیان میں ۲۰۰۰کی تعداد میں شائع ہوا نیز دس مارچ ۱۹۰۲ء کو ضمیمہ الحکم میں بھی شائع کیا گیا) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۴۷ تا ۵۰)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ ۱؎ ایک شخص ساکن جموُّں چراغ دین نام کی نسبت اپنی تمام جماعت کو ایک عام اطلاع چونکہ اس شخص نے ہمارے سلسلہ کی تائید کا دعویٰ کر کے اور اس بات کا اظہار کر کے کہ میں فرقہ احمدیہ میں سے ہوں جو بیعت کر چکا ہوں طاعون کے بارے میں شاید ایک یا دو اشتہار شائع کئے ہیں اور میں نے سرسری طور پر کچھ حصہ ان کا سنا تھا اور قابل اعتراض حصہ ابھی سنا نہیں گیا تھا اس لئے میں نے اجازت دی تھی کہ اس کے چھپنے میں کچھ مضائقہ نہیںمگر افسوس کہ بعض خطرناک لفظ اور بیہودہ دعوے جو اس کے حاشیے میں تھے اس کو میں کثرت لوگوں اور دوسرے خیالات کی وجہ سے سن نہ سکا اور محض نیک ظنی سے ان کے چھپنے کے لئے اجازت دی گئی.اب جو رات اسی شخص چراغ دین کا ایک اور مضمون پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ مضمون بڑا خطرناک اور زہریلا اور اسلام کے لئے مضر ہے اور سر سے پیر تک لغو اور باطل باتوں سے بھرا ہوا ہے.چنانچہ اس میں لکھا ہے کہ میں رسول ہوں اور رسول بھی اولوالعزم.اور اپنا کام یہ لکھا ہے کہ تا عیسائیوں اور مسلمانوں میں صلح کراوے اور قرآن اور انجیل کا تفرقہ باہمی دور کر دے اور ابن مریم کا ایک حواری بن کر یہ خدمت کرے اور رسول کہلاوے.اور ہر ایک شخص جانتا ہے کہ قرآن شریف نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انجیل یا توریت سے صلح کرے گا بلکہ ان کتابوں کو محرف مبد ل اور ناقص اور ناتمام قرار دیا ہے
اور تاجِ خاص کا اپنے لئے رکھا ہے.اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ سب کتابیں انجیل توریت قرآن شریف کے مقابل پر کچھ بھی نہیں اور ناقص اور محرف اور مبدل ہیں اور تمام بھلائی قرآن میں ہے جیسا کہ آج سے بائیس برس پہلے براہین احمدیہ میں یہ الہام موجود ہے.قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اِنَّمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ وَّالْخَیْرُ کُلُّـہٗ فِی الْقُرْآنِ لَا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ.دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۱ یعنی ان کو کہہ دے کہ میں تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں مجھ پر یہ وحی ہوتی ہے کہ خداایک ہے.اس کا کوئی ثانی نہیں اور تمام بھلائی قرآن میں ہے.پاک دل لوگ اس کی حقیقت سمجھتے ہیں.پس ہم قرآن کو چھوڑ کر اور کس کتاب کو تلاش کریں اور کیونکر اس کو ناکامل سمجھ لیں.خدا نے ہمیں تو یہ بتلایا ہے کہ عیسائی مذہب بالکل مر گیا ہے اور انجیل ایک مُردہ اور ناتمام کلام ہے.پھر زندہ کو مُردہ سے کیا جوڑ.عیسائی مذہب سے ہماری کوئی صلح نہیں وہ سب کا سب ردّی اورباطل ہے اور آج آسمان کے نیچے بجز فرقان حمید کے اور کوئی کتاب نہیں.آج سے بائیس برس پہلے براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میری نسبت یہ الہام درج ہے جو اس کے صفحہ ۲۴۱ میں پائو گے اور وہ یہ ہے:.وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَاالنَّصَارٰی وَخَرَقُوْا لَہٗ بَنِیْنَ وَ بَنَاتٍ بِغَیْرِعِلْمٍ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ.اَللّٰہُ الصَّمَدُ.لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُالْمَاکِرِیْنَ.اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوالْعَزْمِ وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ.یعنی تیرا اور یہود اور نصاریٰ کا کبھی مصالحہ نہیں ہو گا اوروہ کبھی تجھ سے راضی نہیں ہوں گے.(نصاریٰ سے مراد پادری اور انجیلوں کے حامی ہیں) اور پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے ناحق اپنے دل سے خدا کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تراش رکھی ہیں اور نہیں جانتے کہ ابن مریم ایک عاجز انسان تھا.اگر خدا چاہے تو عیسیٰ ابن مریم کی مانند کوئی اورآدمی پیدا کر دے یا اس سے بھی بہتر جیسا کہ اس نے کیا.مگر وہ خدا تو واحد لاشریک ہے جو موت اور تولد سے پاک ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں.یہ اس بات کی طرف
اشارہ ہے کہ عیسائیوں نے شور مچا رکھا تھا کہ مسیح بھی اپنے قرب اور وجاہت کے رو سے واحد لاشریک ہے.اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اس سے بھی بہتر ہے.جو غلام احمد ہے یعنی احمد کا غلام.زندگی بخش جام احمد ہے کیا پیارا یہ نام احمد ہے لاکھ ہوں انبیا مگر بخدا سب سے بڑھ کر مقام احمدہے باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلامِ احمد ہے اِبن مریم کے ذکر کو چھوڑو اُس سے بہتر غلامِ احمد ہے یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کے رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں.خدا نے ایسا کیا نہ میرے لئے بلکہ اپنے نبی مظلوم کے لئے.باقی ترجمہ اس الہام کا یہ ہے کہ عیسائی لوگ ایذا رسانی کے لئے مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور وہ دن آزمائش کے دن ہوں گے اور کہہ کہ خدایا پاک زمین میں مجھے جگہ دے.یہ ایک روحانی طور کی ہجرت ہے اور جیسا کہ اب تک میں سمجھتا ہوں اس کے معنے یہ ہیں کہ انجام کار زمین میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور زمین راستی اور سچائی سے چمک اٹھے گی.اب سوچ لو کہ ہم میں اور عیسائیوں میں کس قدر بُعد المَشرقَین ہے.جس پاک وجود کو ہم تمام مخلوقات سے بہتر سمجھتے ہیں اس کو یہ مفتری قرار دیتے ہیں.صلح تو اس حالت میں ہوتی ہے کہ جب فریقین کچھ کچھ چھوڑنا چاہیں.لیکن جس حالت میں ہمارا دین اور ہماری کتاب عیسائی مذہب کو سراپا ناپاک اور نجس سمجھتا ہے اور واقعی ایسا ہی ہے تو پھر ہم کس بات پر صلح کریں.اس قدر مذہبی مخالفت کا انجام صلح ہرگز نہیں ہے بلکہ انجام یہ ہے کہ جھوٹا مذہب بالکل فنا ہو جائے گا اور زمین کے کل نیک طینت انسان سچائی کو قبول کریں گے تب اس دنیا کا خاتمہ ہو گا.ہمارا عیسائیوں سے مذہبی رنگ میں کچھ بھی ملاپ نہیں بلکہ ہمارا جواب ان لوگوں کو یہی ہے ۱؎ پس یہ کیسی ناپاک رسالت ہے جس کا چراغ دین نے دعوٰی کیا ہے.جائے غیرت ہے کہ ایک شخص میرا مرید کہلا کر یہ ناپاک کلمات منہ پر
لاوے کہ میں مسیح ابن مریم کی طرف سے رسول ہوں تا ان دونوں مذہبوں کا مصالحہ کروں.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَافِرِیْنَ.عیسائیت وہ مذہب ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ اس کی شامت سے زمین پھٹ جائے ، آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.کیا اس سے صلح؟ پھر باوجود ناتمام عقل اور ناتمام فہم اور ناتمام پاکیزگی کے یہ بھی کہنا کہ میں رسول اللہ ہوں یہ کس قدر خدا کے پاک سلسلہ کی ہتک عزت ہے گویا رسالت اور نبوت بازیچۂ اطفال ہے.نادانی سے یہ نہیں سمجھتا کہ گو پہلے زمانوں میں بعض رسولوں کی تائید میں اور رسول بھی ان کے زمانہ میں ہوئے تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ ہارون لیکن خاتم الانبیاء اور خاتم الاولیاء اس طریق سے مستثنیٰ ہے اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرا کوئی مامور اور رسول نہیں تھا.اور تمام صحابہ ایک ہی ہادی کے پیرو تھے.اسی طرح اس جگہ بھی ایک ہی ہادی کے سب پیرو ہیں.کسی کو دعویٰ نہیں پہنچتا کہ وہ نعوذباللہ رسول کہلاوے.اور ہمارا آنا صرف دو فرشتوں کے ساتھ نہیں بلکہ ہزاروں فرشتوں کے ساتھ ہے اور خدا کے نزدیک وہ لوگ قابل تعریف ہیں جو سالہائے دراز سے میری نصرت میں مشغول ہیں اور میرے نزدیک اور میرے خدا کے نزدیک ان کی نصرت ثابت ہو چکی ہے.مگر چراغ دین نے کونسی نصرت کی اس کا تو وجود اور عدم برابر ہے.قریباً تیس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے مگر اس نے تو صرف چند ماہ سے پیدائش لی ہے اور میں اس کی شکل بھی اچھی طرح شناخت نہیں کر سکتا کہ وہ کون ہے.اور نہ وہ ہماری صحبت میں رہا اور میں نہیں جانتا کہ وہ کس بات میں مجھے مدد دینا چاہتا ہے.کیا عربی نویسی کے نشان میں یا معارف قرآنی کے بیان میں میرا مددگار ہو گا یا ان مباحث دقیقہ میں میری اعانت کرے گا جو طبعی اور فلسفہ کے رنگ میں عیسائیوں اور دوسرے فرقوں سے پیش آتے ہیں؟ میں تو جانتا ہوں کہ وہ ان تمام کوچوں سے محروم ہے اور نفس امارہ کی غلطی نے اس کو خودستائی پر آمادہ کیا ہے.پس آج کی تاریخ سے وہ ہماری جماعت سے منقطع ہے جب تک کہ مفصل طور پر اپنا توبہ نامہ شائع نہ کرے اور اس ناپاک رسالت کے دعویٰ سے ہمیشہ کے لئے مستعفی نہ ہو جائے.افسوس! کہ اس نے بے وجہ اپنی تعلّی سے ہمارے سچے انصار کی ہتک کی اور عیسائیوں کے بدبودار مذہب کے مقابل پر اسلام کو ایک برابر درجہ کا مذہب سمجھ لیا.سو ہم کو ایسے شخص کی کچھ پروا نہیں.ایسے
لوگ ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں.ہماری جماعت کو چاہیے کہ ایسے انسان سے قطعاً پرہیز کریں.اس کی تحریروں سے ہمیں پوری واقفیت نہیں تھی اس لئے اجازت طبع دی تھی.اب ایسی تحریروں کو چاک کرنا چاہیے.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار میرزا غلام احمد از قادیاں ۲۳ ؍اپریل ۱۹۰۲ء تعداد اشاعت ۵۰۰۰ مطبع ضیاء الاسلام قادیان (مندرجہ رسالہ دافع البلاء) ------------------------------ حاشیہ نمبر۱ چراغ دین کی نسبت میں یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھ کو خدائے عزّوجلّ کی طرف سے یہ الہام ہوا.نَزَلَ بِہٖ جَبِیْزٌ یعنی اس پر جَبِیْز نازل ہوا اور اسی کو اس نے الہام یا رئویا سمجھ لیا.جَبِیْز دراصل خشک اور بے مزہ روٹی کو کہتے ہیں جس میں کوئی حلاوت نہ ہو اور مشکل سے حلق میں سے اتر سکے اور مرد بخیل اور لئیم کو بھی کہتے ہیں جس کی طبیعت میں کمینگی اور فرومایگی اور بخل کا حصہ زیادہ ہو.اور اس جگہ لفظ جبیزسے مراد وہ حدیث النفس اور اضغاث الاحلام ہیں جن کے ساتھ آسمانی روشنی نہیں اوربخل کے آثار موجود ہیں اور ایسے خیالات خشک مجاہدات کا نتیجہ یا تمنا اور آرزو کے وقت القاء شیطان ہوتا ہے اور یا خشکی اور سوداوی مواد کی وجہ سے کبھی الہامی آرزو کے وقت ایسے خیالات کا دل پر القاء ہو جاتا ہے اور چونکہ ان کے نیچے کوئی روحانیت نہیں ہوتی اس لئے الٰہی اصطلاح میں ایسے خیالات کا نام جبیز ہے اور علاج توبہ اور استغفار اور ایسے خیالات سے اعراض کلّی ہے.ورنہ جَبِیْز کی کثرت سے دیوانگی کا اندیشہ ہے.خدا ہر ایک کو اس بلا سے محفوظ رکھے.منہ
حاشیہ نمبر۲ رات کو عین خسوف قمر کے وقت میں چراغ دین کی نسبت مجھے یہ الہام ہوا.اِنِّیْ اُذِیْبُ مَنْ یُّرِیْبُ.میں فنا کر دوں گا.میں غارت کروں گا.میں غضب نازل کروں گا اگر اس نے شک کیا اور اس پر ایمان نہ لایا اور رسالت اور مامور ہونے کے دعوے سے توبہ نہ کی.اور خدا کے انصار جو سالہائے دراز سے خدمت اورنصرت میں مشغول اور دن رات صحبت میں رہتے ہیں ان سے عفو تقصیر نہ کرائی کیونکہ اس نے جماعت کے تمام مخلصوں کی توہین کی کہ اپنے نفس کو ان سب پر مقدم کر لیا.حالانکہ خدا نے بار بار براہین احمدیہ میں اُن کی تعریف کی اور اُن کو سابقین قرار دیا اور کہا.اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ وَمَا اَدْرَاکَ مَا اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ.اور جَبِیْز اس روٹی خشک کو کہتے ہیں کہ دانت اس کو توڑ نہ سکیں.اور وہ دانت کو توڑے اور حلق سے مشکل سے اترے اور امعاء کو پھاڑے اور قولنج پیدا کرے.پس اس لفظ سے بتلایا کہ چراغ دین کی یہ رسالت اور یہ الہام محض جبیز اور اس کے لئے مہلک ہیں.مگر دوسرے اصحاب جن کی توہین کرتا ہے اُن پر مائدہ نازل ہو رہا ہے اور اُن کو خدا کی رحمت سے بڑا حصہ ہے.۱.مائدہ چیزیست دیگر خشک نان چیزے دگر خوردنی ہرگز نباشد نان خشک اے بے ہنر ۱؎ ۲.دوستاں را مائدہ بدہند از مہر و کرم پارہ!ہائے خشک نان بیگانگان را نیزہم ۳.نیز ہم پیشِ سگاں آں خشک نان مے افگنند مائدہ از لطف!ہا پیشِ عزیزاں مے برند ۴.ترک کن ایں خشک نان را ہوش کن فرزانہ باش گر خردمندی پئے آں مائدہ دیوانہ باش منہ (مندرجہ رسالہ دافع البلاء مطبوعہ ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۹تا۲۴.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۳۹ تا ۲۴۴) ۱؎ ترجمہ اشعار.(۱) خوان نعمت اور چیز ہے خشک روٹی اور چیز ہے.اے بے سمجھ سوکھی روٹی کھانے کے قابل نہیں ہوتی.(۲) دوستوں کو فضل و کرم سے عمدہ نعمتیں ملتی ہیں.لیکن غیروں کو سوکھی روٹی کے ٹکڑے ہی ملتے ہیں.(۳)اس خشک روٹی کو کتوں کے آگے بھی ڈال دیتے ہیں اور خوان نعمت کو لطف کے ساتھ عزیزوں کے سامنے لے جاتے ہیں.(۴) تو اس سوکھی روٹی کو چھوڑ ہوش کر عقل کر.اگر عقل مند ہے تو خوان کا طلب گار بن.
اشتہار انعامی پچاس روپیہ (مندرجہ تحفہ گولڑویہ ٹائٹل پیج صفحہ ۲) چونکہ میں اپنی کتاب انجام آتھم کے اخیر میں وعدہ کر چکا ہوں کہ آئندہ کسی مولوی وغیرہ کے ساتھ زبانی بحث نہیں کروںگا اس لئے پیر مہر علی شاہ صاحب کی درخواست زبانی بحث کی جو میرے پاس پہنچی میں کسی طرح اس کو منظور نہیں کر سکتا.افسوس کہ انہوں نے محض دھوکہ دہی کے طور پر باوجود اس علم کے کہ میں ایسی زبانی بحثوں سے برکنار رہنے کے لئے جن کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کر چکا ہوں کہ میں ایسے مباحثات سے دور رہوںگا پھر بھی مجھ سے بحث کرنے کی درخواست کردی.میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ ان کی درخواست محض اس ندامت سے بچنے کے لئے ہے کہ وہ اس اعجازی مقابلہ کے وقت جو عربی میں تفسیر لکھنے کا مقابلہ تھا اپنی نسبت یقین رکھتے تھے.گویا عوام کے خیالات کو اور طرف الٹا کر سرُخ رو ہو گئے اور پردہ بنا رہا.ہر ایک دل خدا کے سامنے ہے اور ہر ایک سینہ اپنے گنہ کو محسوس کر لیتا ہے لیکن میں حق کی حمایت کی وجہ سے ہر گز نہیں چاہتا کہ یہ جھوٹی سرُخ روئی بھی اُن کے پاس رہ سکے اس لئے مجھے خیال آیا کہ عوام جن میں سوچ کا مادہ طبعًا کم ہوتا ہے وہ اگرچہ یہ بات تو سمجھ لیں گے کہ پیر صاحب عربی فصیح میں تفسیر لکھنے پر قادر نہیں تھے اسی وجہ سے توٹال دیا لیکن ساتھ ہی ان کو یہ خیال بھی گذرے گا کہ منقولی مباحثات پر ضرور وہ قادر ہوںگے تبھی تو درخواست پیش کر دی اور اپنے دلوں میں گمان کریں گے کہ اُن کے پاس حضرت مسیح کی حیات اور میرے دلائل کے رد میں کچھ دلائل ہیں اور یہ تو معلوم نہیں
ہوگا کہ یہ زبانی مباحثہ کی جرأت بھی میرے ہی اس عہد ترکِ بحث نے اُن کو دلائی ہے جو انجام آتھم میں طبع ہو کر لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہو چکا ہے.لہذا میں یہ رسالہ۱؎ لکھ کر اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر وہ اس کے مقابل پر کوئی رسالہ لکھ کر میرے ان تمام دلائل کو اول سے آخر تک توڑ دیں اور پھر مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایک مجمع بٹالہ میں مقرر کرکے ہم دونوں کی حاضری میں میرے تمام دلائل ایک ایک کرکے حاضرین کے سامنے ذکر کریں اور پھر ہر ایک دلیل کے مقابل پر جس کو وہ بغیر کسی کمی بیشی اور تصرف کے حاضرین کو سُنا دیں گے پیر صاحب کے جوابات سُنا دیں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات صحیح ہیں اور دلیل پیش کردہ کی قلع قمع کرتے ہیں تو میں مبلغ پچاس۵۰ روپیہ انعام بطور فتح یابی پیر صاحب کو اسی مجلس میں دے دوںگا اور اگر پیر صاحب تحریر فرماویں تو میںیہ مبلغ پچاس روپیہ پہلے سے مولوی محمد حسین صاحب کے پاس جمع کرادوںگا.مگر یہ پیر صاحب کا ذمہ ہوگا کہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کو ہدایت کریں کہ تا وہ مبلغ پچاس روپیہ اپنے پاس بطور امانت جمع کرکے باضابطہ رسید دیدیں اور مندرجہ بالا طریق کی پابندی سے قسم کھا کران کو اختیار ہوگا کہ وہ بغیر میری اجازت کے پچاس روپیہ پیر صاحب کے حوالہ کر دیں.قسم کھانے کے بعد میری شکایت اُن پر کوئی نہیں ہوگی صرف خدا پر نظر ہوگی جس کی وہ قسم کھائیں گے.پیر صاحب کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ یہ فضول عذرات پیش کریں کہ میں نے پہلے سے ردّ کرنے کے لئے کتاب لکھی ہے کیونکہ اگر انعامی رسالہ کا انہوں نے جواب نہ دیا تو بلا شبہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہ سیدھے طریق سے مباحثات پر بھی قادر نہیںہیں.المشتہر مرزا غلام احمد از قادیاں یکم ستمبر ۱۹۰۲ء (ٹائٹل پیج نمبر۲ تحفہ گولڑویہ مطبوعہ یکم ستمبر ۱۹۰۲ء.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳۶)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ڈوئی کی اُس پیشگوئی کا جواب جو اس نے تمام مسلمانوںکی ہلاکت کے لئے کی ہے ہر ایک کو جو حق کا طالب ہے معلوم ہو کہ یہ قدیم سے سنت اللہ ہے کہ جب زمین پر بد عقیدگی اور بداعمالی پھیل جاتی ہے اور لوگ اس سچے خدا کو چھوڑ دیتے ہیں جو آدم ؑ پر ظاہر ہوا اورپھر شیث ؑ پر اور پھر نوح ؑپر اور ایسا ہی ابراہیم ؑ پر اور اسماعیل ؑ پر اور اسحاق ؑ پر اور یعقوب ؑ پر اور یوسف ؑ پر اور موسیٰ ؑپر اور آخر میں جناب سید الرسل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم پر تو ایسے زمانہ میں جبکہ شرک اور ناپاکی اور بدکاری اور دنیاپرستی اور غافلانہ زندگی سے زمین ناپاک ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کسی بندہ کو مامور کر کے اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونک کر دنیا کی اصلاح کے لئے بھیج دیتا ہے اور اس کو اپنی عقل میں سے عقل بخشتا ہے اور اپنی طاقت میں سے طاقت اور اپنے علم میں سے علم عطا کرتا ہے.اور خدا کی طرف سے ہونے کا اس میں یہ نشان ہوتا ہے کہ دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اگر معارف حقائق کے رُو سے کوئی شخص اس کے مقابل پر آوے تو وہی حقائق اور معارف میں غالب آتا ہے اور اگر اعجازی نشانوںکا مقابلہ ہو تو غلبہ اسی کو ہوتا ہے.اور اگر کوئی اس طور سے اس کے ساتھ بالمقابل یا بطور خود مباہلہ کرے کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے
وہ پہلے مرجائے تو ضرور اس کا دشمن پہلے مرتا ہے.اب اس زمانہ میں جب خدا نے دیکھا کہ زمین بگڑ گئی اور کروڑہا مخلوقات نے شرک کی راہ اختیار کر لی اور چالیس کروڑ سے بھی زیادہ ایسے لوگ دنیا میں پیدا ہو گئے کہ ایک عاجز انسان مریم کے بیٹے کو خدا بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی شراب خوری اور بے قیدی اور دنیا پرستی اور غافلانہ زندگی انتہا تک پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا کہ تا میں ان خرابیوں کی اصلاح کروں.سو اب تک میرے ہاتھ پر ایک لاکھ کے قریب انسان بدی سے اور بد عقیدگی اور بداعمالی سے توبہ کر چکا ہے اور ڈیڑھ سو سے زیادہ نشان ظاہر ہو چکا ہے جس کے اس ملک میں کئی لاکھ انسان گواہ ہیں اور میں بھیجا گیا ہوں کہ تا زمین پر دوبارہ توحید کو قائم کروں اور انسان پرستی یا سنگ پرستی سے لوگوں کو نجات دے کر خدائے واحد لاشریک کی طرف ان کو رجوع دلائوںاور اندرونی پاکیزگی اور راستبازی کی طرف ان کو توجہ دوں.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں میں ایک تحریک پیدا ہو گئی ہے اور ہزارہا لوگ میرے ہاتھ پر توبہ کرتے جاتے ہیں اور آسمان سے ہوا بھی ایسی چل رہی ہے کہ اب توحید کے موافق طبیعتیں ہوتی جاتی ہیں اور صریح معلوم ہوتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ انسان پرستی کو دنیا سے معدوم کر دے.اس ارادہ کے پورا کرنے کے لئے صدہا اسباب پیدا کئے گئے ہیں.افسوس کہ مخلوق پرست لوگ جن سے مراد میری اس جگہ وہ عیسائی ہیں جو مریم کے صاحبزادہ کو خدا جانتے ہیں.ابھی اپنے مشرکانہ مذہب کی اس ترقی پر خوش نہیں ہوئے جواب تک ہو گئی ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تمام دنیا حقیقی خدا کو چھوڑ کر اُس ضعیف اور عاجز انسان کو خدا کر کے مانے جس کو ذلیل یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر کھینچا تھا.اس خواہش کا بجز اس کے اور کوئی سبب نہیں کہ مخلوق پرستی کی عادت نہایت بدعادت ہے جس میں گرفتار ہو کر پھر انسان دیکھتا ہوا اندھا ہو جاتا ہے.مگر پادریوں کی اس قدر دلیری بہت ہی قابل تعجب ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ زمین پر ایک بھی ایسا شخص رہے کہ وہ اس اصلی خدا کو ماننے والا ہو جو ابن مریم
ور اس کی ماں کے پیدا ہونے سے بھی پہلے ہی موجود تھابلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کل دنیا اور کل نوع انسان جو آسمان کے نیچے ہے.ابن مریم کو ہی خدا سمجھ لے اور اسی کو اپنا معبود اور خالق اور خداوند اور منجی مان لے اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ارادوں کے مقابل پر خدائے ذوالجلال نے بہت صبر کیا ہے.اس کی عزت ایک عاجز بندہ کو دی گئی.اس کے جلال کو خاک میں ملایا گیا مگر اس نے اب تک صبر کیا کیونکہ جیسا کہ وہ غیور ہے ویسا ہی وہ صابر بھی ہے.ان ظالم مخلوق پرستوں نے تمام خدائی صفات یسوع ابن مریم کو دے دیئے.اب ان کی نظرمیں جو کچھ ہے یسوع ہے.اس کے سوا کوئی خدا نہیں.اب سچے خدا کی مثال یہ ہے کہ ایک امیر نے اپنے عزیزوں کے لئے ایک نہایت عمدہ گھر بنایا اور اس کے ایک حصہ میں ایک بستاں سرائے تیار کیا جس میں طرح طرح کے پھول اور پھل اور سایہ دار درخت تھے اور اس گھر کے ایک حصہ میں اپنے ان عزیزوں کو رکھا اور ایک حصہ میں اپنا مال و حشمت اور قیمتی اسباب مقفل کیا اور ایک حصہ بطور سرائے کے مسافروں کے لئے چھوڑا.لیکن جب مالک چند روز کے لئے سیر کو گیا تو ایک شوخ دیدہ اجنبی نے اس کے اس گھر پر جو بطور سرائے کے تھا دخل اور تصرف کر لیا اور تمام گھر بجز چند حجروں کے جس میں اس مالک کے عزیز تھے یا جن میں اس مالک کا قیمتی اسباب مقفل تھا خود بخود استعمال میں لانے لگا اور اس سرائے کو اپنا گھر بنا لیا اور پھر اسی پر کفایت نہ کی بلکہ اس گھر سے اس مالک کے عزیزوں کو نکال دیا اور مقفل مکانوں کے قفل توڑ دیئے اور تمام اسباب پر اپنا قبضہ کر لیا.اب مالک جو صرف اس گھر کا مالک نہیں بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی ہے جب اس شہر میں آئے گا اور اس ظلم اور شوخی کو دیکھے گا تو کیا کرے گا.اس کا یہی جواب ہے کہ جو کچھ مقتضا اس کی سلطنت اور غیرت اور جبروت کا ہے سب کچھ عمل میں لائے گا.اور اس گھر کو اس ظالم سے خالی کراکر پھر اپنے مظلوم عزیزوں کو اس میں داخل کرے گا اور وہ تمام مال جو غصب کیا گیا ان کو دے گا اور وہ مسافرخانہ بھی انہیں کو عطا کر دے گا تاآئندہ ان کی مرضی کے برخلاف کوئی اس میں زیادہ ٹھہر نہ سکے.اسی طرح اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ تمام مذہبی جھگڑوں کا فیصلہ کر دیوے.انسانوں میں بہت سی لڑائیاں ہوئیں.بہت سے جنگ ہوئے لیکن ان کے جنگوں یا جہادوں سے یہ جھگڑا فیصلہ نہ ہو سکا آخر ان کی تلواریں ٹوٹ کر رہ گئیں.اس سے
انسانوں کو یہ سبق ملا کہ مذہبی جھگڑوں کا تلوار فیصلہ نہیں کر سکتی لیکن ہم جانتے ہیں کہ اب آسمانی فیصلہ نزدیک ہے کیونکہ خدائے غیور کی زمین پر نہایت تحقیر ہو رہی ہے.ہر ایک عیسائی مشنری یہ جوش اپنے دل میں رکھتا ہے کہ وہ خدا جس کی نسبت توریت میں ابتک صحیح تعلیم موجود ہے اس کو بالکل معطل کر کے ابن مریم کو اس کا تخت دیا جائے اور دنیا میں ایک بھی اس خدا کا نام لیوا نہ ہو اور ہر ایک قوم کے منہ سے اور ہر ایک ملک سے یہی آواز نکلے کہ یسوع مسیح خدا اور ربّ العالمین اور خداوندوں کا خداوند ہے اور یہ صرف آرزو نہیں بلکہ یسوع کو خدا بنانے کے لئے جس قدر روپیہ صرف کیا گیا ہے.جس قدر کتابیں لکھی گئی ہیں.جس قدر ہر ایک تدبیر کی گئی.دنیا کی ابتدا سے آج تک اس کی نظیر موجود نہیں اور افسوس کہ ایک مدت سے مسلمانوں کی یہ عادت ہے کہ معقول اور سیدھے طور پر اس مذہب کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ اگر خاص مجمعوں میں کبھی یہ ذکر آتا ہے تو بڑا ذریعہ اپنی ترقی کا جہاد کو ٹھہراتے ہیں اور ایک ایسے زمانہ کے منتظر ہیں کہ گویا اس وقت ان کا کوئی مہدی اور مسیح تلوار سے تمام قوموں کو نابود کر دے گا.گویا وہ اعتراض جو نادانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تلوار پر کیا تھا اس کا جواب بھی آخرکار تلوار ہی ہو گا.میری دانست میں یہی سبب مسلمانوں کے تنزل کا ہے کہ انسانی رحم کی قوت ان کے دلوں سے بہت گھٹ گئی ہے.میں ہر ایک مسلمان کو ایسا نہیں سمجھتا لیکن میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کروڑھا انسان ابھی ان میں ایسے موجود ہیں کہ بنی نوع کے خون کے پیاسے ہیں.مجھے تعجب ہے کہ کیا وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو کوئی قتل کر دے.اور ان کے یتیم بچے اور ان کی بیوہ عورتیں بیکسی کی حالت میں رہ جائیں.پھر وہ دوسروں کی نسبت ایسا کرنا کیوں روا رکھتے ہیں.مجھے یقین ہے کہ اگر یہ مرض مسلمانوں کے لاحق حال نہ ہوتی تو وہ تمام یورپ کے دلوں کو فتح کر لیتے.ہر ایک پاک کانشنس گواہی دے سکتا ہے کہ عیسائی مذہب کچھ بھی چیز نہیں انسان کو خدا بنا دینا کسی عقلمند کا کام نہیں.یسوع مسیح میں اور انسانوں کی نسبت ایک ذرہ خصوصیت نہیں بلکہ بعض انسان اس سے بہت بڑھ کر گذرے ہیں اور اب بھی یہ عاجز اسی لئے بھیجا گیا ہے کہ تا خدائے قادر لوگوں کو دکھلاوے کہ اس کا فضل اس عاجز پر ا
س مسیح سے بڑھ کر ہے اور پھر یہ غلطیاں کہ گویا یسوع مسیح اب تک زندہ ہے اور گویا وہ آسمان پر ہے اور گویا وہ سچ مچ مردے زندہ کیا کرتا تھا اور اس کے مرنے پر یروشلم کے تمام مردے جو آدم کے وقت سے لیکر مسیح کے وقت تک مر چکے تھے زندہ ہو کر شہر میں آگئے تھے.یہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں.جیسا کہ ہندوئوں کے پورانوں میں ہیں اور سچ صرف اس قدر ہے کہ اس نے بھی بعض معجزات دکھلائے جیسا کہ نبی دکھلاتے تھے اور جیسا کہ اب خدا تعالیٰ اس عاجز کے ہاتھ پر دکھلا رہا ہے مگر مسیح کے کام تھوڑے تھے اور جھوٹ ان میں بہت ملایا گیا.یہ کس قدر قابل شرم جھوٹ ہے کہ وہ زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گیا.مگر اصل حقیقت صرف اس قدر ہے کہ وہ صلیب پر مرا نہیں.واقعات صاف گواہی دیتے ہیں کہ مرنے کی کوئی بھی صورت نہیں تھی.تین گھنٹہ کے اندر صلیب پر سے اتار ا گیا.شدت درد سے بیہوش ہو گیا.خدا کو منظور تھا کہ اس کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دے.اس لئے اس وقت بباعث کسوف خسوف سخت اندھیرا ہو گیا یہودی ڈر کر اس کو چھوڑ گئے اور یوسف نام ایک پوشیدہ مرید کے وہ حوالہ کیا گیا اور دو تین روز ایک کوٹھہ میں جو قبر کے نام سے مشہور کیا گیا رکھ کر آخر آفاقہ ہونے پر ملک سے نکل گیا.اور نہایت مضبوط دلائل سے ثابت ہو گیا ہے کہ پھر وہ سیر کرتا ہو ا کشمیر میں آیا.باقی حصہ عمر کا کشمیر میں بسر کیا.سری نگر محلہ خان یار میں اس کی قبر ہے.افسوس خواہ نخواہ افترا کے طور پر آسمان پر چڑھایا گیا اور آخر قبر کشمیر میں ثابت ہوئی.اس بات کے ایک دوگواہ نہیں بلکہ بیس ہزار سے زیادہ گواہ ہیں.اس قبر کے بارے میں ہم نے بڑی تحقیق سے ایک کتاب لکھی ہے جو عنقریب شائع کی جائے گی مجھے اس قوم کے مشنریوں پر بڑا ہی افسوس آتا ہے جنہوں نے فلسفہ طبعی ، ہیئت سب پڑھ کر ڈبو دیا اور خواہ مخواہ ایک عاجز انسان کو پیش کرتے ہیں کہ اس کو خدا مان لو.چنانچہ حال میں ملک امریکہ میں یسوع مسیح کا ایک رسول پیدا ہوا ہے جس کا نام ڈوئی ہے.اس کا دعویٰ ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے تا سب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجز مسیح کے اور کوئی خدا نہیں.مگر یہ کیسا خدا ہے کہ یہودیوں کے ہاتھ سے اپنے تئیں بچا نہ سکا.ایک دغابا
شاگرد نے اس کو پکڑوا دیا.اس کا کچھ بندوبست نہ کر سکا.انجیر کے درخت کی طرف دوڑا گیا.اور یہ خبر نہ ہوئی کہ اس پر پھل نہیں.اور جب قیامت کے بارے میں اس سے پوچھا گیا کہ کب آئے گی تو بے خبری ظاہر کی.اور لعنت جس کے یہ معنی ہیں ہ دل ناپاک ہو جائے اور خدا سے بیزار ہو جائے اور خدا سے اور اس کی رحمت سے دور جا پڑے وہ اس پر پڑی او ر پھر وہ آسمان کی طرف اس لئے چڑھا کہ باپ اس سے بہت دور تھا کروڑہا کوس سے بھی زیادہ دور تھا اور یہ دوری کسی طرح دور نہیں ہو سکتی تھی جب تک وہ مع جسم آسمان پر نہ چڑھتا.دیکھو کس قدر کلام کا تناقض ہے ایک طرف تو یہ کہتا ہے کہ میں اور باپ ایک ہیں اور ایک طرف کروڑہا کوس کا سفر کر کے اس کے ملنے کو جاتا ہے جبکہ باپ اور بیٹا ایک تھے تو اس قدر مشقت سفر کی کیوں اٹھائی.جہاں ہوتا وہیں باپ بھی تھا.دونوں ایک جو ہوئے اور پھر وہ کس کے دہنے ہاتھ بیٹھا.اب ہم ڈوئی کو مخاطب کرتے ہیں جو یسوع مسیح کو خدا بناتا اور اپنے تئیں اس کا رسول قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ توریت استثناء ۱۸ باب آیت پندرہ کی پیشگوئی میرے حق میں ہے اور میں ہی ایلیا اور میں ہی عہد کا رسول ہوں.نہیں جانتا کہ یہ مصنوعی خدا اس کا موسیٰ کے کبھی خواب خیال میں بھی نہیں تھا.موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یہی باربار کہا کہ خبردار کسی مجسم چیز انسان یا حیوان کو خدا قرارنہ دینا آسمان پر سے نہ زمین سے.خدا نے تم سے باتیں کیں مگر تم نے اس کی کوئی صورت نہیں دیکھی.تمہارا خدا صورت اور تجسّم سے پاک ہے.مگر اب ڈوئی موسیٰ کے خدا سے برگشتہ ہو کر وہ خدا پیش کرتا ہے جس کے چاربھائی اور ایک ماں ہے اور باربار اپنے اخبار میں لکھتا ہے کہ اس کے خدا یسوع مسیح نے اس کو خبر دی ہے کہ تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے اور دنیا میںکوئی زندہ نہیں رہے گا بجز ان لوگوں کے جو مریم کے بیٹے کو خدا سمجھ لیں اور ڈوئی کو اس مصنوعی خدا کا رسول قرار دیں ہم ڈوئی کو ایک پیغام دیتے ہیں کہ اس کو تمام مسلمانوں کے مارنے کی کیا ضرورت ہے.وہ غریب مریم کے عاجز بیٹے کو خدا کیونکر مان لیں.بالخصوص اس زمانہ میں جبکہ ڈوئی کے خدا کی قبر بھی اس ملک میں موجود ہے.اور ان میں وہ مسیح موعود بھی موجود ہے جو
چھٹے ہزار کے اخیر اور ساتویں ہزار کے سرپر ظاہر ہوا جس کے ساتھ بہت سے نشان ظہور میں آئے.اور ڈوئی کا یہ الہام کہ تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور وہی لوگ باقی رہیں گے جو یسوع مسیح کو خدا مانیں گے اور ساتھ ہی ڈوئی کو بھی اس خدا کا رسول مان لیں گے.اس الہام کے رو سے تو باقی عیسائیوں کی بھی خیر نہیں.کیونکہ گو وہ مریم کے صاحبزادہ کو خدا مانتے ہیں مگر یہ جھوٹا رسول جو ڈوئی ہے اب تک انہوں نے تسلیم نہیں کیا اور ڈوئی نے صاف طور پر یہ الہام شائع کر دیا ہے کہ صرف یسوع مسیح کو خدا ماننا کافی نہیں جب تک ڈوئی کو بھی ساتھ ہی نہ مان لیں.اور چاہیے کہ صاف اقرار کرے کہ ڈوئی ایلیا اور ڈوئی عہد کا رسول اور ڈوئی کے حق میں ہی وہ پیشگوئی ہے جو توریت استثنا باب ۱۸ آیت پندرہ میں ہے تب بچیں گے ورنہ ہلاک ہو جائیں گے.غرض ڈوئی باربار لکھتا ہے کہ عنقریب یہ سب لوگ ہلاک ہو جائیں گے بجز اس گروہ کے جو یسوع کی خدائی مانتا ہے اور ڈوئی کی رسالت.اس صورت میں یورپ اور امریکہ کے تمام عیسائیوں کو چاہیے کہ بہت جلد ڈوئی کو مان لیں تا ہلاک نہ ہو جائیں اور جبکہ انہوں نے ایک نامعقول امر کو مان لیا ہے یعنی یسوع مسیح کی خدائی کو تو چلو یہ دوسرا نامعقول امر بھی مان لو کہ اس خدا کا ڈوئی رسول ہے.رہے مسلمان سو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں بادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا خدا ہے یا ہمارا خدا.وہ بات یہ ہے کہ وہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو باربار موت کی پیشگوئی نہ سناویں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کردیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے کیونکہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدا جانتا ہے مگر میں اس کو ایک بندہ عاجز مگر نبی جانتا ہوں.اب فیصلہ طلب یہ امر ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے.چاہیے کہ اس دعا کو چھاپ دے اور کم سے کم ہزار آدمی اس پر گواہی لکھے اور جب وہ اخبار شائع ہو کر میرے پاس پہنچے گی تب میں بھی بجواب اس کے یہی دعا کروں گا اور انشاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ڈوئی کے اس مقابلہ سے اور
تمام عیسائیوں کے لئے حق کی شناخت کے لیے ایک راہ نکل آئے گی.میں نے ایسی دعا کے لیے سبقت نہیں کی بلکہ ڈوئی نے کی.اس سبقت کو دیکھ کر غیور خدا نے میرے اندر یہ جوش پیدا کیا اور یاد رہے کہ میں اس ملک میں معمولی انسان نہیں ہوں.میں وہی مسیح موعود ہوں جس کا ڈوئی انتظار کر رہا ہے.صرف یہ فرق ہے کہ ڈوئی کہتا ہے کہ مسیح موعود پچیس برس کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا اور میں بشارت دیتا ہوں کہ وہ مسیح پیدا ہو گیا اور وہ میں ہی ہوں.صدہا نشان زمین سے اور آسمان سے میرے لیے ظاہر ہو چکے ایک لاکھ کے قریب میرے ساتھ جماعت ہے جو زور سے ترقی کر رہی ہے.ڈوئی بیہودہ باتیں اپے ثبوت میںلکھتا ہے کہ میںنے ہزارہا بیمار توجہ سے اچھے کئے ہیں.ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ کیوں پھر اپنی لڑکی کو اچھا نہ کر سکا او ر وہ مرگئی اور اب تک اس کے فراق میں روتا ہے اور کیونکر اپنے اس مرید کی اس عورت کو اچھا نہ کر سکا جو بچہ جن کر مر گئی اور اس کی بیماری پر بلایا گیا مگر وہ گذر گئی.یاد رہے کہ اس ملک کے صدہا عام لوگ اس قسم کے عمل کرتے ہیں اور سلبِ امراض میں بہتوں کو مشق ہو جاتی ہے اور کوئی ان کی بزرگی کا قائل نہیں ہوتا.پھر امریکہ کے سادہ لوحوں پر نہایت تعجب ہے کہ وہ کس خیال میں پھنس گئے کیا ان کے لئے مسیح کو ناحق خدا بنانے کا بوجھ کافی نہ تھا کہ یہ دوسرا بوجھ بھی انہوں نے اپنے گلے ڈال لیا.اگر ڈوئی اپنے دعویٰ میں سچا ہے اور درحقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا.کیا حاجت ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے لیکن اگر اس نے اس نوٹس کا جواب نہ دیا اور یا اپنے لاف و گزاف کے مطابق دعا کر دی اور پھر دنیا سے قبل میری وفات کے اٹھایا گیا تو یہ تمام امریکہ کے لئے ایک نشان ہو گا.مگر یہ شرط ہے کہ کسی کی موت انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ کسی بیماری سے یا بجلی سے یا سانپ کے کاٹنے سے یا کسی درندہ کے پھاڑنے سے ہو اور ہم اس جواب کے لئے ڈوئی کو تین ماہ تک مہلت دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا سچوں کے ساتھ ہو.آمین.یادر ہے کہ صادق اور کاذب میں فیصلہ کرنے کے لئے ایسے امور ہرگز معیار نہیں ٹھہر سکتے جو دنیا کی قوموں میں مشترک ہیں.کیونکہ کم و بیش ہر ایک قوم میں وہ پائے جاتے ہیں انہیں امور میں
سے طریق سلب امراض بھی ہے.یہ طریق نامعلوم وقت سے ہر ایک قوم میں رائج ہے.ہندو بھی ایسے کرتب کیا کرتے ہیں اور یہودیوں میں بھی یہ طریق چلے آتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی بہت سے لوگ سلب امراض کے مدعی ہیں اور سچ بات یہ ہے کہ اس طریق کو حق اور باطل کے فیصلہ کرنے کے لئے کوئی دخل نہیں کیونکہ اہل حق اور اہل باطل دونوں اس میں دخل پیدا کر سکتے ہیں چنانچہ انجیلوں سے بھی ثابت ہے کہ جب حضرت عیسیٰ اس طریق توجہ سے بعض امراض کو اچھا کرتے تھے تو ان کی زندگی میں ہی ایسے لوگ بھی موجود تھے کہ ان کے مرید اور حواری نہ تھے مگر اسی طرح امراض کو اچھا کر لیتے تھے جیسا کہ حضرت عیسیٰ کر لیتے تھے اور اس وقت ایک تالاب بھی ایسا تھا جس میں غوطہ لگا کر اکثر امراض اچھی ہو جاتی تھیں.سو یہ مشق توجہ اور سلب امراض کی جو عام طور پر قوموں کے اندر پائی جاتی ہے.یہ سچے مذہب کے لئے کامل شہادت نہیں ٹھیر سکتی.ہاں اس صورت میں کامل شہادت ٹھہر سکتی ہے کہ دو فریق جو اپنے اپنے مذہب کی سچائی کے مدعی ہیں وہ چند بیمار مثلاً بیس بیمار قرعہ اندازی سے باہم تقسیم کر لیں اور پھر ان دونوں میں سے جس کے بیمار فریق مقابل سے بہت زیادہ اچھے ہو جائیں اس کو حق پر سمجھا جائے گا.چنانچہ گذشتہ دنوں میں ایسا ہی میں نے اس ملک میں اشتہار دیا تھا.مگر کسی نے اس کا مقابلہ نہ کیا.مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ڈوئی یا اور کوئی ڈوئی کا ہم جنس اس مقابلہ کے لئے میرے مقابل آئے تو میرا خدا اس کو سخت ذلیل کرے گا کیونکہ وہ جھوٹا ہے اور اس کا خدا بھی محض باطل کا پتلا ہے لیکن افسوس کہ اس قدر دوری میں یہ مقابلہ میسر نہیں آ سکتا.مگر خوشی کی بات ہے کہ ڈوئی نے خود یہ طریق فیصلہ پیش کیا ہے کہ مسلمان جھوٹے ہیں اور ہلاک ہو جائیں گے.اس طریق فیصلہ میں ہم اس قدر ترمیم کرتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ضرورت نہیں.اس طرح پر تو ڈوئی کے ہاتھ میں مکاّر لوگوں کی طرح یہ عذر باقی رہ جائے گا کہ مسلمان ہلاک نہ ہوں گے مگر پچاس یا ساٹھ یا سو برس کے بعد اتنے میں ڈوئی خود مر جائے گا.تو کوئی اس کی قبر پر جاکر اس کو ملزم کرے گا کہ تیری پیشگوئی جھوٹی نکلی پس اگر ڈوئی کی سیدھی نیت ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ سبق درحقیقت مریم کے صاحبزادہ نے
ہی اس کو دیا ہے جو اس کے نزدیک خدا ہے.تو یہ ٹھگوں والا طریق اس کو اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے کوئی فیصلہ نہیں ہو گا بلکہ طریق یہ ہے کہ وہ اپنے مصنوعی خدا سے اجازت لے کر میرے ساتھ اس بارے میں مقابلہ کرے.میں ایک آدمی ہوں جو پیرانہ سالی تک پہنچ چکا ہوں.میری عمر غالباً چھیاسٹھ سال سے بھی کچھ زیادہ ہے.اور ذیابیطس اور اسہال کی بیماری بدن کے نیچے کے حصہ میں اور دورانِ سر اور کمی دورانِ خون کی بیماری بدن کے اوپر کے حصہ میں ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میری زندگی میری صحت سے نہیں بلکہ میرے خدا کے حکم سے ہے.پس اگر ڈوئی کا مصنوعی خدا کچھ طاقت رکھتا ہے تو ضرور میرے مقابل اس کو اجازت دے گا.اگر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے عوض میں صرف میرے ہلاک کرنے سے ہی کا م ہو جائے تو ڈوئی کے ہاتھ میں ایک بڑا نشان آجائے گا.پھر لاکھوں انسان مریم کے بیٹے کو خدا مان لیں گے اور نیز ڈوئی کی رسالت کو بھی اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام دنیا کے مسلمانوں کی نفرت عیسائیوں کے خدا کی نسبت ترازو کے ایک پلہ میں رکھی جائے اور دوسرے پلہ میں میری نفرت رکھی جائے.تو میری نفرت اور بیزاری عیسائیوں کے بناوٹی خدا کی نسبت تمام مسلمانوں کی نفرت سے وزن میں زیادہ نکلے گی.میں سب پرندوںسے زیادہ کبوتر کا کھانا پسند کرتا ہوں کیونکہ وہ عیسائیوں کا خدا ہے معلوم نہیں کہ ڈوئی کی اس میں کیا رائے ہے.کیا وہ بھی اس کی نرم نرم ہڈیاں دانتوں کے نیچے چباتے ہیں یا خدا ئی کی مشابہت کی وجہ سے اس پر کچھ رحم کرتے اور اس کی حرمت کے قائل ہیں.اس ملک کے ہندوئوں نے جب سے گائے کو پرمیشر کا اوتار مانا ہے.تب سے وہ گائے کو ہرگز نہیں کھاتے.پس وہ ان عیسائیوں سے اچھے رہے جنہوں نے اس کبوتر کی کچھ عظمت نہ کی جس کی شبیہ میں ان کا وہ خدا ظاہر ہوا جس نے مسیح کو آسمان سے آواز دی کہ تو میرا پیارا بیٹا ہے.پس اس رشتہ کے لحاظ سے جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کبوتر مسیح کا باپ ہوا.گویا خدا کا باپ ٹھہرا.مگر تب بھی عیسائیوں نے اس کے کھانے سے پرہیز نہیں کیا حالانکہ وہ اس لائق تھا کہ اس کوخداوند خداوند کہا
جائے.خدا نے جبکہ توریت میں یہ کہا کہ آدم کو میں نے اپنی صورت میں پیدا کیا.تبھی سے انسان کا گوشت انسانوں پر حرام کیا گیا ہے.پھر کیا وجہ اور کیا سبب کہ کبوتر جو عیسائیوں کے خدا کا باپ ہے جس نے مسیح کو بیٹے کا خطاب دیا.وہ کھایا جاتا ہے اور نہ صرف کھایا جاتا ہے بلکہ اس کے گوشت کی تعریف بھی کی جاتی ہے.جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا صفحہ ۸۵ جلد۱۹ میں لکھا ہے کہ کبوتر کا گوشت تمام پرندوں سے زیادہ لذید ہوتا ہے.جن لوگوں کو کبوتر کی قسم فروٹ پجن کھانے کا اتفاق خوش قسمتی سے ہوا ہے انہوں نے یہ شہادت دی ہے اور یہود کی شریعت کے مطابق جس کو بکرا ذبح کرنے کی توفیق نہ ہو وہ کبوتر ذبح کرے لوقا ۲۴؍۲ اور مریم نے بھی دو کبوتر ذبح کئے تھے کیونکہ وہ غریب تھی.لوقا ۲۴؍۲.اب دیکھو ایک طرف تو کبوتر کو خدا بنایا اور ایک طرف کبوتر پر ہمیشہ چھری پھیر دی جاتی ہے.مسیح تو صرف ایک دفعہ صلیب پر چڑھ کر تمام عیسائیوں کا شفیع بن گیا.مگر بیچارے کبوتر کو اس شفاعت سے کچھ حصہ نہ ملا.جس کی بوٹی بوٹی ہمیشہ دانتوں کے نیچے پیسی جاتی ہے چنانچہ ہم نے بھی کل ایک سفید کبوتر کھایا تھا.لہٰذا روح القدس کی تائید سے یہ تحریک پیدا ہوئی اور انسائیکلوپیڈیا میں جو پانچ سو قسم کبوتر کی لکھی ہے یہ بھی میری رائے میں ناقص ہے کیونکہ اس میں اس کبوتر کو شامل نہیں کیا گیا جس کی شبیہ میں عیسائیوں کا خدا ظاہر ہوا تھا.اس لئے اس بیان کی یوںتصحیح کرنی چاہیے کہ کبوتر کی اقسام ۵۰۱ ہیں اور اس کی تصریح کر دینی چاہیے کہ یہ ایک نئی قسم وہ داخل کی گئی ہے جس میں خدا مسیح پر نازل ہوا تھا.میں ایسے شخص کا سخت دشمن ہوں کہ جو کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر پھر خیال کرتا ہے کہ میں خدا ہوں گو میں مسیح ابن مریم کو اس تہمت سے پاک قرار دیتا ہوں کہ اس نے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا تاہم میں دعویٰ کرنے والے کو تمام گنہگاروں سے بدتر سمجھتا ہوں میں جانتا ہوں اور مجھے دکھایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم اس تہمت سے برَی اور راستباز ہے اور اس نے کئی دفعہ مجھ سے ملاقات کی لیکن ہر ایک دفعہ اپنی عاجزی اور عبودیت ظاہر کی.ایک دفعہ میں نے اور اس نے عالم کشف میں جو گویا بیداری کا عالم تھا ایک جگہ بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا اور اس
نے اپنی فروتنی اور محبت سے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ میرا بھائی ہے اور میں نے بھی محسوس کیا کہ وہ میرا بھائی ہے تب سے میںاس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں.سو جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس کے موافق میرا یہی عقیدہ ہے کہ وہ میرا بھائی ہے.گومجھے حکمت اور مصلحت الٰہی نے اس کی نسبت زیادہ کام سپرد کیا ہے اور اس کی نسبت زیادہ فضل اور کرم کے وعدے دیئے ہیں مگر پھر بھی میں اور وہ روحانیت کے رو سے ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں.اسی بنا پر میرا آنا اسی کا آنا ہے.جو مجھ سے انکار کرتا ہے وہ اس سے بھی انکار کرتا ہے.اُس نے مجھے دیکھا اور خوش ہوا.پس وہ جو مجھے دیکھتا اور ناخوش ہوتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے.نہ مجھ میں سے اور نہ مسیح ابن مریم میں سے اور مسیح ابن مریم مجھ میں سے ہے اور میں خدا سے ہوں.مبارک وہ جو مجھے پہچانتا ہے اور بدقسمت وہ جس کی آنکھوں سے میں پوشیدہ ہوں.‘‘ (منقول از ریویو آف ریلیجنز اردو جلد۱ نمبر۹ ماہ ستمبر ۱۹۰۲ء از صفحہ ۳۳۹ تا صفحہ ۳۴۸) ------------------------------ (نوٹ از مرتب) حضور نے یہ اشتہار مشتمل برمضمون مباہلہ ڈوئی کے علاوہ امریکہ کے ان مشہور روزناموں کو بھی بھیج دیا جو بڑی کثرت سے دنیا میں شائع ہوتے تھے.ان اخباروں نے بکثرت اشتہار کی اشاعت کی.اور ڈوئی کو حضور کے چیلنج قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر اس نے خاموشی اختیار کر لی.تب حضور نے ۲۳؍اگست ۱۹۰۳ء کو ایک اور اشتہار انگریزی میں ترجمہ کر کے بھجوایا.اصل اردو اشتہار جلد ہذا کے صفحہ۶۰۵ اشتہار نمبر۲۶۰ میں ملاحظہ کریں.(مرتب)
(اشتہار مندرجہ رسالہ کشتی نوح) بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ درخواست چندہ برائے توسیع مکان چونکہ آئندہ اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ طاعون ملک میں پھیل جائے اورہمارے گھر میں جس میں بعض حصوں میں مرد بھی مہمان رہتے ہیں اور بعض حصوں میں عورتیں،سخت تنگی واقعہ ہے اور آپ لوگ سن چکے ہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ نے ان لوگوں کے لئے جو اس گھر کی چاردیوار کے اندر ہوںگے حفاظت خاص کا وعدہ فرمایا ہے اور اب وہ گھر جو غلام حیدر متوفّی کا تھا جس میں ہمارا حصہ ہے اس کی نسبت ہمارے شریک راضی ہوگئے ہیں کہ ہمارا حصہ دیں اور قیمت پر باقی حصہ بھی دے دیں.میری دانست میں یہ حویلی جو ہماری حویلی کا ایک جز ہو سکتی ہے دو ہزار تک تیار ہو سکتی ہے.چونکہ خطرہ ہے کہ طاعون کا زمانہ قریب ہے اور یہ گھر وحی الٰہی کی خوشخبری کی رو سے اس طوفان طاعون میں بطور کشتی کے ہوگا نہ معلوم کس کس کو اس کی بشارت کے وعدہ سے حصہ ملے گا اس لئے یہ کام بہت جلدی کا ہے.خدا پر بھروسہ کر کے جو خالق اور رازق ہے اور اعمال صالحہ کو دیکھتا ہے کوشش کرنی چاہیے.میں نے بھی دیکھا کہ یہ ہمارا گھر بطور کشتی کے تو ہے مگر آئندہ اس کشتی میں نہ کسی مرد کی گنجائش ہے نہ عورت کی اس لئے توسیع کی ضرورت پڑی.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مرزا غلام احمد قادیانی (کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۸۶) ----------------------
(مندرجہ رسالہ اعجاز احمدی) بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ شعر قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے کافر جو کہتے تھے وہ نگونسار ہو گئے جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہو گئے دس ہزار روپیہ کا اشتہار یہ اشتہار خدا تعالیٰ کے اس نشان کے اظہار کے لئے شائع کیا جاتا ہے جو اور نشانوں کی طرح ایک پیشگوئی کو پورا کرے گا یعنی یہ بھی وہ نشان ہے جس کی نسبت وعدہ تھا کہ وہ اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک ظہور میں آجائے گا اور اس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار اِس بات کے لئے بطور گواہ کے ہے کہ اپنے دعویٰ کی سچائی کے لئے کس زور سے اور کس قدر صرفِ مال سے مخالفین کو متنبہ کیا گیا ہے.مولوی ثناء اللہ امرتسری نے موضع مُدّ میں بآواز بلند کہا تھا کہ ہم کتاب اعجاز المسیح کو معجزہ نہیں کہہ سکتے اور مَیں اِس طرح کی کتاب بنا سکتا ہوں اور یہ سچ بھی ہے کہ اگر مخالف مقابلہ کر سکیں اور اُسی مقرر مُدت میں اسی طرح کی کتاب بنا سکیں تو پھر وہ معجزہ کیسا ہوا اِس صورت میں تو ہم صاف جھوٹے ہوگئے لیکن جب ہمارے دوست مولوی سیّد محمد سرور صاحب و مولوی عبداللہ صاحب ۲؍ نومبر ۱۹۰۲ء کو قادیان میں پہنچ گئے تو چند روز کے بعد مجھے خیال آیا کہ اگر اعجاز المسیح کی نظیر طلب کی جائے تو جیسا کہ ہمیشہ سے یہ مخالف
لوگ حیلہ بہانہ سے کام لیتے ہیں اِس میں بھی کہہ دیں گے کہ ہماری دانست میں کتاب اعجاز المسیح ستّر دِن میں طیار نہیں ہوئی جیسا کہ تقریر متعلقہ جلسہ مہوتسو کی نسبت مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے یہ فرمایا تھا کہ یہ تقریر پہلے بنائی گئی ہے اور ایک مُدّت تک سوچ کر لکھی گئی ہے.پس اگر اب بھی کہہ دیں کہ یہ اعجاز المسیح ستّر دن میں نہیں بلکہ ستّر مہینے میں بنائی گئی ہے تو اب یہ امر عوام کی نظر میں مشتبہ ہو جائے گا اور مَیں چند روز اِسی فکر میں تھا کہ کیا کروں آخر ۶؍نومبر ۱۹۰۲ء کی شام کو میرے دل میں ڈالا گیا کہ ایک قصیدہ مقام مُدّ کے مباحثہ کے متعلق بناؤں کیونکہ بہرحال قصیدہ بنانے کا زمانہ یقینی اور قطعی ہے کیونکہ اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ۲۹؍ اور ۳۰؍ اکتو بر ۱۹۰۲ء کو بمقام مُدّ بحث ہوئی تھی اور پھر دوسری نومبر کو ہمارے دوست قادیان پہنچے اور ۷ ؍ نومبر ۲ ء کو مَیں ایک گواہی کے لئے منشی نصیرالدّین صاحب منصف عدالت بٹالہ کی کچہری میں گیا شاید مَیں نے ایک یا دو شعر راہ میں بنائے مگر ۸؍نومبر ۲ ء کو قصیدہ پوری توجہ سے شروع کیا اور پانچ دن تک قصیدہ اور اُردو مضمون ختم کرلیا اس لئے یہ امر شک و شبہ سے پاک ہوگیا کہ کتنی مُدّت میں قصیدہ بنایا گیا کیونکہ اس قصیدہ میں اور نیز اُردو مضمون میں واقعات اُس بحث کے درج ہیں جو ۲۹؍ اور ۳۰؍ اکتوبر ۲ ء میں بمقام مُدّ ہوئی تھی پس اگر یہ قصیدہ اور اُردو مضمون اِس قلیل مُدت میں طیار نہیں ہوا اور پہلے اِس سے بنایا گیا تو پھر مجھے عالم الغیب ماننا چاہیے جس نے تمام واقعات کی پہلے سے خبر دی.غرض یہ ایک عظیم الشان نشان ہے اور نہایت سہل طریق فیصلہ کا.اور یاد رہے کہ جیسا میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ یہ تمام مدت قصیدہ پر ہی خرچ نہیں ہوئی بلکہ اُس اُردو مضمون پر بھی خرچ ہوئی ہے جو اِس قصیدہ کے ساتھ شامل ہے اور وہ دونوں بہیئتِ مجموعی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہیں اور مقابلہ کے لئے اور دس ہزار روپیہ انعام پانے کے لئے یہ شرط ضروری ہے کہ جو شخص بالمقابل لکھے وہ ساتھ ہی اِس اُردو کا ردّ بھی لکھے جو میری وجوہات کو توڑ سکے جس کی عبارت ہماری عبارت سے کم نہ ہو اور اگر کوئی ان دونوں میں سے کسی کو چھوڑے گا تو وہ اِس شرط کا توڑنے والا ہوگا مَیں اپنے مخالفوں پر کوئی ایسی مشقت نہیں ڈالتا جس مشقت سے مَیں نے حصہ نہ لیا ہو ظاہر ہے کہ اُردو عبارت بھی اسی واقعہ بحث کے متعلق ہے اور اس میں
