Majmua Ishtiharat Volume 2

Majmua Ishtiharat Volume 2

مجموعہ اشتہارات (جلد 2)

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنی زندگی میں مختلف اغراض و ضروریات کے پیش نظر کسی تحریک ، تلقین ، تجویز ، وضاحت یا چیلنج پر مبنی چھوٹے بڑے اشتہارات شائع کرواکر لوگوں تک پہنچائے، ان کو بعد میں تبلیغ رسالت کے عنوان سے کتابی شکل دی گئی، بعد ازاں یہی مواد نسبتاً بہتر پیشکش اور اضافوں کے ساتھ مجموعہ اشتہارات کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

OOOOOOOOOOOXXXXXXXXX مجموعه اشتهارات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی مفهود عليه السلام جلد دوم

Page 2

مجموعہ اشتہارات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام (جلد دوم) Majmua-e-Ishtihaaraat (Vol: 2) A Collection of Announcements of Hazrat Mirza Ghulam Ahmad of Qadian, The Promised Massiah and Mahdi (1835-1908).Peace be upon him.(Volume 2) c Islam International Publications Ltd.First Published in Rabwah, Pakistan in 3 Volumes (1972, 1973 and 1975 as Vol.1,2 & 3) Reprinted in UK in 1989 (3 Volumes Set) Revised Edition Published in Rabwah, Pakistan in 2006 (2 Volumes Set) Presnt Revised Edition Pulished in the UK in 2018 (3 Volumes Set) Pulished by: Islam International Pulications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guilford Road, Farnham, Surrey UK GU9 9PS Printed in the UK at : ISBN: 978-1-84880- 185-1 (Set Vol.1-3)

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ پیش لفظ باراول حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۷۸ء سے اپنے وصال ۱۹۰۸ء تک جو بے شمار اشتہارات شائع فرمائے تھے وہ مذہبی دنیا کی تاریخ کا ایک عظیم سرمایہ ہے.اسلام کی حقانیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اثبات میں ان اشتہارات کی بڑی قیمت ہے.حضور نے اپنے معاندین کو جتنے چیلنج اتمام حجت کے لئے دیئے اکثر وہ اشتہارات میں ہی درج ہیں.اہم پیشگوئیوں کے پس منظر اور تفصیلات کو تبھی سمجھا جا سکتا ہے جب ان اشتہارات کا ترتیب وار مطالعہ کیا جائے.حضور کے یہ اشتہارات حجج قاطعہ و براہین نیزہ اور زندہ خدا کے زندہ کلام سے پُر ہیں.اور اس روحانی اسلحہ کا ایک اہم حصہ ہیں جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دشمنانِ اسلام پر غلبہ کے لئے عطا فرمائے تھے.حضور نے اپنی کتاب ”فتح اسلام میں تائید حق اور اشاعت اسلام کے لئے جن پانچ شاخوں کا ذکر بایمائے الہی فرمایا ہے.ان میں ایک اہم شاخ اشتہارات کی ہے.حضور فرماتے ہیں: دنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.یہ انسان کی بات نہیں خدا تعالیٰ کا الہام اور رب جلیل کا کلام ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان حملوں کے دن نزدیک ہیں.مگر یہ حملے تیغ و تبر سے نہیں ہوں گے اور تلواروں اور بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی.بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد اترے گی اور ہر ایک حق پوش دقبال دُنیا پرست یک چشم جو دین کی آنکھ نہیں رکھتا

Page 4

حُجت قاطعہ کی تلوار سے قتل کیا جائے گا اور سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کرلیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی.مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خُدا کی تجلی موقوف ہے.اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے رو برا ہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہوا اپنی طرف سے قائم کرتا.سو اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دُنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا.دوسری شاخ اس کا خانہ کی اشتہار جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکم الہی اتمام حجت کی غرض سے جاری ہے.اور اب تک ہیں ہزار سے کچھ زیادہ اشتہارات اسلامی حجتوں کو غیر قوموں پر پورا کرنے کے لئے شائع ہو چکے ہیں اور آئندہ ضرورت کے وقتوں میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے.“ ( فتح اسلام ) 66 مجموعہ اشتہارات کو پہلے حضرت میر قاسم علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تبلیغ رسالت کے نام سے شائع فرمایا تھا.اب مزید اشتہارات کی تلاش کر کے مکرم و محترم مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری نے اس مجموعہ میں اضافہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی اس محنت کو قبول فرمائے اور اس کی انہیں جزاء خیر عطا فرمائے.والسلام ظہور احمد باجوہ مینجنگ ڈائریکٹر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹیڈر بوہ

Page 5

ج بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ پیش لفظ بار دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی ماموریت سے قبل اور دعویٰ ماموریت کے بعد وقتا فوقتاً جواشتہارات شائع فرمائے تھے انہیں حضور علیہ السلام کی زندگی میں ہی کئی اصحاب نے جمع کر کے کتابی شکل میں شائع کرنے کے لئے کام شروع کیا تھا تا ہم سب سے پہلے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار بدر کو ” مجموعہ اشتہارات کے نام سے چھ جلدوں میں انہیں شائع کرنے کی توفیق ملی انہوں نے دیباچہ میں لکھا ہے کہ اکثر اشتہارات آپ کو حضرت پیر منظور محمد صاحب سے ملے تھے.لیکن ان کے مجموعہ میں کوئی ترتیب نہیں تھی صرف اشتہارات کو محفوظ کرنا مقصود تھا.ان کے بعد حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق نے انہیں تاریخ وار ترتیب دے کر مزید اشتہارات جوان کو ملے تھے انہیں شامل کر کے تبلیغ رسالت کے نام سے شائع کیا.تقسیم ملک کے بعد حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری نے مزید اشتہارات تلاش کر کے انہیں شامل کیا جنہیں ” مجموعہ اشتہارات کے نام سے الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ نے تین جلدوں میں شائع کیا.اسی ایڈیشن کا Reprint جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی 1989ء کے موقع پر انگلستان سے شائع ہوا.موجودہ ایڈیشن میں وہ اشتہارات بھی شامل کئے گئے ہیں جو مجموعہ اشتہارات کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت تک دستیاب نہیں ہوئے تھے یا جنہیں پہلے کسی وجہ سے اشتہارات میں شامل نہیں کیا گیا تھا

Page 6

و اور وہ اشتہارات بھی شامل کئے گئے ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزی میں ترجمہ کروا کر حکومت ہند کے برطانوی افسروں کو احمد یہ جماعت کے قیام کے مقاصد اور عقاید سے متعارف کرانے کے لئے شائع فرمائے تھے.ان میں سے بعض وہ انگریزی اشتہارات بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے تو شائع نہیں ہوئے مگر حضور کی نگرانی میں میمورنڈم کے طور پر جماعت کی طرف سے شائع ہوتے رہے.چونکہ یہ جماعتی تاریخ کا قیمتی سرمایہ تھا اس لئے ان کو محفوظ کرنے کے لئے انہیں موجودہ ایڈیشن کی تیسری جلد میں شامل کیا جارہا ہے.اسی طرح اس مجموعہ میں ایسے اشتہارات بھی شامل کئے گئے ہیں جو اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تو نہیں لیکن جماعت کی تاریخ میں ان کی خاص اہمیت ہے مثلاً حضرت صوفی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ کا وہ اشتہار جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی ماموریت سے پہلے حضور کی تصنیف براہین احمدیہ کی تائید میں لکھا تھا اور جس میں وہ فرماتے ہیں.سب مریضوں کی ہے تمہی یہ نگاہ تم مسیحا بنو خدا کے لئے اس ایڈیشن کی تیاری میں مولوی فضل کریم صاحب تبسم سابق مبلغ افریقہ.مقصود احمد صاحب قمر.مبارک احمد صاحب نجیب اور مولوی سلطان احمد صاحب شاہد نے مختلف خدمات سرانجام دی ہیں اور محترم حبیب الرحمن صاحب زیروی نے نایاب اردو اور انگریزی اشتہارات کی تلاش میں بہت مدددی ہے.احباب ان سب کو اپنی دعاؤں میں یا در ھیں.والسلام سید عبدالحی ناظر اشاعت

Page 7

بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم عرض حال حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تصنیف منیف ”فتح اسلام میں رقم فرمایا ہے.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ آب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ مہم عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا.سو اُس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا.“ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱ تا۱۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشاعت اسلام کے لئے اس عظیم الشان کارخانہ کی پانچ شاخوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.وو ” دوسری شاخ اس کارخانہ کی اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکم الہی اتمام حجت کی غرض سے جاری ہے اور اب تک ہیں "ہزار سے کچھ زیادہ اشتہا رات اسلامی حجتوں کو غیر قوموں پر پورا کرنے کے لئے شائع ہو چکے ہیں اور آئندہ ضرورت کے وقتوں میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے.“ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۳)

Page 8

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی حیاۃ مبارکہ میں ۱۸۷۸ء سے مختلف مواقع پر حسب ضرورت اشتہارات کا یہ سلسلہ جاری فرمایا جو آپ کے وصال تک جاری رہا جو اسلام کی فتح اور غلبہ کی رفیع الشان مہم کے اس محاذ پر نہایت مؤثر اور کارگر کارروائی ثابت ہوئی.ان اعلانات واشتہارات میں حضور علیہ السلام نے عیسائی پادریوں ہندو منادوں اور علماء اسلام اور عوام الناس کو مخاطب فرمایا ہے اور اسلام کی عظمت اور برتری اور رفعت شان اور حقیت نبوت محمدیہ کا بھر پورا ظہار کیا اور ہر مد مقابل کو مقابلہ کے لئے للکارا.تھک گئے ہم تو انہیں باتوں کو کہتے کہتے ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے حضرت اقدس کے اشتہارات و اعلانات کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ابتداء یکجا کرنے کی خدمت کا آغاز فرمایا تھا لیکن یہ پایہ کھیل کونہ پہنچ سکا.تاہم بعد ازاں حضرت میر قاسم علی صاحب نے جو اشتہارات میسر ہو سکے ان کو یکجا کر کے تبلیغ رسالت کے نام سے دس جلدوں میں شائع کیا.تقسیم ملک کے بعد محترم مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری نے مجموعہ اشتہارات کے عنوان سے ان اشتہارات کو تین جلدوں میں اکٹھا کر کے الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ کے زیر انتظام زیور طبع سے آراستہ کیا.احمد یہ صد سالہ جو بلی ۱۹۸۹ء کے موقعہ پرلندن سے اس ایڈیشن کا ری پرنٹ طبع ہوا تھا.نظارت اشاعت نے اس دوران میں بعض مزید اشتہارات جو دریافت ہوئے ان کو شامل کر کے مجموعہ اشتہارات کا ایڈیشن دوم شائع کیا اوراس مواد کو جو تین جلدوں پر مشتمل تھا وجلدوں میں منقسم کر دیا.خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت اور اجازت سے نظارت اشاعت مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تیسری

Page 9

دفعہ اشاعت کا انتظام کرنے کی سعادت پارہی ہے اور حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس ارشاد کے تحت کہ عربی اور فارسی زبان میں جو اشعار و عبارات ہیں ان کا ترجمہ اردو زبان میں دے دیا جائے.جملہ عبارتوں کے تراجم دے دیئے گئے ہیں تا قارئین کے لئے سہولت اور افادہ کا موجب ہو.اس مجموعہ میں تین اشتہارات نمبر ۱۱۹-۱۵۶-۲۹۵ جو پہلے دستیاب نہیں ہوئے تھے یا کسی وجہ سے اشتہارات میں شامل نہیں ہو سکے تھے انہیں نئے ایڈیشن میں شامل کیا جارہا ہے.مجموعہ اشتہارات جو ایڈیشن دوم میں دو جلدوں میں تھے اور جلد کی ضخامت زیادہ ہونے کی وجہ سے بھاری ہو چکی تھی ان کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی روشنی میں حسب سابق تین جلدوں میں کر دیا گیا ہے تا کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنا آسان ہو.اس مطبوعے کی تیاری و تکمیل کے مختلف مراحل پر جن احباب کرام کا محنت اور شوق شامل رہا اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور اپنے فضلوں سے نوازے اور پڑھنے والوں کو اس علمی خزانہ سے استنفاضہ کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسار خالد مسعود ۲۰۱۸ء ناظر اشاعت

Page 10

پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی اشاعت و تبلیغ اسلام کے جہاد میں صرف کی اور اس مقصد کے لئے آپ نے نہ صرف کثیر تعداد میں کتب تصنیف فرما ئیں بلکہ اشتہارات و تقاریر کے ذریعہ بھی خدمت اسلام کے اس فریضہ کا حق ادا فرمایا.حضور علیہ السلام کی جملہ تصانیف کو روحانی خزائن کی تئیس جلدوں کے سیٹ میں طبع کیا جا چکا ہے.اسی طرح آپ کے پر معارف کلمات و تقاریر و مجالس علم و عرفان کو ملفوظات کی دس جلدوں میں ، جبکہ آپ کے تحریر فرمودہ اشتہارات کو مجموعہ اشتہارات کے عنوان سے تین جلدوں میں تیار کیا گیا ہے.اللہ تعالی کے فضل سے سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات کی روشنی میں نظارت اشاعت ربوہ نے علوم و فیوض روحانی سے لبریز اس لٹریچر (روحانی خزائن، ملفوظات اور مجموعہ اشتہارات ) کے نئے ایڈیشن تیار کئے ہیں جن کی اب سید نا حضور اقدس کی منظوری سے یہاں انگلستان سے بھی طباعت کی جارہی ہے تا کہ بیرون ممالک میں قائم جماعتوں کی بھی علمی وروحانی تشنگی دور ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام نے بارہا ان بیش بہا علوم کو پڑھنے اور پھیلانے کی نصیحت فرمائی ہے.اللہ کرے کہ ہم سب ان سے کما حقہ فائدہ اٹھانے والے ہوں.آمین منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف جون 2018ء

Page 11

فہرست مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جلد دوم نمبر اشتہار ۱۳۱ مضمون اشتہار اشتہار قابل توجہ گورنمنٹ اور نیز عام اطلاع کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور دوسرے خود غرض مخالفین کی دھوکہ دہی کا اظہار.صفحه ۶ ۹ ۱۷ ام ۴۶ اشتہار کتاب منن الرحمن.عبدالحق غزنوی کے مباہلہ کا بقیہ.آریہ صاحبوں کے ملاحظہ کے لیے ایک ضروری اشتہار.مسئلہ نیوگ کے متعلق استفسار.اشتہار بغرض ہمدردی بنی نوع.پنڈت دیانند نے باوا نانک صاحب کے متعلق نہایت ہی تو ہین آمیز کلمات استعمال کئے.ہم نے باوا صاحب کی تائید میں دو رسالے لکھے ہیں.نوٹس بنام آریه و پادری صاحبان و دیگر صاحبان مذاہب مخالفه و نیز گورنمنٹ عالیہ کی توجہ کے لائق التماس.تفصیل ان کتب مسلّمہ مقبولہ کی جن پر ہم عقیدہ رکھتے اور ان کو معتبر سمجھتے ہیں.وہ خطوط جو مسلمانوں کی خدمت میں دستخط کرانے کیلئے بھیجے گئے.مذہبی مباحثات کے بارہ میں قانون بنائے جانے کے متعلق درخواست جو بمراد منظوری گورنمنٹ میں بعد تکمیل دستخطوں کے بھیجی جائے گی.۱۳۲ // ۱۳۳ " ۱۳۴ ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۳۷

Page 12

مضمون اشتہار صفحہ ۵۱ ۵۴ ۵۵ ۶۷ 19 ง 2.۷۵ 22 29.27 ۸۴ ۸۸ ۹۶ نمبر اشتہار باعث تالیف آریہ دھرم دست بچن.قابل توجه ناظرین إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے اس وعدہ پر کہ اس خدمت کا بیڑا اٹھانے کے لیے ہم حاضر ہیں آپ اس کام سے علیحدہ ہو جائیں.حضور کا اس سے علیحدہ ہو جانا مگر بعد ازاں مولوی صاحب کی اس بارہ میں صریح وعدہ خلافی.اشتہار کتاب ست بچن و آریہ دھرم.اشتہار لائق توجہ گورنمنٹ رسالہ ست بچن کے متعلق سکھوں کے بعض اخباروں میں اس خیال کا اظہار کہ رسالہ ست بچن بد نیتی اور دلآزاری کی نیت سے تالیف ہوا ہے.حضور کا گورنمنٹ کو توجہ دلا کر اس افواہ کی تردید کرنا اور بتلانا کہ یہ رسالہ نہایت نیک نیتی اور پوری تحقیق کی پابندی سے لکھا گیا ہے.کتاب ست بچن کا تھوڑ اسا مضمون نمونہ کے طور پر.با دانا نک صاحب پر پادریوں کا حملہ.ناظرین کے لیے ضروری اطلاع.فرضی یسوع مسیح کے متعلق کچھ باتیں.اشتہار درباره جلسہ تحقیق مذاہب.اس جلسہ کے متعلق قواعد جن کی پابندی ہر ایک فریق کے لیے ضروری ہوگی.مسٹر آتھم اور پادری فتح مسیح کے متعلق اشتہار اور فتح مسیح کی غلط بیانی.رسالہ ضیاء الحق کی چند کاپیوں کے جلد شائع کرنے کی مصلحت کے متعلق اشتہار اور عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی کے متعلق اعتراض کا جواب.جمعہ کی تعطیل منظور کرانے کے لیے گورنمنٹ میں درخواست بھجوانے سے پہلے پبلک کے دستخط لینے کے لیے اشتہار.۱۳۸ ۱۳۹ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۳ // ۱۴۴ ۱۴۵ // ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۴۸

Page 13

صفحہ ۱۰۳ 1.2 ۱۱۵ ۱۱۸ ۱۲۹ ۱۴۰ 121 ۱۷۳ ۱۷۵ KA ۱۸۲ ۱۹۱ ۱۹۳ ۱۹۴ ۲۱۰ ۲۱۳ ۲۱۷ ۲۲۰ مضمون اشتہار درخواست بحضور نواب گورنر جنرل ووائسرائے کشور ہند بالقا بہ بمراد منظوری تعطیل جمعہ قابل توجہ گورنمنٹ از طرف مہتم کاروبار تجویز تعطیل جمعہ.پادری صاحبوں کے لیے ایک عظیم الشان خوشخبری یعنی تفسیر انجیل متی.دو عیسائیوں میں محاکمہ.پنجاب اور ہندوستان کے پادری صاحبوں کے لیے ایک احسن طریق فیصلہ.اشتہار مباہلہ بغرض دعوت ان مسلمان مولویوں کے جو اس عاجز کو کافر اور کذاب اور مفتری اور دجال اور جہنمی قرار دیتے ہیں.سچائی کے طالبوں کے لیے ایک عظیم الشان خوشخبری جلسہ اعظم مذاہب لاہور.اشتہار صداقت آثار مولوی غلام دستگیر صاحب کے اشتہار کا جواب اتمام حجت على العلماء الِاشْتِهَارِ مُسْتَيْقِنًا بِوَحْيِ اللَّهِ الْقَهَّارِ اتمام حجت ہزار روپیہ کے انعام کا اشتہار اشتہار واجب الاظہار جماعت مخلصین کی اطلاع کے لئے یسوع مسیح کے نشانوں کا اس راقم کے نشانوں سے مقابلہ خدا کی لعنت اور کسر صلیب کرامت گر چه بے نام ونشان است نمبر اشتہار ۱۴۹ ۱۵۱ ۱۵۲ ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۵۶ ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۹ 17.۱۶۱ ۱۶۲ ۱۶۳ ۱۶۴ ۱۶۵ ۱۶۶

Page 14

بنگر که آن مؤید من شیخ نجف را سید احمد خان کے سی ایس آئی مضمون اشتہار لیکھرام کی موت کے متعلق آریوں کے خیالات عریضہ بحالی خدمت گورنمنٹ عالیہ انگریزی إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ لیکھرام کے قتل کے متعلق پیشگوئی پوری ہوئی لالہ گنگا بشن صاحب کی مرنے کے لئے درخواست سردار راج اندرسنگھ صاحب متوجہ ہوکر سنیں صفحہ ۲۲۳ ۲۲۵ ۲۲۸ ۲۴۸ ۲۵۷ ۲۶۱ ۲۶۵ ۲۷۴ ۲۸۳ ۲۸۹ ۲۹۳ ۳۰۰ ۳۰۵ ۳۳۹ ۳۵۰ ۳۵۸ ٣٦٠ ۳۶۳ لالہ گنگا بشن اشتہار واجب الاظہار اشتہار قطعی فیصلہ کے لئے حسین کا می سفیر سلطان روم جلسه شکریہ جلسه احباب کیا وہ جو خدا کی طرف سے ہے لوگوں کی بدگوئی اور سخت عداوت سے ضائع ہوسکتا ہے؟ پنجاب اور ہندوستان کے مشائخ اور اہل اللہ سے اللہ جل شانہ کی قسم دے کر ایک درخواست تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى ایک ضروری فرض کی تبلیغ اشتہار واجب الاظہار نمبر اشتہار ۱۶۸ ۱۶۹ ۱۷۰ ۱۷۲ ۱۷۳ ۱۷۴ ۱۷۵ 127 122 ۱۷۸ ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۲ ۱۸۳ ۱۸۴ ۱۸۵

Page 15

صفحه ۳۸۰ ۳۸۹ ۳۹۰ ۳۹۶ ۴۱۸ ۴۲۵ ۴۲۷ ۴۳۳ ۴۳۷ ۴۳۹ ۴۴۲ ۴۴۴ ۴۴۶ ۴۵۹ ۴۷۲ ۴۷۷ ۴۸۱ ۴۸۴ ۴۸۶ مضمون اشتهار اخبار چودھویں صدی والے بزرگ کی تو بہ اشتہار ضروری الاظہار طاعون حضور لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالۂ کیا محمد حسین بٹالوی کو ڈ پٹی کمشنر کی عدالت میں کرسی ملی جلسه طاعون میموریل اپنی جماعت کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ضروری اشتہار اپنی جماعت کے لئے ضروری اشتہار دوائے طاعون اشتہار واجب الاظہار متعلق کتب دفتر ضیاء الاسلام قادیان رَحِمَ اللهُ عَبْدًا سَمِعَ كَلَامَنَا ہم خدا پر فیصلہ چھوڑتے ہیں اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوَارُ الَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ پیشگوئی ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء مولوی محمد حسین بٹالوی پر پوری ہوگئی نہایت ضروری عرضداشت قابل توجہ گورنمنٹ بیس ہزار روپیہ تاوان اشتہار عام اطلاع کے لئے واپسی قیمت براہین احمدیہ نمبر اشتہار ۱۸۶ ۱۸۷ ۱۸۸ ۱۸۹ 190 ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۴ ۱۹۵ ١٩٦ ۱۹۷ ۱۹۸ ۱۹۹ ۲۰۰ ۲۰۱ ۲۰۲ ۲۰۴

Page 16

صفحه ۴۸۸ ۴۹۹ ۵۱۲ ۵۲۳ ۵۲۹ ۵۳۲ ۵۳۵ ۵۳۷ ۵۵۲ ۵۵۴ ۵۶۰ ۵۶۹ ۵۷۹ ۶۰۳ مضمون اشتہار ایک پیشگوئی کا پورا ہونا اشتہار قابل توجہ گورنمنٹ ایک پیشگوئی کا پورا ہونا جس میں علماء دینی اور اخلاقی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں میری پیشگوئی کا پورا ہونا جو اشتہار ا۲ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی گئی تھی نقل اس ڈیفنس کی جو انگریزی میں چھاپا گیا ہمارے استفتاء کی نسبت ایک منصفانہ گواہی گورنمنٹ عالیہ کے لئے ایک کھلا کھلا طریق آزمائش اپنے مریدوں کی اطلاع کے لئے اپنی جماعت کے نام اور نیز ہر ایک رشید کے نام جو خواہشمند ہو الاشتهار للا نصار جلسة الوداع ایک الہامی پیشگوئی کا اشتہار اس عاجز کی آسمانی گواہی طلب کرنے کے لئے دعا اپنی جماعت کے لئے اطلاع اشتہار اشتہار ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست نمبر اشتہار ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۷ ۲۰۸ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۲ ۲۱۳ ۲۱۴ ۲۱۵ ۲۱۶ ۲۱۷ ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۲۰

Page 17

جلد دوم مجموعہ اشتہارات اشتہار قابل توجہ گورنمنٹ اور نیز عام اطلاع کے لیے چونکہ شیخ محمد حسین بٹالوی اور دوسرے خود غرض مخالف واقعات صحیحہ کو چھپا کر عام لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں.ایسے ہی دھوکوں سے متاثر ہو کر بعض انگریزی اخبارات جن کو واقعات صحیحہ نہیں مل سکے.ہماری نسبت اور ہماری جماعت کی نسبت بے بنیاد باتیں شائع کرتے ہیں.سو ہم اسی اشتہار کے ذریعہ سے اپنی محسن گورنمنٹ اور پبلک پر یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ہنگامہ اورفتنہ کے طریقوں سے بالکل متنفر ہیں اور ہم اور ہماری جماعت اول درجہ پر امن اور صلح دوست اور خیر خواہ سرکار انگریزی ہیں.ہماری تعلیم یہی ہے کہ جو شخص ہم سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنے تئیں ہر ایک شرارت اور جذبات نفسانی سے پاک کرے اور اپنی نیک چلنی اور صبر اورحلم کا لوگوں کو نمونہ دکھاوے اور کوشش کرے کہ تا ایک راستباز اور بے شرانسان ثابت ہو اور جہاں تک ممکن ہو ہر ایک دشمن اور یاوہ گوئی بدگوئی پر صبر کرے اور ہر ایک اشتعال اور جذ بہ نفسانیہ سے اپنے تئیں بچاوے اور اپنی موت یا در کھے اور ایک غریب مزاج آدمی کی طرح اپنے تئیں بنائے رکھے اور بندگان خدا کا سچا خیر خواہ اور تعصب سے دُور رہے یہ تو اخلاقی نصیحت ہے اور ساتھ اس کے سولہ برس سے میں اپنی جماعت کو یہی سمجھا رہا ہوں کہ گورنمنٹ انگریزی کے سچے خیر خواہ بنے رہو اور دل سے اس کا شکر کرو کیونکہ اس گورنمنٹ کی برکت اور توجہ سے ہماری تمام تکلیفیں دُور ہوئیں.ہم مظلوم تھے ہمارے لئے عدالت کے دروازے کھلے ہم قید میں تھے ہمارے لئے آزادی حاصل ہوئی اور ہمارے حقوق زائل کئے گئے تھے اور پھر وہ قائم کئے گئے.کیا کوئی شریف انسان ایسی بدذاتی کرے گا کہ اپنے محسن سے دل میں

Page 18

مجموعہ اشتہارات کیندر کھے اور نیکی کی جگہ بدی کرنے کے لیے تا کتا رہے.ہرگز نہیں.جلد دوم پس جو شخص ہم میں سے اور ہماری جماعت میں سے ہے چاہیے کہ وہ اس نصیحت کو ہماری آخری نصیحت سمجھے اور ہمیشہ مرتے دم تک اسی کا پابند رہے اور جو شخص اس اصول کو اپنا دستور العمل نہ بناوے وہ ایک نا پاک طبع اور ہم سے خارج ہے اور ہم میں سے وہی ہے اور وہی ہوگا جو اس نصیحت کا پابند رہے.یہ وہ نصائح ہیں جو بار بار ہم اپنی جماعت کو دیتے ہیں جن سے ہماری ۱۶ برس کی تالیفات بھری ہوئی ہیں اور نہ صرف چُھپ کر بلکہ بہادر بن کر غیر ملکوں اور عربستان اور بلا دروم میں ہم نے اس رائے کو شائع کیا ہے.اب نتیجہ نکالنے والے نکال لیں کہ اس شد و مد سے دولت برطانیہ کے فرماں بردار ہونے کے لیے برابر ۱۶ برس سے نصیحت کرتے رہنا اور غیر ملکوں تک کتابوں کو پہنچانا یہ کس کا کام ہے.آیا مخالف، منافق کا یا بچے مخلص کا.اور مذہبی امور میں ہمارا طریقہ کسی او باشانہ جوش پر ہرگز مبنی نہیں.ہاں یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم تو حید اور اس پاک نبی سے پیار کرتے ہیں جس کے ذریعہ سے دوبارہ بچے خدا کی شناخت دُنیا میں قائم ہوئی.سو یہ سچائی سے پیار ہے.جو ہم میں ہے اور ہمارے ساتھ جائے گا.ہاں یہ بھی سچ ہے کہ محبت اور پیار سے اور رو رو کر یہ بھی دُعا کرتے ہیں کہ الہی ہمارے محسنوں پر بھی یہ احسان کر کہ وہ تجھ کو پہچان لیں اور دُنیا میں اُن کو خوش رکھ اور سعادت کے ابدی حصہ کی بھی توفیق بخش.اور یادر ہے کہ ہمارا ہر گز یہ شیوہ نہیں کہ خواہ مخواہ لوگوں سے بخشیں کرتے پھریں یا خود بخود کسی کے لیے پیش گوئیاں کریں جب تک کسی کی طرف سے خود اصرار اور درخواست نہ ہو اور نہ کوئی ہماری ایسی پیش گوئی شائع ہوئی جس کو کوئی منصف غور کرنے کے بعد باطل کہہ سکے اور ہم انشاء اللہ دو ماہ تک ایک مبسوط مضمون میں اس کا ثبوت دیں گے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشـ تهر مرز ا غلام احمد قادیانی یہ اشتہار " کے ایک صفحہ پر ہے) م مورخه ۲۷ رفروری ۱۸۹۵ء ( تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۱ تا ۳) اسلامیہ پر لیس لاہور

Page 19

مجموعہ اشتہارات ۱۳۲ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي اشتهار كتاب مِنَنُ الرَّحمن یہ ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے جس کی طرف قرآن شریف کی بعض پر حکمت آیات نے ہمیں توجہ دلائی سوقرآن عظیم نے یہ بھی دنیا پر ایک بھاری احسان کیا ہے جو اختلاف لغات کا اصل فلسفہ بیان کر دیا اور ہمیں اس دقیق حکمت پر مطلع فرمایا کہ انسانی بولیاں کس منبع اور معدن سے نکلی ہیں اور کیسے وہ لوگ دھو کہ میں رہے جنہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا.جو انسانی بولی کی جڑھ خدا تعالیٰ کی تعلیم ہے اور واضح ہو کہ اس کتاب میں تحقیق الالسنہ کی رو سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں صرف قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جو اس زبان میں نازل ہوا ہے جو اُم الالسنہ اور الہامی اور تمام بولیوں کا منبع اور سر چشمہ ہے یہ بات ظاہر ہے کہ الہی کتاب کی تمام ترزینت اور فضیلت اسی میں ہے جو ایسی زبان میں ہو جو خدا تعالیٰ کے منہ سے اور اپنی خوبیوں میں تمام زبانوں سے بڑھی ہوئی اور اپنے نظام میں کامل ہو اور جب ہم کسی زبان میں وہ کمال پاویں جس کے پیدا کرنے سے انسانی طاقتیں اور بشری بناوٹیں عاجز ہوں اور وہ خوبیاں دیکھیں جو دوسری زبانیں ان سے قاصر اور محروم ہوں اور وہ خواص مشاہدہ کریں جو بجز خدا تعالیٰ کے قدیم اور صحیح علم کے کسی مخلوق کا ذہن ان کا موجد نہ ہو سکے تو ہمیں مانا پڑتا ہے کہ وہ زبان خدا کی طرف سے ہے سو کامل اور عمیق تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ

Page 20

مجموعہ اشتہارات جلد دوم زبان عربی ہے.اگر چہ بہت سے لوگوں نے ان باتوں کی تحقیقات میں اپنی عمریں گزاریں ہیں اور بہت کوشش کی ہے جو اس بات کا پتہ لگاویں کہ جو ام الالسنہ کون سی زبان ہے مگر چونکہ ان کی کوششیں خطا مستقیم پر نہیں تھیں اور نیز خدا تعالیٰ سے توفیق یافتہ نہ تھے اس لئے وہ کامیاب نہ ہو سکے اور یہ بھی وجہ تھی کہ عربی زبان کی طرف ان کی پوری توجہ نہیں تھی بلکہ ایک بخل تھا لہذا وہ حقیقت شناسی سے محروم رہ گئے اب ہمیں خدا تعالیٰ کے مقدس اور پاک کلام قرآن شریف سے اس بات کی ہدایت ہوئی کہ وہ الہامی زبان اور اُم الالسنہ جس کے لئے پارسیوں نے اپنی جگہ اور عبرانی والوں نے اپنی جگہ اور آریہ قوم نے اپنی جگہ دعوے کئے کہ انہیں کی وہ زبان ہے وہ عربی مبین ہے اور دوسرے تمام دعوے دار غلطی پر اور خطا پر ہیں.اگر چہ ہم نے اس رائے کو سرسری طور پر ظاہر نہیں کیا بلکہ اپنی جگہ پر پوری تحقیقات کر لی ہے اور ہزار ہا الفاظ سنسکرت وغیرہ کا مقابلہ کر کے اور ہر ایک لغت کے ماہروں کی کتابوں کوسن کر اور خوب عمیق نظر ڈال کر اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ زبان عربی کے سامنے سنسکرت وغیرہ زبانوں میں کچھ بھی خوبی نہیں پائی جاتی بلکہ عربی کے الفاظ کے مقابل پر ان زبانوں کے الفاظ لنگڑوں ، لولوں ، اندھوں، بہروں، مبر وصوں.مجذوموں کے مشابہ ہیں جو فطری نظام کو بلکلی کھو بیٹھے ہیں اور کافی ذخیرہ مفردات کا جو کامل زبان کے لئے شرط ضروری ہے اپنے ساتھ نہیں رکھتے لیکن اگر ہم کسی آریہ صاحب یا کسی پادری صاحب کی رائے میں غلطی پر ہیں اور ہماری یہ تحقیقات ان کی رائے میں اس وجہ سے صحیح نہیں ہے کہ ہم ان زبانوں سے ناواقف ہیں تو اول ہماری طرف سے یہ جواب ہے کہ جس طرز سے ہم نے اس بحث کا فیصلہ کیا ہے اس میں کچھ ضروری نہ تھا کہ ہم سنسکرت وغیرہ زبانوں کے املاءانشاء سے بخوبی واقف ہو جائیں ہمیں صرف سنسکرت وغیرہ کے مفردات کی ضرورت تھی.سو ہم نے کافی ذخیرہ مفردات کا جمع کر لیا اور پنڈتوں اور یورپ کے زبانوں کے ماہروں کی ایک جماعت سے ان مفردات کے ان معنوں کی بھی جہاں تک ممکن تھا تنقیح کرلی.اور انگریز محققوں کی کتابوں کو بھی بخوبی غور سے سن لیا اور ان باتوں کو مباحثات میں ڈال کر بخوبی صاف کر لیا.اور پھر سنسکرت وغیرہ کے زبان دانوں سے مکرر شہادت لے لی جس سے یقین ہو گیا کہ در حقیقت ویدک سنسکرت وغیرہ زبانیں ان خوبیوں سے

Page 21

مجموعہ اشتہارات عاری اور بے بہرہ ہیں جو عربی زبان میں ثابت ہوئیں.جلد دوم پھر دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی آریہ صاحب یا کسی اور مخالف کو یہ تحقیقات ہماری منظور نہیں تو ان کو ہم بذریعہ اس اشتہار کے اطلاع دیتے ہیں کہ ہم نے زبان عربی کی فضیلت اور کمال اور فوق الالسنہ ہونے کے دلائل اپنی اس کتاب میں مبسوط طور پر لکھ دیئے ہیں جو تفصیل ذیل ہیں.ا.عربی کی مفردات کا نظام کامل ہے.-۲.عربی اعلی درجہ کی علمی وجوہ تسمیہ پر مشتمل ہے جو فوق العادت ہیں.عربی کا سلسلہ اطراد مواداتم و اکمل ہے.۴.عربی کی تراکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں.۵.عربی زبان انسانی ضمائر کا پورا نقشہ کھینچنے کے لئے پوری پوری طاقت اپنے اندر رکھتی ہے.اب ہر ایک کو اختیار ہے کہ ہماری کتاب کے چھپنے کے بعد اگر ممکن ہو تو یہ کمالات سنسکرت یا کسی اور زبان میں ثابت کرے یا اس اشتہار کے پہنچنے کے بعد ہمیں اپنے منشاء سے اطلاع دے کہ وہ کیونکر اور کس طور سے اپنی تسلی کرنا چاہتا ہے یا اگر اس کو ان فضائل میں کچھ کلام ہے یا سنسکرت وغیرہ کی بھی کوئی ذاتی خوبیاں بتلانا چاہتا ہے تو بے شک پیش کرے ہم غور سے اس کی باتوں کو سنیں گے مگر چونکہ اکثر وہمی مزاج اس قسم کے بھی ہر ایک قوم میں پائے جاتے ہیں کہ یہ خدشہ ان کے دل میں باقی رہ جاتا ہے کہ شاید سنسکرت وغیرہ میں کوئی ایسے چھپے ہوئے کمالات ہوں جو انہیں لوگوں کو معلوم ہوں جو ان زبانوں کی کتابوں کو پڑھتے پڑھاتے ہیں.اس لئے ہم نے اس کتاب کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار شائع کر دیا ہے اور یہ پانچ ہزار روپیہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ کسی آریہ صاحب یا کسی اور صاحب کی درخواست کے آنے پر پہلے ہی ایسی جگہ جمع کرا دیا جائے گا جس میں وہ آریہ صاحب یا اور صاحب بخوبی مطمئن ہوں اور سمجھ لیں کہ فتح یابی کی حالت میں بغیر حرج کے وہ رو پیدان کو وصول ہو جائے گا.مگر یادر ہے کہ روپیہ جمع کرانے کی درخواست اس وقت آنی چاہیے جبکہ تحقیق السنہ کی کتاب چھپ کر شائع ہو جائے اور جمع کرانے والے کو اس امر کے بارے میں ایک تحریری اقرار دینا ہوگا کہ

Page 22

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اگر وہ پانچ ہزار روپیہ جمع کرانے کے بعد مقابلہ سے گریز کر جائے یا اپنی لاف و گزاف کو انجام تک پہنچا نہ سکے تو وہ تمام حرجہ ادا کرے جو ایک تجارتی روپیہ کے لئے کسی مدت تک بند رہنے کی حالت میں ضروری الوقوع ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى عبدالحق غزنوی کے مباہلہ کا بقیہ عبدالحق غزنوی نے اپنے بیہودہ اشتہار میں مباہلہ میں فتح یاب ہونے کا بہت سوچ فکر کے بعد یہ حیلہ نکالا تھا کہ بھائی کے مرنے سے اس کی بیوی میرے قبضہ میں آئے اور یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ آئندہ لڑکا پیدا ہونے کی امید ہے.اس کے جواب میں ہم نے اپنے رسالہ انوار الاسلام میں لکھ دیا تھا کہ بھائی کا مرنا اور اس کی ضعیفہ بیوہ کو نکاح میں لانا کوئی مراد یابی کی بات نہیں بلکہ اس کا ذکر کرنا ہی جائے شرم ہے وہ ضعیفہ جو اپنی جوانی کا اکثر حصہ کھا چکی تھی اُس کو نکاح میں لا کر تو ناحق عبد الحق نے روٹی کا خرچ اپنے گلے ڈال لیا.اب معلوم ہوا ہوگا کہ ایسے بے ہودہ نکاح سے دکھ خریدا یا خوشی ہوئی.باقی رہا لڑکا پیدا ہونا اس کا عبد الحق نے اب تک کوئی اشتہار نہیں دیا شاید وہ پیٹ کے اندر ہی اندر گم ہو گیا.یا بموجب آیت فرقانی لڑکی پیدا ہوئی اور منہ کالا ہو گیا.لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے عبد الحق کی یاوہ گوئی کے جواب میں بشارت دی تھی کہ تجھے ایک لڑکا دیا جائے گا.جیسا کہ ہم اسی رسالہ انوار الاسلام میں اس بشارت کو شائع بھی کر چکے سوال حَمدُ لِلَّهِ وَالْمِنَّةِ کہ اس الہام کے مطابق ۲۷ ذی قعد ۱۳۱۲ھ میں مطابق ۲۴ رمئی ۱۸۹۵ء میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام شریف احمد رکھا گیا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى راقم خاکسار غلام احمد عفی عنہ مطبوعه ۱۸۹۵ء ( یہ اشتہارضیاء الحق مطبوعہ ۱۸۹۵ء کے ٹائیٹل صفحہ اندرونی و آخری صفحوں پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۵۰ اور صفحہ ۳۲۰ تا ۳۲۳)

Page 23

مجموعہ اشتہارات (۱۳۳) جلد دوم بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكْهَا کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے آریہ صاحبوں کے ملاحظہ کیلئے ایک ضروری اشتہار چونکہ اس وقت کتاب من الرحمان کی میری طرف سے مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں چھپ رہی ہے اور اس کتاب میں ایک تقریب پر آریہ صاحبوں اور عام ہندوؤں کے مسئلہ نیوگ کا بھی ذکر کرنا حاشیہ جس میں پانچ ہزار روپیہ کا اشتہار ہے.یہ کتاب دنیا کی زبانوں کی تنقیح اور تحقیق کے لئے میں نے تالیف کی ہے اس کتاب کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ صرف عربی زبان ہی ایسی زبان ہے کہ جو خدائے قادر مطلق کی وحی اور الہام سے ابتداء زمانہ میں انسان کو ملی اور وہی ام الالسِنَه یعنی تمام زبانوں کی ماں ہے اور نہ صرف اسی قدر کہ تمام زبانیں اسی میں سے نکلی ہیں بلکہ میں نے اس کتاب میں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یہی ایک زبان ہے جو پاک اور کامل اور علوم عالیہ کا ذخیرہ اپنے مفردات میں رکھتی ہے اور دوسری زبانیں ایک کثافت اور تاریکی کے گڑھے میں پڑی ہوئی ہیں اس لئے وہ اس قابل ہرگز ہو نہیں سکتیں کہ خدا تعالیٰ کا کامل اور محیط کلام ان میں نازل ہو کیونکہ ان زبانوں کی کم مائیگی اور کبھی اور ناقص بیانی معارف الہیہ کے فوق الطاقت بوجھ کو اٹھا نہیں سکتی.غرض اس کتاب میں بڑی صفائی سے اور بڑے روشن اور بدیہی دلائل سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا پاک اور کامل اور روشن اور پُر اسرار اور پر حکمت کلام جو دائمی ہدایت لیکر دنیا میں آیا ہو وہ صرف اسی زبان میں آ سکتا ہے جو ان معارف اور حقائق کو بیان کرنے کیلئے اپنے اندر کامل وسعت رکھتی ہو اس فیصلہ کے مطابق صرف قرآن شریف ہی اللہ تعالیٰ کی وہ کامل کتاب ٹھہرتی ہے جو حقیقی اور کامل اور ابدی تعلیم لے کر دنیا میں آئی اور الشمس: ١٠

Page 24

مجموعہ اشتہارات جلد دوم پڑے گا اس لئے میں نے قرین مصلحت سمجھا کہ اس اشتہار کے ذریعہ سے بعض واقف کار آریہ صاحبوں سے بحث کرلوں اور پھر اس مسئلہ کو اپنی کتاب میں لکھوں یا اگر وہ مجھے اس کی معقولیت بقیہ حاشیہ.دوسری کتابیں جو آسمانی کہلاتی ہیں اگر مان بھی لیں کہ کوئی ان میں سے خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی تو وہ ایک قانون مختص القوم کی طرح یا مختص الوقت کی طرح صرف چند روزہ مصلحت کیلئے آئی ہوگی.لھذا جیسا کہ وہ خود ناقص تھیں ایسی ناقص بولی میں اتریں.مگر کامل کتاب کے لئے کامل بولی میں اترنا ضروری تھا کیونکہ کامل اور ناقص کا پیوند درست بیٹھ نہیں سکتا لہذا قرآن شریف عربی زبان میں اتر اجواپنے ہر ایک پہلو کے رو سے کامل ہے.غرض من الرحمن کو ہم نے اس مدعا سے تالیف کیا ہے کہ تا کامل بولی کے ذریعہ کامل کتاب کا ثبوت دیں اسی وجہ سے ہم نے اس کتاب کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ کا اشتہار بھی دیا ہے جو شخص چاہے ہم سے پہلے روپیہ جمع کرالے اگر وہ ثابت کر دیوے کہ وہ دلائل جو اس طرف سے عربی زبان کے اُم الالسنہ اور وحی اللہ ہونے کے بارے میں پیش کئے گئے ہیں ایسے دلائل یا ان سے بہتر کسی اور زبان کے بارے میں پیش ہو سکتے ہیں تو وہ پانچ ہزار روپیہ جو جمع کرایا جائے گا اس کا ہوگا.یہ اشتہار صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ ہماری طرف سے یہ ایمانی اقرار ہے کہ ہر یک ایسا شخص جو مقابلہ کرنے کے لئے علمی لیاقت رکھتا ہو یعنی اگر وہ انگریزی کا حامی ہے تو انگریزی دان ہو اور اگر سنسکرت کا حامی ہے تو سنسکرت دان ہو اس کی درخواست آنے کے وقت نقد پانچ ہزار روپیدایسی جگہ جمع کرا دیا جائے گا جو اس کی مرضی کے مطابق اور قرین انصاف ہو غرض یہ اس کا حق ہوگا کہ ہر طرح سے پوری تسلی کر لے ہاں اس پر یہ لازم ہوگا کہ ہمارا تحریری اقرار نامہ لے کر اپنی طرف سے بھی یہ اقرار نامہ لکھ دے کہ اگر وہ ایک مدت مقررہ تک جس کا تصفیہ بعد میں ہو جائے گا مقابلہ پر کچھ نہ لکھے یا ایسا لکھے جو منصفوں کی نظر میں بیچ ہو تو اس مدت تک وہ تجارت کے کام کا روپیہ جو اس کے انتظار پر بندر ہے گا اس کا مناسب ہرجانہ اس کو دینا ہوگا اوریہ روپیہ منصفوں کی ڈگری دینے سے اس شخص کو مل جائے گا جو اپنی زبان کو فضائل خاصہ غالبہ کی رو سے اُم الالسنہ ثابت کرے اور اس کا اختیار ہوگا کہ باضابطہ رسید کے ذریعہ سے وہ تمام روپیہ منصفوں کے پاس ہی جمع کرا دیوے اور ہم اس بات کو بدل قبول کرتے ہیں کہ اس فیصلہ کے لئے مسلمانوں میں سے کوئی منصف نہ ہو بلکہ اگر مثلاً یہ نزاع آریہ صاحبوں کی طرف سے ہو تو ہمیں منظور ہے کہ منصف دو شریف اور فاضل آریہ اور دو معزز اور لائق عیسائی انگریز ہوں اور کثرت رائے پر فیصلہ ہومگر اس شرط سے کہ وہ کثرت رائے حلف کے ساتھ موکد ہو.اور اگر یہ نزاع بعض پادری صاحبوں کی طرف سے ہو تو ایسا انہیں بھی اختیار ہے کہ اپنے منصف دو عیسائی اور دو اور شخص جو رائے ظاہر کرنے کے قابل ہوں مقرر کر لیں ہمیں یہ تقرری بہر حال منظور ہوگی کچھ بھی عذر نہیں ہو گا.• منه

Page 25

مجموعہ اشتہارات جلد دوم سمجھا دیں تو لکھنے سے دستکش رہوں کیونکہ میری نظر میں نیوگ کا عقیدہ ایک ایسا قابل شرم عقیدہ ہے کہ اس کے بیان میں گو کیسا ہی تہذیب سے کام لیا جائے پھر بھی بوجہ خبث نفس مضمون کے ناگفتنی باتیں لکھنی پڑتی ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی صاحب پیچھے سے کوئی بات زبان پر لاویں بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ اگر کسی کا کچھ عذر ہو تو اب پیش کرلے میں بخوشی اس کے عذر کوسنوں گا اور اگر قبول کے قابل ہو تو قبول کرلوں گا کیونکہ اس جگہ نفسانیت منظور نہیں صرف اظہار حق منظور ہے اب ضروری استفسار ذیل میں لکھتا ہوں.استفسار اے آریہ صاحبان آپ لوگ اس سے بے خبر نہیں کہ پنڈت دیانند صاحب نے وید کی شرتیوں کے حوالہ سے نیوگ لے کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے ایک یہ بھی قسم لکھی ہے کہ اگر مرداس مردی کی قوت سے نا قابل ہو جس سے اولاد پیدا ہو سکے تو وہ اپنی بیوی کو اجازت دیوے تاکسی دوسرے سے اولاد حاصل کرے تب وہ شخص جس کو اجازت دی گئی ہے اس گھر میں جہاں اس عورت کا خاوند رہتا ہے اس کی بیوی سے ہم بستر ہوگا اور نہ صرف ایک دفعہ بلکہ کئی سال تک اور جب تک کہ دس بچے پیدا ہو جائیں وہ اس سے ہم بستری کر سکتا ہے مگر ساتھ یہ بھی حکم ہے کہ عورت اپنے خاوند کی خدمت اور سیوا میں بھی لگی رہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسی گھر میں اُس دیوث خاوند کا رہنا بھی ضروری ہے جس کی عورت سے دن رات ایک اجنبی اس کی آنکھوں کے سامنے بدکاری کر رہا ہے اور ایسے زانی کا نام جو پرائی عورت سے بدکاری کرے وید کی رو سے بیرج داتا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ بیرج دا تا اسی عورت سے اپنے لئے بھی اولا د لے سکتا ہے اور یہ بھی درج ہے کہ اگر کسی عورت کے لڑکیاں ہی پیدا ہوں تو اس آریوں میں نیوگ نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے.پنڈت دیانند ستیارتھ پرکاش میں لکھتے ہیں.پاپ تو نیوگ کے روکنے میں ہے سو جس کا نہ کرنا پاپ ہے اس کا کرنا واجب ہے.دیکھو ستیارتھ پر کاش صفحہ ۱۵ مطبوعہ اجمیر اور ہم مستقل رسالہ میں جو عنقریب چھپنے والا ہے اس کو مفصل بیان کر دیں گے.ے آریہ دھرم میں حضرت مسیح موعود نے صفحہ 9 والے اس حاشیہ کو ختم کر کے اس کی جگہ صفحہ ۲ والا حاشیہ درج فرمایا ہے.(ناشر)

Page 26

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کا بھی فرض ہے کہ اپنے پتی کی اجازت سے نیوگ کر اوے اور کسی بیرج دا تا کو اپنے گھر میں بلاوے اور وہ اس کی آنکھوں کے سامنے یعنی اسی گھر میں اس عورت سے صحبت کرے اور ایک دراز مدت تک کرتا رہے.اب آپ لوگ معاف فرما دیں کہ ہم نے آپ کے دید کی تعلیم کا یہ حصہ اس غرض سے نہیں لکھا کہ آپ کے دلوں کو دکھاویں بلکہ صرف اس استفسار کی غرض سے تحریر کیا ہے کہ کیا آپ لوگ ایسی شرتیوں کو بھی ایشر بانی سمجھتے ہیں اور کیا آپ لوگوں میں سے کسی کی انسانی حمیت اور غیرت اس بات کو قبول کرتی ہے کہ اس کے جیتے جی نیوگ کے بہانہ سے اس کا چھوٹا بھائی یا برادری میں سے کوئی مشٹنڈا اس کی پیاری بیوی پر صحبت کی غرض سے حملہ کرے بلکہ باجازت دید کام بھی کر ڈالے یا کوئی برہمن اس کی عورت کے ساتھ ایسی حرکت کا مرتکب ہو اور وہ با وجود قوت اور شہوت اور طاقت اور روبرو موجود ہونے کے الگ ہو بیٹھے اور کچھ چوں نہ کرے بلکہ پاس کی کوٹھڑی میں خاموش بیٹھا رہے اور اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ ایک اجنبی اس کی سہروں کی منکوحہ اور برات کی بیاہتا سے جو نام ونگ کے خاندان سے آئی تھی ہم خواب اور بغلگیر ہے اور صرف بوس و کنار پر بس نہیں کیا بلکہ حرکت زنا سے اس کم بخت خاوند کی ساری پت اور عزت کو خاک میں ملادیا اور پھر بھی ذرا غیرت اس کی جوش نہ مارے.اے آریہ صاحبان میں اس وقت تمہارے ہی پر میشر کی تمہیں قسم دیتا ہوں اور تمہاری ہی کانشنس کی شہادت تم سے چاہتا ہوں کہ کیا تمہاری مردانہ غیرت اور شریفانہ جمیت اس بات پر برداشت کر سکتی ہے کہ یہ بے شرمی کا کام تمہارے گھر میں اور تمہاری نظر کے سامنے ہو اور تم چپکے اس کو دیکھتے رہو اور ایسی تعلیموں سے بیزار نہ ہو.جنہوں نے یہ دن تمہیں دکھلائے اور لعنت کا طبق تمہارے گلے میں ڈالا.میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کہ کس قدر ایک شریف انسان کو قدرتی اور طبعی طور پر اپنی عورت کے لئے حمیت اور غیرت ہوتی ہے یہاں تک کہ اس قدر بھی روا نہیں رکھتا کہ اس کے گھر سے اس کی بیوی کی اونچی آواز اٹھے اور اجنبی لوگ اس کو سنیں یہی وجہ ہے کہ کبھی ایک غیرت مند انسان تھوڑے ظن کے ساتھ اپنی عورت کو قتل بھی کر دیتا ہے اور زنا کی حالت میں تو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کتوں کی طرح پھینک دیتا ہے اور اپنے لئے ایک بے شرمی کی زندگی سے مرنا قبول کر لیتا ہے پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ

Page 27

مجموعہ اشتہارات جلد دوم لوگوں کا وید یہ کیسی ہدایت لایا جو انسانی فطرت کی طبعی شرم اور حیا اور حمیت کے برخلاف ہے.کیا کوئی شریف الفطرت اس بات پر راضی ہو سکتا ہے کہ اولاد کی خواہش سے یالڑکیوں کی کثرت کے بعد لڑکا پیدا ہونے کی تمنا سے ایک اجنبی کو اپنے گھر میں آپ بلا لا وے اور اپنی عورت کو اس سے ہم بستر کرا دے اور آپ الگ بیٹھا جوش شہوت کی حرکات دیکھتا رہے کیا اب بھی آپ لوگ اس تعلیم کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کہیں گے؟ اے میرے پیارے ہموطنو! اس خدا سے ڈرو جو ہرگز ناپاکی کی راہوں کو پسند نہیں کرتا وہ ہرگز نہیں چاہتا کہ اس کے بندوں میں زنا پھیلے اور حرامی اولاد پیدا ہو.ایسی بیٹے کی خواہش پر بھی ہزار لعنت ہے جس کی والدہ اپنا عزیز خاوند چھوڑ کر دوسرے کے آگے پڑتی ہے اور تف اس اولاد پر جو حرام کاری کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی ہے.عزیز وذرا سوچو کہاں ہے تمہاری شرافت کہاں ہے تمہاری انسانی حمیت کہاں ہے تمہارا کانشنس.غیر کا نطفہ تمہارا بیٹا ہر گز نہیں ہوگا.اور ناحق بے حیائی سے اپنی عورتوں کی پاک دامنی کو گندگی میں ڈال دو گے.دنیا میں کنجر سب سے زیادہ بے شرم اور فاسق قوم ہے مگر وہ بھی اپنی بہو سے حرام کاری نہیں کراتے مگر تم پر افسوس کہ جائز رکھتے ہو کہ تمہاری بہو بھی تمہارے بیٹے کے سوا کسی اور کے پاس جاوے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس زندگی سے مرنا بہتر ہے میں نے اسی تفتیش کے لئے قادیان میں ایک جلسہ قرار دیکر آریہ صاحبوں سے اس حقیقت کو دریافت کرنا چاہا چنانچہ ۳۰ جولائی ۱۸۹۵ء کو ایک مسجد میں یہ جلسہ منعقد ہوا اور چار آریہ صاحبان شامل جلسہ ہوئے اور جب ان سے دریافت کیا گیا تو بعض نے کہا کہ ہمیں خبر نہیں.ہم نے ستیارتھ پرکاش کا یہ مقام نہیں پڑھا اور بعض نے بڑے استقلال سے بیان کیا کہ آریہ دھرم کا صرف یہ عقیدہ ہے کہ بیوہ نیوگ کے ذریعہ سے اولاد لے سکتی ہے میں نہیں جانتا کہ انہوں نے اصل واقعہ کو کیوں چھپایا.میرے خیال میں انسانی شرم نے ان کو اجازت نہیں دی اور جب میرے بعض مخلصوں نے اُن کو وہ مقام پڑھ کر سنایا تو پھر دوسرا عذر یہ پیش ہوا کہ یہ طریق اس حالت میں ہے کہ جب خاوند ہرگز عورت کے پاس جانہ سکے.پھر جب کھول کر بتلایا گیا کہ ستیارتھ پر کاش میں یہ صاف لکھا ہے کہ ایسا نا مرد ہو جو نا قابل اولا د ہو پس

Page 28

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اس میں وہ نامرد بھی داخل ہیں جو صحبت کرنے پر تو پورے طرح قادر ہیں مگر منی قابل اولا د نہیں مثلاً منی میں کیڑے نہیں یا پتلی ہے.یہ نہیں لکھا کہ ایسا ہو کہ ہر گز صحبت نہ کر سکتا ہو بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ اگر مرد قابل اولاد ہو مگر لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہوں تب بھی نیوگ ہوگا تو یہ جواب سن کر وہ لوگ خاموش ہو گئے اور ان میں سے ایک پنڈت جی بولے کہ بے شک ایسی حالتوں میں بھی نیوگ کرانا کچھ مضائقہ نہیں اور ہم ایسے نیوگ پر راضی ہیں.غرض اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ عام ہدایت وید کی یہی ہے کہ آریہ لوگ ضرورتوں کے وقت اپنی بیویوں اور بہو بیٹیوں سے نیوگ کرایا کریں مگر ظاہر ہے کہ انسانی کانشنس اس کو قبول نہیں کرتا اور انسان کی فطرتی حمیت اور غیرت ہزار بیزاری سے اس کام پر لعنت بھیجتی ہے اور انسان تو انسان ایک مرغ بھی اپنی مرغیوں کے لئے غیرت رکھتا ہے.اب حاصل کلام یہ ہے کہ اگر اس بارہ میں کوئی اور آریہ صاحب بھی بحث کرنا چاہتے ہوں تو ہم اپنے خرچ سے ان کو ان کی درخواست پر قادیان میں بلا سکتے ہیں.اور ۱۵ اگست ۱۸۹۵ء تک مہلت ہے.میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۳۱ جولائی ۱۸۹۵ء یہ اشتہار A کے دو صفحہ پر علیحدہ ہے اور آریہ دھرم طبع اول کے حاشیہ صفحہ 4 لغایت ۱۲ پر بھی ہے ) (روحانی خزائن جلده اصفحہ ۷ تا ۱۳ حاشیہ) یہ اشتہار خلافت لائبریری ربوہ کے ریکارڈ میں موجود ہے) نوٹ.شاید آریہ کہیں گے کہ یہ زنا نہیں مگر جس حالت میں خاوند موجود ہے اور بیٹا بھی اس کا بیٹا کہلائے گا اور عورت بھی اسی کی عورت رہے گی اور طلاق دی نہیں گئی تو پھر یہ زنا نہیں تو اور کیا ہے اور منولکھتا ہے کہ نیوگ کے دنوں میں بھی خاوند کو صحبت کرنے کا اختیار ہے.(دیکھومنو)

Page 29

مجموعہ اشتہارات الله (۱۳۴ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِي نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي کہاں ہیں جو نانک کے ہیں خاک پا کہ اسلام ہم اپنا دیں رکھتے ہیں جو کرتے ہیں اس راہ میں جاں فدا کی ره پر یقین رکھتے ہیں وہ سوچیں کہ کیا لکھا گیا پیشوا اُٹھو سونے والو کہ وقت آ گیا وصیت میں کیا کہہ گیا بر ملا تمہارا گرو تم کو سمجھا گیا مبارکباد مبارکباد آج ہم بڑی خوشی سے اس اشتہار کو جو محض ہمدردی بنی نوع کے لحاظ سے لکھا گیا ہے شائع کرتے ہیں.اور ان تمام صاحبوں کو نہ دل سے مبارکباد دیتے ہیں جو پنڈت دیا نند کے اُن دل آزار الفاظ سے شکستہ دل تھے جو انہوں نے اپنی کتاب ستیارتھ پر کاش میں اپنے قدیمی بخل اور تعصب کی وجہ سے باوانا تک صاحب جیسے نیک دل ،سادہ، قوم کے برگزیدہ گر و کی نسبت لکھے ہیں اور محض سفلہ پن اور ایک کمینہ حسد سے باو اصاحب کی نسبت یہ کلمات استعمال کئے ہیں کہ وہ جاہل اور نادان اور لالچی اور دنیا پرست اور مکار اور فریبی اور گنوار اور بے علم اور متکبر اور مغرور اور اپنی اغراض نفسانی کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا دینے والا ایک ٹھگ اور گمراہ تھا.ان مکروہ اور دلآزار باتوں سے جو گالیوں کی حد تک پہنچ گئی ہیں.کون شریف اور نیک سرشت ہے جو دیانند کی اس کارروائی کو قابل اعتراض نہیں سمجھتا.اور کون

Page 30

مجموعہ اشتہارات ۱۴ جلد دوم منصف اور حق شناس ہے جو ان کلمات کے قائل کو ایک گندہ طبع اور بد زبان خیال نہیں کرتا.ہمیں یقین تھا کہ سکھ صاحبان ان ناپاک کلمات کا جواب ضرور دیں گے اور اپنی اُس محبت اور غیرت کو جو باوانا تک صاحب کی نسبت وہ رکھتے ہیں لوگوں پر ظاہر کریں گے.مگر افسوس کہ اب تک ان کی طرف سے کچھ آواز نہیں اُٹھی.لہذا ہمیں ایسے راستباز انسان کے لیے سچی ہمدردی نے مجبور کیا کہ ہم ہی کچھ لکھیں اور جب کہ ہم نے غور کی کہ کس بات نے دیا نند کو ایسی سخت زبانی پر آمادہ کیا تو اسی کی تحریر سے معلوم ہوا کہ باوانا تک صاحب نے اپنے گرنتھ میں آریوں کے وید کی نسبت محض حق گوئی کی راہ سے جیسا کہ حق پسند ان کی عادت تھی، وہ رائے ظاہر کی جو حقیقت میں سچی اور اپنے محل پر ہے اور راست گوئی کے جوش میں کسی کی بھی پروا نہیں رکھی.یہاں تک کہ یہ بھی کہہ دیا کہ ویدوں میں بجز گمراہ کرنے والی باتوں کے اور کچھ بھی نہیں لے اور ہم جانتے ہیں کہ باوا نا نک صاحب نے محض حقیقت شناسی اور ہندوؤں کی ہمدردی سے نصیحت کے طور پر ایسی باتیں کہی ہیں اور سچ کہا ہے جو کچھ کہا ہے.ے نوٹ.ہم نے رسالہ ست بچن میں صرف یہی ثابت نہیں کیا کہ باوا نا تک صاحب نے چاروں ویدوں کی اپنے پر زور کلام سے تکذیب کی ہے.بلکہ ایک بڑی بات جوشکر گذاری کے قابل ہے یہ ہے کہ باوا صاحب موصوف نے نہایت عمدہ دلائل کے ساتھ ثابت کر دیا کہ دنیا میں سچا مذہب جو ذریعہ نجات ہے صرف اسلام ہے اور اپنی زندگی میں اپنے قول اور فعل سے صداقت اسلام پر گواہیاں دیں اور نہایت وضاحت سے بپایہ ثبوت پہنچا دیا ہے کہ وہ اس پاک جماعت کے سرگرم مسلمانوں میں سے اور اس راہ میں فدا شدہ ہیں.چنانچہ وہ تمام ثبوت ہم نے رسالہ ست بچن میں لکھ دیئے ہیں تا باوا صاحب کے رُوحانی کمالات لوگوں پر گھل جائیں.سو ہر یک حق کے طالب کو چاہیے کہ یہ دونو رسالے منگوائے اور ہمارے مخالف نادان مولوی ڈوب مریں کہ باوجود اس قدر لاف و گزاف کے انہوں نے اسلام کی کچھ بھی خدمت نہیں کی.صرف مسلمانوں کو کا فر بنانا جانتے ہیں.مگر باوا صاحب چھ کروڑ ہندوؤں کو اپنے قول و فعل سے اسلام کی ترغیب دے گئے اور ایسے طور سے اپنے اقوال سے اور اپنے افعال سے اسلام کی سچائی کی گواہی دی کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں سچ سچ فدا شدہ نہ ہو ایسا کامل نمونہ ہرگز دکھلا نہیں سکتا.واه با دانا تک صاحب آپ بے شک عزت کے لائق ہیں.آپ کا وصیت نامہ جو اسلام کی سچائی کے لیے ایک سوتی کپڑا پر لکھا ہوا کابلی مل کی اولاد میں اب تک موجود ہے.اُس کا ذکر بھی رسالہ ست بچن میں تفصیل کیا گیا ہے.منہ

Page 31

مجموعہ اشتہارات ۱۵ جلد دوم باوانا تک صاحب کو دید سے کچھ بغض نہ تھا بلکہ اسی قوم میں پیدا ہوئے تھے اور وید سے خوب واقف تھے کیونکہ گیانی اور عارف تھے.پھر کیونکر ممکن تھا کہ وہ بے اصل طور پر وید کی مذمت کرتے لیکن اس نا اہل پنڈت نے باوانا تک صاحب کی قدرو منزلت کو نہیں پہنچانا اور نہ ان کے عارفانہ کلام کو سمجھا اور ناحق گالیاں دینی شروع کر دیں.اس لیے ہم نے باوانا تک صاحب کی تائید میں دور سالے لکھے ہیں.(۱) اول ایک رسالہ ہے جس کا نام ہم نے ست بچن رکھا ہے کیونکہ اس رسالہ میں باوانا نک صاحب کے بچن کی تصدیق کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ ان کا یہ بچن جو چاروں وید کہانی اور خدا کی سچی تعریفوں سے بے نصیب ہیں فی الواقع صحیح اور درست ہے اور نیز ہم نے اس رسالہ میں دیانند کے ان تمام الزامات کے جوابات دیئے ہیں جو وہ باوا صاحب پر قائم کرتا ہے اور نیز بادا صاحب کی کچھ کر امتیں لکھی ہیں باوا صاحب کی زندگی اور دیانند کی زندگی کا موازنہ کیا ہے.ایسا ہی بعض معارف اور بیان کی باتیں باوانا تک صاحب کی درج کی ہیں.(۲) دوسرے رسالہ کا نام آریہ دھرم رکھا ہے جس میں باوا صاحب کے اس قول کا ثبوت دیا ہے جو ویدوں کی نسبت انہوں نے بڑے زور سے اپنے سکھوں کو بتایا ہے اور خوب ثابت کیا ہے کہ باوا صاحب اپنے اس قول میں بالکل نیچے ہیں اور ویدوں کی خراب تعلیم کا ایک ایسا نمونہ دیا ہے جس کے ماننے کے بغیر کسی عقلمند کو بن نہیں پڑتا.اور اُس میں باوانا تک صاحب کے قول کی خوب تصدیق ہوتی ہے اور یہ دونوں رسالے ایک ہی جلد میں چھاپے گئے ہیں جو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہو سکتے اور قیمت دونوں رسالوں کی ۶ ( چھ آنہ) علاوہ محصول ڈاک رکھی گئی ہے.جن صاحبوں کو شوق ہو قیمت بھیج کر منگا سکتے ہیں.بالآخر واضح رہے کہ عنقریب دوسرا نمبر رسالہ نـور الـقـرآن کا بھی نکلنے والا ہے جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور حضرت مسیح علیہ السلام کے اخلاق اور قرآن کی تعلیم اور انجیل کی تعلیم کا موازنہ کیا گیا ہے.اور پہلا نمبر جس میں ضرورت قرآن کے دلائل اور انجیل کی ناقص تعلیم کے بد نتیجے لکھے گئے ہیں پہلے چھپ چکا ہے جو موجود ہے.

Page 32

مجموعہ اشتہارات ۱۶ جلد دوم پھر اس کے بعد ایک بڑی کتاب مِنَنُ الرَّحْمَنِ شائع کی جائے گی.جس سے ویدوں کا سارا پردہ گھل جائے گا.اس روز عام ہندوؤں کو معلوم ہوگا جو حقیقت میں وہ تمام باتیں سچی تھیں جو باوانا تک صاحب نے ویدوں کی نسبت کہیں اور نہ صرف اسی قدر بلکہ باوا صاحب کی اس سے بڑی کرامت ثابت ہوگی جو انہوں نے اپنی روشن ضمیری سے پہلے ہی ویدوں کی نسبت وہ باتیں کہیں جو کامل تحقیقات کے بعد بچی نکلیں اور اسی بات کا نام کرامت ہے اور کتاب مِنَـنُ الرَّحْمنِ میں بڑے مضبوط دلائل سے یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ سنسکرت زبان اور ایسا ہی دوسری زبانیں عربی کے بگڑے ہوئے الفاظ ہیں.اور یہ زبانیں پیچھے سے شائع ہوئی ہیں اور سب زبانوں کی ماں جو خدا تعالیٰ کی وحی اور الہام سے پہلے انسان کو ملی عربی ہے.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ کی کامل کتاب جو قرآن شریف ہی ہے عربی ہی میں نازل ہوئی.غرض یہ کتاب ایسی برکتوں اور معارف جدیدہ سے بھری ہوئی ہے جس سے اُمید ہے کہ تمام قو میں عام برکتیں اس سے حاصل کریں گی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکس غلام احمد قادیانی ۲۶×۲۰ یہ اشتہار کے ایک صفحہ پر ہے) ـار ۹ ستمبر ۱۸۹۵ء اس اشتہار کی اصل کاپی خلافت لائبریری ربوہ کے ریکارڈ میں موجود ہے) فہرست کتب موجوده در مطبع ضیاء الاسلام قادیان ضلع گورداس پور پنجاب.براہین احمدیہ جلد چہارم الله ، سرمه چشم آریا شحن بق ، فتح اسلام ، توضیح مرام ازالہ اوہام سے فیصلہ آسمانی ار آئینہ کمالات اسلام اردو مع التبليغ عربی مترجم فارسی نگار ، برکات الدعام ، شہادت القرآن علی نزول المسیح الموعود في آخر الزمان ۶ ، تحفہ بغداد عربی ۲ ، حمامة البشرى....عد ، نور الحق حصہ اول و دوم معہ ترجمہ اردو ار ، اتمام الحج ۳، کرامات الصادقین یعنی تفسیر سورۂ فاتحہ عربی مع قصائد عه ، سر الخلافہ ۸/ نور القرآن نمبر اول ماہواری رسالہ ۴ رجون جولائی اگست ۹۵ء بذریعہ وی پی یا قیمت پیشگی بھیج کر جو چاہیں خرید ہیں.فقط مطبع ضیاء الاسلام قادیان

Page 33

مجموعہ اشتہارات ۱۷ (۱۳۵ جلد دوم بنام آری صاحبان و پادری صاحبان و دیگر صاحبان مذاہب مخالفہ ان مسلمانوں کی طرف سے جن کے نام نیچے درج ہیں و نیز ایک التماس گورنمنٹ عالیہ کی توجہ کے لائق اے صاحبان مندرجہ عنوان نہایت ادب اور تہذیب سے آپ صاحبوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم سب فرقے مسلمان اور ہندو اور عیسائی وغیرہ ایک ہی سرکار کے جوسر کا رانگریزی ہے رعایا حاشیہ.پادری صاحبان اگر ہماری اس نصیحت کو غور سے سنیں تو بے شک اپنی بزرگی اور شرافت ہم پر ثابت کریں گے اور اس حق پسندی اور صلح کاری کے موجب ہوں گے جس سے ایک راستباز اور پاک دل شناخت کیا جاتا ہے.اور وہ نصیحت صرف دو باتیں ہیں جو ہم پادری صاحبوں کی خدمت میں عرض کیا چاہتے ہیں.اول یہ کہ وہ اسلام کے مقابل پر ان بیہودہ روایات اور بے اصل حکایات سے مجتنب رہیں جو ہماری مسلم اور مقبول کتابوں میں موجود نہیں اور ہمارے عقیدہ میں داخل نہیں اور نیز قرآن کے معنے اپنی طرف سے نہ گھڑ لیا کریں بلکہ وہی معنی کریں جو تو اتر آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں اور پادری صاحبان اگر چہ انجیل کے معنے کرنے کے وقت ہر یک بے قیدی کے مجاز ہوں مگر ہم مجاز نہیں ہیں اور انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے معصیت عظیمہ ہے.قرآن کی کسی آیت کے معنی اگر کریں تو اس طور سے کرنے چاہیے کہ دوسری قرآنی آیتیں ان معنوں کی مؤید اور مفتر ہوں اختلاف اور تناقض پیدا نہ ہو کیونکہ قرآن کی بعض آیتیں بعض کے

Page 34

مجموعہ اشتہارات ۱۸ جلد دوم ہیں لہذا ہم سب لوگوں کا فرض ہے کہ ایسے امور سے دستکش رہیں جن سے وقتاً فوقتاً ہمارے حکام کو دقتیں پیش آویں یا بیہودہ نزاعیں باہمی ہو کر کثرت سے مقدمات دائر ہوتے رہیں اور نیز جبکہ ہمسائیگی اور قرب و جوار کے حقوق درمیان ہیں تو یہ بھی مناسب نہیں کہ مذہبی مباحثات میں ناحق ایک فریق دوسرے فریق پر بے اصل افترا قائم کر کے اس کا دل دکھاوے اور ایسی کتابوں کے حوالے پیش کرے جواس فریق کے نزدیک مسلم نہیں ہیں یا ایسے اعتراض کرے جو خود اپنے دین کی تعلیم پر بھی وارد ہوتے ہیں.چونکہ اب تک مناظرات و مباحثات کے لئے کوئی ایسا قاعدہ باہم قرار یافتہ نہیں تھا جس کی یا بندی یادہ گو لوگوں کو ان کی فضول گوئی سے روکتی.لہذا پادریوں میں سے پادری عماد الدین بقیہ حاشیہ لئے بطور تفسیر کے ہیں اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی انہیں معنوں کی مفسر ہو کیونکہ جس پاک اور کامل نبی پر قرآن نازل ہوا وہ سب سے بہتر قرآن شریف کے معنے جانتا ہے.غرض اتم اور اکمل طریق معنے کرنے کا تو یہ ہے لیکن اگر کسی آیت کے بارے میں حدیث صحیح مرفوع متصل نہ مل سکے تو ادنی درجہ استدلال کا یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت کے معنے دوسری آیات بینات سے کئے جاویں لیکن ہرگز یہ درست نہ ہوگا کہ بغیر ان دو قسم کے التزام کے اپنے ہی خیال اور رائے سے معنے کریں کاش اگر پادری عمادالدین وغیرہ اس طریق کا التزام کرتے تو نہ آپ ہلاک ہوتے اور نہ دوسروں کی ہلاکت کا موجب ٹھہرتے.دوسری نصیحت اگر پادری صاحبان سنیں تو یہ ہے کہ وہ ایسے اعتراض سے پر ہیز کریں جو خود ان کی کتب مقدسہ میں بھی پایا جاتا ہے مثلاً ایک بڑا اعتراض جس سے بڑھ کر شاید ان کی نظر میں اور کوئی اعتراض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے وہ لڑائیاں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باذن اللہ ان کفار سے کرنی پڑیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں تیرہ برس تک انواع اقسام کے ظلم کئے اور ہر یک طریق سے ستایا اور دکھ دیا اور پھر قتل کا ارادہ کیا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معہ اپنے اصحاب کے مکہ چھوڑنا پڑا اور پھر بھی باز نہ آئے اور تعاقب کیا اور ہر یک بے ادبی اور تکذیب کا حصہ لیا اور جو مکہ میں ضعفاء مسلمانوں میں سے رہ گئے تھے ان کو غایت درجہ دکھ دینا شروع کیا لہذا وہ لوگ خدا تعالیٰ کی نظر میں اپنے ظالمانہ کاموں کی وجہ سے اس لائق ٹھہر گئے کہ ان پر موافق سنت قدیمہ الہیہ کے کوئی عذاب نازل ہو اور اس عذاب کی وہ تو میں بھی سزاوار تھیں جنہوں نے مکہ والوں کو مدددی اور نیز وہ قو میں بھی جنہوں نے اپنے طور سے ایذا اور تکذیب کو انتہا تک پہنچایا اور اپنی طاقتوں سے اسلام کی

Page 35

مجموعہ اشتہارات ۱۹ جلد دوم و پادری ٹھا کر داس و پادری فنڈل صاحب وغیرہ صاحبان اور آریہ صاحبوں میں سے منشی کنہیا لال الکھ دہاری اور منشی اندر من مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری نے اپنا یہی اصول مقرر کر لیا کہ ناحق کے افتراؤں اور بے اصل روایتوں اور بے بنیاد قصوں کو واجبی اعتراضات کی مدافعت میں پیش کیا مگر اصل قصور تو اس میں پادری صاحبوں کا ہے کیونکہ ہندؤں نے اپنے ذاتی تعصب اور کینہ کی وجہ سے جوش تو بہت دکھلایا مگر براہِ راست اسلام کی کتابوں کو وہ دیکھ نہ سکے وجہ یہ کہ بباعث جہالت اور کم استعدادی دیکھنے کامادہ نہیں تھا سو انہوں نے اپنی کتابوں میں پادریوں کے اقوال کا نقل کر دینا غنیمت سمجھا.غرض ان تمام لوگوں نے بے قیدی اور آزادی کی گنجائش پا کر افتراؤں کو انتہا تک پہنچا دیا اور ناحق بے وجہ اہل اسلام بقیہ حاشیہ.اشاعت سے مانع آئے سو جنہوں نے اسلام پر تلواریں اٹھا ئیں وہ اپنی شوخیوں کی وجہ سے تلواروں سے ہی ہلاک کئے گئے اب اس صورت کی لڑائیوں پر اعتراض کرنا اور حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی ان لڑائیوں کو بھلا دینا جن میں لاکھوں شیر خوار بچے قتل کئے گئے کیا یہ دیانت کا طریق ہے یا ناحق کی شرارت اور خیانت اور فساد انگیزی ہے.اس کے جواب میں حضرات عیسائی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیوں میں بہت ہی نرمی پائی جاتی ہے کہ اسلام لانے پر چھوڑا جاتا تھا اور شیر خوار بچوں کو قتل نہیں کیا اور نہ عورتوں کو اور نہ بوڑھوں کو اور نہ فقیروں اور مسافروں کو مارا اور نہ عیسائیوں اور یہودیوں کے گر جاؤں کو مسمار کیا.لیکن اسرائیلی نبیوں نے ان سب باتوں کو کیا یہاں تک کہ تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ شیر خوار بچے قتل کئے گئے گویا حضرات پادریوں کی نظر میں اس نرمی کی وجہ سے اسلام کی لڑائیاں قابل اعتراض ٹھہریں کہ ان میں وہ سختی نہیں جو حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی لڑائیوں میں تھی اگر اس درجہ کی سختی پر یہ لڑائیاں بھی ہوئیں تو قبول کر لیتے کہ درحقیقت یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اب ہر یک عقلمند کے سوچنے کے لائق ہے کہ کیا یہ جواب ایمانداری کا جواب ہے حالانکہ آپ ہی کہتے ہیں کہ خدارحم ہے اور اس کی سزا رحم سے خالی نہیں.پھر جب موسیٰ کی لڑائیاں باوجود اس سختی کے قبول کی گئیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ٹھہریں تو کیوں اور کیا وجہ کہ یہ لڑائیاں جو الہی رحم کی خوشبو ساتھ رکھتی ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو ئیں اور ایسے لوگ کہ ان باتوں کو بھی خدا تعالیٰ کے احکام سمجھتے ہیں کہ شیر خوار بچے ان کی ماؤں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں اور ماؤں کو ان کے بچوں کے سامنے بے رحمی سے مارا جاوے وہ کیوں ان لڑائیوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ سمجھیں جن میں یہ شرط ہے کہ پہلے مظلوم ہو کر پھر ظالم کا مقابلہ کرو.منه

Page 36

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کا دل دکھایا اور بہتوں نے اپنی بدذاتی اور مادری بد گو ہری سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان لگائے یہاں تک کہ کمال خباثت اور اُس پلیدی سے جو ان کے اصل میں تھی اس سید المعصومین پر سراسر دروغ گوئی کی راہ سے زنا کی تہمت لگائی.اگر غیرت مند مسلمانوں کو اپنی محسن گورنمنٹ کا پاس نہ ہوتا تو ایسے شریروں کو جن کے افترا میں یہاں تک نوبت پہنچی وہ جواب دیتے جو ان کی بداصلی کے مناسب حال ہوتا.مگر شریف انسانوں کو گورنمنٹ کی پاسداریاں ہر وقت روکتی ہیں اور وہ طمانچہ جو ایک گال کے بعد دوسری گال پر عیسائیوں کو کھانا چاہیے تھا ہم لوگ گورنمنٹ کی اطاعت میں محو ہو کر پادریوں اور ان کے ہاتھ کے اکسائے ہوئے آریوں سے کھا رہے ہیں.یہ سب بُردبار یاں ہم اپنی محسن گورنمنٹ کے لحاظ سے کرتے ہیں اور کریں گے کیونکہ ان احسانات کا ہم پر شکر کرنا واجب ہے جو سکھوں کے زوال کے بعد ہی خدا تعالیٰ کے فضل نے اس مہربان گورنمنٹ کے ہاتھ سے ہمارے نصیب کئے اور نہایت بدذاتی ہوگی اگر ایک لحظہ کے لئے بھی کوئی ہم میں سے ان نعمتوں کو فراموش کر دے جو اس گورنمنٹ کے ذریعہ سے مسلمانوں کو ملی ہیں بلاشبہ ہمارا جان و مال گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی میں فدا ہے اور ہوگا.اور ہم غائبانہ اس کے اقبال کے لئے دعا گو ہیں اور اگر چہ گورنمنٹ کی عنایات سے ہر یک کو اشاعت مذہب کے لئے آزادی ملی ہے لیکن اگر سوچ کر دیکھا جائے تو اس آزادی کا پورا پورا فائدہ محض مسلمان اٹھا سکتے ہیں اور اگر عمد ا آپ نہ اٹھاویں تو ان کی بدقسمتی ہے وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ نے اپنی عام مہربانیوں کی وجہ سے مذہبی آزادی کا ہر یک قوم کو عام فائدہ دیا اور کسی کو اپنے اصولوں کی اشاعت سے نہیں روکا لیکن جن مذہبوں میں سچائی کی قوت اور طاقت نہیں اور ان کے اصول صرف انسانی بناوٹ ہیں اور ایسے قابل مضحکہ ہیں جو ایک محقق کو ان کی بیہودہ کتھا اور کہانیاں سن کر بے اختیار ہنسی آجاتی ہے کیونکر ان مذہبوں کے واعظ اپنی ایسی باتوں کو وعظ کے وقت دلوں میں جما سکتے ہیں اور کیونکر ایک پادری مسیح کو خدا کہتے ہوئے ایک دانشمند شخص کو اس حقیقی خدا پر ایمان رکھنے سے برگشتہ کر سکتا ہے جس کی ذات مرنے اور مصیبتوں کے اٹھانے اور دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہونے اور پھر مصلوب ہو جانے سے پاک ہے اور جس کا جلالی نام قانون قدرت کے ہر ایک صفحہ میں چمکتا ہوا

Page 37

مجموعہ اشتہارات ۲۱ جلد دوم نظر آتا ہے.ہم نے خود بعض منصف مزاج عیسائیوں سے خلوت میں سنا ہے کہ جب ہم کبھی مسیح کی خدائی کا بازاروں میں وعظ کرتے ہیں تو بعض وقت مسیح کے عجز اور اضطرار کی سوانح پیش نظر آجانے سے بات کرتے کرتے ایسا انفعال دل کو پکڑتا ہے کہ بس ہم ندامت میں غرق ہی ہو جاتے ہیں.غرض انسان کو خدا بنانے والا کیا وعظ کرے گا اور کیونکر اس عاجز انسان میں اس قادر خدا کی عظمت کا نمونہ دکھائے گا جس کے حکم سے ایک ذرہ بھی زمین و آسمان سے باہر نہیں اور جس کا جلال دکھلانے کے لئے سورج چمکتا اور زمین طرح طرح کے پھول نکالتی ہے.ایسا ہی ایک آریہ کیا وعظ کرے گا کیا وہ دانشمندوں کے سامنے یہ کہہ سکتا ہے کہ تمام روحیں اور ان کی قوتیں اور طاقتیں اپنے وجود کی آپ ہی خدا ہیں اور کسی کے سہارے سے ان کا وجود اور بقاء نہیں اور یا یہ کہہ سکتا ہے کہ وید کی یہ تعلیم عمدہ ہے کہ خاوند والی عورتیں اولاد کی غرض سے دوسروں سے ہم بستر ہو جایا کریں.ابھی ہمیں تجربہ ہوا ہے کہ جب ہماری بعض جماعت کے لوگوں نے کسی آریہ یا ان کے پنڈت سے نیوگ کی حقیقت بازار میں پوچھی جہاں بہت سے آدمی موجود تھے تو وہ آریہ یا پنڈت شرمندہ ہوا اور چپکے سے کہا کہ آپ اندر چل کر مجھ سے یہ گفتگو کریں بازار میں لوگ سن کر ہنسی کرتے ہیں اب ظاہر ہے کہ جن لوگوں کا اپنا ہی یہ حال ہے کہ ایسے عقائد اور اعمال کی نسبت اپنا ہی کانشنس ان کا ان کے عقیدہ کو دھکے دیتا ہے اور قبول نہیں کرتا تو پھر وہ غیروں کو کیا وعظ کریں گے.اس لئے مسلمانوں کو نہایت ہی گورنمنٹ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ گورنمنٹ کے اس قانون کا وہی اکیلے فائدہ اٹھا رہے ہیں بیچارے پادری صد ہا روپیہ خرچ کر کے ایک ہندو کو قابو میں لاتے ہیں اور وہ آخر بعد آزمائش مسلمانوں کی طرف آ جاتا ہے اور یا صرف پیٹ کا بندہ ہو کر محض دنیوی لالچ سے انہیں میں گزارہ کرتا ہے لیکن ہمیں اپنے دلآزار ہمسایوں مخالفوں سے ایک اور شکایت ہے اگر ہم اُس شکایت کے رفع کے لئے اپنی محسن اور مہربان گورنمنٹ کو اس طرف توجہ نہ دلاویں تو کس کو دلاویں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے مذہبی مخالف صرف بے اصل روایات اور بے بنیاد قصوں پر بھروسہ کر کے جو ہماری کتب مسلّمہ اور مقبولہ کی رو سے ہرگز ثابت نہیں ہیں بلکہ منافقوں کے مفتریات ہیں

Page 38

مجموعہ اشتہارات ۲۲ جلد دوم ہمارا دل دکھاتے ہیں اور ایسی باتوں سے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں اور گالیوں تک نوبت پہنچاتے ہیں جن کا ہماری معتبر کتابوں میں نام و نشان نہیں.اس سے زیادہ ہمارے دل دکھانے کا اور کیا موجب ہوگا کہ چند بے بنیاد افتر اؤں کو پیش کر کے ہمارے اس سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر زنا اور بدکاری کا الزام لگانا چاہتے ہیں جس کو ہم اپنی پوری تحقیق کی رو سے سید المعصومین اور ان تمام پاکوں کا سردار سمجھتے ہیں جو عورت کے پیٹ سے نکلے اور اس کو خاتم الانبیاء جانتے ہیں کیونکہ اس پر تمام نبوتیں اور تمام پاکیز گیاں اور تمام کمالات ختم ہو گئے.اس صورت میں صرف یہی ظلم نہیں کہ ناحق اور بے وجہ ہمارا دل دکھایا جاتا ہے اور اس انصاف پسند گورنمنٹ کے ملک میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی جاتی ہیں اور بڑے بڑے پیرایوں میں ہمارے اس مقدس مذہب کی توہین کی جاتی ہے.بلکہ یہ ظلم بھی ہوتا ہے کہ ایک حق اور راست راست امر کو محض یاوہ گوئی کے ذخیرہ سے مشتبہ اور کمزور کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے اگر گورنمنٹ کے بعض اعلیٰ درجہ کے حکام دو تین روز اس بات پر بھی خرچ کریں کہ ہم میں سے کسی منتخب کے روبرو ایسے بیجا الزامات کی وجہ ثبوت ہمارے مذکورہ بالا مخالفوں سے دریافت فرما دیں تو زیرک طبع حکام کو فی الفور معلوم ہو جائے گا کہ کس قدر یہ لوگ بے ثبوت بہتانوں سے سرکار انگریزی کی وفادار ر عا یا اہل اسلام پر ظلم کر رہے ہیں.ہم نہایت ادب سے گورنمنٹ عالیہ کی جناب میں یہ عاجزانہ التماس کرتے ہیں کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان احسانوں کو یاد کر کے جواب تک ہم پر کئے ہیں ایک یہ بھی ہماری جانوں اور آبروؤں اور ہمارے ٹوٹے ہوئے دلوں پر احسان کرے کہ اس مضمون کا ایک قانون پاس کر دیوے یا کوئی سرکلر جاری کرے کہ آئندہ جو مناظرات اور مجادلات اور مباحثات مذہبی امور میں ہوں ان کی نسبت ہر یک قوم مسلمانوں اور عیسائیوں اور آریوں وغیرہ میں سے دوامر کے ضرور پابند ر ہیں.(۱) اوّل یہ کہ ایسا اعتراض جو خود معترض کے ہی الہامی کتاب یا کتابوں پر جن کے

Page 39

مجموعہ اشتہارات ۲۳ جلد دوم الہامی ہونے پر وہ ایمان رکھتا ہے وارد ہو سکتا ہو یعنی وہ امر جو بنا اعتراض کی ہے ان کتابوں میں بھی پایا جا تا ہو جن پر معترض کا ایمان ہے ایسے اعتراض سے چاہیے کہ ہر یک ایسا معترض پر ہیز کرے.(۲) دوم اگر بعض کتابوں کے نام بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے کسی فریق کی طرف سے اس غرض سے شائع ہو گئے ہوں کہ در حقیقت وہی کتا بیں ان کی مسلم اور مقبول ہیں تو چاہیے کہ کوئی معترض ان کتابوں سے باہر نہ جائے اور ہر یک اعتراض جو اس مذہب پر کرنا ہوا نہیں کتابوں کے حوالہ سے کرے اور ہر گز کسی ایسی کتاب کا نام نہ لیوے جس کے مسلّم اور مقبول ہونے کے بارے میں اشتہار میں ذکر نہیں اور اگر اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو بلا تامل اس سزا کا مستوجب ہو جو دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند میں مندرج ہے.یہ التماس ہے جس کا پاس ہونا ہم بذریعہ کسی ایکٹ یا سرکلر کے گورنمنٹ عالیہ سے چاہتے ہیں اور ہماری زیرک گورنمنٹ اس بات کو بجھتی ہے کہ اس قانون کے پاس کرنے میں کسی خاص قوم کی رعایت نہیں بلکہ ہر یک قوم پر اس کا اثر مساوی ہے اور اس قانون کے پاس کرنے میں بے شمار برکتیں ہیں جن سے عامہ خلائق کے لئے امن اور عافیت کی راہیں کھلتی ہیں اور صد با بیہودہ نزاعوں اور جھگڑوں کی صف پیٹی جاتی ہے اور اخیر نتیجہ صلح کاری اور ان شرارتوں کا دور ہو جانا ہے جوفتنوں اور بغاوتوں کی جڑ ہوتے ہیں اور دن بدن مفاسد کو ترقی دیتے ہیں اور ہماری قلم جو ہر یک وقت اس گورنمنٹ عالیہ کی مدح و ثناء میں چل رہی ہے اس قانون کے پاس ہونے سے اپنی گورنمنٹ کو دوسروں پر ترجیح دینے کے لئے ایک ایسا وسیع مضمون پائے گی جو آفتاب کی طرح چمکے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو خدا معلوم کہ روز کی لڑائیوں اور بیہودہ جھگڑوں کی کہاں تک نوبت پہنچے گی.بے شک اس سے پہلے تو ہین کے لئے دفعہ ۲۹۸ تعزیرات میں موجود ہے لیکن وہ ان مراتب کے تصفیہ پا جانے سے پہلے فضول اور لکھی ہے اور خیانت پیشہ لوگوں کے لئے گریز گاہ وسیع ہے.اور پھر ہم اپنے مخالف فریقوں کی طرف متوجہ ہو کر کہتے ہیں کہ آپ لوگ بھی برائے خدا ایسی

Page 40

مجموعہ اشتہارات ۲۴ جلد دوم تدبیر کو منظور کریں جس کا نتیجہ سرا سرامن اور عافیت ہے اور اگر یہ احسن انتظام نہ ہوا تو علاوہ اور مفاسد اور فتنوں کے ہمیشہ سچائی کا خون ہوتا رہے گا اور صادقوں اور راستبازوں کی کوششوں کا کوئی عمدہ نتیجہ نہیں نکلے گا اور نیز رعایا کی باہمی نا اتفاقی سے گورنمنٹ کے اوقات بھی ناحق ضائع ہوں گے اس لئے ہم مراتب مذکورہ بالا کو آپ سب صاحبوں کی خدمت میں پیش کر کے یہ نوٹس آپ صاحبوں کے نام جاری کرتے ہیں اور آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ ہماری کتب مسلمہ مقبولہ جن پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں یہ تفصیل ذیل ہیں.اوّل قرآن شریف مگر یادر ہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اور نیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسر نہ آسکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسر ہو غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں پس ہر یک معترض پر لازم ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے.دوم دوسری کتا ہیں جو ہماری مسلم کتا بیں ہیں ان میں سے اول درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جو قرآن شریف سے مخالف نہیں اور ان میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی، ابن ماجہ، موطا ، نسائی، ابن داؤد، دارقطنی کتب حدیث ہیں جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں یہ کتا بیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی رو سے ہمارا عمل ہے.اب ہم قانونی طور پر آپ لوگوں کو ایسے اعتراضوں سے روکتے ہیں جو خود آپ کی کتابوں اور آپ کے مذہب پر وارد ہوتے ہیں کیونکہ انصاف جن پر قوانین مبنی ہیں ایسی کارروائی کو صحت نیت میں داخل نہیں کرتا اور ہم ایسے اعتراضوں سے بھی آپ لوگوں کو منع کرتے ہیں جو ان

Page 41

مجموعہ اشتہارات ۲۵ جلد دوم کتابوں اور ان شرائط پر مبنی نہیں جن کا ہم اشتہار میں ذکر کرتے ہیں کیونکہ ایسی کارروائی بھی تحقیق حق کے برخلاف ہے پس ہر یک معترض پر واجب ہو گا کہ کسی اعتراض کے وقت ان کتابوں اور ان شرائط سے باہر نہ جائے اور ضروری ہوگا کہ اگر آئندہ آپ صاحبوں میں سے کوئی صاحب ہماری کسی تالیف کا رد لکھے یار د کے طور پر کوئی اشتہار شائع کریں یا کسی مجلس میں تقریری مباحثہ کرنا چاہیں تو ان شرائط مذکورہ بالا کی پابندی سے باہر قدم نہ رکھیں یعنی ایسی باتوں کو بصورت اعتراض پیش نہ کریں جو آپ لوگوں کی الہامی کتابوں میں بھی موجود ہوں اور ایسے اعتراض بھی نہ کریں جو ان کتابوں کی پابندی اور اس طریق کی پابندی سے نہیں ہیں جو ہم اشتہار میں شائع کر چکے ہیں.غرض اس طریق مذکورہ بالا سے تجاوز کر کے ایسی بیہودہ روایتوں اور بے سروپا قصوں کو ہمارے سامنے ہرگز پیش نہ کریں اور نہ شائع کریں جیسا کہ یہ خائنانہ کارروائیاں پہلے اس سے ہندوؤں میں سے اندر من مراد آبادی نے اپنی کتابوں تحفہ اسلام و پاداش اسلام وغیرہ میں دکھلائیں اور پھر بعد اس کے یہ نا پاک حرکتیں مسمی لیکھرام پشاوری نے جو محض نادان اور بے علم ہے اپنی کتاب تکذیب براہین اور رسالہ جہاد اسلام میں کیں اور جیسا کہ یہی بیہودہ کا رروائیاں پادری عمادالدین نے اپنی کتابوں میں اور پادری ٹھاکر داس نے اپنے رسائل میں اور صفدرعلی وغیرہ نے اپنی تحریروں میں لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کیں اور سخت دھو کے دے دے کر ایک دنیا کو گندگی اور کیچڑ میں ڈال دیا اور اگر آپ لوگ اب بھی یعنی اس نوٹس کے جاری ہونے کے بعد بھی اپنی خیانت پیشہ طبیعت اور عادت سے باز نہیں آئیں گے تو دیکھو ہم آپ کو ہلا ہلا کر متنبہ کرتے ہیں کہ اب یہ حرکت آپ کی صحت نیت کے خلاف سمجھی جائے گی اور محض دلآزاری اور تو ہین کی مد میں متصور ہوگی.اور اس صورت میں ہمیں استحقاق ہوگا کہ عدالت سے اس افتراء اور تو ہین اور دلآزاری کی چارہ جوئی کریں اور دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند کی رو سے آپ کو ماخوذ کرائیں اور قانون کی حد تک سزا دلائیں کیونکہ اس نوٹس کے بعد آپ اپنی نا واقفی اور صحت نیت

Page 42

مجموعہ اشتہارات ۲۶ جلد دوم کا عذر پیش نہیں کر سکتے اور آپ سب صاحبوں کو بھی اختیار ہوگا کہ اپنی مقبولہ مسلّمہ کتابوں کا اشتہار دے دیں اور بعد اس کے اگر کوئی مسلمان معترض اپنے اعتراض میں آپ کے اشتہار کا پابند نہ ہو اور کوئی ایسا اعتراض کرے کہ جو ان کتابوں کی بناء پر نہ ہو جن کے مقبول ہونے کی نسبت آپ اشتہار دے چکے ہیں یا کوئی ایسا امر مورد اعتراض ٹھہر اوے جو خود اسلام کی تعلیم میں موجود ہے تو بے شک ایسا معترض مسلمان بھی آپ لوگوں کے اشتہار کے بعد اسی دفعہ ۲۹۸ کی رو سے سزا پانے کے لائق ہو گا جس دفعہ سے ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں.اب ذیل میں اس نوٹس دینے والوں کے دستخط اور مواہیر ہیں.فقط قادیان صاحب بد ومالوی، مفتی فضل الرحمن صاحب مدرس جمور منشی جلال الدین صاحب میر منشی رجمنٹ نمبر ۱۲ سواران حضرت اقدس امام انام مهدی و مسیح موعود میرزا غلام احمد بنگال، منشی غلام محمد صاحب خوشنویس امرتسری، مولوی علیہ السلام، حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم نور الدین فیض احمد صاحب جہلمی ، میرزا یعقوب بیگ صاحب صاحب بھیروی ثم قادیانی، حضرت مولوی سید محمد احسن طالب علم اسٹنٹ سرجن کلاس میڈیکل کالج لاہور، صاحب امروہی، مولوی حکیم فضل دین بھیروی، میرزا ایوب بیگ صاحب طالب علم بی اے کلاس صاحبزادہ محمد سراج الحق صاحب جمالی نعمانی قادیانی گورنمنٹ کالج لاہور ، شیر محمد خاں صاحب طالب علم سابق سرساوی، سید ناصر نواب صاحب دہلوی حال ایف اے کا اس لاہور شیخ غلام محی الدین صاحب کتب فروش قادیانی، صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانوی قادیانی، جہلم، مرزا اسماعیل قادیانی باب غلام رسول صاحب سابق صاحبزادہ منظور محمد صاحب، مولوی حاجی حافظ احمد اللہ اسٹیشن ماسٹر راولپنڈی ڈسٹرکٹ، شیخ عبداللہ صاحب خان صاحب، مولوی نور الحسن صاحب روالی بنشی محمد خاں پٹواری سنوری، شیخ حامد علی صاحب قادیانی بنشی تاج دین صاحب کپورتھلہ ، قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوئی صاحب کلرک اگزیمز آفس ریلوے لاہور منشی نبی بخش ضلع گوجرانوالہ، شیخ عبدالرحیم صاحب نو مسلم سابق لیس صاحب کلرک، شیخ عبدالرحمن صاحب شیخ عبدالعزیز دفعدار رسالہ نمبر۱۴ چھاؤنی سیالکوٹ ، مولوی قطب الدین صاحب، شیخ مسیح اللہ صاحب شاہجہان پوری،

Page 43

مجموعہ اشتہارات ۲۷ جلد دوم حاجی دریام صاحب خوشابی، سید مقبول حسن صاحب محمد مبارک صاحب اپیل نویس، ملک سمند خان ڈیرہ اسماعیل خاں، سید محمد کبیر صاحب دہلوی صاحب عرضی نو لیں.سید لال شاہ صاحب عرضی نویس، شیخ شہاب الدین صاحب.قاضی غلام شاہ صاحب سوداگر اسپاں، قاضی مولا بخش صاحب ذیلدار ومیونسپل کمشنر چنیوٹ، حکیم علاءالدین سیالکوٹ صاحب شخچپوری، سردار محمد چراغ خان صاحب رئیس مولوی عبدالکریم صاحب، مولوی حکیم ابو یوسف ساہیوال کرسی نشین درباری نمبر اول و جاگیردار نسلاً بعد نسل محمد مبارک علی صاحب منشی غلام قادر فصیح صاحب واہل جیوری و ممبر ڈسٹرکٹ بورڈ ، مخدوم محمد صدیق رئیس مالک پنجاب پریس ، سید حامد شاہ صاحب اہلمد صاحب، مخدوم محمد عثمان صاحب ، میاں الہ بخش صاحب معافیات، سید محمودشاہ صاحب شیخ مولا بخش صاحب نمبر دار جھول پور، بابو محمد اسحاق صاحب اوورسیر، قاضی سوداگر، سیدامیر علی شاہ صاحب سارجنٹ ڈسکہ، میاں سید امام شاہ صاحب عرضی نویس، راجه کرم داد خاں شادی خاں صاحب، میاں عطا محمد صاحب اوور سیر، صاحب ذیلدار ملک وال، غلام حیدر خان صاحب ڈپٹی انسپکٹر نارووال، راجہ محمد خاں صاحب ذیلدار کوٹ احمد خاں، عبدالعزیز صاحب.راجہ خاں صاحب ذیلدار جیون وال راجہ محمد حیات خاں صاحب ذیلدار دیہی ، بھیر ضلع شاہ پور میاں عالم دین صاحب ذیلدار نمتاس، میاں شیخ شیخ فضل الہی صاحب آنریری مجسٹریٹ ، شیخ غلام نبی صدر الدین صاحب پراچہ میونسپل کمشنر ومالگذار، منشی صاحب وائس پریزیڈنٹ میونسپل کمیٹی ، میاں غلام محمد محمد پناه صاحب سوداگر چرم و مالگذار،سید ستار شاه صاحب ضلعد ارا نہار ، پیر چن صاحب ، چودھری حافظ صاحب مالگذار علی پور، سید امام شاہ صاحب سر براہ دل احمد صاحب بی اے سیکنڈ ماسٹر گورنمنٹ سکول ، ذیلدار و مالگذار علی پور ، پیر لقمان شاہ صاحب نمبر دار، مولوی گل محمد صاحب مدرس بور ڈ سکول ، بابو غلام جیلانی شیخ عالم دین صاحب پٹواری، بابو غلام محمد صاحب صاحب مدرس سکول پنڈ دادن خان، شیخ نذیر محمد مختار وسیکرٹری ،سید زمان شاہ صاحب عرضی نویس،عباس صاحب فارسٹ انجینئر ، شیخ علی محمد صاحب انگلش ٹیچر خاں صاحب بہرت، مفتی الہی بخش صاحب، مفتی بورڈ سکول، شیخ عبدالعزیز صاحب ایف اے شیخ محمد حسین صاحب مدرس سکول، حکیم فضل احمد صاحب

Page 44

مجموعہ اشتہارات جلد دوم طبیب سرکار ، مولوی علی محمد صاحب روالی مولوی محمد بین مستری محمد اسلام صاحب ، حکیم احمد دین صاحب ، مولوی صاحب ڈہڈی، شیخ دین محمد صاحب ملازم نهر، شیخ سردار محمد صاحب برادر زاده مولوی نور الدین محمد امین صاحب سابق کرنل فوج سفر مینا امیر صاحب صاحب محمد عبد الرحمن صاحب طالب علم ہائی سکول، والٹی کابل، شیخ سراج الدین صاحب پراچہ سوداگر میاں عالم دین صاحب، مولوی احمد دین صاحب کابل، میاں شیخ محمد بخش صاحب تلوار چنیوٹی ، ملک مدرس عربی سکول بھیرہ، میاں خادم حسین صاحب غلام محمد خاں صاحب را جڑ ، ملک دوست محمد خان صاحب مدرس اینگلوسنسکرت سکول بھیرہ، حکیم شیخ قادر بخش نمبر دار بھولوال، میاں رحیم بخش صاحب مختار عام، صاحب احمد آبادی، میاں نجم الدین صاحب، بابو ملک حاکم خان صاحب، خان بہادر ملک حسن خاں امام الدین صاحب سب اوورسیر، محمد حیات صاحب صاحب نمبر دار راجڑ ، ملک جلال خان صاحب نمبر دار جہادا، نقشہ نویس ، میاں محمد صدیق صاحب پٹواری ، مولوی ملک جوایا خاں صاحب، چوہدری محمد بخش صاحب عالم دین صاحب قریشی ، میاں کامل الدین صاحب قریشی، نمبردار پنڈی کوٹ، چوہدری پیرو نمبردار ایضاً، شیخ حکیم مولوی شیر محمد صاحب بجن ، میاں شیر علی صاحب صدرالدین صاحب قریشی و نمبردار ، چوہدری ولی داد ایف اے کلاس ، مولوی نظام الدین صاحب مدرس.صاحب جہانیوالہ، میاں گل محمد صاحب مختار، ملک شیر محمد خاں بہادر، چوہدری غلام محمد نمبر دارٹھا ئر ، چوہدری زیادہ صاحب نمبر دار، چوہدری ہادو صاحب نمبر دار ایضا، شیخ لاہور چوہدری نبی بخش صاحب بی.اے اسلامیہ کالج، خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے پروفیسر اسلامیہ کالج، اله بخش صاحب رئیس شیخور، سلطان عارب خاں صاحب خواجہ ضیاء الدین صاحب ذیلدار کٹہا ، ملک شیر محمد ولد سلطان مقرب ، مولوی عبدالکریم میر عبد الواحد صاحب اخوند ، میاں خدا بخش، میاں غلام حسین صاحب، منشی عبداللہ صاحب میاں محمد رفیق صاحب مدرس اینگلو سنسکرت اسکول شیخ مولوی فضل کریم صاحب 1/ " // // " " // // // محمد حسن صاحب کاتب، مستری قطب الدین صاحب مولوی محمد علی صاحب ایم اے پروفیسر اسلامیہ کالج، مستری اسماعیل صاحب ہمستری قمر الدین صاحب، منشی سعدالدین خاں صاحب بی.اے.مستری غلام نبی صاحب ہمستری نوراحمد صاحب، محمد ایوب صاحب بی.او.ایل.

Page 45

مجموعہ اشتہارات ۲۹ جلد دوم چوہدری سردار خاں صاحب ملازم دفتر اکونٹ جنرل پنجاب گیلانی بخش صاحب ، شہاب الدین صاحب // مولوی احمد صاحب سید خورشید انور صاحب منشی رحیم بخش صاحب مرزا محبوب بیگ صاحب " // // // "/ // // " // وزیرشاہ صاحب را، میرا میر شاه صاحب را دفتر اکونٹنٹ جنرل پنجاب غلام محمد صاحب کلرک منشی نظام الدین صاحب //، میاں حفیظ اللہ صاحب // معلم ایل ایل بی اے کلاس ، شرف الدین صاحب ، محمد علی صاحب منشی احمد دین صاحب منشی محمد الدین صاحب // پروفیسر بہاولپور کالج ،مولوی عمرالدین صاحب ایم اے سنٹرل ماڈل سکول، شیخ خوشدل، نجابت اللہ صاحب، اللہ بخش اللہ صاحب، محمد یاسین عبد القادر صاحب بی.اے سب اڈیٹر اخبار پنجاب، صاحب، نوازش علی صاحب، میر میراث علی صاحب.غلام حسین صاحب بی اے ہیڈ ماسٹر تلہ گنگ.مستعلّمان ٹریننگ کالج لاہور از دفتر اگر یمر ریلوے لاہور اللہ داد خاں صاحب، محمد نواز خاں صاحب، سراج الحق مولا بخش صاحب، محمد علی صاحب، غلام حسین صاحب صاحب سید فرزند علی صاحب، محمدتقی صاحب، خدا بخش حافظ فضل احمد صاحب، خلیفه محمد شریف صاحب، منشی صاحب صدر دین صاحب، رحمت اللہ صاحب، غلام محمد صاحب، فضل الدین صاحب، نظام الدین خورشید عالم صاحب، کرم دین صاحب.اس فہرست صاحب، محمد یوسف صاحب، معراج الدین صاحب یا کے ۵۱ نام ہیں اس قدر بطور اختصار لکھے گئے ہیں.دفتر لوکولا ہور تاجران لاہور عبد الرحمن صاحب کلرک علم الدین صاحب شیخ محمد رفیع صاحب اینڈ برادرس سوداگران انارکلی، 6/1 حافظ محمد حسین صاحب سود اگر مینجر محمد رفیع صاحب، بوٹا خان صاحب، خدا بخش صاحب ے نوٹ.اس دفتر کے کل نام ۲۱ ہیں.کے اس دفتر کے کل نام ۳۲ ہیں اور لاہور کے ایک ہزار سے زیادہ نام ہیں باعث طوالت تھوڑے لکھے گئے ہیں.فقط

Page 46

مجموعہ اشتہارات جلد دوم شیخ نبی بخش صاحب سوداگر مینجر کشمیری شاپ حافظ الله د تا صاحب، مولوی جواہر علی صاحب، مولوی رمضان خان اینڈ کو انار کلی، شیخ رحمت اللہ صاحب عنایت اللہ صاحب امام مسجد پرانی انارکلی، مولوی سوداگر بمبئی ہاؤس، شیخ قادر بخش صاحب سود اگر انار کلی، حسام الدین صاحب محلہ ستھاں، مولوی نور الدین حاجی کریم بخش صاحب سوداگر انار کلی ، نواب محمد ابراہیم صاحب امام مسجد، خلیفه امام الدین صاحب، امام غلام صاحب پروپرائٹر ویسٹرن سوپ کمپنی ، حاجی عبدالرحیم و محمد صاحب ولد مولوی فتح محمد صاحب، امام مسجد لوہاری محمد یعقوب سوداگران انارکلی، شیخ نصیر الدین، منڈی ، امام محمد عالم صاحب، مولوی احمد دین صاحبہ محمد یعقوب صاحب مالک ڈرکٹ حال لاہور انارکلی ، مولوی حافظ وز یرمحمد صاحب، امام غلام محمود صاحب.غلام محی الدین صاحب پر و پراکٹر بر سٹیم کمپنی، شیخ غلام حسین، غلام حیدر صاحب مالکان وکٹر کلاتھ کمپنی لاہور، سیٹھ رؤساء لا ہور غلام علی صاحب انارکلی، شیخ محمد عید و صاحب سوداگر ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب گئی بازار، ماسٹر شیر محمد صاحب انار کلی حسن علی اسماعیل جی صاحب سوداگر انار کلی ، شیخ آرٹ سکول ، احمد رضا خاں صاحب رئیس رامپور حال محمد عارف محمد اسحاق صاحب سوداگران انار کلی.وارد لاہور، میر تقی صاحب مدرس ایچ سن سکول ،منشی ڈاکٹر کلن خان صاحب سرجن ڈینٹسٹ انار کلی ، خلیفہ کرم الہی صاحب دفتر نہر محمد لطیف خاں صاحب ڈپٹی انسپکٹر ، رجب الدین صاحب رئیس و سوداگر بر پنچ لا ہور محمد چٹو حاجی عبدالحکیم خاں صاحب ٹھیکہ دار، میاں فرید بخش صاحب سوداگر ریشم ، شیخ محمد عالم صاحب مینجر گجراتی صاحب نقشہ نویس دفتر نہر چناب سرکل، میاں چنن دین شاپ انارکلی، شیخ احمد بخش صاحب تاجر چرم ، حاجی شیخ صاحب پنجاب بنک لاہور، نواب الدین صاحب نقشہ رحمت اللہ صاحب ، شیخ محمد صدیق صاحب مینجر ویسٹرن نویس بھائی دروازہ ،منشی میراں بخش صاحب اکو نٹٹ سو کمپنی ، شیخ محبوب بخش صاحب سودا گرانارکلی.محکمہ نہر بھائی دروازہ، کریم بخش صاحب کاردار زمیندار بھائی دروازہ، محمد ابراہیم خاں صاحب اوور سیر ملازم امیر ائمہ مساجد لا ہور کابل، خورشید عالم صاحب کلرک چیف کورٹ پنجاب، مولوی محمد یار صاحب امام مسجد طلائی.مولوی غلام حسین نصیر الدین صاحب نقشہ نویس، جلال الدین صاحب رگمٹی، حافظ غلام علی صاحب، محمد علی نقشہ نویس، حسین بخش صاحب نقشه نویس، میراں بخش صاحب مفتی فصیح الدین صاحب، عبداللطیف صاحب صاحب نقشہ نویس،احمد بخش صاحب نقشہ نویس ہفتی صاحب امام مسجد

Page 47

مجموعہ اشتہارات جلد دوم غلام حیدر صاحب سٹور کیپر نہر چناب، شیخ کریم الدین میاں مہتاب الدین صاحب سپر وائزر پبلک ورکس، صاحب پنشنر، ماسٹر غلام نبی صاحب ہیڈ ماسٹر مڈل ڈاکٹر غلام علی صاحب ایل ایم ایس، مرزا امان اللہ بیگ سکول اسلامیہ کالج، ماسٹر کریم خاں صاحب ناظم صاحب پنشنرز منشی محمد امیر الدین صاحب کوٹھی دار، منشی پرائمر ، عبدالشکور خان صاحب دفتر فنانشل کمشنر پنجاب، خیر الدین صاحب، حاجی محمد عبد الصمد صاحب میونسپل پیر محمد عثمان صاحب، ملک ہیرا صراف صاحب محلہ کے کمشنر ٹھیکہ دار لاہور.زئی الہی بخش صاحب سوداگر پشمینہ کو چہ جراحاں، میاں وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ چنن دین صاحب ہیڈ کلرک ٹریفک آفس لاہور، میاں اسلام الدین صاحب کلرک ايضا، میاں مولوی عنایت اللہ صاحب مدرس مدرسه مانانوالہ ، قاضی سیف الدین صاحب ، حافظ عبدالعزیز صاحب نقشه سید محمد صاحب ذمہ دار ومالگذار کوٹ قاضی، قاضی نولیس دفتر چیف انجینئر ریلوے منشی نورالہی صاحب ڈپٹی سراج الدین صاحب نمبر دار ، مولوی وزیر محمد صاحب سپرنٹنڈنٹ ضلع لاہور ، حکیم مبارک دین صاحب بھائی مدرس اول عربی و فارسی ، شیخ غلام قادر صاحب سوداگر دروازه، مرزا فداحسین صاحب کلرک ،ریلوے، عبدالرحمن ،چرم، منشی نبی بخش صاحب مدرس مشن سکول، شیخ صاحب ڈسٹرکٹ اوورسیر، عبداللطیف صاحب محمد حیات صاحب تاجر کتب، بابو فضل دین صاحب شاہ دین صاحب مینجر مطبع پنجاب آبزرور محمود علی خاں گڈس کلرک، شیخ پیر محمد صاحب سوداگر، غلام رسول صاحب نقشه نویس دفتر سول سیکرٹریٹ گورنمنٹ صاحب نقشہ نویس، میاں شیخ محمد دین صاحب محرر پنجاب محمد فضل علی صاحب کمیشن ایجنٹ ، سعادت علی خاں کمیٹی ، میاں شیخ نیاز احمد صاحب سوداگر ، حکیم سلطان صاحب نائب داروغه آبکاری لاہور منشی کرم الہی صاحب علی صاحب، شیخ دین محمد صاحب ٹھیکہ دار، منشی نجم مہتم مدرسہ نصرت الاسلام، مولا بخش صاحب مالک الدین صاحب اسٹام فروش، میاں عمر بخش صاحب نیولائل پریس، شیخ گلاب الدین صاحب انور علی صاحب سوداگر چوب، سید اکبر علی شاہ صاحب، شیخ فتح دین پینشن، خواجہ عزیز الدین صاحب سود اگر بریچی، جلال الدین صاحب سوداگر، شیخ احمد جان صاحب، ماسٹر عنایت اللہ صاحب محرر چونگی، بابو عید محمد صاحب نقشه نویس دفتر صاحب مشن سکول، شیخ اله بخش صاحب سوداگر آہن ، فنانشل کمشنر، عبداللہ خاں صاحب، فدا علی صاحب حافظ گلاب خاں صاحب سارٹرسفری ڈاک، قاضی کلرک دفتر نهر، شیخ گلاب دین صاحب مختار عدالت محمد یوسف صاحب مالگذار

Page 48

مجموعہ اشتہارات جلد دوم جموں ریانی ضلع رہتک خلیفہ نور الدین صاحب تاجر کتب مولوی محمد صادق وزیر محمد خاں ہیڈ ماسٹر مدرسہ گڑہ پانی.عبدالصمد خاں صاحب فارسی مدرس ہائی سکول، خواجہ جمال الدین صاحب دفعدار، محمد اسماعیل خاں صاحب ہاسپٹل صاحب لاہوری بی.اے ہیڈ ماسٹر ہائی سکول، محمد شاہ اسٹنٹ کڑیانوالہ ضلع، ایاز محمد خان صاحب نائب صاحب ٹھیکہ دار، مستری محمد عمر صاحب، مستری محمد دین مدرس کلانور ضلع گجرات پنجاب، امیر خان صاحب محرر صاحب ملازم ریلوے احمد پور، حافظ محمد دین صاحب کمیٹی ، عطا محمد خاں صاحب ذیلدار و ممبر ڈسٹرکٹ ٹھیکیدار وردی پولیس، میاں اللہ دتا صاحب سوداگر بورڈ، شاہ محمد خاں صاحب سوداگر، عمدہ خاں صاحب چرم، شیخ محمد الدین صاحب سوداگر چرم، منشی نبی بخش سیکنڈ ماسٹر ٹڈل سکول بہادر گڑھ، سردار خاں صاحب صاحب سوداگر، اللہ دتا صاحب.دفعدار سلوتری نمبر ۳ رساله پنجاب، کریم بخش صاحب خوشاب ضلع شاہ پور پنجاب سوداگر اسپاں، قاضی سید محمود الحسن صاحب قادری، مولوی حبیب شاہ صاحب، قریشی بلند خاں صاحب، قاضی عزیز الحسن صاحب، سید رحمت علی شاہ صاحب، عنایت خاں صاحب جمعدار، محمد سعید خاں صاحب سید حیدر شاه صاحب، مولوی فضل الدین خاں صاحب، مولوی غلام احمد صاحب تھیلی ، مولوی فتح دین سوداگر اسپاں ، عبداللطیف خاں صاحب سوداگر، قاضی محمد یعقوب صاحب، محمد یقوب خاں صاحب سوداگر، صاحب، مولوی غلام احمد صاحب، بہادر خاں صاحب عبدالمناف صاحب سوداگر، عبدالصمد صاحب سوداگر، خدا ذیلدار و رئیس، سید عبدالمجید شاہ صاحب قریشی ، بخش صاحب پنشن خوار ریاست گوالیار، الہی بخش صاحب جوائی خاں صاحب انہیر ، عالم خاں صاحب میونسپل کمشنر ، پیر رنگ شاہ صاحب قریشی، پیر غلام مرتضی شاه صاحب قریشی، پیر جمال الدین صاحب قریشی، مولوی دین محمد صاحب قریشی، سید راجہ شاہ صاحب، سید ستارشاه صاحب، سید جلال شاہ صاحب، سید عالم شاہ صاحب،عبدالمجید.سوار پنشن خوار، غلام دین خاں صاحب سوداگر اسپاں، ڈاکٹر محمد ظہیر الدین خاں صاحب، منظور احمد صاحب سوداگر اسپاں، نیاز احمد صاحب سوداگر اسپاں عطا محمد خان صاحب // نیاز محمد خان صاحب // // سردار خان صاحب در در

Page 49

مجموعہ اشتہارات ۳۳ جلد دوم عبداللہ خاں صاحب / ، محمد حسن خاں صاحب " ، شیخ نعمت اللہ صاحب ہیڈ کانسٹیبل، شیخ غلام محمد صاحب عبدالرزاق خاں صاحب // ا.انسپکٹر پولیس، محمد احمد خاں صاحب ہیڈ کانسٹیبل پینشنز، محمد عبدالرحمن خاں صاحب ايضا، سید نیاز علی صاحب بدایونی محله دوندی پور حال محرر ملک ریاست رام پور، منشی محمد نواب خاں صاحب تحصیلدار، جہلم، مولوی قاضی احسن الدین صاحب قریشی اکبر آبادی پولیس برہان الدین صاحب، میاں عبداللہ خان برادر الہ آباد، حاجی نجف علی صاحب، شیخ حرمت علی صاحب تحصیلدار جہلم، شیخ غلام محی الدین صاحب عرضی نویس کراری محله باراں دری، خدا بخش صاحب ولدغوث محمد صاحب تاجر جو نپوری حال الہ آباد، شیخ اکبر علی صاحب مولوی حافظ محمد قاری صاحب، مولوی غلام علی صاحب حسینی خان صاحب محلہ کڑہ ، سعد اللہ خاں صاحب محلہ را رہتا سی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست ، مولوی گلاب دین صاحب مدرس رہتاس ، اللہ دتا صاحب نائب محافظ دفتر انبالہ سپرنٹنڈنٹ جھنگ، محمد امین صاحب تاجر کتب ، مولوی بابو محمد صاحب ہیڈ کلرک دفتر نہر، میاں محمد اسماعیل خان ملک شیخ غلام نبی صاحب تاجر راولپنڈی ساکن صاحب نقشہ نویس.کہوتیاں، شیخ ابراہیم صاحب جہلم.الہ آباد شیخ عبدالغنی صاحب کمپوزیٹر.کپورتھلہ منشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس، میاں روشن دین سید رمضان علی صاحب ہیڈ کانسٹیبل پولیس دفتر الہ آباد صاحب ٹھیکیدار منشی اروڑا صاحب نقشہ نویس عدالت، آباد.سید جیون علی صاحب ، سید فرزند حسین صاحب ایضاً، منشی عبدالرحمن صاحب اہلمد جرنیلی، قاضی شیخ احمد سید دلدار علی صاحب سب انسپکٹر سید احسان علی صاحب صاحب منشی فیاض علی صاحب محرر پلٹن نمبر اول، زمیندار مهروند ، سید اہتمام علی صاحب ہیڈ کانسٹیبل پیشتر حسو خاں صاحب ، میاں حبیب الرحمن صاحب مالک و شیخ امیر علی صاحب پنشنر، عبدالغنی صاحب ہیڈ کانسٹیبل نمبر دار موضع حاجی پور، میاں سردار خاں صاحب کورٹ دفعدار پنشنز ، سید منصب علی صاحب ڈاکٹر محلہ کڑہ، رسالہ امپیریل سروس، مولوی محمد حسین صاحب کھیوٹ دار

Page 50

مجموعہ اشتہارات ۳۴ } جلد دوم موضع بھا گوارا ئیں، حکیم سید مہتاب علی صاحب اہلمد پشاور، شیخ عبدالرحیم صاحب محلہ کوٹلہ فیل باناں، نظامت، بشیر احمد کانسٹیبل.قصور احمد جان ولد محمد کمال صاحب محلہ نو.بٹالہ شیخ امین الدین صاحب میونسپل کمشنر، مرزا فضل بیگ منشی عبد العزیز صاحب عرف نبی بخش نمبر دار و بر کمیٹی، صاحب مختار، حکیم فتح محمد صاحب، ڈاکٹر بوڈا خاں با بوعلی محمد صاحب مالک مطبع شعلہ نور، میاں محمد امین صاحب اسٹنٹ سرجن، مولوی فضل حق صاحب صاحب، میاں محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار لکڑی.مدرس مدرسہ اسلامیہ سکول ، میاں حسین خاں صاحب ٹھیکیدار سکول.لدھیانہ پٹیالہ ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب سول سرجن چھاؤنی پٹیالہ، شیخ منشی محمد حسین صاحب مراد آبادی، شیخ عبید اللہ منشی رحیم بخش صاحب ممبر میونسپل کمیٹی لدھیانہ صاحب، مولوی حافظ عظیم بخش صاحب، مولوی منشی عبدالحق صاحب ،لدھیانہ شیخ شهاب الدین محمد یوسف صاحب سنوری.صاحب لدھیانہ، منشی ابراہیم صاحب تاجر، قاضی خواجہ علی صاحب ٹھیکیدار شکرم، شہزادہ عبدالمجید صاحب محلہ بلاد متفرقات اقبال گنج مولوی نور محمد صاحب مانگٹ، تاج محمد صاحب ڈاکٹر عبدالشکور صاحب سرسہ ضلع حصار، کلارک میونسپل کمیٹی، کرم الہی صاحب کانسٹیبل ، مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین منی پور مرزا حکیم رحمت اللہ صاحب تاجر کتب سید عنایت علی ملک ،آسام، منشی زین الدین صاحب، محمد ابراہیم شاہ صاحب محلہ صوفیاں.صاحب انجینئر هیچ پوکلی کالی چوکی بمبئی، سید تفضل حسین صاحب تحصیلدار شکوہ آباد ضلع مین پوری، پشاور منشی عبدالعزیز صاحب محرر دفتر نہر جمن غربی دہلی ہیٹھ مولوی غلام حسن صاحب رجسٹرار.بابو الہ بخش صاحب عبدالرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا صاحب تاجر ساجن جہلمی کلارک محکمہ ملٹری ورکس چھاؤنی کوہ چراٹ علاقہ کمپنی مدراس، سیٹھ محمد صالح صاحب مدراس،

Page 51

مجموعہ اشتہارات جلد دوم سیٹھ علی محمد صاحب بنگلور ، مولوی حسن علی صاحب واعظ منشی احمد جان صاحب مدرس گوجرانوالہ، غلام جیلانی اسلام بھاگلپور صوبہ بہار، مولوی انوار حسین خاں صاحب مدرس گہرڑ و نوہ ، مولوی وزیر الدین صاحب صاحب رئیس شاہ آباد ضلع ہردوئی، شیخ مولوی حسین مدرس مدرسه ریاست نادون ، مولوی حاکم شاہ صاحب عرب صاحب یمانی محدث بھوپال، مولوی محمد بشیر ، امانت خان صاحب عرضی نویس، مولوی عبد الحکیم صاحب بھوپال سابق مہتم مدارس ریاست مذکور، صاحب آصف موضع دہار واڑ علاقہ بمبئی، مولوی ابوالحبیب محبوب احمد صاحب مدرس مدرسه ملتان، بابو محمد افضل صاحب کله ضلع گجرات پنجاب، مولوی الہ بخش صاحب گڈس کلرک ریلوے سٹیشن پھلور، منشی محمد ا کرم صاحب //، مولوی محمد شریف صاحب // // محمد فضل حق صاحب مختار کار ساکن سراوہ ضلع میرٹھ ، مولوی نظام الدین صاحب رنگ پور ضلع جھنگ، حافظ میاں عبدالواسع صاحب، مولوی عبداللہ صاحب ملتان نور احمد صاحب سوداگر لدھیانہ، مولوی سید تلطف حسین اندرون پاک دروازه، سید خصلت علی شاہ ڈپٹی انسپکٹر صاحب تاجر دہلوی پھاٹک جبش خاں محمد عبدالرحیم ڈنگہ ضلع گجرات ، بابو غلام محی الدین صاحب گڈس صاحب موس پاٹر صدر انبالہ، فضل حسین صاحب قصبہ کلرک پھلور، چوہدری رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر جھا بو ضلع بجنور، حافظ امام الدین صاحب امام مسجد گورداسپور، مولوی سید محمد عسکری خاں صاحب تحصیلدار کپورتھلہ ، مستری جانی صاحب کپورتھلہ ، حافظ محمد علی کٹرہ ضلع الہ آباد، مولوی میرمردان علی صاحب منتظم صاحب امام مسجد کپورتھلہ ، میاں محمد صاحب زمیندار صدر محاسب سرکار نظام حیدر آباد، مولوی سید ظہور علی بوٹ کپورتھلہ ،مولوی صادق حسین صاحب اٹاوہ.صاحب وکیل حیدر آباد دکن، شیخ یوسف علی صاحب امرتسر رئیس نشام ضلع حصار سارجنٹ درجہ اول انسپکٹڑی ریاست جیند ، مرزا محمد امین بیگ صاحب رئیس بھالوجی شیخ یعقوب علی صاحب اڈیٹر اخبار فیروز، میاں ریاست کھیڑی علاقہ کے پور، خلیفہ رشید الدین عطاء اللہ صاحب سوداگر مس، میاں قطب الدین صاحب صاحب ڈاکٹر چکروته مولوی جمال دین صاحب سوداگر مس، مولوی قاضی سید امیرحسین صاحب مدرس سید والہ ضلع منٹگمری، مولوی عبداللہ صاحب ٹھٹیا شیر کا ضلع مدرسہ اسلامیہ، مولوی غلام محمد صاحب مختار عدالت و منٹگمری، حاجی سید عبدالہادی صاحب سب اوور سیر ضلع سپرنٹنڈنٹ مطبع روز بازار، حافظ عبدالرحمن صاحب ملازم شمله، میرزا نیاز بیگ صاحب ضلع دار نہر ضلع ملتان محکمہ مال دفتر صاحب ڈپٹی کمشنر ، میاں فیروز الدین

Page 52

مجموعہ اشتہارات ۳۶ جلد دوم صاحب سوداگر و پروپرائٹر اخبار فیروز، میاں علی محمد پوسٹل کلارک ہوشیار پور، حکیم غلام رسول صاحب، شیخ صاحب مدرس ایم بی سکول ، مولوی نیاز علی خاں صاحب رحمت علی صاحب تاجر کتب، عبدالعلی صاحب رئیس سوداگر مالک مطبع وکیل پنجاب، شیخ کرم الہی صاحب جالندھر، شیخ محمد بخش صاحب عرضی نویس، سید محبوب سارجنٹ پولیس ، میاں اسد اللہ صاحب سوداگر پشمین عالم صاحب سر براہ ذیلدار جالندھر، محمد وزیر علی صاحب میاں غلام رسول صاحب ٹھیکیدار، مستری کریم بخش رئیس جالندھر شیخ شادی صاحب سوداگر ، فضل الدین صاحب ،میاں خیر الدین صاحب ٹھیکیدار، حکیم رحیم صاحب سوداگر، شیخ عمر بخش صاحب وقائع نگار، شیخ بخش صاحب، میاں نورالدین صاحب سوداگر پشمینه محمد بخش صاحب سوداگر، برکت علی صاحب، مولوی محمد غلام قادر صاحب ٹھیکیدار، داروغه فضل الدین عبدالکریم صاحب، رحمت علی صاحب کلرک محکمہ صاحب، میاں حبیب اللہ خاں صاحب، میاں ڈاک، پیر بخش صاحب سوداگر شمر بن صاحب خیرالدین صاحب سوداگر، حافظ احمد صاحب سوداگر سوداگر چرم، امام الدین صاحب // ، کرم الہی صاحب میاں محمد عبد اللہ صاحب شال مرچنٹ ، میاں نتھو شاہ سوداگر، اللہ یار صاحب ايضا، چراغ الدین صاحب گدی نشین لوپو کے تحصیل اجنالہ.صاحب ، حاجی خلیل اللہ صاحب، خدا بخش صاحب سوداگر، سید رستم علی صاحب، محمد علی صاحب ہوشیار پورو جالندھر نمبر دار بستی، سید مہتاب علی صاحب، سید سندی شاه امیر المومنین صاحب سر رشته دار محکمه نهر هنگری باشنده صاحب حسنی چشتی، منشی علی گوہر خان صاحب برنچ ہوشیار پور ، احمد جان صاحب امین محکمہ نہر ساکن مندا چور پوسٹ ماسٹر، عمر بخش صاحب مختار عدالت، سید ضلع ہوشیار پور،حکیم غلام رسول صاحب، شیخ رحمت علی محمد صاحب منشی فاضل صاحب مدرس، نواب خان صاحب کتب فروش، شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم صاحب شیخ نور احمد صاحب، محمد بخش خان صاحب ہوشیار پور، شیخ جان محمد صاحب ممبر میونسپل کمیٹی ، شیخ مثل خواں، ولی احمد خان صاحب نائب شرف،سید محمد بخش صاحب طالب علم گورنمنٹ کالج لاہور ، امیر الدین صاحب نقل نویس صدر، محمد عالم خان مستری محمد صدیق صاحب، فیض محمد صاحب تار بابو صاحب نائب شرف، محمد گوہر صاحب سابق شرف ہوشیار پور محمد حیات خان صاحب عرضی نویس ، حسین عدالت حال پنشنر حکیم ابراہیم صاحب بستی شاہ قلی ، سید بخش صاحب ٹھیکیدار جالندھر محی الدین صاحب قاضی دوست محمد صاحب آنریری مجسٹریٹ شہر جالندھر،

Page 53

مجموعہ اشتہارات ۳۷ جلد دوم نیاز محمد صاحب ،وکیل، مرزا نواب بیگ صاحب صاحب طالب علم ایف اے کلاس، رانا محمد بخش سارجنٹ درجہ اوّل، محمد اکبر علی صاحب نمبر دار بستی ، سید صاحب ذیلدار ہریہ.غلام حسین صاحب، ڈاکٹر سید احمد شاہ صاحب مترجم سہارنپور وغیرہ کمشنری ، مولوی رحمت علی صاحب، غلام حسین صاحب سابق صوبه دار، میجر سردار بہادر آنریری مجسٹریٹ و عبدالحمید صاحب سہارنپور، محمد خان صاحب سامانه سب رجسٹرار شہر جالندھر، حیدر خان صاحب نمبردار ریاست پٹیالہ محمد یاسین خاں صاحب پوشہر ضلع سہارن پور، محمد عارف صاحب ساکن تھا نہ بہون ضلع مظفر نگر ، افغاناں.احمد حسن صاحب گنگوہ ضلع سہارنپور، محمد امیر خاں مالیر کوٹلہ صاحب پیٹر ضلع سہارنپور، علی محمد صاحب سہارنپور، نواب صاحب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ عبداللطیف خاں صاحب پٹواری، فہیم الدین صاحب مولوی مرزا خدا بخش صاحب اتالیق نواب صاحب تاجر کتب سہارنپور، محمد اسماعیل صاحب جلد گر ریاست موصوف ، نواب خاں صاحب حکیم الہ بخش صاحب.مالیر کوٹلہ ، عبدالعزیز صاحب سہارنپور،امیر حسن صاحب ساکن سہارن پور ، غلام محمد خاں صاحب ساکن بلاد متفرقات 6/1 سہارنپور، محمد نعیم خاں صاحب آنریری مجسٹریٹ ورئیس منشی عبدالمجید صاحب محرر دفتران گورداسپور، شهامت سہارنپور، احسان الحق صاحب گنگوہ ضلع سہارن پور، خان صاحب عرضی نویس نادون ضلع کانگڑہ ، عبدالرحمن محمد یوسف صاحب رئیس انصاری، رحمت اللہ خان خان صاحب مختار عدالت، سلیمان علی صاحب ناظر صاحب سہارنپوری، محمد حسین صاحب سوداگر، حاجی محمد عمر کمشنری جالندھر، برکت علی خان صاحب نائب صاحب سوداگر سہارنپور، احمد بیگ صاحب // تحصیلدار، برکت علی شاہ صاحب عرضی نویس، مولوی حافظ محمد حسین صاحب // // ، حاجی محمد اسماعیل حکیم فضل محمد صاحب، محمد برکت علی صاحب کلرک پبلک صاحب // // نور احمد احمد صاحب // ،محمد بک چھاؤنی جالندھر، شاہ دین صاحب عرضی نویس محمد ابراہیم صاحب رئیس سہارنپور، فضل رحیم صاحب محمد بخش صاحب اپیل نویس فتح گڑھ، غلام رسول رئیس سہارنپور، مولوی قمر الدین صاحب مدرس صاحب نائب مدرس سکول بجواڑہ ، غیاث الدین عربی سہارنپور، محمد زکریا صاحب ساکن سہارنپور، ، 6/1

Page 54

مجموعہ اشتہارات ۳۸ جلد دوم امام علی صاحب نمبردار بلاس پور ضلع سہارنپور، ملتان و علاقہ ملتان علاؤ الدین صاحب سہارن پور، احمد جان صاحب مرزا نیاز بیگ صاحب ساکن کلانور ضلع گورداسپور، سہارن پور، احمد حسین صاحب سہارنپور، محمد یاسین صاحب سوداگر سہارن پور، زین الدین احمد صاحب الطاف حسین صاحب سب او در سیر موہال نهر سده نی سوداگر سہارنپور، منشی رحیم بخش صاحب سہارن پور، محمد ابراہیم صاحب سہارن پور، نبی بخش صاحب سہارن پور، حمید اللہ صاحب سہارنپور، محمد ابراہیم صاحب سوداگر سہارنپور، وحید خاں صاحب امروہہ ضلع مراد آباد، حکیم اللہ خان صاحب ضلع بلند شہر، ظہور اللہ صاحب کھا تو لی ضلع مظفر نگر، اللہ دیا صاحب تھانہ بہون ضلع مظفر نگر، ،ملتان، عبدالغنی صاحب سب اور سیر، میاں محمد صاحب ٹھیکیدار، محمد بخش صاحب مجیٹھہ موہال نہر سدہ فی اسسٹنٹ سب اوورسیر، محبت علی صاحب گرد اور ملتان ، امام بخش پنسال نویس، اللہ دتہ صاحب گرداور نہر راجباہ بتا ضع ملتان ، غلام صاحب چپراسی موہال نهر سده نی محمد بخش صاحب گرداور را جباه بتار ضلع ملتان، نبی بخش صاحب گرد اور شہر ار را، برکت علی صاحب گرد اور نہر ار الہی بخش صاحب امید وارسا کن ملتان سابق محرر محکمہ انہار منظور محمد صاحب / ، رحیم بخش صاحب // ملتان، اللہ داد صاحب گرداور نہر / ۱۱، محمد حسن خاں محمد اسماعیل صاحب رئیس سہارنپور، سید حید رحسن صاحب زمیندار، مہتاب نمبر دار موضع بتارضلع ملتان.نبی بخش صاحب حسین بخش صاحب // 6/1 صاحب سہارنپور، مناظر الدین سہارن پور، محمد صدیق اب سبار اور حافظ اور رمضان صاحب پانی پی اجنالہ ضلع امرتسر و غیره سہارنپور، <// ضلع کرنال، محمد عمر الدین عبدالرحمن صاحب سہارنپور، برکت علی شاہ صاحب اجنالہ ضلع امرتسر ، ڈاکٹر محمد یاسین ذوالفقار خان صاحب سوداگر سہارن پور، محمد ابراہیم صاحب وٹرنری اسسٹنٹ جسر وال ضلع امرتسر ، امام صاحب سہارنپور، سرفراز خان صاحب تھانہ دار پنشنز الدین صاحب دوکان دار ، کرم الدین صاحب سہارنپور، عمر خان صاحب // // ، حافظ کریم بخش منصرم ساکن فتح گڑھ ضلع لاہور ، مولوی غلام صاحب صاحب ، عبدالکریم صاحب // عبدالحی و کریم بخش مدرس اوّل جسر وال ضلع امرتسر، شیخ نبی بخش صاحب صاحبان //، علاؤ الدین صاحب مدرس مدرسه انجمن دوکان دار در را، بلند خاں صاحب رئیس نیپال ضلع اسلام سہارن پورسا کن نور محل ضلع جالندھر.امرتسر ، حیدر حسین صاحب قانون گوئی اجنالہ ضلع

Page 55

مجموعہ اشتہارات ۳۹ جلد دوم امرت سر، محمد وارث صاحب محردار ، فضل الدین اللہ داد خاں صاحب ولد علی اکبر خاں صاحب نمبر دار ار صاحب عرضی نویس را ر علی بخش صاحب نمبر دار ملک محلا نوالہ ، قاضی امام الدین صاحب نسو کے را، چوہدری 6/1 پور ضلع امرتسر ، کریم بخش صاحب نمبردار // امام الدین صاحب علاقہ امرتسر ، غلام محمد صاحب عبدالواحد صاحب پٹواری // ، روڈے خاں صاحب نمبر دار کمال پور خرد// محمد یار علی نمبر دار شہزاده // مقبول جمعدار ملک پور، پیر بخش صاحب لوہار ساکن لوہار کہ حسین صاحب ہیڈ ماسٹر سکول را مد اس را، فضل حسین ضلع ، حسن محمد صاحب شیخ دلاور صاحب زمیندار، صاحب گرداور قانون گوئی حلقہ چماری ضلع امرتسر، نبی بخش صاحب مدرس اجنالہ ضلع امرت سر محسن علی دوم قاضی اکبر علی صاحب وثیقہ نویس تبرڑ ھ کلاں // ، گلو خاں مدرس اجنالہ، متوطن قلعہ سو بہا سنگہ سیالکوٹ، صاحب نمبر دار اعلی ار ، ہاشم علی صاحب وثیقہ نویس غلام دستگیر صاحب نائب مدرس اجنالہ متوطن جسر وال، حکیم گوہر علی صاحب ، صادق شاہ صاحب چمیاری ، شیخ رحیم بخش صاحب، قطب شاہ صاحب، غلام حسین محمد خاں صاحب نمبر دار جسر وال ضلع امرتسر.صاحب قاضی، قاضی غلام رسول صاحب جسر وال //، بلاد متفرقات 6/1 کرم الدین صاحب پٹواری پنال //، خدا بخش صاحب نائب تحصیلدار حصہ دار مدہ پہلو وال ضلع ، غلام رسول فتح محمد صاحب بزدار بلوچ ساکن لیہ ضلع ڈیرہ اسماعیل صاحب امام مسجد مدہ پہلو وال //، عبداللہ خان صاحب خاں، سید بہادر علی شاہ صاحب چنیوٹ ضلع جھنگ پنشن خوار جسر وال // محمد ابراہیم صاحب لوہیاں ، عبداللہ خاں صاحب لیہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان، شیخ رحمت اللہ صاحب سوداگر جسر وال ، شیخ عمر بخش شمس الدین صاحب میونسپل کمیٹی کشمیر ساکن بھیرہ ضلع صاحب حوالدار عیسی پوررر خلیل خاں صاحب اعلیٰ شاہپور، پیر بخش صاحب تاربابو وزیر آباد ضلع نمبر دار عمر پور/ر، شاه سوار صاحب مالک عمر پوررر، ابراهیم گوجرانوالہ، مولاداد صاحب اسٹنٹ مینجر سیالکوٹ، خان صاحب حصہ دار عمر پور، فتح خان صاحب حصہ دار غلام جیلانی صاحب سوداگر سیالکوٹ، محمد ابراہیم عمر پور ، فضل الدین صاحب موروثی عمر پور ، فیروز خاں صاحب ، امرتسر مولا بخش صاحب گماشته، غلام رسول صاحب حصہ دار عمر پور، دین محمد صاحب اجنالہ ، میاں صاحب سوداگر، اللہ بخش سابق ڈپٹی انسپکٹ لا ہورار، ہیرا صاحب زمیندار کمال پور، میاں بڑہا صاحب حصہ دارو شیخ عبداللہ صاحب قریشی جزیرہ مکہ معظمہ، محمد حافظ ساہوکارنسو کی رر، نبی بخش صاحب راجپوت چماری را صاحب ڈپٹی انسپکٹر کشمیر ساکن بھیرہ ضلع شاہ پور،

Page 56

مجموعہ اشتہارات جلد دوم رحیم بخش صاحب نقشہ نویس لاہور، محمد شریف صاحب وزیر اعظم راجہ جموں، غلام جیلانی صاحب سوداگر ٹھیکہ دار ہیلاں ضلع گجرات، نور علی صاحب سوداگر ماسٹر خدا بخش صاحب کشمیر، حبیب اللہ صاحب شال پشاور ، کرم الدین صاحب سود اگر وزیر آباد ضلع مرچنٹ کشمیر، سید حبیب شاہ صاحب خلف غلام گوجرانوالہ، شیخ عبدالغفار صاحب سوداگر کشمیر ، محی الدین صاحب لدھیانہ ، فضل الہی صاحب سب محمد خلیل صاحب سودا گرا ، سید غلام رسول صاحب او در سیر ، مولوی محمد حافظ اللہ صاحب کشمیری ، بابو محمد دین واعظ کشت وار جموں، شہاب الدین صاحب منصرم کشمیر صاحب دفتر رزیدنسی کشمیر، بابو دل محمد صاحب ايضاً، ارجن ضلع راولپنڈی، عبدالعزیز صاحب سوداگر کشمیری غلام مصطفی شاہ صاحب خانقاہ شاہ ہمدان رحمت اللہ مجھدار // عبدالرحیم صاحب سوداگرار، عبد العزیز صاحب علیہ ، مہر صدرالدین صاحب ، مہر بہار شاہ صاحب ، سابقه منشی حوالات ،کشمیر، سید حسن علی صاحب منصرم بند و بست محمد حسین سراج صاحب ایرانی، محمد حسن سراج صاحب بٹالہ ضلع گورداسپور، حاجی محمد نوردین صاحب سابق ایرانی.نوٹ.ان صاحبوں کے سوا اور بہت سے صاحب ہیں جنہوں نے نوٹس پر دستخط کئے ہیں.اگر سب لکھے جاتے تو چار ہزار سے زیادہ نوبت پہنچتی.مگر طول سے اندیشہ کر کے اسی قدر پر کہ (۷۰۴) ہیں کفایت کی گئی ہے.منہ راقم خاکسار خادم دین مصطفے غلام احمد قادیانی ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء (مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) یہ نوٹس آریہ دھرم مطبوعہ باراول کے صفحہ ۵۷ تا ۷۲ پر ہے) (روحانی خزائن جلده اصفحه ۷۹ تا ۹۷)

Page 57

مجموعہ اشتہارات ام جلد دوم ( یہ وہ خطوط ہیں جو مسلمانوں کی خدمت میں دستخط کرانے کے لیے بھیجے گئے ہیں) بسم اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم السّلام علیکم و رحمة الله و بركاته - امابعداسے غمخواران دینِ اسلام ومحبانِ خیر الا نام علیہ الف الف سلام میں اس وقت ایک نہایت ضروری التماس آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور خدا تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ اس التماس کے قبول کرنے کے لئے آپ لوگوں کے سینوں کو کھولے اور اس مقصد کے فوائد آپ لوگوں کے دلوں میں الہام کرے کیونکہ کوئی امر گو کہ کیسا ہی عمدہ اور سراسر خیر اور مصلحت پر مبنی ہو مگر تب بھی اس کی بجا آوری کے لئے جب تک خدا تعالیٰ سے قوت نہ ملے ہرگز انسان ضَعِيفُ الْبُنْيَان سے ہو نہیں سکتا اور وہ التماس یہ ہے کہ آپ صاحبوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہوگی کہ ان دنوں میں دینی مباحثات و مناظرات کا اس قدر ایک طوفان برپا ہے کہ جہاں تک تاریخ وفا کر سکتی ہے اس کی کوئی نظیر پہلے زمانوں میں معلوم نہیں ہوتی.اور اس معاملہ میں اس قدر تالیفات بڑھ گئی ہیں کہ پادری صاحبان کی ایک رپورٹ میں میں نے پڑھا ہے کہ چند سال میں چھ کروڑ کتابیں ان کی طرف سے شائع ہوئیں.ایسا ہی اہل اسلام کی طرف سے کروڑ ہا تو نہیں مگر صد ہا رسالوں تک تو نوبت پہنچی ہوگی اور آریہ صاحبوں کی کتابیں جو اسلام کے مقابل پر یا عیسائیوں کے مقابل لکھی گئیں اگر چہ تعداد میں تو کم ہیں مگر گالیاں دینے اور دل آزار

Page 58

مجموعہ اشتہارات ۴۲ جلد دوم کلمات لکھنے میں اول نمبر پر ہیں اور یہ بے تہذیبی اور بد زبانی دن بدن بڑھتی جاتی ہے.آپ جانتے ہیں کہ اسلام ایک ایسا مذ ہب ہے کہ جو کسی قوم کے پیشوا کوگالی دینا اس کا اصول نہیں کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہم ان پیمبروں پر ایمان لائے ہیں جن کا ذکر قرآن میں ہے اور یہ بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر یک قوم میں کوئی نہ کوئی مصلح گزرا ہے اور ہمیں یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ ہم پورے علم کے بغیر کسی کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَك كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا لے سو یہ پاک عقائد ہمیں بیجا بد زبانیوں اور متعصبانہ نکتہ چینیوں سے محفوظ رکھتے ہیں مگر ہمارے مخالف چونکہ تقویٰ کی راہوں سے بالکل دور اور بے قید اور خلیع الرسن ہیں اور قرآن کریم جو سب سے پیچھے آیا ان کو طبعا بُر ا معلوم ہوتا ہے لہذا وہ جلد نخش گوئی اور بدزبانی اور توہین کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور سچی باتوں کے مقابل پر افتراؤں سے کام لیتے ہیں چنانچہ اس تمہیں سال کے عرصہ میں ہمارے مخالفوں نے اس قدر نخش گالیاں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کتابوں میں دی ہیں اور اس قدر افترا اسلامی تعلیم پر کئے ہیں کہ میں یہ دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ تیرہ سو گذشتہ سالوں میں یعنی اسلام کے ابتدائی زمانہ سے آج تک اس کی نظیر نہیں پاؤ گے اور اسی پر بس نہیں بلکہ یہ ناجائز طریق ترقی پر ہے اس لئے ہر یک ایسے سچے مسلمان کا فرض ہے کہ جو در حقیقت اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے کہ ایسے موقعہ پر بے غیرتوں اور بے ایمانوں کے رنگ میں بیٹھا نہ رہے بلکہ جیسا کہ اپنی حفظ عزت کے لئے کوشش کرتا ہے اور جب عزت برباد ہونے کا کوئی موقعہ پیش آوے تو جہاں تک طاقت وفا کرتی اور بس چل سکتا ہے اپنی آبرو کے بچاؤ کے لئے کوئی تدبیر باقی نہیں چھوڑتا.بلکہ ہزار ہا روپیہ پانی کی طرح بہا دیتا ہے ایسا ہی شریف اور سچے مسلمانوں کے لئے بھی زیبا ہے کہ اس پیارے رسول کی عزت کے لئے بھی جس کی شفاعت کی امیدرکھتے ہیں کوشش کریں اور ایمانی نمونہ دکھلانے سے نامراد نہ جائیں.شاید بعض صاحبوں کی یہ رائے ہو کہ کیا ضرور ہے کہ اسلام کی طرف سے مذہبی تالیفات ہوں ے نوٹ.یعنی جس بات کا تجھ کو یقینی علم نہیں دیا گیا اس بات کا پیرو کا رمت بن اور یا درکھ کہ کان اور آنکھ اور دل جس قدر اعضا ہیں ان سب اعضا سے باز پرس ہوگی.منه (بنی اسراءیل : ۳۷)

Page 59

مجموعہ اشتہارات ۴۳ جلد دوم اور کیوں اس طریق کو اختیار نہ کیا جائے کہ مخالفوں کی تحریرات کا جواب ہی نہ دیں.اس کے جواب میں عرض کیا جاتا ہے کہ اول تو کوئی مذہب بغیر دعوت اور امر معروف اور نہی منکر کے قائم نہیں رہ سکتا.اور اگر ایسا ہونا فرض بھی کر لیں تو پھر اسلام جیسا کوئی مذہب مصیبت زدہ نہیں ہوگا کیونکہ جس حالت میں پادری صاحبان و آریہ صاحبان وغیرہ پورے زور وشور سے اسلام پر حملہ کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کو نابود کر دیں اور ہر یک رنگ سے کیا علم طبعی کے نام سے اور کیا علم طب اور تشریح کے بہانہ سے اور کیا علم ہیئت کے پردہ میں انواع اقسام کے دھو کے لوگوں کو دے رہے ہیں اور ٹھیٹھے اور جنسی اور تحقیر کو انتہا تک پہنچا دیا ہے.پھر اگر ہمارے معزز بھائیوں کی طرف سے یہی تدبیر ہے کہ چپ رہو اور سنے جاؤ تو یہ خاموشی مخالفوں کی یک طرفہ ڈگری کا موجب ہوگی اور نعوذ باللہ ہماری خاموشی ثابت کر دے گی کہ ہر یک الزام ان کا سچا ہے اور اگر ہم الزامی جواب دیں چنانچہ کئی سال سے دیئے جاتے ہیں تو کوئی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور ہمارا وقت برباد جاتا ہے اور بار بار وہی باتیں اور وہی بہتان ہتک آمیز الفاظ کے ساتھ سناتے ہیں جو لوگ حیا اور شرم کو چھوڑ دیں ان کا منہ بجز قانون کے اور کون بند کرے.اور ہم اپنے بھائیوں کے صوابدید سے کل مناظرات اور مباحثات اور تحریر اور تقریر سے دست بردار ہو سکتے ہیں اور چپ رہ سکتے ہیں مگر کیا ہمارے معزز بھائی ذمہ دار ہو سکتے ہیں کہ مخالفانہ حملہ کرنے سے ہندوستان کے تمام پادریوں اور آریوں اور برہموؤں کو بھی چپ کرا دیں گے اور اگر نہیں کرا سکتے اور ان کی گالیوں اور سب وشتم کی کوئی اور تدبیر ان کے ہاتھ میں نہیں تو پھر یہ بات کیوں حرام ہے کہ ہم اپنی محسن گورنمنٹ سے اس بارہ میں مدد لیں اور ان آئندہ خطرات سے اپنی قوم اور نیز دوسری قوموں کو بھی بچالیں جو ایسے بے قیدی کے مناظرات میں ضروری الوجود ہیں.بھائیو یہ تدبیر عمدہ نہیں ہے کہ ہر روز ہم گالیاں سنیں اور روا رکھیں کہ ہندوؤں کے لڑکے بازاروں میں بیٹھ کر اور عیسائیوں کی جماعتیں ہر یک کوچہ گلی میں ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گندی گالیاں نکالیں اور آئے دن پر تو ہین کتابیں شائع کریں بلکہ اس وقت ضروری تدبیر یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے سرکاری قانون سے مدد لیں.اور اس درخواست کے موافق جو

Page 60

مجموعہ اشتہارات ۴۴ جلد دوم گورنمنٹ کی توجہ کے لئے علیحدہ لکھی گئی ہے اس مضمون کا گورنمنٹ عالیہ سے قانون پاس کرا دیں کہ آئندہ مناظرات و مجادلات میں بغرض رفع فتنہ و فساد عام آزادی اور بے قیدی کو محدود کر دیا جاوے اور ہر یک قوم کے لوگ اعتراض اور نکتہ چینی کے وقت ہمیشہ دو باتوں کے پابندر ہیں.(۱) یہ کہ ہر ایک فریق جو کسی دوسرے فریق پر کوئی اعتراض کرے تو صرف اس صورت میں اعتراض کرنے کے وقت نیک نیت سمجھا جائے کہ جب اعتراض میں وہ باتیں نہ پائی جائیں جو خود اس کے مسلم عقیدہ میں پائی جاتی ہیں یعنی ایسا اعتراض نہ ہو جو وہ اس کے عقیدہ پر بھی وارد ہوتا ہواور وہ بھی اس سے ایسا ملزم ہو سکتا ہو جیسا کہ اس کا مخالف اور اگر کوئی اس قاعدہ سے تجاوز کرے اور وہ تجاوز ثابت ہو جاوے تو بغیر حاجت کسی دوسری تحقیقات کے یہ سمجھا جاوے کہ اس نے محض بدنیتی سے ایک مذہبی امر میں اپنے مخالف کا دل دکھانے کے لئے یہ حرکت کی.(۲) یہ کہ ہر یک معترض ایسے اعتراض کرنے کا ہرگز مجاز نہ ہو کہ جو ان کتب مشتہرہ کے مخالف ہو جن کو کسی فریق نے حصر کے طور پر اپنی مسلّمہ کتابیں قرار دے کر ان کی نسبت اشتہار شائع کرایا ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کرے تو قانونا یہ قرار دیا جاوے کہ اس نے ایک ایسا امر کیا جو نیک نیتی کے برخلاف ہے اور جو شخص ان دونوں تجاوزوں میں سے کوئی ایک تجاوز کر کے یا دونوں کر کے کسی قسم کی صریح ہجو یا اشارہ یا کنایہ سے کسی فریق کا دل دکھاوے تو وہ دفعہ ۲۹۸ تعزیرات کا مجرم قرار دے کر اس سزا کا مستوجب سمجھا جائے جو قانون کی حد تک ہے.یہ قانون ہے جس کا پاس کرانا ضروری ہے.سواے بزرگو اور دین اسلام کے غمخوار و برائے خدا اس تحریر پر غور کر کے اس درخواست کو اپنے دستخطوں سے مزین کرو جو اس قانون کے پاس کرنے کے لئے لکھی گئی ہے تا فساد انگیز جھگڑے کم ہو جائیں اور گورنمنٹ کو آرام ملے.اور ملک میں صلح کاری اور امن پیدا ہو اور ملک کے باشندوں کے کینے ترقی کرنے سے روکے جائیں بھائیو اس قانون کے پاس ہونے میں بہت ہی برکتیں ہیں اور بچے دین کو اس سے بہت ہی مددملتی ہے اور مفسدوں اور افترا پردازوں کے منہ بند ہو جاتے ہیں.گورنمنٹ کے کسی منشاء کے مخالف یہ کارروائی نہیں بلکہ ہماری

Page 61

مجموعہ اشتہارات ۴۵ جلد دوم دانا گورنمنٹ خود ایسی باتوں کو ہمیشہ سوچتی ہے جس سے اس ملک کے فتنے اور فساد کم ہوں اور لوگ ایک دل ہو کر گورنمنٹ کی خدمت میں مشغول رہیں اور نیز یہ وہ مبارک طریق ہے جن سے آئندہ بیجا حملہ کرنے والے رک جائیں گے اور ہر یک جاہل متعصب مناظرہ اور مجادلہ کے لئے جرات نہیں کر سکے گا اور یہ امر تمام ان لوگوں کے لئے مفید ہے جو یاوہ لوگوں کا کسی تدبیر سے منہ بند کرنا چاہتے ہیں.اور اگر کسی صاحب نے ایسے مبارک محضر پر دستخط نہ کئے جس سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت مفتری لوگوں کے افتراؤں سے بچ جاتی ہے اور اسلام بہت سے کمین اور سراسر دروغ حملوں سے امن میں آ جاتا ہے تو اس کا اسلام نہایت بودا اور تاریکی میں پڑا ہوا ثابت ہوگا اور ہم عزم بالجزم رکھتے ہیں کہ جیسا کہ اس موقع پر ہم دینی غم خواروں کا باعزت نام مخلصانہ دعائے خیر کے ساتھ نہایت شوق سے شائع کریں گے تا ان کی مردی اور سعادت عامہ خلائق پر ظاہر ہو ایسا ہی ہم ایک پر درد تقریر کے ساتھ ان بخیل اور پست فطرت لوگوں کے نام بھی اپنے رسالہ میں شائع کر دیں گے جنہوں نے ہمارے سید و مولی محمد مصطفی خاتم الانبياء فخر الاصفیاء کی حمایت عزت کے لئے کچھ بھی غم خواری اور حمیت ظاہر نہ کی.بھائیو کیا یہ مناسب ہے کہ آپ لوگ تو عزت کی کرسیوں پر بیٹھیں اور بڑے بڑے القاب پائیں اور ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر یک طرف سے گالیاں دی جائیں اور تحریر اور تقریر میں سراسر افتراء سے نہایت بے عزتی اور توہین کی جائے اور آپ لوگ ایک ادنی تدبیر کرنے سے بھی دریغ کریں.نہیں ہرگز نہیں.شریف اور نجیب لوگ ہر گز دریغ نہیں کریں گے اور جو خبیث النفس دریغ کرے گا وہ مسلمان ہی نہیں.مبادا دل آن فرو مایه شاد که از بهر دنیا دہر دین بہاری راقم خاکسار خادم دین مصطفی غلام احمد قادیانی ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء یہ اشتہار آریہ دھرم طبع اول کے آخر پر چار صفحات پر مشتمل ہے) روحانی خزائن جلده اصفحه ۹۸ تا ۱۰۲) (مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) ا ترجمہ.خدا کرے اس کمینے کا دل کبھی خوش نہ ہو جس نے دنیا کی خاطر دین کو برباد کر لیا.

Page 62

مجموعہ اشتہارات ۴۶ ۱۳۷ جلد دوم یہ وہ درخواست ہے جو بمراد منظوری گورنمنٹ میں بعد تکمیل دستخطوں کے بھیجی جائے گی درخواست یہ درخواست مسلمانانِ برٹش انڈیا کی طرف سے جن کے نام ذیل میں درج ہیں بحضور جناب گورنر جنرل ہند دام اقبالہ اس غرض سے بھیجی گئی ہے کہ مذہبی مباحثات اور مناظرات کو ان ناجائز جھگڑوں سے بچانے کے لئے جو طرح طرح کے فتنوں کے قریب پہنچ گئے ہیں اور خطرناک حالت پیدا کرتے جاتے ہیں اور ایک وسیع بے قیدی ان میں طوفان کی طرح نمودار ہوگئی ہے دو مندرجہ ذیل شرطوں سے مشروط فرما دیا جاوے اور اسی طرح اس وسعت اور بے قیدی کو روک کر ان خرابیوں سے رعایا کو بچایا جاوے جو دن بدن ایک مہیب صورت پیدا کرتی جاتی ہیں جن کا ضروری نتیجہ قوموں میں سخت دشمنی اور خطرناک مقدمات ہیں.ان دو شرطوں میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام وہ فرقے جو ایک دوسرے سے مذہب اور عقیدہ میں اختلاف رکھتے ہیں اپنے فریق مخالف پر کوئی ایسا اعتراض نہ کریں جو خود اپنے پر وارد ہوتا ہو یعنی اگر ایک فریق دوسرے فریق پر مذہبی نکتہ چینی کے طور پر کوئی ایسا اعتراض کرنا چاہے جس کا ضروری نتیجہ اس مذہب کے پیشوا یا کتاب کی کسرشان ہو جس کو اس فریق کے لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مانتے ہوں تو اس کو اس امر کے بارے میں قانونی ممانعت ہو جائے کہ ایسا اعتراض اپنے فریق مخالف پر اس صورت میں ہرگز نہ کرے جبکہ خود اس کی کتاب یا اس کے پیشوا پر وہی اعتراض ہو سکتا ہو.دوسری شرط یہ ہے کہ ایسے اعتراض سے بھی ممانعت فرما دی جائے جو

Page 63

مجموعہ اشتہارات ۴۷ جلد دوم ان کتابوں کی بناء پر نہ ہو جن کو کسی فریق نے اپنی مسلم اور مقبول کتابیں ٹھہرا کر ان کی ایک چھپی ہوئی فہرست اپنے ایک کھلے کھلے اعلان کے ساتھ شائع کرادی ہوا اور صاف اشتہار دید یا ہو کہ یہی وہ کتا بیں ہیں جن پر میرا عقیدہ ہے اور جو میری مذہبی کتابیں ہیں سو ہم تمام درخواست کنندوں کی التماس یہ ہے کہ ان دونوں شرطوں کے بارے میں ایک قانون پاس ہو کر اس کی خلاف ورزی کو ایک مجرمانہ حرکت قرار دیا جاوے اور ایسے تمام مجرم دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند یا جس دفعہ کی رو سے سرکار مناسب سمجھے سزا یاب ہوتے رہیں.اور جن ضرورتوں کی بناء پر ہم رعایا سرکار انگریزی کی اس درخواست کے لئے مجبور ہوئے ہیں وہ تفصیل ذیل ہیں.اول یہ کہ ان دنوں میں مذہبی مباحثوں کے متعلق سلسلہ تقریروں اور تحریروں کا اس قدر ترقی پذیر ہو گیا ہے اور ساتھ ہی اس کے اس قد رسخت بدزبانیوں نے ترقی کی ہے کہ دن بدن با ہمی کینے بڑھتے جاتے ہیں اور ایک زور کے ساتھ بخش گوئی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا دریا بہہ رہا ہے اور چونکہ اہل اسلام اپنے برگزیدہ نبی اور اس مقدس کتاب کے لئے جو اس پاک نبی کی معرفت ان کو ملی نہایت غیرت مند ہیں لہذا جو کچھ دوسری قو میں طرح طرح کے مفتر یا نہ الفاظ اور رنگارنگ کی پر خیانت تحریر اور تقریر سے ان کے نبی اور ان کی آسمانی کتاب کی توہین سے ان کے دل دُکھا رہے ہیں یہ ایک ایسا زخم ان کے دلوں پر ہے کہ شاید ان کیلئے اس تکلیف کے برابر دنیا میں اور کوئی بھی تکلیف نہ ہو اور اسلامی اصول ایسے مہذبانہ ہیں کہ یاوہ گوئی کے مقابل پر مسلمانوں کو یاوہ گوئی سے روکتے ہیں مثلاً ایک معترض جب ایک بے جا الزام مسلمانوں کے نبی علیہ السلام پر کرتا ہے اور ٹھٹھے اور ہنسی اور ایسے الفاظ سے پیش آتا ہے جو بسا اوقات گالیوں کی حد تک پہنچ جاتے ہیں تو اہل اسلام اس کے مقابل پر اس کے پیغمبر اور مقتدا کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر وہ پیغمبر اسرائیلی نبیوں میں سے ہے تو ہر یک مسلمان اُس نبی سے ایسا ہی پیار کرتا ہے جیسا کہ اس کا فریق مخالف وجہ یہ کہ مسلمان تمام اسرائیلی نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور دوسری قوموں کی نسبت بھی وہ جلدی نہیں کرتے کیونکہ انہیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی ایسا آباد ملک نہیں جس

Page 64

مجموعہ اشتہارات ۴۸ جلد دوم میں کوئی مصلح نہیں گذرا اس لئے کہ گذشتہ نبیوں کی نسبت خاص کر اگر وہ اسرائیلی ہوں ایک مسلمان ہرگز بدزبانی نہیں کر سکتا بلکہ اسرائیلی نبیوں پر تو وہ ایسا ہی ایمان رکھتا ہے جیسا کہ نبی آخر الزمان کی نبوت پر.تو اس صورت میں وہ گالی کا گالی کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتا.ہاں جب بہت دکھ اٹھاتا ہے تو قانون کی رو سے چارہ جوئی کرنا چاہتا ہے مگر قانونی تدارک بد نیتی کے ثابت کرنے پر موقوف ہے جس کا ثابت کرنا موجودہ قانون کی رو سے بہت مشکل امر ہے لہذا ایسا مستغیث اکثر ناکام رہتا ہے اور مخالف فتح یاب کو اور بھی تو ہین اور تحقیر کا موقعہ ملتا ہے اس لئے یہ بات بالکل سچی ہے کہ جس قدر تقریروں اور تحریروں کی رو سے مذہب اسلام کی توہین ہوتی ہے ابھی تک اس کا کوئی کافی تدارک قانون میں موجود نہیں.اور دفعہ ۲۹۸ حق الامر کے ثابت کرنے کے لئے کوئی ایسا معیار اپنے ساتھ نہیں رکھتی جس سے صفائی کے ساتھ نیک نیتی اور بدنیتی میں تمیز ہو جائے یہی سبب ہے کہ نیک نیتی کے بہانہ سے ایسی دل آزار کتابوں کی کروڑوں تک نوبت پہنچ گئی ہے لہذا ان شرائط کا ہونا ضروری ہے جو واقعی حقیقت کے کھلنے کے لئے بطور مؤید ہوں اور صحت نیت اور عدم صحت کے پر کھنے کے لئے بطور معیار کے ہوسکیں سو وہ معیار وہ دونو شرطیں ہیں جو او پر گذارش کر دی گئی ہیں.کیونکہ کچھ شک نہیں کہ جو شخص کوئی ایسا اعتراض کسی فریق پر کرتا ہے جو وہی اعتراض اس پر بھی اس کی الہامی کتابوں کی رو سے ہوتا ہے یا ایسا اعتراض کرتا ہے جو ان کتابوں میں نہیں پایا جا تا جن کو فریق معترض علیہ نے اپنی مسلمہ مقبولہ کتا بیں قرار دے کر ان کے بارے میں اپنے مذہبی مخالفوں کو بذریعہ کسی چھپے ہوئے اشتہار کے مطلع کر دیا ہے تو بلا شبہ ثابت ہو جاتا ہے کہ شخص معترض نے صحت نیت کو چھوڑ دیا ہے تو اس صورت میں ایسے مکار اور فریبی لوگ جن حیلوں اور تاویلوں سے اپنی بد نیتی کو چھپانا چاہتے ہیں وہ تمام حیلے نکھے ہو جاتے ہیں اور بڑی سہولت سے حکام پر اصل حقیقت کھل جاتی ہے اور اگر چہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یاوہ گو لوگوں کی زبانیں روکنے کے لئے یہ ایک کامل علاج ہے مگر اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ بہت کچھ یاوہ گوئیوں اور ناحق کے الزاموں کا اس سے علاج ہو جائے گا.

Page 65

مجموعہ اشتہارات ۴۹ جلد دوم دوسری ضرورت اس قانون کے پاس ہونے کے لئے یہ ہے کہ اس بے قیدی سے ملک کی اخلاقی حالت روز بروز بگڑتی جاتی ہے ایک شخص کی بات کوسن کر پھر اس فکر میں پڑ جاتا ہے کہ کسی طرح جھوٹ اور افتراء سے مدد لے کر اس سچ کو پوشیدہ کر دیوے اور فریق ثانی کو خواہ نخواہ ذلت پہنچا وے سو ملک کو تہذیب اور راست روی میں ترقی دینے کے لئے اور بہتان طرازی کی عادت سے روکنے کے لئے یہ ایک ایسی عمدہ تدبیر ہے جس سے بہت جلد دلوں میں کچی پر ہیز گاری پیدا ہو جائے گی.تیسری ضرورت اس قانون کے پاس کرنے کی یہ ہے کہ اس بے قیدی سے ہماری محسن گورنمنٹ کے قانون پر عقل اور کانشنس کا اعتراض ہے چونکہ یہ دانا گورنمنٹ ہر یک نیک کام میں اول درجہ پر ہے تو کیوں اس قدر الزام اپنے ذمہ رکھے کہ کسی کو یہ بات کہنے کا موقعہ ملے کہ مذہبی مباحثات میں اس کے قانون میں احسن انتظام نہیں.ظاہر ہے کہ ایسی بے قیدی سے صلح کاری اور باہمی محبت دن بدن کم ہوتی جاتی ہے اور ایک فریق دوسرے فریق کی نسبت ایسا اشتعال رکھتا ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس کو نابود کر دیوے اور اس نا اتفاقی کی جڑ مذہبی مباحثات کی بے اعتدالی ہے گورنمنٹ اپنی رعایا کے لئے بطور معلم کے ہے.پھر اگر رعایا ایک دوسرے سے درندہ کا حکم رکھتی ہو تو گورنمنٹ کا فرض ہے کہ قانونی حکمت عملی سے اس درندگی کو دور کر دے.چوتھی یہ کہ اہل اسلام گورنمنٹ کی وہ وفادار رعایا ہے جن کی دلی خیر خواہی روز بروز ترقی پر ہے.اور اپنے جان و مال سے گورنمنٹ کی اطاعت کے لئے حاضر ہیں اور اس کی مہر بانیوں پر بھروسہ رکھتے ہیں.اور کوئی بات خلاف مرضی گورنمنٹ کرنا نہایت بے جا خیال کرتے ہیں اور دل سے گورنمنٹ کے مطیع ہیں پس اس صورت میں ان کا حق بھی ہے کہ ان کی دردناک فریاد کی طرف گورنمنٹ عالیہ توجہ کرے پھر یہ درخواست بھی کوئی ایسی درخواست نہیں جس کا صرف مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور دوسروں کو نہیں بلکہ ہر یک قوم اس فائدہ میں شریک ہے اور یہ کام ایسا ہے جس سے ملک میں صلح کاری اور امن پیدا ہوتا ہے اور مقدمات کم ہوتے ہیں اور بدنیت لوگوں کا منہ بند ہوتا ہے.

Page 66

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس کا اثر مسلمانوں سے خاص نہیں ہر یک قوم پر اس کا برا بر اثر ہے.آخر ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس گورنمنٹ کو ہمیشہ کے اقبال کے ساتھ ہمارے سروں پر خوش و خرم رکھے اور ہمیں بچی شکر گزاری کی توفیق دے اور ہماری محسن گورنمنٹ کو اس مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست کی طرف توجہ دلا وے کہ ہر یک توفیق اسی کے ارادہ اور حکم سے ہے.آمین الملت مسين اہل اسلام رعایا گورنمنٹ جن کے نام علیحدہ نقشوں میں درج ہیں مورخه ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء (مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان) یہ اشتہار آریہ دھرم طبع اول کے آخری چار صفحات پر مشتمل ہے) روحانی خزائن جلده اصفحه ۱۰۳ تا ۱۰۶)

Page 67

مجموعہ اشتہارات ۵۱ ١٣٨ جلد دوم باعث تالیف آریہ دھرم دست بچن یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ ہم برسوں تک آریوں کے مقابل پر بالکل خاموش رہے قریباً چود آل برس کا عرصہ ہو گیا کہ جب ہم نے پنڈت دیا نند اور اندر من اور کنہیا لال کی سخت بدزبانی کو دیکھ کر اور ان کی گندی کتابوں کو پڑھ کر کچھ ذکر ہندوؤں کے وید کا براھین احمدیہ میں کیا تھا مگر ہم نے اس کتاب میں بجز واقعی امر کے جو ویدوں کی تعلیم سے معلوم ہوتا تھا ایک ذرا زیادتی نہ کی لیکن دیا نند نے اپنی ستیارتھ پرکاش میں اور اندرمن نے اپنی کتابوں میں اور کنہیا لال نے اپنی تالیفات میں جس قدر بدزبانی اور اسلام کی توہین کی ہے اس کا اندازہ ان لوگوں کو خوب معلوم ہے جنہوں نے یہ کتابیں پڑھی ہوں گی خاص کر دیانند نے ستیارتھ پر کاش میں وہ گالیاں دیں اور سخت زبانی کی جن کا مرتکب صرف ایسا آدمی ہو سکتا ہے جس کو نہ خدا تعالیٰ کا خوف ہونہ عقل ہو نہ شرم ہو نہ فکر ہو نہ سوچ ہو.غرض ہم نے ان سفلہ مخالفوں کے افتراؤں کے بعد صرف چند ورق براہین میں آریوں کے خیالات کے بارہ میں لکھے اور بعد ازاں ہم باوجود یکہ لیکھر ام وغیرہ نے اپنی ناپاک طبیعت سے بہت سا گند ظاہر کیا اور بہت سی تو ہین مذہب کی بالکل خاموش رہے، ہاں سُرمہ چشم آریہ اور شحنہ حق جن کی تالیف پر نو برس گزر گئے آریوں کی ہی تحریک اور سوالات کے جواب میں لکھے گئے چنانچہ سرمہ چشم آریہ کا اصل موجب منشی مرلیدھر آریہ تھے جنہوں نے بمقام ہوشیار پور کمال اصرار سے مباحثہ کی درخواست کی اور سرمہ چشم آریہ در حقیقت اس سوال جواب کا مجموعہ ہے جو مابین اِس عاجز اور منشی مرلیدھر کے مارچ ۱۸۸۶ء میں

Page 68

مجموعہ اشتہارات ۵۲ جلد دوم ہوا.پھر ان کتابوں کی تالیف کے بعد آج تک ہم خاموش رہے اور چود آل برس سے آج تک یا اگر ہوشیار پور کے مباحثہ سے حساب کرو تو نو برس سے آج تک ہم بالکل چپ رہے اور اس عرصہ میں طرح طرح کے گندے رسالے آریوں کی طرف سے نکلے اور گالیوں سے بھری ہوئی کتابیں اور اخبار میں انہوں نے شائع کیں مگر ہم نے بجز اعراض اور خاموشی کے اور کچھ بھی کارروائی نہیں کی پھر جب آریوں کا غلو حد سے زیادہ بڑھ گیا اور ان کی بے ادبیاں انتہا تک پہنچ گئیں تو اب یہ رسالہ آریہ دھرم لکھا گیا.ہمارے بعض اندھے مولوی جو ہر یک بات میں ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں اور آریوں اور عیسائیوں کو بالکل معذور سمجھ کر ہر یک سخت زبانی ہماری طرف منسوب کرتے ہیں ان کو کیا کہیں اور ان کی نسبت کیا لکھیں وہ تو بخل اور حسد کی زہر سے مر گئے اور ہمارے بغض سے اللہ اور رسول کے بھی دشمن ہو گئے.اے سیہ دل لوگو! تمہیں صریح جھوٹ بولنا اور دن کو رات کہنا کس نے سکھایا گو یہ سچ ہے کہ ہم نے براھین میں ویدوں کا کچھ ذکر کیا مگر اس وقت ذکر کیا کہ جب دیا نند ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ستیارتھ پر کاش میں صدہا گالیاں دے چکا اور اسلام کی سخت تو ہین کر چکا اور ہندو بچے ہر یک گلی کو چہ میں اسلام کے منہ پر تھوکنے لگے پس کیا اس وقت واجب نہ تھا کہ ہم بھی کچھ ویدوں کی حقیقت کھولیں اور آیہ کریمہ وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْى هُمْ يَخْتَصِرُوْنَ کے پر عمل کر کے اپنے مولیٰ کو يم راضی کریں اور پھر اس وقت سے آج تک ہم خاموش رہے لیکن آریوں کی طرف سے اس قدر گندی کتابیں اور گندی اخبار میں تو ہین اسلام کے بارے میں اس وقت تک شائع ہوئیں کہ اگر ان کو جمع کریں تو ایک انبار لگتا ہے یہ کیسا خبث باطن ہے کہ مسلمان کہلا کر پھر ظلم کے طور پر ان لوگوں کو ہی حق بجانب سمجھتے ہیں جو سالہا سال سے ناحق شرارت اور افتراء کے طور پر اسلام کی توہین کر رہے ہیں.اے مولویت کے نام کو داغ لگانے والو!!! ذرا سوچو کہ قرآن میں کیا حکم ہے کیا یہ روا ہے کہ ہم اسلام کی تو ہین کو چپکے سنے جائیں.کیا یہ ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالی جائیں الشورى: ٢٠

Page 69

مجموعہ اشتہارات ۵۳ جلد دوم اور ہم خاموش رہیں ہم نے برسوں تک خاموش رہ کر یہی دیکھا ہم دیکھ دیئے گئے اور صبر کرتے رہے مگر پھر بھی ہمارے بدگمان دشمن باز نہ آئے اگر تمہیں شک ہے اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے ہی عیسائیوں اور آریوں کو توہین مذہب کے لئے برانگیختہ کیا ہے ورنہ یہ بے چارے نہایت سلیم المزاج اور اسلام کی نسبت خاموش تھے بے ادبی اور تو نہیں نہیں کرتے تھے اور نہ گالیاں نکالتے تھے تو آؤ ایک جلسہ کرو پھر اگر یہ ثابت ہو کہ زیادتی ہماری طرف سے ہے اور ابتدا سے ہم ہی محرک ہوئے اور ہم نے ہی ان لوگوں کے بزرگوں کو ابتداء گالیاں دیں تو ہم ہر ایک سزا کے سزاوار ہیں لیکن اگر اسلام کے دشمنوں کا ہی ظلم ثابت ہو تو ایسے خبیث طبع مولویوں کو کسی قدر سزا دینا ضروری ہے جو ہماری عداوت کیلئے اسلام کو درندوں کے آگے پھینکتے ہیں ہر یک امر کی حقیقت تحقیقات کے بعد کھلتی ہے اگر سچے ہیں تو ایک جلسہ کریں پھر اگر ہم کا ذب نکلیں تو بیشک ہندوؤں اور عیسائیوں کی تائید میں ہماری کتابیں جلا دیں اور ہرگز ایسا جلسہ نہیں کریں گے.کیونکہ ان لعنتی لوگوں کے اب دل مجزوم ہو گئے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ محض افترا کے طور پر بجل کے تقاضا سے ان کے منہ سے یہ باتیں نکل رہی ہیں لیکن باوا نا نک صاحب کے بارہ میں جو ہم نے رسالہ ست بچن لکھا ہے اس میں ہم نے باوا صاحب کی نسبت کوئی توہین کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ہمارا یہ رسالہ ان کی تعریف اور توصیف سے بھرا ہوا ہے اور ہم ایسے نیک منش اور قابل تعریف انسان کی مذمت کرنا سراسر خبث اور ناپاکی کا طریق جانتے ہیں اور ہماری رائے ان کی نسبت یہی ہے کہ وہ بچے دل سے خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جن پر خدا تعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى الراقم خاکسار غلام احمد یہ اشتہار آر یہ دھرم دست بچن طبع اوّل کے ٹائیٹل کے آخری دو صفحوں پر ہے ) (روحانی خزائن جلدها صفحه ۱۰۷ ۱۰۸)

Page 70

مجموعہ اشتہارات ۵۴ (۱۳۹) جلد دوم قابل توجہ ناظرین اس بات کو ناظرین یا درکھیں کہ عیسائی مذہب کے ذکر میں ہمیں اُسی طرز سے کلام کرنا ضروری تھا جیسا کہ وہ ہمارے مقابل پر کرتے ہیں.عیسائی لوگ در حقیقت ہمارے اُس عیسی علیہ السلام کو نہیں مانتے جو اپنے تئیں صرف بندہ اور نبی کہتے تھے اور پہلے نبیوں کو راستباز جانتے تھے اور آنے والے نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر سچے دل سے ایمان رکھتے تھے اور آنحضرت کے بارے میں پیشگوئی کی تھی بلکہ ایک شخص یسوع نام کو مانتے ہیں جس کا قرآن میں ذکر نہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے خدائی کا دعوی کیا اور پہلے نبیوں کو بثمار وغیرہ ناموں سے یاد کرتا تھا.یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت مکذب تھا اور اس نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے.سو آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف نے ایسے شخص پر ایمان لانے کے لیے ہمیں تعلیم نہیں دی بلکہ ایسے لوگوں کے حق میں صاف فرما دیا ہے کہ اگر کوئی انسان ہو کر خدائی کا دعوی کرے تو ہم اس کو جہنم میں ڈالیں لے گے.اسی سبب سے ہم نے عیسائیوں کے یسوع کے ذکر کرنے کے وقت اُس ادب کا لحاظ نہیں رکھا جو نیچے آدمی کی نسبت رکھنا چاہیے.ایسا آدمی اگر نا بینا نہ ہوتا تو یہ نہ کہتا کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے اور اگر نیک اور ایماندار ہوتا تو خدائی کا دعویٰ نہ کرتا.پڑھنے والوں کو چاہیے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسی علیہ السلام کو نہ سمجھ لیں بلکہ وہ کلمات اس یسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن وحدیث میں نام ونشان نہیں.یہ اعلان آریہ دھرم مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان طبع اول کے ٹائیٹل کے آخری صفحہ پر درج ہے ) ل وَمَنْ يَقُل مِنْهُمْ إِلَى اللَّهُ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّلِمِينَ (الانبياء:۳۰)

Page 71

مجموعہ اشتہارات ۱۴۰ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ إنَّمَا الأعْمَالُ بالنِّيَّاتِ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب ایڈیٹر اشاعۃ السنہ بٹالہ نے ہمارے اس خط کے جواب میں جو ہم نے ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء کو بمراد دستخط کرانے مسلمانوں کے درخواست توسیع دفعه ۲۹۸ پر معه درخواست مذکور کے شائع کیا تھا اور مولوی صاحب موصوف کی خدمت میں بھی اس غرض کے لیے رجسٹری کرا کر بھیجا گیا تھا.آپ نے ایک مختصر رسالہ میں جو زرد کاغذ پر چھپا ہے بڑی مضبوطی اور استقلال سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ” اس خدمت کا بیڑا اٹھانے کے لیے ہم حاضر ہیں بشرطیکہ آپ اپنا قدم بیچ سے نکال دیں اور اپنا اور اپنے گروہ کا استعفا بذریعہ اخبارات و اشتہارات مشتہر کر دیں.پھر ے نوٹ.یہ رسالہ مولوی محمد حسین صاحب کا فضل الہی چٹھی رساں کی معرفت ہم کو ملا.مولوی صاحب نے اپنے اس کو ورقہ رسالہ میں جو میری طرف بھیجا اپنے ہی ہاتھ سے ۲۰ غلطیاں نکال کر نہایت بدشکل کر دیا.عربی لفظوں کی غلطیوں میں تو خیر معذور تھے.مگر ساتھ اس کے اردو کی غلطیاں بھی جائے تعجب ہے.اب بہتر ہے کہ اس رسالہ کو وہ دوبارہ چھپوا دیں تا کہ کسی کو بدظنی کا موقعہ نہ ملے.مولوی صاحب کو لفظی غلطیاں تو رسالہ کے چھپنے کے بعد یاد آگئیں.مگر اس درایت کی غلطی پر وہ مطلع نہ ہو سکے، کہ فَاحْسِنُ مَعَهُمُ کے معنے اُلٹے سمجھ لیے.کیا اس کے یہ معنے پروه ہیں کہ نیکی کرنے والوں کو نیکی سے ہٹا کر ان کے کام کی آپ خواہش کریں یا یہ کہ وہ بھی کریں اور آپ بھی اُن کے شریک ہو جا ئیں.منہ

Page 72

مجموعہ اشتہارات جلد دوم دیکھیں بندہ اس کام کو کیونکر بجا لاتا ہے.آپ علیحدہ ہو جائیں.پھر اس کام کا حسن انجام ملاحظہ فرمائیں.یہ ان کی عبارت ہے جس کو انہوں نے بڑے پر زور وعدہ کے ساتھ شائع کیا ہے بلکہ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بندہ ایسے کام پہلے کر چکا ہے اور اس کی قومی خدمات گورنمنٹ اور قوم میں مسلم ہیں.اور سپریم گورنمنٹ اور لوکل گورنمنٹوں تک عزت و اعتبار کے ساتھ رسائی ہے.اور اس کی گذارش مود با نه کو گورنمنٹ عزت و اعتبار کی نگاہ سے دیکھتی اور سُنتی ہے.اس تمام تحریر پر میں نے غور کی اور ایک عمیق فکر کے بعد میرے دل نے یہی فتویٰ دیا کہ چونکہ ہماری جماعت ابھی بہت تھوڑی ہے اور اکثر لوگ ان مولوی صاحبوں کے ایسے مسخر ہیں کہ ہماری سیدھی بات بھی ان کی نظر میں الٹی معلوم ہوتی ہے اور ہمارا قدم در میان آنے سے ایک ایسی کراہت دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے کہ اگر وہ کام کرنا بھی ہو تب بھی ہرگز نہ کریں.اس لیے اگر یہ کام ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو جس کی تجویزات سے قوم کو کراہت نہ ہو تو ہمارا مدعا جو خدمت دین متین ہے بہر حال حاصل ہے اور تازہ تجربہ نے اس بات کی طرف اور بھی توجہ دلائی.کیونکہ میں نے اس کام کے لیے کسی قدر سخت الفاظ سے طبیعتوں کو جوش بھی دلایا اور کسی قدر درشتی بھی اپنے خط اور کارڈ میں جو اس بارہ میں چھاپا گیا استعمال کی ،مگر اکثر لوگوں نے مجھ سے اور میرے کام سے ایسی نفرت ظاہر کی کہ بجز انکار یا گالیوں کے اور کچھ بھی جواب نہیں دیا.ہاں میں اس وقت شکر کے ساتھ مولوی تلطف حسین صاحب دہلوی اور مولوی ابو محمد عبد الحق صاحب دہلوی مصنف تفسیر حقانی اور شیخ حاجی عبد الرحیم صاحب انبالوی شافعی المذہب اور مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی اور شیخ حسین عرب صاحب یمانی غم بھوپالوی کا ذکر کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی سعادت فطرت اور جوش حمیت اسلام اور محبت حضرت خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم سے نقشہ مسلکہ درخواست پر اپنے اپنے دستخط کر کے میرے پاس بھیج دیئے.سوئیں اُن کا تہہ دل سے شکر کرتا ہوں کہ انہوں نے باوجود بعض مسائل کی مخالفت کے پھر میرے پر ثابت کیا کہ وہ درحقیقت اللہ جل شانه اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غیرت رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ اُن کو اس کا اجر بخشے اور ان کے اس عمل کو قبول فرما دے.ایسا ہی مولوی امیر حسین صاحب متوطن بھیں ضلع جہلم نے وعدہ کیا اور لکھا کہ

Page 73

مجموعہ اشتہارات جلد دوم میں بھی اپنے دستخط اور بہت سے لوگوں کے دستخط کرا کر بھیجوں گا مگر ابھی ان کی کارروائی میرے پاس نہیں پہنچی.خدا اُن کو بھی اس کا بہت اجر دے.آمین ۲۰۷۵ بہر حال اب تک دو ہزار پچہتر دستخط اکثر معزز لوگوں کے ہو کر میرے پاس پہنچے جن میں بعض علماء اور بعض رئیسان پنجاب ہندوستان اور بعض عہدہ داران تحصیلدار وغیرہ اور بعض انگریزی دفتروں کے کلرک و ہیڈ کلرک اور بعض وکلاء اور مختار کاران اور بعض نامی تاجران پنجاب و ہندوستان ہیں ،اس کام میں وہ بڑے صدق سے پیش قدم ہوئے ، خدا تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.غرض اس کا رروائی کے لیے پشاور اور حیدرآباد اور بمبئی اور کلکتہ اور اٹاوہ اور مدراس وغیرہ بلاد ہندوستان اور پنجاب میں اس عاجز کے مخلص سرگرمی سے کوشش کر رہے ہیں.اور ہر روز اُن کی کارروائی کے نقشے پہنچتے ہیں.خدا تعالیٰ ہمارے سب دوستوں کو اپنی خاص رحمتوں سے متمتع فرمادے.اور میں اس وقت نواب محسن الملک سید مہدی علی خاں صاحب مقیم علی گڑھ کے تلطف اور مہربانی کا بھی شکر کرتا ہوں کہ انہوں نے بھی اس موقعہ پر نہایت ہمدردی سے خط لکھا.اور ان کے خط سے مترشح ہوا کہ وہ کثرتِ رائے اور اجتماع اہل بصیرت کے بعد دستخط کرنے کو تیار ہیں اور انہوں نے اپنے خط میں بہت ہی اُمید دلائی کہ وہ کسی طرح ہمدردی دینی سے دریغ نہیں کریں گے.غرض ہماری کارروائی اس حد تک پہنچی تھی.اور ابھی پشاور اور کلکتہ اور مدراس اور بمبئی اور حیدر آباد کے دوستوں کی کارروائی ہمیں موصول نہیں ہوئی تھی کہ مولوی محمد حسین صاحب نے ۲۱ / اکتوبر ۱۸۹۵ء کو اپنا رسالہ ایک چٹھی رساں کے ہاتھ بھیج دیا.اس رسالہ میں بہت زور کے ساتھ مولوی صاحب نے دعوی کیا ہے کہ یہ کام فقط مجھ سے ہی کامیابی کے ساتھ انجام پذیر ہوگا کسی دوسرے سے نہیں.تب میں نے خیال کیا کہ شاید یہ دعویٰ صحیح ہو کیونکہ مولوی صاحب موصوف ایک گروہ کثیر کے ہم خیال ہیں.اور میں دیکھتا ہوں کہ اس قانون کے پاس کرانے کے لیے جس میں پاس کے بعد فریق مخالف اسلام پر نہایت مشکلات پڑیں گے اور جہاں تک ممکن ہوگا زور لگائیں گے کہ گورنمنٹ کو اس قانون کے پاس کرنے سے روک دیا جاوے وجہ یہ کہ اس سے ان کی پُر خیانت کا رروائیاں یک لخت بند ہو جائیں گی.لہذا اس وقت وہ طریق اختیار کرنا مناسب ہے

Page 74

مجموعہ اشتہارات ۵۸ جلد دوم جس طریق سے ایسی درخواست پر لاکھوں دستخط ہو جائیں.اگر چہ مجھے اپنے دوستوں کی کوششوں پر نظر کر کے حق الیقین کی طرح یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہماری سعی اور جہد سے کم سے کم پچاس ہزار یا ساٹھ ہزار کے قریب دستخط ہو جائیں گے اور بڑی آسانی سے ہو جائے گی کیونکہ نہایت زور شور سے یہ کارروائی شروع ہے، لیکن جب میں غور کرتا ہوں کہ یہ کس مرتبہ کی درخواست ہے اور اسلام کے لیے کیسے اعلیٰ نتائج اس میں مخفی اور مستور ہیں اور دینی مخالفوں کے لیے قانون پاس ہونے کی حالت میں کیا کیا ناکامیاں اور نامرادیاں دامنگیر ہونے والی ہیں تو میرا دل یہ قطعی فیصلہ دیتا ہے کہ کم سے کم ایسے دستخط دس لاکھ سے کم نہ ہوں اور کچھ شک نہیں کہ علماء اور مولوی صاحبوں کے دستخط ایسی درخواست پر بہت ہی مؤثر ہوں گے کیونکہ گورنمنٹ جانتی ہے کہ مذہبی امور کے بہت سے مصالح کی لگام انہیں کے ہاتھ میں ہے.ہاں ایسی درخواست کو ایک واجب درخواست بنانے کے لیے ایسے قانون دانوں کے دستخط بھی ضرور ہونے چاہئیں جو نامی وکلاء اور بیرسٹر ہوں.تا گورنمنٹ کو درخواست پر غور کرنے کے لیے ان لوگوں کے دستخط بطور مؤید کے ہو جائیں، لیکن چونکہ یہ کام بہت عظیم الشان ہے اور مولوی صاحبوں کا کسی طرح سے یہ منشاء نہیں کہ یہ کام ہمارے ہاتھ سے ہو اس لیے امرتسر کے مولوی صاحبوں نے ہماری وجہ سے اس کام کو فضول اور غیر مفید ٹھہرایا.اور بہتوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ تمہارا شر پادریوں اور آریوں سے زیادہ ہے اور جابجا اشتہار شائع کر کے اس کارروائی کو روکنا چاہا اور میرے کینے سے روا رکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمیشہ وہ ناجائز افتراء ہوتے رہیں جو مومنوں کے دلوں کو پاش پاش کرتے ہیں.جیسا ابھی پادری ٹی ولیمس ریواڑی نے وہ افتراء کیا اور وہ گندی گالیاں دیں کہ کسی ادنیٰ حیثیت کے آدمی کو بھی نہیں دی جاتیں.پس میں نے سوچا کہ چونکہ مولویوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی کچھ بھی پروانہ کرنا دراصل میرے ہی کینہ کی وجہ سے ہے، ایسا نہ ہو کہ ان کی معصیت میں میں بھی شریک سمجھا جاؤں.اس لیے میں نے مولوی محمد حسین صاحب کی درخواست پر اس کام سے اپنے تئیں علیحدہ کرنا مناسب سمجھا کیونکہ دراصل ان علماء کی لا پروائی اور سخت دلی کا باعث میرا ہی وجود ہے اور میرے کینے سے یہ روا رکھا جاتا ہے کہ جو کچھ

Page 75

مجموعہ اشتہارات ۵۹ جلد دوم مخالف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں، وہ دیتے رہیں بلکہ ان کو معذور اور نا قابل الزام ٹھہرایا جاتا ہے.تو اس صورت میں اگر میرا قدم درمیان نہ ہونے سے مولوی صاحبان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ غیرت دکھلاویں اور اس گناہ سے اپنے تئیں بچالیں جو میری وجہ سے جھوٹے بہانوں کے ساتھ اُن کو اختیار کرنا پڑا تو یقین ہے کہ مجھے اس سے ثواب ملے گا.اصل غرض تو یہ ہے کہ آنحضرت صلعم اور دین اسلام کی حمایت کے لیے ایک کام کا انجام دیا جاوے.سو مناسب نہیں کہ میری وجہ سے وہ کام حیز التواء میں رہ جاوے.اگر چہ میرا دل دینی خدمت سے استعفاء نہیں دیتا.اور اللہ جل شانہ اور رسول اللہ صلعم کی راہ میں فدا ہے اور ہو گا جب تک کہ میں اس جہان سے گذر جاؤں.وَ وَاللَّهِ إِنَّ حَيَاتِي وَ مَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.لیکن میری اس میں کون سی کسر شان ہے کہ میں چند الفاظ سے اپنے اندرونی مخالفوں کو خوش کر کے ان کے ہاتھ سے رسول اللہ صلعم کے لیے ایسی خدمت لوں.اس لیے میں بڑی خوشی سے مولوی ابوسعید محمدحسین صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ اس چاکری کو قبول کرتے ہیں اور صدق دل سے کمر باندھنے کو تیار ہیں تو میں اس کام اور شغل سے اپنے تئیں فارغ کرتا ہوں.اور آپ کے وعدے پر بھروسہ کر کے میری طرف سے یہی تحریر بطور استعفاء ہے.سویا در ہے کہ ہم اپنا اور اپنے گروہ کا استعفاء اس شرط سے پیش کرتے ہیں کہ آپ اپنے وعدہ کو پورا کریں یا اور ہمیں کسی ناموری کی ہوس نہیں اور نہ کسی شکر کی خواہش.لے حاشیہ.مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے جو کچھ آخر کرنا ہے وہ تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے مگر بالفعل تو انہوں نے ہمارے چلتے کام کو روک دیا.اس بات کے اظہار کی کچھ حاجت نہیں کہ بڑے زور سے یہ کارروائی تمام پنجاب اور ہندوستان میں چل رہی تھی.چنانچہ آج کی تاریخ ۲ را کتوبر ۱۸۹۵ء تک دستخط کرنے والوں کا عدد دوہزار پچہتر تک پہنچ گیا.یہ لوگ کچھ عوام الناس میں سے نہیں.بلکہ گورنمنٹ کے معزز عہدہ دار اور وکلاء اور مختار کاران اور رئیسان پنجاب و ہندوستان و معز ز سوداگر اس میں بکثرت داخل ہیں اور ابھی بہت سے شہر باقی ہیں.جن سے دستخط ہو کر واپس نہیں آئے.اگر چہ مولوی صاحب موصوف نے اس کام کے وقت بھی اپنی معمولی درندگی کو نہیں چھوڑا بلکہ سب وشتم کے الفاظ زور سے ظاہر کئے.مگر ہم نہیں چاہتے کہ اس وقت اپنے بد گو کو بد گوئی سے یاد کر کے ایک اور بحث

Page 76

مجموعہ اشتہارات جلد دوم صرف یہ خواہش ہے کہ آپ سادگی اور نیک نیتی سے ہماری اس تحریر کو قبول کر کے جلد کام میں لگ جائیں کہ عمر کا اعتبار نہیں.اب ایسا ہی ہوگا کہ یہ درخواست ہماری یا ہمارے گروہ کی کسی شخص کی طرف سے گورنمنٹ میں بھیجی نہیں جائے گی اور ہماری جماعت کا اس میں کچھ دخل نہیں ہو گا.آپ کا دعویٰ ہے کہ ایسے کاموں کے لیے میرے اوقات وقف ہیں اور گورنمنٹ سے میرے محکم تعلقات ہیں.سو ہمیں اس روز بہت خوشی ہوگی جب آپ کا یہ قول مقرونِ عمل سمجھا جائے گا اور اس سے زیادہ اس دن جب آپ کی یہ محنت حسب مراد پھل لائے گی.اب جہاں تک الفاظ تھے میں اپنی بے تعلقی اور اپنی جماعت کی بے تعلقی کے اظہار میں ادا کر چکا.باقی رہا آپ کا اپنی اس تحریر میں بھی مجھے دجال کہنا، شیطان اور کافر کے نام سے موسوم کرنا.سومیں اس وقت ان باتوں کا جواب دینا نہیں چاہتا اور نہ ختی کے مقابل پرسختی کرنا چاہتا ہوں.کیونکہ میں نے یہ خطا محض جناب مقدس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بقیہ حاشیہ.شروع کر دیں.یہ لطف ونرمی اور مدارات کا وقت ہے.ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص ہماری عداوت کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں دریغ کرے.ہماری سب عزتیں اللہ اور رسول کے راہ میں قربان ہیں.اگر کسی نے ہمیں دجال کہا یا شیطان کہایا کا فر کہا تو اگر ہم فی الحقیقت ایسے ہی ہیں تو ایسے شخص کو ثواب کا مستحق سمجھنا چاہیے لیکن اگر اس عالم الغیب کے نزدیک جس کی دلوں پر نظر ہے، اصلی واقعات اس کے برخلاف ہیں تو وہ ایسے شخص کو جو مومن کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اور اپنے معاندانہ اصرار سے باز نہیں آتا ، بے سزا نہیں چھوڑے گا.بیشک ریا کار شیطانی اغراض والے جو اپنے تئیں نیک اور اہل اللہ ظاہر کرتے ہیں.اور اپنے کاموں میں دجل اور تکلمیس رکھتے ہیں عند اللہ کتوں سے بدتر ہیں اور ان کا انجام بُرا ہوتا ہے کیونکہ وہ ضلالت کو شائع کرنا چاہتے ہیں.لیکن دراصل کوئی ایسا نہ ہوا اور صرف سمجھوں کا پھیر ہو تو کیا خدائے کریم اس کو ضائع کر دے گا، ہرگز نہیں بلکہ جو حالات کسی شخص کے اس غیب دان کے نزدیک محقق ہیں وہ انہیں کے لحاظ سے اس کے ساتھ معاملہ کریگا.کیونکہ انجام کار ان کے لیے ہے جو اس کے ہیں.سو یہ باتیں اس وقت تذکرہ کے لائق نہیں.صرف ہم مولوی صاحب کی خدمت میں یہ التماس کرتے ہیں کہ اپنی کسل اور غفلت سے ہماری اس تمام کارروائی کو مسمار نہ کر دیں بلکہ سارے دل اور ساری جان سے کوشش کریں تا اسی نام کے لائق ٹھہر میں جس نام کے حاصل کرنے کا انہوں نے ارادہ کیا ہے اور اس سے ڈریں کہ انجام کار منصف لوگ ان کا کوئی اور نام نہ رکھ دیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - منه

Page 77

مجموعہ اشتہارات ۶۱ جلد دوم عزت اور سچائی اور بزرگی کی حمایت کی نیت سے لکھا ہے.اور اس وقت اگر میری نظر کے سامنے کسی کی سخت باتیں اور دُشنام رہی ہے تو پادری ٹی ولیمس اور عمادالدین وغیرہ اور پادری فتح مسیح کی وہ گالیاں ہیں جو انہوں نے ہمارے سید و مولیٰ سید المطہرین رسول اللہ صلعم کے حق میں نہایت مکر وہ الفاظ میں لکھی ہیں پادری فتح مسیح کا خط اس وقت میرے سامنے پڑا ہے جس میں اس نا پاک طبع نے لکھا ہے کہ نعوذ باللہ وہ شخص یعنی آنحضرت ایک زانی آدمی تھا اور اس کے اعتراضات کارڈ نورالقرآن میں لکھ رہا ہوں.ایسا ہی اس وقت پادری ٹی ویمس ریواڑی کا رسالہ میری نظر کے سامنے موجود ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ نعوذ باللہ وہ شخص یعنی آنحضرت سرغنہ ڈکیتی، دغا باز ، زینب کا عاشق تھا جس نے زینب کو دیکھ کر بد خواہش کی ، چوری کرنے والا ، ڈکیتی کرانے والا ، بت پرست، ناحق کا خون کرنے والا تھا.مرتے دم تک ڈکیتی اور لوٹ مار اس کا طریق رہا.اب جب یہ گالیاں اس پاک کو دی جاتی ہیں جو تمام پاکوں کا سردار ہے پھر اگر اس پر ظلمت زمانہ میں مجھ کو بھی کسی نے دجال کہا یا شیطان کہا تو میں کیا افسوس کروں.ان ہزاروں پتھروں میں سے جو اس پاکوں کے سردار پر پھینکے جاتے ہیں، اگر ایک دو پتھر میرے پر بھی پھینکے گئے تو مجھے فخر کرنا چاہیے کہ ظلمت نے مجھ سے بھی دشمنی کی جیسا کہ اس ٹور سے دشمنی کی.مگر مجھے امرتسر کے مولویوں پر سخت افسوس ہے جنہوں نے واشگاف لکھ دیا ہے کہ یہ گالیاں تمہاری گالیوں سے کچھ بڑی نہیں.افسوس کہ اگر یہ گالیاں ان کے باپ یا ماں کو دی جائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں تو کب کے عدالتوں میں استغاثہ کرنے کے لیے دوڑتے.ہائے افسوس یہ دل کیسے پتھر ہو گئے.اور آپ نے جو میرے حق میں گورنمنٹ کے باغی ہونے کا لفظ استعمال کیا ہے یہ شاید اس لیے کیا کہ آپ جانتے ہیں کہ نائش اور استغاثہ کرنے کی میری عادت نہیں ورنہ آپ ایسے صریح جھوٹ سے ضرور بچتے جس میں قانونی گرفت کے نیچے ایسا مدعی آ سکتا ہے.آپ نے ایک واہیات بات بنا رکھی ہے کہ ہشت سالہ پیشگوئی ایسی تھی.مگر آپ قانونی مواخذہ سے نہیں ڈرتے.کیا آپ کی یہی دیانت ہے کہ اس بارہ میں نہ آپ نے کوئی میری تحریر دیکھی اور نہ تقریر سنی.ناحق ایک غلط اور