مولوی ثناء اللہ صاحب کے اُن اعتراضات کا جواب ہے جو اُنہوں نے پیش کئے تھے.اِس صورت میں کون شک کر سکتا ہے کہ وہ اُردو عبارت پہلے سے بنا رکھی تھی.پس میرا حق ہے کہ جس قدر خارق عادت وقت میں یہ اُردو عبارت اور قصیدہ تیار ہوگئے ہیں مَیں اُسی وقت تک نظیر پیش کرنے کا ـان لوگوں سے مطالبہ کروں کہ جو اِن تحریرات کو انسان کا افتراخیال کرتے ہیں اور معجزہ قرار نہیں دیتے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ اتنی مدت تک جو مَیں نے اردو مضمون اور قصیدہ پر خرچ کی ہے اِسی قدر مضمون اُردو جس میں میری ہر ایک بات کا جواب ہو کوئی بات رہ نہ جائے اور اسی قدر قصیدہ جو اِسی تعداد کے اشعار میں واقعات کے بیان پر مشتمل ہو اور فصیح و بلیغ ہو اِسی مُدّت مقررہ میں چھاپ کر شائع کردیں تو مَیں ان کو دس ہزار روپیہ نقد دوںگا.میری طرف سے یہ اقرار صحیح شرعی ہے جس میں ہرگز تخلّف نہیںہوگا اور جس کا وہ بذریعہ عدالت بھی ایفاء کرا سکتے ہیں اور اگر اب مولوی ثناء اللہ اور دوسرے میرے مخالف پہلو تہی کریں اور بدستور مجھے کافر اور دجّال کہتے رہیں تو یہ ان کا حق نہیں ہوگا کہ مغلوب اور لا جواب ہو کر ایسی چالاکی ظاہر کریں اور وہ پبلک کے نزدیک جھوٹے ٹھہریں گے اور پھر مَیں یہ بھی اجازت دیتا ہوں کہ وہ سب مل کر اُردو مضمون کا جواب اور قصیدہ مشتملہ برواقعات لکھ دیں مَیں کچھ عذر نہیں کروں گا.اگر انہوں نے قصیدہ اور جواب مضمون ملحقہ قصیدہ میعاد مقررہ میں چھاپ کر شائع کردیا تو مَیں بیشک جھوٹا ٹھہروںگا.مگر چاہیے کہ میرے قصیدہ کی طرح ہریک بیت کے نیچے اُردو ترجمہ لکھیں اور منجملہ شرائط کے اس کو بھی ایک شرط سمجھ لیں اِس مقابلہ سے تمام جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے گا اور انشاء اللہ ۱۶؍ نومبر ۲ ء کی صبح کو مَیں یہ رسالہ اعجازاحمدی مولوی ثناء اللہ کے پاس بھیج دوں گا جو مولوی سید محمد سرور صاحب لے کر جائیںگے اور اسی تاریخ یہ رسالہ اُن تمام صاحبوں کی خدمت میں جو اِس قصیدہ میں مخاطب ہیں بذریعہ رجسٹری روانہ کردوں گا.بالآخر مَیں اِس بات پر بھی راضی ہوگیا ہوں کہ ان تمام مخالفوں کو جواب مذکورہ بالا کے لکھنے اور شائع کرنے کے لئے پندرہ روز کی مہلت دوں کیونکہ اگر وہ زیادہ سے زیادہ بحث کریںتو انہیں اِس صورت میں کہ ۱۸ یا ۱۹؍ نومبر ۲ ء تک میرا قصیدہ اُن کے پاس پہنچ جائے گا.بہرحال
ماننا پڑے گا کہ یکم نومبر ۲ ء سے نصف نومبر تک پندرہ دن ہوئے مگر تاہم مَیں نے اُن کی حالت پر رحم کر کے اتمام حجت کے طور پر پانچ دن اُن کے لئے اور زیادہ کر دیئے ہیں اور ڈاک کے دن ان دنوں سے باہر ہیں.پس ہم جھگڑے سے کنارہ کرنے کے لئے تین دن ڈاک کے فرض کر لیتے ہیں یعنی ۱۷-۱۸-۱۹؍ نومبر ۲ ء.اِن دنوں تک بہرحال اُن کے پاس جابجا یہ قصیدہ پہنچ جائے گا.اب اُن کی میعاد ۲۰؍نومبر سے شروع ہوگی.پس اِس طرح پر دس دسمبر ۲ ء تک اِس میعاد کا خاتمہ ہوجائے گا.پھر اگر بیس دن میں جو دسمبر ۲ ء کی دسویں کے دِن کی شام تک ختم ہو جائے گی.اُنہوں نے اِس قصیدہ اور اُردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یُوں سمجھو کہ مَیں نیست و نابود ہوگیا اور میرا سلسلہ باطل ہوگیا.اِس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہیے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں لیکن اگر اب بھی مخالفوں نے عمداً کنارہ کشی کی تو نہ صرف دس ہزار روپے کے انعام سے محروم رہیں گے بلکہ دس لعنتیں اُن کا ازلی حصّہ ہوگا اور اِس انعام میں سے ثناء اللہ کو پانچ ہزار ملے گا.اور باقی پانچ کو اگر فتح یاب ہوگئے ایک ایک ہزار ملے گا.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی (اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۰۲ تا ۲۰۵)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اعلان چونکہ آج کل مرض طاعون ہر ایک جگہ بہت زور پر ہے اس لئے اگرچہ قادیان میں نسبتاًآرام ہے لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ برعایت اسباب بڑا مجمع جمع ہونے سے پرہیز کی جاوے.اس لیے یہی قرین مصلحت معلوم ہوا کہ دسمبر کی تعطیلوں میں جیسا کہ پہلے اکثر احباب قادیان میں جمع ہو جایا کرتے تھے اب کی دفعہ وہ اس اجتماع کو بلحاظ مذکورہ بالا ضرورت کے موقوف رکھیں اور اپنی اپنی جگہ پر خدا سے دُعا کرتے رہیں کہ وہ اس خطرناک ابتلا سے اُن کو اور اُن کے اہل عیال کو بچاوے.المعـــــــــــــــــــــلن میرزا غلام احمد قادیانی ۱۸؍دسمبر۱۹۰۲ء مطبع انوار احمدیہ پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۶×۸۲۰ کے ایک صفحہ پر ہے ) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۵۱)
اصلاح حسب ِ منشا ُکھلی چٹھی مولوی ثناء اللہ صاحب چونکہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ کفن وغیرہ کی آمدنی جو اس ملک میں اکثر مُلاّ ئوں کو ہوا کرتی ہے کبھی ان کو اس سے تعلق نہیں ہوا.اور وہ اپنی تجارت سے گذارہ کرتے ہیں اس لئے ہمیں ان کی ان ذاتیات سے بحث نہیں اور ہم قبول کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہو گا.یہ قول محض اس بناء پر تھا کہ ہمارے ملک میں اکثر مُلاّ ایسے پائے جاتے ہیں کہ مسجدوں سے تعلق رکھتے اور پیشہ غسل اموات و جنازہ رکھتے ہیں اور اس کی آمدنی لیتے ہیں.اب جبکہ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ مَیں ان میں سے نہیں ہوں سو ہم اپنی اس قدر تحریر کے اس اشتہار سے اصلاح کر دیتے ہیں اور درحقیقت ہماری غرض اوّل سے الزام نہیں ہے کیونکہ صدہا مُلاّ اس ملک میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ یہ خدمت غسل اموات و جنازہ اپنے ذمہّ لے لیتے ہیں ان کو بھی ہم بُرا نہیں کہتے کہ قدیم سے یہ کام چلا آتا ہے کوئی ان کو بُرا نہیں کہہ سکتا وہ سب اپنی اپنی جگہ پر عزت رکھتے ہیں.المشتہر مرزا غلام احمد از قادیان ۲۰؍ دسمبر ۱۹۰۲ء (یہ اشتہار الحکم جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۲ء کے صفحہ ۶ پر درج ہے)
دربار دہلی کے موقعہ پر میموریل کی اشاعت ظہرکے وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے عرض کی کہ دربار دہلی پر جو میموریل روانہ کرنا ہے وہ طبع ہو کر آگیا ہے.حضور نے حکم دیا کہ ’’اسے کثرت سے تقسیم کیا جائے کیونکہ اس سے ہماری جماعت کی عام شہرت ہوتی ہے اور ہمارے اصولوں کی واقفیت اعلیٰ حکام کو ہوتی ہے اور اس کی اشاعت ہوتی ہے.‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۷۶ مورخہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۲ء) تعطیل جمعہ مندرجہ ذیل میموریل حضرت مسیح موعود ؑ نے گورنمنٹ آف انڈیا کی خدمت میں تعطیل جمعہ کے لئے پیش کیا ہے چونکہ تاجپوشی کا جلسہ جو دہلی میں ہو گا ہر ایک فرقہ رعایا گورنمنٹ برطانیہ کو اس سے بہت خوشی ہے اور مسلمانوںکو ایک خاص خوشی جو اس جلسہ میں ان کے اسلامی تخت گاہ کے شہر کو عزت دی گئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس محسن گورنمنٹ کو مسلمانوں پر ایک خاص نظر عنایت ہے اور مسلمانوں
کی مدت دراز سے ایک دلی تمنا ہے جس کے پیش کرنے کے لئے اس وقت سے زیادہ مبارک کوئی وقت نہیں کہ ہمارے بادشاہ عالیجاہ قیصر کی تاجپوشی کے جلسہ کا دن قریب ہے اس لئے مجھے تحریک کی گئی کہ میں اس التماس کو ادب سے پیش کروں کیونکہ میں ایک ایسے مسلمانوں کے گروہ کا امام ہوں کہ جو برٹش انڈیا اور دوسرے مقامات میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے اور میں ضروری نہیں سمجھتا کہ میں ان کے نام لکھوں کیونکہ وہ مجھ سے بیعت کرنے والے ہیں یعنی میرے مرید ہیں اور مجھ سے الگ نہیں ہیں.یہ وہ فرقہ ہے جو فرقہ احمدیہ کے نام سے مشہور ہے اور پنجاب اور ہندوستان اور دیگر متفرق مقامات میں پھیلا ہوا ہے یہی وہ فرقہ ہے جو دن رات کوشش کر رہا ہے کہ مسلمانوں کے خیالات میں سے جہاد کی بیہودہ رسم کو اٹھا دے چنانچہ اب تک ساٹھ کے قریب میںنے ایسی کتابیں عربی اور فارسی اور اردو اور انگریزی میں تالیف کر کے شائع کی ہیں جن کا یہی مقصد ہے کہ یہ غلط خیالات مسلمانوں کے دلوں سے محو ہو جائیں اس قوم میں یہ خرابی اکثر نادان مولویوں نے ڈال رکھی ہے لیکن اگر خدا نے چاہا تو میں امید رکھتا ہوں کہ عنقریب اس کی اصلاح ہو جائے گی.گورنمنٹ کے اعلیٰ حکام کی طرف سے ایسی کارروائیوں کا ہونا ضروری ہے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں منقوش ہو جائے کہ یہ سلطنت اسلام کے لئے درحقیقت چشمۂ فیض ہے اور نہایت خوشی کی بات ہے کہ حضور لارڈکرزن بالقابہ نے ایسی نمایاں کارروائیاں کی ہیں کہ مسلمانوں کو کبھی نہیں بھولیں گی جیسا کہ لاہور کے قلعہ کی مسجد کا مسلمانوں کو عطا کرنا اور ایک باہر کی مسجد جس پر ریل والوں کا قبضہ تھا مسلمانوں کو عنایت فرمانا اور نیز اپنی طرف سے دہلی کی شاہی مسجد کے لئے ایک قیمتی لال ٹین اپنی جیب سے مرحمت فرمانا ان فیاضانہ کارروائیوں سے جس قدر مسلمان شکر گزار اور گرویدہ ہیں اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا لیکن ایک تمنا ان کی ہنوز باقی ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ جن ہاتھوں سے یہ مرادیں پوری ہوئی ہیں وہ تمنا بھی انہیں ہاتھوں سے پوری ہو گی اور وہ آرزو یہ ہے کہ روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کر کے اس دن کو تعطیل کا دن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ
قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورۃ الجمعہ ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے تو تم دنیا کا ہر ایک کام بند کردو اور مسجدوں میں جمع ہو جائو اور نماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گنہ گار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہو اور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدر عید کی نماز کی بھی تاکید نہیں اسی غرض سے قدیم سے اور جب سے کہ اسلام ظاہر ہوا ہے جمعہ کی تعطیل مسلمانوں میں چلی آئی ہے اور اس ملک میں بھی برابر آٹھ سوبرس تک یعنی جب تک کہ اس ملک میں اسلام کی سلطنت رہی جمعہ میں تعطیل ہوتی تھی اسی وجہ سے ریاست پٹیالہ میں جمعہ کی تعطیل ان دنوں تک ہوتی رہی اور اس ملک میں تین قومیں ہیں.ہندو، عیسائی، مسلمان.ہندوئوں اور عیسائیوں کو ان کے مذہبی رسوم کا دن گورنمنٹ نے دیا ہوا ہے یعنی اتوار جس میں وہ اپنے مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں جس کی تعطیل عام طور پر ہوتی ہے لیکن یہ تیسرا فرقہ یعنی مسلمان اپنے تہوار کے دن سے یعنی جمعہ سے محروم ہیں.برٹش انڈیا میں کون مسلمان ہے جو آہ مار کر یہ نہیں کہتا کہ کاش جمعہ کی تعطیل ہوتی لیکن اس کرزنی دور میں جبکہ لارڈ کرزن اس ملک کے وائسرائے ہیں مسلمانوں کو اس تمنا کے پورے ہونے میں بہت کچھ امید بڑھ گئی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جبکہ لارڈ موصوف نے دلی فیاضی اور ہمدردی سے ان کی مساجد واگذار کرادی ہیں تو پھر وہ امر جو مسجدوں کی علتِ غائی ہے یعنی نماز جمعہ یہ امر بھی انہیں ہاتھوں سے انجام پذیر ہو گا مسجد تو مثل دسترخوان یا میز کے ہے جس پر روٹی رکھی جاتی ہے مگر نماز جمعہ اصل روٹی ہے.تمام مساجد کی بڑی بھاری غرض نماز جمعہ ہے پس کیا ہمارے عالی ہمت وائسرائے لارڈکرزن یہ روا رکھیں گے کہ وہ ہمیں دسترخوان تو دیں مگر روٹی نہ دیں ایسی دعوت تو ناقص ہے اور امید نہیں کہ ایسا فیاض دل جوانمرد ایسی کمی کو اپنے پرگوارا کرے اور اگر ایسا ہمدردوائسرائے جس کے بعد کم امید ہے کہ اس کی نظیر ملے اس فیاضی کی طرف توجہ نہ فرماوے تو پھر اس کے بعد عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ مسلمانوں کے لئے کبھی وہ دن آوے کہ دوسرے وائسرائے سے یہ مراد پا سکیں یہ ایک ایسی مراد ہے کہ اس کا انجام پذیر ہونا
مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ برطانیہ کی محبت کی طرف ایک زبردست کشش سے کھینچ لے گا اور ان احسانوں کی فہرست میں جو اس گورنمنٹ نے مسلمانوںپر کئے ہیں اگر یہ احسان بھی کیا گیا جو عام طور پر جمعہ کی تعطیل دی جائے تو یہ ایسا احسان ہو گا کہ جو آبِ زَر سے لکھنے کے لائق ہو گا اور اس کا مسلمانوں کے دلوں پر بڑا اثر پڑے گا بالخصوص جبکہ عین تاجپوشی کے جلسہ میں جہاں ہزارہارئیس اور والیانِ ملک موجود ہوں گے اس احسان کو تاجپوشی کی ایک یادگار ٹھہرا کر سنایا جائے گا تو جو کچھ مسلمانوں کے دلوں میں خوشی سے بھری ہوئی محبت پیدا ہو گی اس کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے.اس دن لوگ تمام شہر میں خوشی کے نعروں کے ساتھ لارڈکرزن کے گیت گائیں گے اور اس کے حق میں دعائیں کریں گے اور اس کارروائی سے اسلام اور عیسائیت میں ایک میلان پیدا ہو جائے گا اور تمام تعریف لارڈ کرزن کے عہد کی طرف ہمیشہ کے لئے منسوب رہے گی اور میری دانست میں عام مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے جو کارنامہ وہ چھوڑ جائیں گے.اس سے بہتر کوئی نہ ہو گا مسلمان ایک قوم ہے جو سب سے زیادہ مذہب کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے اور ہر ایک تالیف قلوب جو مذہبی رنگ میں کی جائے وہ ان کے دلوں کو کھینچ لیتی ہے پس اعلیٰ سے اعلیٰ حکمتِ عملی مسلمانوں کے مسخر کرنے کی یہی ہے کہ مذہبی رنگ میں ان کو کوئی فائدہ پہنچایا جائے.چونکہ تاجپوشی کے جلسہ کا موقع ایک ایسا بابرکت موقع ہے کہ ہندو، مسلمانوں کی اس طرف آنکھیں لگی ہوئی ہیں کہ اس مبارک رسم کی یادگار میں کیا کچھ سرفرازی ہر دوفریق کی کی جاتی ہے.پس اگر گورنمنٹ اس مبارک دن کی یادگار کے لئے مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل کھول دے یا اگر نہ ہو سکے تو نصف دن کی ہی تعطیل دیدے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ عام دلوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے زیادہ کوئی کارروائی ہے مگر چونکہ گورنمنٹ کی فیاضی کا تنگ دائرہ نہیں ہے اور اگر توجہ پیدا ہو تو اس کو کچھ پروا نہیں ہے اس لئے صرف نصف دن کی تعطیل ایک ادنیٰ بات ہے.یقین ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس مبارک یادگار میں پورے دن کی تعطیل عنایت فرمائے گی اور یہی مسلمانوں کو توقع ہے.جمعہ کے دن کو کچھ مسلمانوں سے ہی خصوصیت نہیں بلکہ یہ دن عیسائی
مذہب میں بھی قابل تعظیم ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جمعہ کے روز ہی صلیب دیئے گئے تھے اور عیسائی کے عقیدہ کی رو سے تمام برکات کی جڑ یہی واقعہ ہے.یہودیوں کا سبت بھی اس زمانہ تک کہ جب وہ مصر سے نہیں نکلے تھے جمعہ ہی تھا قدیم مصری سلطنت میں بھی جمعہ کی ہی تعطیل ہوتی تھی اور حضرت آدم بھی جمعہ کے دن ہی پیدا ہوئے تھے نوح کی کشتی اراراٹ کے پہاڑ پر جمعہ کے دن ہی لگی تھی.پس اس تعطیل سے یہ تمام یادگاریں قائم ہو سکتی ہیں اور مسلمان اس بات پر راضی ہیں کہ ان کی بعض غیرضروری تعطیلیں بند کر کے ان کی جگہ جمعہ کی تعطیل دی جائے اور مجھے اس بات کا خیال ہے کہ جمعہ کی تعطیل رعایا اور گورنمنٹ میں ایک حقیقی مصالحت کی بنیادڈالے گی اور خیالات پر ایک ایسا اثر ہو گا کہ وہ فوق العادت تصور کیا جائے گا اگرچہ گورنمنٹ بہت دانشمند ہے لیکن عام مسلمانوں کے حالات سے ذاتی واقفیت مجھے اس بات کے اظہار کے لئے مجبور کرتی ہے کہ اس موقعہ پر مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی طریق نہیں اس لئے ایک بڑی جماعت کی تحریک سے یہ میموریل ارسال حضور کیا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ توجہ سے اس پر غور کی جائے خاص کر میرے لئے جو ہمیشہ اس سعی میں ہوں کہ مسلمان لوگ گورنمنٹ کے ساتھ سچے اخلاص میں ترقی کریں.اس تعطیل سے ایک دستاویز ملتی ہے اور گورنمنٹ کی عنایات ثابت کرنے کے لئے اور نئے دلائل حاصل ہوتے ہیں اس لئے میں اس عرض کے لئے جرأت کرتا ہوں کہ اس عرضداشت پر ضرور توجہ فرمائی جائے اور اس کو ایک معمولی عرضی سمجھ کر ٹال نہ دیا جائے اور نہ یہ تصور کیا جائے کہ صرف ایک شخص کی یہ درخواست ہے کیونکہ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں یہ ایک شخص کی درخواست نہیں بلکہ ایک لاکھ معزز مسلمان کی درخواست ہے.اور چونکہ وہ لوگ مجھ سے بیعت اور مریدی کا تعلق رکھتے ہیں اس لئے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ ان کے نام لکھے جائیں اور میں ان سب کی طرف سے بطور ایڈووکیٹ ہو کر امید بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ عرضداشت روانہ کرتا ہوں اور دعا پر ختم کرتا ہوں.(منقول از ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر۱ نمبر۱۲ صفحہ ۴۹۵ تا ۴۹۸)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم.نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وحی الٰہی کی ایک پیشگوئی جو پیش از وقت شائع کی جاتی ہے چاہیے کہ ہر ایک شخص اس کو خوب یاد رکھے اوّل ایک خفیف خواب میں جو کشف کے رنگ میں تھی مجھے دکھایا گیا کہ مَیں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے.پھر وہ کشفی حالت وحی الٰہی کی طرف منتقل ہو گئی.چنانچہ وہ تمام فقرات وحی الٰہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میں تھے ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں.یُبْدِ یْ لَکَ الرَّحْمَانُ شَیْئًا.۱؎ اَتٰی اَمْرُ اﷲِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ.بَشَارَۃٌ ؎ چونکہ ہمارے ملک میں یہ رسم ہے کہ عید کے دن صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرتے ہیں سو میرے خداوند نے سب سے پہلے یعنی قبل از صبح پانچ بجے مجھے اس عظیم الشان پیشگوئی کا ہدیہ بھیج دیا ہے.اس ہدیہ پر ہم اس کا شکر کرتے ہیں اور ناظرین کو یہ بھی خوشخبری دیتے ہیں کہ عنقریب ہم ان نشانوں کے متعلق بھی اشتہار شائع کریں گے جو اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک گزشتہ تین سالوں میں ظہور میں آچکے ہیں.منہ
تَلَقَّاھَاالنَّبِیُّوْنَ.(ترجمہ)خدا جو رحمان ہے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے کچھ ظہور میں لائے گا.خدا کا امر آ رہا ہے.تم جلدی نہ کرو.یہ ایک خوشخبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے.صبح پانچ بجے کا وقت تھا.یکم جنوری ۱۹۰۳ء و یکم شوال ۱۳۲۰ھ روز عید جب میرے خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی.اس سے پہلے ۲۵؍ دسمبر ۱۹۰۲ء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور وحی ہوئی تھی جو میری طرف سے بطور حکایت تھی اور وہ یہ ہے.اِنِّیْ صَادِقٌ وَ سَیَشْھَدُ اﷲُ لِیْ.ترجمہ.میں صادق ہوں صادق ہوں.عنقریب خدا تعالیٰ میری گواہی دے گا.یہ پیشگوئیاں بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا امر میری تائید میں ظاہر ہونے والا ہے جس سے میری سچائی ظاہر ہو گی.اور ایک وجاہت اور قبولیت ظہو رمیں آئے گی اور وہ خدا تعالیٰ کا نشان ہو گاتا دشمنوں کو شرمندہ کرے.اور میری وجاہت اور عزت اور سچائی کی نشانیاں دنیا میں پھیلاوے.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ المشـــــــــــــــــــــــــتھر میرزا غلام احمد قادیانی.یکم جنوری ۱۹۰۳ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۶×۸۲۰ کے ایک صفحہ پر ہے ) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۵۲)
مستقل قیام امن و عافیت کے لئے ایک تجویز پیش کردہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام چونکہ تقریب جلسہ تاجپوشی ہمارے شہنشاہ عالی جاہ ایڈورڈ قیصر کے درپیش ہے اور ہر ایک شخص پر جو زیرسایہ اس سلطنت پرُامن کے رہتا ہے واجب ہے کہ اس خوشی سے حصہ لے.اور اس موقع پر اپنی خیرخواہی اور خلوص کا اظہار کرے سو میں جوایک گوشہ گزین انسان ہوں اور قبل اس کے جو واقعہ موت پیش آوے اُس پوشیدہ عالم کو دیکھ رہا ہوں جس کو اکثر دوسرے لوگ موت کے بعد دیکھیں گے.اس لئے میری معرفت اور حقیقت شناسی نے جو انصاف اور حق پسندی کو چاہتی ہے مجھے تحریک کی ہے کہ نہایت یک رنگی اور دلی جوش سے اپنی مشرب اور طریق کے مطابق اس موقعہ پر وہ باتیں ظاہر کروں جن کے لئے میرا دل جوش مار رہا ہے اور جن کو اپنا فرض سمجھتا ہوں سو سب سے اوّل میں اپنی طرف سے اور اپنی جماعت کے منتخب لوگوں کی طرف سے جو میرے تخمینہ میں اب وہ برٹش انڈیا کی متفرق بلاد میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہیں.حضرت شہنشاہ قیصر کو شکر سے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ دعائے خیر کرتا ہوں اور جناب الٰہی سے چاہتا ہوں کہ وہ قادر کریم جس کی بے انتہا طاقت نے ذرہ ذرہ پر قبضہ کر رکھا ہے اس شہنشاہ کو جس کی سلطنت امن بخش اور ہر ایک ظالم سے حفاظت کرتی ہے تمام مکروہاتِ زمانہ سے بچاوے اور فتح و ظفر نصیب کرے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اس بات کی توفیق دے کہ ہم سچے دل سے اس محسن
ہوں.پس میرے نزدیک تدبیر یہ ہے کہ ایک کتاب مبسوط مخالفت جہاد میں لکھی جائے جس کا یہ مطلب ہو کہ بموجب آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ اور اصول انصاف کے اس گورنمنٹ سے ہرگز جہاد درست نہیں کیونکہ وہ دادگستری اور حق پسندی اور رعیت پروری اور بہت سے اپنے منصفانہ اصولوں کے رو سے دین اسلام کی حامی ہے اور علاوہ اس کے مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ ہندوستان کے پہلے بادشاہوں کے زمانہ کی نسبت علمی ترقی اور امن اور آزادی میں گورنمنٹ انگریزی کی رعایامسلمان آگے بڑھ گئے ہیں بلکہ اگر زیادہ غور کرو تو معلوم ہو گا کہ انگریزی قوانین اسلام کے لئے راستہ صاف کر رہے ہیں.ان تمام امور کے لحاظ سے اس محسن گورنمنٹ سے بغاوت یا مقابلہ یا سرکشی سے پیش آنا صرف ناجائز ہی نہیں بلکہ اسلام سے خارج ہونا ہے.جب ایسی کتاب طیار ہو جائے تو تمام سرآمد علماء کے اس پر دستخط ہو جائیں.اور پھر وہ کتاب زبان پشتو اور فارسی اور عربی میں ترجمہ کی جائے اور ایسی کتاب کی چالیس۴۰ ہزار کاپی چھپوائی جائے اور ملک میں اور سرحدی ممالک میں تقسیم کی جائے اگر ایسا ہو تو میں نے منظور کیا ہے کہ دس۱۰ ہزار روپیہ تک اس کی چھپوائی کے اخراجات میں خود دیدوں گا.مگر شرط یہ ہے کہ محض بیہودہ اور مجمل اور منافقانہ بیان نہ ہو بلکہ ہر ایک پہلو سے مکمل ہو.میں اس بات کو خوب جانتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ وہ بیان کس قوت کے ہوتے ہیں جو دل کی سچائی سے نکلتے ہیں اور وہ بیان کیسے بودے اور کمزور ہوتے ہیں جو محض منافقانہ ہوتے ہیں.منافقانہ بیان ایک مردہ بیان ہوتا ہے اور اس کی ایسی مثال ہے جیسا کہ ایک پھوڑے کے اندر بہت سی پیپ بھری ہو اور بظاہر دکھائی دیتا ہو کہ وہ زخم مل گیا ہے مگر جو بیان دل سے نکلتا ہے وہ آخر دلوں کو جا پکڑتا ہے.میں اس بارے میں ایسی تحریروں کو پسند نہیں کرتا جو گول مول ہوں اور صرف دوچار مختصر ورق ہوں.بلکہ چاہیے کہ بہت مبسوط کتاب ہو اور اس میں تین قسم کے زبردست دلائل ہوں (۱) اوّل آیات قرآنی سے تمسک ہو (۲) دوسرے حدیث سے تمسک ہو (۳) تیسرے دلائل عقلیہ سے تمسک ہو.اور میں نے سنا ہے کہ بعض والیان ریاست سرحدی نے جہاد پرزور دینے کے لئے ایک کتاب لکھی ہے اس
صورت میں اور بھی واجب ہوا کہ اس کتاب کا اثر دور کر دیا جائے اگر گورنمنٹ یہ عذر پیش کرے کہ ایسی ہدایت گویا ایک جبر کی قسم ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ یہ جبر نہیں ہے جس بات میں لوگوں کی بھلائی اور امن کی ترقی اور عافیت کی امید ہے وہ جبر کیونکر ہو سکتا ہے ایسے خیالات مسلمانوں کو پستی کی طرف لے جارہے ہیں اور درندگی کی قوتیں بڑھتی جاتی ہیں اور اس ملک کے علماء کا کیا حرج ہے کہ ایسی مبسوط کتاب تصنیف کر کے اپنے دستخطوں اور مہروں سے مزین کریں ان پر کوئی خرچ نہیں ڈالا جاتا بلکہ اس تمام خرچ کا میں ہی ذمہ اٹھاتا ہوں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صفائی اور پوری دیانت سے ایسی کتاب تالیف ہونی چاہیے میں ان کی نسبت کوئی بدظنی نہیں کرتا.مگر میرا کانشنس اس بات کو نہیں مانتا کہ جب تک پوری صفائی اور پورے دل کے جوش سے ایسی کتاب نہ لکھی جائے اور ایسے تمام امور کی جڑھ کاٹ نہ دی جائے جو جہادی مسائل کی طرف حرکت دیتے ہیں یا کسی آئندہ جہاد کی امید دیتے ہیں.تب تک وہ کتاب مؤثر ہو سکے اس لئے ہمیں چاہیے کہ اس جڑ کو اپنے عقائد کے اندر سے بکلی نکال دیں جس کی زہر کسی وقت پھوٹنے کے لئے طیاّر ہے.میرے خیال میں یہ دو عقیدے جہاد کی جڑھ ہیں (۱) ایک یہ کہ جوامید کی جاتی ہے کہ اب عنقریب زمانہ میں کوئی ایسا مہدی آنے والا ہے کہ جو جہاد اور اپنی مذہی لڑائیوں سے زمین کو خون سے پُر کر دے گا.(۲) دوسری یہ کہ مہدی کے ہاتھ بٹانے کے لئے کوئی مسیح آسمان سے آنیوالا ہے جس کا کام بھی یہی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بھی سخت دل سپاہیوں کی طرح تلوار سے دین کو پھیلانا چاہے گا.میں دیکھتا ہوں کہ اب ایسے عقیدوں کا زمانہ گذرتا جاتا ہے اور وہ جو ایسی بحثوں میں سختی سے پیش آتے تھے اب وہ خودبخود سمجھتے جاتے ہیں اور دل جلدجلد صاف ہوتے جاتے ہیں.بعض نادانوں کا پہلے اس سے ان عقیدوں پر بہت غلو تھا اور اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیںجو تہذیب اور انسانیت سے بہت کم حصہ رکھتے ہیں.وہ ان بیہودہ عقیدوں پر اب تک قائم ہیں.اگر یہ عقیدے قرآن شریف میں مذکور ہوتے تو ایسے عقیدوں والے پر کچھ افسوس نہ تھا لیکن تعجب تو یہ ہے کہ ان ہر دو عقیدوں کا قرآن شریف میں نام و نشان نہیں.ہاں سورۃ فاتحہ اور سورۃ نور اور کئی اور سورتوں میں اشارہ کیا گیا ہے کہ جس
طرح بنی اسرائیل کے نبیوں کا سلسلہ آخر کو ایک ایسے نبی پر ختم ہوا جس نے تلوار نہیں اُٹھائی اور نہ جہاد کیا اور محض اخلاقی تعلیم کی قوت سے دلوں کو اپنی طرف کھینچا ایسا ہی محمدی سلسلہ میں جب وہی زمانہ آئے گا یعنی جبکہ ہجرت سے چودھویں صدی آئے گی جو اس زمانہ سے بہت مشابہ ہے جبکہ حضرت عیسیٰ حضرت موسیٰ کے بعد پیدا ہوئے تھے تب حضرت عیسیٰ مسیح کی مانند اس امت میںبھی ایک شخص پیدا ہو گا.جو نہ جہاد کرے گااور نہ تلوار اٹھائے گا اور آرام سے اور صلح کاری سے دلوں کو خدا کی طرف پھیردے گا اور قرآن شریف سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخری مسیح جو پہلے مسیح کے قدم پر آئے گا.آدم کے زمانہ سے چھٹے ہزار کے آخر پر پیدا ہو گا یہ پیشگوئی ہے جو قرآن شریف میں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرورہے کہ اسلام چودھویں صدی میں اپنی ترقی کا تمام مدار اخلاقی اور عقلی اور اعجازی نمونوں پر رکھے.جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رکھا یہی ہے جو دوسرے لفظوں میں مسیح کا دوبارہ آنا بیان کیا جاتا ہے.اس میں یہ جتلانا منظور ہے کہ پہلے مسیح میں اور دوسرے مسیح میں ایسی مشابہت ہے کہ گویا وہ دونوں ایک ہیں.یہی ایک پیشگوئی ہے جو قرآن شریف سے ثابت ہوتی ہے.باقی سب باطل اور جھوٹے قصے ہیں جو لوگوں نے بنا رکھے ہیں اور مہدی کے متعلق جس قدر حدیثیں ہیں ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں ہے قرآن نے دو مسیح بالمقابل رکھے ہیں ایک مسیح اسرائیلی اور ایک مسیح محمدی اور دونوں کی نسبت بیان ہے کہ وہ محض اخلاقی تعلیم اور آسمانی نشانوں سے دین کو پھیلانے والے ہیں.پہلے اس سے اسرائیلی سلسلہ میں موسیٰ اور یشوعا وغیرہ نبیوں کی لڑائیوں سے یہ شک کیا گیا تھا کہ شاید مذہب ایسا ہے کہ اس میں بجز تلوار کے اور کچھ نہیں.پس خدا نے نہ چاہا کہ وہ شک دلوں میں باقی رہے اس لئے اس نے موسوی سلسلہ کے آخری زمانہ میں یسوع مسیح کو بھیجا تا اپنی اخلاقی تعلیم سے اس شک کو دور کر دے.اسی طرح محمد یؐ سلسلہ میں بھی جبکہ پہلے زمانہ میں بطور مدافعت کے لڑائیاں ہوئیں تو لوگوں نے بعد میں یہ اعتراض اسلام پر کیا کہ وہ جبر سے دین کو پھیلاتا رہا ہے.حالانکہ وہ لڑائیاں مخالفوں کے حملوں کے دفع کے لئے تھیں نہ دین کے پھیلانے کے لئے جیسا کہ قرآن شریف میں
Page Not Found
خون ریزیوں کے نیچے چھپادیا ہے اور چونکہ اس زمانہ میں خدا کے منشاء کے برخلاف یہ کارروائیاں ان سے ہوئیں اس لئے ان کو ایسے حملوں میں بجزناکامی اور ذلت کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا اور ہمیشہ شکست اٹھاتے اور مارے جاتے ہیں.لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب وہ اگر ایسا کریں گے تو وہ خدا سے لڑیں گے اور خدا ان سے لڑے گا کیونکہ اس کا منشاء یہی ہے کہ دنیا کو یہ معجزہ دکھاوے کہ نرمی سے اور صلح سے اور اخلاق کے کمال سے اور اعجازی نمونوں سے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرے.پس جو شخص اس کے منشاء کے برخلاف دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے وہ اس کے معجزہ کو باطل کرنا چاہتا ہے اور اس کی حکمت کا دشمن ہے اس لئے کبھی اس کے لئے بہتری نہیں ہے اب کے بعد جو لوگ دین کے بہانہ سے تلوار اٹھائیں گے گو وہ اپنی جہالت یا فریب سے مہدی کہلاویں یا ملاّ کے نام سے منسوب ہوں وہ بہت ذلیل ہوں گے کیونکہ خدا کے قدیم ارادہ کا انہوں نے مقابلہ کیا ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ اس حقیقت کو کئی لاکھ انسانوں نے سمجھ لیا ہے اور کروڑہا انسان اس کے سمجھنے کے لئے مستعد ہو رہے ہیں اگر گورنمنٹ عالیہ مجھے اس قدر مددے کہ میری اس تقریر کو اپنے طور پر اخباروں میں شائع کر دے اور اس میں لکھ دے کہ جو علماء اور عقلاء اور فتویٰ دینے والے جہاد کے مخالف ہیں اور وہ کتاب مخالفت جہاد پر دستخط کرنے کو طیار ہیں وہ ایک خاص عہدہ دار کے پاس جس کو گورنمنٹ مقرر کرے اپنے عرائض اخیر جون ۱۹۰۳ء تک یا اس مدت تک جو گورنمنٹ مناسب سمجھے بھیج دیں اور ان کے منتخب عالم جہاد کی مخالفت کے بارے میں اپنی اپنی جگہ ایک ایک کتاب لکھیں.جن میں سے ایک یہ راقم بھی ہو گا پھر مناسب ہے کہ ان تمام کتابوںمیں سے جس کتاب کو گورنمنٹ پسند کرے اور پرُزور دیکھے اس پر سب علماء کے دستخط ہو جائیں اور پھر وہ فارسی اور پشتو اور عربی میں ترجمہ ہو کر بلاداسلامیہ میں شائع کی جائے اور گورنمنٹ خسروانہ مہربانی کر کے ایسی کتابوں کی تالیف کے لئے بذریعہ اپنے اشتہار کے اطلاع دے اور مناسب ہو گا کہ تالیف کتاب کے لئے ایک برس مہلت رکھی جائے تا تکمیل کتاب میں کوئی دقیقہ رہ نہ جائے.یاد رہے کہ وحشی قوموں کو مہذب بنانے کے لئے جو ملائوں کے پنجہ میں ہیں اس سے زیادہ کوئی موزوں تدبیر نہیں ہو گی جو علماء کے فتنہ کا علاج علماء کے ساتھ ہی
کیا جائے.اب یہ زمانہ نیا رنگ پکڑ گیا ہے اور عملی تجربہ نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ طریق جو میں نے بیان کیا ہے بہت مؤثر ہے.پس ہماری گورنمنٹ کو چاہیے کہ اس سے پورے طور پر فائدہ اٹھاوے.مسلمانوں کے لئے اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ درحقیقت خدا تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہے کہ یہ عادل گورنمنٹ ان پر حکمرانی کر رہی ہے اگر یہ گورنمنٹ اس ملک سے دستکش ہو جائے تو چند روز میں قوموں کی باہم کشت و خون سے خون بہنے شروع ہو جائیں اور کیڑوں کی طرح ایک دوسرے کو کھالیں تب ہاتھ جوڑ کر پھر اس گورنمنٹ کو اپنے ملک میں لاویں گے.انسان کے لئے امن اور عافیت کی زندگی اور عادل سلطنت کے زیرسایہ رہنا بڑی چیز ہے گویا اسی دنیا میں بہشت ہے اور جن حکومتوںکے ماتحت جان و مال ہردم خطرہ میںہے وہ اگرچہ مسلمان کہلاویں لیکن ان کا وجود آرام دِہ نہیں ہے.ہم لوگوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہم کو ایسے حکام ملے ہیںجو حکومت کی کرسی پر بیٹھ کر مذہبی رعایتوں کو طاق پر رکھ دیتے ہیں اور جو تقاضاانصاف اور عدالت کا ہے وہی کرتے ہیں مجھے اس بات کے لکھنے سے خوشی ہے میرے پاس اس دعویٰ پر ایک نظیر بطور ثبوت کے ہے جس پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ انگلش افسروں کی کس قدر نیتیں نیک ہیں اور وہ کس قدر عدالت اور انصاف کے دلدادہ ہیں اور وہ یہ ہے کہ چند سال ہوئے ہیں کہ ایک مشنری صاحب نے جن کا نام ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک ہے ایک جھوٹا مقدمہ اقدام قتل کا میرے پر دائر کیا میرا خیال ہے کہ یہ ان کا گناہ نہیں تھا بلکہ بعض عیسائیوں نے ان کو دھوکا دیا تھا پھر وہ مقدمہ کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں جو حال میں دہلی کے ڈپٹی کمشنر صاحب ہیں تحقیقات ہوتا رہا صاحب موصوف نے اس مقدمہ پر پوری توجہ سے غور کی اور کئی دنوں کی کوشش کے بعد معلوم کر لیا کہ یہ مقدمہ محض دروغ اور سراسر بہتان ہے تب اس کو خارج کیا اور مجھے پوری صفائی سے بری فرمایا.اس مقدمہ کے دیکھنے والے ہزارہا آدمی تھے جاہلوں کو یہ خیال تھا کہ ایک مشنری کا مقدمہ اور انگریز کے پاس ہے وہ بہرحال اس مشنری کی رعایت کرے گا.لیکن جس روز وہ مقدمہ خارج کیا گیا اس دن لوگوں کے منہ سے بے اختیار نکلتا تھا کہ درحقیقت ا
انگریز ایک ایسی قوم ہے کہ جو انصاف کو مدنظر رکھتے ہیں اور میں چونکہ خوب جانتا تھا کہ یہ محض بے اصل اور قابل شرم بہتان تھا اور میرا صرف خدا پر بھروسہ تھا اس لئے اس مقدمہ کے راست راست فیصلہ ہونے پر میرا اعتقاد انگریزی سلطنت کے عدل پسند حکام کی نسبت زیادہ بڑھ گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ انگریز حکام صرف عدل پسند ہی نہیں ہیں بلکہ خدا نے ان کو عقل ایسی دی ہے کہ مخفی حقیقت کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں.یہ امر بہت مشکل ہے کہ جب ایک حاکم کے سامنے ایسا مدعی آوے جو اس کی قوم کا بزرگ اور قابل تعظیم اور جنٹلمین ہو اور مقابل میں میرے جیسا ہو دنیا سے الگ جس پر ایک طرف بباعث فرقہ جدیدہ ہونے کے قوم ناراض ہے اور دوسری طرف ایک فرقہ جدیدہ کا بانی ہونا انتظاماً بھی نگرانی کے لائق ہے پھر پوری پوری عدالت سے کام لیا جائے میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس کی نظیر ابھی تک کسی دوسرے فرقہ میں موجود ہے اور نہ میں اس کا قائل ہو سکتا ہوں جب تک کہ اس کو دیکھ نہ لوں.پس جس قوم میں ایسے عدل پسند حکاّم ہیں جو فیصلہ کے وقت خدا سے ڈرتے ہیں اور عدالت کو ہر ایک تعارف پر مقدم رکھتے ہیں اور اپنی قوم کے بزرگوں کی بھی عدالت میں رعایت نہیں کرتے.ان کا سچا وفادار نہ ہونا میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس سے زیادہ کوئی بدبختی اور شقاوت ہے.میں نے اس نمونہ کو جو کپتان ڈگلس کی عدالت میں دیکھا ضائع نہیں کیا بلکہ ایک کتاب اس کے نام پر تالیف کر کے شائع کر دی اور میں جانتا ہوں کہ صدہا سال تک یہ عادلانہ کارروائی میری جماعت کو یاد رہے گی.(ریویو آف ریلیجنز اردو جلد نمبر۲ نمبر۱ صفحہ ۱۸ تا ۲۶)
۲۶۱ (مندرجہ کتاب نسیم دعوت) آریہ صاحبوں کے بعض اعتراضات کے جواب میں انسان جب بغیر سوچنے سمجھنے کے محض نکتہ چینی کے ارادہ سے مخالفت کی نظر سے دیکھے توگو کیسا ہی کوئی امر سیدھا اور صاف ہو اس کی نظر میںجائے اعتراض ٹھہر جاتا ہے.ایسا ہی آریہ صاحبوں کا حال ہے وہ اس ندامت کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے جو ایک اعتراض کے غلط اور بے جا ثابت ہونے میں ایک باحیا انسان کے دل پر صدمہ پہنچاتی ہے.اب سنئے اعتراضات یہ ہیں جو ہمیشہ اسلام جیسے پاک اور کامل مذہب پر سراسر نادانی سے کرتے ہیں اور ہم اس وقت وہ اعتراض لکھتے ہیں جو انہوں نے ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ء کو قادیان میں جلسہ کر کے اسلام پر کئے اور اس طرح یہ ثابت کردیا کہ ان کے تعصب اور نا سمجھی اور ناحق کے کینہ کی کہاں تک نوبت پہنچی ہے.اعتراضات ۱-مسلمان خدا کی نندیا کرتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہوا ہے اور چار فرشتوں نے اس تخت کو اٹھایا ہوا ہے.اس طرح پرثابت ہوتا ہے کہ خدا محدود ہے اور قائم بالذات نہیں اور جب محدود ہے تو اس کا علم بھی محدود ہوگا اور حاضر ناظر نہ ہوگا.الجواب اے حضرات! مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے.تمام قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک پڑھو اس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی
کوئ چیزمحدوداور مخلوق ہے.خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا مَیں ہی پیدا کرنے والا ہوں.مَیں ہی زمین و آسمان اور رُوحوں اور ان کی تمام قوتوں کا خالق ہوں.مَیں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے.ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے.مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا مَیں پیدا کرنے والا ہوں.اگر کوئی آریہ قرآن شریف میں سے نکال دے کہ عرش کوئی جسمانی اورمخلوق چیز ہے تو میں اس کو قبل اس کے جو قادیان سے باہر جائے ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا.مَیں اُس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے کہ مَیں قرآن شریف کی وہ آیت دکھاتے ہی ہزار روپیہ حوالہ کروں گا.ورنہ میں بادب کہتا ہوں کہ ایسا شخص خود لعنت کا محل ہوگا جو خدا پر جھوٹ بولتا ہے.اب ظاہر ہے کہ اس اعتراض کی بنیاد تو محض اس بات پر ہے کہ عرش کوئی علیحدہ چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے اور جب یہ امر ثابت نہ ہو سکا تو کچھ اعتراض نہ رہا.خدا صاف فرماتا ہے کہ وہ زمین پر بھی ہے اور آسمان پر بھی اور کسی چیز پر نہیں بلکہ اپنے وجود سے آپ قائم ہے اور ہر ایک چیز کو اُٹھائے ہوئے ہے اور ہر ایک چیز پر محیط ہے.جہاں تین ہوں تو چوتھا ان کا خداہے.جہاں پانچ ہوں تو چھٹا ان کے ساتھ خدا ہے اور کوئی جگہ نہیں جہاں خدا نہیں اور پھر فرماتا ہے. ۱؎.جس طرف تم منہ کرو اسی طرف خدا کا منہ پاؤ گے.وہ تم سے تمہاری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے.وہی ہے جو پہلے ہے اور وہی ہے جو آخر ہے اور وہ سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے اور وہ نہاں در نہاں ہے اور پھر فرماتا ہے. ۲؎ یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ وہ کہاں ہے.پس جواب یہ ہے کہ ایسا نزدیک ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نزدیک نہیں جو شخص مجھ پر ایمان لاکر مجھے پکارتا ہے تو میں
اس کا جواب دیتا ہوں.ہر ایک چیز کی کَلْ میرے ہاتھ میں ہے اور میرا علم سب پر محیط ہے.میں ہی ہوں جو زمین و آسمان کو اٹھا رہا ہوں.مَیں ہی ہوں جو تمہیں خشکی تری میں اُٹھا رہا ہوں.یہ تمام آیات قرآن شریف میں موجود ہیں.بچہ بچہ مسلمانوں کا ان کو جانتا اور پڑھتا ہے.جس کا جی چاہے وہ ہم سے آکر ابھی پوچھ لے.پھر ان آیات کو ظاہر نہ کرنا اور ایک استعارہ کو لے کراس پر اعتراض کر دینا کیا یہی دیانت آریہ سماج کی ہے ایسا دنیا میں کون مسلمان ہے جو خدا کو محدود جانتا ہے یا اس کے وسیع اور غیر محدود علم سے منکر ہے.اب یاد رکھو کہ قرآن شریف میںیہ تو کہیں بھی نہیں کہ خدا کو کوئی فرشتہ اُٹھا رہا ہے بلکہ جابجا یہ لکھا ہے کہ خدا ہرایک چیز کو اُٹھا رہا ہے ہاں بعض جگہ یہ استعارہ مذکورہے کہ خدا کے عرش کو جو دراصل کوئی جسمانی اور مخلوق چیز نہیں فرشتے اٹھارہے ہیں.دانشمند اس جگہ سے سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ عرش کوئی مجسم چیز ہی نہیں تو فرشتے کس چیز کو اٹھاتے ہیں.ضرور کوئی یہ استعارہ ہوگا مگر آریہ صاحبوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کیونکہ انسان خود غرضی اور تعصب کے وقت اندھا ہو جاتا ہے.اب اصل حقیقت سنو کہ قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے.اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر ۱؎ چار ہیں جو وید کے رُو سے چار دیوتے کہلاتے ہیں مگر قرآنی اصطلاح
کی رُو سے ان کا نام فرشتے بھی ہے اور وہ یہ ہیں.اکاش جس کا نام اندر بھی ہے.سورج دیوتا جس کو عربی میں شمس کہتے ہیں.چاند جس کو عربی میں قمر کہتے ہیں.دھرتی جس کو عربی میں ارض کہتے ہیں.یہ چاروں دیوتا جیسا کہ ہم اس رسالہ میں بیان کر چکے ہیں خدا کی چار صفتوں کو جو
اس کی جبروت اورعظمت کا اتم مظہر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا جاتا ہے اٹھارہے ہیں یعنی عالم پر یہ ظاہر کررہے ہیں تصریح کی حاجت نہیں.اس بیان کو ہم مفصل لکھ آئے ہیں اور قرآن شریف میں تین قسم کے فرشتے لکھے ہیں.(۱) ذراتِ اجسام ارضی اور روحوں کی قوتیں.(۲) اکاش.سورج.چاند.زمین کی قوتیں جو کام کررہی ہیں.(۳) ان سب پر اعلیٰ طاقتیں جو جبرائیل ومیکائیل و عزرائیل وغیرہ نام رکھتی ہیں جن کو وید میں (بقیہ حاشیہ) پس وہ ان چار صفتوں کو دنیا میں پھیلاتے ہیں گویا اس روحانی تخت کو اٹھارہے ہیں.بُت پرستوں کا جیسا کہ وید سے ظاہر ہے صاف طور پر یہ خیال تھا کہ یہ چار صفتیں مستقل طور پر دیوتاؤں کو حاصل ہیں.اسی وجہ سے ویدمیں جابجا ان کی اُستت اور مَہما کی گئی اور ان سے مرادیں مانگی گئیں.پس خدا تعالیٰ نے استعارہ کے طور پر سمجھایا کہ یہ چار دیوتا جن کو بت پرست اپنا معبود قرار دیتے ہیں یہ مخدوم نہیں ہیں بلکہ یہ چاروں خادم ہیں اور خدا تعالیٰ کے عرش کو اٹھارہے ہیں یعنی خادموں کی طرح ان الٰہی صفات کو اپنے آئینوں میں ظاہر کررہے ہیں اور عرش سے مراد لوازم صفات تخت نشینی ہیں جیسا کہ ابھی مَیں نے بیان کر دیا ہے.ہم ابھی لکھ چکے ہیں کہ ربّ کے معنے دیوتا ہے.پس قرآن شریف پہلے اسی سورۃ سے شروع ہوا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی وہ تمام مَہما اور اُستت اُس خدا کی چاہئے جو تمام عالموں کا دیوتا ہے.وہی ہے جو ربُّ العٰلَمِیْنَ ہے اور رَحْمٰنُ العٰلَمِیْن ہے اور رَحِیْمُ الْعٰلَمِیْنَ ہے.اور مالک جزاء العالمین ہے.اس کے برابر اور کوئی دیوتا نہیں کیونکہ قرآن شریف کے زمانہ میں دیوتا پرستی بہت شائع تھی اور یونانی ہر ایک دیوتے کا نام رَبُّ النَّوع رکھتے تھے اور رَبُّ النَّوع کا لفظ آریہ ورت میں دیوتا کے نام سے موسوم تھا اس لئے پہلے خدا کا کلام ان جھوٹے دیوتاؤں کی طرف ہی متوجہ ہوا جیسا کہ اس نے فرمایا.اَ لْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یعنی وہ جو سب عالموں کا دیوتا ہے نہ صرف ایک یا دو عالم کا اسی کی پرستش اور حمدو ثنا چاہئے.دوسروں کی مَہما اور اُ ستت کرنا غلطی ہے.اس صورت میں جو صفتیں بُت پرستوں نے چار دیوتاؤں کے لئے مقرر کررکھی تھیں.خدا تعالیٰ نے ان سب کو اپنی ذات میں جمع کردیا ہے اور صرف اپنی ذات کو ان صفات کا منبع ظاہر فرمایا بُت پرست قدیم سے یہ بھی خیال کرتے تھے کہ خدا کی اصولی صفات یعنی جو اصل جڑ تمام صفات کی ہیں وہ صرف چار ہیں.پیدا کرنا پھر مناسب حال سامان عطا کرنا.پھر ترقی کے لئے عمل کرنے والوں کی مدد کرنا پھر آخر میں جزاسزا دینا اور وہ ان چار صفات کو
جم لکھا ہے مگر اس جگہ فرشتوں سے یہ چار دیوتے مراد ہیں یعنی اکاش اور سورج وغیرہ جو خدا تعالیٰ کی چار صفتوں کو اٹھا رہے ہیں.یہ وہی صفتیں ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا گیا ہے.اس فلسفہ کا وید کو بھی اقرار ہے مگر یہ لوگ خوب وید دان ہیں جو اپنے گھر کے مسئلہ سے بھی انکار کررہے ہیں.چار دیوتاؤں کی طرف منسوب کرتے تھے.اسی بناپر نوح کی قو م کے بھی چار ہی دیوتا تھے اور انہیں صفات کے لحاظ سے عرب کے بت پرستوں نے بھی لات.منات و عزیٰ اور ہبل بنا رکھے تھے.ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ چار دیوتا بالارادہ دنیا میں اپنے اپنے رنگوں میں پرورش کررہے ہیں اور ہمارے شفیع ہیں اور ہمیں خدا تک بھی یہی پہنچاتے ہیں.چنانچہ یہ مطلب آیت لِيُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى (الزّمر:۴) سے ظاہر ہے.اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں وید بھی ان چاروں دیوتاؤں کی مَہما اور اُستت کی ترغیب دیتا ہے اور وید میں اگرچہ اور دیوتاؤں کا بھی ذکر ہے لیکن اصولی دیوتے جن سے اور سب دیوتے پیدا ہوئے ہیں یا یوں کہو کہ ان کی شاخ ہیں وہ چار ہی ہیں کیونکہ کام بھی چار ہی ہیں.پس قرآن شریف کی پہلی غرض یہی تھی کہ وید وغیرہ مذاہب کے دیوتاؤں کو نیست و نابود کرے اور ظاہر کرے کہ یہ لوگوں کی غلطیاں ہیں کہ اور اور چیزوں کو دیوتا یعنی رَبُّ النَّوع بنا رکھا تھا بلکہ یہ چار صفتیں خاص خدا تعالیٰ کی ہیں اور ان چار صفتوں کے عرش کو خادموں اور نوکروں کی طرح یہ بیجان دیوتے اُٹھا رہے ہیں چنانچہ کسی نے کہا ہے؎ حمد را باتو نسبتے است درست بر در ہر کہ رفت بردرتست پس یہ اعتراض کہ جو آریہ صاحبان ہمیشہ سے کرتے ہیں یہ تو درحقیقت ان کے ویدوں پر اعتراض ہے کیونکہ مسلمان تو اس خدا کی پرستش کرتے ہیں جو مخدوم ہے مگرآریہ صاحبان ان جھوٹے دیوتاؤں کو خدا سمجھ رہے ہیں جو خادموں اور نوکروں چاکروں کی طرح خدا تعالیٰ کی صفاتِ اربعہ کا عرش اپنے سر پر اٹھا رہے ہیں بلکہ وہ تو چاکروں کے بھی چاکر ہیں کیونکہ ان پر اور طاقتیں بھی مسلّط ہیں جو ملائک کے نام سے موسوم ہیں جو ان دیوتاؤں کی طاقتوں کو قائم رکھتے ہیں جن میں سے زبانِ شرع میں کسی کو جبرئیل کہتے ہیں اور کسی کو میکائیل اور کسی کو عزرائیل اور کسی کو اسرافیل اور سناتن دھرم والے اس قسم کے ملائک کے بھی قائل ہیں اور ان کا نام جَم رکھتے ہیں.ترجمہ شعر.ہر قسم کی تعریف کو تیرے ساتھ پختہ تعلق ہے کوئی کسی کے دروازہ پر بھی جائے تیرے ہی دروازہ پر ہے.
غرض وید کے یہ چار دیوتے یعنی اکاش.سورج.چاند.دھرتی.خدا کے عرش کو جو صفت ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مالک یوم الدین ہے اٹھارہے ہیں.اور فرشتہ کا لفظ قرآن شریف میں عام ہے ہر ایک چیز جو اس کی آواز سنتی ہے وہ اس کا فرشتہ ہے.پس دنیا کا ذرّہ ذرّہ خدا کا فرشتہ ہے کیونکہ وہ اس کی آواز سنتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اگر ذرّہ ذرّہ اُس کی آواز سُنتا نہیں تو خدا نے زمین آسمان کے اجرام کو کس طرح پیدا کرلیا.اور یہ استعارہ جو ہم نے بیان کیا ہے اس طرح خدا کے کلام میں بہت سے استعارات ہیں جو نہایت لطیف علم اور حکمت پر مشتمل ہیں.اگر اب بھی کوئی شخص اپنی ناسمجھی سے باز نہ آوے تو وہ کوئی اعتراض منتخب کرکے اسلام پر پیش کرے اور پھر انسانیت اور تحمل سے اس کا جواب سُنے.ورنہ ایسے اعتراضات سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ معترض حقیقت سے بے خبر اور دل اس کا تعصب سے پُر اور غرض اس کی محض تحقیر ہے.دین ایک علم ہے اور اپنے اندر اسرار رکھتا ہے.کیا لازم ہے کہ اس طرح پر افترا کے طور پر اعتراض کئے جائیں ورنہ مسلمان بوجہ اولیٰ کہہ سکتے ہیں کہ جن خداؤں کو وید نے پیش کیا ہے وہ تو یہی ہیں کہ سورج.چاند.آگ.پانی زمین وغیرہ مخلوق چیزیں یہ سب محدود اور مخلوق اور بے جان ہیں.اس لئے آریہ صاحبوں کا پرمیشر نہ صرف محدود بلکہ بے جان چیز ہے اسی لئے ان کی آواز نہیں سُن سکتااور نہ جواب دے سکتا ہے.پھر جس پرمیشر نے کچھ پیدا ہی نہیں کیا اس کا محدود ہونا تو بہرحال ماننا پڑے گا کیونکہ اس طرح پر سمجھ لوکہ روحوںاورپرمانواورپرمیشرسے گویاایک شہر آبادہے.جس کے ایک محلہ میں تو اَرواح یعنی جیو رہتے ہیں اور دوسرے محلہ میں پرمانو یعنی ذرّاتِ اجسام رہتے ہیں اور تیسرے محلہ کے کونے میں پرمیشر رہتا ہے کیونکہ جو چیزیں انادی اور اپنا اپنا وجود مستقل رکھتی ہیں ان میں پرمیشر دھنس نہیں سکتا.کیا تم سرب بیاپک ہو سکتے ہو.پس سوچ کر دیکھو کہ انادی اور غیر مخلوق ہونے کی حیثیت سے تم میں اور پرمیشر میں کیا فرق ہے پس وہ کیونکر غیر میں دھنس جائے گا.پس خواہ مخواہ تمہاراپرمیشر محدود ہوگیا اور بوجہ محدود ہونے کے علم بھی محدود ہوگیا مگر اس خدا کو کون محدود کہہ سکتا ہے جس کو قرآن شریف نے پیش کیا ہے جس کی نسبت وہ کہتا ہے کہ ہر ایک جان کی وہی جان ہے.