Page 78

مجموعہ اشتہارات ۶۲ جلد دوم بے اصل خیال دل میں جمالیا میں آپ کو بطور نصیحت کہتا ہوں کہ گو آپ کی گورنمنٹ سے کیسی ہی محبت اور الفت کے تعلقات ہوں تاہم ضرور افتراؤں سے ڈرا کریں کہ یہ باتیں جو آپ کے منہ سے نکلتی ہیں آپ کے لیے سخت خطر ناک ہیں.میں گورنمنٹ عالیہ انگریزی کا دل سے خیر خواہ ہوں اور وہ خیر خواہی جو مال اور جان اور قلم سے مجھ سے اور میرے بزرگوں سے گورنمنٹ ممدوحہ کی نسبت ظہور میں آئی ، اگر آپ کے وجود اور آپ کے بزرگوں کے وجود میں کوئی شخص اس کا نمونہ تلاش کرنا چاہے تو تضیع اوقات ہے.اس سے زیادہ اور کیا خیر خواہی ہوگی کہ میں سچے دل سے نہ منافقانہ طور پر اس گورنمنٹ کی نسبت بغاوت کا خیال بھی دل میں لانا گناہ سمجھتا ہوں اور اس بات کو فرض جانتا ہوں کہ اس کی شکر گذاری کی جائے.اور اس کی خدمت گزاری میں قصور نہ کریں اور اس کی اطاعت میں دریغ نہ کریں.اور میں آپ کی طرح کسی خونی مہدی کا منتظر بھی نہیں تا گورنمنٹ کی نظر میں میرے اصول خطرناک ہوں.آپ لوگ جو دلوں میں خیالات رکھتے ہیں اس دانا گورنمنٹ پر پوشیدہ نہیں.آپ لوگوں کے عقیدے کچھ چھپے ہوئے نہیں.مگر میں تو ایسے عقیدہ پر لعنت بھیجتا ہوں کہ کسی وقت بھی اس محسن گورنمنٹ کی نسبت کوئی بغاوت کا ارادہ مخفی طور پر بھی دل میں رکھا جاوے.کئی ہزار روپیہ کی کتا بیں اس غرض کے لیے شائع کر چکا ہوں کہ تا لوگ اس غلطی سے بچ جائیں کہ ناحق اس گورنمنٹ کو غیر مذہب کی گورنمنٹ تصور کر کے درندگی اور خونخواری کے خیالات ظاہر کریں اور ہر وقت یہی چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں کچی محبت اس گورنمنٹ کی پیدا ہو.بیشک میں جیسا کہ میرے خدا نے میرے پر ظاہر کیا صرف اسلام کو دنیا میں سچا مذہب سمجھتا ہوں، لیکن اسلام کی کچی پابندی اسی میں دیکھتا ہوں کہ ایسی گورنمنٹ جو در حقیقت محسن اور مسلمانوں کے خون اور آبرو کی محافظ ہے اس کی سچی اطاعت کی جائے میں گورنمنٹ سے ان باتوں کے ذریعہ سے کوئی انعام نہیں چاہتا.میں اُس سے درخواست نوٹ.میں نے صدہا کتابیں جہاد کے مخالف تحریر کر کے عرب اور مصر اور بلادشام اور افغانستان میں گورنمنٹ کی تائید میں شائع کیں ہیں.کیا آپ نے بھی ان ملکوں میں کوئی ایسی کتاب شائع کی.باوجود اس کے میری یہ خواہش نہیں کہ اس خدمت گزاری کی گورنمنٹ کو اطلاع کروں یا اس سے کچھ صلہ مانگوں جو انصاف کی روسے اعتقاد تھا وہ ظاہر کر دیا.منہ

Page 79

مجموعہ اشتہارات ۶۳ جلد دوم نہیں کرتا کہ اس خیر خواہی کی پاداش میں میرا کوئی لڑکا کسی معزز عہدہ پر ہو جائے.یہ میرا ایک عقیدہ ہے جو سچائی اور شکر گزاری کی پابندی سے رکھتا ہوں نہ کسی اور غرض سے میری رائے قدیم سے گورنمنٹ کی نسبت یہی ہے جو میں نے بیان کی.سوتم خدا تعالیٰ سے ڈرو.اور ناحق کی تہمتیں مت لگاؤ که دنیوی زندگی معہ اپنے تمام لوازم کے بہت جلد ختم ہو جائے گی.اور جلد تر ایک تبدیلی ہو کر دوسرے عالم میں پہنچائے جاؤ گے اور اُس بچے حاکم کی جناب میں پیش کئے جاؤ گے جس کی دلوں اور جانوں پر حکومت ہے سوچو اور خوب سوچو کہ عنقریب اس ذات سے معاملہ ہے جو دلوں کے مخفی در مخفی بھیدوں کو جانتا ہے.وَ لَمَقْتُ اللهِ أَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ خدا تعالیٰ ہدایت دے اور وہ باتیں الہام کرے جن سے وہ راضی ہو جائے.آمین بالآخر میں اپنے دوستوں کو آگاہ کرتا ہوں کہ میں نے محض اللہ مولوی محمد حسین صاحب کے مواعید پر نظر کر کے اپنے مخلصوں کے دستخطوں کی اور درخواست کے بھیجنے کی کارروائی سے اپنے تیں الگ کر لیا ہے.آپ صاحبان اس سے رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ ہمارے کام خدا تعالیٰ کے لیے ہیں اور چاہیے کہ آپ لوگ ان کی منشاء کے موافق اس کا رروائی سے الگ ہو جاویں.کیونکہ ان کی طرف سے یہی شرط ہے کہ ہم بالکل اس کام سے الگ ہو جاویں اور اگر اسی طور سے آنحضرت صلعم کی حفظ عزت کے لیے احسن طور پر قانونی وسائل پیدا ہو جاویں تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کے مخالف کوئی حرکت کریں اور کام کے حارج ہوں.آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ بیشک سعی اور نیت کا اجر دے گا.وَاللَّهُ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.راق خاکسار غلام احمد قادیانی ۲۱ اکتوبر ۱۸۹۵ء نوٹ.شرط یہ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب ماہ بماہ اپنی کا روائی شائع کرتے رہیں.منہ

Page 80

مجموعہ اشتہارات ۶۴ التماس بخدمت صاحبان اخبار جلد دوم ہم اسلام کے بچے ہمدرد اور شریف اہل اسلام ایڈیٹر ان اخبار کی للہی ہمتوں سے امید رکھتے ہیں کہ اس خط کو اپنے اپنے اخبار میں چھاپ کر ثواب حاصل کریں.غلام احمد اشتہار کتب موجودہ آریہ دھرم ست بچن ایک جلد میں ۸/ (آٹھ آنے) آئینہ کمالات اسلام تار (دوروپے) ازالہ اوہام سے ( تین روپے ) رسالہ نور القرآن نمبر اول ۴ (چار آنے) فتح اسلام ۴ ( چار آنے) توضیح مرام ۴ ( چار آنے ) یہ اشتہار ۳۸۴ کے آٹھ صفحہ پر ہے) (مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۳۸ تا ۴۷)

Page 81

مجموعہ اشتہارات ۱۴۱ جلد دوم اشتہار کتاب ست بچن و آریہ دھرم واضح ہو کہ پہلے اس سے جس قدر اشتہار کتاب ست بچن اور آر یہ دھرم کی نسبت شائع ہوئے تھے وہ اس وقت لکھے گئے تھے کہ جبکہ ابھی کتاب موصوف تمام و کمال چھپی نہیں تھی اور ہمارا خیال تھا کہ شاید تین یا چار جزو تک اس کتاب کی ضخامت ہو جائے گی.سواسی خیال سے قیمت تھوڑی رکھی گئی تھی لیکن بعد میں کتاب ست بچن بوجہ طرح طرح کی نادر اور عجیب تحقیقاتوں کے بہت بڑھ گئی.اور دونوں کتابوں کی ضخامت دو سو صفحہ سے بھی زیادہ ہو گئی.اور بابا نانک صاحب کی صحیح صحیح سوانح کے متعلق بڑی محنت ہمیں اُٹھانی پڑی اور اپنے دوستوں کو تحقیقات موقعہ کے لیے دُور و دراز فاصلہ کے شہروں میں بھیجنا پڑا.اور بعض سفر ہم نے معہ اپنی جماعت کے خود بھی کئے.اس لیے ست بچن کی تالیفات میں اس قدر مالی خرچ بڑھ گیا کہ اگر ہم فی نسخہ پانچ روپیہ بھی قیمت رکھتے تو اُن مصارف اور جدو جہد کے مقابل پر یہ قیمت بہت تھوڑی تھی لیکن ہم نے عوام کے فائدہ کے لیے ایک ادنی قیمت یعنی ڈیڑھ روپیہ قیمت مقرر کر دی ہے اور پھر زیادہ تر یہ رعایت بھی دی گئی کہ یہ قیمت دونوں رسالوں ست بچن اور آر یہ دھرم کی ہے، مگر یادر ہے کہ اگر ایسے سکھ صاحبان جو والی ریاست یا معزز جا گیر دار یا امراء اور کرسی نشینوں میں سے ہیں یا وہ تمام صاحبان جو معز ز عہدوں پر یا والی ملک ہیں.اس کتاب کو خریدنا چاہیں تو کسی صورت میں پانچ روپیہ سے کم نہیں لیے جائیں گے کیونکہ یہ قیمت چھپائی اور کاغذ ے نوٹ.کتاب ست بچن اور آریہ دھرم ایک ہی جلد میں ہے.علیحدہ علیحدہ فروخت نہیں ہوگی.منہ

Page 82

مجموعہ اشتہارات جلد دوم وغیرہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ ایسے مصارف کے لحاظ سے ہے جو ہمیں اس تحقیق اور تفتیش میں پیش آئے.اور اس کتاب کے ساتھ جابجا ہر یک موقعہ مناسب کے نقشے بھی شامل ہیں.اور انگریزی تحقیقاتوں کا خلاصہ انگریزی زبان میں آخر کتاب کے شامل کیا گیا ہے.اور بہت سے ایسے حقائق و معارف اس میں درج ہیں کہ طالب حق لوگوں کے لیے بے بہا جواہرات کے حکم میں ہیں.اور ایک باب میں بابا نانک صاحب کی وہ کرامات بیان کی گئی ہیں.جن سے اُن کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے.مگر شاید سکھ صاحبان اس بات کے سننے سے خوش نہ ہوں گے کہ میں نے بابا نانک صاحب کے مذہب کے بارے میں ان سے اتفاق نہیں کیا.اس کی وجہ یہی تھی کہ کامل تحقیقات نے جس طرف مجھے کھینچا، اضطراری طور پر اسی طرف مجھے جانا پڑا.مگر با این ہمہ مجھے بار بار اپنی کتاب میں اقرار کرنا پڑا ہے کہ در حقیقت بابا نانک صاحب ان منتخب لوگوں میں سے تھے جن کی زندگی کو عنایت الہی اپنے لیے خاص کر لیتی ہے.اور اس پاک گروہ میں سے تھے جن کے دلوں میں محبت الہی یوں بھر جاتی ہے جیسے اک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے.چنانچہ میں نے بابا صاحب کے رُوحانی کمالات کی نسبت ایسی عمدگی اور خوبی اور صفائی سے مدلل بیانوں کا جلوہ دکھلایا ہے کہ اگر آدمی نہایت درجہ کا نجی نہ ہو تو ضرو اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ بیانات صحیح ہیں.اور آریہ دھرم میں ویدوں کی تعلیم کا نمونہ دکھلا یا گیا ہے اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے ہر یک امر میں صحت نیت اور نتائج تحقیق سے کام لیا ہے.اور بلاشبہ میری یہ کتاب اُن لوگوں کے لیے چشمہ آب حیات کا حکم رکھتی ہے جو سچائی کے طالب ہوں.المشـ ( مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) خاکسار غلام احمد ۱۵/ نومبر ۱۸۹۵ء ـشهر یہ اشتہار ۲۲x۲۰ کے ایک صفحہ پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۴۸، ۴۹)

Page 83

مجموعہ اشتہارات ۱۴۴ جلد دوم لائق توجہ گورنمنٹ چونکہ سکھ صاحبوں کے بعض اخبار نے اپنی غلط فہمی سے ہمارے رسالہ ست بچن کو ایسا خیال کیا ہے کہ گویا ہم نے وہ رسالہ کسی بدنیتی اور دل آزاری کی نیت سے تالیف کیا ہے اس لئے ہم گورنمنٹ کے حضور میں اس بات کو ظاہر کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ یہ رسالہ جوست بچن کے نام سے موسوم ہے نہایت نیک نیتی اور پوری پوری تحقیق کی پابندی سے لکھا گیا ہے.اصل غرض اس رسالہ کی ان بیجا الزاموں کا رفع دفع کرنا ہے جو آریوں کے سرگروہ دیانند پنڈت نے بابا نانک صاحب پر اپنی کتاب ستیارتھ پر کاش میں لگائے ہیں اور نہایت نالائق لفظوں اور تحقیر آمیز فقروں میں باوا صاحب موصوف کی تو ہین اور تحقیر کی ہے پھر اس کے ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ نہایت قوی اور مضبوط دلائل سے ثابت ہو گیا ہے کہ باوا صاحب اپنے کمال معرفت اور گیان کی وجہ سے ہندوؤں کے ویدوں سے بالکل الگ ہو گئے تھے اور انہوں نے دیکھا کہ جس خدا کی خوبیوں میں کوئی نقص اور کسی عیب کی تاریکی نہیں اور ہر یک جلال اور قدرت اور تقدس اور کامل الوہیت کی بے انتہا چمکیں اس میں پائی جاتی ہیں.وہ وہی پاک ذات خدا ہے جس پر اہل اسلام عقیدہ رکھتے ہیں.اس لئے انہوں نے اپنی کمال خدا ترسی کی وجہ سے اپنا عقیدہ اسلام ٹھہرایا چنانچہ یہ تمام وجوہات ہم اس رسالہ میں لکھ چکے ہیں اور ایسے واضح اور بدیہی طور پر یہ ثبوت دے چکے ہیں کہ بغیر اس کے ماننے کے انسان کو بن نہیں پڑتا اور ماسوائے اس کے یہ رائے کہ باوا صاحب اپنی باطنی صفائی اور اپنی پاک زندگی کی وجہ سے مذہب اسلام کو قبول کر چکے تھے صرف ہماری ہی رائے نہیں بلکہ ہماری اس کتاب سے پہلے بڑے

Page 84

مجموعہ اشتہارات ۶۸ جلد دوم بڑے محقق انگریزوں نے بھی یہی رائے لکھی ہے اور وہ کتابیں مدت دراز پہلے ہماری اس تالیف سے برٹش انڈیا میں تالیف ہو کر شائع بھی ہو چکی ہیں چنانچہ میں نے بطور نمونہ پادری ہیوز کی ڈکشنری کے چند اوراق انگریزی اس رسالہ کے آخر میں شامل کر دیئے ہیں جن میں پادری صاحب موصوف بڑے دعویٰ سے باوا صاحب کا اسلام ظاہر کرتے ہیں اور یہ ڈکشنری تمام برٹش انڈیا میں خوب شائع ہو چکی ہے سکھ صاحبان بھی اس سے بے خبر نہیں ہیں اس صورت میں یہ خیال کرنا کہ اس رائے میں میں ہی اکیلا ہوں یا میں نے ہی پہلے اس رائے کا اظہار کیا ہے یہ بڑی غلطی ہے ہاں میں نے وہ تمام دلائل جو دوسروں کو نہیں مل سکے اس کتاب میں اکٹھے کر کے لکھ دیئے ہیں جن محقق انگریزوں نے مجھ سے پہلے یہ رائے ظاہر کی کہ باوا صاحب در حقیقت مسلمان تھے ان کے پاس کامل دلائل کا ذخیرہ نہ تھا مگر میری تحقیق سے یہ امر بدیہی طور پر کھل گیا اور میں امید رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ پادری ہیوز کی اس رائے پر جو بزبان انگریزی کتاب ہذا کے آخر میں شامل ہے توجہ فرمادے اور میں سکھ صاحبوں سے اس بات میں اتفاق رکھتا ہوں کہ بابا صاحب در حقیقت خدا تعالیٰ کے مقبول بندوں میں سے تھے اور ان میں سے تھے جن پر الہی برکتیں نازل ہوتی ہیں اور جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے صاف کئے جاتے ہیں اور میں ان لوگوں کو شریر اور کمین طبع سمجھتا ہوں کہ ایسے بابرکت لوگوں کو تو ہین اور ناپا کی کے الفاظ کے ساتھ یاد کریں ہاں میں نے تحقیق کے بعد وہ پاک مذہب جس سے بچے خدا کا پتہ لگتا ہے اور جو تو حید کے بیان میں قانون قدرت کا ہم زبان ہے اسلام کو ہی پایا ہے سو میں خوش ہوں کہ جس دولت اور صاف روشنی کو مجھے دیا گیا مجھ سے پہلے خدا تعالیٰ کے فضل اور عنایت نے باوا صاحب کو بھی وہی دولت دی سو یہ ایک سچائی ہے جس کو میں چھپا نہیں سکتا اور میں اپنا اور باوا صاحب کا اس میں فخر سمجھتا ہوں کہ یہ پاک تو حید خدا کے فضل نے ہمیں دی.ــار غلام احمد قادیانی ۲۰ نومبر ۱۸۹۵ء یہ اشتہا رست بچن طبع اول کے ٹائٹل پر ہے ) (روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۱۱)

Page 85

مجموعہ اشتہارات ۶۹ (۱۴۳ جلد دوم کتاب ست بچن کا تھوڑ اسا مضمون نمونے کے طور پر ہم مناسب دیکھتے ہیں کہ کتاب ست بچن کا کسی قدر مضمون نمونے کے طور پر شائع کریں تا سکھ صاحبان اور دیگر صاحبان کو کچھ حقیقت معلوم ہو.یہ کتاب معہ آریہ دھرم کے ۲۲۴ صفحہ کے قریب ہے اور دونوں ایک ہی جلد میں ہیں.اور ایک دوسری سے علیحدہ فروخت نہیں ہو گی.اور با وجود مصارف کثیرہ کے قیمت صرف ڈیڑھ روپیہ رکھی ہے.اس میں بہت سے معارف اور حقائق ایسے درج ہیں کہ اگر اس کے فروخت ہونے کے بعد کسی کو اس کی خوبیوں پر اطلاع ہوئی تو اُسے آہ کھینچ کر کہنا پڑے گا کہ کیوں میں نے اس کا ایک نسخہ خرید نہ لیا.اور جس قدر بابا نانک صاحب پر آریوں نے جھوٹے الزام لگائے ہیں اور جس قدر دیا نند نے توہین کے ارادہ سے بابا صاحب موصوف کی نسبت بدزبانی کی ہے اُن تمام اعتراضات کا اس کتاب میں دندان شکن جواب دیا گیا ہے اور اس میں عام فائدہ کے لیے نیچے مذہب کی شناخت کی علامتیں بھی لکھی ہیں.اور نیز مذاہب کی تنقیح اور تحقیق کے بارہ میں ایک مبسوط بیان ہے.غرض یہ ایک جدید طرز کی کتاب ہے جو با وا صاحب کے وفادار سکھوں کو جو پنجاب میں سترہ لاکھ سے کم نہیں ہونگے اس بزرگ خدا رسیدہ کے پیروی کے لیے بلاتی ہے.اس کتاب میں بابا نانک صاحب کی بزرگیاں اور خوبیاں آسمان کے ستاروں کی طرح چمک رہی ہیں.نیچے اخلاص مندوں کو لازم ہے کہ اب خریداری میں دیر نہ کریں کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ بابرکت کتاب بہت جلد فروخت ہوگی.اور جو شخص دیر کے بعد

Page 86

مجموعہ اشتہارات جلد دوم درخواست بھیجے گا.مجھ کو کم امید ہے کہ اس کے لیے یہ کتاب باقی رہے.اور اب ہم کتاب کے مضامین میں سے ایک مضمون بطور نمونہ کے لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے.باوانا تک صاحب پر پادریوں کا حملہ یہ عجیب بات ہے کہ اس زمانہ کے پادری جس قدر دوسرے مذاہب پر نکتہ چینی کرنے کے لیے اپنا وقت اور اپنا مال خرچ کر رہے ہیں اس کا کروڑواں حصہ بھی اپنے مذہب کی آزمائش اور تحقیق میں خرچ نہیں کرتے.حالانکہ جو لوگ ایک عاجز انسان کو خدا بنا رہے ہیں اور خدائے ازلی ابدی غیر متغیر قدوس پر یہ مصیبت روا ر کھتے ہیں کہ وہ ایک عورت کے پیٹ میں نو مہینہ تک بچہ بن کر رہا اور خون حیض کھاتا رہا اور انسانوں کی طرح ایک گندے راہ سے پیدا ہوا.اور پکڑا گیا اور صلیب پر کھینچا گیا، ایسے قابل شرم اعتقاد والوں کو چاہیے تھا کہ کفارہ کا ایک جھوٹا منصوبہ پیش کرنے سے پہلے اس قابلِ رحم انسان کی خدائی ثابت کرتے اور پھر دوسرے لوگوں کو اُس عجیب خدا کی طرف بلاتے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ ان لوگوں کو اپنے مذہب کا ذرہ بھی فکر نہیں.تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ ایک پر چہ امریکن مشن پر لیس لو دھیا نہ میں سے پنجاب دلیجس بک سوسائٹی کی کارروائیوں کے واسطے ایم وایلی مینجر کے اہتمام سے نکلا ہے.جس کی سُرخی یہ ہے.وہ گر و جوانسان کو خدا کا فرزند بنادیتا ہے.اس پر چہ میں سکھ صاحبوں پر حملہ کرنے کے لیے آد گر نتھ کا یہ شعر ابتدائی تقریر میں لکھا ہے.جے سوچا ندا اوگویں سورج چڑھے ہزار ایتے چانن ہند یاں گر بن گھور اندھار یعنی اگر تو چاند نکلے اور ہزار سُورج طلوع کرے تو اتنی روشنی ہونے پر بھی گورو یعنی مُرشد اور ہادی کے بغیر سخت اندھیرا ہے.پھر اس کے بعد لکھا ہے کہ افسوس ہمارے سکھ بھائی ناحق دس بادشاہیوں کو گورو مان بیٹھے ہیں اور اس ست گورو کو نہیں ڈھونڈتے جو منش کو دیوتا بنا سکتا ہے.پھر آگے لکھتا ہے کہ وہ ست گورو یسوع مسیح ہے جس نے اپنی جان قربان کی اور گہنگاروں کے بدلے آپ لعنتی ہوا.اس کے ماننے سے لوگ گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں.اور پھر سکھ صاحبوں کو مخاطب کر

Page 87

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کے لکھتا ہے کہ جن لوگوں کو آپ اب تک گورو سمجھے بیٹھے ہیں اور اُن سے روشنی پانے کی اُمید رکھتے ہیں، وہ لوگ اس لائق نہیں ہیں کہ آپ کے تاریک دل کو روشن کریں.ہاں اس گور و یسوع مسیح میں یہ خاصیت ہے کہ کیسا ہی دل تاریک اور نا پاک کیوں نہ ہو وہ اس کو روشن اور پاک کر سکتا ہے غرض یہ کہ تم یسوع کو خدا کر کے مان لو.پھر تم خاصے پاک اور پوتر ہو جاؤ گے اور سب گناہ جھڑ جائیں گے اور منش سے دیوتا بن جاؤ گے، مگر افسوس کہ یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ اگر انسانوں کو ہی خدا بنانا ہے تو کیا اس قسم کے خدا ہندوؤں میں کچھ کم ہیں.باوا صاحب ہندوؤں کے مت سے کیوں بیزار ہوئے.اسی لیے تو ہوئے کہ اُن کا وید بھی فانی چیزوں کو خدا قرار دیتا ہے.اور پانی اور آگ اور ہوا اور سُورج اور چاند کو پرستش کے لائق سمجھتا ہے اور اس بچے خدا سے بے خبر ہے جو ان سب چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے.پھر جبکہ بادا صاحب اس بچے خدا پر ایمان لائے جس کی بے مثل اور کامل ذات پر زمین و آسمان گواہی دے رہا ہے.اور نہ صرف ایمان لائے بلکہ اس کے انوار کی برکتیں بھی حاصل کر لیں.تو پھر اُن کے پیروؤں کی عقلمندی سے بہت بعید ہے کہ وہ اس تعلیم کے بعد جو اُن کو دی گئی ہے پھر باطل خداؤں کی طرف رجوع کریں.ہندو لوگ ہزار ہا برس ایسے خداؤں کی آزمائش کر چکے ہیں اور نہ سرسری طور پر بلکہ بہت تحقیق کے بعد ایسے خُدا اُن کو چھوڑنے پڑے.اب پھر اس جھوٹی کیمیا کی تمنا ان کی دانشمندی سے بہت دُور ہے باوانا تک صاحب نے اُس خدا کا دامن پکڑا تھا جو مرنے اور جنم لینے سے پاک ہے اور جو لوگوں کے گناہ بخشنے کے لیے آپ لعنتی بننے کا محتاج نہیں اور نہ کسی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان دینے کی اُس کو حاجت ہے.مگر ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ عیسائیوں کا یہ کیسا خدا ہے جس کو دوسروں کے چھوڑانے کے لیے بجز اپنے تئیں ہلاک کرنے کے اور کوئی تدبیر ہی نہیں سُوجھتی.اگر در حقیقت زمین و آسمان کا مد تر اور مالک اور خالق یہی بیچارہ ہے تو پھر خدائی کا انتظام سخت خطرہ میں ہے.بیشک یہ خواہش تو نہایت عمدہ ہے جو انسان گناہ سے پاک ہو.مگر کیا گناہ سے پاک ہونے کا یہی طریق ہے کہ ہم کسی غیر آدمی کی خود کشی پر بھروسہ رکھ کر اپنے ذہن میں آپ ہی یہ فرض کر لیں کہ ہم گناہ سے پاک ہو گئے.بالخصوص ایسا آدمی جو انجیل میں خود اقرار کرتا ہے، جو میں نیک نہیں.وہ کیونکر اپنے اقتدار سے دوسروں

Page 88

مجموعہ اشتہارات ۷۲ جلد دوم کو نیک بنا سکتا ہے.اصل حقیقت نجات کی خدا شناسی اور خدا پرستی پر ہے.پس ایسے لوگ جو اس غلط نہی کے دوزخ میں پڑے ہوئے ہیں جو مریم کا صاحبزادہ ہی خدا ہے.وہ کیسے حقیقی نجات کی امید رکھ سکتے ہیں.انسان کی عملی اور اعتقادی غلطیاں ہی عذاب کی جڑ ہیں.وہی درحقیقت خدا تعالیٰ کے غضب سے آگ کی صورت پر متمثل ہوں گی.اور جس طرح پتھر پر سخت ضرب لگانے سے آگ نکلتی ہے اسی طرح غضب الہی کی ضرب انہیں بد اعتقادیوں اور بدعملیوں سے آگ کے شعلے نکالے گی اور وہی آگ بداعتقادوں اور بدکاروں کو کھا جائے گی جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ بجلی کی آگ کے ساتھ خود انسان کی اندرونی آگ شامل ہو جاتی ہے تب دونوں مل کر اس کو بھسم کر دیتی ہیں اسی طرح غضب الہی کی آگ بد اعتقادی اور بداعمالی کی آگ کے ساتھ ترکیب پا کر انسان کو جلا دے گی.اسی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے.نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ لِ یعنی جہنم کیا چیز ہے وہ خدا کے غضب کی آگ ہے جو دلوں پر بھڑ کے گی.یعنی وہ دل جو بداعمالی اور بداعتقادی کی آگ اپنے اندر رکھتے ہیں وہ غضب الہی کی آگ سے اپنے آگ کے شعلوں کو مشتعل کریں گے.تب یہ دو نو ستم کی آگ باہم مل کر ایسا ہی اُن کو بھسم کرے گی جیسا کہ صاعقہ گرنے سے انسان بھسم ہو جاتا ہے.پس نجات وہی پائے گا جو بد اعتقادی اور بدعملی کی آگ سے دُور رہے گا.سو جولوگ ایسے طور کی زندگی بسر کرتے ہیں کہ نہ تو سچی خدا شناسی کی وجہ سے اُن کے اعتقاد درست ہیں اور نہ وہ بداعمالیوں سے باز رہتے ہیں.بلکہ ایک جھوٹے کفارہ پر بھروسہ کر کے دلیری سے گناہ کرتے ہیں وہ کیونکر نجات پاسکتے ہیں.یہ بیچارے اب تک سمجھے نہیں کہ در حقیقت ہر یک انسان کے اندر ہی دوزخ کا شعلہ اور اندر ہی نجات کا چشمہ ہے.دوزخ کا شعلہ فرو ہونے سے خود نجات کا چشمہ جوش مارتا ہے.اُس عالم میں خدا تعالیٰ یہ سب باتیں محسوسات کے رنگ میں مشاہدہ کرا دے گا اگر عیسائیوں کو اس بچے فلسفہ کی خبر ہوتی تو مارے شرمندگی کے کسی کو منہ نہ دکھا سکتے.ہزاروں فسق و فجور اور مکر اور فریب کے ساتھ یہ دعویٰ کرنا کہ ہم گناہ سے پاک ہو گئے ہیں عجیب قسم کی چالا کی ہے جس مذہب کا یہ الهمزة: ۸،۷

Page 89

مجموعہ اشتہارات ۷۳ جلد دوم اُصول ہے کہ مسیح کی خود کشی نے تمام عبادتوں اور نیک کاموں اور نیک عملوں کو نکما اور بیچ کر دیا ہے اور ان کی ضرورت کچھ بھی باقی نہیں رہی.کیا ایسے عقیدے کے لوگوں کی نسبت کچھ اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی بندگی میں دل لگا ویں اور سچے دل سے تمام بدکاریوں کو چھوڑ دیں.پھر جبکہ ایسے قابل شرم عقیدہ میں گرفتار ہو کر انواع اقسام کی غفلتوں اور فریبوں اور نا جائز کاموں میں گرفتار ہورہے ہیں تو تعجب ہے کہ اپنے حال پر کچھ بھی نہیں روتے اور اپنی مصیبت پر ایک ذرہ ماتم نہیں کرتے.بلکہ خوداند ھے ہو کر دوسروں پر کمی بصارت کی تہمت لگاتے ہیں.ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ جس قدر باوانا تک صاحب کے اشعار میں توحید الہی کے متعلق اور سچی وحدانیت کے بیان کرنے میں عمدہ عمدہ مضامین پائے جاتے ہیں اگر وہ موجودہ انجیلوں میں پائے جاتے تو ہمیں بڑی ہی خوشی ہوتی.مگر ایسی جعلی کتابوں میں بچے حقائق اور معارف کیونکر پائے جائیں جو حقیقی خدادانی اور حقیقی خدا پرستی اور حقیقی نجات کے بھید سے بہت ہی دُور جا پڑے ہیں.نادانوں کے منہ پر ہر وقت کفارہ اور مسیح کی خود کشی اور ایک فانی انسان کا خدا ہونا چڑھا ہوا ہے اور باقی تمام اعمال صالحہ سے فراغت کر رکھی ہے.بیشک خدا کے بندوں اور اپنے بنی نوع کے لیے جان دینا اور انسان کی بھلائی کے لیے دُکھ اُٹھانا نہایت قابل تعریف امر ہے.مگر یہ بات ہرگز قابل تعریف نہیں کہ ایک شخص بے اصل و ہم پر بھروسہ کر کے کنوئیں میں کود پڑے کہ میرے مرنے سے لوگ نجات پا جائیں گے.جان قربان کرنے کا یہ طریق تو بیشک صحیح ہے کہ خدا کے بندوں کی معقول طریقہ سے خدمت کریں اور ان کی بھلائی میں اپنے تمام انفاس خرچ کر دیں اور اُن کے لیے ایسی کوشش کریں کہ گویا اس راہ میں جان دے دیں.مگر یہ ہرگز صحیح نہیں ہے کہ اپنے سر پر پتھر مارلیں یا کنوئیں میں ڈوب مریں یا پھانسی لے لیں.اور پھر تصور کریں کہ اس بیجا حرکت سے نوع انسان کو کچھ فائدہ پہنچے گا.عیسائیوں کو سمجھنا چاہیے کہ باوانا تک صاحب حقیقی نجات کی راہوں کو خوب معلوم کر چکے تھے.وہ خوب سمجھتے تھے کہ وہ پاک ذات بجز اپنی سعی اور کوشش کے نہیں ملتا.اور وہ خوب جانتے تھے کہ خدا ہر یک جان سے اُسی جان کی قربانی چاہتا ہے نہ کسی غیر کی.زید کی خودکشی بکر کے کام نہیں آتی.بات یہی سچ ہے کہ خدا کو وہی پاتے ہیں جو آپ خدا کے ہو جاتے ہیں.جو لوگ ہر یک

Page 90

مجموعہ اشتہارات ۷۴ جلد دوم ناپاکی کے دروازے اپنے پر بند کرتے ہیں انہیں پر اس پاک کے دروازے کھولے جاتے ہیں.اور در حقیقت مرد بھی وہی ہیں کہ آپ نیک کام کر کے اس کا پھل پاویں.؎ حقا که با عقوبت دوزخ برابر است رفتن بہ پائے مرد یئے ہمسایہ در بہشتی لے المشتهر خاکسار غلام احمد قادیانی (مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) ۲۵ / نومبر ۱۸۹۵ء یہ اشتہار " کے چار صفحہ پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۲ ۵ تا ۵۷) ترجمہ.بخدا دوزخ کے عذاب کے برابر ہے، ہمسایہ کے بل بوتے پر بہشت میں جانا.

Page 91

مجموعہ اشتہارات ۱۱۴۴ جلد دوم ناظرین کیلئے ضروری اطلاع ہم اس بات کو افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کے مقابل پر یہ نمبر نور القرآن کا جاری ہوا ہے جس نے بجائے مہذبانہ کلام کے ہمارے سید و مولا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت گالیوں سے کام لیا ہے اور اپنی ذاتی خباثت سے اس اِمَامُ الطَّيِّبِينَ وَ سَيِّدُ الْمُطَهَّرِين پر سراسر افترا سے ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ ایک پاک دل انسان کا ان کے سننے سے بدن کانپ جاتا ہے.لہذا محض ایسے یا وہ لوگوں کے علاج کے لئے جواب ترکی بہ ترکی دینا پڑا.ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدائے تعالیٰ کے بچے نبی اور اس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر دل و جان سے ایمان لائے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے صدہا خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے.پس ہم ان کی حیثیت کے موافق ہر طرح ان کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعوی کرتا تھا اور بجز اپنے نفس کے تمام اولین و آخرین کو لعنتی سمجھتا تھا یعنی ان بدکاریوں کا مرتکب خیال کرتا تھا جن کی سزا لعنت ہے ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الہی سے بے نصیب سمجھتے ہیں قرآن نے ہمیں اس گستاخ اور بد زبان یسوع کی خبر نہیں دی اس شخص کی چال چلن پر ہمیں نہایت حیرت ہے جس نے خدا پر مرنا جائز رکھا اور آپ خدائی کا دعوی کیا اور ایسے پاکوں کو جو ہزا رہا

Page 92

مجموعہ اشتہارات جلد دوم درجہ اس سے بہتر تھے گالیاں دیں.سو ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدائے تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے.بعض نادان مولوی جن کو اندھے اور نابینا کہنا چاہیے عیسائیوں کو معذور رکھتے ہیں کہ وہ بے چارے کچھ بھی منہ سے نہیں بولتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بے ادبی نہیں کرتے لیکن یاد رہے کہ در حقیقت پادری صاحبان تحقیر اور توہین اور گالیاں دینے میں اول نمبر پر ہیں.ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صد ہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لیوے اور یا در ہے کہ آئندہ جو پادری صاحب گالی دینے کے طریق کو چھوڑ کر ادب سے کلام کریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ادب سے پیش آویں گے اب تو وہ اپنے یسوع پر آپ حملہ کر رہے ہیں کہ کسی طرح سب و شتم سے باز ہی نہیں آتے.ہم سنتے سنتے تھک گئے اگر کوئی کسی کے باپ کو گالی دے تو کیا اس مظلوم کا حق نہیں ہے کہ اس کے باپ کو بھی گالی دے اور ہم نے تو جو کچھ کہا واقعی کہا.وَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ خاکسار غلام احمد ۲۰ دسمبر ۱۸۹۵ء یہ اشتہار نور القرآن حصہ دوم کے ٹائٹل پر ہے ) روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۷۵،۳۷۴)

Page 93

مجموعہ اشتہارات ۱۴۵ جلد دوم جات تحقیق مذاہب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ چونکہ خدائے عزوجل نے مختلف مذاہب کے لوگوں کو جو برٹش انڈیا میں سکونت پذیر ہیں گورنمنٹ برطانیہ کے زیر سایہ رکھ کر ہر طرح کا امن اور آزادی بخشی ہے جس کا شکر و سپاس ہم سب پر واجب ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل بے غایت نے وہ سارے سامان ہم لوگوں کے لیے میسر کر دیئے ہیں جو مذاہب کی تحقیق اور تدقیق کے لیے ضروری ہیں.پھر اس پر زیادہ رحمت الہی یہ ہے کہ ہر ایک فریق اپنی مذہبی کتابوں کا پورا پورا سامان اپنے پاس رکھتا ہے.اور ایک گروہ دوسرے گروہ سے گوکیسی ہی درمیان بعد مسافت ہو بڑے آرام سے ملاقات کر سکتا ہے اور جو لوگ دنیا میں نیکی کے پھیلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ہر ایک پہلو سے اُن کے لیے آسانی ہوگئی ہے.دین کے خادموں کے لیے کئی طور سے خادم پیدا ہو گئے ہیں چنانچہ سفر کے لیے ریل خادم ہے جس کی سواری پہلے زمانہ کے بادشاہوں کو بھی میسر نہیں آئی اور خبروں کے جلد پہنچانے کے لیے تار برقی خادم ہے.اور تالیفات کے چھاپنے کے لیے چھاپے خانے خادم ہیں.اور کتابوں کے شائع کرنے کے لیے ڈاکخانے خدمت دے رہے ہیں.کتابت کے لیے عمدہ سے عمدہ کاغذ میسر آ سکتے ہیں.اور لکھنے کے لیے آہنی قلمیں موجود ہیں.جن کے تراشنے اور بنانے کی بھی حاجت نہیں.حفظ اوقات کے لیے

Page 94

مجموعہ اشتہارات ZA جلد دوم نادر نادر اور نفیس نفیس گھڑیاں مل سکتی ہیں.حفظ صحت کے لیے انواع اقسام کی ادویہ میسر آسکتی ہیں.ہر یک انسان اپنے ہم مشربوں پر اگر چہ زمین کے کنارہ پر ہوں اطلاع پا سکتا ہے.ہر یک شخص اپنے مذہب کے عارفوں سے پورے طور پر مشورہ لے سکتا ہے.ایک جگہ بالمشافہ گفتگو کرنے کے لیے مشرق اور مغرب کے آدمی بڑی آسانی سے اکٹھے ہو سکتے ہیں.چند گھنٹے میں صدہا کوس کا سفر طے ہو سکتا ہے.ہر یک مذہب میں کتابیں اس قدر تالیف ہو گئی ہیں جن کا شمار صرف خدا تعالیٰ کو معلوم ہے.علاوہ ان سب باتوں کے ہر یک قوم میں قدرتی طور پر مذہب کے بارہ میں ایک جوش بھی پایا جاتا ہے.مذہبی تحقیق کے لیے غیبی تحریک سے ایک ہوا چل رہی ہے.تمام راہیں کھل گئیں ہیں.تمام مشکلات حل کر دی گئی ہیں.مختلف زبانوں کا علم لوگوں میں بڑھتا جاتا ہے گویا خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمام قوموں کو ایک قوم بناوے.سو یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر ان تمام وسائل کو احقاق حق کے لیے احسن طور پر استعمال میں لایا جاوے اور تمام قوموں کے اکابر دین اور صاحبانِ معرفت نیک نیتی سے حق کے ظاہر ہونے کے لیے ایک جگہ مل کر کوشش کریں اور تعصبات سے دُور ہو کر بھائیوں کی طرح باہمی اتفاق سے اپنے اپنے دین اور کتاب کی خوبیاں آہستگی اور ٹھنڈے دل سے ایک دوسرے پر ظاہر کریں تو کچھ تعجب نہیں کہ اس اتفاق کی برکت سے بچے مذہب کے انوار لوگوں پر ظاہر ہو جاویں.اور یہ بات نہایت قابل افسوس ہوگی کہ جب اس قدر وسائل اظہار حق کے خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے موجود کر دیئے ہیں تو ہم ان خدا داد نعمتوں سے کچھ بھی فائدہ نہ اُٹھا دیں اور ایسی تجویزیں نہ سوچیں جو بذریعہ استعمال ان وسائل کے اظہار حق کے لیے مدد دے سکتے ہیں.اور ایسے حیلے بجا نہ لاویں جو بنی نوع کی ہمدردی کے لیے نہایت مؤثر ہوں بلکہ اس صورت میں ہم بڑے گنہ گار ٹھہریں گے اگر ہم ان خدا داد نعمتوں کا قدرنہ کریں اور عملی طور پر خلق اللہ کو ان کا فائدہ نہ پہنچاویں اور یونہی غفلت سے ان تمام نعمتوں کو ضائع کر دیں.اور اپنی بنی نوع کی ہمدردی سے لا پرواہی اختیار کریں لہذا اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے میں نے یہ تجویز کی ہے کہ اس کام کے انجام دینے کے لیے ایک مہذبانہ جلسہ مذاہب متفرقہ کا اسی جگہ یعنی قادیان ضلع گورداسپور پنجاب میں انعقاد پاوے اور اس جلسہ کے متعلق جو قواعد ہیں جن کی پابندی ہر

Page 95

مجموعہ اشتہارات ۷۹ جلد دوم ایک فریق کو ضروری ہوگی تفصیل ذیل ہیں.(۱) اول یہ کہ جہاں تک ممکن ہو اس جلسہ پر ہر ایک قوم کے اکابر علماء میں سے ایک نامی فاضل تشریف لاویں.یعنی (۱) موسوی مذہب کا ایک فاضل اور (۲) عیسائی مذہب کا ایک فاضل اور (۳) آریہ مذہب کا ایک فاضل اور (۴) مجوسی مذہب کا ایک فاضل اور (۵) برہمو مذہب کا ایک فاضل اور (۶) جین مذہب کا ایک فاضل اور (۷) بدھ مذہب کا ایک فاضل اور (۸) سناتن دھرم کا ایک فاضل اور (۹) دہریوں میں سے ایک فلاسفر اور ہماری طرف سے ہم.(۲) دوسرے یہ کہ بزرگان مذاہب کا تعہد مہمانداری اخیر تک ہمارے ذمہ رہے گا اور وہ پاک چیزیں جن پر شرع اور تہذیب کا اعتراض نہ ہو.ہر ایک فریق کے مذہب کے موافق اُن کے لیے میسر کر دی جائیں گی.(۳) تیسرے یہ کہ ان بزرگوں کی آمد ورفت کا کرایہ اگر وہ آپ ادا کرنے میں خوشی ظاہر نہ کریں ہمیں دینا ہوگا اور جو کرایہ قادیان تک پہنچنے کے لیے کافی متصور ہوگا، اسی قدر آمد ورفت کے حساب سے دیا جائے گا.اور ان میں سے ہر ایک صاحب اختیار رکھتے ہیں کہ وہ اپنی قوم سے جس قدر آدمی چاہیں ساتھ لے آویں مگر ہماری طرف سے صرف ایک شخص کے حساب سے ان کو کرایہ دیا جائے گا اور مہمانداری میں بھی حفظ انتظام کے لیے یہی قاعدہ ملحوظ رہے گا اور جو بزرگ آمد و رفت کا کرایہ ہم سے طلب کرنا چاہیں ان پر لازم ہو گا کہ وہ پہلے سے اطلاع دے دیں تا اِن مصارف کا گل روپیہ ایک جگہ جمع رہ کر ہر یک خواستگار کو رخصت کے وقت دیا جائے.(۴) چوتھے یہ کہ فروکش ہونے کے مکانات کا کرایہ بھی ہمارے ذمہ رہے گا.اور اس کا تمام انتظام بھی جو رہنے کے لیے کافی ہو ہمیں ہی کرنا ہوگا.(۵) پانچویں یہ کہ یہ جلسہ برابر ایک ماہ تک رہے گا اور مہینہ کے تین دن تمام تقریر کرنے والوں میں مساوی طور پر تقسیم کئے جائیں گے مثلاً اگر تقریر کرنے والے دس ہوں گے تو ہر ایک متکلم کے حصے میں تین تین آئیں گے.اور اگر چھ ہوں گے تو پانچ پانچ دن حصہ میں آئیں گے.

Page 96

مجموعہ اشتہارات ۸۰ جلد دوم (1) چھٹے ہر ایک صاحب کی تقریر کرنے کی ترتیب یہ ہوگی کہ جن صاحبوں کو اپنے مذہب کے اول ہونے کا دعوئی ہو.یعنی جو صاحب اپنی کتاب کی نسبت تقدم زمانی کے مدعی ہوں جیسے آریہ صاحبان.یہی صاحب پہلے دن میں تقریر کریں گے اور دوسرے دن وہ تقریر کریں گے جو دوسرے درجہ پر باعتبار زمانہ کتاب کے ہوں.علیٰ ہذا القیاس سب سے آخر دن میں وہ صاحب تقریر کریں گے جن کی الہامی کتاب اُن کے بیان کے موافق آخری ہو.اور جبکہ ہر ایک گروہ ایک ایک دن کے حساب سے اپنی اپنی تقریر میں ختم کر لیں گے تو پھر نئے سرے سے اسی ترتیب سے تقریر کرنا شروع کریں گے.غرض اسی انتظام کے لحاظ سے تین دن کی میعاد پوری کی جائے گی.اور اگر ایسی صورت ہو کہ آخری دنوں میں آخر پر تقریر کرنے والوں کو میعاد مقررہ میں سے دن نہ مل سکیں تو دویا تین دن اور بڑھا دیئے جائیں گے تا کوئی صاحب اس وقت سے محروم نہ رہے جو دوسروں کو دیا گیا ہے.(۷) ساتویں ہر یک تقریر کرنے والا دوسرے مذہب کا ذکر ہرگز نہیں کرے گا بلکہ صرف اپنے مذہب اور اپنے اصول کی خوبیاں بیان کرے گا.ہاں اس کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ جو اعتراض اس کے مذہب پر غیر قو میں کرتی ہیں نرمی اور تہذیب سے اس کا جواب دے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کوئی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اس صورت میں اپنی تقریر کا نقصان آپ اُٹھائے گا.(۸) آٹھویں یہ کہ مذہب کی خوبیوں کے بیان کرنے کے وقت یہ ضروری ہوگا کہ بیان کرنے والا سب سے پہلے اس طریق معرفت کو بیان کرے جو خدا تعالیٰ کے اقرار یا انکار کی نسبت اُس کو معلوم ہے اور اپنے مشرب کے موافق اس بات پر بھی دلائل پیش کرے کہ مذہب کی کیوں ضرورت ہے اور انسان کی نجات اُن وسائل پر کیوں موقوف ہے جن کو وہ پیش کرتا ہے.یا اگر دہر یہ ہے تو اس بارے میں جو چاہے بیان کرے اور ہر ایک کو اختیار ہوگا کہ جس طور اور جس طرز سے چاہے اپنے مذہب اور اپنی کتاب اور اپنی رائے کی تائید میں مفصل تقریر کرے ، مگر کسی مذہب کی تحقیر اور توہین سے قطعا پر ہیز کرنا ہوگا.ہاں یہ ضروری ہوگا کہ ہر یک پابند کتاب جو جو خوبی اپنے مذہب کی بیان کرتا ہے وہ سب خوبیاں اپنی الہامی کتاب کی اصل زبان سے معہ پورے پتہ اور نشان کے پیش کرے.مثلاً اسلام کے

Page 97

مجموعہ اشتہارات جلد دوم عالم پر فرض ہو گا کہ اس کی تائید میں قرآن کی آیت سناوے فقط کوئی ترجمہ پیش نہ کرے.اور عیسائی عالم پر فرض ہوگا کہ اپنے عقیدہ کے موافق اُس اصل کتاب کی عبارت پڑھے جس کے الفاظ کو وہ الہامی مانتا ہے فقط کسی ترجمہ کو نہ سُناوے اور آریہ پنڈت پر واجب ہوگا کہ وید کی اصل سنسکرت عبارت کا وہ مقام معہ ترجمہ سناوے اور یہ تمام عبارتیں تحریری مضمون میں معہ صحیح صحیح حوالہ کے لکھی ہوئی ہونا شرط ہے.(۹) نویں یہ کہ ہر ایک قوم میں سے ایسا فاضل منتخب ہو کر آنا چاہیے جو اپنی الہامی کتاب پر نظر رکھتا ہو اور فی الواقعہ اس کو اس کتاب کا علم بھی ہو جس کتاب کی تائید میں وہ کلام کرتا ہے.مثلاً اگر آریہ صاحب ہوں تو وہ ایسے چاہیے کہ وید کو بآسانی پڑھ سکتے ہوں.اور اگر عیسائی صاحب ہوں تو ایسے چاہیے کہ بائیل کو اس کی اصل زبان میں پڑھ سکتے ہوں.کیونکہ جو شخص آپ ہی بے خبر ہے اس کی تقریر محققوں کی نظر میں قابل اعتماد نہیں ٹھہر سکتی اور نہ کچھ وقعت اور عزت رکھتی ہے.مگر جو صاحب کسی کتاب کے پابند نہیں جیسے برہمو اور دہر یہ وہ ان شرائط سے مستقلی ہیں.(۱۰) یہ یادر ہے کہ یہ تمام تحریریں جو سُنائی جائیں گی اُردو میں ہوں گی.اور الہامی کتابوں کی اصل عبارتیں اصل زبان میں لکھ کر اُردو میں اُن کا ترجمہ ہوگا.ہاں ہر ایک صاحب کا اختیار ہوگا کہ اگر وہ اُردو میں اپنے مضمون کو لکھ نہ سکیں یا وہ کسی دن بیماری وغیرہ سے معذور ہوں تو وہ مضمون کو اپنے کسی ایسے رفیق کے سپرد کر دیں کہ ان کی تحریر کا ترجمہ اُردو میں کر کے یا انہیں کی اُردو تحریر حاضرین جلسہ کو سُنا دیں.مگر اس تمام تحریر کے وہی ذمہ وار ہوں گے اور انہیں پر لازم ہوگا کہ اس تحریر پر دستخط کر کے ہمارے اس سکرتری کے حوالہ کریں جو اس کام کے لیے مقرر کیا گیا ہو.اور وہ تمام تحریر انہیں کی تحریر متصور ہوگی.(۱۱) گیارہویں کوئی صاحب تقریر کرنے والوں میں سے مجاز نہ ہوں گے کہ بغیر تحریر کے زبانی تقریر کریں اور نہ اس بات کے لیے مجاز ہوں گے کہ تحریر پڑھنے کے وقت کچھ زبانی کلمات اس میں ملاویں بلکہ وہ ایک ایسی تحریر اپنی طرف سے سنا ئیں گے جو خوشخط اُردو میں اور اُردو کے دستخط میں لکھی ہوئی ہوگی اور نیچے اس کے پورے پستہ کے ساتھ ان کے دستخط ہوں گے اور سُنانے کے بعد وہی تحریر

Page 98

مجموعہ اشتہارات ۸۲ جلد دوم سکرتری کے حوالہ کر دیں گے اور ان کو اختیار ہوگا کہ ایک نقل اس کی اپنے پاس بھی رکھیں.(۱۲) بارہویں یہ کہ جس صاحب کی کوئی تحریر قواعد منضبطہ بالا کی رُو سے نہ ہو، وہ کسی تقریر کرنے کے مجاز نہ ہوں گے اور نہ ان کا حق ہوگا کہ آمد و رفت کا کرایہ طلب کریں.ہاں ان کی مہمانداری اور عزت اسی طرح کی جائے گی جیسا کہ اور مہمانوں کی.(۱۳) تیر ہوئیں یہ کہ یہ بات ہمارے ذمہ ہوگی جو اُن تمام تقریروں کو چھاپ کر ایک جلد میں شائع کر دیں اور وہ تمام تقریریں ہمارے سکرٹری کے حوالہ کر دی جائیں گی.(۱۴) چودہویں یہ کہ ہر ایک صاحب جو جلسہ مذہب میں تقریر کرنے کی غرض سے شامل ہونا چاہیں.اُن کو چاہیے کہ اپریل ۹۶ ء کے اخیر تک ہم کو اپنے اس ارادہ سے اطلاع دے دیں.اور اگر کسی ایک قوم کی طرف سے ایسی درخواست کرنے والے کئی صاحب ہوں گے تو ان میں سے صرف ایک ایک ایسا شخص انتخاب کیا جائے گا جو اس قوم کی کثرت رائے سے تجویز کیا گیا ہو.(۱۵) پندرہویں یہ کہ جب یہ تصفیہ ہو چکے گا کہ مذہبی تقریروں کے لیے فلاں فلاں صاحب مقرر ہوئے تو پھر ایک دوسرے اشتہار سے اس جلسہ کی تاریخ کو شائع کیا جائے گا.مگر وہ تاریخ کم سے کم چھ ماہ بعد تصفیہ مذکورہ سے ہوگی.لہذا یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے کہ ہر ایک دین کے بزرگ فاضل اس کی طرف متوجہ ہوں اور بغرض احقاق حق اور ہمدردی بنی نوع قواعد متذکرہ بالا کو مد نظر رکھ کر اس جلسہ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں اطلاع بخشیں اور جہاں تک ممکن ہو ہمیں اپنے عنایت نامحات سے اپنے ارادہ سے جلد مطلع فرماویں.میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ جلسہ اظہار حق کے لیے بہت مؤثر ہو گا.اس میں ہر ایک فریق تہذیب اور نرمی سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے گا.دوسرے مذہب سے کچھ سروکار نہیں ہوگا.میں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ یہ جلسہ نہایت امن اور اطمینان سے ہوگا.مگر میں دوبارہ اس بات کو یاد دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ چونکہ غرض اظہار حق ہے.اس لیے مناسب ہے پر جلسہ ایک ماہ تک رہے دُنیا کے ادنی ادنی مقدمات جب عدالتوں میں دائر ہوتے ہیں تو حکام وقت تحقیق اور تفتیش کی غرض سے کئی مہینوں کے بعد ایک پیچیدہ مقدمہ کو فیصلہ کرتے ہیں.مگر دین کے

Page 99

مجموعہ اشتہارات ۸۳ جلد دوم مسائل تو دنیا کے مقدمات کی نسبت نہایت دقیق در دقیق ہیں.اور طالب حق پر لازم ہے جو ان کو بار بار سوچے اور خدا تعالیٰ سے دُعا مانگے تا وہ چھپی ہوئی حقیقتیں اس پر ظاہر کرے.سو ان وجوہات کے باعث سے ایک ماہ اس جلسہ کے لیے ضروری طور پر قرار پایا.اور جو صاحب دین کی تحقیق کو نہایت ضروری سمجھتے ہیں.اور ایسی تحقیقاتوں میں بنی نوع کی ہمدردی دیکھتے ہیں اُمید کہ وہ اس قلیل عرصہ کی نسبت کچھ عذر معذرت نہیں کریں گے.انسان دنیا کے کاموں میں بہت سے برس ضائع کر دیتا ہے.اور دین تو وہ نعمت ہے جس کے نتائج جاودانی ہیں.اب میں اس دُعا پر ختم کرتا ہوں کہ اے خدا اے قادر و کریم اس جلسہ میں شریک ہونے کے لیے ہر ایک مذہب کے بزرگ کو دل میں شوق اور محبت ڈال اور خاتمہ اس کارروائی کا اپنی رضامندی کے موافق کر.آمین بالآخر یا در ہے کہ اگر اشتہار کے شائع ہونے کے بعد اخیرا اپریل تک کسی فریق کی طرف سے کوئی درخواست نہ پہنچی تو نہایت افسوس کے ساتھ التواء جلسہ کا باعث اشتہار کے ذریعہ سے شائع کر دیا جائے گا.المشـ میرزا غلام احمد قادیانی مطبوعہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان ۲۶×۲۰ ۲۹؍دسمبر ۹۵ء ( یہ اشتہار کے صفحہ پر ہے ) A تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۵۷ تا ۶۴)

Page 100

مجموعہ اشتہارات ۸۴ ۱۴۶ جلد دوم مسٹر آتھم صاحب اور پادری فتح مسیح یہ بات ناظرین کو معلوم ہے کہ ہم اس وقت تک پانچ اشتہار اس بارے میں نکال چکے ہیں کہ در حقیقت وہ ہماری پیشگوئی جو آتھم صاحب کے متعلق تھی پوری ہو گئی چاہیے تھا کہ عیسائی صاحبان اپنی غلطی سے رجوع کرتے اور پیشگوئی کے پورا ہونے کا اقرار شائع کر دیتے.ان پر اس بات کا سمجھنا نہایت آسان تھا کہ پیشگوئی کے ساتھ رجوع الی الحق کی شرط لگی ہوئی تھی اور آتھم صاحب سے ایسی حرکات صادر ہو گئیں تھیں کہ جو بآواز بلند پکار رہی تھیں کہ شرط پوری ہوگئی اور انہوں نے پیشگوئی کے بعد اپنے ڈرتے رہنے کا اقرار صاف لفظوں میں کر دیا تھا اور اُن باتوں کا اب تک انہوں نے ثبوت نہیں دیا تھا.جو اپنے خوف کی بنیاد انہوں نے قرار دی تھیں یعنی سانپ کا حملہ اور تلواروں اور نیزوں والوں کا حملہ.سو بالضرور یہ بات گھل گئی تھی کہ وہ صرف پیشگوئی سے ہی ڈرتے رہے اور نزل کے طور پر آتھم صاحب کو یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر وہ اپنے بے دلیل دعووں کا کوئی اور ثبوت نہیں دے سکتے تو وہ قسم ہی کھا جائیں مگر انہوں نے قسم کھانے سے بھی انکار کیا.اب اس سے زیادہ ان کے جھوٹ کھلنے پر اور کیا دلیل ہو سکتی تھی کہ انہوں نے خود اپنے منہ سے خوف کا اقرار کر کے اور اپنے خیال سے وہ خوف دکھلا کر پھر یہ ثبوت نہیں دیا کہ ان کا وہ خوف پیشگوئی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ان حملوں کی وجہ سے تھا جو اُن پر کئے گئے اور نہ قسم کھائی.الہامی شرط خود بتلا رہی تھی کہ اس پیشگوئی میں رجوع الی الحق ممکنات میں سے ہے.تبھی تو الہام میں یہ شرط داخل کی گئی تھی.اور یہ نہایت غلطی تھی کہ باوجود شرط کے صرف مرنے

Page 101

مجموعہ اشتہارات ۸۵ جلد دوم کی ہی انتظار کی جائے.بلکہ ہر ایک شخص کو چاہیے تھا کہ شرط کے مضمون پر بھی غور کرتا اور آتھم صاحب کے حال اور قال کو جانچتا کہ کیا وہ پیشگوئی کے بعد اپنے پہلے استقلال اور استقامت اور متعصبانہ وضع پر قائم رہے یعنی انہوں نے اپنی ثابت قدمی اور عادت معہود کا مرکز نہ چھوڑا، لیکن افسوس کہ باوجوداس کے کہ آتھم صاحب سے بہت سی بے قراریاں ظاہر ہوئیں اور بہت سے قوی قرائن ان کی خوف زدہ حالت پر پیدا ہوئے لیکن ان کی طرف سے ان خوفوں کی نسبت بیہودہ عذرات کا کوئی ثبوت بھی پیش نہ ہوا.یہاں تک کہ انہوں نے قسم بھی نہیں کھائی.مگر عیسائی صاحبان اب تک پیشگوئی کی نسبت یہی خیال کرتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئی.یہ بیچارے ذرہ نہیں سوچتے کہ کیا اس پیشگوئی کا پورا ہونا صرف ایک پہلو رکھتا تھا یا دو پہلو میں سے کسی ایک پر پوری آسکتی تھی.اگر آتھم صاحب کی پہلی حالت میں کچھ بھی تزلزل نہ آتا اور نہ وہ خوف کا اقرار کرتے تو موت کا پہلو پیشگوئی کے واقعہ ہو جانے کی ضروری نشانی ہوتی، لیکن جبکہ اُن کا ڈرنا ثابت ہو گیا اور وہ وجوہ خوف کے ثابت نہ ہو سکے جو آتھم صاحب نے پیش کئے تھے.تو رجوع الی الحق کا پہلو پایہ ثبوت پہنچ گیا جس کے ساتھ پیشگوئی کا پورا ہونا اس بات میں محصور ہو گیا کہ آتھم صاحب موت سے بچ جاویں.ہم نے رسالہ ضیاء الحق میں یہ باتیں تفصیل سے لکھ دی ہیں.ہر ایک صاحب اس کو غور سے پڑھ لیں لیکن اب اس اشتہار کے شائع کرنے کا یہ موجب ہے کہ ہمارے ایک مخلص دوست مولوی عبدالکریم صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں بٹالہ کے سٹیشن پر پادری فتح مسیح سے ان کی ملاقات ہوئی اور پادری صاحب نے آتھم صاحب کا ذکر کر کے فرمایا کہ انہوں نے قسم کھانے سے اس وجہ سے انکار کیا ہے کہ یہ جماعت ایک حقیر اور ذلیل جماعت ہے جن کی تعداد چار پانچ یا زیادہ سے زیادہ پندرہ آدمی ہوں گے..ان کے مقابل پر کیا قسم کھاویں.اور بجز اُن کے تمام مسلمان یہی یقین رکھتے ہیں کہ آتھم صاحب فتح یاب ہو گئے ہیں پس چونکہ یہ تقریر فتح مسیح صاحب کی سراسر واقعہ کے برخلاف ہے اور آتھم صاحب نے ہرگز یہ عذر نہیں کیا.اور یہ بھی سراسر جھوٹ ہے کہ ہماری جماعت صرف پندرہ آدمی ہیں

Page 102

مجموعہ اشتہارات ۸۶ جلد دوم بلکہ وہ کئی ہزار اہل علم اور عاقل آدمی ہیں جن میں بہت سے معزز مولوی صاحبان بھی داخل ہیں.اور یہ بھی جھوٹ ہے کہ تمام مسلمان آتھم صاحب کی فتح پر یقین رکھتے ہیں اور پیشگوئی کو جھوٹی جانتے ہیں.کیونکہ ہماری نظر میں ہزار ہا ایسے آدمی موجود ہیں کہ وہ سچے دل سے سمجھتے ہیں کہ پیشگوئی اپنے دو پہلوؤں میں سے ایک پہلو پر پوری ہوگئی.سوچونکہ فتح مسیح صاحب نے اپنی قدیم عادت کی وجہ سے یہ ایک صریح جھوٹ بولا ہے جیسا کہ بٹالہ میں ایک مرتبہ اپنے ملہم ہونے کا ایک جھوٹا دعویٰ کر دیا تھا.اس لیے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ یہ مکروہ جھوٹ ان کا پبلک پر کھول دیا جائے.سو ہم اشتہار دیتے ہیں کہ فتح مسیح صاحب اگر بچے ہیں تو بذریعہ کسی چھپی ہوئی تحریر کے ہم کو اطلاع دیں کہ کس قدر ایسے آدمیوں کے دستخط وہ چاہتے ہیں جو اس بات کا اقرار کرتے ہوں جو حقیقت میں پیشگوئی پوری ہوگئی.اور پادری صاحبوں کو شکست آئی.اگر ہم پندرہ سے سو گنا زیادہ پیش کر دیں تو کیا وہ آتھم صاحب سے قسم دلائیں گے یا نہیں.بیشک ان کی عیسائی ایمانداری کا اب یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ وہ اپنی بات اور دعوی پر قائم رہ کر بلا توقف ہمیں اطلاع دیں کہ کس عدد کے پیش کرنے پر وہ آتھم صاحب سے قسم دلاویں گے.کیا ہزار یا دو ہزار یا تین ہزار یا چار ہزار آدمی کے دستخط پر ان کا پندرہ کا دعوی باطل ہو جائے گا یا نہیں.ہم ہر طرح اس بات کا تصفیہ کرنا چاہتے ہیں.پادری فتح مسیح صاحب کو چاہیے کہ جلد اطلاع دیں کہ پندرہ سے زیادہ ان کی اصطلاح میں کس قدر جماعت کا نام ہے.اور ان کے نزدیک جس قدر کا نام کلیسیا ہے.وہ جماعت کس عدد تک ہے تا اسی قدر جماعت کے دستخط کرا کر ان کے پاس بھیجے جائیں.اور ان کے ذمہ ہو گا کہ ایسے محضر نامہ کے پہنچنے کے بعد فی الفور آتھم صاحب کو میدان میں لاویں.اور اگر وہ اشتہار کے شائع ہونے کی تاریخ سے ہیں دن تک ایسی درخواست نہ بھیجیں تو ایک دوسرے اشتہار سے ان کی دروغگو ئی شائع کی جائے گی.ہم خوب جانتے ہیں کہ اگر چہ دس ہزار مسلمان کا بھی یہ تحریری بیان پیش کیا جائے کہ آتھم صاحب کے متعلق پیشگوئی سچی نکلی ہے، مگر تب بھی آتھم صاحب ہر گز قسم نہیں کھائیں گے.اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے ان کو ذبح بھی کر

Page 103

مجموعہ اشتہارات جلد دوم ڈالیں.تب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لیے ہر گز نہیں آئیں گے.کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہوگئی.میری سچائی کے لیے یہ نمایاں دلیل کافی ہے کہ آتھم صاحب میرے مقابل پر میرے مواجہ میں ہرگز ختم نہیں اُٹھائیں گے اگر چہ عیسائی لوگ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اگر وہ قسم کھا لیں تو یہ پیشگوئی بلا شبہ دوسرے پہلو پر پوری ہو جائے گی.خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.بد بخت انسان چاہتا ہے کہ اپنے منہ کی پھونکوں سے سچائی کے نور کو بجھا دے.مگر وہ نور جو آسمان سے نازل ہوتا ہے اسکی الہی طاقت محافظ ہوتی ہے وہ کسی کے بجھائے سے بجھ نہیں سکتا.اب ہم منتظر ر ہیں گے کہ پادری فتح مسیح کی طرف سے کیا جواب آتا ہے.مگر یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی ایسا جواب نہیں آئے گا جو ایمانداری اور طلب حق پر مبنی ہو.صرف جھوٹا عذر ہو گا جس کی بدبو دور سے آئے گی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهـ خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان ( یہ اشتہار ۳ کے چار صفحہ پر ہے) ، تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۶۶ تا ۷۰)

Page 104

مجموعہ اشتہارات ۸۸ ۱۴۷ جلد دوم ضیاءالحق گرنه بیند بروز شیره چشم چشمه آفتاب را چه گناه رسالہ ضیاء الحق کی نسبت ہمارا یہ ارادہ تھا کہ من الرحمن کے ساتھ اس کو شائع کریں اور اسی کے حصوں میں سے ایک حصہ اس کو ٹھہرا وہیں، لیکن بالفعل ہم نے رسالہ مذکورہ کی چند کا پیوں کا شائع کرنا اس لیے مناسب سمجھا کہ بعض ناواقف اور متعصب اب تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ گویا وہ پیشگوئی جو آتھم کی نسبت کی گئی تھی وہ غلط نکلی.سو جس قد ر ضیاء الحق کی کا پیاں اب ہم اپنے ہاتھ سے روانہ کرتے ہیں.اس کے سوا کسی کی درخواست پر ہر گز یہ رسالہ روانہ نہیں ہو گا.مگر اس صورت میں کہ درخواست کننده من الرحمن کی خریداری کی درخواست کرے.کیونکہ یہ رسالہ اسی کتاب کا ایک حصہ کیا گیا ہے.اور کتاب من الرحمن انشاء اللہ دسمبر ۱۸۹۵ء تک چھپ جائے گی.تب اس کے نکلنے کے وقت یہ رسالہ بھی ایک حصہ اس کا متصور ہو کر شائع کیا جائے گا.بالفعل ہم چند نسخے جو پچاس سے زیادہ نہیں محض اس غرض سے شائع کرتے ہیں کہ تا آتھم کے مقدمہ میں ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی جلد تر اس غلط نہی کے گڑھے سے نکالیں کیونکہ ہمارے اندھے مخالف اب تک اس سچائی کو دیکھ نہیں سکے جو پیشگوئی میں چمک رہی ہے چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ہم نے نورافشاں ۱۳ ستمبر ۱۸۹۵ء میں پر چہ بھارت سدھا ر ۲۴ اگست ۱۸۹۵ء کا ایک مضمون پڑھا ہے جس میں صاحب پر چہ یہ لکھتا ہے ے ترجمہ.اگر چمگادڑ جیسی آنکھوں والے دن کے وقت نہ دیکھ سکیں تو روشنی کے سرچشمہ سورج کا کیا قصور؟

Page 105

مجموعہ اشتہارات ۸۹ جلد دوم کہ ایک سال اور بھی گزر گیا اور عبداللہ اھتم اب تک زندہ موجود ہیں.فقط جولوگ ایسے خیالات شائع کرتے ہیں اُن کی حالت دو صورتوں سے خالی نہیں.ایک تو یہ کہ شاید اب تک انہوں نے ہمارے رسالہ انوار الاسلام کو بھی نہیں دیکھا جس میں اُن تمام وساوس کا جواب مفصل موجود ہے.اور دوسری یہ کہ گوانہوں نے رسالہ انوار الاسلام کو دیکھا ہو بلکہ دوسرے تمام اشتہاروں کو بھی دیکھ لیا ہومگر وہ تعصب جو آنکھوں کو اندھا کر دیتا اور دل کو تاریک کر دیتا ہے اس نے دیکھا ہوا بھی ان دیکھا کر دیا.ہائے افسوس ان لوگوں کی عقل پر، انہوں نے تو انسان بن کر انسانیت کو بھی داغ لگایا.بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ ہم نے کب اور کس وقت کہا تھا کہ اگر عبد اللہ آتھم ہماری درخواست پر ہمارے سامنے وہ قسم نہیں کھائے گا جس کے الفاظ بارہا ہم نے اپنے اشتہاروں میں شائع کئے ہیں تب بھی وہ ضرور ایک سال تک مرجائے گا اور جبکہ ہم نے ایسا اشتہار کوئی شائع نہیں کیا بلکہ اس کا سال کے اندر فوت ہو جانا قسم کے ساتھ مشروط رکھا تھا.پس اس صورت میں تو اسکے ایک سال تک نہ مرنے کی وجہ سے ہماری ہی سچائی ثابت ہوئی.کیونکہ اس نے اپنی اس گریز سے جو رجوع الی الحق پر ایک واضح دلیل تھی گھلا گھلا فائدہ اُٹھالیا.یہ الزام تو اس وقت زیبا تھا کہ وہ ہمارے مقابل پر میدان میں آکر اس قسم کو بالفاظ کھالیتا جو ہم نے پیش کی تھی اور پھر سال کے اندر فوت نہ ہوتا.ہم نے تو چار ہزار روپیہ پیش کر کے صاف صاف یہ کہ دیا تھا کہ آتھم صاحب شرطی روپیہ پہلے جمع کرالیں اور جلسہ عام میں تین مرتبہ یہ تم کھائیں کہ پیشگوئی کے دنوں میں ہرگزمیں نے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور ہرگز اسلام کی عظمت میرے دل پر مؤثر نہیں ہوئی.اور اگر میں جھوٹ کہتا ہوں تو اے قادر خدا ایک سال تک مجھ کو موت دے کر میرا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر.یہ مضمون تھا جو ہم نے نہ ایک مرتبہ بلکہ کئی مرتبہ شائع کیا.اور ہم نے ایک ہزار سے چار ہزار تک انعام کی نوبت پہنچائی اور کئی دفعہ کہ دیا تھا کہ یہ زبانی دعوی نہیں.پہلے روپیہ جمع کرالو اور پھر قسم کھاؤ.اور اگر ہم روپیہ داخل نہ کریں اور صرف فضول گوئی ثابت ہو تو پھر ہمارے جھوٹے ہونے کے لیے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں لیکن کوئی ہمیں سمجھا دے کہ آتھم نے ان باتوں کا کیا جواب دیا.کیا وہ میدان میں آیا.کیا

Page 106

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اس نے قسم کھالی.کیا اس نے ہم سے روپیہ کا مطالبہ کیا.کیا اُس نے اپنے اس بیان کو بپایہ ثبوت پہنچا دیا کہ میں ایام پیشگوئی میں ڈرتا تو ضرور رہا مگر اسلام کی عظمت سے نہیں بلکہ تین حملے بندوقوں اور تلواروں والوں نے میرے پر کئے.جن میں سے پہلاحملہ تعلیم یافتہ سانپ کا تھا جس نے امرتسر سے نکالا.آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس الہام کا صاف یہ مطلب تھا کہ صرف اس صورت میں آتھم صاحب پندرہ مہینہ میں ہاویہ میں گرائے جائیں گے کہ جب وہ حق کی طرف رجوع نہیں کریں گے.اور آپ لوگوں کو اس بات کا بھی اقرار کرنا عقلاً و انصافاً ضروری ہے کہ اگر یہ بات سچ ہے کہ انہوں نے رجوع بق کیا تھا تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا کہ وہ مرنے سے محفوظ رکھا جاتا.کیونکہ اگر تب بھی مر جاتا تو اس میں کیا شک ہے کہ اس صورت میں پیشگوئی کی شرط جھوٹی ٹھہرتی.بلکہ پیشگوئی ہی باطل ثابت ہوتی.وجہ یہ کہ پیشگوئی کا مفہوم یہی چاہتا تھا کہ شرط کے پوری کرنے کی حالت میں ضرور آتھم میعاد معینہ میں زندہ رہے.اب جبکہ یہ امر طے ہو گیا کہ پیشگوئی صرف موت کی ہی خبر نہیں دیتی تھی بلکہ اپنے دوسرے پہلو سے آتھم کو اس کی حیات کی بھی خوشخبری دیتی تھی اور شرط کے بجالانے کے وقت اس کا زندہ رہنا ایسا ہی پیشگوئی کی سچائی پر دلالت کرتا تھا جیسا کہ اس صورت میں دلالت کرتا کہ وہ بوجہ عدم پابندی شرط فوت ہو جاتا تو پھر یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ پیشگوئی کی شرط کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور نہ خدا سے ڈرتے ہیں اور نہ اُس ذلّت سے جو انصاف کو چھوڑنے کی حالت میں لعنت کی طرح دامنگیر ہو جاتی ہے.صاحبوا اگر پہلے نہیں سمجھا تو اب سمجھ لو کہ یہ پیشگوئی درحقیقت دو پہلو رکھتی تھی جس کی تاثیر نہ صرف مرنا تھا بلکہ دوسرے پہلو کے لحاظ سے زندہ رہنا اور موت سے بچ جانا بھی اس کی ضروری تاثیر تھی.پھر اگر ہمارے مخالفوں اور جلد بازوں کے دلوں میں انصاف ہوتا تو صرف عدم موت پر سیا پا نہ کیا جا تا بلکہ شرط کے مفہوم کو تنقیح طلب امر ٹھہراتے.یعنی یہ امر کہ آیا آتھم نے حق کی طرف رجوع کیا یا نہیں پھر اگر دیکھتے کہ اس کے اُن حالات سے جو اُس نے پیشگوئی کے اثناء میں ظاہر کئے.اور ان حالات سے جو مطالبہ قسم کے وقت اُس نے دکھلائے رجوع ثابت نہیں ہوتا تو جس طرح چاہتے شور

Page 107

مجموعہ اشتہارات ۹۱ جلد دوم مچاتے ، لیکن افسوس کہ ان ظالم بداندیشوں نے اس طرف رُخ بھی نہیں کیا.اے دُنیا کے دانشمند و خدا کے لیے بھی کچھ عقل خرچ کرو.اور ذرا سوچو کہ جس حالت میں پیشگوئی میں شرط موجود تھی اور آتھم نے نہ صرف اپنے مضطر بانہ افعال سے ثابت کیا کہ پیشگوئی کے اثناء میں عیسائیت کا استقلال اس سے الگ ہو گیا تھا اور اسلامی عظمت نے ایک دیوانہ سا اس کو بنا دیا تھا.بلکہ اُس نے اپنی زبان سے بھی اقرار کیا جونورافشاں میں چھپ گیا کہ میں اثناء پیشگوئی میں ضرور ڈرتا رہا لیکن نہ اسلام سے بلکہ اس لیے کہ میرے پر متواتر تین حملے ہوئے یعنی امرت سر اور لدھیانہ اور فیروز پور میں.مگر وہ ان حملوں کو ثابت نہ کرسکا بلکہ مارٹن کلارک وغیرہ نے نالش کے لیے اس کو بہت اُٹھایا اور بہت ہی زور لگایا جس سے اس نے صاف انکار کر دیا اور میت کی طرح اپنے تئیں بنالیا.اگر وہ سچا تھا تو سچائی کا جوش ضرور اس میں ہونا چاہیئے تھا.اور اگر اپنے لیے نہیں تو اپنے دین کے لیے ضرور اس بات کا ثبوت دینا اس کے ذمہ تھا کہ جس ڈر کا اس کو اقرار ہے وہ محض تین حملوں کے وجہ سے تھا، نہ اسلامی عظمت کی وجہ سے.اور ہر یک ادنی استعداد کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس نے اپنے اس دعوی کا ثبوت نہیں دیا جو بطور روک کے اس کی طرف سے پیش ہوا تھا بلکہ تین حملوں کا ڈر ایک بے ثبوت بناوٹ اور بیہودہ روک تھی جو واقعی ڈر کے مخفی رکھنے کے لیے پیش کی گئی تھی.اگر وہ سچا ہوتا تو ضرور نالش کر کے اس کو ثابت کرتا یا کسی اور طور سے اس واقعہ کو بپایہ ثبوت پہنچاتا.پس جبکہ اس نے خوف کا اقرار تو کیا مگر ان وجوہ کو ثابت نہ کر سکا جو خوف کی بنیاد ٹھہرالی تھی تو ضروری طور پر اس خوف کو پیشگوئی کی عظمت اور اسلام کے رُعب کی طرف منسوب کرنا پڑا.اس صورت میں ہمیں کچھ ضرور نہیں تھا کہ کوئی انعامی اشتہار دیتے یا قسم کے لیے اس کو مجبور کرتے.کیونکہ ان قرائن نے جو اُس نے آپ ہی اپنے اقوال اور افعال اور حرکات سے ظاہر کئے تھے، اس بات کو بخوبی ثابت کر دیا تھا کہ وہ ضرور اسلامی عظمت سے ڈرتا رہا اور قرآن کریم اور نیز عیسائیوں کی کتابوں کے موافق رجوع کے لیے اسی قدر بات کافی تھی کہ اس کے دل نے اسلامی عظمت کو مان لیا.مگر ہم نے صرف اس قرائنی ثبوت پر اکتفا نہ کیا بلکہ متواتر چار اشتہار مع انعام رقم کثیر کے جاری کئے اور اُن میں لکھا کہ وہ قرائن جو تم نے آپ ہی اپنے افعال اور اقوال اور حرکات سے پیدا

Page 108

مجموعہ اشتہارات ۹۲ جلد دوم کئے تمہیں اس امر کا ملزم کرتے ہیں کہ تم ضرور عظمت اسلامی سے ڈر کر اُس شرط کو پورا کرنے والے ٹھہرے جو پیشگوئی میں درج تھی پھر اگر تم سے بہت ہی نرمی کریں اور فرض کے طور پر ثابت امر کو مشتبہ تصور کر لیں تب بھی اس اشتباہ کا دُور کرنا جو تم نے اپنے ہاتھوں سے آپ پیدا کیا انصافاً و قانوناً تمہارے ہی ذمہ ہے.سو اس کا تصفیہ یوں ہے کہ اگر وہ خوف جس کا تمہیں خود اقرار ہے اسلام کی عظمت سے نہیں تھا بلکہ کسی اور وجہ سے تھا تو قسم کھا جاؤ.اور اس قسم پر تمہیں چار ہزار روپیہ نقد ملے گا اور ایک سال گزرنے کے بعد اگر تم سالم رہ گئے تو وہ سب روپیہ تمہارا ہی ہو جائے گا، لیکن اس نے ہر گز فتم نہ کھائی.میں نے اس کو اس کے خدا کی بھی قسم دی.مگر حق کی ہیبت کچھ ایسی دل پر بیٹھ گئی تھی کہ اس طرف منہ کرنا بھی اس کو موت کے برابر تھا.میں نے اس پر یہ بھی ثابت کر دیا کہ عیسائی مذہب میں کسی نزاع کے فیصلہ کرنے کے لیے قسم کھانا منع نہیں بلکہ ضروری ہے.مگر آتھم نے ذرہ توجہ نہ کی.اب ایمانا سوچو کہ یہ امر تنقیح طلب جو سچی رائے ظاہر کرنے کا مدار تھا کس کے حق میں فیصلہ ہوا.اور کون بھاگ گیا.اے مخالف لوگو! کیا کوئی تم میں سے سوچنے والا نہیں ! کیا ایک بھی نہیں؟ کیا کسی کو بھی خدا تعالیٰ کا خوف نہیں.کیا کوئی بھی تم میں سے ایسا نہیں کہ جو سید ھے دل سے اس واقعہ میں غور کرے.اس قدر افتراء کیوں ہے.کیوں دلوں پر ایسے پر دے ہیں جو سیدھی بات سمجھ نہیں آتی.اس بات کو کہتے ہوئے کہ پیشگوئی غلط نکلی.کیوں تم کو خدا کا خوف نہیں پکڑتا.کیوں تمہارا دل کانپ نہیں جاتا.کیا تم انسان ہو یا بالکل مسخ ہو گئے.وہ آنکھیں کہاں گئیں جو حق کو دیکھتی ہیں.وہ دل کدھر چلے گئے جو سچائی کو فی الفور سمجھ لیتے ہیں.اس سے کوئی بے ایمانی بڑھ کر نہیں کہ جو سچی بات کو ناحق جھوٹ بنایا جاوے.اور نہ اس سے کوئی بدذاتی زیادہ بدتر ہے جو جھوٹ پر خواہ نخواہ ضد کی جاوے.اب کون سے دلائل باقی ہیں جو ہم تمہارے پاس بیان کریں اور ثبوت میں کونسی کسر رہ گئی ہے جو وہ کسر نکالی جاوے.خدایا یہ کیسے اندھے ہیں کہ اس بات کو منہ پر لانے کے وقت کہ پیشگوئی غلط نکلی ، پیشگوئی کی شرط کو بھول جاتے ہیں.یا الہی یہ کیسی بے ایمانی اور بدذاتی ہے جو ہمیں ناحق بار بارستایا جاتا ہے اور

Page 109

مجموعہ اشتہارات ۹۳ جلد دوم کوئی بھلا مانس آتھم کو جا کر نہیں پوچھتا کہ تم اس ضروری قسم سے کیوں گریز کر گئے اور کیوں عیسائی مذہب پر سیاہی مل دی.اور کیوں ایسی قسم نہ کھائی جو عقلاً وانصافاً و قانو نا نہایت ضروری تھی اور تم پر واجب ہو چکی تھی.اے لوگو اس قدر غلو سے باز آ جاؤ اور ڈرو کیونکہ وہ ہستی حق ہے جس کو تم بھولتے ہو اور وہ پاک ذات سچ ہے جس کی اس تعصب میں تمہیں کچھ بھی پروا نہیں.اُس سے ڈرو.کیونکہ کوئی بیہودہ بات نہیں جس کا حساب نہیں لیا جائے گا.اور مجھے اسی کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آیتم اب بھی قسم کھانا چاہے اور انہیں الفاظ کے ساتھ جو میں پیش کرتا ہوں ایک مجمع میں میرے روبرو تین مرتبہ قسم کھاوے اور ہم آمین کہیں تو میں اسی وقت چار ہزار رو پید اس کو دُوں گا.اگر تاریخ قسم سے ایک سال تک زندہ سالم رہا تو وہ اس کا روپیہ ہو گا.اور پھر اس کے بعد یہ تمام قو میں مجھ کو جو سزا چاہیں دیں.اگر مجھ کو تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کریں تو میں عذر نہیں کروں گا.اور اگر دنیا کی سزاؤں میں سے مجھ کو وہ سزا دیں جو سخت تر سزا ہے تو میں انکار نہیں کروں گا اور خود میرے لیے اس سے زیادہ کوئی رُسوائی نہیں ہوگی کہ میں ان کی قسم کے بعد جس کی میرے ہی الہام پر بنا ہے جُھوٹا نکلوں.پس اے یاوہ گولوگو! بد ذاتی کے منصوبوں کو چھوڑو اور کسی طرح آتھم صاحب کو اس بات پر راضی کرو تا راستبازوں کے حق میں وہ فیصلہ ہو جائے جو ہمیشہ سنت اللہ کے موافق ہوا کرتا ہے اور اگر صرف گالیاں دینا مطلب ہے تو ہم تمہارا منہ پکڑ نہیں سکتے اور نہ کچھ اس سے غرض ہے کیونکہ قدیم سے یہی سنت اللہ ہے کہ ہمیشہ نابکار اور بدسرشت بچوں کو گالیاں دیا کرتے ہیں اور ہر یک طرف سے دُکھ نوٹ نمبرا.آتھم نے قسم کھا کر اس حبہ کو دور نہ کیا جو ڈرتے رہنے کے اقرار سے اس کی نسبت جم گیا تھا.بلکہ قتسم کھانے سے سخت گریز کر کے ایک اور شبہ اپنے پر قائم کر لیا.منہ نوٹ نمبر ۲.شیخ بٹالوی محمد حسین نے مولوی نواب صدیق حسن خان کو مجد دصدی چہار دہم ٹھہرایا تھا.سو وہ صدی کے آتے ہی اس جہان سے گذر گئے اور بعض ملاؤں نے مولوی عبدالحی لکھنوی کو اس صدی کا مجد دخیال کیا تھا.انہوں نے بھی پہلے فوت ہوکر اپنے ایسے دوستوں کو شرمندہ کیا.منہ

Page 110

مجموعہ اشتہارات ۹۴ جلد دوم دیا جاتا ہے اور آخر انجام اُن کے لیے ہوتا ہے.میں آج تم میں ظاہر نہیں ہوا بلکہ سولہ برس سے حق کی دعوت کر رہا ہوں.تمہیں یہ بھی سمجھ نہیں کہ مفتری جلد ضائع ہو جاتا ہے اور خدا پر جھوٹ بولنے والا جھاگ کی طرح نابود کیا جاتا ہے.جن کو لوگ اس صدی کے لیے بچے مجد د کہتے تھے وہ مدت ہوئی کہ مر گئے اور جو اُن کی نظر میں جھوٹا ہے وہ اب تک صدی کے باراں برس گذرنے پر بھی زندہ ہے.پس اے مسلمان مخالفو جو اپنے تئیں مسلمان سمجھتے ہو اپنی جانوں پر رحم کرو کیونکہ یہ اسلام نہیں ہے جو تم سے ظاہر ہورہا ہے.نئی صدی نے تمہیں ایک مجد د کی حدیث یاد دلائی.تم نے اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی.کسوف خسوف نے تمہیں مہدی کے آنے کی بشارت دی.مگر تم نے اس کو بھی ایک بیہودہ بات کی طرح ٹال دیا.تمام بزرگوں کی فراستیں اور مکاشفات مسیح موعود کے لیے ایک اجماعی قول کی طرح چودھویں صدی تک تم نے سُن لیں.پر تم نے اس کو بھی رڈ کر دیا.قرآن کو چھوڑا.اور ان حدیثوں کو بھی ترک کر دیا جو قرآن کے مطابق ہیں.مگر یا درکھو کہ تم کا ذب ہو.ضرور تھا کہ تم اس آخری صادق کے مکذب ہوتے کیونکہ جو کچھ اُس پاک نبی نے تمہارے حق میں فرمایا تھا.ضرور تھا کہ وہ سب پورا ہو.بعض لوگ نہایت نا سمجھی سے کہا کرتے ہیں کہ اس طور سے پیشگوئی کے پورے ہونے میں فائدہ کیا نکلا اور حق کے طالبوں کو کیا فیض حاصل ہوا.سو انہیں اگر دانشمند ہیں تو اُن تمام پیشگوئیوں کو نظر کے سامنے لے آنا چاہیے جو خدا کے پاک نبیوں کی معرفت پوری ہوئیں تا معلوم ہو کہ پیشگوئیوں میں خدا تعالیٰ کی ایک خاص غرض نہیں ہوتی.بلکہ بعض وقت قدرت کا ظاہر کر نامد نظر ہوتا ہے اور بعض وقت اُن علوم اور اسرار کا ظاہر کرنا مقصود الہی ہوتا ہے جو پیشگوئیوں کے متعلق ہیں جن کو.عوام نہیں جانتے اور بعض وقت ایک بار یک پیشگوئی لوگوں کے امتحان کے لیے ہوتی ہے تا خدا تعالیٰ انہیں دکھلا وے کہ اُن کی عقلیں کہاں تک ہیں اور ہم لکھ چکے ہیں کہ حدیث نبوی کی رُو سے اس پیشگوئی میں سج لوگوں کا امتحان بھی منظور تھا اس لیے بار یک طور پر پوری ہوئی.مگر اس کے اور بھی

Page 111

مجموعہ اشتہارات ۹۵ جلد دوم لوازم ہیں جو بعد میں ظاہر ہوں گے جیسا کہ کشف ساق کی پیشگوئی اس کی طرف اشارہ کرتی ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ست بچن راق میرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ قادیان - گورداسپور ہماری نئی تالیفات آریہ دھرم ( یہ اشتہار ۲۳ کے ۸ صفحوں پر ہے) A تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ا۷ تا ۷۹)

Page 112

مجموعہ اشتہارات ۹۶ ١٢٨ جلد دوم جمعہ کی تعطیل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کانہ.اما بعد اے بردران دین و غمخواران شرع متین.آپ کو معلوم ہوگا کہ میں نے پہلے اس سے محض ہمدردی دین اسلام کی نیت سے گورنمنٹ میں ایک عرضداشت مسلمانوں کی طرف سے بھیجنے کی تجویز کی تھی اور یہ چاہا تھا کہ جو مخالفوں کی طرف سے تحقیر اور توہین ہمارے سید و مولی خاتم الانبیاءمحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو رہی ہے اور نا خدا ترس مخالف انواع اقسام کی بیجا تہمتیں اور بے اصل بہتان اس سید المعصومین پر لگارہے ہیں اور سب وشتم اور سخت زبانی کو انتہا تک پہنچا دیا ہے، اس کے روکنے کے لیے کوئی احسن انتظام ہو جائے چنانچہ اسی غرض کے لیے میں نے یہ کوشش کی کہ غیرت مند مسلمان اس عرضداشت پر دستخط کریں اور اس قانون کو پاس کرانا چاہیں کہ آئندہ کل مذہبی مباحثات و مناظرات کو خواہ تحریری ہوں یا تقریری دو شرطوں میں محدود کر دیا جائے یعنی یہ شرط کہ کوئی معترض دوسرے فریق پر کوئی ایسا اعتراض نہ کرے جو خود اسی کے مذہب پر وارد ہوتا ہو کیونکہ یہ امر نیک نیتی کے برخلاف ہے.دوسری یہ شرط کہ کوئی معترض دوسرے فریق پر ایسے طور سے اعتراض کرنے کا مجاز نہ ہو کہ اعتراض کی بناوہ کتا بیں ٹھہرائی ہوں جو فریق معترض علیہ کی اُن مسلّمہ مقبولہ کتابوں میں سے نہیں ہیں جن کے ناموں کی فہرست وہ چھاپ کر شائع کر چکا ہو.یہ انتظام

Page 113

مجموعہ اشتہارات ۹۷ جلد دوم ایسا تھا کہ نہ صرف اسلام کو مفید تھا بلکہ ہر ایک گروہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا تھا اور ایسی سرگرمی سے یہ اشتہار شائع کئے گئے کہ چند روز میں پانچ ہزار سے کچھ زیادہ مسلمانوں کے دستخط ہو کر میرے پاس پہنچ گئے.چنانچہ دو ہزار پچہتر دستخط کا ہونا تو میں پہلے ہی شائع کر چکا ہوں اور بعد میں جو دستخط پہنچے ان کے ملانے سے پانچ ہزار کی نوبت پہنچی.اور مجھے یقین تھا کہ اگر یہ کام دو ماہ تک بھی ہمارے ہاتھ میں رہتا تو پچاس ہزار یا ساٹھ ہزار تک بڑی آسانی سے عرضداشت پر مسلمانوں کے دستخط ہو جاتے اور تین چار ماہ تک تو یقینی اور قطعی امر تھا کہ ایک لاکھ معزز مسلمانوں کے دستخط ہوکر درخواست کو گورنمنٹ کی خدمت میں روانہ کیا جاتا.مگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ہمارے اشتہارات کے شائع ہونے کے ساتھ ہی ایک اشتہار شائع کر دیا کہ میں اس کام کو بہت جلدی انجام دے دوں گا اور نہ صرف اسی قدر بلکہ گورنمنٹ سے اس کام کو منظور بھی کرادوں گا کیونکہ میرا گورنمنٹ میں نہایت درجہ رسوخ ہے اور درخواست کی کہ تم اس کام سے بکلی کنارہ کش ہو کر یہ کام میرے سپر د کر دو پھر دیکھو کہ کیسی کامیابی میرے ہاتھ سے ہوتی ہے.سو میں نے مولوی صاحب موصوف کی اس تحریر کو پڑھ کر خیال کیا کہ جس حالت میں انہوں نے یہ وعدہ کر لیا ہے کہ وہ اس قانون کو پاس کرا سکتے ہیں اور بڑے زور سے وعدہ کیا ہے کہ کامیابی کی بڑی امید ہے تو بہتر ہے کہ اُن کی درخواست کے موافق ہم اس کام سے کنارہ کش ہو جائیں اور اُن کی شرط کے موافق اپنا اور اپنی جماعت کا قدم بیچ سے نکال دیں.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور ۳۱ اکتوبر ۱۸۹۵ء کو اپنے استعفاء اور کنارہ کشی کا اشتہار شائع کر دیا اور لکھ دیا کہ اب یہ کام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور وہ یقین دلاتے ہیں کہ احسن طور پر اس کام کو انجام دیں گے اور بڑی اُمید دلاتے ہیں کہ حسب مرضی ہمارے قانون توسیع دفعہ ۲۹۸ کو پاس کرا دیں گے.مگر افسوس کہ آج تک اس پر دو مہینہ سے کچھ زیادہ گذر گئے مگر اب تک کوئی کارروائی ان کی ظہور میں نہیں آئی اور نہ آئندہ آنے کی اُمید ہے کیونکہ پہلے تو انہوں نے بڑے زور شور سے سہو کتابت معلوم ہوتا ہے ۲۱/اکتوبر ۱۸۹۵ء ہونا چاہیے.بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۵۹ - (ناشر) یہ اشتہار جلد ہذا کے صفحہ ۷ پر زیر نمبر ۳۵ درج ہے.(ناشر)

Page 114

مجموعہ اشتہارات ۹۸ جلد دوم زرد چو ورقہ اس کام کے پورا کر دینے کے لیے شائع کیا تھا اور لکھا تھا کہ اگر میرے ہاتھ میں یہ کام دیا جائے تو میں اس کو حسب المراد انجام دے دُوں گا، لیکن جب یہ کام ان کو سپر د کیا گیا تو چونکہ اُن کی صرف اتنی ہی غرض تھی کہ ہمارا چلتا ہوا کام روک دیا جائے اس لیے وہ چپکے ہو کر بیٹھ گئے اور میری طرف ایک خط لکھا جس کا ماحصل یہ تھا کہ تم اپنی کتا ہیں کہ جو حال میں مخالفین مذہب کے حملوں کے رڈ میں لکھی گئی ہیں شائع ہونے سے روک دو اور اس طرح اُن کو تلف کر کے وہ بُرا اثر لوگوں میں پھیلنے دو جس کے مٹانے کے لیے یہ تالیفات ہیں تب میں یہ کاروائی کروں گاور نہ نہیں ، جب یہ خط ان کا پہنچا تو مجھ کو ان کے حال پر رونا آیا کہ یا الہی ان لوگوں کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی.یہ عجیب تحکم ہے کہ ہمارے مخالف ہمارے سید و مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صریح گالیاں دیں.طرح طرح کی ناپاک تہمتیں لگاویں یہاں تک کہ نعوذ باللہ ز ناوڈ کیتی وغیرہ کے بہتان اُس پاک ذات کی نسبت شائع کریں اور نہایت بُری باتیں آنجناب کے حق میں کہیں.اور یہ مولوی ہمیں اس قدر قلم اُٹھانے سے بھی منع کریں کہ ہم بطریق مدافعت ان کا جواب لکھیں اور اُن کی زہرناک باتوں سے لوگوں کو بچاویں اور دستخط کرانے کے لیے یہ شرط ٹھہر اویں کہ مخالف جو چاہیں کریں مگر ہم اپنے پیارے رسول کی عزت کے لیے کچھ بھی غیرت نہ دکھلاویں.ہائے افسوس یہ کیسا زمانہ ہے.یہی قیامت کی نشانیاں ہیں.اگر یہ مولوی صاحب پہلے ہمارے مخالفوں کو اسلام پر حملہ کرنے سے روکتے اُن کی کتابیں اور رسالے اور اخبار میں شائع ہونے سے بند کرا دیتے اور پھر ہمیں بھی بند کرنے کے لیے کہتے یا بالمقابل ان سے بھی بند کرنے کا وعدہ لے لیتے تو ایک بات بھی تھی مگر یہ کس قسم کا تحکم ہے کہ ہم تو پانچ چھ سال تک جب تک گورنمنٹ قانون پاس نہ کرے مخالفوں کی گالیاں اور جھوٹے الزام سُن کر ان کے زہرناک اثر روکنے کے لیے مجاز نہ ہوں مگر وہ لوگ جو چاہیں سو کریں.پھر جس حالت میں ہماری کتابوں میں صرف واقعات صحیحہ کا بیان ہے اور تمام مخالفوں کی کتابیں بیجا افتراؤں سے بھری ہوئی ہیں تو کیا ہماری کتابوں کو شائع ہونے سے روکنا اور اُن کی کتابوں

Page 115

مجموعہ اشتہارات ۹۹ جلد دوم کے شائع ہونے پر رضامندی ظاہر کرنا کسی بچے مسلمان کا کام ہے.اگر مولوی صاحب آریوں اور پادریوں کے وکیل بن کر ہماری کتابوں پر کوئی نکتہ چینی کریں اور کوئی افتر اثابت کرنا چاہیں تو ہرگز ان کو میسر نہ ہو گا مگر ہم آریوں اور پادریوں کے صد ہا افترا ثابت کرتے ہیں.اب حاصل کلام یہ کہ اس طرح پر مولوی صاحب موصوف نے ہماری اس کارروائی کو برباد کیا.لوگ اس انتظار میں ہوں گے کہ مولوی صاحب کچھ کام کر رہے ہیں.مگر مولوی صاحب کا مطلب صرف دین کو نقصان پہنچانا تھا اور ہمارے کام میں حرج ڈالنا تھا.اُن کو ہماری کتابوں کے تلف کرنے کی کیوں فکر پڑ گئی اور مخالفوں کی وہ کروڑ ہا کتا ہیں ان کو بھول گئیں جو گالیوں اور بہتانوں سے بھری ہوئی ہیں یہ تو ظاہر تھا کہ قانون پاس ہونے سے ایسے لوگوں کی کتابیں خود رڈی ہو جائیں گی جو خلاف واقعہ باتوں پر مشتمل ہوں گی اور اُن کی اشاعت ایک جرم میں داخل ہو گی.انہیں اغراض کے لیے تو قانون کی حاجت تھی.غرض مولوی محمد حسین صاحب کی حقیقت معلوم ہوگئی.اُن سے یہ کام ہونا ممکن نہیں اگر ان میں ایک ذرہ اسلام کی خیر خواہی باقی ہے تو چاہیے کہ اپنا استعفا اسی طرح شائع کریں جس طرح ہم نے شائع کیا تھا اور خدا تعالیٰ سے اس گناہ کی معافی چاہیں جو نا حق فضول گوئی سے چلتے کام کو روک دیا اور ہم یہ وعدہ نہیں کرتے کہ ضرور قانون کو پاس کرا دیں گے.یہ امرتو اللہ تعالی کے اختیار میں ہے لیکن ہم مولوی صاحب کی طرح فارغ نہیں بیٹھیں گے اور جہاں تک بشری طاقت ہے اس کام کے لیے کوشش کریں گے.اب اے بھائیو ایک دوسرا کام ہے جو میں شروع کرنا چاہتا ہوں.آپ لوگ یقیناً سمجھیں کہ سرکا را نگریزی اس درخت کی طرح ہے جو پھلوں سے لدا ہوا ہواور ہر ایک شخص جو میوہ چینی کے قواعد کی رعایت سے اس درخت کی طرف ہاتھ لمبا کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی پھل اس کے ہاتھ میں آجاتا ہے.ہماری بہت سی مرادیں ہیں جن کا مرجع اور مدار خدائے تعالیٰ نے اس گورنمنٹ کو بنا دیا ہے.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ رفتہ رفتہ وہ ساری مرادیں اس مہربان گورنمنٹ سے ہمیں حاصل ہوں.مگر اس

Page 116

مجموعہ اشتہارات جلد دوم مقصد کے بعد جو دفعہ ۲۹۸ کی توسیع کے متعلق ہے ایک اور ہمارا مقصد ہے جس کے حصول سے پنجاب اور ہندوستان کے مسلمانوں کو گورنمنٹ کی عنایات سے وہ عزت ملے گی جس کو وہ مدت دراز سے کھو چکے ہیں.اور اس صورت میں ایک نئی شکر گزاری کے گیت اُن پر واجب ہوں گے اور نہایت خوشی سے گورنمنٹ کی بقاء دولت اور حکومت کے لیے نعرے ماریں گے.وہ مقصد یہ ہے کہ جب سے اس ملک ہند میں اسلامی سلطنت نے اپنی بنیاد ڈالی تب سے جمعہ کی تعطیل صد ہا برسوں سے اس ملک میں جاری رہی.چنانچہ اس کے آثار باقیہ میں سے یہ بات ہے کہ اب تک بعض ریاستوں میں باوجود ہندو ہونے کے جمعہ کی تعطیل ریاست کے دفتروں اور عدالتوں میں رہی ہے اور چونکہ گورنمنٹ عالیہ نے اتوار کی تعطیل کو مقرر کر کے عیسائیوں اور ہندوؤں کو وہ حق دے دیا ہے جو ایک مذہبی دن کے متعلق ان کو ملنا چاہیے تھا تو پھر مسلمان بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ اس مہربان گورنمنٹ سے اپنے حق کا بھی ادب اور انکسار کے ساتھ مطالبہ کریں.بھائیو! آپ خوب جانتے ہو کہ جمعہ اسلام میں صرف ایک عید کا ہی دن نہیں بلکہ وہ تجدید احکام دین کا بھی ایک خاص روز ہے جس میں مسلمانوں کے کانوں میں اسلام کی پاک وصایا تازہ طور پر پڑتی ہیں اور بُھولے ہوئے مسائل نئے سرے سے کہ یاد دلائے جاتے ہیں.اس دن میں ہر ایک مسلمان پر فرض ہے کہ مسجد میں حاضر ہو اور دینی وصایا کو سنے اور اپنے ایمان کو تازہ کرے اور اپنی معلومات کو بڑھاوے.آپ دیکھتے ہیں کہ اس نحوست سے کہ ملازمت پیشہ لوگوں کو جمعہ کے لیے فرصت نہیں ملتی بہت سی مسجدیں ویران نظر آتی ہیں چونکہ جمعہ مسلمانوں کے لیے دو قسم کے غسل کا دن ہے.ایک جسم کا غسل جس کے بعد سفید پوشاک پہنی جاتی ہے اور ایک دل کا غسل یعنی تو بہ اور استغفار جس کے بعد لِبَاسُ التّقوای پہنایا جاتا ہے اس لیے جمعہ میں یہ خاصیت ہے کہ جوشخص اخلاص اور سچی ایمانداری سے جمعہ کی نماز میں حاضر ہوتا رہے اور ہدایتوں کو سختا ر ہے اور گھر میں تو بہ نصوح کا تحفہ ساتھ لاتا رہے اُس کو دوسرے دنوں میں بھی نماز کی تو فیق دی جاتی ہے اور جمعیت باطنی اس کو عطا کی جاتی ہے جس کی طرف جمعہ کے لفظ میں بھی ایک لطیف اشارہ ہے.علاوہ اس کے اس سے مومنوں کا تعارف بڑھتا

Page 117

مجموعہ اشتہارات جلد دوم ہے.بعض کا بعض پر اثر پڑتا ہے.نیک اخلاق میں ایک شخص دوسرے کا وارث بن جاتا ہے.اور اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے قرآن میں خاص طور پر جمعہ کے لیے تاکید کی ہے بلکہ سورۃ کا نام بھی سورہ جمعہ رکھ دیا ہے.اور احادیث میں جمعہ کے ترک کرنے میں سخت وعید بھی ہے.اس لیے ضرورت ہے کہ ہر ایک مسلمان گورنمنٹ سے اس حق کے طلب کرنے کے لیے اس درخواست پر دستخط کرے جو اسی غرض سے گورنمنٹ میں بھیجی جائے گی جس کی ایک نقل آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے.اور یاد رکھیں کہ یہ نہایت مبارک کام ہے اور اس کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہوگا کہ جمعہ کی تعطیل سے نماز کی طرف مسلمانوں کو ایک خاص توجہ پیدا ہو جائے گی اور کروڑ ہانئے آدمی مساجد میں داخل ہو کر تمام ملک کی مساجد کو آباد کر دیں گے.اسلامی شوکت بھی ظاہر ہوگی اور بہت سے ایسے نیک نیتجے نکلیں گے جن کی تحریر مبسوط بیان کو چاہتی ہے.میں جانتا ہوں کہ ہر ایک نیک دل انسان ضرور اس درخواست پر دستخط کرے گا بجز ایسے شخص کے کہ در حقیقت نا پاک طبع اور مرتدوں کے رنگ میں ہو.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں القا کرے اور اپنے الہام سے اس بابرکت کام کی طرف توجہ دلا دے.اس جگہ مولوی صاحبوں کی خدمت میں خصوصیت کے ساتھ عرض ہے کہ وہ بھی دستخط کرنے سے ثواب آخرت حاصل کریں.یہ فرض کیا کہ ہم اُن کی نظر میں کافر اور بے دین اور اس جہنم کے لائق ہیں جس کی سزا ابدالآباد اور جس کا عذاب دائمی اور غیر منقطع ہے.مگر اپنے اس بے دلیل خیال سے اس نیکی ل عن ابن مسعود رضی الله عنه ان النبي صلى الله عليه و اله وسلم قال لقوم يتخلفون عن الـجـمـعـة لـقــد هممت ان امر رجلا يصلي بالناس ثم احرق على رجال يتخلّفون عن الجمعة بيوتهم." منه ترجمہ.حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے جو جمعہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں.فرمایا: ” میں نے ارادہ کیا کہ کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر ان لوگوں کے گھروں کو ان پر جلا دوں جو جمعے سے پیچھے رہتے ہیں.(مسند احمد بن حنبل مطبوعه بيروت جلد ۱ صفحه ۴۰۲)

Page 118

مجموعہ اشتہارات ۱۰۲ جلد دوم سے محروم نہ رہ جائیں.یونہی سمجھ لیں کہ کبھی دین کو خدائے تعالیٰ فاسقوں کے ذریعہ سے بھی مدد دیتا ہے.بالخصوص جبکہ کسی مجبوری سے اس چودھویں صدی کے سر پر جس کی طرف مدت سے آنکھیں لگی ہوئی تھیں کوئی صالح بحیثیت مجدد مبعوث نہ ہو سکا جو اعلاء کلمہ اسلام کے لیے یہ تمام ضروری کام کرتا تو ناچار اس صالح کی جگہ ایک فاسق کام کرنے کے لیے کھڑا ہو گیا ہے.رہا ان باتوں کا اصل تصفیہ سووہ جلد دن آئے گا کہ خدائے تعالیٰ آپ فیصلہ کر دے گا.اِسْمَعُوا يَا قَوْمِي وَ اتْرُكُوا لَوْمِي وَ مَا ادْعُوكُمْ إِلَّا إِلَى السَّدَادِ الراق خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ( پنجاب ) یکم جنوری ۱۸۹۶ء نوٹ.یہ بات یادر ہے کہ جو صاحب اس درخواست پر دستخط نہیں کریں گے وہ اس حرکت سے ظاہر کریں گے کہ انہوں نے اس ملک کو دارالحرب قرار دیا ہے.مطبوعہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان یہ اشتہار ۲۶۸۳۰ کے چار صفحوں پر شائع ہوا ہے ) A تبلیغ رسالت جلد ۵ صفحه ۱ تا ۶ )

Page 119

مجموعہ اشتہارات ۱۴۹ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِي درخواست بحضور نواب گورنر جنرل ووائسرائے کشور هند بالقابہ بمراد منظوری تعطیل جمعه یہ عرضداشت مسلمانان برٹش انڈیا کی طرف سے جن کے نام ذیل میں درج ہیں بحضور جناب گورنر جنرل ہند دام اقبالہ اس غرض سے بھیجی گئی ہے کہ تا گورنمنٹ عالیہ معروضات ذیل پر توجہ فرما کر تمام برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے جمعہ کی تعطیل منظور فرما دے.وجوہات عرضداشت یہ ہیں.(۱) اوّل یہ کہ جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے مذہبی عبادات اور دینی فرائض کے ادا کرنے کے لحاظ سے بعینہ ایسا ہے جیسا کہ اتوار عیسائیوں اور ہندوؤں کے لیے.پس چونکہ گورنمنٹ عالیہ نے عیسائیوں اور ہندوؤں کی بجا آوری رسوم عبادت وغیرہ کے لیے اتوار کی تعطیل مقرر کر رکھی ہے تو اس صورت میں یہ گروہ کثیر مسلمانوں کا جو گورنمنٹ کے لطف اور احسان کا ایسا ہی امیدوار ہے جیسا کہ عیسائی اور ہندو گروہ یہ حق رکھتا ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ان کے لیے بھی جمعہ کے دن کی تعطیل عطا فر مادے.(۲) دوسرے یہ کہ صرف یہی بات نہیں کہ جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے بعض خاص عبادات اور رسوم کی بجا آوری کے لیے مقرر ہے بلکہ اس کے ترک کرنے کی حالت میں قرآنِ شریف اور احادیث میں سخت وعید ہے لہذا مذہبی حیثیت سے جمعہ ترک کرنے میں ہر ایک مسلمان دیندار اپنے تیں ایک گناہ عظیم کا مرتکب خیال کرتا ہے اور ہر ایک بڑے جوش سے اس بات کا خواہاں ہے کہ سرکار

Page 120

مجموعہ اشتہارات ۱۰۴ جلد دوم انگریزی ضرور یہ تعطیل برٹش انڈیا میں منظور فرماوے.(۳) تیسرے یہ کہ تمام نیک دل اور پاک طبع مسلمان جو گورنمنٹ عالیہ کے بچے خیر خواہ ہیں التزامِ جمعہ کی رسم کو اس محسن گورنمنٹ کی کچی خیر خواہی اور دلی وفاداری کے لیے ایک علامت ٹھہراتے ہیں.مگر بعض دوسرے نالائق نام کے مسلمان جن کی تعداد قلیل ہے اس ملک برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دے کر اپنے خود تراشیدہ خیالات کے رُو سے جمعہ کی فرضیت سے منکر ہیں.کیونکہ ان کا گمان ہے جو برٹش انڈیا دارالحرب ہے اور دار الحرب میں جمعہ فرض نہیں رہتا.پس کچھ شک نہیں کہ جمعہ کی تعطیل سے ایسے بد باطن کمال صفائی سے شناخت کئے جائیں گے.کیونکہ اگر باوجود تعطیل کے پھر بھی وہ جمعہ کی نمازوں میں حاضر نہ ہوئے تو یہ بات گھل جائے گی کہ در حقیقت وہ نالائق اس گورنمنٹ کے ملک کو دارالحرب ہی قرار دیتے ہیں.تبھی تو جمعہ کی پابندی سے عمدا گریز کرتے ہیں.سواس صورت میں یہ مبارک دن نہ صرف مسلمانوں کی عبادات خاصہ کا ایک دن ہوگا بلکہ گورنمنٹ کے لیے بھی ایک سچے مخبر کا کام دے گا اور ایک معیار کی طرح کھرے اور کھوٹے میں فرق کر کے دکھلاتا رہے گا.چنانچہ اس درخواست پر بھی صرف انہیں بچے خیر خواہوں کے دستخط درج ہیں جو اس ملک کو دارالحرب قرار نہیں دیتے.اور دلی سچائی سے گورنمنٹ کی حکومت کو قبول کر لیا ہے اور اپنے لیے سراسر برکت اور رحمت سمجھا ہے اور کچھ شک نہیں کہ جمعہ کی تعطیل سے ایسے لوگ جو غلطیوں میں پڑے ہوئے ہیں اثر پذیر بھی ہوں گے اور گورنمنٹ کے دلی خیر خواہ بہت ترقی پذیر ہوں گے اور بد باطن تارک الجمعہ بڑی آسانی سے شناخت کئے جائیں گے یہ بات دوبارہ گورنمنٹ کو یاد دلائی جاتی ہے کہ ایک جمعہ ہی مسلمانوں میں اس بات کی علامت ہے کہ کون شخص اس ملک گورنمنٹ کو دارالحرب قرار دیتا ہے اور کون اس کی نفی کرتا ہے.سو جو شخص گورنمنٹ برطانیہ کی رعیت ہو کر جمعہ کی فرضیت کا قائل ہے اور اس کا ترک کرنا معصیت سمجھتا ہے وہ ہر گز اس ملک کو دارالحرب قرار نہیں دے گا اور سچے دل سے گورنمنٹ کا خیر خواہ ہوگا لیکن جو شخص برٹش انڈیا میں جمعہ کی فرضیت کا منکر ہے وہ در پردہ اس ملک کو دارالحرب قرار دیتا ہے اور سچا خیر خواہ نہیں.سو جمعہ ان دونوں فریقوں کے پر کھنے کے لیے ایک معیار ہے.

Page 121

مجموعہ اشتہارات جلد دوم (۴) چوتھے یہ کہ اسلامی تعطیلیں ہندوؤں کی تعطیلوں سے نصف سے بھی کم ہیں.پس اس صورت میں بھی گورنمنٹ کے مراحم خسروانہ کا یہی تقاضا ہونا چاہیے کہ جمعہ کی تعطیل کرنے سے اس نقصان کا جبر کرے.(۵) پانچویں یہ کہ چونکہ جمعہ کی تعطیل ہم مسلمانوں کے لیے نہایت ضروری ہے.اس لیے ہم یہ بھی بادب التماس کرتے ہیں کہ اگر ہماری محسن گورنمنٹ اتوار کی تعطیل کو ہمارے لیے موقوف رکھ کر اس کے عوض ہمیں صرف جمعہ کی تعطیل دے دے تو ہم تب بھی بصدق دل راضی ہیں.مگر بہر حال ہم رعایا کی درخواست یہی ہے کہ جمعہ کی تعطیل ہو.(۲) چھٹے یہ کہ ہماری مہربان گورنمنٹ کو اس بات کا خوب علم ہے کہ تمام اسلامی سلطنتیں اور ریاستیں قدیم سے جمعہ کی تعطیل کرتے ہیں.سلطنت روم میں جمعہ کی تعطیل ہے اور حیدر آباد کی ریاست وغیرہ میں بھی جمعہ کی تعطیل ہی مقرر ہے تو اس صورت میں گورنمنٹ کے احسانات پر ہمیں یہی توقع ہے کہ ہم اس فیاض گورنمنٹ کی رعایا ہو کر پھر ایسے بد قسمت نہ ٹھہریں کہ دوسرے مسلمانوں کی یہ خوش قسمتی دیکھ کر کہ وہ دوسری ریاستوں میں اس عظیم الشان مذہبی دن کی تعطیل سے مذہبی فرائض کو بخوبی بجالاتے ہیں آتش رشک میں جلا کریں.چونکہ ہم سچے دل سے گورنمنٹ کے اور گورنمنٹ ہماری ہے اور دائمی تعلقات اور بقاء دولت.گورنمنٹ کے لیے سچے دل سے دُعا کرتے ہیں تو کیا ہم گوارا کر سکتے ہیں کہ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں یہ ارمان ہمارے دل میں چلا جائے کہ کیوں ہمارے لیے وہ بات حاصل نہیں جو دوسری ریاستوں کی رعایا کو حاصل ہے.یہ بھی عاجزا نہ عرض ہے کہ ہم رعایا نے اب تک گورنمنٹ میں اس بات کی کبھی تحریک نہیں کی کیونکہ یہی رعیتا نہ ادب کا تقاضا دیکھا کہ صبر اور آہستگی سے اس درخواست کو پیش کریں.سواب بڑی امید کے ساتھ پیش کی گئی.(۷) ساتویں یہ بات بھی گورنمنٹ عالیہ میں عرض کر دینے کے لائق ہے کہ یہ روز جمعہ جس کی تعطیل کے لیے ہم مسلمان رعایا یہ عرضداشت بھیجتے ہیں.اگر چہ بہت اہم کام اس میں عبادات کا خاص طور پر ادا کرنا اور اسلامی ہدایات کو اپنے علماء سے سُنتا ہے، لیکن اور کئی رسوم مذہبی بھی اسی دن میں ادا

Page 122

مجموعہ اشتہارات 1.4 جلد دوم ہوتی ہیں.اور خدا نے ہمیں قرآن میں اس دن کے التزام کی اس قدر تاکید کی ہے کہ خاص اسی کے التزام کے لیے ایک سورت قرآن میں ہے جس کا نام سورۃ الجمعہ ہے اور حکم ہے کہ سب کام چھوڑ کر جمعہ کے لیے مسجدوں میں حاضر ہو جاؤ.سو ہر یک دیندار کو یہی غم ہے کہ ہم ہمیشہ کے لیے خدا کے نافرمان نہ ٹھیریں.(۸) آٹھویں یہ کہ اسلامی سلطنت کے زمانہ میں ہمیشہ اس ملک میں جمعہ کی ہی تعطیل ہوتی تھی.(۹) ہم رعایا کی یہ بھی تمنا ہے کہ جس طرح اسلامی ریاستوں میں اُن سلاطین کا شکر کے ساتھ خطبہ میں ذکر ہوتا ہے جو مذہبی امور میں قرآن کے منشا کے موافق مسلمانوں کو آزادی دیتے ہیں.ہم بھی جمعہ کی تعطیل کے شکریہ میں اور بلاد کے مسلمانوں کی طرح یہ دائمی شکر جمعہ کے ممبروں پر اپنا وظیفہ کر لیں کہ سرکار انگریزی نے علاوہ اور مراحم اور الطاف کے ہم پر یہ بھی عنایت کی نظر کی جو ہمارے دینی عظیم الشان دن کو جو مدت سے اس ملک برٹش انڈیا میں مردہ کی طرح پڑا تھا پھر نئے سرے سے زندہ کر دیا.سو بلا شبہ یہ ایسا احسان ہوگا کہ مسلمانوں کی ذریت کبھی اس کو فراموش نہیں کرے گی اور اسلامی تاریخ میں ہمیشہ عزت کے ساتھ یہ شکر ادا کیا جائے گا.بالآخر ہم رعایا کی دعا ہے کہ ہماری گورنمنٹ کو خدا تعالیٰ ہمارے سروں پر رکھے اور ہماری اس عاجزانہ التماس کو قبول کرنے کے لیے آپ اس کے دل میں القا کرے.پھر ہمیں اس شکر کی توفیق بخشے جو ایسی خسروانہ مراحم کے پاداش میں ہر ایک انسان کا فرض ہے اور ہم رعایا جو اس درخواست کو بامید منظوری گورنمنٹ عالیہ میں روانہ کرتے ہیں ان کے نام معہ کل پستہ ونشان منسلکہ نقشوں میں درج ہیں.ـتمـ ين اہلِ اسلام و فادار رعا یا گورنمنٹ برٹش انڈیا جو اس ملک کو دارالحرب نہیں سمجھتے مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان یہ اشتہار " کے چار صفحوں پر درج ہے ) A تبلیغ رسالت جلد ۵ صفحه ۷ تا ۱۰) یکم جنوری ۱۸۹۶ء

Page 123

جلد دوم مجموعہ اشتہارات قابل توجہ گورنمنٹ از طرف مہتم کاروبار تجویز تعطیل جمعه میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب چونکہ قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیر خواہی کے لیے ایسے نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو در پردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتے ہیں اور ایک چھپی ہوئی بغاوت کو اپنے دلوں میں رکھ کر اسی اندرونی بیماری کی وجہ سے فرضیت جمعہ سے منکر ہو کر اس کی تعطیل سے گریز کرتے ہیں.لہذا یہ نقشہ اسی غرض کے لیے تجویز کیا گیا کہ تا اس میں ان ناحق شناس لوگوں کے نام محفوظ رہیں کہ جو ایسی باغیانہ سرشت کے آدمی ہیں.اگر چہ گورنمنٹ کی خوش قسمتی سے برٹش انڈیا میں مسلمانوں میں ایسے آدمی بہت ہی تھوڑے ہیں جو ایسے مفسدانہ عقیدہ کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھتے ہوں لیکن چونکہ اس امتحان کے وقت بڑی آسانی سے ایسے لوگ معلوم ہو سکتے ہیں.جن کے نہایت مخفی ارادے گورنمنٹ کے برخلاف ہیں اس لیے ہم نے اپنی محسن گورنمنٹ کی پولیٹیکل خیر خواہی کی نیت سے اس مبارک تقریب پر یہ چاہا کہ جہاں تک ممکن ہوان شریر لوگوں کے نام ضبط کئے جائیں جو اپنے عقیدہ سے اپنی مفسدانہ حالت کو ثابت کرتے ہیں کیونکہ جمعہ کی تعطیل کی تقریب پر اُن لوگوں کا شناخت کرنا ایسا آسان ہے کہ اس کی مانند ہمارے ہاتھ میں کوئی بھی ذریعہ نہیں.وجہ یہ کہ جو ایک ایسا شخص ہو جو اپنی نادانی اور جہالت سے برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتا ہے.وہ جمعہ کی فرضیت سے ضرور منکر ہوگا اور اسی علامت سے شناخت کیا جائے گا کہ وہ درحقیقت اس عقیدہ کا آدمی ہے لیکن ہم گورنمنٹ میں با ادب اطلاع کرتے ہیں کہ ایسے نقشے ایک پولیٹیکل راز کی طرح اس وقت تک

Page 124

مجموعہ اشتہارات ۱۰۸ جلد دوم ہمارے پاس محفوظ رہیں گے جب تک گورنمنٹ ہم سے طلب کرے.اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ حکیم مزاج بھی اُن نقشوں کو ایک ملکی راز کی طرح اپنے کسی دفتر میں محفوظ رکھے گی.اور بالفعل یہ نقشے جن میں ایسے لوگوں کے نام مندرج ہیں گورنمنٹ میں نہیں بھیجے جائیں گے.صرف اطلاع دہی کے طور پر ان میں سے ایک سادہ نقشہ چھپا ہوا جس پر کوئی نام درج نہیں فقط یہی مضمون درج ہے ہمراہ درخواست بھیجا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کے نام معہ پتہ ونشان یہ ہیں:.نمبر شمار نام معه لقب و عہدہ سکونت ضلع کیفیت

Page 125

مجموعہ اشتہارات نمبر شمار نام معه لقب و عہدہ ۱۰۹ سکونت جلد دوم ضلع کیفیت

Page 126

مجموعہ اشتہارات نمبر شمار نام معه لقب و عہدہ 11.سکونت ضلع کیفیت ( مطبع ضیاء الاسلام قادیان) جلد دوم

Page 127

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اُن وفادار رعایا کے دستخط اور مواہیر جو حسب تفصیل عرضداشت منسلکہ نقشہ ہذا گورنمنٹ عالیہ انگریزی میں اس بات کے لیے ملتجی ہیں کہ آئندہ کل دفاتر و محکمہ جات اور سرکاری مدارس اور کالجوں کے لیے اتوار کے ساتھ جمعہ کی تعطیل بھی دی جائے.نمبر شمار نام معه لقب و عہدہ سکونت ضلع کیفیت

Page 128

مجموعہ اشتہارات جلد دوم نمبر شمار نام معه لقب و عہدہ سکونت ضلع کیفیت

Page 129

مجموعہ اشتہارات نمبر شمار نام معه لقب و عہدہ سکونت ضلع کیفیت جلد دوم

Page 130

مجموعہ اشتہارات نمبر شمار نام معه لقب و عہدہ ۱۱۴ جلد دوم سکونت ضلع کیفیت ہدایت.اگر اس نقشہ کی دستخطوں سے خانہ پوری ہو چکے تو چاہیے کہ اسی طرح کے اور اسی نمونہ کے اور قلمی نقشے بنا کر ان پر جہاں تک ممکن ہو دستخط کرائے جائیں مگر یہ یادر ہے کہ ہر ایک صاحب اپنا نام اور پتہ خوشخط لکھیں کہ تا پڑھنے میں دقت نہ ہو اور ہر ایک نقشہ کے آخر پر کل دستخطوں کی میزان لکھ دیں.مطبع ضیاء الاسلام قادیان ید اشتہار کے چار صفحوں پر معہ نقشہ درج ہے) پار یہ اشتہار خلافت لائبریری میں موجود ہے)

Page 131

مجموعہ اشتہارات ۱۱۵ ۱۵۱ جلد دوم پادری صاحبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری یعنی تفسیر انجیل متی.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ یہ بات ظاہر ہے کہ پادری صاحبوں نے لکھوکھا روپیہ اسلام کی نکتہ چینی میں خرچ بھی کیا مگر پھر بھی نا کام ہی رہے اور بجائے اس کے کہ قرآنی تعلیم میں کوئی عیب نکال سکتے خود محرک اس بات کے ہوئے کہ تا اس پاک کلام کے انوار اور برکات دنیا پر ظاہر ہوں.اس جگہ یہ بھی سوال ہے کہ کیا انہوں نے اب تک کوئی انجیل کی خوبی دکھلائی.کیا کوئی ایسی تفسیر لکھی جس سے انجیل کے اسرار ظاہر ہوتے ہوں.اس کے جواب میں بافسوس کہنا پڑتا ہے کہ کچھ بھی نہیں.جس قدر تفسیروں پر ہمیں نظر پڑی ہے وہ ایسی مہمل اور بیہودہ ہیں جو ہر یک سطر کے پڑھنے سے ہنسی آتی ہے.اور پھر ان کی غفلت اور جہالت پر ایک کامل غور کے بعد رونا بھی آتا ہے.اب چونکہ پادری صاحبان کسی انجیل کی تفسیر ایک محقق کی طرز پر لکھ نہیں سکے.اور ایسی تفسیر کے لیے در حقیقت زمانہ موجودہ تڑپ رہا ہے.اور اب تک ہم عیسائی صاحبوں کا منہ دیکھتے رہے کہ شاید ان کی طرف سے کوئی تفسیر محققانہ طرز سے شائع ہو.مگر اب ان کی موٹی عقلوں اور سطحی خیالوں کا بار بار تجربہ ہو کر ثابت ہو گیا کہ وہ اس لائق ہی نہیں ہیں کہ انجیل کی تفسیر لکھ سکیں.اور یقین ہو گیا کہ اُن پر ایسی اُمید رکھنا محض لا حاصل ہے.لہذا ہم نے ان کے حال زار پر رحم کر کے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا اور خدائے تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے وہ حقائق اور معانی ہم پر کھلے کہ جب تک کامل تائید الہی کسی شخص کے شامل حال نہ ہو ہر گز ایسے حقائق کسی پر گھل نہیں

Page 132

مجموعہ اشتہارات جلد دوم سکتے.اور میں اس وقت اس تفسیر مقدس کی زیادہ تعریف لکھنا کچھ ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ ہر ایک شخص چھپنے اور شائع ہونے کے بعد خود معلوم کر لے گا کہ کس پایہ کی تفسیر ہے بعض پادری صاحبوں نے باوجود نہایت تنگ اور محدود ہونے معلومات کے قرآن شریف کا ترجمہ لکھ کر شائع کیا اور بجز اس کے کچھ نہ دکھلایا کہ چند مشہور تر جموں میں سے اپنی مرضی کے موافق التقاط کر کے کچھ کچھ دجل اور تلیس کے طور پر بھی اس کے ساتھ شامل کر دیا.مگر ظاہر ہے کہ یہ کام نہ کچھ مشکل اور نہ عجیب تھا.ہاں اگر اس میں کچھ عجیب بات تھی تو وہی قدیمی تحریف تھی جو اس قوم کے حصہ میں آگئی ہے.مگر عنقریب منصفین معلوم کریں گے جو ہماری تفسیر انجیل محققانہ طرز پر ہوگی اور دلوں کو ان سچائیوں سے منور کرے گی جو حق کے طالبوں کی مراد اور مقصود ہیں.واضح رہے کہ اس تفسیر کی دنیا کو نہایت ضرورت تھی اور ہزاروں کے دل اس فیصلہ کے لیے جوش میں تھے کہ اس زمانہ میں کسی تعلیم کو تمام تعلیموں سے اکمل واتم واعلیٰ وارفع سمجھا جائے.چنانچہ عیسائی بجائے خود اصرار کرتے تھے کہ انجیل کی تعلیم اعلی اور اکمل ہے اور اہل اسلام نہ اپنے دعوئی سے بلکہ خدا کی پاک کلام کی رُو سے اس بات پر زور دیتے تھے کہ وہ تعلیم جو اعلیٰ اور اکمل دُنیا میں آئی وہ صرف قرآن شریف ہے مگر عیسائیوں کو اس سچی بات کے سننے کی برداشت نہیں تھی بلکہ جیسا کہ ہمیشہ جاہلوں اور سفیہوں اور کمبخت جلد بازوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بجائے فکر اور تدبر کے ٹھٹھے اور ہنسی کی طرف جھک جاتے ہیں یا بے اصل افتراؤں سے کام لیتے ہیں یہی عادت عیسائیوں کی تھی.سو ہم نے اس تفسیر کو یکطرفہ طور پر نہیں لکھا بلکہ اس خیال سے کہ اس تقریب پر قرآن اور انجیل کا مقابلہ اور موازنہ بھی ہو جائے جابجا انجیلی تعلیم کے مقابل پر قرآنی تعلیم کو دکھلایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ طرزان لوگوں کے لیے بہت مفید ہوگی جو انجیل اور قرآن شریف کی تعلیم کو بالمقابل وزن کرنا چاہتے ہیں.اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ نو تعلیم یافتہ لوگ جو زیرک ہیں اس طرز سے سب سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں گے.اور میں نے اس تفسیر میں یہ بھی مناسب دیکھا ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور یسوع صاحب کے اخلاق کا بھی باہم مقابلہ کیا جائے.کیونکہ اس بارے میں بھی اکثر عیسائی صاحبوں کو بہت دھوکا لگا ہوا ہے.لہذا یہ تمام التزام تفسیر میں کئے گئے ہیں.اور یہ

Page 133

مجموعہ اشتہارات 112 جلد دوم تفسیر محض ان پادری صاحبوں کی امداد کے لیے لکھی گئی ہے کہ جو اب تک انجیل کو وہ مرتبہ دیتے ہیں جو قرآن مجید کو دینا چاہیے تھا.مگر ہم اس جگہ پادری فتح مسیح صاحب متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپورہ کا شکر ادا کرنے سے رہ نہیں سکتے.جنہوں نے بڑے اصرار سے اس تفسیر کے لکھنے کے لیے ہمیں آمادہ کیا.ہاں اس شکر کے کسی قدر پادری عماد الدین صاحب بھی حصہ دار ہیں جنہوں نے ترجمہ قرآن شریف لکھ کر ہمیں اس بات کے لیے توجہ دی کہ تاہم ان پر ظاہر کریں کہ تفسیر لکھنا اس کو کہتے ہیں.افسوس که پادری عماد الدین صاحب نے اپنی بے اصل تالیفات میں عمر ہی ضائع کی.اب چاہیے کہ اس تفسیر کو خرید کر کے بہت محبت اور پیار سے پڑھیں.بلکہ ہم پادری ٹھاکر داس صاحب اور پادری صفدر علی صاحب اور ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب اور پادری طامس ہاول صاحب اور اس تفسیر کے اصل موجب پادری فتح مسیح صاحب کو بھی صلاح دیتے ہیں کہ وہ ضرور اس تفسیر مقدس کو اس کے چھپنے کے بعد منگوا ئیں اور خدائے تعالیٰ سے دُعا مانگ کر غور سے پڑھیں کہ وہ بلاشبہ ان کو ایک سچے معلم کی طرح رُوح اور راستی کا سبق دے گی اور بہت سی تاریکیوں سے نکال دے گی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ۲۶ جنوری ۱۸۹۶ء المشتهر خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور یہ اشتہار " کے ایک صفحہ پر درج ہے) تبلیغ رسالت جلد ۵ صفحه ۱۳ تا ۱۵) مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان شیخ بطال محمد حسین بطالوی جو اہل قبلہ کو کافر کہنے سے باز نہیں آتا.اب اس تفسیر کے شائع ہونے سے پہلے اسی انجیل کی تفسیر لکھے تا اس کی علمی اور ایمانی قوت معلوم ہو.ورنہ ایسی لیاقت قابل شرم ہے جیسا کہ اس نے عیسائیوں کے مباحثہ کی نسبت ہمارے پندرہ دن فی البدیہ تقریر پر ہماری ہی باتیں چورا چورا کر ڈھائی برس میں گھر میں بیٹھ کر نکتہ چینی کا مضمون طیار کیا اور مر مر کر اور دوسروں سے مدد لے کر ہمارے پندرہ دن کی جگہ میں مہینے خرچ کئے.منہ

Page 134

مجموعہ اشتہارات ۱۱۸ ۱۵۲ جلد دوم دو عیسائیوں میں محاکمہ انجیل متی ۵ باب میں ہے کہ ”تم سن چکے ہو کہ کہا گیا.آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا.اس تعلیم پر ایک صاحب خیر الدین نام عیسائی نے ڈرتے ڈرتے اعتراض کیا ہے کہ ایسے احکام اس طبعی قانون خود حفاظتی کے برخلاف ہیں جو جمیع حیوانات بلکہ پرندوں اور کیڑوں میں بھی نظر آ رہا ہے اور ثابت نہیں ہوسکتا کہ کسی زمانہ میں باستثناء ذات مسیح کے ان احکام پر کسی شخص نے عمل بھی کیا ہے.چنانچہ یہ سوال ان کا نور افشاں ۲۰/ دسمبر ۱۸۹۵ء میں درج ہو چکا ہے.در حقیقت یہ سوال خیر الدین صاحب کا نہایت عمدہ اور کامل اور ناقص تعلیم کے لیے ایک معیار تھا.مگر افسوس کہ پرچہ نور افشاں ۳/ جنوری ۱۸۹۶ء میں پادری ٹھاکر داس صاحب نے اس قابل قدر اور بیش قیمت سوال کا ایسا نکما اور بیہودہ جواب دیا ہے جس سے ایک محقق طبع انسان کو ضرور ہنسی آئے گی.اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ سوال اور جواب کی کچھ حقیقت محاکمہ کے طور پر ظاہر کر کے اُن لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں جو حقیقی سچائیوں کے بھوکے اور پیاسے ہیں.واضح ہو کہ پادری ٹھا کر داس صاحب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انجیل میں جانی یا مالی ضرر کی حالت میں ترک مقابلہ کے یہ معنی ہیں کہ ظالم سے انتقام حکومت ہی لیوے آپ مقابلہ نہ کریں.مطلب یہ کہ اگر کوئی ظالم کسی جان کو ضر ر شدید پہنچا د یوے یا مال کو لے لیوے تو انجیل کا منشاء یہ ہے کہ بتوسط حاکم چارہ جوئی کی جائے.اب غور سے سوچنا چاہیے کہ انجیل متی کی اصل عبارت جس کے یہ معنی کئے گئے ہیں یہ ہے کہ تم سن چکے ہو کہ کہا گیا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت پر

Page 135

مجموعہ اشتہارات ۱۱۹ جلد دوم میں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا.اس جگہ غور طلب یہ امر ہے کہ ترک مقابلہ کے کیا معنی ہیں؟ کیا صرف یہی کہ اگر کوئی ظالم آنکھ پھوڑ دے، یا دانت نکال دے تو بتوسط حکام اس کو سزا دلانی چاہیے.خود بخود اس کی آنکھ نہیں پھوڑنی چاہیے اور نہ دانت نکالنا چاہیے.اگر یہی معنی ہیں تو تو ربیت پر زیادت کیا ہوگی.کیونکہ تو ریت بھی تو یہی ہدایت دیتی ہے کہ ظالموں کو قاضیوں کی معرفت سزا ملے.خروج ۲۱ باب میں خدا موسیٰ کو کہتا ہے کہ تو جان کے بدلے جان لے اور آنکھ کے بدلے آنکھ ، دانت کے بدلے دانت.اور توریت بتلا رہی ہے کہ یہ تمام سزائیں قاضیوں کی تجویز کے موافق عمل میں آویں.مگر پادری ٹھا کر داس صاحب کہتے ہیں کہ انجیل کی تعلیم میں توریت پر یہ زیادت ہے کہ ایک مظلوم حکام کی معرفت انتقام لیوے.یعنی یہودیوں کو تو اختیار تھا کہ ظالم کو بغیر توسط حکام کے خود سزا دے دیں.مگر انجیل نے قاضیوں اور حاکموں کے سوا کسی کو سزا دینے کے لیے مجاز قرار نہیں دیا.گویا قاضیوں کے عہدے تجویز کرنے والی انجیل ہی ہے.توریت میں اس کا کچھ ذکر نہیں.مگر ظاہر ہے کہ ایسا خیال صریح خلاف واقعہ ہے اور پادری صاحب نے بھی کوئی ایسی آیت توریت کی پیش نہیں کی جس سے یہ سمجھا جائے کہ توریت ہر ایک کو سزا دینے کا اختیار دیتی ہے.بلکہ یہ بات تو ہر ایک توریت پڑھنے والے کو معلوم ہے کہ توریت کی تمام سزائیں اور حدود قاضیوں کی معرفت عمل میں آتی تھیں.اور جرائم کی پاداش کا توریت میں بھی انتظام تھا کہ قاضیوں کے ذریعہ سے ہر ایک مجرم سزا پاوے.اور اگر اس تقریر سے پادری صاحب کا یہ مطلب ہے کہ گو توریت میں قاضیوں کے ذریعہ سے سزائیں تو ہوتی تھیں مگر خود حفاظتی کے لیے جس قدر مقابلہ کی ضرورت تھی یہودی لوگ اس مقابلہ کے لیے مجاز تھے.اب انجیل میں کمال یہ ہے کہ عیسائی اس مقابلہ کے لیے مجاز نہیں ہیں بلکہ حکم ہے کہ ظالم کا منشاء پورا ہونے دیں.مثلاً اگر کوئی ظالم ایک عیسائی کی آنکھ پھوڑنا چاہے تو عیسائی کو چاہیے کہ بخوشی اس کو پھوڑنے دے اور پھر کا نایا اندھا ہونے کے بعد عدالت میں جا کر نالش کر دے.تو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ یہ کس قسم کی اخلاقی تعلیم ہے اور ایسے اخلاق سے نفسانی جذبات پر کسی قسم کا اثر پڑے گا.بلکہ ایسا انسان نہایت بد بخت انسان ہے کہ اپنی آنکھ ناحق ضائع کرا کر پھر صبر نہ کر سکا اور اپنی قوت انتقام کو حکام کے ذریعہ سے ایسے وقت میں عمل میں لایا جو اس کو کچھ نفع نہیں دے سکتا تھا.ایسے عیسائی سے تو یہودی ہی

Page 136

مجموعہ اشتہارات ۱۲۰ جلد دوم اچھا رہا جس نے خود حفاظتی کو کام میں لا کر اپنی آنکھ کو بچالیا.شاید پادری ٹھا کر داس صاحب یہ کہیں کہ ترک مقابلہ اس حالت میں ہے جبکہ کوئی شخص تھوڑی تکلیف پہنچانا چاہے لیکن اگر سچ مچ آنکھ پھوڑ نے یا دانت نکالنے کا ارادہ کرے تو پھر خود حفاظتی کے لیے مقابلہ کرنا چاہیے.تو یہ خیال پادری صاحب کا انجیل کی تعلیم کے مخالف ہوگا.متی باب ۵ آیت ۳۸ میں صریح یہ عبارت ہے کہ تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.۳۹.پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تیری دا ہنی گال پر طمانچہ مارے دوسری بھی اس کی طرف پھیر دے.اور ظاہر ہے کہ اگر کسی کے منہ پر ایک زور آور کے ہاتھ سے ظالمانہ ارادہ سے ایک زور کا طمانچہ لگے تو اس ایک ہی طمانچہ سے دانت بھی نکل سکتے ہیں.اور آنکھ بھی پھوٹ سکتی ہے اور یسوع صاحب فرماتے ہیں کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دے تو اس سے ان کا بھی یہی مطلب معلوم ہوتا ہے کہ تا دوسری طرف کے بھی دانت نکلیں اور آنکھ بھی پھوٹے اور اندھا ہو جائے نہ صرف کا نار ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ دشمن ظالم کا پُرزور طمانچہ مادر مہربان کے طمانچہ کی طرح نہیں ہوگا بلکہ وہ تو ایک ہی طمانچہ سے ایک ہی ضرب سے دانت بھی نکال ڈالے گا اور آنکھ بھی.پس اس تعلیم سے تو یہی ثابت ہوا کہ اگر بچے عیسائی ہو تو دانت اور آنکھ نکالنے دواور مقابلہ نہ کرو.اور اپنی آنکھ اور دانت کومت بچاؤ.سو اس وقت وہی اعتراض انجیل پر ہوگا جو خیرالدین صاحب نے پیش کیا ہے.اور اس آیت کا یہ بھی مطلب ہے کہ اگر کوئی ظالم تمہاری آنکھ نکال دے یا دانت توڑ دے تو یہ کوشش بھی مت کرو کہ اس کی آنکھ بھی پھوڑی جائے یا اس کا دانت بھی نکال دیا جائے.یعنی نہ آپ انتقام لو اور نہ حکام کے ذریعہ سے انتقام کی خواہش کرو.کیونکہ اگر انتقام ہی لینا ہے تو پھر ایسی تعلیم کو توریت پر کیا فوقیت ہے.آپ سزا دینا یا حکام سے سزا دلوانا ایک ہی بات ہے.اور اگر کوئی عیسائی کسی ظالم کو حکام کے ذریعہ سے سزا دلائے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ توریت بھی تو ایسے موقعہ پر یہ اجازت نہیں دیتی کہ ایسے مجرم کی شخص مظلوم آپ ہی آنکھ پھوڑ دے یا دانت نکال دے بلکہ ہدایت کرتی ہے کہ ایسا شخص حکام کے ذریعہ سے چارہ جوئی کرے.پس اس صورت میں مسیح کی تعلیم میں کون سی زیادتی ہوئی.یہ تعلیم تو پہلے ہی سے توریت میں موجود تھی.اس جگہ ہم صفائی بیان کے لیے پادری صاحب سے دریافت کرتے ہیں کہ اگر مثلاً کسی موقعہ پر

Page 137

مجموعہ اشتہارات ۱۲۱ جلد دوم کوئی ایسا اتفاق ہو جائے کہ کوئی ظالم آپ کی آنکھ پھوڑ دے یا آپ کا ایک دانت نکال دے تو انجیل کی رُو سے آپ ایسے ظالم سے کس طرح پیش آئیں گے.اگر کہو کہ اس وقت ہم بدی کا بدی کے ساتھ مقابلہ نہیں کریں گے مگر عدالت کے ذریعہ سے انتقام لیں گے تو یہ کارروائی انجیلی تعلیم کا ہرگز منشا نہیں ہے کیونکہ اگر آنکھ کے بدلے ضرور آنکھ کو پھوڑنا ہے اور کسی قاضی یا حاکم کی طرف رجوع کرنا ہے تو یہ توریت کی تعلیم ہے جو آپ کے یسوع صاحب کے وجود سے بھی پہلے بنی اسرائیل میں رائج تھی اور اب بھی کمزور اور ضعیف لوگ کب شریروں کا مقابلہ کرتے ہیں.وہ بھی تو فوجداری اور مالی مقدمات میں عدالتوں کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں.مگر متی کے پانچ باب میں جس طرز بیان کو آپ کے یسوع صاحب نے اختیار کیا ہے یعنی توریت کے احکام پیش کر کے جابجا کہا ہے کہ اگلوں سے یہ کہا گیا ہے مگر میں تمہیں یہ کہتا ہوں اس طرز سے صاف طور پر اُن کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ وہ توریت کی تعلیم سے کچھ علاوہ بیان کرنا چاہتے ہیں.پھر اگر مقام متنازعہ فیہ میں تو ربیت سے زیادہ کوئی بات نہیں بلکہ جیسا کہ ایک یہودی کسی ظالم کے ہاتھ سے ظلم اُٹھا کر عدالت سے چارہ جوئی کرنا چاہتا ہے یہی انجیل کی بھی تعلیم ہے تو پھر مسیح کا یہ دعویٰ کہ پہلی کتاب میں تو یہ کہا گیا ہے مگر میں یہ کہتا ہوں محض لغو ٹھہرتا ہے سوال تو یہ ہے کہ مسیح نے جو توریت کی تعلیم آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت بیان کر کے پھر اپنی ایک نئی تعلیم بتلائی جو اس سے بہتر ہے وہ کیا ہے.اب جبکہ نئی تعلیم کو ئی بھی ثابت نہ ہوسکی.تو یہ کہنا پڑے گا کہ مسیح نے صرف دھوکہ دیا ہے اور پادری ٹھا کر داس صاحب یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے یسوع صاحب کا ظالم کے مقابلہ سے اپنے چیلوں کو منع کرنا صرف چھوٹی چھوٹی باتوں تک محدود ہے اور کہتے ہیں کہ ترک مقابلہ سے یہ مطلب ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں جیسے کہ مثلاً گال پر طمانچہ کھانا بدلہ لینے کا محل نہیں ہے بلکہ ایسی حالتوں میں برداشت کرنا فرض ہے.مگر وہ اپنے اس بیان سے ثابت کرتے ہیں کہ انجیل کی منشا سے وہ کیسے نا واقف ہیں.اے صاحب آپ نے کہاں سے اور کس سے سُن لیا کہ ظالم کا منہ پر طمانچہ مارنا چھوٹی چھوٹی باتوں میں داخل ہے.شاید اب تک آپ نے کسی زبر دست کا طمانچہ نہیں کھایا افسوس کہ موسیٰ کا طمانچہ بھی آپ کو یاد نہ رہا کہ اس کا کیا نتیجہ تھا.اگر اس

Page 138

مجموعہ اشتہارات ۱۲۲ جلد دوم جگہ طمانچہ سے صرف ایک پیار اور محبت کا طمانچہ ہے جس میں آنکھ یا دانت کے نکلنے کا خطرہ نہیں تو آپ کے ٹیٹوع صاحب ایک نادان اور ژولیدہ زبان ٹھہریں گے جن کا کلام غیر منظم اور پریشان ہے کہ تعلیمی مقابلہ دکھلانے کے وقت آنکھ اور دانت کے مقابل پر گال کے طمانچہ کا ذکر کرتے ہیں جو محض ایک بے تعلق امر ہے.ظاہر ہے کہ اگر گال کے طمانچہ میں آنکھ اور دانت کا ذکر کچھ بھی ملحوظ نہیں تو یہ عبارت سخت بے جوڑ اور منقطع ہوگی.اور سابق اور لاحق کا کچھ بھی باہم ربط نہ ہوگا.اگر یسوع صاحب کا وہی منشاء تھا جو پادری صاحب نے سمجھا ہے تو یوں کہنا چاہیے تھا کہ تم سن چکے ہو کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت مگر میں تمہیں کہتا ہوں کہ آنکھ اور دانت کے عوض میں تو تم ظالم کا مقابلہ کرو لیکن اگر کوئی ہلکا ساطمانچہ مارے جس سے نہ آنکھ پھوٹے اور نہ دانت نکلے تو اس کی برداشت کرلو.مگر آپ کے یسوع صاحب نے ایسا نہیں کہا بلکہ انہوں نے تو آنکھ اور دانت کا ذکر کر کے پھر اپنی تعلیم کی فوقیت دکھلانے کے لیے ایسے عضو کا ذکر کیا جس پر ایک زور کا طمانچہ لگنے سے آنکھ اور دانت دونوں نکل سکتے ہیں.ظاہر ہے کہ ایک نبی کا کلام بے ربط اور دیوانوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے.آپ جانتے ہیں کہ یسوع صاحب کا مدعا تو یہی تھا کہ موسیٰ کی کتاب میں آنکھ نکالنے کی سزا آنکھ لکھی ہے مگر میری تعلیم اخلاقی صورت میں اس سے بڑھ کر ہے.پس اگر یسوع صاحب کے قول کے اس جگہ وہ معنی کئے جائیں جن سے موسیٰ اور یسوع کی تعلیم ایک ہی بن جائے تو پھر اُن کا وہ اصل مقصد جو اخلاقی تعلیم کا زیادہ نمونہ دکھلانا ہے بالکل فوت ہو جاتا ہے.ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کی توریت میں کسی جگہ یہ نہیں لکھا کہ تم ہلکے ہلکے طمانچے کھا کر ان کے عوض بھی طمانچے مارا کرو اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں مقدمے بناؤ.بلکہ توریت میں صرف ایسی باتوں کو قانونِ قصاص میں داخل کیا ہے جن کو ایک متوسط العقل آدمی مواخذہ کے لائق سمجھتا ہے جیسے آنکھ پھوڑنا، دانت نکالنا، جان سے مارنا وغیرہ وغیرہ.کیونکہ اگر ایسے ایسے شدید حملوں کو نہ روکا جائے تو بنی آدم کی زندگی ایک دن بھی ممکن نہیں.یہ نہیں کہ اگر کوئی ذرہ جسم پر انگلی بھی لگادے تو اس پر بھی مقابلہ کے طور پر انگلی لگا دینی چاہیے.یہ تو وحشیانہ حرکات ہیں اور نبیوں کی تعلیمیں ایسی رذیلانہ مقابلہ کی ہرگز رغبت نہیں دیتیں کہ جس میں اخلاقی حالت کا بالکل ستیا ناس ہو جائے اور

Page 139

مجموعہ اشتہارات ۱۲۳ جلد دوم ہے.انسان ان نادان بچوں کی طرح بن جائے تو ذرہ ذرہ سی بات میں ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں لیے پھر پادری ٹھا کر داس صاحب نے جب دیکھا کہ انجیل کی یکطرفہ تعلیم پر درحقیقت عقل اور قانونِ قدرت کا سخت اعتراض ہے تو ناچار ایک غرق ہونے والے کی طرح قرآن شریف کو ہاتھ مارا ہے تا کوئی سہارا ملے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ قرآن جیسی کتاب میں بھی اس کے یعنی اس انجیل کے حکم کی تعریف کی گئی ہے.اور پھر ایک آیت کا غلط ترجمہ پیش کرتے ہیں کہ اگر بدلہ دو تو اس قدر بدلہ دو جس قدر تمہیں تکلیف پہنچے اور اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے اور اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ گویا یہ انجیلی تعلیم کے موافق ہے.مگر یہ کچھ تو اُن کی غلطی اور کچھ شرارت بھی ، غلطی اس وجہ سے کہ یہ لوگ علم عربیت سے محض ناواقف اور بے بہرہ ہیں.اس لیے ان کو کچھ بھی استعداد نہیں کہ قرآن کے الفاظ سے اس کے صحیح معنی سمجھ سکیں اور شرارت یہ کہ آیت صریح بتلا رہی ہے کہ اس میں انجیل کی طرح صرف ایک ہی پہلو در گذر اور عفو پر زور نہیں دیا گیا بلکہ انتظام کو توحکم کے طور پر بیان کیا گیا ہے.اور عفو کی جگہ صبر کا لفظ ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے جو سزاد ینے میں جلدی نہیں چاہیے اور عفو کر نے کے لیے کوئی حکم نہیں دیا.مگر پھر بھی پادری ٹھا کر داس صاحب نے دانستہ اپنی آنکھ کو بند کر کے خواہ نخواہ قرآن شریف کی کامل تعلیم کو انجیل کی ناقص اور کمی تعلیم کے ساتھ مشابہت دینا چاہا ہے.لے حاشیہ.یہ کلمہ کہ قرآن جیسی کتاب میں بھی ایک تحقیر کا کلمہ ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کی بزرگ اور مقدس کتاب کی نسبت پادری صاحب نے استعمال کیا ہے.ہمیں بڑا تعجب ہے کہ یہ مُردہ پرست قوم اللہ جل شانہ کے پاک کلاس سے اس قدر کیوں بغض رکھتی ہے.منہ ے نوٹ یہ بے علمی کی شامت ہے کہ ار جنوری ۱۸۹۶ء پر چہ نور فشاں میں کسی نادان عیسائی نے اپنے یسوع کو مصداق قول الفَقْرُ فَخْرِی کا ٹھہرایا ہے.سو انہیں یا در ہے کہ فقر قابل تحسین وہ ہے جس میں صاحب فقر کی سخاوت اور ایثار کا ثبوت ملے یعنی اس کو دنیا دی جائے مگر وہ دنیا کے مال کو دنیا کے محتاجوں کو دے دے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہ لکھوکھہا روپیہ پایا اور محتاجوں کو دے دیا.ایک مرتبہ ایک کافر کو اونٹوں اور بکریوں کا پہاڑ بھرا ہوا بخش دیا.آپ کے یسوع کا کسی محتاج کو ایک روٹی دینا بھی ثابت نہیں.سو یسوع نے دنیا کو نہیں چھوڑا بلکہ دنیا نے یسوع کو چھوڑا.ان کو کب مال ملا جس کو لے کر انہوں نے محتاجوں کو دے دیا.وہ تو خود بار بار روتے ہیں کہ میرے لیے سر رکھنے کی جگہ نہیں.ایسے فقر کے رنگ میں تو دنیا میں ہزار ہالنگوٹی پوش موجود ہیں جن کو داؤد نبی نے مور د غضب الہی قرار دیا ہے.اور ایسے فقر کے لیے یہ حدیث ہے.اَلفَقْرُ سَوَادُ الْوَجْهِ فِي الدَّارَيْنِ مِنه

Page 140

۱۲۴ جلد دوم مجموعہ اشتہارات ناظرین یا درکھیں کہ قرآن شریف کی آیت جس کا غلط ترجمہ ٹھا کر داس صاحب نے پیش کیا ہے، یہ ہے.وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ، وَلَبِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصُّبِرِينَ لا یعنی اگر تم ایزا کے بدلے ایذا دو تو اسی قدر دو جس قدر تم کو ایذا دیا گیا اور اگر تم صبر کرو تو صبر کرنا ان کے لیے بہتر ہے جو سزا دینے میں دلیر ہیں اور اندازہ اور حد سے گذر جاتے ہیں اور بد رفتار ہیں یعنی محل اور موقعہ کو شناخت نہیں کر سکتے.لِلصَّابِرِينَ میں جو صبر کا لفظ ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ بے تحقیق اور بے محل سزا دینا اسی وجہ سے آیت میں خدا تعالیٰ نے یہ نہ فرمایا لَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ بلکہ فرمایا لَهُوَ خَيْ لِلصَّبِرِينَ تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اس جگہ لفظ صبر کے وہ معنی نہیں جو پہلے لفظ میں ہیں.اور اگر وہی معنی ہوتے ، تو بجائے لَكُمْ کے لِلصَّابِرِينَ رکھنا بے معنی اور بلاغت کے برخلاف ہوتا.لغت عرب میں جیسا کہ صبر روکنے کو کہتے ہیں.ایسا ہی بیجا دلیری اور بدرفتاری اور بے تحقیق کسی کام کرنے کو کہتے ہیں.اب ناظرین سوچ لیں کہ اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ ہر ایک مومن پر یہ بات فرض کی گئی ہے کہ وہ اسی قدر انتقام لے جس قدر اس کو دُکھ دیا گیا ہے، لیکن اگر وہ صبر کرے یعنی سزا دینے میں جلدی نہ کرے تو ان لوگوں کے لیے صبر بہتر ہے جن کی عادت چالا کی اور بد رفتاری اور بد استعمالی ہے یعنی جو لوگ اپنے محل پر سزا نہیں دیتے بلکہ ایسے لوگوں سے بھی انتقام لیتے ہیں کہ اگر اُن سے احسان کیا جائے تو وہ اصلاح پذیر ہو جائیں یا سزا دینے میں ایسی جلدی کرتے ہیں کہ بغیر اس کے جو پوری تحقیق اور تفتیش کریں ایک بے گناہ کو بلا میں گرفتار کر دیتے ہیں.اُن کو چاہیے کہ صبر کریں یعنی سزا دینے کی طرف جلدی نہ دوڑیں.اول خوب تحقیق اور تفتیش کریں اور خوب سوچ لیں کہ سزا دینے کا محل اور موقعہ بھی ہے یا نہیں.پھراگر موقعہ ہو تو دیں ورنہ رُک جائیں.اور یہ مضمون صرف اسی آیت میں نہیں بیان کیا گیا بلکہ قرآن شریف کی اور کئی آیتوں میں بھی بیان ہے.چنانچہ ایک جگہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے جَزْؤُا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ لَے یعنی بدی کی سزا اسی النحل : ۱۲۷ الشورى: ۴۱

Page 141

مجموعہ اشتہارات ۱۲۵ جلد دوم قدر بدی ہے لیکن جو شخص عفو کرے اور ایسی عفو ہو کہ اس سے کوئی اصلاح مقصود ہو تو وہ خدا سے اپنا اجر پائے گا یعنی بے محل اور بے موقع عفونہ ہو جس سے کوئی بد نتیجہ نکلے اورکوئی فساد پیدا ہو بلکہ ایسے موقعہ پر عفو ہو جس سے کسی صلاحیت کی اُمید ہو اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بنی آدم کی طبیعتیں یکساں واقع نہیں ہوئیں اور گناہ کرنے والوں کی عادتیں اور استعداد میں ایک طور کی نہیں ہوا کرتیں بلکہ بعض تو سزا کے لائق ہوتے ہیں اور بغیر سزا کے ان کی اصلاح ممکن نہیں اور بعض عفو اور درگذر سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور سزا دینے سے جوڑ کر اور بھی بدی پر مستحکم ہو جاتے ہیں.غرض یہ تعلیم وقت اور موقعہ بینی کی قرآن شریف میں جا بجاپائی جاتی ہے اگر ہم تفصیل سے لکھیں تو ایک بڑا رسالہ بن جاتا ہے.یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جیسا کہ توریت میں آیا ہے کہ ”خدا سینا سے آیا اور شعیر سے طلوع کیا اور فاران کے پہاڑ سے ان پر چکا.اسی طرح حقیقی چمک ہر ایک تعلیم کی اسلام سے پیدا ہوئی ہے.خدا کے کام اور خدا کی کلام کا کامل معانقہ قرآن نے ہی کرایا ہے.توریت نے سزاؤں پر زور دیا تھا اور چونکہ انجیل ایسے وقت میں نازل ہوئی جبکہ یہود میں انتقام کشی کی عادتیں اور کینہ اور بغض حد سے بڑھ گیا تھا اس لیے انجیل میں عفو اور در گذر کی تعلیم ہوئی.مگر یہ تعلیم نفس الامر میں عمدہ نہ تھی بلکہ نظام الہی کی دشمن تھی.لہذا حقیقی تعلیم کا تلاش کرنے والا انجیل کی تعلیم پر بہت ہی شک کرے گا اور ممکن ہے کہ ایسے معلم کو ایک نادان اور سادہ لوح قرار دے.چنانچہ یورپ کے محققوں نے ایسا ہی کہا، مگر یادر ہے کہ اگر چہ انہیں کی تعلیم بالکل لکھی اور سراسر کی ہے لیکن حضرت مسیح اس وجہ سے معذور ہیں کہ انجیل کی تعلیم ایک قانون دائمی اور مستمر کی طرح نہیں تھی بلکہ ایک محدودا یکٹ کی طرح تھی جو محض مختص المقام اور مختص الزمان اور مختص القوم ہوتا ہے.یورپ کے وہ روشن دماغ محقق جنہوں نے یسوع کو نہایت درجہ کا نا دان اور سادہ لوح اور علم وحکمت سے بے بہرہ قرار دیا ہے.اگر وہ اس عذر پر اطلاع اے حاشیہ.فاران عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں دو بھاگنے والے اور مصدر اس کا فرار ہے.چونکہ حضرت اسمعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ مطہرہ صدیقہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا سارہ کی بدخوئی اور ظلم کے ہاتھ سے تنگ آکر الہام الہی سے مکہ معظمہ کی زمین میں بھاگ آئے اس لیے اس زمین کا نام فاران ہوا یعنی دو بھاگنے والے.منہ

Page 142

مجموعہ اشتہارات جلد دوم پاتے تو یقین تھا کہ وہ اپنی تحریروں میں کچھ نرمی کرتے لیکن مخلوق پرست لوگوں نے اور بھی اہلِ تحقیق کو بیزار کیا.عزیز و یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ اس زمانہ کے محقق اور آزاد طبیعت ایک مردہ خوار کو ایسا بُرا اور قابل لعن وطعن اور حقیر نہیں سمجھتے جیسا کہ ایک مُردہ پرست مشرک کو.غرض انجیل کی ناقص اور لکھی اور بیہودہ تعلیم اگر چہ اہلِ تحقیق کے نزدیک نہایت ہی بدبو دار اور قابل نفرت ہے، لیکن چونکہ اُس وقت کے یہود بھی ایک رگری ہوئی حالت میں تھے اور خدائے تعالیٰ جانتا تھا کہ اس تعلیم کو جلد تر نیست و نابود کیا جائے گا.لہذا ایک مختصر زمانہ کے لیے جو چھ سو برس سے زیادہ نہ تھا یہ تعلیم یہودیوں کو دی گئی.مگر چونکہ فی الواقع حق اور حکمت پر مبنی نہیں تھی اس لیے خدائے تعالیٰ کی کامل کتاب نے جلد نزول فرما کر دُنیا کو اس بیہودہ تعلیم سے نجات بخشی.یہ بات نہایت بدیہی اور صاف ہے کہ انسان اس دُنیا میں بہت سے قومی لے کر آیا ہے اور تمام حیوانات کے متفرق قویٰ کا مجموعہ انسان میں پایا جاتا ہے اس لیے وہ دوسروں کا سردار بنایا گیا.پس انسان کی تکمیل کے لیے وہی تعلیم حقیقی تعلیم ہے جو اس کی تمام قوتوں کی تربیت کرے نہ کہ اور تمام شاخوں کو کاٹ کر صاف ایک ہی شاخ پر زور ڈال دے.تعلیم سے مطلب تو یہ ہے کہ انسان اپنی تمام قوتوں کو حد اعتدال پر چلا کر حقیقی طور پر انسان بن جائے اور اس کی تمام قوتیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر کامل عبودیت کے ساتھ سر رکھ دیں اور اپنے اپنے محل اور موقعہ پر چلیں.اور ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ انسان میں کوئی قوت بُری نہیں.صرف اُن کی بد استعمالی بُری ہے.مثلاً حسد کی قوت کو بہت ہی بُرا سمجھا جاتا ہے.کیونکہ ایک حاسد دوسرے کی نعمت کا زوال چاہتا ہے اور وہ نعمت اپنے لیے پسند کرتا ہے لیکن در حقیقت غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ حسد کا اصل مفہوم پر انہیں.کیونکہ اصل مفہوم اس قوت کا جو بد استعمالی سے بُری شکل پیدا کر لیتا ہے صرف اس قدر ہے کہ سب سے بڑھ کر آگے قدم رکھے اور اچھی باتوں میں سب سے سبقت لے جائے اور پیش قدمی کا ایسا جوش ہو جو کسی کو اپنے برابر دیکھ نہ سکے.پس چونکہ حاسد میں سبقت کرنے کا مادہ جوش مارتا ہے لہذا ایک شخص کو ایک نعمت میں دیکھ کر یہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت میرے لیے ہو اور اس سے دُور ہو جائے تا اس طرح پر اس کو سبقت حاصل ہو.سو یہ اس پاک

Page 143

مجموعہ اشتہارات ۱۲۷ جلد دوم قوت کی بد استعمالی ہے.ورنہ مجرد سبقت کا جوش اپنے اندر بُرا نہیں ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ لا یعنی خیر اور بھلائی کی ہر ایک قسم میں سبقت کرو اور زور مار کر سب سے آگے چلو.سو جو شخص نیک وسائل سے خیر میں سبقت کرنا چاہتا ہے وہ درحقیقت حسد کے مفہوم کو پاک صورت میں اپنے اندر رکھتا ہے.اسی طرح تمام اخلاق رذیلہ اخلاق فاضلہ کی مسخ شدہ صورتیں ہیں.خدا تعالیٰ نے انسان میں تمام نیک قوتیں پیدا کیں.پھر بد استعمالی سے وہ بدنما ہو گئیں.اسی طرح انتقام کی قوت بھی درحقیقت بُری نہیں ہے فقط اس کی بداستعمالی بُری ہے.اور انجیل نے جو انتظامی قوت کو بُرا اقرار دیا اگر وہ عذر ہمیں یاد نہ ہوتا جو ابھی ہم بھی لکھ چکے ہیں تو ہم ایسی تعلیم کو شیطانی تعلیم قرار دیتے.مگر اب کیونکر قرار دیں کیونکہ خود حضرت مسیح اپنی تعلیم کے علمی اور ناقص ہونے کا اقرار کر کے اپنے حواریوں کو کہتے ہیں کہ بہت سی باتیں ہیں کہ ابھی تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ تمام باتیں تمہیں سمجھا دے گا.“ یه اشارہ اسی بات کی طرف تھا کہ میری تعلیم لکھی اور ناقص ہے اور آنے والا نبی کامل تعلیم لائے گا.عیسائیوں کا یہ عذر بالکل جاہلانہ عذر ہے کہ یہ پیشگوئی اُس روز پوری ہوئی جب حواریوں نے طرح طرح کی زبانیں بولی تھیں.کیونکہ طرح طرح کی زبانیں بولنا کوئی نئی تعلیم نہیں ہوسکتی.وہ زبانیں تو عیسائیوں نے محفوظ بھی نہیں رکھیں بولنے کے ساتھ ہی معدوم ہوگئیں.ہاں اگر عیسائیوں کے ہاتھ میں کوئی ایسی نئی تعلیم ہے جو حضرت مسیح کے اقوال میں نہیں پائی جاتی تو اسے پیش کرنا چاہیے تادیکھا جائے کہ وہ اس عفو اور درگزر کی تعلیم کو کیونکر بدلاتی ہے.اگر عیسائیوں میں انصاف ہوتا تو حضرت مسیح کا اپنی تعلیم کو ناقص قرار دینا اور ایک آنے والے نبی کی اُمید دلانا ہمارے مولیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت کے لیے بڑا قرینہ تھا خصوصاً اس حالت میں کہ خود انجیل کی ناقص تعلیم ایک کامل کتاب کو چاہتی تھی.پھر ایک یہ بھی بڑا قرینہ تھا کہ البقرة : ١٤٩

Page 144

مجموعہ اشتہارات ۱۲۸ جلد دوم حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ تم میں ان باتوں کی برداشت نہیں.اس میں صریح اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تمہاری استعدادیں اور تمہاری فطرتیں اس تعلیم کے مخالف پڑی ہیں.پھر جبکہ فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں اور نہ حضرت مسیح کے وقت میں وہ فطرتیں مبدل ہوسکیں تو پھر کسی دوسرے وقت میں ان کی تبدیلی کیونکر ممکن ہے.پس یہ صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ تعلیم تمہیں نہیں دی جائے گی بلکہ تمہاری ذریت اس تعلیم کا زمانہ پائے گی اور ان کو وہ استعداد میں دی جائیں گی جو تمہیں نہیں دی گئیں.یہ تو ہم نے پادری ٹھا کر داس صاحب کی نسبت وہ باتیں لکھی ہیں جن کا انصاف کی رُو سے لکھنا مناسب تھا لیکن خیر الدین صاحب کی یہ غلطی ہے کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ یسوع انجیلی تعلیم کا پابند تھا.انہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر یسوع اس کی تعلیم کا پابند ہوتا تو فقیہوں فریسیوں کو بد زبانی سے پیش نہ آتا.یسوع کے ہاتھ میں صرف زبان تھی سو خوب چلائی.کسی کو حرامکار کسی کو سانپ کا بچہ کسی کوست اعتقاد قرار دیا.اگر کچھ اختیار ہوتا تو خدا جانے کیا کرتا.ہم اُس کے حلم اور عفو کے بغیر امتحان کے کیونکر قائل ہو جائیں اور کیوں یہ بات سچ نہیں کہ ستر بی بی از بیچادری“ کہاں یسوع کو یہ موقعہ ملا کہ وہ یہود کے سزا دینے پر قادر ہوتا اور پھر در گذر کرتا.ہاں یہ اخلاق فاضلہ ہمارے سید ومولی افضل الانبیاء و خیر الاصفیاء محمد مصطفیٰ خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت ہیں کہ آپ نے جب مکہ والوں پر فتح پائی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ستایا تھا اور صد ہا ناحق کے خون کئے تھے، اور یقین رکھتے تھے کہ ہم اپنی خونریزیوں کے عوض ٹکڑے ٹکڑے کئے جاویں گے اُن سب کو بخش دیا اور کہا کہ جاؤ میں نے سب کو آزاد کر دیا.عیسائیوں کی اگر نیک قسمت ہے تو اب بھی اس آفتاب صداقت کو شناخت کریں اور مُردہ پرستی سے باز آئیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى یہ اشتہار ۲۳ کے ۸ صفحوں پر درج ہے ) غلام احمد قادیانی تبلیغ رسالت جلد ۵ صفحه ۶۶ تا ۷۷) مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان

Page 145

مجموعہ اشتہارات ۱۲۹ جلد دوم یہ وہ رسالہ ہے جس کا نام (۱۵۳) خدا کا فیصلہ ہے بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پنجاب اور ہندوستان کے تمام پادری صاحبوں کے لئے ایک احسن طریق فیصلہ عیسائی صاحبوں کا یہ اعتقاد ہے کہ جولوگ تثلیث کا عقیدہ اور یسوع کا کفارہ نہیں مانتے وہ ہمیشہ کے جہنم میں ڈالے جائیں گے.اور وہ اعتقاد جو خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے مسلمانوں کو سکھایا ہے وہ یہ ہے کہ بجز تو حید کے نجات نہیں.یہی تو حید ہے جس کی رو سے تمام دنیا سے مواخذہ ہو گا خواہ قرآن ان کو نہ پہنچا ہو کیونکہ یہ انسان کے دل میں فطرتی نقش ہے کہ اس کا خالق اور مالک اکیلا خدا ہے جس کے ساتھ کوئی شریک نہیں.اس توحید میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جو ز بر دستی منوانی پڑے کیونکہ انسانی دل کی بناوٹ کے ساتھ ہی اس کے نقوش انسان کے دل میں منقش کئے جاتے ہیں.مگر جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے غیر محدود خدا کو تین اقنوم میں یا چار اقنوم میں محدود کرنا اور پھر ہر ایک اقنوم کو کامل بھی سمجھنا اور ترکیب کا محتاج بھی اور پھر خدا پر یہ روا رکھنا کہ وہ ابتدا میں کلمہ تھا پھر وہی کلمہ جو خدا تھا مریم کے پیٹ میں پڑا اور اس کے خون سے مجسم ہوا اور معمولی راہ سے پیدا ہوا اور سارے دکھ خسرہ ، چیچک، دانتوں کی تکلیف جو انسان کو ہوتی ہیں سب اٹھائے آخر کو جوان ہو کر پکڑا گیا اور صلیب پر چڑھایا گیا.یہ نہایت گندہ شرک ہے جس میں انسان کو خدا ٹھہرایا گیا ہے خدا اس سے پاک ہے کہ وہ کسی کے پیٹ میں پڑے اور مجسم ہو اور دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہو.انسانی فطرت اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ خدا پر ایسے دکھ کی مار اور یہ مصیبتیں پڑیں اور وہ جو تمام عظمتوں کا مالک اور تمام عزتوں کا سرچشمہ ہے اپنے لئے یہ تمام ذلتیں روا رکھے عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ خدا کی اس رسوائی کا یہ پہلا ہی موقعہ ہے اور اس سے پہلے اس قسم کی ذلتیں خدا نے کبھی نہیں اٹھا ئیں.کبھی یہ امر

Page 146

مجموعہ اشتہارات جلد دوم وقوع میں نہیں آیا کہ خدا بھی انسان کی طرح کسی عورت کے رحم میں نطفہ میں مخلوط ہو کر قرار پکڑ گیا ہو.جیسے کہ لوگوں نے خدا کا نام سنا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ بھی انسان کی طرح کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو.یہ تمام وہ باتیں ہیں جن کا عیسائیوں کو خود اقرار ہے اور اس بات کا بھی اقرار ہے کہ گو پہلے یہ تین اقنوم تین جسم علیحدہ علیحدہ نہیں رکھتے تھے مگر اب اس خاص زمانہ سے جس کو اب ۱۸۹۶ برس جاتا ہے تینوں اقنوم کے لئے تین علیحدہ علیحدہ جسم مقرر ہو گئے باپ کی وہ شکل ہے جو آدم کی کیونکہ اس نے آدم کو اپنی شکل پر بنایا.دیکھو توریت پیدائش باب ۱ آیت ۲۷ اور بیٹا یسوع کی شکل پر مجسم ہوا دیکھو یوحنا بابا آیت اور روح القدس کبوتر کی شکل پر متشکل ہوا.دیکھو متی باب ۳ آیت ۱۶.اب جس نے عیسائیوں کے ان تینوں مجسم خداؤں کا درشن کرنا ہو اور ان کی جسمانی تثلیث کا نقشہ دیکھنا منظور ہو تو کچھ ضرور نہیں کہ ان کی طرف التجا لے جائے بلکہ جیسا کہ ہم نے کتاب ست بچن میں سکھ صاحبوں کے مخفی چولہ کی تمام گرو کے چیلوں کو زیارت کرادی ہے اسی طرح ہم یسوع کے شاگردوں کو بھی ان کے تین مجسم خداؤں کے درشن کرا دیتے ہیں اور ان کے سہ گوشہ نشینی خدا کو دکھا دیتے ہیں چاہیے کہ اس کے آگے جھکیں اور سیس نوازیں اور وہ یہ ہے جس کو ہم نے عیسائیوں کی شائع کردہ تصویروں سے لیا ہے.عیسائیوں کا مثلث خدا اور اس کے تین ممبران کمیٹی جو اقنوم کہلاتے ہیں.روح القد کبوتر کی شکل پر جم روح القدس آدم کی شکل پر جب باپ

Page 147

مجموعہ اشتہارات ۱۳۱ جلد دوم یہ تینوں مجسم خدا عیسائیوں کے زعم میں ہمیشہ کے لئے مجسم اور ہمیشہ کے لئے علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں اور پھر بھی یہ تینوں مل کر ایک خدا ہے لیکن اگر کوئی بتلا سکتا ہے تو ہمیں بتلاوے کہ باوجوداس دائی تجسم اور تغیر کے یہ تینوں ایک کیونکر ہیں.بھلا ہمیں کوئی ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عمادالدین اور پادری ٹھا کر داس کو باوجود ان کے علیحدہ علیحدہ جسم کے ایک کر کے تو دکھلاوے.ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ اگر تینوں کو کوٹ کر بھی بعض کا گوشت بعض کے ساتھ ملا دیا جاوے پھر بھی جن کو خدا نے تین بنایا تھا ہرگز ایک نہیں ہوسکیں گے.پھر جبکہ اس فانی جسم کے حیوان با وجود امکان تحلیل اور تفرق جسم کے ایک نہیں ہو سکتے پھر ایسے تین مجتم جن میں بموجب عقیدہ عیسائیاں تحلیل اور تفریق جائز نہیں کیونکر ایک ہو سکتے ہیں.یہ کہنا بے جانہیں ہوگا کہ عیسائیوں کے یہ تین خدا بطور تین ممبر کمیٹی کے ہیں اور بزعم ان کے تینوں کی اتفاق رائے سے ہر ایک حکم نافذ ہوتا ہے یا کثرت رائے پر فیصلہ ہو جاتا ہے گویا خدا کا کارخانہ بھی جمہوری سلطنت ہے اور گویا ان کے گاڈ صاحب کو بھی شخصی سلطنت کی لیاقت نہیں.تمام مدار کونسل پر ہے.غرض عیسائیوں کا یہ مرکب خدا ہے جس نے دیکھنا ہو دیکھ لے.پادری صاحبان ایسے خدا والے مذہب پر تو ناز کرتے ہیں لیکن اسلام جیسے مذہب کی جو ایسی خلاف عقل باتوں سے پاک ہے تو ہین اور تحقیر کر رہے ہیں اور دن رات یہی شغل ہے کہ اپنے دجالی فریبوں سے خدا کے پاک اور صادق نبی کو کا ذب ٹھہر اویں اور بُری بُری تصویروں میں اس نورانی شکل کو دکھلاویں.بعض پلید فطرت پادریوں نے اپنی تالیفات میں اس طرح ہمارے سید و مولیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کھینچ کر دکھلائی ہے کہ گویا وہ ایک ایسا شخص ہے جس کی خونی صورت ہے اور غصہ سے بھرا ہوا کھڑا ہے اور ایک تنگی تلوار ہاتھ میں ہے اور بعض غریب عیسائیوں وغیرہ کوٹکٹڑ ٹکڑہ کر نا چاہتا ہے لیکن اگر ان لوگوں کو کچھ انصاف اور ایمان میں سے حصہ ہوتا تو اس تصویر سے پہلے موسیٰ کی تصویر کھینچ کر دکھلاتے اور اس طرح کھینچتے کہ گویا ایک نہایت سخت دل اور بے رحم انسان ہاتھ میں تلوار لے کر شیر خوار بچوں کو ان کی

Page 148

مجموعہ اشتہارات ۱۳۲ جلد دوم ماؤں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے اور ایسا ہی یشوع بن نون کی تصویر پیش کرتے اور اس تصویر میں یہ دکھلاتے کہ گویا اس نے لاکھوں بے گناہ بچوں کو ان کی ماؤں کے سمیت ٹکڑے ٹکڑے کر کے میدان میں پھینک دیا ہے.اور چونکہ ان کے عقیدہ کے موافق یسوع خدا ہے اور یہ ساری بے رحمی کی کارروائیاں اس کے حکم سے ہوئی ہیں اور وہ مجسم خدا ہے جیسا کہ بیان ہو چکا تو اس صورت میں نہایت ضروری تھا کہ سب سے پہلے اس کی تصویر کھینچ کر اس کے ہاتھ میں کم سے کم تین تلوار میں دی جاتیں.پہلی وہ تلوار جو اس نے موسیٰ کو دی اور بے گناہ شیر خوار بچوں کو قتل کروایا.دوسری وہ تلوار جو یشوع بن نون کو دی.تیسری وہ تلوار جو داؤد کو دی.افسوس ! کہ اس حق پوش قوم نے بڑے بڑے ظلموں پر کمر باندھ رکھی ہے.اگر تلوار کے ذریعہ سے خدا کا عذاب نازل ہونا خدا کی صفات کے مخالف ہے تو کیوں نہ یہ اعتراض اول موسیٰ سے ہی شروع کیا جائے جس نے قوموں کو قتل کر کے خون کی نہریں بہادیں اور کسی کی تو بہ کو بھی قبول نہ کیا.قرآنی جنگوں نے تو توبہ کا دروازہ بھی کھلا رکھا جو عین قانون قدرت اور خدا کے رحم کے موافق ہے کیونکہ اب بھی جب خدا تعالیٰ طاعون اور ہیضہ وغیرہ سے اپنا عذاب دنیا پر نازل کرتا ہے تو ساتھ ہی طبیبوں کو ایسی ایسی بوٹیاں اور تدبیروں کا بھی علم دے دیتا ہے جس سے اس آتش و با کا انسداد ہو سکے سو یہ موسیٰ کے طریق جنگ پر اعتراض ہے کہ اس میں قانون قدرت کے موافق کوئی طریق بچاؤ قائم نہیں کیا گیا.ہاں بعض بعض جگہ قائم بھی کیا گیا ہے مگر کمی طور پر نہیں الغرض جبکہ یہ سنت اللہ یعنی تلوار سے ظالم منکروں کو ہلاک کرنا قدیم سے چلی آتی ہے تو قرآن شریف پر کیوں خصوصیت کے ساتھ اعتراض کیا جاتا ہے.کیا موسیٰ کے زمانہ میں خدا کوئی اور تھا اور اسلام میں کوئی اور ہو گیا یا خدا کو اس وقت لڑائیاں پیاری لگتی تھیں اور اب بُری دکھائی دیتی ہیں.اور یہ بھی فرق یادر ہے کہ اسلام نے صرف ان لوگوں کے مقابل پر تلوار اٹھانا حکم فرمایا ہے کہ جو اول آپ تلوار اٹھا ئیں اور انہیں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو اول آپ قتل کریں.یہ حکم ہرگز نہیں دیا کہ تم ایک کافر بادشاہ کے تحت میں ہو کر اور اس کے عدل اور انصاف سے فائدہ اٹھا کر پھر اسی پر باغیانہ حملہ

Page 149

مجموعہ اشتہارات ۱۳۳ جلد دوم کرو.قرآن کے رو سے یہ بدمعاشوں کا طریق ہے نہ نیکوں کا.لیکن توریت نے یہ فرق کسی جگہ کھول کر بیان نہیں فرمایا اس سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف اپنے جلالی اور جمالی احکام میں اس خط مستقیم عدل اور انصاف اور رحم اور احسان پر چلتا ہے جس کی نظیر دنیا میں کسی کتاب میں موجود نہیں مگر اندھے دشمن پھر بھی اعتراض کرتے ہیں کیونکہ ان کی فطرت روشنی سے عداوت اور ظلمت سے محبت رکھتی ہے.اب اس اشتہار کی تحریر سے یہ غرض ہے کہ ہم نے بڑے لمبے تجربہ سے آزما لیا ہے کہ یہ لوگ بار بار ملزم اور لا جواب ہو کر پھر بھی نیش زنی سے باز نہیں آتے اور اس شخص کو تمام عیبوں سے مبتر اسمجھتے ہیں جس نے خود اقرار کیا کہ میں نیک نہیں اور جس نے شراب خواری اور قمار بازی اور کھلے طور پر دوسروں کی عورتوں کو دیکھنا جائز رکھ کر بلکہ آپ ایک بد کار کنجری سے اپنے سر پر حرام کی کمائی کا تیل ڈلوا کر اور اس کو یہ موقعہ دے کر کہ وہ اس کے بدن سے بدن لگا دے اپنی تمام امت کو اجازت دے دی کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی حرام نہیں.سو ایسے شخص کو تو انہوں نے خدا بنالیا مگر خدا کے مقدس نبیوں کو جن کی زندگی محض خدا کے لئے تھی اور جو تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھا گئے بُرا کہنا اور گالیاں دینا شروع کر دیا چنانچہ اب تک یہ لوگ باز نہیں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں نہایت نا پاک اور رنج دو تھیٹر نکالتے ہیں اور نہایت بُری تصویروں میں اس پاک وجود کو دکھلاتے ہیں.اب ایسے کذابوں سے زبانی مباحثات سے کیونکر فیصلہ ہو.ہم جھوٹے کو دندان شکن جواب سے ملزم تو کر سکتے ہیں مگر اس کا منہ کیونکر بند کریں اس کی پلید زبان پر کونسی تھیلی چڑھا دیں؟ اس کے گالیاں دینے والے منہ پر کونا قفل لگا ویں؟ کیا کریں؟ کیا کوئی اس سے بے خبر ہے کہ نالائق عمادالدین نے اس پاک ذات نبی کی نسبت کیا کیا گندے الفاظ استعمال کئے جس سے تمام مسلمانوں کے کلیجے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.نور افشاں پر چہ اود یا نہ میں کیسے کیسے ہفتہ وار محض افترا کی بنیاد پر تو ہین اسلام کے کلمات لکھے جارہے ہیں.ریواڑی والے پادری نے کس قدر مسلمانوں کا دل جلایا اور ہمارے سیدومولی کوڈا کو اور رہزن قرار دیا.غرض کہاں تک لکھیں ان ظالم پادریوں نے لاکھوں گالیاں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر ہمارے دلوں کو زخمی کر دیا.

Page 150

مجموعہ اشتہارات ۱۳۴ جلد دوم لیکن ہم ظالم ہوں گے اگر ساتھ ہی یہ بھی گواہی نہ دیں کہ ان کارروائیوں میں گورنمنٹ پر کوئی الزام نہیں بلاشبہ گورنمنٹ ہر یک قوم کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتی ہے.مذہبی مناظرات کی آزادی جیسا کہ پادریوں کو حاصل ہے ویسا ہی ہمیں بھی ہے اگر ہم گورنمنٹ کے انصاف پر یقین نہ رکھتے تو ممکن نہ تھا کہ ان اپنی شکایتوں کا اظہار بھی کر سکتے لیکن ہم گورنمنٹ کو یہ تکلیف دینا ہی نہیں چاہتے کہ وہ مذہبی مباحثات کی آزادی کو بالکل بند کر دے.ہاں ہمارا مدعا یہ ہے کہ ان شرائط کی پابندی سے کسی قدر اس آزادی کو محدود کر دیا جائے جس کی نسبت ہم ایک علیحدہ اشتہار شائع کر چکے ہیں لیکن گورنمنٹ اپنی مہمات ملکیہ میں مصروف ہے اس کو اس فیصلہ کے لئے تو فرصت نہیں کہ توحید اور تین مجسم خداؤں کے عقیدہ کے بارے میں کچھ اپنی رائے لکھے اور وہ کارروائی کرے جیسا کہ تیسری صدی کے بعد کانسٹنٹائن فرسٹ قسطنطنیہ کے بادشاہ نے اڑھائی سو بشپ کو جمع کر کے اپنے اجلاس میں موحد عیسائیوں اور تین اقنوم کے قائل عیسائیوں کا باہم مباحثہ کرایا تھا اور آخر کار فرقہ موحدین کو ڈگری دی تھی اور خود ان کا مذہب بھی قبول کر لیا تھا ایسا ہی یہ گورنمنٹ عالیہ بھی کرلے لیکن یہ گورنمنٹ ایسے لے حاشیہ.عیسائیوں میں تثلیث کا مسئلہ تیسری صدی کے بعد ایجاد ہوا ہے.جیسا کہ ڈریپر بھی اپنی کتاب میں بڑے بڑے علماء کے حوالہ سے لکھتا ہے موجد اس مسئلہ کا بشپ اتھا نا سی اس الگزنڈ رائن تھا جو صدی سوم کے بعد ہوا ہے.جب اس نے یہ مسئلہ شائع کرنا چاہا تو اس وقت بشپ امیری اس اس کا منکر کھڑا ہوگیا اور یہاں تک اس مباحثہ میں عوام اور خواص کا مجمع ہوا کہ روم کے بادشاہ تک خبر پہنچ گئی.اتفاقاً اس کو مباحثات سے دلچسپی تھی اس نے چاہا کہ اس اختلاف کو اپنے حضور میں ہی فریقین کے علماء سے رفع کرا دے چنانچہ اس کے اجلاس میں بڑی سرگرمی سے یہ مباحثات ہوئے اور نہایت لطف کے ساتھ کونسل کی کرسیاں بچھیں اور مناظرہ کرنے والے دوسو پچاس نامی پادری تھے.آخر موحدین کا فرقہ جو یسوع کو محض انسان اور رسول جانتا تھا غالب آیا.اسی دن بادشاہ نے یونی ٹیرین کا مذہب اختیار کیا اور چھ بادشاہ اس کے بعد موحد ر ہے.چنانچہ جس قیصر کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خط لکھا تھا جس کا ذکر صحیح بخاری میں پہلے صفحہ میں ہی موجود ہے وہ بھی موحد ہی تھا اس نے قرآن کے اس مضمون پر اطلاع پا کر کہ مسیح صرف انسان ہے تصدیق کی جیسا کہ نجاشی نے بھی جو عیسائی بادشاہ تھا قسم کھا کر کہا کہ یسوع کا رتبہ اس سے ذرہ زیادہ نہیں جو قرآن نے اس کی نسبت لکھا ہے مگر نجاشی اس کے بعد کھلا کھلا مسلمان ہو گیا.منہ

Page 151

مجموعہ اشتہارات جلد دوم تنازعات میں پڑنا نہیں چاہتی.پس یہ روز افزوں جھگڑے کیونکر فیصلہ پاویں.مباحثات کے نیک نتیجہ سے تو نومیدی ہو چکی بلکہ جیسے جیسے مباحثات بڑھتے جاتے ہیں ویسے ہی کینے بھی ساتھ ساتھ ترقی پکڑتے جاتے ہیں سو اس نومیدی کے وقت میں میرے نزدیک ایک نہایت سهل و آسان طریق فیصلہ ہے اگر پادری صاحبان قبول کر لیں اور وہ یہ ہے کہ اس بحث کا جو حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے خدا تعالیٰ سے فیصلہ کرایا جائے.اول مجھے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ایسا خدائی فیصلہ کرانے کے لئے سب سے زیادہ مجھے جوش ہے اور میری دلی مراد ہے کہ اس طریق سے یہ روز کا جھگڑا انفصال پا جائے.اگر میری تائید میں خدا کا فیصلہ نہ ہو تو میں اپنی کل املاک منقولہ و غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کی قیمت سے کم نہیں ہوں گی عیسائیوں کو دے دوں گا اور بطور پیشگی تین ہزار روپیہ تک ان کے پاس جمع بھی کرا سکتا ہوں.اس قدر مال کا میرے ہاتھ سے نکل جانا میرے لئے کافی سزا ہوگی.علاوہ اس کے یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے دستخطی اشتہار سے شائع کر دوں گا کہ عیسائی فتح یاب ہوئے اور میں مغلوب ہوا اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اس اشتہار میں کوئی بھی شرط نہ ہو گی لفظا نہ معنا.اور ربانی فیصلہ کے لئے طریق یہ ہوگا کہ میرے مقابل پر ایک معزز پادری صاحب جو پادری صاحبان مندرجہ ذیل میں سے منتخب کئے جائیں یے میدان مقابلہ کے لئے جو تراضی طرفین سے مقرر کیا جائے طیار ہوں.پھر بعد اس کے ہم دونوں معہ اپنی اپنی جماعتوں کے میدان مقررہ میں حاضر ہو جائیں اور خدائے تعالیٰ سے دعا کے ساتھ یہ فیصلہ چاہیں کہ ہم دونوں میں سے جو شخص درحقیقت خدا تعالیٰ کی نظر میں کا ذب اور مور د غضب ہے خدا تعالیٰ ایک سال میں اس کا ذب پر وہ قہر نازل کرے جو اپنی غیرت کے رو سے ہمیشہ کا ذب اور مکذب قوموں پر کیا کرتا ہے جیسا کہ اس نے فرعون پر کیا نمرود پر کیا اور نوح کی قوم پر کیا اور یہود پر کیا.حضرات پادری صاحبان یہ بات یادرکھیں کہ اس باہمی ا نوٹ.ان صاحبوں میں سے کوئی منتخب ہونا چاہیے.اول ڈاکٹر مارٹن کلارک.دوسرے پادری عمادالدین پھر پادری ٹھا کر داس یا حسام الدین بمبئی یا صفدر علی بھنڈارہ یا طامس ہاول یا فتح مسیح بشرط منظوری دیگران.

Page 152

مجموعہ اشتہارات جلد دوم دعا میں کسی خاص فریق پر نہ لعنت ہے نہ بددعا ہے بلکہ اس جھوٹے کو سزا دلانے کی غرض سے ہے جو اپنے جھوٹ کو چھوڑنا نہیں چاہتا.ایک جہان کے زندہ ہونے کے لئے ایک کا مرنا بہتر ہے.پادری صاحبان خوب جانتے ہیں کہ جھوٹوں پر یسوع نے بھی بددعائیں کی ہیں.چنانچہ یسوع متی باب ۲۳ میں یہود کے علماء کو مخاطب کر کے کہتا ہے.اے سانپو اور سانپ کے بچو تم جہنم کے عذاب سے کیونکر بھا گو گے.۳۶.میں تم سے بچ کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانہ کے لوگوں پر آوے گا یعنی عذاب اور باب ۲۳ آیت ۱۳ میں یسوع بار بار جھوٹوں مکاروں کی تباہی چاہتا ہے اور ویل کا لفظ استعمال کرتا ہے جو ہمیشہ بددعا کے لئے آتا ہے.غرض ایسا جھوٹا جو جھوٹ کو کسی طرح چھوڑ نا نہ چاہے اس کا وجود تمام فتنوں سے زیادہ فتنہ ہے اور فتنہ کو ہر ایک طرح سے فرد کرنا راستبازوں کا فرض ہے.پس جس حالت میں عیسائی نہایت غلو سے کہتے ہیں کہ دین اسلام انسان کا افترا ہے.اور اہل اسلام دلی یقین رکھتے ہیں کہ عیسائی در حقیقت انسان پرست ہیں تو کیا لازم نہیں ہے کہ جس طرح ہو سکے یہ بات فیصلہ پا جائے.ہم نے بار بار سمجھایا کہ عیسی پرستی بت پرستی اور رام پرستی سے کم نہیں.اور مریم کا بیٹا کشتیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا مگر کیا کبھی آپ لوگوں نے توجہ کی.یوں تو آپ لوگ تمام دنیا کے مذہبوں پر حملہ کر رہے ہیں مگر کبھی اپنے اس مثلث خدا کی نسبت بھی کبھی غور کی.کبھی یہ خیال آیا کہ وہ جو تمام عظمتوں کا مالک ہے اس پر انسان کی طرح کیونکر دکھ کی مار پڑ گئی.کبھی یہ بھی سوچا کہ خالق نے اپنی ہی مخلوق سے کیونکر مارکھالی.کیا یہ سمجھ آ سکتا ہے کہ بندے ناچیز اپنے خدا کو کوڑے ماریں، اس کے منہ پر تھوکیں ، اس کو پکڑیں، اس کو سولی دیں اور وہ مقابلہ سے عاجز رہ جائے بلکہ خدا کہلا کر پھر اس پر موت بھی آجائے.کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ تین مجسم خدا ہوں ایک وہ مجسم جس کی شکل پر آدم ہوا.دوسرا یسوع.تیسرا کبوتر اور تینوں میں سے ایک بچہ والا اور دولا ولد.کیا یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ خدا شیطان کے پیچھے پیچھے چلے اور شیطان اس سے سجدہ چاہے اور اس کو دنیا کی طمع دے.کیا یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ا نوٹ.عیسائی صاحبان کبوتروں کو شوق سے کھاتے ہیں.حالانکہ کبوتر ان کا دیوتا ہے.ان سے ہندو اچھے رہے کہ اپنے دیوتا بیل کو نہیں کھاتے.منہ

Page 153

مجموعہ اشتہارات جلد دوم وہ شخص جس کی ہڈیوں میں خدا گھسا ہوا تھا ساری رات رورو کر دعا کرتا رہا اور پھر بھی استجابت دعا سے محروم اور بے نصیب ہی رہا.کیا یہ بات تعجب میں نہیں ڈالتی کہ خدائی کے ثبوت کے لئے یہود کی کتابوں کا حوالہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہود اس عقیدہ پر ہزار لعنت بھیجتے ہیں اور سخت انکاری ہیں اور کوئی ان میں ایسا فرقہ نہیں جو تثلیث کا قائل ہواگر یہود کو موسیٰ سے آخری نبیوں تک یہی تعلیم دی جاتی تو کیونکر ممکن تھا کہ وہ لاکھوں آدمی جو بہت سے فرقوں میں منقسم تھے اس تعلیم کو سب کے سب بھول جاتے.کیا یہ بات سوچنے کے لائق نہیں کہ عیسائیوں میں قدیم سے ایک فرقہ موحد بھی ہے جو قرآن شریف کے وقت میں بھی موجود تھا.اور وہ فرقہ بڑے زور سے اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ تثلیث کا گندہ مسئلہ صرف تیسری صدی کے بعد نکلا ہے اور اب بھی اس فرقہ کے لاکھوں انسان یورپ اور امریکہ میں موجود ہیں اور ہزارہا کتابیں ان کی شائع ہو رہی ہیں.پس جبکہ اس قدر ملزم ہو کر پھر بھی پادری صاحبان اپنی بد زبانیوں سے باز نہیں آتے تو کیا اس وقت خدا کے فیصلہ کی حاجت نہیں؟ ضرور حاجت ہے.تا جو جھوٹا ہے ہلاک ہو جائے جو گر وہ جھوٹا ہو گا اب بلا شبہ بھاگ جائے گا اور جھوٹے بہانوں سے کام لے گا.سواے پادری صاحبان دیکھو کہ میں اس کام کیلئے کھڑا ہوں اگر چاہتے ہو کہ خدا کے حکم سے اور خدا کے فیصلہ سے بچے اور جھوٹے میں فرق ظاہر ہو جائے تو آؤ.تاہم ایک میدان میں دعاؤں کے ساتھ جنگ کریں تا جھوٹے کی پردہ دری ہو.یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور بے شک وہ قادر موجود ہے اور وہ ہمیشہ صادقوں کی حمایت کرتا ہے.سو ہم دونوں میں سے جو صادق ہوگا خدا ضرور اس کی حمایت کرے گا.یہ بات یا درکھو کہ جو شخص خدا کی نظر میں ذلیل ہے وہ اس جنگ کے بعد ذلت دیکھے گا اور جو اس کی نظر میں عزیز ہے وہ عزت پائے گا.آتھم کے مقدمہ میں دیکھ چکے ہو کہ باوجود اس کے بہت سے منصوبوں کے پھر آخر حق ظاہر ہو گیا.کیا تمہارے دل قبول نہیں کر گئے کہ آتھم کا قسم سے انکار کرنا اور نالش سے انکار کرنا اور حملوں کا ثبوت دینے سے انکار کرنا صرف اسی وجہ سے تھا کہ اس نے ضرور الہامی شرط کے موافق حق کی طرف رجوع کر لیا تھا.تمہیں معلوم ہے کہ باجود اس کے کہ ملامتی اشتہاروں کی بہت ہی اس کو مار پڑی مگر وہ

Page 154

مجموعہ اشتہارات ۱۳۸ جلد دوم اس الزام سے اپنے تئیں بری نہ کر سکا جو اس کے اقرار خوف اور بے ثبوت ہونے عذر حملوں سے اس پر وارد ہو چکا تھا.یہاں تک کہ اس موت نے اس کو آ پکڑا جس سے وہ ڈرتا رہا اور ضرور تھا کہ وہ انکار کے بعد جلد مرتا.کیونکہ خدائے تعالیٰ کی پاک پیش گوئیوں کے رو سے یہی سزا اس کے لئے ٹھہر چکی تھی.سواس خدا سے خوف کرو جس نے آتھم کو بڑی سرگردانیوں کے گرداب میں ڈال کر آخر اپنے وعید کے موافق ہلاک کر دیا.خدا کی کھلی کھلی پیشگوئیوں سے منہ پھیرنا یہ بدطینتوں کا کام ہے نہ نیک لوگوں کا.اور جھوٹ کے مردار کو کسی طرح نہ چھوڑنا.یہ کتوں کا طریق ہے نہ انسانوں کا.میاں حسام الدین عیسائی لکھتے ہیں کہ آتھم چار دن تک بے ہوش رہا.مگر وہ اس کا ستر نہیں بیان کر سکے کہ کیوں چار دن تک بے ہوش رہا.سو جاننا چاہیے کہ یہ چار دن کی سخت جان کندن کے ان چار افتر اؤں کی اسی دنیا میں اس کو سزا دی گئی جو اس نے زہر خورانی کے اقدام کا افترا کیا.سانپ چھوڑنے کا افترا کیا.لودیا نہ اور فیروز پور کے حملہ کا افترا کیا اور عیسائیوں کے خوش کرنے کے لئے اصل وجہ خوف کو چھپایا.سو عیسائیوں کے لئے اس سے زیادہ اور کوئی شرم کی جگہ نہیں کہ آتھم ان کے مذہب کے جھوٹا ہونے پر گواہی دے گیا.اب اگر آتھم کی گواہی پر اعتبار نہیں تو اس نئے طریق سے دوبارہ حجت اللہ کو پورا کر لینا چاہیے.اور اس نئے طریق میں کوئی شرط بھی نہیں.سیدھی بات ہے کہ اگر باہم دعا کرنے کے بعد جس کے ساتھ فریقین کی طرف سے آمین بھی ہوگی.میرے مقابل کا شخص ایک سال تک خدا تعالیٰ کے فوق العادت عذاب سے بچ گیا تو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں تاوان مذکورہ بالا ادا کروں گا.اور میں حضرات پادری صاحبان کو دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ اس طرح کا طریق دعا ان کے مذہب اور اعتقاد سے ہرگز منافی نہیں اور حضرت یسوع صاحب نے باب ۲۳ آیت ۱۳ متنی میں خود اس طریق کو استعمال کیا ہے اور ویل کے لفظ سے فقیہوں اور فریسیوں پر بددعا کی ہے اب اگر عیسائی صاحبان کوئی اور لفظ استعمال کرنے سے تامل کریں تو ویل کے لفظ کو ہی استعمال کرنا تو خودان پر واجب ہے کیونکہ ان کے مرشد اور ہادی نے بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے.ویل کے معنی سختی اور لعنت اور ہلاکت کے ہیں.سو ہم دونوں اس طرح پر دعا کریں گے کہ اے خدائے قادر اس وقت ہم بالمقابل دو فریق

Page 155

مجموعہ اشتہارات ۱۳۹ جلد دوم کھڑے ہیں ایک فریق یسوع بن مریم کو خدا کہتا اور نبی اسلام کو سچا نبی نہیں جانتا اور دوسرا فریق عیسی ابن مریم کو رسول مانتا اور محض بندہ اس کو یقین رکھتا اور پیغمبر اسلام کو درحقیقت سچا اور یہود اور نصاری میں فیصلہ کرنے والا جانتا ہے سو ان دونوں فریق میں سے جو فریق تیری نظر میں جھوٹا ہے اس کو ایک سال کے اندر ہلاک کر اور اپنا ویل اس پر نازل کر.اور چاہیے کہ ایک فریق جب دعا کرے تو دوسرا آمین کہے اور جب وہ فریق دعا کرے تو یہ فریق آمین کہے.اور میری دلی مراد ہے کہ اس مقابلہ کے لئے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو منتخب کیا جائے کیونکہ وہ موٹا اور جوان عمر اور اول درجہ کا تندرست اور پھر ڈاکٹر ہے اپنی عمر درازی کا تمام بندو بست کر لے گا.یقیناً ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب ضرور ہماری اس درخواست کو قبول کرلیں گے کیونکہ انہیں یسوع ابن مریم کے خدا بنانے کا بہت شوق ہے.اور سخت نامردی ہوگی کہ اب وہ اس وقت بھاگ جائیں اور اگر وہ بھاگ جائیں تو پادری عماد الدین صاحب اس مقابلہ کے لائق ہیں جنہوں نے ابن مریم کو خدا بنانے کے لئے ہر ایک انسانی چالا کی کو استعمال کیا اور آفتاب پر تھوکا ہے.اور اگر وہ بھی اس خوف سے بھاگ گئے کہ خدا کا ویل ضرور انہیں کھا جائے گا تو حسام الدین یا صفدر علی یا ٹھا کر داس یا طامس ہاول اور بالآخر فتح مسیح اس میدان میں آوے.یا کوئی اور پادری صاحب نکلیں اور اگر اس رسالہ کے شائع ہونے کے بعد دو ماہ تک کوئی بھی نہ نکلا اور صرف شیطانی عذر بہانہ سے کام لیا تو پنجاب اور ہندوستان کے تمام پادریوں کے جھوٹے ہونے پر مہر لگ جائے گی اور پھر خدا اپنے طور سے جھوٹ کی بیخ کنی کرے گا یا درکھو کہ ضرور کرے گا کیونکہ وقت آ گیا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى میرزا غلام احمد از قادیان ۱۴ر ستمبر ۱۸۹۶ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پرلیس قادیان یدان یہ اشتہار ۲۲۳۲۰ انجام آتھم کے ۳۴ تا ۴۴ صفحہ پر ہے ) روحانی خزائن جلدا اصفحه ۴ ۳ تا ۴۴)

Page 156

مجموعہ اشتہارات ۱۴۰ جلد دوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ (رساله دعوت قوم ) اشتہار مباہلہ بغرض دعوت ان مسلمان مولویوں کے جو اس عاجز کو کافر اور کذاب اور مفتری اور دجال اور جہنمی قرار دیتے ہیں رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَتِحِينَ ل اے ہمارے خدا ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے.چونکہ علماء پنجاب اور ہندوستان کی طرف سے فتنہ تکفیر و تکذیب حد سے زیادہ گزر گیا ہے اور نہ فقط علماء بلکہ فقرا اور سجادہ نشین بھی اس عاجز کے کافراور کاذب ٹھہرانے میں مولویوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں.اور ایسا ہی ان مولویوں کے اغوا سے ہزار ہا ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ وہ ہمیں نصاری اور یہود اور ہنود سے بھی اکفر سمجھتے ہیں.اگر چہ اس تمام فتنہ تکفیر کا بوجھ نذ یرحسین دہلوی کی گردن پر ہے مگر تا ہم دوسرے مولویوں کا یہ گناہ ہے کہ انہوں نے اس نازک امر تکفیر مسلمانوں میں اپنی عقل اور اپنی تفتیش سے کام نہیں لیا.بلکہ نذیرحسین کے دجالا نہ فتوی کو دیکھ کر جو محد حسین بٹالوی نے طیار کیا تھا بغیر الاعراف : ٩٠

Page 157

مجموعہ اشتہارات ۱۴۱ جلد دوم تحقیق اور تنقیح کے اس پر ایمان لے آئے.ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ اس نالائق نذیر حسین اور اس کے نا سعادت مند شاگر دمحمد حسین کا یہ سراسر افترا ہے کہ ہماری طرف یہ بات منسوب کرتے ہیں کہ گویا ہمیں معجزات انبیاء علیہم السلام سے انکار ہے یا ہم خود دعوی نبوت کرتے ہیں یا نعوذ باللہ حضرت سید المرسلین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء نہیں سمجھتے یا ملائک سے انکاری یا حشر ونشر وغیرہ اصول عقائد اسلام سے منکر ہیں.یا صوم وصلوٰۃ وغیرہ ارکان اسلام کو نظر استخفاف سے دیکھتے یا غیر ضروری سمجھتے ہیں.نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ گواہ ہے کہ ہم ان سب باتوں کے قائل ہیں اور ان عقائد اور ان اعمال کے منکر کو ملعون اور خَسِرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ یقین رکھتے ہیں.اگر ہمیں ہمارے دعوئی کے موافق قبول کرنے کے لئے یہی ما بہ النزاع ہے تو ہم بلند آواز سے بار بار سناتے ہیں کہ ہمارے یہی عقائد ہیں جو ہم بیان کر چکے ہیں.ہاں ایک بات ضرور ہے جس کے لئے یہ اشتہار مباہلہ لکھا گیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو شرف مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف فرما کر اس صدی چہار دہم کا مجد دقرار دیا ہے اور ہر یک مجد د کا بلحاظ حالت موجودہ زمانہ کے ایک خاص کام ہوتا ہے جس کے لئے وہ مامور کیا جاتا ہے.سو اس سنت اللہ کے موافق یہ عاجز صلیبی شوکت کے توڑنے کے لئے مامور ہے یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس خدمت پر مقرر کیا گیا ہے کہ جو کچھ عیسائی پادریوں نے کفارہ اور تثلیث کے باطل مسائل کو دنیا میں پھیلایا ہے اور خدائے واحد لاشریک کی کسرشان کی ہے.یہ تمام فتنہ سچے دلائل اور روشن براہین اور پاک نشانوں کے ذریعہ سے فرو کیا جائے.اس بات کی کس کو خبر نہیں کہ دنیا میں اس زمانہ میں ایک ہی فتنہ ہے جو کمال کو پہنچ گیا ہے اور الہی تعلیم کا سخت مخالف ہے یعنی کفارہ اور تثلیث کی تعلیم جس کو صلیبی فتنہ کے نام سے موسوم کرنا کیونکہ کفارہ اور تثلیث کے تمام اغراض صلیب کے ساتھ وابستہ ہیں.سوخدا تعالیٰ نے آسمان پر سے دیکھا کہ یہ فتنہ بہت بڑھ گیا ہے اور یہ زمانہ اس فتنہ کے تموج اور طوفان کا زمانہ ہے.پس خدا نے اپنے وعدہ کے موافق چاہا کہ اس صلیبی فتنہ کو پارہ پارہ کرے اور اس نے ابتدا سے اپنے نبی مقبول چاہیے.

Page 158

مجموعہ اشتہارات ۱۴۲ جلد دوم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے خبر دی تھی کہ جس شخص کی ہمت اور دعا اور قوت بیان اور تاثیر کلام اور انفاس کافرکش سے یہ فتنہ فرو ہوگا اسی کا نام اس وقت عیسیٰ اور مسیح موعود ہوگا.اگر چہ وہ پیشگوئیاں بہت سے نازک اور لطیف استعارات سے بھری پڑی ہیں مگر ان میں جو نہایت واضح اور کھلا کھلا اور موٹا نشان مسیح موعود کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ کسر صلیب ہے یعنی صلیب کو توڑنا.یہ لفظ ہر یک عقلمند کے لئے بڑی غور کے لائق ہے اور یہ صاف بتلا رہا ہے کہ وہ مسیح موعود عیسائیت کے موجزن فتنہ کے زمانہ میں ظاہر ہوگا نہ کسی اور زمانہ میں.کیونکہ صلیب پر سارا مدار نجات کا رکھنا کسی اور دجال کا کام نہیں ہے.یہی گروہ ہے جو صلیبی کفارہ پر زور دے رہا ہے اور اس کو فروغ دینے کے لئے ہر ایک دجل کو کام میں لا رہا ہے.دقبال بہت گزرے ہیں اور شاید آگے بھی ہوں.مگر وہ دقبال اکبر جن کا دجل خدا کے نزدیک ایسا مکروہ ہے کہ قریب ہے جو اس سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.یہی گروہ مشت خاک کو خدا بنانے والا ہے.خدا نے یہودیوں اور مشرکوں اور دوسری قوموں کے طرح طرح کے دجل قرآن شریف میں بیان فرمائے مگر یہ عظمت کسی کے دجل کو نہیں دی کہ اس دجل سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتے ہیں.پس جس گروہ کو خدا نے اپنے پاک کلام میں دجال اکبر ٹھہرایا ہے ہمیں نہیں چاہیے کہ اس کے سوا کسی اور کا نام دجال اکبر رکھیں.نہایت ظلم ہو گا کہ اس کو چھوڑ کر کوئی اور دقبال اکبر تلاش کیا جائے.یہ بات کسی پہلو سے درست نہیں ٹھہر سکتی کہ حال کے پادریوں کے سوا کوئی اور بھی دقبال ہے جو ان سے بڑا ہے کیونکہ جبکہ خدا نے اپنی پاک کلام میں سب سے بڑا یہی دجال بیان فرمایا ہے تو نہایت بے ایمانی ہوگی کہ خدا کے کلام کی مخالفت کر کے کسی اور کو بڑا دقبال ٹھہرایا جائے.اگر کسی ایسے دجال کا کسی وقت وجود ہو سکتا تو خدا تعالیٰ جس کا علم ماضی اور حال اور مستقبل پر محیط ہے اسی کا نام دقبال اکبر رکھتا نہ ان کا نام.پھر یہ نشان دجال اکبر کا جو حدیث بخاری کے صریح اس اشارہ سے نکلتا ہے کہ يَكْسِرُ الصَّلِيْبَ صاف بتلا رہا ہے کہ اس دجال اکبر کی شان میں سے یہ ہوگا کہ وہ مسیح کو خدا اٹھہرائے

Page 159

مجموعہ اشتہارات ۱۴۳ جلد دوم گا اور مدار نجات صلیب پر رکھے گا.یہ بات عارفوں کے لئے نہایت خوشی کا موجب ہے کہ اس جگہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا تظاہر ہو گیا ہے جس سے تمام حقیقت اس متنازعہ فیہ مسئلہ کی کھل گئی.کیونکہ قرآن نے تو اپنے صریح لفظوں میں دجال اکبر پادریوں کو ٹھہرایا اور ان کے دجل کو ایسا عظیم الشان دجل قرار دیا کہ قریب ہے جو اس سے زمین و آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.اور حدیث نے مسیح موعود کی حقیقی علامت یہ بتلائی کہ اس کے ہاتھ پر کسر صلیب ہوگا.اور وہ دقبال اکبر کوقتل کرے گا.ہمارے نادان مولوی نہیں سوچتے کہ جبکہ مسیح موعود کا خاص کام کسر صلیب اور قتل دقبال اکبر ہے اور قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ بڑا دجل اور بڑا فتنہ جس سے قریب ہے کہ نظام اس عالم کا درہم برہم ہو جائے اور خاتمہ اس دنیا کا ہو جائے وہ پادریوں کا فتنہ ہے تو اس سے صاف طور پر کھل گیا کہ پادریوں کے سوا اور کوئی دجال اکبر نہیں ہے اور جو شخص اب اس فتنہ کے ظہور کے بعد اور کی انتظار کرے وہ قرآن کا مکذب ہے.اور نیز جبکہ لغت کی رو سے بھی دجال ایک گروہ کا نام ہے جو اپنے دجل سے زمین کو پلید کرتا ہے.اور حدیث کی رو سے نشان دجال اکبر کا حمایت صلیب ٹھہرا تو باوجود اس کھلی کھلی تحقیق کے وہ شخص نہایت درجہ کو ر باطن ہے کہ جواب بھی حال کے پادریوں کو دجال اکبر نہیں سمجھتا.ایک اور بات ہے جس سے ہمارے نادان مولوی اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اس بات کے خود قائل ہیں کہ دجال معہود کا بجر حرمین کے تمام زمین پر تسلط ہو جائے گا.سو اگر دقبال سے مراد کوئی اور رکھا جائے تو یہ حدیث قرآن کی صریح پیشگوئی سے مخالف ہو جائے گی.کیونکہ قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ قیامت تک زمین پر غلبہ اور تسلط دو قوموں میں سے ایک قوم کا ہوتا رہے گا.یا اہلِ اسلام کا یا نصاریٰ کا.پس قرآن کے رو سے ایسے دجال کو جو اپنی خدائی کا دعویٰ لے کر آئے گا.زمین پر قدم رکھنے کی جگہ نہیں اور قرآن اس کے وجود کو روکتا ہے.ہاں استعارہ کے طور پر نصاری کا دعوی خدائی ثابت ہے کیونکہ چاہتے ہیں کہ گلوں کے زور سے تمام زمین و آسمان کو اپنے قابو میں کر لیں یہاں تک کہ مینہ

Page 160

مجموعہ اشتہارات ۱۴۴ جلد دوم برسانے کی قدرت بھی حاصل ہو جائے.پس اس طرح پر وہ خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں.غرض یہ وہ امور ہیں جن کو حال کے مولوی نہیں سمجھتے اور اہل اسلام میں انہوں نے بڑا بھاری فتنہ اور تفرقہ ڈال رکھا ہے اور نہایت بیہودہ اور رکیک تاویلات سے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے منہ پھیر رہے ہیں.دعویٰ کرتے تھے کہ ہم اہل حدیث ہیں مگر اب تو انہوں نے قرآن کو بھی چھوڑا اور حدیث کو بھی.سو جبکہ میں نے دیکھا کہ قرآن شریف اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے دلوں میں عظمت نہیں اور جلیل الشان اکا بر ائمہ کی شہادت بھی جیسا کہ امام بخاری اور ابن حزم اور امام مالک کی شہادت جو حضرت عیسی کے فوت ہو جانے کی نسبت بار بار لکھی گئی ہے ان کے نزدیک کچھ چیز نہیں سو مجھ کو اس پہلو سے بکلی نومیدی ہوئی کہ وہ منقولی بحث و مباحثہ کے ذریعہ سے ہدایت پاسکیں لے پس خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں دوسرا پہلو اختیار کروں جو اصل بنیا د میرے دعوی کی ہے یعنی اپنے سچے لہم ہونے کا ثبوت کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر وہ لوگ مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے سچا ملہم سمجھتے اور میرے الہامات کو میرا ہی افتر ایا شیطانی وساوس خیال نہ کرتے تو اس قدرست اور شتم اور ہنسی اور ٹھٹھا اور تکفیر اور بد تہذیب کے ساتھ پیش نہ آتے بلکہ اپنے بہت سے ظنون فاسدہ کا حسن ظن کے غلبہ سے آپ فیصلہ کر لیتے کیونکہ کسی کی سچائی اور منجانب اللہ ہونے کے یقین کے بعد وہ مشکلات ہرگز پیش نہیں آتیں کہ جو اس حالت میں پیش آتی ہیں کہ انسان کے دل پر اس کے کاذب ہونے کا خیال غالب ہوتا ہے.یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری سچائی کے سمجھنے کے لئے بہت سے قرائن واضح ان کو عطا کئے تھے.(۱) میرا دعویٰ صدی کے سر پر تھا.(۲) میرے دعوے کے وقت میں کے حاشیہ.منقولی بحث مباحثہ کی کتابیں جو میری طرف سے چھپی ہیں جن میں ثابت کیا گیا ہے جو درحقیقت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور دوبارہ آنا ان کا بطور بروز مراد ہے نہ بطور حقیقت وہ یہ ہیں.فتح اسلام.توضیح مرام - ازال ازالہ وہام.اتمام الحجہ.تحفہ بغداد - حمامۃ البشری - نور الحق دو حصہ.کرامات الصادقین.سر الخلافہ.آئینہ کمالات اسلام.

Page 161

مجموعہ اشتہارات ۱۴۵ جلد دوم خسوف کسوف ماہ رمضان میں ہوا تھا.(۳) میرے دعوئی الہام پر پورے بیس برس گزر گئے اور مفتری کو اس قدر مہلت نہیں دی جاتی.(۴) میری پیشگوئی کے مطابق خدا نے آتھم کو کچھ مہلت بھی دی اور پھر مار بھی دیا.(۵) مجھ کو خدا نے بہت سے معارف اور حقائق بخشے اور اس قدر میرے کلام کو معرفت کے پاک اسرار سے بھر دیا کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی طرف سے پورا تائید یافتہ نہ ہو اس کو یہ نعمت نہیں دی جاتی لیکن مخالف مولویوں نے ان باتوں میں سے کسی بات پر غور نہیں کی.سواب چونکہ تکذیب اور تکفیر ان کی انتہا تک پہنچ گئی اس لئے وقت آ گیا کہ خدائے قادر اور علیم اور خبیر کے ہاتھ سے جھوٹے اور بچے میں فرق کیا جائے.ہمارے مخالف مولوی اس بات کو جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایسے شخص سے کس قدر بیزاری ظاہر کی ہے جو خدا تعالیٰ پر افترا باندھے یہاں تک کہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے کہ اگر وہ بعض قول میرے پر افترا کرتا تو میں فی الفور پکڑ لیتا اور رگ جان کاٹ دیتا.غرض خدا تعالیٰ پر افترا کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں فلاں الہام مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے حالانکہ کچھ بھی نہیں ہوا.ایک ایسا سخت گناہ ہے کہ اس کی سزا میں صرف جہنم کی ہی وعید نہیں بلکہ قرآن شریف کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اسی دنیا میں دست بدست سزا پا لیتا ہے اور خدائے قادر و غیور کبھی اس کو امن میں نہیں چھوڑتا اور اس کی غیرت اس کو کچل ڈالتی ہے اور جلد ہلاک کرتی ہے.اگر ان مولویوں کا دل تقویٰ کے رنگ سے کچھ بھی رنگین ہوتا اور خدا تعالیٰ کی عادتوں اور سنتوں سے ایک ذرہ بھی واقف ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ ایک مفتری کا اس قدر دراز عرصہ تک افترا میں مشغول رہنا بلکہ روز بروز اس میں ترقی کرنا اور خدا تعالیٰ کا اس کے افترا پر اس کو نہ پکڑنا بلکہ لوگوں میں اس کو عزت دینا دلوں میں اس کی قبولیت ڈالنا اور اس کی زبان کو چشمہ حقائق و معارف بنانا یہ ایک ایسا امر ہے کہ جب سے خدائے تعالیٰ نے دنیا کی بنیاد ڈالی ہے اس کی نظیر ہرگز نہیں پائی جاتی.افسوس کہ کیوں یہ منافق مولوی خدا تعالیٰ کے احکام اور مواعید کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھتے.کیا ان کے پاس حدیث یا قرآن شریف سے کوئی نظیر موجود ہے کہ ایک ایسے

Page 162

مجموعہ اشتہارات ۱۴۶ جلد دوم خبیث طبع مفتری کو خدا تعالیٰ نہ پکڑے جو اس پر افترا پر افترا باندھے اور جھوٹے الہام بنا کر اپنے تئیں خدا کا نہایت ہی پیارا ظاہر کرے اور محض اپنے دل سے شیطانی باتیں تراش کر اس کو عمد أخدا کی وحی قرار دیوے اور کہے کہ خدا کا حکم ہے کہ لوگ میری پیروی کریں اور کہے کہ خدا مجھے اپنے الہام میں فرماتا ہے کہ تو اس زمانہ میں تمام مومنوں کا سردار ہے حالانکہ اس کو کبھی الہام نہ ہوا ہو اور نہ کبھی خدا نے اس کو مومنوں کا سردار ٹھہرایا ہو اور کہے کہ مجھے خدا مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تو ہی مسیح موعود ہے جس کو میں کسر صلیب کے لئے بھیجتا ہوں.حالانکہ خدا نے کوئی ایسا حکم اس کو نہیں دیا اور نہ اس کا نام عیسی رکھا اور کہے کہ خدائے تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ مجھ سے تو ایسا ہے جیسا کہ میری تو حید.تیرا مقام قرب مجھ سے وہ ہے جس سے لوگ بے خبر ہیں.حالانکہ خدا اس کو مفتری جانتا ہے.اس پر لعنت بھیجتا ہے اور مردودوں اور مخذولوں کے ساتھ اس کا حصہ قرار دیتا ہے.پھر کیا یہی خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذاب اور بیباک مفتری کو جلد نہ پکڑے.یہاں تک کہ اس افتر اپر بیس برس سے زیادہ عرصہ گزر جائے.کون اس کو قبول کر سکتا ہے کہ وہ پاک ذات جس کے غضب کی آگ وہ صاعقہ ہے کہ ہمیشہ جھوٹے ملہموں کو بہت جلد کھاتی رہی ہے اس لمبے عرصہ تک اس جھوٹے کو چھوڑ دے جس کی نظیر دنیا کے صفحہ میں مل ہی نہیں سکتی.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًال یعنی اس سے زیادہ تر ظالم اور کون ہے جو خدا تعالیٰ پر جھوٹ باند ھے.بیشک مفتری خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ پر افترا کرنے والا جلد مارا جاتا ہے.سو ایک تقویٰ شعار آدمی کیلئے یہ کافی تھا کہ خدا نے مجھے مفتریوں کی طرح ہلاک نہیں کیا بلکہ میرے ظاہر اور باطن اور میرے جسم اور میری روح پر وہ احسان کئے جن کو میں شمار نہیں کرسکتا.میں جوان تھا جب خدا کی وحی اور الہام کا دعویٰ کیا اور اب میں بوڑھا ہو گیا اور ابتداء دعویٰ پر بیس برس الانعام : ۲۲

Page 163

مجموعہ اشتہارات ۱۴۷ جلد دوم سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا.بہت سے میرے دوست اور عزیز جو مجھ سے چھوٹے تھے فوت ہو گئے اور مجھے اس نے عمر دراز بخشی اور ہر یک مشکل میں میرا متکفل اور متوتی رہا.پس کیا ان لوگوں کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر افترا باندھتے ہیں.اب بھی اگر مولوی صاحبان مجھے مفتری سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر ایک اور فیصلہ ہے اور وہ یہ کہ میں ان الہامات کو ہاتھ میں لے کر جن کو میں شائع کر چکا ہوں مولوی صاحبان سے مباہلہ کروں.اس طرح پر کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کروں کہ میں در حقیقت اس کے شرف مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور درحقیقت اس نے مجھے چہار دہم صدی کے سر پر بھیجا ہے کہ تا میں اس فتنہ کو فرو کروں کہ جو اسلام کے مخالف سب سے زیادہ فتنہ ہے اور اسی نے میرا نام عیسی رکھا ہے.اور کسر صلیب کے لئے مجھے مامور کیا ہے لیکن نہ کسی جسمانی حربہ سے بلکہ آسمانی حربہ سے اور یہ سب اس کا کلام ہے اور وہ خاص الہامات اس کے جو اس وقت میں مخالف مولویوں کو سناؤں گا ان میں سے بطور نمونہ چند الہامات اس جگہ لکھتا ہوں ان میں سے بعض الہامات بیس برس کے عرصہ سے ہیں.جو مختلف ترتیبوں اور کمی بیشی کے ساتھ بار بار القاء ہوئے ہیں.اور وہ یہ ہیں : يَا عِيسَى الَّذِى لَا يُضَاعُ وَقْتُهُ.اے وہ عیسی جس کا وقت ضائع نہیں کیا أَنتَ مِنِّى بِمَنْزِلَةٍ لَّا يَعْلَمُهَا الْخَلْقُ.جائے گا.تو میری جناب میں وہ مرتبہ رکھتا أَنتَ مِنِّى بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَ تَفْرِيدِی ہے جس کا لوگوں کو علم نہیں تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.سو وقت آگیا کہ تو لوگوں میں شناخت کیا جائے اور مدد دیا جائے.وہ خدا جس فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا اس دین کو سب دینوں پر غالب کرے.خدا کی تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ قُلْ إِنِّی اُمِرْتُ و پیشگوئیوں کو کوئی بدل نہیں سکتا کہہ میں مامور انَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.اَلرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ہوں اور میں سب سے پہلا مومن ہوں.وہ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ.لَا |

Page 164

مجموعہ اشتہارات ۱۴۸ جلد دوم لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَ آبَاءُ هُم وَلِتَسْتَبِيْنَ رحمن ہے جس نے قرآن سکھلایا تا کہ تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے سَبِيلَ الْمُجْرِمِينَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ گئے اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل جائے.ہم تیرے الْمُسْتَهْزِئِينَ.قُلْ عِنْدِى شَهَادَةٌ مِّنَ لئے ٹھٹھا کرنے والوں کے لئے کافی ہیں.کہہ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ.قُلْ إِنْ كُنتُمْ اللَّهِ فَهَلْ أَنْتُم مُّؤْمِنُونَ قُلْ عِنْدِي میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان شَهَادَةٌ مِّنَ اللهِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ.لاتے ہو.کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم قبول کرتے ہو.میرے ساتھ میرا خدا ہے وہ عنقریب مجھے کامیابی کی راہ دکھائے گا.ان کو تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله.کہ کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میرے هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ تَنَزَّلُ پیچھے ہولو تا خدا بھی تم سے محبت کرے.کیا میں بتلاؤں کہ کن پر شیطان اترا کرتے ہیں.ہر ایک عَلى كُلِّ أَفَّابٍ أَثِيمٍ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا جھوٹے مفتری پر اترتے ہیں.ارادہ کرتے ہیں نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ که خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھوکوں سے بجھا دیں الْكَافِرُونَ سَنُلْقِي فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ إِذَا اور خدا اپنے نور کو کامل کرے گا اگر چہ کا فر کراہت جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَانْتَهَى أَمُرُ الزَّمَانِ ہی کریں.عنقریب ہم ان کے دلوں پر رعب ڈال دیں گے.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ کا امر ہماری طرف رجوع کرے گا کہا جائے مَعِيَ أَيْنَمَا كُنتَ كُنْ مَعَ اللهِ حَيْثُ گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا.میں تیرے ساتھ ہوں.مَا كُنتَ.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.میرے ساتھ ہو جہاں تو ہووے.خدا کے ساتھ ہو إِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا يَرْفَعُ اللَّهُ ذِكْرَكَ.وَيَتِ جہاں تو ہووے.تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے نفع کے لئے نکالے گئے.تو ہماری آنکھوں کے إِلَيْنَا أَلَيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ.إِنِّي مَعَكَ.كُنْ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.سامنے ہے.خدا تیرے ذکر کو بلند کرے گا اور

Page 165

مجموعہ اشتہارات ۱۴۹ جلد دوم يَا أَحْمَدُ يَتِمُّ اِسْمُكَ وَلَايَتِمُّ اِسْمِي إِنِّی دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا.اے احمد تیرا نام پورا ہو جائے گا قبل رَافِعُكَ إِلَيَّ الْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةٌ مِنِّي اس کے جو میرا نام پورا ہو.میں تجھے اپنی طرف شَانُكَ عَجِيبٌ وَاجُرُكَ قَرِيبٌ.اٹھانے والا ہوں.میں نے اپنی محبت کو تجھ پر ڈال لے دیا.تیری شان عجیب ہے.تیرا اجر قریب ہے.الْأَرْضُ وَالسَّمَاءُ مَعَكَ كَمَا هُوَ مَعِى زمین و آسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ وہ میرے سُبْحَانَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى زَادَ أنتَ وَجِيَّةٌ فِي حَضْرَتِى اِخْتَرْتُكَ ساتھ ہے تو میری جناب میں وجیہ ہے.میں لِنَفْسِى أَنتَ وَجِيَّة فِي الدُّنْيَا وَحَضْرَتی نے تجھے اپنے لئے چن لیا.تو دنیا اور میری جناب میں وجیہ ہے پاک ہے وہ خدا جو بہت برکتوں والا اور بہت بلند ہے.تیری بزرگی کو اس نے زیادہ مَجْدَكَ.يَنْقَطِعُ آبَاءُ كَ وَيُبْدَءُ مِنكَ کیا.اب سے تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو نُصِرُتَ بِالرُّعْبِ وَأَحْيَيْتَ بِالصِّدْقِ.أَيُّهَا جائے گا اور خدا تجھ سے شروع کرے گا.تو رعب کے ساتھ مدد دیا گیا اور صدق کے ساتھ زندہ کیا الصِّدِّيقُ نُصِرُتَ.وَقَالُوا لَاتَ حِيْنَ گیا اے صدیق تو مددیا گیا.اور مخالف کہیں گے مَنَاصِ.آثَرَكَ اللهُ عَلَيْنَا وَلَوْ كُنَّا کہ اب گریز کی جگہ نہیں.خدا نے تجھے ہم پر كَارِهِيْنَ.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ.لَا اختیار کر لیا اگر چہ ہم کراہت کرتے تھے.اے ہمارے خدا ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے.آج تم پر تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَهُوَ اے رجوع کرنے والو کچھ سرزنش نہیں خدا تمہیں اَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ.وَمَا كَانَ اللهُ لِيَتُرُ كَكَ بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.اور خدا ایسا نہیں کہ تجھے یونہی چھوڑ دے جب تک پاک اور حَتَّى يَمِيْنَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ.پلید میں فرق کر کے نہ دکھلا دے.لے حاشیہ.ھو کی ضمیر واحد باعتبار واحد فی الذہن یعنی مخلوق ہے اور ایسا محاورہ قرآن شریف میں بہت ہے.منہ

Page 166

مجموعہ اشتہارات ۱۵۰ جلد دوم وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى اَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ اور خدا اپنے امر پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں لَا يَعْلَمُونَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ جانتے جب خدا کی مدداور فتح آئی اور اس کا کلمہ پورا ہوا کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جس میں تم جلدی وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ هَذَا الَّذِى كُنتُم بِهِ کرتے تھے.میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں تو تَسْتَعْجِلُونَ.أَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ میں نے آدم کو پیدا کیا میں نے اس کو برابر کیا اور اپنی ادَمَ سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِى.يُقِيمُ روح اس میں پھونکی.شریعت کو قائم کرے گا اور دین الشَّرِيعَةَ وَيُحْيِيى الدِّينَ.وَلَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ کو زندہ کرے گا اور اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تب مُعَلَّقًا بالقُريَّا لَنَالَهُ.سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بھی اسے پالیتا.پاک ہے وہ جس نے اپنے بندہ کو رات میں سیر کرایا آدم کو پیدا کیا اور اس کو عزت دی ذُو الْفِقَارُ عَلِيّ.يَكَادُ زَيْتُهُ يُضِيءُ وَلَوْلَمْ بِعَبْدِهِ لَيْلًا.خَلَقَ ادَمَ فَاكْرَمَهُ جَرِيُّ اللَّهِ خدا کا فرستادہ نبیوں کے حلہ میں.وہ لوگ جو کافر فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ.إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا ہو گئے اور خدا کی راہ سے روکنے لگے ایک فارسی النسل وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللهِ رَدَّ عَلَيْهِمْ رَجُلٌ مِّنْ آدمی نے ان کے خیالات کورڈ کیا.خدا اس کی کوشش فَارِسَ شَكَرَ اللَّهُ سَعْيَهُ.كِتَابُ الْوَلِي کا شکر گزار ہے.اس ولی کی کتاب ایسی ہے جیسے علی کی ذوالفقار.اس کا تیل یونہی چمکنے کو ہے اگر چہ آگ چھو بھی نہ جائے.تو حید کو پکڑ و توحید پکڑو! اے تَمْسَسْهُ نَارٌ خُذُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيدَ يَا فارس کے بیٹو.ہم نے اس کو قادیان کے قریب اتارا أَبْنَاءَ الْفَارِسَ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قَرِيبًا مِّنَ ہے اور حق کے ساتھ اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے الْقَادِيَانَ وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ساتھ اترا ہے اور جو خدا نے ٹھہرا رکھا تھا وہ ہونا ہی وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا.أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ تھا.کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت انتقام لینے والی ہیں.سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ دکھلائیں گے.اے میرے بندے مت خوف کر میں دیکھتا جَمِيعٌ مُنتَصِر سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ وَأَرَى.الدُّبُرِ.يَا عَبْدِى لَا تَخَفْ إِنِّي أَسْمَعُ وَاری.ہوں اور سنتا ہوں.کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو أَلَمْ تَرإِنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا کم کرتے چلے آتے ہیں اس کی طرفوں سے.

Page 167

مجموعہ اشتہارات ۱۵۱ جلد دوم الَمْ تَرَاَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے.محمد صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ وُلْدِ آدَمَ پر اور اس کی آل پر درود بھیج وہ بنی آدم کا سردار اور خاتم الانبیاء ہے.تو صراط مستقیم پر ہے.وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ.إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ.پس جو کچھ کم ہوتا ہے کھول کر بیان کر اور جاہلوں سے فَاصْدَعُ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ کنارہ کر.اور کہتے ہیں کہ دو شہروں میں سے ایک الْجَاهِلِينَ.وَقَالُوا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَى رَجُلٍ بڑے آدمی کو خدا نے کیوں مامور نہ کیا.اور کہتے ہیں کہ مِنْ قَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ.وَقَالُوا أَنَّى لَكَ هَذَا تجھے کہاں یہ رتبہ یہ تو مکر ہے کہ مل جل کر بنایا گیا ہے.إِنَّ هَذَا لَمَكْرُ مَكَرُ تُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ.اور کئی لوگوں نے اس فکر میں اس شخص کی مدد کی ہے.وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ اخَرُونَ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تجھے دیکھتے ہیں اور تو انہیں نظر نہیں آتا.اے لوگو جان او وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ کہ زمین مرگئی تھی اور خدا پھر اسے نئے سرے زندہ کر الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَمَنْ كَانَ لِلَّهِ كَانَ اللَّهُ لَهُ رہا ہے.اور جوخدا کا ہو خدا اس کا ہو جاتا ہے.خداان إِنَّ اللَّهُ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ کے ساتھ ہے جو پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہے جو نیکو کار ہیں.کہتے ہیں کہ یہ تمام افتراء قَالُوا إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقُ.قُلْ اَنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَی ہے کہ اگر میں نے افترا کیا ہے تو یہ سخت گناہ میری إِجْرَامٌ شَدِيدٌ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنْ أَمِينٌ.گردن پر ہے.آج تو ہمارے نزدیک بار تنبہ اور امین وَإِنَّ عَلَيْكَ رَحْمَتِي فِي الدُّنْيَا وَالدِّينِ.ہے.اور تیرے پر دین اور دنیا میں میری رحمت ہے.وَإِنَّكَ مِنَ الْمَنْصُورِينَ يَحْمَدُكَ اللهُ مِنْ اور تو مدد دیا گیا ہے.خدا عرش پر سے تیری تعریف کرتا عَرْشِهِ.يَحْمَدُكَ اللهُ وَيَمْشِي إِلَيْكَ.اَلا ہے.خدا تیری تعریف کرتا ہے.اور تیری طرف چلا آتا ہے.خبر دار خدا کی مدد قریب ہے.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.تجھے خوشخبری ہواے میرے بُشْرى لَكَ يَا احْمَدِی أَنْتَ مُرَادِى وَمَعِی احمد تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.میں تیرا إِنِّي نَاصِرُكَ إِنِّي حَافِظُكَ إِنِّي جَاعِلُكَ مددگار ہوں.میں تیرا حافظ ہوں میں تجھے لوگوں کا امام لِلنَّاسِ اِمَامًا.اَ كَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا.بناؤں گا.کیالوگوں کو تعجب ہوا.إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ كَمِثْلِكَ دُرِّ لَا يُضَاعُ.

Page 168

مجموعہ اشتہارات ۱۵۲ جلد دوم قُلْ هُوَ اللهُ عَجِيْبٌ يَجْتَبِي مَنْ يَّشَاءُ مِنْ كہ وہ خدا عجیب ہے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں کہہ میں سے چن لیتا ہے.وہ اپنے کاموں میں پوچھا نہیں جاتا اور دوسرے پوچھے جاتے ہیں.اور یہ عِبَادِهِ.لَا يُسْتَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْتَلُونَ.وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِ الُهَا بَيْنَ النَّاسِ.دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں اور کہتے وَقَالُوا إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلاقُ إِذَا نَصَرَ اللهُ ہیں کہ یہ تو ضرور افترا ہے.خدا جب مومن کو مدد الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَهُ الْحَاسِدِيْنَ فِي الْأَرْضِ دیتا ہے تو زمین پر اس کے کئی حاسد بنا دیتا ہے.کہہ خدا ہے جس نے یہ الہام کیا پھر ان کو چھوڑ قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ.لَا دے تا اپنی کج فکریوں میں بازی کریں.اولیاء تُحَاطُ أَسْرَارُ الْأَوْلِيَاءِ تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ کے اسرار پر کوئی احاطہ نہیں کرسکتا.لوگوں سے وَتَرَحْمُ عَلَيْهِمْ.أَنْتَ فِيْهِمْ بِمَنْزِلَةِ مُوسَى.لطف کے ساتھ پیش آ اور ان پر رحم کر.تو ان میں وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُوْلُوْنَ وَ ذَرْنِي وَ الْمُكَذِّبِينَ بمنزلہ موسیٰ کے ہے اور ان کی باتوں پر صبر کر اور منعم مکذبوں کی سزا مجھ پر چھوڑ دے.تو ہمارے پانی أُولِي النِّعْمَةِ.أَنْتَ مِنْ مَّاءِ نَاوَهُمْ مِنْ فَشَال سے ہے اور وہ لوگ فشل سے لے حاشیہ.یہ جوفرمایا کہ تو ہمارے پانی میں سے ہے اور وہ لوگ فشل سے.اس جگہ پانی سے مراد ایمان کا پانی ، استقامت کا پانی، تقوی کا پانی ، وفا کا پانی صدق کا پانی ، حُبّ اللہ کا پانی ہے.جو خدا سے ملتا ہے اور فشل بزدلی کو کہتے ہیں جو شیطان سے آتی ہے.اور ہریک بے ایمانی اور بدکاری کی جڑ بزدلی اور نامردی ہے.جب قوت استقامت باقی نہیں رہتی تو انسان گناہ کی طرف جھک جاتا ہے.غرض فشل شیطان کی طرف سے ہے اور عقائد صالحہ اور اعمال طبیبہ کا پانی خدا تعالیٰ کی طرف سے.جب بچہ پیٹ میں پڑتا ہے تو اس وقت اگر بچہ سعید ہے اور نیک ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر روح القدس کا سایہ ہوتا ہے اور اگر بچہ شقی ہے اور بدہونے والا ہے تو اس نطفہ پر شیطان کا سایہ ہوتا ہے اور شیطان اس میں شراکت رکھتا ہے اور بطور استعارہ وہ شیطان کی ذریت کہلاتی ہے اور جو خدا کے ہیں وہ خدا کے کہلاتے ہیں جن کو پہلی کتابوں میں بطور استعارہ ابناء اللہ کہا گیا ہے.چنانچہ یہ لفظ آدم اور یعقوب وغیرہ بہت سے نبیوں پر استعمال ہوا ہے اور انجیل میں مسیح ابن مریم پر بھی استعمال پایا ہے اور کسی کی اس میں کچھ خصوصیت نہیں صرف بلحاظ مذکورہ بالا استعمال پاتا رہا ہے چنانچہ سیح ابن مریم کی نسبت احادیث سے جو معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے مکس سے وہ اور اس کی ماں پاک ہے تو یہ لفظ اسی اظہار کی غرض سے ہے کہ عیسی بن مریم کی ناجائز پیدائش نہیں جیسا کہ یہودیوں کا خیال ہے نا نطفہ پر شیطان کا سایہ مانا جائے.بلکہ بلاشبہ برخلاف زعم یہودیوں کے وہ حلال زادہ تھا اورمریم بدکار عور نہیں تھی.اس مسئلہ میں اصول یہ ہے کہ شیطان کا سایہ جس کو مکس اور اشتراک بھی کہتے ہیں جس کے لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ یہ شخص ذریت شیطان ہے یا بائبل کے محاورہ کے رو سے نسخاش کا بچہ ہے یعنی سانپ کا جو شیطان ہے صرف اس صورت میں کسی نطفہ پر پڑتا ہے جبکہ نفہ ڈالنے والایا وہ جس کے رحم میں نطفہ ٹھہرا نہایت بری

Page 169

مجموعہ اشتہارات ۱۵۳ جلد دوم وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ امِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ اور جب ان کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسا کہ اچھے قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمُ آدمی ایمان لائے.تو جواب میں کہتے ہیں کہ کیا اس طرح ایمان لائیں جیسا کہ سفیہ اور بیوقوف هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِن لَّا يَعْلَمُونَ.قُلْ اِن ایمان لائے.خوب یادرکھو کہ در حقیقت بیوقوف اور كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ فیہ یہی لوگ ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ ہم کیسی غلطی اللَّهُ.قِيْلَ ارْجِعُوا إِلَى اللَّهِ فَلَا تَرْجِعُونَ پر ہیں.ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت وَقِيلَ اسْتَحْوِدُوا فَلَا تَسْتَحْوِذُونَ رکھے.کہا گیا کہ تم رجوع کر وسوتم نے رجوع نہ کیا.اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي جَعَلَكَ الْمَسِيحَ ابْنَ اور کہا گیا کہ تم اپنے وساوس پر غالب آ جاؤ سو تم غالب نہ آئے.سب تعریف خدا کو ہے جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا.اس جگہ فتنہ ہے.سواولوالعزم مَرْيَمَ الْفِتْنَةُ هَهُنَا فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أولُو الْعَزمِ.تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وتَبْ.لوگوں کی طرح صبر کر.ابی لہب کے دونوں ہاتھ مَا كَانَ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ فِيْهَا إِلَّا خَائِفًا.وَ مَا ہلاک ہو گئے اور وہ آپ بھی ہلاک ہو گیا.اس کو نہیں أَصَابَكَ فَمِنَ اللَّهِ.أَلَا إِنَّهَا فِتْنَةٌ چاہیے تھا کہ وہ اس فتنہ میں دخل دیتا یعنی اس کا بانی ہوتا مگر ڈرتے ہوئے.اور تجھے کوئی تکلیف نہیں مِنَ اللَّهِ لِيُحِبَّ حُبًّا جَمَّا.حُبًّا مِنَ پہنچے گی مگر اس قدر جو خدا نے مقرر کی.یہ فتنہ خدا کی اللهِ الْعَزِيزِ الْاكْرَمِ.عَطَاءًا طرف سے ہوتا ہے تا وہ تجھ سے بہت ہی پیار غَيْرَ مَـجُدُودٍ.وَقْتُ الْإِبْتِلَاءِ وَ کرے.یہ خدا کا پیار کرنا ہے جو غالب اور بزرگ ہے اور یہ پیار وہ عطا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی.وَقْتُ الْإِصْطِفَاءِ، وَلَايُرَدُّ وَقْتُ ابتلاء کا وقت.ہے اور اصطفاء کا وقت ہے اور الْعَذَابِ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ.عذاب کا وقت مجرموں کے سر پر سے کبھی نہیں بقیہ حاشیہ.حالت میں ہوں اور گناہ اور سخت دلی کی تاریکی ان پر ایسی محیط ہو کہ کوئی گوشہ خالی نہ ہو اور فطرتی نور بالکل محجوب ہو اور ایسی صورت میں بچے نہایت خبیث پیدا ہوتے ہیں کیونکہ شیطان کے سایہ کے نیچے ان کا خاکہ بنتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ اکثر چوروں اور ڈاکوؤں کے بچے چور اور ڈاکو ہی نکلتے ہیں اور راستبازوں کے راستباز _ فتأمل منه

Page 170

مجموعہ اشتہارات ۱۵۴ جلد دوم وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ مل سکتا.اور اے اس مامور کی جماعت ست مت ہو جانا اور غم میں نہ پڑ جانا اور بالآ خرغلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر ثابت رہو گے.یہ ممکن ہے کہ ایک چیز کو تم كُنتُم مُّؤْمِنِينَ.وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرِّلَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ چاہو اور وہ دراصل تمہارے لئے اچھی نہ ہواور ایک چیز خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ سے نفرت کرو اور وہ دراصل تمہارے لئے اچھی ہو اور كُنْتُ كَنرًا مَّخْفِيًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَعْرَفَ إِنَّ خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.میں ایک خزانہ پوشیدہ تھا سو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں.زمین و السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا.آسمان بندھے ہوئے تھے سو ہم نے دونوں کو کھول وَإِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا اَهَذَا الَّذِى دیا.اور تجھے انہوں نے ایک جنسی کی جگہ بنارکھا ہے.بَعَثَ اللَّهُ.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى کیا یہی ہے جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا.کہہ میں ایک آدمی ہوں تم جیسا مجھے خدا سے الہام ہوتا ہے کہ إِلَيَّ أَنَّمَا الهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ تمہارا خدا ایک خدا ہے اور تمام بھلائی قرآن میں فِي الْقُرْآنِ.وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمَرًا مِّنْ ہے.اور میں اس سے پہلے ایک مدت سے تم میں ہی قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.وَقَالُوا إِنْ هَذَا إِلَّا افْتِرَاءٌ رہتا تھا کیا تمہیں میرے حالات معلوم نہیں.اور انہوں نے کہا یہ باتیں افترا ہیں کہ حقیقی ہدایت جس قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى أَلَا إِنَّ حِزْبَ میں غلطی نہ ہو خدا کی ہدایت ہے اور خبر دار ہو کہ خدا کا اللهِ هُمُ الْغَالِبُونَ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا گر وہ ہی آخر کار غالب ہوتا ہے ہم نے تجھے کھلی کھلی مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبكَ فتح دی ہے تا تیرے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کئے وَمَا تَأَخَّرَ أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدُهُ.فَبَرَّأَهُ جائیں.کیا خدا اپنے بندہ کیلئے کافی نہیں ہے.سو خدا نے ان کے الزاموں سے اس کو بری کیا اور وہ اللهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِيْهَا.خدا کے نزدیک وجیہ ہے.اور خدا کافروں کے مکر کو وَاللهُ مُؤهِنُ كَيْدَ الْكَاذِبِينَ.وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً ست کر دے گا.اور ہم اس کو لوگوں کے لئے نشان لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا بنائیں گے اور رحمت کا نمونہ ہوگا اور یہی مقدر تھا.

Page 171

مجموعہ اشتہارات جلد دوم قَوْلَ الْحَقِ الَّذِي فِيهِ تَمْتَرُونَ.يَا أَحْمَدُ یہ وہ سچا قول ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں.فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْكَ إِنَّا اے احمد رحمت تیرے لبوں پر جاری ہورہی ہے أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ.فَصَلِّ لِرَبِّكَ ہم نے تجھے بہت سے حقائق اور معارف اور برکات بخشے ہیں اور ذریت نیک عطا کی ہے سوخدا وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ کیلئے نماز پڑھ اور قربانی کر.تیرا بد گو بے خیر ہے يَأْتِي قَمَرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَمُرُكَ يَتَأْتَى یعنی خدا اسے بے نشان کردے گا اور وہ نامراد يَوْمٌ يَجِيءُ الْحَقُّ وَيُكْشَفُ الصّدقُ مرے گا.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے وَيَخْسِرُ الْخَاسِرُونَ.اَقِمِ الصَّلوةَ حاصل ہو جائے گا.اس دن حق آئے گا اور بیچ لِذِكْرِى أَنْتَ مَعِى و اَنَا مَعَكَ کھولا جائے گا اور جو خسران میں ہیں ان کا سرک سرى.وَضَعْنَا عَنكَ خسران ظاہر ہو جائے گا.میری یاد میں نماز کو قائم وِزْرَكَ الَّذِی اَنقَضَ ظَهرَک کرے تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.تیرا بھید میرا بھید ہے.ہم نے تیرا وہ بوجھ اتار دیا وَرَفَعْنَالَکَ ذِكْرَكَ يُخَوِّفُونَكَ جس نے تیری کمر توڑ دی.اور تیرے ذکر کو ہم نے مِنْ دُونِهِ.أَئِمَّةُ الْكُفْرِ.لَا تَخَفْ بلند کیا.تجھے خدا کے سوا اوروں سے ڈراتے ہیں.یہ کفر کے پیشوا ہیں.مت ڈر غلبہ تھی کو ہے.إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى.لے حاشیہ.یہ الہام کہ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ اس وقت اس عاجز پر خدا تعالیٰ کی طرف سے القا ہوا کہ جب ایک شخص نو مسلم سعد اللہ نام نے ایک نظم گالیوں سے بھری ہوئی اس عاجز کی طرف بھیجی تھی اور اس میں اس عاجز کی نسبت اس ہند وزادہ نے وہ الفاظ استعمال کئے تھے کہ جب تک ایک شخص در حقیقت شقی خبیث طینت فاسد القلب نہ ہو ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتا.اگر چہ ایسے لفظوں اور ایسی گالیوں میں جو د قبال، شیطان، کذاب، کافر، اکفر، مکار کے نام سے ہیں اور دوسرے مولوی بھی اس کے ساتھ شریک ہیں بلکہ باطل پرست بطالوی جو محمد حسین کہلاتا ہے شریک غالب اور اغـدى الاغدَاء ہے لیکن اس ہند وزادہ کی خباثت فطرتی اس لئے سب سے بڑھ کر ہے کہ با وجود محض جاہل ہونے کے یہ شعر بھی اردو میں کہتا ہے اور شعروں میں گالیاں نکالتا ہے اور نہایت بدگوئی سے افتراء بھی کرتا ہے اور بہتان کے طور پر ایسی دشنام دہی کرتا ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب کے شاعر بے ایمان گالیاں نکالا کرتے تھے.سو یہ الہام اس کے اشتہار اور رسالہ کے پڑھنے کے وقت ہوا کہ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُسواگر اس ہند وزادہ بدفطرت کی نسبت ایسا وقوع میں نہ آیا اور وہ نامراد اور ذلیل اور رسوا نہ مرا تو سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں.منہ

Page 172

مجموعہ اشتہارات ۱۵۶ جلد دوم اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِى لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ.اَللَّهُ الَّذِي جَعَلَكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مُتَوَفِّيكَ غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِى رَحْمَتِي وَقَدْ رَتِی لَنُ میں نے اپنی رحمت اور قدرت کے درخت تیرے لئے يُجْعَلَ اللهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ اپنے ہاتھ سے لگائے.خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا کہ سَبِيلًا يَنْصُرُكَ اللهُ فِي مَوَاطِنَ.كَتَبَ کافروں کا مومنوں پر کچھ الزام ہو.خدا تجھے کئی میدانوں میں فتح دے گا.خدا کا یہ قدیم نوشتہ ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے.اس کے کلموں کو کوئی بدل نہیں سکتا.وہ خدا جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا.کہہ یہ خدا کا مَرْيَمَ.قُلْ هَذَا فَضْلُ رَبِّي وَ إِلَى أَجَرِّدُ نَفْسِي فضل ہے اور میں تو کسی خطاب کو نہیں چاہتا.اے عیسی مِنْ ضُرُوبِ الْخِطَابِ.يَا عِيسَى إِنِّي میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا اور رَقِيْكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ وَ جَاعِلُ الَّذِينَ تیرے تابعداروں کو مخالفوں پر قیامت تک غلبہ بخشوں اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمَ گا.خدا نے تیرے پر خوشبو دار نظر کی.اور لوگوں نے الْقَيَامَةِ.نَظَرَ اللهُ إِلَيْكَ مُعَطَّرًا.وَقَالُوا ولوں میں کہا کہ اے خدا کیا تو ایسے مفسد کو اپنا خلیفہ بنائے أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيْهَا قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَالَا گا.خدا نے کہا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تمہیں معلوم تَعْلَمُونَ.وَقَالُوا كِتَابٌ مُّمُتَلِیءٌ مِّنَ الْكُفْرِ وَ نہیں.اور لوگوں نے کہا کہ یہ کتاب کفر اور کذب سے الْكَذِبِ.قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَأَبْنَاءَ كُمُ بھری ہوئی ہے.ان کو کہہ دے کہ آؤ ہم اور تم اپنے بیٹوں وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ كُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ اور عورتوں اور عزیزوں سمیت ایک جگہ اکٹھے ہوں پھر نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.سَلَامٌ مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر لعنت بھیجیں.ابراہیم یعنی اس عاجز پر سلام ہم نے اس سے دلی دوستی کی اور غم سے نجات عَلَى إِبْرَاهِيمَ صَافَيْنَاهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمّ.دی.یہ ہمارا ہی کام تھا جو ہم نے کیا.اے داؤ دلوگوں تَفَرَّدْنَا بِذَالِكَ يَا دَاوُدُ عَامِلُ بِالنَّاسِ رِفْقًا سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاملہ کر.تو اس حالت وَاِحْسَانًا تَمُوتُ وَأَنَا رَاضِ مِّنْكَ وَاللهُ میں مرے گا کہ میں تجھ سے راضی ہوں گا.اور خدا تجھ کو يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ كَذَّبُوا بِآيَاتِي وَكَانُوا لوگوں کے شر سے بچائے گا.انہوں نے میرے بِهَا يَسْتَهْزِءُ وُنَ.فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَيَرُدُّهَا نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا سوخدا ان کے لئے إِلَيْكَ أَمْرٌ مِّنْ لَّدُنَّا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ.تجھے کفایت کرے گا.اور اس عورت کو تیری طرف واپس لے حاشیہ.شیخ محمد حسین بطالوی کا یہ اعتراض ہے کہ الہام کا یہ فقرہ کہ يَرُدُّهَا إِلَيْكَ خلاف محاورہ ہے.کیونکہ رڈ کا لفظ اس صورت میں آتا ہے کہ ایک چیز اپنے پاس ہو پھر چلی جائے اور پھر واپس آوے لیکن افسوس کہ اس کو باعث

Page 173

مجموعہ اشتہارات ۱۵۷ جلد دوم زَوَّجُنَاكَهَا الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ لائے گا.یہ امر ہماری طرف سے ہے اور ہم ہی مِنَ الْمُمْتَرِينَ.لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ کرنے والے ہیں بعد واپسی کے ہم نے نکاح کر دیا.تیرے رب کی طرف سے سچ ہے پس تو إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ إِنَّا رَادُّوهَا شک کرنے والوں سے مت ہو.خدا کے کلمے بدلا إِلَيْكَ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ أَجَلٍ قَرِيبٍ.يَأْتِي قَمَرُ الْأَنْبِيَاءِ وَامْرُكَ نہیں کرتے.تیرا رب جس بات کو چاہتا ہے وہ بالضرور اس کو کر دیتا ہے.کوئی نہیں جو اس کو روک الْأَرْضِ إِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا اَنْسَابَ سے ہم اس کو واپس لانے والے ہیں.اس دن بَيْنَهُمُ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى زمین دوسری زمین سے بدلائی جائے گی.جب صور میں پھونکا گیا تو کوئی رشتہ ان میں باقی نہیں رہے گا خدا ان کو ایک مقررہ وقت تک مہلت دے يَتَأْتي هَذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ.تَوَجَّهْتُ رہا ہے جو نزدیک وقت ہے.نبیوں کا چاند آئے گا لِفَصْلِ الْخِطَابِ إِنَّا رَادُّوهَا إِلَيْكَ.اور تیرا کام حاصل ہو جائے گا.یہ سخت دن ہے.آج میں فیصلہ کرنے کے لئے متوجہ ہوا ہم اس کو إِنِ اسْتَجَارَتُكَ فَاجِرُهَا.وَلَا تَخَفْ تیری طرف واپس لائیں گے اگر تیری طرف پناہ سَنُعِيدُهَا سِيْرَتَهَا الْاُولى.إِنَّا فَتَحْنَالَكَ ڈھونڈے تو پناہ دے دے.اور مت خوف کر ہم خا مُّبِينًا يَا نُوحٍ اَسِرُ رُؤْيَاكَ.اس کی پہلی خصلت پھر اس میں ڈال دیں گے.ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح دی.اے نوح اپنے خواب بقیہ حاشیہ کمی واقفیت علم زبان کے معلوم نہیں کہ یہ لفظ ادنی تعلق کے ساتھ بھی استعمال ہو جاتا ہے.اس کی کلام عرب میں ہزاروں مثالیں ہیں جن کے لکھنے کا اس مقام میں موقعہ نہیں چونکہ اس جگہ قرابت قریب تھی اور نزدیک کے رشتہ کے تعلقات نے اپنے پاس کے حکم میں اس کو کیا ہوا تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسا لفظ استعمال کیا جو ان چیزوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے جو اپنے پاس سے چلی جائیں اور پھر واپس آویں.ہاں اس جگہ یہ نہایت لطیف اشارہ تھا کہ خدا نے يَرُدُّهَا کا لفظ استعمال کیا تا معلوم ہو کہ اول اس کا اپنے پاس سے بے تعلق لوگوں میں چلے جانا ضروری ہے پھر واپس آنا تقدیر میں ہے فقط.منہ

Page 174

مجموعہ اشتہارات ۱۵۸ جلد دوم وَ قَالُوا مَتَى هَذَا الْوَعْدُ قُلْ إِنَّ وَعْدَ الله کو پوشیدہ رکھ.اور کہا لوگوں نے کہ یہ وعدہ کب ہوگا.کہہ خدا کا وعدہ سچا وعدہ ہے.تو میرے ساتھ اور میں حَقِّ أَنْتَ مَعِي وَأَنَا مَعَكَ.وَلَا يَعْلَمُونَ تیرے ساتھ ہوں.اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا.إِلَّا الْمُسْتَرْشِدُونَ.لَا تَيْنَسُ مِنْ رَّوْحِ مگروہی جو رشد رکھتے ہیں.خدا کے فضل سے نومید اللهِ.أَنْظُرُ إِلى يُوسُفَ وَإِقْبَالِهِ.اِطَّلَعَ اللهُ مت ہو.یوسف کو دیکھ اور اس کے اقبال کو.خدا اس عَلَى هَمِّهِ وَعَمِهِ.وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ کے یعنی آتھم کے غم پر مطلع ہوا.اس لئے اس نے عذاب میں تاخیر کی.یہ خدا کی سنت ہے.اور تو خدا کی تَبْدِيلًا.وَلَا تَعْجَبُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُتم سنت میں تبدیلی نہیں پائے گا.اور تجب مت کرو اور الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ وَبِعِزَّتِى غمناک مت ہو اور تم ہی غالب ہو اگر تم ایمان پر وَجَلَالِي إِنَّكَ أَنتَ الأَعْلَى وَنُمَزّق ثابت قدم رہے اور مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ غلبہ بھی کو ہے.اور ہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے الْأَعْدَاءَ كُلَّ مُمَزَّقٍ.وَ مَكْرُ أُولئِكَ هُوَ کردیں گے اور ان کا مکر ہلاک ہو جائے گا اور ہم يَبُورُ إِنَّا نَكْشِفُ السِرَّ عَنْ سَاقِهِ.يَوْمَئِذٍ حقیقت کو اس کی پنڈلی سے کھول دیں گے.اس دن يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ.ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِّنَ مؤمن خوش ہوں گے اور گروہ پہلوں میں سے اور الْآخِرِينَ.وَهَذَا تَذْكِرَةً فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ ایک پچھلوں میں سے.اور یہ تذکرہ ہے پس جو إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا.إِنَّ النَّصَارَى حَوَّلُوا الْاَمْرَ.چاہے خدا کی راہ کو اختیار کرے.نصاری نے حقیقت کو بدلا دیا ہے سو ہم ذلت اور شکست کو نصاری پر سَنَرُدُّهَا عَلَى النَّصَارَى لِيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ.واپس پھینک دیں گے.اور آتھم نابود کرنے والی إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيْمٍ مَظْهَرُ الْحَقِّ آگ میں ڈال دیا جاوے گا.ہم تجھے ایک حلیم لڑکے وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.اِسْمُهُ کی خوشخبری دیتے ہیں جو حق اور بلندی کا مظہر ہوگا عَمَانُوائل.يُولَدُ لَكَ الْوَلَدُ.وَيُدْنى مِنْكَ گویا خدا آسمان سے اترا.نام اس کا عمانوایل ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.تجھے الْفَضْلُ إِنَّ نُوْرِى قَرِيْبٌ.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ کا دیا جائے گا اور خدا کا فضل تجھ سے نزدیک ہوگا.میرا نور قریب ہے کہہ میں شریر مخلوقات سے خدا کی پناہ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ.

Page 175

مجموعہ اشتہارات ۱۵۹ جلد دوم گویعنی عِجُلٌ جَسَدَللَّه خُوَارٌ فَلَهُ نَصَب مانگتا ہوں.یہ بیجان گوسالہ ہے اور بیہودہ گو یعنی لیکھرام پشاوری سو اس کو دکھ کی ماراور عذاب وعَذَابٌ.ہوگا.یعنی اسی دنیا میں.(فارسی وارد والهام) بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا اور تیری برکتیں پھیلاؤں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.آمین یہ کسی قدر نمونه ان الہامات کا ہے جو وقتاً فوقتاً مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئے ہیں اور ان کے سوا اور بھی بہت سے الہامات ہیں مگر میں خیال کرتا ہوں کہ جس قدر میں نے لکھا ہے وہ کافی ہے.اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ ،خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے اور نیز ان تمام الہامات میں اس عاجز کی اس قدر تعریف اور توصیف ہے کہ اگر یہ تعریفیں در حقیقت خدا تعالی کی طرف سے ہیں تو ہر ایک مسلمان کو چاہیے کہ تمام تکبر اور نخوت اور شیخی سے الگ ہو کر ایسے شخص کی فرمانبرداری کا جو اپنی گردن پر لے لے جس کی دشمنی میں خدا کی لعنت اور محبت میں خدا کی محبت ہے لیکن اگر یہ تعریفیں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں اور یہ تمام کلمات جو الہام کے دعوئی پر

Page 176

مجموعہ اشتہارات ۱۶۰ جلد دوم پیش کئے گئے ہیں خدائے قادر و قدوس کا الہام نہیں ہیں بلکہ ایک دنبال کذاب نے چالا کی کی راہ سے ان کو آپ بنالیا ہے اور بندگان خدا کو یہ دھوکہ دینا چاہا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے الہام ہیں تو درحقیقت وہ جو نہایت بے باکی سے خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے خدا تعالی کی گرجنے والی صاعقہ کے نیچے کھڑا ہے اور اس کے س کے مشتعل غضب کا نشانہ ہے اور کوئی اس کو اس قہار اور غیور کے ہاتھ سے چھوڑ انہیں سکتا.کیا یہ بات تعجب میں نہیں ڈالتی کہ ایسا کذاب اور دجال اور مفتری جو برابر بیس برس کے عرصہ سے خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہا ہے اب تک کسی ذلّت کی مار سے ہلاک نہ ہوا.اور کیا یہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ جس سلسلہ کا تمام مدار ایک مفتری کے افتر اپر تھاوہ اتنی مدت تک کسی طرح چل نہیں سکتا تھا لے توریت اور قرآن شریف دونوں گواہی دے رہے ہیں کہ خدا پر افترا کرنے والا جلد تباہ ہو جاتا ہے.کوئی نام لینے والا اس کا باقی نہیں رہتا.اور انجیل میں بھی لکھا ہے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہے تو جلد باطل ہو جائے گا.لیکن اگر خدا کا ہے تو ایسا نہ ہو کہ تم مقابلہ کر کے مجرم ٹھہرو.الله جَلَّ شَانُه قرآن شریف میں فرماتا ہے.اِن یک كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفُ كَذَّابٌ لِ ے نوٹ.اگر کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ دنیا میں صد ہا جھوٹے مذہب ہیں جو ہزاروں برسوں سے چلے آتے ہیں.حالانکہ ابتدا ان کی کسی کے افترا سے ہی ہوگی تو اس کا جواب یہ ہے کہ افتر ا سے مراد ہمارے کلام میں وہ افترا ہے کہ کوئی شخص عمداً اپنی طرف سے بعض کلمات تراش کر یا ایک کتاب بنا کر پھر یہ دعویٰ کرے کہ یہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس نے مجھے الہام کیا ہے اور ان باتوں کے بارے میں میرے پر اس کی وحی نازل ہوئی ہے حالانکہ کوئی وحی نازل نہیں ہوئی.سو ہم نہایت کامل تحقیقات سے کہتے ہیں کہ ایسا افترا کبھی کسی زمانہ میں چل نہیں سکا.اور خدا کی پاک کتاب صاف گواہی دیتی ہے کہ خدا تعالیٰ پر افترا کرنے والے جلد ہلاک کئے گئے ہیں.اور ہم لکھ چکے ہیں کہ توریت بھی یہی گواہی دیتی ہے اور انجیل بھی اور فرقان مجید بھی ہاں جس قدر دنیا میں جھوٹے مذہب نظر آتے ہیں جیسے ہندوؤں اور پارسیوں کا مذہب.ان کی نسبت یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی جھوٹے پیغمبر کا سلسلہ چلا آتا ہے بلکہ اصل حقیقت ان میں یہ ہے کہ خودلوگ غلطیوں میں پڑتے پڑتے ایسے عقائد کے پابند ہو گئے ہیں.دنیا میں تم کوئی ایسی کتاب دکھا نہیں سکتے جس میں صاف اور بے تناقض لفظوں میں کھلا کھلا یہ دعوئی ہو کہ یہ خدا المومن : ٢٩

Page 177

مجموعہ اشتہارات ۱۶۱ جلد دوم یعنی اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ اس پر پڑے گا اور اگر یہ سچا ہے تو تم اس کی ان بعض پیشگوئیوں سے بچ نہیں سکتے جو تمہاری نسبت وہ وعدہ کرے خدا ایسے شخص کو فتح اور کامیابی کی راہ نہیں دکھلاتا جو فضول گو اور کذاب ہو.اب اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینو! یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے.اور اگر چه یه جماعت بہ نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فِئَه قلیلہ ہے اور شاید اس وقت تک چار ہزار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی تاہم یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.وہ راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے.اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گر دا حاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا.کیا تم نے کچھ کم زور لگایا.پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہتا.اسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آپ لوگوں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں.تاجو راستی کا دشمن ہے وہ تباہ ہو جائے اور جو اندھیرے کو پسند کرتا ہے وہ عذاب کے اندھیرے میں پڑے.پہلے میں نے کبھی ایسے مباہلہ کی نیت نہیں کی اور نہ چاہا کہ کسی پر بددعا کروں.عبدالحق غزنوی ثم امرتسری نے مجھ سے مباہلہ چاہا مگر میں مدت تک اعراض کرتا رہا.آخر اس کے نہایت اصرار پر مباہلہ ہوا مگر میں نے اس کے حق میں کوئی بددعا نہیں کی لیکن اب میں بہت ستایا گیا اور دکھ دیا گیا مجھے کا فرٹھہرایا گیا مجھے دقبال کہا گیا.میرا نام شیطان رکھا گیا.مجھے کذاب اور مفتری سمجھا گیا.میں ان کے اشتہاروں میں لعنت کے ساتھ یاد کیا گیا.میں ان کی مجلسوں میں نفرین کے ساتھ پکارا گیا.میری تکفیر پر آپ لوگوں بقیہ حاشیہ کی کتاب ہے حالانکہ اصل میں وہ خدا کی کتاب نہ ہو.بلکہ کسی مفتری کا افترا ہو اور ایک قوم اس کو عزت کے ساتھ مانتی چلی آئی ہو.ہاں ممکن ہے کہ خدا کی کتاب کے الٹے معنی کئے گئے ہوں جس حالت میں انسانی گورنمنٹ ایسے شخص کو نہایت غیرت مندی کے ساتھ پکڑتی ہے کہ جو جھوٹے طور پر ملازم سرکاری ہونے کا دعویٰ کرے تو خدا جو اپنے جلال اور ملکوت کے لئے غیرت رکھتا ہے کیوں جھوٹے مدعی کو نہ پکڑے.منہ

Page 178

مجموعہ اشتہارات ۱۶۲ جلد دوم نے ایسی کمر باندھی کہ گویا آپ کو کچھ بھی شک میرے کفر میں نہیں.ہر ایک نے مجھے گالی دینا اجر عظیم کا موجب سمجھا اور میرے پر لعنت بھیجنا اسلام کا طریق قرار دیا.پر ان سب تلخیوں اور دکھوں کے وقت خدا میرے ساتھ تھا.ہاں وہی تھا جو ہر ایک وقت مجھ کو تسلی اور اطمینان دیتا رہا.کیا ایک کیڑا ایک جہان کے مقابل کھڑا ہوسکتا ہے.کیا ایک ذرہ تمام دنیا کا مقابلہ کرے گا.کیا ایک دروغ گوکی ناپاک روح یہ استقامت رکھتی ہے.کیا ایک ناچیز مفتری کو یہ طاقتیں حاصل ہوسکتی ہیں.سویقینا سمجھو کہ تم مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے لڑ رہے ہو.کیا تم خوشبو اور بد بو میں فرق نہیں کر سکتے.کیا تم سچائی کی شوکت کو نہیں دیکھتے.بہتر تھا کہ تم خدا تعالیٰ کے سامنے روتے اور ایک ترساں اور ہراساں دل کے ساتھ اس سے میری نسبت ہدایت طلب کرتے اور پھر یقین کی پیروی کرتے نہ شک اور وہم کی.سواب اٹھو اور مباہلہ کیلئے طیار ہو جاؤ.تم سن چکے ہو کہ میرا دعوئی دو باتوں پر مبنی تھا.اوّل نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر.دوسرے الہامات الہیہ پر.سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کی کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکا توڑ کر پھینک دے.اب میرے بناء دعوئی کا دوسراشق باقی رہا.سو میں اس ذات قادر غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کوکوئی ایماندار رد نہیں کر سکتا کہ اب اس دوسری بنا ء کی تصفیہ کے لیے مجھ سے مباہلہ کر لو.اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گا اور دعا کروں گا کہ یا الہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میرا ہی افترا ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنالیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے.یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر جب تک کہ موت آجائے.تا میری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا

Page 179

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں.اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے.لیکن اے خدائے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں.اور تیرے منہ کی باتیں ہیں.تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگِ دیوانہ کا شکار بنا.اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر.اور جب میں یہ دعا کر چکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہر ایک شخص جو مباہلہ کے لیے حاضر ہو جناب الہی میں یہ دعا کرے کہ اے خدائے علیم و خبیر ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے درحقیقت کذاب اور مفتری اور کافر جانتے ہیں.پس اگر یہ شخص در حقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افترا ہے.تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کر دے تا لوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں.اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی پاک باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کافر اور کذاب سمجھتے ہیں دکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اندر نازل کر اور کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگِ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر.اور جب یہ دعافریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.اور یادر ہے کہ اگر کوئی شخص مجھے کذاب اور مفتری تو جانتا ہے مگر کافر کہنے سے پر ہیز رکھتا ہے تو اس کو اختیار ہوگا کہ اپنے دعائی مباہلہ میں صرف کذاب اور مفتری کا لفظ استعمال کرے جس پر اس کو یقین دلی ہے.اور اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں جان بُری کے آثار نہ پائے جائیں تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے اور میں ہمیشہ کی لعنت

Page 180

مجموعہ اشتہارات ۱۶۴ جلد دوم کے ساتھ ذکر کیا جاؤں گا اور میں ابھی لکھ دیتا ہوں کہ اس صورت میں مجھے کا ذب اور مور د لعنت الہی یقین کرنا چاہیے اور پھر اس کے بعد میں دجال یا ملعون یا شیطان کہنے سے ناراض نہیں اور اس لائق ہوں گا کہ ہمیشہ کے لیے لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں اور اپنے مولیٰ کے فیصلہ کو فیصلہ ناطق سمجھوں گا اور میری پیروی کرنے والا یا مجھے اچھا اور صادق سمجھنے والا خدا کے قہر کے نیچے ہو گا.پس اس صورت میں میرا انجام نہایت ہی بد ہوگا جیسا کہ بدذات کا ذبوں کا انجام ہوتا ہے.لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفات بدنی سے بچالیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر یک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہو گیا.اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہوگئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا.اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا.میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں نے پہلے اس سے کبھی کلمہ گو کے حق میں بددعا نہیں کی اور صبر کرتا رہا.مگر اس روز خدا سے فیصلہ چاہوں گا.اور اس کی عصمت اور عزت کا دامن پکڑوں گا کہ تاہم میں سے فریق ظالم اور دروغگو کو تباہ کر کے اس دین متین کو شریروں کے فتنہ سے بچاوے.میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں.اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کا ذب سمجھوں گا اگر چہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.اور اگر میں مرگیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دنیا میں ٹھنڈ اور آرام ہو جائے گا.میرے مباہلہ میں یہ شرط ہے کہ اشخاص مندرجہ ذیل میں سے کم سے کم دس آدمی حاضر ہوں اس سے کم نہ ہوں اور جس قدر زیادہ ہوں میری خوشی اور مراد ہے کیونکہ بہتوں پر عذاب الہی کا محیط ہو جانا ایک ایسا کھلا کھلا نشان ہے جو کسی پر مشتبہ نہیں رہ سکتا.گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہوا اور نہ تکفیر اور تو ہین کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو.اور

Page 181

مجموعہ اشتہارات ۱۶۵ جلد دوم اے مومنو! برائے خدا تم سب کہو کہ آمین.مجھے افسوس سے یہ بھی لکھنا پڑا کہ آج تک ان ظالم مولویوں نے اس صاف اور سید ھے فیصلہ کی طرف رخ ہی نہیں کیا.تا اگر میں ان کے خیال میں کا ذب تھا تو احکم الحاکمین کے حکم سے اپنی سزا کو پہنچ جاتا.ہاں بعض ان کے اپنی بدگوہری کی وجہ سے گورنمنٹ انگریزی میں جھوٹی شکائتیں میری نسبت لکھتے رہے اور اپنی عداوت باطنی کو چھپا کر مخبروں کے لباس میں نیش زنی کرتے رہے اور کر رہے ہیں جیسا کہ شیخ بطالوی عَلَيْهِ مَا يَسْتَحِقُهُ اگر ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی جناب سے ردشدہ نہ ہوتے تو مجھے دکھ دینے کے لئے مخلوق کی طرف التجا نہ لے جاتے.یہ نادان نہیں جانتے کہ کوئی بات زمین پر نہیں ہو سکتی جب تک کہ آسمان پر نہ ہو جائے اور گورنمنٹ انگریزی میں یہ کوشش کرنا کہ گویا میں مخفی طور پر گورنمنٹ کا بدخواہ ہوں یہ نہایت سفلہ پن کی عداوت ہے.یہ گورنمنٹ خدا کی گناہ گار ہوگی اگر میرے جیسے خیر خواہ اور بچے وفادار کو بدخواہ اور باغی تصور کرے.میں نے اپنی قلم سے گورنمنٹ کی خیر خواہی میں ابتدا سے آج تک وہ کام کیا ہے جس کی نظیر گورنمنٹ کے ہاتھ میں ایک بھی نہیں ہوگی اور میں نے ہزار ہا روپیہ کے صرف سے کتابیں تالیف کر کے ان میں جابجا اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں کو اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی چاہیے اور رعایا ہوکر بغاوت کا خیال بھی دل میں لانا نہایت درجہ کی بدذاتی ہے اور میں نے ایسی کتابوں کو نہ صرف برٹش انڈیا میں پھیلایا ہے بلکہ عرب اور شام اور مصر اور روم اور افغانستان اور دیگر اسلامی بلاد میں محض لکی نیت سے شائع کیا ہے نہ اس خیال سے کہ یہ گورنمنٹ میری تعظیم کرے یا مجھے انعام دے کیونکہ یہ میرا مذہب اور میرا عقیدہ ہے جس کا شائع کرنا میرے پر حق واجب تھا.تعجب ہے کہ یہ گورنمنٹ میری کتابوں کو کیوں نہیں دیکھتی اور کیوں ایسی ظالمانہ تحریروں سے ایسے مفسدوں کو منع نہیں کرتی.ان ظالم مولویوں کو میں کس سے مثال دوں.یہ ان یہودیوں سے مشابہ ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ناحق دکھ دینا شروع کیا اور جب کچھ پیش نہ گئی تو گورنمنٹ

Page 182

مجموعہ اشتہارات ۱۶۶ جلد دوم روم میں مخبری کی کہ یہ شخص باغی ہے.سو میں بار بار اس گورنمنٹ عادلہ کو یاد دلاتا ہوں کہ میری مثال مسیح کی مثال ہے میں اس دنیا کی حکومت اور ریاست کو نہیں چاہتا اور بغاوت کو سخت بدذاتی سمجھتا ہوں میں کسی خونی مسیح کے آنے کا قائل نہیں اور نہ خونی مہدی کا منتظر صلح کاری سے حق کو پھیلانا میرا مقصد ہے.اور میں تمام ان باتوں سے بیزار ہوں جو فتنہ کی باتیں ہوں یا جوش دلانے والے منصوبے ہوں.گورنمنٹ کو چاہیے کہ بیدار طبعی سے میری حالت کو جانچے اور گورنمنٹ روم کی شتاب کاری سے عبرت پکڑے اور خود غرض مولویوں یا دوسرے لوگوں کی باتوں کو سند نہ سمجھ لیوے کہ میرے اندر کھوٹ نہیں اور میرے لبوں پر نفاق نہیں.اب میں پھر اپنے کلام کو اصل مقصد کی طرف رجوع دے کر ان مولوی صاحبوں کا نام ذیل میں درج کرتا ہوں جن کو میں نے مباہلہ کے لیے بلایا ہے اور میں پھر ان سب کو اللہ جَلَّ شَانُ کی قسم دیتا ہوں کہ مباہلہ کے لئے تاریخ اور مقام مقرر کر کے جلد میدانِ مباہلہ میں آویں اور اگر نہ آئے اور نہ تکفیر اور تکذیب سے باز آئے تو خدا کی لعنت کے نیچے مریں گے.اب ہم ان مولوی صاحبوں کے نام ذیل میں لکھتے ہیں جن میں سے بعض تو اس عاجز کو کا فر بھی کہتے ہیں اور مفتری بھی.اور بعض کا فر کہنے سے تو سکوت اختیار کرتے ہیں مگر مفتری اور کذاب اور دقبال نام رکھتے ہیں.بہر حال یہ تمام مکفرین اور مکذبین مباہلہ کیلئے بلائے گئے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سجادہ نشین بھی ہیں جو مکفر یا مکذب ہیں اور در حقیقت ہر یک شخص جو باخدا اور صوفی کہلاتا ہے اور اس عاجز کی طرف رجوع کرنے سے کراہت رکھتا ہے وہ مکذبین میں داخل ہے.کیونکہ اگر مکذب نہ ہوتا تو ایسے شخص کے ظہور کے وقت جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی تھی کہ اس کی مدد کرو اور اس کو میرا اسلام پہنچاؤ اور اس کے مخلصین میں داخل ہو جاؤ تو ضرور اس کی جماعت میں داخل ہو جاتا.اور صاف باطن فقراء کیلئے یہ موقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر اور ہر یک کدورت سے الگ ہو کر اور کمال تضرع اور ابتہال سے اس پاک جناب میں توجہ کر کے اس راز سر بستہ کا اسی کے

Page 183

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کشف اور الہام سے انکشاف چاہیں.اور جب خدا کے فضل سے انہیں معلوم کرایا جائے تو پھر جیسا کہ ان کی اتقاء کی شان کے لائق ہے محبت اور اخلاص اور کامل رجوع سے ثواب آخرت حاصل کریں اور سچائی کی گواہی کیلئے کھڑے ہو جائیں.مولویان خشک بہت سے حجابوں میں ہیں کیونکہ ان کے اندر کوئی سماوی روشنی نہیں.لیکن جو لوگ حضرت احدیت سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں اور تزکیہ نفس سے انائیت کی تاریکیوں سے الگ ہو گئے ہیں.وہ خدا کے فضل سے قریب ہیں.اگر چہ بہت تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں مگر یہ امت مرحومہ ان سے خالی نہیں.وہ لوگ جو مباہلہ کیلئے مخاطب کئے گئے ہیں یہ ہیں مولوی نذیر حسین دہلوی شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ مولوی عبدالحمید دہلوی مهتم مطبع انصاری | مولوی رشید احمد گنگوہی ] مولوی عبدالحق دہلوی مؤلف تفسیر حقانی مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ مولوی عبدالعزیز لدھیانوی مولوی محمد لدھیانوی سعد اللہ نو مسلم مدرس لدھیانہ مولوی احمد اللہ امرتسری مولوی ثناء اللہ امرتسری مولوی غلام رسول عرف رسل با با امرتسری مولوی عبد الجبار غزنوی مولوی عبدالواحد غزنوی مولوی عبدالحق غزنوی محمد علی بھو پڑی واعظ مولوی غلام دستگیر قصور ضلع لاہور مولوی عبداللہ ٹونکی مولوی اصغر علی لاہور حافظ عبدالمنان وزیر آباد مولوی محمد بشیر بھوپالی شیخ حسین عرب یمانی مولوی محمد ابراہیم آره مولوی محمد حسن مؤلف تفسیر امروہہ مولوی احتشام الدین مراد آباد مولوی محمد اسحق اجراوری مولوی عین القضاة صاحب لکھنو فرنگی محل مولوی محمد فاروق کانپور مولوی عبدالوہاب کا نپور مولوی سعید الدین کانپور را مپوری مولوی حافظ محمد رمضان پشوری مولوی دلدار علی الور مسجد دائره مولوی محمد رحیم اللہ مدرس مدرسه اکبر آباد

Page 184

مجموعہ اشتہارات ۱۶۸ جلد دوم مولوی ابوالانوار نواب محمد رستم علی خاں چشتی مولوی ابوالموید امروہی مالک رسالہ مظہر الاسلام اجمیر مولوی محمد حسین کوئلہ والا دہلی مولوی احمد حسن صاحب شوکت مالک اخبار شحنہ ہند میرٹھ مولوی نذیرحسین ولد امیر علی انبیٹھہ ضلع سہارنپور | مولوی احمد علی صاحب سہارنپور مولوی عبد العزیز دینا نگر ضلع گورداسپور قاضی عبدالاحد خان پور ضلع راولپنڈی | مولوی احمد را مپور ضلع سہارنپور محله محل | مولوی محمد شفیع را مپور ضلع سہارنپور مولوی فقیر اللہ مدرس مدرسہ نصرت الاسلام واقع لال مسجد بنگلور مولوی محمد امین صاحب بنگلور مولوی قاضی حاجی شاہ عبد القدوس صاحب پیش امام جامع مسجد بنگلور مولوی عبدالغفا ر صاحب فرزند قاضی شاہ عبدالقدوس صاحب بنگلور مولوی محمد ابراہیم صاحب ویلوری حال مقیم مولوی عبد القادر صاحب پیارم پیٹی ساکن پیارم بیت علاقہ بنگلور مولوی محمد عباس صاحب ساکن دانماری علاقہ بنگلور مولوی گل حسن شاہ صاحب میرٹھ مولوی امیر علی شاہ صاحب اجمیر مولوی احمد حسن صاحب کنجچوری حال دہلی خاص جامع مسجد مولوی محمد عمر صاحب دہلی فراش خانه مولوی مستعان شاہ صاحب سانبھر علاقہ جے پور مولوی حفیظ الدین صاحب دو جانه ضلع رہتک مولوی فضل کریم صاحب نیازی غازی پورز مینا مولوی حاجی عابد حسین صاحب دیوبند اور سجادہ نشینوں کے نام یہ ہیں غلام نظام الدین صاحب سجادہ نشین نیا ز احمد صاحب بریلی میاں اللہ بخش صاحب سجادہ نشین سلیمان صاحب تو نسوی سنگبری | سجادہ نشین صاحب شیخ نور احمد صاحب مہارا نوالہ میاں غلام فرید صاحب چشتی چاچڑاں علاقہ بہاولپور التفات احمد شاہ صاحب سجادہ نشین ردولی مستان شاہ صاحب کا بلی محمد قاسم صاحب سجادہ نشین شاہ معین الدین شاه خاموش حیدر آباد دکن

Page 185

مجموعہ اشتہارات ۱۶۹ جلد دوم محمدحسین صاحب گدی نشین شیخ عبدالقدوس صاحب گنگوہی گدی نشین اوچ شاہ جلال الدین صاحب بخاری ظہور الحسین صاحب گدی نشین بٹالہ ضلع گورداسپور صادق علی شاہ صاحب گدی نشین رتر چھتر ضلع گورداسپور سید صوفی جان صاحب مراد آبادی صابری چشتی مہر شاہ صاحب سجادہ نشین گولڑہ ضلع راولپنڈی مولوی قاضی سلطان محمود صاحب آی اعوان والہ پنجاب حیدرشاہ صاحب جلال پور کنکیاں والہ تو کل شاہ صاحب انبالہ مولوی عبد اللہ صاحب تلونڈی والہ محمد امین صاحب چکوتری علاقہ گجرات پنجاب مولوی عبد الغنی صاحب جانشین قاضی اسمعیل صاحب مرحوم بنگلور مولوی ولی النبی شاه صاحب نقشبند را مپور دار الریاست حاجی وارث علی شاہ صاحب مقام دیواضلع لکھنؤ میر امداد علی شاہ صاحب سجادہ نشین شاہ ابو العلا نقشبند سید حسین شاہ صاحب مودودی دیلی عبداللطیف شاہ صاحب خلف حاجی نجم الدین شاہ صاحب چشتی جودھپور قطب علی شاہ صاحب دیو گڑھ میرزا با دل شاہ صاحب بدایونی مولوی عبد الوہاب صاحب جانشین عبدالرزاق صاحب علی حسین صاحب علاقہ اودے پور میواڑ لکھنؤ فرنگی محل کچھو چھا ضلع فقیر آباد شیخ غلام محی الدین صوفی وکیل انجمن حمایت اسلام لاہور حافظ صابر علی صاحب رامپور ضلع سہارنپور امیر حسن صاحب خلف پیر عبداللہ صاحب دہلی منور شاہ صاحب فاضل پور ضلع گوڑگانوہ قریب دہلی محمد معصوم شاہ صاحب نبیرو شاہ ابوسعید صاحب رام پور دار الریاست بدر الدین شاہ صاحب سجادہ نشین پھلواری ضلع پٹنہ شاہ اشرف صاحب سجادہ نشین پھلواری ضلع پٹنہ مظہر علی شاہ صاحب سجادہ نشین لوا دا ضلع پٹنہ لطافت حسین شاہ صاحب سجادہ نشین لوادا ثار علی شاہ صاحب الور دار الریاست وزیرالدین شاہ صاحب سجادہ نشین مخدوم صاحب الور مولوی سلام الدین شاہ صاحب مہم ضلع رہتک غلام حسین خاں شاہ صاحب تھانوی ضلع حصار سید اصغر علی شاہ صاحب نیازی اکبر آباد واجد علی شاہ صاحب فیروز آباد ضلع اکبر آباد سید احمد شاہ صاحب ہر دوئی ضلع لکھنؤ مقصود علی شاہ صاحب شاہجہان پور مولوی نظام الدین چشتی صابری جھجر مولوی محمد کامل شاہ اعظم گڑھ ضلع خاص محمودشاہ صاحب سجادہ نشین بهار ضلع خاص

Page 186

مجموعہ اشتہارات جلد دوم ان تمام حضرات کی خدمت میں یہ رسالہ پیکٹ کر کے بھیجا جاتا ہے لیکن اگر اتفاقاً کسی صاحب کو نہ پہنچا ہو تو وہ اطلاع دیں تا کہ دوبارہ بذریعہ رجسٹری بھیجا جائے.راقم میرزا غلام احمد از قادیان یہ اشتہار دعوت قوم کے نام سے انجام آتھم کے صفحہ ۴۵ تا ۷۲ پر درج ہے.(روحانی خزائن جلدا اصفحه ۴۵ تا ۷۲ )

Page 187

مجموعہ اشتہارات ۱۵۵ لا سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری جلسہ اعظم مذاہب کے جولاہورٹون ہال میں ۲۶.۲۷.۲۸ / دسمبر ۱۸۹۶ء کو ہوگا اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارے میں پڑھا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے.اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ در حقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے اور جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہوگا اور ایک نیائو ر اس میں چمک اُٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزہ ہے.مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لیے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن شریف کے حُسن و جمال حاشیہ.سوامی شوگن چند ر صاحب نے اپنے اشتہار میں مسلمانوں اور عیسائی صاحبان اور آریہ صاحبوں کو تم دی تھی کہ ان کے نامی علماء اس جلسہ میں اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں ضرور بیان فرماویں.سو ہم سوامی صاحب کو اطلاع دیتے ہیں کہ ہم اس بزرگ قسم کی عزت کے لیے آپ کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے طیار ہو گئے ہیں اور انشاء اللہ ہمارا مضمون آپ کے جلسہ میں پڑھا جائے گا.اسلام وہ مذہب ہے جو خدا کا نام در میان آنے سے سچے مسلمان کو کامل اطاعت کی ہدایت فرماتا ہے لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ آپ کے بھائی آریوں اور پادری صاحبوں کو اپنے پر میشر یا یسوع کی عزت کا کس قدر پاس ہے اور وہ ایسے عظیم الشان قدوس کے نام پر حاضر ہونے کے لیے مستعد ہیں یا نہیں.منہ جلد دوم

Page 188

مجموعہ اشتہارات ۱۷۲ جلد دوم کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور نور سے نفرت رکھتے ہیں.مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ ٹور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اوّل سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی.اور ہرگز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اُس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس کے چھونے سے اس محل میں سے ایک ٹو رساطعہ نکلا جو ارد گرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا کہ اللهُ اكْبَرُ - خَرِبَتْ خَيْبَرُ.اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے.اور وہ نورانی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں.جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کے صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرادیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے.پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا إِنَّ اللَّهَ مَعَكَ إِنَّ اللهَ يَقُومُ أَيْنَمَا قُمتَ یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو.یہ حمایت الہی کے لیے ایک استعارہ ہے.اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج بھی کر کے ان معارف کے سننے کے لیے ضرور بمقام لاہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ ان کی عقل اور ایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کر سکتے ہوں گے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۱ / دسمبر ۱۸۹۶ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پرلیس قادیان ۲۶×۲۰ یہ اشتہار کے ایک صفحہ پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ۵ صفحه ۷۷ تا ۷۹ )

Page 189

مجموعہ اشتہارات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۱۷۳ ۱۵۶ جلد دوم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ اشتہار صداقت آثار میں مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضی ساکن قادیان ضلع گورداسپور اس وقت بذریعہ اس اشتہار کے خاص و عام کو مطلع کرتا ہوں کہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاگئے جیسا کہ اللہ جَلَّ شانه فرماتا ہے.فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ حدیث نبوی اور قول ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس لفظ اور نیز لفظ إِنِّي مُتَوَفيك مکے سے معنی وفات دینا ہے نہ اور کچھ کیونکہ اس مقام میں اس لفظ کی شرح میں کوئی روایت مخالف مروی نہیں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کسی صحابی سے.پس یہ امر متعین ہو گیا کہ نزول مسیح سے مراد نزول بطور بروز ہے یعنی اسی امت میں سے کسی کا مسیح کے رنگ میں ظاہر ہونا ہے جیسا کہ حضرت الیاس علیہ السلام کے نزول کی شرح حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمائی تھی جو یہود اور نصاریٰ کے اتفاق سے وہ یہی شرح ہے کہ انہوں نے حضرت بیٹی کو ایلیا یعنی الیاس آسمان سے اترنے والا قرار دیا تھا.سوخدا تعالیٰ کے الہام سے میرا یہ دعویٰ ہے کہ وہ مسیح جو بروز کے طور پر غلبہ صلیب کے وقت میں کسر صلیب کے لئے اترنے والا تھا وہ میں ہی ہوں.اسی بنا پر میں مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری سے مباہلہ کرتا ہوں.اگر مباہلہ کی میعاد کے اندر جو روز مباہلہ سے ایک برس ہو گی.میں کسی سخت اور ناقابلِ علاج بیماری میں جیسے جذام یا نابینائی النحل : ١٢٩ المائدة: ١١٨ ال عمران: ۵۶

Page 190

مجموعہ اشتہارات ۱۷۴ جلد دوم یا فالج یا مرگی یا کوئی اسی قسم کی اور بھاری بیماری یا مصیبت میں مبتلا ہو گیا اور یا یہ کہ اس میعاد میں مولوی غلام دستگیر صاحب نہ فوت ہوئے نہ مجزوم ہوئے اور نہ نابینا اور نہ اور کوئی سخت مصیبت انہیں آئی.تو میں تمام لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ بغیر عذ روحیلہ ان کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا اور سمجھوں گا کہ میں جھوٹا تھا تبھی خدا نے مجھے ذلیل کیا اور اگر میں مباہلہ کے اثر سے ایک برس کے اندر مر گیا تو میں اپنی تمام جماعت کو وصیت کرتا ہوں کہ اس صورت میں نہ صرف مجھے جھوٹا سمجھیں بلکہ اگر میں مروں یا ان عذابوں میں سے کسی عذاب میں مبتلا ہو جاؤں تو وہ دنیا کے سب جھوٹوں اور کذابوں میں سے زیادہ کذاب مجھے یقین کریں اور ان نا پاک اور گندے مفتریوں میں سے مجھے شمار کریں جنہوں نے جھوٹ بول کر اپنی عاقبت کو خراب کیا اور اگر میں دس تاریخ شعبان تک بمقام لاہور مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوا تب بھی مجھے کاذب قرار دیں لیکن ضرور ہے کہ اول مولوی غلام دستگیر صاحب عزم بالجزم کر کے اس نمونہ کا اپنی طرف سے بقید تاریخ اشتہار دے دیں اور اگر وہ اشتہار نہ دیں تو پھر میں لاہور نہیں جاسکتا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر :.خاکسار مرزا غلام احمد مکررا یہ بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ اگر اور صاحب بھی علمائے پنجاب یا ہندوستان سے مباہلہ کا ارادہ رکھتے ہوں تو وہ بھی اسی تاریخ پر بمقام لاہور مباہلہ کے لئے حاضر ہوکر مولوی غلام دستگیر کے ساتھ شریک ہو جائیں اور اگر اب حاضر نہیں ہوں گے تو پھر آئندہ ان دست کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا.روزنامه الفضل قادیان دار الامان مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۴۳ صفحه ۲) ے حضور علیہ السلام کے اسم مبارک کے بعد کی سطور اصل مسودہ میں حضور علیہ السلام نے پنسل سے لکھی ہوئی ہیں.(ایڈیٹر )

Page 191

مجموعہ اشتہارات ۱۷۵ جلد دوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مولوی غلام دستگیر صاحب کے اشتہار کا جواب کل ۲۴ /جنوری کو ایک قطعہ اشتہار مولوی غلام دستگیر صاحب میرے پاس پہنچا جس میں مولوی صاحب موصوف مباہلہ کے لئے مجھے بلاتے ہیں اور ۲۵ / شعبان ۱۳۱۴ھ تاریخ مقرر کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دی ہے کہ اس وقت مولوی صاحب پر کوئی عذاب نازل ہو.اگر بعد میں ایک سال کے اندر نازل ہوا تو پھر وہ منظور نہیں.مگر میں ناظرین کو اطلاع دیتا ہوں کہ یہ مولوی صاحب کی سراسر زبردستی ہے.تمام احادیث صحیحہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی میعاد اثر مباہلہ کی ایک برس رکھا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے وحی پا کر اپنے مباہلہ کا اثر بہت جلد مبالین پر وارد ہونے والا بیان فرمایا ہے.سو اس سے برس کی میعاد منسوخ نہیں ہوسکتی.کیونکہ حدیث میں جو ایک برس کی قید ہے اس سے بھی یہ مراد نہیں ہے کہ برس کا پورا گذر جانا ضروری ہے.بلکہ مراد یہ ہے کہ برس کے اندر عذاب نازل ہو.گودومنٹ کے بعد نازل ہو جائے.سو میں بھی اس بات پر ضد نہیں کرتا کہ ضرور برس پورا ہو جائے.شاید خدا تعالیٰ بہت جلد اس تکفیر اور تکذیب کی پاداش میں آسمانی عذاب نازل کرے.مگر مجھے معلوم نہیں کہ برس کے کس حصہ میں یہ عذاب نازل ہوگا.آیا ابتداء میں یا درمیان میں یا اخیر میں.اور میں مامور ہوں کہ مباہلہ کے لئے برس کی میعاد پیش کروں.اور مولوی صاحب موصوف اور ہر ایک شخص خوب جانتا ہے کہ برس کی میعاد مسنون ہے.کیونکہ لَمَّا حَالَ الْحَوْلُ کا وہ لفظ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے

Page 192

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اگر مباہلہ کے لیے فور اعذاب نازل ہونا شرط ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حول کا لفظ مونہہ سے نہ نکالتے کیونکہ اس صورت میں کلام میں تناقض پیدا ہو جاتا ہے.ہاں یہ بات صحیح اور درست ہے کہ اگر مولوی غلام دستگیر صاحب مباہلہ میں کا ذب اور کافر اور مفتری پر بمقابلہ مومن اور راستباز کے فوری عذاب نازل ہونا ضروری سمجھتے ہیں تو بہت خوب ہے.وہ اپنا فوری عذاب ہم پر نازل کر کے دکھلاویں.ان کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ”میں تو نبوت کا مدعی نہیں کہ تا فوری عذاب نازل کروں ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کے قائل ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں.اور وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت جو زیر سایہ نبوت محمد یہ اور باتباع آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم اولیاء اللہ کو ملتی ہے اس کے ہم قائل ہیں اور اس سے زیادہ جو شخص ہم پر الزام لگاوے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑتا ہے.اور اگر قرآنی الہامات سے کوئی کا فر ہو جاتا ہے تو پہلے یہ فتوی کفر سید عبدالقادر رضی اللہ عنہ پر لگانا چاہیے کہ انہوں نے بھی قرآنی الہامات کا دعوی کیا ہے.غرض جبکہ نبوت کا دعویٰ اس طرف بھی نہیں صرف ولایت اور مجددیت کا دعوی ہے.اور مولوی غلام دستگیر صاحب مجھ کو باوجود کلمہ گو اور اہل قبلہ ہونے کے کا فرٹھیراتے ہیں اور اپنے تئیں مومن قرار دیتے ہیں جو قرآن شریف کے بیان کے موافق ولی اللہ ہوتا ہے اور شیخ محمد حسین بطالوی کے فتویٰ میں ان تمام علماء نے مجھے اکفر قرار دیا ہے یعنی یہ شخص کفر میں یہود اور نصاریٰ سے بڑھ کر ہے.پھر جس حالت میں نجران کے نصاریٰ کو فوری عذاب کا وعدہ دیا گیا تھا تو مولوی صاحب جو عالم اسلام ہوکر بزعم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گدی پر بیٹھے ہیں.ان کو چاہیے کہ ایسے شخص کے لئے جو ان کی نظر میں اکفر ہے نجران کے نصاری سے بھی جلد تر عذاب نازل ہونے کا وعدہ کریں.یہ تو ظاہر ہے کہ مباہلہ میں فریقین کی ہر یک فریق مقابل کے عذاب کے لئے درخواست ہوتی ہے کیونکہ مباہلہ دوسرے لفظوں میں ملاعنہ ہے.یعنی کا ذب کے لئے خواہ فریقین میں سے کوئی کاذب ہو عذاب کی درخواست.پس یہ مولوی صاحب موصوف کی کس قدر زبردستی ہے کہ اپنے عذاب کے اثر کی تو کوئی میعاد نہیں ٹھیراتے اور مجھ سے فوری عذاب مانگتے ہیں.

Page 193

مجموعہ اشتہارات 162 جلد دوم اب حاصل کلام یہ ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے الہام کے موافق ایک سال کا وعدہ کرتا ہوں.اگر مولوی صاحب کے نزدیک یہ وعدہ خلاف سنت ہے تو کوئی ایسی صحیح حدیث پیش کریں جس سے سمجھا جائے کہ فوری عذاب مباہلہ کے لئے شرط ضروری ہے یعنی یہ کہ فورا کا ذب یا مکذب کے صدق کا اثر فریق ثانی پر ظاہر ہو.حضرت مولوی غلام دستگیر صاحب کو کا فر بنانے کا بہت ہی شوق ہے.لہذا ہم ان کو خوشخبری دیتے ہیں کہ اب عبد الحق غزنوی کے مباہلہ کے بعد آٹھ ہزار تک ہماری جماعت پہنچ گئی ہے گویا امت محمدیہ میں سے آٹھ ہزار آدمی کا فر ہو کر اس دین سے خارج ہو گیا.یقین ہے کہ آئندہ سال تک اٹھاراں ہزار تک عدد پہنچ جاوے گا.بالآ خر یاد ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے اول ایک سال کا وعدہ اپنے خطوط میں قبول کر لیا تھا مگر یہ شرط کی تھی کہ تمام جہان کے مسلمان جو آپ کے دعوی کو نہیں مانتے مر جائیں.اب اس اشتہار میں مولوی صاحب نے تمام جہان کی جان بخشی کی اور بجائے اس کے نفس کے لئے فوری عذاب پیش کر دیا.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کے نزدیک ضرورت کے وقت کذب کا استعمال بھی جائز ہے.بھلا ہم حضرت موصوف سے دریافت کرتے ہیں کہ کب اور کس وقت میرے دوست مولوی حکیم فضل دین صاحب آپ سے ڈر کر قادیان میں بھاگ آئے تھے.کیا آپ نے حکیم صاحب موصوف کو خود نہیں لکھا تھا کہ میں تم سے خطاب نہیں کرنا چاہتا.براہ راست خود خط لکھوں گا.خیر ہمیں اس کذب پر کچھ افسوس بھی نہیں.جب آپ نے ہمیں انفر بنایا.بے دین بنایا.دجال بنایا.تکفیر کے لئے حرمین تک وہ تکلیف اٹھائی کہ بچارے شیخ بطالوی کو بھی نہ سوجھی تو یہ کذب تو ایک ادنی بات ہے.جزاک اللہ ! الراقم میرزا غلام احمد قادیانی مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان ( یہ اشتہار " کے دو صفحہ پر ہے) ۲۰ شعبان ۱۳۱۴ھ تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱ تا ۴ )

Page 194

مجموعہ اشتہارات KA ۱۵۸ جلد دوم اتمام ثبت على العلما نے ماسوا اس کے میں دوبارہ حق کے طالبوں کے لئے عام اعلان دیتا ہوں کہ اگر وہ اب بھی نہیں سمجھے تو نئے سرے اپنی تسلی کر لیں اور یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ سے چھ طور کے نشان میرے ساتھ ہیں.اول.اگر کوئی مولوی عربی کی بلاغت فصاحت میں میری کتاب کا مقابلہ کرنا چاہے گا تو وہ ذلیل ہوگا.میں ہر ایک متکبر کو اختیار دیتا ہوں کہ اسی عربی مکتوب کے مقابل پر طبع آزمائی کرے.اگر وہ اس عربی کے مکتوب کے مقابل پر کوئی رسالہ بالالتزام مقدار نظم و نثر بنا سکے اور ایک مادری زبان والا جو عربی ہو قسم کھا کر اس کی تصدیق کر سکے تو میں کا ذب ہوں.دوم.اگر یہ نشان منظور نہ ہو تو میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بناویں یعنی رو برو ایک جگہ بیٹھ کر بطور فال قرآن شریف کھولا جاوے.اور پہلی سات آیتیں جو نکلیں ان کی تفسیر میں بھی عربی میں لکھوں اور میرا مخالف بھی لکھے.پھر اگر میں حقائق معارف کے بیان کرنے میں صریح غالب نہ رہوں تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں.سوم.اور اگر یہ نشان بھی منظور نہ ہو تو ایک سال تک کوئی مولوی نامی مخالفوں میں سے میرے پاس رہے.اگر اس عرصہ میں انسان کی طاقت سے برتر کوئی نشان مجھ سے ظاہر نہ ہو تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں گا.چہارم.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو ایک تجویز یہ ہے کہ بعض نامی مخالف اشتہار دے دیں کہ سرخی مرتب کی طرف سے ہے.(مرتب)

Page 195

مجموعہ اشتہارات ۱۷۹ جلد دوم اس تاریخ کے بعد ایک سال تک اگر کوئی نشان ظاہر ہو تو ہم تو بہ کریں گے اور مصدق ہو جائیں گے.پس اس اشتہار کے بعد اگر ایک سال تک مجھ سے کوئی نشان ظاہر نہ ہوا جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو خواہ پیشگوئی ہو یا اور تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں.پنجم.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہوتو شیخ محمد حسین بطالوی اور دوسرے نامی مخالف مجھ سے مباہلہ کر لیں.پس اگر مباہلہ کے بعد میری بددعا کے اثر سے ایک بھی خالی رہا تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں.یہ طریق فیصلہ ہیں جو میں نے پیش کئے ہیں.اور میں ہر ایک کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اب سچے دل سے ان طریقوں میں سے کسی طریق کو قبول کریں.یعنی یا تو میعاد دو ماہ میں جو مارچ ۱۸۹۷ء کی دس تاریخ تک مقرر کرتا ہوں.اس عربی رسالہ کا ایسا ہی فصیح بلیغ جواب چھاپ کر شایع کریں.یا بالمقابل ایک جگہ بیٹھ کر زبان عربی میں میرے مقابل میں سات آیت قرآنی کی تفسیر لکھیں اور یا ایک سال تک میرے پاس نشان دیکھنے کے لئے رہیں اور یا اشتہار شایع کر کے اپنے ہی گھر میں میرے نشان کی ایک برس تک انتظار کریں اور یا مباہلہ کرلیں.ششم.اور اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں تو مجھ سے اور میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بد زبانی سے مونہ بند کر رکھیں اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے ملیں اور قہر الہی سے ڈر کر ملاقاتوں میں مسلمانوں کی عادت کے طور پر پیش آویں.ہر ایک قسم کی شرارت اور خباثت کو چھوڑ دیں.پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے، یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائے اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کا ذب خیال کرلوں گا اور خدا جانتا ہے کہ میں ہرگز کاذب نہیں.یہ سات برس کچھ زیادہ سال نہیں ہیں اور اس قد را نقلاب اس تھوڑی مدت میں ہو جانا

Page 196

مجموعہ اشتہارات ۱۸۰ جلد دوم انسان کے اختیار میں ہرگز نہیں.پس جبکہ میں سچے دل سے اور خدا تعالیٰ کی قسم کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں اور تم سب کو اللہ کے نام پر صلح کی طرف بلاتا ہوں تو اب تم خدا سے ڈرو.اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں تو میں تباہ ہو جاؤں گا.ورنہ خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کر سکتا.یہ یادر ہے کہ معمولی بخشیں آپ لوگوں سے بہت ہو چکی ہیں.اور عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قرآن اور حدیث سے بپایہ ثبوت پہنچ گئی.اس طرف سے کتابیں تالیف ہوکر لاکھوں انسانوں میں پھیل گئیں.طرف ثانی نے بھی ہر یک تلبیس اور تزویر سے کام لیا.پاک کتابوں کے نیک روحوں پر بڑے بڑے اثر پڑے اور ہزار ہا سعید لوگ اس جماعت میں داخل ہو گئے اور تقریری اور تحریری بحثوں کے نتیجے اچھی طرح کھل گئے.اب پھر اسی بحث کو چھیڑنا، یا فیصلہ شدہ باتوں سے انکار کرنا محض شرارت اور بے ایمانی ہے کتابیں موجود ہیں.ہاں عین مباہلہ کے وقت پھر ایک گھنٹہ تک تبلیغ کر سکتا ہوں.پس فیصلہ کی یہی راہیں ہیں جو میں نے پیش کی ہیں.اب اس کے بعد جو شخص طے شدہ بحثوں کی ناحق درخواست کرے گا میں سمجھوں گا کہ اس کو حق کی طلب نہیں بلکہ سچائی کو ٹالنا چاہتا ہے.یہ بھی یادر ہے کہ اصل مسنون طریق مباہلہ میں یہی ہے کہ جو لوگ ایسے مدعی کے ساتھ مباہلہ کریں جو مامورمن اللہ ہونے کا دعوی رکھتا ہواور اس کو کاذب یا کا فرطھیر او یں وہ ایک جماعت نہا بلین کی ہو.صرف ایک یا دو آدمی نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ فَقُلْ تَعَالَوْا مِیں تَعَالَوْا کے لفظ کو بصیغہ جمع بیان فرمایا ہے.سو اس نے اس جمع کے صیغہ سے اپنے نبی کے مقابل پر ایک جماعت مکذبین کو مباہلہ کے لئے بلایا ہے بشخص واحد کو.بلکہ مَنْ حَاجگ سے کے لفظ سے جھگڑنے والے کو ایک شخص واحد قرار دے کر پھر مطالبہ جماعت کا کیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی جھگڑنے سے باز نہ آوے اور دلائل پیش کردہ سے تسلی نہ پکڑے تو اس کو کہ دو کہ ایک جماعت بن کر مباہلہ کے لئے آویں.سواسی بنا پر ہم نے جماعت کی قید لگادی ہے جس میں یہ صریح فائدہ ہے کہ جو امر خارق عادت بطور عذاب مکذبین پر نازل ہو وہ مشتبہ نہیں رہے گامگر صرف ایک شخص میں مشتبہ رہنے کا احتمال ہے.ا ، ۲ آل عمران : ۶۲

Page 197

مجموعہ اشتہارات ۱۸۱ جلد دوم اس جگہ اس بات کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ تمام مخالفین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر اس کتاب کی اشاعت کے بعد کوئی مخالف مباہلہ کے لئے طیار ہو جائے اور اس کے اشتہارات بھی چھپ جاویں تو ہر یک مباہلہ کے خواہشمند پر واجب ہوگا کہ اسی کے ساتھ شامل ہو کر مباہلہ کر لے.اور اگر کوئی ایسا نہ کرے اور پھر کسی دوسرے وقت میں مباہلہ کی درخواست منظور نہیں کی جاوے گی اور ایسا شخص کسی طور سے قابل التفات نہیں سمجھا جاوے گا.چاہیے کہ ہر ایک شخص ہمارے اس اشتہار کو یا در کھلے اور اس کے موافق کار بند ہو.یہ اشتہار ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۲۰ سے ۳۶ تک متن میں ہے.مرتب ) روحانی خزائن جلد ا ا صفحه ۴ ۳۰ تا ۳۲۰)

Page 198

مجموعہ اشتہارات ۱۸۲ ۱۵۹ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي الِاشْتِهَارِ مُسْتَيْقِنًا بِوَحُى اللهِ الْقَهَّار دوستو اک نظر خدا کے لئے لیا سید الخلق مصطفی کے لئے میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے اس سے بڑھ کر اور کون سا درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مشت خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر توانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدا قادر فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سواب اس نے چاہا ہے کہ ان دونو کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزہ چکھا دے.سواب دونو مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام

Page 199

مجموعہ اشتہارات ۱۸۳ جلد دوم خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہوگا.کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہوگا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ہلکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی.خدا کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں مگر مسیح ایک اور بھی ہے جو اس وقت بول رہا ہے.خدا کی غیرت دکھلا رہی ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں مگر انسان کا ثانی موجود ہے.اس نے مجھے بھیجا تا میں اندھوں کو آنکھیں دوں جو نہ چند سال سے بلکہ انیس سو برس سے برابر اندھے چلے آتے ہیں.دنیا میں ایک رسول آیا تا کہ ان بہروں کو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صد ہا سال سے بہرے ہیں.کون اندھا ہے اور کون بہرا.وہی جس نے تو حید کو قبول نہیں کیا اور نہ اس رسول کو جس نے نئے سرے سے زمین پر تو حید کو قائم کیا.وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے با اخلاق انسان یعنی بچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا اور پھر با اخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الہی رنگ سے رنگین کیا.وہی رسول کہاں وہی آفتاب صداقت جس کے قدموں پر ہزاروں مردے شرک اور دہریت اور فسق اور فجور کے جی اٹھے اور عملی طور پر قیامت کا نمونہ دکھلایا.نہ یسوع کی طرح صرف لاف و گزاف.جس نے مکہ میں ظہور فرما کر شرک اور انسان پرستی کی بہت سی تاریکی کو مٹایا.ہاں دنیا کا حقیقی نور وہی تھا جس نے دنیا کو تاریکی میں پا کر

Page 200

مجموعہ اشتہارات ۱۸۴ جلد دوم فی الواقع وہ روشنی عطا کی کہ اندھیری رات کو دن بنا دیا.اس کی پہلی دنیا کیا تھی.اور پھر اس کے آنے کے بعد کیا ہوئی.یہ ایک سوال نہیں ہے جس کے جواب میں کچھ دقت ہو.اگر ہم بے ایمانی کی راہ اختیار نہ کریں تو ہمارا کانشس ضرور اس بات کے منوانے کے لئے ہمارا دامن پکڑے گا کہ اس جناب عالی سے پہلے خدا کی عظمت کو ہر ایک ملک کے لوگ بھول گئے تھے اور اس سچے معبود کی عظمت او تاروں اور پتھروں اور ستارں اور درختوں اور حیوانوں اور فانی انسانوں کو دی گئی تھی اور ذلیل مخلوق کو اس ذوالجلال وقدوس کی جگہ پر بٹھایا تھا.اور یہ ایک سچا فیصلہ ہے کہ اگر یہ انسان اور حیوان اور درخت اور ستارے در حقیقت خدا ہی تھے جن میں سے ایک یسوع بھی تھا تو پھر اس رسول کی کچھ ضرورت نہ تھی لیکن اگر یہ چیزیں خدا نہیں تھیں تو وہ دعویٰ ایک عظیم الشان روشنی اپنے ساتھ رکھتا ہے جو حضرت سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے پہاڑ پر کیا تھا.وہ کیا دعویٰ تھا.وہ یہی تھا کہ آپ نے فرمایا کہ خدا نے دنیا کو شرک کی سخت تاریکی میں پاکر اس تاریکی کو مٹانے کے لئے مجھے بھیج دیا.یہ صرف دعوی نہ تھا بلکہ اس رسول مقبول نے اس دعوئی کو پورا کر کے دکھلا دیا.اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ثابت ہوسکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لو گو اٹھو، اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں.یسوع نے زبان سے تو بہت کچھ کہا مگر عملی طور پر کسی خرابی کے زہریلے درخت کو دنیا سے نہیں کاٹا.اگر ہم مان بھی لیں کہ اس نے کم عقل عورتوں اور بچوں کی طرح خود کشی کی تو اس سے اور بھی زیادہ اس کی حالت پر افسوس آئے گا کہ اگر ہمدردی کی اس کو کچھ سوجھی بھی تو احمقانہ راہ سوجھی.اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسول کو شناخت نہیں کیا.جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسول شناخت کیا جائے.چاہو تو میری بات کولکھ رکھو کہ اب کے بعد مردہ پرستی روز بروز کم ہوگی یہاں تک کہ نابود ہو جائے گی کیا انسان خدا کا مقابلہ کرے گا.کیا نا چیز قطرہ خدا کے ارادوں کو رڈ کر دے گا.کیا فانی آدم زاد کے منصوبے الٹی حکموں کو ذلیل کر دیں گے.اے سننے والوسنو اور اے سوچنے والو سوچو اور یا درکھو کہ حق ظاہر ہوگا اور وہ جو سچا نور ہے چمکے گا.یہ سخت ظلم کیا گیا ہے جو

Page 201

مجموعہ اشتہارات ۱۸۵ جلد دوم ابن مریم کو خدا بنایا گیا ہے.وہ صرف ایک انسان ہے اور موسوی شریعت کے خادموں میں سے ایک نبی.تم نے اس کو نہیں دیکھا مگر میں نے بارہا اس کو دیکھا ہے.تم میں سے کوئی بھی اس کو نہیں جانتا مگر میں جانتا ہوں.وہ ایک سعادت مند انسان ہے جو موسی" کی عظمت کا قائل اور ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگیوں پر بدل و جان ایمان لایا ہے اور ہماری طرح اس راہ میں فدا ہے اگر وہ اس وقت دنیا میں آتا اور دیکھتا کہ مجھے خدا بنایا گیا اور میرا کفارہ گھڑا گیا تو وہ اپنی ناچیز ہستی اور اس بیجا تعریف کو خیال میں لا کر مارے شرم کے مرنے کو قبول کرتا اور خدا سے اپنی مغفرت چاہتا.پھر بتلاؤ اس کی خدائی پر کونسی دلیل تمہارے پاس ہے کیا اُسی کی باتوں یا حواریوں کی باتوں سے اس کی خدائی ظاہر ہوتی ہے.اگر ہم مان بھی لیں کہ اس کی یا اس کے دوستوں کی باتوں سے خدائی کا دعوی پایا جاتا ہے تو یہ نزادعویٰ ہوگا جو بغیر ثبوت ایک کوڑی کی قیمت نہیں رکھتا حالانکہ انجیل کی رو سے یہ دعویٰ بھی ثابت نہیں ہوسکتا.انجیل یہ کہیں بیان نہیں کرتی کہ مریم کے صاحبزادہ نے کبھی مرد میدان بن کر خدائی کا دعوی کیا تھا.بلکہ جب یہودیوں نے ایک دفعہ اسے ڈانٹا تو یسوع نے اپنی خدائی سے انکار کیا اور کہا کہ میں کوئی کلمہ ایسا منہ پر نہیں لایا جو تمہارے بزرگوں کے کلمات سے بڑھ کر ہو.پھر اگر یہ خیال ہو کہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں میں اس کی خدائی لکھی ہوئی ہے تو اس خیال سے زیادہ کوئی خیال بے ہودہ نہیں ہوگا کیونکہ اگر پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں یا ان کی تعلیم کی رو سے یہ فیصلہ ہوجاتا کہ مریم کا بیٹا خدا ہے تو یہود اب تک کیوں کر منکر رہ سکتے تھے.کوئی عقل قبول نہیں کر سکتی کہ یہودیوں کی کتابوں میں ایک خدا کے پیدا ہونے کی پیشگوئیاں موجود تو ہوں اور اس خدا کے ماننے کے لئے پیغمبروں کی کھلی کھلی وصیتیں کتابوں میں لکھی گئی ہوں اور کئی ہزار برس سے تثلیث کی تعلیم ان میں مسلسل چلی آتی ہو.پھر وہ ایسے خدا اور ایسی تعلیم سے انکار کر کے اس ایمان کو ضائع کریں جو ان کو متواتر سکھلایا گیا تھا.نہیں بلکہ یہ عیسائیوں کی شرارت اور حماقت ہے جو ایسا سمجھتے ہیں.اور اصل بات یہ ہے کہ وہ تمام پیشگوئیاں جن کے غلط معنے کر کے یسوع کو خدا بنایا جاتا ہے.پیغمبروں کی تعلیم سے اب تک یہودیوں کے ذہن میں محفوظ ہیں جو مسیح سے پہلے اپنے وقتوں میں پوری بھی ہو چکیں.اگر یہودیوں کو کسی خدا کا وعدہ

Page 202

مجموعہ اشتہارات ۱۸۶ جلد دوم دیا گیا تھا تو یہ تو ممکن تھا کہ وہ یسوع کو نہ مانتے مگر ایسا کب ہو سکتا تھا کہ سرے سے تمام فرقے یہودیوں کے ایسی بزرگ پیشگوئی سے منکر ہو جاتے اور کبھی آگے یا پیچھے کوئی فرقہ ان میں ایسے خدا کا منتظر نہ پایا جاتا.یہ بات نہایت صفائی سے فیصلہ کرتی ہے کہ ان نالائق عیسائیوں نے ناحق بے وجہ ایک انسان کے بچہ کو خدا بنا دیا ہے.اسی وجہ سے پہلی ہی صدی سے آج تک ان میں ایک فرقہ موحد بھی چلا آتا ہے جو یسوع کو صرف انسان سمجھتا ہے.پس جبکہ گھر میں ہی اس عقیدہ پر اتفاق نہیں تو پھر اس نا اتفاقی کے ساتھ جب یہودیوں کی سخت مخالفت کو بھی دیکھا جائے جو اس عقیدہ میں عیسائیوں کے ساتھ رکھتے ہیں تو اس کامل ثبوت سے عیسائی اس چور کی طرح پکڑے جاتے ہیں جو عین نقب زنی کے وقت گرفتار کیا جائے.اگر کسی مجسم خدا کے آنے کے بارے میں یہودیوں کی کتابوں میں کوئی ایک پیشگوئی بھی ٹوٹی پھوٹی ہوتی تو یہودی گو کیسا ہی تعصب کرتے تو زیادہ سے زیادہ تعصب ان کا یہی ہوتا کہ اس خدا کے ظہور کوکسی آئندہ زمانہ پر ڈال دیتے نہ یہ کہ ایسے عقیدہ پر ہزاروں لعنتیں بھیجتے.توریت کی تعلیم سے یہودیوں کو کہاں اور کدھر گریز تھی.یہودی تو توریت کے موافق خدا کو پیدائش اور موت سے پاک سمجھتے ہیں لیکن افسوس کہ مردہ کو خدا ٹھیرانے سے عیسائیوں کا کانشنس مر گیا.ان کے پاس اس مردہ کے خدا بنانے کے بارے میں کوئی بھی دلیل نہیں.بعض عیسائی انصاف پر آکر اس بات کو قبول کر لیتے ہیں کہ بے شک پہلی کتابوں کی پیشگوئیاں یسوع کی خدائی پر دلیل نہیں ہوسکتیں اور بے شک ان کو دلیل سمجھنا ایمان اور دیانت سے لڑائی ہے.لیکن یسوع کے معجزات اس کی خدائی پر بے شک ایک دلیل ہے مگر ان کو سمجھنا چاہیے کہ اول تو یسوع معجزات سے انکار کرتا ہے.پس جبکہ بعض جگہ کچھ اقرار بعض جگہ صریح انکار ہے تو اس متناقض امر سے ایک محقق کی نظر میں یہی ثابت ہوگا کہ شاید یسوع نے بعض اوقات فریب کے طور پر نادانوں کو بازیگروں کی طرح کوئی کھیل دکھلایا ہو.اور پھر جب داناؤں نے لے نوٹ.یسوع نے تمام عمر میں معجزہ کے بارے میں صرف یہ دعوی کیا تھا کہ میں ہیکل کو مسمار کر کے تین دن میں بنا سکتا ہوں.اب ظاہر ہے کہ یہ اوباشانہ دعوئی ہے.بھلا یہ کیونکر ممکن تھا کہ یہودی اپنے مقدس مکان کو جس پر لکھوکھا روپیہ خرچ ہو چکا تھا اس کے ہاتھ سے مسمار کرا دیتے.پھر اگر وہ اپنی قدیم عادت کے موافق بھاگ جاتا تو کس کو پکڑتے.منہ

Page 203

مجموعہ اشتہارات ۱۸۷ جلد دوم اس سے معجزہ مانگا تو کانوں پر ہاتھ رکھل لیا کہ میں معجزہ نہیں دکھلاؤں گا.چنانچہ اس زمانہ میں بھی کیمیا گر اور جن دکھلانے والے اور غیب سے روپیہ منگانے والے ایسے ہی ہتھکنڈے کرتے پھرتے ہیں.اور یسوع کی طرح بے وقوفوں اور احمقوں کو سب کچھ دکھلا دیتے ہیں.لیکن اگر کبھی کسی دانا کے پنجہ میں پھنس جائیں تو فی الفور سمجھ جاتے ہیں کہ اب شاید فریب ظاہر ہو کر چند سال کے جیل خانہ میں جائیں گے.اس وقت صاف منکر ہو جاتے ہیں کہ نہ ہمیں کیمیا معلوم ہے اور نہ ہمارے جن تابع ہیں اور نہ ہمیں کوئی دست غیب یاد ہے.افسوس صد افسوس کہ یسوع کی تمام زندگی انہیں باتوں میں گذری.جو کبھی کراماتی بنے اور کبھی آزمانے والوں کی زیر کی دیکھ کر کرامات سے منکر ہوئے.خدا بن کر یہ بزدلی یہ دورنگی اور یہ مکروفریب، یہ کیسا خدا تھا.علاوہ اس کے اگر معجزہ کے ساتھ کوئی شخص خدا بن سکتا ہے تو موسیٰ" کے معجزات میں یسوع سے صدہا مرتبہ زیادہ شوکت و عظمت پائی جاتی ہے.اور یسوع خود مانتا ہے کہ جھوٹے نبی اقتداری معجزات دکھلائیں گے.اگر اقتداری معجزات دکھلانے والا جھوٹا اور بدمعاش ہوتا ہے تو یسوع کے حق میں کیا کہیں اور کیا لکھیں.لیکن اصل بات یہ ہے کہ یسوع بیچارہ پر خدائی کی تہمت ہے.عیسائیوں کی مشرکانہ تعلیم کا تمام مدارس شریر انسان کی باتوں پر ہے جس کا نام پولس تھا.اس کے عیسائی ہونے کا یہ سبب تھا کہ یہ شخص سردار کا ہن کی لڑکی پر عاشق ہو گیا تھا مگر سردار کا ہن نے اس کولٹر کی نہ دی.تب اس نے عہد کیا کہ میں یہودیوں کو بہت خراب کروں گا.اور وہیں اس نے ایک جھوٹا خواب بنایا کہ گویا اس کو یسوع نظر آ گیا اور اس طرح عیسائیوں میں اپنی جمعداری قائم کرلی.بہر حال خوب سوچو اور سمجھو کہ سچے مذہب کا خدا ایسا مطابق عقل اور نور فطرت چاہیے کہ جس کا وجود ان لوگوں پر بھی حجت ہو سکے جو عقل تو رکھتے ہیں مگر ان کو کتاب نہیں ملی.غرض وہ خدا ایسا چاہیے جس میں کسی زبر دستی اور بناوٹ کی بو نہ پائی جائے سو یاد رہے کہ یہ کمال اس خدا میں ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے اور دنیا کے تمام مذہب والوں نے یا تو اصل خدا کو بالکل چھوڑ دیا ہے جیسا کہ عیسائی اور یا نا واجب صفات اور اخلاق ذمیمہ اس کی طرف منسوب کرا دیئے ہیں جیسا کہ یہودی

Page 204

مجموعہ اشتہارات ۱۸۸ جلد دوم اور یا واجب صفات سے اس کو علیحدہ کر دیا ہے جیسا کہ مشرکین اور آریہ.مگر اسلام کا خدا ہی سچا خدا ہے جو آئینہ ع قانونِ قدرت اور صحیفہ ء فطرت سے نظر آرہا ہے.اسلام نے کوئی نیا خدا پیش نہیں کیا بلکہ وہی خدا پیش کیا ہے جو انسان کا نور قلب اور انسان کا کانشنس اور زمین و آسمان پیش کر رہا ہے.اور دوسری علامت سچے مذہب کی یہ ہے کہ مردہ مذہب نہ ہو بلکہ جن برکتوں اور عظمتوں کی ابتداء میں اس میں تخم ریزی کی گئی تھی ، وہ تمام برکتیں اور عظمتیں نوع انسان کی بھلائی کے لئے اس میں اخیر دنیا تک موجودر ہیں تا موجودہ نشان گذشتہ نشانوں کے لئے مصدّق ہو کر اس سچائی کے نور کو قصہ کے رنگ میں نہ ہونے دیں.سو میں ایک مدت دراز سے لکھ رہا ہوں کہ جس نبوت کا ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا تھا اور جو دلائل آسمانی نشانوں کے آنجناب نے پیش کئے تھے وہ اب تک موجود ہیں اور پیروی کرنے والوں کو ملتے ہیں تا وہ معرفت کے مقام تک پہنچ جائیں اور زندہ خدا کو براہ راست دیکھ لیں.مگر جن نشانوں کو یسوع کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ان کا دنیا میں نام ونشان نہیں.صرف قصے ہیں.لہذا یہ مردہ پرستی کا مذہب اپنے مردہ معبود کی طرح مردہ ہے.ظاہر ہے کہ ایک سچائی کا بیان صرف قصوں تک کفایت نہیں کر سکتا.کونسی قوم دنیا میں ہے جن کے پاس کر اماتوں اور معجزوں کے قصے نہیں.پس یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ وہ صرف قصوں کی ناقص اور نا تمام تسلی کو پیش نہیں کرتا بلکہ وہ ڈھونڈنے والوں کو زندہ نشانوں سے اطمینان بخشتا ہے.اور اس شخص کو جوحق کا طالب ہو اس کو چاہیے کہ صرف بیہودہ مردہ پرستی پر کفایت نہ کرے بلکہ نہایت ضروری ہے کہ محض ذلیل قصوں پر سرنگوں نہ ہو.ہم دنیا کے بازار میں اچھی چیزوں کے خریدنے کے لئے آئے ہیں.ہمیں نہیں چاہیے کہ کوئی مغشوش چیز خرید کر نقد ایمان ضائع کریں.زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے.زندہ خداوہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملھم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ مُلهِم کو دیکھ سکیں.سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے.وہ مردے ہیں نہ خدا جن سے اب کوئی ہمکلام نہیں ہو سکتا اس کے نشان نہیں دیکھ سکتا سو جس کا خدا مردہ ہے وہ اس کو ہر میدان میں شرمندہ کرتا ہے.اور ہر میدان میں اُسے ذلیل کرتا ہے اور کہیں اُس کی مدد نہیں کر سکتا ہے.اس اشتہار کے دینے سے اصل غرض یہی ہے کہ جس مذہب میں سچائی ہے وہ

Page 205

مجموعہ اشتہارات ۱۸۹ جلد دوم کبھی اپنا رنگ نہیں بدل سکتی.جیسے اول ہے ویسے ہی آخر ہے.سچاند ہب کبھی خشک قصہ نہیں بن سکتا سو اسلام سچا ہے.میں ہر ایک کو کیا عیسائی کیا آریہ اور کیا یہودی اور کیا بر ہمو اس سچائی کے دکھلانے کے لئے بلاتا ہوں.کیا کوئی ہے جو زندہ خدا کا طالب ہے.ہم مردوں کی پرستش نہیں کرتے.ہمارا زندہ خدا ہے.وہ ہماری مدد کرتا ہے.وہ اپنے الہام اور کلام اور آسمانی نشانوں سے ہمیں مدد دیتا ہے.اگر دنیا کے اس سرے سے اُس سرے تک کوئی عیسائی طالب حق ہے تو ہمارے زندہ خدا اور اپنے مردہ خدا کا مقابلہ کر کے دیکھ لے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس با ہم امتحان کے لئے چالیس دن کافی ہیں.افسوس کہ اکثر عیسائی شکم پرست ہیں.وہ نہیں چاہتے کہ کوئی فیصلہ ہو ورنہ چالیس دن کیا حقیقت رکھتے ہیں.آتھم کی طرح اس میں تو کوئی شرط نہیں.اگر میں جھوٹا نکلوں تو ہر ایک سزا کا مستوجب ہوں لیکن دعاء کے ذریعہ سے مقابلہ ہو گا جس کا سچا خدا ہے بلاشبہ وہ سچا رہے گا.اس باہمی مقابلہ میں بے شک خدا مجھے غالب کرے گا اور اگر میں مغلوب ہوا تو عیسائیوں کے لئے فتح ہوگی جس میں میرا کوئی جواب نہیں.اور جو تاوان مقرر ہو اور میری مقدرت کے اندر ہو دوں گا.لیکن اگر میں غالب ہوا تو عیسائی مقابل کو مردہ خدا سے دست برادر ہونا ہوگا اور بلا توقف مسلمان ہونا پڑے گا.اور پہلے ایک اشتہارانہیں شرائط کے ساتھ بہ ثبت شہادت وہ کس معزز آدمیوں کے دینا ہو گا.اس سے روز کا جھگڑا طے ہو جائے گا.اور اگر اب عیسائیوں نے منہ پھیرا تو اس کا یہی سبب ہوگا کہ ان کو مردہ خدا کی مدد پر بھروسہ نہیں.افسوس کہ عیسائی بار بار آتھم کا ذکر کرتے ہیں.حالانکہ آتھم الہام کی میعاد میں قبر میں جا پہنچا اور وہ مردہ خدا اُس کو بچا نہ سکا کیونکہ مردہ مُردہ کو مدد نہیں دے سکتا.جو معقول شرط چاہیں مجھ سے کرلیں.میں میدان میں کھڑا ہوں.اور صاف صاف کہتا ہوں کہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے.عیسائیوں کے ہاتھ میں ایک مُردہ ہے جس کو امتحان کرنا ہو میرے مقابلہ میں آوے.لعنتی ہے وہ دل جو بغیر مقابلہ کے انکار کرے اور پلید ہے وہ طبیعت جو بغیر آزمائش کے منکر رہے.اے حق کے طالبو مردہ پرستی کے مذہب کو جلد چھوڑو کہ عیسائیوں کے ہاتھ میں ایک مردہ ہے.کیا اس مردہ میں طاقت ہے کہ میرے مقابلہ میں اپنے کسی پرستار کو طاقت بخشے نہیں ہر گز نہیں.

Page 206

مجموعہ اشتہارات ۱۹۰ جلد دوم تمام مردے خدا میرے پیروں کے نیچے ہیں یعنی قبروں میں اور زندہ خدا میرے سر پر ہے.کوئی ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ کوئی ہے کہ اس آزمائش میں میرے مقابل پر آوے.مردہ پرست کبھی نہیں آئیں گے.مُردار کھائیں گے مگر سچائی کا پھل کبھی نہیں کھائیں گے.دیکھو زندہ مذہب میں یہ طاقت ہے کہ اس کے پابند آسمانی روح اپنے اندر رکھتے ہیں.مردوں کو جانے دو زندوں کے ساتھ ہو جاؤ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى پاشتر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی ۱۳ جنوری ۱۸۹۷ء میرزاغلام / رسائل اربعه (۱) انجام آتھم (۲) خدا کا فیصلہ (۳) دعوت قوم (۴) مکتوب عربی بنام علماء معہ ترجمہ فارسی چھپ کر طیار ہے جو صاحب چاہیں قیمت روانہ کر کے یا بذریعہ ویلیو پی ایبل منگا سکتے ہیں.قیمت ار ( چار روپے آٹھ آنے) ہے.واقعی یہ رسائل خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور شعائر اللہ ہیں اور در حقیقت ایک ربانی فیصلہ ہے.دیکھو اور ضرور دیکھو.۱۲ (دوسرا اشتہار ایک ہزار روپیہ کے انعام کے ساتھ ) میرا یہ بھی دعوی ہے کہ یسوع کی پیشگوئیوں کی نسبت میری پیشگوئیاں اور میرے نشان زیادہ ثابت ہیں.اگر کوئی پادری میری پیشگوئیوں اور میرے نشانوں کی نسبت یسوع کی پیشگوئیاں اور نشان ثبوت کے رو سے قوی تر دکھلا سکے تو میں اس کو ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا.( یہ اشتہار ' کے صفحوں پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۸ تا ۱۷) ( میرزا غلام احمد )

Page 207

مجموعہ اشتہارات ۱۹۱ جلد دوم اتمام حجت کے بالآخر میں پھر ہر ایک طالب حق کو یا دلاتا ہوں کہ وہ دین حق کے نشان اور اسلام کی سچائی کے آسمانی گواہ جس سے ہمارے نابینا علماء بے خبر ہیں وہ مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.مجھے بھیجا گیا ہے تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے اور وہ کرامات مجھے عطا کئے گئے ہیں جن کے مقابلہ سے تمام غیر مذہب والے اور ہمارے اندرونی اندھے مخالف بھی عاجز ہیں.میں ہر یک مخالف کو دکھلا سکتا ہوں کہ قرآن شریف اپنی تعلیموں اور اپنے علوم حکمیہ اور اپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رو سے معجزہ ہے.موسیٰ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسی کے معجزات سے صد ہا درجہ زیادہ.میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اور کچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے کے اور اسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دنیا میں کسی مذہب والا روحانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.چنانچہ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب یہ سرخی مرتب نے قائم کی ہے (مرتب) جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام میں کوئی اہل کرامت موجود نہیں وہ اندھا اور دل سیاہ ہے.اسلام وہ مذہب ہے کہ کسی زمانہ میں اہل کرامت سے خالی نہیں رہا.اور اب تو اتمام حجت کے لئے کرامات کی نہایت ضرورت ہے اور وہ ضرورت خدا تعالیٰ کے فضل سے حسب المراد پوری ہوگئی ہے.کوئی شخص نہیں کہ کرامت نمائی میں اسلام کے مقابل پر ٹھہر سکے.منہ

Page 208

مجموعہ اشتہارات ۱۹۲ جلد دوم مُردے اُن کے خدامر دے اور خود وہ تمام پیر ومر دے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جا نا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں.ہرگز ممکن نہیں.اے نادانوں ! تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے؟ اور مردار کھانے میں کیا لذت؟ !!! آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے.وہ اسلام کے ساتھ ہے.اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے.وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے.کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں؟ کہ اس بات کو پر کھے.پھر اگر حق کو پاوے تو قبول کر لیوے.تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ کیا ایک مُردہ کفن میں لپیٹا ہوا.پھر کیا ہے؟ کیا ایک مشت خاک.کیا یہ مُردہ خدا ہوسکتا ہے؟ کیا یہ نہیں کچھ جواب دے سکتا ہے؟ ذرہ آؤ ہاں ! لعنت ہے تم پر اگر نہ آؤ.اور اس سرے گلے مُردہ کا میرے زندہ خدا کے ساتھ مقابلہ نہ کرو.دیکھو میں تمہیں کہتا ہوں کہ چالیس دن نہیں گذریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا.ناپاک ہیں وہ دل جو بچے ارادہ سے نہیں آزماتے اور پھر انکار کرتے ہیں.اور پلید ہیں وہ طبیعتیں جو شرارت کی طرف جاتی ہیں نہ طلب حق کی طرف.او میرے مخالف مولویو! اگر تم میں شک ہو تو آؤ چند روز میری صحبت میں رہو.اگر خدا کے نشان نہ دیکھو تو مجھے پکڑو اور جس طرح چاہو تکذیب سے پیش آؤ.میں اتمام حجت کر چکا.اب جب تک تم اس حجت کو نہ توڑ لو تمہارے پاس کوئی جواب نہیں.خدا کے نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں.کیا تم میں سے کوئی نہیں جو سچا دل لے کر میرے پاس آوے کیا ایک بھی نہیں.”دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ۲۲ جنوری ۱۸۹۷ء ضمیمہ انجام آنتم صفحه ۶۱ تا ۶۳ - روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۴۵ تا ۳۴۷)

Page 209

مجموعہ اشتہارات ۱۹۳ (71 ۶۱ جلد دوم ہزار روپیہ کے انعام کا اشتہار میں اس وقت ایک مستحکم وعدہ کے ساتھ یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب عیسائیوں میں سے یسوع کے نشانوں کو جو اُس کی خدائی کی دلیل سمجھے جاتے ہیں میرے نشانوں اور فوق العادت خوارق سے قوت ثبوت اور کثرت تعداد میں بڑھے ہوئے ثابت کرسکیں تو میں ایک ہزار روپیہ بطور انعام دوں گا.میں سچ سچ اور حلفاً کہتا ہوں کہ اس میں تخلف نہیں ہوگا.میں ایسے ثالث کے پاس یہ روپیہ جمع کرا سکتا ہوں جس پر فریقین کو اطمینان ہو.اس فیصلہ کے لئے غیر مذہب والے منصف ٹھہرائے جائیں گے.درخواستیں جلد آنی چاہییں.الراقم عیسائی صاحبوں کا دلی خیر خواہ میرزا غلام احمد قادیانی ( تعداد اشاعت ۵،۶۰۰) A xrr (۲۸ /جنوری ۱۸۹۷ء) (مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں چھپا ) یہ اشتہار ۱۸۸۳۳ کے نصف صفحہ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۱۲ ملحقه صفحه ۱۰۲) ے نوٹ.اگر درخواست کرنے والے ایک سے زیادہ ہوں تو یہ روپیہ آپس میں تقسیم کر سکتے ہیں.منہ

Page 210

مجموعہ اشتہارات ۱۹۴ (TTM) جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اشتہار واجب الاظہار دریں وقت دو قطعه خط از طرف بعض شیعہ صاحبان بمارسیدہ.و در آنها ظاہر ساخته اند کہ یکے از بزرگان شان الموسوم بحاجی شیخ محمد رضا طہرانی نجفی در میں روز ہا وارد لا ہور است و آرزوی بحث و مناظرہ بائیں جانب می دارد اما هیچ معلوم نشد که آن بزرگ را کدام مانع پیش آمد که بلا وسطه بما خط و کتابت نتوانست کر دو حجاب وساطت را از میان نبر داشت خیر اگر این کارا اونکرد ما می کنیم ومناسب می دانیم که هر چه از خدا تعالیٰ بمارسیده است بطور تبلیغ بدیشان رسا نیم.بعد ازاں اگر اوشاں را حجابے وشکے باقی ماند اختیار می دارند که بصدق دل در بینجا بیانید و هیچوطالبان حق وساوس خود را دور کنانند یکے پس واضح باد که چنانکه از اشارات ربانی قرآن شریف و منطوق صحیح بخاری و مسلم و غیره که کتب در نامه مرسله این لفظ طنر و استکبار نیز بیافتیم که این چنین مردم که از معقول بے بہرہ اند قابل مخاطبت شیخ الاسلام نیستند و در مخاطبت شان کسر شان حضرت شیخ است مگر الحمد لله که معقول پسندی شیخ صاحب در ہمیں خط معلوم شد.شخص که خسوف و کسوف قمر دو شمس را در ساعت واحد جمع می کند و بر معقولات قرآنی ہم نظیرے ندارد یعنی بریں آیت منه لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ * خدا نکند که اورا از معقولات حظ قسمتی باشد - یاد ماند که ما برمنگران اتمام حجت کردیم و بعد ازاں بیچ حاجت مناظرہ نماندہ.ہاں ہر طالب حق را اختیار است شیخ باشد یا شاب که نزد ما از صدق دل بیاید و شکوک خود رفع کناند ما از ینجا که مرجع ہزارہا طالبان حق است نتوانیم حرکت کرو.ہر کہ طلبے دارد بیاید بفضلہ تعالیٰ تسلی بایا بد منه يس : ۴۱

Page 211

مجموعہ اشتہارات ۱۹۵ جلد دوم مسلمہ ومقبولہ اہل اسلام هستند معلوم و مفهوم می گردد حقیقت امر این است که در قضا و قدر خداوند حکیم علیم کہ اظہار آن در پیرایہ پیشگوئی باشده چنیں رفته بود که در وقتے کہ بر روئے زمین عیسائیت و عیسی پرستی غلبه کند و صلیب را آں عزتے وشا نے پیدا گردد که آنچه از خدائے غفور و رحیم باید جست از صلیب بجویند و بخواهند که توحید از روئے زمین معدوم گردد و حملہ ہائے سخت بر مسلمانان کنند.در آن زماں خدائے قادر شخصے را برائے شکستن شوکت صلیب و اعانت قوم اسلام خواہد فرستاد.واو ہمچو سیح ابن مریم مصدق کتاب قوم خود و موید شاں خواہد شد و قوم ہمچو یہودملکفر ومکذب اوخواهند گردید.پس بوجہ مناسبت قصه تکفیر او بقصه تکفیر مسیح نام او عیسی خواہد بود و نام آنانکہ اور اکا فر خواهند گفت یہود خواہد بود.وایں ہر دو نام بطور مجاز و استعاره بودند نه بوجه حقیقت.و بنیاد غلطی از ہمیں جا افتاد که اگر چه نام یهود بطور استعاره دانستند اما نام عیسی بطور حقیقت خیال کردند.الغرض در میں ہنگام کہ فتنہ واعظان انا جیل محترفه تا بجتے رسید که مردم ساده لوح و شکم پرست فوج در فوج مرتد شدند و بدان گونه بر اسلام حمله با کردند که قریب بود که آفت عظیم بر دین متین فرود آید و بدین آفت آفتے دیگر این منضم شد که در قوم تقویٰ وطہارت کم گردید و در اسلام فرقہ ہائے باطلہ با کمال غلو پدید آمدند وحقیقت شناساں کم شدند.پس برائے استیصال ایں ہر دوفتنہ بر صدی چہار دہم مرا فرستادند واز لحاظ اصلاح فتنہ ہائے اندرونی نام من مهدی موعود نهادند وازلحاظ اصلاح فتنہ ہائے بیرونی و تکفیر قوم یہود سیرت بنام عیسی بن مریم مرا موسوم کردند و بشارت دادند که این کسر صلیب بر دست تو خواهد بود مچنیں فتح وغلبه بر فرقہ ہائے باطلہ اندرونی اسلام کہ مخالف مذہب حق اہل سنت اند بنام من نوشتند.ومرا خدائے کہ با من است با نشا نہائی غیب فرستاده است وانوار و برکات عطا نموده ونورے کہ جمع ائمه اهل بیت را داده بودند گم شده بود وہماں نور بوجه الکل واتم در من ظهور نموده است ومرا از الهامات متواتره و آیات متکاثره یقین بخشیده اند که من ہماں مسیح موعود مہدی معہود و امام آخر زمانم که ذکر او در احادیث نبویہ و آثار سلف صالح آمده است و این دعوئی مسیحیت و مہدویت امرے نیست کہ بے دلیل باشد و نه تربات باطلہ کہ اصلے و حقیقت ندارند بلکہ بر صدق دعویٰ خود ہماں قسم دلائل

Page 212

مجموعہ اشتہارات ١٩٦ جلد دوم می داریم کہ برائے مرسلین و مبعوثین عادت الہی باظہار آن رفتہ.اکنوں اگر منکرے بزعم خود ایں دعویٰ را خلاف قال اللہ وقال الرسول می انگار دو گمان می کند که خود عیسی بن مریم از آسمان نازل خواهد شد اواز علم قرآن و حدیث بے بہرہ است لیے واگر از اصرار خد باز نماند پس ایس بار ثبوت برگردن اوست که از قرآن شریف و حدیث نبویہ حیات عیسی علیہ السلام را ثابت کند.لیکن ہر عاقلے میداند که حیات عیسی علیہ السلام را ثابت کردن امریست محال و خیالیست باطل - چرا که قرآن شریف بکمال وضاحت ایں فیصلہ کردہ است که عیسی وفات یافت - ومو منے را کہ عظمت کلام رب جلیل در دل خود می دارد ایں آیت کافی است که الله جل شانه می فرماید فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ اکنوں اے شنوندہ ایس آیت بغور بنگر آیا می توانی که بجز وفات معنی دیگر از میں آیت برآری ہرگز ممکن نیست.بلکہ ہر منصف و محققے کہ بریں آیت کریمہ غور خواهد کرد و در منطوق و مفہوم آں تاملے خواہد نمود او از پنجاببداہت نظر وفات عیسیٰ علیہ السلام خواہد فہمید و قطع و یقین بر موت شاں ایمان خواهد آورد و بعد زیں بصیرت انکار موت را نه صرف ضلالت بلکہ الحاد د وزندقہ خواہد شمرد.ہاں ممکن است که کسے را بوجه نادانی خود در معنی لفظ توفی ترددے پیدا شود.لیکن چون سوئے حدیث و آثار صحابہ رجوع خواهد کرد آں ہمہ تر ڈد کا لعدم خواهد شد چرا که او آنجا در تفسیر ایں آیت بجز امانت یعنی میرانیدن معنی دیگر نخواهد یافت.آیا نمی بینی که در صحیح بخاری از عبداللہ بن عباس است مُتَوَفِّيْكَ مُمِيْتُكَ یعنی معنی مُتَوَفِّیک این است که من ترا میراننده ام - و ماہر چند سیر کتب حدیث کردیم و تمام آثار و اقوال صحابه را دیدیم وخواندیم و شنیدیم اما هیچ جا نیافتیم که در شرح ایس آیت بجز معنے امانت چیزے دیگر در حدیثے یا اثرے یا قولے آمده باشد و مابدعوی میگوئیم کہ ہر چہ از صحابہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم در معنی توفی در آیت موصوفہ ثابت شده است آں ہمیں معنی میرانیدن است نہ غیر آں.نتواں گفت کہ میرا نیدن مسلّم است لیکن آں موت ہنوز واقع نشده بلکہ یاد باید داشت که مذهب اکابر وائمہ ایس امت ہمیں است که عیسی علیه السلام وفات یافته است چنانچه امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ و امام مالک رضی اللہ عنہ بداں جلالت شان قائل وفات عیسی علیہ السلام هستند و نه ایس ہر دو بلکہ امام بخاری و دیگر ا کثرا کا بر سوئے عقیدہ وفات رفته اند - منه المائدة : ١١٨

Page 213

مجموعہ اشتہارات ۱۹۷ جلد دوم آئندہ واقع خواهد شد - زیر آنکه حضرت عیسی علیہ السّلام در آیه فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی میفرماید که فتنه ضلالت نصاری بعد از موت من بوقوع آمده است نه قبل از موت من.پس اگر فرض کنیم کہ وعدہ موت ہنوز بظهور نیامده است و حضرت عیسی علیہ السّلام تا این وقت زنده است پس بر ماوا جب مے شود کہ ایس ہم قبول کنیم که نصاری هم تا هنوز بر صراط مستقیم هستند و گراه نشده اند.زیرا نکه در آیت موصوفہ گمراہی عیسائیاں را بموت مسیح وابسته کرده اند.پس تا وقتیکه عیسی نمرده باشد عیسائیاں را چگو نه گمراه تواں گفت عجب است از عقل علماء قوم ما کہ بوئے ایس آیت توجه نمی کنند و نصوص صریحه را می گذارند و اوهام راند هب خود می گیرند - غرض مُردن عیسی علیہ السلام از نصوص قرآنیه و حدیثه ثابت است و هیچ کس را مجال انکار نیست بجز آن صورت که از قرآن و حدیث رو بگرداند یا معنی آیت بطور تفسیر بالرائے کند.و ہر چند درباره لفظ توئی اتفاق اہل لغت بر ہمیں قاعده مستمره است که چون در عبارتے فاعل ایں لفظ خدا باشد و مفعول به انسانے از انسان با در آن صورت معنی توفی در میرانیدن محصور خواهد بود و بجز میرانیدن و قبض روح معنی دیگر در آنجا هرگز نخواہد بود.لیکن مادر اینجا ضرورتے وحاجتے نمی داریم کہ سوئے کتب لغت عرب رجوع کنیم مارا در میں مقام حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وقول ابن عباس که آن هر دو در صحیح بخاری موجوداند کافی است و ما خوب می دانیم که هر که از گفته رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعراض کند او منافقے باشد نہ مومنے.پس چونکہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لفظ تَوَفَّيْتَنِی را که در آیت موصوفه است برخود اطلاق کردہ معنی وفات را تصریح کرده است و ابن عباس بصراحت معنی آں میرانیدن نموده و شارح عینی سلسله قول ابن عباس را بتمام و کمال بیان فرمودہ.پس مارا بعد زمیں وضاحت ہا حاجت شبو تے دیگر نیست گوثبوت ہائے دیگر ہم داریم.لغت عرب با ماست عقل انسانی با ماست- اقرار دیگر قوم با با ماست اقرارا اکثر آئمہ اسلام با ماست و تا ہنوز قبر عیسی علیه السلام در بلاد شام موجود است ه آن کس که بقرآن و خبر زونز ہی ایس است جوابش که جوابش ندہی اما آنچه حضرت شیخ نجفی می گویند که ما قبول کردیم که عیسی بر دلیکن ممکن است که خدا دیگر بار اور ازنده کرده در دنیا بیارد این قول ایشان تا آن وقت قابل التفات نیست که ایشان از قرآن شریف یا حدیث صحیح ثابت کنند که فلاں قبر در آخر زمان خواهد بشگافت وازاں عیسی بیرون خواهد آمد زیر آنکه

Page 214

مجموعہ اشتہارات ۱۹۸ جلد دوم مجرد خیال کسے کہ با خود ثبوتے ندارد لایق قبول نتواند شد بلکه از طرف خود همچو خیالات تراشیدن و سند از قرآن و حدیث نیاوردن از طریق دیانت داری و پر ہیز گاری بسیار بعید است.اگر ہمیں مذہب پسند خاطر است.پس سند باید آورد و حدیث پیش باید کرد که از آن معلوم شود که از فلاں گورے صحیح بیرون خواهد آمد والبتہ بعد ثابت شدن چنیں حدیثے سخت بے ایمانی خواہد بود کہ کسے آں حدیث را قبول نکند مگر این بد قسمتی مخالفان ماست کہ بتائید میں یاوہ گوئی باریچ حدیثے یا آیتے در دست شاں نیست.نہ شہادت قرآن بر حیات مسیح توانند آوردونه از حدیثه ثابت توانند کرد که فلاں قبر شگافتہ خواہد شد و ازاں عیسی بیرون خواهد آمد - واعتقاد حیات مسیح وصعود او جسم عنصری چیزیست که ثبوت آن از قرآن وحدیث امرے محال است - آرے در بعض احادیث لفظ نزول موجود است.لیکن ایں نادانان نمی دانند که اگر از لفظ عیسی همان عیسیٰ مراد بودے کہ پیغمبر بنی اسرائیل بود پس بجائے لفظ نزول لفظ رجوع می بایست نه لفظ نزول زیر انکہ ہر کہ واپس می آید اور نازل نمی گویند بلکه راجع می گویند.عجب قو می است که از جوش تعصب محاورات لغت عرب را هم فراموش کرده اند - اکنوں حاصل کلام این است که بر سر کار شیخ نجفی لازم است که از میں دو طریق مذکورہ بالا طریقے را اختیار کنند تا روئے راستی به بینند و بر خود خبط عشواء رواندارند - یعنی یا صعود عیسی بجسم عنصری از قرآن وحدیث ثابت کنند یا بر گورے انگشت نهند که از میں گور عیسی بیرون خواهد آمد.واما آنچه بیان فرموده اند که خسوف کسوف در رمضان در ساعت واحد خواهد بود و همان نشان مهدی موعود است نه اینکه در یں روز با بوقوع آمده است.ایس تقریریست عجیب بہتر بودے کہ ایس را در عجائب خانہ فرستادند تا ذریعہ خندیدن غمگیناں شدے و در یں ہمیں قدر عجیب نیست کہ بیچ حدیثے واثرے صحیح همراه ندارد بلکہ عجب دیگر این است که دعوی ہیئت دانی وایس ژاثر خائی و نادانی.نوٹ.حضرت شیخ الاسلام در خط خود وعده می فرماید که در چهل دقیقه نشانے تو انم نمود.بسیار خوب است.یکے از اخبار غیب بذریعہ اشتہارے شائع فرمایند بجائے چہل دقیقہ مہلت چہل ساعت اوشاں را می دهیم.پس اگر در چہل روز نشانی از ما ظاهر نشد و از یشاں در چهل ساعت ظاهر شد یا فرض کنید که از یشان نیز در چهل روز ظاهر شد بر بزرگی اوشاں ایمان خواهیم آور دو ترک دعوی خود خواهیم کرد - واگر نشا نے از مادر میں مدت بظہور آمد وازیشاں چیزے بظہور نیامد ہمیں دلیل بر صدق ما و کذب شان خواهد بود - منه

Page 215

مجموعہ اشتہارات ۱۹۹ جلد دوم و دوستان ما را ملزم کرده اند و گفته اند که شمارا در علم ہیئت و خلے نیست.پس ایس بیان شاں کہ در یک ساعت خسوف کسوف جمع خواهند شد بریں امر شاہد ناطق است که در حقیقت اوشان را علاوه کمالات شیخ الاسلام بودن در فن ہیئت نیز دستگا ہے عظیم است ای بنده خدا رَحِمَكَ الله این بیت جدید از کجا آوردی که نه سقراط ازاں خبری داشت و نه فیا غورث - بچه بچه می داند که ایام خسوف آفتاب بست و هفتم و بست و هشتم و بست و نهم از ماه قمری می باشد و ایام خسوف قمر سیزدهم و چهاردهم و پانزدهم در قانون قدرت مقرر است پس از روئے ہیئت اجتماع شاں در ساعت واحد چگونه ممکن است - غرض ایں قاعدہ ہیئت شما آں امرے عجیب است که نه صرف ما را بلکہ بیچ ہیئت دانے را بر واطلاعے نیست.خوب است دعوی علم ہیئت کردن باز برخلاف آن گفتن.زہے علم وز ہے ہیئت.باید دانست که این حدیث دار قطنی است و در ان این خرافات مندرج نیست که بیان کرده اند - بلکہ ہمیں قدر است کہ ماہتاب در اول شب از شب ہائے مقرره خود منتخسف خواهد شد و آفتاب در روز میانہ از روز ہائے کسوف خود منکسف خواہد گردید.ودراں دو شرط لازم خواهد بود.اول اینکہ ہر دو خسوف کسوف در ماه رمضان خواهد بود - دوم اینکه این هر دو بر صدق مدعی مهدویت نشان خواهند بود یعنی در آن وقت ایں ہر دو نشان بظهور خواهند آمد که تکذیب مهدی خواہد شد.وایں ہیئت کذائی کہ خسوف کسوف در رمضان جمع شود و یک مدعی مهدویت نیز در آن وقت موجود باشد این اتفاق پیش از من کسے را میسر نشده از آدم تا وقت من مضمون حدیث ہمیں قدر است.بحمد اللہ کہ مصداق آں ہستم و بریں چیزے افزودن خیانت که ورجل است.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتر میرزاغلام احمد قادیانی ( یکم فروری ۱۸۹۷) ( یہ اشتہار " کے چار صفحوں پر ہے) سلام تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۰۲ تا ۱۰۸) ے حاشیہ.یکے از خیانت ہائے صاحب راقم این است که ذکر آتم عیسائی خلاف واقعه می کند.اگر روایتے غلط رسیده بود کارمومنان نیست که هر خرافات بے اصل را متمسک بہاگر دانند تا وقتیکه تحقیق نه کنند - غرض ما در آن نامه

Page 216

۱۵ مجموعہ اشتہارات جلد دوم بقیہ حاشیہ پر گزاف ذکر خلاف واقعہ آتم عیسائی را با افسوس خواندیم.واضح باد که درباره آتم مذکور حقیقت امر این است کہ مادر بارہ موت اواز الہام خدائے عز و قبل پیشگوئی کرده بودیم که اگر او بر شوخی و بے با کی خود ثابت بماند ورجوع بحق نکرد در پانزده ماه خواهد مرد.پس آتم مذکور در همان جلسه الفاظ رجوع بر زبان راند و چوں اور ا گفته شد که تو حضرت سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم را در کتاب خود و جال نام نهادی ایں سزائے آں بد کرداری تست.او ہراساں وتر ساں ہر دو دست خود بر گوش نهاد و بسیار از بسیار عجز و نیاز ظاہر کر دورنگ اوز رد شد و خوفے بر دل او مستولی گشت.وہماں وقت علامات رجوع اواز بے با کی خود بر چهره او هویده و آشکار گشت.چنانکه قریب به هفتاد کس از مردم معز ز مسلمانان و نصاری این حالت اور اچشم خود مشاہدہ کردند و گفتگوئی عجز و نیاز اور اشنیدند.بعد ازاں تا انجام پیشگوئی چیزے از گستاخی ہائے سابقہ بر زبان نراند و هیچ کس ثابت نتواند کرده که در میعاد پیشگوئی بیچ کلمه تحقیر بر زبان او جاری شده باشد.بلکہ اوا قرار خوف خود بارہا کرد و ترساں لرزاں میعاد را گذرانید.ہمیں رجوع اواز بے با کی بود که در موت او تاخیر انداخت سے باز چون پس از گذاشتن میعاد با شیاطین خود آمیخت و دید که ایام گذشتند حالت خود را تغیر داد.پس بعد از تغیر حسب الہام ماخدا اور ا بگرفت و ذائقہ موت و ہادیہ اور اچشانید و پیشگوئی خود را با کمل وجوه با تمام رسانید وروئے پادریاں و ہم سخنان ایشان از مولویاں سیاہ کرد و عجیب تر ایں کہ ایں پیشگوئی در کتاب من یعنی در براہین احمدیه دوزاده سال قبل از واقعه آتم در سلسله الہامات البیه مندرج شده است.پس ایس کا ریست که از طاقت انسان برتر است و از واقعات حقہ و اخفائے حق کا رمومناں نیست.منہ ل حاشیه در حاشیه و ما بعد از گذشتن میعاد پیشگوئی اور ابرائے قسم خوردن مجبور کردیم که اگر رجوع الی الحق نہ کردہ است قسم بخور دو چار ہزار رو پید انعام بگیرد لیکن او با وجود سخت اصرار مافتم نخورد و بر همان حالت بمرد.حالانکہ جواز فتم بلکہ وجوب آں عند الضرورت از انجیل برو ثابت کرده بودیم - منه نوٹ نمبرا.در اشتہار شیخ الاسلام صاحب در سطر ششم سخت انکار از صدق الہام ہائے ایں راقم کرده است و گفته است که پیچ الہامی راست ثابت نشده - پس مادبان دروغگویاں را نتوانیم بست.ہاں طریق فیصلہ ایں است کہ اگر بمقابلہ پیشگوئی ہائے ما در ظہور حقانیت و کثرت تعداد پیشگوئی ہائے احدے از ائمه مذهب خود را اقوی و اکثر ثابت توانند کرد ما بر دست شان تو به خواهیم نمود ورنہ سزائے لعنتہ اللہ علی الکاذبین نه از ما بلکہ از خدائے آسماں ہاو زمین ہابر دروغگوئیاں است_منه نوٹ نمبر۲.شیخ الاسلام صاحب در اشتہار خودسوی من اشارت کرد می نویسند که ما شهادت در یکدیگری داده از مناره مسجد شاہی لاہور خود را افر والیم.ہر کہ صادق باشد محفوظ خواهد ماند - عجیب سوال است که در دنیا صرف دو مرتبہ واقعہ شده از عیسی بن مریم شیخ نجدی این سوال کرده بود و از من شیخ نجفی زہے مناسبت.پس جواب ماہماں است که عیسی علیه السلام شیخ نجدی را داده بود.انجیل را به بیند تسلی خود فرمایند هنه

Page 217

مجموعہ اشتہارات ترجمه از مرتب ۲۰۱ جلد دوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اشتہار واجب الاظہار اس وقت دو عدد خط بعض شیعہ صاحبان کی طرف سے مجھے پہنچے ہیں.اور اس میں انہوں نے ظاہر کیا ہے کہ ان کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ موسوم حاجی شیخ محمد رضا طہرانی نجفی ان دنوں لاہور وارد ہوئے ہیں اور اس طرف یعنی میرے ساتھ بحث و مناظرہ کی آرزور کھتے ہیں.لیکن یہ کچھ معلوم نہیں ہوا کہ اس بزرگ کو کونسا مانع پیش آیا کہ اس نے بلا واسطہ ہم سے خط و کتابت نہیں کی اور توسط کے حجاب کو درمیان سے نہیں اٹھایا.ٹھیک ہے اگر اس نے یہ کام نہیں کیا ہم کرتے ہیں اور مناسب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ہمیں پہنچایا ہے ہم بطور تبلیغ ان کو پہنچاتے ہیں.اگر اس کے بعد انہیں کوئی حجاب یا شک باقی رہے وہ اختیار رکھتے ہیں کہ وہ بچے دل سے اس جگہ آئیں اور طالبان حق کی طرح اپنے وساوس کو دور کروائیں گے لے مرسلہ خط میں یہ لفظ طنزیہ اور متکبرانہ انداز میں ہم پاتے ہیں کہ اس طرح کے لوگ جو معقول باتوں سے بھی بے بہرہ ہیں اور شیخ الاسلام سے مخاطب ہونے کے لائق نہیں ہیں.حالانکہ ایسے لوگوں کی شان میں حضرت شیخ » کے الفاظ کسر شان کے برابر ہیں.مگر الحمد للہ کہ معقول پسندی کیا ہے شیخ صاحب کے نزدیک یہ بات ہمیں اس خط سے معلوم ہوئی ہے.وہ شخص کہ جو کسوف و خسوف شمس و قمر کو ساعت واحد میں جمع کرتا ہے اور قرآنی علوم میں اپنی نظیر نہیں رکھتا یعنی اس آیت کے بارے میں یہ کہ سورج کے لئے مناسب نہیں کہ وہ چاند کو پا سکے.خدا نہ کرے کہ وہ معقولات کا حصہ اور نصیبہ رکھتا ہو.سے یادر ہنا چاہیے کہ ہم نے انکار کرنے والوں کے لئے اتمام حجت کر دیا ہے.اس کے بعد اب کسی مناظرہ کی ضرورت نہیں رہی.ہاں ہر حق کے طالب کو اختیار ہے شیخ ہو یا شاب ( یعنی کوئی بڑا عالم ہو یا چھوٹا ) کہ وہ ہمارے پاس صدق دل سے آئے اور اپنے شکوک دور کرے ہم اس جگہ ہزاروں طالبان حق کا مرجع ہیں.ہم حرکت نہیں کر سکتے.ہر شخص جو طلب حق رکھتا ہے وہ آئے بفضل خدا وہ تسلی و تشفی پائے گا.

Page 218

مجموعہ اشتہارات جلد دوم پس واضح رہے کہ چونکہ ربانی اشاروں سے ظاہر ہے قرآن شریف اور منطوق صحیح بخاری ومسلم وغیرہ اہل اسلام کے نزدیک کتب مسلمہ اور مقبولہ ہیں اور یہ بات ہر ایک کو معلوم و مفہوم ہے اور اس امر کی حقیقت یہ ہے کہ خداوند کریم و حکیم کی قضا و قدر جس کا اظہار پیش گوئی کے طور پر ہوگا اس طور پر گذری تھی کہ جس وقت روئے زمین پر عیسائیت اور عیسی پرستی غلبہ کرے گی اور صلیب کے لئے وہ عزت اور شان پیدا ہو جائے جو خدائے رحیم و غفور سے تلاش کرنی چاہیے وہ اسے صلیب سے تلاش کریں گے اور وہ چاہیں گے کہ تو حید روئے زمین سے معدوم ہو جائے اور وہ مسلمانوں پر سخت حملے کریں اس زمانے میں خدائے قادر کسی شخص کو صلیب کو توڑنے اور مسلمانوں کی اعانت کے لئے بھیجے گا اور وہ مسیح ابن مریم کی طرح اپنی قوم کی کتاب کا مصدق ہوگا اور ان کا تائید کرنے والا بھی.اور قوم ، یہود کی طرح اس کی مکفر و مکذب ہو جائے گی.پس اس قصہ تکفیر کا مسیح کے قصہ تکفیر سے مناسبت کی وجہ سے اس کا نام عیسیٰ ہوگا اور جواسے کا فر کہیں گے ان کا نام یہود ہوگا.اور یہ دونوں نام استعارہ کے طور پر ہوں گے نہ کہ حقیقت کے رنگ میں.اور بنیادی غلطی یہیں ہوئی ہے (یعنی ) اگر چہ (یہاں) وہ یہود کے نام کو بطور استعارہ سمجھتے ہیں.لیکن وہ عیسی کے نام کو بطور حقیقت خیال کرتے ہیں.الغرض اس وقت ہنگامہ میں محرفہ انا جیل کے واعظوں کا فتنہ اس حد تک پہنچا کہ سادہ لوح اور شکم پرست لوگ گروہ در گروه مرند ہونے شروع ہو گئے اور اسلام پر اس قسم کے حملے کرنے لگے کہ قریب تھا کہ دین متین پر کوئی بہت بڑی آفت نازل ہوتی اس آفت میں کوئی دوسری آفت بھی مل جاتی کہ قوم میں سے تقوی گم ہو جاتا اور اسلام میں باطل فرقے بڑی کثرت سے پیدا ہو جاتے اور حقیقت شناس کم ہو جاتے.پس ان دونوں فتنوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے انہوں نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر بھیجا اور اندرونی فتنوں کی اصلاح کے لیے انہوں نے میرا نام مہدی موعود رکھا اور بیرونی فتنوں کی اصلاح کے لئے اور یہود سیرت قوم کی اصلاح کے لئے انہوں نے مجھے عیسیٰ بن مریم کے نام سے موسوم کیا اور یہ خوشخبری دی کہ اس وقت کسر صلیب تیرے ہاتھ سے ہوگی اور اسی طرح مسلمان کہلانے والوں کے باطل فرقے جو مذ ہب حق اہلِ سنت کے مخالف ہیں پر فتح وغلبہ کو میرے نام سے موسوم کیا.

Page 219

مجموعہ اشتہارات ٢٠٣ جلد دوم میرا خدا جو میرے ساتھ ہے اُس نے مجھے غیب کے نشانات کے ساتھ بھیجا ہے اور اس نے انوار و برکات ظاہر فرمائے ہیں.وہ نور جو اس نے تمام ائمہ اہل بیت کو عطا فرمایا ہے اور اب وہ گم ہو چکا تھا وہی نور اکمل و اتم طور پر میرے لئے ظاہر فرمایا ہے اور مجھے متواتر ہونے والے الہامات اور بکثرت ظاہر ہونے والے نشانات سے یقین بخشتا ہے کہ میں وہی مسیح موعود مہدی معہود اور امام آخر زماں ہوں جس کا ذکر احادیث نبویہ اور اسلاف صالحین کی روایات میں آتا ہے اور دعویٰ مسیحیت اور مہدویت ایسا امر نہیں ہے جو بے دلیل ہو اور نہ بیہودہ اور باطل باتیں ہیں جو کوئی اصلیت اور حقیقت نہ رکھتی ہوں.بلکہ اپنے دعوی کی سچائی پر ہم وہ سب قسم کے دلائل رکھتے ہیں کہ مرسلین اور مبعوثین کے ساتھ اللہ کا جو دستور ظاہر ہو چکا ہے اب اگر کوئی منکر اپنے خیال میں یہ دعویٰ قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف سمجھتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ خود عیسی بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے وہ علم قرآن وحدیث سے بے بہرہ ہے لے اگر کوئی اپنے اصرار سے باز نہیں آتا تو یہ بار ثبوت اس کی گردن پر ہے کہ قرآن شریف اور احادیث نبویہ سے عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت کرے.لیکن ہر عقلمند جانتا ہے کہ حیات عیسی علیہ السلام کو ثابت کرنا ایک محال اور باطل خیال ہے.اس لئے کہ قرآن شریف نے بڑی وضاحت سے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ عیسی وفات پاچکے ہیں اور ایسا مومن جو اپنے دل میں رب جلیل کے کلام کی عظمت رکھتا ہے اس کے لئے یہ آیت کافی ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمُ اب اے اس آیت کے سننے والے غور سے دیکھ کہ کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ اس آیت سے وفات کے علاوہ کوئی دیگر معنی نکال سکے.یہ ہرگز ممکن نہیں بلکہ ہر منصف اور محقق کہ جو ے یا درکھنا چاہیے کہ اکابر کا مذہب اور اس امت کے ائمہ کا مذہب یہی ہے کہ عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.چنانچہ امام ابن حزم رحمتہ اللہ علیہ اور امام مالک رضی اللہ عنہ اپنی جلالت شان کے باوجود عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں.نہ صرف یہ دو امام بلکہ امام بخاری اور دیگر اکثرا کا بر وفات کے عقیدے کی طرف گئے ہیں.المائدة : ١١٨

Page 220

مجموعہ اشتہارات ۲۰۴ جلد دوم آیت کریمہ پر غور کرے گا وہ (قرآن کے) منطوق و مفہوم میں غور کرے گا وہ بداہت نظر کے ساتھ عیسی علیہ السلام کی وفات ہی سمجھے گا اور قطعی ویقینی طور پر ان کی وفات پر ہی ایمان لائے گا.اور حضرت عیسی کی وفات پر بصیرت حاصل ہو جانے کے بعد موت عیسی“ سے انکار کو نہ صرف ضلالت بلکہ الحاد اور زندیقیت شمار کرے گا.ممکن ہے کسی کو اپنی نادانی کے سبب لفظ توفی کے معنی میں تردد پیدا ہو جائے.لیکن جب حدیث کی طرف اور صحابہ کی روایات کی طرف رجوع کرے گا تو اس کا یہ سب تردد کالعدم ہو جائے گا.اس لئے کہ وہ وہاں اس آیت کی تفسیر میں بجز امانت یعنی مارنے کے دوسرے معنے نہیں پائے گا.کیا تو نہیں دیکھتا صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس سے مروی ہے.مُتَوَفِّيْكَ : مُمِيْتُكَ “ یعنی مُتَوَفِّیک کے یہ معنے ہیں: میں تجھے مارنے والا ہوں.اور ہم نے ہر چند کہ کتب حدیث کا سیر حاصل مطالعہ کیا ہے اور تمام روایات واقوال صحابہ کو دیکھا اور خود ہم نے پڑھا ہے اور (لوگوں سے سنا بھی ہے لیکن کسی جگہ نہیں پایا کہ اس کی شرح میں سوائے اِمَانَتْ کے معنی کے کوئی دوسری چیز کسی حدیث یا کسی روایت یا کسی قول میں آئی ہو اور ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جو کچھ صحابہ کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے توفی کے معنی میں آیت مذکورہ میں ثابت ہے وہی مارنے کے معنے ہیں کوئی اور نہیں اور نہیں کہا جا سکتا کہ مارنا مسلم ہے لیکن وہ موت ابھی واقع نہیں ہوئی بلکہ آئندہ واقع ہوگی.اس لئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی والی آیت میں فرماتے ہیں کہ ضلالت نصاری کافتنہ میری موت کے بعد وقوع میں آیا ہے نہ کہ میری موت سے پہلے.پس اگر چہ یہ فرض کریں کہ وعدہ موت ابھی ظہور میں نہیں آیا ہے اور عیسی علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں پس ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم یہ بھی قبول کر لیں کہ نصاری ابھی تک صراط مستقیم پر ہیں اور ابھی تک گمراہ نہیں ہوئے ہیں.کیونکہ مذکورہ آیت میں عیسائیوں کی گمراہی موت عیسی سے وابستہ ہے.پس جب تک عیسی علیہ السلام مردہ نہیں ہوں گے عیسائیوں کو کس طرح گمراہ کہا جا سکتا ہے علماء اور قوم کی عقل پر تعجب ہے کہ ہماری قوم اس آیت کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نصوص صریحہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور اوہام کو اپنے مذہب کے طور پر اختیار کرتے ہیں.

Page 221

مجموعہ اشتہارات جلد دوم الغرض عیسی علیہ السلام کی وفات نصوص قرآنیہ اور حدیثوں سے ثابت ہے اور کسی شخص کو انکار کی جرات نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ قرآن وحدیث سے روگردانی کرے اور اس آیت کے معنے تفسیر بالرائے کے ساتھ کرلے اور اگر چہ لفظ توفی کے معنوں پر اہل لغت کا اتفاق ہے اور اس قاعدہ مستمرہ کے مطابق ہیں کہ جب کسی عبارت میں اس لفظ کا فاعل خدا ہو اور مفعول یہ کوئی انسانوں میں سے ہو تو اس صورت میں توقی کے معنے مارنے میں محصور ہوں گے.اور سوائے مارنے اور قبض روح کے کوئی دیگر معنی اس جگہ نہیں ہوں گے.لیکن اس جگہ ہمیں ضرورت نہیں کہ ہم عرب کی لغت کی کتب کی طرف رجوع کریں.ہم اس جگہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن عباس کے قول کو صحیح بخاری میں پاتے ہیں.اور یہ دونوں کافی ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں جو کوئی قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرتا ہے وہ منافق ہوگا نہ کہ مومن.پس چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ تَوَفَّيْتَنِی کو جو مذکورہ آیت میں ہے اس کا اپنے اوپر اطلاق فرمایا ہے اور معنے وفات کے صریح طور بیان فرمائے ہیں اور ابن عباس نے ان معنوں کی وضاحت کو مارنے کے معنوں میں ظاہر کیا ہے اور شارح عینی نے ابن عباس کے قول کو به تمام و کمال بیان فرمایا ہے.پس اتنی وضاحت کے بعد ہمیں کسی ثبوت دیگر کی ضرورت نہیں.اگر چہ ہم دوسرے ثبوت بھی رکھتے ہیں.لغت عرب ہمارے ساتھ ہے.انسانی عقل ہمارے ساتھ ہے، دیگر قوموں کا اقرار ہمارے ساتھ ہے، اسلام کے اکثر ائمہ کا تصور واقرار ہمارے ساتھ ہے اور بلا دشام میں ابھی تک حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر موجود ہے.ے اں کس کہ بقرآن و خبر زونرہی این است جوابش کہ جوابش ندہی لے لیکن جو کچھ شیخ نجفی کہتے ہیں کہ ہم قبول کرتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام مر چکے ہیں لیکن یہ ممکن ہے کہ خدا انہیں (عیسی کو ) دوسری دفع زندہ کر کے دنیا میں لے آئے.ان کا یہ قول اس وقت تک التفات کے لائق نہیں جب تک کہ وہ اسے قرآن شریف یا حدیث سے ثابت نہیں کرتے کہ فلاں قبر آخری زمانے میں پھاڑی جائے گی اور اس میں سے عیسی باہر آئیں گے.اس لئے کہ کسی کا خیال جس ا ترجمہ.جس شخص سے تو قرآن وحدیث (بیان کرنے سے رہائی نہ پاسکے اس کا ( صحیح ) جواب یہ ہے کہ اس کو جواب نہ دے.

Page 222

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کے ساتھ ثبوت نہ ہو لائق قبول نہیں ہوسکتا بلکہ اپنے پاس سے ایسے خیالات تر اشنا اور قرآن وحدیث سے اس کی سند پیش نہ کرنا دیانتداری اور پرہیز گاری سے بہت دور ہے.اگر یہی مذہب ان کے دل کو پسند ہے.پس سندلانی چاہیے اور کوئی حدیث پیش کرنی چاہیے کہ جس سے معلوم ہو جائے کہ فلاں قبر سے مسیح باہر آئیں گے البتہ اس قسم کی حدیث کے ثابت ہونے کے بعد یہ سخت بے ایمانی ہوگی کہ کوئی اس حدیث کو قبول نہ کرے.مگر یہ بدقسمتی ہمارے مخالفین کی ہے کہ ان یاوہ گوئیوں کی تائید میں ان کے پاس کوئی حدیث اور آیت نہیں ہے.نہ تو قرآن کی شہادت مسیح کی حیات پر لا سکتے ہیں اور نہ وہ حدیث سے ثابت کر سکتے ہیں فلاں قبر پھاڑی جائے گی اور اس سے عیسی باہر آئیں گے.اور عقیدہ حیات مسیح اور جسم عنصری کے ساتھ ان کا آسمان پر چڑھنا ایسی چیز ہے کہ قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت لانا ایک محال امر ہے.ہاں ! بعض حدیثوں میں لفظ ”نُزُول“ موجود ہے.لیکن یہ نادان نہیں جانتے ہیں کہ 66 اس لفظ عیسی سے وہی عیسی مراد ہے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے.پس نُزُول“ کے بجائے رُجُوع “ کا لفظ ہونا چاہیے نہ کہ نُزُول“.اس لئے کہ جو کوئی واپس آتا ہے اسے نازل نہیں کہتے.بلکہ اسے راجع “ کہتے ہیں.عجیب قوم ہے کہ اس نے تعصب کے جوش سے لغت عرب کے محاورات کو بھلا دیا ہے.اب حاصل کلام یہ ہے کہ سر کا رشیخ نجفی پر لازم ہے کہ مذکورہ بالا دوطریق میں سے کسی طریق کو اختیار کریں تا کہ وہ راستی کا چہرہ دیکھیں اور اپنے اوپر عشو تکبر کا خبط روانہ رکھیں.یعنی یا عیسی کا بجسم عصری قرآن و حدیث سے آسمان پر چڑھنا ثابت کریں یا کسی قبر پر انگلی رکھیں کہ اس قبر سے نوٹ.حضرت شیخ الاسلام نے اپنے خط میں وعدہ فرمایا ہے کہ میں چالیس منٹ میں نشان دکھا سکتا ہوں.یہ تو بہت اچھی بات ہے.اخبار غیبیہ میں سے صرف ایک بذریعہ اشتہار شائع کر دیں اور ہم انہیں (نشان دکھانے کے لئے ) چالیس منٹ کی بجائے چالیس گھنٹے کی مہلت دیتے ہیں.پس اگر چالیس روز میں ہماری طرف سے نشان ظاہر نہ ہوا اور ان ( شیخ صاحب) کی طرف سے چالیس منٹ میں نشان ظاہر ہو گیا یا بفرض محال بالمقابل ہمارے ان کی طرف سے بھی چالیس دن میں نشان ظاہر ہو گیا تب بھی ہم ان کی بزرگی پر ایمان لے آئیں گے اور اپنے دعوی کو ترک کر دیں گے.لیکن اگر اس مدت میں ہماری طرف سے کسی نشان کا ظہور ہوا اور ان ( شیخ صاحب) کی طرف سے کچھ بھی ظاہر نہ ہوا تو یہی ہمارے لئے دلیل صداقت اور ان کے کذب پر گواہ ہوگی.منہ

Page 223

مجموعہ اشتہارات ۲۰۷ جلد دوم عیسی باہر آئیں گے.لیکن جو انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ خسوف و کسوف رمضان میں ایک ہی وقت میں ہوگا اور مہدی موعود کا یہی نشان ہے.یہ جو ان دنوں واقع ہوا ہے یہ ایسی عجیب تقریر ہے کہ بہتر تھا کہ وہ اسے عجائب خانہ میں بھجوا دیتے تاکہ غمناک لوگوں کے لئے ہنسی کا ذریعہ ہوتا.اور اس میں عجیب بات نہیں ہے کہ کوئی حدیث یا صحیح روایت اس کے ساتھ نہیں ہے.اور دوسرا تعجب یہ ہے کہ ہیئت دانی کے دعوے کے باوجود یہ مذاق کی باتیں اور نادانی ہے اور دوستوں نے ہمیں ملزم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آپ کو علم ہیئت سے کچھ تعلق نہیں ہے.پس ان کے اس بیان پر کہ ایک ہی وقت خسوف اور کسوف جمع ہوں گے اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ انہیں شیخ الاسلام کے کمالات اور فن ہیئت میں بھی دستگاہ عظیم حاصل ہے.اے بندہ خدا ! رحمک اللہ یہ ہیئت جدید آپ کہاں سے لائے ہیں نہ تو سقراط کو اس کی خبر تھی اور نہ فیثا غورث کو.بچہ بچہ جانتا ہے کہ کسوف آفتاب کے ایام ۲۷، ۲۸ اور ۲۹ قمری مہینے کے ہیں.اور خسوف قمر کی راتیں ۱۴۱۳ اور ۱۵ قمری مہینے کی ہیں اور یہ وقت قانون قدرت میں مقرر ہے.پس علم ہیئت کے لحاظ سے ایک ہی وقت میں ان کا اجتماع کیسے ممکن ہے.غرض آپ کے علم ہیئت کا یہ قاعدہ ایسا عجیب ہے کہ جس پر نہ ہمیں بلکہ کسی دوسرے ہیئت دان کو بھی اطلاع نہیں ہے.علم ہیئت کا دعوی کرنا خوب اور پھر اس کے خلاف کہنا بھی خوب ہے.دعویٰ علم اور ہیئت دانی کیا خوب ہے.جانا چاہیے کہ یہ حدیث دار قطنی کی ہے اور اس میں یہ خرافات درج نہیں ہیں جنہیں یہ بیان کرتے ہیں.بلکہ اسی قدر ہے کہ چاند اپنی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات کو گہنایا جائے گا اور آفتاب گرہن کے مقررہ دنوں میں درمیانے دن گہنایا جائے گا اور اس میں دو شرطیں ہوں گی پہلی یہ کہ چاند اور سورج دونوں کا گرہن رمضان میں ہوگا اور دوسری یہ کہ یہ دونوں کسی مدعی مہدویت کے صدق کے نشان کے طور پر ہوں.یعنی اس وقت یہ دونوں نشان ظہور میں آئیں گے.اس لئے کہ مہدی کی تکذیب ہوگی اور یہ ہیئت کذائی کہ رمضان میں خسوف و کسوف جمع ہو جائے اور ایک مدعی مہدویت اس وقت موجود ہو.یہ ایک ایسا اتفاق ہے کہ حضرت آدم سے لے کر میرے زمانہ تک مجھ سے پہلے کسی

Page 224

مجموعہ اشتہارات ۲۰۸ جلد دوم کو میسر نہیں ہوا.مضمون حدیث اسی قدر ہے.بحمد اللہ کہ اس کا مصداق میں ہوں.اس کے علاوہ اس پر کسی چیز کا بڑھانا خیانت اور دھوکا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر میرزا غلام احمد قادیانی ( یکم فروری ۱۸۹۷ء) کے حاشیہ.راقم صاحب کی خیانتوں میں سے ایک یہ ہے کہ آتھم عیسائی کا ذکر خلاف واقعہ کرتا ہے.اگر روایت غلط پہنچی تھی تو مومنوں کا کام نہیں کہ ہر قسم کی بے اصل خرافات کو مضبوطی سے پکڑ لیں تا وقتیکہ تحقیق نہ کر لیں.الغرض ہم نے لغو باتوں سے پر اس نامے میں آتھم عیسائی کے واقعے کو افسوس کے ساتھ پڑھا.واضح رہے کہ آتھم عیسائی کے مذکورہ واقعہ کی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس کی موت کے بارے میں خدائے عز و جل کے الہام سے یہ پیشگوئی کی تھی کہ اگر وہ اپنی شوخی اور گستاخی پر قائم رہا اور اس نے رجوع الی الحق نہ کیا تو پندرہ ماہ میں مرجائے گا.پس آتھم مذکور نے اسی جلسہ میں الفاظ رجوع زبان پر چلائے اور جب اسے کہا گیا کہ تو نے تو حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اپنی کتاب میں دجال رکھا تھا، یہ موت کی پیشگوئی تیری اس بد کرداری کی سزا ہے.چنانچہ اس نے ڈرتے ہوئے اور کانپتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور بہت زیادہ عجز و نیاز ظاہر کیا اور اس کا رنگ فق ہو گیا.اور اس کے دل پر خوف غالب آ گیا اور اس وقت اپنی بے باکی سے رجوع کی علامات اس کے چہرے پر ظاہر اور آشکارا ہوئیں.چنانچہ قریبا ستر افراد معزیں از مسلماناں و نصاری نے اس حالت میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا.اور اس کی عجز و نیازی کی گفتگوسنی.اس کے بعد پیشگوئی کے انجام تک سابقہ گستاخیاں زبان پر نہ لایا اور کسی شخص نے ثابت نہ کیا کہ کوئی گستاخی کا کلمہ پیشگوئی کی میعاد تک اس کی زبان سے جاری ہوا ہو.بلکہ اس نے اپنے خوف کا اقرار با رہا کیا اور لرزاں وتر ساں پیشگوئی کی میعاد کو گزارا.یہ اس کا بے باکی سے رجوع تھا کہ اس کی موت میں تاخیر ہوگئی ہیں حمید حاشیہ در حاشیہ.پیشگوئی کی میعاد گزرنے کے بعد ہم نے اسے قسم کھانے پر مجبور کیا تھا کہ اگر اس نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا ہے تو قسم کھائے اور چار ہزار روپے نقد انعام لے لیکن ہمارے شدید اصرار کے باوجود اس نے قسم نہیں کھائی.اور اسی حالت میں وہ مر گیا.حالانکہ ہم نے ضرورت کے وقت قسم کا جواز اور وجوب اس پر انجیل سے ثابت کر دیا تھا.

Page 225

مجموعہ اشتہارات ۲۰۹ جلد دوم بقیہ حاشیہ.پس جب وہ میعاد گزرنے کے بعد اپنے شیطانوں سے ملا اور دیکھا کہ ایام پیشگوئی تو گزر گئے تو اس نے اپنی حالت کو بدل لیا.پس اس تغیر کے بعد ہمارے الہام کے مطابق خدا نے اسے پکڑا اور اسے موت اور ہاویہ کا ذائقہ چکھایا اور اپنی پیشگوئی کو کمل وجوہ کے ساتھ پورا کیا اور پادریوں اور اس کے ہم سخن مولویوں کے چہرے کو سیاہ کر دیا اور عجیب تر بات یہ ہے کہ یہ پیشگوئی میری کتاب یعنی براہین احمدیہ میں آتھم کے اس واقعہ سے ۱۲ سال قبل سے سلسلہ الہامات الہیہ کے اندر درج ہے.پس یہ کام ہے جو انسان کی طاقت سے برتر ہے اور یہ واقعات حقہ میں سے ہے اور اخفائے حق مومنوں کا کام نہیں ہے.منہ نوٹ نمبر ا.شیخ الاسلام کے اشتہار کی سطر نمبر 4 میں اس راقم کے الہامات کی صداقت سے سخت انکار کیا گیا ہے.اس نے کہا ہے کہ کوئی الہام سچا ثابت نہیں ہوا.پس ہم جھوٹوں کے منہ بند نہیں کر سکتے.ہاں طریق فیصلہ یہ ہے کہ اگر ہماری پیشگوئیوں کے سچا ظاہر ہونے اور کثرت تعداد کے مقابلے پر ائمہ مذاہب میں سے کوئی ایک بھی (اپنی پیشگوئیوں کو ) قوی تر اور تعداد میں زیادہ ثابت کر سکے تو ہم اس کے ہاتھ پر تو بہ کرلیں گے ورنہ لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کا تازیانہ نہ صرف ہماری طرف سے بلکہ آسمان وزمین کے خدا کی طرف سے بھی جھوٹوں پر ہے.منہ نوٹ نمبر ۲.شیخ الاسلام صاحب اپنے اشتہار میں میری طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر شاہی مسجد لاہور کے منارے سے اپنے آپ کو نیچے گرا دیں.دونوں میں سے جو صادق ہو گا وہ محفوظ رہے گا.یہ عجیب مطالبہ ہے جو کہ دنیا میں صرف دو مرتبہ ہوا ہے.حضرت عیسی سے شیخ نجدی نے یہ سوال کیا تھا اور اب مجھ سے شیخ نجفی نے کیسی کامل مناسبت ہے.پس ہمارا جواب بھی وہی ہے جو حضرت عیسی نے شیخ نجدی کو دیا تھا.انجیل کو دیکھیں اور اپنی تسلی خود ہی کر لیں.منہ

Page 226

مجموعہ اشتہارات ۲۱۰ ۶۳ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جماعت مخلصین کی اطلاع کے لئے چونکہ ہماری اس جماعت کے مشورہ اور صلاح سے جو قادیان میں ان دنوں میں آئی یہ ایک امر ضروری معلوم ہوا ہے کہ مہمانوں کے لئے ایک اور مکان بنایا جائے اور ایک کنواں بھی مہمان خانہ کے پاس طیار کیا جائے اور نیز انہیں کی صوابدید سے اس کام کے انجام دینے کے لئے چندہ کا فراہم کرنا قرین مصلحت قرار پایا ہے لہذا اسی غرض سے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے کہ تمام وہ احباب جن کو یہ اشتہار پہنچ جائے بدل و جان اس کام میں شریک ہوں.میں اس سے بے خبر نہیں کہ ہمیشہ ہمارے دوست ان اعانتوں میں مشغول ہیں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا ان کے دلوں کو روز بروز زیادہ قوت دے گا اور دن بدن اُن کی ایمانی طاقت کو بڑھائے گا یہاں تک کہ وہ اپنی پہلی حالتوں سے بہت آگے نکل جائیں گے.ایک عرصہ ہوا کہ مجھے الہام ہوا تھا وَ سُعُ مَكَانَكَ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ.یعنی اپنے مکان کو وسیع کر کہ لوگ دور دور کی زمین سے تیرے پاس آئیں گے سو پشاور سے مدراس تک تو میں نے اس پیشگوئی کو پوری ہوتے دیکھ لیا.مگر اس کے بعد دوبارہ پھر یہی الہام ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ پیشگوئی پھر زیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ پوری ہوگی.وَاللَّهُ يَفْعَلُ مَايَشَاءُ لَا مَانِعَ لِمَا اَرَادَ

Page 227

مجموعہ اشتہارات ۲۱۱ جلد دوم اور لا زم ہے کہ ہر ایک صاحب اپنی موجودہ حالت کے لحاظ سے اس چندہ میں شریک ہوں.اور ان کی نگاہ میں کسی رقم کا کم اور حقیر ہونا ان کو ثواب سے نہ رو کے کہ اللہ تعالیٰ کی دلوں اور حالتوں پر نظر ہے نہ محض چندہ کی کثرت اور قلت پر.اور چونکہ عمارت شروع ہونے کو ہے اور ہماری تجربہ کار جماعت نے کل اسٹیمیٹ اس کا دو ہزار روپیہ قرار دیا ہے.لہذا جہاں تک ممکن ہو یہ چندہ جلد آنا چاہیے اور آخر پر یہ سب رقوم چھاپ کر شائع کر دی جائیں گی.بجز ایسے کسی صاحب کے جو اخفا چاہتے ہوں اور اب تک چندہ جو ہمیں وصول ہوئے ہیں یہ تفصیل ذیل ہیں.نام (1) منشی عبد الرحمن صاحب اہلمد محکمہ جرنیلی ریاست کپورتھلہ (۲) مولوی سید محمد احسن صاحب امر ہوی (۳) عرب حاجی مهدی صاحب بغدا دنزیل مدراس (۴) سیٹھ عبد الرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا مدراس (۵) ابراہیم سلیمان کمپنی مدراس (1) سیٹھ دالجی لالجی صاحب مدراس (۷) سیٹھ صالح محمد صاحب حاجی اللہ رکھا مدراس (۸) مولوی سلطان محمود صاحب مدراس (۹) سیٹھ اسحق اسمعیل صاحب بنگلور تعد ا در قم للمعم (چار روپے ) (چار روپے ) صه ( پچاس روپے ) للمعم مه ( پچاس روپے ) بارہ روپے ) صدر ( پچاس روپے ) م اٹھائیس روپے ) عس (ہمیں روپے ) عه ( پچیس روپے ) (۱۰) میرزا خدا بخش صاحب اتالیق نواب صاحب مالیر کوٹلہ مصر (بیس روپے ) (11) اہلیہ میرزا صاحب موصوف پانچ روپے ) (۱۲) اہلیہ ہائے حکیم فضل دین صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور صه ( پچاس روپے ) (۱۳) شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور مار (ایک سو روپیه )

Page 228

مجموعہ اشتہارات (۱۴) منشی کرم الہی صاحب شمله (۱۵) شیخ محمد جان صاحب وزیر آباد ۲۱۲ مار جلد دوم دو روپے) پانچ روپے ) ایک صاحب کے صدر روپیہ وصول ہو چکے ہیں مگر ان کا نام یاد نہیں رہا.وہ جب فہرست دیکھ لیں تو اپنے نام سے اطلاع دیں.راقم خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی ۱۷ فروری ۱۸۹۷ء بقلم منظور محمد در مطبع ضیاء الاسلام قادیان دارالامان طبع شد ) ( یہ اشتہار " کے دو صفحہ پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۲۶ تا ۲۸)

Page 229

مجموعہ اشتہارات ۶۴ جلد دوم ضمیمه اخبار مخبر دکن مدراس مورحمه ا ار مارچ ۱۸۹۷ عیسویه یسوع مسیح کے نشانوں کا اس راقم کے نشانوں سے مقابلہ اور ایک پادری صاحب کا جواب کچھ دن ہوئے ہیں کہ اس راقم نے حضرات پادری صاحبوں کو مخاطب کر کے یہ اشتہار شائع کیا تھا کہ اگر حضرات موصوفین یسوع کے نشانوں کو میرے نشانوں سے قوت ثبوت اور کثرت تعداد میں بڑھے ہوئے ثابت کر سکیں تو میں ان کو ایک ہزار روپیا انعام دوں گا.اس اشتہار کے جواب میں جو کچھ بعض پادری صاحبوں نے لکھا ہے وہ اخبار عام ۲۳/ فروری ۱۸۹۷ء میں بحوالہ کرسچین ایڈووکیٹ چھپ گیا ہے.چنانچہ مجیب صاحب نے اول انجیل کی عبارت لکھ کر اس بات پر زور دیا ہے کہ جھوٹے رسول اور جھوٹے مسیح بھی ایسے بڑے نشان دکھلا سکتے ہیں کہ اگر مکن ہوتو برگزیدوں کو بھی گمراہ کریں.لیکن ظاہر ہے کہ یہ عبارت انجیل جو صاحب راقم نے پیش کی ہے ان کے مدعا کو کچھ فائدہ بخش نہیں بلکہ اس سے وہ خود دز مرا الزام آتے ہیں کیونکہ جس حالت میں اسی قسم کے نشانوں پر بھروسہ کر کے یسوع کو خدا بنا دیا گیا ہے تو یہ بڑا ظلم ہوگا کہ دوسرا شخص ایسے ہی نشان بلکہ بقول یسوع بڑے بڑے نشان بھی دکھلا کر ایک سچا ملہم بھی نہ ٹھہر سکے یہ منطق تو ہمیں سمجھ نہیں آتی دیکھیے جلد طذا اشتہار نمبر ۱۹ (مرتب)

Page 230

مجموعہ اشتہارات ۲۱۴ جلد دوم کہ یسوع کی ذات کے لیے وہ نشان ایسے سمجھے جائیں جس سے اس کی الوہیت بپایہ ثبوت پہنچ جائے اور اس کے خدا ہونے میں کچھ بھی کسر نہ رہے.پھر جب وہی نشان بلکہ بقول یسوع اُن سے بھی کچھ بڑھ چڑھ کوکسی دوسرے مدعی الہام سے صادر ہوں تو اُس بے چارے کا ملہم ہونا بھی اُن سے ثابت نہ ہو سکے.یہ کس قسم کا اصول اور قاعدہ ہے؟ کیا کوئی سمجھ سکتا ہے؟ پھر مسیحیوں کو اس پر بھی اصرار ہے کہ یسوع کے نشان اقتداری نشان ہیں.تبھی تو وہ خدا ہے! بہت خوب! لیکن ذرا ٹھہر کر سوچو کہ اگر جھوٹے نبی سے نشان ظاہر ہوں تو وہ اقتداری ہی کہلائیں گے نہ اور کچھ.کیونکہ جھوٹا خدا سے دعا نہیں کرتا اور نہ خدا سے کچھ میں رکھتا ہے.سوا گر وہ کوئی نشان دکھلاوے تو اس میں کیا شک ہے کہ اپنے اقتدار سے ہی دکھلائے گا نہ خدا سے.پس ایسے اقتداری نشانوں سے اگر خدائی ثابت ہوسکتی ہے تو ایک کاذب کی خدائی یسوع کی خدائی سے باعتبار ثبوت کے اول درجہ پر ہے.یسوع کے اقتداری نشانوں میں طبہ بھی ہو سکتا ہے.کیونکہ وہ راستباز تھا.ممکن ہے کہ اس نے نشانوں کے دکھلانے میں خدا سے مدد پائی ہو لیکن کاذب کے اقتداری نشانوں میں اس محجبہ کا ذرہ دخل نہیں کیونکہ وہ راستباز نہیں اور نہ خدا سے کچھ مدد پاسکتا ہے.اور نہ خدا اُس سے کچھ جوڑ اور تعلق رکھتا ہے پس اس مسیحی اصول کے موافق اگر کاذب بڑے بڑے نشان دکھلاوے تو نبوت کیا اُس کی تو خدائی بھی نہایت صفائی سے ثابت ہو سکتی ہے.بچے نشانوں کے امکان صدور کے لئے مسیح کا سرٹیفکیٹ کافی ہے.پھر ایک کذاب کے خدا بن جانے میں کیا مشکلات ہیں.میں حیران ہوں کہ عیسائی صاحبوں نے ان عبارتوں کو کیوں پیش کر دیا.ان کو تو مخفی رکھنا چاہیے تھا.اب تو وہی بات ہوئی کہ تبر خویش بر پائے خویش.دوسرا جواب مجیب صاحب نے یہ دیا ہے کہ یسوع مسیح مر دوں کو زندہ کرتا اور جذامیوں وغیرہ کو صاف کرتا تھا.لیکن افسوس کہ صاحب راقم نے اس جواب کے وقت میرے اشتہار کے اس فقرہ کو نہیں پڑھا کہ قوت ثبوت میں موازنہ کیا جائے گا.افسوس انہوں نے یہ کیسی جلدی کی کہ قصوں اور کہانیوں کو پیش کر دیا.صاحبو! مسیح کا مر دوں کو زندہ کرنا وغیرہ امور یہ سب ایسے قصے ہیں کہ جن کو خود یورپ کے محقق بنظر استہزاء دیکھتے ہیں.ان کا نام ثبوت رکھنا اگر سادہ لوحی نہ ہو تو اور کیا ہے.اور اگر ثبوت اسی کو

Page 231

مجموعہ اشتہارات ۲۱۵ جلد دوم کہتے ہیں تو پھر دوسری قوموں کا کیا قصور ہے کہ اُن کے خداؤں کو قبول نہیں کیا جاتا.کیا اُن کے دفتروں اور کتابوں میں اس قسم کے قصے بکثرت بھرے ہوئے نہیں ہیں؟ دنیا میں اکثر یہی فساد بہت پھیل رہا ہے کہ لوگ دعوئی اور دلیل میں فرق نہیں کرتے.کون اس بات کو نہیں جانتا کہ یہود جن کے لئے یسوع بھیجا گیا تھا وہ سب اس کے معجزات سے صاف منکر ہیں.اب تک اُن کی پرانی کتابوں سے لے کر آخری تالیفات تک میں یہی واویلا ہے کہ اس سے کوئی بھی معجزہ نہیں ہوا.چنانچہ بعض تاریخی کتابیں ان کی میرے پاس بھی موجود ہیں.پس کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ جس قوم کو مردے زندہ کر کے دکھلائے گئے اور اُن کے جذامی اچھے کئے گئے اور اُن کے مادر زاد اندھوں کی آنکھیں کھولی گئیں.وہ قدیم سے قطعاً ان باتوں سے منکر چلے آویں اور کوئی فرقہ اُن میں سے قائل نہ ہو.بھلا اگر اور نہیں تو اتنا تو چاہیے تھا کہ جن کے باپ دادوں پر یہ احسان ہوا وہی شکر کے طور پر مانتے چلے آتے.سواب اگر عیسائیوں کی انجیل یہ بیان کرتی ہے کہ مُردے زندہ ہوئے تو اس کے برخلاف یہودیوں کی بہت سی کتابیں بیان کرتی ہیں کہ ایک ٹڈی بھی زندہ نہیں ہوئی اور نہ اور کوئی نشان ظاہر ہوا تو اب کون فیصلہ کرے کہ ان دونوں میں سے حق پر کون ہے بلکہ تین دلیل سے یہود حق پر معلوم ہوتے ہیں.(۱) اول یہ کہ عادت اللہ نہیں ہے کہ بار بار قبرین بھٹیں اور مردے دنیا میں آویں.(۲) دوم یہ کہ یسوع نے انجیل میں آپ بھی معجزات دکھلانے سے انکار کیا ہے بلکہ غصہ میں آکر معجزات مانگنے والوں کو حرام کا رکہہ دیا ہے.(۳) تیسرے یہود کی طرف سے یہ حجت ہے کہ اگر یسوع میں مردہ زندہ کرنے کی طاقت ہوتی تو وہ اپنی نبوت کے ثابت کرنے کے لئے ضرور اس طاقت کو استعمال کرتا.لیکن جب اس سے پوچھا گیا تھا کہ مسیح سے پہلے ایلیا کا دوبارہ دنیا میں آنا ضروری ہے.اگر تو مسیح موعود ہے تو دکھلا کہ ایلیا کہاں ہے، تو اس نے اس وقت تاویل سے کام لیا اور کہا کہ یوحنا بن زکریا کو ایلیا سمجھ لو اور اسی وجہ سے یہود کے علماء اس کو قبول نہ کر سکے.پس اگر اس کو زندہ کرنے کی قدرت تھی تو اس پر فرض تھا کہ وہ فی الفور ایلیا کو دکھلا دیتا اور تاویلوں میں نہ پڑتا.غرض ایسے بیہودہ قصے ثبوت میں داخل نہیں ہیں بلکہ خود

Page 232

مجموعہ اشتہارات ۲۱۶ جلد دوم ثبوت کے محتاج ہیں.پھر کیا مناسب تھا کہ ثبوت رؤیت کے مقابلہ پر ایسے قصوں کو پیش کیا جاتا.اگر کہو کہ قرآن شریف میں عیسی علیہ السلام کے معجزات کا ذکر آیا ہے.سو واضح رہے کہ قرآن شریف کوئی تاریخی کتاب نہیں اور نہ اس نے کسی تاریخی کتاب سے ان قصوں کو نقل کیا ہے بلکہ اس کی تمام باتیں اس کی الہامی سچائی کی بنیاد پر مانی جاتی ہیں.سو وہ جس الہام کے ذریعہ سے حضرت عیسی کے معجزات کا ذکر کرتا ہے اسی الہام کے ذریعہ سے یہ بھی بیان کرتا ہے کہ عیسی صرف انسان تھا خدا نہیں تھا اور آنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدق تھا مکذب نہیں تھا.پس اگر قرآن کی وحی پر اعتماد اور ایمان ہے تو پھر کوئی جھگڑا نہیں.ہم قرآن کی الہامی گواہی سے مانتے ہیں کہ عیسی بن مریم ایک صالح آدمی اور پیغمبر تھا.اس نے کبھی خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور آنے والے رسول پر اس کو ایمان تھا اور وہ صاحب معجزات تھا.مگر یادر ہے کہ یہ گواہی الہامی ہے نہ تاریخی.جو شخص قرآن کے الہام کو نہیں مانتا اس کے نزدیک یہ سب گواہی کالعدم ہے.اور جو مانتا ہے وہ قرآن کے سارے بیان کو مانتا ہے اگر ایمان نہیں تو یہ حوالہ بے کار ہے پس جو شخص قرآن کی وحی سے انکار کرتا ہے وہ قرآن کی شہادت سے کچھ نفع نہیں اٹھا سکتا.ہم نے جیسا کہ قرآن کی اس وحی کو قبول کیا ہے کہ عیسی علیہ السلام سے معجزات ظاہر ہوئے ایسا ہی اس وحی کو بھی قبول کیا ہے کہ وہ محض بندے اور خدا کے رسول اور ہمارے نبیؐ کے مصدق تھے اور قرآن کی شہادت کی قدرو قیمت اس وقت تک ہے کہ جب اس کو خدا کی وحی سمجھی جاوے.پس جو شخص اس وجی کو مانتا ہے وہ اس کی ساری باتیں مانتا ہے.وحی کے ایک حصہ کو مانا اور دوسرے کو رد کرنا دیانت داروں کا کام نہیں.ہمارا جھگڑا اس یسوع کے ساتھ ہے جو خدائی کا دعوی کرتا ہے نہ اس برگزیدہ نبی کے ساتھ جس کا ذکر قرآن کی وحی نے معہ تمام لوازم کے کیا ہے.راقم خاکسار غلام احمد قادیانی ۲۸ فروری ۱۸۹۷ء ید اشتہار ضمیمه اخبار مخبر دکن مدراس کے ایک صفحہ پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۲۸ تا ۳۲)

Page 233

مجموعہ اشتہارات ۲۱۷ 3 ۶۵ جلد دوم خدا کی لعنت اور کسر صلیب چونکہ عیسائیوں کا یہ ایک متفق علیہ عقیدہ ہے کہ یسوع مصلوب ہو کر تین دن کے لئے لعنتی ہو گیا تھا اور تمام مدار نجات کا ان کے نزدیک اسی لعنت پر ہے تو اس لعنت کے مفہوم کی رو سے ایک ایسا سخت اعتراض وارد ہوتا ہے جس سے تمام عقیدہ تثلیث اور کفارہ اور نیز گناہوں کی معافی کا مسئلہ کا لعدم ہوکر اس کا باطل ہونا بدیہی طور پر ثابت ہو جاتا ہے.اگر کسی کو اس مذہب کی حمایت منظور ہے تو جلد جواب دے.ور نہ دیکھو یہ ساری عمارت گر گئی اور اُس کا گرنا ایسا سخت ہوا کہ سب عیسائی عقیدے اس کے نیچے کچلے گئے.نہ تثلیث رہی نہ کفارہ نہ گناہوں کی معافی.خدا کی قدرت دیکھو کہ کیسا کسر صلیب ہوا !!! اب ہم صفائی اعتراض کے لئے پہلے لغت کی رو سے لعنت کے لفظ کے معنی کرتے ہیں اور پھر اعتراض کو بیان کر دیں گے.سو جاننا چاہیے کہ لسان العرب میں کہ جو لغت کی ایک پرانی کتاب اسلامی تالیفات میں سے ہے.اور ایسا ہی قطر المحیط اور محیط اور اقرب الموارد میں جودو عیسائیوں کی تالیفات ہیں جو حال میں بمقام بیروت چھپ کر شائع ہوئی ہیں اور ایسا ہی کتب لغت کی تمام کتابوں میں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں ، لعنت کے معنے یہ لکھے ہیں.اللَّعْنُ: اَلْإِبْعَادُ وَالطَّرَدُمِنَ الْخَيْرِ وَمِنَ اللَّهِ وَمِنَ الْخَلْقِ وَمَنْ أَبْعَدَهُ اللَّهُ لَمُ تَلْحَقُهُ رَحْمَتُهُ وَخَلَّدَ فِي الْعَذَابِ.وَاللَّعِيْنُ الشَّيْطَانُ وَالْمَمْسُوخُ وَقَالَ الشَّمَّاحُ مَقَامُ الذِّنْبِ كَالرَّجُلِ اللَّعِيْنِ لعن کا لفظ عربی اور عبرانی میں مشترک ہے.منه

Page 234

مجموعہ اشتہارات ۲۱۸ جلد دوم یعنی لعنت کا مفہوم یہ ہے کہ لعنتی اس کو کہتے ہیں جو ہر یک خیر وخوبی اور ہر قسم کی ذاتی صلاحیت اور خدا کی رحمت اور خدا کی معرفت سے بکلی بے بہرہ اور بے نصیب ہو جائے اور ہمیشہ کے عذاب میں پڑے یعنی اس کا دل بکلی سیاہ ہو جائے اور بڑی نیکی سے لے کر چھوٹی نیکی تک کوئی خیر کی بات اس کے نفس میں باقی نہ رہے اور شیطان بن جائے اور اس کا اندر مسخ ہو جائے یعنی کنتوں اور سوروں اور بندروں کی خاصیت اس کے نفس میں پیدا ہو جائے اور شماخ نے ایک شعر میں لعنتی انسان کا نام بھیٹریا رکھا ہے.اس مشابہت سے کہ لعنتی کا باطن مسخ ہو جاتا ہے.تم كَلَامُهُمُ.ایسا ہی عرف عام میں بھی جب یہ بولا جاتا ہے کہ فلاں شخص پر خدا کی لعنت ہے تو ہر ایک ادنی اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ وہ شخص خدا کی نظر میں واقعی طور پر پلید باطن اور بے ایمان اور شیطان ہے اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے روگردان ہے.اب اعتراض یہ ہے کہ جس حالت میں لعنت کی حقیقت یہ ہوئی کہ ملعون ہونے کی حالت میں انسان کے تمام تعلقات خدا سے ٹوٹ جاتے ہیں اور اُس کا نفس پلید اور اُس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خدا سے بھی روگردانی اختیار کرتا ہے اور اُس میں اور شیطان میں ذرہ فرق نہیں رہتا تو اس وقت ہم حضرات پادری صاحبوں سے بکمال ادب یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ در حقیقت یہ لعنت اپنے تمام لوازم کے ساتھ جیسا کہ ذکر کیا گیا یسوع پر خدا تعالیٰ کی طرف سے پڑگئی تھی اور وہ خدا کی لعنت اور غضب کے نیچے آکر سیاہ دل اور خدا سے روگردان ہو گیا تھا.میرے نزدیک تو ایسا شخص خود لعنتی ہے کہ ایسے برگزیدہ کا نام لعنتی رکھتا ہے.جو دوسرے لفظوں میں سیاہ دل اور خدا سے برگشتہ اور شیطان سیرت کہنا چاہیے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسا پیارا در حقیقت اس لعنت کے نیچے آ گیا تھا جو پوری پوری خدا کی دشمنی کے بغیر تحقیق نہیں ہوسکتی.کیونکہ لعنت کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ خدا لعنتی انسان کا واقعی طور پر دشمن ہو جائے اور ایسا ہی لعنتی انسان خدا کا دشمن ہو جائے اور اس دشمنی کی وجہ سے بندروں اور سؤروں اور کتوں سے بدتر ہو جائے کیونکہ بندر وغیرہ خدا تعالیٰ کے دشمن نہیں ہیں.لیکن لعنتی انسان خدا تعالیٰ کا دشمن ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی لفظ اپنے لوازم سے الگ نہیں ہوسکتا جب ہم ایک کو سیاہ دل اور شیطان یا

Page 235

مجموعہ اشتہارات ۲۱۹ جلد دوم بندر اور کتا کہیں گے تو تبھی کہیں گے جب شیطان اور بندروں اور کتوں کے صفات اس میں موجود ہو جائیں.پس جبکہ تمام دنیا کے اتفاق سے لعنت کا یہی مفہوم ہے تو یہ دوباتیں ایک وقت میں کب جمع ہو سکتی ہیں کہ ایک شخص بمقتضائے مفہوم لعنت خدا سے برگشتہ بھی ہواور باخدا بھی.اور خدا کا دشمن بھی ہو اور دوست بھی اور منکر بھی ہو اور اقراری بھی.محبت کا تعلق لعنت کے مفہوم کو منافی ہے.جبھی کہ ایک پر لعنت پڑگئی اسی وقت خدا سے جتنے قرب اور محبت اور رحم کے تعلقات تھے.تمام ٹوٹ گئے اور ایسا شخص شیطان ہو گیا.اور سیاہ دل اور خدا کا منکر بن گیا.اب اگر خدانخواستہ کچھ دنوں تک یسوع پر لعنت پڑگئی تھی تو اس وقت اس کا خدا تعالیٰ سے ابنیت کا علاقہ اور پیارا بیٹا ہونے کا لقب کیونکر باقی رہ سکتا تھا کیونکہ بیٹا ہونا تو یکطرف خود پیارا ہونا لعنت کے مفہوم کے برخلاف ہے.خدا کے کسی پیارے کو ایک دم کے لئے بھی شیطان کہنا کسی شیطان کا کام ہے نہ انسان کا.پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شریف آدمی ایک سیکنڈ کے لئے بھی یسوع کے لئے یہ تمام نام جائز رکھے جو لعنت کی حقیقت اور روح ہیں.پس اگر جائز نہیں تو دیکھو کہ کفارہ کی تمام عمارت گر گئی اور تشکیشی مذہب ہلاک ہو گیا اور صلیب ٹوٹ گیا.کیا کوئی دنیا میں ہے جو اس کا جواب دے؟ راقم غلام احمد قادیانی (۶ / مارچ ۱۸۹۷ء) مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ( یہ اشتہار ۲۳ کے دو صفحوں پر مشتمل ہے) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۳۳ تا ۳۵)

Page 236

مجموعہ اشتہارات ۲۲۰ MY جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ کرامت گر چه بے نام و نشان است گرچہ بیا بنگر ز غلمان مُـحـمـد زِ پر عرصہ اس برس کا ہوا ہے کہ جب میں نے اشتہار ۲ فرو رنگی ۱۸۸۶ء میں پنڈت لیکھرام کی ر۲۰ فرورتی نسبت خدا تعالیٰ سے الہام پا کر اشتہار شائع کیا تھا کہ اُن کی بے ادبیوں اور گستاخیوں کے سبب سے اُن کے لئے خدا نے عذاب کا اراداہ فرمایا ہے اور ان کے عذاب کی تشریح معہ تشریح میعاد کے اُن کی مرضی پر موقوف رکھی گئی تھی.چنانچہ انہوں نے بطیب خاطر مجھے اجازت دے دی کہ وہ پیشگوئی منفصل طور پر شائع کر دی جائے.سو آخر کا روہ پیشگوئی اشتہار ۲۰ رفروری ۱۸۹۳ء میں مفصل طور پر شائع کر دی گئی اور نہ صرف اس میں بلکہ برکات الدعا اور دوسری متفرق کتابوں اور اشتہاروں میں یہ پیشگوئی شائع ہوتی رہی.جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ عذاب کی موت معمولی تپ وغیرہ سے ظہور میں نہیں آئے گی اور پنڈت مذکور معمولی بیماریوں سے نہیں بلکہ خدا کے قہری نشان میں ماخوذ ہو کر انتقال ے ترجمہ.اگر چہ کر امت اب مفقود ہے.مگر تو آ اور اسے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھ لے.ے دیکھئے مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۲۱.اشتہار نمبر ۳۳ (مرتب) ے دیکھئے مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۳۹۰.اشتہار نمبر ۹۸ (مرتب)

Page 237

مجموعہ اشتہارات ۲۲۱ جلد دوم کرے گا اور اس پیشگوئی کے لئے ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء سے ۶ برس کی میعاد مقرر ہوئی تھی.سو آج آریہ صاحبوں کے ایک اشتہار سے یہ خبر ملی ہے جو پنڈت مذکورے مارچ ۱۸۹۷ء کو دھرم پر بلیدان ہو گیا.اگر چہ انسانی ہمدردی کی رُو سے ہمیں افسوس ہے کہ اس کی موت ایک سخت مصیبت اور آفت اور نا گہانی حادثہ کے طور پر عین جوانی کے عالم میں ہوئی لیکن دوسرے پہلو کی رُو سے ہم خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جو اُس کے مونہہ کی باتیں آج پوری ہو گئیں.ہمیں قسم ہے اُس خدا کی جو ہمارے دل کو جانتا ہے کہ اگر وہ یا کوئی اور کسی خطرہ موت میں مبتلا ہوتا اور ہماری ہمدردی سے وہ بیچ سکتا تو ہم کبھی فرق نہ کرتے.کیونکہ خدا کی باتیں بجائے خود اپنے لئے ایک وقت رکھتی ہیں.مگر انسان کو چاہیے کہ انسانی اخلاق اور انسانی ہمدردی سے کسی حالت میں در گذر نہ کرے کہ یہی اعلیٰ درجہ خلق کا ہے.مگر نہ ہم اور نہ کوئی اور خدا کی قرار دادہ باتوں کو روک سکتا ہے.اس وقت مناسب ہے کہ ہمارے سب مخالف اپنے دلوں کو پاک کر کے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء اور اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء جو آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شامل ہے اور اشتہار نائٹل پیج برکات الدعاء وغیرہ کو دلی توجہ سے پڑھیں اور پاک دل ہو کر سوچیں کہ کیونکر اس موت کا خدا تعالیٰ نے پہلے نقشہ کھینچ کر دکھا دیا ہے.دیکھو دنیا میں کیسی وبائے طاعون شروع ہو گئی ہے.یہ غفلت اور سخت دلی کی شامت ہے.اب ہر یک قوم کو چاہیے کہ عمل صالح میں کوشش کریں اور واہیات باتیں چھوڑ دیں.میں دیکھتا ہوں کہ چونکہ آتھم کی موت بالکل پیشگوئی کے مطابق ہوئی تھی اور خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ شرط کے لحاظ سے بروئے اشتہارات متواتر الہامات کے موافق وہ فوت ہو گیا تھا اور اہل نظر کے لئے قابل اطمینان صفائی کے ساتھ وہ پیشگوئی پوری ہو گئی تھی مگر اب تک بعض نے محض ہٹ دھرمی سے اپنی ضد کو نہیں چھوڑا تھا اور میری عداوت سے اسلام کی تحقیر کی بھی کچھ پرواہ نہیں کی تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ ان کی موٹی عقلوں کے موافق ان پر اتمام حجت کرے.سو یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے لے دیکھئے مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۴۰۵.اشتہار نمبر ۱۰۱ (مرتب)

Page 238

مجموعہ اشتہارات ۲۲۲ جلد دوم ایک عظیم الشان نشان ہے کیونکہ اس نے چاہا کہ اس کے بندہ کی تحقیر کرنے والے متنبہ ہو جائیں اور اپنی جانوں پر رحم کریں.ایسا نہ ہو کہ اسی حجاب میں گزر جائیں.اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو کب کا نابود کیا جاتا.اب تو اس کا روبار کا زمانہ اُس بچے اور برگزیدہ نبی کے زمانہ سے برابر ہو گیا ہے جو تنیس برس اس مسافر خانہ میں رہ کر اور ایک دنیا کو زندہ کر کے رفیق اعلیٰ کو جاملا تھا کیونکہ الہامی سلسلہ کو اب پیچیوان سال چڑھا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى راقم خاکسار میرزاغلام احمد قادیانی ۱۹ مارچ ۱۸۹۷ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان ( یہ اشتہار کے دو صفحہ پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۳۶ تا ۳۸)

Page 239

مجموعہ اشتہارات ۲۲۳ ۶۷ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ، وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بنگر که آن مؤید من شیخ نجف را چنداں اماں نداد که تکمیل چل گند شیخ نجفی کا خط عربی وارد و مطبوعہ ۱۶ مارچ ۱۸۹۷ء مجھ کو ملا جس کا جواب انشاء اللہ بعد میں لکھوں گا اب اس وقت اس آسمانی نشان کو ظاہر کرنا منظور ہے کہ شیخ نجفی نے اپنے خط میں چالیس دقیقہ میں نشان دکھلانے کا وعدہ کیا تھا.اور ہم نے یکم فروری ۱۸۹۷ء سے چالیس روز میں.دیکھو حاشیہ اشتہار یکم فروری ۱۸۹۷ء صفحہ ۳.عبارت اشتہار یہ ہے.اگر نشانے از مادر میں مدت یعنی چهل روز بظهور آمد و از یشاں یعنی از شیخ نجفی چیزے بظہور نیامد ہمیں دلیل بر صدق ما و کذب شاں خواہد شد سوخدا کا احسان ہے کہ یکم فروری ۱۸۹۷ء سے پینتیس دن تک یعنی چالیس دن کے اندر نشان ہلاکت لیکھر ام پشاوری وقوع میں آ گیا.اب خبر دار شیخ صال نجفی لاہور سے بھاگ نہ جائے.اس کو خدا نے کھلے کھلے طور پر روسیاہ کیا اور مجھ پر احسان کیا.اب ہماری طرف سے نشان تو ہو چکا اور نجفی کا کذب کھل گیا.تا ہم تنزل کے طور پر ہم راضی ہیں کہ وہ مسجد شاہی کے منارہ سے اب نیچے گر کے ے ترجمہ.دیکھ لے کہ اُس میرے مددگار نے شیخ نجفی کو اتنی مہلت نہ دی کہ چالیس دن پورے کر لیتا.