جس کے ساتھ وہ زندہ ہے اور ذرّہ ذرّہ اس کے ہاتھ سے نکلا اور اسی کے سہارے سے موجود ہے اور سب چیز پر وہ محیط ہے کیونکہ ہر ایک چیزاسی سے نکلی ہے.نادان انسان جو تعصب سے بھرا ہوا ہوتا ہے.ایک بات اپنے منہ سے نکالتاہے اور کبھی ارادہ نہیں رکھتا کہ اس کا فیصلہ کرے.یہی آریہ صاحبان کا حال ہے گویا وہ اس دنیا میں ہمیشہ رہیں گے ورنہ ہم کہتے ہیں کہ اگر تم قرآن شریف کی ایک بات کو بھی ردّ کر سکو تو جو تاوان چاہو ہم پر لگالو خواہ تم تمام جائداد ہماری لے لو.مگر کیا کسی کی نیت ہے کہ آرام سے اور آہستگی سے جیسا کہ عدالت میں مقدمات فیصلہ پاتے ہیں کسی چیز کا فیصلہ کرے ہرگز نہیں پس صبر کرو جب تک خدا ہمارا تمہارا فیصلہ کرے.(۲) ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ فرشتے خدائے تعالیٰ کو جاکرنیکی بدی کی خبر دیتے ہیں اور اس وقت تک وہ بے خبر ہوتا ہے.الجواب:- اس کا جواب یہ ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَورنہ کھول کر دکھلاؤ کہ کہاں قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مَیں مخلوق کے حال سے بے خبر ہوںجب تک کوئی فرشتہ مجھے خبر نہ دے.وہ تو بار بار قرآن شریف میں کہتا ہے کہ ذرّہ ذرّہ کی مجھے خبر ہے.ایک پتہ بھی میرے حکم کے بغیر نہیں گرتا.میں تعجب کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کی روحیں ہیں کہ دلیری سے اس قدر افترا کرتے ہیں.سارا قرآن اس بات سے بھرا ہوا ہے کہ خدا ہر ایک چیز کا بالذات علم رکھتا ہے.پس ہم اس افترا کا کیا نام رکھیں کہ گویا مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا کو کچھ بھی اپنی مخلوق کی خبر نہیں جب تک فرشتے جاکر رپورٹ نہ دیں.(۳) ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا پہلے کچھ مدت تک بیکار رہا ہے کیونکہ دنیا ہمیشہ سے نہیں.الجواب:- یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان کے پیدا کرنے سے پہلے خدا بیکار تھا بلکہ وہ بار بار قرآن شریف میں کہتا ہے کہ مَیں قدیم سے خالق ہوں مگر اس بات کی تفصیل کہ وہکس کس مخلوق کو پیدا کرتا رہا ہے یہ امر انسان کے احاطۂ اقتدار سے باہر ہے.ہم قرآن کی رُو
سے ایمان رکھتے ہیں کہ وہ کبھی معطل نہیں رہا مگر اس کی تفصیل کو ہم نہیں جانتے.ہمیں معلوم نہیں کہ اس نے کتنی مرتبہ اس دنیا کو بنایا اور کتنی مرتبہ ہلاک کیا یہ لمبا اور غیر متناہی علم خدا کو ہے کسی دفتر میں یہ سما نہیں سکتا ہاں عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ صرف چند مدت سے خدا نے دنیا کو پیدا کیا ہے.پہلے کچھ نہ تھا اور قدیم سے وہ خالق نہیں ہے.سو یہ اعتراض ان پر کرو اور پھر آپ لوگوں کو شرم کرنا چاہیے کہ ہم تو مانتے ہیں کہ ہمارا خدا قدیم سے ذرّاتِ اجسام پیدا کرتا رہا اور قدیم سے روحیں بھی پیدا کرتا رہا مگر آپ لوگ تو قطع نظر قدیم کے ایک مرتبہ کے لئے بھی خدا ئے تعالیٰ کی ان صفات کو نہیں مانتے پھر کیوں اپنے گھر سے بے خبر رہ کر اسلام پر محض افترا کے طور پر اعتراض کر دیتے ہیں ورنہ حیا اور شرم کرکے قرآن شریف سے ہمیں دکھلادو کہ کہاں لکھا ہے کہ مَیں قدیم سے خالق نہیں ہوں مگر آپ کا پرمیشر تو بجز معمار یا نجار کی حیثیت سے زیادہ مرتبہ نہیں رکھتا اور کیونکر معلوم ہوا کہ وہ عالم الغیب ہے اس کا وید میں کیا ثبوت ہے ذرا ہوش سے جواب دو.(۴) ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ مسلمانوں کا خدا متغیر ہے کبھی کوئی حکم دیتا ہے کبھی کوئی.الجواب:- خدا آپ لوگوں کو ہدایت دے.قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ خدا متغیر ہے بلکہ یہ لکھا ہے کہ انسان متغیر ہے اس لئے اس کے مناسب حال خدا اس کے لئے تبدیلیاں کرتا ہے.جب بچہ پیٹ میں ہوتا ہے تو صرف اس کو خون کی غذا ملتی ہے اور جب پیدا ہوتا ہے تو ایک مدت تک صرف دودھ پیتا ہے اور پھر بعد اس کے اناج کھاتا ہے اور خدا ئے تعالیٰ تینوں سامان اس کے لئے وقتاً فوقتاً پیدا کردیتا ہے.پیٹ میں ہونے کی حالت میں پیٹ کے فرشتوں کو جو اندرونی ذرات ہیں حکم کر دیتا ہے کہ اس کی غذا کے لئے خون بناویں اور پھر جب پیدا ہوتا ہے تو اس حکم کو منسوخ کر دیتا ہے تو پھر پستان کے فرشتوں کو جو اس کے ذرات ہیں حکم کرتا ہے جو اس کے لئے دودھ بناویں اور جب وہ دودھ سے پرورش پاچکتا ہے تو پھر اس حکم کو بھی منسوخ کر دیتا ہے تو پھر زمین کے فرشتوں کو جو اس کے ذرات ہیں حکم کرتا ہے جو اس کے لئے اخیر مدت تک اناج اور پانی پیدا کرتے رہیں.پس ہم مانتے ہیں کہ ایسے تغیر خدا کے احکام میں ہیں خواہ بذریعہ قانونِ قدرت اور خواہ بذریعہ شریعت ــ.مگر اس سے
خدا میں تغیر کونسا لازم آیا.شرم! شرم!! شرم!!! مگر افسوس کہ وید کی رُو سے خدا ان تغیرات کامالک نہیں بن سکتا کیونکہ وید تو خدا کے فرشتوں کا منکر ہے.پس کیونکر دنیا کے ذرّات اور رُوحوں کی قوتیں اس کی آواز سُن سکتی ہیں.علم طبعی اور ہیئت کا سلسلہ تبھی خدا کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب طبعی طور پر ہر ایک ذرہ مخلوقات کا خدا کا فرشتہ مان لیا جائے ورنہ فرشتوں کے انکار سے دہریہ بننا پڑے گا کہ جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے پرمیشر کو اس کا کچھ بھی علم نہیں اور نہ اس کی مرضی اور ارادہ سے ہورہا ہے مثلاً کانوں میں سونا اور چاندی اور پیتل اور تانبا اور لوہا طیار ہوتا ہے اور بعض کانوں میں سے ہیرے نکلتے ہیں اورنیلم پیدا ہوتا ہے اور بعض جگہ یا قوت کی کانیں ہیں اور بعض دریاؤںمیں سے موتی پیدا ہوتے ہیں اور ہر ایک جانور کے پیٹ سے بچہیا انڈہ پیدا ہوتا ہے.اب خدا نے تو قرآن شریف میں ہمیں یہ سکھلایا ہے کہ یہ طبعی سلسلہ خود بخود نہیں بلکہ ان چیزوں کے تمام ذرات خدا کی آوازسنتے ہیں اور اس کے فرشتے ہیں یعنی اس کی طرف سے ایک کام کے لئے مقر رشدہ ہیں.پس وہ کام اس کی مرضی کے موافق وہ کرتے رہتے ہیں.سونے کے ذرات سونا بناتے رہتے ہیں اور چاندی کے ذرات چاندی بناتے رہتے ہیں اور موتی کے ذرات موتی بناتے ہیں اور انسانی وجود کے ذرات ماؤں کے پیٹ میں انسانی بچہ طیّار کرتے ہیں اور یہ ذرات خود بخود کچھ بھی کام نہیں کرتے بلکہ خدا کی آواز سُنتے ہیں اور اس کی مرضی کے موافق کام کرتے ہیں اسی لئے وہ اس کے فرشتے کہلاتے ہیں اور کئی قسم کے فرشتے ہوتے ہیں یہ تو زمین کے فرشتے ہیں.مگر آسمان کے فرشتے آسمان سے اپنا اثر ڈالتے ہیں جیسا کہ سورج کی گرمی بھی خدا کا ایک فرشتہ ہے جو پھلوں کاپکانا اور دوسرے کام کرتا ہے اور ہوائیں بھی خدا کے فرشتے ہیں جو بادلوں کو اکٹھے کرتے اور کھیتوں کو مختلف اثر اپنے پہنچاتے ہیں اور پھر ان کے اوپر اور بھی فرشتے ہیں جو ان میں تاثیر ڈالتے ہیں.علوم طبعی اس بات کے گواہ ہیں کہ فرشتوں کا وجود ضروری ہے اور ان فرشتوں کو ہم بچشمِ خود دیکھ رہے ہیں.اب بقول آریہ صاحبان ویدان فرشتوں کا منکر ہے.پس اس طور سے وہ اس طبعی سلسلہ سے انکاری اور دہریہ مذہب کی بنیاد ڈالتا
ہے کیا یہ امر بدیہی اور مشہود و محسوس نہیں کہ ہر ایک ذرہ ذراتِ اجسام میں سے ایک کام میں مشغول ہے.یہاں تک کہ شہد کی مکھیاں بھی خدا کی وحی سے ایک کام کررہی ہیں.پس وید اگر اس سلسلہ سے منکر ہے تو پھر اس کی خیر نہیں.اس صورت میں وہ تو دہریہ مذہب کا حامی ہوگا.اگر یہی وید ودیا کا نمونہ ہے تو شاباش خوب نمونہ پیش کیا.(۵) ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ شفاعت پر بھروسہ شرک ہے.الجواب :- قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. ۱؎ یعنی خدا کے اذن کے سوا کوئی شفاعت نہیں ہو سکتی.قرآن شریف کی رُو سے شفاعت کے معنے یہ ہیں کہ ایک شخص اپنے بھائی کے لئے دُعا کرے کہ وہ مطلب اس کو حاصل ہو جائے.یا کوئی بلا ٹل جائے.پس قرآن شریف کا حکم ہے کہ جو شخص خدا ئے تعالیٰ کے حضور میں زیادہ جھکا ہوا ہے وہ اپنے کمزور بھائی کے لئے دُعا کرے کہ اس کو وہ مرتبہ حاصل ہو یہی حقیقتِ شفاعت ہے.سو ہم اپنے بھائیوں کے لئے بیشک دُعا کرتے ہیں کہ خدا ان کو قوت دے اور ان کی بلا دور کرے اور یہ ایک ہمدردی کی قسم ہے.پس اگر وید نے اس ہمدردی کو نہیں سکھلایا اور وید کی رُو سے ایک بھائی دوسرے کے لئے دُعا نہیں کر سکتا تو یہ بات وید کے لئے قابل تعریف نہیں بلکہ ایک سخت عیب ہے.چونکہ تمام انسان ایک جسم کی طرح ہیں اس لئے خدا نے ہمیں بار بار سکھلایا ہے کہ اگرچہ شفاعت کو قبول کرنا اس کا کام ہے مگر تم اپنے بھائیوں کی شفاعت میں یعنی ان کے لئے دُعا کرنے میں لگے رہو اور شفاعت سے یعنی ہمدردی کی دُعا سے باز نہ رہو کہ تمہارا ایک دوسرے پر حق ہے.اصل میں شفاعت کا لفظ شفع سے لیا گیا ہے.شفع جفت کو کہتے ہیں جوطاق کی ضد ہے.پس انسان کو اس وقت شفیع کہا جاتا ہے جبکہ وہ کمال ہمدردی سے دوسرے کا جفت ہو کر اس میں فنا ہو جاتا ہے اور دوسرے کے لئے ایسی ہی عافیت مانگتا ہے جیسا کہ اپنے نفس کے لئے.اور یاد رہے کہ کسی شخص کا دین کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ شفاعت کے رنگ میں ہمدردی اس میں پیدا نہ ہو بلکہ
دین کے دو ہی کامل حصّے ہیں.ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دُعا کرنا جس کو دوسرے لفظوں میں شفاعت کہتے ہیں.(۶) خدا کی کوئی آواز دنیا میں سنائی نہیں دیتی.الجواب:- تعجب کہ باوجودیکہ پنڈت لیکھرام کی موت سے تمام آریہ صاحبوں نے ۶؍مارچ کے دن خدا ئے تعالیٰ کی آواز سن لی.اور خدا نے دنیا میں اشتہار دے دیا کہ لیکھرام بوجہ اپنی بدزبانیوں کے چھ۶ برس تک کسی کے ہاتھ سے مارا جائے گا وہ آواز نہ صرف ہم نے سُنی بلکہ ہمارے ذریعہ سے سب آریہ صاحبوں نے سُنی مگر کیا اب بھی ثابت نہ ہوا کہ خدا کی آواز دنیا کو سنائی دیتی ہے.آپ صاحبوں میں سے پکّے آریہ لالہ شرم پت اور لالہ ملاوا مل ساکن قادیان بہت سی خدا کی آوازوں کے گواہ ہیں.اگر وہ انکار کریں گے اور قوم کو خدا پر مقدم رکھیں گے اور جھوٹ بولیں گے تو شاید کوئی اور آواز آسمانی سُن لیں گے.المشــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۴۵۲ تا ۴۶۴)
پگٹ اور ڈوئی کے متعلق پیشگوئیاں زمین جب گناہ اور شرک سے آلودہ ہو جاتی ہے اور اس حقیقت سے بے خبر ہو جاتی ہے جو انسان کی پیدائش کیاصل غرض ہے.تب خدا کی رحمت تقاضا کرتی ہے کہ ایک کامل الفطرت انسان کو اپنی ذات سے پاک تعلق بخش کر اور اپنے مکالمہ سے اس کو مشرف کر کے اور اپنی محبت میں اس کو انتہا تک پہنچا کر اُس کے ذریعہ سے دوبارہ زمین کو پاک و صاف کرے.انسان خدا تو نہیں ہو سکتا مگر بڑے بڑے تعلقات اس سے پیدا کر لیتا ہے جب وہ بالکل خدا کے لئے ہو جاتا ہے اور اپنے تئیں صاف کرتا کرتا ایک مصفاّ آئینہ کی طرح بن جاتا ہے.تب اس آئینہ میں عکسی طور پر خدا کا چہرہ نمودار ہوتا ہے.اس صورت میں وہ بشری اور خدائی صفات میں ایک مشترک چیز بن جاتا ہے.اور کبھی اُس سے صفات الٰہیہ صادر ہوتی ہیں کیونکہ اس کے آئینہ وجود میں خدا کا چہرہ منعکس ہے اور کبھی اس سے بشری صفات صادر ہوتی ہیں.کیونکہ وہ بشر ہے اور ایسے انسانوں کو دیکھنے والے کبھی دھوکہ کھا کر اور صرف ایک پہلو کا کرشمہ دیکھ کر ان کو خدا سمجھنے لگتے ہیں اور دنیا میں مخلوق پرستی اسی وجہ سے آئی ہے اور صدہا انسان اسی دھوکہ سے خدا بنائے گئے ہیں.مگر ہمارے اس زمانہ میں جس قدر عیسائیوں کا وہ فرقہ جو حضرت مسیح ؑکو خدا جانتا ہے اس دھوکہ میں مبتلا ہے اس قدر کوئی اور قوم مبتلا نہیں.مسیح سے صدہا برس پہلے جو لوگ خدا بنائے گئے تھے جیسے راجہ رام چندر.راجہ کرشن.گوتم بدھ.ہمارے اس زمانہ میں ان کے پیرومتنبہ ہوتے جاتے ہیں
کہ یہ ان کی غلطیاں تھیں.مگر افسوس حضرت مسیح کے پیرو اب تک اس زمانہ میں بھی خواہ نخواہ خدائی کا خطاب ان کو دے رہے ہیں.اگرچہ اس خیال کا بطلان ایسا بدیہی تھا کہ کسی دلیل کی ضرورت نہ تھیں.مگر افسوس کہ عیسائی ابھی تک اس زمانہ کی ہوا سے بھی دور بیٹھے ہیں.بلکہ بعض لوگوں نے جب دیکھا کہ ایسے لغو خیالات کا زمانہ ہی دن بدن مخالف ہوتا جاتا ہے تو انہوں نے اپنے معمولی طریقوں سے مایوس ہو کر یہ ایک نیا طریق اختیار کیاکہ کوئی ان میں سے الیاس بن گیا اور کسی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں اور میں ہی خدا ہوں.اس مجمل فقرہ سے مراد میری یہ ہے کہ لنڈن میں تو مسٹرپگٹ نے خدائی اور مسیحیت کا دعویٰ کیا اور امریکہ میں مسٹرڈوئی الیاس بن بیٹھے.اور پیشگوئی کر دی کہ مسیح ابن مریم پچیس۲۵ برس تک دنیا میں آجائے گا.دونوں میں فرق یہ ہے کہ ڈوئی نے تو بزدلی دکھائی اور الیاس بننے میں بھی اپنی پردہ دری سے ڈرتا رہا.اور مسیح نہ بنا بلکہ مسیح کا خادم بنا.اور پگٹنے بڑی ہمت دکھلائی کہ خود مسیح بن گیا.نہ صرف مسیح بلکہ خدا ہونے کا بھی دعویٰ کیا.اب لنڈن والوں کو کسی بیماری.آفت مصیبت کا کیا اندیشہ ہے جن کے شہر میں خدا اُترا ہوا ہے مگر میں نے سنا ہے کہ لنڈن میں کچھ یہودی بھی رہتے ہیں اس لئے بے شک یہ اندیشہ ہے کہ ان کو طبعاً یہ خیال پیدا ہو کہ یہ تو وہی مسیح ہے جو صلیب سے بوجہ غشی کے غلطی کے ساتھ زندہ اُتاراگیا اور پھر موقع پاکر مشرقی بلاد کی طرف بھاگ گیا.آخر اب ایسے طور سے اس کو صلیب دیں کہ کام تمام ہو جائے اور پھر کسی طرف بھاگ نہ سکے اور ساتھ ہی یہ فکر بھی ہے کہ مبادا عیسائیوں کو بھی خیال آجائے کہ پہلا کفارہ پرانا اور بودہ ہو چکا ہے اور شراب خوری اور فسق و فجور کی کثرت نے ثابت بھی کر دیا ہے کہ اس کفارہ کی تاثیر جاتی رہی ہے.اس لئے اب ایک نئے خون کی ضرورت ہے.سو میں ہمدردی سے کہتا ہوں کہ مسٹرپگٹ کو ان ہردو فرقوں سے چوکس رہنا چاہیے.القصّہ ان دنوں میں جبکہ زمین میں ایسے ایسے جھوٹے اور ناپاک دعوے کئے گئے ہیں.اس لئے خدا نے جو زمین پر بدی اور ناپاکی کا پھیلنا پسند نہیں کرتا مجھے اپنا مسیح کر کے بھیجا تا وہ زمین کی تاریکی کو اپنی توحید سے روشن کرے اور شرک کی نجاست سے دنیا کو َمخلصی بخشے.پس
میں وہی مسیح موعود ہوں جو ایسے وقت میں آنے والا تھا اور میں صرف اپنے منہ سے نہیں کہتا کہ میں مسیح موعود ہوں بلکہ وہ خدا جس نے زمین و آسمان بنایا میری گواہی دیتا ہے.اس نے اس گواہی کے پورا کرنے کے لئے صدہا نشان میرے لئے ظاہر کئے اور کر رہا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس کا فضل اس مسیح سے مجھ پر زیاہ ہے جو مجھ سے پہلے گذر چکا ہے.میرے آئینہ میں اس کاچہرہ اس سے زیادہ وسیع طور پر منعکس ہوا ہے جو اس کے آئینہ میں ہوا تھا.اگرمیں صرف اپنے منہ سے کہتا ہوں تو میں جھوٹا ہوں ‘ لیکن اگر وہ میرے لئے گواہی دیتا ہے تو کوئی مجھے جھوٹا قرار نہیں دے سکتا.میرے لئے اس کی ہزارہا گواہیاں ہیں جن کو میں شمار نہیں کر سکتا مگر منجملہ ان کے ایک یہ بھی گواہی ہے کہ یہ دلیردروغ گو یعنی پگٹ جس نے خدا ہونے کا لنڈن میں دعویٰ کیا ہے وہ میری آنکھوں کے سامنے نیست و نابود ہو جائے گا.دوسری یہ گواہی ہے کہ مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاً یا اشارۃً میرے مقابلہ پر کھڑا ہو گا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دُکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑدے گا.یہ دونشان ہیں جو یورپ اور امریکہ کے لئے خاص کئے گئے ہیں.کاش وہ ان پر غور کریں اور ان سے فائدہ اٹھاویں.یاد رہے کہ اب تک ڈوئی نے میری اس درخواست مباہلہ کا کچھ جواب نہیں دیااور نہ اپنے اخبار میں کچھ اشارہ کیا ہے.اس لئے میں آج کی تاریخ سے جو ۲۳؍اگست ۱۹۰۳ء ہے.اس کو پورے سات ۷ماہ کی اور مہلت دیتا ہوں اگر وہ اس مہلت میں میرے مقابلہ پر آگیا اور جس طور سے مقابلہ کرنے کی میں نے تجویز کی ہے جس کو میں شائع کر چکا ہوں اس تجویز کو پورے طور پر منظور کر کے اپنے اخبار میں عام اشتہار دیدیا تو جلدتر دنیادیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہو گا.میں عمر میں ستر۷۰ برس کے قریب ہوں اور وہ جیسا کہ بیان کرتا ہے پچاس ۵۰برس کا جوان ہے جو میری نسبت گویا ایک بچہ ہے لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پروا نہیں کی کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہو گا.بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک اور احکم الحاکمین ہے وہ اس
کا فیصلہ کرے گا اور اگر مسٹرڈوئی اس مقابلہ سے بھاگ گیا.تو دیکھو آج میں تمام امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پرگواہ کرتا ہوں کہ یہ طریق اس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہیے کہ یہ تمام دعویٰ اس کا الیاس بننے کا محض زبان کا مکر اور فریب تھا اور اگرچہ وہ اس طرح سے موت سے بھاگنا چاہے گا لیکن درحقیقت ایسے بھاری مقابلہ سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے پس یقین سمجھو کہ اس کے صیہون پر جلدتر ایک آفت آنے والی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ضرور ایک صورت اس کو پکڑلے گی.اب میں اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اے قادر اور کامل خدا جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور ظاہر ہوتا رہے گا.یہ فیصلہ جلد کر کہ پگٹاور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے.کیونکہ اس زمانہ میں تیرے عاجز بندے اپنے جیسے انسانوں کی پرستش میں گرفتار ہو کر تجھ سے بہت دُور جا پڑے ہیں.سو اے ہمارے پیارے خدا ان کو اس مخلوق پرستی کے اثر سے رہائی بخش اور اپنے وعدوں کو پورا کر جو اس زمانہ کے لئے تیرے تمام نبیوں نے کئے ہیں.ان کانٹوں میں سے زخمی لوگوں کو باہر نکال اور حقیقی نجات کے سرچشمہ سے ان کو سیراب کر.کیونکہ سب نجات تیری معرفت اور تیری محبت میں ہے.کسی انسان کے خون میں نجات نہیں.اے رحیم کریم خدا! ان کی مخلوق پرستی پربہت زمانہ گزر گیا ہے.اب ان پر تو رحم کر اور ان کی آنکھیں کھول دے.اے قادر اور رحیم خدا سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے.اب تو ان بندوں کو اس اسیری سے رہائی بخش.اور صلیب اور خون مسیح کے خیالات سے ان کو بچالے.اے قادرکریم خدا! ان کے لئے میری دعا سن اور آسمان سے ان کے دلوں پر ایک نورنازل کر تا وہ تجھے دیکھ لیں.کون خیال کر سکتا ہے کہ وہ تجھے دیکھیں گے.کس کے ضمیر میں ہے کہ وہ مخلوق پرستی کو چھوڑ دیں گے اور تیری آواز سنیں گے.پر اے خدا تو سب کچھ کر سکتا ہے.تو نوح کے دنوں کی طرح ان کو ہلاک مت کر کہ آخر وہ تیرے بندے ہیں بلکہ ان پر رحم کر اور ان کے دلوں کو سچائی کے قبول کرنے کے لئے کھول دے.ہر ایک قفل کی تیرے ہاتھ میں کنجی ہے.جبکہ تو نے مجھے اس کام کے لئے بھیجا ہے
سو میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں نامرادی سے مروں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جو کچھ اپنی وحی سے مجھے تو نے وعدے دیئے ہیں ان وعدوں کو تو ضرور پورا کرے گا.کیونکہ تو ہمارا خدا صادق خدا ہے.اے میرے رحیم خدا اس دنیا میں میرا بہشت کیا ہے.بس یہی کہ تیرے بندے مخلوق پرستی سے نجات پا جائیں سو میرا بہشت مجھے عطا کر.اور ان لوگوں کے مردوں اور ان لوگوں کی عورتوں اور ان کے بچوں پر یہ حقیقت ظاہر کر دے کہ وہ خدا جس کی طرف توریت اور دوسری پاک کتابوں نے بلایا ہے اس سے وہ بے خبر ہیں.اے قادر کریم میری سن لے کہ تمام طاقتیں تجھ کو ہیں.آمین ثم آمین‘‘ (منقول از ریویو آف ریلیجنزاردو جلد۶ نمبر۴ ماہ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۴۲ تا ۱۴۵) ------------------------------ (نوٹ از مرتب) حضور کے اس اشتہار کا بھی امریکہ کے اخباروں میں بڑا چرچا ہوا.آخر اس اشتہار کے جواب میں ڈوئی اشاروں اشاروں سے میدانِ مقابلہ میں آہی گیا.اور ۲۶؍ستمبر ۱۹۰۳ء کو اپنے اخبار میں لکھا کہ ’’لوگ مجھے بعض اوقات کہتے ہیں کہ کیوں تم فلاں فلاں بات کا جواب نہیں دیتے کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان کیڑوں مکوڑوں کا جواب دوں گا.اگر میں اپنا پائوں ان پررکھوں تو ایک دم میں ان کو کچل سکتا ہوں مگر میں ان کو حق دیتا ہوں کہ میرے سامنے سے دور چلے جائیں اور کچھ دن اور زندہ رہ لیں.‘‘ اور ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۳ء کو لکھا.’’اگر میں خدا کی زمین پر خدا کا پیغمبر نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں.‘‘ (بحوالہ ریویو آف ریلیجنز اردو ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۵.۱۴۶) اس کے بعد ڈوئی کا جو عبرتناک انجام ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان کے مطابق اس پر خدائی قہری تجلی کے جو آثار نمایاں ہوئے ان کا مختصر تذکرہ بھی سن لیجیے.(۱) اس کی پیدائش ناجائز نکلی.اور ولد الحرام ثابت ہوا.اخبار’’نیویارک ورلڈ‘‘میں ڈوئی کے سات
خطوط شائع ہوئے جو اس نے اپنے باپ ’’جان مرے ڈوئی‘‘ کو اپنی ناجائز ولادت کے بارے میں لکھے تھے جب ملک میں اس کا عام چرچا ہونے لگا.تو خود ڈوئی نے ۲۵؍ستمبر ۱۹۰۴ء کو اعلان کیا کہ وہ چونکہ ڈوئی کا بیٹا نہیں اس لئے ڈوئی کا لفظ اس کے نام کے ساتھ ہرگز استعمال نہ کیا جائے.(رسالہ انڈی پنڈنٹ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء بحوالہ الیگزنڈر ڈوئی کا عبرتناک انجام صفحہ ۵۲تا۵۷) (۲) ایک موقع پر جبکہ اس نے اپنا اثرورسوخ تمام امریکہ میں پھیلانے کے لئے نیویارک میں متواتر دو ہفتے جلسے کرنے کا ارادہ کیا اور لاکھوں ڈالر کے خرچ سے اس کا انتظام کیا گیا.ڈوئی ایک مسحورکن مقرر کی شہرت رکھتا تھا.لیکن نیویارک میں جلسہ شروع کرتے وقت وہ کوئی مؤثر تقریر نہ کر سکا اور لوگ جلسہ سے باہر جانے شروع ہو گئے وہ بہت چلاّیا کہ بیٹھ جائو لیکن کسی نے نہ سنی اور جلسے سخت ناکام ہو گئے.چنانچہ نیویارک امریکن نے اپنی اشاعت ۱۹؍اکتوبر ۱۹۰۳ء میں لکھا:.’’نیویارک ایلیا کے لئے واٹر لو کا میدان بن گیا.‘‘ (۳) یکم جنوری ۱۹۰۴ء کو ڈوئی دنیا کے سفر پرروانہ ہوا تاکہ آسٹریلیااور یورپ میں کامیابی حاصل کرے.مگر اس نے اپنی تقریروں میں بعض ایسی باتیں کہیں جن کی وجہ سے وہ آسٹریلیا میں ناکام ہو گیا اورانگلستان میں اس کو جگہ دینے سے انکار کر دیا گیا.آخر اسے وہاں سے واپس آنا پڑا.واپسی پر اپنے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی ہمراہ لایا.جس پر لوگوں کو اعتراض ہوا.پہلے تو اس نے تعدد ازدواج کی خوبی بیان کر کے اپنے پر سے الزام ہٹانے کی کوشش کی.مگر مرید اس کی طرف مائل نہ ہوئے.تب اس نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی تاکہ اس دوشیزہ کے لئے راستہ صاف ہو جائے.بیوی اور بیٹا طلاق کی وجہ سے اس سے الگ ہو گئے.(۴) ستمبر۱۹۰۵ء کی آخری اتوار کو ڈوئی نے صیحون میں ایک غیر معمولی جلسہ کا انتظام کیا اس تقریب کے خاتمہ پر چند افتتاحی الفاظ کہنے کے لئے ڈوئی جب سامنے آیا تو عین اُس وقت اُس پر فالج گرا اور وہ گرنے ہی لگا تھا کہ اُس کے دو مرید اسے سہارا دے کر گھسیٹتے ہوئے اُسے ہال سے باہر لے گئے.فالج کے اس شدید حملے کے ابھی اثرات چل ہی رہے تھے کہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۵ء کو اس پر دوبارہ فالج گرا.آخر مجبور ہو کر اسے صیحون سے نکلنا پڑا اور علاج اور صحت کے لئے گرم علاقہ جزیرہ کی طرف چلا گیا.
’’وہ شہر صیحون جس کے متعلق ڈوئی کا دعویٰ تھا کہ مسیح اسی شہر میں نازل ہو گا اور اس کے لئے اس نے ۶۵۰۰ ایکڑ زمین خریدی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اس کا ڈیزائن دس لاکھ آدمی کی سکونت گاہ ہو گا اور اسے اس کا بانی دنیا کا دارالحکومت بنانے کا ارادہ رکھتا ہے.‘‘ (رسالہ منسی میگزین (Munseys Magazine) بحوالہ عبرتناک انجام صفحہ۴۰) صیحون سے باہر قدم رکھتے ہی اس کے مریدوں میں بغاوت پھیل گئی.تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ نہایت ناپاک اور سیاہ کار انسان ہے.مریدوں کو شراب پینے سے روکتا.مگر خود گھر میں شراب پیا کرتا تھا.بعض کنواری لڑکیوں سے اس کے ناجائز تعلقات ثابت ہوئے اور تقریباً پچاس لاکھ روپے کی خیانت بھی ثابت ہوئی.یہ رقوم بطور تحائف صیحون کی خوبصورت عورتوں کو دیا کرتا تھا.ڈوئی ان الزامات کی بریت ثابت نہ کر سکا.اس انکشاف سے اس کے خلاف نفرت انتہاء کو پہنچ گئی.اس کے اور بھی بہت سے جھوٹ اور غلط بیانیاں اور بددیانتیاں ثابت ہو گئیں.آخر وہ انتہائی ذلت دکھ اور بیماری کی حالت میں ۹؍مارچ ۱۹۰۷ء کی صبح کو مر گیا.اس کی موت سے چند دن پہلے ’’ہاربرزویکلی‘‘ (Harbour`s Weekly) نے اس کے آخری دنوں کی تصویر یوں کھینچی.’’ قدرت نے اس پر سے ترقی کے پنڈولم کو واپس گھما دیا ہے.اور وہ اپنے آپ پر قدرت سے بھی محروم ہو چکا ہے.شکاگو سے آمدہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص جو اس قدر لمبے عرصہ تک اتنی بیباکی کے ساتھ اپنے آپ کو ایلیاء سوم کہتا رہا.اب بے بسی کے ساتھ اپنے بسترمرگ پر پڑا ہے.وہ اس بات کے بالکل ناقابل ہے کہ اپنے آپ کو اِدھر سے اُدھر بھی ہلا سکے اور اس پر مجبور ہے کہ جہاں کہیں اس کا نیگرو نوکر اس کو ڈال دے وہاں پڑا رہے.‘‘ (عبرتناک انجام صفحہ ۹۳) رسالہ ’’انڈی پنڈنٹ‘‘ نے ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء کی اشاعت میں اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا.’’ وہ (ڈوئی) اپنی مذہبی اور مالی طاقت میں آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے کمال تک پہنچا.مگر پھر یک لخت نیچے آگرا.اس حال میں اس کی بیوی.اس کا لڑکا.اس کا چرچ سب اس کو چھوڑ چکے تھے.اس نے
اپنے مزعومہ پیغمبری مرتبہ کے لئے رنگارنگ کا ایسا لباس بنوایا ہوا تھا جو یوسف یا ہارون نے کبھی نہ پہنا ہو گا……… شہر صیہون کے لئے اور اپنی ذاتی شان و شوکت کے لئے اس نے ان اموال کو جو اس کی تحویل میں دیئے گئے تھے.ناجائز طور پر استعمال کیا.‘‘ انسائیکلوپیدیا آف برٹینیکا میں لکھا ہے:.’’اپریل ۱۹۰۶ء میں ڈوئی کے اقتدار کے خلاف شہر صیحون میں بغاوت ہو گئی.اور اس پر غبن اور تعدد ازدواج کا الزام لگایا گیا اور اس کی بیوی اور اس کے لڑکے کی رضامندی سے اسے معزول کر دیا گیا.اب ڈوئی کی صحت تباہ ہو چکی تھی اور وہ بدیہی طور پر پاگل ہو چکا تھا اس حالت میں اس پر فالج کا حملہ ہوا.جس کے باعث مارچ ۱۹۰۷ء میں وہ شہر صیحون میں مر گیا.‘‘ یہ تو ڈوئی کا انجام ہوا.اب پگٹ کے متعلق سنیے:.پگٹ لنڈن کا ایک پادری تھا.جس نے دعویٰ کیا کہ وہ مسیح موعود ہے.چند آدمی اس کے ساتھ ہو گئے.اس کا ایک ٹائپ شدہ اشتہار مفتی محمد صادق صاحب کے نام آیا تھا.مفتی صاحب نے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کردیا.تب حضور ؑنے ایک چھوٹا سا اشتہار صرف ایک صفحہ کا لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو دیا کہ اس کا انگریزی ترجمہ کر کے اور چھپوا کر ولایت بھیج دیں اس اشتہار میں حضور ؑ نے لکھا تھا کہ تمہارے دعویٰ کا اشتہار ہمارے سیکرٹری کے پاس پہنچا ہے.تم اس دعویٰ میں جھوٹے ہو.اگر طاقت رکھتے ہو تو میرا مقابلہ کرو.خدا نے مجھ کو بتایا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور اسلام سچا دین ہے.یہ اشتہار جب اس کو پہنچا تو اس نے خاموشی اختیار کر لی.اس اشتہار کو ولایت کے اخباروں نے بھی چھاپا.ان دنوں میں ایک عورت اس کے پاس رہتی تھی اس کے ساتھ اس کا تعلق ہو گیا.اور اس کی بدنامی کی خبریں اخباروں میں شائع ہوئیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اشتہار کے پہنچنے کے بعد وہ خاموش ہو گیا.اسی خاموشی میں ہی وہ فوت ہو گیا اور اس کی کوئی جماعت نہ بنی.(عبد اللطیف بہاولپوری)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ریویو آف ریلیجنز انگریزی کی توسیع اشاعت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک چونکہ ہماری تمام جماعت کو معلوم ہو گا کہ اصل غرض خدا تعالیٰ کی میرے بھیجنے سے یہی ہے کہ جو جو غلطیاں اور گمراہیاں عیسائی مذہب نے پھیلائی ہیں ان کو دُور کر کے دُنیا کے عام لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا جائے اور اس غرض مذکورہ بالا کو جس کو دوسرے لفظوں میں احادیثِ صحیحہ میں کسرِ صلیب کے نام سے یاد کیا گیا ہے، پورا کیا جائے.اس لئے اور انہیں اغراض کے پورا کرنے کے لئے رسالہ انگریزی جاری کیا گیا ہے.جس کا شیوع یعنی شائع ہونا امریکہ اور یورپ کے اکثر حصوں میں بخوبی ثابت ہو چکا ہے اور بہت سے دلوں پر اثر ہونا شروع ہو گیا ہے بلکہ امید سے زیادہ اس رسالہ کی شہرت ہو چکی ہے اور لوگ نہایت سرگرم شوق سے اس رسالہ کے منتظر پائے جاتے ہیں لیکن اب تک اس رسالہ کے شائع کرنے کے لئے مستقل سرمایہ کا انتظام کافی نہیں اگر خدانخواستہ یہ رسالہ کم توجہی اس جماعت سے بند ہو گیا تو یہ واقعہ اس سلسلہ کے لئے ایک ماتم ہو گا.اس لئے مَیں پورے زور کے ساتھ اپنی جماعت کے مخلص جوانمردوں کو اس طرف
توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رسالہ کی اعانت اور مالی امداد میں جہاں تک ان سے ممکن ہے اپنی ہمت دکھلاویں.دنیا جائے گذشتنی گذاشتنی ہے اور جب انسان ایک ضروری وقت میں ایک نیک کام کے بجا لانے میں پوری کوششیں نہیں کرتا تو پھر وہ گیا ہوا وقت ہاتھ نہیں آتا.اور خود مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سا حصہ عمر کا گذار چکا ہوں.اور الہام الٰہی اور قیاس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ باقی ماندہ تھوڑا سا حصہ ہے.پس جو کوئی میری موجودگی اور میری زندگی میں میری منشاء کے مطابق میری اغراض میں مدد دے گا، میں امید رکھتا ہوں کہ وہ قیامت میں بھی میرے ساتھ ہو گا.اور جو شخص ایسی ضروری مہمات میں مال خرچ کرے گا مَیں امید نہیں رکھتا کہ اس مال کے خرچ سے اس کے مال میں کچھ کمی آ جائے گی بلکہ اس کے مال میں برکت ہو گی.پس چاہیے کہ خدا تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور جوش اور ہمت سے کام لیں کہ یہی وقت خدمت گذاری کا ہے.پھر بعداس کے وہ وقت آتا ہے کہ جو ایک سونے کا پہاڑ بھی اس راہ میں خرچ کریں تو اس وقت کے پیسہ کے برابر نہیں ہوگا.یہ ایک ایسا مبارک وقت ہے کہ تم میں وہ خدا کا فرستادہ موجود ہے جس کا صدہا سال سے اُمتیں انتظار کر رہی تھیں.اور ہر روز خدا تعالیٰ کی تازہ وحی تازہ بشارتوں سے بھری ہوئی نازل ہو رہی ہے اور خدا تعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دیا ہے کہ واقعی اور قطعی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا.یہ ظاہر ہے کہ تم دو چیز سے محبت نہیں کر سکتے اور تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے.اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی.کیونکہ مال خودبخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خد اکے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا.لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں
لاتا جو بجا لانی چاہیے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجا لا کر خدا تعالیٰ اور اُس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو، بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پید اکر دے گا کہ اس کی خدمت بجا لائے گی.تم یقینا سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبّر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.مَیں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں.ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتاہے.تھوڑے دن ہوئے کہ بمقام گورداسپور مجھ کو الہام ہوا تھا کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اَنَا فَاتَّخِذْنِیْ وَکِیْـلًا.یعنی میں ہی ہوں کہ ہر ایک کام میں کار ساز ہوں.پس تو مجھ کو ہی وکیل یعنی کارساز سمجھ لے اور دوسروں کا اپنے کاموں میں کچھ بھی دخل مت سمجھ.جب یہ الہام مجھ کو ہوا تو میرے دل پر ایک لرزہ پڑا اور مجھے خیال آیا کہ میری جماعت ابھی اس لائق نہیں کہ خدا تعالیٰ ان کا نام بھی لے اور مجھے اس سے زیادہ کوئی حسرت نہیں کہ میں فوت ہو جائوں اور جماعت کو ایسی ناتمام اور خام حالت میں چھوڑ جائوں.میں یقینا سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتے.جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے.وہ اپنا مال صرف اس مال کو نہیں سمجھتا کہ اس کے صندوق میں بند ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام خزائن کو اپنے خزائن سمجھتا ہے اور امساک اس سے اس طرح دُور ہو جاتا ہے جیسا کہ روشنی سے تاریکی دُور ہو جاتی ہے اور یقینا سمجھو کہ صرف یہی گناہ نہیں کہ مَیں ایک کام کے لئے کہوں اور کوئی شخص میری جماعت میں سے اس کی طرف کچھ التفات نہ کرے بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ بھی گناہ ہے کہ کوئی کسی قسم کی خدمت کر کے یہ خیال کرے کہ مَیں نے کچھ کیا ہے.اگر تم کوئی نیکی کا کام بجا لائو گے اور اس وقت کوئی خدمت کرو گے تو اپنی ایمان داری پر مُہر لگا دو گے اور تمہاری
عمریں زیادہ ہوں گی اور تمہارے مالوں میں برکت دی جائے گی.مجھے اس بات کی تصریح کی ضرورت نہیں کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کیا خدمت بجا لاتے تھے.اب تم سوچ کر دیکھو کہ یہ خدمات ان خدمات کے مقابل پر کیا چیز ہیں.مَیں تم میں بہت دیر تک نہیں رہوں گا اور وہ وقت چلا آتا ہے کہ تم پھر مجھے نہیں دیکھو گے اور بہتوں کو حسرت ہو گی کہ کاش ہم نے نظر کے سامنے کوئی قابل قدر کام کیا ہوتا.سو اس وقت ان حسرات کا جلد تدارک کرو.جس طرح پہلے نبی رسُول اپنی اُمت میں نہیں رہے مَیں بھی نہیں رہوں گا سو اس وقت کا قدر کرو اور اگر تم اس قدر خدمت بجا لائو کہ اپنی غیر منقولہ جائیدادوں کو اس راہ میں بیچ دو، پھر بھی ادب سے دُور ہو گا کہ تم خیال کرو کہ ہم نے کوئی خدمت کی ہے.تمہیں معلوم نہیں کہ اس وقت رحمت الٰہی اس دین کی تائید میں جوش میں ہے اور اس کے فرشتے دلوں پر نازل ہو رہے ہیں.ہر ایک عقل اور فہم کی بات جو تمہارے دل میں ہے وہ تمہاری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے.آسمان سے عجیب سلسلہ انوار جاری اور نازل ہو رہا ہے.پس مَیں بار بار کہتا ہوں کہ خدمت میں جان توڑ کر کوشش کرو مگر دل میں مت لائو کہ ہم نے کچھ کیا ہے.اگر تم ایسا کرو گے ہلاک ہو جائو گے.یہ تمام خیالات ادب سے دُور ہیں اور جس قدر بے ادب جلد تر ہلاک ہو جاتا ہے ایسا جلد کوئی ہلاک نہیں ہوتا.اور مَیں یہ بھی کہتا ہوں کہ اس خدمت کے ساتھ دوسری خدمات میں بھی سُست مت ہو.بہت نادان وہ شخص ہے کہ وہ اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو اس طرح پر کہ ایک نیکی میں فتور ڈال کر دوسری نیکی بجا لاتا ہے وہ خدا کے نزدیک کچھ چیز نہیں بلکہ تم ان نیکیوں اور خدمتوں کو بھی اپنے دستور کے مطابق بجا لائو.اور یہ نئی خدمت جو بتائی جاتی ہے اس میں بھی پوری کوشش کا نمونہ دکھائو.اگر اس رسالہ کی اعانت کے لئے اس جماعت میں دس ہزار خریدار اردو یا انگریزی کا پیدا ہو جائے تو یہ رسالہ خاطر خواہ چل نکلے گا.اور میری دانست میں اگر بیعت کرنے والے اپنی بیعت کی حقیقت پر قائم رہ کر اس بارہ میں کوشش کریں تو اس قدر تعداد کچھ بہت نہیں بلکہ جماعت
موجودہ کی تعداد کے لحاظ سے یہ تعداد بہت کم ہے.سو اے جماعت کے سچے مخلصو !خدا تمہارے ساتھ ہو.تم اس کام کے لئے ہمت کرو.خدا تعالیٰ آپ تمہارے دلوں میں القا کرے کہ یہی وقت ہمت کا ہے.اب اس سے زیادہ کیا لکھوں.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دیوے.اٰمین ثُمَّ اٰمین الراقـــــــــــــــــــــــــــــــــــم خاکسار میرزا غلام احمد نوٹ.حضرت اقدس کی اس تحریک پر ہمارے بعض احباب نے اصل مسودہ کو ہی پڑھ کر تعمیل حکم میں بڑی سرگرمی دکھلائی ہے.چنانچہ حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور خواجہ کمال الدین صاحب اور حکیم فضل الدین صاحب نے اسی وقت دس دس رسالے اپنے خرچ پر بھجوانے منظور کئے اور ایسا ہی بہت سارے دوسرے احباب نے خود خریداری میگزین منظور کی اور بعض احباب نے آٹھ آٹھ دس دس رسالے اپنے احباب کے نام بھجوا کر اُن کو خریدار بنایا.اس لئے سب احباب کی خدمت میں التماس ہے کہ حضرت اقدس کا ارشاد جو دس ہزار خریدار میگزین پیدا کرنے کا ہے اس کی تعمیل میں ہر طرح کوشش کریں.سب احباب خواندہ ہوں یا ناخواندہ اس کو خریدیں.اور حسب توفیق اردو یا انگریزی رسالہ کی دو دو چار چار دس دس بیس بیس کاپیاں خود خرید کر باہر بھجوا دیں.جو خود رسالہ کی پوری قیمت نہ دے سکتے ہوں وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک ایک رسالہ خریدیں اور اپنے احمدی احباب کو اور دوسرے دوستوں کو جو مذہب اسلام سے دلچسپی رکھتے ہیں اس کے خریدنے کے لئے مجبور کریں.کیونکہ یہ رسالہ مذہب اسلام کی صداقت کو دکھاتا اور
غیر مذاہب عیسائیوں آریوں وغیرہ کے اعتراضوں کا جواب دیتا ہے اور زبان انگریزی میں ترجمہ ہو کر یُورپ امریکہ اور دُنیا کے دوسرے حصوں میں جاتا ہے.اگر ہماری جماعت میں سے پانچ سو آدمی ایسے باہمت پیداہو جاویں کہ دس دس رسالے اپنے خرچ پر خرید کر کے باہر بھجوا دیں اور پانچ ہزار احمدی اس کے خریداران کے علاوہ ہوں تو بآسانی تعداد دس ہزار تک پہنچ جاتی ہے.جو احباب رسالہ خریدیں وہ اس امر کا خیال رکھیں کہ بعض مضامین جنوری سے شروع ہوئے ہوئے ہیں اس لئے شروع سال سے رسالہ خریدنا مفید ہو گا.اور ایسا ہی ۱۹۰۲ء کی جلد جو (دو روپیہ) پر دی جاتی ہے اس کو بھی ضرور خریدیں ورنہ پھر اس کا ملنا مشکل ہو گا.اردو رسالہ کی قیمت (دو روپیہ)اور انگریزی کی للعہ؍ (چار روپے)( ولایت کے لئے للعہ۸؍.چار روپے آٹھ آنے)سالانہ ہے.جملہ درخواستیں اور روپیہ بنام محمد علی ایم اے مینجر رسالہ ریویو آف ریلیجنز قادیان ضلع گورداسپور آنی چاہئیں.ڈاکٹر محمدحسین صاحب نے ۱۵ انگریزی رسالوں کی قیمت دی ہے.(یہ اشتہار بطور ضمیمہ ریویو اردو بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۳ء کے ساتھ صفحہ ۱ تا ۸ شائع ہوا اور الحکم جلد۷ نمبر۳۲ کے صفحہ ۱۹ پر بھی شائع ہواہے.)
ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام دربارہ امداد مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ایک ضروری امر اپنی جماعت کی توجہ کے لئے اگرچہ میں خوب جانتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد ابھی تک اپنی روحانی کمزوری کی حالت میں ہیں یہاں تک بعضوں کو اپنے وعدوں پر بھی ثابت رہنا مشکل ہے لیکن جب میں اُس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتا ہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبداللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے اس خدا کا یہ صریح منشا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی رُوح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں جیسا کہ مَیں نے کشفی حالت میں واقعہ شہادت مولوی صاحب موصوف کے قریب دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سرو کی کاٹی گئی.۱؎ اور میں نے کہا کہ اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کردو تا وہ بڑھے اور پھولے.سو مَیں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر
دے گا.سو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جاوے گی.مگر ابھی تک یہ حال ہے کہ اگر مَیں ایک تھوڑی سی بات بھی اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے جماعت کے آگے پیش کرتا ہوں تو ساتھ ہی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ مبادا اس بات سے کسی کو ابتلا پیش نہ آوے.اب ایک ضروری بات جو اپنی جماعت کے آگے پیش کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ لنگر خانہ کے لئے جس قدر میری جماعت وقتاً فوقتاً مدد کرتی رہتی ہے وہ قابل تعریف ہے.ہاں اس مدد میں پنجاب نے بہت حصہ لیا ہوا ہے.اس کا سبب یہ ہے کہ پنجاب کے لوگ اکثر میرے پاس آتے جاتے ہیں.اور اگر دلوں میں غفلت کی وجہ سے کوئی سختی آ جائے تو صحبت اور پے در پے ملاقات کے اثر سے وہ سختی بہت جلد دُور ہو تی رہتی ہے.اس لئے پنجاب کے لوگ خاص کر بعض افراد اُن کے محبت اور صدق اور اخلاص میں ترقی کرتے جاتے ہیں.اور اسی وجہ سے ہر ایک ضرورت کے وقت وہ بڑی سرگرمی دکھلاتے ہیں اور سچی اطاعت کے آثار اُن سے ظاہر ہوتے ہیں.اور یہ ملک دوسرے ملکوں سے نسبتاً کچھ نرم دل بھی ہے.باایں ہمہ انصاف سے دُور ہو گا اگر مَیں تمام دُور کے مُریدوں کو ایسے سمجھ لوں کہ وہ ابھی اخلاص اور سرگرمی سے کچھ حصہ نہیں رکھتے کیونکہ صاحبزادہ مولوی عبداللطیف جس نے جاں نثاری کا یہ نمونہ دکھایا وہ بھی تو دُور کی زمین کا رہنے والا تھا.جس کے صدق اور وفا اور اخلاص اور استقامت کے آگے پنجاب کے بڑے بڑے مخلصوں کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے کہ وہ ایک شخص تھا کہ ہم سب سے پیچھے آیا اور سب سے آگے بڑھ گیا.اسی طرح بعض دُور دراز ملک کے مخلص بڑی بڑی خدمت مالی کر چکے ہیں اور ان کے صدق و وفا میں کبھی فتور نہ آیا.جیسا کہ اخویم سیٹھ عبدالرحمن تاجر مدراس اور چند ایسے اور بقیہ حاشیہ: میں اور الحکم 17/ جنوری 1903ء اور البدر 16/ جنوری 1903ء کالم 2 میں شائع ہو چکی ہے جو مولوی صاحب کے مارے جانے کے بارے میں ہے.اور وہ یہ ہے قُتِلَ خَیْبَۃً و زِیْدَ ھَیْبَۃً یعنی ایسی حالت میں مارا گیا کہ اس کی بات کو کسی نے نہ سنا اور اس کا مارا جانا ایک ہیبت ناک امر تھا یعنی لوگوں کو بہت ہیبت ناک معلوم ہوا اور اس کا بڑا شور دلوں پر ہوا.منہ
ایسے اور دوست لیکن کثرت تعداد کے لحاظ سے پنجاب کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ پنجاب میں ہر طبقہ کے آدمی خدمت دینی سے بہت حصہ لیتے جاتے ہیں اور دُور کے اکثر لوگ اگرچہ ہمارے سلسلہ میں داخل تو ہیں مگر بوجہ اس کے کہ اُن کو صحبت کم نصیب ہوتی ہے اُن کے دل بکلّی دنیا کے گند سے صاف نہیں ہیں.امر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو آخرکار وہ گند سے صاف ہو جائیں گے اور یا خدا تعالیٰ ان کو اس پاک سلسلہ سے کاٹ دے گا اور ایک مُردار کی طرح مریں گے.بڑی غلطی انسان کی دُنیا پرستی ہے.یہ بدبخت اور منحوس دُنیا کبھی خوف دلانے سے اور کبھی امید دینے سے اکثر لوگوں کو اپنے دام میں لے لیتی ہے اور یہ اسی میں مرتے ہیں.نادان کہتا ہے کہ کیا ہم دُنیا کو چھوڑ دیں.اور یہ غلطی انسان کو نہیں چھوڑتی جب تک کہ اس کو بے ایمان کر کے ہلاک نہ کرے.اے نادان کون کہتا ہے کہ تو اسباب کی رعایت چھوڑ دے.مگر دل کو دُنیا اور دُنیا کے فریبوں سے الگ کر ورنہ تو ہلاک شدہ ہے اور جس عیال کے لئے تو حد سے زیادہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا کے فرائض کو بھی چھوڑتا ہے اور طرح طرح کی مکاریوں سے ایک شیطان بن جاتا ہے.اس عیال کے لئے تو بدی کا بیج بوتا ہے اور ان کو تباہ کرتا ہے اس لئے کہ خدا تیری پناہ میں نہیں کیونکہ تو پارسا نہیں.خدا تیرے دل کی جڑ کو دیکھ رہا ہے.سو تو بیوقت مرے گااور عیال کو تباہی میں ڈالے گا لیکن وہ جو خدا کی طرف جُھکا ہوا ہے اس کی خوش قسمتی سے اُس کے زن و فرزند کو بھی حصہ ملے گا اور اس کے مرنے کے بعد وہ کبھی تباہ نہیں ہوں گے.جو لوگ مجھ سے سچا تعلق رکھتے ہیں وہ اگرچہ ہزار کوس پر بھی ہیں تاہم ہمیشہ مجھے لکھتے رہتے ہیں اور دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں موقعہ دے تا وہ برکات صحبت حاصل کریں.مگر افسوس کہ بعض ایسے ہیں کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ قطع نظر ملاقات کے سالہاسال گذر جاتے ہیں اور ایک کارڈ بھی ان کی طرف سے نہیں آتا.اس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ اُن کے دل مر گئے ہیں اور ان کے باطن کے چہرہ پر کوئی داغ جذام ہے.مَیں تو بہت دُعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اُٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو
ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دُنیا کے کیڑے نہیں ہیں اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خدا تعالیٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے مَیں ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں لیکن وہ لوگ جن کی آنکھیں زنا کرتی ہیں اور جن کے دل پاخانہ سے بدتر ہیں اور جن کو مرنا ہرگز یاد نہیں ہے مَیں اور میرا خدا اُن سے بیزار ہیں.مَیں بہت خوش ہوں گا اگر ایسے لوگ اس پیوند کو قطع کر لیں کیونکہ خدا اس جماعت کو ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونہ سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اوّل درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو لیکن وہ مفسد لوگ جو میرے ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور یہ کہہ کر کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا، پھر وہ اپنے گھروں میں جا کر ایسے مفاسد میں مشغول ہو جاتے ہیں کہ صرف دنیا ہی دنیا اُن کے دلوں میں ہوتی ہے.نہ اُن کی نظر پاک ہے نہ اُن کا دل پاک ہے اور نہ اُن کے ہاتھوں سے کوئی نیکی ہوتی ہے اور نہ ان کے پَیر کسی نیک کام کے لئے حرکت کرتے ہیں اور وہ اس چُوہے کی طرح ہیں جو تاریکی میں ہی پرورش پاتا ہے اور اسی میں رہتا اور اسی میں مرتاہے.وہ آسمان پر ہمارے سلسلہ میں سے کاٹے گئے ہیں.وہ عبث کہتے ہیں کہ ہم اس جماعت میں داخل ہیں کیونکہ آسمان پر وہ داخل نہیں سمجھے جاتے.جو شخص میری اس وصیت کو نہیں مانتا کہ درحقیقت وہ دین کو دُنیا پر مقدم کرے اور درحقیقت ایک پاک انقلاب اس کی ہستی پر آ جائے اور درحقیقت وہ پاک دل اور پاک ارادہ ہو جائے اور پلیدی اور حرامکاری کا تمام چولہ اپنے بدن پر سے پھینک دے اور نوعِ انسان کا ہمدرد اور خدا کا سچا تابعدار ہو جائے اور اپنی تمام خودروی کو الوداع کہہ کر میرے پیچھے ہو لے مَیں اس شخص کو اس کُتے سے مشابہت دیتا ہوں جو ایسی جگہ سے الگ نہیں ہوتا جہاں مُردار پھینکا جاتا ہے اور جہاں سڑے گلے مُردوں کی لاشیں ہوتی ہیں.کیا مَیں اس بات کا محتاج ہوں کہ وہ لوگ زبان سے میرے ساتھ ہوں اور اس طرح پر دیکھنے کے لئے ایک جماعت ہو.مَیں سَچ سَچ کہتا ہوں کہ اگر تمام لوگ مجھے چھوڑ دیں اور ایک بھی میرے ساتھ نہ رہے تو میرا خدا میرے لئے ایک اور قوم پیدا کرے گا جو صدق اور وفا میں اُن سے بہترہو
ہو گی.یہ آسمانی کشش کام کر رہی ہے جو نیک دل لوگ میری طرف دوڑتے ہیں.کوئی نہیں جو آسمانی کشش کو روک سکے.بعض لوگ خدا سے زیادہ اپنے مکر و فریب پر بھروسہ رکھتے ہیں.شاید اُن کے دلوں میں یہ بات پوشیدہ ہو کہ نبوتیں اور رسالتیں سب انسانی مکر ہیں اور اتفاقی طو رپر شہرتیں اور قبولیتیں ہو جاتی ہیں.اس خیال سے کوئی خیال پلید تر نہیں.اور ایسے انسان کو اُس خدا پر ایمان نہیں جس کے ارادہ کے بغیر ایک پتّا بھی گر نہیں سکتا.لعنتی ہیں ایسے دل اور ملعون ہیں ایسی طبیعتیں ، خدا اُن کو ذلّت سے مارے گا کیونکہ وہ خدا کے کارخانہ کے دشمن ہیں.ایسے لوگ درحقیقت دہریہ اور خبیث باطن ہوتے ہیں.وہ جہنمی زندگی کے دن گذارتے ہیں اور مرنے کے بعد بجز جہنم کی آگ کے ان کے حصہ میں کچھ نہیں.اب مختصر کلام یہ ہے کہ علاوہ لنگرخانہ اور میگزین کے جو انگریزی اور اردو میں نکلتاہے جس کے لئے اکثر دوستوں نے سرگرمی ظاہر کی ہے ایک مدرسہ بھی قادیان میں کھولا گیا ہے.اس سے یہ فائدہ ہے کہ نو عمر بچے ایک طرف تو تعلیم پاتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے سلسلہ کے اصولوں سے واقفیت حاصل کرتے جاتے ہیں.اس طرح پر بہت آسانی سے ایک جماعت طیار ہو جاتی ہے بلکہ بسا اوقات اُن کے ماں باپ بھی اس سلسلہ میں داخل ہو جاتے ہیں.لیکن ان دنوں میں ہمارا یہ مدرسہ بڑی مشکلات میں پڑا ہوا ہے اور باوجودیکہ محبّی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اپنے پاس سے اسی۸۰ روپیہ ماہوار دے کر اس مدرسہ کی مدد کرتے ہیں مگر پھر بھی استادوں کی تنخواہیں ماہ بماہ ادا نہیں ہو سکتیں.صد ہا روپیہ قرضہ سر پر رہتا ہے.علاوہ اس کے مدرسہ کے متعلق کئی عمارتیں ضروری ہیں.جو اب تک طیار نہیں ہو سکیں.یہ غم علاوہ اور غموں کے میری جان کو کھا رہا ہے.اس کی بابت مَیں نے بہت سوچا کہ کیا کروں.آخریہ تدبیر میرے خیال میں آئی کہ مَیں اس وقت اپنی جماعت کے مخلصوں کو بڑے زور کے ساتھ اس بات کی طرف توجہ دلائوں کہ وہ اگر اس بات پر قادر ہوں کہ پوری توجہ سے اس مدرسہ کے لئے بھی کوئی ماہانہ چندہ مقرر کریں.تو چاہیے کہ ہر ایک ان میں سے ایک مستحکم عہد کے ساتھ کچھ نہ کچھ مقرر کرے جس
کے لئے وہ ہرگز تخلّف نہ کرے.مگر کسی مجبوری سے جو قضاء و قدر سے واقع ہو.اور جو صاحب ایسا نہ کر سکیں ان کے لئے بالضرورت یہ تجویز سوچی گئی ہے کہ جو کچھ وہ لنگر خانہ کے لئے بھیجتے ہیں اس کا چہارم حصہ براہ راست مدرسہ کے لئے نواب صاحب موصوف کے نام بھیج دیں.لنگر خانہ میں شامل کر کے ہر گز نہ بھیجیں بلکہ علیحدہ منی آرڈر کرا کر بھیجیں.اگرچہ لنگر خانہ کا فکر ہر روز مجھے کرنا پڑتا ہے اور اس کا غم براہ راست میری طرف آتا ہے اور میری اوقات کو مشوّش کرتا ہے.لیکن یہ غم بھی مجھ سے دیکھا نہیں جاتا.اس لئے مَیں لکھتا ہوں کہ اس سلسلہ کے جوانمرد لوگ جن سے مَیں ہر طرح امید رکھتا ہوں وہ میری التماس کو ردّی کی طرح نہ پھینک دیں اور پوری توجہ سے اس پر کاربند ہوں.مَیں اپنے نفس سے کچھ نہیں کہتا بلکہ وہی کہتا ہوں جو خدا تعالیٰ میرے دل میں ڈالتا ہے.مَیں نے خوب سوچا ہے اور بار بار مطالعہ کیا ہے.میری دانست میں اگرچہ مدرسہ قادیان کا قائم رہ جائے تو بڑی برکات کا موجب ہو گا اور اس کے ذریعہ سے ایک فوج نئے تعلیم یافتوں کی ہماری طرف آ سکتی ہے.اگرچہ مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ اکثر طالب علم نہ دین کے لئے بلکہ دُنیا کے لئے پڑھتے ہیں اور اُن کے والدین کے خیالات بھی اسی حد تک محدود ہوتے ہیں مگر پھر بھی ہر روز کی صحبت میںضرور اثر ہوتا ہے.اگر بیس طالب علموں میں سے ایک بھی ایسا نکلے جس کی طبیعت دینی امور کی طرف راغب ہو جائے اور وہ ہمارے سلسلہ اور ہماری تعلیم پر عمل کرنا شروع کرے تب بھی مَیں خیال کروں گا ہم نے مدرسہ کی بنیاد سے اپنے مقصد کو پا لیا.آخر میں یہ بھی یاد رہے کہ یہ مدرسہ ہمیشہ اس سقم اور ضعف کی حالت میں نہیں رہے گا بلکہ یقین ہے کہ پڑھنے والوں کی فیس سے بہت سی مدد مل جائے گی یا وہ کافی ہو جائے گی.پس اُس وقت ضروری نہیں ہو گا کہ لنگرخانہ کی ضروری رقوم کاٹ کر مدرسہ کو دی جائیں سو اس وسعت کے حاصل ہونے کے وقت ہماری یہ ہدایت منسوخ ہو جائے گی اور لنگر خانہ جو وہ بھی درحقیقت ایک مدرسہ ہے اپنے چہارم حصّہ کی رقم کو پھر واپس پا لے گا.اور یہ مشکل طریق جس میںلنگرخانہ کوحرج پہنچے گا محض اس لئے مَیں نے اختیار کیا کہ بظاہر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر مدد کی ضرورت ہے شاید جدید
چندہ میں وہ ضرورت پوری نہ ہو سکے.لیکن اگر خدا کے فضل سے پوری ہو جائے تو پھر اس قطع برُید کی ضرورت نہیں.اور مَیں نے جو یہ کہا کہ لنگر خانہ بھی ایک مدرسہ ہے یہ اس لئے کہ جو مہمان میرے پاس آتے جاتے ہیں جن کے لئے لنگر خانہ جاری ہے وہ میری تعلیم سُنتے رہتے ہیں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ جو لوگ ہر وقت میری تعلیم سنتے ہیں خدا تعالیٰ اُن کو ہدایت دے گا اور اُن کے دلوں کو کھول دے گا اور اب میں اسی قدر پر بس کرتاہوںکہ جو مدعا مَیں نے پیش کیا ہے میری جماعت کو اُس کے پورا کرنے کی توفیق دے اور ان کے مالوں میں برکت ڈالے اور اس کارخیر کے لئے ان کے دلوںکو کھول دے.آمین ثُمَّ آمین وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی الراقــــــــــــــــــــــــــــم میرزا غلام احمد ۱۶ ؍اکتوبر ۱۹۰۳ء نوٹ.مدرسہ کے متعلق زر چندہ بنام خان صاحب محمد علی خان صاحب ڈائریکٹر و امین مدرسہ آنی چاہیے اور تعلیم طلباء کے متعلق تمام خط و کتابت مفتی محمد صادق صاحب سپرنٹنڈنٹ کالج تعلیم الاسلام سے ہونی چاہیے.( یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے چار صفحات پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۵۸ تا ۶۴)
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ایک واقعہ کا اظہار برائے خدا اسے ضرور پڑھو گورداسپور کی عدالت میں ایک مقدمہ مولوی کرم دین مستغیث کی طرف سے اس راقم پر دائر ہے اور ایک مقدمہ میرے ایک مرید یعنی شیخ یعقوب علی ایڈیٹر الحکم کی طرف سے مولوی مذکور پر دائر ہے.اصل اور جڑھ ان مقدمات کی یہ ہے کہ ماہ جولائی و اگست ۱۹۰۲ء میں کرم دین کی طرف سے خطوط میرے نام اور میرے مرید حکیم فضل دین کے نام پہنچے.اور ان خطوط کے ذریعہ ہمیں اطلاع دی کہ جو کتاب پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے میری کتاب اعجاز المسیح کے ردّ میں لکھی ہے دراصل اس میں پیر مذکور نے سارقانہ کارروائی کی ہے اور ایک شخص مسمی محمد حسن فیضی متوفیّ کے نوٹوں کو چورا کر اپنی کتاب میں وہ نوٹ اپنے نام پر درج کر دیئے ہیں.اس کے ثبوت میں مولوی کرم الدین نے وہ کارڈ بھی ہم کو بھیج دیا جو پیر مہر علی نے مولوی مذکور کے نام گولڑہ سے بھیجا تھا اور جس میں پیر مذکور نے محمد حسن کے نوٹوں کو اپنی کتاب میں درج کرنے کا اعتراف کیا.
یہ خطوط مجھے ایسے وقت ملے جبکہ مَیں کتاب نزول المسیح لکھ رہا تھا سو وہ خطوط مَیں نے کتاب نزول المسیح میںدرج کئے.ایسا ہی ایڈیٹر الحکم اخبار نے بھی ان خطوط کی بنیاد پر ایک مضمون اپنے اخبار میں معہ نقل خطوط درج کیا.اخبار الحکم کے جواب میں ایک مضمون مولوی کرم دین کے نام سے سراج الاخبار جہلم مورخہ ۶؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء اور ایک قصیدہ مولوی مذکور کی طرف سے سراج الاخبار مورخہ ۳ ا؍اکتوبر ۱۹۰۲ء میںشائع کیا جس میں اس نے یہ ظاہر کیا کہ یہ خطوط جعلی اور جھوٹے ہیں.اس میں یہ بھی لکھا کہ مرزا غلام احمد یعنی راقم کی ملہمیت کی آزمائش کے لئے مَیں نے اسے دھوکا دیا اور خلاف واقعہ خطوط لکھے او ر لکھائے اور ایک خام نویس طفل کے ہاتھ سے نوٹ لکھا کر ان کو محمد حسن فیضی کے نوٹ ظاہر کئے.پھر اس دھوکے کے ذریعے چھ روپے بھی حاصل کئے.ا ور راقم مضمون نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ سراج الاخبار کے ان مضامین میں میری نسبت سخت الزام لگائے اور یہ شائع کیا کہ گویا مَیں جو بحیثیت ایک مامور من اللہ اور مصلح ہونے کے ایک کام کر رہا ہوں.یہ تمام کام میرا مکرو فریب ہے اور گویا مَیں اپنے دعوٰی میںکذّاب اور مفتری ہوں.پس چونکہ یہ تحریر اس کی میری ایک کثیر جماعت پر جو اَب خدا تعالیٰ کے فضل سے دو لاکھ سے بھی زیادہ ہے بہت ہی بُرا اثر ڈالتی تھی اور پبلک کی نگاہ مجھے جعلساز اور فریبی اور قوم کو دھوکا دینے والا اور سخت بد چلن قرار دیتی تھی.اور اس بے جا حملہ سے ہزاروں آدمیوں کی رُوحانیت کا خون ہوتا تھا اس لئے مَیں نے اس خطرناک حملہ کا دفعیہ ضروری سمجھا.سو اگرچہ شرعاً و قانوناً اس وقت میرا حق تھا کہ مَیں اپنی بریّت ثابت کرانے کے لئے ازالہ حیثیت عرفی کا مدعی ہو کر عدالت کی طرف رجوع کرتا لیکن مَیںنے صبر کیا اور منتظر رہا کہ مولوی کرم دین خود اس مضمون کی تردید کرے.لیکن جب تین ماہ سے زیادہ گذر گئے اور اس نے کوئی تردید نہ کی تو مَیں نے اس تہمت کو اپنے پر سے دور کرنے کے لئے اس قدر کافی سمجھا کہ اپنی کتاب مواہب الرحمن میں جو کرم دین کے مضامین کے تین ماہ بعد شائع ہوئی اس قدر اشارہ کردوں کہ یہ شخص جو مجھ پر الزام لگانے والا ہے اور میری اہانت کرتا ہے خود ہی کذّاب اور کمینہ اور
بہتان کا مرتکب ہے.یہ الفاظ دراصل وہی تھے جن کا مصدا ق وہ خود اپنے آپ کو سراج الاخبار میں کنایتاً و صراحتاًظاہر کر چکا تھا اور مان چکا تھا کہ مَیں نے دھوکا دیا.دغا دیا.خلاف واقعہ خطوط لکھائے.جعلی دستخط بنوائے اورجھوٹ کی تعلیم دی وغیرہ وغیرہ.مناسب تھا کہ یہ شخص خاموش رہتا مگر اُس نے ایسا نہ کیا اور میرے پر ازالہ حیثیت عرفی کی نالش کر دی.اگر مولوی کرم دین بجا ئے ان تہمتوں اور الزاموں کے جو اس نے اپنے مضمون مندرجہ سراج الاخبار میں میرے پر لگائے اور خلاف واقعہ واقعات مجھ پر چسپاں کر کے مجھے جعلساز اور دھوکہ باز ٹھہرایا.میرے پر تلوار چلا کر کوئی عضو میرا کاٹ دیتا تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جو میرے دل کو دیکھتا ہے کہ مَیں پھر بھی اُسے معاف کر دیتا اور کسی کے کہنے کی مجھے حاجت نہ ہوتی کہ مَیں اس سے صُلح کر لوں اور اس کا گناہ بخش دوں.لیکن اے ناظرین جو لوگ مصلح قوم بن کر خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں وہی اُن مشکلات کو جانتے ہیں کہ ایسے بیجا الزام جو پبلک پر بُرا اثر ڈالنے والے ہیں وہ ان کے نزدیک تصفیہ کے لائق ہوتے ہیں اور جب تک وہ الزام ان کے سر پر سے پبلک کی نظر میں معدوم نہ ہو لیں تب تک وہ اس بات کو پسند نہیں کر سکتے کہ ایک گول مول مصالحت کر کے وہ داغ ہمیشہ کے لئے اپنے سر پر رکھیں یوسف جو ایک نبی تھااس پر ایک جھوٹا الزام اقدام زنا لگا کر اس کو قید کیا گیا اور پھر مدّت کے بعد معافی دی گئی تو اس نے اس معافی کو قبول نہ کیا حالانکہ نائب السلطنت کا عہدہ بھی ملتا تھا بلکہ صاف کہا کہ جب تک زنا کی تہمت سے میری بریّت نہ ہو مَیں زندان سے باہر قدم رکھنا نہیں چاہتا.اسی طرح اگر ایک دنیادار پر بھی ایک جھوٹا الزام دغا یا خیانت ِ مجرمانہ کا لگایا جاوے تو گول مول مصالحت پر راضی نہیں ہوتا.لیکن بعض خیر خواہان ِقوم نے اس بات پر زور دیا کہ فریقین میں مصالحت ہوجاوے یہاں تک کہ اس ضلع اور قسمت کے بعض نیک دل اور دور اندیش اعلیٰ افسران اور حکّام نے بھی اپنی رضا مندی اس پر ظاہر کی کہ مَیں اس مستغیث سے صلح کرلوں.خود صاحب مجسٹریٹ نے جن کی عدالت میں یہ مقدمہ ہے اپنی شریفانہ عادت اور نیک نیتی سے صلح پر پسندیدگی ظاہر فرمائی.
اس موقعہ پر منشی غلام حیدر خان صاحب تحصیلدار پنڈدادنخان نے بھی جو بطور شہادت اس مقدمہ میں تشریف لائے تھے مصالحت کے لئے کوشش کی.ان تمام بزرگوں کی ترغیب اور دلی خواہش نے مجھے اس غورو فکر میں ڈالا کہ اب صلح کیونکر ہو.آخر مَیں نے یہ جواب دیا کہ اگر مستغیث یعنی مولوی کرم الدین خدا تعالیٰ سے ڈر کر عدالت میں یہ اقرار کردے کہ خطوط محولہ مقدمہ اور مضمون سراج الاخبار مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۲ء و تیرہ اکتوبر ۱۹۰۲ء اسی کے ہیں اور ہماری جعلسازی نہیں تو پھر میں اس سے صلح کر لوں گا کیونکہ پبلک کے سامنے میری بریت کے لئے یہ اقرار کافی ہو گا اور مجھ سے الزام جعل سازی کا دُور ہو جاوے گا.لیکن مولوی کرم دین نے اس بات کو نہ مانا.پھر صلح کے لئے یہ دوسری تجویز سوچی گئی کہ مولوی کرم دین اور میری طرف سے دو پرچے علیحدہ علیحدہ لکھے جاویں.میری طرف سے پرچہ میںیہ ذکر ہو کہ مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں نے الفاظ کذاب بہتاں ولئیم مولوی کرم دین کے متعلق یہ یقین کر کے لکھے تھے کہ خطوط محولہ مقدمات اور مضامین مندرجہ سراج الاخبار ۶و۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء مولوی کرم دین کے ہیں اور مَیں دُعا کرتا ہوں کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو.اسی طرح کرم الدین یہ تحریری بیان پیش کرے کہ مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ خطوط۱؎ محولہ مقدمات جومیری طرف سے ظاہر کیے گئے ہیں اور مضمون سراج الاخبار مندرجہ ۶؍ اکتوبر و ۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء جو میرے نام پر اخبار میںشائع ہوئے ہیں میرے نہیں ہیں اور مَیں دُعا کرتا ہوں کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو.یہ ہر دومسودے منشی غلام حیدرخان صاحب نے اپنی قلم سے لکھے اور ان مسودوں کو جناب شیخ خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ جج کے پاس میرے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب کے ہمراہ لے
گئے کیونکہ شیخ صاحب موصوف نے ہمدردی قوم کے لحاظ سے بہت سا اپنی قیمتی وقت اس مصالحت کی انجام دہی میں خرچ کیا اور کوشش بلیغ فرمائی- مصالحت کرانے والوںنے مسّودہ مجّوزہ کو پسند فرما کہ کہا کہ یہ مسودہ اب کسی قابل اعتراض نہیں- البتہ اس میں لفظ لعنت ثقیل ہے اس کو کسی طرح بدل دیا جاوے- راقم نے اس پر رضامندی ظاہر کی اور بجائے لعنت کے مسوّدہ کی صورت حسب ذیل تجویز کر دی کہ مَیں اس مقدمہ کو انصاف کے لئے خدا تعالیٰ کی عدالت میں سپرد کرتاہوں- لیکن یہ مسّودہ مولوی کریم دین کے پاس پیش کیا گیا تو اس نے منظور نہ کیا اور یہ عذر پیش کیا کہ مَیں قسم نہیں کھاتا- حالانکہ عدالت میں بھی بیان اس کا حلفیہ ہو چکا تھا اور جب اس کے حلفیہ بیان کی مصدقہ نقل دکھلا کر اس کو کہا گیا کہ تم نے جب عدالت میں رو بروئے رائے چندو لعل صاحب مجسٹریٹ حلفیہ بیان باقرار مصالح دیا کہ نہ مَیں نے یہ خطوط لکھے ہیں اور نہ سراج الاخبار کے مضامین میرے ہیں تو پھر وہی حلفیہ بیان اب دینا ہے- اس پر مولوی موصوف نے کہا کہ وہ ایک مجبوری تھی و الّا بلا ضرورت اشد ٭قسم کھانا جائز نہیں اس لئے مَیں قسم نہیں کھاتا - آخر یہ تجویز ہوا کہ بجائے خدا کی قسم کے اقرار صالح لکھا جاوے اس تجویز پر ذیل کا مسوّدہ تجویز کیا گیا کیونکہ پہلا بیان مولوی مذکور کا باقرار صالح تھا- ’’مَیں اقرار صالح سے سچ سچ اپنے ایمان سے خدا تعالیٰ کے حضو رمیں بیان کرتاہوں کہ خطوط محولہ مقدمہ جن سے مَیں نے انکار کیا ہے اور مضمون سراج الاخبار ۶؍ اکتوبر اور ۱۳ ؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء جس سے مَیں انکاری ہوں- درحقیقت وہ خطوط اور وہ مضامین ہرگز ہرگز میرے نہیں یہ امر بالکل غلط ہے کہ اسلام میں قسم کھانا منع ہے.تمام نیک انسان مسلمانوں میں سے ضرورتوں کے وقت قسم کھاتے آئے ہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی ضرورتوں کے وقت قسم کھائی.ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بارہا قسمیں کھائی.خود خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں قسمیں کھائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں مجرموں کو قسمیں دلائی گئیں.قسموں کا قرآن شریف میں صریح ذکر ہے.شریعت اسلام میں جب کسی اور ثبوت کا دروازہ بند ہو یا پیچیدہ ہو تو قسم پر مدار رکھا جاتا ہے اور صحیح البخاری۱ جوبعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے اس میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے
ہیں- اگر مَیں اپنے اس بیان میں جھوٹا ہوں تو انصاف کے لئے اپنے اس معاملہ کو خدا کی عدالت کے سپرد کرتا ہوں- اس مسوّدہ پر یہ اعتراض مولوی مذکور نے کیا کہ الفاظ ’’خدا کے حضور میں وغیرہ وغیرہ‘‘ بھی قسم ہے صرف لفظ اقرار صالح رکھا جاوے اور معاملہ کی تصریح نہ کی جاوے- آخرکار بہت بحث کے بعد جو آخیری مسودّہ بتاریخ ۱۱؍ ماہ جون پیش کیا گیا وہ حسب ذیل لکھا جاتا ہے- بقیہ نوٹ.قسم کھا کر فرمایا کہ مسیح موعود جو آنے والا ہے جو تمہارا امام ہوگا وہ تم میں سے ہی ہوگا یعنی اسی امت میں سے ہوگا، آسمان سے نہیں آئےگا.پھر صحیح بخاری جلد نمبر ۴ صفحہ ۱۰۶ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قسموں کا ایک باب باندھا ہے.اس باب میں بہت سی قسمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھی ہیںجو دس سے کم نہیں.ایسا ہی صحیح نسائی جلد ثانی صفحہ ۱۳۸ کتاب الایمان والنذور میں صفحہ ۱۳۹ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قسموںکا ذکر ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَسْتَنْۢبِـُٔوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ١ؔؕ قُلْ اِيْ وَ رَبِّيْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ یعنی تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ حق ہے کہہ مجھے خدا کی قسم ہے کہ یہ حق ہے.ایسا ہی قرن شریف میں یہ آیت ہے : وَاحْفَظُوْۤا اَيْمَانَكُمْ ( المائدۃ : ۹۰ ) یعنی جب تم قسم کھاؤ تو جھوٹ اور بد عہدی اور بد نیتی سے اپنی قسم کو بچاؤ.ایسا ہی قرآن شریف میںیہ آیت بھی ہے : اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۰۰ وَ الْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ ( النور : ۷ ، ۸ ) یعنی شخص ملزم چار قسمیں خدا کی کھائے کہ وہ سچا ہے اور پانچویں قسم میں یہ کہے کہ اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہے.اب دیکھو اس جگہ نہ ایک قسم بلکہ ملزم کو پانچ قسمیں دی جاتی ہیں.ہاں قرآن شریف کی رو سےلغو یا جھوٹی قسمیں کھانا منع ہے کیونکہ وہ خدا سے ٹھٹھا ہے اور گستاخی ہے اور ایسی قسمیں کھانا بھی منع ہے جو نیک کاموں سے محروم کرتی ہوں جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی تھی کہ میں آئندہ مسطح صحابی کو صدقہ خیرات نہیں دوں گا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَيْمَانِكُمْ۠ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا.یعنی ایسی قسمیں مت کھاوٴ جو نیک کاموں سے باز رکھیں.
’’مَیں کر م دین باقرار صالح بیان کرتا ہوں کہ خطوط جو میرے نام سے میرزا غلام احمد صاحب اور حکیم فضل الدین کو پہنچے ہیں اور مضامین جو ۶؍ اکتوبر ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو میرے نام پر سراج الاخبار میں شایع ہوئے وہ میرے نہیں- اور اگر میرا یہ بیان خلاف واقعہ ہے تو مَیں بغرض انصاف اس معاملہ کو خدا تعالیٰ کی عدالت میں سپرد کرتاہوں-‘‘ اس کے مقابل راقم نے مضمون ذیل منظور کیا- ’’مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں نے جو الفاظ کرم دین کے متعلق کذّاب بہتان ولئیم کے لکھے ہیں، وہ یہ یقین کر کے لکھے ہیں کہ خطوط محولہ امثلہ جات کا لکھنے والا اور اخبار سراج الاخبار مورخہ۶؍ اکتوبر و ۱۳ ؍ اکتوبر کا لکھنے والا مولوی کرمدین ہے اور مَیں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جھوٹے پر لعنت ڈالے-‘‘ جب یہ مسوّدے حسب اجازت صاحب مجسٹریت مولوی کرم دین کو دکھلائے گئے تو اس نے کہا کہ الفاظ خطوط اور اخبار وغیرہ کا ذکر نہ کیا جائے اور ایسا ہی خدا کی عدالت میں انصاف کے لئے سپردگی بھی نکال دی جاوے اور کوئی تصریح نہ کی جاوے جس کی وجہ وہ یہ بتاتا تھا کہ میرے برخلاف پیشگوئیاں کی جائیں گی- سو اس کے متعلق بھی شرط مان لی گئی تھی تاکہ مصالحت ہو جاوے- لیکن وہ کسی پہلو پر نہ آیا- اور نتیجہ یہ ہوا کہ مصالحت میں قطعی مایوسی ہو کر مقدمہ عدالت میں شروع ہو گیا مجھے اس اشتہار کو جس میں صرف سادے اور سچے واقعات لکھے گئے ہیں اشاعت (بقیہ فٹ نوٹ).یہ وہ آیت ہے جو مولوی کرم دین نے پڑھ کر کہا کہ قسم کھانا درست نہیں.تفسیر مفتی ابومسعود مفتی روم میں زیر آیت لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَيْمَانِكُمْ۠ لکھا ہے کہ عُرضہ اس کو کہتے ہیں کہ جو چیز ایک بات کے کرنے سے عاجز اور مانع ہو جائے اور لکھا ہے کہ یہ آیت ابوبکر صدیق کے حق میں ہے جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ مسطح کو جو صحابی ہے بباعث شراکت اس کی حدیث افک میں کچھ خیرات نہیں دوں گا.پس خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ایسی قسمیں مت کھاوٴ جو تمہیں نیک کاموں اور اعمال صالحہ سے روک دیں نہ یہ کہ معاملہ متنازعہ جس سے طے ہو.
کرنے کی یہ ضرورت پیدا ہوئی کہ تا کہ ان نیک دل اور نیک نیت عالی حکّام کو واقعات سے اطلاع ہو جاوے جنہوں نے نہایت ہمدردی اور شفقت سے جو اُن کو میرے خاندان سے ہے مجھے مِنْ وَجْہٍ کہلا بھیجا کہ مَیں مصالحت کر لوں.نیز ان پر روشن ہو جاوے کہ کون فریق ہم میں سے مصالحت سے کنارہ کش ہے.مجھ پر الزام خطوط کی جعلسازی کا اور دیگر ناجائز الزامات سراج الاخبار میں لگائے گئے.جس کے دفعیہ کے لئے مَیں نے کوئی چارہ جوئی عدالت میں نہیں کی.بلکہ دفعیہ میں اسی بات پر اکتفا کیا کہ کتاب میں لکھ دیا کہ میری آبرو ریزی کرنے والا مجھ پر بہتان باندھتا ہے اور میرا توہین کنندہ کذاب ہے اور اس کے یہ فعل کمینوں کے ہیں.جس پر مَیں عدالت میں کھینچا گیا.مَیں نے حکام اور اپنے بزرگان قوم کی ہمدردی کی قدر کر کے یہی پسندپسند کیا کہ ان الزامات جعلسازی وغیرہ کی بریت اگر عدالت سے نہ ہو سکے تو پھر خدا کی عدالت سے کرائوں اور معاملہ کو طے کروں.البتہ گول مول مصالحت پر مَیں راضی نہیں ہو سکتا.اس لئے بذریعہ اشتہار ہذا مَیں پھر اپنی رضامندی ظاہر کرتا ہوں کہ اگر فریق ثانی مذکورہ بالا بیان عدالت میں دینے کو تیار ہے تو بالمقابل میں اس قسم کا بیان دینے کو تیار ہوں اور اسی دن ہر دو مقدمات داخل دفتر ہو سکتے ہیں.مَیں نے اپنے بیان کو ارادتاً سخت سے سخت اپنے لئے تجویز کیا ہے.یہ اشتہار اس لئے بھی شائع کیا گیا ہے کہ واقعات متعلقہ مصالحت جو ہوئے ہیں ان کے متعلق کوئی غلط بیانی نہ ہو.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر میرزا غلام احمد (رئیس اعظم قادیان) ضلع گورداسپور پنجاب.۱۴؍ جون ۱۹۰۴ء مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان (یہ اشتہار ۲۶×۲۰ ۸ کے آٹھ صفحات پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۶۴ تا ۷۲)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ الوصیّت قَالَ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ. ۱؎ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگر تم بندگی نہ کرو اور دعائوں میں مشغول نہ رہو.دوستو!خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے حال پر رحم کرے.آپ صاحبوں کو معلوم ہو گا کہ مَیں نے آج سے قریباً نو ماہ پہلے الحکم اور البدر میں جو قادیان سے اخباریں نکلتی ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے اطلاع پا کر یہ وحی الٰہی شائع کرائی تھی کہ عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا یعنی یہ ملک عذاب الٰہی سے مٹ جانے کو ہے.نہ مستقل سکونت امن کی جگہ رہے گی اور نہ عارضی سکونت امن کی جگہ یعنی طاعون کی وبا ہرجگہ عام طور پر پڑے گی اور سخت پڑے گی.دیکھو اخبار الحکم مورخہ ۳۰؍ مئی ۱۹۰۴ء نمبر ۱۸ جلد ۸ کالم ۳.اور اخبار البدرنمبر ۲۰و ۲۱مورخہ ۲۴؍ مئی و یکم جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۵ کالم ۲.اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت بہت قریب آ گیا ہے.مَیں نے اس وقت جو آدھی ۲؎رات کے بعد چار بج چکے ہیں بطور کشف دیکھا ہے کہ دردناک موتوں سے عجیب طرح پر شور قیامت برپا ہے.میرے منہ پر یہ الہام الٰہی تھا کہ موتا موتی لگ رہی ہے نوٹ.26 / فروری کی رات جس کی صبح کو 27/ فروری ہے مراد ہے.
ہےکہ مَیں بیدار ہو گیا.اور اسی وقت جو ابھی کچھ حصہ رات کا باقی ہے مَیں نے یہ اشتہار لکھنا شروع کیا.دوستو! اُٹھو اور ہو شیار ہو جائو کہ اس زمانہ کی نسل کے لئے نہایت مصیبت کا وقت آگیا ہے.اب اس دریا سے پار ہونے کے لئے بجز تقویٰ کے اور کوئی کشتی نہیں.مومن خوف کے وقت خدا کی طرف جھکتا ہے کہ بغیر اس کے کوئی امن نہیں.اب دُکھ اُٹھا کر اور سوزو گداز اختیار کر کے اپنا کفارہ آپ دو اور راستی میں محو ہو کراپنی قربانی آپ ادا کرو اور تقویٰ کی راہ میں پورے زور سے کام لے کر اپنا بوجھ آپ اُٹھائو کہ ہمارا خدا بڑا رحیم و کریم ہے کہ رونے والوں پر اُس کا غصہ تھم جاتا ہے مگر وہی جو قبل از وقت روتے ہیں نہ مُردوں کی لاشوں کو دیکھ کر.وہ خوف کرنے والوں کے سر پر سے عذاب کی پیشگوئی ٹال سکتا ہے.جاہل کہتا ہے کہ یہ پیشگوئی کیوں ٹل گئی، لیکن اگر خدا میں یہ عادت نہ ہوتی کہ دُعا اور صدقہ اور خیرات اور گریہ اور بکا سے اُن بلائوں کو دُور کر دیتا جن کا اُس نے ارادہ کیا ہے یا جن بلائوں اور عذابوں کو نبیوں کی معرفت ظاہر کر چکا ہے تو دُنیا کبھی کی ہلاک ہو جاتی.سو نیکی کرو اور خدا کے رحم کے امید وار ہو جائو.خدا تعالیٰ کی طرف پوری قوت کے ساتھ حرکت کرو.اور اگر یہ نہیں تو بیمار کی طرح افتاں خیزاں اس کی رضا کے دروازہ تک اپنے تئیں پہنچائو.اور اگر یہ بھی نہیں تو مُردہ کی طرح اپنے اٹھائے جانے کا ذریعہ صدقہ خیرات کے راہ سے پیدا کرو.نہایت تنگی کے دن ہیں اور آسمان پر خدا کا غضب بھڑک رہا ہے.آج محض زبانی لاف و گزاف سے تم پار نہیں ہو سکتے.ایسی حالت بنائو اور ایسی تبدیلی اپنے اندر پیدا کرو اور ایسے تقویٰ کی راہ پر قدم مارو کہ وہ رحیم وکریم خوش ہو جائے.اپنی خلوت گاہوں کو ذکر الٰہی کی جگہ بنائو.اپنے دلوں پر سے ناپاکیوں کے زنگ دُور کرو.بیجا کینوں اور بخلوں اور بد زبانیوں سے پر ہیز کرو اورقبل اس کے کہ وہ وقت آوے کہ انسانوں کو دیوانہ سا بنادے بیقراری کی دعائوں سے خود دیوانے بن جائو.عجب بد بخت وہ لوگ ہیں کہ جو مذہب صرف اس بات کا نام رکھتے ہیں کہ محض زبان کی چالاکیوں پر سارا دارو مدار ہو اور دل سیاہ اور ناپاک اور دنیا کا کیڑا ہو.پس اگر تم اپنی خیر چاہتے ہو تو ایسے مت بنو.عجب
بدقسمت وہ شخص ہے کہ جو اپنے نفسِ امّارہ کی طرف ایک نظر بھی اُٹھا کر نہیںدیکھتا اور بد بُو دار تعصب سے دوسروں کو بد زبانی سے پُکارتا ہے.پس ایسے شخص پر ہلاکت کی راہ کھلی ہے.سو تقویٰ سے پورا حصہ لو اور خدا ترسی کا کامل وزن اختیار کرو اور دعائوں میں لگے رہو تا تم پر رحم ہو.تم میں سے کون ہے جو بھوک کے وقت صرف روٹی کے نام سے سیر ہو سکتا ہے یا صرف ایک دانہ سے پیٹ بھر سکتا ہے ایسا ہی تم خدا کو راضی نہیں کر سکتے جب تک پورے طور پر متقی نہ بن جائو.اپنے دشمنوں کے نفسانی جو شوں کا مقابلہ مت کرو تا تم بھی ایسے ہی ہو جائو کیونکہ جاہل کا مقابلہ صرف جہالت کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے پس اگر وہ تمہیں ستاویں اور دُکھ دیں یا تمہیں جوش دلانے کے لئے میری نسبت سبّ و شتم اور دشنام دہی اور ہتک کا طریق اختیار کریں تو تم صبر کرو اور چُپ رہو تا وہ خدا جو تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کوآسمان پر دیکھتا ہے.تمہیں بدلہ دے.یقینا سمجھو کہ وہ دن آ رہے ہیں کہ جب سے دُنیا پیدا ہوئی ایسی سختی کے دن کبھی عام طورپر دنیا پر نہیں آئے.ایسا ہوا تا وہ پیشگوئیاں پوری ہو جائیں جو ابتدا سے نبیوں نے کی تھیں.خدا نے آج سے پچیس ۲۵برس پہلے طاعون کی خبر مجھ کو دی تھی جو براہین احمدیہ میں شائع ہو چکی تھی.پھر اس وقت خبر دی جب یہ ملک بیماری سے پاک تھا.وہ خبر بھی شائع ہو چکی اور پھر طاعون کے اس سخت حملہ کی خبر جو عنقریب ہونے والا ہے.یہ اس لئے ہوئی کہ تا لو گ متنبّہ ہو جائیں.ان چالاک لوگوں کی پیروی مت کرو جن کے دل گندے اور نجاست سے بھرے ہیں جو دوسروں کو خدا کی طرف بُلاتے اور آپ اس سے دُور ہیں.خدا ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ کس کی زندگی لعنتی اور کس کی زندگی پاک ہے.پس تم ایسے دردناک دُعائوں میں لگ جائو کہ گویا مَر ہی جائو تا دوسری موت سے خدا تمہیں بچاوے.دُنیا کے لئے بڑی گبھراہٹ کے دن ہیں مگر دنیا نہیں سمجھتی لیکن کسی دن سمجھے گی.دیکھو میں اس وقت اپنا فرض ادا کر چکا ہوں اور قبل اس کے کہ تنگی کے دن آویں مَیں نے اطلاع دے دی ہے.اب مَیں ختم کرتا ہوں.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.
اطلاع :- اورمَیں نے ان دنوں میں خد اتعالیٰ کے بعض نشانوں اور خاص ہدایتوں کے ظاہر کر نے کے لئے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ُنصرۃ الحق ہے وہ قادیان میں چھپ رہی ہے اور صاحبزادہ پیر منظور محمد کو دے دی ہے تا وہی چھاپ کر شائع کریں.ہر ایک طالب حق کو اس کا دیکھنا ضروری ہے.چاہیے کہ اُن سے قیمتاً طلب کریں.والسّلام خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی ۲۷؍ فروری ۱۹۰۵ء (یہ اشتہار ۲۶ ×۲۰ ۴ کے ایک صفحہ پر ہے )
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کرے گا.اَلدَّعْوَتْ (۱) آسماں بارد نشاں الوقت میگوید زمیں شد ظہور وعدہ ہائے انبیاء و مرسلین۱؎ (۲) تا بکے جنگ و نبرد و کارزارت باخدا اے سیہ باطن ! بترس از خشم ربّ العالمین چونکہ میرا کام دعوت اور تبلیغ ہے اس لئے مَیں دوبارہ ظاہر کرتا ہوں.اور قسم حضرتِ احدیت جلّشانہ کی کھا کر کہتا ہوں کہ میرے خدا نے اپنی وحی کے ذریعہ سے ظاہر فرمایا ہے کہ میرا غضب زمین پر بھڑکا ہے کیونکہ اس زمانہ میںاکثر لوگ معصیت اور دنیا پرستی میں ایسے غرق ہو گئے ہیں کہ خدا تعالیٰ پر بھی ایمان نہیں رہا اور جو اُس کی طرف سے اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا ہے اُس سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور یہ ٹھٹھا اور لعن طعن حد سے گزر گیا ہے.پس خدافرماتا ہے کہ مَیں اُن سے جنگ کروں گا۲؎ اور میرے وہ حملے اُن پر ہوں گے جو اُن کے خیال گمان میں نہیں.
کیونکہ انہوں نے جھوٹ سے اس قدر دوستی کی کہ سچائی کو اپنے پائوں کے نیچے پامال کرنا چاہا.پس خدا فرماتا ہے کہ مَیں نے اب ارادہ کیاہے کہ اپنے غریب گروہ کو ان درندوں کے حملوں سے بچائوں اور سچائی کی حمایت میں کئی نشان ظاہر کروں.اور وہ فرماتا ہے کہ ’’ دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیانے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.‘‘ پس تم سوچ کر دیکھو کہ یہ دن کیسے ہیں جو تم دیکھ رہے ہو.سچ کہو کہ کیا تمہارے باپ دادوں نے سُنا تھا کہ جس زور سے اب ملک کو طاعون کھا رہی ہے کبھی پہلے بھی ایسا زور ہوا تھا.اور جس طرح ابھی ۴ ؍اپریل ۱۹۰۵ء کو ایک شدید زلزلہ نے تمہارے دلوں کو ہلا دیا اور عام نقصان پہنچا دیا اور لوگوں کو دیوانہ سا کر دیا.کبھی پہلے بھی تم نے یا تمہارے بزرگوں نے اس ملک میں دیکھا تھا؟ اور یا د رکھو کہ یہ تمام واقعات صرف تکلّف اور بناوٹ سے پیشگوئیاں قرار نہیں دیئے گئے بلکہ سالہا سال ان کے وجود سے پہلے براہین احمدیہ میں خبر دی گئی تھی اور ایسا ہی دوسری کتابوں میں جو میری تالیف ہیں یہ خبریں شائع ہو چکی ہیں اور یہ تو پُرانی باتیں ہیں.ممکن ہے کہ اکثر لوگوں کو بھول گئی ہوں گی کیونکہ غفلت اور عداوت اور بد ظنی یہ تینوں جس جگہ اکٹھی ہو جائیں وہاں حافظہ کب درست رہ سکتا ہے خدا کے وعدے بھی ایمانداری سے ہی یا د رہتے ہیں.ورنہ جس شخص کا دل ایمان سے خالی ہو وہ ہزار نشانوں کو بھی آنکھوں سے دیکھ کر ایسا دل سے اُتار دیتا ہے کہ جیسا کہ تنکا توڑ کر پھینک دیا جائے.غرض مَیں اس وقت پرانی پیشگوئیوں پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ مَیں اُن پیشگوئیوں کو پیش کرتا ہوں جن کے شائع کئے جانے پر قریباً ایک مہینہ گذرا ہے.دیکھو میرا اشتہار الوصیت جس کو مَیں نے ۲۷؍ فروری ۱۹۰۵ء کو شائع کیا تھا.یہی اشتہار الحکم نمبر ۷ جلد۹کے صفحہ ۱۱ پر ۲۸ ؍فروری ۱۹۰۵ء کو شائع ہوا.اور پھر دوبارہ الحکم مورخہ ۲۴ ؍مارچ ۱۹۰۵ء کے صفحہ ۲ کالم ۲ میں وہی الہام شائع ہوا.ان پیشگوئیوں میں ایک خبر کے الفاظ یہ ہیں کہ ۲۶ ؍فروری ۱۹۰۵ء کی رات کو جس کی صبح کو ۲۷ ؍فروری ۱۹۰۵ء تھی میں نے بطور کشف دیکھا کہ دردناک موتوں
سے عجیب طرح پر شور قیامت برپا ہے.میرے مُنہ پر یہ الہام الہٰی تھا.کہ موتا موتی لگ رہی ۱؎ ہے اور مجھے دکھایا گیا کہ ملک عذاب الٰہی سے مٹ جانے کو ہے.نہ مستقل سکونت امن کی جگہ رہے گی نہ عارضی سکونت.مقاموں پر اور عارضی سکونت گاہوں پر آفت آئے گی.اور پھر مارچ کے مہینہ میں خدا تعالیٰ نے اپنی پاک وحی سے میرے پر ظاہر کیا کہ مکذّبوں کو ایک نشان دکھایا جائے گا.اور یہ پیشگوئی بھی اسی الحکم ۲۴ ؍مارچ میں شائع ہو چکی ہے اب اے عزیزو! سوچ لو کہ یہ زلزلہ جو ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کی صبح کو اس ملک میں ظاہر ہوا وہی نشان نہیں ہے جس کی خدا نے پہلے سے خبر دی ہے دیکھو کتابوں میں لکھا گیا تھا کہ مہدی موعود کے زمانہ میں رمضان میں کسوف خسوف ہوگا.اور مسیح موعود کی نسبت خود وعیسائی صاحبوں کی انجیل میں ہے کہ مسیح کے وقت میں مری پڑے گی.یعنی طاعون.اور ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر چڑھائی کرے گا اور سخت زلزلے آئیں گے.پس تم نے ان علامتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.پھر جبکہ تمام نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور ان دونوںمنصبوں کا مدّعی مَیں ہوں جو تم میں اس وقت پچیس سال سے موجود ہوں.پس میرے بعد کس کا انتظار کرو گے؟ان تمام علامتوں کا مصداق تووہ ہے جو ان نشانوں کے ظہور کے وقت موجود ہے.نہ وہ کہ جس کا ابھی دنیا میں نام و نشان نہیں.یہ عجیب سخت دلی ہے جو سمجھ میں نہیں آتی.جبکہ میرے دعویٰ کے ساتھ سب نشان ظاہر ہو چکے اور میری مخالفت میں کوششیں بھی ہو کر ان میں نامرادی اور ناکامی رہی مگر پھر بھی انتظار کسی اور کی ہے؟ ہاں یہ سچ ہے کہ میں نہ جسمانی طور پر آسمان سے اترا ہوں اور نہ مَیںدنیا میں جنگ اور خونریزی کرنے کے لئے آیا ہوں مگر مَیں خدا کی طرف سے ہوں.مَیں یہ پیشگوئی کرتاہوں کہ میرے بعد قیامت تک کوئی ایسا مہدی نہیں آئے گا جو جنگ اور خون ریزی سے دنیا 1.ریوی آف ریلیجنز بابت ماہ مارچ 1905ء کے صفحہ 130 پر بھی یہ الہام شائع ہو چکا ہے.منہ
میں ہنگامہ برپا کرے اور خدا کی طرف سے ہو.اور نہ کوئی ایسا مسیح آئے گا جو کسی وقت آسمان سے اُترے گا.ان دونوں سے ہاتھ دھو لو.یہ سب حسرتیں ہیں جو اس زمانہ کے تمام لوگ قبر میں لے جائیں گے.نہ کوئی مسیح اُترے گا اورنہ کوئی خونی مہدی ظاہر ہو گا جو شخص آنا تھا وہ آ چکا.وہ میں ہی ہوںجس سے خدا کا وعدہ پورا ہوا.جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا وہ خدا سے لڑتا ہے کہ تو نے کیوں ایسا کیا.حالانکہ غلطیاں یہود سے بھی ہوتی رہی ہیں.اور اُن کے علماء بھی پیشگوئیوں کے سمجھنے میں ٹھوکر کھاتے رہے ہیں کہ سمجھا کچھ اور آخر ظاہر ہو گیا کچھ.عزیزو!! شرم اور حیا کرو کہ خدا کے دن آ گئے اور آسمان تمہیں وہ کرشمے دکھا رہا ہے جن کی تمہارے آبائو اجداد کو خبر نہ تھی.مبارک وہ جو میرے بارے میں ٹھوکر نہ کھاویں.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِاتَّبَعَ الْھُدٰی المشتھــــــــــــــــــــــــــــــر خاکسار مرزا غلام احمد ۵؍اپریل ۱۹۰۵ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ( یہ اشتہار ۲۲×۱۸ ۲ کے ایک صفحہ پر ہے ) (الحکم مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۸.تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۷۵ تا ۷۸)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ (۱) بتر سید از خدائے بے نیاز و سخت قہارے نہ پندارم کہ بد بیند خدا ترسے نکو کارے ۱؎ (۲) مرا باور نمی آید کہ رسوا گردد آں مردے کہ بتر سد ازاں یارے کہ غفاّرست و ستاّرے (۳) گر آں چیزے کہ می بینم عزیزاں نیز دید ندے ز دُنیا توبہ کردندے بچشم زار و خونبارے (۴) بہ تشویش قیامت ماند ایں تشویش گر بینی علاجے نیست بہر دفع آں جز حسن کردارے (۵) نہ شاید تافتن سرزاں جناب عزت و غیرت کہ گر خواہد کشد دریک دمے چوں کرم بیکارے (۶) من از ہمدردیت گفتم تو خود ہم فکر کن بارے خرد از بہر ایں روز است اے دانا ئو ہشیارے یہ اشتہار جہاں جہاں پہنچے ہماری جماعت کے صاحب مقدرت لوگ اسے اپنی طرف سے اور چھپوا کر دنیا میں شائع کرنے کی کوشش کریں.حضرت نے یہ تاکیدی حکم دیا ہے.(عبد الکریم) ۱؎ ترجمہ اشعار.(۱) لوگو! بے نیاز اور قہار خدا سے ڈرو میں نہیں سمجھتا کہ متقی اور نیک آدمی کبھی نقصان اٹھاتا ہو.(۲) مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ شخص کبھی رسوا ہوا ہو جو اس یار سے ڈرتا ہے جو غفار و ستاّر ہے.(۳)اگر وہ چیز جسے میں دیکھ رہا ہوں دوست بھی دیکھتے تو حصول دنیا سے رورو کر توبہ کرتے.(۴) یہ مصیبت قیامت کی مانند ہے اگر تو غور کرے اور اس کے دور کرنے کا علاج سوائے نیک اعمال کے اور کچھ نہیں.(۵) اس بار گاہ عالی سے سرکشی نہیں کرنی چاہیے اگر وہ چاہے تو ایک دم میں نکمے کیڑے کی طرح تجھے فنا کر دے.(۶) میں نے ہمدردی سے یہ بات کہی ہے اب تو خود غور کرلے اے سمجھ دار انسان عقل اسی دن کے لئے ہوا کرتی ہے.
یہ اشتہار جہاں جہاں پہنچے ہماری جماعت کے صاحب مقدرت لوگ اسے اپنی طرف سے اور چھپوا کر دنیا میں شائع کرنے کی کوشش کریں.حضرت نے یہ تاکیدی حکم دیا ہے.(عبد الکریم) ------------------------------ دنیا میں ایک نذیرآیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدااسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اَ لْاِ نْذَار (غور سے پڑھو کہ یہ خدائے تعالیٰ کی وحی ہے) آج رات تین بجے کے قریب خدا ئے تعالیٰ کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئی جو ذیل میں لکھی جاتی ہے.تازہ نشان.تازہ نشان کا دھکّہ.زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃِ.قُوْااَنْفُسَکُمْ.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْاَبْرَارِ.دَنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ.ترجمہ مع شرح.یعنی خدا ایک تازہ نشان دکھائے گا.مخلوق کو اس نشان کا ایک دھکہ لگے گا.وہ قیامت کا زلزلہ ہو گا( مجھے علم نہیں دیا گیا کہ زلزلہ سے مراد زلزلہ ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو دنیا پر آئے گی جس کو قیامت کہہ سکیں گے اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا حادثہ کب آئے گا اور مجھے علم نہیں کہ وہ چند دن یا چند ہفتون تک ظاہر ہو گا یا خدائے تعالیٰ اس کو چند مہینوں یا چند سال کے بعد ظاہر فرمائے گا بہر حال وہ حادثہ زلزلہ ہو یا کچھ اور ہو.قریب ہو یا بعید ہو، پہلے سے بہت خطرناک ہے.سخت خطرناک ہے.اگر ہمدردی ٔ مخلوق مجھے مجبور نہ کرتی تو میں بیان نہ کرتا.وہ پہلی پیشگوئی جو مَیں نے الحکم اور البدر میں حادثہ سے پانچ ماہ پہلے ملک میں شائع کر کے خبر دی تھی کہ مُلک میں بڑی تباہی پیدا ہو گی اور شوُر ِقیامت برپا ہو گا اور یک دفعہ موتا موتی ظہور میں آ جائے گی.دیکھو وہ نشان کیسا پورا ہوا.اور جیسا کہ مَیں نے ابھی لکھا ہے یہ پیشگوئی مذکورہ اخبار الحکم اور البدر میں اس زلزلہ سے قریباً پانچ ماہ پہلے شائع کر دی گئی تھی اور پیشگوئی مذکورہ یہ ہے.عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا.یعنی بہت سی مخلوق کو مٹا دینے والی تباہی آئے گی جس سے مکانات بے نشان ہو جائیں گے ان مکانوں اور گھروں کا پتہ نہ ملے گا کہ کہاں تھے.دیکھو! کیسی صفائی سے یہ خدا کی باتیں پوری ہو گئیں.اگر تم عربی دان نہیں ہو تو عربی دانوں سے پوچھ لو کہ اس وحی کے کیا معنے ہیں؟ کہ عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا.اے عزیزو! اس کے یہی معنے ہیں
کہ محلّوں اور مقاموں کا نام و نشان نہیں رہے گا.طاعون تو صرف صاحب خانہ کو لیتی ہے.مگر جس حادثہ کی اس وحی الٰہی میں خبر دی گئی تھی اس کے یہ معنے ہیں کہ نہ خانہ رہے گا نہ صاحب خانہ.سو خدائے تعالیٰ کا فرمودہ جس طور سے اور جس صفائی سے پورا ہو گیا آپ صاحبوں کو معلوم ہے.اس کی نسبت اشتہار الوصیّت میں بھی خبر دی گئی تھی.وہ تو جو ہوا سو ہوا.مگر اس کے بعد جو آنے والا حادثہ ہے وہ بہت بڑھ کر ہے.خدائے تعالیٰ لوگوں پر رحم کرے.ان کو تقویٰ اور نیک اعمال کا خیال آجاوے.بقیہ ترجمہ عربی وحی کا یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی کر کے اپنے تئیں بچالو.قبل اس کے جو وہ ہولناک دن آوے جو ایک دم میں تباہ کر دے گا.اور فرماتا ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے جو نیکی کرتے ہیں اور بدی سے بچتے ہیں.اور پھر اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میرا فضل تیرے نزدیک آگیا یعنی وہ وقت آ گیا کہ تو کامل طو ر پر شناخت کیا جاوے حق آگیا اور باطل بھاگ گیا.حاصل مطلب یہ ہے کہ جو کچھ نشان ظاہر ہوا اور ہو گا اس سے یہ غرض ہے کہ لوگ بدی سے باز آویں اور اس خدا کے فرستادہ کو جو ان کے درمیان ہے شناخت کرلیں.پس اے عزیزو! جلد ہر ایک بدی سے پرہیز کرو کہ پکڑے جانے کا دن نزدیک ہے.ہر ایک جو شرک کو نہیں چھوڑتا وہ پکڑا جائے گا.ہر ایک جو فسق و فجور میں مبتلا ہے.وہ پکڑا جاوے گا.ہر ایک جو دنیا پرستی میں حد سے گذر گیا ہے اوردنیا کے غموں میں مبتلا ہے وہ پکڑا جائے گا.ہر ایک جو خدا کے وجود سے منکر ہے، وہ پکڑا جائے گا.ہر ایک جو خدا کے مقدس نبیوں اور رسُولوں اور مُرسلوں کو بدزبانی سے یاد کرتا ہے اور باز نہیں آتا وہ پکڑا جائے گا.دیکھو! آج مَیں نے بتلا دیا.زمین بھی سُنتی ہے اور آسمان بھی کہ ہر ایک جو راستی کو چھوڑ کر شرارتوں پر آمادہ ہو گا.اور ہر ایک جو زمین کو اپنی بدیوں سے ناپاک کرے گا وہ پکڑا جائے گا.خدا فرماتا ہے کہ قریب ہے جو میرا قہر زمین پر اُترے کیونکہ زمین پاپ اور گناہ سے بھر گئی ہے.پس اُٹھو اور ہوشیار ہو جائو کہ وہ آخری وقت قریب ہے جس کی پہلے نبیوں نے بھی خبر دی تھی.مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا کہ یہ سب باتیںاس کی طرف سے ہیں.میری طرف سے نہیں ہیں.کاش یہ باتیں نیک ظنّی سے دیکھی جاویں.کاش مَیں ان کی نظر میں کاذب نہ ٹھہرتا تا دُنیا ہلاکت سے بچ جاتی
.یہ میری تحریر معمولی تحریر نہیں.دلی ہمدردی سے بھرے ہوئے نعرے ہیں.اگر اپنے اندر تبدیلی کرو گے اور ہرایک بدی سے اپنے تئیں بچا لو گے تو بچ جائو گے کیونکہ خدا حلیم ہے جیسا کہ وہ قہار بھی ہے.اور تم سے اگر ایک حصہ بھی اصلاح پذیر ہو گا تب بھی رحم کیا جائے گا.ور نہ وہ دن آتا ہے کہ انسانوں کو دیوانہ کردے گا.نادان بدقسمت کہے گا کہ یہ باتیں جھوٹ ہیں.ہائے وہ کیوں اس قدر سوتا ہے.آفتاب تو نکلنے کو ہے.جب خدائے تعالیٰ اس وحی کے الفاظ میرے پر نازل کر چکا تو ایک رُوح کی آواز میرے کان میں پڑی جو کوئی ناپاک رُوح تھی اور مَیں نے اس کو یہ کہتے سُنا کہ مَیں سوتے سوتے جہنم میں پڑ گیا.انسان کا کیا حرج ہے کہ اگر وہ فسق و فجور کو چھوڑ دے.کونسا اس میں اس کا نقصان ہے.اگر وہ مخلوق پرستی نہ کرے.آگ لگ چکی ہے.اُٹھو اور اس آگ کو اپنے آنسوئوں سے بجھائو.بنی اسرائیل میں جو شخص گناہ کرتا تھا اس کو حکم ہوتا تھا کہ اپنے تئیں قتل کر دے.پس گو یہ حکم تمہارے لئے نہیں ہے مگر یہ تو ضرور چاہیے کہ اس قدر توبہ استغفار کرو تو گویا مر ہی جائو تا وہ حلیم خدا تم پر رحم کرے.آمین.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.راقـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی ۸ ؍ اپریل ۱۹۰۵ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان.تعداد اشاعت ۶۰۰۰ (یہ اشتہار ۱۸×۲۲ ۲ کے ایک صفحہ پر ہے) نوٹ: یہ خبر زلزلہ کی براہین احمدیہ میں بھی مَیں نے دی تھی جس کو شایع ہوئے قریباً پچیس۲۵ برس گذر گئے جیسا کہ اسی وحی الٰہی میں خبر ہے.وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَلَاتُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَنَّھُمْ مُغْرَقُوْنَ.اور ایک وحی الٰہی جو اخباروں میں اس ہولناک زلزلہ کی نسبت شائع ہو چکی ہے.یہ ہے چونکا دینے والی خبر.منہ (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۷۹ تا ۸۲)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَلنِّدَآئُ مِنْ وَحْیِ السَّمَآئِ یعنی ایک زلزلہ عظیمہ کی نسبت پیشگوئی بار دوئم۲ وحیِ الٰہی سے سونے والو! جلد جاگو یہ نہ وقت ِ خواب ہے جو خبر دی وحیِ حق نے اس سے دل بیتاب ہے زلزلہ سے دیکھتا ہوں مَیں زمیں زیر و زبر وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے ہے سرِ راہ پر کھڑا نیکوں کی وہ مولیٰ کریم نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے کوئی کشتی اب بچا سکتی نہیں اس سَیل سے حیلے سب جاتے رہے اک حضرت توّاب ہے ۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو پھر خدا تعالیٰ نے مجھے ایک سخت زلزلہ ۱؎ کی خبر دی ہے جو نمونہ قیامت ۱؎ قرآن شریف میں اس نشان زلزلہ کی نسبت ایک صاف پیشگوئی سورہ النازعات میں درج ہے جہاں اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کی قسم کھا کر جو ایسے امور کے انتظام کے واسطے مامور ہوتے ہیں فرمایا ہے کہ ..۲؎ کیا معنے اُس وقت زمین کانپنے لگے گی اور ایسے کانپے گی کہ گویا اس کا نام رَاجِفَہ رکھ لیا جائے گا یعنی متواتر زلزلے آتے رہیں گے اور اس کے بعد پھر ایک اور بڑا زلزلہ آئے گا.
اور ہوش رُبا ہو گا چونکہ دو مرتبہ مکرر طور پر اس علیم مطلق نے اس آئندہ واقعہ پر مجھے مطلع فرمایا ہے اس لئے مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ عظیم الشان حادثہ جو محشر کے حادثہ کو یاد دلاوے گا، دُور نہیں ہے.مجھے خدائے عزّو جلّ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ دونوں زلزلے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے دو نشان ہیں اُنہیں نشانوں کی طرح جو موسٰیؑ نے فرعون کے سامنے دکھلائے تھے اور اس نشان کی طرح جو نوحؑ نے اپنی قوم کو دکھلایا تھا.اور یاد رہے کہ ان نشانوں کے بعد ابھی بس نہیں ہے بلکہ کئی نشان ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ انسان کی آنکھ کُھلے گی اور حیرت زدہ ہو کر کہے گا کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے.ہر ایک دن سخت او رپہلے سے بدتر آئے گا.خدا فرماتا ہے کہ مَیں حیرت ناک کام دکھلائوں گا.اور بس نہیں کروں گا جب تک کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کرلیں اور جس طرح یوسف ؑ نبی کے وقت میں ہوا کہ سخت کال پڑا یہاں تک کہ کھانے کے لئے درختوں کے پتے بھی نہ رہے اسی طرح ایک آفت کا سامنا موجود ہو گا.اور جیسا کہ یوسف ؑ نے اناج کے ذخیرے سے لوگوں کی جان بچائی.اسی طرح جان بچانے کے لئے خدا نے اس جگہ بھی مجھے ایک رُوحانی غذا کا مہتمم بنایا ہے.جو شخص اس غذا کو سچے دل سے پورے وزن کے ساتھ کھائے گا.مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ضرور اُس پر رحم کیا جائے گا.بعض نادان کہتے ہیں کہ پھر کئی لوگ احمدی جماعت میں سے طاعون سے کیوں مر گئے.پس یاد رہے کہ اب تک ایک فرد بھی ہماری جماعت میں سے طاعون یا زلزلہ سے نہیں مرا جس نے عملی حالت کو محبت ِ کاملہ اور قوتِ ایمان اور پورے صدق او رصفا اور دین کو مقدم رکھنے کے ساتھ جمع کیا ہو اور جس کو مَیں نے اُن علامات کے ساتھ شناخت کر لیا ہو یا مجھ کو اُس کے اِس مرتبے کی خبر دی گئی ہو.ہاں چونکہ (بقیہ حاشیہ)اس میں آئندہ زلزلے کے واسطے ایک پیشگوئی ہے اور جو زلزلہ ہو چکا ہے اس کی بھی پیشگوئی درج ہے.یہ قرآن شریف کی صداقت کا ایک بڑا بھاری نشان ہے.یہ پیشگوئی دوسرے زلزلہ کی ۹ ؍ اپریل ۱۹۰۵ء کی وحی الٰہی کی بناء پر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطرناک زلزلہ صرف ایک نہیں بلکہ غالباً اس کے بعد کئی اور زلزلے بھی ہیں.
لاکھوں انسان اس جماعت میں داخل ہو چکے ہیں اور اکثر وہ ہیں جو ایک بچے کی طرح کمزور ہیں اور ایسے بھی ہیں جو کسی ابتلا کے وقت ثابت قدم بھی نہیں رہ سکتے اور ایسے بھی ہیں جو تھوڑے سے امتحان میں پڑ کر مُرتد ہو نے کو تیار ہوتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو یہ اقرار کر کے جھوٹ بولتے ہیں جو ہم نے دین کو دُنیا پر مقدم کر لیا ہے حالانکہ ابھی تک وہ دنیا کے گند میں پڑے ہیں.ہرگز دین کو دُنیا پر مقدّم نہیں کیا.دن رات مُردار دُنیا میں مبتلا اور اسی غم وہّم میں گرفتار ہیں اور ان کی عملی حالت اسی پر گواہی دے رہی ہے کہ انہوں نے دین کو دُنیا پر مقدّم نہیں کیا.ہرگز نہیں کیا.لیکن مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ آہستہ آہستہ بڑی رُوحانی ترقی کر لیں گے.غرض ممکن نہیں اور بالکل ممکن نہیں کہ جس شرط پر مَیں لوگوں کو بیعت میں داخل کرتا ہوں اور جس راہ پر مَیں چلانا چاہتا ہوں اس پر مضبوط پنجے مار کر پھر بھی کوئی شخص مورد عذاب الٰہی ہو.ہاں کمزوری کی حالت میں اُن کے لئے طاعون سے فوت ہونا ایک شہادت ہے جو گناہ سے صاف کر کے ان کو بہشت میں پہنچائے گی اور یہی خبر خدا نے مجھے دی تھی جس کو مَیں نے عام طور پر شائع کر دیا تھا مگر لوگوں نے جیسا کہ اُن کی عادت ہے اس الہام میں تحریف کر کے اپنی طرف سے یہ شائع کیا کہ گویا میرا یہ دعویٰ ہے کہ کوئی مرید میرا گو اس کی عملی یا ایمانی حالت کیسی ہی ہو طاعون سے نہیں مرے گا.تعجب ہے کہ ہمارے مخالف لوگوں میں افترا کی عادت کس قدر بڑھ گئی ہے.اصل الہام جس سے مَیں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ خدا تعالیٰ ہر ایک کامل الایمان اور کامل العمل کو جو ہماری جماعت میں سے ہو گا، طاعون کی موت سے بچائے گا یہ ہے اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ.اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ یعنی جن لوگوں نے مجھے قبول کیا اور مجھ پر ایمان لائے اور اپنے ایمان کو کسی ظلم اور قصور اور کسی نوع کی ایمانی یا عملی تاریکی یا نقص کے ساتھ مختلط نہیں کیا وہ طاعون کے حملے سے امن میں رہیں گے.پس اس وحی سے کہاں یہ ثابت ہے کہ جو لوگ اپنے اندر کچھ نقص اور ظلم رکھتے ہیں یا کوئی ایمانی کمزوری، وہ بھی اس وعدہ الٰہی کے نیچے داخل ہیں نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ سُوْئِ الْفَھْمِ وَ اِفْرَاطِ
الْوَہْمِ.مَیں ایسے چند لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو پہلے اس جماعت میں داخل ہوئے تھے اور پھر مرتد ہو گئے.اگر وہ اس جماعت میں رہ کر طاعون سے مَر جاتے تو جلد باز اور ناواقف لوگ یہی کہتے کہ دیکھو اس جماعت کے یہ لوگ تھے جو طاعون سے مر گئے حالانکہ اُن کے اندر ایک خبیث مادہ تھا جس کو خدا جانتا تھا اور لوگ نہیں جانتے تھے.اور وہ ا س پھوڑے کی طرح تھے جو اوپر سے بہت چمکتا ہو اور اندر بجز پیپ کے اور کچھ نہ ہو.ہاں خدا نے مجھے یہ خبر دے رکھی ہے کہ طاعون اس جماعت کی تعداد کو بڑھائے گی اور دوسرے مسلمانوں کی تعداد کو گھٹائے گی.سو آخر پر دیکھ لینا چاہیے کہ یہ پیشگوئی سچی نکلی یا جھوٹی.مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ظلم کے سبب سے جو کیا گیا اور طاعون کے نشان کو دیکھ کر لوگ ہنسی سے پیش آئے یہ دوسرا نشان زلزلے کا ظاہر ہوا جس کی خبر آج سے قریباً ایک برس پہلے اخبار الحکم اور البدر میں شائع کی گئی تھی اور پہلے اشتہار میں جو لکھا گیا کہ زلزلہ سے پانچ مہینے پہلے الہام عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا ہوا تھا وہ غلطی سے لکھا گیا تھا بلکہ مئی ۱۹۰۴ء میں ان دونوں اخباروں میں اس خوفناک زلزلہ کی خبر شائع کی گئی تھی.ساتھ اس کے یہ بھی الہام تھا کہ زلزے کا دھکا زلزلہ شدیدہ کی نسبت ان دونوں اخبارات میں زلزلہ سے بہت مدّت پہلے یہ الہام بھی شائع ہو چکا ہے کہ چونکا دینے والی خبر.اور اسی زلزلہ کی نسبت براہین احمدیہ اور سبز اشتہار میں وحی الٰہی شائع ہوئی ہے.وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَاتُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآ اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ.یعنی ہمارے ربرو اور ہمارے حکم سے کشتی تیار کر.اور ان لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں مجھ سے بات نہ کر کہ مَیں ان سب کو غرق کروں گا اور عربی الہام مذکورہ بالا کا مفہوم یہ تھا کہ زلزلے کے وقت جو مکان بطور سرائے کے ہوں گے یا جو مستقل طو رپر سکونت کے مکانات ہوں گے وہ حادثہ زلزلہ سے نابود ہو جائیں گے.ان کا نام و نشان نہ رہے گا اور پھر اشتہار الوصیّت میں بھی زلزلے سے پہلے شائع کیا گیا تھا کہ موتا موتی کا واقعہ آنے والا ہے جس سے شور قیامت برپا ہو گا.غرض اے ناظرین آپ صاحبان بچشم خود دیکھ چکے ہیں کہ وہ پیشگوئی جو مَیں نے الحکم اور
البدر میں شدید زلزلے کے بارے میں آج کی تاریخ سے ایک برس پہلے کی تھی.وہ کس زور سے پوری ہوئی اور جو سخت حادثے کانگڑہ اور بھاگسو اور پالم پور اور سوجان پور تیرہ اور دیگر مقامات جیسا کہ کلّو اور رہلو میں ہوئے، اُن کی تفصیل کی اس جگہ حاجت نہیں.یہ ایک ایسی پیشگوئی تھی جس سے دلوں پر بہت اثر ہونا چاہیے تھا.مگر مَیں نے سُنا ہے کہ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاہور اور امرتسر میں اس پر بھی بہت ٹھٹھا کیا گیا.خاص کر پیسہ اخبار کے ایڈیٹر نے اس ٹھٹھے سے بہت سا حصہ لیا اور ردّ کے طو رپر لکھا کہ ایسے زلزلے ہمیشہ آتے ہیں اور جاپان میں بہت زلزلے آیا کرتے ہیں اس شخص نے دیدہ و دانستہ سچائی کا خون کرنا چاہا ہے.یہ تو سچ ہے کہ دنیا میں کوئی نئی بات نہیں.نوحؑ کے طوفان تک کابھی پہلے ایک نمونہ گذر چکا ہے.مگر خدائے تعالیٰ جب کسی شدید حادثہ کی قبل از وقت خبر دے.جو اُس ملک کے رہنے والے اُس کو ایک غیر معمولی واقعہ اور ایک انہونی بات خیال کرتے ہیں اور اپنے ملک میں ان کے باپ دادوں نے اس کی نظیر نہ دیکھی ہو اور ایسا امر اُن کے مُلک میں ظاہر ہونا ان کے خیال و گمان میں بھی نہ ہو وہ امر واقع ہو جائے اور وہ پیشگوئی پوری ہو جائے تو پھر بھی اس کو معمولی بات سمجھنا اگر ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے.مگر مَیں جانتا ہوں کہ اس درجے کا تعصّب رکھنے والے اور دانستہ حق کو چھپانے والے دُنیا میں بہت کم ہوں گے.شاید ایڈیٹر صاحب پیسہ اخبار اس اپنی سیرت میں لاہور میں ایک ہی ہوں یا چند آدمی جو انگلیوں پر شمار ہوتے ہیں ان کے ہم مشرب ہوں.بہرحال جب کہ پہلی پیشگوئی کو ڈرنے والے دل کے ساتھ نہیں دیکھا گیا اور مجھ کو بقول پیسہ اخبار ایک دکاندار یا افترا کے کاموں کا تاجر ٹھیرایا گیا ہے تو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اب دوسرا نشان دکھاوے تا ماننے والوں پر اس کا رحم ہو اور توبہ کرنے والے توبہ کر لیں.اور تا وہ لوگ جو کئی منزلوں کی چھتوّںکے نیچے سوتے ہیں وہ کسی اَور جگہ ڈیرے لگا لیں.اس وقت بجز توبہ کیا علاج ہے.اس آنے والے حادثہ کے لئے کوئی ٹیکا بھی تجویز نہیں ہو سکتا.جس سے تسلّی ہو.پس مَیں محض خیر خواہی مخلوق کے لئے ہمدردی سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ اشتہار شائع کرتا ہوں
کہ جہاں تک ممکن ہو اپنی اصلاح کرنی چاہیے.کم سے کم ظلم اور تعدی اور فسق و فجور اور ٹھٹھے اور ہنسی سے دستکش ہو جانا چاہیے.بہتر ہے کہ ہر ایک شخص اپنا صدقہ دے اور اگر قربانی بھی کرے تو بہتر ہے اور ٹھٹھے والی مجلسوں سے الگ ہو جاوے.یاد رہے کہ اگر کسی کا مذہب اور عقیدہ ناراستی پر ہے مگر وہ ٹھٹھے کرنے والی مجلسوں میں نہیں بیٹھتا اور بدزبانی کرنے والوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا اورفسق و فجور اور ظلم و تعدی اور ہر ایک قسم کی شرارتوں سے اور جھوٹی گواہیوں اور ناحق کے خون اور چوری سے دستکش ہے اور غربت اور مسکینی اور شرافت سے گذارہ کرتا ہے وہ اگرچہ بباعث اپنی مذہبی غلطی کے روز آخرت میں مؤاخذہ کے لائق ہو گا.مگر دُنیا میں خدا تعالیٰ کریم و رحیم ہے دوسروں کی نسبت اس پر رحم کرے گا.بشرطیکہ شریر جماعتوں کے ساتھ اس کا پیوند اور تعلق نہ ہو.۱؎ خوب یاد رکھو کہ جن قوموں کو خدا تعالیٰ نے اس سے پہلے عذاب میں مبتلا کیا تھا جیسا کہ نوحؑ کی قوم اور فرعون کی قوم اور لوطؑ کی قوم وہ اس لئے ہلاک نہیں کی گئی تھیں کہ مذہبی اختلاف درمیان تھا بلکہ وہ اپنی شوخیوں اور شرارتوں کی وجہ سے ہلاک کی گئی تھیں.نوحؑ کی قوم نے نہ صرف حضرت نوحؑ کو مفتری سمجھا بلکہ دن رات ٹھٹھا ہنسی ان کا پیشہ ہو گیا.اور فرعون اور اس کی قوم نے پہلے سے زیادہ بنی اسرائیل پر ظلم کرنا شروع کیا.اور لُوط کی قوم نے فسق و فجور میں جبر تک نوبت پہنچائی.اور جب اُن کو سمجھایا گیا تو لُوط اور اس کے اصحاب کی نسبت انہوں نے اپنے ۱؎ آیت قرآنی ۲؎سے صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کے قہری عذاب کے نازل ہونے سے پہلے خدا کی طرف سے کوئی رسُول ضرور مبعوث ہوتا ہے جو خلقت کو آنے والے عذاب سے ڈراتا ہے اور یہ عذاب اس کی تصدیق کے واسطے قہری نشانات ہوتے ہیں اس وقت بھی خدا کا ایک رسُول تمہارے درمیان ہے جو مدت سے تم کو ان عذابوں کے آنے کی خبر دے رہا ہے پس سوچو اور ایمان لائو کہ نجات پائو.منہ
رفیقوں کو وہ کہا جو قرآن شریف میں درج ہے اور وہ یہ ہے. .۱؎ یعنی ان لوگوں کو اپنے گائوں سے باہر نکالو.یہ تو طہارت اور تقویٰ لئے پھرتے ہیں.یعنی ہمارے مخالف اَور اَور باتیں لوگوں کو کہتے ہیں.پس خدا کا غضب اُن قوموں پر بھڑکا۲؎ اور اُن کو صفحہ زمین سے ناپد ید کر دیا.پس گیا تم اُن لوگوں سے زیادہ سخت ہو.یا تمہارے پاس اللہ تعالیٰ سے مقابلے کا کچھ سامان موجود ہے اور اُن کے پاس موجود نہ تھا اور یا تم عذاب سے بَری کئے گئے ہو اور یا خدا تعالیٰ میں اب وہ عذاب دینے کی قوّت نہیں جو پہلے تھی.مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس آنے والے نشان کے بعد جو مجھ کو قبول کرے گااس کا ایمان قابلِ عزت نہیں.جس کے کان ہیں سُنے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا غضب زمین پر بھڑکا ہے کیونکہ زمین والوں نے میری طرف سے مُنہ پھیر لیا ہے.پس جب ایک انسانی سلطنت عدول حکمی سے ناراض ہو جاتی ہے اور ہولناک سزا دیتی ہے، پھر خدا کا غضب کیسا ہو گا.پس توبہ کرو کہ دن نزدیک ہیں.اور اس بارے میں جو عربی میں مجھے وحی الہٰی ہوئی اس جگہ میں اس کو معہ ترجمہ لکھ کر اس اشتہار کو ختم کرتا ہوںاور وہ یہ ہے.بخور آنچہ بخور انم.لَکَ دَرَجَۃٌ فِی السَّمَآئِ وَ فِی الَّذِیْنَ ھُمْ یُبْصِرُوْنَ.نَزَلْتُ لَکَ.لَکَ نُرِیْ اٰیَاتٍ وَ نَھْدِمُ مَا یَعْمَرُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اﷲِ فَھَلْ اَنْتُمْ ۱؎ الاعراف : ۸۳ ۲؎ درحقیت اس حادثہ میںاس عادۃ اللہ کی مثال ڈپٹی عبد اللہ آتھم اور پنڈت لیکھرام ہیں عبد اللہ آتھم نے پیشگوئی کو سُن کر کوئی شوخی نہیں دکھلائی تھی بلکہ روتا رہا اس لئے خدا نے جو رحیم و کریم خدا ہے اس کی میعادمیں تاخیرڈال دی.جیسا کہ پہلے الہام میں اس کا وعدہ تھا.مگر لیکھرام نے شوخی دکھلائی اور پیشگوئی کو سُن کر بد زبانی میں بڑھ گیا اور ہر مجلس میں گالیاں دینا اپنا شیوہ اختیار کر لیا.اس لئے غیور خدا نے اس کی اصل میعاد بھی پوری نہ ہونے دی اور ابھی پانچ برس ہی گزرے تھے جو اپنی سزا کو پہنچ گیا اور زبان کی چھرُی دوسرے رنگ میں اس کو لگ گئی.منہ
مُؤْمِنُوْنَ.کَفَفْتُ عَنْ بَنِیْ اِسْرَآئِ یْل.اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ ھَامَانَ وَجُنُوْدَھُمَا کَانُوْا خَاطِئِیْنَ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.یعنی جوکچھ میں تجھے کھلاتا ہوں وہ کھا.تیرا آسمان پر ایک درجہ ہے.اور نیز ان میں درجہ ہے جو آنکھیں رکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں.اور میں تیرے لئے زمین پر اُتروں گا تا اپنے نشان دکھلائوں ہم تیرے لئے زلزلہ کا نشان دکھلائیں گے اور وہ عمارتیں جن کو غافل انسان بناتے ہیں یا آیندہ بنائیں گے گرا دیں گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زلزلہ نہیں بلکہ کئی زلزلے ہوں گے جو عمارتوںکو وقتاً فوقتاً گرا ئیں گے.اور پھر فرمایا کہ مَیں تیری جماعت کے لوگوں کو جو مخلص ہیں اور بیٹوں کا حکم رکھتے ہیں بچاؤں گا اس وحی میں خدا تعالیٰ نے مجھے اسرائیل قرار دیا.اور مخلص لوگوں کو میرے بیٹے.اس طرح پر وہ بنی اسرائیل ٹھہرے.اور پھر فرمایا کہ مَیں آخر کو ظاہر کروں گا کہ فرعون یعنی وہ لوگ جو فرعون کی خصلت پر ہیں اور ہا مان یعنی وہ لوگ جو ہا مان کی خصلت پر ہیں اور ان کے ساتھ کے لوگ جو اُن کا لشکر ہیں یہ سب خطا پر تھے.اور پھر فرمایا کہ مَیں اپنی تمام فوجوں کے ساتھ یعنی فرشتوںکے ساتھ نشانوں کے دکھلانے کے لئے ناگہانی طور پر تیرے پاس آئوںگا یعنی اُس وقت جب اکثر لوگ باور نہیں کریں گے.اور ٹھٹھے اور ہنسی میں مشغول ہو ں گے اور بالکل میرے کام سے بے خبر ہوں گے.تب مَیں اُس نشان کو ظاہر کر دوں گا کہ جس سے زمین کانپ اُٹھے گی تب وہ روز دُنیا کے لئے ایک ماتم کا دن ہو گا.مبارک وہ جو ڈریں اور قبل اس کے جو خدا کے غضب کا دن آوے تو بہ سے اس کو راضی کر لیں کیونکہ وہ حلیم اور کریم اور غفور اور تَوّاب ہے جیسا کہ وہ شَدِیْدُ العِقَاب بھی ہے.یاد رہے کہ ان دونوں زلزلوں کا ذکر میری کتاب براہین احمدیہ میں بھی موجود ہے.جو آج سے پچیس برس پہلے اکثر ممالک میں شائع کی گئی تھی.اگرچہ اُس وقت اس خارق عادت بات کی طرف ذہن منتقل نہ ہو سکا.لیکن اب پیشگوئیوں پر نظر ڈالنے سے بد یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئندہ آنے والے زلزلوں کی نسبت پیشگوئیاں تھیں جو اس وقت نظر سے مخفی رہ گئیں.چنانچہ
پہلی پیشگوئی ان میں سے براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۶ میں موجود ہے جس کی عبارت یہ ہے.فَبَرَّاَہُ اﷲُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍِ عَبْدَہٗ.فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّـہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَ اللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ یعنی خدا اپنے اس بندے کو ان تہمتوں اور بہتانوں سے برَی کرے گا جو اس پر لگائے جائیں گے.وہ خود اپنے بندے کے لئے کافی ہے.پس جب خدا پہاڑ پر تجلیّ کرے گا تو اس کو پار پارہ کر دے گا اور جو کچھ مخالف لوگ ناحق کے الزاموں میں مبتلا کر نا چاہیں گے.ان کے سب مکر سُست کر دے گا.اب چونکہ انہیں ان دنوں میں مخالف لوگ طرح طرح کی تہمتیں لگانے میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور اسی زمانے میں خدا نے زلزلہ شدید کی مجھے ایک برس پہلے خبر دی.چنانچہ مطابق اس کے پہاڑوں پر زلزلہ کی سخت آفت آئی.پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس جگہ پہاڑوں کے پارہ پارہ کرنے سے مراد یہ زلزلہ تھا جس کی الحکم وغیرہ میں ایک برس پہلے خبر دی گئی.دوسری پیشگوئی براہین احمدیہ میں زلزلہ کے بارے میں یہ ہے.مَیں اپنی چمکار دکھلائوں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھائوں گا.دُنیا میں ایک نذیر آیا.پر دُنیانے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اَلْفِتْنَۃُ ھٰہُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُواالْعَزْمِ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّـہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا قُوَّۃُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَیْدِ اللّٰہِ الصَّمَدِ.عربی کا ترجمہ یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ ان دنوں میں تیرے پر ایک فتنہ برپا کیا جائے گا.پس خدا تجھے بَری کرنے کے لئے ایک نشان دکھائے گا اور وہ یہ کہ پہاڑ پر اس کی تجلی ہو گی اور وہ پہاڑ کو پارہ پارہ کر دے گا.یہ خدا کی قوت سے ہو گاتا وہ اپنے بندے کے لئے نشان دکھاوے دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۷ اور پھر رسالہ آمین میںجومطبع ضیاء الاسلام قادیان میںچھپ کر ۱۹۰۱ء میں شائع ہوا تھا.یہی خبر نظم میںدی گئی تھی اور وہ شعر یہ ہیں.
کرو توبہ کہ تا ہو جائے رحمت دکھائو جلد تر صدق و انابت کھڑی ہے سر پہ ایسی ایک ساعت کہ یاد آ جائے گی جس سے قیامت مجھے یہ بات مولا نے بتا دی فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ اب سنو اے عزیزو! کہ آج مَیں نے تبلیغ ۱؎ کا حق ادا کر دیا.اب چاہو ٹھٹھا کرو، گالیاں دو تہمتیں لگائو اور مفتری نام رکھو اور چاہو تو قبول کرو.مَیں نے قبل از وقت بتا دیا.بد قسمتو! تم آنے والے عذاب سے بھاگ نہیں سکتے.خدا بر حق ہے اور اس کے وعدے برحق.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی راقـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸ ؍اپیریل ۱۹۰۵ء (یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے آٹھ صفحات پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۱۰صفحہ ۸۲ تا ۹۲) ۱؎ پہلے اکثر مسلمان جو اپنی غلط فہمی سے حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُتار رہے تھے وہ بات صحیح نہ تھی بلکہ خد اتعالیٰ کی طرف سے یہ مسیح ہو کر آنے والا یہی راقم تھا.لیکن ان لوگوں کا کچھ قصور نہیں کیونکہ قبل از وقوع کسی پیشگوئی کے معنے کرنے میں عوام تو ایک طرف بعض اوقات انبیاء بھی اجتہادی غلطی کر بیٹھتے ہیں گو بعد اس کے پیشگوئی کے وقوع کے وقت معنے کھل جاتے ہیں.