Page 240

مجموعہ اشتہارات ۲۲۴ جلد دوم دکھلاوے تا کہ اگر شیخ نجدی منظرین میں داخل ہے تو بارے شیخ نجفی کا قصہ تو تمام ہوا.اور اگر اب بھی اپنا نشان نہ دکھلایا تو لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ۱۰ مارچ ۱۸۹۷ء الراقم عدوّ النجدى والنجفى القادى الى الهادی مرزا غلام احمد عافاه الله واید در مطبع ضیاء الاسلام قادیان طبع شد ) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۳۹،۳۸)

Page 241

مجموعہ اشتہارات ۲۲۵ (۱۶۸) جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ سید احمد خان صاحب کے ہی ، ایس ، آئی سید صاحب اپنے رسالہ الدعاء والاستجابت میں اس بات سے انکاری ہیں کہ دعا میں جو کچھ مانگا جائے وہ دیا جائے.اگر سید صاحب کی تحریر کا یہ مطلب ہوتا کہ ہر یک دعاء کا قبول ہونا واجب نہیں بلکہ جس دعاء کو خدا تعالیٰ قبول فرمانا اپنے مصالح کی رو سے پسند فرماتا ہے وہ دعاء قبول ہو جاتی ہے.ورنہ نہیں.تو یہ قول بالکل سچ ہوتا.مگر سرے سے قبولیت دعا سے انکار کرنا تو خلاف تجارب صحیحہ و عقل ونقل ہے.ہاں دعاؤں کی قبولیت کے لئے اس روحانی حالت کی ضرورت ہے.جس میں انسان نفسانی جذبات اور میل غیر اللہ کا چولہ اتار کر اور بالکل روح ہو کر خدا تعالیٰ سے جاملتا ہے.ایسا شخص مظہر العجائب ہوتا ہے اور اس کی محبت کی موجیں خدا کی محبت کی موجوں سے یوں ایک ہو جاتی ہیں جیسا که دو شفاف پانی دو متقارب چشموں سے جوش مار کر آپس میں مل کر بہنا شروع کر دیتے ہیں.ایسا آدمی گویا خدا کی شکل دیکھنے کے لئے ایک آئینہ ہوتا ہے اور غیب الغیب خدا کا اس کے عجائب کا موں سے پتہ ملتا ہے.اس کی دعائیں اس کثرت سے منظور ہوتی ہیں کہ گویا دنیا کو پوشیدہ خدا دکھا دیتا ہے.سوسید صاحب کی یہ غلطی ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی.کاش اگر وہ چالیس دن تک بھی میرے پاس رہ جاتے تو نئے اور پاک معلومات پالیتے.مگر اب شاید ہماری اور ان کی عالم آخرت میں ہی ملاقات ہوگی.افسوس کہ ایک نظر دیکھنا بھی اتفاق نہیں ہوا.سید صاحب اس اشتہار کوغور سے پڑھیں کہ اب

Page 242

مجموعہ اشتہارات جلد دوم ملاقات کے عوض جو کچھ ہے یہی اشتہار ہے.اب اصل مطلب یہ ہے کہ کرامات الصادقین کے ٹائٹل پیج کے اخیر صفحہ پر اور برکات الدعاء کے ٹائٹل پیج کے صفحہ اول کے سر پر میں نے یہ عبارت لکھی ہے کہ نمونہ دعائے مستجاب اور پھر اس میں پنڈت لیکھرام کی موت کی نسبت ایک پیشگوئی کی ہے اور کرامات الصادقین وغیرہ میں لکھ دیا ہے کہ اس پیشگوئی کا الہام دعا کے بعد ہوا ہے کیونکہ امر واقعی یہی تھا کہ اس شخص کی نسبت جو توہین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حد سے بڑھ گیا تھا دعا کی گئی تھی.اور خدا تعالیٰ نے صریح کشف اور الہام سے فرما دیا تھا کہ چھ برس کے عرصہ تک ایسے طور سے اس کی زندگی کا خاتمہ کیا جائے گا جیسا کہ وقوع میں آیا.اب اس پیشگوئی میں حقیقت کے طالبوں کے لئے دو نئے ثبوت ملتے ہیں.اوّل یہ کہ خدا اپنے کسی بندہ کو ایسے عمیق غیب کی خبر دے سکتا ہے جو دنیا کی تمام نظر میں غیر ممکن ہو.دوسرے یہ کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں.اگر آپ آئینہ کمالات کا وہ اشتہار جس کے اوپر چند شعر ہیں.اور کرامات الصادقین کا وہ الہام جو صفحہ آخری ٹائٹل پیج پر ہے اور برکات الدعاء کے دو ورق ٹائٹل پہنچ کے اور نیز حاشیہ کے آخری صفحہ کا ایک مرتبہ پڑھ جائیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ جیسا ایک منصف مزاج فی الفور اپنی پہلی رائے کو چھوڑ کر اس سچائی کو تعظیم کے ساتھ قبول کرلے.اگر چہ یہ پیشگوئی بہت ہی صاف ہے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دن بدن زیادہ صفائی کے ساتھ لوگوں کو سمجھ آتی جائے گی.یہاں تک کہ کچھ دنوں کے بعد تاریک دلوں پر بھی اس کی ایک عظیم الشان روشنی پڑے گی.اکثر حصہ اس ملک کا ایسے تاریک دلوں کے ساتھ پر ہے جن کو خبر نہیں کہ خدا بھی ہے اور اس سے ایسے تعلقات بھی ہو جایا کرتے ہیں!! پس جیسے جیسے مچھلی پتھر کو چاٹ کر واپس ہوگی ویسے ویسے اس پیشگوئی پر یقین بڑھتا جائے گا.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا.ابھی وہ بچے ے دیکھئے مجموعہ اشتہارات جلد اوّل اشتہار نمبر ۹۸ (مرتب) ۳۲ دیکھئے مجموعہ اشتہارات جلد اول اشتہار نمبر ۱۰۱ (مرتب)

Page 243

مجموعہ اشتہارات ۲۲۷ جلد دوم ہیں.انہیں معلوم نہیں کہ ایک ہستی قادر مطلق موجود ہے ! مگر وہ وقت آتا ہے کہ ان کی آنکھیں کھلیں گی اور زندہ خدا کواس کے عجائب کاموں کے ساتھ بجز اسلام کے اور کی جگہ نہ پائیں گے.آپ کو یہ بھی یاد دلاتا ہوں.ایک پیشگوئی میں نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں آپ کی نسبت بھی کی تھی کہ آپ کو اپنی عمر کے ایک حصہ میں ایک سخت غم و ہم پیش آئے گا اور اس پیشگوئی کے شائع ہونے سے آپ کے بعض احباب ناراض ہوئے تھے اور انہوں نے اخباروں میں رد چھپوایا تھا، مگر آپ کو معلوم ہے کہ وہ پیشگوئی بھی بڑی ہیبت کے ساتھ پوری ہوئی اور یکدفعہ نا گہانی طور سے ایک شریر انسان کی خیانت سے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے نقصان کا آپ کو صدمہ پہنچا.اس صدمہ کا اندازہ آپ کے دل کو معلوم ہوگا کہ اس قدر مسلمانوں کا مال ضائع گیا.میرے ایک دوست میرزا خدا بخش صاحب مسٹر سید محمود صاحب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس نقصان کے وقت علی گڑھ میں موجود نہ ہوتا تو میرے والد صاحب ضرور اس غم سے مر جاتے.یہ بھی میرزا صاحب نے سنا کہ آپ نے اس غم سے تین دن روٹی نہیں کھائی.اور اس قدر قومی مال کے غم سے دل بھر گیا کہ ایک مرتبہ غشی بھی ہو گئی.سواے سید صاحب یہی حادثہ تھا جس کا اس اشتہار میں صریح ذکر ہے.چا ہو تو قبول کرو! والسلام خاکسار میرزاغلام احمد قادیانی مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان.( یہ اشتہار " کے دو صفحہ پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۳۹ تا ۴۲) لے دیکھئے مجموعہ اشتہارات جلد اول اشتہار نمبر ۳۳ (مرتب) ۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء

Page 244

مجموعہ اشتہارات ۲۲۸ (179) جلد دوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لیکھرام کی موت کے متعلق آریوں کے خیالات اخبار عام مطبوعہ چہار شنبہ ۱۰ مارچ ۱۸۹۷ء میں میری نسبت اشارہ کر کے یہ لکھا ہے کہ ایک عیسائی ڈپٹی صاحب کی نسبت پیشگوئی فوت ہونے کی در عرصہ ایک سال مشتہر کی گئی تھی اور اخباروں میں اس کی چرچا تھی.اور خدانخواستہ ان ایام میں اگر ڈپٹی صاحب کے ساتھ ایسا واقعہ ہو جاتا.(یعنی قتل کا واقعہ ) جس کا خمیازہ لیکھرام صاحب کو بھگتنا پڑا ہے ، تب اور صورت تھی.اب ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایڈیٹر صاحب کی اس تقریر کا کیا مطلب ہے.بس یہی مطلب ہے کہ اگر ڈپٹی آتھم صاحب قتل ہو جاتے تو ایڈیٹر صاحب کے خیال میں گورنمنٹ کو پیشگوئی کرنے والے کی نسبت فی الفور توجہ پیدا ہوتی اور وہ تفتیش ہوتی جواب نہیں ہے.غالباً اس تقریر سے ایڈیٹر صاحب کی کوئی نیت نیک ہوگی مگر چونکہ وہ ایک سطحی خیال اور خلاف واقعہ سمجھ کا ایک داغ ساتھ رکھتی ہے اس لئے افسوس کی جگہ ہے.ایڈیٹر صاحب کی تقریر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.لیکن ہم مختصر طور پر یاد دلاتے ہیں کہ وہ پیشگوئی بڑی صفائی سے پوری ہوئی.آتھم صاحب میرے ایک پرانے ملاقاتی تھے.انہوں نے ایک مرتبہ زبانی اور ایک خاص رقعہ کے ذریعہ سے بھی الحاح کیا تھا کہ اگر میری نسبت کوئی پیشگوئی ہو.اور وہ بچی نکلی تو میں کسی قدر اپنی اصلاح کروں گا سوخدا نے اُن کی نسبت یہ پیشگوئی ظاہر کی کہ وہ پندرہ مہینہ کے عرصہ میں ہاویہ میں گریں گے مگر اس شرط سے کہ اس عرصہ میں حق

Page 245

مجموعہ اشتہارات ۲۲۹ جلد دوم کی طرف انہوں نے رجوع نہ کیا ہو.پس چونکہ خدا کی پیشگوئی میں ایک شرط تھی اور آتھم صاحب خوفناک ہو کر اس شرط کے پابند ہو گئے تھے پس ضرور تھا کہ وہ اس شرط سے فائدہ اٹھاتے.کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا کی شرط پر کوئی عمل کر کے پھر اس سے نفع نہ اٹھاوے.لہذا شرط کی تاثیر سے اُن کی موت میں کسی قدر تاخیر ہوگئی.اگر کہو کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ دل میں انہوں نے اسلام کی طرف رجوع کرلیا تھا یا اُن پر اسلامی پیشگوئی کا خوف غالب آ گیا تھا تو جواب اس کا یہ ہے کہ جب خدا نے مجھے اطلاع دی کہ آتھم نے شرط سے فائدہ اُٹھایا ہے اور اس کی موت میں ہم نے کچھ تاخیر ڈال دی تو میں نے آٹھم صاحب کو چار ہزار روپیہ کے انعام پر قسم کھانے کے لئے بلایا کہ اگر در پردہ اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا یا اسلامی ہیبت ان کے دل پر طاری نہیں ہوئی تو چاہیے کہ میدان میں آکر قسم کھاویں یا اگر تم نہیں تو نالش کر کے اپنے اس خوف کے وجوہ کو جس کا ان کو اقرار ہے بپاید اثبات پہنچاویں.مگر انہوں نے نہ قتسم کھائی نہ نالش کی.باوجود یکہ اُن کو صاف اقرار تھا کہ میں میعاد پیشگوئی کے اندر ڈرتا رہا مگر اسلامی ہیبت سے نہیں بلکہ تعلیم یافتہ سانپ اور حملوں وغیرہ سے اور چونکہ وہ خوف کو چھپا نہ سکے اس لئے یہ بہانے بنائے اور ثبوت کچھ نہ دیا اور اسی وجہ ان کو قسم کی طرف بلایا گیا تھا تا اگر وہ بچے ہیں تو قسم کھالیں.مگر باوجود چار ہزار روپیہ نقد دینے کے قسم نہ کھائی.نہ نالش سے اپنے اُن بہتانوں کو ثابت کیا یہاں تک کہ قبر میں داخل ہو گئے.میرے الہام میں یہ بھی تھا کہ اگر آتھم سچی گواہی نہیں دے گا اور نہ قسم کھائے گا تب بھی اصرار کے بعد جلد مرے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور آتھم صاحب میرے آخری اشتہار سے سات مہینے کے اندر مر گئے اور عجیب تریہ کہ اُن کے اس تمام قضہ کے بارہ برس قبل از وقوع براہین احمدیہ کے الہامات میں خبر موجود ہے دیکھو صفحہ ۲۴۱ براہین احمدیہ.پھر ایسی صاف اور روشن پیشگوئی کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ پوری نہیں ہوئی کس قدر انصاف کا خون کرنا ہے.کیا آتھم صاحب کی اس پیشگوئی میں کوئی شرط نہیں تھی ؟ اور اگر تھی تو کیا آتھم صاحب نے اپنے اقوال اور افعال سے اس شرط کا پورا ہونا ثابت نہیں کیا ؟ کیا آتھم صاحب میرے اس الزام کو قبر میں ساتھ نہیں لے گئے کہ انہوں نے خوف کا اقرار کر کے پھر یہ ثابت کر کے نہ دکھلایا کہ وہ خوف کسی تعلیم یافتہ سانپ وغیرہ حملوں کی وجہ سے تھانہ اسلامی پیشگوئی

Page 246

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کے رعب کی وجہ سے.وہ ہمیشہ مباحثات کرتے تھے مگر پیشگوئی کے بعد ایسے چپ ہو.وئے : ہونے کی حالت میں ہی گزر گئے.پس پیشگوئی تین طور سے پوری ہوئی.(۱) اول اپنی شرط کی رو سے کہ شرط پر عمل کرنے سے اس کا فائدہ آتھم کو دیا گیا.(۲) دوم اخفاء و شہادت کے بعد جو وعدہ موت تھا اس وعدہ کی رُو سے.(۳) براہین احمدیہ کے اس الہام کی رو سے جو اس واقعہ سے بارہ برس پہلے ہو چکا تھا.اب سوچو کہ اس سے بڑھ کر اگر کسی پیشگوئی میں صفائی ہوگی تو اور کیا ہوگی.اگر کوئی سچائی کو چھوڑ کر باتیں بناوے تو ہم اُس کا مونہہ بند نہیں کر سکتے.لیکن آتھم کی نسبت جو الہام کے الفاظ ہیں وہ ایسے صاف ہیں کہ ایک حق کے طالب کو بجز اُن کے ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا.اور براہین احمدیہ کا الہام جو آتھم صاحب کی نسبت ہے جو بارہ برس پہلے اس پیشگوئی سے تقریباً تمام اسلامی دنیا میں شائع ہو چکا ہے اس پر غور کرنے والے تو سجدہ میں گریں گے کہ کیسا عالم الغیب خدا ہے جس نے پہلے سے ان تمام آئیندہ واقعات اور جھگڑوں کی خبر دے دی.چونکہ اکثر اہل دنیا کو آجکل اس برتر ہستی پر ایمان نہیں ہے اس لئے اُن کے خیالات بہ نسبت اس کے کہ نیک ظنی کی طرف جائیں بدظنی کی طرف زیادہ جاتے ہیں.یہ بالکل غلطی ہے کہ گورنمنٹ نے لیکھرام کے مقدمہ میں سستی کی ہے.اور آتھم کے مقدمہ میں اگر وہ قتل ہو جاتا تو سستی نہ کرتی.ہم کہتے ہیں کہ بیشک یہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کو دونوں آنکھوں کی طرح برابر دیکھے.کسی کی رعایت نہ کرے.جیسا کہ فی الواقعہ یہ عادل گورنمنٹ ایسا ہی کر رہی ہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی گورنمنٹ خدا سے بھی لڑ سکتی ہے.بیشک گورنمنٹ کا فرض ہے کہ کسی نابکارخونی کو پکڑے اس کو پھانسی دے اور بدتر سے بدتر سزا کے ساتھ اس کو تنبیہ کرے تا دوسرے عبرت پکڑیں اور ملک میں امن قائم رہے.اگر آتھم قتل ہو جاتا تو بیشک وہ شخص پھانسی مالتا جو آتھم کا قاتل ہوتا.اسی طرح جب ثابت ہو گا کہ لیکھر ام کا فلاں شخص قاتل ہے اور وہ گرفتار ہوگا تو ایسا ہی وہ بھی پھانسی ملے گا.گورنمنٹ کا اس میں کیا قصور ہے اور کون سی سستی ؟ کس قاتل کو آریہ صاحب کسی ثبوت کے ساتھ گرفتار کرانا چاہتے ہیں جس کے پکڑنے میں گورنمنٹ متامل ہے.لیکن گورنمنٹ خدا کی پیشگوئیوں میں دخل نہیں دے سکتی.جس قدر گورنمنٹ اس کی طرف توجہ کرے گی

Page 247

مجموعہ اشتہارات ۲۳۱ جلد دوم اسی قدران پیشگوئیوں کو آسمانی اور بے لوث اور پاک پائے گی.آخر یہ گورنمنٹ اہل کتاب ہے اور اس خدا سے منکر نہیں ہے جو پوشیدہ بھیدوں کو جانتا ہے اور آنے والے زمانہ کی ایسے طور سے خبر دے سکتا ہے کہ گویا وہ موجود ہے.کیا چھ سال کی میعاد بیان کرنا اور عید کے دوسرے دن کا پتہ دینا اور صورتِ موت بیان کر دینا یہ خدا سے ہونا محال ہے؟ اگر خدا سے محال ہے تو ان قیدوں کے ساتھ انسان کی اپنی پیشگوئی کیونکر ممکن ہے.کیا دور دراز عرصہ سے ایسی صحیح خبریں دینا انسان کا کام ہے؟ اگر ہے تو اس کی دنیا میں کوئی نظیر پیش کرو.گورنمنٹ کو یہ فخر ہونا چاہیے کہ اس ملک میں اور اس کے زمانہ بادشاہت میں خدا اپنے بعض بندوں سے وہ تعلق پیدا کر رہا ہے کہ جو قصوں اور کہانیوں کے طور پر کتابوں میں لکھا ہوا ہے.اس ملک پر رحمت ہے کہ آسمان زمین سے نزدیک ہو گیا ہے ورنہ دوسرے ملکوں میں اس کی نظیر نہیں.یہ بھی ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ مختلف مقامات پنجاب سے کئی خط میرے پاس پہنچے ہیں جن میں بعض آریہ صاحبوں کے جوشوں اور نامناسب منصوبوں کا تذکرہ ہے میرے پاس وہ خط بحفاظت موجود ہیں اور اس جگہ کے بعض آریہ کو میں وہ خط دکھلا دیئے ہیں.چنانچہ ایک خط گوجرانوالہ سے ایک معزز اور رئیس کا مجھ کو پہنچا ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ اس جگہ دو دن تک جلسہ ماتم لیکھر ام ہوتا رہا اور قاتل کے گرفتار کنندہ کے لیے ہزار روپیہ انعام قرار پایا ہے اور دوسو اس کیلے جونشاندہی کرے.اور خارجائنا گیا ہے کہ ایک خفیہ انجمن آپ کے قتل کے لئے منعقد ہوئی ہے اور اس انجمن کے ممبر قریب قریب شہروں کے لوگ ( جیسے لاہور، امرتسر، بٹالہ، اور خاص گوجرنوالہ کے ہیں.) منتخب ہوئے ہیں.اور تجویز یہ ہے یہ میں ہزار روپیہ چندہ ہو کر کسی شریر طامع کو اس کام کے لئے مامور کریں تا وہ موقعہ پا کر قتل کر دے لیے چنانچہ دو ہزار روپیہ تک چندہ کا بندوبست ہو بھی گیا ہے.باقی دوسرے شہروں اور لے یہی خبرا جمالاً پیسہ اخبار میں بھی لکھی ہے.منہ ے براہین احمدیہ کا وہ الہام یعنی يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ جو سترہ برس سے شائع ہو چکا ہے اس کے اس وقت خوب معنے کھلے یعنی یہ الہام حضرت عیسی کو اس وقت بطور تسلی بھی ہوا تھا جب یہود اُن کے مصلوب کرنے کے لئے کوشش کر رہے تھے اور اس جگہ بجائے یہود، ہنود کوشش کر رہ ہیں.اور الہام کے یہ معنے ہیں کہ میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاؤں گا.دیکھو اس واقعہ نے عیسی کا نام اس عاجز پر کیسے چسپاں کر دیا ہے.منہ

Page 248

مجموعہ اشتہارات ۲۳۲ جلد دوم دیہات سے وصول کیا جائے گا.پھر بعد اس کے صاحب راقم لکھتے ہیں کہ اگر چہ آپ حافظ حقیقی کی حمایت میں ہیں تا ہم رعایت اسباب ضروری ہے اور میرے نزدیک ایسے وقت میں شریر مسلمانوں سے بھی پر ہیز لازم ہے کیونکہ وہ طامع اور بد باطن ہیں.کچھ تعجب نہیں کہ وہ بظاہر بیعت میں داخل ہو کر آریوں کی طمع دہی سے اس کام کے لئے جرات کریں.پھر صاحب راقم لکھتے ہیں کہ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس مشورہ قتل کے سرگروہ اس شہر کے بعض وکیل اور چند عہدہ دار سرکاری اور بعض آریہ رئیس وسر کردگان لاہور کے ہیں.جس قدر مجھے خبر پہنچی ہے میں نے عرض کر دیا.وَاللَّهُ أَعْلَمُ “ اور اسی کا مصدق ایک خط پنڈ دادنخان سے اور کئی اور جگہ سے پہنچے ہیں اور مضمون قریب قریب ہے.یہ سب خط محفوظ ہیں.اور جس جوش کو بعض آریہ صاحبوں کے اخبار نے ظاہر کیا ہے وہ بتلا رہا ہے کہ ایسے جوش کے وقت یہ خیالات بعید نہیں ہیں.چنانچہ ضمیمہ اخبار پنجاب سما چار لاہور میں میری نسبت یہ چند سطر میں لکھی ہیں.ایک حضرت نے شاید اپنی مصنفہ کتاب موعود سیحی میں یہ پیشگوئی بھی کی کہ پنڈت لیکھرام چھ سال کے عرصہ میں عید کے دن نہایت درد ناک حالت میں مرے گا.یہ پیشگوئی اب قریب تھی.کیونکہ غالباً ۱۸۹۷ء چھٹا سال تھا اور ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء آخری عید چھٹے سال کی تھی.علانیہ بذریعہ تحریر و تقریر کہا کرتے تھے کہ پنڈت کو مار ڈالیں گے اور مزید برآں یہ کہ پنڈت اس عرصہ میں اور فلاں دن میں ایک درد ناک حالت میں مرے گا.کیا آریہ دھرم کے اس مخالف اور چند ایک کتب کے ایک خاص مصنف کو ( یعنی اس عاجز کو ) اس سازش سے کوئی تعلق نہیں ہے.“ اس اخبار والے نے اور ایسا ہی دوسروں نے اس پیشگوئی سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ ایک منصوبہ تھا جو پیشگوئی کے طور پر مشہور کیا گیا جیسا کہ وہ اسی اخبار کے دوسرے صفحہ میں لکھتا ہے کہ یہ قتل کئی ایک اشخاص کی مدت کی سوچی اور سمجھی ہوئی اور پختہ سازش کا نتیجہ ہے.ہم اس بات کو خود مانتے اور قبول کرتے ہیں کہ پیشگوئی کی تشریح میں بار بار تفہیم الہی سے یہی لکھا گیا تھا کہ وہ ہیبت ناک طور پر ظہور میں آئے گی اور نیز یہ کہ لیکھرام کی موت کسی بیماری سے نہیں ہوگی بلکہ خدا کسی ایسے کو اس پر مسلط کرے گا جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا ہوگا.مگر جو پنجاب سما چار دہم مارچ ۱۸۹۷ء میں الہام کے حوالہ سے

Page 249

مجموعہ اشتہارات ۲۳۳ جلد دوم عید کا دن لکھا ہے یہ اس کی غلطی ہے.الہام کی عبارت یہ ہے سَتَعْرِفُ يَوْمَ الْعِيدِ وَالْعِيْدُ اقْرَبُ یعنی تو اس نشان کے دن کو جو عید کے مانند ہے پہچان لے گا اور عید اس نشان کے دن سے بہت قریب ہوگی.یہ خدا نے خبر دی ہے کہ عید کا دن قتل کے دن کے ساتھ ملا ہوا ہوگا اور ایسا ہی ہوا.عید جمعہ کو ہوئی اور شنبہ کو جو شوال ۱۳۱۴ھ کی دوسری تاریخ تھی لیکھرام قتل ہو گیا.سو اس تمام پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ یہ ایک ہیبت ناک واقعہ ہوگا جو چھ سال کے اندر وقوع میں آئے گا اور وہ دن عید کے دن سے ملا ہوا ہو گا یعنی دوسری شوال کی ہوگی.اب سوچو کیا یہ انسان کا کام ہے کہ تاریخ بتلائی گئی دن جتلایا گیا.سبب موت بتلایا گیا اور اس حادثہ کا وقوعہ ہیبت ناک طرز سے ظہور میں آنا بتلایا گیا.اس کا تمام نقشہ برکات الدعاء کے مضمون میں کھینچ کر دکھایا گیا.کیا یہ کسی منصو بہ باز کا کام ہوسکتا ہے کہ چھ برس پہلے ایسے صریح نشانوں کے ساتھ خبر دے دے اور وہ خبر پوری ہو جائے.تو ریت گواہی دیتی ہے کہ جھوٹے نبی کی پیشگوئی کبھی پوری نہیں ہو سکتی خدا اس کے مقابل پر کھڑا ہو جاتا ہے تا دنیا تباہ نہ ہو.جیسا کہ لیکھرام نے بھی ایک دنیوی چالا کی سے انہیں دنوں میں میری نسبت یہ اشتہار دیا تھا کہ تم تین برس کے عرصہ تک مرجاؤ گے.پس کیوں وہ کسی قاتل سے شازش نہ کر سکا تا اُس کی بات پوری ہوتی.ایک اور بات سوچنے کے لائق ہے کہ یہ بدگمانی کہ ان کے کسی مرید نے ماردیا ہوگا یہ شیطانی خیال ہے.ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ مریدوں کا مرشد کے ساتھ ایک نازک تعلق ہوتا ہے.اور اعتقاد کی بناء تقویٰ اور طہارت اور نیکو کاری پر ہوتی ہے.لوگ جو کسی کے مرید ہوتے ہیں وہ اسی نیت سے مرید ہوتے ہیں کہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ شخص باخدا ہے.اس کے دل میں کوئی فریب اور فساد کی بات نہیں.پس اگر وہ ایک ایسا بد کا راور لعنتی شخص ہے کہ کسی کی موت کی جھوٹی پیش گوئی اپنی طرف سے بناتا ہے اور پھر جب اس کی میعاد ختم ہونے پر ہوتی ہے تو کسی مرید کے آگے ہاتھ جوڑتا ہے کہ اب میری عزت رکھ لے اور اپنے گلے میں رسہ ڈال اور مجھے سچا کر کے دکھلا.اب میں منصفوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسے پلید لعنتی انسان کا یہ چال چلن دیکھ کر اور یہ شیطانی منصو بہ سن کر کوئی مرید اس کا معتقد ہوسکتا ہے.کیا وہ مرشد کو ایک بد کار ملعون اور فاسق فاجر خیال نہیں کرے گا اور کیا وہ اس کو یہ نہیں کہے گا کہ اصلیت یہی تھی.کیا تیرا یہ منشاء ہے کہ جھوٹ تو بولے اور رسہ دوسرے کے گلے میں پڑے اور اس

Page 250

مجموعہ اشتہارات ۲۳۴ جلد دوم طرح تیری پیشگوئی پوری ہو.جس قدر دنیا میں نبی اور مرسل گذرے ہیں یا آگے مامور اور محدث ہوں کوئی شخص ان کے مریدوں میں اس حالت میں داخل نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ہوگا جبکہ ان کو مکا ر اور منصوبہ باز سمجھتا ہو.یہ رشتہ پیری مریدی نہایت ہی نازک رشتہ ہے.ادنی بدظنی سے اس میں فرق آجاتا ہے.میں نے ایک دفعہ اپنے مریدوں کی جماعت میں دیکھا کہ بعض ان میں سے صرف اس وجہ سے میری نسبت شبہ میں پڑ گئے کہ میں نے ایک عذر بیماری سے جس کی انہیں اطلاع نہیں تھی نماز کے قعدہ التحیات میں رہنے پیر کو کھڑا نہیں رکھا تھا.اتنی بات میں دو آدمی باتیں بنانے لگے اور شبہات میں پڑ گئے کہ یہ خلاف سنت ہے.ایک مرتبہ چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے میں نے پکڑی کیونکہ میرے دہنے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی اور کمزور ہے.اس پر بعض نے نکتہ چینی کی کہ خلاف سنت ہے اور ہمیشہ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ بعض نو مرید ادنی ادنی باتوں پر اپنی نانہی سے ابتلاء میں پڑ جاتے ہیں اور ادنی ادنی خانگی امور تک نکتہ چینیاں شروع کر دیتے ہیں.جیسا کہ حضرت موسی کو بھی اسی طرح تکلیف دیتے تھے کیونکہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ اس کے پیرو ہر یک انسان کے قول و فعل کو راستبازی اور تقویٰ کے پیمانہ سے ناپتے ہیں اور اگر اس کے مخالف پاتے ہیں تو پھر فی الفور اس سے الگ ہو جاتے ہیں.سوسوچنا چاہیے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایسے لوگ اس بدمعاش شخص کے ساتھ وفا کرسکیں جس کا تمام کاروبار مکروں اور منصوبوں سے بھرا ہوا ہے اور لوگوں کو ناحق کے خون کرنے کے لئے مامور کرنا چاہتا ہے تا اس کا ناک نہ کئے اور پیشگوئی پوری ہو.کوئی انسان عمداً اپنے ایمان کو برباد کر نانہیں چاہتا.پھر اگر ایسی سازش میں بفرض محال کوئی مرید شریک ہو تو تمام مریدوں میں یہ بات کیونکر پوشیدہ رہ سکتی ہے.اور ظاہر ہے کہ ہماری جماعت میں بڑے بڑے معزز داخل ہیں.بی.اے اور ایم.اےاور تحصیلدار اور ڈپٹی کلکٹر اور اکسٹرا اسسٹنٹ اور بڑے بڑے تاجر اور ایک جماعت علماء وفضلاء.تو کیا یہ تمام لچوں اور بدمعاشوں کا گروہ ہے.ہم بآواز بلند کہتے ہیں کہ ہماری جماعت نہایت نیک چلن اور مہذب اور پر ہیز گار لوگ ہیں.کہاں ہے کوئی ایسا پلید اور لعنتی ہمارا مرید جس کا یہ دعویٰ ہو کہ ہم نے اس کو لیکھرام کے قتل کے لئے مامور کیا تھا.ہم ایسے مرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مرید کو کتوں سے بدتر اور

Page 251

مجموعہ اشتہارات ۲۳۵ جلد دوم نہایت ناپاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیشگوئیاں بنا کر پھر اپنے ہاتھ سے اپنے مکر سے اپنے فریب سے ان کے پوری ہونے کے لئے کوشش کرے اور کراوے.پس افسوس کہ اخبار پنجاب سما چار مطبوعہ مارچ میں سازش کا الزام جو ہم پر لگایا ہے یہ کس قد رسچائی کا خون ہے.میں صاحب اخبار سے پوچھتا ہوں کہ آپ لوگوں میں بھی بڑے بڑے اوتار گذرے ہیں جیسے راجہ رام چندر صاحب اور راجہ کرشن صاحب کیا آپ لوگ ان کی نسبت یہ گمان کر سکتے ہیں کہ انہوں نے پیشگوئی کر کے پھر اپنی عزت رکھنے کے لئے ایسا حیلہ کیا ہو کہ کسی اپنے چیلہ کی منت خوشامد کی ہو کہ اس کو اپنی کوشش سے پوری کر کے میری عزت رکھ لے اور پھر ان کے چیلے ان کو اچھا آدمی سمجھتے ہوں.ہاں یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک بدمعاش ڈاکو کے ساتھ اور چند بدمعاش جمع ہوں اور ایسے کام خفیہ طور پر کریں.لیکن اس میرے مریدوں کے سلسلہ میں جس کے ساتھ مہدی موعود اور مسیح موعود ہونے کا دعوی بھی بڑے زور سے ہے یہ حرام زدگی کے کام میلان نہیں کھا سکتے.ہر یک مرید اس بلند دعوی کو دیکھ کر نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ پر ہیز گاری کا نمونہ دیکھنا چاہتا ہے.پس کیونکر ممکن ہے کہ دعوئی تو یہ ہو کہ میں وقت کا عیسی ہوں اور جھوٹی پیشگوئیوں کو اس طرح پر پورا کرنا چا ہے کہ مریدوں کے آگے ہاتھ جوڑے کہ مجھ سے قصور ہو گیا میری پردہ پوشی کرو.جاؤ آپ مرد اور کسی طرح میری پیشگوئی سچی کرو.کیا ایسا مردار ایک پاک جماعت کا مالک ہوسکتا ہے؟ کہاں ہے تمہارا پاک کانشنس ، اے مہذب آریو!؟ اور کہاں ہے فطرتی زیر کی اے آریہ کے دانشمند و!؟ ہمار یہ اصول ہے کہ کل بنی نوع کی ہمدردی کرو.اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگی گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مجھ سے نہیں ہے.اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کے لئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم سے نہیں ہے.اسلام اس قوم کے بدمعاشوں کا ذمہ دار نہیں ہے.بعض ایک ایک روپیہ کے لالچ میں بچوں کا خون کر دیتے ہیں.ایسی واردا تیں اکثر نفسانی اغراض سے ہوا کرتی ہیں.اور پھر بالخصوص ہماری جماعت جو نیکی اور پر ہیز گاری سیکھنے کے لئے میرے پاس جمع ہے.وہ اس لئے میرے پاس نہیں آتے

Page 252

مجموعہ اشتہارات ۲۳۶ جلد دوم کہ ڈاکوؤں کا کام مجھ سے سیکھیں اور اپنے ایمان کو برباد کریں.میں حلفاً کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی دشمنی نہیں.ہاں جہاں تک ممکن ہے ان کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں.اور اگر کوئی گالیاں دے تو ہمارا شکوہ خدا کی جناب میں ہے نہ کسی اور عدالت میں.اور با ایں ہمہ نوع انسان کی ہمدردی ہمارا حق ہے.ہم اس وقت کیونکر اور کن الفاظ سے آریہ صاحبوں کے دلوں کو تسلی دیں کہ بدمعاشی کی چالیس ہمارا طریق نہیں ہیں.ایک انسان کی جان جانے سے تو ہم دردمند ہیں اور خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہونے سے ہم خوش بھی ہیں! کیوں خوش ہیں؟ صرف قوموں کی بھلائی کے لئے.کاش وہ سوچیں سمجھیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا یہ انسان کا کام نہیں ہے.ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے درد بھی ہے اور خوشی بھی.درد اس لئے کہ اگر لکھر ام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجا تا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لئے دعا کرتا اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہو جاتا.وہ خدا جس کو میں جانتا ہوں اس سے کوئی بات انہونی نہیں.اور خوشی اس بات کی ہے کہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی آٹھم کی پیشگوئی پر بھی اس نے دوبارہ روشنی ڈال دی.کاش اب لوگ سوچیں اور سمجھیں اور قوموں کے درمیان سے بغض اور کینے دور ہو جائیں کیونکہ عداوت اور دشمنی کی زندگی مرنے کے قریب قریب ہے.اور اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دور نہیں ہوسکتا اور مجھے اس قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے جیسا کہ ہندو اخباروں نے ظاہر کیا ہے تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے یہ سارا قصہ فیصلہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے.پس اگر یہ مسیح نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک عذاب ہومگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بدعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہیے.اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا وے تو اس

Page 253

مجموعہ اشتہارات ۲۳۷ جلد دوم طریق کو اختیار کرے یہ طریق نہایت سادہ اور راستی کا فیصلہ ہے.شاید اس طریق سے ہمارے مخالف مولویوں کو بھی فائدہ پہنچے.میں نے سچے دل سے یہ لکھا ہے.مگر یا در ہے کہ ایسی آزمائش کرنے والا خود قادیان میں آوے.اس کا کرایہ میرے ذمہ ہوگا.جانبین کی تحریرات چھپ جائیں گی.اگر خدا نے اس کو ایسے عذاب سے ہلاک نہ کیا جس میں انسان کے ہاتھوں کی آمیزش نہ ہو تو میں کا ذب ٹھیروں گا اور تمام دنیا گواہ رہے کہ اس صورت میں میں اسی سزا کے لائق ٹھہروں گا جو مجرم قتل کو دینی چاہیے.میں اس جگہ سے دوسرے مقام نہیں جاسکتا، مقابلہ کرنے والے کو آپ آنا چاہیے.مگر مقابلہ کرنے والا ایسا ایک شخص ہو جو دل کا بہت بہادر اور جوان اور مظبوط ہو.اب بعد اس کے سخت بے حیائی ہوگی کہ کوئی غائبانہ میرے پر ایسے ناپاک شبہات کرے.میں نے طریق فیصلہ آگے رکھ دیا ہے.اگر میں اس کے بعد روگردان ہو جاؤں تو مجھ پر خدا کی لعنت اور اگر کوئی اعتراض کرنے والا بہتانوں سے باز نہ آوے اور اس طریق فیصلہ سے طالب تحقیق نہ ہو تو اس پر لعنت.اے شتاب کار رلوگو! جیسا کہ تمہارا گمان ہے مجھے کسی قوم سے عداوت نہیں.ہر یک نوع انسان سے ہمدردی ہے اور جہاں تک میرے بدن میں طاقت ہے اس ہمدردی کے لئے مشغول ہوں.اور میں جیسا کہ قوموں کا ہمدرد ہوں ایسا ہی گورنمنٹ انگریزی کا شکر گذار اور سچے دل سے اس کا خیر خواہ ہوں اور مفسدہ پردازیوں سے بدل بیزار ہوں.ایک اور نکتہ یادر کھنے کے لائق ہے کہ پنڈت لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی اس کے وقوع سے سترہ برس پہلے براہین احمدیہ میں اس پیشگوئی کی خبر دی گئی ہے جیسا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ نمبر ۲۶ میں یہ الہام.لَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى.وَخَرَ قُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ.اللهُ الصَّمَدُ.لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ.وَيَمْكُرُونَ وَيَمُكُرُ الله وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ.اَلْفِتْنَهُ هُنَا.فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ.قُلْ لے حاشیہ.براہین احمدیہ میں تین فتنوں کا ذکر ہے.اول بڑا فتنہ عیسائی پادریوں کا.جنہوں نے مکاری سے تمام جہان میں شور مچادیا کہ آتھم کی پیشگوئی جھوٹی نکلی اور یہودی صفت مولویوں اور ان کے ہم مشروب مسلمانوں کو ساتھ ملالیا.دیکھو صفحہ ۲۴۱

Page 254

مجموعہ اشتہارات ۲۳۸ جلد دوم رَبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ.وَلَا تَيْنَسُ مِنْ رُوحِ اللَّهِ أَلَا إِنَّ رَوْحَ اللَّهِ قَرِيبٌ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ يَأْتِيَكَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَنْصُرُكَ اللهُ ہ حاشیہ.دوسرا فتنہ جو دوسرے درجہ پر ہے محمد حسین بٹالوی کا فتنہ ہے جس فتنہ کی نسبت براہین کے صفحہ ۵۱۰ میں یہ لکھا ہے.وَاذْيَمْكُرُبِكَ الَّذِي كَفَرَ اَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ لَعَلَّى اَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَا ظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ.تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَّ تَبَّ.مَا كَانَ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ فِيْهَا إِلَّا خَائِفًا، وَمَا أَصَابَكَ فَمِنَ اللَّهِ الْفِتْنَةُ هُنَا.فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ.أَلَا إِنَّهَا فِتْنَةٌ مِّنَ اللَّهِ لِيُحِبَّ حُبًّا جَمَّا.حُبًّا مِّنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْأَكْرَمِ عَطَاءً غَيْرَ مَجُدُودٍ.یعنی وہ زمانہ یا د رکھ کہ جب ایک منکر تجھ سے مکر کرے گا اور اپنے دوست ہامان کو کہے گا کہ فتنہ کی آگ بھڑکا کہ میں موسیٰ کے خدا پر اطلاع پانا چاہتا ہوں.اور میں گمان کرتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے.ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ آپ بھی ہلاک ہو گیا.اس کو نہیں چاہیے تھا کہ تکفیر اور تکذیب کے امر میں دخل دیتا مگر یہ کہ ڈرتا ہوا.ان باتوں کو پوچھ لیتا کہ جو اس کو سمجھ نہیں آتی تھیں اور تجھے جو کچھ پہنچے گا وہ خدا کی طرف سے ہے.اس جگہ ایک فتنہ ہوگا.پس تجھے صبر کرنا چاہیے جیسا کہ اولوالعزم نبی صبر کرتے رہے.یادرکھ کہ وہ فتنہ خدا کی طرف سے ہوگا تا وہ تجھ سے بہت ہی پیار کرے.خدا کا پیار جو اللہ عزیز اکرم ہے.یہ وہ عطا ہے جو واپس نہیں لی جائے گی.اس وقت مجھے یہ سمجھ آیا ہے کہ الہام میں ہامان سے مُرادنذیر حسین محدث دہلوی کیونکہ پہلے سب سے محمد حسین اس کی طرف التجالے گیا اور یہ کہا اوقدْ لِي يَا هَامَانُ.اس کا یہ مطلب ہے کہ تکفیر کی بنیاد ڈال دے تا دوسرے اس کی پیروی کریں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نذیر حسین کی عاقبت تباہ ہے اگر تو بہ کر کے نہ مرے.اور ممکن ہے کہ ابولہب سے مراد بھی نذیر حسین ہی ہو اور محمد حسین کا انجام اس آیت پر ہو.آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أُمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَاوِيْلَ لے کیونکہ بعض رؤیا اس عاجز کی اس تاویل کی مؤید ہیں.پس خدا کے فضل سے کچھ تعجب نہیں کہ یہ متواتر تائیدوں کو دیکھ کر آخر تو بہ کرے اور ہامان مارا جائے.تیسرا فتنہ جو تیسرے درجہ پر ہے لیکھرام کی موت کا فتنہ ہے یعنی آریوں کی بدگمانیاں اور ضرررسانی کے لئے پوشیدہ کوششیں جیسا کہ پیسہ اخبار میں بھی ان کے قتل کے ارادوں کا ذکر ہے اور براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ میں اس فتنہ اور اس کے ساتھ کے نشان کی نسبت یہ الہام ہے میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دُنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.الْفِتْنَةُ هَهُنَا.فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ.فَلَمَّا تَجَلَّى رَبَّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّا.یعنی اس جگہ ایک فتنہ ہوگا.پس صبر کر اور جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر جلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا.یہ براہین احمدیہ کے الہام ہیں.مگر اس تحریر کے وقت ابھی ایک الہام ہوا.اور وہ یہ ہے ” سلامت بر تو اے مرد سلامت“.منہ يونس : ۹۱

Page 255

مجموعہ اشتہارات ۲۳۹ جلد دوم مِنْ عِندِهِ.يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِّنَ السَّمَاءِ.لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ.إِنَّا فَتَحْنَالَكَ فَتْحًا مُّبِينًا.یعنی پادری لوگ اور یہودی لوگ اور یہودی صفت مسلمان تجھ سے راضی نہیں ہوں گے اور خدا کے بیٹے اور بیٹیاں انہوں نے بنارکھی ہیں.ان کو کہہ دے کہ خدا وہی ہے جو ایک ہے اور بے نیاز ہے.نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ وہ کسی کا باپ اور نہ کوئی اس کا ہم کفو.اور یہ لوگ مکر کریں گے ( یہ آتھم کے ظہور پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے ) اور خدا بھی مکر کرے گا کہ ان کو ذرہ مہلت دے گا تا اپنے جھوٹے خیالات سے خوش ہو جائیں.اور پھر فرمایا کہ اس وقت پادریوں اور یہود صفت مسلمانوں کی طرف سے ایک فتنہ برپا ہوگا.پس تو صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا اور خدا سے اپنے صدق کا ظہور مانگ یعنی دعا کر کہ پیشگوئی کے چھپانے میں جو جو پادریوں اور یہودصفت مسلمانوں نے لوگوں کو دھو کے دیئے ہیں وہ دھو کے دور ہو جائیں.اور پھر فرمایا کہ خدا کی رحمت سے نومید نہ ہو.کیونکہ خدا کی رحمت اس ابتلاء کے دنوں کے بعد جلد آئے گی.خدا کی نصرت ہر یک راہ سے آئے گی.لوگ دور دور سے تیرے پاس آئیں گے خدا نشان دکھلانے کے لئے اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا یعنی بلا واسطہ نشان دکھائے گا.اور نیز وہ لوگ بھی مدد کریں گے جن کے دلوں پر ہم خود آسمان سے وحی نازل کریں گے یعنی بعض نشان بالواسطہ بھی ہم ظاہر کریں گے.مطلب یہ کہ بعض پیشگوئیاں براہ راست ظہور میں آئیں گی اور بعض کے ظہور کے لئے ایسے نشان واسطہ ٹھیر جائیں گے جن کے دلوں میں ہم ڈال دیں گے خدا کی باتیں کبھی نہیں ملیں گی اور کوئی نہیں جو ان کو روک سکے.ہم پادریوں کے مکر کے بعد ایک کھلی کھلی فتح تجھ کو دیں گے.ان الہامات میں خدا تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ اول پادری لوگ اور یہود صفت مسلمان مکر کے رو سے ایک پیشگوئی کی حقیقت کو چھپائیں گے.تا تیری سچائی چھپی رہے اور ظاہر نہ ہو پھر بعد اس کے یوں ہوگا کہ ہم ارادہ فرمائیں گے کہ تیری سچائی ظاہر ہواور تیری پیشگوئیوں کی حقانیت کھل جائے.تب ہم دو قسم کے نشان ظاہر کریں گے.ایک وہ جن میں انسانوں کے افعال کا دخل نہیں

Page 256

مجموعہ اشتہارات ۲۴۰ جلد دوم جیسے مذہبی جلسہ میں پہلے سے ظاہر کیا گیا کہ یہ مضمون تمام مضامین پر غالب رہے گا اور اس پیشگوئی کے پورا کرنے میں انسانوں کا ذرہ دخل نہیں ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.بلکہ مخالفانہ کوشش ہوئیں اور ہر یک چاہتا تھا کہ میرا مضمون غالب رہے.آخر پیشگوئی کے مضمون کے موافق ہمارا مضمون غالب ہوا.اور دوسرے اُن الہامات براہین احمدیہ میں یہ وعدہ تھا کہ ہم وہ نشان ظاہر کریں گے جن میں انسانوں کے افعال کا دخل ہو گا.سو اس کے مطابق لیکھرام کی نسبت پیشگوئی ظہور میں آئی کیونکہ یہ نشان بالواسطہ ظاہر ہوا اور کسی نے لیکھرام کو قتل کر دیا.پس ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی میں کسی انسان کے دل کو خدا نے اُبھارا تا اس کو قتل کرے اور ہریک پہلو سے اس کو موقعہ دیا کہ تاوہ اپنا کام انجام تک پہنچاوے لیے پس خدا تعالیٰ نے جو فتح عظیم کے ذکر کرنے سے پہلے پیشگوئی کے ظاہر کرنے کے لئے دو مختلف فقروں کو ذکر فرمایا اول یہ کہ يَنْصُرُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ.دوم یہ کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ.اس تقسیم کی یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے پادریوں کو شرمندہ کرنے کے لئے فرمایا کہ اگر تم نے ہمارے ایک نشان کو مخفی کرنا چاہا تو کیا حرج ہے ہم اس کے عوض میں دونشان ظاہر کریں گے.ایک وہ نشان جو بلا واسطہ ہمارے ہاتھ سے ہوگا.اور دوسرا وہ نشان جو ایسے لوگوں کے ہاتھ سے ظہور میں آجائے گا جن کے دلوں میں ہم ڈال دیں گے کہ تم ایسا کر وتب فتح عظیم ہوگی.اب انصاف سے دیکھو اور ایمان سے نظر کرو کہ یہ دونوں نشان یعنی نشان جلسہ مذاہب اور نشان موت لیکھرام ۱۷ برس بعد شائع ہونے براہین احمدیہ کے ظہور میں آئے ہیں.کیا یہ انسان کی طاقت ہو سکتی ہے؟ یہ بھی ظاہر ہے کہ جلسہ مذاہب سے پہلے جو اشتہار الہامی شائع کئے گئے تھے.اُن میں صاف طور پر لکھا گیا تھا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ مضمون تمام مضامین پر غالب رہے گا.لے پیسہ اخبار اور سفیر گورنمنٹ میں لکھا ہے کہ لیکھرام کا ایک عورت سے ناجائز تعلق تھا یعنی وہ اس عورت کے کسی وارث کے ہاتھ سے قتل کیا گیا.کیسی ذلت کی موت ہے.اور اگر اسی کا نام شہادت ہے تو گویا یوں کہنا چاہیے کہ وہ کسی عورت کی نگاہ کی چھری سے شہید ہو چکا تھا.آخر وہی چھری قہری صورت پر اس کو لگ گئی.اگر قتل کا سبب یہی ہے تو لیکھرام کی پاک زندگی کا خوب ثبوت ہے.منہ

Page 257

مجموعہ اشتہارات ۲۴۱ جلد دوم چنانچہ ایسا ہی ہوا.دیکھو اخبار سول ملٹری گزٹ.اخبار آبزرور- مخبر دکن.پیسہ اخبار.سراج الاخبار مشیر ہند.وزیر ہند سیالکوٹ.صادق الاخبار بہاولپور.پس یہ خدا کا بلاواسطہ فعل تھا.کہ ہر ایک دل کی خواہش کے مخالف ان سے اقرار کرایا کہ وہی مضمون غالب رہا.مگر دوسرے نشان میں قاتل کے دل کی خواہش ڈال کی اور اس طرح پر دونوں نشان بلا واسطہ اور بالواسطہ خلق اللہ کو دکھلا کر پادریوں اور اسلامی مولویوں اور ہندوؤں کے مکر کو ایک دم میں پاش پاش کر دیا.اور ممکن نہ تھا کہ وہ اپنی شرارتوں سے باز آجاتے جب تک خدا ایسے کھلے کھلے نشان ظاہر نہ کرتا.اسی کی طرف وہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۰۶ میں اشارہ فرماتا ہے.اور کہتا ہے لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ وَكَانَ كَيْدُهُمُ عَظِيمًا.یعنی ممکن نہ تھا کہ نصاری اور مخالف مسلمان اور ہندو اپنے انکاروں سے باز آجاتے جب تک اُن کو کھلا کھلا نشان نہ ملتا اور اُن کا مکر بہت بڑا تھا.پھر بعد اس کے اسی صفحہ میں فرمایا کہ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا.یہ اس بات کی اشارہ ہے کہ پادریوں نے آتھم کی پیشگوئی کو باعث اپنے اختفاء کے لوگوں پر مشتبہ کر دیا تھا.پس اگر لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی تھی جس کی شوخیوں نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ رجوع کرنے والا نہیں ایسی ہی مخفی رہ جاتی تو تمام حق خاک میں مل جاتا اور نادان لوگوں کے خیالات سخت نا پاک ہو جاتے اور جاہل قریب قریب دہریوں کے بن جاتے.سو آسمانوں اور زمینوں کے مالک نے چاہا کہ لیکھر ام حق کے اظہار کا فدیہ ہو اور سچے دین کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے بطور بلید ان کے ہو جائے.سو وہی ہوا جو خدا نے چاہا.ایک انسان کے مارے جانے کی ہمددری بجائے خود ہے.مگر یہ بات بہت دلوں کو تاریکی سے نکالنے والی ہے کہ خدا نے جلسہ مذاہب کے نشان کے بعد یہ ایک عظیم الشان نشان دکھلایا.چاہیے کہ ہر یک روح اس ذات کو سجدہ کرے جس نے ایک بندہ کی جان لے کر ہزاروں مر دوں کو زندہ کرنے کی بنیاد ڈالی.اور پھر اسی پیشگوئی کی طرف براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۲۲ میں یہ الہام اشارہ فرماتا ہے کہ ” بخرام کے وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں برمنار بلند تر محکم افتاد.

Page 258

مجموعہ اشتہارات ۲۴۲ جلد دوم پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار.رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا.اس نشان کا مد عا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں.پس جس عظیم الشان نشان کا اس الہام میں وعدہ ہے وہ یہی نشان ہے جس سے مطابق الہام ہذا کے اعلاء کلمہ ء اسلام ہوا.اور صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں اسی نشان کا ذکر ہے.جس کا پہلا فقرہ یہ ہے کہ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا یعنی ایک جلالی نشان ظاہر کروں گا اور سرمہ چشم آریہ میں ایک کشف ہے جس کو گیارہ برس ہو گئے.جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا نے ایک خون کا نشان دکھلایا.وہ خون کپڑوں پر پڑا جو اب تک موجود ہے.یہ خون کیا تھا.وہی لیکھرام کا خون تھا.خدا کے آگے جھک جاؤ کہ وہ برتر اور بے نیاز ہے!!! بعض آر یہ اخبار والوں نے یہ تعجب کیا کہ لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی ہے اور اس کی مدت بتائی گئی ، دن بتایا گیا.موت کا ذریعہ بتایا گیا.یہ باتیں کب ہوسکتی ہیں جب تک ایک بھاری سازش اس کی بنیاد نہ ہو.چنانچہ پر چہ ضمیمہ سا چار لاہور۳/ مارچ ۱۸۹۷ء اور ضمیمہ انیس ہند میرٹھ ۱۳ مارچ ۱۸۹۷ء نے اس بارے میں بہت زہرا گلا ہے.ایڈیٹرا نفیس ہندا اپنے پرچہ کے ۱۳ صفحہ میں یہ بھی کہتا ہے کہ ”ہمارا ما تھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا جب مرزا غلام احمد قادیانی نے آپ کی وفات کی بابت پیشگوئی کی تھی ورنہ ان حضرات کو کیا علم غیب تھا؟“ اب واضح ہو کہ یہ تمام صاحب آپ اس بات کو تنقیح طلب ٹھیراتے ہیں کہ کیا خدا نے اس شخص کو علم غیب دیا تھا ؟ اور کیا خدا سے ایسا ہونا ممکن ہے؟ سو اس وقت ہم بطور نمونہ بعض اور پیشگوئیوں کو درج کرتے ہیں تا ان نظائر کو دیکھ کر آر یہ صاحبوں کی آنکھیں کھلیں.اور وہ یہ ہیں.اوّل.احمد بیگ ہوشیار پوری کی موت کی پیشگوئی جس کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ تین برس کی میعاد میں فوت ہو جائے گا.اور ضرور ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے اور مصیبتیں بھی دیکھے.چنانچہ اس نے اس اشتہار کے بعد اپنے پسر کے فوت ہونے کی مصیبت دیکھی اور پھر اس کی ہمشیرہ عزیزہ کی وفات کا نا گہانی واقعہ اس کی نظر کے سامنے وقوع میں آیا اور بعد اس کے وہ تین سال کی میعاد کے اندر خود ہم مقام ہوشیار پور فوت ہو گیا.اب ا حاشیہ.اس پیشگوئی کے دو حصے تھے.ایک احمد بیگ کی نسبت اور ایک اس کے داماد کی نسبت اور پیشگوئی کے بعض

Page 259

مجموعہ اشتہارات ۲۴۳ جلد دوم بتاؤ کہ اس کی موت میں میری طرف سے کس کے ساتھ سازش ہوئی تھی؟ کیا تپ محرقہ کے ساتھ ؟ دوم.دوسری پیشگوئی شیخ مہرعلی رئیس ہوشیار پور کی مصیبت کے بارے میں تھی جو اس پر ناحق کے خون کا الزام لگایا گیا تھا.شیخ مذکور ہوشیار پور میں زندہ موجود ہے.اس کو پوچھو کہ کیا اس مقدمہ کے آثار ظاہر ہونے سے پہلے میں نے اپنے خدا سے خبر پا کر کوئی اطلاع اس کو دی ہے یا نہیں.سوم.تیسری پیشگوئی سردار محمد حیات خان حج کی نسبت اس وقت کی گئی تھی جبکہ سردار مذکور ایک ناحق کے الزام میں ماخوذ ہو گیا تھا.اب پوچھنا چاہیے کہ کیا در حقیقت کوئی ایسی پیشگوئی نامبردہ کی مخلصی کے بارے میں پیش از وقت کی گئی تھی یا اب بنائی گئی ہے.اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس پیشگوئی کا براہین میں بھی ذکر ہے.چہارم.چوتھی پیشگوئی سید احمد خان کے سہی.ایس.آئی کی نسبت خدا تعالیٰ سے الہام پا کر اشتہار یکم فروری ۱۸۸۶ء میں کی گئی تھی کہ اُن کو کوئی سخت صدمہ پہنچے اب سید احمد خاں صاحب کو پوچھنا چاہیے کہ اس پیشگوئی کے بعد آپ کو کوئی ایسا سخت صدمہ پہنچا ہے یا نہیں جو معمولی ہم وغم نہ ہو بلکہ وہ امر ہو جو جان کو زیروز بر کرنے والا ہو.بقیہ حاشیہ.الہامات میں جو پہلے سے شائع ہو چکے تھے.یہ شرط تھی کہ تو بہ اور خوف کے وقت موت میں تاخیر ڈال دی جائے گی.سو افسوس کہ احمد بیگ کو اس شرط سے فائدہ اُٹھانا نصیب نہ ہوا کیونکہ اس وقت اس کی بدقسمتی سے اس نے اور اس کے تمام عزیزوں نے پیشگوئی کو انسانی مکر اور فریب پر حمل کیا اور ٹھٹھا اور جنسی شروع کر دی اور وہ ہمیشہ ٹھٹھا اور ہنسی کرتے تھے کہ پیشگوئی کے وقت نے اپنا منہ دکھلا دیا.اور احمد بیگ ایک محرقہ تپ کے ایک دو دن کے حملہ سے ہی اس جہان سے رخصت ہو گیا.تب تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور داماد کی بھی فکر پڑی اور خوف اور تو بہ اور نماز روزہ میں عورتیں لگ گئیں.اور مارے ڈر کے اُن کے کلیجے کانپ اُٹھے.پس ضرور تھا کہ اس درجہ کے خوف کے وقت خدا اپنی شرط کے موافق عمل کرتا.سو وہ لوگ سخت احمق اور کاذب اور ظالم ہیں جو کہتے ہیں کہ داماد کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بلکہ وہ بدیہی طور پر حالت موجودہ کے موافق پوری ہوگئی اور دوسرے پہلو کی انتظار ہے.منہ

Page 260

مجموعہ اشتہارات ۲۴۴ جلد دوم.پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑ کے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہوگا.اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے.چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے.ششم.چھٹی پیشگوئی شریف کے بارے میں جومیرا تیسرا لڑکا ے کی گئی تھی اور رسالہ نورالحق میں پیش از وقت خوب شائع ہوگئی تھی.چنانچہ اس کے موافق لڑکا پیدا ہوا جواب خدا کے فضل سے چند روز تک دوسرے سال کو ختم کرنے والا ہے.ہفتم.ساتویں پیشگوئی اشتہار ۱۸۸۶ء میں دلیپ سنگھ کے بارے میں تھی جو وہ قصد پنجاب سے ناکام رہے گا.اور صدہا ہندو اور مسلمانوں کو عام جلسوں میں یہ پیشگوئی سُنا دی گئی تھی.ہشتم.آٹھویں پیشگوئی جلسہ مذاہب کے نتیجہ میں تھی کہ اس میں میرا مضمون غالب رہے گا.اور یہ اشتہارات لاہور اور دوسرے مقامات میں پیش از وقت ہزاروں ہندو و مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے گئے تھے.اب سول ملٹری کو پوچھو.آبزرور سے سوال کرو.اور مشیر ہند اور وزیر ہند اور پیسہ اخبار اور صادق الاخبار اور سراج الاخبار اور مخبر دکن کو ذرہ غور سے پڑھوتا معلوم ہو کہ کس زور سے الہام الہی نے اپنی سچائی ظاہر کی.ا حاشیہ.بعض جاہل محض جہالت سے یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ جب پہلے لڑکے کا اشتہار دیا تھا اس وقت لڑکی کیوں پیدا ہوئی.مگر وہ خوب جانتے ہیں کہ اس اعتراض میں وہ سراسر خیانت کر رہے ہیں.اگر وہ بچے ہیں تو ہمیں دکھلاویں کہ پہلے اشتہار میں یہ لکھا تھا کہ پہلے ہی حمل میں بلا واسطہ لڑکا پیدا ہو جائے گا اور اگر پیدا ہونے کے لئے کوئی وقت اشتہار میں بتلایا نہیں گیا تھا تو کیا خدا کو اختیار نہیں تھا کہ جس وقت چاہتا اپنے وعدہ کو پورا کرتا.ہاں سبز اشتہار میں صریح لفظوں میں بلا توقف لڑکا پیدا ہونے کا وعدہ تھا سو محمود پیدا ہو گیا.کس قدر یہ پیشگوئی عظیم الشان ہے.اگر خدا کا خوف ہے تو پاک دل کے ساتھ سوچو.منہ

Page 261

مجموعہ اشتہارات ۲۴۵ جلد دوم.نویں پیشگوئی قادیان کے ایک ہندو بشمبر داس نام کے ایک فوجداری مقدمہ کے متعلق تھی.یعنی بشمبر داس بقید ایک سال مقید ہو گیا تھا.اور اس کے بھائی شرمپت نام نے جو سرگرم آریہ ہے مجھ سے دعا کی التجا کی تھی اور نیز یہ پوچھا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا.میں نے دعا کی اور کشفی نظر سے میں نے دیکھا کہ میں اس دفتر میں گیا ہوں جہاں اس کی قید کی مسل تھی.میں نے اس مسل کو کھولا اور برس کا لفظ کاٹ کر اس کی جگہ چھ مہینے لکھ دیا اور پھر مجھے الہام الہی سے بتلایا گیا کہ مسل چیف کورٹ سے واپس آئے گی اور برس کی جگہ چھ مہینہ رہ جائیگی لیکن بری نہیں ہوگا.چنانچہ میں نے یہ تمام کشفی واقعات شرمیت آریہ کو جواب تک زندہ موجود ہے نہایت صفائی سے بتلا دیئے اور جب میں نے بتلایا اور بعینہ وہ باتیں ظہور میں آگئیں تو اس نے میری طرف لکھا کہ آپ خدا کے نیک بندہ ہواس لئے اس نے آپ پر غیب کی باتیں ظاہر کر دیں.پھر میں نے براہین احمدیہ میں یہ تمام الہام اور کشف شائع کر دیا.یہ شخص شرمیت نہایت متعصب آریہ ہے جس کو میرے خیال میں آریہ مذہب کی حمایت میں خدا کی بھی کچھ پرواہ نہیں.مگر بہر حال خدا نے اس کو میرا گواہ بنا دیا.اگر میں نے اس قصہ میں ایک ذرہ جھوٹ بولا ہے تو وہ قسم کھا کر ایک اشتہار اس مضمون کا شائع کر دے کہ میں پر میشر کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بیان سراسر جھوٹ ہے.اور اگر جھوٹ نہیں تو میرے پر ایک برس تک سخت عذاب نازل ہو.پس اگر اس پر وہ فوق العادت عذاب نازل نہ ہوا کہ خلقت بول اٹھے کہ یہ خدا کا عذاب ہے.تو مجھے جس موت سے چاہو ہلاک کرو.اس میں میری طرف سے یہ شرط ہے کہ انسان کے ذریعہ سے وہ عذاب نہ ہو محض بلا واسطہ آسمانی عذاب ہو.یہ تو ممکن ہے کہ یہ شخص قوم کی رعایت سے یوں ہی انکار کر دے یا بغیر اس قسم پیش کردہ کے اشتہار بھی دے دے.کیونکہ میں نے اس قوم میں خدا کا خوف نہیں پایا.مگر ممکن نہیں کہ وہ قسم کھاوے اگر چہ دوسرے آریہ اس کو ہلاک کر دیں.لیکن اگر قسم کھا لے تو خدا کی غیرت ایک بھاری نشان دکھائے گی ایسا نشان دکھائے گی کہ دنیا میں فیصلہ ہو جائے گا.اور زمین آسمانی نور سے بھر جائے گی.میرے اور بھی بہت نشان ہیں.اگر لکھے جائیں تو ایک کتاب بن جائے گی.میں جانتا

Page 262

مجموعہ اشتہارات ہوں کہ بالفعل اسی قدر کافی ہے.۲۴۶ المشتهر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی یہ اشتہار ۳۶۲۲۰ کے چار صفحہ پر ہے ) ( مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۴۲ تا ۶۴) (۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء) جلد دوم نوٹ از مرتب ہذا.اس اشتہار کے متعلق تین نوٹ بھی ہیں (مرتب) نوٹ نمبر ا.پنڈت لیکھرام کا اس طرز سے مارا جانا آریہ صاحبوں کو ایک سبق دیتا ہے اور وہ یہ کہ آئندہ کسی نومسلم کے شدھ کرنے کے لئے کوشش نہ کریں.اگر کوئی اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کو ہونے دیں.آخر شدھ ہونے والے کو دیکھ لیا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا.اور دوسرے اس واقعہ سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ آئندہ یہ خواہش نہ کریں کہ کوئی دوسرا لیکھرام یعنی بدزبانیوں میں اس کا ثانی تلاش کرنا چاہیے.لیکن اگر فی الواقعہ وہ بات صحیح ہے جو پیسہ اخبار اور سفیر میں لکھی گئی ہے، یعنی یہ کہ اس کے قتل کا سبب صرف بدکاری ہے اور یہ کام کسی غیرت مند لڑکی کے باپ یا خاوند کا ہے جیسا کہ بقول پیسہ اخبار کثرت رائے اسی طرف ہے.تو آئندہ نیک چلن واعظ تلاش کرنا چاہیے.تعجب کی بات ہے کہ جس حالت میں بموجب بیان پیسہ اخبار کے زیادہ مشہور روایت یہی ہے کہ واردات قتل کا موجب کوئی ناجائز تعلق ہے تو کیوں اس طرف تحقیقات کے لئے توجہ نہیں کی جاتی اور کیوں ایسے ہندوؤں کے اظہار نہیں لئے جاتے جن کے مونہہ سے یہ باتیں نکلیں.اور کیا بعید ہے کہ وہی بات ہو کہ ڈھنڈورا شہر میں لڑکا بغل میں.منہ نوٹ نمبر ۲.بعض صاحب عیسائیوں میں سے اعتراض کرتے ہیں کہ اگر چہ یکھرام کی نسبت پیشگوئی پوری ہوگئی مگر ہندوؤں نے اس کو مرنے کے بعد ذلت کی نظر سے نہیں دیکھا.ایسا عذر ایک عیسائی کے منہ سے نکلنا نہایت افسوس کی بات ہے.بھلا منصف بتلا دیں کہ جب ہم نے پیشگوئی کے پورا ہونے

Page 263

مجموعہ اشتہارات ۲۴۷ جلد دوم کو اسلام کی سچائی کا ایک معیار ٹھیرایا تھا.اور خدا نے لیکھرام کو مار کر مسلمانوں کی ہندوؤں پر ڈگری کر دی تو اس حالت میں نہ صرف لیکھرام بلکہ بحیثیت مذہبی اس تمام فرقہ کی عزت میں فرق آگیا.رہی لاش کی عزت.تو لاش کا ڈاکٹر کے ہاتھ سے چیرے جانا کیا یہ عزت کی بات ہے.اور چال چلن کی عزت کا یہ حال ہے کہ پیسہ اخبار ۱۳ مارچ ۱۸۹۷ء میں لکھا ہے کہ ”اس شخص کے مارے جانے کی مشہور روایت یہ ہے کہ یہ شخص کسی عورت سے ناجائز تعلق رکھتا تھا اور یہی عام طور پر کہا جاتا اور یقین کیا جاتا ہے.فقط پس اس سے زیادہ ذلت کا اور کیا نمونہ ہو گا کہ جان بھی گئی.اور اکثر شہر کے لوگ اس کی وجہ بدکاری ٹھیراتے ہیں.منہ نوٹ نمبر ۳.ایک نشان عقل مندوں کے لئے یہ ہے کہ شیخ نجفی نے چالیس دقیقہ میں نشان دکھلانے کا وعدہ کیا تھا.اور ہم نے یکم فروری ۱۸۹۷ء سے چالیس روز میں.دیکھو حاشیہ اشتہار یکم فروری ۱۸۷۹ء صفحہ ۳ جس کی عبارت یہ ہے.اگر نشا نے از مادر میں مدت یعنی چهل روز بظهور آمد و از بیشان یعنی از شیخ نجفی چیزے بظهور نیامد ہمیں دلیل بر صدق ما و کذب شان خواهد بود.سو یکم فروری ۱۸۹۷ء سے ۳۵ دن تک یعنی چالیس روز کے اندر نشان موت پنڈت لیکھرام وقوع میں آ گیا.نجفی صاحب یہ تو بتلا ہیں کہ یکم فروری ۱۸۹۷ء سے آج تک کتنے دقیقے گزر گئے ہیں افسوس کہ نجفی نے کسی منارہ سے گر کے بھی نہ دکھلایا.گر ہمیں لاف و گزاف و شیخی است شیخ نجد بهتر از صد نجفی است که منه ے ترجمہ.اگر یہ لاف و گزاف اور یہی شیخی ہے تو ایسے سونجفی شیخوں سے شیخ نجدی (شیطان ) بہتر ہے.

Page 264

مجموعہ اشتہارات ۲۴۸ 120 جلد دوم بسم الله الرّحمنِ الرَّحِيم عریضہ بعالی خدمت گورنمنٹ عالیہ انگریزی اس عریضہ میں پہلے یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ میں کون ہوں.سو مختصر عرض یہ ہے کہ میں اس نواح کے ایک رئیس اور سر کار انگریزی کے بچے خیر خواہ کا بیٹا ہوں جن کا نام میرزا غلام مرتضیٰ تھا جن کا ذکر رئیسان پنجاب مسٹر گریفن میں موجود ہے.وہ گورنمنٹ کے وفا دار تھے جنہوں نے ۱۸۵۷ء میں پچاس گھوڑوں سے معہ سواروں کے سرکار انگریزی کو مدد دی.اور وہ اس ضلع میں ہر یک موقعہ مدد کے وقت سرکار انگریزی کو کام آتے رہے ہیں اور ہر یک مدد کے کام میں اپنی حیثیت کے موافق اس ضلع میں ان کا قدم سبقت رکھتا تھا.اور حکام وقت اُن کو بڑے لطف اور مہربانی کی نظر سے دیکھتے تھے.اور گورنر جنرل کے دربار میں ان کو کرسی ملتی تھی اور ۵۷ء کی خیر خواہی کے عوض سرکار انگریزی نے ان کو انعام بھی دیا تھا.تیموں کے گذر پر جو گورداس پورہ کے قریب واقع ہے.جب باغیوں کا عبور ہوا تو اُن مفسدوں کے مقابلہ میں جن لوگوں نے سپاہیانہ بہادری دکھلا ئی تھی اُن میں سے میرا حقیقی بھائی میرزا غلام قادر مرحوم تھا.جس کو اس شجاعت پر خوشنودی مزاج کی حکام کی طرف سے چٹھیاں ملی تھیں.اور میں بذات خود سترہ برس سے سرکار انگریزی کی ایک ایسی خدمت میں مشغول ہوں کہ درحقیقت وہ ایک ایسی خیر خواہی گورنمنٹ عالیہ کی مجھ سے ظہور میں آئی کہ میرے بزرگوں سے زیادہ ہے.اور وہ یہ کہ میں نے بیسیوں کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہرگز جہاد درست نہیں بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک

Page 265

مجموعہ اشتہارات ۲۴۹ جلد دوم مسلمان کا فرض ہے چنانچہ میں نے یہ کتابیں بصرف زر کثیر چھاپ کر بلا د اسلام میں پہنچائی ہیں.اور میں جانتا ہوں کہ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے.اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں.وہ ایک ایسی جماعت طیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی سے لبالب ہیں.اُن کی اخلاقی حالت اعلیٰ درجہ پر ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام اس ملک کے لیے بڑی برکت ہیں اور گورنمنٹ کے لئے دلی جان شار.اب اس تمہید کے بعد میں اصل مطلب کو لکھتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ جب سے لیکھر ام پیشاوری جو آریہ صاحبوں کا ایک واعظ تھا.لاہور میں کسی کے ہاتھ سے قتل کیا گیا ہے.عجیب طرح پر آریوں اور ہندوؤں کا شور و غوغا عام مسلمانوں کی نسبت عموماً اور میری نسبت خصوصاً پھیل رہا ہے.اور بغیر کسی ثبوت کے کھلے کھلے طور پر قتل کی تہمتیں میری نسبت لگا رہے ہیں.اور اُن کی تیز تحریروں سے پایا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسے حملہ کی طیاری کر رہے ہیں جو نہ صرف میرے لئے بلکہ عام مسلمانوں کے لئے اور گورنمنٹ کے انتظام کے لئے خطر ناک ہے.اور اخبارات اور خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مفسدانہ ارادوں کے بانی مبانی صرف چند آدمی ہیں.جو لاہور، اور گوجرانولہ اور امرت سر اور بٹالہ اور چند دوسرے قصبوں کے باشندے ہیں.غالب وہ اپنی تعداد میں پچاس سے زیادہ نہیں ہوں گے اور باقی لوگ درحقیقت انہیں سرغنوں کے افروختہ ہیں اور انہیں کی بھڑکائی ہوئی آگ کے شعلے ہیں.جس وقت میں خیال کرتا ہوں کہ ان دنوں میں یہ آریہ صاحبان عام مسلمانوں کو کیا کیا دھمکیاں کے رہے ہیں اور جیسا کہ اخبار رہبر ہند ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں افواہ بیان کیا گیا ہے.پشاور کے سکھوں کی پلٹنوں کو کس طور سے اغوا کرنے کے لئے کوشش کی گئی ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت سرکا را نگریزی کا بڑا فرض ہے کہ قبل اس کے جو اس ارادہ فساد کا کوئی خطرناک اشتعال پیدا ہو اپنی احسن تدبیر سے اس کو روک دے.گورنمنٹ کو یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ آریہ صاحبان اس وقت نرمی اور دلجوئی اور حکمت عملی کے نیک سلوک سے امن کے طالب ہو جائیں گے.بلکہ اس وقت سیاست مدنی کے قوانین کو پورے طور پر استعمال کرنا عین علاج ہے.یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جبکہ آریہ صاحبوں میں ایک جھوٹے اور ناحق کے الزام پر جو مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے اس قدر جوش پیدا ہو گیا ہے.پھر اگر یہ لوگ واقعی طور

Page 266

مجموعہ اشتہارات جلد دوم پر جیسا کہ دھمکیاں دیتے ہیں کسی نامی مسلمان کو قتل کر دیں گے یاقتل کا اقدام کریں گے تو اس جوش کا کیا حال ہوگا جو مسلمانوں میں ہندوؤں کے مقابل پر پیدا ہوسکتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اب تک مسلمانوں نے بہت صبر کیا ہے.انہوں نے بہت سی گندی گالیاں اس فرقہ کی سنیں اور اشتہار دیکھے مگر وہ چپ رہے.لیکن آخر وہ بھی انسان ہیں.کیا تعجب کہ بہت دُکھائے جانے سے اُن میں بھی اشتعال پیدا ہو! پس کیا حفظ ما تقدم کے طور پر اس کا تدارک ضروری نہیں ہے؟!! میں اس وقت خاص طور پر ایک اور بات کی طرف گورنمنٹ کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اخبار آفتاب ہند مطبوعہ ۱۸ مارچ ۱۸۹۷ء کے صفحہ ۵ پہلے کالم میں ایک صاحب ہندو ایم آر بشیشتر داس میری نسبت ایک مضمون لکھتے ہیں جس کا عنوان یہ مرزا قادیانی خبر دار“ اور پھر تحریر فرماتے ہیں کہ ”مرزا قادیانی بھی امروز فردا کا مہمان ہے.بکرے کی ماں کب تک خیر مناسکتی ہے.آج کل اہل ہنود کے خیالات مرزا قادیانی کی نسبت بہت بگڑے ہوئے ہیں بلکہ عموماً مسلمانوں کی بابت.پس مرزا قادیانی کو خبر دار رہنا چاہیے کہ وہ بھی بکر عید کی قربانی نہ ہو جاوے.“ وو اور پھر اخبار رہبر ہند ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں صفحہ ۱۴ پہلے کالم میں لکھا ہے.” کہتے ہیں کہ ہندو قادیان والے کو قتل کر آئیں گے.اور یہ بھی افواہ ہے کہ علیگڑھ والے بوڑھے کا بھی خاتمہ کیا جائے گا“.اور اس بارے میں جس قدر خط مجھ کو پہنچے ہیں.ان کا اس وقت لکھنا ضروری نہیں.وہ خط محفوظ ہیں.اب گورنمنٹ عالیہ سے جو خاص التماس ہے وہ یہ ہے کہ ایسے ارادے اگر چہ بظاہر ایک شخص کی نسبت ہوں مگر چونکہ وہ ایک مذہبی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں اس لئے اُن کا شروع ہونا عام طور پر فساد پھیلنے کی ایک بنیاد سمجھی جاتی ہے.قادیان ایک ایسی جگہ ہے جو بجز چند چوکیداروں کے گورنمنٹ کی طرف سے اس میں کوئی تھانہ یا چوکی نہیں.یہ بات نہایت ضروری ہے کہ اس وقت گورنمنٹ عالیہ سرکاری انتظام کی نیت سے جس قدر مناسب سمجھے چند سپاہی مسلمانوں میں سے قادیان میں اس وقت تک متعین کرے جس وقت تک آریہ صاحبوں کی آنکھیں نیلی پیلی معلوم ہوتی ہیں.اور دوسرے یہ کہ جیسے ، بشیتر داس نے آفتاب ہند میں صاف طور پر میری نسبت لکھ دیا ہے کہ آریہ صاحب بکر عید تک اُن کے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور نیز رہبر ہند نے بھی لکھا ہے.ایسی قطعی

Page 267

مجموعہ اشتہارات ۲۵۱ جلد دوم اور یقینی خبریں گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ہیں.کیا گورنمنٹ کا قانون تدابیر امن اس وقت فرض نہیں کرتا کہ ایسے لوگوں کے مچلکے لینے کے لئے توجہ کی جائے جنہوں نے کچھ بھی اس با سیاست عملداری کا لحاظ نہ کر کے سکھوں کے زمانہ کا رنگ دکھا دیا اور بے دھڑک بول اٹھے کہ فلاں فلاں آدمی کو ہم ضرور قتل کر دیں گے کیا ایسی بے باکی کی تحریروں میں گورنمنٹ کی حکومت کی کسرشان نہیں ہے؟ اگر ایسی خبروں کے شائع کر نیوالے صرف مسلمان ہوتے تو شاید کوئی خیال کرتا کہ تعصب سے ایسا لکھا ہے مگر اب تو یہ ہندو صاحبوں کا بیان ہے.کیا اب تک وقت نہیں آیا کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.کیا بشیشتر داس سے پوچھا نہ جائے کہ وہ ایسے لوگوں کے نام بیان کرے جو قتل کے لئے طیاری کر رہے ہیں اور پھر ان سے بھاری بھاری مچلکہ لئے جائیں کیونکہ بشیشر داس بھی ایک ہندو ہے اور اس کا بیان بہت اعتبار کے لائق ہے.اور میں اس وقت ضروری نہیں دیکھتا کہ جو آریوں کو میری نسبت اشتعال پیدا ہوا ہے اس کی وجہ بیان کروں کیونکہ ابھی میں اپنے ایک بڑے اشتہار میں مفصل وجوہ بیان کر چکا ہوں.لیکن اس جگہ اس قدر لکھنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ یہ پیشگوئی جس کی میعاد کے اندر اور عین تاریخ مقررہ میں اطلاع.براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں ایک پیشگوئی گورنمنٹ برطانیہ کے متعلق ہے.اور وہ یہ ہے.وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّ بَهُمْ وَأَنْتَ فِيْهِمْ أَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ - یعنی خدا ایسا نہیں ہے کہ اس گورنمنٹ کو کچھ تکالیف پہنچائے حالانکہ تو اُن کی عملداری میں رہتا ہو.جدھر تیرا منہ خدا کا اسی طرف منہ ہے چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ مجھے اس گورنمنٹ کی پُر امن سلطنت اور ظل حمایت میں دل خوش ہے اور اس کے لئے میں دُعا میں مشغول ہوں کیونکہ میں اپنے اس کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں نہ مدینہ میں نہ روم میں نہ شام میں نہ ایران میں نہ کابل میں.مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دُعا کرتا ہوں.لہذا وہ اس الہام میں اشارہ فرماتا ہے کہ اس گورنمنٹ کے اقبال اور شوکت میں تیرے وجود اور تیری دُعا کا اثر ہے اور اس کی فتوحات تیرے سبب سے ہیں.کیونکہ جدھر تیرامنہ اُدھر خدا کا منہ ہے.اب گورنمنٹ شہادت دے سکتی ہے کہ اس کو میرے زمانہ میں کیا کیا فتوحات نصیب ہوئیں.یہ الہام سترہ برس کا ہے.کیا یہ انسان کا فعل ہوسکتا ہے؟ غرض میں گورنمنٹ کے لئے بمنزلہ حرز سلطنت ہوں.منہ یہ اشتہار جلد ہذا میں صفحہ ۲۲۸ پر زیر اشتہار نمبر ۱۹۶۹ درج ہے.(مرتب)

Page 268

مجموعہ اشتہارات ۲۵۲ جلد دوم ۱۷ ۱۷ لیکھرام بموت قتل راہی ملک بقا ہوا ہے وہ صرف چھ برس سے نہیں ہے جیسا کہ آریوں صاحبوں کا خیال ہے بلکہ یہ پیشگوئی ستر برس سے ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے.اصل بات یہ ہے کہ عرصہ سترہ ه برس کا ہوا ہے کہ براہین احمدیہ میں تین پیشگوئیاں تین مختلف فرقوں کی نسبت درج ہوئی تھیں.اور تین فتنوں کا ذکر کیا گیا تھا.(۱) ایک پادری صاحبوں اور ان کے شور و غوغا کی نسبت جو انہوں نے ڈپٹی آتھم صاحب کی میعاد گذرنے پر کیا.(۲) دوسری پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں اور ان کے سرغنہ محمد حسین اور ان کے اتباع مسلمانوں کی نسبت جو انہوں نے مجھ پر تکفیر کا فتنہ برپا کیا.(۳) تیسری پیشگوئی اس چمکدار نشان کی نسبت جو سکھرام کی موت سے وقوع میں آیا.اور اس کے فتنہ کا ذکر.یہ تینوں پیشگوئیاں تین فتنوں کے ساتھ ستر برس پہلے شائع ہو چکی ہیں.پس اب سوچنا چاہیے کہ کس انسان کو یہ طاقت ہے کہ ان واقعات کی اس زمانہ میں خبر دے سکتا جبکہ ان واقعات کا نام ونشان نہ تھا.مثلاً اسی قتل لیکھرام کی پیشگوئی کو غور سے دیکھنا چاہیے.کیا بجز عالم الغیب خدا کے کسی کی قدرت میں ہے کہ ایسی پیشگوئی کرے جس کی میعاد چھ سال تک محدود کر دی گئی اور ساتھ اس کے حملہ کے دن کی بھی تعیین کر دی گئی اور وہ تاریخ بھی بتلائی گئی جس تاریخ میں یہ واقعہ ظہور میں آیا.یعنی دوسری شوال جو ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء ہوتی ہے اور موت کا دن مقرر کر دیا گیا.یعنی یہ کہ اس وفات کا دن یکشنبہ رات کا وقت ہوگا.اور عربی الہام میں بعض جگہ صرف چھ کا لفظ بھی ہے.وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کی موت سے چھ کے عدد کو خاص تعلق ہے.یعنی یہ کہ وہ چھ برس کے اندرفوت ہوگا اور ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کے دن میں اور 4 بجے میں بعد دو پہر کے حملہ ہوگا.غرض تینوں صورتوں میں برابر ۱۷ چھ کا تعلق ہے پس کیا یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں کہ وہ سترہ برس پہلے یعنی اس وقت کہ جب کہ یکھرام بارہ تیرہ برس کی عمر کا ہوگا یہ خبر دے دی.بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جوز مین و آسمان کو بنانے والا اور عالم الغیب اور تمام مخلوقات پر تصرف کرنے والا ہے.خدا نے لیکھرام کا نام اپنے الہام میں گوساله سامری رکھا ہے.اور اس ایک لفظ سے ہر یک سمجھ دار کو سمجھا دیا ہے کہ گوسالہ کی حمایت کرنے والے خدا کی نظر میں کیسے ہیں اور ان کا انجام کیا ہے.توریت موجود ہے جس نے دیکھنا ہو دیکھے اور

Page 269

مجموعہ اشتہارات ۲۵۳ جلد دوم خدائے ذوالجلال کی اتنی بے ادبی نہ کرے کہ گویا وہ موجود نہیں.کیا جو کچھ ظہور میں آیا.یہ انسان کا کام تھا؟ کیا انسان میں یہ طاقت ہے کہ سترہ برس پہلے خبر دے دے؟!!! یہ اعتراض عبث ہے کہ کیوں ڈپٹی آتھم پیشگوئی کے مطابق اس طریق سے نہ مرا جس سے ام مرا.کیونکہ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ آتھم پیشگوئی کے بعد ڈرا.لیکن لیکھرام نہیں ڈرا.آتھم نے حیا دکھلایا.لیکن لیکھرام نے نہیں دکھلایا.آتھم پیشگوئی کو سنتے ہی بے باکی اور شوخی سے باز آ گیا.لیکن لیکھرام باز نہیں آیا.آتھم پیشگوئی کی میعاد میں چپ ہو گیا اور اس کا دل خوف سے بھرارہا.لیکن لیکھر ام چپ نہیں ہوا اور نہ اس کا دل خوف سے بھرا.اس لئے وہ خدا جو دلوں کو جانچتا اور پوشیدہ خیالات کو دیکھتا ہے.وہ اپنی شرط کے موافق آتھم سے نرمی کے ساتھ پیش آیا کیونکہ وہ ڈر نیوالے پر قہر کا پتھر نہیں چلاتا اور کانپتے بدن پر آگ نہیں برسا تا.پس اس رحیم خدا نے آٹھم سے وہ معاملہ کیا جو ایسے ڈرنے لے آتھم کی نسبت جو پیشگوئی تھی.اس میں یہ صاف شرط تھی کہ اگر وہ حق کی طرف رجوع کرے گا.تو پیشگوئی کے اثر سے رجوع کی حالت میں بچ جائے گا.چنانچہ آتھم نے پیشگوئی کی میعاد میں اسلام کی تکذیب میں ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا اور ہیبت زدہ ہو کر ڈرتا رہا جس کا اس کو خود اقرار تھا.اور اس کا ختم نہ کھانا زیادہ صفائی سے اس اقرار کو ثابت کر رہا ہے.اس لئے ضرور تھا کہ وہ الہام کی شرط سے فائدہ اُٹھاتا.پھر جب اس نے میعاد کے بعد تکذیب پر منہ کھولا اور قسم سے انکار کیا اور حق کو چھپایا تو خدا نے اس کو اصرار کے وقت پکڑ لیا.بعض نادان کہتے ہیں کہ آتھم نے میعاد کے بعد اسلام کی طرف رجوع کرنے سے انکار کیا.ہم کہتے ہیں کہ اسی انکار کی شامت سے تو اُس کو ہمارے الہام کے موافق موت آئی.اگر یہ انکار میعاد کے اندر کرتا تو میعاد کے اندر ہی اس کو موت آجاتی میعاد کے اندر تو چپ رہا اور ہراساں اور لرزاں رہا.اسی لئے الہامی شرط کے موافق تاخیر ہوئی.اگر کسی کے پاس آتھم کی ایسی تحریر موجود ہے جو پیشگوئی کی میعاد کے اندر لکھی گئی ہو جس میں اس نے اقرار کیا ہو کہ میں عیسائی ہوں اور اسلام کا مذب ہوں تو مخالفوں پر لازم ہے کہ وہ تحریر پیش کریں ورنہ میعاد گذرنے کے بعد جو کچھ اُس نے تحریر یا تقریراً انکار کیا اسی کا نتیجہ تو اس کی موت تھی.سو اس نے انکار کے نتیجہ کو پالیا یعنی جلد مر گیا.پھر اس کے بعد کونسی بحث باقی رہی.غرض آتھم کی موت بالکل پیشگوئی کے موافق ہوئی.یہ سب باتیں پیشگوئی میں درج تھیں.پس ایسے بدیہی امر کا انکار بجز ایک بے حیا کے اور کوئی نہیں کرسکتا.منہ

Page 270

مجموعہ اشتہارات ۲۵۴ جلد دوم والے سے کرنا چاہیے تھا.لیکن اس نے لیکھرام کو شوخ اور بد زبان اور حد سے تجاوز کر نے والا پایا.اس لئے اس کا قہر بھڑ کا.اور وہی اس کی زبان کی چھری اس کے پیٹ کی آفت ہوگئی.پس خدا نے آٹھم میں اپنی جمالی صفات کو ظاہر کیا اور لیکھرام میں اپنی جلالی صفات کو.کیونکہ وہ دھیمے کے ساتھ دھیما ہو جاتا ہے.اور شوخ اور بیباک کو اپنا قہری حملہ دکھاتا ہے.کیا دنیا گواہی دے سکتی ہے کہ آتھم اور لیکھرام کے مزاج ایک ہی تھے.اگر کوئی ایسی گواہی دے گا تو سخت ظلم کرے گا.آتھم میں شرم و حیا تھی اور فطرتی طور پر اس کا دل سچائی کے خوف سے متاثر ہو جاتا تھا.اس میں ہرگز شوخی نہیں تھی.بلکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے نیک طبع اور نرمی اور شرم اور حیا اور تہذیب اور راستی کا خوف جلد تر دل میں بٹھانے میں آتھم جیسا ایک بھی شخص عیسائیوں میں اب تک نہیں پایا.پس خدا نے جیسا اس کو پایا و بیاہی اس کے ساتھ معاملہ کیا مگر لیکھر ام کو آتھم سے کچھ نسبت نہیں.یہ ایک شوخ دل چلا بے باک آدمی تھا جس نے گالیوں کے جوش میں نہ حضرت موسی کو چھوڑا.اور نہ حضرت عیسی کو، نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور یہ سمجھا کہ یہ تمام سلسلہ جھوٹوں اور ناپاکوں کا سلسلہ ہے اور ان کا تمام زمانہ مکر وفریب کا زمانہ تھا.اور صرف وید پر میشر کی طرف سے ہے اور باقی تمام توریت، انجیل ، قرآن انسانوں کے افتراء ہیں.پس ایسا کب ہوسکتا تھا کہ خدا اپنے نبیوں کی یہ ذلت دیکھے اور چپ رہے.پس خدا اگر چہ بہت بُردبار ہے مگر آخر اس کی غیرت نے تقاضا کیا.کہ تمام نبیوں کی سچائی کے لئے ہندوؤں کو ایک نشان دے.میں پھر کہتا ہوں کہ خدا نے اپنے الہام میں لیکھرام کا نام گوسالہ سامری رکھا ہے اور اب میں دیکھتا ہوں کہ اس کی حمایت میں اس قدر غلو کیا گیا ہے کہ گویا سامری کے گوسالہ کی طرح اس کی پرستش شروع ہوگئی ہے.اس کی حمایت میں نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ جیسا کہ رہبر ہند ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں بیان کیا گیا ہے عیسائیوں کو بھی دھمکی دی جاتی ہے.تعجب ہے کہ آریہ صاحبوں کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے.وہ ذرہ نہیں سوچتے کہ لیکھرام کی موت آسمان کے خدا کے حکم سے ہوئی ہے جو سترہ برس پہلے نافذ ہو چکا تھا.پھر کسی کا اس میں کیا اختیار ہے.بے شک ہمیں بھی لیکھرام کی موت کا درد ہے اور زیادہ اس سے کہ وہ اس حالت میں گزر گیا کہ جب سچائی کا سخت دشمن تھا.ہماری طرف سے آریہ صاحبوں کو

Page 271

مجموعہ اشتہارات جلد دوم یہ نصیحت ہے کہ اب خدا سے لڑنا مناسب نہیں.بلکہ اپنے دلوں کی اصلاح کرنے کا وقت ہے.آریہ صاحبان بار بار کہتے ہیں کہ کیا قانون قدرت اس بات کو مانتا ہے کہ ایسے کھلے کھلے نشانوں کے ساتھ کوئی پیشگوئی خدا کی طرف سے ہو.میں کہتا ہوں کہ وہ اس اعتراض میں معذور ہیں کیونکہ وہ اس خدا سے بے خبر ہیں جو غیبی خبریں دینے پر قادر ہے.ان کا عقیدہ ہے کہ وید علم غیب سے خالی ہے.گویا ان اپر میشر ایک نہایت کمزور پر میشر ہے جو غیب کی باتیں بتلانے پر قادر نہیں اس لئے وہ ہمارے قادر خدا کو بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں سو یہ ان کی غلطی ہے یقین یا درکھیں کہ اس دنیا کا مالک ایک قادر اور عالم الغیب خدا ہے.اور وہ وہی ہے جس نے قرآن بھیج کر گم گشتہ توحید کو پھر دنیا میں قائم کیا.سچا خدا وہی خدا ہے باقی سب بُت پرستیاں یا انسان پرستیاں ہیں.اسلام کے مذہب اور ہندوؤں کے مذہب کا خدا تعالیٰ کی درگاہ میں ستر کا برس سے ایک مقدمہ دائر تھا.سو آخر ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کے اجلاس میں اُس اعلیٰ عدالت نے مسلمانوں کے حق میں ایسی ڈگری دی جس کا نہ کوئی اپیل اور نہ مرافعہ.اب یہ واقعہ دنیا کو بھی نہیں بھولے گا.آریہ صاحبوں کو چاہیے کہ اب گورنمنٹ کو ناحق تکلیف نہ دیں مقدمہ صفائی سے فیصلہ پاچکا اور مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ ہر یک جوش سے اپنے تئیں باز رکھیں.اور اخلاقی پیرایہ میں فتح کا شکر ظاہر کریں.اور نیز اس وقت سچی اطاعت اور سچی بُردباری کا نمونہ گورنمنٹ کو دکھلائیں اور کوئی وحشیانہ حرکت اُن سے ظاہر نہ ہو کیونکہ آسمانی عدالت سے ان کی فتح ہو چکی ہے اور آریہ صاحبان اُن کے مدیون ٹھہر چکے ہیں.اب اپنے مدیونوں سے نرمی کریں.لطف اور محبت سے پیش آئیں.سچا خلق ان کو دکھلائیں.یقین ہے کہ آریہ صاحبان بھی پر میشر کے کئے پر راضی ہو کر اپنی آتش افشانی سے باز آجائیں گے.ابھی کل کی بات ہے کہ ہند و صاحبان فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا مذہب کچا تا کہ ہے.اور حقیقت میں یہ قول نہایت سچا تھا.کاش اس پر قائم رہتے پھر جیسے شدھ کرنے کی آرزو اُن کے دلوں میں پڑی.تو ایسے لوگ بھی اُن میں پیدا ہو گئے جن کا نمونہ ایک لیکھرام تھا.سو اب ایسے بیہودہ خیال جانے دیں کہ آریہ مت میں داخل ہو کر لوگ مدھ ( پوتر ) ہو جاتے ہیں.وہ دنیا دار ہیں ان کو کیا معلوم ہے کہ انسان کیونکر اور کس مذہب

Page 272

مجموعہ اشتہارات ۲۵۶ جلد دوم سے شدھ ہوتا ہے.اگر چاہیں تو قبول کریں کہ شدھ ہونے کا طریق صرف اسلام ہے جس میں داخل ہوکر انسان قادر خدا کے ساتھ باتیں کرنے لگتا ہے زندہ خدا کا مزہ اسی دن آتا ہے اور اسی دن اس کا پتہ لگتا ہے جب انسان لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا قائل ہوتا ہے اس خدا کے سوا باقی سب بیہودہ قصے ہیں کہ لوگوں کی غلطیوں سے قوموں میں رواج پاگئے ہیں.توریت اور قرآن کا ایک خدا ہے انجیل نے بھی اُسی خدا کی طرف بلایا ہے.مگر افسوس کہ عیسائیوں نے اس خدا کو چھوڑ دیا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام بے شک خدا کا ایک پیارا نبی تھا.نہایت اعلیٰ درجہ کے صفات اپنے اندر رکھتا تھا.نیک تھا.برگزیدہ تھا.خدا سے ملا ہوا تھا.لیکن خدا نہیں تھا.اسلام کا سچا اور قادر خدا ہمیشہ اپنے زندہ نشان دکھلاتا ہے.اس خدا کا تابع ہرگز یہ نہیں کہتا کہ میرے خدا کی قدرتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں سوزندہ خدا پر ایمان لاؤ جس کی پُر زور طاقتیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو.اسی خدا کا دامن پکڑو کہ جو ایسے عجائبات تم میں ظاہر کر رہا ہے ھے یار غالب شو که تا غالب شوی نکتہ.یہ نکتہ بھی یادر ہے کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک قولی نشان اور دوسرے فعلی نشان سوخدا نے تین مہینہ کے عرصہ میں یہ دونوں قسم کے نشان لاہور میں ظاہر کئے.جلسہ مذاہب میں اس عاجز کے مضمون کی قبولیت اور فوق العادت عظمت ظاہر کر کے قولی نشان دکھلایا.اور لیکھر ام کودنیا سے اُٹھا کر فعلی نشان دکھلایا.اگر ہزار برس تک کی کتابیں بھی تلاش کرو تو ایسی پیشگوئی کی نظیر نہیں ملے گی جس کی بنیا دایسی شائع کردہ تحریروں پر ہو جو ہر ایک قوم کی نظر کے سامنے اور اُن کے قبضہ میں ہوں.اور پھر اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ اُسی میعاد میں اُسی دن اُسی وقت میں اسی صورت میں پوری ہوگئی ہو.فقط الملتمس خاکسار میرزاغلام احمد قادیانی ۲۲ مارچ ۱۸۹۷ء در مطبع ضیاء الاسلام طبع شد به مقام قادیان - بقلم خود منظور محمد ( یا شتہار جی کے دو ملوں پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۶۴ تا ۷۵)

Page 273

مجموعہ اشتہارات ۲۵۷ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ قرآن شریف کی آیت اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ خدا ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اور جو نیکی کرنا اُن کا اصول ہے آج میں نے ایک مضمون از طرف ایک صاحب گنگا بشن نام پر چه پنجاب سما چار۳ را پریل ۱۸۹۷ء میں پڑھا ہے.صاحب راقم نے اخبار مذکور میں اپنا پتہ صرف یہ لکھا ہے ”ڈریل ماسٹر ریلوے پولیس، “یہ پتہ کچھ پورا معلوم نہیں ہوتا.اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ اُن کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا جائے.مگر وہ جو اپنی تحریر مطبوعہ میں ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک خط ڈاک میں براہِ راست میری طرف روانہ کیا ہے.وہ خط مجھ کو نہیں پہنچا شاید کیا سبب ہوا.بہر حال اس اخبار کے ذریعہ سے مجھ کو صاحب راقم کے منشاء سے اطلاع مل گئی ہے.لہذا ذیل میں جواب لکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ یہ جواب اراپریل ۱۸۹۷ء کی میعاد کے اندر بلکہ کئی دن پہلے اُن کو مل جائے گا.لالہ گنگا بشن صاحب میرے اس اشتہار کے جواب میں جس میں میں نے ایسے شخصوں میں سے کسی کو قسم کھانے کے لئے بلایا تھا جو میری قتل کی سازش پر دلی یقین رکھتا ہو.تحریر فرماتے ہیں کہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں مگر اس بارے میں تین شرطیں ٹھہراتے ہیں (۱) ایک یہ کہ مجھے جو النحل: ۱۲۹

Page 274

مجموعہ اشتہارات ۲۵۸ جلد دوم پیشگوئی کرنے والا ہوں پیشگوئی کے پوری نہ ہونے کی حالت میں پھانسی دی جائے.(۲) دوسری یہ کہ اُن کے لئے دس ہزار روپیہ گورنمنٹ میں جمع کرایا جائے یا ایسے بنک میں جس میں اُن کی تسلی ہو سکے اور اگر جو بد دعا سے نہ مریں تو اُن کو وہ روپیٹل جائے (۳) تیسری یہ کہ جب وہ قادیان میں قسم کھانے کے لئے آویں تو اس بات کا ذمہ لیا جائے کہ وہ لیکھرام کی طرح قتل نہ کئے جائیں.اما الجواب.واضح ہو کہ مجھے تینوں شرطیں اُن کی بسر و چشم منظور ہیں.اور اس میں کسی طرح کا عذر نہیں.جس عدالت میں چاہیں میں صاف صاف اقرار کر دونگا کہ اگر لالہ گنگا بشن صاحب میری بدعا سے ایک سال تک بچ گئے تو مجھے منظور ہے کہ میں مجرم کی طرح پھانسی دیا جاؤں.اور گورنمنٹ سخت نا انصافی کرے گی اگر اس وقت مجھ کو پھانسی نہ دیوے.کیونکہ جبکہ لالہ گنگا بشن صاحب جلسہ عام میں قسم کھا کر کہیں گے کہ ”میں بچے دل سے کہتا ہوں کہ در حقیقت پنڈت لیکھرام کا یہی شخص قاتل ہے.اور اگر یہ شخص قاتل نہیں ہے بلکہ دین اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے خدا کی طرف سے یہ نشان ظاہر ہوا تو اے بیچ کے حامی خدا ایک سال تک مجھ کو سزائے موت دے.پس اس صورت میں جبکہ وہ سزائے موت سے بچ جائیں گے تو اس میں کیا شک ہے کہ یہی ثابت ہو جائے گا کہ میں قاتل تھا یا قتل کے مشورہ میں شریک تھا یا اس پر کسی طرح سے اطلاع رکھتا تھا تو اس وجہ سے قانونا مجھے پھانسی دینا نا جائز نہ ہوگا.گورنمنٹ ہزاروں مقدمات قسم پر فیصلہ کرتی ہے.سو یہ گورنمنٹ کے اصول سے بالکل چسپاں بات ہے کہ اس طرح پر مجرم کو اس کی سزا تک پہنچائے.غرض میں طیار ہوں نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ گورنمنٹ کی عدالت میں اقرار کر سکتا ہوں کہ جب میں آسمانی فیصلہ سے مجرم ٹھہر جاؤں تو مجھ کو پھانسی دیا جائے.میں خوب جانتا ہوں کہ خدا نے میری پیشگوئی کو پوری کر کے دین اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے یہ فیصلہ کیا ہے.پس ہرگز ممکن نہیں ہو گا کہ میں پھانسی ملوں یا ایک خرمہرہ بھی کسی تکذیب کرنے والے کو دوں بلکہ وہ خدا جس کے حکم سے ہر یک جنبش و سکون ہے اس وقت کوئی اور ایسا نشان دکھائے گا جس کے آگے گردنیں جھک جائیں!!

Page 275

مجموعہ اشتہارات ۲۵۹ جلد دوم ایسا ہی لالہ گنگا بشن صاحب کی دوسری شرط کی نسبت میں اُن کو تسلی دیتا ہوں کہ اُس روز سے کہ وہ کسی مشہور پر چہ کے ذریعہ سے اقرار مذکورہ بالا شائع کریں لیے میں ایک ماہ تک یا غایت دو ماہ تک دس ہزار روپیہ اُن کے لئے گورنمنٹ میں جمع کرا دونگا یا کسی دوسری ایسی جگہ پر جس پر فریقین مطمئن ہو سکیں اور یہ جو میں نے کہا کہ اس روز سے دوماہ تک روپیہ جمع کراؤں گا جبکہ وہ اپنا اقرار شائع کریں.اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس پر چہ سما چار ۳ اپریل ۱۸۹۷ء میں اس اقرار کو شائع نہیں کیا جس اقرار کو میں قسم کے ساتھ شائع کرانا چاہتا ہوں.یعنی یہ اقرار کہ وہ میری نسبت نام لے کر یہ امر شائع کر دیں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ واقعہ قتل پنڈت لیکھر ام اس شخص کے حکم یا اس کے مشورہ سے یا اس کے علم سے ہوا ہے اور جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے خدا کی طرف سے یہ کوئی نشان نہیں بلکہ اسی کی اندرونی اور خفیہ سازش کا نتیجہ ہے اور اگر میں قسم کے دن سے ایک سال تک فوت ہو گیا تو میرا مرنا اس بات پر گواہی ہو گی کہ درحقیقت لیکھرام خدا کے غضب سے اور پیشگوئی کے موافق فوت ہوا ہے اور نیز اس بات پر گواہی ہوگی کہ در حقیقت دین اسلام ہی سچا مذہب ہے اور باقی آریہ مذہب یا ہندو مذہب و عیسائی مذہب وغیرہ مذاہب سب بگڑے ہوئے عقیدے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں“.اس اقرار کے لکھانے سے غرض یہ ہے کہ ہمارے تمام مناظرات سے اصلی مقصود یہی ہے که دین اسلام ہی سچا دین ہے.اور اسی غرض سے لیکھرام کی نسبت اس کی رضا مندی سے یہ پیشگوئی کی گئی تھی.لہذا اس مقام میں بھی طرف ثانی کا یہ کھلا کھلا اقر ار شائع ہونا بہت ضروری ہے.اور لالہ گنگا بشن صاحب یا درکھیں کہ ٹھیک ٹھیک ان الفاظ کے ساتھ کسی مشہور اخبار میں اس اقرار کو شائع کرنا ضروری ہوگا.اور نیز یہ کہ قادیان میں آ کر قسم بھی انہیں الفاظ کے ساتھ کھانی پڑے گی.اور یہ وہم نہ کریں کہ وہ ایسے اقرار سے کسی قانونی بیچ میں آسکتے ہیں.کیونکہ میں ان کو اطلاع دیتا ہوں کہ میں ان کے اس الزام کے دفع کے لئے کسی قانونی ذریعہ سے چارہ جوئی پسند نہیں کرتا.اور نہ کروں گا.میں خدا کے فیصلہ میں خلقت کی عام بھلائی دیکھتا ہوں اور جو انہوں نے آخری شرط پیش لے وہ پرچہ جس میں اقرار حسب نمونہ شائع کریں بذریعہ رجسٹری مجھ کو بھیجنا ہوگا تا میں مطلع ہو جاؤں.منہ

Page 276

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کی ہے کہ میں قادیان میں قتل نہ کیا جاؤں.اس کا بفضلہ تعالیٰ میں خود ذمہ وار ہوں.وہ حسب نمونہ اقرار شائع کرنے کے بعد جب دو ماہ کے عرصہ تک اطلاع پاویں کہ روپیہ جمع ہو گیا ہے تو بلا توقف پورے اطمینان کے ساتھ قسم کھانے کے لئے قادیان میں آجائیں.ہمیں ہر ایک قوم سے ہمدردی ہے.کسی کی مجال نہیں جو آپ کو آزار پہنچا سکے.یہ بات یاد رہے کہ چونکہ روپیہ جمع کرنا کسی قدر مہلت چاہتا ہے.اس لئے میں نے زیادہ سے زیادہ دو ماہ کی شرط لگا دی ہے.امید ہے کہ آپ اپنی کچی نیک نیتی سے اس مہلت کو غیر موزوں نہیں سمجھیں گے.اور بالآخر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اس اخبار میں لالہ گنگا بشن نے اپنا پتہ پورا پورا نہیں لکھا.لیکن دوسری دفعہ کی اشاعت میں جب وہ اقرار اپنا شائع کریں گے اس میں پورا پورا پتہ اپنا لکھنا ضروری ہوگا.یعنی یہ کہ اپنا نام اپنے باپ کا نام قومیت سکونت محلہ ضلع اور پیشہ وغیرہ.المشتہر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی ۱۵ اپریل ۱۸۹۷ء (مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان) (یہ اشتہار ' کے ایک صفحہ پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۷۵ تا ۷۹ )

Page 277

مجموعہ اشتہارات ۲۶۱ ۱۷۲ جلد دوم لیکھرام کے قتل کے متعلق ۱۸ اپریل ۱۸۹۷ء کو ہمارے گھر کی تلاشی ہو کر صفحہ ۵۵۷،۵۵۶ براہین احمدیہ کی پیشگوئی پوری ہوئی ہمیں اس وقت قابل رحم قوم آریہ پر کچھ شکوہ نہیں کہ وہ ایسی ایسی تلاشیوں کے کیوں محرک ہوئے اور کیوں اپنے شریف ہمسایوں کو جو اہل اسلام ہیں، ایسی بے اصل کارروائیوں سے تکلیف دی.کیونکہ در حقیقت لیکھرام کی موت سے ان کو بڑا ہی صدمہ پہنچا ہے.یہ ایسا صدمہ نہیں ہے جو کبھی معزز قوم آریہ اس کو فراموش کر سکے.اور در حقیقت یہ بھی سچ ہے کہ اگر اس موت کے ساتھ ایک اسلامی پیشگوئی نہ ہوتی تب تو یہ موت ایک خفیف کی موت سمجھی جاتی اور قاتل کی سراغ رسانی کے لئے معمولی قواعد استعمال میں لائے جاتے.مگر اب تو یہ ایک بڑی بھاری مصیبت پیش آئی کہ لیکھرام کی وفات اس پیشگوئی کے موافق ہوئی جس میں یہ شرط جانبین نے قبول کر لی تھی کہ پیشگوئی کے جھوٹی نکلنے کی حالت میں اسلام کی سچائی میں فرق آئے گا.اور اگر پیشگوئی واقعی طور پر سچی ثابت ہوئی تو آریہ مذہب کا جھوٹا ہونا مان لیا جائے گا.ہمیں آریہ صاحبوں سے بڑی ہمدردی ہے.لیکن اس جگہ تو ہم حیران ہیں کہ اگر ہمدردی کریں تو کیا کریں.یہ خدا کا فعل ہے.اس میں نہ ہماری اور نہ آریوں صاحبوں کی کچھ پیش جاسکتی ہے.خدا کی قدرت ہے کہ تلاشی کے وقت میں پہلے وہی کاغذات برآمد ہوئے جن میں میری اور لیکھرام کی دستخطی تحریریں تھیں.چنانچہ وہ عہد نامہ صاح

Page 278

مجموعہ اشتہارات ۲۶۲ جلد دوم ۲۵ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی خدمت میں پڑھا گیا اور مجلس عام میں اس کا ایسا اثر ہوا کہ بعض عہدہ داران پولیس جو صاحب بہادر کے ہمراہ آئے تھے وہ بول اٹھے کہ جبکہ اپنے مطالبہ سے لیکھرام نے یہ پیشگوئی حاصل کی تھی اور عہد نامہ لکھا گیا تھا تو پھر پیشگوئی کرنے والے پر شبہ کرنا بے محل ہے.خدا کے ہر ایک کام میں ایک حکمت ہوتی ہے.اس تلاشی میں ایک یہ بھی حکمت تھی کہ وہ کا غذات حکام کے سامنے پیش ہو گئے جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ لیکھرام نے خود قادیان میں آکر اور چھپیں دن رہ کر پیشگوئی کا مطالبہ کیا.اور فریقین کی طرف سے تحریر میں لکھی گئیں جن میں پیشگوئی کو فریقین کے مذہب کے صدق اور کذب کا میعار ٹھیرایا گیا اور حکام پر کھل گیا کہ یہ تحریر میں بہت سے بیہودہ خیالات کا فیصلہ کرتی ہیں اور صاف سمجھا دیتی ہیں کہ یہ پیشگوئی اسلام اور آریہ مذہب کی ایک کشتی تھی اور فریقین نے کچی نیت سے اپنے خدا اور پرمیشر پر تو کل کر کے دونوں مذہبوں کے پر کھنے کیلئے آسمانی فیصلہ کی درخواست کی تھی اور اس پر راضی ہو گئے تھے.اور یہ ایک ایسا امر تھا کہ اگر اسی حیثیت سے چیف کورٹ کی عدالت میں پیش کیا جاتا تو ضرور چیف کورٹ کے جوں کو اس کے واقعات پر غور کرنے سے گواہی دینی پڑتی کہ خدا نے اس مقدمہ میں اسلام کی آریوں پر ڈگری کی.مگر افسوس کہ ہمارے مولوی در پردہ اس بچے اور پاک خدا کے دشمن ہیں جو سچائی کی حمایت کرتا ہے.میں نے سنا ہے کہ بعض مولوی صاحبان جیسے مولوی محمد حسین بٹالوی اس کھلی کھلی پیشگوئی کی نسبت بھی جو دونوں مذہبوں کے پر کھنے کے لئے میعار کی طرح ٹھیرائی گئی تھی جانکا ہی سے کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح لوگ اس پر اعتقاد نہ لاویں.ہم انشاء اللہ عنقریب اس معاہدہ کو جو ہم میں اور لیکھرام میں ہوا تھا سراج منیر کے اخیر میں نقل کر دیں گے اور ہم نہایت ہمدردی سے مسلمانوں کو نوٹ.اس تلاشی سے یہ بھی ایک فائدہ ہوا کہ جو ہمارے مخالف مولویوں کو گمان تھا کہ اُن کے گھر میں عربی لکھنے کے لئے ایک کمیٹی بیٹھی ہوئی ہے اور نیز آلات رصد و نجوم اُن کے گھر میں مخفی رکھے ہیں.جس کے ذریعہ سے غیب کی خبریں دیتے ہیں.ان سب بہتانوں کا بے اصل ہونا بھی ثابت ہو گیا.منہ

Page 279

مجموعہ اشتہارات ۲۶۳ جلد دوم صلاح دیتے ہیں کہ اگر اسلام کی محبت ہے تو ان مولویوں سے پر ہیز کریں لیے آئیندہ اگر اور بھی تجربہ کرنا ہے تو ان کا اختیار ہے.یہ مولوی بالکل ان فقیہوں اور فریسیوں کے خمیر سے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے دشمن تھے.اب ہم ایک بڑی حکمت اس خانہ تلاشی کی لکھتے ہیں جس کے تصور سے ہمیں اس قدرخوشی ہے کہ ہم اندازہ نہیں کر سکتے.جس دن خانہ تلاشی ہونے والی تھی یعنی ۱۸ اپریل روز پنج شنبہ.اس دن افسران پولیس کے آنے سے چند منٹ پہلے میں اپنے رسالہ سراج منیر کی ایک کاپی پڑھ رہا تھا اور اس میں براہین احمدیہ کے حوالہ سے یہ مضمون تھا کہ خدا تعالیٰ نے جو اپنی کلام میں میرا نام عیسی رکھا ہے تو ایک وجہ مشابہت وہ ابتلاء ہے جو حضرت عیسی کو پیش کیا تھا.یعنی یہود کی قوم نے اپنی کوششوں سے اور نیز گورنمنٹ رومیہ کو دھوکہ دینے سے چاہا کہ حضرت عیسی کو صلیب دی جائے.اس عبارت کے پڑھنے کے وقت مجھے یہ خیال آیا کہ حضرت مسیح کے دشمنوں نے دو پہلو اختیار کئے تھے.ایک یہ کہ اپنی طرف سے ایذارسانی کی کوششیں کیں اور دوسرے یہ کہ گورنمنٹ کے ذریعہ سے بھی تکلیف دی.مگر میرے معاملہ میں تو اب تک صرف ایک پہلو ہے.یعنی صرف آریوں کی کوششیں اور اخباروں اور خطوط کے ذریعہ سے ان کی بد گوئی.اُس وقت معا میرے دل نے خواہش کی کہ کیا اچھا ہوتا کہ گورنمنٹ کی دست اندازی کا پہلو بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتا تا وہ پیشگوئی جو لیکھرام کی نسبت اس لے مولوی محمد حسین صاحب اگر سچے دل سے یقین رکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی لیکھرام والی جھوٹی نکلی تو انہیں مخالفانہ تحریر کے لئے تکلیف اُٹھانے کی کچھ ضرورت نہیں.ہم خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر وہ جلسہ عام میں میرے روبرو یہ قسم کھالیں کہ یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھی اور نہ بچی نکلی اور اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی اور فی الواقعہ پوری ہو گئی ہے تو اے قادر مطلق ایک سال کے اندر میرے پر کوئی عذاب شدید نازل کر، پھر اگر مولوی صاحب موصوف اس عذاب شدید سے ایک سال تک بچ گئے تو ہم اپنے تیں جھوٹا سمجھ لیں گے.اور مولوی صاحب کے ہاتھ پر تو بہ کریں گے اور جس قدر کتا ہیں ہمارے پاس اس بارے میں ہوں گی جلا دیں گے.اور اگر وہ اب بھی گریز کریں تو اہل اسلام خود سمجھ لیں کہ ان کی کیا حالت ہے.اور کہاں تک ان کی نوبت پہنچ گئی ہے.منا

Page 280

مجموعہ اشتہارات ۲۶۴ جلد دوم ۱۷ کی موت سے سترہ برس پہلے لکھی گئی ہے اپنے دونوں پہلوؤں کے ساتھ پوری ہو جاتی.سوا بھی میں اس سوچ میں تھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ بہادر پولیس مسجد میں ہیں.تب میں بڑی خوشی سے گیا اور صاحب بہادر نے مجھے کہا کہ ” مجھے حکم آگیا ہے کہ قتل کے مقدمہ میں آپ کے گھر کی تلاشی کروں.تلاشی کا نام سن کر مجھے اس قدر خوشی ہوئی جیسے اس ملزم کو ہو سکتی ہے جس کو کہا جائے کہ تیرے گھر کی تلاشی نہیں ہوگی.تب میں نے کہا کہ آپ اطمینان کے ساتھ تلاشی کریں اور میں مدد دینے میں آپ کے ساتھ ہوں.اس کے بعد میں ان کو مع دوسرے افسروں کے اپنے مکان میں لے آیا.اور اوّل مردانہ مکان میں پھر زنانہ مکان میں.تمام بست جات وغیرہ انہوں نے دیکھ لئے اور مہمان خانہ ومطبع وغیرہ مکانات سب کے سب دکھلا دیئے گئے.غرض صاحب موصوف نے عمدہ طور پر اپنے فرض منصبی کو ادا کیا اور بہت ساحصہ وقت کا خرچ کر کے اور خدا کی پیشگوئی کو اپنے ہاتھوں سے پوری کر کے آخر آٹھ بجے رات کے قریب واپس چلے گئے.یہ تو سب کچھ ہوا.مگر ہمیں اس بات کی نہایت خوشی ہوئی کہ اس روز براہین احمدیہ کے صفحه ۵۵۶ اور ۵۵۷ کی پیشگوئی کامل طور پر پوری ہوگئی.اور جیسا کہ لکھا تھا چمکدار نشان کے لوازم ظہور میں آگئے.المشتهر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی (مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) ۱۱ را پریل ۱۸۹۷ء میاشتہار کے دو صفحوں پر ہے) دو له تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۷۹ تا ۸۳)

Page 281

مجموعہ اشتہارات ۲۶۵ ۱۳ جلد دوم بسم اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ لالہ گنگا بشن صاحب کی مرنے کے لئے درخواست ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں نے اپنے اشتہار در مارچ ۱۸۹۷ء میں جس میں آریہ صاحبوں کے خیالات لیکھرام کی موت کی نسبت لکھے گئے تھے.دوسرے صفحہ کے دوسرے کالم میں لکھا تھا کہ اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دور نہیں ہوسکتا اور میری نسبت یقین رکھتا ہے کہ گویا میں سازش قتل میں شریک ہوں تو ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک ہے اور اگر شریک نہیں تو ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل ہو جو ہیبت ناک ہو.مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو.اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس تک ایسے عذاب سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں گا اور اُس سزا کے لائق جو ایک قاتل کو ہونی چاہیے.اس اشتہار کے بعد ایک صاحب گنگا بشن نام نے اخبار سماچار مطبوعه ۳ اپریل ۱۸۹۷ء کے ذریعہ سے قسم کھانے کے لئے اپنے تئیں مستعد ظاہر کیا اور صاف طور پر اقرار کر دیا کہ حسب منشاء اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں قسم کھانے کے لئے طیار ہوں بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ میری قسم سے آئیندہ کوئی آپ کے سامنے کھڑا نہیں ہوگا.یعنی تمام مخالف قو میں لا جواب ہو جائیں لے یہ اشتہار جلد ہذا میں صفحہ ۲۲۸ زیر نمبر ۶۹ ادرج ہے.(مرتب)

Page 282

مجموعہ اشتہارات ۲۶۶ جلد دوم گی.مگر اپنی طرف سے یہ زائد شرط لگا دی کہ میں اس صورت میں قسم کھاؤں گا کہ دس ہزار روپیہ میرے لئے جمع کر دیا جائے اس تصریح سے کہ اگر زندہ رہا تو اس روپیہ کا میں حق دار ہوں گا.سو ہم نے اس نئی شرط کو بھی جو ہمارے اشتہار کے منشاء سے زائد تھی.اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ لالہ کنگا بشن اس مفصلہ ذیل مضمون کی قسم بذریعہ کسی مشہور اخبار کے شائع کریں اور نیز قادیان میں آکر بالمواجہ بھی میرا نام لے کر یہ قسم کھاویں کہ در حقیقت لیکھرام کے قتل میں اس شخص کی شراکت ہے اور اس کی خفیہ سازش سے اس کی موت ہوئی ہے.اور اگر یہ میچ نہیں ہے تو ایک سال تک مجھ کو وہ موت آوے جس میں انسان کے منصوبہ کا دخل نہ ہو.اور ایسا ہی اخبار کے ذریعہ سے اور نیز بالمواجہ بھی یہ اقرار کریں کہ اگر میں ایک سال کے اندر حسب منشاء اس قسم کے مرگیا تو میرا مرنا اس بات پر گواہی ہوگا کہ در حقیقت لیکھر ام خدا کے غضب سے اور پیشگوئی کے موافق ہلاک ہوا ہے اور نیز اس بات پر گواہی ہوگی کہ درحقیقت دینِ اسلام ہی سچا دین ہے اور باقی تمام مذاہب جیسا کہ آریہ مت سناتن دھرم اور عیسائی وغیرہ سب بگڑے ہوئے عقیدے ہیں.اس پر لالہ گنگا بشن صاحب ضمیمہ بھارت سدها را ارا پریل ۱۸۹۷ ء اور ہمدرد ہند لا ہور ۱۲ اپریل ۱۸۹۷ء میں فضول عذر شائع کرتے ہیں کہ یہ شرط اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں موجود نہیں تھی.لہذا ہم ان کو اطلاع دیتے ہیں کہ اول تو خودتم نے ہمارے اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء کی پابندی اختیار نہیں کی اور اپنی طرف سے دس ہزار روپیہ جمع کرانے کی شرط زیادہ کر دی.جس پر ہمارا حق تھا کہ ہم بھی تمہاری اس قدر ترمیم پر جس قدر چاہتے پہلے اشتہار کی ترمیم کرتے.اور یہ ایک سیدھی بات ہے کہ آپ نے ہمارے اشتہار کے منشاء سے آگے قدم رکھ کر ایک نئی شرط اپنے فائدہ کے لئے زیادہ کر دی.اس لئے ہمارا بھی حق تھا کہ ہم بھی نئی شرط کے مقابل پر جس قدر چاہیں بڑھا دیں.علاوہ اس کے اگر غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ہم نے کوئی امر تمہارے مقابل پر ۱۵ / مارچ ۱۸۹۷ء کے اشتہار کے مخالف پیش نہیں کیا.بلکہ وہ باتیں جو مجمل طور پر اشتہار مذکور میں پائی جاتی تھیں.ان کو کسی قدر تفصیل سے لکھ دیا ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ اقرار جو بذریعہ اشتہار اور نیز بالمواجہ ہم تم لے دیکھئے جلد ہذا کے صفحہ ۲۵۷ پر زیر اشتہار نمبر ۱۷.(مرتب)

Page 283

مجموعہ اشتہارات ۲۶۷ جلد دوم سے کرانا چاہتے ہیں یہ کوئی نئی شرط نہیں ہے.کیونکہ ہماری یہ تمام کارروائی صرف اس غرض سے ہے کہ تاہم ثابت کریں کہ دنیا میں صرف دین اسلام ہی سچا مذہب ہے اور دوسرے تمام مذہب باطل ہیں.اور اگر یہ غرض درمیان نہ ہو تو یہ سب جھگڑے ہی عبث ہیں اور ہمارے الہام بھی عبث.یہی تو ایک مدعا ہے یعنی دین اسلام کی سچائی ثابت کرنا.جس کے لئے یہ نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہورہے ہیں.چنانچہ آپ نے سما چار ۳ اپریل ۱۸۹۷ء کی تحریر میں اس بات کا خود بھی اقرار کر لیا جبکہ یہ کہا کہ ” میرے مرنے کے بعد دوسرے لوگ آپ کے مقابل پر کھڑے نہیں ہوں گے کیا اس تحریر کا بجز اس کے کوئی اور مدعا تھا کہ اس فتح کے بعد دوسرے مذہبوں کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا.سوہم آپ سے بذریعہ اخبار اور نیز بالمواجہ یہی اقرار چاہتے ہیں اور پنڈت لیکھرام سے بھی پیشگوئی کے مطالبہ یہی اقرار لیا گیا تھا کہ یہ پیشگوئی آریہ مذہب اور اسلام میں بطور فیصلہ کرنے والے منصف کے متصور ہوگی.وہی عہد نامہ ۱۸ اپریل ۱۸۹۷ء کو تلاشی کے وقت صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے حضور میں پڑھا گیا تھا.میں سوچ میں ہوں کہ اقرار کے بعد یہ بیہودہ انکار آپ نے کیوں کر دیا.ادنی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ تمام ہماری سرگرمی اس غرض سے نہیں ہے کہ کوئی شخص ہم کو منجموں اور رمالوں کی طرح مان لے یا صرف سچی پیشگوئیوں والا سمجھ لے.اس قسم کی لغو تعریفوں سے تو ہم بدل بیزار ہیں.بلکہ یہ سب اسلام کی تائید میں خدا تعالیٰ کے الہام ہیں اور اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کیلئے یہ سب کام وہ قادر مطلق اپنے ہاتھ سے کر رہا ہے.جس کا نام اللہ ہے.جَلَّ جَلالُهُ.اب ہم صاف لفظوں میں لالہ گنگا بشن کو مطلع کرتے ہیں کہ اس قسم کی چالبازی دیانت کے طریق سے بعید ہے.ہم نے ان کے دس ہزار کے مطالبہ پر کسی غیر متعلق اور بے جا شرط کو زیادہ نہیں کیا بلکہ یہ وہی شرط ہے جو ہماری تمام کارروائی میں ہمیشہ سے محوظ اور ہماری زندگی کی علت غائی ہے.اگر اس شرط کو ساقط کیا گیا تو باقی کیا رہا؟ کیا ہم ایک انسان کی جان ناحق ضائع کرنی چاہتے ہیں؟ یا ہم صرف ایک بے ہودہ لہو و لعب کے مشتاق ہیں جس کا دین کے لیے کوئی بھی نتیجہ نہ ہو.ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ اس قدر عظیم الشان معرکہ میں جس میں دس ہزار روپیہ نقد پہلے جمع

Page 284

مجموعہ اشتہارات ۲۶۸ جلد دوم کرا دیا جائے گا کچھ تو ہمارا مقصد اور غرض ہونی چاہیے.پس کیا وہ یہی غرض ہو سکتی ہے کہ ہمیں کوئی جوتشیوں اور ریلیوں کی طرح سمجھ لے ؟ نہیں بلکہ اس قدر مالی زیر باری اٹھانے کے لئے محض ہم اس لئے طیار ہو گئے ہیں کہ تا اس سے اسلام کے مقابل پر ہندو مذہب کا فیصلہ ہو جائے.سواگر لالہ بشن صاحب اس میدان کا بہادر اپنے تئیں سمجھتے ہیں تو اب بیہودہ حیلوں حوالوں سے اپنا قدم باہر نہ کریں.وہ اپنے اس اقرار کو یاد کریں جو اپنی قلم سے ۳ را پریل کے سا چار میں شائع کر بیٹھے ہیں.ان کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جس حالت میں ان کا مقولہ ہے کہ بعض وقت میں خدا کو بھی جواب دے دیتا ہوں تو پھر دس ہزار روپیہ کی طمع پران کو یہ کہنا کیا مشکل ہے کہ اگر میں مرگیا تو میرا مرنا اس بات کا قطعی ثبوت ہوگا کہ دنیا میں صرف دین اسلام ہی سچا ہے اور دوسرے مذہب جو اس کے مخالف ہیں جیسے آریہ مذہب اور سناتن دھرم اور عیسائی مذہب سب باطل ہیں اور نیز کہ اگر میں مر گیا تو میرا مرنا اس بات کو ثابت کرے گا کہ لیکھرام کی موت کی پیشگوئی درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی.غرض انہی مفید باتوں کے لئے تو ہم دس ہزار روپیہ دیتے ہیں اور یہ رقم کثیر سی اقرار کی تو قیمت ہے ورنہ ہم نے اپنے اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں ایک حبہ دینے کا بھی کسی کے ساتھ عہد نہیں کیا.یہی تو وہ غرض ہے جس کو ہم نے مد نظر رکھ کر گنگا بشن صاحب کو منہ مانگی مراد دی.ناظرین ذرہ سوچیں کہ ایسا شخص جو خود کہتا ہے کہ مجھ کو کسی مذہب سے دلی تعلق نہیں یہاں تک کہ بعض وقت خدا کو بھی جواب دے دیا کرتا ہوں اس پر ان دو اقرار کرنے سے کونسی مصیبت پڑتی ہے.بہر حال یہ بات خوب یا درکھنی چاہیے کہ جبکہ گنگا بشن صاحب نے اپنی طرف سے دس ہزار روپیہ جمع کرانے کی شرط بڑھا دی ہے.جس کا ہمارے اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں نام ونشان نہ تھا تو ہم اس شرط کے عوض میں یہ چاہتے ہیں کہ وہ اخبار کے ذریعہ سے اور نیز جلسہ عام میں قسم کے ساتھ ہمارے اصل مقصد کا تصریح کے ساتھ اقرار کریں.اور پھر ہم مکر رلکھ دیتے ہیں کہ جو اقرار وہ اخبار میں بقید اپنی ولدیت و قومیت و سکونت وضلع و ثبت شهادت گواہان معززین شائع کریں گے.اُس کا لفظ بلفظ

Page 285

مجموعہ اشتہارات یہ مضمون ہو گا.۲۶۹ میں فلاں ابن فلاں قوم فلاں ساکن قصبہ فلاں ضلع فلاں اللہ جل شَانُہ کی یا پر میشر کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرزا غلام احمد قادیانی در حقیقت پنڈت لیکھرام کا قاتل ہے اور میں اپنے پورے یقین سے جانتا ہوں کہ بالضرور لیکھرام غلام احمد کی سازش اور شراکت سے قتل کیا گیا ہے اور ایسا ہی پورے یقین سے جانتا ہوں کہ یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھی بلکہ ایک انسانی منصوبہ تھا جو پیشگوئی کے بہانہ سے عمل میں آیا.اگر میرا یہ بیان صحیح نہیں ہے تو اے خدائے قادر مطلق اس شخص کا سچ ظاہر کرنے کے لئے اپنا یہ نشان دکھلا کہ ایک سال کے اندر مجھے ایسی موت دے کہ جو انسان کے منصوبہ سے نہ ہو.اور اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا.تو تمام دنیا یا در کھے کہ میرا مرنا اس بات کی گواہی ہوگی کہ واقعی طور پر یہ خدا کا الہام تھا.انسانی سازش نہیں تھی اور نیز یہ کہ واقعی طور پر سچادین اسلام ہے اور دوسرے تمام مذہب جیسے آریہ مذہب اور 66 جلد دوم سناتن دھرم اور عیسائی وغیرہ تمام بگڑے ہوئے عقیدے ہیں.“ غرض اس مضمون کی قسم کسی معتبر اور مشہور اخبار میں چھپوانی ہوگی اور یہی قسم قادیان میں آکر جلسہ عام میں کھانی ہوگی.اب اگر میں اس وعدہ سے پھر جاؤں تو میرے پر خدا کی لعنت ورنہ تمہارے پر.آپ کی درخواست کے موافق مجھ پر واجب ہوگا کہ میں دس ہزار و پیہ آپ کے لئے جمع کرا دوں.اور میری درخواست کے موافق آپ پر واجب ہوگا کہ آپ بلا کم و بیش اسی قسم کا اقرار مؤکد بقسم کسی معتبر اور مشہور اخبار میں جیسا کہ اخبار عام شائع کر دیں.اور جیسا کہ میں تسلیم کر چکا ہوں آپ کے اس چھپے ہوئے اقرار کے پہنچنے کے بعد دو مہینے تک دس ہزار روپیہ جمع کرادوں گا اگر نہ کراؤں تب بھی کا ذب شمار کیا جاؤں گا.اور یہ کہنا کہ ایک سال کو میں نہیں مانتا بلکہ چاہتا ہوں کہ فوراً زمین میں

Page 286

مجموعہ اشتہارات جلد دوم غرق کیا جاؤں یا یہ کہ مہینہ اور تاریخ اور گھنٹہ موت کا مجھے بتلایا جائے.یہ آپ کے پہلے اقرار کے برخلاف ہے.جو سما چار۳ اپریل ۱۸۹۷ء میں کر چکے ہو.علاوہ اس کے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں.اس کے حکم سے زیادہ نہیں کہ سکتا اور نہ کم.ہاں اگر میعاد کے اندر کوئی زیادہ تشریح خدا تعالیٰ کی طرف سے کی گئی تو میں اس کو شائع کر دوں گا.مگر کوئی عہد نہیں.آپ اگر اپنی پہلی بہادری پر قائم ہیں تو ایک سال کی شرط کو قبول کر لیں.میں یہ اقرار بھی کرتا ہوں کہ صرف اس حالت میں یہ نشان نشان سمجھا جائے گا کہ جب کسی انسانی منصوبہ سے آپ کی موت نہ وہ اور کسی دشمن بداندیش کے قتل کا شبہ نہ ہو.غرض یہ بات میرے اقرار میں داخل ہے کہ اگر آپ کی موت قتل یاز ہر خورانی کے ذریعہ سے ہو جائے یا کسی اور ایسے ہی واقعہ سے وقوع میں آئے جس میں کسی دشمن کے منصوبہ کا دخل ثابت ہو تو بے شک میں جھوٹا ٹھیروں گا.لیکن اگر آپ ہی اپنے قتل ہونے کا باعث ہو جا ئیں.مثلاً کسی بے گناہ کو قتل کریں اور اس کے عوض میں آپ کو پھانسی دیدے یا کسی وجہ سے خود کشی کر لیں یا ز ہر کھالیں.غرض ثابت نہ ہو کہ کسی دشمن کے منصوبہ کا آپ کی موت میں دخل نہیں تو نہ صرف یہ کہ آپ کے وارثوں کو دس ہزار روپیہ ملے گا بلکہ شرعا وقانونا میں جرم قتل کا مجرم ٹھہروں گا !! اور یادر ہے کہ اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں ہمارا یہ قول کہ وہ عذاب کسی انسان کے ہاتھوں اور منصوبہ سے نہ ہو.اس سے مراد وہ انسانی منصوبہ ہے جو عداوت اور بد نیتی پر مبنی ہوتا ہے.لیکن اگر کوئی اپنے جرم کی سزا میں مثلاً بغاوت میں یا قتل عمد میں عدالت کے ذریعہ پھانسی کی سزا پاوے.یا مثلاً کسی ایسی اپنی دوا کو غلطی سے اندازہ سے زیادہ کھالے جس میں کوئی حصہ زہر کا ملا ہوا ہوا اور اس سے مر جائے تو ایسی تمام صورتیں ہمارے بیان سے مستثنیٰ ہیں اور ایسی حالتوں میں بے شک کہا جائے گا کہ پیشگوئی پوری ہو گئی.گو ہم بدل چاہتے ہیں کہ ایسی حالتوں سے بھی آپ الگ رہیں.اور یادر ہے کہ اگر آئیندہ اس مطالبہ کے برخلاف آپ کی طرف سے یا آپ کے کسی اور ہم قوم کی طرف سے کوئی اور تحریر شائع ہوئی تو اس کو فضول سمجھ کر اعراض کیا جائے گا.اور اگر ۱۰ مئی ۱۸۹۷ء تک بذریعہ رجسٹری

Page 287

مجموعہ اشتہارات حسب منشاء جواب مطبوعہ نہ ملا تو پھر آپ قابل خطاب نہیں ٹھیریں گے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتم میرزا غلام احمد قادیانی (مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان) ۱۶ ر ا پریل ۱۸۹۷ء جلد دوم نوٹ.یہ ضروری ہوگا کہ آپ میعاد کے اخیر دن تک اپنے اس اقرار کے مخالف کوئی تحریر مطبوعہ شائع نہ کریں.یعنی بعد اس اقرار کے کہ آپ اپنا مرنا دین اسلام کی سچائی اور دوسرے مذہبوں کے باطل ہونے پر گواہ قرار دیں.کوئی ایسا نوشتہ چھپا ہو شائع نہ کریں جو اس اقرار کے برعکس ہو.اور نیز اس بات کا لحاظ ضروری ہوگا کہ جب آپ قادیان میں آکر حسب ہدایت مذکور قسم کھاویں اور حسب مرقومہ بالا اقرار کریں تو یہ قسم اور یہ اقرار تین مرتبہ بآواز بلند جلسہ عام میں کریں اور ہماری طرف سے آمین ہوگی لیے اور نیز یہ ضروری ہوگا کہ آپ ہمارے بلانے کے بعد اسی مقررہ تاریخ اور وقت اور دن پر بلا توقف حاضر ہو جائیں.ہاں یہ بھی ضرور ہوگا کہ ہم ایک ہفتہ پہلے بذریعہ ایک رجسٹری شده خط کے تاریخ اور وقت اور دن حاضری سے آپ کو اطلاع دیں.اور اس جگہ یادر ہے کہ تین اور صاحب گنگا بشن کی طرح قسم کھانے کے لئے درخواست کرتے ہیں.ایک صاحب کا نام حکیم سنت رام ہے جو پنڈ دادن خان سے اور دوسرے صاحب رنجیت رائے اسسٹنٹ سیکرٹری آریہ سماج سری گوبند پورہ ضلع گورداسپورہ سے اسی مضمون کا خط بھیجتے ہیں اور تیسرے صاحب اپنا نام دولت رام بیان کر کے اخبار سنگھ سمجھا پنجاب گزٹ امرتسر ۱۵ اپریل ۱۸۹۷ء میں قسم کھانے کے لئے مستعدی ظاہر کرتے ہیں.اور یہ صاحب بجائے دس ہزار روپیہ جمع کرانے کے دو ہزار روپیہ پر راضی ہو گئے ہیں.سو یہ ان کی مہربانی اور عنایت ہے.لیکن ان تمام صاحبان کو واضح رہے کہ اگر چہ بے شک آپ لوگ بھی معزز اور آریہ قوم لے اور وہی دن سال کا پہلا دن بموجب انگریزی مہینوں کے شمار کیا جاوے گا.منہ

Page 288

مجموعہ اشتہارات ۲۷۲ جلد دوم کی طرز زندگی کے اعلیٰ نمونہ ہیں لیکن لالہ گنگا بشن صاحب نے سب سے پہلے اس ارادہ کو بذریعہ چند اخبار شائع کیا ہے.اس لئے ان کا حق سب پر مقدم ہے.اور جب تک لالہ صاحب موصوف ان تمام شرائط سے جو اس اشتہار میں انہیں کی تحریک سے لکھی گئی ہیں گریز اختیار نہ کریں اور میدان سے بھاگ نہ جائیں تب تک ہم دوسری طرف التفات نہیں کر سکتے اور نہ یہ حق دوسرے کو دے سکتے ہیں.ہاں اگر وہ خود ان شرائط سے پہلو تہی کریں تو پھر اس صورت میں کوئی دوسرا درخواست کر سکتا ہے.مگر یاد رہے کہ یہ اشتہار اپنی شرائط کے ساتھ تجویز ناطق ہے اور کسی صورت میں کمی بیشی ان شرائط کی جائز نہ ہوگی.اور یہ تمام شرائط ہر ایک کے لئے جو میدان میں آوے ایک اٹل قانون کی طرح سمجھی جائیں گی.منہ نوٹ.ہمدرد ہندلا ہو ر ۱۲ اپریل ۱۸۹۷ء میں گنگا بشن صاحب نے ایک اور شرط زیادہ کی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب میں یعنی یہ راقم حسب قرار داد بصورت جھوٹا نکلنے کے پھانسی کی موت سے مارا جائے تو میری لاش ان کو یعنی گنگا بشن کومل جائے اور پھر وہ اس لاش سے جو چاہیں کریں.جلا دیں دریا بر دکریں.یا اور کار روٹی کریں.سو واضح رہے کہ یہ شرط بھی مجھے منظور ہے اور میرے نزدیک بھی جھوٹے کی لاش ہر ایک ذلت کے لائق ہے.اور یہ شرط در حقیقت نہایت ضروری تھی جو لالہ گنگا بشن صاحب کو عین موقعہ پر یاد آ گئی.لیکن ہمارا بھی حق ہے کہ یہی شرط بالمقابل اپنے لئے بھی قائم کریں.ہم نے مناسب نہیں دیکھا کہ ابتداء اپنی طرف سے یہ شرط لگا ہیں.مگر اب چونکہ لالہ گنگا بشن صاحب نے بخوشی یہ شرط قائم کر دی.اس لئے ہم بھی نہ دل سے شکر گزار ہو کر اور اس شرط کو قبول کر کے اسی قسم کی شرط اپنے لیے قائم کرتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ جب گنگا بشن صاحب حسب منشاء پیشگوئی مر جائیں تو اُن کی لاش بھی ہمیں مل جائے تا بطور نشان فتح وہ لاش ہمارے قبضہ میں رہے.اور ہم اس لاش کو ضائع نہیں کریں گے بلکہ بطور نشان فتح مناسب مصالحوں کے ساتھ محفوظ رکھ کر کسی عام منظر میں یا لا ہور کے عجائب گھر میں رکھا دیں گے.لیکن چونکہ لاش کے وصول پانے کے لئے ابھی سے کوئی احسن انتظام چاہیے.لہذا اس سے زیادہ کوئی انتظام احسن معلوم نہیں ہوتا کہ پنڈت لیکھرام کی یادگار کے لئے جو

Page 289

مجموعہ اشتہارات ۲۷۳ جلد دوم پچاس ہزار یا ساٹھ ہزار روپیہ جمع ہوا ہے اس میں سے دس ہزار روپیہ بطور ضمانت لاش ضبط ہو کر سرکاری بنک میں جمع رہے اور کا غذات خزانہ میں یہ کھوا دیا جائے کہ اگر ایک سال کے اندر گنگا بشن فوت ہو گیا اور اس کی لاش ہمارے حوالہ نہ کی گئی تو بعوض اس کے بطور قیمت لاش یا تاوان عدم حوالگی لاش دس ہزار روپیہ ہمارے حوالہ کر دیا جائے گا اور ایسے اقرار کی ایک نقل معہ دستخط عہدہ دار افسر خزانہ کے مجھے بھی ملانی چاہیے.تا ثانی الحال مطالبہ روپیہ میں دقت نہ ہو.اور واضح رہے کہ اگر گنگا بشن گریز کر جائے تو بجائے اس کے جو اور آریہ صاحب مقابلہ پر آویں.ان کو بھی پابندی اس شرط کی اور ایسا ہی دوسری شرائط کی حسب تصریحات مذکورہ بالا ضروری ہوگی.اور اگر ہماری لاش پر گنگا بشن صاحب قادر نہ ہوسکیں تو وہ دس ہزار روپیہ جو ہماری طرف سے جمع ہو گا وہ گنگا بشن صاحب کے لئے بطور نشانِ فتح سمجھا جائے گا.اب جانبین کی شرطیں کمال تک پہنچ گئیں.آئندہ کسی فریق کو جائز نہ ہوگا.جو ان شرائط سے کم یا زیادہ کرے ورنہ اس کی گریز اور شکست متصور ہوگی.اور آئندہ ایسے شخص سے ہرگز خطاب نہیں کیا جائے گا.منہ ( یہ اشتہار " کے دو صفحہ پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۸۳ تا ۹۲)

Page 290

مجموعہ اشتہارات ۲۷۴ IM جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محال است سعدی که راه صفا توان یافت جز در پئے مصطفے سردار راج اندرسنگھ صاحب متوجہ ہو کر سنیں آپ کا رسالہ جس کا نام آپ نے خبط قادیانی کا علاج رکھا ہے میرے پاس پہنچا اس میں جس قدر آپ نے ہمارے سید و مولیٰ جناب محمد مصطفیٰ واحد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور نہایت بے باکی سے بے ادبیاں کیں اور بے اصل تہمتیں لگا ئیں اس کا ہم کیا جواب دیں اور کیا لکھیں.سو ہم اس معاملہ کو اس قادر توانا کے سپرد کرتے ہیں جو اپنے پیاروں کے لئے غیرت رکھتا ہے.ہمارا افسوس اور بھی آپ کی نسبت ہوتا ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کس ادب اور تہذیب سے ہم نے ست بچن کو تالیف کیا تھا اور کیسے نیک الفاظ سے آپ کے بابا صاحب کو یاد کیا تھا اور اس کا عوض آپ نے یہ دیا.اگر آپ کو علم اور انصاف سے کچھ بہرہ ہوتا.اور دل میں پر ہیز گاری ہوتی تو آپ ان بیہودہ افتراؤں کی پیری نہ کرتے جن کا ہماری معتبر اور مسلم اور پاک کتابوں میں کوئی اصل صحیح نہیں پایا جاتا.خدا کا وہ مقدس پیارا جس نے اُس کی عزت اور جلال کے لئے اپنی جان کو ایک کیڑے کی جان کے برابر بھی عزت نہیں دی اور اُس کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کیا.اس کو آپ نے گندی گالیاں دیں لے ترجمہ.اے سعدی صفائی کے راستہ کو پانامحمد مصطفی کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں.

Page 291

مجموعہ اشتہارات ۲۷۵ جلد دوم اور اُس کی پاک شان میں طرح طرح کی بے باکیاں اور شوخیاں کیں.میرا خیال اب تک نہ تھا کہ سکھ صاحبوں میں ایسے لوگ بھی ہیں.آفتاب آپ کی نظر میں ایک ناچیز خس و خاشاک دکھائی دیا.اے غافل ! وہی ایک نور ہے جس نے دنیا کو تاریکی میں پایا اور روشن کیا اور مردہ پایا اور جان بخشی تمام نبوتیں اس سے ثابت ہوئیں اور وہ اپنی ذات میں ثابت ہے.بھلا بتاؤ! کہ اس کے سوا آج اس موجودہ دنیا میں کون ہے جس کا کوئی پیرو دم مارسکتا ہو کہ میں دعا اور خدا کی نصرت میں اپنے مخالف پر غالب آ سکتا ہوں؟ یوں تو کو چہ کو چہ اور گلی گلی میں مذہب پھیلے ہوئے ہیں اور ہر ایک اپنے نبی یا اوتار کے اعجوبے قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں بیان کر رہا ہے اور پتنکوں اور کتابوں کے حوالہ سے ہزاروں خوارق ان کے بیان کئے جاتے ہیں.لیکن سوال تو یہ ہے کہ ان قصوں کا ثبوت کیا ہے اور کس کو ہم جھوٹا کہیں اور کس کو ہم سچا سمجھیں ؟ اور اگر یہ قصے صحیح تھے تو اب کیوں یہ مصیبت پیش آئی کہ ان لوگوں کے ہاتھ میں صرف قصے ہی قصے رہ گئے؟ بچوں کا نور ہمیشہ قائم رہتا ہے.ذرہ خود انصاف کرو کہ کیا گذشتہ باتوں کا فیصلہ صرف باتوں سے ہوسکتا ہے؟ کوئی بُرا مانے یا بھلا مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان تمام مذہبوں میں سے بیچ پر قائم وہی مذہب ہے جس پر خدا کا ہاتھ ہے اور وہی مقبول دین ہے جس کی قبولیت کے نور ہر ایک زمانہ میں ظاہر ہوتے ہیں.یہ نہیں کہ پیچھے رہ گئے ہیں.سو دیکھو! میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ روشن مذہب اسلام ہے جس کے ساتھ خدا کی تائیدیں ہر وقت شامل ہیں.کیا ہی بزرگ قدر وہ رسول ہے جس سے ہم ہمیشہ تازہ بتازہ روشنی پاتے ہیں.اور کیا ہی برگزیدہ وہ نبی ہے جس کی محبت سے روح القدس ہمارے اندر سکونت کرتی ہے تب ہماری دعائیں قبول ہوتی ہیں اور عجائب کام ہم سے صادر ہوتے ہیں.زندہ خدا کا مزہ ہم اسی راہ میں دیکھتے ہیں.باقی سب مُردہ پرستیاں ہیں.کہاں ہیں مردہ پرست! کیا وہ بول سکتے ہیں؟ کہاں ہیں مخلوق پرست ! کیا وہ ہمارے آگے ٹھیر سکتے ہیں؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو شرارت سے کہتے تھے.جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئی نہیں ہوئی اور نہ کوئی نشان ظاہر ہوا؟ دیکھو! میں کہتا ہوں کہ وہ شرمندہ ہوں گے اور عنقریب

Page 292

مجموعہ اشتہارات جلد دوم وہ چھپتے پھریں گے! اور وہ وقت آتا ہے بلکہ آگیا کہ اسلام کی سچائی کا نور منکروں کے منہ پر طمانچے مارے گا ! اور انہیں نہیں دکھائی دے گا کہ کہاں چھپیں.یہ بھی یادر ہے کہ میں نے دو مرتبہ باوانا نک صاحب کو کشفی حالت میں دیکھا ہے اور ان کو اس بات کا اقراری پایا ہے کہ انہوں نے اُسی نور سے روشنی حاصل کی ہے.فضولیاں اور جھوٹ بولنا مردار خوروں کا کام ہے.میں وہی کہتا ہوں کہ جو میں نے دیکھا ہے.اسی وجہ سے میں باوانا تک صاحب کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہوں.کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ اس چشمہ سے پانی پیتے تھے جس سے ہم پیتے ہیں.اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس معرفت سے بات کر رہا ہوں کہ جو مجھے عطا کی گئی ہے.اب اگر آپ کو اس بات سے انکار ہے کہ باوانا نک صاحب مسلمان تھے اور نیز آپ کو اس بات پر اصرار ہے کہ بقول آپ کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ بدکار آدمی تھے تو میں آپ پر صرف منقولی استدلال سے اتمام حجت کرنا نہیں چاہتا بلکہ ایک اور طریق سے آپ پر خدا کی حجت پوری کرنا چاہتا ہوں جو آگے چل کر بیان کروں گا اور منقولی استدلال پر اس لئے حصر رکھنا پسند نہیں کرتا که بوجه قلت استعداد یہ راہ آپ کے لئے نہایت مشکل ہے.آپ لوگ صرف نادان پادریوں اور ایسا ہی اور بیہودہ اور نا سمجھ آدمیوں کے اعتراضات سن کر بوجہ دلی بخل کے اُن کو سچ سمجھ بیٹھے ہیں.اور پھر بغیر تحقیق اور تفتیش کے اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بدزبانی شروع کر دی ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ اسی شتاب کاری نے جو نادانی اور تعصب کے ساتھ ملی ہوئی تھی دنیا کو تباہی میں ڈال دیا ہے اور جہالت اور مفتر یا نہ روایات نے آفتاب پر تھوکنے کے لئے ان کو د لیر کر دیا ہے.اگر آنکھیں ہوں تو کس قد رندامت ہو.اور اگر بصیرت ہو تو کس قدر اپنی خطا پر رووہیں.اے غافلو! وہ عزت اور شوکت جو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو دی گئی.کیا جھوٹے کو مل سکتی ہے؟ یقیناً سمجھو کہ یہ بات خدا کی خدائی پر داغ لگاتی ہے کہ دنیا میں جھوٹے نبی کو وہ دائمی عزت اور قبولیت دی جائے جو بچوں کو ملتی ہے کیونکہ اس صورت میں حق مشتبہ ہو جاتا ہے اور امان اُٹھ جاتا ہے.کیا کسی نے دیکھا کہ مثلاً ایک جھوٹا تحصیلدار سے تحصیلدار کے مقابل پر دو چار برس تک مقدمات کرتا رہا.

Page 293

مجموعہ اشتہارات ۲۷۷ جلد دوم اور کسی کو قید اور کسی کو رہائی دیتارہا اور اعلی افسر اس مکان پر گزرتے رہے مگر کسی نے اس کو نہ پکڑ نہ پوچھا بلکہ اس کا حکم ایسا ہی چلتا رہا جیسا کہ بچے کا ؟ سو یقیناً سمجھو! کہ یہ بات بالکل غیر ممکن ہے کہ ایک نبی کی اتنی بڑی عزتیں اور شوکتیں دنیا میں پھیل جائیں کہ کروڑ ہا مخلوق اُس کی امت ہو جائے.بادشاہیاں قائم ہو جائیں اور صدہا برس گزر جائیں اور دراصل وہ نبی جھوٹا ہو.جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ایک بھی اس کی نظیر نہیں پاؤ گے.ہاں یہ ممکن ہے کہ دراصل کوئی نبی سچا ہو اور کتاب بچی ہو.پھر مرور زمانہ سے اس کتاب کی تعلیم بگڑ جائے.اور لوگ غلط منہمی سے اس کے منشاء کے برخلاف عمل کرنا شروع کر دیں.چنانچہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہر بگڑا ہوا مذ ہب جو دنیا میں پھیل گیا تھا اور جس نے ایک عمر پائی وہ کچی جڑ اپنے اندر مخفی رکھتا ہے گو اس کی تمام صورت بدلا ئی گئی.اسی لئے اسلام کسی عمر پانے والے اور جڑ پکڑنے والے مذہب کے پیشوا کو بدی سے یاد نہیں کرتا.کیونکہ یہ غیر ممکن ہے کہ جولوگ خدا کے حکم سے آتے اور اس کی کتاب لاتے ہیں اُن کے پہلو بہ پہلو عزت اور جلال میں وہ لوگ بھی ہوں جو نا پاک طبع اور خدا پر افترا کرنے والے ہیں.نہ انسانی گورنمنٹ کی غیرت اس بات کو قبول کر سکتی ہے اور نہ خدا کی غیرت.کہ جو لوگ جھوٹے طور پر اپنے تئیں عہدہ دار اور سرکاری ملازم ظاہر کرتے ہیں اُن کو ایسی عزت دی جائے جیسا کہ بچے کو اور اُن کو اپنے مفتر یا نہ کاموں میں ایسا ہی چھوڑا جائے جیسا کہ سیچوں کو اپنی جائز حکومتوں میں.اور وہ طریق جس کے رُو سے اس وقت آپ پر خدا کی حجت پوری کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ آپ کا دعوی ہے کہ باوانا تک صاحب مسلمان نہیں تھے اور میں کہتا ہوں کہ درحقیقت وہ مسلمان تھے لیے اور جیسا کہ بالا کی جنم ساکھی میں لکھا ہے.در حقیقت چولا جو اب ڈیرہ ناٹک میں موجود ہے یہ باوانا تک صاحب کا چولا تھا جو اُن کے مذہب کو ظاہر کرتا ہے اور چولا کی عزت جواب کی جاتی ہے در حقیقت یہ پرانی عزت ہے جو باوا صاحب سے ہی شروع ہوئی.ے باوانا تک صاحب کا مسلمان ہونا آپ کی ایک جنم ساکھی سے بھی پایا جاتا ہے جس نے صاف لفظوں میں اس بات کی طرف ایما کی ہے کہ باوا صاحب نے آخری عمر میں حیات خاں نامی ایک مسلمان کی لڑکی سے شادی کی تھی.منه

Page 294

مجموعہ اشتہارات ۲۷۸ جلد دوم (۲) دوسرے آپ کا دعوی ہے کہ نعوذ باللہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بد کار اور فاسق آدمی تھے اور باوانا تک صاحب آنجناب سے بیزار تھے اور آنحضرت کو بُرا کہا کرتے تھے.مگر میں کہتا ہوں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.بلکہ یہ باتیں اس وقت گرنتھوں میں ملائی گئی ہیں جبکہ سکھ مذہب میں بہت سا تعصب داخل ہو گیا تھا.ورنہ با وا صاحب در حقیقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں فدا تھے.اب فیصلہ اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ آپ اگر اپنے اس عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں تو ایک مجلس عام میں اس مضمون کی قسم کھاویں کہ در حقیقت باوانا نک دین اسلام سے بیزار تھے.اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کو بُرا سمجھتے تھے اور نیز در حقیقت پیغمبر اسلام نعوذ باللہ فاسق اور بدکار تھے اور خدا کے سچے نبی نہیں تھے.اور اگر یہ دونوں باتیں خلاف واقعہ ہیں تو اے قادر کرتار مجھے ایک سال تک اس گستاخی کی سخت سزا دے اور ہم آپ کی اس قسم پر پانسور و پیر ایک جگہ پر جہاں آپ کی اطمینان ہو جمع کرا دیتے ہیں.پس اگر آپ در حقیقت بچے ہوں گے تو سال کے عرصہ تک آپ کے ایک بال کا نقصان بھی نہیں ہو گا بلکہ مفت پانسور و پیہ آپ کو ملے گا اور ہماری ذلت اور روسیا ہی ہوگی.اور اگر آپ پر کوئی عذاب نازل ہو گیا تو تمام سکھ صاحبان درست ہو جائیں گے.صحار میں جانتا ہوں کے سکھ صاحبوں کو اسلام سے ایک مناسبت ہے جو ہندوؤں کو نہیں.اور وہ جلد آسمانی نشان کو سمجھ لیں گے.آپ لوگ ہندوؤں کی طرح بزدل نہیں بلکہ ایک بہادر قوم ہیں.اس لئے مجھے امید ہے کہ آپ اس طریق فیصلہ کو ضرور قبول کر لیں گے.اول ایک اخبار میں حسب بیان مذکورہ بالا چھپوانا ہو گا کہ میں ایسی قسم کھانے کے لئے طیار ہوں اور پھر ہماری چھپی ہوئی تحریر پہنچنے کے بعد قادیان میں آکر جلسہ عام میں تین مرتبہ قسم کھانی ہوگی.اب اس میں آپ زیادہ بیچ نہ ڈالیں.اس بات کو منظور کر لیں ہمارے دل گالیاں سنتے سنتے زخمی لے یہ ضروری ہوگا کہ جس اخبار میں آپ یہ اقرار شائع کریں ایک پر چہ اس اخبار کا بذریعہ رجسٹری ہمارے پاس صار بھیج دیں اور ہم ذمہ وار ہوں گے کہ تین ہفتہ تک روز وصول اخبار سے آپ کے لئے پانسور و پیہ جمع کرا دیں بشرطیکہ آپ بلا کم و بیش حسب ہدایت ہمارے اشتہار کے اقرارات مطلوبہ کو اپنی طرف سے شائع کر دیں.منہ

Page 295

مجموعہ اشتہارات ۲۷۹ جلد دوم ہو گئے ہیں.اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہمیں روسیا ہی اور ذلت پیش آئے گی اور لعنت کی موت سے ہم مریں گے.اور اگر ہم بچے ہیں تو خدا ہمارا انصاف کرے گا.میں آپ کو اس پر میشر کی قسم دیتا ہوں جس کی جناب میں آپ باوا نا تک صاحب کو واصل سمجھتے ہیں اور باوا صاحب کی عزت کا آپ کی خدمت میں واسطہ ڈالتا ہوں کہ آپ ضرور اس طریق امتحان کو قبول کر لیں.اور اگر اب بھی آپ میدان میں نہ آئیں اور حسب تصریح بالا قسم نہ کھائیں اور کمینہ بہانے پیش کریں تو تمام دنیا گواہ رہے کہ ان چند سطور کے ساتھ آپ کے رسالہ کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا.اور نا واقف لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کیوں بار بار موت یا عذاب کی پیشگوئیاں کی جاتی ہیں.یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا کے پاک بندوں کو بُرا کہنے والے کس بشارت کی پیشگوئی کے مستحق ہیں؟ نبیوں کے وقت میں بھی یہی ہوا.اور مسیح موعود" کے لئے بھی لکھا ہے کہ اُس کے دم سے کا فرمریں گے یعنی اس کی دعا سے اُن پر عذاب نازل ہوگا.سواگر عذاب کی پیشگوئیاں بدنامی ہیں تو یہ بدنامی تو خدا کے قول سے ہمارے حصہ میں آگئی ہے در کوئے نیکنامی ما را گذر ندادند گر تو نمی پسندی تغییر گن قضا را المشتہر میرزا غلام احمد قادیانی ۳۶×۲۰ ۱۸ را پریل ۱۸۹۷ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پرلیس قادیان ( یہ اشتہار کے دو صفحوں پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۹۲ تا ۹۹) نوٹ.ہم آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر کسی انسان کے ہاتھ سے آپ کو تکلیف پہنچے تو وہ ہماری بددعا کا اثر ہر گز نہیں سمجھا جائے گا بلکہ ہم صرف اس صورت میں صادق ٹھیریں گے کہ جب بغیر انسانی ہاتھوں کے محض خدا کی تقدیر سے آپ کسی لاعلاج بیماری اور آفت اور مصیبت میں ایک سال تک مبتلا ہو جا ئیں جس کا خاتمہ موت پر ہو اور اگر ایسا نہ ہوا تو بہر حالت ہم جھوٹے ٹھیریں گے اور آپ پانسور و پیہ پانے کے مستحق ٹھیر جائیں گے.منہ لے ترجمہ.نیک نامی کے راستہ ہمیں رسائی نہیں ملی اگر تجھے پسند نہیں تو حکم قضا کو بدل لے(اگر تجھ سے ہو سکے )

Page 296

مجموعہ اشتہارات ۲۸۰ (120) جلد دوم لالہ گنگا بشن ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ لالہ گنگا بشن صاحب کا اشتہار جس کا عنوان یہ ہے ”مرزا غلام احمد صاحب کی پھانسی کی خواہش آج بذریعہ رجسٹری مجھ کو پہنچا.تاریخ کوئی نہیں.وہ اپنے اشتہار کے صفحہ ۲ میں لکھتے ہیں کہ میں اپنی لاش دینی نہیں چاہتا اور پھر صفحہ ہم میں لکھا ہے کہ ”میں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا تو میرے والدین کا کوئی حق نہ ہوگا کہ میری لاش لیں.ہاں اگر لیں تو مرزا غلام احمد صاحب کو دس ہزار روپیہ دیں.اور ساتھ ہی اس بات کا عذر لکھا ہے کہ ”میں دس ہزار روپیہ جمع نہیں کراسکتا.اور میں آریہ سماج کا مبر نہیں.پھر وہ کیونکر میری امداد کریں گے.“ 66 افسوس کہ گنگا بشن نے اس اشتہار کے لکھنے میں ناحق وقت ضائع کیا.حالانکہ ہم اپنے اشتہار ۱۶ار اپریل ۱۸۹۷ء میں لکھ چکے تھے کہ اس اشتہار کے بعد کوئی جواب نہیں سنا جائے گا.یہ بات نہایت صاف تھی کہ جس حالت میں گنگا بشن نے ہماری لاش مانگی تھی تو ہمارا بھی حق تھا کہ ہم بھی اس کی لاش مانگیں اور دس ہزار روپیہ سے ہماری کچھ غرض نہیں تھی.وہ تو صرف اس لئے جمع کرانا قرین لے اصل اشتہار پر کوئی عنوان نہیں تھا.مضمون کے لحاظ سے یہ عنوان حضرت میر قاسم علی صاحب کا مجوزہ ہے.(مرتب) کے یہ اشتہار جلد ہذا میں زیر نمبر ۱۷۳ درج ہے.(مرتب)

Page 297

مجموعہ اشتہارات ۲۸۱ جلد دوم مصلحت تھا کہ اگر لاش دستیاب نہ ہو تو بجائے لاش وہی روپیہ ہمیں مل جائے.اور یہ عذر فضول ہے کہ میں آریہ سماج کا ممبر نہیں تا وہ اس قدر میرے لئے ہمدردی کر سکیں کہ دس ہزار روپیہ جمع کرا دیں.ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایسا شخص جو آریہ سماج کے دعوئی کی تائید میں اپنی جان قربان کرنا چاہتا ہے کیا ان کی نظر میں وہ قابل قدر نہیں؟ بے شک ایسا شخص جو آریہ مذہب کی عزت کے لئے جانفشانی تک طیار ہے نہ صرف آریہ سماج کا ممبر بلکہ ان کے مقدس لوگوں میں سے شمار ہونا چاہیے.ایسے جان نثار کی ہمدردی کے لیے دس ہزار روپیہ کیا حقیقت ہے.ناظرین کو معلوم ہے کہ بعض آریہ پر چوں میں لالہ گنگا بشن صاحب کو اس لاف زنی کے وقت آریہ بہادر کا خطاب بھی مل چکا ہے.تو اب آریہ صاحبان کیونکر منظور کریں گے کہ اس بہادر پر شکست کا کلنگ لگے؟ خلاصہ کلام یہ کہ ہم شرائط کو بدلنا نہیں چاہتے.یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ آئے دن شرطیں بدلی جائیں.اور یادر ہے کہ گنگا بشن صاحب کو دس ہزار روپیہ جمع کرانا کچھ بھی مشکل نہیں.کیونکہ اگر آریہ صاحبوں کی بھی درحقیقت یہی رائے ہے کہ لیکھرام کا قاتل درحقیقت یہی راقم ہے اور وہ یقین دل سے جانتے ہیں کہ الہام اور مکالمہ الہی سب جھوٹی باتیں ہیں.بلکہ اس راقم کی سازش سے وقوع قتل ظہور میں آیا ہے تو وہ بشوق دل لالہ گنگا بشن کو مدددیں گے اور دس ہزار کیا وہ پچاس ہزار تک جمع کرا سکتے ہیں.اور وہ یہ بھی انتظام کر سکتے ہیں کہ جو دس ہزار روپیہ مجھ سے لیا جائے گا وہ آریہ سماج کے نیک کاموں میں خرچ ہو گا.تو اب آریہ صاحبوں کا اس بات میں کیا حرج ہے کہ بطور ضمانت لاش دس ہزار روپیہ جمع کرا دیں.بلکہ یہ تو ایک مفت کی تجارت ہے جس میں کسی قسم کا دھڑ کا نہیں.اس میں یہ بھی فائدہ ہے کہ گورنمنٹ کو معلوم رہے گا کہ آریہ قوم کی رضا مندی سے یہ معاملہ وقوع میں آیا ہے.اور نیز اس اعلیٰ نشان سے روز کے جھگڑے طے ہو جائیں گے.اور اگر یہ حالت ہے کہ آریہ قوم کے معزز لالہ گنگا بشن کو اس رائے میں کہ یہ عاجز لیکھر ام کا قاتل ہے جھوٹا سمجھتے ہیں.اسی واسطے اس کی ہمدردی نہیں کر سکتے اور جانتے ہیں کہ یہ شخص جھوٹا ہے کہ آخر اس پر خدا کا عذاب آئے گا.ہم دس ہزار روپیہ کیوں ضائع کریں تو ایسے جھوٹے کو اپنے مقابلہ پر بلا نا جس کی قوم ہی اس کو بد چلن اور دروغگو خیال کرے، ایک نا اہل کو عزت دینا ہے.

Page 298

مجموعہ اشتہارات ۲۸۲ جلد دوم غرض اگر آر یہ صاحبوں کے معزز لوگوں کی میری نسبت یہ رائے نہیں ہے کہ میں لیکھرام کا قاتل ہوں تو اس کے بعد مجھے اس جھگڑے میں پڑنا ضروری نہیں.کیونکہ اگر شریف اور معزز آریہ مجھ کو اس جرم سے بری سمجھتے ہیں اور ایسی تہمت لگانے والے کو جھوٹا اور کا ذب خیال کرتے ہیں تو پھر مجھے کونسی ضرورت ہے کہ ایسے شخص کے مقابلہ کا فکر کروں جس کو پہلے سے اس کی قوم ہی جھوٹا تسلیم کر چکی ہے.میں نے لالہ گنگا بشن کو دس ہزار روپیہ دینا اس خیال سے منظور کیا تھا کہ معزز آریہ اندرونی طور پر اس کے ساتھ ہوں گے اور وہ بطور وکیل ہوگا.غرض اب شرائط ہر گز کم و بیش نہیں کی جائیں گی.لالہ گنگا بشن یا درکھیں کہ ہمارے اشتہار میں دس ہزار روپیہ کی کوئی شرط نہیں تھی.ہم نے ان کی بات کو صرف اسی لحاظ سے مان لیا تھا کہ ان کے لئے یہ روپیہ ہماری پھانسی کی جگہ فتح کا نشان ہو.سوا گروہ آریہ قوم کے نزدیک جو اصل مدعی اور لیکھر ام کے وارث اور اس کے لئے غیرت رکھتے ہیں اپنی رائے میں سچے ہیں تو ان سے لے کر دس ہزار روپیہ جمع کر دیں یا اُسی غیبی امداد والے شخص سے لے لیں جس نے بھاری امداد کا وعدہ فرمایا ہے یعنی جس کا ذکر انہوں نے صفحہ سات اشتہار میں کیا ہے.اگر منظور نہیں تو آئیندہ اُن کو ہرگز جواب نہیں دیا جائے گا.اور ان کے مقابل پر یہ ہمارا آخری اشتہار ہے.لے وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتہر میرزا غلام احمد قادیانی ۲۷ اپریل ۱۸۹۷ء ( مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۹۹ تا ۱۰۲) ا نوٹ.اگر لالہ گنگا بشن حسب منشاء ہمارے اشتہار ۱۶ / اپریل ۱۸۹۷ء کے دس ہزار روپیہ ہمارے لئے ایسی جگہ جمع کرا دیں جس کے وصول ہونے میں کچھ وقت نہ ہو تو اس صورت میں یہ بھی لازم ہوگا کہ وہ بذریعہ اپنے اشتہار کے مجھے اطلاع نہ دیں بلکہ بذریعہ ایک معتبر اخبار کے جیسا کہ اخبار عام یا پیسہ اخبار مطلع کریں.اور تمام شرائط منظور شدہ فریقین اس میں درج کرا دیں ورنہ آئندہ ہم سے کچھ خط و کتابت نہ کریں.منہ

Page 299

مجموعہ اشتہارات ۲۸۳ (124) جلد دوم م حسین رنگ اش بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ گرا باش مرسین يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ يُخلف الله وَعْدَة.اشتہار واجب الاظہار شیخ محمد حسین بٹالوی اڈیٹر اشاعۃ السنہ کا ایک اشتہار جس پر تاریخ کوئی نہیں اور جس کا یہ عنوان ہے ( الہامی قاتل مرزا غلام احمد الخ) میری نظر سے گزرا شیخ صاحب کا یہ اشتہار بھی ان بیجا نیش زنیوں اور مفتریا نہ حملوں سے بھرا ہوا ہے کہ جو ہمیشہ وہ اپنی سرشت اور خاصیت کی وجہ سے کیا کرتے ہیں.لیکن اس وقت اُن نا پاک اتہامات کا جواب دینا ضروری نہیں.ہم ان کے دشمن اسلام رسالہ کے نکلنے کے منتظر ہیں.تب انشاء اللہ كَمَا حَقَّهُ ان شیطانی وساوس کو دور کیا جائے گا بالفعل جس مطلب کے لئے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ شیخ صاحب مقدم الذکر اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ لیکھرام والی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اور نیز ارقام فرماتے ہیں کہ میں اس بارے میں قسم کھانے کے لئے طیار ہوں مگر ایک برس کی میعاد سے ڈرتے ہیں.ایسا نہ ہو کہ اس قدر مدت میں مر جائیں یا کوئی اور عذاب نازل ہو جائے لیکن میں مکرر اُن کو سمجھاتا ہوں کہ ایک ایسے شخص کے ساتھ کہ اپنی ذکر کردہ میعاد کی بنیاد الہام کٹھہراتا ہے ضد کرنا حماقت ہے.صاحب الہام کے لئے الہام کی پیروی ضروری ہوتی ہے ہاں النمل : ۴۷ الحج: ۴۸

Page 300

مجموعہ اشتہارات ۲۸۴ جلد دوم اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ چند ہفتہ میں ان پر عذاب نازل کرے مگر ہماری طرف سے ایک برس کی ہی میعاد ہوگی.اب اس سے ان کا منہ پھیر نا اپنے دروغگو ہونے کا اقرار کرنا ہے.اے شیخ بٹالوی صاحب آپ تسلی رکھیں کہ اگر آپ اپنی قسم میں بچے ہوں گے تو کوئی عذاب نازل نہیں ہوگا.لیکن اگر قسم میں کوئی چھپی ہوئی بے ایمانی ہوگی تو خدا تعالیٰ آپ کو ضرور سزا دے گا تا دوسرے مولوی عبرت پکڑیں.مگر یہ شرط ضروری ہوگی کہ قسم کھانے سے پہلے آپ جلسہ و قسم میں چپ بیٹھ کر برابر دو گھنٹے تک میری وہ وجوہات سنیں جو میں اپنے الہام اور پیشگوئی کے صحت وقوع کے بارے میں بیان کروں گا اور آپ کو اختیار نہیں ہوگا کہ کچھ چون و چرا کریں بلکہ میت کی طرح عالم خاموشی میں رہ کر سنتے رہیں گے اور پھر اٹھ کر اسی عبارت کے ساتھ جو آپ اشتہار میں لکھ چکے ہیں تین مرتبہ قسم کھا ئیں گے اور ہم آمین کہیں گے.صرف اس قدر عبارت میں تبدیلی ہوگی کہ بجائے فوراً کے ایک برس کا نام لیں گے.اور اگر اب آپ نے پہلو تہی کی اور بے ہودہ شرائط اور پیچ در پیچ حیلہ حوالے کی باتوں کو شروع کر دیا جیسا کہ آپ کی عادت ہے تو سب پر کھل جائے گا کہ آپ کی نیت صحیح نہیں ہے اور آپ اپنی پہلی شامت اعمال کی محافظت میں لگے ہوئے ہیں.غرض یہ ہمارا آخری اشتہار ہے.اگر آپ اپنی ملا نہ حیلہ بازیوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کے ساتھ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے اور نہ پھر ہم آپ کو مخاطب کریں گے.مجھے بہت افسوس ہوا کہ آپ بھی گنگا بشن کی طرح روپیہ کے لالچ میں پڑ گئے.غالباً آپ پہلے ایسے نہیں ہوں گے نہ معلوم کیا کیا حاجتیں پیش آئیں.لے اے شیخ صاحب! یہ سزا اور عذاب جو تم کے بعد ایک برس تک آپ پر وارد ہو گا اس میں معجزانہ شرط ہم نے رکھ دی ہے کہ وہ ایسا عذاب ہو کہ آپ نے اپنی پہلی زندگی میں اس کا مزہ نہ چکھا ہو.خواہ زمین سے ہو خواہ آسمان سے اور خواہ آپ کی مالی حالت پر وارد ہو اور خواہ عزت پر اور خواہ جان پر.اور خواہ اس عرصہ میں ہمارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اور عظیم الشان اور فوق العادت نشان ظاہر ہو جائے جس سے ہزار ہا لوگ آپ پر لعنت بھیجیں اور آپ کے منہ پر تھوکیں کہ اس نے شرارت اور خیانت سے صادق کا مقابلہ کیا.مگر ہر ایک عذاب فوق العادت ہونا ضروری ہوگا.منہ یکم مئی ۹۷ء

Page 301

مجموعہ اشتہارات ۲۸۵ جلد دوم اس جگہ یہ لکھنا بھی اپنے احباب کے لئے وصایا ضرور یہ میں سے ہے کہ ہم نے نہ محمد حسین کے لئے اور نہ گنگا بشن کے لئے کوئی ایسی شرط لگائی جو ہماری گریز اور بد نیتی پر محمول ہو سکے.ہم خوب جانتے ہیں اور یقین کامل سے جانتے ہیں کہ ان تمام مخالفوں کو خدا تعالیٰ ایک ذلیل کرے گا.اگر چہ خدا تعالیٰ محمد حسین اور گنگا بشن کو چند ہفتہ تک جزائے بیبا کی دے سکتا ہے لیکن ایک سال شرط بوجہ رعایت سنت اور الہامات متواترہ کے ہے.اور محمد حسین کے لئے جو یہ شرط ٹھیرائی گئی کہ قسم کھانے سے پہلے دو گھنٹے تک ہمارے الہام اور پیشگوئی لیکھر ام والی کے متعلق دلائل سنے.یہ گریز نہیں ہے.بلکہ یہ ام مسنون ہے کہ تا خدا تعالیٰ کی حجت بالمواجہ پوری ہو جائے ممکن ہے کہ بباعث اس زنگ کے جواس کے دل پر ہے کوئی امر اس پر مشتبہ ہو.پس بالمواجہ بیان کرنے سے یہ تمام دلائل اس کے سامنے رکھے جائیں گے اور اس طرح پر خدا تعالیٰ کا الزام اس پر پورا ہو جائے گا.بے شک خدا تعالیٰ مفسدوں کو ہلاک کرتا ہے.لیکن جب تک کوئی مفسد صریح جھوٹ بول کر اس کے قانون کے نیچے نہ آوے یا صریح طور پر کسی ظلم کا ارتکاب نہ کرے تب تک خدا تعالیٰ اس دنیا میں اس کو نہیں پکڑتا اور اس کا حساب عالم آخرت کے سپرد ہوتا ہے.اسی وجہ سے محمد حسین کے بارے میں دو گھنٹے تبلیغ کی شرط لگائی گئی.اور ایک سال کی میعاد مقرر کی گئی اور گنگا بشن کے معاملہ میں جو ہم نے لاش لینے کی شرط لگائی.یہ اس کی شرط کے بعد لگائی گئی یعنی جبکہ اس نے ہماری لاش لینے کے لئے شرط پیش کی.پس ہمیں انصافاً حق تھا کہ اس کی اس درجہ کی سخت گیری اور توہین کے ساتھ ہم بھی لاش کی شرط لگاتے.اگر فرض کر لیں کہ اس نے صرف ٹھٹھا کیا لیکن تو ہین تو کی.اس لئے خدا نے اس کی واقعی تو ہین کا ارادہ کیا.یہ اس کی سزا تھی جس کی ابتداء اسی نے کی.یہ بھی خوب یادر ہے کہ میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ لاش لینے کی شرط گنگا بشن نے خود کی تھی.اور ایسا کلمہ منہ پر لانا نہ میری تو ہین بلکہ دین اسلام کی تو ہین تھی.اور اس کی سزا یہی تھی کہ فتحیابی کی حالت میں اس کی لاش ہمیں ملے تا وہ کلمہ جو شوخی سے وہ ہمارے لئے منہ پر لایا وہ واقعی طور پر اس پر واقع ہو.اس میں ہماری کیا زیادتی تھی اور کونسی ہم نے گریز کی.کیا ہم نے ابتداء یہ شرط ٹھہرائی تھی.

Page 302

مجموعہ اشتہارات ۲۸۶ جلد دوم جس کا دل پاک ہو اور کسی نجاست سے آلودہ نہ ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا کی یہ عادت ہے کہ توہین کرنے والے کی تو ہین اسی پر ڈال دیتا ہے.دیکھو جب محمد حسین بٹالوی نے میری نسبت یہ کہنا شروع کیا کہ یہ جاہل ہے عربی کا ایک صیغہ نہیں جانتا تو خدا تعالیٰ نے کیسی اس کی جہالت ثابت کی.ہزاروں روپے کے انعام کی عربی کتابیں شائع کی گئیں.وہ بول نہ سکا گویا زندہ ہی مر گیا.ایسا ہی جب گنگا بشن نے لاش مانگی اور لکھا کہ میں جو کام چاہوں گا اس لاش سے کرونگا خدا کو یہ پسند نہ آیا اس لئے میں نے نہ اپنے نفس سے بلکہ الہی جوش سے اس کی لاش کو مانگا.اس بات کو یاد کر رکھو کہ اگر وہ میدان میں آیا تو یہ سب کام اس کی لاش سے ہوں گے جو میری لاش کی نسبت اسنے بیان کئے تھے.یہی تو وہ بات ہے کہ مَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ.پس ان لوگوں کی حالت پر افسوس ہے کہ جو خدا کے کاروبار پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کے دل جلد سیاہ ہونے کو طیار ہو جاتے ہیں.یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پیشگوئی کا اثر پڑنے کے لئے کسی قدر قوم کا دخل ضروری ہے.پس اگر آریہ قوم کے گنگا بشن کو ایسا ہی ذلیل جانتی ہے کہ باوجود یکہ وہ اُن کے لئے جان دینے کو طیار ہے.مگر وہ قوم اس کو اس قدر عزت بھی نہیں دے سکتی کہ دس ہزار روپیہ اس کے لئے جمع کرا دیں.تو کیا ایسا ذلیل مقابلہ کے لائق ہے.ال عمران : ۵۵ ے نوٹ.اے آریہ صاحبان آپ لوگ متوجہ ہو کر سنیں کہ گنگا بشن بہت عزت دینے کے لائق ہے اس نے آپ کے لئے اپنی نوکری کو جس پر تمام ذریعہ معاش کا تھا.ہاتھ سے دیا.اس نے آپ کے لئے فقر وفاقہ کو منظور کیا.اس نے آپ کے لئے اس بات کی بھی پروانہ رکھی کہ علانیہ ایک شخص کو قاتل لیکھرام ٹھیرا کر قانونی مواخذہ کے نیچے آ جائیگا.پھر سب سے زیادہ بات یہ ہے کہ اس نے آریہ مت کو عزت دینے کے لئے بالا رادہ اپنی جان قربان کرنا پسند کیا اور پھر یہ کہ اپنی لاش کی ذات کو بھی منظور کیا.کیا ابھی آپ لوگوں کا دل اس کے لئے نرم نہیں ہوا.کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ آپ دس ہزار روپیہ اس کے سر پر سے قربان کر دیں.آپ انصافا کہیں کہ یہ خوبیاں اور جانفشانیاں اور آریہ دھرم کے لیے یہ قدم صدق جو گنگا بشن نے دکھایا لیکھرام میں کہاں تھا.سچ تو یہ ہے کہ اندھی دُنیا مُردہ کا

Page 303

مجموعہ اشتہارات ۲۸۷ جلد دوم پھر میں کہتا ہوں کہ اگر آریہ قوم در حقیقت گنگا بشن کو اپنی قسم میں سچا سمجھتی ہے تو اس رقم کا جمع کرانا اُن کے لئے کیا مشکل ہے.لیکن اگر جھوٹا مجھتی ہے.تو پھر ایسے جھوٹے کو مقابلہ کی عزت دینا مصلحت سے بعید ہے اور نیز گورنمنٹ بھی ہمارے کاموں کو دیکھتی ہے کہ کیا ہم ادنی ادنی آدمی کے مقابلہ پر سبک مزاجی کے طور پر لڑنے کو طیار ہو جاتے ہیں یا ایسے شخصوں کے ساتھ جو اُن کا مقابلہ قوم کے مقابلہ کے حکم میں ہوتا ہے اور ابتداء انہیں سے ہوتی ہے.اور پھر یہ بھی بات ہے کہ آریہ صاحبوں کو دس ہزار و پیہ جمع کرانے میں کچھ دقت بھی نہیں.ہم تو صرف فتح کے نشان کے لئے گنگا بشن کی لاش کے خواستگار ہیں.اور دس ہزار روپیہ تو صرف اس صورت میں تاوان کی طرح لیا جائے گا کہ جب لاش دینے سے انکار کریں.کیا خوب ہو کہ آریہ لوگ اس اپنے وفا دار جان نثار گنگا بشن کو اس ناچیز امداد سے محروم نہ رکھیں.کیا جان دینے سے کوئی اور نشان آریہ ہونے کا ہوگا.روز کے جھگڑوں کے طے ہونے کے لئے یہ نہایت عمدہ تقریب پیدا ہوئی ہے.اگر آریہ صاحبوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے دیا تو پھر آئیندہ ان کو حق نہیں ہوگا کہ اخباروں میں میری نسبت شائع کریں کہ یہی شخص لیکھرام کا قاتل ہے.بقیہ حاشیہ.قدر کرتی ہے زندہ کا کوئی قدر نہیں کرتا.آپ لوگوں کو مناسب ہے کہ بلا توقف دس ہزار روپیہ گنگا بشن کی لاش کی ضمانت کے لئے جمع کرا دیں اور با ضابطہ سر کاری سند ہم کو دلا دیں.گنگا بشن نے آپ لوگوں کے لئے تمام کاروبار اپنے برباد کر دیئے.اب صرف ایک جان باقی ہے وہ بھی آریہ دھرم پر قربان کرنے کے لئے ہتھیلی پر رکھے کھڑا ہے.اگر ایسے مہاتما کا قدر نہ کر تو پھر آپ لوگوں میں مردم شناسی کا مادہ ہی نہیں.اور نیز اب اگر آپ نے اس قوم کے بہادر کی مدد نہ کی اور اس کا ساتھ نہ دیا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کا سبب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ آپ لوگوں کے دلوں میں کامل یقین کے ساتھ یہ بات جم گئی ہے کہ لیکھر ام صرف پیشگوئی کے اثر سے خدا تعالیٰ کے حکم سے اپنی سزا کو پہنچا ہے اور وہی تجربہ آپ کو گنگا بشن کی مدد دینے سے روکتا ہے ورنہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے فدائی قوم کی کیوں ہمدردی نہیں کی جاتی جس نے آریہ مذہب کے لئے اپنی معاش کو بھی تباہ کر لیا اور اپنی جان دینے کو بھی طیار ہے.منہ

Page 304

مجموعہ اشتہارات ۲۸۸ جلد دوم اور لالہ گنگا بشن یا درکھیں کہ اب بغیر اس طریق کے ان کے لئے کوئی چارہ نہیں.ان کے لئے دس ہزار روپیہ ایک ادنی ہندو جمع کراسکتا ہے.اور قوم اگر چاہے تو دس لاکھ جمع کراسکتی ہے.یہ فیصلہ ناطق ہے.آریہ صاحبان صرف منہ سے مجھے لیکھرام کا قاتل نہ بتا دیں.اگر میں قاتل ہوں تو وہ عالم الغیب جس سے ان کو بھی انکار نہیں.اس کا فیصلہ دیکھ لیں.زیادہ کیا لکھا جائے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی یہ اشتہار " کے ایک صفحہ کلاں پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۲۱ تا ۲۶) یکم مئی ۹۷ء

Page 305

مجموعہ اشتہارات ۲۸۹ (22) جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اشتهار قطعی فیصلہ کے لئے یہ خدا کی قدرت ہے کہ جس قدر مخالف مولویوں نے چاہا کہ ہماری جماعت کو کم کریں وہ اور بھی زیادہ ہوئی اور جس قدر لوگوں کو ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہا وہ اور بھی داخل ہوئے یہاں تک کہ ہزار تک نوبت پہنچ گئی.اب ہر روز سرگرمی سے یہ کارروائی ہورہی ہے اور خدا تعالیٰ اچھے پودوں کو اُس طرف سے اُکھاڑتا اور ہمارے باغ میں لگاتا جاتا ہے.کیا منقول کی رو سے اور کیا معقول کی رو سے اور کیا آسمانی شہادتوں کی رو سے دن بدن خدا تعالیٰ ہماری تائید میں ہے.اب بھی اگر مخالف مولوی یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور یہ لوگ باطل پر اور خدا ہمارے ساتھ ہے اور ان لوگوں پر لعنت اور غضب الہی ہے تو باوجود اس کے کہ ہماری حجت ان پر پوری ہو چکی ہے پھر دوبارہ ہم ان کو حق اور باطل پر کھنے کے لئے موقع دیتے ہیں.اگر وہ فی الواقع اپنے تئیں حق پر سمجھتے ہیں اور ہمیں باطل پر اور چاہتے ہیں کہ حق کھل جائے اور باطل معدوم ہو جائے تو اس طریق کو اختیار کر لیں.اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ پر اور میں اپنی جگہ پر خدا تعالی کی جناب میں دعا کریں اُن کی طرف سے یہ دعا ہو

Page 306

مجموعہ اشتہارات ۲۹۰ جلد دوم کہ یا الہی اگر یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تیرے نزدیک جھوٹا اور کاذب اور مفتری ہے اور ہم اپنی رائے میں بچے اور حق پر اور تیرے مقبول بندے ہیں تو ایک سال تک کوئی فوق العادت امر غیب بطور نشان ہم پر ظاہر فرما اور ایک سال کے اندر ہی اس کو پورا کر دے.اور میں اس کے مقابل پر یہ دعا کروں گا کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور درحقیقت مسیح موعود ہوں تو ایک اور نشان پیشگوئی کے ذریعہ سے میرے لئے ظاہر فرما اور اس کو ایک سال کے اندر پورا کر.پھر اگر ایک سال کے اندر اُن کی تائید میں کوئی نشان ظاہر ہوا.اور میری تائید میں کچھ ظاہر نہ ہوا تو میں جھوٹا ٹھہروں گا.اور اگر میری تائید میں کچھ ظاہر ہوا مگر اس کے مقابل پر اُن کی تائید میں بھی ویسا یہ کوئی نشان ظاہر ہو گیا تب بھی میں جھوٹا ٹھہروں گا.لیکن اگر میری تائید میں ایک سال کے عرصہ تک کھلا کھلا نشان ظاہر ہو گیا اور اُن کی تائید میں نہ ہوا تو اس صورت میں میں سچا ٹھہروں گا اور شرط یہ ہوگی کہ اگر تصریحات متذکرہ بالا کی رو سے فریق مخالف سچا نکلا تو میں اُن کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا اور جہاں تک ممکن ہوگا میں اپنی وہ کتابیں جلا دوں گا جن میں ایسے دعوی یا الہامات ہیں.کیونکہ اگر خدا نے مجھے جھوٹا کیا تو پھر میں ایسی کتابوں کو پاک اور مقدس خیال نہیں کر سکتا.اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اپنے موجودہ اعتقاد کے برخلاف یقینی طور پر سمجھ لوں گا کہ محمد حسین بٹالوی اور عبدالجبار غزنوی اور عبدالحق غزنوی اور رشید احمد گنگوہی اور محمد حسین کا پیارا دوست محمد بخش جعفر زٹلی اور دوسرا پیارا دوست محمد علی بو پڑی یہ سب اولیاء اللہ اور عباداللہ الصالحین ہیں.اور جس قدر ان لوگوں نے مجھے گالیاں دیں اور لعنتیں بھیجیں.یہ سب ایسے کام تھے کہ جن سے خدا تعالیٰ ان پر راضی ہوا.اور قرب اور اصطفا اور اجتبا کے مراتب تک اُن کو پہنچا دیا.میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ایسا ہی کروں گا.اگر خدا کی مرضی مجھے عزت دینے کی نہیں تو میرے پر لعنت ہے اگر میں اس کے برخلاف کروں.لیکن اگر تصریحات بالا کی رو سے خدا نے مجھے سچا کر دیا تو چاہیے کہ محمد حسین بٹالوی اور عبدالحق غزنوی اور عبدالجبار غزنوی اور رشید احمد

Page 307

مجموعہ اشتہارات ۲۹۱ جلد دوم گنگوہی میرے ہاتھ پر تو بہ کریں اور میرے دعوی کی تصدیق کر کے میری جماعت میں داخل ہوں تا یہ تفرقہ دور ہو جائے.اندرونی تفرقہ نے مسلمانوں کو تباہ کر دیا ہے.یہ خدا کا سیدھا سادھا فیصلہ ہوگا جس میں کسی فریق کی چوں چرا پیش نہیں جائے گی.اس اشتہار کے مخاطب محمد حسین بٹالوی ، عبد الجبار غزنوی، عبد الحق غزنوی، رشید احمد گنگوہی ہیں.یہ چاروں اپنے تئیں مومن ظاہر کرتے ہیں.اور مومن خدا کے نزدیک ولی ہوتا ہے اور بحر حال کا فر اور دجال کی نسبت مومن کی دعا جلد قبول ہوتی ہے.اسی لئے خدا کے نیک بندے قبولیت دعا سے شناخت کئے جاتے ہیں اور ان دعاؤں کے لئے ضروری نہیں کہ بالمواجہ کی جائیں بلکہ چاہیے کہ فریق مخالف مجھے خاص اشتہار کے ذریعہ سے اطلاع دے کر پھر اپنے گھروں میں دُعائیں کرنی شروع کردیں اور ابتداء سال کا اشتہار کی تاریخ اشاعت سے سمجھا جائے گا.یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ چاروں مولوی مقابلہ کریں بلکہ جو شخص اُن میں سے ڈر کر بھاگ جائے اس نالائق کو جانے دو.وہ اس بات پر مُہر لگا گیا کہ وہ چھوٹا اور گریز کی لعنت اس کے سر پر ہے.اور یہ ضروری ہوگا کہ جو مرغیب ان چاروں میں سے کسی پر ظاہر ہو اس کو بذریعہ اشتہارات مطبوعہ لوگوں پر ظاہر کر دے اور ان میں سے ایک اشتہار بذریعہ رجسٹری میرے پاس بھیج دے.اور جو امر مجھ پر ظاہر ہو جو پہلے ظاہر نہیں کیا گیا، مجھ پر بھی لازم ہو گا کہ بذریعہ اشتہار اس کو شائع کروں اور ایک ایک اشتہار بذریعہ رجسٹری چاروں صاحبوں کی خدمت میں یا جس قدر اُن میں سے مقابلہ پر آویں بھیج دوں.اس طریق سے روز کے جھگڑے طے ہو جائیں گے.ہم دونوں فریقوں میں سے جو ملعون ہے اس کا ملعون ہونا ثابت ہو جائے گا اور جو مقرون ہے اس کا مقرون ہونا ثابت ہو جائے گا.اور اگر امرت سر اور لاہور کے رئیس اس فیصلہ کے لئے مولویان مذکورین کو مستعد کریں تو اُن کی ہمدردی اسلامی قابل شکر گزاری ہوگی.اور بالخصوص انجمن اسلامیہ کے سکرٹری خان بہادر برکت علی خاں صاحب اور انجمن حمایت اسلام کے ایک سال انگریزی مہینوں کے حساب سے سمجھا جائیگا.منه

Page 308

مجموعہ اشتہارات ۲۹۲ جلد دوم سکرٹری منشی شمس الدین صاحب اور انجمن نعمانیہ کے سکرٹری منشی تاج الدین صاحب کی خدمت میں للہ التماس ہے کہ ضرور اس طرف توجہ فرماویں.ہزاروں مسلمان کا فر سمجھے گئے اور سخت تفرقہ پڑ گیا ہے.آپ صاحبوں کے اصول کچھ ہی ہوں.ہمیں اس سے بحث نہیں لیکن آپ صاحبوں کی بڑی مہربانی ہوگی جو آپ مدددد یو یں.ضیاءالاسلام پرلیس قادیان والسلام المشتہر مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹ رمئی ۱۸۹۷ عیسوی ۲۶×۲۰ یہ اشتہار کے ایک صفحہ پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۰۹ تا ۱۱۳) م

Page 309

مجموعہ اشتہارات ۲۹۳ (KN) جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ حسین کا می سفیر سلطان روم پر چه اخبار ۵ امئی ۱۸۹۷ء ناظم الہند لاہور میں جو ایک شیعہ اخبار ہے سفیر مذکور العنوان کا ایک خط چھپا ہے جو بالکل گندہ اور خلاف تہذیب اور انسانیت ہے اور اس خط کے عنوان میں یہ لکھا ہے کہ سفیر صاحب متواتر درخواستوں کے بعد قادیان میں تشریف لے گئے.اور پھر متاسف اور مکدر اور ملول خاطر واپس آئے.اور پھر یہی ایڈیٹر لکھتا ہے کہ اس لیے قادیان بلایا تھا کہ اُن کے ہاتھ پر تو بہ کریں کیونکہ وہ نائب حضرت خلیفتہ المسلمین ہیں.ان افتراؤں کا بجز اس کے کیا جواب دیں.کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ.اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ مجھے دنیا داروں اور منافقوں کی ملاقات سے اس قدر بیزاری اور نفرت ہے جیسا کہ نجاست سے.مجھے نہ کچھ سلطان روم کی طرف حاجت ہے اور نہ اس کے کسی سفیر کی ملاقات کا شوق ہے میرے لئے ایک سلطان کافی ہے جو آسمان اور زمین کا حقیقی بادشاہ ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے کہ کسی دوسرے کی طرف مجھے حاجت پڑے اس عالم سے گزر جاؤں.آسمان کی بادشاہت کے آگے دنیا کی بادشاہت اس قدر بھی مرتبہ نہیں رکھتی جیسا کہ آفتاب کے مقابل پر ایک کیٹر ا مرا ہوا.پھر جب کہ ہمارے بادشاہ کے آگے سلطان روم بیچ ہے تو اس کا سفیر کیا چیز !! میرے نزدیک واجب التعظیم اور واجب الاطاعت اور شکر گذاری کے لائق گورنمنٹ

Page 310

مجموعہ اشتہارات ۲۹۴ جلد دوم انگریزی ہے.جس کے زیر سایہ امن کے ساتھ یہ آسمانی کارروائی میں کر رہا ہوں.ترکی سلطنت آج کل تاریکی سے بھری ہوئی ہے اور وہی شامت اعمال بھگت رہی ہے اور ہر گز ممکن نہیں کہ اس کے زیر سایہ رہ کر ہم کسی راستی کو پھیلا سکیں.شاید بہت سے لوگ اس فقرہ سے ناراض ہوں گے مگر یہی حق ہے.یہی باتیں ہیں کہ سفیر مذکور کے ساتھ خلوت میں کی گئیں تھیں جو سفیر کو بری معلوم ہوئیں.سفیر مذکور نے خلوت کی ملاقات کے لئے خود التجا کی اور اگر چہ مجھ کو اس کی اول ملاقات میں ہی دنیا پرستی کی بد بو آئی تھی اور منافقانہ طریق دکھائی دیا تھا مگر حسن اخلاق نے مجھے بوجہ مہمان ہونے کے اس کی اجازت دینے کے لئے مجبور کیا.نامبردہ نے خلوت کی ملاقات میں سلطان روم کے لئے خاص دعا کرنے کے لئے درخواست کی اور یہ بھی چاہا کہ آئیندہ اس کے لئے جو کچھ آسمانی قضا قدر سے آنے والا ہے اس سے وہ اطلاع پاوے.میں نے اس کو صاف کہہ دیا کہ سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اُس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں.یہی وہ باتیں تھیں جو سفیر کو اپنی بدقسمتی سے بہت بُری معلوم ہوئیں.میں نے کئی اشارات سے اس بات پر زور دیا کہ رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصور وار ہے اور خدا کچے تقویٰ اور طہارت اور نوع انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اور روم کی حالت موجودہ بر بادی کو چاہتی ہے.تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ.مگر میں اس کے دل کی طرف خیال کر رہا تھا کہ وہ ان باتوں کو بہت برا مانتا تھا اور یہ ایک صریح دلیل اس بات پر ہے.کہ سلطنت روم کے اچھے دن نہیں ہیں.اور پھر اس کا بدگوئی کے ساتھ واپس جانا یہ اور دلیل ہے کہ زوال کی علامات موجود ہیں.ماسوا اُس کے میرے دعوئی مسیح موعود اور مہدی معہود کے بارے میں بھی کئی باتیں درمیان آئیں.میں نے اُس کو بار بار سمجھایا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور کسی خونی مسیح اور خونی مہدی کا انتظار کرنا جیسا کہ عام مسلمانوں کا خیال ہے یہ سب بیہودہ قصے ہیں.اسکے ساتھ میں نے یہ بھی اس کو کہا کہ خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا.بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تمام باتیں تیر کی طرح اس کو لگتی تھیں اور میں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ جو کچھ خدا

Page 311

مجموعہ اشتہارات ۲۹۵ جلد دوم نے الہام کے ذریعہ فرمایا تھاوہی کہا تھا اور پھر ان تمام باتوں کے بعد گورنمنٹ برطانیہ کا بھی ذکر آیا اور جیسا کہ میرا قدیم سے عقیدہ ہے.میں نے اس کو بار بار کہا کہ ہم اس گورنمنٹ سے دلی اخلاص رکھتے ہیں اور دلی وفادار اور دلی شکر گزار ہیں کیونکہ اس کے زیر سایہ اس قدر امن سے زندگی بسر کر رہے ہیں کہ کسی دوسری سلطنت کے نیچے ہرگز امید نہیں کہ وہ امن حاصل ہو سکے.کیا میں اسلام بول میں امن کے ساتھ اس دعوی کو پھیلا سکتا ہوں کہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں اور یہ کہ تلوار چلانے کی سب روایتیں جھوٹ ہیں.کیا یہ سن کر اس جگہ کے درندے مولوی اور قاضی حملہ نہیں کریں گے.اور کیا سلطانی انتظام بھی تقاضا نہیں کرے گا کہ اُن کی مرضی کو مقدم رکھا جائے.پھر مجھے سلطان روم سے کیا فائدہ.ان سب باتوں کو سفیر مذکور نے تعجب سے سنا اور حیرت سے میرا منہ دیکھتا تھا.یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے خط میں جو ناظم الہند ۱۵ رمئی ۱۸۹۷ء میں چھپا ہے.میرا نام نمرود اور شداد اور شیطان رکھتا ہے اور مجھے جھوٹا اور مزور اور مورد غضب الہی قرار دیتا ہے.لیکن یہ سخت گوئی اس کی جائے افسوس نہیں کیونکہ انسان نابینائی کی حالت میں سورج کو بھی تاریک خیال کر سکتا ہے.اس کے لئے بہتر تھا کہ میرے پاس نہ آتا.میرے پاس سے ایسی بدگوئی سے واپس جانا اُس کی سخت بد قسمتی ہے.اور مجھے کچھ ضرور نہ تھا کہ میں اُس کی یاوہ گوئی کا ذکر کرتا مگر اُس نے بپاداش نیکی ہر ایک شخص کے پاس بدی کرنا شروع کیا اور بٹالہ اور امرت سر اور لاہور میں بہت سے آدمیوں کے پاس وہ دل آزار باتیں میری نسبت اور میری جماعت کی نسبت کہیں کہ ایک شریف آدمی با وجود اختلاف رائے کہ کبھی زبان پر نہیں لاسکتا.افسوس کہ میں نے بہت شوق اور آرزو کے بعد گورنمنٹ روم کا نمونہ دیکھا تو یہ دیکھا.اور میں مکرر ناظرین کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مجھے اس سفیر کی ملاقات کا ایک ذرہ شوق نہ تھا بلکہ جب میں نے سُنا کہ لاہور کی میری جماعت اُس سے ملی ہے تو میں نے افسوس کیا اور اُن کی طرف ملامت کا خط لکھا کہ یہ کارروائی میرے منشاء کے خلاف کی گئی.پھر آخر سفیر نے لاہور سے ایک انکساری خط میری طرف لکھا کہ میں ملنا چاہتا ہوں.سو اس کے الحاج پر میں نے اس کو قادیان آنے کی اجازت دی.لیکن اللہ جلشانہ، جانتا ہے جس پر جھوٹ باندھنا لعنت کا داغ خریدنا ہے کہ اس عالم الغیب نے مجھے پہلے

Page 312

مجموعہ اشتہارات ۲۹۶ جلد دوم سے اطلاع دے دی تھی کہ اس شخص کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے.سوایسا ہی ظہور میں آیا.اب میں سفیر مذکور کا انکساری خط جو میری طرف پہنچا تھا اور پھر اس کا دوسرا خط جو ناظم الہند میں چھپا ہے ذیل میں لکھتا ہوں.ناظرین خود پڑھ لیں اور نتیجہ نکال لیں.اور ہماری جماعت کو چاہیے کہ آیندہ ایسے شخص کے ملنے سے دستکش رہیں.آسمانی سلسلہ سے دنیا پیار نہیں کرسکتی.المشتهر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی نقل اس خلا کی جو سفیر نے لاہور سے ہماری ملاقات کی درخواست کے لئے بھیجا تھا.بسم اللہ الرحمن الرحیم.جناب مستطاب معلی القاب قدوة الحققين قطب العارفین حضرت پیر دستگیر میرزا غلام احمد صاحب دام کراماتہ.چوں اوصاف جمیلہ واخلاق حمیدہ آں ذات ملکوتی صفات در شہر لاہور بسمع ممنونیت و از مریدان سعادت انتسابان تقاریر و تصانیف عالیہ آں نجسته مقام بدست احترام وممنونیت رسید - لہذا سودائے زیارت دیدار ساطع الانوار سویدائے دل شناور یر البریز اشتیاق کرده است - انشاء اللہ تعالیٰ از لاہور بطریق امرت سر به خاکپائے روحانیت احتویٰ سامی خواهم رسید و در میں خصوص تلغراف بر حضور سراسر نور مقدس خواهم کشید - فقط حسین کا می سفیر سلطان المعظم مهر نقل اس خط کی جو سفیر کی طرف سے ناظم الہند ۵ ارمئی ۱۸۹۷ء میں چھپا ہے.بحضور سید السادات العظام وفخر النجباء الكرام مولنا سیدمحمد نا ظرحسین صاحب ناظم ادام اللہ فیوضہ وظل عاطفته سیدی و مولائی؟ التفات نامه ذات سامی شما بدست تبجیل و احترام ما رسید الحق ممنونیت غیر مترقبه عظمی بخشید فدایت شوم که استفسار احوال غرائب اشتمال کادیان و کادیانی ( قادیان و قادیانی) لے نوٹ.غور کرنے کے لائق ہے کہ یہ القاب کسی مذہب کے شخص کے لئے لکھا ہے.منہ

Page 313

مجموعہ اشتہارات ۲۹۷ جلد دوم را فرموده بودید - اکنون ما بکمال تمکین ذیلاً بخدمت والا نہمت و عالی بیان وافاده می کنم که این شخص عجیب و غریب از صراط المستقیم اسلام برگشته قدم بر دائره علیهم والضالین گذاشته و تزویر محبت حضرت خاتم النبیین را در پیش گرفته و بزعم باطل خویش باب رسالت را مفتوح دانسته است شائستہ ہزاراں خنده است که فرق در بین نبوت ورسالت پنداشته است و معاذ اللہ تعالی می گوید که خداوند عالم رسول صلعم را گا ہے در فرقان حمید و قرآن مجید بعنوان خاتم المرسلین معنن نکرده است فقط بخطاب خاتم النبین اکتفا فرموده است - القصه اینکه اول خود را ولی مهم می گفت بعده مسیح موعود گشتہ.آہستہ آہستہ بقول مجرد خود صعود بمرتبہ عالیہ مہدویت کرده استعيذ بالله تعالیٰ خود را از خود رائی بپائی معلائے رسالت رسانده است بناعلی ہذا ظن غالب مابران است که ترقی پنجمیں قدم بر سریر شریر داد و نمرود نهاده کلاہ الوہیت بر سر سرکش خود که کانِ خیالات فاسدہ و معدن مالیخولیا و ہذیانات باطله است میگذارد و عجب است که شاعر معجز بیان در حق این ضعیف الاعتقاد والبنیان چندیاں سال قبل ازیں گویا بطور پیشگوئی تدوین ایں شعر در دیوان اشعار آبدار خود کرده است.سال اوّل مطرب آمد سال دوم خواجه شد بخت گر یاری کند امسال سید می شود خلاصہ از یں سخها در گذرید و اورا بر شیطنش پسرید و ما را از پریشان نویسی معاف دارید عزیز اسلام ما را نجناب شریعتمدار مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب و جناب داروغه عبدالغفور خاں صاحب برسانید و سائنٹمٹر پائی خود را گرفته بصوب ماروانه کنید تا که از دارالخلافہ اسلامبول کفش مسجدے مطابق آن بظلم و در هر خصوص برذات عالی شما تقدیم مراسم احترامکاری کردہ مسارعت بر استبنا ئی طبع عالی می نمایم.والسلام - الراقم حسین کا می مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان ۲۴ رمئی ۹۷ء ۳۰×۲۰ (یہ اشتہار " کے چار صفحہ پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۱۳ تا ۱۱۸)

Page 314

جلد دوم مجموعہ اشتہارات ترجمه از مرتب ۲۹۸ نقل اس خط کی جو سفیر نے لاہور سے ہماری ملاقات کی درخواست کے لئے بھیجا تھا.بسم اللہ الرحمن الرحیم جناب مستطاب مُعلی القاب قدوة المتقين قطب العارفین حضرت پیر دستگیر میرزا غلام احمد صاحب دام کراماتہ چوں اوصاف جمیلہ واخلاق حمیدہ آں ذات ملکوتی صفات شہر لاہور میں ممنونیت کے کانوں سے کہ آپ کے سعادت مند مریدوں سے ہوں اور آپ کی تصانیف عالیہ جو مبارک مقام ہیں احترام اور ممنونیت کے ہاتھ سے پہنچیں.اس لئے زیارت کا جنوں ہوا.تا کہ چمکیلے اور بھڑکتے ہوئے انوار کا دیدار کر سکوں اور دل میں تعریف اور جھر جھریوں کے شوق کا جذبہ پیدا ہوا.انشاء اللہ لا ہور سے امرتسر کے راستے روحانیت کے گرد آلود پاؤں کے ساتھ پہنچوں گا اور یہ خصوصی تار حضور کی خدمت میں جوسراسر نور مقدس ہیں بھیجوں گا.فقط مہ حسین کا می سفیر سلطان المعظم ) نقل اس خط کی جو سفیر کی طرف سے ناظم الہند ۵ ارمئی ۱۸۹۷ء میں چھپا ہے.بحضور سيّد السادات العظام و فخر النجباء الكرام مولانا سید محمد ناظر حسین صاحب ناظم ادام الله فیوضه و ظل عاطفته.سیدی و مولائی.آپ کی بلند ذات کی طرف سے یہ التفات نامہ عزت و گرامی ہاتھوں سے ہم تک پہنچا.الحق اس نے غیر معمولی ممنونیت عظمی بخشی.میں آپ پر فدا ہوں کہ آپ نے قادیان اور قادیان کے اردگرد کے حالات کا استفسار فرمایا ہے.اب میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ بلند ہمت عالی بیان سے افادہ کرتا ہوں کہ یہ شخص عجیب و غریب ہے اور اسلام کے صراط مستقیم سے برگشتہ قدم ہے اور علیہم والضالین کے دائرہ میں قدم رکھے ہوئے ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جھوٹ کو سامنے رکھے ہوئے اپنے زعم باطل سے باب رسالت کو کھلا ہوا جانتا ہے یہ بات ہزارہنسی کے لائق ہے کہ وہ نبوت و رسالت کے درمیان فرق سمجھتا ہے اور معاذ اللہ یہ کہتا ہے کہ رسول کریم کو خدا نے قرآن مجید اور فرقان حمید میں

Page 315

مجموعہ اشتہارات ۲۹۹ جلد دوم خاتم المرسلین کے عنوان سے معنون نہیں کیا ہے صرف خاتم النبیین کا خطاب ہی عطا فرمایا ہے.مختصر بات یہ کہ اول اپنے آپ کو ولی ملہم کہتا تھا اس کے بعد مسیح موعود ہو گیا.آہستہ آہستہ صرف اپنے قول سے مہدویت کے مرتبہ عالی تک پہنچا ہے اور اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس نے اپنے آپ کو اپنی رائے کے مطابق رسالت کے پائے معلی تک پہنچا دیا ہے.اس بات کا گمان کرتے ہوئے ہم اس بات پر پہنچے ہیں کہ پانچویں قدم کی ترقی کر کے وہ شریر شداد نمرود کے قدم پر چلتے ہوئے الوہیت کا کلاہ اپنے سرکش سر پر رکھے گا کہ جس میں خیالات فاسدہ ہیں اور وہ مالیخولیا کی کان ہے اس میں ہذیان باطلہ ہیں اور کچھ تعجب نہیں کہ اس ضعیف الاعتقاد کے بارے میں شاعر معجز بیان کہا جائے.اس سے چند سال پہلے پیشگوئی کے طور پر اشعار کے دیوان میں اس نے کچھ اشعار اپنے تدوین کیے ہیں.سال اول میں وہ مطرب بن گیا اور دوسرے میں خواجہ اور قسمت نے یاوری کی تو امسال وہ سید ہوگا.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان باتوں کو معاف کرو اور اسے شیطان کا بیٹا سمجھو اور ہمیں اس پریشان نویسی سے معاف کرو عزیز! ہمارا سلام شریعت مدار مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب اور داروغہ عبدالغفور خان صاحب کو پہنچاؤ اور اپنے پاؤں کا ماپ لے کر ہماری طرف روانہ کریں تا کہ میں دارالخلافہ استنبول سے مسجد کا ایک جوتا اس کے مطابق میں طلب کروں تا کہ میں آپ کی ذات عالی کو احترام کے طور پر پیش کروں اور طبع عالی کے لئے میں جلدی پیش کرسکوں.والسلام الراقم حسین کا می

Page 316

مجموعہ اشتہارات 129 جلد دوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جلسه شکریہ جشن جو بلی شصت سالہ حضرت قیصرہ ہند دام ظلہا قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ خدا کی نعمت کا لوگوں کے پاس شکر گزاری کے ساتھ ذکر کر ہم نے بار بار اپنی کتابوں میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وجود حضرت قیصرہ ہند دام ظلہا ہمارے لئے ایک خدا کی نعمت ہے.ہم اس محسن گورنمنٹ کے سایہ کے نیچے امن کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور آزادی کے ساتھ اپنی رائے کی اشاعت کر رہے ہیں.اور خدا نے ہماری جان اور مال اور آبرو کے لئے اس گورنمنٹ کو محافظ بنا دیا ہے.پس ان تمام وجوہ سے ہم پر واجب ہے کہ ہم سچے دل سے نہ نفاق سے اس گورنمنٹ کے شکر گزار ہوں اور جناب قیصرہ ہند دام ظلہا کی عمر وا قبال و دولت اور اس خاندان کے دوام اور بقا کے لئے نہ دل سے دعا کریں.سوخدا تعالیٰ نے اس شکر اور ان دعاؤں کے لئے جشن جو بلی کا ہمیں ایک موقعہ دیا ہے.اور یہ دن حقیقت میں عظیم الشان خوشی کا موجب ہے الضحى : ۱۲

Page 317

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام ظلہا کے شصت سالہ زمانہ تخت نشینی کو امن اور عافیت اور ترقی اقبال کے ساتھ پورا کیا.اور اس زمانہ میں بے شمار فوائد اپنے بندوں کو پہنچائے.سو میری رائے ہے کہ اس خوشی کے اظہار اور شکر اور دعا کے لئے میری جماعت کے دوست اور احباب جو پنجاب اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں ، انیس جون ۱۸۹۷ء کو بمقام قادیان جمع ہوں.اور جیسا کہ اس بارے میں ہدایات از جانب جناب وائس پریذیڈنٹ جنرل کمیٹی اہل اسلام ہند بتاریخ یکم جون ۱۸۹۷ء شائع ہوئی ہیں اُن کے مطابق ۲۰ / اور ۲۱ / جون ۱۸۹۷ء کو اظہار شکر اور دعا اور خوشی کی جائے.چونکہ ہماری جماعت کی طرف سے اظہار خوشی اور شکر اور دعا کے لیے یہ ایک عام جلسہ ہے جس کی مدد مصارف میں ہر ایک کو شریک ہونا واجب ہے لہذا تاکید کے طور پر یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ جس جس صاحب کو یہ اشتہار پہنچے وہ اپنی طاقت اور مقدرت کے موافق اس جلسہ کے مصارف کے لئے بلا توقف چندہ روانہ کریں.ہر ایک شخص اپنی حیثیت کے موافق اس ہدایت پر کار بند ہو.اس جلسہ کے لئے جس قدر صاحب چندہ دینے میں شریک ہوں گے اور ۲۰ / جون ۱۸۹۷ء سے پہلے قادیان میں آکر تمام جماعت کے ساتھ جلسہ شکریہ کے مراسم ادا کریں گے ان تمام صاحبوں کے نام تفصیل رقم چندہ اور نیز باظہار اس تمام سرگرمی اور مستعدی کے جو ان سے ظاہر ہوئی لکھ کر بذریعہ طبع شائع کئے جائیں گے اور ایک کا پی اُن کی جنرل کمیٹی کو بھی بھیجی جائے گی تا جیسا کہ جنرل کمیٹی اہل اسلام ہند کی طرف سے وعدہ ہے ان کے نام قومی تاریخ میں یادگار کے واسطے درج ہوں.اگر کسی کے دل میں یہ وسوسہ گذرے کہ یہ تمام امور دنیا داری اور خوشامد میں داخل ہیں اور الہی سلسلہ سے مناسبت نہیں رکھتے تو اس کو یقیناً سمجھنا چاہیے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے.ہم اس شکر گزاری کے جلسہ میں سرکار انگریزی سے کسی جاگیر کی درخواست نہیں کرتے اور نہ کوئی لقب چاہتے ہیں اور نہ کسی انعام کے خواستگار ہیں اور نہ یہ خیال ہے کہ وہ ہمیں اچھا کہیں بلکہ یہ جلسہ محض اس بار سے سبکدوش ہونے کے لئے ہے جو ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے احسانات کا بار ہمارے سر پر ہے.خوب یا درکھو کہ جو شخص انسان کا شکر ادا نہیں کرتا اس نے خدا کا بھی شکر ادا نہیں کیا.ہمارے

Page 318

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کسی کام میں نفاق نہیں.ہم خوب جانتے ہیں کہ نیکی کرنے والوں کی نیکی کو ضائع کرنا بدذاتی ہے.بعض نادان مسلمانوں نے ہم پر اعتراض کیا ہے کہ جوٹر کی سفیر کے خط کارڈ بذریعہ اشتہار شائع کیا گیا ہے اس میں سلطان روم کی بے ادبی کی گئی ہے اور وہ خلیفتہ المؤمنین ہے اور نیز اس اشتہار میں مداہنہ کے طور پر انگریزوں کی تعریف کی گئی ہے.لیکن واضح رہے کہ یہ تمام باتیں کو نہ اندیشی اور بخل کی وجہ سے ہمارے مخالفوں کے منہ سے نکل رہی ہیں.ہم نے سلطان کو کچھ بُرا نہیں کہا اور نہ بے ادبی کی بلکہ ہمیں افسوس ہے کہ جس شخص کے ایسے سفیر اور ایسے ارکان ہیں اس کی حالت قابل رحم ہے.ہم نے اس سفیر کو بچشم خود دیکھا ہے کہ بجائے نماز تمام روز شطرنج اور ٹھٹھا اور ہنسی میں گزارتا تھا.وہ قادیان میں آکر ایک ایسی جماعت کے اندر آ گیا تھا جو اس بے قیدی کی طرز اور طریق سے بالکل مخالف تھی.خدا جانتا ہے کہ ہمارا دل اس بات سے جلتا اور کباب ہوتا ہے اور بے اختیار جوش اُٹھتا ہے کہ ایسے دنوں میں اس سلطنت کے ارکان کو چاہیے تھا کہ تقویٰ میں ترقی کرتے.منہیات سے باز آتے.نماز کی پابندی اختیار کرتے.خدا تعالیٰ سے ڈرتے اور بے قیدوں اور بدر وشوں کی طرح زندگی بسر نہ کرتے.کیونکہ اسلام کی تمام ترقی تقوی سے شروع ہوئی ہے اور پھر جب اسلام ترقی کرے گا تقویٰ سے کرے گا.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ.رہی یہ بات کہ سلطان روم خلیفہ المؤمنین ہے اس کے ارکان کی نسبت ایسے سو عوادب کے الفاظ منہ پر لانا بیبا کی اور گستاخی میں داخل ہے.سو یہ سراسرنا بھی ہے اور در حقیقت جو شخص مجھے ایک کا فرد جال بے ایمان کا ذب خیال کرتا ہے وہ بیشک میری اُس تقریر سے سخت ناراض ہو گا جو میں نے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء میں شائع کی ہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ ذرا اپنے دلوں میں فرض کر لو کہ اگر یہ تقریر اس شخص کی طرف سے ہے جو خدا کی طرف سے تیرہ سو برس کے وعدہ کے موافق مسیح موعود ہو کر آیا ہے اور خدا کا نائب ہے.جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا ہے.تو کیا سلطان روم کی عظمت کو اُس کے مقابل یاد کرنا اور الرعد : ۱۲

Page 319

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اس کی عظمت کو بالکل بھلا دینا بے ایمانی ہے یا نہیں.جن دلوں پر خدا کی لعنت ہے اُن کا تو کچھ علاج نہیں لیکن عقلمند اور ایماندار جانتے ہیں کہ ایسے شخص کے ساتھ جس کو خدا آسمانی خلافت دے کر ایک عظیم الشان کام کے لئے بھیجتا ہے روم کے ایک ظاہری فرمانروا کو کیا نسبت ہے؟ لے یا درکھو کہ خدا کے فرستادہ کی توہین ہے.چاہو تو مجھے گالیاں دو تمہارا اختیار ہے کیونکہ آسمانی سلطنت تمہارے نزدیک حقیر ہے.سلطان کا خلیفہ المؤمنین ہونا صرف اپنے منہ کا دعویٰ ہے لیکن وہ خلافت جس کا آج سے سترہ برس پہلے براہین احمدیہ اور نیز ازالہ اوہام میں ذکر ہے حقیقی خلافت وہی ہے.کیا وہ الہام یاد نہیں ؟ أَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ.خَلِيفَةَ اللَّهِ السُّلْطَان.ہاں ہماری خلافت روحانی ہے اور آسمانی ہے نہ زمینی.یہ قاعدہ ہے کہ جس شخص کو انسان حقیر اور ذلیل جانتا ہے اس کو ایسے شخص کے مقابل پر بات کرنے سے بے ادب خیال کرتا ہے جس کو وہ عظیم الشان سمجھتا ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ جب یسوع مسیح نے سردار کا ہن کے سامنے ایک بات کہی جو سردار کا بہن کو بُری معلوم ہوئی تو ایک سپاہی نے مسیح کے منہ پر طمانچہ مار کر کہا کہ کیا تو سردار کا ہن کی بے ادبی کرتا ہے؟ کیونکہ اس وقت اُن لوگوں کی نظر میں حضرت عیسی مسیح ایک حقیر اور ذلیل آدمی تھا جو کا ذب اور کا فرخیال کیا گیا.پس جبکہ سردار کا ہن کی دنیوی عزت کے لئے مسیح نے ایک ادنی سپاہی کے ہاتھ سے طمانچہ کھایا تو پھر وہ شخص جو مسیح کے نام پر آیا ہے اگر سلطان روم کے جاہل حمایتیوں نے منہ سے گالیاں سنے تو کیا بعید ہے.رہی یہ بات کہ اشتہار مذکور میں انگریزی سلطنت کی تعریف کی گئی ہے.سویا در ہے کہ یہ ہرگز منافقانہ تعریف نہیں لَعْنَةُ اللهِ عَلَى مَنْ نَافَقَ.بلکہ ہم سچے دل سے کہتے ہیں اور صحیح صحیح کہتے ہیں کہ اس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہم نے بہت امن پایا ہے.اس لئے اس کا شکر ہم پر واجب ہے.اور له ابن سیرین رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ مہدی موعود بعض نبیوں سے بھی افضل ہے.پس ایسے لوگوں کی حالت پر سخت افسوس ہے جو ایک بادشاہ کے لئے جو دنیوی زندگی رکھتا ہے مجھ کو جو اپنے مہدی موعود ہونے کا دلائل کے ساتھ ثبوت دیتا ہوں گالیاں دیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ سراسر دنیا کے کیڑے ہو گئے ہیں.خدا اور رسول پر ان کا ایمان نہیں رہا.منہ

Page 320

مجموعہ اشتہارات ۳۰۴ جلد دوم مجھے ان شریر انسانوں کی حالت پر نہایت تعجب ہے کہ اب تک وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ جزاء احسان احسان ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ فقط الہشتم میرزا غلام احمد قادیانی مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان دارالامان ۲۶۲۰ یہ اشتہار کے دو صفحہ پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۳۳ تا ۱۲۷) ۷/ جون ۱۸۹۷ء الرحمن : ٦١

Page 321

مجموعہ اشتہارات ۳۰۵ ١٨٠ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي جلسه احباب بر تقریب جشن جو بلی بغرض دعا و شکر گذاری جناب ملکہ معظمہ قیصر و بند دَامَ ظِلُّهَا ہم بڑی خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام ظلہا کے جشن جو بلی کی خوشی اور شکریہ کے ادا کرنے کے لئے میری جماعت کے اکثر احباب دور دور کی مسافت قطع کر کے ۱۹ جون ۱۸۹۷ء کو ہی قادیان میں تشریف لائے.اور یہ سب ۲۲۵ آدمی تھے.اور اس جگہ کے ہمارے مرید اور مخلص بھی اُن کے ساتھ شامل ہوئے جن سے ایک گروہ کثیر ہو گیا اور وہ سب ۲۰/ جون ۱۸۹۷ء کو اس مبارک تقریب میں باہم مل کر دعا اور شکر باری تعالیٰ میں مصروف ہوئے اور جیسا کہ اشتہار وائس پریذیڈنٹ جنرل کمیٹی اہل اسلام ہند جناب خانصاحب محمد حیات خانصاحب سی.ایس.آئی میں اس بارے میں ہدایتیں تھیں.بفضلہ تعالیٰ اسی کے موافق سب مراسم خوشی عمدہ طور پر ظہور میں آئیں.چنانچہ ۲۰ / جون ۱۸۹۷ء کو ہماری طرف سے مبارکباد کی تار برقی بحضور رائسرائے گورنر جنرل کشور هند بمقام شملہ روانہ کی گئی.اور اُسی روز سے ۲۲ / جون ۱۸۹۷ء تک غریبوں اور درویشوں کو برابر

Page 322

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کھانا دیا گیا.مگر ۲۱ / جون ۱۸۹۷ء کو اس خوشی کے اظہار کے لئے ایک بڑی دعوت کا سامان ہوا.اور اس قصبہ کے غربا اور درویش دعوت کے لئے بلائے گئے اور جیسا کہ شادیوں کے موقع پر کھانے پکائے جاتے ہیں.ایسا ہی بڑے تکلف سے کھانے طیار ہوئے اور تمام حاضرین کو کھلائے گئے.اس روز تین سو سے زیادہ آدمی تھے جو دعوت میں شریک ہوئے.پھر ۲۲ جون کی رات کو چراغاں ہوئی اور کو چوں اور گلیوں اور مسجدوں اور گھروں میں شام ہوتے ہی نظر گاہ عام پر چراغ روشن کرائے گئے اور غریبوں کو اپنے پاس سے تیل دیا گیا.اور علاوہ اس کے اظہار مسرت کے لئے عام دعوت میں لوگوں کو شامل کیا گیا.غرض یہ مبارک جلسہ تمام احباب کا جنہوں نے بڑی خوشی سے با ہم چندہ کر کے اس کا اہتمام کیا ۲۰ جون ۱۸۹۷ء سے شروع ہوا.اور ۲۲ / جون ۱۸۹۷ ء کی شام تک بڑی دھوم دھام سے اس کا اہتمام رہا.چنانچہ پہلے روز میں تمام جماعت نے جو ہمارے مریدوں کی جماعت ہے جن کے ذیل میں نام درج ہوں گے بڑے صدق دل سے حضور قیصرہ اور خاندان شاہی اور برٹش گورنمنٹ کے حق میں اقبال اور شمول فضل الہی کی دعائیں کیں اور پھر جیسا کہ بیان کیا گیا وقتا فوقتا تمام مراسم ادا کئے گئے اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری جماعت نے جس میں معزز ملازم سرکاری بھی شامل تھے ایسے صدق دل اور محبت اور پوری ارادت اور پورے شوق اور انبساط سے دعائیں کیں اور شکر گذاری ظاہر کی اور اہتمام غرباء کی دعوت میں چندے دیئے اور ایک رقم کثیر با ہمی چندہ سے جمع کر کے بڑی سرگرمی اور مستعدی اور دلی خوشی سے تمام تجاویز جنرل کمیٹی کو انجام تک پہنچایا کہ اس سے بڑھ کر خیال میں نہیں آ سکتا.اور وہ تقریر جو دعا اور شکر گذاری جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند میں سنائی گئی جس پر لوگوں نے بڑی خوشی سے آمین کے نعرے مارے وہ چھ زبانوں میں بیان کی گئی تاہمارے پنجاب کے ملک میں جس قدر مسلمان کسی زبان میں دسترس رکھتے ہیں اُن تمام زبانوں سے شکر ادا ہو.اُن میں سے ایک اردو میں تقریر تھی جو شکر اور دعا پر مشتمل تھی جو عام جلسہ میں سنائی گئی اور پھر عربی اور فارسی اور انگریزی ا

Page 323

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اور پنجابی اور پشتو میں تقریریں قلمبند ہو کر پڑھی گئیں.اردو میں اس لئے کہ وہ عدالت کی بولی اور شاہی تجویز کے موافق دفتروں میں رواج یافتہ ہے اور عربی میں اس لئے کہ وہ خدا کی بولی ہے جس سے دنیا کی تمام زبانیں نکلیں اور جواُم الالسنہ اور دنیا کی تمام زبانوں کی ماں ہے جس میں خدا کی کتاب قرآن شریف خلقت کی ہدایت کے لئے آیا.اور فارسی میں اس لئے کہ وہ گذشتہ اسلامی بادشاہوں کی یادگار ہے جنہوں نے اس ملک میں قریباً سات سو برس تک فرمانروائی کی.اور انگریزی میں اس لئے کہ وہ ہماری جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند اور اس کے معزز ارکان کی زبان ہے جس کے عدل اور احسان کے ہم شکر گزار ہیں.اور پنجابی میں اس لئے کہ وہ ہماری مادری زبان ہے جس میں شکر کرنا واجب ہے اور پشتو میں اس لئے کہ وہ ہماری زبان اور فارسی زبان میں ایک برزخ اور سرحدی اقبال کا نشان ہے.اسی تقریب پر ایک کتاب شکر گذاری جناب قیصرہ ہند کے لئے تالیف کر کے اور چھاپ کر اس کا نام تحفہ قیصر یہ رکھا گیا اور چند جلدیں اس کی نہایت خوبصورت مجلد کرا کے اُن میں سے ایک حضرت قیصرہ ہند کے حضور میں بھیجنے کے لئے بخدمت صاحب ڈپٹی کمشنر بھیجی گئی اور ایک کتاب بحضور وائسرائے گورنر جنرل کشور ہند روانہ ہوئی اور ایک بحضور جناب نواب لفٹنٹ گورنر پنجاب بھیج دی گئی.اب وہ دعا ئیں جو چھ زبانوں میں کی گئیں.ذیل میں لکھی جاتی ہیں.اور بعد اس کے اُن تمام دوستوں کے نام درج کئے جائیں گے جو تکالیف سفر اُٹھا کر اس جلسہ کے لئے قادیان میں تشریف لائے اور اس سخت گرمی میں اس خوشی کے جوش میں مشقتیں اُٹھا ئیں یہاں تک کہ بباعث ایک گروہ کثیر جمع ہونے کے اس قدر چار پائیاں نہ مل سکیں تو بڑی خوشی سے تین دن تک اکثر احباب زمین پر سوتے رہے.جس اخلاص اور محبت اور صدق دل کے ساتھ میری جماعت کے معزز اصحاب نے اس خوشی کی رسم کو ادا کیا میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ میں بیان کرسکوں.میں پہلے اپنے بیان میں یہ ذکر بھول گیا تھا کہ اس تقریب جلسہ میں ۲۲ جون ۱۸۹۷ء کو ہماری جماعت کے چار مولوی صاحبان نے اُٹھ کر عام لوگوں کو جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی اطاعت اور کچی وفاداری کی ترغیب دی.چنانچہ پہلے اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے اُٹھ کر اس بارے

Page 324

مجموعہ اشتہارات ۳۰۸ جلد دوم میں بہت تقریر کی.پھر ا خویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی نے تقریر کی اور پھر بعد اُن کے اخویم مولوی برہان الدین صاحب جہلمی اُٹھے اور انہوں نے پنجابی میں تقریر کر کے عام لوگوں کو اطاعت ملکہ معظمہ کے لئے بہت ترغیب دی.بعد اُن کے مولوی جمال الدین صاحب سید والا ضلع منٹگمری نے اُٹھ کر پنجابی میں تقریر کی.مگر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام جن کو نادان مسلمان اب تک خونریز کی صورت میں انتظار کر رہے ہیں وہ درحقیقت فوت ہوگئے ہیں.یعنی ایسے خیال کہ کسی وقت مہدی اور مسیح آنے سے مسلمان خونریزیاں کریں گے صحیح نہیں ہے اور عام لوگوں کو نیک بختی اور نیک چلنی کی ترغیب دی گئی.اور اس مبارک موقعہ پر ساٹھ ستر آدمیوں نے ہر ایک گناہ اور بدچلنی سے رو رو کر توبہ کی.یہاں تک کہ اُن کی گریہ زاری سے مسجد گونج رہی تھی.اب ذیل میں وہ دعائیں چھ زبانوں میں درج کی جاتی ہیں.الراقم میرزا غلام احمد قادیانی ۲۳ جون ۱۸۹۷ء دعا اور آمین اُردو زبان میں اے مخلصان با صدق وصفا محبان بے ریا جس امر کے لئے آپ سب صاحبان تکلیف فرما ہوکر اس عاجز کے پاس قادیان میں پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے احسانات کو یاد کر کے اُن کی سلطنت در از شصت سالہ کے پوری ہونے پر اُس خدائے عز وجل کیا شکر کریں.جس نے محض لطف و احسان سے ایک لمبے زمانہ تک ایسی ملکہ محسنہ کے زیر سایہ ہمیں ہر ایک طرح کے امن سے رکھا جس سے ہماری جان و مال و آبرو جابروں اور ظالموں کے حملہ سے امن میں رہی.اور ہم تمام تر آزادی سے خوشی اور راحت کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے.اور نیز اس وقت ہمیں بغرض ادائے فرض شکر گزاری جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے لئے جناب الہی میں دعا کرنی چاہیے کہ جس طرح

Page 325

مجموعہ اشتہارات ۳۰۹ جلد دوم ہم نے اُن کی سلطنت میں امن پایا اور اُن کے زیر سایہ رہ کر ہر ایک شریر کی شرارت سے محفوظ رہے.اسی طرح خدا تعالیٰ جناب ممدوحہ کو بھی جزاء خیر بخشے اور اُن کو ہر ایک بلا اور صدمہ سے محفوظ رکھے اور اقبال اور کامیابی میں ترقیات عطا فرمائے اور ان سب مرادوں اور اقبالوں اور خوشیوں کے ساتھ ایسا فضل کرے کہ انسان پرستی سے ان کے دل کو چھوڑا دیوے.اے دوستو! کیا تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتے ہو اور کیا تم اس بات کو بعید سمجھتے ہو کہ ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے دین اور دنیا دونوں پر خدا کا فضل ہو جائے.اے عزیزو! اس ذات قادر مطلق کی عظمتوں پر کامل ایمان لاؤ جس نے وسیع آسمانوں کو بنایا اور زمین کو ہمارے لئے بچھایا اور دو چمکتے ہوئے چراغ ہمارے آگے رکھ دیئے جو آفتاب اور ماہتاب ہے سو بچے دل سے حضرت احدیت میں اپنی محسنہ ملکہ قیصرہ ہند کے دین اور دنیا کے لئے دعا کرو.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تم سچے دل سے اور روح کے جوش کے ساتھ اور پوری امید کے ساتھ دعا کرو گے تو خدا تمہاری سنے گا.سو ہم دعا کرتے ہیں اور تم آمین کہو کہ اے قادر توانا جس نے اپنی حکمت اور مصلحت سے اس محسنہ ملکہ کے زیر سایہ ایک لمبا حصہ ہماری زندگی کا بسر کرایا اور اس کے ذریعہ سے ہمیں صدہا آفتوں سے بچایا اس کو بھی آفتوں سے بچا کہ تو ہر چیز پر قادر ہے.اے قادر توانا ! جیسا کہ ہم اس کے زیر سایہ رہ کر کئی صدموں سے بچائے گئے اس کو بھی صدمات سے بچا کہ کچی بادشاہی اور قدرت اور حکومت تیری ہی ہے.اے قادر توانا ہم تیری بے انتہا قدرت پر نظر کر کے ایک دعا کے لئے تیری جناب میں جرات کرتے ہیں کہ ہماری محسنہ قیصرہ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھوڑا کر لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پر اس کا خاتمہ کر.اے عجیب قدرتوں والے! اے عمیق تصرفوں والے! ایسا ہی کر.یا الہی یہ تمام دعائیں قبول فرما.تمام جماعت کہے کہ آمین.اے دوستو اے پیار و خدا کی جناب بڑی قدرتوں والی جناب ہے دعا کے وقت اس سے نومیدمت ہو کیونکہ اس ذات میں بے انتہا قدرتیں ہیں اور مخلوق کے ظاہر اور باطن پر اس کے عجیب تصرف ہیں.سو تم نہ منافقوں کی طرح بلکہ سچے دل سے یہ دعائیں کرو کیا تم سمجھتے ہو کہ بادشاہوں کے دل خدا کے تصرف سے باہر ہیں؟ نہیں بلکہ ہر ایک امر اس کے ارادہ کے تابع اور اس کے ہاتھ کے نیچے ہے.سو تم اپنی

Page 326

مجموعہ اشتہارات ۳۱۰ جلد دوم محسنہ قیصرہ ہند کے لیے سچے دل سے دنیا کے آرام بھی چاہو اور عاقبت کے آرام بھی.اگر وفا دار ہو تو راتوں کو اُٹھ کر دعائیں کرو اور صبح کو اٹھ کر دعائیں کرو.اور جولوگ اس بات کے مخالف ہوں اُن کی پر وانہ کرو چاہیے کہ ہر ایک بات تمہاری صدق اور صفائی سے ہو اور کسی بات میں نفاق کی آمیزش نہ ہو تقویٰ اور راستبازی اختیار کر اور بھلائی کرنے والوں سے سچے دل سے بھلائی چاہوتا تمہیں خدا بدلہ دے کیونکہ انسان کو ہر ایک نیکی کے کام کا نیک بدلہ ملے گا.اب زیادہ الفاظ جمع کرنے کی ضرورت نہیں.یہی دعا ہے کہ خدا ہماری دعائیں سنے.وَالسّلام الدُّعَاءُ وَالتَّامِينُ فِي الْعَرَبِيَّةِ ايها الاحباء المخلصون والاصدقاء المسترشدون.جزاكم الله خير الجزاء.وحفظكم في الكونين من البلاء انكم قاسيتم متاعب السفر و شوائبه.و دقتم شدائد الحر ونوائبه.وجئتموني مـدلـجيـن مـكـابـديـن.لتشكروا الله في مكاني هذا مجتمعين.وتكثروا الدعاء لقيصرة الهند شاكرين ذاكرين.وتدعون دعوة المخلصين.ياعباد الله لا تعجبوا لدعواتنا وشكرنا في تقريب الجوبلي.وتعلمون ماقال سيدنا امام كل نبي وولى ـ وخاتم النبيين.انه من لم يشكر الناس فما شكر الله والله يحبّ المحسنين.ثمّ تعلمون ان اموالنا واعراضنا ودماء نا قد حفظتها العناية الالهية بهذه الملكة المعظمة.وجعلها الله مؤيدة لنا في المهمات الدنيوية والدينية.فالشكر واجب على مافعل ربّنا ذو الجلال والعزة ومن اعرض فقد كفر بالنعم الرحمانية.والله يحبّ الشاكرين.أيها الناس هذا يوم يجب فيه اظهار الشكر والمسرّة مع الدعاء باخلاص النية.فاردنا أن نقبله بمراسم التهاني

Page 327

مجموعہ اشتہارات ۳۱۱ جلد دوم والتبريك والتهنية.ورفع اكف الابتهال والضراعة.وتذلّل يليق بحضرة الاحدية.وانارة الماذن والمساجد والسكك والبيوت بالمصابيح والشهب النورانية.وانما الاعمال بالنيات المخفية من اعين العامة.والله يرى مافى قلوب الـعـالـمـيـن.يا عباد الله الرحمان.هل جزاء الاحسان الا الاحسان.فلا تظنواظن السوء.مستعجلين والأن ادعو للقيصرة بخلوص النيّة.فأمنوا على دعائى يا معشر الاحبة.واتقوا الله ولا تنسوا منّ الله و من عباده من الخواص والعامة.ولا تعثوا مفسدين.يارب أحسِنُ الى هذه الملكة.كما احسنت الينا بانواع العطية.واحفظها من شرّ الظالمين.يارب شيّد واعضد دعائم سريرها.واجعلها فائزة في مهماتها وصنها من نوائب الدنيا وآفاتها.وبارك في عمرها و حياتها يا ارحم الراحمين.يارب ادخل الايمان في جذر قلبها ونجها وذراريها من ان يعبدوا المسيح ويكونوا من المشركين.يارب لا تتوفّها الا بعد ان تكون من المسلمين.يارب انا ندعو لها بألسنة صادقة وقلوب ملئت اخلاصا وحسن طويّة فاستجب يا أحكم الحاكمين.اجد الانام ببهجة مستكثره عید اتی او جوبلي القيصرة نشر التهاني في المحافل كلها فارى الوجوه تهللت مُستبشره انی اراها نعمةً من ربنا فالشكر حق واجب لا بربره لا شک آن سرورنا من شکرها خير فمن يعمله اخلاصايره اَمَرَ النّبيُّ لشكر رجل محسن قتل الـعـنـود الـمـعـتـدى مـا اكفره

Page 328

مجموعہ اشتہارات ۳۱۲ دُعا و آمین در زبان فارسی جلد دوم اے گروہ دوستان و جماعت مخلصان خدا شما را جزاء خیر دهد شما تکالیف گرمی موسم و صعوبت سفر بر داشته نزد من در قادیان بدین غرض رسیده اید که تا بر تقریب جشن جو بلی باجتماع اخوان خود شکر خدائے عز و جل بجا آرید و برائے خیر دنیاو دین ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دعا ہا کنید.می دانم کہ موجب ایں تکالیف و آنچہ برائے انعقاد ایں جلسه با هم چنده فراهم کرده رسوم جلسه بجا آورده اید باعث ایں ہمہ بجز اخلاص و محبت چیزے دیگر نبودہ.پس دعا می کنم که خدا تعالیٰ شمارا پاداش ایں تکالیف دہد کہ محض برائے حصول مرضات اوکشیده اید.اے دوستان می دانید کہ ما در عہد سعادت مهد قیصرہ ہند چه آرا مها دیدیم و می بینیم و چه قدر زندگی خود در امن و عافیت گذرانیده ایم و می گذرانیم پس شرط انصاف این است که ما برائے ایں ملکہ مبارکه از ته دل دعا کنیم چها کہ ہر کہ شکر مردم محسن نه کند شکر خدا بیجا نیاورده است.پس این دعا با میکنم شا آمین بگوئید.اے قا در تو انا بدیں ملکہ تو نیکی گن چنانکه او بما کرد.واز شرظالمان او را محفوظ دار.اے قا در توانا ستونہائے سربرا و بلند گن و در مہمات خود اورا فائز گردان و از حوادث دنیا و دین اورا نگه دار و در عمر و زندگی او برکت بخش.اے قادر توانا اسلام در دل او داخل گن واو را واولاد او را از پرستش مسیح که بندہ عاجز است نجات ده و از مشرکان اورا بیرون آر کہ ہمہ قدرت تو داری.اے قادر توانا اور ا تا آن وقت وفات مده که بر راه راست اسلام ثابت قدم بوده باشد.اے رب جلیل دعا ہائے ما قبول گن.آمین.

Page 329

مجموعہ اشتہارات ۳۱۳ دعا نور آمین پو پښتو ژبہ کے جلد دوم ای دمابُلْ دِخُدای دوستُونَ خُدا تاسِتَه دِ خَيْر جَزا وِرْ کے تاسِه خَلْقٍ تكَلِّيْفُون يُخْپُلْ زَانٍ بَانِدِ آخِسْتيْ دَهْ دِمَا څخه پوْ قَادِيَانِ لِپاره دِ دِعْرَضْ رَاغْلِي وُه که دِ ملِکۀ مُعظَّمه اشپے تے کالْ جَشْنٍ إِسْتَاسُو أَوْرُوْرُوْنَ سرَهُ دِے خُدائے عَزَّوَجَلَّ شُکر ادا وُكروْاَوْدَ دِے مَلِكَهُ معظَّمه قَيْصره هِنْد دُنْيَائى خَيْرٍ لَيَارَهُ دُعا وكُوز پوئے کمُ که دِدِ تکليفونَ سَبَبْ څه جَلسَهُ دِبَارَهُ جِنْدَه توله گرے وُہ بُلْ دِجَلسَة رَسْم بَهَمْ يُوْرَهُ كَرِهْ وُهِ دِ إِخْلَاص أَودَ دِن حُجتْ سِوا بُل شے نِدَن نوز زِ دُعاكَوُمْ كِهْ خُدا صَاحِبْ تَاسُتَه دَدِ تکليفونَ أَجْرٍ وَرْكِي چه صرْف دِ آغَهُ لِپاره تاسو آخِسْتَيْ دَه - آے دوستون پوئیکی چه مُنعه دِ مَلِکه پو زمَانِے کنبے سِرِنکه آرام مُنْكَةٌ لِيدِلَن دَه او زه سِرِنګه دخپلْ زِندگی سَرَهُ بَسَرْكَرِيَ هَمْ دَهْ أَوْ بَسَرْبَه او كُوْ بَيا إِنْصَافُ دَادَهُ چه مُنكَهْ دِ مَلِكَهُ دِ پارَهُ دُعا وَكُو وَلِے چه هَرْجَاجِه دِ نیک سَرَيْ شُکرنَكيْ آغَهُ دِ خُدای شُکر سِرِنَګه كَولَمْ شِيْيَسْ زِ دُعَا كَوُمُ تَاسِهُ آمِيْنِ وَه وَائی اۓ لَوْئے خُدایا دِ مَلِكَهُ سَرَهُ نِيكَيْ وُهِ كَهُ آغَهُ سن چه مُنَكَةٌ سَرِهُ آغَهُ كَرے دے اَوْدَدِ ظالمون بِشَرَه أَغَهُ أُوسَاتَه يالوئے خُدايَا دِ آغه دِ تَخْت اِسْتِنِ تهُ بِلند وکړه بُل دَدين أُودَ دنيا شَرُونَ آغه أُوسَاتَه أَوْ پُوْعُمُر بُلْ پُو اغَهَ زِندگی بَرَكَتْ كَرَهُ یا لوئے خُدَايَا إِسْلَامْ پُوْ أَغَهُ زِرَهُ نَنَهْ كَړه یا لوئے خُدایا مَلِكَهُ بُلْ دِ أَغَهُ زِوئے بُلْ دِ أَغَهَ عَيَالَ دِعْ مَسِيحٌ دے پرستش چه يَوْ عَاجِزْ سَرَے دَه اوسَاتَه أَودِ مُشْرِكُونَ دِكْرُوْنَه أَغَه اوباسه چه تَه قُدرَتْ لَرَعْ أَيْ لوئے خُدايَا تِرْآغَه وقْت مَلِكَه مُرمُكَه چه مُسْلِمَان شِيْ يالوئے خَدَايَا امنى دُعَاتِهِ قبول كَرَه

Page 330

مجموعہ اشتہارات ۳۱۴ جلد دوم مہارانی قیصرہ ہند دیاں ساریاں مُراداں پوریاں ہوندی پنجابی و چه بینتی سلو میر یو بچے دوستو تے پکے یارو جس گل واسطے تسیں سارے بھائی اپنے سارے کم کسا کے تے کشالہ کر کے میرے کول قادیان وچہ آئے او وہ اک پھارا متبل ایہ کے جے اسیں سارے در بار رانی ملکہ معظمه قیصرہ ہند دیاں احساناں تے مہربانیاں نوں یاد کر کے اوہدے سٹھ ورھیاں دے راج دے پورا ہونے دی اپنے ربّ دے درگا ہے شکر کرئیے تے ایس دے بے اوڑک کرم دا گاون گائیے جس نے آپنیاں فضلاں تے کرماں دے نال ایڈے لئے زمانے تو ڑیں سانوں اجیہی ملکہ معظمہ دے راج دے چھاویں پھاگاں سہاگاں نال رکھیا.جس تھیں اساں غریباں مسلماناں دیاں جاناں تے پتاں تے مال ہتھیاریاں تے انیائیاں دے پنجیاں تھیں بچ گئے تے اسیں ہن تو ڑیں من پھاؤندیاں خوشیاں تے انگنیاں چیناں دے نال اپنی زندگانی پوری کر دے رہے.تے دوجا متبل وڈا ایہ جے ہن اسیں اس ویلے جناب ملکہ معظمہ دا شکر پورا کرنے واسطے سچے رب صاحب دی سچی درگا ہے ترلیاں تے جھیر گیان نال دعا کرئیے کہ جس طرح ایس جگت دی رانی نے دھرمی تے لاڈ لڈیانے والی ما تا دے راج و چہرہ کے اساں آرام پایا تے اوس دی بادشاہی دی ٹھنڈی تے سنگھنی چھاں وچ ہر ان تھی دے انر تھوں بچے مٹھیاں نیندراں سنتے ہاں اوستے طرح دھرتی انبر دارا جا سچا ربّ ایسی ملکہ معظمہ نوں اینہاں پناں داناندا بدلہ دے.تے اوہنو ہر اک تھکے تھوڑے تے ساریاں درداں تھیں آپنا ہتھ دے کے بچار کھے.تے اقبال تے وڈیائی تے آساں امیداں دے پورا ہوون و چہ وادھا بخشے تے ساریاں مُراداں پوریاں کرنے سمیت اوستے ایسا فضل کرے تے اجیہا تر تھے جے بندہ پرستی تھیں اوسدے دل نوں مٹھی نیندروں جگاوے تا ایہ ما تا آپنی جاؤ و اسمیت اک وحده

Page 331

مجموعہ اشتہارات ۳۱۵ جلد دوم لاشریک لہ جیوندے جاگرے دھرتی انبر تے ایس سارے اڈنبر دے سائیں دی پوجاول آوے.تے دوہاں جگاں دا سدا سرگ پاوے.میر یو پیار یو یا رو تسیں خدا دی قدرت تھیں اوپرا جاندے ہو.بھلا تسیں ایسی گل نوں اچرج تے انہونی سمجھ دے ہو جے ساڈی جنگ رانی ملکہ معظمہ دے دین تے دُنیاں تے خدا د افضل ہو جائے.او پیار یو اُس ذات سکت واندیاں وڈیائیاں تے پورا ایمان لیا ؤ جس نے ایڈا چوڑا تے اُچا آسمان بنایا تے دھرتی نوں ساڈے واسطے و چھایا تے دو چمکدے دیوے انملے جگ چمکان والے ساڈیاں اکھیاں اگے رکھے.اک چندر ماہ دوجا سورج ماہ سوتر لیاں تے ہاڑیاں تے دندیاں لہلکنے نال رب صاحب نیچے دی درگاہ و چہ اپنے سدا پناں داناں والی ملکہ معظمہ دے دین تے دُنیاں واسطے دُعا منگو.میں سچو سچ کہنا ہاں جیکر تسیں کچیاں تے دو گلیاں نوں سنگوں ہٹا کے تے بچیاں تے اکوتیاں نوں ساتھ لے کے تے پوری امید نال نہیچہ بنہ کے دُعا کرو گے تاں جگاں دا سچا دا تا تہاڑی دُعا ضرور سُنے گا.سو اسیں دُعا کرنے ہاں تے تسیں آمین آکھو.ہے بچیا سگتاں والیا سچیا سائیاں جد توں آپنی حکمت تے مصلحت نال ایس دیاوان رانی دے راج دے ٹھنڈی چھاویں ساڈے جیو نیدا اک لما حصہ پورا کیتائی تے اوس دے ستوں ہزاراں آفتاں تے بلا واں تھیں سانوں بچایا ئی.توں اُوسنو بھی آفتاں تھیں بچا جے توں ہر شے تے سکت تے وس رکھنا ئیں.ہے قدرتاں والیاں جس طرح اسیں اوسدے راج و چہ دھکیاں دھوڑیاں تے ٹھینے ڈگنے تھیں بچائے گئے ہاں اوسنوں بھی ساریاں چناں تے چھوریاں تھیں بچاجے سچی بادشاہی تے پکی زور آوری تے پوری حکومت تیری لیے.ہے جتناں والیا مالکا اسیں تیری بے انت قدرت تے تہان رکھ کے اک ہور دُعا دے واسطے تیری درگا ہے دلیری کرنے ہاں جے توں ساڈی اَن گنت دیا وان رانی ملکہ معظمہ نوں بندہ پوجن دی انھیری کوٹھڑی تھیں باہر کڑھ کے اُچے تے سنہری تے لاٹاں مارنے والے لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ دے چبوترے تے موجاں ماننے والی کر کے اوستے تے اوہدا پورن کر.ہے اچرج زوراں والیا.ہے

Page 332

مجموعہ اشتہارات جلد دوم ڈوھنگیاں نگاہاں والیا.ہے پوریاں پہچان والیا.ہے بے اوڑک کا بواں والیا اینویں کر.ہے رباں دیار تا ایہ ساریاں دُعاواں منظور کر.سارے دوست آمین آکھو.اے پیار یو نیچے ربدی درگاہ وڈی قدرتاں تے پہنیاں والی درگاہ کے دعا دے ویلے اوس تھیں بے امید نہ ہو وو.کیوں جی اوس دے دربار دے بے اور سدا اور توں کسے سے کوئی پھکھارا پھکھاتے خالی ہتھ نہیں گیا.تے اپنے سربت جیا جنت دے اندر باہر اوہدے اچرج کا بو تے قبضے ہین.تسیں دو گلیاں تے دو رنگیاں تے کھوٹیاں وانگر دعا نہ کرو.سگوں سچیاں چیلیاں تے سوچیاں چیریاں وانگوں اوہدے من دھن تے جت ست تے پت واسطے دھن شاوا کھوتے سدا سکھ منگو.ہین تسین سمجھدے ہو جے سربت را جیاندے دل اُس مہاراج سرب شکتی مان سداد یا وان دے کا بوؤں باہر نہیں سگوں سارے کم تے انیک تے ان گنی کرتب اُسیدے اوڈاؤ ہتھ وچہ نے.سوتسیں اپنے ان گنت دانا نوالی مہارانی ملکہ معظمہ دے دُنیا تے عاقبت واسطے آنند تے آرام منگو جے تسیں وفادار ٹھیلے تے من وارنے والے چاکر ہوتاں شامیں تے پہر راتیں تے پچھلی راتیں نیندراں گنوا کے اوبھڑوائی اُٹھ اُٹھ کے بینتیاں کرو تے جہڑے منکھ اس گلدے دوتی تے دوکھی ہون اُنہان ہتھ یار یاندی پرواہ نہ کرو.لوریدا ئی جے سمجھو گلاں تہاڈیاں نتریاں ہوئیاں تے ستھریاں ہون تے کسے گل تھہاڈی و چہ رلا رول نہ ہو وے سُرت تے سچ ملو پھلا کرن والیاں دا پھلا چاہوتاں تھہانوں تھہا ڈا جانی جان سچا رت صاحب چنگا بدلہ دیوے.کیوں جے ہر منکھ بے حیائی کیدائی تے کیتائی پاندا ئے.نریاں گلاں کچھ پھل نہیں دیندیاں.تھوڑیاں تے تھڑ یاں نوں پکڑنے والیا گھوڑیدا ویلائی.

Page 333

جلد دوم ۳۱۷ مجموعہ اشتہارات English Translation of the prayer recited by Mirza Ghulam Ahmad Rais of Qadian on the occasion of the Diamond Jubilee - My friends The object which has brought you here is to convene a meeting of thanksgiving on the happy occasion of the Diamond Jubilee of Her Majesty's reign in rememberance of the manifold blessings enjoyed by us during Her Majesty's time.We offer our heartfelt thanks to God who out of His special kindness has been pleased to place us under this sovereign rule, protecting thereby our life, property and honour from the hands of tyranny and persecution and enabling us to live a life of peace and freedom.We have also to tender our thanks to our gracious Empress, and this we do by our prayers for Her Majesty's welfare.May God protect our beneficient sovereign from all evils and hardships as Her Majesty's rule has protected us from the mischief of evil doers.May our blessed ruler be graced with glory and success and be saved at the same time from the evil consequences of believing in the divinity of a man and his worship.My friends do not wonder at this, nor entertain any doubt as to the wonderful powers of the Almighty, because it is quite possible for him to confer His choicest blessings upon our gracious Queen in this world and the next.Hence the strong and firm belief in the omnipotence of the Supreme Being who made this spacious firmament on high and spread the earth beneath our feet illuminating them both with the sun and the moon.Let your sincere prayers as to the good of Her Majesty in matters spiritual and temporal, reach His holy throne.And I assure you that prayers that come from hearts sincere earnest and hopeful are sure to be listened to.Let me pray then & you may say Amen: Almighty God! As Thy Wisdom & Providence has been pleased to put us under the rule of our blessed Empress enabling us to lead lives of peace and

Page 334

جلد دوم ۳۱۸ مجموعہ اشتہارات prosperity, we pray Thee that our ruler may in return be saved from all evils and dangers as thine is the kingdom, glory and power.Believing in Thy unlimited powers we earnestly ask Thee all powerful Lord to grant us one more prayer that our benefactoress the empress, before leaving this world.may probe her Iway out of the darkness of man-worship with the light of "La-ilaha-illallaho muhammad-al-rasul-ullah." {There is no God but Allah & Muhammad is His Prophet}, Do Almighty God as we desire, and grant us this humble prayer of ours as Thy will alone governs all minds.Amen! My Friends! Trust in God and feel not hopeless.Do not even imagine that the minds of wordly potentates and earthly kings are beyond His control.Nay, They are all subservants to His Holy Will.Let therefore your prayers for the welfare of your empress in this world and the next, come from the bottom of your hearts.If you are loyal subjects remember Her Majesty in your night and morning prayers.Pay no heed to opposition.Let Your words and deeds be true and free from hypocrisy.Lead lives of virtue and righteousness, and pray for the good of your well-wishers, because no virtue goes unrewarded.I conclude with earnest desire that God may grant our prayer.Amen.Dated 23-6-1897

Page 335

مجموعہ اشتہارات ۳۱۹ جلد دوم فهرست اسمائے حاضرین جلسہ ڈائمنڈ جوبلی بمقام قادیان ضلع گورداسپوره بحضور امام ہمام حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود معه چنده و بلا چندہ.واسمائے غیر حاضرین جنہوں نے چندہ دیا از ۲۰ /جون ۱۸۹۷ تا ۲۲ جون ۱۸۹۷ء نام سکونت رقم رقم ہندسوں کیفیت چندہ میں از مرتب حضرت اقدس جناب میرزا غلام احمد صاحب مہدی قادیان است ۵۱ روپے و مسیح موعو در نیس قادیان.معہ اہل بیت حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی مولوی عبد الکریم صاحب سم مولوی بر بان الدین صاحب 1.۱۲ ۱۳ مولوی محمد احسن صاحب حکیم فضل الدین صاحب معہ ہر دو قبائل خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے پروفیسر اسلامیہ کالج مفتی محمد صادق صاحب بھیروی کلرک اکو نٹنٹ جنرل میرزا ایوب بیگ صاحب بی اے کلاس لا ہور کالج معہ قبیلہ خود خلیفہ رجب الدین صاحب تاجر برنج حکیم محمد حسین صاحب خواجہ جمال الدین صاحب بی اے رنبیر کالج ریاست جموں حکیم فضل الہی صاحب ۱۴ منشی مولا بخش صاحب کلرک دفتر ریلوے ۱۵ منشی نبی بخش صاحب ۱۶ منشی محمد علی صاحب // // // // // "/ سیالکوٹ جہلم · ۵ روپے ۳ روپے امرد با ضلع مراد آباد سے روپے باعث مجبوری حاضر نہ ہو سکے بھیرہ اروپے لاہور ۵ روپے لاہور ۲ روپے کلانور ۱۲/ ۲ روپے بارہ آنے لاہور لنجم ۴ روپے // // // // دا ایک روپیہ ۲ روپے ۵ روپے ایک روپے سے، لاہور ۳ روپے عد // ایک روپے

Page 336

۵ روپے جلد دوم ۲۵ ۴ آنے آنے गै , A عد ایک روپیہ // آنے پیسے " // لاہور " " ۵ روپے لاہور ۰ ارو پر آنے ۵ روپے ,A آنے عد ایک روپیہ // ایک روپیہ باعث مجبوری حاضر نہ ہو سکے // " آنے ۴ روپے > " " // " ۳۲۰ مجموعہ اشتہارات ۱۷ منشی محمد علی صاحب ایم اے پروفیسر اور مینٹل کالج ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۱ شیخ رحمت اللہ صاحب سوداگر رخت منشی کرم الہی صاحب مہتمم مدرسہ نصرت اسلام میاں محمد عظیم صاحب کلرک دفتر ریلوے حافظ فضل احمد صاحب معه فرزند // ۲۲ حافظ علی احمد صاحب ۲ شیخ عبد اللہ صاحب نومسلم منصرم شفاخانه انجمن حمایت اسلام ۲۴ علی محمد صاحب طالب علم بی اے کلاس کالج ۲۵ منشی عبدالرحمن صاحب کلرک دفتر ریلوے منشی معراج الدین صاحب جنرل ٹھیکہ دار ۲۷ منشی تاج الدین صاحب کلرک دفتر ریلوے ۲۸ شیخ دین محمد صاحب ۲۹ حکیم شیخ نور محمد صاحب نومسلم حکیم محمد حسین صاحب پرو پر اکثر کارخانه رفیق الصحت ۱ تاج الدین صاحب طالب علم مدرسہ اسلامیہ // ۳۲ عبد اللہ صاحب ۳۳ مولا بخش صاحب پٹولی قاضی غلام حسین صاحب بھیروی طالب علم آرٹ سکول ۳۴ ۳۵ حاجی شہاب الدین صاحب

Page 337

جلد دوم لاہور ۲ روپے // ایک روپیہ // " " " " // // , A آنے عد ایک روپیہ ہے عم ۳ روپے ایک روپیہ ۲ روپے عد ایک روپیہ ,A آنے عد ایک روپیہ باعث مجبوری شامل نہ ہو سکے // " " آنے ے روپے , A محمد عہ ایک روپیہ ۴ آنے ۴ آنے ۵ روپے ایک روپیہ ۵ روپے عہ ایک روپیہ " " // لاہور " " " ۳۲۱ مجموعہ اشتہارات چراغ الدین صاحب وارث میاں محمد سلطان ۳۷ احمد الدین صاحب ڈوری باف ۳۸ جمال الدین صاحب کا تب ۳۹ محمد اعظم صاحب // ۴۰ سیف الملوک صاحب ۴۱ میاں سلطان صاحب ٹیلر ماسٹر میاں غلام محمد صاحب کلرک چھا پہ خانہ ۴۳ مظفر الدین صاحب ۴۴ خواجہ محی الدین صاحب تاجر پشمینه ۴۵ محمد شریف صاحب طالب علم اسلامیہ کالج ۴۶ عبدالحق صاحب.اسلامیہ کالج ۴۷ عبدالمجید صاحب ۴۸ غلام محی الدین صاحب جلد بند سول ملٹری گزٹ جلد بندسول ۴۹ تاج الدین صاحب ۵۰ بشیر احمد صاحب ۵۱ نذیر احمد صاحب ۵۲ ڈاکٹر کرم الہی صاحب ۵۳ شیر محمد خان صاحب طالب العلم بی اے کلاس ۵۴ غلام محی الدین صاحب طالب علم بی اے کلاس ۵۵ شیر علی صاحب طالب علم بی اے کلاس

Page 338

مجموعہ اشتہارات ۳۲۲ ۵۶ صاحبزادہ سراج الحق صاحب جمالی نعمانی ابن حضرت سرساوه شاہ حبیب الرحمن صاحب مرحوم سجادہ نشین چهار قطب ہانسوی حال وارد قادیان ۵۷ قاضی محمد یوسف علی صاحب نعمانی معہ اہل بیت سارجنٹ تو سام پولس ریاست جنید.اولا د حضرت امام اعظم صاحب ضلع حصار اروپے جلد دوم ۵۸ شیخ فیض اللہ صاحب خالدی القریشی نائب داروغه ۵۹ سید نا صر نواب صاحب دہلوی پیشر บ میر محمد اسماعیل صاحب طالب علم اسلامیہ کالج لاہور محمد اسمعیل صاحب سرساوی طالب علم ۶۲ شیخ عبدالرحیم صاحب نو مسلم ۶۳ شیخ عبدالرحمن صاحب ۶۴ شیخ عبدالعزیز صاحب " // ۶۵ خدایا رصاحب // ریاست نابه ایک روپیہ غیر حاضر قادیان ۲ روپے " ۲ روپے " "1 " // "/ گلاب الدین صاحب لوئی باف ۶۷ اسمعیل بیگ صاحب پر یسمین ۶۸ امام الدین صاحب ۶۹ صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانوی ۷۰ صاحبزادہ منظور محمد صاحب " اے صاحبزادہ مظہر قیوم صاحب ۷۲ مولوی عبد الرحمن صاحب ۷۳ قادیان " کھیوال ضلع جہلم سید فصیلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر ڈنگہ ضلع گجرات القمر و روپے

Page 339

مجموعہ اشتہارات ۷۴ سیدامیر علی شاہ صاحب سارجنٹ اوّل ۷۵ حکیم محمد الدین صاحب نقل نویس صدر ۳۲۳ سیالکوٹ اللہ روپے // منشی عبدالعزیز صاحب ٹیلر ماسٹر ۷۷ شیخ فضل کریم صاحب عطار ۷۸ غلام محی الدین صاحب تاجر چوب و شیخ حسین بخش خیاط " " " قادیان ۸۰ عبد اللہ صاحب " "/ عبد الرحمن صاحب // ۸۲ حافظ احمد اللہ خان صاحب ۸۳ کرم داد صاحب " • ایک روپیہ ایک روپیہ ۱۲ آنے ۸۴ سید ارشاد علی صاحب طالب علم سیالکوٹ ۸۵ مولوی محمد عبد اللہ خان صاحب و زیر آبادی مدرس کالج ریاست پٹیالہ ایک روپیہ ۸ آنے حافظ نور محمد صاحب سارجنٹ پلٹن نمبرسم ۸۷ محمد یوسف صاحب خراطی ۸۸ حافظ ملک محمد صاحب // ۸۹ عبدالحمید صاحب طالب علم ایک روپیہ ایک روپیہ ۴ آنے ۹۰ محمد اکبر خان صاحب سنوری خلیفہ نورالدین صاحب تاجر کتب ریاست جموں سے ۳ روپے ۹۲ اللہ دتا صاحب // ۲ روپے ۹۳ مولوی محمد صادق صاحب مدرس ۲ روپے جلد دوم

Page 340

مجموعہ اشتہارات ۹۴ میاں نبی بخش صاحب رفوگر ۹۵ محمد اسمعیل صاحب تاجر پشمینہ کٹرہ اہلو والیہ ۹۶ میاں محمد الدین صاحب اپیل نویس ۹۷ میاں الہی بخش صاحب محلہ ماشکیاں ۹۸ میاں چراغ الدین صاحب کڑہ اہلو والیہ ۹۹ منشی روڑ ا صاحب نقشہ نویس عدالت ۱۰۰ منشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس 1+1 منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر ۱۰۲ نواب خان صاحب ۱۰ میاں عبد الخالق صاحب رفوگر ۱۰۴ شیخ عبدالحق صاحب ٹھیکہ دار ۱۰۵ محمد حسن صاحب عطار 1+4 منشی محمد ابراہیم صاحب تا جرنگی گبرون ۱۰۷ مستری حاجی عصمت اللہ صاحب ۱۰۸ قاضی خواجہ علی صاحب ٹھیکہ دار شکرم ۱۰۹ مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب امام مسجد صدر ۱۱۰ عبد العزیز خاں طالب علم بن عبد الرحمن خان صاحب 11.اتالیق سردار ایوب خان صاحب شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند ۳۲۴ امرتسر امرتسر نے ۵ روپے ۳ روپے جلد دوم سیالکوٹ ایک روپیہ گجرات عہ ایک روپیہ امرتر ۲ روپے ค ریاست کپورتھلہ ما ۲ روپے ۲ روپے گورداسپور ے روپیہ جموں امرتسر لدھیانہ , A ایک روپیہ آنے ایک روپیہ عمر ایک روپیہ ایک روپیہ ایک روپیہ ۵ روپے سیالکوٹ ایک روپیہ راولپنڈی امرتسر ۱۱ شیخ ظہور احمد صاحب سنگساز مطبع کلانور ضلع ۱۱۳ میر زارسول بیگ صاحب گورداسپور

Page 341

مجموعہ اشتہارات ۱۱۴ حافظ عبدالرحیم صاحب ۱۱۵ ڈاکٹر فیض قادر صاحب ۱۱۶ شیخ محمد جان صاحب تاجر ۱۷ منشی نواب الدین صاحب ماسٹر ۱۱۸ خلیفہ اللہ دتا صاحب 119 میاں خدا بخش صاحب خیاط ۳۲۵ بٹالہ وزیر آباد دینانگر چھو کر ضلع گجرات ۱۲۰ مولوی حافظ احمد الدین صاحب.چک سکندر ضلع گجرات ۱۲۱ میاں احمد الدین صاحب امام مسجد قلعہ دیدار سنگھ ۱۲۲ میاں جمال الدین صاحب پشمینہ باف ۱۲۳ محمد اکبر صاحب ٹھیکہ دار ۱۲۴ ماسٹر غلام محمد صاحب بی اے مدرس ۱۲۵ میاں باغ حسین صاحب ۱۲۶ میاں نبی بخش صاحب پاندہ ۱۲۷ چودھری منشی نبی بخش صاحب نمبر دار ۱۲۸ مولوی خان ملک صاحب کھیوال دا ایک روپیہ ۲ روپے جلد دوم ۵ روپے گوجرانوالہ سیکھواں ایک روپیہ ضلع گورداسپور بٹالہ للغة ۴ روپے ۸ سیالکوٹ پر ایک رو پسی آنے بٹالہ // ضلع جہلم · عہ ایک روپیہ ۵ روپے ۱۲۹ میاں خیر الدین صاحب پشمینہ باف سیکھواں ضلع گورداسپوره شهر ایک روپیه ۱۳۰ حکیم محمد اشرف صاحب بٹالہ // ایک روپیہ ۱۳۱ شیخ غلام محمد صاحب طالب علم ضلع جالندھر ۱۳۲ حافظ غلام محی الدین صاحب جلد ساز قادیان ۱۳۳ میاں امام الدین صاحب پشمینہ باف سیکھواں ایک روپیہ

Page 342

مجموعہ اشتہارات ۱۳۴ اللہ دین صاحب.بیٹھیاں ۱۳۵ شیخ عبدالرحیم صاحب ملازم ریاست ۱۳۹ | شیخ محمد الدین صاحب بوٹ فروش ۱۳۷ محمد شاہ صاحب ٹھیکہ دار ۳۲۶ ضلع گورداسپور کپورتھلہ ما ۲ روپے جموں ۲ روپے آنے // > ۱۳۸ نظام الدین صاحب دوکاندار حصہ غلام نبی ضلع گورداسپوره ۱۳۹ امام الدین صاحب // // // ۱۴۰ شیخ فقیر علی صاحب زمیندار // ۱۳۱ شیخ شیر علی صاحب ۱۴۲ شیخ چراغ علی صاحب // "1 ۱۴۳ شہاب الدین صاحب دوکاندار " ۱۴۴ منشی عبدالعزیز پٹواری سیکھواں ۱۴۵ میاں قطب الدین صاحب خیاط بد هیچه ۱۴۶ میاں سلطان احمد طالب علم ۱۴۷ شیخ امیر بخش تھہ غلام نبی ۱۴۸ سید نظام شاہ صاحب با زید چک ۱۴۹ حافظ محمد حسین صاحب.ڈنگہ ۱۵۰ با بوگل حسن صاحب کلرک دفتر ریلوی ۱۵۱ حافظ نورمحمد صاحب.فیض اللہ چک ۱۵۲ حسن خان صاحب ملازم تو پخانه ریاست ۱۵۳ مرزا جھنڈا بیگ.پیرووال ۱۵۴ محمد حسین طالب علم - مده ضلع گورداسپور گجرات ضلع گورداسپور ضلع گجرات لاہور ضلع گورداسپوره کپورتھلہ ضلع گورداسپور ضلع امرتسر • ■.ایک روپیہ جلد دوم

Page 343

مجموعہ اشتہارات ۳۲۷ ۱۵۵ میاں محمد امیر.کنڈ ۱۵۶ غلام محمد طالب علم ۱۵۷ محمد اسمعیل.تھصہ غلام نبی ۱۵۸ شیخ قطب الدین صاحب کو ٹلہ فقیر ۱۵۹ میاں غلام حسین نان بائی ڈیرہ حضرت اقدس ۱۲۰ شیخ مولا بخش صاحب تاجر چرم.ڈنگہ ۱۹۱ قاضی محمد یوسف صاحب.قاضی کوٹ ۱۶۲ عبد اللہ سوداگر برنج تحصیل خوشاب امرتسر ضلع گورداسپوره ضلع جہلم ایک روپیہ قادیان ضلع گجرات ,A ستر آنے ۳ روپے ضلع گوجرانوالہ ایک روپیہ لاہور ■ ۱۶۳ مولوی حافظ کرم الدین صاحب.پوڑاں والہ ضلع حجرات ایک روپیہ ۱۶۴ حافظ احمد الدین خیاط.ڈنگہ ۱۶۵ عبادت علی شاہ سوداگر.ڈوڈہ A " آنے ضلع گورداسپوره ۱۶۶ محمد خان صاحب نمبر دار.جسر وال ضلع امرتسر ہے.۳ روپے ۱۶۷ میاں علم الدین صاحب کا لوسا ہی ضلع گجرات ایک روپیہ ۱۶۸ میاں کرم الدین صاحب.ڈنگہ ۱۶۹ شیخ احمد الدین صاحب // ۱۷۰ میاں احمد الدین صاحب // ۱۷۱ میاں محمد صدیق صاحب پشمینہ باف ۱۷۲ میاں صادق حسین صاحب سیکھواں ,A آنے ریاست پٹیالہ ایک روپیہ ۱۷۳ مولوی فقیر جمال الدین صاحب سید والہ ضلع منٹگمری ۱۷۴ مولوی عبداللہ صاحب ٹھٹھہ شیر کا ۱۷۵ میاں عبد العزیز طالب علم ■ // قادیان جلد دوم

Page 344

جلد دوم مجموعہ اشتہارات ۱۷۶ میاں عبد اللہ حصہ غلام نبی ۱۷۷ مہر الدین صاحب خانساماں.لالہ موسیٰ ۳۲۸ ضلع گورداسپور ضلع گجرات ما ۲ روپے ۱۷۸ کرم الدین صاحب خانساماں " ۱۷۹ امام الدین صاحب پٹواری.لوچب ۱۸۰ فضل الہی صاحب نمبر دار.چک فیض اللہ ۱۸۱ غلام نبی صاحب ۱۸۲ چراغ الدین معمار موضع منڈی کراں ۱۸۳ قاضی نعمت علی صاحب.خطیب بٹالہ ۱۸۴ احمد علی صاحب نمبر دار چک وزیر ۱۸۵ امام الدین صاحب.تھہ غلام نبی ۱۸۶ میاں فقیر دری باف.چک فیض اللہ تا غدر ۲ روپے ضلع گورداسپور ایک روپیہ // // // عد ایک روپیہ خدر " ایک روپیہ ایک روپیہ ایک روپیہ غیر حاضر // 11 // "1 // ۱۸۷ میاں امیر دری باف ۱۸۸ شیخ برکت علی دوکاندار ۱۸۹ برکت علی صاحب پٹواری ۱۹۰ میاں امام الدین 191 سید امیر حسین چک بازید ۱۹۲ شیخ فیروز الدین صاحب // ۱۹۳ شیخ شیر علی ۱۹۴ شیخ عطا محمد صاحب // ضلع گورداسپور " "/ " 11 ۱۹۵ سید محمد شفیع صاحب ۱۹۶ عمر چوکیدار

Page 345

مجموعہ اشتہارات ۱۹۷ مولوی امیر الدین صاحب محلہ خوجہ والہ ۳۲۹ گجرات جموں ۱۹۸ مستری محمد عمر ۱۹۹ | سید وزیر حسین صاحب.با زید چک ضلع گورداسپور ۲۰۰ مہر اللہ شاہ ڈوڈاں " ۲۰۱ سلطان بخش بد یچه ■ ۲۰۲ منشی عبد العزیز صاحب عرف وزیر خان سب اوور سیر بلب گڑھ ایک روپیہ ۲۰۳ نور محمد صاحب.۲۰۴ عبد الرشید.دھونی سید واله ضلع منٹگمری " ۲۰۵ مولوی احمد الدین صاحب امام مسجد نامدار ضلع لاہور ۲۰۶ حافظ معین الدین صاحب ۲۰۷ عبدالمجید صاحب ۲۰۸ محمد خان صاحب ۲۰۹ | مولوی محمد حسین صاحب.بھا گورائین ۲۱۰ نظام الدین // قادیان کپورتھلہ ".جلد دوم ۲ روپے بباعث مجبوری شامل نہ ہو سکے ۲ روپے ۲۱۱ فیض محمد نجار ۲۱۲ سید گوہر شاہ صاحب پھیر و پیچی ۲۱۳ ۲۱۴ حکیم دین محمد طالب علم شیخ فضل الہی صاحب چٹھی رساں سیالکوٹ ضلع گورداسپور قادیان ■ ۲ آنے ۲۱۵ سلطان محمد صاحب.بکرالہ ضلع جہلم ۲۱۶ اللہ دیا صاحب کمبو ضلع امرتسر

Page 346

مجموعہ اشتہارات ۳۳۰ ۲۱۷ سید عالم شاہ صاحب موضع سید ملو ۲۱۸ مستری حسن الدین صاحب ۲۱۹ میراں بخش صاحب چوڑی گر ۲۲۰ مهر سانون صاحب سیکھواں ۲۲۱ حکیم جمال الدین صاحب تاجر ۲۲۲ محمد اسمعیل صاحب طالب علم ۲۲۳) محمد الحق صاحب ضلع جہلم سیالکوٹ بٹالہ ضلع گورداسپور ایک روپیہ قادیان " " ایک روپیہ ۲۲۴ عبد اللہ خان صاحب ہریانہ ضلع ہوشیار پور کا ۲۲۵ کریم بخش مستری بیل چک ضلع گورداسپور " ۲۲۶ مرزا بوٹا بیگ قادیان ۲۲۷ مرزا احمد بیگ ۲۲۸ | محمد حیات صاحب ۲۲۹ | نور محمد ملازم ڈاکٹر فیض قادر صاحب ۲۳۰ شیخ غلام محمد صاحب تاجر ۲۳۱ برکت علی صاحب نیچه بند ۲۳۲ غلام حسین صاحب لکه زئی ۲۳۳ رحیم بخش صاحب شانه گر ۲۳۴ شیخ غلام احمد صاحب امام مسجد بھڑیال بٹالہ امرتسر بٹالہ " جہلم ضلع سیالکوٹ ۲۳۵ شیخ اسمعیل امام مسجد بھڑیال " ۲۳۶ شیخ کریم بخش صاحب کا ہنے چک ریاست جموں ۲۳۷ شیخ چراغ الدین صاحب // ■ ۲ روپے جلد دوم

Page 347

۳۳۱ مجموعہ اشتہارات ۲۳۸ میاں کٹوتیلی.تتلا ضلع گورداسپور ۲۳۹ شیخ مولا بخش صاحب تاجر بوٹ سیالکوٹ ایک روپیہ قادیان انبالہ ۲۴۰ مرز انظام الدین ۲۴۱ سید عبدالعزیز صاحب جلد دوم ۲۴۲ مولوی فضل الدین صاحب.کھاریاں ضلع گجرات ۵ روپے باعث مجبوری شامل نہ ہو ۲۴۳ مولوی فضل الدین صاحب.خوشاب ۲۴۴ حافظ رحمت اللہ صاحب کران پور ۲۴۵ نور الدین صاحب نقشہ نولیس بارگ ماسٹری ۲۴۶ میاں عبد اللہ صاحب بیٹواری سنوری عي سکے اروپے ضلع شاہپور ضلع ڈیرہ دون ما ۲ روپے جہلم ۲ روپے ریاست پٹیالہ عمر ایک روپیہ ۲۴۷ میاں عبد العزیز صاحب محر ر دفتر نہر جمن غربی دہلی ۲۴۸ ڈاکٹر بوڑے خان صاحب اسٹنٹ سرجن ۲۴۹ مولوی محمد حسین مدرسه اسلامیه ۲۵۰ مولوی خادم حسین صاحب.اسلامیہ سکول ۲۵۱ با بو اللہ دین صاحب فائرس محکمہ روشنی ۲۵۲ سید عنایت علی شاہ صاحب ۲۵۳ منشی غلام حیدر صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولس ۲۵۴ مولوی علم الدین صاحب ۲۵۵ منشی محرم علی صاحب محرر سارجنٹ پولس ۲۵۶ با بوشاه دین صاحب سٹیشن ماسٹر دینہ // // " "/ // "/ سے ۳ روپے قصور عه ۲۰ روپے راولپنڈی ایک روپیہ راولپنڈی ایک روپیہ حاضر نہ ہو سکے عد ایک روپیہ لدھیانہ ۲۵ روپے ۵ آنے نارووال ارویی ۲ روپے ۲ روپے ضلع جہلم لله ۴ روپے " // " ۲۵۷ منشی اللہ دتا صاحب سیالکوٹ له اروپے حاضر نہ ہو سکے

Page 348

جلد دوم " " " " " // " " " مجموعہ اشتہارات ۳۳۲ خدر ضلع ڈیرہ اسمعیل خان ۲۵۸ منشی فتح محمد صاحب بزدار پوسٹ ماسٹر لیہ ۲۵۹ شیخ غلام نبی صاحب دوکاندار راولپنڈی منشی منظفر علی صاحب بر اور مولوی محمد احسن صاحب امروہی ڈیرہ دون ۲۶۱ میاں احمد حسین صاحب ملازم میاں محمد حنیف سوداگر ۲۶۲ | مولوی محمد یعقوب صاحب ۲۶۳ منشی علی گوہر خان صاحب برانچ پوسٹ ماسٹر ۲۶۴ منشی محمد اسمعیل صاحب نقشہ نویس کا لکا ریلوے انبالہ چھاونی ۵ روپے ایک روپیہ ا روپے عد ایک روپیہ عد "/ ایک روپیہ i " ایک روپیہ جالندھر ایک روپیہ ۲۶۵ مولوی غلام مصطفے صاحب ما لک مطبع شعله طور بٹالہ ایک روپیہ ۲۶۶ با بومحمد افضل صاحب ملازم ریلوے ممباسه ملک افریقہ ایک روپیہ ۲۶۷ چودھری محمد سلطان صاحب والد مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹ ما ۲ روپے ۲ روپے " ۲۶۸ سید حامد شاہ صاحب قائم مقام سپرنٹنڈنٹ ڈپٹی کمشنر بہادر ۲۶۹ سید حکیم حسام الدین صاحب رئیس ۲۷۰ فضل الدین صاحب زرگر ۲۷۱ حلیم احمد الدین صاحب ۲۷۲ شیخ نور محمد صاحب کلاه ساز ۲۷۳ محمد الدین صاحب پٹواری تر گڑی ۲۷۴ سید نواب شاہ صاحب مدرس ۲۷۵ سید چراغ شاہ صاحب // ایک روپیہ " عم " ایک روپیہ // " ۵ روپے " " عد ایک روپیہ " ضلع گوجرانوالہ عمر ایک روپیہ // سیالکوٹ عد ایک روپیہ " ایک روپیہ " ۲۷۶ چودھری نبی بخش صاحب سارجنٹ پولیس سیالکوٹ عد ایک روپیہ حاضر نہ ہو سکے ۴ آنے // ۲۷۷ محمد الدین صاحب

Page 349

جلد دوم " // در آنے * ۴ آنے " " ۳۳۳ مجموعہ اشتہارات ۲۷۸ محمد الدین صاحب جلد ساز ۲۷۹ اللہ بخش صاحب ۲۸۰ شادی خاں صاحب سوداگر سیالکوٹ ۲۸۱ چودھری اللہ بخش صاحب ۲۸۲ چودھری فتح دین صاحب " ۲۸۳ اللہ رکھا صاحب شالباف بٹالہ ۲۸۴ کرم الہی صاحب کا نسٹیل لدھیانہ ۲۸۵ پیر بخش صاحب ۲۸۶ منشی اله بخش صاحب ۲۸۷ کرم الدین صاحب.بھپال والہ ۲۸۸ منشی کرم الہی صاحب ریکارڈ کلرک " سیالکوٹ " پٹیالہ عمر ایک روپیہ حاضر نہ ہو سکے ایک روپیہ ایک روپیہ " ایک روپیہ عد ایک روپیہ حاضر نہ ہو سکے ۲ روپے عد ایک روپیہ ۲۸۹ مرز نیاز بیگ صاحب ضلعد ار نہر.رشیدہ ضلع ملتان صدر ۲۹۰ اللہ دتا صاحب شالباف ۲۹۱ ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب ۲۹۲ عزیز اللہ صاحب سرہندی برانچ پوسٹماسٹر ۲۹۳ نواب خان صاحب تحصیلدار ۲۹۴ عبد الصمد صاحب ملازم نواب خان صاحب موصوف ۲۹۵ مولوی نور محمد صاحب موکل ۲۹۶ سید مهدی حسن صاحب پنسال نو لیس چوکی لوہلہ ۲۹۷ مولوی شیر محمد صاحب.بجن ۲۹۸ با بونواب الدین صاحب ہیڈ ماسٹر سکول دینا نگر ۴ روپے " ۵ روپے "/ ۵ روپے // بٹالہ ایک روپیہ ریاست پٹیالہ محمد ۲ روپے حاضر نہ ہو سکے نادون جہلم عي اروپے " جہلم // ایک روپیہ ایک روپیہ ضلع لاہور عد ایک روپیہ ضلع شاہ پور آنے آنے ضلع گورداسپور ۲ روپے "

Page 350

جلد دوم ۴ آنے ۵ روپے حاضر نہ ہو سکے " ۳۳۴ سنگرور جہلم E ۲ روپے // ضلع جہلم عمر ایک روپیہ غیر حاضر " ایک روپیہ " // " " " "/ // " " " // " // سیکھواں مجموعہ اشتہارات ۲۹۹ والدہ خیر الدین رحیم بخش صاحب محرر اصطبل ۳۰۱ قاری محمد صاحب امام مسجد ۳۰۲ شرف الدین صاحب.کوٹلہ فقیر ۳۰۳ علم الدین صاحب ۳۰۴ مولوی محمد یوسف صاحب سنور پٹیالہ 扁 ۳۰۵ احمد بخش صاحب "/ ۱۳ ایک روپی ۱۳ آنے اپیسر ایک روپی ۱۳ آنے اپیسر ار ایک روپی ۱۳ آنے اپیسہ ۳۰۶ محمد ابراہیم صاحب // ۳۰۷ امام الدین پٹواری // حلقہ لو چپ ایک روپیہ ۳۰۸ غلام نبی عرف نبی بخش فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ایک روپیہ ۳۰۹ منشی احمد صاحب محرر باڑہ سرکاری ۳۱۰ مولوی محمود حسن خان صاحب مدرس ۳۱ شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی ۳۱۲ مستری احمد الدین صاحب ۳۱۳ مستری اسلام احمد ۳۱۴ میاں فیاض علی صاحب ۳۱۵ میاں صاحب دین صاحب کھاریاں ۳۱۶ میاں عالم دین حجام ۳۱۷ با بو کرم الہی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پاگل خانہ معرفت شیخ رحمت اللہ صاحب ۳۱۸ با بو غلام محمد صاحب پٹیالہ ایک روپیہ ۴ آنے " عد ایک روپیہ بھیرہ للحم ۴ روپے تا // ۲ روپے کپورتھلہ ۲ روپے ضلع گجرات ما ۲ روپے بھیرہ ۴ آنے لاہور ۵ روپے لدھیانہ ۴ روپے

Page 351

مجموعہ اشتہارات ۳۳۵ جلد دوم بقیہ اسماء حاضرین جلسہ جو بلی (۱) عبدالرحمن نومسلم جالندھری.(۲) سید ارشاد علی صاحبزادہ سید خصیلت علی شاہ صاحب، ڈنگہ.(۳) اللہ دتا ولد نورمحمدکمبوہ.(۴) عبداللہ ولد خلیفہ رجب دین لاہور.(۵) غلام محمد طالب علم ڈیرہ بابا نا نک.(۶) روشن الدین بھیرہ.(۷) اللہ ودھایا صاحب پنڈی بھٹیاں.(۸) شیخ احمد علی، چک بازید - (۹) نور محمد ڈھونی.(۱۰) عبدالرشید سید والہ.(۱۱) غلام قادر قادیان.(۱۲) شیخ امیر حصہ غلام نبی.(۱۳) غلام غوث قادیان.(۱۴) گلاب ولد محکم احمد آباد ضلع گورداسپور.(۱۵) شاہ نواز ڈنگہ - (۱۶) عید ا ولد شادی قادیان.(۱۷) دین محمد قادیان.(۱۸) صدرالدین قادیان - (۱۹) بڑھا قادیان.(۲۰) حسینا قادیان.(۲۱) امام الدین قادیان - (۲۲) خواجہ نور محمد قادیان - (۲۳) حامد علی ارائیں قادیان.(۲۴) میراں بخش قادیان - (۲۵) لتو قادیان - (۲۶) فقیر محمد فیض اللہ چک.( ۲۷) شیخ محمد قادیان.(۲۸) خواجہ کھیون قادیان.(۲۹) شرف دین قادیان - (۳۰) فتح دین کہار ڈلہ.(۳۱) عبداللہ قادیان.(۳۲) تھو قادیان.(۳۳) لتبھا ڈوگر کھارا.(۳۴) نتھو قادیان.(۳۵) بوٹا قادیان.

Page 352

مجموعہ اشتہارات جلد دوم نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے خط کی نقل بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ طبیب روحانی مسیح الزمان مكرم معظم سَلَّمَكُمُ اللهُ تَعَالَى السلام علیکم.حسب الحکم حضور کل حال متعلق جو بلی عرض کرتا ہوں :.۲۱ ۲۲ جون یعنی دو دن جشن جو بلی کے لئے مقرر ہوئے تھے چونکہ گورنمنٹ کا حکم تھا کہ کل رسوم متعلق جو بلی ۲۲ جون ۱۸۹۷ء کو پوری کی جائیں اس لئے سب کچھ ۲ کو کیا جانا قرار پایا.ریاست مالیر کوٹلہ میں جیسے رئیس اعظم وفادار رہے ہیں ویسے ہی خواتین بھی وفادار اور عقیدت مند گورنمنٹ کے رہے ہیں اور بہت مواقع میں اس کا ثبوت دیا ہے.بلکہ بعض جگہ خود دلڑائی میں شریک ہوکر گورنمنٹ کی اعانت کی ہے.اب چونکہ لڑائی کا موقع تو جاتا رہا ہے.اب بموجب حالت زمانہ ہم لوگ ہر طرح خدمت کے لئے حاضر ہیں.اور ہم ایسا کیوں نہ کریں جبکہ اس گورنمنٹ کا ہم پر خاص احسان ہے.وہ یہ کہ سکھوں کے عروج کے زمانہ میں سکھوں نے اس ریاست کو بہت دق کیا تھا اور اگر وقت پر جنرل اختر لونی صاحب ابر رحمت کی طرح تشریف نہ لے آتے تو یہ ریاست کبھی کی اس خاندان سے نکل کر سکھوں کے ہاتھ میں ہوتی.پس ہمارا خاندان تو ہر طرح گورنمنٹ کا مرہون منت ہے.اور اب یہ سلسلہ بہ سبب حضور اور زیادہ مستحکم ہو گیا.اور جو احسانات گورنمنٹ کے ہماری جماعت پر ہیں وہ قند مکرر کا لطف دینے لگے تو مجھ کوضروری ہوا کہ اپنے ہمسروں سے بڑھ کر کچھ کیا جائے.

Page 353

مجموعہ اشتہارات ۳۳۷ جلد دوم اول.چراغانہ قریب کی مسجد پر اور اپنے رہائشی مکان پر بہت زور سے کیا گیا.بلکہ ایک مکان بیرون شہر جو ایک گاؤں سروانی کوٹ نام میں میرا ہے اُس پر بھی کیا گیا کل مکانوں پر اول سفیدی کی گئی.اور مختلف طرز پر چراغ نصب کئے گئے اور ایک دیوار پر چراغوں میں یہ عبارت لکھی گئی.God save our Empress یعنی خدا تعالیٰ ہماری قیصرہ کو سلامت رکھے.قریبا تمام شہر سے بڑھ کر ہمارے ہاں روشنی کا اہتمام تھا.مگر عین وقت پر ہوا کے ہونے سے ۲۲ کو وہ روشنی نہ ہو سکی.اس لئے تمام شہر میں ۲۳ رکو روشنی ہوئی مگر اُس روز بھی ہوا کے سبب اونچی جگہ روشنی نہ ہوسکی.دوم.تین ٹرائفل آرچ.ایک برسر کو چہ اور دو اپنے مکان کے سامنے بنائے گئے اور ان پر مندرجہ ذیل عبارات سنہری لکھ کر لگائی گئیں.اول بر سر کو چہ ” جشن ڈائمنڈ جوبلی مبارک باد.دوم اپنے رہائشی مکان کے دروازہ پر انگریزی میں Welcome یعنی خوش آمدید لکھا تھا.سوم دروازہ کے مقابل تیسری محراب پر لکھا تھا.قیصرہ ہند کی عمر دراز.اور سروانی کوٹ میں بھی ایک ٹرائفل آرچ بنائی گئی تھی.- سوم.۲۲ / جون کو شام کے چھ بجے اپنی جماعت کے اصحاب کو جمع کر کے خداوند تعالیٰ سے حضور ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے بقائے دولت اور درازی عمر اور یہ کہ جس طرح حضور ممدوحہ نے ہم پر احسان کیا ہے خداوند تعالیٰ بھی حضور ممدوحہ پر احسان کرے اور الَّذِينَ آمَنُوا میں داخل کرے یعنی اسلام کے آفتاب سے وہ بھی فیضیاب ہوں دُعا کی گئی.چہارم.میں نے ایک نوٹس اپنی جماعت کے لوگوں کو دے دیا تھا کہ سب صاحب جو کم سے کم مقدرت رکھتے ہوں وہ بھی سوچراغ سے کم نہ جلائیں اور جن کے پاس اتنا خرچ کرنے کو نہ ہو وہ مجھ سے لے لیں.چنانچہ پانچ اصحاب کو میں نے خرچ چراغانہ دیا اور باقیوں نے خود چراغا نہ کیا.پنجم.میرے متعلق جو سروانی کوٹ میں معافی دار تھے ان کو بھی میں نے حکم دیا کہ چراغانہ کریں.چنانچہ انہوں نے بھی کیا اور یہ ایسا امر ہے کہ ریاست کے اور دیہات میں غالبا ایسا نہیں ہوا.

Page 354

مجموعہ اشتہارات ۳۳۸ جلد دوم خشم ۲۳ جون کو اس خوشی میں آتش بازی چھوڑی گئی.ہفتم.۲۲ / جون کی شام کو معزز احباب کی دعوت کی گئی.ہشتم.۲۳ رکومساکین کو غلہ اور نقد خیرات کیا گیا.تم.ایک یاد گار کے قائم کرنے کی بھی تجویز ہے.جب اس کی بابت فیصلہ ہو گا وہ بھی عرض کروں گا.راقم محمد علی خان مالیر کوٹلہ ۲۵ / جون ۱۸۹۷ء جلسه احباب مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان ۲۸ / جون ۱۸۹۷ء صفحه ۱ تا ۳۲) روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۵ ۲۸ تا ۳۱۶) نوٹ.ہم نے اپنی طرف سے سب احباب کے نام کوشش سے درج کرا دیئے ہیں.اب اگر ایک دو نام رہ گئے ہوں تو سہو بشریت ہے.

Page 355

مجموعہ اشتہارات ۳۳۹ ١٨١ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي کیا وہ جو خدا کی طرف سے ہے لوگوں کی بدگوئی اور سخت عداوت سے ضائع ہوسکتا ہے؟ تا دل مردِ خدا نامد بدردی بیچ قومی را خدا رسوا نه کرد یہ کچھ قضا و قدر کی بات ہے کہ بداندیش لوگوں کو اپنے پوشیدہ کینوں کو ظاہر کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ ہاتھ آ جاتا ہے.چنانچہ آج کل ہمارے مخالفوں کو گالیاں دینے کے لئے یہ نیا بہانہ ہاتھ آ گیا ہے کہ انہوں نے ہمارے ایک اشتہار کے الٹے معنی کر کے یہ مشہور کر دیا ہے کہ گویا ہم سلطان روم اور اس کی سلطنت اور دولت کے سخت مخالف ہیں.اور اس کا زوال چاہتے ہیں اور انگریزوں کی حد سے زیادہ خوشامد کرتے ہیں.اور انگریزی سلطنت کی دولت اور اقبال کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے اکثر حصوں میں بعض پر افتراء اشتہاروں اور اخباروں کے ذریعہ سے یہ خیال بہت پھیلایا گیا ہے اور عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ہمارے اشتہار کی بعض عبارتیں لے ترجمہ.جب تک کسی اللہ والے کا دل نہیں دکھایا جا تا خدا کسی قوم کو رسوا نہیں کرتا.

Page 356

مجموعہ اشتہارات ۳۴۰ جلد دوم محرف اور مبدل کر کے لکھی گئی ہیں.اور اس طرح پر بے وقوفوں کے دلوں کو جوش دلانے اور اُبھارنے کے لئے کارروائی کی گئی ہے اور ہم اگر چہ جعل سازوں اور دروغگوؤں کا منہ تو بند نہیں کر سکتے اور نہ اُن کی بدزبانی اور گالیوں اور ڈوموں کیطرح تمسخر اور ٹھٹھے کا مقابلہ کر سکتے ہیں تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی ظالمانہ بدزبانی کو خدا تعالیٰ کی غیرت کے حوالہ کر کے اُن کے اصل مدعا کو جو دھوکہ دہی ہے نادانوں پر اثر ڈالنے سے روکا جائے.پس اسی غرض سے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے.ہر ایک مسلمان عقلمند بھلا مانس نیک فطرت جو اپنی شرافت سے سچی بات کو قبول کرنے کے لئے طیار ہوتا ہے اس بات کو متوجہ ہو کر سنے کہ ہم کسی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کلمہ گو سے بھی کینہ نہیں رکھتے چہ جائیکہ ایسے شخص سے کینہ ہو جس کی ظل حمایت میں کروڑ ہا اہل قبلہ زندگی بسر کرتے ہیں.اور جس کی حفاظت کے نیچے خدا تعالیٰ نے اپنے مقدس مکانوں کو سپر د کر رکھا ہے.سلطان کی شخصی حالت اور اس کی ذاتیات کے متعلق نہ ہم نے کبھی کوئی بحث کی اور نہ اب ہے بلکہ اللہ جل شانہ جانتا ہے کہ ہمیں اس موجودسلطان کے بارے میں اس کے باپ دادے کی نسبت زیادہ حسن ظن ہے.ہاں ہم نے گذشتہ اشتہارات میں ترکی گورنمنٹ پر بلحاظ اس کے بعض عظیم الدخل اور خراب اندرون ارکان اور عمائد اور وزراء کے نہ بلحاظ سلطان کی ذاتیات کے ضرور اس خدا داد نور اور فراست اور الہام کی تحریک سے جو ہمیں عطا ہوا ہے چند باتیں لکھی ہیں جو خود اُن کے مفہوم کے خوفناک اثر سے ہمارے دل پر ایک عجیب رقت اور درد طاری ہوتی ہے.سو ہماری وہ تحریر جیسا کہ گندے خیال والے سمجھتے ہیں کسی نفسانی جوش پر مبنی نہ تھی بلکہ اس روشنی کے چشمہ سے نکلی تھی جو رحمت الہی نے ہمیں بخشا ہے.اگر ہمارے تنگ ظرف مخالف بدظنی پر سرنگوں نہ ہوتے تو سلطان کی حقیقی خیر خواہی اس میں نہ تھی کہ وہ چوہڑوں اور چماروں کی طرح گالیوں پر کمر باندھتے بلکہ چاہیے تھا کہ آیت وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ پر عمل کر کے اور نیز آیت اِنَّ بَعْضَ الظَّنِ الم سے کو یاد کر کے سلطان کی خیر خواہی اس میں دیکھتے کہ اس کے لئے صدق دل سے دعا کرتے.میرے اشتہار کا بجز اس کے کیا مطلب تھا کہ رومی ا بنی اسراءیل : ۳۷ الحجرات : ۱۳

Page 357

مجموعہ اشتہارات ۳۴۱ جلد دوم لوگ تقویٰ اور طہارت اختیار کریں کیونکہ آسمانی قضا و قدر اور عذاب سماوی کے روکنے کے لئے تقویٰ اور تو بہ اور اعمال صالحہ جیسی اور کوئی چیز قوی تر نہیں.مگر سلطان کے نادان خیر خواہوں نے بجائے اس کے مجھے گالیاں دینی شروع کر دیں اور بعضوں نے کہا کہ کیا سارے گناہ سلطان پر ٹوٹ پڑے اور یورپ مقدس اور پاک ہے جس کے عذاب کے لئے کوئی پیشگوئی نہیں کی جاتی.مگر وہ نادان نہیں سمجھتے کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ کفار کے فسق و فجور اور بت پرستی اور انسان پرستی کی سزا دینے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک دوسرا عالم رکھا ہوا ہے جو مرنے کے بعد پیش آئے گا اور ایسی قوموں کو جو خدا پر ایمان نہیں رکھتیں اسی دنیا میں مورد عذاب کرنا خدا تعالیٰ کی عادت نہیں ہے بجز اس صورت کہ وہ لوگ اپنے گناہ میں حد سے زیادہ تجاوز کریں اور خدا کی نظر میں سخت ظالم اور موذی اور مفسد ٹھیر جائیں جیسا کہ قوم نوح اور قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ مفسد قو میں متواتر بے باکیاں کر کے مستوجب سزا ہوگئی تھیں.لیکن خدا تعالیٰ مسلمانوں کی بے باکی کی سزا کو دوسرے جہان پر نہیں چھوڑ تا بلکہ مسلمانوں کو ادنیٰ ادنی قصور کے وقت اسی دنیا میں تنبیہ کی جاتی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے آگے ان بچوں کی طرح ہیں جن کی والدہ ہر دم جھڑ کیاں دے کر انہیں ادب سکھاتی ہے اور خدا تعالیٰ اپنی محبت سے چاہتا ہے کہ وہ اس ناپائیدار دنیا سے پاک ہو کر جائیں.یہی باتیں تھیں کہ میں نے نیک نیتی سے سفیر روم پر ظاہر کی تھیں.مگر افسوس کہ بے وقوف مسلمانوں نے ان باتوں کو اور طرف کھینچ لیا.ان نادانوں کی ایسی مثال ہے کہ جیسے ایک حاذق ڈاکٹر کہ جو شخص امراض اور قواعد حفظ ما تقدم کو بخوبی جانتا ہے کہ وہ کسی شخص کی نسبت کمال نیک نیتی سے یہ رائے ظاہر کرے کہ اس کے پیٹ میں ایک قسم کی رسولی نے بڑھنا شروع کر دیا ہے اور اگر ابھی وہ رسولی کاٹی نہ جائے تو ایک عرصہ کے بعد اس شخص کی زندگی اُس کے لئے وبال ہو جائے گی.تب اس بیمار کے وارث اس بات کو سن کر اُس ڈاکٹر پر سخت ناراض ہوں اور اُس ڈاکٹر کے قتل کر دینے کے درپے ہو جائیں مگر رسولی کا کچھ بھی فکر نہ کریں.یہاں تک کہ وہ رسولی بڑھے اور پھولے اور تمام پیٹ میں پھیل جائے اور اُس بیچارے بیمار کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے سو یہی مثال ان لوگوں کی ہے جو اپنی دانست میں سلطان کے خیر خواہ کہلاتے ہیں.

Page 358

مجموعہ اشتہارات ۳۴۲ جلد دوم پھر یہ بھی سوچو کہ جس حالت میں میں وہ شخص ہوں جو اس مسیح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتا ہوں جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ” وہ تمہار امام اور خلیفہ ہے اور اس پر خدا اور اس کے نبی کا سلام ہے اور اس کا دشمن لعنتی اور اس کا دوست خدا کا دوست ہے اور وہ تمام دنیا کے لئے حكم ہو کر آئے گا اور اپنے تمام قول اور فعل میں عادل ہوگا.تو کیا یہ تقویٰ کا طریق تھا کہ میرے دعوی کوسن کر اور میرے نشانوں کو دیکھ کر اور میرے ثبوتوں کا مشاہدہ کر کے مجھے یہ صلہ دیتے کہ گندی گالیاں اور ٹھٹھے اور ہنسی سے پیش آتے ؟ کیا نشان ظاہر نہیں ہوئے ؟ کیا آسمانی تائید میں ظہور میں نہیں آئیں؟ کیا اُن سب وقتوں اور موسموں کا پتہ نہیں لگ گیا جوا حادیث اور آثار میں بیان کی گئی تھیں؟ تو پھر اس قدر کیوں بیبا کی دکھلائی گئی؟ ہاں اگر میرے دعوئی میں اب بھی شک تھا یا میرے دلائل اور نشانوں میں کچھ شبہ تھا تو غربت اور نیک نیتی اور خدا ترسی سے اس شبہ کو دور کرایا ہوتا.مگر انہوں نے بجائے تحقیق اور تفتیش کے اس قدر گالیاں اور لعنتیں بھیجیں کہ شیعوں کوبھی پیچھے ڈال دیا.کیا یہ مکن نہ تھا کہ جو کچھ میں نے رومی سلطنت کے اندرونی نظام کی نسبت بیان کیا وہ دراصل صحیح ہو اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے بھی ہوں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہوں.پھر ماسوا اس کے میرے مخالف اپنے دلوں میں آپ ہی سوچیں کہ اگر میں درحقیقت وہی مسیح موعود ہوں جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک باز و قرار دیا ہے اور جس کو سلام بھیجا ہے اور جس کا نام حکم اور عدل اور امام اور خلیفہ اللہ رکھا ہے تو کیا ایسے شخص پر ایک معمولی بادشاہ کے لئے لعنتیں بھیجنا اس کو گالیاں دینا جائز تھا؟ ذرہ اپنے جوش کو تھام کے سوچیں نہ میرے لئے بلکہ اللہ اور رسول کے لیے کہ کیا ایسے مدعی کے ساتھ ایسا کرنا روا تھا؟ میں زیادہ کہنا نہیں چاہتا.کیونکہ میرا مقدمہ تم سب کے ساتھ آسمان پر ہے.اگر میں وہی ہوں جس کا وعدہ نبی کے پاک لبوں نے کیا تھا تو تم نے نہ میرا بلکہ خدا کا گناہ کیا ہے.اور اگر پہلے سے آثار صحیحہ میں یہ وارد نہ ہوتا کہ اس کو دکھ دیا جائے گا اور اس پر لعنتیں بھیجی جائیں گی تو تم لوگوں کی مجال نہ تھی جو تم مجھے وہ دکھ دیتے جو تم نے دیا.پر ضرور تھا کہ وہ سب نوشتے پورے ہوں جو خدا کی طرف سے لکھے گئے تھے اور اب تک تمہیں ملزم کرنے کے لئے

Page 359

مجموعہ اشتہارات ۳۴۳ جلد دوم تمہاری کتابوں میں موجود ہیں جن کو تم زبان سے پڑھتے اور پھر تکفیر اور لعنت کر کے مہر لگا دیتے ہو کہ وہ بد علماء اور اُن کے دوست جو مہدی کی تکفیر کریں گے اور مسیح سے مقابلہ سے پیش آئیں گے وہ تم ہی ہو.میں نے بار بار کہا کہ آؤ اپنے شکوک مثالو پر کوئی نہیں آیا.میں نے فیصلہ کے لئے ہر ایک کو بلایا پر کسی نے اس طرف رخ نہیں کیا.میں نے کہا کہ تم استخارہ کرو اور روروکر خدا تعالیٰ سے چاہو کہ وہ تم پر حقیقت کھولے پر تم نے کچھ نہ کیا اور تکذیب سے بھی باز نہ آئے.خدا نے میری نسبت سچ کہا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص در حقیقت سچا ہوا ور ضائع کیا جائے؟ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص خدا کی طرف سے ہو اور برباد ہو جائے؟ پس اے لو گو تم خدا سے مت لڑو.یہ وہ کام ہے جو خدا تمہارے لئے اور تمہارے ایمان کے لئے کرنا چاہتا ہے اس کے مزاحم مت ہو.اگر تم بجلی کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہومگر خدا کے سامنے تمہیں ہرگز طاقت نہیں.اگر یہ کاروبار انسان کی طرف سے ہوتا تو تمہارے حملوں کی کچھ بھی حاجت نہ تھی.خدا اُس کے نیست و نابود کرنے کے لئے خود کافی تھا.افسوس کہ آسمان گواہی دے رہا ہے اور تم نہیں سنتے اور زمین ضرورت ضرورت بیان کر رہی ہے اور تم نہیں دیکھتے! اے بد بخت قوم اُٹھے اور دیکھ کہ اس مصیبت کے وقت میں جو اسلام پیروں کے نیچے کچلا گیا اور مجرموں کی طرح بے عزت کیا گیا.وہ جھوٹوں میں شمار کیا گیاوہ ناپاکوں میں لکھا گیا تو کیا خدا کی غیرت ایسے وقت میں جوش نہ مارتی.اب سمجھ 66 کہ آسمان جھکتا چلا آتا ہے اور وہ دن نزدیک ہیں کہ ہر ایک کان کو اَنَا الْمَوْجُود “ کی آواز آئے.ہم نے کفار سے بہت کچھ دیکھا.اب خدا بھی کچھ دکھلانا چاہتا ہے.سواب تم دیدہ و دانستہ اپنے تیں مورد غضب مت بناؤ.کیا صدی کا سر تم نے نہیں دیکھا؟ جس پر چودہ برس اور بھی گذر گئے.کیا خسوف کسوف رمضان میں تمہاری آنکھوں کے سامنے نہیں ہوا؟.کیا ستارہ ذوالسنین کے طلوع کی پیشگوئی

Page 360

مجموعہ اشتہارات ۳۴۴ جلد دوم پوری نہیں ہوئی ؟ کیا تمہیں اس ہولناک زلزلہ کی کچھ خبر نہیں جو مسیح کی پیشگوئی کے مطابق ان ہی دنوں میں وقوع میں آیا اور بہت سی بستیوں کو برباد کر گیا.اور خبر دی گئی تھی کہ اس کے متصل مسیح بھی آئے گا ؟.کیا تم نے آتھم کی نسبت وہ نشان نہیں دیکھا جو ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ظہور میں آیا جس کی خبر سترہ برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں دی گئی تھی؟ کیا لیکھر ام کی نسبت پیشگوئی اب تک تم نے نہیں سنی ؟ کیا کبھی اس سے پہلے کسی نے دیکھا تھا کہ پہلوانوں کی کشتی کی طرح مقابلہ ہوکر اور لاکھوں انسانوں میں شہرت پا کر اور صدہا اشتہارات اور رسائل میں چھپ کر ایسا کھلا کھلا نشان ظاہر ہوا جیسا کہ لیکھرام کی نسبت ظاہر ہوا؟ کیا تمہیں اس خدا سے کچھ بھی شرم نہیں آتی جس نے تمہاری تیر ہویں صدی کے غم اور صدمے دیکھ کر چودھویں صدی کے آتے ہی تمہاری تائید کی؟ کیا ضرور نہ تھا کہ خدا کے وعدے عین وقت میں پورے ہوتے ؟ بتلاؤ کہ ان سب نشانوں کو دیکھ کر پھر تمہیں کیا ہو گیا ؟ کس چیز نے تمہارے دلوں پر مہر لگا دی ؟ اے سج دل قوم خدا تیری ہر ایک تسلی کر سکتا ہے اگر تیرے دل میں صفائی ہو.خدا تجھے کھینچ سکتا ہے اگر تو کھینچے جانے کے لئے طیار ہو.دیکھو یہ کیسا وقت ہے کیسی ضرورتیں ہیں جو اسلام کو پیش آگئیں.کیا تمہارا دل گواہی نہیں دیتا کہ یہ وقت خدا کے رحم کا وقت ہے؟ آسمان پر بنی آدم کی ہدایت کے لئے ایک جوش ہے اور توحید کا مقدمہ حضرت احدیت کی پیشی میں ہے مگر اس زمانہ کے اندھے اب تک بے خبر ہیں.آسمانی سلسلہ کی ان کی نظر میں کچھ بھی عزت نہیں.کاش ان کی آنکھیں کھلیں اور دیکھیں کہ کس کس قسم کے نشان اتر رہے ہیں اور آسمانی تائید ہورہی ہے اور نور پھیلتا جاتا ہے مبارک وہ جو اس کو پاتے ہیں.افسوس کہ پرچہ چودھویں صدی ۱۵ جون ۱۸۹۷ میں بھی بہت سی جزع فزع کے ساتھ سلطان روم کا بہانہ رکھ کر نہایت ظالمانہ توہین و تحقیر و استہزاء اس عاجز کی نسبت کیا گیا ہے اور گندے اور نا پاک اور سخت دھوکہ دینے والے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور سراسر شرارت آمیز افتراء سے کام لیا گیا ہے مگر کچھ ضرور نہیں کہ میں اس کے رد میں تصیح اوقات کروں کیونکہ وہ دیک رہا ہے جس کے ہاتھ میں حساب ہے.لیکن ایک عجیب بات ہے جس کا اس وقت ذکر کرنا نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ جب یہ اخبار چودھویں صدی میرے روبرو پڑھا گیا تو میری روح نے اس مقام میں بد دعا کے

Page 361

مجموعہ اشتہارات ۳۴۵ جلد دوم لئے حرکت کی جہاں لکھا ہے کہ ایک بزرگ نے جب یہ اشتہار ( یعنی اس عاجز کا اشتہار ) پڑھا تو بیسا ختہ ان کے منہ سے یہ شعر نکل گیا ے چون خدا خواهد که پرده کس دریا میلش اندر طعنه و پاکاں برد میں نے ہر چند اس روحی حرکت کو روکا اور دبایا اور بار بار کوشش کی کہ یہ بات میری روح میں سے نکل جائے مگر وہ نہ نکل سکی تب میں نے سمجھا کہ وہ خدا کی طرف سے ہے تب میں اس شخص کے بارے میں دعا کی جس کو بزرگ کے لفظ سے اخبار میں لکھا گیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ دعا قبول ہو گئی.اور وہ دعا یہ ہے کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ میں کذاب ہوں اور میں تیری طرف سے نہیں ہوں اور جیسا کہ میری نسبت کہا گیا ہے ملعون اور مردود ہوں اور کا ذب ہوں اور تجھ سے میرا تعلق اور تیرا مجھ سے نہیں تو میں تیری جناب میں عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ہلاک کر ڈال.اور اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور تیرا بھیجا ہوا ہوں اور مسیح موعود ہوں تو اس شخص کے پردے پھاڑ دے.جو بزرگ کے نام سے اس اخبار میں لکھا گیا ہے.لیکن اگر وہ اس عرصہ میں قادیان میں آکر مجمع عام میں تو بہ کرے تو اُسے معاف فرما کہ تو رحیم وکریم ہے.یہ دعا ہے کہ میں نے اس بزرگ کے حق میں کی مگر مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ بزرگ کون ہے اور کہاں رہتے ہیں اور کس مذہب اور قوم کے ہیں.جنہوں نے مجھے کذاب ٹھہرا کر میری پردہ دری کی پیشگوئی کی اور نہ مجھے جانے کی کچھ ضرورت ہے.مگر اس شخص کے اس کلمہ سے میرے دل کو دکھ پہنچا اور ایک جوش پیدا ہوا تب میں نے دعا کر دی اور یکم جولائی ۱۸۹۷ء سے یکم جولائی ۱۸۹۸ء تک اس کا فیصلہ کرنا خدا تعالیٰ سے مانگا.اس دعا میں شاید ایک یہ بھی حکمت ہوگی کہ چونکہ آج کل ایک فرقہ نیچر یہ مسلمانوں کی ے ترجمہ.خدا تعالیٰ جب کسی کا پردہ چاک کرنا چاہتا ہے تو اس کی طبع میں پاک لوگوں پر طعنہ زنی کا میلان پیدا کر دیتا ہے.

Page 362

مجموعہ اشتہارات ۳۴۶ جلد دوم گردشِ ایام سے اسلام میں پیدا ہو گیا ہے اور یہ لوگ قبولیت دعا سے منکر اور اس برتر ہستی کی بے انتہا قدرت سے انکاری ہیں جو عجائب کام دکھلاتا اور اپنے بندوں کی دعائیں قبول کر لیتا ہے.گویا نیم دہر یہ ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ ان کو پھر ایک استجابت دعا کا نمونہ دکھلائے جس کا برکات الدعا کے ایک کشف میں وعدہ بھی ہو چکا ہے اور میرے صدق اور کذب کے لئے یہ ایک اور نشان ہوگا.اگر میں خدا تعالیٰ کی جناب میں در حقیقت ایسا ہی ذلیل اور دجال اور کذاب ہوں جو اُس بزرگ نے سمجھا ہے تو میری دعا بے اثر ہو جائے گی اور سال عیسوی کے گذرنے کے بعد میری ذلت ظاہر ہوگی اور روسیا ہی نا قابل زوال مجھے اُٹھانی پڑے گی.میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ کسی کے اہل اللہ ہونے میں اس کی دعا کا قبول ہونا شرط ہے.ہر ایک ولی مستجاب الدعوات ہوتا ہے اور اس کو وہ حالت میئر آجاتی ہے جو استجابت دعا کے لئے ضروری ہے.ہاں جب کبھی وہ حالت میسر نہ ہوتب دعا کا قبول ہونا ضروری نہیں.وہ حالت یہ کہ کسی کی نسبت نیک دعا یا بددعا کے لئے اہل اللہ کا دل چشمہ کی طرح یک دفعہ پھوٹتا ہے اور فی الفور ایک شعلہ نور آسمان سے گرتا اور اس سے اتصال پاتا ہے اور ایسے وقت میں جب دعا کی جاتی ہے تو ضرور قبول ہو جاتی ہے.سو یہی وقت مجھے اس بزرگ کے لئے میتر آیا.میں ان لوگوں کی روز کی تکذیبوں اور لعنت اور ٹھٹھے اور ہنسی کے دیکھنے سے تھک گیا.میری روح اب رب العرش کی جناب میں رو رو کر فیصلہ چاہتی ہے.اگر میں درحقیقت خدا تعالیٰ کی نظر میں مردود اور مخذول ہوں جیسا کہ ان لوگوں نے سمجھا تو میں خود ایسی زندگی نہیں چاہتا جو لعنتی زندگی ہو.اگر میرے پر آسمان سے بھی لعنت ہے جیسا کہ زمین سے لعنت ہے تو میری روح اوپر کی لعنت کی برداشت نہیں کر سکتی اگر میں سچا ہوں تو اس بزرگ کی خدا تعالیٰ سے ایسے طور سے پردہ دری چاہتا ہوں جو بطور نشان ہو اور جس سے سچائی کو مدد ملے ورنہ لعنتی زندگی سے میرا مرنا بہتر ہے.میرے صادق یا کاذب ہونے کا یہ آخری معیار ہے جس کو فیصلہ ناطق کی طرح سمجھنا چاہیے.میں خدا سے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہوں کہ اگر میں اس کی نظر میں عزیز ہوں تو وہ اس بزرگ کی ایسے طور سے پردہ دری کرے جواب تک کسی کے خیال و گمان میں نہ ہو.میں جانتا ہوں کہ میرا خدا قادر اور ہر ایک قوت کا مالک ہے وہ ان

Page 363

مجموعہ اشتہارات ۳۴۷ جلد دوم کے لئے جو اس کے ہوتے ہیں بڑے بڑے عجائبات دکھلاتا ہے.ایڈیٹر چودھویں صدی کی جس قدر شوخی ہے اس بزرگ کی حمایت سے ہے اور اس کی تمام تو ہین اور تحقیر کی تحریریں اسی بزرگ کی گردن پر ہیں.وہ ہنسی سے لکھتا ہے کہ ” میں مخالفت سے نہ کاٹا جاؤں.خدا سے بنی کرنا کسی نیک انسان کا کام نہیں انسان ہر ایک وقت اس کے قبضہ قدرت میں ہے.اور گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی کی نسبت جو میرے پر حملہ کیا گیا ہے.یہ حملہ بھی محض شرارت ہے.سلطان روم کے حقوق بجائے خود ہیں.مگر اس گورنمنٹ کے حقوق بھی ہمارے سر پر ثابت شدہ ہیں اور نا شکر گذاری ایک بے ایمانی کی قسم ہے اے نادانو! گورنمنٹ انگریزی کی تعریف تمہاری طرح میری قلم سے منافقانہ نہیں نکلتی بلکہ میں اپنے اعتقاد اور یقین سے جانتا ہوں کہ در حقیقت خدا تعالیٰ کے فضل سے اس گورنمنٹ کی پناہ ہمارے لئے بالواسطہ خدا تعالیٰ کی پناہ ہے.اس سے زیادہ اس گورنمنٹ کی پُر امن سلطنت ہونے کا اور کیا میرے نزدیک ثبوت ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ پاک سلسلہ اسی گورنمنٹ کے ماتحت برپا کیا ہے.وہ لوگ میرے نزدیک سخت نمک حرام ہیں جو حکام انگریزی کے رو بروان کی خوشامد میں کرتے ہیں.ان کے آگے گرتے ہیں اور پھر گھر میں آکر کہتے ہیں کہ جو شخص اس گورنمنٹ کا شکر کرتا ہے وہ کافر ہے.یا درکھو، اور خوب یا درکھو کہ ہماری یہ کارروائی جو اس گورنمنٹ کی نسبت کی جاتی ہے منافقانہ نہیں ہے وَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ.بلکہ ہمارا یہی عقیدہ ہے جو ہمارے دل میں ہے.اور بزرگ مذکور جس نے ہماری پردہ دری کے لئے پیشگوئی کی اس بات کو یا در کھے کہ ہماری طرف سے اس میں کچھ زیادت نہیں.انہوں نے پیشگوئی کی اور ہم نے بددعا کی.آئیندہ ہمارا اور ان کا خدا تعالیٰ کی جناب میں فیصلہ ہے.اگر ان کی رائے بچی ہے تو ان کی پیشگوئی پوری ہو جائے گی اور اگر جناب الہی میں اس عاجز کی کچھ عزت ہے تو میری دعا قبول ہو جائے گی.تاہم میں نے اس دعا میں یہ شرط رکھ لی ہے کہ اگر بزرگ مذکور قادیان میں آکر اپنی بے باکی سے ایک مجمع میں تو بہ کریں تو خدا تعالیٰ یہ حرکت ان کو معاف کرے ورنہ اب یہ عظیم الشان مقدمہ مجھ میں اور اس بزرگ میں دائر ہو گیا ہے.اب حقیقت میں جو روسیاہ ہوگا.اس بزرگ کو روم

Page 364

مجموعہ اشتہارات ۳۴۸ جلد دوم کے ایک ظاہری فرماں روا کے لئے جوش آیا اور خدا کے قائم کردہ سلسلہ پر تھوکا اور اس کے مامور کو پلید قرار دیا حالانکہ سلطان کے بارے میں میں نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا تھا.صرف اس کے بعض ارکان کی نسبت بیان کیا تھا اور یا اس کی گورنمنٹ کی نسبت جو مجموعہ ارکان سے مراد ہے ملہمانہ خبر تھی.سلطان کی ذاتیات کا کچھ بھی ذکر نہ تھا.لیکن پھر بھی اس بزرگ نے وہ شعر میری نسبت پڑھا کہ شاید مثنوی کے مرحوم مصنف نے نمرود اور شداد اور ابو جہل اور ابولہب کے حق میں بنایا ہوگا.اور اگر میں سلطان کی نسبت کچھ نقطه چینی بھی کرتا تب بھی میرا حق تھا کیوں کہ اسلامی دنیا کے لئے مجھے خدا نے حکم کر کے بھیجا ہے جس میں سلطان بھی داخل ہے اور اگر سلطان خوش قسمت ہو تو یہ اس کی سعادت ہے کہ میری نقطه چینی پر نیک نیتی کے ساتھ توجہ کرے اور اپنے ملک کی اصلاحوں کی طرف جدو جہد کے ساتھ مشغول ہو.اور یہ کہنا کہ ایسے ذکر سے کہ زمین کی سلطنتیں میرے نزدیک ایک نجاست کی مانند ہیں اس میں سلطان کی بہت بے ادبی ہوئی ہے یہ ایک دوسری حماقت ہے.بے شک دنیا خدا کے نزدیک مردار کی طرح ہے اور خدا کو ڈھونڈنے والے ہر گز دنیا کو عزت نہیں دیتے یہ ایک لا علاج بات ہے جو روحانی لوگوں کے دلوں میں پیدا کی جاتی ہے کہ وہ بچی بادشاہت آسمان کی بادشاہت سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کے آگے سجدہ نہیں کر سکتے.البتہ ہم ہر ایک منعم کا شکر کریں گے.ہمدردی کے عوض ہمدردی دکھلائیں گے.اپنے محسن کے حق میں دعا کریں گے.عادل بادشاہ کی خدا تعالیٰ سے سلامتی چاہیں گے گو وہ غیر قوم کا ہو مگر کسی سفلی عظمت اور بادشاہت کو اپنے لئے بت نہیں بنا ئیں گے.ہمارے پیارے رسول سید الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.اِذَ اوَقَعَ الْعَبْدُ فِي أُلْهَانِيَّةِ الرَّبِ وَمُهَيْمِنِيَّةِ الصِّدِّيقِينَ وَرَهْبَانِيَّةِ الأَبْرَارِ لَمْ يَجِدْاَحَدًا يَأْخُذُ بِقَلْبِهِ.یعنی جب کسی بندہ کے دل میں خدا کی عظمت اور اُس کی محبت بیٹھ جاتی ہے اور خدا اس پر محیط ہو جاتا ہے جیسا کہ وہ صدیقوں پر محیط ہوتا ہے اور اپنی رحمت اور خاص عنایت کے اندر اس کو لے لیتا ہے اور ابرار کی طرح اس کو غیروں کے تعلقات سے چھوڑ دیتا ہے تو ایسا بندہ کسی کا ایسا نہیں پاتا کہ اپنی عظمت یا و جاہت یا خوبی کے ساتھ اس کے دل کو پکڑ لے کیونکہ اس پر ثابت ہو جاتا ہے کہ تمام عظمت اور وجاہت اور خوبی خدا میں ہی

Page 365

مجموعہ اشتہارات ۳۴۹ جلد دوم ہے.پس کسی کی عظمت اور جلال اور قدرت اس کو تعجب میں نہیں ڈالتی اور نہ اپنی طرف جھکا سکتی ہے.سواس کو دوسروں پر صرف رحم باقی رہ جاتا ہے خواہ بادشاہ ہوں یا شہنشاہ ہوں کیونکہ اس کو ان چیزوں کی طمع باقی نہیں رہتی جو ان کے ہاتھ میں ہیں.جس نے اس حقیقی شہنشاہ کے دربار میں بار پایا جس کے ہاتھ میں ملکوت السموات والارض ہے.پھر فانی اور جھوٹی بادشاہی کی عظمت اس کے دل میں کیونکر بیٹھ سکے؟ میں جو اس ملیک مُقْتَدِرِ کو پہنچانتا ہوں تو اب میری روح اس کو چھوڑ کر کہاں اور کدھر جائے ؟ یہ روح تو ہر وقت یہی جوش مار رہی ہے کہ اے شاہ ذوالجلال ابدی سلطنت کے مالک سب ملک اور ملکوت تیرے لئے ہی مسلّم ہے تیرے سوا سب عاجز بندے ہیں.بلکہ کچھ بھی نہیں.(۱) آن کس که بتورسد شہاں را چه کند با فر تو فرخسروان را چه گندی (۲) چوں بندہ شناختت بداں عز وجلال بعد از تو جلال دیگران را چه گند (۳) دیوانہ کی ہر دو جہانش بخشی دیوانہ تو ہر دو جہاں را چه الراقم میرزا غلام احمد از قادیان ۲۵ / جون ۱۸۹۷ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ( یہ اشتہار ۲۶۸۲۰ کے ۱۲ صفحات پر ہے ) A تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۳۳ تا ۱۴۴) گند لے ترجمہ.(۱) جس کی تجھ تک رسائی ہے وہ بادشاہوں کو کیا سمجھتا ہے اور تیری شان کے آگے وہ بادشاہوں کی کیا حقیقت سمجھتا ہے.(۲) جب بندہ نے تیرے عز و جلال کو پہچان لیا تو پھر تجھے چھوڑ کر وہ دوسروں کی شوکت کو کیا کرے.(۳) اپنا دیوانہ بنا کر تو اسے دونوں جہان بخش دیتا ہے مگر تیرا دیوانہ دونوں جہانوں کو کیا کرے.

Page 366

مجموعہ اشتہارات ۳۵۰ ١٨٢ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي پنجاب اور ہندوستان کے مشائخ اور صلحاء اور اہل اللہ باصفا سے حضرت عزت اللہ جل شانہ کی قسم دے کر ایک درخواست اے بزرگان دین و عباداللہ الصالحین میں اس وقت اللہ جل شانہ کی قسم دے کر ایک ایسی درخواست آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس پر توجہ کرنا آپ صاحبوں پر رفع فتنہ وفساد کے لئے فرض ہے کیونکہ آپ لوگ فراست اور بصیرت رکھتے ہیں.اور نہ صرف اٹکل سے بلکہ نور اللہ سے دیکھتے ہیں اور اگر چہ ایسے ضروری امر میں جس میں تمام مسلمانوں کی ہمدردی ہے اور اسلام کے ایک بڑے بھاری تفرقہ کو مٹانا ہے قسم کی کچھ بھی ضرورت نہیں تھی مگر چونکہ بعض صاحب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اپنے بعض مصالح کی وجہ سے خاموش رہنا پسند کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ بچی شہادت میں عام لوگوں کی ناراضگی متصور ہے اور جھوٹ بولنے میں معصیت ہے اور نہیں سمجھتے کہ اخفاء شہادت بھی ایک معصیت ہے.ان لوگوں کو توجہ دلانے کے لئے قسم دینے کی ضرورت پڑی.اے بزرگان دین وہ امر جس کے لئے آپ صاحبوں کو اللہ جل شانہ کی قسم دے کر

Page 367

مجموعہ اشتہارات ۳۵۱ جلد دوم اسکے کرنے کے لئے آپ کو مجبور کرتا ہوں.یہ ہے کہ خدا تعالی نے عین ضلالت اور فتنہ کے وقت میں اس عاجز کو چودھویں صدی کے سر پر اصلاح خلق اللہ کے لئے مسجد دکر کے بھیجا.اور چونکہ اس صدی کا بھا را فتنہ جس نے اسلام کو نقصان پہنچایا تھا عیسائی پادریوں کا فتنہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس عاجز کا نام مسیح موعود رکھا.اور یہ نام یعنی مسیح موعود وہی نام ہے جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی تھی.اور خدا تعالیٰ سے وعدہ مقرر ہو چکا تھا کہ تثلیث کے غلبہ کے زمانہ میں اس نام پر ایک مجدد آئے گا جس کے ہاتھ پر کسر صلیب مقدر ہے.اس لئے صحیح بخاری میں اس مجدد کی یہی تعریف لکھی ہے کہ وہ امت محمدیہ میں سے ان کا ایک امام ہوگا اور صلیب کو توڑے گا.یہ اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ صلیبی مذہب کے غلبہ کے وقت آئے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق ایسا ہی کیا اور اس عاجز کو چودھویں صدی کے سر پر بھیجا اور وہ آسمانی حربہ مجھے عطا کیا جس سے میں صلیبی مذہب کو توڑ سکوں.مگر افسوس کہ اس ملک کے کو تہ اندیش علماء نے مجھے قبول نہیں کیا اور نہایت بیہودہ عذرات پیش کئے جن کو ہر پہلو سے توڑا گیا.انہوں نے یہ ایک لغو خیال پیش کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر منارہ دمشق کے پاس آخری زمانہ میں اتریں گے اور وہی مسیح موعود ہوں گے.پس ان کو جواب دیا گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا جسم عنصری کے ساتھ زندہ آسمان پر چلے جانا ہر گز صحیح نہیں ہے.ایک حدیث بھی جو صحیح مرفوع متصل ہوایسی نہیں ملے گی جس سے ان کا زندہ آسمان پر چلے جانا ثابت ہوتا ہو بلکہ قرآن شریف صریح ان کی وفات کا بیان فرماتا ہے اور بڑے بڑے اکابر علماء جیسے ابن حزم اور امام مالک رضی اللہ عنہما ان کی وفات کے قائل ہیں.پھر جبکہ نصوص قطعیہ سے ان کا وفات پانا ثابت ہوتا ہے تو پھر یہ امید رکھنا کہ وہ کسی وقت دمشق کے شرقی منارہ کے پاس نازل ہوں گے کس قدر غلط خیال ہے بلکہ اس صورت میں دمشقی حدیث کے وہ معنے کرنے چاہیں جو قرآن اور دوسری حدیثوں سے مخالفت نہ رکھتے ہوں اور وہ یہ ہے کہ مسیح موعود کا نزول اجلال واکرام جو ایک روحانی نزول ہے دمشق کے مشرقی منارتک اپنے انوار دکھلائے گا.چونکہ دمشق تثلیث کے خبیث درخت کا اصل منبت ہے اور اسی جگہ سے اس خراب عقیدہ کی پیدائش ہوئی ہے اس لئے

Page 368

مجموعہ اشتہارات ۳۵۲ جلد دوم اشارہ فرمایا گیا کہ مسیح موعود کا نور نزول فرما کر اس جگہ تک پھیلے گا جہاں تثلیث کا مسقط الرأس ہے.مگر افسوس کہ علماء مخالفین نے اس صاف اور صریح مسئلہ کو قبول نہیں کیا.پھر یہ بھی نہیں سوچا کہ قرآن شریف اس لئے آیا ہے کہ تا پہلے اختلافات کا فیصلہ کرے اور یہود اور نصاریٰ نے جو حضرت عیسی کے رفع الی السماء میں اختلاف کیا تھا جس کا قرآن نے فیصلہ کرنا تھا.وہ رفع جسمانی نہیں تھا بلکہ تمام جھگڑا اور تنازع روحانی رفع کے بارے میں تھا.یہود کہتے تھے کہ نعوذ باللہ عیسی لعنتی ہے یعنی خدا کی درگاہ سے رد کیا گیا اور خدا سے دور کیا گیا اور رحمت الہی سے بے نصیب کیا گیا جس کا رفع الی اللہ ہرگز نہیں ہوا کیونکہ وہ مصلوب ہوا اور مصلوب توریت کے حکم کے رو سے رفع الی اللہ سے بے نصیب ہوتا ہے جس کو دوسرے لفظوں میں لعنتی کہتے ہیں توریت کا یہ منشاء تھا کہ سچا نبی بھی مصلوب نہیں ہوتا اور جب مصلوب جھوٹا ٹھیرا تو بلاشبہ وہ لعنتی ہوا جس کا رفع الی اللہ غیر ممکن ہے اور اسلامی عقیدہ کی طرح یہود کا بھی عقیدہ تھا کہ مومن مرنے کے بعد آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور حضرت عیسی کے کافر ٹھیرانے کے لئے یہود کے ہاتھ میں یہ دلیل تھی کہ وہ سولی دیا گیا ہے اور جو شخص سولی دیا جائے اس کا توریت کی رو سے رفع الی السماء نہیں ہوتا یعنی وہ مرنے کے بعد آسمان کی طرف نہیں اٹھایا جاتا بلکہ ملعون ہو جاتا ہے لہذا اس کا کافر ہونالازم آیا اور اس دلیل کے ماننے سے عیسائیوں کو چارہ نہ تھا کیونکہ توریت میں ایسا ہی لکھا ہوا تھا تو انہوں نے اس بات کو ٹالنے کے لئے دو بہانے بنائے ایک یہ کہ اس بات کو مان لیا کہ بے شک یسوع جس کا دوسرا نام عیسی ہے مصلوب ہو کر لعنتی ہوا.مگر وہ لعنت صرف تین دن تک رہی.پھر بجائے اس کے رفع الی اللہ اس کو حاصل ہوا.اور دوسرا یہ بہانہ بنایا گیا کہ چند ایسے آدمیوں نے جو حواری نہیں تھے گواہی بھی دیدی کہ ہم نے یسوع کو آسمان پر چڑھتے بھی دیکھا گویا رفع الی اللہ ہو گیا جس مومن ہونا ثابت ہوتا ہے.مگر یہ گواہی جھوٹی تھی جو نہایت مشکل کے وقت بنائی گئی.بات یہ ہے کہ جب یہود نے حواریوں کو ہر روز دق کرنا شروع کیا کہ بوجہ مصلوبیت یسوع کا لعنتی ہونا ثابت ہو گیا یعنی رفع الی اللہ نہیں ہوا.تو اس اعتراض کے جواب سے عیسائی نہایت تنگ

Page 369

مجموعہ اشتہارات ۳۵۳ جلد دوم آگئے اور ان کو یہودیوں کے سامنے منہ دکھلانے کی جگہ نہ رہی تب بعض مفتری حیلہ سازوں نے یہ گواہی دے دی کہ ہم نے یسوع کو آسمان پر چڑھتے دیکھا ہے پھر کیونکر اس کا رفع نہیں ہوا مگر اس گواہی میں گو بالکل جھوٹ سے کام لیا تھا مگر پھر بھی ایسی شہادت کو یہودیوں کے اعتراض سے کچھ تعلق نہ تھا کیونکہ یہودیوں کا اعتراض رفع روحانی کی نسبت تھا جس کی بنیاد تو ریت پر تھی اور رفع جسمانی کی کوئی بحث نہ تھی.اور ماسوا اس کے جسمانی طور پر اگر کوئی بفرض محال پرندوں کی طرح پرواز بھی کرے اور آنکھوں سے غائب ہو جائے تو کیا اس سے ثابت ہو جائے گا کہ وہ درحقیقت کسی آسمان پر جا پہنچا ہے؟ عیسائیوں کی یہ سادہ لوحی تھی جو انہوں نے ایسا منصوبہ بنایا ورنہ اس کی کچھ ضرورت نہ تھی.ساری بحث روحانی رفع کے متعلق تھی جس سے لعنت کا مفہوم روکتا تھا افسوس ان کو یہ خیال نہ آیا که توریت میں جو لکھا ہے جو مصلوب کا رفع الی اللہ نہیں ہوتا تو یہ تو سچے نبیوں کی عام علامت رکھی گئی تھی اور یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صلیبی موت جرائم پیشہ کی موت ہے اور سچے نبیوں کے لئے یہ پیشگوئی تھی کہ وہ جرائم پیشہ کی موت سے نہیں مریں گے.اسی لئے حضرت آدم سے لے کر آخر تک کوئی سچا نبی مصلوب نہیں ہوا.پس اس امر کو رفع جسمانی سے کیا علاقہ تھا.ورنہ لازم آتا ہے کہ ہر ایک سچا نبی معه جسم عصری آسمان پر گیا ہو اور جو جسم عصری کے ساتھ آسمان پر نہ گیا ہو وہ جھوٹا ہو.غرض تمام جھگڑا رفع روحانی میں تھاجو چھ سوبرس تک فیصلہ نہ ہوسکا.آخر قر آن شریف نے فیصلہ کر دیا.اس کی طرف الله جَلَّ شانہ نے اشارہ فرمایا ہے يَا عِیسَی إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى یعنی اے عیسی میں تجھے طبعی وفات دوں گا اور اپنی طرف تیرا رفع کروں گا یعنی تو مصلوب نہیں ہوگا.اس آیت میں یہود کے اس قول کا رڈ ہے کہ وہ کہتے تھے کہ عیسی مصلوب ہو گیا اس لئے ملعون ہے اور خدا کی طرف اس کا رفع نہیں ہوا.اور عیسائی کہتے تھے کہ تین دن لعنتی رہ کر پھر رفع ہوا.اور اس آیت نے یہ فیصلہ کیا کہ بعد وفات بلا توقف خدا تعالیٰ کی طرف عیسی کا رفع روحانی ہوا.اور خدا تعالیٰ نے اس جگہ رَافِعُكَ إِلَى ال عمران : ۵۶

Page 370

مجموعہ اشتہارات ۳۵۴ جلد دوم السَّمَاءِ نہیں کہا بلکہ رَافِعُكَ إِلَيَّ فرمایا تا رفع جسمانی کا شبہ نہ گذرے.کیونکہ جو خدا کی طرف جاتا ہے وہ روح سے جاتا ہے نہ جسم سے.ارجعی الی ربکے اس کی نظیر ہے.غرض اس طرح پر یہ جھگڑا فیصلہ پایا مگر ہمارے نادان مخالف جو رفع آسمانی کے قائل ہیں وہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جسمانی رفع امر متنازع فیہ نہ تھا.اور اگر اس بے تعلق امر کو بفرض محال قبول کر لیں تو پھر یہ سوال ہوگا کہ جو روحانی رفع کے متعلق یہود اور نصاریٰ میں جھگڑا تھا اس کا فیصلہ قرآن کی کن آیات میں فرمایا گیا ہے.آخر لوٹ کر اسی طرف آنا پڑے گا کہ وہ آیات یہی ہیں.یہ تو نفلی طور پر ہمارا الزام مخالفین پر ہے.اور ایسا ہی عقلی طور پر بھی وہ ملزم ٹھہرتے ہیں کیونکہ جب سے دنیا کی بناء ڈالی گئی ہے یہ عادت اللہ نہیں کہ کوئی شخص زندہ اسی جسم عنصری کے ساتھ کئی سوسال آسمان پر بود و باش اختیار کرے اور پھر کسی دوسرے وقت زمین پر اتر آوے.اگر یہ عادت اللہ ہوتی تو دنیا میں کئی نظیر میں اس کی پائی جاتیں.یہودیوں کو یہ گمان تھا کہ ایلیا آسمان پر گیا اور پھر آئے گا مگر خود حضرت مسیح نے اس گمان کو باطل ٹھہرایا اور ایلیا کے نزول سے مراد یوحنا کو لے لیا جو اسلام میں بیٹی کے نام سے موسوم ہے.حالانکہ ظاہر نص یہی کہتا تھا کہ ایلیا واپس آئیگا ہر ایک فوق العادت عقیدہ کی نظیر طلب کر نامحققوں کا کام ہے تاکسی گمراہی میں نہ پھنس جائیں.کیونکہ جو بات خدا کی طرف سے ہو اس کے اور بھی نظائر پائے جاتے ہیں.اور یہ بات سچ ہے کہ اس دنیا میں واقعات صحیحہ کے لئے نظیریں ہوتی ہیں مگر باطل کے لئے کوئی نظیر نہیں ہوتی.اسی اصول محکم سے ہم عیسائیوں کے عقیدہ کو رد کرتے ہیں.خدا نے دنیا میں جو کام کیا وہ اس کی عادت اور سنت قدیم میں ضرور داخل ہونا چاہیے.سواگر خدا نے دنیا میں ملعون اور مصلوب ہونے کے لئے اپنا بیٹا بھیجا تو ضرور یہ بھی اس کی عادت ہوگی کہ کبھی بیٹا بھی بھیج دیتا ہے.پس ثابت کرنا چاہیے کہ پہلے اس سے اس کے کتنے بیٹے اس کام کے لئے آئے.کیونکہ اب اگر بیٹا بھیجنے کی ضرورت پڑی ہے تو پہلے بھی اس از لی خالق کو کسی نہ کسی زمانہ میں ضرورت پڑی ہو گی.غرض خدا تعالیٰ کے سارے کام سنت الفجر : ٢٩

Page 371

مجموعہ اشتہارات ۳۵۵ جلد دوم اور عادت کے دائرہ میں گھوم رہے ہیں اور جو امر عادت اللہ سے باہر بیان کیا جائے تو عقل ایسے عقیدہ کو دور سے دھکے دیتی ہے.باقی رہی کشفی اور الہامی گواہی سو کشف اور الہام جو خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ یہی بتلا رہا ہے کہ عیسی علیہ السلام در حقیقت فوت ہو گئے ہیں اور ان کا دوبارہ دنیا میں آنا یہی تھا کہ ایک خدا کا بندہ ان کی قوت اور طبع میں ہو کر ظاہر ہو گیا.اور میرے بیان صدق پر اللہ جل شانہ نے کئی طرح کے نشان ظاہر فرمائے اور چاند سورج کو میری تصدیق کے لئے خسوف کسوف کی حالت میں رمضان میں جمع کیا اور مخالفوں سے کشتی کی طرح مقابلہ کرا کے آخر ہر ایک میدان میں اعجازی طور پر مجھے فتح دی اور دوسرے بہت سے نشان دکھلائے جن کی تفصیل رسالہ سراج منیر اور دوسرے رسالوں میں درج ہے لیکن باوجود نصوص قرآنیہ و حدیثیہ و شواہد عقلیہ و آیات سماویہ پھر بھی ظالم طبع مخالف اپنے ظلم سے باز نہ آئے اور طرح طرح کے افتراؤں سے مدد لے کر محض ظلم کی رو سے تکذیب کر رہے ہیں.لہذا اب مجھے اتمام حجت کے لئے ایک اور تجویز خیال میں آئی ہے اور امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے اور یہ تفرقہ جس نے ہزار ہا مسلمانوں میں سخت عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے رو با صلاح ہو جائے.اور وہ یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے تمام مشائخ اور فقراء اور صلحاء اور مردان باصفا کی خدمت میں اللہ جل شانہ ہے کی قسم دے کر التجا کی جائے کہ وہ میرے بارے میں اور میرے دعوئی کے بارہ میں دعا اور تضرع اور استخارہ سے جناب الہی میں توجہ کریں پھر اگر ان کے الہامات اور کشوف اور ر و یا صادقہ سے جو حلفاً شائع کریں، کثرت اس طرف نکلے کہ گویا یہ عاجز کذاب اور مفتری ہے تو بے شک تمام لوگ مجھے مردود اور مخذول اور ملعون اور مفتری اور کذاب خیال کریں اور جس قدر چاہیں لعنتیں بھیجیں ان کو کچھ بھی گناہ نہیں ہوگا اور اس صورت میں ہر ایک ایماندار کو لازم ہوگا کہ مجھ سے پر ہیز کرے اور اس تجویز سے بہت آسانی کے ساتھ مجھ پر اور میری جماعت پر وبال آجائے گالیکن اگر کشوف اور

Page 372

مجموعہ اشتہارات ۳۵۶ جلد دوم الہامات اور رویا صادقہ کی کثرت اس طرف ہو کہ یہ عاجز منجانب اللہ اور اپنے دعوی میں سچا ہے تو پھر ہر ایک خدا ترس پر لازم ہوگا کہ میری پیروی کرے اور تکفیر اور تکذیب سے باز آوے.ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص کو آخر ایک دن مرنا ہے.پس اگر حق کے قبول کرنے کے لئے اس دنیا میں کوئی ذلت بھی پیش آئے تو وہ آخرت کی ذلت سے بہتر ہے لہذا میں تمام مشائخ اور فقراء اور صلحاء پنجاب اور ہندوستان کو اللہ جل شانہ کی قسم دیتا ہوں جس کے نام پر گردن رکھ دینا بچے دین داروں کا کام ہے کہ وہ میرے بارے میں جناب الٹی میں کم سے کم اکیس روز توجہ کریں.یعنی اس صورت میں کہ اکیس روز سے پہلے کچھ معلوم نہ ہو سکے اور خدا سے انکشاف اس حقیقت کا چاہیں کہ میں کون ہوں؟ آیا کذاب ہوں یا منجانب اللہ.میں بار بار بزرگان دین کی خدمت میں اللہ جَلَّ شَانُهُ کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں کہ ضرور اکیس روز تک اگر اس سے پہلے معلوم نہ ہو سکے.اس تفرقہ کے دور کرنے کے لئے دعا اور توجہ کریں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی قسم سن کر پھر التفات نہ کر نار است بازوں کا کام نہیں لے اور میں جانتا ہوں کہ اس قسم کو سن کر ہر ایک پاک دل اور خدا تعالیٰ کی عظمت سے ڈرنے والا ضرور توجہ کرے گا پھر ایسی الہامی شہادتوں کے جمع ہونے کے بعد جس طرف کثرت ہوگی وہ امر منجانب اللہ سمجھا جاوے گا.اگر میں حقیقت میں کذاب اور دجال ہوں تو اس امت پر بڑی مصیبت ہے کہ ایسی ضرورت کے وقت میں اور فتنوں اور بدعات اور مفاسد کے طوفان کے زمانہ میں بجائے ایک مصلح اور مجدد کے چودھویں صدی کے سر پر دجال پیدا ہوا.یاد رہے کہ ایسا ہر ایک شخص جس کی نسبت ایک جماعت اہل بصیرت مسلمانوں کی صلاح اور تقویٰ اور پاک دلی کا ظن رکھتی ہے وہ اس اشتہار میں میرا مخاطب ہے.اور یہ بھی یادر ہے کہ جو صلحاء شہرت کے لحاظ سے کم درجہ پر ہیں میں اُن کو کم نہیں دیکھتا ممکن ہے کہ وہ شہرت یافتہ لوگوں سے خدا تعالیٰ کی نظر میں زیادہ اچھے ہوں.اسی طرح میں صالحہ عفیفہ لے میں علاوہ قسم کے مشائخ وقت کی خدمت میں ان کے پیرانِ خاندان کا واسطہ ڈالتا ہوں کہ وہ ضرور میری تصدیق یا تکذیب کے لئے خدا تعالیٰ کے جناب میں توجہ کریں.منه

Page 373

مجموعہ اشتہارات ۳۵۷ جلد دوم عورتوں کو بھی مردوں کی نسبت تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھا.ممکن ہے کہ وہ بعض شہرت یافتہ صالح مردوں سے بھی اچھی ہوں.لیکن ہر ایک صاحب جو میری نسبت کوئی رؤیا کشف یا الہام لکھیں ان پر ضروری طور پر واجب ہوگا کہ وہ حلفا اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا ایسی تحریر میں ایک جگہ جمع ہوتی جائیں اور پھر حق کے طالبوں کے لئے شائع کی جائیں.اس تجویز سے انشاء اللہ بندگان خدا کو بہت فائدہ ہوگا اور مسلمانوں کے دل کثرت شواہد سے ایک طرف تسلی پا کرفتنہ سے نجات پا جائیں گے اور آثار نبویہ میں بھی اسی طرح معلوم ہوتا کہ اول مہدی آخر الزمان کی تکفیر کی جائے گی اور لوگ اس سے دشمنی کریں گے اور نہایت درجہ کی بدگوئی سے پیش آئیں گے اور آخر خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو اس کی سچائی کی نسبت بذریعہ رویا والہام وغیرہ اطلاع دی جائے گی اور دوسرے آسمانی نشان بھی ظاہر ہوں گے تب علماء وقت طوعاً و کرہا اس کو قبول کریں گے.سواے عزیز و اور بزرگو برائے خدا عالم الغیب کی طرف توجہ کر و.آپ لوگوں کواللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میرے اس سوال کو مان لو.اس قدیرز والجلال کی تمہیں سوگند ہے کہ اس عاجز کی یہ درخواست رڈ مت کرو.عزیزان مے دہم صد بار سوگند بروئے حضرت دا دار سوگندے که در کارم جواب از حق بجوئید محبوب دل ابرار سوگند هذَا مَا أَرَدْنَالِاِزَالَةِ الدُّجى وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى لملتمس خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ.پنجاب.۱۵ جولائی ۱۸۹۷ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پرلیس قادیان یہ اشتہار ۲۸۳ کے ۸ صفحات پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۴۴ تا ۱۵۲) ے ترجمہ اشعار.اے دوستو میں تمہیں سینکڑوں قسمیں دیتا ہوں اور جناب الہی کی ذات کی قسمیں دیتا ہوں.میرے معاملہ میں خدا سے ہی جواب مانگو.میں تمہیں نیکوں کے دلوں کے محبوب کی قسم دیتا ہوں.

Page 374

مجموعہ اشتہارات ۳۵۸ ١٨٣ جلد دوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلٌ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى چونکہ ہماری وہ مسجد جو گھر کے نزدیک ہے جس میں پانچ وقت کی نماز پڑھی جاتی ہے بہت تنگ ہے اور نماز کے وقت اکثر یہ تکلیف رہتی ہے کہ نمازی یا تو دوسری مسجد کی طرف دوڑتے ہیں اور یا اگر کم ہوں تو گھر کی کسی کوٹھڑی میں یا دوسری چھت پر کھڑے ہوکر یہ نہایت دقت نماز ادا کرتے ہیں.میرے دل میں مدت کا خیال تھا کہ اگر اس مسجد کی دہنی طرف جو زمین خالی پڑی ہے ایک مکان طیار ہو کر مسجد کے ساتھ ملا دیا جائے تو کم سے کم چالیس آدمی اس میں نماز کے لئے کھڑے ہو سکتے ہیں.اور اگر او پر ایک اور چھت ہو تو اسی آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں.یہ خیال مدت کا تھا مگر باعث کمزوری اپنی جماعت کے اسکے اظہار میں تامل تھا.آج میں نے سوچا کہ ہر ایک کام خدا کرتا ہے نہ کہ انسان کیا تعجب ہے کہ چندہ سے یہ کام نکل سکے اور اس کارخیر کی برکت سے خدا ایسے لوگوں کو بھی توفیق دے دے جو بے توفیق ہوں اور ثواب آخرت اور خوشنودی الہی کا موجب ہو.کیونکہ یہ وہ مسجد ہے جس کی نسبت اس عاجز کو الہام ہوا تھا وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا اور جس کی نسبت الہام ہوا تھا مُبَارِكٌ وَمُبَارَكٌ وَكُلُّ امْرِ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيهِ اور جس پر فرشتوں کوتحریر کرتے دیکھا تھا سو تو تکلا علی اللہ اس حصہ مسجد کے لئے یہ اشتہار دیتا ہوں.اور امید رکھتا ہوں کہ ہر ایک دوست اور مخلص

Page 375

مجموعہ اشتہارات ۳۵۹ جلد دوم اس بیت اللہ کی امداد میں شریک ہو جائے گو کیسی ہی کم درجہ کی شراکت ہو.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو امور خیر کی امداد میں دلی زور اور توفیق بخشے.مان بالا آخر واضح رہے کہ پانسور و پیہ اس عمارت کا تخمینہ لگایا گیا ہے.وَالسّلام الراق خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء مطبوعہ ضیاءالاسلام پر لیس قادیان ۲۶×۲۰ ( یہ اشتہار کے ایک صفحہ پر ہے ) م تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۵۳٬۱۵۲)

Page 376

مجموعہ اشتہارات ۱۸۴ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي ایک ضروری فرض کی تبلیغ اگر چہ ہم دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ اس بچے معبود پر ایمان لاویں جس پر ایمان لانے سے نور ملتا اور نجات حاصل ہوتی ہے لیکن اس مقصد تک پہنچانے کے لئے علاوہ ان طریقوں کے جو استعمال کئے جاتے ہیں ایک اور طریق بھی ہے اور یہ ہے کہ ایک مدرسہ قائم ہو کر بچوں کی تعلیم میں ایسی کتابیں ضروری طور پر لازمی ٹھیرائی جائیں جن کے پڑھنے سے اُن کو پتہ لگے کہ اسلام کیا شے ہے اور کیا کیا خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے اور جن لوگوں نے اسلام پر حملے کئے ہیں وہ حملے کیسے خیانت اور جھوٹھ اور بے ایمانی سے بھرے ہوئے ہیں.اور یہ کتابیں نہایت سہل اور آسان عبارتوں میں تالیف ہوں اور تین حصوں سے مشتمل ہوں.پہلا حصہ ان اعتراضات کے جواب میں ہو جو عیسائیوں اور آریوں نے اپنی نادانی سے قرآن اور اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے ہیں اور دوسرا حصہ اسلام کی خوبیوں اور اس کی کامل تعلیم اور اس کے ثبوت میں ہو.اور تیسرا حصہ اُن مذاہب باطلہ کے بطلان کے بیان میں ہو جو مخالف اسلام ہیں.اور اعتراضات کا حصہ صرف سوال اور جواب کے طور پر ہوتا بچے آسانی سے اس کو سمجھ سکیں اور بعض مقامات میں نظم بھی ہوتا بچے اس کو حفظ کر سکیں.ایسی کتابوں کا تالیف کرنا میں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور جو طرز اور طریق تالیف کا

Page 377

مجموعہ اشتہارات جلد دوم میرے ذہن میں ہے اور جو غیر مذاہب کی باطل حقیقت اور اسلام کی خوبی اور فضیلت خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمائی ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ایسی کتابیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے میں تالیف کروں گا بچوں کو پڑھائی گئیں تو اسلام کی خوبی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی اور دوسرے مذاہب کے بطلان کا نقشہ ایسے طور سے دکھایا جائے گا جس سے ان کا باطل ہونا کھل جائے گا.اے دوستو یقیناً یا درکھو کہ دنیا میں سچاند ہب جو ہر ایک غلطی سے پاک اور ہر ایک عیب سے منزہ ہے صرف اسلام ہے.یہی مذہب ہے جو انسان کو خدا تک پہنچا تا اور خدا کی عظمت کلوں میں بٹھاتا ہے.ایسے مذہب ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں جن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے جیسے انسان کو خدا کر کے مان لو یا جن میں تعلیمیں ہیں کہ وہ ذات جو مبدء ہر ایک فیض ہے وہ تمام جہان کا خالق نہیں ہے بلکہ تمام ارواح خود بخود قدیم سے چلے آتے ہیں.گویا خا کی بادشاہت کی تمام بنیاد ایسی چیزوں پر ہے جو اس کی قدرت سے پیدا نہیں ہوئیں بلکہ قدامت میں اس کے شریک اور اس کے برابر ہیں.سو جس کو علما اور معرفت عطا کی گئی ہے اس کا فرض ہے جو ان تمام اہل مذاہب کو قابل رحم تصور کر کے سچائی کے دلائل ان کے سامنے رکھے اور ضلالت کے گڑھے سے ان کو نکالے اور خدا سے بھی دعا کرے کہ یہ لوگ ان مہلک بیماریوں سے شفا پا دیں.اس لئے میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بچوں کی تعلیم کے ذریعہ سے اسلامی روشنی کو ملک میں پھیلاؤں اور جس طریق سے اس خدمت کو انجام دوں گا.میرے نزدیک دوسروں سے یہ کام ہرگز نہیں ہو سکے گا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اس طوفان ضلالت میں اسلامی ذریت کو غیر مذاہب کے وساوس سے بچانے کیلئے اس ارادہ میں میری مدد کرے.سو میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بالفعل قادیان میں ایک مڈل سکول قائم کیا جائے اور علاوہ تعلیم انگریزی کے ایک حصہ تعلیم کا وہ کتابیں رکھی جائیں کہ جو میری طرف سے اس غرض سے تالیف ہوں گی کہ مخالفوں کے تمام اعتراضات کا جواب دے کر بچوں کو اسلام کی خوبیاں سکھلائی جائیں اور مخالفوں کے عقیدوں کا بے اصل اور باطل ہونا سمجھایا جائے.اس طریق سے اسلامی ذریت نہ صرف مخالفوں کے حملوں سے محفوظ رہے گی بلکہ بہت جلد وہ وقت آئے گا کہ حق کے طالب سچ کی روشنی اسلام میں

Page 378

مجموعہ اشتہارات ۳۶۲ جلد دوم پاکر باپوں اور بیٹوں اور بھائیوں کو اسلام کے لئے چھوڑ دیں گے.مناسب ہے کہ ہر ایک صاحب توفیق اپنے دائگی چندہ سے اطلاع دیوے کہ وہ اس کارخیر کی امداد میں کیا کچھ ماہواری مدد کر سکتا ہے.اگر یہ سرمایہ زیادہ ہو جائے تو کیا تعجب ہے کہ یہ سکول انٹرنس تک ہو جائے.واضح رہے کہ اول بنیاد چندہ کی اخویم مخدومی مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ڈالی کیونکہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں اس سکول کے لئے دس روپیہ ماہواری دوں گا.اور مرزا خدا بخش صاحب اتالیق نواب محمد علی خان صاحب نے دورو پید اور محمد اکبر صاحب نے ایک روپیہ ماہواری اور میر ناصر نواب صاحب نے ایک روپیہ ماہواری اور اللہ داد صاحب کلرک شاہ پور نے ٫۸(آٹھ آنہ ) ماہواری چندہ دینا قبول کیا ہے.المشـ تهر میرزا غلام احمد از قادیان ۲۶×۲۰ ۱۵ ستمبر ۱۸۹۷ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان (یہ اشتہار کے ایک صفحہ پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۵۳ تا ۱۵۵) نوٹ.ہر ایک صاحب کا اختیار ہو گا کہ اپنے لڑ کے قادیان میں تعلیم کے لئے بھیجیں.بورڈنگ اور انتظامی امور کی کارروائی فہرست چندہ کے مرتب ہونے کے بعد شروع ہوگی.

Page 379

مجموعہ اشتہارات ۳۶۳ (۱۸۵) جلد دوم ا ہے کہ اسے مارا حکام اس کو موت کا میں نے کے لئے یا اشتہار ہر ایک ضلع میں بھیجاجائے گا چونکہ پنجاب اور ہندوستان کے اکثر اضلاع میں میرے مرید ہیں اور ہورہے ہیں اس سے نظام کی واقعیت کے اشتہار واجب الاظہار جو خاص اس غرض سے شائع کیا جاتا ہے کہ گورنمنٹ عالیہ قیصرہ ہند توجہ سے اس کو ملاحظہ فرماوے.اور نیز اپنے مریدوں کی آگاہی اور ہدایت کے لئے شائع کیا گیا ہے.میں اپنے دوستوں اور عام لوگوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ جو میرے پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ گویا میں نے ایک شخص عبد الحمید نام کو ڈاکٹر کلارک کے قتل کرنے کے لئے بھیجا تھا.وہ مقدمہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے بے اصل متصور ہو کر ۲۳ اگست ۱۸۹۷ء کوعدالت کپتان ایم ، ڈبلیو ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر بہا در ضلع گورداسپورہ سے خارج کیا گیا.چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس مقدمہ کی اصلیت ظاہر کرنی منظور تھی اس لئے اس نے ایک ایسے حاکم بیدار مغز اور محنت کش اور منصف مزاج حق پسند خدا ترس یعنی جناب کپتان ایم ڈبلیو ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپورہ کے ہاتھ میں یہ مقدمہ دیا جس کا پاک کانشنس اس بات پر مطمئن نہ ہو سکا کہ جو

Page 380

مجموعہ اشتہارات ۳۶۴ جلد دوم اظہار یعنی پہلا بیان عبدالحمید نے امرتسر کے مجسٹریٹ کے سامنے اور نیز اس عدالت میں دیا تھا وہ ہے.سو صاحب موصوف نے مزید تفتیش کے لئے جناب کپتان لیمار چنڈ ڈسٹرکٹ سوپر انٹنڈنٹ پولیس کو حکم دیا کہ بطور خود عبدالحمید سے اصلیت مقدمہ دریافت کریں.پھر بعد اس کے جس احتیاط اور نیک نیتی اور فراست اور غور اور طریق عدل اور انصاف سے جناب کپتان لیمار چند صاحب نے اس مقدمہ کی تفتیش میں کام لیا وہ بھی بجز خاص منصف مزاج اور نیک نیت اور بیدار مغز حکام کے ہر ایک کا کام نہیں.سوان حکام کا نیک مزاج اور نیک نیت اور انصاف پسند ہونا اور قدیم سے عدالت اور انصاف پسندی کا عادی ہونا اور پوری تحقیق اور تفتیش سے کام لینا یہی وہ اسباب تھے جو خدا نے میری بریت کے لئے پیدا کئے اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر اور صاحب ڈسٹرکٹ سپر انٹنڈنٹ پولیس کی نیک نیتی اور انصاف پسندی اور بھی زیادہ کھلتی ہے جبکہ اس بات پر غور کی جائے کہ یہ مقدمہ در حقیقت ایک عیسائی جماعت کی طرف سے تھا اور گو بظاہر ان میں سے ایک ہی شخص پیرو کار تھا.مگر مشورہ اور امداد میں کئی دیسی کر سچنوں کو دخل تھا.در حقیقت پبلک کے دلوں میں اس عدالت اور انصاف نے صاحبان موصوف کی بہت ہی خوبی اور عدل قابل تعریف جمادی ہے کہ ایسا مقدمہ جو مذہبی رنگ میں پیش کیا گیا تھا اس میں کچھ بھی اپنی قوم اور مذہب کی رعایت نہیں کی گئی.اور نہایت منصفانہ روش سے وہ طریق اختیار کیا گیا جس کو عدالت چاہتی تھی میرے خیال میں یہ ایک ایسا عمدہ نمونہ ہے کہ جو صفحہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے یادگار رہے گا.صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی نیک نیتی اور حق پسندی پر ایک اور بھی بڑی بھاری دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ باوجود یکہ انہوں نے عبدالحمید مخبر کا پہلا بیان تمام و کمال قلمبند کر لیا تھا اور اس کی تائید میں پانچ گواہ بھی گذر چکے تھے اور صاحب بہادر ہر طرح پر اختیار رکھتے تھے کہ ان بیانات پر اعتبار کر لیتے مگر محض انصاف اور عدالت کی کشش نے ان کے دل کو پوری تسلی سے روک دیا اور ان کا حق پسند کانشنس بول اٹھا کہ ان بیانات میں سچائی کا نور نہیں ہے لہذا انہوں نے کپتان صاحب پولیس کو مزید تحقیقات کے لئے اشارہ فرمایا.ایسا ہی جب صاء

Page 381

مجموعہ اشتہارات ۳۶۵ جلد دوم ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کو پولیس کے افسروں نے خبر دی کہ عبدالحمید منجر اپنے پہلے بیان پر اصرار کر رہا ہے اس کو رخصت کیا جائے تو صاحب موصوف کے کانشنس نے یہی تقاضا کیا کہ وہ بذات خود بھی اس سے دریافت کریں.اگر حکام کی اس درجہ تک نیک نیتی اور توجہ اور محنت کشی نہ ہوتی تو ہرگز ممکن نہ تھا کہ اس مقدمہ کی اصلیت کھلتی.ہم نہ دل سے دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایسے حکام کو جو ہر ایک جگہ انصاف اور عدل کو مدنظر رکھتے ہیں اور پوری تحقیق سے کام لیتے ہیں اور احکام کے صادر کرنے میں جلدی نہیں کرتے ہمیشہ خوش رکھے اور ہر ایک بلا سے ان کو محفوظ رکھ کر اپنے مقاصد میں کامیاب کرے.یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ ڈاکٹر کلارک صاحب نے محض ظلم اور جھوٹ کی راہ سے اپنے بیان میں کئی جگہ میرے چال چلن پر نہایت شرمناک حملہ کیا تھا.اگر ایسے منصف مزاج مجسٹریٹ کی عدالت میں ان تمام حملوں کے بارے میں میرا جواب لیا جاتا تو ڈاکٹر صاحب کے منصوبوں کی حقیقت کھل جاتی مگر چونکہ حاکم انصاف پسند کے دل پر اس مقدمہ کی مصنوعی بنیاد کی تمام حقیقت کھل گئی تھی جس کی تائید میں یہ تمام الزامات پیش کئے گئے تھے لہذا عدالت نے مقدمہ کو طول دینے کی ضرورت نہیں سمجھی اگر چہ ڈاکٹر صاحب کے اکثر کلمات جو نہایت دل آزار اور سراسر جھوٹ اور افترا اور کم سے کم ازالہ حیثیت عرفی کی حد تک پہنچ گئے تھے مجھے یہ حق دیتے تھے کہ ان بے جا اور باطل الزاموں کا عدالت کے ذریعہ سے تدارک کروں.مگر میں باوجود مظلوم ہونے کے کسی کو آزار دینا نہیں چاہتا اور ان تمام باتوں کو حوالہ بخدا کرتا ہوں.یہ بھی ذکر کے لائق ہے کہ ڈاکٹر کلارک صاحب نے اپنے بیان میں کہیں اشارہ اور کہیں صراحتاً میری نسبت بیان کیا ہے کہ گویا میرا وجود گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے.مگر میں اس اشتہار کے ذریعہ سے حکام کو اطلاع دیتا ہوں کہ ایسا خیال میری نسبت ایک ظلم عظیم ہے.میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے.میرا والد میرزا غلام مرتضی گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی

Page 382

مجموعہ اشتہارات ۳۶۶ جلد دوم تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ ریکسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سر کار انگریزی کو مدد دی تھی.یعنی پچاس سوارا اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دیئے تھے.ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں.مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں.پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی میرزا غلام قا در خدمات سرکاری بعد میں مصروف رہا.اور جب تیموں کے گذر پر مفسدوں کا سر کار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا.پھر میں اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد Translation of Certificate of J.M.Wilson 10, نقل مراسله (ولسن صاحب) نمبر ۳۵۳ تہور پناہ شجاعت دستگاه مرز اغلام مرتضی application reminding me of رئیس قادیاں حفظہ Mirza Ghulam Murtaza Khan Chief of Qadian I have perused your your and your family's past ser vices and rights I am well aware that since the introduction of the British Govt.you and your family عریضه شما مشعر بر یاد دہانی خدمات و حقوق خود و خاندان خود بملاحظہ حضور have certainly remained اینجانب در آمد ما خوب میدانیم که بلا شک شما ما devoted faithful and steady و خاندان شما از ابتدائے دخل و حکومت سرکار subjects and that your rights are really worthy of regard.In every assured and satisfied that the British Govt, will انگریزی جان شار وفا کیش ثابت قدم مانده respect you may rest اید.وحقوق شما در اصل قابل قدراند - بہر نج the تسلی و تشفی دارید - سرکار انگریزی حقوق و

Page 383

مجموعہ اشتہارات جلد دوم ایک گوشہ نشین آدمی تھا.تا ہم سترہ برس سے سرکار انگریزی کی امداد اور تائید میں اپنی قلم سے کام ۱۷ لیتا ہوں.اس سترہ برس کی مدت میں جس قدر میں نے کتابیں تالیف کیں ان سب میں سرکار انگریزی کی اطاعت اور ہمدردی کے لئے لوگوں کو ترغیب دی اور جہاد کی ممانعت کے بارے میں نہایت مؤثر تقریریں لکھیں.اور پھر میں نے قرین مصلحت سمجھ کر اسی امر ممانعت جہاد کو عام ملکوں never forget your family's rights خدمات خاندان شمارا هرگز فراموش نه خواهد کرد and services which will receive a due consideration when بموقعہ مناسب برحقوق و خدمات شما غور و توجه.favorable opportunity offers itself کرده خواهد شد باید کہ ہمیشہ ہوا خواہ و جان You must continue to be faithful and devoted objects as شارسر کا رانگریزی بمانند که در میں امر خوشنودی in it lies the satisfaction of the سرکار و بهبودی شما متصور است - فقط Govt.and your welfare.11.6.1849 Lahore.Translation of Mr.Robert Cast's Certificate To, Mirza Ghulam Murtaza Khan, Chief of Qadian.As you rendered great help in enlisting sowars and supplying horses to Govt.in the mutiny of 1857 and maintained loyalty المرقوم ارجون ۱۸۴۹ء مقام لاہور انار کلی نقل مراسله (رابرٹ کسٹ صاحب بہادر کمشنر لاہور) تہور وشجاعت دستگاه مرزا غلام مرتضی رئیس قادیاں بعافیت باشند.از آنجا کہ ہنگام مفسدہ ہندوستان موقوعہ ۱۸۵۷ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و مدد دہی سر کار دولتمدار انگلشیه در باب نگاهداشت سواران و since its beginning upto date | بہم رسانی اسپان بخوبی بمنصہ ظہور پہنچی اور شروع and thereby gained the favour of مفسدہ سے آج تک آپ بدل ہوا خواہ سرکار Govt.a Khilat worth Rs.200/- is presented to you in recognition رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا لہذا بجلد وی of good services, and as a اس خیر خواہی اور خیر سگالی کے خلعت مبلغ.reward for your loyalty | دوصد روپیہ کا سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے.

Page 384

مجموعہ اشتہارات ۳۶۸ جلد دوم میں پھیلانے کے لئے عربی اور فارسی میں کتابیں تالیف کیں جن کی چھپوائی اور اشاعت پر ہزار ہا روپیہ خرچ ہوئے اور وہ تمام کتابیں عرب اور بلاد شام اور روم اور مصر اور بغداد اور افغانستان میں شائع کی گئیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی نہ کسی وقت ان کا اثر ہو گا.کیا اس قدر بڑی کارروائی اور اس قدر دور دراز مدت تک ایسے انسان سے ممکن ہے جو دل میں بغاوت کا ارادہ رکھتا ہو؟ پھر میں Moreover in accordance with the wishes of Chief Commissioner as conveyed in his no.576 dt.10th August 58.This parwana اور حسب منشاء چٹھی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری ۵۷۶ مورخه ۱۰/ اگست ۱۸۵۸ء پروانہ ہذا باظہار خوشنودی is addressed to you as a token | سرکار و نیکنامی و وفاداری بنام آپ کے of satisfaction of Govt.for your لکھا جاتا ہے..fidelity and repute مرقومه تاریخ ۲۰ ستمبر ۱۸۵۸ء Translation of Sir Robert Egerton Financial Commr's; Murasla dt.29 June 1876 My dear friend Ghulam Qadir I have perused your letter of the 2nd instant and deeply regret the death of your father Mirza Ghulam Murtaza who was a great well wisher and نقل مراسله فنانشل کمشنر پنجاب مشفق مهربان دوستان مرزا غلام قادر رئیس قادیاں حفظہ.آپ کا خط ۲.ماہ حال کا لکھا ہوا ملا حظہ حضور اینجانب میں گذرا مرزا غلام مرتضی صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا مرزا غلام مرتضی سرکار انگریزی کا.faithful Chief of Govt | اچھا خیر خواہ اور وفادار رئیس تھا.

Page 385

مجموعہ اشتہارات ۳۶۹ جلد دوم پوچھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سرکار انگریزی کی امداد اور حفظ امن اور جہادی خیالات کے روکنے کے لئے برابر سترہ سال تک پورے جوش سے پوری استقامت سے کام لیا.کیا اس کام کی اور اس خدمت نمایاں کی اور اس مدت دراز کی دوسرے مسلمانوں میں جو میرے مخالف ہیں کوئی نظیر ہے؟ اگر میں نے یہ اشاعت گورنمنٹ انگریزی کی سچی خیر خواہی سے نہیں کی تو مجھے ایسی کتابیں عرب اور بلادشام اور روم وغیرہ بلا داسلامیہ میں شائع کرنے سے کس انعام کی توقع تھی؟ یہ سلسلہ ایک دو دن کا نہیں بلکہ برابر سترہ سال کا ہے اور اپنی کتابوں اور رسالوں کے جن مقامات میں میں نے یہ تحریریں لکھیں ہیں ان کتابوں کے نام معہ ان کے نمبر صفحوں کے یہ ہیں.جن میں سرکار انگریزی کی خیر خواہی اور اطاعت کا ذکر ہے.نام کتاب تاریخ طبع نمبر صفحہ ا براہین احمدیہ حصہ سوم براہین احمدیہ حصہ چہارم ۱۸۸۲ء الف سے ب تک (شروع کتاب) ۱۸۸۴ء الف سے دتک ايضاً آریہ دھرم ( نوٹس) درباره توسیع دفعه ۲۹۸ ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء ۵۷ ۶۴ تک آخر کتاب التماس شامل آریہ دھرم ايضاً ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء اسے ۴ تک آخر کتاب درخواست شامل آریہ دھرم ایضاً ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء ۱۹ سے ۷۲ تک آخر کتاب خط درباره توسیع دفعه ۲۹۸ ۲۱ اکتوبر ۱۸۹۵ء اسی ۸ تک In consideration of your family ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح پر services I will esteem you with | عزت کریں گے جس طرح تمہارے باپ the same respect as that وفادار کی کی جاتی تھی ہم کو کسی اچھے موقعہ کے.bestowed on your loyal father نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابجائی I will keep in mind the restoration کا خیال رہے گا.wellfare of your family when a & المرقوم ۲۹ جون ۱۸۷۶ء الراقم سر رابرٹ.favourable opportunity occurs | ایجرٹن صاحب بہادر فنانشل کمشنر پنجاب

Page 386

مجموعہ اشتہارات جلد دوم آئینہ کمالات اسلام نور الحق حصہ اوّل (اعلان) فروری ۱۸۹۳ء ۱۷ سے ۲۰ تک اور ا ۵۱ سے ۵۲۸ تک ۱۳۱۱ھ ۲۳ سی ۵۴ تک شهادة القرآن (گورنمنٹ کی توجہ کے لائق) ۲۲ ستمبر ۱۸۹۳ء الف سے ع تک آخر کتاب " نور الحق حصہ دوم السر الخلافه اتمام الحجه حمامة البشرى ۱۴ تحفہ قیصریه ۱۵ ست بچن ۱۶ انجام آتھم ۱۷ سراج منیر ۱۸ تکمیل تبلیغ معه شرائط بیعت ۱۹ DO ۵۱۳۱۲ ۵۱۳۱۱ ۵۱۳۱۱ ۴۹ سے ۵۰ تک ۷۱ سے ۷۳ تک ۲۵ سے ۲۷ تک ۳۹ سے ۴۲ تک ۲۵ رمئی ۱۸۹۷ء تمام کتاب نومبر ۱۸۹۵ء ۱۵۳ سے ۱۵۴ تک اور ٹائٹل پیچ جنوری ۱۸۹۷ء ۲۸۳ سے ۲۸۴ تک آخر کتاب مئی ۱۸۹۷ء صفحریم ۷ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء صفحه ۲ حاشیہ اور صفحہ ۶ شرط چهارم اشتہار قابل توجہ گورنمنٹ اور عام اطلاع کیلئے ۲۷ فروری ۱۸۹۵ء تمام اشتہار یک طرفه ۲۰ اشتہار درباره سفیر سلطان روم ۲۱ ۲۲ ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء سے ۳ تک اشتہار جلسه احباب برجشن جو بلی بمقام قادیان ۲۳ جون ۱۸۹۷ء سے ۴ تک اشتہار جلسہ شکریہ جشن جو بلی حضرت قیصرہ دام ظلہا کے جون ۱۸۹۷ء تمام اشتہار یک ورق ۲۳ اشتہار متعلق بزرگ ۲۴ ۲۵ / جون ۱۸۹۷ء صفحه ۱۰ اشتہار لائق توجہ گورنمنٹ معہ ترجمہ انگریزی ۱۰ دسمبر ۱۸۹۴ء تمام اشتہار اسے ے تک اور حال میں جب حسین کا می سفیر روم قادیان میں میری ملاقات کے لئے آیا اور اس نے مجھے اپنی گورنمنٹ کے اغراض سے مخالف پا کر ایک سخت مخالفت ظاہر کی وہ تمام حال بھی میں نے

Page 387

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اپنے اشتہار مورخہ ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء میں شائع کر دیا ہے وہی اشتہار تھا جس کی وجہ سے بعض مسلمان اڈیٹروں نے بڑی مخالفت ظاہر کی اور بڑے جوش میں آکر مجھ کو گالیاں دیں کہ یہ شخص سلطنت انگریزی کو سلطان روم پر ترجیح دیتا ہے اور رومی سلطنت کو قصور وار ٹھہراتا ہے.اب ظاہر ہے کہ جس شخص پر خود قوم اس کی ایسے ایسے خیالات رکھتی ہے اور نہ صرف اختلاف اعتقاد کی وجہ سے بلکہ سرکار انگریزی کی خیر خواہی کے سبب سے بھی ملامتوں کا نشانہ بن رہا ہے کیا اس کی نسبت یہ ظن ہو سکتا ہے کہ وہ سرکار انگریزی کا بدخواہ ہے؟ یہ بات ایک ایسی واضح تھی کہ ایک بڑے سے بڑے دشمن کو بھی جو محمد حسین بٹالوی ہے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے حضور میں اسی مقدمہ ڈاکٹر ہنری کلارک میں اپنی شہادت کے وقت میری نسبت بیان کرنا پڑا کہ یہ سرکار انگریزی کا خیر خواہ اور سلطنت روم کے مخالف ہے.اب اس تمام تقریر سے جس کے ساتھ میں نے اپنی سترہ سالہ مسلسل تقریروں سے ثبوت پیش کئے ہیں صاف ظاہر ہے کہ میں سرکا ر انگریزی کا بدل و جان خیر خواہ ہوں.اور میں ایک شخص امن دوست ہوں اور اطاعت گورنمنٹ اور ہمدردی بندگان خدا کی میرا اصول ہے اور یہ وہی اصول ہے جو میرے مریدوں کی شرائط بیعت میں داخل ہے.چنانچہ پر چہ شرائط بیعت جو ہمیشہ مریدوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اس کی دفعہ چہارم میں ان ہی باتوں کی تصریح ہے.ہاں یہ بیچ ہے کہ میں نے بعض اشخاص کی موت وغیرہ کی نسبت پیش گوئی کی ہے لیکن نہ اپنی طرف سے بلکہ اس وقت اور اس حالت میں کہ جب کہ ان لوگوں نے اپنی رضا و رغبت سے ایسی پیشگوئی کے لئے مجھے تحریری اجازت دی چنانچہ ان کے ہاتھ کی تحریریں اب تک میرے پاس موجود ہیں جن میں سے بعض ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ میں شامل مثل کی گئی ہیں.مگر چونکہ باوجود اجازت دینے کے پھر بھی ڈاکٹر کلارک صاحب نے ان پیشگوئیوں کا ذکر کیا اور اصل واقعات کو چھپایا اس لئے آئندہ ے بعض ہمارے مخالف جن کو افترا اور جھوٹ بولنے کی عادت ہے لوگوں کے پاس کہتے ہیں کہ صاحب ڈپٹی کمشنر نے آئندہ پیشگوئیاں کرنے سے منع کر دیا ہے خاص کر ڈرانے والی پیشگوئیوں اور عذاب کی پیشگوئیوں سے سخت ممانعت کی ہے.سو واضح رہے کہ یہ باتیں سراسر جھوٹی ہیں ہم کو کوئی ممانعت نہیں ہوئی اور عذابی پیشگوئیوں میں جس طریق کو ہم نے اختیار کیا ہے یعنی رضا مندی لینے کے بعد پیشگوئی کرنا اس طریق پر عدالت اور قانون کا کوئی اعتراض نہیں.منہ

Page 388

مجموعہ اشتہارات جلد دوم میں پسند نہیں کرتا کہ ایسی درخواستوں پر کوئی انداری پیشگوئی کی جائے بلکہ آئندہ ہماری طرف سے یہ اصول رہے گا کہ اگر کوئی ایسی انذاری پیشگوئیوں کے لئے درخواست کرے تو اس کی طرف ہرگز توجہ نہیں کی جائے گی جب تک وہ ایک تحریری حکم اجازت صاحب مجسٹریٹ ضلع کی طرف سے پیش نہ کرے.یہ ایک ایسا طریق ہے جس میں کسی مکر کی گنجائش نہیں رہے گی.یہ بات بھی میں تسلیم کرتا ہوں کہ مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی.لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں.مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی.اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں جس کا نام میں نے کتاب البریت رکھا ہے اور با ایں ہمہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدائنتی کی مخالفوں کی طرف سے ہے.اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا.اوّل یہ کہ تا مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کاسختی میں جواب پا کر اپنی روش بدلا لیں اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں.دوم یہ کہ تا مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آویں اور سخت الفاظ کا جواب بھی کسی قدر سخت پا کر اپنی پُر جوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھا لیں کہ اگر اس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو ہماری طرف سے بھی کسی قد رسختی کے ساتھ ان کو جواب مل گیا اور اس طرح وہ وحشیانہ انتقاموں سے دستکش رہیں میں خوب جانتا ہوں کہ ایسی مذہبی تحریروں سے جیسا کہ لیکھرام اور اندر من اور دیانند اور پادری عمادالدین کی کتابیں اور پر چہ نور افشاں لودیانہ کے اکثر مضمون ہیں فتنہ اور اشتعال کا سخت احتمال تھا مگر

Page 389

مجموعہ اشتہارات جلد دوم چونکہ ان کتابوں کے مقابل پر کتابیں تالیف ہوئیں اور سخت باتوں کا جواب کسی قدر سخت باتوں کے ساتھ ہو گیا اس لئے مسلمانوں کے عوام کا جوش اندر ہی اندر دب گیا.یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر سخت الفاظ کے مقابل پر دوسری قوم کی طرف سے کچھ سخت الفاظ استعمال نہ ہوں تو ممکن ہے کہ اس قوم کے جاہلوں کا غیظ و غضب کوئی اور راہ اختیار کرے.مظلوموں کے بخارات نکلنے کے لئے یہ ایک حکمت عملی ہے کہ وہ بھی مباحثات میں سخت حملوں کا سخت جواب دیں.لیکن یہ طرز پھر بھی کچھ بہت قابل تعریف نہیں بلکہ اس سے تحریرات کا روحانی اثر گھٹ جاتا ہے اور کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے ملک میں بداخلاقی پھیلتی ہے.یہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ عام طور پر ایک سخت قانون جاری کر کے ہر ایک مذہبی گروہ کو سخت الفاظ کے استعمال سے ممانعت کر دے تاکہ کسی قوم کے پیشوا اور کتاب کی توہین نہ ہو.اور جب تک کسی قوم کی معتبر اور مسلم کتابوں سے واقعات صحیحہ معلوم نہ ہوں جن سے اعتراض پیدا ہوسکتا ہو کوئی اعتراض نہ کیا ا جائے.ایسے قانون سے ملک میں بہت امن پھیل جائے گا اور مفسد طبع فتنہ انگیز لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے اور تمام مذہبی بحثیں علمی رنگ میں آجائیں گی.اسی غرض سے میں نے ایک درخواست گورنمنٹ میں پیش کرنے کے لئے طیار کی ہے اس کے ساتھ کئی ہزار مسلمانوں کے دستخط بھی ہیں مگر چونکہ اب تک کافی دستخط نہیں ہوئے اس لئے ابھی تک تو قف ہے.مگر در حقیقت یہ ایسا کام ہے کہ ضرور اس طرف گورنمنٹ کی توجہ چاہیے.حفظ امن کے لئے اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں کہ ہتک آمیز اور فتنہ انگیز الفاظ سے ہر ایک قوم پر ہیز کرے.اور کسی مذہب پر وہ الزام نہ لگائے جس کو اس مذہب کے حامی قبول نہیں کرتے اور نہ ان کی مسلم اور معتبر کتابوں میں اس کا کوئی اصل صحیح پایا جاتا ہے.اور نہ ایسا الزام لگائے جو اُس کی مسلم کتابوں یا نبیوں پر بھی عائد ہوتا ہے.اور جو شخص اس ہدایت کی خلاف ورزی کرے اس کے لئے کوئی سزا مقرر ہو.بے شک بغیر اس تدبیر کے مذہبی فتنوں کا زہریلا بیج بکتی دور نہیں ہوسکتا.

Page 390

مجموعہ اشتہارات ۳۷۴ جلد دوم میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ ڈاکٹر کلارک نے میری بعض مذہبی تحریریں پیش کر کے عدالت میں یہ خلاف واقعہ بیان کیا ہے کہ یہ سخت لفظ خود بخودان کی نسبت کہے گئے ہیں.میں حکام کو یقین دلاتا ہوں کہ ہرگز یہ میری عادت میں داخل نہیں کہ خود بخود کسی کو آزار دوں اور نہ ایسی عادت کو میں پسند کرتا ہوں.بلکہ جو کچھ سخت الفاظ میں لکھا گیا وہ سخت الفاظ کا جواب تھا.مگر مخالفوں کی سختی سے نہایت کم.تاہم یہ طریق بھی میری طبیعت اور عادت سے مخالف ہے.اور جیسا کہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے مقدمہ کے فیصلہ پر مجھے یہ ہدایت کی ہے کہ آئندہ اشتعال کو روکنے کے لئے مباحثات میں نرم اور مناسب الفاظ کو استعمال کیا جائے میں اسی پر کار بند رہنا چاہتا ہوں اور اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنے تمام مریدوں کو جو پنجاب اور ہندوستان کے مختلف مقامات میں سکونت رکھتے ہوں نہایت تاکید سے سمجھاتا ہوں کہ وہ بھی اپنے مباحثات میں اس طرز کے کار بند رہیں.اور ہر ایک سخت اور فتنہ انگیز لفظ سے پر ہیز کریں.اور جیسا کہ میں نے پہلے اس سے شرائط بیعت کی دفعہ چہارم میں سمجھایا ہے سرکار انگریزی کی سچی خیر خواہی اور بنی نوع کی سچی ہمدردی کریں اور اشتعال دینے والے طریقوں سے اجتناب رکھیں اور پر ہیز گار اور صالح اور بے شر انسان بن کر پاک زندگی کا نمونہ دکھلائیں.اور اگر کوئی ان میں سے ان وصیتوں پر کار بند نہ ہو یا بے جا جوش اور وحشیانہ حرکت اور بد زبانی سے کام لے تو اس کو یا درکھنا چاہیے کہ وہ ان صورتوں میں ہماری جماعت کے سلسلہ سے باہر متصور ہوگا اور مجھ سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا.دیکھو! آج میں کھلے کھلے لفظوں سے آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ لوگ ہر ایک مفسدہ اور فتنہ کے طریق سے مجتنب رہیں اور صبر اور برداشت کی عادت کو اور بھی ترقی دیں اور بدی کی تمام راہوں سے اپنے تئیں دور رکھیں اور ایسا نمونہ دکھلا ئیں جس سے آپ لوگوں کی ہر ایک نیک خلق میں زیادت ثابت ہو.اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ لوگ جو اہل علم اور فاضل اور تربیت یافتہ اور نیک مزاج ہیں ایسا ہی کریں گے.مگر یا در ہے اور خوب یادر ہے کہ جو شخص ان وصیتوں پر کار بند

Page 391

مجموعہ اشتہارات نہ ہو وہ ہم میں سے نہیں ہے.۳۷۵ جلد دوم ہماری تمام نصیحتوں کا خلاصہ تین امر ہیں اول یہ کہ خدا تعالیٰ کے حقوق کو یاد کر کے اس کی عبادت اور اطاعت میں مشغول رہنا.اس کی عظمت کو دل میں بٹھانا اور اس سے سب.زیادہ محبت رکھنا اور اس سے ڈر کر نفسانی جذبات کو چھوڑنا اور اس کو واحد لاشریک جاننا اور اس کے لئے پاک زندگی رکھنا اور کسی انسان یا دوسری مخلوق کو اس کا مرتبہ نہ دینا.اور درحقیقت اس کو تمام روحوں اور جسموں کا پیدا کرنے والا اور مالک یقین کرنا.دوم یہ کہ تمام بنی نوع سے ہمدردی کے ساتھ پیش آنا.اور حتی المقدور ہر ایک سے بھلائی کرنا اور کم سے کم یہ کہ بھلائی کا ارادہ رکھنا.سوم یہ کہ جس گورنمنٹ کے زیر سایہ خدا نے ہم کو کر دیا ہے یعنی گورنمنٹ برطانیہ جو ہماری آبرو اور جان اور مال کی محافظ ہے اس کی سچی خیر خواہی کرنا اور ایسے مخالف امن امور سے دور رہنا جو اس کو تشویش میں ڈالیں.یہ اصول ثلاثہ ہیں جن کی محافظت ہماری جماعت کو کرنی چاہیے اور جن میں اعلیٰ سے اعلیٰ نمونے دکھلانے چاہئیں.اور یادر ہے کہ یہ اشتہار مخالفین کے لئے بھی بطور نوٹس ہے.چونکہ ہم نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے سامنے یہ عہد کر لیا ہے کہ آئندہ ہم سخت الفاظ سے کام نہ لیں گے اس لئے حفظ امن کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام مخالف بھی اس عہد کے کار بند ہوں.اور یہی وجہ تھی کہ ہم نے عدالت کے سامنے اس بحث کو طول دینا نہیں چاہا حالانکہ ہمارے تمام سخت الفاظ جوابی تھے اور نیز ان کے مقابل پر نہایت کم.سو ہم نے جوابی طور کے سخت الفاظ کو بھی چھوڑنا چاہا.کیونکہ ہمارا مدت سے یہ ارادہ تھا کہ تمام قو میں مباحثات میں الفاظ کی سختی کو استعمال نہ کریں.اسی ارادہ کی وجہ سے ہم نے اس درخواست پر دستخط مسلمانوں کے کرائے ہیں جس کو عنقریب بحضور جناب نواب گورنر جنرل بہادر بھیجنے کا ارادہ ہے.سومخالفین مذہب لے میری جماعت میں بڑے بڑے معزز اہل اسلام داخل ہیں.جن میں بعض تحصیلدار اور بعض اکسٹرا اسٹنٹ اور ڈپٹی کلکٹر اور بعض وکلاء اور بعض تاجر اور بعض رئیس اور جاگیر دار اور نواب اور بعض بڑے بڑے فاضل اور ڈاکٹر اور بی اے اور ایم اے اور بعض سجادہ نشین ہیں.منہ منه

Page 392

مجموعہ اشتہارات جلد دوم کو بذریعہ اس نوٹس کے عام اطلاع دی جاتی ہے کہ اس فیصلہ کے بعد وہ بھی مباحثات میں اپنی روشیں بدلا لیں.اور آئندہ سخت اور جوش پیدا کرنے والے الفاظ اور ہتک آمیز الفاظ اپنے اخباروں اور رسالوں میں ہرگز استعمال نہ کریں.اور اگر اب بھی اس نوٹس کے شائع ہونے کے بعد انہوں نے اپنے سابق طریق کو نہ چھوڑا تو انہیں یا در ہے کہ ہمیں یا ہم میں سے کسی کو حق حاصل ہوگا کہ بذریعہ عدالت چارہ جوئی کریں.حفظ امن کے لئے ہر ایک قوم کا فرض ہے کہ فتنہ انگیز تحریروں سے اپنے تئیں بچائے پس جو شخص اس نوٹس کے شائع ہونے کے بعد بھی اپنے تئیں سخت الفاظ اور بد زبانی اور توہین سے روک نہ سکے ایسا شخص در حقیقت گورنمنٹ کے مقاصد کادشمن اور فتنہ پسند آدمی ہے.اور عدالت کا فرض ہوگا کہ امن کو قائم رکھنے کے لئے اس کی گوشمالی کرے.بحث کرنے والوں کے لئے یہ بہتر طریق ہوگا کہ کسی مذہب پر بے ہودہ طور پر اعتراض نہ کریں بلکہ ان کی مسلّم اور معتبر کتابوں کی رو سے ادب کے ساتھ اپنے شبہات پیش کریں اور ٹھٹھے اور ہنسی اور تو ہین سے اپنے تئیں بچاویں اور مباحثات میں حکیمانہ طرز اختیار کریں اور ایسے اعتراض بھی نہ کریں جو ان کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں.مثلا اگر ایک مسلمان عیسائی عقیدہ پر اعتراض کرے تو اس کو چاہیے کہ اعتراض میں حضرت عیسی علیہ السلام کی شان اور عظمت کا پاس رکھے اور ان کی وجاہت اور مرتبہ کو نہ بھلاوے.ہاں وہ نہایت نرمی اور ادب سے اس طرح اعتراض کر سکتا ہے کہ خدا نے جو بیٹے کو دنیا میں بھیجا تو کیا یہ کام اس نے اپنی قدیم عادت کے موافق کیا یا خلاف عادت؟ اگر عادت کے موافق کیا تو پہلے بھی کئی بیٹے اس کے دنیا میں آئے ہوں گے اور مصلوب بھی ہوئے ہوں گے یا ایک ہی بیٹا بار بار آیا ہوگا.اور اگر یہ کام خلاف دت ہے تو خدا کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.کیونکہ خدا اپنی ازلی ابدی عادتوں کو کبھی نہیں چھوڑتا.یا مثلاً یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے کہ نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام عادت

Page 393

مجموعہ اشتہارات جلد دوم لوگوں کے گناہوں کے سبب سے خدا کی نظر میں لعنتی ٹھہر گئے تھے کیونکہ لعنت کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا اس شخص سے جس پر لعنت کی گئی ہے بیزار ہو جائے اور وہ شخص خدا سے بیزار ہو جائے اور دونوں میں باہم دشمنی واقع ہو جائے.اور شخص ملعون خدا کے قرب سے دور جا پڑے.اور یہ ذلیل حالت ایسے شخص کی کبھی نہیں ہوسکتی جو درحقیقت خدا کا پیارا ہے.اور جب کہ لعنت جائز نہ ہوئی تو کفارہ باطل ہوا.غرض ایسے اعتراض جن میں معقول تقریر کے ساتھ کسی فرقہ کے عقائد کی غلطی کا اظہار ہو، ہر ایک محقق کا حق ہے جو نرمی اور ادب کے ساتھ پیش کرے اور حتی الوسع یہ کوشش ہو کہ وہ تمام اعتراضات علمی رنگ میں ہوں تا لوگوں کو ان سے فائدہ پہنچ سکے اور کوئی مفسدہ اور اشتعال پیدا نہ ہو.اور یہ خدا تعالیٰ کا شکر کرنے کا مقام ہے کہ ہم لوگ جو مسلمان ہیں ہمارے اصول میں یہ داخل ہے کہ گذشتہ نبیوں میں سے جن کے فرقے اور قو میں اور اُمتیں بکثرت دنیا میں پھیل گئی ہیں کسی نبی کی تکذیب نہ کریں کیونکہ ہمارے اسلامی اصول کے موافق خدا تعالیٰ مفتری کو ہرگز یہ عزت نہیں بخشا کہ وہ ایک سچے نبی کی طرح مقبول خلائق ہوکر ہزار ہا فرقے اور قو میں اس کو مان لیں اور اس کا دین زمین پر جم جاوے اور عمر پائے لہذا ہمارا یہ فرض ہونا چاہیے کہ ہم تمام قوموں کے نبیوں کو جنہوں نے خدا کے الہام کا دعویٰ کیا اور مقبول خلائق ہو گئے اور ان کا دین زمین پر جم گیا خواہ وہ ہندی تھے یا فارسی.چینی تھے یا عبرانی خواہ کسی اور قوم میں سے تھے در حقیقت سچے رسول مان لیں.اور اگر ان کی امتوں میں کوئی خلاف حق باتیں پھیل گئی ہوں تو ان باتوں کو ایسی غلطیاں قرار دیں جو بعد میں داخل ہو گئیں.یہ اصول ایک ایسا دلکش اور پیارا ہے جس کی برکت سے انسان ہر ایک قسم کی بدزبانی اور بدتہذیبی سے بچ جاتا ہے اور درحقیقت واقعی امر یہی ہے کہ جھوٹے نبی کو خدا تعالیٰ اپنے کروڑ ہا بندوں میں ہرگز قبولیت نہیں بخشا اور اُس کو وہ عزت نہیں دیتا جو بچوں کو دی جاتی ہے اور صدیوں اور زمانوں میں اس کی

Page 394

مجموعہ اشتہارات ۳۷۸ جلد دوم قبولیت ہرگز قائم نہیں رہ سکتی بلکہ بہت جلد اس کی جماعت متفرق ہو جاتی اور اس کا سلسلہ درہم برہم ہو جاتا ہے.سواے دوستو اس اصول کو محکم پکڑو.ہر ایک قوم کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ.نرمی سے عقل بڑھتی ہے اور بُردباری سے گہرے خیال پیدا ہوتے ہیں.اور جو شخص یہ طریق اختیار نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے.اگر کوئی ہماری جماعت میں سے مخالفوں کی گالیوں اور سخت گوئی پر صبر نہ کر سکے تو اس کا اختیار ہے کہ عدالت کے رو سے چارہ جوئی کرے.مگر یہ مناسب نہیں ہے کہ سختی کے مقابل پرختی کر کے کسی مَفْسَدَہ کو پیدا کریں.یہ تو وہ وصیت ہے جو ہم نے اپنی جماعت کو کر دی.اور ہم ایسے شخص سے بیزار ہیں اور اس کو اپنی جماعت سے خارج کرتے ہیں جو اس پر عمل نہ کرے.مگر ہم اپنی عادل گورنمنٹ سے یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ جو لوگ آئندہ مخالفانہ حملے تو ہین اور بد زبانی کے ساتھ ہم پر کریں یا ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یا قرآن شریف پر یا اسلام پر تو ان کی بدزبانی کا تدارک بھی واجب طور پر کیا جائے.اور ہم لکھ چکے ہیں اور پھر دوبارہ لکھتے ہیں کہ ہماری یہ جماعت گورنمنٹ انگریزی کی سچی خیر خواہ ہے اور ہمیشہ خیر خواہ رہے گی.اور میری تمام جماعت کے لوگ در حقیقت غریب مزاج اور امن پسند اور اول درجہ کے خیر خواہ سر کا رانگریزی ہیں.اور با ایں ہمہ معزز اور شریف ہیں.اور بعض نادانوں کا یہ خیال کہ گویا میں نے افترا کے طور پر الہام کا دعوی کیا ہے غلط ہے بلکہ در حقیقت یہ کام اس قادر خدا کا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اس جہان کو بنایا ہے.جس زمانہ میں لوگوں کا ایمان خدا پر کم ہو جاتا ہے اس وقت میرے جیسا ایک انسان پیدا کیا جاتا ہے اور خدا اس سے ہمکلام ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ سے اپنے عجائب کام دکھلاتا ہے.یہاں تک کہ لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا ہے.میں عام اطلاع دیتا ہوں کہ کوئی انسان خواہ

Page 395

مجموعہ اشتہارات ۳۷۹ جلد دوم ایشیائی ہو خواہ یوروپین اگر میری صحبت میں رہے تو وہ ضرور کچھ عرصہ کے بعد میری ان باتوں کی سچائی معلوم کر لے گا.یادر ہے کہ یہ باتیں حفظ امن کے مخالف نہیں.ہم دنیا میں فروتنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے آئے ہیں اور بنی نوع کی ہمدردی اور اس گورنمنٹ کی خیر خواہی جس کے ہم ماتحت ہیں یعنی گورنمنٹ برطانیہ ہمارا اصول ہے.ہم ہر گز کسی مفسدہ اور نقض امن کو پسند نہیں کرتے اور اپنی گورنمنٹ انگریزی کی ہر ایک وقت میں مدد کرنے کے لئے طیار ہیں.اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جس نے ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا ہے.فقط المرقوم ۲۰ ستمبر ۱۸۹۷ء friis میرزاغلام احمد از قادیان یہ اشتہار " کے ۶ اصفحات پر ہے) A (کتاب البریہ مطبوعہ جنوری ۱۸۹۸ء صفحه ۱ تا ۱۶.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱ تا ۱۸)

Page 396

مجموعہ اشتہارات ۳۸۰ ١٨٦ جلد دوم اخبار چودھویں صدی والے بزرگ کی تو بہ علاوہ اور نشانوں کے یہ بھی ایک عظیم الشان نشان ہے جو حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوا.ناظرین کو یاد ہوگا کہ ایک بزرگ نے جو ہر ایک طرح سے دنیا میں معزز اور رئیس اور اہل علم بھی ہیں اس عاجز کے حق میں ایک دل آزار کلمہ یعنی مثنوی رومی کا یہ شعر پڑھا تھا جو پرچہ چودھویں صدی ماہ جون ۱۸۹۷ء میں شائع ہوا تھا اور وہ یہ ہے چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد میلش اندر طعنه پاکاں برد سواس رنج کی وجہ سے جو اس عاجز کے دل کو پہنچا اس بزرگ کے حق میں دعا کی گئی تھی کہ یا تو دا تعالی اس کوتو بہ اور پشیمانی بخش اور یا کوئی تنبیہ نازل کرے.سوخدا نے اپنے فضل اور رحم سے اس کو توفیق تو به عنایت فرمائی اور اس بزرگ کو الہام کے ذریعہ سے اطلاع دی کہ اس عاجز کی دعا اس کے بارے میں قبول کی گئی اور ایسا ہی معافی بھی ہوگی.سو اس نے خدا سے یہ الہام پا کر اور آثار خوف دیکھ کر نہایت انکسار اور تذلیل سے معزرت کا خط لکھا.وہ خط کسی قدر اختصار سے پرچہ چودہویں صدی ماہ نومبر ۱۸۹۷ء میں چھپ بھی گیا ہے.مگر چونکہ اس اختصار میں بہت سے ایسے ضروری امور رہ گئے ہیں جن سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ کیونکر خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول کرتا اور ان کے دلوں پر رعب ے ترجمہ.خدا تعالیٰ جب کسی کا پردہ چاک کرنا چاہتا ہے تو اس کی طبع میں پاک لوگوں پر طعنہ زنی کا میلان پیدا کر دیتا ہے.

Page 397

مجموعہ اشتہارات ۳۸۱ جلد دوم ڈالتا اور آثار خوف ظاہر کرتا ہے.اس لئے میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اس خط کو جو میرے پاس پہنچا تھا بعض ضروری اختصار کے ساتھ شائع کر دوں.اور بزرگ موصوف کا یہ اصل خط اس وجہ سے بھی شائع کرنے کے لائق ہے کہ میں اس اصل خط کو بہت سے لوگوں کو سنا چکا ہوں اور ایک جماعت کثیر اس کے مضمون سے اطلاع پا چکی ہے اور بہت سے لوگوں کو بذریعہ خطوط اس کی اطلاع بھی دی گئی ہے اب جبکہ چودھویں صدی کے پرچہ کو وہ لوگ پڑھیں گے تو ضرور ان کے دل میں یہ خیالات پیدا ہوں گے کہ جو کچھ زبانی ہمیں سنایا گیا اس میں کئی ایسی باتیں ہیں جو شائع کردہ خط میں نہیں ہیں.اور ممکن ہے کہ ہمارے بعض کو نہ اندیش مخالفوں کو یہ بہانہ ہاتھ آجائے کہ گویا ہم نے نج کے خط میں اپنی طرف سے کچھ زیادت کی تھی.لہذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس اصل خط کو چھاپ دیا جائے.مگر یادر ہے کہ چودھویں صدی کے خط میں جس قدر اختصار کیا گیا ہے یہ کسی کا قصور نہیں ہے.اختصار کے لئے میں نے ہی اجازت دی تھی مگر اس اجازت کے استعمال میں کسی قدر غلطی ہوگئی ہے لہذا اب اس کی اصلاح ضروری ہے.اس تمام قصے کے لکھنے سے غرض یہ ہے کہ ہماری جماعت اور تمام حق کے طالبوں کے لئے یہ بھی ایک خدا کا نشان ہے اور جناب سرسید احمد خان صاحب بالقابہ کے غور کرنے کے لئے یہ تیسرا نمونہ ہے کہ کیونکہ اللہ جل شانہ اپنے بندوں کی دُعائیں قبول کر لیتا ہے سید صاحب موصوف کا یہ قول نہایت صحیح ہے کہ ہر ایک دُعا منظور نہیں ہو سکتی.بعض دعا ئیں منظور ہو جاتی ہیں.مگر کاش سید صاحب کی پہلی تحریر میں اس آخری تحریر کے مطابق ہوتیں.اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ بزرگ موصوف جن کا خط ذیل میں لکھا جاتا ہے کچھ عام لوگوں میں سے نہیں ہیں بلکہ جہاں تک میرا خیال ہے وہ ایک بڑے ذی علم اور علماء وقت میں سے ہیں اور کئی لوگوں سے میں نے سنا ہے کہ اُن کو الہام بھی ہوتا ہے اور اس خط میں انہوں نے اپنے الہام کا ذکر بھی کیا ہے علاوہ ان سب باتوں کے وہ بزرگ پنجاب کے معزز رئیسوں اور جاگیر داروں میں سے ہیں اور ایک مدت سے گورنمنٹ عالیہ انگریزی کی طرف سے ایک معزز عہدہ حکومت پر بھی ممتاز ہیں.چونکہ پرچہ چودھویں صدی میں بھی اس بزرگ کے منصب اور مرتبت کا اس قدر ذکر ہو چکا ہے لہذا

Page 398

مجموعہ اشتہارات ۳۸۲ جلد دوم اس قدر یہاں بھی لکھا گیا اور بزرگ موصوف نے جو میرے نام بغرض معذرت ۲۹ را کتوبر ۱۸۹۷ء کو خط لکھا تھا جس کا خلاصہ چودھویں صدی میں چھپا ہے اس خط کو بغرض مصلحت مذکورہ بالا بحذف بعض فقرات ذیل میں لکھتا ہوں اور وہ یہ ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وو نقل مطابق اصل اخبار چودھویں صدی والا مجرم پلا سیدی و مولائی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ایک خطا کا راپنی غلط کاری سے اعتراف کرتا ہوا ( اس نیاز نامہ کے ذریعہ سے ) قادیان کے مبارک مقام پر ( گویا ) حاضر ہو کر آپ کے رحم کا خواستگار ہوتا ہے.یکم جولائی ۹۷ء سے یکم جولائی ۹۸ء جو اس گنہگار کو مہلت دی گئی اب آسمانی بادشاہت میں آپ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو مجرم قرار دیتا ہے (اس موقعہ پر مجھے القا ہوا کہ جس طرح آپ کی دعا مقبول ہوئی اسی طرح میری التجا و عاجزی قبول ہو کر حضرت اقدس کے حضور سے معافی اور ہائی دی گئی ) مجھے اب زیادہ معذرت کرنے کی ضرورت نہیں تاہم اس قدر ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں ابتدا سے آپ کی اس دعوت پر بہت غور سے جویائے حال رہتا رہا اور میری تحقیق ایمانداری و صاف دلی پر مبنی تھی تختی که (۹۰) فیصدی یقین کا مدارج پہنچ گیا.(۱) آپ کے شہر کے آریہ مخالفوں نے گواہی دی کہ آپ بچپن سے صادق و پاکباز تھے.(۲) آپ جوانی سے اپنے تمام اوقات خدائے واحد حتی و قیوم کی عبادت میں لگا تار صرف فرماتے رہے.إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.لے یہ عنوان بزرگ موصوف نے اپنے خط کے سر پر لکھا تھا.چونکہ اس عنوان میں نہایت انکسار ہے جو انسان کو بوجہ اس کے کمال تذلیل کے مور درحمت الہی بناتا ہے اس لئے ہم نے اس کو جیسا کہ اصل خط میں تھا لکھ دیا ہے.منہ

Page 399

مجموعہ اشتہارات ۳۸۳ جلد دوم (۳) آپ کا حسن بیان تمام عالمان ربانی سے صاف صاف علیحدہ نظر آتا ہے.آپ کی تمام تصنیفات میں ایک زندہ روح ہے (فِيْهَا هُدًى وَّ نُورٌ) (۴) آپ کا مشن کسی فساد اور گورنمنٹ موجودہ کی ( جو تمام حالات سے اطاعت و شکر گذاری کے قابل ہے ) بغاوت کی راہ نمائی نہیں کرتا.اِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادِ.حتی کہ میرے بہت سے مہربان دوستوں نے جوان سے آپ کے معاملات پر میں ہمیشہ بحث کرتا رہتا تھا.مجھے خطاب سے مخاطب کیا.پھر یہ کہ با ایں ہمہ کیوں؟ میرے منہ سے وہ بیت مثنوی کا نکلا.اس کی وجہ یہ تھی کہ میں جب لاہور میں ان کے پاس گیا تو مجھ کو اپنے معتبر دوستوں کے ذریعہ سے ( جن سے پہلے میری بحث رہتی تھی ) خبر ملی کہ آپ سے ایسی باتیں ظہور میں آئی ہیں جس سے کسی مسلمان ایماندار کو آپ کے مخالف خیال کرنے میں کوئی تامل نہیں رہا.(1) آپ نے دعوی رسول ہونے کا کیا ہے اور ختم المرسلین ہونے کا بھی ساتھ ساتھ ادعا کر دیا ہے جو ایک سچے مسلمان کے دل پر سخت چوٹ لگانے والا فقرہ تھا کہ جو عزت ختم رسالت کی بارگاہ الہی سے محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ (فِدَاكَ رُوحِی يَا رَسُولَ اللَّهِ ) کومل چکی ہے اس کا دوسرا کب حقدار ہوسکتا ہے.(۲) آپ نے فرمایا ہے کہ ترک تباہ ہوں گے اور ان کا سلطان بڑی بے عزتی سے قتل کیا جائے گا اور دنیا کے مسلمان مجھ سے التجا کریں گے کہ میں ان کو ایک سلطان مقرر کر دوں.یہ ایک خوفناک بر بادی بخش پیشگوئی اسلامی دنیا کے واسطے تھی کیونکہ آج تمام مقدس مقامات پر جو خداوند کے عہد قدیم وجدید سے چلے آتے ہیں.ان کی خدمت ترکوں وان کے سلطان کے ہاتھ میں ہے.ان مقامات کا ترکوں کی مغلوبی کی حالت میں نکل جانا ایک لازمی اور یقینی امر ہے جس کے خیال کرنے سے ایک ہیبت ناک و خطرناک نظارہ دکھائی دیتا ہے کہ اس موقعہ پر دنیا کے ہر ایک مسلمان پر فرض ہو جائے گا کہ ان معبدوں کو نا پاک ہاتھوں سے بچانے کے واسطے اپنی جان و مال کی قربانی چڑ ہائے.

Page 400

مجموعہ اشتہارات ۳۸۴ جلد دوم کیسا مصیبت اور امتحان کا وقت مسلمانوں پر آپڑے گا کہ یا تو وہ بال بچہ گھر بار پیارے وطن کو الوداع کہہ کے ان پاک معبدوں کی طرف چل پڑیں یا اس ابدی اور جاوید زندگی ایمان سے دست بردار ہو جا ئیں.رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا یہی راز ہے جو مسلمان ترکوں سے محبت کرتے ہیں کہ ان کی خیر میں ان کے دین و دنیا کی خیر ہے.ورنہ ترکوں کا کوئی خاص احسان مسلمانانِ ہند پر نہیں بلکہ ہم کو سخت گلہ ہے کہ ہمارے پچھلی صدی کے عالمگیر کی تباہی میں جبکہ مرہٹوں وسکھوں کے ہاتھ سے مسلمانانِ ہند بردباد ہورہے تھے ہماری کوئی خبر انہوں نے نہیں لی.اس شکریہ کی مستحق صرف سرکار انگریزی ہے جس کی گورنمنٹ نے مسلمانوں کو اس سے نجات دلائی تو ہماری ہمدردی کی وہی خاص وجہ ہے جو اوپر ذکر کی گئی.اور اس کو خیال کر کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ایسی سخت ترین مصیبت کے وقت تو مسلمانوں کے ایک بچے راہ نما کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ عاجزی سے گڑ گڑا کے حضور میں اس تباہی سے بیڑے کو بچاتا.کیا حضرت نوح کے فرزند سے زیادہ ترک گنہ گار تھے تو بجائے اس کے کہ اُن کے حق میں خدا کے حضور شفاعت کی جاتی ہے نہ الٹا ہنسی سے ایسی بات بنائی جاتی.(۳) و نیز یہ کہ حضرت والا نے حضرت مسیح کے بارے میں اپنی تصانیف میں سخت حقارت آمیز الفاظ لکھے ہیں جو ایک مقبول بارگاہ الہی کے حق میں شایان شان نہ تھے جس کو خداوند اپنی روح و کلمہ فرمائے جن کے حق میں یہ خطاب ہو.وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ پھر اس کی تو ہین اور اہانت کیونکر ہوسکتی.یہ باتیں میرے دل میں بھری تھیں اور ان کی تجسس کے واسطے میں پھر کوشش کر رہا تھا کہ یہ کہاں تک صحیح ہیں کہ ناگاہ حضور کا اشتہار تر کی سفیر کے بارے میں جو نکلا.پیش ہوا تو بیساختہ میرے منہ سے ( سوا کسی اور کلام کے ) مثنوی کا بیت نکل گیا جس پر آپ کو رنج ہوا ( اور رنج ہونا چاہیے تھا ) (۱) رسالت کے دعوئی کے بارے میں مجھ کو خو د ازالہ اوہام کے دیکھنے سے و نیز آپ کی وہ روحانی اور مُردہ دلوں کو زندہ کرنے والی تقریر سے جو جلسہ مذاہب لا ہور میں پیش ہوئی میری تسلی ہوگئی جو محض افتر اے و بہتان ذات والا پر کسی نے باندھا.البقرة: ۲۸۷ ال عمران: ۴۶

Page 401

مجموعہ اشتہارات ۳۸۵ جلد دوم (۲) بابت ترکوں کے آپ کے اسی اشتہار (میرے عرضی دعوی کے ) میری تسلی ہو گئی.جس قدر آپ نے نکتہ چینی فرمائی وہ ضروری اور واجبی تھی.(۳) بابت حضرت مسیح کے بھی ایک بے وجہ الزام پایا گیا.گو یسوع کے حق میں آپ نے کچھ لکھا ہے جو ایک الزامی طور پر ہے جیسا کہ ایک مسلمان شاعر ایک شیعہ کے مقابل میں حضرت مولا نا علی کے بارے میں لکھتا ہے.آں جوانے بروت مالیده * بہر جنگ و و غا سگالیده برخلافت دلش بسے مائل * لیک بوبکر شد میاں حائل تو بھی حضرت اگر ایسا نہ کرتے میرے خیال میں تو اچھا ہوتا.جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ....مگر ان باتوں کے علاوہ جس سے میرا دل تڑپ اُٹھا اور اس سے یہ صدا آنے لگی کہ اُٹھ اور معافی طلب کرنے میں جلدی کر.ایسا نہ ہو کہ تو خدا کے دوستوں سے لڑنے والا ہو.خداوند کریم تمام رحمت ہے.كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ دنیا کے لوگوں پر جب عذاب نازل کرتا ہے تو اپنے بندوں کی ناراضی کی وجہ سے.مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا سے آپ کا خدا کے ساتھ معاملہ ہے تو کون ہے جو الہی سلسلہ میں دخل دیوے.خداوند کی اُس آخری عظیم الشان کتاب کی ہدایت یاد آئی جو مومن آل فرعون کے قصہ میں بیان فرمائی گئی کہ جو لوگ خدائی سلسلہ کا ادعا کریں اُن کی تکذیب کے واسطے دلیری اور پیش دستی نہ کرنی چاہیے نہ یہ کہ اُن کا انکار کرنا چاہیے.اِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمُ بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمُ کے مگر یہ صرف میرا دلی خیال ہی نہیں رہا بلکہ اس کا ظاہری اثر محسوس ہونے لگا.کچھ ایسی بنائیں خارج میں پڑنے لگیں جس میں..(اَعُوذُ بِاللهِ ) مصداق ہو جانے لگا ( یعنی آثار خوف ظاہر ہوئے ) چودہ سو برس ہونے کو آتے ہیں کہ خدا کے ایک برگزیدہ کے منہ سے یہ لفظ ہماری قوم کے حق میں نکلے تو کیا ؟ قدرت کو هَبَاءً مَّنثُورًا کرنے کا خیال ہے (تُبتُ إِلَيْكَ يَا رَبِّ) کہ پھر ایک مقبول الہی کے منہ سے وہی کلمہ سن کر مجھے کچھ خیال نہ ہو.النحل : ١٢٦ بنی اسراءيل: ١٦ ٣ المؤمن: ٢٩

Page 402

مجموعہ اشتہارات ۳۸۶ جلد دوم پس یہ ظاہری خطرات مجھ کو اس خط کے تحریر کرتے وقت سب کے سب اڑتے ہوئے دکھائی دیئے (جن کی تفصیل کبھی میں پھر کروں گا ) اس وقت تو میں ایک مجرم گنہگاروں کی طرح آپ کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں ( مجھ کو حاضر ہونے میں کچھ عذر نہیں مگر بعض حالات میں ظاہر حاضری سے معاف کیا جانے کا مستحق ہوں ) شاید جولائی ۱۸۹۸ء سے پہلے حاضر ہی ہو جاؤں.امید که بارگاہِ اقدس سے بھی آپ راضی نامہ دینے کے لئے تحریک فرمائی جائے که نَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزُمًا.قانون کا بھی یہی اصول ہے کہ جو جرم عمد أو جان بوجھ کر نہ کیا جائے وہ قابلِ راضی نامہ و معافی کے ہوتا ہے.فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ میں ہوں حضور کا مجرم ( دستخط بزرگ) راولپنڈی.۲۹/اکتوبر۹۷“ یہ خط بزرگ موصوف کا ہے جس کو ہم نے بعض الفاظ تذلل وانکسار کے حذف کر کے چھاپ دیا ہے.اس خط میں بزرگ موصوف اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان کو اس عاجز کی قبولیت دعا کے بارے میں الہام ہوا تھا.اور نیز اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے خارجاً بھی آثار خوف دیکھے جن کی وجہ سے زیادہ تر دہشت ان کے دل پر طاری ہوئی اور قبولیت دعا کے نشان دکھائی دیئے.پس اس جگہ یہ بات ظاہر کرنے کے لائق ہے کہ ڈپٹی آتھم کی نسبت جو کچھ شرطی طور پر بیان کیا گیا تھا وہ بیان بالکل اس بیان سے مشابہ ہے جو اس بزرگ کی نسبت کیا گیا یعنی جیسا کہ اس عذابی پیشگوئی میں ایک شرط رکھی گئی تھی ویسا ہی اس میں بھی ایک شرط تھی اور ان دونوں شخصوں میں فرق یہ ہے کہ یہ بزرگ ایمانی روشنی اپنے اندر رکھتا تھا اور سچ سے محبت کرنے کی سعادت اس کے جوہر میں تھی لہذا اس نے آثار خوف دیکھ کر اور خدا تعالیٰ سے الہام پا کر اس کو پوشیدہ کرنا نہ چاہا اور نہایت تذلیل اور انکسار سے جہاں تک کہ انسان تذلیل کر سکتا ہے تمام حالات صفائی سے لکھ کر اپنا معذرت نامہ بھیج دیا.مگر آٹھم

Page 403

مجموعہ اشتہارات ۳۸۷ جلد دوم چونکہ نو را ایمان اور جو ہر سعادت سے بے بہرہ تھا اس لئے با وجو دسخت خوفناک اور ہراساں ہونے کے بھی یہ سعادت اس کو میسر نہ آئی اور خوف کا اقرار کر کے پھر افترا کے طور پر اس خوف کی وجہ ان ہمارے فرضی حملوں کو ٹھیرایا جو صرف اسی کے دل کا منصوبہ تھا حالانکہ اس نے پندرہ مہینے تک یعنی میعاد کے اند در کبھی ظاہر نہ کیا کہ ہم نے یا ہماری جماعت میں سے کسی نے اس پر حملہ کیا تھا.اگر ہماری طرف سے اس کے قتل کرنے کے لئے حملہ ہوتا تو حق یہ تھا کہ میعاد کے اندر اسی وقت جب حملہ ہوا تھا شور مچاتا اور حکام کو خبر دیتا.اگر ہماری طرف سے ایک بھی حملہ ہوتا تو کیا کوئی قبول کر سکتا ہے کہ اس حملہ کے وقت عیسائیوں میں شور نہ پڑ جاتا.پھر جس حالت میں آتھم نے میعاد گذرنے کے بعد یہ بیان کیا کہ میرے قتل کرنے کیلئے مختلف وقتوں اور مقاموں میں تین حملے کئے گئے تھے یعنی ایک امرتسر میں اور ایک لدھیانہ میں اور ایک فیروز پور میں تو کیا کوئی منصف سمجھ سکتا ہے کہ باوجود ان تینوں حملوں کے جو خون کرنے کے لئے تھے آتھم اور اس کا داماد جوا کسٹرا اسٹنٹ تھا اور اس کی تمام جماعت چپ بیٹھی رہتی اور حملہ کرنے والوں کا کوئی بھی تدراک نہ کراتی اور کم سے کم اتنا بھی نہ کرتی کہ اخباروں میں چھپوا کر ایک شور ڈال دیتی اور اگر نہایت نرمی کرتی تو سرکا ر سے باضابطہ میری ضمانت سنگین طلب کرواتی.کیا کوئی دل قبول کر لے گا کہ میری طرف سے تین حملے ہوں اور آتھم اور اس کی جماعت سب کے سب چپ رہیں بات تک باہر نہ نکلے؟ کیا کوئی عقلمند اس بات کو قبول کر سکتا ہے خاص کر جس حالت میں میرے حملوں کا ثبوت میری پیشگوئیوں کی ساری قلعی کھولتا تھا اور عیسائیوں کو نمایاں فتح حاصل ہوتی تھی.پس آتھم نے یہ جھوٹے الزام اسی لئے لگائے کہ پیشگوئی کی میعاد کے اندر اس کا خائف اور ہراساں ہونا ہر ایک پر کھل گیا تھا.وہ مارے خوف کے مرا جا تا تھا.اور یہ ممکن ہے کہ یہ آثار خوف اس پر اس طرح ظاہر ہوئے ہوں جیسا کہ یونس کی قوم پر ظاہر ہوئے تھے.غرض اس نے الہامی شرط سے فائدہ اٹھایا مگر دنیا سے محبت کر کے گواہی کو پوشیدہ رکھا اور قسم نہ کھائی اور نالش نہ کرنے سے ظاہر بھی کر دیا کہ وہ ضرور خدا تعالی کے خوف اور اسلامی عظمت سے ڈرتا رہا.لہذا وہ اخفائے شہادت کے بعد دوسرے الہام کے موافق جلد تر فوت ہو گیا.بہر حال یہ مقدمہ کہ جو اس

Page 404

مجموعہ اشتہارات ۳۸۸ جلد دوم خوش قسمت اور نیک فطرت بزرگ کا مقدمہ ہے آتھم کے مقدمہ سے بالکل ہم شکل ہے اور اس پر روشنی ڈالتا ہے.خدا تعالیٰ اس بزرگ کی خطا کو معاف کرے اور اس سے راضی ہو.میں اُس سے راضی ہوں اور اس کو معافی دیتا ہوں.چاہیے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک شخص اس کے حق میں دعائے خیر کرے.اللَّهُمَّ احْفَظْهُ مِنَ الْبَلايَا وَالْآفَاتِ.اَللّهُمَّ اعْصَمُهُ مِنَ الْمَكْرُ وُهَاتِ.اَللَّهُمَّ ارْحَمْهُ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ.آمين ثُمَّ آمين الراق خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ۲۰/ نومبر ۱۸۹۷ء یہ اشتہار کتاب البریہ طبع اوّل کے صفحہ ۸۵ سے ۹۲ تک ہے : مرتب ) (روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۱۱ تا ۱۱۸)

Page 405

مجموعہ اشتہارات ۳۸۹ (112) جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اشتہار ضروری الاظہار چونکہ بعض احباب چندہ مدرسہ میرے نام بغیر ذکر مدرسہ یوں ہی روانہ فرماتے ہیں.اور پھر کسی دوسرے وقت اس اطلاع دہی کے لئے ان کا خط آتا ہے جبکہ وہ اُن کا روپیہ ہمارے کاموں میں خرچ بھی ہو جاتا ہے.اس صورت میں خواہ نخواہ کی ایک تکلیف ہوتی ہے لہذا تمام احباب کو اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ انتظام چندہ مدرسہ الگ قرار پایا ہے.اور وہ یہ ہے کہ اس میں اخویم میر ناصر نواب صاحب محاسب روپیہ قرار پائے ہیں اور رو پیدا خویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے پاس جمع ہوتا ہے.اس لئے مناسب ہے کہ آئندہ ایسا روپیہ میرے نام ہرگز روانہ نہ ہو.بلکہ براہ راست مولوی صاحب موصوف کے نام روانہ فرمایا کریں اور اس میں بھی لکھ دیا کریں کہ یہ مدرسہ کا روپیہ ہے.یہ امر ضروری ہے جس کی پابندی ہر ایک صاحب کو لازمی ہوگی.اس جگہ یہ بھی اطلاع دیتا ہو کہ کتاب البریہ چھپ کر طیار ہو گئی ہے.قیمت اس کی ایک روپیہ چار آنہ ہے جو صاحب خریدنا چاہیں بذریعہ ویلیو پے ایبل منگوا سکتے ہیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار میرزاغلام احمد عفی عنہ از قادیان ۵ فروری ۱۸۹۸ء ۲۶ مطبع ضیاء الاسلام قادیان ( یہ اشتہار کے ایک صفحہ پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۲۱)

Page 406

مجموعہ اشتہارات ١٨٨ ۳۹۰ جلد دوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ قل ما يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ! طاعون اس مرض نے جس قدر بمبئی اور دوسرے شہروں اور دیہات پر حملے کئے اور کر رہی ہے اُن کے لکھنے کی ضرورت نہیں.دو سال کے عرصہ میں ہزاروں بچے اس مرض سے یتیم ہو گئے اور ہزا ر ہا گھر ویران ہو گئے.دوست اپنے دوستوں سے اور عزیز اپنے عزیزوں سے ہمیشہ کے لئے جُدا کئے گئے اور ابھی انتہاء نہیں.کچھ شک نہیں کہ ہماری گورنمنٹ مُحسنہ نے کمال ہمدردی سے تدبیریں کیں اور اپنی رعایا پر نظر شفقت کر کے لکھوکھہاروپیہ کا ذمہ ڈال لیا اور قواعد طبیہ کے لحاظ سے جہاں تک ممکن تھا ہدایتیں شائع کیں.مگر اس مرض مہلک سے اب تک بکلی امن حاصل نہیں ہوا.بلکہ بمبئی میں ترقی پر ہے اور کچھ شک نہیں کہ مُلک پنجاب بھی خطرہ میں ہے ہر ایک کو چاہیے کہ اس وقت اپنی سمجھ اور بصیرت کے موافق نوع انسان کی ہمدردی میں مشغول ہو کیونکہ وہ شخص انسان نہیں جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو.اور یہ امر بھی نہایت ضروری ہے کہ گورنمنٹ کی تدبیروں اور ہدایتوں کو بدگمانی کی نظر سے نہ دیکھا جائے.غور سے معلوم ہو گا کہ اس بارے میں گورنمنٹ کی تمام ہدایتیں نہایت احسن تدبیر پر مبنی ہیں گو ممکن ہے کہ آئندہ اس سے بھی بہتر الفرقان: ۷۸

Page 407

مجموعہ اشتہارات ۳۹۱ جلد دوم تدابیر پیدا ہوں مگر ابھی نہ ہمارے ہاتھ میں نہ گورنمنٹ کے ہاتھ میں ڈاکٹری اصول کے لحاظ.کوئی ایسی تدبیر ہے کہ جو شائع کردہ تدابیر سے عمدہ اور بہتر ہو.ނ بعض اخبار والوں نے گورنمنٹ کی تدابیر پر بہت کچھ جرح کیا مگر سوال تو یہ ہے کہ ان تدابیر سے بہتر کونسی تدبیر پیش کی.بے شک اس ملک کے شرفاء اور پردہ داروں پر یہ امر بہت کچھ گراں ہوگا ہے پر یہ کہ جس گھر میں بلاءِ طاعون نازل ہو تو گو ایسا مریض کوئی پردہ دار جوان عورت ہی ہو تب بھی فی الفور وہ گھر والوں سے الگ کر کے ایک علیحدہ ہوا دار مکان میں رکھا جائے جو اس شہر یا گاؤں کے بیماروں کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے مقرر ہو.اور اگر کوئی بچہ بھی ہو تو اس سے بھی یہی معاملہ کیا جائے اور باقی گھر والے بھی کسی ہوا دار میدان میں چھپروں میں رکھے جائیں.لیکن گورنمنٹ نے یہ ہدایت بھی تو شائع کی ہے کہ اگر اس بیمار کے تعہد کے لئے ایک دو قریبی اُس کے اُسی مکان میں رہنا چاہیں تو وہ رہ سکتے ہیں.پس اس سے زیادہ گورنمنٹ اور کیا تدبیر کر سکتی تھی کہ چند آدمیوں کے ساتھ رہنے کی اجازت بھی دے دے.اور اگر یہ شکایت ہو کہ کیوں اس گھر سے نکالا جاتا ہے اور باہر جنگل میں رکھا جاتا ہے تو یہ احمقانہ شکوہ ہے.میں یقیناً اس بات کو سمجھتا ہوں کہ اگر گورنمنٹ ایسے خطرناک امراض میں مداخلت بھی نہ کرے تو خود ہر ایک انسان کا اپنا وہم وہی کام اس سے کرائے گا.جس کام کو گورنمنٹ نے اپنے ذمہ لیا ہے.مثلاً ایک گھر میں جب طاعون سے مرنا شروع ہوتو دو تین موتوں کے بعد گھر والوں کو ضرور فکر پڑے گا کہ اس منحوس گھر سے جلد نکلنا چاہیے اور پھر فرض کرو کہ وہ اس گھر سے نکل کر محلہ کے کسی اور گھر میں آباد ہوں گے اور پھر اس میں بھی یہی آفت دیکھیں گے تب ناچار اُن کو اُس شہر سے علیحدہ ہونا پڑے گا مگر یہ تو شرعاً بھی منع ہے کہ وبا کے شہر کا آدمی کسی دوسرے شہر میں جا کر آباد ہو یا بہ تبدیل الفاظ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا قانون بھی کسی دوسرے شہر میں جانے سے روکتا ہے تو اس صورت میں بجز اس تدبیر کے جو گورنمنٹ نے پیش کی ہے کہ اُسی شہر کے کسی میدان میں وہ لوگ رکھے جائیں اور کونسی نئی اور عمدہ تدبیر ہے جو ہم نعوذ باللہ اس خوفناک وقت میں اپنی آزادگی کی حالت میں اختیار کر سکتے ہیں.پس نہایت افسوس ہے کہ نیکی کے عوض بدی

Page 408

مجموعہ اشتہارات ۳۹۲ جلد دوم کی جاتی ہے اور ناحق گورنمنٹ کی ہدایتوں کو بدگمانی سے دیکھا جاتا ہے.ہاں یہ ہم کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں ڈاکٹروں اور دوسرے افسروں کو جوان خدمات پر مقرر ہوں نہایت درجہ کے اخلاق سے کام لینا چاہیے اور ایسی حکمت عملی ہو کہ پردہ داری وغیرہ امور کے بارے میں کوئی شکایت بھی نہ ہو اور ہدایتوں پر عمل بھی ہو جائے.اور مناسب ہوگا کہ بجائے اس کے کہ حکومت اور رعب سے کام لیا جائے ہدایتوں کے فوائد دلوں میں جمائے جائیں تا بد گمانیاں پیدا نہ ہوں.اور مناسب ہے کہ بعض خوش اخلاق ڈاکٹر واعظوں کی طرح مرض پھیلنے سے پہلے دیہات اور شہروں کا دورہ کر کے گورنمنٹ کے شفقانہ منشاء کو دلوں میں جما دیں تا اس نازک امر میں کوئی فتنہ پیدا نہ ہو.واضح رہے کہ اس مرض کی اصل حقیقت ابھی تک کامل طور پر معلوم نہیں ہوئی اس لئے اس کی تدابیر اور معالجات میں بھی اب تک کوئی کامیابی معلوم نہیں ہوئی.مجھے ایک روحانی طریق سے معلوم ہوا ہے کہ اس مرض اور مرض خارش کا مادہ ایک ہی ہے.اور میں گمان کرتا ہوں کہ غالبا یہ بات صحیح ہوگی کیونکہ مرض جرب یعنی خارش میں ایسی دوائیں مفید پڑتی ہیں جن میں کچھ پارہ کا جزو ہو یا گندھک کی آمیزش ہو اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی دوائیں اس مرض کے لئے بھی مفید ہوسکیں.اور جبکہ دونوں مرضوں کا مادہ ایک ہے تو کچھ تعجب نہیں کہ خارش کے پیدا ہونے سے اس مرض میں پیدا ہو جائے.یہ رُوحانی قواعد کا ایک راز ہے جس سے میں نے فائدہ اُٹھایا ہے.اگر تجربہ کرنے والے اس امر کی طرف توجہ کریں اور ٹیکا لگانے والوں کی طرح بطور حفظ ما تقدم ایسے ملکوں کے لوگوں میں جو خطرہ طاعون میں ہوں خارش کی مرض پھیلا دیں تو میرے گمان میں ہے کہ وہ مادہ اس راہ میں تحلیل پا جائے اور طاعون سے امن رہے.مگر حکومت اور ڈاکٹروں کی توجہ بھی خدا تعالیٰ کے ارادے پر موقوف ہے.میں نے محض ہمدردی کی راہ سے اس امر کولکھ دیا ہے کیونکہ میرے دل میں یہ خیال ایسے زور کے ساتھ پیدا ہوا جس کو میں روک نہیں سکا.اور ایک اور ضروری امر ہے جس کے لکھنے پر میرے جوش ہمدردی نے مجھے آمادہ کیا ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ جو لوگ رُوحانیت سے بے بہرہ ہیں اُس کو ہنسی اور ٹھٹھے سے دیکھیں گے

Page 409

مجموعہ اشتہارات ۳۹۳ جلد دوم مگر میرا فرض ہے کہ میں اس کو نوع انسان کی ہمدردی کے لئے ظاہر کروں اور وہ یہ ہے کہ آج جو چھ فروری ۱۸۹۸ء روز یکشنبہ ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں.میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.“ میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اُس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد جاڑے میں پھیلے گا لیکن نہایت خوف ناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا.اور مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہوا اور وہ یہ ہے کہ إِنَّ اللَّهَ لَايُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِانْفُسِهِمْ إِنَّهُ اوَى الْقَرْيَةَ یعنی جب تک دلوں کی وباء معصیت دُور نہ ہوتب تک ظاہری و با بھی دُور نہیں ہوگی.اور در حقیقت دیکھا جاتا ہے کہ ملک میں بدکاری کثرت سے پھیل گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو کر ہوا و ہوس کا ایک طوفان برپا ہورہا ہے.اکثر دلوں سے اللہ جل شانه کا خوف اُٹھ گیا ہے اور دوباؤں کو ایک معمولی تکلیف سمجھا گیا ہے جو انسانی تدبیروں سے دُور ہوسکتی ہے.ہر ایک قسم کے گناہ بڑی دلیری سے ہورہے ہیں اور قوموں کا ہم ذکر نہیں کرتے وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اُن میں سے جو غریب اور مفلس ہیں اکثر اُن میں سے چوری اور خیانت اور حرام خوری میں نہایت دلیر پائے جاتے ہیں.جھوٹ بہت بولتے ہیں اور کئی قسم کے خسیس اور مکروہ حرکات اُن سے سزد ہوتے ہیں اور وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں.نماز کا تو ذکر کیا کئی کئی دنوں تک منہ بھی نہیں دھوتے اور کپڑے بھی صاف نہیں کرتے اور جولوگ امیر اور رئیس اور نواب یا بڑے بڑے تاجر اور زمیندار اور ٹھیکہ دار اور دولت مند ہیں وہ اکثر عیاشیوں میں مشغول ہیں اور شراب خوری اور زنا کاری اور بداخلاقی اور فضول خرچی اُن کی عادت ہے اور صرف نام کے مسلمان ليه فقره كه إِنَّهُ اوَى الْقَرْيَةَ اب تک اس کے معنے میرے پر نہیں کھلے اور رویا عام و با پر دلالت کرتی ہے.مگر بطور تقدیر معلق _ منه

Page 410

مجموعہ اشتہارات ۳۹۴ جلد دوم ہیں اور دینی امور میں اور دین کی ہمدردی میں سخت لاپر واہ پائے جاتے ہیں.اب چونکہ اس الہام سے جو ابھی میں نے لکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقدیر معلق ہے اور تو بہ اور استغفار اور نیک عملوں اور ترک معصیت اور صدقات اور خیرات اور پاک تبدیلی سے دُور ہو سکتی ہے.لہذا تمام بندگان خدا کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سچے دل سے نیک چلنی اختیار کریں اور بھلائی میں مشغول ہوں اور ظلم اور بدکاری کے تمام طریقوں کو چھوڑ دیں.مسلمانوں کو چاہیے کہ بچے دل سے خدا تعالیٰ کے احکام بجالا ویں، نماز کے پابند ہوں ، ہر فسق و فجور سے پر ہیز کریں، تو بہ کریں اور نیک بختی اور خدا ترسی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوں ،غریبوں اور ہمسائیوں اور یتیموں اور بیواؤں اور مسافروں اور در ماندوں کے ساتھ نیک سلوک کریں اور صدقہ اور خیرات دیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اور نماز میں اس بلا سے محفوظ رہنے کے لئے دُعا کریں.پچھلی رات اُٹھیں اور نماز میں دُعائیں کریں.غرض ہر ایک قسم کے نیک کام بجالائیں اور ہر قسم کے ظلم سے بچیں اور اُس خدا سے ڈریں جو اپنے غضب سے ایک دم ہی دُنیا کو ہلاک کر سکتا ہے.میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ یہ تقدیر ایسی ہے کہ جو دعا اور صدقات اور خیرات اور اعمال صالحہ اور تو بہ نصوح سے مل سکتی ہے اس لئے میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ میں عام لوگوں کو اس سے اطلاع دوں.یہ بھی مناسب ہے کہ جو کچھ اس بارے میں گورنمنٹ کی طرف سے ہدایتیں شائع ہوئی ہیں خواہ نخواہ اُن کو بدظنی سے نہ دیکھیں بلکہ گورنمنٹ کو اس کا روبار میں مدد دیں اور اس کے شکر گذار ہوں کیونکہ بیچ بھی یہی ہے کہ یہ تمام ہدایتیں محض رعایا کے فائدہ کے لئے تجویز ہوئی ہیں.اور ایک قسم کی مدد یہ بھی ہے کہ کہ نیک چلنی اور نیک بختی اختیار کر کے اس بلا کے دُور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دُعائیں کریں تا یہ بلا رک جائے یا اس حد تک پہنچے کہ اس ملک کو فنا کر دیوے.یا درکھو کہ سخت خطرہ کے دن ہیں اور بلا دروازے پر ہے نیکی اختیار کرو اور نیک کام بجالا ؤ.خدا تعالیٰ بہت حلیم ہے لیکن اس کا غضب بھی کھا جانے والی آگ ہے.اور نیک کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کرتا.مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَا بِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَأَمَنْتُمْ لا النساء : ۱۴۸

Page 411

مجموعہ اشتہارات ۳۹۵ جلد دوم (۱) بترسید از خدائے بے نیاز و سخت تمہارے نہ پندارم که بیند خدا ترسے نکو کارلے (۲) مرا باور نمی آید کے رسوا گردد آن مردی که می ترسدازاں یارے کی غفارست وستارے (۳) گر آں چیزے کہ می بینم عزیزان نیز دیدندے ز دنیا تو بہ کردند بچشم زار و خونبارے (۴) خور تاباں سیہ گراں ست از بدکاری مردم زمیں طاعوں ہمی آرد پئے تخویف و انذارے (۵) به تشویش قیامت ماند ایں تشویش گر بینی علاجے نیست بہر دفع آں مجو حُسن کردارے (۶) نشاید تافتن سرزاں جناب عزت و غیرت که گر خواهد گشد در یکد مے چوں کرم بیکارے (۷) من از همدردی است گفتم تو خود ہم فکر گن باری خرد از بہرائیں روز ست اے دانا و ہشیارے خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ۶ رفروری ۱۸۸۹ء گلزار محمدی پریس لاہور بازار کشمیری ( یہ اشتہار ہ کے چار صفحوں پر ہے ) (روحانی خزائن جلد۴ اصفحه ۳۵۸ تا ۳۶۳) ا ترجمہ اشعار.(۱) لوگو! بے نیاز اور سخت قہار خدا سے ڈرو میں نہیں سمجھتا کہ متقی اور نیک آدمی کبھی نقصان اٹھا تا ہو (۲) مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ شخص کبھی رسوا ہوا ہو جو اس یار سے ڈرتا ہے جو غفا روستا ر ہے (۳) اگر وہ چیز جسے میں دیکھ رہا ہوں دوست بھی دیکھتے تو حصول دنیا سے رورو کر تو بہ کرتے (۴) لوگوں کی بدکاریوں سے چمکتا ہوا سورج بھی سیاہ ہو گیا اور زمین بھی ڈرانے کی خاطر طاعون لا رہی ہے (۵) یہ مصیبت قیامت کی مانند ہے اگر تو غور کرے اور اس کے دور کرنے کا علاج سوائے نیک اعمال کے اور کچھ نہیں (1) اس بارگاہ عالی سے سرکشی نہیں کرنی چاہیے اگر وہ چاہے تو ایک دم میں نکھے کیڑے کی طرح تجھے فنا کر دے(۷) میں نے ہمدردی سے یہ بات کہی ہے اب تو خود غور کر لے.اے سمجھ دار انسان عقل اسی دن کے لیے ہوا کرتی ہے.

Page 412

مجموعہ اشتہارات ١٨٩ ۳۹۶ جلد دوم یہ وہ درخواست ہے جس کا ترجمہ انگریزی بمضور نواب لیفٹینٹ گورنر بہادر بالقابہ روانہ کیا گیا ہے.امید رکھتا ہوں کہ اس درخواست کو جو میرے اور میری جماعت کے حالات پر مشتمل ہے غور اور توجہ سے پڑھا جائے.بحضور نواب لفٹینٹ گورنر بہادر دَامَ إِقْبَالُهُ چونکہ مسلمانوں کا ایک ایک نیا فرقہ جس کا پیشوا اور امام اور پیر یہ راقم ہے پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں زور سے پھیلتا جاتا ہے اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ مہذب اور معزز عہدہ دار اور نیک نام رئیس اور تاجر پنجاب اور ہندوستان کے اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور عموماً پنجاب کے شریف مسلمانوں کے نو تعلیم یاب جیسے بی اے اور ایم اے اس فرقہ میں داخل ہیں اور داخل ہورہے ہیں اور یہ ایک گروہ کثیر ہو گیا ہے جو اس ملک میں روز بروز ترقی کر رہا ہے.اس لئے میں نے قرین مصلحت سمجھا کہ اس فرقہ جدیدہ اور نیز اپنے تمام حالات سے جو اس فرقہ کا پیشوا ہوں حضور لفٹنٹ گورنر بہادر کو آگاہ کروں.اور یہ ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ ہر ایک فرقہ جو ایک نئی صورت سے پیدا ہوتا ہے گورنمنٹ کو حاجت پڑتی ہے کہ اس کے اندرونی حالات دریافت کرے اور بسا اوقات ایسے نئے فرقہ کے دشمن اور خود غرض جن کی

Page 413

مجموعه اشتہارات ۳۹۷ جلد دوم عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے گورنمنٹ میں خلاف واقعہ خبریں پہنچاتے ہیں اور مفتریا نہ مخبریوں سے گورنمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں.پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بدظنی پیدا کرے یا بدظنی کی طرف مائل ہو جائے.لہذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے چند ضروری امور ذیل میں لکھتا ہوں.(۱) سب سے پہلے میں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میں ایک ایسے خاندان میں سے ہوں جس کی نسبت گورنمنٹ نے ایک مدت دراز سے قبول کیا ہوا ہے کہ وہ خاندان اول درجہ پر سرکار دولت مدار انگریزی کا خیر خواہ ہے.چنانچہ صاحب چیف کمشنر بہا در پنجاب کی چٹھی نمبری ۵۷۶ مورخہ ۱ اگست ۱۸۵۸ء میں یہ مفصل بیان ہے کہ میرے والد مرزا غلام مرتضی رئیس قادیان کیسے سرکا را نگریزی کے بچے وفادار اور نیک نام رئیس تھے.اور کس طرح اُن سے ۱۸۵۷ء میں رفاقت اور خیر خواہی اور مدد دہی سرکار دولت مدار انگلشیہ ظہور میں آئی اور کس طرح وہ ہمیشہ بدل ہوا خواہ سرکار رہے.گورنمنٹ عالیہ اس چھٹی کو اپنے دفتر سے نکال کر ملاحظہ کر سکتی ہے اور را برٹ کسٹ صاحب کمشنر لاہور نے بھی اپنے مراسلہ میں جو میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی کے نام ہے.چھٹی مذکورہ بالا کا حوالہ دیا ہے جس کو میں ذیل میں لکھتا ہوں.تهور و شجاعت دستگاه مرزا غلام مرتضی رئیس قادیان بعافیت باشند از انجا که ہنگام مفسدہ ہندوستان موقوعه ۱۸۵۷ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و مدد دہی سرکار دولت مدارا انگلشیہ در باب نگاهداشت سواران و بهمر سانی اسپان بخوبی بمنصہ ظہور پہنچی اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ بدل ہوا خواہ سرکار رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا لہذا بجلد وی اس خیر خواہی اور خیر سگالی کے خلعت مبلغ دو صد روپیہ کا سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے

Page 414

مجموعہ اشتہارات ۳۹۸ جلد دوم اور حسب منشاء چھٹی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری ۵۷۶ مورخه ۱۰ را گست ۱۸۵۸ء پروانہ ہذا با اظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی و و فاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے مرقومہ تاریخ ۲۰ ستمبر ۱۸۵۸ء اور اسی بارے میں ایک مراسلہ سر رابرٹ ایجرٹن صاحب فنانشل کمشنر بہادر کا میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر کے نام ہے جو کچھ عرصہ سے فوت ہو گئے ہیں اور وہ یہ ہے:.در مشفق مهربان دوستان مرزا غلام قادر رئیس قادیان حفظہ.آپ کا خط ۲ ماہ حال کا لکھا ہوا ملا حظہ حضور اینجانب میں گذرا.مرزا غلام مرتضی صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا.مرزا غلام مرتضی سرکار انگریزی کا اچھا خیر خواہ اور وفادار رئیس تھا.ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح پر عزت کریں گے جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی.ہم کو کسی اچھے موقعہ کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا.المرقوم ۲۹ جون ۶ ۷ ۱۸ ء اسی طرح اور بعض چٹھیات انگریزی اعلیٰ افسروں کی ہیں جن کو کئی مرتبہ شائع کر چکا ہوں چنانچہ ولسن صاحب کمشنر لاہور کی چٹھی مرقوعہ ارجون ۱۸۴۹ء میں میرے والد صاحب کو یہ لکھا ہے.ہم بخوبی جانتے ہیں کہ بلا شک آپ اور آپ کا خاندان ابتداء دخل حکومت سرکا را نگریزی سے جان نثار اور وفا کیش اور ثابت قدم رہے ہیں اور آپ کے حقوق واقعی قابل قدر ہیں اور آپ بہر نہج تستی رکھیں کہ سرکار انگریزی آپ کے حقوق اور آپ کی خاندانی خدمات کو ہرگز فراموش نہیں کرے گی.اور مناسب موقعوں پر آپ کے حقوق اور خدمات پر غور اور توجہ کی جائے گی.

Page 415

مجموعہ اشتہارات ۳۹۹ جلد دوم اور سرلیپل گرفن صاحب نے اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ہمارے خاندان کا ذکر کر کے میرے بھائی مرزا غلام قادر کی خدمات کا خاص کر کے ذکر کیا ہے جو اُن سے تِمو کے پل پر باغیوں کی سرزنش کے لئے ظہور میں آئیں.ان تمام تحریرات سے ثابت ہے کہ میرے والد صاحب اور میرا خاندان ابتداء سے سرکا را نگریزی کے بدل و جان ہوا خواہ اور وفادار رہے ہیں اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کے معزز افسروں نے مان لیا ہے کہ یہ خاندان کمال درجہ پر خیر خواہ سرکا را نگریزی ہے.اور اس بات کے یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی ان کرسی نشین رئیسوں میں سے تھے کہ جو ہمیشہ گورنری دربار میں عزت کے ساتھ بلائے جاتے تھے اور تمام زندگی اُن کو گورنمنٹ عالیہ کی خیر خواہی میں بسر ہوئی.(۲) دوسرا امر قابل گزارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ تا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیر خواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور اُن کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دُور کروں جو اُن کو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں.اور اس ارادہ اور قصد کی اوّل وجہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بصیرت بخشی اور اپنے پاس سے مجھے ہدایت فرمائی کہ تا میں ان وحشیانہ خیالات کو سخت نفرت اور بیزاری سے دیکھوں جو بعض نادان مسلمانوں کے دلوں میں مخفی تھے جن کی وجہ سے وہ نہایت بیوقوفی سے اپنی گورنمنٹ محسنہ کے ساتھ ایسے طور سے صاف دل اور سچے خیر خواہ نہیں ہو سکتے تھے جو صاف دلی اور خیر خواہی کی شرط ہے بلکہ بعض جاہل ملاؤں کے ورغلانے کی وجہ سے شرائط اطاعت اور وفاداری کا پورا جوش نہیں رکھتے تھے.سو میں نے نہ

Page 416

مجموعہ اشتہارات ۴۰۰ جلد دوم کسی بناوٹ اور ریا کاری سے بلکہ محض اس اعتقاد کی تحریک سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں ہے بڑے زور سے بار بار اس بات کو مسلمانوں میں پھیلایا ہے کہ اُن کو گورنمنٹ برطانیہ کی جو درحقیقت اُن کی محسن ہے سچی اطاعت اختیار کرنی چاہیے اور وفاداری کے ساتھ اُس کی شکر گزاری کرنی چاہیے ورنہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے.اور میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے دل پر میری تحریروں کا بہت ہی اثر ہوا ہے اور لاکھوں انسانوں میں تبدیلی پیدا ہوگئی.اور میں نے نہ صرف اسی قدر کام کیا کہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی اطاعت کی طرف جھکایا بلکہ بہت سی کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں تالیف کر کے ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطلع کیا کہ ہم لوگ کیونکر امن اور آرام اور آزادی سے گورنمنٹ انگلشیہ کے سایہ عاطفت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسی کتابوں کے چھانے اور شائع کرنے میں ہزار ہا روپیہ خرچ کیا گیا.مگر با ایں ہمہ میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھا اور درحقیقت وجود سلطنت انگلشیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک نعمت تھی جو مدت دراز کی تکلیفات کے بعد ہم کو ملی اس لئے ہمارا فرض تھا کہ اُس نعمت کا بار بار ا ظہار کریں.ہمارا خاندان سکھوں کے ایام میں ایک سخت عذاب میں تھا اور نہ صرف یہی تھا کہ انہوں نے ظلم سے ہماری ریاست کو تباہ کیا اور ہمارے صد ہادیہات اپنے قبضہ میں کئے بلکہ ہماری اور تمام پنجاب کے مسلمانوں کی دینی آزادی کو بھی روک دیا.ایک مسلمان کو بانگ نماز پر بھی مارے جانے کا اندیشہ تھا چہ جائیکہ اور رسوم عبادت آزادی سے بجا لا سکتے.پس یہ اس گورنمنٹ محسنہ کا ہی احسان تھا کہ ہم نے اس جلتے ہوئے تنور سے خلاصی پائی اور خدا تعالیٰ نے ایک ابر رحمت کی طرح اس گورنمنٹ کو ہمارے آرام کے لئے بھیج دیا

Page 417

مجموعہ اشتہارات ۴۰۱ جلد دوم پھر کس قدر بد ذاتی ہوگی کہ ہم اس نعمت کا شکر بجا نہ لاویں.اس نعمت کی عظمت تو ہمارے دل اور جان اور رگ وریشہ میں منقوش ہے اور ہمارے بزرگ ہمیشہ اس راہ میں اپنی جان دینے کے لئے طیار رہے.پھر نعوذ باللہ کیونکر ممکن ہے کہ ہم اپنے دلوں میں مفسدانہ ارادے رکھیں.ہمارے پاس تو وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ سے ہم اس آرام اور راحت کا ذکر کر سکیں جو اس گورنمنٹ سے ہم کو حاصل ہوئی ہماری تو یہی دُعا ہے کہ خدا اس گورنمنٹ محسنہ کو جزاء خیر دے اور اس سے نیکی کرے جیسا کہ اس نے ہم سے نیکی کی.یہی وجہ ہے کہ میرا باپ اور میرا بھائی اور خود میں بھی رُوح کے جوش سے اس بات میں مصروف رہے کہ اس گورنمنٹ کے فوائد اور احسانات کو عام لوگوں پر ظاہر کریں اور اس کی اطاعت کی فرضیت کو دلوں میں جما دیں.اور یہی وجہ ہے کہ میں اٹھارہ برس سے ایسی کتابوں کی تالیف میں مشغول ہوں کہ جو مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی محبت اور اطاعت کی طرف مائل کر رہے ہیں گواکثر جاہل مولوی ہماری اس طرز اور رفتار اور ان خیالات سے سخت ناراض ہیں اور اندر ہی اندر جلتے اور دانت پیستے ہیں.مگر میں جانتا ہوں کہ وہ اسلام کی اس اخلاقی تعلیم سے بھی بے خبر ہیں جس میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص انسان کا شکر نہ کرے وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرتا یعنی اپنے محسن کا شکر کرنا ایسا فرض ہے جیسا کہ خدا کا.یہ تو ہمارا عقیدہ ہے مگر افسوس کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس لمبے سلسلہ اٹھارہ برس کی تالیفات کو جن میں بہت سی پُر زور تالیفات اطاعت گورنمنٹ کے بارے میں ہیں کبھی ہماری گورنمنٹ محسنہ نے توجہ سے نہیں دیکھا اور کئی مرتبہ میں نے یاد دلایا مگر اُس کا اثر محسوس نہیں ہوا.لہذا میں پھر یاد دلاتا ہوں کہ مفصلہ ذیل کتابوں اور اشتہاروں کو توجہ سے دیکھا جائے اور وہ مقامات پڑھے جائیں جن کے نمبر صفحات میں نے ذیل میں لکھ دیئے ہیں.

Page 418

مجموعہ اشتہارات ۴۰۲ جلد دوم نمبر نام کتاب یا اشتہار تاریخ طبع نمبر صفحات براہین احمدیہ حصہ سوم ۱۸۸۲ء الف سے ب تک ( شروع کتاب ) براہین احمدیہ حصہ چہارم ۱۸۸۴ء الف سے دتک ايضاً نوٹس درباره تو سیع دفعه ۲۹۸ در کتاب آریه دهرم ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء ۵۷ سے ۶۴ تک آخر کتاب التماس درباره ايضاً ايضاً درخواست درباره ایضاً ایضاً خط درباره ایضاً آئینہ کمالات اسلام اعلان در کتاب نور الحق ايضا تمام اشتہار ہر چہار صفحہ آخر کتاب ايضا ۶۹ سے ۷۲ تک آخر کتاب ۲۱ اکتوبر ۱۸۹۵ء سے ۸ تک تمام علیحدہ اشتہار فروری ۱۸۹۳ء ۱۷ سے ۲۰ تک اور ۵۱۱ سے ۵۲۸ تک ۵۱۳۱۱ ۲۳ سی ۵۴ تک گورنمنٹ کی توجہ کے لائق در کتاب ۲۲ ستمبر ۱۸۹۳ء الف سے ع تک آخر کتاب شهادة القرآن نور الحق حصہ دوم ۱۳۱۱ھ ۴۹ سے ۵۰ تک ۱۳۱۲ھ اے سے ۷۳ تک ۱۳۱۱ھ ۲۵ سے ۲۷ تک سرالخلافہ ۱۲ اتمام الحجه ۱۳ حمامة البشری ۱۴ تحفہ قیصریہ ۱۵ است بچن ۱۶ انجام آتھم ايضاً ۳۹ سے ۴۲ تک ۲۵ مئی ۱۸۹۷ء تمام کتاب نومبر ۱۸۹۵ء ۱۵۳ سے ۱۵۴ تک اور ٹائٹل پیچ جنوری ۱۸۹۷ء ۲۸۳ سے ۲۸۴ تک آخر کتاب

Page 419

مجموعہ اشتہارات ۴۰۳ جلد دوم نمبر شمار نام کتاب یا اشتہار تاریخ طبع نمبر صفات ۱۷ سراج منیر ۱۸ تکمیل تبلیغ معه شرائط بیعت مئی ۱۸۹۷ء صفحه ۷۴ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء صفحه ۴ حاشیہ اور صفحہ ۶ شرط چہارم ۱۹ اشتہار قابل توجہ گورنمنٹ اور عام اطلاع کے لئے ۲۷ فروری ۱۸۹۵ء تمام اشتہار یکطرفه ۲۰ اشتہار درباره سفیر سلطانِ رُوم ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء اسے ۳ تک ۲۱ اشتہار جلسه احباب بر حبشن جو بلی به مقام قادیان ۱۲۳ جون ۱۸۹۷ء اسے ۴ تک ۲۲ اشتہار جلسہ شکریہ عبشن جو بلی حضرت قیصر دام ظلہا کے جون ۱۸۹۷ء تمام اشتہار یک ورق ۷ ۲۳ اشتہار متعلق بزرگ اخبار چودھویں والہ ۲۵ / جون ۱۸۹۷ء صفحه ها ۲۴ اشتہار لائق توجہ گورنمنٹ معہ ترجمہ انگریزی ۱۰ دسمبر ۱۸۹۲ء تمام اشتہارا سے ے تک ان کتابوں کے دیکھنے کے بعد ہر ایک شخص اس نتیجہ تک پہنچ سکتا ہے کہ جو شخص برابر اٹھارہ برس سے ایسے جوش سے کہ جس سے زیادہ ممکن نہیں گورنمنٹ انگلشیہ کی تائید میں ایسے پر زور مضمون لکھ رہا ہے اور اُن مضمونوں کو نہ صرف انگریزی عمل داری میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی شائع کر رہا ہے کیا اس کے حق میں یہ گمان ہو سکتا ہے کہ وہ اس گورنمنٹ محسنہ کا خیرہ خواہ نہیں؟ گورنمنٹ متوجہ ہو کر سوچے که یه مسلسل کارروائی جو مسلمانوں کو اطاعت گورنمنٹ برطانیہ پر آمادہ کرنے کے لئے برابر اٹھارہ برس سے ہورہی ہے اور غیر ملکوں کے لوگوں کو بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ ہم کیسے امن اور آزادی سے زیر سایه گورنمنٹ برطانیہ زندگی بسر کرتے ہیں.یہ کارروائی اور کس غرض سے ہے اور غیر ملک کے لوگوں تک ایسی کتابیں اور ایسے اشتہارات کے پہنچانے سے کیا مدعا تھا؟ گورنمنٹ تحقیق کرے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ہزاروں مسلمانوں نے جو مجھے کا فرقرار دیا اور مجھے اور میری جماعت کو جو ایک گروہ کثیر پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہے.ہر ایک طور کی بدگوئی اور بداندیشی سے ایذا دینا اپنا فرض سمجھا.اس تکفیر اور ایذا کا ایک مخفی سبب یہ ہے کہ ان

Page 420

مجموعہ اشتہارات ۴۰۴ جلد دوم نادان مسلمانوں کو پوشیدہ خیالات کے برخلاف دل و جان سے گورنمنٹ انگلشیہ کی شکر گزاری کے لئے ہزار ہا اشتہارات شائع کئے گئے اور ایسی کتابیں بلا د عرب و شام وغیرہ تک پہنچائی گئیں؟ یہ باتیں بے ثبوت نہیں.اگر گورنمنٹ توجہ فرماوے تو نہایت بد یہی ثبوت میرے پاس ہیں.میں زور سے کہتا ہوں اور میں دعوئی سے گورنمنٹ کی خدمت میں اعلان دیتا ہوں کہ باعتبار مذہبی اصول کے مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے گورنمنٹ کا اول درجہ کا وفادار اور جان شار یہی نیا فرقہ ہے جس کے اصولوں میں کوئی اصول گورنمنٹ کے لئے خطر ناک نہیں.ہاں اس بات کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ میں نے بہت سی مذہبی کتا بیں تالیف کر کے عملی طور پر اس بات کو بھی دکھلایا ہے کہ ہم لوگ سکھوں کے عہد میں کیسے مذہبی امور میں مجبور کئے گئے اور فرائض دعوت دین اور تائید اسلام سے روکے گئے تھے اور پھر اس گورنمنٹ مُحسنہ کے وقت میں کسی قدر مذہبی آزادی بھی ہمیں حاصل ہوئی کہ ہم پادریوں کے مقابل پر بھی جو گورنمنٹ کی قوم میں داخل ہیں پورے زور سے اپنی حقانیت کے دلائل پیش کر سکتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایسی کتابوں کی تالیف سے جو پادریوں کے مذہب کے رڈ میں لکھی جاتی ہیں گورنمنٹ کے عادلانہ اصولوں کا اعلیٰ نمونہ لوگوں کو ملتا ہے اور غیر ملکوں کے لوگ خاص کر اسلامی بلاد کے نیک فطرت جب ایسی کتابوں کو دیکھتے ہیں جو ہمارے ملک سے اُن ملکوں میں جاتی ہیں تو اُن کو اس گورنمنٹ سے نہایت اُنس پیدا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ گورنمنٹ در پردہ مسلمان ہے.اور اس طرح پر ہماری فلموں کے ذریعہ سے گورنمنٹ ہزاروں دلوں کو فتح کرتی جاتی ہے.دیسی پادریوں کے نہایت دل آزار حملے اور توہین آمیز کتا بیں در حقیقت ایسی تھیں کہ اگر آزادی کے ساتھ اُن کی مدافعت نہ کی جاتی اور ان کے سخت کلمات کے عوض میں کسی قدر مہذبانہ سختی استعمال میں آتی تو بعض جاہل جو جلد تر بدگمانی کی طرف جھک جاتے ہیں شاید یہ خیال کرتے کہ گورنمنٹ کو پادریوں کی خاص رعایت ہے.مگر اب ایسا خیال کوئی نہیں کر سکتا اور بالمقابل کتابوں کے شائع ہونے سے وہ اشتعال جو پادریوں کی سخت تحریروں سے پیدا ہونا ممکن تھا اندر ہی اندر دب گیا اور

Page 421

مجموعہ اشتہارات ۴۰۵ جلد دوم لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ نے ہر ایک مذہب کے پیرو کو اپنے مذہب کی تائید میں عام آزادی دی ہے جس سے ہر ایک فرقہ برابر فائدہ اُٹھا سکتا ہے.پادریوں کی کوئی خصوصیت نہیں.غرض ہماری بالمقابل تحریروں سے گورنمنٹ کے پاک ارادوں اور نیک نیتی کا لوگوں کو تجربہ ہو گیا.اور اب ہزار ہا آدمی انشراح صدر سے اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ درحقیقت یہ اعلیٰ خوبی اس گورنمنٹ کو حاصل ہے کہ اُس نے مذہبی تحریرات میں پادریوں کا ذرہ پاس نہیں کیا اور اپنی رعایا کو حق آزادی برابر طور پر دیا ہے.مگر تا ہم نہایت ادب سے گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ اس قدر آزادی کا بعض دلوں پر اچھا اثر محسوس نہیں ہوتا اور سخت الفاظ کی وجہ سے قوموں میں تفرقہ اور نفاق اور بغض بڑھتا جاتا ہے.اور اخلاقی حالات پر بھی اس کا بڑا اثر ہوتا ہے.مثلاً حال میں جو اسی ۱۸۹۷ء میں پادری صاحبوں کی طرف سے مشن پریس گوجرانوالہ میں اسلام کے رڈ میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام یہ رکھا ہے." امہات المومنین یعنی دربار مصطفائی کے اسرار کے وہ ایک تازہ زخم مسلمانوں کے دلوں کو پہنچانے والی ہے اور یہ نام ہی کافی ثبوت اس تازہ زخم کا ہے اور اس میں اشتعال دہی کے طور پر ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی ہیں اور نہایت دلآ زار کلے استعمال کئے ہیں.مثلاً اس کے صفحہ ۸۰ سطر ۲۱ میں یہ عبارت ہے ہے ” ہم تو یہی کہتے ہیں کہ محمد صاحب نے خدا پر بہتان باندھا زنا کیا اور اوس کو حکم خدا بتلایا.ایسے کلمات کس قد ر مسلمانوں کے دلوں کو دُکھا ئیں گے کہ اُن کے بزرگ اور مقدس نبی کو صاف اور صریح لفظوں میں زانی ٹھہرایا اور پھر دل دُکھانے کے لئے ہزار کا پی اس کتاب کی مسلمانوں کی طرف مفت روانہ کی گئی ہے.چنانچہ آج ہی کی تاریخ جو۵ ارفروری ۱۸۹۸ء ہے ایک جلد مجھ کو بھی بھیج دی ہے لیے حالانکہ میں نے طلب نہیں کی اور اس لے اس کتاب کو پر سوتم داس عیسائی نے گوجرانوالہ شعلہ طور پر لیس سے شائع کیا ہے.سے ہمارے بہت سے معزز دوستوں کے بھی اس بارے میں خطوط پہنچے ہیں کہ اُن کو مفت بلا طلب یہ کتاب بھیجی گئی ہے.

Page 422

مجموعہ اشتہارات ۴۰۶ جلد دوم کتاب میں یعنی صفحہ ۵ میں لکھ بھی دیا ہے کہ اس کتاب کی ایک ہزار جلد میں مفت بصیغہ ڈاک ایک ہزار مسلمانوں کی نذر کرتے ہیں اب ظاہر ہے کہ جب ایک ہزار مسلمان کو خواہ نخواہ یہ کتاب بھیج کر اُن کا دل دُکھایا گیا تو کس قدر نقض امن کا اندیشہ ہوسکتا ہے.اور یہ پہلی تحریر ی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی پادری صاحبوں نے بار بار بہت ہی فتنہ انگیز تحریریں شائع کی ہیں اور بے خبر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے وہ کتا میں اکثر مسلمانوں میں تقسیم کی ہیں جن کا ایک ذخیرہ میرے پاس بھی موجود ہے جن میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدکار ، زانی، شیطان، ڈاکو ، لٹیرا، دغاباز ، دجبال وغیرہ دل آزار ناموں سے یاد کیا ہے اور گو ہماری گورنمنٹ مُحسنہ اس بات سے روکتی نہیں کہ مسلمان بالمقابل جواب دیں لیکن اسلام کا مذہب کا مسلمانوں کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی مقبول القوم نبی کو بُرا کہیں بالخصوص حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت جو پاک اعتقاد عام مسلمان رکھتے ہیں اور جس قدر محبت اور تعظیم سے اُن کو دیکھتے ہیں وہ ہماری گورنمنٹ پر پوشیدہ نہیں.میرے نزدیک ایسی فتنہ انگیز تحریروں کے روکنے کے لئے بہتر طریق یہ ہے کہ گورنمنٹ حالیہ یا تو یہ تدبیر کرے کہ ہر ایک فریق مخالف کو ہدایت فرما دے کہ وہ اپنے حملہ کے وقت تہذیب اور نرمی سے باہر نہ جاوے اور صرف اُن کتابوں کی بناء پر اعتراض کرے جو فریق مقابل کی مسلم اور مقبول ہوں اور اعتراض بھی وہ کرے جو اپنی مسلم کتابوں پر وارد نہ ہو سکے.اور اگر گورنمنٹ عالیہ یہ نہیں کر سکتی تو یہ تدبیر عمل میں لاوے کہ یہ قانون صادر فرمادے کہ ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اور دوسرے فریق پر ہرگز حملہ نہ کرے.میں دل سے چاہتا ہوں کہ ایسا ہو اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ قوموں میں صلح کاری پھیلانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے مخالفانہ حملے روک دیئے جائیں.ہر ایک شخص صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے کا ذکر زبان پر نہ لاوے.اگر گورنمنٹ عالیہ میری اس درخواست کو منظور کرے تو میں یقیناً کہتا ہوں کہ چند سال میں تمام قوموں کے کینے دُور ہو جائیں گے اور بجائے بغض محبت پیدا ہو جائے گی.ورنہ کسی دوسرے قانون سے اگر چہ مجرموں سے تمام جیل خانے بھر جائیں

Page 423

مجموعہ اشتہارات ۴۰۷ مگر اس قانون کا اُن کی اخلاقی حالت پر نہایت ہی کم اثر پڑے گا.جلد دوم (۳) تیسرا امر جو قابل گذارش ہے یہ ہے کہ میں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیا کے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا میں پیشوا اور امام ہوں گورنمنٹ کے لئے ہر گز خطر ناک نہیں ہے اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی.جو ہدایتیں اس فرقہ کے لئے میں نے مرتب کی ہیں جن کو میں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مُرید کو دیا ہے کہ ان کو اپنا دستورالعمل رکھے.وہ ہدایتیں میرے اُس رسالہ میں مندرج ہیں جو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں چھپ کر عام مُریدوں میں شائع ہوا ہے جس کا نام تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت لے ہے جس کی ایک کاپی اسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی تھی.ان ہدایتوں کو پڑھ کر اور ایسا ہی دوسری ہدایتوں کو دیکھ کر جو وقتاً فوقتاً چھپ کر مُریدوں میں شائع ہوتی ہیں گورنمنٹ کو معلوم ہوگا کہ کیسے امن بخش اصولوں کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے اور کس طرح بار بار ان کو تاکیدیں کی گئی ہیں کہ وہ گورنمنٹ برطانیہ کے بچے خیر خواہ اور مطبع ر ہیں اور تمام بنی نوع کے ساتھ بلا امتیاز مذہب وملت کے انصاف اور رحم اور ہمدردی سے پیش آویں.یہ سچ ہے کہ میں کسی ایسے مہدی ہاشمی قرشی خونی کا قائل نہیں ہوں جو ے مسلمانوں کے اعتقاد میں بنی فاطمہ میں سے ہوگا اور زمین کو کفار کے خون سے بھر دے گا میں ایسی حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتا اور محض ذخیرہ موضوعات جانتا ہوں.ہاں میں اپنے نفس کے لئے اس مسیح موعود کا ادعا کرتا ہوں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح غربت کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور لے ان شرائط میں سے چند شرطوں کی یہاں نقل کی جاتی ہے.شرط دوم یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجو راور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا.اگر چہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے.شرط چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.شرط نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا دا طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دوسرے

Page 424

مجموعہ اشتہارات ۴۰۸ جلد دوم لڑائیوں اور جنگوں سے بیزار ہوگا اور نرمی صلح کاری اور امن کے ساتھ قوموں کو اس بچے ذوالجلال خدا کا چہرہ دکھائے گا جو اکثر قوموں سے چھپ گیا ہے.میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگجوئی اور فساد کا نہیں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مُرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے.میں بار بار اعلان دے چکا ہوں کہ میرے بڑے اصول پانچ ہیں اول یہ کہ خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک اور ہر ایک منقصت موت اور بیماری اور لاچاری اور درد اور دُکھ اور دوسری نالائق صفات سے پاک سمجھنا.دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ نبوت کا خاتم اور آخری شریعت لانے والا اور نجات کی حقیقی راہ بتلانے والے حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین رکھنا.تیسرے یہ کہ دین اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کرنا اور خیالات غازیانہ اور جہاد اور جنگجوئی کو اس زمانہ کے لئے قطعی طور پر حرام اور مقتنع سمجھنا اور ایسے خیالات کے پابند کو صریح غلطی پر قرار دینا.چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ محسنہ کی نسبت جس کے ہم زیر سایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اور خلوص دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا.پانچویں یہ کہ بنی نوع سے ہمدردی کرنا اور حتی الوسع ہر ایک شخص کی دُنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے کوشش کرتے رہنا اور امن اور صلح کاری کا مؤید ہونا اور نیک اخلاق کو دُنیا میں پھیلا نا.یہ پانچ اصول ہیں جن کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے.اور میری جماعت جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا جاہلوں اور وحشیوں کی جماعت نہیں ہے بلکہ اکثر اُن میں سے اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور علوم مروجہ کے حاصل کرنے والے اور سرکاری معزز عہدوں پر سرافراز ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے چال چلن اور اخلاق فاضلہ میں بڑی ترقی کی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ تجربہ کے وقت سرکار انگریزی ان کو اول درجہ کے خیر خواہ پائے گی.لے اس جہاد کے برخلاف نہایت سرگرمی سے میرے پیر و فاضل مولویوں نے ہزاروں آدمیوں میں تعلیم کی ہے اور کر رہے ہیں جس کا بہت بڑا اثر ہوا ہے.منہ

Page 425

مجموعہ اشتہارات ۴۰۹ جلد دوم (۴) چوتھی گزارش یہ ہے کہ جس قدر لوگ میری جماعت میں داخل ہیں اکثر اُن میں سے سرکار انگریزی کے معزز عہدوں پر ممتاز اور یا اس ملک کے نیک نام رئیس اور ان کے خدام اور احباب اور یا تاجر اور یا وکلاء اور یا نو تعلیم یافتہ انگریزی خوان اور یا ایسے نیک نام علماء اور فضلاء اور دیگر شرفاء ہیں جو کسی وقت سرکا را نگریزی کی نوکری کر چکے ہیں یا اب نوکری پر ہیں یا اُن کے اقارب اور رشتہ دار اور دوست ہیں جو اپنے بزرگ مخدوموں سے اثر پذیر ہیں اور یا سجادہ نشینان غریب طبع.غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سر کار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہیں اور یا وہ لوگ جو میرے اقارب یا خدام میں سے ہیں.ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد علماء کی ہے جنہوں نے میری اتباع میں اپنے وعظوں سے ہزاروں دلوں میں گورنمنٹ کے احسانات جمادیئے ہیں.اور میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اُن میں سے اپنے چند مریدوں کے نام بطور نمونہ آپ کے ملاحظہ کے لئے ذیل میں لکھ دوں.(۵) میرا اس درخواست سے جو حضور کی خدمت میں مع اسماء مریدین روانہ کرتا ہوں مدعا بیہ ہے کہ اگر چہ میں ان خدمات خاصہ کے لحاظ سے جو میں نے اور میرے بزرگوں نے محض صدق دل اور اخلاص اور جوش وفاداری سے سرکار انگریزی کی خوشنودی کے لئے کی ہیں عنایت خاص کا مستحق ہوں لیکن یہ سب امور گورنمنٹ عالیہ کی توجہات پر چھوڑ کر بالفعل ضروری استغاثہ یہ ہے کہ مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بداندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امور گورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں.اس لئے اندیشہ ہے کہ اُن کی ہر روز کی مفتریانہ کاروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہو کر وہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم میرزا غلام مرتضی اور میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی جن کا تذکرہ سرکاری چٹھیات اور سرلیپل گرفن کی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور نیز میری قلم کی وہ خدمات جو میرے اٹھارہ سال کی تالیفات سے ظاہر ہیں سب کی سب ضالع اور برباد نہ جائیں

Page 426

مجموعہ اشتہارات ۴۱۰ جلد دوم اور خدانخواستہ سرکار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار اور خیر خواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے.اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں.صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جان شار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں.ہمارے خاندان نے سرکا رانگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے.لہذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولتمدار کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں تا ہر ایک شخص بے وجہ ہماری آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے.اب کسی قدر اپنی جماعت کے نام ذیل میں لکھتا ہوں.جن کے خاندان کی خدمات گورنمنٹ عالیہ کو معلوم ہیں.خان صاحب نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ۳ مرزا خدا بخش صاحب ایچ پی سابق مترجم چیف کورٹ پنجاب حال تحصیلدار علاقہ نواب محمد علی خان صاحب ریاست مالیر کوٹلہ منشی نبی بخش صاحب سب ہیڈ دفتر اگزیمینز ریلوے لاہور با بو عبد الرحمن صاحب کلرک دفتر لوک محکمہ ریلوے لاہور پینشنر ڈپٹی کلکٹر ونائب مدار المهام ریاست بھوپال جن ۶ مولوی سید تفضل حسین صاحب ڈپٹی کلکٹر علی گڑھ ضلع فرخ آباد کی نمایاں خدمات پر سرکار سے لقب عطا ہوا اور ۷ میاں چراغ دین صاحب پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ مولوی سید محمد عسکری خان صاحب رئیس کٹر ضلع الہ آباد چٹھیات خوشنودی ملیں.پنجاب و رئیس لاہور

Page 427

مجموعہ اشتہارات ۴۱۱ جلد دوم قاضی غلام مرتضی صاحب پینشنر اکسٹرا اسٹنٹ مظفر گڑھ ۳۲ مولوی محمد علی صاحب ایم اے پروفیسر اور نینٹل کالج لاہور و منشی عبد العزیز صاحب ملازم محکمه بنده بست ضلع گورداسپور ۳۳ سید فصیلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر ضلع گوجرانوالہ ۱۱ ۱۲ ڈاکٹر سید منصب علی صاحب پنشنز الہ آباد ۳۴ میاں محمد نواب خان صاحب تحصیلدار جہلم منشی حمید الدین صاحب ملازم محکمہ پولیس ضلع لود بیانه ۳۵ میاں عبداللہ صاحب پٹواری ریاست پٹیالہ منشی تاج دین صاحب اکوٹنٹ محکمہ ریلوے لاہور ۳۶ سید امیر علی شاہ صاحب ملازم پولیس سیالکوٹ ۱۳ با بوحمد صاحب ہیڈ کلرک دفتر سپرنٹنڈنگ انجینر محکمہ انہار انبالہ ۳۷ سید ناصر شاہ صاحب سب او در سیر کشمیر ۱۴ ڈاکٹر بوڑے خان صاحب ایل ایم ایس انچارج شفاخانہ قصور ۳۸ پیرزادہ قمر الدین صاحب تحصیلدار راولپنڈی محمد افضل خان صاحب سواران رسالہ نمبر ۱ اترب ۸ ۳۹ سید عبدالہادی صاحب سب اوور سیر ملٹری ورکس سولن ۱۶ گامے خان صاحب جو اب سرحدی خدمات پر ۴۰ ماسٹر قا در بخش صاحب مدرس لدھیانہ ۱۵ مامور ہیں.۴۱ منشی عزیز اللہ صاحب پوسٹماسٹر نا دون ضلع کانگڑہ ۱۷ امام بخش خان صاحب ۱۸ خواجہ جمال الدین صاحب بی اے پر نیل سری رنبیر کا لج جموں ۴۲ سید رمضان علی صاحب پنشنز ڈ پٹی انسپکٹر پولیس الہ آباد ۱۹ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ایل ایم ایس متعینہ ۲۳ منشی گلاب دین صاحب مدرس رہتاس ضلع جہلم خدمات خاص بندر عباس ملک ایران ۴۴ منشی محمد نصیر الدین صاحب پیشکار ریونیو بورڈ ۲۰ ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب ایم بی اسٹنٹ سول سرجن ریاست پٹیالہ ریاست حیدر آباد دکن ۲۱ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ایل ایم ایس سول سرجن ۴۵ چودھری نبی بخش صاحب سارجنٹ پولیس سیالکوٹ چکراتہ متعینه خدمات خاص ۴۶ حافظ محمد اسحاق صاحب اوور سیر یوگنڈا ریلوے ۲۲ ڈاکٹرمحمد اسماعیل خان صاحب متعینہ خدمات خاص مشرقی افریقہ ۴۷ منشی احمد الدین صاحب نقشہ نویس ملٹری آفس پشاور ۲۳ منشی محمد علی صاحب صوفی ملازم دفتر ریلوے لاہور ۴۸ محمد الدین صاحب ملازم پولیس سیالکوٹ ۲۴ ماسٹر غلام محمد صاحب بی اے سیالکوٹ ۴۹ با بو غلام محمد صاحب سٹیشنری کلارک ریلوے آفس لاہور ۲۵ منشی قائم الدین صاحب بی اے سیالکوٹ ۵۰ منشی عطا محمد صاحب سب اوور سیر فیلڈ فوسٹ فرانٹیر ۲۶ منشی محمد اسماعیل صاحب نقشہ نویس کا لکا ریلوے ۵۱ با بو غلام محی الدین صاحب گڈ ز کلرک پھلور ۲۷ قاضی یوسف علی صاحب ملازم پولیس ریاست جیند ۱۵۲ با بونوراحمد صاحب سٹیشن ماسٹر ٹائی پور ۲۸ میاں محمد خان صاحب ملازم ریاست کپورتھلہ ۵۳ منشی نورالدین صاحب ڈرافس مین گوجرانوالہ ۲۹ منشی فیاض علی صاحب محرر ریاست را ۱۵۴ با بو چراغ دین صاحب سٹیشن ماسٹرلنیه ۳۰ منشی گوہر علی صاحب سب پوسٹماسٹر جالندھر ۵۵ مرزا غلام رسول صاحب ٹیلیگراف آفس کرانچی ۳۱ ڈاکٹر عبدالشکور صاحب سرسہ ۵۶ مرزا امین بیگ صاحب سوار ریاست جے پور

Page 428

مجموعہ اشتہارات ۴۱۲ جلد دوم ۵۷ منشی عبد الرحمن صاحب ملازم ریاست کپورتھلہ ۸۲ مولوی عزیز بخش صاحب بی اے ریکارڈ کیپر ضلع ڈیرہ ۵۸ مرزا کبیر بیگ سارجنٹ درجہ اول حصار ۵۹ ۶۰ ۶۱ اسماعیل خان.سید جیون علی صاحب اکو نٹنٹ محکمہ پولیس الہ آباد ۸۳ ڈاکٹر فیض قادر صاحب ویٹر نیری اسٹنٹ ریاست کپورتھلہ سید فرزند علی صاحب ملازم پولیس الہ آباد ۴ مولوی عبداللہ صاحب پروفیسر مہندر کالج ریاست پٹیالہ سید دلدار علی صاحب اکومنٹسٹ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ ۸۵ مولوی مرزا صادق علی بیگ صاحب معتمد مصارف پولیس الہ آباد ریاست حیدر آباد دکن و استاد مدار المهام صاحب بہادر ۶۲ میاں عبد القادر خان صاحب مدرس ضلع لدھیانہ ریاست مذکور ۶۳ مرزا نیاز بیگ صاحب پنشنر ضلع دار رئیس کلانور ۸۶ مولوی محمد صادق صاحب مولوی فاضل و منشی فاضل ۶۴ مولوی سلطان محمود صاحب اکوٹنٹ میلا پور مدراس ملازم ہائی سکول جموں.۶۵ مولوی عبد الرحمن صاحب ملازم دفتر ضلع جھنگ ۸۷منشی غلام محمد صاحب دفتر پولیٹیکل ایجنٹ گلگت منشی مولا بخش صاحب کلارک ریلوے لاہور ڈاکٹر رحمت علی صاحب ممباسہ یوگنڈا ریلوے ۶۷ با بومحمد افضل صاحب کلرک ممباسہ یوگنڈا ریلوے ۸۹ شیخ محمد اسماعیل صاحب نقشہ نویس محکمہ ریلوے دہلی منشی روشن دین صاحب سٹیشن ماسٹر ڈنڈوت جہلم شیخ فتح محمد صاحب ڈپٹی انسپکٹر کشتواڑ میاں کریم اللہ صاحب سارجنٹ پولیس جہلم ۹۱ مولوی صفدر علی صاحب مہتم محکمہ تعمیرات ۶۸ حبیب اللہ صاحب مرحوم محافظ دفتر پولیس جہلم حافظ فضل احمد صاحب اگزیمینز آفس لاہور ۹۰ ۹۲ ریاست حیدر آباد دکن حافظ محمد صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریاست جموں ۷۲ منشی اروڑا صاحب نقشہ نویس مجسٹریٹی ریاست کپورتھلہ ۹۳ شیخ عبدالرحمن صاحب بی اے مترجم ڈویز نل کورٹ ملتان مولوی وزیر الدین صاحب مدرس کانگڑہ ۷۴ منشی نواب الدین صاحب ہیڈ ماسٹر دینا انگر ۷۵ منشی شاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر دینا ضلع جہلم ۷۶ مولوی احمد جان صاحب مدرس گوجرانوالہ منشی فتح محمد صاحب بز دار اسٹنٹ پوسٹماسٹر ڈیرہ اسماعیل خاں ۹۴ مولوی ابو عبد العزیز محمد صاحب دفتر پنجاب یونیورسٹی ۹۵ ڈاکٹر ظہوراللہ احمد صاحب سول سرجن ریاست حیدر آباد دکن ۹۶ | ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ہوس سرجن ہسپتال ۷۸ میر ذوالفقار علی صاحب ضلعدار نہر سنگرور ۹۷ منشی غلام حیدر صاحب ڈپٹی انسپکٹر ناروال ضلع سیالکوٹ ۷۹ منشی و زیر خان صاحب سب اوور سیر بلب گڑھ ۹۸ منشی جلال الدین صاحب پینشنز میں منشی رجمنٹ نمبر ۱۲ منشی گلاب خاں صاحب سب او در سیر ملٹری ورکس ۹۹ مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست ۸۱ صادق حسین صاحب وکیل مرحوم اٹا وہ شیخ عبد الرحیم صاحب سابق لیس دفعدار رسالہ نمبر ۱۲

Page 429

مجموعہ اشتہارات ۱۰۱ سید میر ناصر نواب صاحب پنشنز نقشه نویس ۱۰۲ سید حامد شاہ صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ دفتر ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ.۴۱۳ ± ۱۲۳ منشی محمد یوسف صاحب نائب تحصیلدار کو ہاٹ جلد دوم منشی رجب علی صاحب پنشنر سا کن جھونسی کہنہ الہ آباد ۱۲۴ منشی قادر علی صاحب کلرک مدراس ۱۰ چودھری رستم علی صاحب کو رٹ انسپکٹر دہلی ۱۲۵ منشی سراج الدین صاحب تر مل کھیٹری کلرک مدراس ۱۰۴ ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب نائب سپرنٹنڈنٹ ۱۲۶ مولوی عبد القادر صاحب مدرس جمال پور او د یا نه لیونٹک اسائلم لا ہور ۱۷ شیخ کرم الہی صاحب کلرک ریلوے پٹیالہ ۱۲۸ منشی امانت خان صاحب نادون کانگڑہ ۱۰۵ | ڈاکٹر محبوب علی صاحب ہاسپٹل اسٹنس ۱۲۹ مولوی عنایت اللہ صاحب مدرس مانا نوالہ ۱۰۶ منشی اللہ دا دصاحب کلرک دفتر رجسٹرار چھاؤنی شاہ پور ۱۳۰ خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ایل ایل بی پلیڈر با بومحمد عظیم صاحب کلرک دفتر ریلوے لاہور لا ۱۰۸ | منشی زین الدین محمد ابراہیم صاحب انجینئر بمبئی ۱۰۹ با بوعلی احمد صاحب ریلوے آفس لا ہور منشی محمد الدین صاحب پٹواری بلانی تحصیل کھاریاں میاں مولا دا د صاحب سر و سیر ریلوے ۱۱۲ مولوی سید محمد احسن صاحب سابق منشی و اسریگل ۱۳۱ منشی صادق حسین صاحب مختار عدالت انا وہ ۱۳۲ مولوی ابوالحمید صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن ۱۳۳ مولوی سید محمد رضوی صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن ۱۳۴ محمد یعقوب صاحب معلم یورپین ڈیرہ دون ۱۳۵ مرز افضل بیگ صاحب مختار عدالت قصور ضلع لاہور باڈی گارڈ وہ تم مصارف ریاست بھوپال رئیس امروہہ ۱۳۹ منشی محمد الدین صاحب اپیل نویس سیالکوٹ منشی عطا محمد صاحب سب اور سیر میونسپل کمیٹی سیالکوٹ ۱۱۴ میاں جان محمد صاحب مرحوم قا دیان ۱۱۵ منشی محمد سعید صاحب ٹیلیگراف ماسٹر ز خاندان حکماء شاہی ١١٦ حکیم محمد حسین صاحب کو چه کند دیگران لاہور ۱۷ حکیم محمد حسین صاحب بھائی دروازہ لاہور ۱۳۷ منشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس کپورتھلہ ۱۳۸ سید مولوی ظهور علی صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدرآباد دکن ۱۳۹ چودھری شہاب الدین صاحب بی اے.ایل ایل بی کلاس لاہور ۱۴۰ مولوی محمد اسماعیل صاحب وکیل فتح گڑھ ضلع فرخ آباد ۱۱۸ میر مردان علی صاحب مہتم دفتر اکومنٹنٹ جنرل ۱۴۱ سردار محمد جلال الدین خاں صاحب آنریری مجسٹریٹ 119 ریاست حیدر آباد گوجرانوالہ ۱۱۹ منشی عبدالعزیز صاحب محافظ دفتر نهر جمن غربی دہلی ۱۴۲ مولوی غلام حسین صاحب سب رجسٹرار پشاور ۱۲۰ با بو مهتاب الدین صاحب ریلیونگ سٹیشن ماسٹر ۱۴۳ راجه پاینده خان صاحب رئیس دارا پور ضلع جہلم ۱۴۴ میاں سراج دین صاحب رئیس کوٹ سراج دین ۱۲۱ نارتھ ویسٹرن ریلوے.مولوی فتح محمد صاحب اول مدرس مدرسہ خانقاہ ڈوگراں گوجرانوالہ

Page 430

مجموعہ اشتہارات ۴۱۴ جلد دوم ۱۴۵ سردار محمد باقر خان صاحب قزلباش خلف الصدق ۱۶۶ چودھری نبی بخش صاحب رئیس بٹالہ سردار محمد اکبر خان صاحب مرحوم سابق تحصیلدار کانگڑہ ۱۶۷ شہزادہ عبدالمجید خاں صاحب لودھیانہ ۱۴۶) راجہ عبداللہ خان صاحب رئیس ہریانہ برادر محمد نواب ۱۶۸ مولوی برہان الدین صاحب گھگھر، جہلم ۱۶۹ میاں غلام دستگیر صاحب سلوتری میلا پور مدراس خان صاحب تحصیلدار جہلم ۱۴۷ میاں معراج الدین صاحب رئیس لاہور از خاندان ۱۷۰ مولوی عبدالکریم صاحب خلف الرشید میاں محمد سلطان میاں محمد سلطان صاحب مرحوم رئیس اعظم لاہور صاحب میونسپل کمشنر لو دھیانہ ۱۴۸ مفتی محمد صادق صاحب رئیس بھیرہ ۱۷۱ منشی قمر الدین صاحب مدرس آریہ سکول لدھیانہ ۱۴۹ مرزا محمد یوسف بیگ صاحب رئیس سامانہ پٹیالہ ۱۷۲ منشی رحیم بخش صاحب میونسپل کمشنر لودھیا نه ۱۵۰ مولوی حکیم نورالدین صاحب رئیس بھیرہ سابق ۱۷۳ پیر جی خدا بخش صاحب مرحوم تا جر ڈیرہ دون طبیب شاہی ریاست جموں و کشمیر ۱۷۴ شیخ چراغ علی صاحب نمبر دارتھ غلام نبی گورداسپور ۱۵۱ نواب سراج الدین صاحب از خاندان ریاست لوہارو ۱۷۵ مرزا ایوب بیگ صاحب خلف الرشید مرز نیاز بیگ ۱۵۲ سردار عبد العزیز خان صاحب قزلباش خلف الرشید جرنیل صاحب رئیس کلانور عبد الرحمن خان صاحب قزلباش ملازم سردار ایوب خان صاحب ۱۷۶ شیر محمد خاں صاحب رئیس بھکر محمڈن کالج علی گڑھ ۱۵۳ راجه عطاء اللہ خان صاحب رئیس یاڑی پور کشمیر ۱۷۷ حافظ عبدالعلی صاحب محمڈن کالج علی گڑھ ۱۵۴ مفتی فضل الرحمن صاحب رئیس بھیرہ ۱۷۸ مولوی محمود حسن خان صاحب مدرس پٹیالہ ۱۵۵ صاحبزادہ سراج الحق صاحب جمالی نعمانی رئیس سرساوه ۱۷۹ منشی عبدالرحمن صاحب سنوری پٹواری پٹیالہ ۱۵۶ حافظ فتح الدین صاحب نمبر دار مرار ریاست کپورتھلہ ۱۸۰ شیخ رحمت اللہ صاحب جنرل مرچنٹ مالک ہمیئی ہوں لاہور ۱۵۷ میاں شرف الدین صاحب نمبر دار کو ٹلہ فقیر ضلع جہلم ۱۸۱حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا ساجن کمپنی مدراس ۱۵۸ میاں محمد خان صاحب نمبر دار جستر وال ضلع امرتسر ۱۸۲ خلیفہ رجب الدین صاحب تاجر لاہور ۱۵۹ مخدوم محمد صدیق صاحب رئیس ضلع شاہ پور ۱۸۳) چودھری محمد سلطان صاحب تاجر د میونسپل کمشنر سیالکوٹ ۱۲۰ سیدمحمد انوار حسین خان صاحب رئیس شاه آباد ضلع ہردوئی ۱۸۴ سیٹھ صالح محمد صاحب تا جر مدراس ۱۶۱ حاجی حافظ مولوی فضل الدین صاحب رئیس بھیرہ و تاجر ۱۸۵ میاں محمد اکبر صاحب ٹھیکہ دار چوب بٹالہ ۱۶۲ حکیم سید حسام الدین صاحب رئیس سیالکوٹ ۱۸۶) سیٹھ اسماعیل آدم صاحب امبر یلا مرچنٹ بمبئی ۱۹۳ منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور.کپورتھلہ ۱۸۷ میاں نبی بخش صاحب تاجر پشمینہ در فوگر امرتسر تاجر ۱۹ مرزا رسول بیگ صاحب رئیس کلانور ۱۸۸ سیٹھ اسحاق حاجی محمد صاحب تاجر مدراس ۱۶۵ حکیم فضل الہی صاحب رئیس کوٹ بھوانی داس ۱۸۹ قاضی خواجہ علی صاحب ٹھیکہ دار شکرم لدھیانہ

Page 431

مجموعہ اشتہارات ۱۹۰ منشی محمد جان صاحب تاجر وزیر آباد ۴۱۵ ۲۱۱ احمد دین و محمد بخش تاجران ملتان ۱۹۱ سیٹھ دال جی لال جی صاحب جنرل مرچنٹ مدراس ۲۱۲ میاں قطب الدین صاحب مس گر امرتسر ۱۹۲ سیٹھ موسیٰ صاحب جنرل مرچنٹ اینڈ کمیشن ایجنٹ ۲۱۳ تاج محمد خاں صاحب کلرک میونسپل کمیٹی لو دھیانہ جلد دوم ۱۹۳ جمال الدین صاحب و امام الدین و خیر الدین تاجران سیکھواں ۲۱۴ میاں چراغ الدین صاحب ٹھیکہ دار گجرات شیخ کرم الہی صاحب ایجنٹ شیخ محمد رفیع برا در جنرل (۲۱۵) منشی عطا محمد صاحب تا جر واسٹامپ فروش چنیوٹ ۲۱۶ میاں عبد الخالق صاحب دو کاندا را مرتسر ۱۹۴ مرچنٹ لاہور.۱۹۵ حاجی مهدی بغدادی صاحب انڈیگو مرچنٹ مدراس ۲۱۷ میاں محمد امین صاحب تاجر کتب جہلم ۱۹۶ خواجہ عزیز الدین صاحب تا جر لاہور ۲۱۸ شیخ غلام نبی صاحب تاجر راولپنڈی ۱۹۷ سیٹھ احمد عبدالرحمن صاحب فرم آف ساجن کمپنی ۲۱۹ منشی محمد ابراہیم صاحب تا جر گبرون لدھیانہ ۲۲۰ سیٹھ محمد یوسف صاحب حاجی اللہ رکھا مدراس مدراس ۱۹۸) خواجہ غلام محی الدین صاحب سود اگر پشمینہ کلکتہ کولوٹولہ ۲۲۱ ڈاکٹر نور محمد صاحب پروپرائٹر شفاخانہ وایڈیٹر رسالہ ہمدر د صحت لاہور ۱۹۹ شیخ نوراحمد صاحب سود اگر چرم مدراس شیخ مولا بخش صاحب سوداگر چرم ڈنگہ ۲۲۲ مولوی حکیم نور محمد صاحب مالک شفاخانه نوری رئیس ۲۰۰ ۲۰۱ خلیفہ نورالدین صاحب تاجر جموں ۲۰۲ میاں جیون بٹ صاحب سوداگر پشمینہ امرتسر ۲۰۳ میاں محمد اسماعیل صاحب سود اگر پشمینہ امرتسر ۲۰۴ سید فضل شاہ صاحب ٹھیکہ دار دو میل سڑک کشمیر ۲۰۵ میاں محمد عمر صاحب تاجر ورئیس شوپیاں کشمیر ۲۰۶ ڈاکٹر مراد بخش صاحب پروپرائیٹر نیومیڈیکل ہال کمرشیل بلڈنگ لاہور موکل ضلع لاہور ۲۲۳ شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹا خبار الحکم قادیان ۲۲۴ مولوی عبدالحق صاحب ایڈیٹر نسیم صبا بنگلور ۲۲۵ شیخ نوراحمد صاحب ما لک مطبع ریاض ہندا مرتسر ۲۲۶ مولوی قطب الدین صاحب واعظ اسلام بدوملی ۲۲۷ مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب چھاؤنی سیالکوٹ ۲۲۸ حکیم مولوی سید حبیب شاہ صاحب خوشاب ۲۲۹ صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لودیا نہ خلف الرشید ا خویم ۲۰۷ میاں سلطان بخش صاحب تاجر و روب میکر پنجاب حضرت منشی حاجی احمد جان صاحب مرحوم یونیورسٹی کمرشیل بلڈنگ لاہور ۲۰۸ میاں امام الدین صاحب پروپرائٹر و تاجر ۲۳۰ صاحبزادہ منظور محمد صاحب سابق اہلمد پولیس دفتر کونسل جموں.۲۰۹ سیٹھ علی محمد صاحب حاجی اللہ رکھا جنرل مرچنٹ بنگلور ۲۳۱ قاضی زین العابدین صاحب خانپور ریاست پٹیالہ ۲۱۰ میاں محمدالدین صاحب تاجرو پروپرائٹر شومینگ جموں ۲۳۲ شاہ رکن الدین احمد صاحب سجادہ نشین کر ضلع الہ آباد

Page 432

مجموعہ اشتہارات ۴۱۶ جلد دوم ۲۳۳ مولوی عبدالرحیم صاحب بنگلور ۲۵۶ شیخ حامد علی صاحب زمیندار تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور ۲۳۴ مولوی عبدالحکیم صاحب د بادار علاقہ بمبئی ۲۵۷ مولوی محمد فضل صاحب چنکوی ضلع راولپنڈی ۲۵۸ ڈاکٹر فیض احمد صاحب ویکسی نیٹر ضلع ہزارہ ۲۳۵ مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین منی پور آسام ۲۳۶ ۲۳۹ رحمن شاہ صاحب ناگپور ضلع چانده ۲۵۹ حافظ علاءالدین صاحب کامل پورراولپنڈی ۲۶۰ میاں غلام حسین صاحب رہتاسی قادیاں ۲۳۷ حاجی عبد الرحمن صاحب مرحوم لودھیانہ ۲۶۱ مولوی عبد القادر صاحب لو دھیانہ ۲۳۸ مولوی محمد حسین صاحب ریاست کپورتھلہ ۲۶۲ حکیم محمد حسین صاحب مدرس اسلامیہ سکول راولپنڈی شیخ مولوی فضل حسین صاحب احمد آبادی جہلم ۲۶۳ خوشحال خان صاحب رئیس بار یکاب ضلع راولپنڈی ۲۴۰ قاضی محمد یوسف صاحب قاضی کوٹ گوجرانوالہ ۲۶۴ منشی خادم حسین صاحب مدرس مدرسه اسلامیه // ۲۴ حافظ عبدالرحمن صاحب وکیل مدرسه انور الرحمن ملتان ساکن بٹالہ ۲۶۵ قاضی غلام حسین صاحب کلرک دفتر اگیز یمز ریلوے ر مولوی رحیم اللہ صاحب مرحوم لاہور ۲۴۲ مستری حاجی عصمت اللہ صاحب اودیانہ ۲۶۶ لاہور حافظ حکیم قا در بخش صاحب احمد آباد ضلع جہلم ۲۴۳ حاجی محمد امیر خان صاحب مہتم گاڑی شکرم سہارنپور ۲۶۷ میاں قطب الدین صاحب ساکن کو ٹلہ فقیر جہلم ۲۴۴ مولوی محمد افضل صاحب ساکن کملہ ضلع گجرات ۲۶۸ قاضی عبدالوہاب خان صاحب نائب قاضی ضلع ۲۴۵ مولوی محمد اکرم صاحب فرزند رشید ایضاً بلاسپور ممالک متوسط ۲۶۹ حافظ حاجی احمد اللہ خاں صاحب مدرس مدرسه ۲۴۶ مولوی خان ملک صاحب موضع کھیوال ضلع جہلم تعلیم الاسلام قادیان ۲۴۷ مولوی عبدالرحمن صاحب خلف الرشيد ايضاً ۲۷۰ غلام محی الدین صاحب عرضی نویس جہلم ۲۴۸ سید احمد علی شاہ صاحب سفید پوش ضلع سیالکوٹ ۲۷۱ عبدالرحمن پٹواری سنام ریاست پٹیالہ ۲۴۹ سید احمد حسین صاحب طبیب گوالیار منشی باشم علی برنالہ ریاست پٹیالہ ۲۵۰ حکیم محمد حسین صاحب طبیب ریاست گوالیار ۲۷۳ عبدالحق صاحب ٹیچر بٹالہ ۲۵۱ با بونورالدین صاحب نقشه نویس پبلک ورکس گوجرانواله ۲۷۴ منشی کرم الہی صاحب مدرس نصرت اسلام لاہور ۲۵۲ شیخ ہدایت اللہ صاحب تاجر پشاور ۲۷۵ خطیب نعمت علی صاحب اپیل نویس بٹالہ ۲۷۶ میاں کرم الہی صاحب کنسٹبل پولیس لود یا نہ ۲۵۳ میاں فضل الہی صاحب نمبر دار فیض اللہ چک گورداسپور ۲۵۴ احمد علی صاحب نمبر دار وزیر چک ۲۵۵ // ۲۷۷ منشی امام الدین صاحب پٹواری لوچپ ۲۷۸ منشی رحیم الدین صاحب حبیب والہ ضلع بجنور مولوی غلام ام مصطفی صاحب پروپرائٹر شعلہ نور پریس بٹالہ ۲۷۹ امام الدین صاحب کمپونڈ ر شفاخانہ لالہ موسیٰ

Page 433

۴۱۷ مجموعہ اشتہارات ۲۸۰ شیخ عبداللہ دیوان چند ناظم شفاخانہ حمایت اسلام لاہور ۳۰۰ محمد علی شاہ مدرس غوطہ سیالکوٹ ۲۸۱ حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک گورداسپور ۳۰۱ عبد المجید صاحب محرر لوکل فنڈ پٹھان کوٹ ۲۸۲ حافظ غلام محی الدین صاحب بھیروی قادیان ۳۰۲ محمد خاں صاحب محرر جیل راولپنڈی مسیح اللہ خاں صاحب ملازم اگر کٹو انجینئر صاحب ملتان ۳۰۳ محمد اکبر خان صاحب سنور پٹیالہ ۱۲۸۳ // جلد دوم ۲۸۴ مولوی سردار محمد صاحب برادر زاده مولوی صاحب ۳۰۴ مولوی محمد یوسف صاحب مدرس سنور حکیم نورالدین صاحب بھیرہ ۳۰۵ محمد حسن خان صاحب رئیس سنور ۲۸۵ منشی اللہ دتا صاحب یورپین ٹیچر سیالکوٹ ۳۰۶ میاں کریم بخش صاحب مرحوم جمال پوری سابق مرید ۲۸۶ را جہ غلام حیدرخان صاحب رئیس یا ڈی پور کشمیر گلاب شاہ مجذوب پیشگوئی واله در کتاب نشان آسمانی ۲۸۷ مولوی نظام الدین صاحب رنگ پور ضلع مظفر گڑھ ۳۰۷ ملا نظام الدین صاحب کتب فروش لود یا نه ۲۸۸ مولوی جمال الدین صاحب سید واله منٹگمری ۳۰۸ میاں اللہ دیا صاحب واعظ لودیا نہ ۲۸۹ میاں عبداللہ صاحب زمیندار ٹھٹھہ سفیر کا رر ۳۰۹ میاں شہاب الدین صاحب پینشنر باجه واله لود یا نه ۲۹۰ میاں سراج الدین صاحب عطا ر سر ہند ۳۱۰ احمد جان صاحب خیاط پیشاور محمد حیات صاحب سارجنٹ پولیس سیالکوٹ ۳۱۱ میاں محمد اسماعیل صاحب سرساوه ۲۹۲ منشی نیا ز علی صاحب ۲۹۳ محمد الدین صاحب کنسٹبل // // // ۲۹۴ حکیم احمد الدین صاحب نقل نویس ۲۹۵) ڈاکٹر کریم بخش ہاسپٹل اسٹنٹ.۲۹۶ حافظ محمد قاری صاحب جہلم ۲۹۷ میاں نجم الدین صاحب تاجر کتب بھیرہ " ۳۱۲ غلام محی الدین خان صاحب خلف الرشید ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب قصور ۳۱۳ میاں غلام قادر صاحب پٹواری مرحوم سنور ۳۱۴ مولوی غلام حسین صاحب لاہور ۳۱۵ مولوی حسن علی صاحب مرحوم مسلم مشنری صاحب رساله نور الاسلام سابق ہیڈ ماسٹر پٹنہ سکول.بھاگلپوری ۲۹۸ مستری جمال مالک کارخانه روئی را ۳۱۶ سید مظاہرالحق صاحب رئیس انا وہ ۲۹۹ مولوی فضل محمد صاحب موضع ہر سیاں گورداسپور راقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء ضیاء الاسلام پر لیس قادیان ( یہ اشتہار کے ۱۶ صفحوں پر درج ہے) تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۷ تا ۲۸)

Page 434

مجموعہ اشتہارات 19+ ۴۱۸ جلد دوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ کیا محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کو عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور میں گرسی ملی؟ راستی موجب رضائے خداست ) نہایت افسوس ہے کہ اس زمانہ کے بعض نام کے مولوی محض اپنی عزت بنانے کے لئے یا کسی اور غرض نفسانی کی وجہ سے عمد ا جھوٹ بولتے ہیں اور اس بدنمونہ سے عوام کو طرح طرح کے معاصی کی جرات دیتے ہیں کیونکہ جھوٹ اُمُّ الخبائث ہے اور جبکہ ایک شخص مولوی کہلا کر کھلی کھلی بے شرمی سے جھوٹ بولنا اختیار کرے تو بتلاؤ کہ عوام پر اس کا کیا اثر ہو گا.ابھی کل کی بات ہے کہ بیچارہ میاں شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعتہ السنہ کو بمقام بٹالہ گرسی مانگنے سے کپتان ایم ڈبلیو ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے تین مرتبہ تین جھڑ کیاں دیں اور گرسی دینے سے انکار کیا اور کہا کہ ” بک بک مت کر“ اور ”سیدھا کھڑا ہو جا اور یہ بھی فرمایا کہ ”ہمارے پاس تمہارے کرسی ملنے کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں.لیکن نہایت افسوس ہے کہ شیخ مذکور نے جابجا گر سی کے بارے میں جھوٹ بولا.کہیں تو یہ مشہور کیا کہ مجھے گر سی ملی تھی اور کسی جگہ یہ کہا کہ کرسی دیتے تھے مگر میں نے عمد ا نہیں لی.اور کسی جگہ یہ افترا کیا کہ عدالت میں گرمی کا ذکر ہی نہیں آیا.چنانچہ آج میری طرف بھی اس مضمون کا خط بھیجا ہے کہ گویا اس کا گرسی مانگنا اور کرسی نہ ملنا اور بجائے اس کے چند جھڑ کیوں سے پیچھے ہٹائے جانا

Page 435

مجموعہ اشتہارات ۴۱۹ جلد دوم یہ باتیں غلط ہیں.ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ.ہم ناظرین کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ بات فی الواقعہ سچ ہے کہ شیخ مذکور نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے کرسی مانگی تھی.اور اس کا اصل سبب یہی تھا کہ مجھے اس نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے رو بروئے کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھ کر بے اختیاری کے عالم میں اپنی طمع خام کو ظاہر کیا اور نہ چاہا کہ میرا دشمن کرسی پر ہو اور میں زمین پر بیٹھوں.اس لئے بڑے جوش سے کچہری کے اندر داخل ہوتے ہی گرسی کی درخواست کی اور چونکہ عدالت میں نہ اُس کو اور نہ اُس کے باپ کو گرسی ملتی تھی.اس لئے وہ درخواست زجر اور توبیخ کے ساتھ رڈ کی گئی.اور درحقیقت یہ سوال نہایت قابل شرم تھا کیونکہ سچ یہی ہے کہ نہ یہ شخص اور نہ اُس کا باپ رحیم بخش کبھی رئیسان گرسی نشین میں شمار کئے گئے.اور اگر یہ یا اس کا باپ کرسی نشین تھے تو گویا سرلیپل گریفن نے بہت بڑی غلطی کی کہ جو اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ان دونوں کا نام نہیں لکھا غضب کی بات ہے کہ کہلا نا مولوی اور اس قدر فاش دروغگو ئی اور پھر آپ اپنے خط میں گر سی نہ ملنے کا مجھے سے ثبوت مانگتے ہیں.گویا اپنی ذلت کو کامل طور پر تمام لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں.اور اپنے خط میں وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ کا ذب نکلیں تو اپنے تئیں شکست یافتہ تصور کریں گے اور پھر کبھی رڈ وقدح نہیں کریں گے.افسوس کہ اس شخص کو جھوٹ بولتے ذرہ شرم نہیں آئی.جھوٹ کہ اَكْبَرُ الْكَبَائِر اور تمام گناہوں کی ماں ہے کس طرح دلیری سے اس شخص نے اس پر زور دیا ہے.یہی دیانت اور خلاصہ خط یہ ہے.از مقام بٹالہ مورخہ ۲۸ / ماہ فروری ۱۸۹۸ء نمبر ۱۱۴ میاں غلام احمد صاحب خدا آپ کو راہِ راست پر لاوے اور ضلالت والحاد سے نجات بخشے.وَالسَّلَامُ عَلى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَی آپ کا خط ۲۸ فروری ۱۹۸ء پہنچا آپ نے کتاب البریت کے صفحہ ۱ او ۱۴ و ۱۵ میں تین دعوی کیے ہیں.اول یہ کہ محمد حسین نے صاحب ڈپٹی کمشنر سے کرسی طلب کی اور کہا کہ اس کو عدالت میں کرسی ملتی تھی اور اس کے باپ کو عدالت میں کرسی ملتی تھی جس پر صاحب ڈپٹی کمشنر نے اس کو تین جھڑ کیاں دیں اور کہا کہ تو جھوٹا ہے بک بک مت کر.دوسرا یہ دعویٰ کہ پھر وہ باہر کے کمرے میں ایک کرسی پر جا بیٹھا تو کپتان صاحب پولیس کی نظر اس پر جاپڑی اور اسی وقت کنسٹبل کی معرفت جھڑ کی کے ساتھ اس کرسی سے اٹھایا گیا.تیسرا یہ دعویٰ کہ پھر وہ ایک شخص کی چادر لے کر اُس پر بیٹھ گیا تو اس شخص نے چادر نیچے سے صحیح لی میرے نزدیک یہ تینوں دعوے محض دروغ ہیں جن میں راستی کا شمہ دخل اور شائبہ بھی نہیں، الخ

Page 436

مجموعہ اشتہارات ۴۲۰ جلد دوم امانت ان لوگوں کی ہے جس سے مجھے اور میری جماعت کو کا فرٹھہرایا اور دُنیا میں شور مچایا.واضح رہے کہ ہمارے بیان مذکورہ بالا کا گواہ کوئی ایک دو آدمی نہیں بلکہ اس وقت کہ کچہری کے ارد گرد صد ہا آدمی موجود تھے جو کرسی کے معاملہ کی اطلاع رکھتے ہیں.صاحب ڈپٹی کمشنر ایم ڈبلیوڈ گلس صاحب بہادر خود اس بات کے گواہ ہیں جنہوں نے بار بار کہا کہ تجھے گرمی نہیں ملے گی.بک بک مت کر اور پھر کپتان لیمار چنڈ صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ اس بات کے گواہ ہیں کہ کسی مانگنے پرمحمد حسین کو کیا جواب ملا تھا اور کیسی عزت کی گئی تھی.پھر منشی غلام حیدر خاں صاحب سپر نٹنڈنٹ ضلع جواب تحصیلدار ہیں اور مولوی فضل دین صاحب پلیڈ راور لالہ رام بھیجدت صاحب وکیل اور ڈاکٹر کلارک صاحب جن کی طرف سے یہ حضرت گواہ ہو کر گئے تھے اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے تمام اردلی یہ سب میرے بیان مذکورہ بالا کے گواہ ہیں اور اگر کوئی شخص اُن میں سے محمد حسین کی حالت پر رحم کر کے اس کی پردہ پوشی بھی چاہے.مگر میں خوب جانتا ہوں کہ کوئی شخص اس بات پر قسم نہیں کھا سکے گا کہ یہ واقعہ گری نہ ملنے اور جھڑ کیاں دینے کا جھوٹ ہے.مجھے حیرت پر حیرت آتی ہے کہ اس شخص کو کیا ہو گیا اور اس قدر گندے جھوٹ پر کیوں کمر بستہ کی.ذرہ شرم نہیں کی کہ اس واقعہ کے تو صد ہا آدمی گواہ ہیں وہ کیا کہیں گے.اس طرح تو آیندہ مولویوں کا اعتبار اُٹھ جائے گا.اگر در حقیقت اس شیخ بٹالوی کو گرسی ملی تھی اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے بڑے اکرام اور اعزاز سے اپنے پاس اُن کو کرسی پر بٹھا لیا تھا تو پتہ دینا چاہیے کہ وہ کرسی کہاں بچھائی گئی تھی شیخ مذکور کو معلوم ہوگا کہ میری کرسی صاحب ڈپٹی کمشنر کے بائیں طرف تھی اور دائیں طرف صاحب ڈسٹرکٹ سپر نٹنڈنٹ کی گرسی تھی اور اسی طرف ایک کرسی پر ڈاکٹر کلارک تھا.اب دکھلانا چاہیے کہ کون سی جگہ تھی جس میں شیخ محمد حسین بٹالوی کے لیے کرسی بچھائی گئی تھی.سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے سے مرنا بہتر ہے.اس شخص نے میری ذلت چاہی تھی اور اسی جوش میں پادریوں کا ساتھ کیا.خدا نے اُس کو عین عدالت میں ذلیل کیا.یہ حق کی مخالفت کا نتیجہ ہے اور یہ راستباز کی عداوت کا ثمرہ ہے.اگر اس بیان میں نعوذ باللہ میں نے جھوٹ بولا ہے تو طریق تصفیہ دو ہیں.اول یہ کہ شیخ مذکور ہر ایک صاحب سے جو ذکر کئے گئے ہیں حلفی رقعہ طلب کرے جس میں قسم کھا کر

Page 437

مجموعہ اشتہارات ۴۲۱ جلد دوم میرے بیان کا انکار کیا ہو اور جب ایسے حلفی رقعے جمع ہو جائیں تو ایک جلسہ بمقام بٹالہ کر کے مجھ کو طلب کرے.میں شوق سے ایسے جلسہ میں حاضر ہو جاؤں گا.میں ایسے شخص کے رقعہ کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے حلفاً اپنے رقعہ میں یہ بیان کیا ہو کہ محمد حسین نے گرمی نہیں مانگی اور نہ اس کو کوئی جھڑ کی ملی بلکہ عزت کے ساتھ کرسی پر بٹھایا گیا.شیخ مذکور کوخوب یادر ہے کہ کوئی شخص اس کے لئے اپنا ایمان ضائع نہیں کرے گا اور ہرگز ہر گز ممکن نہ ہوگا کہ کوئی شخص اشخاص مذکورین میں سے اس کے دعوی باطل کی تائید میں قسم کھاوے واقعات صحیحہ کو چھپانا بے ایمانوں کا کام ہے.پھر کیونکر کوئی معزز شیخ بٹالوی کے لئے مرتکب اس گناہ کا ہوگا اور اگر شیخ بٹالوی کو یہ جلسہ منظور نہیں تو دوسرا طریق تصفیہ یہ ہے کہ بلا توقف ازالہ حیثیت عرفی میں میرے پر نالش کرے کیونکہ اس سے زیادہ اور کیا ازالہ حیثیت عرفی ہوگا کہ عدالت نے اس کو گر سی دی اور میں نے بجائے گر سی جھڑکیاں بیان کیں اور عدالت نے قبول کیا کہ وہ اور اس کا باپ کرسی نشین رئیس ہیں اور میں نے اس کا انکار کیا اور استغاثہ میں وہ یہ لکھا سکتا ہے کہ مجھے عدالت ڈگلس صاحب بہادر میں گری مل تھی اورکوئی جھڑ کی نہیں ملی اور اس شخص نے عام اشاعت کر دی ہے کہ مانگنے پر بھی گرسی نہیں ملی بلکہ جھڑ کیاں ملیں.اور ایسا ہی استغاثہ میں یہ بھی لکھا سکتا ہے کہ مجھے قدیم سے عدالت میں گرسی ملتی تھی اور ضلع کے گرسی نشینوں میں میرا نام بھی درج ہے اور میرے باپ کا نام بھی درج تھا لیکن اس شخص نے ان سب باتوں سے انکار کر کے خلاف واقعہ بیان کیا ہے.پھر عدالت خود تحقیقات کر لے گی کہ آپ کو کرسی کی طلب کے وقت گرسی ملی تھی یا جھڑ کیاں ملی تھیں اور دفتر سے معلوم کر لیا جائے گا کہ آپ اور آپ کے والد صاحب کب سے گرسی نشین رئیس شمار کئے گئے ہیں کیونکہ سرکاری دفتروں میں ہمیشہ ایسے کاغذات موجود ہوتے ہیں جن میں کرسی نشین رئیسوں کا نام درج ہوتا ہے.اگر شیخ مذکور نے ان دونوں طریقوں میں سے کوئی طریق اختیار نہ کیا تو پھر نا چار ہمارا یہی قول ہے کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ زیادہ کیا لکھیں.اور یاد رہے کہ ہمیں بالطبع نفرت تھی.ایسے ایک شخصی معاملہ میں قلم اٹھا ئیں اور ذاتیات کے جھگڑوں میں اپنے تئیں ڈالیں اور اگر شیخ محمد حسین بٹالوی صرف اسی قدر جھوٹ پر کفایت کرتا کہ مجالس میں ہمارا ذکر درمیان نہ لاتا اور صرف اپنی پردہ پوشی کے لئے کرسی مانگنے کے معاملہ سے انکار کرتارہتا تو ہمیں

Page 438

مجموعہ اشتہارات ۴۲۲ جلد دوم کچھ ضرورت نہ تھی کہ اصل حقیقت کو پبلک پر کھولتے لیکن اس نے نہایت خیر گی اختیار کر کے ہر ایک مجلس میں ہماری تکذیب شروع کی اور سراسر افتراء سے میری نسبت ہر ایک جگہ یہ دعویٰ کیا کہ یہ شخص کا ذب ہے اور اس نے میرے پر گری کے معاملہ میں جھوٹ باندھا ہے اور اس طرح پر عوام کے دلوں پر برا اثر ڈالنا چاہا.تب ہم نے اُس کے اس دروغ کو اکثر نادانوں کے دلوں پر مؤثر دیکھ کر محض حق کی حمایت میں یہ اشتہار لکھا تا بعض ناواقف ایک راست گو کو جھوٹا سمجھ کر ہلاک نہ ہو جائیں اور تا اس کی یہ دجالی تقریریں حقانی سلسلہ کی رہزن نہ ہوں.غرض اسی ضرورت کی وجہ سے ہمیں اس کے اس مکر وہ جھوٹ کو کھولنا پڑا.بالآخر یہ بھی یادر ہے کہ وہ خط شیخ محمد حسین بٹالوی کا میرے پاس موجود ہے جو آج یکم مارچ ۱۸۹۸ء کو بٹالہ سے اُس نے بھیجا ہے جس میں میرے بیان کرسی نہ ملنے اور جھڑ کی کھانے سے صاف انکار کیا ہے اور ایسا ہی اُن لوگوں کے خط بھی محفوظ ہیں.جن کے رو بروئے طرح طرح کی دروغگوئی سے اس واقعہ کو پوشیدہ کرنا چاہا ہے جیسا کہ او پر لکھ چکا ہوں.اور میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اُن معزز گواہوں کے نام بھی اس جگہ درج کر دوں.جنہوں نے واقعہ مذکورہ بالا چشم خود دیکھا اور یا عین موقعہ پر سُنا اور جو کچہری میں حاضر تھے اور وہ یہ ہیں.حکیم فضل الدین صاحب بھیروی یہ دونوں صاحب بھی کمرہ عدالت کے اندر تھے باقی اکثر صاحبان دروازہ کے اندر { مرزا ایوب بیگ صاحب سینیئر اینگلوور نیکولر سے دیکھتے تھے.کلاس لاہور شیخ نوراحمد صاحب ما لک مطبع ریاض ہندا مرت سر مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی صاحبزادہ منظور محمد صاحب لدھیانوی مولوی خان ملک صاحب حافظ احمد اللہ خان صاحب قادیان سردار عبد العزیز خان صاحب حال وارد قادیان میاں کریم داد صاحب وارد قادیان مرزا عبدالحق صاحب جہلمی میاں رمضان صاحب آتش باز قادیان قاضی غلام حسین صاحب بھیروی سٹوڈنٹ لاہور چوہدری نبی بخش صاحب بٹالہ شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم قادیان شیخ عبدالرحیم صاحب نو مسلم قادیان شیخ عبدالعزیز صاحب نومسلم // صاحب زادہ مظہر قیوم صاحب لدھیانہ شی تاج الدین صاحب دفتر ایگزیمین ریلوے لاہور منشی عبد الرحمن صاحب کلرک لوکو آفس " " میاں معراج صاحب ٹھکید اردوارث میاں محمد سلطان حافظ فضل احمد صاحب کلرک دفتر ایگز یمنر ریلوے لاہور

Page 439

مجموعہ اشتہارات حکیم فضل الہی صاحب لاہور خلیفہ رجب الدین صاحب تاجر // ۴۲۳ میاں الہ بخش صاحب امرتسر میاں چراغ الدین صاحب امرت تسر منشی خواجه عزیز الدین صاحب تاجر // میاں مولا بخش صاحب پٹو ہلی امرت سر میاں غلام حسین صاحب میاں عبد الحق صاحب طالب علم شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹ سید حامد شاہ صاحب مثل خواں منشی عبدالعزیز صاحب ٹیلر ماسٹر صدر // میاں شیر علی صاحب طالب علم بی اے کلاس لا ہور مولوی مبارک علی صاحب مرزا یعقوب صاحب اسسٹنٹ سرجن مولوی محمد علی صاحب ایم اے " // منشی محمد دین صاحب اپیل نویس ماسٹر غلام محمد صاحب بی.اے میاں محمد شریف صاحب طالب علم میڈیکل کالج / مستری نظام الدین صاحب میاں عبید اللہ صاحب " خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے مفتی محمد صادق صاحب کلرک "/ " ڈاکٹر فیض قادر صاحب بٹالہ محمد اکبر صاحب ٹھیکہ دار // حکیم محمد اشرف صاحب میاں شیر محمد صاحب طالب علم بی اے کل اس علی گڑھ قاضی نعمت علی صاحب عرضی نویس را حافظ عبدالعلی صاحب // // میاں برکت علی صاحب نیچہ بند " جلد دوم // میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرت سر میاں اللہ رکھا صاحب شالباف میاں عبد الخالق صاحب عطا ر امرت سر مولوی غلام مصطفے صاحب مہتم مطبع شعلہ نور شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر امرتسر حال قادیان میاں قطب الدین صاحب مس گرامرتسر شیخ عطاء اللہ صاحب مس گرامرتسر محمد افضل خان صاحب یتیم مدرسه حمایت اسلام لاہور مولوی برہان الدین صاحب جہلم عبداللہ خان صاحب برادر نواب خان صاحب تحصیلدار جہلم میاں حسن محمد صاحب ٹھیکہ دار میاں جیون بٹ رفوگر قلعہ بھنگیاں امرتسر منشی روڑ صاحب نقشہ نویس عدالت مجسٹریٹی کپورتھلہ مولوی محمد اسمعیل صاحب سودا گر امرتسر منشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس 11

Page 440

مجموعہ اشتہارات ۴۲۴ جلد دوم میاں محمد خاں صاحب منشی بگھی خانہ کپورتھلہ مہر سون صاحب تاجر سیکھواں گورداسپور منشی عبدالرحمن صاحب اہلمد محکمہ جرنیلی منشی فیاض علی صاحب منشی پلٹن کپور تھلہ // حافظ نور محمد صاحب زمیندار فیض اللہ چک شیخ فضل الهی صاحب نمبر دار // // // میاں اللہ دیا صاحب جلد ساز لدھیانہ // غلام علی صاحب میاں امیرالدین صاحب جیا نوالہ // // چراغ علی صاحب تصہ غلام نبی " مرزا خدا بخش صاحب اتالیق مالیر کوٹلہ شہاب الدین صاحب کے زکی حصہ غلام نبی ار منشی محمد جان صاحب وزیر آباد تاجر خلیفہ نورالدین صاحب تاجر جموں مرزا نیاز بیگ صاحب رئیس پنشنر کلانور مولوی خدا بخش صاحب جالندھر // امیر صاحب // امیر صاحب // " شیر علی صاحب " // // "/ احمد علی صاحب نمبر دار وزیر چک میاں چراغ الدین صاحب منڈی کنال شیخ عطا محمد صاحب اسٹامپ فروش چنیوٹ سید باقر علی صاحب بھیل ضلع گجرات میاں نجم الدین صاحب بھیرہ مفتی فضل الرحمن صاحب بھیرہ " میاں عبدالغنی صاحب او جله ضلع گورداسپور محمد شفیع صاحب منشی عبد العزیز صاحب پٹواری ضلع گورداسپور نواب الدین صاحب ہیڈ ماسٹر دینا نگر شیخ محمد صدیق صاحب تاجر سیکھواں میاں جمال الدین صاحب تاجر // میاں امام الدین صاحب تاجر // // " // میاں اللہ دیا صاحب مرز اسندھی بیگ صاحب حافظ محی الدین صاحب بھیرہ " " " // میاں خیر الدین صاحب تاجر // حافظ محمدحسین صاحب واعظ قصبہ ڈنگہ ضلع گجرات // المشتهر - مرزا غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور ۲۶۲۰ م ۷ مارچ ۱۸۹۸ء گلزار محمدی پریس لاہور ید اشتہار سائز کے ۴ صفحہ پر ہے) ( تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۲۸ تا ۳۴)

Page 441

مجموعہ اشتہارات ۱۹۱ ۴۲۵ جلد دوم بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جلسه طاعون چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ ایک جلسہ دربارہ ہدایات طاعون قادیان میں منعقد ہو اور اس جلسہ میں گورنمنٹ انگریزی کی ان ہدایتوں کے فوائد جو طاعون کے بارے میں اب تک شائع ہوئی ہیں مع طبی اور شرعی اُن فوائد کے جو ان ہدایتوں کی مؤید ہیں اپنی جماعت کو سمجھائے جائیں اس لئے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے کہ ہماری جماعت کے احباب حتی الوسع کوشش کریں کہ وہ اس جلسہ میں عید الضحی کے دن شامل ہو سکیں.اصل امر یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس بات پر اطمینان نہیں ہے کہ ان ایام گرمی میں طاعون کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ جیسا کہ پہلے اشتہار میں شائع کیا گیا ہے دو جاڑوں تک سخت اندیشہ ہے.لہذا یہ وقت ٹھیک وہ وقت ہے کہ ہماری جماعت بنی نوع کی سچی ہمدردی اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کی ہدایتوں کی دل و جان سے پیروی کر کے اپنی نیک ذاتی اور نیک عملی اور خیراندیشی کا نمونہ دکھاوے.اور نہ صرف یہ کہ خود ہدایات گورنمنٹ کے پابند ہوں بلکہ کوشش کریں کہ دوسرے بھی اُن ہدایتوں کی پیروی کریں اور بدبخت احمقوں کی طرح فتنہ انگیز نہ بنیں.افسوس ہمارے ملک میں یہ سخت جہالت ہے کہ لوگ مخالفت کی طرف جلد مائل ہو جاتے ہیں.مثلاً اب گورنمنٹ انگریزی کی طرف سے یہ ہدایتیں شائع ہوئیں کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو وہ

Page 442

مجموعہ اشتہارات ۴۲۶ جلد دوم گھر خالی کر دیا جائے.اس پر بعض جاہلوں نے ناراضگی ظاہر کی.لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ اگر گورنمنٹ کی طرف سے یہ حکم ہوتا کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو وہ لوگ ہرگز اُس گھر کو خالی نہ کریں اور اسی میں رہیں تب بھی نادان لوگ اُس حکم کی مخالفت کرے اور دو تین واردات کے بعد اُس گھر سے نکلنا شروع کر دیتے.سچ تو یہ ہے کہ نادان انسان کسی پہلو سے خوش نہیں ہوتا.پس گورنمنٹ کو چاہیے کہ نادانوں کے بے جا واویلا سے اپنی سچی خیر خواہی رعایا کو ہرگز نہ چھوڑے کہ یہ لوگ اُن بچوں کا حکم رکھتے ہیں کہ جو اپنی ماں کی کسی کا رروائی کو پسند نہیں کر سکتے.ہاں ایسی ہمدردی کے موقعہ پر نہایت درجہ کی ضرورت ہے کہ ایسی حکمت عملی ہو جوڑ عب بھی ہواور نرمی بھی ہواور نیز اس ملک میں رسوم پردہ داری کی غایت درجہ رعایت چاہیے.اور اس مصیبت میں جو طاعون زدہ لوگوں اور اُن کے عزیزوں کو جو مشکلات اوقات بسری کے پیش آئیں شفقت پدری کی طرح حتی الوسع ان مشکلات کو آسان کرنا چاہیے بہتر ہے کہ اس وقت سب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں تا انجام بخیر ہو.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى الراقم خاکسار میرزاغلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مطبع ضیاء الاسلام قادیان ید اشتہار " کے ایک صفحہ پر درج ہے) ۲۲ را پریل ۱۸۹۸ء (روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۳۱۴ تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۳۶،۳۵) ے نوٹ.یادر ہے کہ اگر چہ ہماری جماعت کا یہ ایک جلسہ ہے لیکن اگر کوئی شریف نیک اندیش اس جلسہ میں شامل ہونا چاہے تو خوشی سے اس کی شمولیت منظور کی جائے گی.منہ

Page 443

مجموعہ اشتہارات ۱۹۲ ۴۲۷ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میموریل بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر صاحب بہادر بالقابہ یہ میموریل اس غرض سے بھیجا جاتا ہے کہ ایک کتاب امہات المومنین نام ڈاکٹر احمد شاہ صاحب عیسائی کی طرف سے مطبع آرپی مشن پریس گوجرانوالہ میں چھپ کر ماہ اپریل ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی تھی اور مصنف نے ٹائٹل پیج کتاب پر لکھا ہے کہ یہ کتاب ابوسعید محمد حسین بٹالوی کی تحدی اور ہزار روپیہ کے انعام کے وعدہ کے معاوضہ میں شائع کی گئی ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل محرک اس کتاب کی تالیف کا محمد حسین مذکور ہے.چونکہ اس کتاب میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جن کو کوئی مسلمان سُن کر رنج سے رُک نہیں سکتا.اس لئے لاہور کی انجمن حمایت اسلام نے اس بارے میں حضور گورنمنٹ میں میموریل روانہ کیا تا گورنمنٹ ایسی تحریر کی نسبت جس طرح مناسب سمجھے کا رروائی کرے اور جس طرح چاہے کوئی تدبیر امن عمل میں لائے.مگر میں مع اپنی کثیر اور مع دیگر معزز مسلمانوں کے اس میموریل کا سخت مخالف ہوں.اور ہم سب لوگ اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ کیوں اس انجمن کے ممبروں نے محض شتاب کاری سے یہ کاروائی کی.اگر چہ یہ سچ ہے کہ کتاب امہات المومنین کے مؤلف نے نہایت دل لے انجمن کا ایسے وقت میں میموریل بھیجنا جبکہ ہزار کا پی امہات المومنین کی مسلمانوں میں مفت تقسیم کی گئی اور خدا جانے کئی ہزار اور قوموں میں شائع کی گئی بیہودہ حرکت ہے.کیونکہ اشاعت جس کا بند کرنا مقصود تھا کامل طور پر ہو چکی ہے.منہ.

Page 444

مجموعہ اشتہارات ۴۲۸ جلد دوم دکھانے والے الفاظ سے کام لیا ہے اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ باوجود ایسی سختی اور بدگوئی کے اپنے اعتراضات میں اسلام کی معتبر کتابوں کا حوالہ بھی نہیں دے سکا.مگر ہمیں ہر گز نہیں چاہیے کہ بجائے اس کے کہ ایک خطا کار کونرمی اور آہستگی سے سمجھا دیں اور معقولیت کے ساتھ اس کتاب کا جواب لکھیں یہ حیلہ سوچیں کہ گورنمنٹ اس کتاب کو شائع ہونے سے روک لے تا اس طرح پر ہم فتح پالیں کیونکہ یہ فتح واقعی فتح نہیں ہے بلکہ ایسے حیلوں کی طرف دوڑ نا ہمارے بجز اور درماندگی کی نشانی ہوگی اور ایک طور سے ہم جبر سے مُنہ بند کرنے والے ٹھہریں گے.اور گو گورنمنٹ اس کتاب کو جلا دے تلف کرے، کچھ کرے، مگر ہم ہمیشہ کے لیے اس الزام کے نیچے آجائیں گے کہ عاجز آ کر گورنمنٹ کی حکومت سے چارہ جوئی چاہی.اور وہ کام لیا جو مغلوب الغضب اور جواب سے عاجز آ جانے والے لوگ کیا کرتے ہیں.ہاں جواب دینے کے بعد ہم ادب کے ساتھ اپنی گورنمنٹ میں التماس کر سکتے ہیں کہ ہر ایک فریق اس پیرایہ کو جو حال میں اختیار کیا جاتا ہے ترک کر کے تہذیب اور ادب اور نرمی سے باہر نہ جائے.مذہبی آزادی کا دروازہ کسی حد تک کھلا رہنا ضروری ہے تا مذہبی علوم اور معارف میں لوگ ترقی کریں اور چونکہ اس عائم کے بعد ایک اور عالم بھی ہے جس کے لئے ابھی سے سامان چاہیے اس لئے ہر ایک حق رکھتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ ہر ایک مذہب پر بحث کرے اور اس طرح اپنے تئیں اور نیز بنی نوع کو نجات اخروی کے متعلق جہاں تک سمجھ سکتا ہے اپنی عقل کے مطابق فائدہ پہنچاوے.لہذا گورنمنٹ عالیہ میں اس وقت ہماری یہ التماس ہے کہ جو انجمن حمایت اسلام لاہور نے میموریل گورنمنٹ میں اس بارے میں روانہ کیا ہے.وہ ہمارے مشورہ اور اجازت سے نہیں لکھا گیا بلکہ چند شتاب کاروں نے جلدی سے یہ جرات کی ہے جو درحقیقت قابلِ اعتراض ہے.ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ ہم تو جواب نہ دیں اور گورنمنٹ ہمارے لئے عیسائی صاحبوں سے کوئی باز پرس کرے یا اُن کتابوں کو تلف کرے بلکہ جب ہماری طرف آہستگی اور نرمی کے ساتھ اس کتاب کارڈ شائع ہوگا تو خود وہ کتاب اپنی قبولیت اور وقعت سے گر جائے گی اور اس طرح پر وہ خود تلف ہو جائے گی.اس لئے ہم بادب ملتمس ہیں کہ اس میموریل کی طرف جو انجمن مذکور کی طرف سے بھیجا گیا

Page 445

مجموعہ اشتہارات ۴۲۹ جلد دوم ہے گورنمنٹ عالیہ ابھی کچھ توجہ نہ فرماوے لے کیونکہ اگر ہم گورنمنٹ عالیہ سے یہ فائدہ اُٹھا دیں کہ وہ کتابیں تلف کی جائیں یا اور کوئی انتظام ہو تو اس کے ساتھ ایک نقصان بھی ہمیں اُٹھانا پڑتا ہے کہ ہم اس صورت میں دین اسلام کو ایک عاجز اور فروماندہ دین قرار دیں گے کہ جو معقولیت سے حملہ کرنے والوں کا جواب نہیں دے سکتا اور نیز یہ ایک بڑا نقصان ہوگا کہ اکثر لوگوں کے نزدیک یہ امر مکروہ اور نامناسب سمجھا جائے گا کہ ہم گورنمنٹ کے ذریعہ سے اپنے انصاف کو پہنچ کر پھر کبھی اس کتاب کا رڈ لکھنا بھی شروع کر دیں اور درحالت نہ لکھنے جواب کے اس کے فضول اعتراضات ناواقفوں کی نظر میں فیصلہ ناطق کی طرح سمجھے جائیں گے اور خیال کیا جائے گا کہ ہماری طاقت میں یہی تھا جو ہم نے کر لیا سواس سے ہماری دینی عزت کو اس سے بھی زیادہ ضرر پہنچتا ہے جو مخالف نے گالیوں سے پہنچانا چاہا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کتاب کو ہم نے عمد اتلف کرایا یا روکا پھر اسی کو مخاطب ٹھہرا کر اپنی کتاب کے ذریعہ سے پھر شائع کرنا نہایت نا معقول اور بیہودہ طریق ہو گا.اور ہم گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم درد ناک دل سے اُن تمام گندے اور سخت الفاظ پر صبر کرتے ہیں جو صاحب اُمہات المومنین نے استعمال کئے ہیں اور ہم اس مؤلف اور اس کے گروہ کو ہرگز کسی قانونی مؤاخذہ کا نشانہ بنانا نہیں چاہتے کہ یہ امران لوگوں سے بہت ہی بعید ہے کہ جو واقعی نوع انسان کی ہمدردی اور سچی اصلاح کے جوش کا دعویٰ رکھتے ہیں.یہ بات بھی گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں عرض کر دینے کے لائق ہے کہ اگر چہ ہماری جماعت بعض امور میں دوسرے مسلمانوں سے ایک مجوئی اختلاف رکھتی ہے مگر اس مسئلہ میں کسی سمجھ دار مسلمان کو اختلاف نہیں کہ دینی حمایت کے لئے ہمیں کسی جوش یا اشتعال کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ ہمارے لئے قرآن میں یہ حکم ہے.وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ لے ہم دوبارہ عرض کرتے ہیں کہ انجمن کا یہ میموریل بعد از وقت ہے کیوں کہ مؤلف اُمہات المومنین کی طرف سے جو ضر ر روکنے کی لائق تھا وہ ہمیں پہنچ چکا اور پورے طور پر پنجاب، ہندوستان میں اس کتاب کی اشاعت ہوگئی.سو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اب ہم اپنی گورنمنٹ محسنہ سے کیا مانگیں اور وہ کیا کرے.العنكبوت : ۴۷ منه

Page 446

مجموعہ اشتہارات ۴۳۰ جلد دوم اور دوسری جگہ یہ حکم ہے کہ جَادِ لَهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اس کے معنے یہی ہیں کہ نیک طور پر اور ایسے طور پر جو مفید ہو عیسائیوں سے مجادلہ کرنا چاہیے اور حکیمانہ طریق اور ایسے ناصحانہ طور کا پابند ہونا چاہیے کہ اُن کو فائدہ بخشے.لیکن یہ طریق کہ ہم گورنمنٹ کی مدد سے یا نعوذ باللہ خوداشتعال ظاہر کریں ہرگز ہمارے اصل مقصود کو مفید نہیں ہے.یہ دنیاوی جنگ و جدل کے نمونے ہیں اور سچے مسلمان اور اسلامی طریقوں کے عارف ہرگز ان کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اُن سے وہ نتائع جو ہدایت بنی نوع کے لئے مفید ہیں پیدا نہیں ہو سکتے.چنانچہ حال میں پر چہ مخبر دکن میں جو مسلمانوں کا ایک اخبار ہے ماہ اپریل کے ایک پر چہ میں اسی بات پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ رسالہ اُمہات المومنین کے تلف کرنے یا روکنے کے لئے گورنمنٹ سے ہرگز التجا کرنی نہیں چاہیے کہ یہ دوسرے پیرا یہ میں اپنے مذہب کی کمزوری کا اعتراف ہے.جہاں تک ہمیں علم ہے ہم جانتے ہیں کہ اخبار مذکورہ کی اس رائے کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی جس سے ہم کہتے ہیں کہ عام مسلمانوں کی یہی رائے ہے کہ اس طریق کو جس کا انجمن مذکور نے ارادہ کیا ہے ہرگز اختیار نہ کیا جائے کہ اس میں کوئی حقیقی اور واقعی فائدہ ایک ذرہ برابر بھی نہیں ہے.اہل علم مسلمان اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بارے میں ایک پیشگوئی ہے اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے وصیت کے طور پر ایک حکم ہے جس کو ترک کرنا سچے مسلمانوں کا کام نہیں ہے.اور وہ یہ ہے کہ لَتُبُلَوُنَّ فِي اَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا.وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ کے سورۃ آل عمران.ترجمہ یہ ہے کہ خدا تمہارے مالوں اور جانوں پر بلا بھیج کر تمہاری آزمایش کرے گا اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی دُکھ دینے والی باتیں سنو گے سوا گر تم صبر کرو گے اور اپنے تئیں ہر ایک ناکردنی امر سے بچاؤ گے تو خدا کے نزدیک اولوالعزم لوگوں میں سے ٹھہرو گے.یہ مدنی سورۃ ہے اور یہ اس زمانہ کے لئے مسلمانوں کو وصیت کی گئی ہے کہ جب ایک مذہبی آزادی کا زمانہ ہوگا اور جو کوئی کچھ سخت گوئی کرنا النحل : ١٢٦ ال عمران : ۱۸۷

Page 447

مجموعہ اشتہارات ۴۳۱ جلد دوم چاہے وہ کر سکے گا.جیسا کہ یہ زمانہ ہے.سو کچھ شک نہیں کہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے لئے تھی اور اسی زمانہ میں پوری ہوئی.کون ثابت کر سکتا ہے کہ جو اس آیت میں أَذًى كَثِيرًا کا لفظ ایک عظیم الشان ایذاء لسانی کو چاہتا ہے وہ کبھی کسی صدی میں اس سے پہلے اسلام نے دیکھی ہے؟ اس صدی سے پہلے عیسائی مذہب کا یہ طریق نہ تھا کہ اسلام پر گندے اور ناپاک حملے کرے بلکہ اکثر ان کی تحریریں اور تالیفیں اپنے مذہب تک ہی محدود تھیں.قریباً تیرھویں صدی ہجری سے اسلام کی نسبت بدگوئی کا دروازہ کھلا جس کے اول بانی ہمارے ملک میں پادی فنڈل صاحب تھے.بہر حال اس پیشگوئی میں مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ جب تم دل آزار کلمات سے دُکھ دیئے جاؤ اور گالیاں سنو تو اس وقت صبر کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا.سو قر آنی پیشگوئی کے مطابق ضرور تھا کہ ایسا زمانہ بھی آتا کہ ایک مقدس رسول کو جس کی اُمت سے ایک حصہ کثیر دُنیا کا پُر ہے.عیسائی قوم جیسے لوگ جن کا تہذیب کا دعوی تھا گالیاں دیتے اور اس بزرگ نبی کا نام نعوذ باللہ زانی اور ڈاکو اور چور رکھتے اور دُنیا کے سب بدتروں سے بدتر ٹھہراتے.بے شک یہ اُن لوگوں کے لئے بڑے رنج کی بات ہے جو اس پاک رسول کی راہ میں فدا ہیں اور ایک دانشمند عیسائی بھی احساس کر سکتا ہے کہ جب مثلاً ایسی کتاب امہات المومنین میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ زنا کار کے نام سے پکارا گیا ہے اور گندے گندے تحقیر کے الفاظ آنجناب کے حق میں استعمال کئے گئے اور پھر عمد اہزار کا پی کی محض دلوں کے دُکھانے کے لئے عام اور خاص مسلمانوں کو پہنچائی گئی اس سے کس قدر درد ناک زخم عام مسلمانوں کو پہنچے ہوں گے.اور کیا کچھ اُن کے دلوں کی حالت ہوئی ہوگی.اگر چہ بدگوئی میں یہ کچھ پہلی ہی تحریر نہیں ہے.بلکہ ایسی تحریروں کی پادری صاحبوں کی طرف سے کروڑ ہا تک نوبت پہنچ گئی ہے.مگر یہ طریق دل دُکھانے کا ایک نیا طریق ہے کہ خواہ نخواہ غافل اور بے خبر لوگوں کے گھروں میں یہ کتا میں پہنچائی گئیں.اور اسی وجہ سے اس کتاب پر بہت شور بھی اُٹھا ہے.باوجود اس بات کے کہ پادری عمادالدین اور پادری ٹھا کر داس کی کتابیں اور نور افشاں کی پچیس سال کی مسلسل تحریریں سختی میں اس سے کچھ کم نہیں ہیں.یہ تو سب کچھ ہوا.مگر ہمیں تو آیت موصوفہ بالا میں یہ تاکیدی حکم ہے کہ جب ہم

Page 448

مجموعہ اشتہارات ۴۳۲ جلد دوم ایسی بدزبانی کے کلمات نہیں جس سے ہمارے دلوں کو دُ کھ پہنچے تو ہم صبر کریں.اور کچھ شک نہیں کہ جلد تر حکام کو اس طرف متوجہ کرنا یہ بھی ایک بے صبری کی قسم ہے اس لئے عقل مند اور دور اندیش مسلمان ہرگز اس طریق کو پسند نہیں کرتے کہ گورنمنٹ عالیہ تک اس بات کو پہنچایا جائے.ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ دین اسلام میں اکراہ اور جبر نہیں.جیسا کہ وہ فرما تا ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ لے اور جیسا کہ فرماتا ہے کہ اَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ.لیکن اس قسم کے حیلے اکراہ اور جبر میں داخل ہیں جس سے اسلام جیسا پاک اور معقول مذہب بدنام ہوتا ہے.غرض اس بارے میں میں اور میری جماعت اور تمام اہل علم اور صاحب تدبر مسلمانوں میں سے اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ کتاب امہات المومنین کی لغو گوئی کی یہ سزا نہیں ہے کہ ہم اپنی گورنمنٹ مُحسنہ کو دست اندازی کے لئے توجہ دلا دیں.گو خود دانا گورنمنٹ اپنے قوانین کے لحاظ سے جو چاہے کرے.مگر ہمارا صرف فرض ہونا چاہیے کہ ہم ایسے اعتراضات کا کہ جو درحقیقت نہایت نادانی یا دھوکہ دہی کی غرض سے کئے گئے ہیں.خوبی اور شایستگی کے ساتھ جواب دیں اور پبلک کو اپنی حقیت اور اخلاق کی روشنی دکھلائیں.اسی غرض کی بنا پر یہ میموریل روانہ کیا گیا ہے.اور تمام جماعت ہماری معزز مسلمانوں کی اسی پر متفق ہے.الراق خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۴ ماه مئی ۱۸۹۸ء یہ اشتہار " کے چار صفحوں پر ہے مطبع کا نام درج نہیں.محمد اسمعیل پر یس مین کا نام اس پر لکھا ہے ) (روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۱۵ تا ۳۱۹ تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۳۶ تا ۴۱) البقرة : ۲۵۷ يونس : ١٠٠

Page 449

مجموعہ اشتہارات ۴۳۳ ۱۹۳ جلد دوم ا بسم الله الرّحمن الرّحيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اپنی جماعت کو متنبہ کرنے کے لیے ایک ضروری اشتہار میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہے یا اپنے مقامات میں بودو باش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سنہیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مُریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تاوہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی اُن کے نزدیک نہ آسکے.وہ پنجوقت نماز جماعت کے پابند ہوں.وہ جھوٹ نہ بولیں.وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں.وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں.غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور نا کر دنی اور نا گفتی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے.گورنمنٹ برطانیہ جس کے زیر سایہ اُن کے مال اور جانیں اور آبروئیں محفوظ ہیں بصدق دل اس کے وفادار تابعدار ر ہیں اور تمام انسانوں کی ہمدردی اُن کا اُصول ہو.اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک نا پاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے

Page 450

مجموعہ اشتہارات ۴۳۴ جلد دوم بچاویں اور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اور غبن اور رشوت اور اتلاف حقوق اور بے جا طرف داری سے باز رہیں اور کسی بد صحبت میں نہ بیٹھیں.اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو اُن کے ساتھ آمد ورفت رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احکام کا پابند نہیں ہے یا اس گورنمنٹ مُحسنہ کا خیر خواہ نہیں یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے اور یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اس کی نسبت ناحق اور بیوجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بد زبانی اور بہتان اور افترا کی عادت جاری رکھ کر خدا تعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لا زم ہو گا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دور کرو.اور ایسے انسان سے پر ہیز کرو جو خطرناک ہے.اور چاہیے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو اور ہر ایک کے لئے بچے ناصح بنو اور چاہیے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گذرنہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے.یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو میں ابتدا سے کہتا چلا آیا ہوں.میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ اُن تمام وصیتوں کے کار بند ہوں اور چاہیے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو.اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو.اور یاد رکھو کہ ہر ایک شرمقابلہ کے لائق نہیں ہے.اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفوا ور در گذر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر نا جائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو.اور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہ کر ایسی مجلس سے جلد اُٹھ جاؤ.اگر تم ستائے جاؤ اور گالیاں دیئے جاؤ اور تمہارے حق میں بُڑے بُرے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ور نہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو.سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالوجو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے.جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور

Page 451

مجموعہ اشتہارات ۴۳۵ جلد دوم پر ہیز گاری اور علم اور نرم زبابی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے.کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقینا وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا.سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ.تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا.چاہے کہ تمہارے دل فریب سے پاک اور تمہارے ہاتھ ظلم سے بری اور تمہاری آنکھیں ناپاکی سے منزہ ہوں اور تمہارے اندر بجز راستی اور ہمدردی خلائق کے اور کچھ نہ ہو.میرے دوست جو میرے پاس قادیان میں رہتے ہیں میں اُمید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے تمام انسانی قوئی میں اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں گے.میں نہیں چاہتا کہ اس نیک جماعت میں کبھی کوئی ایسا آدمی مل کر رہے جس کے حالات مشتبہ ہوں یا جس کے چال چلن پر کسی قسم کا اعتراض ہو سکے یا اس کی طبیعت میں کسی قسم کی مفسدہ پردازی ہو یا کسی اور قسم کی ناپا کی اس میں پائی جائے.لہذا ہم پر یہ واجب اور فرض ہوگا کہ اگر ہم کسی کی نسبت کوئی شکایت سنیں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرائض کو عمد أضائع کرتا ہے یا کسی ٹھٹھے اور بیہودگی کی مجلس میں بیٹھا ہے یا کسی اور قسم کی بد چلنی اس میں ہے تو وہ فی الفور اپنی جماعت سے الگ کر دیا جائے گا.اور پھر وہ ہمارے ساتھ اور ہمارے دوستوں سے ساتھ نہیں رہ سکے گا.ابھی میں نے چند ایسے آدمیوں کی شکایت سنی تھی کہ وہ پنجوقت نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ اُن کی مجلسوں میں ٹھٹھے اور بنسی اور حقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا اور بعض کی نسبت شک کیا گیا تھا کہ وہ پر ہیز گاری کے پاک اُصول پر قائم نہیں ہیں اس لئے میں نے ہلا تو قف ان سب کو یہاں سے نکال دیا ہے کہ تا دوسروں کے ٹھو کر کھانے کا موجب نہ ہوں.اگر چہ شرعی طور پر اُن پر کچھ ثابت نہ ہوا.لیکن اس کا رروائی کے لئے اسی قدر کافی تھا کہ شکی طور پر اُن کی نسبت شکایت ہوئی.میں خیال کرتا ہوں کہ اگر وہ راستبازی میں ایک روشن نمونہ دکھاتے تو ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اُن کے حق میں بول سکتا.میں یہ بھی ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ در حقیقت اُن

Page 452

مجموعہ اشتہارات ۴۳۶ جلد دوم لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے راستبازی کی تلاش میں ہماری ہمسائیگی اختیار کی ہے.اصل بات یہ ہے کہ ایک کھیت جو محنت سے طیار کیا جاتا ہے اور پکایا جاتا ہے اس کے ساتھ خراب بوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو کاٹنے اور جلانے کو لائق ہوتی ہیں.ایسا ہی قانون قدرت چلا آیا ہے جس سے ہماری جماعت باہر نہیں ہوسکتی.اور میں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جو حقیقی طور پر میری جماعت میں داخل ہیں اُن کے دل خدا تعالیٰ نے ایسے رکھے ہیں کہ وہ طبعا بدی سے متنفر اور نیکی سے پیار کرتے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کا بہت اچھا نمونہ لوگوں کے لئے ظاہر کریں گے.الراق والسلام خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۲۹ رمئی ۱۸۹۸ء (مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) یہ اشتہار " کے ایک صفحہ پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۴۲ تا ۴۵)

Page 453

مجموعہ اشتہارات ۱۹۴ ۴۳۷ جلد دوم بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اپنی جماعت کے لیے ضروری اشتہار چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم اس کی بزرگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہو رہی ہے اور اب ہزاروں تک اُس کی نوبت پہنچ گئی اور عنقریب بفضلہ تعالیٰ لاکھوں تک پہنچنے والی ہے اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اُن کے باہمی اتحاد کے بڑھانے کے لئے اور نیز اُن کو اہل اقارب کے بعد اثر اور بد نتائج سے بچانے کے لئے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاحوں کے بارے میں کوئی احسن انتظام کیا جائے.یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہو کر تعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیر ممکن ہو گئے ہیں جب تک کہ وہ تو بہ کر کے اسی جماعت میں داخل نہ ہوں اور اب یہ جماعت کسی بات میں اُن کی محتاج نہیں.مال میں دولت میں علم میں فضلیت میں خاندان میں پر ہیز گاری میں خدا ترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجود ہیں اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پیدا کرے جو ہمیں کافر کہتے اور ہمارا نام دقبال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثنا خوان اور تابع ہیں.یادر ہے کہ جو شخص ایسے لوگوں کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہماری جماعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں جب تک پاکی اور سچائی کے لئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑے گا اور ایک باپ بیٹے سے

Page 454

مجموعہ اشتہارات ۴۳۸ جلد دوم علیحدہ نہیں ہو گا تب تک وہ ہم میں سے نہیں.سو تمام جماعت توجہ سے سن لے کہ راست باز کے لئے ان شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے اس لئے میں نے انتظام کیا ہے کہ آئیندہ خاص میرے ہاتھ میں مستور اور مخفی طور پر ایک کتاب رہے جس میں اس جماعت کی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام لکھے رہیں.اور اگر کسی لڑکی کے والدین اپنے کنبہ میں ایسی شرائط کا لڑکا نہ پاویں جو اپنی جماعت کے لوگوں میں سے ہو اور نیک چلن اور نیز اُن کے اطمینان کے موافق لائق ہو.ایسا ہی اگر ایسی لڑکی نہ پاویں تو اس صورت میں اُن پر لازم ہوگا کہ وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس جماعت میں سے تلاش کریں.اور ہر ایک کو تسلی رکھنی چاہیے کہ ہم والدین کے بچے ہمدرد اور غم خوار کی طرح تلاش کریں گے.اور حتی الوسع یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی جو تلاش کئے جائیں اہل رشتہ کے ہم قوم ہوں یا اگر یہ نہیں تو ایسی قوم میں سے ہوں جو عرف عام کے لحاظ سے باہم رشتہ داریاں کر لیتے ہوں.اور سب سے زیادہ یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی نیک چلن اور لائق بھی ہوں اور نیک بختی کے آثار ظاہر ہوں.یہ کتاب پوشیدہ طور پر رکھی جائے گی اور وقتا فوقتا جیسی صورتیں پیش آئیں گی اطلاع دی جائے گی اور کسی لڑکے یا لڑکی کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہیں کی جائے گی جب تک اس کی لیاقت اور نیک چلنی ثابت نہ ہو جائے.اس لئے ہمارے مخلصوں پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کی ایک فہرست اسماء بقید عمر وقومیت بھیج دیں تا وہ کتاب میں درج ہو جائے.مندرجہ ذیل نمونہ کے لحاظ رہے نام دختر یا پسر نام والد نام شہر بقید محله وضلع الراقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور عمر دختر یا پسر ۷ جون ۱۸۹۸ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان ( یہ اشتہار کے ایک صفحہ پر ہے ) ۲۶ تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۴۶،۴۵)

Page 455

مجموعہ اشتہارات ۱۹۵ ۴۳۹ جلد دوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مراد ما نصیحت بود کردیم دوائے طاعون ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ایک دوا علاج طاعون کے لئے بصرف مبلغ دو ہزار پانسور و پیہ طیار ہوئی ہے لیے اور ساتھ اس کے ظاہر بدن پر مالش کرنے کے لئے مرہم عیسی بھی بنائی گئی ہے یعنی وہ مرہم جو حضرت عیسی علیہ السلام کی اُن چوٹوں کے لئے بنائی گئی تھی جبکہ نا اہل یہودیوں نے آپ کو صلیب پر کھینچا تھا.یہی مبارک مرہم چالیس دن برابر مسیح علیہ السلام کے صلیبی زخموں پر لگتی رہی اور اسی سے لے اگر یہ دوا یعنی تریاق الہی ذیا بطیس کے لئے یا اختناق الرحم کے لئے یا دماغ اور نخاع اور اعصاب اور معدہ کی کمزوری کے لئے یا معمولی قومی کی کمی کے لئے استعمال کرنی ہو تو کافور وغیرہ عرقیات کے ملانے کی کچھ ضرورت نہیں.ہاں وزن حسب برداشت بڑھا دیں اور یہ دوا حسب الہام الہی طیار ہوئی ہے.عام طور پر تقسیم کی گنجائش نہیں الا ماشاءاللہ.اور یہ دو انزلات اور کھانسی اور مقدمہ سل کے لئے بہت مفید ہے.اور یادر ہے کہ قبل اس کے کہ یہ رو پہیہ ہماری تحویل میں آئے خود بخود ہمارے سرگرم دوستوں نے حسب تجویز میرے دوائیں خرید لیں.اور اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب نے دو ہزار روپیہ کے یاقوت رمانی دیئے اور ایسا ہی اخویم شیخ رحمت اللہ صاحب اور سردار نواب محمد علی خان صاحب نے اللہ مدد دی اور ڈاکٹر بوڑیخاں صاحب اسٹنٹ سرجن قصور اور منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ اور کئی اور دوست جن کا ذکر موجب تطویل ہے اس کار خیر کی امداد میں شریک ہوئے اور یہ ارادہ کیا گیا ہے کہ اس وقت جبکہ خدانخواستہ پنجاب میں طاعون کے پھیلنے کا احتمال ہو یہ دو اللہ تقسیم کر دی جائے مگر کم سے کم چالیس دن مرض سے پہلے اس کا استعمال چاہیے.منہ

Page 456

مجموعہ اشتہارات ۴۴۰ جلد دوم خدا تعالیٰ نے آپ کر شفا بخشی گویا دوبارہ زندگی ہوئی.یہ مرہم طاعون کے لئے بھی نہایت درجہ مفید ہے بلکہ طاعون کی تمام قسموں کے لئے فائدہ مند ہے.مناسب ہے کہ جب نَعُوذُ بِالله بيماري طاعون نمودار ہو تو فی الفور اس مرہم کو لگا نا شروع کر دیں کہ یہ مادہ تھی کی مدافعت کرتی ہے اور پھنسی یا پھوڑے کو طیار کر کے ایسے طور سے پھوڑ دیتی ہے کہ اس کی سمیت دل کی طرف رجوع نہیں کرتی اور نہ بدن میں پھیلتی ہے.لیکن کھانے کی دوا جس کا نام ہم نے تریاق الہی رکھا ہے اس کے استعمال کا طریق یہ ہے کہ اوّل بقدر فلفل گرد کھانا شروع کریں اور پھر حسب برداشت مزاج بڑھاتے جائیں اور ڈیڑھ ماشہ تک بڑھا سکتے ہیں اور بچوں کے لئے جن کی عمر دس برس سے کم ہے ایک یا ڈیڑھ رتی تک دی جا سکتی ہے اور طاعون سے محفوظ رہنے کے لئے جب یہ دوا کھا ئیں تو مفصلہ ذیل دواؤں کے ساتھ اس کو کھانا چاہیے.کیمفر کو ۱۵ قطرہ، وائنم اپی کاک ۹ قطرہ، سپرٹ کلورا فارم ۱۵ قطره ، عرق کیوڑہ ۵ تولہ ، عرق سلطان الاشجار یعنی سرس ۵ تولہ باہم ملا کر تین چار تولہ پانی ڈال کر گولی کھانے کے بعد پی لیں.اور یہ خوراک اول حالت میں ہے ورنہ حسب برداشت کیمفر کو ساتھ بوند تک اور وائم اپی کاک چالیس "بوند تک اور سپرٹ کلورا فارم ساتھ بوند تک اور عرق کیوڑہ بین تولہ تک اور عرق سرس یعنی سلطان الاشجار چھپیں تو لہ تک ہر ایک شخص استعمال کر سکتا ہے.بلکہ مناسب ہے کہ وزن بیان کردہ کے اندر اندر حسب تجر بہ محل طبیعت ان ادویہ کر بڑھاتے جائیں تا پورا وزن ہوکر جلد طبیعت میں اثر کرے مگر بچوں میں بلحاظ عمر کم مقدار دینا چاہیے.اور اگر تریاق الہی میسر نہ آسکے تو پھر عمدہ جدوار کو سرکہ میں پیس کر بقدر سات کرتی بڑوں کے لئے اور بقدر دو دورتی چھوٹوں کے لئے گولیاں بنالیں.اور اس دوا کے ساتھ صبح شام کھاویں.حتی المقدور ہر روز غسل کریں اور پوشاک بدلیں اور بدر رویں گندی نہ ہونے دیں اور مکان کی او پر چھت میں رہیں اور مکان صاف رکھیں اور خوشبو دار چیزیں عود وغیرہ جلاتے رہیں اور کوشش کریں کہ مکانوں میں تاریکی اور جبس ہوا نہ ہو اور گھر میں اس قدر ہجوم نہ ہو کہ بدنی عفونتوں کے پھیلنے کا احتمال ہو.جہاں تک ممکن ہو گھروں میں لکڑی اور خوشبودار چیزیں بہت جلاویں اور اس قد رگھر کو گرم رکھیں کہ گویا گرمی کے موسم

Page 457

مجموعہ اشتہارات ۴۴۱ جلد دوم سے مشابہ ہواور گندھک بھی جلاویں اور گھر میں بہت سے کچے کو گلے اور چونہ بھی رکھیں اور درونج عقربی کے ہار پرو کر دروازوں پر لٹکا دیں.اور سب سے ضروری بات یہ کہ خدا تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں.دل کو صاف کریں اور نیک اعمال میں مشغول ہوں.والسلام المشـ خاکسار میرزاغلام احمد از قادیان ۲۳ جولائی ۱۸۹۸ء مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان - تعداد ۲۰۰۰ محمد اسمعیل پریس مین سیا شتہار ہ کے ایک صفحہ پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۴۷ ، ۴۸ )

Page 458

مجموعہ اشتہارات ۱۹۶ ۴۴۲ جلد دوم اشتہار واجب الاظہار متعلق کتب دفتر ضیاء الاسلام قادیان چونکہ ہمارے مطبع میں ہمیشہ نو تالیف کتابیں جو میری تالیفات میں سے ہیں چھپتی رہتی اس لئے یہ اندیشہ ہمیشہ دامنگیر رہتا ہے.کہ کوئی کتاب ہمارے شائع کرنے سے پہلے کسی اتفاق سے دفتر سے نکل جائے یا بطور خیانت کسی بیرونی آدمی کی چالاکی سے کسی کو پہنچ نہ جائے لہذا قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس اندیشہ کے دُور کرنے کے لئے کوئی احسن انتظام کیا جائے اس لئے عام طور پر اطلاع دی جاتی ہے کہ کوئی کتاب جب تک کہ اس پر مہر اور میرے دستخط موجود نہ ہوں جائز طور پر شائع کردہ نہ سمجھی جائے.بلکہ یا درکھنا چاہیے کہ جس کتاب پر صرف مُہر ہو اور میرے دستخط ساتھ نہ ہوں وہ بھی مسروقہ ہے اور جس پر مُبر اور میرے خاص دستخط دونوں موجود ہوں وہ کتاب مسروقہ نہیں ہے.اور جس پر نہ مُہر اور نہ دستخط ہو وہ اس انتظام سے پہلے کی ہے اور بہر حال اُس کو جائز طور پر شائع شدہ سمجھنا چاہیے اور یہ انتظام آئندہ کے لئے ہے کیونکہ اب دفتر کی تمام موجود کتابوں پر مہر لگادی گئی ہے اور دستخط نہیں کئے.آیندہ ہر ایک کتاب جو جائز طور پر ہماری مرضی اور اجازت سے کسی طرف روانہ ہوگی تو اس پر دستخط کر دیئے جائیں گے اس لئے جو کتاب بغیر ہمارے دستخط کے صرف مہر ہی رکھتی ہوگی وہ کتاب اگر کسی اور کے پاس پائی جائے تو اس کو مسروقہ سمجھا جائے گا اور مہبر میں یہ الفاظ

Page 459

مجموعه اشتہارات ۴۴۳ جلد دوم ہوں گے.(الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ) اور دستخط میں ہمارا نام مع تاریخ ہوگا.اور اب جو چند کتابیں لحل ١٨٩٧ء جیسے کتاب ایام اصبح اردو و فارسی اور کتاب ترغیب المؤمنین اور کتاب فریا در داور کتاب نجم الهدى زیر تالیف ہیں.یہ ابھی تک شائع نہیں ہوئیں.جب یہ شائع ہوں گی تو دستخط اور مہر کے ساتھ شائع کی جائیں گی.اور ان کتابوں میں سے جو کتاب بغیر دستخط اور مُہر کے کسی کے پاس پائی جائے تو اس کو مسروقہ سمجھنا چاہیے.اور ایسا آئیندہ جو کتاب اگست ۱۸۹۸ء کے بعد کی نئی تصنیف نکلے اس کے لئے بھی یہی قاعدہ تصور کرنا چاہیے یعنی مہر اور دستخط دونوں کا ہونا ضروری ہو گا اور جس کتاب پر جو اس تاریخ سے بعد کی تالیف ہو مُہر اور دستخط دونوں نہ ہوں گے یا اُن میں سے صرف مُہر ہی ہوگی تو وہ بہر حال مسروقہ قرار دی جائے گی.یادر ہے کہ مُہر اور دستخط پہلے صفحہ پر ہوں گے جہاں سے مضمون شروع ہوتا ہے.المشـ مرزا غلام احمد از قادیان ۲۰ ستمبر ۱۸۹۸ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان تهر یہ اشتہار ۲۳ کے ایک صفحہ پر ہے ) تعداد ۷۰۰ تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۵۰،۴۹) اسمعیل

Page 460

مجموعہ اشتہارات ۱۹۷ ۴۴۴ جلد دوم بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ رَحِمَ اللهُ عَبْدًا سَمِعَ كَلامَنَا خدا اُس پر رحم کرے جو ہماری بات کو سُنے ہماری جماعت میں ہمارے ایک دوست ہیں نوجوان اور نو عمر اور خوش شکل اور قومی اور پورے تندرست.قریباً بائیس یا تئیس برس کی اُن کی عمر ہوگی.اور جہاں تک میں نے اُن کے حالات میں غور کیا ہے میں انہیں ایک جوان صالح اور مہذب اور نیک مزاج اور خوش خلق اور غریب طبع اور نیک چلن اور دیندار اور پر ہیز گار خیال کرتا ہوں.وَاللهُ حَسِيبُۂ.ماسوا اس کے وہ ایک ہونہار جوان ہیں.تعلیم یافتہ جو ایم اے کا درجہ حاصل کر چکے ہیں اور انشاء اللہ عنقریب وہ کسی معزز عہدہ اکسٹرا اسسٹنٹی وغیرہ کے مستحق ہیں.اُن کو اپنی شادی کے لئے ایک ایسے رشتہ کی ضرورت ہے.جہاں بیہودہ رسوم اور اسراف نہ ہو.اور لڑکی میں عقل اور شکل اور نیک چلنی اور کسی قدرنوشت خواند کی ضروری شرطیں پائی جائیں.میری رائے میں اس لڑکی کی بڑی خوش نصیبی ہوگی جو ایسے جوان صالح ہونہار کے گھر میں آئے.میں بہت خوش ہوں گا اگر کوئی شخص میرے دوستوں اور میری جماعت میں سے صفات مذکورہ کے ساتھ اپنی لڑکی رکھتا ہوں اور اس تعلق کو قبول کرے.مجھے اس جوان ایم اے پر نہایت نیک ظن ہے

Page 461

مجموعہ اشتہارات ۴۴۵ جلد دوم اور میں گمان کرتا ہوں کہ یہ رشتہ مبارک ہوگا یہ تمام خط و کتابت مجھ سے کرنی چاہیے مگر اس صورت میں جبکہ پختہ ارادہ ہو.اور نیز بات فی الواقع شرائط کے موافق ہوتا کہ میرا اوقت ضائع نہ ہو.وَالسَّلام ۲۷/اکتوبر ۱۸۹۸ء المشتہر مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مطبع ضیاء الاسلام قادیان سمعیل یہ اشتہار کے ایک صفحہ پر ہے ) تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۵۱،۵۰)

Page 462

مجموعہ اشتہارات ۱۹۸ ۴۴۶ جلد دوم بسم الله الرّحمنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَانتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ امین ہم خدا پر فیصلہ چھوڑتے ہیں اور مبارک وہ جو خدا کے فیصلہ کو عزت کی نظر سے دیکھیں جن لوگوں نے شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی کے چند سال کے پرچہ اشاعۃ السنہ دیکھے ہوں گے وہ اگر چاہیں تو محض للہ گواہی دے سکتے ہیں کہ شیخ صاحب موصوف نے اس راقم کی تحقیر اور تو ہین اور دشنام دہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.ایک وہ زمانہ تھا جو اُن کا پر چہ اشاعۃ السنہ گتِ لِسَان اور تقویٰ اور پرہیز گاری کے طریق کا مؤید تھا اور کفر کے ننانوے وجوہ کو ایک ایمان کی وجہ پائے جانے سے کالعدم قرار دیتا تھا اور آج وہی پرچہ ہے جو ایسے شخص کو کافر اور دقبال قرار دے رہا ہے جو كلمه طيبه لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کا قاتل اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء سمجھتا اور تمام ارکان اسلام پر ایمان لاتا ہے اور اہلِ قبلہ میں سے ہے.اور ان کلمات کوسن کر شیخ صاحب اور اُن کے ہم زبان یہ جواب دیتے ہیں کہ تم لوگ دراصل کا فراور منکر اسلام اور دہر یہ ہو الاعراف: ۹۰

Page 463

مجموعہ اشتہارات ۴۴۷ جلد دوم صرف مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنا اسلام ظاہر کرتے ہو.گویا شیخ صاحب اور اُن کے دوستوں نے ہمارے سینوں کو چاک کر کے دیکھ لیا ہے کہ ہمارے اندر کفر بھرا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کی تائید میں اپنے نشان بھی دکھلائے مگر وہ نشان بھی حقارت اور بے عزتی کی نظر سے دیکھے گئے اور کچھ بھی ان نشانوں سے شیخ محمد حسین اور اس کے ہم مشرب لوگوں نے فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ سختی اور بد زبانی روز بروز بڑھتی گئی.چنانچہ ان دنوں میں میرے بعض دوستوں نے کمال نرمی اور تہذیب سے شیخ صاحب موصوف سے یہ درخواست کی تھی کہ مسلمانوں میں آپ کے فتویٰ کفر کی وجہ سے روز بروز تفرقہ بڑھتا جاتا ہے.اور اب اس بات سے نومیدی کلی ہے کہ آپ مباحثات سے کسی بات کو مان لیں اور نہ ہم آپ کی بے ثبوت باتوں کا مان سکتے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ آپ مباہلہ کر کے تصفیہ کر لیں.کیونکہ جب کسی طرح جھگڑا فیصلہ نہ ہو سکے تو آخری طریق خدا کا فیصلہ ہے جس کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اثر مباہلہ کے لیے اس طرف سے ایک سال کی شرط ہے اور یہ شرط الہام کی بنا پر ہے لیکن تاہم آپ کو اختیار ہے کہ اپنے مباہلہ کا اثر تین دن یا ایک دم ہی رہنے دیں کیونکہ مباہلہ دونوں جانب کی لعنت اور بددعا کا نام ہے.آپ اپنے بد دعا کے اثر کی مدت قرار دینے میں اختیار رکھتے ہیں.ہماری بددُعا کے اثر کا وقت ٹھہرانا آپ کا اختیار نہیں ہے.یہ کام ہمارا ہے کہ ہم وقت ٹھہرا وہیں اس لئے آپ کو ضد نہیں کرنی چاہیے.آپ اشاعتہ السنہ نمبر 1 جلدے میں تسلیم کر چکے ہیں کہ شخص ملہم کو جہاں تک شریعت کی سخت مخالفت پیدا نہ ہو اپنے الہام کی متابعت ضروری ہے لہذا ایک سال کی شرط جو الہام کی بنا پر ہے اس وجہ سے رد نہیں ہوسکتی کہ حدیث میں ایک سال کی شرط بصراحت موجود نہیں.کیونکہ اول تو حدیث مباہلہ میں ایک سال کا لفظ موجود ہے اور اس سے انکار دیانت کے برخلاف ہے کے برخلاف ہے.پھر اگر فرض کے طور پر حدیث میں سال کا لفظ موجود بھی نہ ہوتا تو چونکہ حدیث میں ایسا لفظ بھی موجود نہیں جو سال کی شرط کی حرام اور ممنوع ٹھیرا تا ہو اس لئے آپ ہی حرام اور نا جائز قرار دے دینا امانت سے بعید ہے.اگر خدا تعالیٰ کی عادت فوری عذاب تھا تو قرآن شریف میں یا تعلیم رسول صلے اللہ علیہ وسلم میں اس کی تصریح ہونی چاہیے تھی لیکن

Page 464

مجموعہ اشتہارات ۴۴۸ جلد دوم تصریح تو کیا اس کے برخلاف عمل درآمد پایا گیا ہے.دیکھو مکہ والوں کے عذاب کے لئے ایک برس کا وعدہ دیا گیا تھا اور یونس کی قوم کے عذاب کے لئے چالیس دن مقرر ہوئے تھے بلکہ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں بعض عذابوں کی پیشگوئی صد ہا برس کے وعدوں پر کی گئی ہے.پھر خواہ نخواہ کچے اور بیہودہ بہانے کر کے اور سراسر بد دیانتی کو شیوہ ٹھہرا کر طریق فیصلہ سے گریز کرنا ان علماء کا کام نہیں ہوسکتا جو دیانت اور امانت اور پرہیز گاری کا دم مارتے ہوں.اگر ایک شخص در حقیقت مفتری اور جھوٹا ہے تو خواہ مباہلہ ایک سال کی شرط پر ہو خواہ دس سال کی شرط پر افترا کرنے والا کبھی فتح یاب نہیں ہوسکتا.غرض نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس درخواست مُباہلہ کو جو نہایت نیک نیتی سے کی گئی تھی شیخ محمد حسین نے قبول نہیں کیا اور یہ عذر کیا کہ تین دن تک مہلت اثر مباہلہ ہم قبول کر سکتے ہیں زیادہ نہیں حالانکہ حدیث شریف میں سال کا لفظ تو ہے مگر تین دن کا نام ونشان نہیں اور اگر فرض بھی کر لیں کہ حدیث میں جیسا کہ تین دن کی کہیں تحدید نہیں.ایسا ہی ایک سال کی بھی نہیں.تاہم ایک شخص جو الہام کا دعوی کر کے ایک سال کی شرط پیش کرتا ہے علماء امت کا حق ہے کہ اُس پر حجت پوری کرنے کے لئے ایک سال ہی منظور کر لیں.اس میں تو حمایت شریعت ہے تا مدعی کو آئیندہ کلام کرنے کی گنجائش نہ رہے.”خدا لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے نبی اور میرے پر ایمان لانے والے غالب رہیں گے.“ سوشیخ محمد حسین نے باوجود بانی تکفیر ہونے کے اس راہ راست پر قدم مارنا نہیں چاہا اور بجائے اس کے نیک نیتی سے مباہلہ کے میدان میں آتا یہ طریق اختیار کیا ایک گندہ اور گالیوں سے پر اشتہار لکھ کرمحمد بخش جعفر زٹلی اور ابولحسن تبتی کے نام سے چھپوا دیا.اس وقت وہ اشتہار میرے سامنے رکھا ہے.اور میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ وہ مجھ میں اور محمد حسین میں آپ فیصلہ کرے.اور وہ جو میں نے کی ہے یہ کہ اے میرے ذولجلال پر وردگار اگر میں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل اور جھوٹا اور مفتری ہوں جیسا کہ محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں بار بار مجھ کو کذاب اور دقبال اور مفتری کے لفظ سے یاد کیا ہے اور جیسا کہ اُس نے ے عجیب بات ہے کہ ایک طرف مباہلہ سے انکار اور پھر گالیاں دینے میں اصرار ہے.منہ

Page 465

مجموعہ اشتہارات ۴۴۹ جلد دوم اور محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی نے اس اشتہار میں جو ارنومبر ۱۸۹۸ء کو چھپا ہے میرے ذلیل کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا تو اے میرے مولیٰ اگر میں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل ہوں تو مجھ پر تیرہ ماہ کے اندر یعنی پندرہ دسمبر ۱۸۹۸ء سے ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ ء تک ذلت کی مار وارد کر اور ان لوگوں کی عزت اور وجاہت ظاہر کر اور اس روز کے جھگڑے کو فیصلہ فرما.لیکن اگر اے میرے آقا میرے مولیٰ میرے منعم میری اُن نعمتوں کے دینے والے جو تو جانتا ہے اور میں جانتا ہوں تیری جناب میں میری کچھ عزت ہے تو میں عاجزی سے دُعا کرتا ہوں کہ ان تیره (۱۳) مہینوں میں جو ۱۵ دسمبر ۱۸۹۸ء سے ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ ء تک شمار کیے جائیں گے شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور تبتی مذکور کو جنہوں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے یہ اشتہار لکھا ہے ذلت کی مار سے دُنیا میں رُسوا کر غرض اگر یہ لوگ تیری نظر میں بچے اور متقی اور پر ہیز گار اور میں کذاب اور مفتری ہوں تو مجھے ان تیرہ مہینوں میں ذلت کی مار سے تباہ کر اور اگر تیری جناب میں مجھے وجاہت اور عزت ہے تو میرے لئے یہ نشان ظاہر فرما کہ ان تینوں کو ذلیل رُسوا اور ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ کا مصداق کر.آمین ثم آمین.یہ دُعا تھی جو میں نے کی.اس کے جواب میں یہ الہام ہوا کہ میں ظالم کو ذلیل اور رسوا کروں گا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹے گائے اور چند عربی الہامات ہوئے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.اِنَّ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ سَيَنَا لُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ.ضَرْبُ اللَّهِ أَشَدُّ مِنْ ضَرْبِ النَّاسِ.إِنَّمَا أَمْرُنَا إِذَا أَرَدْنَا شَيْئًا اَنْ نَّقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونَ.أَتَعْجَبُ لَا مُرِى إِنِّي مَعَ الْعُشَّاقِ.إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ ذُو الْمَجْدِ وَالْعُلى.وَيَعُضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ.وَيُطْرَحُ بَيْنَ يَدَيَّ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا.وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ.مَالَهُمْ مِّنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ فَاصْبِرُ ے یہ تیرہ مہینے خدا تعالیٰ کے الہام سے معلوم ہوئے ہیں یعنی سال پر ایک ماہ اور زیادہ ہے.منہ ے ہاتھ کاٹنے سے مراد یہ ہے کہ جن ہاتھوں سے ظالم نے جو حق پر نہیں ہے نا جائز تحریر کا کام لیا وہ ہاتھ اس کی حسرت کا موجب ہوں گے اور افسوس کرے گا کہ کیوں یہ ہاتھ ایسے کام پر چلے.منه

Page 466

مجموعہ اشتہارات ۴۵۰ حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَّالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ.جلد دوم یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس کا ماحصل یہی ہے کہ ان دونوں فریق میں سے جن کا ذکر اس اشتہار میں ہے یعنی خاکسار ایک طرف اور شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور مولوی ابوالحسن تبتی دوسری طرف خدا کے حکم کے نیچے ہیں.ان میں سے جو کا ذب ہے وہ ذلیل ہوگا.یہ فیصلہ چونکہ الہام کی بنا پر ہے اس لئے حق کے طالبوں کے لئے کھلا کھلا نشان ہو کر ہدایت کی راہ اُن پر کھولے گا لے اب ہم ذیل میں شیخ محمد حسین کا وہ اشتہار لکھتے ہیں جو جعفر زٹلی اور ابوالحسن نیتی کے نام پر شائع کیا گیا ہے تا خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے وقت دونوں اشتہارات کے پڑھنے سے حق کے طالب عبرت اور نصیت پکڑ سکیں.اور عربی الہامات کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بچے کی ذلّت کے لیے بدزبانی کر رہے ہیں اور منصوبے باندھ رہے ہیں خدا اُن کو ذلیل کرے گا اور میعاد پندرہ دن دسمبر ۱۸۹۸ء سے تیرہ مہینے ہیں جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اور ۱۴ دسمبر ۱۸۹۸ء تک جو دن ہیں وہ تو بہ اور رجوع کے لئے مہلت ہے.فقط ۱۳ ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء خاکسار میرزاغلام احمد از قادیان مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان تعداد ۱۴۰۰ لے اس فیصلہ کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.اب اگر میں جھوٹا اور دجال اور ظالم ہوں تو فیصلہ شیخ محمد حسین کے حق میں ہوگا اور اگر محمد حسین ظالم ہے تو فیصلہ میرے حق میں ہوگا.وہ خدا ہر ایک کا خدا ہے.جھوٹے کی کبھی تائید نہیں کرے گا.اب آسانی سے یہ مقدمہ مباہلہ کے رنگ میں آ گیا.خدا تعالیٰ سچوں کو فتح بخشے.آمین.منہ

Page 467

مجموعہ اشتہارات الامر فوق الادب ۴۵۱ نقل کفر کفر نباشد نقل مطابق اصل راقم کا تب ” سچے اور قطی فیصلہ کی صورت صواب“ د قبال کا دیانی کے اشتہار مباہلہ کا جواب جلد دوم دجال کا دیانی کو ڈگلس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر گورداسپورہ نے دبایا اور اس سے عہد لے لیا کہ آئندہ دل آزار الفاظ کو بند رکھے (چنانچہ اشاعۃ السنہ نمبر ۹ جدل ۱۸ کے صفحہ ۲۵۹ میں بہ تفصیل بیان ہوا ہے ) اور اس وجہ سے اس کو مجبوراً الہام کے ذریعہ لوگوں کی دل آزاری سے زبان کو بند کرنا پڑا.اور الہامی گولے چلانا یا یوں کہو کہ گوز چھوڑنا ترک کرنا ضروری ہوا اور پھر الہامی دل آزاری کے سوا اس کا کام بند ہونے لگا اور اس کی دُکانداری میں نقصان واقع ہوا تو یہ کام اُس نے اپنے نائین (...) کے ذریعہ شروع کر دیا.تب سے وہ کام اُس کے نائب کر رہے ہیں.اور اخباروں اور اشتہاروں کے ذریعہ سے لوگوں کی دل آزاری میں مصروف ہیں.از انجملہ بعض کا ذکر اشاعة السنه نمبر ۳ جلد نمبر ۱۹ کے صفحہ ۷۷ وغیرہ میں ہوا ہے.واز انجملہ بعض کا ذکر ذیل میں ہوتا ہے کہ اس کے چند نائبین لاہور ولدھیانہ و پٹیالہ وشملہ نے مولانا مولوی ابوسعید محمد حسین.صاحب کے نام اس مضمون کے اشتہار جاری کئے ہیں کہ وہ بمقام بٹالہ کا دیانی کے ساتھ مباہلہ کر لیں.اور اس مباہلہ کا اثر ظاہر نہ ہونے کی صورت میں آٹھ سو چھپیں روپیہ ( جس کو وہ ان چاروں مواضع سے جمع کر کے پیش کریں گے ( انعام لیں.اس کے ساتھ ان لوگوں نے دل کھول کر دل آزاری و بدگوئی سے اپنے دلوں کا ارمان نکال لیا اور کادیانی کی نیابت اشاعۃ السنہ نمبر ۱۲٫۸ جلد ۱۵ لے اس کے جواب میں بجز لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ کیا کہیں.کپتان ڈگلس صاحب نے شیخ محمدحسین کو دبایا تھا اور کرسی کی درخوست پر جھڑ کیاں دیں تھیں مگر مجھے گری دی اور عزت کی.من المشتهر

Page 468

۴۵۲ جلد دوم مجموعہ اشتہارات کے صفحہ ۶۶ و ۱۸۸و۳۱۳ اور نمبر ۳ جلد ۱۸ کے صفحہ ۸۶ اور دیگر مقامات میں کا دیانی سے مباہلہ کے لئے مستعدی ظاہر کر چکے ہیں اور اس سے گریز وانکار اسی کا دیانی بدکار کی طرف سے ہوا نہ مولانا موصوف کی طرف سے.پھر یہ لوگ کس منہ سے مولانا مولوی صاحب کو مباہلہ کے لئے بلاتے ہیں اور شرم و حیا سے کچھ کام نہیں لیتے اسی وجہ سے مولوی صاحب ان مجاہیل کی فضول لاف و گزاف کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اُن لوگوں کو مخاطب بنانا نہیں چاہتے البتہ اُن کے مرشد دقبال اکبر کذاب العصر سے مباہلہ کرنے کے لئے ہر وقت بغیر کسی شرط کے مستعد و تیار ہیں.اگر کادیانی اپنی طرف سے دعوت مباہلہ کا اشتہار دے یا کم سے کم یہ مشتہر کر دے کہ اس کے مریدوں نے جو اشتہار دیئے ہیں وہ اسی کی رضا مندی و ترغیب سے دیئے ہیں.اُس میں مولوی صاحب ممدوح اپنی طرف سے کوئی شرط پیش نہیں کرتے صرف کادیانی کی شروط و میعاد ایک سال کو اڑا کر یہ چاہتے ہیں کہ اثر مباہلہ اسی مجلس میں ظاہر ہو یا زیادہ سے زیادہ تین روز میں جوعبداللہ آتھم کے مباہلہ قسم کے لئے اس نے تسلیم کئے تھے او قبل از مباہلہ کا دیانی اس اثر کی تعیین بھی کر دے کہ وہ کیا ہوگا.اس کی وجہ و دلیل بتفصیل مع حوالہ حدیث و تفسیر وہ اشاعۃ السنہ نمبر ۸ جلد ۱۵ کے صفحہ اے وغیرہ اور نمبر ۳ جلد ۱۸ کے صفحہ ۸۶ میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ یہ میعاد ایک سال کی خلافت سُنتی ہے اور اس میں کا دیانی کی حیلہ سازی و فریب بازی کی بڑی گنجایش ہے اور درصورت نہ ہونے ظاہر اثر مباہلہ کے مولوی صاحب کچھ نقد انعام نہیں لینا چاہتے صرف وہی سزا تجویز فرماتے ہیں جو کادیانی نے عبد اللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی پوری نہ ہونے کی صورت میں اپنے لئے خود تجویز کی تھی کہ اس کا منہ کالا کیا جاوے اُس کو ذلیل کیا اصل عبارت پر چہ مذکورہ یہ ہے ”میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے.وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہادیہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اُٹھانے کے لئے تیار ہوں.مجھ کو ذلیل کیا جاوے رہ سیاہ کیا جاوے میرے گلے میں رستہ دال دیا جاوے ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں.“ سے تعجب کہ یہ لوگ کس قدر چالاکی سے کام لیتے ہیں.اگر مباہلہ کا اثر فوری ضروری ہے تو کیوں اپنی بددُعا کی نسبت یہ دعوی نہیں کرتے کہ فی الفور ہماری بددعا کا اثر ہو جائے گا.من المشتہر سے اس کے جواب میں بجز اس کے ہم کیا کہیں کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ من المشتهر

Page 469

مجموعہ اشتہارات ۴۵۳ جلد دوم جاوے (دیکھو جنگ مقدس میں آخری پر چہ قادیانی کا صفحہ اخیر ) پس ہم کو یہ شرط منظور ہے لیکن اس رُو سیاہی کے بعد اس کو گدھے پر سوار کر کے کوچہ بکوچہ ان چاروں شہروں میں پھرایا جاوے اور بجائے دینے جرمانہ یا انعام آٹھ سو پچیس روپیہ کے صرف آٹھ سو چھپیں جوتے...حضرت اقدس (اکذب ) کے سر مبارک پر رسید ہوں.جن کو انھیں چاروں مواضع کے مرید...آپ کی نذر کریں اور اس کفش کاری اور پاپوش باری کے بعد بھی گدھے کی سواری پر آپ کا جلوس نکلے اور آگے آگے آپ کے مخلص مرید بطور مرثیہ خوانی یہ مصرع پڑھتے جاویں.بے چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی لے اور یہ شعر صائب کا بنمائے بہ صاحب نظرے گوہر خود را عیسی نتواں گشت بہ تصدیق خرے چند.اور یہ رباعی مرسل یزدانی و عیسی نبی اللہ شدی.باز می گوئی کہ دجالت نخوانند اے حمار.کفشہا.برسرخوری از افترائے ناسزا.روسیه گشتی میان مردم قرب و جوار اور یہ بیت اردو اڑا تا خاک سر پر جھومتا مستانہ آتا ہے یہ کھاتا جوتیاں سر پر مرا دیوانہ آتا ہے راقم سید ابوالحسن تبتی حال وارد کوه شمله سنجولی ۳۱ اکتوبر ۱۸۹۸ء ے بدذاتوں کی بدذاتی اور بدکاری کی خدا تعالے دیکھتا ہے سو جو شخص اُس کی نظر میں بد کا را ور کذاب ہے وہ اس کو بے سزا نہیں چھوڑے گا.من المشتہر

Page 470

مجموعہ اشتہارات..(1)” ۴۵۴ ضروری نوٹ (یادداشتیں) جلد دوم نائبین دجال اکبر کا دیانی لعین نے جو اشتہاروں میں لکھا ہے کہ نام کا مولوی عبد القادر لود بانوی مولوی صاحب موصوف کا ہم مکتب ہے یہ محض دروغ ہے.مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بد نصیب بمقام ہندلہ ( جبکہ ہم مولوی نورالحسن صاحب مرحوم سے شمس بازعہ پڑھتے تھے ہم سے شرح ملا پڑھتا تھا.اب وہ ہمارا ہم مکتب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس پر فخر کر رہا ہے.کیوں نہ ہو یہ قدیم سے ہوتا چلا آیا ہے جس کی شکایت اس شعر میں ہے ؎ کس نیا موخت علم تیر از من که مرا عاقبت نشانه نکرد (۲) یہ بھی مُریدان دجال نے مشتہر کیا ہے کہ عبد القادر نے قلمی خط مولوی صاحب کے پاس بھیجا ہے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ بھی محض کذب ہے لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ہم کو عبد القادر کا کوئی خط نہیں پہنچا قلمی خط تو یکطرف رہا کوئی مطبوعہ پر چہ اخبار الحکم جس میں اس کا یہ خط درج ہوا ہے یا کوئی اشتہار لاہور یا شملہ وغیرہ سے بھی اس مضمون کا کا دیانی یا اس کے اتباع کا مرسلہ ہم کو نہیں پہنچا.بہت مشکل اور تلاش سے ہم نے ایک مدرس سکول بٹالہ سے اخبار کا پرچہ مستعار لے کر شیخ فتح محمد اہل حدیث گجرات کی قلم سے وہ خط نقل کرایا اور اشتہار اہل شملہ ہم نے شملہ کے ایک کلرک محکمہ آب وہوا سے بتقاضا وصول کیا.اور اس دجال کے چیلوں کی قدیم عادت ہے کہ جو مضمون جواب طلب وہ چھاپتے ہیں اس کی کاپی ہماری طرف نہیں بھیجتے.“ 66 (۳) عربی نویسی میں دجال کا دیانی کا مقابلہ کرنے سے گریز یا اعراض کو جو ان نائبین دجال نے مولوی صاحب موصوف کی طرف منسوب کیا ہے اس میں بھی ان گمناموں نے دقبال اکبر کی سنت پر عمل کیا ہے.مولوی صاحب موصوف اپنے رسالہ اشاعة السـنــه نمبر ۸ جلد ۱۵ کے صفحہ ۱۵۹ میں کادیانی کو عربی میں مقابلہ کے لئے للکار چکے ہیں.پھر نمبر ۱۲ جلد ۱۵ میں کا دیانی کی

Page 471

مجموعہ اشتہارات ۴۵۵ جلد دوم عربی نویسی کا اچھی طرح بخیہ ادھیڑ چکے ہیں.مگر اس گروہ بے شکوہ نے شرم و حیا کو نصیب اعدا سمجھ کر ان دعاوی باطلہ واغلیط عاطلہ کا دیانی کا اعادہ کر کے گڑے مردے اُکھاڑنے کو عمل میں لا کر لوگوں کو دھو کہ دیا ہے.ان میں ذرہ شرم ہوتی تو وہ اشاعۃ السنہ کے ان مقامات کو پڑھ کر ڈوب کر مر جاتے اور پھر عربی نویسی کا دعوی زبان پر نہ لاتے.مگر یہاں شرم کہاں.ان کا تو یہ مقولہ ہے کہ شرم چہ کنی است که پیش مردان بیاید “ ''(۴) کادیانی کا مستجاب الدعوات ہونے کا جوان شیخ چلی کے شاگردوں نے دعویٰ کر کے اس میں مولوی صاحب سے مقابلہ چاہا ہے اس کا جواب مولوی صاحب اشاعة السنه نمبر ا جلد ۴ امیں ۱۸۹۱ء اورنمبر ۱ جلد ۱۶ بابت ۱۸۹۵ء کے صفحہ ۴۵ اوغیرہ میں دے چکے ہیں مگر ان حیا کے دشمنوں نے حیا سے قسم کھا کر اُن ہی پچھلی باتوں کا اعادہ شروع کر دیا ہے.ہم کہاں تک جوابات کا اعادہ کرے جاویں.“ ۸۲۵ ۸۲۵ (۵) مولوی سید ابولحسن صاحب تبتی نے جو اماده رو پید انعام کے بدلے آٹھ سو پچیس جوتے کادیانی کے لئے تجویز کئے ہیں اس پر حضور اینجانب کا صاد ہے لیکن ساتھ ہی اس کے اس قدر رعایت ضروری ہے کہ اگر حضرت اقدس (اکذب) کا دیانی اس قدر جوتوں کے بذات شریف و نفس نفیس متحمل نہ ہوسکیں اور سر مبارک حضرت اکذب کا گنجہ ہو جاوے یا جوتوں کی مار سے آپ کو الہامی قبض لاحق ہو جاوے تو باقی ماندہ آپ کے نائبین جنہوں نے گمنام اشتہارات دیئے ہیں آپس میں اس طرح بانٹ لیں کہ لاہور والے مخلص گمنام پٹیالہ والوں کو اور لدھیانہ والے شملہ والوں کو اور پٹیالہ والے لدھیانہ والوں کو اور اسی طرح وہ ایک دوسرے کو بطور ہمدردی مدد دیں.ہم کو اس پر اصرار نہیں کہ وہ سب کے سب جوتے حضرت اقدس (اکذب) ہی کے سر پر پورے کئے جاویں.یہ امر حکم آیت لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا الَّا وُسْعَهَا ہم کو پسندیدہ نہیں اور عام ہمدردی انسانی اور اخلاق کے بھی مخالف ہے." الراقم احقر العباد لہم ربانی ملا محمد بخش لاہور، ارنومبر ۱۸۹۸ء محمد بخش قادری مینیجر اخبار جعفر زٹلی تاج الہند پریس لاہور تبلیغ رسالت جلد۷ صفحه ۵۱ تا ۶۰ ) لے ذرہ صبر کرو کہ خدا تعالیٰ جو دیکھ رہا ہے یہ سب ذلّت جھوٹے کی کرے گا.من المشتہر

Page 472

مجموعہ اشتہارات ۴۵۶ جلد دوم لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى مَنْ أَعْرَضَ عَنْ هَذَا وَ أَبَى وَرَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مَنْ قَبِلَ وَآتَى مولوی محمد حسین بٹالوی پر آخری حجت پر یعنی بلاشرط مباہلہ کی دعوت اور دو ہزار پانچو پچیس روپیہ آ ٹھ آنہ کا انعام ی امر بوضاحت بیان ہو چکا ہے کہ میاں محمد حسین بٹالوی ہی جناب حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کی تکفیر کا اصل محرک اور بانی ہوا اور باقی تمام مکفرین نے اُس کی یا اس کے استاد میاں نذیر حسین دہلوی کی پیروی کی ہے.اس لئے اسی کو اس درخواست مباہلہ میں مخاطب کیا گیا ہے چونکہ اس نے حضرت اقدس مرزا صاحب سَلَّمَهُ رَبُّہ کی تکفیر اور تکذیب پر حد سے زیادہ زور مارا ہے.اور باوجود یکہ وہ اپنی ناکامیوں اور حضرت اقدس کی کامیابیوں کو بارہا دیکھ چکا اور بہت سے نشانات بھی ملاحظہ کر چکا ہے مگر اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا.اس لئے اس کو مباہلہ کی دعوت کی جاتی ہے جو آسمانی اور خدائی فیصلہ ہے.یہ مباہلہ بدوں کسی قسم کی شرط کے ہو گا اور اگر ایک سال کے اندر نتیجہ مباہلہ ہمارے حق میں نہ ہوا.اور ایک اثر قابل اطمینان ہماری تائید میں ظہور میں نہ آیا تو رقم مندرجہ بالا جو پہلے سے جمع کرا دی جاوے گی ان کو بطور نشان کامیابی ان یہ رقم اخیر نومبر تک جس قدر بڑھ جائے گی وہ بذریعہ احکم مشتہر ہوتی رہے گی اور ۳۰ نومبر کو جو رقم ہوگی وہ آخری ہوگی (ایڈیٹر )

Page 473

مجموعہ اشتہارات ۴۵۷ صاحبوں کی طرف سے دی جاوے گی جنہوں نے وہ مقرر کی ہے جلد دوم لہذا اب ہم پنجاب کے ان معززین کو جو میاں محمد حسین کو جانتے ہیں اور اُن سر بر آوردہ حضرات کو جن کی شیخ صاحب سے آشنائی ہے اور اُن خدا ترس لوگوں کو جو اسلام میں تفرقہ اور فتنہ پسند نہیں کرتے مخاطب کر کے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ خلق اللہ پر رحم کریں اور ان کو پریشانی اور گھبراہٹ میں نہ رہنے دیں وہ میاں محمد حسین صاحب کو مباہلہ پر آمادہ کریں تا کہ یہ آئے دن کا جھگڑا ایک سال کے اندر طے ہو جاوے کا ذب مفتری خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے آکر دنیا سے اٹھ جاوے یا کسی شدید عذاب میں مبتلا ہو کر صداقت پر مہر کر دے.اس پر بھی اگر میاں محمد حسین انکار کریں اور مباہلہ کے لئے مرد میدان ہو کر نہ نکلیں تو پھر اے آسمان گواہ رہ اور اے زمین سُن رکھ کہ حجت پوری کر دی گئی.اور ہم تمام اہل اسلام کی خدمت میں نہایت ادب سے التماس کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اب بھی میاں محمد حسین صاحب فیصلہ کی سیدھی راہ پر نہ آئیں تو پھر آپ خود انصاف کر لیں کہ سچ کس کے ساتھ ہے اور آئیندہ اپنی زندگی کے چند عارضی اور بے بنیاد دنوں کے لئے اس سلسلہ سے فائدہ اُٹھا ئیں جس کو خدا تعالیٰ نے محض تمہارے ہی رُوحانی فائدہ کے لئے قائم کیا ہے.بالآخر ہم پھر میاں محمد حسین صاحب کو اطلاع دیتے ہیں کہ بدوں کسی قسم کی شرط کے عالی جناب مرزا غلام احمد صاحب اَدَامَ اللهُ فُيُوضَهُمُ آپ سے مباہلہ کرنے کے لئے طیار ہیں.اگر خدا تعالیٰ کا خوف اور یوم الجزاء پر ایمان ہے اور مرزا صاحب کی تکفیر و تکذیب میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہو تو پھر آؤ اور مرد میدان بن کر مباہلہ کر لو.ضروری یادداشت ا.میاں محمد حسین بٹالوی کو اختیار ہوگا کہ اخیر نومبر ۹۸ ء تک کسی وقت منظوری مباہلہ کی درخواست مطبوعه یا تحریری بصیغہ رجسٹری ہمارے پاس بھیج دیں.

Page 474

مجموعہ اشتہارات ۴۵۸ جلد دوم ۲.ان کی درخواست کے موصول ہونے بعد تین ہفتہ کے اندر کل روپیہ انجمن حمایت اسلام لا ہور یا اگر وہ چاہیں تو بنگال بنک میں جمع کرا دیا جاوے گا.روپیہ جمع کرا دینے کے بعد ایک ہفتے کے اندر تاریخ مقرر ہو کر بمقام بٹالہ بلا کسی قسم کی مباہلہ میں میاں محمد حسین کے کامیاب ہونے پر انعام دینے والوں کی فہرست Љ حکیم منشی نور منشی فاضل مالک ہمدم صحت لاہور شرط کے مباہلہ ہو جاوے گا.مولوی عبد القادر لود بانوی..مال جماعت لاہور خادمان حضرت اقدس مال جماعت بٹالہ..جماعت شمله.منشی کرم الہی ریکارڈ کیپر پٹیالہ Љ Љ جماعت اله آباد شیخ یعقوب علی ایڈیٹر الحکم.مستری احمد الدین بھیرہ حافظ محمد حسین نابینا ڈنگوی.ام ألا وهو است > مولوی حکیم نورالدین صاحب.....مارف کل مولوی حکیم فضل الدین صاحب بھیروی ماله جماعت امرت سر مرزا خدا بخش صاحب صمار میزان.جماعت سیالکوٹ.است شیخ یعقوب علی ( تراب ) ایڈیٹر الحکم قادیان تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۷۹ ۸۰) ممار

Page 475

مجموعہ اشتہارات ١٩٩ ۴۵۹ جلد دوم اعلان دسمبر میں تعطیلوں کے دنوں میں ہمیشہ جلسہ ہوتا تھا لیکن اب کے دسمبر میں میں اور میرے گھر کے لوگ اور اکثر خادمہ عورتیں اور مرد موسمی بیماری سے بیمار ہیں.خدمت مہمانوں میں فتور ہو گا.اور بھی کئی اسباب ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے.اس لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ اب کی دفعہ کوئی جلسہ نہیں ہے.ہمارے سب دوست مطلع ہیں.والسلام.المعلن مرزا غلام احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُم مُحْسِنُونَ مبادا دل آن فرومایه شاد که از بهر دنیا دہد ویں بہار میں اپنی جماعت کے لئے خصوصاً یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ وہ اس اشتہار کے نتیجہ کے منتظر رہیں کہ جو ۲ نومبر ۱۸۹۸ء کو بطور مباہلہ شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنہ اور اس کے دو رفیقوں کی نسبت شائع کیا گیا ہے جس کی میعاد۵ ارجنوری ۱۹۰۰ء میں ختم ہوگی.اور میں اپنی جماعت کو چند لفظ بطور نصیحت کہتا ہوں کہ وہ طریق تقوی پر پنجہ مار کر یا وہ گوئی کے مقابلہ پر یاوہ گوئی نہ کریں.اور گالیوں کے مقابلہ میں گالیاں نہ دیں.وہ بہت کچھ ٹھٹھا اور ہنسی سنیں گے جیسا کہ وہ سُن رہے ہیں.مگر چاہیے کہ خاموش رہیں اور تقویٰ اور نیک بختی کے ساتھ النحل: ۱۲۹ ترجمہ.خدا کرے اس کمینے کا دل کبھی خوش نہ ہو جس نے دنیا کی خاطر دین کو برباد کر لیا.

Page 476

مجموعہ اشتہارات ۴۶۰ جلد دوم خدا تعالیٰ کے فیصلہ کی طرف نظر رکھیں.اگر وہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں قابل تائید ہوں تو صلاح اور تقویٰ اور صبر کو ہاتھ سے نہ دیں.اب اس عدالت کے سامنے مسل مقدمہ ہے جو کسی کی رعایت نہیں کرتی اور گستاخی کے طریقوں کو پسند نہیں کرتی.جب تک انسان عدالت کے کمرہ سے باہر ہے اگر چہ اس کی بدی کا بھی مواخذہ ہے مگر اس شخص کے جرم کا مواخذہ بہت سخت ہے جو عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر بطور گستاخی ارتکاب جرم کرتا ہے.اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عدالت کی توہین سے ڈرو.اور نرمی اور تواضع اور صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور خدا تعالیٰ سے چاہو کہ وہ تم میں اور تمہاری قوم میں فیصلہ فرمادے.بہتر ہے کہ شیخ محمد حسین اور اُس کے رفیقوں سے ہرگز ملاقات نہ کرو کہ بسا اوقات ملاقات موجب جنگ و جدل ہو جاتی ہے.اور بہتر ہے کہ اس عرصہ میں کچھ بحث مباحثہ بھی نہ کرو کہ بسا اوقات بحث مباحثہ سے تیز زبانیاں پیدا ہوتی ہیں.ضرور ہے کہ نیک عملی اور راستبازی اور تقویٰ میں آگے قدم رکھو کہ خدا اُن کو جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، ضائع نہیں کرتا.دیکھو حضرت موسیٰ نبی علیہ السلام جو سب سے زیادہ اپنے زمانہ میں حلیم اور متقی تھے تقویٰ کی برکت سے فرعون پر کیسے فتح یاب ہوئے.فرعون چاہتا تھا کہ اُن کو ہلاک کرے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھوں کے آگے خدا تعالیٰ نے فرعون کو مع اُس کے تمام لشکر کے ہلاک کیا.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں بدبخت یہودیوں نے یہ چاہا کہ اُن کو ہلاک کریں اور نہ صرف ہلاک بلکہ اُن کی پاک روح پر صلیبی موت سے لعنت کا داغ لگاویں کیونکہ توریت میں لکھا تھا کہ جو شخص لکڑی پر یعنی صلیب پر مارا جائے وہ لعنتی ہے یعنی اس کا دل پلید اور نا پاک اور خدا کے قرب سے دُور جا پڑتا ہے اور راندہ درگاہ الہی اور شیطان کی مانند ہو جاتا ہے.اس لئے لعین شیطان کا نام ہے اور یہ نہایت بد منصوبہ تھا کہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت سوچا گیا تھا تا اس سے وہ نالایق قوم یہ نتیجہ نکالے کہ یہ شخص پاک دل اور سچا نبی اور خدا کا پیارا نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ لعنتی ہے جس کا دل پاک نہیں ہے.اور جیسا کہ مفہوم لعنت کا ہے وہ خدا سے بجان و دل بیزار اور خدا اس سے بیزار ہے.لیکن خدائے قادر قیوم نے بدنیت یہودیوں کو اس ارادہ سے نا کام اور نامر اور کھا اور اپنے

Page 477

مجموعہ اشتہارات ۴۶۱ جلد دوم پاک نبی علیہ السلام کو نہ صرف صلیبی موت سے بچایا بلکہ اس کو ایک سو بیس برس تک زندہ رکھ کر تمام دشمن یہودیوں کو اس کے سامنے ہلاک کیا.ہاں خدا تعالیٰ کی اُس قدیم سنت کے موافق کہ کوئی لے حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ایک سو بیس برس کی عمر ہوئی تھی.لیکن تمام یہودو نصاریٰ کے اتفاق سے صلیب کا واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب کہ حضرت ممدوح کی عمر صرف تینتیس برس کی تھی.اس دلیل سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب سے بفضلہ تعالیٰ نجات پا کر باقی عمر سیاحت میں گزاری تھی.احادیث صحیحہ سے یہ ثبوت بھی ملتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی سیاح تھے.پس اگر وہ صلیب کے واقعہ پر مع جسم آسمان پر چلے گئے تھے تو سیاحت کس زمانہ میں کی.حالانکہ اہل لغت بھی مسیح کے لفظ کی ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لفظ سح سے نکلا ہے اور مسح سیاحت کو کہتے ہیں.ماسوا اس کے یہ عقیدہ کہ خدا نے یہودیوں سے بچانے کے لئے حضرت عیسی کو دوسرے آسمان پر پہنچا دیا تھا سراسر لغو خیال معلوم ہوتا ہے.کیونکہ خدا کے اس فعل سے یہودیوں پر کوئی حجت پوری نہیں ہوتی.یہودیوں نے نہ تو آسمان پر چڑھتے دیکھا اور نہ آج تک اُترتے دیکھا.پھر وہ اس مہمل اور بے ثبوت قصے کو کیونکر مان سکتے ہیں.ماسوا اس کے یہ بھی سوچنے کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کریم حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے حملہ کے وقت جو یہودیوں کی نسبت زیادہ بہادر اور جنگ جو اور کینہ ور تھے صرف اسی غار کی پناہ میں بچا لیا جو مکہ معظمہ سے تین میل سے زیادہ نہ تھی تو کیا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو بزدل یہودیوں کا کچھ ایسا خوف تھا کہ بجز دوسرے آسمان پر پہنچانے کے اُس کے دل میں یہودیوں کی دست درازی کا کھٹکا دُور نہیں ہوسکتا تھا بلکہ یہ قصہ سراسر افسانہ کے رنگ میں بنایا گیا ہے.اور قرآن کریم کے صریح مخالف اور نہایت زبردست دلائل سے جھوٹا ثابت ہوتا ہے.ہم بیان کر چکے ہیں کہ صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت شناخت کرنے کے لئے مرہم عیسی ایک علمی ذریعہ اور اعلیٰ درجہ کا معیار حق شناسی ہے اور اس واقعہ سے پورے طور پر مجھے اس لئے واقفیت ہے کہ میں ایک انسان خاندان طبابت میں سے ہوں اور میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ مرحوم جو اس ضلع کے ایک معزز رئیس تھے ایک اعلیٰ درجہ کے تجربہ کار طبیب تھے جنہوں نے قریباً ساٹھ سال اپنی عمر کے اس تجر بہ میں بسر کئے تھے اور جہاں تک ممکن تھا ایک بڑا ذخیرہ طبی کتابوں کا جمع کیا تھا.اور میں نے خود طب کی کتابیں پڑھی ہیں اور ان کتابوں کو ہمیشہ دیکھتا رہا.اس لئے میں اپنی ذاتی واقفیت سے بیان کرتا ہوں کہ ہزار کتاب سے زیادہ ایسی کتاب ہوگی جن میں مرہم عیسی کا ذکر ہے.اور ان میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسی کے لیے بنائی گئی تھی.ان کتابوں میں سے بعض یہودیوں کی کتابیں ہیں اور بعض

Page 478

مجموعہ اشتہارات ۴۶۲ جلد دوم اولوا العزم نبی ایسا نہیں گذرا جس نے قوم کی ایڈا کی وجہ سے ہجرت نہ کی ہو.حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی تین برس کی تبلیغ کے بعد صلیبی فتنہ سے نجات پا کر ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور یہودیوں کی دوسری قوموں کو جو بابل کے تفرقہ کے زمانہ سے ہندوستان اور کشمیر اور تبت میں آئے ہوئے تقیہ حاشیہ.عیسائیوں کی اور بعض مجوسیوں کی.سو یہ ایک علمی تحقیقات سے ثبوت ملتا ہے کہ ضرور حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب سے رہائی پائی تھی اگر انجیل والوں نے اس کے برخلاف لکھا ہے تو اُن کی گواہی ایک ذرہ اعتبار کے لائق نہیں کیونکہ اول تو وہ لوگ واقعہ صلیب کے وقت حاضر نہیں تھے اور اپنے آقا سے طرز بے وفائی اختیار کر کے سب کے سب بھاگ گئے تھے اور دوسرے یہ کہ انجیلوں میں بکثرت اختلاف ہے یہاں تک کہ برنباس کی انجیل میں حضرت مسیح کے مصلوب ہونے سے انکار کیا گیا ہے.اور تیسرے یہ کہ ان ہی انجیلوں میں جو بڑی معتبر سمجھی جاتی ہیں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ صلیب کے بعد اپنے حواریوں کو ملے.اور اپنے زخم اُن کو دکھلائے.پس اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت زخم موجود تھے جن کے لئے مرہم طیار کرنے کی ضرورت تھی.لہذا یقینا سمجھا جاتا ہے کہ ایسے موقعہ پر وہ مرہم طیار کی گئی تھی.اور انجیلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام چالیس روز اُسی گردو نواح میں بطور مخفی رہے اور جب مرہم کے استعمال سے بکلی شفا پائی تب آپ نے سیاحت اختیار کی.افسوس کہ ایک ڈاکٹر صاحب نے راولپنڈی سے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں اُن کو اس بات کا انکار ہے کہ مرہم عیسی کا نسخہ مختلف قوموں کی کتابوں میں پایا جاتا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اُن کو اس واقعہ کے سننے سے کہ حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے بلکہ زندہ مگر مجروح ہونے کی حالت میں رہائی پائی بڑی گھبراہٹ پیدا ہوئی اور خیال کیا کہ اس سے تمام منصوبہ کفارہ کا باطل ہوتا ہے.لیکن یہ قابل شرم بات ہے کہ اُن کتابوں کے وجود سے انکار کیا جائے جن میں یہ نسخہ مرہم عیسی موجود ہے.اگر وہ طالب حق ہیں تو ہمارے پاس آکر اُن کتابوں کو دیکھ لیں.اور صرف عیسائیوں کے لئے یہی مصیبت نہیں کہ مر ہم عیسی کی علمی گواہی اُن عقائد کو رڈ کرتی ہے اور تمام عمارت کفارہ و تثلیث وغیرہ کی یکدفعہ گر جاتی ہے بلکہ ان دنوں میں اس ثبوت کی تائید میں اور ثبوت بھی نکل آئے ہیں کیونکہ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیبی واقعہ سے نجات پا کر ضرور ہندوستان کا سفر کیا ہے اور نیپال سے ہوتے ہوئے آخر تبت تک پہنچے اور پھر کشمیر میں ایک مدت تک ٹھہرے.اور وہ بنی اسرائیل جو کشمیر میں بابل کے تفرقہ کے وقت میں سکونت پذیر ہوئے تھے اُن کو ہدایت کی اور آخر ایک سو بیس برس کی عمر میں سری نگر میں انتقال فرمایا اور محلہ خان یار میں مدفون ہوئے اور عوام

Page 479

مجموعہ اشتہارات ۴۶۳ جلد دوم تھے.خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر آخر کا ر خاک کشمیر جنت نظیر میں انتقال فرمایا اور سرینگر خانیار کے محلہ میں باعز از تمام دفن کئے گئے.آپ کی قبر بہت مشہور ہے يُزَارُ وَيُتَبَرَّكُ بِهِ.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے ہمارے سید و مولی نبی آخر الزمان کو جو سید المتقین تھے انواع اقسام کی تائیدات سے مظفر اور بقیہ حاشیہ کی غلط بیانی سے یوز آسف نبیلے کے نام سے مشہور ہو گئے.اس واقعہ کی تائید وہ انجیل بھی کرتی ہے جو حال میں محبت سے برآمد ہوئی ہے.یہ انجیل بڑی کوشش سے لندن سے ملی ہے.ہمارے مخلص دوست شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر قریباً تین ماہ تک لندن میں رہے اور اس انجیل کو تلاش کرتے رہے.آخر ایک جگہ سے میئر آ گئی.یہ انجیل بدھ مذہب کی ایک پرانی کتاب کا گویا ایک حصہ ہے.بدھ مذہب کی کتابوں سے یہ شہادت ملتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ملک ہند میں آئے اور ایک مدت تک مختلف قوموں کو وعظ کرتے رہے.اور بدھ مذہب کی کتابوں میں جو اُن کے ان ملکوں میں آنے کا ذکر لکھا گیا ہے اُس کا وہ سبب نہیں جو لا نے بیان کرتے ہیں یعنی یہ کہ انہوں نے گوتم بدھ کی تعلیم استفادہ کے طور پر پائی تھی ایسا کہنا ایک شرارت ہے ، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو واقعہ صلیب سے نجات بخشی تو انہوں نے بعد اس کے اس ملک میں رہنا قرین مصلحت نہ سمجھا اور جس طرح قریش کے انتہائی درجہ کے ظلم کے وقت یعنی جب کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ملک سے ہجرت فرمائی تھی.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے یہودیوں کے انتہائی ظلم کے وقت یعنی قتل کے ارادہ کے وقت ہجرت فرمائی.اے نوٹ.ایک نادان مسلمان نے اپنے دل سے ہی یہ بات پیش کی ہے کہ شاید یوز آسف سے زوجہ آ صف مراد ہو جو سلیمان کا وزیر تھا.مگر اُس جاہل کو یہ خیال نہیں آیا کہ زوجہ آصف نبی نہیں تھی اور اُس کو شہزادہ نہیں کہہ سکتے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ دونوں مذکر نام ہیں.مؤنث کے لئے اگر وہ یہ صفات بھی رکھتی ہوں بیہ اور شہزادی کہا جائے گا.نہ نبی اور شہزادہ.اس سادہ لوح نے یہ بھی خیال نہیں کیا کہ اُنہیں سو کی مدت حضرت عیسی کے زمانہ سے ہی مطابق آتی ہے.سلیمان تو حضرت عیسی سے کئی سو برس پہلے تھا.ماسوا اس کے اس نبی کی قبر کو جو سری نگر میں واقع ہے بعض یوز آسف کے نام سے پکارتے ہیں مگر اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے.ہمارے مخلص مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری نے جب سری نگر میں اس مزار کی نسبت تفتیش کرنا شروع کیا تو بعض لوگوں نے یوز آسف کا نام سُن کر کہا کہ ہم میں وہ قبر عیسی صاحب کی قبر مشہور ہے.چنانچہ کئی لوگوں نے یہی گواہی دی جواب تک سری نگر میں زندہ موجود ہیں جس کو شک ہو وہ خود کشمیر میں جا کر کئی لاکھ انسان سے دریافت کر لے اب اس کے بعد انکار بے حیائی ہے.منہ

Page 480

مجموعہ اشتہارات ۴۶۴ جلد دوم منصور کیا.گواوائل میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کی طرح داغ ہجرت آپ کے بھی نصیب ہوا مگر وہی ہجرت فتح اور نصرت کے مبادی اپنے اندر رکھتی تھی.سواے دوستو! یقیناً سمجھو کہ متقی کبھی برباد نہیں کیا جاتا.جب دو فریق آپس میں دشمنی کرتے بقیہ حاشیہ.اور چونکہ بنی اسرائیل بخت النصر کے حادثہ میں متفرق ہو کر بلادِ ہند اور کشمیر اور تبت اور چین کی طرف چلے آئے تھے اس لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے ان ہی ملکوں کی طرف ہجرت کرنا ضروری سمجھا.اور تواریخ سے اس بات کا بھی پتہ ملتا ہے کہ بعض یہودی اس ملک میں آکر اپنی قدیم عادت کے موافق بدھ مذہب میں بھی داخل ہو گئے تھے.چنانچہ حال میں جو ایک مضمون سول ملٹری گزٹ پر چه تاریخ ۲۳ / نومبر ۱۸۹۸ء میں چھپا ہے اُس میں ایک محقق انگریز نے اس بات کا اقرار بھی کیا ہے اور اس بات کو بھی مان لیا ہے کہ بعض جماعتیں یہودیوں کی اس ملک میں آئی تھیں اور اس ملک میں سکونت پذیر ہوگئی تھیں اور اُسی پر چہ سول میں لکھا ہے کہ ” دراصل افغان بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں، غرض جب کہ بعض بنی اسرائیل بدھ مذہب میں داخل ہو گئے تھے تو ضرور تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس ملک میں آ کر بدھ مذہب کے رڈ کی طرف متوجہ ہوتے اور اس مذہب کے پیشواؤں کو ملتے.سو ایسا ہی وقوع میں آیا.اسی وجہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے سوانح بدھ مذہب میں لکھے گئے.معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس ملک میں بدھ مذہب کا بہت زور تھا اور بید کا مذہب مر چکا تھا اور بدھ مذہب بید کا انکار کرتا تھالیے خلاصہ یہ کہ ان تمام امور کو جمع کرنے سے ضروری طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس ملک میں تشریف لائے تھے.یہ بات یقینی اور پختہ ہے کہ بدھ مذہب کی کتابوں میں اُن کے اس ملک میں آنے کا ذکر ہے اور جو مزار حضرت عیسی علیہ السلام کا کشمیر میں ہے جس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ قریباً انہیں شوبرس سے ہے.یہ اس امر کے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کا ثبوت ہے.غالباً اُس مزار کے ساتھ کچھ کتنے ہوں گے جواب مخفی ہیں.ان تمام امور کی مزید تحقیقات کے لئے ہماری جماعت میں سے ایک علمی تفتیش کا قافلہ طیار ہو رہا ہے جس کے پیشر و اخویم مولوی حکیم حاجی حرمین نورالدین صاحب سلمه ربه قرار پائے ہیں یہ قافلہ اس کھوج اور تفتیش کے لئے مختلف ملکوں میں پھرے گا اور ان سرگرم دینداروں کا کام ہوگا کہ پالی زبان کی کتابوں کو بھی دیکھیں کیونکہ یہ بھی پتہ لگا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اُس نواح میں بھی اپنی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش ا صرف یہی بات نہیں کہ بدھ مذہب کی بعض کتابوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کے ہندوستان اور تبت میں آنے کا تذکرہ ہے بلکہ ہمیں معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کشمیر کی پرانی تحریروں میں بھی اس کا تذکرہ ہے.منہ 1900

Page 481

۴۶۵ جلد دوم مجموعہ اشتہارات ہیں اور خصومت کو انتہا تک پہنچاتے ہیں تو وہ فریق جو خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی اور پر ہیز گار ہوتا ہے آسمان سے اس کے لئے مدد نازل ہوتی ہے اور اس طرح پر آسمانی فیصلہ سے مذہبی جھگڑے انفصال پاجاتے ہیں.دیکھو ہمارے سید و مولی نبینا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کیسی کمزوری کی حالت میں مکہ میں ظاہر بقیہ حاشیہ.میں گئے تھے.لیکن بہر حال کشمیر میں جانا اور پھر تبت میں جا کر بدھ مذہب کی پستکوں سے یہ تمام پستہ لگانا اس جماعت کا فرض منصبی ہوگا.اخویم شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور نے ان تمام اخراجات کو اپنے ذمہ قبول کیا ہے.لیکن اگر یہ سفر جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے بنارس اور نیپال اور مدراس اور سوات اور کشمیر اور تثبت وغیرہ ممالک تک کیا جائے جہاں جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کی بودوباش کا پتہ ملا ہے تو کچھ شک نہیں کہ یہ بڑے اخراجات کا کام ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بہر حال اللہ تعالیٰ اس کو انجام دے دے گا.ہر ایک دانش مند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا ثبوت ہے کہ اس سے یک دفعہ عیسائی مذہب کا تمام تانا بانا ٹوٹتا ہے اور انیس سو برس کا منصو بہ یکد فعہ کا لعدم ہو جاتا ہے.اس بات کا اطمینان ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس ملک ہند اور کشمیر وغیرہ میں آنا ایک واقعی امر ہے.اور اس کے بارے میں ایسے زبر دست ثبوت مل گئے ہیں کہ اب وہ کسی مخالف کے منصوبہ سے چھپ نہیں سکتے.معلوم ہوتا ہے کہ ان بیہودہ اور غلط عقائد کی اسی زمانہ تک عمر تھی.ہمارے سید و مولیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا ہے صلیب کو تو ڑے گا اور آسمانی حربہ سے دجال کو قتل کرے گا.اس حدیث کے اب یہ معنے کھلے ہیں کہ اُس مسیح کے وقت میں زمین و آسمان کا خدا اپنی طرف سے بعض ایسے امور اور واقعات پیدا کر دے گا جن سے صلیب اور تثلیث اور کفارہ کے عقائد خود بخود نابود ہو جائیں گے مسیح کا آسمان سے نازل ہونا بھی ان ہی معنوں سے ہے کہ اُس وقت آسمان کے خدا کے ارادہ سے کسر صلیب کے لئے بدیہی شہادتیں پیدا ہو جائیں گی.سوایسا ہی ہوا.یہ کس کو معلوم تھا کہ مرہم عیسی کا نسخہ صد باطبی کتابوں میں لکھا ہوا پیدا ہو جائے گا اس بات کی کس کو خبر تھی کہ بدھ مذہب کی پرانی کتابوں سے یہ ثبوت مل جائے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بلاد شام کے یہودیوں سے نومید ہو کر ہندوستان اور کشمیرا در تبت کی طرف آئے تھے لیے یہ بات کون جانتا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی کشمیر ا نوٹ.حال میں مسلمانوں کی تالیف بھی چند پرانی کتابیں دستیاب ہوئی ہیں جن میں صریح یہ بیان موجود ہے کہ یوز آسف ایک پیغمبر تھا جو کسی ملک سے آیا تھا اور شہزادہ بھی تھا.اور کشمیر میں اُس نے انتقال کیا.اور بیان کیا گیا ہے کہ وہ نبی چھ سو برس پہلے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گزرا ہے.منہ

Page 482

مجموعہ اشتہارات جلد دوم ہوئے تھے اور ان دنوں میں ابو جہل وغیرہ کفار کا کیا کچھ عروج تھا اور لاکھوں آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن جانی ہو گئے تھے تو پھر کیا چیز تھی جس نے انجام کار ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح اور ظفر بخشی.یقیناً سمجھو کہ یہی راستبازی اور صدق اور پاک باطنی اور سچائی تھی.سو بھائیو! اس بقیہ حاشیہ.میں قبر ہے.کیا انسان کی طاقت میں تھا کہ ان تمام باتوں کو اپنے زور سے پیدا کرسکتا.اب یہ واقعات اس طرح سے عیسائی مذہب کو مٹاتے ہیں جیسا کہ دن چڑھ جانے سے رات مٹ جاتی ہے.اس واقعہ کے ثابت ہونے سے عیسائی مذہب کو وہ صدمہ پہنچتا ہے جو اُس چھت کو پہنچ سکتا ہے جس کا تمام بوجھ ایک شہتیر پر تھا.شہتیر ٹوٹا اور چھت گری.پس اسی طرح اس واقعہ کے ثبوت سے عیسائی مذہب کا خاتمہ ہے.خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے.انہی قدرتوں سے وہ پہچانا گیا ہے.دیکھو کیسے عمدہ معنے اس آیت کے ثابت ہوئے کہ مَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ یعنی قتل کرنا اور صلیب سے مسیح کا مارنا سب جھوٹ ہے.اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو دھوکا لگا ہے اور مسیح خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق صلیب سے بچ کر نکل گیا.اور اگر انجیل کوغور سے دیکھا جائے تو انجیل بھی یہی گواہی دیتی ہے.کیا مسیح کی تمام رات کی دردمندانہ دُعا رد ہوسکتی تھی.کیا مسیح کا یہ کہنا کہ میں یونس کی طرح تین دن قبر میں رہوں گا اس کے یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ مردہ قبر میں رہا.کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں تین دن مرار رہا تھا.کیا پیلاطوس کی بیوی کے خواب سے خدا کا یہ منشانہیں معلوم ہوتا کہ مسیح کو صلیب سے بچالے.ایسا ہی مسیح کا جمعہ کی آخری گھڑی صلیب پر چڑھائے جانا اور شام سے پہلے اتارے جانا اور رسم قدیم کے موافق تین دن تک صلیب پر نہ رہنا اور ہڈی نہ توڑے جانا اور خون کا نکلنا کیا یہ تمام وہ امور نہیں ہیں جو بآواز بلند پکار رہے ہیں کہ یہ تمام اسباب مسیح کی جان بچانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دُعا کرنے کے ساتھ ہی یہ رحمت کے اسباب ظہور میں آئے.بھلا مقبول کی ایسی دُعا جو تمام رات رو رو کر کی گئی کب رد ہو سکتی تھی.پھر مسیح کا صلیب کے بعد حواریوں کو ملنا اور زخم دکھلا نا کس قدر مضبوط دلیل اس بات پر ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرا.اور اگر یہ صحیح نہیں ہے تو بھلا اب مسیح کو پکا رو کہ تمہیں آکر مل جائے جیسا کہ حواریوں کو ملا تھا.غرض ہر ایک پہلو سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کی صلیب سے جان بچائی گئی اور وہ اس ملک ہند میں آئے.کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے ان ہی ملکوں میں آ گئے تھے جو آخر کار مسلمان ہو گئے اور پھر اسلام کے بعد بموجب وعدہ توریت کے اُن میں کئی بادشاہ بھی ہوئے.اور یہ ایک دلیل صدق نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے کیونکہ توریت میں وعدہ تھا کہ بنی اسرائیل نبی موعود ا النساء : ۱۵۸

Page 483

مجموعہ اشتہارات ۴۶۷ جلد دوم پر قدم مارو اور اس گھر میں بہت زور کے ساتھ داخل ہو.پھر عنقریب دیکھ لو گے کہ خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.وہ خدا جو آنکھوں سے پوشیدہ مگر سب چیزوں سے زیادہ چمک رہا ہے.جس کے جلال سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں وہ شوخی اور چالا کی کو پسند نہیں کرتا اور ڈرنے والوں پر رحم کرتا ہے سواس سے ڈرو اور ہر ایک بات سمجھ کر کہو.تم اس کی جماعت ہو جن کو اس نے نیکی کا نمونہ دکھانے کے لئے چنا ہے.سو جو شخص بدی نہیں چھوڑتا اور اس کے کب جھوٹ سے اور اس کا دل نا پاک خیالات سے پر ہیز نہیں کرتا وہ اس جماعت سے کاٹا جائے گا.اے خدا کے بندو! دلوں کو صاف کرو اور اپنے اندرونوں کو دھو ڈالو.تم نفاق اور دورنگی سے ہر ایک کو راضی کر سکتے ہو مگر خدا کو اس خصلت سے غضب میں لاؤ گے.اپنی جانوں پر رحم کرو اور اپنی ذریت کو ہلاکت سے بچاؤ.کبھی ممکن ہی نہیں کہ خدا تم سے راضی ہو.حالانکہ تمہارے دل میں اس سے زیادہ کوئی اور عزیز بھی ہے.اس کی راہ میں فدا ہو جاؤ اور اس کے لئے محو ہو جاؤ اور ہمہ تن اس کے ہو جاؤ اگر چاہتے ہو کہ اسی دُنیا میں خدا کو دیکھ لو.کرامت کیا چیز ہے؟ اور خوارق کب ظہور میں بقیہ حاشیہ.کے پیرو ہو کر حکومت اور سلطنت پائیں گے.غرض مسیح ابن مریم کو صلیبی موت سے مارنا یہ ایک ایسا اصل ہے کہ اسی پر مذہب کے تمام اصولوں کفارہ اور تثلیث وغیرہ کی بنیادرکھی گئی تھی.اور یہی وہ خیال ہے کہ جو نصاری کے چالیس کروڑ انسانوں کے دلوں میں سرایت کر گیا ہے.اور اس کے غلط ثابت ہونے سے عیسائی مذہب کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اگر عیسائیوں میں کوئی فرقہ دینی تحقیق کا جوش رکھتا ہے تو ممکن ہے کہ ان ثبوتوں پر اطلاع پانے سے وہ بہت جلد عیسائی مذہب کو الوداع کہیں اور اگر اس تلاش کی آگ یورپ کے تمام دلوں میں بھڑک اُٹھے تو جو گر وہ چالیس کروڑ انسان کا انہیں سو برس میں تیار ہوا ہے ممکن ہے کہ انہیں ماہ کے اندر دست غیب سے ایک پلٹا کھا کرمسلمان ہو جائے.کیونکہ صلیبی اعتقاد کے بعد یہ ثابت ہونا کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں مارے گئے بلکہ دوسرے ملکوں میں پھرتے رہے یہ ایسا امر ہے کہ یکدفعہ عیسائی عقائد کو دلوں سے اڑاتا ہے اور عیسائیت کی دنیا میں انقلاب عظیم ڈالتا ہے.اے عزیزو! اب عیسائی مذہب کو چھوڑو کہ خدا نے حقیقت کو دکھا دیا.اسلام کی روشنی میں آؤ تا نجات پاؤ اور خدائے علیم جانتا ہے کہ یہ تمام نصیحت نیک نیتی سے تحقیق کامل کے بعد کی گئی ہے.منہ

Page 484

مجموعہ اشتہارات ۴۶۸ جلد دوم آتے ہیں؟ سو سمجھو اور یا درکھو کہ دلوں کی تبدیلی آسمان کی تبدیلی کو چاہتی ہے.وہ آگ جو اخلاص کے ساتھ بھڑکتی ہے وہ عالم بالا کو نشان کی صورت پر دکھلاتی ہے.تمام مومن اگر چہ عام طور پر ہر ایک بات میں شریک ہیں.یہاں تک کہ ہر ایک کو معمولی حالت کی خواہیں بھی آتی ہیں اور بعض کو الہام بھی ہوتے ہیں.لیکن وہ کرامت جو خدا کا جلال اور چمک اپنے ساتھ رکھتی ہے اور خدا کو دکھلا دیتی ہے وہ خدا کی ایک خاص نصرت ہوتی ہے جو ان بندوں کی عزت زیادہ کرنے کے لئے ظاہر کی جاتی ہے جو حضرت احدیت میں جان شاری کا مرتبہ رکھتے ہیں جبکہ وہ دنیا میں ذلیل کئے جاتے اور اُن کو بُرا کہا جاتا اور کذاب اور مفتری اور بدکار اور لعنتی اور دجال اور ٹھگ اور فریبی ان کا نام رکھا جاتا ہے اور اُن کے تباہ کرنے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں تو ایک حد تک وہ صبر کرتے اور اپنے آپ کو تھامے رہتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ کی غیرت چاہتی ہے کہ ان کی تائید میں کوئی نشان دکھاوے تب یک دفعہ ان کا دل دکھتا اور اُن کا سینہ مجروح ہوتا ہے.تب وہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر تضرعات کے ساتھ گرتے ہیں اور اُن کی دردمندانہ دعاؤں کا آسمان پر ایک صعبناک شور پڑتا ہے اور جس طرح بہت سی گرمی کے بعد آسمان پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بادل کے نمودار ہو جاتے ہیں اور پھر وہ جمع ہو کر ایک تہہ بہ تہ بادل پیدا ہو کر یک دفعہ برسنا شروع ہو جاتا ہے ایسا ہی مخلصین کے دردناک تضرعات جو اپنے وقت پر ہوتے ہیں رحمت کے بادلوں کو اُٹھاتے ہیں اور آخر وہ ایک نشان کی صورت میں زمین پر نازل ہوتے ہیں.غرض جب کسی مرد صادق ولی اللہ پر کوئی ظلم انتہا تک پہنچ جائے تو سمجھنا چاہیے کہ اب کوئی نشان ظاہر ہو گا.ہر بلاکیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است که مجھے افسوس سے اس جگہ یہ بھی لکھنا پڑا ہے کہ ہمارے مخالف نا انصافی اور دروغ گوئی اور کجروی سے باز نہیں آتے.وہ خدا کی باتوں کی بڑی جرات سے تکذیب کرتے اور خدائے جلیل کے نشانوں کو جھٹلاتے ہیں.مجھے امید تھی کہ میرے اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے بعد جو بمقابلہ ے ترجمہ.ہر آزمائش جو خدا کسی قوم کے لئے مقرر کرتا ہے اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ چھپا ہوتا ہے.

Page 485

مجموعہ اشتہارات ۴۶۹ جلد دوم شیخ محمد حسین بٹالوی اور محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی کے لکھا گیا تھا.یہ لوگ خاموش رہتے کیونکہ اشتہار میں صاف طور پر یہ لفظ تھے کہ ۵ ار جنوری ۱۹۰۰ ء تک اس بات کی میعاد مقرر ہو گئی ہے کہ جو شخص کا ذب ہو گا خدا اس کو ذلیل اور رسوا کرے گا.اور یہ ایک کھلا کھلا معیار صادق و کاذب کا تھا جو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے قائم کیا تھا.اور چاہیے تھا کہ یہ لوگ اُس اشتہار کے شایع ہونے کے بعد چپ ہو جاتے اور ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ ء تک خدا تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کرتے.لیکن افسوس کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا.بلکہ زٹلی مذکور نے اپنے اشتہار ۳۰ /نومبر ۱۸۹۸ء میں وہی گند پھر بھر دیا جو ہمیشہ اس کا خاصہ ہے اور سراسر جھوٹ سے کام لیا.وہ اس اشتہار میں لکھتا ہے کہ کوئی پیشگوئی اس شخص یعنی اس عاجز کی پوری نہیں ہوئی.ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ.وہ یہ بھی کہتا ہے کہ آتھم کے متعلق پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.ہم اس کے جواب میں بھی بجز لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ کچھ نہیں کہہ سکتے.اصل تو یہ ہے کہ جب انسان کا دل بخل اور عناد سے سیاہ ہو جاتا ہے تو وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتا اور سنتے ہوئے نہیں سنتا.اُس کے دل پر خدا کی مہر لگ جاتی ہے.اس کے کانوں پر پردے پڑ جاتے ہیں.یہ بات اب تک کس پر پوشیدہ ہے کہ آتھم کی پیشگوئی شرطی تھی اور خدا کے الہام نے ظاہر کیا تھا کہ وہ رجوع الی الحق کی حالت میں میعاد کے اندر مرنے سے بچ جائے گا اور پھر آتھم نے اپنے افعال سے اپنے اقوال سے اپنی سرامیگی سے اپنے خوف سے اپنے قسم نہ کھانے سے اپنے نالش نہ کرنے سے ثابت کر دیا کہ ایام پیشگوئی میں اس کا دل عیسائی مذہب پر قائم نہ رہا اور اسلام کی عظمت اس کے دل میں میں بیٹھ گئی اور یہ کچھ بعید نہ تھا کیونکہ وہ مسلمانوں کی اولا د تھا اور اسلام سے بعض اغراض کی وجہ سے مُرتد ہوا تھا.اسلامی چاشنی رکھتا تھا.اسی وجہ سے اس کو پورے طور پر عیسائیوں کے عقیدہ سے اتفاق بھی نہیں تھا اور میری نسبت وہ ابتدا سے نیک ظن رکھتا تھا.لہذا اس کا اسلامی پیشگوئی سے ڈرنا قرین قیاس تھا.پھر جبکہ اُس نے قسم کھا کر اپنی عیسائیت ثابت نہ کی اور نہ نالش کی اور چور کی طرح ڈرتا رہا اور عیسائیوں کی سخت تحریک سے بھی وہ اُن کا موں کے لئے آمادہ نہ ہوا تو کیا اس کی یہ حرکات ایسی نہ تھیں کہ اس

Page 486

مجموعہ اشتہارات ۴۷۰ جلد دوم سے یہ نتیجہ نکلے کہ وہ اسلامی پیشگوئی کی عظمت سے ضرور ڈرتا رہا.غافل زندگی کے لوگ تو نجومیوں کی پیشگوئیوں سے بھی ڈر جاتے ہیں چہ جائیکہ ایسی پیشگوئی جو بڑے شد ومد سے کی گئی تھی جس کے سُننے سے اسی وقت اس کا رنگ زرد ہو گیا تھا جس کے ساتھ در صورت نہ پورے ہونے کے میں نے اپنے سزایاب ہونے کا وعدہ کیا تھا.پس اس کا رُعب ایسے دلوں پر جو دینی سچائی سے بے بہرہ ہیں.کیونکر نہ ہوتا.پھر جبکہ یہ بات صرف قیاسی نہ رہی بلکہ خود آتھم نے اپنے خوف اور سراسمیگی اور دہشت زدہ ہونے کی حالت سے جس کو صد ہا لوگوں نے دیکھا اپنی اندرونی بے قراری اور اعتقادی حالت کے تغیر کو ظاہر کر دیا اور پھر معیاد قسم نہ کھانے اور نالش نہ کرنے سے اس تغیر کی حالت کو اور بھی یقین تک پہنچایا اور پھر الہام الہی کے موافق ہمارے آخری اشتہار سے چھ ماہ کے اندر مر بھی گیا تو کیا یہ تمام واقعات ایک منصف اور خدا ترس کے دل کو اس یقین سے نہیں بھرتے کہ وہ پیشگوئی کی معیاد کے اندر الہامی شرط سے فائدہ اُٹھا کر زندہ رہا اور پھر الہام الہی کی خبر کے موافق اخفائے شہادت کی وجہ سے مر گیا.اب دیکھو تلاش کرو کہ آتھم کہاں ہے؟ کیا وہ زندہ ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ کئی برس سے مر چکا مگر جس شخص کے ساتھ اس نے ڈاکٹر کلارک کی کوٹھی پر بمقام امرتسر مقابلہ کیا تھا وہ تو اب تک زندہ موجود ہے جواب یہ مضمون لکھ رہا ہے.اے حیا و شرم سے دُور رہنے والو! ذرہ اس بات کو تو سوچو کہ وہ شہادت کے اخفاء کے بعد کیوں جلد مر گیا ؟ میں نے تو اُس کی زندگی میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اگر میں کا ذب ہوں تو میں پہلے مروں گا ور نہ میں آتھم کی موت کو دیکھوں گا.سو اگر شرم ہے تو آتھم کو ڈھونڈ کر لاؤ کہاں ہے.وہ میری عمر کے قریب قریب تھا اور عرصہ میں برس سے مجھ سے واقفیت رکھتا تھا.اگر خدا چاہتا تو وہ تمیں برس تک اور زندہ رہ سکتا تھا.پس یہ کیا باعث ہوا کہ وہ انہیں دنوں میں جبکہ اس نے عیسائیوں کی دلجوئی کے لئے الہامی پیشگوئی کی سچائی اور اپنے دلی رجوع کو چھپایا خدا کے الہام کے موافق فوت ہو گیا.خدا اُن دلوں پر لعنت کرتا ہے جو سچائی کو پا کر پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور چونکہ یہ انکار جوا کثر عیسائیوں اور بعض شریر مسلمانوں نے کیا خدا تعالیٰ کی نظر میں ظلم صریح تھا اس لئے اس نے ایک دوسری

Page 487

مجموعہ اشتہارات ۴۷۱ جلد دوم عظیم الشان پیشگوئی کے پورا کرنے سے یعنی پنڈت لیکھرام کی موت کی پیشگوئی سے منکروں کو ذلیل اور رسوا کر دیا.یہ پیشگوئی اس مرتبہ پر فوق العادت تھی کہ اس میں قبل از وقت یعنی پانچ برس پہلے بتلا یا گیا تا کہ لیکھر ام کس دن اور کس قسم کی موت سے مرے گا.لیکن افسوس کہ بخیل لوگوں نے جن کو مرنا یاد نہیں.اس پیشگوئی کو بھی قبول نہ کیا اور خدا نے بہت سے نشان ظاہر کئے مگر یہ سب سے انکار کرتے ہیں.اب یہ اشتہار ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء آخری فیصلہ ہے.چاہیے کہ ہر ایک طالب صادق صبر سے انتظار کرے.خدا جھوٹوں ، کذابوں ، دجالوں کی مدد نہیں کرتا.قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ عہد ہے کہ وہ مومنوں اور رسولوں کو غالب کرتا ہے.اب یہ معاملہ آسمان پر ہے.زمین پر چلانے سے کچھ نہیں ہوتا.دونوں فریق اُس کے سامنے ہیں اور عنقریب ظاہر ہوگا کہ اس کی مد داور نصرت کس طرف آتی ہے.وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر خاکسار میرزاغلام احمد از قادیان ۳۰ /نومبر ۱۸۹۸ء یہ اشتہارالحکم جلد نمبر ۴۰ کے صفحہ ۶پر اور رسالہ راز حقیقت مطبوعہ ۱۳۰/ نومبر ۱۸۹۸ء کے صفحہ الغایت ۴ اپر درج ہے.) (روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۵۳ تا ۱۶۶)

Page 488

مجموعہ اشتہارات ۴۷۲ جلد دوم بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - نَحَمْدَهُ وَنُصَلَّى میری وہ پیشگوئی جو الہام ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں فریق کا ذب کے بارے میں تھی یعنی اس الہام میں جس کی عربی عبارت یہ ہے کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وہ مولوی محمد حسین بٹالوی پر پوری ہوگئی میری التماس ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس اشتہار کو توجہ سے دیکھے مندرجہ عنوان امر کی تفصیل یہ ہے کہ ہم دو فریق ہیں.ایک طرف تو میں اور میری جماعت اور دوسری طرف مولوی محمد حسین اور اس کی جماعت کے لوگ یعنی محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی وغیرہ محمد حسین نے مذہبی اختلاف کی وجہ سے مجھے دجال اور کذاب اور ملحد اور کافر ٹھہرایا تھا اور اپنی جماعت کے تمام مولویوں کو اس میں شریک کر لیا تھا اور اسی بنا پر وہ لوگ میری نسبت بد زبانی کرتے تھے اور گندی گالیاں دیتے تھے.آخر میں نے تنگ آ کر اسی وجہ سے مباہلہ کا اشتہار ۲۱ نومبر ۹۸ء جاری کیا جس کی الہامی عبارت جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا میں یہ ایک پیشگوئی تھی کہ ان دونوں فریق میں سے جو فریق ظلم اور زیادتی کرنے والا ہے اُس کو اُسی قسم کی ذلت پہنچے گی جس قسم کی ذلت

Page 489

مجموعہ اشتہارات ۴۷۳ جلد دوم فریق مظلوم کی کی گئی.سو آج وہ پیشگوئی پوری ہوگئی کیونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنی تحریروں کے ذریعہ سے مجھے یہ ذلت پہنچائی تھی کہ مجھے مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کا مخالف ٹھہرا کر ملحد اور کا فراور دقبال قرار دیا اور مسلمانوں کو اپنی اس قسم کی تحریروں سے میری نسبت بہت اُکسایا کہ اس کو مسلمان اور اہل سنت مت سمجھو کیونکہ اس کے عقائد تمہارے عقائد سے مخالف ہیں اور اب اس شخص کے رسالہ ۱۴ را کتوبر ۱۸۹۸ء کے پڑھنے سے جس کو محمد حسین نے اس غرض سے انگریزی میں شائع کیا ہے کہ تا گورنمنٹ سے زمین لینے کے لئے اس کو ایک ذریعہ بناوے.مسلمانوں اور مولویوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ شخص خود اُن کے اجماعی عقیدہ کا مخالف ہے کیونکہ وہ اس رسالہ میں مہدی موعود کے آنے سے قطعی منکر ہے جس کی تمام مسلمانوں کو انتظار ہے جو اُن کے خیال کے موافق حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے پیدا ہوگا اور مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا اور نیز اُن کے مذہب کا پیشوا اور دوسرے فرقوں کے مقابل پر مذہبی لڑائیاں کرے گا اور حضرت عیسی علیہ السلام اس کی مدد اور تائید کے لئے آسمان سے اُتریں گے اور ان دونوں کا ایک ہی مقصد ہوگا اور وہ یہ کہ تلوار سے دین کو پھیلا دیں گے اور اب مولوی محمد حسین نے ایسے مہدی کے آنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اس انکار سے نہ صرف وہ مہدی کے وجود کا منکر ہوا بلکہ ایسے مسیح سے بھی انکار کرنا پڑا جو اس مہدی کی تائید کے لئے آسمان سے اُترے گا اور دونوں باہم مل کر مخالفین اسلام سے لڑائیاں کریں گے اور یہ وہی عقیدہ ہے جس کی وجہ سے محمد حسین نے مجھے دجال اور ملحد ٹھہرایا تھا اور اب تک مسلمانوں کو یہی دھوکہ دے رہا تھا کہ وہ اس عقیدہ میں اُن سے اتفاق رکھتا ہے اور اب یہ پردہ کھل گیا کہ وہ دراصل میرے عقیدہ سے اتفاق رکھتا ہے یعنی ایسے مہدی اور ایسے مسیح کے وجود سے انکاری ہے اس لئے مسلمانوں کی نظر میں اور اُن کے تمام علماء کی نظر میں ملحد اور د قبال ہو گیا.سو آج پیشگوئی جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا اس پر پوری ہو گئی.کیونکہ اس کے یہی معنے ہیں کہ فریق ظالم کو اسی بدی کی مانند سزا ہوگی جو اس نے اپنے فعل سے فریق مظلوم کو پہنچائی.

Page 490

مجموعہ اشتہارات ۴۷۴ جلد دوم رہی یہ بات کہ اس نے مجھے گورنمنٹ انگریزی کا باغی قرار دیا.سوخدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب گورنمنٹ پر بھی یہ بات کھل جائے گی کہ ہم دونوں میں سے کس کی باغیانہ کارروائیاں ہیں.ابھی سُلطانِ رُوم کے ذکر میں اس نے میرے پر حملہ کر کے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر ۳ جلد ۱۸ میں ایک خطر ناک اور باغیانہ مضمون لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ”سلطان روم کو خلیفہ برحق سمجھنا چاہیے اور اس کو دینی پیشوا مان لینا چاہیے اور اس مضمون میں میرے کافر ٹھہرانے کے لئے یہ ایک وجہ پیش کرتا ہے کہ یہ شخص سلطان روم کے خلیفہ ہونے کا قائل نہیں ہے.‘ سوا گر چہ یہ درست ہے کہ میں سلطان رُوم کو اسلامی شرائط کے طریق سے خلیفہ نہیں مانتا کیونکہ وہ قریش میں سے نہیں ہے اور ایسے خلیفوں کا قریش میں سے ہونا ضروری ہے.لیکن یہ میرا قول اسلامی تعلیم کے مخالف نہیں بلکہ حدیث الائمہ من قریش سے سراسر مطابق ہے.مگر افسوس کہ محمد حسین نے باغیانہ طرز کا بیان کر کے پھر اسلام کی تعلیم کو بھی چھوڑا حالانکہ پہلے خود بھی یہی کہتا تھا کہ سلطان خلیفہ مسلمین نہیں ہے اور نہ ہمارا دینی پیشوا ہے اور اب میری عداوت سے سلطان روم اس کا خلیفہ اور دینی پیشوا بن گیا.اور اس جوش میں اُس نے انگریزی سلطنت کا بھی کچھ پاس نہ کیا اور جو کچھ دل میں پوشیدہ تھا وہ ظاہر کر دیا اور سلطان روم کی خلافت کے منکر کو کا فرٹھہرایا اور یہ تمام جوش اس کو اس لئے پیدا ہوا کہ میں نے انگریزی سلطنت کی تعریف کی اور یہ کہا کہ یہ گورنمنٹ نہ محض مسلمانوں کی دُنیا کے لئے بلکہ ان کے دین کے لئے بھی حامی ہے.اب وہ بغاوت پھیلانے کے لئے اس بات سے انکار کرتا ہے کہ کوئی دینی حمایت انگریزوں کے ذریعہ سے ہمیں پہنچی ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ دین کا حامی فقط سلطان روم ہے مگر یہ سراسر خیانت ہے.اگر یہ گورنمنٹ ہمارے دین کی محافظ نہیں تو پھر کیونکہ شریروں کے حملوں سے ہم محفوظ ہیں.کیا یہ امر کسی پر پوشیدہ ہے کہ سکھوں کے وقت میں ہمارے دینی امور کی کیا حالت تھی اور کیسے ایک بانگ نماز کے سُننے سے ہی مسلمانوں کے خون بہائے جاتے تھے.کسی مسلمان مولوی کی مجال نہ تھی کہ ایک ہندو کو مسلمان کر سکے.اب محمد حسین ہمیں جواب دے کہ اس وقت سلطان روم کہاں تھا اور اس نے ہماری اس مصیبت کے وقت ہماری کیا مدد کی تھی ؟

Page 491

۴۷۵ جلد دوم مجموعہ اشتہارات پھر وہ ہمارا دینی پیشوا اور خدا کا سچا خلیفہ کیونکر ہوا.آخر انگریز ہی تھے جنہوں نے ہم پر یہ احسان کیا کہ پنجاب میں آتے ہی یہ ساری روکیں اُٹھا دیں.ہماری مسجد میں آباد ہو گئیں.ہمارے مدر سے کھل گئے اور عام طور پر ہمارے وعظ ہونے لگے اور ہزار ہا غیر قوموں کے لوگ مسلمان ہوئے.پس اگر ہم محمد حسین کی طرح یہ اعتقاد رکھیں کہ ہم صرف پولیٹیکل طور پر اور ظاہری مصلحت کے لحاظ سے یعنی منافقانہ طور پر انگریزوں کے مطیع ہیں ورنہ دل ہمارے سلطان کے ساتھ ہیں وہ خلیفہ اسلام اور دینی پیشوا ہے.اُس کے خلیفہ ہونے کے انکار سے اور اس کی نافرمانی سے انسان کا فر ہو جاتا ہے تو اس اعتقاد سے بلاشبہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے چھپے باغی اور خدا تعالیٰ کے نافرمان ٹھہریں گے.تعجب ہے کہ گورنمنٹ ان باتوں کی تہہ تک کیوں نہیں پہنچتی اور ایسے منافق پر کیوں اعتبار کیا جاتا ہے کہ جو گورنمنٹ کو کچھ کہتا ہے اور مسلمانوں کے کانوں میں کچھ پھونکتا ہے.میں گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں ادب سے عرض کرتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ غور سے اس شخص کے حالات پر نظر کرے کہ یہ کیسے منافقانہ طریقوں پر چل رہا ہے اور جن باغیانہ خیالات میں آپ مبتلا ہے وہ میری طرف منسوب کرتا ہے.بالآخر یہ بھی لکھنا ضروری ہے کہ جس قدر اس شخص نے مجھے گندی گالیاں دیں اور محمد بخش جعفر زٹلی سے دلائیں اور طرح طرح کے افترا سے میری ذلت کی اس میں میری فریاد جناب اٹھی میں ہے جو دلوں کے خیالات کو جانتا ہے اور جس کے ہاتھ میں ہر ایک کا انصاف ہے.میں یہی چاہتا ہوں کہ جس قسم کی ذلت جھوٹے بہتانوں سے اس شخص نے کی یہاں تک کہ گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں مجھے باغی ٹھہرانے کے لئے خلاف واقعہ باتیں بیان کیں.وہی ذلت اس کو پیش آوے.میرا ہرگز یہ مدعا نہیں ہے کہ بجز طریق جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا کے کسی اور ذلت میں یہ مبتلا ہو بلکہ میں مظلوم ہونے کی حالت میں یہی چاہتا ہوں کہ جو کچھ میرے لئے اس نے ذلت کے سامان کیسے ہیں اگر اُن تہمتوں سے پاک ہوں تو وہ ذلتیں اس کو پیش آویں.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ بہت حلیم اور حتی المقدور چشم پوشی کرنے والی ہے.لیکن اگر میں بقول محمد حسین باغی ہوں یا جیسا کہ میں نے

Page 492

مجموعہ اشتہارات جلد دوم معلوم کیا ہے کہ خود محمد حسین کے ہی باغیانہ خیالات ہیں تو گورنمنٹ کا فرض ہے کہ کامل تحقیقات کر کے جو شخص ہم دونوں میں سے در حقیقت مجرم ہے اس کو قرار واقعی سزا دے تاملک میں ایسی بدی پھیلنے نہ پاوے.حفظ امن کے لئے نہایت سہل طریق یہی ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے نامی مولویوں سے دریافت کیا جائے.کہ یہ شخص جو اُن کا سرگروہ اور ایڈووکیٹ کہلاتا ہے اس کے کیا اعتقاد ہیں؟ اور کیا جو کچھ گورنمنٹ کو اپنے اعتقاد بتلاتا ہے.اپنے گروہ کے مولویوں پر بھی ظاہر کرتا ہے؟ کیونکہ ضرور ہے کہ جن مولویوں کا یہ گروہ اور ایڈووکیٹ ہے ان کے اعتماد بھی یہی ہوں جوسر گروہ کے ہیں.بالآ خرایک اور ضروری امر گورنمنٹ کی توجہ کے لئے یہ ہے کہ محمد حسین نے اپنی اشاعۃ السنه جلد ۸ نمبر صفحہ ۹۵ میں میری نسبت اپنے گروہ کو کسمایا ہے کہ ہرشخص واجب القتل ہے.پس جبکہ ۳ ایک قوم کا سرگروہ میری نسبت واجب القتل ہونے کا فتوی دیتا ہے تو مجھے گورنمنٹ عالیہ کے انصاف سے امید ہے کہ جو کچھ ایسے شخص کی نسبت قانونی سلوک ہونا چاہیے وہ بلا توقف ظہور میں آوے.تا اس کے معتقد ثواب حاصل کرنے کے لئے اقدام قتل کے منصوبے نہ کریں.فقط خاکسار مرزا غلام احمد قادیان تعداد ۷۰۰ ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۸ء مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان ( یہ اشتہار ۳۸۴ کے ہم صفحوں پر ہے ) (روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۲۲ تا ۲۲۶ تبلیغ رسالت جلد۷ صفحه ۶۶ تا ۷۰ ) ے نوٹ.محمد حسین نے اس قتل کے فتویٰ کے وقت یہ جھوٹا الزام میرے پر لگایا ہے کہ گویا میں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کی ہے اس لئے میں قتل کرنے کے لائق ہوں مگر یہ سراسر مجد حسین کا افترا ہے جس حالت میں مجھے دعوئی ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور حضرت عیسی علیہ السّلام سے مجھے مشابہت ہے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں اگر نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کو بُرا کہتا تو اپنی مشابہت اُن سے کیوں بتلاتا کیونکہ اس سے تو خود میرابر اہونا لازم آتا ہے.منہ

Page 493

مجموعہ اشتہارات جلد دوم نهایت ضروری عرضداشت قابل توجہ گورنمنٹ چونکہ ہماری گورنمنٹ برطانیہ اپنی رعایا کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتی ہے اور اس کی شفقت اور رحمت ہر ایک قوم کے شامل حال ہے لہذا ہمارا حق ہے کہ ہم ہر ایک درد اور دُکھ اس کے سامنے بیان کریں اور اپنی تکالیف کی چارہ جوئی اس سے ڈھونڈیں.سو ان دنوں میں بہت تکلیف جو ہمیں پیش آئی وہ یہ ہے کہ پادری صاحبان یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر ایک طرح سے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کریں گالیاں نکالیں بیجا تہمتیں لگا ویں اور ہر ایک طور سے تو ہین کر کے ہمیں دُکھ دیں اور ہم اُن کے مقابل پر بالکل زبان بند رکھیں اور ہمیں اس قدر بھی اختیار نہ رہے کہ اُن کے حملوں کے جواب میں کچھ بولیں.لہذاوہ ہماری ہر ایک تقر رکو ویسی ہی نرم ہوختی پر عمل کر کے حکام تک شکایت پہنچاتے ہیں حالانکہ ہزار ہا درجہ بڑھ کر ان کی طرف سے سختی ہوتی ہے.ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راست باز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہماری قلم سے اُن کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں لیکن پادری صاحبان چونکہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے جو چاہتے ہیں منہ پر لاتے ہیں.یہ ہمارا حق تھا کہ ہم اُن کے دل آزار کلمات کی اپنی گورنمنٹ عالیہ میں شکایت پیش کرتے اور دادرسی چاہتے.لیکن انہوں نے اول تو خود ہی ہزاروں سخت کلمات سے ہمارے دلوں کو دکھایا اور پھر ہم پر

Page 494

جلد دوم مجموعہ اشتہارات ہی اُلٹی عدالت میں شکایت کی کہ گویا سخت کلمات اور توہین ہماری طرف سے ہے اور اسی بناء پر وہ خون کا مقدمہ اُٹھایا گیا تھا جوڈ گلس صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے محکمہ سے خارج ہو چکا ہے.اس لئے قرین مصلحت ہے کہ ہم اپنی عادل گورنمنٹ کو اس بات سے آگاہ کریں کہ جس قدر سختی اور دل آزاری پادری صاحبوں کی قلم اور زبان سے اور پھر اُن کی تقلید اور پیروی سے آریہ صاحبوں کی طرف سے ہمیں پہنچ رہی ہے ہمارے پاس الفاظ نہیں جو ہم بیان کر سکیں.یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی شخص اپنے مقتدا اور پیغمبر کی نسبت اس قدر بھی سنا نہیں چاہتا کہ وہ جھوٹا اور مفتری ہے اور ایک باغیرت مسلمان بار بار کی توہین کو سن کر پھر اپنی زندگی کو بے شرمی کی زندگی خیال کرتا ہے تو پھر کیونکر کوئی ایماندار اپنے ہادی پاک نبی کی نسبت سخت سخت گالیاں سُن سکتا ہے.بہت سے پادری اس وقت برٹش انڈیا میں ایسے ہیں کہ جن کا دن رات پیشہ ہی یہ ہے کہ ہمارے نبی اور ہمارے سید و مولی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے رہیں.سب سے گالیاں دینے میں پادری عمادالدین امرت سری کا نمبر بڑھا ہوا ہے.وہ اپنی کتابوں تحقیق الایمان وغیرہ میں کھلی کھلی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے اور دغا باز، پرائی عورتوں کو لینے والا وغیرہ وغیرہ قرار دیتا ہے اور نہایت سخت اور اشتعال دینے والے لفظ استعمال کرتا ہے.ایسا ہی پادری ٹھا کر داس سیرة امسیح اور ریویو براہین احمدیہ میں ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا نام شہوت کا مطیع اور غیر عورتوں کا عاشق ، فریبی ،لٹیرا ، مکار، جاہل، حیلہ باز ، دھوکہ باز، رکھتا ہے اور رسالہ دَافِعُ الْبُهْتَان میں پادری انکلین نے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ الفاظ استعمال کئے ہیں.شہوت پرست تھا.محمد کے اصحاب زنا کار، دغا باز ، چور تھے.اور ایسا ہی تفتیش الاسلام میں پادری را جرس لکھتا ہے کہ محمد شہوت پرست نفس امارہ کا از حد مطیع، عشق باز ممگار، خونریز اور جھوٹا تھا اور رسالہ نبی معصوم مصنفہ امریکن ٹریکٹ سوسائٹی میں لکھا ہے محمد گہنگار، عاشق حرام یعنی زنا کا مرتکب، مکار، ریا کا رتھا.اور رسالہ مسیح الدجال میں ماسٹر رامچند رہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہتا ہے کہ محمد سرغنہ ڈکیتی

Page 495

مجموعہ اشتہارات ۴۷۹ جلد دوم تھا.اور لوٹیرا ، ڈاکو، فریبی ، عشقباز ، مفتری ، شہوت پرست، خونریز ، زانی.اور کتاب سوانح عمری محمد صاحب مصنفہ واشنگٹن اردنگ صاحب میں لکھا ہے کہ محمد کے اصحاب قزاق اور لٹیرے تھے اور وہ خود طامع ، جھوٹا ، دھوکہ باز تھا.اور اندرونہ بائبل مصنفہ آتھم عیسائی میں لکھا ہے کہ محمد دقبال تھا اور دھو کہ باز.پھر کہتا ہے کہ محمد یوں کا خاتمہ بڑا خوفناک ہے.یعنی جلد تباہ ہو جائیں گے.اور پر چہ نورافشاں لدھیانہ میں لکھا ہے کہ محمد کو شیطانی وحی ہوتی تھی.اور نا جائز حرکات کرتا تھا اور نفسانی آدمی، گمراہ، مکار فریبی ، زانی، چور، خونریز، لوٹیرا ، رہزن، رفیق شیطان اور اپنی بیٹی فاطمہ کونظر شہوت سے دیکھنے والا تھا.اب یہ تمام الفاظ غور کرنے کے لائق ہیں جو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے حق میں پادری صاحبوں کے منہ سے نکلے ہیں.اور سوچنے کے لایق ہے کہ ان کے کیا کیا نتائج ہو سکتے ہیں.کیا اس قسم کے الفاظ کبھی کسی مسلمان کے منہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت نکل سکتے ہیں کیا دنیا میں ان سے سخت تر الفاظ ممکن ہیں جو پادری صاحبوں نے اس پاک نبی کے حق میں استعمال کئے ہیں جس کی راہ میں کڑور ہا خدا کے بندے فدا شدہ ہیں اور وہ اس نبی سے سچی محبت رکھتے ہیں جس کی نظیر دوسری قوموں میں تلاش کرنا سخت لا حاصل ہے پھر باوجود ان گستاخیوں ان بد زبانیوں اور ان نا پاک کلمات کے پادری صاحبان ہم پر الزام سخت گوئی کا رکھتے ہیں.یہ کس قدر ظلم ہے.ہم یقیناً جانتے ہیں کہ ہرگز ممکن نہیں کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ ان کے اس طریق کو پسند کرتی ہو یا خبر پا کر پھر پسند کرے اور نہ ہم باور کر سکتے ہیں کہ آئندہ پادریوں کے کسی ایسے بیجا جوش کے وقت کہ جو کلارک کے مقدمہ میں ظہور میں آیا.ہماری گورنمنٹ پادریوں کو ہندوستان کے چھ کڑور مسلمانوں پر ترجیح سے کوئی رعایت ان کی کرے گی.اس وقت جو ہمیں پادریوں اور آریوں کی بد زبانی پر ایک لمبی فہرست دینی پڑی وہ صرف اس غرض سے ہے کہ تا آئیندہ وہ فہرست کام آئے اور کسی وقت گورنمنٹ عالیہ اس فہرست پر نظر ڈال کر اسلام کی ستم رسیدہ رعایا کو رحم کی نظر سے دیکھے.اور ہم مسلمانوں پر ظاہر کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کو ان باتوں کی اب تک خبر نہیں ہے کہ کیونکر

Page 496

مجموعہ اشتہارات ۴۸۰ جلد دوم پادریوں کی بد زبانی نہایت تک پہنچ گئی ہے اور ہم دلی یقین سے جانتے ہیں کہ جس وقت گورنمنٹ عالیہ کو ایسی سخت زبانی کی خبر ہوئی تو وہ ضرور آئیندہ کے لئے کوئی احسن انتظام کرے گی.نوٹ از مرتب ہذا یہ عرضداشت کتاب البریہ مطبوعہ بار اوّل کے صفحہ ۹۳ تا ۹۵ پر درج ہے اس کے آگے صفحہ ۹۶ سے لے کر صفحہ ۱۲۴ تک مخالفین اسلام وسلسلہ کی گالیوں کی فہرست نقل کی گئی ہے جس کو چھوڑ دیا ہے اور اگلا اعلان بھی اسی کتاب سے نقل کیا جاتا ہے ) روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۹ تا۱۲۲ پھر صفحہ ۱۲۲ تا ۱۵۲ پر مخالفین کی گالیوں کی فہرست دی گئی ہے جو یہاں شامل اشاعت نہیں ہے)

Page 497

مجموعہ اشتہارات ٢٠٢ ۴۸۱ جلد دوم ہیں ہزار روپیہ تاوان ان لوگوں نے اس عقیدہ کو اختیار کرنے سے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے اور وہاں قریباً اُنیس سو برس سے زندہ بجسم عصری موجود ہیں اور پھر کسی وقت زمین پر واپس آئیں گے.قرآن شریف کی چار جگہ مخالفت کی ہے.اوّل یہ کہ قرآن شریف صریح لفظوں سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ظاہر فرماتا ہے جیسا کہ بیان ہوا.اور یہ کہ لوگ اُن کے زندہ ہونے کے قائل ہیں.دوسرے یہ کہ قرآن شریف صاف اور صریح لفظوں میں فرماتا ہے کہ کوئی انسان بجز زمین کے کسی اور جگہ زندہ نہیں رہ سکتا جیسا کہ وہ فرماتا ہے فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ کے یعنی تم زمین میں ہی زندہ رہو گے اور زمین میں ہی مرو گے اور زمین سے ہی نکالے 66 جاؤ گے.مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ ” نہیں اس زمین اور کرہ ہوا سے باہر بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے.جیسا کہ اب تک جو قریباً انیسویں صدی گزرتی ہے حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں.“ حالانکہ زمین پر جو قرآن کے رو سے انسانوں کے زندہ رہنے کی جگہ ہے.باوجود زندگی کے قائم رکھنے کے سامانوں کے کوئی شخص اُنیس سو برس تک ابتدا سے آج تک کبھی زندہ نہیں رہا تو پھر آسمان لے یہ عنوان حضرت میر قاسم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا قائم کردہ ہے.اصل کتاب میں کوئی عنوان نہ تھا.الاعراف : ۲۶ ( عبداللطیف بہاولپوری )

Page 498

مجموعہ اشتہارات ۴۸۲ جلد دوم پر اُنیس سو برس تک زندگی بسر کرنا باوجود اس امر کے کہ قرآن کی رُو سے ایک قدر قلیل بھی بغیر زمین کے انسان زندگی بسر نہیں کر سکتا.کس قدر خلاف نصوص صریح قرآن ہے جس پر ہمارے مخالف ناحق اصرار کر رہے ہیں.تیسرے یہ کہ قرآن شریف صاحب فرماتا ہے کہ کسی انسان کا آسمان پر چڑھ جانا عادۃ اللہ کے مخالف ہے.جیسا کہ فرماتا ہے کہ قُل سُبحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا لے لیکن ہمارے مخالف حضرت عیسی کو ان کے جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چڑھاتے ہیں.چوتھے یہ کہ قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا ہیں.مگر ہمارے مخالف حضرت عیسی علیہ اسلام کو خاتم انبیا ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو صحیح مسلم وغیرہ میں آنے والے مسیح کو نبی اللہ کے نام سے یاد کیا ہے وہاں حقیقی نبوت مراد ہے.اب ظاہر ہے کہ جب وہ اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئے تو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کیونکر خاتم انبیا ٹھہر سکتے ہیں؟ نبی ہونے کی حالت میں حضرت عیسی علیہ السلام نبوت کے لوازم سے کیونکر محروم رہ سکتے ہیں؟! غرض ان لوگوں نے یہ عقیدہ اختیار کر کے چار طور سے قرآن شریف کی مخالفت کی ہے اور پھر اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں.صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ ملا کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں مگر یادر ہے کہ کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں.چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وار دشہر کو پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں اترے ہیں.اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا که یه شخص آسمان سے اُترا ہے.اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا کوئی وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسی جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے.اگر کوئی ایسی ا بنی اسراءیل : ۹۴

Page 499

مجموعہ اشتہارات ۴۸۳ جلد دوم حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں اور تو بہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہوگا جس طرح چاہیں تسلی کر لیں.افسوس ہے کہ ہمارے سادہ لوح علما صرف نزول کا لفظ احادیث میں دیکھ کر اس بلا میں گرفتار ہو گئے ہیں کہ خواہ نخواہ امیدیں باندھ رہے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے واپس آئیں گے اور وہ دن ایک بڑے تماشے اور نظارہ کا دن ہوگا کہ اُن کے دائیں بائیں فرشتے ساتھ ساتھ ہوں گے جو اُن کو آسمان سے اُٹھا کر لائیں گے.افسوس کہ یہ لوگ کتابیں تو پڑھتے ہیں مگر آنکھ بند کر کے.فرشتے تو ہر ایک انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور بموجب حدیث صحیح کے طالب العلموں پر اپنے پروں کا سایہ ڈالتے ہیں.اگر مسیح کو فرشتے اُٹھا ئیں تو کیوں نرالے طور پر اس بات کو مانا جائے.قرآن شریف سے تو یہ بھی ثابت ہے کہ ہر ایک شخص کو خدا تعالیٰ اُٹھائے پھرتا ہے حَمَلْنَاهُم فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ یے مگر کیا خدا کسی کو نظر آتا ہے؟ یہ سب استعارات ہیں مگر ایک بیوقوف فرقہ چاہتا ہے کہ اُن کو حقیقت کے رنگ میں دیکھیں اور اس طرح پر ناحق مخالفوں کو اعتراض کا موقعہ دیتے ہیں یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر حدیثوں کا مقصد یہ تھا کہ وہی مسیح جو آسمان پر گیا تھا واپس آئے گا تو اس صورت میں نزول کا لفظ بولنا ہے محل تھا.ایسے موقعہ پر یعنی جہاں کسی کا واپس آنا بیان کیا جاتا ہے.عرب کے فصیح لوگ رجوع بولا کرتے ہیں نہ نزول.پھر کیونکہ ایسا غیر فصیح اور بے محل لفظ اس افْصَحُ الْفُصَحَاء اور اَعْرَفُ النَّاس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح منسوب کیا جائے جو تمام فصحاء کا سردار ہے.یہ اعلان کتاب البریہ کے حاشیہ صفحہ ۱۸۹ تا ۱۹۳ پر درج ہے) (روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۲۲ تا ۶ ۲۲ حاشیه ) بنی اسراءیل اے

Page 500

مجموعہ اشتہارات ۴۸۴ جلد دوم اشتہار عام اطلاع کے لیے اگر چہ یہ کتاب بعض متفرق مقامات میں عیسائیوں کے حملوں کا جواب دیتی اور ان کو مخاطب کرتی ہے لیکن یادر ہے کہ باوجود اس بات کے کہ عیسائیوں کی کتاب امہات المومنین نے دلوں میں سخت اشتعال پیدا کیا ہے مگر پھر بھی ہم نے اس کتاب میں جہاں کہیں عیسائیوں کا ذکر آیا ہے بہت نرمی اور تہذیب اور لطف بیان سے ذکر کیا ہے.اور گوایسی صورت میں کہ دل دکھانے والی گالیاں ہمارے پیغمبر صل اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں.ہمارا حق تھا کہ ہم مدافعت کے طور پر سختی کا سختی سے جواب دیتے لیکن ہم نے محض اس حیا کے تقاضا سے جو مومن کی صفت لازمی ہے ہر ایک تلخ زبانی سے اعراض کیا اور وہی امور لکھے ہیں جو موقعہ اور محل پر چسپاں تھے اور قطع نظر ان سب باتوں کے ہماری اس کتاب میں اور رسالہ فریاد درد میں وہ نیک چلن پادری اور دوسرے عیسائی مخاطب نہیں ہیں جو اپنی شرافت ذاتی کی وجہ سے فضول گوئی اور بدگوئی سے کنارہ کرتے ہیں.اور دل دکھانے والے لفظوں سے ہمیں دُکھ نہیں دیتے اور نہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے اور نہ اُن کی کتابیں سخت گوئی اور توہین سے بھری ہوئی ہیں.ایسے لوگوں کو بلا شبہ ہم عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ ہماری کسی تقریر کے مخاطب نہیں ہیں.بلکہ صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے یا عیسائی ہیں جو حد اعتدال سے بڑھ گئے ہیں اور ہماری ذاتیات پر گالی اور بدگوئی سے حملہ کرتے یا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بزرگ میں تو ہین اور ہتک آمیز باتیں منہ پر

Page 501

مجموعہ اشتہارات ۴۸۵ جلد دوم لاتے اور اپنی کتابوں میں شائع کرتے ہیں.سو ہماری اس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معزز لوگوں کی طرف نہیں ہے جو بدزبانی اور کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے.ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں.سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں.ہے جو اُن کی شانِ بزرگ کے برخلاف ہو.اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتر مرزا غلام احمد از قادیان یا اشتہار نظام السلع مطبوعہ ہا راؤل کے نائٹل پر ہے ) (روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۲۸)

Page 502

مجموعہ اشتہارات ۴۸۶ جلد دوم واپسی قیمت براہین احمدیه قولہ.براہین احمدیہ کا بقیہ نہیں چھاپتے.اقول.اس توقف کو بطور اعتراض پیش کرنا محض لغو ہے.قرآن شریف بھی باوجود کلام الہی ہونے کے تئیس برس میں نازل ہوا.پھر اگر خدا تعالیٰ کی حکمت نے بعض مصالح کی غرض سے براہین کی تکمیل میں توقف ڈال دی تو اس میں کونسا حرج ہوا.اور اگر یہ خیال ہے کہ پیشگی خریداروں سے رو پی لیا گیا تھا تو ایسا خیال کرنا بھی حمق اور نا واقعی کے باعث ہوگا.کیونکہ اکثر براہین احمدیہ کا حصہ مفت تقسیم کیا گیا ہے اور بعض سے پانچ رو پید اور بعض سے آٹھ آنہ تک قیمت لی گئی ہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جن سے دس روپے لئے گئے ہوں اور جن سے پچیس روپے لئے گئے وہ صرف چند آدمی ہیں.پھر باوجود اس قیمت کے جو اس حصص براہین احمدیہ کے مقابل پر جو منطبع ہو کر خریداروں کو دیئے گئے ہیں کچھ بہت نہیں ہے بلکہ عین موزوں ہے.اعتراض کرنا سراسر کمینگی اور سفاہت ہے.لیکن پھر بھی ہم نے بعض جاہلوں کے ناحق کے شوروغوغا کا خیال کر کے دومرتبہ کے اشتہار دے دیا کہ جو شخص براہین احمدیہ کی قیمت واپس لینا چاہے وہ ہماری کتابیں ہمارے حوالے کرے اور اپنی ے یہ عنوان مضمون کی مناسبت سے حضرت میر قاسم علی صاحب نے قائم کیا ہے.اصل کتاب میں کوئی عنوان نہ تھا.(عبد اللطیف بہاولپوری ) دیکھئے جلد اول صفحه ۴۲۳ اشتہار نمبر ۱۰۵ (مرتب)

Page 503

مجموعہ اشتہارات ۴۸۷ جلد دوم قیمت لے لے چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی اور بعض نے کتابوں کو بہت خراب کر کے بھیجا مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی.اور کئی دفعہ ہم لکھ چکے ہیں کہ ہم ایسے کمینہ طبعوں کی ناز برداری کرنا نہیں چاہتے اور ہر ایک وقت قیمت واپس کر دینے پر طیار ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایسے دنی الطبع لوگوں سے خدا تعالیٰ نے ہم کو فراغت بخشی.مگر پھر بھی اب مجدد اہم یہ چند سطور بطور اشتہار لکھتے ہیں کہ اگراب بھی کوئی ایسا خریدار چھپا ہوا موجود ہے کہ جو غائبانہ براہین کی توقف کی شکایت رکھتا ہے تو وہ فی الفور ہماری کتابیں بھیج دے ہم اس کی قیمت جو کچھ اس کی تحریر سے ثابت ہوگی اس کی طرف روانہ کر دیں گے اور اگر کوئی باوجود ہمارے ان اشتہارات کے اب اعتراض کرنے سے باز نہ آوے تو اس کا حساب خدا تعالیٰ کے پاس ہے.اور شہزادہ صاحب یہ تو جواب دیں کہ انہوں نے کونسی کتاب ہم سے خریدی اور ہم نے اب تک وہ کتاب پوری نہ دی اور نہ قیمت واپس کی.یہ کس قدر نا خدا ترسی ہے کہ بعض پر کینہ ملانوں کی زبانی ہے تحقیق اس بات کو سننا اور پھر اس کو بطو ر اعتراض پیش کر دینا.الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان یہ اشتہا رایام اصلح اردو طبع اوّل کے صفحہ ۱۷۳ ۷۴ اپر درج ہے ) (روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۲،۴۲۱)

Page 504

مجموعہ اشتہارات ۴۸۸ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ایک پیشگوئی کا پورا ہونا اشتہار قابل توجہ گورنمنٹ اس میں یہ بیان ہے کہ پیشگوئی مندرجہ اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ ء جس کا خلاصہ یہ تھا کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ آج پوری ہو گئی.اس پیشگوئی کا حاصل مطلب یہی تھا کہ فریق ظالم نے فریق مظلوم کو جس قسم کی ذلت پہنچائی ہے اسی قسم کی ذنت فریق ظالم کو پہنچے گی کوئی اس کو روک نہیں سکتا.سو وہ ذلت فریق ظالم کو پہنچ گئی.آج میں اس خدائے قادر قدوس کے ہزار ہزار شکر کے بعد جو مظلوموں کی فریاد کو پہنچتا اور سچائی کی حمایت کرتا اور اپنے پاک کلمات کو پورے کرتا ہے، عام مسلمانوں اور دوسرے لوگوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ جو میں نے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کے مقابل پر اس کی

Page 505

مجموعہ اشتہارات ۴۸۹ جلد دوم بہت سی گالیوں اور بہتانوں اور دجال کذاب کافر کہنے کے بعد اور اُس کی اس پلید گندہ زبانی کے بعد جو اس نے خود اور اپنے دوست محمد بخش جعفر زٹلی وغیرہ کے ذریعہ سے میری نسبت کی تھی ایک اشتہار بطور مباہلہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو لکھا تھا اور اس میں فریق ظالم اور کاذب کی نسبت یہ عربی الہام تھا کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ يعنی جس قسم کی فریق مظلوم کو مدی پہنچائی گئی ہے اسی قسم کی فریق ظالم کو جزا پہنچے گی.سو آج یہ پیشگوئی کامل طور پر پوری ہوگئی کیونکہ مولوی محمد حسین نے بدزبانی سے میری ذلّت کی تھی اور میرا نام کا فر اور دجال اور کذاب اور محمد رکھا تھا اور یہی فتویٰ کفر وغیرہ کا میری نسبت پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں سے لکھوایا اور اسی بنا پر محمد حسین مذکور کی تعلیم سے اور خود اس کے لکھوانے سے محمد بخش جعفر زٹلی لاہور وغیرہ نے گندے بہتان میرے پر اور میرے گھر کے لوگوں پر لگائے.سواب یہی فتویٰ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں بلکہ خود محمد حسین کے اُستاد نذیرحسین نے اس کی نسبت دے دیا یعنی یہ کہ وہ کذاب اور دقبال اور مفتری اور کافر اور بدعتی اور اہل سنت سے خارج بلکہ اسلام سے خارج ہے اور اس فتویٰ کا باعث یہ ہوا کہ محمد حسین مذکور نے تمام علماء پر اپنا عقیدہ یہ ظاہر کر رکھا تھا کہ وہ ان کی طرح اُس مہدی موعود کا منتظر ہے جو بنی فاطمہ میں سے خلیفہ ہو گا اور کافروں سے لڑے گا اور مسیح موعود اس کی مدد کے لئے اور اس کی خونریزی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لئے آسمان سے اُترے گا اور اُس نے علماء کو یہ بھی کہا تھا کہ پہلے میں نے غلطی سے ایسا خیال کیا تھا کہ مہدی کے آنے کی حدیثیں صحیح نہیں ہیں مگر میں نے اب اس قول سے رجوع کر لیا ہے اور اب میں نے پختہ اعتقاد سے جانتا ہوں کہ ایسا مہدی ضرور آئے گا اور عیسائیوں اور دوسرے کافروں سے لڑے گا اور اس کی تائید کے لئے عیسی علیہ السلام آسمان سے اتریں گے تا دو نومل کر کافروں کو مسلمان کریں یا مار ڈالیں.“ یہ اعتقاد اُس وقت محمد حسین نے مولویوں میں جوش پھیلانے کے لئے ظاہر کیا تھا جبکہ اس نے میرے کافر

Page 506

مجموعہ اشتہارات ۴۹۰ جلد دوم ٹھہرانے کے لئے ایک فتویٰ لکھا تھا اور بیان کیا تھا کہ یہ شخص مہدی موعود کے آنے سے اور اس کی لڑائیوں سے منکر ہے لیکن جب ان دنوں میں محمد حسین کو گورنمنٹ سے زمین لینے کی ضرورت پیش آئی تو اُس نے پوشیدہ طور پر ۱۴ راکتو بر ۱۸۹۸ء کو انگریزی میں ایک فہرست شائع کی جس میں اس نے گورنمنٹ کو اپنا یہ احسان جتلایا ہے کہ میں اُس مہدی موعود کو نہیں مانتا جس کے مسلمان منتظر ہیں اور وہ تمام حدیثیں جھوٹی ہیں جن میں اس کے آنے کی خبر ہے اور اس کی بدقسمتی سے اس انگریزی فہرست کی مسلمانوں کو اطلاع ہو گئی اور لوگوں نے بڑا تعجب کیا کہ یہ کیسا منافق ہے کہ اپنی قوم کے آگے مہدی موعود کے آنے کے بارے میں اپنا اعتقادظاہر کرتا ہے اور گورنمنٹ کو یہ سُنا تا ہے کہ میں اس اعتقاد کا مخالف ہوں.تب میں نے اس کے بارے میں استفتاء لکھا اور فتویٰ لینے کے لئے پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں کے سامنے پیش کیا.تب مولویوں اور نذیر حسین اُس کے اُستاد نے بھی وہ استفتاء پڑھ کر اُسی طرح محمد حسین کو کافر اور دجال ٹھیرایا جیسا کہ مجھے ٹھیرایا تھا اور اسی طرح ذلت کے الفاظ اس کی نسبت لکھے جیسا کہ محمد حسین نے میری نسبت لکھے تھے.سو وہ اسی طرح ذلیل کیا گیا جیسا کہ اس نے جھوٹے فتووں سے مجھے ذلیل کیا تھا.سو اس طرح یہ پیشگوئی پوری ہو گئی.یہ سچ ہے کہ میں ایسے خونی مہدی کو نہیں مانتا کہ جو تلوار سے لوگوں کو اسلام میں داخل کرنا چاہے گا اور نہ ایسے مسیح کے آسمان سے اتر نے کا میں قائل ہوں جو ناحق اس خونریزی میں شریک ہوگا.اور میں نے دلائل قویہ سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ اعتقادخونی مہدی اور ایسے مسیح کے آسمان سے اُترنے کا سراسر جھوٹ اور لغو اور بے اصل ہے اور قرآن اور حدیث سے سراسر مخالف ہے.اب ہر ایک سوچ سکتا ہے کہ اس منافقانہ کارروائی سے جو محمد حسین گورنمنٹ کو تو کچھ کہتا رہا اور پوشیدہ طور پر لوگوں کو کچھ کہتا رہا.کامل درجہ پر اس کی ذلت ہوگئی ہے اور مولویوں کی طرف سے وہ بُرے خطاب بھی اس کو مل گئے ہیں جو سراسر ظلم سے اس نے مجھے دیئے تھے یعنی

Page 507

مجموعہ اشتہارات ۴۹۱ جلد دوم ہر ایک نے اس کو کذاب اور دقبال کہا ہے لے رہا یہ امر کہ اب گورنمنٹ عالیہ اس کی نسبت کیا رائے رکھتی ہے.سو ہماری دانا گورنمنٹ ادنیٰ توجہ سے سوچ سکتی ہے کہ ایسا منافق جس نے گورنمنٹ کے سامنے جھوٹ بولا کہ میں یہ کارروائی کر رہا ہوں کہ خونی مہدی کے آنے کے خیالات لوگوں کے دل سے مٹا دوں اور مولویوں کو یہ لکھ لکھ کر دیتا رہا کہ اس اعتقاد پر پختہ رہو کہ مہدی خونی فاطمہ کی اولاد سے ضرور آئے گا.اور کہتا رہا کہ جو شخص یہ اعتقاد چھوڑتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے ایسے منافق کے قول اور فعل کا کیا اعتبار ہے اور کون سا فائدہ اس کے وجود سے گورنمنٹ کو پہنچ سکتا ہے.پھر دوسری خیانت جو اس کی ذلت کا موجب ہے یہ ہے کہ اس نے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کیا ہے کہ میں سلطان روم کو خلیفہ برحق نہیں سمجھتا کیونکہ وہ قریش میں سے نہیں اور پھر اپنی اشاعۃ السنه نمبر ۵ جلد ۱۸ صفحہ ۱۴۳ سطر ۶ میں میری مخالفت کے لئے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ حضرت ن المعظم.مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور خلیفہ برحق ہیں ان سے استغنا موجب کفر ہے اب اس جگہ اس نے سلطان روم کو خلیفہ برحق مان لیا ہے اور انگریزی سلطنت کی نسبت اُسی صفحہ میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اُن کی اطاعت پولیٹیکل نظر سے یعنی محض منافقانہ طور پر اور مصلحت وقت کے لحاظ سے کرنی چاہیے.مگر مذہبی نظر سے یعنی دلی اخلاص صرف سلطان ہی واجب الاطاعت ہے.‘ اس تقریر میں اس نے یہ خیانت کی ہے کہ جو مذہبی آزادی اور مذہبی فوائد ہمیں سلطنت انگریزی سے پہنچے ہیں ان سب کا انکار کر دیا ہے اور سر کا رانگریزی کے ایک ثابت شدہ احسان کا خون کر دیا ہے اور یہ نہیں سوچا کہ سکھوں کے وقت میں جب ہمارے تمام دینی فرائض رو کے گئے تھے اور مذہبی احکام لے یہ شخص یعنی محمد حسین اپنے تئیں اہلحدیث علماء کا سرگروہ اور ایڈووکیٹ ظاہر کرتا ہے.اس صورت میں ضروری ہے کہ جو گروہ کا اعتقاد ہو وہی سرگروہ کا ہو چنانچہ وہ خود بھی رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر ۵ جلد ۱۳ میں مہدی خونی کی نسبت اپنا اعتقاد ظاہر کرتا ہے.منہ سلطانا

Page 508

مجموعہ اشتہارات ۴۹۲ جلد دوم کے بجالانے میں ہر وقت جان اور مال اور عزت کا اندیشہ تھا یہاں تک کہ بلند آواز میں بانگ دینے سے مسلمانوں کے خون بہائے جاتے تھے.اس وقت سُلطان روم کہاں تھا؟ آخر انگریز ہی تھے جو ہمارے چھوڑانے کے لئے عُقاب کی طرح دُور سے آئے اور صدہا دینی روکوں سے ہمیں آزادگی دی.یہ بڑی بدذاتی ہوگی کہ ہم اس سے انکار کریں کہ گورنمنٹ انگریزی کے وجود سے دینی فوائد ہمیں کچھ بھی نہیں پہنچا.بلا شبہ پہنچا ہے بلکہ سُلطان روم سے زیادہ پہنچا ہے.اس گورنمنٹ کے آنے سے ہم اپنے فرائض مذہبی آزادی سے ادا کرنے لگے.ہمارے مذہبی مدر سے کھل گئے.ہمارے واعظ خوب تسلی سے وعظ کرنے لگے.سکھوں کے وقت کسی ہندو کو مسلمان کرنے سے اکثر خون ہو جاتے تھے.صدہا مسلمان اسی وجہ سے قتل کئے گئے بلکہ آگ میں جلائے گئے اور درندوں کے آگے ڈالے گئے.اب انگریزی عمل داری کا جھنڈا ہمارے ملک میں کھڑا ہونے سے ہزار ہا ہندو مسلمان ہو گئے ہزار ہادینی کتابیں شائع ہو گئیں اور مسلمانوں نے اعلیٰ درجہ تک دینی علوم میں ترقی کی اور ہمیں اس گورنمنٹ کے آنے سے وہ دینی فائدہ پہنچا کہ سلطان روم کے کارناموں میں اس کی تلاش کرنا عبث ہے.اب کس قدر نا شکری بلکہ بدذاتی ہوگی کہ ہم ان تمام احسانوں کو اندر ہی اندرد با دیں اور اس شکر کا اقرار نہ کریں جو انصاف کے رو سے ہمیں کرنا لازم ہے.کیا یہ سچ ہے کہ انگریزی سلطنت سے ہمیں امن اور آزادی اور دینی فائدہ نہیں پہنچا ؟ ہر گز سچ نہیں.پھر محد حسین کا یہ قول کہ وہ یہ تمام احسانات سلطان روم کی طرف منسوب کرتا ہے کس قدر بے انصافی اور ظلم پر مبنی ہے.وہ لکھتا ہے کہ ہم لوگ انگریزوں کی اطاعت محض پولیٹیکل نظر سے کرتے ہیں ورنہ دینی حمایت ان کی طرف سے کچھ بھی نہیں یہ سب سلطان کی طرف سے ہے.یہ دونو فقرے اس کے ایسے برے اور گندے اور فتنہ انگیز ہیں کہ اگر میرے منہ سے بھی نکلتے تو میں ضرور اپنے اوپر فتویٰ دیتا کہ میں نے سرکار انگریزی کے بے شمار دینی احسانوں کے مقابل سخت نا شکر گزاری اور نمک حرامی کا

Page 509

مجموعہ اشتہارات ۴۹۳ جلد دوم کلمہ استعمال کیا ہے.ان لوگوں نے اسی بنا پر مجھے کا فرٹھہرایا تھا جبکہ میں نے سلطان روم کے مقابل گورنمنٹ انگریزی کے احسانات کو تر جمیع دی تھی جس کی نسبت سید احمد خانصاب کے سی ایس آئی نے اپنے علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ مع تہذیب الاخلاق ۲۴ / جولائی ۱۸۹۷ء میں میری گواہی تھی.اب خلاصہ کلام یہ کہ حیادار آدمی کے لئے یہ ذلت بھی کچھ تھوڑی نہیں کہ گورنمنٹ کے سامنے جھوٹ بولا اور اپنی قوم سے بھی اپنی نسبت کا فر اور کذاب اور مفتری کا فتویٰ سُنا.سو بلا شبہ وہ الہامی پیشگوئی اس پر پوری ہوگئی جس میں لکھا تھا کہ فریق ظالم اسی قسم کی ذلت دیکھے گا جو اُس نے فریق مظلوم کی.اب ذیل میں مولویوں کا وہ فتویٰ جس میں مولوی نذیرحسین محمد حسین کا اُستاد بھی شامل ہے لکھتا ہوں اور ناظرین پر اس بات کا انصاف چھوڑتا ہوں کہ میرے الہام ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو غور سے پڑھ کر خود گواہی دیں کہ خدا تعالیٰ نے کیسے وہی الفاظ محمد حسین کی نسبت مولویوں کے منہ سے نکالے جو محد حسین نے میری نسبت کہے تھے اور یہی معنے اس الہامی فقرہ کے ہیں کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا.نقل فتوی شامل ہذا ہے.راقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ۳ / جنوری ۱۸۹۹ء

Page 510

مجموعہ اشتہارات ۴۹۴ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَام عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اِستِـ فتاء کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع کہ ایک شخص مہدی موعود کے آنے سے جو آخری زمانہ میں آئے گا.اور بطور ظاہر و باطن خلیفہ برحق ہوگا.اور بنی فاطمہ میں سے ہوگا.جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے.قطعاً انکار کرتا ہے اور اس جمہوری عقیدہ کو کہ جس پر تمام اہل سنت دلی یقین رکھتے ہیں سراسر لغو اور بیہودہ سمجھتا ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا ایک قسم کی ضلالت اور الحاد خیال کرتا ہے.کیا ہم اس کو اہل سنت میں سے اور راہِ راست پر سمجھ سکتے ہیں یا وہ کذاب اور اجماع کا چھوڑنے والا اور ملحد اور دجال ہے.بَيِّنُوا تُوجَرُوا - المرقوم ۲۹ دسمبر ۱۸۹۸ء مطابق ۱۵رشعبان المبارک ۱۳۱۶ھ السائل المعتصم باللہ الا حد مرزا غلام احمد عافاه الله واید الجـ ـــــــواب (1) جو شخص عقیدہ ثابتہ مسلمہ اہل سنت و جماعت سے خلاف کرے تو وہ صریح اور بے شک اس آیت کریمہ کے وعید کا مستحق ہے.قال عز من قال و من يشاقق الرسل من بعد ما تبين له الهدى ويَتَّبِعُ غير سبيل المؤمنين نوله ما تولّى و نصله جهنم وساءت مصيرا.قال صلى الله عليه وسلم من فارق الجماعة قيد شبر فقد خلع ربقة الاسلام من

Page 511

مجموعہ اشتہارات ۴۹۵ جلد دوم عنقه رواه احمد و ابو داؤد.قال صلّى الله عليه وسلم اتبعوا السواد الاعظم فانه من شَدّ شُدّ في نار رواه ابن ماجه.قال صلى الله عليه و سلم ان الله لا يجمع امتى على ضلالة و يد الله على الجماعة و من شَدّ شُدّ في النار.رواه الترمذی اور جمہور اہلِ سنت اس پر متفق ہیں کہ مہدی علیہ السلام اخیر زمانہ میں تشریف لاویں گے اور بنی فاطمہ میں سے ہوگا اور اس کے ہاتھ سے دین غالب ہوگا اور ظاہر باطنی خلافت کرے گا.وَمَنْ خَالَفَ عَنْ ذَالِكَ فَقَدْ ضَلَّ وَأَضَلَّ وَ مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ سَبِيلٍ - حَرَّرَة عبد الحق الغزنوی تلمیذ مولوی عبداللہ غزنوی (۲) در باب مہدی معہود و نزول عیسی بن مریم رسول اللہ وخروج دجال اکبر احادیث متواترہ وارداند و برین است اجماع اہل سنت و جماعت منکر احادیث متواترہ کافر و مخالف اہل سنت و جماعت مبتدع وضال و مضل است - فقط عبد الجبار بن عبد الله الغزنوى عفى الله عنهما (۳) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا شخص جس کا ذکر سوال میں مندرج ہے.مبتدع اور دائرہ اہل سنت و جماعت سے خارج ہے.کما حررہ المجیب انا عبداللہ الغنی ابومحد زبیر غلام رسول الھی ابومحمد زبیر غلام رسول الصفی القاسمی عفی عنہ.امرت سری (۴) جو کچھ مولوی عبدالحق صاحب نے جواب میں لکھا ہے میرا اس سے اتفاق ہے.ایسے آدمی کے ملنے والوں سے پر ہیز چاہیے ونشست برخاست ترک کرنی چاہیے.وانا ابو عبے احمد اللہ امرت سری میں ! (۵) علماء عظام کا جواب صحیح ہے.بیشک شخص مذکور السوال ضال اور مضل ہے اور اہلسنت سے خارج ہے.فقیر غلام محمد البلوی عفا عنه امام مسجد شاہی لاہور بقلم خود ے یہ مہر انجمن تائید الاسلام امرت سرکی ہے جس کے ممبر تین سو کے قریب علماء ورئیس وغیرہ ہیں.منہ

Page 512

مجموعہ اشتہارات ۴۹۶ جلد دوم (۶) امام مہدی علیہ و علی آبائہ الصلوۃ والسلام کا قرب قیامت میں ظہور فرمانا اور دنیا کو عدل و انصاف سے پُر کرنا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے اور جمہور امت نے اسے تسلیم کیا ہے.اس امام موصوف کے تشریف لانے کا انکار صریح ضلالت اور مسلک اہلسنت والجماعت سے انحراف کرنا ہے.عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لا تذهب الدنيا حتى يملك العرب رجل من اهل بيتي يواطئ اسمه اسمی.رواه الترمذی و ابو داؤد و رواية له قال لولم يبق من الدنيا الا يوم يطول الله ذلك اليوم حتى يبعث الله فيه رجلا منی او من اهل بيتي يواطئ اسمه اسمی و اسم ابيه اسم ابى يملأ الأرض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما و جورا.مشکوۃ شریف.قال العلامة التفتازانى فى المقاصد قد وردت الاحاديث الصحيحة في ظهور امام من ولد فاطمة الزهراء رضى الله عنها يملأ الدنيا قسطاً وعد لا كما ملئت جورًا و ظلمًا.هذا ما عندی والله اعلم بالصواب كتبه العبد المذنب المفتی محمد عبدالله عفا اللہ عنہ ( پروفیسر اور مینٹل کالج لاہور و پریسیڈنٹ انجمن حمایت اسلام لاہور و سیکرٹری انجمن مستشار العلماء).یہ موا ہیر د ہلی کے علماء کی ہیں.(۷) شخص مذکور سوال مفتری کذاب وضال و مضل و خارج اہلسنت سے ہے الراقم سید محمد نذیر حسین دہلوی.بقلم خود (۸) الجواب صحیح وصواب (۹) صحیح الجواب حمزه التقوى الدبلومی محمد محمد یعقوب سیدمحمد در انتی دار برای سید عبدالسلام سید محد نذیرحسین سید محمد ابوالحسن غفر ابتدا القوى شقراة (۱۰) جو عقیدہ خلاف اہلسنت والجماعت ہو وہ اہل اسلام کے نزدیک کس طرح معتبر ہو سکتا ہے.فقیر حشمت علی عفی اللہ عنہ م محمد عبد الغفار (ابوالحسن محمد اسماعیل خلیل الرحمن المنان البوليسار غفرال میر

Page 513

مجموعہ اشتہارات ۴۹۷ جلد دوم (۱۱) جو شخص مہدی علیہ السلام کا انکار کرے وہ گمراہ ہے اور احادیث نبوی صلعم کا منکر ہے.فقط العبد الخحیف محمد وصیت علی مدرس مدرسه حسین بخش صاحب محمد وصیت علی (۱۲) أَصَابَ مَنْ أَجَابَ - محمد شاہ عفا عنه محمد شاہ عفی عنہ (۱۳) جو شخص کہ احادیث صحیحہ سے اور اجماع سے انکار کرے اس کی ضلالت اور گمراہی میں کچھ شک نہیں کیونکہ سینکڑوں حدیثوں سے امام مہدی علیہ السلام کا آنا اخیر زمانہ میں ثابت ہے اور یہ شخص کذاب اور دقبال ہے.فقط محمد یونس مدرس مدرسه مولوی عبد الواحد صاحب محمد یونس (۱۴) الجواب صحیح.فتح محمد مدرس مدرسه فتح پوری دہلی فتح محمد (۱۵) جو شخص مہدی علیہ السلام کا انکار کرے وہ گمراہ ہے.عبد الغفور مدرس مدرسہ حسین بخش عبد الغفور (۱۶) جو شخص حضرت مہدی علیہ السلام کے وجود باجود کا انکار کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے.ایسے مغشوش الرائے یاوہ گو عبدالدنیا کے کلام کا اعتبار نہیں.ایسا شخص منکر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اس کا مقام نار ہے.محمد عبد الغنی الہ آبادی مدرس مدرسہ فتح پوری (۱۷) واقعی یہ شخص مخالف حدیث نبوی کے عقیدہ رکھتا ہے.ایسے شخص کا مکان بلا شک نار ہے کیونکہ یہ فعل اہل بدعت کا ہے.محمد ہدایت اللہ عفی عنہ فلتی علاقہ کا نپور مدرس مدرسہ فتح پوری دہلی.(۱۸) جو شخص امام مہدی علیہ السلام کا انکار کرتا ہے وہ گمراہ ہے اور احادیث صحاح کا منکر ہے.مثلاً ترمذی وغیرہ میں یہ حدیثیں موجود ہیں.عبداللہ خاں بچھر ایونی بقلم خود.مہر (۱۹) الجواب الصحیح واقعی حدیث نبوی صلعم کا منکر ہے اور ایسے عقیدہ کا شخص کذاب لوگوں میں سے ہے.فقط.مولوی محمد عبد الرزاق خلف حاجی خدا بخش المتخلص نا چیز ساکن قصبہ خورجہ ضلع بلند شہر

Page 514

مجموعہ اشتہارات ۴۹۸ جلد دوم (۲۰) الجواب - أَقُولُ وَ بِاللهِ التَّوْفِيقُ.معلوم ہو کہ انکار ظہور امام مہدی سے جیسے احادیث میں ہے اور سلفاً وخلفاً اہل اسلام کے نزدیک مسلّم ہے صرف ضلالت اور گمراہی ہے.اور یہ انکار کسی دجال کا کام ہے.فقط - وَاللهُ يَهْدِى مَنْ يَّشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دستخط الراقم عبدالعزیز بعفی عنہ لودیا نوی (۲۱) از بنده رشید احمد عفی عنہ.بعد سلام مسنون مطالعه فرمایند مسیح موعود کا آنا اور مہدی کا آنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے چنانچہ ابوداؤد میں ان الفاظ میں وارد ہوئی.لولم يبق من الدنيا الا يوم لطول الله ذلك اليوم حتى يبعث رجلا منى او من اهل بيتي يواطئ اسمه اسمی و اسم ابيه اسم ابى يملأ الارض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورًا.انتهى.پس جو شخص اس سے منکر ہے وہ مخالف عقیدہ سنت جماعت اور خاطی ہے اس کو ہرگز متبع سنت نہ جانا چاہیے.فقط - وَاللهُ اَعْلَم تعداد ۲۰۰۰ رشید احمد مورخه ۱۸ رشعبان ۱۶ ہجری مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان ۷ جنوری ۱۸۹۹ء تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۱ تا ۹)

Page 515

مجموعہ اشتہارات دوسرا 2 ۴۹۹ شتهار بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ایک پیشگوئی کا پورا ہونا جس سے علماء پنجاب و ہندوستان دینی و اخلاقی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اے علماء پنجاب و ہندوستان خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے حالات پر رحم کرے.آپ کو معلوم ہو کہ اس وقت اس خدا نے جو سچائی کو پسند کرتا اور نفاق اور جھوٹ سے نفرت کرتا ہے.آپ لوگوں کے لئے بڑا عمدہ موقعہ دیا ہے کہ آپ اس فتوے پر نظر کر کے جو آپ نے ۱۵ شعبان ۱۳۱۶ھ کے استفتاء کے پیش ہونے کے وقت دیا ہے آئندہ اس طریق کو اختیار کریں جو تقوی اور دیانت اور امانت کے مناسب حال ہے.اس امر کی تفصیل یہ ہے کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ مولوی محمد حسین ایڈیٹر اشاعة السنة جو آپ لوگوں کا سرگروہ کہلاتا ہے.کئی سال سے مجھے مہدی معہود کا منکر قرار دے کر کیسی بدگوئی اور بدزبانی کی کارروائی میری نسبت کر رہا ہے.یہاں تک کہ اب اس نے گالیوں اور طرح طرح کے افتراؤں اور تہمتوں کو انتہا تک پہنچا دیا اور میری تو ہین اور ازالہ حیثیت عرفی میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا اور ایک شخص محمد بخش جعفر زٹلی نام کو کئی قسم کی طمع دے کر اس بات کے لئے مقرر کیا کہ وہ اس بات کا برا بر سلسلہ جاری رکھے کہ طرح طرح کے گندے اشتہار گالیوں سے بھرے ہوئے میری نسبت جلد دوم

Page 516

مجموعہ اشتہارات جلد دوم جاری کرے.پس بے عزتی اور توہین اور ازالہ حیثیت عرفی میں کوشش کی گئی اور اب تک برابر بلا ناغہ یہ سلسلہ جاری رہا اور بار بار اشتہاروں اور خطوط کے ذریعہ سے مباہلہ کی درخواست بھی کی گئی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ نا پاک کارروائی محمد حسین اور اس کے رفیقوں کی کسی فتنہ کی موجب نہ ہو اور میرے گروہ کو اس سے اشتعال پیدا نہ ہو اس لئے میں نے اپنی جماعت کو گورنمنٹ میں میموریل بھیجنے کی صلاح دی تا کہ گورنمنٹ کی طرف سے انتظاماً اس گندی کا رروائی کے انسداد کے لئے کوئی حکم جاری ہو اور اس طرح پر ایک مظلوم فرقہ اپنا انصاف پا کر خاموشی اختیار رکھے.لیکن گورنمنٹ کی طرف سے اس میموریل کا صرف اس قدر جواب آیا کہ بذریعہ عدالت چارہ جوئی کرنی چاہیے اور اس جواب کا یہ نتیجہ ہوا کہ محمد حسین اور اس کے رفیق محمد بخش نے اپنی بدگوئی کے اشتہار شائع کرنے میں اور بھی ترقی کی.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عدالتوں میں نالش کرنا ہمارا طریق نہیں ہے.سو انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ تیزی اور گندہ زبانی سے میری نسبت گالیوں سے بھرے ہوئے اشتہار شائع کرنے شروع کر دیئے اور اس پر جعفر زٹلی محمد حسین کی ایما سے مباہلہ پر بھی زور دیتا رہا.چنانچہ کئی اشتہار مباہلہ کے لئے بھیجے اور ہمارے دل کو بار بار دکھایا.چونکہ ان فتنہ انگیز تحریروں کے بداثر کا اندیشہ تھا اس لئے میں نے ان فتنوں کے روکنے کی غرض سے یہ مصلحت سمجھی کہ مباہلہ کے طور پر نہایت نرم الفاظ میں ایک اشتہار لکھوں.سومیں نے ایک اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو شائع کیا.اس اشتہار کا خلاصہ مطلب صرف ایک دعا تھی یعنی یہ کہ ہم دونوں فریق میں سے جو ظالم ہے خدا اس کو ذلیل کرے.اور اس دُعا پر ایک الہام ہوا تھا جس میں ارادہ الہی ان الفاظ سے بتلایا گیا تھا کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمُ ذِلَّةٌ.یعنی جس فریق ظالم کی طرف سے فریق مظلوم کو کوئی بدی پہنچی ہے اسی قسم کی بدی فریق ظالم کو پہنچے گی سو یہ پیشگوئی محمد حسین کے حق میں بہت جلدی پوری ہوگئی.کیونکہ پیشگوئی کا اصل مطلب اس شخص کو ذلت پہنچنا تھا جو کا ذب اور ظالم ہو.اور الہام الہی میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ اُسی قسم کی ذلت اس کو پہنچے گی جو اس نے پہنچائی ہو.سو یہ الہام کامل طور پر ۲۹ ؍ دسمبر ۱۸۹۸ء کو پورا ہو گیا.کیونکہ اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے بعد تاریخ مذکورہ میں محمد حسین کی یہ ایک خیانت آمیز

Page 517

مجموعہ اشتہارات ۵۰۱ جلد دوم کارروائی پکڑی گئی کہ اس نے محض دروغ گوئی کی راہ سے گورنمنٹ عالیہ انگریزی کو یہ یقین دلایا کہ وہ اس مہدی کے آنے کا منکر ہے جو بنی فاطمہ میں سے آئے گا اور کافروں سے لڑے گا.اور اس بارے میں زمین کی طمع کے لئے ایک تحریر انگریزی میں ۱۴ / اکتوبر ۱۸۹۸ء کو شائع کی اور اس میں گورنمنٹ کو اپنا یہ احسان جتلایا کہ میں مہدی کے آنے کی تمام حدیثیں غلط سمجھتا ہوں اور پہلے سے گورنمنٹ کو یہ دھو کہ بھی دے رکھا کہ میں اہل حدیث کا سرگروہ ہوں یعنی میرا اور ان کا ایک عقیدہ ہے اور ادھر پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں کو یوں خراب کیا کہ ان کو بار بار یہی سبق دیا کہ مہدی معہود ضرور آئے گا اور وہ خلیفہ وقت اور صاحب السیف والامر ہو گا اور بار بار ان کو یہی کہتا رہا کہ میرا اور تمہارا مہدی کے بارے میں عقیدہ ایک ہے اور میں اس مہدی کا قائل ہوں جو تلوار کے ساتھ دین کو پھیلائے گا اور خلیفتہ المسلمین ہوگا اور اسی بنا پر اس نے میری تکفیر کے لئے استفتاءطیار کر کے شور قیامت برپا کیا.سو جب مولوی محمد حسین کا اس قسم کا رسالہ مجھے دستیاب ہوا تو اسی وقت میں نے سمجھ لیا کہ اب اس بنا پر پیشگوئی اشتہار مباہلہ ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء کامل طور پر پوری ہوگئی تب میں نے بلا توقف اسی تاریخ یعنی ۲۹؍ دسمبر ۱۸۹۸ء کو ایک استفتاء لکھا اور علماء پنجاب اور ہندوستان سے یہ فتویٰ طلب کیا کہ ایسا شخص جو مہدی کے وجود سے منکر ہے اس کے حق میں تمہارا کیا فتویٰ ہے سو نذیر حسین دہلوی اس کے اُستاد نے جیسا کہ مجھے کذاب دجّال مفتری لکھا تھا ایسا ہی بلا توقف محمد حسین کی نسبت فتویٰ دے دیا کہ وہ کذاب دجال مفتری ہے اور مولوی عبد الجبار غزنوی نے اس کی نسبت یہ فتویٰ دیا کہ وہ کافر اور گمراہ اور ضال مضل ہے اور عبد الحق غزنوی نے اپنے فتوی میں اس کو جہنمی اور گمراہ ٹھہرایا اور مولوی احمد اللہ امرتسری نے اپنے فتویٰ میں عبد الحق سے اتفاق کیا مگر اتنازیادہ لکھا کہ ایسے گمراہ کے ساتھ میل ملاقات اور نشست برخواست جائز نہیں.لدھیانہ اور لاہور کے مولویوں نے بھی ان فتووں سے اتفاق کیا اور مولوی عبداللہ صاحب پروفیسر اور مینٹل کالج لاہور نے بڑے شد و مد سے حدیثوں کے حوالہ سے اس خیانت پیشہ کی خبر لی اور مولوی عبدالعزیز لدھیانوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی محمد یعقوب دہلوی اور دیگر علماء نامدار نے جیسا کہ ایسے شخص کی سزا تھی بڑی

Page 518

مجموعہ اشتہارات ۵۰۲ جلد دوم شد و مد سے فتوے لکھے اور تمام علماء کے فتووں کا خلاصہ یہی ہے کہ انہوں نے اس خیانت پیشہ اور مہدی معہود کے منکر کو کا فرد جبال بے ایمان مفتری کذاب جہنمی دائرہ اسلام سے خارج گمراہ ضال مضل اور ایسا ہی دوسرے الفاظ سے یاد کیا اور اس طرح پر اس پیشگوئی کو اپنے ہاتھوں سے پورا کیا کہ جو میں نے اشتہار مباہلہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی تھی.اب میں ان تمام مولویوں کو جنہوں نے منکر مہدی معہود کی نسبت یہ فتوی دیا ہے یہ نیک صلاح دیتا ہوں کہ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان پر منافقانہ طریق کا کوئی دھبہ نہ لگے اور ان کی دیانت اور امانت اور تقویٰ اور دینداری میں فرق نہ آوے تو وہ بلا توقف ایک جلسہ کر کے محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنہ کو اس جلسہ میں بلاویں اور اس کو صاف طور پر کہہ دیں کہ آج تک تم ہم سب پر یہ اپنا اعتقاد ظاہر کرتے رہے کہ تمہارا یہی عقیدہ ہے کہ تم اس مہدی معہود کے قائل ہو جو بنی فاطمہ میں سے آئے گا اور لڑائیاں کرے گا اور دین کو پھیلائے گا اور اب تمہاری نسبت یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم نے زمین لینے کی طمع سے گورنمنٹ کو یہ احسان جتلانا چاہا ہے کہ تم ان تمام حدیثوں کو جو مہدی معہود کے بارے میں آئی ہیں جھوٹی سمجھتے ہو اور تم نے صریح طور پر ایک انگریزی فہرست مورخہ ۱۴ / اکتوبر ۱۸۹۸ء میں مہدی کی حدیثوں کی نسبت لفظ موضوع لکھ کر اپنا عقیدہ انکار مهدی ظاہر کر دیا ہے.اب یا تو صاف طور پر اپنا تو بہ نامہ چھاپ کر شائع کرو تا گورنمنٹ عالیہ کو بھی تمہارے اندرونی حالات معلوم ہوں اور یا اس بات کو مان لو کہ تم اس ہمارے فتوے کے مستحق اور اہلحدیث کے عام عقیدہ کے مخالف اور دجال اور کذاب اور ملحد اور بے دین ہو.غرض اب تمام علماء کا فرض ہے کہ محمد حسین سے ضرور فیصلہ کریں اور اگر وہ فیصلہ چھاپ کر شائع نہ کریں تو ان کی مولویت اور تقویٰ اور طہارت کا یہی نمونہ کافی ہے کہ وہ فتویٰ جس کو انہوں نے اپنی قلم سے لکھا اب محض نفسانی مصالح سے اس کے پابند رہنا نہیں چاہتے اور جس کو اپنے فتووں میں کا فر اور بے دین اور کذاب اور دقبال اور مفتری قرار دیا اور اس سے کنارہ کرنے کا بھی حکم دیا.پھر اس سے مخالطت اور موانست رکھتے ہیں.یہ کس قدر بد چلنی اور بدامانتی اور نا پا کی نفس کا طریق ہوگا

Page 519

مجموعہ اشتہارات ۵۰۳ جلد دوم کہ جب میں نے ایسے مہدی سے انکار کیا تو مجھے کافر اور دجال ٹھیرانے میں اب تک برابر کوششیں ہو رہی ہیں اور جب محمد حسین نے نفسانی طمع کے لئے ایسے مہدی سے انکار کیا تو اس کے ساتھ برابر میل ملاقات جاری رہے.آپ لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ میں منافقوں اور کافروں کو ایک ہی جگہ جمع کروں گا.پس اب آپ لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ اس فتویٰ کے بعد خاموشی اختیار کر کے منافقوں کے ذیل میں نہ آجائیں.وَقَالَ اللهُ تَعَالَى - إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۖ اگر ممکن ہو تو محمد حسین کا دامن اس الزام سے اسی کے صریح اقرار سے پاک کرنا چاہیے.ورنہ بآواز بلند اپنے فتویٰ کی جابجا اشاعت کرنی چاہیے.خاص کر مولوی نذیر حسین دہلوی کہ اب قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں بڑے الزام کے نیچے ہیں کیونکہ انہوں نے اس استفتاء میں موٹی قلم سے یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ ایسا شخص مفتری کذاب اور دائرہ اہل سنت سے خارج ہے.اب چاہیے کہ وہ اس فتوے کے بعد محمد حسین اپنے شاگرد سے پورا فیصلہ کریں.یا اس سے تو بہ نامہ لیں اور شائع کریں اور یا اس کا وہ عقیدہ جواہل حدیث کا اجماعی عقیدہ ہے اس کی قلم سے لکھوا کر شائع کرا دیں تا گورنمنٹ بھی اُس کے منافقانہ حالات سے دھو کہ میں نہ رہے.اور اگر ان باتوں میں سے کوئی بات نہ ہو تو اپنے فتوے کو اس کی نسبت عام طور پر شائع کر دیں.اور اگر ایسا نہ کریں تو پھر یا درکھنا چاہیے کہ وہ اپنی ریش سفید کو منافقانہ سیاہی کے ساتھ قبر میں لے جاویں گے.بالآخر ہم مردانہ طور پر اپنا اعتقاد ظاہر کرتے ہیں کہ یہ خیالات ان تمام مولویوں کے کہ خونی مہدی کسی وقت آنے والا ہے جو بنی فاطمہ میں سے ہوگا اور وہ جبر کے ساتھ دین کو غالب کرے گا اور خلیفہ یعنی بادشاہ ہوگا بالکل لغو اور باطل اور جھوٹا عقیدہ ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا.بلکہ یہ ثابت ہے کہ ایسے زمانہ میں جبکہ خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی.اور غفلت پھیل جائے گی.تب حضرت عیسی علیہ السلام کے اخلاق پر اور بروزی طور پر ایک شخص آئے گا النساء : ١٤٦

Page 520

۵۰۴ جلد دوم مجموعہ اشتہارات جو نہ لڑے گا اور نہ خونریزی کرے گا اور نہ زمین کی بادشاہی اور خلافت ظاہری سے اس کو کچھ سروکار ہوگا.اور محض روحانی طور پر سچے دین کی دلائل اور نشانوں کے ساتھ مدد کرے گا اور نیک دل اور غریب طبع انسان اس کے ساتھ شامل ہو جاویں گے.سویا درکھو کہ وہ پیشگوئی تمہارے ملک میں پوری ہو گئی.اب کسی خونی مہدی کی انتظار عبث ہے.دلوں کو صاف کرو اور نفسانی جوشوں کے تابعدارمت بنو اور سچائی کے ساتھ اور علمی طاقت کے ساتھ اور رُوحانی برکتوں کے ساتھ دین کی مدد کرو نہ یہ کہ تلوار کے زمانہ کی انتظار کرو.اُس دین میں کیا خوبی ہو سکتی ہے جو اپنی ترقی میں تلوار کا محتاج ہے؟ سو یقیناً سمجھو کہ اسلام تلوار کا محتاج نہیں.اسلام اُسی خدا کی طرف ہدایت کرتا ہے جو زمین و آسمان کے دیکھنے سے بھی اس کا موجود ہونا ثابت ہوتا ہے.سوایسے خیالات سے تو بہ کرو اور روحانیت کے طالب بنو تا تمہارے دل روشن اور پاک ہوں اور تا ہر ایک قسم کا فساد اور فتنہ تم سے دور ہو اور تا تم پاک دل ہو کر اس خدا کو دیکھ سکو جو بغیر حقیقی پاکیزگی کے نظر نہیں آسکتا.یہی راہ خدا کے پانے کی راہ ہے.خدا ہر ایک کو اس کی توفیق دے.آمین الراقم النا صبح میرزاغلام احمد از قادیان ضمیمہ اشتہار ہذا مورخه ۶ /جنوری ۱۸۹۹ء محمد حسین کی فہرست انگریزی مورخہ ۱۴ را کتوبر ۱۸۹۸ء کا عنوان یہ ہے.۶ /جنوری ۱۸۹۹ء The following is a list of articles in the Ishat- us- Sunnah where in the illegality of rebellion against or apposition to the govt and the true nature of Jehad (crescentade) is explained.ترجمہ.ذیل میں فہرست اُن مضامین اشاعۃ السنہ کی ہے جن میں گورنمنٹ کی مخالفت اور اس کے برخلاف بغاوت کا نا جائز ہونا اور جہاد کی اصل حقیقت کو بیان کیا ہے.

Page 521

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اس کے بعد شیخ محمد حسین ایک ایک دو دو سطر میں نتیجہ اور لب لباب ان مضامین کا دیتا ہے جو اس نے مذکورہ بالا غرض کے لئے ۱۸۶۹ء سے لے کر ۱۸۹۶ء تک لکھے.ان ہی مضامین میں وہ مہدی کے متعلق مضامین کا ذکر کرتا ہے جن کا وہ لب لباب صفحہ ۵ میں اس طرح پر درج کرتا ہے.Criticism of Traditions regarding the Mehdi and arguments showing their incorrectness.ترجمہ.ان حدیثوں پر جرح کی گئی ہے جو مہدی کے متعلق ہیں اور دلائل دیئے گئے ہیں جن سے ان حدیثوں کا غلط اور نا درست ہونا ثابت ہوتا ہے.Questioning the authenticity of traditions describing the signs of the Mehdi.ترجمہ.جن حدیثوں میں مہدی کی علامات دی گئی ہیں اُن کے غیر وضعی ہونے پر شبہ ہے.اس فہرست کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں صرف وہی مضمون درج کرنے مد نظر ہیں کہ جن کے ذریعہ سے محمد حسین نے اہل اسلام کے دلوں سے گورنمنٹ کے برخلاف مخالفانہ اور باغیانہ خیالات کو دور کرنا چاہا ہے.ایسی فہرست میں اپنے مضامین متعلقہ مہدی کا ذکر کرنا اور پھر اُن کا یہ لب لباب دینا کہ وہ سب احادیث جو مہدی کے متعلق ہیں وہ غلط اور نادرست اور بے اعتبار اور وضعی ہیں.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ محمد حسین مہدی کے متعلق احادیث ماننے والوں کو گورنمنٹ کا مخالف اور باغیانہ خیال رکھنے والا سمجھتا ہے ورنہ مہدی کی حدیثوں کو غلط اور موضوع قرار دے کر ان کو اس فہرست میں درج کرنے سے اور کیا غرض ہو سکتی ہے.اس کے نزدیک مہدی پر ایمان گورنمنٹ کی نگاہ میں ایک باغیانہ خیال ہے جس کی تردید اس نے اس طرح سے کر دی ہے.بالآخر ہم ان لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں جیسے محمد احمد اللہ صاحب امرتسری وغیرہ کہ جو محمد حسین کو ہماری مخالفت کرنے پر یہ سمجھتے تھے کہ اس نے انکار مہدی سے رجوع کر لیا ہے.وہ یقین رکھیں کہ وہ اندرونی طور سے ہمیشہ مہدی کا منکر رہا ہے.ورنہ وہ آج اس فہرست میں گورنمنٹ کے آگے ان حدیثوں کا غلط ہونا ظاہر نہ کرتا.منہ تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۱۰ تا ۱۷)

Page 522

مجموعہ اشتہارات ۲۰۷ جلد دوم بسم الله الرّحمنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پنجاب اور ہندوستان کے اُن مولویوں کی ایمانداری کا نمونہ جنہوں نے میری نسبت کفر کا فتویٰ دیا تھا.خاص کر مولوی نذیر حسین دہلوی استاد شیخ ابوسعید محمد حسین بٹالوی کے تقویٰ اور دیانتداری کی حقیقت اور ابوسعید محمد حسین ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کا گورنمنٹ عالیہ انگریزی کو صریح جھوٹ بول کر سخت دھوکہ دینا اور اُس کی اور اُس کے گروہ کی اس قابل شرم کا روائی سے اُس میری پیشگوئی کا پورا ہوتا جو اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی گئی تھی.یعنی یہ پیشگوئی کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمُ ذِلَّةٌ.مَالَهُمْ مِنَ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ.یعنی فریق ظالم کو اسی قسم کی ذلت پہنچے گی جو اس نے فریق مظلوم کو پہنچائی ہو.مبادا دلِ آن فرومایه شاد که از بهر دنیا دہد دیں بہار اس بات سے تو ہم کو بہت خوشی ہوئی کہ مولوی نذیر حسین دہلوی اور عبد الجبار غزنوی اور عبد الحق غزنوی اور رشید احمد گنگوہی اور دوسرے علماء ان کے ہم مشربوں نے مولوی حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنه کو جس نے مہدی خونی کے آنے کی نسبت حضور گورنمنٹ عالیہ میں اپنا انکار ظاہر کیا بوجہ ا ترجمہ.خدا کرے اس کمینے کا دل کبھی خوش نہ ہو جس نے دنیا کی خاطر دین کو برباد کر لیا.

Page 523

مجموعہ اشتہارات ۵۰۷ جلد دوم اس کے اس عقیدہ کے اس کو کذاب اور مفتری اور دجال اور کافر اور دائرہ اسلام سے خارج اپنے فتووں میں لکھا اور اس طرح پر اس کو ذلیل کر کے ہماری وہ پیشگوئی پوری کی جو اشتہار مباہلہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی گئی تھی.اور نیز ان احادیث نبویہ کو بھی پورا کیا جو آخری زمانہ کے مولویوں کے بارے میں ہیں اور اپنے طریق عمل سے ان کی صحت پر گواہی دے دی.مگر اس دوسری بات کے خیال کرنے سے ہمیں رنج بھی ہوا کہ ان لوگوں کے یہ فتوے دیانت اور ایمانداری پر مبنی نہیں بلکہ یہود کے علماء کی طرح اپنی نفسانی اغراض اور تعصبات اور کینہ وری پر مبنی ہیں.چنانچہ ان لوگوں کی یہی کارروائی ان کے حالات باطنی پر کافی گواہ ہے جو ہمارے استفاء مورخہ ۲۹؍ دسمبر ۱۸۹۸ء میں ان سے ظہور میں آئی.ان سے یہ فتویٰ طلب کی گیا تھا کہ اس شخص کی نسبت آپ لوگ کیا فرماتے ہیں جو اس مہدی کے آنے کا منکر ہو جس کے نسبت آپ لوگوں کا اعتقاد ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی خلیفہ ہوگا.اور بذریعہ لڑائیوں کے دین کو غالب کرے گا تو ان مولویوں نے اپنے دلوں میں یہ خیال کر کے کہ ایسے اعتقاد کا پابند تو یہی شخص یعنی یہ عاجز ہے محض شرارت کی راہ سے یہ تجویز کی کہ آؤ اب بھی اس فتوے کے رو سے اس کو کافر اور دجال اور مفتری قرار دیں.تب فی الفور یہ گندے اور پلید فتوے لکھ مارے اور اگر ان کو پہلے سے خبر ہوتی کہ یہ استفتاء شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کے لئے لکھا گیا ہے تو ہر گز یہ فتوے نہ دیتے.اب اس حقیقت کو سن کر کہ وہ شخص جس کی نسبت فتویٰ طلب کیا گیا تھا ان کا دلی دوست محمد حسین ہے جس قدران کو ندامت ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے.یہی علماء دین اور حامیان شرع متین ہیں جن کی دیانت پر لوگ بھروسہ کیسے بیٹھے ہیں اور جن کی نسبت عوام خیال کرتے ہیں کہ وہ دین کے پیشوا اور دیندار بلکہ شیخ الکل ہیں.اب خدائے غیور کی غیرت نے ان سب کے پردے پھاڑ دیئے.خدا کے الہام میں ایک فقرہ یہ بھی تھا کہ شَاهَتِ الْوُجُوهُ سوپورا ہو گیا.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کی بعض خفیہ تحریریں ہمارے ہاتھ آگئی ہیں جن میں وہ گورنمنٹ کے سامنے زمین لینے کی طمع سے یہ بیان کرتا ہے کہ جس مہدی قرشی کی لوگوں کو انتظار ہے جو ان کے زعم میں خلیفہ ظاہر و باطن ہو گا اس مہدی کے بارے میں

Page 524

مجموعہ اشتہارات ۵۰۸ جلد دوم جس قدر حدیثیں ہیں وہ سب موضوع اور غلط اور نادرست ہیں یعنی میں ان کو نہیں مانتا دیکھو محمد حسین کی فہرست انگریزی مورخہ ۱۴ را کتوبر ۱۸۹۸ ء جس کو ابھی محمد حسین نے پوشیدہ طور پر شائع کیا ہے اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کو یہ جتلانا چاہا ہے کہ میں اس مہدی کے آنے سے منکر ہوں.سو محمد حسین کا یہ وہ عقیدہ ہے جس کے لیے ان مولویوں سے فتویٰ طلب کیا گیا تھا اور انہوں نے اس عقیدہ والے کو کافر اور کذاب اور دجال اور مفتری قرار دیا اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کو اپنے ہاتھوں سے پورا کیا.محمد حسین نے نہایت پوشیدہ طور پر یہ اپنا عقیدہ گورنمنٹ پر ظاہر کیا تھا.مگر خدا نے اس کا پردہ پھاڑا.یہ شخص یعنی محمد حسین دوسرے مولویوں کو یہی کہتا رہا ہے کہ میں تمہارا ہی ہم عقیدہ ہوں اور گورنمنٹ پر یہ ظاہر کرتا رہا کہ میں ان حدیثوں کو نہیں مانتا.اور ظاہر ہے کہ دو مختلف اور متناقض عقیدے ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے.لہذا یقیناً یہی سچ ہے کہ جو عقیدہ اس نے اب انگریزی رسالہ میں گورنمنٹ کے سامنے ظاہر کیا ہے.یہی اس کا عقیدہ ہے.سو اس کے رو سے کفر کا فتویٰ اس پر لگ گیا.کیونکہ جب کہ محمد حسین کے نزدیک وہ تمام حدیثیں جو مہدی کے آنے کے متعلق ہیں.موضوع اور غلط اور جھوٹی ہیں جیسا کہ وہ بطور احسان نمائی کے گورنمنٹ برطانیہ پر ظاہر کرتا ہے تو بلا شبہ اس منافق کا یہی مذہب ہے کہ ایسا مہدی ہر گز نہیں آئے گا.تو اس صورت میں ان مولویوں کا یہ فتویٰ اس پر بلاشبہ وارد ہو گیا کہ وہ کافر اور کذاب اور دجال اور مفتری اور دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن ایک قلمی تحریر جو مولوی احمد اللہ امرتسری سے میرے ایک دوست کو ملی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس فہرست انگریزی سے پہلے مولوی محمد حسین نے مولوی احمد اللہ کے آگے ایک تقریب پر اشارہ یہ ظاہر کر دیا تھا جس سے یہی معنے نکلتے تھے کہ اب میں نے اعتقاد انکار مہدی سے رجوع کرلیا ہے.یہ تحریر جو مولوی احمد اللہ صاحب سے ملی ہے ثابت کرتی ہے کہ یہ شخص بہت ہی فریبی اور لے اس جگہ ہم رقعہ دستخطی مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری کو اطلاع ناظرین کے لئے ذیل میں لکھتے ہیں جس میں مولوی احمد اللہ صاحب نے محمد حسین کے اعتقاد مہدی کی نسبت بدظن ہو کر اس سے دریافت کیا تھا.وہ رقعہ یہ ہے.ور ذیقعدہ ۱۳۱۳ھ کے مطابق ۵ مئی.میرے سامنے مولوی محمد حسین صاحب نے میرے پاس صاف ظاہر کیا کہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کا معتقد ہوں ( یعنی اب معتقد ہو گیا ہوں ) مانتا ہوں جو وہ سوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہیں جن کے بعد حضرت مسیح آویں گے.

Page 525

۵۰۹ جلد دوم مجموعہ اشتہارات دھو کہ وہ آدمی ہے.کیونکہ اس رجوع کے بعد پھر اس نے وہی اعتقاد انکار مہدی گورنمنٹ پر ظاہر کیا اور ثابت ہوا کہ یہ تمام تحریریں گورنمنٹ انگریزی کو دھوکہ دینے کے لئے اس نے شائع کی ہیں.اس خیال سے کہ گورنمنٹ ایسے لوگوں کو خطرناک سمجھتی ہے جو ایسے مہدی کے آنے کا اعتقاد رکھتے ہیں.پس بلا شبہ اس نے یہ سخت فریب کی کارروائی کی ہے اور یہ اُن شریف اور نیک طینت انسانوں کا کام نہیں ہے.جن کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے.ہاں ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ بلاشبہ سچا اور صحیح اعتقاد یہی ہے کہ ایسے مہدی کے آنے کی نسبت کوئی حدیث صحت کو نہیں پہنچتی اور جس قدر صحاح ستہ میں حدیثیں لکھی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی جرح سے خالی نہیں.اور اگر جاہل اور بے وقوف اور خائن اور نام کے مولوی جو دیانت اور ایمانداری اور راست گوئی سے خالی ہیں.ایسی مجروح اور مردود حدیثوں کے رڈ کرنے والے اور ایسے مہدی کے منکر کی نسبت کا فر اور دجال اور کذاب اور مفتری ہونے کا فتویٰ دیں جیسا کہ نذیر حسین اور عبد الجبار اور رشید احمد اور عبد الحق وغیرہ نے فتویٰ دیا.تو یہ فتویٰ محض بد دیانتی کی راہ سے ہے.لیکن محمد حسین نے جس پیمانہ سے ہمیں ناپ کر دیا تھا.خدا نے وہی پیمانہ اس کی ذلت کے لئے اس کے آگے رکھا تا الہام جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا کامل طور پر پورا ہو جائے.غرض محمد حسین کو صرف یہی سزا نہیں ملی کہ اس کے دوستوں نے ہی اس کا نام کافر اور دجال رکھا بلکہ جس تعدی اور زیادتی کے ساتھ میری نسبت اس نے فتوے دلائے تھے.اسی طرح فتوے دینے والوں نے اس کے ساتھ بھی اپنے فتووں میں تعدی اور زیادتی کی تا دونوں پہلو سے مثل کی شرط پوری ہو جائے جو الہام جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا میں پائی جاتی تھی.اب ان مولویوں کے لئے جنہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ مہدی معہود کا انکار کرنے والا کافر اور دقبال اور مفتری اور دائرہ اسلام کے خارج ہو جاتا ہے.بہتر طریق یہ ہے کہ ایک جلسہ کر کے اس جلسہ میں محمد حسین کو طلب کریں.پھر اگر وہ صاف طور پر اقرار کرے کہ وہ بھی اس خونی مہدی کے آنے کا منتظر ہے جو اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے پھیلائے گا تو اس کی دستخطی تحریر لے کر چھپوا دیں اور یاد رکھیں کہ وہ ہر گزایسی تحریر نہیں دے گا اگر چہ یہ لوگ اس کو ذبح کر دیں کیونکہ یہ اس کے دنیوی مقاصد کے برخلاف ہے.اور اگر وہ ایسا کرے تو پھر گورنمنٹ کو کیا منہ دکھاوے.ابھی تو وہ لکھ چکا

Page 526

مجموعہ اشتہارات ۵۱۰ جلد دوم ہے کہ وہ تمام حدیثیں جھوٹی ہیں تو پھر اب ان کو صحیح کیونکر بناوے.لہذا ممکن نہیں کہ ایسا کرے.پس اگر یہ علماء جو اس کو کافر اور دقبال اور مفتری اور جہنمی ٹھہرا چکے ہیں بغیر ایسی تحریر شائع کرانے کے اس سے اختلاط رکھیں اور حسب منشا اپنے فتووں کے اس کو کافر اور دقبال اور کذاب اور مفتری نہ سمجھیں اور اس کی ملاقات سے پر ہیز نہ کریں تو پھر یہ خود دقبال اور مفتری ہیں لیکن ہم نہایت نیک نیتی سے گورنمنٹ عالیہ کو اس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں کہ وہ محمد حسین کے چال چلن سے خبر دار رہے اور اس وقت تک اس کی حالت کو قابل اعتماد نہ سمجھے جب تک وہ ان مولویوں سے جو ایسے خطرناک مہدی کے منتظر ہیں بکتی علیحدگی اختیار نہ کرے.گورنمنٹ عالیہ سمجھ سکتی ہے کہ کیسا ان لوگوں کا خطرناک عقیدہ ہے کہ ایسے خونی مہدی کے منکر کو کا فرقرار دیتے ہیں اور کذاب اور دجال اور مفتری نام رکھتے ہیں.اور میں گورنمنٹ کو یقین دلاتا ہوں کہ محمد حسین مذکور کا یہ کہنا کہ میں ایسے مہدی کے آنے کا قائل نہیں اور میں ایسی حدیثوں کے صحیح نہیں سمجھتا بالکل منافقانہ پیرایہ میں ہے اور وہ انکارِ مہدی میں سراسر منافقانہ طریق اختیار کرتا اور گورنمنٹ کو دھوکہ دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ دیکھ لے گی کہ یہ فتویٰ جو منکرِ مہدی کی نسبت مولویوں نے لکھا ہے یہ محمد حسین کی نسبت ہرگز جاری نہیں کیا جاوے گا کیونکہ وہ در پردہ فی الفور ان کو کہہ دے گا کہ میں اُس خونی مہدی کے آنے کا قائل ہوں.اور یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اس قدر اختلاف کے ساتھ کہ وہ مہدی کے آنے سے انکاری ہو اور وہ لوگ اس کا فراور دجال کہیں اور مفتری اور کذاب اور جہنمی اس کا نام رکھیں.اور پھر ان کا باہمی میل ملاقات جاری رہے بجز اس صورت کے کہ در پردہ ایک ہی اعتقاد پر متفق ہوں.وہ تو فتویٰ میں یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ ایسے آدمی کے ساتھ کہ اس خونی مہدی کے آنے کا منتظر نہیں میل ملاقات ہرگز جائز نہیں کیونکہ وہ کافر ہے.غرض اب اگر اس کے بعد مولوی محمد حسین کے تعلقات ان مولویوں کے ساتھ قائم نہ رہے اور میل ملاقات سب ترک ہو گیا اور ایک دوسرے کو کافر کہنے لگے تب تو اس بات کو مان لیا جائے گا کہ محمد حسین کا گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یہ ظاہر کرنا کہ میں اس مہدی کا آنا نہیں مانتا جو بزعم اہلِ حدیث خلیفہ اور بادشاہ ہوکر آئے گا اور سخت لڑائیاں کرے گا درست اور صحیح ہے لیکن اگر محمد حسین مذکور کا میل ملاقات ان فتویٰ

Page 527

مجموعہ اشتہارات ۵۱۱ جلد دوم دینے والوں سے موقوف نہ ہوا.اور بدستور باہم شیر وشکر ر ہے تو پھر گورنمنٹ عالیہ کو قطعی اور یقینی طور پر سمجھنا چاہیے کہ ان کے باہمی تعلقات قائم ہیں اور یہ سب اُس خونی مہدی کے منتظر ہیں.اور عام مسلمانوں کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ سے خوف کر کے ان مولویوں کے ایسے چال چلن پر غور کریں یہ ان کے کشتی بان کہلاتے ہیں اور سوچیں کہ کیا ایسے لوگوں کی پیروی کر کے کسی نیکی کی امید ہو سکتی ہے.اب ذرا فتوی ہاتھ میں لے کر نذیر حسین کو پوچھیں کہ کیا ہم محمد حسین کو کذاب دجال ، مفتری کہیں؟ پھر عبدالجبار غزنوی کے پاس جائیں اور اس سے دریافت کریں کہ کیا آپ کے فتویٰ کے مطابق محمد حسین کو ہم کافر قرار دیں؟ اور پھر عبد الحق غزنوی کو بھی اسی جگہ مل لیں اور اس سے پوچھیں کہ کیا تمہارے فتویٰ کے رو سے ہم محمد حسین کو جہنمی اور ناری کہا کریں.اور پھر ذرا تکلیف اُٹھا کر اسی جگہ امرتسر میں مولوی احمد اللہ صاحب کے پاس جائیں اور ان سے دریافت کریں کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ کا فتویٰ عبدالحق کے فتویٰ کے مطابق ہے؟ کیا ہم آیندہ محمدحسین کو جہنمی کہا کریں اور کیا ہم آئیندہ اس کی ملاقات چھوڑ دیں.اے مسلمانو! یقیناً سمجھو کہ یہ وہی مولوی ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے.تم ان کو اسی نمونہ سے شناخت کر لو گے کہ بعد اس کے جو انہوں نے شیخ محمد حسین ایڈیٹر اشاعة السنه کو کافر اور دجال اور مفتری اور جہنمی قرار دیا.پھر کیا حقیقت میں اس کو ایسا ہی سمجھتے ہیں.یاد و صرف دکھانے کے دانت تھے.اب میں وہ استفتاءے جس پر ایسے شخص کے کافراور دقبال ہونے کی نسبت مولویوں نے فتوے لکھے ہیں گورنمنٹ عالیہ کے گوش گزار کرنے کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں تا کہ گورنمنٹ کو یادر ہے کہ یہ لوگ ان خیالات کے آدمی ہیں.فقط اقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۷/جنوری ۱۸۹۹ء تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۱۷ تا ۲۴) ے یہ فتوی جلد ہذا کے صفحہ ۴۹۵،۴۹۴ پر زیر اشتہار نمبر ۲۰۵ پر درج ہو چکا ہے اس لئے دوبارہ نقل نہیں کیا گیا (مرتب)

Page 528

مجموعہ اشتہارات ۲۰۸ ۵۱۲ جلد دوم بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم بِسْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي نقل اس ڈیفنس کی جو انگریزی میں چھاپا گیا میں عدالت میں اپنی بریت ثابت کرنے کے لئے بطور ڈیفنس یہ عریضہ لکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر تمام واقعات کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو اس الزام سے جو مجھ پر لگایا جاتا ہے میرا بری ہونا صاف طور پر کھل جائے گا.میں سب سے اول اس بات کو پیش کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کی جس سے محمد حسین یا اس کے کسی اور شریک کی جان یا مال یا عزت کو خطرہ میں ڈالا ہو.یا خطرہ میں ڈالنے کا ارادہ کیا ہو.میرا اشتہار مباہلہ مورخہ ۲۱ /نومبر ۱۸۹۸ء جو فریق مخالف کی کئی چھپی ہوئی درخواست مباہلہ اور کئی قلمی خطوط طبی مباہلہ کے بعد لکھا گیا اور ایسا ہی دوسرا اشتہار جو ۳۰ رنومبر ۱۸۹۸ء کو شایع ہوا.یہ دونوں اشتہار صاف طور پر بتلا رہے ہیں کہ اس پیشگوئی میں یعنی جو عربی الہام مندرجہ اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں ذلت کا لفظ ہے.اس سے فریق کا ذب کی ذلّت مراد ہے.اور ذلت بھی اس قسم کی ذلّت جو فریق کا ذب نے دوسرے فریق کو بذریعہ اپنے کسی فعل کے پہنچائی ہو.یہ اس الہامی فقرہ کی تشریح ہے.جو اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے.یعنی به فقره که جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ.جس کے لفظی معنے یہی ہیں کہ بدی کی سزا ذلت

Page 529

مجموعہ اشتہارات ۵۱۳ جلد دوم ہے مگر اسی ذلت کی مانند اور مشابہ جو فریق ظالم نے فریق مظلوم کو پہنچائی ہو.اب اگر اس الہامی فقرہ کو جو لہم کے ارادہ اور نیت کا ایک آئینہ ہے.ایک ذرہ تدبر اور فکر سے سوچا جائے تو بدیہی طور پر معلوم ہوگا کہ اس فقرہ کے اس سے بڑھ کر اور کوئی معنے نہیں کہ ظالم کو اسی قسم کی ذلت پہنچنے والی ہے جو فی الواقعہ مظلوم کو اس کے ہاتھ سے پہنچ چکی ہے.یہ معنے امر بحث طلب کو بالکل صاف کر دیتے ہیں اور ثابت کر دیتے ہیں کہ اس پیشگوئی کو کسی مجرمانہ ارادہ سے کچھ بھی لگاؤ نہیں.اور یہ معنے صرف اسی وقت نہیں کئے گئے ، بلکہ اشتہا ر ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء اور ۳۰ /نومبر ۱۸۹۸ء اور دوسرے اشتہارات میں جو پیش از اطلاع یابی مقدمہ شائع ہو چکے ہیں اُن سب میں کامل طور پر یہی معنے کئے گئے ہیں.عدالت کا فرض ہے کہ ان سب اشتہارات کو غور سے دیکھے کیونکہ میرے پر وہی الزام آ سکتا ہے جو میری کلام سے ثابت ہوتا ہے.پھر جبکہ میں نے الہامی عبارت کے معنوں کی قبل از وقوع یابی اپنے اشتہارات میں بخوبی تشریح کر دی ہے.بلکہ ۳۰ / نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں ذلّت کی ایک مثال بھی لکھ دی ہے اور بار بار تشریح کر دی ہے تو پھر یہ الہام قانونی زد کے نیچے کیونکر آ سکتا ہے.ہر ایک مظلوم کا حق ہے کہ وہ ظالم کو یہ بد دعا دے کہ جیسا تو نے میرے ساتھ کیا خدا تیرے ساتھ بھی وہی کرے.اصول انصاف عدالت پر یہ فرض کرتا ہے کہ عدالت اس عربی الہام کے معنے غور سے دیکھے جس پر تمام مقدمہ کا مدار ہے.اگر میرے عربی الہام میں ایسا لفظ ہے جو ہر ایک قسم کی ذلت پر صادق آسکتا ہے تو پھر بلائبہ میں قانونی الزام کے نیچے ہوں لیکن اگر الہام میں مثلی ذلت کی شرط ہے تو پھر اس الہامی فقرہ کو قانون سے کچھ تعلق نہیں بلکہ اس صورت میں یہ بات تنقیح طلب ہوئی کہ فریق مظلوم کو کس قسم کی ذلت ظالم سے پہنچی ہے اور فریق مخالف اس بات کو ہرگز قبول نہیں کرے گا کہ اس نے کبھی مجھ کو ایسی ذلت پہنچائی ہے جو فوجداری قوانین کے نیچے آ سکتی ہے مگر مثلی ذلّت کے لئے جو الہام نے قرار دی ہے یہی شرط ہے کہ ظالم کی اسی قسم کی ذلت ہو جو بذریعہ اس کے مظلوم کو پہنچی ہو.اگر یہ پیشگوئی ایسے طور سے پوری ہوتی جو وہ طور مثلی ذلّت کے برخلاف ہوتا تو ہر ایک کو کہنا پڑتا کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.کیونکہ ضرور ہے کہ پیشگوئی اپنے اصل معنے کے رو سے پوری ہو چنانچہ یہ پیشگوئی

Page 530

مجموعہ اشتہارات ۵۱۴ جلد دوم اپنے اصل معنے کے رو سے پوری بھی ہوگئی کیونکہ محمد حسین نے مع اپنے گروہ کے جوفتولی کفر کا میری نسبت دیا تھا اور میرا نام دجال اور کذاب اور مفتری رکھا تھا ایسا ہی اس کی نسبت اُس کے ہم مشرب علماء نے فتویٰ دے دیا.یعنی اس کی وجہ اُس فہرست انگریزی کے نکلنے کے بعد جس میں اس نے مہدی کے آنے کی احادیث کو غلط اور نادرست لکھا ہے اس کی نسبت اسی کی قوم کے مولویوں نے صاف طور پر لکھ دیا کہ وہ کافر اور کذاب اور دجال ہے.سو وہ فقرہ الہامی جس میں لکھا تھا کہ ظالم کو ذلت اسی قسم کی پہنچے گی جو اس نے مظلوم کو پہنچائی ہو اور وہ بعینہ پورا ہو گیا.کیونکہ محمد حسین اپنی منافقانہ طبیعت کی وجہ سے جس کا وہ قدیم سے عادی ہے گورنمنٹ کو یہ دھوکا دیتا رہا کہ وہ اس خطر ناک اور خونی مہدی کا منکر ہے جس کے آنے کے لئے وحشیانہ حالت کے مسلمان منتظر ہیں.مگر تمام مولویوں کو یہ کہتا رہا کہ میں اس مہدی کا قائل ہوں جیسا کہ تم قائل ہو.اور یہ اس کا طریق نہایت قابل شرم تھا.جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا.اگر وہ دل کی سچائی سے ایسے خطرناک مہدی کے آنے کا منکر ہوتا تو میری نظر میں اور ہر ایک منصف کی نظر میں قابل تعریف ٹھیرتا.لیکن اس نے ایسا نہ کرتا اور نفاق سے کام لیا.اس لئے الہام کے مطابق اس کی ذلت ہوئی اور جس اعتقاد کی وجہ سے قوم کی نظر میں مجھے اس نے کافر ٹھیرایا اور میرا نام دقبال اور ملحد اور مفتری رکھا اب وہی القاب قوم کی طرف سے اس کو بھی ملے.اور بالکل الہام کے منشاء کے موافق پیشگوئی اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء پوری ہوگئی کیونکہ جیسا کہ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں پیشگوئی میں ذلت کے لفظ کے ساتھ مثل کی شرط تھی سو اُس شرط کے موافق الہام پورا ہو گیا اور اب کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی.میں حکام انصاف پسند سے چاہتا ہوں کہ ذرا ٹھہر کر سوچ کر اس مقام کو پڑھیں یہی وہ مقام ہے جس پر غور کرنا انصاف چاہتا ہے.اصل جواب اسی قدر ہے جو میں نے عرض کر دیا.لیکن اس وقت یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے حملوں کا دفعیہ بھی جو الزام کو قوت دینے کے لئے پیش کئے گئے ہیں گزارش کر دوں.منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ عدالت میں میری نسبت یہ الزام پیش کیا گیا ہے کہ گویا میری قدیم سے یہ عادت

Page 531

مجموعہ اشتہارات ۵۱۵ جلد دوم ہے کہ خود بخود کسی کی موت یا ذلت کی پیشگوئی کیا کرتا ہوں اور پھر اپنی جماعت کے ذریعہ سے پوشیدہ طور پر اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ کسی طرح وہ پیشگوئی پوری ہو جائے.گویا میں ایک قسم کا ڈا کو یا خونی یار ہرن ہوں.اور گویا میری جماعت بھی اس قسم کے اوباش اور خطر ناک قسم کے لوگ ہیں جن کا پیشہ اس قسم کے جرائم ہیں.لیکن میں عدالت پر ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام سراسر افتراء سے ضمیر کیا گیا ہے اور نہایت بُری طرح میری اور میری معزز جماعت کی ازالہ حیثیت عرفی کی گئی ہے میں اس وقت کو زیادہ بیان کرنا غیر محل سمجھتا ہوں، لیکن عدالت پر واضح کرتا ہوں کہ میں ایک شریف اور معزز خاندان میں سے ہوں.میرے باپ دادے ڈاکو اور خونریز نہ تھے اور نہ کبھی کسی عدالت میں میرے پر کوئی جرم ثابت ہوا.اگر ایسے بد اور ناپاک ارادہ سے جو میری نسبت بیان کیا گیا ہے ایسی پیشگوئیاں کرنا میرا پیشہ ہوتا تو اس بیس برس کے عرصہ میں جو براہین احمدیہ کی تالیف سے شروع ہوا ہے.کم سے کم دو تین سو پیشگوئی موت وغیرہ کی میری طرف سے شائع ہوتی حالانکہ اس مدت دراز میں بجز ان دو تین پیشگوئیوں کے ایسی پیشگوئی اور کوئی نہیں کی گئی.میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ پیشگوئیاں لیکھر ا اور عبد اللہ آ تھم کے بارے میں میں نے اپنی پیش دستی سے نہیں کیں بلکہ ان دونوں صاحبوں کے سخت اصرار کے بعد ان کی دستخطی تحریریں لینے کے بعد کی گئیں اور لیکھرام نے میری اشاعت سے پہلے خودان پیشگوئیوں کو شائع کیا تھا اور میں نے بعد میں شائع کیا.چنانچہ لیکھرام کو اپنی کتاب تکذیب صفحہ ۳۳۲ میں اس بات کا اقرار ہے کہ وہ پیشگوئیوں کے لیے دو ماہ تک قادیان میں ٹھہرا رہا اور اس نے خود پیشگوئی کے لئے اجازت دی اور اپنی دستخطی تحریر کر دی وہ اس صفحہ میں میری نسبت یہ بھی لکھتا ہے کہ وہ موت کی پیشگوئی کو ظاہر کر نانہیں چاہتے تھے جب تک اجازت نہ ہو.اور پھر اسی صفحہ میں اپنی طرف سے اجازت کا اعلان کرتا ہے.اس کی کتاب موجود ہے.یہ مقام پڑھا جائے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے میری اشاعت سے پہلے میری پیشگوئی کی آپ اشاعت کر دی ہے اور ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی ایک تحریر مثل مقدمہ ڈاکٹر کلارک کے ساتھ شامل ہے اور لیکھرام کی خط و کتابت جو مجھ سے ہوئی اور جس اصرار سے اپنے لئے اُس

Page 532

مجموعہ اشتہارات ۵۱۶ جلد دوم نے پیشگوئی طلب کی وہ رسالہ مدت سے چھپ چکا ہے اور قادیان کے ہندو بھی قریب دوسو کے اس بات کے گواہ ہیں کہ لیکھرام قریباً دو ماہ تک پیشگوئی کے تقاضا کے لئے پشاور سے آ کر قادیان میں رہا.میں کبھی اس کے پاس پشاور نہیں گیا اس کے سخت اصرار اور بد زبانی کے بعد اور اس کی تحریر لینے کے بعد اس کے حق میں پیشگوئی کی گئی تھی.اور یہ دونوں پیشگوئیاں چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں اس لئے پوری بھی ہو گئیں.اور مجھے اس سے خوشی نہیں بلکہ رنج ہے کہ کیوں ان دونوں صاحبوں نے اس قدر اصرار کے ساتھ پیشگوئی حاصل کی جس کا نتیجہ ان دونوں کی موت تھی.مگر میں اس الزام سے بالکل الگ اور جدا ہوں کہ کیوں پیشگوئی کی گئی.لیکھرام نے اپنی تحریروں سے یہ ارادہ بار بار ظاہر کیا تھا کہ اس وجہ سے میں نے یہ پیشگوئی اصرار سے طلب کی ہے کہ تا جھوٹا ہونے کی حالت میں ان کو ذلیل کروں.میں نے اس کو اور عبد اللہ آتھم کو یہ بھی کہا تھا کہ پیشگوئیاں طلب کرنا عبث ہے کیونکہ اس سے پہلے تین ہزار کے قریب مجھ سے آسمانی نشان ظاہر ہو چکے ہیں جن کے گواہ بعض قادیان کے آریہ بھی ہیں.اُن سے حلفاً دریافت کرو اور اپنی تسلی کر لومگر مجھے اب تک ان دونوں کی نسبت یہ ہمدردی جوش مارتی ہے کہ کیوں انہوں نے ایسا نہ کیا اور کیوں مجھے اس بات پر سخت مجبور کر دیا کہ میں ان کے بارے میں کوئی پیشگوئی کروں.یہ کہنا انصاف اور دیانت کے برخلاف ہے کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بلکہ نہایت صفائی سے الفاظ کے منشاء اور شرط مندرجہ پیشگوئی کے مفہوم کے مطابق پوری ہو گئی.ڈپٹی عبد اللہ آتھم سے بہت مدت سے میری ملاقات تھی اور میرے حالات سے وہ بہت واقف تھا.مجھ کو اس کی نسبت زیادہ افسوس اور درد ہے کہ کیوں اس نے ایسی پیشگوئی کو جس میں اس کی موت کی خبر تھی طلب کیا جس کے آخری اشتہار سے چھ مہینے بعد مین منشاء کے مطابق وہ فوت ہو گیا.صرف یہی نہیں کہ یہ دو پیشگوئیاں پوری ہوئیں بلکہ انیس برس کے عرصہ میں تین ہزار کے قریب ایسے نشان ظاہر ہوئے اور ایسی غیبت کی باتیں قبل از وقت بتلائی گئیں اور نہایت صفائی سے پوری ہوئیں جن پر غور کر کے گویا انسان خدا کو دیکھ لیتا ہے اگر یہ انسان کا منصوبہ ہوتا تو اس قدرنشان کیونکر ظاہر ہو سکتے جن کی وجہ سے میری جماعت کے دل پاک

Page 533

مجموعہ اشتہارات ۵۱۷ جلد دوم اور خدا کے نزدیک ہو گئے.میری جماعت ان تمام باتوں پر گواہ ہے کہ کیونکر خدا تعالیٰ نے عجیب در عجیب نشان دکھلا کر اس طرح پر ان کو اپنی طرف کھینچا جس طرح پہلے اس سے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں پر ایمان لانے والے پاک دلی اور صاف باطنی اور خدا تعالیٰ کی محبت کی طرف کھینچے گئے تھے.میں دیکھتا ہوں کہ وہ جھوٹ سے پر ہیز کرتے اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے اور اس گورنمنٹ کے جس کے وہ زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں بچے خیر خواہ اور بنی نوع کے ہمدرد ہیں.یہ ان آسمانی نشانوں کا اثر ہے جو انہوں نے دیکھے اور وہ نشان خدا کی رحمت ہے جو اس وقت اور اس زمانہ میں لوگوں کو خدا کا یقین دلانے کے لئے اس بندہ درگاہ کے ذریعہ سے نازل ہورہے ہیں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر ایک جوان نشانوں کو دل کی سچائی سے طلب کرے گا دیکھے گا امن اور سلامتی کے نشان اور امن اور سلامتی کی پیشگوئیاں جن کو آسودگی عامہ خلائق میں کچھ دست اندازی نہیں ہمیشہ ایک بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں لیکن خدا کی قدیم سنت کے موافق ضرور تھا کہ میں بھی اسی طرح عوام کی زبان سے دُکھ دیا جاتا جیسا کہ پہلے پاک نبی دُکھ دیئے گئے خاص کر وہ اسرائیلی نبی سلامتی کا شہزادہ جس کے پاک قدموں سے شعیر کے پہاڑ کو برکت پہنچی اور جو قوم کی نا انصافی اور نا بینائی سے مجرموں کی طرح پیلاطوس اور ہیرو دوس کے سامنے عدالت میں کھڑا کیا گیا تھا سو مجھے اس بات سے فخر ہے کہ اس پاک نبی کی مشابہت کی وجہ سے میں بھی عدالتوں کی طرف کھینچا گیا.اور میرے پر بھی خود غرض لوگوں نے گورنمنٹ کو ناراض کرنے کے لئے اور مجھے جھوٹا ظاہر کرنے کے لئے افتراء کئے جیسا کہ اس مقدس نبی پر کئے تھے تا وہ سب کچھ پورا ہو جو ابتدا سے لکھا گیا تھا.واقعی یہ سچ ہے کہ آسمانی برکتیں زمین سے نزدیک آ رہی ہیں.گورنمنٹ انگریزی جس کی نیت نہایت نیک ہے اور جو رعایا کے لئے امن اور سلامتی کی پناہ ہے.خدا نے پسند کیا کہ اس کے زیر سایہ مجھے مامور کیا.مگر کاش اس گورنمنٹ محسنہ کو نشان دیکھنے کے ساتھ کچھ دلچسپی ہوتی اور کاش مجھ سے گورنمنٹ کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتا کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی آسمانی نشان یا کوئی ایسی پیشگوئی جوامن اور سلامتی کے اندر محدود ہو دکھلاؤ تو جو میرے پر افترا کیا گیا ہے کہ گویا میں ڈاکوؤں کا کام کر رہا ہوں یہ سب حقیقت کھل

Page 534

مجموعہ اشتہارات ۵۱۸ جلد دوم جاتی.آسمان پر ایک خدا ہے جس کی قدرتوں سے یہ سب کچھ ہوتا ہے.سو ایک مدعی الہام کی سچائی معلوم کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی میعار نہیں کہ اس سے پیشگوئی طلب کی جائے توریت میں خدا تعالیٰ نے سچے ملہم کے لئے یہی نشانی قرار دی ہے.پھر اگر اس میعار کے رُو سے وہ سچا نہ نکلے تو جلد پکڑا جائے گا اور خدا اُسے رُسوا کرے گا لیکن اگر وہ رُوح القدس سے تائید یافتہ ہے اور خدا اس کے ساتھ ہے تو ایسے امتحان کے وقت اس کی عزت اسی طرح ظاہر ہوگی جیسا کہ دانیال نبی کی عزت بابل کی اسیری کے وقت ظاہر ہوئی تھی.ایک برس سے کچھ زیادہ عرصہ گذرتا ہے کہ میں نے اس عہد کو چھاپ کر شائع کر دیا ہے کہ میں کسی کی موت وضرر وغیرہ کی نسبت ہرگز کوئی پیشگوئی شائع نہ کروں گا.پس اگر یہ پیشگوئی جو اشتہار مباہلہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں ہے.کسی کی موت یا اس قسم کی ذلت کے متعلق ہوتی تو میں ہرگز اس کو شائع نہ کرتا لیکن اس پیشگوئی کو کسی کی ایسی ذلت سے جو قانونی حد کے اندر آ سکتی ہے کچھ تعلق نہ تھا.جیسا کہ میں نے اپنے اشتہار میں مثال کے طور پر اس کی نظیر صرفی اور نحوی غلطی لکھی ہے اور ظاہر ہے کہ اگر کسی مولوی کو اس طرح پر نادم کیا جائے کہ اس کے کلام میں صرفی یا نحوی غلطی ہے تو اس قسم کی ذلت سے جو اس کو پہنچے گی قانون کو کچھ علاقہ نہیں.میرے اس الہام میں مثلی ذلّت کی ایک شرط ایسی شرط ہے کہ اس شرط کے دیکھنے کے بعد حکام کو پھر زیادہ غور کرنے کی حاجت نہیں.میری نیک نیتی کو خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور جو شخص غور سے میری اس پیشگوئی کو پڑھے گا اور اس کی تشریحات کو دیکھے گا جو میں نے قبل از مقدمہ شائع کردی ہیں تو اس کا کانشنس اور اس کی حق شناس رُوح میرے بے خطا ہونے پر ضرور گواہی دے گی.میں عدالت کو اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ میں نے یہ اشتہار مباہلہ ایک مدت تک وہ الفاظ سن کر جو دل کو پاش پاش کرتے ہیں لکھا تھا.اور میرا اس تحریر سے ایک تو یہ ارادہ تھا کہ بدی کا بدی سے مقابلہ نہ کروں اور خدا تعالیٰ پر فیصلہ چھوڑوں اور دوسرے یہ بھی ارادہ تھا کہ اُن فتنہ انگیز تحریروں کے اشتعال دہ اثر سے جن کا اس ڈیفنس میں کچھ ذکر کر چکا ہوں اپنی جماعت کو بچالوں اور جوش اور اشتعال کو دبا دوں تا میری جماعت صبر اور پاک دلی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فیصلہ کی منتظر رہے.

Page 535

مجموعہ اشتہارات ۵۱۹ جلد دوم میں اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ میری کا رروائی محمد حسین کے مقابل پر اخیر تک سلامت روشنی کے ساتھ رہی ہے اور میں نے بہت سے گندے اشتہار دیکھ کر جو اس کی تعلیم سے لکھے گئے تھے.جن کا بہت سا حصہ خود اس نے اپنی اشاعۃ السنہ میں نقل کیا ہے وہ صبر کیا ہے جو دنیا داروں کی فطرت سے ایسا صبر ہونا غیر ممکن ہے محمد حسین نے میرے ننگ و ناموس پر نہایت قابل شرم کمینگی کے ساتھ اور سراسر جھوٹ سے حملہ کیا ہے اور میری بیوی کی نسبت محض افترا سے نہایت ناپاک کلمے لکھے ہیں اور مجھے ذلیل کرنے کے لئے بار بار یہ کلمات شائع کئے کہ یہ شخص لعنتی اور کتے کا بچہ ہے اور دوسو جو تہ اس کے سر پر لگانا چاہیے اور اس کو قتل کر دینا ثواب کی بات ہے.لیکن کون ثابت کر سکتا ہے کہ کبھی میں نے اس کے یا اس کے گروہ کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کئے.میں ہمیشہ ایسے الفاظ استعمال کرتا رہا جو ایک شریف انسان کو تہذیب کے لحاظ سے کرنے چاہیں.ہاں جیسا کہ مذہبی مباحثات میں باوجود تمام تر نیک نیتی اور نرمی اور تہذیب کے ایسی صورتیں پیش آ جایا کرتی ہیں کہ ایک فریق اپنے فریق مخالف کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے.جو عین محل پر چسپاں ہوتے ہیں.اس مہذبانہ طریق سے میں انکار نہیں کر سکتا.مباحثات میں ضرورت کے وقت بہت سے کلمات ایسے بھی استعمال ہوتے ہیں جو فریق مخالف کو طبعا نا گوار معلوم ہوتے ہیں مگرمحل پر چسپاں اور واقعی ہوتے ہیں مثلاً جو شخص اپنے مباحثات میں عمد اخیانت کرتا ہے یا دانستہ روایتوں کے حوالہ میں جھوٹ بولتا ہے اس کو نیک نیتی اور اظہار حق کی وجہ سے کہنا پڑتا ہے کہ تم نے طریق خیانت یا جھوٹ کو اختیار کیا ہے اور ایسا بیان کرنا نرمی اور تہذیب کے برخلاف نہیں ہوتا بلکہ اس حد تک جو سچائی اور نیک نیتی کا التزام کیا گیا ہو.حق کے ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے.ایسے طریق کو یورپ کے ممتاز محققوں نے بھی جو طبعا تہذیب اور نرمی کے اعلیٰ اصولوں کے پابند ہوتے ہیں اختیار کیا ہے.یہاں تک کہ سر میور سابق لفٹنٹ گورنر ممالک مغربی و شمالی نے اپنی کتاب لائف آف محمد میں اس مذہبی تحریر میں ایسے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں کہ میں ایسے الفاظ کا ذکر بھی سخت نا مناسب سمجھتا ہوں.اور میرے ایک مُرید نے جو محمد حسین کی نسبت ایک مضمون اخبار الحکم میں لکھا ہے جو

Page 536

مجموعہ اشتہارات ۵۲۰ جلد دوم مسل مقدمہ میں شامل کیا گیا ہے.گو وہ مذہبی مباحثات کی طرز کو خیال کر کے ایسا ہر گز نہیں ہے جیسا کہ سمجھا گیا ہے تاہم یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مجھے اُس اخبار سے کچھ بھی تعلق نہیں.چنانچہ اخبار الحکم کے پرچہ ۸ دسمبر ۱۸۹۸ء اور ۱۳ / دسمبر ۱۸۹۸ء اور ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ء میں خود اس اخبار کے مالک شیخ یعقوب علی نے اس کی بخوبی تصریح کردی ہے.میری نیک نیتی اس سے ظاہر ہے کہ قریباً ڈیڑھ برس کے عرصہ تک محمد حسین نے نہایت سخت اور گندے الفاظ کے ساتھ مجھے دکھ دیا.پہلے ایسے ناپاک اشتہار محمد بخش جعفر زٹلی کے نام پر شائع کئے اور پھر نقل کے طور پر اُن کو اپنی اشاعۃ السنہ میں لکھا اور کئی دوسرے لوگوں سے بھی یہ کام کرایا مگر میں چپ رہا اور اپنی جماعت کو بھی ایسے گندے الفاظ بالمقابل بیان کرنے سے روک دیا.یہ واقعی اور سچی بات ہے.خدا کے اختیار میں ہے کہ عدالت کو اس تفتیش کی طرف توجہ دے جب میری جماعت ایسی گالیوں سے نہایت درجہ دردمند ہوئی اور ایسے اشتہار لاہور کی گلی کوچوں اور مسجدوں میں محمد حسین نے چسپاں کر دیئے تو میں نے اپنی جماعت کو یہ صلاح دی کہ وہ بحضور نواب گفٹینٹ لے گورنر بہادر بالقا بہ اس بارے میں میموریل بھیجیں.چنانچہ میموریل بھیجا گیا.جس کے چند پرچے میرے پاس موجود ہیں.پھر جب اس ذریعہ سے اس فتنہ کا انسداد نہ ہوا تو ایک اور میموریل پندرہ ہزار یا شاید سولہ ہزار معزز لوگوں کے دستخط کرا کر بحضور وائسرائے بالقابہ اسی غرض کے حصول کے لئے روانہ کیا گیا.اس کے چند پرچے بھی موجود ہیں مگر اس کا بھی کوئی جواب نہ آیا.تب گندی گالیوں کے دینے میں اور بھی محمد حسین نے نہایت بے باکی سے قدم آگے رکھا، چنانچہ ان گالیوں کا نمونہ محمد بخش جعفر زٹلی کے اس اشتہار سے ظاہر ہوتا ہے جو اس نے اار جون ۱۸۹۷ء میں شائع کیا ہے.اس اشتہار میں اس کی عبارت جو دراصل محمد حسین کی عبارت ہے، یہ ہے ” مرزا عیسائیوں کا کوڑا اور گندگی اٹھانے کے لئے تیار اور راضی ہے اور اپنا منہ ان کی جوتیوں پر ملنے کے لئے اس نے برٹش گورنمنٹ کو خدا کا درجہ دے یا ہے.اس خرد قبال نے حضرت سلطان المعظم یعنی سلطان رُوم کی لے نقل مطابق اصل ہے (مرتب) وو

Page 537

مجموعہ اشتہارات ۵۲۱ جلد دوم نسبت ایسی بیہودہ گوئی کی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ یہ خبیث باطنی شیطان سامنے بٹھایا جائے اور دوسو جوتے مارے جائیں.اور جب شمار کرتے وقت عدد بھول جائے تو پھر از سر نو گننا شروع کیا جائے.اس گتے کے بچے پر لعنت.سلطان کی نسبت حقارت آمیز لفظ استعمال کرنے سے تو یہی اچھا ہوتا ہے کہ وہ کھلا کھلا عیسائی ہو جاتا.میں نے مرزا کے متعلق پانچ پیشگوئیاں کی ہیں.اور وہ یہ ہیں.(1) قادیانی ایک سخت مقدمہ میں پھنس جائے گا اور جلا وطن کیا جائے گا.یا بیٹیاں پڑیں گی اور قید خانہ میں ڈالا جائے گا.(۲) قید میں وہ دیوانہ ہو جائے گا.(۳) ایک ناسور نکلے گا.66 (۴) وہ جذامی ہو جائے گا اور خود کشی کر کے دوزخ میں ڈالا جائے گا.“ ایسا ہی اُس اشتہار کے ساتھ ایک تصویر لکھی ہے جس میں مجھے شیطان بنایا ہے محمد حسین کا یہی طریق ہے کہ یہ گندے اشتہار پہلے اُس کے نام پر شائع کرتا ہے اور پھر نقل کے طور پر اپنی اشاعة السنہ میں شائع کرتا ہے تا اگر کوئی اعتراض کرے کہ تو نے مولوی کہلا کر ایسی گندی اور قابل شرم کا رروائی شروع کر رکھی ہے تو فی الفور اس کا جواب دیتا ہے کہ میں تو صرف اپنی اشاعة السنہ میں دوسرے کے کلام کو نقل کرتا ہوں.اس میں کیا حرج ہے.لیکن اگر محمد بخش زٹلی وغیرہ کو عدالت خود بلا کر دریافت کرے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سارا پردہ کھل جائے گا.غرض محمد حسین کی ایسی گندی کارروائیوں کے پہلے میں نے مجازی حکام کی طرح رجوع کیا یعنی میموریل بھیجے اور پھر اس حقیقی حاکم کی طرف توجہ کی جو دلوں کے خیالات کو جانتا اور مفسد اور نیک خیال آدمی میں فرق کرتا ہے یعنی مباہلہ کو جو اسلام میں قدیم سنت اور نماز روزہ کی طرح فرائض مذہب میں بوقت ضرورت داخل ہے، تجویز کر کے اشتہار۲۱ رنومبر ۱۸۹۸ء لکھا اور خدائے علیم جانتا ہے جس پر افتراء کرنا بدذاتی ہے کہ بعد دعا یہی الہام ہوا کہ میں ظالم کو ذلیل کروں گا مگر اُسی قسم کی ذلت ہوگی جو فریق مظلوم کو پہنچائی گئی ہو.

Page 538

مجموعہ اشتہارات ۵۲۲ جلد دوم میرے حالات میری انیس برس کی تعلیم سے ظاہر ہو سکتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کو کیا تعلیم دے رہا ہوں.ایسا ہی میرے حالات میری جماعت کے چال چلن سے معلوم ہو سکتے ہیں اور بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں جو گورنمنٹ کی نظر میں نہایت نیک نام اور معزز عہدوں پر سرفراز ہیں.ایسا ہی میرے حالات قصبہ قادیان کے عام لوگوں سے دریافت کرنے کے وقت معلوم ہو سکتے ہیں کہ میں نے اُن میں کس طرز کی زندگی بسر کی ہے.ایسا ہی میرے حالات میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ کی طرز زندگی سے معلوم ہو سکتے ہیں کہ گورنمنٹ انگلشیہ کی نظر میں کیسے تھے.اور عجیب تریہ کہ محمد حسین جو ہر وقت میری ذلت کے در پئے ہے وہ اپنی اشاعۃ السنہ نمبر ۹ جلد نمبرے میں میری نسبت اقرار کرتا ہے کہ یہ شخص اعلیٰ درجہ کا پاک باطن اور نیک خیال اور سچائی کا حامی اور گورنمنٹ انگریزی کا نہایت درجہ خیر خواہ ہے.یہ بھی گزارش کرنا ضروری ہے کہ اگر لیکھر ام کے مارے جانے کے وقت میں میری نسبت آریوں کو شکوک پیدا ہوئے تھے تو ان شکوک کی بنا بجز اس پیشگوئی کے اور کچھ نہ تھا جس کولیکھرام نے آپ مانگا تھا اور مجھ سے پہلے آپ مشتہر کیا تھا.پھر اس میں میرے پر کیا الزام ہے.نہ میں نے خود بخود پیشگوئی کی اور نہ میں نے اس کو مشتہر کیا.اور اگر صرف شک پر لحاظ کیا جائے تو ہندوؤں نے سرسید احمد خان کے سی ایس آئی پر بھی قتل لیکھرام کا شبہ کیا تھا.فقط خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۰ جنوری ۱۸۹۹ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پرلیس قادیان تعداد اشاعت (۱۰۰) تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۲۴ تا ۳۶)

Page 539

مجموعہ اشتہارات ٢٠٩ ۵۲۳ جلد دوم بسم اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم ہمارے استفتاء کی نسبت ایک منصفانہ گواہی ناظرین کو معلوم ہوگا کہ ہمیں اس بات پر اطلاع پا کر کہ شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے مہدی کے آنے کے بارے میں اپنے ہم جنس مولویوں کو تو یہ کہا کہ ضرور وہ مہدی معہود آئے گا جو قریش میں سے ہو گا اور خلافت ظاہری و باطنی سے سرفراز ہوگا.اور لڑائیاں اور سخت خونریزیاں کر کے تمام روئے زمین پر دین اسلام کو غالب کر دے گا اور اُس کے آنے کا منکر لعنتی اور کافر اور دجال اور ضال اور مضل ہے اور پھر پوشیدہ طور پر گورنمنٹ عالیہ انگریزی پر یہ ظاہر کرتا رہا کہ مسلمانوں کا یہ خیال بالکل بیہودہ ہے کہ ایسا مہدی آئے گا اور اس کے خونریزی کے کاموں کی تائید کے لئے مسیح موعود آسمان سے اُترے گا اور وہ دونوں مل کر جبر اور اکراہ سے لوگوں کو مسلمان کر یں گے.یہ حالت محمد حسین کی عام مسلمانوں سے پوشیدہ تھی.آخر ان دنوں میں ایک طمع کی وجہ سے محمد حسین نے ایک فہرست انگریزی رسالہ کے طور پر شائع کی اور اس میں صاف طور پر اس نے لکھ دیا کہ جس خونی مہدی کے آنے کے عام مسلمان منتظر ہیں.اس کے متعلق کی جس قدر حدیثیں ہیں وہ سب موضوع اور غلط اور نا درست ہیں.اور اس تحریر سے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کرنا چاہا کہ وہ ایسے مہدی

Page 540

مجموعہ اشتہارات ۵۲۴ جلد دوم کے آنے سے منکر ہے.یہ رسالہ ۱۴ را کتوبر ۱۸۹۸ء کو وکٹوریہ پریس میں چھپا ہے.غرض چونکہ خدا تعالیٰ نے چہا تھا کہ ہمارے اشتہار مباہلہ مورخہ ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء کی الہامی پیشگوئی کے مطابق محمد حسین کو مثلی ذلّت پہنچاوے جیسا کہ الہام جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ کا منشاء تھا.اس لئے محمد حسین نے پوشیدہ طور پر یہ انگریزی رسالہ شائع کر دیا اور مولویوں کو اس رسالہ کے مضمون سے بالکل خبر نہ دی.مگر تا ہم خدا تعالیٰ کے انصاف اور غیرت نے وہ رسالہ ظاہر کر دیا.تب ہم نے فی الفور سمجھ لیا کہ ہماری پیشگوئی پورا کرنے کے کئے یہ سامان غیب سے ظہور میں آ رہا ہے.تب اسی بنا پر استفتاء لکھا گیا اور مولوی نذیر حسین دہلوی سے لے کر تمام مشہور علماء نے اس پر مہریں اور دستخط کر دیئے.اور ایسے منکر کی نسبت کسی نے کافر اور کسی نے دجال اور کسی نے کذاب اور مفتری کے لفظ استعمال کئے اور عبدالجبار غزنوی اور عبدالحق غزنوی نے جو وحشیانہ جوش کی وجہ سے صدق اور دیانت سے کچھ بھی غرض نہیں رکھتے نہ صرف نرم الفاظ میں فتوی دیا بلکہ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ ایسا شخص جو مہدی سے منکر ہو کا فراور جہنمی ہے.اور جب ان پر یہ بات کھلی کہ فتوئی تو ابوسعید محمدحسین بٹالوی کی نسبت پوچھا گیا تھا تب مارے غم اور غصہ کے دیوانہ ہو گئے اور اشتہار کے ذریعہ سے یہ شور مچایا کہ ہمیں دھوکہ دیا گیا اور محمد حسین کا نام ظاہر نہ کیا.اس کے جواب میں ہماری طرف سے ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب نے اس مضمون کا اشتہار جاری کیا تھا کہ یہ شور اور جزع فزع سراسر بد دیانتی سے ہے.فتویٰ صورت مسئلہ اور کیفیت سوال پر دیا جاتا ہے.اس میں یہ ضرور نہیں کہ سائل کا نام لکھا جائے یا اس شخص کا نام جس کی نسبت فتویٰ ہے.ہم منتظر تھے کہ ایسے صاف امر میں کوئی صاحب دیانت کی پابندی سے عبدالحق اور عبد الجبار غزنوی کے خائنانہ طریق سے مخالفت کر کے ہمارے اس بیان کی تصدیق کریں.سو ہمیں اس استفتاء کے دیکھنے سے بڑی خوشی ہوئی ہے جو آج ہمیں ملا ہے.جس میں مولوی عبد اللہ صاحب ٹونکی پروفیسر اور نینٹل کالج لاہور اور مولوی

Page 541

مجموعہ اشتہارات ۵۲۵ جلد دوم غلام محمد صاحب بگوی امام مسجد شاہی لاہور، عبدالحق اور عبدالجبار کے برخلاف اسی اپنے پہلے فتوے پر قائم رہ کر ہمارے بیان مذکورہ بالا کی تصدیق کرتے ہیں اور صاف طور پر لکھتے ہیں کہ جو استفتاء پیش ہوا تھا اس میں کوئی شخص دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا.فتویٰ دینے والے کو اس بات سے کام نہیں کہ فتویٰ زید کی نسبت پوچھا گیا ہے یا بکر کی نسبت اور ظاہر کیا کہ ہم اپنے فتویٰ پر قائم ہیں سو اس وقت محض عبد الحق اور عبدالجبار غزنوی کی پُر خیانت کا رروائی کو عام لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اس اشتہار کے ساتھ اُس استفتاء کی نقل مع ان دونوں بزرگوں کے فتوے کے شامل کی جاتی ہے.فقط المشتهر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۱ / جنوری ۱۸۹۹ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پرلیس قادیان تعداد اشاعت ۷۰۰ تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۳۶ تا ۳۸)

Page 542

مجموعہ اشتہارات ۵۲۶ نقل فتویٰ بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم جلد دوم ۱۵ / ماہِ شعبان المبارک ۱۳۱۶ھ کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے بوساطت اپنے مرید ڈاکٹر اسمعیل صاحب ملازم فوج ملک افریقہ کے ایک استفتاء عام موافق سنت علماء خلف وسلف جس میں کسی شخص کا نام نہیں تھا.آپ صاحبان کی خدمت میں بڑے ادب سے پیش کیا.اب اعادہ الفاظ استفتا کی کچھ ضرورت نہیں.صرف اگر کوئی شخص انکار امام مہدی موعود کرے اور عقیدہ اپنا تحریری ایک مقام بطور دستاویز دے کر اطمینان دلاوے کہ جو جو احادیث اسلام میں حق مہدی علیہ السلام لکھی گئی ہیں وہ سراسر جھوٹ اور لغو ہیں تو اس پر علماء کیا فتویٰ فرماتے ہیں.سو علمائے نامدار پنجاب و ہندوستان نے اپنی اپنی فہم سے ایسے عقیدے والے کو جس کا ذکر استفتاء میں موجود ہے کافر ، ضال، خارج از اسلام وغیرہ اپنی اپنی مواہیر اور دستخط سے قرار دیا تھا.چنانچہ وہ استفتاء چھپ کر عام طور پر شائع ہو چکا یہاں تک کہ گورنمنٹ عالیہ تک بھی بھیجا گیا.اب ایک مولوی عبد الحق نام نے جس کی مہر یا دستخط اُس گفر نامہ پر ثبت ہیں.اپنے ہاتھوں کی تحریر پر سخت افسوس کھا کر بڑے حسرت اور غضب سے ایک اشتہار نکال کر مشتہر کیا ہے کہ فتویٰ دینے میں میں نے دھوکہ کھایا ہے یعنی وہ فتویٰ زید کے بارے میں ہم نے دیا ہے نہ عمرو کے حق میں نیز بے اختیار ہو کر اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے فتویٰ پیش کرنے والے اور کرانے والے پر بے جا

Page 543

مجموعہ اشتہارات ۵۲۷ جلد دوم الزام دغا اور فریب بد دیانتی بے ایمانی وغیرہ وغیرہ کا لگایا ہے وہ اس واسطے کہ بالواسطہ فتویٰ کیوں لیا گیا اور جس پر فتویٰ دینا ہے اس کا نام کیوں نہیں لیا گیا.لہذا آپ صاحبان کی خدمت شریف میں انصاف اور عدل کے خواہاں ہو کر التماس ہے کہ کیا آپ نے بھی اس مولوی موصوف کی طرح دھو کہ سے مُہر یں یا دستخط کفر نامہ پر لگائے ہیں یا عام طور پر خواہ زید ہو خواہ عمر، جو شخص ایسا عقیدہ برخلاف اہلِ سنت والجماعت کے رکھتا ہے اس پر کفر کی مُہر میں لگائی ہیں جیسا کہ مفہوم آیات قرآن مجید ہے اور ایسا عالم فتویٰ دینے کے لائق شرعاً ہے.راقم خیر خواہ مومنین الْجَوَابِ وَ هُوَ الْمُوَفَّقُ لِلصَّوَاب (۱) وہ استفتاء جس کا اس سوال میں ذکر کیا گیا ہے اور جو اب چھپ کر مشہور ہو چکا ہے میرے سامنے بھی پیش ہوا تھا.اس کا جواب میں نے مندرجہ ذیل لفظوں میں دیا تھا.امام مهدی علیه وَ عَلَى آبَائِهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام کا قرب قیامت میں ظہور فرمانا اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کرنا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے اور جمہور امت نے اسے تسلیم کیا ہے اس امام موصوف کے تشریف لانے کا انکار صریح ضلالت اور مسلک اہل سنت والجماعت سے انحراف کرنا ہے.میں نے اس جواب دینے میں کسی قسم کا دھوکا اور فریب نہیں کھایا ہے.اور میرے نزدیک اس وقت بھی استفتائے مذکور کا یہی جواب ہے اور میں اس شخص کو جس کا استفتاء مذکور میں ذکر ہے اس وقت بھی مسلک اہل سنت والجماعت سے منحرف جانتا ہوں خواہ وہ زید ہو یا بکر.فقط مفتی محمد عبد اللہ عفا الخ ( ٹونکی پروفیسر اور نینٹل کالج لاہور، پریزیڈنٹ انجمن حمایت اسلام لا ہور وسیکرٹری انجمن مستشار العلماء).(۲) جو استفتاء مطبوعہ مورخه ۲۹ /دسمبر ۱۸۹۸ء مطابق ۱۵/ شعبان ۱۳۱۶ھ معرفت ڈاکٹر

Page 544

مجموعہ اشتہارات ۵۲۸ جلد دوم محمد اسمعیل خان مثبت بہ مواہیر اور دستخط علماء امرتسر تھا میرے روبرو پیش ہوا.اس کے اوپر میں نے یہ عبارت لکھی ہے.علماء مظام کا جواب صحیح ہے.بے شک شخص مذکور الستو ال ضال اور مضل ہے.اور اہلِ سنت سے خارج ہے.پس یہ جواب بشرط صدق سوال صحیح ہے مصداق علیہ اس کا خواہ زید ہو یا عمرو کسی خاص آدمی پر فتویٰ نہیں ہے.عام طور پر عقیدہ اہل سنت کا لکھا گیا ہے اور اس میں کسی شخص کا کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہے.فقیر غلام محمد الیگوی عفا عنه امام مسجد شاہی لا ہو ر ۱۲ مورخہ ۲۰ / جنوری ۱۸۹۹ء تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۳۹ تا ۴۱)

Page 545

مجموعہ اشتہارات ۲۱۰ ۵۲۹ جلد دوم گورنمنٹ عالیہ کے بچے خیر خواہ کے پہنچاننے کے لئے ایک کھلا کھلا طریق آزمائش گورنمنٹ عالیہ سے بادب التماس ہے کہ اس مضمون کو غور سے دیکھا جائے اور حسب منشائے درخواست ہر دو فریق کا امتحان لیا جائے ) چونکہ مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنه ہمیشہ پوشیدہ طور پر کوشش کرتا رہا ہے کہ گورنمنٹ عالیہ انگریزی کو میرے پر بدظن کرے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی سال سے اس کا یہی شیوہ ہے.اس لئے میں نے مناسب دیکھا ہے کہ محمد حسین اور میری نسبت ایک ایسا طریق آزمایش قائم ہو جس سے گورنمنٹ عالیہ کو سچا خیر خواہ اور چھپا ہوا بدخواہ معلوم ہو جائے اور آئندہ ہماری دانا گورنمنٹ اسی پیمانہ کے رو سے دونوں میں سے مخلص اور منافق میں امتیاز کر سکے.سو وہ طریق میری دانست میں یہ ہے کہ چند ایسے عقائد جو غلط فہمی سے اسلامی عقائد سمجھے گئے ہیں اور ایسے ہیں کہ ان کو جو شخص اپنا عقیدہ بناوے وہ گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے.عقائد کو اس طرح پر آلہ و شناخت مخلص و منافق بنایا جائے کہ عرب یعنی مکہ اور مدینہ وغیرہ عربی بلا داور کا بل اور ایران وغیرہ میں شائع کرنے کے لئے عربی فارسی میں وہ عقائد ہم دونوں فریق لکھ کر اور چھاپ کر سر کا رانگریزی کے حوالہ کریں تا کہ وہ اپنے اطمینان کے موافق شائع کر دے.اس طریق سے جو شخص منافقانہ طور پر برتاؤ رکھتا ہے اس کی حقیقت کھل جائے گی کیونکہ وہ ہرگز ان عقائد کو صفائی سے نہیں لکھے گا اور ان کا اظہار کرنا اس کوموت

Page 546

مجموعہ اشتہارات ۵۳۰ جلد دوم معلوم ہوگی اور ان عقائد کا شائع کرنا اس کے لئے محال ہوگا اور مکہ اور مدینہ میں ایسے اشتہار بھیجنا تو اس کو موت سے بدتر ہو گا.سو اگر چہ میں عرصہ میں برس سے ایسی کتابیں عربی اور فارسی میں تالیف کر کے ممالک عرب اور فارس میں شائع کر رہا ہوں لیکن اس امتحان کی غرض سے اب بھی اس اشتہار کے ذیل میں ایک تقریر عربی اور فارسی میں اپنے پر امن عقائد کی نسبت اور مہدی اور مسیح کی غلط روایات کی نسبت اور گورنمنٹ برطانیہ کی نسبت شائع کرتا ہوں.میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ اگر محمد حسین جو اہل حدیث کا سرگروہ کہلاتا ہے میرے عقائد کی طرح امن اور صلح کاری کے عقائد کا پابند ہے تو وہ اپنا اشتہار عربی اور فارسی میں چھاپ کر دوسو کا پی اس کی میری طرف راو نہ کرے تامیں اپنے ذریعہ سے ملکہ اور مدینہ اور بلاد شام اور روم اور کابل وغیرہ میں شائع کروں.ایسا ہی مجھ سے دوسو کاپی میرے اشتہار عربی اور فارسی کی لے لے تا بطور خود اُن کو شائع کرے.ہماری دانا گورنمنٹ کو بخوبی یادر ہے کہ یونہی گورنمنٹ کو خوش کرنے کے لئے صرف بگفتن کوئی رسالہ ذو معنیین لکھنا اور پھر اچھی طرح اس کو شائع نہ کرنا یہ طریق اخلاص نہیں ہے یہ اور بات ہے اور سچے دل سے اور پورے جوش سے کسی ایسے رسالہ کو جو عام خیالات مسلمانوں کے برخلاف ہو در حقیقت غیر ممالک تک بخوبی شائع کر دینا یہ اور بات ہے اور اس بہادر کا کام ہے جس کا دل اور زبان ایک ہی ہوں اور جس کو خدا نے در حقیقت یہی تعلیم دی ہے.بھلا اگر یہ شخص نیک نیت ہے تو بلا توقف اس کو یہ کارروائی کرنی چاہیے.ورنہ گورنمنٹ یا در کھے اور خوب یادر کھے کہ اگر اس نے میرے مقابل پر ایسا رسالہ عربی اور فارسی میں شائع نہ کیا تو پھر اس کا نفاق ثابت ہو جائے گا.یہ کام صرف چند گھنٹہ کا ہے اور بجز بد نیتی کے اس کا کوئی مانع نہیں.ہماری عالی گورنمنٹ یا در کھے کہ یہ شخص سخت درجہ کے نفاق کا برتاؤ رکھتا ہے اور جن کا یہ سر گروہ کہلاتا ہے وہ بھی اسی عقیدے اور خیال کے لوگ ہیں.اب میں اپنے وعدہ کے موافق اشتہار عربی اور فارسی ذیل میں لکھتا ہوں اور سچائی کے اختیار کرنے میں بجز خدا تعالیٰ کے کسی سے نہیں ڈرتا.اور میں نے حسن ترتیب اور دونوں اشتہاروں کی

Page 547

مجموعہ اشتہارات ۵۳۱ جلد دوم موافقت تامہ کے لحاظ سے قرین مصلحت سمجھا ہے کہ عربی میں اصل اشتہار لکھوں اور فارسی میں اسی کا ترجمہ کر دوں تا دونوں اشتہار اپنے اپنے طور پر لکھے جائیں اور نیز عربی اشتہار جس کو ہر ایک غیر زبان کا آدمی بآسانی پڑھ نہیں سکتا اس کا ترجمہ بھی ہو جائے.چنانچہ اب وہ دونوں اشتہار لکھ کر اس رسالہ کے ساتھ شامل کرتا ہوں.الراق وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ خاکسار میرزا غلام احمد از قادیاں ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء حقیقت المهدی مطبوعه ۲۱ / فروری ۱۸۹۹ء صفحه ۱۳ ۱۴.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۷ ، ۴۴۸ )

Page 548

مجموعہ اشتہارات ۲۱۱ ۵۳۲ جلد دوم بِسْمِ بسم اللهِ الرَّحمنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي اپنے مُریدوں کی اطلاع کے لیے جو پنجاب اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں رہتے ہیں اور نیز دوسروں کے لئے اعلان جو کہ ایک مقدمہ زیر دفعہ ۷ اضابطہ فوجداری مجھ پر اور مولوی سعید محمدحسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ پر عدالت جے ایم.ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپورہ میں دائر.تھا بتاریخ ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء بروز جمعہ اس طرح پر اس کا فیصلہ ہوا کہ فریقین سے اس مضمون کے نوٹسوں پر دستخط کرائے گئے کہ آئندہ کوئی فریق اپنے کسی مخالف کی نسبت موت وغیرہ دل آزار مضمون کی پیشگوئی نہ کرے.کوئی کسی کو کافر اور د قبال اور مفتری اور کذاب نہ کہے.کوئی کسی کو مباہلہ کے لئے نہ بلاوے اور قادیان کو چھوٹے کاف سے نہ لکھا جائے اور نہ بٹالہ کو طا کے ساتھ اور ایک دوسرے کے مقابل پر نرم الفاظ استعمال کریں.بد گوئی اور گالیوں سے مجتنب رہیں.اور ہر ایک فریق حتی الامکان اپنے دوستوں اور مریدوں کو بھی اس ہدایت کا پابند کرے اور یہ طریق نہ صرف با ہم مسلمانوں میں بلکہ عیسائیوں سے بھی یہی چاہیے.لہذا میں نہایت تاکید سے اپنے ہر یک مرید کو مطلع کرتا ہوں کہ وہ ہدایت مذکورہ بالا کے پابندر ہیں اور نہ مولوی محمد حسین اور نہ اس کے گروہ اہل حدیث اور نہ کسی اور سے اس ہدایت کے مخالف معاملہ کر یں.بہتر تو یہی ہے کہ ان لوگوں سے

Page 549

مجموعہ اشتہارات ۵۳۳ جلد دوم بکلی قطع کلام اور ترک ملاقات رکھیں.ہاں جس میں رشد اور سعادت دیکھیں اس کو معقول اور نرم الفاظ سے راہِ راست سمجھا ئیں اور جس میں تیزی اور لڑنے کا مادہ دیکھیں اس سے کنارہ کریں.کسی کے دل کو ان الفاظ سے دُکھ نہ دیں.کہ یہ کافر ہے یا دجال ہے یا کذاب ہے یا مفتری ہے گووہ مولوی محمد حسین ہو یا اس گروہ میں سے یا اس کے دوستوں میں سے کوئی اور ہو.ایسا ہی کسی عیسائی اور کسی دوسرے فرقہ کے ساتھ بھی ایسے الفاظ جو فتنہ برپا کر سکتے ہیں استعمال میں نہ لاو میں اور نرم طریق سے ہر ایک سے برتاؤ کریں.اور ہم مولوی محمد حسین صاحب کی خدمت میں بھی عرض کرتے ہیں کہ چونکہ اس نوٹس پر اُن کے بھی دستخط کرائے گئے ہیں بلکہ اسی تحریری شرط سے عدالت نے اُن پر مقدمہ چلانے سے اُن کو معافی دی ہے لہذا وہ بھی اسی طور سے اپنے گروہ اہل حدیث امرتسری، لاہوری، لدہانوی، دہلوی اور راولپنڈی کے رہنے والے اور دوسرے اپنے دلی دوستوں کو بذریعہ چھپے ہوئے اعلان کے بلا توقف اس نوٹس سے اطلاع دیں کہ وہ حسب ہدایت صاحب مجسٹریٹ بہا در ضلع گورداسپورہ اپنے فریق مخالف یعنی میری نسبت کا فراور دقبال اور مفتری اور کذاب کہنے سے اور گندی گالیاں دینے سے روکے گئے ہیں اور اس معاہدہ کی پابندی کے لئے نوٹس پر دستخط کر دیئے گئے ہیں کہ وہ آئیندہ نہ مجھے کافر کہیں گے نہ دجال نہ کذاب نہ مفتری اور نہ گالیاں دیں گے اور نہ قادیان کو چھوٹے کاف سے لکھیں گے اور ایک حد تک اس بات کے ذمہ دار رہیں گے کہ ان کے دوستوں اور ملاقاتیوں اور گروہ کے لوگوں میں سے کوئی شخص ایسے الفاظ استعمال نہ کرے.سو سمجھا دیں کہ اگر وہ لوگ بھی اس نوٹس کی خلاف ورزی کریں گے تو اس عہد شکنی کے جواب دہ ہوں گے.غرض جیسا کہ میں نے اس اعلان کے ذریعہ سے اپنی جماعت کے لوگوں کو متنبہ کر دیا ہے مولوی محمد حسین کی دلی صفائی کا یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ وہ بھی اپنے اہل حدیث اور دوسرے منہ زور لوگوں کو جو اُن کے دوست ہیں بذریعہ اعلان متنبہ کریں کہ اب وہ کافر ، دجال، کذاب کہنے سے باز آ جائیں اور دلآ زار گالیاں نہ دیں ورنہ سلطنت انگریزی جو امن پسند ہے باز نہ آنے کی حالت میں پورا پورا قانون سے کام لے گی.اور ہم تو ایک عرصہ گزر گیا کہ اپنے طور پر یہ عہد شائع کر چکے، کہ آئندہ کسی مخالف کے حق میں موت وغیرہ کی پیشگوئی نہیں کریں گے اور اس مقدمہ میں جو

Page 550

مجموعہ اشتہارات ۵۳۴ جلد دوم ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء کو فیصلہ ہوا ، ہم نے اپنے ڈیفنس میں جو عدالت میں دیا گیا ثابت کر دیا ہے کہ یہ پیشگوئی کسی شخص کی موت وغیرہ کی نسبت نہیں تھی.محض ایسے لوگوں کی غلط فہمی تھی جن کو عربی سے ناواقفیت تھی.سو ہمارا خدا تعالیٰ سے وہی عہد ہے جو ہم اس مقدمہ سے مدت پہلے کر چکے.ہم نے ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۲۷ میں شیخ محمد حسین اور اس کے گروہ سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ سات سال تک اس طور سے ہم سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بد زبانی سے منہ بند رکھیں اور انتظار کریں کہ ہمارا انجام کیا ہوتا ہے لیکن اس وقت کسی نے ہماری یہ درخواست قبول نہ کی اور نہ چاہا کہ کا فراور دقبال کہنے سے باز آجائیں یہاں تک کہ عدالت کو اب امن قائم رکھنے کے لئے وہی طریق استعمال کرنا پڑا جس کو ہم صلح کاری کے طور سے چاہتے تھے.یادر ہے کہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے مقدمہ کے فیصلہ کے وقت مجھے یہ بھی کہا تھا کہ وہ گندے الفاظ جو محمد حسین اور اس کے دوستوں نے آپ کی نسبت شائع کئے آپ کو حق تھا کہ عدالت کے ذریعہ سے اپنا انصاف چاہتے اور چارہ جوئی کراتے اور وہ حق اب تک قائم ہے.اس لئے میں شیخ محمد حسین اور اُن کے دوستوں جعفر زٹلی وغیرہ کو مطلع کرتا ہوں کہ اب بہتر طریق یہی ہے کہ اپنے منہ کو تھام لیں.اگر خدا کے خوف سے نہیں تو اس عدالت کے خوف سے جس نے یہ حکم فرمایا یہ ہمالیش کی ، اپنی زبان کو درست کر لیں اور اس بات سے ڈریں کہ میں مظلوم ہونے کی حالت میں بذریعہ عدالت کچھ چارہ جوئی کروں.زیادہ کیا لکھا جاوے.خاکی مرزا غلام احمد از قادیان ۲۶ فروری ۱۸۹۹ء مطبوعہ ضیاءالاسلام پرلیس قادیان تعداد ۷۰۰ تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۴۴ تا ۴۶)

Page 551

مجموعہ اشتہارات ۵۳۵ ۲۱۲ جلد دوم اشتہار اپنی جماعت کے نام اور نیز ہر ایک رشید کے نام جو خواہشمند ہو ہماری جماعت میں اول درجہ کے مخلص دوستوں میں سے مولوی علی صاحب ایم.اے ہیں جنہوں نے علاوہ اپنی لیاقتوں کے ابھی وکالت میں بھی امتحان پاس کیا ہے اور بہت سا اپنا حرج اُٹھا کر چند ماہ سے ایک دینی کام کے انجام کے لئے یعنی بعض میری تالیفات کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لئے میرے پاس قادیان میں مقیم ہیں.اور یقین ہے کہ جب وہ بعد فراغت اس کام کے اپنے کام وکالت پر جائیں گے تو کسی قریب ضلع میں ہی کام شروع کریں گے.اور میں اس مدت میں یعنی جب سے کہ وہ میرے پاس ہیں ظاہری نظر سے اور نیز پوشیدہ طور پر اُن کے حالات کا اخلاق اور دین اور شرافت کے رُو سے تجسس کرتا رہا ہوں.سوخدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نے اُن کو دینداری اور شرافت کے ہر پہلو میں بھی نہایت عمدہ انسان پایا ہے.غریب طبع با حیا نیک اندرون پر ہیز گار آدمی ہے.اور بہت سی خوبیوں میں رشک کے لائق ہے ان دنوں میں ان کو شادی کی ضرورت ہے عمر تخمینا چوبیس برس کے قریب ہوگی.خاندان کے زمیندار شریف اور موضع مرار علاقہ ریاست کپورتھلہ کے باشندے ہیں.پہلے بھی میں نے اُن کے لئے اپنی جماعت میں تحریک لے کی ا جن صاحبوں نے پہلے اشتہار کے وقت اس بارہ میں اپنے خط بھیجے تھے وہ خط محفوظ نہیں رہے لہذا ان کو بھی چاہیے کہ دوبارہ اطلاع دیں.منہ

Page 552

مجموعہ اشتہارات ۵۳۶ جلد دوم تھی مگر بعض وجوہ کے سبب اُس وقت اس کام کی انجام دہی میں معذوری پیش آئی.اور اب وہ وقت ہے کہ بخیر و خوبی وہ کام کیا جائے.لہذا دوبارہ یہ اشتہار جاری کیا گیا.میرے نزدیک جہاں تک مجھے علم ہے ہماری جماعت کا ایسا انسان یا کوئی اور شخص بہت ہی خوش قسمت ہو گا جس کی لڑکی یا ہمشیرہ کا رشته مولوی صاحب موصوف سے ہو جائے گا.یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے ہونہار لڑکے جو ہمہ صفت موصوف ہوں اور بہر طرح لائق اور معزز درجہ کے آدمی تلاش کرنے سے نہیں ملتے اور لوگ اکثر دھوکہ کھا لیتے ہیں اور اپنی لڑکیوں پر ظلم کرتے ہیں چاہیے کہ ہر ایک صاحب بہت جلد مجھے اطلاع دیں.اور یہ بات ضروری ہے کہ لڑکی علاوہ شکل صورت خدا داد کے سنجیدگی اور عورتوں کی ضرورت کے موافق علم اور لیاقت سے کافی بہرہ رکھتی ہو.زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.والسلام المشتهـ خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۹ راگست ۱۸۹۹ء سمعا (مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان- تعداد ۲۰۰) تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۴۷ تا ۴۸)

Page 553

مجموعہ اشتہارات ۵۳۷ ٢١٣ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الاشتهار للانصار نحمد الله و نصلی على رسوله الكريم الامين.واله الطاهرين الطيبين.ہم خدا کی حمد کرتے ہیں اور اس کے رسول پر درود بھیجتے ہیں جو کریم اور امین ہے اور اس کے آل پر درود بھیجتے واصحــابــه الـكـامـليـن المكملين الذين سعوا في سُبل ربّ العالمين.ہیں جو طیب اور طاہر ہیں اور نیز اس کے اصحاب پر جو کام مکمل ہیں.وہ اصحاب جو خدا تعالیٰ کی راہ میں دوڑے واعرضوا عن الدنيا وما فيها و اقبلوا على الله مُتبتلين منقطعين.اما بعد اور دنیا اور مافیھا سے کنارہ کیا اور خدا کی طرف دوسروں سے بکلی توڑ کر جھک گئے.بعد اس کے فاعلموا ايها الاحباب رحـمـكـم الله ان داعي الله قدجاء كم في وقته و اے دوستو! تمہیں معلوم ہو خدا تم پر رحم کرے کہ خدا کی طرف سے ایک بلانے والا تمہارے پاس اپنے وقت پر ادر ککم رحم الله على رأس المائة وكنتم من قبل تنتظرون كالعطاشى آیا ہے اور خدا کے رحم نے صدی کے سر پر تمہاری دستگیری کی اور تم پہلے اس سے اس بلانے والے کا انتظار پیاسوں کی اوكـالـجــائعين.فقد جاء كم فضلا من الله ليندرقومـا مـا انذر آباء هم ولتستبين طرح یا بھوکوں کی طرح کر رہے تھے.سو وہ خدا کے فضل سے آ گیا تا اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ سبيل المجرمين.وإنّه أمر ليدعوكم الى الصدق والايمان.وليهديكم الى دادے نہیں ڈرائے گئے تھے اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور اس کو حکم ہے کہ تم کو صدق اور ایمان کی طرف بلاوے

Page 554

۵۳۸ جلد دوم مجموعہ اشتہارات سبيل العرفان والى كل مـا يـنـفـعـكـم فـي يـوم الـديـن.فـعـلـمـكـم مـالـم تكونوا اور معرفت کی راہوں کی طرف تمہیں ہدایت کرے اور ہر ایک امر جو جزا کے دن تمہیں کام آوے سمجھا وے.پس اس نے تمہیں وہ تعلمون واتـم عـلـيـكـم حـجـة الله و جـعـلـكـم مـن المبصرين.وانكم رأيتم حقایق اور مصارف سکھلا دیئے کہ تم خود بخود ان کو نہیں جان سکتے تھے اور خدا تعالیٰ کی حجت تم پر پوریکر دے اور تمہیں بینا بنایا مالم يرآباء كم الاوّلون واتاكم مالم يا تهم من نور و يقين.فلا تردّ و انعم الله اور تم نے وہ دیکھا جو تمہارے پہلے باپ دادوں نے نہیں دیکھا تھا اور وہ نور اور یقین تم کو ملا جو انہیں نہیں ملا تھا پس خدا کی نعمتوں کو ولا تكونوا من الغافلين.وانى ارى فيكم قوما ما قدروا الله حق قدره و رڈ مت کرو اور غافل مت ہو.اور میں تم میں ایسے لوگ بھی دیکھتا ہوں جنہوں نے اپنے خدا کا ایسا قدرنہیں کیا جو کرنا قالوا آمنا و ماهـم بـمـؤمـنـيـن أيـمـنـون عـلـى الله والمنة كلها لله ان كانوا عالمين.چاہیے تھا.اور کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان نہیں لائے.کیا یہ لوگ خدا پر احسان کرتے ہیں اور سب احسان خدا له العزة والكبرياء ان لـم تـقبـلـوا فـيـصـرف عـنـكـم وجهه ويأت بقوم آخرين کے ہی ہیں اگر یہ جانتے ہوں.اسی کے لئے عزت اور بزرگی ہے.اگر تم قبول نہیں کرو گے تو وہ تم سے اپنا منہ پھیر لے گا اور ایک ولا تضــرونـه شيئا والله غنى عن العلمين.وانّ هذه ايام الله و ایام حججه اور قوم لائے گا اور تم اس کا کچھ بھی حرج نہیں کر سکو گے اور یہ خدا کے دن ہیں اور اس کی حجتوں کے دن.فاتقوا الله وايامه ان كنتم متقين.وستردّون الى الله وتسـئـلـون و مانرای پس خدا سے اور اس کے دنوں سے ڈروا گر متقی ہو.اور عنقریب تم خدا کی طرف واپس کئے جاؤ گے اور پوچھے جاؤ گے اور ہم نہیں معكم اموالكم ولا املاككم فتيقظوا ولا تكونوا من الجاهلين.وجاهدوا دیکھتے کہ تمہارے ساتھ تمہارے مال اور املاک جائیں گے پس ہوش میں آ جاؤ اور جاہل مت بنو.اور اپنے مالوں کے ساتھ باموالکم و انفسكم وقومو الله قانتين.أحسبتم ان يرضى عنكم ربكم اور جانوں کے ساتھ خدا کی راہ میں کوشش کرو اور اطاعت کرتے ہوئے کھڑے ہو.کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ خدا تم سے راضی ہو ولـمـاتـفـعـلـوا فـي سُبُله ماخلى من سنن الصادقين.لن تنالوا البر حتى تنفقوا جائے گا حالانکہ ابھی تم نے وہ کام نہیں کئے جو صادقوں کے کام ہیں تم ہرگز نیکی کونہیں پہنچو گے جب تک کہ وہ چیزیں خرچ نہیں کرو

Page 555

مجموعہ اشتہارات ۵۳۹ جلد دوم بما تحبون مالكم لا تفهمون أتُتركون احياء ابداً غير ميّتين.إنّي گے جو تمہیں پیاری ہیں.کیا سبب جو تم نہیں سمجھتے.کیا تم ہمیشہ زندہ چھوڑے جاؤ گے اور نہیں مرد گے.مجھے أمرتُ ان انبهكم فاعلموا ان الله ينظر الى اعمالكم وانما انا نذير مبين.حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہیں متنبہ کروں.پس جان لو کہ خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے اور والله يدعوكم لتنصروه بـامـو الـكـم وجهد انفسكم فهل انتم من الطائعين.خدا تمہیں بلاتا ہے تا اپنے مالوں اور جانوں کی کوششوں کے ساتھ تم اس کی مدد کرو.پس کیا تم فرمانبرداری اختیار کرو گے و من ينصر الله ينصره ويردّ اليه ما ارسل اليه ويزيد و هو خير المحسنين.اور جو تم میں سے خدا کی مدد کرے گا خدا اس کی مدد کرے گا.اور جو کچھ اس نے خدا کو دیا خدا کچھ زیادہ کے ساتھ اس کو واپس دے دے گا اور وہ فقوموا ايها النّاس وليسبق بعضكم بعضا والله يـعـلـم مـن كـان مـن سب محسنوں سے بہتر محسن ہے.سو اٹھولو گو اور چاہیے کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جائے اور خدا جانتا ہے ان کو جو السابقين.والذين أمنوا ورعوا يد البيعة وما عاهدوا وعملوا الصالحات سبقت لے جائیں گے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور بیعت کے ہاتھ اور اپنے عہد کی رعایت رکھی اور اچھے کام کئے ثم جاهدوا فيها ثم استقاموا فلهم مغفرة و رزق کریم و رضوان من الله پھر ترقیات کرتے رہے پھر استقامت اختیار کی ان کے لئے مغفرت اور رزق بزرگ اور خدا کی رضا ہے و اولئک هم المؤمنون حقا و اولئک من عباد الله الصالحين - اور وہی سچے مومن ہیں اور وہی ہیں جو خدا کے نیک بندوں میں سے ہیں.

Page 556

مجموعہ اشتہارات ۵۴۰ جلد دوم مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ اے دوستو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے حالات پر رحم فرما دے اور آپ کے دل میں الہام کرے کہ ہماری تمام ضرورتوں کے لئے آپ صاحبوں کے دلوں میں بچے جوش پیدا ہوں.حال یہ ہے کہ بہت سا حصہ عمر کا ہم طے کر چکے ہیں اور جو کچھ باقی ہے وہ معمولی قانون قدرت کے سہارے پر نہیں بلکہ محض اس کے ان وعدوں پر نظر ہے جن میں سے کسی قدر براہین احمدیہ اور ازالہ اوہام میں بھی درج ہیں کیونکہ اس نے محض اپنے فضل سے وعدہ دیا ہے کہ وہ مجھے نہیں چھوڑے گا اور نہ مجھ سے الگ ہو گا جب تک پاک اور خبیث میں فرق کر کے نہ دکھلاوے.اور تمہیں برس کے قریب اس الہام کو ہو گیا کہ اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ میں ان کاموں کے لئے تجھے اسی برس تک یا کچھ تھوڑا کم یا چند سال اسی برس سے زیادہ عمر دوں گا.اب جب میں خدا تعالیٰ کے اس پاک الہام پر گا.نظر کرتا ہوں تو بے اختیار ایک زلزلہ میرے دل پر پڑتا ہے اور بسا اوقات میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور ایک موت کی سی حالت نمودار ہو جاتی ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ بہت سا حصہ اس میعاد کا گذر گیا اور اب میں بہ نسبت اس دنیا کی ہمسایگی کے قبر سے زیادہ نزدیک ہوں.میرے اکثر کام ابھی نا تمام ہیں اور میں خدا تعالیٰ کے ان تمام الہامات پر جو مجھے ہورہے ہیں ایسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن مقدس پر ایمان رکھتا ہوں.اور میں اس خدا تعالیٰ کو جانتا اور پہچانتا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے.اندھا ہے وہ دل جو خدا کو نہیں جانتا اور مردہ ہے وہ جسم جو یقینی الہام اور وحی سے منور نہیں اور نہ منور ہونے والوں کے ساتھ ہم صحبت اور ہم نشین ہے.سومیں اس پاک وحی سے ایسا ہی کامل حصہ رکھتا ہوں جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کامل قرب کی حالت میں انسان رکھ سکتا ہے.جب انسان ایک پُر جوش محبت کی آگ میں ڈالا جاتا ہے جیسا کہ تمام نبی ڈالے گئے تو پھر یہ الہام مدت ہوئی کہ میری کتاب ازالہ اوہام میں بھی درج ہو کر شائع ہو چکا ہے.منہ

Page 557

مجموعہ اشتہارات ۵۴۱ جلد دوم اس کی وحی کے ساتھ اضغاث احلام نہیں رہتے بلکہ جیسا کہ خشک گھاس تنور میں جل جاتا ہے ویسا ہی وہ تمام اوہام اور نفسانی خیالات جل جاتے ہیں اور خالص خدا کی وحی رہ جاتی ہے اور یہ وحی صرف اُنہی کو ملتی ہے جو دنیا میں کمال صفاء محبت اور محویت کی وجہ سے نبیوں کے رنگ میں ہو جاتے ہیں جیسا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۰۴ اٹھارھویں سطر میں یہ الہام میری نسبت ہے.جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الانبياء یعنی خدا کا فرستادہ نبیوں کے خلہ میں سوئیں شنگی اور ظنی الہام کے ساتھ نہیں بھیجا گیا بلکہ یقینی اور قطعی وحی کے ساتھ بھیجا گیا ہوں.اور میرے نزدیک سب بدبختوں سے زیادہ تر وہ بد بخت ہے جو شگی اور ظنی الہامات کے ابتلا میں بلغم کی طرح چھوڑا گیا ہے کیونکہ شک اور ظن علم میں داخل نہیں اور ممکن ہے کہ ایسا شخص کسی صادق کی تکذیب سے جلد تر جہنم میں گرے کیونکہ شک ہمیشہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے.مگر مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے دلائل قاطعہ سے یہ علم دیا گیا ہے اور ہر ایک وقت میں دیا جاتا ہے کہ جو کچھ مجھے القاء ہوتا ہے اور جو وحی میرے پر نازل ہوتی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے نہ شیطان کی طرف سے.میں اس پر ایسا ہی یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آفتاب اور ماہتاب کے وجود پر یا جیسا کہ اس بات پر کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں.ہاں جب میں اپنی طرف سے کوئی اجتہاد کروں یا اپنی طرف سے کسی الہام کے معنے کروں تو ممکن ہے کہ کبھی اس معنی میں غلطی بھی کھاؤں.مگر میں اس غلطی پر قائم نہیں رکھا جاتا اور خدا کی رحمت جلد تر مجھے حقیقی انکشاف کی راہ دکھا دیتی ہے اور میری روح خدا کے فرشتوں کی گود میں پرورش پاتی ہے.اب وہ غرض جس کے لئے میں نے یہ اشتہار لکھا ہے یہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ عمر کم اور کئی مقاصد میرے التوا میں پڑے ہوئے ہیں جن کا اہتمام بجز مالی مدد کے غیر متصور ہے سب سے پہلے میں اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ میرے نزدیک خدا تعالیٰ کے حکم اور امر کے موافق جو متواتر مجھے بتلایا گیا ہے اس انتظام کا قائم رکھنا ضروری ہے بلکہ سب سے بڑھ کر ضروری ہے کہ مہمانوں کی آمد و رفت بکثرت جاری رہے اور ہمیشہ ایک جماعت حق کے طالبوں اور انصار کی معارف دینی میرے منہ سے سننے کے لئے قادیان میں حاضر رہتی ہے چنانچہ اب تک یہ انتظام قائم رہا.خدا تعالیٰ

Page 558

مجموعہ اشتہارات ۵۴۲ جلد دوم کا احسان ہے کہ باوجودیکہ کوئی احسن انتظام اس لنگر خانہ کے چلانے کے لیے اب تک نہیں تھا.مگر کوئی ابتلا پیش نہ آیا اور باوصیکہ لنگر خانہ کے تمام متعلقات کا خرچ جس کی تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں اکثر سات سو روپیہ ماہوار تک یا کبھی اس سے بھی بڑھ کر اور کبھی دو ہزار ماہوار تک بھی پہنچ گیا مگر خدا تعالیٰ کی پوشیدہ مدد کا ہاتھ شامل حال رہا کہ کوئی امتحان پیش نہ آیا.اب یہ صورت ہے کہ باعث ایام قحط خرج بہت بڑھ گیا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ مثلاً ہم جو اس سے پہلے دوسور و پیہ ماہواری یا اڑھائی سور و پیہ یا اس سے کم کا لنگر خانہ کے لئے آٹا منگوایا کرتے تھے.اب شاید پانسوروپیہ تک الت نوبت پہنچے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس کے لئے ہمارے پاس کچھ بھی سامان نہیں اور اسی خرچ کے قریب قریب لکڑی اور گوشت اور روغن اور تیل وغیرہ کا خرچ ہے.میرے نزدیک یہ انتظام ہمارے اس تمام سلسلہ کی بنیاد ہے.اور دوسری تمام باتیں اس کے بعد ہیں کیونکہ فاقہ اُٹھانے والے معارف اور حقائق بھی سُن نہیں سکتے.سوسب سے اول اس انتظام کے لئے ہماری جماعت کو متوجہ ہونا چاہیے.اور یہ خیال نہ کریں کہ اس راہ میں روپیہ خرچ کرنے سے ہمارا کچھ نقصان ہے کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے جس کے لئے وہ خرچ کریں گے.اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریا کاری کے موقعوں میں تو صد ہا روپیہ خرچ کریں اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں.شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خست اور بخل کو نہ چھوڑے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی مرتبہ صحابہ پر چندے لگائے جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر ر ہے.سو مردانہ ہمت سے امداد کے لئے بلا توقف قدم اٹھانا چاہیے.ہر ایک اپنی مقدرت کے موافق اس لنگر خانہ کے لئے مدد کرے.میں چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو ایک ایسا انتظام ہو کہ ہم لنگر خانہ کے سر درد سے فارغ ہو کر اپنے کام میں با فراغت لگے رہیں اور ہمارے اوقات میں کچھ حرج نہ ہو جو ہمیں مدد دیتے ہیں.آخر وہ خدا کی مدددیکھیں گے.میں اس بات کے لکھنے سے رہ نہیں سکتا کہ اس نصرت اور جانفشانی میں اول درجہ پر ہمارے

Page 559

مجموعہ اشتہارات ۵۴۳ جلد دوم خالص مخلص حبّى فى الله مولوی حکیم نور الدین صاحب کے ہیں جنہوں نے نہ صرف مالی امداد کی بلکہ دنیا کے تمام تعلقات سے دامن جھاڑ کر اور فقیروں کا جامہ پہن کر اور اپنے وطن سے ہجرت کر کے قادیان میں موت کے دن تک آ بیٹھے اور ہر وقت حاضر ہیں.اگر میں چاہوں تو مشرق میں بھیج دوں یا مغرب میں.میرے نزدیک یہ وہ لوگ ہیں جن کی نسب براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے.اَصْحَابُ الصُّفَّةِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا أَصْحَابُ الصُّفَّةِ اور حضرت ممدوح سے دوسرے درجہ پر حتی فی الله مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ہیں.اور ان کو تو پہلے ہی خدا تعالیٰ نے دنیا کے مناصب اور جاہ طلبی کی مناسبت نہیں دی مگر اب وہ بالکل دنیوی خیالات کو بھی استعفاء دے کر اس دروازہ پر بیٹھے ہیں اور دن رات اپنے دماغ سے فوق الطاقت کام لے کر خدمت دین کر رہے ہیں اور جمعہ کی نماز میں بہت سے حقائق معارف قرآن شریف بیان کرتے اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں.اور مولوی حکیم نور الدین صاحب کے ہم شہر حکیم فضل دین ہیں اور وہ بھی قریباً اسی جگہ رہتے اور خدمات میں مشغول ہیں.اور ایک مخلص دوست ہمارے ڈاکٹر بوڑے خان صاحب دُنیا سے گزر گئے مگر جائے شکر ہے کہ چار اور مخلص ڈاکٹر یعنی خلیفہ رشیدالدین صاحب لاہوری اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کلانوری اور ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب اور ڈاکٹر عبد الحکیم خان صاحب ہماری جماعت میں موجود ہیں.ایسا ہی نہایت با اخلاص بعض وہ مخلص ہیں جنہوں نے اس جگہ بودو باش اختیار کی ہے.منجملہ ان کے مرزا خدا بخش صاحب بھی ہیں.اور نیز صاحبزادہ سراج الحق صاحب سرساوی اپنے وطن سر ساوہ سے ہجرت کر کے قادیان میں آگئے ہیں.اور کئی اور صاحب ہیں.اور ہم دعا کرتے ہیں کہ ان تمام صاحبوں کے لئے یہ ہجرتیں مبارک ہوں.اور مولوی حکیم نورالدین صاحب تو ہمارے اس سلسلہ کے ایک شمع روشن ہیں.ہر روز قرآن شریف اور حدیث کا درس دیتے ہیں اور اس قدر معارف حقائق قرآن شریف بیان کرتے ہیں کہ اگر یہ خدا کی مدد نہیں تو اور کیا ہے.حضرت مولوی صاحب اور حتی فِی اللہ مولوی عبدالکریم دونوں دلی صدق سے چاہتے ہیں کہ قادیان میں سفر نصیبین کے خرچ کے لئے بھی جس کا ذکر تیسری شاخ میں آئے گا.اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب نے ایک آدمی کے جانے کا خرچ اپنے ذمہ لے لیا ہے.منہ

Page 560

مجموعہ اشتہارات ۵۴۴ جلد دوم ہی ان کا جینا ہو اور قادیان میں ہی مرنا.اور مجھے اس سے بہت خوشی ہے کہ ایک اور جوان صالح خدا تعالیٰ کے فضل کو پا کر ہماری جماعت میں داخل ہوا ہے یعنی حتی فِی اللہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے پلیڈر.میں اُن کے آثار بہت پاتا ہوں.اور وہ ایک مدت سے اپنے دنیائی کاروبار کا حرج کر کے خدمت دین کے لئے قادیان میں مقیم ہیں اور حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب حقائق معارف قرآن شریف سُن رہے ہیں.اور مجھے یقین ہے کہ میری فراست اس بات میں خطا نہیں کرے گی کہ جوان موصوف خدا تعالیٰ کی راہ میں ترقی کرے گا اور یقین ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تقویٰ اور محبت دین پر ثابت قدم رہ کر ایسے نمونے دکھائے گا جو ہم جنسوں کے لئے پیروی کے لائق ہوں گے.اے خدا ایسا ہی کر آمین ثم آمین.اور بھی کئی دوست مخلص انگریزی خوان ہیں جیسے عزیزی مرزا ایوب بیگ صاحب برادر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے اور خواجہ جمال الدین صاحب بی.اے اور مولوی شیر علی صاحب بی.اے، ان سب پر مجھے نیک ظن ہے.خدا اس ظن کو بحال رکھے اور یہ لوگ اپنے وقتوں پر خدمات میں مستعد ہیں.اور میرے خیال میں مولوی شیر علی غریب طبع نیک مزاج اور حلیم اور سلامت طبع مولوی محمد علی صاحب سے مشابہ ہیں اور ایسی جگہ قادیان میں رہتے ہیں.اور وہ گروہ مخلص جو ہماری جماعت میں سے کارو بارتجارت میں مشغول ہیں ان میں ایک حتی فِی اللہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب تاجر مدراس قابل تعریف ہیں اور انہوں نے بہت سے موقعہ ثواب کے حاصل کئے ہیں.وہ اس قدر پُر جوش محبّ ہیں کہ اتنی دور رہ کر پھر نزدیک ہیں اور ہمارے سلسلہ کے لنگر خانہ کی بہت سی مدد کرتے ہیں اور ان کا صدق اور ان کی مسلسل خدمات جو محبت اور اعتقاد اور یقین سے بھری ہوئی ہیں تمام جماعت کے ذی مقدرت لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہیں.کیونکہ تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں.وہ ایک سو روپیہ 1++ ماہواری بلا ناغہ بھیجتے ہیں اور آج تک کئی دفعہ پانسور و پیہ تک یکمشت محض اپنی محبت اور اخلاص کے لے وہ تمام کتا ہیں جو انگریزی میں ترجمہ ہو کر ہماری طرف سے نکلتی ہیں ان کا ترجمہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ہی کرتے ہیں.منہ

Page 561

مجموعہ اشتہارات ۵۴۵ جلد دوم جوش سے بھیجتے رہے ہیں.اور جو ایک سو روپیہ ماہواری ہے وہ اس سے علاوہ ہے.اسی طرح جبی في الله شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لا ہور سیٹھ صاحب مصرع ثانی ہیں.میں خوب جانتا ہوں کہ شیخ صاحب موصوف دل و جان سے ہمارے صحت ہیں.انہوں نے فوجداری مقدمات میں جو میرے پر کئے گئے تھے.اپنے بہت سے روپیہ سے میری مدد کی اور جوش محبت سے دیوانہ وار سر گردان ہو کر میری ہمدردی کرتے رہے.اب وہ ہمارے کام کے لئے صد ہاروپیہ کا خرچ اُٹھا کر لندن میں بیٹھے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو جلد تر خیر و عافیت سے واپس لائے.یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ جبى فى الله سردار نواب محمد علی خان صاحب بھی محبت اور اخلاص میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور فراست صحیحہ شہادت دیتی ہے کہ وہ بہت جلد قابل رشک اخلاص اور محبت کے منار تک پہنچیں گے اور وہ ہمیشہ حتی الوسع مالی امداد میں بھی کام آتے رہے ہیں.اور امید ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ خدا کی راہ میں اپنے مالوں کو فدا کریں گے.خدا تعالیٰ ہر ایک کے عملوں کو دیکھتا ہے.مجھے کہنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں.ان کے سوا اور بھی مخلص ہیں.جنہوں نے حال میں ہی بیعت کی ہے جیسا کہ ان دنوں جبی فی اللہ ڈاکٹر رحمت علی صاحب ہاسپٹل اسٹنٹ ممباسہ جو ہزار ہا کوس سے اپنا اخلاص ظاہر کر رہے ہیں اور انہوں نے اور ان کے دوستوں نے ممباسہ ملک افریقہ سے اپنی مالی امداد سے بہت سا ثواب حاصل کیا ہے.اور ڈاکٹر صاحب پر امید ہے کہ وہ آئندہ بھی بہت توجہ سے خود اور اپنی جماعت سے یہ نصرت دین کا کام لیں گے.ایسا ہی میری جماعت میں سے شیخ حامد علی تھصہ غلام نبی اور میاں عبدالعزیز پٹواری سکنہ اوجلہ اور میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیریان ساکنان سیکھواں اور صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانہ اور جبی فی اللہ منشی چودھری نبی بخش صاحب رئیس بٹالہ جو بطور ہجرت اسی جگہ قادیان میں آگئے ہیں.اور منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ شہر اور میاں عبد اللہ صاحب پٹواری ساکن سنور ریاست پٹیالہ اور سید فضل شاہ صاحب اور سید ناصر شاہ لے افسوس کہ ہم اختصار کی وجہ سے ان تمام مخلصوں کے نام اس اشتہار میں نہیں لکھ سکے جو ممباسہ اور اس کے نواح میں موجود ہیں.منہ

Page 562

مجموعہ اشتہارات ۵۴۶ جلد دوم میر اور میاں محمد علی صاحب ملہم لاہور اور شیخ غلام نبی صاحب تاجر راولپنڈی اور سید امیر علی شاہ صاحب ملہم اور سید امیر علی شاہ صاحب سارجنٹ اور با بوتاج دین صاحب اکو نٹنٹ لا ہور اور حبى فِی اللہ حکیم سید حسام الدین صاحب سیالکوٹی جو میرے پرانے دوست ہیں.اور منشی زین الدین محمد ابراہیم صاحب انجینئر بمبئی اور مولوی غلام امام صاحب برہما ملک آسام اور مولوی سید محمد احسن صاحب امرو به ضلع مراد آباد اور سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی اور خلیفہ نور دین صاحب ہیں جو بھی محض اللہ ایک خدمت پر مامور ہو کر کشمیر بھیجے گئے تھے.اور چند روز ہوئے جو فائز المرام ہو کر واپس آگئے ہیں اور اسی طرح اور بہت سے مخلص ہیں مگر افسوس کہ اگر میں ان کے نام لکھوں تو یہ اشتہار اشتہار نہیں رہے گا.ان سب کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ خدا ان کو دونوں جہان کی خوشی عطا کرے.جو کچھ وہ خدا کے لئے کرتے ہیں یا آئندہ کریں گے وہ سب خدا تعالیٰ کی آنکھ کے نیچے ہے.مگر بطور شکر احسان باری تعالیٰ کے اس بات کا ذکر کرنا واجبات سے ہے کہ میرے اہم کام تحریری تالیفات میں خدا تعالیٰ کے فضل نے مجھے ایک عمدہ اور قابل قدر مخلص دیا ہے یعنی عزیزی میاں منظور محمد کا پی نویس جو نہایت خوشخط ہے جو نہ دنیا کے لئے بلکہ محض دین کی محبت سے کام کرتا ہے اور اپنے وطن سے ہجرت کر کے اسی جگہ قادیان میں اقامت اختیار کی ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کی بڑی عنایت ہے کہ میری مرضی کے موافق ایسا مخلص سرگرم مجھے میسر آیا ہے کہ میں ہر ایک وقت دن کو یا رات کو کاپی نویسی کی خدمت اس سے لیتا ہوں.اور وہ پوری جان فشانی سے خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے اس خدمت کو انجام دیتا ہے.یہی سبب ہے کہ اس روحانی جنگ کے وقت میں میری طرف سے دشمنوں کو شکست دینے والے رسالوں کے ذریعہ سے تاڑ تاڑ مخالفوں پر فیر ہورہے ہیں.اور در حقیقت ایسے مؤید اسباب میتر کر دینا یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے.جس طرف سے دیکھا جائے تمام نیک اسباب میرے لئے میتر کئے گئے ہیں.اور تحریر میں مجھے وہ طاقت دی گئی کہ گویا میں نہیں بلکہ فرشتے لکھتے جاتے ہیں گو بظاہر میرے ہی ہاتھ ہیں.دوسری شاخ اخراجات کی جس کے لئے ہر وقت میری جان گدازش میں ہے سلسلہ تالیفات

Page 563

مجموعہ اشتہارات ۵۴۷ جلد دوم ہے.اگر یہ سلسلہ سرمایہ کے نہ ہونے سے بند ہو جائے تو ہزار ہا حقائق اور معارف پوشیدہ رہیں گے.اس کا مجھے کس قدر غم ہے؟ اس سے آسمان بھر سکتا ہے.اسی میں میرا سرور اور اسی میں میرے دل کی ٹھنڈک ہے کہ جو کچھ علوم اور معارف سے میرے دل میں ڈالا گیا ہے میں خدا کے بندوں کے دلوں میں ڈالوں.دور رہنے والے کیا جانتے ہیں مگر جو ہمیشہ آتے جاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کیونکر میں دن رات تالیفات میں مستغرق ہوں اور کس قدر میں اپنے وقت اور جان کے آرام کو اس راہ میں فدا کر رہا ہوں.میں ہر دم اس خدمت میں لگا ہوا ہوں.لیکن اگر کتابوں کے چھپنے کا سامان نہ ہواور عملہ مطبع کے خرچ کا روپیہ موجود نہ ہو تو میں کیا کروں.جس طرح ایک عزیز بیٹا کسی کا کر جاتا ہے اور اس کو سخت غم ہوتا ہے اسی طرح مجھے کسی ایسی اپنی کتاب کے نہ چھپنے سے غم دامنگیر ہوتا ہے.جو وہ کتاب بندگان خدا کو نفع رساں اور اسلام کی سچائی کے لئے ایک چراغ روشن ہو.تیسری شاخ اخراجات کی جس کی ضرورت مجھے حال میں پیش آئی ہے جو نہایت ضروری بلکہ اشد ضروری ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ میں تثلیث کی خرابیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں.اس لئے یہ دردناک نظارہ کہ ایسے لوگ دنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا سمجھ رکھا ہے میرے دل پر اس قدر صدمہ پہنچا تا رہا ہے کہ میں گمان نہیں کر سکتا کہ مجھ پر میری تمام زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی غم گذرا ہو بلکہ اگر ہم غم سے مرنا میرے لئے ممکن ہوتا تو یہ غم مجھے ہلاک کر دیتا کہ کیوں یہ لوگ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کی پرستش کر رہے ہیں اور کیوں یہ لوگ اس نبی پر ایمان نہیں لاتے جو سچی ہدایت اور راہ راست لے کر دنیا میں آیا ہے.ہر ایک وقت مجھے یہ اندیشہ رہا ہے کہ اس غم کے صدمات سے میں ہلاک نہ ہو جاؤں اور پھر اس کے ساتھ یہ دقت تھی کہ رسمی مباحثات ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہیں کرتے اور پرانے مشرکانہ خیالات اس قدر دل پر غالب آ گئے ہیں کہ ہیئت اور فلسفہ اور طبعی پڑھ کر ڈ بو بیٹھے ہیں اور ان کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک انٹی برس کا بڑھا ہندو ہر چند دل میں تو خوب

Page 564

مجموعہ اشتہارات ۵۴۸ جلد دوم جانتا ہے کہ گنگا صرف ایک پانی ہے جو کسی کو کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتا اور نہ ضرر کر سکتا ہے.تب بھی وہ اس بات کے کہنے سے باز نہیں آتا کہ گنگا مائی میں بڑی بڑی ست اور طاقتیں ہیں.اور اگر اس پر دلیل پوچھی جائے تو کوئی بھی دلیل بیان نہیں کر سکتا.تاہم منہ سے یہ کہتا ہے کہ اس کی شکستی کی دلیل میرے دل میں ہے جس کے الفاظ متحمل نہیں ہو سکتے.مگر وہ کیا دلیل ہے.صرف پرانے خیالات جو دل میں تھے ہوئے ہیں.یہی حالات ان لوگوں کے ہیں کہ نہ ان کے پاس کوئی معقول دلیل حضرت عیسی کی خدائی پر ہے اور نہ کوئی تازہ آسمانی نشان ہے جس کو وہ دکھا سکیں اور نہ توریت کی تعلیم جس پر انہیں ایمان لانا ضروری ہے اور جس کو یہودی حفظ کرتے چلے آئے ہیں.اس مشر کا نہ تعلیم کی مصدق ہے مگر تا ہم محض تحکم اور دھکے کی راہ سے یہ لوگ اس بات پر ناحق اصرار کر رہے ہیں کہ یسوع مسیح خدا ہی ہے.خدا نے قرآن کریم میں سچ فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ اس افترا سے آسمان پھٹ جائیں کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا جاتا ہے.اور میرا اس درد سے یہ حال ہے کہ اگر دوسرے لوگ بہشت چاہتے ہیں تو میرا بہشت یہی ہے کہ میں اپنی زندگی میں اس شرک سے انسانوں کو رہائی پاتے اور خدا کا جلال ظاہر ہوتے دیکھ لوں اور میری رُوح ہر وقت دعا کرتی ہے کہ اے خدا اگر میں تیری طرف سے ہوں اور اگر تیرے فضل کا سایہ میرے ساتھ ہے تو مجھے یہ دن دکھلا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے سر سے یہ تہمت اُٹھا دی جائے کہ گویا نعوذ باللہ انہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا.ایک زمانہ گذر گیا کہ میرے پنجوقت کی یہی دعائیں ہیں کہ خدا ان لوگوں کو آنکھ بخشے اور وہ اس کی وحدانیت پر ایمان لاویں اور اس کے رسول کو شناخت کر لیں اور تثلیث کے اعتقاد سے تو بہ کریں.چنانچہ ان دعاؤں کا یہ اثر ہوا ہے کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ لے افسوس کہ عیسائیوں کے ہاتھ میں صرف صدہا برس کے مشکوک اور مشتبہ قصے ہیں جن کا نام نشان اور معجزات رکھا ہوا ہے.لیکن اگر حقیقت میں ان کے مذہب میں معجزہ نمائی کی طاقت ہے تو میرے مقابل پر کیوں نہیں دکھلاتے.یقیناً سمجھو کہ کچھ بھی طاقت نہیں کیونکہ خدا ان کے ساتھ نہیں.منہ

Page 565

مجموعہ اشتہارات ۵۴۹ جلد دوم آسمان پر گئے بلکہ صلیب سے نجات پاکر اور پھر مر ہم عیسی سے صلیبی زخموں سے شفا حاصل کر کے نصیبین کی راہ سے افغانستان میں آئے اور افغانستان سے کوہ نعمان میں گئے اور وہاں اس مقام میں ایک مدت تک رہے جہاں شہزادہ نبی کا ایک چبوترہ کہلاتا ہے جو اب تک موجود ہے اور پھر وہاں سے پنجاب میں آئے اور مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے آخر کشمیر میں گئے اور ایک سو پچیس برس کی عمر پا کر کشمیر میں ہی فوت ہوئے اور سرینگر خانیار کے محلہ کے قریب دفن کئے گئے اور میں اس تحقیقات کے متعلق ایک کتاب تالیف کر رہا ہوں جس کا نام ہے مسیح ہندوستان میں.چنانچہ میں نے اس تحقیق کے لئے مخلصی محتبی خلیفہ نور دین صاحب کو جن کا ذکر کر آیا ہوں کشمیر میں بھیجا تھا تو وہ موقعہ پر حضرت مسیح کی قبر کی پوری تحقیقات کر کے اور موقعہ پر قبر کا ایک نقشہ بنا کر اور پانسو چھپن آدمیوں کی اس پر تصدیق کرا کر کہ یہی حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے جس کو عام لوگ شہزادہ نبی کی قبر اور بعض یوز آسف نبی کی قبر اور بعض عیسی صاحب کی قبر کہتے ہیں.۷ ار ستمبر ۱۸۹۹ء کو واپس میرے پاس پہنچ گئے.سوکشمیر کا مسئلہ تو خاطر خواہ انفصال پا گیا اور پانسو چھپن شہادت سے ثابت ہو گیا کہ در حقیقت یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے کہ جوسری نگر محلہ خانیار کے قریب موجود ہے.لیکن اب ایک اور خیال باقی رہا ہے کہ اگر پورا ہو جائے تو نُورٌ عَلى نُورٍ ہوگا اور وہ دو باتیں ہیں.اوّل یہ کہ میں نے سُنا ہے کو ہ نعمان میں جو شہزادہ نبی کا پوترہ ہے اس کے نام ریاست کابل میں کچھ جا گیر مقرر ہے.لہذا اس غرض کے لیے بعض احباب کا کوہ نعمان میں جانا اور بعض احباب کا کابل میں جانا اور جاگیر کے کاغذات کی ریاست کے دفتر سے نقل لینا فائدہ سے خالی معلوم نہیں ہوتا..دوسرے یہ کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام افغانستان کی طرف نصیبین کی راہ سے آئے تھے اور کتاب رَوْضَةُ الصَّفَا سے پایا جاتا ہے کہ اس فتنہ صلیب کے وقت نصیبین کے بادشاہ لے خلیفہ نور دین صاحب کو خدا تعالیٰ اجر بخشے اس تمام سفر اور رہائش کشمیر میں اُنہوں نے اپنا خرچ اٹھایا اپنی جان کو تکلیف میں ڈالا اور اپنے مال سے سفر کیا.منہ ایک ہمارے مخلص کا نام عبدالعزیز ہے جو او جاہ ضلع گورداسپور میں رہتے ہیں اور اس ضلع کے پٹواری ہیں جن کا نام پہلے میں لکھ چکا ہوں اپنے جوش اخلاص سے نصیبین کے سفر کے لئے ایک آدمی کے جانے کا آدھا خرچ اپنے پاس سے

Page 566

مجموعہ اشتہارات جلد دوم نے حضرت مسیح کو بلایا تھا اور ایک انگریز اس پر گواہی دیتا ہے کہ ضرور حضرت مسیح کو اس کا خط آیا تھا بلکہ وہ خط بھی اس انگریز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے.اس صورت میں یہ یقینی امر ہے کہ نصیبین میں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے اس سفر کی اب تک کچھ یادگار قائم ہوگی.اور کچھ تعجب نہیں کہ وہاں بعض کتبے بھی پائے جائیں یا آپ کے بعض حواریوں کی وہاں قبریں ہوں جو شہرت پا چکی ہوں لہذا میرے نزدیک یہ قرین مصلحت قرار پایا ہے کہ تین دانشمند اور الوالعزم آدمی اپنی جماعت میں سے نصیبین میں بھیجے جائیں.سو اُن کی آمد ورفت کے اخراجات کا انتظام ضروری ہے.ایک اُن میں سے مرزا خدا بخش صاحب ہیں اور یہ ہمارے ایک نہایت مخلص اور جان نثار مرید ہیں جو اپنے شہر جھنگ سے ہجرت کر کے قادیان میں آرہے ہیں اور دن رات خدمت دین میں سرگرم ہیں.اور ایسا اتفاق ہوا ہے کہ مرزا صاحب موصوف کا تمام سفر خرچ ایک مخلص با ہمت نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کا نام ظاہر کیا جائے.مگر دو اور آدمی ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ہم سفر ہوں گے.اُن کے سفر خرچ کا بندوبست قابل انتظام ہے.سوامور متذکرہ بالا میں سے ایک یہ تیسرا امر ہے کہ ایسے نازک وقت میں جو پہلی دو شاخیں بھی امداد مالی کی سخت محتاج ہیں پیش آ گیا ہے.اور یہ سفر میرے نزدیک ایسا ضروری ہے کہ گویا کسی شاعر کا یہ شعر اسی موقع کے حق میں ہے سے گر جاں طلبد مضائقہ نیست زر می طلبد سخن دریں سے خدا تعالیٰ کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.ممکن ہے کہ چند آدمی ہی ان تینوں شاخوں کا بندو بست کر سکیں کے غرض انہی تینوں شاخوں کے لئے نہایت ضروری سمجھ کر یہ اشتہار لکھا گیا ہے.اے عقل مند و! خدا کے راضی کرنے یہ وقت ہے کہ پھر نہیں ملے گا.میں تاکیڈا لکھتا ہوں کہ جو بقیہ حاشیہ.دیا ہے عالی ہمتی اس کو کہتے ہیں کہ اس تھوڑی سی دنیوی معاش کے ساتھ اس قدر خدمت دینی کو شجاعت ایمانی سے بجالائے ہیں اور ایسا ہی میاں خیر الدین کشمیری سیکھواں نے اس سفر کے لئے اپنی حیثیت سے زیادہ ہمت کر کے دس روپیہ دیئے ہیں.لے اگر محبوب جان مانگے تو کچھ پرواہ نہیں مشکل یہ ہے کہ وہ مال مانگتا ہے.ے کابل اور کوہ نعمان میں بھیجنے کے لئے اسی نواح کے بعض آدمی تجویز کئے گئے ہیں کیونکہ وہ اس ملک اور اُن پہاڑوں کے خوب واقف ہیں.

Page 567

مجموعہ اشتہارات ۵۵۱ جلد دوم صاحب اہل مقدرت ہوں اور کوئی بڑی رقم بھیجنا چاہیں تو بہتر ہے کہ وہ بذریعہ تار بھیج دیں کہ تینوں شاخوں کے سوا اور کئی شاخیں مصارف کی بھی ہیں جیسا کہ مدرسہ کی شاخ جس کو محض اس غرض سے قادیان میں قائم کیا گیا ہے کہ تالڑ کے اپنی ابتدائی حالت میں ہی راہ راست سے واقفیت پیدا کر لیں اور نادان مولویوں یا پادریوں کے پنجہ میں نہ پھنس جاویں.اور ایسا ہی وہ دوسری تمام شاخیں ہیں جن کا ذکر میرے رسالہ فتح اسلام میں ہے.لیکن یہ اشتہار بالفعل انہی تینوں شاخوں کے لئے جن کی سخت ضرورتیں پیش آ گئی ہیں شائع کیا جاتا ہے.اب جو شخص صدق دل سے ہماری تحریر کی اطاعت کرنا چاہے اس کو چاہیے ہمارے اس اشتہار کی تعمیل میں ایک ذرہ توقف نہ کرے اور موجودہ مشکلات کے دُور کرنے کے لئے جو کچھ اس سے ہو سکے اور جو کچھ بن پڑے مگر خدا کے علم سے خوف کر کے بلا توقف اس کو بھیج دے.یہ سچ ہے کہ یہ دن ایام قحط ہیں اور ہماری جماعت کے اکثر افراد ستقیم الحال اور نادار اور عیال دار ہیں مگر خدا کی راہ میں صدق دل سے خدمت کے لئے حاضر ہو جانا ایک ایسا مبارک امر ہے جو درحقیقت اور تمام مشکلات اور آفات کا علاج ہے.پس جس کو یقین ہے کہ خدا بر حق ہے اور دین و دنیا میں اس کی عنایات کی حاجت ہے اس کو چاہیے کہ اس مبارک موقع کو ہاتھ سے نہ دے اور بخل کے دق میں مبتلا ہو کر اس ثواب سے محروم نہ رہے.اس عالی سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے وہی لائق ہے جو ہمت بھی عالی رکھتا ہو اور نیز آئندہ کے لئے ایک تازہ اورسچا عہد خدا تعالیٰ سے لے کر حتی الوسع بلا ناغہ ہر ایک مہینہ میں اپنی مالی امداد سے ان دینی مشکلات کے رفع کرنے کے لئے سعی کرتا رہے گا.یہ منافقانہ کام ہے کہ اگر کوئی مصیبت پیش آوے تب خدا اور اہل خدا یاد آ جائیں.اور جب آرام اور امن دیکھیں تو لا پرواہ ہو جائیں.خداغنی بے نیاز ہے اس سے ڈرو اور اُس کا فضل پانے کے لئے اپنے صدق کو دکھلاؤ.خدا تمہارے ساتھ ہو.والسلام ۴۷ را کتوبر۱۸۹۹ء را قم مرزا غلام احمد از قادیان (مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان) تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۶۱ تا ۷۵)

Page 568

مجموعہ اشتہارات ۵۵۲ جلد دوم خیز تا از در آن یار مرادے طلبیم له بر در دوست نشینیم و کشادے طلبیم ۲۱۴ جلسة الوداع به که با دست دعاصِدق وسدادے طلبیم دیر گاہے است کہ بینیم زمیں پر ز فسادے (ضمیمہ اشتہار لا نصار ۴ اکتوبر ۱۸۹۹ء) ہم اس اشتہار میں لکھ چکے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے تین آدمی اس کام کے لئے منتخب کئے گے کہ وہ نصیبین اور اس کی نواح میں جاویں اور حضرت عیسی علیہ السّلام کے آثار اس ملک میں تلاش کریں.اب حال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سفر کے خرچ کا امر تقریباً انتظام پذیر ہو چکا ہے.صرف ایک شخص کی زادراہ کا انتظام باقی ہے یعنی اخویم مگر می مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ایک آدمی کے لئے ایک طرف کا خرچ دے دیا ہے اور اخویم منشی عبد العزیز صاحب پٹواری ساکن او جله ضلع گورداسپورہ نے باوجود قلت سرمایہ کے ایک سو چھپیں روپیہ دیئے ہیں اور میاں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپورہ اور اُن کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور ۵۰ ۱۲۵ میاں خیر الدین نے پچاس روپیہ دیئے ہیں.ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں.گویا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی.ایسا ہی مرزا خدا بخش صاحب نے بھی اس سفر خرچ کے کئے پچاس روپیہ چندہ دیا ہے خدا تعالیٰ سب کو اجر بخشے.آج ۱۰ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو قرعہ اندازی کے ذریعہ سے وہ دو شخص تجویز کئے لے ترجمہ.اٹھو اس محبوب کے در سے اپنی مراد مانگیں ، دوست کے دروازہ پر دھونی رمائیں اور کشائش طلب کریں.کے مدتوں سے ہم زمین کو فساد سے بھرا ہوا دیکھتے ہیں بہتر یہی ہے آؤ ہم دعامانگ کر صدق اور راستی طلب کریں.

Page 569

مجموعہ اشتہارات ۵۵۳ جلد دوم گئے ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ساتھ نصیبین کی طرف جائیں گے.اب یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان عزیزوں کی روانگی کے لئے ایک مختصر سا جلسہ کیا جائے کیونکہ یہ عزیز دوست ایمانی صدق سے تمام اہل وعیال کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کر کے اور وطن کی محبت کو خیر باد کہہ کر دُور دراز ملکوں میں جائیں گے اور سمندر کو چیرتے ہوئے اور جنگلوں پہاڑوں کو طے کرتے ہوئے نصیبین یا اس سے آگے بھی سیر کریں گے اور کربلا معلی کی زیارت بھی کریں گے.اس لئے یہ تینوں عزیز قابل قدر اور تعظیم ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے لئے ایک بڑا تحفہ لائیں گے.آسمان اُن کے اس سفر سے خوشی کرتا ہے کہ محض خدا کے لئے قوموں کو شرک سے چھوڑانے کے لئے یہ تین عزیز ایک منجی کی صورت پر اُٹھے ہیں.اس لئے لازم ہے کہ ان کے وداع کے لئے ایک مختصر سا جلسہ قادیان میں ہو اور ان کی خیر و عافیت اور ان کے متعلقین کی خیر و عافیت کے لئے دعائیں کی جائیں.لہذا میں نے اس جلسہ کی تاریخ ۱۲/ نومبر ۱۸۹۹ء مقرر کر کے قرین مصلحت سمجھا ہے کہ ان تمام خالص دوستوں کو اطلاع دوں جن کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی عید نہیں کہ جس کام کے لئے اس سردی کے ایام میں اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اور اپنے عیال اور دوستوں سے علیحدہ ہو کر جاتے ہیں اس مراد کو حاصل کر کے واپس آویں اور فتح کے نقارے ان کے ساتھ ہوں.میں دُعا کرتا ہوں کہ اے خدا جس نے اس کام کے لئے مجھے بھیجا ہے ان عزیزوں کو فضل اور عافیت سے منزل مقصود تک پہنچا اور پھر بخیر وخوبی فائز المرام واپس آئیں.آمین ثم آمین.اور میں امید رکھتا ہوں کہ میرے وہ عزیز دوست جو دین کے لئے اپنے تئیں وقف کر چکے ہیں حتی الوسع فرصت نکال کر اس جلسہ وداع پر حاضر ہوں گے اور اپنے ان مسافر عزیزوں کے لئے رو رو کر دعائیں کریں گے.والسلام ۱۰/اکتوبر ۱۸۹۹ء راق مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مطبوعہ ضیاء الاسلام پرلیس قادیان تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۷۶ ۷۷ ) (اسمعیل پریس مین )

Page 570

مجموعہ اشتہارات ۵۵۴ ۲۱۵ جلد دوم ضمیمه تریاق القلوب نمیبرم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ایک الہامی پیشگوئی کا اشتہار چونکہ مجھے ان دنوں میں چند متواتر الہام ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ عنقریب آسمان سے کوئی ایسا نشان ظاہر کرے گا جس سے میرا صدق ظاہر ہو.اس لئے میں اس اشتہار کے ذریعہ سے حق کے طالبوں کو امید دلاتا ہوں کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب آسمان سے کوئی تازہ شہادت میری تائید کے لئے نازل ہوگی.یہ ظاہر ہے کہ جس قد ر خدا تعالیٰ کے مامور دنیا میں آئے ہیں گو ان کی تعلیم نہایت اعلیٰ تھی اور اُن کے اخلاق نہایت اعلیٰ تھے اور ان کی زیر کی اور فراست بھی اعلیٰ درجہ پر تھی لیکن ان کا خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونا لوگوں نے قبول نہ کیا جب تک کہ ان کی تائید میں آسمان سے کوئی نشان نازل نہیں ہوا.اسی طرح خدا تعالیٰ اس جگہ بھی بارش کی طرح اپنے نشان ظاہر کر رہا ہے تا دیکھنے والے دیکھیں اور سوچنے والے سوچیں.اور اب مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک برکت اور رحمت اور اعزاز کا نشان ظاہر ہو گا جس سے اکثر لوگ تسلی پائیں گے جیسا کہ ۱۴ ستمبر ۱۸۹۹ء کو یہ الہام ہوا.ایک عزت کا خطاب ایک عزت کا خطاب لک خِطَابُ الْعِزَّةِ - ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہو گا.یہ تمام خدائے پاک قدیر کا کلام ہے جس کو میں نے موٹی قلم سے لکھ دیا ہے.اگر چہ انسانوں کے لئے بادشاہوں اور سلاطین وقت سے

Page 571

مجموعہ اشتہارات ۵۵۵ جلد دوم بھی خطاب ملتے ہیں مگر وہ صرف ایک لفظی خطاب ہوتے ہیں جو بادشاہوں کی مہربانی اور کرم اور شفقت کی وجہ سے یا اور اسباب سے کسی کو حاصل ہوتے ہیں اور بادشاہ اس کے ذمہ دار نہیں ہوتے کہ جو خطاب انہوں نے دیا ہے اس کے مفہوم کے موافق وہ شخص اپنے تئیں ہمیشہ رکھے جس کو ایسا خطاب دیا گیا ہے مثلاً کسی بادشاہ نے کسی کو شیر بہادر کا خطاب دیا تو وہ بادشاہ اس بات کا متکفل نہیں ہوسکتا کہ ایسا شخص ہمیشہ اپنی بہادری دکھلاتا رہے گا.بلکہ ممکن ہے کہ ایسا شخص ضعف قلب کی وجہ سے ایک چو ہے کہ تیز رفتاری سے بھی کانپ اُٹھتا ہو چہ جائیکہ وہ کسی میدان میں شیر کی طرح بہادری دکھلاوے لیکن وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ سے شیر بہادر کا خطاب ملے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ درحقیقت بہادر ہی ہو کیونکہ خدا انسان نہیں ہے کہ جھوٹ بولے یا دھو کہ کھاوے یا کسی پولیٹیکل مصلحت سے ایسا خطاب دیدے جس کی نسبت وہ اپنے دل میں جانتا ہے کہ دراصل اس خطاب کے لائق نہیں ہے اس لئے یہ بات محقق امر ہے کہ فخر لائق وہی خطاب ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے.اور وہ خطاب دو قسم کا ہے.اول وہ جو وحی اور الہام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ عطا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک نبیوں میں سے کسی کو صفِی اللہ کا لقب دیا اور کسی کو كَلِیمُ الله کا اور کسی کورُوحُ اللہ کا اور کسی کو مصطفے اور حبیب اللہ کا ان تمام نبیوں پر خدا تعالیٰ کا سلام اور رحمتیں ہوں.اور دوسری قسم خطاب کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض نشانوں اور تائیدات کے ذریعہ سے بعض اپنے مقبولین کی اس قدر محبت لوگوں کے دلوں میں یک دفعہ ڈال دیتا ہے کہ یا تو اُن کو جھوٹا اور کافر اور مفتری کہا جاتا ہے اور طرح طرح کی نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں اور ہر ایک بد عادت اور عیب اُن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور یا ایسا ظہور میں آتا ہے کہ ان کی تائید میں کوئی ایسا پاک نشان ظاہر ہو جاتا ہے جس کی نسبت کوئی انسان کوئی بدظنی نہ کر سکے اور ایک موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکے کہ یہ نشان انسانی ہاتھوں اور انسانی منصوبوں سے پاک ہے اور خاص خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے ہاتھ سے نکلا ہے.تب ایسا نشان ظاہر ہونے سے ہر ایک سلیم طبیعت بغیر کسی شک وشبہ کے اس انسان کو قبول کر لیتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی یہ بات پڑ جاتی ہے کہ یہ شخص در حقیقت سچا ہے.تب لوگ اُس

Page 572

مجموعه اشتہارات ۵۵۶ جلد دوم الہام کے ذریعہ سے جو خدا تعالے لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے اس شخص کو صادق کا خطاب دیتے ہیں لے کیونکہ لوگ اُس کو صادق صادق کہنا شروع کر دیتے ہیں.اور لوگوں کا یہ خطاب ایسا ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ نے آسمان سے خطاب دیا کیونکہ خدا تعالیٰ آپ ان کے دلوں میں یہ مضمون نازل کرتا ہے کہ لوگ اس کو صادق کہیں.اب جہاں تک میں نے غور اور فکر کی ہے، ہمیں اپنے اجتہاد سے نہ کسی الہامی تشریح سے اس الہام کے جس کو میں نے ابھی ذکر کیا ہے یہی معنے کرتا ہوں کیونکہ ان معنوں کے لئے اس الہام کا آخری فقرہ ایک بڑا قرینہ ہے کیونکہ آخری فقرہ یہ ہے کہ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا لہذا میں اپنے اجتہادی سے اس کے یہ معنے سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے جو کسی حد تک پرانا ہو گیا ہے.اور حد سے زیادہ تکذیب اور تکفیر ہو چکی ہے کوئی ایسا برکت اور رحمت اور فضل اور صلح کاری کا نشان ظاہر کرے گا کہ وہ انسانی ہاتھوں سے برتر اور لے اس خطاب کی مثال یہ ہے کہ جیسا کہ مصر کے بادشاہ فرعون نے حضرت یوسف علیہ السلام کو صدیق کا خطاب دیا کیونکہ بادشاہ نے جب دیکھا کہ اس شخص نے صدق اور پاک باطنی اور پرہیز گاری کے محفوظ رکھنے کے لئے باراں برس کا جیلیٹی نہ اپنے لئے منظور کیا مگر بد کاری کی درخواست کو نہ مانا بلکہ ایک لحظہ کے لئے بھی دل پلید نہ ہوا.تب بادشاہ نے اس راست باز کو صدیق کا خطاب دیا جیسا کہ قرآن شریف سورۃ یوسف میں يُوسُفُ أَيُّهَا ۱۲ الصديق.معلوم ہوتا ہے کہ انسانی خطابوں میں سے پہلا خطاب وہی تھا جو حضرت یوسف کو ملا.منہ ے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا معاملہ وحی اور الہام کے ساتھ ہو وہ خوب جانتا ہے کہ ملہمین کو کبھی اجتہادی طور پر بھی اپنے الہام کے معنے کرنے پڑتے ہیں.اس طرح کے الہام بہت ہیں جو مجھے کئی دفعہ ہوئے ہیں اور بعض وقت ایسا الہام ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں اور ایک مدت کے بعد اس کے معنے کھلتے ہیں.مثلاً ۱۹ ستمبر ۱۸۹۹ء کو خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے اپنا کلام مجھ پر نازل کیا.إِنَّا أَخْرَجْنَا لَكَ زُرُوعًا يَا إِبْرَاهِيمُ یعنی اے ابراہیم ہم تیرے لئے ربیع کی کھیتیاں اگائیں گے.زُرُوعٌ زَرع کی جمع ہے اور زَرع عربی زبان میں ربیع کی کھیتی یعنی کنگ و جو وغیرہ کو کہتے ہیں مگر آثار ایسے نہیں ہیں کہ یہ الہام اپنے ظاہر معنوں کی رُو سے پورا ہو کیونکہ ربیع کی تخم ریزی کے ایام گو یا گزر گئے لہذا مجھے صرف اجتہاد سے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ تجھے کیا غم ہے

Page 573

مجموعہ اشتہارات ۵۵۷ جلد دوم پاک تر ہو گا.تب ایسی کھلی کھلی سچائی کو دیکھ کر لوگوں کے خیالات میں ایک تبدیلی واقع ہوگی اور نیک طینت آدمیوں کے کینے یک دفعہ رفع ہو جائیں گے.مگر جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے یہ میرا ہی خیال ہے ابھی کوئی الہامی تشریح نہیں ہے.میرے ساتھ خدا تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ کبھی کسی پیشگوئی میں مجھے اپنی طرف سے کوئی تشریح عنایت کرتا ہے اور کبھی مجھے میرے فہم پر ہی چھوڑ دیتا ہے.مگر یہ تشریح جو ابھی میں نے کی ہے اس کی ایک خواب بھی مؤید ہے جو ا بھی ۲۱ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو میں نے دیکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں محبی اخویم مفتی محمد صادق کو دیکھا ہے اور قبل اس کے جو میں اس خواب کی تفصیل بیان کروں اس قدر لکھنا فائدہ سے خالی نہیں ہوگا کہ مفتی محمد صادق میری جماعت میں سے اور میرے مخلص دوستوں میں سے ہیں جن کا گھر بھیرہ ضلع شاہ پور میں ہے مگر ان دنوں میں ان کی ملازمت لاہور میں ہے.یہ اپنے نام کی طرح ایک محبت صادق ہیں مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے اشتہار ۶ اکتوبر ۱۸۹۹ء میں سہواً اُن کا تذکرہ کرنا بھول گیا.وہ ہمیشہ میری دینی خدمات میں نہایت جوش سے مصروف ہیں خدا ان کو جزاء خیر دے.اب خواب کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے مفتی صاحب موصوف کو خواب میں دیکھا کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا اُن کا چہرا ہے اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے پہنے ہوئے ہیں اور ہم دونوں ایک بگھی میں سوار ہیں اور وہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر پر میں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے، یہ خواب ہے اور اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے یہ ہے کہ صدق جس سے میں محبت رکھتا ہوں ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہوگا اور جیسا کہ میں نے صادق کو دیکھا ہے کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ میں بقیہ حاشیہ.تیری کھیتیاں تو بہت نکلیں گی یعنی ہم تیری تمام حاجات کے متکفل ہیں.ایسا ہی ایک اور دوسرا الہام متشابہات میں سے ہے.جو ۴ اکتوبر۱۸۹۹ء کو مجھے ہوا.اور وہ یہ ہے کہ قیصر ہند کی طرف سے شکریہ اب یہ ایسا لفظ ہے کہ حیرت میں ڈالتا ہے کیونکہ میں ایک گوشہ نشین آدمی ہوں اور ہر یک قابل پسند خدمت سے عاری اور قبل از موت اپنے تئیں مُردہ سمجھتا ہوں.میرا شکریہ کیسا.سوایسے الہام متشابہات میں سے ہوتے ہیں جب تک خود خدا ان کی حقیقت ظاہر نہ کرے.منہ

Page 574

مجموعہ اشتہارات ۵۵۸ جلد دوم صادق سمجھا جاؤں گا اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی اور ایسا ہی ۲۰ راکتو بر ۱۸۹۹ء کو خواب میں مجھے یہ دکھایا گیا کہ ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز ہے اور اس کے باپ کے نام کے سر پر سلطان کا لفظ ہے وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھا یا گیا میں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سا لڑکا گورے رنگ کا ہے.میں نے اس خواب کی یہ تعبیر کی ہے کہ عزیز عزت پانے والے کو کہتے ہیں اور سلطان جو خواب میں لڑکے کا باپ سمجھایا گیا ہے.یہ لفظ یعنی سلطان عربی زبان میں اس دلیل کو کہتے ہیں کہ جو ایسی بین الظہور ہو جو باعث اپنے نہایت درجہ کے روشن ہونے کے دلوں پر اپنا تسلط کرلے.گویا سلطان کا لفظ تسلط سے لیا گیا ہے.اور سلطان عربی زبان میں ہر ایک قسم کی دلیل کو نہیں کہتے بلکہ ایسی دلیل کو کہتے ہیں کہ جو اپنی قبولیت اور روشنی کی وجہ سے دلوں پر قبضہ کر لے.اور طبائع سلیمہ پر اس کا تسلط تام ہو جائے.پس اس لحاظ سے کہ خواب میں عزیز جو سلطان کا لڑکا معلوم ہوا اُس کی یہ تعبیر ہوئی کہ ایسا نشان جو لوگوں کے دلوں پر تسلط کرنے والا ہو گا ظہور میں آئے گا اور اس نشان کے ظہور کا نتیجہ جس کو دوسرے لفظوں میں اس نشان کا بچہ کہہ سکتے ہیں دلوں میں میرا عزیز ہونا ہو گا جس کو خواب میں عزیز کے تمثل سے ظاہر کیا گیا.پس خدا نے مجھے یہ دکھلایا ہے کہ قریب ہے جو سلطان ظاہر ہو یعنی دلوں پر تسلط کرنے والا نشان جس سے سلطان کے لفظ کا اشتقاق ہے اور اس کالازمی نتیجہ جو اس کے فرزند کی طرح ہے عزیز ہے.اور یہ ظاہر ہے کہ جس انسان سے وہ نشان ظاہر ہو جس کو سلطان کہتے ہیں جو دلوں پر ایسا تسلط اور قبضہ رکھتا ہے جیسا کہ ظاہری سلطان جس کو بادشاہ کہتے ہیں.رعایا پر تسلط رکھتا تو ضرور ہے کہ ایسے نشان کے ظہور سے اس کا اثر بھی ظاہر ہو.یعنی دلوں پر تسلط اس نشان کا ہو کر صاحب نشان لوگوں کی نظر میں عزیز بن جائے اور جبکہ عزیز بننے کا موجب اور علّت سلطان ہی ہوا یعنی ایسی دلیل روشن جو دلوں پر تسلط کرتی ہے تو اس میں کیا شک ہے کہ عزیز ہونا سلطان کے لئے بطور فرزند کے ہوا.کیونکہ عزیز ہونے کا باعث سلطان ہی ہے جس ے یہ رویا لفظ پوری ہوئی کہ جناب مرزا عزیز احمد صاحب خلف مرزا سلطان احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دادا بر گزیدہ کو صادق مان کر بیعت کر لی (الحکم، ار مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ کالم ۲)

Page 575

مجموعہ اشتہارات ۵۵۹ جلد دوم نے دلوں پر تسلط کیا اور تسلط سے پھر یہ عزیز کی کیفیت پیدا ہوئی سوخدا تعالیٰ نے مجھ کو دکھلایا کہ ایسا ہی ہوگا.اور ایک نشان دلوں کو پکڑنے والا اور دلوں پر قبضہ کرنے والا اور دلوں پر تسلط رکھنے والا ظاہر ہوگا جس کو سلطان کہتے ہیں.اور اس سلطان سے پیدا ہونے والا عزیز ہو گا.یعنی عزیز ہونا سلطان کا لازمی نتیجہ ہوگا کیونکہ نتیجہ بھی عربی زبان میں بچہ کو کہتے ہیں.فقط تعداد ۱۰۰۰ الراق مرزا غلام احمد از قادیاں ۲۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیاں (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۰۱ تا ۵۰۶)

Page 576

مجموعہ اشتہارات ۲۱۶ جلد دوم ضمیمه تریاق القلوب نمبر ۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ تُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو وہی اُس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں نہیں راہ اُس کے عالی بار کہ تیک خد پسندوں کو یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اس سے قربت کو اسی کے ہاتھ کو ڈھونڈ و جلاؤ سب کمندوں کو اس عاجز غلام احمد قادیانی کی آسمانی گواہی طلب کرنے کے لئے ایک دُعا اور حضرت عزت سے اپنی نسبت آسمانی فیصلہ کی درخواست اے میرے حضرت اعلیٰ ذوالجلال قادر وقد وس حی و قیوم جو ہمیشہ راستبازوں کی مدد کرتا ہے تیرا نام ابدالا با دمبارک ہے.تیری قدرت کے کام کبھی رک نہیں سکتے.تیرا قوی ہاتھ ہمیشہ عجیب کام دکھلاتا ہے.تو نے ہی اس چودہویں صدی کے سر پر مجھے مبعوث کیا اور فرمایا کہ اٹھ کہ میں نے تجھے اس زمانہ میں اسلام کی حجت پوری کرنے کے لئے اور اسلام سچائیوں کو دنیا میں پھیلانے کے لئے اور ایمان کو زندہ کرنے کے لئے چنا اور تو نے ہی مجھے کہا کہ تو میری نظر میں منظور ہے.میں اپنے عرش پر تیری تعریف کرتا ہوں اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ " تو وہ مسیح موعود ہے جس کے وقت کو ضائع نہیں کیا جائے گا اور تو نے ہی مجھے مخاطب کر کے کہا کہ ” تو مجھ سے ایسا ہے کہ جیسا کہ میری تو حید اور

Page 577

مجموعہ اشتہارات ۵۶۱ جلد دوم تفریڈ اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ میں نے لوگوں کی دعوت کے لئے تجھے منتخب کیا.ان کو کہ دے کہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں اور سب سے پہلا مومن ہوں اور تو نے ہی مجھے کہا کہ ” میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا اسلام کو تمام قوموں کے آگے روشن کر کے دکھلاؤں اور کوئی مذہب ان تمام مذہبوں میں سے جو زمین پر ہیں برکات میں معارف میں تعلیم کی عمدگی میں خدا کی تائیدوں میں خدا کے عجائب غرائب نشانوں میں اسلام سے ہمسری نہ کر سکے.اور تو نے ہی مجھے فرمایا ” تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.میں نے اپنے لئے تجھے اختیار کیا.مگراے میرے قادر خدا تو جانتا ہے کہ اکثر لوگوں نے مجھے منظور نہیں کیا اور مجھے مفتری سمجھا اور میرا نام کا فر اور کذاب اور دقبال رکھا گیا.مجھے گالیاں دی گئیں اور طرح طرح کی دلآ زار باتوں سے مجھے ستایا گیا اور میری نسبت یہ بھی کہا گیا کہ حرام خورلوگوں کا مال کھانے والا وعدوں کا تختلف کرنے والا حقوق کو تلف کرنے والا لوگوں کو گالیاں دینے والا عہدوں کو توڑنے والا اپنے نفس کے لئے مال کو جمع کرنے والا اور شریرا اور خونی ہے.یہ وہ باتیں ہیں جو خود اُن لوگوں نے میری نسبت کہیں جو مسلمان کہلاتے اور اپنے تئیں اچھے اور اہل عقل اور پر ہیز گار جانتے ہیں اور ان کا نفس اس بات کی طرف مائل ہے کہ در حقیقت جو کچھ وہ میری نسبت کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور انہوں نے صد با آسمانی نشان تیری طرف سے دیکھے مگر پھر بھی قبول نہیں کیا.وہ میری جماعت کو نہایت تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں.ہر ایک ان میں جو بد زبانی کرتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ بڑے ثواب کا کام کر رہا ہے سواے میرے مولا قادر خدا! اب مجھے راہ بتلا اور کوئی ایسا نشان ظاہر فرما جس سے تیرے سلیم الفطرت بندے نہایت قوی طور پر یقین کریں کہ میں تیرا مقبول ہوں اور جس سے اُن کا ایمان قوی ہو اور وہ تجھے پہچانیں اور تجھ سے ڈریں اور تیرے اس بندے کی ہدایتوں کے موافق ایک پاک تبدیلی ان کے اندر پیدا ہو اورزمین پر پا کی اور پرہیز گاری کا اعلیٰ نمونہ دکھلاویں اور ہر ایک طالب حق کو نیکی کی طرف کھنچیں اور اس طرح پر تمام قو میں جوز مین پر ہیں تیری قدرت اور تیرے جلال کو دیکھیں اور سمجھیں کہ تو اپنے اس بندے کے ساتھ ہے اور دُنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے نام کی روشنی اُس بجلی کی طرح دکھلائی دے کہ جو ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب تک اپنے تئیں پہنچاتی اور شمال و جنوب میں اپنی چمکیں دکھلاتی ہے.لیکن اگر اے پیارے

Page 578

مجموعہ اشتہارات ۵۶۲ جلد دوم مولی میری رفتار تیری نظر میں اچھی نہیں ہے تو مجھ کو اس صفحہ دُنیا سے مٹادے تا میں بدعت اور گمراہی کا موجب نہ ٹھہروں.میں اس درخواست کے لئے جلدی نہیں کرتا تا میں خدا کے امتحان کرنے والوں میں شمار نہ کیا جاؤں.لیکن میں عاجزی سے اور حضرت ربوبیت کے ادب سے یہ التماس کرتا ہوں کہ اگر میں اس عالی جناب کا منظور نظر ہوں تو تین سال کے اندر کسی وقت میری اس دُعا کے موافق میری تائید میں کوئی ایسا آسمانی نشان ظاہر ہو جس کو انسانی ہاتھوں اور انسانی تدبیروں کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہ ہو جیسا کہ آفتاب کے طلوع اور غروب کو انسانی تدبیروں سے کچھ بھی تعلق نہیں.اگر چہ اے میرے خداوند یہ سچ ہے کہ تیرے نشان انسانی ہاتھوں سے بھی ظہور میں آتے ہیں لیکن اس وقت میں اسی بات کی اپنی سچائی کا معیار قرار دیتا ہوں کہ وہ نشان انسانوں کی تصرفات سے بالکل بعید ہو.تا کوئی دشمن اس کو انسانی منصوبہ قرار نہ دے سکے.سواے میرے خدا تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں.اگر تو چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے.تو میرا ہے جیسا کہ میں تیرا ہوں.تیری جناب میں الحاج سے دُعا کرتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور اگر یہ سچ ہے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے تو تو میری تائید میں اپنا کوئی ایسا نشان دکھلا جو پبلک کی نظر میں انسانوں کے ہاتھوں اور انسانی منصوبوں سے برتر یقین کیا جائے تا لوگ سمجھیں کہ میں تیری طرف سے ہوں.اے میرے قادر خدا! اے میرے تو انا اور سب قوتوں کے مالک خداوند ! تیرے ہاتھ کے برابر کوئی ہاتھ نہیں اور کسی جن اور بھوت کو تیری سلطنت میں شرکت نہیں.دنیا میں ہر ایک فریب ہوتا ہے اور انسانوں کو شیاطین بھی اپنے جھوٹے الہامات سے دھوکہ دیتے ہیں.مگر کسی شیطان کو یہ قوت نہیں دی گئی کہ وہ تیرے نشانوں اور تیرے ہیبت ناک ہاتھ کے آگے ٹھہر سکے یا تیری قدرت کی مانند کوئی قدرت دکھلا سکے کیونکہ تو وہ ہے جس کی شان لا إِلهَ إِلَّا الله ہے اور جو الْعَلِيُّ الْعَظِیم ہے جو لوگ شیطان سے الہام پاتے ہیں ان کے الہاموں کے ساتھ کوئی قادرانہ غیب گوئی کی روشنی نہیں ہوتی جس میں الوہیت کی قوت اور عظمت اور ہیبت بھری ہوئی ہو.وہ تو ہی ہے جس کی قوت سے تمام تیرے نبی تحدی کے طور پر اپنے معجزانہ نشان دکھلاتے رہے ہیں.اور بڑی بڑی پیشگوئیاں کرتے رہے ہیں جن میں اپنا غلبہ اور مخالفوں کی درماندگی پہلے سے ظاہر کی جاتی تھی تیری پیشگوئیوں میں تیرے

Page 579

مجموعہ اشتہارات ۵۶۳ جلد دوم جلال کی چمک ہوتی ہے اور تیری الوہیت کی قدرت اور عظمت اور حکومت کی خوشبو آتی ہے اور تیرے مُرسلوں کے آگے فرشتہ چلتا ہے تا ان کی راہ میں کوئی شیطان مقابلہ کے لئے ٹھہر نہ سکے.مجھے تیری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے تیرا فیصلہ منظور ہے.پس اگر تو تین برس کے اندر جو جنوری ۱۹۰۰ عیسوی سے شروع ہو کر دسمبر ۱۹۰۲ عیسوی تک پورے ہو جائیں گے، میری تائید میں اور تصدیق میں کوئی آسمانی نشان نہ دکھلاوے اور اپنے اس بندہ کو اُن لوگوں کی طرح رڈ کر دے جو تیری نظر میں شریر اور پلید اور بے دین اور کذاب اور دجال اور خائن اور مفسد ہیں تو میں تجھے گواہ کرتا ہوں کہ میں اپنے تئیں صادق نہیں سمجھوں گا اور ان تمام تہمتوں اور الزاموں اور بہتانوں کا اپنے تئیں مصداق سمجھ لوں گا جو میرے پر لگائے جاتے ہیں.دیکھ ! میری روح نہایت تو کل کے ساتھ تیری طرح ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے سوئیں تیری قدرت کے نشان کا خواہش مند ہوں لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی عزت کے لئے بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں اور جس کو تو نے بھیجا ہے اس کی تکذیب کر کے ہدایت سے دُور نہ پڑ جائیں.میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے مجھے بھیجا ہے اور میری تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں یہاں تک کہ سورج اور چاند کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں پیشگوئی کی تاریخوں کے موافق گرہن میں آویں اور تو نے وہ تمام نشان جو ایک سو سے زیادہ ہیں میری تائید میں دکھلائے جو میرے رسالہ تریاق القلوب میں درج ہیں.تو نے مجھے وہ چوتھا لڑکا عطا فرمایا جس کی نسبت میں نے پیشگوئی کی تھی کہ عبدالحق غزنوی حال امرت سری نہیں مرے گا جب تک وہ لڑکا پیدا نہ ہولے.سو وہ لڑکا اس کی زندگی میں ہی پیدا ہو گیا.میں اُن نشانوں کو شمار نہیں کر سکتا جو مجھے معلوم ہیں.میں تجھے پہنچانتا ہوں کہ تو ہی میرا خدا ہے.اس لئے میری رُوح تیرے نام سے ایسی اُچھلتی ہے جیسا کہ شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے لیکن اکثر لوگوں نے مجھے نہیں پہچانا اور نہ قبول کیا.اس لئے نہ میں نے بلکہ میری روح نے اس بات پر زور دیا کہ میں یہ دعا کروں کہ اگر میں تیرے حضور میں سچا ہوں اور اگر تیرا غضب میرے پر نہیں ہے اور اگر میں تیری جناب میں مستجاب الدعوات ہوں تو ایسا کر کہ جنوری ۱۹۰۰ء سے اخیر دسمبر ۱۹۰۲ ء تک میرے لئے کوئی اور نشان دکھلا اور اپنے بندہ کے لئے گواہی دے

Page 580

مجموعہ اشتہارات ۵۶۴ جلد دوم جس کو زبانوں سے کچلا گیا ہے دیکھ ! میں تیری جناب میں عاجزانہ ہاتھ اُٹھاتا ہوں کہ تو ایسا ہی کر.اگر میں تیرے حضور میں سچا ہوں اور جیسا کہ خیال کیا گیا ہے کافر اور کا ذب نہیں ہوں تو ان تین سال میں جو خیر دسمبر ۱۹۰۲ ء تک ختم ہو جائیں گے کوئی ایسا نشان دکھلا جو انسانی ہاتھوں سے بالاتر ہو جبکہ تو نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ میں تیری ہر ایک دعا قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں تبھی سے میری روح دعاؤں کی طرف دوڑتی ہے اور میں نے اپنے لئے یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر میری یہ دُعا قبول نہ ہو تو میں ایسا ہی مردود اور ملعون اور کافر اور بیدین اور خائن ہوں جیسا کہ مجھے سمجھا گیا ہے.اگر میں تیرا مقبول ہوں تو میرے لئے آسمان سے ان تین برسوں کے اندر گواہی دے تا ملک میں امن اور صلح کاری پھیلے اور تالوگ یقین کریں کہ تو موجود ہے اور دعاؤں کو سننا اور جوان کی طرف جھکتے ہیں جھکتا ہے.اب تیری طرف اور تیرے فیصلہ کی طرف ہر روز میری آنکھ رہے گی جب تک آسمان سے تیری نصرت نازل ہو اور میں کسی مخالف کو اس اشتہار میں مخاطب نہیں کرتا اور نہ اُن کو کسی مقابلہ کے لئے بلاتا ہوں.یہ میری دعا تیری ہی جناب میں ہے کیونکہ تیری نظر سے کوئی صادق یا کا ذب غائب نہیں ہے میری روح گوہی دیتی ہے کہ تو صادق کو ضائع نہیں کرتا اور کا ذب تیری جناب میں کبھی عزت نہیں پاسکتا اور وہ جو کہتے ہیں کہ کاذب بھی نبیوں کی طرح تحر ی کرتے ہیں.اور اُن کی تائید اور نصرت بھی ایسی ہی ہوتی ہے.جیسا کہ راست باز نبیوں کی.وہ جھوٹے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نبوت کے سلسلہ کو مشتبہ کر دیں.بلکہ تیرا قہر تلوار کی طرح مفتری پر پڑتا ہے.اور تیرے غضب کی بجلی کذاب کو بھسم کر دیتی ہے مگر صادق تیرے حضور میں زندگی اور عزت پاتے ہیں.تیری نصرت اور تائید اور تیرا فضل اور رحمت ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے.آمین ثم آمین.المشتـ ـهر مرزا غلام احمد از قادیاں.۵/ نومبر ۱۸۹۹ء تعداد ۳۰۰۰ مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۵.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۰۷ تا ۵۱۲ )

Page 581

مجموعہ اشتہارات ۲۱۷ ۵۶۵ جلد دوم اپنی جماعت کے لیے اطلاع یادر ہے کہ ایہ اشتہار محض اس غرض سے شائع کیا جاتا ہے کہ تا میری جماعت خدا کے آسمانی نشان دیکھ کر ایمان اور نیک عملوں میں ترقی کرے اور ان کو معلوم ہو کہ وہ ایک صادق کا دامن پکڑ رہے ہیں نہ کا ذب کا.اور تا وہ راست بازی کے تمام کاموں میں آگے بڑھیں اور اُن کا پاک نمونہ دنیا میں چمکے.ان دنوں میں وہ چاروں طرف سے سُن رہے ہیں کہ ہر ایک طرف سے مجھ پر حملے ہوتے ہیں اور نہایت اصرار سے مجھ کو کافر اور دقبال اور کذاب کہا جاتا ہے اور قتل کرنے کے لئے فتوے لکھے جاتے ہیں.پس ان کو چاہیے کہ صبر کریں اور گالیوں کا گالیوں کے ساتھ ہرگز جواب نہ دیں.اور اپنا نمونہ اچھا دکھاویں.کیونکہ اگر وہ بھی ایسی ہی درندگی ظاہر کریں جیسا کہ اُن کے مقابل پر کی جاتی ہے.تو پھر ان میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے.اس لئے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ ہرگز اپنا اجر پا نہیں سکتے جب تک صبر اور تقویٰ اور عفو اور درگذر کی خصلت سب سے زیادہ اُن میں نہ پائی جائے.اگر مجھے گالیاں دی جاتی ہیں تو کیا یہ نئی بات ہے؟ کیا اس سے پہلے خدا کے پاک نبیوں کو ایسا ہی نہیں کہا گیا ؟ اگر مجھ پر بہتان لگائے جاتے ہیں تو کیا اس سے پہلے خدا کے رسولوں اور راستبازوں پر الزام نہیں لگائے گئے ؟ کیا حضرت موسیٰ“ پر یہ اعتراض نہیں ہوئے کہ اُس نے دھوکہ دے کر نا حق مصریوں کا مال کھایا اور جھوٹ بولا کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں اور جلد واپس آئیں گے اور عہد تو ڑا اور کئی شیر خوار بچوں کو قتل کیا.اور کیا حضرت داؤد کی نسبت نہیں کہا گیا کہ اس

Page 582

مجموعہ اشتہارات جلد دوم نے ایک بیگانہ عورت سے بدکاری کی اور فریب سے اور یا نام ایک سپہ سالار کو قتل کرا دیا اور بیت المال میں ناجائز دست اندازی کی؟ اور کیا ہارون کی نسبت یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ اس نے گوساله پرستی کرائی؟ اور کیا یہودی اب تک نہیں کہتے کہ یسوع مسیح نے دعویٰ کیا تھا کہ میں داؤد کا تخت قائم کرنے آیا ہوں اور یسوع کے اس لفظ سے بجز اس کے کیا مراد تھی کہ اس نے اپنے بادشاہ ہونے کی پیشگوئی کی تھی جو پوری نہ ہوئی؟ اور کیونکر ممکن ہے کہ صادق کی پیشگوئی جھوٹی نکلے.یہودی یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مسیح نے کہا تھا کہ ابھی بعض لوگ زندہ موجود ہوں گے کہ میں واپس آؤں گا مگر یہ پیشگوئی بھی جھوٹی ثابت ہوئی اور وہ اب تک واپس نہیں آیا.ایسا ہی ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے بعض امور پر جاہلوں کے اعتراض ہیں جیسا کہ حدیبیہ کے واقعہ پر بعض نادان مرتد ہو گئے تھے.اور کیا اب تک پادریوں اور آریوں کی قلموں سے وہ تمام جھوٹے الزام ہمارے سید و مولی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت شائع نہیں ہوتے جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں.غرض مخالفوں کا کوئی بھی میرے پر ایسا اعتراض نہیں جو مجھ سے پہلے خدا کے نبیوں پر نہیں کیا گیا.اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ جب تم ایسی گالیاں اور ایسے اعتراض سنو تو غمگین اور دلگیر مت ہو کیونکہ تم سے اور مجھ سے پہلے خدا کے پاک نبیوں کی نسبت یہی لفظ بولے گئے ہیں.سوضرور تھا کہ خدا کی وہ تمام سنتیں اور عادتیں جو نبیوں کی نسبت وقوع میں آچکی ہیں ہم میں پوری ہوں.ہاں یہ درست بات ہے اور یہ ہمارا حق ہے کہ جو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے جب کہ ہم دُکھ دیئے جائیں اور ستائے جائیں اور ہمارا صدق لوگوں پر مشتبہ ہو جائے اور ہماری راہ کے آگے صدہا اعتراضات کے پتھر پڑ جائیں تو ہم اپنے خدا کے آگے روئیں اور اس کی جناب میں تضرعات کریں اور اس کے نام کی زمین پر تقدیں چاہیں اور اس سے کوئی ایسا نشان مانگیں جس کی طرف حق پسندوں کی گردنیں جھک جائیں.سواسی بنا پر میں نے یہ دعا کی ہے.مجھے بار ہا خدا تعالیٰ مخاطب کر کے فرما چکا ہے کہ جب تو دعا کرے تو میں تیری سنوں گا.سو میں نوح نبی کی طرح دونوں ہاتھ پھیلاتا ہوں اور کہتا ہوں رَبِّ إِنِّی مَغْلُوبٌ مگر بغیر فَانتَصِرُ کے.اور میری رُوح دیکھ رہی ہے کہ خدا میری سنے گا اور میرے لئے ضرور کوئی ایسا رحمت

Page 583

مجموعہ اشتہارات جلد دوم اور امن کا نشان ظاہر کر دے گا کہ جو میری سچائی پر گواہ ہو جائے گا.میں اس وقت کسی دوسرے کو مقابلہ کے لئے نہیں بلا تا اور نہ کسی شخص کے ظلم اور جور کا جناب الہی میں اپیل کرتا ہوں.بلکہ جیسا کہ میں تمام اُن لوگوں کے لئے بھیجا گیا ہوں جو زمین پر رہتے ہیں خواہ وہ ایشیا کے رہنے والے ہیں اور خواہ یورپ کے اور خواہ امریکہ کے.ایسا ہی میں عام اغراض کی بنا پر بغیر اس کے کہ کسی زید یا بکر کا میرے دل میں تصور ہو خدا تعالیٰ سے ایک آسمانی شہادت چاہتا ہوں جو انسانی ہاتھوں سے بالا تر ہو.یہ فقط دعائیہ اشتہار ہے جو خدا تعالیٰ کی شہادت طلب کرنے لئے میں لکھتا ہوں.اور میں جانتا ہوں کہ اگر میں اس کی نظر میں صادق نہیں ہوں تو اس تین برس کے عرصہ تک جو ۱۹۰۲ء تک ختم ہوں گے میری تائید میں ایک ادنیٰ قسم کا نشان بھی ظاہر نہیں ہوگا اور اس طرح پر میرا کذب ظاہر ہو جائے گا اور لوگ میرے ہاتھ سے مخلصی پائیں گے.اور اگر اس مدت تک میرا صدق ظاہر ہر جائے جیسا کہ مجھے یقین ہے تو بہت سے پر دے جو دلوں پر ہیں اُٹھ جائیں گے میری یہ دعا بدعت نہیں ہے بلکہ ایسی دُعا کرنا اسلام کی عبادات میں سے ہے جو نمازوں میں ہمیشہ پنجوقت مانگی جاتی ہے کیونکہ ہم نماز میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنی ترقی ایمان اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں.نبیوں کا کمال ، صدیقوں کا کمال،شہیدوں کا کمال، صلحاء کا کمال، سو نبی کا خاص کمال یہ ہے کہ خدا سے ایسا علم غیب پاوے جو بطور نشان کے ہو.اور صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں.اور شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دُکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے.اور مرد صالح کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دُور ہو جائے اور مجسم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اس کی خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان مانی جائے.

Page 584

مجموعہ اشتہارات ۵۶۸ جلد دوم سو یہ چاروں قسم کے کمال جو ہم پانچ وقت خدا تعالیٰ سے نماز میں مانگتے ہیں یہ دوسرے لفظوں میں ہم خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان طلب کرتے ہیں اور جس میں یہ طلب نہیں اس میں ایمان بھی نہیں.ہماری نماز کی حقیقت یہی طلب ہے جو ہم چار رنگوں میں پنجوقت خدا تعالیٰ سے چارنشان مانگتے ہیں اور اس طرح پر زمین پر خدا تعالیٰ کی تقدیس چاہتے ہیں تا ہماری زندگی انکار اور شک اور غفلت کی زندگی ہو کر زمین پلید نہ کرے.اور ہر ایک شخص خدا تعالیٰ کی تقدیس تبھی کر سکتا ہے کہ جب وہ چاروں قسم کے نشان خدا تعالیٰ سے مانگتا رہے.حضرت مسیح نے بھی مختصر لفظوں میں یہی سکھایا تھا.دیکھومتی باب ۸ آیت ۹ پس تم اسی طرح دُعا مانگو کہ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو.والسلام مرز ا غلام احمد از قادیاں ضلع گورداسپور پنجاب تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۳ ۵ تا ۵۱۶) ۵/ نومبر ۱۸۹۹ء

Page 585

مجموعہ اشتہارات ۲۱۸ ۵۶۹ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اشتهار ايها الناس قد ظهرت آیات الله لتائیدی و تصدیقی و شهدت لى شهداء الله من تحت ارجلكم و من فوق رؤوسكم و من يمينكم و من شمالكم و من انفسكم و من آفاقكم فهل فيكم رجل امين و من المستبصرين.اتقوا الله و لا تكتموا شهادات عيونكم و لاتؤثروا الظنون على اليقين ولا تقدموا قصصًا غير ثابتة على مارأيتم بـأعـيـنـكـم ان كنتم متقين.واعلموا ان الله يعلم بما في صدوركم ونياتكم ولا يخفى عليه شيء من حسناتكم وسيِّئَاتكم وان الله عليم بما في صدور العالمين ا ترجمہ از ناشر.اے لوگو! اللہ تعالیٰ کے نشانات میری تائید اور میری تصدیق کے لیے ظاہر ہوئے ہیں اور اللہ کے گواہوں نے تمہارے پاؤں کے نیچے سے اور تمہارے سروں کے اوپر سے اور تمہاری دائیں طرف سے اور تمہاری بائیں طرف سے اور تمہارے نفوس میں سے اور تمہارے آفاق میں سے میرے لئے گواہی دی ہے.پس کیا تم میں سے کوئی شخص امین یا بصیرت رکھنے والوں میں سے ہے.اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی آنکھوں کے مشاہدات کو مت چھپاؤ اور ظنون کو یقین پر ترجیح نہ دو.اگر تم متقی ہو تو اپنی چشم دید باتوں پر غیر مصدقہ قصے کہانیوں کو مقدم نہ کرو اور یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تمہارے سینوں اور نیتوں میں ہے اور تمہاری نیکیوں اور برائیوں میں سے کوئی بھی اس پر مخفی نہیں اور اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے جو تمام جہانوں کے سینوں میں ہے.

Page 586

مجموعه اشتہارات ۵۷۰ جلد دوم انكم رأيتم آيات الله ثم نبذتم دلائل الحق وراء ظهوركم و اعرضتم عنها متعمدين وقد كنتم منتظرين مجدّدًا من قبل فاذاجاء داعى الله فوليتم وجوهكم مستكبرين.أتنتظرون مجدّدًا هو غيرى و قد مرّ على رأس المائة من سنين.وقد مُلئت الارض جورًا و ظلما و سبق مساجد الله مايُعبد في ديور الضالين.ففكروا في انفسكم أتجعلون رزقكم انكم تكذبون الصادقين انكم كفرتم بمسيح الله و آياته وماكان لكم ان تتكلموا فيه و فيها الاخائفين.بقیہ ترجمہ.یقینا تم نے اللہ کے نشانات کو دیکھا پھر تم نے حق کے دلائل کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور تم نے جانتے بوجھتے ہوئے ان سے اعراض کیا حالانکہ اس سے پہلے تم ایک مجدد کے منتظر تھے پس جب اللہ کی طرف سے بلانے والا آیا تو تم نے تکبر کرتے ہوئے اس سے اپنے منہ پھیر لئے کیا تم میرے علاوہ کسی اور مجدد کی انتظار میں ہو حالانکہ صدی شروع ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں اور زمین ظلم و جور سے بھری ہوئی تھی اور جو کچھ گمراہوں کے دیر و معبد میں ہوتا ہے اللہ کی مساجد اس میں سبقت لے گئی ہیں.پس تم اپنے نفسوں کے بارہ میں غور کرو کیا تم نے بچوں کو جھٹلانا اپنی کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے.یقینا تم نے اللہ کے مسیح اور اُس کے نشانات کا انکار کیا ہے حالانکہ تمہیں مسیح اور اس کے نشانات کے بارہ میں ڈرتے ڈرتے ہی کلام کرنا چاہیے تھا.

Page 587

مجموعہ اشتہارات ۵۷۱ جلد دوم رومی سلطنت ایک معزز عہدہ دار حسین کامی کی نسبت جو پیشگوئی اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء اور اشتہار ۲۵/ جون ۱۸۹۷ء میں درج ہے وہ کامل صفائی سے پوری ہوگئی.میں نے اپنے اشتہار ۲۴ فروری مئی ۱۸۹۷ء میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ رومی سلطنت میں جس قدر لوگ ارکان دولت سمجھے جاتے ہیں اور سلطنت کی طرف سے کچھ اختیار رکھتے ہیں اُن میں ایسے لوگ بکثرت ہیں جن کا چال چلن سلطنت کو مضر ہے کیونکہ ان کی عملی حالت اچھی نہیں ہے.اس پیشگوئی کے لکھنے اور شائع کرنے کا باعث جیسا کہ میں نے اسی اشتہا ر ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء میں بہ تفصیل لکھا ہے یہ ہوا تھا کہ ایک شخص مستمی حسین یک کامی وائس تو نصل مقیم کرانچی قادیان میں میرے پاس آیا جو اپنے تئیں سلطنت روم کی طرف سے سفیر ظاہر کرتا تھا اور اپنی نسبت اور اپنے باپ کی نسبت یہ خیال رکھتا تھا کہ گویا یہ دونوں اوّل درجہ کے سلطنت کے خیر خواہ اور دیانت اور امانت میں دونوں مقدس وجود اور سراپا نیکی اور راست بازی کا تدین اور خمیر اپنے اندر رکھتے ہیں بلکہ جیسا کہ پرچہ اخبار ۵ارمئی ۱۸۹۷ ء ناظم الہند لاہور میں لکھا ہے اس شخص کی ایسی ایسی لاف و گزاف سے لوگوں نے اس کو نائب حضرت سلطان روم سمجھا اور یہ مشہور کیا گیا کہ یہ بزرگوار محض اس غرض سے لاہور وغیرہ نواح اس ملک میں تشریف لائے ہیں کہ تا اس ملک کے غافلوں کو اپنی پاک زندگی کا نمونہ دکھلا وہیں اور تا لوگ ان کے مقدس اعمال کو دیکھ کر ان کے نمونہ پر اپنے تئیں بناویں اور اس تعریف میں یہاں تک اصرار کیا گیا تھا کہ اس ایڈیٹر ناظم الہند نے اپنے پر چہ مذکورہ یعنی ۱۵ رمئی ۱۸۹۷ء کے پر چہ میں جھوٹ اور بے شرمی کی کچھ بھی پرواہ نہ کر کے یہ بھی شائع کر دیا تھا کہ نائب خلیفہ اللہ سلطان روم جو پاک باطنی اور دیانت اور امانت کی وجہ سے سراسر نور ہیں یہ اس لئے قادیان میں بلائے

Page 588

مجموعہ اشتہارات ۵۷۲ جلد دوم گئے ہیں کہ یا مرزائے قادیاں اپنے افترا سے اس نائب الخلافت یعنی مظہر نور الہی کے ہاتھ پر تو بہ کرے اور آئندہ اپنے تئیں مسیح موعود ٹھہرانے سے باز آجائے اور ایسا ہی اور بھی بعض اخباروں میں میری بدگوئی کو مد نظر رکھ کر اس قدر اس شخص کی تعریفیں کی گئیں کہ قریب تھا کہ اس کو آسمان چہارم کا فرشتہ بنا دیتے.لیکن جب وہ میرے پاس آیا تو اس کی شکل دیکھنے سے ہی میری فراست نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص امین اور دیانت دار اور پاک باطن نہیں اور ساتھ ہی میرے خدا نے مجھ کو القا کیا که رومی سلطنت انہی لوگوں کی شامت اعمال سے خطرہ میں ہے کیونکہ یہ لوگ کہ جو علی حسب مراتب قرب سلطان سے کچھ حصہ رکھتے ہیں اور اس سلطنت کی نازک خدمات پر مامور ہیں یہ اپنی خدمات کو دیانت سے ادا نہیں کرتے اور سلطنت کے سچے خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ اپنی طرح طرح کی خیانتوں سے اس اسلامی سلطنت کی جو حرمین شریفین کے محافظ اور مسلمانوں کے لئے مغتنمات میں سے ہے کمزور کرنا چاہتے ہیں.سوئیں اس الہام کے بعد محض القاء الہی کی وجہ سے حسین پک کامی سے سخت بیزار ہو گیا.لیکن نہ رومی سلطنت کے بغض کی وجہ سے بلکہ محض اس کی خیر خواہی کی وجہ سے.پھر ایسا ہوا کہ ترک مذکور نے درخواست کی کہ میں خلوت میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں.چونکہ وہ مہمان تھا اس لئے میرے دل نے اخلاقی حقوق کی وجہ سے جو تمام بنی نوع کو حاصل ہیں یہ نہ چاہا کہ اس کی اس درخواست کو رد کروں.سومیں نے اجازت دی کہ وہ میرے خلوت خانہ میں آیا تو اس نے جیسا کہ میں نے اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء کے پہلے اور دوسرے صفحہ میں لکھا ہے مجھ سے یہ درخواست کی کہ میں اُن کے لئے دعا کروں.تب میں نے اس کو وہی جواب دیا جو اشتہار مذکور کے صفحہ۲ میں درج ہے جو آج سے قریباً دو برس پہلے تمام برٹش انڈیا میں شائع ہو چکا ہے.چنانچہ اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء کے صفحہ کی یہ عبارت ہے جو میری طرف سے سفیر مذکورکو جواب ملا تھا اور وہ یہ ہے کہ جو میں موٹی قلم سے لکھتا ہوں ”سلطان روم کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اُس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں دیکھ صفحہ دوسطر ۶٫۵.اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷، مطبع ضیاء الاسلام قادیان.

Page 589

۵۷۳ جلد دوم مجموعہ اشتہارات پھر میں نے اسی اشتہار کے صفحہ ۲ سطر 9 کے مطابق اُس ترک کو نصیحت دی اور اشارہ سے اس کو یہ سمجھایا کہ اس کشف کا اوّل نشانہ تم ہو اور تمہارے حالات الہام کی رو سے اچھے معلوم نہیں ہوتے تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ.چنانچہ یہی لفظ کہ تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ.‘اس اشتہار کے صفحہ ۲ سطر میں اب تک موجود ہے جو سفیر مذکور کو مخاطب کر کے کہا گیا تھا.پس یہ تقریر میری جو اس اشتہار میں سے اس جگہ لکھی گئی ہے دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی (۱) ایک یہ کہ میں نے اس کو صاف لفظوں میں سمجھا دیا کہ تم لوگوں کا چال چلن اچھا نہیں ہے اور دیانت اور امانت کی نیک صفات سے تم محروم ہو (۲) دوسرے یہ کہ اگر تیری یہی حالت رہی تو تجھے اچھا پھل نہیں ملے گا اور تیرا انجام بد ہو گا.پھر میں نے صفحہ ۳ میں بطور پیشگوئی سفیر مذکور کی نسبت لکھا ہے.” اُس کے لئے ( یعنی سفیر مذکور کے لئے ) بہتر تھا کہ میرے پاس نہ آتا میرے پاس سے ایسی بدگوئی سے واپس جانا اس کی سخت بد قسمتی ہے.دیکھوصفحہ ۳ سطر نمبرا.اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء.پھر اسی صفحہ کی سطر 9 میں یہ پیشگوئی ہے اللہ جل شانہ جانتا ہے جس پر جھوٹ باندھنا لعنت کا داغ خریدنا ہے کہ اس عالم الغیب نے مجھے پہلے سے اطلاع دے دی تھی کہ اس شخص کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے پھر میں نے اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء کے صفحہ میں مذکورہ پیشگوئیوں کا اعادہ کر کے دسویں سطر سے سولہویں سطر تک یہ عبارت لکھی ہے.ہم نے گذشتہ اشتہارات میں ترکی گورنمنٹ پر بلحاظ اس کے بعض عظیم الدخل اور خراب سے اندرون ارکان اور عمائد اور وزراء کے نہ بلحاظ سلطان کی ذاتیات کے ضرور اُس خدا داد نور اور فراست اور الہام کی تحریک سے جو ہمیں عطا ہوا ہے چند ایسی باتیں لکھی ہیں جو خود ان کے مفہوم کے خوفناک اثر سے لے نہایت افسوس کی بات ہے کہ جس عادت زبوں نے ترکوں کی یہ روز بد دکھایا اور عیسائی سلطنتوں کے ہاتھوں اُسے برباد کرایا، وہ عادت ابھی تک ان میں کم و بیش پائی جاتی ہے.یہ عادت ملک وقوم کی اغراض پر اپنی ذاتی اغراض کو ترجیح دینا ہے.حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ یہ تباہی بخش مرض عام لوگوں کے طبقہ سے گذر کر مقتدر اور سر بر آوردہ طبقہ کے اشخاص میں گھر کر گیا ہے.کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ کسی نہ کسی نمک حرام ترک افسر کی غداری کی خبریں مشہور نہ ہوتی ہوں.

Page 590

مجموعہ اشتہارات ۵۷۴ جلد دوم ہمارے دل پر ایک عجیب رقت اور درد طاری ہوتی ہے.سو ہماری وہ تحریر جیسا کہ گندے خیال والے سمجھتے ہیں کسی نفسانی جوش پر مبنی نہ تھی بلکہ اس روشنی کے چشمہ سے نکلی تھی جو رحمت الہی نے ہمیں بخشا ہے.پگرای اشتہار کے صلحیم میں یعنی سطر۱۹ سے ۲۱ تک یہ عبارت ہے " کیا ممکن نہ تھا کہ جو کچھ میں نے رومی سلطنت کے اندرونی نظام کی نسبت بیان کیا وہ در اصل بیج ہو اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے بھی ہوں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہوں.یاد رہے کہ ابھی میں اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء کے حوالہ سے بیان کر چکا ہوں کہ یہ غداری اور نفاق کی سرشت بذریعہ الہام الہی حسین یک کامی میں معلوم کرائی گئی ہے.غرض میرے ان اشتہارات میں جس قدر پیشگوئیاں ہیں جو میں نے اس جگہ درج کر دی ہیں اُن سب سے اول مقصود بالذات حسین کا می مذکور تھا.ہاں یہ بھی پیشگوئی سے مفہوم ہوتا تھا کہ اس مادہ کے اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو سلطنت روم کے ارکان اور کارکن سمجھے جاتے ہیں.مگر بہر حال الہام کا اول نشانہ یہی شخص حسین کا می تھا جس کی نسبت ظاہر کیا گیا کہ وہ ہرگز امین اور دیانت دار نہیں اور اس کا انجام اچھا نہیں جیسا کہ ابھی میں نے اپنے اشتہار بقیہ حاشیہ.اب جو شخص ملک و قوم کی اغراض کو ایک طرف پھینک کر غذاری کے میدان میں نکلا ہے.کمال الدین پاشا فرزند عثمان پاشا ہے.یہ نوجوان سلطان المعظم کا داماد تھا مگر کچھ عرصہ سے اس کی ہوا ایسی بگڑی ہے اور کسی دشمن نے اُس پر ایسا جادو چلایا ہے کہ وہ علامیہ سرکشی پر کمر بستہ ہو گیا ہے.یہ حالت دیکھ کر دختر سلطان المعظم نے اس سے کنارہ کر لیا اور زوجیت کے تمام تعلقات قطع کر دیئے.اب یہ نو جوان بر وسا میں نظر بند کیا گیا ہے اور اس کے تمام تمغہ جات و جا گیر وغیرہ ضبط ہوگئی.کیا دردناک سبق ہے کہ جس شخص کو سلطنت کی ترقی و اقبال میں سائی ہونا چاہیے تھا وہ سازش کے جرم میں زندان میں ڈالا جائے.جب تک ترکوں میں اس قسم کے آدمی ہیں وہ اپنے آپ کو کبھی بھی خطرہ سے باہر نہیں نکال سکتے.( منقول از اخبار وکیل نمبر ۶۴ جلد۱۰ مورخه ۲۷ /اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۸ کالم نمبر۲)

Page 591

مجموعہ اشتہارات ۵۷۵ جلد دوم ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حسین کامی کی نسبت مجھے الہام ہوا کہ یہ آدمی سلطنت کے ساتھ دیانت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے اور اسی کومیں نے مخاطب کر کے کہا کہ تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ.یہ تو میرے الہامات تھے جومیں نے صاف دلی سے لاکھوں انسانوں میں بذریعہ اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء اور اشتہار ۲۵ / جون ۱۸۹۷ء شائع کر دیئے.مگر افسوس کہ ان اشتہارات کے شائع کرنے پر ہزار ہا مسلمان میرے پر ٹوٹ پڑے.بعض کو تو قلتِ تدبر کی وجہ سے یہ دھو کہ لگا کہ گویا میں نے سلطان روم کی ذات پر کوئی حملہ کیا ہے حالانکہ وہ میرے اشتہارات اب تک موجود ہیں.سلطان کی ذات سے اُن پیشگوئیوں کو کچھ تعلق نہیں.صرف بعض ارکان سلطنت اور کارکن لوگوں کی نسبت الہام شائع کیا گیا ہے کہ وہ امین اور دیانت دار نہیں ہیں.اور کھلے کھلے طور پر اشارہ کیا گیا ہے کہ اول نشانہ ان الہامات کا وہی حسین کامی ہے اور وہی دیانت اور امانت کے پیرایہ سے محروم اور بے نصیب ہے.اور ان اشتہاروں کے شائع ہونے کے بعد بعض اخبار والوں نے حسین کامی کی حمایت میں میرے پر حملے کئے کہ ایسے امین اور دیانت دار کی نسبت یہ الہام ظاہر کیا ہے کہ وہ سلطنت کا سچا امین اور دیانتدار عہدہ دار نہیں ہے اور اس کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے اور اس کو ڈرایا گیا ہے کہ تو بہ کرو ورنہ تیرا انجام اچھا نہیں حالانکہ وہ مہمان تھا.انسانیت کا یہ تقاضا تھا کہ اس کی عزت کی جاتی.ان تمام الزامات کا میری طرف سے یہی جواب تھا کہ میں نے اپنے نفس کے جوش سے حسین کا می کو کچھ نہیں کہا بلکہ جو کچھ میں نے اس پر الزام لگایا تھا وہ الہام الہی کے ذریعہ سے تھا نہ ہماری طرف سے مگر افسوس کہ اکثر اخبار والوں نے اس پر اتفاق کر لیا کہ در حقیقت حسین کا می بڑا امین اور دیانت دار بلکہ نہایت بزرگوار اور نائب خلیفتہ المسلمین سلطان روم تھا.اس پر ظلم ہوا کہ اس کی نسبت ایسا کہا گیا اور اکثر نے تو اپنی بات کو زیادہ رنگ چڑھانے کے لئے میرے تمام کلمات کو سلطان المعظم کی طرف منسوب کر دیا تا مسلمانوں میں جوش پیدا کریں.چنانچہ میرے ان

Page 592

مجموعه اشتہارات ۵۷۶ جلد دوم الہامات سے اکثر مسلمان جوش میں آگئے اور بعض نے میری نسبت لکھا کہ یہ شخص واجب القتل ہے.اب ہم ذیل میں بتلاتے ہیں کہ ہماری یہ پیشگوئی بچی نکلی یا جھوٹی واضح ہو کہ عرصہ تخمینا دو ماہ یا تین ماہ کا گذرا ہے کہ ایک معزز ترک کی معرفت ہمیں یہ خبر ملی تھی کہ حسین کا می مذکور کو ایک ارتکاب جرم کی وجہ سے اپنے عہدہ سے موقوف کیا گیا ہے اور اُس کی املاک ضبط کی گئی.مگر میں نے اس خبر کو ایک شخص کی روایت خیال کر کے شائع نہیں کیا تھا کہ شاید غلط ہو.آج اخبار نیر آصفی مدراس مورخه ۱۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء کے ذریعہ سے ہمیں مفصل طور پر معلوم ہو گیا کہ ہماری وہ پیشگوئی حسین کامی کی نسبت نہایت کامل صفائی سے پوری ہو گئی.ہماری وہ نصیحت جو ہم نے اپنے خلوت خانہ میں اس کو کی تھی کہ تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ.جس کو ہم نے اپنے اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء میں شائع کر دیا تھا اس پر پابند نہ ہونے سے آخر وہ اپنی پاداش کردار کو پہنچ گیا.اور اب وہ ضرور اس نصیحت کو یاد کرتا ہوگا مگر افسوس یہ ہے کہ وہ اس ملک کے بعض ایڈیٹر ان اخبار اور مولویان کو بھی جو اس کو نائب خليفة ا المسلمین اور رکن امین سمجھ بیٹھے تھے اپنے ساتھ ہی ندامت کا حصہ دے گیا.اور اس طرح پر انہوں نے ایک صادق کی پیشگوئی کی تکذیب کا مزہ چکھ لیا.اب ان کو چاہیے کہ آئندہ اپنی زبانوں کو سنبھالیں.کیا یہ سچ نہیں کہ میری تکذیب کی وجہ سے بار بار ان کو خجالت پہنچ رہی ہے.اگر وہ سچ پر ہیں تو کیا باعث کہ ہر ایک بات میں آخر کار کیوں ان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے.اب ہم اخبار مذکور میں سے وہ چٹھی مع تمہیدی عبارت کے ذیل میں نقل کر دیتے ہیں اور وہ یہ ہے.چندہ مظلومان کریٹ اور ہندوستان“ ہمیں آج کی ولایتی ڈاک میں اپنے ایک معزز اور لائق نامہ نگار کے پاس سے ایک قسطنطنیہ والی چٹھی ملی ہے جس کو ہم اپنے ناظرین کی اطلاع کے لئے درج ذیل کئے دیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہمیں کمال افسوس ہوتا ہے.افسوس اس وجہ سے کہ ہمیں اپنی ساری امیدوں

Page 593

مجموعہ اشتہارات ۵۷۷ جلد دوم کے برخلاف اس مجرمانہ خیانت کو جو سب سے بڑی اور سب سے زیادہ منتظم و مہذب اسلامی سلطنت کے وائس قونصل کی جانب سے بڑی بے دردی کے ساتھ عمل میں آئی اپنے ان کانوں سے سننا اور پبلک پر ظاہر کرنا پڑا ہے جو کیفیت جناب مولوی حافظ عبدالرحمن صاحب الہندی نزیل قسطنطنیہ نے ہمیں معلوم کرائی ہے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حسین یک کامی نے بڑی بے شرمی کے ساتھ مظلومان کریٹ کے روپیہ کو بغیر ڈکار لینے کے ہضم کر لیا اور کارکن کمیٹی چندہ نے بڑی فراست اور عرقریزی کے ساتھ ان سے روپیہ اگلوایا.مگر یہ دریافت نہیں ہوا کہ وائس قونصل مذکور پر عدالت عثمانیہ میں کوئی نالش کی گئی یا نہیں.ہماری رائے میں ایسے خائن کو عدالتانہ کا رروائی کے ذریعہ عبرت انگیز سزا دینی چاہیے.بہر حال ہم امید کرتے ہیں کہ یہی ایک کیس غبن کا ہو گا جو اس چندہ کے متعلق وقوع میں آیا ہو.اور جو ر قوم چندہ جناب ملا عبدالقیوم صاحب اول تعلقہ دار لنگسگور اور جناب عبدالعزیز بادشاہ صاحب ٹرکش قونصل مدراس کی معرفت حیدر آباد اور مدراس سے روانہ ہوئیں وہ بلا خیانت قسطنطنیہ کو کمیٹی چندہ کے پاس برابر پہنچ گئی ہوں گی.“ "قسطنطنیہ کی چٹھی" ”ہندوستان کے مسلمانوں نے جو گذشتہ دو سالوں میں مہاجرین کریٹ اور مجروحین عساکر حرب یونان کے واسطے چندہ فراہم کر کے قونصل ہائے دولت علیہ ترکیہ مقیم ہند کو دیا تھا معلوم ہوتا ہے کہ ہر زر چندہ تمام و کمال قسطنطنیہ میں نہیں پہنچا.اور اس امر کے باور کرنے کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ حسین پک کامی وائس قونصل مقیم کرانچی کو جو ایک ہزار چھ سو روپیہ کے قریب مولوی انشاء اللہ صاحب ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر اور مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار لا ہور نے مختلف مقامات سے وصول کر کے بھیجا تھا وہ سب غبن کر گیا.ایک کوڑی تک قسطنطنیہ میں نہیں پہنچائی.مگر خدا کا شکر ہے کہ سلیم پاشا ملحمہ کارکن کمیٹی چندہ کو جب خبر پہنچی تو اس نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اس روپیہ کے

Page 594

مجموعہ اشتہارات ۵۷۸ جلد دوم اگلوانے کی کوشش کی اور اس کی اراضی مملوکہ کو نیلام کرا کر وصولی رقم کا انتظام کیا اور باب عالی میں غبن کی خبر بھجوا کر نوکری سے موقوف کرایا.اس لئے ہندوستان کے جملہ اصحاب جرائد کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ اس اعلان کو قومی خدمت سمجھ کر چار مرتبہ متواتر اپنے اخبارات میں مشتہر فرمائیں اور جس وقت ان کو معلوم ہو کہ فلاں شخص کی معرفت اس قدر رو پیہ چندہ کا بھیجا گیا تو اس کو اپنے جریدہ میں مشتہر کرا ئیں اور نام مع عنوان کے ایسا مفصل لکھیں کہ بشرط ضرورت اس سے خط و کتابت ہو سکے اور ایک پر چہ اس جریدہ کا خاکسار کے پاس بمقام قاہرہ اس پتہ سے روانہ فرماویں.حافظ عبدالرحمن الہندی الامرتسری.سکہ جدیدہ.وکالہ صالح آفندی قاہرہ (ملک مصر ) المشـ تهر میرزاغلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۱۸ نومبر ۱۸۹۹ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۹۱ تا ۱۰۰) سمعيل

Page 595

مجموعہ اشتہارات ۲۱۹ ۵۷۹ جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اشتهار ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا اور نیز ان لوگوں کا جواب جنہوں نے نامنہمی سے اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے انکار کیا ہے.اس بات کی زیادہ تصریح کی ضرورت نہیں کہ میں نے ایک پیشگوئی مولوی محمد حسین بٹالوی اور اس کے دور فیقوں کی نسبت اپنے اشتہار مجریہ ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی تھی جس کا خلاصہ یہی تھا که مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو اپنی قلم سے انواع واقسام کے بہتانوں سے میری ذلت کی ہے اور نیز اسی قسم کی ذلت بیجا تحریروں سے جعفر زٹلی اور ابو الحسن تبتی اپنے دوستوں سے کرائی ہے.یہ کارروائی اس کی جناب الہی میں مورد اعتراض ہو کر مجھے الہام ہوا ہے کہ جس قسم کی اس نے میری ذلت کی اور مذکورہ بالا دو اپنے دوستوں سے کرائی اسی قسم کی ذلت اس کی بھی ہو جائے گی.یہ الہام ہزاروں انسانوں میں شائع ہوا.یہاں تک کہ اسی کی بناء پر ایک مقدمہ میرے پر ہو کر اس بہانہ سے عدالت تک بھی اس الہام کی شہرت ہو گئی مگر افسوس کہ اب تک بعض کو نہ اندیش اور نادان دوست محمد حسین کے محض خلاف واقعہ طور پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ گویا وہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور جو پیشگوئی

Page 596

مجموعه اشتہارات ۵۸۰ جلد دوم میں ذلت کا وعدہ تھا وہ اب تک ظہور میں نہیں آیا.چنانچہ ان میں سے ایک صاحب ثناء اللہ نام امرت سری نے بھی پرچہ اخبار عام نومبر ۱۸۹۹ء میں اعتراض پیش کیا ہے.اور چونکہ ان مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک خلاف واقعہ بات پر جم کر پھر ہزاروں انسانوں کو وہی سبق دیتے ہیں اور اس طرح پر ایک شخص کی غلط فہمی ہزاروں انسانوں کو غلطی میں ڈالتی ہے.لہذا میں نے قرین مصلحت سمجھا کہ وہ پیشگوئی مع تمام اس کے لوازم کے تحریر کر کے پبلک کے سامنے رکھوں تا لوگ خود انصاف کر لیں کہ آیا وہ پیشگوئی پوری ہوگئی یا کچھ کسر باقی ہے.اس لئے ہم ذیل میں مبسوط طور پر اول سے آخر تک اس کو لکھتے ہیں.سو واضح ہو کہ مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے میرے ذلیل کرنے کی غرض سے تمام لوگوں میں مشہور کیا تھا کہ یہ شخص مہدی معہود اور مسیح موعود سے منکر ہے اس لئے بے دین اور کافر اور دجال ہے بلکہ اسی غرض سے ایک استفتاء لکھا تھا اور علماء ہندوستان اور پنجاب کی اس پر مہریں ثبت کرا ئیں تھیں تا عوام مسلمان مجھ کو کا فرسمجھ لیں.اور پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ گورنمنٹ تک خلاف واقعہ یہ شکایتیں پہنچائیں کہ یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا بدخواہ اور بغاوت کے خیالات رکھتا ہے اور عوام کے بیزار کرنے کے لئے یہ بھی جابجا مشہور کیا کہ یہ شخص جاہل اور علم عربی سے بے بہرہ ہے اور ان تینوں قسم کے جھوٹ کے استعمال سے اس کی غرض یہ تھی کہ تا عوام مسلمان مجھ پر بدظن ہو کر مجھے کا فر خیال کریں اور ساتھ ہی یہ بھی یقین کرلیں کہ یہ شخص در حقیقت علم عربی سے بے بہرہ ہے اور نیز گورنمنٹ بدظن ہو کر مجھے باغی قرار دے یا اپنا بد خواہ تصور کرے.جب محمد حسین کی بداندیشی اس حد تک پہنچی کہ اپنی زبان سے بھی میری ذلت کی اور لوگوں کو بھی خلاف واقعہ تکفیر سے جوش دلا یا اور گورنمنٹ کو بھی جھوٹی مخبریوں سے دھوکہ دینا چاہا اور یہ ارادہ کیا کہ وجوہ متذکرہ بالا کو عوام اور گورنمنٹ کے دل میں جما کر میری ذلّت کر اوے تب میں نے اس کی نسبت اور اس کے دو دوستوں کی نسبت جو محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی ہیں وہ بدعا کی جو اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے اور جیسا کہ اشتہار مذکور میں میں نے لکھا ہے یہ الہام مجھ کو ہوا.اِنَّ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ

Page 597

مجموعہ اشتہارات ۵۸۱ جلد دوم سَبِيلِ اللهِ سَيَنَا لُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ.ضَرْبُ اللهِ اَشَدُّ مِنْ ضَرْبِ النَّاسِ.إِنَّمَا أَمْرُنَا إِذَا اَرَدْنَا شَيْئًا اَنْ نَّقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ.أَ تَعْجَبُ لَامُرِى إِنِّي مَعَ الْعُشَّاقِ.إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ ذُو الْمَجْدِ وَالْعُلى وَيَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ.وَيُطْرَحُ بَيْنَ يَدَيَّ.جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ.مَا لَهُمُ مِّنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ.فَاصْبِرُ حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ.إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ.ترجمہ اس الہام کا یہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں.عنقریب خدا تعالیٰ کا غضب ان پر وارد ہو گا.خدا کی مار انسانوں کی مار سے سخت تر ہے.ہمارا حکم تو اتنے میں ہی نافذ ہو جاتا ہے کہ جب ہم ایک چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اس چیز کو کہتے ہیں کہ ہو جا تو وہ چیز ہو جاتی ہے.کیا تو میرے حکم سے تعجب کرتا ہے.میں عاشقوں کے ساتھ ہوں.میں ہی وہ رحمان ہوں جو بزرگی اور بلندی رکھتا ہے.اور ظالم اپنا ہاتھ کاٹے گا اور میرے آگے ڈال دیا جائے گا.بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے اور ان کو ذلت پہنچے گی یعنی اسی قسم کی ذلت اور اسی مقدار کی ذلت جس کے پہنچانے کا انہوں نے ارادہ کیا ان کو پہنچ جائے گی.خلاصہ منشاء الہام یہ ہے کہ وہ ذلت مثلی ہوگی کیونکہ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے.اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے کوئی ان کو بچانے والا نہیں.پس صبر کر جب تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے امر کو ظاہر کرے.خدا تعالیٰ اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہے جو نیکی کرنے والے ہیں.یہ پیشگوئی ہے جو خدا تعالیٰ نے محمد حسین اور اس کے دور فیقوں کی نسبت کی تھی اور اس میں ظاہر کیا تھا کہ اسی ذلت کے موافق ان کو ذلت پہنچائی جائے گی جو انہوں نے پہنچائی.سو یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی کہ محمد حسین نے اس پیشگوئی کے بعد پوشیدہ طور پر اپنے ایک انگریزی لے لے بعض نادان ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ دھوکہ دے کر مولوی محمد حسین پر فتوی کفر اور الحاد لکھوایا لیکن افسوس کہ یہ لوگ اپنے قدیم تعصب اور بخل سے باز نہیں آتے.یادر ہے کہ اصل جڑھ ذلت کی وہ انگریزی فہرست تھی جو پوشیدہ طور پر محمد حسین نے چھاپ کر گورنمنٹ کی طرف بھیجی تھی.پس جب یہ ذلت کا مادہ ہمارے ہاتھ میں آیا تو ہم نے استفتاء طیار کر کے اور اس فہرست میں انگریزی کا مضمون پیش کر کے مولویوں سے

Page 598

مجموعہ اشتہارات ۵۸۲ جلد دوم فہرست اپنی ان کارروائیوں کی شائع کی جن میں گورنمنٹ کے مقاصد کی تائید ہے اور اس فہرست میں یہ جتلانا چاہا کہ منجملہ میری خدمات کے ایک یہ بھی خدمت ہے کہ میں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھا ہے کہ مہدی کی حدیثیں صحیح نہیں ہیں اور اس فہرست کو اس نے بڑی احتیاط سے پوشیدہ طور پر شائع کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ قوم کے رو برواس فہرست کے برخلاف اس نے اپنا عقیدہ ظاہر کیا ہے اور اس دورنگی کے ظاہر ہونے سے وہ ڈرتا تھا کہ اپنی قوم مسلمانوں کے روبروتو اس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ ایسے مہدی کو بدل و جان مانتا ہے کہ جو دنیا میں آ کر لڑائیاں کرے گا اور ہر ایک قوم کے مقابل پر یہاں تک کہ عیسائیوں کے مقابل پر بھی تلوار اُٹھائے گا اور پھر اس فہرست انگریزی کے ذریعہ سے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کرنا چاہا کہ وہ خونی مہدی کے متعلق تمام حدیثوں کو مجروح اور نا قابل اعتبار جانتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت سے وہ پوشیدہ کا رروائی اس کی پکڑی گئی اور نہ صرف قوم کو اس سے اطلاع ہوئی بلکہ گورنمنٹ تک بھی یہ بات پہنچ گئی کہ اس نے اپنی تحریروں میں دونوں فریق گورنمنٹ اور رعایا کو دھوکا دیا ہے اور ہر ایک ادنی عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ پرده دری محمد حسین کی ذلت کا باعث تھی اور وہی انکار مہدی جس کی وجہ سے اس ملک کے نادان مولوی مجھے دجال اور کافر کہتے تھے.محمد حسین کے انگریزی رسالہ سے اس کی نسبت بھی ثابت ہو گیا یعنی یہ کہ وہ بھی اپنے دل میں ایسی حدیثوں کو موضوع اور بے ہودہ اور لغو جانتا ہے.غرض یہ ایک ایسی بقیہ حاشیہ.اس پر کفر کی مہریں لگوائیں.سو اس میں ہماری طرف سے کوئی اختراع نہ تھا.اصل مادہ جو ہم دکھلانا چاہتے تھے وہ فہرست تھی جو ہمارے ہاتھ آ گئی.اگر ہم استفتاء بھی طیار نہ کرتے تا ہم وہ فہرست محمد حسین کی ذلت کے لئے کافی تھی جس سے ثابت ہوتا تھا کہ محد حسین کا ایک منہ نہیں ہے بلکہ وہ دومنہ سے کام لیتا ہے.اپنی قوم کے روبرو جو وہابی ہیں غازی مہدی پر ایمان ظاہر کرتا ہے.پھر گورنمنٹ کے خوش کرنے کے لئے غازی مہدی کی حدیثوں کو مجروح اور ضعیف قرار دیتا ہے اور یہ طریق اور یہ برتاؤ یک رنگ انسانوں کا ہرگز نہیں ہوتا سو ذلت تو اس دورنگی میں تھی جو ہم نے ثابت کر دی استفتاء کا اس میں کچھ حقیقی دخل نہ تھا.افسوس یہ لوگ نہیں سوچتے کہ استفتاء میں ہماری طرف سے کونسی خیانت تھی.کیا استفتاء میں کسی کا نام ظاہر کرنا بھی شرط ہے.منہ

Page 599

مجموعہ اشتہارات ۵۸۳ جلد دوم ذلّت تھی کہ ایک دفعہ محمد حسین کو اپنی ہی تحریروں کی وجہ سے پیش آ گئی اور ابھی ایسی ذلت کا کہاں خاتمہ ہے بلکہ آئندہ بھی جیسے جیسے گورنمنٹ اور مسلمانوں پر کھلتا جائے گا کہ کیسے اس شخص نے دورنگی کا طریق اختیار کر رکھا ہے ویسے ویسے اس ذلت کا مزہ زیادہ سے زیادہ محسوس کرتا جائے گا اور اس ذلت کے ساتھ ایک دوسری ذلت اس کو یہ پیش آئی کہ میرے اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے صفحہ ۲ کی اخیر سطر میں جو یہ الہامی عبارت تھی کہ أَتَعْجَبُ لامری اس پر مولوی محمد حسین صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ یہ عبارت غلط ہے اس لئے یہ خدا کا الہام نہیں ہوسکتا اور اس میں غلطی یہ ہے کہ فقرہ أَتَعْجَبُ لَامْرِی لکھا ہے یہ مِنْ اَمْرِی چاہیے تھا کیونکہ عجب کا صلہ مِنْ آتا ہے نہ لَامُ.اس اعتراض کا جواب میں نے اپنے اُس اشتہار میں دیا ہے جس کے عنوان پر موٹی قلم سے یہ عبارت ہے حاشیہ متعلقه صفحه اول اشتہار مورخہ ۳۰ / نومبر ۱۸۹۸ء‘ اس جواب کا ماحصل یہ ہے کہ معترض کی یہ نادانی اور ناواقفیت اور جہالت ہے کہ وہ ایسا خیال کرتا ہے کہ گویا عجب کا صلہ لام نہیں آتا.اس اعتراض سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ معترض فن عربی سے بالکل بے بہرہ اور بے نصیب ہے اور صرف نام کا مولوی ہے کیونکہ ایک بچہ بھی جس کو کچھ تھوڑی سی مہارت عربی میں ہو سمجھ سکتا ہے کہ عربی میں عجب کا صلہ کام بھی بکثرت آتا ہے اور یہ ایک شائع متعارف امر ہے اور تمام اہل ادب اور اہل بلاغت کی کلام میں یہ صلہ پایا جاتا ہے.چنانچہ اس معروف ومشہور شعر میں لام ہی صلہ بیان کیا گیا ہے اور وہ شعر یہ ہے." عَجِبْتُ لِمَوْلُودٍ لَيْسَ لَهُ أَبٌ وَ مِنْ ذِي وَلَدٍ لَيْسَ لَهُ أَبَوَان یعنی اس بچہ سے مجھے تعجب ہے جس کا باپ نہیں یعنی حضرت عیسی علیہ السلام سے اور اس سے زیادہ تعجب اس بچوں والوں سے ہے جس کے ماں باپ دونوں نہیں.اس شعر میں دونوں صلوں کا بیان ہے کام کے ساتھ بھی اور من کے ساتھ بھی اور ایسا ہی دیوان حماسہ میں جو بلاغت فصاحت میں ایک مسلم اور مقبول دیوان ہے اور سرکاری کالجوں میں داخل ہے.پانچ شعر میں

Page 600

مجموعہ اشتہارات ۵۸۴ جلد دوم عجب کا صلہ کام ہی لکھا ہے چنانچہ منجملہ ان کے ایک شعر یہ ہے کہ جو دیوان مذکور کے صفحہ 9 میں درج ہے.عِجِبْتِ لِمَسْرَ اهَا وَ أَنَّى تَخَلَّصَتْ إِلَيَّ وَبَابُ السِّجُنِ دُونِيَ مُغْلَقُ یعنی وہ معشوقہ جو عالم تصور میں میرے پاس چلی آئی مجھے تعجب ہوا کہ وہ ایسے زندان میں جس کے دروازے بند تھے میرے پاس جو میں قید میں تھا کیونکر چلی آئی.دیکھو اس شعر میں بھی اس بلیغ فصیح شاعر نے عَجِبُت کا صلہ کام ہی بیان کیا ہے جیسا کہ لفظ لِمَسْرَ اھا سے ظاہر ہے اور ایسا ہی وہ تمام اشعار اس دیوان کے جو صفحہ ۳۹۰ و ۱ ۴۱ و ۵۷۵ و ۵۱۱ میں درج ہیں ان سب میں عجب کا صلہ لام ہی لکھا ہے.جیسا کہ یہ شعر ہے.عَجِبْتُ لِسَعُيِ الدَّهُرِ بَيْنِي وَبَيْنَهَا فَلَمَّا انْقَضَىٰ مَا بَيْنَنَا سَكَنَ الدَّهُرُ یعنی مجھے اس بات سے تعجب آیا کہ زمانہ نے ہم میں جدائی ڈالنے کے لئے کیا کیا کوششیں کیں مگر جب وہ ہمارا وقت عشقبازی کا گذر گیا تو زمانہ بھی چپ ہو گیا.اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صلہ کام ہی آیا ہے اور ایسا ہی حماسہ کا یہ شعر ہے.عَجِبْتُ لِبَرُيَّ مِنكَ يَا عِزَّ بَعْدَ مَا عُمِرُتُ زَمَانًا مِنْكَ غَيْرُ صَحِيحٍ یعنی اے معشوقہ یہ عجیب بات ہے کہ تیرے سبب سے ہی میں اچھا ہوا یعنی تیرے وصال سے اور تیرے سبب سے ہی ایک مدت دراز تک میں بیمار رہا یعنی تیری جدائی کی وجہ سے علیل رہا.شاعر کا منشا اس شعر سے یہ ہے کہ وہ اپنی معشوقہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میری بیماری کا بھی تو ہی سبب تھی اور پھر میرے اچھا ہو جانے کا بھی تو ہی سبب ہوئی.اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام ہی آیا ہے پھر ایک اور شعر حماسہ میں ہے اور وہ یہ ہے.عَجَبًا لَا حَمَدَ وَالْعَجَائِبُ جُمَّةٌ أَنَّى يَلُومُ عَلَى الزَّمَانِ تَبَدُّلِي یعنی مجھ کو احمد کی اس حرکت سے تعجب ہے اور عجائب پر عجائب جمع ہو رہے ہیں کیونکہ وہ

Page 601

مجموعہ اشتہارات ۵۸۵ جلد دوم مجھے اس بات پر ملامت کرتا ہے کہ میں نے زمانہ کی گردش سے بازی کو کیوں ہار دیا.وہ کب تک مجھے ایسی بیہوہ ملامت کرے گا.کیا وہ نہیں سمجھتا کہ ہمیشہ زمانہ موافق نہیں رہتا اور تقدیر بد کے آگے تدبیر پیش نہیں جاتی پس میرا اس میں کیا قصور ہے کہ زمانہ کی گردش سے میں ناکام رہا.اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صلہ کام آیا ہے.اور اسی حماسہ میں اسی قسم کا ایک اور عَجِبْتُ لِعَبْدَانِ هَجَوُنِي سَفَاهَةً ان اصْطَبَحُوا مِنْ شَائِهِمْ وَ تَقَبَّلُوا یعنی مجھے تعجب آیا کہ کنیزک زادوں نے سراسر حماقت سے میری ہجو کی اور اس ہجو کا سبب ان کی صبح کی شراب اور دو پہر کی شراب تھی.اب دیکھو اس شعر میں بھی عجب کا صلہ کام آیا ہے اور اگر یہ کہو کہ یہ تو اُن شاعروں کے شعر ہیں جو جاہلیت کے زمانہ میں گذرے ہیں تو وہ کافر ہیں.ہم اُن کے کلام کو کب مانتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ باعث اپنے کفر کے جاہل تھے نہ باعث اپنی زبان کے بلکہ زبان کی رو سے تو وہ امام مانے گئے ہیں.یہاں تک کہ قرآن شریف کے محاورات کی تائید میں ان کے شعر تفاسیر میں بطور حجت پیش کئے جاتے ہیں اور اس سے انکار کرنا ایسی جہالت ہے کہ کوئی اہل علم اس کو قبول نہیں کرے گا.ماسوا اس کے یہ محاورہ صرف گذشتہ زمانہ کے اشعار میں نہیں ہے بلکہ ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بھی اس محارہ کی تائید ہوتی ہے.مثلاً ذرہ مشکوۃ کو کھولو اور کتاب الایمان کے صفحہ ۳ میں اُس حدیث کو پڑھو جو اسلام کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے جس کو متفق علیہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے عَجِبْنَا لَهُ يَسْئَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ یعنی ہم نے اس شخص کی حالت سے تعجب کیا کہ پوچھتا بھی ہے اور پھر مانتا بھی جاتا ہے.اب دیکھو کہ اس حدیث شریف میں بھی عَجِبُنَا کا صلہ لام ہی لکھا ہے اور عَجِبُنَا منْهُ نہیں لکھا بلکہ عَجِبْنَا لَهُ کہا ہے.اب کوئی مولوی صاحب انصافاً فرما ئیں کہ ایک شخص جو اپنے تئیں مولوی کہلاتا ہے بلکہ دوسرے مولویوں کا سرگروہ اور ایڈوکیٹ اپنے تئیں قرار دیتا ہے کیا اس کے لئے یہ ذلت نہیں ہے کہ.

Page 602

مجموعہ اشتہارات ۵۸۶ جلد دوم اب تک اس کو یہ خبری نہیں کہ عجب کا صلہ لام بھی آیا کرتا ہے.کیا اس قدر جہالت کہ مشکوۃ کی کتاب الایمان کی حدیث کی بھی خبر نہیں کیا یہ عزت کا موجب ہے اور اس سے مولویت کے دامن کو کوئی ذلت کا دھبہ نہیں لگتا؟ پھر جبکہ یہ امر پبلک پر عام طور پر کھل گیا اور ہزار ہا اہل علم کو معلوم ہو گیا کہ محمد حسین نہ صرف علم صرف و نحو سے ناواقف ہے بلکہ جو کچھ احادیث کے الفاظ ہیں ان سے بھی بے خبر ہے تو کیا یہ شہرت اس کی عزت کا موجب ہوئی یا اس کی ذلت کا؟ پھر تیسرا پہلو ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا یہ ہے کہ مسٹر جے.ایم ڈوئی صاحب بہادر سابق ڈپٹی کمشنر و ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور نے اپنے حکم ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء میں مولوی محمد حسین سے اس اقرار پر دستخط کرائے کہ وہ آئندہ مجھے دجال اور کافر اور کاذب نہیں کہے گا اور قادیان کو چھوٹے کاف سے نہیں لکھے گا اور اس نے عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر اقرار کیا کہ آیندہ وہ مجھے کسی مجلس میں کا فرنہیں کہے گا اور نہ میرا نام دقبال رکھے گا اور نہ لوگوں میں مجھے جھوٹا اور کاذب کر کے مشہور کرے گا.اب دیکھو کہ اس اقرار کے بعد وہ استفتاء اس کا کہاں گیا جس کو اس نے بنارس تک قدم فرسائی کر کے طیار کیا تھا.اگر وہ اس فتوی دینے میں راستی پر ہوتا تو اس کو حاکم کے روبرو یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ میرے نزدیک بے شک یہ کافر ہے اس لئے میں اس کو کافر کہتا ہوں اور دقبال بھی ہے اس لئے میں اس کا نام دجال رکھتا ہوں اور یہ شخص واقعی جھوٹا ہے اس لئے میں اس کو جھوٹا کہتا ہوں بالخصوص جس حالت میں خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے میں اب تک اور اخیر زندگی تک انہی عقائد پر قائم ہوں جن کو محمد حسین نے کلمات کفر قرار دیا ہے تو پھر یہ کس قسم کی تو دیانت ہے کہ اس نے حاکم کے خوف سے اپنے تمام فتووں کو برباد کر لیا اور حکام کے سامنے اقرار کر دیا کہ میں آئیندہ ان کو کا فرنہیں کہوں گا اور نہ اُن کا نام دجال اور کاذب رکھوں گا.پس سوچنے کے لائق ہے کہ اس سے زیادہ اور کیا ذلت ہوگی کہ اس شخص نے اپنی عمارت کو اپنے ہاتھوں سے گرایا.اگر اس عمارت کی تقویٰ پر بنیاد ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ محمد حسین اپنی قدیم عادت سے باز آ جاتا.ہاں یہ سچ ہے کہ اس نوٹس پر میں نے بھی دستخط کئے ہیں.مگر اس دستخط سے خدا اور منصفوں کے نزدیک

Page 603

مجموعہ اشتہارات ۵۸۷ جلد دوم میرے پر کچھ الزام نہیں آتا اور نہ ایسے دستخط میری ذلت کا موجب ٹھہرتے ہیں کیونکہ ابتدا سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کا فریاد قبال نہیں ہوسکتا.ہاں ضال اور جادہ صواب سے منحرف ضرور ہو گا اور میں اس کا نام بے ایمان نہیں رکھتا ہاں میں ایسے سب لوگوں کو ضال اور جادہ صدق وصواب سے دور سمجھتا ہوں جو اُن سچائیوں سے انکار کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے پر کھولی ہیں.میں بلاشبہ ایسے ہر ایک آدمی کو ضلالت کی آلودگی سے مبتلا سمجھتا کے حاشیہ.یہ نکتہ یادر کھنے کے لایق ہے کہ اپنے دعوے کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں لیکن صاحب الشریعت کے ماسوا جس قدر منہم اور محدث ہیں گو وہ کیسی ہی جناب الہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الہیہ سے سرفراز ہوں ان کے انکار سے کوئی کا فرنہیں بن جاتا.ہاں بد قسمت منکر جوان مقربان الہی کا انکار کرتا ہے وہ اپنے انکار کی شامت سے دن بدن سخت دل ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ نور ایمان اس کے اندر سے مفقود ہو جاتا ہے.اور یہی احادیث نبویہ سے مستنبط ہوتا ہے کہ انکار اولیا اور اُن سے دشمنی رکھنا اول انسان کو غفلت اور دنیا پرستی میں ڈالتا ہے اور اعمال حسنہ اور افعال صدق اور اخلاص کی ان سے تو فیق چھین لیتا ہے اور پھر آخر سلپ ایمان کا موجب ہو کر دینداری کی اصل حقیقت اور مغز سے ان کو بے نصیب اور بے بہرہ کر دیتا ہے اور یہی معنے ہیں اس حدیث کے کہ مَنْ عَادَا وَلِيًّا لِّي فَقَدْ آذَنْتُهُ لِلْحَرُب یعنی جو میرے ولی کا دشمن بنتا ہے تو میں اس کو کہتا ہوں کہ بس اب میری لڑائی کے لئے تیار ہو جا.اگر چہ اوائل عداوت میں خداوند کریم ورحیم کے آگے ایسے لوگوں کی طرف سے کسی قدر عدم معرفت کا عذر ہوسکتا ہے لیکن جب اس ولی اللہ کی تائید میں چاروں طرف سے نشان ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور نور قلب اس کو شناخت کر لیتا ہے اور اس کی قبولیت کی شہادت آسمان اور زمین دونوں کی طرف سے بہ آواز بلند کانوں کو سُنائی دیتی ہے تو نعوذ باللہ اس حالت میں جو شخص عداوت اور عناد سے باز نہیں آتا اور طریق تقوی کو بکلی الوداع کہہ کر دل کو سخت کر لیتا ہے اور عناد اور دشمنی سے ہر وقت در پے ایزا رہتا ہے تو اس حالت میں وہ حدیث مذکورہ بالا کے ماتحت آ جاتا ہے.خدا تعالیٰ بڑا کریم ورحیم ہے وہ انسان کو جلد نہیں پکڑتا لیکن جب انسان نا انصافی اور ظلم کرتا کرتا حد سے گزر جاتا اور بہر حال اس عمارت کو گرانا چاہتا ہے اور اس باغ کو جلانا چاہتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے طیار کیا ہے تو اس صورت میں قدیم سے اور جب سے کہ سلسلہ نبوت کی بنیاد پڑی ہے عادۃ اللہ یہی ہے کہ وہ ایسے مفسد کا دشمن ہو جاتا ہے اور سب سے پہلے دولت ایمان اس سے چھین لیتا ہے تب بلسم کی طرح صرف لفاظی اور زبانی قیل وقال

Page 604

مجموعہ اشتہارات ۵۸۸ جلد دوم ہوں جو حق اور راستی سے منحرف ہے لیکن میں کسی کلمہ گو کا نام کا فرنہیں رکھتا جب تک وہ میری تکفیر اور تکذیب کر کے اپنے تئیں خود کا فرنہ بنا لیوے.سو اس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ انہوں نے مجھ کو کا فرکہا.میرے لئے فتویٰ طیار کیا.میں نے سبقت کر کے ان کے لئے کوئی فتوی طیار نہیں کیا اور اس بات کا وہ خود اقرار کر سکتے ہیں کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان ہوں تو مجھ کو کافر بنانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ ان پر یہی ہے کہ وہ بقیہ حاشیہ.اس کے پاس رہ جاتی ہے اور جو نیک بندوں کی خدا تعالیٰ کی طرف نسبت انس اور شوق اور ذوق اور محبت اور تنبتک اور تقویٰ کی ہوتی ہے وہ اس سے کھوئی جاتی ہے اور وہ خود محسوس کرتا ہے کہ ایام موجودہ سے دس سال پہلے جو کچھ اس کو رقت اور انشراح اور بسط اور خدا کی طرف جھکنے اور دنیا اور اہل دنیا سے بیزاری کی حالت میں دل میں موجود تھی اور جس طرح بچے زہد کی چمک کبھی کبھی اس کو آگاہ کرتی تھی کہ وہ خدا کے عباد صالحین میں سے ہوسکتا ہے اب وہ چمک بکلی اس کے اندر سے جاتی رہی ہے.اور دنیا طلبی کی ایک آگ اس کے اندر بھڑک اُٹھتی ہے اور انکار اہل اللہ کی شامت سے اس کو یہ بھی خیال نہیں آتا کہ جس زمانہ میں اس کے خیال نیک اور پاک اور زاہد نہ تھے اب اس زمانہ کی نسبت اس کی عمر بہت زیادہ ہو گئی ہے.غرض اس کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ مجھ کو کیا ہو گیا اور دنیا طلبی میں گرا جا تا اور دنیا کا جاہ ڈھونڈتا ہے حالانکہ موت کے قریب ہوتا ہے.غرض اسی طرح ایمان کا نور اس کے دل سے چھین لیتے ہیں اور اولیاء اللہ کی عداوت سے دوسرا سبب سلپ ایمان کا یہ بھی ہو جاتا ہے کہ وہ اُس ولی اللہ کی ہر حالت میں مخالفت کرتا رہتا ہے جو سر چشمہ نبوت سے پانی پیتا ہے جس کو سچائی پر قائم کیا جاتا ہے سو چونکہ اس کی عادت ہو جاتی ہے کہ خواہ مخواہ ہر ایک ایسی سچائی کو رڈ کرتا ہے جو اس ولی کے منہ سے نکلتی ہے.اور جس قدر اس کے تائید میں نشان ظاہر ہوتے ہیں یہ خیال کر لیتا ہے کہ ایسا ہونا جھوٹوں سے ممکن ہے اس لئے رفتہ رفتہ سلسلہ نبوت بھی اس پر مشتبہ ہو جاتا ہے.لہذا انجام کار اس مخالفت کے پردہ میں اس کی ایمانی عمارت کی اینٹیں گرنی شروع ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ کسی دن کسی ایسے عظیم الشان مسئلہ کی مخالفت یا نشان کا انکار کر بیٹھتا ہے جس سے ایمان جاتا رہتا ہے.ہاں اگر کسی کا کوئی سابق نیک عمل ہو جو حضرت احدیت میں محفوظ ہو تو ممکن ہے کہ آخر کار عنایت از لی اس کو تھام لے اور وہ رات کو یا دن کو یک دفعہ اپنی حالت کا مطالعہ کرے یا بعض ایسے امور اس کی آنکھ روشن کرنے کے لئے پیدا ہو جائیں جن سے یکدفعہ وہ خواب غفلت سے جاگ اُٹھے.وَ ذَالِکَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم - من منه

Page 605

مجموعہ اشتہارات ۵۸۹ جلد دوم خود کافر ہیں.سوئیں ان کو کافر نہیں کہتا بلکہ وہ مجھ کو کافر کہہ کر خود فتوی نبوی کے نیچے آتے ہیں.سو اگر مسٹر ڈوئی صاحب کے رو برومیں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ میں اُن کو کا فرنہیں کہوں گا تو واقعی میرا یہی مذہب ہے کہ میں کسی مسلمان کو کافر نہیں جانتا ہاں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ جو شخص مسلمان ہوکر ایک بچے ولی اللہ کے دشمن بن جاتے ہیں ان سے نیک عملوں کی تو فیق چھین لی جاتی اور دن بدن اُن کے دل کا نور کم ہوتا جاتا یہاں تک کہ ایک دن چراغ سحری کی طرح گل ہو جاتا ہے.سو یہ میرا عقیدہ اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے.غرض جس شخص نے ناحق جوش میں آکر مجھے کوکا فر قرار دیا اور میرے لئے فتوی طیار کیا کہ یہ شخص کا فر دجال کذاب ہے اس نے خدا تعالیٰ کے حکم سے تو کچھ خوف نہ کیا کہ وہ اہل قبلہ اور کلمہ گو کو کیوں کافر بناتا ہے اور ہزار ہا بندگان خدا کو جو کتاب اللہ کے تابع اور شعار اسلام ظاہر کرتے ہیں کیوں دائرہ اسلام سے خارج کرتا ہے لیکن مجسٹریٹ ضلع کی ایک دھمکی سے ہمیشہ کے لئے یہ قبول کر لیا کہ میں آئندہ ان کو کافر اور دجال اور کذاب نہیں کہوں گا اور آپ ہی فتویٰ طیار کیا اور آپ ہی حکام کے خوف سے منسوخ کر دیا اور ساتھ ہی جعفر زٹلی وغیرہ کی قلمیں ٹوٹ گئیں اور با ایں ہمہ رسوائی پھر محمد حسین نے اپنے دوستوں کے پاس یہ ظاہر کیا کہ فیصلہ میری منشاء کے موافق ہوا ہے.لیکن سوچ کر دیکھو کہ کیا محمد حسین کا یہی منشاء تھا کہ آئندہ مجھے کا فرنہ کہے اور تکذیب نہ کرے اور ان باتوں سے تو بہ کر کے اپنا منہ بند کر لے اور کیا جعفر زٹلی یہ چاہتا تھا کہ اپنی گندی تحریروں سے باز آ جائے ؟ پس اگر یہ وہی بات نہیں جو اشتہار ۱۸۹۸ء کی پیشگوئی پوری ہوگئی اور خدا نے میرے ذلیل کرنے والے کو ذلیل کیا ہے تو اور کیا ہے؟ جس شخص نے اپنے رسالوں میں یہ عہد شائع کیا تھا کہ میں اس شخص کو مرتے دم تک کا فراور دقبال کہتا رہوں گا جب تک وہ میرا مذ ہب قبول نہ کرے تو اس میں اس کی کیا عزت رہی جو اس عہد کو اُس نے توڑ دیا.اور وہ جعفر زٹلی جو گندی گالیوں سے کسی طرح باز نہیں آتا تھا اگر ذلت کی موت اس پر وارد نہیں ہوئی تو اب کیوں نہیں گالیاں نکالتا اور اب ابوالحسن تبتی کہاں ہے اس کی زبان کیوں بند ہوگئی.کیا اس کے گندے ارادوں پر کوئی انقلاب نہیں آیا.پس یہی تو وہ ذلت ہے جو

Page 606

مجموعہ اشتہارات ۵۹۰ جلد دوم پیشگوئی کا منشا تھا کہ ان سب کے منہ میں لگام دی گئی اور درحقیقت اس الہام کی تشریح جوا۲ نومبر ۱۸۹۸ء کو ہوا اس الہام نے دوبارہ کر دی ہے جو بتاریخ ۲۱ رفروری ۱۸۹۹ء رسالہ حقیقت المہدی میں شائع کیا گیا.بلکہ عجیب تر بات یہ ہے کہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں جو الہام شائع ہوا تھا اس میں ایک یہ فقرہ تھا کہ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ اور پھر یہی فقرہ ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء کے الہام میں بھی جو ا۲ نومبر ۱۸۹۸ء کے الہام کے لئے بطور شرح کے آیا ہے جیسا کہ رسالہ حقیقت المہدی کے صفحہ ۱۲ سے ظاہر ہے.پس ان دونوں الہاموں کے مقابلہ سے ظاہر ہوگا کہ یہ دوسرا الہام جو ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء کے الہام سے قریباً تین ماہ بعد ہوا ہے اس پہلے الہام کی تشریح کرتا ہے اور اس بات کو کھول کر بیان کرتا ہے کہ وہ ذلّت جس کا وعدہ اشتہا ر ۲۱ رنومبر ۱۸۹۸ء میں تھا وہ کس رنگ میں پوری ہو گی.اسی غرض سے یہ مؤخر الذکر الہام جو ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء کو ہوا پہلے الہام کے ایک فقرہ کا اعادہ کر کے ایک اور فقرہ بطور تشریح اس کے ساتھ بیان کرتا ہے یعنی پہلا الهام جو اشتہا ر ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے جو محمد حسین اور جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی کی ذلت کی پیشگوئی کرتا ہے اس میں یہ فقرہ تھا کہ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ یعنی ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور دوسرے الہام میں جو ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء میں بذریعہ رسالہ حقیقت المہدی شائع ہوا اس میں یہی فقرہ ایک زیادہ فقرہ کے ساتھ اس طرح پر لکھا گیا ہے يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وَ يُؤْثِقُ اور اس فقرہ کے معنے اسی رسالہ حقیقت المہدی کے صفحہ ۱۲ کی اخیر سطر اور صفحہ ۱۳ کی پہلی سطر میں یہ بیان کئے گئے ہیں.ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا.اب دیکھو کہ اس تشریح میں صاف بتلایا گیا ہے کہ ذلت کس قسم کی ہوگی یعنی یہ ذلت ہوگی کہ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی اپنی گندی اور بے حیائی کی تحریروں سے روکے جائیں گے اور جوسلسلہ انہوں نے گالیاں دینے اور بے حیائی کے بے جا حملوں اور ہماری پرائیویٹ زندگی اور خاندانی تعلقات کی نسبت نہایت درجہ کی کمینہ پن کی شرارت اور بد زبانی اور افترا اور جھوٹ سے شائع کیا تھا وہ جبر ابند کیا جائے گا.

Page 607

مجموعہ اشتہارات ۵۹۱ جلد دوم اب سوچو کہ کیا وہ سلسلہ بند کیا گیا یا نہیں اور کیا وہ شیطانی کا رروائیاں جو نا پاک زندگی کا خاصہ ہوتی ہیں جن کی بے جا غلو سے پاک دامن بیویوں آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گندہ زبانی کے حملے کرنے کی نوبت پہنچ گئی تھی کیا یہ پلید اور بے حیائی کے طریق جو محمد حسین اور اس کے دوست جعفر زٹلی نے اختیار کئے تھے حاکم مجاز کے حکم سے رو کے گئے یا نہیں اور کیا یہ گندہ زبانی کی عادت جس کو کسی طرح یہ لوگ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے چھوڑا ئی گئی یا نہیں.پس ایک عقل مند انسان کے لئے یہ ذلت کچھ تھوڑی نہیں کہ اس کے خلاف تہذیب اور بے حیائی اور سفلہ پن کی عادات کے کاغذات عدالت میں پیش کئے جائیں اور پڑھے جائیں اور عام اجلاس میں سب پر یہ بات کھلے اور ہزار ہا لوگوں میں شہرت پاوے کہ مولوی کہلا کر ان لوگوں کی یہ تہذیب اور یہ شائستگی ہے.اب خود سوچ لو کہ کیا اس حد تک کسی شخص کی گندی کارروائیاں گندی عادات گندے اخلاق حکام اور پبلک پر ظاہر ہونا کیا یہ عزت ہے یا بے عزتی ؟ اور کیا ایسے نفرتی اور نا پاک شیوہ پر عدالت کی طرف سے مواخذہ ہونا یہ کچھ سرفرازی کا موجب ہے یا شانِ مولویت کو اس سے ذلت کا دھبہ لگتا ہے.اگر ہمارے معترضوں میں حقائق شناسی کا کانشنس کچھ باقی رہتا تو ایسا صریح باطل اعتراض ہرگز پیش نہ کرتے کہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار کی ذلت کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی کیونکہ یہ پیشگوئی تو ایسے زور شور سے پوری ہوگئی کہ عدالت کے کمرہ میں ہی لوگ بول اُٹھے کہ آج خدا کا فرمودہ پورا ہو گیا.صد ہا لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ جب محمد حسین کو یہ فہمالیش کی گئی کہ آئندہ ایسی گندی تحریر میں شائع نہ کرے اور کافر اور دجال اور کا ذب بھی نہ کہے تو مسٹر برون صاحب ہمارا وکیل بھی بے اختیار بول اُٹھا کہ پیشگوئی پوری ہوگئی.یادر ہے کہ موجودہ کا غذات کے رُو سے جو عدالت کے سامنے تھے عدالت نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ محمدحسین نے مع جعفر زٹلی کے یہ زیادتی کی ہے کہ مجھے نہایت گندی گالیاں دی ہیں اور میرے پرائیویٹ تعلقات میں سفلہ پن سے گندہ دہانی ظاہر کی ہے یہاں تک کہ تصویر میں چھاپی ہیں لیکن عدالت نے احتیاطاً آئندہ کی روک کے لئے اس نوٹس میں فریقین کو

Page 608

مجموعہ اشتہارات ۵۹۲ جلد دوم شامل کر لیا تا اس طریق سے بکلی سد باب کرے.مسٹر جے.ایم ڈوئی صاحب زندہ موجود ہیں جن کے سامنے یہ کا غذات پیش ہوئے تھے اور اب تک وہ مثل موجود ہے جس میں وہ تمام کاغذات نتھی کئے گئے.کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ عدالت میں محمد حسین کی طرف سے بھی کوئی ایسے کاغذات پیش ہوئے جن میں میں نے بھی سفلہ پن کی راہ سے گندی تحریر میں شایع کی ہوں.عدالت نے اپنے نوٹس میں قبول کر لیا ہے کہ ان گندی تحریروں کے مقابل پر جو سراسر حیا اور تہذیب کے مخالف تھیں میری طرف سے صرف یہ کارروائی ہوئی کہ میں نے جناب الہی میں اپیل کیا.اب ظاہر ہے کہ ایک شریف کے لئے یہ حالت موت سے بدتر ہے کہ اس کا یہ رویہ عدالت پر کھل جائے کہ وہ ایسی گندہ زبانی کی عادت رکھتا ہے بلکہ ایک شریف تو اس خجالت سے جیتا ہی مر جاتا ہے کہ حاکم مجاز عدالت کی کرسی پر اس کو یہ کہے کہ یہ کیا گندہ طریق ہے جو تو نے اختیار کیا اور ان کا رروائیوں کا نتیجہ ذلت ہونا یہ تو ایک ادنی امر ہے.خود پولیس کے افسر جنہوں نے مقدمہ اُٹھایا تھا ان سے پوچھنا چاہیے کہ اس کارروائی کے دوران میں جبکہ وہ محمد حسین اور جعفر زٹلی کی گندہ زبانی کے کاغذات پیش کر رہے تھے کیا میری گندہ زبانی کا بھی کوئی کاغذان کو ملا جس کو انہوں نے عدالت میں پیش کیا اور چاہو تو محمد حسین کو حلفاً پوچھ کر دیکھ لو کہ کیا جو واقعات عدالت میں تم پر گزرے اور جبکہ عدالت نے تم سے سوالات کئے کہ کیا یہ گندی تحریریں تمہاری تحریریں ہیں اور کیا جعفر زٹلی سے تمہارا کچھ تعلق ہے یا نہیں تو ان سوالات کے وقت تمہارے دل کا کیا حال تھا.کیا اُس وقت تمہارا دل حاکم کے ان سوالات کو اپنی عزت سمجھتا تھا یا ذلّت سمجھ کر غرق ہوتا جاتا تھا.اگر اتنے واقعات کے جمع ہونے سے جو ہم لکھ چکے ہیں پھر بھی ذلّت نہیں ہوئی اور عزت میں کچھ بھی فرق نہیں آیا تو ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ آپ لوگوں کی عزت بڑی پکی ہے.پھر ماسوا اس کے ۲۱ رنومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار کی میعاد کے اندر کئی اور ایسے امور بھی ظاہر ہوئے ہیں جن سے بلا شبہ مولوی محمد حسین صاحب کی عالمانہ عزت میں اس قدر فرق آیا ہے کہ گویا وہ خاک میں مل گئی ہے.از انجملہ ایک یہ ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے پر چہ پیسہ اخبار

Page 609

مجموعہ اشتہارات ۵۹۳ جلد دوم اور اخبار عام میں کمال حق پوشی کی راہ میں یہ شائع کر دیا تھا کہ وہ مقدمہ جو پولیس کی رپورٹ پر مجھ پر اور اُن پر دائر کیا گیا تھا جو ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء میں فیصلہ ہوا اس میں گویا یہ عاجز بری نہیں ہوا بلکہ ڈسچارج ہوا اور بڑے زور شور سے یہ دعوی کیا تھا کہ فیصلہ میں مسٹر ڈوئی صاحب کی طرف سے ڈسچارج کا لفظ ہے اور ڈسچارج بری کو نہیں کہتے بلکہ جس پر جرم ثابت نہ ہو سکے اس کا نام ڈسچارج ہے اور اس اعتراض سے محمد حسین کی غرض یہ تھی کہ تا لوگوں پر یہ ظاہر کرے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی لیکن جیسا کہ ہم کتاب تریاق القوب کے صفحہ ۸۱ میں تحریر کر چکے ہیں یہ اس کی طرف سے محض افترا تھا اور دراصل ڈسچارج کا ترجمہ بری ہے اور کچھ نہیں اور اس نے عقل مندوں کے نزدیک بری کے انکار سے اپنی بڑی پردہ دری کرائی کہ اس بات سے انکار کیا کہ ڈسچارج کا ترجمہ بری نہیں ہے.چنانچہ اسی صفحہ مذکورہ یعنی صفحہ ۸ میں بہ تفصیل میں نے لکھ دیا ہے کہ انگریزی زبان میں کسی کو جرم سے بری سمجھنے یا بری کرنے لئے دو لفظ استعمال ہوتے ہیں (۱) ایک ڈسچارج (۲) دوسرے ایکسٹ.ڈسچارج اُس جگہ بولا جاتا ہے کہ جہاں حاکم مجوز کی نظر میں جرم کا ابتدا سے ہی کچھ ثبوت نہ ہو اور تحقیقات کے تمام سلسلہ میں کوئی ایسی بات پیدا نہ ہو جو اس کو ایسا مجرم ٹھہرا سکے اور فرد قرارداد جرم قائم کرنے کے لائق کر سکے.غرض اس کے دامن عصمت پر کوئی غبار نہ پڑ سکے اور بوجہ اس کے کہ جُرم کے ارتکاب کا کچھ بھی ثبوت نہیں ملزم کو چھوڑا جائے.اور ایکٹ اُس جگہ بولا جاتا ہے جہاں اوّل مجرم ثابت ہو جائے اور فرد قرار داد جُرم لگائی جائے اور پھر مجرم اپنی صفائی کا ثبوت دے کر اس الزام سے رہائی پائے.غرض ان دونوں لفظوں میں قانونی طور پر فرق یہی ہے کہ ڈسچارج وہ بریت کی قسم ہے کہ جہاں سرے سے جرم ثابت ہی نہ ہو سکے اور ایکسٹ وہ بریت کی قسم ہے کہ جہاں جرم تو ثابت ہو جائے اور فرد قرار داد بھی لگ جائے مگر آخر میں ملزم کی صفائی ثابت ہو جائے اور عربی میں بریت کا لفظ ایک تھوڑے سے تصرف کے ساتھ ان دونوں مفہوموں پر مشتمل ہے یعنی جب ایک ملزم ایسی حالت میں چھوڑا جائے کہ اس کے دامن عصمت پر کوئی دھبہ جرم کا لگ نہیں سکا اور وہ ابتدا سے کبھی اس نظر سے دیکھا ہی نہیں گیا کہ وہ مجرم ہے یہاں تک کہ جیسا کہ وہ داغ سے پاک عدالت کے کمرہ میں آیا ویسا

Page 610

مجموعہ اشتہارات ۵۹۴ جلد دوم ہی داغ سے پاک عدالت کے کمرہ سے نکل گیا.ایسی قسم کے ملزم کو عربی زبان میں بری کہتے ہیں اور جب ایک ملزم پر مجرم ہونے کا قوی طبہ گذر گیا اور مجرموں کی طرح سے اُس سے کارروائی کی گئی اور اس تمام ذلّت کے بعد اُس نے اپنی صفائی کی شہادتوں کے ساتھ اس شبہ کو اپنے سر پر سے دُور کر دیا تو ایسے ملزم کا نام عربی زبان میں مُبرء ہے.پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ ڈسچارج کا عربی میں ٹھیک ٹھیک ترجمہ بری ہے اور ایکسٹ کا ترجمہ مُبرَّءُ ہے.عرب کے یہ دو مقولے ہیں کہ اَنَا بَرِيءٌ مِّنْ ذَالِكَ وَأَنَا مُبَرَّءُ مِّنُ ذَالِكَ پہلے قول کے یہ معنے ہیں کہ میرے پر کوئی تہمت ثابت نہیں کی گئی اور دوسرے قول کے یہ معنے ہیں کہ میری صفائی ثابت کی گئی ہے اور قرآن شریف میں یہ دونوں محاورے موجود ہیں.چنانچہ بُری کا لفظ قرآن شریف اور بعینہ ڈسچارج کے معنوں پر بولا گیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَمَنْ تَكْسِبُ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيْئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانَاوَ اثْمًا مبينا له الجز نمبر ۵ سوره نساء - یعنی جو شخص کوئی خطا یا کوئی گناہ کرے اور پھر کسی ایسے شخص پر وہ گناہ لگاوے جس پر وہ گناہ ثابت نہیں تو اُس نے ایک کھلے کھلے بہتان اور گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر لیا اور مبرء کی مثال قرآن شریف میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أُولَبِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُون ہے یہ اس مقام کی آیت ہے کہ جہاں بے لوث بے گناہ ہونا ایک کا ایک وقت تک مشتبہ رہا.پھر خدا نے اس کی طرف سے ڈیفنس پیش کر کے اس کی بریت کی.اب آیت يَـرم بـه بَرِينا سے یہ ہداہت ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کا نام بُری رکھا ہے جس پر کوئی گناہ ثابت نہیں کیا گیا.اور یہی وہ مفہوم ہے جس کو انگریزی میں ڈسچارج کہتے ہیں.لیکن اگر کوئی مکابرہ کی راہ سے یہ کہے کہ اس جگہ بری کے لفظ سے وہ شخص مراد ہے جو مجرم ثابت ہونے کے بعد اپنے صفائی کے گواہوں کے ذریعہ سے اپنی بریت ظاہر کرے تو ایسا خیال بدیہی طور پر باطل ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کا بُری کے لفظ سے یہی منشاء ہے تو اس سے یہ خرابی پیدا ہو گی کہ اس آیت سے یہ فتوی ملے گا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسے شخص پر جس کا گناہ ثابت نہیں کسی گناہ کی تہمت لگانا کوئی جرم نہیں ہوگا گووہ ا النساء :١١٣ النور: ۲۷

Page 611

مجموعہ اشتہارات ۵۹۵ جلد دوم مستور الحال شریفوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہو اور صرف یہ کسر ہو کہ ابھی اس نے بے قصور ہونا عدالت میں حاضر ہو کر ثابت نہیں کیا حالانکہ ایسا سمجھنا صریح باطل ہے اور اس سے تمام تعلیم قرآن شریف کی زیر و زبر ہو جاتی ہے کیونکہ اس صورت میں جائز ہوگا کہ جولوگ مثلاً ایسی مستور الحال عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جنہوں نے عدالت میں حاضر ہو کر اس بات کا ثبوت نہیں دیا کہ وہ ہر قسم کی بدکاری سے مدت العمر سے محفوظ رہی ہیں وہ کچھ گناہ نہیں کرتے اور اُن کو روا ہے کہ مستور الحال عورتوں پر ایسی تہمتیں لگایا کریں حالانکہ ایسا خیال کرنا اس مندرجہ ذیل آیت کی رو سے صریح حرام اور معصیت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِيْنَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَنِيْنَ جَلْدَةٌ لے یعنی جو لوگ ایسی عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جن کا زنا کا ر ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ مستور الحال ہیں اگر وہ لوگ چار گواہ سے اپنے اس الزام کو ثابت نہ کریں تو اُن کو اسی درّے مارنے چاہیں.اب دیکھو کہ ان عورتوں کا نام خدا نے بری رکھا ہے جن کا زانیہ ہونا ثابت نہیں.پس بَری کے لفظ کی یہ تشریح بعینہ ڈسچارج کے مفہوم سے مطابق ہے کیونکہ اگر بَری کا لفظ جو قرآن نے آیات يَرُمِ بِهِ بَرِيئًا میں استعمال کیا ہے صرف ایسی صورت پر بولا جاتا ہے کہ جبکہ کسی کو مجرم ٹھہرا کر اس پر فرد قرارداد مجرم لگائی جائے اور پھر وہ گواہوں کی شہادت سے اپنی صفائی ثابت کرے اور استغاثہ کا ثبوت ڈیفنس کے ثبوت سے ٹوٹ جائے تو اس صورت میں ہر ایک شریر کو آزادی ہو گی کہ ایسی تمام عورتوں پر زنا کا الزام لگا وے جنہوں نے متعمد گواہوں کے ذریعہ سے عدالت میں ثابت نہیں کر دیا کہ وہ زانیہ نہیں ہیں خواہ وہ رسولوں اور نبیوں کی عورتیں ہوں اور خواہ صحابہ کی اور خواہ اولیاء اللہ کی اور خواہ اہل بیت کی عورتیں ہوں اور ظاہر ہے کہ آیت يَرم به بَرِيعا میں بَری کے لفظ کے ایسے معنے کرنے صاف الحاد ہے جو ہرگز خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں بری کے لفظ سے خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ جو النور : ۵

Page 612

مجموعہ اشتہارات ۵۹۶ جلد دوم مستور الحال لوگ ہیں خواہ مرد ہیں خواہ عورتیں ہیں جن کا کوئی گناہ ثابت نہیں وہ سب بُری کے نام کے مستحق ہیں اور بغیر ثبوت ان پر کوئی تہمت لگا نا فسق ہے جس سے خدا تعالیٰ اس آیت میں منع فرماتا ہے کہ اگر کسی کو نبیوں اور رسولوں کی کچھ پرواہ نہ ہو اور اپنی ضد سے باز نہ آوے تو پھر ذرہ شرم کر کے اپنی عورتوں کی نسبت ہی کچھ انصاف کرے کہ کیا اگر ان پر کوئی شخص ان کی عفت کے مخالف کوئی ایسی ناپاک تہمت لگاوے جس کا کوئی ثبوت نہ ہو تو کیا وہ عورتیں آیت يَومِ بِه بَرِيئًا کی مصداق ٹھہر کر بری سمجھی جاسکتی ہیں اور ایسا تہمت لگانے والا سزا کے لائق ٹھہرتا ہے یا وہ محض اس حالت میں بری سمجھی جائیں گی جبکہ وہ اپنی صفائی اور پاک دامنی کے بارے میں عدالت میں گواہ گذرا نہیں اور جب تک وہ بذریعہ شہادتوں کے اپنی عفت کا عدالت میں ثبوت نہ دیں تب تک جو شخص چاہے ان کی عفت پر حملہ کیا کرے اور ان کو غیر بری قرار دے.اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ میں بار ثبوت تہمت لگانے والے پر رکھا ہے اور جب تک تہمت لگانے والا کسی گناہ کو ثابت نہ کرے تب تک تمام مردوں اور عورتوں کو بری کہلانے کے مستحق ٹھہرایا ہے.پس قرآن اور زبان عرب کے رو سے بری کے معنے ایسے وسیع ہیں کہ جب تک کسی پر کسی جرم کا ثبوت نہ ہو وہ بُری کہلائے گا کیونکہ انسان کے لئے بری ہونا طبعی حالت ہے اور گناہ ایک عارضہ ہے جو پیچھے سے لاحق ہوتا ہے.لہذا ہر ایک انسان جب تک اس کا کوئی جرم ثابت نہ ہو بُری کہلانے کا حقدار ہے کیونکہ طبیعی حالت بغیر کسی عارضہ لاحقہ کے دُور نہیں ہوسکتی.ایک اور امر عظیم الشان ہے جو اشتہا ر ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کی میعاد میں ظہور میں آیا جس سے اشتہار مذکورہ کی پیشگوئی کا پورا ہونا اور بھی وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ پیشگوئی جو چوتھا لڑکا ہونے کے بارے میں ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۵۸ میں کیگئی تھی جس کے ساتھ یہ شرط تھی کہ عبد الحق غز نوی جو امرت سر میں مولوی عبدالجبار غزنوی کی جماعت میں رہتا ہے نہیں مرے گا جب تک یہ چوتھا لڑکا پیدا نہ ہولے.وہ پیشگوئی اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کی میعاد کے اندر پوری ہوگئی اور وہ لڑکا بفضلہ تعالیٰ ۱۴ جون ۱۸۹۹ء کو مطابق ۴ صفر ۱۳۱۷ھ پیدا ہو گیا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا اور

Page 613

مجموعہ اشتہارات ۵۹۷ جلد دوم جیسا کہ پیشگوئی میں شرط تھی کہ عبد الحق غزنوی اس وقت تک زندہ ہوگا کہ چوتھا لڑکا پیدا ہو جائے گا.ایسا ہی ظہور میں آیا اور اب اس وقت تک کہ ۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۹ء ہے ہر ایک شخص امرت سر میں جا کر تحقیق کر لے کہ عبد الحق اب تک زندہ ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ یہ صاف صاف اور کھلی کھلی پیشگوئی محمد حسین اور اس کے گروہ کی عزت کا موجب نہیں ہو سکتی کیونکہ خدا نے ایسے انسان کی دعا کو قبول کر کے جو محمد حسین اور اس کے گروہ کی نظر میں کافر اور دجال ہے اس کی پیشگوئی کے مطابق عبد الحق غزنوی کی زندگی میں اس کو پسر چہارم عطا فرمایا یہ ایک تائید الہی ہے جو بجز صادق انسان کے اور کسی کے لئے ہر گز نہیں ہوسکتی.پس جب کہ اس پیشگوئی کا میعاد کے اندر پورا ہو جانا اور عبدالحق کی زندگی میں ہی اس کا ظہور میں آنا میری عزت کا موجب ہوا تو بلا شبہ محمد حسین اور اس کے گروہ جعفر زٹلی وغیرہ کی ذلت کا موجب ہوا ہو گا.یہ اور بات ہے کہ یہ لوگ ہر ایک بات میں اور ہر ایک موقعہ پر یہ کہتے رہیں کہ ہماری کچھ بھی ذلت نہیں ہوئی.لیکن جو شخص منصف ہو کر ان تمام واقعات کو پڑھے گا اس کو تو بہر حال ماننا پڑے گا کہ بلاشبہ ذلت ہو چکی ہے.اس جگہ ہمیں افسوس سے یہ بھی لکھنا پڑا ہے کہ پرچہ اخبار عام ۲۳ نومبر ۱۸۹۹ء میں ایک شخص ثناء اللہ نام امرت سری نے یہ مضمون چھپوایا ہے کہ اب تک مولوی محمد حسین کی کچھ بھی ذلّت نہیں ہوئی.ہم حیران ہیں کہ اس صریح خلاف واقعہ امر کا کیا جواب لکھیں.ہم نہیں جانتے کہ ثناء اللہ صاحب کے خیال میں ذلت کس کو کہتے ہیں.ہاں ہم یہ قبول کرتے ہیں کہ ذلت کئی قسم کی ہوتی ہے اور انسانوں کے ہر ایک طبقہ کے مناسب حال ایک قسم کی ذلت ہے.مثلاً زمینداروں میں سے ایک وہ ہیں جو فقط سرکاری دستک جاری ہونے سے اپنی ذلت خیال کرتے ہیں اور ان کے مقابل پر اس قسم کے زمیندار بھی دیکھے جاتے ہیں کہ قسط مالگذاری بر وقت ادا نہ ہونے کی وجہ سے تحصیل کے چپراسی ان کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور بوجہ نہ ادا ئیگی معاملہ کے سخت گوشمالی کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات دو چار جوتے ان کو مار بھی دیتے ہیں.اور وہ زمیندار ہنسی خوشی سے مار کھا لیتے ہیں اور ذرہ خیال نہیں کرتے کہ کچھ بھی ان کی بے عزتی ہوئی ہے اور ان سے بھی زیادہ بعض شریر چوہڑوں اور

Page 614

مجموعه اشتہارات ۵۹۸ جلد دوم چماروں اور ساہنسیوں میں سے ایسے ہوتے ہیں کہ جو جیل خانہ میں جاتے ہیں اور چوتڑوں پر بید بھی کھاتے ہیں اور با ایں ہمہ کبھی نہیں سمجھتے کہ ہماری عزت میں کچھ بھی فرق آیا ہے بلکہ جیل میں ہنستے رہتے اور گاتے رہتے ہیں گویا ایک نشے میں ہیں.اب چونکہ عزتیں کئی قسم کی اور ذلتیں بھی کئی قسم کی ہیں اس لئے یہ بات میاں ثناء اللہ سے پوچھنے کے لایق ہے کہ وہ کس امر کو شیخ محمد حسین کی ذلت قرار دیتے ہیں.اور اگر اتنی قابل شرم باتوں میں سے جو بیچارے محمد حسین کو پیش آئیں اب تک اس کی کچھ بھی ذلت نہیں ہوئی تو ہمیں سمجھا دیں کہ وہ کونسی صورت تھی جس سے اس کی ذلت ہو سکتی اور بیان فرما دیں کہ جو مولوی محمدحسین جیسی شان اور عزت کا آدمی ہو اس کی ذلت کس قسم کی بے عزتی میں متصور ہے.اب تک تو ہم یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ شریف اور معزز انسانوں کی عزت نہایت نازک ہوتی ہے اور تھوڑی سی کسر شان سے عزت میں فرق آ جاتا ہے.مگر اب میاں ثناء اللہ صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام قابل شرم امور سے مولوی صاحب موصوف کی عزت میں کچھ بھی فرق نہیں آیا.پس اس صورت میں ہم اس انکار کا کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے جب تک کہ میاں ثناء اللہ کھول کر ہمیں نہ بتلاویں کہ کس قسم کی ذلت ہونی چاہیے تھی جس سے موحدین کے اس ایڈوکیٹ کی عزت میں فرق آجاتا.اگر وہ معقول طور پر ہمیں سمجھا دیں گے کہ شریفوں اور معزز وں اور ایسے نامی علماء کی ذلت اس قسم کی ہونی ضروری ہے تو اس صورت میں اگر ہماری پیشگوئی کے رو سے وہ خاص ذلّت نہیں پہنچی جو پہنچنی چاہیے تھی تو ہم اقرار کر دیں گے کہ ابھی پیشگوئی پورے طور پر ظہور میں نہیں آئی.لیکن اب تک تو ہم مولوی محمد حسین کی عالمانہ حیثیت پر نظر کر کے یہی سمجھتے ہیں کہ پیشگوئی ان کی حیثیت کے مطابق اور نیز الہامی شرط کے مطابق پورے طور پر ظہور میں آچکی.لے الہامی شرط یہ تھی کہ محمدحسین اور اس کے دور فیقوں کی ذلت صرف اسی قسم کی ہوگی جس قسم کی ذلت انہوں نے پہنچائی تھی جیسا کہ الہام مندرجہ اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ.پس الہامی شرط کو نظر انداز کر کے اعتراض اُٹھانا نا دان متعصبوں کا کام ہے نہ عقلمندوں اور منصفوں کا.منہ

Page 615

مجموعہ اشتہارات ۵۹۹ جلد دوم مدت ہوئی کہ ہمیں ان تمام مولویوں سے ترک ملاقات ہے ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں کہ یہ لوگ اپنی بے عزتی کسی حد کی ذلت میں خیال کرتے ہیں اور کسی حد کی ذلت کو ہضم کر جاتے ہیں.میاں ثناء اللہ کو اعتراض کرنے کا بے شک حق ہے مگر ہم جواب دینے سے معذور ہیں جب تک وہ کھول کر بیان نہ کریں کہ بے عزتی تب ہوتی تھی جب ایسا ظہور میں آتا.ہم قبول کرتے ہیں کہ انسانوں کی مختلف طبقوں کے لحاظ سے بے عزتی بھی مختلف طور پر ہے اور ہر ایک کے لئے وجوہ ذلت کے جدا جدا ہیں لیکن ہمیں کیا خبر ہے کہ آپ لوگوں نے مولوی محمد حسین کو کس طبقہ کا انسان قرار دیا ہے اور اس کی ذلت کن امور میں تصویر فرمائی ہے.ہماری دانست میں تو میاں ثناء اللہ کو مولوی محمد حسین صاحب سے کوئی پوشیدہ کینہ ہے کہ وہ اب تک ان کی اس درجہ کی ذلت پر راضی نہیں ہوئے جو شریفوں اور معززوں اور اہل علم کے لئے کافی ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا میں ذلت تین قسم کی ہوتی ہے ایک تو جسمانی ذلت جس کے اکثر جرائم پیشہ تختہ مشق ہوتے رہتے ہیں.دوسرے اخلاقی ذلّت.یہ تب ہوتی ہے جبکہ کسی کی اخلاقی حالت نہایت گندی ثابت ہو اور اس پر اس کو سرزنش ہو.تیسرے علمی پردہ دری کی ذلت جس سے عالمانہ حیثیت خاک میں ملتی ہے.اب ظاہر ہے کہ اخلاقی ذلت ظہور میں آ چکی ہے.اگر کسی کو شک ہے تو اس مثل کو ملاحظہ کرے جو مسٹر جے ایم ڈوئی صاحب کی عدالت میں طیار ہوئی ہے.ایسا ہی عالمانہ حیثیت کی ذلت ظہور میں آچکی اور عجبت کے صلہ پر جو اعتراض محمد حسین صاحب نے کیا ہے اور پھر جو ڈسچارج کا ترجمہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ڈسچارج کا ترجمہ بری نہیں ہے.ان دونوں اعتراضوں سے صاف طور پر کھل گیا کہ علاوہ کمالات نحو دانی اور حدیث دانی کے آپ کو قانون انگریزی میں بھی کچھ دخل ہے اور یادر ہے کہ دشمن کی ذلت ایک قسم کی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے مخالف کو جس کے ذلیل کرنے کے لئے ہر دم تدبیریں کرتا اور طرح طرح کے مکر استعمال میں لاتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے عزت مل جائے.سو اس قسم کی ذلت بھی ظاہر ہے کیونکہ ڈوئی صاحب کے مقدمہ کے بعد جو کچھ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے میری طرف ایک دُنیا کو رجوع دیا اور دے رہا

Page 616

مجموعہ اشتہارات ۶۰۰ جلد دوم ہے یہ ایک ایسا امر ہے جو اس شخص کی اس میں صریح ذلّت ہے جو اس کے برخلاف میرے لئے چاہتا تھا.ہاں میاں ثناء اللہ کے تین اعتراض اور باقی ہیں اور وہ یہ کہ وہ پر چہ اخبار عام میں یہ کہتا ہے کہ محمد حسین کو چار مربع زمین مل گئی ہے اور کسی ریاست میں اس کا کچھ وظیفہ مقرر ہو گیا ہے.اور مسٹر جے ایم ڈوئی صاحب نے اس کی منشاء کے موافق مقدمہ کیا ہے.“ تیسرے اعتراض کے جواب کی کچھ ضرورت نہیں کیونکہ ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ یہ دعوی تو سراسر ترک حیا ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ محمد حسین کی منشاء کے موافق مقدمہ ہوا ہے.خود محمد حسین کو قسم دے کر پوچھنا چاہیے کہ اس کا منشاء تھا کہ آئندہ وہ کافر اور دجال اور کاذب کہنے سے باز آ جائے اور کیا اس کا یہ منشاء تھا کہ آئندہ گالیوں اور مخش کہنے اور کہانے سے باز آ جائے؟ پھر کون منصف اور صاحب حیا کہہ سکتا ہے کہ یہ مقدمہ محمد حسین کی منشاء کے موافق ہوا.ہاں اگر یہ اعتراض ہو کہ ہمیں بھی آئندہ موت اور ذلت کی پیشگوئی کرنے سے روکا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ہماری کارروائی خود اُس وقت سے پہلے ختم ہو چکی تھی کہ جب ڈوئی صاحب کے نوٹس میں ایسا لکھا گیا بلکہ ہم اپنے رسالہ انجام آتھم میں بتفریح لکھ چکے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو آئیندہ مخاطب کرنا بھی نہیں چاہتے جب تک یہ ہمیں مخاطب نہ کریں اور ہم بدل بیزار اور متنفر ہیں کہ ان لوگوں کا نام بھی لیں چہ جائیکہ ان کے حق میں پیشگوئی کر کے اسی قدر خطاب سے ان کو کچھ عزت دیں.ہمارا مدعا تین فرقوں کی نسبت تین پیشگوئیاں تھیں.سو ہم اپنے اس مدعا کو پورا کر چکے.اب کچھ بھی ہمیں ضرورت نہیں کہ ان لوگوں کی موت اور ذلت کی نسبت پیشگوئی کریں اور یہ الزام کہ آئیندہ عموماً الہامات کی اشاعت کرنے اور ہرقسم کی پیشگوئیوں سے روکا گیا ہے یہ ان لوگوں کی باتیں ہیں جو وعید لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ میں داخل ہیں.اب بھی ہم اس مقدمہ کے بعد بہت سی پیشگوئیاں شائع کر چکے ہیں پس یہ کیسا گندہ جھوٹ ہے کہ یہ لوگ بے خبر لوگوں کے پاس بیان کر رہے ہیں.رہا یہ سوال کہ محمد حسین کو کچھ زمین مل گئی ہے یعنی بجائے ذلت کے عزت ہوگئی ہے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے بلکہ یہ اُس وقت اعتراض کرنا چاہیے تھا کہ جب اس زمین سے محمد حسین کچھ منفعت اُٹھا لیتا.ابھی تو وہ ایک ابتلا کے نیچے ہے کچھ معلوم نہیں کہ اس زمین سے انجام کار کچھ زیر باری ہوگی

Page 617

مجموعہ اشتہارات ۶۰۱ جلد دوم یا کچھ منفعت ہوگی.ماسوا اس کے کنز العمال کی کتاب المزارعة میں یعنی کھیفہ سے میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث موجود ہے لا تدخــل سـكـة الــحــرث على قوم الا اذلهم الله (طب.عن ابی یمامہ ) یعنی کینی کا لوہا اور کسی قوم میں نہیں آتا جواس قوم کو ذلیل نہیں کرتا.پھر اسی صفحہ میں ایک دوسری حدیث ہے انه صلى الله عليه وسلم رأى شيئًا من الة الحرث فقال لا يـدخـل هـذا بـيـت قـوم الادخله الذل (خ عن ابي امامة ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آلہ زراعت کا دیکھا اور فرمایا کہ یہ آلہ کسی قوم کے گھر میں داخل نہیں ہوتا مگر اس قوم کو ذلیل کر دیتا ہے.اب دیکھو ان احادیث سے صریح طور پر ثابت ہے کہ جہاں کاشت کاری کا آلہ ہو گا وہیں ذلت ہوگی.اب ہم میاں ثناء اللہ کی بات مانیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی.جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر ایمان رکھتا ہے اس کو ماننا پڑے گا کہ کسی کے گلے میں کاشت کاری کا سامان پڑا یہ بھی ایک قسم کی ذلت سے ہے.سو یہ تو میاں ثناء اللہ نے ہماری مدد کی کہ جس قسم کی ذلت کی ہمیں خبر بھی نہیں تھی ہمیں خبر دے دی.ہمیں تو صرف پانچ قسم کی ذلت کی خبر تھی.اس چھٹی قسم کی ذلت پر میاں ثناء اللہ کی معرفت اطلاع ہوئی.اور رہی یہ بات کہ محمد حسین کا کسی ریاست میں وظیفہ مقرر ہو گیا ہے یہ ایسا امر ہے کہ اس کو کوئی كنز العمال جلد ۸ شائع کردہ دائرۃ المعارف نظامیہ حیدر آباد دکن ۱۳۱۴ھ (ناشر) کے عن ابی یمامہ کا تب سے سہو ا غلط لکھا گیا ہے درست عن ابی امامۃ ہے.(ناشر) سے قرآن شریف میں یہ قسم مذکور ہے کہ یہودیوں نے آسمانی کھانے سے انکار کر کے حضرت موسیٰ سے زمین مانگی تھی اور ساگ اور عدس اور پیاز وغیرہ کے خواہشمند ہوئے تھے.تب خدا نے ان کی یہ درخواست منظور کر کے فرمایا کہ تم نے زمین نہیں لی بلکہ اپنے لئے ذلت لے لی.اگر چاہو تو قرآن شریف میں سے یہ تمام آیات غور سے پڑھو من بَقْلِهَا وَقِنَابِهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا اس آیت تک کہ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الدِّئَةُ وَالْمَسْكَنَةُ اب اس جگہ اگر کچھ ان دونوں قصوں میں فرق ہے تو صرف یہی کہ یہودیوں نے حضرت موسیٰ سے زمین مانگی اور ذلت کی پیشگوئی سنی اور محمد حسین نے مسٹر جے ایم ڈوئی سے زمین مانگی مگر ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے بھی کچھ فرمایا یا نہیں.یہودیوں کا آسمانی کھانا من اور سلوی تھا اور محمد حسین کا آسمانی کھانا متوتلا نہ رزق تھا اب نمبر داری کی خواہش ہوئی دیکھیں نتیجہ کیا ہو.منه البقرة: ٢٢

Page 618

مجموعہ اشتہارات ۶۰۲ جلد دوم دانشمند عزت قرار نہیں دے گا.ان ریاستوں میں تو ہر ایک قسم کے لوگوں کے وظیفے مقرر ہیں جن میں سے بعض کے ناموں کا ذکر بھی قابل شرم ہے.پھر اگر محد حسین کا وظیفہ بھی کسی نے مقرر کر دیا تو کس عزت کا موجب ہوا بلکہ اس جگہ تو وہ فقرہ یاد آتا ہے کہ بِئْسَ الْفَقِيْرُ عَلَى بَابِ الْأَمِيرِ.غرض یہ پیشگوئی جو محمد حسین اور اس کے دور فیقوں کی نسبت تھی اعلیٰ درجہ پر پوری ہو گئی.ہم قبول کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی اس قسم کی ذلت نہیں ہوئی جواد فی طبقہ کے لوگوں کی ذلت ہوتی ہے مگر پیشگوئی میں پہلے سے اس کی تصریح تھی کہ مثلی ذلت ہوگی جیسا کہ پیشگوئی کا یہ فقرہ ہے.جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ یعنی جس قسم کی ذلّت ان لوگوں نے پہنچائی اُسی قسم کی ذلت ان کو پہنچے گی.اب ہم اس سوال کو ٹلی اور تبتی سے تو نہیں پوچھتے کیونکہ ان کی ذلت اور عزت دونوں طفیلی ہیں مگر جو شخص چاہے محمد حسین کو قرآن شریف ہاتھ میں دے کر حلفاً پوچھ لے کہ یہ مثلی ذلّت جوالہام سے مفہوم ہوتی ہے یہ تمہیں اور تمہارے رفیقوں کو پہنچ گئی یا نہیں؟ بے حیائی سے بات کو حد سے بڑھانا کسی شریف انسان کا کام نہیں ہے بلکہ گندوں اور سفلوں کا کام ہے.لیکن ایک منصف مزاج سوچ سکتا ہے کہ الہام الہی میں یہ تو نہیں بتلایا گیا تھا کہ وہ ذلت کسی زدو کوب کے ذریعہ سے ہوگی یا کسی اور جسمانی ضرر سے یا خون کرنے سے وہ ذلت پہنچائی جائے گی بلکہ الہام الہی کے صاف اور صریح یہ لفظ تھے کہ ذلت صرف اس قسم کی ہوگی جس قسم کی ذلت ان لوگوں نے پہنچائی.الہام موجود ہے.ہزاروں آدمیوں میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے.پھر یہودیوں کی طرح اس میں تحریف کرنا اُس بے حیا انسان کا کام ہے جس کو نہ خدا تعالیٰ کا خوف ہے اور نہ انسانوں سے شرم ہے!! راق میرزاغلام احمد از قادیاں تاریخ طبع کے اردسمبر ۱۸۹۹ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیاں ( اس اشتہار کی اصل کاپی خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے)

Page 619

مجموعہ اشتہارات ۲۲۰ ۶۰۳ جلد دوم (ضمیمہ نمبر ۳ منسلکه کتاب تریاق القلوب) حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست جبکہ ہماری یہ حسن گورنمنٹ ہر ایک طبقہ اور درجہ کے انسانوں بلکہ غریب سے غریب اور عاجز سے عاجز خدا کے بندوں کی ہمددری کر رہی ہے یہاں تک کہ اس ملک کے پرندوں اور چرندوں اور بے زبان مویشیوں کے بچاؤ کے لئے بھی اس کے عدل گستر قوانین موجود ہیں.اور ہر ایک قوم اور فرقہ کو مساوی آنکھ سے دیکھ کر ان کی حق رسی میں مشغول ہے تو اس انصاف اور دادگستری اور عدل پسندی کی خصلت پر نظر کر کے یہ عاجز بھی اپنی ایک تکلیف کے رفع کے لئے حضور گورنمنٹ عالیہ میں یہ عاجزانہ عریضہ پیش کرتا ہے اور پہلے اس سے کہ اصل مقصود کو ظاہر کیا جائے.اس محسن اور قدر شناس گورنمنٹ کی خدمت میں اس قدر بیان کرنا بے محل نہ ہوگا کہ یہ عاجز گورنمنٹ کے اُس قدیم خیر خواہ خاندان میں سے ہے جس کی خیر خواہی کا گورنمنٹ کے عالی مرتبہ حکام نے اعتراف کیا ہے اور اپنی چٹھیوں سے گواہی دی ہے کہ وہ خاندان ابتدائی انگریزی عملداری سے آج تک خیر خواہی گورنمنٹ عالیہ میں برابر سرگرم رہا ہے.میرے والد مرحوم میرزا غلام مرتضی اس محسن گورنمنٹ کے ایسے مشہور خیر خواہ اور دلی جان نثار تھے کہ وہ تمام حکام پر جو اُن کے وقت میں اس ضلع میں آئے ،

Page 620

مجموعہ اشتہارات ۶۰۴ جلد دوم سب کے سب اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں نے میرے والد موصوف کو ضرورت کے وقتوں میں گورنمنٹ کی خدمت کرنے میں کیسا پایا.اور اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے ۱۸۵۷ء کے مفسدہ کے وقت اپنی تھوڑی سی حیثیت کے ساتھ پچاس گھوڑے مع پچاس جوانوں کے اس محسن گورنمنٹ کی امداد اور خدمت کے لئے دیئے اور ہر وقت امدا د اور خدمت کے لئے کمر بستہ رہے یہاں تک کہ اس دنیا سے گزر گئے.والد مرحوم گورنمنٹ عالیہ کی نظر میں ایک معزز اور ہر دلعزیز رئیس تھے جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور وہ خاندان مغلیہ میں سے ایک تباہ شدہ ریاست کے بقیہ تھے جنہوں نے بہت سی مصیبتوں کے بعد گورنمنٹ انگریزی کے عہد میں آرام پایا تھا.یہی وجہ تھی کہ وہ دل سے اس گورنمنٹ سے پیار کرتے تھے اور اس گورنمنٹ کی خیر خواہی ایک میخ فولادی کی طرح ان کے دل میں پھنس گئی تھی.اُن کی وفات کے بعد مجھے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح بالکل دنیا سے الگ کر کے اپنی طرف کھینچ لیا اور میں نے اس کے فضل سے آسمانی مرتبت اور عزت کو اپنے لئے پسند کر لیا لیکن میں اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اس گورنمنٹ محسنہ انگریزی کی خیر خواہی اور ہمدردی میں مجھے زیادتی ہے یا میرے والد مرحوم کی.ہیں برس کی مدت سے میں اپنے دلی جوش سے ایسی کتابیں زبان فارسی اور عربی اور اردو اور انگریزی میں شائع کر رہا ہوں جن میں بار بار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے بچے خیر خواہ اور دلی جان نثار ہو جائیں اور جہاد اور خونی مہدی کے انتظار وغیرہ بیہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہو سکتے دست بردار ہو جائیں اور اگر وہ اس غلطی کو چھوڑنا نہیں چاہتے تو کم سے کم یہ اُن کا فرض ہے کہ اس گورنمنٹ محسنہ کے ناشکر گزار نہ بنیں اور نمک حرامی سے خدا کے گنہگار نہ ٹھہریں کیونکہ یہ گورنمنٹ ہمارے مال اور خون اور عزت کی محافظ ہے اور اس کے مبارک قدم سے ہم جلتے ہوئے تنور میں سے نکالے گئے ہیں.یہ کتابیں ہیں جو میں نے اس ملک اور عرب اور شام اور فارس اور مصر وغیرہ ممالک میں شائع کی ہیں.چنانچہ شام کے ملک کے بعض عیسائی فاضلوں نے بھی میری کتابوں کے

Page 621

مجموعہ اشتہارات جلد دوم شائع ہونے کی گواہی دی ہے.اور میری بعض کتابوں کا ذکر کیا ہے.یے اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرات سے کہ سکتا ہوں کہ یہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کر سکتا.یہ بھی ظاہر ہے کہ اس قدر لمبے زمانہ تک کہ جو ہیں برس کا زمانہ ہے.ایک مسلسل طور پر تعلیم مذکور بالا پر زور دیتے جانا کسی منافق اور خودغرض کا کام نہیں ہے بلکہ ایک ایسے شخص کا کام ہے جس کے دل میں اس گورنمنٹ کی سچی خوا ہی ہے.ہاں میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں نیک نیتی سے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مباحثات بھی کیا کرتا ہوں اور ایسا ہی پادریوں کے مقابل پر بھی مباحثات کی کتابیں شایع کرتا رہا ہوں.اور میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جبکہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پر چہ نور افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریری شایع ہوئیں.اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باللہ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈا کو تھا.چور تھا.زنا کا رتھا.اور صد ہا پر چوں میں یہ شایع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور با ایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو.تب میں نے اُن جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تا سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک خریسطفور جبارہ نام ایک دمشق کا رہنے والا فاضل عیسائی اپنی کتاب خلاصتہ الادیان کے صفحہ چوالیس میں میری کتاب حمامتہ البشرکی کا ذکر کرتا ہے اور حمامۃ البشری میں سے چھ سطریں بطور نقل کے لکھتا ہے اور میری نسبت لکھتا ہے کہ یہ کتاب ایک ہندی فاضل کی ہے جو تمام ملک ہند میں مشہور ہے دیکھو خلاصة الاديان و زبدة الایمان صفحه ۲۴ چودہویں سطر سے اکیسویں سطر تک.منہ

Page 622

مجموعہ اشتہارات جلد دوم میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہوئے تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل تختی تھی کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں اُن کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا.سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی اور ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزار ہا مسلمان جو پادری عمادالدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آچکے تھے یک دفعہ اُن کے اشتعال فرو ہو گئے کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ جب سخت الفاظ کے مقابل پر اس کا عوض دیکھ لیتا ہے تو اس کا وہ جوش نہیں رہتا.باایں ہمہ میری تحریر پادریوں کے مقابل پر بہت نرم تھی گویا کچھ نسبت نہ تھی.ہماری محسن گورنمنٹ خوب سمجھتی ہے کہ مسلمان سے یہ ہر گز نہیں ہوسکتا کہ اگر کوئی پادری ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو ایک مسلمان اس کے عوض میں حضرت عیسی علیہ السلام کو گالی دے کیونکہ مسلمانوں کے دلوں میں دورہ کے ساتھ ہی یہ اثر پہنچایا گیا ہے کہ وہ جیسا کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہیں ایسا ہی وہ حضرت عیسی علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں.سوکسی مسلمان کا یہ حوصلہ ہی نہیں کہ تیز زبانی کو اس حد تک پہنچائے جس حد تک ایک متعصب عیسائی پہنچا سکتا ہے.اور مسلمانوں میں یہ ایک عمدہ سیرت ہے جو فخر کرنے کے لائق ہے کہ وہ تمام نبیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہو چکے ہیں ایک عزت سے دیکھتے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام سے بعض وجوہ سے ایک خاص محبت رکھتے ہیں جس کی تفصیل کے لئے اس جگہ موقع نہیں.سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا.اور میں دعوی سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں سے اول درجہ کا خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں لے ان مباحثات کی کتابوں سے ایک یہ بھی مطلب تھا کہ برٹش انڈیا اور دوسرے ملکوں پر بھی اس بات کو واضح کیا جاوے کہ ہماری گورنمنٹ نے ہر ایک قوم کو مباحثات کے لئے آزادی دے رکھی ہے کوئی خصوصیت پادریوں کی نہیں ہے.منہ

Page 623

مجموعہ اشتہارات ۶۰۷ جلد دوم کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیر خواہی میں اوّل درجہ پر بنا دیا ہے.(۱) اوّل والد مرحوم کے اثر نے (۲) اس گورنمنٹ حالیہ کے احسانوں نے ، (۳) تیسرے خدا تعالیٰ کے الہام نے.اب میں اس گورنمنٹ محسنہ کے زیر سایہ ہر طرح سے خوش ہوں.صرف ایک رنج اور در دو غم ہر وقت مجھے لاحق حال ہے جس کا استغاثہ پیش کرنے کے لئے اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ اس ملک کے مولوی مسلمان اور ان کی جماعتوں کے لوگ حد سے زیادہ مجھے ستاتے اور دُکھ دیتے ہیں.میرے قتل کے لئے ان لوگوں نے فتوے دیئے ہیں.مجھے کافر اور بے ایمان ٹھہرایا ہے.اور بعض ان میں سے حیا اور شرم کو ترک کر کے اس قسم کے اشتہار میرے مقابل پر شائع کرتے ہیں کہ یہ شخص اس وجہ سے بھی کافر ہے کہ اس نے انگریزی سلطنت کو سلطنت روم پر ترجیح دی ہے اور ہمیشہ انگریزی سلطنت کی تعریف کرتا ہے اور ایک باعث یہ بھی ہے کہ یہ لوگ مجھے اس وجہ سے بھی کا فرٹھیراتے ہیں کہ میں نے خدا تعالیٰ کے بچے الہام سے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اُس خونی مہدی کے آنے سے انکار کیا ہے جس کے یہ لوگ منتظر ہیں بیشک میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے ان لوگوں کا بڑا نقصان کیا ہے کہ میں نے ایسے خونی مہدی کا آنا سراسر جھوٹ ثابت کر دیا ہے جس کی نسبت ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ آ کر بے شمار رو پیدان کو دے گا مگر میں معذور ہوں.قرآن اور حدیث سے یہ بات پایہ ثبوت نہیں پہنچتی کہ دنیا میں کوئی ایسا مہدی آئے گا جوزمین کو خون میں غرق کر دے گا.پس میں نے ان لوگوں کا بجز اس کے کوئی گناہ نہیں کیا کہ اس خیالی لوٹ مار کے روپیہ سے میں نے ان کو محروم کر دیا ہے.میں خدا سے پاک الہام پا کر یہ چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے اخلاق اچھے ہو جائیں اور وحشیانہ عادتیں دور ہو جائیں اور نفسانی جذبات سے ان کے سینے دھوئے جائیں اور ان میں آہستگی اور سنجیدگی اور علم اور میانہ روی اور انصاف پسندی پیدا ہو جائے اور یہ اپنی اس گورنمنٹ کی ایسی اطاعت کریں کہ دوسروں کے لئے نمونہ بن جائیں اور یہ ایسے ہو جائیں کہ کوئی بھی فساد کی رگ ان میں باقی نہ رہے.چنانچہ کسی قدر یہ مقصود مجھے حاصل بھی ہو گیا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ دس ہزار یا اس سے بھی زیادہ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو میری ان

Page 624

مجموعہ اشتہارات ۶۰۸ جلد دوم پاک تعلیموں کے دل سے پابند ہیں اور یہ نیا فرقہ مگر گورنمنٹ کے لئے نہایت مبارک فرقہ برٹش انڈیا میں زور سے ترقی کر رہا ہے.اگر مسلمان ان تعلیموں کے پابند ہو جا ئیں تو میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ فرشتے بن جائیں اور اگر وہ اس گورنمنٹ کی سب قوموں سے بڑھ کر خیر خواہ ہو جائیں تو تمام قوموں سے زیادہ خوش قسمت ہو جائیں.اگر وہ مجھے قبول کر لیں اور مخالفت نہ کریں تو یہ سب کچھ انہیں حاصل ہوگا اور ایک نیکی اور پاکیزگی کی رُوح ان میں پیدا ہو جائے گی.اور جس طرح ایک انسان خوجہ ہو کر گندے شہوات کے جذبات سے الگ ہو جاتا ہے.اسی طرح میری تعلیم سے ان میں تبدیلی پیدا ہوگی.مگر میں نہیں کہتا کہ گورنمنٹ عالیہ جبرا ان کو میری جماعت میں داخل کرے اور نہ میں اس وقت یہ استغاثہ کرتا ہوں کہ وہ کیوں ہر وقت میرے قتل کے درپئے ہیں اور کیوں میرے قتل کے لئے جھوٹے فتوے شائع کر رہے ہیں.اور میں جانتا ہوں کہ یہ بدارا دے ان کے عبث ہیں.کیونکہ کوئی چیز زمین پر نہیں ہو سکتی جب تک آسمان پر نہ ہوئے.اور میں اُن کی بدی کے عوض میں اُن کے حق میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اُن کی آنکھیں کھولے اور وہ خدا اور مخلوق کے حقوق کے شناسا ہو جا ئیں مگر چونکہ ان لوگوں کی عداوت حد سے بڑھ گئی ہے اس لئے میں نے ان کی اصلاح کے لئے اور ان کی بھلائی کے لیے بلکہ تمام مخلوق کی خیر خواہی کے لئے ایک تجویز سوچی ہے جو ہماری گورنمنٹ کی امن پسند پالیسی کے مناسب حال ہے جس کی تعمیل اس گورنمنٹ عالیہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ محسن گورنمنٹ جس کے احسانات سب سے زیادہ مسلمانوں پر ہیں، ایک یہ احسان کرے کہ اس ہر روزہ تکفیر اور تکذیب اور قتل کے فتووں اور منصوبوں کے روکنے کے لئے خود درمیان میں ہوکر یہ ہدایت فرما دے کہ اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح پر ہو کہ مدعی یعنی یہ عاجز جس کو مسیح ہونے کا دعوی ہے اور جس کو یہ دعوی ہے کہ جس طرح نبیوں سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہوتا تھا اسی طرح لے میں نے اپنی کسی کتاب میں لکھا تھا کہ میری جماعت میں تین سو آدمی ہے لیکن اب وہ شمار بہت بڑھ گیا ہے کیونکہ زور سے ترقی ہورہی ہے اب میں یقین رکھتا ہوں کہ میری جماعت کے لوگ دس ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہوں گے اور میری فراست یہ پیشگوئی کرتی ہے کہ تین سال تک ایک لاکھ تک میری اس جماعت کا عدد پہنچ جاوے گا.منہ

Page 625

مجموعہ اشتہارات ۶۰۹ جلد دوم مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور غیب کے بھید مجھ پر ظاہر کئے جاتے ہیں اور آسمانی نشان دکھلائے جاتے ہیں.یہ مدعی یعنی یہ عاجز گورنمنٹ کے حکم سے ایک سال کے اندر ایک ایسا آسمانی نشان دکھلا دے، ایسا نشان جس کا مقابلہ کوئی قوم اور کوئی فرقہ جو زمین پر رہتے ہیں نہ کر سکے اور مسلمانوں کی قوموں یا دوسری قوموں میں سے کوئی ایسا ملہم اور خواب بین اور معجزہ نما پیدا نہ ہو سکے جو اس نشان کی ایک سال کے اندر نظیر پیش کرے اور ایسا ہی ان تمام مسلمانوں بلکہ ہر ایک قوم کے پیشواؤں کو جو اہم اور خدا کے مقرب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہدایت اور فہمائش ہو کہ اگر وہ اپنے تئیں سچ پر اور خدا کے مقبول سمجھتے ہیں اور ان میں کوئی ایسا پاک دل ہے جس کو خدا نے ہمکلام ہونے کا شرف بخشا ہے اور الہی طاقت کے نمونے اس کو دیئے گئے ہیں تو وہ بھی ایک سال تک کوئی نشان دکھلاویں.پھر بعد اس کے اگر ایک سال تک اس عاجز نے ایسا کوئی نشان نہ دکھلایا جو انسانی طاقتوں سے بالا تر اور انسانی ہاتھ کی ملونی سے بھی بلند تر ہو یا یہ کہ نشان تو دکھلایا مگر اس قسم کے نشان اور مسلمانوں یا اور قوموں سے بھی ظہور میں آگئے تو یہ سمجھا جائے کہ میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں اور اس صورت میں مجھ کو کوئی سخت سزا دی جائے گوموت کی ہی سزا ہو کیونکہ اس صورت میں فساد کی تمام بنیا د میری طرف سے ہوگی اور مفسد کو سزا دینا قرین انصاف ہے.اور خدا پر جھوٹ بولنے سے کوئی گناہ بدتر نہیں.لیکن اگر خدا تعالیٰ نے ایک سال کی میعاد کے اندر میری مدد کی اور زمین کے رہنے والوں میں سے کوئی میرا مقابلہ نہ کر سکا تو پھر میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ گورنمنت محسنہ میرے مخالفوں کو نرمی سے ہدایت کرے کہ اس نظارہ قدرت کے بعد شرم اور حیا سے کام لیں اور تمام مردی اور بہادری سچائی کے قبول کرنے میں ہے.اس قدر عرض کر دینا پھر دوبارہ ضروری ہے کہ نشان اس قسم کا ہوگا کہ جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو اور اس نکتہ چینی کی ایک ذرہ گنجائش نہ ہو کہ ممکن ہے کہ اس شخص نے ناجائز اسباب سے کام لیا ہو بلکہ جس طرح آفتاب اور ماہتاب کے طلوع اور غروب میں یہ ظن نہیں ہو سکتا کہ کسی انسان پیش از وقت اپنی حکمت عملی سے ان کو چڑھایا ہے یا غروب کر دیا ہے اسی طرح اس نشان میں بھی ایسا ظن کرنا محال ہو.اس قسم کا فیصلہ صدہا نیک نتیجے پیدا کرے گا.اور ممکن ہے کہ اس سے تمام قو میں ایک ہو

Page 626

مجموعہ اشتہارات ۶۱۰ جلد دوم جائیں اور بے جانزا میں اور جھگڑے اور قوموں کا تفرقہ اور حد سے زیادہ عناد جو قانون سڈیشن کے منشاء کے بھی برخلاف ہے یہ تمام پھوٹ صفحہ برٹش انڈیا سے نابود ہو جائے اور اس میں شک نہیں کہ یہ پاک کارروائی گورنمنٹ کی ہمیشہ کے لئے اس ملک میں یاد گار رہے گی اور یہ کام گورنمنٹ کے لئے بہت مقدم اور ضروری ہے اور انشاء اللہ اس سے نیک نتیجے پیدا ہوں گے.چونکہ آجکل یورپ کی بعض گورنمنٹیں اس بات کی طرف بھی مائل ہیں کہ مختلف مذاہب کی خوبیاں معلوم کی جائیں کہ اُن سب میں سے خو بیوں میں بڑھا ہوا کونسا مذہب ہے اور اس غرض سے یورپ کے بعض ملکوں میں جلسے کئے جاتے ہیں جیسا کہ ان دنوں میں اٹلی میں ایسا ہی جلسہ درپیش ہے اور پھر پیرس میں بھی ہو گا.سو جبکہ یورپ کے سلاطین کا میلان طبعاً اس طرف ہو گیا ہے اور سلاطین کی اس قسم کی تفتیش بھی لوازم سلطنت میں سے شمار کی گئی ہے اس لئے مناسب نہیں ہے کہ ہماری یہ اعلیٰ درجہ کی گورنمنٹ دوسرں سے پیچھے رہے.اور تمہید اس کا رروائی کی اس طرح پر ہوسکتی ہے کہ ہماری عالی ہمت گورنمنٹ ایک مذہبی جلسہ کا اعلان کر کے اس زیر تجویز جلسہ کی ایسی تاریخ مقرر کرے جو دو سال سے زیادہ نہ ہو.اور تمام قوموں کے سرگروہ علماء اور فقراء اور ملہموں کو اس غرض سے بلایا جائے کہ وہ جلسہ کی تاریخ پر حاضر ہو کر اپنے مذہب کی سچائی کے دو ثبوت دیں (۱) اول ایسی تعلیم پیش کریں جو دوسری تعلیموں سے اعلیٰ ہو جو انسانی درخت کی تمام شاخوں کی آبپاشی کرسکتی ہو (۲) دوسرے یہ ثبوت دیں کہ ان کے مذہب میں روحانیت اور طاقت بالا ویسی ہی موجود ہے جیسا کہ ابتدا میں دعویٰ کیا گیا تھا اور وہ اعلان جو جلسہ سے پہلے شائع کیا جائے.اس میں یہ تصریح یہ ہدایت ہو کہ قوموں کے سرگروہ ان دو ثبوتوں کے لئے طیار ہو کر جلسہ کے میدان میں قدم رکھیں اور تعلیم کی خوبیاں بیان کر نے کے بعد ایسی اعلیٰ پیشگوئیاں پیش کریں جو محض خدا کے علم سے مخصوص ہوں اور نیز ایک سال کے اندر پوری بھی ہو جائیں.غرض ایسے نشان ہوں جن سے مذہب کی رُوحانیت ثابت ہوا اور پھر ایک سال تک انتظار کر کے غالب مغلوب کے حالات شائع کر دیے جائیں.میرے خیال میں ہے کہ اگر ہماری دانا گورنمنٹ اس طریق پر کار بند ہو اور آزمادے کہ کس مذہب اور کسی شخص میں روحانیت

Page 627

مجموعہ اشتہارات ۶۱۱ جلد دوم اور خدا کی طاقت پائی جاتی ہے تو یہ گورنمنٹ دنیا کی تمام قوموں پر احسان کرے گی اور اس طرح سے ایک سچے مذہب کو اس کی تمام روحانی زندگی کے ساتھ دنیا پر پیش کر کے تمام دنیا کو راہ راست پر لے آئے گی کیونکہ وہ تمام شور و غوغا جو کسی ایسے مذہب کے لیے کیا جاتا ہے جس کے ساتھ فوق العادت زندہ نشان نہیں وہ محض روایات پر مدار ہے وہ سب بیچ ہے کیونکہ کوئی مذہب بغیر نشان کے انسان کو خدا سے نزدیک نہیں کر سکتا اور نہ گناہ سے نفرت دلا سکتا ہے مذہب، مذہب پکارنے میں ہر ایک کی بلند آواز ہے.لیکن کبھی ممکن نہیں کہ فی الحقیقت پاک زندگی اور پاک دلی اور خدا ترسی میسر آ سکے جب تک کہ انسان مذہب کے آئینہ میں کوئی فوق العادت نظارہ مشاہدہ نہ کرے نئی زندگی ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی جب تک ایک نیا یقین پیدا نہ ہو.اور کبھی نیا یقین پیدا نہیں ہوسکتا جب تک موسیٰ اور مسیح اور ابراہیم اور یعقوب اور محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم کی طرح نئے معجزات نہ دکھائے جائیں نئی زندگی انہی کو ملتی ہے جن کا خدا نیا ہو، یقین نیا ہونشان نئے ہوں اور دوسرے تمام لوگ قصّوں کہانیوں کے جال میں گرفتار ہیں.دل غافل ہیں اور زبانوں پر خدا کا نام ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین کے شور و غوغا تمام قصے اور کہانیاں ہیں اور ہر ایک شخص جو اس وقت کئی سو برس کے بعد اپنے کسی پیغمبر یا اوتار کے ہزار ہا معجزات سناتا ہے وہ خود اپنے دل میں جانتا ہے کہ وہ ایک قصہ بیان کر رہا ہے جس کو نہ اُس نے اور نہ اُس کے باپ نے دیکھا ہے اور نہ اس کے دادے کو اُس کی خبر ہے.وہ خود نہیں سمجھ سکتا کہ کہاں تک اس کا یہ بیان صحیح اور درست ہے کیونکہ یہ دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ ایک تنکے کا پہاڑ بنا دیا کرتے ہیں اس لئے یہ تمام قصے جو معجزات کے رنگ میں پیش کئے جاتے ہیں ان کا پیش کرنے والا خواہ کوئی مسلمان ہو یا عیسائی ہو جو حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا جانتا ہے یا کوئی ہندو ہو جو اپنے اوتاروں کے کرشمے کتا ہیں اور ٹپستک کھول کر سناتا ہے یہ سب کچھ بیچ اور لاشے ہیں اور ایک کوڑی ان کی قیمت نہیں ہو سکتی جب تک کہ کوئی زندہ نمونہ ان کے ساتھ نہ ہو.اور سچا مذ ہب وہی ہے جس کے ساتھ زندہ نمونہ ہے.کیا کوئی دل اور کوئی کانشنس اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ ایک مذہب تو سچا ہے مگر اس کی سچائی کی چمکیں اور سچائی کے نشان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں.اور ان

Page 628

مجموعہ اشتہارات ۶۱۲ جلد دوم ہدایتوں کے بھیجنے والے کے مُنہ پر ہمیشہ کے لئے مہر لگ گئی ہے.میں جانتا ہوں کہ ہر ایک انسان جو کچی بھوک اور پیاس خدا تعالیٰ کی طلب رکھتا ہے وہ ایسا خیال ہرگز نہیں کرے گا.اس لئے ضروری ہے کہ بچے مذہب کی یہی نشانی ہو کہ زندہ خدا کے زندہ نمونے اور اس کے نشانوں کے چمکتے ہوئے نور اس مذہب میں تازہ بتازہ موجود ہوں.اگر ہماری گورنمنٹ عالیہ ایسا جلسہ کرے تو یہ نہایت مبارک ارادہ ہے اور اس سے ثابت ہو گا یہ گورنمنٹ سچائی کی حامی ہے.اور اگر ایسا جلسہ ہو تو ہر ایک شخص اپنے اختیار سے اور ہنسی خوشی سے اس جلسہ میں داخل ہو سکتا ہے قوموں کے پیشوا جنہوں نے مقدس کہلا کر کروڑ ہا روپیہ قوموں کا کھا لیا ہے ان کے تقدس کو آزمانے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی عمدہ طریق نہیں کہ جو اُن کا یا اُن کے مذہب کا خدا کے ساتھ رشتہ ہے اس رشتہ کا زندہ ثبوت مانگا جائے.یہ عاجز اپنے دلی جوش سے جو ایک پاک جوش ہے یہی چاہتا ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ کے ہاتھ سے یہ فیصلہ ہو.خدایا اس عالی مرتبہ گورنمنٹ کو یہ الہام کرتا وہ اس قسم کے جلسوں میں سب سے پیچھے آ کر سب سے پہلے ہو جائے.اور میں چونکہ مسیح موعود ہوں اس لئے حضرت مسیح کی عادت کا رنگ مجھ میں پایا جانا ضروری ہے.حضرت مسیح علیہ السّلام وہ انسان تھے جو مخلوق کی بھلائی کے لئے صلیب پر چڑھے گو خدا کے رحم نے اُن کو بچالیا اور مرہم عیسی نے ان کے زخموں کو اچھا کر کے آخر کشمیر جنت نظیر میں اُن کو پہنچا دیا.سو انہوں نے سچائی کے لئے صلیب سے پیار کیا اور اس طرح اس پر چڑھ گئے جیسا کہ ایک بہادر سوار خوش عنان گھوڑے پر چڑھتا ہے.سوایسا ہی میں بھی مخلوق کی بھلائی کے لیے صلیب سے پیار کرتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جس طرح خدا تعالیٰ کے فضل اور لے مرہم عیسی ایک نہایت مبارک مرہم ہے جس سے حضرت عیسی علیہ السلام کے زخم اچھے ہوئے تھے جبکہ آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے سولی سے نجات پائی تو صلیب کی کیلوں کے جو زخم تھے جن کو آپ نے حواریوں کو بھی دکھلایا تھا وہ اسی مرہم سے اچھے ہوئے تھے.یہ مرہم طب کی ہزار کتاب میں درج ہے اور قانون بوعلی سینا میں بھی درج ہے اور رومیوں اور یونانیوں اور عیسائیوں اور یہودیوں اور مسلمانوں غرض تمام فرقوں کے طبیبوں نے اس مرہم کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے.منہ

Page 629

مجموعہ اشتہارات ۶۱۳ جلد دوم کرم نے حضرت مسیح کو صلیب سے بچالیا اور ان کی تمام رات کی دُعا جو باغ میں کی گئی تھی قبول کر کے ان کو صلیب اور صلیب کے نتیجوں سے نجات دی ایسا ہی مجھے بھی بچائے گا.اور حضرت مسیح صلیب سے نجات پا کر نصیبین کی طرف آئے اور پھر افغانستان کے ملک میں ہوتے ہوئے کو ہ نعمان میں پہنچے اور جیسا کہ اس جگہ شہزادہ نبی کا چبوترہ اب تک گواہی دے رہا ہے وہ ایک مدت تک کوہ نعمان میں رہے اور پھر اس کے بعد پنجاب کی طرف آئے.آخر کشمیر میں گئے اور کوہ سلیمان پر ایک مدت تک عبادت کرتے رہے اور سکھوں کے زمانہ تک ان کی یادگار کا کوہ سیلیمان پر کتبہ موجود تھا.آخر سری نگر میں ایک سو چھپیں برس کی عمر میں وفات پائی اور خانیار کے محلہ کے قریب آپ کا مقدس مزار ہے.غرض جیسا کہ اس نبی نے سچائی کے لیے صلیب کو قبول کیا ایسا ہی میں بھی قبول کرتا ہوں.اگر اس جلسہ کے بعد جس کی گورنمنٹ محسنہ کو ترغیب دیتا ہوں ایک سال کے اندر میرے نشان تمام دنیا پر غالب نہ ہوں تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.میں راضی ہوں کہ اس جرم کی سزا میں سولی دیا جاؤں اور میری ہڈیاں توڑی جائیں.لیکن وہ خدا جو آسمان پر ہے جو دل کے خیالات کو جانتا ہے جس کے الہام سے میں نے اس عریضہ کولکھا ہے وہ میرے ساتھ ہوگا اور میرے ساتھ ہے وہ مجھے اس گورنمنٹ عالیہ اور قوموں کے سامنے شرمندہ نہیں کرے گا اسی کی روح ہے جو میرے اندر بولتی ہے.میں نہ اپنی طرف سے بلکہ اس کی طرف سے یہ پیغام پہنچارہا ہوں تا سب کچھ جو اتمام حجت کے لئے چاہیے پورا ہو.یہ سچ ہے کہ میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس کی طرف سے کہتا ہوں.اور وہی ہے جو میرا مددگار ہوگا.بالآ خر میں اس بات کا بھی شکر کرتا ہوں کہ ایسے عریضہ کو پیش کرنے کے لئے میں بجز اس سلطنت محسنہ کے اور کسی سلطنت کو وسیع الاخلاق نہیں پاتا.اور گو اس ملک کے مولوی ایک اور کفر کا فتویٰ بھی مجھ پر لگا دیں مگر میں کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ ایسے عرائض کے پیش کرنے کے لئے عالی حوصله عالی اخلاق صرف سلطنت انگریزی ہے.میں اس سلطنت کے مقابل پر سلطنت روم کو بھی

Page 630

مجموعہ اشتہارات ۶۱۴ جلد دوم نہیں پاتا جو اسلامی سلطنت کہلاتی ہے اب میں اس دُعا پر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری محسنہ ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو عمر دارز کر کے ہر ایک اقبال سے بہرہ ور کرے اور وہ تمام دعا ئیں جومیں نے اپنے رسالہ ستارہ قیصرہ اور تحفہ قیصریہ میں ملکہ موصوفہ کو دی ہیں.قبول فرما دے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ محسنہ اس کے جواب سے مجھے مشرف فرما دے گی.وَالدُّعَا.عریضه خاکس مرزا غلام احمد از قادیان المرقوم ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۹ء (ضمیمہ نمبر ۳ منسلکه کتاب تریاق القلوب صفحه ( تا ص روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۷ ۴۸ تا ۵۰۰)

Page 630