دنیا میں ایک نذیرآیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خداس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ زلزلہ کی خبر بار سوم ۳ آج ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو پھر خدا تعالیٰ نے مجھے دوسری مرتبہ کے زلزلہ شدیدہ کے نسبت اطلاع دی ہے سو مَیں محض ہمدردی مخلوق کے لئے عام طور پر تمام دنیا کو اطلاع دیتا ہوں کہ یہ بات آسمان پر قرار پا چکی ہے کہ ایک شدید آفت سخت تباہی ڈالنے والی دنیا پر آوے گی.جس کا نام خدا تعالیٰ نے بار بار زلزلہ رکھا ہے.مَیں نہیں جانتا کہ وہ قریب ہے یا کچھ دنوں کے بعد خدا تعالیٰ اس کو ظاہر فرماوے گا.مگر بار بار خبر دینے سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ بہت دُور نہیں ہے.یہ خد تعالیٰ کی خبر اور اس کی خاص وحی ہے جو عالم الاسرار ہے ا س کے مقابل پر جو لوگ یہ شائع کر رہے ہیں کہ ایساکوئی سخت زلزلہ آنے والا نہیں ہے.وہ اگر منجم ہیں یا کسی اَور علمی طریق سے اٹکلیں دوڑاتے ہیں.وہ سب جھوٹے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں درحقیقت یہ سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ وہ زلزلہ اس ملک پر آنے والا ہے جو پہلے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا اور نہ کسی دل میں گزرا بجز توبہ اور دل کے پاک کرنے کے کوئی اُس کا علاج نہیں.کوئی ہے جو ہماری اس بات پر ایمان لائے؟ اور کوئی ہے جو اس آواز کو دل لگا کر سُنے؟ یہ بھی ملک کی بد قسمتی ہے جو خدا کے کلام کو
ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتے ہیں اور اُن کے دل ڈرتے نہیں.خدا فرماتا ہے کہ مَیں چھپ کر آئوں گا.مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ اُس وقت آئوں گا کہ کسی کو گمان بھی نہ ہو گا کہ ایسا حادثہ ہونے والا ہے.غالباً وہ صبح کا وقت ہو گا یا کچھ حصہ رات میں سے یا ایسا وقت ہو گا جو اس سے قریب ہے.پس اے عزیزو! تم جو خدا تعالیٰ کی وحی پر ایمان لاتے ہو ہشیار ہو جائو اور اپنے توبہ کے جامہ کو خوب پاک اور صاف کرو کہ خدا تعالیٰ کا غضب آسمان پر بھڑکا ہے.وہ چاہتا ہے کہ دنیا کو اپنا چہرہ دکھاوے.بجز توبہ کے کوئی پنا ہ نہیں.ہلاک ہو گئے وہ لوگ جن کا کام ٹھٹھا اور ہنسی ہے جو گناہ اور معصیت سے باز نہیں آتے.اور ان کی مجلسیں ناپاکی اور غفلت سے بھری ہوئی ہیں اور اُن کی زبانیں مُردار سے بدتر ہیں.وہ بار بار کی شوخیوں سے خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتے ہیں.وہ دلوں کے اندھے ہیں.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس روز مَیں اُن پر رحم کروں گا.جن کے دل مجھ سے ترساں اور ہراساں ہیں.جو نہ بدی کرتے ہیں اور نہ بدی کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں.اور خدا نے یہ بھی فرمایا کہ اس روز تیرے لئے فتح نمایاں ظاہر ہوگی کیونکہ خدا اس روز وہ سب کچھ دکھلائے گا جو قبل از وقت دنیا کو سُنایا گیا.خوش قسمت وہ جو اَب بھی سمجھ جائے.یاد رہے کہ خدا کا غیب نہایت عمیق در عمیق ہوتا ہے.بجز اُن خدا کے مُرسلوں کے جو جنابِ الٰہی میں برگزیدہ ہوتے ہیں اور کسی پر نہیں کُھلتا اور کسی کو اس خالص غیب سے اطلاع نہیں دی جاتی.پس مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی ہے تا وہ جو خدا تعالیٰ کو شناخت نہیں کرتے اور نہ مجھ کو، اُن کو پتہ لگ جائے.مَیں محض ہمدردی کی راہ سے یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر بڑے بڑے مکانوں سے جو دو منزلے سہ منزلے ہیں اجتناب کریں تو اس میں رعایت ظاہر ہے.آئندہ اُن کا اختیار.والسلام المشتھر میرزا غلام احمد قادیانی ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء بروز شنبہ (نولکشور پریس لاہور) (یہ اشتہار ۲۲×۲۹ ۴ کے آٹھ صفحات پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۹۳، ۹۴)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ضروری گزارش لائق توجہ گورنمنٹ۱؎ یہ عجیب زمانہ ہے کہ ہمدردی کی بھی ناشکری کی جاتی ہے.بعض اخباروں والے خاص کر پیسہ اخبار لاہور اس بات سے بہت ناراض ہوئے ہیں کہ مَیں نے دوسرے زلزلہ کی خبر کیوں شائع کی ہے.حالانکہ ان کو خوب معلوم ہے کہ جو کچھ مَیں نے شائع کیا وہ بدنیتی سے نہیں ہے اور نہ کسی کو آزار دینا اور تشویش میں ڈالنا میرا مقصد ہے.مَیں نے پہلے اس سے ۱۹۰۱ء میں ایک زلزلہ شدیدہ کی خبر شائع کی تھی جس کا یہ مضمون تھا کہ ایک زلزلہ سخت آنے والا ہے جو ہولناک ہوگا اور پھر مَیں نے اسی زلزلہ کے بارے میں مئی ۱۹۰۴ء میں بذریعہ اخبار شائع کیا کہ وہ زلزلہ آنے والا ایسا ہو گا کہ جس سے ایک حصہ ملک کا تباہ ہو جائے گا اور بڑی بڑی عمارتیں گریں گی اور جو عارضی طور
طور پر فرود گاہیں ہیں وہ بھی گریں گی اور جو مستقل سکونت کی عمارتیں ہیں وہ بھی نابود ہو جائیں گی.اور اس زمانہ سے پچیس ۲۵برس پہلے بھی مَیں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں اسی زلزلہ کی خبر دی تھی اور لکھا تھا کہ اس سے پہاڑ پھٹ جائیں گے اور بڑی آفت پیدا ہو گی.اور جب وہ پیشگوئی ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو پوری ہو گئی اور بندگانِ خدا کا وہ نقصان ہوا جس کی تحریر کرنے کی حاجت نہیں.تب مجھے اس حادثہ سے اس قدر صدمہ پہنچا کہ جس کے بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں.اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ بہت ہی کم ایسے لوگ ہوں گے جن کو میری مانند ملک کی اس تباہی کا صدمہ پہنچا ہو.کیونکہ اس زلزلہ کے بعد مجھے بار بار یہ خیال آیا کہ مَیں نے بڑا گناہ کیا کہ جیسا کہ حق شائع کرنے کا تھا اس پیشگوئی کو شائع نہ کیا.کیونکہ وہ پیشگوئی صرف اردو کے دو اخبار اور دو رسالوں میں شائع ہوئی تھی اور یہ بھی فروگذاشت ہوئی ہے کہ عربی پیشگوئی کا ترجمہ بھی نہیں ہوا تھا اور یہ بھی بڑی غلطی ہوئی کہ انگریزی اخباروں میں اس کو شائع نہیں کیا گیا تھا.اگرچہ مَیں اس وقت جانتا تھا کہ میرا لکھنا دلوں کو ایک واجبی احتیاط کی طرف مصروف نہیں کرے گا کیونکہ قوم میری باتوں کو بدظنّی سے دیکھتی ہے اور ہر ایک بھلائی کی بات جو مَیں پیش کرتاہوں بجز گالیاں سُننے کے مَیں اُس کا کوئی صلہ نہیں پاتا.تاہم میرے دل کو اس غم نے سخت گھیرا کہ جو خبر مجھے پہلے سے بہت صفائی سے خدائے علیم و حکیم کی طرف سے ملی تھی مَیں نے اس کی پورے طور پر اشاعت نہ کی اور اگر مَیں پورے طور پر اشاعت کرتا اور بار بار متنبہ کرتا تو ممکن تھا کہ اس پر کاربند ہو کر بعض جانیں بچ جاتیں.چنانچہ جس قدر میری جماعت میں سے دھرم سالہ اور کانگڑہ اور کلو وغیرہ میں لوگ رہتے تھے یا ملازم تھے ایک بھی ان میں سے ضائع نہیں ہوا.اس کی وجہ یہی ہو گی کہ وہ زلزلہ کی خبر کو پہلے سے یاد رکھتے ہوں گے اور حتی الوسع اپنی باطنی اصلاح بھی کی ہوگی.مَیں اسی غم او ر پریشانی میں تھا کہ یک دفعہ پھر مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر ملی کہ ایک زلزلہ اَور آنے والا ہے جو قیامت کا نمونہ ہو گا.اس خبر کے سُنتے ہی میرے بدن پر لرزہ پڑ گیا اور میرے دل کی وہ حالت ہوئی جس کو میرا خدا جانتاہے اور جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں مَیں پہلے سے بہت شرمندہ تھا کہ
مَیں نے زلزلہ کی پہلی خبر کو کماحقہ کیوں شائع نہ کیا اور کیوں بنی نوع کی پوری ہمدردی نہ کی.اب دوسرے زلزلہ کی خبر پا کر میرا دل اس بات کے لئے بے اختیار ہو گیا کہ پہلی فروگذاشت کی اب تدارک کروں.اسی غرض سے مَیں نے تین اشتہار شائع کئے تا لوگوں کو متنبہ۱؎ کروں کہ حتی المقدور اپنے اعمال کی اصلاح کریں اور جہاں تک ممکن ہو ایسی عمارتوں سے بچیں جو دو منزل سہ منزل ہیں.اور اب کی دفعہ مَیں نے پہلی فروگذاشت کو پورا کرنے کے لئے کئی ہزار اشتہار شائع کئے اور اخباروں میں بھی یہی مضمون شائع کرایا اور پایونیر وغیرہ انگریزی اخباروں میں بھی شائع کر ا دیا.بلکہ اس اطلاع کے لئے ایک چٹھی بخدمت جناب لفٹنٹ گورنر بہادر اور ایک چٹھی جناب نواب لارڈ کرزن وایسرائے بالقابہ کی خدمت میں بھیجی گئی اور ابھی میں اس بات کی طرف متوجہ ہوں کہ یا تو خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس گھڑی کو ٹال دے اور مجھے اطلاع دے اور یا پورے طور پر بقید تاریخ اور روز اور وقت اس آنے والے حادثہ سے مطلع فرماوے کیونکہ وہ ہر ایک بات پر قادر ہے.اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ کسی بدنیتی یا دلآزاری یا ستانے کے لئے مَیں نے یہ کام نہیں کیا ۱؎ اس کے واسطے کوئی تاریخ معین نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے کوئی خاص تاریخ میرے پر ظاہر نہیں فرمائی.بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے کہ ہم نے ۱۱ سے ۱۴ مئی مقرر کی تھی مگر یہ بالکل جھوٹ ہے.ہم نے کوئی تاریخ نہیںلکھی.ایسی پیشگوئیوں میں عموماً یہی سنۃ اﷲ ہے.چنانچہ انجیل میں بھی صرف یہ لکھا ہے کہ زلزلے آویں گے مگر تاریخ مقرر نہیں ہے.مجھے اب تک قطعی طور پر یہ بھی معلوم نہیں کہ اس زلزلہ سے درحقیقت ظاہری زلزلہ مراد ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے.بہرحال اس سے خوف کرنا لازم اور احتیاط رکھنا ضروری سمجھ کر مَیں اب تک خیموں میں باہر جنگل میں گزارہ کرتا ہوں اور خیموں کے خریدنے اور عمارتوں کے بنانے میں ایک ہزار روپیہ کے قریب ہمارا خرچ بھی ہو چکا ہے اور اس قدر خرچ کون اُٹھا سکتا ہے بجز اس کے کہ جو سچے دل سے ایک آنے والے حادثہ پر یقین رکھتا ہے.مجھے بعد میں زلزلہ کی نسبت یہ بھی الہام ہوا تھا.پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.مجھے اس پر غور کرنے سے اجتہادی طور پر خیال گزرتا ہے کہ ظاہر الفاظ وحی الٰہی کے یہ چاہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی بہار کے ایام میں پوری ہو گی.شاید ان تحریکات کے لئے بہار کے ایام کو کچھ خصوصیت ہو اور ممکن ہے کہ اس وحی کے اور معنی ہوں اور بہار سے مراد کچھ اَور ہو.منہ
اور جس آنے والے زلزلہ سے مَیں نے دوسروں کو ڈرایا ، ان سے پہلے مَیں آپ ڈرا.اور اب تک قریباً ایک ماہ سے میرے خیمے باغ میں لگے ہوئے ہیں.مَیں واپس قادیان میں نہیں گیا.کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ وقت کب آنے والا ہے.مَیں نے اپنے مریدوں کو بھی اپنے اشتہارات میں بار بار یہی نصیحت کی کہ جس کی مقدرت ہو اسے ضروری ہے کہ کچھ مدت خیموں میں باہر جنگل میں رہے اور جو لوگ بے مقدرت ہیں وہ دعا کرتے رہیں کہ خدا اس بَلا سے ہمیں بچاوے.پس میری نیک نیتی پر اس سے زیادہ کون گواہ ہو سکتا ہے کہ اسی خیال سے مَیں مع اہل و عیال اور اپنی تمام جماعت کے جنگل میں پڑا ہوں اور جنگل کی گرمی کو برداشت کررہا ہوں حالانکہ قادیان طاعون سے بالکل پاک صاف ہے.مگر جس بات سے خدا نے ڈرایا اس سے ڈرنا لازم ہے اور جس ضرر کا یقین ہے اس سے بنی نوع کو ڈرانا بھی شرائط ہمدردی میں داخل ہے.اگر مَیں دیکھوں کہ کسی گھر کے کسی حصہ کو آگ لگنے کو ہے اور گھر کے لوگ خواب میں ہیں.ان کو کچھ خبر نہیں اور مَیں اُن کو اطلاع نہ دوں کہ وہ تشویش میں پڑیں گے تو مَیں ایک سخت گناہ کا مرتکب ہوں گا.یہ بھی یاد رہے کہ کسی کمزور بنا پر یہ پیشگوئی نہیں کی گئی ہے بلکہ اگر حکّام کی طرف سے بھی میرے اس دعویٰ کی پڑتال ہو تو کم سے کم ہزار پیشگوئی ایسی ثابت ہوگی جو وہ سچّی نکلی.پس جبکہ مَیں صدہا پیشگوئیوں کی سچائی کے تجربہ سے اس بات کے باور کرنے کے لئے ایک بھاری ثبوت اپنے پاس رکھتا ہوں کہ جو کچھ خدا نے مجھے فرمایا ہے سچ ہے تو پھر اس سے لوگوں کو متنبہ نہ کرنا ایک ظلم تھا.کیونکہ یہ زلزلہ کی پیشگوئی قطعی نہیں بلکہ شرطی ہے.ہر ایک شخص جو نیک چلنی اختیار کرے گا وہ بچایا جائے گا.پس ایسے شخص کو کیا غم ہے جو اپنے چال چلن کی درستی رکھتا ہے.ہاں وہ بدمعاش لوگ جو اپنا پیشہ بدکاری حرام خواری خونریزی وغیرہ رکھتے ہیں البتہ ایسے اشتہاروں سے وہ تشویش میں پڑیں گے سو اُن کی تشویش کی نہ خدا کو پروا ہے اور نہ گورنمنٹ کو.اگر اُن کو خوش رکھنا مقصود ہوتا تو انسانی گورنمنٹیں ان کے لئے جیل خانے کیوں طیار کرتیں.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس قسم کی بدظنی ہے جو مخالف لوگ مجھ پر کرتے ہیں.وہ کہتے
ہیں کہ ہمیں اپنے اشتہاروں سے تشویش میں ڈال دیا ہے.مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسی تشویش ہے مَیں منجم ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا نہ مجھے علم ِجیالوجی کی مہارت کا کوئی دعوٰی ہے.صرف یہ دعوٰی ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی پاتا ہوں.مگر اس دعویٰ کے یہ لوگ سخت منکر ہیں اور اسی بناء پر مجھے کافر اور دجّال کہتے ہیں اور اسی بناء پر یہ لوگ میری تکذیب کررہے ہیں.ان لوگوں نے ہزارہا اشتہار میری نسبت شائع کئے ہیں کہ اس دعویٰ میں یہ شخص جھوٹا ہے بلکہ اس قدر لعنتوں اور گالیوں سے بھرے ہوئے میری نسبت دُنیا میں اشتہار شائع کر چکے ہیں جن سے کم سے کم دس کوٹھے بھر سکتے ہیں تو پھر کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ میری ایسی پیشگوئیوں سے وہ ڈرتے ہوں.جو شخص اُن کے نزدیک جھوٹا ہے اس سے ڈرنے کے کیا معنے ہیں۱؎ اگر مجھے بندگانِ خدا کی سچی ہمدردی مجبور نہ کرتی تو مَیں ایک ورق بھی شائع نہ کرتا.مگر پہلی پیشگوئی کا بڑے زبردست طور سے پورا ہونا اور ہزارہا جانوں کا نقصان ہونا مجھے کھینچ کر اس طرف لایا کہ مَیں دوسری پیشگوئی کے شائع ۱؎ نوٹ.اس جگہ نمونہ کے طور پر مخالفین میں سے ایک کا اشتہار نقل کیا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوگا کہ ہماری پیشگوئیوں کی جب اس طرح تکذیب کی جاتی ہے تو پھر یہ پیشگوئیاں کسی کے واسطے تشویش کا موجب نہیں ہیں.اور نہ لوگ اس سے ڈرتے ہیں بلکہ اس پر مضحکہ اُڑاتے ہیں.چنانچہ ایک تازہ اشتہار کی کچھ عبارت ہم اس جگہ بطور نمونہ کے نقل کر کے دکھلاتے ہیں کہ ایسے مخالفین پر ہماری پیشگوئیوں کا کیا اثر پڑسکتا ہے.اور وہ عبارت یہ ہے میں آج ۶؍ مئی ۱۹۰۵ء کو اس امر کا بڑے زور اور دعویٰ سے اعلان کرتاہوں اور تمام لوگوں کو اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ خوفناک اور بجھے ہوئے دلوں کو اطمینان اور تسلّی دیتا ہوں کہ قادیانی نے ۵،۸، ۲۱؍ اور ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء کے اشتہاروں اور اخباروں میں جو لکھا ہے کہ ایک ایسا سخت زلزلہ آئے گا جو ایسا شدید اور خوفناک ہو گا کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سُنا.کرشن قادیانی زلزلہ کے آمد کی تاریخ یا وقت نہیں بتلاتا.مگر اس امر پر بہت زور دیتا ہے کہ زلزلہ ضرور آئے گا.اس لئے مَیں ان بھولے بھالے سادہ لوح آدمیوں کو جو قادیانی کی طرف لفاظیوں اور اخباری رنگ آمیزیوں سے خوفناک ہو رہے ہیں بڑے زور سے اطمینان اور تسلّی دیتا ہوا خوشخبری سناتا ہوں کہ خدا کے فضل و کرم سے شہرلاہور وغیرہ میں یہ قادیانی زلزلہ ہرگز نہیں آئے گا! نہیں آئے گا!!
کرنے میں کوتاہی نہ کروں اور کماحقہ شائع کردوں.بعض نے میری نسبت خط لکھے کہ تو جھوٹا ہے.ہم چاہتے ہیں کہ تجھے قتل کر دیں.لیکن اگر میرے اشتہاروں سے کچھ لوگ احتیاط پر کاربند ہو جائیں اور اپنی کچھ اندرونی اصلاح کر لیں اور ان کی جانیں بچ جائیں تو میری جان کیا چیز ہے کیا مجھے کبھی مرنا نہیں یا اپنی جان سے ایسی محبت رکھتا ہوں کہ بنی نوع کی ہمدردی بھی چھوڑ دوں.اور بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ اشتہار اس غرض سے لکھے گئے ہیں کہ تا لوگ ڈر کر ان کی بیعت قبول کر لیں مگر اس حق پوشی کا مَیں کیا جواب دوں.مَیں بار بار انہیں اشتہارات میں لکھ چکا ہوں کہ اصلاح نفس اور توبہ سے اس جگہ میری یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی ہندو یا عیسائی مسلمان ہو جائے یا میری بیعت اختیار کرے.بلکہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی کا مذہب غلطی پر ہے تو اس غلطی کی سزا کے لئے یہ دنیا عدالت گاہ نہیں ہے.اس کے لئے عالم آخرت مقرر ہے اور جس قدر قوموں کو پہلے اس سے سزا ہوئی ہے مثلاً آسمان سے پتھر برسے یا طوفان سے غرق کئے گئے یا زلزلہ نے اُن کو فنا کیا اس کا یہ باعث نہیں تھا کہ وہ بُت پرست تھے یا آتش پرست یا کسی اور مخلوق کے پرستار تھے.اگر وہ سادگی اور شرافت سے اپنی غلطیوں پر قائم ہوتے تو کوئی عذاب ان پر نازل نہ ہوتا.لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ خدا تعالیٰ کی آنکھ کے سامنے سخت گناہ کئے اور نہایت درجہ شوخیاں دکھلائیں اور اُن کی بدکاریوں سے زمین ناپاک ہو گئی.اس لئے اسی دنیا میں اُن پر عذاب نازل ہوا.خدا کریم و رحیم ہے اور غضب میں دھیما ہے.اگر اس زمانہ کے لوگ اُس سے ڈریں اور بقیہ نوٹ.اور نہیں آئے گا!!! اور آپ ہر طرح اطمینان اور تسلّی رکھیں.مجھے یہ خوشخبری حقیقی نور الٰہی اور کشف کے ذریعہ سے دی گئی ہے جو انشاء اﷲ بالکل ٹھیک ہو گی.مَیں مکررسہ کرر کہتا ہوں اور اس نور الٰہی سے جو مجھے بذریعہ کشف دکھلایا گیا ہے مستفیض ہو کر اور اس کے اعلان کی اجازت پا کر ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ قادیانی ہمیشہ کی طرح اس زلزلہ کی پیشگوئی میں بھی ذلیل اور رسوا ہو گا.اور خداوند تعالیٰ حضرت خاتم المرسلین شفیع المذنبین کے طفیل سے اپنی گنہگار مخلوق کو اپنے دامن عاطفت میں رکھ کر اس نارسیدہ آفت سے بچائے گا اور کسی فرد بشر کا بال تک بینکانہ ہو گا.ملا محمد بخش حنفی سیکرٹری انجمن حامی اسلام لاہور
بدکاریوں اور ظلمتوں اور طرح طرح کے بُرے کاموں پر ایسی جرأت نہ کریں کہ گویا خدا نہیں ہے تو پھر ان پر کوئی عذاب نازل نہیں ہو گا جیسا کہ وہ فرماتا ہے. ۱؎ یعنی خدا تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جائو اور خدا پر ایمان لائو اور اس کی عظمت اور سزا کے دن سے ڈرو.ایسا ہی اس کے مقابل پر فرماتا ہے. ۲؎ یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم نیک چلن انسان نہ بن جائو اور اس کی یاد میں مشغول نہ رہو تو میرا خدا تمہاری زندگی کی پروا کیا رکھتا ہے.اور سچ ہے جب انسان غافلانہ زندگی بسر کرے اور اس کے دل پر خدا کی عظمت کا کوئی رعب نہ ہو اوربے قیدی اور دلیری کے ساتھ اس کے تمام اعمال ہوں تو ایسے انسان سے ایک بکری بہترہے جس کا دودھ پیا جاتا ہے اور گوشت کھایا جاتا ہے اور کھال بھی بہت سے کاموں میں آ جاتی ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ جس قدر مَیں نے لکھا ہے وہ اُن لوگوں کے لئے بس ہے جن کے دل ٹیڑھے نہیں ہیں اور جو جانتے ہیں کہ خدا ہے.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مرزا غلام احمد قادیانی ضیاء الاسلام پریس قادیان میں ۲۲؍ مئی ۱۹۰۵ء ۱۱؍ مئی ۱۹۰۵ء ۳؎ کو چھپ کر شائع ہوا.(یہ اشتہار ۲۶×۸۲۰ کے چار صفحہ پر ہے ) (تبلیع رسالت جلد۱۰ صفحہ ۹۵ تا ۱۰۱) ۱؎ النسآء : ۱۴۸ ۲؎ الفرقان : ۷۸ ۳؎ اسی پیشگوئی کے متعلق جو زلزلہ ثانیہ کی نسبت شائع ہو چکی ہے آج ۲۲ ؍مئی ۱۹۰۵ء کو بوقت پانچ بجے صبح خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی صَدَّقْنَاالرُّؤْیَا اِنَّا کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ یعنی زلزلہ کی نسبت تیرے دیکھے ہوئے کو ہم نے سچا کر کے دکھلا دیا اور اسی طرح ہم صدقہ دینے والوں کو جزا دیتے ہیں.منہ
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَاٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.تبلیغ الحق واضح ہو کہ کسی شخص کے ایک کارڈ کے ذریعہ سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کے طرف منسوب کرتے ہیں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین ؓبوجہ اس کے کہ اس نے خلیفہ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی باغی تھا اور یزید حق پر تھا.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْـکَاذِبِیْن.مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے مُنہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں.مگر ساتھ اس کے مجھے یہ بھی دل میں خیال گزرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے ورد تبرّا اور لعن وطعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہا نہ بات کے جواب میں سفیہانہ بات کہہ دی ہو.جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بد زبانی کے مقابل پرجو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتا ہے.حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں.بہر حال مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دنیا کا کیڑہ اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں
وجودتھے.مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے:. .۱؎مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کوخدا کے لئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دُور تر لے جاتے ہیں.لیکن بد نصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں.دُنیاکی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا.مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہّر تھا اور بلا شبہ وہ اُن بر گزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلا شبہ وہ سردارنِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہٰی اور صبراور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ ٔحسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت ِ الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دُنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں.دُنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دُور ہیں.یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی.کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور بر گزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسینرضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو اَئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے.وہ اپنے ایمان کو ضائع
کرتا ہے کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ اس شخصکا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے.جو شخص مجھے بُرا کہتا یا لعن طعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الٰہی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لانا سخت معصیت ہے.ایسے موقع پر درگذر کرنا اور نادان دشمن کے حق میں دُعا کرنا بہتر ہے.کیونکہ اگر وہ لوگ مجھے جانتے کہ مَیں کس کی طرف سے ہوں تو ہرگز بُرا نہ کہتے وہ مجھے ایک دجّال اور مفتری خیال کرتے ہیں.مَیں نے جو کچھ اپنی نسبت دعویٰ کیا اور جو کچھ اپنے مرتبہ کی نسبت کہا وہ مَیں نے نہیں کہا بلکہ خدا نے کہا.پس مجھے کیا ضرورت ہے کہ ان بحثوں کو طول دوں اگر میں درحقیقت مفتری اور دجّال ہوں اور اگر درحقیقت مَیں اپنے ان مراتب کے بیان کرنے میں جو مَیں خدا کی وحی کی طرف اُن کو منسوب کرتا ہوں کاذب اور مفتری ہوں تو میر ے ساتھ اس دنیا اور آخرت میں خدا کا وہ معاملہ ہوگا جو کاذبوں اور مفتریوں سے ہوا کرتا ہے کیونکہ محبوب اور مرد ود یکساں نہیں ہوا کرتے.سو اے عزیزو! صبر کرو کہ آخر وہ امر جو مخفی ہے کھل جائے گا.خدا جانتا ہے کہ مَیں اس کی طرف سے ہوں اور وقت پر آیا ہوں.مگر وہ دل جو سخت ہو گئے اور وہ آنکھیں جو بند ہو گئیں مَیں ان کا کیا علاج کر سکتا ہوں.خدا میری نسبت اشارہ کر کے فرماتا ہے کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا.‘‘ پس جبکہ خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کرے گا تو اس صورت میں کیا ضرورت ہے کہ کوئی شخص میری جماعت میں سے خدا کا کام اپنے گلے ڈال کر میرے مخالفوں پر ناجائز حملے شروع کرے.نرمی کرو اور دعا میں لگے رہو اور سچی توبہ کو اپنا شفیع ٹھہرائو اور زمین پر آہستگی سے چلو.خدا کسی قوم کا رشتہ دار نہیں ہے.اگر تم نے اس کی جماعت کہلا کر تقویٰ اور طہارت کو اختیار نہ کیا اور تمہارے دلوں میں خوف اور خشیت پیدا نہ ہوا تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہیں مخالفوں سے پہلے ہلاک کرے گا کیونکہ تمہاری آنکھ کھولی گئی اور پھر بھی تم سو گئے اور یہ مت خیال کرو کہ خدا کو تمہاری کچھ حاجت ہے.اگر تم اُس کے حکموںپر نہیں چلو گے، اگر تم اس کی حدود کی عزت نہیں کرو گے تو وہ
غرض صرف یہی نہیں کہ مَیں ظاہرکروں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.یہ تو مسلمانوں کے دلوں پر سے ایک روک کا اُٹھانا اور سچا واقعہ ان پر ظاہر کرنا ہے بلکہ میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ تا مسلمان خالص توحید پر قائم ہو جائیں اور ان کو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جائے اور ان کی نمازیں اور عبادتیں ذوق اور احسان سے ظاہر ہوں اور اُن کے اندر سے، ایک قسم کا گند نکل جائے.اور اگرمخالف سمجھتے تو عقائد کے بارے میں مجھ میں اور اُن میں کچھ بڑا اختلاف نہ تھامثلاً وہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام مع جسم آسمان پر اٹھائے گئے.سو میں بھی قائل ہوں کہ جیساکہ آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ۱؎ کا منشا ہے.بے شک حضرت عیسیٰ بعد وفات مع جسم آسمان پر اُٹھائے گئے صرف فرق یہ ہے کہ وہ جسم عنصری نہ تھا بلکہ ایک نورانی جسم تھا جو اُن کو اسی طرح خدا کی طرف سے ملا جیساآدم اور ابراہیم اور موسیٰ اور دائود اور یحییٰ اور ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کو ملا تھا.ایسا ہی ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ضرور دُنیا میں دوبارہ آنے والے تھے.جیسا کہ آ گئے.صرف فرق یہ ہے کہ جیسا کہ قدیم سے سنت اللہ ہے ان کا آنا صرف بروزی طور پر ہوا جیسا کہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں بروزی طور پر آیا تھا.پس سوچنا چاہیے کہ اس قلیل اختلاف کی وجہ سے جو ضرور ہونا چاہیے تھا اس قدر شور مچانا کس قدر تقویٰ سے دُور ہے.آخر جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے حَکَم بن کر آیا، ضرور تھا کہ جیسا کہ لفظ حَکَم کا مفہوم ہے کچھ غلطیاں اس قوم کی ظاہر کرتا جن کی طرف وہ بھیجا گیا.ورنہ اس کا حَکمَ کہلا ناباطل ہو گا.اب زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.مَیں اپنے مخالفوں کو صرف یہ کہہ کر کہ اِعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۲؎ اس اعلان کو ختم کرتا ہوں.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المعلن خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی ۸؍اکتوبر ۱۹۰۵ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۰×۸۲۶ کے چار صفحہ پر ہے ) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۱۰۲ تا ۱۰۵)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ زلزلہ کی پیشگوئی دوستو!جاگوکہ اب پھر زلزلہ آنے کو ہے پھرخدا قدرت کو اپنی جلد دکھلانے کو ہے یہ جو ماہ فروری میں تم نے دیکھا زلزلہ تم یقیں سمجھو کہ یہ اِک زجر سمجھانے کو ہے آنکھ کے پانی سے یارو کچھ کرواس کا علاج آسماں اے غافلو! اب آگ برسانے کو ہے اے عزیزو!! آپ لوگوں نے اس زلزلہ کو دیکھ لیا ہو گا جو ۲۸ ؍فروری ۱۹۰۶ء کی رات کوایک بجے آیا تھا.یہ وہی زلزلہ تھا جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں فرمایا تھا پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.چنانچہ میں نے یہ پیشگوئی رسالہ الوصیت کے صفحہ ۳و۴و۱۴ میں اور نیز اپنے اشتہارات اور اخبار الحکم اور بدر میں شائع کر دی تھی.سو الحمد للہ والمنت کہ اسی کے مطابق عین بہار کے ایام میں یہ زلزلہ آیا.لیکن آج یکم مارچ ۱۹۰۶ء کو صبح کے وقت پھر خدا نے یہ وحی میرے پر نازل کی جس کے یہ الفاظ ہیں زلزلہ آنے کو ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہے وہ ابھی آیا نہیں بلکہ آنے کو ہے اوریہ زلزلہ اس کا پیش خیمہ ہے جو پیشگوئی کے مطابق پورا ہوا.کیونکہ جیسا کہ مَیں نے رسالہ الوصیت کے صفحہ ۳و۴ میں قبل از وقت لکھا تھا صرف ایک زلزلہ کی پیشگوئی نہیں بلکہ کئی زلزلوں کی نسبت خدا نے مجھے اطلاع دی تھیسو یہ وہ زلزلہ تھا جس
کا موسم بہار میں آناخدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق ضروری تھا.سو آ گیا.اور ممکن ہے کہ وہ موعود زلزلہ قیامت کا نمونہ بھی موسم بہار میں ہی آوے.اس لئے میں مکرر اطلاع دیتا ہوں اور متنبہ کرتا ہوں کہ جہاں تک میرا خیال ہے وہ دن دُور نہیں ہے.توبہ کرو اور پاک اور کامل ایمان اپنے دلوں میں پیدا کرو اور ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں میں مت بیٹھو تا تم پر رحم ہو.یہ مت خیال کرو کہ ہم سلسلہ میں داخل ہیں.مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہر یک جو بچایا جائے گا اپنے کامل ایمان سے بچایا جائے گا.کیا تم ایک دانہ سے سیر ہو سکتے ہو؟ یا ایک قطرہ پانی کا تمہاری پیاس بجھا سکتا ہے؟ اسی طرح ناقص ایمان تمہاری رُوح کو کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا.آسمان پر وہی مومن لکھے جاتے ہیں جو وفاداری سے اور صدق سے اور کامل استقامت سے اور فی الحقیقت خدا کو سب چیز پر مقدم رکھنے سے اپنے ایمان پر مُہر لگاتے ہیں.مَیں سخت درد مند ہوں کہ مَیں کیا کروں اور کس طرح ان باتوں کو تمہارے دل میں داخل کر دوں اور کس طرح تمہارے دلوں میں ہاتھ ڈال کر گند نکال دوں.ہمارا خدا نہایت کریم و رحیم اور وفادار خدا ہے.لیکن اگر کوئی شخص کوئی حصہ خباثت کا اپنے دل میں رکھتا ہے اور عملی طور پر اپنا پورا صدق نہیں دکھلاتا تو وہ خدا کے غضب سے بچ نہیں سکتا.سو تم اگر پوشیدہ بیج خیانت کا اپنے اندر رکھتے ہو تو تمہاری خوشی عبث ہے اور مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم بھی ان لوگوں کے ساتھ ہی پکڑے جائو گے جو خدا تعالیٰ کی نظر کے سامنے نفرتی کام کرتے ہیں بلکہ خدا تمہیں پہلے ہلاک کرے گا اور بعد میں اُن کو تمہیں آرام کی زندگی دھوکہ نہ دے کہ بے آرامی کے دن نزدیک ہیںاور ابتدا سے جو کچھ خدا تعالیٰ کے پاک نبی کہتے آئے ہیں وہ سب اُن دنوں میں پورا ہو گا.کیا خوش نصیب وہ شخص ہے جو میری بات پر ایمان لاوے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے.اور کیابد نصیب وہ شخص ہے جو بڑھ بڑھ کے دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں اس جماعت میں داخل ہوں.مگر خدا اس کے دل کو ناپاک اور دُنیا سے آلودہ اور خباثتوں سے پُر دیکھتا ہے.اور اس کے بعد تم لوگوں سے جھگڑا مت کرو اور دعا میں مشغول رہو.ٹھٹھے اور ہنسی سے پر ہیز کرو اور کسی کو دُکھ مت دو اور ڈرتے رہو.جب تک کہ وہ خوفناک دن
آوے جس کا وعدہ دیا گیا ہے.تمہیں یہ بھی ضروری نہیں کہ اس خوفناک دن سے پہلے کسی اخبار یا اشتہار کا جو اس پیشگوئی کی تکذیب کے بارے میں لکھا گیا ہو ردّ کرو.کیونکہ اب خدا اُن تکذیبوں کا آپ جواب دے گا.نیکی کرو ،بھلائی کرو ،صدقہ دو، راتوں کو اُٹھ کر اپنے یگانہ خدا کو یاد کرو اور اگر گالیوں کا پہاڑ بھی تم پر ٹوٹ پڑے تو اُن کی طرف نظر اُٹھا کر مت دیکھو.خدا کے غضب کے دن سے فرشتے بھی کانپتے ہیں.سو تم ڈرتے رہو.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ ۱؎.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشتھـــــــــــــــــــــــــــــر مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان ضلع گورداسپور ۲؍ مارچ ۱۹۰۶ء انوار احمدیہ پریس قادیان دارالامان میں شیخ یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم و مالک مطبع کے اہتمام سے چھپ کر شائع ہوا.( یہ اشتہار ۲۲×۲۹ ۴ کے ایک صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۱۰۶ تا ۱۰۸)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہارواجب الاظہار از طرف ایں خاکسار دربارہ پیشگوئی زلزلہ دوستو!! جاگو کہ اب پھر زلزلہ آنے کو ہے پھر خدا قدرت کو اپنی جلد دکھلانے کو ہے وہ جو ماہِ فروری میں تم نے دیکھا زلزلہ تم یقیں سمجھو کہ وہ اِک زجر سمجھانے کو ہے آنکھ کے پانی سے یارو کچھ کرو اس کا علاج آسماں اے غافلو! اب آگ برسانے کو ہے کیوں نہ آویں زلزلے تقویٰ کی رہ گُم ہو گئی اک مسلماں بھی مسلماں صرف کہلانے کو ہے کس نے مانا مجھ کو ڈر کر کس نے چھوڑا بغض و کیں زندگی اپنی تو اُن سے گالیاں کھانے کو ہے کافر و دجّال اور فاسق ہمیں سب کہتے ہیں کون ایماں صدق اور اخلاص سے لانے کو ہے جس کو دیکھو بدگمانی میں ہے حد سے بڑھ گیا گر کوئی پوچھے تو سَو سَو عیب بتلانے کو ہے چھوڑتے ہیں دیں کو اور دُنیا سے کرتے ہیں پیار سَو کریں وعظ و نصیحت کون پچھتانے کو ہے ہاتھ سے جاتا ہے دل دیں کی مصیبت دیکھ کر پر خدا کا ہاتھ اب اس دل کے ٹھہرانے کو ہے اس لئے اب غیرت اس کی کچھ تمہیں دکھلائے گی ہر طرف یہ آفتِ جاں ہاتھ پھیلانے کو ہے موت کی رہ سے ملے گی اب تو دیں کو کچھ مدد ورنہ دیں اے دوستو! اک روز مر جانے کو ہے یا تو اک عالم تھا قربان اُس پہ یا آئے یہ دن اک عبدالعبد بھی اس دیں کو جھٹلانے کو ہے المشتہر میرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ۹؍ ماچ ۱۹۰۶ء (یہ اشتہار رسالہ ’’چشمہ مسیحی‘‘ کے ٹائیٹل پیج نمبر ۲ پر درج ہے.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۳۴)
پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ آنے کے دن زلزلہ کیا اِس جہاں سے کوچ کر جانے کے دن تم تو ہو آرام میں پر اپنا قِصّہ کیا کہیں پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے سخت گھبرانے کے دن کیوں غضب بھڑکا خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو! ہوگئے ہیں اِس کاموجب میرے جھٹلانے کے دن غیر کیا جانے کہ غیرت اُس کی کیا دکھلائے گی خود بتائے گا اُنہیں وہ یار بتلانے کے دن وہ چمک دِکھلائے گا اپنے نشاں کی پنج *بار یہ خُدا کا قول ہے سمجھوگے سمجھانے کے دن طالبو! تم کو مبارک ہو کہ اب نزدیک ہیں اُس مرے محبوب کے چہرہ کے دِکھلانے کے دن وہ گھڑی آتی ہے جب عیسیٰ پکاریں گے مجھے اب تو تھوڑے رہ گئے دجّال کہلانے کے دن اے مِرے پیارے یہی میری دعاہے روز و شب گود میں تیری ہوں ہم اُس خونِ دل کھانے کے دن کرمِ خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں فضل کا پانی پلا اُس آگ برسانے کے دن اے مِرے یارِ یگانہ اے میری جاں کی پناہ کر وہ دن اپنے کرم سے دیں کے پھیلانے کے دن پھر بہارِ دیں کو دکھلا اے مرے پیارے قدیر کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں کے بہکانے کے دن یہ نظم ہفتہ وار پیسہ اخبار لاہور مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۶ء کے جو ایک لاکھ کی تعداد میں شائع ہوا تھا کے صفحہ ۱۸ پرمع تصویر حضرت اقدسؑ شائع ہوئی تھی وہاں سے نقل کی گئی ہے.(مرتب) ۲؎ خدا تعالیٰ کے اصل لفظ جو مجھ پر نازل ہوئے ہیں.یہ ہیں ’’چمک دکھلائوںگا تم کو اس نشاں کی پنج بار‘‘ یعنی پنج مرتبہ غیر معمولی طور پر زلزلہ آئے گا جو اپنی شدت میں نظیر نہیں رکھتا ہو گا.
دِن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے اے میرے سُورج دِکھا اِس دیں کے چمکانے کے دن دِل گھٹا جاتاہے ہر دم جاں بھی ہے زیر وزبر اِک نظر فرماکہ جلد آئیں تیرے آنے کے دن چہرہ دکھلا کر مجھے کر دیجئے غم سے رہا کب تلک لمبے چلے جائیں گے ترسانے کے دن کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے کیا مرے دلدار تو آئے گا مَرجانے کے دن ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آ مرے اے ناخدا آگئے اِس باغ پر اَے یار مُرجھانے کے دِن تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو ورنہ دیں میّت ہے اور یہ دن ہیں دفنانے کے دن اِک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہو گیا ہے بے نشاں دل چلاہے ہاتھ سے لا جلد ٹھہرانے کے دِن میرے دل کی آگ نے آخر دکھایا کچھ اثر آگئے ہیں اب زمیں پرآگ بھڑکانے کے دن جب سے میرے ہوش غم سے دیں کے ہیں جاتے رہے طَور دنیا کے بھی بدلے ایسے دیوانے کے دِن چاند اورسُورج نے دکھلائے ہیں دو داغِ کسوف پھر زمیں بھی ہو گئی بے تاب تھرّانے کے دِن کون روتاہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا لرزہ آیا اِس زمیں پر اُس کے چلّانے کے دن صبر کی طاقت جو تھی مُجھ میں وہ پیارے اب نہیں میرے دلبر اب دکھا اِس دل کے بہلانے کے دن دوستو اُس یار نے دِیں کی مصیبت دیکھ لی آئیں گے اِس باغ کے اب جلد لہرانے کے دِن اِک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آئے کفرکو کھانے کے دِن دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر درپیش ہے پر یہی ہیں دوستو! اس یار کے پانے دن دیں کی نصرت کے لئے اِک آسماں پر شور ہے اب گیا وقتِ خزاںآئے ہیں پھل لانے کے دن چھوڑ دو وہ راگ جس کو آسماں گاتا نہیں اب تو ہیں اے دل کے اندھو! دیں کے گن گانے کے دن خدمتِ دیں کا تو کھو بیٹھے ہو بغض و کیں سے وقت اب نہ جائیں ہاتھ سے لوگو! یہ پچھتانے کے دن مرزا غلام احمد بقلم خود.رئیس قادیان گورداسپور پنجاب (روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۷۳۸، ۷۳۹)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ایک تازہ پیشگوئی ۲۹؍اپریل ۱۹۰۶ء روز یکشنبہ الہام الٰہی.’’دشمن کا یہی وار نکلا‘‘ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ یعنی کوئی ایسا امر رنج دہ خدا کی طرف سے ہماری نسبت یا ہماری جماعت کے کسی فرد کی نسبت صادرہو گا.جس سے دشمن خوش ہو جائے گا اور وہ امر رنج دہ خدا کی طرف سے ہو گا.یا دشمن کا اس میں کچھ دخل ہو گا.اور پھر خدا فرماتا ہے کہ یہ دن خوشی اور غم یا فتح اور شکست کے ہم نوبت بہ نوبت لوگوں میں پھیرا کرتے ہیں بعض وقت خوشی اور فتح خدا کی جماعت کو ملتی ہے اور دشمن ذلیل اور شرمسار ہو جاتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں بدر کی لڑائی میں ہوا کہ کفار کو سخت شکست آئی اور نامی افسر اور سرگروہ ان کی فوج کے اسی لڑائی میں مارے گئے جیسا کہ ابوجہل.یہ خوشی تو مومنوں کو پہنچی.پھر دوسری مرتبہ کفار کی خوشی کی نوبت آئی اور اُحد کی لڑائی میں دردناک شہادتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نصیب ہوئیں
خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم زخمی ہوئے اور ایک تہلکہ برپا ہوا.اس وقت بعض ان لوگوں کے دلوں میں جو عادت اللہ سے ناواقف تھے یہ خیال بھی آیا کہ جس حالت میں ہم حق پر ہیں اور ہمارے مخالف باطل پر ہیں تو یہ مصیبت ہم پر کیوں آئی.۱؎ تب ان کا جواب اللہ تعالیٰ نے وہ دیا.جو قرآن شریف میں مذکور ہے اور وہ یہ ہے.۲؎ یعنی اگر تم کو اُحد کی لڑائی میں دکھ اور تکلیف پہنچی ہے تو بدر کی لڑائی میں بھی تو تمہارے مخالفوں کو ایسی ہی تکلیف پہنچی تھی ور ایسا ہی دکھ اورنقصان پڑا تھا.یہاں تک کہ جس کو امیرِ فوج بنا کر لائے تھے یعنی ابوجہل وہ بھی کھیت رہا اور بڑے بڑے کافر مارے گئے پھر اگر اس کے مقابل امیر حمزہ شہید ہوئے اور دوسرے بزرگ صحابہ نے شربت شہادت پیا تو اس قدر بالمقابل صدمہ دیکھنا ضروری تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی قانون قدرت ہے کہ کبھی کافر فنا کئے جاتے ہیں اور کبھی مومن تکلیف اٹھاتے ہیں.اس دن سے جو خدا نے دنیا پیدا کی یہ قانون چلا آیا ہے کہ کبھی کوئی ایسی تائید اور نصرت ظاہر ہوتی ہے.جس سے مومن خوش ہو جاتے ہیں اور کبھی کوئی ایسا ابتلا مومنوں کے لئے پیش آ جاتا ہے جو کافر مارے خوشی کے اچھلتے پھرتے.پس اللہ تعالیٰ اس اپنی وحی مقدس میں بھی جو آج اس عاجز پر نازل ہوئی فرماتا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ کچھ عرصہ سے متواتر خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید رحمت کے نشانوں کے رنگ میں اس عاجز کی نسبت ظاہر ہو رہی ہے.جس سے مخالف لوگ ایک مسلسل غم دیکھ رہے ہیں اب ضروری ہے کہ بموجب قانون وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ان کو بھی اسی کے ہم رنگ واقعہ عبد اللہ آتھم اور لیکھرام تھا.عبد اللہ آتھم عین شرطی پیشگوئی کے موافق مرا مگر ناسمجھی سے مخالفوں نے اس بات پر بہت خوشی ظاہر کی کہ وہ میعاد کے اندر نہیں مرا پس یہ معاملہ ایسا تھا جیسا کہ حضرت عیسیٰ ؑکی نسبت ’’شُبِّہَ لَہُمْ‘‘ کا معاملہ تھا.خدا کو منظور تھا کہ بموجب اپنے قانون قدرت وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ مخالفوں کو خوشی پہنچائی کیونکہ پہلے نشانوں نے ان کو بہت غمگین کر دیا تھا اور یہ خوشی بھی قائم نہ رہی کیونکہ لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی تھی وہ ایسی صفائی سے پوری ہوئی جو منہ بند ہو گئے.منہ ۲؎ اٰل عمران : ۱۴۱
کچھ خوشی پہنچائی جاوے.سو اس الہام کی بناء پر کوئی امر ہمارے لئے ناگوار اور ان کے لئے موجب خوشی کا ظاہر ہو جائے گا.اور جو نشان اس تھوڑے عرصہ میں ہماری تائید میں ظاہر ہوئے جو ہماری خوشی کا موجب اور مخالفوںکے رنج کا موجب تھے وہ بہ تفصیل ذیل ہیں.اوّل سب سے پہلے مسمیّ کرم دین ساکن بھیں ضلع جہلم کے مقدمات میں دو رحمت کے نشان خدا تعالیٰ کے ظاہر ہوئے پہلے وہ مقدمہ ہے جو کرم دین مذکور نے جہلم کی عدالت میں بصیغہ فوجداری مجھ پر دائر کیا تھا اس میں خدا تعالیٰ نے قبل فیصلہ اس مقدمہ کے مجھے خبر دی کہ کرم دین مذکور ناکام رہے گا اور شکست کھائے گا اور میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا.چنانچہ ابھی مقدمہ زیر تجویز ہی تھا کہ میں نے اپنی کتاب مواہب الرحمان میں اس پیشگوئی کو چھاپ کر شائع کر دیا اور جب میری طلبی جہلم کی عدالت میں ہوئی تو میں کئی نسخے اس کتاب کے ساتھ لے گیا اور قبل فیصلہ مقدمہ لوگوں میں تقسیم کر دیئے اور قادیان میں بھی جہلم کے جانے سے پہلے کئی نسخے اس کتاب کے تقسیم کئے اور ایک نسخہ حسب دستور گورنمنٹ میں بھی بھیج دیا اور آخر پیشگوئی کے مطابق کرم دین کے مقدمہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ عدالت جہلم نے خارج کر دیا.یہ ۱پہلا نشان ہے جو ظاہر ہوا.پھر ایک اور مقدمہ کرم دین مذکور نے فوجداری میں میرے پر گورداسپور کی عدالت میں دائر کیا اور اس پر بھی ہماری جماعت میں سے ایک شخص کی طرف سے ایک فوجداری مقدمہ دائر ہو گیا.اب مقدمات کے فیصلہ سے پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ انجام کار میں کرم دین کے مقدمہ سے برَی کیا جائوں گا مگر وہ سزا پا جائے گا چنانچہ وہ پیشگوئی میں نے قبل فیصلہ مقدمہ کے اخبار الحکم اور البدر میں شائع کرادی اور ایسا ہی ظہور میں آیا کہ کرم دین سزا پا گیا اور میں انجام کار برَی کیا گیا.اور یہ دو۲ نشان تھے جو ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوئے.اور پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ ایک زلزلہ کا دھکا ظاہر ہو گا جس سے جانوں اور عمارتوں کو نقصان ہو گا یہ خبر بھی میں نے قبل از وقت الحکم اور بدر کے ذریعہ سے شائع کر دی.چنانچہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو وہ زلزلہ آیا جس کی نقصان رسانی کی تفصیل بیان کرنے کی کچھ حاجت نہیں.یہ چو۴تھا نشان تھا جو ظاہر ہو.پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ موسم بہار میں ایک اور غیر معمولی زلزلہ آئے گا اور ۲۵؍فروری ۱۹۰۶ء کے بعد آئے گا.چنانچہ ۲۷؍فروری ۱۹۰۶ء کا دن گزرنے کے بعد را
رات کو بوقت ڈیڑھ بجے وہ زلزلہ آیا.جس سے بہت سے گھر مسمار ہوئے اور بہت سی جانیں ضائع ہوئیں.اور یہ پانچوا۵ں نشان تھا جو خدا نے میری تائید میں ظاہر کیا.پھر ایسا اتفاق ہو گیا کہ ایک شخص چراغ دین نام جموں کا رہنے والا جو ابتدا میں میرا مرید تھا مرتد ہو گیا اور پادریوں کے ساتھ ایک خطرناک اختلاط اس کا ہو گیا اور اس نے پیغمبری کا دعوٰی بھی کیا.تب میں نے اس کی نسبت بددعا کی اور مجھے خدا تعالیٰ سے الہام ہوا کہ خدا اسے فنا کر دے گا اور اس کو غارت کر دے گا اور اس پر غضب نازل کرے گا اور اشارہ کیا گیا کہ وہ طاعون سے مرے گا.اسی لئے میں نے طاعون کے رسالہ میں ہی (جو طاعون کے بارے میں لکھا تھا) جس کا نام دافع البلاء و معیار اہل الاصطفا ہے یہ پیشگوئی درج کی چنانچہ وہ اپنی کتاب منارۃ المسیح کے ایک برس بعد (جس میں مجھے اس نے دجال قرار دیا ہے) اس قہر میں گرفتار ہوا کہ اوّل دو لڑکے اور ایک لڑکی اس کی طاعون سے مری اور پھر چار۴ اپریل ۱۹۰۶ء کو خود طاعون میں مبتلا ہو کر اس جہان سے گزر گیا اور یہ چھٹا ۶نشان تھا.جو خدا نے میری تائید میں ظاہر کیا اور اس کے ساتھ ہی ایک اور نشان ظہور میں آیا کہ اس نے اپنی طرف سے صریح لفظوں میں مباہلہ کیا اور اپنا ذکر کر کے اور میرا نام لے کر خدا سے یہ دعا کی کہ ہم دونوں میں سے جو مفتری اور حق کا دشمن ہے خدا اس کو فنا کر دے اور حق اور باطل میں فیصلہ کر دے اس کی اس دعا پر صرف دو تین روز اس پر گزرے تھے کہ وہ خدا کے مؤاخذہ کے نیچے آگیا اور ایک دردناک عذاب کے ساتھ مرا کیونکہ اس سے زیادہ دردناک کونسا حادثہ ہو گا؟ کہ پہلے اس نے اپنے عزیز دو بیٹے اور ایک بیٹی اپنی آنکھ کے سامنے مرتی دیکھی اور اس پر مصیبت حادثہ کو مشاہدہ کر لیا کہ اب اس کی قطع نسل ہو گئی اور کوئی اس کی نسل میں سے باقی نہیں رہا اور پھر بعد اس کے ایسی طاعون سے بصد حسرت آپ موت کا پیالہ پیا اور ایمانی حالت کا یہ نمونہ دکھایا کہ دونوں لڑکوں کے مرنے کے بعد اس کے کلمات یہ تھے کہ اب خدا بھی میرا دشمن ہو گیا.ساتوا۷ں نشان تھا جو ظہور میں آیا.پھر بعد اس کے ایک اور نشان ظاہر ہوا کہ ایک شخص ڈوئی نام کا صیہون نام ایک شہر میں رہتا تھا اور پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور الہام کا بھی مدعی تھی.میں نے اس کو مباہلہ کے لئے بلایا.اس نے کچھ جواب نہ دیا اور بہت تکبر دکھلایا اور میں نے اس کی نسبت انگریزی
رسالہ میں شائع کیا کہ وہ سخت عذاب میں مبتلا ہو گا.چنانچہ امریکہ کے اخباروں میں بھی یہ مضمون شائع ہو گیا.اب وہ کچھ عرصہ سے فالج کے مہلک مرض میں گرفتار ہو گیا اور ساری پیغمبری اس کی دریا برُد ہو گئی اور چراغ دین کی طرح اس نے بھی ثابت کر دیا کہ جھوٹا پیغمبر کس طرح جلد پکڑا جاتا ہے.اور اب امریکہ سے خبر آئی ہے کہ وہ قریب المرگ ہے.یہ آٹھوا۸ں نشان ہے کہ جو خدا تعالیٰ نے میری تائید میں ظاہر کیا ایسا ہی خدا نے مجھے اپنی پاک وحی سے خبر دے کر فرمایا تھا.اے بسا خانہ ٔدشمن کہ تو ویراں کر دی جس میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ بہت سے دشمن مریں گے اور ان کا گھر ویران ہو جائے گا.چنانچہ مجھ کو سیالکوٹ وغیرہ کتنے مقامات سے خط آئے ہیں کہ اس سال میں کئی سخت طبع اور ناپاک دل دشمن جو سخت متعصب تھے معہ عیال واطفال اس جہان سے گزر گئے جن کی تفصیل کسی مستقل رسالہ میں انشاء اللہ درج کی جائے گی.یہ نوا۹ں نشان ہے جو خدا تعالیٰ نے اس سال میں میری تائیدمیں ظاہر فرمایا.پھر میں نے اپنے متواتر اشتہارات میں باربار شائع کیا تھا کہ دنیا میں سخت سخت زلزلے آئیں گے اور بعض ان میں سے قیامت کا نمونہ ہوں گے اور بہت موت ہو گی.چنانچہ ایسے زلزلے فارموساچین اور سان فرانسسکو ملک امریکہ اور اٹلی میں آگئے اور وہ درحقیقت ایسے خوفناک ہیں کہ جو شخص پہلے میرے اشتہارات کو پڑھے گا اور پھر ان زلزلوں اور عام تباہی کا نظارہ اس کی نظر کے سامنے آجائے گا.اس کو بہرحال اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ وہی پیشگوئیاں ہیں کہ جو پہلے میری طرف سے ہو چکی ہیں.یہ تین۳ نشان ہیں.جن کے ملانے سے بارا۱۲ں نشان ہوتے ہیں جو ان دنوں میں ظہور میں آئے اور پانچ اور زلزلوں کا وعدہ ہے جن کی انتظار کرنی چاہیے.بعض نادان کہتے ہیں کہ اگر یہ زلزلے امریکہ وغیرہ کے اس شخص یعنی اس عاجز کی تائید اور تصدیق کے لئے آئے ہیں تو یہ کیونکر ہو سکتا ہے کیونکہ ان ملکوں کے لوگ تو اس کے نام سے بھی بے خبر ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو جھوٹ ہے کہ وہ لوگ میرے نام سے بے خبر ہیں.امریکہ کے مشہور اور نامی اخباروں میں کئی دفعہ میرا اور میرے دعوے کا ذکر آچکا ہے.بلکہ انہیں اخبار والوں نے لکھا تھا کہ پنجاب سے فلاں شخص ڈوئی کو جو پیغمبری کا دعوٰی کرتا ہے مباہلہ کے لئے بلاتا ہے اور ڈوئی
اس سے بھاگتا ہے.اس صورت میں وہ بے خبر کیوں ہو سکتے ہیں.ماسوائے اس کے جبکہ تمام دنیا کے زلزلوں کی نسبت ان زلازل سے پہلے جواب ظہور میں آئے میری پیشگوئیاں شائع ہو چکی ہیں اور قبل واقع ہونے ان پیشگوئیوں کے انگریزی میں وہ رسالے میری جماعت کے لوگوں کو جو انگریز ہیں اور امریکہ کے بعض حصوّں میں رہتے ہیں.پہنچ چکے ہیں.اور اس ملک میں عام طور پر بھی وہ رسالہ شائع ہو چکے ہیں تو اس صورت میں امریکہ کے لوگ ان پیشگوئیوں سے بے خبر کیونکر ہو سکتے ہیں.ماسوا اس کے ان ممالک میں محض قہری طور پر زلزلے آئے ہیں.اور چونکہ ان زلازل کی نسبت پیشگوئیاں پہلے ہو چکی ہیں.اس لئے وہ لوگ اس نشان سے انکار نہیں کر سکتے.ہاں جو موتیں ان میں واقع ہوئی ہیں.وہ ان کے گناہوں اور فسق و فجور کی وجہ سے ہیں اور یہ زلزلے میری طرف سے ان کو رہنمائی کرتے ہیں.کیونکہ میں نے ہی قبل از وقت ان کو ان آفات کی خبر دی ہے.غرض ہلاک ہونے والے اپنے سابق گناہوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور جنہیں پیشگوئی کی خبر ملے گی.ان کے لئے وہ نشان ہوا.اگر وہ اس نشان کوٹال دیں گے تو پھر کوئی اور عذاب آئے گا.اب جبکہ یہ دس۱۰ نشان تازہ بتازہ ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہو چکے ہیں اور دشمنوں کو بہت کوفت اور ہم و غم پہنچا ہے.تو مذکورہ بالا الہام میں خدا تعالیٰ پیشگوئی کے طور پر فرماتا ہے کہ ایک ناگوار امر ظاہر ہو گا.جو کسی قدر دشمنوں کی خوشی کا باعث ہو جائے گا.معلوم نہیں کہ وہ کیا امر ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی ہماری عادت ہے کہ کبھی ہم دشمن دین کو بھی خوش کر دیا کرتے ہیں جیسا کہ خادمان دین کو خوش کرتے ہیں.لیکن انجام پرہیزگاروں کے لئے ہوتا ہے.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشتھر خاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود (الحکم مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۰،۱۱)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ تمام جماعت احمدیہ کے لئے اعلان چونکہ ڈاکٹر عبد الحکیم اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ نے جو پہلے اس سلسلہ میں داخل تھا نہ صرف یہ کام کیا کہ ہماری تعلیم سے اور ان باتوں سے جو خدا نے ہم پر ظاہر کیں مونہہ پھیر لیا بلکہ اپنے خط میں وہ سختی اور گستاخی دکھلائی اور وہ گندے اور ناپاک الفاظ میری نسبت استعمال کئے کہ بجز ایک سخت دشمن اور سخت کینہ ور کے کسی کی زبان اور قلم سے نکل نہیں سکتے اور صرف اسی پر کفایت نہیں کی بلکہ بیجا تہمتیں لگائیں اور اپنے صریح لفظوں میں مجھ کو ایک حرام خور اور بندۂ نفس اور شکم پرور اور لوگوں کا مال فریب سے کھانے والا قرار دیا اور محض تکبر کی وجہ سے مجھے پیروں کے نیچے پامال کرنا چاہا اور بہت سی ایسی گالیاں دیںجو ایسے مخالف دیا کرتے ہیں جو پورے جوش عداوت سے ہر طرح سے دوسرے کی ذلت اور توہین چاہتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ پیشگوئیاں جن پر ناز کیا جاتا ہے کچھ چیز نہیں مجھ کو ہزارہا ایسے الہام اور خوابیں آتی ہیں جو پوری ہو جاتی ہیں.غرض اس شخص نے محض توہین اور تحقیر اور دل آزاری کے ارادہ سے جو کچھ اپنے خط میں لکھا ہے اور جس طرح اپنی ناپاک بدگوئی کو انتہا تک پہنچا دیا ہے ان تمام تہمتوں اور گالیوں اور عیب گیریوں کے لکھنے کے لئے اس اشتہار میں گنجائش نہیں علاوہ اس کے میری تحقیر کی غرض سے جھوٹ بھی پیٹ بھر کے بولا ہے مگر مجھے ایسے مفتری اور بدگو لوگوں کی کچھ پرواہ نہیں کیونکہ اگر جیسا کہ مجھے اس نے
دغاباز حرام خور مکار فریبی اور جھوٹ بولنے والا قرار دیا ہے اور طریق اسلام اور دیانت اور پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے باہر مجھے کرنا چاہا ہے اور میرے وجود کو محض فضول اور اسلام کے لئے مضر ٹھہرایا ہے.بلکہ مجھے محض شکم پرور اور دشمن اسلام قرار دیا ہے.اگر یہ باتیں سچ ہیں تو میں اس کیڑے سے بھی بدتر ہوں جو نجاست سے پیدا ہوتا اور نجاست میں ہی مرتا ہے لیکن اگر یہ باتیں خلاف واقعہ ہیں تو میں امید نہیں رکھتا کہ خدا ایسے شخص کو اس دنیا میں بغیر مواخذہ کے چھوڑے گا جو مرید ہو کر اور پھر مرتد ہو کر اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو ذلیل سے ذلیل زندگی بسر کرنے والے جیسے چوہڑے اور چمارجو شکم پرور کہلاتے ہیں اور مردار کھانے سے بھی عار نہیں رکھتے ان کی مانند مجھے بھی محض شکم پرست اور بندۂ نفس اور حرام خور قرار دیتا ہے.اب میں ان باتوں کو زیادہ طول دینا نہیں چاہتا اور خدا کی شہادت کا منتظر ہوں اور اس کے ہاتھ کو دیکھ رہا ہوں اور اس اشارہ پر ختم کرتا ہوں .۱؎ اب چونکہ یہ شخص اس درجہ پر میرا دشمن معلوم ہوتا ہے جیسا کہ عمروبن ہشام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت اور جان کا دشمن تھا اس لئے میں اپنی تمام جماعت کو متنبہ کرتا ہوں کہ اس سے بکلّی قطع تعلق کر لیں اس کے ساتھ ہرگز واسطہ نہ رکھیں ورنہ ایسا شخص ہرگز میری جماعت میں سے نہیں ہو گا..۲؎ آمین آمین آمین.المشتــــــــــــــــــــــھر خاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب (الحکم ۳۰؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲)
اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ.آمِیْن اَللّٰھُمَّ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ.آمِیْن بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ درخواست مباہلہ منظور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّّلَامُ عَلٰی خَیْرِ رُسُلِہٖ وَ اَفْضَلَ اَنْبِیَآئِہٖ مُحَمَّدُ نِ الْمُصْطَفَی الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْہِ اﷲُ وَالْمَلَائِکَۃُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ الْمُقَرَّبُوْنَ.اما بعد ۲؍ مئی ۱۹۰۶ء کی ڈاک میں ۱۰ بجے کے قریب دہلی سے آیا ہوا مجھے ایک پیکٹ ملا جو احمد مسیح واعظ ایس.پی.جی مشن دہلی نے شائع کیا ہے اور جس میں میرے ساتھ مباہلہ کی درخواست کی ہے اگرچہ ایک عرصہ گذر چکا ہے کہ میں اﷲ کے الہام اور ایماء کے موافق اس ذریعہ سے تمام پادریوں اور دوسرے مخالفین اسلام پر حجت پوری کر چکا ہوں اور کوئی شخص مُباہلہ کے لئے نہیں آیا.پادریوں نے تو ہمیشہ یہ عذر کر کے ہی اس پیالہ کو ٹالا کہ ہمارے مذہب میں درست نہیں.مگر اب معلوم نہیں کہ احمد مسیح نے اس کے جواز کا فتویٰ کہاں سے حاصل کیا.بہرحال مجھے اس سے کچھ بحث نہیں.میں نے اس درخواست مُباہلہ کو جو احمد مسیح عیسائی نے میری کسی درخواست کے بغیر ازخود شائع کی ہے غور سے پڑھا.
دہلی کے سوا دوسری جگہ کے لوگ تو شاید احمد مسیح کے نام سے بھی واقف نہ ہوں.پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک گمنام آدمی سے مُباہلہ کا کیا فائدہ ہو گا.وہ اپنے مباحثہ کا اثر صرف اپنی ہی ذات تک مانتا ہے تو مباہلہ کا اثر اس کی قوم پر کیونکر سمجھا جاوے گا.اور علاوہ بریں وہ تو پہلے ہی سے اندھا ہے اور احمد مسیح اپنی اس درخواست میں کوئی وجہ نہیں بتاتا کہ وہ میر قاسم علی صاحب سے کیوں مباہلہ نہیں کرتا.جبکہ مباحثہ اسی سے کیا ہے.ہمارے سیّد و مولا امام محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب مباہلہ کے لئے نصاریٰ نجران کو دعوت دی تھی تو وہ مباہلہ ایک قوم کے ساتھ تھا بلکہ ان میں دو بشپ بھی تھے.اس لئے ایک فرد واحد سے مباہلہ کرنا خدا تعالیٰ کے اس آسمانی فیصلہ سے ہنسی کرنا ہے مَیں جیسا کہ ظاہر کر چکا ہوں.اس سے پہلے مباہلہ کے ذریعہ پادریوں پر حجت پوری کر چکا ہوں.دیکھو انجام آتھم صفحہ ۳۴ اور آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۳۷۳.احمد مسیح کو اگر مباہلہ کرنا ہی ہے تو وہ میرے مرید میر قاسم علی صاحب سے بطور خود کرے جس نے اس کو دعوت کی ہے.لیکن اگر میرے ساتھ ہی مباہلہ ضروری ہے تو مَیں اس کی درخواست کو اس صورت میں منظور کر سکتا ہوں جب لاہور، کلکتہ، مدراس اور بمبئی کے بشپ صاحبان جو اپنے عہدہ، واقفیت ، رسوخ اور اثر کی وجہ سے زیادہ قابل قدر ہیں ایسی درخواست کریں کیونکہ اس صورت میں مباہلہ کا اثر تمام قوم پر ہوگا نہ کہ فرد واحد پر جس کا اپنی قوم پر کچھ بھی اثر نہیں اور ایک ایسے شخص کے ساتھ(جو ایک کثیر التعداد جماعت کا امام اور مذہبی پیشو اہو) مباہلہ کرنے والے اسی قسم کے لوگ ہونے چاہییں.پس اگر احمد مسیح میرے ساتھ ہی مباہلہ کا شایق ہے جیسا کہ اس کی درخواست ظاہر کرتی ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ مذکورہ بالا بشپ صاحبان کی دستخطی درخواست میرے پاس بھجوا دے.مَیں ان کی درخواست کو انشاء اﷲ العزیز ردّ نہیں کروں گا.اور اگر یہ خیال ہو کہ وہ چاروں یکجا جمع نہیں ہو سکتے تو مَیں یہ بھی ظاہر کر دیتاہوں کہ ایک جگہ جمع ہونے کی حاجت نہیں، تحریری مباہلہ شائع ہو سکتا ہے.جب ان کی درخواست میرے پاس پہنچے گی تو پھر اخبارات میں مضمون مباہلہ فریقین کی طرف سے شائع ہو جائے گا اور اس کاانجام فیصلہ کن ہو گا.مَیں محض حق رسانی کے
خیال سے یہ بھی منظور کرتا ہوں کہ اگر چاروں بشپ صاحبان انکار کر دیں تو پھر ان چاروں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی باقیوں کے وکیل کی حیثیت سے مباہلہ کر لیا جاوے گا.مگر یہ درخواست ان کی طرف سے ہو گی.اس امر کے جواب کے لئے مَیں کافی وقت دیتا ہوں اور تین ماہ تک جواب کا انتظار کروں گا.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی خاکسار.مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان.مورخہ ۵؍ مئی ۱۹۰۶ء انوار احمدیہ پریس قادیان ( یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے ایک صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۱۱۰ تا ۱۱۲)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ احمد مسیح کے ساتھ مباہلہ منظور ۲؍ مئی ۱۹۰۶ء کی ڈاک میں مجھے دہلی کے اندھے عیسائی احمد مسیح کا وہ اشتہار ملا تھا جس میں عیسائی مذکور نے اسلام اور عیسائیت کے درمیان آخری فیصلہ کرنے کے واسطے مجھے مباہلہ کے واسطے طلب کیا.اس کے جواب میں پانچ مئی کے اشتہار میں مَیں نے اس دعوت کو قبول کیا.بدیں شرط کہ لاہور، کلکتہ، مدراس اور بمبئی چار مقامات کے بشپ صاحبان اس مباہلہ میں شامل ہوں اور اس شمولیت کے واسطے ان کے لئے تکلیف ِ سفر برداشت کرنے اور کسی ایک جگہ جمع ہونے کی بھی شرط قرار نہیں دی.کیونکہ میرے نزدیک مُباہلہ تحریری بھی ہو سکتا ہے.چنانچہ یہ اشتہار علاوہ علیحدہ چھپنے کے اخبار بدر مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۹۰۶ء کے صفحہ اوّل پر اور اخبار الحکم مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۹۰۶ء کے صفحہ ۱۱ پر بھی شائع ہو چکا ہے اور اس کے جواب کے واسطے تین ماہ کی لمبی مہلت بھی دی گئی ہے.لیکن آج مجھے خیال آیا ہے کہ اس مباہلہ میں عیسائی صاحبان کو اَور بھی سہولت دی جاوے تاکہ ان کا کوئی جھوٹا عذر بھی باقی نہ رہے.ا س واسطے مَیں اعلان کرتا ہوں کہ مَیں مباہلہ کے واسطے خود احمد مسیح نابینا کے بالمقابل ہی طیار ہوں.بشپ صاحبان
کا مغلوب ہونا سمجھا جاوے گا.یہ بات بھی ہم اس واسطے کہتے ہیں کہ احمد مسیح ایک گمنام آدمی ہے اور جب تک بشپ صاحبان اس کو اپنا قائمقام نہ بناویں قوم پر کچھ اثر نہیں ہو سکتا.لیکن اب معاملہ بہت صاف کر دیا گیا ہے.امید ہے کہ بشپ صاحبان پورے غور و فکر کے بعد اس مباہلہ کو منظور کرلیں گے.مکرراً یہ کہ اگر ہر چہار بشپ منظور نہ کریں تو صرف لاہور کے بشپ صاحب کی ہی تحریر کافی سمجھی جائے گی.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی خاکســــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار میرزا غلام احمد مسیح موعود قادیان ۱۱؍ مئی ۱۹۰۶ء (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ۱۱۲ تا۱۱۳)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ خدا سچے کا حامی ہو.آمین اس امر سے اکثر لوگ واقف ہوں گے کہ ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب جو تخمیناً بیس برس تک میرے مریدوں میں داخل رہے، چند دنوں سے مجھ سے برگشتہ ہو کر سخت مخالف ہو گئے ہیں اور اپنے رسالہ المسیح الدجال میں میرا نام کذّاب مکّار شیطان دجّال شریر حرام خور رکھا ہے اور مجھے خائن اور شکم پرست اور نفس پرست اور مُفسد اور مُفتری اور خدا پر افتراء کرنے والا قرار دیا ہے اور کوئی ایسا عیب نہیں ہے جو میرے ذمّہ نہیں لگایا.گویا جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے.ان تمام بدیوں کا مجموعہ میرے سوا کوئی نہیں گذرا.اور پھر اسی پر کفایت نہیں کی بلکہ پنجاب کے بڑے بڑے شہروں کا دَورہ کر کے میری عیب شماری کے بارہ میں لیکچر دیئے اور لاہور اور امرت سر اور پٹیالہ اور دوسرے مقامات میں انواع و اقسام کی بدیاں عام جلسوں میں میرے ذمّہ لگائیں اور میرے وجود کو دنیا کے لئے ایک خطرناک اور شیطان سے بدتر ظاہر کر کے ہر ایک لیکچر میں مجھ پر ہنسی اور ٹھٹھا اُڑایا.غرض ہم نے اُس کے ہاتھ سے وہ دُکھ اُٹھایا جس کے بیان کی حاجت نہیں.او رپھر میاں عبدالحکیم صاحب نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ہر ایک لیکچر کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی صدہا آدمیوں میں شائع کی کہ مجھے خدا نے الہام کیا ہے کہ ’’یہ شخص تین سال کے عرصہ میں فنا ہو جائے گا اور اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ کذّاب اور مفتری ہے‘‘.مَیں نے اس کی ان پیشگوئیوں پر صبر کیا مگر آج جو ۱۴؍ اگست ۱۹۰۶ء ہے پھر اس کا خط ہمارے دوست فاضل جلیل
مولوی نورُ الدین صاحب کے نام آیا.اس میں بھی میری نسبت کئی قسم کی عیب شماری اور گالیوں کے بعد لکھا ہے کہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۰۶ء کو خدا تعالیٰ نے اس شخص کے ہلاک ہونے کی خبر مجھے دی ہے کہ اس تاریخ سے تین برس تک ہلاک ہو جائے گا.جب اس حد تک نوبت پہنچ گئی تو اَب میں بھی اس بات میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ جو کچھ خدا نے اس کی نسبت میرے پر ظاہر فرمایا ہے مَیں بھی شائع کروں اور درحقیقت اس میں قوم کی بھلائی ہے کیونکہ اگر درحقیقت مَیں خدا تعالیٰ کے نزدیک کذّاب ہوں اور پچیس برس سے دن رات خدا پر افتراء کر رہا ہوں اور اس کی عظمت اور جلال سے بے خوف ہو کر اس پر جھوٹ باندھتا ہوں اور اس کی مخلوق کے ساتھ بھی میرا یہ معاملہ ہے کہ مَیں لوگوں کا مال بددیانتی اور حرام خوری کے طریق سے کھاتا ہوں اور خدا کی مخلوق کو اپنی بدکرداری اور نفس پرستی کے جوش سے دُکھ دیتا ہوں تو اس صورت میں تمام بدکرداروں سے بڑھ کر سزا کے لائق ہوں تا لوگ میرے فتنہ سے نجات پاویں.اور اگرمَیں ایسا نہیں ہوں جیسا کہ میاں عبدالحکیم خاں نے سمجھا ہے تو مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ خدا مجھ کو ایسی ذلّت کی موت نہیں دے گا کہ میرے آگے بھی لعنت ہو اور میرے پیچھے بھی.مَیں خدا کی آنکھ سے مخفی نہیں.مجھے کون جانتاہے مگر وہی.اس لئے مَیں اس وقت دونوں پیشگوئیاں یعنی میاں عبدالحکیم خاں کی میری نسبت پیشگوئی اور اس کے مقابل پر جو خدا نے میرے پر ظاہر کیا ذیل میں لکھتا ہوں اور اس کا انصاف خدائے قادر پر چھوڑتا ہوں اور وہ یہ ہیں.میاں عبدالحکیم خان صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی میری نسبت پیشگوئی جو اخویم مولوی نور الدین صاحب کی طرف اپنے خط میں لکھتے ہیں.اس کے اپنے الفاظ یہ ہیں:.’’مرزا کے خلاف ۱۲؍ جولائی ۱۹۰۶ء کو یہ الہامات ہوئے ہیں.مرزا مُسرف کذّاب اور عیار ہے.صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے.‘‘۱؎
اس کے مقابل پر وہ پیشگوئی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میاں عبدالحکیم خان صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی نسبت مجھے معلوم ہوئی.جس کے الفاظ یہ ہیں.خدا کے مقبولوں میں قبولیّت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.۱؎ ان پر کوئی عذاب نہیں آ سکتا.فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے۲؎ پر تونے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا ۳؎ نہ جانا.رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَ کَاذِبٍ.اَنْتَ تَریٰ کُلّ مُصْلِحٍ وَ صَادِقٍ ۴؎ المشتھر.میرزا غلام احمد مسیح موعود قادیانی ۱۶؍ اگست ۱۹۰۶ء مطابق ۲۴؍ جمادی الثانی ۱۳۲۴ھ مطبوعہ انوار احمدیہ پریس قادیان دارالامان ( یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے ایک صفحہ پر ہے اور حقیقۃ الوحی میں بھی درج ہے.) (روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۴۰۹ تا ۴۱۱)
تازہ نشان کی پیشگوئی (مندرجہ رسالہ ’’قادیان کے آریہ اور ہم ‘‘ٹائیٹل پیج نمبر ۲) خدا فرماتا ہے کہ مَیں ایک تازہ نشان ظاہر کروںگا جس میں فتح عظیم ہوگی وہ عام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا.چاہیے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے کیونکہ خدا اس کوعنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اُس کی طرف سے ہے.مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاوے.آمین المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر میرزا غلام احمد مسیح موعود (روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۴۱۸)
اعلان (مندرجہ رسالہ ’’قادیان کے آریہ اور ہم ‘‘ٹائیٹل پیج نمبر ۲) یاد رہے کہ اس رسالہ ۱؎کے شائع کرنے کی ہمیں کچھ بھی ضرورت نہ تھی لیکن ایک گندی اخبار جو قادیان سے آریوں کی طرف سے نکلتی ہے جس میں ہمیشہ وہ لوگ توہین اور بدزبانی کر کے اور دین اسلام کی نسبت اپنی فطرتی عداوت کی وجہ سے ناشائستہ کلمات بول کر اور ساتھ ہی مجھ کو بھی گالیاں دے کر لیکھرام کے قائم مقام ہورہے ہیں ان کی اخبار نے ہمیں مجبور کیا کہ ان کے جھوٹے الزاموں کو اس رسالہ میں ہم دُور کردیں اور ثابت کریں کہ ان کے بھائی لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل ساکنان قادیان درحقیقت میرے بہت سے نشانوں کے گواہ ہیں.اور ان پر کیا حصر ہے تمام قادیان کے آریہ اور ہندو بعض نشانوں کے گواہ رؤیت ہیں.اور پھر قادیان پر ہی موقوف نہیں لیکھرام کے مارے جانے کی پیشگوئی ایک ایسی مہاں جال پیشگوئی ہے جس نے تمام پنجاب اور ہندوستان کے ہندو اور آریہ سماج والے اس عظیم الشان نشان کے گواہ کر دیئے ہیں.اب ان پیشگوئیوں سے انکار کرنا آریوں کے لئے ممکن نہیں اور اس بارے میں قلم اُٹھانا محض بے حیائی ہے.اور اگروہ اس قدر پر باز نہ آئے تو پھر ان کا تمام پردہ کھول دیا جائے گا.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم میرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان (روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۴۶۰)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اعلان بخدمت علمائے اسلامقَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰ یَاتِہٖ.۱؎ یعنی اس شخص سے ظالم تر کون ہے جو خدا پر افتراء کرے یا خدا کی آیتوں اور نشانوں کا مکذب ہو.ہر ایک کو معلوم ہے کہ میرے اس دعوے پر کہ میں خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر آیا ہوں اور اس کے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہوں چھبیس برس کے قریب عرصہ گذر گیا ہے اور اس مدت میں باوجودیکہ میرے سلسلہ کے معدوم کرنے کے لئے ہر ایک مخالف نے ناخنوں تک زور لگائے اور مجھے حکام کی طرف بھی کھینچا مگر میں ان کے ہر ایک حملے کے وقت میں محفوظ رہا.تعجب کہ ان کو باوجود صدہا ناکامیوں کے جو میرے استیصال کے بارے میں ہوئیں.اب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ایک پوشیدہ ہاتھ میرے ساتھ ہے جو ان کے ہاتھ سے مجھے بچاتا ہے.مجھے وہ کذاب اور دجال اور مفتری تو کہتے ہیں مگر اس بات کا جواب نہیں دیتے کہ دنیا میں کونسا ایسا کذاب گذرا ہے جس کو خدادشمنوں کے خطرناک حملوں سے چھبیس برس تک بچاتا رہا یہاں تک
کہ اس نے اپنے خاص فضل سے صدی کے چہارم حصہ تک اس کو سلامت رکھا اور ترقی پر ترقی بخشی اور ایک فرد سے لاکھوں انسان اس کے تابع کر دیئے اور کسی دشمن کی پیش نہ گئی اور آئندہ ترقیات کی خبر نہیں اور کونسا دنیا میں ایسا کذاب گذرا ہے جس کے مقابل پر ہر ایک مومن مباہلہ کے وقت موت یا کسی اور قسم کی تباہی سے عذاب کا نشانہ ہوا.اور کونسا ایسا کذاب گذرا ہے جس کے لئے اور جس کی پیشگوئی کی رو سے رمضان میں خسوف کسوف ہوا اور زمین میں ایک عالمگیر طاعون پھیل گیا.کیا کسی اور مہدی کا نشان ملتا ہے جس نے کسوف خسوف سے پندرہ ۱۵برس پہلے اس کے وقوع کی خبر دی تھی اور طاعون سے چھبیس۲۶ برس پہلے اور پھر بار۱۲ہ برس پہلے اور پھر تین برس پہلے ملک میں اس کے پھیلنے کی سہ بارہ اطلاع دے دی تھی.اب اس وقت اس تحریر سے میری غرض یہ ہے کہ میں نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں کافی طور پر ہر ایک قسم کا ثبوت اپنے دعویٰ کے متعلق لکھ دیا ہے اور باوجود اس کے کہ میں ان ایام میں بباعث طرح طرح کے عوارض جسمانی اور بیماریوں کے متواتر دَورے اور ضعف اور ناتوانی کے اس لائق نہ تھا کہ اس قدر سخت محنت اٹھا سکوں تاہم میں نے محض بنی نوع کی ہمدردی کے لئے یہ تمام محنت اٹھائی.اس لئے میں اپنی عزیز قوم کے اکابر علماء اور مشائخ اور ان سب کو جو اس کتاب کو پڑھ سکتے ہیں خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر ان کو یہ کتاب پہنچے تو ضرور اوّل سے آخر تک اس کتاب کو غور سے پڑھ لیں اور مَیں پھر اُن کو اس خدائے لاشریک کی دوبارہ قسم دیتا ہوں جس کے ہاتھ میں ہر ایک کی جان ہے کہ وہ اپنے اوقات اور مشاغل کا حرج بھی کر کے ایک دفعہ غور اور تدبر سے اس کتاب کو اول سے آخر تک پڑھ لیں اور پھر میں تیسری دفعہ اس غیور خدا کی اُن کو قسم دیتا ہوں جو اس شخص کو پکڑتا ہے جو اس کی قسموں کی پروا نہیں کرتا کہ ضرور ایسے لوگ جن کو یہ کتاب پہنچے اور وہ اس کو پڑھ سکتے ہوں خواہ وہ مولوی ہیں یا مشائخ اوّل سے آخر تک ایک مرتبہ اس کو ضرور پڑھ لیں.اور میں انشاء اللہ بعض کو تو خود یہ کتاب بھیج دوں گا اور بعض دیگر کی نسبت میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر وہ قسم کھا کر لکھیں کہ قیمت کے ادا کرنے کی گنجائش نہیں تو میں بشرط گنجائش اور بشرط موجود ہونے کتاب کے ضرور ان کو اس
شرط سے کتاب بھیج دوں گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر میری طرف تحریر کریں کہ وہ اوّل سے آخر تک ضرور کتاب کو پڑھیں گے اور نیز یہ کہ وہ نادار ہیں طاقت ادائے قیمت نہیں رکھتے اور میں دعا کرتا ہوں کہ جس شخص کو یہ کتاب پہنچے اور وہ خدا تعالیٰ کی قسم سے لاپروا رہ کر اور خدا کی قسم کو بے عزتی سے دیکھ کر کتاب کو اوّل سے آخر تک نہ پڑھے اور یا کچھ حصہ پڑھ کر چھوڑ دے اور پھر بدگوئی سے باز نہ آوے خدا ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت میں تباہ اور ذلیل کرے.آمین لیکن جو شخص اوّل سے آخر تک کتاب کو پڑھے اور خوب سمجھے اُس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.اب میں اس اعلان کو ختم کرتا ہوں.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المعـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلن میرزا غلام احمد مسیح موعود مقام قادیان.۱۵؍مارچ ۱۹۰۷ء (یہ اعلان حقیقۃ الوحی میں بھی درج ہے) مطبوعہ میگزین پریس قادیان (تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۶۱۱ تا ۶۱۳)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ بخدمت آریہ صاحبان------------------------------ کوئی عقلمند اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ جو خدا کی طرف سے شریعت ہے.اس کے قدیم سے دوہی ٹکڑے ہوتے آئے ہیں.(۱) بڑا اور پہلا ٹکڑا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی تمام صفات کاملہ کے ساتھ واحد لاشریک مان لیا جائے اور اُس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہ ٹھیرایا جائے اور اس بات پر ایمان لایا جائے کہ وہ مبدا ہے تمام فیوض کا اور سرچشمہ ہے تمام ظہورات کا اور خالق ہے ہر ایک وجود کا اور قادر ہے ہر ایک ایسے امر پر جو اس کی عظمت اور شان اور جلال کے لایق ہے اور اس کے صفات کاملہ کے منافی نہیں اور اوّل ہے ہر ایک موجود سے اور مرجع ہے تمام کائنات کا اور مستجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور پاک ہے اِس سے کہ کسی وقت صفات اس کی بیکار ہو جائیں یا یہ کہ کسی وقت بیکار تھیں وہ قدیم سے خالق اور قدیم سے رازق اور قدیم سے قادر ہے کسی کو علم نہیں کہ پہلے اُس نے کیا کیا اور آگے کیا کیا کرے گا.اُس کی قدرتوں پر کوئی محیط نہیں ہو سکتا اور وہ واحد ہے اپنی ذات میں اور اپنی صفات میں اور افعال میں اور اُس کی طرح کوئی بھی کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں اور پاک ہے ہر ایک عیب اور نقص سے اور نزدیک ہے باوجود دوری کے اور دور ہے باوجود نزدیکی کے.وہ برتر اور بلند ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی
اور بھی ہے.وہ پوشیدہ درپوشیدہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ ظاہر نہیں.وہ اپنے ظہور میں سب سے زیادہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ پوشیدہ نہیں.وہ آفتاب میں چمک رہا ہے اور چاند میں اس کے انوار ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ آفتاب ہے یا چاند ہے بلکہ یہ سب چیزیں اس کی مخلوق ہیں اور کافر ہے وہ شخص جو اس کو خدا کہے.وہ نہاں درنہاں ہے پھر بھی سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے.ہر ایک روح کو اسی سے قوتیں اور صفات ملی ہیں.ہر ایک ذرہ نے اسی سے خواص پائے ہیں اور اگر وہ صفات اور قوتیں اور طاقتیں چھین لی جائیں تو پھر نہ روح کچھ چیز ہے اور نہ ذرہ کچھ حقیقت رکھتا ہے.اس لئے انسان کی معرفت کا انتہائی نقطہ یہی ہے کہ یہ سب چیزیں اس کے ہاتھ سے نکلی ہیں اور خدا اور روحوں میں رشتہ محبت کا بھی اسی وجہ سے ہے کہ یہ سب چیزیں اس کے ہاتھ سے نکلی ہوئی ہیں اور اُسی نے اُن کی فطرت میںاپنی محبت کا نمک چھڑکا ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو عشق الٰہی محال تھا کیونکہ جانبین میں کوئی تعلق نہ تھا.بچہ ماں سے اسی وجہ سے محبت کرتا ہے کہ اس کے پیٹ سے نکلا ہے اور ماں بھی اسی وجہ سے اس سے محبت کرتی ہے کہ وہ اس کے جگر کا ٹکڑا ہے.پس چونکہ ہر ایک روح خدا کے ہاتھ سے نکلی ہے اس لئے اس محبوب حقیقی کی طلب میں ہے.پھر غلطی سے کوئی بت پرستی کرتا ہے.کوئی سورج کو پوجتاہے.کوئی چاند کے آگے جھکتا ہے.کوئی پانی کا پرستار ہے کوئی انسان کو خدا جانتا ہے.پس اس غلطی کی وجہ بھی اُس حقیقی محبوب کی طلب ہے جو انسان کی فطرت میں ہے جس طرح بچہ کبھی ماں کی طلب میں دھوکہ کھا کر کسی دوسری عورت سے چمٹ جاتا ہے اسی طرح تمام مخلوق پرست دھوکہ کھا کر دوسری چیزوں کی طرف جھک گئے ہیں.خدا کی شریعت ان غلطیوں کو دور کرنے کے لئے آئی ہے اور خدا کی شریعت وہی ہے جو اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان غلطیوں کو دور کر سکتی ہے اور غلطیوں کو وہی شریعت دور کرے گی جو چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھادے گی کیونکہ اگر کوئی شریعت تازہ نشان دکھلانے پر قادر نہیں تو وہ بھی ایک ُبت پیش کرتی ہے نہ خدا کو.وہ خدا یا پرمیشر نہیں ہو سکتا جو اپنے ظہور کے لئے ہماری منطق کا محتاج ہے.اگر خدا ایسا ہی مردہ اور قدرت کی علامات سے محروم ہے جیسا کہ
بت تو ایسے خدا کو کون عارف قبول کر سکتا ہے.پس سچی اور کامل شریعت وہی ہے جو زندہ خدا کو اس کی قدرتوں اور نشانوں کے ساتھ دکھلاتی ہے اور وہی ہے جس کے ذریعہ سے انسان شریعت کے دوسرے حصہ میں بھی کامل ہو سکتا ہے اور شریعت کا دوسرا ٹکڑہ یہ ہے کہ انسان ان تمام گناہوں سے پرہیز کرے جن کی جڑ بنی نوع پر ظلم ہے.جیسے زنا کرنا ‘چوری کرنا ‘ خون کرنا‘ جھوٹی گواہی دینا ور ہر ایک قسم کی خیانت کرنا اور نیکی کرنے والے کے ساتھ بدی کرنا اور انسانی ہمدردی کا حق ادا نہ کرنا.پس اس دوسرے حصہ شریعت کو حاصل کرنا بھی پہلے حصہ کے حصول پر موقوف ہے.اور ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ پہلا حصہ یعنی خداشناسی کسی طرح ممکن نہیں جب تک خدا کو اس کی تازہ قدرتوں اور تازہ نشانوں کے ساتھ شناخت نہ کیا جاوے ورنہ بغیر اس کے خدا پرستی بھی ایک بت پرستی ہے کیونکہ جبکہ خدا محض ایک بت کی طرح ہے جو سوال کا جواب نہیں دے سکتا اور نہ کوئی قدرت دکھلا سکتا ہے تو اس میں اور ایک بت میں فرق کیا ہے.زندہ خدا کی علامات چاہییں اور اگر وہ ہمارے سوال کا جواب نہیں دے سکتا اور نہ کوئی قدرت دکھلا سکتا ہے تو کیونکر معلوم ہو کہ وہ موجود ہے.صرف اپنی خودتراشیدہ باتوں سے کیونکر اس کی ہستی ثابت ہو جبکہ ہر ایک انسان اپنی زندگی ثابت کرنے کا آپ ذمہ دار ہے تو پھر کیا وجہ کہ خدا اپنی زندگی ثابت نہیں کر سکتا.کیا خدا انسان سے بھی زیادہ کمزور ہے یا کیا اس کی قدرت آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے.اور اگر اب اس میں کلام کرنے کی طاقت باقی نہیں رہی تو اس پر کیا دلیل ہے کہ پہلے وہ طاقت موجود تھی اور اگر وہ اس زمانہ میں بول نہیں سکتا تو اس پر کیا دلیل ہے کہ وہ اس زمانہ میں سن سکتا ہے اور دعائیں قبول کر سکتا ہے اور اگر کسی زمانہ میں اس نے اپنی قدرتیں ظاہر کی ہیں تو اب کیوں ظاہر نہیں کر سکتا تادہریوں کے منہ میں خاک پڑے.پس اے عزیزو!وہ قادر خدا جس کی ہم سب کو ضرورت ہے وہ اسلام ہی نے پیش کیا ہے.اسلام خدا کی قدرتوں کو ایسا ہی پیش کرتا ہے جیسا کہ وہ پہلے ظہور میں آئی تھیں.یادرکھو اور خوب یاد رکھو کہ بغیر اس کے کہ خدا کی قدرتیں اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان ظاہر ہوں کوئی شخص خدا پر
ایمان نہیں لا سکتا.یہ سب جھوٹے قصے ہیں کہ ہم پرمیشر پر ایمان لائے ہیں.خدا کی شناخت کرانے والے اس کے نشان ہیں او راگر نشان نہیں تو خدا بھی نہیں.پس اس لئے میں نے نمونہ کے طور پر محض ہمدردی کی راہ سے کتاب حقیقۃ الوحی کو تالیف کیا ہے اور میں آپ لوگوں کو اس پرمیشر کی قسم دیتا ہوں جس پر ایمان لانا آپ لوگ اپنی زبان سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ اوّل سے آخر تک میری اس کتاب کو پڑھو اور ان نشانوں پر غور کرو جو اس میں لکھے گئے ہیں.پھر اگر اپنے مذہب میں اس کی نظیر نہ پائو تو خدا سے ڈر کر اس مذہب کو چھوڑ دو اور اسلام کو قبول کرو.وہ مذہب کس کام کا ہے اور کیا فائدہ دے گا جو زندہ خدا تک زندہ نشانوں کے ساتھ رہبری نہیں کر سکتا پھر میں آپ لوگوں کو اسی پرمیشر کی دوبارہ قسم دیتا ہوں کہ ضرور ایک مرتبہ میری اس کتاب حقیقۃ الوحی کو اوّل سے آخر تک پڑھو اور سچ کہو کہ کیا آپ لوگ اپنے مذہب کی پابندی سے اس زندہ خدا کو شناخت کر سکتے ہیں.پھر میں تیسری مرتبہ اسی پرمیشر کی قسم دیتا ہوں کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور خدا کا قہر ہر طرف نمودار ہے ایک مرتبہ اوّل سے آخر تک میری کتاب حقیقۃ الوحی کو ضرور پڑھ لو.خدا تمہیں ہدایت کرے.موت کا اعتبار نہیں.خدا وہی خدا ہے جو زندہ خدا ہے.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر میرزا غلام احمد مسیح موعود قادیانی (یہ اشتہار حقیقۃ الوحی میں بھی درج ہے) مطبوعہ میگزین پریس قادیان (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۶۱۴ تا ۶۱۶)
۲۸۵ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ دعوتِ حق ۱؎ ان کو کہہ دے کہ اگر خدا کا کوئی فرزند ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی پرستش کرتا یہ اشتہار پادری صاحبوں کی خدمت میں نہایت عجز اور ادب اور انکسار سے لکھا جاتا ہے کہ اگر یہ سچ ہوتا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام درحقیقت خدا کا فرزند ہوتا یا خدا ہوتا تو سب سے پہلے میں اس کی پرستش کرتا اور میں تمام ملک میں اس کی خدائی کی اشاعت کرتا اور اگرچہ میں دکھ اٹھاتا اور مارا جاتا اور قتل کیا جاتا اور اس کی راہ میں ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا تب بھی میں اس دعوت اور منادی سے باز نہ آتا‘ لیکن اے عزیزو! خدا تم پر رحم کرے اور تمہاری آنکھیں کھولے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا نہیں وہ صرف ایک نبی ہے ایک ذرہ اس سے زیادہ نہیں اور بخدا میں وہ سچی محبت اس سے رکھتا ہوں جو تمہیں ہرگز نہیں اور جس نور کے ساتھ میں اسے شناخت کرتا ہوں تم
ہرگز اسے شناخت نہیں کر سکتے.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ خدا کا ایک پیارا اور برگزیدہ نبی تھا اور ان میں سے تھا جن پر خدا کا ایک خاص فضل ہوتا ہے اور جو خدا کے ہاتھ سے پاک کئے جاتے ہیں مگر خدا نہیں تھا اور نہ خدا کا بیٹا تھا.میں نے یہ باتیں اپنی طرف سے نہیں کیں بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خالق ہے میرے پر ظاہر ہو ااور اسی نے اس آخری زمانہ کے لئے مجھے مسیح موعود کیا.اُس نے مجھے بتلا یا کہ سچ یہی ہے کہ یسوع ابن مریم نہ خدا ہے نہ خدا کا بیٹا ہے اور اسی نے میرے ساتھ ہمکلام ہو کر مجھے یہ بتلایا کہ وہ نبی جس نے قرآن پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا وہ سچا نبی ہے اور وہی ہے جس کے قدموں کے نیچے نجات ہے اور بجز اس کی متابعت کے ہرگز ہرگز کسی کو کوئی نور حاصل نہیں ہو گا اور جب میرے خدا نے اس نبی کی وقعت اور قدر اور عظمت میرے پر ظاہر کی تو میں کانپ اٹھا اور میرے بدن پر لرزہ پڑ گیا کیونکہ جیسا کہ حضرت عیسیٰ مسیح کی تعریف میں لوگ حد سے بڑھ گئے یہاں تک کہ ان کو خدا بنا دیا.اسی طرح اس مقدس نبی کا لوگوں نے قدرشناخت نہیں کیا جیسا کہ حق شناخت کرنے کا تھا اور جیسا کہ چاہیے لوگوں کو اب تک اس کی عظمتیں معلوم نہیں.وہی ایک نبی ہے جس نے توحید کا تخم ایسے طور پر بویا جو آج تک ضائع نہیں ہوا.وہی ایک نبی ہے جو ایسے وقت میں آیا جب تمام دنیا بگڑ گئی تھی اور ایسے وقت میں گیا جب ایک سمندر کی طرح توحید کو دنیا میں پھیلا گیا اور وہی ایک نبی ہے جس کے لئے ہر ایک زمانہ میں خدا اپنی غیرت دکھلاتا رہا ہے اور اس کی تصدیق اور تائید کے لئے ہزارہا معجزات ظاہر کرتا رہا.اسی طرح اس زمانہ میں بھی اس پاک نبی کی بہت توہین کی گئی اس لئے خدا کی غیرت نے جوش مارا اور سب گذشتہ زمانوں سے زیادہ جوش مارا اور مجھے اس نے مسیح موعود کر کے بھیجا تاکہ میں اس کی نبوت کے لئے تمام دنیا میں گواہی دوں.اگر میں بے دلیل یہ دعویٰ کرتا ہوں تو جھوٹا ہوں لیکن اگر خدا اپنے نشانوں کے ساتھ اس طور سے میری گواہی دیتا ہے کہ اس زمانہ میں مشرق سے مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک اس کی نظیر نہیں تو انصاف اور خدا ترسی کا مقتضا یہی ہے کہ مجھے میری اس تمام تعلیم کے ساتھ قبول کریں.خدا نے میرے لئے وہ نشان
دکھائے کہ اگر وہ ان امتوں کے وقت نشان دکھلائے جاتے جو پانی اور آگ اور ہوا سے ہلاک کی گئیں تو وہ ہلاک نہ ہوتیں مگر اس زمانہ کے لوگوں کو میں کس سے تشبیہ دوں وہ اس بدقسمت کی طرح ہیں جس کی آنکھیں بھی ہیں پر دیکھتا نہیں اور کان بھی ہیں پر سنتا نہیں اور عقل بھی ہے پر سمجھتا نہیں.میں ان کے لئے روتا ہوں اور وہ مجھ پر ہنستے ہیں اور میں ان کو زندگانی کا پانی دیتا ہوں اور وہ مجھ پر آگ برساتے ہیں.خدا میرے پر نہ صرف اپنے قول سے ظاہر ہوا ہے بلکہ اپنے فعل کے ساتھ بھی اس نے میرے پر تجلی کی اور میرے لیے وہ کام دکھلائے اور دکھلائے گا کہ جب تک کسی پر خدا کا خاص فضل نہ ہو اس کے لئے یہ کام دکھلائے نہیں جاتے.لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا لیکن خدا نے مجھے قبول کیا.کون ہے جو ان نشانوں کے دکھلانے میں میرے مقابل پر آسکتا ہے.میں ظاہرہوا ہوں تا خدا میرے ذریعہ سے ظاہر ہو.وہ ایک مخفی خزانہ کی طرح تھا مگر اب اس نے مجھے بھیج کر ارادہ کیا کہ تمام دہریوں اور بے ایمانوں کا منہ بند کرے جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں.مگر اے عزیزو! تم جو خدا کی طلب میں لگے ہوئے ہو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ سچا خدا وہی ہے جس نے قرآن نازل کیا.وہی ہے جس نے میرے پر تجلی کی اور جو ہردم میرے ساتھ ہے.اے پادری صاحبان! میں آپ لوگوں کو اُس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے مسیح کو بھیجا اور اس محبت کو یاد دلاتا ہوں اور قسم دیتا ہوں جو آپ لوگ اپنے زعم میں حضرت یسوع مسیح ابن مریم سے رکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ضرور میری کتاب حقیقۃ الوحی کو اوّل سے آخر تک حرف بحرف پڑھ لیں اور اگر کوئی صاحب اہلِ علم سے نیک نیتی سے میری کتاب حقیقۃ الوحی اس شرط کے ساتھ طلب کریں گے اور قسم کھائیں گے کہ ہم اس کتاب کو اوّل سے آخر تک غور سے دیکھیں گے تو میں وہ کتاب مفت ان کو بھیج دوں گا.اور اگر اس سے تسلی نہیں ہو گی تو میں امید رکھتا ہوں کہ خدا کوئی اور نشان دکھائے گا کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ میں اس زمانہ پر اپنی حجت پوری کروں گا.اب میںختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا طالب حق کے ساتھ ہو.آمین
کرتا ہوں کہ خدا طالب حق کے ساتھ ہو.آمین خاکســـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار میرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان ضلع گورداسپور ۲۰؍مارچ ۰۷ـ۱۹ء (یہ اشتہار حقیقۃ الوحی میں بھی درج ہے) (مطبوعہ میگزین پریس قادیان) (تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۶۱۷ تا ۶۲۰) ------------------------------
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی امریکہ کا جھوٹا نبی میری پیشگوئی کے مطابق مر گیا واضح ہو کہ یہ شخص جس کا نام عنوان میں درج ہے اسلا م کا سخت درجہ پر دشمن تھا اور علاوہ اس کے اُس نے جھوٹا دعویٰ پیغمبری کا کیا اور حضرت سیّدالنبیین و اصدق الصادقین و خیر المرسلین و امام الطیبین جناب تقدس مآب محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو کاذب اور مفتری خیال کرتا تھا اور اپنی خباثت سے گندی گالیاں اور فحش کلمات سے آنجناب کو یاد کرتا تھا.غرض بغض دین ِ متین کی وجہ سے اس کے اندر سخت ناپاک خصلتیں موجود تھیں اور جیسا کہ خنزیروں کے آگے موتیوں کا کچھ قدر نہیں ایسا ہی وہ تو توحید اسلام کو بہت ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا اور اس کا استیصال چاہتا تھا اور حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا جانتا تھا.اور تثلیث کو تمام دنیا میں پھیلانے کے لئے اتنا جوش رکھتا تھا کہ مَیں نے باوجود اس کے کہ صد ہا کتابیں پادریوں کی دیکھیں مگر ایسا جوش کسی میں نہ پایا.چنانچہ اس کے اخبار لیؤز آف ہیلنگ مورخہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۰۳ء اور ۱۴؍ فروری ۱۹۰۷ء میں یہ فقرے ہیں:- ’’میں خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے.اے خدا تو ایسا ہی کر.اے خدا اسلام کو ہلاک کر دے.‘‘ اور پھر اپنے پرچہ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۰۳ء میں اپنے تئیں سچا رسُول اور سچا نبی قرار دے کر کہتا ہے
کہ ’’اگر مَیں سچا نبی نہیں ہوں تو پھر روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو خدا کا نبی ہو.‘‘ علاوہ اس کے وہ سخت مُشرک تھا اور کہتا تھا کہ مجھ کو الہام ہو چکا ہے کہ پچیس برس تک یسوع مسیح آسمان سے اُتر آئے گا اور حضرت عیسیٰ کو درحقیقت خدا جانتا تھا اور ساتھ اس کے میرے دل کو دُکھ دینے والی ایک یہ بات تھی جیسا کہ مَیں لکھ چکا ہوں کہ وہ نہایت درجہ پر ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا دشمن تھا اور مَیں اس کا پرچہ اخبار لیؤز آف ہیلنگ لیتا تھا اوراس کی بدزبانی پر ہمیشہ مجھے اطلاع ملتی تھی.جب اس کی شوخی انتہا تک پہنچی تو میں نے انگریزی میں ایک چٹھی اس کی طرف روانہ کی اور مباہلہ کے لئے اس سے درخواست کی تا خدا ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اس کو سچے کی زندگی میں ہلاک کرے.یہ درخواست دو مرتبہ یعنی ۱۹۰۲ء اور پھر ۱۹۰۳ء میں اس کی طرف بھیجی گئی تھی اور امریکہ کے چند نامی اخباروں میں بھی شائع کی گئی تھی جن کے نام حاشیہ میں درج ہیں.۱؎ (۱)شکاگو انٹر پریٹر اخبار ۲۸؍ جون ۱۹۰۳ء عنوان ’’کیا ڈوئی اس مقابلہ میں نکلے گا ‘‘ دونوں تصویریں پہلو بہ پہلو دے کر لکھتا تھا کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ڈوئی مفتری ہے اور مَیں دعا کرنے والا ہوں کہ وہ اسے اپنی زندگی میں نیست و نابود کر دے اور پھر کہتے ہیں کہ جھوٹے اور سچے میں فیصلہ کا یہ طریق ہے کہ خدا سے دعا کی جاوے کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاوے.(۲)ٹیلیگراف ۵؍ جولائی ۱۹۰۳ء مرزا غلام احمد صاحب پنجاب سے ڈوئی کو چیلنج بھیجتے ہیں کہ اے وہ شخص جو مدعی نبوت ہے آ اور میرے ساتھ مباہلہ کر.ہمارا مقابلہ دعا سے ہو گا او رہم دونوں خدا تعالیٰ سے دُعا کریں گے کہ ہم میں سے جو شخص کذّاب ہے وہ پہلے ہلاک ہو.(۳)ارگوناٹ سان فرانسسکو یکم دسمبر ۱۹+۰۳ء عنوان ’’انگریزی اور عربی یعنی (عیسائیت اور اسلام) کا مقابلہ دعا ‘‘ مرزا صاحب کے مضمون کا خلاصہ جو ڈوئی کو لکھا ہے یہ ہے کہ تم ایک جماعت کے لیڈر ہو اور میرے بھی بہت سے پیرو ہیں.پس اس بات کا فیصلہ کہ خدا کی طرف سے کون ہے ہم میں اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے خدا سے دعا کرے اور جس کی دعا قبول ہو وہ سچے خدا کی طرف سے سمجھا جاوے.دعا یہ ہو گی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اسے پہلے ہلاک کرے.یقینا یہ ایک معقول اور منصفانہ تجویز ہے.
(۴)لٹریری ڈائجسٹ نیویارک ۲۰؍ جون ۱۹۰۳ء میری تصویر دے کر مباہلہ کا مفصّل ذکر کرتا ہے یعنی یہ کہ دونوں فریق یعنی ڈوئی اور ہم دُعا کریں کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں اور اسی کے سامنے ہلاک ہو.۵)نیویارک میل اینڈ ایکسپریس ۲۸؍ جون ۱۹۰۳عنوان: - مباہلہ یا مقابلہ دعا کے نیچے اسی مباہلے کا ذکر کرتا ہے.(۶)ہیرلڈروچسٹر ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ڈوئی کو مباہلہ کے لئے بلایا گیا ہے اور پھر مباہلہ کا ذکر کرتا ہے.(۷)ریکارڈ بوسٹن ۲۷؍ مئی ۱۹۰۳مباہلہ کا ذکر ہے.(۸)یڈورٹائزربوسٹن ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ءایضاً (۹)پایلاٹ بوسٹن ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ءایضاً (۱۰)پاتھ فائنڈرواشنگٹن ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ءایضاً (۱۱)انٹراوشن شکاگو ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء ایضاً پھر ۲۸؍ جون کے پرچہ میں دونوں تصویریں دے کر مفصل ذکر کیا.(۱۲)وسٹر سپائی ۲۸؍ جون ۱۹۰۳ٰٰؑءایضاً (۱۳)ڈیموکریٹ کرانیکل روچسٹر ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ءمباہلہ کے بعد دونوں تصویریں بھی دی ہیں اور میری تصویر کے نیچے یہ لفظ ہیں.مرزا غلام احمد (۱۴)شکاگو کا ایک اخبارتاریخ اور نام پھٹ گیامباہلہ کے بعد دونوں تصویریں بھی دی ہیں اور میری تصویر کے نیچے یہ لفظ ہیں.مرزا غلام احمد (۱۵)برلنگٹن فری پریس ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء مباہلہ کا ذکر ہے.(۱۶)شکاگو انٹراوشن ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ (۱۷)البنی پریس ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ء (۱۸ جیکسنول ٹائمز ۲۸؍ جون ۱۹۰۳ء (۱۹)بالٹی متحد امریکن ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ء (۲۰)بفلو ٹائمز ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ء
۱؎ حاشیہ.میری طرف سے ۲۳؍ اگست ۱۹۰۳ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھا جس میں یہ فقرہ ہے کہ مَیں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے لیکن مَیں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پروا نہیں کی کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومتوں کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ خدا جو احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا.اور اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیاتب بھی یقینا سمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے اب مَیں اس مضمون کو اس دُعا پر ختم کرتا ہوں کہ اے قادر اور کامل خدا جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے اور ظاہر ہوتا رہے گا
خدا جھوٹے کا جھوٹ اپنے فیصلوں سے کھول دے اور یہ میرا مضمون مباہلہ کا جیسا کہ ابھی لکھ چکا ہوں کہ امریکہ کے چند روزانہ اور نامی اخباروں میں بخوبی شائع ہو گیا تھا اور یہ اخباریں امریکہ کے عیسائیوں کی تھیں جن کا مجھ سے کچھ تعلق نہ تھا اور اخباروں میں شائع کرانے کی اس لئے مجھے ضرورت پیش آئی کہ ڈاکٹر ڈوٹی جھوٹے نبی نے براہِ راست مجھ کو جواب نہیں دیا تھا.آخر میں نے وہ مضمون مباہلہ امریکہ کے ان نامی اخباروں میں جو روزانہ ہیں اور کثرت سے دنیا میں جاتے ہیں شائع کرا دیا.یہ خدا کا فضل ہے کہ باوجودیکہ ایڈیٹر ان اخبارات امریکہ عیسائی تھے اور اسلام کے مخالف تھے تاہم انہوں نے نہایت مدّ و شد سے میرے مضمون مباہلہ کو ایسی کثرت سے شائع کر دیا کہ امریکہ اور یورپ میں اس کی دھوم مچ گئی اور ہندوستان تک اس مباہلہ کی خبر ہو گئی.اور میرے مباہلہ کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ اسلام سچا ہے اور عیسائی مذہب کا عقیدہ جھوٹا ہے اور مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی مسیح ہوں جو آخری زمانہ میں آنے والا تھا اور نبیوں کے نوشتوں میں اس کا وعدہ تھا اور نیز مَیں نے اس میں لکھا تھا کہ ڈاکٹر ڈوئی اپنے دعویٰ رسُول ہونے اور تثلیث کے عقیدہ میں جھوٹا ہے.اگر وہ مجھ سے مباہلہ کرے تو میری زندگی میں ہی بہت سی حسرت اور دُکھ کے ساتھ مرے گا اور اگر مباہلہ بھی نہ کرے تب بھی خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتا.اس کے جواب میں بدقسمت ڈوئی نے دسمبر ۱۹۰۳ء کے کسی پرچہ میں اور نیز ۲۶؍ ستمبر ۱۹۰۳ء وغیرہ کے اپنے پرچوں میں اپنی طرف سے یہ چند سطریں انگریزی میں شائع کیں جن کا ترجمہ ذیل میں ہے:- ’’ہندوستان میں ایک بیوقوف محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ مسیح یسوع کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا اور کہ تو کیوں اس شخص کا جواب نہیں دیتا.مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ مَیں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا.اگر مَیں ان پر اپنا پائوں رکھوں تو مَیں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا.‘‘ بقیہ حاشیہ.یہ فیصلہ جلد کر اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے.او رمَیں یقین رکھتا ہوں کہ جو کچھ اپنی وحی سے تونے مجھے وعدہ دیا ہے وہ وعدہ ضرور پورا ہوگا.اے قادر خدا میری دُعا سُن لے تمام طاقتیں تجھ کو ہیں.دیکھو اشتہار ۲۳؍ اگست ۱۹۰۳ء بزبان انگریزی.منہ
او ر پھر پرچہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۰۲ء میں لکھتا ہے کہ میرا کام یہ ہے کہ مَیں مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو جمع کروں اور مسیحیوں کو اس شہر اور دوسرے شہروں میں آباد کروں یہاں تک کہ وہ دن آ جائے کہ مذہب محمدیؐ دُنیا سے مٹایا جائے.اے خدا ہمیں وہ وقت دکھلا.غرض یہ شخص میرے مضمون مباہلہ کے بعد جو یورپ اور امریکہ اور اس ملک میں شائع ہو چکا تھا بلکہ تمام دنیا میں شائع ہو گیا تھا شوخی میں روز بروز بڑھتا گیا.اور اس طرف مجھے یہ انتظار تھی کہ جو کچھ مَیں نے اپنی نسبت اور اس کی نسبت خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہا ہے ضرور خدا تعالیٰ سچا فیصلہ کرے گا اور خدا تعالیٰ کا فیصلہ کاذب اور صادق میں فرق کر کے دکھلا دے گا ۱؎ اور مَیں ہمیشہ اس بارہ میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا تھا اور کاذب کی موت چاہتا تھا.چنا نچہ کئی دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تو غالب ۲؎ ہو گا اور وہ دشمن ہلاک کیا جائے گا اور پھر ڈوئی کے مرنے سے قریباً پندرہ دن پہلے خدا تعالیٰ نے اپنی کلام کے ذریعہ سے مجھے میری فتح کی اطلاع بخشی جس کو مَیں اس رسالہ میں جس کا نام ہے ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ اس کے ٹائیٹل پیج کے پہلے ورق کے دوسرے صفحہ میں ڈوئی کی موت سے قریباً دو ہفتہ پہلے شائع کر چکا ہوں اور وہ یہ ہے.؎ اس اشتہار کے صفحہ ۳ کو پڑھو جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ ۲۳؍ اگست ۱۹۰۳ء کو بزبان انگریزی مَیں نے ڈوئی کے مقابل پر ایک اشتہار شائع کیا تھا اور خدا تعالیٰ سے الہام پا کر اس میں لکھا تھا کہ خواہ ڈوئی میرے ساتھ مباہلہ کرے یا نہ کرے وہ خدا کے عذاب سے نہیں بچے گا اور خدا جھوٹے اور سچے میں فیصلہ کرکے دکھلا دے گا.منہ ۲؎ حاشیہ.۹؍ فروری ۱۹۰۷ء کو مجھے یہ الہام ہوا کہ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی یعنی غلبہ تجھی کو ہو گا اور پھر اسی تاریخ مجھے یہ الہام ہوا- اَلْعِیْدُ الْاٰخَرُتَنَالُ مِنْہُ فَتْحًا عَظِیْمًا یعنی ایک اور خوشی کا نشان تجھ کو ملے گا جس سے ایک بڑی فتح تیری ہو گی جس میں یہ تفہیم ہوئی کہ ممالک مشرقیہ میں تو سعد اﷲ لدھیانوی میری پیشگوئی اور مباہلہ کے بعد جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہی نمونیا پلیگ سے مر گیا.یہ تو پہلا نشان تھا اور دوسرا نشان اس سے بہت ہی بڑا ہو گا جس میں فتح عظیم ہوگی.سو وہ ڈوئی کی موت ہے جو ممالک مغربیہ میں ظہور میں آئی.دیکھو پرچہ اخبار بدر ۱۴؍ فروری ۱۹۰۷ء جس سے خدا تعالیٰ کا وہ الہام پورا ہو ا کہ مَیں دو نشان دکھلائوں گا.منہ
تازہ نشان کی پیشگوئی خدا فرماتا ہے کہ مَیں اک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہو گی.وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہو گا ( یعنی ظہور اس کا صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہو گا) اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہو گا.چاہیے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے کیونکہ خدا اس کو عنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اس کی طرف سے ہے.مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاوے.المشـــــــــــــــــــــــــــــتھر میرزا غلام احمد مسیح موعود.مشتہرہ ۲۰؍ فروری ۱۹۰۷ء اب ظاہر ہے کہ ایسا نشان (جو فتح عظیم کا موجب ہے) جو تمام دنیا ایشیا اور امریکہ اور یورپ اور ہندوستان کے لئے ایک کھلا کھلا نشان ہو سکتا ہے وہ یہی ڈوئی کے مرنے کا نشان ہے.۱؎ کیونکہ اور نشان جو میری پیشگوئیوں سے ظاہر ہوئے ہیں وہ تو پنجاب اور ہندوستان تک ہی محدود تھے اور امریکہ اور یورپ کے کسی شخص کو اُن کے ظہور کی خبر نہ تھی.لیکن یہ نشان پنجاب سے بصورت پیشگوئی ظاہر ہو کر امریکہ میں جاکر ایسے شخص کے حق میں پورا ہوا جس کو امریکہ اور یورپ کا فرد فرد جانتا تھا اور اُس کے ۱؎ حاشیہ.ڈوئی اس پیشگوئی کے بعد اس قدر جلد مر گیا کہ ابھی پندرہ دن ہی اس کی اشاعت پر گذرے تھے کہ ڈوئی کا خاتمہ ہو گیا پس ایک طالب حق کے لئے یہ ایک قطعی دلیل ہے کہ یہ پیش گوئی خاص ڈوئی کے بارے میں تھی کیونکہ اول تو اس پیشگوئی میں یہ لکھا ہے کہ وہ فتح عظیم کا نشان تمام دنیا کے لئے ہو گا اور دوسرے یہ لکھا ہے کہ وہ عنقریب ظاہر ہونے والا ہے پس اس سے زیادہ عنقریب اور کیا ہو گا کہ اس پیشگوئی کے بعد بدقسمت ڈوئی اپنی زندگی کے بیس دن بھی پورے نہ کر سکا اور خاک میں جاملا جن پادری صاحبان نے آتھم کے بارے میں شورمچایا تھا اب ان کو ڈوئی کی موت پر ضرور غور کرنی چاہیے.منہ
مرنے کے ساتھ ہی بذریعہ تاروں کے اُس مُلک کے انگریزی اخباروں کو خبر دی گئی چنانچہ پایونیر نے (جو الہ آباد سے نکلتا ہے) پرچہ ۱۱؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اور سول اینڈ ملٹری گزٹ نے (جولاہور سے نکلتا ہے) پرچہ ۱۲؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اور انڈین ڈیلی ٹیلی گراف نے (جو لکھنؤ سے نکلتا ہے) پرچہ ۱۲؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اس خبر کو شائع کیا ہے.پس اس طرح پر قریباً تمام دنیا میں یہ خبر شائع کی گئی اور خود یہ شخص اپنی دنیوی حیثیت کی رو سے ایسا تھا کہ عظیم الشان نوابوں اور شاہزادوں کی طرح مانا جاتا تھا.چنانچہ وِب نے جو امریکہ میں مسلمان ہو گیا ہے میری طرف اس کے بارہ میں ایک چٹھی لکھی تھی کہ ڈاکٹر ڈوئی اس ملک میں نہایت معززانہ اور شاہزادوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے.اور باوجود اِس عزت اور شہرت کے جو امریکہ اور یورپ میں اُس کو حاصل تھی خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ہوا کہ میرے مباہلہ کا مضمون اُس کے مقابل پر امریکہ کے بڑے بڑے نامی اخباروں نے جو روزانہ ہیں شائع کردیا اور تمام امریکہ اور یورپ میں مشہور کر دیا اور پھر اس عام اشاعت کے بعد جس ہلاکت اور تباہی کی اُس کی نسبت پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی وہ ایسی صفائی سے پوری ہوئی کہ جس سے بڑھ کر اکمل اور اتم طور پر ظہور میں آنا متصور نہیں ہو سکتا.اُس کی زندگی کے ہر ایک پہلو پر آفت پڑی.اُس کا خائن ہونا ثابت ہوا اور وہ شراب کو اپنی تعلیم میں حرام قرار دیتا تھا مگر اُس کا شراب خوار ہونا ثابت ہو گیا.اور وہ اُس اپنے آباد کردہ شہر صیحون سے بڑی حسرت کے ساتھ نکالا گیا جس کو اُس نے کئی لاکھ روپیہ خرچ کرکے آباد کیا تھا اور نیز سات کروڑ نقد روپیہ سے جو اس کے قبضہ میں تھا اُس کو جواب دیا گیا.اور اُس کی بیوی اور اُس کا بیٹا اس کے دشمن ہو گئے اور اُس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولدالزناہے.پس اِس طرح پر وہ قوم میں ولد الزنا ثابت ہوا.اور یہ دعویٰ کہ میں بیماروں کو معجزہ سے اچھا کرتا ہوں.یہ تمام لاف وگزاف اُس کی محض جھوٹی ثابت ہوئی اور ہر ایک ذلّت اُس کو نصیب ہوئی اور آخر کار اُس پر فالج گِرا اور ایک تختہ کی طرح چند آدمی اُس کو اُٹھا کر لے جاتے رہے اور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہو گیا اور حواس بجانہ رہے.اور یہ دعویٰ اُس کا کہ میری ابھی بڑی عمر ہے اور میں روز بروز جوان ہوتا جاتا ہوں اور لوگ بُڈھے ہوتے جاتے ہیں محض فریب ثابت ہوا.آخرکار مارچ ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی بڑی حسرت اور درد اور دکھ کے ساتھ مر گیا.
اَب ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا معجزہ ہوگا چونکہ میرا ا صل کام کسر صلیب ہے سو اُس کے مرنے سے ایک بڑا حصہ صلیب کا ٹوٹ گیا.کیونکہ وہ تمام دنیا سے اول درجہ پر حامی صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیںگے اور اسلام نابود ہوجائے گا اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا.سو خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اُس کو ہلاک کیا.میں جانتا ہوں کہ اُس کی موت سے پیشگوئی قتل خنزیر والی بڑی صفائی سے پوری ہو گئی.کیونکہ ایسے شخص سے زیادہ خطرناک کون ہو سکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی.اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے اُس کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ مسیلمہ کذّاب اور اَسودعَنسی کا وجود اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہ تھا.نہ اس کی طرح شہرت اُن کی تھی اور نہ اُس کی طرح کروڑ ہا روپیہ کے وہ مالک تھے پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا۱؎.اگر میں اُس کو مباہلہ کے لئے نہ بُلاتا.اور اگر میں اُس پر بد دعا نہ کرتا اور اس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اس کا مرنا اسلام کی حقّیت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتالیکن چونکہ میں نے صدہا اخباروں میں پہلے سے شائع کرا دیا ۲؎ تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہوگا میں مسیح موعود ہوں اور ڈوئی کذّاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا ۱؎ الحمد للہ کہ آج نہ صرف میری پیشگوئی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی کمال صفائی سے پوری ہو گئی.منہ ۲؎ حاشیہ.امریکہ کے ایک اخبار نے خوب یہ لطیفہ لکھا ہے کہ ڈوئی مباہلہ کی درخواست کو تو قبول ضرور کرے گا مگر کسی قدر ترمیم کے بعد اور وہ یہ کہ ڈوئی کہے گا کہ میں اس طرح کا مباہلہ تو منظور نہیں کرتا کہ کاذب صادق کے سامنے ہلاک ہو جائے ہاں یہ منظور کرتا ہوں کہ گالیاں دینے میں مقابلہ کیا جائے.پھر جو شخص گالیاں دینے میں بڑھ کر نکلے گا اور اوّل درجہ پر رہے گا اس کو سچا سمجھا جائے.منہ
کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا.ا س سے زیادہ کھلا کھلا معجزہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو سچا کرتا ہے اور کیا ہوگا؟ اب وہی اِس سے انکار کرے گا جو سچائی کا دشمن ہوگا.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر میرزا غلام احمد مسیح موعود ازمقام قادیان ضلع گورداسپور پنجاب.۷؍اپریل ۱۹۰۷ء
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ ذکر المباھلۃ التی دعوت ڈوئی الیھا مع ذکر الدعاء علیہ و تفصیل ما صنع اللہ فی ھذا الباس بعد ما اشعناہ فی الناس ------------------------------ اعلموا، رحمکم اللّٰہ، أن من نموذج نصرتہ تعالٰی، ومن شہاداتہ علٰی صدقی، آیۃ أظہرہا اللّٰہ تعالٰی لتأییدی، بإہلاک رجل اسمہ ڈوئی.وتفصیل ہٰذہ الآیۃ الجلیلۃ، والمعجزۃ العظیمۃ، أنّ رجلًا مسمّی بـڈوئی، کان فی أمریکہ من النصارٰی المتموّلین، والقسیسین المتکبّرین.وکان معہ زہاء مائۃِ ألفٍ من المریدین، وکانوا یُطیعونہ کالعباد والإماء علٰی منہج الیسوعیّین.وکان کثیر الشہرۃ فی قومہ وغیر ترجمہ از مرتب.اس مباہلہ کا ذکر جس کی طرف میں نے ڈوئی کوبلایا، اس کے خلاف دعا اورلوگوں میں اس کی اشاعت کے بعد اس معرکہ میں اللہ کے سلوک کی تفصیل اللہ تم پر رحم فرمائے جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بہت سے نمونوں اور میری صداقت کی شہادتوں میں سے ایک وہ نشان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ڈوئی نامی شخص کو ہلاک کرکے میری تائید میں ظاہر فرمایا.اور اس جلیل القدر نشان اور عظیم معجزے کی تفصیل یہ ہے.ڈوئی نامی شخص امریکہ کے متمول عیسائیوں اور متکبر پادریوں میں سے ایک تھا.اور اس کے ساتھ قریباً ایک لاکھ مرید تھے.اور وہ عیسائیوں کے طریق پر غلاموں ، اور لونڈیوں کی طرح اس کی اطاعت کرتے تھے.اور اسے اپنی قوم اور دوسرے لوگوں میں اتنی زیادہ شہرت حاصل تھی کہ اس کا ذکر
حتی طَبّق الآفاق ذکرُہ، وسخّر فوجًا من النصاریٰ سِحْرُہ.وکان یدَّعی الرسالۃ والنبوّۃ، مع إقرار ألوہیّۃ ابن مریم، ویسبّ ویشتم رسولنا الأکرم، وکان یدَّعی مقامات فائقۃ ومراتب عالیۃ، ویحسب نفسہ من کلّ نفس أشرف وأعظم.وکان یزید یومًا فیومًا فی المالِ والشہرۃ والتابعین، وکان یعیش کالملوک بعد ما کان کالشحّاذین.فالناظر من المسلمین فی ترقّیاتہ، مع افترائہ وتقوُّلہ، إن کان ضعیفًا..ضلّ وحارَ، وإن کان عَرِیفًا لم یأمَن العثارَ.وذالک أنہ کان عدوّ الإسلام، وکان یسبّ نبیَّنا خیرَ الأنام، ثمّ مع ذالک صعد فی الشہرۃ والتموّل إلٰی أعلی المقام، وکان یقول إنی سأقتل کلّ من کان من المسلمین، ولا أترک نفسًا من الموحّدین المؤ!منین.وکان من الذین یقولون ما لا یفعلون، وعلا فی الأرض کفرعون ونسی الـمنون.وکان یجعل النہارَ لنہب أموال الناس، واللیلَ للکأس، واجتمع إلیہ جہّال الیسوعیّین، وسفہاء المسیحیّین، فما زالوا یتعاطون أقداح الضلالۃ، ویصدّقون بقیہ ترجمہ.دنیا کے کناروں تک پھیل گیا تھا.اور اس کے جادو نے عیسائیوں کی ایک بہت بڑی جماعت کو تسخیر کر رکھا تھا.اور وہ ابن مریم کی الوہیت کے اقرار کے ساتھ ساتھ اپنی رسالت اور نبوت کا مدعی بھی تھا.اوروہ ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برابھلا کہتا اور گالیاں دیتاتھا.اور وہ بلند مقامات اور مراتب عالیہ کا دعویدار تھا.اور اپنے آپ کو ہر شخص سے زیادہ بزرگ و برتر سمجھتا تھا اور وہ روز بروز شہرت اور مال اور ماننے والوں کی تعداد میں بڑھ رہا تھا اور وہ گداگروں کی طرح تھا ، اس کے بعد بادشاہو ں جیسی زندگی بسر کرنے لگا.اس کے افترا اور خدا پر جھوٹ گھڑنے کے باوجود اس کی ترقیوں کو مسلمانوں میں سے دیکھنے ولا اگر ضعیف( العقیدہ) ہو تا تو وہ گمراہ ہو جاتا اور نقصان اٹھاتا ، اور اگر وہ عالم ہوتا تو بھی لغزش سے محفوظ نہ رہتا.او ر یہ اس لئے کہ وہ (ڈوئی ) اسلا م کا دشمن تھا اور وہ ہمارے نبی خیر الانام ﷺ کو گالیاں دیا کرتا تھا.بایں ہمہ وہ شہرت اور تمول میں اعلیٰ مقام تک ترقی کرتا رہا.اور وہ یہ کہتا تھا کہ میں عنقریب ہر مسلمان کو قتل کروں گا اور کسی موحد مومن کو نہیں چھوڑوں گا.اور وہ (ڈوئی ) ایسے لوگوں میں سے تھا جو کہتے ہیں کرتے نہیں.اور اس نے زمین میں فرعون کی طرح سرکشی کی اور موت کو بھول گیا.اس نے دن کو لوگوں کے مال لوٹنے اور رات کو مے نوشی کے لئے مختص کر رکھا تھا.جاہل عیسائی اور ناسمجھ مسیحی اس کے گرد جمع ہو گئے وہ ضلالت کے جام لنڈھاتے رہے اور اپنی جہالت کی وجہ سے اس کے دعویٰ رسالت کی تصدیق کرتے رہے حالانکہ وہ دنیا کا غلام تھا نہ کہ آزاد.اور وہ ایسا سیپ تھا جس میں موتی نہ
جہلہم دعوی الرسالۃ.وکان ہو عَبْدَ الدنیا لا کَحُرٍّ، وکصدفٍ بلا دُرٍّ، ومع ذالک کان شیطانَ زمانہ، وقرینَ شیطانہ، ولکـن اللّٰہ مہَّلہ إلٰی وقتٍ دعوتُہ للمباہلۃ، ودعوتُ علیہ فی حضرۃ العزّۃ.وکنتُ أجد فیہ ریح الشیطان، ورأیت أنہ صریع الطاغوت وعدوّ عباد الرحمٰن، نجّس الأرض ونجّس أنفاس أہلہا من أنواع خباثۃ الہذیان، وما رأیتُ کمثلہ عِمِّیتًا ولا عِفریتًا فی ہٰذا الزمان.کان مجنونَ التثلیث، وعدوَّ التوحید، ومصرًّا علی الدّین الخبیث، وکان ینظر مضرّاتِہ کحسنۃٍ، ومعرّاتِہ کأسباب راحۃٍ.واجتمع الجہّال علیہ من الأُمراء وأہل الثروۃ، ونصروہ بمالٍ لا یوجد إلَّا فی خزائن الملوک وأرباب السلطنۃ.وکان یساق إلیہ قناطیرُ الدولۃ، حتی قیل إنّہ ملک ویعیش کالملوک بالشأن والشوکۃ.ولما بلغت دولتہ منتہاہا، تبع نفسَہ الأمّارۃ وما زکَّاہا.وادّعی الرسالۃ والنبوّۃ من إغواء الشیطان، وما تحامی عن الافتراء والکذب والبہتان.بقیہ ترجمہ.ہو.اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے زمانے کا شیطان اور اپنے شیطان کا ساتھی تھا.مگر اللہ نے اسے اس وقت تک مہلت دی جب تک کہ میں نے اسے مباہلہ کیلئے بلایا اور اس کے خلاف ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا کی.اور میں اس (ڈوئی ) کے وجود میں شیطان کی بدبو پاتا تھا.اور میں نے اسے طاغوت کا پچھاڑا ہو ااور رحمان خدا کے بندوں کا دشمن پایا.اس نے زمین کو ناپاک کیا اور اہل زمین کی سانسوں کو اپنی طرح طرح کی خبیثانہ بکواس سے نجس کر دیا.میں نے اس زمانے میں اس جیسا کوئی شاطر اور سرکش شیطان نہیں دیکھا.وہ تثلیث کا دیوانہ اور توحید کا دشمن اور خبیث دین پر مصر تھا.اور وہ اس دین کی برائیوں کو نیکی کی طرح اور اس کے عیوب کو اسباب راحت کی مانند دیکھتا تھا.اور امراء اور دولت مندوں میں سے جاہل اسکے گرد جمع ہو گئے تھے.اور انہوں نے اسکی ایسے مال سے مدد کی جو صرف بادشاہوں اور ارباب سلطنت کے خزانو ں میں پایا جاتا ہے.اور اس کے پاس ڈھیروں ڈھیر دولت لائی جاتی یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ وہ بادشاہ ہے جو بادشاہوں کی طرح شان و شوکت سے زندگی بسر کرتا ہے اور جب اس کی دولت اپنی انتہا کو پہنچ گئی تووہ اپنے نفس امارہ کا مطیع ہو گیا اور اس نے اسے پاک نہ کیا.اور اس نے شیطان کے بہکانے سے نبوت اور رسالت کا دعوٰی کر دیا.اور افتراء ،جھوٹ اور بہتان سے اجتناب نہ کیا.اور اس نے یہ خیا ل کر لیا کہ یہ ایسی بات ہے جس کے بارہ میں اس سے باز پرس نہیں ہو گی.اور وہ اپنی زندگی نازو نعم اور
وظنّ أنہ أمرٌ لا یُسأل عنہ، ویُزجّی حیاتہ فی التنعّم والرفاہۃ، ویزید فی العظمۃ والنباہۃ، بل سلک معہ طریقَ الکبر والنخوۃ، وما خاف عذاب حضرۃ العزّۃ.ولا شکّ أنّ المفتری یؤخذ فی مآل أمرہ ویُمنع من الصعود، وتفترسہ غیرۃ اللّٰہ کالأُسُود، ویری یوم الہلاک والدّمار الموعود فی کتاب اللّٰہ العزیز الودُود.إن الذین یفترون علی اللّٰہ ویتقوّلون، لا یعیشون إلَّا قلیلًا ثم یؤخذون، وتتبعہم لعنۃ اللّٰہ فی ہٰذہ وفی الآخرۃ، ویذوقون الہوان والخزی ولا یُکرَمون.ألم یبلغک ما کان مآل المفترین فی الأوّلین؟ وإن اللّٰہ لا یخاف عقبی المتقوّلین، ویہزّ لہم حُسامہ، فیجعلہم من الممزَّقین.ولمّا اقترب یوم ہلاکہ دعوتُہ للمباہلۃ، وکتبتُ إلیہ أنّ دعواک باطلٌ ولستَ إلَّا کذّابًا مفتریًا لجِیفۃِ الدنیا الدنیّۃ، ولیس عیسٰی إلَّا نبیًّا، ولستَ إلَّا متقوّلًا، ومن العامّۃ بقیہ ترجمہ.میں گزارتا رہے گا اور وہ عظمت و شرف میں بڑھتا چلا جائے گا.بلکہ اس کے ساتھ وہ کبر و نخوت کی راہ پر بھی چل پڑا اور ربّ العزت کے عذا ب سے نہ ڈرا.اور اس میں کچھ شک نہیں کہ مفتری آخر کار پکڑا جاتا ہے اور اسے ترقی سے روک دیا جاتا ہے.اور اللہ کی غیر ت اسے شیروں کی طرح چیر پھاڑ دیتی ہے.اور وہ ہلاکت کا دن اور موعود تباہی کو دیکھ لیتا ہے.اللہ غالب اور بہت پیار کرنے والے کی کتاب (قرآن کریم ) میں ہے کہ وہ لوگ جو اللہ پر افتراء کرتے ہیں اور جھوٹ باندھتے ہیں وہ تھوڑا ہی عرصہ زندہ رہتے ہیں اورپھر وہ پکڑے جاتے ہیں اور اللہ کی لعنت اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان کا پیچھا کرتی ہے اور وہ ذلت اور رسوائی کا مزا چکھتے ہیں اور ان کی عزت نہیں کی جاتی.کیا تجھے پہلے زمانے کے مفتریوں کے انجام کی خبر نہیں پہنچی ؟ اور یقینا اللہ کو افترا کرنے والوں کے انجام کی کچھ پرواہ نہیں.اور وہ اپنی تلوار ان کے لئے سونتتا ہے اور انہیں پارہ پارہ کر دیتا ہے.اور جب اس کی ہلاکت کا دن قریب آگیا تو میں نے اس کو مباہلہ کے لئے بلایا اور اسے لکھا کہ تیرا دعویٰ باطل ہے اور تو اس حقیر دنیا کے مردار کی خاطر محض کذاب اور مفتری ہے اور عیسٰی ؑ صرف ایک نبی ہے اور تو محض خدا تعالیٰ کی طرف جھوٹا قول منسوب کرنے والا ، مفتری اور معمولی آدمی اور خود گمراہ اور گمراہ کرنے والے فرقے سے ہے.پس اس ذات باری تعالیٰ سے ڈر جو تیرے جھوٹ کو دیکھ رہا ہے.اور میں تجھے اسلام اور دین حق کی طرف اور جبروت اور
والفِرق الضالّۃ المضلّۃ.فاخْشَ الذی یری کذبک، وإنّی أدعوک إلی الإسلام والدّین الحقّ والتوبۃ إلی اللّٰہ ذی الجبروت والعزّۃ.فإن تولّیتَ وأَعْرضتَ عن ہٰذہ الدعوۃ، فتعالَ نباہلْ ونجعلْ لعنۃ اللّٰہ علی الذی ترک الحقّ، وادّعی الرسالۃ والنبوّۃ علٰی طریق الفِریۃ.وإن اللّٰہ یفتح بینی وبینک، ویہلک الکاذب فی زمن حیاۃ الصادق، لیعلم الناس مَنْ صدق ومَنْ کذب، ولینقطع النـزاع بعد ہٰذہ الفیصلۃ.وواللّٰہ، إنّی أنا المسیح الموعود الذی وُعد مجیئہ فی آخر الزمن وأیام شیوع الضلالۃ.وإنّ عیسٰی قد ماتَ، وإن مذہب التثلیث باطل، وإنک تفتری علی اللّٰہ فی دعوی النبوّۃ.والنبوّۃ قد انقطعت بعد نبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ولا کتاب بعد الفرقان الذی ہو خیر الصحف السابقۃ، ولا شریعۃ بعد الشریعۃ المحمدیّۃ، بَیْدَ أنی سُمّیتُ نبیًّا علٰی لسان خیر البریّۃ، وذالک أمر ظلّی مِنْ برکات المتابعۃ، وما أری فی نفسی خیرًا، ووجدتُ کُلّ ما وجدت من ہٰذہ النفس المقدّسۃ.وما عنی اللّٰہ من نبوّتی إلَّا کثرۃ المکالمۃ والمخاطبۃ، بقیہ ترجمہ.عزت والے خدا کی طرف توبہ کرنے کے لئے دعوت دیتا ہوں.اگر تو اس دعوت سے پیٹھ پھیر تا اور منہ موڑتا ہے تو آئو ہم مباہلہ کریں اور حق ترک کرنے والے اور از راہِ افتراء رسالت اور نبوت کا دعویٰ کرنے والے پر اللہ کی لعنت ڈالیں.اور اس طرح اللہ میر ے اور تیرے درمیان فیصلہ فرما دے گا.اور صادق کے عرصہ حیات میں کاذب کو ہلاک کر دے گا تا کہ لوگ یہ جان لیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا اورتا اس فیصلہ کے بعد نزاع ختم ہو جائے.اور اللہ کی قسم! میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کی آخری زمانہ میں اور گمراہی کے پھیل جانے کے دنوں میں آمد کا وعدہ دیا گیا تھا.اور یقینا عیسٰی فوت ہو چکا ہے اور تثلیثی مذہب باطل ہے.اور تو دعوائے نبوت میں اللہ پر افتراء کر رہا ہے اور سلسلہ نبوت تو ہمارے نبی ﷺ کے بعد منقطع ہو گیا.اور فرقان حمید جو تمام صُحفِ سابقہ سے بہتر ہے، کے بعد کوئی اور کتاب نہیں اور نہ شریعت محمدیہ کے بعد کوئی اور شریعت ہے.البتہ خیر البریہ ﷺ کی زبان مبارک سے میرا نام نبی رکھا گیا.اور یہ آپ کی کامل اتباع کی برکات کی وجہ سے ایک ظلّی امرہے.اور میں اپنی ذات میں کوئی خوبی نہیں پاتا اور میں نے جو کچھ پایا اس پاک نفس سے پایا.میری نبوت سے اللہ کی مراد محض کثرت مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ
، ولعنۃ اللّٰہ علٰی من أراد فوق ذالک، أو حسب نفسہ شیئًا، أو أخرج عنقہ من الرِّبْقۃ النبویّۃ.وإن رسولنا خاتم النبیین، وعلیہ انقطعتْ سلسلۃ المرسلین.فلیس حقّ أحدٍ أَن یدّعی النبوّۃ بعد رسولنا المصطفٰی علی الطریقۃ المستقلّۃ، وما بقی بعدہ إلَّا کثرۃ المکالمۃ، وہو بشرط الا تّباع لا بغیر متابعۃ خیر البریّۃ.وواللّٰہ، ما حصل لی ہٰذا المقام إلَّا من أنوار اتّباع الأشعّۃ المصطفویّۃ، وسُمِّیتُ نبیّا من اللّٰہ علٰی طریق المجاز لاعلٰی وجہ الحقیقۃ.فلا تہیج ہٰہنا غیرۃ اللّٰہ ولا غیرۃ رسولہ، فإنی أُربَّی تحت جناح النبیّ، وقدمی ہٰذہ تحت الأقدام النبویّۃ.ثم ما قلتُ وکلّ أحدٍ یُسأل عن عملہ یوم القیامۃ، ولا یخفی علی اللّٰہ خافیۃ.وقُلتُ لذالک المفتری..إن کنتَ لا تباہل بعد ہٰذہ الدَّعْوۃ، ومع ذالک بقیہ ترجمہ.اور اللہ کی لعنت ہو اس پر جو اس سے زائد کا ارادہ کرے.یا وہ اپنے آ پ کو کوئی شے سمجھے یاجو حضور کی غلامی سے اپنی گردن کو باہر نکالتا ہو.اور یقینا ہمارے رسول خاتم النبیّین ہیں.آپ پر سلسلہ مرسلین منقطع ہو گیا.پس کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمارے رسول پاک کے بعد نبوت مستقلہ کا دعویٰ کرے.اور آپ کے بعد سوائے کثرت مکالمہ اور کچھ باقی نہیں رہا.اور وہ بھی اتباع کی شرط کے ساتھ ہے نہ کہ خیر البریہ کی متابعت کے بغیر.اور اللہ کی قسم ! مجھے یہ مقام صرف اور صرف مصطفوی شعاعوں کی اتباع کے انوار سے حاصل ہوا ہے.اور اللہ کی طرف سے مجھے حقیقی طور پر نہیں بلکہ مجازی طور پر نبی کا نام دیا گیا ہے.اس طرح یہاں اللہ اور اس کے رسول کی غیرت جوش میں نہیں آتی، کیونکہ میری پرورش نبی کریم ؐکے پروں کے نیچے کی جارہی ہے.اور میرا یہ قدم نبی ﷺ کے قدموں کے نیچے ہے.پھر یہ بات بھی ہے کہ میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا.بلکہ میں نے اسی وحی کی پیروی کی ہے جو میرے رب کی طر ف سے مجھے کی گئی ہے.اور اس کے بعد میں مخلوق کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا.اور قیامت کے روز ہر شخص سے اس کے عمل کی پُرسش کی جائے گی اور اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.اور میں نے اس مفتری (ڈوئی ) سے کہا کہ اگر تو میری اس دعوت مباہلہ کے بعد بھی مباہلہ نہیں کرے گا اور اس
لا تتوب مما تفتری علی اللّٰہ بادّعاء النبوّۃ، فلا تحسبْ أنّک تنجو بہٰذہ الحیلۃ، بل اللّٰہ یہلکک بعذابٍ شدیدٍ مع الذلّۃ الشدیدۃ، ویخزیک ویذیقک جزاء الفریۃ.وکان یراقب موتی وأراقب موتہ، وکنتُ أ!توکّل علی اللّٰہ ناصر الحقّ وحامی ہٰذہ الملّۃ.ثم أشعتُ ما کتبتُ إلیہ فی ممالک أمریکۃ إشاعۃً تامّۃً کاملۃً، حتی أُشیعَ ما کتبت إلیہ فی أکثر جرائد أمریکۃ، وأظنّ أنّ ألوفا من الجرائد أشاعتْ ہٰذا التبلیغ، وبلغت الإشاعۃ إلٰی عِدّۃ ما أستطیع أن أُحصیہا، ولیس فی القرطاس سعۃ أَنْ أُمْلیہا.وأمّا ما أُرْسِلَ إلیّ من جرائد أمریکۃ التی فیہا ذکرُ دعوتی وذکر المباہلۃ وذکر دعائی علٰی ڈوئی لطلب الفیصلۃ، فرأیتُ أن أکتب فی الحاشیۃ أسماء بعضہا، لیعلم الناس أنّ ہٰذا الأمر ما کان مکتومًا مخفیًّا، بل أشیع فی مشارق الأرض ومغاربہا، وفی أقطار الدنیا وأعطافہا کلّہا، شرقًا وغربًا وشمالًا وجنوبًا.وکان سبب ہٰذہ ا بقیہ ترجمہ.کے ساتھ یہ بھی کہ جس نبوت کا تونے اللہ پر افترا کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے اس سے توبہ نہیں کرے گا تو یہ مت سمجھنا کہ اس حیلہ سے تو بچ جائے گا بلکہ اللہ انتہائی ذلت کے ساتھ شدید عذاب سے تجھے ہلاک کرے گا اور تجھے رسوا کرے گا اور تجھے افترا کی سزا کا مزا چکھائے گا.اور وہ (ڈوئی) میری موت کا انتظار کرتا تھا.اور میں اس کی موت کا.میرا توکل اللہ پر تھا جو حق کی مدد کرنے والا ہے اور اس ملت (اسلامیہ)کا حامی ہے.اس کے بعد میںنے اس کی طرف لکھی ہوئی اپنی تحریر کو بلاد امریکہ میں بھرپور طریقہ سے شائع کر دیا ،اور اس کی طرف لکھی گئی میر ی تحریرات امریکہ کے اکثر جرائد میں شائع ہوئیں.اور میرا یہ خیال ہے کہ میری اس تبلیغ کو ہزار ہا اخبارات نے شائع کیا اور یہ اشاعت اتنی تعداد میں ہوئی کہ میں اس کا شمار نہیں کر سکتا اور صفحات قرطاس میں اتنی گنجائش نہیں کہ میں اس کو رقم کر سکوں.ہاں البتہ وہ امریکی جرائد جو مجھے بھیجے گئے اور جن میں میری تبلیغ اور میرے دعوت مباہلہ اور ڈوئی کے خلاف خدائی فیصلہ طلب کرنے کے لئے میری دعا کا ذکر تھا.تومیں نے مناسب سمجھا کہ ان میں سے بعض اخبارات کے نام حاشیہ میں لکھ دوں تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ مباہلے کا معاملہ کوئی ڈھکا چھپا اور مخفی امر نہ تھا.بلکہ زمین کے مشرق، مغرب اور دنیا کے تمام اکناف میں شرقاًغرباً اور شمالاً جنوباً اس کی اشاعت کی گئی.اور اس اشاعت کی وجہ یہ تھی کہ ڈوئی شہرت میں بڑے
لإشاعۃ أنّ ڈوئیکان کالملوک العظام فی الشہرۃ، وما کان رجل فی أمریکۃ ولا فی یورُب من الأکابر والأصاغر إلَّا کان یعرفہ بالمعرفۃ التامّۃ.وکانت لہ عظمۃ ونباہۃ کالسلاطین فی أَعْیُن أہل تلک البلاد، ومع ذالک کان کثیر السیاحۃ، یصطاد الناس بوعظہ کالصیاد.فلذالک ما أبٰی أحدٌ من أہل الجراید أن یطبع ما أُرْسل إلیہ فی أمرہ من مسألۃ المباہلۃ، بل ساقہم حرص رؤیۃ مآل المصارعۃ إلی الطبع والإشاعۃ.والجرائد التی طُبعتْ فیہا مسألۃ مباہلتی ودُعائی علٰی ڈوئی ہی کثیرۃ من جرائد أمریکۃ، ولکنّا نذکر علٰی طریق النموذج شیئًا منہا فی حاشیتنا بقیہ ترجمہ : اور امریکہ اور یورپ کے بڑے اور چھوٹے طبقوں میں کوئی فرد ایسا نہ تھا جو اس کو پورے طور پر نہ جانتا ہو.اور ان ملکوں کے رہنے والوںکی نگاہوں میں اس کی عظمت اور شرف بادشاہوں کی طرح تھا.مزید برآں وہ بہت سفر کرنے والا شخص تھا.اور اپنے وعظ سے لوگوں کو شکاری کی طرح شکار کرتا تھا.یہی وجہ تھی کہ اخبار والوں میں سے کسی نے اس مضمون کو چھاپنے سے کبھی انکار نہ کیا جو اسے اس کے متعلق بسلسلہ مباہلہ بھیجا جاتا.بلکہ اس کُشتی کے انجام کو دیکھنے کی شدید خواہش نے انہیں اس طباعت و اشاعت پر آماد ہ کیا.اور جن اخبارات میں میری دعوت مباہلہ اور ڈوئی کے خلاف میری دعا چھپی وہ بہت سے امریکی اخبار ہیں لیکن ہم بطور نمونہ ان میں سے چند ایک کا ذکر اس حاشیہ میں کرتے ہیں.۱؎
۱شکاگو إنٹرپریٹر ۸جون ۱۹۰۳إن المیرزا غلام أحمد رجلٌ من الفنجاب، وہو یدعو ’’ڈوئی‘‘ للمباہلۃ.أیُظَنُّ أنہ یخرج فی ہذا المیدان؟ وإن المیرزا یکتب أن ’’ڈوئی‘‘ مفتری کذّابٌ فی دعوی النبوّۃ، وإنی أدعو اللّٰہَ أن یُہلکہ ویستأصلہ کل الاستیصال.ویقول: إنی علی الحق، وإن ڈوئی علی الباطل، فاللّٰہ یحکم بیننا بأنہ یُہلک الکاذبَ، ویستأصلہ فی حین حیاۃ الصادق.وإن المیرزا غلام أحمد یقول: إنی أنا المسیح الموعود وإن الحق فی الإسلام.۲ٹیلیگراف ۵ جولائی ۱۹۰۳ءمطابقٌ بما سبق بأدنٰی تغیُّر الألفاظ.۳رگوناٹ سان فرانسسکو یکم دسمبر ۱۹۰۲ءمطابقٌ بما سبق بأدنی تغیُّر الألفاظ، ومع ذالک قال إن ہٰذا الطریق طریق معقول ومبنی علی الإنصاف.ولا شک أن الرجل الذی یُستجاب دعاؤہ فہو علی الحق من غیر شبہۃٍ. شکا گو انٹر پریٹر ۸ جون ۱۹۰۳ء مرزا غلام احمد پنجاب کے رہنے والے ہیں اور وہ ڈوئی کو دعوت مباہلہ دیتے ہیں.کیا خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ (ڈوئی ) اس میدان میں نکلے گا.مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ ڈوئی دعوائے نبوت میں مفتری اور کذاب ہے.اور میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اسے ہلاک کرے اور اس کی پوری طرح بیخ کنی کرے.اور وہ (مرزا صاحب) کہتے ہیں کہ میں حق پر ہوں اور ڈوئی باطل پر ہے.اس لئے اللہ ہمارے درمیان یوں فیصلہ کرے گا کہ وہ کاذب کو ہلاک کرے گا اور صادق کی زندگی میں ہی اس کی بیخ کنی کر ے گا.اور مرزا غلام احمد کہتے ہیں کہ میںہی مسیح موعود ہوں اور حق صرف اسلام میں ہے.ٹیلیگراف ۵ جولائی ۱۹۰۳ءالفاظ کے معمولی تغیر سے مضمون مذکورہ بالا کے مطابق.ارگوناٹ.سان فرانسسکو یکم دسمبر ۱۹۰۲ءالفاظ کی معمولی تبدیلی سے مضمون مذکورہ بالا کے مطابق.مزید براں ایڈیٹر کہتا ہے کہ یہ طریق فیصلہ معقول طریق اور مبنی بر انصاف ہے.اور یقینا جس شخص کی دعا قبول ہو گی وہی بلا شبہ حق پر ہو گا.
نمبر اسم الجریدۃ وتاریخہ ترجمۃ خلاصۃ المضمون ۴ لٹریری ڈایجسٹ نیویارک.۲۰جون ۱۹۰۳ء ذَکَرَ مفصّلًا کلَّ ما دعوتُ بہ ’’ڈوئی‘‘ للمباہلۃ، وطَبَعَ عَکْسَ صورتی وصورتہ، والباقی مطابقٌ بما سبق.۵ نیویارک میل أینڈ ایکسپریس ۲۸ جون ۱۹۰۳ء عنوانٌ ذَکرَہ: "مباہلۃُ المدّعیین"، وذَکَرَ دعائی علٰی "ڈوئی"، ثم ذَکَرَ أن الأمر الفیصل ہلاکُ الکاذب فی حین حیاۃ الصادق.والباقی مطابقٌ بما سبق.۶ ہیرلڈ روچسٹر ۲۵جون ۱۹۰۳ء ذکر أن ’’ڈوئی‘‘ دُعی للمباہلۃ، ثم ذکر تفصیلا ما سبق من البیان.۷ ریکارڈ بوسٹن.۲۷جون ۱۹۰۳ء مطابقٌ لما سبق.۸ أیڈورٹائزر.۲۵جون۱۹۰۳ء ؍؍ ۹ پایلاٹ بوسٹن ۲۷جون ۱۹۰۳ء ذکرنی وذکر "ڈوئی"، ثم ذکر دعائَ المباہلۃ.نمبر اخبار کا نام اور تاریخ خلاصہ مضمون کا ترجمہ 4 ٹریری ڈائجسٹ نیو یارک ۰ ۲ جون ۱۹۰۳ء ڈوئی کو میری دعوت مباہلہ کا مفصل ذکر کیا گیا ہے اور میری اور اس کی تصویر کا عکس طبع کیا ہے باقی بیان مذکورہ بالا کے مطابق ہے.5 نیویارک میل اینڈ ایکسپریس ۲۸جون ۱۹۰۳ء ’’دو مدعیوں کے درمیان مباہلہ‘‘ کے عنوان سے ذکر کیاہے اور ڈوئی کے خلاف میری دعا کا ذکر کیاہے.پھر اس کے بعد یہ لکھا ہے کہ فیصلہ کن امر یہی ہے کہ کاذب، صادق کی زندگی میں ہلاک ہو گا.باقی بیان مذکورہ بالا مضمون کے مطابق ہے.6 ھیرلڈ روچسٹر ۲۵؍جون ۱۹۰۳ء اس اخبار نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ ڈوئی کو مباہلہ کے لئے بلایا گیا ہے.پھر اس نے تفصیل سے مذکورہ بالا بیان کا ذکر کیا ہے.7 ریکارڈ بوسٹن ۲۷ ؍جون ۱۹۰۳ء مذکورہ بالا کے مطابق ذکر ہے.8 ایڈور ٹائر ز ۲۵ ؍جو ن ۱۹۰۳ء مذکورہ بالا کے مطابق ذکر ہے 9 پائلٹ بوسٹن ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء میرا اور ڈوئی کا ذکر کیاہے بعد ازاں دعوت مباہلہ کا ذکر کیاہے.
۱۰ پاتھ فائینڈر واشنگٹن ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء ذَکَرَ کمثل ما سبق.۱۱ إنٹراوشن شکاگو ۲۷ جون ۱۹۰۳ء ذَکَرَ کمثل ما سبق.۱۲ ڈیموکریٹ کرانیکل روچسٹر ۲۵ جون ۱۹۰۳ء عنوانٌ ذکرہ للمباہلۃ، والباقی مطابق لما سبق.۱۳ شکاگو ؍؍ ۱۴ برلنگٹن فری پریس.۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء ؍؍ ۱۵ ووسٹر سپائی.۲۸ جون ۱۹۰۳ء ؍؍ ۱۶ شکاگو اِنٹراوشن.۲۸جون ۱۹۰۳ء ذکر دعاء المباہلۃ ۱۷ ألبنی پریس۲۵ جون ۱۹۰۳ء ؍؍ ۱۸ جیکسنول ٹائمز.۲۸ جون ۱۹۰۳ء ؍؍ ۱۹ بالٹی مور أمریکن.۲۵جون ۱۹۰۳ء ؍؍ ۲۰ بفلو ٹایمز.۲۵جون ۱۹۰۳ء ؍؍ نمبر اخبار کا نام اور تاریخ خلاصہ مضمون کا ترجمہ 10 پاتھ فائنڈر واشنگٹن ۲۷ ؍جون ۱۹۰۳ء مذکورہ بالا کے مطابق ذکر ہے.11 انٹراوشن شکاگو ۲۷ جون ۱۹۰۳ء مذکورہ بالا کے مطابق ذکر ہے.12 ڈیموکریٹ کرانیکل روچسڑ ۲۵ ؍جون ۱۹۰۳ء مباہلہ کے ذکر کا عنوان اورباقی مذکورہ بالا کے مطابق ہے.13 شکاگو مباہلہ کے ذکر کا عنوان اورباقی مذکورہ بالا کے مطابق ہے.14 برلنگٹن فری پریس ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء مباہلہ کے ذکر کا عنوان اورباقی مذکورہ بالا کے مطابق ہے.15 ووسٹر سپائی ۲۸؍جون ۱۹۰۳ء مباہلہ کے ذکر کا عنوان اورباقی مذکورہ بالا کے مطابق ہے.16 شکاگو انٹراوشن ۲۸؍جون ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 17 البنی پریس ۲۵؍جون ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 18 جیکسنول ٹائمز ۲۸ ؍جون۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 19 بالٹی مور امیریکن ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 20 بفلو ٹائمز ۲۵ ؍جون ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے
نمبر اسم الجریدۃ وتاریخہ ترجمۃ خلاصۃ المضمون ۲۱ نیویارک میل.۲۵جون ۱۹۰۳ء ذکر دعاء المباہلۃ ۲۲ بوسٹن ریکارڈ ۲۷جون ۱۹۰۳ء ؍؍ ۲۳ ڈیزرٹ إنگلش نیوز.۲۷جون ۱۹۰۳ء ؍؍ ۲۴ ہیلینا ریکارڈ.یکم جولائی ۱۹۰۳ء ؍؍ ۲۵ گروم شایر گزٹ.۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء ؍؍ ۲۶ نونیٹن کرانیکل.۱۷جولائی ۱۹۰۳ء ؍؍ ۲۷ ہئـوسٹن کرانیکل.۳ ؍؍ ؍؍ ؍؍ ۲۸ سونا نیوز.۲۹جون ؍؍ ؍؍ ۲۹ رچمنڈ نیوز.یکم جولائی ۱۹۰۳ء ؍؍ ۳۰ گلاسگو ہیرلڈ.۲۷؍ أکتوبر ۱۹۰۳ء ؍؍ ۳۱ نیویارک کمرشل أیڈورٹائیزر.۲۶؍ أکتوبر ۱۹۰۳ء ؍؍ ۳۲ دی مارننگ ٹیلیگراف.۲۸؍ أکتوبر ۱۹۰۳ء ذکر دعاء المباہلۃ وذکر ڈوئی.منہ نمبر اخبار کا نام اور تاریخ خلاصہ مضمون کا ترجمہ 21 نیو یارک میل ۲۵ ؍جون ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 22 بو سٹن ریکارڈ ۲۷ ؍جون ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 23 ڈیزرٹ انگلش نیوز ۲۷ ؍جون ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 24 ہیلینا ریکارڈ یکم جولائی ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 25 گروم شائر گزٹ ۱۷ جولائی ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 26 نونیٹن کرانیکل ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 27 ھیوسٹن کرانیکل ۳؍جولائی ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 28 سونا نیوز ۲۹؍ جون ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 29 رچمنڈنیوز یکم جولائی ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 30 گلاسگو ھیرلڈ ۲۷ ؍اکتوبر ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 31 نیویارک کمرشل ایڈورٹائیزر ۲۶ ؍اکتوبر ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے 32 دی مارننگ ٹیلیگراف ۱۸ ؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء دعوت مباہلہ کا ذکر ہے اور ڈوئی کا ذکر ہے.منہ
وخلاصۃ الکلام أنّ ڈوئی کان شرّ النّاس، وملعون القلب، ومثیل الخنّاس، وکان عدوّ الإسلام بل أخبث الأعداء ، وکان یرید أن یجیح الإسلام حتّی لا یبقی اسمہ تحت السّماء.وقد دعا مرارًا فی جریدتہ الملعونۃ علٰی أہل الإسلام والملّۃ الحنیفیۃ، وقال: اللّٰہمّ، أَہْلِک المسلمین کلّہم، ولا تُبْقِ منہم فردًا فی إقلیم من الأقالیم، وأَرِنی زوالہم واستیصالہم وأَشِعْ فی الأرض کلّہا مذہب التثلیث وعقیدۃ الأقانیم.وقال أَرْجُو أَنْ أریٰ موت المسلمین کلّہم وقَلْعَ دین الإسلام، وہٰذا أعظم مراداتی فی حیاتی، ولیس لی مراد فوق ہٰذا المرام.وکلّ ہٰذہ الکلمات موجودۃ فی جرائدہ الّتی موجودۃ عندنا فی اللسان الإنکلیزیۃ، ویعلمہا من قرأہا من غیر الشکّ والشبہۃ.فکفاکَ أیُّہا النّاظر لتخمین خُبث ہٰذا المفتری ہٰذہ الکلماتُ، ولذالک سمّاہ النبیّ صلی اللّٰہ علیہ خنـزیرًا بما ساءتْ اورخلاصہ کلام یہ کہ ڈوئی ایک بد ترین شخص ،دل کے اعتبار سے ملعون اور خنّاس شیطان کا مثیل تھا.اور وہ اسلام کا دشمن بلکہ تمام دشمنوں میں سے خبیث تر ین تھا.اور وہ چاہتا تھا کہ اسلام کو ایسے جڑ سے اکھاڑ دے کہ آسمان کے نیچے اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہے.اور اس نے اپنے ملعون اخبار میں متعدد بار مسلمانوں اور ملت حنیف کے لئے بد دعا کی.اور کہا کہ اے اللہ تو تمام مسلمانوں کو ہلاک کردے اورملکوں میںسے کسی ملک میں ان کا فرد باقی نہ رہنے دے.اور مجھے ان کا زوال او ر استیصال دکھا.اور تمام روئے زمین پر تثلیث اور اقانیم (ثلاثہ ) کے عقیدہ کو پھیلا.نیز اس نے کہا کہ میری یہ خواہش ہے کہ میں تمام مسلمانوں کی موت اور دین اسلام کی بیخ کنی کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں.اور یہ میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا ہے.اس مقصد سے بڑھ کر میری کوئی اور آرزو نہیں ہے.اور یہ سب کلمات اس کے ان انگریزی اخبارات میں پائے جاتے ہیں جو ہمارے پاس موجو د ہیں.اور جو ان جرائد کو پڑھے گا اس کو یہ سب باتیں بلا شک و شبہ معلوم ہو جائیں گی.پس اے غور کرنے والے تیرے لئے یہ کلمات اس مفتری کی خباثت کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہیں
ہٰذا الخبیث الطیّباتُ، وسرّتْہ نجاسۃ الشرک والمفتریات.وقد عرف الناظرون فی کلامہ توہین الإسلام فوق کلّ توہین، وشہد الشاہدون علٰی ملعونیّتہ فوق کل لعین، حتّی إنہ صار مثلًا بین الناس فی الشتم والسبّ، وما کان منتہیًا من المنع والذبّ.وإذا باہلتُہ ودعوتہ للمباہلۃ لیَظہَر بموت الکاذب صدق الصادق من حضرۃ العزّۃ، فقال قائل من أہل أمریکۃ وطبع کلامہ فی جریدتہ، وتکلّم بلطیفۃٍ رائقۃٍ ونُکتۃٍ مضحکۃٍ فی أمر ڈوئی وسیرتہ، فکتب أنّ ڈوئی لن یقبل مسألۃ المباہلۃ، إلَّا بعد تغییر شرائط ہٰذہ المصارعۃ، فیقول: لا أقبل المباہلۃ، ولکن ناضِلونی فی التشاتم والتسابّ، فمن فاق حریفہ فی کثرۃ السبّ وشدّۃ الشتم فہو صادق، وحریفہ کاذبٌ من غیر الارتیاب.وہٰذا قولصاحب جریدۃٍ کان تقصّٰی أخلاقَہ، وجَرّب ما یخرج من لسانہ وذاقَہ.وکذالک قال کثیر من أہل الجرائد بقیہ ترجمہ.اور اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے اس کو خنزیر کے نام سے موسوم فرمایا کیونکہ اس خبیث کو طیّبات ُبری لگتی تھیں.اور شرک کی نجاست اور مفتریات اس کو خوش کرتی تھیں.ناظرین نے اس کی باتوں میں اسلام کی حد درجہ توہین کو جان لیا ہے.اور گواہوں نے ہر ملعون سے بڑھی ہوئی اس کی ملعونیت کی گواہی دی ہے.یہاں تک کہ وہ لوگوں کے درمیان سبّ و شتم میں ایک مثال بن گیا.اوروہ محض روکنے اور منع کرنے سے رکنے والا نہیں تھا.اور جب میں نے اس سے مباہلہ کیا اور اسے مباہلہ کی دعوت دی تاکہ کاذب کی موت کے ذریعہ ربّ العزت کی طرف سے صادق کا صدق ظاہر ہو تو اہل امریکہ میں سے ایک نے کہا اور اس کی بات اس کے اخبار میں طبع ہو چکی ہے اور اس نے ڈوئی کے معاملہ اور اس کی سیرت کے متعلق ایک خوب لطیفہ اور پرُ مزاح بات کی ہے.اور اس (امریکی )نے لکھا کہ ڈوئی اس مباہلہ کے مسئلہ کو اس مقابلہ کی شرائط میں تبدیلی کے بعدہی قبول کرے گا.اور وہ کہے گا کہ میں اس طرح کا مباہلہ منظور نہیں کرتا.لیکن ہاں مجھ سے گالی گلوچ میں مقابلہ کر لو.پس جو سبّ و شتم کی کثرت اور شدت میں اپنے حریف پر فوقیت لے گیا تو وہ سچا اور اس کا حریف بلا شک و شبہ جھوٹا ہو گا.
وإنّہم من أعزّۃ أہل أمریکۃ ومن العمائد.ثم مع ذالک إنّی جرّبتُ أخلاقہ عند مسألۃ المباہلۃ، فإذا بلغہ مکتوبی غضب غضبًا شدیدًا واشتعل من النَّخْوۃ، وأری أنیابَ ذیاب الأجمۃِ، وقال: ما أری ہٰذا الرجلَ إلَّا کبعوضۃ بل دونہا، وما دعتنی البعوضۃ بل دعت منونہا.وأشاع ہٰذا القول فی جریدتہ، وکفاک ہٰذا لرؤیۃ کبرہ ونخوتہ، فہٰذا الکبر ہو الذی حثّنی علی الدعاء والابتہال، متوکّلا علی اللّٰہ ذی العزّۃ والجلال.وکان ہٰذا الرجل صاحب الدولۃ العظیمۃ قبل أن أدعوہ إلی المباہلۃ، وکنت دعوت علیہ لیُہلکہ اللّٰہ بالذلّۃ والمَتربۃ والحَسرۃ.وإنّہ کان قبل دعائی ذاالسطوۃ السلطانیۃ، والقوّۃ والشوکۃ، والشہرۃ الجلیلۃ، التی أحاطت الأرض بقیہ ترجمہ.یہ بات اس اخبار کے مدیر نے کہی جس نے ڈوئی کے اخلاق کا پورا پورا کھوج لگا یا ہے.او ر اس ڈوئی کی زبان سے جو نکلتا ہے اس کا اس نے تجربہ کیا اور مزہ چکھا ہے.ایسی ہی بات دوسرے بہت سے اخبارا ت کے مدیروں نے بھی کہی ہے.یہ سب امریکہ کے معززین و عمائدین میں سے ہیں پھر علاوہ ازیں مسئلہ مباہلہ کے وقت میں نے خود اس کے اخلاق کا تجزیہ کیا ہے.اور جب اسے یہ میرا خط ملا تو وہ سخت غضبناک ہو ا اور تکبر و نخوت سے مشتعل ہو گیا اور جنگل کے بھیڑیوں کی طرح کچلیاں دکھائیں اور کہا کہ میں اس شخص کومچھر بلکہ مچھر سے بھی کمتر سمجھتا ہوں اور مجھے اس مچھر نے دعوت نہیں دی بلکہ اپنی موت کو بلایا ہے.اور اس نے یہ بات اپنے اخبار میں شائع کی.اور تمہارے لئے یہ بات اس کے کبر و نخوت کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے.یہ اس کا کبر ہی تھا جس نے مجھے اللہ عزّوجلّ پر توکل کرتے ہوئے دعا اور ابتہال پر آمادہ کیا.میری دعوت مباہلہ سے قبل یہ شخص بڑی دولت کا مالک تھا.میں اس کے خلاف یہ دعا کرتا تھا کہ اللہ اسے ذلت ،خواری اور حسرت کے ساتھ ہلاک کرے.میری اس دعا سے پہلے اسے شاہانہ سطوت، قوت و شوکت اور ایسی شہرت جلیلہ حاصل تھی جس نے دائرے کی طرح ساری زمین کو اپنے احاطہ میں لیا
کالدائرۃ.وکان صاحب الدُّور المنجّدۃ، والقصور المُشیّدۃ.وما رأی داہیۃ فی مُدّۃ عمرہ، ورأی کلّ یوم زیادۃ زمرہ.وکان لہ حاصلًا ما أمکن فی الدّنیا من الآلاء والنعمائِ، وکان لا یعلم ما یوم البأسائِ وما ساعۃ الضرّائِ.وکان یلبس الدیباج، ویرکب الہِمْلاج، وکان یظنّ أنہ یرزق عمرًا طویلًا غافلًا من سہم المنایا، وکان یزجّی النہار کالمسجودین والمعبودین والمعظَّمین، ویفترش الحشایا بالعشایا.وإذا أنـزل اللّٰہ قدرہ لیُصدّق ما قلتُ فی مآل حیاتہ، فانقلبت أیّام عیشہ ومسرّاتہ، وأراہ اللّٰہ دائرۃ السَّوء ، ولُدغ کلَّ لَـدْغٍ مِن حَیَواتہ، أعنی أفاعی أعمالِہ وسیّآتہ.فعاد الہِمْلاجُ۱؎ قَطُوفًا ۲؎، وانقلب الدیباج صوفًا، وہلمّ جرّا إلٰی أنّہ أُخرج من بلدتہ التی بناہا بصرف الخزائن، وحُرّم علیہ کلّ ما شَیّد من المقاصر ببذل ۱.المھلاج : الدابۃ الحسنۃ السیر فی سرعۃ و سھولۃ:12 2.القطوف: الدابۃ الضیقۃ الخُطیٰ البطیئۃ السیر.12 بقیہ حاشیہ.ہوا تھا.اوروہ بلند و بالا عمارات اور نہایت مضبوط محلات کا مالک تھا ،اور اس نے عمر بھر کسی مصیبت کا منہ نہ دیکھا تھا اور اپنے جتھے کو ہر روز تعداد میں بڑھتے ہوئے دیکھا تھا ، اور دنیا کی ہر ممکنہ نعمت اورآسائش اسے حاصل تھی اور وہ تنگی کے زمانہ اور تلخی کی گھڑی سے نا آشنا تھا ، اور حریر و دیباج کا لبا س زیب تن کرتا تھا ،تیز رفتا ر اور خوش و خرام سواریوں پر سوار ہوتا تھا.اور موتوں کے تیر سے کلیتہً غافل ہو کر وہ یہی خیا ل کرتا تھا کہ و ہ عمر دراز پائے گا.اور وہ ان لوگوں کی طرح دن گزارتا تھا جن کے سامنے لوگ سجدہ ریز ہوتے اور ان کی پرستش کرتے اور انہیں عظمت کی نگاہوں سے دیکھاجاتا ہے اور راتیں نرم و گداز بستروں پر بسر کرتا تھا لیکن جب اللہ نے اپنی تقدیر نازل فرمائی تاکہ وہ اس کی تصدیق کرے جو میں نے اس کی زندگی کے انجام کی نسبت کہا تھا.تو اس کے عیش اور مسرتوں کا زمانہ پلٹ گیا اور اللہ نے اسے رنج و الم کا درد دکھایا.اور اپنے ہی سانپوں سے وہ بری طرح ڈسا گیا.یعنی اپنی ہی بد اعمالیوں اور بد کرداریوں کے سانپوں سے اور اعلیٰ چال والی سواری ۱ ؎بے ڈھنگی چال والی سواری المھلاج: ایسی سواری جو چلنے میں تیز اور اچھی چال رکھتی ہو.12 القطوف: ایسی سواری جو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہو اور چال میں سست ہو.12
لدفائن، بل ما کفی اللّٰہ علٰی ہٰذا، وأنـزل علیہ جمیع قضائہ وقدرہ، وحطّ سائر وجوہ شأنہ وقدرہ، وانتقل إلٰی رجلٍ آخر کلُّ ما کان فی قبضتہ، وجمعتْ غیاہبَ البُؤْسِ ریاحُ نخوتہ، حتّی یئس من ثروتہ الأولی، وارتضع من الدہر ثدیَ عقیمٍ، ورکب من الفقر ظہرَ بہیمٍ.ثمّ أخذہ بعض الورثاء کالغرماء ، ورأی خِزیًا کثیرًا من الزوجۃ والأحباب والأبناء ، حتی إنّ أباہ أشاع فی بعض جرائد أمریکۃ أنہ زنیمٌ ولدُ الزنا ولیس من نُطفتہ.وکذالک انتسفتْہ رِیَاحُ الإدبار والانقلاب، وکمّل لہ الدہرُ جمیعَ أنواع الذلّۃ، فصار کرمیم فی التراب أو کسلیم غَرض التباب، وصار کنکرۃ لا یُعرف، بعد ما کان بکلّ وجاہۃ یوصف.وانتشر کلُّ مَن کان معہ من الأتباع، وما بقی شیء فی یدہ من النقد والعَقار والضِّیاع، وبرز کالبائس الفقیر، والذلیل الحقیر.غِیضتْ حیاضہ، وجَفَّتْ ریاضہ، وخَلَتْ جِفانہ، ونحُس مکانہ، بقیہ ترجمہ.بدل گئی.دیباج و حریر(کھردری) اون میں بدل گئے.اسی طرح دوسرے امورنے بھی ایسا پلٹا کھایا کہ جس بستی کو اس نے بے بہا خزانے خرچ کر کے بنا یا تھا اسی بستی سے وہ باہر نکا ل دیا گیا اور جن محلات کو اس نے اپنے خزانے خرچ کر کے بے حد مضبوط تعمیر کیا تھاان سے اسے محروم کر دیا گیا.بلکہ اللہ نے اسی پر بس نہیں کی اور اپنی پوری قضا و قدر اس پر نازل کر دی.اور اس کی شان و شوکت اور قدر و منزلت کی تما م کی تما م وجوہ کو ختم کر دیا اور اس کے قبضے میں جو کچھ بھی تھا وہ کسی اور آدمی کی طرف منتقل ہو گیا.اس کی کبر و نخوت کی ہوائوں نے بد حا لی کے اتنے اندھیرے جمع کر دیئے کہ وہ اپنی پہلی دولت سے مایوس ہو گیا اور اس نے زمانے کی بانجھ چھاتی کا دودھ پیا اور فقر کے چوپائے کی پیٹھ پر سواری کی.اس کے بعد اس کے بعض وارثوں نے قرض خواہوں کی طرح اس کا مؤاخذہ کیا.اس نے اپنی بیوی ،دوستوں اور بیٹو ں کی طرف سے بڑی رسوائی دیکھی.یہاں تک کہ خود اس کے باپ نے امریکہ کے بعض اخبارات میں شائع کیا کہ وہ (ڈوئی ) حرامی اور ولد الزنا ہے اور اس کے نطفے سے نہیں.اس طرح ادبار و انقلاب کی آندھیوں نے اس کو جڑ سے اکھاڑ
وطُفِیَٔ مصباحہ، ورُفعت صیاحہ، ونُـزعت عنہ البساتین وعیونہا،والخیل ومتونہا، وضاق علیہ سہلُ الأرض وحُزونہا، وعادتہ الأودیۃ وبطونہا، وسُلِبت منہ الخزائن التی ملک مفاتحہا، ورأی حروب العدا ومضائقہا.ثم بعد کلّ خزی وذلّۃ فُلج من الرأس إلی القدم، لیرحّلہ الفالج من الحیاۃ الخبیث إلی العدم.وکان یُنقل من مکان إلٰی مکان فوق رکاب الناس، وکان إذا أراد التبرّز یحتاج إلی الحقنۃ من أیدی الأناس.ثمّ لَحِقَ بہ الجنون، فغلب علیہ الہذیان فی الکلمات، والاضطراب فی الحر!کات والسکنات، وکان ذالک آخر المخزیات.ثم أدرکہ الموت بأنواع الحسرات، وکان موتہ فی تاسع من مارج سنۃ ۱۹۰۷ء، وما کانت لہ بقیہ ترجمہ.دیا.اور زمانے نے تمام قسم کی ذلتیں اس کی ذات میں مکمل کر دیں.جس سے و ہ خاک میں دبی بوسیدہ ہڈی کی طرح ہو گیایا اس مارگز یدہ شخص کی طر ح جو تباہی کا نشانہ بن گیا ہو.تما م تر وجاہت مذکورہ کے باوجود وہ ایسا اجنبی بن گیا جو معروف نہ ہو.اس کے جتنے بھی پیروکار تھے وہ تتر بتر ہو گئے.اور اس کے ہاتھ میں زر نقد اور جاگیر و جائیداد میں سے کچھ بھی باقی نہ رہا.اور وہ ایک بد حال محتاج اور ذلیل حقیرکی طرح ہو گیا.اس کے حوض اور اس کے باغات اور اس کا مکان منحوس ہو گیا اور اس کا چراغ گل ہو گیااوراس کی چیخ و پکار بلند ہوئی.باغات اور ان کے چشمے اور گھوڑے اور ان کی سواری اس سے چھن گئے.اور نرم اور سنگلاخ زمین اس پر تنگ ہو گئی.اور وادیاں اور گھاٹیاں اس کی دشمن ہو گئیں ،اور وہ خزانے اس سے چھین لئے گئے جن کی چابیوں کا وہ مالک تھا.اس نے دشمنوں کی طرف سے لڑائی جھگڑے اور ان کی ایذا رسانیاں دیکھیں اور پھر تمام تر ذلت اور رسوائی کے بعد اسے سر سے پاؤں تک فالج ہو گیا تاکہ یہ فالج اسے خبیث زندگی سے عدم کی طرف لے جائے.اور وہ لوگوں کی گردنوں پر بٹھاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا اور جب اسے بول و براز کی حاجت ہوتی تو وہ لوگوں کے ہاتھوں حقنے کا محتاج ہو تا.پھر اسے جنون لاحق ہو گیا.جس کے نتیجہ میں اس کی گفتگو ہذیان اور حرکات و سکنات میں بے چینی غالب آگئی اور یہ اس کی انتہائی رسوائی تھی.پھر طر ح طرح کی حسرتوں کے ساتھ اسے موت نے آن لیا اور اس کی موت بتاریخ ۹؍مارچ۱۹۰۷ء کو ہوئی.اور
نوادب، ولا من یبکی علیہ بذکر الحسنات.وأوحی إلیّ ربّی قبل أن أسمع خبر موتہ وقال: إنّی نَعَیتُ.إنّ اللّٰہ مع الصادقین.ففہمت أنّہ أخبرنی بموت عدوّی وعدوّ دینی من المباہلین.فکنتُ بعد ہٰذا الو!حی الصریح من المنتظرین، وقد طُبع قبل وقوعہ فی جریدۃ بَدْر والحَکَم لیزید عند ظہورہ إیمان المؤمنین.فإذا جاء وعد ربّنا مات ڈوئی فجأۃً، وزہق الباطل، وعلا الحقّ، فالحمد للّٰہ ربّ العالمین.ووَاللّٰہِ لو أُوتیتُ جَبلًا من الذہب أو الدُّررِ والیاقوت ما سرّنی قطّ کمثل ما سرّنی خبرُ موت ہٰذا المفسد الکذّاب.فہل من مُنصف ینظر إلٰی ہٰذا الفتح العظیم من اللّٰہ الوہّاب؟ ہٰذا ما نـزل علی العدوّ اللئیم، من العذاب الألیم، وأمّا أنا فحقّق اللّٰہ کلّ مقصدی بعد المباہلۃ بقیہ ترجمہ.اس کی خوبیوں کا ذکر کرکے نوحہ کرنے والیاں نہ تھیں اور نہ اس پر کو ئی رونے والا تھا.اور اس کی موت کی خبر سننے سے قبل ،میرے رب نے میری طرف وحی کی اور فرمایا :’’اِنّی نَعَیْتُ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّادِقِیْنَ‘‘ یعنی’’میں نے ایک کاذب کی موت کی خبردی.اللہ صادقوں کے ساتھ ہے.‘‘ تب میں سمجھ گیا کہ اللہ نے مجھ سے مباہلہ کرنے والوں میں سے میرے دشمن اور میرے دین (اسلام) کے دشمن کی موت کی خبر دی ہے.اس واضح وحی کے بعد میں منتظر رہا.اور اس پیشگوئی کے وقوع سے پہلے اسے اخبار بدر اور الحکم میں طبع کر دیا گیا تھاتاکہ یہ اپنے ظہور کے وقت مومنوں کے ایمان میں اضافہ کا موجب ہو.پھر جب ہمارے رب کا وعدہ آگیا تو اچانک ڈوئی مر گیا اور باطل بھاگ گیا اور حق غالب آگیا.پس سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں.اور اللہ کی قسم!اگر مجھے سونے یا موتیوں یا یاقوت کا پہاڑ بھی دیا جاتا تو وہ مجھے ہرگز خوش نہ کرتا جیسا اس مفسد اور کذاب کی موت کی خبر نے خوش کیا.کیا کوئی ایسا منصف ہے جو خدائے وھاب کی طرف سے آنیوالی اس فتح عظیم کو دیکھے.اور اس پر غور کرے.یہ وہ دردناک عذاب ہے جو اس کمینہ دشمن پر ناز ل ہوا.اور رہی میری ذات کی بات تو مباہلہ کے بعد اللہ
وأری آیات کثیرۃ لإتمام الحُجّۃ، وجذب إلیّ فوجًا عظیمًا من النفوس البررۃ، وساق إلیّ القناطیر المقنطرۃ من الذہب والفضّۃ، ورزقنی فتحًا عظیمًا علٰی کلّ من باہلنی من المبتدعین والکفرۃ.وأنـزل لِیْ ۱؎ آیاتٍ منیرۃ، لا أستطیع أَنْ أحصیہا، ولا أقدر أن أملیہا، فاسألوا أہل أمریکۃ ما صنع اللّٰہ بڈوئی بعد دعائی، وتعالوا أُریکم آیات ربّی ومولائی، وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ ربّ العالمین.المشـــــــــــــــــــــــــــتـہر المیرزا غلام أحمد المسیح الموعود من مقام قادیان، ضلع گورداسپور، پنجاب ۱۵؍ اپریل سنۃ ۱۹۰۷ء بقیہ ترجمہ.نے میرے ہر مقصد کوسچا ثابت کر دیا.اور اس نے اتمام حجت کے لئے بہت سے نشانات دکھائے اور نیکو کاروں کی ایک بہت بڑی فوج میری طرف کھینچ لایا.اور سونے اور چاندی کے ڈھیروں کے ڈھیر میرے پاس لے آیا.اور بدعتیوں اور کافروں میں سے ہر ایک مباہلہ کرنے والے پر مجھے فتح عظیم عطا فرمائی.اور میرے لئے اتنے روشن نشان نازل کیے جنہیں میں شمار نہیں کر سکتا اور نہ لکھنے کی قدرت رکھتا ہوں.پس تم اہل امریکہ سے پوچھو کہ میری دعا کے بعد اللہ نے ڈوئی سے کیسا سلوک کیا.آئو میں تمھیں اپنے پروردگار اور مولیٰ کے نشان دکھائوں.وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.المشــــــــــــتـہر میرزا غلام أحمد مسیح موعود مقام قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء یہ حاشیہ اگلے صفحہ سے شروع ہو رہا ہے.(ناشر)
الحاشیۃ المتعلقۃ بصفحۃ ۷۵.السطر العاشر إن اللّٰہ أخبرنی بموت ڈوئی مرارًا، وہی بشارات کثیرۃ، وکلُّہا طُبع قبل موتہ وقبل نزول الآفات علیہ فی جریدۃ مُسمّی ببدر وجریدۃٍ أخری مُسمّی بالحکم، فلیرجع الناظر إلیہما.فمنہا ما أُوحِیَ إلیّ فی ۲۵ دسمبر سنۃ ۱۹۰۲ء حکایۃً عنی وہو ہذا: إنی صادق صادق وسیشہد اللّٰہ لی.ومنہا ما أُوحِیَ إلیّ فی ۲ فروری سنۃ ۱۹۰۳ء وہو ہذا: سنُعْلِیک.سأُکرمک إکرامًا عجبًا.سُمِع الدعاء.إنّی مع الأفواج آتیک بغتۃً.دعاؤک مستجاب.وأُوحِیَ فی ۲۶؍ نومبر سنۃ ۱۹۰۳ء: لک الفتح، ولک الغلبۃ.وأُوحِیَ فی ۱۷؍دسمبر سنۃ ۱۹۰۳ء : تری نصرًا من عند اللّٰہ.إن اللّٰہ مع الذین اتّقوا والذین ہم محسنون.وأُوحِیَ إلیّ فی ۱۲جون سنۃ ۱۹۰۴ء : کَتَبَ اللّٰہ لأغلبن أنا ورُسلی.کمثلک دُرٌّ لا یُضاع.لا یأتی علیک یومُ الخسران.وأُوحِیَ إلیّ فی ۱۷؍دسمبر سنۃ ۱۹۰۵ء : قال ربُّک إنہ نازلٌ من السماء ما ترجمہ.حاشیہ متعلقہ صفحہ ۷۵.سطر نمبر۱۰ اللہ نے باربار مجھے ڈوئی کی موت کی خبر دی اور یہ بشارتیں بڑی کثر ت سے ہیں.اور یہ سب کی سب اس کی موت سے قبل اور اس پر آفات نازل ہونے سے پہلے بدر نامی اخبار اور ایک دوسرے اخبار الحکم میںطبع کر دی گئی تھیں.غور کرنے والے کو چاہیے کہ وہ ان دونوں اخباروں کو دیکھے.منجملہ ان الہامات کے ایک وہ ہے جو ۲۵؍ دسمبر ۱۹۰۲ء میری طرف سے بطور حکایت بیان کیا گیا.اور وہ یہ ہے.اِنِّیْ صَادِقٌ صَادِقٌ وَ سَیَشْھَدُ اللّٰہَ لِیْ.یعنی میں صادق ہوں،صادق ہوں اور عنقریب خدا تعالیٰ میری شہادت دے گا.اور منجملہ ان الہامات کے ایک وہ ہے جو ۲؍فروری ۱۹۰۳ءکو مجھے ہوا جو یہ ہے.ـــــ’’ہم تجھے غالب کریں گے.میں تجھے عزت دوںگاایسے عزت جس سے لوگ تعجب میں پڑیں گے.تیری دعاسنی گئی.میں فوجوں کے ساتھ نا گہانی طور پرتیرے پاس آئو ںگا.تیری دعا مقبول ہے.‘‘ اور ۲۶نومبر ۱۹۰۳ءکو یہ وحی ہوئی لَکَ الْفَتْحُ وَلَکَ الْغَلَبَۃُ یعنی تیرے لئے فتح ہے اور تیرے لئے غلبہ مقدر ہے.۱۷؍ دسمبر ۱۹۰۳ءکویہ وحی ہوئی ’’تو اللہ کی طرف سے نصرت دیکھے گا.
یُرضیک، رحمۃً منّا، وکان أمرًا مقضیّا.وأُوحِیَ إلیّ فی ۲۰؍ مارچ سنۃ ۱۹۰۶ء : المراد حاصل.وأُوحِیَ إلیّ فی ۹؍ أپریل سنۃ ۱۹۰۶ء: نصرٌ من اللّٰہ وفتح مبین.ولا یُرَدّ بأسہ عن قومٍ یعرضون.وأوحی إلیّ فی ۱۲؍أپریل سنۃ ۱۹۰۶ء: أراد اللّٰہ أن یبعثک مقامًا محمودًا.یعنی مقامَ عزّۃٍ وفتح تُحمد فیہ.وأُوحِیَ فی الہندیۃ (ترجمۃ): أُرِیْ ما ینسخ طاقۃَ الدیر یعنی أُرِی آیۃً تکسر قوۃ دیر الیسوعیین.وأُوحِیَ فی الہندیۃ فی ۷؍جون سنۃ ۱۹۰۶ء ( ترجمۃ): تظہر الآیتان.إنّی أُریک ما یُرضیک.وأُوحِیَ فی ۲۰؍جنوری سنۃ ۱۹۰۶ء: وقالوا لستَ مرسلا.قل کفی باللّٰہ شہیدًا بینی وبینکم، ومَنْ عندہ علمُ الکتاب.وأُوحِی فی ۱۰؍جولائی سنۃ ۱۹۰۶ء: (ترجمۃ الہندی) انظُرْ..إنی أُمطر لک من السماء ، وأُنبت من الأرض، وأما أعداؤک فیؤخذون.وأُوحِیَ فی ۲۳؍ أگست سنۃ ۱۹۰۶ء : (ترجمۃ الہندی): ستظہر آیۃ بقیہ ترجمہ.اور یقینا اللہ ان لوگو ں کے ساتھ ہے جو متقی اور نیکوکار ہیں.‘‘اور۱۲ جون ۱۹۰۴ءکو مجھے یہ وحی کی گئی ’’خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے.تیر ے جیسا موتی ضائع نہیں ہو گا.تجھ پر گھاٹے کا دن نہیں آئے گا.‘‘۱ور ۱۷؍ دسمبر ۱۹۰۵ء کومجھے یہ وحی کی گئی ’’تیر ا رب کہتا ہے کہ ایک امر آسمان سے اترے گا جس سے تو خوش ہو جائے گا.یہ ہماری طرف سے رحمت ہے اور یہ فیصلہ شدہ بات ہے جو ابتدا سے مقدر تھی.اور۲۰مارچ ۱۹۰۶ءکومجھے وحی کی گئی.’’اَلْمُرَادُ حَاصِلٌ‘‘ یعنی مراد بَر آنے والی ہے.اور ۹؍اپریل۱۹۰۶ءکومجھے یہ وحی کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور فتح مبین آیا چاہتی ہے اور اعراض کرنے والے اس کے عذاب سے بچ نہیں سکیں گے.اور ۱۲؍ اپریل ۱۹۰۶ کو مجھے یہ وحی کی گئی.’’اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ تجھے مقام محمود پر مبعو ث کرے یعنی ایسی فتح کے مقام پر جہاں تیری تعریف کی جائے گی.اور اردو میں وحی ہوئی کہ میں کلیسیا کی طاقت کو مٹتے ہوئے دیکھتا ہوں یعنی میں وہ نشان دیکھ رہا ہوں جو عیسائیوں کے کلیسیا کی قوت کو توڑ دے گا.۷جون ۱۹۰۶ء کو اردو میں وحی ہوئی’’دو نشان ظاہر ہوں گے.میں تجھے وہ دکھائوں گا جو تجھے راضی کردے گا.۲۰؍جنوری ۱۹۰۶ کو یہ الہام ہوا.’’اور کہیں گے کہ تو خدا کافر ستادہ نہیں.کہہ میری سچائی پر اللہ گواہی دے رہا ہے.اور وہ لوگ گواہی دیتے ہیں جو
فی أیام قریبۃ لیقضی اللّٰہ بیننا.وأُوحِی فی ۲۷؍ستمبر سنۃ ۱۹۰۶ء: ( ترجمۃ الہندی): السلام علیک أیّہا المظفّر.سُمع دعاؤک.بلجَتْ آیاتی، وبَشِّرِ الذین آمنوا بأن لہم الفتح.وأُوحِیَ فی ۲۰ أکتوبر سنۃ ۱۹۰۶ء: (ترجمۃ الہندی): اللّٰہ عدوّ الکاذب، وإنہ یوصلہ إلٰی جہنّم.أُغرِقَت سفینۃُ الأذلّ.إن بطشَ ربک لشدید.وأوحی فی ۱؍فروری سنۃ ۱۹۰۷ء: (ترجمۃ الہندی): الآیۃ المنیرۃ وفتحُنا.وأُوحِیَ فی ۷ فروری سنۃ ۱۹۰۷ء: العید الآخر.تنال منہ فتحًا عظیمًا.دَعْنِی أقتُلْ من آذاک.إن العذاب مُربَّعٌ ومُدَوّرٌ.وإنْ یّروا آیۃً یُعرضوا ویقولوا سحرٌ مستمِرٌّ.وأُوحِیَ فی سابع مارچ سنۃ ۱۹۰۷ء: یأتون بنعشہ ملفوفاً..نعیتُ..من سابع مارچ إلی آخرہ: یعنی یُشاع موتُ ذالک الرجل إلٰی ہذا الوقت.إن اللّٰہ مع الصادقین.منہ (ضمیمہ حقیقۃ الوحی الاستفتاء.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۶۸۵ تا ۷۰۲) بقہ ترجمہ.کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں.‘‘اور ۱۰؍جولائی ۱۹۰۶ کو یہ الہام ہوا.’’دیکھ میں آسمان سے تیرے لئے برسائوں گا اور زمین سے اگائونگا.پر جو تیرے مخالف ہیں پکڑے جائیں گے.اور ۲۳؍اگست ۱۹۰۶ کو اردو میں یہ الہام ہوا.’’آج کل کوئی نشان ظاہر ہو گا.‘‘ تا اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے.اور ۲۷؍ستمبر کو ۱۹۰۶کو اردو میںیہ الہام ہوا.’’اے مظفر تجھ پر سلام ہو کہ خدا نے تیری دعا سن لی.میری نشانیاں ظاہر ہو گئیں اور خوشخبری دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے کہ بے شک ان کے واسطے فتح ہے.اور ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء کو اردو میں وحی ہوئی ’’کاذب کا خدا دشمن ہے.وہ اس کو جہنم میں پہنچائے گا.کمترین کا بیڑا غرق ہو گیا.تیرے رب کی گرفت بہت سخت ہے.‘‘اور یکم فروری ۱۹۰۷ء کواردو میں وحی ہوئی’’روشن نشان‘‘ اور ’’ہماری فتح ہوئی.‘‘ اور ۷ فروری ۱۹۰۷ء کو وحی ہوئی’’ایک اور عید ہے جس میں تو ایک بڑی فتح پائے گا.مجھے چھوڑ تا مَیں اس شخص کو قتل کروں جو تجھے ایذا دیتا ہے.دشمنوں کیلئے عذاب ہر چار طرف سے ہے اور ارد گر د سے گھیرے ہوئے ہے.اور جب یہ لوگ کوئی نشان دیکھتے ہیںتوکہتے ہیں کہ یہ ایک معمولی اور قدیمی سحر ہے.اور ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو وحی ہوئی اس کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں.میں نے ایک کاذب کی موت کی خبر دیتا ہوں.سات مارچ سے آخر تک یعنی اس شخص ڈئوئی کی موت کی اس وقت مقررہ تک تشہیر کر دی جائے گی.خدا سچوں کے ساتھ ہے.منہ
مولوی ثناء اللہ صاحب (امرتسری) کے ساتھ آخری فیصلہ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ۱؎ بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب اَلسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے.ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں مردود کذاب دجال مفسد کے نام ہے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے.میں نے اپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیںاور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہو سکتا.اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جائوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ ا پنے
اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تا خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے.اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے.پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ،ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئی تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں.محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیروقدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے آمین.مگر اے میرے کامل اور صادق خدا.اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر.مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے.آمِین یَارَبَّ الْعَالَمِیْن.میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گذر گئی.وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوئوں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لیے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے ان تہمتوں اور بدزبانیوں میں آیت.۱؎ پر بھی عمل نہیں کیااور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا اور
اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دوکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے.سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا.مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انہیں تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے اے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے.اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر.اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر.آمین ثم آمین..۱؎ آمین.بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں.اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.الراقـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم عبد اللہ الصمد میرزا غلام احمدالمسیح الموعود عَافَاہُ اللّٰہُ وَاَیَّد مرقوم تاریخ 15/ اپریل 1907ء مطابق یکم ربیع الاول 1325ھ روز دو شنبہ (تبلیغ رسالت جلد 10 صفحہ 118 تا 120)
ناظرین کی توجہ کے لائق اور مخالفوں سے ایک استفسار ------------------------------ دنیا کے ملوک اور سلاطین میں یہ رسم ہے کہ جب ان کا کوئی غضب کسی شہر پر نازل ہوتا ہے اور اس شہر کے باشندوں کے قتل کے لئے عام حکم دیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر کسی شخص کو اس سلطنت سے خاص تعلقات ہوتے ہیں تو اس شخص اور اس کے عیال اطفال کی نسبت فرمان شاہی صادر ہو جاتا ہے کہ اس شخص کے مال اور عزت اور جان پر کوئی شاہی سپاہی حملہ نہ کرے.ایسا ہی جناب حضرت عزت جلّ شانہٗ کی عادت میں داخل ہے کہ جس شخص کو اس کی جناب میں کوئی تعلق عبودیت ہے تو اس زمانہ میں جب قہر اور غضب الٰہی زمین پر نازل ہوتا ہے اور ایک عام قتل کا حکم نافذ ہوتا ہے تب ملائک کو جناب حضرت عزت جلّ شَانہٗ سے فہمائش کی جاتی ہے کہ اس گھر کے محافظ رہیں.پس یہی بھید ہے کہ جب عام طاعون دنیا میں نازل کی گئی تو اسی ابتدائی زمانہ میں جب اس ملک میں طاعون شروع ہوئی.خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہوا کہ ’’ اِنِّیْ اَُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ‘‘ یعنی ہر ایک شخص جو اس گھر کی چاردیواری کے اندر ہے میں اس کو طاعون سے بچائوں گا.چنانچہ قریباً گیارہ برس ہوئے جب یہ الہام ہوا تھا اور اس مدت میں لاکھوں انسان اس دنیا سے شکارِ طاعون ہو کر گذر گئے لیکن ہمارے اس گھر میں اگر ایک کتا بھی داخل ہوا تو وہ بھی طاعون
سے محفوظ رہا.یہ کس قدر عظیم الشان معجزہ ہے لیکن ان کے لیے جو آنکھ بند نہیں کرتے.اب بھی اگر کسی کو یہ گمان ہے کہ یہ انسان کا افتراء ہے یا یہ خدا کا کلام نہیں.تو اسے چاہیے کہ ایسا ہی افتراء وہ بھی شائع کرے یا قسم کھا کر یہ شائع کرے کہ یہ خدا کا کلام نہیں.پھر میں یقین رکھتا ہوں کہ خدائے قدیر ضرور اس کو اس بے باکی کا جواب دے گا.اگر تم مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک سیر کرو تو تمام دنیا میں تمہیں کوئی ایسا ملہم نہیں ملے گا کہ خدا نے اس کو طاعون کی نسبت یہ تسلی دی ہو کہ وہ اس کے گھر میں نہیں آئے گی چاہیے کہ ہمارے مخالف مسلمان اور آریہ اور عیسائی ضرور اس بات کا جواب دیں.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی میرزا غلام احمدعفی اللہ مسیح موعود (بدر نمبر۱۸ جلد۶ مورخہ ۲؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ نمبر۱.الحکم نمبر۱۵ جلد۱۱.۳۰؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ۵ )
جہاں جہاں یہ اشتہار پہنچے وہاں جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ حسب ضرورت اور حسب مقدرت اس کی اور کاپیاں چھپوا کر تقسیم کریں.بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اپنی جماعت کے لئے ضروری نصیحت چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان دنوں میں بعض جاہل اور شریر لوگ اکثر ہندوئوں میں سے اور کچھ مسلمانوں میں سے گورنمنٹ کے مقابل ایسی ایسی حرکتیں ظاہر کرتے ہیں جن سے بغاوت کی بُوآتی ہے بلکہ مجھے شک ہوتاہے کہ کسی وقت باغیانہ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہو جائے گا اس لیے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو جو مختلف مقامات پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہیں جو بفضلہ تعالیٰ کئی لاکھ تک اُن کا شمار پہنچ گیاہے نہایت تاکید سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ میری اس تعلیم کو خوب یاد رکھیں جو قریباً چھبیس برس سے تقریری اور تحریری طور پر ان کے ذہن نشین کرتا آیا ہوں یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ انگریزی کی پوری اطاعت کریں کیونکہ وہ ہماری محسن گورنمنٹ ہے.ان کی ظلِحمایت میں ہمارا فرقہ احمدیہ چند سال میں لاکھوں تک پہنچ گیا ہے اور اس گورنمنٹ کا احسان ہے کہ اس کے زیر سایہ ہم ظالموں کے پنجہ سے محفوظ ہیں.خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت ہے کہ اُس نے اس گورنمنٹ کو اس بات کے لیے چُن لیا تاکہ یہ فرقہ احمدیہ اس کے زیر سایہ ہو کر ظالموں کے خونخوار حملوں سے اپنے تئیں بچاوے اور ترقی کرے.کیا تم یہ خیال کر سکتے ہو کہ تم
سلطان روم کی عملداری میں رہ کر یا مکہ اور مدینہ ہی میں اپنا گھر بنا کر شریر لوگوں کے حملوں سے بچ سکتے ہو.نہیں ہر گز نہیں.بلکہ ایک ہفتہ میں ہی تم تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائو گے.تم سُن چکے ہو کہ کس طرح صاحبزادہ مولوی عبداللطیف جو ریاست کابل کے ایک معزز اور بزرگوار اور نامور رئیس تھے جن کے مرید پچاس ہزار کے قریب تھے وہ جب میری جماعت میں داخل ہوئے تو محض اسی قصور سے کہ میری تعلیم کے موافق جہاد کے مخالف ہوگئے تھے.امیر حبیب اللہ خان نے نہایت بے رحمی سے ان کو سنگسار کرا دیا.پس کیا تمہیں کچھ توقع ہے کہ تمہیں اسلامی سلاطین کے ماتحت کوئی خوشحالی میسر آئے گی.بلکہ تم تمام اسلامی مخالف علماء کے فتووں کی رو سے واجب القتل ٹھہر چکے ہو.سو خدا تعالیٰ کا یہ فضل اور احسان ہے کہ اس گورنمنٹ نے ایسا ہی تمہیں اپنے سایہ پناہ کے نیچے لے لیا جیسا کہ نجاشی بادشاہ نے جو کہ عیسائی تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو پناہ دی تھی.میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا جیسا کہ نادان لوگ خیال کرتے ہیں نہ اس سے کوئی صلہ چاہتاہوں بلکہ میں انصاف اور ایمان کی رو سے اپنا فرض دیکھتا ہوں کہ اس گورنمنٹ کی شکر گذاری کروں اور اپنی جماعت کو اطاعت کے لیے نصیحت کروں.سو یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ ایسا شخص میری جماعت میں داخل نہیں رہ سکتا جو اس گورنمنٹ کے مقابل پر کوئی باغیانہ خیال دل میں رکھے اور میرے نزدیک یہ سخت بدذاتی ہے کہ جس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہم ظالموں کے پنجے سے بچائے جاتے ہیں اور اس کے زیر سایہ ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے اس کے احسان کے ہم شکرگذار نہ ہوں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ۱؎ یعنی احسان کا بدلہ احسان ہے اور حدیث شریف میں بھی ہے کہ جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر نہیں کرتا.یہ تو سوچو کہ اگرتم اس گورنمنٹ کے سایہ سے باہر نکل جائو تو پھر تمہارا ٹھکانا کہاں ہے؟ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گی.ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کرنے کے لیے دانت پیس رہی ہے کیونکہ ان کی نگاہ
میں تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو.سو تم اس خدا داد نعمت کی قدر کرو اور تم یقینا سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ نے سلطنت انگریزی تمہاری بھلائی کے لیے ہی اس ملک میں قائم کی ہے اور اگر اس سلطنت پر کوئی آفت آئے تو وہ آفت تمہیں بھی نابود کردے گی یہ مسلمان لوگ جو اس فرقہ احمدیہ کے مخالف ہیں.تم ان کے علماء کے فتوے سن چکے ہو یعنی یہ کہ تم اُن کے نزدیک واجب القتل ہو.اور ان کی آنکھ میں ایک کتاّ بھی رحم کے لائق ہے مگر تم نہیں ہو.تمام پنجاب اور ہندوستان کے فتوے بلکہ تمام ممالک اسلامیہ کے فتوے تمہاری نسبت یہ ہیں کہ تم واجب القتل ہو اور تمہیں قتل کرنا اور تمہارا مال لوٹ لینا اور تمہاری بیویوں پر جبر کرکے اپنے نکاح میں لے آنا اور تمہاری میّت کی توہین کرنا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دینا نہ صرف جائز بلکہ بڑا ثواب کا کام ہے.سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کئے جانے سے بچے ہوئے ہو.ذراکسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتاہے.سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے.تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپرہے.پس تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو اور تمہارے مخالف جو مسلمان ہیں ہزارہا درجہ ان سے انگریز بہتر ہیں کیونکہ وہ تمہیں واجب القتل نہیں سمجھتے.وہ تمہیں بے عزت کرنا نہیں چاہتے.کچھ بہت دن نہیں گذرے کہ ایک پادری نے کپتان ڈگلس کی عدالت میں میرے پر اقدام قتل کا مقدمہ کیا تھا.اُس دانشمند اور منصف مزاج ڈپٹی کمشنر نے معلوم کر لیا کہ وہ مقدمہ سراسر جھوٹا اور بناوٹی ہے اس لیے مجھے عزت کے ساتھ برَی کیا بلکہ مجھے اجازت دی کہ اگر چاہو تو جھوٹا مقدمہ بنانے والوں پر سزا دلوانے کے لیے نالش کرو.سو اس نمونہ سے ظاہر ہے کہ انگریز کس انصاف اور عدل کے ساتھ ہم سے پیش آتے ہیں.اور یادرکھو کہ اسلام میں جو جہاد کا مسئلہ ہے میری نگاہ میں اس سے بدتر اسلام کو بدنام کرنے والا او رکوئی مسئلہ نہیں ہے.جس دین کی تعلیم عمدہ ہے.جس دین کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے خدا نے معجزات دکھلائے ہیں اور دکھلا رہا ہے ایسے دین کو جہاد کی کیا ضرورت ہے.اور
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ظالم لوگ اسلام پر تلوار کے ساتھ حملے کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے نابود کردیں.سو جنہوں نے تلواریں اُٹھائیں وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے گئے.سو وہ جنگ صرف دفاعی جنگ تھی.اب خواہ نخواہ ایسے اعتقاد پھیلانا کہ کوئی خونی مہدی آئے گا اور عیسائی بادشاہوں کو گرفتار کرے گا یہ محض بناوٹی مسائل ہیں جن سے ہمارے مخالف مسلمانوں کے دل سیاہ اور سخت ہوگئے ہیں اور جن کے ایسے عقیدے ہیں وہ خطرناک انسان ہیں اور ایسے عقیدے کسی زمانہ میں جاہلوں کے لیے بغاوت کا ذریعہ ہو سکتے ہیں بلکہ ضرور ہوں گے سو ہماری کوشش ہے کہ مسلمان ایسے عقیدوں سے رہائی پاویں.یاد رکھو کہ وہ دین خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا.جس میں انسانی ہمدردی نہیں.خدا نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ زمین پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم کیا جائے.وَالسَّـلَام خاکســــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار مرزا غلام احمد مسیح موعود عَافَاہُ اللّٰہُ وَاَیَّدَہٗ ۷؍ مئی ۱۹۰۷ء مطبوعہ میگزین پریس قادیان (یہ اشتہار ۲۰×۸۲۶ کے دوصفحوں پر ہے ) (تبلیغ رسالت جلد۱۰ صفحہ ۱۲۲ تا ۱۲۵)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اعلان بارد۲وم ۱؎ افسوس کہ اس ملک کے اکثر لوگ جو مولوی کہلاتے یا ملہم ہونے کا دم مارتے ہیں جب خدا تعالیٰ کا کلام ان کو سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ افتراہے انہیں لوگوں پر اتمام حجت کرنے کے لیے میں نے کتاب حقیقۃ الوحی تالیف کی ہے کب تک یہ لوگ ایسا کریں گے آخر ہر ایک فیصلہ کے لئے ایک دن ہے اور ہر ایک قضاء وقدر کے نزول کے لئے ایک رات ہے اس وقت میں نمونہ کے طور پر خدا تعالیٰ کا ایک کلام ان لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور بالخصوص اس جگہ مخاطب میرے مولوی ابوالوفا ثناء اللہ۲؎ امرتسری اور مولوی عبد الجبار اور عبد الواحد اور عبد الحق غزنوی ثم امرتسری اور جعفر زٹلی لاہوری اور ڈاکٹر عبد الحکیم خاں اسسٹنٹ سرجن تراوڑی ملازم ریاست پٹیالہ ہیں اور وہ کلام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے.اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّ ارِ وَ اُحَافِظُکَ خَآصَّۃً.ترجمہ اس کا بموجب تفہیم الٰہی یہ ہے کہ میں ہر ایک الانعام:22 2: مولوی ثناء اللہ صاحب اس آخری مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوئے اور بالکل خاموش رہے یہ ان پر آخری اتمام حجت ہے.12 (عبد اللطیف بہاولپوری)
شخص کو جو تیرے گھر کے اندر ہے طاعون سے بچائوں گا اور خاص کر تجھے.چنانچہ گیارہ برس سے اس پیشگوئی کی تصدیق ہو رہی ہے اور میں اس کلام کے منجانب اللہ ہونے پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا تعالیٰ کی تمام کتب مقدسہ پر اور بالخصوص قرآن شریف پر اور میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ خدا کا کلام ہے پس اگر کوئی شخص مذکورہ بالا اشخاص میں سے یا جو شخص ان کا ہمرنگ ہے یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ یہ انسان کا افترا ہے تو اسے لازم ہے کہ وہ قسم کھا کر ان الفاظ کے ساتھ بیان کرے کہ یہ انسان کا افترا ہے خدا کا کلام نہیں.وَ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَحْیَ اللّٰہِ.جیسا کہ میں بھی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ خدا کا کلام ہے.وَ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلٰی مَنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ.اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا اس راہ سے کوئی فیصلہ کرے اور یاد رہے کہ میرے کسی کلام میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ہرایک شخص جو بیعت کرے وہ طاعون سے محفوظ رہے گا بلکہ یہ ذکر ہے کہ .پس کامل پیروی کرنے والے اور ہر ایک ظلم سے بچنے والے جس کا علم محض خدا کو ہے بچائے جائیں گے اور کمزور لوگ طاعون سے شہید ہو کر شہادت کا اجر پاویں گے اور طاعون ان کے لئے تمحیص اور تطہیر کا موجب ٹھیرے گی.اب میں دیکھوں گا کہ اس میری تحریر کے مقابل پر بغرض تکذیب کون قسم کھاتا ہے مگر یہ امر ضروری ہے کہ اگر ایسا مکذب اس کلام کو خدا کا کلام نہیں سمجھتا تو آپ بھی دعویٰ کرے کہ میں بھی طاعون سے محفوظ رہوں گا.اور مجھے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا ہے تادیکھ لے افترا کی کیا جزا ہے.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.الراقم خاکسار میرزا غلام احمد (اخبار بدر مورخہ ۶؍جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
فیصلہ کی آسان راہ ۱؎ ایک صاحب نے حضرت کی خدمت میں ذکر کیا کہ حضور کی اس تحریر پر جو اخبار میں چھپی ہے کہ اگر ہمارے مکذب ہمارے شائع کردہ الہام الٰہی کو کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ کو افترا سمجھتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ محض ہم نے اپنے دل سے یہ بات بنائی ہے اور یہ خدا کا کلام نہیں جو ہم پر نازل ہواہے اور صرف اتفاقی طور پرہمارے گھر کی حفاظت ہو رہی ہے تو چاہیے کہ ہمارے مکذبوں میں سے بھی کوئی ایسا الہام شائع کرے تب اس کو جلد معلوم ہو جاوے گا کہ افترا کا کیا نتیجہ ہے.اس بات کو پڑھ کر بعض مخالف یہ کہتے ہیں کہ ہم مفتری نہیں ہیں جو خدا تعالیٰ پر افترا کریں.ہم کس طرح ایسا الہام شائع کر سکتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا:.یہی بات ہے جو ہم ان کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر افتراء کرکے کوئی شخص بچ نہیں سکتا اگر یہ کلام ہم پر خدا تعالیٰ کی طر ف سے نازل نہ ہوتا اور ہمارا افترا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کلمہ کے مطابق ہمارے گھر کی حفاظت کیوں کرتا ؟ جبکہ ایک کلام صریح الفاظ میں پورا ہوگیا ہے تو پھر اس کے ماننے میں کیا شک ہے لیکن ہم نے مخالفین کے واسطے فیصلہ کی دوسری راہ بھی بیان کر دی ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ انسان کا افترا ہے تو اسے لازم ہے کہ وہ قسم کھا کر ان الفاظ کے ساتھ بیان کرے کہ یہ انسان کا افترا ہے خدا تعالیٰ کا کلام نہیں وَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَحْیَ اللّٰہِ.اگر کوئی شخص ایسی قسم کھاوے تو خدا تعالیٰ اس قسم کا نتیجہ ظاہر کردے گا.چاہیے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور جعفرز ٹلی لاہوری اور ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب اور غزنوی صاحبان بہت جلد اس کی طرف توجہ کریں.(بدر مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ کالم نمبر۲ ،۳) 1.مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس فیصلہ کی آسان راہ کو قبول نہ کیا.12 (عبد اللطیف بہاولپوری)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ تمام مریدوں کے لئے عام ہدایت مجھے معلوم ہوا ہے کہ جناب وائسرائے گورنر جنرل ہند اس تجویز کو طاعون کے علاج کے لئے پسند فرماتے ہیں کہ جب کسی گائوں یا شہر کے کسی محلہ میں طاعون پیدا ہو تو یہ بہترین علاج ہے کہ اس گائوں یا اس شہر کے اس محلہ کے لوگ جن کا محلہ طاعون سے آلودہ ہے فی الفور بلاتوقف اپنے اپنے مقام کوچھوڑ دیں اور باہر جنگل میں کسی ایسی زمین میں جو اس تاثیر سے پاک ہے رہائش اختیار کریں سو میں دلی یقین سے جانتا ہوں کہ یہ تجویز نہایت عمدہ ہے اور مجھے معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہیے کہ بلاتوقف اس شہر کو چھوڑ دیں ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے.عذاب کی جگہ سے بھاگنا انسان کی عقلمندی میں داخل ہے.کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ جب خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتوحات ملک شام کے بعد اس ملک کو دیکھنے کے لئے گئے تو کسی قدر مسافرت طے کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس ملک میں سخت طاعون کا زور ہے تب حضرت عمرؓ نے یہ بات سنتے ہی واپس جانے کا قصد کیا اور آگے جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا تب بعض لوگوں نے عرض کی کہ یا خلیفۃ اللہ کیوں آپ ارادہ کو ملتوی کرتے ہیں کیا آپ خدا کی تقدیر سے بھاگتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں میں ایک تقدیر سے بھاگ کر دوسری تقدیر کی طرف جاتا ہوں سو انسان کو نہیں چاہیے کہ دانستہ ہلاکت کی راہ اختیار کرے.
خوب یادرکھو کہ جو کچھ یہ گورنمنٹ عالیہ کر رہی ہے اپنی رعایا کی بہبودی کے لئے کر رہی ہے اور رعایا کی جان کی حفاظت کے لئے اب تک کئی لاکھ روپیہ ضائع ہو چکا ہے.اس شخص جیسا کوئی نادان نہیں کہ جو گورنمنٹ کے ان کاموں کو بدظنی سے دیکھتا ہے.سواے میری جماعت! تم اطاعت کرنے میں سب سے پہلے اپنا نمونہ دکھلائو اسی میں تمہاری بہتری ہے تم اب خدا کے فضل سے چار لاکھ کے قریب ہو اور تمہارا نمونہ بہتوں کی جان کو بچائے گا.میں تمہیں حکم کرتاہوں کہ اگر تمہارے کسی شہر میں خدانخواستہ وبا ظاہر ہو جائے تو سب سے پہلے تم اس زمین کو چھوڑ دو جو طاعون سے آلودہ ہے ہاں میں اسی قدر پر کفایت نہیں کروں گا کہ تم اس زمین کو چھوڑ دو بلکہ اے خدا کے بندو! میں اس بات سے بھی تمہیں اطلاع دیتا ہوں کہ یہ طاعون خود بخود اس ملک میں نہیں آئی بلکہ اس خدا کے ارادہ اور حکم سے آئی ہے جس کے حکم کے ماتحت ذرہ ذرہ زمین اور آسمان کا ہے اور مجھے معلوم کرایا گیا ہے کہ کثرت گناہوں کی وجہ سے وہ تمہارا خدا اہل زمین پر ناراض ہے سو تم توبہ اور استغفار کو لازم حال رکھو اور جیسا کہ تم اس زمین کو چھوڑو گے جو طاعون سے آلودہ ہے ایسا ہی تم ان خیالات کو بھی چھوڑ دو جو گناہوں سے آلودہ ہیں.اے میری جماعت میں ہمیشہ تم میں نہیں رہوں گا یہ میرے کلمات یاد رکھو کہ کوئی حادثہ زمین پر ظاہر نہیں ہوتا جب تک آسمان پر پہلے قرار نہ پالے.سو وہ خدا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے اس سے ڈرو اور ایک سچی تبدیلی پیدا کر لو تاتم عذاب سے بچائے جائو اور یادرکھو کہ یہ طریق شوخی اور شرارت کا طریق ہے کہ جس گورنمنٹ کے ماتحت تم امن سے زندگی بسر کر رہے ہو اور اس کی عنایات کو آزما چکے ہو تم اس پر بدگمانی کرو یا اس کے حکم کے مطابق نہ چلو اور تمہاری یہ بدقسمتی ہو گی کہ اس کے ان احکام سے جو سراسر تمہاری بھلائی کے لئے ہیں منہ پھیر لو.میں وہی بات کرتا ہوں جو تمہاری بھلائی کے لئے ہے.مجھے ضرورت نہیں کہ میں گورنمنٹ کی خوشامد کروں کیونکہ ایک ہی آقا ہے جس کا میں نے دامن پکڑا ہے وہی جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس وقت تک کہ میں مروں کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہوں گا مگر اس بات کو کیونکر چھپایا جاوے کہ درحقیقت یہ گورنمنٹ ہمارے لئے ایک محسن گورنمنٹ ہے اور بجز اس کے کہ ہم اس گورنمنٹ کے سایہ میں امن سے زندگی بسر کریں
ہمارے لئے ایک بالشت بھی ایسی زمین نہیں جو ہمیں پناہ دے سکے سو جس خدا نے ہمارے آرام اور امن کے لئے اس گورنمنٹ کو منتخب کیا ہے اس کے ہم ناشکرگذار ہوں گے اگر اس گورنمنٹ کا شکر نہ کریں.اور اگر میں اس رائے میں غلطی کرتا ہوں تو مجھے بتائو کہ اگر ہم اس گورنمنٹ کے ملک سے علیحدہ ہو جائیں تو ہمارا ٹھکانا کہاں ہے.تم سن چکے ہو کہ ہمارے مخالف مولوی جن کے ہم زبان اس ملک میں اور دوسرے ملکوں میں کروڑہا انسان ہیں صدہا رسالوں اور اشتہاروں اور اخباروں میں ہماری نسبت کفر کے فتوے شائع کر چکے ہیں اور نیز واجب القتل ہونے کی نسبت فتویٰ دے چکے ہیں بلکہ گذشتہ دنوں میں مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی جو موحدین کا ایڈووکیٹ کہلاتا ہے اور ایک اور صاحب سید محمد نام بھی فتوے ہمارے واجب القتل ہونے کے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع کر چکے ہیں.اب بتلائو کہ اس گورنمنٹ کے سوا تمہارا گذارہ کہاں ہے اور کون سی اسلامی سلطنت تمہیں پناہ دے سکتی ہے.سو تم ہوشیار ہو جائو اور سچے دل سے اس گورنمنٹ کی اطاعت کرو اور کسی صلہ کی بھی خواہش نہ کرو کیونکہ یہ صلہ تھوڑا نہیں ہے کہ تمہاری عزت اور جان کا محافظ خدا تعالیٰ نے اسی گورنمنٹ کو ٹھیرایا ہے.یہاں اپنی جماعت کی اطلاع کے لئے اس قدر اور بڑھا دینا بھی ضروری ہے کہ گورنمنٹ نے بڑی مہربانی سے یہ ارادہ کیا ہے کہ جو لوگ ان تجاویز پر عمل کریں ان کو ہر طرح سے مدد دے اور ان کی سہولت کے لئے انتظام کرے.اس لئے ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ایسے اضلاع میں جیسے مثلاً سرحدی اضلاع ہیں جہاں باہر میدانوں میں نکلنے میں جانوں کا خطرہ ہے اور خصوصاً احمدیوں کو جن پر مولوی لوگ قتل کے فتوے دے چکے ہیں گورنمنٹ اس انتظام کے علاوہ جو دوسری جگہ اس نے مالوں کی محافظت کے لئے کرنے کا ارادہ کیا ہے ایسے مقامات پر لوگوں کی جانوں کی حفاظت کا بھی انتظام کرے گی.پس جو لوگ باہر نکلیں انہیں چاہیے کہ گورنمنٹ میں ایسی درخواست کریں کہ گورنمنٹ ان کی جانوں اور مالوں کی محافظت کا کافی انتظام کرے.والدّعا.خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود (الحکم مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۱)
ہماری جماعت کو لازم ہے کہ اس پیشگوئی کو خوب شائع کریں اور اپنی طرف سے چھاپ کر مشتہرکریں اور یادداشت کے لئے اشتہار کے طور پر اپنے گھر کی نظر گاہ میں چسپاں کریں بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ تبصرہ مجھے اس تحریر کے لئے اس بات نے مجبور کیا ہے کہ مَیں مامور ہوں کہ امر معروف اور نہی منکر کروں اور سُننے والوں کو اُن امورپر قائم کروں جن سے اُن کا ایمان قوی ہو اور معرفت زیادہ ہو اور صراط مستقیم پر قائم ہو جاویں.واضح ہو کہ مَیں نے اس ہفتہکے اخبارِ عام میں اس کے پہلے کالم میں ہی پڑھا ہے کہ بعض کو تاہ اندیش لوگوں نے میرے فرزند مبارک احمد کی وفات پر بڑی خوشی ظاہر کی ہے.بلکہ دوسرے بعض اخباروں میں بھی بڑے زور سے اس واقعہ کو ظاہر کر کے یہ رنگ اس پر چڑھایا ہے کہ گویا ان میں سے کسی کا مباہلہ میں فتحیاب ہونا اس سے ثابت ہوتا ہے.ہم اس جگہ زیادہ لکھنا نہیں چاہتے کیونکہ جھوٹ کی سزا دینے کے لئے خدا تعالیٰ کافی ہے.واضح ہو کہ مَیں نے کسی سے ایسا مباہلہ نہیں کیا جس سے کسی دوسرے فریق کی اولاد کو اس طرح پر معیار صدق و کذب بنایا جاوے کہ اگر اس فریق کا لڑکا مر گیا تو وہ جھوٹا ٹھہرے گا بلکہ مَیں ہمیشہ یہی چاہتا ہوں کہ وہی شخص نابود ہو جس کا گناہ ہے.جس نے خدا پر افترا کیاہے یا صادق کو
کاذب ٹھہراتا ہے.ہاں اگر کسی کی اولاد مباہلہ کے وقت حاضر ہو کر خود مباہلہ سے حصّہ لے اور افترا کے حامی یا تکذیب کے حامی ہو جاویں جیسا کہ قرآن شریف سے سمجھا جاتا ہے تب وہ کاذب ہونے کی حالت میں عذاب میں بھی شریک ہوں گے جیسا کہ وہ مقابلہ میں شریک ہو گئے.ورنہ بموجب حکم آیت .۱؎خدا ایک کے گناہ کے لئے دوسرے کو ہلاک نہیںکرتا.میرا لڑکا مبارک احمد نا بالغ تھا اور ابھی نو برس کی عمر کو نہیں پہنچا تھا جب وہ فوت ہو گیا.اور خدا نے اس کی وفات سے کئی برس پہلے دو مرتبہ اس کی نسبت خبر دی تھی کہ ابھی وہ بالغ نہیں ہو گا جو فوت ہو جائے گا.اور یہ بھی فرمایا تھا کہ دشمن اس دن خوش ہو گا اور اپنا وار کرے گا مگر ساتھ ہی دشمن کے بدانجام کی بھی خبر دی تھی کہ آخر کار وہ غضب الٰہی کے نیچے آئے گا اور میری نسبت یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ دن تلخ زندگی کے ہوں گے اور ساتھ اس کے میرے دل کی حالت کو ان الفاظ سے ظاہر کیا تھا کہ اِنِّیْ مَعَ اﷲِ فِیْ کُلِّ حَالٍ یعنی مَیں ہر ایک حال میں خدا کے ساتھ ہوں اور جو اس کے رضا ہے وہی میر ی رضا ہے.اور یہ بھی میرے گھر کے لوگوں کو خدا نے مخاطب کر کے مجھے یہ الہام کیا تھا کہ ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر.اور یہ بھی ان کی نسبت الہام تھا کہ اِنَّمَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیُذْھِبَ عَنْـکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا.یعنی اے اہل بیت خدا تمہیں ایک امتحان کے ذریعہ سے پاک کرنا چاہتا ہے جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا.اس الہام میں بھی اسی مصیبت کی طرف اشارہ تھا.اور علاوہ اس کے اور کئی الہام تھے جن میں بصراحت اس لڑکے کے مرنے کی خبر دی گئی تھی.اور صرف یہی نہیں تھا کہ زبانی اپنی جماعت کو یہ پیشگوئیاں بتلائی گئی تھیں بلکہ یہ پیشگوئیاں اس واقعہ سے کئی سال پہلے اخبار بدر اور الحکم میں شائع کر دی گئی تھیں جس کا خلاصہ مضمون یہی تھا کہ مبارک احمد قبل اس کے کہ جو بلوغ کی عمر کو پہنچے فوت ہو جائے گا اور باوجود اس کے کہ میرے کئی اَور لڑکے تھے جو اس کے حقیقی بھائی تھے مگر مَیں نے خدا سے الہام پاکر صریح طور پر پیشگوئی میں شائع کیا تھا کہ قبل از بلوغ وفات پانے والا مبارک احمد ہے.اور صاف اور کھلے لفظوںمیں لکھا تھا کہ مبارک احمد نابالغ ہونے کی حالت میں ہی فوت ہو جائے گا.
اب ظاہر ہے کہ یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان نشان تھا جو خدا نے کھلے کھلے طور پر خبر دے دی کہ مبارک احمد بلوغ کی عمر تک نہیں پہنچے گا اور خورد سالی میں ہی فوت ہو جائے گا.اب کوئی ایمان دار سوچے کہ کیا یہ کسی اعتراض کی جگہ تھی بلکہ یہ موت تو پہلے ہی سے مقرر ہو چکی تھی اور اخباروں میں شائع ہو چکی تھی.اس لئے یہ ایک بڑا بھاری نشان تھا کیونکہ ایسے عمیق غیب پر انسان کا علم محیط نہیں ہو سکتا.مگر تعصّب کا کیا علاج.معتصب انسان اندھا ہو جاتا ہے اوراس وقت اس پر یہ شعر صادق آتا ہے.؎ چشم بد اندیش کہ برکندہ باد عیب نماید ہنرش درنظر۱؎ لیکن خدا کی قدرتوں پر قربان جائوں کہ جب مبارک احمد فوت ہوا ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا.اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُـلَامٍ حَلِیْمٍ یَنْزِلُ مَنْزِلَ الْمُبَارَکِ.یعنی ایک حلیم لڑکے کی ہم تجھے خوشخبری دیتے ہیں جوبمنزلہ مبارک احمد کے ہو گا.اور اس کا قائمقام اور اس کا شبیہ ہو گا.پس خدا نے نہ چاہا کہ دشمن خوش ہو.اس لئے اس نے بمجرد وفات مبارک احمد کے ایک دوسرے لڑکے کی بشارت دے دی تا یہ سمجھا جائے کہ مبارک احمد فوت نہیں ہوا.بلکہ زندہ ہے.اور ایک الہام میں مجھے مخاطب کر کے فرمایا.اِنِّیْ اُرِیْحُکَ وَلَا اُجِیْحُکَ وَاُخْرِجُ مِنْکَ قَوْمًا یعنی مَیں تجھے راحت دوںگا اور مَیں تیری قطع نسل نہیں کروں گا اور ایک بھاری قوم تیری نسل سے پیدا کروں گا یہ خدا کا کلام ہے جو اپنے وقت پر پورا ہو گا.اگر اس زمانہ کے بعض لوگ لمبی عمر پائیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ آج جو خدا کی طرف سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے وہ کس شان اور قوت اور طاقت سے ظہور میں آئے گی.خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.وہ خدا جس نے ابراہیم علیہ السّلام کو اور پھر موسیٰ علیہ السّلام کو اور پھر عیسیٰ علیہ السّلام کو اور سب کے بعد ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو جانی اور خونی دشمنوں سے بچایا وہ مجھے بھی بچائے گا.اور وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ دشمن اپنے کردار کی سزا پائیں گے کیونکہ خدا شریر کو دوست نہیں رکھتا.جو شخص تقویٰ سے کام نہیں لیتا اور بدزبانی میں حد سے بڑھ جاتا ہے وہ آخر پکڑا جاتا ہے.مگر خدا متقی کے ساتھ ۱ : ترجمہ شعر: بد خواہ کی آنکھ کہ خدا کرے پھوٹ جائے.اسے ہنر بھی عیب دکھائی دیتا ہے.
ہوتا ہے.یہ بھی جاننا چاہیے کہ معمولی سلسلہ مو ت کا ہر ایک بد اور نیک پر محیط ہے.کسی خاص فرقہ سے مخصوص نہیں.اگر ہماری اولاد میں سے کوئی مر گیا یا آیندہ مرے تو دشمنوں کے لئے یہ خوشی کی بات نہیں کیونکہ یہ موت ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہے.بلکہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ ہمارے گھر کے عزیزوں میں سے یا ہمارے بہت قریب متعلقین میں سے بعض کی اجل قریب ہے.سو ایسے واقعات دشمن کے لئے خوشی کی جگہ نہیں کیونکہ موت فوت سے کسی نبی کا خاندان مستثنیٰ نہیں رہا.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے کئی لڑکے فوت ہو گئے یہاں تک کہ خبیث فطرت کافروں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا نام ابتر رکھا.مگر آخر کار خدا نے فتح اور نصرت کے تمام وعدے پورے کئے یہاں تک کہ ان عرب کے کافروں کا نام و نشان نہ رہا جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو معدوم کرنا چاہتے تھے اور جزیرۂ عرب اسلام سے بھر گیا یہ سچ ہے کہ اَلْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ.سوخدا کا یہ وعدہ ہے کہ مجھ سے بھی ایسا ہی کرے گا جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے کیا.ایک دن آتا ہے کہ جن معتصب اور جانی دشمنوں کا آج مُنہ دیکھتے ہو.پھر نہیں دیکھو گے.وہ جڑ سے کاٹے جاویں گے اور ان کا نام و نشان نہیں رہے گا.اس بارے میں ان دنوں میں جو کچھ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے.وہ پیشگوئی اس جگہ لکھتا ہوں.چاہیے کہ میری جماعت اس کو یاد رکھیں.اور اس کو اپنے گھروں کے نظارہ گاہ جگہوں پر چسپاں کریں اور اپنی عورتوں اور لڑکوں کو اس سے اطلاع دیں اور جہاں تک ممکن ہو نرمی اور آہستگی سے اپنے واقف کاروں کو اس امر پر مطلع کریں کیونکہ یہ دن آنے والے ہیں اور خدا نے سب کچھ دیکھا ہے اور اب وہ ہم میں اور ہمارے اُن مخالفوں میں جو تکفیر اور گالیوں سے باز نہیں آتے فیصلہ کرے گا.وہ حلیم ہے مگر اس کا غضب بھی سب سے بڑھ کر ہے اور وہ سزا دینے میں دھیما ہے مگر اس کا قہر بھی ایسا ہے کہ فرشتے بھی اس سے کانپتے ہیں.اور اس پیشگوئی میں ہمارے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ مجھے ستایا اور گالیاں دینے اور بد زبانی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے بلکہ بعض نے ان میںسے میرے قتل کے فتوے دیئے اور وہ سب لوگ چاہتے ہیں کہ مَیں قتل کیا
جاؤں اور زمین سے نابود کیا جاؤں اور میرا تمام سلسلہ پراگندہ اور نابود ہو جائے مگر خدا جو میرے دل کی حالت کو جانتا ہے وہ وہی فیصلہ کرے گا جو اس کے علم کے موافق ہے.اس نے مجھے اپنے فیصلہ کی خبر دی ہے اور وہ یہ ہے.اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ.اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ.اِنَّکَ بِمَنْزِلَۃِ رَحَی الْاِسْلَامِ اٰثَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ.ترجمہ.تو نے دیکھ لیا یعنی تو ضرور دیکھے گا کہ اصحاب الفیل یعنی وہ جو بڑے حملے والے ہیں اور جو آئے دن تیرے پر حملہ کرتے ہیں اور جیسا کہ اصحاب الفیل نے خانہ کعبہ کو نابود کرنا چاہا تھا وہ تجھے نابود کرنا چاہتے ہیں ان کا انجام کیا ہو گا؟ یعنی ان کا وہی انجام ہو گا جو اصحاب الفیل کا ہوا.پھر فرمایا.وَ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ.یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ.یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم الہام کریں گے.وہ دُور دراز جگہوں سے تیرے پاس آویں گے.اس جگہ استعارہ کے رنگ میں خدا تعالیٰ نے مجھے بیت اللہ سے مشابہت دی.کیونکہ آیت یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ خانہ کعبہ کے حق میں ہے.اور پھر فرمایا کہ تو مجھ سے بمنزلہ اسلام کی چکّی کے ہے.اس چکی میں جو پڑے گا.وہ آخر کو پیسا جائے گا.یعنی تجھ سے لڑنے والے اور تیرے پر حملہ کرنے والے سلامت نہیں رہیں گے اور پھر فرمایا کہ تیرے مخالفوں کا اخزاء اور افناء تیرے ہی ہاتھ سے مقدرتھا یعنی جو لوگ تجھے رُسوا اور ہلاک کرنا چاہتے ہیں وہ آپ ہی رُسوا اور ہلاک ہوں گے اور پھر فرمایا.اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ الرَّحْمٰنُ ذُوالْعِزِّ وَالسُّلْطَانِ.مَنْ عَادَا وَلِیًّا لِیْ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ.اِنِّیْ مَوْجُوْدٌ فَانْتَظِرْ.سَیَنَالُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ ذَکَّـاھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاھَا.قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ لَکُمْ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ.اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْبَرَکَاتِ.یَاعَبْدَ اﷲِ
اِنِّیْ مَعَکَ.وَالضُّحٰی وَاللَّیْلِ اِذَا سَجٰی.مَاوَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی.یعنی مَیں رحمان ہوں.صاحب ِ عزت اور سلطنت جو شخص میرے ولی سے دشمنی کرے گویا وہ آسمان سے گر گیا.مَیں موجود ہوں پس میرے فیصلہ کا منتظر رہ.جو لوگ عداوت سے باز نہیں آتے عنقریب اُن پر غضب الٰہی نازل ہو گا.ہم عذاب نازل نہیں کیا کرتے مگر اس حالت میں کہ جب پہلے رُسول آ جاوے.یعنی دنیا پر عذاب شدید نازل ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول آ گیا ہے.اور پھر فرمایا کہ عذاب سے وہ لوگ نجات پائیں گے.جنہوں نے دلوں کو پاک کیا اور وہ لوگ سزا پائیں گے جنہوں نے اپنے نفسوں کو گندہ کیا.اور پھر فرمایا کہ مَیں تیری نسل کو جڑ سے معدوم نہیں کروں گا بلکہ جو کچھ کھویا گیا وہ تجھے خدائے کریم واپس دے گا.ان کو کہہ دے کہ مَیں تمہارے لئے مامور ہو کر آیا ہوں.پس وہی کرو جو مَیں حکم کرتا ہوں.یہ برکت کے دن ہیں ان کا قدر کرو.اے خدا کے بندے مَیں تیرے ساتھ ہوں.مجھے روز روشن کی قسم ہے اور اس رات کی جو تاریک ہو جو تیرے ربّ نے تجھے دشمن نہیں پکڑا.اور پھر اردو میں فرمایا کہ ہر ایک حال میں تمہارے ساتھ موافق ہوں اور تیرے منشاء کے مطابق.اور پھر فرمایا.لَکُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰـوۃِ الدُّنْیَا خیرو نصرت و فتح انشاء اللہ تعالیٰ.وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.اِنِّیْ مَعَکَ ذَکَرْتُکَ فَاذْکُرْنِیْ وَسِّعْ مَکَانَکَ حَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُرْفَعُ بَیْنَ النَّاسِ اِنِّیْ مَعَکَ یَا اِبْرَاھِیْمُ اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ اِنَّکَ مَعِیْ وَاَھْلُکَ اِنِّیْ اَنَا الرَّحْمَانُ فَانْتَظِرْ قُلْ یَاْخُذَکَ اﷲُ.یعنی تمہارے لئے دنیا اور آخر ت میں بشارت ہے.نیز انجام نیک ہے.خیر ہے اور نصرت اور فتح انشاء اللہ تعالیٰ.ہم تیرا بوجھ اتار دیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی اور تیرے ذکر کو اُونچا کر دیں گے.مَیں تیرے ساتھ ہوں.مَیں نے تجھے یاد کیا ہے.سو تو مجھے بھی یاد کر اور اپنے مکان
کو وسیع کر دے.وہ وقت آتا ہے کہ تو مدد دیا جائے گا اور لوگوں میں تیرا نام عزت اور بلندی سے لیا جائے گا.مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم اور ایسا ہی تیرے اہل کے ساتھ اور تو میرے ساتھ ہے اور ایسا ہی تیرے اہل.مَیں رحمان ہوں.میری مدد کا منتظر رہ اور اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا.اور پھر آخر میں اُردو میں فرمایا کہ مَیں تیری عمر کو بھی بڑھا دوں گا.یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی ۱۹۰۷ء سے چودہ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں.یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں ان سب کو مَیں جھوٹھا کروں گا اور تیری عمر کو بڑھا دوں گا تا معلوم ہو کہ مَیں خدا ہوں اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے.یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں میری فتح اور دشمن کی شکست اور میری عزت اور دشمن کی ذلّت اور میرا اقبال اور دشمن کا ادبار بیان فرمایا ہے اور دشمن پر غضب اور عقوبت کا وعدہ کیاہے.مگر میری نسبت لکھا ہے کہ دنیا میں تیرا نام بلند کیا جائے گا.اور نصرت اور فتح تیرے شامل حال ہو گی اور دشمن جو میری موت چاہتا ہے وہ خود میری آنکھوں کے رو برو اصحاب الفیل کی طرح نابود اور تباہ ہو گا.خدا ایک قہری تجلّی کرے گا اور وہ جو جھوٹھ اور شوخی سے باز نہیں آتے ان کی ذلّت اور تباہی ظاہر کرے گا.مگر میری طرف ایک دنیا کوجھکا دے گا اور میرا نام عزت کے ساتھ دُنیا کے ہر ایک کنارہ میں پھیلا دے گا.سو چاہیے کہ میری جماعت کے لوگ اس پیشگوئی کے منتظر رہیں اور تقویٰ وطہارت سے پاک نمونہ دکھاویں.اس پیشگوئی کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی ہے کہ ایک سخت طاعون اس ملک میں اور دوسرے ممالک میں بھی آنے والی ہے جس کی نظیر پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی.وہ لوگوں کو دیوانہ کی طرح کر دے گی.معلوم نہیں کہ اس سال یا آئندہ سال میں ظاہر ہو گی.مگر خدا مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ مَیں تجھے اور تمام ان لوگوں کو جو تیری چاردیواری کے اندر ہیں بچائوں گا.گویا اس دن یہ گھر نوح کی کشتی ہو گا جو شخص اس گھر میں داخل ہو جائے گا وہ بچایا جائے گا اور خد
نے فرمایا مَیں روزہ بھی رکھوں گا اور افطار بھی کروں گا اور اس گھڑی تک جس کو بجز خدا کے کوئی نہیں جانتا میرا عذاب دنیا کے شامل حال رہے گا اور طاعون دُور نہیں ہو گی اور کبھی دُور نہیں ہو گی جب تک کہ لوگ اپنی اصلاح کر کے نیکی اور خدا کی طرف رجوع نہ کریں.خدا چاہتا ہے کہ زمین گناہ سے پاک ہو جائے.سو اس لئے ایک طرف اس نے طاعون اور کئی اور عذاب بھیجے اور دوسری طرف اپنے راہ کی منادی کرنے والا بھیجا تا زمین کو گناہ سے پاک کرے.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی خاکســـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار میرزا غلام احمد ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء ( یہ اشتہار ۱۳×۱۶ سائز پیپر پر انوار احمدیہ مشین پریس قادیان میں طبع ہو کر شائع ہوا) (الحکم جلد۱۱ نمبر۴۰ مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ تا ۶) و (بدرنمبر۴۶ جلد۶ مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ تا ۶)
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ۱؎ آمین.اے ہمارے خدا ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تُو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.------------------------------ جب سے خدا نے مجھے مسیح موعود اور مہدی ۲؎ معہود کا خطاب دیا ہے میری نسبت جوش اور غضب اُن لوگوں کا جو اپنے تئیں مسلمان قرار دیتے ہیں اور مجھے کافر کہتے ہیں انتہا تک پہنچ گیا ہے.؎ الاعراف : ۹۰ ۲؎ حاشیہ.بعض کم سمجھ لوگ جو کتاب اللہ اور حدیث نبوی میں تدبر نہیں کرتے وہ میرے مہدی ہونے کو سُن کر یہ کہا کرتے ہیں کہ مہدی موعود تو سادات میں سے ہو گا.سو یاد رہے کہ باوجود اس قدر جوش مخالفت کے ان کو احادیث نبویہ پر بھی عبور نہیں.مہدی کی نسبت احادیث میں چار قول ہیں.(۱) ایک یہ کہ مہدی سادات میں سے ہو گا.(۲)دوسرے یہ کہ قریش میں سے سادات ہوں یا نہ ہوں.(۳)تیسرے یہ حدیث کہ رَجُلٌ مِّنْ اُمَّتِیْ یعنی مہدی میری امت میں سے ایک مرد ہے خواہ کوئی ہو (۴) چوتھے یہ حدیث ہے کہ لَا مَھْدِیَ اِلَّا عِیْسٰی یعنی بجز عیسیٰ کے اور کوئی مہدی نہیں ہو گا.وہی مہدی ہے جو عیسیٰ کے نام پر آئے گا.اسی آخری قول کے مصدق وہ اقول محدثین ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ مہدی کے بارے میں جس قدر احادیث ہیں بجز حدیث عیسیٰ مہدی کے کوئی ان حدیثوں میں سے جرح سے خالی نہیں مگر عیسیٰ کا مہدی ہونا بلکہ سب سے بڑا مہدی ہونا تمام اہل حدیث اور اَئمہ اربعہ کے نزدیک بغیر کسی نزاع کے مسلّم ہے.پس مَیں وہی مہدی ہوں جو عیسیٰ بھی کہلاتا ہے.اور اس مہدی کے لئے شرط نہیں ہے کہ حسنی یا حسینی یا ہا شمی ہو.منہ
ہے.پہلے مَیں نے صاف صاف ادلّہ کتاب اللہ اور حدیث سے اپنے دعوٰی کو ثابت کیا مگر قوم نے دانستہ ان دلائل سے مُنہ پھیر لیا اور پھر میرے خدا نے بہت سے آسمانی نشان میری تائید میں دکھلائے مگر قوم نے اُن سے بھی کچھ فائدہ نہ اُٹھایا.اور پھر ان میں سے کئی لوگ مباہلہ کے لئے اُٹھے اور بعض نے علاوہ مباہلہ کے الہام کا دعویٰ کر کے یہ پیشگوئی کی کہ فلاں سال یا کچھ مدت تک ان کی زندگی میں ہی یہ عاجز ہلا ک ہو جائے گا مگر آخر کار وہ میری زندگی میں خود ہلاک ہو گئے.مگر نہایت افسو س ہے کہ قوم کی پھر بھی آنکھ نہ کھلی اور انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ہر ایک پہلو سے وہ مغلوب نہ ہوتے.قرآن شریف ان کو جھوٹا ٹھہراتا ہے.معراج کی حدیث اور حدیث امامکم منکم ان کو جھوٹا ٹھہراتی ہے.مباہلوں کا انجام ان کو جھوٹا ٹھہراتا ہے.پھر ان کے ہاتھ میں کیا ہے جو خدا کے اس فرستاوہ کی دلیری سے تکذیب کر رہے ہیں جو تقریباً چھبیس ۲۶برس سے ان کو حق اور راستی کی طرف بلا رہا ہے.کیا اب تک انہوں نے آیہ کریمہ یُصِبْکُمْ ۱؎ کا مزہ نہیں چکھا.کہاں ہے مولوی غلام دستگیر جس نے اپنی کتاب فیض رحمانی میں میری ہلاکت کے لئے بد دُعا کی تھی اور مجھے مقابل پر رکھ کر جھوٹے کی موت چاہی تھی؟کہاں ہے مولوی چراغ دین جموں والا جس نے الہام کے دعوے سے میری موت کی خبر دی تھی اور مجھ سے مباہلہ کیا تھا.کہاں ہے فقیر مرزا جو اپنے مریدوں کی ایک بڑی جماعت رکھتا تھا جس نے بڑے زور شور سے میری موت کی خبر دی تھی اور کہا تھا کہ عرش پر سے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ شخص مفتری ہے آیندہ رمضان تک میری زندگی میں ہلاک ہو جائے گا.لیکن جب رمضان آیا تو پھر آپ ہی طاعون سے ہلاک ہو گیا.کہاں ہے سعد اللہ لودہانوی؟ جس نے مجھ سے مباہلہ کیا تھا اور میری موت کی خبر دی تھی.آخر میری زندگی میں ہی طاعون سے ہلاک ہو گیا.کہاں ہے مولوی محی الدین لکھوکے والا؟ جس نے مجھے فرعون قرار دے کر اپنی ندگی میں ہی میری موت کی خبر دی تھی اور میری تباہی کی نسبت کئی اور الہام شائع کئے تھے
آخر وہ بھی میری زندگی میں ہی دُنیا سے گذر گیا.کہاں ہے بابو الہٰی بخش صاحب مؤلف ’’عصائے موسٰی‘‘ اکونٹنٹ لاہور ؟ جس نے اپنے تئیں موسیٰ قرار دے کر مجھے فرعون قرار دیا تھا اور میری نسبت اپنی زندگی میںہی طاعون سے ہلاک ہونے کی پیشگوئی کی تھی.اور میری تباہی کی نسبت اور بھی بہت سے پیشگوئیاں کی تھیں.آخر وہ بھی میری زندگی میں ہی اپنی کتاب عصائے موسٰی پر جھوٹ اور افتراء کا داغ لگا کر طاعون کی موت سے بصد حسرت مرا.اور ان تمام لوگوںنے چاہا کہ مَیں اس آیت کا مصداق ہو جائوں کہ اِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ لیکن وہ آپ ہی اس آیت ممدوحہ کا مصداق ہو کر ہلاک ہو گئے اور خدا نے ان کو ہلاک کر کے مجھ کو اس آیت کا مصد اق بنا دیا.وَ اِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ.کیا ان تمام دلائل سے خدا تعالیٰ کی حجت پوری نہیں ہوئی مگر ضرور تھا کہ مخالف لوگ انکار سے پیش آتے کیونکہ پہلے سے یعنی آج سے چھبیس۲۶ برس پہلے براہین احمدیہ میں خدا کی یہ پیشگوئی موجود ہے.دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.سو ہم ایمان رکھتے ہیں کہ خدا اپنے حملوں کو نہیں روکے گا اور نہ بس کرے گا جب تک کہ دُنیا پرمیری سچائی ظاہر نہ ہو جائے.ٍ لیکن آج ۱۵؍ مئی ۱۹۰۸ء کو میرے دل میں ایک خیال آیا ہے کہ ایک اَور طریق فیصلہ کا ہے شاید کوئی خدا ترس اس سے فائدہ اُٹھاوے اور انکار کے خطرناک گرداب سے نکل آوے اور وہ طریق یہ ہے کہ میرے مخالف منکروں میں سے جو شخص اشد مخالف ہو اور مجھ کو کافر اور کذّاب سمجھتا ہو ۱؎ وہ کم سے کم دس۱۰ نامی مولوی صاحبوں یا دس ۱۰نامی رئیسوں کی طرف سے منتخب ہو کر اس طور سے مجھ سے مقابلہ کرے جو دو سخت بیماروں پر ہم دونوں اپنے صدق و کذب کی آزمایش کریں یعنی اس طرح پر کہ دو خطرناک بیمار لے کر جو جُدا جُدا بیماری کی قسم میں مبتلا ہوں قرعہ اندازی کے ۱.یہ بھی شرط ہے کہ وہ شخص عام لوگوں میں سے نہ ہو بلکہ قوم میں خصوصیت اور علمیت اور تقویٰ کے ساتھ مشہور ہو جس کا مغلوب ہونے کی حالت میں دوسروں پر اثر نہ پڑ سکے.منہ
ذریعہ سے دونوں بیماروں کو اپنی اپنی دُعا کے لئے تقسیم کر لیں.پھر جس فریق کا بیمار بکلّی اچھا ہو جاوے یا دوسرے بیمار کے مقابل پر اس کی عمر زیادہ کی جائے وہی فریق سچا سمجھا جاوے.یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اور مَیں پہلے سے اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر بھروسہ کر کے یہ خبر دیتا ہوں کہ جو بیمارمیرے حصہ میں آوے گا یا تو خدا اس کو بکلّی صحت دے گا اور یا بہ نسبت دوسرے بیمار کے اس کی عمر بڑھا دے گا اور یہی امر سچائی کا گواہ ہو گا.اور اگر ایسا نہ ہوا توپھر یہ سمجھو کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.لیکن یہ شرط ہو گی کہ فریق مخالف جو میرے مقابل پر کھڑا ہو گا وہ خود اور ایسا ہی دس اور مولوی یا دس رئیس جو اس کے ہم عقیدہ ہوں یہ شائع کر دیں کہ درحالت میرے غلبہ کے وہ میرے پر ایمان لائیں گے اور میری جماعت میں داخل ہوں گے اور یہ اقرار تین نامی اخباروں میں شائع کرانا ہو گا.ایسا ہی میری طرف سے بھی یہی شرائط ہوں گی … اس قسم کے مقابلہ سے فائدہ یہ ہو گا کہ کسی خطرناک بیمار کی جو اپنی زندگی سے نو مید ہو چکا ہے.خد تعالیٰ جان بچائے گا اور احیاء ِمو ٰتی کے رنگ میں ایک نشان ظاہر کرے گا اور دوسرے یہ کہ اس طور سے یہ جھگڑا بڑے آرام اور سہولت سے فیصلہ ہو جائے گا.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشتہر میرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ۱۵ ؍مئی ۱۹۰۸ء (چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ ۲ تا۴)
قابل توجہ ناظرین اے پیارے ناظرین خدا آپ صاحبوں کے دلوں میں سچائی کا الہام کرے اور میری کوشش کو جو میں نے سراسر ہمدردی اور نیک نیّتی سے کی ہے آپ لوگوں کے لئے مفید بناوے.آمین! اس کتاب کا پہلا حصہ جو میری طرف سے آریہ سماج کے جلسہ میں سنایا گیا تھا.مَیں نے وہ حصہ اس کتاب کے آخر میں شامل کردیا ہے.اور میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اوّل اُن تمام اعتراضات کا جواب لکھوں جو نہایت بُرے پیرایہ اور بدتہذیبی سے آریہ صاحبوں کی طرف سے ایک عام مجمع میں حاضرین کادل دُکھانے کے لئے پڑھے گئے تھے.اور بعد میں کتاب کے آخر میں اپنا وہ مضمون شامل کردوں جو میری طرف سے اس جلسہ میں پڑھا گیا تھا.اور اِسی غرض سے میں نے اُس پہلے حصہ کی اشاعت اس وقت تک روک رکھی تھی جب تک کہ میں آریہ صاحبوں کے اعتراضات کا جواب لکھ لوں.سو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالْمَنَّۃِ کہ وہ جواب پورے طور پر لکھا گیا.اس لئے میں نے وہ مضمون جو جلسہ میں پڑھا گیا تھا اس رسالہ کے آخر میں لگا دیا ہے.ہمیںآریہ صاحبوں پر یہ افسوس نہیں کہ انہوںنے اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں اعتراض کئے.کیونکہ منکر کو تہذیب اور شرافت کے ساتھ اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے بلکہ ہمارا تمام افسوس اس بات پر ہے کہ انہوں نے شرافت اور تہذیب سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے مضمون میں نہایت درندگی اور ناپاکی سے کام لیا.اور اپنے مضمون کو ایک گالیوں کامجموعہ بنادیا اور کھلے کھلے طورپر ارادہ کیا کہ اُن معزز مسلمانوں کا دل دکھایا جائے جن کو آپ ہی دھوکہ دے کر بلایا اور آپ ہی شرط لگادی تھی کہ مہذبانہ
طور پرمضمون سنائے جائیں گے.اس بات کو کون نہیں سمجھ سکتا کہ اگر بدنیّتی نہ ہو تو ایک شخص اپنے اعتراض کو نیک اور پاک پیرایہ میں بیان کرسکتا ہے ورنہ ایک مفسد آدمی ایک سیدھی بات کو بھی جو نرمی اور شرافت سے ادا کرسکتا تھا گالی اور ہنسی ٹھٹھے کے پیرایہ میں بیان کرسکتا ہے.سو ہم نے ان لوگوں کے جواب میں جس قدر تلخی اور مرارت بعض مقامات میں استعمال کی ہے وہ کسی نفسانی جوش کی وجہ سے نہیں بلکہ ہم نے اُن کی شورہ پشتی کا تدارک اسی میں دیکھا کہ جواب تُرکی بتُرکی دیا جائے ہمیں اس طریق سے سخت نفرت ہے کہ کوئی تلخ اور ناگوار لفظ استعمال کیا جائے.مگر افسوس ! کہ ہمارے مخالف انکار کے جوش میں آکر انجام کار گالیوں پر اُتر آتے ہیں.اور آریہ صاحبان اگر ذرہ اپنے گریبان میںمنہ ڈال کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگاکہ اسلام پر اعتراض کرنے کا اُن پر بالکل راہ بند ہے.ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اسلام میں کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہندوئوں کے کسی فرقہ سے مطابقت اور توارد نہ رکھتا ہو.یہ تو ظاہر ہے کہ وید کی پیروی کادعویٰ کرنے والے صرف آریہ سماج والے ہی نہیں ہیں بلکہ یہ تو ایک نیا فرقہ سمجھا جاتا ہے.اور پرا نے فرقے جو وید پر چلنے کے مدعی ہیں جو اس ملک پنجاب اور ہندوستان میں کروڑہا پائے جاتے ہیں اُن کی طرف دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کیا عقائد رکھتے ہیں.انہیں میں آتش پرست بھی پائے جاتے ہیں اور انہیں میں آفتاب پرست بھی اور انہیں میں سے بت پرست بھی ہیں.اوروہ لوگ بھی جو ہر سال کئی لاکھ ہردوار کے میلہ پرجمع ہوتے اور گنگا مائی سے مرادیں مانگتے ہیں.اور وہ بھی جو جگن ناتھ جی کادرشن کرنا اور پہیہ کے نیچے کچلے جانا اپنا فخر سمجھتے ہیں.اور وہ بھی ہیں جو اب تک کانگڑہ کے مندر پر جانوروں کی قربانیاں چڑھاتے ہیں.اور وہ بھی جو انسانی قربانی کو بھی روا رکھتے ہیں اور جل پروا کی رسم کے بھی حامی ہیں.آخریہ سب لوگ یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ وید کے پیرو ہیں.بلکہ شاکت مت والے بھی تو اسی قوم میں سے ہیں جو فسق و فجور میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ بدکاریوں کا میدان اس قدر انہوں نے فراخ کردیا ہے جو حقیقی ماں یا بہن یا لڑکی سے بھی حرام کاری کرنا کچھ مضائقہ نہیں سمجھتے کیا وہ آریہ نہیں ہیں.پھر جبکہ وید کی پیروی کرنے والے فسق و فجور اور شرک اورمخلوق پرستی میں اس حد تک پہنچے ہوئے ہیں کہ دنیا میں اُن کی نظیر نہیں مل سکتی توکیا لازم تھا کہ اسلام
جیسے پاک مذہب پر اعتراض کیا جاتا ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اسلام میں کوئی بھی ایسا امر نہیں کہ جو ہندو مذہب کی کسی نہ کسی شاخ میں نہ پایا جاتا ہو؟ اور اسلام اپنی کامل توحید کے ساتھ ایسا مخصوص ہے کہ وید میں اس کا نمونہ تلاش کرنا لاحاصل ہے.تا ہم ہمارا یہی اعتقاد ہے کہ گو موجودہ تعلیم وید کی ایک گمراہ کرنے والی تعلیم ہے لیکن کسی زمانہ میں وہ ان بیہودہ تعلیموں سے پاک ہوگا.اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اس ملک میں خدا کے نبی ہوئے ہیں کیونکہ جس جگہ بیمار ہے اُس جگہ طبیب کا ہونا بھی ضروری ہے.ہمیں افسوس ہے کہ آریہ صاحبوں نے مسلمانوں کو اپنے گھر پر بلا کر وہ گندہ نمونہ اپنے اخلاق کا دکھلایا جس کو ہم کبھی نہیں بھولیں گے آخر شرافت بھی کچھ چیز ہے.راقــــــــــــــــــــــــــــــــــم مرزا غلام احمد قادیانی ۲۰؍ مئی ۱۹۰۸ء (چشمۂ معرفت ، روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ ۳۶۹ تا ۳۷۲)
دعوٰیٔ نبوت کی وضاحت میں ایڈیٹر اخبار عام.لاہور کے نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اہم مکتوب جناب ایڈیٹر صاحب اخبار عام پرچہ اخبار عام ۲۳؍ مئی ۱۹۰۸ء کے پہلے کالم کی دوسری سطر میں میری نسبت یہ خبر درج ہے کہ گویا مَیں نے جلسۂ دعوت میں نبوت سے انکار کیا.اس کے جواب میں واضح ہو کہ اس جلسہ میں مَیں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ مَیں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہا ہوں اور اب بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا مَیں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنے ہیں کہ مَیں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں، یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعوٰی نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے.اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ مَیں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے.اور جس بنا پر مَیں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آیندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک
انسان کو اس کے ساتھ خصوصیّت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہیں امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے.سو مَیں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر مَیں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہو گا.اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو مَیں کیونکر انکار کر سکتا ہوں.مَیں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دُنیا سے گذر جائوں.مگر مَیں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا مَیں اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں.میری گردن اس جوُئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا.اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شوشہ قرآن شریف کا منسوخ کرسکے.سو مَیں صرف اس وجہ سے نبی کہلاتاہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بکثرت پیشینگوئی کرنے والا اور بغیر کثرت کے یہ معنی تحقیق نہیں ہو سکتے جیسا کہ صرف ایک پیسہ سے کوئی مالدار نہیں کہلا سکتا.سو خدا نے مجھے اپنے کلام کے ذریعہ سے بکثرت علم غیب عطا کیاہے اور ہزارہا نشان میرے ہاتھ پر ظاہر کئے ہیں اور کر رہا ہے.مَیں خود ستائی سے نہیں مگر خدا کے فضل اور اس کے وعدہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ اگر تمام دُنیا ایک طرف ہو اور ایک طرف صرف مَیں کھڑا کیا جائوں اور کوئی ایسا امر پیش کیا جائے جس سے خدا کے بندے آزمائے جاتے ہیں تو مجھے اس مقابلہ میں خدا غلبہ دے گا اور ہر ایک پہلو کے مقابلہ میں خدا میرے ساتھ ہو گا اور ہر ایک میدان میں وہ مجھے فتح دے گا.بس اسی بناء پر خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے.اس زمانہ میں کثرت مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ اور کثرت اطلاع برعلوم غیب صرف مجھے ہی عطا کی گئی ہے اور جس حالت میں عام طور پر لوگوں کو خوابیں بھی آتی ہیں بعض کو الہام بھی ہوتا ہے اور کسی قدر ملونی کے ساتھ علم غیب سے بھی اطلاع دی جاتی ہے مگر وہ الہام مقدار میں نہایت قلیل ہوتا ہے اور اخبار غیبیہ بھی اس میں نہایت کم ہوتی ہیں اور باوجود کمی کے مشتبہ اور مکدّر اور خیالات نفسانی سے آلودہ ہوتی ہیں تو اس صورت میں عقل سلیم خود چاہتی ہے کہ جس کی وحی اور علم غیب اس کدورت اور نقصان سے پاک ہو اس کو دوسرے معمولی انسانوں کے ساتھ نہ ملایا جائے بلکہ اس کو کسی خاص نام کے ساتھ پکارا جائے
تاکہ اُس میں اور اس کے غیر میں امتیاز ہو.اس لئے محض مجھے امتیازی مرتبہ بخشنے کے لئے خدا نے میرا نام نبی رکھ دیا اور یہ مجھے ایک عزت کا خطاب دیا گیا ہے تاکہ ان میں اور مجھ میں فرق ظاہر ہو جائے.ان معنوں سے مَیں نبی ہوں اور امّتی بھی ہوں تاکہ ہمارے سیّد و آقا کی وہ پیشگوئی پوری ہو کہ آنے والا مسیح امّتی بھی ہو گا اور نبی بھی ہو گا.ورنہ حضرت عیسیٰ جن کے دوبارہ آنے کے بارے میں ایک جھوٹی امید اور جھوٹی طمع لوگوں کو دامنگیر ہے وہ امّتی کیونکر بن سکتے ہیں.کیا آسمان سے اُتر کر نئے سرے وہ مسلمان ہو ں گے اور کیا اس وقت ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء نہیں رہیں گے.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی الراقـــــــــــــــــــــــــــــــــــــم خاکسار اَلْمُفْتَقِرْاِلَی اﷲِ الْاَحَدْ غلام احمد عفی اﷲ عنہ ۲۳؍ مئی ۱۹۰۸ء از شہر لاہور یہ خط ہندو اخبار عام لاہور نے مورخہ ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء کے صفحہ ۷ کالم اوّل سے کالم ۳ تک میں شائع کیا ہے.(مرتب) (البدر مورخہ ۱۱؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰)