Majmua Ishtiharat Volume 1

Majmua Ishtiharat Volume 1

مجموعہ اشتہارات (جلد 1)

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنی زندگی میں مختلف اغراض و ضروریات کے پیش نظر کسی تحریک ، تلقین ، تجویز ، وضاحت یا چیلنج پر مبنی چھوٹے بڑے اشتہارات شائع کرواکر لوگوں تک پہنچائے، ان کو بعد میں تبلیغ رسالت کے عنوان سے کتابی شکل دی گئی، بعد ازاں یہی مواد نسبتاً بہتر پیشکش اور اضافوں کے ساتھ مجموعہ اشتہارات کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

Page 12

Page 13

Page 14

Page 15

Page 16

Page 17

Page 18

Page 19

Page 20

Page 21

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَ عَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْ عُوْدِ  پانسوروپیہ کا اشتہار میں اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کر کے پنڈت دیانند صاحب سورستی ۱؎ کو خصوصاً اور دیگر پنڈتان اور علمائے مسیحی کو عموماً بطور اشتہار وعدہ دیتا ہوں کہ اگر ان لوگوں میں سے کوئی صاحب متفرق مقاموں کے قول جو وید یا انجیل میں بابت تاکید التزام حق گوئی اور راست روی اور صدق شعاری کے صریح صریح موجود ہوں، بقید تعداد تکرار تاکید کے ایک فہرست میں نمبروار جمع کریں.یعنی یہ ظاہر کر کے دکھلا دیں کہ مثلاً تاکید راست گوئی کے بیس مقام وید میں آئے ہیں یا تیس مقام میں آئے ہیں.بعد اس کے ایک نقل اس فہرست کی دستخطی اور مہری اپنے ہمارے پاس بھیج دیں.اور میں اس جگہ سے ایک فہرست مکمل ان آیات اور اقوال کی جو ہم کو خد اتعالیٰ نے بابت لازم پکڑنے صدق اور راستی کے کل اقوال اور افعال میں ارشاد فرمایا ہے بعد ثبت دستخط اپنے کے بھیج دوں گا.بعد ملاحظہ اور پڑتال صحت کے اگر نمبر مقامات وید یا انجیل کے جو مضمون تاکید راست گوئی پر بطور تذکیر یا ترغیب یا تبشیر یا انذار یا مدح یا ذمِ کذب کے دلالت کرتے ہوں ہماری فہرست ۱؎ اصل لفظ سرسوتی ہے.کتابت کی غلطی سے سورستی لکھا گیا ہے(مرتب)

Page 22

پیش کردہ سے تعداد میں زیادہ نکلیں اگرچہ ایک نمبر میں زیادتی ہو یا برابر نکلیں یا ثلث کم نکلیں یا نصف کم نکلیں تو میں مبلغ پانچ سو روپیہ اس شخص کو دوں گا جو ایسی فہرست پیش کر کے ثابت کرے اور اگر ادا میں توقف ہو تو شخص غالب کو اختیار ہو گا جو بموجب قانون معاہدہ مجریہ حال اور ایکٹ 10.۱۸۷۷ء کے روپیہ عہدنامہ ہذا کا مددِ سرکار سے وصول کرے.لیکن بعد اس اشتہار کے کوئی سر نہ اٹھائے تو وہ مغلوب سمجھا جائے گا.فقط المشتـــــــــــــــــــــــــــــــھر مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضیٰ مرحوم رئیس قادیان عفی عنہ (اخبار منشور محمد ی بنگلور.جلد ۶ نمبر ۳۳.۲۵ ذیقعدہ ۱۲۹۴ھ روز شنبہ صفحہ ۱، ۲) (منقول از روزنامہ الفضل قادیان مورخہ ۶؍ اپریل ۱۹۴۱ء صفحہ ۳ )

Page 23

 اعلان نامہ متعلقہ اشتہار ہر ایک دانا پر جو طالب حق ہے یہ بات واضح ہے جو بعد توحید جناب باری تعالیٰ کے عمدہ تعلیم سچ بولنے اور سچ پر قائم رہنے کی ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی بزرگ نیکی ہے کہ انسان اپنے سب قولوں اور فعلوں اور حرکتوں اور سکونوں اور جملہ معاملات اور موارِد نیک میں بشرطِ نیک نیتی اور اتباع امورِخیر کے لازم پکڑ لے تو باقی سب نیکیاں بالغرض حاصل ہو جائیں گی.اب تمام ارباب صدق و دیانت پر روشن ہو کہ اگرچہ خدا کی سب پاک کتابوں پر ہمارا ایمان ہے.   وِردِ دل و زبان ہے.لیکن ہم عدالت اور حق کے التزام کی تعلیم محمدؐ ی میں جس کا مخزن قرآنِ مجید اور احادیث صحیحہ ہیں اس قدر تاکید شدید پاتے ہیں کہ بلاشائبہ تکلف ہزارم حصہ اس کا بھی دوسری کتاب میں نظر نہیں آتا.و جہ یہ معلوم ہوئی جو وہ خاتم الرسلہے اس کی تعلیم ان کی مکمل اور متمم دوسری کتابوںکے ہے اور یہ میری بست سالہ تحقیقات کا نتیجہ ہے جو آج میں ظاہر کرتا ہوں.لہٰذا ایک اشتہار انعامی پانسو روپیہ کا جو ہمراہ اعلان نامہ ہذا ہے مشتہر کر کے بخدمت جملہ صاحبان مسیحی و یہودی و مجوسی و آریہ سماج و عامہ پنڈتان ہنود ملتمس ہوں کہ اگر کوئی صاحب میری رائے سے متفق نہ ہوںتو حسب شرائط مندرجہ اشتہار کے اپنی اپنی کتاب مخصوص الرسول یا کلام الرسول سے جواس فرقہ میں مشتہر ہو چکی ہوں تعداد مختلف اوقات کے احکام او رمواعظ صدق

Page 24

کا پیش کریں اور ہم بھی انہی شرائط کے پابند رہیں گے اور شخص غالب کو حسب شرائط اشتہار اور اعلان نامہ ہذا کے کل روپیہ یکمشت دیا جائے گا اور در حالت مغلوب ہونے کے ہماری طرف سے کچھ تقاضا نہیں ہو گا.فقط المشتھر و الملعن: مرزا غلام احمد رئیس قادیان (اخبار منشور محمدی بنگلور.ریاست میسور ۱۲۹۴ھ صفحہ ۲) ( بحوالہ روزنامہ الفضل قادیان ۶؍ اپریل ۱۹۴۱ء صفحہ ۳)

Page 25

 بخدمت جناب محمد شریف صاحب (ایڈیٹر منشور محمدی) بعد السلام علیکم التماس ہے کہ اس سوال کو مہربانی فرما کر اخبار شریف میں اپنے منطبع فرمائیں.و ھو ھٰذا اقرارات سوامی جی پنڈت دیانند سورستی ۱؎ پہلا اقرار.سب جیو یعنی روح انادی ہیںکہ قدیم سے خود بخود موجود ہیں.خدا نے ان کو پیدا کیا نہیں اور نہ اب کوئی نیا روح پیدا کر سکتا ہے.دوسرا اقرار.پرمیشر جو سرشتی کورچتا ہے تو اس کا یہ باعث ہے کہ پہلے سرشتی میں کچھ روح بکٹ (مکت) ہو جاتے ہیں اور کچھ پاپ جو باقی رہتے ہیں ان کے پھوک (بھوگ) کرانے اور پھل دینے کے لئے پرمیشر سرشتی رچتا ہے.تیسرا اقرار.مکتی چھ سادھن یعنی چھ عمل سے ہوتی ہے.جو شخص ان چھ سادھن کو بجا لائے ضرور اس کی مکتی ہو جاتی ہے.چوتھا اقرار.جس کی مکتی ہو جاتی ہے وہ سدا آنند میں رہتا ہے اور پھر جنم مرن وغیرہ دِو (بھو) ساگر میں نہیں گرتا.پانچواں اقرار.بعد گزرنے چار ارب اُنتیس کروڑ چالیس لاکھ اوناسی ہزار نو سو چھیانویں برس دورہ آمد و رفت کل روحوں کوختم ہو کر پَرے آ جاتی ہے.چھٹا اقرار.یہ سب باتیں وید اور شاستر میں لکھی ہیں.۱؎ اصل لفظ سرسوتی ہے.کاتب سے سورستی لکھا گیا ہے(مرتب)

Page 26

تقریر اعتراض پنڈت صاحب کی تقریر سے تناسخ باطل ٹھہرتا ہے اور دنیا کا بار بار پیدا ہونا غلط ثابت ہوتاہے کیونکہ بموجب پہلے اقرار پنڈت صاحب کے پرمیشر کوئی (روح.ناقل) بنا نہیں سکتا.اور بموجب دوسرے اور تیسرے اقرار پنڈت صاحب کے ہمیشہ روح بکٹ (مکت) ہوتے رہتے ہیں.اور بموجب چوتھے اقرار پنڈت صاحب کے جوروح مکت ہو جاتی ہے پھر واپس نہیں آتی.اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ جیسے جیسے روحیں بکٹ(مکت) ہو جائیں گی اس طرف سے کمی ہوتی جائے گی یہاں تک کہ ایک دن خزانہ خالی ہو جائے گا.پھر اواگون کہاں رہے گی اور سرشتی کا باربار رچنا کس پرکار سے ٹھیک بیٹھے گا.اگر کوئی کہے کہ روح بے انت ہیںتو اول تو یہ وہم بموجب پانچویں اقرار پنڈت صاحب کے باطل ہے کیونکہ اگر روح بے انت ہوتے تو ایک مدت معدود میں جو چار ارب ہے کس طرح ان سب کا دورہ پورا ہو جاتا.اور علاوہ اس کے ہم کہتے ہیںکہ جو چیز فی الحقیقت کسی قدر خارج میں موجود ہے اور دنیا میں آسکتی ہے اور جا سکتی ہے وہ کبھی بے انت نہیں ہو سکتی.جب ایک کو ان میں سے نکالیں گے تو ضرور ایک کی کمی ہو جائے گی اور جب دو نکالیں گے تو دو کی کمی ہو جائے گی.غرض جیسے نکلتے جائیںگے ویسے کم ہوتے جائیں گے اور ایک دن محکمہ بندوبست کی طرح سرشتہ خدائی کا تخفیف میں آ جائے گا کیونکہ بموجب اصول پنڈت صاحب کے زمانہ غیر متناہی ہے اور یہاں ثابت ہو گیا جو روحیں کسی قدر اندازے میں محدود اور متناہی ہیں اور متناہی غیر متناہی سے کبھی نباہ نہیں کر سکتا.اس واسطے ضرور کسی دن ٹوٹ (کمی.ناقل) آ جائے گی.بعض لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ روح انادی ہے اور جو چیز انادی ہو وہ گنتی سے باہر ہوتی ہے.اس کا یہ جواب ہے کہ خدا بھی انادی ہے مگرگنتی سے باہر نہیں ایک ہے.

Page 27

جو چیز موجود ہوگی وہ کسی نہ کسی گنتی میں ضرور داخل ہو گی اور کسی قدر کم کرنے سے ضرور کم ہوجائے گی.دیکھو ہمارے جیو جو ہمارے شریر (جسم.ناقل) میں داخل ہیں یہ بھی بقول تمہارے انادی ہیں.اگر ہم کسی جگہ چار جیو بیٹھے ہوں اور بعد اس کے ہم میں سے ایک جیو اٹھ کرباہر چلا جاوے تو ضرور ہم باقی تین جیو رہ جائیں گے اوراگرہم میں سے کوئی نہ اُٹھے گا اور ایک اور جیو آ بیٹھے گا تو ہم پانچ جیو ہو جائیں گے.بعض لوگ یہ کہتے ہیں جوخدا کا حدّ انتہا کچھ نہیں ہے اس سے ثابت ہوا کہ روح بے انت ہیں.اُن حضرات کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ بحث تو اس امر میں ہے جو کوئی چیزموجود ہو کر شمار سے باہر نہیںرہ سکتی.خدا کے طول عرض سے اس بحث کوکیا علاقہ ہے اور خدابھی تو شمار سے باہر نہیں اور نہ خدا شمار سے مستثنیٰ ہے.انہیں حضرات کا یہ بھی وسواس (خیال.ناقل) ہے کہ خدا بوڑھا نہیں ہوتا، اس کو موت نہیں.اس سے معلوم ہوا کہ رُوح بے انت ہیں.ہماری طرف سے یہ گزارش ہے (کہ) جو ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرنی عقلمندوں کا کام نہیں.بھلا کوئی عاقل خیال کرے کہ موجودات میں کے شمار میں خدا کے بوڑھا جو ان ہونے کا کیا دخل ہے.ہماری کلام تو صرف شمار میں ہے.سو ہم بار بار عرض کرتے ہیں جوخدا بھی شمار سے باہر نہیں.ایک ہے اور نہ کوئی اور موجود تعداد سے باہر ہو سکتا ہے.جیسا ہم نے ثابت کر دیا.مجیب صاحبوں کے ایسے ایسے عجیب جواب ہیں جو حقیقت میں اس لائق ہیں جو ایک ایک نقل ان کی برٹش انڈیا کے کُل عجائب گھروں میں رکھی جائے.المعترض.مرزا غلام احمد رئیس قادیان

Page 28

 اشتہار پانسوروپیہ اشتہار ہذا اس غرض سے دیا جاتا ہے کہ ۷ ؍ دسمبر ۱۸۷۷ء کے وکیل ہندوستان وغیرہ اخبار میں لائق فائق آریہ سماج والوں نے بابت رُوحوں کے اصول اپنا یہ شائع کیا ہے کہ ارواح موجود بے انت ہیں.اور اس کثرت سے ہیں کہ پرمیشر کو بھی ان کی تعداد معلوم نہیں.اسی واسطے ہمیشہ مکتی پاتے رہتے ہیں اور پاتے رہیں گے مگرکبھی ختم نہیں ہوویں گے.تردید اس کی ہم نے ۹؍ فروری سے ۹؍ مارچ تک سفیرِ ہند کے پرچوں میں بخوبی ثابت کر دیا ہے.کہ اُصول مذکور سراسر غلط ہے.اب بطور اتمامِ حجت کے یہ اشتہار تعدادی پانسو ۵۰۰روپیہ معہ جواب الجواب باوا نرائن سنگھ صاحب سکرٹری آریہ سماج امرتسر کے تحریر کر کے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں اگر کوئی صاحب آریہ سماج والوں میں سے بپابندیٔ اُصولِ مسلّمہ اپنے کے کُل دلائل مندرجہ سفیر ہندو دلائل مرقومہ جواب الجواب مشمولہ اشتہار ہذا کے توڑ کر یہ ثابت کر دے کہ ارواح موجودہ سوا چار ارب کی مُدّت میں کُل دورہ اپنا پورا کرتے ہیں، بے انت ہیں اور ایشور کو تعداد ان کا نامعلوم رہا ہوا ہے تو میں اس کو مبلغ پانسو ۵۰۰روپیہ بطور انعام کے دوںگا.اور در صورت توقف کے شخص مثبت کو اختیار ہوگا کہ بمدد عدالت اختیار کرے لیکن واضح رہے کہ اگر کوئی صاحب سماج مذکور میں سے اس اُصول سے منکر ہو تو صرف انکار طبع کرانا کافی نہ ہو گا بلکہ اس صورت میں بتصریح لکھنا چاہیے کہ پھر اُصول کیا ہوا؟ آیا یہ بات ہے کہ ارواح

Page 29

ضرور کسی دن ختم ہو جائیں گے اور تناسخ اور دنیا کا ہمیشہ کے واسطے خاتمہ ہو گا.یا یہ اُصول ہے کہ خدا اور روحوں کو پیدا کر سکتا ہے یا یہ کہ بعد مکتی پانے سب روحوں کے پھر ایشور انہیں مکتی یافتہ روحوں کو کیڑے مکوڑے وغیرہ مخلوقات بنا کر دُنیا میں بھیج دے گا، یا یہ کہ ارواح اگرچہ بے انت نہیں اور تعداد ان کا کسی حدود معیّن میں ضرور محصُور ہے مگر پھر بھی بعد نکالے جانے کے باقی ماندہ اُتنے کے اُتنے ہی نہیں رہتے ہیں.نہ مکتی والوں کی جماعت جن میں یہ تازہ مکتی یافتہ جا ملتے ہیں.اس بالائی آمدن پہلے سے کچھ زیادہ بن جاتے ہیں اور نہ یہ جماعت جس سے کسی قدر ارواح نکل گئے بعد اس خرچ کے کچھ کم ہوتے ہیں.غرض جو اُصول ہو بہ تفصیل مذکورہ مفصّل لکھنا چاہیے.المشتہر:.مرزا غلام احمد.رئیس قادیان عفی عنہ.۲ مارچ ۱۸۷۸ء (منقول از الحکم نمبر ۱۸ جلد ۹ صفحہ ۱ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۵ء کالم۳،۴ و حیاتِ احمد جلد اوّل حصّہ دوم صفحہ ۸۷، ۸۸ طبع دوم و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۱، ۲ و بدر سلسلۃ الجدید جلد ۱ نمبر ۸ صفحہ ۸ کالم ۲)

Page 30

 باوا صاحب کی شرائط مطلوبہ پرچہ سفیر ہند ۲۳؍ فروری ۱۸۷۸ء کا ایفاء اور نیز چند اُمور واجب العرض بہ تفصیل ذیل (۱) اوّل ذکر کرنا اس بات کا قرین مصلحت ہے کہ اشتہار مندرجہ ذیل میں جو حسب درخواست ہمارے معزز دوست باوا نرائن سنگھ صاحب وکیل کے لکھا جاتا ہے لفظ جرمانہ کے جوبجائے لفظ انعام کے ثبت ہوا ہے محض بغرض رضا جوئی باوا صاحب موصوف کے درج کیا گیا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ ایسا اندراج مطابق منشاء اصول قوانین مجریہ سرکار کے ہرگز نہیں ہے کیونکہ یہ زَرِ موعودہ کسی مجرمانہ فعل کا تاوان نہیں تا اس کا نام جرمانہ رکھا جاوے.بلکہ یہ وہ حق ہے جو خود مشتہر نے بطیبِ نفس و رضائے خاطر بلا اکراہ غیرے کسی مجیب مصیب کو بپاداش اس کے جواب باصواب کے دینا مقرر کیا ہے.اس صورت میں کچھ پوشیدہ نہیں کہ یہ رقم درحقیقت بصلہ اثبات ایک امر غیر مثبت کے ہے جس کو ہم انعام سے تعبیر کر سکتے ہیں.جرمانہ نہیں ہے اور نہ ازروئے حکم کسی قانون گورنمنٹ برطانیہ کے کوئی سوال نیک نیتی سے کرنا یا کسی امر میں بصدقِ نیّت کچھ رائے دینا داخل جرم ہے تا اس نکتہ چینی کی کچھ بنیاد ہو سکے.غرض اس موقعہ پر ثبت لفظ جرمانہ کا بالکل غیر معقول اور مُہمل اور بے محل ہے لیکن چونکہ باوا صاحب ممدوح پرچہ مقدم الذکر میں بزمرہ دیگر شرائط کے یہ شرط بھی لگاتے ہیں کہ بجائے لفظ انعام کے لفظ

Page 31

ہیں اور کوئی ایسا ایکٹ میری نظر سے نہیں گزرا جو نیک نیتی کے سوال کو جرم میں داخل کرے.(۲) شرط دوئم باوا صاحب کی اس طرح پر پوری کر دی گئی ہے جو ایک خط بقلم خود تحریر کر کے باقرار مضمون مشتہرہ کے خدمت مبارک باوا صاحب میں ارسال کیا گیا ہے.باوا صاحب خوب جانتے ہیں جو اوّل تو خود اشتہار کسی مشتہر کا جو باضابطہ کسی اخبار میں شائع کیا جاوے قانوناً تاثیر ایک اقرار نامہ کی رکھتا ہے بلکہ وہ بلحاظ تعددنقول کے گویا صدہا تمسک ہیں.علاوہ ازاں چٹھیات خانگی بھی جو کسی معاملہ متنازعہ فیہ میں عدالت میں پیش کئے جاویں ایک قومی دستاویز ہیں اور قوت اقرار نامہ قانونی کے رکھتے ہیں.سو چٹھی خاص بھی بھیجی گئی.ماسوائے اس کے جبکہ اس معاملہ میں شہادات زبانی ثالثوں کی بھی موجود ہو گی تو پھر باوجود اس قدر انواع و اقسام کے ثبوتوں کے حاجت کسی عہد نامہ خاص کی کیا رہی.لیکن چونکہ مجھ کو اتمام حجت مطلوب ہے اس لیے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر اس ثبوت پر کفایت نہ کر کے پھر باوا صاحب اقرار نامہ اشٹام کا مطالبہ کریں گے تو فوراً اقرار نامہ مطلوبہ ان کا معرفت مطبع سفیر ہند کے یا جیسا مناسب ہو خدمت میں اُن کی بھیجا جاوے گا.لیکن باوا صاحب پر لازم ہو گا کہ وہ در صورت مغلوب رہنے کے قیمت اشٹام کی واپس کریں.(۳) شرط سوئم میں باوا صاحب روپیہ وصول ہونے کا اطمینان چاہتے ہیں.سو واضح ہو کہ اگرباوا صاحب کا اس فکر سے دل دھڑکتا ہے کہ اگر روپیہ وقت پر ادا نہ ہوتو کس جائداد سے وصول ہوگا تو اس میں یہ عرض ہے کہ اگر باوا صاحب کو ہماری املاک موجودہ کا حال معلوم نہیں تو صاحبِ موصوف کو ایسے قلیل معاملہ میں زیادہ آگاہ کرنا ضروری نہیں.صرف اس قدر نشان دہی کافی ہے کہ در صورت تردّد کے ایک معتبر اپنا صرف بٹالہ میں بھیج دیں اور ہمارے مکانات اور اراضی جو قصبہ مذکور میں قیمتی چھ سات ہزار کے موجود اور واقعہ ہیں ان کی قیمت تخمینی دریافت کر کے اپنے مضطرب دل کی تسلّی کر لیں اور نیز یہ بھی واضح ہو جو بمجرد جواب دینے کے مطالبہ روپیہ کانہیں ہو سکتا جیسا کہ باوا صاحب کی تحریر سے مفہوم ہوتا ہے بلکہ مطالبہ کا وہ وقت ہوگا کہ جب ُکل آرائے تحریری ثالثان اہلِ انصاف کے جن کے اسمائے مبارکہ تنقیح شرط چہارم میں ابھی درج کروں گا.سفیر ہند میں

Page 32

بشرائط مشروط پرچہ ہذا کے طبع ہو کرشائع ہو جائیں گی.(۴) شرط چہارم میں باوا صاحب نے صاحبان مندرجہ ذیل کومنصفان تنقید جواب قرار دیا ہے.مولوی سیّد احمد خان صاحب.منشی کنہیا لال صاحب.منشی اندرمن صاحب.مجھ کو منصفان مجوزہ باوا صاحب میں کسی نہج کا عذر نہیں بلکہ میں ان کاشکریہ ادا کرتا ہوں جو انہوں نے تجویز تقرر ثالثان میں مولوی سیّد احمد خان صاحب کا نام بھی جو ہم سے اخوت اسلام رکھتے ہیں، درج کر دیا.اس لیے میں بھی اپنے منصفان مقبولہ میں ایک فاضل آریہ صاحب کو جن کی فضیلت میں باوا صاحب کو بھی کلام نہیں، باعتماد طبیعت صالحانہ اور رائے منصفانہ ان کی کے داخل کرتا ہوں جن کے نام نامی یہ ہیں.سوامی پنڈت دیانند سرسوتی.حکیم محمد شریف صاحب امرتسری.مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب لاہوری.لیکن اتنی عرض اور ہے کہ علاوہ ان صاحبوں کے کہ فریقین کے ہم مذہب ہیں.دو صاحب مسیحی مذہب بھی ممبر تنقید جواب کے لیے قرارپانے چاہئیں.سو میری دانست میں پادری رجب علی صاحب اور بابو رلیارام صاحب جوعلاوہ فضیلت علمی اور طبیعت منصفانہ کے اس بحث جاری شدہ سے بخوبی واقف ہیں بشرطیکہ صاحبین موصوفین براہ مہربانی اس شوریٰ میں داخل ہونا منظور کر لیں اور آپ کو بھی اس میں کوئی کلام نہ ہو، بہتر اور انسب ہیں.ورنہ بالآخر اس طرح تجویز ہو گی کہ ایک صاحب مسیحی مذہب کو آپ قبول کر کے اطلاع دے دیں اور ایک کے اسم مبارک سے میں مطلع کروںگا.اور تصفیہ اس طرح پر ہو گا کہ بعد طبع ہونے جواب آپ کے ان صاحبوں کو جو حسب ِ مرضی فریقین ثالث قرار پائے ہیں بذریعہ خانگی خطوط کے اطلاع دی جائے گی لیکن ہر ایک فریق ہم دونوں میں سے ذمہ وار ہو گا کہ اپنے منصفین مجوزہ کو آپ اطلاع دے.تب صاحبان منصفین اوّل ہمارے سوال نمبر ۱ کو دیکھیں گے اور بعد اس کے تبصرہ مشمولہ شرائط ہذاکو جس میں آپ کے جواب الجواب کا جو ۱۸؍ فروری آفتاب پنجاب میں طبع ہوا تھا، ازالہ ہے.بغور ملاحظہ فرمائیں گے.پھر آپ کا جواب بتدبّر تمام پڑھ کر جانچیں گے کہ آیا اس جواب سے وجوہات ہمارے ردّ ہو گئے یا نہیں؟ اور یہ بھی

Page 33

دیکھیں گے کہ آپ نے باثبات دونوں امر مندرجہ اشتہار کے کیا کیا وجوہات پیش کئے ہیں.لیکن یہ امر کسی منصف کے اختیار میں نہ ہو گا کہ صرف اس قدر رائے ظاہر کرے کہ ہماری دانست میں یہ ہے یا وہ ہے.بلکہ اگر کوئی ایسی رائے ظاہر کرے تو یہ سمجھا جائے گا کہ گویاا س نے کوئی رائے ظاہر نہیں کی.غرض کوئی رائے میں نہیں لیا جائے گا جب تک اس صورت سے تحریر نہ ہو کہ اصل وجوہات متخاصمین کو پورا پورا بیان کر کے بتقریر مدلّل ظاہر کرے کہ کس طور سے یہ وجوہات ٹوٹ گئیں یا بحال رہیں اور علاوہ اس کے یہ سب منصفانہ آراء سے سفیر ہند میں درج ہوں گے نہ کسی اور پرچہ میں بلکہ صاحبان منصفین اپنی اپنی تحریر کو براہ راست مطبع ممدوح الذکر میں ارسال فرمائیں گے باستثنا بابو رلیارام صاحب کے اگر وہ اس شوریٰ تنقید جواب میں داخل ہوئے تو اُن کو اپنا رائے اپنے پرچہ میں طبع کرنا ہو گا اور جب کہ یہ سب آراء بقید ِ شرائط متذکرہ بالا کے طبع ہو جائیں گی تو اس وقت کثرت رائے پر فیصلہ ہوگااور اگر ایک نمبر بھی زیادہ ہو تو باوا صاحب کو ڈگری ملے گی.ورنہ آنجناب مغلوب رہیں گے.اشتہار مبلغ پانچ سو روپیہ۰۰ ۵ ۱۸۷۸ء میں راقم اس سوال کا جو آریہ سماج کی نسبت پرچہ ۹؍ فروری اور بعد اس کے سفیر ہند میں بدفعات درج ہو چکا ہے، اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کر کے لکھ دیتا ہوں کہ اگر باوا نرائن سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب منجملہ آریہ سماج کے جو اُن سے متفق الرائے ہوں.ہماری ان وجوہات کا جواب جو سوال مذکورہ میںد رج ہے اور نیز ان دلائل کے تردید جوتبصرہ مشمولہ اشتہار ہذا میں مبین ہے پورا پورا ادا کر کے بدلائل حقّہ یقینیہ یہ ثابت کر دے کہ ارواح بے انت ہیں اور پرمیشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں تو میں پانچسو روپیہ نقد اس کو بطور جُرمانہ کے دوں گا اور در صورت نہ ادا ہونے روپیہ کے مجیب مثبت کو اختیار ہو گا کہ امداد عدالت سے وصول کرے.تنقید جواب کی اُس طرح عمل میں آوے گی جیسے تنقیح شرائط میں اوپر لکھا گیا ہے.اور نیز جواب باوا صاحب کا بعد طبع اور شائع ہونے تبصرہ ہمارے کے مطبوع ہو گا.المشتہر:.مرزا غلام احمد.رئیس قادیان (منقول از تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۲ تا۶.حیات احمد جلد اوّل نمبر دوم صفحہ ۱۸۹ تا ۱۹۲ طبع دوم)

Page 34

 اعلان سوامی دیانند سرسوتی صاحب نے بجواب ہماری اس بحث کے جو ہم نے روحوں کا بے انت ہونا باطل کر کے غلط ہونا مسئلہ تناسخ اور قدامت سلسلۂ دنیا کا ثابت کیا ہے.معرفت تین کس آریہ سماج والوں کے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اگرچہ ارواح حقیقت میں بے انت نہیں ہیں لیکن تناسخ اس طرح پر ہمیشہ رہتا ہے کہ جب سب ارواح مکتی پا جاتے ہیں تو پھر بوقت ضرورت مکتی خانہ سے باہر نکالی جاتی ہیں.اب سوامی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے اس جواب میں کچھ شک ہو تو بالموا جہ بحث کرنی چاہیے.چنانچہ اس بارے میں سوامی صاحب کا خط بھی آیا.اس خط میں بھی بحث کا شوق ظاہر کرتے ہیں.اس واسطے بذریعہ اس اعلان کے عرض کیا جاتا ہے کہ یہ بحث بالموا جہ ہم کو بسرو چشم منظورہے.کاش! سوامی صاحب کسی طرح ہمارے سوالوں کا جواب دیں.مناسب ہے کہ سوامی صاحب کوئی مقام ثالث بالخیر کے واسطے انعقاد اس جلسہ کی تجویز کر کے بذریعہ کسی مشہور اخبار کے تاریخ و مقام کو مشتہر کر دیں.لیکن اس جلسہ میں شرط یہ ہے کہ یہ جلسہ بحاضری چند منصفان صاحب لیاقت اعلیٰ کہ تین صاحب ان میں سے ممبران برہمو سماج اور تین صاحب مسیحی مذہب ہوں گے.قرار پاوے گا.اوّل تقریر کرنے کا ہمارا حق ہو گا کیونکہ ہم معترض ہیں.پھر پنڈت صاحب برعایت شرائط جو چاہیں گے جواب دیں گے.پھر اس کا جواب الجواب ہماری طرف سے گزارش ہو گا اور بحث ختم ہو جائے گی.ہم سوامی صاحب کی اس درخواست سے بہت خوش ہوئے.ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ کیوں سوامی صاحب

Page 35

اور اور دھندوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایسی بحث اور اعتراض کا جواب نہیں دیتے جس نے سب آریہ سماج والوں کا دم بند کر رکھا ہے.اب اگر سوامی صاحب نے اس اعلان کا کوئی جواب مشتہر نہ کیا تو بس یہ سمجھوکہ سوامی صاحب صرف باتیں کر کے اپنے موافقین کے آنسو پونچھتے ہیں اور مکت یابوں کی واپسی میں جو جو مفاسد ہیں مضمون مشمولہ متعلقہ اس اعلان میں درج ہیں.ناظرین پڑھیں اور انصاف فرما ویں.المعــــــــــــــــــــــــــــــــــــلن مرزا غلام احمد رئیس قادیان.۱۰؍ جون ۱۸۷۸ء (منقول از رسالہ برادر ہند لاہور بابت جولائی ۱۸۷۸ء و حیاتِ احمد جلد اوّل حصّہ دوم صفحہ ۱۸۵، ۱۸۶ طبع دوم.الحکم نمبر ۱۹ جلد ۹ صفحہ ۱ کالم اوّل ۳۱؍ مئی ۱۹۰۵ء وبدر سلسلہ جدید جلد اول نمبر ۱۰ صفحہ ۶ کالم ۲ مورخہ ۸؍ جون ۱۹۰۸ء)

Page 36

 اعلان متعلقہ مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ وید و فرقان مع اشتہار پانسو ۵۰۰ روپیہ جو پہلے بھی بمباحثہ باوا صاحب مشتہر کیا گیا تھا ناظرین انصاف آئین کی خدمت بابرکت میں واضح ہو کہ باعث مشتہر کرنے اس اعلان کا یہ ہے کہ عرصہ چند روز کا ہوا ہے کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب ممبر آریہ سماج امرتسر قادیان میں تشریف لائے اور مستدعی بحث کے ہوئے.چنانچہ حسبِ خواہش ان کے دربارہ تناسخ اور مقابلہ وید اور قرآن کے گفتگو کرنا قرار پایا.برطبق اس کے ہم نے ایک مضمون جو اس اعلان کے بعد میں تحریر ہو گا.ابطال تناسخ میں اس التزام سے مرتب کیا کہ تمام دلائل اس کے قرآن مجید سے لئے گئے اور کوئی بھی ایسی دلیل نہ لکھی کہ جس کا ماخذ اور منشاء قرآن مجید نہ ہو اور پھر مضمون جلسہ عام میں پنڈت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا تا کہ پنڈت صاحب بھی حسبِ قاعدہ ملتزمہ ہمارے کے اثبات تناسخ میں وید کی شُرتیاں پیش کریں اور اس طور سے مسئلہ تناسخ کا فیصلہ پا جائے اور وید اور قرآن کی حقیقت بھی ظاہر ہو جائے کہ ان میں سے کون غالب اور کون مغلوب ہے.اس پر پنڈت صاحب نے بعد سماعت تمام مضمون کے دلائل وید کے پیش کرنے سے عجز مطلق ظاہر کیا اور صرف دو شرتیاں ر گوید سے پیش کیں کہ جن میں ان کے زعم میں تناسخ کا ذکر تھا اور اپنی طاقت سے بھی کوئی دلیل پیش کردہ ہماری کو ردّ نہ کر سکے.حالانکہ ان پر واجب تھا کہ بمقابلہ دلائل فرقانی کے اپنے وید کا بھی کچھ فلسفہ ہم کو دکھلاتے

Page 37

اور اس دعویٰ کو جو پنڈت دیانند صاحب مدت دراز سے کر رہے ہیں کہ وید سرچشمہ تمام علوم فنون کا ہے ثابت کرتے لیکن افسوس کہ کچھ بھی نہ بول سکے اور دم بخود رہ گئے اور عاجز اور لاچار ہو کر اپنے گائوں کی طرف سدھار گئے.گائوں میں جاکر پھر ایک مضمون بھیجا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ابھی بحث کرنے کا شوق باقی ہے اور مسئلہ تناسخ میں مقابلہ وید اور قرآن کا بذریعہ کسی اخبار کے چاہتے ہیں.سوبہت خوب ہم پہلے ہی طیار ہیں.مضمون ابطال تناسخ جس کو ہم جلسۂ عام میں گوش گزار پنڈت صاحب موصوف کر چکے ہیں وہ تمام مضمون دلائل اور براہین قرآن مجید سے لکھا گیا ہے اور جا بجا آیات فرقانی کا حوالہ ہے.پنڈت صاحب پر لازم ہے کہ مضمون اپنا جو دلائل بید سے بمقابلہ مضمون ہمارے کے مرتب کیا ہو، پرچہ سفیر ہند یا برادر ہند یا آریہ درپن میں طبع کراویں.پھر آپ ہی دانا لوگ دیکھ لیں گے اور بہتر ہے کہ ثالث اور منصف اس مباحثہ تنقیح فضیلت وید اور قرآن میں دو شریف اور فاضل آدمی مسیحی مذہب اور برہمو سماج سے جو فریقین کے مذہب سے بے تعلق ہیں، مقرر کئے جائیں سو میری دانست میں ایک جناب پادری رجب علی صاحب جو خوب محقق مدقق ہیں اور دوسرے جناب پنڈت شیونرائن صاحب جو برہمو سماج میں اہلِ علم اور صاحب نظر دقیق ہیں، فیصلہ اس امر متنازعہ فیہ میں حَکَمْ بننے کے لیے بہت اَولیٰ اور اَنسب ہیں.اس طور پر بحث کرنے میں حقیقت میں چار فائدے ہیں.اوّل یہ کہ بحث تناسخ کی بہ تحقیق تمام فیصلہ پا جائے گی.دوم اس موازنہ اور مقابلہ سے امتحان وید اور قرآن کا بخوبی ہو جائے گا اور بعد مقابلہ کے جو فرق اہلِ انصاف کی نظر میں ظاہر ہو گا وہی فرق قول فیصل متصور ہو گا.سوم یہ فائدہ کہ اس التزام سے ناواقف لوگوں کو عقائد مندرجہ وید اور قرآن سے بکلّی اطلاع ہو جائے گی.چہارم یہ فائدہ کہ یہ بحث تناسخ کی کسی ایک شخص کی رائے کا خیال نہیں کی جائے گی بلکہ محول بکتاب ہو کر اور معتاد طریق سے انجام پکڑ قابل تشکیک اور تزئیف نہیں رہے گی.اور اس بحث میں یہ کچھ ضرور نہیں کہ صرف پنڈت کھڑک سنگھ صاحب تحریر جواب کی تنِ تنہا محنت اُٹھائیں بلکہ میں عام اعلان دیتا ہوں کہ منجملہ صاحبان مندرجہ عنوان مضمون ابطالِ تناسخ جو ذیل میں تحریر ہو گا کوئی صاحب ارباب فضل و کمال میں سے متصدی جواب ہوں اور اگر کوئی صاحب بھی باوجود

Page 38

اس قدر تاکید مزید کے اس طرف متوجہ نہیں ہوں گے اور دلائل ثبوت تناسخ کے فلسفہ متدعویہ وید سے پیش نہیں کریں گے یا درصورت عاری ہونے وید کے ان دلائل سے اپنی عقل سے جواب نہیں دیں گے تو ابطال تناسخ کی ہمیشہ کے لیے ان پر ڈگری ہو جائے گی اور نیز دعویٰ وید کا کہ گویا وہ تمام علوم و فنون پر متضمن ہے محض بے دلیل اور باطل ٹھہرے گا اور بالآخر بغرض توجہ دہانی یہ بھی گزارش ہے کہ مَیں نے جو قبل اس سے فروری ۱۸۷۸ء میں ایک ۱؎ اشتہار تعدادی پانسوروپیہ بابطال مسئلہ تناسخ دیا تھاوہ اشتہار اب اس مضمون سے بھی بعینہٖ متعلق ہے اگر پنڈت کھڑک سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب ہمارے تمام دلائل کو نمبروار جواب دلائل مندرجہ وید سے دے کر اپنی عقل سے توڑ دیں گے تو بلاشبہ رقم اشتہار کے مستحق ٹھہریں گے اور بالخصوص بخدمت کھڑک سنگھ صاحب کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم پانچ منٹ میں جواب دے سکتے ہیں یہ گزارش ہے کہ اب اپنی اس استعداد علمی کو روبروئے فضلائے نامدارملت مسیحی اوربرہمو سماج کے دکھلاویں اور جو جو کمالات ان کی ذات سامی میں پوشیدہ ہیں منصہ ظہور میں لاویں ورنہ عوام کا لانعام کے سامنے دم زنی کرناصرف ایک لاف گزاف ہے اس سے زیادہ نہیں.الراقم:.مرزا غلام احمد.رئیس قادیان (منقول از حضرت اقدس کی پُرانی تحریریں حصّہ اوّل صفحہ ۱ تا ۳ مطبوعہ ۳۰؍ مئی ۱۸۹۹ء.مرتبہ ایڈیٹر الحکم ) (روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳ تا ۶) ۱؎ یہ اشتہار سفیر ہند مورخہ ۹؍ فروری ۱۸۷۸ء کا ہے جو باوجود تلاش کے نہیں ملا.(مؤلّف)

Page 39

اشتہار بغرض استعانت و استظہار از انصار دین محمد مختار صلّی اللہ علیہ و علیٰ آلہ الابرار اخوان دیندار و مومنین غیرت شعار و حامیان دینِ اسلام و متبعین سنت خیر الانام پر روشن ہو کہ اس خاکسار نے ایک کتاب متضمن اثبات حقانیّت قرآن و صداقت دینِ اسلام ایسی تألیف کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد طالبِ حق سے بجز قبولیت اسلام اور کچھ بَن نہ پڑے.اور اس کے جواب میں قلم اُٹھانے کی کسی کو جُرأت نہ ہو سکے.اس کتاب کے ساتھ اس مضمون کا ایک اشتہار دیا جاوے گا کہ جو شخص اس کتاب کے دلائل کو توڑ دے و مع ذالک اس کے مقابلہ میں اسی قدر دلائل یا ان کے نصف یاثُلث یا رُبع یا خُمس سے اپنی کتاب کا (جس کو وہ الہامی سمجھتا ہے) حق ہونا یا اپنے دین کا بہتر ہوناثابت کر دکھائے اور اس کے کلام یا جواب کو میری شرائط مذکورہ کے موافق تین منصف (جن کو مذہب فریقین سے تعلق نہ ہو) مان لیں تو میں اپنی جائداد تعدادی دس ہزار. روپیہ سے (جو میرے قبضہ و تصرف میں ہے) دستبردار ہو جائوں گا اور سب کچھ اس کے حوالہ کر دوں گا.اس باب میں جس طرح کوئی چاہے اپنی اطمینان کر لے.مجھ سے تمسک لکھا لے یا رجسٹری کرا لے اور میری جائداد منقولہ و غیر منقولہ کو آ کر بچشم خود دیکھ لے.باعث تصنیف اس کتاب کے پنڈت دیانند صاحب اور ان کے اتباع ہیں جو اپنی اُمّت کو آریہ سماج کے نام سے مشہور کر رہے ہیں اور بُجز اپنے وید کے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ مسیح

Page 40

اور حضرت محمد مصطفٰی علیہم السلام کی تکذیب کرتے ہیں اور نعوذ باللہ توریت،زبور، انجیل، فرقان مجید کو محض افتراء سمجھتے ہیں اور ان مقدس نبیوں کے حق میں ایسے توہین کے کلمات بولتے ہیں کہ ہم سُن نہیں سکتے.ایک صاحب نے ان میں سے اخبار سفیر ہند میں بطلب ثبوت حقانیت فرقان مجید کئی دفعہ ہمارے نام اشتہار بھی جاری کیا ہے.اب ہم نے اس کتاب میں ان کا اور ان کے اشتہاروں کا کام تمام کر دیا ہے اور صداقت قرآن و نبوت کو بخوبی ثابت کیا.پہلے ہم نے اس کتاب کا ایک حصہ پندرہ جزو میں تصنیف کیا.بغرض تکمیل تمام ضروری امروں کے نو ۹ حصے اور زیادہ کر دیئے جن کے سبب سے تعداد کتاب ڈیڑھ سو جزء ہو گئی.ہر ایک حصہ اس کا ایک ایک ہزار نسخہ چھپے تو چورانو۹۴ے روپیہ صَرف ہوتے ہیں.پس کل حصص کتاب نو سوچالیس روپے سے کم میں چھپ نہیں سکتے.از انجا کہ ایسی بڑی کتاب کا چھپ کر شایع ہونا بجز معاونت مسلمان بھائیوں کے بڑا مشکل امر ہے اور ایسے کام میں اعانت کرنے میں جس قدر ثواب ہے وہ ادنیٰ اہل اسلام پر بھی مخفی نہیں.لہٰذا اخوان مومنین سے درخواست ہے کہ اس کارخیر میں شریک ہوں اور اس کے مصارف طبع میں معاونت کریں.اغنیاء لوگ اگر اپنے مطبخ کے ایک دن کا خرچ بھی عنایت فرمائیںگے تو یہ کتاب بسہولت چھپ جائے گی ورنہ یہ مہر درخشاں چُھپا رہے گا یا یوں کریں کہ ہر ایک اہلِ وسعت بہ نیت خریداری کتاب پانچ پانچ روپیہ معہ اپنی درخواستوں کے راقم کے پاس بھیج دیں.جیسے جیسے کتاب چھپتی جائے گی ان کی خدمت میں ارسال ہوتی رہے گی.غرض انصار اللہ بن کر اس نہایت ضروری کام کو جلد تر بسر انجام پہونچادیں اور نام اس کتاب کا ’’البراہین الاحمدیّہ علٰی حقّیّۃ کتاب اللّٰہ القرآن و النبوۃ المحمّدیّہ‘‘ رکھا گیا ہے.خدا اس کو مبارک کرے اور گمراہوں کو اس کے ذریعہ سے اپنے سیدھے راہ پر چلاوے.آمین المشتہر :.خاکسار غلام احمد از قادیان.ضلع گورداسپور.ملک پنجاب (منقول از ضمیمہ اشاعۃ السنۃ نمبر ۴.جلد دوئم صفحہ ۳.۴ بابت اپریل ۱۸۷۹ء مطبوعہ مئی ۱۸۷۹ء مصنفہ مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی بحوالہ تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ تا )

Page 41

 اعلان کتاب براہین احمدیہ کی قیمت و تاریخ طبع واضح ہو کہ جو اصل قیمت اس کتاب کی بلحاظ ضخامت اور حُسن اور لطافت ذاتی اس کے اور نیز بنظر اس پاکیزگی خط اور تحریر اور عمدگی کاغذ وغیرہ لوازم اور مراتب کے کہ جن کے التزام سے یہ کتاب چھاپی جائے گی.بیس روپیہ سے کم نہ تھی مگر ہم نے محض اس امید اور نظر سے جو بعض امرائِ اسلام جوذِی ہمت اور اولوالعزم ہیں اس کتاب کی اعانت میں توجہ کامل فرماویں گے اور اس طور سے

Page 42

جبر اُس نقصان کا ہو جاوے گا جو کمی قیمت کے باعث سے عاید حال ہو گا.صرف پانچ روپیہ قیمت مقرر کی تھی مگر اب تک ایسا ظہور میں نہ آیا اور ہم انتظار کرتے کرتے تھک بھی گئے.البتہ کئی ایک صاحبان عالی ہمت یعنی جناب نواب صاحب بہادر فرمانروائے ریاست لوہارو اور علاوہ ان کے جناب خلیفہ سیّد محمد حسن خان بہادر وزیر اعظم و دستور معظم ریاست پٹیالہ نے جو ہمیشہ اشاعت علمی اور ہمدردی قومی اور دینی خیر خواہی بندگان الٰہی میں بدل و جان مصروف ہو رہے ہیں.اس کام میں بھی جس کی عِلّتِ غائی اشاعت دلائل حقیت دینی اور اظہار شان اور شوکت اور راستی اور صداقت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہے خریداری کتب اور فراہمی خریداروں میں کماحقّہ مدد فرمائی کہ جس کی تفصیل انشاء اللہ عنوان کتاب براہین احمدیّہ پر درج کی جائے گی اور جناب نواب صاحب بہادر ممدوح نے علاوہ خریداری کتب کے کسی قدر روپیہ بطور اعانت کتاب کے عطا فرمانا بھی وعدہ فرمایا.لیکن بباعث اس کے جو قیمت کتاب کی نہایت ہی کم تھی اور جبر نقصان اس کے کا بہت سی اعانتوں پر موقوف تھا جو محض فی سبیل اللہ ہر طرف سے کی جاتیں، طبع کتاب میں بڑی توقف ظہور میں آئی مگر اب کہاں تک توقف کی جائے ناچار بصد اضطرار یہ تجویر سوچی گئی جو قیمت کتاب کی جو بنظر حیثیت کتاب کے بغایت درجہ قلیل اور ناچیز ہے دو چند کی جائے.لہٰذا بذریعہ اعلان ہذا کے ظاہر کیا جاتا ہے جو من بعد جملہ صاحبین باستثناء ان صاحبوں کے جو قیمت ادا کر چکے ہیں یا ادا کرنے کا وعدہ ہو چکا ہے قیمت اس کتاب کی بجائے پانچ روپیہ کے دس روپیہ تصور فرماویں.مگر واضح رہے کہ اگر بعد معلوم کرنے قدر و منزلت کتاب کے کوئی امیر عالی ہمت محض فی سبیل اللہ اس قدر اعانت فرماویں گے کہ جو کسر کمی قیمت کی ہے اس سے پوری ہو جائے گی تو پھر بہ تجدید اعلان وہی پہلی قیمت کہ جس میں عام مسلمانوں کا فائدہ ہے قرار پا جائے گی اور ثواب اس کا اس مُحْسِنکو ملتا رہے گا.اور یہ وہ خیال ہے کہ جس سے ابھی میں نااُمید نہیں اور اغلب ہے کہ بعد شائع ہونے کتاب اور معلوم ہونے فوائد اس کے کہ ایسا ہی ہو اور انشاء اللہ یہ کتاب جنوری ۱۸۸۰ء میں زیر طبع ہو کر اس کی اجراء اسی مہینہ یا فروری

Page 43

میں شائع اور تقسیم ہونی شروع ہو جائے گی.مکرر یہ کہ میں اس اعلان میں مندرجہ حاشیہ صاحبان کا بدل مشکور ہوں کہ جنہوں نے سب سے پہلے اس کتاب کی اعانت کے لیے بنیاد ڈالی اور خریداری کتب کا وعدہ فرمایا.مورخہ ۳؍ دسمبر۱۸۷۹ء المعــــــــــــــــــــــــــــــــــلن مرزا غلام احمد.رئیس قادیان ضلع گورداسپور.پنجاب (منقول از اخبار سفیر ہند نمبر ۵۱.مطبوعہ ۲۰؍ دسمبر ۱۸۷۹ء صفحہ ۸۲۴) ( تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ تا )

Page 44

 لالہ جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لاہور کا اعلان آج مَیں نے اتفاقاً آپ کے اخبار مطبوعہ ۹؍ فروری کے ابتدائی صفحہ میں ایک اشتہار ۱؎ منجانب مرزا غلام احمد رئیس قادیان دیکھا.لہٰذا اس کی نسبت چند سطور ارسال خدمت ہیں امید کہ درج اخبار فرما کر مشکور فرمائیے گا.راقم اشتہار نے لکھا ہے کہ جو صاحب منجملہ توابع سوامی دیانند سرسوتی صاحب سوال ہذا کا جواب دے کر ثابت کرے کہ روح بے انت ہیں اور پرمیشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں تو میں اس کو مبلغ پانچ سو روپیہ بطور انعام کے دوں گا.اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ لفظ توابع سے صاحب راقم کا کیا مطلب ہے اگر آریہ سمارج والوں سے مراد ہے تو معلوم رہے کہ وے لوگ سوامی دیانند کے توابعین سے نہیں ہیں یعنی وے عام طور پر پابند خیالات سوامی دیانند کے نہیں.ہاں ان کے خیالات میں سے جو بات جس کو معقول معلوم ہوتی ہے وہ اس کو مانتا ہے.اور یہ امر کچھ آریہ سماج والوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر کوئی امر معقول کو پسند کرتا ہے.اب رہی یہ بات کہ روح بے انت ہیں اور پرمیشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں، آریہ سماج اس کو مانتی ہے یا نہیں.تو معلوم ہو کہ یہ مسئلہ آریہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں ہے.اگر کوئی ممبر سماج کا اس کا دعویدار ہو تو اس سے سوال کرنا چاہیے اور اسی کو ۱؎ یہ اشتہار مورخہ ۹؍ فروری ۱۸۷۸ء باوجود تلاش کے نہیں ملا.اس لیے سکرٹری آریہ سماج لاہور کا اعلان درج کر دیا ہے کیونکہ اس میں اس اشتہار کا خلاصہ مضمون موجود ہے.اسی اشتہار کا نوٹ صفحہ ۱۰ پر لکھا گیا ہے.(مرتب)

Page 45

اس کا جواب دینا لازم ہے.چونکہ اس اشتہار سے لوگوں کو یہ مغالطہ پیدا ہوتا تھا کہ آریہ سماج والے سوامی دیانند صاحب کے پیرو اور تابع ہیں.حالانکہ یہ بات نہیں.اس لیے بغرض اشتہار اور مغالطہ مذکور کے یہ تحریر عمل میں آئی.راقم جیونداس سیکرٹری آریہ سماج لاہور (منقول از حیات احمد جلد اوّل نمبر دوم صفحہ ۱۷۹، ۱۸۰ طبع دوم)

Page 46

 خط ۱؎ مکرمی جناب پنڈت صاحب! آپ کا مہربانی نامہ عین اس وقت میں پہنچا کہ جب میں بعض ضروری مقدمات کے لیے امرتسر کی طرف جانے کو تھا.چونکہ اس وقت مجھے دو گھنٹہ کی بھی فرصت نہیں اس لیے آپ کا جواب واپس آ کر لکھوں گا اور انشاء اللہ تین روز بغایت درجہ چار روز کے بعد واپس آ جائوں گا اور پھر آتے ہی جواب لکھ کر خدمت گرامی میں ارسال کروں گا.آپ فرماتے ہیں کہ یہ مضامین برادر ہند میں درج ہوں مگرمیری صلاح یہ ہے کہ ان مضامین کے ساتھ دو ثالثوں کی رائے بھی ہو تب اندراج پاویں مگر اب مشکل یہ کہ ثالث کہاں سے لاویں ناچار یہی تجویز خوب ہے کہ آپ ایک فاضل نامی گرامی صاحب تالیف تصنیف کا براہم سماج کے فضلاء میں سے منتخب کر کے مجھے اطلاع دیں جو ایک خدا ترس اور فروتن اور محقق اور بے نفس اور بے تعصب ہو.اور ایک انگریز کہ جن کی قوم کی زیر کی بلکہ بے نظیری کے آپ قائل ہیں انتخاب فرما کر اس سے بھی اطلاع بخشیں تو اغلب ہے کہ میں ان دونوں کو منظور کروں گا اور مَیں نے بطور سرسری سنا ہے کہ آپ کے برہمو سماج میں ایک صاحب کیشپ چندر نام لئیق اور دانا آدمی ہیں.اگر یہی سچ ہے تو وہی منظور ہیں.ان کے ساتھ ایک انگریز کر دیجیے.مگر منصفوں کویہ اختیار نہ ہو گا کہ صرف اتنا ہی لکھیں کہ ہماری رائے میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ ہر ایک فریق کی دلیل کو اپنے بیان ۱؎ یہ خط بمنزلہ اشتہار کے تھا اور نہایت ضروری تھا کیونکہ حضرت اقدس ؑ نے بحث الہام کے متعلق پنڈت شیو

Page 47

نارائن اگنی ہوتری کو لکھا تھا اس لیے یہاں درج کر دیا ہے.(مؤلف) سے توڑنا یا بحال رکھنا ہو گا.دوسرے یہ مناسب ہے کہ اس مضمون کو رسالہ میں متفرق طور پر درج نہ کیا جائے کہ اس میں منصف کو دوسرے نمبروں کا مدت دراز تک انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ مناسب ہے کہ یہ سارا مضمون ایک ہی دفعہ برادر ہند میں درج ہو یعنی تین تحریریں ہماری طرف سے اور تین ہی آپ کی طرف سے ہوں اور ان پر دونوں منصفوں کی مفصّل رائے درج ہو اور اگر آپ کی نظر میں اب کی دفعہ منصفوں کی رائے درج کرنا کچھ دقت طلب ہو تو پھر اس صورت میں یہ بہتر ہے کہ جب میں بفضلہ تعالیٰ امرتسر سے واپس آ کر تحریر ثالث آپ کے پاس بھیج دوں تو آپ بھی اس پر کچھ مختصر تحریر کر کے تینوں تحریریں یک دفعہ چھاپ دیں اور ان تحریروں کے اخیر میں یہ بھی لکھا جائے کہ فلاں فلاں منصف صاحب اس پر اپنا اپنا مو جہ رائے تحریر فرماویں اور پھر دو جلدیں اس رسالہ کی منصفوں کی خدمت میں مفت بھیجی جائیں.آئندہ جیسے آپ کی مرضی ہو اس سے اطلاع بخشیں اور جلد اطلاع بخشیں.اور مَیں نے چلتے چلتے جلدی سے یہ خط لکھ ڈالا ہے کمی بیشی الفاظ سے معاف فرمائیں.راقم آپ کا نیاز مند غلام احمد عفی عنہ.۱۷؍ جون ۱۸۷۹ء (منقول از حضرت اقدس کی پُرانی تحریریں صفحہ ۲۵، ۲۶ مطبوعہ ۳۰؍ مئی ۱۸۹۹ء مرتبہ ایڈیٹر الحکم) (روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۲، ۳۳)

Page 48

 بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار تصنیف کتاب براہینِ احمدیّہ بجہت اطلاع جمیع عاشقان صدق و انتظام سرمایۂ طبع کتاب ایک کتاب جامع دلائل معقولہ دربارہ اثبات حقانیت قرآن شریف و صدق نبوت حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جس میں ثبوت کامل منجانب کلام اللہ ہونے قرآن شریف اورسچا ہونے حضرت خاتم الانبیاء کا اس قطعی فیصلہ سے دیا گیا ہے کہ ساتھ اس کتاب کے ایک اشتہار بھی بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ کے اس مراد سے منسلک ہے کہ اگر کوئی صاحب جو حقانیت اور افضلیت فرقان شریف سے منکر ہے، براہین مندرجہ اس کتاب کو توڑ دے یا اپنی الہامی کتاب میں اسی قدر دلائل یا نصف اس سے یا ثُلث اس سے یا رُبَع اس سے یا خُمس اس سے ثابت کر کے دکھلا دے جس کو تین منصف مقبولہ فریقین تسلیم کر لیں تو مشتہر اس کو بلا عذر اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دے گا.بوجہ منکرانہ اصرار پنڈت دیانند صاحب اور ان کے بعض سیکرٹریوں کی تصنیف ہوئی ہے اور نام اس کتاب کا مندرجہ حاشیہ بَرَاہِیْن الاَحمدیہ عَلٰی حقّانیّت کِتاب اللّٰہِ الفُرقان و النَّبوۃ المحمّدِیّہ

Page 49

رکھا گیا ہے.لیکن بو جہ ضخامت چھپنا اس کتاب کا خریداروں کی مدد پر موقوف ہے.لہٰذا یہ اشتہار بجہت اطلاع جملہ اخوان مومنین و برادران موحدین و طالبان راہ حق و یقین شائع کیا جاتا ہے کہ بہ نیت معاونت اور نصرت دین متین کے اس کتاب کے چندہ میں بحسبِ توفیق شریک ہوں یا یوں مدد کریں کہ بہ نیت خریداری اس کتاب کے مبلغ پانچ روپیہ جو اصل قیمت اس کتاب کی قرار پائی ہے بطور پیشگی بھیج دیں تا سرمایہ طبع اس کتاب کا اکٹھا ہو کر بہت جلد چھپنی شروع ہو جائے.اور جیسے جیسے چھپتی جائے گی بخدمت جملہ صاحبین جو بہ نیت خریداری چندہ عنایت فرمائیں گے مرسل ہوتی رہے گی، لیکن واضح رہے کہ جو صاحب بہ نیت خریداری چندہ عنایت فرمائیں وہ اپنی درخواست خریداری میں بقلم خوشخط اسم مبارک و مفصل پتہ و نشان مسکن و ضلع وغیرہ کا کہ جس سے بلا ہرج اجزاء کتاب کے وقتاً فوقتاً ان کی خدمتِ گرامی میں پہنچتے رہیں ارقام فرماویں.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مرزا غلام احمد رئیس قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب مکرّر بڑی شکر گزاری سے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مولوی چراغ علی خان صاحب معتمد مدارالمہام دولت آصفیہ حیدر آباد دکن نے بغیر ملاحظہ کسی اشتہار کے خود بخود اپنے کرم ذاتی و ہمت اور حمایت و حمیت اسلامیہ سے بوجہ چندہ اس کتاب کے ایک نوٹ دس روپیہ کا بھیجا ہے.(مطبوعہ سفیر ہند امرتسر) (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۹، ۱۰)

Page 50

 بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بعدما وجب گزارش ضروری یہ ہے کہ عاجز مؤلف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جلشانہ‘ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاحِ خلق کے لیے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بے خبر ہیںصراط مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں) دکھاوے.اسی غرض سے کتاب براہینِ احمدیہ تالیف پائی ہے.جس کی ۳۷ جُز چھپ کر شائع ہو چکی ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لیے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض ا تمام حجت یہ خط (جس کی ۲۴۰ کاپی چھپوائی گئی ہے) معہ اشتہار انگریزی (جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہے شائع کیا جائے اور اس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز پادری صاحبان پنجاب وہندوستان و انگلستان وغیرہ بلاد جہاں تک ارسال خط ممکن ہو) جو اپنی قوم میں خاص طور پر مشہور اور معزز ہوں.اور بخدمت معزز برہموں صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان جو وجود خوارق و کرامات سے منکر ہیں اور اس و جہ سے اس عاجز پر بد ظن ہیں.ارسال کی جاوے.یہ تجویز نہ اپنے فکر و اجتہاد سے قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچنے پر رجوع بحق نہ

Page 51

کریںگے) ملزم و لاجواب و مغلوب ہو جائیں گے.بنا بر علیہ یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میں معزز اور مشہور اور مقتدا ہیں ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کے کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حسبۃ لِلّٰہ اس خط کے مضمون کی طرف توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گے.آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہو گی اور اس کارروائی کی (کہ آـپ کو رجسٹری شدہ خط ملا.پھر آپ نے اس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب میں پوری تفصیل سے اشاعت کی جائے گی.اصل مدعا خط جس کے ابلاغ سے مَیں مامور ہوا ہوں.یہ ہے دینِ حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے.اس دین کی حقانیت اور قرآن کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں (خوارق و پیشین گوئیوں) کی شہادت بھی پائی جاتی ہے.جس کو طالب صادق اس خاکسار (مؤلف براہین احمدیہ) کی صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعاینہ چشم تصدیق کر سکتا ہے.آپ کو اس دین کی حقانیت یا اُن آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر اُن آسمانی نشانوں کا بچشمِ خود مشاہدہ کر لیں ولیکن اس شرط نیت سے (جو طلب صادق کی نشانی ہے) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اسی جگہ (قادیان میں) شرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جائیں گے.اس شرط نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کریں گے.اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلّف کا امکان نہیں اب آپ تشریف نہ لائیں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا.اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصّہ پنجم کتا ب ہو گا.اور اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا.اس دو سو روپیہ ماہوار کو آپ اپنے شایانِ شان نہ سمجھیں تو اپنے حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے.طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لیے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے

Page 52

بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو لوگ حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں.اگر آپ بذاتِ خودتشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا (تصدیق خوارق۱؎ میں) توقف نہ فرمائیں.آپ اپنے شرط اظہار اسلام یا (تصدیق خوارق) ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کو متعدد اردو انگریزی اخباروں میں شائع کیا جائے گا.ہم سے اپنی شرط دو سو روپیہ ماہوار جرمانہ یا حرجانہ (یا جو آپ پسند کریں اور ہم اس کی ادائیگی کی طاقت بھی رکھیں) عدالت میں رجسٹری کرا لیں اور اس کے ساتھ ایک حصہ جائداد بھی بقدر شرط رجسٹری کرا لیں.بالآخر یہ عاجز حضرت خداوند کریم جلّشانہ کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچّے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے اور پھر ان کی اشاعت کے لیے ایک آزاد سلطنت کی حمایت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے ہم کو جگہ دی.اس گورنمنٹ کا بھی… حق شناسی کی رو سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی الــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب (مطبوعہ مرتضائی پریس لاہور) ( تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۱۱ تا ۱۳) ۱؎ یہ ان حضرات نیچریہ یا مولوی صاحبوں کو کہا جاتا ہے جو اسلام کو مانتے ہیں اور پھر وجود خوارق و کرامات سے منکر اور اس عاجز پر بدظن ہیں.

Page 53

Page 54

ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپیہ دینے کا اشتہار دیا ہوا ہے.اگر کوئی چاہے تو اپنی تسلّی کے لیے عدالت میں رجسٹری بھی کرا لے.(۲) دوم اُن آسمانی نشانوں سے کہ جو سچّے دین کی کامل سچائی ثابت ہونے کے لیے از بس ضروری ہیں، اس امر دوئم میں مؤلف نے اس غرض سے کہ سچائی دین اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہو جائے.تین قسم کے نشان ثابت کر کے دکھائے ہیں.اوّل وہ نشان کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اور آنجناب کی دعا اور توجہ اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے جن کو مؤلّف یعنی اس خاکسار نے تاریخی طور پر ایک اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے مخصوص و ممتاز کر کے درج کتاب کیا ہے.دوم وہ نشان کہ جو خود قرآن شریف کی ذات بابرکات میں دائمی اور ابدی اور بے مثل طور پر پائے جاتے ہیں جن کو راقم نے بیان شافی اور کافی سے ہر ایک خاص و عام پر کھول دیا ہے اور کسی نوع کا عذر کسی کے لیے باقی نہیں رکھا.سوم وہ نشان کہ جو کتاب اللہ کی پیروی اور متابعت اور رسول بر حق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتے ہیں.جن کے اثبات میں اس بندہ درگاہ نے بفضل خداوند حضرت قادر مطلق یہ بدیہی ثبوت دکھلایا ہے کہ بہت سے سچے الہامات اور خوارق اور کرامات اوراخبارِ غیبیہ و اسرار لدنیہ و کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ کو جو خود اس خادم دین سے صادر ہوئی ہیں اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین مذہب (آریوں وغیرہ ) بشہادت رؤیت گواہ ہیں.کتاب موصوف میں درج کئے ہیں اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدّدِ وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء و رسل کے نمونہ پر محض بہ برکت متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں.اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بُعد و حرمان ہے.یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیّہ کے پڑھنے سے کہ جو منجملہ تین سو جزو کے قریب ۳۷ جزو کے چھپ چکی ہے، ظاہر ہوتے ہیں اور طالب حق کے لیے خود مصنف پوری پوری

Page 55

تسلّی و تشفی کرنے کو ہر وقت مستعد اور حاضر ہے.وَ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ لَا فَخْرَ وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰیاور اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے جس کا خدا تعالیٰ کے رُوبرو اس کو جواب دینا پڑے گا.بالآخر اس اشتہار کو اس دعاپر ختم کیا جاتا ہے کہ اے خداوند کریم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش کہ تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور تیرے کامل و مقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اس کے حکموں پر چلیں تا ان تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاویں کہ جو سچے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں اور اس جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جو نہ صرف عقبیٰ میں حاصل ہو سکتی ہے بلکہ سچے راستباز اسی دنیا میں اس کو پاتے ہیں.بالخصوص قوم انگریز جنہوں نے ابھی تک اس آفتاب صداقت سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی اور جس کی شائستہ اور مہذب اور بارحم گورنمنٹ نے ہم کو اپنے احسانات اور دوستانہ معاونت سے ممنون کر کے اس بات کے لئے دلی جوش بخشا ہے کہ ہم اُن کے دنیا و دین کے لیے دلی جوش سے بہبودی و سلامتی چاہیں تا ان کے گورے و سپید منہ جس طرح دنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں بھی نورانی و منّور ہوں.فَنَسْئَلُ اﷲَ تَعَالٰی خَیْرَھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ اَللّٰھُمَّ اھْدِھِمْ وَاَیِّدْہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْکَ وَاجْعَل لَّھُمْ حَظًّا کَثِیْرًا فِیْ دِیْنِکَ وَ أَجْذِبْھُمْ بِحَوْلِکَ وَ قُوَّتِکَ لِیُؤْمِنُوْا بِکِتَابِکَ وَرَسُوْلِکَ وَیَدْخُلُوْا فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا.اٰمِیْن ثُمَّ اٰمِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب مطبوعہ ریاض ھند پریس امرتسر (بیس ہزار اشتہار چھاپے گئے) (سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۱۹،۳۲۰)

Page 56

ON REVERSE Being inspired and commanded by God, I have undertaken the compilation of a book named "Burahin-e-Ahmadia." With the object of reforming and reviewing the religion, and have offered a reward of Rs 10,000 to any one who would prove the arguments brought forward therein to be false.My object In this Book Is to show that only true and the only revealed religion by means of which one might know God to be free from blemish, and obtain a strong conviction as to the perfection of His attributes Is the religion of Islam, in which the blessings of truth shine forth like the sun, and the Impress of veracity is as vividly bright as the day-light.All other religions are so palpably and manifestly false that neither their principles can stand the test of reasoning nor their followers experience least spiritual edification.On the contrary those religion, so obscure the mind and divest it of discernment that signs of future misery among the followers become apparent even in this world.

Page 57

religion has been shown in this book in two ways (1st), By means of 300 very strong and sound arguments based on mental reasoning (their cogency and sublimity being inferred from the fact that a reward of Rs.10,000 has been offered by me to any one refuting them, and from my further readiness to have this offer registered for the satisfaction of any one who might ask for it); (2) From these Divine signs which are essential for the complete and satisfactory proof of a true religion - With a view to establish that Muhammadan religion is the only true religion in the world, I have adduced under this latter head 3 kinds of evidences (1) The miracles performed by the Prophet during his life time either by deeds or words which were witnessed by people of other, persuasions and are inserted in this book in a chronological order (based on the best kind of evidences); (2), The marks which are inseparably adherent in the Al-Quran itself, and are perpetual and everlasting, the nature of which has been fully expounded for facility of comprehension (3), The signs which by way of inheritances devolve on any believer in the Book of God and the follower of the true Prophet.As an illustration of this, I, the humble creature of God, by His help

Page 58

have clearly evinced myself to be possessed of such virtues by the achieving of many unusual and supernatural deeds by foretelling future events and secrets, and by obtaining from God the objects of my prayers to all of which many persons of different persuasions like the Aryas, & c., have been eye-witness (A full description of these will be found in the said book.) I am also inspired that I am the Reformer of my time, and that as regards spiritual excellence, my virtues bear very close similarity and strict analogy to those of Jesus Christ, and in the same way as the distinguished chief of Prophets were assigned a higher rank than that of other Prophets.I also by virtue of being a follower of the August Person.(the benefactor of mankind, the best of the messengers of God) am favored with a higher rank than, that assigned to many of the Saints and Holy Personages preceding me.To follow my footsteps will be a blessing and the means of salvation whereas any antagonism to me will result in estrangement and disappointment, All these evidences will be found by perusal of the book which will consist of nearly 4800 pages of which about 592 pages have been published.I am always ready to satisfy and convince any seeker of truth."All this is a Grace of God He gives it to whomsoever.

Page 59

He likes and there is no bragging in this." Peace be to all the followers of righteousness!" If after the publication of this notice any one does not take the trouble of becoming earnest enquirer after the truth and does not come forward with an unbiased mind, to seek it then my challenging (discussion) with him ends here and he shall be answerable to God.Now I conclude this notice with the following prayer, Oh Gracious God! Guide the pliable hearts of all the nations, so that they may have faith on Thy chosen Prophet (Muhammad) and on Thy Holy Al-Quran, and that they may follow the commandments contained therein, so that they may thus be benefited by the peace and the true happiness which are especially enjoyed by the true Muslims in both the worlds, and may obtain absolution and eternal life which is not only procurable in the next world, but is also enjoyed by the truthful and honest people even in this world.Especially the English nation who have not as yet availed themselves of the sunshine of truth, and whose civilized, prudent and merciful empire has, by obliging us by numerous acts of kindness and friendly, treatment, exceedingly encouraged us to try our utmost for their welfare, so

Page 60

that their fair faces may shine with heavenly effulgence in the next We beseech God for their well being in this world and the next.Oh God! Guide them and help them with Thy grace, and instill in their minds the love for Thy religion, and attract them with Thy power, so that they may have faith on Thy Book and Prophet, and embrace Thy religion in groups Amen! Amen! "Praise be to God the supporter of creation" (Sd) MIRZA GHULAM AHMAD Chief of Qadian, District Gurdaspur, Punjab, India.Ripon Press, Lahore, Punjab

Page 61

 اعلان کتاب براہین احمدیّہ کی قیمت اور دیگر ضروری گزارش بعالی خدمت تمام معزز اور بزرگ خریداران کتاب براہین احمدیہ کے گزارش کی جاتی ہے کہ کتاب ہذا بڑی مبسوط کتاب ہے یہاں تک کہ جس کی ضخامت سوجز سے کچھ زیادہ ہوگی اور تا اختتام طبع وقتاً فوقتاً حواشی لکھنے سے اور بھی بڑھ جائے گی اور ایسی عمدگی کاغذ اور پاکیزگی خط اور دیگر لوازم حُسن اور لطافت اور موزونّیت سے چھپ رہی ہے کہ جس کے مصارف کا حساب جو لگایا گیا تو معلوم ہواکہ اصل اصل قیمت اس کی یعنی جو اپنا خرچ آتا ہے فی جلد پچیسروپیہ ہے.مگر ابتدا میں پانچروپیہ قیمت اس کی اِس غرض سے مقرر ہوئی تھی اور یہ تجویز اٹھائی گئی تھی جو کسی طرح سے مسلمانوں میں یہ کتاب عام طور پر پھیل جائے اور اس کا خریدنا کسی مسلمان پر گراں نہ ہو اور یہ امید کی گئی تھی کہ اُمرائِ اسلام جو ذی ہمت اور اولی العزم ہیں ایسی ضروری کتاب کی اعانت میں دلی ارادت سے مدد کریں گے تب جبر اس نقصان کا ہوجائے گا.پر اتفاق ہے کہ اب تک وہ امید پوری نہیں ہوئی بلکہ بجز عالی جناب حضرت خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب بہادر وزیراعظم و دستور معظم ریاست پٹیالہ پنجاب کہ جنہوں نے مسکین طالب علموں کو تقسیم کرنے کے لئے پچاس جلدیں اس کتاب کی خریدیں اورجو قیمت بذریعہ اشتہار شائع ہوچکی تھی وہ سب بھیج دی اور نیز فراہمی خریداروں میں بڑی مدد

Page 62

فرمائی.اور کئی طرح سے اور بھی مدد دینے کا وعدہ فرمایا.(خدا ان کواس فعل خیر کا ثواب دے اور اجرِ عظیم بخشے) اور اکثرصاحبوں نے ایک یا دو نسخہ سے زیادہ نہیں خریدا.اب حال یہ ہے کہ اگرچہ ہم نے بموجب اشتہار مشتہرہ سوم دسمبر۱۸۷۹ء بجائے پانچ روپیہ کے دسروپیہ قیمت کتاب کی مقرر کردی مگر تب بھی وہ قیمت اصل قیمت سے ڈیڑھ حصہ کم ہے.علاوہ اس کے اس قیمت ثانی سے وہ سب صاحب مستثنیٰ ہیں جو اس اشتہار سے پہلے قیمت ادا کرچکے لہٰذا بذریعہ اس اعلان کے بخدمت ان عالی مراتب خریداروں کے کہ جن کے نام نامی حاشیہ میں بڑے فخر سے درج ہیں اور دیگر ذی ہمت امراء کے جو حمایت دین اسلام میں مصروف ہورہے ہیں عرض کی جاتی ہے کہ وہ ایسے کارِ ثواب میں کہ جس سے اعلائے کلمہ اسلام ہوتا ہے اور جس کا نفع صرف اپنے ہی نفس میں محدود نہیں بلکہ ہزارہا بندگانِ خدا کو ہمیشہ پہنچتا رہے گا اعانت سے دریغ نہ فرماویں کہ بموجب فرمودہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سے کوئی اور بڑا عمل صالح نہیں کہ انسان اپنی طاقتوں کو ان کاموں میں خرچ کرے کہ جن سے عبادالٰہی کو سعادت اخروی حاصل ہو.اگر حضرات ممدوحین اس طرف متوجہ ہوں گے تو یہ کام کہ جس کا انجام بہت روپیہ کو چاہتا ہے اور جس کی حالت موجودہ پر نظر کرکے کئی طرح جناب نواب شاہ جہان بیگم صا حبہ بالقابہ فرمان فرمائے بھوپال.۲.جناب نواب علاء الدین احمد خان بہادر والی لوہارو.۳.جناب مولوی محمد چراغ علی خان صاحب نائب معتمد مدار المہام دولت آصفیہ حیدر آباد دکن.۴.جناب غلام قادر خان صاحب وزیر ریاست نالہ گڑھ پنجاب.۵.جناب نواب مکرم الدولہ بہادر حیدر آباد.۶.جناب نواب نظیر الدولہ بہادر بھوپال.۷.جناب نواب سلطان الدولہ بہادر بھوپال.۸.جناب نواب علی محمد خان صاحب بہادر لودہیانہ پنجاب.۹.جناب نواب غلام محبوب سبحانی خان صاحب بہادر رئیس اعظم لاہور.۱۰.جناب سردار غلام محمد خان صاحب رئیس واہ.۱۱.جناب مرزا سعید الدین احمد خان صاحب بہادر اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر فیروزپور.

Page 63

کی زیر باریاں نظر آتی ہیں نہایت آسانی سے انجام پذیر ہوجائے گا اور امید تو ہے کہ خدا ہمارے اس کام کو جو اشد ضروری ہے ضائع ہونے نہیں دے گا اور جیسا کہ اس دین کے ہمیشہ بطور معجزہ کے کام ہوتے رہے ہیں ایسا ہی کوئی غیب سے مرد کھڑا ہوجائے گا وَتَوَکَّلْنَا عَلَی اللّٰہِ ھُوَ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْر.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مرزا غلام احمد رئیس قادیان.ضلع گورداسپور پنجاب، مصنف کتاب (اشتہار ٹائیٹل براہین احمدیہ حصّہ اوّل مطبوعہ ۱۸۸۰ء مطبع سفیر ہند امرتسر.روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۲تا ۴)

Page 64

 عُذر یہ کتاب اب تک قریب نصف کے چھپ چکتی مگر بباعث علالت طبع مہتمم صاحب سفیر ہند امرتسر پنجاب کہ جن کے مطبع میں یہ کتاب چھپ رہی ہے اور نیز کئی اور طرح کی مجبوریوں سے جو اتفاقاً ان کو پیش آ گئیں سات آٹھ مہینے کی دیر ہوگئی اب انشاء اللہ آئندہ کبھی ایسی توقف نہیں ہوگی.غلام احمد (منقول از براہین احمدیہ حصّہ اوّل ٹائیٹل صفحہ نمبر۳) (روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۴)

Page 65

 التماس ضروری از مُؤلّفِ کتاب اُس خداوند عالم کا کیا کیا شکر ادا کیا جائے کہ جس نے اول مجھ ناچیز کو محض اپنے فضل اور کرم اور عنایت غیبی سے اس کتاب کی تالیف اور تصنیف کی توفیق بخشی اور پھر اس تصنیف کے شائع کرنے اور پھیلانے اور چھپوانے کے لئے اسلام کے عمائد اور بزرگوں اور اکابر اور امیروں اور دیگر بھائیوں مومنوں اور مسلمانوں کو شائق اور راغب اور متوجہ کردیا پس اس جگہ اُن تمام حضرات معاونین کا شکر کرنا بھی واجبات سے ہے کہ جن کی کریمانہ توجہات سے میرے مقاصد دینی ضائع ہونے سے سلامت رہے اور میری محنتیں برباد جانے سے بچ رہیں میں اُن صاحبوں کی اعانتوں سے ایسا ممنون ہوں کہ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ جن سے میں اُن کا شکر ادا کرسکوں بالخصوص جب میں دیکھتا ہوں کہ بعض صاحبوں نے اس کارخیر کی تائید میں بڑھ بڑھ کے قدم رکھے ہیں اور بعض نے زائد اعانتوں کے لئے اور بھی مواعید فرمائے ہیں تو یہ میری ممنونی اور احسان مندی اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے.مَیں نے اسی تقریر کے ذیل میں اسماء مبارک اُن تمام مردان اہلِ ہمت اور اولی العزم کے جنہوں نے خریداری اور اعانت طبع اس کتاب میں کچھ کچھ عنایت فرمایا معہ رقوم عنایت شدہ اُن کی کے زیب تحریر کئے ہیں اور ایسا ہی آئندہ بھی تا اختتام طبع کتاب عملدرآمد رہے گا کہ تا جب تک صفحہ روزگار میں نقش افادہ اور افاضہ اس کتاب کا باقی رہے ہر یک مستفیض کہ جس کا اس کتاب سے وقت خوش ہو مجھ کو اور میرے معاونین کو دعائے خیر سے یاد کرے.اوراس جگہ بطور تذکرہ خاص کے اس بات کا ظاہر کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کارخیر میں آج

Page 66

تک سب سے زیادہ حضرت خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب بہادر وزیراعظم و دستور معظم ریاست پٹیالہ سے اعانت ظہور میں آئی یعنی حضرت ممدوح نے اپنی عالی ہمتی اور کمال محبت دینی سے مبلغ دو سو پچاس روپیہ اپنی جیب خاص سے اور پچھتر روپیہ اپنے اور دوستوں سے فراہم کرکے تین سو پچیس روپیہ بو جہ خریداری کتابوں کے عطا فرمایا.عالی جناب سیدنا وزیر صاحب ممدوح الاوصاف نے اپنے والا نامہ میں یہ بھی وعدہ فرمایا ہے کہ تا اختتام کتاب فراہمی چندہ اور بہم رسانی خریداروں میں اور بھی سعی فرماتے رہیں گے.اور نیز اسی طرح حضرت فخرالدولہ نواب مرزا محمد علائو الدین احمد خان بہادر فرمانروائے ریاست لوہارو نے مبلغ چالیس روپیہ کہ جن میں سے بیس روپیہ محض بطور اعانت کتاب کے ہیں مرحمت فرمائے اور آئندہ اس بارہ میں مدد کرنے کا اور بھی وعدہ فرمایا اور علیٰ ہذا القیاس توجہ خاص جناب نواب شاہجہان بیگم صا حبہ کرون آف انڈیا رئیس دلاور اعظم طبقہ اعلائے ستارہ ہندو رئیسہ بھوپال دام اقبالہا کی بھی قابل بے انتہا شکر گزاری کے ہے کہ جنہوں نے عادات فاضلہ ہمدردی مخلوق اللہ کے تقاضا سے خریداری کتب کا وعدہ فرمایا اور مجھ کو بہت توقع ہے کہ حضرت مفتخر الیہا تائید اس کام بزرگ میں کہ جس میں صداقت اور شان و شوکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہر ہوتی ہے اور دلائل حقّیتِ اسلام کی مثل روز روشن کے جلوہ گر ہوتے ہیں اور بندگانِ الٰہی کو غایت درجہ کا فائدہ پہنچتا ہے کامل توجہ فرماویں گی.اب میں اس جگہ بخدمت عالی دیگر امراء اور اکابر کے بھی کہ جن کو اب تک اس کتاب سے کچھ اطلاع نہیں اس قدر گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اگر اشاعت اس کتاب کی غرض سے کچھ مدد فرماویں گے تو ان کی ادنیٰ توجہ سے پھیلنا اور شائع ہونا اس کتاب کا جو دلی مقصد اور قلبی تمنا ہے نہایت آسانی سے ظہور میں آجائے گا اے بزرگان و چراغانِ اسلام! آپ سب صاحب خوب جانتے ہوں گے کہ آج کل اشاعت دلائل حقّیتِ اسلام کی نہایت ضرورت ہے اور تعلیم دینا اور سکھلانا براہین ثبوت اس دین متین کا اپنی اولاد اور عزیزوں کو ایسا فرض اور واجب ہوگیا ہے اور ایسا واضح الوجوب ہے کہ جس میں کسی قدر ایما کی بھی حاجت نہیں جس قدر ان دنوں میں لوگوں کے عقائد

Page 67

میں برہمی درہمی ہورہی ہے اور خیالات اکثر طبائع کے حالت خرابی اور ابتری میں پڑے ہوئے ہیں کسی پر پوشیدہ نہ ہوگا کیا کیا رائیں ہیں جو نکل رہی ہیں کیا کیا ہوائیں ہیں جو چل رہی ہیں کیا کیا بخارات ہیں جو اٹھ رہے ہیں پس جن جن صاحبوں کو ان اندھیریوں سے جو بڑے بڑے درختوں کو جڑ سے اکھیڑتی جاتی ہیں کچھ خبر ہے وہ خوب سمجھتے ہوں گے جو تالیف اس کتاب کی بلا خاص ضرورت کے نہیں.ہر زمانہ کے باطل اعتقادات اور فاسد خیالات الگ رنگوں اور وضعوں میں ظہور پکڑتے ہیں اور خدا نے اُن کے ابطال اور ازالہ کے لئے یہی علاج رکھا ہوا ہے جو اسی زمانہ میں ایسی تالیفات مہیا کردیتا ہے جو اس کی پاک کلام سے روشنی پکڑ کر پوری پوری قوت سے ان خیالات کی مدافعت کے لئے کھڑی ہوجاتی ہیں اور معاندین کو اپنی لاجواب براہین سے ساکت اور ملزم کرتی ہیں.پس ایسے انتظام سے پودہ اسلام کا ہمیشہ سرسبز اور تروتازہ اور شاداب رہتا ہے.اے معزز بزرگان اسلام!! مجھے اس بات پر یقین کُلّی ہے کہ آپ سب صاحبان پہلے سے اپنے ذاتی تجربہ اور عام واقفیت سے ان خرابیوں موجودہ زمانہ پر کہ جن کا بیان کرنا ایک درد انگیز قصہ ہے بخوبی اطلاع رکھتے ہوں گے اور جو جو فساد طبائع میں واقع ہو رہے ہیں اور جس طرح پر لوگ بباعث اغوا اور اضلال وسوسہ اندازوں کے بگڑتے جاتے ہیں آپ پر پوشیدہ نہ ہوگا پس یہ سارے نتیجے اسی بات کے ہیں کہ اکثر لوگ دلائل حقّیتِ اسلام سے بے خبر ہیں اور اگر کچھ پڑھے لکھے ہیں تو ایسے مکاتب اور مدارس میں کہ جہاں علوم دینیہ بالکل سکھائے نہیں جاتے اور سارا عمدہ زمانہ ان کے فہم اور ادارک اور تفکر اور تدبر کا اور اور علوم اور فنون میں کھویا جاتا ہے اور کوچہئِ دین سے محض ناآشنا رہتے ہیں پس اگران کو دلائل حقّیتِ اسلام سے جلد تر باخبر نہ کیا جائے تو آخر کار ایسے لوگ یا تو محض دنیا کے کیڑے ہوجاتے ہیں کہ جن کو دین کی کچھ بھی پروا نہیں رہتی یا الحاد اور ارتداد کا لباس پہن لیتے ہیں.یہ قول میرا محض قیاسی بات نہیں بڑے بڑے شرفا کے بیٹے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں جو بباعث بے خبری دینی کے اِصطباغ پائے ہوئے گرجا گھروں میں بیٹھے ہیں اگر فضل عظیم پروردگار کا ناصر اور حامی اسلام کا نہ ہوتا اور وہ بذریعہ پُرزور تقریرات اور تحریرات علماء اور فضلاء کے اپنے اس سچے دین

Page 68

کی نگہداشت نہ کرتا تو تھوڑا زمانہ نہ گزرنے پاتا جو دنیا پرست لوگوں کو اتنی خبر بھی نہ رہتی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس ملک میں پیدا ہوئے تھے بالخصوص اس پرآشوب زمانہ میں کہ چاروں طرف خیالات فاسدہ کی کثرت پائی جاتی ہے اگر محقّقانِ دینِ اسلام جو بڑی مردی اور مضبوطی سے ہریک منکر اور ملحد کے ساتھ مناظرہ اور مباحثہ کررہے ہیں اپنی اِس خدمت اور چاکری سے خاموش رہیں تو تھوڑی ہی مدت میں اس قدر شعار اسلام کا ناپدید ہوجائے کہ بجائے سلام مسنون کے گڈبائی اور گڈمارننگ کی آواز سنی جائے پس ایسے وقت میں دلائل حقّیتِ اسلام کی اشاعت میں بدل مشغول رہنا حقیقت میں اپنی ہی اولاد اور اپنی ہی نسل پر رحم کرنا ہے کیونکہ جب وبا کے ایام میں زہرناک ہوا چلتی ہے تو اس کی تاثیر سے ہریک کو خطرہ ہوتا ہے.شاید بعض صاحبوں کے دل میں اس کتاب کی نسبت یہ وسوسہ گزرے کہ جواب تک کتابیں مناظرات مذہبی میں تصنیف ہوچکی ہیں کیا وہ الزام اور افحام مخاصمین کے لئے کافی نہیں ہیں کہ اس کی حاجت ہے لہٰذا میں اس بات کو بخوبی منقوش خاطر کردینا چاہتا ہوں جو اس کتاب اور ان کتابوں کے فوائد میں بڑا ہی فرق ہے وہ کتابیں خاص خاص فرقوں کے مقابلہ پر بنائی گئی ہیں اور ان کی وجوہات اور دلائل وہاں تک ہی محدود ہیں جو اُس فرقہ خاص کے ملزم کرنے کے لئے کفایت کرتی ہیں اور گو وہ کتابیں کیسی ہی عمدہ اور لطیف ہوں مگر ان سے وہی خاص قوم فائدہ اٹھا سکتی ہے کہ جن کے مقابلہ پر وہ تالیف پائی ہیں لیکن یہ کتاب تمام فرقوں کے مقابلہ پر حقّیتِ اسلام اور سچائی عقائد اسلام کی ثابت کرتی ہے اور عام تحقیقات سے حقّانیت فرقان مجید کی بپایہ ثبوت پہنچاتی ہے اور ظاہر ہے کہ جو جو حقائق اور دقائق عام تحقیقات میں کھلتے ہیں خاص مباحثات میں انکشاف ان کا ہرگز ممکن نہیں کسی خاص قوم کے ساتھ جو شخص مناظرہ کرتا ہے اس کو ایسی حاجتیں کہاں پڑتی ہیں کہ جن امور کو اس قوم نے تسلیم کیا ہوا ہے ان کو بھی اپنی عمیق اور مستحکم تحقیقات سے ثابت کرے بلکہ خاص مباحثات میں اکثر الزامی جوابات سے کام نکالا جاتا ہے اور دلائل معقولہ کی طرف نہایت ہی کم توجہ ہوتی ہے اور خاص بحثوں کا کچھ مقتضاہی ایسا ہوتا ہے جو فلسفی طور پر تحقیقات کرنے کی حاجت نہیں پڑتی اور پورے دلائل کا تو ذکر

Page 69

Page 70

ہی کیا ہے.بستم حصہ دلائل عقلیہ کا بھی اندراج نہیں پاتا مثلاً جب ہم ایسے شخص سے بحث کرتے ہیں جو وجود صانع عالم کا قائل ہے الہام کا مقر ہے خالقیت باری تعالیٰ کو مانتا ہے تو پھر ہم کو کیا ضرور ہوگا جو دلائل عقلیہ سے اس کے روبرو اثبات وجود صانع کریں یا ضرورت الہام کی وجوہ دکھلاویں یا خالقیت باری تعالیٰ پر دلائل لکھیں بلکہ بالکل بیہودہ ہوگا کہ جس بات کا کچھ تنازع ہی نہیں اس کا جھگڑا لے بیٹھیں مگر جس شخص کو مختلف عقائد مختلف عندیات مختلف عذارت مختلف شبہات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اس کی تحقیقاتوں میں کسی قسم کی فروگذاشت باقی نہیں رہتی.علاوہ اس کے جو خاص قوم کے مقابلہ پر کچھ لکھا جاتا ہے وہ اکثر اس قسم کی دلائل ہوتی ہیں جو دوسری قوم پر حجت نہیں ہوسکتیں مثلاً جب ہم بائبل شریف سے چند پیشین گوئی نکال کر صدق نبوت حضرت خاتم انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بذریعہ ان کے ثابت کریں تو گو ہم اس ثبوت سے عیسائیوں اور یہودیوں کو ملزم کردیں مگر جب ہم وہ ثبوت کسی ہندو یا مجوسی یا فلسفی یا برہمو سماجی کے روبرو پیش کریں گے تو وہ یہی کہے گا کہ جس حالت میں مَیں ان کتابوں کو ہی نہیں مانتا تو پھر ایسا ثبوت جو انہیں سے لیا گیا ہے کیونکر مان لوں اسی طرح جو بات مفید مطلب ہم وید سے نکال کر عیسائیوں کے سامنے پیش کریں گے تو وہ بھی یہی جواب دیں گے پس بہرحال ایسی کتاب کی اشد ضرورت تھی کہ جو ہر ایک فرقہ کے مقابلہ پر سچائی اور حقّیتِ اسلام کی دلائل عقلیہ سے ثابت کرے کہ جن کے ماننے سے کسی انسان کو چارہ نہیں سو الحمدللہ کہ ان تمام مقاصد کے پورا کرنے کے لئے یہ کتاب طیار ہوئی.دوسری اس کتاب میں یہ بھی خوبی ہے جو اس میں معاندین کے بے جا عذرات رفع کرنے کے لئے اور اپنی حجت ان پر پوری کرنے کے لئے خوب بندوبست کیا گیا ہے یعنی ایک اشتہار تعدادی دس ہزار روپیہ کا اسی غرض سے اس میں داخل کیا گیا ہے کہ تا منکرین کو کوئی عذر اور حیلہ باقی نہ رہے اور یہ اشتہار مخالفین پر ایک ایسا بڑا بوجھ ہے کہ جس سے سبکدوشی حاصل کرنا قیامت تک ان کو نصیب نہیں ہوسکتا اور نیز یہ ان کی منکرانہ زندگی کو ایسا تلخ کرتا ہے جو انہیں کا جی جانتا ہوگا.غرض یہ کتاب نہایت ہی ضروری اور حق کے طالبوں کے لئے نہایت ہی مبارک ہے کہ جس سے حقّیتِ اسلام کی مثل آفتاب کے واضح اور نمایاں اور روشن ہوتی

Page 71

ہے اور شان اور شوکت اُس مقدس کتاب کی کھلتی ہے کہ جس کے ساتھ عزت اور عظمت اور صداقت اسلام کی وابستہ ہے.فہرست معاونین کی جنہوں نے ہمدردیء ِدینی سے اشاعت کتاب براہین احمدیہ میں اعانت کی اور خریداری کتابوں سے ممنون اور مشکور فرمایا.نمبر نام ان معاون صاحب کا کہ جنہوں نے خریداری کتاب سے یا یونہی اعانت فرمائی تعداد زَر اعانت کیفیت (۱) حضرت خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب بہادر وزیر اعظم و دستور معظم ریاست پٹیالہ ازجیب خاص از دیگر احباب   بابت خریداری کتاب معرفت جناب ممدوح الف.مولوی فضل حکیم صاحب  بابت خریداری کتاب ب.خدا بخش خان صاحب ماسٹر  ایضاً ج.سید محمد علی صاحب منصرم تعمیر چھائونی  ؍؍ د.مولوی احمد حسن صاحب خلف مولوی علی احمد صاحب  ؍؍ ہ.غلام نبی خان صاحب محرر نظامت کرم گڑھ  ؍؍ و.کالے خان صاحب ناظم کرم گڑھ  ؍؍ ز.شیخ کریم اللہ صاحب ڈاکٹر ناظم حفظانِ صحت  ؍؍ ح.شیخ فخر الدین صاحب سول جج  ؍؍ ط.سید عنایت علی صاحب جرنیل  ؍؍ ی.بلو خان صاحب جمعدار جیل خانہ  ؍؍ ک.میر صدر الدین صاحب سررشتہ دار نظامت کرم گڑھ  ؍؍ ل.میر ہدایت حسین صاحب ساکن بستی نظامت سرہند  ؍؍ م.سید نیاز علی صاحب ناظم نہر  ؍؍

Page 72

Page 73

 اشتہار ۱؎ انعامی اشتہار۱۰۰۰۰دس ہزار روپیہ ان سب لوگوں کے لئے جو مشارکت اپنی کتاب کے فرقان مجید سے ان دلائل اور براہین حقّانیہ میں جو فرقان مجید سے ہم نے لکھیں ہیں ثابت کر دکھائیں یا اگر کتاب الہامی ان کی ان دلائل کے پیش کرنے سے قطعاً عاجز ہو تو اس عاجز ہونے کا اپنی کتاب میں اقرار کرکے ہمارے ہی دلائل کو نمبروار توڑ دیں.میں جو مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہار اپنی طرف سے بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ بمقابلہ جمیع ارباب مذہب اور ملت کے جو حقانیت فرقان مجید اور نبوت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہیں اِتْمَامًا لِلْحُجَّۃ شائع کرکے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب منکرین میں سے مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے ان سب براہین اور دلائل میں جو ہم نے دربارہ حقّیت فرقان مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اسی کتاب مقدس سے اخذ کرکے تحریر کیں ہیں اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت ۱؎ یہ اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے نہایت جلی قلم سے لکھوایا تھا.اس لیے حضور کی پیروی میں خاکسار مرتب نے بھی اس کو جلی لکھوایا ہے تا کہ امتیاز قائم رہے.(مرتب)

Page 74

کرکے دکھلاوے یا اگر تعداد میں ان کے برابر پیش نہ کرسکے تو نصف اِن سے یا ثُلث ان سے یا رُبع ان سے یا خُمس ان سے نکال کر پیش کرے یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہی دلائل کو نمبروار توڑ دے تو ان سب صورتوں میں بشرطیکہ تین منصف مقبولہ فریقین بالاتفاق یہ رائے ظاہر کردیں کہ ایفائِ شرط جیساکہ چاہیے تھا ظہور میں آگیا میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے وحیلتے اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دوں گا.مگر واضح رہے کہ اگر اپنی کتاب کی دلائل معقولہ پیش کرنے سے عاجز اور قاصر رہیں یا برطبق شرط اشتہار کی خمس تک پیش نہ کرسکیں تو اس حالت میں بصراحت تمام تحریر کرنا ہوگا جو بو جہ ناکامل یا غیر معقول ہونے کتاب کے اِس شق کے پورا کرنے سے مجبور اور معذور رہے.اور اگر دلائل مطلوبہ پیش کریں تو اِس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو ہم نے خمس دلائل تک پیش کرنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس سے ہماری یہ مراد نہیں ہے جو اس تمام مجموعہ دلائل کا بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے نصف یا ثُلث یا رُبع یا خُمس پیش کردیا جائے بلکہ یہ شرط ہر یک صنف کی دلائل سے متعلق ہے اور ہر صنف کے براہین میں سے نصف یا ثلث یا ربع یا خمس پیش کرنا ہوگا.شاید کسی صاحب کا فہم اس بات کے سمجھنے سے قاصر رہے جو عبارت مذکورہ میں صنفِ دلائل سے کیا مراد ہے پس بغرض تشریح اس فقرہ کے لکھا جاتا ہے

Page 75

جودلائل اور براہین فرقان مجید کی کہ جن سے حقیّت اِس کلامِ پاک کی اور صدق رسالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ثابت ہوتا ہے دو قسم پر ہیں اوّل وہ دلائل جو اِس پاک کتاب اور آنحضرت کی صداقت پر اندرونی اور ذاتی شہادتیں ہیں یعنی ایسی دلائل جو اسی مقدس کتاب کے کمالات ذاتیہ اور خود آنحضرت کی ہی خصال قدسیہ اور اخلاق مرضیہ اور صفات کاملہ سے حاصل ہوتی ہیںدوسری وہ دلائل جو بیرونی طور پر قرآن شریف اورآنحضرت کی سچائی پر شواہد قاطعہ ہیں یعنی ایسی دلائل جو خارجی واقعات اور حادثات متواترہ مثبتہ سے لی گئی ہیں.اور پھر ہریک ان دونوں قسموں کی دلائل سے دو قسم پر ہے.دلیلِ۱ بسیط اور دلیل۲ مرکب.دلیل۱ بسیط وہ دلیل ہے جو اثبات حقیّت قرآنِ شریف اور صدقِ رسالت آنحضرت کے لئے کسی اور امر کے اِلحاق اور اِنضمام کی محتاج نہیں اور دلیلِ۲ مُرکّب وہ دلیل ہے جو اُس کے تحقّق دلالت کے لئے ایک ایسے کل مجموعے کی ضرورت ہے کہ اگر من حیث الاجتماع اس پر نظر ڈالی جائے یعنی نظر یکجائی سے اس کے تمام افراد کو دیکھا جائے تو وہ کل مجموعی ایک ایسی عالی حالت میں ہو جو تحقّق اُس حالت کی تحقّق حقیّتِ فرقان مجید اور صدق رسالت آنحضرت کو مستلزم ہو اور جب اجزا اِس کی الگ الگ دیکھی جائیں تو یہ مرتبہ برہانیت کا جیسا کہ اُن کو چاہیے

Page 76

حاصل نہ ہو اور و جہ اس تفاوت کی یہ ہے جو کل مجموعی اور کل واحد ہمیشہ متخالف فی الاحکام ہوتے ہیں جیسے ایک بوجھ کو دس آدمی اکٹھے ہوکر اٹھا سکتے ہیں اور اگر وہی دس آدمی ایک ایک ہوکر اٹھانا چاہیں تو یہ امر محال ہوجاتا ہے.اور ہر واحد اِن دونوں قسم کی دلائلِ بسیطہ اور مرکّبہ سے جب اپنی خاص خاص صورتوں اور ہیئتوں اور وضعوں کے لحاظ سے تصور کئے جائیں تو ان کا نام اس کتاب میںاصناف دلائل ہے.اور یہ وہی اصناف ہیں کہ جن کے التزام کے لئے ہم نے صدرِ اشتہار ہذا میں یہ قید لگا دی ہے جو ہر صنف کے براہین میں سے شخص مُتصدی مقابلہ فرقان مجید کا نصف یا ثُلث یا رُبع یا خُمس پیش کرے یعنی اِس صورت میں کہ جب ان کُل دلائل کے پیش کرنے سے عاجز ہو جو ایک صنف کے تحت میں داخل ہیں.اور نیز اس جگہ یہ امر زیادہ تر قابل انکشاف ہے کہ جو صاحب کسی دلیل مرکب کا جس کی تعریف ابھی ہم بیان کرچکے ہیں اپنی کتاب میں سے نمونہ دکھلانا چاہیں تو اُن پر واجب ہوگا کہ اگر وہ دلیل مرکب ایسی مجموعہ اجزا سے مرکب ہو جو ہر یک جز اس کا بجائے خود کسی امر پر دلیل ہو تو ان سب جزوی دلائل کا بھی کم سے کم ایک ایک نمونہ پیش کرنا ہوگا.چونکہ سمجھنا اس شرط کا محتاج تمثیل ہے اس لئے ہم بطور تمثیل کے اِس جگہ

Page 77

Page 78

سیکھا تھا یا کبھی کسی فلسفی اور منطقی سے اُن کی صحبت اور مخالطت رہی تھی کہ جس کے اثر سے انہوں نے ہر یک اصول حقّہ پر دلائلِ فلسفہ قائم کرکے تمام عقائد مدارِ نجات کی حقیقی سچائی کو ایسا کھول دیا کہ جس کی نظیر صفحۂ روزگار میں کہیں نہیں پائی جاتی یہ ایسا کام ہے کہ بجز تائیدِ الٰہی اور الہامِ ربّانی کے ہرگز کسی سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا پس ناچار عقل اِس بات پر قطع واجب کرتی ہے جو قرآنِ شریف اُس خدائے واحد لاشریک کی کلام ہے کہ جس کے علم کے ساتھ کسی انسان کا علم برابر نہیں.یہ دلیل ہے جو ہم نے بطور نمونہ کے اُن دلائل مرکبہ میں سے لکھی ہے کہ جن کا مجموعۂ اجزا تمام ایسی جزؤں سے مُرکّب ہے کہ وہ سب جُزیں دلائل ہی ہیں چنانچہ اس دلیل کے اجزا سب کے سب وہ دلائل ہیں جو عقائدِ حقّہ پر قائم کی گئی ہیں اور چونکہ یہ دلیل بھی اصنافِ دلائل میں سے ایک صِنف ہے اس لئے جیسا کہ مخاصم پر تمام اصنافِ دلائل کا پیش کرنا فرض ہے اِسی لئے اس دلیل کا بھی پیش کرنا فرض ہے مگر اس دلیل کودکھلانے کے لئے ان تمام دلائل کا دکھلانا بھی ضروری ہے کہ جن سے اس دلیل کی تالیف اور ترکیب ہے اور جن کی ہیئت اجتماعی سے اس کا وجود تیار ہوتا ہے جیسی دلیل اثباتِ وجودِ صانع، دلیلِ اثباتِ توحید، دلیلِ اثباتِ خالقیت باری تعالیٰ وغیرہ وغیرہ کیونکہ یہی دلائل اس دلیل کی اجزا ہیں اور وجود کُل کا بغیر وجود اجزا کے ممکن نہیں اور نہ تحصّل کسی ماہیت کا بدوں اس کی جزوں کے

Page 79

ہوسکتا ہے پس مخاصم پر لازم ہے جو اُن تمام جزوی دلائل کو بھی پیش کرے ہاں یہ اختیار ہے کہ جہاں ہم نے مثلاً کسی اصول کے اثبات پر پانچ دلیلیں لکھی ہوں مخاصم صاحب اُس کے اثبات پر یا اُس کے ابطال پر یعنی جیسا کہ رائے اور اعتقاد ہو صرف ایک ہی دلیل بپابندی انہیں شرائط اور انہیں حدود کے جو اشتہار ہذا میں ہم ذکر کرچکے ہیں اپنی الہامی کتاب سے نکال کر دکھلاویں.المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار میرزا غلام احمد مقام قادیان ضلع گورداسپور.پنجاب (منقول از براہین احمدیہ جلد اوّل مطبوعہ ۱۸۸۰ء.سفیر ہند پریس امرتسر صفحہ ۱۷ تا ۸۲) (روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۲۴ تا ۵۲)

Page 80

ہوسکتا ہے پس مخاصم پر لازم ہے جو اُن تمام جزوی دلائل کو بھی پیش کرے ہاں یہ اختیار ہے کہ جہاں ہم نے مثلاً کسی اصول کے اثبات پر پانچ دلیلیں لکھی ہوں مخاصم صاحب اُس کے اثبات پر یا اُس کے ابطال پر یعنی جیسا کہ رائے اور اعتقاد ہو صرف ایک ہی دلیل بپابندی انہیں شرائط اور انہیں حدود کے جو اشتہار ہذا میں ہم ذکر کرچکے ہیں اپنی الہامی کتاب سے نکال کر دکھلاویں.المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار میرزا غلام احمد مقام قادیان ضلع گورداسپور.پنجاب (منقول از براہین احمدیہ جلد اوّل مطبوعہ ۱۸۸۰ء.سفیر ہند پریس امرتسر صفحہ ۱۷ تا ۸۲) (روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۲۴ تا ۵۲)

Page 81

سو ہم سچ پر ہیں.ہمارے سامنے کسی پادری یا پنڈت کی کیا پیش جاسکتی ہے اور کسی کی نری زبان کی فضول گوئی سے ہمارا کیا بگڑ سکتا ہے.بلکہ ایسی باتوں سے خود پادریوں اور پنڈتوں کی دیانتداری کھلتی جاتی ہے کیونکہ جس کتاب کو ابھی نہ دیکھا اور نہ بھالا نہ اُس کی براہین سے کچھ اطلاع نہ اُس کے پایۂ تحقیقات سے کچھ خبر اُس کی نسبت جھٹ پٹ مونہہ کھول کر ردّ نویسی کا دعویٰ کردینا کیا یہی اُن لوگوں کی ایمانداری اور راستبازی ہے؟ اے حضرات! جب آپ لوگوں نے ابھی میری دلائل کو ہی نہیں دیکھا تو پھر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ ان تمام دلائل کا جواب لکھ سکیں گے؟ جب تک کسی کی کوئی حجت نکالی ہوئی یا کوئی برہان قائم کی ہوئی یا کوئی دلیل لکھی ہوئی معلوم نہ ہو اور پھر اس کو جانچا نہ جائے کہ یقینی ہے یا ظنی اور مقدمات صحیحہ پر مبنی ہے یا مغالطات پر تب تک اس کی نسبت کوئی مخالفانہ رائے ظاہر کرنا اور خواہ نخواہ اس کے ردّ لکھنے کے لئے دَم زَنی کرنا اگر تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟ اور جب آپ لوگوں نے قبل از دریافت اصل حقیقت ردّ لکھنے کی پہلے ہی ٹھہرالی تو پھر کب نفس امّارہ آپ کا اس بات سے باز آنے کا ہے جو بات بات میں فریب اور تدلیس اور خیانت اور بددیانتی کو کام میں لایا جائے تا کسی طرح یہ فخر حاصل کریں کہ ہم نے جواب لکھ دیا.اگر آپ لوگوں کی نیت میں کچھ خلوص اور دل میں کچھ انصاف ہوتا تو آپ لوگ یوں اعلان دیتے کہ اگر دلائل کتاب کی واقع میں صحیح اور سچی ہوں گی تو ہم بسروچشم ان کو قبول کریں گے.ورنہ اظہار حق کی غرض سے ان کی ردّ لکھیں گے.اگر آپ ایسا کرتے تو بے شک منصفوں کے نزدیک منصف ٹھہرتے اور صاف باطن کہلاتے.لیکن خدا نہ کرے کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں انصاف ہو جو خدا کے ساتھ بھی بے انصافی کرتے ہوئے نہیں ڈرتے اور بعض نے اس کو خالق ہونے سے ہی جواب دے رکھا ہے اور بعض ایک کے تین بنائے بیٹھے ہیں اور کسی نے اُس کو ناصرہ میں لا ڈالا ہے اور کوئی اس کو اجودھیا کی طرف کھینچ لایا ہے.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں افلاطون بَن جاویں، بیکن کا اوتار دھاریں، ارسطو کی نظر اور فکر لاویں، اپنے مصنوعی خدائوں کے آگے

Page 82

استمداد کے لئے ہاتھ جوڑیں پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے اٰلہَہ باطلہ.اور جب تک اس کتاب کا جواب نہ دیں تب تک بازاروں میں عوام کالانعام کے سامنے اسلام کی تکذیب کرنا یا ہنود کے مندروں میں بیٹھ کر ایک وید کو ایشرکرت اور ست ودّیا اور باقی سارے پیغمبروں کو مفتری بیان کرنا صفتِ حیا اور شرم سے دور سمجھیں.یارو خودی سے باز بھی آئو گے یا نہیں؟ خُو اپنی پاک صاف بنائو گے یا نہیں؟ باطل سے میل دل کی ہٹائو گے یا نہیں؟ حق کی طرف رجوع بھی لائو گے یا نہیں؟ کب تک رہو گے ضد و تعصب میں ڈوبتے؟ آخر قدم بصدق اٹھائو گے یا نہیں؟ کیونکر کرو گے ردّ جو محقق ہے ایک بات؟ کچھ ہوش کرکے عذر سنائو گے یا نہیں؟ سچ سچ کہو اگر نہ بنا تم سے کچھ جواب؟ پھر بھی یہ منہ جہاں کو دکھائو گے یا نہیں؟ اشتہار ضروری کتاب براھینِ احمدیہ کی قیمت جو بالفعل دس روپیہ قرار پائی ہے وہ صرف مسلمانوں کے لئے کمال درجہ کی تخفیف اور رعایت ہے کہ جن کو بشرط وسعت اور طاقت مالی کے اعانت دین متین میں کسی نوع کا دریغ نہیں.لیکن جو صاحب کسی اور مذہب یا ملّت کے پابند ہوکر اس کتاب کو خریدنا چاہیں تو چونکہ اعانت کی ان سے کچھ توقع نہیں.لہٰذا اُن سے وہ پوری پوری قیمت لی جائے گی جو حصہ اولیٰ کے اعلان میں شائع ہوچکی ہے.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مؤلّف براہین احمدیّہ (اشتہار ٹائیٹل براہین احمدیہ جلد دوم۱۸۸۰ء.مطبوعہ سفیر ہند پریس) ( روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۵ تا ۵۸)

Page 83

Page 84

اور تحمل اور مجاہدات افعالِ خیر میں سب سے بڑھ کر ہیں ان کو بھی بہ رعایت اسباب ظاہری   ۱؎ کہنا پڑا خدا نے بھی اپنے قانون تشریعی میں بہ تصدیق اپنے قانون قدرت  ۲؎ کا حکم فرمایا.مگر افسوس جو مسلمانوں میں سے بہتوں نے اس اصول متبرک کو فراموش کردیا ہے اور ایسی اصلِ عظیم کو کہ جس پر ترقی اور اقبال دین کا سارا مدار تھا بالکل چھوڑ بیٹھے ہیں اور دوسری قومیں کہ جن کی الہامی کتابوں میں اس بارے میں کچھ تاکید بھی نہیں تھی وہ اپنی دلی تدبیر سے اپنے دین کی اشاعت کے شوق سے مضمون تَعَاوَنُوْا پر عمل کرتی جاتی ہیں اور خیالات مذہبی ان کے بباعث قومی تعاون کے روز بروز زیادہ سے زیادہ پھیلتے چلے جاتے ہیں آج کل عیسائیوں کی قوم کو ہی دیکھو جو اپنے دین کے پھیلانے میں کس قدر دلی جوش رکھتے ہیں اور کیا کچھ محنت اور جانفشانی کررہے ہیں لاکھ ہا روپیہ بلکہ کروڑہا ان کا صرف تالیفات جدیدہ کے چھپوانے اور شائع کرنے کی غرض سے جمع رہتا ہے.ایک متوسط دولتمند یورپ یا امریکہ کا اشاعت تعلیم انجیل کے لئے اس قدر روپیہ اپنی گرہ سے خرچ کردیتا ہے جو اہل اسلام کے اعلیٰ سے اعلیٰ دولت مند مِنْ حَیْثُ الْمَجْمُوْع بھی اس کی برابری نہیں کرسکتے یوں تو مسلمانوں کا اس ملک ہندوستان میں ایک بڑا گروہ ہے اور بعض متمول اور صاحب توفیق بھی ہیں مگر امور خیر کی بجاآوری میں (باستثنائے ایک جماعت قلیل امراء اور وزراء اور عہدہ داروں کے) اکثر لوگ نہایت درجہ کے پست ہمت اور منقبض الخاطر اور تنگ دل ہیں کہ جن کے خیالات محض نفسانی خواہشوں میں محدود ہیں اور جن کے دماغ استغنا کے مواد ردیہ سے متعفن ہورہے ہیں یہ لوگ دین اور ضروریات دین کو تو کچھ چیز ہی نہیں سمجھتے.ہاں ننگ و نام کے موقعہ پر سارا گھر بار لٹانے کو بھی حاضر ہیں.خالصاً دین کے لئے عالی ہمت مسلمان (جیسے ایک سیدنا ومخدومنا حضرت خلیفہ سید محمدحسن خان صاحب بہادر وزیراعظم پٹیالہ) اس قدر تھوڑے ہیں کہ جن کو انگلیوں پر بھی شمار کرنے کی حاجت نہیں.ماسوا اس کے بعض لوگ اگر کچھ تھوڑا بہت دین کے معاملہ میں خرچ بھی کرتے ہیں تو ایک رسم کے

Page 85

پیرایہ میں نہ واقعی ضرورت کے انجام دینے کی نیت سے جیسے ایک کو مسجد بنواتے دیکھ کر دوسرا بھی جو اس کا حریف ہو خواہ نخواہ اس کے مقابلہ پر مسجد بنواتا ہے اور خواہ واقعی ضرورت ہو یا نہ ہو مگر ہزارہا روپیہ خرچ کرڈالتا ہے کسی کو یہ خیال پیدا نہیں ہوتا جو اس زمانہ میں سب سے مقدم اشاعت علم دین ہے اور نہیں سمجھتے کہ اگر لوگ دیندار ہی نہیں رہیں گے تو پھر ان مسجدوں میں کون نماز پڑھے گا صرف پتھروں کے مضبوط اور بلند میناروں سے دین کی مضبوطی اور بلندی چاہتے ہیں اور فقط سنگِ مرمر کے خوبصورت قطعات سے دین کی خوبصورتی کے خواہاں ہیں لیکن جس روحانی مضبوطی اور بلندی اور خوبصورتی کو قرآن شریف پیش کرتا ہے اور جو   ۱؎ کا مصداق ہے اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور اس شجرہ طیبہ کے ظل ظلیل دکھلانے کی طرف ذرا متوجہ نہیں ہوتے.اور یہود کی طرح صرف ظواہر پرست بن رہے ہیں.نہ دینی فرائض کو اپنے محل پر ادا کرتے ہیں اور نہ ادا کرنا جانتے ہیں اور نہ جاننے کی کچھ پروا رکھتے ہیں.اگرچہ یہ بات قابل تسلیم ہے جو ہر سال میں ہماری قوم کے ہاتھ سے بے شمار روپیہ بنام نہاد خیرات و صدقات کے نکل جاتا ہے مگر افسوس جو اکثر لوگ ان میں سے نہیں جانتے کہ حقیقی نیکی کیا چیز ہے اور بَذلِ اموال میں اصلح اور انسب طریقوں کو مدنظر نہیں رکھتے اور آنکھ بند کرکے بے موقع خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر جب ساراشوق دلی اسی بے موقع خرچ کرنے میں تمام ہوجاتا ہے تو موقعہ پر آکر اصلی فرض کے ادا کرنے سے بالکل قاصر رہ جاتے ہیں اور اپنے پہلے اسراف اور افراط کا تدارک بطور تفریط اور ترک ماوجب کے کرنا چاہتے ہیں یہ ان لوگوں کی سیرت ہے کہ جن میں روح کی سچائی سے قوت فیاضی اور نفع رسانی کی جوش نہیں مارتی بلکہ صرف اپنی ہی طمع خاص سے مثلاً بوڑھے ہوکر پیرانہ سالی کے وقت میں آخرت کی تن آسانی کا حیلہ سوچ کر مسجد بنوانے اور بہشت میں بنا بنایا گھر لینے کا لالچ پیدا ہوجاتا ہے اور حقیقی نیکی پر ان کی ہمدردی کا یہ حال ہے کہ اگر کشتی دین کی ان کی نظر کے سامنے ساری کی ساری ڈوب جائے یا تمام دین ایک دفعہ ہی تباہ ہوجائے تب بھی ان کے دل

Page 86

کو ۱؎ ابراھیم: ۲۵ ذرا لرزہ نہیں آتا اور دین کے رہنے یا جانے کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتے.اگر درد ہے تو دنیا کا.اگر فکر ہے تو دنیا کا اگر عشق ہے تو دنیا کا.اگر سودا ہے تو دنیا کا اور پھر دنیا بھی جیسا کہ دوسری قوموں کو حاصل ہے حاصل نہیں ہریک شخص جو قوم کی اصلاح کے لئے کوشش کررہا ہے وہ ان لوگوں کی لاپروائی سے نالاں اور گریاں ہی نظر آتا ہے اور ہر یک طرف سے یَا حَسْرَۃً عَلَی الْقَوْمِ کی ہی آواز آتی ہے اوروں کی کیا کہیں ہم آپ ہی سناتے ہیں.ہم نے صدہا طرح کا فتور اور فساد دیکھ کر کتاب براھین احمدیہ کو تالیف کیا تھا اور کتاب موصوف میں تین سو مضبوط اور محکم عقلی دلیل سے صداقتِ اسلام کو فی الحقیقت آفتاب سے بھی زیادہ تر روشن دکھلایا گیا چونکہ یہ مخالفین پر فتح عظیم اور مومنین کے دل و جان کی مراد تھی اس لئے امراء اسلام کی عالی ہمتی پر بڑا بھروسا تھا جو وہ ایسی کتاب لاجواب کی بڑی قدر کریں گے اور جو مشکلات اس کی طبع میں پیش آرہی ہیں.ان کے دور کرنے میں بدل و جان متوجہ ہوجائیں گے مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا تحریر میں لاویں اَللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ وَاللّٰہُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی!! بعض صاحبوں نے قطع نظر اعانت سے ہم کو سخت تفکر اور تردد میں ڈال دیا ہے ہم نے پہلا حصہ جو چھپ چکا تھا اس میں سے قریب ایک سو پچاس جلد کے بڑے بڑے امیروں اور دولت مندوں اور رئیسوں کی خدمت میں بھیجی تھی اور یہ امید کی گئی تھی جو امراء عالی قدر خریداری کتاب کی منظور فرما کر قیمت کتاب جو ایک ادنیٰ رقم ہے بطور پیشگی بھیج دیں گے اور ان کی اس طور کی اعانت سے دینی کام بآسانی پورا ہوجائے گا اور ہزارہا بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچے گا.اسی امید پر ہم نے قریب ڈیڑھ سو کے خطوط اور عرائض بھی لکھے اور بہ انکسار تمام حقیقت حال سے مطلع کیا مگر باستثناء دو تین عالی ہمتوں کے سب کی طرف سے خاموشی رہی نہ خطوط کا جواب آیا نہ کتابیں واپس آئیں مصارف ڈاک تو سب ضائع ہوئے لیکن اگر خدانخواستہ کتابیں بھی واپس نہ ملیں تو سخت دقت پیش آئے گی اور بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا.افسوس جو ہم کو اپنے معزز بھائیوں سے بجائے اعانت کے تکلیف پہنچ گئی اگر یہی حمایتِ اسلام ہے تو کارِ دین تمام ہے ہم بکمال غربت عرض کرتے ہیں کہ اگر قیمت پیشگی کتابوں کا بھیجنا منظور نہیں تو

Page 87

کتابوں کو بذریعہ ڈاک واپس بھیج دیں ہم اسی کو عطیہ عظمیٰ سمجھیں گے اور احسانِ عظیم خیال کریں گے ورنہ ہمارا بڑا حرج ہوگا اور گم شدہ حصوں کو دوبارہ چھپوانا پڑے گا کیونکہ یہ پرچہ اخبار نہیں کہ جس کے ضائع ہونے میں کچھ مضائقہ نہ ہو ہریک حصہ کتاب کا ایک ایسا ضروری ہے کہ جس کے تلف ہونے سے ساری کتاب ناقص رہ جاتی ہے برائے خدا ہمارے معزز اخوان سرد مہری اور لاپروائی کو کام میں نہ لائیں اور دنیوی استغناء کو دین میں استعمال نہ کریں اور ہماری اس مشکل کو سوچ لیں کہ اگر ہمارے پاس اجزا کتاب کے ہی نہیں ہوں گے تو ہم خریداروں کو کیا دیں گے اور ان سے پیشگی روپیہ کہ جس پر چھپنا کتاب کا موقوف ہے کیونکر لیں گے.کام ابتر پڑ جائے گا اور دین کے امر میں جو سب کا مشترک ہے ناحق کی دقت پیش آجائے گی.امیدوار بود آدمی بخیر کساں۱؎ مَرا بخیر تو امید نیست بدمرساں ایک اور بڑی تکلیف ہے جو بعض نافہم لوگوں کی زبان سے ہم کو پہنچ رہی ہے اور وہ یہ ہے جو بعض صاحب کہ جن کی رائے بباعث کم توجہی کے دینی معاملات میں صحیح نہیں ہے وہ اس حقیقت حال پر اطلاع پاکر جو کتاب براہین احمدیہ کی تیاری پر نو ہزار روپیہ خرچ آتا ہے بجائے اس کے جو دلی غمخواری سے کسی نوع کی اعانت کی طرف متوجہ ہوتے اور جو زیر باریاں بوجہ کمی قیمت کتاب و کثرت مصارف طبع کے عائد حال ہیں ان کے جبر نقصان کے لئے کچھ للہ فی اللہ ہمت دکھلاتے منافقانہ باتیں کرنے سے ہمارے کام میں خلل انداز ہورہے ہیں اور لوگوں کو یہ وعظ سناتے ہیں جو کیا پہلی کتابیں کچھ تھوڑی ہیں جواب اس کی حاجت ہے اگرچہ ہم کو ان لوگوں کے اعتراضوں پر کچھ نظر اور خیال نہیں اور ہم جانتے ہیں جو دنیا پرستوں کی ہریک بات میں کوئی خاص غرض ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ اسی طرح شرعی فرائض کو اپنے سر پر سے ٹالتے رہتے ہیں کہ تا کسی دینی کارروائی کی ضرورت کو تسلیم کرکے کوئی کوڑی ہاتھ سے نہ چھوڑنی پڑے لیکن چونکہ وہ ہماری اس جہد بلیغ کی تحقیر کرکے لوگوں کو اس کے فوائد عظیمہ ۱؎ ترجمہ.انسان کو لوگوں سے بھلائی کی امید ہوتی ہے، مجھے تجھ سے بھلائی کی امید نہیں میرے ساتھ برائی بھی تو نہ کر.

Page 88

سے محروم رکھنا چاہتے ہیں اور باوصفیکہ ہم نے پہلے حصہ کے پرچہ مُنضمّہ میں وجوہِ ضرورت کتاب موصوف کی بیان کردی تھیں پھر بھی بمقتضائے فطرتی خاصیت اپنی کے نیش زنی کررہے ہیں ناچار اس اندیشہ سے کہ مبادا کوئی شخص ان کی واہیات باتوں سے دھوکا نہ کھاوے پھر کھول کر بیان کیا جاتا ہے کہ کتاب براہین احمدیہ بغیر اشد ضرورت کے نہیں لکھی گئی.جس مقصد اور مطلب کے انجام دینے کے لئے ہم نے اس کتاب کو تالیف کیا ہے اگر وہ مقصد کسی پہلی کتاب سے حاصل ہوسکتا تو ہم اسی کتاب کو کافی سمجھتے اور اسی کی اشاعت کے لئے بدل و جان مصروف ہوجاتے اور کچھ ضرور نہ تھا جو ہم سالہا سال اپنی جان کو محنت شدید میں ڈال کر اور اپنی عمر عزیز کا ایک حصہ خرچ کرکے پھر آخرکار ایسا کام کرتے جو محض تحصیل حاصل تھا لیکن جہاں تک ہم نے نظر کی ہم کو کوئی کتاب ایسی نہ ملی جو جامع ان تمام دلائل اور براہین کی ہوتی کہ جن کو ہم نے اس کتاب میں جمع کیا ہے اور جن کا شائع کرنا بغرض اثبات حقیّت دین اسلام کے اس زمانہ میں نہایت ضروری ہے تو ناچار واجب دیکھ کر ہم نے یہ تالیف کی اگر کسی کو ہمارے اس بیان میں شبہ ہو تو ایسی کتاب کہیں سے نکال کر ہم کو دکھادے تاہم بھی جانیں ورنہ بیہودہ بکواس کرنا اور ناحق بندگانِ خدا کو ایک چشمۂ فیض سے روکنا بڑا عیب ہے.مگر یاد رہے جو اس مقولہ سے کسی نوع کی خود ستائی ہمارا مطلب نہیں جو تحقیقات ہم نے کی اور پہلے عالی شان فضلاء نے نہ کی یا جو دلائل ہم نے لکھیں اور انہوں نے نہ لکھیں یہ ایک ایسا امر ہے جو زمانہ کے حالات سے متعلق ہے نہ اس سے ہماری ناچیز حیثیت بڑھتی ہے اور نہ اُن کی بلند شان میں کچھ فرق آتا ہے انہوں نے ایسا زمانہ پایا کہ جس میں ابھی خیالات فاسدہ کم پھیلے تھے اور صرف غفلت کے طور پر باپ دادوں کی تقلید کا بازار گرم تھا سو ان بزرگوں نے اپنی تالیفات میں وہ روش اختیار کی جو ان کے زمانہ کی اصلاح کے لئے کافی تھی.ہم نے ایسا زمانہ پایا کہ جس میں بباعث زور خیالات فاسدہ کے وہ پہلی روش کافی نہ رہی بلکہ ایک پرزور تحقیقات کی حاجت پڑی جو اس وقت کی شدت فساد کی پوری پوری اصلاح کرے یہ بات یاد رکھنی چاہیے جو کیوں ازمنہء مختلفہ میں تالیفات جدیدہ کی حاجت پڑتی ہے اس کا باعث یہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا یعنی کسی زمانہ میں مفاسد کم اور کسی میں زیادہ ہوجاتے ہیں

Page 89

اور کسی وقت کسی رنگ میں اور کسی وقت کسی رنگ میں پھیلتے ہیں اب مؤلف کسی کتاب کا جو ان خیالات کو مٹانا چاہتا ہے اس کو ضرور ہوتا ہے جو وہ طبیب حاذق کی طرح مزاج اور طبیعت اور مقدار فساد اور قسم فساد پر نظر کرکے اپنی تدبیر کو عَلٰی قَدْرِ مَا یَنْبَغِیْ وَ عَلٰی نَحْوِ مَا یَنْبَغِیْ عمل میں لاوے.اور جس قدر یا جس نوع کا بگاڑ ہوگیا ہے اسی طور سے اس کی اصلاح کا بندوبست کرے اور وہی طریق اختیار کرے کہ جس سے احسن اور اسہل طور پر اس مرض کا ازالہ ہوتا ہو کیونکہ اگر کسی تالیف میں مخاطبین کے مناسب حال تدارک نہ کیا جائے تو وہ تالیف نہایت نکمی اور غیر مفید اور بے سود ہوتی ہے اور ایسی تالیف کے بیانات میں یہ زور ہرگز نہیں ہوتا جو منکر کی طبیعت کے پورے گہرائو تک غوطہ لگا کر اس کے دلی خلجان کو بکلی مستاصل کرے پس ہمارے معترضین اگر ذرا غور کرکے سوچیں گے تو ان پر بہ یقین کامل واضح ہوجائے گا کہ جن انواع و اقسام کے مفاسد نے آج کل دامن پھیلا رکھا ہے ان کی صورت پہلے فسادوں کی صورت سے بالکل مختلف ہے وہ زمانہ جو کچھ عرصہ پہلے اس سے گزر گیا ہے وہ جاہلانہ تقلید کا زمانہ تھا.اور یہ زمانہ کہ جس کی ہم زیارت کررہے ہیں یہ عقل کی بداستعمالی کا زمانہ ہے.پہلے اس سے اکثر لوگوں کو نامعقول تقلید نے خراب کر رکھا تھا اور اب فکر اور نظر کی غلطی نے بہتوں کی مٹی پلید کردی ہے یہی و جہ ہے کہ جن دلائل عمیقہ اور براہین قاطعہ لکھنے کی ہم کو ضرورتیں پیش آئیں وہ ان نیک اور بزرگ عالموں کو کہ جنہوں نے صرف جاہلانہ تقلید کا غلبہ دیکھ کر کتابیں لکھی تھیں پیش نہیں آئی تھیں ہمارے زمانہ کی نئی روشنی (کہ خاک برفرق ایں روشنی) نو آموزوں کی روحانی قوتوں کو افسردہ کررہی ہے.ان کے دلوں میں بجائے خدا کی تعظیم کے اپنی تعظیم سما گئی ہے اور بجائے خدا کی ہدایت کے آپ ہی ہادی بن بیٹھے ہیں.اگرچہ آج کل تقریباً تمام نو آموزوں کا قدرتی میلان وجوہات عقلیہ کی طرف ہوگیا ہے لیکن افسوس کہ یہی میلان بباعث عقل نا تمام اور علم خام کے بجائے رہبر ہونے کے رہزن ہوتا جاتا ہے اور فکر اور نظر کی کجروی نے لوگوں کے قیاسات میں بڑی بڑی غلطیاں ڈال دی ہیں اور مختلف رایوں اور گوناگوں خیالات کے شائع ہونے کے باعث سے کم فہم لوگوں کے لئے بڑی بڑی دقتیں پیش آگئی ہیں سو فسطائی تقریروں نے نو آموزوں کی طبائع میں طرح طرح کی پیچیدگیاں پیدا

Page 90

کردی ہیں.جو امور نہایت معقولیت میں تھے وہ ان کی آنکھوں سے چھپ گئے ہیں.جو باتیں بغایت درجہ نامعقول ہیں ان کو وہ اعلیٰ درجہ کی صداقتیں سمجھ رہے ہیں وہ حرکات جو نشاء انسانیت سے مغائر ہیں ان کو وہ تہذیب خیال کئے بیٹھے ہیں.اور جو حقیقی تہذیب ہے اس کو وہ نظر استخفاف اور استحقار سے دیکھتے ہیں پس ایسے وقت میں اور ان لوگوں کے علاج کے لئے جو اپنے ہی گھر میں محقق بن بیٹھے ہیں اور اپنے ہی منہ سے میاں مٹھو کہلاتے ہیں ہم نے کتاب براہین احمدیہ جو تین سو براہین قطعیہ عقلیہ پر مشتمل ہے بغرض اثبات حقانیتِ قرآنِ شریف جس سے یہ لوگ بکمال نخوت مونہہ پھیر رہے ہیں تالیف کیا ہے کیونکہ یہ بات اجلٰی بدیہات ہے جو سرگشتہ عقل کو عقل ہی سے تسلی ہوسکتی ہے اور جو عقل کا رہزدہ ہے وہ عقل ہی کے ذریعہ سے راہ پر آسکتا ہے.اب ہریک مومن کے لئے خیال کرنے کا مقام ہے کہ جس کتاب کے ذریعہ سے تین سو دلائل عقلی حقیّت قرآنِ شریف پر شائع ہوگئیں اور تمام مخالفین کے شبہات کو دفع اور دور کیا جائے گا وہ کتاب کیا کچھ بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچائے گی اور کیسا فروغ اور جاہ و جلال اسلام کا اس کی اشاعت سے چمکے گا ایسے ضروری امر کی اعانت سے وہی لوگ لاپروارہتے ہیں جو حالت موجودہ زمانہ پر نظر نہیں ڈالتے.اور مفاسد منتشرہ کو نہیں دیکھتے اور عواقب امور کو نہیں سوچتے یا وہ لوگ کہ جن کو دین سے کچھ غرض ہی نہیں اور خدا اور رسول سے کچھ محبت ہی نہیں.اے عزیزو!! اس پرآشوب زمانہ میں دین اسی سے برپا رہ سکتا ہے جو بمقابلہ زور طوفان گمراہی کے دین کی سچائی کا زور بھی دکھایا جاوے اور ان بیرونی حملوں کے جو چاروں طرف سے ہورہے ہیں حقانیت کی قوی طاقت سے مدافعت کی جائے یہ سخت تاریکی جو چہرہ زمانہ پر چھا گئی ہے یہ تب ہی دور ہوگی کہ جب دین کی حقیّت کے براہین دنیا میں بکثرت چمکیں اور اس کی صداقت کی شعاعیں چاروں طرف سے چھوٹتی نظر آویں.اس پراگندہ وقت میں وہی مناظرہ کی کتاب روحانی جمعیت بخش سکتی ہے کہ جو بذریعہ تحقیق عمیق کے اصل ماہیت کے باریک دقیقہ کی تہہ کو کھولتی ہو اور اس حقیقت کے اصل قرارگاہ تک پہنچاتی ہو کہ جس کے جاننے پر دلوں کی تشفی موقوف ہے.

Page 91

منانی چاہے تو یہ خیال محال اور طمع خام ہے.تم آپ ہی نظر اٹھا کر دیکھو جو کیسی طبیعتیں خود رائی اختیار کرتی جاتی ہیں اور کیسے خیالات بگڑتے جاتے ہیں اس زمانہ کی ترقی علوم عقلیہ نے یہی الٹا اثر کیا ہے حال کے تعلیم یافتہ لوگوں کی طبائع میں ایک عجب طرح کی آزاد منشی بڑھتی جاتی ہے اور وہ سعادت جو سادگی اور غربت اور صفا باطنی میں ہے وہ ان کے مغرور دلوں سے بالکل جاتی رہی ہے اور جن جن خیالات کو وہ سیکھتے ہیں وہ اکثر ایسے ہیں کہ جن سے ایک لامذہبی کے وساوس پیدا کرنے والا ان کے دلوں پر اثر پڑتا جاتا ہے اور اکثر لوگ قبل اس کے جو ان کو کوئی مرتبہ تحقیق کامل کا حاصل ہو صرف جہل مرکب کے غلبہ سے فلسفی طبیعت کے آدمی بنتے جاتے ہیں آئو! اپنی اولاد اور اپنی قوم اور اپنے ہموطنوں پر رحم کرو اور قبل اس کے جو وہ باطل کی طرف کھینچے جائیں ان کو حق اور راستی کی طرف کھینچ لائو تا تمہارا اور تمہاری ذریّت کا بھلا ہو اور تا سب کو معلوم ہو جو بمقابلہ دین اسلام کے اور سب ادیان بے حقیقت محض ہیں.دنیا میں خدا کا قانون قدرت یہی ہے جو کوشش اور سعی اکثر حصول مطلب کا ذریعہ ہوجاتی ہے اور جو شخص ہاتھ پائوں توڑ کر اور غافل ہوکر بیٹھ جاتا ہے وہ اکثر محروم اور بے نصیب رہتا ہے سو آپ لوگ اگر دین اسلام کی حقیّت کے پھیلانے کے لئے جو فی الواقع حق ہے کوشش کریں گے تو خدا اس سعی کو ضائع نہیں کرے گا خدا نے ہم کو صدہا براہین قاطعہ حقیّت اسلام پر عنایت کیں اور ہمارے مخالفین کو ان میں سے ایک بھی نصیب نہیں اور خدا نے ہم کو حق محض عطا فرمایا اور ہمارے مخالفین باطل پر ہیں اور جو راستبازوں کے دلوں میں جلال احدیّت کے ظاہر کرنے کے لئے سچا جوش ہوتا ہے اُس کی ہمارے مخالفوں کو بو بھی نہیں پہنچی لیکن تب بھی دن رات کی کوشش ایک ایسی مؤثر چیز ہے کہ باطل پرست لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور چوروں کی طرح کہیں نہ کہیں اُن کی نقب بھی لگتی ہی رہتی ہے دیکھو عیسائیوں کا دین کہ جس کا اصول ہی اَوّلُ ا لدَّنِّ دُرْدٌ ہے پادریوں کی ہمیشہ کی کوششوں سے کیسا ترقی پر ہے اور کیسے ہر سال اُن کی طرف سے فخریہ تحریریں چھپتی رہتی ہیں کہ اِس برس چار ہزار عیسائی ہوا اور اس سال آٹھ ہزار پر خداوند مسیح کا فضل ہوگیا ابھی کلکتہ میں جو پادری ھیکر صاحب نے اندازہ کرسٹان شدہ آدمیوں کا بیان کیا ہے اس سے ایک نہایت قابلِ افسوس خبر ظاہر ہوتی

Page 92

ہے.پادری صاحب فرماتے ہیں جو پچاس سال سے پہلے تمام ہندوستان میں کرسٹان شدہ لوگوں کی تعداد صرف ستائیس ہزار تھی اس پچاس سال میں یہ کارروائی ہوئی جو ستائیس ہزار سے پانچ لاکھ تک شمار عیسائیوں کا پہنچ گیا ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ!! اے بزرگو! اس سے زیادہ تر اور کون سا وقت انتشار گمراہی کا ہے کہ جس کے آنے کی آپ لوگ راہ دیکھتے ہیں ایک وہ زمانہ تھا جو دینِ اسلام   ۱؎ کا مصداق تھا اور اب یہ زمانہ!!! کیا آپ لوگوں کا دل اس مصیبت کو سن کر نہیں جلتا؟ کیا اُس وبائِ عظیم کو دیکھ کر آپ کی ہمدردی جوش نہیں مارتی؟ اے صاحبانِ عقل و فراست! اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ جو فساد دین کی بے خبری سے پھیلا ہے اُس کی اصلاح اشاعتِ دین پر ہی موقوف ہے سو اسی مطلب کو کامل طور پر پورا کرنے کے لئے میں نے کتاب (براہین احمدیہ کو تالیف کیا ہے اور اس کتاب میں ایسی دھوم دھام سے حقانیّتِ اسلام کا ثبوت دکھلایا گیا ہے کہ جس سے ہمیشہ کے مجادلات کا خاتمہ فتح عظیم کے ساتھ ہوجاوے گا.اس کتاب کی اعانت طبع کے لئے جس قدر ہم نے لکھا ہے وہ محض مسلمانوں کی ہمدردی سے لکھا گیا ہے کیونکہ ایسی کتاب کے مصارف جو ہزارہا روپیہ کا معاملہ ہے اور جس کی قیمت بھی بہ نیّت عام فائدہ مسلمانوں کے نصف سے بھی کم کردی گئی ہے یعنی پچیس روپیہ میں سے صرف دس روپیہ رکھے گئے ہیں وہ کیونکر بغیر اعانت عالی ہمت مسلمانوں کے انجام پذیر ہو.بعض صاحبوں کی سمجھ پر رونا آتا ہے جو وہ بروقت درخواست اعانت کے یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم کتاب کو بعد طیاری کتاب کے خریدلیں گے پہلے نہیں ان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ کچھ تجارت کا معاملہ نہیں اور مؤلّف کو بجز تائید دین کے کسی کے مال سے کچھ غرض نہیں اعانت کا وقت تو یہی ہے کہ جب طبعِ کتاب میں مشکلات پیش آرہی ہیں ورنہ بعد چھپ چکنے کے اعانت کرنا ایسا ہے کہ جیسے بعد تندرستی کے دوا دینا پس ایسی لاحاصل اعانت سے کس ثواب کی توقع ہوگی؟ خدا نے لوگوں کے دلوں سے دینی محبت کیسی مٹادی جو اپنے ننگ و ناموس کے کاموں میں ہزارہا روپیہ آنکھ بند کرکے خرچ ۱؎ النصر: ۳

Page 93

کرتے چلے جاتے ہیں لیکن دینی کاموں کے بارے میں جو اِس حیاتِ فانی کا مقصد اصلی ہیں لمبے لمبے تأمّلوں میں پڑ جاتے ہیں زبان سے تو کہتے ہیں جو ہم خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں پر حقیقت میں اُن کو نہ خدا پر ایمان ہے نہ آخرت پر اگر ایک ساعت اپنے بَذلِ اَموال کی کیفیت پر نظر کریں جو خدا داد نعمتوں کو اپنے نفسِ امّارہ کے فربہ کرنے کے لئے ایک برس میں کس قدر خرچ کر ڈالتے ہیں اور پھر سوچیں جو خلق اللہ کی بھلائی اور بہبودی کے لئے ساری عمر میں خالصاً لِلّٰہکتنے کام کئے ہیں تو اپنے خیانت پیشہ ہونے پر آپ ہی رو دیں پر اِن باتوں کو کون سوچے اور وہ پردے جو دل پر ہیں کیونکر دور ہوں      ۱؎ انہیں لوگوں کی پست ہمتی اور دنیا پرستی پر خیال کرکے بعض ہمارے معزز دوستوں نے جو دین کی محبت میں مثل عاشقِ زار پائے جاتے ہیں بمقتضائے بشریّت کے ہم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ جس صورت میں لوگوں کا یہ حال ہے تو اتنی بڑی کتاب تالیف کرنا کہ جس کی چھپوائی پر ہزارہا روپیہ خرچ آتا ہے بے موقع تھا سو اُن کی خدمت والا میں یہ عرض ہے کہ اگر ہم ان صدہا دقائق اور حقائق کو نہ لکھتے کہ جو درحقیقت کتاب کے حجم بڑھ جانے کا موجب ہیں تو پھر خود کتاب کی تالیف ہی غیر مفید ہوتی رہا یہ فکر کہ اس قدر روپیہ کیونکر میسر آوے گا سو اِس سے تو ہمارے دوست ہم کو مت ڈراویں اور یقین کرکے سمجھیں جو ہم کو اپنے خدائے قادر مطلق اور اپنے مولیٰ کریم پر اس سے زیادہ تر بھروسا ہے کہ جو مُمسک اور خسیس لوگوں کو اپنی دولت کے ان صندوقوں پر بھروسا ہوتا ہے کہ جن کی تالی ہر وقت اُن کی جیب میں رہتی ہے سو وہی قادر توانا اپنے دین اور اپنی وحدانیت اور اپنے بندہ کی حمایت کے لئے آپ مدد کرے گا. .۲؎ پناہم آں توانائیست ہر آن زِ بخلِ ناتوانانم مترساں ۳؎ (اشتہار مندرجہ کتاب براہین احمدیہ حصّہ دوم صفحہ الف تا ق ۱۸۸۰ء.مطبوعہ سفیر ہندپریس امرتسر) (براہین احمدیہ حصّہ دوم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹ تا ۷۰) ۱؎ الرعد: ۳۴ ۲؎ البقرۃ: ۱۰۷

Page 94

 عُذر اب کی دفعہ کہ جو حصہ سوم کے نکلنے میں قریب دو برس کے توقف ہوگئی غالباً اِس توقف سے اکثر خریدار اور ناظرین بہت ہی حیران ہوں گے.لیکن واضح رہے کہ یہ تمام توقف مہتمم صاحب سفیرہند کی بعض مجبوریوں سے جنکے مطبع میں کتاب چھپتی ہے ظہور میں آئی ہے.خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ (منقول از براہین احمدیہ حصّہ سوم ٹائیٹل مطبوعہ ۱۸۸۰ سفیر ہند پریس امرت سر) (روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۱۳۵)

Page 95

 یا اللّٰہ مسلمانوں کی حالت اور اسلام کی غربت اور نیز بعض ضروری اُمور سے اطلاع آج کل غربتِ اسلام کی علامتیں اور دین متین محمدی پر مصیبتیں ایسی ظاہر ہورہی ہیں کہ جہاں تک زمانہ بعثت حضرت نبوی کے بعد میں ہم دیکھتے ہیں کسی قرن میں اُس کی نظیر نہیں پائی جاتی.اس سے زیادہ تر اور کیا مصیبت ہوگی کہ مسلمان لوگ دینی غمخواری میں بغایت درجہ سُست اور مخالف لوگ اپنے اعتقادوں کی ترویج اور اشاعت میں چاروں طرف سے کمربستہ اور چست نظر آتے ہیں جس سے دن بدن ارتداد اور بد عقیدگی کا دروازہ کھلتا جاتا ہے اور لوگ فوج در فوج مرتد ہوکر ناپاک عقائد اختیار کرتے جاتے ہیں.کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے مخالف جن کے عقائدِ فاسدہ بدیہی البطلان ہیں.دن رات اپنے اپنے دین کی حمایت میں سرگرم ہیں بحدیکہ یورپ اور امریکہ میں عیسائی دین کے پھیلانے کے لئے بیوہ عورتیں بھی چندہ دیتی ہیں اور اکثر لوگ مرتے وقت وصیت کرجاتے ہیں کہ اس قدر ترکہ ہمارا خالص مسیحی مذہب کے رواج دینے میں خرچ ہو.مگر مسلمانوں کا حال کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ ان کی غفلت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ نہ وہ آپ دین کی کچھ غمخواری کرتے ہیں اور نہ کسی غمخوار کو نیک ظنی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.خیال کرنا چاہیے کہ غمخواری دینی کا کیسا موقعہ تھا.اور خدمت گزاری کا کیا ضروری محل تھا کہ کتاب براہین احمدیہ جس میں تین سومضبوط دلیل

Page 96

سے حقیّتِ اسلام ثابت کی گئی ہے اور ہرایک مخالف کے عقائدِ باطلہ کا ایسا استیصال کیا گیا ہے کہ گویا اس مذہب کو ذبح کیا گیا کہ پھر زندہ نہیں ہوگا.اِس کتاب کے بارے میں بجز چند عالی ہمت مسلمانوں کے جن کی توجہ سے دو حصے اور کچھ تیسرا حصہ چھپ گیا.جو کچھ اور لوگوں نے اعانت کی وہ ایسی ہے کہ اگر بجائے تصریح کے صرف اسی پر قناعت کریں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ تو مناسب ہے.اَیُّھَا الْاَخْوَانُ الْمُؤْمِنُوْنَ.مَالَکُمْ لَا تَتَوَجَّھُوْنَ.شَوَّقْنَاکُمْ فَلَمْ تَشْتَاقُوْا.وَنَبَّھْنَاکُمْ فَلَمْ تَتَنَبَّھُوْا.اِسْمَعُوْا عِبَادَاللّٰہِ اِسْمَعُوْا.اُنْصُرُوْا تُوْجَرُوْا.وَفِی الْاَنْصَارِ تُبْعَثُوْا.وَفِی الدَّارَیْنِ تُرْحَمُوْا.وَفِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ تَقْعُدُوْا.رَحِمَنَا اللّٰہُ وَاِیَّاکُمْ ھُوَ مَوْلَانَا نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ.اور اگر کوئی اب بھی متوجہ نہ ہو تو خیر ہم بھی ارحم الراحمین سے کہتے ہیں اور اُس کے پاک وعدے ہم غریبوں کو تسلّی بخش ہیں اور اس جگہ یہ امر بھی واجب الاطلاع ہے کہ پہلے یہ کتاب صرف تیس پینتیس جز تک تالیف ہوئی تھی اور پھر سو جُز تک بڑھا دی گئی اور دسروپیہ عام مسلمانوں کے لئے اور پچیس روپیہ دوسری قوموں اور خواص کے لئے مقرر ہوئے مگر اب یہ کتاب بو جہ احاطہ جمیع ضروریاتِ تحقیق و تدقیق اور اتمام حجت کے لئے تین سو جز تک پہنچ گئی ہے جس کے مصارف پر نظر کرکے یہ واجب معلوم ہوتا تھا کہ آئندہ قیمت کتاب سو روپیہ رکھی جائے مگر بباعث پست ہمتی اکثر لوگوں کے یہی قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اب وہی قیمت مقررہ سابقہ کہ گویا کچھ بھی نہیں ایک دوامی قیمت قرار پاوے.اور لوگوں کو اُن کے حوصلہ سے زیادہ تکلیف دے کر پریشان خاطر نہ کیا جاوے لیکن خریداروں کو یہ استحقاق نہیں ہوگا کہ جو بطور حق واجب کے اس قدر اجزاء کا مطالبہ کریں بلکہ جو اجزاء زائد از حَقِّ واجب ان کو پہنچیں گی وہ محض لِلّٰہ فِی اللّٰہ ہوں گی اور ان کا ثواب ان لوگوں کو پہنچے گا کہ جو خالصاً لِلّٰہ اس کام کے انجام کے لئے مدد کریں گے اور واضح رہے کہ اب یہ کام صرف ان لوگوں کی ہمت سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا کہ جو مجرد خریدار ہونے کی و جہ سے ایک عارضی جوش رکھتے ہیں.بلکہ اس وقت کئی ایک ایسے عالی ہمتوں کی توجہات کی حاجت ہے کہ جن کے دلوں میں ایمانی غیوری کے باعث سے حقیقی اور واقعی جوش ہے اور جن کا بے بہا ایمان صرف خرید و فروخت کے تنگ ظرف میں

Page 97

بلکہ اپنے مالوں کے عوض میں بہشت جاودانی خریدنا چاہتے ہیں وَ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ.بالآخر ہم اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتے ہیں کہ اے خداوند کریم تو اپنے خالص بندوں کو اس طرف کامل توجہ بخش.اے رحمان و رحیم تو آپ اُن کو یاد دلا.اے قادر توانا تو اُن کے دلوں میں آپ الہام کر.آمین ثم آمین.وَنَتَوَکَّلُ عَلٰی رَبِّنَا رَبِّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.(اشتہار ٹائیٹل پیج براہین احمدیہ حصہ سوم مطبوعہ ۱۸۸۲ء.سفیر ہند پریس امرتسر.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۳۵)

Page 98

 عذر و اطلاع اب۱؎ کی دفعہ کہ جو حصہ سوم کے نکلنے میں حد سے زیادہ توقف ہوگئی.غالباً اس توقف سے اکثر خریدار اور ناظرین بہت ہی حیران ہوں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ بعض لوگ طرح طرح کے شکوک و شبہات بھی کرتے ہوں.مگر واضح رہے کہ یہ توقف ہماری طرف سے ظہور میں نہیں آئی بلکہ اتفاق یہ ہوگیا کہ جب مئی ۱۸۸۱ء کے مہینہ میں کچھ سرمایہ جمع ہونے کے بعد مطبع سفیر ہند امرتسر میں اجزاء کتاب کے چھپنے کے لئے دیئے گئے اور امید تھی کہ غایت کار دو ماہ میں حصہ سوم چھپ کر شائع ہوجائے گا لیکن تقدیری اتفاقوں سے جن میں انسان ضعیف البنیان کی کچھ پیش نہیں جاسکتی.مہتمم صاحب مطبع سفیر ہند طرح طرح کی ناگہانی آفات اور مجبوریوں میں مبتلا ہوگئے.جن مجبوریوں کی وجہ سے ایک مدت دراز تک مطبع بند رہا.چونکہ یہ توقف ان کے اختیار سے باہر تھی.اس لئے ان کی قائمی جمعیت تک برداشت سے انتظار کرنا مقتضائِ انسانیت تھا.سو الحمدللہ کہ بعد ایک مدت کے ان کے موانع کچھ رو بہ خفّت ہوگئے اور اب کچھ تھوڑے عرصہ سے حصہ سوم کا چھپنا شروع ہوگیا.لیکن چونکہ اس حصہ کے چھپنے میں بو جہ موالغ مذکورہ بالا ایک زمانہ دراز گزر گیا.اس لئے ہم نے بڑے افسوس کے ساتھ اس بات کو قرین مصلحت سمجھا کہ اس حصہ کے مکمل طور پر چھپنے کا انتظار نہ کیا جائے اور جس قدر اب تک چھپ چکا ہے وہی خریداروں کی خدمت میں بھیجا جاوے تا ان کی تسلّی و تشفی کا موجب ہو اور جو کچھ اس حصہ میں سے باقی رہ گیا ہے.وہ انشاء اللہ القدیر چہارم حصہ کے ساتھ جو ایک بڑا حصہ ہے چھپوا دیا جائے گا.۱؎ طبع اوّل کا ذکر ہے.

Page 99

شاید ہم بعض دوستوں کی نظر میں اس و جہ سے قابلِ اعتراض ٹھہریں کہ ایسے مطبع میں جس میںہر دفعہ لمبی لمبی توقف پڑتی ہے کیوں کتاب کا چھپوانا تجویز کیا گیا.سو اس اعتراض کا جواب ابھی عرض کیا گیا ہے کہ یہ مہتمم مطبع کی طرف سے لاچاری توقف ہے نہ اختیاری.اور وہ ہمارے نزدیک ان مجبوریوں کی حالت میں قابل رحم ہیں نہ قابل الزام.ماسوائے اس کے مطبع سفیر ہند کے مہتمم صاحب میں ایک عمدہ خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت صحت اور صفائی اور محنت اور کوشش سے کام کرتے ہیں اور اپنی خدمت کو عرقریزی اور جانفشانی سے انجام دیتے ہیں.یہ پادری صاحب ہیں.مگر باوجود اختلاف مذہب کے خدا نے ان کی فطرت میں یہ ڈالا ہوا ہے کہ اپنے کام منصبی میں اخلاص اور دیانت کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑتے.ان کو اس بات کا ایک سودا ہے کہ کام کی عمدگی اور خوبی اور صحت میں کوئی کسر نہ رہ جائے.انہیں وجوہ کی نظر سے باوجود اس بات کے کہ دوسرے مطابع کی نسبت ہم کواس مطبع میں بہت زیادہ حق الطبع دینا پڑتا ہے.تب بھی انہیں کا مطبع پسند کیاگیا اور آئندہ امید قوی ہے کہ ان کی طرف سے حصہ چہارم کے چھپنے میں کوئی توقف نہ ہو.صرف اس قدر توقف ہوگی کہ جب تک کافی سرمایہ اس حصہ کے لئے جمع ہوجائے.سو مناسب ہے کہ ہمارے مہربان خریدار اب کی طرح اس حصہ کے انتظار میں مضطرب اور متردد نہ ہوں جب ہی کہ وہ حصہ چھپے گا.خواہ جلدی اور خواہ دیر سے جیسا خدا چاہے گا.فی الفور تمام خریداروں کی خدمت میں بھیجا جائے گا.اور اس جگہ ان تمام صاحبوں کی توجہ اور اعانت کا شکر کرتا ہوں جنہوں نے خالصاً للہ حصہ سوم کے چھپنے کے لئے مدد دی.اور یہ عاجز خاکسار اب کی دفعہ ان عالی ہمت صاحبوں کے اسماء مبارکہ لکھنے سے اور نیز دوسرے خریداروں کے اندراج نام سے بو جہ عدم گنجائش اور بباعث بعض مجبوریوں کے مُقصّر ہے.لیکن بعد اس کے اگر خدا چاہے گااور نیت درست ہوگی تو کسی آئندہ حصہ میں بہ تفصیل تمام درج کئے جائیں گے.اور نیز اس جگہ یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس حصہ سوم میں تمام وہ تمہیدی امور لکھے گئے ہیں جن کا غور سے پڑھنا اور یاد رکھنا کتاب کے آئندہ مطالب سمجھنے کے لئے نہایت ضروری ہے.اور اس کے پڑھنے سے یہ بھی واضح ہوگا کہ خدا نے دینِ حق اسلام میں وہ عزت اور عظمت اور برکت اور

Page 100

صداقت رکھی ہے جس کا مقابلہ کسی زمانہ میں کسی غیر قوم سے کبھی نہیں ہوسکا اور نہ اب ہوسکتا ہے.اور اس امر کو مدلل طور پر بیان کرکے تمام مخالفین پر اتمام حجت کیا گیا ہے اور ہریک طالب حق کے لئے ثبوت کامل پانے کا دروازہ کھول دیا گیا ہے تا حق کے طالب اپنے مطلب اور مراد کو پہنچ جاویں اور تا تمام مخالف سچائی کے کامل نوروں کو دیکھ کر شرمندہ اور لاجواب ہوں اور تا وہ لوگ بھی نادم اور منفعل ہوں جنہوں نے یورپ کی جھوٹی روشنی کو اپنا دیوتا بنا رکھا ہے اور آسمانی برکتوں کے قائلوں کو جاہل اور وحشی اور ناتربیت یافتہ سمجھتے ہیں اور سماوی نشانوں کے ماننے والوں کا نام احمق اور سادہ لوح اور نادان رکھتے ہیں.جن کا یہ گمان ہے کہ یورپ کے علم کی نئی روشنی اسلام کی روحانی برکتوں کو مٹا دے گی اور مخلوق کا مکر خالق کے نوروں پر غالب آجائے گا.سو اب ہریک منصف دیکھے گا کہ کون غالب آیا اور کون لاجواب اور عاجز رہا.اور کون صادق اور دانشمند ہے اور کون کاذب اور نادان! وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ وَ عَلَیْہِ التُّکْلَانُ.خاکسارغلام احمد عفی اللہ عنہ.(منقول از براہین احمدیہ حصّہ سوم بار اوّل صفحہ ۳۰۲ ملحقہ ٹائیٹل پیج.مطبوعہ سفیر ہند پریس ۱۸۸۲ء) (روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۱۱ ، ۳۱۲)

Page 101

 گزارش ضروری چونکہ کتاب اب تین سو جز تک بڑھ گئی ہے لہٰذا اُن خریداروں کی خدمت میں جنہوں نے اب تک کچھ قیمت نہیں بھیجی یا پوری قیمت نہیں بھیجی التماس ہے کہ اگر کچھ نہیں تو صرف اتنی مہربانی کریں کہ بقیہ قیمت بلا توقف بھیج دیں کیونکہ جس حالت میں اب اصلی قیمت کتاب کی سو روپیہ ہے اور اس کے عوض دس یا پچیس روپیہ قیمت قرار پائی پس اگر یہ ناچیز قیمت بھی مسلمان لوگ بطور پیشگی ادا نہ کریں تو پھر گویا وہ کام کے انجام سے آپ مانع ہوں گے اور اس قدر ہم نے برعایت ظاہر لکھا ہے ورنہ اگر کوئی مدد نہیں کرے گا یا کم توجہی سے پیش آئے گا، حقیقت میں وہ آپ ہی ایک سعادت عظمیٰ سے محروم رہے گا.اور خدا کے کام رک نہیں سکتے اور نہ کبھی رکے.جن باتوں کو قادر مطلق چاہتا ہے وہ کسی کی کم توجہی سے ملتوی نہیں رہ سکتیں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.خاکسار میرزا غلام احمد (اشتہار مندرجہ ٹائیٹل براہین احمدیہ حصّہ سوم ۱۸۸۲ء.مطبوعہ سفیر ہند پریس امرتسر) ( روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۳۶)

Page 102

 اسلامی انجمنوں کی خدمت میں التماس ضروری ایک خط انجمن اسلامیہ لاہور کے سیکرٹری صاحب کی طرف سے اور ایسا ہی ایک تحریر مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کی طرف سے کہ جو انجمن ہمدردی اسلامی لاہور کے سیکرٹری ہیں موصول ہوکر اس عاجز کے ملاحظہ سے گزری جس سے یہ مطلب تھا کہ ان عرضداشتوں پر معزز برادران اہل اسلام و منصفین اہل ہنود کے دستخط کرائے جائیں کہ جو مسلمانوں کی ترقی تعلیم و ملازمت و نیز مدارس کی تعلیم میں اردو زبان قائم رکھنے کے لئے گورنمنٹ میں پیش کرنے کے لئے طیار کی گئی ہیں مگر افسوس کہ میں اول بو جہ علالت اپنی طبیعت کے اور پھر بو جہ قیام ضروری امرتسر کے اس خدمت کو ادا نہیں کرسکا لیکن بحکم اَلدِّیْنُ اَلنَّصِیْحَۃُاس قدر عرض کرنا اپنے بھائیوں کے دین اور دنیا کی بہبودی کا موجب سمجھتا ہوں کہ اگرچہ گورنمنٹ کی رحیمانہ نظر میں مسلمانوں کی شکستہ حالت بہرحال قابل رحم ٹھہرے گی.جس گورنمنٹ نے اپنے قوانین میں مویشی اور چارپایوں سے بھی ہمدردی ظاہر کی ہے وہ کیونکر ایک گروہِ کثیر انسانوں کی ہمدردی سے کہ جو اس کی رعیّت اور اس کی زِیردست ہیں اور ایک غربت اور مصیبت کی حالت میں پڑے ہیں غافل رہ سکتی ہے.لیکن ہمارے معزز بھائیوں پر صرف یہی واجب نہیں کہ وہ مسلمانوں کو افلاس اور تنزل اور ناتربیت یافتہ ہونے کی حالت میں دیکھ کر ہمیشہ اسی بات پر زور مارا کریں کہ کوئی میموریل طیار کرکے اور بہت سے دستخط اُس پر کرا کر گورنمنٹ میں بھیجا جائے.ہریک کام دینی ہو یا دنیوی.اس میں استمداد سے پہلے اپنی خداداد طاقت اور ہمت کا خرچ کرنا ضروری ہے

Page 103

اور پھر اس فعل کی تکمیل کے لئے مدد طلب کرنا.خدا نے ہم کو ہماری ہر روزہ عبادت میں بھی یہی تعلیم دی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ہم  ۱؎ کہیں نہ یہ کہ    .مسلمانوں پر جن امور کا اپنی اصلاح حال کے لئے اپنی ہمت اور کوشش سے انجام دینا لازم ہے وہ انہیں فکر اور غور کے وقت آپ ہی معلوم ہوجائیں گے.حاجت بیان و تشریح نہیں.مگر اس جگہ ان امروں میں سے یہ امر قابل تذکرہ ہے جس پر گورنمنٹ انگلشیہ کی عنایات اور توجہات موقوف ہیں کہ گورنمنٹ ممدوحہ کے دل پر اچھی طرح یہ امر مرکوز کرنا چاہیے کہ مسلمانان ہند ایک وفادار رعیّت ہے.کیونکہ بعض ناواقف انگریزوں نے خصوصاً ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے کہ جو کمیشن تعلیم کے اب پریسیڈنٹ ہیں اپنی ایک مشہور تصنیف میں اس دعویٰ پر بہت اصرار کیا ہے کہ مسلمان لوگ سرکار انگریزی کے دلی خیر خواہ نہیں ہیں اور انگریزوں سے جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں.گو یہ خیال ڈاکٹر صاحب کا شریعت اسلام پر نظر کرنے کے بعد ہریک شخص پر محض بے اصل اور خلاف واقعہ ثابت ہوگا.لیکن افسوس کہ بعض کوہستانی اور بے تمیز سفہاء کی نالائق حرکتیں اس خیال کی تائید کرتی ہیں.اور شاید انہیں اتفاقی مشاہدات سے ڈاکٹر صاحب موصوف کا وہم بھی مستحکم ہوگیا ہے.کیونکہ کبھی کبھی جاہل لوگوں کی طرف سے اس قسم کی حرکات صادر ہوتی رہتی ہیں لیکن محقق پر یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا کہ اس قسم کے لوگ اسلامی تدین سے دور و مہجور ہیں اور ایسے ہی مسلمان ہیں جیسے مکلین عیسائی تھا.پس ظاہر ہے کہ اُن کی یہ ذاتی حرکات ہیں نہ شرعی پابندی سے.اور ان کے مقابل پر ان ہزارہا مسلمانوں کو دیکھنا چاہیے کہ جو ہمیشہ جاں نثاری سے خیر خواہی دولت انگلشیہ کی کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں.۱۸۵۷ء میں جو کچھ فساد ہوا اس میں بجز جہلاء اور بدچلن لوگوں کے اور کوئی شائستہ اور نیک بخت مسلمان جو باعلم اور باتمیز تھا ہرگز مفسدہ میں شامل نہیں ہوا.بلکہ پنجاب میں بھی غریب غریب مسلمانوں نے سرکار انگریزی کو اپنی طاقت سے زیادہ مدد دی.چنانچہ ہمارے والد صاحب مرحوم نے بھی باوصف کم استطاعتی کے اپنے اخلاص اور جوش خیر خواہی سے پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید

Page 104

کرکے اور پچاس مضبوط اور لائق سپاہی بہم پہنچا کر سرکار میں بطور مدد کے نذر کی اور اپنی غریبانہ حالت سے بڑھ کر خیر خواہی دکھلائی.اور جو مسلمان لوگ صاحب دولت و ملک تھے.انہوں نے تو بڑے بڑے خدمات نمایاں ادا کئے.اب پھر ہم اس تقریر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ گو مسلمانوں کی طرف سے اخلاص اور وفاداری کے بڑے بڑے نمونہ ظاہر ہوچکے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں کی بدنصیبی کی و جہ سے ان تمام وفاداریوں کو نظر انداز کردیا اور نتیجہ نکالنے کے وقت ان مخلصانہ خدمات کو نہ اپنے قیاس کے صغریٰ میں جگہ دی اور نہ کبریٰ میں.بہرحال ہمارے بھائی مسلمانوں پر لازم ہے کہ گورنمنٹ پر اُن کے دھوکوں سے متاثر ہونے سے پہلے مجدد طور پر اپنی خیر خواہی ظاہر کریں.جس حالت میں شریعتِ اسلام کا یہ واضح مسئلہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا جس کے زیر سایہ مسلمان لوگ امن اور عافیت اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہوں.اور جس کے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہوں.اور جس کی مبارک سلطنت حقیقت میں نیکی اور ہدایت پھیلانے کے لئے کامل مددگار ہو.قطعی حرام ہے.تو پھر بڑے افسوس کی بات ہے کہ علمائے اسلام اپنے جمہوری اتفاق سے اس مسئلہ کو اچھی طرح شائع نہ کرکے ناواقف لوگوں کی زبان اور قلم سے مورد اعتراض ہوتے رہیں.جن اعتراضوں سے ان کے دین کی سُستی پائی جائے.اور ان کی دنیا کو ناحق کا ضرر پہنچے.سو اس عاجز کی دانست میں قرین مصلحت یہ ہے کہ انجمن اسلامیہ لاہور و کلکتہ و بمبئی وغیرہ یہ بندوبست کریں کہ چند نامی مولوی صاحبان جن کی فضیلت اور علم اور زہد اور تقویٰ اکثر لوگوں کی نظر میں مسلّم الثبوت ہو.اس امر کے لئے چن لئے جائیں کہ اطراف اکناف کے اہلِ علم کہ جو اپنے مسکن کے گرد ونواح میں کسی قدر شہرت رکھتے ہوں اپنی اپنی عالمانہ تحریریں جن میں برطبق شریعت حقہ سلطنت انگلشیہ سے جو مسلمانان ہند کی مربی و محسن ہے جہاد کرنے کی صاف ممانعت ہو.ان علماء کی خدمت میں بہ ثبت مواہیر بھیج دیں کہ بموجب قرارداد بالا اس خدمت کے لئے منتخب کئے گئے ہیں.اور جب سب خطوط جمع ہوجائیں تو یہ مجموعہ خطوط کہ جو مکتوبات علماء ہند سے موسوم ہوسکتا ہے.کسی خوشخط مطبع میں بہ صحت تمام چھاپا جائے اور پھر دس بیس نسخہ اس کے

Page 105

گورنمنٹ میں اور باقی نسخہ جات متفرق مواضع پنجاب و ہندوستان خاص کر سرحدی ملکوں میں تقسیم کئے جائیں.یہ سچ ہے کہ بعض غمخوار مسلمانوں نے ڈاکٹر ہنٹر صاحب کے خیالات کا رد لکھا ہے.مگر یہ دوچار مسلمانوں کا رد جمہوری رد کا ہرگز قائم مقام نہیں ہوسکتا.بلاشبہ جمہوری رد کا اثر ایسا قوی اور پرزور ہوگا جس سے ڈاکٹر صاحب کی تمام غلط تحریریں خاک سے مل جائیں گی اور بعض ناواقف مسلمان بھی اپنے سچے اور پاک اصول سے بخوبی مطلع ہوجائیں گے اور گورنمنٹ انگلشیہ پر بھی صاف باطنی مسلمانوں کی اور خیر خواہی اس رعیت کی کماحقہ کھل جائے گی اور بعض کوہستانی جہلاء کے خیالات کی اصلاح بھی بذریعہ اسی کتاب کی وعظ اور نصیحت کے ہوتی رہے گی.بالآخر یہ بات بھی ظاہر کرنا ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیں کہ اگرچہ تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے کہ بنظر ان احسانات کے کہ جو سلطنت انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکمت کے ذریعہ سے عامہ خلائق پر وارد ہیں.سلطنت ممدوحہ کو خداوند تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے اس کا شکر بھی ادا کریں.لیکن پنجاب کے مسلمان بڑے ناشکر گزار ہوں گے اگر وہ اس سلطنت کو جو ان کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے نعمت عظمیٰ یقین نہ کریں.ان کو سوچنا چاہئے کہ اس سلطنت سے پہلے وہ کس حالت پر ملالت میں تھے اور پھر کیسے امن و امان میں آگئے.پس فی الحقیقت یہ سلطنت ان کیلئے ایک آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہے جسکے آنے سے سب تکلیفیں ان کی دور ہوئیں اور ہریک قسم کے ظلم اور تعدی سے نجات حاصل ہوئی اور ہریک ناجائز روک اور مزاحمت سے آزادی میسر آئی.کوئی ایسا مانع نہیں کہ جو ہم کو نیک کام کرنے سے روک سکے یا ہماری آسائش میں خلل ڈال سکے.پس حقیقت میں خداوند کریم و رحیم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کے لئے ایک باران رحمت بھیجا ہے جس سے پودہ اسلام کا پھر اس ملک پنجاب میں سرسبز ہوتا جاتا ہے اور جس کے فوائد کا اقرار حقیقت میں خدا کے احسانوں کا اقرار ہے.یہی سلطنت ہے جس کی آزادی ایسی بدیہی اور مسلّم الثبوت ہے کہ بعض دوسرے ملکوں سے مظلوم مسلمان ہجرت کرکے اس ملک میں آنا بدل و جان پسند کرتے ہیں.جس صفائی سے اس سلطنت کے ظل حمایت میں مسلمانوں کی اصلاح کیلئے اور ان کی بدعات مخلوطہ دور

Page 106

کرنے کے لئے وعظ ہوسکتا ہے.اور جن تقریبات سے علماء اسلام کو ترویجِ دین کے لئے اس گورنمنٹ میں جوش پیدا ہوتے ہیں اور فکر اور نظر سے اعلیٰ درجہ کا کام لینا پڑتا ہے اور عمیق تحقیقاتوں سے تائید دین متین میں تالیفات ہوکر حجت اسلام مخالفین پر پوری کی جاتی ہے وہ میری دانست میں آج کل کسی اور ملک میں ممکن نہیں.یہی سلطنت ہے جس کی عادلانہ حمایت سے علماء کو مدتوں کے بعد گویا صدہا سال کے بعد یہ موقعہ ملا کہ بے دھڑک بدعات کی آلودگیوں سے اور شرک کی خرابیوں سے اور مخلوق پرستی کے فسادوں سے نادان لوگوں کو مطلع کریں اور اپنے رسول مقبول کا صراط مستقیم کھول کر ان کو بتلاویں.کیا ایسی سلطنت کی بدخواہی جس کے زیر سایہ تمام مسلمان امن اور آزادی سے بسر کرتے ہیں اور فرائض دین کو کماحقہ بجا لاتے ہیں اور ترویج دین میں سب ملکوں سے زیادہ مشغول ہیں جائز ہوسکتی ہے.حَاشَا وَکَلَّا ہرگز جائز نہیں.اور نہ کوئی نیک اور دیندار آدمی ایسا بدخیال دل میں لاسکتا ہے.ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ دنیا میں آج یہی ایک سلطنت ہے جس کے سایہ عاطفت میں بعض بعض اسلامی مقاصد ایسے حاصل ہوتے ہیں کہ جو دوسرے ممالک میں ہرگز ممکن الحصول نہیں.شیعوں کے ملک میں جائو تو وہ سنت جماعت کے وعظوں سے افروختہ ہوتے ہیں.اور سنت جماعت کے ملکوں میں شیعہ اپنی رائے ظاہر کرنے سے خائف ہیں.ایسا ہی مقلدین موحدین کے شہروں میں اور موحدین مقلدین کے بلاد میں دم نہیں مارسکتے.اور گو کسی بدعت کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیں منہ سے بات نکالنے کا موقعہ نہیں رکھتے.آخر یہی سلطنت ہے جس کی پناہ میں ہریک فرقہ امن اور آرام سے اپنی رائے ظاہر کرتا ہے.اور یہ بات اہلِ حق کے لئے نہایت ہی مفید ہے.کیونکہ جس ملک میں بات کرنے کی گنجائش ہی نہیں.نصیحت دینے کا حوصلہ ہی نہیں.اس ملک میں کیونکر راستی پھیل سکتی ہے.راستی پھیلانے کے لئے وہی ملک مناسب ہے جس میں آزادی سے اہل حق وعظ کرسکتے ہیں.یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ دینی جہادوں سے اصلی غرض آزادی کا قائم کرنا اور ظلم کا دور کرنا تھا.اور دینی جہاد انہیں ملکوں کے مقابلہ پر ہوئے تھے جن میں واعظین کو اپنے وعظ کے وقت جان کا اندیشہ تھا.اور جن میں امن کے ساتھ وعظ ہونا قطعی محال تھا.اور کوئی شخص طریقہ حقہ کو اختیار کرکے اپنی قوم کے ظلم سے محفوظ نہیں رہ سکتا تھا.لیکن سلطنت انگلشیہ

Page 107

آزادی نہ صرف ان خرابیوں سے خالی ہے بلکہ اسلامی ترقی کی بدرجہ غایت ناصر اور مؤید ہے.مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس خداداد نعمت کا قدر کریں.اور اس کے ذریعہ سے اپنی دینی ترقیات میں قدم بڑھاویں.اور اس طرف بھی تو جہ کریں کہ اس مربی سلطنت کی شکر گزاری کے لئے یہ بھی پُرضرور ہے کہ جیسا اُن کی دولت ظاہری کی خیرخواہی کی جائے ایسا ہی اپنے وعظ اور معقول بیان اور عمدہ تالیفات سے یہ کوشش کی جائے کہ کسی طرح دین اسلام کی برکتیں بھی اس قوم کے حصہ میں آجائیں.اور یہ امر بجز رفق اور مدارا اور محبت اور حلم کے انجام پذیر نہیں ہوسکتا.خدا کے بندوں پر رحم کرنا اور عرب اور انگلستان وغیرہ ممالک کا ایک ہی خالق سمجھنا اور اس کی عاجز مخلوق کی دل و جان سے غمخواری کرنا اصل دین و ایمان کا ہے.پس سب سے اول بعض ان ناواقف انگریزوں کے اس وہم کو دور کرنا چاہیے کہ جو بو جہ ناواقفیت یہ سمجھ رہے ہیں کہ گویا قوم مسلمان ایک ایسی قوم ہے کہ جو نیکی کرنے والوں سے بدی کرتی ہے اور اپنے محسنوں سے ایذا کے ساتھ پیش آتی ہے اور اپنی مربی گورنمنٹ کی بدخواہ ہے.حالانکہ اپنے محسن کے ساتھ باحسان پیش آنے کی تاکید جس قدر قرآن شریف میں ہے اور کسی کتاب میں اس کا نام و نشان نہیں پایا جاتا.وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی.    ۱؎.وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.مَنِ اصْطَنَعَ اِلَیْکُمْ مَعْرُوْفًا فَجَازُوْہُ فَاِنْ عَجَزْتُمْ عَنْ مُجَازَاتِہٖ فَادْعُوْا لَہٗ حَتَّی یَعْلَمَ اَنَّکُمْ قَدْ شَکَرْتُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ یُحِبُّ الشَّاکِرِیْنَ.الملتمس خاکسار غلام احمد عفی عنہُ (منقول از براہین احمدیہ حصہ سوم ملحقہ ٹائیٹل صفحہ الف، ب.مطبوعہ ۱۸۸۲ء.سفیر ہند پریس امرتسر) ( روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۱۳۷ تا ۱۴۲) ۱؎ النّحل: ۹۱

Page 108

Page 109

 مسلمانوں کی نازک حالت اور انگریزی گورنمنٹ ترسم کہ بہ کعبہ چوں روی ۱؎ ا ے اعرابی کیں رہ کہ تومی روی بترکستان است۲؎ آج کل ہمارے دینی بھائیوں مسلمانوں نے دینی فرائض کے ادا کرنے اور اخوت اسلامی کے بجالانے اور ہمدردی قومی کے پورا کرنے میں اس قدر سُستی اور لاپروائی اور غفلت کررکھی ہے کہ کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان میں ہمدردی قومی اور دینی کا مادہ ہی نہیں رہا.اندرونی فسادوں اور عنادوں اور اختلافوں نے قریب قریب ہلاکت کے ان کو پہنچا دیا ہے اور افراط تفریط کی بے جا حرکات نے اصل مقصود سے ان کو بہت دور ڈال دیا ہے جس نفسانی طرز سے ان کی باہمی خصومتیں برپا ہورہی ہیں.اس سے نہ صرف یہی اندیشہ ہے کہ ان کا بے اصل کینہ دن بدن ترقی کرتا جائے گا اور کیڑوں کی طرح بعض کو بعض کھائیں گے اور اپنے ہاتھ سے اپنے استیصال کے ۱؎ غالباً سہو کتابت ہے صحیح لفظ ’’رسی‘‘ ہے اور یہ سعدی کا شعر ہے.(ناشر) ۲؎ ترجمہ.اے (عرب کے) بدّو ! مجھے خدشہ ہے کہ تو کس طرح کعبہ تک پہنچے گا کیونکہ جس راستہ پر تو چل رہا ہے وہ تو ترکستان کو جاتا ہے.

Page 110

موجب ہوں گے بلکہ یہ بھی یقیناً خیال کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی دن ایسا ہی ان کا حال رہا.تو ان کے ہاتھ سے سخت ضرر اسلام کو پہنچے گا.اور ان کے ذریعہ سے بیرونی مفسد مخالف بہت سا موقعہ نکتہ چینی اور فساد انگیزی کا پائیں گے.آج کل کے بعض علماء پر ایک یہ بھی افسوس ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر اعتراض کرنے میں بڑی عجلت کرتے ہیں.اور قبل اس کے جو اپنے پاس علم صحیح قطعی موجود ہے اپنے بھائی پر حملہ کرنے کو طیّار ہوجاتے ہیں.اور کیونکر طیّار نہ ہوں بباعث غلبہ نفسانیت یہ بھی تو مدنظر ہوتا ہے کہ کسی طرح ایک مسلمان کو کہ جو مقابل پر نظر آرہا ہے نابود کیا جائے.اور اس کو شکست اور ذلت اور رسوائی پہنچے اور ہماری فتح اور فضیلت ثابت ہو.یہی و جہ ہے کہ بات بات میں ان کو فضول جھگڑے کرنے پڑتے ہیں.خدا نے یکلخت ان سے عجز اور فروتنی اور حسن ظن اور محبت برادرانہ کو اٹھالیا.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ بعض صاحبوں نے مسلمانوں میں سے اس مضمون کی بابت کہ جو حصہ سوم کے ساتھ گورنمنٹ انگریزی کے شکر کے بارے میں شامل ہے اعتراض کیا اور بعض نے خطوط بھی بھیجے اور بعض نے سخت اور درشت لفظ بھی لکھے کہ انگریزی عملداری کو دوسری عملداریوں پر کیوں ترجیح دی.لیکن ظاہر ہے کہ جس سلطنت کو اپنی شائستگی اور حسن انتظام کے رو سے ترجیح ہو.اس کو کیونکر چھپا سکتے ہیں.خوبی باعتبار اپنی ذاتی کیفیت کے خوبی ہی ہے گو وہ کسی گورنمنٹ میں پائی جائے.اَلْحِکْمَۃُ ضَآلَّۃُ الْمُؤْمِنِ.الخ.اور یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اسلام کا ہرگز یہ اصول نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قوم جس سلطنت کے ماتحت رہ کر اس کا احسان اٹھاوے اس کے ظِلِّ حمایت میں بامن و آسائش رہ کر اپنا رزق مقسوم کھاوے.اس کے انعامات متواترہ سے پرورش پاوے پھر اسی پر عقرب کی طرح نیش چلاوے.اور اس کے سلوک اور مروّت کا ایک ذرہ شکر نہ بجا لاوے.بلکہ ہم کو ہمارے خداوند کریم نے اپنے رسول مقبول کے ذریعہ سے یہی تعلیم دی ہے کہ ہم نیکی کا معاوضہ بہت زیادہ نیکی کے ساتھ کریں اور منعم کا شکر بجالاویں.اور جب کبھی ہم کو موقعہ ملے تو ایسی گورنمنٹ سے بدلی صدق کمال ہمدردی سے پیش آویں اور بہ طیبِ خاطر معروف اور واجب طور پر اطاعت اٹھاویں.سو اس عاجز نے جس قدر حصہ

Page 111

سوم کے پرچہ مشمولہ میں انگریزی گورنمنٹ کا شکر ادا کیا ہے وہ صرف اپنے ذاتی خیال سے ادا نہیں کیا بلکہ قرآن شریف و احادیث نبوی کی ان بزرگ تاکیدوں نے جو اس عاجز کے پیش نظر ہیں مجھ کو اس شکر ادا کرنے پر مجبور کیا ہے.سو ہمارے بعض ناسمجھ بھائیوں کی یہ افراط ہے جس کو وہ اپنی کوتہ اندیشی اور بخل فطرتی سے اسلام کا جز سمجھ بیٹھے ہیں.؎ اے جفاکیش نہ عذراست طریقِ عشّاق ہرزہ بدنام کنی چند نکو نامے را۱؎ اور جیسا کہ ہم نے ابھی اپنے بعض بھائیوں کی افراط کا ذکر کیا ہے ایسا ہی بعض ان میں سے تفریط کی مرض میں بھی مبتلا ہیں اور دین سے کچھ غرض واسطہ ان کا نہیں رہا.بلکہ ان کے خیالات کا تمام زور دنیا کی طرف لگ رہا ہے.مگر افسوس کہ دنیا بھی ان کو نہیں ملتی.خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْعَاقِبَۃ بن رہے ہیں.اور کیونکر ملے.دین تو ہاتھ سے گیا اور دنیا کمانے کے لئے جو لیاقتیں ہونی چاہئیں وہ حاصل نہیں کیں.صرف شیخ چلی کی طرح دنیا کے خیالات دل میں بھرے ہیں اور جس لکیر پر چلنے سے دنیا ملتی ہے اس پر قدم نہ رکھا.اور اس کے مناسب حال اپنے تئیں نہ بنایا.سو اب ان کا یہ حال ہے کہ نہ اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے رہے.انگریز جو انہیں نیم وحشی کہتے ہیں یہ بھی ان کا احسان ہی سمجھئے ورنہ اکثر مسلمان وحشیوں سے بھی بدتر نظر آتے ہیں.نہ عقل رہی نہ ہمت رہی نہ غیرت رہی نہ محبت رہی.فی الحقیقت یہ سچ ہے کہ جس قدر ان کے ہمسائیوں آریوں کی نظر میں ایک ادنیٰ حیوان گائے کی عزت اور توقیر ہے ان کے دلوں میں اپنی قوم اور اپنے بھائیوں اور اپنے سچے دین کی مہمات کی اس قدر بھی عزت نہیں.کیونکہ ہم ہمیشہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ اولوالعزم قوم آریہ گائے کی عزت قائم رکھنے کے لئے اس قدر کوششیں کرکے لکھو کھہا روپیہ جمع کرلیتے ہیں کہ مسلمان لوگ اللہ اور رسول کی عزت ظاہر کرنے کے لئے اس کا ہزارم حصہ بھی جمع نہیں کرسکتے بلکہ جہاں کہیں اعانت دینی کا ذکر آیا تو وہیں عورتوں کی طرح اپنا مونہہ چھپالیتے ہیں.اور آریہ قوم کی اولوالعزمی غور کرنے سے اور بھی زیادہ ثابت ہوتی ہے.کیونکہ گائے کی جان بچانے کے لئے کوشش کرنا حقیقت میں ان کے مذہب کے رو ۱؎ ترجمہ.اے ظالم عذر کرنا عاشقوں کا شیوہ نہیں.تو فضول چند نیک نام لوگوں (عاشقوں) کو بدنام کر رہا

Page 112

سے ایک ادنیٰ کام ہے کہ جو مذہبی کتب سے ثابت نہیں بلکہ ان کے محقق پنڈتوں کو خوب معلوم ہے کہ کسی وید میں گائے کا حرام ہونا نہیں پایا جاتا.بلکہ رگ وید کے پہلے حصہ سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ وید کے زمانہ میں گائے کا گوشت عام طور پر بازاروں میں بکتا تھا اور آریہ لوگ بخوشی خاطر اس کو کھاتے تھے.اور حال میں جو ایک بڑے محقق یعنی آنریبل مونٹ اسٹورٹ الفنسٹن۱؎ صاحب بہادر سابق گورنر بمبئی نے واقعات آریہ قوم میں ہندوئوں کے مستند پُستکوں کی رو سے ایک کتاب بنائی ہے جس کا نام تاریخ ہندوستان ہے اس کے صفحہ نواسی میں منوکے مجموعہ کی نسبت صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ اس میں بڑے بڑے تیوہاروں میں بیل کا گوشت کھانے کے لئے برہمنوں کو تاکید کی گئی ہے یعنی اگر نہ کھاویں تو گنہگار ہوں.اور ایسی ہی ایک کتاب انہیں دنوں میں ایک پنڈت صاحب نے بمقام کلکتہ چھپوائی ہے جس میں لکھا ہے کہ وید کے زمانہ میں گائے کا کھانا ہندوئوں کے لئے دینی فرائض میں سے تھا اور بڑے بڑے اور عمدہ عمدہ ٹکڑے برہمنوں کو کھانے کے لئے ملتے تھے.اور علیٰ ھٰذا القیاس مہابھارت کے پرب تیرھویں میں بھی صاف تصریح ہے کہ گوشت گائے کا نہ صرف حلال اور طیّب بلکہ اس کا اپنے پتروں کے لئے برہمنوں کو کھلانا تمام جانوروں میں سے اولیٰ اور بہتر ہے اور اس کے کھلانے سے پتر دس ماہ تک سیر رہتے ہیں.غرض وید کے تمام رشیوں اور منو جی اور بیاس جی نے گوشت گائے کا استعمال کرنا فرائض دینی میں داخل کیا ہے اور موجب ثواب سمجھا ہے.اور اس جگہ ہمارا بیان بعض کی نظر میں ناقص رہ جاتا اگر ہم پنڈت دیانند صاحب کو کہ جو ۳۰؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء میں اس جہان کو چھوڑ گئے رائے متفقہ بالا سے باہر رکھ لیتے.سو غور سے دیکھنا چاہیے کہ پنڈت صاحب موصوف نے بھی کسی اپنی کتاب میں گائے کا حرام یا پلید ہونا نہیں لکھا اور نہ وید کے رو سے اس کی حرمت اور ممانعت ذبح کو ثابت کیا بلکہ بنظر ارزانی دودھ اور گھی کے اس رواج کی بنیاد بیان کی.اور بعض ضرورت کے موقعوں میں گائو کشی کو مناسب بھی سمجھا جیسا کہ ان کی ستیارتھ پرکاش اور وید بھاش سے ظاہر ہے.Mount Stuart Elphinstone

Page 113

اب اس تمام تقریر سے ہماری یہ غرض ہرگز نہیں کہ آریہ لوگ اپنے وید مقدس اور اپنے بزرگ رشیوں اور بیاس جی اور منوجی کی قابل تعظیم فرمان اور اپنے محقق اور فاضل پنڈتوں کے قول سے کیوں خلاف ورزی اور انحراف کرتے ہیں.بلکہ اس جگہ صرف یہ غرض ہے کہ آریہ قوم کیسی اولوالعزم اور باہمت اور اتفاق کرنے والی قوم ہے کہ ایک ادنیٰ بات پر بھی کہ جس کی مذہب کے رو سے کچھ بھی اصلیت نہیں پائی جاتی وہ اتفاق کرلیتے ہیں اور ہزارہا روپیہ چندہ ہاتھوں ہاتھ جمع ہوجاتا ہے.پس جس قوم کا ناکارہ خیالات پر یہ اتفاق اور جوش ہے اس قوم کی عالی ہمتی اور دلی جوش کا مہمات عظیمہ پر خود اندازہ کرلینا چاہیے.پست ہمت مسلمانوں کو لازم ہے کہ جیتے ہی مر جائیں.اگر محبت خدا اور رسول کی نہیں تو اسلام کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں کیا خباثت کے کاموں میں اور نفس امارہ کی پیروی میں اور ناک کے بڑھانے کی نیت سے بے اندازہ مال ضائع کرنا اور اللہ اور رسول کی محبت میں اور ہمدردی کی راہ میں ایک دانہ ہاتھ سے نہ چھوڑنا یہی اسلام ہے؟ نہیں یہ ہرگز اسلام نہیں.یہ ایک باطنی جذام ہے.یہی ادبار ہے کہ مسلمانوں پر عاید ہورہا ہے.اکثر مسلمان امیروں نے مذہب کو ایک ایسی چیز سمجھ رکھا ہے کہ جس کی ہمدردی غریبوں پر ہی لازم ہے اور دولتمند اس سے مستثنیٰ ہیں.جنہیں اس بوجھ کو ہاتھ لگانا بھی منع ہے.اس عاجز کو اس تجربہ کا اسی کتاب کے چھپنے کے اثناء میں خوب موقعہ ملا کہ حالانکہ بخوبی مشتہر کیا گیا تھا کہ اب بباعث بڑھ جانے ضخامت کے اصل قیمت کتاب کی سو روپیہ ہی مناسب ہے کہ ذی مقدرت لوگ اس کی رعایت رکھیں کیونکہ غریبوں کو یہ صرف دس روپیہ میں دی جاتی ہے سو جبر نقصان کا واجبات سے ہے مگر بجز سات آٹھ آدمی کے سب غریبوں میں داخل ہوگئے.خوب جبر کیا ہم نے جب کسی منی آرڈر کی تفتیش کی کہ یہ پانچ روپیہ بو جہ قیمت کتاب کس کے آئے ہیں یا یہ دس روپیہ کتاب کے مول میں کس نے بھیجے ہیں تو اکثر یہی معلوم ہوا کہ فلاں نواب صاحب نے یا فلاں رئیسِ اعظم نے ہاں نواب اقبال الدولہ صاحب حیدر آباد نے اور ایک اور رئیس نے ضلع بلند شہر سے جس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے ایک نسخہ کی قیمت میں سو سو روپیہ بھیجا ہے اور ایک عہدہ دار محمد افضل خان نام نے ایک سودس روپے او

Page 114

سردار عطر سنگھ صاحب رئیس اعظم لودھیانہ نے کہ جو ایک ہندو رئیس ہیں اپنی عالی ہمتی اور فیاضی کی و جہ سے بطور اعانت (پچیس روپے) بھیجے ہیں.سردار صاحب موصوف نے ہندو ہونے کی حالت میں اسلام سے ہمدردی ظاہر کی.بخیل اور ممسک مسلمانوں کو جو بڑے بڑے لقبوں اور ناموں سے بلائے جاتے ہیں اور قارون کی طرح بہت سا روپیہ دبائے بیٹھے ہیں اس جگہ اپنی حالت کو سردار صاحب کے مقابلہ پر دیکھ لینا چاہیے جس حالت میں آریوں میں ایسے لوگ بھی پائے گئے ہیں کہ جو دوسری قوم کی بھی ہمدردی کرتے ہیں اور مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی کم ہیں کہ جو اپنی ہی قوم سے ہمدردی کرسکیں تو پھر کہو کہ اس قوم کی ترقی کیونکر ہو.  ۱؎ دینی ہمدردی بجز مسلمانوں کے ہر ایک قوم کے امراء میں پائی جاتی ہے.ہاں اسلامی امیروں میں ایسے لوگ بہت ہی کم پائے جائیں گے کہ جن کو اپنے سچے اور پاک دین کا ایک ذرہ خیال ہو.کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ اس خاکسار نے ایک نواب صاحب ۲؎ کی خدمت میں کہ جو بہت پارسا طبع اور متقی اور فضائل علمیہ سے متّصف اور قال اللہ اور قال الرسول سے بدرجہ غایت خبر رکھتے ہیں کتاب براہین احمدیہ کی اعانت کے لئے لکھا تھا.سو اگر نواب صاحب ممدوح اس کے جواب میں یہ لکھتے کہ ہماری رائے میں کتاب ایسی عمدہ نہیں جس کے لئے کچھ مدد کی جائے تو کچھ جائے افسوس نہ تھا.مگر صاحب موصوف نے پہلے تو یہ لکھا کہ پندرہ بیس کتابیں ضرور خریدیں گے اور پھر دوبارہ یاد دہانی پر یہ جواب آیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا اُن میں مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اس لیے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں.سو ہم بھی نواب صاحب کو امیدگاہ نہیں بناتے بلکہ امیدگاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے) لیکن ہم بادب تمام عرض کرتے ہیں کہ ایسے ایسے خیالات میں گورنمنٹ کی ہجو ملیح ہے.گورنمنٹ انگریزی کا یہ اصول نہیں ہے کہ کسی قوم کو اپنے مذہب کی حقّانیت ثابت کرنے سے روکے یا دینی کتابوں کی اعانت کرنے سے منع کرے.ہاں اگر کوئی مضمون مخلِّ امن یا مخالف انتظام ۱؎ الرعد:۱۲ ۲؎ یہ صدیق حسن خاں نواب معزول بھوپالوی کا ذکر ہے.(مرتب)

Page 115

سلطنت ہو تو اس میں گورنمنٹ مداخلت کرے گی.ورنہ اپنے اپنے مذہب کی ترقی کے لئے وسائل جائزہ کو استعمال میں لانا ہریک قوم کو گورنمنٹ کی طرف سے اجازت ہے.پھر جس قوم کا مذہب حقیقت میں سچا ہے اور نہایت کامل اور مضبوط دلائل سے اس کی حقیّت ثابت ہے.وہ قوم اگر نیک نیتی اور تواضع اور فروتنی سے خلق اللہ کو نفع پہنچانے کے لئے اپنے دلائل حقّہ شائع کرے تو عادل گورنمنٹ کیوں اس پر ناراض ہوگی.ہمارے اسلامی امراء کو اس بات سے بہت کم خبر ہے کہ گورنمنٹ کی عادلانہ مصلحت کا یہی تقاضا ہے کہ وہ دلی انشراح سے آزادی کو قائم رکھے اور خود ہم نے بچشم خود ایسے لائق اور نیک فطرت انگریز کئی دیکھے ہیں کہ جو مداہنہ اور منافقانہ سیرت کو پسند نہیں کرتے اور تقویٰ اور خدا ترسی اور یک رنگی کو اچھا سمجھتے ہیں اور حقیقت میں تمام برکتیں یک رنگی اور خدا ترسی میں ہی ہیں جن کا عکس کبھی نہ کبھی خویش اور بیگانہ پر پڑجاتا ہے.اور جس پر خدا راضی ہے آخر اس پر خلق اللہ بھی راضی ہوجاتی ہے.غرض نیک نیتی اور صالحانہ قدم سے دینی اور قومی ہمدردی میں مشغول ہونا اور فی الحقیقت دنیا اور دین میں دلی جوش سے خلق اللہ کا خیر خواہ بننا ایک ایسی نیک صفت ہے کہ اس قسم کے لوگ کسی گورنمنٹ میں پائے جانا اس گورنمنٹ کا فخر ہے اور اس زمین پر آسمان سے برکات نازل ہوتی ہیں جس میں ایسے لوگ پائے جائیں.لیکن سخت بدنصیب وہ گورنمنٹ ہے جس کے ماتحت سب منافق ہی ہوں کہ جو گھر میں کچھ کہیں اور روبرو کچھ کہیں.سو یقینا سمجھنا چاہیے کہ لوگوں کا یک رنگی میں ترقی کرتا جانا اور گورنمنٹ کو ایک محسن دوست سمجھ کر بے تکلّف اس کے ساتھ پیش آنا یہی خوش قسمتی گورنمنٹ انگریزی کی ہے اور یہی و جہ ہے کہ ہمارے مربی حکّام نہ صرف قول سے آزادی کا سبق ہم کو دیتے ہیں بلکہ دینی امور میں خود آزادانہ افعال بجالاکر اپنی فعلی نصیحت سے ہم کو آزادی پر قائم کرنا چاہتے ہیں اور بطور نظیر کے یہی کافی ہے کہ شاید ایک ماہ کا عرصہ ہوا ہے کہ جب ہمارے ملک کے نواب لفٹنٹ گورنر پنجاب سر چالس ایچیسن صاحب بہادر بٹالہ ضلع گورداسپورہ میں تشریف لائے تو انہوں نے گرجا گھر کی بنیاد رکھنے کے وقت نہایت سادگی اور بے تکلّفی سے عیسائی مذہب سے اپنی ہمدردی ظاہر کرکے فرمایا کہ مجھ کو امید تھی کہ چند روز میں یہ ملک دینداری اور را ستبازی میں بخوبی ترقی پائے گا.لیکن تجربہ اور مشاہدہ سے ایسا

Page 116

ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ہی کم ترقی ہوئی (یعنی ابھی لوگ بکثرت عیسائی نہیں ہوئے اور پاک گروہ کرسچنوں کا ہنوز قلیل المقدار ہے) تو بھی ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پادری صاحبان کا کام بے فائدہ نہیں اور ان کی محنت ہرگز ضائع نہیں بلکہ خمیر کے موافق دلوں میں اثر کرتی ہے اور باطن میں بہت سے لوگوں کے دل طیار ہوتے جاتے ہیں مثلاً ایک مہینہ سے کم گزرا ہوگا کہ ایک معزز رئیس میرے پاس آیا اور مجھ سے ایک گھنٹہ تک دینی گفتگو کی.معلوم ہوتا تھا کہ اس کا دل کچھ طیاری چاہتا ہے اُس نے کہا کہ میں نے دینی کتابیں بہت دیکھیں لیکن میرے گناہوں کا بوجھ ٹلا نہیں اور میں خوب جانتا ہوں کہ میں نیک کام نہیں کرسکتا.مجھے بہت بے چینی ہے.میں نے جواب میں اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو زبان میں اُس کو اُس لہو کی بابت سمجھایا جو سارے گناہوں سے پاک و صاف کرتا ہے اور اُس راستبازی کی بابت سمجھایا کہ جو اعمال سے حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ مفت ملتی ہے اُس نے کہا کہ میں نے سنسکرت میں انجیل دیکھی ہے اور ایک دو دفعہ یسوع مسیح سے دعا مانگی ہے اور اب میں خوب انجیل کو دیکھوں گا اور زور زور سے عیسیٰ مسیح سے دعا مانگوں گا.(یعنی مجھ کو آپ کے وعظ سے بڑی تاثیر ہوئی اور عیسائی مذہب کی کامل رغبت پیدا ہوگئی) اب دیکھنا چاہیے کہ نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر نے کس محنت سے ہندو رئیس کو اپنے مذہب کی طرف مائل کیا.اور اگرچہ ایسے ایسے رئیس اپنے مطلب نکالنے کے لئے حکّام کے روبرو ایسی ایسی منافقانہ باتیں کیا کرتے ہیں تاحکّام اُن پر خوش ہوجائیں اور اُن کو اپنا دینی بھائی بھی خیال کر لیں لیکن اس تقریر سے مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ صاحب موصوف کی اس گفتگو سے گورنمنٹ انگریزی کی آزادی کو سمجھ لینا چاہیے.کیونکہ جب خود نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر اپنے خوش عقیدہ کا ہندوستان میں پھیلانا بدلی رغبت چاہتے ہیں بلکہ اس کے لئے کبھی کبھی موقعہ پاکر تحریک بھی کرتے ہیں تو پھر وہ دوسروں پر اپنے اپنے دین کی ہمدردی کرنے میں کیوں ناراض ہوں گے.اور حقیقت میں یک رنگی سے ہمدردی بجا لانا ایک نیک صفت ہے جس پر نفاق کی سیرت کو قربان کرنا چاہیے.اسی یک رنگی کے جوش سے بمبئی کے سابق گورنر سر رچرڈ ٹیمپل صاحب نے مسلمانوں کی نسبت ایک مضمون لکھا ہے چنانچہ وہ ولایت کے ایک اخبار ایوننگ سٹینڈرڈ نامی میں چھپ کر اردو

Page 117

اخباروں میں بھی شائع ہوگیا ہے.صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ افسوس ہے کہ مسلمان لوگ عیسائی نہیں ہوتے اور و جہ یہ ہے کہ ان کا مذہب ان ناممکن باتوں سے لبریز نہیں ہے جن میں ہندو مذہب ڈوبا ہوا ہے.ہندو مذہب اور بدھ مذہب کے قائل کرنے کے لئے ممکن ہے کہ ہنسی ہنسی میں عام دلائل سے قائل کرکے ان کو مذہب سے گرایا جائے لیکن اسلامی مذہب عقل کا مقابلہ بخوبی کرتا ہے اور دلائل سے نہیں ٹوٹ سکتا ہے.عیسائی لوگ آسانی سے دوسرے مذہبوں کے ناممکنات ظاہر کرکے ان کے پیرئوں کو مذہب سے ہٹاسکتے ہیں مگر محمدیوں کے ساتھ ایسا کرنا ان کے لئے ٹیڑھی لکیر ہے.سو یہ یک رنگی مسلمان امیروں میں نہیں پائی جاتی چہ جائیکہ وہ اس مضمون پر غور کریں.خاکسار غلام احمد (اشتہار مندرجہ براہین احمدیہ حصہ چہارم۱۸۸۴ء از صفحہ الف تا د.مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر) ( روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۳۱۵ تا ۳۲۲)

Page 118

 ہم اور ہماری کتاب ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اس کے قدرت الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کررہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی سو اب اس کتاب کا متولّی اور مہتمم ظاہراً و باطناً حضرت ربّ العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیّت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں اور اس کے فضل و کرم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ جب تک شکوک اور شبہات کی ظلمت کو بکلّی دور نہ کرے اپنی تائیدات غیبیہ سے مددگار رہے گا اگرچہ اس عاجز کو اپنی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں لیکن اس سے نہایت خوشی ہے کہ وہ حَیُّ و قَیُّوْمکہ جو فنا اور موت سے پاک ہے ہمیشہ تا قیامت دینِ اسلام کی نصرت میں ہے اور جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ ایسا اس کا فضل ہے کہ جو اس سے پہلے کسی نبی پر نہیں ہوا.اس جگہ ان نیک دل ایمانداروں کا شکر کرنا لازم ہے جنہوں نے اس کتاب کے طبع ہونے کے لئے آج تک مدد دی ہے خدا تعالیٰ ان سب پر رحم کرے اور جیسا انہوں نے اس کے دین کی حمایت میں اپنی دلی محبت سے ہریک دقیقہ کوشش کے بجالانے میں زور لگایا ہے خداوند کریم ایسا ہی

Page 119

اُن پر فضل کرے.بعض صاحبوں نے اس کتاب کو محض خرید وفروخت کا ایک معاملہ سمجھا ہے اور بعض کے سینوں کو خدا نے کھول دیا اور صدق اور ارادت کو ان کے دلوں میں قائم کردیا ہے لیکن مؤخر الذکر ہنوز وہی لوگ ہیں کہ جو استطاعت مالی بہت کم رکھتے ہیں اور سنت اللہ اپنے پاک نبیوں سے بھی یہی رہی ہے کہ اوّل اوّل ضعفاء اور مساکین ہی رجوع کرتے رہے ہیں اگر حضرت احدیت کا ارادہ ہے تو کسی ذی مقدرت کے دل کو بھی اس کام کے انجام دینے کے لئے کھول دے گا. .(اشتہار ٹائیٹل پیج صفحہ آخری براہین احمدیہ حصہ چہارم۱۸۸۴ء.مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر) ( روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۷۳)

Page 120

 اشتہار منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوعہ ۱؎ خط جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے رؤساء و مقتدائوں کے نام خاکسار نے روانہ کئے تھے.جس کے جواب میںپہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھا کہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو.اور زَرِموعودہ اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو.وغیرہ وغیرہ.ا س کے جواب میں خاکسار نے رقیمہ ذیل معہ دو ہزار چار سو روپیہ نقد ایک جماعت اہلِ اسلام کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں روانہ لاہور کیا.جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود پر پہنچی تو منشی صاحب کو نہ پایا.وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام وہ خط روانہ کیا تھا اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں.باوجویکہ اس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریری لکھا تھا.یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا.لہٰذایہ قرار پایا کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے.اور اُس کی ایک کاپی منشی صاحب کے نام حسب نشان مکان موجودہ ۲؎ بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاوے.وہ یہ ہے:.مشفقی اندر من صاحب! میرے اس خط کا جواب نہیں دیا.ایک نئی بات لکھی ہے جس کی تعمیل مجھ پر اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے.میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک ۱؎ یہ خط جلد ھٰذا کے صفحہ ۲۶ پر ہے.(مرتب) ۲؎ دراصل ’’موعودہ‘‘ لفظ ہے.کاتب کی غلطی سے الحکم میں ’’موجودہ‘‘ لکھا گیا.(مؤلف)

Page 121

سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرا دے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو.آپ اِس کے جواب میں اوّل تو مجھے اپنے پاس (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لیے نہ آسمانی نشان دیکھنے کے لیے.اس پر طُرفہ یہ ہے کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا مَیں نے پہلے وعدہ نہیں دیا.اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک تفاوت رکھتا ہے بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تابہ کجا لہٰذا میں اپنے اُسی پہلے اقرار کے رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں.اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کا آپ کو مشاہدہ نہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سو روپیہ دے دوں گا.اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر اصرار ہو تو مجھے اس سے بھی دریغ و عذر نہیں.بلکہ آپ کے اطمینان کے لیے سردست چوبیس سو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ھٰذا ارسال خدمت ہے مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زائد چاہا ہے.اس لیے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں اس امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شرط ایسی کروں جن کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے.(۱) جب تک آپ کا سال گزر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زَرِ موعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے.کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل اور آسان نہیں (۲) اگر مشاہدہ نشان آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جُرمانہ دونوں امر سے ایک ضرور ہے.(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی و مربی ہیں.اپنا عجز ا ور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں اور وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں.پھر اس پر اپنے دستخط کریں.(ب) دوصورت تخلّف وعدہ جانب ثانی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کی اور آپ کے مربیوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تاکہ وہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے( ایک اخبار تائید الاسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہلِ اسلام کے لیے قائم ہو).آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے

Page 122

پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے.اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لیے نہیں آنا چاہتے.صرف مباحثہ کے لیے آنا چاہتے ہیں تو اس امر کے لیے میری خصوصیت نہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اُمتِّ محمدیہ میں علماء اور فضلاء اَور بہت ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو طیار ہیں.میں جس امرمیں مامور ہو چکا ہوں اس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں.یہ مباحثہ کی صورت عمدہ ہے.اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے اور بجائے چوبیس سو کے دس ہزار روپیہ.۳۰؍ مئی ۱۸۸۵ء (مطبوعہ صدیقی پریس لاہور) (منقول از اخبار الحکم جلد ۵ نمبر ۳۴مورخہ ۱۷؍ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳، ۱۴ بحوالہ تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ تا)

Page 123

 اعلان ۱؎ مرزا غلام احمد صاحب مؤلف براہین احمدیہ کے اشتہار مورخہ ۳۰؍ مئی ۱۸۸۵ء مطبوعہ صدیقی پریس لاہور کے جواب میں منشی اندر من مراد آبادی نے ایک اشتہار مطبوعہ مفید عام پریس لاہور مشتہر کیا تھا جس کے جواب میں مرزا صاحب نے نامہ ذیل تحریر فرما کر بذریعہ رجسٹری منشی اِندر من کے نام ارسال فرمایا ہے.اس کو ہم پبلک سے انصاف چاہنے کی امید پر مشتہر کرتے ہیں.الراقم فقیر عبدا للہ سنوری نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی اندر من صاحب! بعد ماوجب آپ بُرا نہ مانیں.آپ کے اشتہار کے پڑھنے سے عجب طرح کی کارستانی آپ کی معلوم ہوئی.آپ اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ پہلے انہوں نے (یعنی اس عاجز نے) مجھ سے بحث کرنے کا وعدہ کیا.جب میں اسی نیت سے مشقت سفر اُٹھا کر لاہور میں آیا تو پھر میری طرف اس مضمون کا خط بھیجا کہ ہم بحث کرنا نہیں چاہتے اور مجھ کو ناحق کی تکلیف دی.اب دیکھئے کہ آپ نے اپنی عہدشکنی اور کنارہ کشی کے چھپانے کے لیے کس قدر حق پوشی اختیار کی اور بات کواپنی اصلیت سے بدل کر کچھ کا کچھ بنا دیا.آپ خود ہی انصاف فرماویں کہ جس حالت میں آپ ہی سے یہ بے جا حرکت ۱؎ یہ اشتہار بابو محمد منظور الٰہی صاحب ہیڈ سگنیلر ریلوے اسٹیشن لاہور مقیم احمدیہ بلڈنگس لاہور سے لے کر نقل کیا گیا.اصل اشتہار ایک صفحہ ۳۱ سطرہ تقطیع کلاں پر ہے.(مؤلف)

Page 124

وقو ع میں آئی کہ آپ نے اوّل لاہور میں پہنچ کر اس خاکسار کی طرف اس مضمون کا خط ۱؎ لکھا کہ میں آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لیے ایک سال تک قادیان میں ٹھہرنا منظور کرتا ہوں مگر اس شرط سے کہ پہلے چوبیس سو روپیہ نقد میرے لیے بنک سرکاری میں جمع کرایا جائے اور اب میں لاہور میں مقیم ہوں.اور سات دن تک اس خط کے جواب کا انتظار کروں گا.پھر جب حسب تحریر آپ کے اندر میعاد سات دن کے وہ روپیہ لاہور میں آپ کی خدمت میں بھیجا تو آپ میعاد کے گزرنے سے پہلے ہی فریدکوٹ کی طرف تشریف لے گئے.تو اب وعدہ خلافی اور کنارہ کشی اور عہد شکنی اور رُوپوشی آپ سے ظہور میں آئی یا مجھ سے.اور جبکہ میں نے بمجرد طلب کرنے آپ کے اس قدر رقم کثیر جو چوبیس سو روپیہ ہے.بنک سرکاری میں جمع کرانے کے لئے پیش کر دی تا بحالت مغلوب ہونے میرے کے وہ سب روپیہ آپ کو مل جائے.تو کیا کوئی منصف آدمی گریز کا الزام مجھ کو دے سکتا ہے.لیکن آپ فرما ویں کہ آپ کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ جس حالت میں آپ کو رجسٹری شدہ خط بھیجا گیا تھا اور لکھا گیا تھا کہ اگر آپ ایک سال تک قادیان میں ٹھہریں تو ضرور خداوند کریم اثبات حقیّتِ اسلام میں کوئی آسمانی نشان آپ کو دکھائے گا اور اگر اس عرصہ تک کوئی نشان ظاہر نہ ہو تو چوبیس سو روپیہ نقد بطور جرمانہ یا ہرجانہ آپ کو دیا جائے گا.اور اگر عرصہ مذکورہ میں کوئی نشان دیکھ لیں تو اسی جگہ قادیان میں مسلمان ہو جائیں.چنانچہ ہم نے آپ کی تسلّی کے لیے چوبیس سو روپیہ نقد بھیج دیا.اور جو ہم پر فرض تھا اس کو پورا کر دکھایا تو آپ نے ہماری اس حجت کے اُٹھانے کے لیے جو آپ پر وارد ہو چکی تھی کیا کوشش کی؟ اگر ہم آپ کے خیال میں جھوٹے تھے.تو کیوں آپ نے ہمارے مقابلہ سے منہ پھیر لیا؟ آپ پر واجب تھا کہ قادیان میں ایک سال تک رہ کر اس خاکسار کا جھوٹ ثابت کرتے کیونکہ اس میں آپ کا کچھ خرچ نہ تھا.آپ کو چوبیس سو روپیہ نقد ملتا تھا، مگر آپ نے اس طرف تو رُخ بھی نہ کیا.اور یوں ہی لاف و گزاف کے طور پر اپنے اشتہار میں لکھ دیا کہ جو آسمانی نشانوں کا دعویٰ ہے یہ بے اصل محض ہے.۱؎ نوٹ.منشی صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ (آپ حسب وعدہ اشتہار مشتہرہ بحساب دو سو روپیہ

Page 125

منشی صاحب آپ انصافاً فرماویں کہ آپ کو ایسی تحریر سے کیا فائدہ ہوا.کیا اس سے ثابت ہو گیا کہ ہم درحقیقت اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں.آپ نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ ایک شخص کو اپنی تائید دعویٰ میں اس قدر اپنا صدق دکھلا رہا ہے کہ اگر کوئی اس کا جھوٹا ہونا ثابت کرے تو وہ چوبیس سو روپیہ نقد اس کو دیتا ہے اور آپ اس کی آزمائش دعویٰ سے تو کنارہ کش مگر یوں ہی اپنے مُنہ سے کہے جاتے ہیں کہ یہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے.یہ کس قدر دور از انصاف و ایمانداری ہے.آپ نے کچھ سوچا ہوتا کہ منصف لوگ آپ کو کیا کہیں گے!! رہا یہ الزام آپ کا کہ گویا اوّل ہم نے اپنے خط میں بحث کو منظور کیا اور پھر دوسرے خط میں نامنظوری ظاہر کی.یہ بات بھی سرا سر آپ ہی کا ایجاد ہے.اس عاجز کے بیان میں جس کو آپ نے کھینچ تان کر کچھ کا کچھ بنا لیا ہے.کسی نوع کا اختلاف یا تناقض نہیں کیونکہ مَیں نے اپنے آخری خط میں جو مطبع صدیقی میں چھپا ہے جس کا آپ حوالہ دیتے ہیں.کسی ایسی بحث سے ہرگز انکار نہیں کیا جس کی نسبت اپنے پہلے خط میں رضا مندی ظاہر کی تھی.بلکہ اس آخری خط میں صرف یہ لکھا ہے کہ اگر آپ آسمانی نشانوں کے مشاہدہ کے لیے نہیں بلکہ صرف مباحثہ کے لیے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں.مجرد بحثوں کے لیے اور علماء و فضلاء بہت ہیں.تو اس تقریر سے انکار کہاں سمجھا جاتا ہے.اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارا اصل کام اسلامی انوار و برکات کا دکھلانا ہے اور ایسے مطلب کے لیے رجسٹری شدہ خط بھیجے گئے تھے.سو یہ ہمیں ہرگز منظور نہیں کہ اس اصل کام کو ملتوی اور موقوف کر کے اپنی خدمت دینی کو صرف مباحثات و مناظرات تک محدود رکھیں.ہاں جو شخص اسلامی آیات و برکات کا دیکھنا منظور کر کے ساتھ اس کے عقلی طور پر اپنے شبہات اور وساوس کو دُور کرانا چاہے تو اس قسم کی بحث تو ہمیں بدل و جان منظور ہے بشرطیکہ تہذیب اور شائستگی سے تحریری طور پر بحث ہو.جس میں عجلت اور شتاب کاری اور نفسانیت اور ہار جیت کے خیال کا کچھ دخل نہ ہو.بلکہ ایک شخص طالب صادق بن کر محض حق جوئی اور راست بازی کی وضع پر اپنی عقدہ کشائی چاہے اور دوستانہ طور پر ایک سال تک آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے ٹھہر کر ساتھ اس کے نہایت معقولیت سے سلسلہ بحث کا

Page 126

بھی جاری رکھے، لیکن افسوس کہ آپ کی تحریر سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آپ ایسی مہذبانہ بحث کے بھی خواہاں نہیں.کیونکہ آپ نے اپنے آخری خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ بحث کرنے سے پہلے میری حفاظت کے لیے گورنمنٹ میں مچلکہ داخل کرنا چاہیے یا ایسے صدر مقام حکّام میں بحث ہونی چاہیے جس میں سرکاری رُعب و داب کا خوف ہو.سو آپ کے ان کلمات سے صاف مترشح ہو رہا ہے کہ آپ اس قسم کی بحث کے ہرگز خواہاں نہیں ہیں جو دو شریف آدمیوں میں محض اظہار حق کی غرض سے ہو سکتی ہے جس میں نہ کسی کا مچلکہ (جو ایک معزز آدمی کے لیے موجب ہتک عزت ہے) داخل سرکار کرانے کی حاجت ہے اور نہ ایسے صدرمقام کی ضرورت ہے جس میں عند الفساد جَھٹ پَٹ سرکاری فوجیں پہنچ سکیں.شاید آپ ایسی بحثوں کے عادی ہوں گے لیکن کوئی پاک خیال آدمی اس قسم کی بدبُودار بحثوں کو جو عجلت اور سوء ظن اور ریا کاری اور نفسانیت سے پُر ہیں، ہرگز پسند نہیں کرے گا اور اسی اصول پر مجھ کو بھی پسند نہیں.اور اگر آپ عہد شکنی کر کے فرید کوٹ کی طرف نہ بھاگتے تو یہ باتیں آپ کو زبانی بھی سمجھائی جاتیں.ہر ایک منصف اور پاک دل آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جن مباحث میں پہلے ہی ایسے ایسے سنگین تدارکات کی ضرورت ہے ان میں انجام بخیر ہونے کی کب توقع ہے.سو آپ پر واضح رہے کہ اس عاجز نے نہ کسی اپنے خط میں صرف مجرد بحث کو منظور کیا.اور نہ ایسی دُور از تہذیب بحث پر رضامندی ظاہر کی.جس میں پہلے ہی مجرموں کی طرح مچلکہ داخل کرنے کے لیے انگریزی عدالتوں میں حاضر ہونا پڑے.اور پھر ہم میں اور آپ میں بٹیروں اور مُرغوں کی طرح لڑائی ہونا شروع ہو، اور لوگ ارد گرد سے جمع ہو کر اس کا تماشہ دیکھیں اور ایک ساعت یا دو ساعت کے عرصہ میں کسی فریق کے صدق یا کذب کا سب فیصلہ ہو کر دوسرا فریق فتح کا نقارہ بجاوے.نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ ذٰلِکَ.ایسی پُرفتنہ اور پُر خطر بحثیں جن میں فساد کا اندیشہ زیادہ اور احقاق حق کی اُمید کم ہے، کب کسی شریف اور منصف مزاج کو پسند آ سکتی ہیں اور ایسی پُر عجلت بحثوں سے حق کے طالب کیا نفع اُٹھا سکتے ہیں.اور منصفوں کو رائے ظاہر کرنے کا کیونکر موقعہ مل سکتا ہے.اگر آپ کی نیّت بخیر ہوتی تو آپ اس طرز کی بحثوں سے خود گریز کرتے اور ایک سال تک ٹھہر کر معقولیت اور شائستگی اور تہذیب سے شریفانہ بحث کا سلسلہ تحریری طور پر

Page 127

جاری رکھتے.اور مہذب اور شریف اور ہر ایک قوم کے عالم فاضل جو اکثر اس جگہ آتے رہتے ہیں ان پر بھی آپ کی بحثوں کی حقیقت کھلتی رہتی، مگر افسوس کہ آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ قادیان میں آنے کے لیے (کہ جو آپ کی نظر میں گویا ایک یا غستان ہے یا جس میں بزعم آپ کے ہندو بھائی آپ کے بکثرت نہیں رہتے) اوّل یہ شرط لگائی کہ یہ عاجز آپ کی حفاظت کے لیے گورنمنٹ میں مچلکہ داخل کرے.ایسی شرط سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنی بحث میں ایسی دُورازتہذیب گفتگو کرنا چاہتے ہیں جس کی نسبت آپ کو پہلے ہی خطرہ ہے کہ وہ فریق ثانی کے اشتعال طبع کا ضرور موجب ہو گی.تب ہی تو آپ کو یہ فکر پڑی کہ پہلے فریق ثانی کا مچلکہ سرکار میں داخل ہونا چاہیے تا آپ کو ہر ایک طور کی تحقیر اور توہین کرنے کے لیے وسیع گنجائش رہے.اب قصّہ کوتاہ یہ کہ یہ عاجز اس قسم کی بحثوں سے سخت بیزار ہے اور جس طور کی بحث کو یہ عاجز منظور رکھتا ہے وہ وہی ہے جو اس سے اوپر ذکر کی گئی.اگر آپ طالبِ صادق ہیں تو آپ کو آپ کے پر میشر کی قسم دی جاتی ہے کہ آپ ہمارے مقابلہ سے ذرا کوتاہی نہ کریں.آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لیے قادیان میں آ کر ایک سال تک ٹھہریں اور اس عرصہ میں جو کچھ وساوس عقلی طور پر آپ کے دل پر دامنگیر ہوں وہ بھی تحریری طور پر رفع کراتے جائیں.پھر اگر ہم مغلوب رہے تو کس قدر فتح کی بات ہے کہ آپ کو چوبیس سو روپیہ نقد مل جائے گا اور اپنی قوم میں آپ بڑی نیک نامی حاصل کریں گے، لیکن اگر آپ ہی مغلوب ہو گئے تو آپ کو اسی جگہ قادیان میں مشرف باسلام ہونا پڑے گا.اور اس بات کا فیصلہ کہ کون غالب یا کون مغلوب رہا بذریعہ ایسے ثالثوں کے ہو جائے گا کہ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں.اگر آپ قادیان میں ایک سال تک ٹھہرنے کی نیّت سے آویں تو ہم مراد آباد سے قادیان تک کل کرایہ آپ کا آپ کی خدمت میں بھیج دیں گے.اور آپ کے لئے چوبیس سو روپیہ کسی بنک سرکاری میں داخل کیا جائے گا، مگر اس شرط سے کہ آپ بھی ہمیں اس بات کی پوری پوری تسلّی دیدیں کہ آپ بحالت مغلوبیت ضرور مسلمان ہو جائیں گے.اور اگر اب بھی آپ نے بپابندی شرائط مذکورہ بالا آنے سے انکار کیا تو آپ خوب یاد رکھیں کہ یہ داغ ایسا نہیں ہے کہ جو پھر کسی حیلہ یا تدبیر سے دھویا جائے.مگر ہمیں اُمید نہیں کہ آپ آئیں کیونکہ حقانیت

Page 128

اسلام کا آپ کے دل پر بڑا سخت رُعب ہے اور اگر آپ آ گئے تو خدا تعالیٰ آپ کو مغلوب اور رسوا کرے گا.اور اپنے دین کی مدد اور اپنے بندہ کی سچائی ظاہر کر دے گا.اخیر پر آپ کو واضح رہے کہ آج یہ خط رجسٹری کرا کر آپ کی خدمت میں بھیجا جاتا ہے.اور اگر بیس دن تک آپ کا کوئی جواب نہ آیا تو آپ کی کنارہ کشی کا حال چند اخباروں میں شائع کرایا جائے گا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.الــــــــــــــــــــراقم خاکسار آپ کا خیر خواہ غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور.پنجاب (تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ تا )

Page 129

 جس شخص کے پاس یہ اشتہار پہنچے اس پر فرض ہے کہ گھر جا کر اپنے کنبے کی عورتوں کو تمام مضمون اس اشتہار کا اچھی طرح سمجھا کر سُناوے.اور ذہن نشین کر دے اور جو عورت خواندہ ہو اس پر بھی لازم ہے کہ ایسا ہی کرے. نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار بغرض تبلیغ و انداز چونکہ قرآن شریف و احادیث صحیحہ نبویہ سے ظاہر و ثابت ہے کہ ہریک شخص اپنے کنبہ کی عورتوں وغیرہ کی نسبت جن پر کسی قدر اختیار رکھتا ہے سوال کیا جائے گا کہ آیا بے راہ چلنے کی حالت میں اس نے ان کو سمجھایا.اور راہِ راست کی ہدایت کی یا نہیں.اس لیے میںنے قیامت کی باز پُرس سے ڈر کر مناسب سمجھا کہ ان مستورات و دیگر متعلقین کو (جو ہمارے رشتہ دار و اقارب و واسطہ دار ہیں) ان کی بے راہیوں و بدعتوں پر بذریعہ اشتہار کے انہیں خبر دار کروں.کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے گلے کا ہار ہو رہی ہیں.اور اُن بُری رسموں اور خلافِ شرع کا موں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے.ہر چند سمجھایا گیا، کچھ سُنتے نہیں.ہر چند ڈرایا گیا، کچھ ڈرتے نہیں، اب چونکہ موت کا کچھ اعتبار نہیں اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے بڑھ کر اور کوئی عذاب نہیں.اس لیے ہم نے ان لوگوں کے بُرا ماننے اور بُرا کہنے اور ستانے اور دُکھ دینے سے بالکل لاپروا ہو کر محض ہمدردی کی راہ سے حق نصیحت پورا کرنے کے لیے بذریعہ اس اشتہار کے ان سب کو اور دوسری مسلمان بہنوں اوربھائیوں کو

Page 130

خبر دار کرنا چاہا تاہماری گردن پر کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے اور قیامت کو کوئی نہ کہہ سکے کہ ہم کو کسی نے نہیں سمجھایا.اور سیدھا راہ نہیں بتایا.سو آج ہم کھول کر بآواز کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے.یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین اسلام کی راہ اختیار کی جائے اور جو کچھ اَللّٰہ جَلَّشَانُہٗ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی ہے.اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں.اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں.اور اس کے بر خلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں، لیکن ہمارے گھروں میں جو بدرسمیں پڑ گئی ہیں اگر چہ وہ بہت ہیں.مگر چند موٹی موٹی رسمیں بیان کی جاتی ہیں تا نیک بخت عورتیں خدا تعالیٰ سے ڈر کر اُن کو چھوڑ دیں اور وہ یہ ہیں:.(۱) ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیاپا کرنا اور چیخیں مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات منہ پر لانا.یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے.اور یہ سب رسمیں ہندوئوں سے لی گئی ہیں.جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بُھلا دیا اور ہندوئوں کی رسمیں پکڑ لیں.کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لیے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ صرف  کہیں.یعنی ہم خد اکا مال اور مِلک ہیں.اسے اختیار ہے.جب چاہے اپنا مال لے لے.اور اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ شیطان سے ہے.(۲) دوم برابر ایک سال تک سوگ رکھنا.اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیاپا کرنا اور باہم عورتوں کا سر ٹکڑا کر چلّا کر رونا اور کچھ کچھ مُنہ سے بھی بکواس کرنا.اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر یا ہماری برادری میں ماتم ہو گیا ہے.یہ سب ناپاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں.جن سے پرہیز کرنا چاہیے.(۳) سوم سیاپا کرنے کے دنوں میں بے جا خرچ بھی بہت ہوتے ہیں.حرام خور عورتیں، شیطان کی بہنیں جو دُور دُور سے سیاپا کرنے کے لئے آتی ہیں اور مکر اور فریب سے مونہہ کو ڈھانک کر

Page 131

اور بہنوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر چیخیں مار کر روتی ہیں.ان کو اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں.اور اگر مقدور ہو تو اپنی شیخی اور بڑائی جتانے کے لئے صد ہا روپیہ کا پلائو اور زردہ پکا کر برادری میں تقسیم کیا جاتا ہے.اس غرض سے کہ تا لوگ واہ واہ کریں کہ فلاں شخص نے مرنے پر اچھی کرتوت دکھلائی.اچھا نام پیدا کیا.سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے توبہ کرنا لازم ہے.(۴) اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو.دوسرا خاوند کرنا ایسا بُرا جانتی ہے جیساکوئی بڑا بھار ا گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ مَیں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاکدامن بیوی ہو گئی ہوں.حالانکہ اس کے لیے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے.ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے.ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں.جن کے ذریعہ شیطان اپنا کام چلاتا ہے جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلا ش کرے.اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے.(۵) یہ بھی عورتوں میں خراب عادت ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ بُرا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں.ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نزدیک لعنتی ہیں.ان کا نمازروزہ اور کوئی عمل منظور نہیں.اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری پوری اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجا نہ لا ئے اور پسِ پُشت یعنی اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہو.اور پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورتوںپر لازم ہے کہ اپنے مَردوں کی تابعدار رہیں.ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں.اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں.اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بد زبانی

Page 132

کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربّانی سُن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے.خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں.عورتوں کو چاہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چُرا ویں اور نا محرم سے اپنے تئیں بچا ویں.اور یاد رکھنا چاہیے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اَور جتنے مَرد ہیں اُن سے پردہ کرنا ضروری ہے.جو عورتیں نا محرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے.عورتوں پر یہ بھی لازم ہے کہ بدکار اور بد وضع عورتوں کو اپنے گھر میں نہ آنے دیں اور ان کو اپنی خدمت میں نہ رکھیں کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ بد کار عورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو.(۶) عورتوں میں یہ بھی ایک بد عادت ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کے لیے کوئی دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور شور مچاتے ہیں اور اس بندہ خدا کو ناحق ستاتے ہیں.ایسی عورتیں اور ایسے ان کے اقارب بھی نابکار اور خراب ہیں.کیونکہ اَللّٰہ جَلَّشَانُہٗ نے اپنی حکمت کاملہ سے جس میں صدہا مصالح ہیں.مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں پھر جو شخص اللہ رسول کے حُکم کے مطابق کوئی نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں بُرا کہا جائے.ایسی عورتیں اور ایسے ہی اُس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے رسول کے حکموں کا مقابلہ کرتی ہیں.نہایت مردود اور شیطان کی بہنیں اور بھائی ہیں کیونکہ وہ خدا اور رسُول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے ربّ کریم سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں.اور اگر کسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بد ذات بیوی ہو تو اُسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کے لیے دوسرا۲ نکاح ضرور کرے.(۷) بعض جاہل مسلمان اپنے ناطہ رشتہ کے وقت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جس کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کرنا منظور ہے اس کی پہلی بیوی بھی ہے یا نہیں.پس اگر پہلی بیوی موجود ہو تو ایسے شخص سے ہرگز نکاح کرنا نہیں چاہتے.سو یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے لوگ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں اور ایک طور سے وہ اُن عورتوں کے مددگار ہیں جو اپنے خاوندوں کے دوسرے نکاح سے ناراض ہوتی ہیں.سو ان کو بھی خدا تعالیٰ سے

Page 133

(۸) ہماری قوم میں یہ بھی ایک نہایت بد رسم ہے کہ دوسری قوم کو لڑکی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے.یہ سرا سر تکبّر اور نخوت کا طریق ہے جو سر اسر احکام شریعت کے بر خلاف ہے.بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں.رشتہ ناطہ میں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا نہیں جو موجب فتنہ ہو.اور یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں.صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے   ۱؎.یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ پر ہیز گار ہے.(۹) ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ شادیوں میں صدہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے.سو یاد رکھنا چاہیے کہ شیخی اوربڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتش بازی چلوانا اور کنجروں اور ڈوموں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے.ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے.گناہ سر پر چڑھتا ہے.صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے.(۱۰) ہمارے گھر میں شریعت کی پابندی کی بہت سُستی ہے.بعض عورتیں زکوٰۃ دینے کے لائق اور بہت سا زیور اُن کے پاس ہے.وہ زکوٰۃ نہیں دیتیں.بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کوتاہی رکھتی ہیں.بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجا لاتی ہیں جیسے چیچک کی پُوجا.بعض فرضی بیویوں کی پُوجا کرتی ہیں.بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط لگا دیتی ہیں کہ عورتیں کھا ویں کوئی مرد نہ کھاوے یا کوئی حقّہ نوش نہ کھاوے بعض جمعرات کی چوکی بھرتی ہیں، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں.ہم صرف خالص اللہ کے لیے ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ آئو خدا تعالیٰ سے

Page 134

ڈرو.ورنہ مرنے کے بعد ذلّت اور رسوائی سے سخت عذاب میں پڑو گے اور اس غضب الٰہی میں مبتلا ہو جائو گے جس کا انتہاء نہیں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی خاکسار غلام احمد از قادیان (منقول از الحکم جلد نمبر ۶ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ۶تا ۸) ( تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ تا )

Page 135

اعلان چونکہ مرزا غلام احمد صاحب مؤلف براہین احمدیہ اور ساہوکاران اور شرفاء اور ذی عزت اہلِ ہنود قصبۂ قادیان میں جو طالبِ صادق ہونے کے مدعی ہیں.آسمانی نشانوں اور پیشگوئیوں اور دیگر خوارق کے مشاہدہ کے بارے میں (جن کے دکھلانے کا حسبِ وعدہ اپنے پروردگار کے مرزا صاحب کو دعویٰ ہے) خط و کتابت بطور باہمی اقرار و عہد و پیمان کے ہو کر ہندو صاحبوں کی طرف سے یہ اقرار و عہد ہوا ہے کہ ابتدائے ستمبر ۱۸۸۵ء سے لغایت اخیر ستمبر ۱۸۸۶ء یعنی برابر ایک سال تک نشانوں کے دیکھنے کے لیے مرزا صاحب کے پاس آمدورفت رکھیں گے اور ان کے کاغذ اور روزنامہ الہامی پیشگوئیوں پر بطور گواہ کے دستخط کرتے رہیں گے اور بعد پوری ہونے کسی الہامی پیشگوئی کے اس پیشگوئی کی سچائی کی نسبت اپنی شہادت چند اخباروں میں شائع کرا دیں گے اور مرزا صاحب کی طرف سے یہ عہد ہوا ہے کہ وہ تاریخ مقررہ سے ایک سال تک ضروری کوئی نشان دکھلاویں گے اس لیے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ وہ دونوں تحریریں جو بطور عہد و اقرار کے باہم ہندو صاحبان و مرزا صاحب کے ہوئی ہیں شائع کی جائیں.سو ہم بہ نیت اشاعت عام و اطلاع یابی ہر ایک طالب حق کے وہ دونوں تحریریں دونوں صاحبوں سے لے کرشائع کر تے ہیں اور بشرط زندگی یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم خود گواہ رؤیت بن کر اس سالانہ کارروائی سے خبر گیراں رہیں گے.اور بعد گزرنے پورے ایک سال کے یا سال کے اندر ہی جیسی صورت ہو جو نتیجہ ظہور میں آئے گا اسی طرح وہ بھی اپنی ذاتی واقفیت کی مدد سے شائع کریں گے تا کہ حق کے سچے طالب اُس سے نفع اُٹھائیں.اور پبلک کے لیے منصفانہ رائے ظاہر کرنے کا موقع ملے اور روز کے جھگڑوں کا خاتمہ ہو.الــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــراقم خاکسار شرمپت رائے ممبر آریہ سماج قادیان ضلع گورداسپور پنجاب (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۴۹، ۵۰)

Page 136

ساہوکاران و دیگر ہندو صاحبان قادیان کا خط بنام مرزا صاحب ؑ مرزا صاحب مخدوم و مکرم مرزا غلام احمد صاحب سَلَّمَہٗ بعدما وجب بکمال........ادب عرض کی جاتی ہے کہ جس حالت میں آپ نے لنڈن اور امریکہ تک اس مضمون کے رجسٹری شدہ خط بھیجے ہیں کہ جو طالبِ صادق ہو اور ایک برس تک ہمارے پاس آکر قادیان میں ٹھہرے تو خدائے تعالیٰ اس کو ایسے نشان دربارہ اثبات حقیّتِ اسلام ضرور دکھائے گا کہ جو طاقتِ انسانی سے بالاتر ہوں.سو ہم لوگ جو آپ کے ہم سایہ اور ہم شہری ہیں.لندن اور امریکہ والوں سے زیادہ تر حق دار ہیں.اور ہم آپ کی خدمت میں قسمیہ بیان کرتے ہیں جو ہم طالب صادق ہیں.کسی قسم کا شر اور عناد جو بمقتضائے نفسانیت یا مغائرت مذہب نا اہلوں کے دلوں میں ہوتا ہے وہ ہمارے دلوں میں ہرگز نہیں ہے اور نہ ہم بعض نامنصف مخالفوں کی طرح آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہم صرف ایسے نشانوں کو قبول کریں گے کہ جو اس قسم کے ہوں کہ ستارے اور سُورج اور چاند پارہ پارہ ہو کر زمین پر گر جائیں یا ایک سُورج کی جگہ تین سورج اور ایک چاند کی جگہ دو چاند ہو جائیں یا زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو کر آسمان سے جا لگے.یہ باتیں بلاشبہ ضدیّت اور تعصب سے ہیں نہ حق جوئی کی راہ سے لیکن ہم لو گ ایسے نشانوں پر کفایت کرتے ہیں جن میں زمین و آسمان کے زیر و زبر کرنے کی حاجت نہیں اور نہ قوانین قدرتیہ کے توڑنے کی کچھ ضرورت.ہاں ایسے نشان ضرور چاہئیں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہوں.جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ سچا اور پاک پر میشر بو جہ آپ کی راست بازی دینی کے عین محبت اور کرپا کی راہ سے آپ کی دُعائوں کو قبول کر لیتا ہے اور قبولیتِ دُعا سے قبل از وقوع اطلاع بخشتا ہے یا آپ کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کرتا ہے.اوربطور

Page 137

پیشگوئی ان پوشیدہ بھیدوں کی خبر آپ کو دیتا ہے یا ایسے عجیب طور سے آپ کی مدد اور حمایت کرتا ہے جیسے وہ قدیم سے اپنے بر گزیدوں اور مقربوں اور بھگتوں اور خاص بندوں سے کرتا آیا ہے.سو آپ سوچ لیں کہ ہماری اس درخواست میں کچھ ہٹ دھری اور ضد نہیں ہے.اور اس جگہ ایک اور بات واجب العرض ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ شخص مشاہدہ کنندہ کسی نشان کے دیکھنے کے بعد اسلام کو قبول کرے.سو اس قدر تو ہم مانتے ہیں کہ سچ کے کھلنے کے بعد جھوٹ پر قائم رہنا دھرم نہیں ہے اور نہ ایسا کام کسی بھلے منش اور سعید الفطرت سے ہو سکتا ہے، لیکن مرزا صاحب آپ اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ ہدایت پا جانا خود انسان کے اختیار میں نہیں ہے جب تک توفیق ایزدی اس کے شامل حال نہ ہو.کسی دل کو ہدایت کے لئے کھول دینا ایک ایسا امر ہے جو صرف پر میشر کے ہاتھ میں ہے.سو ہم لوگ جو صدہا زنجیروں، قوم، برادری، ننگ و ناموس وغیرہ میں گرفتارہیں کیونکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم خود اپنی ہی قوت سے ان زنجیروں کو توڑ کر اور اپنے سخت دل کو آپ ہی نرم کر کے آپ ہی دروازئہ ہدایت اپنے نفس پر کھول دیں گے اور جو پرمیشر سرب شکتی مان کا خاص کا م ہے وہ آپ ہی کر دکھائیں گے بلکہ یہ بات سعادت ازلی پر موقوف ہے.جس کے حصہ میں وہ سعادت مقدر ہے اس کے لیے شرائط کی کیا حاجت ہے.اس کو تو خود توفیق ازلی کشاں کشاں چشمۂ ہدایت تک لے آئے گی ایسا کہ آپ بھی اس کو روک نہیں سکتے.اور آپ ہم سے ایسی شرطیں موقوف رکھیں.اگر ہم لوگ کوئی آپ کا نشان دیکھ لیں گے تو اگر ہدایت پانے کے لیے توفیق ایزدی ہمارے شامل حال ہوئی تو ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں اور پر میشر کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اس قدر تو ہم ضرور کریں گے کہ آپ کے اُن نشانوں کو جو ہم بچشم خود مشاہدہ کر لیں گے.چند اخباروں کے ذریعہ سے بطور گواہ رؤیت شائع کرا دیں گے اور آپ کے منکرین کو ملزم و لاجواب کرتے رہیں گے.اور آپ کی صداقت کی حقیقت کو حتی الوسع اپنی قوم میں پھیلائیں گے.اوربلاشبہ ہم ایک سال تک عند الضرورت آپ کے مکان پر حاضر ہوکر ہرایک قسم کی پیشگوئی وغیرہ پر دستخط بقید تاریخ و روز کر دیا کریں گے اور کوئی بدعہدی اور کسی قسم کی نامنصفانہ حرکت ہم سے ظہور میں نہیں آئے گی ہم سراسر سچائی اور راستی سے اپنے پرمیشر کو حاضر ناظر

Page 138

جان کر یہ اقرار نامہ لکھتے ہیں اور اسی سے اپنی نیک نیتی کا قیام چاہتے ہیں.اور سال جو نشانوں کے دکھانے کے لیے مقرر کیا گیا ہے وہ ابتدائے ستمبر۱۸۸۵ء سے شمار کیا جاوے گا.جس کا اختتام ستمبر۱۸۸۶ء کے اخیر تک ہو جائے گا.العبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــد لچھمن رام بقلم خود.جو اس خط میں ہم نے لکھا ہے اس کے موافق عمل کریں گے.پنڈت پہارا مل بقلم خود.بشنداس ولد رعدا ساہو کار بقلم خود.منشی تارا چند کھتری بقلم خود.پنڈت نہال چند.سنت رام.فتح چند.پنڈت ہرکرن.پنڈت بیجنا تھ چودھری بازار قادیان بقلم خود.بشنداس ولد ہیرانند بر ہمن (تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۵۰ تا ۵۲)

Page 139

 نامہ مرزا غلام احمد صاحب ؑ بجواب خط ساہو کاران قادیان عنایت فرمائے من پنڈت نہال چند صاحب و پنڈت پہارا مل صاحب و لچھمی رام صاحب و لالہ بشنداس صاحب و منشی تارا چند صاحب و دیگر صاحبان ارسال کنندگان درخواست مشاہدہ خوارق.بعد ما وجب! آپ صاحبوں کا عنایت نامہ جس میں آپ نے آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لیے درخواست کی ہے، مجھ کو ملا.چونکہ یہ خط سراسر انصاف و حق جوئی پر مبنی ہے اور ایک جماعت طالبِ حق نے جو عشرہ کاملہ ہے اس کو لکھا ہے اس لیے بہ تمامتر شکر گزاری اس کے مضمون کو قبول منظور کرتا ہوں.اور آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ صاحبان ان عہود کے پابند رہیں گے کہ جو اپنے خط میں آپ لوگ کر چکے ہیں تو ضرور خدائے قادر مطلق جَلَّ شَانُہٗ کی تائیدو نصرت سے ایک سال تک کوئی ایسا نشان آپ کو دکھلایا جائے گا جو انسانی طاقت سے بالاتر ہو.یہ عاجز آپ صاحبوں کے پُرانصاف خط کے پڑھنے سے بہت خوش ہوا.اور اس سے بھی زیادہ تر اس روز خوش ہو گا کہ جب آپ بعد دیکھنے کسی نشان کے اپنے وعدے کے ایفاء کے لیے جس کو آپ صاحبوں نے اپنے حلفوں اور قسموں سے کھول دیا ہے.اپنی شہادت رؤیت کا بیان چند اخباروں میں مشتہر کر کے متعصب مخالفوں کو ملزم و لاجواب کرتے رہیں گے اور اس جگہ یہ بھی بخوشی دل آپ صاحبوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ

Page 140

اگر ایک سال تک کوئی نشان نہ دیکھیں یا کسی نشان کو جھوٹا پاویں تو بے شک اس کو مشتہر کر دیں اور اخباروں میں چھپوا دیں.یہ امر کسی نوع سے موجب ناراضگی نہ ہو گا.اور نہ آپ کے دوستانہ تعلقات میں کچھ فرق آئے گا.بلکہ یہ وہ بات ہے جس میں خدا بھی راضی اور ہم بھی.اور ہر ایک منصف بھی.اور چونکہ آپ لوگ شرط کے طور پر کچھ روپیہ نہیں مانگتے.صرف دلی سچائی سے نشانوں کا دیکھنا چاہتے ہیں.اس لیے اس طرف سے بھی قبولِ اسلام کے لیے شرط کے طور پر آپ سے کچھ گرفت نہیں.بلکہ یہ بات بقول آپ لوگوں کے توفیق ایزدی پر چھوڑی گئی ہے اور اخیر پر دلی جوش سے یہ دُعا ہے کہ خداوند قادر و کریم بعد دکھلانے کسی نشان کے آپ لوگوں کو غیب سے قوت ہدایت پانے کی بخشے.تا آپ لوگ مائدہ رحمتِ الٰہی پر حاضر ہو کر پھر محروم نہ رہیں.اَے قادرِ مطلق کریم و رحیم ہم میں اور ان میں سچا فیصلہ کر اور تو ہی بہترفیصلہ کرنے والا ہے.اور کوئی نہیں کہ بجز تیرے فیصلہ کر سکے.آمین ثم آمین وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ خاکســــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار احقر عباد اللہ غلام احمد عفی اللہ عنہ شہادت گواہانِ حاضر الوقت ہم لوگ جن کے نام نیچے درج ہیں.اس معاہدۂ فریقین کے گواہ ہیں.ہمارے رو برو ساہوکارانِ قادیانی نے جن کے نام اوپر درج ہیں اپنے خط کے مضمون کو حلفاً تصدیق کیا.اور اسی طرح مرزا غلام احمد صاحب نے بھی.گواہ شد گواہ شد گواہ شد میر عباس علی لودھیانوی فقیر عبد اللہ سنوری شہاب الدین تھہ غلام نبی والا (مطبوعہ ریاض ہند امرت سر ) (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۵۳، ۵۴)

Page 141

سال تک کوئی نشان نہ دیکھیں یا کسی نشان کو جھوٹا پاویں تو بے شک اس کو مشتہر کر دیں اور اخباروں میں چھپوا دیں.یہ امر کسی نوع سے موجب ناراضگی نہ ہو گا.اور نہ آپ کے دوستانہ تعلقات میں کچھ فرق آئے گا.بلکہ یہ وہ بات ہے جس میں خدا بھی راضی اور ہم بھی.اور ہر ایک منصف بھی.اور چونکہ آپ لوگ شرط کے طور پر کچھ روپیہ نہیں مانگتے.صرف دلی سچائی سے نشانوں کا دیکھنا چاہتے ہیں.اس لیے اس طرف سے بھی قبولِ اسلام کے لیے شرط کے طور پر آپ سے کچھ گرفت نہیں.بلکہ یہ بات بقول آپ لوگوں کے توفیق ایزدی پر چھوڑی گئی ہے اور اخیر پر دلی جوش سے یہ دُعا ہے کہ خداوند قادر و کریم بعد دکھلانے کسی نشان کے آپ لوگوں کو غیب سے قوت ہدایت پانے کی بخشے.تا آپ لوگ مائدہ رحمتِ الٰہی پر حاضر ہو کر پھر محروم نہ رہیں.اَے قادرِ مطلق کریم و رحیم ہم میں اور ان میں سچا فیصلہ کر اور تو ہی بہترفیصلہ کرنے والا ہے.اور کوئی نہیں کہ بجز تیرے فیصلہ کر سکے.آمین ثم آمین وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ خاکســــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار احقر عباد اللہ غلام احمد عفی اللہ عنہ شہادت گواہانِ حاضر الوقت ہم لوگ جن کے نام نیچے درج ہیں.اس معاہدۂ فریقین کے گواہ ہیں.ہمارے رو برو ساہوکارانِ قادیانی نے جن کے نام اوپر درج ہیں اپنے خط کے مضمون کو حلفاً تصدیق کیا.اور اسی طرح مرزا غلام احمد صاحب نے بھی.گواہ شد گواہ شد گواہ شد میر عباس علی لودھیانوی فقیر عبد اللہ سنوری شہاب الدین تھہ غلام نبی والا (مطبوعہ ریاض ہند امرت سر ) (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۵۳، ۵۴)  ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر مطبوعہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ (۱) جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است خاکم نثار کوچۂ آلِ محمدؐ است۱؎ (۲) دیدم بعینِ قلب و شنیدم بگوشِ ہوش در ہر مکاں ندائے جلالِ محمدؐ است (۳) ایں چشمۂ رواں کہ بخلقِ خُدا دِہم یک قطرۂ زِ بحرِ کمالِ محمدؐ است (۴) ایں آتشم زِ آتشِ مہرِ محمدیست و ایں آبِ من زِ آبِ زلالِ محمدؐ است رسالَہ سراج منیر مشتمل بر نشانہائے ربّ قدیر یہ رسالہ اس احقر (مؤلّف براہین احمدیہ) نے اس غرض سے تالیف کرنا چاہا ہے کہ تا منکرین حقیّتِاسلام اور مکذّبین رسالت حضرت خیر الا نام عَلَیْہِ وَ آلِہٖ اَلْفُ اَلْفِ سَلَام کی آنکھوں کے آگے ایک ایسا چمکتا ہوا چراغ رکھا جائے جس کی ہر ایک سمت سے گوہر آبدار کی طرح روشنی نکل رہی ہے اور بڑی بڑی پیشگوئیوں پر جو ہنوز وقوع میں نہیں آئیں، مشتمل ہے.چنانچہ خود خداوند کریم جَلَّ شَانُہٗ وَ عَزَّ اِسْمُہٗ نے جس کو پوشیدہ بھیدوں کی خبر ہے.اس ناکارہ کو بعض اسرار مخفیہ و اخبار ۱؎ ترجمہ اشعار.(۱)میری جان و دل محمدؐ کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آلِ محمدؐ کے کوچے پر قربان ہیں.(۲)میں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سنا ہر جگہ محمدؐ کے جلال کا شہرہ ہے.(۳) معارف کا یہ چشمہ جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں، محمدؐ کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے.(۴) یہ میری آگ محمدؐ کے عشق کی آگ کا ایک حصہ ہے اور میرا پانی محمدؐ کے مصفّٰی پانی میں سے لیا ہوا ہے.

Page 142

غیبیہ پر مطلع کر کے بار عظیم سے سبکدوش فرمایا.حقیقت میں اسی کا فضل ہے اور اسی کا کام جس نے چار طرفہ کشاکش مخالفوں و موافقوں سے اس ناچیز کو مَخلصی بخشی.ع ـ قصہ کو تاہ کرد ورنہ دردِ سر بسیار بود اب یہ رسالہ قریب الاختتام ہے اور انشاء اللہ القدیر صرف چند ہفتوں کا کام ۱؎ ہے.اور اس رسالہ میں تین قسم کی پیش گوئیاں ہیں.اوّل وہ پیشگوئیاں جو خود اس احقر کی ذات سے تعلّق رکھتی ہیں.یعنی جو کچھ راحت یا رنج یا حیات یا وفات اس ناچیز سے متعلق ہے یا جو کچھ تفضلات یا انعامات الہٰیہ کا وعدہ اس نا چیز کو دیا گیا ہے وہ ان پیشگوئیوں میں مندرج ہے.دوسری وہ پیشگوئیاں جو بعض احباب یا عام طور پر کسی ایک شخص یا بنی نوع سے متعلق ہیں.اور ان میں سے ابھی کچھ کام باقی ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو وہ بقیہ بھی طے ہو جاوے گا.تیسری وہ پیشگوئیاں جو مذاہب غیر کے پیشوائوں یا واعظوں یا ممبروں سے تعلق رکھتی ہیں.اور اس قسم میں ہم نے صرف بطور نمونہ چند آدمی آریہ صاحبوں اور چند قادیان کے ہندوئوں کو لیا ہے جن کی نسبت مختلف قسم کی پیشگوئیاں ہیں.کیونکہ انہیں میں آج کل نئی نئی تیزی اور انکار اشد پایا جاتا ہے اور ہمیں اس تقریب پر یہ بھی خیال ہے کہ خداوند کریم ہماری محسن گورنمنٹ انگلشیہ کو جس کے احسانات سے ہم کو بتمام تر فراغت و آزادی گوشہ خلوت میّسر و کنج امن و آسائش حاصل ہے ظالموں کے ہاتھ سے اپنی حفظ و حمایت رکھے اور روس منحوس کو اپنی سرگردانیوں میں محبوس و معکوس و مبتلا کر کے ہماری گورنمنٹ کو فتح و نصرت نصیب کرے.تا ہم وہ بشارتیں بھی (اگر مل جائیں) اس عمدہ موقع پر درج رسالہ کر دیں.انشاء اللہ تعالیٰ اور چونکہ پیشگوئیاں کوئی اختیاری بات نہیں ہے.تا ہمیشہ اور ہر حال میں خوشخبری پر دلالت کریں.اس لیے ہم بانکسار تمام اپنے موافقین و مخالفین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی پیشگوئی کو اپنی نسبت ناگوار طبع (جیسے خبر موت فوت یا کسی اور مصیبت کی نسبت) پاویں تو اس بندۂ ناچیز کو معذور تصور فرماویں.بالخصوص وہ صاحب جو بباعث ۱؎ یہ رسالہ بعض مصالح کی وجہ سے اب تک ۲۵؍ فروری ۱۸۹۳ء ہے چھپ نہیں سکا مگر متفرق طور پر اس کی بعض پیشگوئیاں شائع ہوتی رہی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی شائع ہوتی رہیں گی.منہ

Page 143

مخالفت و مغائرت مذہب اور بو جہ نامحرم اسرار ہونے کے حُسنِ ظن کی طرف بمشکل رجوع کر سکتے ہیں جیسے منشی اندر من صاحب مراد آبادی و پنڈت لیکھرام صاحب پشاوری وغیرہ جن کی قضا و قدر کے متعلق غالباً اس رسالہ میں بقید و قت و تاریخ کچھ تحریر ہو گا.اُن صاحبوں کی خدمت میں دلی صدق سے ہم گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں فی الحقیقت کسی کی بد خواہی دل میں نہیں.بلکہ ہمارا خداوند کریم خوب جانتا ہے کہ ہم سب کی بھلائی چاہتے ہیں اور بدی کی جگہ نیکی کرنے کو مستعد ہیں.اور بنی نوع کی ہمدردی سے ہمارا سینہ منور و معمور ہے اور سب کے لئے ہم راحت و عافیت کے خواستگار ہیں، لیکن جو بات کسی موافق یا مخالف کی نسبت یا خود ہماری نسبت کچھ رنجدہ ہو تو ہم اس میں بکلّی مجبور معذور ہیں.ہاں ایسی بات کے دروغ نکلنے کے بعد جو کسی دل کے دُکھنے کا موجب ٹھہرے ہم سخت لعن و طعن کے لائق بلکہ سزا کے مستوجب ٹھہریں گے.ہم قسمیہ بیان کرتے ہیں اور عالم الغیب کو گواہ رکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا سینہ سراسر نیک نیتی سے بھرا ہوا ہے اور ہمیں کسی فرد بشر سے عداوت نہیں.اور گو کوئی بدظنی کی راہ سے کیسی ہی بد گوئی و بدزبانی کی مشق کر رہا ہے اور ناخدا ترسی سے ہمیں آزار دے رہا ہے.ہم پھر بھی اس کے حق میں دعا ہی کرتے ہیں کہ اے خدائے قادر و توانا! اس کو سمجھ بخش.اور ہم اس کو اس کے ناپاک خیال اور نا گفتنی باتوں میں معذور سمجھتے ہیں.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ابھی اس کا مادہ ہی ایسا ہے.اور ہنوز اس کی سمجھ اور نظر اسی قدر ہے جو حقائق عالیہ تک نہیں پہنچ سکتی.زاہدِظاہر پرست از حالِ ماآگاہ نیست در حقِ ماہر چہ گوید جائے ہیچ اکراہ نیست۱؎ اور باوجود اس رحمت عام کے کہ جو فطرتی طور پر خدائے بزرگ و برتر نے ہمارے وجود میں رکھی ہے.اگر کسی کی نسبت کوئی بات ناملائم یا کوئی پیشگوئی وحشت ناک بذریعہ الہام ہم پر ظاہر ہو تو وہ عالمِ مجبوری ہے جس کو ہم غم سے بھری ہوئی طبیعت کے ساتھ اپنے رسالہ میں تحریر کریں گے.چنانچہ ہم پر خود اپنی نسبت اپنے بعض جدی اقارب کی نسبت اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوںکی نسبت کہ گویا نجم الہند ہیں اور ایک دیسی امیر نو وارد پنجابی الاصل کی نسبت بعض ۱؎ ترجمہ.کوئی ظاہر پرست زاہد ہمارے حال سے واقف نہیں ہوسکتا، اس لیے ہمارے متعلق تو جو کچھ بھی کہے برا منانے کی کوئی وجہ نہیں.

Page 144

متوحش خبریں جو کسی کے ابتلاء اور کسی کی موت و فوت اعزہ اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں جو انشاء اللہ القدیر بعد تصفیہ لکھی جائیں گی منجانب اللہ منکشف ہوئی ہیں.اور ہر ایک کے لئے ہم دعا کرتے ہیں.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر تقدیر معلّق ہو تو دُعائوں سے بفضلہٖ تعالیٰ ٹل سکتی ہے.اسی لیے رجوع کرنے والی مصیبتوں کے وقت مقبولوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور شوخیوں اور بے راہیوں سے باز آ جاتے ہیں.باین ہمہ اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیشگوئی شاق گزرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شائع ہو.ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں، اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جاوے اور موجب دل آزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جائے اور کسی کو اس کے وقت ظہور سے خبر نہ دی جائے.اُن ہر سہ قسم کی پیش گوئیوں میں سے جو انشاء اللہ رسالہ میں بہ بسط تمام درج ہوں گی.پہلی پیشگوئی جو خود اس احقر سے متعلق ہے آج ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں جو مطابق پندرہ جمادی الاول ہے، برعایت ایجاز و اختصار کلمات الہامیہ نمونہ کے طور پر لکھی جاتی ہے اور مفصل رسالہ میں درج ہوگی.انشا ء اللہ تعالیٰ.پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ وَ اِعْلَامِہٖ عَزَّوَجَلّ خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر جو ہریک چیز پر قادر ہے (جَلَّ شَانُہٗ وَ عَزَّ اِسْمُہٗ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو مَیں نے تیری تضرعات کو سُنا اور تیری دعائوں کواپنی رحمت سے بپایہئِ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں.جو

Page 145

چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ ؐ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.’’سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیت و نسل ہو گا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس رُوح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اورعظمت اور دولت ہو گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا، (اس کے معنے سمجھ نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَ الْآخَرِ.مَظْہَرُ الْحَقِّ وَالْعَـلَائِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا.نُور آتا ہے نُور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اُس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا.اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا.‘‘ پھر خدائے کریم جَلَّشَانُہٗ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا.اور میں اپنی نعمتیں تُجھ پر پُوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہو گی اور مَیں تیری ذُریّت کو بہت بڑھائوں گا اور برکت دوں گا.مگر بعض اُن میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لَا وَلد رہ کر ختم ہو جائے گی.اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو

Page 146

خدا اُن پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے.اُن کے گھر بیوائوں سے بھر جائیں گے اور اُن کی دیواروں پر غضب نازل ہو گا، لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدارحم کے ساتھ رجوع کرے گا.خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آبادکرے گا.اور ایک ڈرائونا گھر برکتوں سے بھر دے گا.۱؎ تیری ذریّت منقطع نہیں ہو گی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کناروں تک پہنچا دے گا.مَیں تُجھے اُٹھائوں گا اور اپنی طرف بُلا ؤں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلّت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے.لیکن خدا تجھے بکُلّی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبّوں کا گروہ بھی بڑھائوں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا.اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے، خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیںکرے گا اور وہ عَلٰی حَسْبِ الْاِخْلَاصا پنا اپنا اجر پائیں گے.تو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلّی۲؎ طور پر ۱؎ نوٹ.یہ ایک پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے جو دہم جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں شائع ہو چکی.جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق میں نشان کے طور پر پیشگوئی ظاہر کی ہے کہ ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ نام ہے اگر وہ اپنی بڑی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائے گا اور وہ جو نکاح کرے گا وہ روز نکاح سے اڑھائی برس کے عرصہ میں فوت ہو گا اور آخر وہ عورت اس عاجز کی بیویوں میں داخل ہو گی.سو اس جگہ اُجڑے ہوئے گھر سے وہ اُجڑا ہوا گھر مراد ہے.منہ ۲؎ حاشیہ.اُ متّی کا کمال یہی ہے کہ اپنے نبی متبوع سے بلکہ تمام انبیائے متبوعین علیہم السلام سے مشابہت پیداکرے.یہی کامل اتباع کی حقیقت اور علّت غائی ہے جس کے لیے سورۃ فاتحہ میں دعا کرنے کے لیے ہم لوگ مامور ہیں.بلکہ یہی انسان کی فطرت میں تقاضا پایا جاتا ہے.اور اسی و جہ سے مسلمان لوگ اپنی اولاد کے نام بطور تفاؤل عیسیٰ، داؤد، موسیٰ، یعقوب، محمد وغیرہ انبیاء علیہ السلام کے نام پر رکھتے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی اخلاق و برکات بطور ظلّی ان میں بھی پیدا ہو جائیں.فَتَدَبَّرْ.منہ

Page 147

ان سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید.تو مجھ سے اور میں تُجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دل میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک میں ہو.اگر تمہیں اُس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اِس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو اور اگر تم پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے.تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے.فقط راقــــــــــــــــم خاکسار غلام احمد مؤلف (براہینِ احمدیّہ) ہوشیار پور.طویلہ شیخ مہر علی ـصاحب رئیس ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء (مطبوعہ بار دوم ریاض ہند پریس قادیان ۱۸۹۳ء) (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۵ تا ۶۴۸)

Page 148

 اِشتہار واجبُ الاظہار  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ چونکہ اس عاجز کے اشتہار مورخہ ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء پر جس میں ایک پیشگوئی دربارہ تولّد ایک فرزند صالح ہے جو بہ صفات مندرجہ اشتہار پیدا ہو گا.دو شخص سکنہ قادیان یعنی حافظ سلطانی کشمیری و صابر علی نے رو بروئے مرزا نواب بیگ و میاں شمس الدین و مرزا غلام علی ساکنان قادیان یہ دروغ بے فروغ برپا کیا ہے کہ ہماری دانست میں عرصہ ڈیڑھ ماہ سے صاحبِ مشتہر کے گھر میں لڑکا پیدا ہو گیا ہے.حالانکہ یہ قول نا مبردگان سراسر افترا اور دروغ و بمقتضائے کینہ و حسد و عناد جبلّی ہے.جس سے وہ نہ صرف مجھ پر بلکہ تمام مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں.اس لیے ہم اُن کے اس قول دروغ کا ردّ واجب سمجھ کر عام اشتہار دیتے ہیں کہ ابھی تک جو ۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء ہے.ہمارے گھر میں کوئی لڑکا بجز پہلے دو لڑکوں کے جن کی عمر ۲۰، ۲۲ سال سے زیادہ ہے، پید انہیں ہوا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی ۹ برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہو گا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے.بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.اور یہ اتہام کہ گویا ڈیڑھ ماہ سے پیدا ہو گیا ہے، سراسر دروغ ہے.ہم اس دروغ کے ظاہر کرنے کے لیے لکھتے ہیں کہ آج کل ہمارے گھر کے لوگ بمقام چھائونی انبالہ صدر بازار اپنے والدین کے پاس یعنی والد میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس دفتر نہر کے پاس بودوباش رکھتے ہیں اور ان کے گھر متصل منشی مولا بخش صاحب ملازم ڈاک ریلوے.اور بابو محمد صاحب کلرکدفتر نہر رہتے

Page 149

ہیں.معترضین یا جس شخص کو شبہ ہو اس پر واجب ہے کہ اپنا شبہ رفع کرنے کے لئے وہاں چلا جاوے.اور اس جگہ ارد گرد سے خوب دریافت کر لے.اگر کرایہ آمدورفت موجود نہ ہو تو ہم اس کو دے دیں گے، لیکن اگر اب بھی جا کر دریافت نہ کرے اور نہ دروغ گوئی سے باز آوے تو بجز اس کے کہ ہمارے اور تمام حق پسندوں کی نظر میں لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ کا لقب پاوے اور نیز زیر عتاب حضرت احکم الحاکمین کے آوے.اور کیا ثمرہ اس یاوہ گوئی کا ہو گا.خدا تعالیٰ ایسے شخصوں کو ہدایت دیوے کہ جو جوش حسد میں آ کر اسلام کی کچھ پر واہ نہیں رکھتے.اور اس دردغ گوئی کے مآل کو بھی نہیں سوچتے.اس جگہ اس وہم کو دور کرنا بھی قرین مصلحت ہے کہ جو بمقام ہوشیار پور ایک آریہ صاحب نے اس پیشگوئی پر بصورت اعتراض پیش کیا تھا کہ لڑکا لڑکی کے پیدا ہونے کی شناخت دائیوں کو بھی ہوتی ہے.یعنی دائیاں بھی معلوم کر سکتی ہیں کہ لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی.واضح رہے کہ ایسا اعتراض کرنا معترض صاحب کی سراسر حیلہ سازی و حق پوشی ہے.کیونکہ اوّل تو کوئی دائی ایسا دعویٰ نہیں کر سکتی بلکہ ایک حاذق طبیب بھی ایسا دعویٰ ہرگز نہیں کر سکتا کہ اس امر میں میری رائے قطعی اور یقینی ہے جس میں تخلّف کا امکان نہیں صرف ایک اٹکل ہوتی ہے کہ جو بارہا خطا جاتی ہے.علاوہ اس کے یہ پیشگوئی آج کی تاریخ سے دو برس پہلے کئی آریوں اور مسلمانوں و بعض مولویوں و حافظوں کو بھی بتلائی گئی تھی.چنانچہ آریوں میں سے ایک شخص ملاوامل نام جو سخت مخالف اور نیز شرمپت ساکنان قصبہ قادیان ہیں.ماسوا اس کے ایک نادان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مفہوم پیشگوئی کا اگر بنظر یکجائی دیکھا جاوے تو ایسا بشری طاقتوں سے بالا تر ہے جس کے نشان الٰہی ہونے میں کسی کو شک نہیں رہ سکتا.اگر شک ہو تو ایسی قسم کی پیشگوئی جو ایسے ہی نشان پر مشتمل ہو پیش کرے.اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہیئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جَلَّ شَانُہٗ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمدمصطفی صلی اللہ و علیہ وآلہٖ و سلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لیے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ایک مُردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اَولیٰ و اکمل و افضل و اتم ہے کیونکہ مردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الٰہی میں دعا کر کے ایک رُوح واپس منگوایا جاوے

Page 150

زندہ کرنا حضرت مسیح اور بعض دیگر انبیاء علیہم السلام کی نسبت بائیبل میں لکھا گیا ہے جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے اور پھر باوصف ان سب عقلی و نقلی جرح و قدح کے یہ بھی منقول ہے کہ ایسا مُردہ صرف چند منٹ کے لیے زندہ رہتاتھا اور پھر دوبارہ اپنے عزیزوں کو دوہرے ماتم میں ڈال کر اس جہان سے رُخصت ہو جاتا، جس کے دنیا میں آنے سے نہ دنیا کو کچھ فائدہ پہنچتا تھا نہ خود اس کو آرام ملتا تھا، اور نہ اُس کے عزیزوں کو کوئی سچی خوشی حاصل ہوتی تھی.سو اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا سے بھی کوئی روح دنیا میں آئی تو در حقیقت اس کاآنا نہ آنا برابر تھا.اور بفرض محال اگر ایسی رُوح کئی سال جسم میں باقی رہتی تب بھی ایک ناقص روح کسی رذیل یا دُنیا پرست کی جو اَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ ہے دنیا کو کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی.مگر اس جگہ بِفَضْلِہٖ تَعَالٰی وَاِحْسَانِہٖ وَبِبَرَکٰتِ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.سو اگرچہ بظاہر یہ نشان اِحْیَائِ مَوْتٰی کے برابر معلوم ہوتا ہے.مگر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہترہے.مُردہ کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک رُوح ہی منگائی گئی ہے مگر اُن رُوحوں اور اس رُوح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے.جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مُرتد ہیں و ہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا.اے لوگو! میں کیا چیز ہوں اور کیا حقیقت.جو کوئی مجھ پر حملہ کرتا ہے.وہ درحقیقت میرے پاک متبوع پر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے حملہ کرنا چاہتا ہے.مگر اس کو یادرکھنا چاہیے کہ وہ آفتاب پر خاک نہیں ڈال سکتا بلکہ وہی خاک اُس کے سر پر اُس کی آنکھوں پر اُس کے منہ پر گر کر اُس کو ذلیل اور رُسوا کرے گی اور ہمارے نبی کریمؐ کی شان و شوکت اس کی عداوت اور اس کے بخل سے کم نہیں ہو گی بلکہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ ظاہر کرے گا.کیا تم فجر کے قریب آفتاب کو نکلنے سے روک سکتے ہو؟ ایسے ہی تم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے آفتابِ صداقت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے.خدا تعالیٰ

Page 151

تمہارے کینوں اور بُخلوں کو دُور کرے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.راقـــــــــــــــــــــــم خاکسار غلام احمد.مؤلّف براہین احمدیّہ از قادیان ضلع گورداسپورہ.۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء روز دو شنبہ (مطبوعہ چشمۂ فیض قادری بٹالہ شریف) (یہ اشتہارکے دو صفحوں پر چار کالم کا ۲۵ سطری مسطر پر چھپا ہوا ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۷۲ تا ۷۵)

Page 152

 اشتہار ۱؎ صداقت آثار  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ واضح ہو کہ اس خاکسار کے اشتہار ۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء پر بعض صاحبوں نے جیسے منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے یہ نکتہ چینی کی ہے کہ نو برس کی حد جو پسرِ موعود کے لیے بیان کی گئی ہے، یہ بڑی گنجائش کی جگہ ہے.ایسی لمبی میعاد تک تو کوئی نہ کوئی لڑکا پید اہو سکتا ہے.سو اوّل تو اس کے جواب میں یہ واضح ہو کہ جن صفات خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے.کسی لمبی میعاد سے گو نو برس سے بھی دو چند ہوتی اس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آ سکتا.بلکہ صریح دلی انصاف ہریک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسے عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اَخَصّ آدمی کے تولّد پر مشتمل ہے، انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے اور دُعا کی قبولیّت ہو کر ایسی خبر کا ملنا بے شک یہ بڑا بھاری آسمانی نشان ہے نہ یہ کہ صرف پیشگوئی ہے.ماسواء اس کے اب بعد اشاعت اشتہار مندرجہ بالا دوبارہ اس امر کے انکشاف کے لئے جناب الٰہی میں توجہ کی گئی تو آج آٹھ اپریل ۱۸۸۶ء میں اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدّت حمل سے تجاوز ۱؎ یہ اشتہار علیحدہ بھی ہے اور اخبار ریاض ہند جلد ۱ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۹؍ اپریل ۱۸۸۶ء صفحہ ۲۰۳ کالم ۲ پر بھی شائع ہوا ہے.(مرتب)

Page 153

نہیں کر سکتا ۱؎ اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اُس کے قریب حمل میں، لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا جو اَبْ پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا اور پھر بعد اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں.چونکہ یہ عاجز ایک بندہ ضعیف مولیٰ کریم جَلَّ شَانُہٗ کا ہے اس لیے اُسی قدر ظاہر کرتا ہے جو منجانب اللہ ظاہر کیا گیا.آئندہ جو اس سے زیادہ منکشف ہو گا وہ بھی شائع کیا جاوے گا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء مطابق دوم رجب ۱۳۰۳ھ (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۷۵، ۷۶)

Page 154

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار صداقت انوار بغرض دعوت مقابلہ چہل روزہ گرچہ ہر کس زِرہ ِلاف بیانے دارد صادق آنست کہ از صدق نشانے دارد۱؎ ہمارے اشتہارات گزشتہ کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے یہ اشتہار دیا تھا کہ جو معزز آریہ صاحب یا پادری صاحب یا کوئی اور صاحب مخالف اسلام ہیں اگر ان میں سے کوئی صاحب ایک سال تک قادیان میں ہمارے پاس آکر ٹھہرے تو درصورت نہ دیکھنے کسی آسمانی نشان کے  چوبیس سو روپیہ انعام پانے کا ۲؎ مستحق ہوگا.سو ہر چند ہم نے تمام ہندوستان و پنجاب کے پادری صاحبان و آریہ صاحبان کی خدمت میں اسی مضمون کے خط رجسٹری کراکر بھیجے مگر کوئی صاحب قادیان میں تشریف نہ لائے.بلکہ منشی اندرمن صاحب کیلئے تو مبلغ چوبیس سو روپیہ نقد لاہور میں بھیجا گیا تو وہ کنارہ کرکے فرید کوٹ کی طرف چلے گئے ہاں ایک صاحب پنڈت لیکھرام نام پشاوری قادیان میں ضرور آئے تھے اور ان کو بار بار کہا گیا کہ اپنی حیثیت کے موافق بلکہ اس تنخواہ سے دو چند جو ۱؎ ترجمہ.اگرچہ ہر شخص لاف و گزاف سے کام لیتا ہے لیکن سچا وہی ہے جو اپنے صدق کا نشان رکھتا ہے.۲؎ دیکھو سُرمہ چشم آریہ مطبوعہ بار سوم.دسمبر ۱۹۰۷ء میگزین پریس قادیان کا صفحہ ۱۹۷.

Page 155

پشاور میں نوکری کی حالت میں پاتے تھے ہم سے بحساب ماہواری لینا کرکے ایک سال تک ٹھہرو اور اخیر پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر ایک سال تک منظور نہیں تو چالیس دن تک ہی ٹھہرو تو انہوں نے ان دونوں صورتوں میں سے کسی صورت کو منظور نہیں کیا اور خلاف واقعہ سراسر دروغ بے فروغ اشتہارات چھپوائے سو ان کے لئے تو رسالہ سرمہ چشم آریہ ۱؎ میں دوبارہ یہی چالیس دن تک اس جگہ رہنے کا پیغام تحریر کیا گیا ہے ناظرین اس کو پڑھ لیں لیکن یہ اشتہار اتمام حجت کی غرض سے بمقابل منشی جیونداس صاحب جو سب آریوں کی نسبت شریف اور سلیم الطبع معلوم ہوتے ہیں اور لالہ مرلیدھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر ہوشیارپور جو وہ بھی میری دانست میں آریوں میں سے غنیمت ہیں اور منشی اندرمن صاحب مراد آبادی جو گویا دوسرا مصرعہ سورستی صاحب کا ہیں اور مسٹر عبداللہ آتھم صاحب سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر رئیس امرتسر جو حضرات عیسائیوں میں سے شریف اور سلیم المزاج آدمی ہیں اور پادری عماد الدین لاہز صاحب امرتسری اور پادری ٹھاکر داس صاحب مؤلف کتاب اظہار عیسوی شائع کیا جاتا ہے کہ اب ہم بجائے ایک سال کے صرف چالیس روز اس شرط سے مقرر کرتے ہیں کہ جو صاحب آزمائش و مقابلہ کرنا چاہیں وہ برابر چالیس دن تک ہمارے پاس قادیان میں یا جس جگہ اپنی مرضی سے ہمیں رہنے کا اتفاق ہو رہیں اور برابر حاضر رہیں پس اس عرصہ میں اگر ہم کوئی امر پیشگوئی جو خارق عادت ہو پیش نہ کریں یا پیش تو کریں مگر بوقت ظہور وہ جھوٹا نکلے یا وہ جھوٹا تو نہ ہو مگر اسی طرح صاحب ممتحن اس کا مقابلہ کرکے دکھلاویں تو مبلغ پانسوروپیہ نقد بحالت مغلوب ہونے کے اسی وقت بلاتوقف ان کو دیا جائے گا لیکن اگر وہ پیشگوئی وغیرہ بہ پایۂ صداقت پہنچ گئی تو صاحب مقابل کو بشرفِ اسلام مشرف ہونا پڑے گا.اور یہ بات نہایت ضروری قابل یادداشت ہے کہ پیشگوئیوں میں صرف زبانی طور پر نکتہ چینی کرنا یا اپنی طرف سے شرائط لگانا ناجائز اور غیر مسلّم ہوگا بلکہ سیدھا راہ شناخت پیشگوئی کا یہی قرار دیا جائے گا کہ اگر وہ پیشگوئی صاحب مقابل کی رائے میں کچھ ضعف یا شک رکھتی ہے یا ان کی نظر میں قیافہ وغیرہ سے مشابہ ہے تو اسی عرصہ چالیس روز میں وہ بھی ایسی پیشگوئی ایسے ہی ثبوت سے ؎ دیکھیے سُرمہ چشم آریہ طبع اوّل کا صفحہ ۱۹۰ سطر پنجم (مرتب)

Page 156

ظاہر کرکے دکھلاویں اور اگر مقابلہ سے عاجز رہیں تو پھر حجت ان پر تمام ہوگی اور بحالت سچے نکلنے پیشگوئی کے بہرحال انہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور یہ تحریریں پہلے سے جانبیَن میں تحریر ہوکر انعقاد پا جائیں گی چنانچہ اس رسالہ کے شائع ہونے کے وقت سے یعنی ۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۶ء سے ٹھیک تین ماہ کی مہلت صاحبان موصوف کو دی جاتی ہے اگر اس عرصہ میں اُن کی طرف سے اس مقابلہ کے لئے کوئی منصفانہ تحریک نہ ہوئی تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ گریز کرگئے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب (منقول از سرمہ چشم آریہ مطبوعہ بار اوّل ستمبر ۱۸۸۶ء.ریاض ہند پریس امرتسر ) (روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۰۹، ۳۱۰)

Page 157

 اشتہار مفید الاخیار جاگو جاگو آریو نیند نہ کرو پیار چونکہ آج کل اکثر ہندوئوں اور آریوں کی یہ عادت ہورہی ہے کہ وہ کچھ کچھ کتابیں عیسائیوں کی جو اسلام کی نکتہ چینی میں لکھی گئی ہیں دیکھ کر اور ان پر پورا پورا اطمینان کرکے اپنے دلوں میں خیال کرلیتے ہیں کہ حقیقت میں یہ اعتراضات درست اور واقعی ہیں.اس لئے قرین مصلحت سمجھ کر اس عام اشتہار کے ذریعہ سے اطلاع دی جاتی ہے کہ اوّل تو عیسائیوں کی کتابوں پر اعتماد کرلینا اور براہِ راست کسی فاضل اہل اسلام سے اپنی عقدہ کشائی نہ کرانا اور اپنے اوہام فاسدہ کا محققین اسلام سے علاج طلب نہ کرنا اور خائنین عناد پیشہ کو امین سمجھ بیٹھنا سراسر بے راہی ہے جس سے طالب حق کو پرہیز کرنا چاہیے.دانشمند لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ جو پادری صاحبان پنجاب اور ہندوستان میں آکر اپنے مذہب کی تائید میں دن رات ہزارہا منصوبے باندھ رہے ہیں یہ ان کے ایمانی جوش کا تقاضا نہیں بلکہ انواع اقسام کے اغراض نفسانی ان کو ایسے کاموں پر آمادہ کرتے ہیں اگر وہ انتظام مذہبی جس کے باعث سے یہ لوگ ہزارہا روپیہ تنخواہیں پاتے ہیں درمیان سے اٹھایا جاوے تو پھر دیکھنا چاہیے کہ ان کا جوش و خروش کہاں ہے.ماسوا اس کے ان لوگوں کی ذاتی علمیت اور دماغی روشنی بھی بہت کم ہوتی ہے اور یورپ کے ملکوں میں جو واقعی دانا اور فلاسفر اور دقیق النظر ہیں وہ پادری کہلانے سے کراہت اور عار رکھتے ہیں اور ان کو ان کے بیہودہ خیالات پر اعتقاد بھی نہیں بلکہ یورپ کے عالی دماغ حُکماء کی نگاہوں

Page 158

میں پادری کا لفظ ایسا خفیف اور دور از فضیلت سمجھا جاتا ہے کہ گویا اس لفظ سے یہ مفہوم لازم پڑا ہوا ہے کہ جب کسی کو پادری کرکے پکارا جاوے تو ساتھ ہی دل میں یہ بھی گزر جاتا ہے کہ یہ شخص اعلیٰ درجہ کی علمی تحصیلوں اور لیاقتوں اور باریک خیالات سے بے نصیب ہے اور جس قدر ان پادری صاحبان نے اہل اسلام پر مختلف قسم کے اعتراضات کرکے اور بار بار ٹھوکریں کھا کر اپنے خیالات میں پلٹے کھائے ہیں اور طرح طرح کی ندامتیں اٹھا کر پھر اپنے اقوال سے رجوع کیا ہے.یہ بات اس شخص کو بخوبی معلوم ہوگی کہ جو ان کے اور فضلاء اسلام کے باہمی مباحثات کی کتابوں پر ایک محیط نظر ڈالے.ان کے اعتراضات تین قسم سے باہر نہیں.یا تو ایسے ہیں کہ جو سراسر افترا اور بہتان ہے جن کی اصلیت کسی جگہ پائی نہیں جاتی اور یا ایسے ہیں کہ فِی الْحَقِیْقت وہ باتیں ثابت تو ہیں لیکن محل اعتراض نہیں محض سادہ لوحی اور کورباطنی اور قلتِ تدبر کی وجہ سے ان کو جائے اعتراض سمجھ لیا ہے اور یا بعض ایسے امور ہیں کہ کسی قدر تو سچ ہیں جو ایک ذرہ جائے اعتراضات نہیں ہوسکتے اور باقی سب بہتان اور افترا ہیں جو ان کے ساتھ ملائے گئے ہیں.اب افسوس تو یہ ہے کہ آریوں نے اپنے گھر کی عقل کو بالکل استعفا دے کر ان کی ان تمام دور از صداقت کارروائیوں کو سچ مچ صحیح اور درست سمجھ لیا ہے اور بعض آریہ ایسے بھی ہیں کہ وہ قرآن شریف کا ترجمہ کسی جگہ سے ادھوراسا دیکھ کر یا کوئی قصہ بے سروپا کسی جاہل یا مخالف سے سن کر جھٹ پٹ اس کو بنائِ اعتراض قرار دے دیتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں خدائے تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا اس کی عقل بھی بباعث تعصب اور عناد کی زہروں کے نہایت ضعیف اور مردہ کی طرح ہوجاتی ہے اور جو بات عین حکمت اور معرفت کی ہو وہ اس کی نظر سقیم میں سراسر عیب دکھائی دیتی ہے سو اسی خیال سے یہ اشتہار جاری کیا جاتا ہے اور ظاہر کیا جاتا ہے کہ جس قدر اصول اور تعلیمیں قرآن شریف کی ہیں وہ سراسر حکمت اور معرفت اور سچائی سے بھری ہوئی ہیں اور کوئی بات ان میں ایک ذرّہ مؤاخذہ کے لائق نہیں اور چونکہ ہر ایک مذہب کے اصولوں اور تعلیموں میں صدہا جزئیات ہوتی ہیں اور ان سب کی کیفیت کا معرض بحث میں لانا ایک بڑ ی مہلت کو چاہتا ہے اس لئے ہم اس بارہ میں قرآن شریف کے اصولوں کے منکرین کو ایک نیک صلاح دیتے ہیں کہ گر ان کو اصول

Page 159

اور تعلیمات قرآنی پر اعتراض ہو تو مناسب ہے کہ وہ اوّل بطور خود خوب سوچ کر دو تین ایسے بڑے سے بڑے اعتراض بحوالہ آیاتِ قرآنی پیش کریں جو ان کی دانست میں سب اعتراضات سے ایسی نسبت رکھتے ہوں جو ایک پہاڑ کو ذرّہ سے نسبت ہوتی ہے یعنی ان کے سب اعتراضوں سے ان کی نظر میں اقویٰ و اشد اور انتہائی درجہ کے ہوں جن پر ان کی نکتہ چینی کی پُرزور نگاہیں ختم ہوگئی ہوں اور نہایت شدت سے دوڑ دوڑ کر انہیں پر جاٹھہری ہوں سو ایسے دو یا تین اعتراض بطور نمونہ پیش کرکے حقیقت حال کو آزما لینا چاہیے کہ اس سے تمام اعتراضات کا بآسانی فیصلہ ہوجائے گا کیونکہ اگر بڑے اعتراض بعد تحقیق ناچیز نکلے تو پھر چھوٹے اعتراض ساتھ ہی نابود ہوجائیں گے اور اگر ہم ان کا کافی و شافی جواب دینے سے قاصر رہے اور کم سے کم یہ ثابت نہ کر دکھایا کہ جن اصولوں اور تعلیموں کو فریق مخالف نے بمقابلہ ان اصولوں اور تعلیموں کے اختیار کررکھا ہے وہ ان کے مقابل پر نہایت درجہ رذیل اور ناقص اور دور از صداقت خیالات ہیں تو ایسی حالت میں فریق مخالف کو در حالت مغلوب ہونے کے فی اعتراض پچاس روپیہ بطور تاوان دیا جائے گا، لیکن اگر فریق مخالف انجام کار جھوٹا نکلا اور وہ تمام خوبیاں جو ہم اپنے ان اصولوں یا تعلیموں میں ثابت کرکے دکھلاویں بمقابل ان کے وہ اپنے اصولوں میں ثابت نہ کرسکا تو پھر یاد رکھنا چاہیے کہ اُسے بلاتوقف مسلمان ہونا پڑے گا اور اسلام لانے کے لئے اوّل حلف اٹھا کر اسی عہد کا اقرار کرنا ہوگا اور پھر بعد میں ہم اس کے اعتراضات کا جواب ایک رسالہ مستقلہ میں شائع کرا دیں گے.اور جو اُس کے بالمقابل اصولوں پر ہماری طرف سے حملہ ہوگا اس حملہ کی مدافعت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ بھی ایک مستقل رسالہ شائع کرے اور پھر دونوں رسالوں کے چھپنے کے بعد کسی ثالث کی رائے پر یا خود فریق مخالف کے حلف اٹھانے پر فیصلہ ہوگا جس طرح وہ راضی ہوجائے لیکن شرط یہ ہے کہ فریق مخالف نامی علماء میں سے ہو اور اپنے مذہب کی کتاب میں مادہ علمی بھی رکھتا ہو اور بمقابل ہمارے حوالہ اور بیان کے اپنا بیان بھی بحوالہ اپنی کتاب کے تحریر کرسکتا ہو.تاناحق ہمارے اوقات کو ضائع نہ کرے.اور اگر اب بھی کوئی نامنصف ہمارے اس صاف صاف منصفانہ طریق سے گریز اور کنارہ کرجائے اور بدگوئی اور دشنام دہی اور توہین اسلامسے بھی باز نہ آوے تو اس

Page 160

سے صاف ظاہر ہوگا کہ وہ کسی حالت میں اس لعنت کے طوق کو اپنے گلے سے اتارنا نہیں چاہتا کہ جو خدائے تعالیٰ کی عدالت اور انصاف نے جھوٹوں اور بے ایمانوں اور بدزبانوں اور بخیلوں اور متعصبوں کی گردن کا ہار کررکھا ہے.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.بالآخر واضح رہے کہ اس اشتہار کے جواب میں ۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۶ء سے تین ماہ تک کسی پنڈت یا پادری جواب دہندہ کا انتظار کیا جائے گا اور اگر اس عرصہ میں علماء آریہ وغیرہ خاموش رہے تو انہیں کی خاموشی ان پر حجت ہوگی.المشــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار غلام احمد مؤلّف رسالہ سُرمہ چشم آریہ منقول از سرمہ چشم آریہ بار اوّل ستمبر ۱۸۸۶ء جو صفحہ ۲۶۰ کے آگے چسپاں ہے اور چار صفحہ کا اشتہار ہے صفحہ ۱ تا صفحہ ۴ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر (مرتب) (روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۱۱ تا ۳۱۴)

Page 161

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار محک اخیار و اشرار ہم نے اُلفت میں تری بار اٹھایا کیا کیا تجھ کو دکھلا کے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا ہر ایک مومن اور پاک باطن اپنے ذاتی تجربہ سے اس بات کا گواہ ہے کہ جو لوگ صدق دل سے اپنے مولیٰ کریم جَلَّ شَاْنُہٗ سے کامل وفاداری اختیار کرتے ہیں وہ اپنے ایمان اور صبر کے اندازہ پر مصیبتوں میں ڈالے جاتے ہیں اور سخت سخت آزمائشوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو بدباطن لوگوں سے بہت کچھ رنجدہ باتیں سننی پڑتی ہیں اور انواع اقسام کے مصائب و شدائد کو اٹھانا پڑتا ہے اور نااہل لوگ طرح طرح کے منصوبے اور رنگا رنگ کے بہتان ان کے حق میں باندھتے ہیں اور ان کے نابود کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں یہی عادت اللہ ان لوگوں سے جاری ہے جن پر اس کی نظر عنایت ہے غرض جو اس کی نگاہ میں راست باز اور صادق ہیں وہ ہمیشہ جاہلوں کی زبان اور ہاتھ سے تکلیفیں اٹھاتے چلے آئے ہیں سو چونکہ سنت اللہ قدیم سے یہی ہے اس لئے اگر ہم بھی خویش و بیگانہ سے کچھ آزار اٹھائیں تو ہمیں شکر بجالانا چاہیے اور خوش ہونا چاہیے کہ ہم اس محبوب حقیقی کی نظر میں اس لائق تو ٹھہرے کہ اس کی راہ میں دکھ دیئے جائیں اور ستائے جائیں سو اس طرح پر دکھ اٹھانا تو ہماری عین سعادت ہے لیکن جب ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ بعض دشمنانِ دین اپنی افترا پردازی سے صرف ہماری ایذا رسانی پر کفایت نہیں کرتے بلکہ بے تمیز اور بے خبر لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں تو اس صورت میں ہم اپنے نفس

Page 162

پر واجب سمجھتے ہیں کہ حتی الوسع ان ناواقف لوگوں کو فتنہ سے بچاویں.سو واضح ہو کہ بعض مخالف ناخداترس جن کے دلوں کو زنگ تعصب و بخل نے سیاہ کر رکھا ہے ہمارے اشتہار مطبوعہ ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء کو یہودیوں کی طرح محرف و مبدل کرکے اور کچھ کے کچھ معنے بنا کرسادہ لوح لوگوں کو سناتے ہیں اور نیز اپنی طرف سے اشتہارات شائع کرتے ہیں تا دھوکا دے کر ان کے یہ ذہن نشین کریں کہ جو لڑکا پیدا ہونے کی پیشگوئی تھی اس کا وقت گزر گیا اور وہ غلط نکلی.ہم اس کے جواب میں صرف لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہنا کافی سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم افسوس بھی کرتے ہیں کہ ان بے عزتوں اور دیوثوں کو بباعث سخت درجہ کے کینہ اور بخل اور تعصب کے اب کسی کی لعنت ملامت کا بھی کچھ خوف اور اندیشہ نہیں رہا اور جو شرم اور حیا اور خدا ترسی لازمہ انسانیت ہے وہ سب نیک خصلتیں ایسی ان کی سرشت سے اٹھ گئی ہیں کہ گویا خدائے تعالیٰ نے ان میں وہ پیدا ہی نہیں کیں اور جیسے ایک بیمار اپنی صحت یابی سے نوامید ہوکر اور صرف چند روز زندگی سمجھ کر سب پرہیزیں توڑ دیتا ہے اور جو چاہتا ہے کھاپی لیتا ہے اسی طرح انہوں نے بھی اپنی مرض کینہ اور تعصب اور دشمنی کو ایک آزار لاعلاج خیال کرکے دل کھول کر بدپرہیزیاں اور بے راہیاں شروع کی ہیں جن کا انجام بخیر نہیں.تعصب اور کینہ کے سخت جنون نے کیسی ان کی عقل مار دی ہے نہیں دیکھتے کہ اشتہار ۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء میں صاف صاف تولّدِ فرزند موصوف کے لئے نو برس کی میعاد لکھی گئی ہے اور اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء میں کسی برس یا مہینے کا ذکر نہیں اور نہ اس میں یہ ذکر ہے جو نو برس کی میعاد رکھی گئی تھی اب وہ منسوخ ہوگئی ہے ہاں اس اشتہار میں ایک یہ فقرہ ذوالوجوہ درج ہے کہ مدتِ حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا.مگر کیا اسی قدر فقرہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ مدتِ حمل سے ایام باقی ماندہ حمل موجودہ مراد ہیں کوئی اور مدت مراد نہیں اگر اس فقرہ کے سرپر اس کا لفظ ہوتا تو بھی اعتراض کرنے کے لئے کچھ گنجائش نکل سکتی مگر جب الہامی عبارت کے سر پر اس کا لفظ (جو مخصص وقت ہوسکتا ہے) وارد نہیں تو پھر خواہ نخواہ اس فقرہ سے وہ معنی نکالنا جو اس صورت میں نکالے جاتے جو اس کا لفظ فقرہ مذکور کے سر پر ہوتا اگر بے ایمانی اور بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے؟ دانشمند آدمی جس کی عقل اور فہم میں کچھ آفت نہیں اورجس کے دل پر کسی تعصب یا

Page 163

شرارت کا حجاب نہیں وہ سمجھ سکتا ہے کہ کسی ذوالوجوہ فقرہ کے معنی کرنے کے وقت وہ سب احتمالات مدّنظر رکھنی چاہیے جو اس فقرہ سے پیدا ہوسکتے ہیں.سو فقرہ مذکورہ بالا یعنی یہ کہ مدت حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا.ایک ذوالوجوہ فقرہ ہے جس کی ٹھیک ٹھیک وہی تشریح ہے جو میر عباس علی شاہ صاحب لدھانوی نے اپنے اشتہار٭ آٹھ جون ۱۸۸۶ء میں کی ہے یعنی یہ کہ مدت موعودہ حمل سے (جو نو برس ہے) ٭ حاشیہ.یہ اشتہار بھی فائدہ عامہ کے لیے یہاں حاشیہ میں درج کیا جاتا ہے.(مرتب)  اشتہار واجب الاظہار  ۱؎ مبارک وے جو را ستبازی کے سبب ستائے جاتے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہیں کی ہے.(انجیل ۵.۱۰) ۲؎ جب سے مرزا غلام احمد صاحب (مؤلف براہین احمدیہ) نے یہ دعویٰ ہریک قوم کے مقابلہ پر کرنا شروع کیا ہے کہ خاص قرآن شریف میں ہی یہ ذاتی خاصیّت پائی جاتی ہے کہ اس کے سچّے اتباع سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور خوارق ظہور میں آتے ہیں اور مقبولان الٰہی میں جگہ ملتی ہے.اور نہ صرف دعویٰ کیا بلکہ ان باتوں کا ثبوت دینے میں بھی اپنا ذمہ لیا.یوروپ اور امریکہ کے ملکوں تک رجسٹری کرا کر اسی ذمہ واری کے خط بھیجے اور اسی مضمون کا بیس ہزار اشتہار شایع کیا.تب سے آریوں اور پادریوں وغیرہ کے دلوں پر ایک عجیب طور کا دھڑکا شروع ہو رہا ہے اور ہر طرف سے جزع اور فزع کی آوازیں آ رہی ہیں.بالخصوص بعض اوباش طبع آریوں نے تو صرف زبان درازی اور دشنام دہی اور نالایق بہتانوں سے ہی کام لینا چاہا.تا کسی طرح آفتاب صداقت پرخاک ڈال دیں.مگر سچائی کے نُور اُن کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتے.اور یہ تو قدیم سے عادت اللہ جاری ہے کہ ہمیشہ راست باز آدمی ستائے جاتے ہیں اور ان کے حق میں نااہل آدمی طرح طرح کی باتیں بولا کرتے ہیں.مگر آخر حق کا ہی بول بالا ہوتا ہے.اب تازہ افترا ۱؎ الصفّ: ۹ ۲؎ انجیل متی باب ۵ آیت ۱۰

Page 164

یا مدت معہودہ حمل سے (جو طبیبوں کے نزدیک اڑھائی برس یا کچھ زیادہ ہے) تجاوز نہیں کرسکتا.اگر حمل موجودہ میں حصر رکھنا مخصوص ہوتا تو عبارت یوں چاہیے تھی کہ اس باقی ماندہ ایامِ حمل سے ہرگز تجاوز نہیں کرے گا اور اسی و جہ سے ہم نے اس اشتہار میں اشارہ بھی کردیا تھا کہ وہ فقرہ مذکورہ بالا حمل بقیہ حاشیہ.جو محض ناخدا ترسی کی راہ سے بعض نادان متعصب آریوں اور عیسائیوں نے کیا ہے.جس کا ذکر ایک شخص مسمّٰی پنڈت لیکھرام پشاوری کی طرف سے اشتہار مطبوعہ شفیق ہند پریس لاہور میں اور ایک عیسائی صاحب کی طرف سے پرچۂ نُور افشاں مطبوعہ ۳؍ جون میں دیکھا گیا ہے، یہ ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی سراسر غلط نکلی کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہو گا کیونکہ ۱۵؍ اپریل کو ان کے گھر دُختر پیدا ہو گئی ہے.فقط اب منصف لوگ جو راستی پسند ہیں.مرزا صاحب کے اشتہارات کو پڑھ کر اور پھر جو کچھ اُن مخالفوں نے ان اشتہارات کا نتیجہ نکالا ہے.اس پر بھی نظر ڈال کر سمجھ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کا کینہ اور بُغض اور ان کا مادہ ناخدا ترسی اور دروغ گوئی کس حد تک بڑھ گیا ہے.ہر سہ اشتہارات جو مرزا صاحب نے اس بارہ میں چھپوائے ہیں.اس وقت ہمارے سامنے رکھے ہیں.پہلا اشتہار جس کو مرزا صاحب نے ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کو بمقام ہوشیار پور شائع کیا تھا.اس میں کوئی تاریخ درج نہیں کہ وہ لڑکا جس کے صفات اشتہار میں درج ہیں کب اور کس سال میں پیدا ہو گا.دوسرا اشتہار جو ۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء کو مرزا صاحب کی طرف سے شائع کیا گیا.یہ بہت مفید اشتہار ہے اس میں بتصریح تمام کھول دیا گیا ہے کہ وہ لڑکا نو برس کے اندر پیدا ہو جائے گا.اس میعاد سے تخلّف نہیں کرے گا.لیکن تیسرا اشتہار جو مرزا صاحب کی طرف سے ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء کو جاری ہوا.اس کی الہامی عبارت ذوی الوجوہ اور کچھ گول گول ہے.اور اس میں کوئی تصریح نہیں کہ وہ کب اور کس تاریخ میں پید اہو گا.ہاں اس میں ایک یہ فقرہ ہے کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو مدّ ت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.اب ظاہر ہے کہ یہ فقرہ کہ مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.ایک ذوی الوجوہ فقرہ ہے.اگر الہامی عبارت کے سر پر لفظ اِس کا ہوتا یعنی عبارت یوں ہوتی کہ اس مدّت حمل سے تجاوز نہیں کرے گا.ضرو ر اس میں پیدا ہو جائے گا تو بلاشبہ مواخذہ کی جگہ تھی.مگر اب تو ناحق کی نکتہ چینی ہے جس سے بجُز اس کے کہ یہ ثابت ہو کہ معترض سخت درجہ کا متعصب اور کج فہم اور کج طبع یا سادہ لوح ہے اور کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکتا.الہامات ربّانی یا قوانین سلطانی کی عبارتیں اس پایہ اور عزّت کی ہوتی ہیں جن کے لفظ لفظ پر بحث کرنا چاہیے.سو الہامی عبارت میں اِس کا لفظ متروک ہونا (جس سے حمل موجودہ میں پیشگوئی محدود ہو جاتی) صریح بتلا رہا

Page 165

موجودہ سے مخصوص نہیں ہے مگر جو دل کے اندھے ہیں وہ آنکھوں کے اندھے بھی ہوجاتے ہیں.بالآخر ہم یہ بھی لکھنا چاہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک بڑی حکمت اور مصلحت ہے کہ اس نے اب کی دفعہ لڑکا عطا نہیں کیا کیونکہ اگر وہ اب کی دفعہ ہی پیدا ہوتا تو ایسے لوگوں پر کیا اثر بقیہ حاشیہ.ہے کہ اس جگہ حمل موجودہ مراد نہیں لیا گیا بلکہ اس فقرہ کے دو معنے ہیں.تیسرے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے.اوّل یہ کہ مدّت موعودہ حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.یعنی نو برس سے.کیونکہ اس خاص لڑکے کے حمل کے لیے وہی مدّت موعود ہے.دوسرے یہ معنے کہ مدّت معہودہ حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا.سو مدت معہودہ حمل کی اکثر طبیبوں کے نزدیک ڈھائی برس بلکہ بعض کے نزدیک انتہائی مدت حمل کی تین برس تک بھی ہے.بہرحال ان دونوں وجوہ میں سے کسی و جہ کی رُو سے پیشگوئی کی صحت پر جرح نہیں ہو سکتا.اسی لیے مرزا صاحب نے اسی اشتہار ۸؍ اپریل میں قیاسی طور پر یہ بھی صاف لکھ دیا تھا کہ غالباً وہ لڑکا اب یا اس کے بعد قریب حمل میں پیدا ہو گا.اور پھر اس اشتہار کی اخیر سطر میں مرزا صاحب نے یہ بھی تحریر کر دیا کہ میںا س قدر ظاہر کرتا ہوں جو مجھ پر منجانب اللہ ظاہر کیا گیا اور آئندہ جو اس سے زیادہ منکشف ہو گا.وہ بھی شائع کیا جائے گا.سو مرزا صاحب نے اپنے اسی اشتہار میں بتلا بھی دیا کہ اس اشتہار کا الہامی فقرہ مجمل اور ذوی الوجوہ ہے.جس کی تشریح اگر خدا نے چاہا پیچھے سے کی جائے گی.اب کیا کوئی انصاف پسند مرزا صاحب کے کسی لفظ سے یہ بات نکال سکتا ہے کہ وہ لڑکا ضرور پہلی ہی دفعہ پیدا ہو جائے گا نہ کسی اَور وقت.سو ہم بڑے افسوس سے لکھتے ہیں کہ اسلام کے مخالف غلبۂ جوش تعصّب میں آکر اپنی وثاقت کو بھی کھو دیتے ہیں اور ناحق اپنی بد اندرونی کو لوگوں پر ثابت کرتے ہیں.نہیں دیکھتے کہ جب تک میعاد مقررہ باقی ہے تب تک اعتراض کی گنجائش نہیں.اور وقت سے پہلے شور و غوغا کرنے سے یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر یہ پیشگوئی اپنے وقت پر پوری ہو گئی تو اس روز کیا حال ہو گا اور کیا کیا ندامتیں اُٹھانی پڑیں گی.یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ اگر ایسی بے ہودہ نکتہ چینیوں سے کسی حق الامر کو کچھ صدمہ پہنچ سکتا ہے.تو پھر کوئی سچائی اس صدمہ سے محفوظ نہیں رہ سکتی.حضرت مسیح علیہ السلام کی کئی پیشگوئیوں پر یہودیوں نے ایسی ایسی بلکہ اس سے بڑھ کر نکتہ چینیاں کی ہیں اور ان کی پیشگوئی کو دائرہ صداقت سے بالکل دور و مہجور سمجھا ہے.مگر کیا ایسی بیہودہ نکتہ چینیوں سے ان کی سچائی میں کچھ فرق آ سکتا ہے.بد باطن لوگ ہمیشہ بے ایمانی اور دشمنی کی راہ سے چاند پر

Page 166

پڑسکتا جو پہلے ہی سے یہ کہتے تھے کہ قواعد طبّی کے رو سے حمل موجودہ کی علامات سے ایک حکیم آدمی بتلا سکتا ہے کہ کیا پیدا ہوگا اور پنڈت لیکھرام پشاوری اور بعض دیگر مخالف اس عاجز پر یہی الزام رکھتے تھے کہ ان کو فن طبابت میں مہارت ہے انہوں نے طبّ کے ذریعہ سے معلوم کرلیا ہوگا کہ لڑکا پیدا ہونے والا ہے اسی طرح ایک صاحب محمد رمضان نام نے پنجابی اخبار ۲۰؍ مارچ ۱۸۸۶ء میں چھپوایا کہ لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دینا منجانب اللہ ہونے کا ثبوت نہیں ہوسکتا.جس نے ارسطو کا ورکس دیکھا ہوگا حاملہ عورت کا قارورہ دیکھ کر لڑکا یا لڑکی پیدا ہونا ٹھیک ٹھیک بتلا سکتا ہے اور بعض مخالف مسلمان یہ بھی کہتے تھے کہ اصل میں ڈیڑھ ماہ سے یعنی پیشگوئی بیان کرنے سے پہلے لڑکا پیدا ہوچکا ہے جس کو فریب کے طور پر چھپا رکھا ہے اور عنقریب مشہور کیا جائے گا کہ پیدا ہوگیا.سویہ اچھا ہوا کہ خدا تعالیٰ نے تولّد فرزند مسعود موعود کو دوسرے وقت پر ڈال دیا ورنہ اگر اب کی دفعہ ہی پیدا ہوجاتا تو ان مضریاتِ مذکورہ بالا کا کون فیصلہ کرتا.لیکن اب تولّدِ فرزند موصوف کی بشارت غیب محض ہے نہ کوئی حمل موجود ہے تا ارسطو کے ورکس یا جالینوس کے قواعد حمل دانی بالمعارضہ پیش ہوسکیں اور نہ اب کوئی بچہ چھپا ہوا ہے تا وہ مدت کے بعد نکالا جائے بلکہ نو برس کے عرصہ تک تو خود اپنے زندہ رہنے کا ہی حال معلوم نہیں اور نہ یہ معلوم کہ اس عرصہ تک کسی قسم کی اولاد خواہ نخواہ پیدا ہوگی چہ جائیکہ لڑکا پیدا ہونے پر کسی اٹکل سے قطع اور یقین کیا جائے اخیر پر ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اخبار مذکورہ بالا میں منشی محمد رمضان صاحب نے تہذیب سے گفتگو نہیں کی بلکہ دینی مخالفوں کی طرح جابجا مشہور افترا پردازوں سے اس عاجز کو نسبت دی ہے اور ایک جگہ پر جہاں اس عاجز نے ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں یہ پیشگوئی خدائے تعالیٰ کی طرف سے بیان کی تھی کہ اس نے مجھے بشارت دی ہے کہ بعض بابرکت عورتیں اس اشتہار کے بعد بقیہ حاشیہ.خاک ڈالتے رہے ہیں لیکن انجام کار راستی کی ہی فتح ہوتی رہی ہے اور ایسی ہی اب بھی ہو گی.مرزا صاحب کا رسالہ سراج منیر عنقریب نکلنے والا ہے.اس میںنہ ایک پیشگوئی بلکہ وہ سارا رسالہ پیشگوئیوں ہی سے بھرا ہو اہے تب خود سچ اور جھوٹ میں فرق کھل جائیگا.ذرا صبر کرنا چاہیے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر میر عباس علی لدھیانوی.ہشتم جون ۱۸۸۶ء (مطبوعہ شعلہ نور پریس بٹالہ)

Page 167

بھی تیرے نکاح میں آئیں گی اور ان سے اولاد پیدا ہوگی اس پیشگوئی پر منشی صاحب فرماتے ہیں کہ الہام کئی قسم کا ہوتا ہے نیکوں کو نیک باتوں کا اور زانیوں کو عورتوں کا.ہم اس جگہ کچھ لکھنا نہیں چاہتے ناظرین منشی صاحب کی تہذیب کا آپ اندازہ کرلیں.پھر ایک اور صاحب ملازم دفتر ایگزیمنر صاحب ریلوے لاہور کے جو اپنا نام نبی بخش ۱؎ ظاہر کرتے ہیں اپنے خط مرسلہ ۱۳؍ جون ۱۸۸۶ء میں اس عاجز کو لکھتے ہیں کہ تمہاری پیشگوئی جھوٹی نکلی اور دختر پیدا ہوئی اور تم حقیقت میں بڑے فریبی اور مکّار اور دروغ گو آدمی ہو.ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ اے خدائے قادر مطلقیہ لوگ اندھے ہیں ان کو آنکھیں بخش یہ نادان ہیں ان کو سمجھ عطا کر یہ شرارتوں سے بھرے ہوئے ہیں ان کو نیکی کی توفیق دے.بھلا کوئی اس بزرگ سے پوچھے کہ وہ فقرہ یا لفظ کہاں ہے جو کسی اشتہار میں اس عاجز کے قلم سے نکلا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ لڑکا اسی حمل میں پیدا ہوگا اس سے ہرگز تخلف نہیں کرے گا.اگر میں نے کسی جگہ ایسا لکھا ہے تو میاں نبی بخش صاحب پر واجب ہے کہ اس کو کسی اخبار میں چھپادیں.اس عاجز کے اشتہارات پر اگر کوئی منصف آنکھ کھول کر نظر ڈالے تو اسے معلوم ہوگا کہ ان میں کوئی بھی ایسی پیشگوئی درج نہیں جس میں ایک ذرہ غلطی کی بھی گرفت ہوسکے بلکہ وہ سب سچی ہیں اور عنقریب اپنے وقت پر ظہور پکڑ کر مخالفین کی ذلت اور رسوائی کا موجب ہوں گی.دیکھو ہم نے ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں جو یہ پیشگوئی اجمالی طور پر لکھی تھی کہ ایک امیر نووارد پنجابی الاصل کو کچھ ابتلا درپیش ہے کیسی وہ سچی نکلی.ہم نے صدہا ہندوئوں اور مسلمانوں کو مختلف شہروں میں بتلا دیا تھا کہ اس شخص پنجابی الاصل سے مراد دلیپ سنگھ ہے جس کی پنجاب میں آنے کی خبر مشہور ہورہی ہے لیکن اس ارادہ سکونت پنجاب میں وہ ناکام رہے گا بلکہ اس سفر میں اس کی عزت و آسائش یا جان کا خطرہ ہے اور یہ پیشگوئی ایسے وقت میں لکھی گئی اور عام طور پر بتلائی گئی تھی یعنی ۲؍ فروری ۱۸۸۶ء کو جبکہ اس ابتلا کا کوئی اثر و نشان ظاہر نہ تھا.بالآخر اس کو مطابق اسی پیشگوئی کے بہت حرج اور تکلیف اور سُبکی اور خجالت اٹھانی پڑی اور اپنے مدعا سے محروم رہا سو دیکھو اس پیشگوئی کی صداقت کیسی کھل گئی اسی طرح ؎ یہ صاحب بعد میں احمدیّت میں داخل ہو گئے اور بہت مخلص ثابت ہوئے.(مرتب

Page 168

سے اپنے اپنے وقت پر سب پیشگوئیوں کی سچائی ظاہر ہوگی اور دشمن روسیاہ نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ رسوا ہوں گے.یہ خدائے تعالیٰ کا فعل ہے جو ابھی تک انہیں اندھا کررکھا ہے ان کے دلوں کو سخت کردیا اور ہمارے دل میں درد اور خیر خواہی کا طوفان مچا دیا سو اس مشکل کے حل کے لئے اسی کی جناب میں تضرع کرتے ہیں.اے خدا نور دہ ایں تیرہ درو نانے را یا مدہ دردِ دِگر ہیچ خدا دانے را۱؎ والسلام علٰی من اتبع الہدٰی.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار غلام احمد مؤلف براہین احمدیہ از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب (منقول از سرمہ چشم آریہ بار اوّل ستمبر ۱۸۸۶ء جو کتاب ہذا کے آخر میں صفحہ ۱ تا ۴ ہے مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر) (روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۱۵ تا ۳۱۸) نوٹ: حاشیہ میں دیا گیا اشتہار تبلیغ رسالت جلد ۱ کی ترتیب کے مطابق دیا گیا ہے.صرف متن والا اشتہار سُرمہ چشم آریہ کا ہے.(ناشر)

Page 169

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار واجب الاظہار یہ رسالہ کُحْلُ الجَوَاہِر سُرمہ چشم آریہ نہایت صفائی سے چھپ کر ایک روپیہ بارہ ۱۲؍ آنہ اس کی قیمت عام لوگوں کے لئے قرار پائی ہے اور خواص اور ذی استطاعت لوگ جو کچھ بطور امداد دیں ان کے لئے موجب ثواب ہے کیونکہ سراج منیر اور براہین کے لئے اسی قیمت سے سرمایہ جمع ہو گا اور اس کے بعدرسالہ سراج منیر انشاء اللہ القدیر چھپے گا پھر اس کے بعد پنجم حصہ کتاب براہین احمدیہ چھپنا شروع ہو گا جو بعض لوگ توقف طبع کتاب براہین سے مضطرب ہو رہے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ اس زمانہ توقف میں کیا کیا کارروائیاں بطور تمہید کتاب کے لئے عمل میں آئی ہیں ۴۳ ہزار کے قریب اشتہار تقسیم کیا گیا اور صدہا جگہ ایشیا و یورپ و امریکہ میں خطوط دعوتِ اسلام اردو انگریزی میں چھپوا کر اور رجسٹری کراکر بھیجے گئے جن کا تذکرہ انشاء اللہ پنجم حصہ میں آئے گا.وَ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ.باایں ہمہ اگر بعض صاحب اس توقف سے ناراض ہوں تو ہم ان کو فسخ بیع کی اجازت دیتے ہیں وہ ہم کو اپنی خاص تحریر سے اطلاع دیں تو ہم بدیں شرط کہ جس وقت ہم کو ان کی قیمت مرسلہ میسر آوے اس وقت باخذ کتاب واپس کر دیں گے بلکہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ایسے صاحبوں کی ایک فہرست طیار کی جائے اور ایک ہی دفعہ سب کا فیصلہ کیا جائے اور یہ بھی ہم اپنے گزشتہ اشتہار میں لکھ

Page 170

چکے ہیں اور اب بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اب یہ سلسلہ تالیف کتاب بو جہ الہاماتِ الٰہیہ دوسرارنگ پکڑ گیا ہے اور اب ہماری طرف سے کوئی ایسی شرط نہیں کہ کتاب تین سو جُز تک ضرور پہنچے بلکہ جس طور سے خدائے تعالیٰ مناسب سمجھے گا کم یا زیادہ بغیر لحاظ پہلی شرائط کے اس کو انجام دے گا کہ یہ سب کام اسی کے ہاتھ میں اور اسی کے امر سے ہے.واجب تھا ظاہر کیا گیا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب (منقول از اندرونی صفحہ ٹائٹل پیج سرمہ چشم آریہ مطبوعہ بار اوّل.ریاض ہند پریس امرت سر.ستمبر ۱۸۸۶ء) ( روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۸)

Page 171

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار انعامی پانسوروپیہ دربارہ کتاب لاجواب کحل الجواہر سُرمہ چشم آریہ جو آریوں کے وید اور اُن کے عقائد اور اُصول کو باطل اور دور از صدق ثابت کرتی ہے سُر۱؎مہ چشم آریہ پُر دُر و پُر زِگوہرست بیں زِ سرِّ جستجو سال ازیں ظاہرست۲؎ ۱۳۰۳ یہ کتاب یعنی رسالہ سرمہ چشم آریہ بتقریب مباحثہ لالہ مرلیدھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر ہوشیارپور جو عقائد باطلہ وید کی بکلّی بیخ کنی کرتی ہے، اس دعویٰ اور یقین سے لکھی گئی ہے کہ کوئی آریہ اس کتاب کا ردّ نہیں کرسکتا کیونکہ سچ کے مقابل پر جھوٹ کی کچھ پیش نہیں جاتی اور اگر کوئی آریہ صاحب ان تمام وید کے اصولوں اور اعتقادوں کو جو اس کتاب میں رد کئے گئے ہیں سچ سمجھتا ہے اور اب بھی وید اور اس کے ایسے اصولوں کو ایشرکرت ہی خیال کرتا ہے تو اس کو اُسی ایشر کی قسم ہے کہ اس کتاب کا ردّ لکھ کر دکھلاوے اور پانسوروپیہ انعام پاوے.یہ پانسو روپیہ بعد تصدیق کسی ثالث کے جو کوئی پادری یا برہمو ۱؎ یہ شعر نتائج طبع مولوی محمد یوسف صاحب سنوری سے ہے.جَزَاھُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.منہ ۲؎ ترجمہ.’ ’سرمہ چشم آریہ‘‘ موتی وجواہرات سے بھری ہوئی ہے، جستجو (کے پہلے حرف) کے ساتھ دیکھو سال تالیف نکل آئے

Page 172

صاحب ہوں گے دیا جائے گا اور ہمیں یاںتک منظور ہے کہ اگر منشی جیونداس صاحب سیکرٹری آریہ سماج لاہور جو اس گردونواح کے آریہ صاحبوں کی نسبت سلیم الطبع اور معزز اور شریف آدمی ہیں بعد ردّ چھپ جانے اور عام طور پر شائع ہوجانے کے مجمع عام علماء مسلمانوں اور آریوں اور معزز عیسائیوں وغیرہ میں معہ اپنے عزیز فرزندوں کے حاضر ہوں اور پھر اٹھ کر قسم کھالیں کہ ہاں میرے دل نے بہ یقینِ کامل قبول کرلیا ہے کہ سب اعتراضات رسالہ سرمہ چشم آریہ جن کو میں نے اوّل سے آخر تک بغور دیکھ لیا ہے اور خوب توجہ کرکے سمجھ لیا ہے ۱؎ اس تحریر سے ردّ ہوگئے ہیں.اور اگر میں دلی اطمینان اور پوری سچائی سے یہ بات نہیں کہتا تو اس کا ضرر اور وبال اسی دنیا میں مجھ پر اور میری اسی اولاد پر جو اس وقت حاضر ہے پڑے.تو بعد ایسی قسم کھالینے کے صرف منشی صاحب موصوف کی شہادت سے پانسوروپیہ نقد ردّ کنندہ کو اسی مجمع میں بطور انعام دیا جائے گا.اور اگر منشی صاحب موصوف عرصہ ایک سال تک ایسی قسم کے بداثر سے محفوظ رہے تو آریوں کے لئے بلاشبہ یہ حجت ہوگی کہ صاحب موصوف نے اپنی دلی صداقت سے اپنے علم اور فہم کے مطابق قسم کھائی تھی.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار غلام احمد از قادیان.ضلع گورداسپور پنجاب (منقول از ٹائٹل سُرمہ چشم آریہ مطبوعہ بار اوّل ریاض ہند پریس امرتسر ستمبر ۱۸۸۶ء جو ٹائٹل کے آخری صفحات پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۲۱، ۳۲۲)

Page 173

 اشتہار چونکہ رسالہ سراجِ منیر جو پیشگوئیوں پر مشتمل ہو گا.چودہ سو روپیہ کی لاگت سے چھپے گا.اس لیے چھپنے سے پہلے خریداروں کی درخواستیں آنا ضروری ہے.تا بعد میں دقتیں پیدا نہ ہوں.قیمت اس رسالہ کی ایک روپیہ علاوہ محصول ہو گی.لہٰذا اطلاع دی جاتی ہے کہ جو صاحب پختہ ارادہ سے سراج منیر کو خریدنا چاہتے ہیں.وہ اپنی درخواستیں معہ پتہ سکونت وغیرہ کے ارسال فرمائیں.جب ایک حصّہ کافی درخواستوں کا آ جا ئے گا تو فی الفور کتاب کا طبع ہونا شروع ہو جائے گا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.خاکسار غلام احمد از قادیان جن صاحبوں کو اس رسالہ کی ضرورت ہو وہ اپنا نام معہ پتہ و نشان نقشہ ذیل میں لکھ دیں.

Page 174

اطلاع ضروری.ایک کتاب لاجواب مسمّٰی بہ شحنہ حق جس میں ویدک فلاسفی اور آریہ مذہب کی حقیقت صاف صاف اور کافی طور سے کھول دی گئی ہے.چھپ کر تیار ہو چکی ہے.قیمت اس کتاب کی ۱۲؍ علاوہ محصول ڈاک مقرر ہوئی ہے جس صاحب کو منظور ہو بار سال قیمت نقد یا ویلیو پے ایبل پارسل طلب کر لے.(یہ اشتہار بلا تاریخ و بغیر نام مطبع کے ایک صفحہ کا ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۹۴، ۹۵)

Page 175

 اعلان ۱؎ ہم نے سرمہ چشم آریہ میں چہل روزہ اشتہار ۲؎ بھی جاری کرکے دیکھ لیا کسی ہندو نے کان تک نہیں ہلایا خیال کرنا چاہیے کہ جو شخص تمام دنیا میں اپنے الہامی دعویٰ کے اشتہار بھیج کر سب قسم کے مخالفوں کو آزمائش کے لئے بلاتا ہے اس کی یہ جرأت اور شجاعت کسی ایسی بنا پر ہوسکتی ہے جو نرافریب ہے کیا جس کی دعوت اسلام و دعویٰ الہام کے خطوں نے امریکہ ۳؎ اور یورپ کے دور دور ملکوں ۱؎ یہ ایک اعلان ہے جو ’’شحنہ حق‘‘ مطبوعہ بار دوم کے صفحہ ۳۶ سطر ۷ سے شروع ہوتا ہے.اس کے عنوان پر لفظ اعلان نہیں لکھا.البتہ کتاب مذکور کے صفحہ ۳۷ سطر ۱۶ میں اس کو اعلان فرمایا ہے.اس لیے عنوان اس کا یہاں ’’اعلان‘‘ لکھ دیا ہے اور یہ عنوان مرتب اشتہارات کی طرف سے ہے.(مرتب) ۲؎ دیکھئے اشتہار نمبر ۳۶ (مرتب) ۳؎ نوٹ.امریکہ سے ابھی ہمارے نام ایک چٹھی آئی ہے جس کے مضمون کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.صاحبِ مَن ایک تازہ پرچہ اخبار اسکاٹ صاحب ہمہ اوستی میں مَیں نے آپ کا خط پڑھا.جس میں آپ نے ان کو حق دکھانے کی دعوت کی ہے اس لئے مجھ کو اس تحریک کا شوق ہوا.میں نے مذہب بدھ اور برہمن مت کی بابت بہت کچھ پڑھا ہے اور کسی قدر تعلیمات زردشت و کنفیوشس کا مطالعہ بھی کیا ہے لیکن محمد صاحب کی نسبت بہت کم.میں راہ راست کی نسبت ایسا مذبذب رہا ہوں اور اب بھی ہوں کہ گو میں عیسائی گروہ کے ایک گرجا کا امام ہوں مگر سوائے معمولی اور اخلاقی نصیحتوں کے اور کچھ سکھلانے کے قابل نہیں.غرض میں سچ کا متلاشی ہوں اور آپ سے اخلاص رکھتا ہوں.آپ کا خادم الیگزنڈر آروب.پتہ.۳۰۲۱.اسٹرن اونیو سینٹ لوئس مسوری اضلاع متحدہ امریکہ.

Page 176

تک ہل چل مچا دی ہے.کیا ایسی استقامت کی بنیاد صرف لاف و گزاف کا خس و خاشاک ہے؟ کیا تمام جہان کے مقابل پر ایسا دعویٰ وہ مکار بھی کرسکتا ہے کہ جو اپنے دل میں جانتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں.اور خدا میرے ساتھ نہیں؟ افسوس! آریوں کی عقل کو تعصب نے لے لیا.بغض اور کینہ کے غبار سے ان کی آنکھیں جاتی رہیں.اب اس روشنی کے زمانہ میں وید کو خدا کا کلام بنانا چاہتے ہیں نہیں جانتے کہ اندر اور اگنی کا مدت سے زمانہ گزر گیا.کوئی کتاب بغیر خدائی نشانوں کے خدا تعالیٰ کا کلام کب بن سکتی ہے اور اگر ایسا ہی ہو تو ہریک شخص اٹھ کر کتاب بنادے اور اس کا نام خدا تعالیٰ کا کلام رکھ لیوے.اَللّٰہ جَلَّ شَاْنُـہٗ کاوہی کلام ہے جو الٰہی طاقتیں اور برکتیں اور خاصیتیں اپنے اندر رکھتا ہے.سو آئو! جس نے دیکھنا ہو دیکھ لے وہ قرآن شریف ہے جس کی صدہا روحانی خاصیّتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سچے پیرو اس کے ظلّی طور پر الہام پاتے ہیں اور تادمِ مرگ رحمت اور برکت ان کے شامل ہوتی ہے.سو یہ خاکسار اسی آفتاب حقیقت سے فیض یافتہ اور اُسی دریائے معرفت سے قطرہ بردار ہے اب یہ ہندو روشن چشم جو اس الٰہی کاروبار کا نام فریب رکھ رہا ہے اس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ ہرچند اب ہمیں فرصت نہیں کہ بالموا جہ آزمائش کے لئے ہر روز نئے نئے اشتہار جاری کریں.اور خود رسالہ سراج منیر نے ان متفرق کارروائیوں سے ہمیں مستغنی کردیا ہے لیکن چونکہ اس دزدمنش کی روبہ بازیوں کا تدارک ازبس ضروری ہے جو مدت سے بُرقع میں اپنا مونہہ چھپا کر کبھی اپنے اشتہاروں میں ہمیں گالیاں دیتا ہے کبھی ہم پر تہمتیں لگاتا ہے اور فریبوں کی طرف نسبت دیتا ہے اور کبھی ہمیں مفلس بے زَر قرار دے کر یہ کہتا ہے کہ کس کے پاس مقابلہ کے لئے جاویں وہ تو کچھ بھی جائداد نہیں رکھتا ہمیں کیا دے گا کبھی ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دیتا ہے اور اپنے اشتہاروں میں ۲۷؍ جولائی ۱۸۸۶ء سے تین برس تک ہماری زندگی کا خاتمہ بتلاتا ہے.ایسا ہی ایک بیرنگ خط میں بھی جو کسی انجان کے ہاتھ سے لکھایا گیا ہے جان سے مار دینے کے لئے ہمیں ڈراتا ہے لہٰذا ہم بعد اس دعا کے کہ یا الٰہی تو اس کا اور ہمارا فیصلہ کر اس کے نام یہ اعلان جاری کرتے ہیں اور خاص اُسی کو اِس آزمائش کے لئے بلاتے ہیں کہ اب بُرقع سے مونہہ

Page 177

نکال کر ہمارے سامنے آوے اور اپنا نام و نشان بتلاوے اور پہلے چند اخباروں میں شرائط متذکرہ ذیل پر اپنا آزمائش کے لئے ہمارے پاس آنا شائع کرکے اور پھر بعد تحریری قرارداد چالیس۴۰ دن تک امتحان کے لئے ہماری صحبت میں رہے اگر اس مدّت تک کوئی ایسی الہامی پیشگوئی ظہور میں آگئی جس کے مقابلہ سے وہ عاجز رہ جائے تو اسی جگہ اپنی لمبی چوٹی کٹا کر اور رشتہ بے سود زنار کو توڑکر اُس پاک جماعت میں داخل ہوجائے جو لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی توحید سے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی کامل رہبری سے گم گشتگان بادیہ شرک و بدعت کو صراط مستقیم کی شاہراہ پر لاتے جاتے ہیں پھر دیکھئے کہ بے انتہا قدرتوں اور طاقتوں کے مالک نے کیسے ایک دم میں اندرونی آلائشوں سے اُسے صاف کردیا ہے اور کیونکر نجاست کا بھرا ہوا لتّہ ایک صاف اور پاک پیرایہ کی صورت میں آگیا ہے لیکن اگر کوئی پیش گوئی اس چالیس دن کے عرصہ میں ظہور میں نہ آئے تو چالیس دن کے حرجانہ میں سو روپیہ یا جس قدر کوئی ماہواری تنخواہ سرکار انگریزی میں پاچُکا ہو اس کا دو چند ہم سے لے لے اور پھر ایک و جہ معقول کے ساتھ تمام جہان میں ہماری نسبت منادی کرا دے کہ آزمائش کے بعد میںنے اس کو فریبی اور جھوٹا پایا یکم اپریل ۱۸۸۷ء سے اخیر مئی ۱۸۸۷ء تک اسے مہلت ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ اس کے اطمینان کے لئے روپیہ کسی برہمو صاحب کے پاس رکھا جائے گا جو دونوں فریق کے لئے بطور ثالث ہیں اور وہ برہمو صاحب ہمارے جھوٹا نکلنے کی حالت میں خود اپنے اختیار سے جو پہلے بذریعہ تحریر خاص ان کو دیا جائے گا اس آریہ فتح یاب کے حوالہ کردیں گے.اور اگر اب بھی روپیہ لینے میں دھڑکا ہو تو اس عمدہ تدبیر پر کہ خود آریہ صاحب سوچیں عمل کیا جائے گا.مگر روپیہ بہرصورت ایک معزز برہمُو صاحب (ثالث) کے ہاتھ میں رہے گا لہٰذا ہم تاکیداً اس آریہ صاحب کو جس نے ہمارا نام فریبی رکھا الہامات ربّانی کو سراسر فریب قرار دیا، پورا نے وحشی آریوں کی طرح ہمیں گندیاں گالیاں دیںجان سے مارنے کی دھمکیاں سنائیں بآواز بلند ہدایت کرتے ہیں کہ ہماری نسبت تو اس نے دُشنام دہی میں جہاں تک گند اس کی سرشت میں بھرا ہوا تھا سب نکالا لیکن اگر وہ حلال زادہ ہے تو اب امتحان کے لئے

Page 178

پابندی شرائط متذکرہ بالا سیدھا ہمارے سامنے آجائے تاہم بھی دیکھ لیں کہ اس فرشتہ خوشُستہ زبان کی شکل کیسی ہے اور اگر اخیر مئی ۱۸۸۷ء تک مقابل پر نہ آیا اور نہ اپنی مادری خصلت سے باز رہا تو دیکھو میں بعد شاہد حقیقی کے زمین و آسمان اور تمام ناظرین اس رسالہ کو گواہ رکھ کر ایسے یا وہ اور جنگ جو کو مندرجہ ذیل انعام جو فی الحقیقت نیش زنی اور رہزنی اور ظالم منشی کی حالت میں اُسی کے لائق ہے دیتا ہوں تا میں دیکھوں کہ اب وہ سوراخ سے نکل کر باہر آتا ہے یا اس نیچے لکھے ہوئے انعام کو بھی نگل جاتا ہے اور وہ انعام بحالت اُس کے نہ آنے اور بھاگ جانے کے یہ ہے.(۱) ایک لعنت (۲) دو لعنت (۳) تین لعنت (۴) چار لعنت (۵) پانچ لعنت (۶) چھ لعنت (۷) سات لعنت (۸) آٹھ لعنت (۹) نو لعنت (۱۰) دس لعنت تِلْکَ عَشَرَۃ کَامِلَۃ (منقول از شحنہ ئِ حق صفحہ ۳۶ تا ۳۹ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر بار دوم) (روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۷۲ تا ۳۷۶)

Page 179

 .نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ محمدؐ عربی کابروئے ہر دو سرا ست کسے کہ خاک درش نیست خاک برسراو ۱؎   ۲؎ آیا حق اور بھاگ گیا باطل تحقیق باطل ہے بھاگنے والا خوشخبری اے ناظرین! میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولّد کے لیے مَیں نے اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی کی تھی اور خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنے کھلے کھلے بیان میںلکھا تھا کہ اگر وہ حمل موجودہ میں پیدا نہ ہوا تو دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے ضرور پیدا ہو جائے گا.آج ۱۶ ذیقعدہ ۱۳۰۴ھ مطابق ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء میں ۱۲ بجے رات کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب وہ مولود مسعود پیدا ہو گیا.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ اب دیکھنا چاہیے کہ یہ کس قدر بزرگ پیشگوئی ہے جو ظہور میں آئی.آریہ لوگ بات بات میں یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم وہ پیش گوئی منظور کریں گے جس کا وقت بتلایا جائے.سو اب یہ پیشگوئی انہیں منظور کرنی پڑی.کیونکہ اس پیشگوئی کا مطلب یہ ہے کہ حمل دوم بالکل خالی نہیں جائے گا.ضرور لڑکا پیدا ہو گا.اور وہ حمل بھی کچھ دُور نہیں.بلکہ قریب ہے.یہ مطلب اگرچہ اصل الہام میں مجمل تھا لیکن میں نے اسی اشتہار میں لڑکا پیدا ہونے سے ایک برس چار مہینہ پہلے رُوح القدس سے قوت پا کر مفصّل ۱؎ ترجمہ.محمد عربیؐ جو دونوں جہاں کی عزت ہے جو شخص اس کے در کی خاک نہیں بنا اس کے سر پر خاک.

Page 180

طور پر مضمون مذکورہ بالا لکھ دیا یعنی یہ کہ اگر لڑکا اس حمل میں پیدا نہ ہوا تو دوسرے حمل میں ضرور ہو گا.حمل موجودہ سے خاص تھا جس سے لڑکی ہوئی.مَیں نے ہر ایک مجلس اور ہر ایک تحریر و تقریر میں انہیں جواب دیا کہ یہ حجت تمہاری فضول ہے کیونکہ کسی الہام کے وہ معنے ٹھیک ہوتے ہیں کہ ملہم آپ بیان کرے.اور ملہم کے بیان کردہ معنوں پر کسی اور کی تشریح اور تفسیر ہرگز فوقیت نہیں رکھتی کیونکہ ملہم اپنے الہام سے اندرونی واقفیت رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ سے خاص طاقت پا کر اس کے معنے کرتا ہے.پس جس حالت میں لڑکی پیدا ہونے سے کئی دن پہلے عام طور پر کئی سو اشتہار چھپوا کر میں نے شائع کر دیئے اور بڑے بڑے آریوں کی خدمت میں بھی بھیج دیئے.تو الہامی عبارت کے وہ معنے قبول نہ کرنا جو خود ایک خفی الہام نے میرے پر ظاہر کئے اور پیش از ظہور مخالفین تک پہنچا دیئے گئے کیا ہٹ دھرمی ہے یا نہیں.کیا ملہم کااپنے الہام کے معانی بیان کرنا یا مُصنّف کا اپنی تصنیف کے کسی عقیدہ کو ظاہر کرنا تمام دوسرے لوگوں کے بیانات سے عند العقل زیادہ معتبر نہیں ہے.بلکہ خود سوچ لینا چاہیے کہ مصنّف جو کچھ پیش از وقوع کوئی امر غیب بیان کرتا ہے اور صاف طور پر ایک بات کی نسبت دعویٰ کر لیتا ہے تو وہ اپنے الہام اور اس تشریح کا آپ ذمہ وار ہوتا ہے اور اس کی باتوں میں دخل بے جا دیناایسا ہے جیسے کوئی کسی مصنّف کو کہے کہ تیری تصنیف کے یہ معنے نہیں بلکہ یہ ہیں جو مَیں نے سوچے ہیں.اب ہم اصل اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء ناظرین کے ملاحظہ کے لیے ذیل میں لکھتے ہیں۱؎ تا ان کو اطلاع ہو کہ ہم نے پیش از وقوع اپنی پیشگوئی کی نسبت کیا دعویٰ کیا تھا اور پھر وہ کیسا اپنے وقت پر پورا ہوا.المشـــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار غلام احمد.از قادیان ضلع گورداسپور ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء مؤلّف وکٹوریہ پریس لاہور یکّی دروازہ (یہ اشتہار کے دو صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۹۹ تا ۱۰۱) ۱؎ مذکورہ اشتہار زیر عنوان ’’اشتہار صداقت آثار‘‘ جلد ھٰذا صفحہ۱۳۲،۱۳۳ پر زیر نمبر۳۵ درج ہو چکا ہے

Page 181

 اعلان قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے قادیان کے آریوں کا دھرم پرکھنے کے لیے اگر کسی کو زیادہ فرصت نہ ہو تو ہمارے اسی اشتہار کے ذریعہ سے ساری کیفیت اُن کی معلوم ہو سکتی ہے کہ کہاں تک وہ ایسی سچائی کے قبول کرنے کے لیے مستعد ہیں جس کا اقرار کرنے سے وہ کسی طرح بھاگ نہیں سکتے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جس سال اس عاجز نے قادیان کے ہندوئوں کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ ۱؎ کر کے بعض الہامی پیشین گوئیوں کے بتلانے کا وعدہ کیا تھا.انہیں دنوں میں یہ پیشگوئی جو اس اشتہار کے اخیر میں درج ہے بخوبی ان کو سُنا کر اور قلمبند کر کے ان میں سے چار آدمیوں کے دستخط اس پر کرا دیئے تھے اور پیشگوئی کے ظہور کی میعاد اکتیس ماہ تک تھی.اب جو فروری ۱۸۸۸ء کا مہینہ آیا جو حساب کی رو سے اکتیسواں مہینہ تھا تو ان بھلے مانسوں کے زہرناک تعصّب نے انہیں اس قدر صبر کرنے نہ دیا کہ مہینہ کے اخیر تک انتظار کرتے بلکہ ابھی وہ آخری مہینہ چڑھا ہی تھا کہ انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی غلط نکلی.یعنی اب کیا ہے.صرف چند روز باقی ہیں، لیکن اس قادر کی قدرت دیکھئے کہ کیسے اخیر پر اس نے ان کو اُلٹا کر مارا.اور کیسے ذلیل اور رُسوا کیا کہ ابھی پندرہ دن اکتیسویں مہینے کے پورے ۱؎ یہ معاہدہ جلد ہذا کے صفحہ۱۱۹ ،۱۲۰پر درج ہے.(مرتب)

Page 182

ہونے میں باقی تھے کہ پیشگوئی پوری ہو گئی.افسو س یہ دل کے اندھے نہیں دیکھتے کہ ہر ایک پیشگوئی ہماری خدا تعالیٰ کیسی پوری کرتا جاتا ہے.سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی کچھ پروا ہی نہیں.اب جاننا چاہیے کہ وہ پیشگوئی جس کی اکتیس ماہ کی میعاد اور جس پر ہندوئوں کی گواہیاں ثبت کرائی گئی تھیں.وہ ہمارے ’’چچازاد بھائی مرزا امام الدین و نظام الدین کے اہل و عیال کی نسبت تھی اور خدا تعالیٰ نے بذریعہ اپنے الہام کے اس عاجزپر یہ ظاہر کیا تھا کہ مرزا امام الدین و نظام الدین کے عیال میں سے اکتیسویں ماہ کے پورے ہونے تک کوئی شخص فوت ہو جائے گا.چنانچہ عین اکتیسویں مہینہ کے درمیان مرزا نظام الدین کی دُختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمرسال (پچیس سال) ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہو گئی اور آریوں کا شور و غوغا وہیں سرد ہو گیا.یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں کہ وہ ہمیشہ سچ کی حمایت کرتا ہے اور صادق کی پناہ ہوتا ہے.اب ہم اس جگہ الہامی پیشگوئی کی وہ عبارت لکھ دیتے ہیں جس پر قادیان کے ہندوئوں کے دستخط ہیں اور وہ یہ ہے:.مرزا امام الدین و نظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے کہ اکتیس ماہ تک ان پر ایک سخت مصیبت پڑے گی ان کی اہل و عیال و اولاد میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہو جائے گا جس سے ان کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا.آج ہی کی تاریخ کے حساب سے جو تیئس ساون ۱۹۴۲ مطابق ۵؍اگست ۱۸۸۵ء ہے.یہ واقعہ ظہور میں آئے گا.مرقوم ۵؍ اگست ۱۸۸۵ء گواہ شد پنڈت بھارا مل ساکن قادیان بقلم خود گواہ شد پنڈت بیجناتھ بقلم خود گواہ شد بشنداس برہمن بقلم خود گواہ شد بشنداس کھتری بقلم خود بالآخر ہم امرت سر اور لاہور کے نامی آریہ صاحبوں کی خدمت میں التماس کرتے ہیں کہ

Page 183

ان بھلے مانسوں سے دریافت تو کریں کہ ہمارا یہ بیان سچ ہے یا نہیں؟ اور اگر سچ ہے تو پھر اسلام کی سچائی اور برکت سے انکار کرنا ہٹ دھرمی میں داخل ہے یا یہ بھی وید کی ہدایت کے رو سے دھرم کی ہی بات ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المعــــــــــــــــــــــــــــلن خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور.۲۰؍ مارچ ۱۸۸۸ء (مطبوعہ ریاض ہند امرتسر پنجاب)( یہ اشتہار تقطیع کلاں کے ایک صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۱۰۱ تا ۱۰۳)

Page 184

 ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اعلان ۱؎ ۱۸؍ مئی ۸۸ء روز جمعہ میں ایک صاحب فتح مسیح نام عیسائی واعظ نے بمقام بٹالہ اس عاجز کے مکان نشست گاہ پر آ کر عام جلسہ میں جس میںپچاس سے کچھ زیادہ آدمی مسلمان اور ہندو بھی تھے مجھ سے مخاطب ہو کر یہ دعویٰ کیاکہ جیسے آپ اس بات کی مدعی ہیں کہ میری اکثر دعائیں جناب الٰہی میں بپایۂ قبولیت پہنچ کر ان کی قبولیت سے پیش از وقوع مجھ کو اللہ جَلَّ شَاْنُہٗ بذریعہ اپنے الہام خاص کے اطلاع دے دیتا ہے اور غیب کی باتوں پر مجھے مطلع کر تا ہے یہی مرتبہ ملہم ہونے کا مجھ کو بھی حاصل ہے اور خدائے تعالیٰ مجھ سے بھی ہمکلام ہو کر اور میری دعائیں قبول کر کے پیش از ظہور مجھ کو اطلاع دے دیتا ہے.اس لیے میں آپ سے آپ کی پیشگوئیوں میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں.جس قدر اور جس طور کی پیشگوئیاں عام جلسہ میں آپ تحریر کر کے پیش کریں گے.اسی قسم کی پیشگوئیاں اپنی طرف سے میں بھی پیش کروں گا اورفریقین کی پیشگوئیاں اخبار نور افشاں میں چھپوا دوں گا.چنانچہ میاں فتح مسیح نے یہ دعویٰ کر کے بالمقابل پیشگوئیوں کے پیش کرنے کے لیے ۲۱؍ مئی ۸۸ء روز دو شنبہ د ن مقرر کیا اور وعدہ کیا کہ تاریخ اور روز مقررہ پر ضرور حاضر ہو کر بمقابل تمہارے یعنی ۱؎ یہ اعلان ضمیمہ اخبار ریاض ہند مطبوعہ ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کے صفحہ۱۵، ۱۶ پر ہے.(مرتب)

Page 185

اس عاجز کے الہامی پیشگوئیاں پیش کرونگا.اب چونکہ ہم یقینا جانتے ہیں کہ عیسائی کلیسیا برکت اور قبولیت اور ایمانداری کے پھلوں سے بالکل خالی ہے.اور سارا گزارہ لاف و گزاف اور یاوہ گوئی پر ہے.اور تمام برکتیں اسلام سے ہی خاص ہیں اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس لاف و گزاف کی اصلیّت ظاہر کرنے کے لیے اور نیز یہ بات پبلک کو دکھانے کے لیے کہ کہاں تک عیسائیوں میں دردغ گوئی اور بے باکی نے رواج پکڑ لیا ہے، اس بالمقابل کرامت نمائی کے لئے اجازت دی جائے.؎ تا سیہ رُوئے شود ہر کہ دروغش باشد سو آج ہماری طرف سے بھی اس قسم کا مناظرہ قبول ہو کر عام اطلاع کے لیے یہ اعلان جاری کیا جاتا ہے کہ ۲۱؍ مئی ۱۸۸۸ء کو پیر کے روز میاں فتح مسیح عیسائی روح القدوس کا فیض دکھلانے اور الہامی پیشگوئیاں بالمقابل بتلانے کے لیے ہمارے مکان پر جو نبی بخش ذیلدار کا طویلہ ہے آئیں گے.جیسا کہ انہوں نے قریباً پچاس آدمی کے رُوبرو یہ وعدہ کر لیا ہے.پہلے ہم الہامی پیشگوئیاں بقید تاریخ پیش کریں گے اور پھر اُس کے مقابل پر ان کے ذمہ ہو گا کہ ایسی ہی الہامی پیشگوئیاں وہ بھی پیش کریں.پس جو صاحب اس جلسہ کودیکھنا چاہتے ہوں انہیں اختیار ہے کہ دس بجے تک بروز پیر ہمارے مکان پر بٹالہ میں حاضر ہو جاویں.پھر اگر میاں فتح مسیح برطبق اپنے وعدہ کے پیر کے دن آ موجود ہوئے ہوں اور روح القدس کی الہامی طاقت جو اٹھارہ سو برس سے عیسائی جماعت سے بو جہ گمراہی ان کی کے گم ہو چکی ہے تازہ طور پر دکھلائیں اور اُن پیشگوئیوں کی سچائی اپنے وقت میں ظہور میں آ جائے تو بلا شبہ عیسائیوں کو اپنے مذہب کی صداقت پر ایک حجت ہو گی کیونکہ ایسے عظیم الشان میدان مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے ان کی حمایت کی اور مسلمانوں کی نہ کی.اور ان کو فتح دی اور مسلمانوں کو نہ دی، لیکن اگر ہماری پیشگوئیاں سچی نکلیں اور اس میدان میں دشمن کو شکست اور ہم کو فتح ہوئی تو اس سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ خدا مسلمانوں کے ساتھ ہے.اور اگر میاں فتح مسیح تاریخ مقرر پر نہ آئے اور اس

Page 186

مقابلہ سے ڈر کر بھاگ گئے تو جو کاذبوں کی نسبت کہا جاتا ہے.ان سب الفاظ کے وہ مستحق ٹھہر یں گے اور تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے والے عیسائی چلن سے اچھی طرح واقف ہو جائیں گے اور نیز گریز ان کی حقیقت فتح اسلام متصور ہو گی.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المعلــــــــــــــــــــــــــــــن خاکسار غلام احمد از بٹالہ.طویلہ نبی بخش ذیلدار ۱۸؍ مئی ۱۸۸۸ء بروز جمعہ (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر) (یہ اشتہارکے دو صفحوں پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۱۰۳ تا ۱۰۵)

Page 187

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ اکیس ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کے جلسہ مذہبی کی کیفیت اور پادری وایٹ بریخٹ صاحب پر اتمامِ حجت جن صاحبوں نے ہمارا اعلان مجریہ ۱۸؍ مئی ۱۸۸۸ء دیکھا ہے.انہیں معلوم ہو گا کہ فتح مسیح عیسائی واعظ نے دعویٰ کیا تھا کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے اور میں بھی پیش از وقوع الہامی پیشگوئیاں بالمقابل بتلا سکتا ہوں چنانچہ اس دعویٰ کے پرکھنے کے لیے ۲۱؍ مئی ۱۸۸۸ء بروز دو شنبہ اس عاجز کے مکان فرودگاہ پر ایک بھارا جلسہ ہوا اور بہت سے مسلمان اور ہندو معزز اور رئیس شہر کے رونق افروز جلسہ ہوئے اور سب کو اس بات کے دیکھنے کا شوق تھا کہ کونسی پیشگوئیاں بالمقابل پیش کی جاتی ہیں.آخر دس۱۰بجے کے بعد میاں فتح مسیح معہ چند دوسرے عیسائیوں کے جلسہ میں تشریف لائے اور بجائے اس کے کہ پیشگوئیاں پیش کرتے اور اور باتیں کہ جو سراسر واہیات اور خارج از مقصد تھیں شروع کر دیں.آخر حاضرین میں سے ایک معزز ہندو صاحب نے انہیں کہا کہ یہ جلسہ صرف بالمقابل پیشگوئیاں کے پیش کرنے کے لیے انعقاد پایا ہے.اور یہی آپ کا اقرار بھی ہے اور ایسے شوق سے سب لوگ اکٹھے ہوئے ہیں.سو اس وقت الہامی پیشگوئیاں پیش کرنی چاہییں.اس کے جواب میں میاں فتح مسیح نے

Page 188

کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میری طرف سے دعویٰ الہام نہیں ہے اور جو کچھ میرے مُنہ سے نکلا تھا میں نے یُوں ہی فریق ثانی کے دعوے کے مقابل پر ایک دعویٰ کر دیا تھا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اُن کا جھوٹا دعویٰ ہے.سو ایسا ہی میں نے بھی ایک دعویٰ کر دیا.اس پر بہت لوگوں نے انہیں ملزم کیا کہ یہ دروغ گوئی نیک چلنی کے برخلاف تم سے وقوع میں آئی.اگر تم فی الحقیقت ملہم نہیں تھے تو پھر خلاف واقعہ ملہم ہونے کا کیوں دعویٰ کیا.غرض حاضرین کی طرف سے میاں فتح مسیح کو اُس کی دروغ گوئی پر سخت عتاب ہو کر جلسہ برخواست ہوا.اور دیسی عیسائیوں کے چلن کا نمونہ عا م لوگوں پر کھل گیا اور ہمیں سخت افسوس ہوا کہ ایسے شخص کے ساتھ جس کو سچائی اور دیانت کی کچھ بھی پروا نہیں کیوں اپنا وقت عزیز ضائع کیا، اگر کوئی معزز درجہ کا یورپین عیسائی ہوتا تو البتہ ایسے فاش دروغ اور قابل ندامت جھوٹ سے پرہیز کرتا.اب اس اشتہار کے جاری کرنے سے یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی معزز یورپین عیسائی صاحب ملہم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں تو انہیں بصد رغبت ہماری طرف سے اجازت ہے کہ بمقام بٹالہ جہاں آخر رمضان تک انشاء اللہ ہم رہیں گے.کوئی جلسہ مقرر کر کے ہمارے مقابل پر اپنی الہامی پیشگوئیاں پیش کریں.بشرطیکہ فتح مسیح کی طرح اپنی دروغگوئی کا اقرار کر کے میدان مقابلہ سے بھاگنا نہ چاہیں اور نیز اس اشتہار میں پادری وائٹ بریخٹ صاحب کہ جو اس علاقہ کے ایک معزز یورپین پادری ہیں.ہمارے بالتخصیص مخاطب ہیں.اور ہم پادری صاحب کو یہ بھی اجازت دیتے ہیں کہ اگر وہ صاف طور پر جلسہ عام میں اقرار کر دیں کہ یہ الہامی طاقت عیسائی گروہ سے مسلوب ہے تو ہم اُن سے کوئی پیشگوئی بالمقابل طلب نہیں کریں گے بلکہ حسب درخواست ان کی ایک جلسہ مقرر کر کے فقط اپنی طرف سے ایسی الہامی پیشگوئیاں پیش از وقوع پیش کریں گے جن کی نسبت ان کو کسی طور کا شک و شبہ کرنے کی گنجائش نہیں ہو گی.اور اگر ہماری طرف سے اس جلسہ میں کوئی ایسی قطعی و یقینی پیشگوئی پیش نہ ہوئی کہ جو عام ہندوؤں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی نظر میں انسانی طاقتوں سے بالاتر متصور ہو تو ہم اُسی جلسہ میں دو سو روپیہ نقد پادری صاحب موصوف کو بطور ہر جانہ یا تاوان تکلیف دہی کے دے دیں گے.چاہیں تو وہ دو سو روپیہ کسی معزز ہندو صاحب کے پاس پہلے ہی جمع کرا کر اپنی تسلّی کرا لیں، لیکن اگر

Page 189

پادری صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ حقیقت میں یہ پیشگوئی انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے تو پھران پر واجب و لازم ہو گا کہ اس کا جھوٹ یا سچ پرکھنے کے لیے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور اخبار نور افشاں میں جو ان کی مذہبی اخبار ہے اس پیشگوئی کو درج کرا کر ساتھ اس کے اپنا اقرار بھی چھپوائیں کہ میں نے اس پیشگوئی کو من کل الوجوہ گو انسانی طاقتوں سے بالاتر( ہے) قبول کر لیا.اسی و جہ سے تسلیم کر لیا ہے کہ اگر یہ پیشگوئی سچی ہے تو بلاشبہ قبولیت اور محبوبیّتِ الٰہی کے چشمہ سے نکلی ہے نہ کسی اور گندے چشمہ سے جو اٹکل و اندازہ وغیرہ ہے اور اگر بالآخر اس پیشگوئی کا مضمون صحیح اور سچ نکلا تو میں بلا توقف مسلمان ہو جائوں گا.کیونکہ جو پیشگوئی محبوبیّت کے چشمہ سے نکلی ہے وہ اس دین کی سچائی کو ثابت کرنے والی ہے جس دین کی پیروی سے یہ مرتبہ محبوبیّت کا ملتا ہے اوریہ بھی ظاہر ہے کہ محبوبیّت کو نجات یافتہ ہونا ایک امر لازمی ہے.اور اگر پیشگوئی کا مضمون صحیح نہ نکلا یعنی بالآخر جھوٹی نکلے تو دو سو روپیہ جو جمع کر ایا گیا ہے پادری صاحب کو دیا جائے گا، لیکن اگر روز انعقاد جلسہ سے ایک ہفتہ تک پادری صاحب نے مضمون پیشگوئی کو معہ اپنے اقرار مشرف اسلام ہونے کے جس پر بیس پچیس معز ز مسلمانوں اور ہندوئوں کی گواہی ثبت ہو گی اخبار نورافشاں میں درج نہ کرایا یا پہلے ہی سے ایسے جلسہ میں آنے سے انکار کیا تو پبلک کو سمجھ لینا چاہیئے کہ پادری صاحبوں کو حق کی اطاعت منظور نہیں بلکہ صرف تنخواہ پانے کا حق اد ا کر رہے ہیں.اور یہ بھی واضح رہے کہ اگر پادری صاحب بعد وصول اس اشتہار کے پابندی ان شرائط کے اپنے نفس پر قبول کر لیں تو یہ کچھ ضرور نہیں کہ وہ ہمارے مکان پر ہی آویں بلکہ ہم خود ان کے مکان پر اس شرط سے جا سکتے ہیں کہ دو معزز عہدہ دار سرکاری بھی یعنی ایک تھانیدار اور ایک تحصیلدار اس جگہ حاضر ہوں جن کا اس جگہ پہلے بُلا لینا پادری صاحب کے ہی ذمہ ہو گا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.خاکسار غلام احمد از بٹالہ ۲۴؍ مئی ۱۸۸۸ء (یہ اشتہار  کے دو صفحوں پر ہے) (شمس الہند گورداسپور) (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۱۰۵ تا ۱۰۸)

Page 190

  اعلان پادری وائٹ بریخٹ صاحب پر اتمام حجت اور میاں فتح مسیح کی دروغ گوئی کی کیفیت ہم اپنے اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۸۸ء میں جو مطبع شمس الہند گورداسپور میں چھپا تھا.اس بات کو بتصریح بیان کر چکے ہیں کہ میاں فتح مسیح صاحب واعظ عیسائی نے ملہم ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر کے پھر ۲۱؍ مئی ۱۸۸۸ء کے جلسہ میں تمام حاضرین کے رو برو جن میں معزز ہندو اور بٹالہ کے آریہ بھی تھے اپنی دورغ گوئی کا صاف اقرار کر دیا اور بالمقابل الہامی پیشگوئیوں کے پیش کرنے سے بھاگ گیا مگر افسوس کہ اسی عیسائی صاحب نے ۳۱؍ مئی ۸۸ء کو نور افشاں میں اپنی دروغ گوئی کے چھپانے کے لیے ظاہر کیا ہے کہ میں نے الہام کا دعویٰ نہیں کیا تھا.مقام تعجب ہے کہ ان دیسی عیسائیوں کو جھوٹ بولنے سے ذرا بھی شرم نہیں آتی.بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ اگر آپ نے ملہم ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا تو پھر کیوں ۲۱؍ مئی ۸۸ء کے جلسہ میں رائے بشمبرداس صاحب رئیس بٹالہ اور بابو گوردت سنگھ صاحب مختار عدالت نے آپ کو ملامت کی کہ ایسا جھوٹ کیوں بولا اور کیوں ناحق لوگوں کو تکلیف دی.اور کیوں منشی محمد بخش صاحب مختار عدالت نے اُسی جلسہ میں شہادتاً بیان کیا کہ فتح مسیح انکار دعویٰ الہام میں بالکل جھوٹا ہے.اس نے میرے رو برو ایک مجمع کثیر میں اپنے ملہم ہونے کا دعویٰ کیا ہے.بھلا یہ بھی جانے دو.خود پادری وائٹ بریخٹ سے حلفاً دریافت کیا جائے کہ کیا ۱۸؍ مئی ۱۸۸۸ء میں

Page 191

فتح مسیح نے پادری صاحب کے نام یہ چٹھی نہیں لکھی تھی کہ مَیں نے بالمقابل الہامی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے.اب انصافاً سوچنا چاہیے کہ جس شخص کے مادہ میں اس قدر جھوٹ بھرا ہوا ہے کہ وہ اس منصب کے لائق ہے کہ عیسائی کلیسیا کی طرف سے دوسروں کے لیے واعظ ٹھہرے.پادری وائٹ بریخٹ صاحب اس شخص کی دروغ گوئی کو خوب جانتے ہیں اور حلفاً بیان کر سکتے ہیں.اسی و جہ سے ہم نے اپنے اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۸۸ ء میں صاف لکھ دیا کہ آیندہ ہم ایسے ایسے دروغ گویوں کو مخاطب بنانا نہیں چاہتے.ہاں اگر پادری وائٹ بریخٹ صاحب صاف طور پر جلسہ عام میں اقرار کر دیں کہ الہامی طاقت عیسائی گروہ سے مسلوب ہے اور پھر ہم سے کوئی الہامی پیشگوئی پیش از وقوع طلب کرنا چاہیں تو ہم بد یں شرط جلسہ عام میں پیش کریں گے کہ اگر ہماری پیشگوئی پیش کردہ بنظر حاضرین جلسہ صرف اٹکل اور اندازہ ہو، انسانی طاقتوں سے بالاتر نہ ہو یا بالآخر جھوٹی نکلے تو دو سو روپیہ ہرجانہ پادری صاحب کو دیا جائے گا ورنہ بصورت دیگر پادری صاحب کو مسلمان ہونا پڑے گا، لیکن پادری صاحب نے ایسے جلسہ میں آنا قبول نہ کیا.اور صاف گریز کر گئے اور کوہ شملہ پر چلے گئے.حالانکہ ہم انہیں کے لیے ایک ماہ تک برابر بٹالہ میں ٹھہرے.غرض انہوں نے تو ہمارے مقابل پر دم بھی نہ مارا.لیکن اُسے میاں فتح مسیح نے ۷؍ جون ۱۸۸۸ء کے اخبار نور افشاں میں چھپوا دیا ہے کہ اس طور پر تحقیق الہامات کے لیے جلسہ کر سکتے ہیں کہ ایک جلسہ منعقد ہو کر چار سوال بند کاغذ میں حاضرین جلسہ میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیں گے وہ ہمیں الہاماً بتلائے جائیں.اس کے جواب میں اوّل تو یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ جیسا کہ ہم اپنے اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۸۸ء میں لکھ چکے ہیں.فتح مسیح جس کی طینت میں دروغ ہی دروغ ہے.ہرگز مخاطب ہونے کے لائق نہیں.اور اس کو مخاطب بنانا اوراس کے مقابل پر جلسہ کرنا ہر ایک راست باز کے لیے عار و ننگ ہے.ہاں اگر پادری وائٹ بریخٹ صاحب ایسی درخواست کریں کہ جو نور افشاں ۷؍ جون ۱۸۸۸ء کے صفحہ ۷ میں درج ہے تو ہمیں بسر و چشم منظور ہے.ہمارے ساتھ وہ خدائے قادر و علیم ہے جس سے عیسائی لوگ ناواقف ہیں.وہ پوشیدہ بھیدوں کو جانتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے جو اس کے خالص بندے ہیں، لیکن لہو و لعب کے طور پر اپنا نام لینا پسند نہیں کرتا.پس اگر

Page 192

پادری وائٹ بریخٹ صاحب ایک عام جلسہ بٹالہ میں منعقد کر کے اس جلسہ میں حلفاً اقرار کریں کہ اگر مضمون کسی بند لفافہ کا جو میری طرف سے پیش ہو، دس ہفتہ تک مجھ کو بتلایا جاوے تو میں بلاتوقف دین مسیحی سے بیزار ہو کر مسلمان ہو جاؤں گا.اور اگر ایسا نہ کروں تو ہزار روپیہ جو پہلے سے کسی ثالث منظور کردہ کے پاس جمع کرا دوں گا بطور تاوان انجمن حمایت اسلام لاہور میں داخل کیا جاوے گا.اس تحریری اقرار کے پیش ہونے کے اور نیز نور افشاں میں چھپنے کے بعد اگر دس ہفتہ تک ہم نے لفافہ بند کا مضمون بتلا دیا تو اِیفاء شرط کا پادری صاحب پر لازم ہو گا.ورنہ اُن کے روپیہ کی ضبطی ہو گی اور اگر ہم نہ بتلا سکے تو ہم دعویٰ الہام سے دست بردار ہو جائیں گے اور نیز جو سزا زیادہ سے زیادہ ہمارے لیے تجویز ہو وہ بخوشی خاطر اُٹھا لیں گے.فقط المعـــــــــــــــــــــــــــــلن خاکسار غلام احمد قادیانی ۹؍ جون ۱۸۸۸ء ( یہ  پر دو صفحے کا ہے ) (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر) (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۱۰۸ تا ۱۱۱)

Page 193

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ یَا مُعِیْنُ بِرَحْمَتِکَ نَسْتَعِیْنُ ایک پیشگوئی پیش از وقوع کا اشتہار پیش گوئی کا جب انجام ہویدا ہو گا قدرت حق کا عجب ایک تماشا ہو گا جھوٹ اور سچ میں جو ہے فرق وہ پیدا ہو گا کوئی پا جائے گا عزّت کوئی رسوا ہو گا اخبار نُور افشاں دس۱۰ مئی ۱۸۸۸ء میں جو اس راقم کا ایک خط متضمن درخواست نکاح چھاپا گیا ہے اس خط کو صاحب اخبار نے اپنے پرچہ میں درج کر کے عجیب طرح کی زبان درازی کی ہے اور ایک صفحہ اخبار کا سخت گوئی اور دشنام دہی میں ہی سیاہ کیا ہے.یہ کیسی بے انصافی ہے کہ جن لوگوںکے مقدس اور پاک نبیوں نے سینکڑوں بیویاں ایک ہی وقت میں رکھی ہیں وہ دو یا تین بیویاں کا جمع کرنا ایک کبیرہ گناہ سمجھتے ہیں.بلکہ اس فعل کو زنا اور حرامکاری خیال کرتے ہیں.کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکتا بلکہ کسی نہ کسی جزو سلسلہ میںیہ دِقت آ پڑتی ہے کہ ایک جورو عقیمہ اور ناقابل اولاد نکلتی ہے.اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ در اصل بنی آدم کی نسل ازدواج مکرر سے ہی قائم و دائم چلی آتی ہے.اگر ایک سے زیادہ بیوی کرنا منع ہوتا تو اب تک نوع انسان قریب قریب خاتمہ کے پہنچ جاتی.تحقیق سے ظاہر ہو گا.اس مبارک اور مفید طریق نے انسان کی نسل کی کہاں تک حفاظت کی ہے اور کیسے اس نے اُجڑے ہوئے گھروں کو بیک دفعہ آباد کر دیا ہے.اور انسان کے

Page 194

تقویٰ کے لیے یہ فعل کیا زبردست ممد و معین ہے.خاوندوں کی حاجت براری کے بارے میں جو عورتوں کی فطرت میں ایک نقصان پایا جاتا ہے.جیسے ایّامِ حمل اور حیض نفاس میں، یہ طریق بابرکت تدارک اس نقصان کا کرتا ہے.اورجس حق کا مطالبہ مرد اپنی فطرت کی رُو سے کر سکتا ہے وہ اُسے بخشتا ہے.ایسا ہی مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے.مثلاً اگر مرد کی ایک بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بد شکل ہو جائے تو عورت مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار مرد اور عورت کی کارروائی کا ہے.بیکار اور معطّل ہو جاتی ہے، لیکن اگر مرد بدشکل ہو.تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کارروائی کی کَل مرد کو دی گئی ہے اور عورت کی تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے.ہاں اگر مرد اپنی قوت مردی میں قصور یا عجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کے رُو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے اور اگر پوری پوری تسلّی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کر سکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے کیونکہ مرد کی ہر روزہ حاجتوں کی ذمہ وار اور کار برار نہیں ہو سکتی اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کے لیے قائم رہتا ہے.جو لوگ قوی الطاقت اور متقی اور پارسا طبع ہیں ان کے لیے یہ طریق نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے.بعض اسلام کے مخالف اپنے نفسِ امّارہ کی پیروی سے سب کچھ کرتے ہیں، مگر اس پاک طریق سے سخت نفرت رکھتے ہیں کیونکہ بوجہ اندرونی بے قیدی کے جو اُن میں پھیل رہی ہے ان کو اس پاک طریق کی کچھ پروا اور حاجت نہیں.اس مقام میں عیسائیوں پر سب سے بڑھ کر افسوس ہے کیونکہ وہ اپنے مسلم الثبوت انبیاء کے حالات سے آنکھ بند کر کے مسلمانوں پر ناحق دانت پیسے جاتے ہیں.شرم کی بات ہے کہ جن لوگوں کا اقرار ہے کہ حضرت مسیحؑ کے جسم اور وجود کا خمیر اور اصل جڑ اپنی ماں کی جہت سے وہی کثرت ازدواج ہے.جس کی حضرت دائود (مسیح کے باپ) نے نہ دو نہ تین بلکہ سو بیوی تک نوبت پہنچائی تھی.وہ بھی ایک سے زیادہ بیوی کرنا زنا کرنے کی مانند سمجھتے ہیں.اور اس پُر خبث کلمہ کا نتیجہ جو حضرت مریم صدیقہ کی طرف عائد ہوتا ہے اس سے ذرا پرہیز نہیں کرتے.اور باوجود اس تمام بے ادبی کے دعویٰ محبت مسیح رکھتے ہیں.جاننا چاہیے کہ بیبل کے رُو سے تعدّد نکاح نہ صرف قولاً ثابت ہے بلکہ بنی اسرائیل کے اکثر نبیوں نے جن میں حضرت مسیح

Page 195

کے دادا صاحب بھی شامل ہیں، عملاً اس فعل کے جواز بلکہ استحباب پر مہر لگا دی ہے.اے ناخدا ترس عیسائیو! اگر ملہم کے لیے ایک ہی جورو ہونا ضروری ہے تو پھر کیا تم دائود جیسے را ستباز نبی کو نبی اللہ نہیں مانو گے یا سلیمان جیسے مقبول الٰہی کو ملہم ہونے سے خارج کر دو گے؟ کیا بقول تمہارے یہ دائمی فعل ان انبیاء کا جن کے دلوں پر گویا ہر دم الہام الٰہی کی تار لگی ہوئی تھی اور ہر آن خوشنودی یا نا خوشنودی کی تفصیل کے بارے میں احکام وارد ہو رہے تھے ایک دائمی گناہ نہیں ہے جس سے وہ اخیر عمر تک باز نہ آئے اور خدا اور اس کے حکموں کی کچھ پرواہ نہ کی.وہ غیرت مند اور نہایت درجہ کا غیور خدا جس نے نافرمانی کی و جہ سے ثمود اور عاد کو ہلاک کیا.لوط کی قوم پر پتھر برسائے.فرعون کو معہ اس کی تمام شریر جماعت کے ہولناک طوفان میں غرق کر دیا.کیا اس کی شان اور غیرت کے لائق ہے کہ اس نے ابراہیم اور یعقوب اور موسیٰ اور دائود اور سلیمان اور دوسرے کئی انبیاء کو بہت سی بیویوں کے کرنے کی وجہ سے تمام عمر نافرمان پا کر اور پکے سرکش دیکھ کر پھر ان پر عذاب نازل نہ کیا بلکہ انہیں سے زیادہ تر دوستی اور محبت کی؟ کیا آپ کے خدا کو الہام اُتارنے کے لیے کوئی آدمی نہیں ملتا تھا یا بہت سی جورواں کرنے والے ہی اُس کو پسند آ گئے ۱؎ ؟ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نبیوں اور تمام برگزیدوں نے بہت سی جورواں کر کے اور پھر رُوحانی طاقتوں اور قبولیتوں میں سب سے سبقت لے جا کر تمام دنیا پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ دوستِ الٰہی بننے کے لیے یہ راہ نہیں کہ انسان دنیا میں مخنثوں اور نامردوں کی طرح رہے.بلکہ ایمان میں قوی الطاقت وہ ہے کہ جو بیویوں اور بچوں کا سب سے بڑھ کر بوجھ اُٹھا کر پھر باوجود ان سب تعلقات کے بے تعلق ہو خدائے تعالیٰ کا بندہ سے محب اور محبوب ہونے کا جوڑ ہونا ایک تیسری چیزکے وجود کو چاہتاہے.وہ کیا ہے؟ ایمانی روح جو مومن میں پیدا ہو کر نئے حواس اس کو بخشتی ہے.اُسی روح کے ذریعہ سے خدائے تعالیٰ کاکلا م مومن سنتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے سچی اور دائمی پاکیزگی حاصل کرتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے نئی زندگی کی خارق عادت طاقتیں اس میں پیدا ہوتی ہیں.اب ہم ۱؎ انجیل کے بعض اشارات سے پایا جاتا کہ حضرت مسیح بھی جورو کرنے کے فکر میں تھے مگر تھوڑی سی عمر میں اُٹھائے گئے ورنہ یقین تھا کہ اپنے باپ داؤد کے نقش قدم پر چلتے.منہ

Page 196

پوچھتے ہیں کہ جو لوگ جوگی اور راہب اور سنیاسی کہلاتے ہیں یہ پاک رُوح اُن میں سے کس کو دی گئی ہے؟ کیا کسی پادری میں یہ پاک رُوح یا یوں کہو کہ رُوح القدس پائی جاتی ہے ؟ہم تمام دنیا کے پادریوں کو بُلاتے بُلاتے تھک بھی گئے.کسی نے آواز تک نہیں دی.نور افشاں میں بعض پادریوں نے چھپوایا تھا کہ ہم ایک جلسہ میں ایک لفافہ بند پیش کریں گے.اس کا مضمون الہام کے ذریعہ سے ہمیں بتلایا جائے، لیکن جب ہماری طرف سے مسلمان ہونے کی شرط سے یہ درخواست ۱؎ منظور ہوئی تو پھر پادریوں نے اس طرف رُخ بھی نہ کیا.پادری لوگ مدت سے الہام پر مُہر لگائے بیٹھے تھے.اب جب مُہر ٹوٹی اور فیض روح القدس مسلمانوں پر ثابت ہوا تو پادریوں کے اعتقاد کی قلعی کھل گئی.لہٰذا ضرور تھا کہ پادریوں کو ہمارے الہام سے دوہرا رنج ہوتا.ایک مُہر ٹوٹنے کا.دوسرے الہام کی نقل منگانے کا.سو نور افشاں کی سخت زبانی کا اصل موجب وہی رنج ہے جو ذبولے دق کی طرح لاعلاج ہے.اب یہ جاننا چاہیے کہ جس خط کو ۱۰؍ مئی ۱۸۸۸ء کے نورافشاں میں فریق مخالف نے چھپوایا ہے.وہ خط محض ربّانی اشارہ سے لکھا گیا تھا.ایک مدت دراز سے بعض سرگروہ اور قریبی رشتہ دار مکتوب الیہ کے جن کے حقیقی ہمشیرہ زادہ کی نسبت درخواست کی گئی تھی، نشان آسمانی کے طالب تھے اور طریقہ اسلام سے انحراف اور عناد رکھتے تھے اور اب بھی رکھتے ہیں.چنانچہ اگست ۵ ۱۸۸ ء میں جو چشمہ نور امرتسر میں ان کی طرف سے اشتہار چھپا تھا یہ درخواست ان کی اس اشتہار میں بھی مندرج ہے.ان کو نہ محض مجھ سے بلکہ خدا اور رسول سے بھی دشمنی ہے اور والدا س دُختر کا بباعث شدّت تعلق قرابت ان لوگوں کی رضا جوئی میں محو اور ان کے نقش قدم پر دل و جان سے فدا اور اپنے خیالات سے قاصر و عاجز بلکہ انہیں کا فرمانبردار ہو رہا ہے.اور اپنی لڑکیاں انہیں کی لڑکیاں خیال کرتا ہے اوروہ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور ہر باب میں اس کے مدار المہام اور بطور نفس ناطقہ کے اس کے لیے ہو رہے ہیں.تبھی تو نقارہ بجا کر اس کی لڑکی کے بارہ میں آپ ہی شہرت دے دی یہاں تک کہ عیسائیوں کے اخباروں کو اس قصّہ سے بھر دیا.آفریں بریں عقل و دانش.ماموں ہونے کا خوب ہی حق ادا کیا.ماموں ہوں تو ۱؎ دیکھو اشتہار نمبر۴۷ جلد ہذا (مرتب)

Page 197

غرض یہ لوگ جو مجھ کو میرے دعویٰ الہام میں مکّار اور دروغ گو خیال کرتے تھے.اور اسلام اور قرآن شریف پر طرح طرح کے اعتراض کرتے تھے اور مجھ سے کوئی نشانِ آسمانی مانگتے تھے.تو اِس و جہ سے کئی دفعہ ان کے لیے دعا بھی کی گئی تھی.سو وہ دعا قبول ہو کر خدا تعالیٰ نے یہ تقریب قائم کی کہ والد اس دختر کا ایک اپنے ضروری کام کے لیے ہماری طرف ملتجی ہوا تفصیل اس کی یہ ہے کہ نامبردہ کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچازاد بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی.غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبرہے.اس کی زمین ملکیت جس کا حق ہمیں پہنچتا ہے نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرا دی گئی تھی.اب حال کے بندوبست میں جو ضلع گورداسپورہ میں جاری ہے، نامبردہ یعنی ہمارے خط کے مکتوب الیہ نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ھبہ منتقل کرا دیں.چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا.چونکہ وہ ھبہ نامہ بجُز ہماری رضامندی کے بیکار تھا.اس لیے مکتوب الیہ نے بتمامتر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا تا ہم اس ھبہ پر راضی ہو کر اس ھبہ نامہ پر دستخط کر دیں اور قریب تھا کہ دستخط کر دیتے، لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے.جنابِ الٰہی میں استخارہ کر لینا چاہیے.سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا.پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصر ار سے استخارہ کیا گیا.وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آ پہنچا تھا.جس کو خدائے تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا.اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا، کہ اس شخص کی دُختر کلاں کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور اُن کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروّت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا.اوریہ نکاح تمہارے لیے موجبِ برکت اور ایک رحمت کا نشان ہو گا.اور ان تمام برکتوںاور رحمتوں سے حصہ پائو گے جو اشتہار ۲۰ فروری۱۸۸۸ء ۱؎ میں درج ہیں، لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام ۱؎ اصل اشتہار میں کاتب کی غلطی سے ۱۸۸۸ء لکھا گیا ہے جو دراصل ۱۸۸۶ء ہے.ہم نے نقل مطابق اصل کی ہے.(مرتب)

Page 198

نہایت ہی بُرا ہو گا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دُختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا ۱؎ اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے.پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لیے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہو اکہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے.کہ وہ مکتوب الیہ کی دُختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا اور بے دینوں کو مسلمان بناوے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلاوے گا.چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے.کَذَّبُوْا بِاٰ یَا تِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِئُ وْنَ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَ یَرُدُّھَا اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَا مَعَکَ.عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا.یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کر رہے تھے.سوخدا ئے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لیے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مدد گار ہو گا اور انجام کار اس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا.کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے.تیرا ربّ وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے.تو میرے ساتھ اور مَیں تیرے ساتھ ہوں اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی.یعنی گو اوّل میں احمق اور نادان لوگ بد باطنی اور بد ظنی کی راہ سے بد گوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں مونہہ پر لاتے ہیں، لیکن آخر خدائے تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے.اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہو گی.اس جگہ ایک اور اعتراض نُور افشاں کا رفع دفع کرنے کے لائق ہے.اور وہ یہ ہے کہ اگر یہ الہام خدائے تعالیٰ کی طرف سے تھا اور اس پر اعتماد کلّی تھا تو پھر پوشیدہ کیوں رکھا اور کیوں اپنے خط میں ۱؎ تین سال تک فوت ہونا روز نکاح کے حساب سے ہے، مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی اور حادثہ اس سے پہلے نہ آوے بلکہ مکاشفات کی رو سے مکتوب الیہ کا زمانہ حوادث جس کا انجام معلوم نہیں نزدیک پایا جاتا ہے.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.منہ

Page 199

حادثہ اس سے پوشیدہ رکھنے کے لیے تاکید کی.۱؎ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک خانگی معاملہ تھا اور جن کے لیے یہ نشان تھا ان کو تو پہنچا دیا گیا تھا اور یقین تھا کہ والد اس دُختر کا ایسی اشاعت سے رنجیدہ ہو گا.اس لیے ہم نے دل شکنی اور رنج دہی سے گریز کی، بلکہ یہ بھی نہ چاہا کہ در حالت ردّ و انکار وہ بھی اس امر کو شائع کریں اور گو ہم شائع کرنے کے لیے مامور تھے مگر ہم نے مصلحتاً دوسرے وقت کی انتظار کی یہاں تک کہ اس لڑکی کے ماموں مرزا نظام الدین نے جو مرزا امام الدین کا حقیقی بھائی ہے.شدّت غیظ وغضب میں آ کر اس مضمون کو آپ ہی شائع کر دیا.اور شائع بھی ایسا کیا کہ شاید ایک یا دو ہفتہ تک دس ہزار مرد و عورت تک ہماری درخواست نکاح اور ہمارے مضمون الہام سے بخوبی اطلاع یاب ہو گئے ہوں گے.اور پھر زبانی اشاعت پر اکتفا نہ کر کے اخباروں میں ہمارا خط چھپوایا اور بازاروں میں ان کے دکھلانے سے وہ خط جابجا پڑھا گیا.اور عورتوں اور بچوں تک اس خط کے مضمون کی منادی کی گئی.اب جب مرزا نظام الدین کی کوشش سے وہ خط ہمارا نور افشاں میں بھی چھپ گیا اور عیسائیوں نے اپنے مادہ کے موافق بے جا افترا کرنا شروع کیا.تو ہم پر فرض ہو گیا کہ اپنی قلم سے اصلیت کو ظاہر کریں.بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لیے ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا، اور نیز یہ پیشگوئی ایسی بھی نہیں کہ جو پہلے پہل اسی وقت میں ہم نے ظاہر کی ہے بلکہ مرزا امام الدین و نظام الدین اور اس جگہ کے تمام آریہ اور نیز لیکھرام پشاوری اور صدہا دوسرے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے کہ ہم نے اسی کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنی یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے والا ہے.اب منصف آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ پیشگوئی اس پیشگوئی کا ایک شعبہ تھی یا یوں کہو کہ یہ تفصیل اور وہ اجمال تھی اور اس میں تاریخ اور مدت ظاہر کی گئی.اور ۱؎ یہ الہام جو شرطی طور پر مکتوب الیہ کی موت فوت پر دلالت کرتا تھا.ہم کو بالطبع اس کی اشاعت سے کراہت تھی بلکہ ہمارا دل یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس سے مکتوب الیہ کو مطلع کریں مگر اُس کے کمال اصرار سے جو اس نے زبانی اور کئی انکساری خطوں کے بھیجنے سے ظاہر کیا ہم نے سراسر سچی خیر خواہی اور نیک نیتی سے اس پر یہ امر سربستہ ظاہر کر دیا.پھر اُس نے اور اس کے عزیز مرزا نظام الدین نے اس الہام کے مضمون کی آپ شہرت دی.منہ

Page 200

اس میں تاریخ اور مدت کا کچھ ذکر نہ تھا.اور اس میں شرائط کی تصریح کی گئی.اور وہ ابھی اجمالی حالت میں تھی.سمجھدار آدمی کے لیے یہ کافی ہے کہ پہلی پیشگوئی اس زمانہ کی ہے کہ جبکہ ہنوز وہ لڑکی نابالغ تھی اور جبکہ یہ پیشگوئی بھی اسی شخص کی نسبت ہے جس کی نسبت اب سے پانچ برس پہلے کی گئی تھی یعنی اس زمانہ میں جبکہ اس کی یہ لڑکی آٹھ یا نو برس کی تھی تو اس پر نفسانی افترا کا گمان کرنا اگر حماقت نہیں تو اَور کیا ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ پنجاب.۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء (اشتہار کے آٹھ صفحوں پر ہے) (مطبوعہ ریاض ہند امرت سر) (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۸۱ تا ۲۸۸)

Page 201

 تتِمّہ اشتہار دہم۱۰ جولائی ۱۸۸۸ء (۱) اشتہار مندرجہ عنوان کے صفحہ ۶ میں جو یہ الہام درج ہے فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ اس کی تفصیل مکرر توجہ سے یہ کھلی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے کنبے اور قوم میں سے ایسے تمام لوگوں پر کہ جو اپنی بے دینی اور بدعتوں کی حمایت کی و جہ سے پیشگوئی کے مزاحم ہونا چاہیں گے اپنے قہری نشان نازل کرے گا اور اُن سے لڑے گا اور انہیں انواع اقسام کے عذابوں میں مبتلا کر دے گا.اور وہ مصیبتیں اُ ن پر اُتارے گا جن کی ہنوز انہیں خبر نہیں.ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہو گا کہ جو اس عقوبت سے خالی رہے کیونکہ انہوں نے نہ کسی اور و جہ سے بلکہ بے دینی کی راہ سے مقابلہ کیا.(۲) ایک عرصہ سے یہ لوگ میرے کُنبے سے اور میرے اقارب ہیں کیا مرد اور کیا عورت مجھے میرے الہامی دعاوی میں مکّار اور دکاندار خیال کرتے ہیں اور بعض نشانوں کو دیکھ کر بھی قائل نہیں ہوتے۱؎ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ دین اسلام کی ایک ذرّہ محبت اُن میں باقی نہیں رہی.اور قرآنی ۱؎ حاشیہ.مرزا نظام الدین جو کنبے کے لوگوں سے نمبر اوّل کا مخالف ہے ۵؍ اگست ۱۸۸۵ء کو اس کی نسبت صاف پیشینگوئی کی گئی تھی کہ ۳۱ ماہ تک اُن کے اہل و عیال میں سے کوئی شخص بقضائے الٰہی فوت ہوجائے گا.یہ پیشگوئی عام طور پر شائع ہو گئی تھی یہاں تک کہ بعض قادیان کے آریوں کے اس پر دستخط بھی ہو گئے تھے لیکن جب یہ

Page 202

حکموں کو ایسا ہلکا سا سمجھ کر ٹال دیتے ہیں جیسا کوئی ایک تنکے کو اُٹھا کر پھینک دے.وہ اپنی بدعتوں اور رسموں اور ننگ وناموس کو خدا اور رسول کے فرمودہ سے ہزار درجہ بہتر سمجھتے ہیں.پس خدا تعالیٰ نے انہیں کی بھلائی کے لیے انہیں کے تقاضا سے، انہیں کی درخواست سے اس الہامی پیشگوئی کو جو اشتہار میں درج ہے، ظاہر فرمایا ہے تا وہ سمجھیں کہ وہ درحقیقت موجود ہے اور اس کے سوا سب کچھ ہیچ ہے.کاش وہ پہلے نشانوں کو کافی سمجھتے اور یقینا وہ ایک ساعت بھی مجھ پر بد گمانی نہ کر سکتے.اگر ان میں کچھ نُورِ ایمان اور کانشنس ہوتا ہمیں اس رشتہ ۱؎ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی.سب ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کر دیا تھا.اولاد بھی عطا کی اور ان میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ ہو گا.بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدت تک وعدہ دیا جس کا نام محمود احمد ہو گا.اور اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا.پس یہ رشتہ دار جس کی درخواست کی گئی ہے.محض بطور نشان کے ہے تا خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو اعجوبہ قدرت دکھلاوے.اگر وہ قبول کریں تو برکت اور رحمت کے نشان ان پر نازل کرے اور اُن بلائوں کو دفع کر دیوے جو نزدیک چلی آتی ہیں، لیکن اگر وہ ردّ کریں تو اُن پر قہری نشان نازل کر کے ان کو متنبّہ کرے.بقیہ حاشیہ.پیشگوئی کہ جو اشتہار ۲۰؍ مارچ ۱۸۸۸ء میں مفصل درج ہے پوری ہوئی تو نظام الدین کے دل پر اس کا ذرّہ بھی اثر نہ پڑا.اور نہ اس قادر مطلق کی طرف توبہ اور استغفار سے رجوع کیا جو گناہوں کو معاف کرتا اور مصیبتوں کو دُور کرتا اور عاجز بندوں پر رحم فرماتا ہے.منہ ۱؎ اُن کا اس رشتہ سے بشدت انکار بھی درحقیقت اسی اپنی رسم پرستی کی و جہ سے ہے کہ وہ اپنی کسی لڑکی کا اس کے کسی غیر حقیقی ماموں سے نکاح کرنا حرام قطعی سمجھتے ہیں اور اگر سمجھایا جائے تو بے دھڑک کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اسلام اور قرآن سے کچھ غرض واسطہ نہیں.سو خدا تعالیٰ نے نشان بھی انہیں ایسا دیا جس سے ان کے دین کے ساتھہی اصلاح ہو اور بدعت اور خلاف شرع رسم کی بیخ کنی ہو جائے تا آئندہ اس قوم کے لیے ایسے رشتوں کے بارے میں کچھ تنگی اور حرج نہ رہے.منہ

Page 203

برکت کا نشان یہ ہے کہ اس پیوند سے دین اُن کا درست ہو گا.اور دنیا ان کی من کل الوجوہ صلاحیت پذیر ہو جائے گی اور وہ بلائیں جو عنقریب اترنے والی ہیں نہیں اتریں گی اور قہر کا نشان وہی ہے جو اشتہار میں ذکر ہو چکا اور نیز وہ جو تتمہ ھٰذا میں درج ہے.۱؎ وَالسَّلَامُ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الْمُؤْمِنِیْنَ.خاکــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پانز دہم جولائی ۱۸۸۸ء ۲؎ (تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ ۱۱۸ تا ۱۲۰) ۱؎ قہری نشانوں میں سے کسی قدر اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں بھی درج ہے اور جنوری ۱۸۸۶ء میں بمقام ہوشیار پور ایک اور الہام عربی مرزا احمد بیگ کی نسبت ہوا تھا.جس کو ایک مجمع میں جس میں بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ و مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی موجود تھے سنایا گیا تھا جس کی عبارت یہ ہے.رَأَیْتُ ھٰذِہِالْمَرْأَۃَ وَ اَثَرُ الْبُکَآئِ عَلٰی وَجْھِھَا فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْأَۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآئَ عَلٰی عَقِبِکِ وَ الْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکِ.یَمُوْتُ وَ یَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ.منہ (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر) (یہ اشتہار کے دو صفحوں پر ہے) ۲؎ یہ اصل اشتہار مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر علیحدہ شائع ہوا تھا اور اس کی نقل آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۲۸۱ لغایت صفحہ ۲۸۸ (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۸۱ تا ۲۸۸)پر بھی درج ہے.(مرتب)

Page 204

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ السَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی حقّانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر واضح ہو کہ اس عاجزکے لڑکے بشیر احمد کی وفات سے جو ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء روز یکشنبہ میں پیدا ہوا تھا اور ۴؍ نومبر ۱۸۸۸ء کو اُسی روز یکشنبہ میں ہی اپنی عمر کے سولہویں مہینے میں بوقت نماز صبح اپنے معبودِ حقیقی کی طرف واپس بُلایا گیا عجیب طور کا شورو غوغا خام خیال لوگوں میں اٹھا اور رنگا رنگ کی باتیں خویشوں وغیرہ نے کیں اور طرح طرح کی نافہمی اور کج دلی کی رائیں ظاہر کی گئیں مخالفین مذہب جن کا شیوہ بات بات میں خیانت و افترا ہے انہوں نے اِس بچے کی وفات پر انواع اقسام کی افترا گھڑنی شروع کی.سو ہر چند ابتدا میں ہمارا ارادہ نہ تھا کہ اس پسر معصوم کی وفات پر کوئی اشتہار یا تقریر شائع کریں اور نہ شائع کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ کوئی ایسا امر درمیان نہ تھا کہ کسی فہیم آدمی کے ٹھوکر کھانے کا موجب ہو سکے لیکن جب یہ شورو غوغا انتہا کو پہنچ گیا اور کچے اور ابلہ مزاج مسلمانوں کے دلوں پر بھی اس کا مضر اثر پڑتا ہوا نظر آیا تو ہم نے محض لِلّٰہ یہ تقریر شائع کرنا مناسب سمجھا.اب ناظرین پر منکشف ہو کہ بعض مخالفین پسرِ متوفی کی وفات کا ذکر کر کے اپنے اشتہارات و اخبارات میں طنز سے لکھتے ہیں کہ یہ وہی بچہ ہے جس کی نسبت اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء و ۸ ؍اپریل ۱۸۸۶ء اور۷؍ اگست ۱۸۸۷ء

Page 205

میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.بعضوں نے اپنی طرف سے افترا۱؎ کر کے یہ بھی اپنے اشتہار میں لکھا کہ اِس بچہ کی نسبت یہ الہام بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ بادشاہوں کی بیٹیاں بیاہنے والا ہو گا لیکن ناظرین پر منکشف ہو کہ جن لوگوں نے یہ نکتہ چینی کی ہے اُنہوں نے بڑا دھوکا کھایا ہے یا دھوکا دینا چاہا ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ ماہِ اگست ۱۸۸۷ء تک جو پسرِ متوفی کی پیدائش کا مہینہ ہے جس قدر اس عاجز کی طرف سے اشتہار چھپے ہیں جن کا لیکھرام پشاوری نے و جہ ثبوت کے طور پر اپنے اشتہار میں حوالہ دیا ہے.اُن میں سے کوئی شخص ایک ایسا حرف بھی پیش نہیں کر سکتا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو کہ مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا تھا جو فوت ہو گیا ہے بلکہ ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء کا اشتہار اور نیز ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء کا اشتہار کہ جو ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء کی بنا پر اور اُس کے حوالہ سے بروز تولّد بشیر شائع کیا گیاتھا صاف بتلا رہا ہے کہ ہنوز الہامی طور پر یہ تصفیہ نہیں ہوا کہ آیا یہ لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یاکوئی اور ہے.تعجب کہ لیکھرام پشاوری نے جوشِ تعصّب میں آ کر اپنے اُس اشتہار میں جو اُس کی جبلّی خصلت بدگوئی و بدزبانی سے بھرا ہوا ۱؎ حاشیہ.یہ مفتری لیکھرام پشاوری ہے جس نے تینوں اشتہار مندرجہ متن اپنے اثبات دعویٰ کی غرض سے اپنے اشتہار میں پیش کی ہیں اور سراسر خیانتوں سے کام لیا ہے مثلًا وہ اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء کا ذکر کر کے اُس کی یہ عبارت اپنے اشتہار میں لکھتا ہے کہ اس عاجز پر اس قدر کُھل گیا کہ لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مُدّت حمل تک تجاوز نہیں کر سکتا لیکن اس عبارت کا اگلا فقرہ یعنی یہ فقرہ کہ یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اَب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا.اس فقرہ کو اُس نے عمداً نہیں لکھا کیونکہ یہ اُس کے مدّعا کو مضر تھا اور اس کے خیال فاسد کو جڑھ سے کاٹتا تھا.پھر دوسری خیانت یہ ہے کہ لیکھرام کے اس اشتہار سے پہلے ایک اور اشتہار آریوں کی طرف سے ہمارے تینوں اشتہارات مذکورہ بالا کے جواب میں مطبع چشمہ نور امرتسر میں شائع ہو چکا ہے اس میں انہوں نے صاف اقرار کیا ہے کہ ان تینوں اشتہارات کے دیکھنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لڑکا جو پیدا ہوا یہ وہی مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اَور ہے.اس اقرار کا لیکھرام نے کہیں ذکرنہیں کیا.اب ظاہر ہے کہ آریوں کا پہلا اشتہار لیکھرام کے اس اشتہار کی خود بیخ کنی کرتا ہے.دیکھو اُن کا وہ اشتہار جس کا عنوان حسب حال ان کے یہ ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَاکِرِیْنَ.منہ

Page 206

ہے اشتہارات مذکورہ کے حوالہ سے اعتراض تو کر دیا مگر ذراآنکھیں کھول کر اُن تینوں اشتہاروں کو پڑھ نہ لیا تا جلد بازی کی ندامت سے بچ جاتا.نہایت افسوس ہے کہ ایسے دروغ باف لوگوں کو آریوں کے وہ پنڈت کیوں دروغ گوئی سے منع نہیں کرتے جو بازاروں میں کھڑے ہو کر اپنا اصول یہ بتلاتے ہیں کہ جھوٹ کو چھوڑنا اور تیاگنا اور سچ کو ماننا اور قبول کرنا آریوں کا دھرم ہے.پس عجیب بات ہے کہ یہ دھرم قول کے ذریعہ سے تو ہمیشہ ظاہر کیا جاتا ہے مگر فعل کے وقت ایک مرتبہ بھی کام میں نہیں آتا.افسوس ہزار افسوس!! اب خلاصہ کلام یہ کہ ہر دو اشتہار ۸ ؍اپریل ۱۸۸۶ء اور ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء مذکورہ بالا اس ذکر و حکایت سے بالکل خاموش ہیں کہ لڑکا پیدا ہونے والا کیسا اورکِن صفات کا ہے.بلکہ یہ دونوں اشتہار صاف شہادت دیتے ہیں کہ ہنوز یہ امر الہام کی رُو سے غیر منفصل اور غیر مصرح ہے۱؎ ہاں یہ تعریفیں جو اُوپر گزر چکی ہیں ایک آنے والے لڑکے کی نسبت عام طور پر بغیر کسی تخصیص و تعیین کے اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں ضرور بیان کی گئی ہیں لیکن اُس اشتہار میں یہ تو کسی جگہ نہیں لکھا کہ جو ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء کو لڑکا پَیدا ہو گا وہی مصداق ان تعریفوں کا ہے بلکہ اِس اشتہار میں اُس لڑکے کے پیدا ہونے کی کوئی تاریخ مندرج نہیں کہ کب اور کس وقت ہو گا پس ایسا خیال کرناکہ ان اشتہارات میں مصداق ان تعریفوں کا اِسی پسر متوفی کو ٹھہرایا گیا تھا سراسر ہٹ دھرمی اور بے ایمانی ہے.یہ سب اشتہارات ہمارے پاس موجود ہیں اور اکثر ناظرین کے پاس موجود ہوں گے.مناسب ہے کہ ان کو ۱؎ حاشیہ.عبارت اشتہار ۸ ؍اپریل ۱۸۸۶ء یہ ہے کہ ’’ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مُدّتِ حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا جو اَب پَیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں ۹ برس کے عرصہ میں پَیدا ہو گا ‘‘.دیکھو اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء مطبع چشمہ فیض قادری بٹالہ.عبارت اشتہار ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء یہ ہے.’’اے ناظرین میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولّد کے لئے میںنے اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی کی تھی وہ ۱۶ ؍ذیقعدہ مطابق ۷؍ اگست میں پیدا ہو گیا.دیکھو اشتہار ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء مطبوعہ وکٹوریہ پریس لاہور.پس کیا اِن تینوں اشتہارات میں جو لیکھرام پشاوری نے جوش میں آ کر پیش کی ہیں بُو تک بھی اس بات کی پائی جاتی ہے کہ ہم نے کبھی پسرِمتوفّی کو مصلح موعود اور عمرپانے والا قرار دیا ہے.فَتَفَکَّرُوْا فَتَدَبَّرُوْا.

Page 207

غور سے پڑھیں اور پھر آپ ہی انصاف کریں.جب یہ لڑکا جو فوت ہو گیا ہے پَیدا ہواتھا تو اس کی پَیدائش کے بعد صدہا خطوط اطرافِ مختلفہ سے بدیں استفسار پہنچے تھے کہ کیا یہ وہی مصلح موعود ہے جس کے ذریعہ سے لوگ ہدایت پائیں گے تو سب کی طرف یہی جواب لکھا گیا تھا کہ اس بارے میں صفائی سے اب تک کوئی الہام نہیں ہوا.ہاں اجتہادی طور پر گمان کیا جاتا تھا کہ کیا تعجب کہ مصلح موعود یہی لڑکا ہو اور اس کی و جہ یہ تھی کہ اس پسرِ متوفی کی بہت سی ذاتی بزرگیاں الہامات میں بیان کی گئی تھیں جو اس کی پاکیزگی رُوح اور بلندی فطرت اور علوّ استعداد اور روشن جوہری اور سعادتِ جبلّی کے متعلق تھیں اور اس کی کاملیّت استعدادی سے علاقہ رکھتی تھیں.سو چونکہ وہ استعدادی بزرگیاں ایسی نہیں تھیں جن کے لئے بڑی عمر پانا ضروری ہوتا اسی باعث سے یقینی طور پر کسی الہام کی بنا پر اِس رائے کو ظاہر نہیں کیا گیاتھا کہ ضرور یہ لڑکا پختہ عمر تک پہنچے گا اور اسی خیال اورانتظار میں سراج منیر کے چھاپنے میں توقف کی گئی تھی تا جب اچھی طرح الہامی طور پر لڑکے کی حقیقت کھل جاوے تب اس کا مفصّل اور مبسوط حال لکھا جائے.سو تعجب اور نہایت تعجب کہ جس حالت میں ہم اب تک پسرِ متوفی کی نسبت الہامی طور پر کوئی قطعی رائے ظاہر کرنے سے بکلّی خاموش اور ساکت رہے اور ایک ذرا سا الہام بھی اس بارے میں شائع نہ کیا تو پھر ہمارے مخالفوں کے کانوں میں کس نے پھونک مار دی کہ ایسا اشتہار ہم نے شائع کردیا ہے.یہ بھی یاد رہے کہ اگر ہم اس خیال کی بنا پر کہ الہامی طور پر ذاتی بزرگیاں پسرِ متوفی کی ظاہر ہوئی ہیں اور اس کا نام مبشر اور بشیر اور نور اللہ، صیب اور چراغ دین وغیرہ اسماء مشتمل کاملیت ذاتی اورروشنی فطرت کے رکھے گئے ہیں کوئی مفصّل و مبسُوط اشتہار بھی شائع کرتے اور اس میں بحوالہ اُن ناموں کے اپنی یہ رائے لکھتے کہ شاید مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا ہو گا.تب بھی صاحبانِ بصیرت کی نظر میں یہ اجتہادی بیان ہمارا قابلِ اعتراض نہ ٹھہرتا کیونکہ ان کا منصفانہ خیال اور اُن کی عارفانہ نگاہ فی الفور انہیں سمجھا دیتی کہ یہ اجتہاد صرف چند ایسے ناموں کی صورت پر نظر کر کے کیا گیا ہے جو فِیْ حَدِّ ذَاتِہٖ

Page 208

صاف اور کھلے کھلے نہیں ہیں بلکہ ذوالوجوہ اور تاویل طلب ہیں سو اُن کی نظر میں اگر یہ ایک اجتہادی غلطی بھی متصور ہوتی تو وہ بھی ایک ادنیٰ درجہ کی اور نہایت کم وزن اور خفیف سی اُن کے خیال میں دکھائی دیتی کیونکہ ہر چند ایک غبی اور کور دل انسان کو خدا تعالیٰ کا وہ قانونِ قدرت سمجھانا بہت مشکل ہے جو قدیم سے اُس کے متشابہات وحی اور رؤیا اور کشوف اور الہامات کے متعلق ہے لیکن جو عارف اور بابصیرت آدمی ہیں وہ خود سمجھے ہوئے ہیں کہ پیش گوئیوں وغیرہ کے بارہ میں اگر کوئی اجتہادی غلطی بھی ہو جائے تو وہ محل نکتہ چینی نہیں ہو سکتی کیونکہ اکثر نبیوں اور اولوالعزم رسولوں کو بھی اپنے مجمل مکاشفات اور پیشگوئیوں کی تشخیص وتعیین میں ایسی ہلکی ہلکی غلطیاں پیش آتی رہی ہیں.۱؎ اور ان کے بیدار دِل اور ۱؎ حاشیہ.توریت کی بعض عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بعض اپنی پیشگوئیوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں اجتہادی طور پر غلطی کھائی تھی اور وہ اُمیدیں جو بہت جلد اور بلا توقف نجات یاب ہونے کے لئے بنی اسرائیل کو دی گئی تھیں وہ اس طرح پر ظہور پذیر نہیں ہوئی تھیں.چنانچہ بنی اسرائیل نے خلاف اُن اُمیدوں کے صورت حال دیکھ کر اور دل تنگ ہو کر ایک مرتبہ اپنی کم ظرفی کی و جہ سے جو اُن کی طینت میں تھی کہہ بھی دیا تھا کہ اے موسیٰ و ہارون جیسا تم نے ہم سے کیا خدا تم سے کرے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ دل تنگی اس کم ظرف قوم میں اسی وجہ سے ہوئی تھی کہ انہوں نے جو جلد مَخلصی پا جانے کا اپنے دلوں میں حسب پیرایۂ تقریر موسوی اعتقادکر لیا تھا اس طور پر معرض ظہور میں نہیں آیا تھا اور درمیان میں ایسی مشکلات پڑ گئیں تھیں جن کی پہلے سے بنی اسرائیل کو صفائی سے خبر نہیں دی گئی تھی اس کی یہی و جہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اُن درمیانی مشقتوں اور اُن کے طول کھینچنے کی ابتدا میں مصفّا اور صاف طور پر خبر نہیں ملی تھی لہٰذا اُن کے خیال کا مَیلان اجتہادی طور پر کسی قدر اس طرف ہو گیا تھا کہ فرعون بے عون کا آیاتِ بیّنات سے جلد تر قصّہ پاک کیا جائے گا.سو خدا تعالیٰ نے جیسا کہ قدیم سے تمام انبیاء سے اس کی سنّت جاری ہے پہلے ایام میں حضرت موسیٰ کو ابتلا میں ڈالنے کی غرض سے اور رُعب استغنا اُن پر وارد کرنے کے ارادہ سے بعض درمیانی مکارہ اُن سے مخفی رکھے کیونکہ اگر تمام آنے والی باتیں اور وارد ہونے والی صعوبتیں اور شدّتیں پہلے ہی ان کو کھول کر بتلائی جاتیں تو ان کا دل بکلّی قوی اور طمانیت یاب ہو جاتا.پس اس صورت میں اس ابتلاء کی ہیبت ان کے دل پر سے اٹھ جاتی جس کا وارد کرنا حضرت کلیم اللہ پر اور ان کے پیروؤں پر بمراد ترقی درجات و ثواب آخرت ارادئہ الٰہی میں قرار پا چکا تھا.ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام نے جو جو اُمیدیں اور بشارتیں اپنے حواریوں کو اس

Page 209

روشن ضمیر پیرو ہرگز اُن غلطیوں سے حیرت و سرگردانی میں نہیں پڑے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ غلطیاں نفسِ الہامات و مکاشفات میں نہیں ہیں بلکہ تاویل کرنے میں غلطی وقوع میں آ گئی ہے.اب ظاہر ہے کہ جس حالت میں اجتہادی غلطی علماء ظاہر و باطن کی اُن کی کسرِ شان کا موجب نہیں ہو سکتی اور ہم نے کوئی ایسی اجتہادی غلطی بھی نہیں کی جس کو ہم قطعی و یقینی طور پر کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع کرتے تو کیوں بشیر احمدکی وفات پر ہمارے کوتہ اندیش مخالفوں نے اس قدر زہر اُگلا ہے کیا اُن کے پاس اُن بقیہ حاشیہ.دنیوی زندگی اور کامیابی اور خوشحالی کے متعلق انجیل میں دی ہیں وہ بھی بظاہر نہایت سہل اور آسان طریقوں سے اور جلد تر حاصل ہونے والی معلوم دیتی تھیں.اور حضرت مسیح علیہ السلام کے مبشرانہ الفاظ سے جو ابتدا میں اُنہوںنے بیان کئے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اُسی زمانہ میں ایک زبردست بادشاہی ان کی قائم ہونے والی ہے.اسی حکمرانی کے خیال پر حواریوں نے ہتھیار بھی خرید لئے تھے کہ حکومت کے وقت کام آویں گے.ایسا ہی حضرت مسیح کا دوبارہ اترنا بھی جناب ممدوح نے خود اپنی زبان سے ایسے الفاظ سے بیان فرمایا تھا جس سے خود حواری بھی یہی سمجھتے تھے کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ فوت نہیں ہوں گے اور نہ حواری پیالہ اجل پئیں گے کہ جو حضرت مسیح پھر اپنی جلالت اور عظمت کے ساتھ دنیا میں تشریف لے آئیں گے اور معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خیال اور رائے اُسی پیرایہ کی طرف زیادہ جھکا ہوا تھا کہ جو انہوںنے حواریوں کے ذہن نشین کیا جو اصل میں صحیح نہیں تھا یعنی کسی قدر اس میں اجتہادی غلطی تھی اور عجیب تر یہ کہ بائیبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے چار سو نبی نے ایک بادشاہ کی فتح کی نسبت خبر دی اور وہ غلط نکلی یعنی بجائے فتح کے شکست ہوئی.دیکھو سلاطین اوّل باب ۲۲ آیت ۱۹ مگر اِس عاجز کی کسی پیشگوئی میں کوئی الہامی غلطی نہیں.الہام نے پیش از وقوع دو لڑکوں کا پیدا ہونا ظاہر کیا اور بیان کیا کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے دیکھو اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء و اشتہار ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء.سو مطابق پہلی پیشگوئی کے ایک لڑکا پیدا ہو گیا اور فوت بھی ہو گیا اور دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے.وہ اگرچہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا.زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.نادان اس کے الہامات پر ہنستا ہے اور احمق اس کی پاک بشارتوں پر ٹھٹھا کرتا ہے کیونکہ آخری دن اس کی نظر سے پوشیدہ ہے.اور انجام کار اس کی آنکھوں سے چھپا ہوا ہے.منہ

Page 210

تحریرات کا کوئی کافی و قانونی ثبوت بھی ہے یا ناحق بار بار اپنے نفسِ امّارہ کے جذبات لوگوں پر ظاہر کر رہے ہیں اور اس جگہ بعض نادان مسلمانوں کی حالت پر بھی تعجب ہے کہ وہ کس خیال پر وساوس کے دریا میں ڈوبے جاتے ہیں.کیا کوئی اشتہار ہمارا اُن کے پاس ہے کہ جو اُن کو یقین دلاتا ہے کہ ہم اس لڑکے کی نسبت الہامی طور پر قطع کر چکے تھے کہ یہی عمر پانے والا اور مصلح موعود ہے.اگر کوئی ایسا اشتہارہے تو کیوں پیش نہیں کیا جاتا.ہم اُن کو باور دلاتے ہیں کہ ایسا اشتہار ہم نے کوئی شائع نہیں کیا.ہاں خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم پر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا جو فوت ہو گیا ہے ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کا ہے اور دنیوی جذبات بکلّی اس کی فطرت سے مسلوب اور دین کی چمک اس میں بھری ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدیقی رُوح اپنے اندر رکھتا ہے اور اس کا نام بارانِ رحمت اور مبشر اور بشیر اور یَدُ اللّٰہِ بِجَلَالٍ وَجَمَالٍ وغیرہ اسماء بھی ہیں.سو جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اُس کی صفات ظاہر کیں یہ سب اُس کی صفائی استعداد کے متعلق ہیں جن کے لئے ظہور فی الخارج کوئی ضروری امر نہیں.اس عاجز کا مدلل اور معقول طور پر یہ دعویٰ ہے کہ جو بنی آدم کے بچّے طرح طرح کی قوّتیں لے کر اِس مسافر خانہ میں آتے ہیں خواہ وہ بڑی عمر تک پہنچ جائیں اور خواہ وہ خورد سالی میں ہی فوت ہو جائیں اپنی فطرتی استعدادات میں ضرور باہم متفاوت ہوتے ہیں اور صاف طور پر امتیاز بیّن ان کی قوّتوں اور خصلتوں اور شکلوں اور ذہنوں میں دکھائی دیتا ہے جیسا کہ کسی مدرسہ میں اکثر لوگوں نے بعض بچے ایسے دیکھے ہوں گے جو نہایت ذہین اور فہیم اور تیزطبع اور زود فہم ہیں اور علم کو ایسی جلدی سے حاصل کرتے ہیں کہ گویا جلدی سے ایک صف لپیٹتے جاتے ہیں لیکن اُن کی عمر وفا نہیں کرتی اور چھوٹی عمر میں ہی مَر جاتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ نہایت غبی اور بلید اور انسانیت کا بہت کم حصّہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور مُنہ سے رال ٹپکتی ہے اور وحشی سے ہوتے ہیں اور بہت سے بوڑھے اور پِیر فرتوت ہو کر مَرتے ہیں اور بباعث سخت نالیاقتی فطرت کے جیسے آئے ویسے ہی جاتے ہیں غرض ہمیشہ اس کا نمونہ ہر ایک شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ بعض بچے ایسے کامل الخِلقت ہوتے ہیں کہ صدیقوں کی پاکیزگی اور فلاسفروں کی دماغی طاقتیں اور عارفوں کی روشن

Page 211

ضمیریاپنی فطرت میں رکھتے ہیں اور ہونہار دکھائی دیتے ہیں مگر اس عالمِ بے ثبات پر رہنا نہیں پاتے اور کئی ایسے بچّے بھی لوگوں نے دیکھے ہوں گے کہ اُن کے لچھن اچھے نظر نہیں آتے اور فراست حکم کرتی ہے کہ اگر وہ عمر پاویں تو پرلے درجے کے بد ذات اور شریر اور جاہل اور ناحق شناس نکلیں.ابراہیم لختِ جگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم جو خورد سالی میں یعنی سولہویں مہینے میں فوت ہو گئے اس کی صفائی استعداد کی تعریفیں اور اس کی صدیقانہ فطرت کی صفت و ثنا احادیث کے رُو سے ثابت ہے ایسا ہی وہ بچہ جو خورد سالی میں حضرت خضر نے قتل کیا تھا اُس کی خباثت جبلّی کا حال قرآن شریف کے بیان سے ظاہر و باہر ہے کفار کے بچوں کی نسبت کہ جو خورد سالی میں مر جائیں جو کچھ تعلیم اسلام ہے وہ بھی درحقیقت اسی قاعدہ کی رو سے ہے کہ بوجہ اس کے کہ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِاَ بِیْہِ ان کی استعدادات ناقصہ ہیں غرض بلحاظ صفائی استعداد اور نورانیت اصل جوہر و مناسبت تامہ دینے کے پسر متوفی کے الہام میں وہ نام رکھے گئے تھے جو ابھی ذکر کئے گئے ہیں.اب اگر کوئی تحکم کی راہ سے کھینچ تان کر اُن ناموں کو عمردراز ہونے کے ساتھ وابستہ کرنا چاہے تو یہ اُس کی سراسر شرارت ہوگی جس کی نسبت کبھی ہم نے کوئی یقینی اور قطعی رائے ظاہر نہیں کیا.ہاں یہ سچ ہے اور بالکل سچ کہ ان فضائل ذاتیہ کے تصوّر کرنے سے شک کیا جاتا تھا کہ شاید یہی لڑکا مصلح موعود ہوگا.مگر وہ شکّی تقریر ہے جو کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع نہیں کی گئی ہندوئوں کی حالت پر سخت تعجب ہے کہ وہ باوصف اس کے کہ اپنے نجومیوں اور جوتشیوں کے منہ سے ہزارہا ایسی باتیں سنتے ہیں کہ بالآخر وہ سراسر پوچ اور لغو اور جھوٹ نکلتی ہیں اور پھر اُن پر اعتقاد رکھنے سے باز نہیں آتے اور عذر پیش کردیتے ہیں کہ حساب میںغلطی ہوگئی ہے ورنہ جوتش کے سچا ہونے میں کچھ کلام نہیں.پھر باوصف ایسے اعتقادات سخیفہ اور ردیہ کے الہامی پیشگوئیوں پر بغیر کسی صریح اور صاف غلطی پکڑنے کے متعصبانہ حملہ کرتے ہیں پھر ہندو لوگ اگر ایسی بے اصل باتیں منہ پر لاویں تو کچھ مضائقہ بھی نہیں کیونکہ وہ دشمن دین ہیں اور اسلام کے مقابل پر ہمیشہ سے اُن کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے یعنی جھوٹ و افترا لیکن نہایت تعجب میں ڈالنے والا واقعہ مسلمانوں کی حالت ہے کہ باوجود دعویٰ دینداری و پرہیزگاری اور باوجود عقائد اسلامیہ کے ایسے ہذیانات زبان پر لاتے ہیں اگر

Page 212

ہمارے ایسے اشتہارات ان کی نظر سے گزرے ہوتے جن میں ہم نے قیاسی طور پر پسر متوفی کو مصلح موعود اور عمر پانے والا قرار دیا ہوتا.تب بھی ان کی ایمانی سمجھ اور عرفانی واقفیت کا مقتضا یہ ہونا چاہیئے تھا کہ یہ ایک اجتہادی غلطی ہے کہ جو کبھی کبھی علماء ظاہر و باطن دونوں کو پیش آجاتی ہے یہاں تک کہ اولوالعزم رسول بھی اُس سے باہر نہیں ہیں مگر اس جگہ تو کوئی ایسا اشتہار بھی شائع نہیں ہوا تھا محض دریا ندیدہ موزہ از پاکشیدہ پر عمل کیا گیا اور یاد رہے کہ ہم نے یہ چند سطریں جو عام مسلمانوں کی نسبت لکھی ہیں محض سچی ہمدردی کے تقاضا سے تحریر کی گئی ہیں تا وہ اپنے بے بُنیاد وساوس سے باز آجائیں اور ایسا ردی اور فاسد اعتقاد دل میں پیدا نہ کرلیں جس کا کوئی اصل صحیح نہیں ہے بشیر احمد کی وفات پر اُنہیں وساوس اور اوہام میں پڑنا انہیں کی بے سمجھی و نادانی ظاہر کرنا ہے ورنہ کوئی محل آویزش و نُکتہ چینی نہیں ہے ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ ہم نے کوئی اشتہار نہیں دیا جس میں ہم نے قطع اور یقین ظاہر کیا ہو کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے اور گو ہم اجتہادی طور پر اس کی ظاہری علامات سے کسی قدر اس خیال کی طرف جھک بھی گئے تھے مگر اسی وجہ سے اِس خیال کی کھلے کھلے طور پر بذریعہ اشتہارات اشاعت نہیں کی گئی تھی کہ ہنوز یہ امر اجتہادی ہے اگر یہ اجتہاد صحیح نہ ہوا تو عوام الناس جو دقائق و معارف علم الٰہی سے محض بے خبر ہیں وہ دھوکا میں پڑ جائیں گے.مگر نہایت افسوس ہے کہ پھر بھی عوام کالانعام دھوکا کھانے سے باز نہیں آئے اور اپنی طرف سے حاشیئے چڑھا لئے انہیں اس بات کا ذرا بھی خیال نہیں کہ ان کے اعتراضات کی بنا صرف یہ وہم ہے کہ کیوں اجتہادی غلطی وقوع میں آئی.ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ اول تو کوئی ایسی اجتہادی غلطی ہم سے ظہور میں نہیں آئی جس پر ہم نے قطع اور یقین اور بھروسہ کرکے عام طور پر اس کو شائع کیا ہو پھر بطور تنزل ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگر کسی نبی یا ولی سے کسی پیش گوئی کی تشخیص و تعیین میں کوئی غلطی وقوع میں آجائے تو کیا ایسی غلطی اس کے مرتبہ نبوت یا ولایت کو کچھ کم کرسکتی ہے یا گھٹا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.یہ سب خیالات نادانی و ناواقفیت کی وجہ سے بصورت اعتراض پیدا ہوتے ہیں چونکہ اس زمانہ میں جہالت کا انتشار ہے اور علوم دینیہ سے سخت درجہ کی لوگوں کو لاپروائی ہے اس وجہ سے سیدھی باتبھی الٹی دکھائی دیتی ہے ورنہ یہ مسئلہ بالاتفاق مانا گیا اور قبول

Page 213

کیا گیا ہے کہ ہر یک نبی اور ولی سے اپنے ان مکاشفات اور پیشگوئیوں کی تشخیص و تعیین میں کہ جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے بخوبی تفہیم نہیں ہوئی غلطی واقع ہوسکتی ہے اور اِس غلطی سے اُن انبیاء اور اصفیا کی شان میں کچھ بھی فرق نہیں آتا کیونکہ علم وحی بھی منجملہ علوم کے ایک علم ہے اور جو قاعدہ فطرت اور قانون قدرت قُوّتِ نظریہ کے دخل دینے کے وقت تمام علوم و فنون کے متعلق ہے اُس قاعدہ سے یہ علم باہر نہیں رہ سکتا اور جن لوگوں کو انبیا اور اولیا میں سے یہ علم دیا گیا ہے اُن کو مجبوراً اس کے تمام عوارض و لوازم بھی لینے پڑتے ہیں.یعنی اُن پر وارد ہوتے ہیں جن میں سے ایک اجتہادی غلطی ہی ہے پس اگر اجتہادی غلطی قابل الزام ہے تو یہ الزام جمیع انبیاء و اولیاء و علماء میں مشترک ہے.یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ کسی اجتہادی غلطی سے ربّانی پیش گوئیوں کی شان و شوکت میں فرق آجاتا ہے یا وہ نوع انسان کے لئے چنداں مفید نہیں رہتیں یا وہ دین اور دینداروں کے گروہ کو نقصان پہنچاتی ہیں کیونکہ اجتہادی غلطی اگر ہو بھی تو محض درمیانی اوقات میں بطور ابتلاء کے وارد ہوتی ہے اور پھر اس قدر کثرت سے سچائی کے نور ظہور پذیر ہوتے ہیں اور تائیدات الٰہیہ اپنے جلوے دکھاتے ہیں کہ گویا ایک دن چڑھ جاتا ہے اور مخاصمین کے سب جھگڑے ان سے انفصال پاجاتے ہیں.لیکن اس روز روشن کے ظہور سے پہلے ضرور ہے کہ خدائے تعالیٰ کے فرستادوں پر سخت سخت آزمائشیں وارد ہوں اور ان کے پیرو اور تابعین بھی بخوبی جانچے اور آزمائے جائیں تا خدا تعالیٰ سچوں اور کچوں اور ثابت قدموں اور بزدلوں میں فرق کرکے دکھلا دیوے.عشق اوّل سرکش و خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود۱؎ ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلّت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کرکے اُن کو دکھاتا ہے یہ ابتلاء اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحۂ عالم سے ان کا نام و نشان مٹا دیوے کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزوجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور ۱؎ ترجمہ.شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے، تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے.

Page 214

اپنے سچے اور وفادار عاشقوں کو ذلّت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پُہنچاوے اور الٰہی معارف کے باریک دقیقے اُن کو سکھاوے.یہی سنت اللہ ہے.جو قدیم سے خدائے تعالیٰ اپنے پیاروں،بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے زبور میں حضرت دائود کی ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تضرّعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قُدرت کی تصریح کرتے ہیں ۱؎ اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء ان مدارج عالیہ کو ہرگز نہیں پا سکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے اُنہوں نے پالئے.ابتلاء نے اُن کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور کیسے سچّے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے اُن پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکّاروں اور بے عزّتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربّانی مددوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپالیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ ۱؎ حاشیہ.زبور میں حضرت داؤد علیہ السلام کی دعاؤں میں سے جو انہوں نے ابتلائی حالت میں کیں ایک یہ ہے.اے خدا تو مجھ کو بچالے کہ پانی میری جان تک پہنچے ہیں.میں گہری کیچ میں دھس چلا جہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں.مَیں چلاتے چلاتے تھک گیا، میری آنکھیں دھندلا گئیں.وہ جو بے سبب میرا کینہ رکھتے ہیں شمار میں میرے سر کے بالوں سے زیادہ ہیں.اے خداوند ربّ الافواج وہ جو تیرا انتظار کرتے ہیں میرے لیے شرمندہ نہ ہوں.وہ جو تجھ کو ڈھونڈتے ہیں وہ میر ے لیے ندامت نہ اٹھائیں.وے پھاٹک پر بیٹھے ہوئے میری بابت بکتے ہیں اور نشے باز میرے حق میں گاتے ہیں.تو میری ملامت کشی اور میر ی رسوائی اور میری بے حرمتی سے آگاہ ہے.میں نے تاکاکہ کیا کوئی میرا ہمدرد ہے کوئی نہیں.(دیکھو زبور۶۹)ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام نے ابتلاء کی رات میں جس قدر تضرعات کئے وہ انجیل سے ظاہر ہیں.تمام رات حضرت مسیح جاگتے رہے اور جیسے کسی کی جان ٹوٹتی ہے غم و اندوہ سے ایسی حالت ان پر

Page 215

Page 216

نہیں کرتا کہ اس کو نابود کردیوے بلکہ اِس غرض سے کرتا ہے کہ تا وہ پودا پھول اور پھل زیادہ لاوے اور اُس کے برگ و بار میں برکت ہو.پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاء کی تربیت باطنی اور تکمیل روحانی کے لئے ابتلاء کا ان پر وارد ہونا ضروریات سے ہے اور ابتلاء اس قوم کے لئے ایسا لازم حال ہے کہ گویا ان ربّانی سپاہیوں کی ایک روحانی وردی ہے جس سے یہ شناخت کئے جاتے ہیں.اور جس شخص کو اس سنت کے برخلاف کوئی کامیابی ہو وہ استدراج ہے نہ کامیابی.اور نیز یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نہایت درجہ کی بدقسمتی و ناسعادتی ہے کہ انسان جلدتر بدظنی کی طرف جھک جائے اور یہ اصول قرار دے دیوے کہ دنیا میں جس قدر خدائے تعالیٰ کی راہ کے مدّعی ہیں وہ سب مکاّر اور فریبی اور دوکاندار ہی ہیں کیونکہ ایسے ردی اعتقاد سے رفتہ رفتہ وجود ولایت میں شک پڑے گا اور پھر ولایت سے انکاری ہونے کے بعد نبوّت کے منصب میں کچھ کچھ تردّدات پیدا ہوجاویں گے اور پھر نبوت سے منکر ہونے کے پیچھے خدائے تعالیٰ کے وجود میں کچھ دغدغہ اور خلجان پیدا ہوکر یہ دھوکا دل میں شروع ہوجائے گا کہ شاید یہ ساری بات ہی بناوٹی اور بے اصل ہے اور شاید یہ سب اوہام باطلہ ہی ہیں کہ جو لوگوں کے دلوں میں جمتے ہوئے چلے آئے ہیں.سو اے سچائی کے ساتھ بجان و دل پیار کرنے والو! اوراے صداقت کے بھوکو اور پیاسو! یقینا سمجھو کہ ایمان کو اس آشوب خانہ سے سلامت لے جانے کے لئے ولایت اور اس کے لوازم کا یقین نہایت ضروریات سے ہے.ولایت نبوّت کے اعتقاد کی پناہ ہے اور نبوت اقرار وجود باری تعالیٰ کے لئے پناہ.پس اولیاء انبیاء کے وجود کے لئے سیخوں کی مانند ہیں اور انبیاء خدا تعالیٰ کا وجود قائم کرنے کے لئے نہایت مستحکم کیلوں کے مشابہ ہیں سو جس شخص کو کسی ولی کے وجود پر مشاہدہ کے طور پر معرفت حاصل نہیں اُس کی نظر نبی کی معرفت سے بھی قاصر ہے اور جس کو نبی کی کامل معرفت نہیں وہ خدا تعالیٰ کی کامل معرفت سے بھی بے بہرہ ہے اور ایک دن ضرور ٹھوکر کھائے گا اور سخت ٹھوکر کھائے گا اور مجرد دلائل عقلیہ اور علوم رسمیہ کسی کام نہیں آئیں گی.اب ہم فائدہ عام کے لئے یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتے ہیں کہ بشیر احمد کی موت ناگہانی طور پر نہیں ہوئی بلکہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے اُس کی وفات سے پہلے اس عاجز کو اپنے الہامات کے ذریعہ سے پوری پوری بصیرت بخش دی تھی کہ یہ لڑکا اپنا کام کرچکا

Page 217

۱؎ اور اب فوت ہوجاوے گا بلکہ جو الہامات اُس پسر متوفی کی پیدائش کے دن میں ہوئے تھے ان سے بھی اجمالی طور پر اُس کی وفات کی نسبت بو آتی تھی اور مترشح ہوتا تھا کہ وہ خلق اللہ کے لئے ایک ابتلاء عظیم کا موجب ہوگا جیسا کہ یہ الہام اِنَّا اَرْسَلْنَاہُ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَائِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ َبرْقٌ کُلُّ شَیْئٍ تَحْتَ قَدَمَیْہِ یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہد اور مبشر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے اور یہ اس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رَعد اور بَرق بھی ہو یہ سب چیزیں اس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں یعنی اُس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو اس کی موت سے مراد ہے ظہور میں آجائیں گی.سو تاریکیوں سے مراد آزمائش اور ابتلاء کی تاریکیاں تھیں جو لوگوں کو اس کی موت سے پیش آئیں اور ایسے سخت ابتلاء میںپڑگئے جو ظلمات کی طرح تھا اور آیت کریمہ ۲؎ کے مصداق ہوگئے اور الہامی عبارت میں جیسا کہ ظلمت کے بعد رَعد اور روشنی کا ذکر ہے یعنی جیسا کہ اس عبارت کی ترتیب بیانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پسر متوفی کے قدم اٹھانے کے بعد پہلی ظلمت آئے گی اور پھر رَعد ۱؎ حاشیہ.خدا تعالیٰ کی انزال رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کے لئے بڑے عظیم الشان دو طریقے ہیں.(۱) اوّل یہ کہ کوئی مصیبت اور غم و اندوہ نازل کر کے صبر کرنے والوں پر بخشش اور رحمت کے دروازے کھولے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے  (البقرۃ:۱۵۶تا۱۵۸)یعنی ہمارا یہی قانون قدرت ہے کہ ہم مومنوں پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈالا کرتے ہیں اور صبر کرنے والوں پر ہماری رحمت نازل ہوتی ہے اور کامیابی کی راہیں انہیں پر کھولی جاتی ہیں جو صبر کرتے ہیں.(۲) دوسرا طریق انزالِ رحمت کا ارسال مرسلین و نبیین و آئمہ و اولیاء و خلفاء ہے تا ان کی اقتداء و ہدایت سے لوگ راہ راست پر آجائیں اور ان کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا کر نجات پا جائیں.سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آجائیں، پس اوّل اس نے قسم اوّل کے انزال رحمت کے لئے بشیر کو بھیجا تا بَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ کا سامان مومنوں کے لئے طیار کرکے اپنی بشیریت کا مفہوم پورا کرے.سو وہ ہزاروں مومنوں کے لیے جو اس کی موت کے غم میں محض ِللہ شریک ہوئے بطور فرط کے ہوکر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کا شفیع ٹھہر ۲؎ البقرۃ:۲

Page 218

اور بَرق.اسی ترتیب کے رو سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا شروع ہوا یعنی پہلے بشیر کی موت کی وجہ سے ابتلا کی ظلمت وارد ہوئی اور پھر اس کے بعد رَعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے اور جس طرح ظلمت ظہور میں آگئی اسی طرح یقیناً جاننا چاہیئے کہ کسی دن و ہ رَعد اور روشنی بھی ظہور میں آجائے گی جس کا وعدہ دیا گیا ہے.جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹا دے گی اور جو جو اعتراضات غافلوں اور مردہ دلوں کے منہ سے نکلے ہیں اُن کو نابود اور ناپدید کردے گی یہ الہام جو ابھی ہم نے لکھا ہے ابتدا سے صدہا لوگوں کو بہ تفصیل سنا دیا گیا تھا چنانچہ منجملہ سامعین کے مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی بھی ہیں اور کئی اور جلیل القدر آدمی بھی.اب اگر ہمارے موافقین و مخالفین اسی الہام کے مضمون پر غور کریں اور دقتِ نظر سے دیکھیں تو یہی ظاہر کررہا ہے کہ اِس ظلمت کے آنے کا پہلے سے جناب الٰہی میں ارادہ ہوچُکا تھا جو بذریعہ الہام بتلایا گیا اور صاف ظاہر کیا گیا کہ ظلمت اور روشنی دونوں اِس لڑکے کے قدموں کے نیچے ہیں یعنی اس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو موت سے مراد ہے اُن کا آنا ضرور ہے سو اے وے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو بقیہ حاشیہ.گیا اور اندر ہی اندر بہت سی برکتیں ان کو پہنچا گیا اور یہ بات کھلی کھلی الہام الٰہی نے ظاہر کردی کہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے وہ بے فائدہ نہیں آیا تھا بلکہ اس کی موت ان سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوگی جنہوں نے محض لِلّٰہ اس کی موت سے غم کیا اور اس ابتلاء کی برداشت کر گئے کہ جو اس کی موت سے ظہور میں آیا غرض بشیر ہزاروں صابرین و صادقین کے لیے ایک شفیع کی طرح پیدا ہوا تھا اور اس پاک آنے والے اور پاک جانے والے کی موت ان سب مومنوں کے گناہوں کا کفارہ ہوگی اور دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے.اس کی تکمیل کے لیے خدا تعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا جیسا کہ بشیر اوّل کی موت سے پہلے ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں اس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا.جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں اولو العزم ہوگا یَخْلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُ اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.پہلے بشیر کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزولرحمت کا موجب ہوا اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیر کی نسبت ہے.منہ

Page 219

اور خوشی سے اُچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی بشیر کی موت نے جیسا کہ اس پیشگوئی کو پورا کیا ایسا ہی اس پیشگوئی کو بھی کہ جو ۲۰؍ فروری کے اشتہار میں ہے کہ بعض بچے کم عمری میں فوت ہوں گے.بالآخر یہ بھی اس جگہ واضح رہے کہ ہمارا اپنے کام کے لئے تمام و کمال بھروسہ اپنے مولیٰ کریم پر ہے اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ لوگ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں یا نفاق اور ہمارے دعویٰ کو قبول کرتے ہیں یا ردّ اور ہمیں تحسین کرتے ہیں یا نفرین بلکہ ہم سب سے اعراض کرکے اور غیر اللہ کو مردہ کی طرح سمجھ کر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں گو بعض ہم میں سے اور ہماری ہی قوم میں سے ایسے بھی ہیں کہ وہ ہمارے اس طریق کو نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں مگر ہم ان کو معذور رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جو ہم پر ظاہر کیا گیا ہے وہ ان پر ظاہر نہیں اور جو ہمیں پیاس لگا دی گئی ہے وہ انہیں نہیں..۱؎ اس محل میں یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ مجھے بعض اہلِ علم احباب کی ناصحانہ تحریروں سے معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی اس عاجز کی یہ کارروائی پسند نہیں کرتے کہ برکات روحانیہ و آیات سماویہ کے سلسلہ کو جو بذریعہ قبولیت ادعیہ و الہامات و مکاشفات تکمیل پذیر ہوتا ہے لوگوں پر ظاہر کیا جائے.بعض کی ان میں سے اس بارہ میں یہ بحث ہے کہ یہ باتیں ظنّی و شکّی ہیں اور ان کے ضرر کی امید ان کے فائدہ سے زیادہ تر ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حقیقت میں یہ باتیں تمام بنی آدم میں مُشترک و متساوی ہیں.شاید کسی قدر ادنیٰ کم و بیشی ہو بلکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قریباً یکساں ہی ہیں.ان کا یہ بھی بیان ہے کہ ان امور میں مذہب اور اتّقا اور تعلّق باللہ کو کچھ دخل نہیں بلکہ یہ فطرتی خواص ہیں جو انسان کی فطرت کو لگے ہوئے ہیں اور ہریک بشر سے مومن ہو یا کافر صالح ہو یا فاسق کچھ تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ صادر ہوتے رہتے ہیں.یہ تو اُن کی قیل و قال ہے جس سے ان کی موٹی سمجھ اور سطحی خیالات اور مبلغ علم کا اندازہ ہوسکتا ہے مگر فراست صحیحہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غفلت اور حُبِ دُنیا کا کی کیڑاان کی ایمانی فراست کو بالکل کھا گیا ہے اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جیسے مجذوم کا جذام انتہا کے درجہ تک پہنچ کر سقوط اعضاء تک نوبت پُہنچاتا ہے اور ہاتھوں پیروں کا گلنا سڑنا شروع ہوجاتا ہے.ایسا ہی ۱؎ بنی اسراء یل: ۸۵

Page 220

ان کے روحانی اعضاء جو روحانی قوّتوں سے مراد ہیں بباعث غلو محبت دنیا کے گلنے سڑنے شروع ہوگئے ہیں اور اُن کا شیوہ فقط ہنسی اور ٹھٹھا اور بدظنّی اور بدگمانی ہے دینی معارف اور حقائق پر غور کرنے سے بکلّی آزادی ہے بلکہ یہ لوگ حقیقت اور معرفت سے کچھ سروکار نہیں رکھتے اور کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے کہ ہم دُنیا میں کیوں آئے اور ہمارا اصلی کمال کیا ہے بلکہ جیفہ دُنیا میں دن رات غرق ہورہے ہیں ان میں یہ حس ہی باقی نہیں رہی کہ اپنی حالت کو ٹٹولیں کہ وہ کیسی سچائی کے طریق سے گری ہوئی ہے اور بڑی بدقسمتی ان کی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی اس نہایت خطرناک بیماری کو پوری پوری صحت خیال کرتے ہیں اور جو حقیقی صحت و تندرستی ہے اس کو بہ نظر توہین و استخفاف دیکھتے ہیں اور کمالات ولایت اور قربِ الٰہی کی عظمت بالکل ان کے دلوں پر سے اُٹھ گئی ہے اور نومیدی اور حرمان کی سی صورت پیدا ہوگئی ہے بلکہ اگر یہی حالت رہی تو ان کا نبوّت پر ایمان قائم رہنا بھی کچھ معرض خطر میں ہی نظر آتا ہے.یہ خوفناک اور گری ہوئی حالت جو میں نے بعض علماء کی بیان کی ہے اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ ان روحانی روشنیوں کو تجربہ کے رو سے غیر ممکن یا شکّی وظنّی خیال کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہنوز بالاستیفا تجربہ کرنے کی طرف توجہ نہیں کی اور کامل اور محیط طور پر نظر ڈال کر رائے ظاہر کرنے کا ابھی تک انہوں نے اپنے لئے کوئی موقعہ پیدا نہیں کیا اور نہ پیدا کرنے کی کچھ پرواہ ہے صرف ان مفسدانہ نکتہ چینیوں کو دیکھ کر کہ جو مخالفین تعصّب آئین نے اس عاجز کی دو پیشگوئیوں پر کی ہیں ۱؎ بلاتحقیق و تفتیش ۱؎ حاشیہ.وہ نکتہ چینیاں یہ ہیں کہ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں اس عاجز نے ایک پیشگوئی شائع کی تھی کہ ایک لڑکا اس عاجز کے گھر میں پیدا ہونے والا ہے اور اشتہار مذکور میں بہ تصریح لکھ دیا تھا کہ شاید اسی دفعہ وہ لڑکا پیدا ہو یا اس کے بعد قریب حمل میں پیدا ہو.سو خدا تعالیٰ نے مخالفین کا خبث باطنی اور ناانصافی ظاہر کرنے کے لئے اس دفعہ یعنی پہلے حمل میں لڑکی پیدا کی اور اس کے بعد جو حمل ہوا تو اس سے لڑکا پیدا ہوا اور پیشگوئی اپنے مفہوم کے مطابق سچی نکلی اور ٹھیک ٹھیک وقوع میں آگئی.مگر مخالفین نے جیسا کہ ان کا قدیمی شیوہ ہے محض شرارت کی راہ سے یہ نکتہ چینی کی کہ پہلی دفعہ ہی کیوں لڑکا پیدا نہیں ہوا.ان کو جواب دیا گیا کہ اشتہار میں پہلی دفعہ کی کوئی شرط نہیں بلکہ دوسرے حمل تک پیدا ہونے کی شرط تھی جو وقوع میں آگئی اور پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوگئی.سو ایسی پیشگوئی پر نکتہ چینی کرنا بے ایمانی کی قسموں میں سے ایک قسم ہے کوئی منصف اس کو واقعی طور پر نکتہ چینی نہیں کہہ سکتا دوسری نکتہ چینی مخالفوں کی یہ

Page 221

شک میں پڑگئے اور ولایت اور قربت الٰہیہ کی روشنیوں کے بارے میں ایک ایسا اعتقاد دل میں جمالیا کہ جو خشک فلسفہ اور کورانہ نیچریت کے قریب قریب ہے انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ مخالفین نے اپنی تکذیب کی تائید میں کون سا ثبوت دیا ہے؟ پھر اگر کوئی ثبوت نہیں اور نری بک بک ہے تو کیا فضول اور بے بنیاد افترائوں کا اثر اپنے دلوں پر ڈال لینا عقلمندی یا ایمانی وثاقت میں داخل ہے؟ اور اگر فرض محال کے طور پر کوئی اجتہادی غلطی بھی کسی پیشگوئی کے متعلق اس عاجز سے ظہور میں آتی یعنی قطع اور یقین کے طور پر اُس کو کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع کیا جاتا تب بھی کسی دانا کی نظر میں وہ محل آویزش بقیہ حاشیہ.ہے کہ لڑکا جس کے بارہ میں پیشگوئی ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں کی تھی.وہ پیدا ہو کر صغر سنی میں فوت ہوگیا.اس کا مفصل جواب اسی تقریر میں مذکور ہے اور خلاصہ جواب یہ ہے کہ آج تک ہم نے کسی اشتہار میں نہیں لکھا کہ یہ لڑکا عمر پانے والا ہوگا اور نہ یہ کہا کہ یہی مصلح موعود ہے.بلکہ ہمارے اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں بعض ہمارے لڑکوں کی نسبت یہ پیشگوئی موجود تھی کہ وہ کم عمری میں فوت ہوں گے.پس سوچنا چاہیے کہ اس لڑکے کی وفات سے ایک پیشگوئی پوری ہوئی یا جھوٹی نکلی ؟ بلکہ جس قدر ہم نے لوگوں میں الہامات شائع کیے اکثر ان کے اس لڑکے کی وفات پر دلالت کرتے تھے چنانچہ۰ ۲؍فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار کی یہ عبارت کہ ایک خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.یہ مہمان کا لفظ درحقیقت اسی لڑکے کا نام رکھا گیا تھا اور یہ اس کی کم عمری اور جلد فوت ہونے پر دلالت کرتا ہے.کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے.جو چند روز رہ کر چلا جاوے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہوجاوے اور جو قائم مقام ہو اور دوسروں کو رخصت کرے اس کا نام مہمان نہیں ہوسکتا.اور اشتہار مذکور کی یہ عبارت کہ وہ رجس سے (یعنی گناہ سے ) بکلّی پاک ہے.یہ بھی اس کی صغر سنی کی وفات پر دلالت کرتی ہے اور یہ دھوکا کھانا نہیں چاہیے کہ جس پیشگوئی کا ذکر ہوا ہے وہ مصلح موعود کے حق میں ہے.کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفی کے حق میں ہیں اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرانام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے اور ضرورت تھا کہ اس کا آنا معرض التوا میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے پیدا ہو کر پھر واپس اٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمت الٰہیہ نے اس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے اور بشیر اوّل جو فوت ہوگیا ہے بشیر ثانی کے لیے بطور ارہاص تھا اس لیے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا.اب ایک منصف انصافاً سوچ کر دیکھے کہ ہماری ان دونوں پیشگوئیوں میں حقیقی طور پر کون سی غلطی ہے؟ ہاں ہم نے پسر متوفی کے کمالات استعدادیہ الہامات کے ذریعہ سے ظاہر کئے تھے کہ و ہ فطرتاً ایساہے اور ایسا ہے اور اب بھی

Page 222

نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ اجتہادی غلطی ایک ایسا امر ہے جس سے انبیاء بھی باہر نہیں ماسوائے اس کے یہ عاجز اب تک قریب سات ہزار مکاشفات صادقہ اور الہامات صحیحہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے مشرف ہوا ہے اور آئندہ عجائبات روحانیہ کا ایسا بے انتہا سلسلہ جاری ہے کہ جو بارش کی طرح شب و روز نازل ہوتے رہتے ہیں.پس اس صورت میں خوش قسمت انسان وہ ہے کہ جو اپنے تئیں بصدق و صفا اِس ربّانی کارخانے کے حوالہ کرکے آسمانی فیوض سے اپنے نفس کو متمتع کرے اور نہایت بدقسمت وہ شخص ہے کہ جو اپنے تئیں ان انوار و برکات کے حصول سے لاپروا رکھ کر بے بنیاد نکتہ چینیاں اور جاہلانہ رائے بقیہ حاشیہ.ہم یہی کہتے ہیں اور فطرتی استعدادوں کا مختلف طور پر بچوں میں پایا جانا عام اس سے کہ وہ صغر سنی میں مر جاویں یا زندہ رہیں ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے اور کوئی حکماء اور علماء میں سے اس کا منکر نہیں ہوسکتا.پس دانا کے لئے کون سی ٹھوکر کھانے کی وجہ ہے؟ ہاں نادان اور احمق لوگ ہمیشہ سے ٹھوکر کھاتے چلے آئے ہیں.بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی پر ٹھوکر کھائی کہ یہ شخص تو کہتا تھا کہ فرعون پر عذاب نازل ہوگا سو اس پر تو کچھ عذاب نازل نہ ہوا.وہ عذاب تو ہم پر ہی پڑا کہ اس سے پہلے صرف آدھا دن ہم سے مشقت لی جاتی تھی اور اب سارا دن محنت کرنے کا حکم ہوگیا.خوب نجات ہوئی.حالانکہ یہ دوہری محنت اور مشقت ابتلاء کے طور پر یہودیوں پر ابتداء میں نازل ہوئی تھی اور انجام کار فرعون کی ہلاکت مقدر تھی.مگر ان بیوقوفوں اور شتابکاروں نے ہاتھ پر سرسوں جمتی نہ دیکھ کر اسی وقت حضرت موسیٰ کو جھٹلانا شروع کردیا اور بدظنی میں پڑگئے اور کہا کہ اے موسیٰ و ہارون جو کچھ تم نے ہم سے کیا خدا تم سے کرے.پھر یہودا اسکریوتی کی نادانی اور شتابکاری دیکھنی چاہیے کہ اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی پیشگوئیو ں کے سمجھنے میں نہایت سخت ٹھوکر کھائی اور خیال کیا کہ یہ شخص بادشاہ ہو جانے کا دعویٰ کرتا تھا اور ہمیں بڑے بڑے مراتب تک پہنچاتا تھا.مگر یہ ساری باتیں جھوٹ نکلیں اور کوئی پیشگوئی اس کی سچی نہ ہوئی بلکہ فقرو فاقہ میں ہم لوگ مر رہے ہیں.بہتر ہے کہ اس کے دشمنوں سے مل کر پیٹ بھریں.سو اس کی جہالت اس کی ہلاکت کا موجب ہوئی.حضرت مسیح علیہ السلام کی پیشگوئیاں اپنے وقتوں میں پوری ہوگئیں.سونبیوں کا ان نادان مکذبین کی تکذیب سے کیا نقصان ہوا جس کا اب بھی اندیشہ کیا جائے اور اس اندیشہ سے خدائے تعالیٰ کی پاک کارروائی کو بند کیا جائے.یقینا سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ مسلمان کہلا کر اور کلمہ گو ہوکر جلدی سے اپنے دل میں وساوس کا ذخیرہ اکٹھا کر لیتے ہیں وہ انجام کار اسی طرح رسوا اور ذلیل ہونے والے ہیں جس طرح نالائق اور کج فہم یہودی اور یہودا اسکریوتی رسوا اور ذلیل ہوئے.فَتَدَبَّرُوْا یَا اُولِی الْاَلْـبَابِ.منہ

Page 223

ظاہر کرنا اپنا شیوہ کر لیوے.میں ایسے لوگوں کو محض لِلّٰہ متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ایسے خیالات کو دل میں جگہ دینے سے حق اور حق بینی سے بہت دور جاپڑے ہیں.اگران کایہ قول سچ ہو کہ الہامات و مکاشفات کوئی ایسی عمدہ چیز نہیں ہے جو خاص اور عوام یا کافر اور مومن میں کوئی امتیاز بیّن پیدا کرسکیں توسالکوں کے لئے یہ نہایت دل توڑنے والا واقعہ ہوگا.میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہی ایک روحانی اور اعلیٰ درجہ کی اسلام میں خاصیت ہے کہ سچائی سے اس پر قدم مارنے والے مکالمات خاصہ الٰہیہ سے مشرف ہوجاتے ہیں اور قبولیت کے انوار جن میں ان کا غیر ان کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتا ان کے وجود میں پیدا ہوجاتے ہیں یہ ایک واقعی صداقت ہے جو بے شمار راست بازوں پر اپنے ذاتی تجارب سے کھل گئی ہے ان مدارج عالیہ پر وہ لوگ پہنچتے ہیں کہ جو سچی اور حقیقی پیروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کرتے ہیں اور نفسانی وجود سے نکل کر ربّانی وجود کا پیراہن لیتے ہیں یعنی نفسانی جذبات پر موت وارد کرکے ربّانی طاعات کی نئی زندگی اپنے اندر حاصل کرتے ہیں ناقص الحالت مسلمانوں کو ان سے کچھ نسبت نہیں ہوتی پھر کافر اور فاسق کو ان سے کیا نسبت ہو؟ ان کی یہ کاملیت اُن کی صحبت میں رہنے سے طالب حق پر کھلتی ہے اسی غرض سے میں نے اتمام حجت کے لئے مختلف فرقوں کے سرگروہوں کی طرف اشتہارات بھیجے تھے اور خط لکھے تھے کہ وہ میرے اس دعویٰ کی آزمائش کریں اگر ان کو سچائی کی طلب ہوتی تو وہ صدق قدم سے حاضر ہوتے سو اُن میں سے کوئی ایک بھی بصدق قدم حاضر نہ ہوا بلکہ جب کوئی پیشگوئی ظہور میں آتی رہی اُس پر خاک ڈالنے کے لئے کوشش کرتے رہے اب اگر ہمارے علماء کو اس حقیقت کے قبول کرنے اور ماننے میں کچھ تامل ہے تو غیروں کے بُلانے کی کیا ضرورت؟ پہلے یہی ہمارے احباب جن میں سے بعض فاضل اور عالم بھی ہیں.آزمائش کرلیں اور صدق اور صبر سے کُچھ مُدّت میری صحبت میں رہ کر حقیقت حال سے واقف ہوجائیں پھر اگر یہ دعویٰ اس عاجز کا راستی سے معرا نکلے تو انہیں کے ہاتھ پر میں توبہ کروں گا ورنہ امید رکھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اُن کے دلوں پر توبہ اور رجوع کا دروازہ کھول دے گا اور اگر وہ میری اس تحریر کے شائع ہونے کے بعد میرے دعاوی کی

Page 224

آزمائش کرکے اپنی رائے کو بہ پایۂ صداقت پہنچاویں تو اُن کی ناصحانہ تحریروں کے کچھ معنے ہوں گے اس وقت تک تو اس کے کچھ بھی معنے نہیں بلکہ اُن کی محجوبانہ حالت قابل رحم ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ آج کل کے عقلی خیالات کے پرزور بخارات نے ہمارے علماء کے دلوں کو بھی کسی قدر دبا لیا ہے کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ انہیں خیالات ُپر زور دے رہے ہیں اور تکمیل دین و ایمان کے لئے انہیں کو کافی وافی خیال کرتے ہیں اور ناجائز اور ناگوار پیرائیوں میں روحانی برکات کی تحقیر کررہے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تحقیر تکلّف سے نہیں کرتے بلکہ فی الواقع اُن کے دلوں میں ایسا ہی جم گیا ہے اور اُن کی فطرتی کمزوری اس نزلہ کو قبول کر گئی ہے کیونکہ اُن کے اندر حقانی روشنی کی چمک نہایت ہی کم اور خشک لفاظی بہت سی بھری ہوئی ہے اور اپنی رائے کو اِس قدر صائب خیال کرتے اور اس کی تائید میں زور دیتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو روشنی حاصل کرنے والوں کو بھی اُس تاریکی کی طرف کھینچ لاویں.ان علماء کو اسلام کی فتح صوری کی طرف تو ضرور خیال ہے مگر جن باتوں میں اسلام کی فتح حقیقی ہے ان سے بے خبر ہیں.اسلام کی فتح حقیقی اس میں ہے کہ جیسے اسلام کے لفظ کا مفہوم ہے اسی طرح ہم اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کے حوالہ کردیں اور اپنے نفس اور اس کے جذبات سے بکلی خالی ہوجائیں اور کوئی بُت ہوا اور ارادہ اور مخلوق پرستی کا ہماری راہ میں نہ رہے اور بکُلی مرضیات الٰہیہ میں محوہوجائیں اور بعد اس فنا کے وہ بقا ہم کو حاصل ہوجائے جو ہماری بصیرت کو ایک دوسرا رنگ بخشے اور ہماری معرفت کو ایک نئی نورانیت عطا کرے اور ہماری محبت میں ایک جدید جوش پیدا کرے اور ہم ایک نئے آدمی ہوجائیں اور ہمارا وہ قدیم خدا بھی ہمارے لئے ایک نیا خدا ہوجائے یہی فتح حقیقی ہے جس کے کئی شعبوں میں سے ایک شعبہ مکالمات الٰہیہ بھی ہیں اگر یہ فتح اس زمانہ میں مسلمانوں کو حاصل نہ ہوئی تو مجرد عقلی فتح انہیں کسی منزل تک پہنچا نہیں سکتی.میں یقین رکھتا ہوں کہ اِس فتح کے دن نزدیک ہیں خدا تعالیٰ اپنی طرف سے یہ روشنی پیدا کرے گا اور اپنے ضعیف بندوں کا آمرزگار ہوگا.

Page 225

تبلیغ میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں.پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے یہ ربّانی حکم ہے جو آج میں نے پُہنچا دیا ہے اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے.اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا.اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ.یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المبـــــــــــــــــــلغ خاکســـــــــــــــــــار غلام احمد عفی عنہ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر (یکم دسمبر ۱۸۸۸ء) (سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۴۷ تا ۴۷۰)

Page 226

51 تکمیلِ تبلیغ مضمون تبلیغ جو اس عاجز نے اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں شائع کیا ہے.جس میں بیعت کے لیے حق کے طالبوں کو بلایا ہے.اس کی مجمل شرائط کی تشریح یہ ہے:.اوّل بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.دوم یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا.اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے.سوم یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدااور رسول کے ادا کرتا رہے گا.اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا.چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاًاپنے نفسانی جوشوںسے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.پنجم یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عُسر اور یُسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہرحالت راضی بقضا ہو گا اور ہر ایک ذلّت اور دُکھ کے قبول کرنے کے لیے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.

Page 227

ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کر لے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہریک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.ہفتم یہ کہ تکبّر اور نخوت کو بکلّی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم یہ کہ دین اور دین کی عزّت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزّت اور اپنی اولاد اور اپنے ہریک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دہم یہ کہ اس عاجز سے عقدِ اخوت محض للہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقتِ مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.یہ وہ شرائط ہیں جو بیعت کرنے والوں کے لیے ضروری ہیں.جن کی تفصیل یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں نہیں لکھی گئی اور واضح رہے کہ اس دعوت بیعت کا حکم تخمیناً مدّت دس ماہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو چکا ہے، لیکن اس کی تاخیر اشاعت کی یہ وجہ ہوئی ہے کہ اس عاجز کی طبیعت اس بات سے کراہت کرتی رہی کہ ہر قسم کے رطب و یابس لوگ اس سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں اور دل یہ چاہتا رہا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جن کی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے اور جو کچی اور سَرِیْعُ التَّغَیُّر اور مغلوب شک نہیں ہیں.اسی وجہ سے ایک ایسی تقریب کی انتظار رہی کہ جو سچوں اور کچوں اور مخلصوں منافقوں میں فرق کر کے دکھلاوے.سو اللہ جَلَّ شَانُـہٗ نے اپنی کمال حکمت اور رحمت سے وہ تقریب بشیر احمد کی موت کو قرار دے دیا.۱؎ اور خام خیالوں اور کچوںاور بدظنّوں ۱؎ خدائے عزوجل نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء و اشتہار دسمبر ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے.اپنے لطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کانام محمود بھی ہوگا اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ وہ اولوا العزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پید ا کر تا ہے.

Page 228

کو الگ کر کے دکھلا دیا اور وہی ہمارے ساتھ رہ گئے جن کی فطرتیں ہمارے ساتھ رہنے کے لائق تھیں.اور جو فطرتاً قوی الایمان نہیں تھے اور تھکے اور ماندے تھے وہ سب الگ ہو گئے اور شکوک و شبہات میں پڑ گئے.پس اسی وجہ سے ایسے موقع پر دعوت بیعت کا مضمون شائع کرنا نہایت چسپاں معلوم ہوا تا’’خس کم جہاں پاک ‘‘کا فائدہ ہم کو حاصل ہو اور مغشوشین کے بد انجام کی تلخی اُٹھانی نہ پڑے اور تا جو لوگ جو اس ابتلاء کی حالت میں اس دعوت بیعت کو قبول کر کے اس سلسلہ مبارکہ میں داخل ہو جائیں وہی ہماری جماعت سمجھے جائیں اور وہی ہمارے خالص دوست متصور ہوں اور وہی ہیں بقیہ حاشیہ.سو آج ۱۲؍ جنوری۱۸۸۹ء میں مطابق ۹ جمادی الاوّل ۱۳۰۶ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہٖ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہوگیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاول کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی.مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اور ہے لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہو گا.اور اگر مدّت مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو خدائے عزّوجل اس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کر لے.مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا.اے فخر رُسل قرب تو معلومم شد دیر آمدۂ زِ راہِ دُور آمدۂٖ۱؎ پس اگر حضرت باری جل شانہٗ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جو اس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاؤل بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعود لڑکا ہو.ورنہ وہ بفضلہ تعالیٰ دوسرے وقت پر آئے گا اور ہمارے بعض حاسدین کو یادرکھنا چاہیے کہ ہماری کوئی ذاتی غرض اولاد کے متعلق نہیں اور نہ کوئی نفسانی راحت ان کی زندگی سے وابستہ ہے.پس یہ اُن کی بڑی غلطی ہے کہ جو انہوں نے بشیراحمد کی وفات پر خوشی ظاہر کی اور بغلیں بجائیں.انہیں یقینا یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہماری اتنی اولاد ہو جس قدر درختوں کے تمام دنیا میں پتے ہیں اور وہ سب فوت ہو جائیں تو ان کا مرنا ہماری سچی اور حقیقی لذّت اور راحت میں کچھ خلل انداز نہیں ہو سکتا.مُمیت کی محبت مَیّت کی محبت سے اس قدر ہمارے دل پر زیادہ تر غالب ہے کہ اگر وہ محبوب حقیقی خوش ہو تو ہم خلیل اللہ کی طرح اپنے کسی پیارے بیٹے کو بدستِ خود ذبح کرنے کو تیار ہیں کیونکہ واقعی طور پر بجُز اُس ایک کے ہمارا کوئی پیا را نہیں.جَلَّ شَانُہٗ وَ عَزَّاِسْمُہٗ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ.منہ

Page 229

ترجمہ.اے فخر رُسل مجھے تیرے قرب الٰہی کا (بلند مرتبہ) معلوم ہوگیا ہے، تو اس لئے دیر سے پہنچا ہے کہ بہت دور سے آیا ہے.جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں انہیں ان کے غیروں پر قیامت تک فوقیت دوں گااوربرکت اوررحمت ان کے شامل حال رہی گی اور مجھے فرمایا کہ تو میری اجازت سے اور میری آنکھوں کے روبرو یہ کشتی تیار کر.جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ خدا سے بیعت کریں گے.خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوگا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ حاضر ہو جائو اور اپنے ربِّ کریم کو اکیلا مت چھوڑو.جو شخص اسے اکیلا چھوڑتا ہے وہ اکیلا چھوڑا جائے گا.سوحسب فرمودہ ایزدی دعوت بیعت کا عام اشتہار دیا جاتا ہے اور متحملین شرائط متذکرہ بالا کو عام اجازت ہے کہ بعد ادائے استخارہ مسنونہ اس عاجز کے پاس بیعت کرنے کے لئے آویں.خدا تعالیٰ ان کا مدد گار ہو اور ان کی زندگی میں پاک تبدیلی کرے اور ان کو سچائی اور پاکیزگی اور محبت اور روشن ضمیری کی رُوح بخشے آمین ثم آمین.وَآخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.المبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلغ خاکسار احقر عباد اللہ غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ۹؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۶ھ مطابق ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر)

Page 230

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ گزارش ضروری بخدمت ان تمام صاحبوں کے جو بیعت کرنے کیلئے مستعد ہیں اے اخوان مومنین (اَیَّدَکُمُ اللّٰہُ بِرُوْحٍ مِّنْہُ) آپ سب صاحبوں پر جو اس عاجز سے خالصاً لطلب اللہ بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۱؎ واضح ہو کہ بالقائے ربِّ کریم وجلیل جس کا ارادہ ہے کہ ۱؎ تاریخ ہذا سے جو ۴؍ مارچ ۱۸۸۹ء ہے.۲۵؍ مارچ تک یہ عاجز لودیانہ محلہ جدید میں مقیم ہے اس عرصہ میں اگر کوئی صاحب آنا چاہیں تو لودیانہ میں ۲۰؍ تاریخ کے بعد آ جاویں.اور اگر اس جگہ آنا موجب حرج و دقت ہو تو ۲۵؍مارچ کے بعد جس وقت کوئی چاہے قادیان میں بعد اطلاع دہی بیعت کرنے کے لیے حاضر ہو جاوے مگر جس مدعا کے لیے بیعت ہے یعنی حقیقی تقویٰ اختیار کرنا اور سچا مسلمان بننے کے لیے کوشش کرنا، اس مدعا کو خوب یاد رکھے اور اس وہم میں نہیں پڑنا چاہیے کہ اگر تقویٰ اور سچا مسلمان بننا پہلے ہی سے شرط ہے تو پھر بعد اس کے بیعت کی کیا حاجت ہے.بلکہ یاد رکھنا چاہیے کہ بیعت اس غرض سے ہے کہ تا وہ تقویٰ جو اوّل حالت میں تکلّف اور تصنّع سے اختیار کی جاتی ہے دوسرا رنگ پکڑے اور ببرکت توجہ صادقین و جذبہ کاملین طبیعت میں داخل ہو جائے اور اُس کا جُز بن جائے اور وہ مشکوٰتی نُور دل میں پیدا ہو جائے کہ جو عبودیّت اور ربوبیّت کے باہم تعلق شدید سے پیدا ہوتا ہے.جس کو متصوّفین دوسرے لفظوں میں رُوحِ قُدس بھی کہتے ہیں جس کے پیدا ہونے کے بعد خدائے تعالیٰ کی نا فرمانی ایسی بالطبع بُری معلوم ہوتی ہے جیسے وہ خود خدائے تعالیٰ کی نظر میں بُری و مکروہ ہے.اور نہ صرف خلق اللہ سے انقطاع میّسر آتا ہے بلکہ بجُز خالق و مالک حقیقی ہریک موجود کو کالعدم سمجھ کر فنا نظری کا درجہ حاصل ہوتا ہے.سو اس نُور کے پیدا ہونے کے لیے ابتدائی اتقاء جس کو طالبِ صادق اپنے ساتھ لاتا ہے شرط ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی علّتِ غائی

Page 231

مسلمانوں کو انواع و اقسام کے اختلافات اور غِلّ اور حِقد اور نِزَاع اور فساد اور کینہ اور بُغض سے جس نے ان کو بے برکت و نکمّا و کمزور کر دیا ہے.نجات دے کر   ۱؎ کا مصداق بنا دے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض فوائد و منافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لیے مقدر ہیں.اس انتظام پر موقوف ہیں کہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مبارکہ ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی اور کسی قدر کیفیت کے (اگر ممکن ہو) اندراج پاویں.اور پھر جب وہ اسماء مندرجہ کسی تعداد موزوں تک پہنچ جائیں تو ان سب ناموں کی ایک فہرست تیار کر کے اور چھپوا کر ایک ایک کاپی اس کی تمام بیعت کرنے والوں کی خدمت میں بھیجی جاوے اور پھر جب دوسرے وقت میں نئی بیعت کرنے والوں کا ایک معتدبہ گروہ ہو جاوے تو ایسا ہی ان کے اسماء کی بھی فہرست تیار کر کے تمام مبائعین یعنی داخلینِ بیعت میں شائع کی جائے اور ایسا ہی ہوتا رہے جب تک ارادئہ الٰہی اپنے اندازہ مقدرہ تک پہنچ جائے.یہ انتظام جس کے ذریعہ سے راستبازوں کا گروہِ کثیر ایک ہی سلک میں منسلک ہو کر وحدت مجموعی کے پیرائے میں خلق اللہ پر جلوہ نما ہو گا اور اپنی سچائی کے مختلف المخرج شعاعوں کو ایک ہی خط ممتد میں ظاہر کر ے گا خداوند عزّوجلّ کو بہت پسند آیا ہے.مگر چونکہ کارروائی بجز اس کے بآسانی و صحت انجام پذیر نہیں ہو سکتی کہ خود مبائعین اپنے ہاتھ سے خوشخط قلم سے لکھ کر اپنا تمام پتہ و نشان بتفصیل مندرجہ بالا بھیج دیں اس لیے ہر ایک صاحب کو جو صدق دل اور خلوص تام سے بیعت کرنے کے لیے مستعد ہیں تکلیف دی جاتی ہے کہ وہ بتحریر خاص اپنی پورے پورے نام و ولدیت بقیہ حاشیہ.بیان کرنے میں فرمایا ہے.ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ.یہ نہیں فرمایا کہ ھُدًی لِّلْفَاسِقِیْنَ یا ھُدًی لِّلْکَافِرِیْنَ.ابتدائی تقویٰ جس کے حصول سے متقی کا لفظ انسان پر صادق آ سکتا ہے.وہ ایک فطرتی حصہ ہے کہ جو سعیدوں کی خلقت میں رکھا گیا ہے اور رَبوبیت اُولیٰ اس کی مربی اور وجود بخش ہے جس سے متقی کاپہلا تولّد ہے مگر وہ اندرونی نُور جو روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے وہ عبودیت خالصہ تامّہ اور ربوبیّتِ کاملہ مستجمعہ کے پورے جوڑ و اتصال سے بطرز ثُمَّ اَنْشَأْنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ کے پیدا ہوتا ہے اور یہ ربوبیّت ثانیہ ہے جس سے متقی تولّد ثانی پاتا ہے اور ملکوتی مقام پر پہنچتا ہے اور اس کے بعد ربوبیّتِ ثالثہ کا درجہ ہے جو خلق جدید سے موسوم ہے جس سے متقی لاہوتی مقام پر پہنچتا ہے اور تولّد ثالث پاتا ہے.فَتَدَبَّرْ.منہ ۱؎ اٰلِ عمران: ۱۰۴

Page 232

و سکونت مستقل و عارضی وغیرہ سے اطلاع بخشیں یا اپنے حاضر ہونے کے وقت یہ تمام امور درج کرا دیں.اور ظاہر ہے کہ ایسی کتاب کا مرتب و شائع ہونا جس میں تمام بیعت کرنے والوں کے نام و دیگر پتہ نشان درج ہوں.اِنْشَآئَ اللّٰہُ الْقَدِیْر بہت سی خیر و برکت کا موجب ہو گا.ازاں جملہ ایک بڑی عظیم الشان بات یہ ہے کہ اس ذریعہ سے بیعت کرنے والوں کا بہت جلد باہم تعارف ہو جائے گا اور باہم خط و کتابت کرنے اور افادہ و استفادہ کے وسائل نکل آئیں گے اور غائبانہ ایک دوسرے کو دعائے خیر سے یاد کریں گے اور نیز اس باہمی شناسائی کی رُو سے ہر ایک موقعہ و محل پر ایک دوسرے کی ہمدردی کر سکیں گے اور ایک دوسرے کی غمخواری میں یارانِ موافق و دوستانِ صادق کی طرح مشغول ہو جائیں گے اور ہر ایک کو ان میں سے اپنے ہم ارادت لوگوں کے ناموں پر اطلاع پانے سے معلوم ہو جائیگا کہ اس کے رُوحانی بھائی دنیا میں کس قدر پھیلے ہوئے ہیں اور کن کن خدا داد فضائل سے متّصف ہیں.سو یہ علم ان پر ظاہر کرے گا کہ خدا تعالیٰ نے کس خارق عادت طور پر اس جماعت کو تیار کیا ہے اور کس سرعت اور جلدی سے دنیا میں پھیلایا ہے.اور اس جگہ اس وصیّت کا لکھنا بھی موزوں معلوم ہے کہ ہر ایک شخص اپنے بھائی سے بکمال ہمدردی و محبت پیش آوے.اور حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر ان کا قدر کرے.ان سے جلد صلح کر لیوے اور دلی غبار کو دُور کر دیوے اور صاف باطن ہو جاوے اور ہرگز ایک ذرّہ کینہ اور بغض ان سے نہ رکھے، لیکن اگر کوئی عمداً ان شرائط کی خلاف ورزی کرے.جو اشتہار ۱۲؍ جنوری ۱؎ ۱۸۸۹ء میں مندرج ہیں اور اپنی بے باکانہ حرکات سے باز نہ آوے تو وہ سلسلہ سے خارج شمار کیا جاوے گا.یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متّقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لیے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے ۲؎ اور ان کا اتفاق اسلام کے لیے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ بہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آ سکیں اور ایک کاہل اور بخیل و ۱؎ اشتہار ہذا دیکھئے زیر نمبر ۵۱ صفحہ ۲۰۶ تا۲۰۹ (مرتب) ۲؎ اس جماعت کے نیک اثر سے جیسے عامہ خلائق مُنتفع ہوں گی ایسا ہی اس پاک باطن جماعت کے وجود مبارک سے گورنمنٹ برطانیہ کے لیے انواع و اقسام کے فوائد متصور ہیں.جن سے اس گورنمنٹ کو خداوند عزّوجلّ کا شکر گزار ہونا چاہیے.ازانجملہ ایک یہ کہ یہ لوگ سچے جوش اور دلی

Page 233

بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نااتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لیے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں.یتیموں کے لیے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لیے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لیے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں.اور محبتِ الٰہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نِکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتاہوا نظر آوے.خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھیراوے.اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جائوں اور ان کی آلودگیوں کے ازالہ کے لیے دن رات کوشش کرتا رہوں اور ان کے لیے وہ نُور مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور بالطبع خدا تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان کے لیے وہ روح قدس طلب کروں جو ربوبیت تامہ اور عبودیت خالصہ کے کامل جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اور اس رُوحِ خبیث کی تسخیر سے ان کی نجات چاہوں کہ جو نفسِ امّارہ اور شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے.سو مَیں بِتَوْفِیْقِہٖ تَعَالٰی کاہل اور سُست نہیں رہوں گا اور اپنے دوستوں کی اصلاح طلبی سے جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا بصدق قدم اختیار کر لیا ہے غافل نہیں ہوں گا بلکہ ان کی زندگی کے لیے موت تک بقیہ حاشیہ.خلوص سے اس گورنمنٹ کے خیر خواہ اور دُعا گو ہوں گے.کیونکہ بموجب تعلیم اسلام (جس کی پیروی اس گروہ کا عین مدعا ہے) حقوق عباد کے متعلق اس سے بڑھ کر کوئی گناہ کی بات اور خبث اور ظلم اور پلید راہ نہیں کہ انسان جس سلطنت کے زیر سایہ بامن و عافیت زندگی بسر کرے اور اس کی حمایت سے اپنے دینی و دنیاوی مقاصد میں بآزادی کی کوشش کر سکے اسی کا بدخواہ و بداندیش ہو بلکہ جب تک ایسی گورنمنٹ کا شکرگزار نہ ہو تب تک خدا تعالیٰ کا بھی شکرگزار نہیں.پھر دوسرا فائدہ اس بابرکت گروہ کی ترقی سے گورنمنٹ کو یہ ہے کہ ان کا عملی طریق موجب انسداد جرائم ہے.فَـتَـفَکَّرُوْا وَ تَأَمَّلُوْا.

Page 234

دریغ نہیں کروںگااور ان کے لیے خدا تعالیٰ سے وہ روحانی طاقت چاہوں گا جس کا اثر برقی مادہ کی طرح ان کے تمام وجود میں دوڑ جائے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے لیے جو داخل سلسلہ ہو کر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہو گا.کیونکہ ’’خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لیے اور اپنی قدرت دکھانے کے لیے پیداکرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دُنیا میں محبت الٰہی اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا وے.سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی رُوح سے قوت دے گا.اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا.‘‘ ’’وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشین گوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے، اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزارہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا.وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشوونما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے.اور اسلامی برکات کے لیے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے.‘‘ ’’وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہریک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی.‘‘ اُس ربّ جلیل نے یہی چاہا ہے.وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.ہریک طاقت اور قدرت اسی کو ہے.فَالْحَمْدُ لَہٗ اَوَّلًاوَاٰخِرًا وَ ظَاھِرًا وَ بَاطِنًا.اَسْلَمْنَا لَہٗ.ھُوَ مَوْلَانَا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ.نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ.خاکســــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار غلام احمد.لودیانہ محلہ جدید متّصل مکان اخی مکرمی منشی حاجی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور ۴؍ مارچ ۱۸۸۹ء (مطبوعہ ریاض ہند امرتسر) (یہ اشتہار کے چار صفحوں پرہے) (یہ اشتہار خلافت لائیبریری کے ریکارڈ میں موجود ہے)

Page 235

اشتہار عام معترضین کی اطلاع کے لئے ہم نے ارادہ کیا ہے کہ موجودہ زمانہ میں جس قدر مختلف فرقے اور مختلف رائے کے آدمی اسلام پر یا تعلیم قرآنی پر یا ہمارے سیّد ومولیٰ جناب عالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہیں یا جو کچھ ہمارے ذاتی امور کے متعلق نکتہ چینیاں کر رہے ہیں یا جو کچھ ہمارے الہامات او رہمارے الہامی دعاوی کی نسبت اُن کے دلوں میں شبہات اور وساوس ہیں اُن سب اعتراضات کو ایک رسالہ کی صورت پر نمبروار مرتب کر کے چھاپ دیں اور پھر اُنہیں نمبروں کی ترتیب کے لحاظ سے ہر ایک اعتراض اور سوال کا جواب دینا شروع کریں.لھٰذا عام طور پرتمام عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں اور یہودیوں اور مجوسیوں اور دہریوں اور برہمیوں اور طبیعیوں اور فلسفیوں اور مخالف الرّائے مسلمانوں وغیرہ کو مخاطب کر کے اشتہار دیا جاتا ہے کہ ہر ایک شخص جو اسلام کی نسبت یا قرآن شریف اور ہمارے سیّداور مقتدا ء خیر الرّسل کی نسبت یا خود ہماری نسبت ہمارے منصب خداداد کی نسبت ہمارے الہامات کی نسبت کچھ اعتراضات رکھتا ہے تو اگر وہ طالبِ حق ہے تو اس پر لازم و واجب ہے کہ وہ اعتراضات خوشخط قلم سے تحریر کر کے ہمارے پاس بھیج دے تا وہ تمام اعتراضات ایک جگہ اکٹھے کر کے ایک رسالہ میں نمبروار ترتیب دے کر چھاپ دیئے جائیں اور پھر نمبروار ایک ایک کا مفصّل جواب دیا جائے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ۱۰؍ جمادی الثانی ۱۳۰۸ ہجری (یہ اشتہار فتح اسلام بار دوم کے صفحہ ۷۷،۷۸ پر درج ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۶، ۴۷)

Page 236

 اعلان اس رسالہ کے ساتھ دو اور رسالے تالیف کیے گئے ہیں جو درحقیقت اسی رسالہ کے جزو ہیں چنانچہ اس رسالہ کا نام فتح اسلام اور دوسرے کا نام توضیح مرام اور تیسرے کا نام ازالہ اوہام ہے.المعــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلن میرزا غلام احمداز قادیاں (یہ اشتہار فتح اسلام بار دوم کے صفحہ ۷۹ پر درج ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۸)

Page 237

 اعلان اس رسالہ کے بعد ایک اور رسالہ بھی چند روز میں طبع ہو کر طیّار ہو جائے گا جس کا نام ازالہ اوہام ہے.وہ رسالہ فتح اسلام کا تیسرا حصہ ہے.المعــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلن مرزا غلام احمد عفی عنہ (یہ اشتہار رسالہ توضیح مرام مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر بار اوّل کے ٹائٹل کے دوسرے صفحہ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۰)

Page 238

 یاددہانی جو کچھ ہم نے رسالہ فتح اسلام میں الٰہی کارخانہ کے بارہ میں جو خداوند عزّوجل کی طرف سے ہمارے سپرد ہوا ہے پانچ شاخوں کا ذکر کرکے دینی مخلصوں اور اسلامی ہمدردوں کی ضرورت امداد کے لئے لکھا ہے اس کی طرف ہمارے بااخلاص اور پُرجوش بھائیوں کو بہت جلد توجہ کرنی چاہیے کہ تا یہ سب کام باحسن طریق شروع ہوجائیں.الــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــراقم مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور (یہ اشتہار رسالہ توضیح مرام مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر بار اوّل کے ٹائٹل کے آخر میں ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۹۹)

Page 239

 اطلاع بخدمت علمائِ اسلام جو کچھ اس عاجز نے مثیل مسیح کے بارے میں لکھا ہے یہ مضمون متفرق طور پر تین رسالوں میں درج ہے یعنی فتح اسلام اور توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں.پس مناسب ہے کہ جب تک کوئی صاحب ان تینوں رسالوں کو غور سے نہ دیکھ لیں تب تک کسی مخالفانہ رائے ظاہر کرنے کے لئے جلدی نہ کریں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی الراقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم خاکسار مرزا غلام احمد (یہ اطلاع توضیح مرام مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر بار اوّل کے آخری صفحہ ٹائیٹل پر اور با ر دوم کے صفحہ ۴۰ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۰۰)

Page 240

 ضروری اشتہار   .۱؎ ناظرین پر واضح ہو کہ مسیح ابن مریم کے نزول کی حقیقت جو خدا تعالیٰ نے اس عاجز پرکھولی ہے جس کے بارے میں کچھ تھوڑا سا رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام میں ذکر ہے اور رسالہ ازالہ اوہام میں مبسوط اور مفصّل طور پر اس کا بیان ہے.ایسا ہی ملائک اور لیلۃ القدر اور معجزات مسیح کے بارے میں جو کچھ ان رسالوں میں لکھا گیا ہے.قبل اس کے جو علماء اسلام غور سے ان مباحث کو پڑھیں اور تدبّر سے ان کے مطلب کو سوچیں یونہی مخالفانہ خیالات خلق اللہ میں پھیلا رہے ہیں اور عوام النّاس کو اپنے بے اصل وساوس سے ہلاک کرتے جاتے ہیں حالانکہ رسالہ توضیح مرام کے آخر میں نصیحتًا لکھا گیا تھا کہ جب تک تینوں رسالوں کو دیکھ نہ لیں کوئی رائے ظاہر نہ کریں مگر وہ آخر تک صبر نہ کر سکے.کسی نے کہا کہ یہ شخص کافر ہے اور کسی نے کہا کہ یہ شخص ضَالّ اور مُضِلّ ہے اور کسی نے کہا کہ بے جا تاویلیں کرتا ہے اور کسی نے کہا کہ اس کو مالیخولیا ہے اور چونکہ اکثر لوگ ان میں موٹی عقل کے آدمی اور کجی سے بہ نسبت راستی کے زیادہ پیار کرنے والے ہیں.اس لیے ان مولوی صاحبوں کے بیانات کا ان کے دلوں پر سخت اثر پڑا.اور عوام الناس کی تو یہ پہلے ہی سے عادت ہے کہ وہ اصل حقیقت پر غور کم کرتے ہیں.اور ایک خود غرض یا کو تاہ فہم مولوی کے بیان کو فیصلہ ناطق سمجھ لیتے ہیں.اسی ضرر رساں سیرت نے انہیں طرح طرح کے گڑھوں اور غاروں میں ڈال دیا ہے.لہٰذا قرین مصلحت سمجھ کر کُل مخالف الرائے علماء کے مقابل محض لِلّٰہ یہ اشتہار جاری کیا جاتا ہے کہ اگر ان کو اس عاجز کے ان دعاوی مذکورہ بالا کے ۱؎ الانفال: ۴۳

Page 241

قبول کرنے میں کوئی عذر شرعی ہو یا وہ یہ خیال کرتے ہوں کہ اس عاجز کے یہ دعاوی قال اللہ اور قال الرسول کے برخلاف ہیں تو وہ ایک عام مجلس مقرر کر کے تحریری طور پر اس عاجز سے مقاصد مذکورہ بالا میں مباحثہ کر لیں تا کہ جلسہ عام میں حق ظاہر ہو جائے اور کوئی فتنہ بھی پیدا نہ ہو کیونکہ مجرد زبانی بیانات میں انواع اقسام کی خرابیوں کا احتمال ہے.سو مناسب ہے کہ ان سب میں سے وہ مولوی صاحب جو کمالات علمی میں اوّل درجہ کے خیال کئے جائیں وہی فریق ثانی کی طرف سے اس مباحثہ کے لیے مختار مقرر ہوں اور فریق ثانی کے لوگ اپنے اپنے معلومات سے ان کو مدد دیویں اور وہ (وکیل صاحب) بذریعہ تحریر ان سب دلائل کو اس عاجز کے سامنے پیش کریں.مگر مناسب ہے کہ اختصار اور حفظ اوقات کی غرض سے اپنے کُل دلائل اوّل پرچہ میں ہی پیش کر دیں اور اس عاجز کی طرف سے بھی صرف ایک پرچہ اس کے جواب میں ہو گا.وہی دونوں پرچے سوالات و جوابات کے حاضرین کو سنائے جائیں اور اخباروں میں چھپوا دیئے جائیں.اس سے حق اور باطل خود روشن ہو جائے گا اور تحریرات ہر دو فریق سے ہریک حاضر اور غائب کو خوب سوچ کے ساتھ حق کے سمجھنے اور رائے لگانے کا موقع مل جاویگا.اگرچہ کتاب ازالہ اوہام چھپ رہی ہے جو پچیس جزو کے قریب ہو گی اور یہ تمام مباحث معہ دیگر معارف وحقایق کے اس میں کامل طور پر درج ہیں مگر یہ مولوی صاحبان اس کو ہرگز نہیں دیکھیں گے تا ایسا نہ ہو کہ آنکھیں کُھل جائیں اور حق کو قبول کرنا پڑے.بلکہ مَیں نے سُنا ہے کہ ان حضرات میں سے اکثر مولوی صاحبان یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی مسلمان ان کتابوں کو نہ دیکھے. .۱؎ لیکن یہ اشتہار بہرحال انہیں دیکھنا پڑے گا.اور عوام الناس اگرچہ بڑی بڑی کتابوں کو نہیں پڑھتے مگر اس مختصر اشتہار کے مضمون سے بے خبر نہیں رہ سکتے.لہٰذا میں نے اتمامِ حجت کی نیّت سے اس کو لکھا ہے اور مَیں بآواز بلند کہتا ہوں کہ میرے پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور القاء سے حق کو کھول دیا ہے اور وہ حق جو میرے پر کھولا گیا ہے وہ یہ ہے کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کی روح اپنے خالہ زاد بھائی یحییٰ کی روح کے ساتھ دوسرے آسمان پر ہے.اس زمانہ کے لیے جو رُوحانی طور پر مسیح آنے والا تھا جس کے خبر احادیث صحیحہ میں موجود ہے وہ مَیں ہوں.یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو لوگوں

Page 242

کی نظروں میں عجیب اور تحقیر سے دیکھا جاتا ہے.اور مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ میرا دعویٰ صرف مبنی بر الہام نہیں بلکہ سارا قرآن شریف اس کا مصدّق ہے.تمام احادیث صحیحہ اس کی صحت کی شاہد ہیں.عقل خداداد بھی اس کی مؤید ہے.اگر مولوی صاحبوں کے پاس مخالفانہ طور پر شرعی دلائل موجود ہیں تو وہ جلسہ عام کر کے بطریق مذکورہ بالا مجھ سے فیصلہ کر یں.بے شک حق کو غلبہ ہو گا.میں بار بار کہتا ہوں کہ مَیں سچ پر ہوں.مولوی صاحبان سراسر اپنے علم کی پردہ دری کراتے ہیں.جبکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے.اے حضرات اللہ جَلَّ شَانُـہٗ آپ لوگوں کے دلوں کو نور ہدایت سے منور کرے.یہ دعویٰ ہرگز قال اللہ اور قال الرسول کے برخلاف نہیں بلکہ آپ لوگوں کو سمجھ کا پھیر لگا ہوا ہے.اگر آپ لوگ عام جلسہ کے لیے مقام و تاریخ مقرر کر کے ایک عام جلسہ میں مجھ سے بحث تحریری نہیں کریں گے تو آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک اور نیز راستبازوں کی نظر میں بھی مخالفِ حق ٹھہریں گے اور مناسب ہے کہ جب تک میرے ساتھ بالمواجہ تحریری طور پر بحث نہ کر لیں اس وقت تک عوام النّاس کو بہکانے اور مخالفانہ رائے ظاہر کرنے سے اپنا منہ بند رکھیں اور یہی آیت کریمہ  ۱؎ سے ڈریں ورنہ یہ حرکت حیا اور ایمان اور خدا ترسی اور منصفا نہ طریق سے برخلاف سمجھی جائے گی اور واضح رہے کہ اس اشتہار کے عام طور پر وہ تمام مولوی صاحبان مخاطب ہیں جو مخالفانہ رائے ظاہر کر رہے ہیں اورخاص طور پر ان سب کے سرگروہ یعنی مولوی ابو سعید۲؎ محمد حسین صاحب بٹالوی.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی.مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی.مولوی عبد الرحمن صاحب لکھوکے والے.مولوی شیخ عبید اللہ صاحب تبتی.مولوی عبد العزیز صاحب لدھیانوی معہ برادران اور مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری.۲۶مارچ ۱۸۹۱ء المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر میرزا غلام احمد قادیانی (مطبع دبدبہ اقبال ر ّبی لدھیانہ ) ۱؎ بنی اسراء یل: ۳۷ ۲؎ مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء کو جو مندرجہ ذیل خط حضرت اقدس علیہ السلام نے مباحثہ

Page 243

کے متعلق ارسال فرمایا تھا وہ ضمیمہ اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ مورخہ ۲۵؍ اپریل ۱۸۹۱ء میں شائع ہوا ہے اس لیے مناسب جان کر اس خط کو بھی یہاں نقل کر دیا جاتا ہے تا کہ محفوظ ہو جائے.(مرتب)  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ از عاجز عَائِذ بِاللّٰہِ الصَّمَدْ غلام احمد عافاہ اللّٰہ … بخدمت اخویم مولوی محمد حسین صاحب اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُـہٗ.آپ کا تار جس میں یہ لکھا تھا کہ تمہارے وکیل بھاگ گئے ان کو لوٹاؤ یا آپ آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جائو گے پہنچا.اے عزیز شکست اور فتح خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے فتح مند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے شکست دیتا ہے.کون جانتا ہے کہ واقعی طور پر فتح مند کون ہونیوالا ہے اور شکست کھانے والا کون ہے.جو آسمان پر قرار پا گیا وہی زمین پر ہو گا گو دیر سے سہی لیکن اس عاجز کو تعجب ہے کہ آپ نے کیونکر گمان کر لیا کہ محبی فی اللہ مولوی حکیم نور الدین صاحب آپ سے بھاگ کر چلے آئے.آپ نے ان کو کب بُلایا تھا کہ تا وہ آپ سے اجازت مانگ کر آتے.اصل بات تو صرف اس قدر تھی کہ حافظ محمد یوسف صاحب نے مولوی صاحب ممدوح کی خدمت میں خط لکھا تھا کہ مولوی عبد الرحمن صاحب اس جگہ آئے ہوئے ہیں.مَیں نے ان کو دو تین روز کے لیے ٹھہرا لیا ہے تا ان کے روبرو ہم بعض شبہات آپ سے دُور کرا لیں اور یہ بھی لکھا کہ اس مجلس میں ہم مولوی محمد حسین صاحب کو بھی بُلا لیں گے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف حافظ صاحب کے اصرار کی وجہ سے لاہور میں پہنچے اور منشی امیر الدین صاحب کے مکان پر اُترے اور اس تقریب پر حافظ صاحب نے اپنی طرف سے آپ کو بھی بُلا لیا تھا.مولوی عبد الرحمن صاحب تو عین تذکرہ میں اُٹھ کر چلے گئے اور جن صاحبوں نے آپ کو بُلایا تھا.انہوں نے مولوی صاحب کے آگے بیان کیا کہ ہمیں مولوی صاحب محمد حسین کا طریق بحث پسند نہیں آیا.یہ تو سلسلہ دو برس تک ختم نہیں ہو گا.آپ خود ہمارے سوال کا جواب دیجئے.ہم مولوی محمد حسین صاحب کے آنے کی ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ انہوں نے آپ کو بُلایا ہے.تب جو کچھ ان لوگوں نے پوچھا.مولوی صاحب موصوف نے بخوبی اُن کی تسلّی کر دی.یہاں تک کہ تقریر ختم ہونے کے بعد حافظ محمد یوسف صاحب نے باانشراح صدر بآواز بلند کہا کہ اے حاضرین! میری تومِنْ کُلِّ الْوُجُوْہ تسلی ہو گئی.اب میرے دل میں نہ کوئی شبہ اور نہ کوئی اعتراض باقی ہے.پھر بعد اس کے یہی تقریر منشی عبد الحق صاحب اور منشی الٰہی بخش صاحب اور منشی امیر الدین صاحب اور میرزا امان اللہ صاحب نے کی اور بہت خوش ہو کر ان سب نے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور تہہ دل سے قائل ہو گئے کہ اب کوئی شک باقی نہیں اور مولوی صاحب کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ہم نے محض اپنی تسلّی کرانے کے لیے آپ کو تکلیف دی تھی

Page 244

سو ہماری بکلّی تسلّی ہو گئی.آپ بلاجرح تشریف لے جائیے.سو انہوں نے ہی بُلایا اور انہوں نے ہی رخصت کیا.آپکا تو درمیان میں قدم ہی نہ تھا.پھر آپ کا یہ جوش جو تار کے فقرات سے ظاہر ہوتا ہے کس قدر بے محل ہے.آپ خود انصاف فرماویں.جب کہ ان سب لوگوں نے کہہ دیا کہ اب ہم مولوی صاحب محمد حسین کو بُلانا نہیں چاہتے، ہماری تسلی ہو گئی اور وہی تو ہیں جنہوں نے مولوی صاحب کو لدھیانہ سے بُلایا تھاتو پھر مولوی صاحب آپ سے کیوں اجازت مانگتے.کیا آپ نہیں سمجھ سکتے اور اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ بحث ہونی چاہیے جیسا کہ آپ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں تو یہ عاجز بسر و چشم حاضر ہے.مگر تقریری بحثوں میں صدہا طرح کا فتنہ ہوتا ہے.صرف تحریری بحث چاہیئے اور وہ یوں ہو کہ سادہ طور پر چار ورق کاغذ پر آپ جو چاہیں لکھ کر پیش کریں اور لوگوں کو بآواز بلند سُنا دیں اور ایک نقل اس کی اپنے دستخط سے مجھے دیدیں.پھر بعد اس کے میں بھی چار ورق پر اس کا جواب لکھوں اور لوگوں کو سُنائوں.ان دونوں پرچو ں پر بحث ختم ہو جاوے اور فریقین میں سے کوئی ایک کلمہ تک تقریری طور پر اس بحث کے بارہ میں بات نہ کرے.جو کچھ ہو تحریری ہو اور پرچے صرف دو ہوں.اوّل آپ کی طرف سے ایک چو ورقہ جس میں آپ میرے مشہور کردہ دعوے کا قرآن کریم اور حدیث شریف کی رُو سے ردّ لکھیں اور پھر دوسرا پرچہ چو ورقہ اسی تقطیع کا میری طرف سے ہو جس میں مَیں اللہ جلّ شَانُـہٗ کے فضل و توفیق سے ردّالرّد لکھوں اور انہی دونوں پرچوں پر بحث ختم ہو جاوے.اگر آپ کو ایسا منظور ہو تو میں لاہور آ سکتا ہوں.اور انشا ء اللہ تعالیٰ امن قائم رکھنے کے لیے انتظام کرادوں گا.یہی آپ کے رسالہ کا بھی جواب ہے.اب اگر آپ نہ مانیں تو پھر آپ کی طرف سے گریز متصور ہو گی.والسلام میرزا غلام احمد از لدھا نہ اقبال گنج ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء مکرر یہ کہ جس قدر ورق لکھنے کے لیے آپ پسند کر لیں اسی قدر اوراق پر لکھنے کی مجھے اجازت دی جاوے.لیکن یہ پہلے سے جلسہ میں تصفیہ پا جانا چاہیے کہ آپ اس قدر اوراق لکھنے کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور آنمکرم اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ پرچہ صرف دو ہوں گے.اوّل آپ کی طرف سے میرے ان دونو بیانات کا ردّ ہو گا جو مَیں نے لکھا ہے کہ مَیں مثیل مسیح ہوں اور نیز یہ کہ حضرت ابن مریم درحقیقت وفات پا گئے ہیں.پھر اس ردّ کے ردّ الرد کے لیے میری طرف سے تحریر ہو گی.غرض پہلے آپ کایہ حق ہو گا کہ جو کچھ ان دعوے کے ابطال کے لیے آپ کے پاس ذخیرہ نصوص قرآنیہ و حدیث موجود ہے وہ آپ پیش کریں.پھر جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گا یہ عاجز اس کا جواب دے گا اور بغیر اس طریق کے جو مبنی باانصاف ہے اور نیز امن رہنے کے لیے احسن انتظام ہے اور کوئی طریق اس عاجز کو منظور نہیں.اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو پھر ہماری طرف سے یہ اخیر تحریر تصور فرماویں اور خود بھی خط لکھنے کی تکلیف روانہ رکھیں اور بحالت انکار ہرگز ہرگز کوئی تحریر یا خط میری طرف نہ لکھیں اور اگر پوری پوری و کامل طور پر بلا کم و بیش میری رائے ہی منظور ہو تو اسی حالت میں

Page 245

جواب فرماویں ورنہ نہیں.فقط آج ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ کی خدمت میں خط بھیجا گیا ہے.اور ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کے جواب کی انتظاری رہے گی.اگر ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کا خط نہ پہنچا تو یہ خط آپ کے رسالہ کے جواب میں کسی اخبار وغیرہ میں شائع کر دیا جائے گا.فقط.آج بھوپال سے آپ کا ایک کارڈ مرقومہ ۹؍ اپریل ۱۸۹۱ء مرسلہ اخویم مولوی محمد احسن صاحب مہتمم مصارف ریاست پڑھ کر آپ کے اخلاق کریمہ اور مہذبانہ تحریر کا نمونہ معلوم ہو گیا.آپ اپنے کارڈ میں فرماتے ہیں کہ میں نے میرزا غلام احمد کے اس دعویٰ جدید کی اپنے ریویو میں تصدیق نہیں دی بلکہ اس کی تکذیب خود براہین میں موجود ہے.آپ بلاروایت میرزا پر ایمان لے آئے.تَسْمَعُ بِالْمُعَیْدِیْ خَیْرٌ مِّنْ اَنْ تَرَاہُ.اشاعۃ السنہ میں اب ثابت ہے کہ یہ شخص ملہم نہیں ہے.فقط حضرت مولوی صاحب مَن آنم کہ مَن دانم.آپ جہاں تک کہ ممکن ہے ایسے الفاظ استعمال کیجئے.میں کیا ہوں اور میری شان کیا.بے شک آپ جو چاہیں کہیں اور اس وعدۂ تہذیب کی پرواہ نہ رکھیں جس کو آپ چھاپ چکے ہیں.رَبِّی سَمِیْعٌ وَّ یَرٰی.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.(خط ۱؎ مرزا صاحب بنام مولوی عبد الجبار صاحب)  مشفقی اخوی ام مولوی عبد الجبار صاحب! السلام علیکم! ایک اشتہار جوعبد الحق صاحب کے نام سے جاری کیا گیا ہے.جس میں مباہلہ کی درخواست کی ہے کل کی ڈاک میں مجھ کو ملا.چونکہ میں نہیں جانتا کہ عبد الحق کون ہے.آیا کسی گروہ کا مقتدی یا مقتدا ہے.اس وجہ سے آپ ہی کی طرف خط ہذا لکھتا ہوںاس خیال سے کہ میری رائے میں وہ آپ ہی کی جماعت میں سے ہے اور اشتہار بھی دراصل آپ ہی کی تحریک سے لکھا گیا ہو گا.پس واضح ہو کہ مباہلہ پر مجھے کسی طرح سے اعتراض نہیں.جس حالت میں مَیں نے اس مدعا کی غرض سے قریب بارہ ہزار کے خطوط و اشتہارات مختلف ملکوں میں بڑے بڑے مخالفوں کے نام روانہ کئے ہیں تو پھر آپ سے مباہلہ کرنے میں کونسی تأمّل کی جگہ ہے.یہ بات سچ ہے کہ اللّٰہ جَلَّ شَانُـہٗ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارہ میں پہلے ۱؎ اس خط کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ کے اس اشتہار میں ہے جو آگے نمبر ۵۹ پر درج ہے.ملاحظہ ہو صفحہ ۲۳۰(مرتب)

Page 246

سے قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے.سو میں اسی الہام کی بنا پر اپنے تئیں وہ موعود مثیل سمجھتا ہوں جس کو دوسرے لوگ غلط فہمی کی وجہ سے مسیح موعود کہتے ہیں.مجھے اس بات سے انکار بھی نہیں کہ میرے سوا کوئی اور مثیل مسیح بھی آنے والا ہو بلکہ ایک آنے والا تو خود میرے پر بھی ظاہر کیا گیا ہے جو میری ہی ذرّیّت میں سے ہو گا.لیکن اس جگہ میرا دعویٰ جو بذریعہ الہام مجھے یقینی طور پر سمجھایا گیا ہے صرف اتنا ہے کہ قرآن شریف اور حدیث میں میرے آنے کی خبر دی گئی ہے.مَیں اس سے ہرگز انکار نہیں کر سکتا اور نہ کرونگا کہ شاید مسیح موعود کوئی اور بھی ہو اور شاید یہ پیشگوئیاں جو میرے حق میں روحانی طور پر ہیں ظاہری طور پر اس پر جمتی ہوں اور شاید سچ مچ دمشق میں کوئی مثیلِ مسیح نازل ہو.لیکن میرے پر یہ کھول دیا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم جن پر انجیل نازل ہوئی تھی فوت ہو چکا ہے.اور یحییٰ کی رُوح کے ساتھ اس کی رُوح دوسرے آسمان میں اور اپنے سماوی مرتبہ کے موافق بہشت بریں کی سیر کر رہی ہے.اب وہ روح بہشت سے بموجب وعدہ الٰہی کے جو بہشتیوں کے لیے قرآن شریف میں موجود ہے نکل نہیں سکتی اورنہ دو موتیں ان پر وارد ہو سکتی ہیں.ایک موت جو ان پر وارد ہوئی وہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے اور ہمارے اکثر مفسر بھی اس کے قائل ہیں اور ابن عباس کی حدیث سے بھی اس کاثبوت ظاہر ہے اور انجیل میں بھی لکھا ہے اور نیز توریت میں بھی.اب دوسری موت ان کے لیے تجویز کرنا خلاف نص و حدیث ہے.وجہ یہ کہ کسی جگہ ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ دو مرتبہ مریں گے.یہ تو میرے الہامات اور مکاشفات کا خلاصہ ہے جو میرے رگ و ریشہ میں رچا ہوا ہے اور ایسا ہی اس پر ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ کتاب اللہ پر اور اسی اقرار اور انہی لفظوں کے ساتھ میں مباہلہ بھی کرونگا اور جو لوگ اپنے شیطانی اوہام کو ربّانی الہام قرار دے کر مجھے جہنمی اور ضال قرار دیتے ہیں ایسا ہی ان سے بھی ان کے الہامات کے بارہ میں اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی حلف لوں گا کہ کہاں تک انہیں اپنے الہامات کی یقینی معرفت حاصل ہے، مگر بہرحال مباہلہ کے لیے میں مستعد کھڑا ہوں، لیکن امور مفصلہ ذیل کا تصفیہ ہونا پہلے مقدم ہے.اوّل یہ کہ چند مولوی صاحبان نامی جیسے مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری بالاتفاق یہ فتویٰ لکھ دیں کہ ایسی جزئیات خفیفہ میں اگر الہامی یا اجتہادی طور پر اختلاف واقع ہو تو اس کا فیصلہ بذریعہ لعن طعن کرنے اور ایک دوسرے کو بددعا دینے کے جس کا دوسرے لفظوں میں مباہلہ نام ہے کرنا جائز ہے کیونکہ میرے خیال میں جزئی اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو لعنتوں کا نشانہ بنانا ہر گز

Page 247

نہیں کیونکہ ایسے اختلافات اصحابوں میں ہی شروع ہو گئے تھے.مثلاً حضرت ابن عباس محدث کی وحی کو نبی کی وحی کی طرح قطعی سمجھتے تھے اور دوسرے ان کے مخالف تھے.ایسے ہی صاحب صحیح بخاری کا یہ عقیدہ تھا کہ کتب سابقہ یعنی توریت و انجیل وغیرہ محرف نہیں ہیں.اور اُن میں کچھ لفظی تحریف نہیں ہوئی حالانکہ یہ عقیدہ اجماع مسلمین کے مخالف ہے اور بایں ہمہ سخت مضر بھی ہے اور نیز بہ بداہت باطل ایسا ہی محی الدین ابن عربی رئیس المتصوفین کا یہ عقیدہ ہے کہ فرعون دوزخی نہیں ہے اور نبوت کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا اور کفار کے لیے عذابِ جادوانی نہیں اور مذہب وحدۃ الوجود کے بھی گویا وہی موجد ہیں.پہلے ان سے کسی نے ایسی واشگاف کلام نہیں کی.سو یہ چاروں عقیدے ان کے ایسا ہی اور بعض عقائد بھی اجماع کے برخلاف ہیں.اسی طرح شیخ عبد القادر جیلانی قَدّسَ سِرُّہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اسمٰعیل ذبیح نہیں ہیں بلکہ اسحق ذبیح ہے حالانکہ تمام مسلمانوں کا اسی پر اتفاق ہے کہ ذبیح اسمٰعیل ہے اور عید الضحیٰ کے خطبہ میں اکثر ملّا صاحبان رو رو کر انہی کا حال سنایا کرتے ہیں.اسی طرح صدہا اختلافات گزشتہ علماء و فضلاء کے اقوال میں پائے جاتے ہیں.اسی زمانہ میں بعض علماء مہدی موعود کے بارہ میں دوسرے علماء سے اختلاف رکھتے ہیں کہ وہ سب حدیثیں ضعیف ہیں.غرض جزئیات کے جھگڑے ہمیشہ سے چلے آتے ہیں مثلاً یزید پلید کی بیعت پر اکثر لوگوں کا اجماع ہو گیا تھا مگر امام حسینؓ نے اور ان کی جماعت نے اس اجماع کو قبول نہیں کیا اور اس سے باہر رہے اور بقول میاں عبدالحق اکیلے رہے.حالانکہ حدیث صحیح میں ہے گو خلیفۂ وقت فاسق ہی ہو بیعت کر لینی چاہیے اور تخلّف معصیّت ہے.پھر انہی حدیثوں پر نظر ڈال کر دیکھو جو مسیح کی پیشگوئی کے بارہ میں ہیں کہ کس قدر اختلافات سے بھری ہوئی ہیں.مثلاً صاحب بخاری نے دمشق کی حدیث کو نہیں لیا اور اپنے سکوت سے ظاہر کر دیا کہ اس کے نزدیک یہ حدیث صحیح نہیں ہے اور ابنِ ماجہ نے بجائے دمشق کے بیت المقدس لکھا ہے اور اب حاصل کلام یہ ہے کہ ان بزرگوں نے باوجود ان اختلافات کثیرہ کے ایک دوسرے سے مباہلہ کی درخواست ہرگز نہیں کی اور ہرگز روا نہیں رکھا کہ ایک دوسرے پر لعنت کریں بلکہ بجائے لعنت کے یہ حدیث سُناتے رہے کہ اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ.اب یہ نئی بات نکلی ہے کہ ایسے اختلافات کے وقت میں ایک دوسرے پر لعنت کریں اور بددعا اور گالی اور دُشنام کر کے فیصلہ کرنا چاہیے ہاں اگر کسی ایک شخص پر سراسر تہمت کی راہ سے کسی فسق اور معصیت کا الزام لگایا جاوے جیسا کہ مولوی اسمٰعیل صاحب ساکن علی گڑھ نے اس عاجز پر لگایا تھا کہ نجوم سے کام لیتے ہیں اور اس کا نام الہام رکھتے ہیں تو مظلوم کو حق

Page 248

پہنچتا ہے کہ مباہلہ کی درخواست کرے.مگر جزئی اختلافات میں جو ہمیشہ سے علماء و فقراء میں واقع ہوتے رہتے ہیں، مباہلہ کی درخواست کرنا یہ غزنوی بزرگوں کا ہی ایجاد ہے، لیکن اگر علماء ایسے مباہلہ کا فتویٰ دیں تو ہمیں عذر بھی کچھ نہیں کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم اس ملاعنہ کے طریق سے جس کا نام مباہلہ ہے اجتناب کریں تو یہی اجتناب ہمارے گریز کی وجہ سمجھی جائے.اور حضرات غزنوی خوش ہو کر کوئی دوسرا اشتہار عبد الحق کے نام چھپوا دیں اور لکھ دیں کہ مباہلہ قبول نہیں کیا.اور بھاگ گئے، لیکن دوسری طرف ہمیں یہ بھی خوف ہے کہ اگر ہم مسلمانوں پر خلاف حکم شرع اور طریق فقر کے لعنت کرنے کے لیے امرتسر پہنچیں تو مولوی صاحبان ہم پر یہ اعتراض کر دیں کہ مسلمانوں پر کیوں لعنتیں کیں اور ان حدیثوں سے کیوں تجاوز کیا جو مومن لعّان نہیں ہوتا اور اس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہتے ہیں.سو پہلے یہ ضروری ہے کہ فتویٰ لکھا جاوے اور اس فتوے پر ان تینوں مولوی صاحبان کے دستخط ہوں جن کا ذکر میں لکھ چکا ہوں.جس وقت وہ استفتاء مصدقہ بمواہیر علماء میرے پا س پہنچے تو پھر حضرات غزنوی مجھے امرتسر پہنچا سمجھ لیں.ما سوا اس کے یہ بھی دریافت طلب ہے کہ مباہلہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں منجانب اللہ تجویز کیا گیا تھا وہ کفار و نصاریٰ کی ایک جماعت کے ساتھ تھا جو نجران کے معزز اور مشہور نصرانی تھے.اس سے معلوم ہوا کہ مباہلہ ہو، ایک مسنون امر ہے کہ اس میں ایک فریق کا کافر یا ظالم کس کو خیال کیا گیا ہے.اور نیز یہ بھی دریافت طلب ہے کہ جیسا کہ نجران کے نصاریٰ کی ایک جماعت تھی آپ کی کوئی جماعت ہے یا صرف اکیلے میاں عبد الحق صاحب قلم چلا رہے ہیں.تیسرا یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ اس اشتہار کے لکھنے والے درحقیقت کوئی صاحب آپ کی جماعت میں سے ہیں جن کا نام عبدالحق ہے یا یہ فرضی نام ہے.اور یہ بھی دریافت طلب ہے کہ آپ بھی مباہلین کے گروہ میں داخل ہیں یا کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں.اگر داخل نہیں تو کیا وجہ؟ اور پھر وہ کونسی جماعت ہے جن کے ساتھ نساء و ابناء و اخوانبھی ہوں گے جیسا کہ منشاء آیت کا ہے.ان تمام امور کا جواب بواپسی ڈاک ارسال فرماویں اور نیز یہ سارا خط میاں عبد الحق کو بھی حرف بحرف سنا دیں.اور میاں عبد الحق نے اپنے الہام میں جو مجھے جہنمی اور ناری لکھا ہے اس کے جواب میں مجھے کچھ ضرورت لکھنے کی نہیں ہے کیونکہ مباہلہ کے بعد خود ثابت ہو جائے گا کہ اس خطاب کا مصداق کون ہے، لیکن جہاں تک ہو سکے آپ مباہلہ کے لیے کاغذاستفتاء تیار کر کے مولوی صاحبین

Page 249

موصوفین کی مواہیر ثبت ہونے کے بعد وہ کاغذ میرے پاس بھیج دیں.اگر اس میں کچھ توقف کریں گے یا میاں عبدالحق چپ کر کے بیٹھ جائیں گے تو گریز پر حمل کیا جائے گا اور واضح رہے اس خط کی چار نقلیں چار اخبار میں اور نیز رسالہ ازالہ اوہام میں چھاپ دی جائیں گی.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.الـــــــــــــــــــــــــــــــــــــراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور یکم رجب ۱۳۰۸ ھ مطابق ۱۱؍ فروری ۱۸۹۱ء منقول از ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر مطبوعہ ۱۵؍ مارچ ۱۸۹۱ء صفحہ نمبر ۱ کالم نمبر ۲ تا صفحہ نمبر ۴کالم نمبر۱کے سائز پر ہے.(مرتب)

Page 250

  .۱؎ مُباہلہ کے اشتہار کا جواب ناظرین کو معلوم ہو گا کہ میاں عبد الحق صاحب غزنوی کے پہلے اشتہار کے جواب میں جو مباہلہ کے لیے انہوں نے شائع کیا تھا.اس عاجز نے یہ جواب لکھا تھا کہ مسلمانوں کے جزئی اختلافات کی وجہ سے باہم مباہلہ کرنا عند الشرع ہرگز جائز نہیں.مذہب اسلام ایسے اختلافات سے بھرا پڑا ہے.حضرت مسیح ابن مریم کا جسم خاکی کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھایا جانا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی طور پر اُٹھائے جانے کی نسبت جو معراج کی رات میں بیان کیا جاتا ہے، کچھ زیادہ عزت کے لائق نہیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی صعود کی نسبت مسیح کے جسمانی صعود کا کچھ زیادہ ثبوت پایا جاتا ہے.اور ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے برخلاف ایک اجماع کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی معراج کا بکلّی انکار کر دیا ہے، مگر کسی صحابی نے ان سے مباہلہ کی درخواست نہیں کی.ماسوا اس کے اور بہت سے اختلافات صحابہ میں واقع ہوئے یہاں تک کہ بعض نے بعض قرآن شریف کی سُورتوں کو قرآن شریف میں داخل نہیں سمجھا.اور پھر ہر ایک زمانہ میں جزئی اختلافات کا سلسلہ بڑھتا گیا اور اس سلسلہ کو کچھ تو ائمہ اربعہ اور محدّثین اور مفسرین نے وسعت دی اور ہزارہا جزئیات مختلفہ آگے رکھ دئیے اور کچھ اہلِ کشف نے ان اختلافات کو بڑھایا.۱؎ الاعراف: ۹۰

Page 251

چنانچہ ارباب کشف میں سے سب سے قدم بڑھا ہوا حضرت ابن عربی قدّس سرہٗ کا ہے.اور بعض مکاشفات سیّد عبد القادر جیلانی قدّس سرہٗ بھی ایسے ہیں جو احادیث صحیحہ سے منافی و مغائر ہیں چنانچہ ابن تیمیہ کا قول ہے کہ احادیث صحیحہ کی رو سے اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ ذبیح اسماعیل ہیںمگر سیّد عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ اسحاق ؑ کو ذبیح ٹھہراتے ہیں.ایسا ہی قریب اجماع کے یہ عقیدہ بھی ہے جو کتب سابقہ توریت وغیرہ میں تحریف لفظی ہو گئی ہے.مگر حضرت محمد اسماعیل رئیس المحدثین اس اجماع کے مخالف ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر ان تمام جزئیات میں بطریق مباہلہ فیصلہ کرنا جائز ہوتا تو خدا تعالیٰ ہرگز اس اُمّت کو مہلت نہ دیتا کہ اب تک وہ دنیا میں قائم رہ سکتی.ذرا سوچ کر دیکھنا چاہیے کہ چونکہ درحقیقت حالت اسلام کی خیر القرون سے ہی ایسی واقعہ ہو گئی ہے کہ حنفی مذہب شافعی مذہب سے صدہا جزئیات میں اختلاف رکھتا ہے ایسا ہی شافعی مالکی سے اور مالکی حنبلی سے سینکڑوں جزئی مسائل میں مختلف ہے اور محد ثین کو بھی کسی ایک مذہب سے بکلّی مطابقت نہیں ہے اور پھر وہ بھی باہم جزئیات کثیرہ میں اختلاف رکھتے ہیں.اِدھر اہلِ کشف کے اختلافات کا بھی ایک دفتر ہے یہاںتک کہ بعض نے نبوتِ تامّہ کے سلسلہ کو منقطع نہیں سمجھا.جاودانی عذاب کے قائل نہیں ہوئے.اور ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ایسا مذہب نہیں کہ جو جزئیات کے اختلاف میں غلطی اور خطاء کے احتمال سے خالی ہو.اب اگر فرض کریں کہ ان سب میں اختلافات جزئیہ کی وجہ سے مباہلہ واقع ہو اور خداوندتعالیٰ مُخطی پر عذاب نازل کرے تو بلا شبہ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمام متفرق فرقے اسلام کے صفحہء زمین سے یک لخت نابود ہوں.پس ہر ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز منشاء نہیں کہ اہلِ اسلام ان تمام اختلافات جزئیہ کی وجہ سے ہلاک کئے جائیں.سو ایسے مباہلات سے اسلام کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا.اور اگر یہ عند اللہ جائز ہوتا تو اسلام کا کب سے خاتمہ ہو جاتا.اس کے جواب میں میاںعبد الحق صاحب اپنے دوسرے اشتہار میں اس عاجز کو یہ لکھتے ہیں کہ اگر مباہلہ مسلمانوں سے بوجہ اختلافات جزئیہ جائز نہیں تو پھر تم نے مولوی محمد اسماعیل سے رسالہ فتح اسلام میں کیوں مباہلہ کی درخواست کی.سو انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ درخواست کسی جزئی اختلاف کی

Page 252

بناء پر نہیں بلکہ اس افترا کا جواب ہے جو انہوں نے عمدًا کیا اور یہ کہا کہ میرا ایک دوست جس کی بات پر مجھے بکلی اعتماد ہے.دو مہینے تک قادیان میں میرزا غلام احمد کے مکان پر رہ کر بچشم خود دیکھ آیا ہے کہ ان کے پاس آلاتِ نجوم ہیں اور انہیں کے ذریعہ وہ آئندہ کی خبریں بتلاتے ہیں اور ان کا نام الہام رکھ لیتے ہیں.اب دیکھنا چاہیے کہ اس صورت کو جزئی اختلاف سے کیا تعلق ہے بلکہ یہ تو اس قسم کی بات ہے جیسے کوئی کسی کی نسبت یہ کہے کہ مَیں نے اس کو بچشم خود زنا کرتے دیکھا یا بچشم خود شراب پیتے دیکھا.اگر میں اس بے بنیاد افترا کے لیے مباہلہ کی درخواست نہ کرتا تو اور کیا کرتا؟ بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں مباہلہ مسنونہ سے انکار نہیں.اگر انکار ہے تو ایسے مباہلہ سے جس کا قرآن اور حدیث سے نشان نہیں ملتا.اگر اس طور پر مباہلہ کرنا چاہو کہ جس طور سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درخواست کی تھی تو ہم بدل وجان مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں.یقینا تمہیں معلوم ہو گا کہ وہ مباہلہ جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ سے درخواست کی تھی.وہ یہ تھا کہ آنجناب کو وحی الٰہی سے یقینی طور پر معلوم ہوا کہ عیسائی لوگ اس بات میں جھوٹے ہیں جو انہوں نے مسیح ابن مریم کو خدا کا بیٹا بلکہ خدا بنا رکھا ہے.سچ صرف اس قدر ہے کہ مسیح ؑ نبی تھا اور خدا تعالیٰ کا بندہ تھا اور اس سے زیادہ جو کچھ ہے وہ عیسائیوں کا افترا ہے.اِدھر عیسائی بھی کلام اللہ کے اس بیان کو خدا تعالیٰ کا کلام نہیں سمجھتے تھے بلکہ خیال کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نعوذ باللہ اپنا افترا ہے.چنانچہ اوّل ان کے اسکات و الزام کے لیے ہر ایک قسم کے دلائل و نشان قرآن شریف نے پیش کئے، مگر انہوں نے اپنے تعصب کی وجہ سے ان دلائل کو قبول نہ کیا.آخر جب انہوں نے کسی دلیل کو قبول نہ کیااور کسی نشان پر ایمان نہ لائے تو اتمام حجت کی غرض سے مباہلہ کے لیے ان سے درخواست کی گئی اور یہ درخواست صرف اس بنا پر تھی کہ ہم پر خدا تعالیٰ نے یہ بات یقینی طور پر کھول دی ہے کہ تم اس اعتقاد میں کہ مسیح ابن مریم سچ مچ خد اکا بیٹا اور خدا ہے، مفتری ہو.خدا تعالیٰ نے انجیل میں ہرگز ایسی تعلیم نہیں دی کہ اس کا کوئی دوسرا شریک بھی ہے اور درحقیقت اس کا کوئی بیٹا بھی ہے جو بیٹا ہونے کی وجہ سے خدا بھی ہے.اگر تمہیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے تو بقول تمہارے

Page 253

ہم مفتری ٹھہرے.تو آئو باہم مباہلہ کریں تا اس شخص پر جو کاذب اور مفتری ہے خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو.اور فرمایا کہ مباہلہ کے لیے ایک نہیں بلکہ دونوں طرف سے جماعتیں آنی چاہئیں.تب مباہلہ ہو گا.جیسا کہ فرماتا ہے. .       .۱؎ ۲؎ یعنی مسیح کا بندہ ہونا بالکل سچ اور شک سے منزّہ ہے.اور اگر اب بھی عیسائی لوگ مسیح ابن مریم کی الوہیت پر تجھ سے جھگڑا کریں اور خدا تعالیٰ کے اس بیان کو جو مسیح درحقیقت آدم کی طرح ایک بندہ ہے گو بغیر باپ کے پیدا ہوا دروغ سمجھیں اور انسا ن کا افترا خیال کریں.تو ان کو کہہ دے کہ اپنے عزیزوں کی جماعت کے ساتھ مباہلہ کے لیے آویں.اور ادھر ہم بھی اپنی جماعت کے ساتھ مباہلہ کے لیے آویں گے.پھر جھوٹوں پر لعنت کریں گے.اب اس تمام بیان سے بوضاحت کھل گیا کہ مسنون طریق مباہلہ کا یہ ہے کہ جو شخص مباہلہ کی درخواست کرے اس کے دعویٰ کی بنا ایسے یقین پر ہو جس یقین کی وجہ سے وہ اپنے فریق مقابل کو قطعی طور پر مفتری اور کاذب خیال کرے اور اس یقین کا اس کی طرف سے بصراحت اظہار چاہیے کہ میں اس شخص کو مفتری جانتا ہوں.نہ صرف ظن اور شک کے طور سے بلکہ کامل یقین سے.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ بالا میں ظاہر فرمایا ہے.پھر ان آیات سے یہ بھی ظا ہر ہے کہ پہلے خدا تعالیٰ نے دلائل بیّنہ سے بخوبی عیسائیوں کو سمجھا دیا کہ عیسیٰ بن مریم میں کوئی خدائی کا نشان نہیں.اور جب باز نہ آئے تو پھر مباہلہ کے لیے درخواست کی.اور نیز آیات موصوفہ بالا سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسنون طریقہ مباہلہ کا یہی ہے کہ دونوں طرف سے جماعتیں حاضر ہوں.اگر جماعت سے کسی کو بے نیازی حاصل ہوتی تو اس کے اوّل مستحق ہمارے ۱؎ اس آیت میں لفظ  صاف ہمارے مدعا اور بیان کا شاہد ناطق ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ  فرما کر ظاہر کرتا ہے کہ مباہلہ اسی صورت میں جائز ہے کہ جب فریقین ایک دوسرے کو عمداً دروغ باز یقین کرتے ہوں نہ یہ کہ صرف مُخطی خیال کرتے ہوں.۲؎ اٰل عمران: ۶۱، ۶۲

Page 254

نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے.یہ کیا انصاف کی بات ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مباہلہ کے لیے جماعت کے محتاج ٹھہرائے جائیں اور میاں عبد الحق اکیلے کافی ہوں؟ عجب بات ہے کہ مباہلہ کے لیے تو دوڑتے ہیں اور پہلے ہی قدم میں فرمودئہ خدا اور رسول کو چھوڑتے ہیں.اور اگر کوئی جماعت ساتھ ہے تو بذریعہ اشتہار اس کا نام لینا چاہیے.اگر اصل حقیقت پر غور کیا جاوے تو مباہلہ کی درخواست کرنا ہمارا حق تھا.اور وہ بھی اس وقت جب ہم اپنے دعوے کو دلائل و بیّنات مفصلہ و مسکتہ سے مؤید و مستند کر چکتے مگر اب بھی تنزلاً ترحماً لِلّٰہ مباہلہ کے لیے تیار ہیں.مگر انہیں شرائط کے ساتھ جو مذکور ہو چکیں.اب ناظرین یاد رکھیں کہ جب تک یہ تمام شرائط نہ پائے جائیں تو عند الشرع مباہلہ ہرگز درست نہیں.مباہلہ میں دونوں فریق ایسے چاہئیں کہ درحقیقت یقینی طور پر ایک دوسرے کو مفتری سمجھیں اور وہ حسنِ ظن جو مومن پر ہوتا ہے ایک ذرّہ ان کے درمیان موجود نہ ہو ورنہ اجتہادی اختلافات میں ہرگز مباہلہ جائز نہیں اور اگر مباہلہ ہو گا تو ہرگز کو ئی ثمرہ مترتب نہیں ہو گا اور ناحق غیر مذہب والے ہنسی ٹھٹھا کریں گے.خدا تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کو ان کے اجتہادی اختلافات کی وجہ سے تہ تیغ کر دیوے اور دشمنوں کو ہنساوے.پس میاں عبد الحق اور ان کے پوشیدہ انصار کو مناسب ہے کہ اگر مباہلہ کا شوق ہے تو سنّت نبوی اور کلام ربِّ عزیز کا اقتداء کریں.قرآن کریم کے منشاء کے خلاف اگر مباہلہ ہو تو وہ ایمانی مباہلہ ہرگز نہیں.افغانی مباہلہ ہو تو ہو.اب میں ایک دفعہ پھر ان تمام مولوی صاحبان کو جنہیں پہلے اشتہار میںمخاطب کیا گیا تھا.اِتْمَامًا لِلْحُجَّۃ دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ اگر میرے دعاوی اور بیانات کی نسبت انہیں تردّد ہو تو حسبِ شرائط اشتہار سابقہ مجلس مباحثہ کی منعقد کر کے ان اوہام کا ازالہ کرا لیں.ورنہ یا د رکھیں کہ یہ امر کمال معصیت کا موجب ہے کہ خود اپنے اوہام کے ازالہ کی فکر نہ کریں اور دوسروں کو ورطۂ اوہام میں ڈالیں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشـــــــــــــــــــــــــــــــــتھر ِمیرزا غلام احمد قادیانی ۱۲؍ اپریل ۱۸۹۱ء (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۱ تا ۷)

Page 255

اعلان .۱؎ چونکہ یہ عاجزعرصہ تین سال سے عزیزم میرزا غلام احمد صاحب پر بدگمان تھا.لہٰذا وقتاً فوقتاً نفس و شیطان نے خدا جانے کیا کیا ان کے حق میں مجھ سے کہوایا جس پر آج مجھ کو افسوس ہے.اگرچہ اس عرصہ میں کئی بار میرے دل نے مجھے شرمندہ بھی کیا، لیکن اس کے اظہار کا یہ وقت مقدر تھا.باعث اس تحریر کا یہ ہے کہ ایک شخص نے میرزا صاحب کو خط لکھاکہ میں تم سے موافقت کیونکر کروں.تمہارے رشتہ دار (یعنی یہ عاجز) تم سے برگشتہ و بدگمان ہیں.اس کو سُن کر مجھے سخت ندامت ہوئی.اور ڈرا کہ ایسا نہ ہوکہ کہیں اپنے گناہوں کے علاوہ دوسروں کے نہ ما ننے کے وبال میں پکڑا جائوں.لہٰذا یہ اشتہار دے کر مَیں بَری الذمہ ہوتا ہوں.مَیں نے جو کچھ مرزا صاحب کو فقط اپنی غلط فہمیوں کے سبب سے کہا نہایت بُرا کیا.اب مَیں توبہ کرتا ہوں اور اس توبہ کا اعلان اس لئے دیتا ہوں کہ میری پیروی کے سبب سے کوئی وبال میں نہ پڑے.اب سب لوگ جان لیں کہ مجھے کسی طرح کی بد گمانی میرزا صاحب پر نہیں.وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُاس سے بعد اگر کوئی شخص میری کسی تحریر یا تقریر کو چھپواوے اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہے تو میں عند اللہ بَری ہوں.اور اگر کبھی مَیں نے میرزا صاحب کی شکایت کی یا کسی دوست سے آپ کی نسبت کچھ کہا ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں معافی مانگتا ہوں.الملعــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلن میرناصر نواب نقشہ نویس دھلــــــــــــــــــــــــــوی ۱؎ البقرۃ: ۲۲۳

Page 256

اللّٰہ اکبر ہم مفصلہ ذیل کتابوں کا اشتہار جو مخالفان اسلام کے حملوں کے دفاع میں لکھی گئی ہیں.علاوہ غرض اشاعت کے بایں قصد بھی دیتے ہیں کہ ہمارے بھائی مسلمانوں پر کھل جائے کہ تائیدِ دین متین اور تقویّتِ احکامِ شرح مُبین کس گروہ کی جانب سے ہو رہی ہے.اور کونسی جماعت مال وجان و دل سے اعلائے کلمۃ اللہ و نصرت دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مشغول و مصروف ہے.(۱)(ایک روپیہ آٹھ آنہ)تصدیق براہینِ احمدیہ حصّہ اوّل مصنفہ حکیم مولوی نور الدین صاحب (۲) (دو روپے آٹھ آنہ)فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب.نصاریٰ کے جواب میں مصنفہ ایضاً (۳)(چار آنہ)رسالہ ردّ تناسخ مصنفہ ایضاً یہ کتابیں پنجاب پریس سیالکوٹ سے مل سکتی ہیں.(۴)(چار آنہ) رسالہ ابطال الوہیت و ابنیت مسیح علیہ السّلام.مصنفہ ایضاً یہ رسالہ انجمن حمایت الاسلام لاہور سے مل سکتا ہے.(تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۷،۸)

Page 257

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ    ۱؎ اشتہار نُصرتِ دین و قطع تعلق از اقارب مخالفِ دین عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا چوں بدندان تو کرمے اوفتاد آن نہ دندانی بکن ای اوستاد ۲؎ ناظرین کو یاد ہو گا کہ اس عاجزنے ایک دینی خصوصیت کے پیش آ جانے کی وجہ سے ایک نشان کے مطالبہ کے وقت اپنے ایک قریبی میرزا احمد بیگ ولد میرزا گاماں بیگ ہوشیار پوری کی دختر کلاں کی نسبت بحکم و الہام الٰہی یہ اشتہار دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی مقدر اور قرار یافتہ ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی.خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آ جائے اور یا خدا تعالیٰ بیوہ کر کے اس کو میری طرف لے آوے.چنانچہ تفصیل ان کل امور مذکورہ بالا کی اس اشتہار میں درج ۱؎ النساء:۱۴۹ ۲؎ ترجمہ.جب تیرے دانتوں میں کیڑا لگ جائے تو وہ تیرے دانت نہیں رہے حضرت انہیں اکھاڑ پھینکئے.

Page 258

ہے.اب باعث تحریر اشتہار ہٰذا یہ ہے کہ میرا بیٹا سلطان احمد نام جو نائب تحصیلدار لاہور میں ہے اور اس کی تائی صاحبہ جنہوں نے اس کو بیٹا بنایا ہوا ہے، وہی اس مخالفت پر آمادہ ہو گئے ہیں.اور یہ سارا کام اپنے ہاتھ میں لے کر اس تجویز میں ہیں کہ عید کے دن یا اس کے بعد اس لڑکی کا کسی سے نکاح کیا جائے.اگر یہ اوروں کی طرف سے مخالفانہ کارروائی ہوتی تو ہمیں درمیان میں دخل دینے کی کیا ضرورت اور کیاغرض تھی.اَمْرِ رَبِّیْ تھا.اور وہی اس کو اپنے فضل و کرم سے ظہور میں لاتا مگر اس کام کے مدار المہام وہ لوگ ہو گئے جن پر اس عاجز کی اطاعت فرض تھی اور ہر چند سلطان احمد کو سمجھایا اور بہت تاکیدی خط لکھے کہ تو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہو جائیں ورنہ میں تم سے جدا ہو جائوں گا اور تمہارا کوئی حق نہیں رہے گا.مگر انہوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیا.اور بکلّی مجھ سے بیزاری ظاہر کی.اگر ان کی طرف سے ایک تیز تلوار کا بھی مجھے زخم پہنچتا تو بخدا میں اس پر صبر کرتا، لیکن انہوں نے دینی مخالفت کر کے اور دینی مقابلہ سے آزار دے کر مجھے بہت ستایا.اور اس حد تک میرے دل کو توڑ دیا کہ میں بیان نہیں کر سکتا.اور عمداً چاہا کہ مَیں سخت ذلیل کیا جائوں.سلطان احمد ان دوبڑے گناہوں کا مرتکب ہوا.اوّل یہ کہ اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مخالفت کرنی چاہی.اور یہ چاہا کہ دین اسلام پر تمام مخالفوں کا حملہ ہو.اور یہ اپنی طرف سے اس نے ایک بنیاد رکھی ہے اس اُمید پر کہ یہ جھوٹے ہوجائیں گے اور دین کی ہتک ہو گی اور مخالفوں کی فتح.اس نے اپنی طرف سے مخالفانہ تلوار چلانے میں کچھ فرق نہیں کیا اور اس نادان نے نہ سمجھا کہ خداوند قدیر و غیور اس دین کا حامی ہے اور اس عاجز کا بھی حامی.وہ اپنے بندہ کو کبھی ضایع نہ کرے گا.اگر سارا جہاں مجھے برباد کرنا چاہے تو وہ اپنی رحمت کے ہاتھ سے مجھ کو تھام لے گا کیونکہ میں اس کا ہوں اور وہ میرا.دوم سلطان احمد نے مجھے جو میں اس کا باپ ہوں سخت ناچیز قرار دیااور میری مخالفت پر کمر باندھی اور قولی اور فعلی طور پر اس مخالفت کو کمال تک پہنچا یا.اور میرے دینی مخالفوں کو مدد دی اور اسلام کی ہتک بدل و جان منظور رکھی سو چونکہ اس نے دونوں طور کے گناہوں کو اپنے اندر جمع کیا اپنے خدا کا تعلق بھی توڑدیا اور اپنے باپ کا بھی.اور ایسا ہی اس کی دونوں والدہ نے کیا.سو جبکہ انہوں نے کوئی تعلق مجھ سے باقی نہ رکھا.

Page 259

اس لئے مَیں نہیں چاہتا کہ اب ان کا کسی قسم کا تعلق مجھ سے باقی رہے.اور ڈرتا ہوں کہ ایسے دینی دشمنوں سے پیوند رکھنے میں معصیت نہ ہو.لہٰذا مَیں آج کی تاریخ کہ دوسری مئی ۹۱ ء ہے.عوام اور خواص پر بذریعہ اشتہار ھٰذا ظاہر کرتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اس ارادہ سے باز نہ آئے.اور وہ تجویز جو اس لڑکی کے ناطہ اور نکاح کرنے کی اپنے ہاتھ سے یہ لوگ کر رہے ہیں اس کو موقوف نہ کر دیا.اور جس شخص کو انہوں نکاح کے لئے تجویز کیا ہے اس کو ردّ نہ کیا بلکہ اسی شخص کے ساتھ نکاح ہو گیا تو اسی نکاح کے دن سے سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہو گا اور اسی روز سے اس کی والدہ پر میری طرف سے طلاق ہے.اور اگر اس کابھائی فضل احمد جس کے گھر میں مرزا احمد بیگ والد لڑکی کی بھانجی ہے اپنی اس بیوی کو اسی دن جو اس کو نکاح کی خبر ہو اور طلاق نہ دیوے تو پھر وہ بھی عاق اور محروم الارث ہو گا.اور آئندہ ان سب کا کوئی حق میرے پر نہیں رہے گا.اور اس نکاح کے بعد تمام تعلقات خویشی و قرابت و ہمدردی دور ہو جائے گی.اور کسی نیکی.بدی.رنج.راحت، شادی اور ماتم میں ان سے شراکت نہیں رہے گی کیونکہ انہوںنے آپ تعلق توڑ دیئے اور توڑنے پر راضی ہو گئے.سو اب ان سے کچھ تعلق رکھنا قطعاً حرام اور ایمانی غیوری کے برخلاف اور ایک دیّوثی کا کام ہے.مومن دیّوث نہیں ہوتا.چوں نہ بود خویش را دیانت و تقویٰ قطع رحم بہ از مُوَدّتِ قربیٰ ۱؎ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مرزا غلام احمد لودیانہ ۲؍ مئی ۱۸۹۱ء حقانی پریس لودیانہ (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۹ تا ۱۱) ۱؎ ترجمہ.جب اپنوں میں دیانت اور پرہیز گاری نہ رہے، تو محبت اور یگانگت کی بجائے تعلقات توڑ لینا بہتر

Page 260

  حَامِدًا وَ مُصَلِّیًا اشتہار بمقابل پادری صاحبان .۱؎ .۲؎   ..۳؎ خدا تعالیٰ ان آیات مندرجہ عنوان میں حضرت مسیح ابن مریم اور ان تمام انسانوں کو جو محض باطل اور ناحق کے طور پر معبود قرار دیئے گئے تھے، مار چکا.درحقیقت یہ ایک ہی دلیل مخلوق پر ستوں کے ابطال کے لیے کروڑ دلیل سے بڑھ کر ہے کہ جن بزرگوں یا اور لوگوں کو وہ خدا بنائے بیٹھے ہیں وہ فوت ہو چکے ہیں اور اب وہ فوت شدہ ہیں زندہ نہیں ہیں.اگر وہ خدا ہوتے تو ان پر موت وارد نہ ہوتی.یقینا سمجھنا چاہیے کہ وہ لوگ جو ایک عاجز انسان کو اِلٰہُ الْعَالَمِیْنَ قرار دیتے ہیں.وہ صرف ایک ہی ثبوت ہم سے مانگتے ہیں کہ ہم ان کے اس معبود کا مُردہ ہونا او ر اموات میں داخل ہونا ثابت کر دیں.کیونکہ کوئی دانا ۱؎ المائدۃ:۸۳ ۲؎ محمد:۲۰ ۳؎ النحل: ۲۱،۲۲

Page 261

مُردہ کو خدا بنا نہیں سکتا.اور تمام عیسائی بالاتفاق اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص حضرت مسیح ابن مریم کا مر کر پھر مُردہ رہنا ثابت کر دے تو ہم یک لخت عیسائی مذہب کو چھوڑ دیں گے، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ علماء نے عیسائیوں کے مقابل پر کبھی اس طرف توجہ نہ کی حالانکہ اس ایک ہی بحث میں تمام بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے.دنیا میں ایسا نادان کون ہے کہ کسی مُردہ کا نام اِلٰہُ الْعَالَمِیْنَ رکھے.اور جو مر چکا ہے اس میں حَیٌّ لَا یَمُوْت کے صفات قائم کرے.عیسائی مذہب کا ستون جس کی پناہ میں انگلستان اور جرمن اور فرانس اور امریکہ اور روس وغیرہ کے عیسائی… ۱؎ رَبُّنَا الْمَسِیْحُ کہہ رہے ہیں.صرف ایک ہی بات ہے اور وہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے مسلمانوں اور عیسائیوں نے برخلاف کتاب الٰہی یہ خیال کر لیا ہے کہ مسیح آسمان پر مدت دراز سے بقید حیات چلا آتا ہے.اور کچھ شک نہیں کہ اگر یہ ستون ٹوٹ جائے تو اس خیال باطل کے دُور ہو جانے سے صفحۂ دنیا یک لخت مخلوق پرستی سے پاک ہو جائے.اور تمام یوروپ اور ایشیا اور امریکہ ایک ہی مذہب توحید میں داخل ہو کر بھائیوں کی طرح زندگی بسر کریں، لیکن میں نے حال کے مسلمان مولویوں کو خوب آزما لیا.وہ اس ستون کے ٹوٹ جانے سے سخت ناراض ہیں اور درپردہ مخلوق پرستی کے مؤیّد ہیں.مَیں نے ان کو خدا تعالیٰ کا حکم سُنا دیا لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا.اب میں اس دعوت کو لے کر اس ہدیہ طیّبہ کے پیش کر نے کی غرض سے عیسائی صاحبوں کی طرف رُخ کرتا ہوں.اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ جس سختی سے مسلمانوں نے میرے ساتھ برتائو کیا وہ نہیں کریں گے.کیونکہ ان میں وہ تہذیب ہے جو عدل گستر گورنمنٹ برطانیہ نے اپنے قوانین کے ذریعہ سے مہذّب لوگوں کو سکھلائی ہے.اور ان میں وہ ادب ہے جو ایک باوقار سوسائٹی نے نمایاں آثار کے ساتھ دلوں میں قائم کیا ہے.سو مجھے اللہجَلّشَانُـہٗ کا شکر کرنا چاہیے اور بعد اس کے اس مصدرِ فیض گورنمنٹ کا بھی جس کی ظلِّ حمایت میں ہم خوشی اور آزادی کے ساتھ گورنمنٹ کی ایسی رعیّت کے ساتھ بھی مذہبی بحث کر سکتے ہیں اور خود پادری صاحبان ُخلق اور بُردباری اور رفق اور نرمی میں ہمارے ان مولوی صاحبوں سے ایسی سبقت لے گئے ہیں کہ ہمیں موازنہ کرتے ۱؎ یہاں سے اشتہار پھٹا ہوا ہے.(مرتب)

Page 262

وقت شرمندہ ہونا پڑتا ہے اور ہمیشہ اپنے ان مولویوں سے بحث کے وقت یہی خطرہ اور دھڑکا رہتا ہے کہ بات کرتے کرتے کہیں لاٹھی بھی نہ چلا دیں.مگر میرے اس قول سے وہ شریف لوگ مستثنیٰ ہیں جن کے سینوں میں خدا تعالیٰ نے صفائی بخشی ہے، لیکن اکثر تو ایسے ہی ہیں جن پر صفات سبعیہ غالب ہیں.مَیں اس شہر میں قریباً ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب کوئی مسلمان مخالف ملنے کے لیے آتا ہے تواس کے چہرہ پر ایک درندگی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں.گویا خون ٹپکتا ہے.ہر دم غصّہ سے نیلا پیلا ہوتا جاتا ہے.سخت اشتعال کی وجہ سے زبان میں لکنت بھی ہوتی ہے.لیکن جب کوئی عیسائی ملتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا غضبی قوت بالکل اس سے مسلوب ہے.نرمی سے کلام کرتا ہے اور بُردباری سے بولتا ہے.لہٰذا مجھے ان لوگوں پر نہایت ہی رحم آیا… ہمارا ان لوگوں سے جھگڑا ہی کیا ہے، فقط ایک مسیح کے زندہ نہ ہونے کا.ایک ذرہ سی بات ہے جس کے طے ہونے سے یہ لوگ بھائیوں کی طرح ہم سے آ ملیں گے.اور یوروپ اور ایشیا میں اسلام ہی اسلام ہو جائے گا.لہٰذا میں نہایت ادب اور عاجزی سے پادری صاحبوں کی خدمت میں یہ ہدیۂ اشتہار روانہ کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لیے فوت ہو چکے ہیں.اور اس قدر ثبوت میرے پاس ہیں کہ کسی منصف کو بجز ماننے کے چارہ نہیں.سو مَیں اُمید کرتا ہوں کہ پادری صاحبان اس بارہ میں مجھ سے گفتگو کر کے میرے نافہم بھائیوں کو اس سے فائدہ پہنچاویں.مَیں یقین رکھتا ہوں کہ پادری صاحبان کی گفتگو اظہار حق کے لیے نہایت مفید ہو گی.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر میرزا غلام احمد قادیانی.لودیانہ ۲۰؍ مئی ۱۸۹۱؁ء دبدبہ اقبالِ ربی.ّ پریس لودیانہ (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۱۲ تا ۱۴)

Page 263

  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ السَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اشتہار ۱؎ دعوتِ حق اما بعد چونکہ اکثریہ عاجز سنتا ہے کہ لودیانہ کے بعض مولوی صاحبان جیسے(۱) مولوی عبد اللہ صاحب(۲) مولوی محمد صاحب(۳) مولوی عبد العزیز صاحب(۴) مولوی مشتاق احمد صاحب مولوی شاہدین صاحب اس مسئلہ میں اس عاجز سے مخالف ہیں کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور آنے والا مسیح جس کی خبر دی گئی ہے درحقیقت مسیح ابن مریم نہیں ہے بلکہ مثالی اور ظلّی طور پر مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہے اورایسی اُس سے رُوحانی طور پرمناسبت و مشابہت رکھتا ہے کہ گویا وہی ہے اور اس عاجز نے یہ بھی سُنا ہے کہ بعض مولوی صاحبان موصوفین اکثر اوقات منبر پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے یہ کہتے ہیں کہ مدعی اس مسئلہ کاہم سے بحث کرے.ہم بحث کے لیے طیّار ہیں.لیکن افسوس کہ تحریری بحث کو جس میں ہر طرح سے امن ہے اور نیز جس میں کیفیت بحث پر غور کرنے کے لیے ہریک کو حاضرین و غائبین میں سے کامل طور پر موقع مل سکتا ہے قبول نہیں کرتے.ناچار ایک اور طریق سہل و آسان تجویز کر کے اشتہار تجویز کر کے اشتہار ھٰذا شائع کیا جاتا ہے.لیکن قبل اس کے کہ ہم وہ طریق ۱؎ یہ اشتہار علیحدہ بڑے سائز پر جس کی بغیر عنوان اور نام حضرت مشتہر ۳۱ سطریں ہیں لودھیانہ سے پہلی بار شائع ہوا.پھر اس کی نقل اخبار ریاض ہند امرتسر جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۸؍ مئی ۱۸۹۱ء کے صفحہ ۶ پر شایع ہوئی.

Page 264

لکھیں.پہلے اس بات کا ظاہر کرنا ضروری ہے کہ سب سے اوّل بحث کرنے کا حق مولوی عبدالعزیز صاحب کو ہے کیونکہ وہ شہر کے مفتی اور اکثر لوگوں کے پیشوا اور مقتداء ہیں جو بار بار جامع مسجد میں برسرمنبر اعلان بھی دے چکے ہیں کہ ہم بحث کو تیار ہیں.کیوں ہم سے بحث نہیں کرتے.اور درحقیقت ان سے بحث کرنا نہایت ضروری بھی ہے کیونکہ خاص شہر لودیانہ کی نظر انہیں پر ہے.سو یہ عاجز بمقابل ان کے بحث کے لیے بغرض اظہار حق تیار ہے.اب ان کے مریدوں اور معاونوں کو بھی مناسب بلکہ عین فرض ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو بحث کے لیے آمادہ کریں اور اگر کسی کمزوری کی وجہ سے وہ گریز کریں تو اس گریز سے ان کی اندرونی حالت اورعلمی کمالات کا اندازہ اہلِ بصیرت خود ہی کر لیں گے.ہماری طر ف سے تو مولوی صاحب موصوف کو بحالت ان کے عاجز رہ جانے کے یہ بھی اجاز ت ہے کہ اگر آپ بحث کرنے کاحوصلہ نہ دیکھیں تو اپنے برادر حقیقی مولوی محمد صاحب سے بحث کرنے کے لئے منّت کریں.اور اگر وہ بھی بوجہ اپنی کسی حالت ناچاری کے جس کو وہ خوب سمجھتے ہوں گے جواب دے دیں تو پھر اپنے دوسرے بھائی مولوی عبد اللہ صاحب کی خدمت میں التجا لے جائیں.اور اگر وہ بھی نہ مانیں توپھر بحالت لاچاری مولوی مشتاق احمد صاحب مدرس ہائی سکول کی خدمت میں دوڑیں.اور ان سے اس سختی کے وقت میں دستگیری چاہیں.اور اگر وہ بھی صاف جواب دیں اور وقت پر کام نہ آویں تو پھر قریب قریب یقین کے ہے کہ دوم درجہ کے مفتی صاحب یعنی مولوی شاہدین صاحب ایسے اضطراب کی حالت میں ضرور کام آئیں گے اوران کو اپنی منطق اور وسعت معلومات کا دعویٰ بھی بہت ہے.اور اگر وہ بھی گریز کر جائیں تو پھر استاد طائفہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی خدمت میں مولوی شاہدین صاحب سے درخواست کرا ویں.اور اگر وہ بھی خاموش رہیں توپھر موحدین کے گروہ میں سے اس شہر میں چیدہ و برگزیدہ حضرت مولوی محمد حسن صاحب رئیس اعظم لودیانہ ہیں کہ جو درحقیقت علاوہ کمالات علمی بڑے نیک اخلاق کے آدمی ہیں اور نیک نیّت اور بُردبار اور حلیم الطبع شخص ہیں.ان کی طر ف سب کو رجوع کرنا چاہیئے اور ان کو اختیار ہو گا کہ چاہیں تو بذات خود بحث کریں اور چاہیں تواپنی طرف سے مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کو بحث کے لیے وکیل مقرر کر دیں، لیکن اس وقت اگروہ

Page 265

بھی جواب دے دیں تو آئندہ سب کے لئے مناسب ہے کہ غائبانہ طور پر بدزبانی اور غیبت کر کے ناحق اپنے تئیں عند اللہ قابل مواخذہ نہـ ٹھہرا ویں.اب بحث کا آسان طریق جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں یہ ہے جو شرائط ذیل میں مندرج ہے.(۱) یہ کہ کسی رئیس کا مکان اس بحث کے لیے تجویز ہو.جیسے نواب علی محمد خان صاحب، شہزادہ نادر شاہ صاحب، خواجہ احسن شاہ صاحب.اور جلسہ بحث میں کوئی افسر یورپین تشریف لاویں اور چند دیسی پولس مین بھی ہوں.اور اگر یورپین افسر نہ ہوں توکوئی ہندو مجسٹریٹ ہی ہوں تا ایسا شخص کسی کا طرفدار نہ ہو.(۲) یہ کہ فریقین کے سوال و جواب لکھنے کے لیے کوئی ہندو منشی تجویز کیا جائے جو خوشخط ہو.ایک فریق اوّل اپنا سوال مفصل طور پر لکھا دیوے.پھر دوسرا مفصّل طور پر اس کا جواب لکھا دیوے.چند سوال میں فریق ثانی سائل ہو اور یہ عاجز مجیب اورپھر چند سوال میں یہ عاجز سائل اور فریق ثانی مجیب ہو.اور ہر یک فریق کو ایک گھنٹہ یا آدھ گھنٹہ تک تحریر کا اختیار ہو.سوال و جواب کی تعداد برابر ہو اور ہمیں وہی تعداد اور اسی قدر وقت منظور ہے جو فریق ثانی منظور کرے.(۳) سوال و جواب میں خلط مبحث نہ ہو اور نہ کوئی خارجی نکتہ چینی اور غیر متعلق امر ان میں پایا جائے.اگر کوئی ایسی تقریر ہو تو وہ ہرگز لکھینہ جائے بلکہ اس بے جا بات سے ایسی بات کرنے والا موردِالزام ٹھہرایا جائے.(۴) ان سوالات و جوابات کے قلمبند ہونے کے بعد پھر دوبارہ عوام کو وہ سب باتیں سنا دی جائیں اور وہی لکھنے والا سُنا دیوے.اور اگر یہ منظور نہ ہو تو فریقین میں سے ہریک شخص اپنے ہاتھ میں پرچہ لے کر سُنا دیوے.(۵) ہر ایک فریق ایک ایک نقل اس تحریر کی اپنے دستخط سے اپنے مخالف کو دے دیوے.(۶) آٹھ بجے سے دس بجے تک یہ جلسہ بحث ہو سکتا ہے.اگر اس سے زیادہ بھی چاہیں تو وہ منظور ہے.مگر بہرحال نماز ظہر کے وقت یہ جلسہ ختم ہو جانا چاہئیے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور

Page 266

مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو اختیار ہے کہ وہ بطور خود اس جلسہ میں تشریف لاویں.اور اگردوسرے ان کی وکالت کو منظور کریں تو وہی بحث کے لیے آگے قدم بڑھاویں.ہمیں بہرحال منظور ہے اور تحریر کی اس لیے ضرورت ہے کہ تا بیانات فریقین تحریف سے محفوظ رہیں.اور اس قدر مغز خوری کے بعد اظہار حق کی کوئی سند اپنے پاس ہو.ورنہ اگر نری زبانی باتیں ہوں اورپیچھے سے خیانت پیشہ لوگ کچھ کا کچھ بنا دیں تو ان کا منہ بند کرنے کے لیے کونسی حجت یا سند ہمارے پاس ہو گی.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.مکرر واضح ہو کہ یہ جلسہ بحث عید کے دوسرے دن قرار پانا چاہیے تا بوجہ تعطیل کے ملازمت پیشہ لوگ بھی حاضر ہو سکیں اور دُور سے آنے والے بھی پہنچ سکیں یا جیسے مولوی صاحبان تجویز کریں.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار میرزا غلام احمد لودیانہ.محلہ اقبال گنج ۲۳؍ مئی ۹۱ ء (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۵۸ تا ۶۱)

Page 267

  اشتہار واجب الاظہار مولوی محمد حسین صاحب کے مباحثہ کا کیا انجام ہوا عھد را بشکست و پیمان نیزھم مولوی محمد حسین صاحب کے سوالات کے جواب میں ۳۱؍ جولائی ۱۸۹۱ء کو بروز جمعہ کے اس عاجز نے ایک قطعی فیصلہ کرنے والا مضمون سُنایا جس کو سنتے ہی مولوی صاحب کے چھکّے چھوٹ گئے اور تمام سمجھ دار اور منصف مزاج لوگوں نے معلوم کر لیا کہ مولوی صاحب کا سارا تانا بانا بیک دفعہ ٹوٹ گیا.اس لیے مولوی صاحب کو مضمون سُننے کی حالت میں یہی دھڑکا دل میں شروع ہوا کہ اب توہمارے اعتراضات کی ساری قلعی کھل گئی.ناچار خلاف ورزی شرائط کر کے ان چھوٹے ہتھیاروں پر آ گئے جن کو آج کل کے مولوی مُلّاں لاجواب ہونے کی حالت میں استعمال کیا کرتے ہیں.ناظرین کو واضح ہو کہ مولوی صاحب کے ساتھ تحریری طور پر یہ شرطیں ٹھہر چکی تھیں (۱) اوّل یہ کہ فریقین صرف تحریری طور پر اپنا سوال یا جواب لکھیں (۲) دوم یہ کہ جب کوئی فریق اپنی تحریر کو سنانے لگے تو فریق ثانی اس کے سنانے کے وقت دخل نہ دیوے اور کوئی بات منہ سے نہ نکالے.(۳) تیسرے یہ کہ بیان سننے کے بعد کوئی فریق زبانی جواب دینا شروع نہ کرے، لیکن افسوس کہ مولوی صاحب نے مضمون سُنتے ہی ان تینوں شرطوں کو توڑ دیا اور عہد شکنی کے بعد ایک جوش کی حالت میں کھڑے ہو کر بے جا اور غیر مہذب

Page 268

الفاظ کے مرتکب ہوئے جس سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب اپنے نفسانی جذبات کے ضبط کرنے پر ہرگز قادر نہیں، ناچار اُن کی یہ خطرناک حالت دیکھ کر جلسہ برخاست کیا گیا.اور اس قدر لمبی بحث کے بعد جو مولوی صاحب نے اپنے خانہ زاد اصول موضوعہ کی نسبت سراسر لغو اور بے مصرف جاری کر رکھی تھی جو باراں دن تک ہوتی رہی اور اصل بحث سے کچھ بھی علاقہ نہیں رکھتی تھی اور فریقین کے بیانات دس جزو تک پہنچ گئے تھے اور لوگ سخت معترض تھے کہ اصل بحث کیوں شروع نہیں کی جاتی.مولوی صاحب کو اس وقت آخر مضمون میں یہ بھی سُنا دیا گیا کہ اب ہم تمہیدی بحث کو ختم کرتے ہیں.آپ نے بھی بہت کچھ لکھ لیا.اور ہم نے بھی.اب اس بے سود بحث کو بند کرنا چاہیے اور اصل بحث کو شروع کرنا چاہیے.مولوی صاحب اسی ۱؎ طرح نہیں چاہتے تھے کہ اصل بحث کی طرف آویں.اس لئے انہوں نے ان شرطوں کو توڑ کر یہ چاہا کہ پھر کسی طرح سخت زبا نی کر کے اپنی فضول اور بالائی باتوں کو جن کی طوالت کو اصل بحث سے کچھ بھی تعلق نہیں تھا.شروع رکھیں.مگر ہم نے صاف جواب لکھ دیا تھا کہ بے فائدہ باتوں میں ہم اپنے اوقات کو ضایع کرنا نہیں چاہتے کیونکہ تمہیدی گفتگو بہت ہو چکی ہے.اور عنقریب رسالہ الحق سیالکوٹ میں فریقین کے بیانات چھپ جائیں گے.تب لوگ خود معلوم کر لیں گے کہ سچ پر کون ہے.اب یہ اشتہار صرف اس غرض سے دیا جاتا ہے کہ اگر مولوی صاحب کی نیت بخیر ہے تو اب بھی اصل مسئلہ میں بحث تحریری کر لیں.میرے نزدیک مولوی صاحب کا یہ دعویٰ بھی بالکل فضول ہے کہ وہ اکابر محدثین کی طرح فن حدیث میں مہارت تمام رکھتے ہیں بلکہ بات بات میں ان کی نا سمجھی اور غباوت مترشح ہو رہی ہے.اگر وہ مجھے اجازت دیں تو مَیں ان کی حدیث دانی بھی لوگوں پر ظاہر کروں.مولوی صاحب سے انصاف کی کیا توقع ہو سکتی ہے اور کیا امید کی جا سکتی ہے کہ بڑی بُردباری اور غور سے کسی مضمون کو وہ سُن سکیں.جس صورت میں آپ نے اپنی تہذیب اور معاملہ شناسی کا عَلٰی رَؤُسِ الْاَشْہَاد یہ نمونہ دیا کہ عام لوگوں کی طرح اپنی بیویوں کو طلاق دینے پر آمادہ ہو گئے اور یہ صرف ۱؎ غالباً یہ لفظ ’’کسی طرح ہوگا.‘‘ (مرتب)

Page 269

اس وجہ سے کہ ان کے نزدیک ہم نے کوئی حوالہ غلط دیا ہے.افسوس مولوی صاحب آغاز مضمون سے ہی تردیدی نوٹوں کی تحریر میں مصروف ہو گئے اور مضمون کی خوبیوں پر تدبر سے غور کرنے کا انہیں بیقرار اور پُرجوش طبیعت نے ذرّہ بھی موقع نہ دیا.ورنہ بے سوچے سمجھے انہیں طلاقوں کی ضرورت نہ پڑتی.اور یوں عوام میں اپنی مستورہ بیویوں کی ہتک حرمت کے الفاظ منہ سے نکال کر سبکی نہ اُٹھاتے.اب پبلک کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ اب اس کارروائی کی نسبت جو کچھ وہ مشتہر کریں گے.محض اپنی بد نامی اور فضیحت ۱؎ کا داغ دھونے کے لیے ایک واویلا اور نوحہ ہو گا.یہ ان کی ساری بیہودہ باتیں ہیں.تا عوام پر جو ان کی حقیقت کھل گئی ہے اس پر کسی طرح پردہ پڑ جائے.وہ اصل مطلب (حیات و ممات مسیح) پر میرے ساتھ کیوں بحث نہیں کرتے؟ وہ یقینا ڈرتے ہیں کہ اگر اصل مسئلہ میں بحث شروع ہو گی تو بڑی رسوائی کے ساتھ انہیں مغلوب ہونا پڑے گا.ہاں ناظرین پر واضح رہے کہ ہم نے اپنے آخری مضمون کی جو ۳۱؍ جولائی ۱۸۹۱ء کو بروز جمعہ پڑھا گیا تھا.مولوی صاحب کو نقل نہیں دی.کیونکہ مولوی صاحب بباعث ارتکاب جریمہ عہد شکنی و ترکِ تہذیب اور توڑ دینے تمام شرطوں کے اپنے تمام حقوق کو اپنی ہی کر توت کی وجہ سے کھو بیٹھے.حاضرین جو قریباً تین سو کے موجود ہو گئے تھے جن میں بعض معزز رئیسِ شہر اور صاحبان اڈیٹر اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور نور افشاں لودیانہ بھی تھے اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ مولوی صاحب بے صبر ہو کر برخلافِ شرط قرار یافتہ اس عاجز کے مضمون پڑھتے وقت چپ رہ کر سُن نہیں سکے اور مضمون سننے کے بعد بھی اُن کی زبان اُن سے رُک نہیں سکی.اور جوش میں آکر ان تمام شرطوں کو ۱؎ مباحثہ سے پیشتر مولوی صاحب کے بعض خیر خواہوں، خصوصاً حافظ محمد یوسف٭صاحب ضلعدار نہر نے یہ خواب دیکھا تھا کہ مولوی صاحب کی ٹانگ خشک ہو گئی اور مولوی صاحب حقہ پیتے تھے.اور میاں عبد الحکیم خان صاحب نے بروایت منشی عبد الغنی صاحب برادر منشی نجف علی صاحب نے ہمارے پاس بیان کیا تھا کہ خود مولوی صاحب نے اپنی ٹانگ کو خواب میں خشک ہوتے دیکھا.ان خوابوں کی تعبیر یہی تھی کہ مولوی صاحب حق کی مخالفت کریں گے مگر خفت ناکامی اور زک اُٹھائیں گے.٭ یہ صاحب ضلعدار ضلع لاہورہیں جو مرد صالح اور مولوی محمد حسین صاحب کے دوست ہیں.

Page 270

ایسے بھول گئے کہ گویا ان سب باتوں کے کرنے کے لئے ان کو بالکل آزادی تھی.اس بے حواسی کے بے طرح جوش کا یہی سبب تھا کہ مولوی صاحب اپنا ۷۶ صفحہ کا مضمون سُنا کر یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ لاجواب مضمون ہے بلکہ مغروری کی راہ سے بعض جگہ اپنی فتح کے خط بھی بھیج دیئے تھے.اب جو عصائے موسیٰ کی طرح اس عاجز کے مضمون نے مولوی صاحب کی تمام ساحرانہ کارروائی کو باطل کر دیا.تو یک دفعہ ان کے دل پر وہ زلزلہ آیا جس کی کیفیت خدا تعالیٰ کے بعد وہی جانتے ہوں گے.سو یہ تمام حرکات جو ان سے سرزد ہوئیں.ایک قسم کی بیہوشی کی وجہ سے تھیں جو اس وقت ان پر طاری ہو گئی تھی.بہرحال وہ شرائط شکنی کے بعد اس بات کے مستحق نہ رہے کہ انہیں مضمون ۳۱؍ جولائی ۱۸۹۱ء کی نقل دی جاتی.اور یاد رہے کہ ان کے ۷۶ صفحے کے مضمون میں بجز بے تعلق باتوں اور بدزبانی اور افترا کے اور خاک بھی نہیں تھا.اور بدزبانی سے یہاں تک انہوں نے کام لیا کہ ناحق بے وجہ امام بزرگ حضرت فخر الائمہ امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی شان بلند میں سخت تحقیر کے الفاظ استعمال کئے.بالآخر میں ایک دفعہ پھر حجت پوری کرنے کے لیے بآواز بلند مولوی صاحب کو دعوت کرتا ہوں کہ وہ اصل مسئلہ کے متعلق ضرور بصد ضرور میرے ساتھ بحث کریں.مگر یہ بحث لاہور جیسے صدر مقام میں منعقد کی جائے جہاں اعلیٰ درجہ کے فہیم ذکی تعلیم یافتہ متین اشخاص اور رئوساء شامل ہو سکتے ہیں.اور مولوی صاحب کو غیر متعلق گفتگو چھیڑنے اور خلط مبحث کرنے اور انہیں بد زبانی اور خلاف تہذیب کلمات منہ سے نکالنے اور کسی شرط مقررہ کو توڑنے سے روکنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں.نیز اُن میں سے بعض نے یہ درخواست بھی کی ہے.امن وغیرہ کا انتظام بھی ہمارے سپرد ہو گا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی ضروری نوٹ.اب مولوی صاحب اپنے کارخانہ کی ترقی کے لیے بہتانوں پر آ گئے ہیں.منجملہ ان کے ایک بڑا بہتان یہ لگایا ہے کہ گویا ’’میں صحیح بخاری اور مسلم کا منکر ہوں‘‘ اس کے جواب میں بجز علے الکاذبین اور کیا کہا جا سکتا ہے.ہر ایک مسلمان پر واضح رہے کہ بسر و چشم صحیحین کو مانتا ہوں.ہاں کتاب اللہ

Page 271

یقین رکھتا ہوں اور واجب العمل مانتا ہوں.ہاں صرف اتنا کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے اخبار اور قصص اور واقعات ماضیہ پر نسخ و زیادت ہرگز جائز نہیں.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی یکم اگست ۱۸۹۱ء دبدبہ اقبال ربّی پریس لودیانہ حاشیہ.اے ناظرین! ذرا توجہ کرو.میں اللہجَلَّ شَانُہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مولوی صاحب چالیس دن تک میرے مقابل پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کر کے آسمانی نشان یا اسرار غیب دکھلا سکیں جو میں دکھلا سکوں تو میں قبول کرتا ہوں کہ جس ہتھیار سے چاہیں مجھے ذبح کر دیں اور جو تاوان چاہیں میرے پر لگائیں دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُسے قبول نہ کیا، لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.(تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۱۵ تا ۱۹)

Page 272

 نقل عبارت اقرار نامہ میرزا غلام احمد صاحب قادیانی  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ یہ خط۱؎جو جماعت مسلمانان لدھیانہ وغیرہ نے لکھا ہے.میں نے اوّل سے آخر تک پڑھا.مجھے ۱؎ حاشیہ.جس خط کا یہ ذکر ہے وہ اصل خط بھی ضمیمہ ریاض ہند مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۸۹۱ء سے ناظرین کے لیے یہاں درج کردیا جاتا ہے.(مرتب) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی خط از طرف اہلِ اسلام لدھیانہ (۱)خط بنام مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی (۲)و مولوی سیّد محمد نذیر حسین صاحب دہلوی (۳)و خواجہ نظام الدین صاحب بریلوی (۴)و خواجہ غلام فرید چاچڑاں والہ (۵)و خواجہ الہٰ بخش صاحب تونسوی سنگھڑی از طرف جماعت مسلمانان لودیانہ وغیرہ.السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہٗ.ہم سب لوگ جن کے نام اس خط کے نیچے درج ہیں.آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب مصنف کتاب براھین احمدیہ آج کل لودھیانہ میں آئے ہوئے ہیں.اور بڑے زور شور سے اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ درحقیقت فوت ہو گئے ہیں اور دوسرے مردوں کی طرح جنود ارواح گزشتہ میں داخل ہیں.پھر اس عالم میں کسی طرح سے نہ آئیں گے.اور اس زمانہ کے لیے جس مسیح کی روحانی طور پر آنے کی خبر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ میں دی گئی ہے وہ مسیح موعود مَیں ہوں.مرزا صاحب اور ان کی جماعت قرآن شریف کی آیتیں بکثرت پیش کرتے ہیں.اور اقوال صحابہ اپنے تائید دعویٰ میں

Page 273

ہر طرح منظور ومقبول ہے کہ الٰہ بخش صاحب تونسوی سنگھڑی یا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی یا نظام الدین بقیہ حاشیہ.لاتے ہیں.اور اس دعویٰ کے ثبوت میں تین کتابیں ایک فتح اسلام دوسری توضیح مرام تیسری ازالہ اوہام بڑی شدّومد اور شرح و بسط سے تصنیف کی ہیں اور روز بروز ان کے سلسلہ کو ترقی ہے اور معتبر طور سے معلوم ہے کہ چود۱۴ اںعالم فاضل متبحر آج تک ان کی جماعت میں داخل ہو گئے ہیں.یہ عجیب انقلاب دیکھ کر حق کے طالب نہایت حیرت میں ہیں کہ ایک طرف تو ان کی جماعت ترقی پر ہے اور دوسری طرف مشاہیر علماء اور اکابر صوفیاء کنارہ کش ہیں.اگر کوئی مولویوں میں سے بحث کرنے کے لیے آتا بھی ہے تو مغلوب ہو کر ایک طور سے اَور بھی زیادہ ان کے سلسلہ کو تائید پہنچاتا ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو پنجاب میں مشہور عالم ہیں، بحث کرنے کے لیے آئے، جس کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کی کمزوری اور گریز کو دیکھ کر اور بھی کئی شخص ان کی جماعت میں داخل ہو گئے.اور ایک بڑی خجالت کی یہ بات ہوئی کہ مرزا صاحب نے روحانی طور پر بھی ایک تصفیہ کی درخواست کی کہ تم بھی دعا کرو اور ہم بھی دعا کریں تا مقبول اور اہلِ حق کی تائید میں آسمانی نشان ظاہر ہو، لیکن مولوی محمد حسین صاحب نے اس طرف رُخ بھی نہ کیا.اب التماس یہ ہے کہ آپ اکابر جلیل القدر صوفیہ اور صاحب عرفان اور صاحب سلسلہ اور فاضل اور مشاہیر علماء سے ہیں.آپ سے بڑھ کر اور کس کا حق ہے کہ دونوں طریق سے یعنی ظاہری اور باطنی طور پر آپ مرزا غلام احمد صاحب سے مقابلہ اور موازنہ کریں اور دونوں طور سے بحث کرنے کے لیے تشریف لاویں.ہم نے مرزا صاحب سے منظور کرا لیا ہے کہ ہم (جن کے نام خط ہے) بلواتے ہیں.وہ آپ سے دونوں ظاہری و باطنی سے مقابلہ کریں گے اور وہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے زندہ بجسم عنصری آسمان پر اُٹھائے جانے اور اب تک زندہ ہونے اور آخری زمانہ میں نزول از آسمان کرنے پر دلائل قاطعہ اور نصوص صریحہ اور احادیث صحیحہ پیش کریں گے اور نیز باطنی طور پر اپنی کچھ کرامات بھی دکھائیں گے.پھر اگر آپ نے (جن کے نام خط ہے) اُن سے دونوں طور ظاہری اور باطنی میں مقابلہ نہ کیا اور بھاگ گئے تو ہم سخت مخالف بن کر آپ کی اس ہزیمت کو شہرت دیں گے بلکہ ہم نے مرزا صاحب سے لکھوا لیا ہے جس کی نقل آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے اور ہم نے حلف کے طور پر وعدہ کر لیا ہے ضرور وہ صاحب (جن کے نام خط ہے) ان دونوں طور کی بحثوں کے لیے لودھیانہ میں تشریف لے آئیں گے کیونکہ نازک وقت پہنچ گیا تھا اور لوگ جوق در جوق اُن کی پیروی اختیار کرتے جاتے ہیں.ایسے وقت میں اگر بزرگانِ دین اور علماء اہل یقین جس میں ہزارہا مسلمان کا ایمان تلف ہو، کام نہ آئے تو کب آئیں گے.ہاں ہم نے مرزا غلام احمد صاحب سے قسم کھا کر یہ بھی وعدہ کر لیا ہے کہ اگر (جن کے نام خط ہے) اس بحث کے لیے تشریف نہ لائے تو پھر یہ

Page 274

صاحب بریلوی یا مولوی سیّد محمد نذیر حسین صاحب دہلوی یا غلام فرید صاحب چاچڑاں والا ظاہری و باطنی طور بقیہ حاشیہ.بات پنجاب اور ہندوستان کے اخباروں میں چھپوا دیں گے کہ وہ گریز کر گئے اور وہ حق پر نہیں ہیں.لہٰذا ہم سب لوگ ادب سے اور عاجزی سے آپ کی خدمت میں خواستگار ہیں کہ آپ حسبۃً للہ اس کام کے لیے ضرور تشریف لاویں اور مسلمانوں کو فتنہ سے بچا ویں.ورنہ اگر آپ تشریف نہ لائے تو ناچار ایفائِ عہد کے لیے آپ کا گریز کرنا حتی الوسع تمام اخباروں میں شائع کر دیا جائے گا.اسی طرح اگر مرزا غلام احمد صاحب نے گریز کی تو اس سے دس حصہ زیادہ اخباروں کے ذریعہ سے ان کی قلعی کھولی جائے گی.اور ہمیں یقینی طور پر امید ہے کہ آپ دونوں طور کی بحث کے لیے ضرور تشریف لے آئیں گے اور قیامت کی باز پُرس سے اپنے آپ کو بچا ئیں گے لہٰذا ہم نے ایک ایک نقل اسی درخواست کی چند اخباروں میں بھی بھیج دی ہے اور آخری نتیجہ کا مضمون جو کچھ بعد اس کے ہو گا، چھپنے کے لیے بھیجا جائے گا.آپ جلد تشریف لاویں.سب مخلصین منتظر ہیں ہم آپ کے جواب کے.آج کی تاریخ سے کہ ۱۸؍ محرم الحرام ۱۳۰۹ھ مطابق ۲۴؍ اگست ۱۸۹۱ء ہے ایک ماہ تک انتظار کریں گے.اگر اس عرصہ تک خدانخواستہ آپ تشریف نہ لائیں تو ناچار عہد کے موافق کلماتِ حقہ آپ کی نسبت شائع کر دیئے جائیں گے.اور واضح رہے کہ ہم تین فریق کے آدمی ہیں.بعض ہم میں سے مرزا صاحب کے مُرید ہیں اور بعض حُسنِ ظن رکھنے والے اور بعض نہ حُسنِ ظن رکھنے والے اور نہ مُرید ہیں.لیکن ہم سب حق کے طالب ہیں.اَلْحَقُّ حَقٌّ.وَالسَّلام (۱)ابو اللمعان محمد سراج الحق جمالی نعمانی سرساوی سَرَّجَ اللّٰہُ وَجْہَہٗ(۲)شیخ نور محمد ہانسوی(۳) شیخ عبد الحق لودیانوی.(۴)قاضی خواجہ علی ٹھیکیدار شکرم (۵)محمد خان ساکن کپورتھلہ(۶) حافظ حامد علی لدھیانوی (۷)سیّد عباس علی صوفی.(۸) مولوی محمود حسن مدرس (۹)منشی محمد اروڑا نقشہ نویس ساکن کپورتھلہ (۱۰)منشی فیاض علی(۱۱) منشی ظفر احمد اپیل نویس کپورتھلہ (۱۲)منشی عبد الرحمن اہلمد جرنیلی کپورتھلہ.(۱۳) منشی حبیب الرحمن برادر زادہ حاجی ولی محمد صاحب جج مرحوم ساکن کپورتھلہ(۱۴) مستری جان محمد (۱۵)سردار خان کوٹ دفعدار ساکن کپورتھلہ(۱۶) شیخ سدوری ضلع ہوشیار پور (۱۷)منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے (۱۸)خیر الدین خان سوار رجمنٹ نمبر ۱۷(۱۹) حکیم عطاء الرحمن دہلوی.(۲۰)مولوی افتخاراحمد ابن سجادہ نشین حضرت منشی احمد جان صاحب نقشبندی لودھیانوی (۲۱)حافظ نُور احمد تاجر پشمینہ لودھیانوی(۲۲) سائیں بہادر شاہ لودھیانوی (۲۳)سائیں عبد الرحیم شاہ (۲۴)جیوا تاجرپشمینہ لودھیانوی.(۲۵)حافظ محمد بخش تاجر لدھیانہ (۲۶)مولوی محمد حسین ساکن کپورتھلہ(۲۷) قاضی شیخ احمد اللہ ملازم کپورتھلہ (۲۸) منشی الہٰ بخش محرر دفتر لودھیانہ (۲۹)مولوی چراغ الدین مدرس مشن سکول لدھیانہ (۳۰)قاضی عبد المجید خان شاہزادہ لودھیانہ (۳۱)مولوی عبد القادر مدرس جمال پور

Page 275

پر بحث کرنے کے لیے تشریف لاویں.مجھے تحریری و زبانی طور پر بحث منظور ہے.کچھ عذر نہیں.اور بقیہ حاشیہ.(۳۲)ماسٹر محمد بخش لودھیانہ(۳۳) مولوی تاج محمد ساکن بھوکٹری علاقہ لودھیانہ(۳۴) مولوی نورمحمدساکن مالگوٹ علاقہ لودھیانہ(۳۵) مولوی عبد اللہ مجتہد لودھیانہ (۳۶)مولوی نظام الدین لدھیانہ (۳۷)مولوی الہٰ دیا واعظ ردّ نصاریٰ لدھیانوی(۳۸) عبد اللہ سنوری پٹواری علاقہ پٹیالہ (۳۹)ماسٹر قادر بخش لدھیانوی (۴۰)مولوی محمد یوسف سنوری علاقہ پٹیالہ(۴۱) منشی ہاشم علی پٹواری ریاست پٹیالہ (۴۲)مولوی حشمت علی مدرس پٹیالہ (۴۳)عبد الرحمن سنوری علاقہ پٹیالہ (۴۴)روشن دین ٹھیکیدار کپورتھلہ(۴۵) شیر محمد خاں لدھیانوی(۴۶) مولوی عبدالکریم سیالکوٹی(۴۷) مولوی غلام قادر فصیح ایڈیٹر و پروپرائٹر پنجاب گزٹ سیالکوٹ (۴۸)سیّد حامد شاہ سیالکوٹی(۴۹) سیّد رخصت علی ڈپٹی انسپکٹر ضلع سیالکوٹ (۵۰) مولوی غلام احمد انجینئر ریاست کشمیر (۵۱)مولوی عبد الغنی عرف غلام نبی خوشابی(۵۲) حکیم فضل الدین بھیروی (۵۳) مولوی مبارک علی سیالکوٹی (۵۴)مفتی محمد صادق مدرس جموں کاشمیر(۵۵) میر عنایت علی لودھیانوی (۵۶)شیخ چراغ علی ساکن گورداسپور (۵۷)شیخ شہاب الدین ساکن تھہ غلام نبی(۵۸) شیخ حافظ حامد علی ساکن تھہ غلام نبی.(۵۹) مولوی غلام حسین پشاوری (۶۰)خواجہ عبد القادر شاہ لدھیانوی چشتی(۶۱) سید فضل شاہ لاہوری (۶۲) نواب محمد اشرف علی خاں لدھیانوی (۶۳)محمد عبد الحکیم خاں طالب العلم میڈیکل کالج لاہور(۶۴) منشی کرم الٰہی لاہوری(۶۵) مولوی خدا بخش اتالیق (۶۶)الٰہ بندہ ہانسوی(۶۷) شیخ فتح محمد ساکن جموں، نائب شرف محکمہ جنرل ڈیپارٹمنٹ سرینگر کشمیر(۶۸) مولوی محمد حسن خاں لودھیانوی(۶۹) مولوی خدا بخش بستی شیخ(۷۰) سید عبد الہادی سب اوور سیر بلیلی ملک بلوچستان(۷۱)مرزا یوسف بیگ ساکن سامانہ(۷۲) عبد الکریم خان ناظر ریاست پٹیالہ(۷۳) نواب عشرت علیخاں لودھیانوی ناظر عدالت سمرالہ (۷۴) نواب محمد حسین خاں خلف نواب محفوظ علیخاں جھجری حال لودہانہ (۷۵)گلاب خاں دفعدار لدہانوی (۷۶)عبد الکریم خاں کلرک نہر لودھیانوی (۷۷)مولا بخش ماسٹر لودیانہ(۷۸) عمر بخش چھننانوالہ(۷۹) شہاب الدین لودھیانوی(۸۰) امیر خاں سمرالہ(۸۱) مولوی غلام محمد نقل نویس تحصیل سمرالہ(۸۲) شیخ نور احمد مالک و مہتمم ریاض ہند امرت سر(۸۳) ا لہٰ بخش پارسل کلرک پھلور(۸۴) حاجی عبد الرحمن لدھیانوی(۸۵) منشی خادم حسین خلف رشید داروغہ(۸۶) محمد قاسم خوشنویس لدھانوی(۸۷) محمد اسمٰعیل(۸۸) عبد الکریم سیالکوٹی (۸۹)غلام محمد سیالکوٹی (۹۰)مولوی محمد الدین سیالکوٹی(۹۱) مولوی نور الدین ساکن بھوکری ضلع لدھیانہ(۹۲) سیّد امیر علی شاہ سیالکوٹی سارجنٹ پولیس(۹۳) منشی رحمت اللہ ممبر میونسپل کمیٹی گجرات و تاجر پارچات(۹۴) رحمت سکنہ غوث گڑھ علاقہ پٹیالہ (۹۵)مولوی حکیم سیّد محی الدین ساکن تنکور علاقہ ریاست میسور(۹۶) الٰہی بخش ساکن غوث گڑھ علاقہ پٹیالہ(۹۷)علی بخش ساکن چک علاقہ پٹیالہ(۹۸) میر محمود شاہ سیالکوٹی

Page 276

باطنی طور پر مقابلہ کرنا خود میرا منشاء ہے کیونکہ میں یقینی جانتا ہوں کہ خداوند قدیر میرے ساتھ ہے.وہ (۹۹) محبوب عالم درویش ساکن کپورتھلہ (۱۰۰) مہر علی ساکن تھہ غلام نبی(۱۰۱) نور محمد نمبر دار غوث گڑھ ریاست پٹیالہ(۱۰۲) عطا الٰہی ساکن غوث گڑھ (۱۰۳)عمر الدین لدھیانوی(۱۰۴) امام بخش از خاندان میاں دسوندی شاہ صاحب مرحوم(۱۰۵) منصب علی محرر (۱۰۶)غلام ر ّبی لودھیانوی.اس کے ساتھ ایک دوسر ا خط مسلمانان لاہور نے علماء کے نام مباحثہ کے لیے شایع کیا تھا جو اسی ضمیمہ ریاض ہند کے صفحہ اوّل پر ہے.اس کو بھی ناظرین کی واقفیت کے لیے اس جگہ نقل کر دیا جاتا ہے.(مرتب) دوسر۲ا خط از طرف اہلِ اسلام لاہور  خط بنام (۱)مولوی محمد صاحب لکھوکے (۲)و مولوی عبد الرحمن صاحب لکھوکے(۳) مولوی عبید اﷲ صاحب تبتی.(۴)مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی (۵)و مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری (۶) ومولوی عبد الجبار صاحب غزنوی (۷)و مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی (۸)و مولوی عبد العزیز صاحب لودیانوی.(۹) مولوی احمد اﷲ صاحب امرتسری(۱۰) مولوی محمد سعید صاحب بنارسی(۱۱) مولوی محمد احسن صاحب امروہی حال وارد بھوپال(۱۲) مولوی نور الدین صاحب حکیم (۱۳)مولوی عبداﷲ صاحب ٹونکی.از طرف اہل اسلام لاہور.بالخصوص حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار و خواجہ امیر الدین صاحب و منشی عبد الحق صاحب و منشی شمس الدین صاحب سیکرٹری حمایت اسلام و مرزا صاحب ہمسایہ خواجہ امیرالدین صاحب و منشی کرم الٰہی صاحب وغیرہ وغیرہ.السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ! مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے جو دعاوی حضرت مسیح علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام کی موت اور خود مسیح موعود ہونے کی نسبت کئے ہیں.آپ سے مخفی نہیں.ان کے دعاوی کی اشاعت اور ہمارے ائمہ دین کی خاموشی نے مسلمانوں کو جس تردد اور اضطراب میں ڈال دیا ہے وہ بھی محتاج بیان نہیں.اگرچہ جمہور علماء موجودہ کی بے سود مخالفت اور خود مسلمانوں کے پُرانے عقیدہ نے مرزا صاحب کے دعاوی کا اثر عام طور پر نہیں پھیلنے دیا.مگر تاہم اس امر کے بیان کرنے کی بلاخوف تردید جرأت کی جاتی ہے کہ اہلِ اسلام کے قدیمی اعتقاد نسبت حیات و نزول عیسیٰ ابن مریم میں بڑا تزلزل واقع ہو گیا ہے.اگر ہمارے پیشوایانِ دین کا سکوت یا ان کی خارج از مبحث

Page 277

ہریک راہ میں میری مدد کرے گا.غرض میں بلاعذر ہر طرح سے حاضر ہوں.اور مباحثہ لاہور میں ہوکہ بقیہ حاشیہ.تقریر اور تحریر نے کچھ اور طُول پکڑا تو احتمال کیا بلکہ یقین کامل ہے کہ اہل اسلام علی العموم اپنے پرانے اور مشہور عقیدہ کو خیرباد کہہ دیں گے اور پھر اس صورت اور حالت میں حامیانِ دین متین کو سخت تر مشکل کا سامنا پڑے گا.ہم لوگوں نے جن کی طرف سے یہ درخواست ہے اپنی تسلّی کے لیے خصوصاً اور عامہ اہل اسلام کے فائدہ کے لیے عموماً کمال نیک نیتی سے بڑی جدوجہد کے بعد ابو سعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مولوی حکیم نور الدین صاحب کے ساتھ (جو مرزا صاحب کے مخلص معتقدین میں سے ہیں) مرزا صاحب کے دعاوی پر گفتگو کرنے کے لیے مجبور کیا تھا مگر نہایت ہی حیرت ہے کہ ہماری بدقسمتی سے ہمارے منشاء اور مدعا کے خلاف مولوی ابوسعید صاحب نے مرزا صاحب کے دعووں سے جو اصل مضمون بحث تھا قطع نظر کر کے غیر مفید امور میں بحث شروع کر دی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مترددین کے شبہات کو اور تقویت ہو گئی اور زیادہ تر حیرت میں مبتلا ہو گئے.اس کے بعد لودھیانہ میں مولوی ابوسعید صاحب کو خود مرزا صاحب سے بحث کرنے کا اتفاق ہوا.تیراں۱۳ روز گفتگو ہوتی رہی.اس کا نتیجہ بھی ہمارے خیال میں وہی ہوا جو لاہور کی بحث سے ہوا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ تر مضر.کیونکہ مولوی صاحب اس دفعہ بھی مرزا صاحب کے اصل دعاوی کی طرف ہرگز نہ گئے.اگرچہ جیسا کہ سُنا گیا ہے اور پایہء اثبات کو بھی پہنچ گیا ہے.مرزا صاحب نے اثناء بحث میں بارہا اپنے دعووں کی طرف مولوی صاحب کو متوجہ کرنے کی سعی کی.چونکہ علمائِ وقت کے سکوت اور بعض بے سود تقریر و تحریر نے مسلمانوں کو علی العموم بڑی حیرت اور اضطراب میں ڈال رکھا ہے اور اس کے سوا ان کو اور کوئی چارہ نہیں کہ اپنے امامانِ دین کی طرف رجوع کریں.لہٰذا ہم سب لوگ آپ کی خدمت میں نہایت مؤدبانہ اور محض بنظر خیر خواہی برادرانِ اسلام درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس فتنہ و فساد کے وقت میدان میں نکلیں اور اپنی خداداد نعمت علم اور فضل سے کام لیں اور خدا کے واسطے مرزا صاحب کے ساتھ ان کے دعاوی پر بحث کر کے مسلمانوں کو ورطۂ تذبذب سے نکالنے کی سعی فرما کر عند الناس مشکور و عند اﷲ ماجور ہوں.ہم چاہتے ہیں کہ آپ جن کی ذات پر مسلمانوں کو بھروسہ ہے خاص لاہور میں مرزا صاحب کے ساتھ ان کے دعوے میں بالمشافہ تحریری بحث کریں.مرزا صاحب سے اُن کے دعویٰ کا ثبوت کتاب اللہ اور سُنّت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے لیا جاوے یا ان کو اس قسم کے دلائل بیّنہ سے توڑا جاوے.ہماری رائے میں مسلمانوں کی تسلّی اور رفع تردد کے واسطے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں.اگر آپ اس طریق بحث کو منظور فرماویں (اور امید واثق ہے کہ آپ اپنا ایک اہم منصبی اور مذہبی فرض یقین کر کے محض ابتغائً لوجہ اﷲ و ہدائے خلق اﷲ ضرور قبول فرماویں گے) تو اطلاع بخشیں تاکہ مرزا صاحب

Page 278

وہ مقام صدر ہے اور رئیس لاہور امن وغیرہ کے ذمہ دار ہو گئے ہیں.راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم میرزا غلام احمد قادیانی بقلم خود.۲۳؍ اگست ۱۸۹۱؁ء مطابق ۱۷؍ محرم الحرام ۱۳۰۹؁ھ محلہ اقبال گنج.لودھیانہ (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر) (منقول از ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۸۹۱ء صفحہ ۴) (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۶۲ تا۶۹) بقیہ حاشیہ.سے بھی اس بارہ میں تصفیہ کر کے تاریخ مقرر ہو جاوے اور آپ کو لاہور تشریف لانے کی تکلیف دی جاوے.تمام انتظام متعلقہ قیام امن وغیرہ ہمارے ذمہ ہو گا اور انشاء اﷲ تعالیٰ آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ اُٹھانی پڑے گی.جواب سے جلدی سرفراز فرماویں.والسّلام (از ضمیمہ ریاض ہند مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۸۹۱

Page 279

 اے شک کرنیوالو! آسمانی فیصلہ کی طرف آ جاؤ اے بزرگو! اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے غیظ اور غضب میں آکرحد سے مت بڑھو.میری اس کتاب کے دونوں حصوں کو غور سے پڑھو کہ ان میں نور اور ہدایت ہے.خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی زبانوں کوتکفیر سے تھام لو.خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں ایک مسلمان ہوں.اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ وَاَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰـہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُـہٗ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَلَا تَقُوْلُوْا لَسْتَ مُسْلِمًا وَاتَّقُواالْمَلِکَ الَّذِیْ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.اور اگر اب بھی اس کتاب کے پڑھنے کے بعد شک ہے تو آؤآزمالو !خداکس کے ساتھ ہے.اے میرے مخالف الرائے مولویواور صوفیواور سجادہ نشینو!!! جو مُکَفِّر اور مُکَذِّب ہو مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ لوگ مل جل کر یا ایک ایک آپ میں سے اُن آسمانی نشانوں میںمیرا مقابلہ کرنا چاہیں جو اولیاء الرحمٰن کے لازم حال ہوا کرتے ہیں تو خدائے تعالیٰ تمہیں شرمندہ کرے گااور تمہارے پردوں کو پھاڑ دے گا اور اس وقت تم دیکھو گے کہ وہ میرے ساتھ ہے.کیا کوئی تم میں ہے کہ اس آز مائش کے لئے میدان میں آوے؟ اور عام اعلان اخباروں کے ذریعہ سے دے کر ان تعلقات قبولیت میں جو میرا رب میرے ساتھ رکھتا ہے اپنے تعلقات کا موازنہ کرے یاد رکھو !کہ خداصادقوں کا مددگار ہے وہ

Page 280

اسی کی مدد کرے گا جس کو وہ سچا جانتا ہے چالاکیوں سے باز آجاؤکہ وہ نزدیک ہے.کیا تم اس سے لڑو گے؟ کیا کوئی متکبرانہ اچھلنے سے درحقیقت اونچا ہو سکتا ہے؟ کیا صرف زبان کی تیزیوں سے سچائی کو کاٹ دو گے؟ اس ذات سے ڈرو جس کا غضب سب غضبوں سے بڑھ کر ہے  .۱؎ النَّـــــــــــــــــــــــــاصـــــــــــــــــح خاکسار غلام احمد قادیانی ازلودیانہ محلہ اقبال گنج (یہ اشتہار ازالہ اوہام حصہ اوّل بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر کے ٹائٹل کے دوسرے صفحہ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۰۲) ۱؎ طٰہٰ: ۷۵

Page 281

 توفّٰی کے لفظ کی نسبت نیز الدجّال کے بارے میںہزار روپیہ کا اشتہار تمام مسلمانوں پر واضح ہو کہ کمال صفائی سے قرآن کریم اورحدیث رسول اللہ صلعم سے ثابت ہوگیا ہے کہ درحقیقت حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام برطبق آیت ۱؎ زمین پر ہی اپنی جسمانی زندگی کے دن بسرکر کے فوت ہوچکے ہیں اورقرآن کریم کی سولہ ۱۶ آیتوں اوربہت سی حدیثوں بخاری اور مسلم اور دیگر صحاح سے ثابت ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر آباد ہونے اور بسنے کے لئے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے اورنہ حقیقی اورواقعی طور پر دو موتیں کسی پر واقع ہوتی ہیں اورنہ قرآن کریم میں واپس آنے والوں کے لئے کوئی قانون وراثت موجود ہے.باایں ہمہ بعض علماء وقت کو اس بات پرسخت غلو ہے کہ مسیح ابن مریم فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہی آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور حیات جسمانی دنیوی کے ساتھ آسمان پر موجود ہے اورنہایت بے باکی اورشوخی کی راہ سے کہتے ہیں کہ تَوَفّٰی کالفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنے وفات دینا نہیں ہے بلکہ پورا لینا ہے ۱؎ الاعراف: ۲۶

Page 282

یعنی یہ کہ روح کے ساتھ جسم کو بھی لے لینا.مگر ایسے معنے کرنا اُن کا سراسر افترا ہے.قرآن کریم کا عموماً التزام کے ساتھ اس لفظ کے بارہ میں یہ محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض روح اور وفات دینے کے معنوں پر ہریک جگہ اس کو استعمال کرتاہے.یہی محاورہ تمام حدیثوں اور جمیع اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتاہے.جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہواہے اور زبان عربی جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یاجدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ تَوَفّٰی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیاگیاہوبلکہ جہاں کہیں تَوَفّٰی کے لفظ کو خدائے تعالیٰ کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیاہے نہ قبض جسم کے معنوں میں.کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں.کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کی گنجائش نہیں.اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلعم سے یااشعار وقصائد و نظم ونثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ تَوَفّٰیکا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجُز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پاگیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللّٰہ جَلَّ شَانُـہٗ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتاہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آیندہ اس کے کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرارکرلوں گا.ایسا ہی اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا کوئی ان کا ہم خیال یہ ثابت کردیوے کہ اَلدَّجَّال کا لفظ جو بخاری اور مسلم میں آیا ہے بجُز دجّالِ معہود کے کسی اور دجّال کے لئے بھی استعمال کیا گیاہے تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں ایسے شخص کو بھی جس طرح ممکن ہو ہزار روپیہ نقد بطور تاوان کے دوں گا.چاہیں تو مجھ سے رجسٹری کرالیں یا تمسک لکھا لیں.اس اشتہار کے مخاطب خاص طور پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں جنہوں نے غرور اور تکبر کی راہ سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ تَوَفّٰی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی

Page 283

نسبت آیا ہے اس کے معنی پورا لینے کے ہیں یعنی جسم اور روح کو بہ ہیئت کذائی زندہ ہی اٹھا لینا اور وجود مرکب جسم اور روح میں سے کوئی حصہ متروک نہ چھوڑنا.بلکہ سب کو بحیثیت کذائی اپنے قبضہ میں زندہ اورصحیح سلامت لے لینا.سو اسی معنی سے انکارکر کے یہ شرطی اشتہار ہے.ایسا ہی محض نفسانیت اور عدمِ واقفیت کی راہ سے مولوی محمد حسین صاحب نے اَلدَّجَّال کے لفظ کی نسبت جو بخاری اورمسلم میں جا بجا دجّال معہود کا ایک نام ٹھہرایا گیا ہے یہ دعویٰ کردیاہے کہ اَلدَّجَّال دجّال معہود کاخاص طور پر نام نہیں بلکہ ان کتابوں میں یہ لفظ دوسرے دجّالوں کے لئے بھی مستعمل ہے اور اس دعوے کے وقت اپنی حدیث دانی کا بھی ایک لمبا چوڑا دعویٰ کیا ہے.سو اس وسیع معنے اَلدَّجَّال سے انکار کر کے اور یہ دعویٰ کر کے کہ یہ لفظ اَلدّجّال کا صرف دجّال معہود کے لئے آیا ہے او ربطور عَلم کے اس کے لئے مقرر ہوگیاہے.یہ شرطی اشتہار جاری کیا گیاہے.مولوی محمد حسین صاحب اوراُن کے ہم خیال علماء نے لفظ تَوَفّی اوراَلدَّجَّالکی نسبت اپنے دعویٰ متذکرہ بالا کو بپایہ ثبوت پہنچادیا تو و ہ ہزارروپیہ لینے کے مستحق ٹھہریں گے اورنیز عام طورپریہ عاجز یہ اقرار بھی چند اخباروں میں شائع کردے گا کہ درحقیقت مولوی محمد حسین صاحب اوراُن کے ہم خیال فاضل اور واقعی طور پر محدّث اور مفسر اور رموز اوردقائق قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے سمجھنے والے ہیں.اگر ثابت نہ کرسکے تو پھر یہ ثابت ہوجائے گا کہ یہ لوگ دقائق وحقائق بلکہ سطحی معنوں قرآن اورحدیث کے سمجھنے سے بھی قاصراور سراسر غبی اور بلید ہیں اور در پردہ اللہ اور رسول کے دشمن ہیں کہ محض الحادکی راہ سے واقعی اور حقیقی معنوں کو ترک کرکے اپنے گھر کے ایک نئے معنے گھڑتے ہیں.ایسا ہی اگر کوئی یہ ثابت کر دکھاوے کہ قرآن کریم کی وہ آیتیں اور احادیث جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کوئی مردہ دنیا میں واپس نہیں آئے گاقطعیۃ الدلالت نہیں اور نیز بجائے لفظ موت اوراماتت کے جو متعدد المعنی ہے اور نیند اور بے ہوشی اور کفر اور ضلالت اور قریب الموت ہونے کے معنوں میں بھی آیا ہے.تَوَفّی کا لفظ کہیں دکھاوے مثلًا یہ کہ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ.

Page 284

بَعَثَہٗ.توایسے شخص کو بھی بلا توقف ہزار روپیہ نقددیاجاوے گا.۱؎ المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار ـغلام احمد از لودھیانہ محلہ اقبال گنج (یہ اشتہار ازالہ اوہام حصہ دوم بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر کے صفحہ ۹۱۷ تا ۹۲۱پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۰۲ تا ۶۰۵) ۱؎ نوٹ.فوت کے بعد زندہ کرنے کے متعلق جس قدر قرآن کریم میں آیتیں ہیں کوئی ان میں سے حقیقی موت پر محمول نہیں ہے اور حقیقی موت کے ماننے سے نہ صرف اس جگہ یہ لازم آتا ہے کہ وہ آیتیں قرآن کریم کی اُن سولہ۱۶ آیتوں اور ان تمام حدیثوں سے مخالف ٹھہرتی ہیں جن میں یہ لکھا ہے کہ کوئی شخص مرنے کے بعد پھر دنیا میں نہیں بھیجا جاتا بلکہ علاوہ اس کے یہ فساد بھی لازم آتا ہے کہ جان ُکندن اور حسابِ قبر اور رَفَعْ اِلَی السَّمَآء جو صرف ایک دفعہ ہونا چاہیے تھا دو دفعہ ماننا پڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اب شخص فوت شدہ حسابِ قبر کے بعد قیامت میں اُٹھے گا کذب صریح ٹھہرتا ہے.اور اگر ان آیتوں میں حقیقی موت مراد نہ لیں تو کوئی نقص لازم نہیں آتا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے یہ بعید نہیں کہ موت کے مشابہ ایک مدت تک کسی پر کوئی حالت بے ہوشی وارد کر کے پھر اس کو زندہ کردیوے مگر وہ حقیقی موت نہ ہو.اور سچ تو یہ ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی جاندار پر حقیقی موت وارد نہ کرے وہ مرنہیں سکتا اگرچہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کیا جاوے..۱؎ .۲؎ منہ ۱؎ البقرۃ: ۱۰۷ ۲؎ اٰلِ عمران: ۱۴۶

Page 285

 عالی ہمت دوستوں کی خدمت میں گزارش چونکہ طبع کتاب ازالہ اوہام میں معمول سے زیادہ مصارف ہوگئے ہیں اور مالک مطبع اورکاتب کا حساب بے باق کرنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے لہٰذا بخدمت جمیع مخلص دوستوں کے التماس ہے کہ حتی الوسع اس کتاب کی خریداری سے بہت جلد مدد دیں.جو صاحب چند نسخے خرید سکتے ہیں وہ بجائے ایک کے اس قدر نسخے خریدلیں جس قدران کو خریدنے کی خداد اد مقدرت حاصل ہے اور اس جگہ اخویم مکرم مولوی حکیم نور الدین صاحب معالج ریاست جموں کی نئی امداد جو انہوں نے کئی نوٹ اس وقت بھیجے قابل اظہار ہے خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے ایسا ہی اخویم مکرم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے علاوہ اس تین سو روپے کے جو پہلے بھیجا تھا اب ایک سو۱۰۰ روپیہ اَور بھیج دیا نہایت خوشی کی بات ہے کہ حکیم فضل دین صاحب اپنے مخدوم مولوی حکیم نورالدین صاحب کے رنگ میں ایسے رنگین ہوگئے ہیں کہ نہایت اولی العزمی سے ایثار کے طور پر اُن سے اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ صادرہوتے ہیں.چنانچہ یہ سو روپیہ بعض زیورات کے فروخت سے محض اِبْتِغَآئً لِمَرْضَاتِ اللّٰہِ بھیجاہے.جَزَاہُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَآئِ.اس جگہ اخویم مولوی مردان علی صاحب صدر محاسب دفتر سرکار نظام حیدر آباد دکن بھی ذکرکے لائق ہیں.مولوی صاحب موصوف نے درخواست کی ہے کہ میرا نام سلسلہ بیعت کنندوں میں داخل کیاجاوے.چنانچہ داخل کیاگیا.اُن کی تحریرات سے نہایت محبت واخلاص پایا جاتا ہے.وہ لکھتے

Page 286

ہیں کہ میں نے سچے دل سے پانچ برس اپنی عمر میں سے آپ کے نام لگا دئیے ہیں.خدا تعالیٰ میری عمر میں سے کا ٹ کر آپ کی عمر میں شامل کردے سو خدا تعالیٰ اس ایثارکی جزا اُن کو یہ بخشے کہ اُن کی عمر دراز کرے.انہوں نے اوراخویم مولوی ظہور علی صاحب اور مولوی غضنفر علی صاحب نے نہایت اخلاص سے دس دس روپیہ ماہواری چندہ دینا قبول کیا ہے اور بہتّر۷۲ روپیہ امداد کے لئے بھیجے ہیں.جَزَاہُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَآئِ.وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی نَبِیِّنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَجَمِیْعِ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ.راقم خاکسار غلام احمداز لودہیانہ.محلہ اقبال گنج (یہ اشتہار ازالہ اوہام حصہ دوم بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر کے صفحہ ۹۴۴،۹۴۵ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۲۳ ، ۶۲۴)

Page 287

اشتہار نور الابصار صداقت آثار عیسائی صاحبوں کی ہدایت کے لیے یَآاَیُّھَا الْمُتَنَصِّرُوْنَ مَاکَانَ عِیْسٰی اِلَّا عَبْدٌ مِّنْ عِبَادِ اللّٰہِ قَدْ مَاتَ وَدَخَلَ فِی الْمَوْتٰی فَـلَا تَحْسَبُوْہُ حَیًّا بَلْ ھُوَ مَیِّتٌ وَلَا تَعْبُدُوْا مَیِّتًا وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.اے حضرات عیسائی صاحبان! آپ لوگ اگر غور سے اس کتاب ازالہ اوہام کو پڑھیں گے تو آپ پر نہایت واضح دلائل کے ساتھ کھل جائے گا کہ درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب زندہ موجود نہیں ہیں بلکہ وہ فوت ہو چکے اور اپنے فوت شدہ بزرگوں میں جاملے.ہاں وہ روحانی زندگی جو ابراہیم کوملی، اسحاق کو ملی، یعقوب کو ملی، اسمٰعیل کو ملی اور بلحاظ رفع سب سے بڑھ کر ہمارے سیّد ومولیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوملی.وہی زندگی بلا تفاوت حضرت عیسیٰ کو بھی ملی.اس بات پربائبل سے کوئی دلیل نہیں ملتی کہ مسیح ابن مریم کوکوئی انوکھی زندگی ملی.بلکہ اس زندگی کے لوازم میں تمام انبیاء شریک مساوی ہیں.ہاں باعتبار رفع کے اقرب الی اللہ مقام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.سو اے حضرات عیسائی صاحبان ! آپ لوگ اب ناحق کی ضد نہ کریں.مسیح ایک عاجز بندہ تھا جو فوت ہوگیا اور فوتشدہ لوگوں میں جاملا.آپ لوگوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ خدا تعالیٰ سے ڈریں اور ایک عاجز مخلوق کو خدا کہہ کر اپنی عاقبت خراب نہ کریں آپ لوگ ذرہ سوچیں کہ مسیح اس دوسرے عالم میں اَوروں سے کس

Page 288

بات میں زیادہ ہے.کیا انجیل اس بات کی گواہی نہیںدیتی کہ ابراہیم زندہ ہے؟ بلکہ لعاذربھی؟ پھر مسیح لعاذر سے اپنی زندگی میں کس بات میں زیادہ ہے.اگر آپ لوگ تحقیق سے نوشتوں کو دیکھیں تو آپ کو اقرارکرناپڑے گا کہ کسی بات میں زیادہ نہیں.اگر آپ لوگ اس بار ہ میں میرے ساتھ بحث کرنا چاہیں تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس بحث میں مغلوب ہونے کی حالت میں حتی الوسع اپنے ہر یک تاوان کو جو آپ لوگ تجویز کریں دینے کو طیّارہوں بلکہ اپنی جان بھی اس راہ میں فداکرنے کو حاضر ہوں.خداوند کریم نے میرے پر کھول دیا ہے کہ درحقیقت عیسیٰ بِن مریم فوت ہوگیااور اب فوت شدہ نبیوں کی جماعت میںداخل ہے.سو آؤ دین اسلام اختیار کرو.وہ دین اختیار کرو جس میں حَیٌّ لَا یَمُوْت کی پرستش ہورہی ہے نہ کسی مردہ کی.جس پر کامل طورپر چلنے سے ہر یک محبِّ صادق خود مسیح ابن مریم بن سکتا ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر غلام احمد قادیانی ۳؍ ستمبر ۱۸۹۱ء (یہ اشتہار ازالہ اوہام حصہ دوم بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند امرتسر کے صفحہ ۹۴۶تا۹۴۸ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۲۶)

Page 289

 ہمارے مخالف الرائے مولوی صاحبوں کا حوصلہ خدائے تعالیٰ نے پورے طورپر جلوئہ قدرت دکھلانے کے لئے ایک ایسے نامی مولوی صاحب سے ہمیں ٹکرا دیا جن کی لیاقت علمی جن کی طاقت فہمی جن کی طلاقت لسانی جن کی فصاحت بیانی شہرۂ پنجاب وہندوستان ہے اور خدائے حکیم وعلیم کی مصلحت نے اس ناکارہ کے مقابل پر ایساانہیں جوش بخشا اور اس درجہ کی بدظنی میں انہیں ڈال دیا کہ کوئی دقیقہ بدگمانی اور مخالفانہ حملہ کا انہوں نے اُٹھا نہیں رکھا.تا اس کا وہ امر خارق عادت ظاہر ہو جو اس نے ارادہ کیا ہے.مولوی صاحب نوراللہ کے بجھانے کے لئے بہت زور سے پھونکیں مار رہے ہیں.دیکھئے اب سچ مچ وہ نور بجھ جاتا ہے یا کچھ اور کرشمہ قدرت ظہور میں آتا ہے.۹ ؍اپریل ۱۸۹۱ء کے خط میں جو انہوں نے میرے ایک دوست مولوی سیّدمحمد احسن صاحب کے نام بھوپال میں بھیجا تھا عجیب طور کے فقرات تحقیر کے استعمال کئے ہیں.آپ سیّد صاحب موصوف کو لکھتے ہیں کہ آپ اس شخص پر جلدی سے کیوں ایمان لے آئے اس کو ایک دفعہ دیکھ تو لیا ہوتا.مولوی صاحب نے اس فقرہ اور نیز ایک عربی کے فقرہ سے یہ ظاہر کرنا چاہا ہے کہ یہ شخص محض نالائق اور علمی اور عملی لیاقتوں سے بکلّی بے بہرہ ہے اور کچھ بھی چیز نہیں.اگر تم دیکھو تو اس سے نفرت کرو.مگر بخدا یہ سچ اور بالکل سچ ہے اور قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ درحقیقت مجھ میں کوئی علمی اورعملی خوبی یا ذہانت اوردانشمندی کی لیاقت نہیں اور میں کچھ بھی نہیں.ایک غیب میں ہاتھ ہے جو مجھے تھام رہا ہے اور ایک پوشیدہ روشنی ہے جو مجھے منور کر رہی ہے اور

Page 290

ایک آسمانی روح ہے جو مجھے طاقت دے رہی ہے.پس جس نے نفرت کرنا ہے کرے.تامولوی صاحب خوش ہوجائیں بخدا میری نظر ایک ہی پرہے جو میرے ساتھ ہے.اور غیر اللہ ایک مرے ہوئے کیڑے کے بر ابر بھی میر ی نظر میں نہیں.کیا میرے لئے وہ کافی نہیں جس نے مجھے بھیجا ہے.میں یقینًا جانتا ہوں کہ وہ اِس تبلیغ کو ضائع نہیں کرے گا جس کو لے کر میں آیا ہوں.مولوی صاحب جہاں تک ممکن ہے لوگوں کو نفرت دلانے کے لئے زور لگالیں اور کوئی دقیقہ کوشش کا اُٹھا نہ رکھیں اور جیسا کہ وہ اپنے خطوط میں اور اپنے رسالہ میں اور اپنی تقریروں میں باربار ظاہر کر چکے ہیں کہ یہ شخص نادان ہے، جاہل ہے، گمراہ ہے، مفتری ہے، دوکاندا رہے، بے دین ہے، کافر ہے، ایسا ہی کرتے رہیں اورمجھے ذرہ مہلت نہ دیں مجھے بھی اس ذات کی عجیب قدرتوں کے دیکھنے کاشوق ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.لیکن اگر کچھ تعجب ہے تو اس بات پر ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ عاجز مولوی صاحب کی نظر میں جاہل ہے بلکہ خط مذکورہ بالا میں یقینی طورپر مولوی صاحب نے لکھ دیا ہے کہ یہ شخص ملہم نہیںیعنی مفتری ہے اور یہ دعویٰ جو اس عاجز نے کیا ہے مولوی صاحب کی نظر میں بدیہی البطلان ہے جس کا قرآن وحدیث میں کوئی اثر ونشان نہیں پایاجاتا.پھر مولوی صاحب پرڈر اس قدر غالب ہے کہ آپ ہی بحث کے لئے بلاتے اور آپ ہی کنارہ کرجاتے ہیں.ناظرین کو معلوم ہوگا کہ مولوی صاحب نے ایک بڑے کرّوفر سے ۱۶؍اپریل ۱۸۹۱ء کو تار بھیج کر اس عاجز کو بحث کے لئے بلایا کہ جلد آؤ اورآکر بحث کرو ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے.اُس وقت بڑی خوشی ہوئی کہ مولوی صاحب نے اس طرف رخ تو کیا.اور شوق ہوا کہ اب دیکھیں کہ مولوی صاحب حضرت مسیح ابن مریم کے زندہ مع الجسد اُٹھائے جانے کا کونسا ثبوت پیش کرتے ہیں یا بعد موت کے پھر زندہ ہوجانے کا کوئی ثبوت قرآن کریم یا حدیث صحیح سے نکالتے ہیں چنانچہ لدھیانہ میں ایک عام چرچا ہوگیا کہ مولوی صاحب نے بحث کے لئے بلایا ہے اور سیالکوٹ میں بھی مولوی صاحب نے اپنے ہاتھ سے خط بھیجے کہ ہم نے تارکے ذریعہ سے بلایا ہے.لیکن جب اس عاجز کی طرف سے بحث کے لئے تیاری ہوئی اورمولوی صاحب کو پیغام بھیجا گیا تو آپ نے بحث کرنے سے کنارہ کیا اوریہ عذرپیش کر دیا کہ جب تک ازالہ اوہام چھپ نہ

Page 291

جائے ہم بحث نہیں کریں گے.آپ کو اُس وقت یہ خیال نہ آیا کہ ہم نے تو بلانے کے لئے تار بھیجی تھی.اور یہ بھی ایک خط میں لکھا تھا کہ ہمیں ازالہ اوہام کے دیکھنے کی ضرورت نہیں.اور یہ بھی بار بار ظاہر کردیا تھا کہ یہ شخص باطل پر ہے.اب ازالہ اوہام کی ضرورت کیوں پڑگئی.تار کے ذریعہ سے یہ پیغام پہنچاناکہ آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے اور حِبِّیْ فِی اللّٰہِ اخویم حکیم نور دین صاحب پرناحق یہ الزام لگانا کہ وہ ہمارے مقابلہ سے بھاگ گئے اور پھر درخواست بحث پر ازالہ اوہام یاد آجانا عجیب انصاف ہے.مولوی صاحب دعویٰ اس عاجز کا سن چکے تھے.فتح اسلام اور توضیح مرام کو دیکھ چکے تھے اب صرف قرآن اور حدیث کے ذریعہ سے بحث تھی جس کو مولوی صاحب نے وعدہ کر کے پھر ٹال دیا.(یہ اشتہار ضمیمہ ازالہ اوہام حصہ دوم بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند امرتسر کے صفحہ ۱۴ تا ۱۶پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۳۴ تا ۶۳۶)

Page 292

 اطلاع بعض دوستوں کے خط پہنچے کہ جیسے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی بعد مباحثہ شہر لودیانہ سے حکماً نکالے گئے ہیں یہی حکم اس عاجز کی نسبت ہوا ہے سو واضح رہے کہ یہ افواہ سراسر غلط ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنی وحشیانہ طرز بحث کی شامت سے لودہانہ سے شہر بدر کئے گئے لیکن اس عاجز کی نسبت کوئی حکم اخراج صادر نہیں ہوا چنانچہ ذیل میں نقل مراسلہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر لودھیانہ لکھی جاتی ہے.از پیشگاہ مسٹر ڈبلیو چئوس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر لودہیانہ میرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان سلامت.چٹھی آپ کی مورخہ دیروزہ موصول ملاحظہ و سماعت ہوکر بجوابش تحریر ہے کہ آپ کو بمتابعت و ملحوظیّت قانون سرکاری لودہیانہ میں ٹھہرنے کے لیے وہی حقوق حاصل ہیں جیسے کہ دیگر رعایا تابع قانون سرکار انگریزی کو حاصل ہیں.المرقوم ۶؍ اگست ۱۸۹۱ء دستخط صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر (یہ اشتہار ازالہ اوہام حصہ دوم بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر کے ٹائٹل کے صفحہ آخر پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۳۷)

Page 293

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ  ۱؎ ایک عاجز مسافر کا اشتہار قابل توجہ جمیع مسلمانانِ انصاف شعار و حضرات علمائے نامدار اے اخوان مومنین اے برادران سکنائے دہلی و متوطنانِ ایں سرزمین!!! بعد سلام مسنون و دعائے درویشانہ آپ سب صاحبوں پر واضح ہو کہ اس وقت یہ حقیر غریب الوطن چند ہفتے کے لیے آپ کے اس شہر میں مقیم ہے اور اس عاجز نے سُنا ہے کہ اس شہر کے بعض اکابر علماء میری نسبت یہ الزام مشہور کرتے ہیں کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ملائک کا مُنکر، بہشت و دوزخ کا انکاری اور ایسا ہی وجود جبرائیل اور لیلۃ القدر اور معجزات اور معراج نبوی سے بکلی مُنکر ہے.لہٰذا مَیں اِظْہَارًا لِلْحَقّ عام و خاص اور تمام بزرگوں کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ یہ الزام سراسر افترا ہے.مَیں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائک اور لیلۃ القدر وغیرہ سے مُنکر بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں.اور جیسا کہ سُنت جماعت کا عقیدہ ہے ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی رو سے مسلّم الثبوت ہیں.اور سیّدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین ۱؎ الاعراف: ۹۰

Page 294

کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں.میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی.اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ مَلَا ئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَ اٰمَنْتُ بِکِتَابِ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ الْقُرْاٰنِ الْکَرِیْمِ.وَ اتَّبَعْتُ اَفْضَلَ رُسُلِ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ اَنْبِیَآئِ اللّٰہِ مُحَمَّدَ انِ الْمُصْطَفٰی وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.وَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُـہٗ.رَبِّ احْیِنِیْ مُسْلِمًا وَ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَ احْشُرْنِیْ فِیْ عِبَادِکَ الْمُسْلِمِیْنَ.وَ اَنْتَ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَا یَعْلَمُ غَیْرُکَ وَ اَنْتَ خَیْرُ الشَّاہِدِیْنَ.اس میری تحریر پر ہر ایک شخص گواہ رہے اور خداوند علیم و سمیع اوّل الشاہدین ہے کہ میں ان تمام عقائد کو مانتا ہوں جن کے ماننے کے بعد ایک کافر بھی مسلمان تسلیم کیا جاتا ہے اور جن پر ایمان لانے سے ایک غیر مذہب کا آدمی بھی معاً مسلمان کہلانے لگتا ہے.میں ان تمام امور پر ایمان رکھتا ہوں جو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں درج ہیں اور مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہیں اور نہ میں ناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے.جس طرح محدثیت نبوت سے مشابہ ہے ایسا ہی میری رُوحانی حالت مسیح ابن مریم کی رُوحانی حالت سے اشد درجہ کی مناسبت رکھتی ہے.غرض میں ایک مسلمان ہوں.اَیُّہَا الْمُسْلِمُوْنَ اَنَا مِنْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ بِاَمْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی خلاصہ کلام یہ کہ مَیں محدث اللہ ہوں اور مامور من اللہ ہوں اور باایںہمہ مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں جو صدی چار دہم کے لیے مسیح ابن مریم کی خصلت اور رنگ میں مجدّدِ دین ہو کر رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کی طرف سے آیا ہوں.مَیں مفتری نہیں ہوں..خدا تعالیٰ نے دنیا پر نظر کی اور اس کو ظلمت میں پایا اور مصلحت عباد کے لیے ایک اپنے عاجز بندہ کو خاص کر دیا.کیا تمہیں اس سے کچھ تعجب ہے کہ وعدہ کے موافق صدی کے سر پر ایک مجدّد بھیجا گیا؟ اور جس نبی کے رنگ میں چاہا خدا تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا.کیا ضرور نہ تھا کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوتی؟ بھائیو! میں مُصلح ہوں بدعتی نہیں.اور معاذ اللہ میںکسی بد عت کے پھیلانے کے لیے نہیں آیا.حق کے اظہار کے لیے آیا ہوں

Page 295

اور ہر ایک بات جس کا اثر اور نشان قرآن اور حدیث میں پایا نہ جائے اور اس کے برخلاف ہو وہ میرے نزدیک الحاد اور بے ایمانی ہے مگر ایسے لوگ تھوڑے ہیں جو کلامِ الٰہی کی تہہ تک پہنچتے اور ربّانی پیشگوئیوں کے باریک بھیدوں کو سمجھتے ہیں.مَیں نے دین میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں کی.بھائیو! میرا وہی دین ہے جو تمہارا دین ہے اور وہی رسول کریم میرا مقتدا ہے جو تمہارا مقتدا ہے.اور وہی قرآن شریف میرا ہادی ہے اور میرا پیارا اور میری دستاویز ہے جس کا ماننا تم پر بھی فرض ہے.ہاں یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ میں حضرت مسیح ابن مریم کو فوت شدہ اور داخل موتی ٰیقین رکھتا ہوں اور جو آنے والے مسیح کے بارے میں پیشگوئی ہے وہ اپنے حق میں یقینی اور قطعی طور پر اعتقاد رکھتا ہوں، لیکن اے بھائیو! یہ اعتقاد میں اپنی طرف سے اور اپنے خیال سے نہیں رکھتا بلکہ خداوند کریم جَلّشَانُـہٗ نے اپنے الہام و کلام کے ذریعہ سے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ مسیح ابن مریم کے نام پر آنے والا تو ہی ہے.اور مجھ پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے وہ دلائل یقینیہ کھول دئیے ہیں جن سے بہ تمام یقین و قطع حضرت عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کا فوت ہو جانا ثابت ہوتا ہے.اور مجھے اس قادر مطلق نے بار بار اپنے کلام خاص سے مشرف و مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ کی یہودیت دُور کرنے کے لیے تجھے عیسیٰ بن مریم کے رنگ اور کمال میں بھیجا گیا ہے.سو میں استعارہ کے طور پر ابن مریم موعود ہوں.جس کا یہودیت کے زمانہ اور تنصر کے غلبہ میں آنے کا وعدہ تھا جو غربت اور رُوحانی قوت اور روحانی اسلحہ کے ساتھ ظاہر ہوا.برخلاف اس غلط خیال ظاہری جنگ اور جدل کے جو مسیح ابن مریم کی نسبت مسلمانوں میں پھیل گیا تھا.سو میرا جنگ روحانی ہے اور میری بادشاہت اس عالم کی نہیں.دنیا کی حرب و ضرب سے مجھے کچھ کام اور غرض واسطہ نہیں.میری زندگی ایسی فروتنی اور مسکینی کے ساتھ ہے جو مسیح ابن مریم کو ملی تھی.میں اس لیے آیا ہوں کہ تا ایمانی فروتنی اور مسکینی اور تقویٰ اور تہذیب اور طہارت کو دوبارہ مسلمانوں میں قائم کروں اور اخلاق فاضلہ کا طریق سکھلائوں.اگر مسلمانوں نے مجھے قبول نہ کیا تو مجھے کچھ رنج نہیں.کیونکہ مجھ سے پہلے بنی اسرائیل نے بھی مسیح ابن مریم کو قبول نہیں کیا تھا.لیکن جنہوں نے مجھے قبول نہیں کیا ان کے پاس کوئی عذر نہیں.کیونکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میرے

Page 296

دعوے کی شرط صحت کو جو وفات مسیح ابن مریم ہے، کامل طور پر تصدیق کرتے ہیں.قرآن کریم کی تیس آیتیں حضرت عیسیٰ بن مریم کا فوت ہو جانا بیان کر رہی ہیں.جیسا کہ کتاب ازالہ اوہام میں مفصل ذکر ہے، لیکن قرآن کریم میں ایک بھی ایسی آیت نہیں جوعیسیٰ بن مریم کی زندگی پر صَرِیْحَۃُ الدَّلَالَتْ ہو.اور خدا تعالیٰ نے مجھے وہ آسمانی نشان بخشے ہیں جو اس زمانہ میں کسی دوسرے کو نہیں بخشے گئے.چنانچہ ان دونوں طور کے دلائل کے بارے میں مَیں نے ایک مبسوط کتاب ازالۂ اوہام نام لکھی ہے جو چھپ کر طیّار ہو چکی ہے.اور وہ ساٹھ جزو کی کتاب ہے اور بڑے اہتمام سے تیار ہوئی ہے اور مع ھٰذا فقط تین روپیہ اس کی قیمت رکھی ہے.اس کتاب میں بہت سے دلائل کے ساتھ حضرت عیسیٰ ابن مریم کی وفات ثابت کی گئی ہے.اور اپنے مسیح موعود ہونے کی نسبت بہت سے دلائل بیان کئے گئے ہیں.اس کتاب میں بہت سی پیشگوئیاں بھی لکھی ہیں اور بعض دوسرے نشان بھی بیان کئے ہیں.اور قرآن کریم کے حقایق و معارف اس میں بکثرت درج ہیں.اور وہ باتیں اس میں ہیں جو انسانوں کے علم اور طاقت سے بڑھ کر ہوتی ہیں.جو شخص اس کو اوّل سے آخر تک بغور و انصاف پڑھے گا اس کا نور قلب بلاشبہ شہادت دے گا کہ اس کتاب کے بہت سے مرقومات صرف الٰہی طاقت سے لکھے گئے ہیں.اور یہ وہی کتاب ہے جس کی نسبت رسالہ توضیح مرام میں نصیحتاً لکھا گیا تھا کہ اس کے دیکھنے سے پہلے کوئی صاحب مخالفانہ تحریر شایع نہ کریں.سو اب وہی بفضلہ تعالیٰ طیّار ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سچائی کی حجت اپنی اس مخلوق پر پوری کرے جو سچائی سے روگردان ہے.مع ہذا چونکہ میں اس وقت اس شہر دہلی میں وارد ہوں اور افواہ سُنتا ہوں کہ اس شہر کے بعض علماء جیسے حضرت سیّد مولوی نذیر حسین صاحب اور جناب مولوی ابومحمد عبد الحق صاحب اس عاجز کی تکذیب اور تکفیر کے درپے ہیں.اور الحاد اور ارتداد کی طرف منسوب کرتے ہیں.اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ روایتیں کہاں تک صحیح ہیں.صرف لوگوں کی زبان سے سُنا ہے.وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب.لیکن اِتْمَامًا لِلْحُجَّۃِ حضرات موصوفہ کی خدمت میں گزارش کرتاہوں کہ معجزات و لیلۃ القدر و وجود ملائکہ و وجود جبرائیل و معراج نبوی وغیرہ تعلیمات قرآن کریم و احادیث صحیحہ پر تو میرا ایمان ہے.اور مجھے محدّثیت کا دعویٰ ہے نہ نبوت تامہ کا.

Page 297

اور ان سب باتوں میں اپنے بھائی مسلمانوں کے ساتھ مجھے کچھ اختلاف نہیں.ہاں اصل عقائد مذکورہ بالا کو مسلّم رکھ کر جو اور اور باتیں از قبیل اسرار و حقایق و معارف و علوم حکمیہ و دقایق بطون قرآن کریم ہیں وہ مجھ پر جیسے جیسے الہام کے ذریعہ سے کھلتے ہیں ان کو بیان کر دیتا ہوں جن کا اصل عقائد سے کچھ بھی تعارض نہیں.ہاں حیات مسیح ابن مریم کی نسبت مجھے انکار ہے.سو یہ انکار نہ صرف الہام الٰہی پر مبنی ہے بلکہ قرآن کریم اور احادیثِ صحیحہ نبویّہ میرے اس الہام کے شاہد کامل ہیں.اگر حضرت سیّد مولوی محمدنذیر حسین صاحب یا جناب مولوی ابومحمد عبد الحق صاحب مسئلہ وفات مسیح میں مجھے مخطی خیال کرتے ہیں یا ملحد اور ماوّل تصور فرماتے ہیں اور میرے قول کو خلاف قال اللہ قال الرسول گمان کرتے ہیں تو حضرات موصوفہ پر فرض ہے کہ عامہ خلایق کو فتنہ سے بچانے کے لیے اس مسئلہ میں اسی شہر دہلی میں میرے ساتھ بحث کر لیں.بحث میں صرف تیں شرطیں ہوں گی.(۱) اوّل یہ کہ امن قائم رہنے کے لیے وہ خود سرکاری انتظام کرا دیں.یعنی ایک افسر انگریز مجلس بحث میں موجود ہو.کیونکہ میں مسافر ہوں.اور اپنی عزیز قوم کا مورد عتاب اور ہر طرف سے اپنے بھائیوں مسلمانوں کی زبان سے سبّ اور لعن و طعن اپنی نسبت سنتا ہوں.اور جو شخص مجھ پر لعنت بھیجتا ہے اور مجھے دجّال کہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ آج مَیں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے.لہٰذا میں بجز سرکاری افسر کے درمیان ہونے کے اپنے بھائیوں کی اخلاقی حالت پر مطمئن نہیں ہوں.کیونکہ کئی مرتبہ تجربہ کر چکا ہوں.وَ لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَّاحِدٍ مَرَّتَیْنِ.(۲) دوسرے یہ کہ فریقین کی بحث تحریری ہو ہر ایک فریق مجلس بحث میں اپنے ہاتھ سے سوال لکھ کر اور اس پر اپنے دستخط کر کے پیش کرے.اور ایسا ہی فریق ثانی لکھ کر جواب دیوے.کیونکہ زبانی بیانات محفوظ نہیں رہ سکتے اور نقل مجلس کرنے والے اپنی اغراض کی حمایت میں اس قدر حاشیے چڑھا دیتے ہیں کہ تحریف کلام میں یہودیوں کے بھی کان کاٹتے ہیں.اس صورت میں تمام بحث ضایع جاتی ہے اور جو لوگ مجلس بحث میں حاضر نہیں ہو سکے ان کو رائے لگانے کے لیے کوئی صحیح بات ہاتھ نہیں آتی.ماسوا اس کے صرف زبانی بیان میں اکثر مخاصم بے اصل اور کچی باتیں منہ پر لاتے ہیں لیکن تحریر کے وقت وہ ایسی باتوں کے لکھنے سے ڈرتے ہیں تا وہ اپنی خلاف واقعہ تحریر سے پکڑے نہ جائیں اور

Page 298

ان کی علمیت پر کوئی دھبہ نہ لگے.(۳) تیسری شرط یہ کہ بحث وفات حیات مسیح میں ہو.اور کوئی شخص قرآن کریم اور کتب حدیث سے باہر نہ جائے.مگر صحیحین کو تمام کتب حدیث پر مقدم رکھا جائے اور بخاری کو مسلم پر کیونکہ وہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے.اور مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مسیح ابن مریم کی حیات طریقۂ مذکورہ بالا سے جو واقعات صحیحہ کے معلوم کرنے کے لیے خیر الطرق ہے، ثابت ہو جائے تو مَیں اپنے الہام سے دست بردار ہو جائوں گا، کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ قرآن کریم سے مخالف ہو کر کوئی الہام صحیح نہیں ٹھہر سکتا.پس کچھ ضرور نہیں کہ میرے مسیح موعود ہونے میں الگ بحث کی جائے بلکہ مَیں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں ایسی بحث وفات عیسیٰ میں غلطی پر نکلا تو دوسرا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا.اور ان تمام نشانوں کی پروا نہیں کروں گا جو میرے اس دعوے کے مصدق ہیں کیونکہ قرآن کریم سے کوئی حجت بڑھ کر نہیں.وَ مَا عِنْدَنَا شَیْ ئٌ اِلَّا کِتَابَ اللّٰہِ وَ اِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَيْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ اللّٰہِ وَ اٰیَاتِہٖ یُؤْمِنُوْنَ.مَیں ایک ہفتہ تک اس اشتہار کے شایع ہونے کے بعد حضرات موصوفہ کے جواب باصواب کا انتظار کروں گا.اور اگر وہ شرائط مذکورہ بالا کو منظور کر کے مجھے طلب کریں تو جس جگہ چاہیں میں حاضر ہو جائوں گا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.اور کتاب ازالہ اوہام کے خریداروں پر واضح ہو کہ مَیں بلّی مَاروں کے بازار میں کوٹھی لوہارو والی میں فروکش ہوں اور ازالہ اوہام کی جلدیں میرے پاس موجود ہیں.جو صاحب تین روپیہ قیمت داخل کریں.وہ خرید سکتے ہیں.وَالسَّلَام المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار غلام احمد قادیانی حال وارد د ھلی بازار بلیماراں کوٹھی نواب لوہارو.۲؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۲۰ تا ۲۶)

Page 299

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ اشتہار بمقابل مولوی سیّد نذیر حسین صاحب سرگروہ اہلِ حدیث چونکہ مولوی سیّد نذیر حسین صاحب نے جو کہ موحدین کے سرگروہ ہیں اس عاجز کو بوجہ اعتقاد وفات مسیح ابن مریم ملحد قرار دیا ہے اور عوام کو سخت شکوک و شبہات میں ڈالنا چاہا ہے.اور حق یہ ہے کہ وہ آپ ہی اعتقاد حیات مسیح میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں.اوّل اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کر کے اپنے بھائیوں حنفیوں کو بد عتی قرار دیا.اور امام بزرگ حضرت ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر یہ الزام لگایا کہ ان کو حدیثیں نہیں ملی تھیں.اور وہ اکثر احادیث نبویہ سے بے خبر ہی رہے تھے.اور اب باوجود دعویٰ اتّباع قرآن اور حدیث کے حضرت مسیح ابن مریم کی حیات کے قایل ہیں.وھٰذَا اَعْجَبُ الْعَجَائِب.اگر کوئی عوام میں سے ایسا کچا اور خلاف قال اللہ قال الرسول دعویٰ کرتا تو کچھ افسوس کی جگہ نہیں تھی.لیکن یہی لوگ جو دن رات درس قرآن اور حدیث جاری رکھتے ہیں.اگر ایسا بے اصل دعویٰ کریں تو ان کی علمیت اور قرآن دانی اور حدیث دانی پر سخت افسوس آتا ہے.یہ بات کسی متنفس پر پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ فی الواقعہ

Page 300

حضرت مسیح علیہ السّلام وفات پاچکے ہیں.مگر جن لوگوں کو عاقبت کا اندیشہ نہیں.خدا تعالیٰ کا کچھ خوف نہیں.وہ تعصب کو مضبوط پکڑ کر قرآن اور احادیث کوپسِ پُشت ڈالتے ہیں.خدا تعالیٰ اس اُمّت پر رحم کرے.لوگوں نے کیسے قرآن اور حدیث کو چھوڑ دیا ہے.اور اس عاجز نے اشتہار ۲؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء میں حضرت مولوی ابو محمد عبد الحق صاحب کا نام بھی درج کیا تھا.مگر عند الملاقات اور باہم گفتگو کرنے سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب موصوف ایک گوشہ گزین آدمی ہیں اور ایسے جلسوں سے جن میں عوام کے نفاق...شقاق کا اندیشہ ہے.طبعاً کارہ ہیں.اور اپنے کام تفسیر قرآن میں مشغول ہیں اور شرائط اشتہار کے پورے کرنے سے مجبور ہیں کیونکہ گوشہ گزین ہیں.حکّام سے میل ملاقات نہیں رکھتے.اور بباعث درویشانہ صفت کے ایسی ملاقاتوں سے کراہیت بھی رکھتے ہیں، لیکن مولوی نذیر حسین صاحب اوران کے شاگرد بٹالوی صاحب جو اب دہلی میں موجود ہیں ان کاموں میں اوّل درجہ کا جوش رکھتے ہیں.لہٰذا اشتہار دیا جاتا ہے کہ اگر ہر دو مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح ابن مریم کو زندہ سمجھنے میں حق پر ہیں اور قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے اس کی زندگی ثابت کر سکتے ہیں تو میرے ساتھ بپابندی شرائط مندرجہ اشتہار ۲؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء بالاتفاق بحث کر لیں.اور اگر انہوں نے بقبول شرائط اشتہار ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ ء بحث کے لیے مستعدی ظاہر نہ کی اور پوچ اور بے اصل بہانوں سے ٹال دیا تو سمجھا جائے گا کہ انہوں نے مسیح ابن مریم کی وفات کو قبول کر لیا.بحث میں امر تنقیح طلب یہ ہو گا کہ آیا قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہی مسیح ابن مریم جس کو انجیل ملی تھی اب تک آسمان پر زندہ ہے اور آخری زمانے میں آئے گا.یا یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت فوت ہو چکا ہے اور اس کے نام پر کوئی دوسرا اسی اُمّت میں سے آئے گا.اگر یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہی مسیح ابن مریم زندہ بجسدہ العنصری آسمان پر موجود ہے تو یہ عاجز دوسرے دعوے سے خود دست بردار ہو جائے گا، ورنہ بحالت ثانی بعد اس اقرار کے لکھانے کے کہ درحقیقت اسی اُمّت میں سے مسیح ابن مریم کے نام پر کوئی اور آنے والا ہے یہ عاجز اپنے مسیح موعود ہونے کا ثبوت دے گا.اور اگر اس اشتہار کا جواب ایک ہفتہ تک مولوی صاحب کی طرف سے شائع نہ ہوا تو سمجھا جائے گا کہ انہوں نے گریز کی اور حق کے

Page 301

طالبوں کو محض نصیحتاً کہا جاتا ہے کہ میری کتاب ازالۂ اوہام کو خود غور سے دیکھیں اور ان مولوی صاحبوں کی باتوں پر نہ جائیں.ساٹھ جزو کی کتاب ہے.اور یقینا سمجھو کہ معارف اور دلائل یقینیہ کا اس میں ایک دریا بہتا ہے.صرف  (تین روپے)قیمت ہے.اور واضح ہو کہ یہ درخواست مولوی سیّد نذیر حسین صاحب کی کہ مسیح موعود ہونے کا ثبوت دینا چاہیے اور اس میں بحث ہونی چاہیے، بالکل تحکّم اور خلاف طریق انصاف اور حق جوئی ہے.کیونکہ ظاہر ہے کہ مسیح موعود ہونے کا اثبات آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ہو گا.اور آسمانی نشانوں کو بجز اس کے کون مان سکتا ہے کہ اوّل اس شخص کی نسبت جو کوئی آسمانی نشان دکھاوے.یہ اطمینان ہو جاوے کہ وہ خلاف قَالَ اللّٰہُ قَالَ الرَّسُوْلُ کوئی اعتقاد نہیں رکھتا ورنہ ایسے شخص کی نسبت جو مخالف قرآن اور حدیث کوئی اعتقاد رکھتا ہے ولایت کا گمان ہرگز نہیں کر سکتے بلکہ وہ دائرئہ اسلام سے خارج سمجھا جاتا ہے.اور اگر وہ کوئی نشان بھی دکھاوے تو وہ نشان کرامت متصور نہیں ہوتا بلکہ اس کو استدراج کہا جاتا ہے.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بھی اپنے لمبے اشتہار میں جو لدھیانہ میں چھپوایا تھا اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں اس صورت میں صاف ظاہر ہے کہ سب سے پہلے بحث کے لایق وہی امر ہے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن اور حدیث اس دعویٰ کے مخالف ہیںاور وہ امر مسیح ابن مریم کی وفات کا مسئلہ ہے.کیونکہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر حاشیہ کی عبارت.بالآخر تمام عذرات نامعقول کے توڑنے اور اتمام حجت کی غرض سے یہ بھی ہم بطریق تنزل لکھتے ہیں کہ اگر مولوی سیّد نذیر حسین صاحب کسی افسرانگریز کے جلسۂ بحث میں مامور کرانے سے ناکام رہیں تو اس صورت میں ایک اشتہار شائع کر دیں.جس میں حلفاً اقرار ہو کہ ہم خود قائمی امن کے ذمہ وار ہیں.کوئی شخص حاضرین جلسہ میں سے کوئی کلمہ خلاف تہذیب اور شرارت کا منہ پر نہیں لائے گا اور نہ آپ توہین اور استخفاف اور استکبار کے کلمات منہ پر لائیں گے.بلکہ سراسر عاجزی اور انکسار اور تواضع سے تحریری بحث کریں گے اور اگر کوئی عوام و خواص میں سے کوئی خلاف تہذیب و ادب کوئی کلمہ منہ پر لاوے تو فی الفور اس کو مجلس میں سے نکال دیں گے.اس صورت میں یہ عاجز مولوی صاحب کی مسجد میں بحث کے لیے حاضر ہو سکتا ہے.مگر دوسری تمام شرطیں اشتہار ۲؍ اکتوبر کی قائم رہیں گی.مطبوعہ مطبع اخبار خیر خواہ ہند دھلی

Page 302

درحقیقت قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ہی ثابت ہوتی ہے تو اس صورت میں پھر اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعوے پر ایک نشان کیا بلکہ لاکھ نشان بھی دکھاوے تب بھی وہ نشان قبول کرنے کے لائق نہیں ہوں گے کیونکہ قرآن ان کے مخالف شہادت دیتا ہے، غایت کا ر وہ استدراج سمجھے جائیں گے.لہٰذا سب سے اوّل بحث جو ضروری ہے مسیح ابن مریم کی وفات یا حیات کی بحث ہے جس کا طے ہو جانا ضروری ہے کیونکہ مخالف قرآن و حدیث کے نشانوں کا ماننا مومن کا کام نہیں.ہاں ان نادانوں کا کام ہے جو قرآن اور حدیث سے کچھ غرض نہیں رکھتے.فَاتَّقُوا اللّٰہَ اَیُّھَا الْعُلَمَآء!! وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مرزا غلام احمد از دہلی بازار بلّیماراں.کوٹھی نواب لوہارو ۶؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۲۶ تا ۲۹)

Page 303

  انعام انعام فی حدیث و فی آیت (پچیس)روپے بحالت پوری کرنے شرط کے مولوی سیّد نذیر حسین صاحب کو دیا جائے گا.فقط نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ اللہجَلّشَانُـــہٗ کی قسم دے کر مولوی سیّد محمد نذیر حسین صاحب کی خدمت میں بحث حیات و ممات مسیح ابن مریم کے لیے! درخواست اطلاع آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ ۱۸؍اکتوبر ۱۸۹۱ء بحث کے لئے مقرر کر لیں یا ۱۹ یا ۲۰ اور کل تک تاریخ منظور کر دہ کی اشاعت کے لئے اطلاع دیں اور اگر خاموش رہے تو گریز تصور کی جائے گی.ندارد کسے با تو ناگفتہ کار و لیکن چو گفتی دلیلش بیار۱؎ اے مولوی سیّد محمد نذیر حسین صاحب! آپ نے اور آپ کے شاگردوں نے دنیا میں شور ڈال دیا ہے کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز دعویٰ مسیح موعود ہونے میں مخالف قرآن و حدیث بیان کر رہا ہے.اور ایک نیا مذہب و نیا عقیدہ نکالا ہے جو سراسر مغائر تعلیم اللہ و رسول اور بہ بداہت باطل ہے.کیونکہ قرآن اور حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجسدہ العنصری آسمان پر اُٹھائے گئے.اور پھر کسی وقت آسمان پر سے زمین پر تشریف لائیں گے.اور ان کا فوت ہو جانا مخالف نصوص قرآنیہ و احادیث صحیحہ ہے.سو چونکہ آپ نے مجھے اس دعوے میں مخالف قرآن و حدیث قرار دے دیا ہے جس ۱؎ ترجمہ.اگر تو نے کوئی بات نہیں کہی تو کسی کو تجھ سے کوئی واسطہ نہیں، جو تو نے کہا ہے اس کی دلیل پیش کر.

Page 304

کی وجہ سے ہزارہا مسلمانوں میں بد ظنی کا فتنہ برپا ہو گیا ہے.لہٰذا آپ پر فرض ہے کہ مجھ سے اس بات کا تصفیہ کر لیں کہ آیا ایسا عقیدہ رکھنے میں مَیں نے قرآن اور حدیث کو چھوڑ دیا ہے یا آپ ہی چھوڑ بیٹھے ہیں.اور اس قدر تو خود مَیں مانتا ہوں کہ اگر میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا مخالف نصوص بیّنہ قرآن و حدیث ہے اور دراصل حضرت عیسیٰ ابن مریم آسمان پر زندہ بحسدہِ العنصری موجود ہیں جو پھر کسی وقت زمین پر اُتریں گے تو گو یہ میرا دعویٰ ہزار الہام سے مؤیّد اور تائید یافتہ ہو اور گو نہ صرف ایک نشان بلکہ لاکھ آسمانی نشان اس کی تائید میں دکھائوں تاہم وہ سب ہیچ ہے.کیونکہ کوئی امر اورکوئی دعویٰ اور کوئی نشان مخالف قرآن اور احادیث صحیحہ مرفوعہ ہونے کی حالت میں قابل قبول نہیں.اور صرف اس قدر مانتا ہوں بلکہ اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر آپ یا حضرت!! ایک جلسہئِ بحث مقر ر کر کے میرے دلائل پیش کردہ جو صرف قرآن اور احادیث صحیحہ کی رُو سے بیان کروں گا توڑ دیں اور ان سے بہتر دلائل حیات مسیح ابن مریم پر پیش کریں اور آیات صریحیہ بیّنہ قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابن مریم کا بجسدہ العنصری زندہ ہونا ثابت کر دیں تو مَیں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا اور تمام کتابیں جو اس مسئلے کے متعلق تالیف کی ہیں جس قدر میرے گھر میں موجود ہیں سب جلا دوں گا اور بذریعہ اخبارات اپنی توبہ اور رجوع کے بارے میں عام اطلاع دے دوں گا.وَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی کَاذِبٍ یَخْفٰی فِیْ قَلْبِہٖ مَا یَخَافُ بَیَانَ لِسَانِہٖ.مگر یہ بھی یاد رکھیئے کہ اگر آپ مغلوب ہو گئے اور کوئی صریحۃ الدلالت آیت اور حدیث صحیح مرفوع متصل پیش نہ کر سکے تو آپ کو بھی اپنے اس انکار شدید سے توبہ کرنی پڑے گی.وَ اللّٰہُ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ.اب میں یا حضرت!! آپ کو اُس ربّ جلیل تعالیٰ و تقدس کی قسم دیتا ہوں.جس نے آپ کو پیدا کر کے اپنی بے شمار نعمتوں سے ممنون فرمایا کہ اگر آپ کا یہی مذہب ہے کہ قرآن کریم میں مسیح ابن مریم کی زندگی کے بارے میں آیات صریحہ بیّنہ قطعیۃ الدلالت موجود ہیں اور ان کی تائید میں احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ اپنے منطوق سے شہادت دیتی ہیں جن کی وجہ سے آپ کو میرے الہامی دعوے کی نسبت مومنانہ حُسن ظنّ کو الوداع کہہ کر سخت انکار کرنا پڑا تو اس خداوند کریم سے ڈر کر جس کی میں نے ابھی آپ کو قسم دی ہے

Page 305

میرے ساتھ اِظْہَارًا لِلْحَقّ بحث کیجیے.آپ کو اس بحث میں کچھ تکلیف نہیں ہو گی.اگر کوئی عدالت گورنمنٹ برطانیہ کی کسی دنیوی مقدمہ میں آپ سے کسی امر میں اظہار لینا چاہے تو آپ جس قدر عدالت چاہے ایک مبسوط بیان لکھوا سکتے ہیں.بلکہ بلا توقف تاریخ مقررہ پر حاضر ہو جائیں گے.اور بڑی شدّومد سے اظہار دیں گے.مَاشَائَ اللّٰہ درس قرآن و حدیث روز جاری ہے.آواز بلند ہے.طاقتیں قائم ہیں.اور آپ کو بوجہ توغل زمانہ دراز کے احادیث نبویہ و قرآن کریم حفظ کی طرح یاد ہیں.کوئی محنت اور فکر سوچ کا کام نہیں.تو پھر خدائے تعالیٰ کی عدالت سے کیوں نہیں ڈرتے اور سچی شہادت کو کیوں پیٹ میں دبائے بیٹھے ہیں؟ اور کیوں کچے عذر اور حیلے و بہانے کر رہے ہیں کہ بحث کرنے سے مجبور ہوں؟ شیخ محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد المجید میری طرف سے بحث کریں گے.حضرت مجھے آپ کا وہ خط ۱؎ دیکھ کر کہ میں بحث کرنا نہیں چاہتا دوسرں سے کرو، رونا آیا، کیسا زمانہ آ گیا کہ آج کل کے اکثر علماء فتنہ ڈالنے کے لیے تو آگے اور اصلاح کے کاموں میں پیچھے ہٹتے ہیں.اگر ایسے نازک وقت میں آپ اپنے وسیع معلومات سے مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچائیں گے تو کیا وہ معلومات آپ قبر میں لے جائیں گے؟ آپ بقول بٹالوی صاحب شیخ الکل ہیں.شیخ الکل ہونے کا دعویٰ کچھ چھوٹادعویٰ نہیں.گویا آپ سارے جہاں کے مقتدا ہیں.اور بٹالوی اور عبد المجید جیسے آپ کے ہزاروں شاگرد ہوں گے.اگر بٹالوی صاحب کو ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ ساکت کر دیا جائے.تو اس کا کیا اثر ہو گا؟ وہ شیخ الکل تو نہیں.غرض دنیا کی آپ پر نظر ہے.یقیناسمجھو کہ اگر آپ نے اس بارے میں بذاتِ خود بحث نہ کی تو خدا تعالیٰ سے ضرور پوچھے جائو گے.لبِ بام کی حالت ہے.خدا تعالیٰ سے ڈرو.سفر آخرت بہت نزدیک ہے.اگر حق کو چھپائو گے تو ربّ منتقم کے اخذ شدید سے ہرگز نہیں بچو گے.آپ کو بٹالوی شیخ کے منصوبوں سے پرہیز کرنا چاہیے.وہ حضرت اس فطرت کے ہی آدمی نہیں کہ جو آپ کو محض للّٰہبحث کرنے کے لیے صلاح دیویں.ہاں ایسے کام ان کو بخوبی آتے ہیں کہ فرضی ۱؎ خط.بمطالعہ گرامی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی.بعد سلام مسنون.آپ کے خط دیر وزہ کا جواب میری طرف سے میرے تلامذہ مولوی عبد المجید صاحب اور مولوی ابو سعید محمد حسین دیں گے.آیندہ آپ مجھے اپنے جواب سے معاف رکھیں جو کچھ کہنا ہو انہیں سے کہیں اور ان ہی سے جواب لیں.راقم سیّد محمد نذیر حسین.۱۳؍ اکتوبر ۹۱ ء

Page 306

طور پر اِدھر اُدھر مشہور کر دیا اور اپنے دوستوں کو بھی خبریں پہنچا دیں کہ ہم نے فتح پائی.ہم سے گریز کی.تاریخ مقررہ پر نہ آئے.حیا شعبہ ایمان ہے.اگر بٹالوی صاحب کو دیانت اور راست بازی کا کچھ خیال ہوتا تو ایسی دروغ بے فروغ باتیں مشہور نہ کرتے.یہ کس قدر مکر و فریب اور چالاکی ہے کہ سراسر بدنیتی سے ایک یک طرفہ اشتہار جاری کر دیا اور محض فرضی طور پر مشتہر کر دیا کہ فلاں تاریخ میں بحث ہوگی.اگر نیت نیک ہوتی تو چاہیے تھا کہ مجھ سے اتفاق کر کے یعنی میری اتفاق رائے سے تاریخ بحث مقرر کی جاتی تا کہ میں اپنے خانگی حفظ امن کے لیے انتظام کر لیتا.اور جس تاریخ میں حاضر ہو سکتا، اُسی تاریخ کو منظور کرتا اور نیز چاہیے تھا کہ پہلے امر قابلِ بحث صفائی سے طے ہو لیتا.غرض ضروری تھا کہ جیسا کہ مناظرات کے لیے دستور ہے فریقین کی اتفاق رائے اور دونوں فریق کے دستخط ہونے کے بعد اشتہار جاری کیا جاتا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور یونہی اُڑا دیا گیا کہ جلسہ بحث میں حاضر نہیں ہوئے اور گریز کر گئے اور شیخ الکل صاحب سے ڈر گئے.ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ یہ عاجز اسی غرض سے تو اپنا وطن چھوڑ کر دہلی میں غربت اور مسافرت کی حالت میں آ بیٹھا ہے تا شیخ الکل صاحب سے بحث کر کے ان کی دیانت و امانت اور ان کی حدیث دانی اور ان کی واقفیتِ قرآنی لوگوں پر ظاہر کر دیوے تو پھر اُن سے ڈرنے کے کیا معنے؟ غور کرنے کا مقام ہے! کہ اگر یہ عاجز شیخ الکل سے ڈر کر ان کے یک طرفہ تجویز کردہ جلسہ بحث میں حاضر نہیں ہوا تو اب شیخ الکل صاحب کیوں بحث سے کنارہ کش ہیں اور کیوں اپنے اس علم اور معرفت پر مطمئن نہیں رہے جس کے جوش سے یک طرفہ جلسہ تجویز کیا گیا تھا.ہریک منصف ان کے پہلے یک طرفہ جلسہ کی اصل حقیقت اسی سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ جلسہ صحت نیت پر مبنی تھا اور مکّاری اور دھوکہ دہی کا کام نہیں تھا تو ان کا وہ پہلا جوش اب کیوں ٹھنڈا ہو گیا.اصل بات یہ ہے کہ وہ یک طرفہ جلسہ محض شیخ بٹالوی کا ایک فریب حق پوشی کی غرض سے تھا جس کی واقعی حقیقت کھولنے کے لیے اب شیخ الکل صاحب کو بحث کے لیے بُلایا جاتا ہے.یک طرفہ جلسہ میں حاضر ہونا اگرچہ میرے پر فرض نہ تھا کیونکہ میری اتفاق رائے سے وہ جلسہ قرار نہ پایا تھا.اور میری طرف سے ایک خاص تاریخ میں حاضر ہونے کا وعدہ بھی نہ تھا مگر پھر بھی مَیں نے حاضر ہونے کے لیے طیاری کر لی تھی

Page 307

، لیکن عوام کے مفسدانہ حملوں نے جو ایک ناگہانی طور پر کئے گئے.اُس دن حاضر ہونے سے مجھے روک دیا.صدہا لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اس جلسہ کے عین وقت مفسد لوگوں کا اس قدر ہجوم میرے مکان پر ہو گیا کہ میں ان کی وحشیانہ حالت دیکھ کر اوپر کے زنانے مکان میں چلا گیا.آخر وہ اسی طرف آئے اور گھر کے کواڑ توڑنے لگے اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ بعض آدمی زنانہ مکان میں گھس آئے اور ایک جماعت کثیر نیچے اور گلی میں کھڑی تھی جو گالیاں دیتے تھے اور بڑے جوش سے بدزبانی کا بخار نکالتے تھے.بڑی مشکل سے خدائے تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُن سے رہائی پائی اور سخت مدافعت کے بعد یہ بلا دفع ہوئی.اب ہر ایک منصف مزاج سمجھ سکتا ہے کہ اس بلوہ عوام کی حالت میں کیونکر میں گھر کو اکیلا چھوڑ کر جلسۂ بحث میں حاضر ہو سکتا تھا.اب انصاف او ر غور کا مقام ہے! کہ میرے جیسے مسافر کی دہلی والوں کو ایسی حالت میں ہمدردی کرنی چاہیے تھی نہ یہ کہ ایک طرف عوام کو ورغلا کر اور ان کو جوش دہ تقریریں سُنا کر میرے گھر کے ارد گرد کھڑا کر دیا.اور دوسری طرف مجھے بحث کے لیے بُلایا اور پھر نہ آنے پر جو موانع مذکورہ کی وجہ سے شور مچا دیا کہ وہ گریز کر گئے اور ہم نے فتح پائی.یہ کیسی اَوباشانہ چال ہے!! کیا یہ انسانیت ہے!! کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ انہوں نے فتح پائی.کیا یہ مُرغوں اور بٹیروں کی لڑائی تھی یا اظہار حق کے لیے بحث تھی! اگر ایمانداری پر اس جلسہ کی بنا ہوتی تو عذر معقول سُن کر خود دوسری تاریخ بحث مقرر کرنے کے لیے راضی ہو جاتے.اور مَیں نے اسی روز یہ بھی سُنا کہ راہ میں بھی امن نہ تھا اور مقام تجویز کردہ بحث میں عوام کی حالت قابلِ اطمینان نہ تھی اور عین جلسہ میںمخالفانہ باتیں تہمت اور بہتان کے طور پر عوام کو سُنا کر اُن کو بھڑکایا جا رہا تھا، لیکن سب سے بڑھ کر جو بچشم خود صورت فساد دیکھی گئی وہ یہی تھی جو ابھی میں نے بیان کی ہے.اگر مولوی نذیر حسین صاحب کو یہ بَلا پیش آتی تو کیا ان کی نسبت یہ کہنا جائز ہو تا کہ وہ بحث سے کنارہ کر گئے.جس حالت میں یہ واقعات ایسے ہیں تو پھر کیسی بے شرمی کی بات ہے کہ اس غیر حاضری کو گریز پر حمل کیا جائے.اے حضرت خدا تعالیٰ سے ڈریں اور خلاف واقعہ منصوبوں کو فتحیابی کے پیرایہ میں مشہور نہ کریں!! اب میں بفضلہ تعالیٰ اپنی حفاظت کا انتظام کر

Page 308

چکا ہوں اور بحث کے لیے طیار بیٹھا ہوں مصائب سفراُٹھا کر اور دہلی والوں سے ہر روز گالیوں اور لعن طعن کی برداشت کر کے محض آپ سے بحث کرنے کے لیے اے شیخ الکل صاحب! بیٹھا ہوں.یہ عذر کوئی عقلمند قبول نہیں کرے گا کہ آپ کے یک طرفہ جلسہ میں عاجز حاضر نہ ہو سکا.اگر آپ حق پر ہیں اور آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ درحقیقت قرآن کریم کی آیات صریحہ قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابن مریم کا زندہ بجسدہ العنصری آسمان پر اُٹھائے جانا متحقق اور ثابت شدہ امر ہے تو ایسی رکیک باتوں کا فتح نام رکھنا سخت نامردی ہے.بسم اللہ آئیے اور اپنا وہ عجیب ثبوت دکھلایئے! اگر آپ ایسے وقت میں جو تمام ملک ہند میں میری طرف سے بدلائل شافیہ یہ اشاعت ہو گئی ہے کہ درحقیقت مسیح ابن مریم کا زندہ بجسدہِ العنصری اُٹھائے جانا قرآن و حدیث سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ وہ فوت ہو چکا ہے اور جو شخص ان کی جسمانی دنیوی زندگی کا مدعی ہے وہ جھوٹا و کذاب ہے.میدان میں آکر حضرت مسیح ابن مریم کی جسمانی دنیوی زندگی کا ثبوت نہیں دیں گے تو پھر آپ کس مرض کی دوا ہیں اور شیخ الکل کیوں اپنے شاگردوں سے کہلاتے ہیں.حضرت بحث کرنے کے لیے باہر تشریف لائیے کہ میں بحث کے لیے تیار ہوں.آپ کیوں مقتدا اور شیخ الکل ہونے کی حالت میں بحث کرنے سے کنارہ کرتے اور حق الامر کو چھپاتے ہیں اور حق کو اس کے ظہور سے روکتے ہیں اورنہیں چاہتے کہ حق کھل جائے.آپ کو ڈرنا چاہیے. کا مصداق نہ ہو جائیں.کیونکہ جس حالت میں آپ کے مقابل آنے سے حق کھلتا ہے اور آپ کوٹھری میں چھپے بیٹھے ہیں تو پھر آپ  کے مصداق ہوئے یا کچھ اَور ہوئے.پس آپ خدا تعالیٰ سے ڈریں اور بحث کے میدان میں آ کر یہ کوشش کریں کہ حق کھل جائے اور گریز اور فرار اختیار نہ کریں یا  کا مصداق نہ بن جائیں.اور مَیں تو یا حضرت!! اس عظیم الشّان بحث کے لیے حاضر ہوں اور ہرگز تخلّف نہ کروں گا.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ تَخَلَّفَ وَ صَدَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ.اب میں یا حضرت؟ !!پھر اللہ جَلّ شَانُـہٗ کی آپ کو قسم دے کر اس بحث کے لیے بُلاتا ہوں جس جگہ چاہیں حاضر ہو جائوں، مگر تحریری بحث ہو گی تا کسی محرف کو تحریف کی گنجائش نہ ہو.اور ملک ہند کے تمام اہل نظر کو

Page 309

رائے کرنے کے لیے وہی تحریرات یقینی ذریعہ مل جائے.آپ یقینا یاد رکھیں کہ یہ آپ کی جھوٹی خوشی ہے او ر یہ آپ کا غلط خیال ہے کہ یقینی اور قطعی طور پر مسیح ابنِ مریم زندہ بجسدہِ العنصری آسمان کی طرف اُٹھایا گیا ہے.جس دن بحث کے لیے آپ میرے سامنے آئیں گے اس دن تمام یہ خوشی رنج کے ساتھ مُبدّل ہو جائے گی اور سخت رسوائی سے آپ کو اس قول سے رجوع کرنا پڑے گا کہ درحقیقت آیات بیّنہ صریحہ و قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ سے حضرت مسیح ابن مریم کی جسمانی زندگی ثابت ہے.اگرچہ آپ درس قرآن و حدیث میں ریش و بروت سفید کر بیٹھے ہیں.مگر حقیقت تک آپ کو کسی استاد نے نہیں پہنچایا.اور مغز قال اللہ اور قال الرسول سے دور مہجور و بے نصیب محض ہیں.آپ کو شرم کرنی چاہیے کہ شیخ الکل ہونے کا دعویٰ اور پھر اس فضیحت کی غلطی کہ آپ یقین رکھتے ہیں کہ ایسی آیات صریحۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ موجود ہیں جن سے مسیح ابن مریم کا زندہ بجسدہِ العنصری آسمان پر جانا ثابت ہوتا ہے.شاید ایسی حدیثیں آپ کی کوٹھری میں بند ہوں گی جو اب تک کسی پر ظاہر نہیں ہوئیں.اگر آپ کو کچھ شرم ہے تو اب بلاتوقف بحث کے لیے میدان میں آ جائیں.تا سیہ رُوئے شود ہر کہ دروغش باشد.اگر آپ اس مسئلہ میں بحث کرنے کے لیے نہ آئے اور مفسد طبع ملّانوں پر بھروسہ رکھ کر کوٹھری میں چھپ گئے تو یاد رکھو کہ تمام ہندوستان و پنجاب میں ذلّت اور بد نامی کے ساتھ آپ مشہور ہو جائیں گے اور شیخ الکل ہونے کی تمام رونق جاتی رہے گی.مَیں متعجب ہوں کہ آپ کس بات کے شیخ الکل ہیں.قرائن سے اس بات کا یقین آتا ہے کہ آپ نے ہی ایک بدزبان بٹالوی فطرت کے بگڑے ہوئے شیخ کو در پردہ سمجھا رکھا ہے کہ مساجد اور مجالس میں اور نیز آپ کے مکان پر علانیہ اس عاجز کو گالیاں دیا کرے.چنانچہ اس نیک بخت کا یہی کام ہے کہ آپ کو تو ہر جگہ شیخ الکل کہہ کر دوسروں کی ہجوملیح کرتا ہے.اور اس عاجز کو جابجا شیطان، دجّال، بے ایمان ،کافر کے نام سے یاد کرتا ہے مگر درحقیقت یہ گالیاں اس کی طرف سے نہیں آپ کی طرف سے ہیں.کیونکہ اگر ذرہ سی بھی دھمکی آپ کی طرف سے ملتی تو وہ دم بخود رہ جاتا.بلکہ مَیں نے سُنا ہے کہ آپ اس شخص کے مخالف نہیں بلکہ ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور آپ پر واضح رہے کہ کسی قدر درشتی جو اس تحریر میں استعمال کی گئی ہے وہ درحقیقت

Page 310

آپ ہی کے اس شاگردِ رشید کی مہربانی ہے اور پھر بھی میں نے کَمَا تُدِیْنُ تُدَانُ پر عمل نہیں کیا.کیونکہ سفہاء کی طرح سبّ و شتم میری فطرت کے مخالف ہیں یہ شیوہ آپ اور آپ کے شاگردوں کے لیے ہی موزوں ہے.میں بفضلہ تعالیٰ جوشِ نفس سے محفوظ ہوں.میرے ہر ایک لفظ کی صحتِ نیّت پر بنا ہے.آپ کے جگانے کے لیے کسی قدر بلند آواز کی ضرورت پڑی.ورنہ مجھے آپ لوگوں کی گالیوں پر نظر نہیں.کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.بالآخر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی طرح سے بحث کرنا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام دلائل وفات مسیح سُن کر اللہجَلّ شَانُـہٗ کی تین بار قسم کھا کر یہ کہہ دیجیے کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں اور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زند ہ بجسدہِ العنصری آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں اور آیاتِ قرآنی اپنی صریح دلالت سے اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ اپنے کھلے کھلے منطوق سے اسی پر شہادت دیتی ہیں.اور میرا عقیدہ یہی ہے.تب میں آپ کی اس گستاخی اور حق پوشی اور بددیانتی اور جھوٹی گواہی کے فیصلہ کے لئے جناب الٰہی میں تضرع اور ابتہال کروں گا.اور چونکہ میری توجہ پر مجھے ارشاد ہو چکا ہے کہ اُ اور مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ تقویٰ کا طریق چھوڑ کر ایسی گستاخی کریں گے.اور آیت  ۱؎ کو نظر انداز کر دیں گے تو ایک سال تک اس گستاخی کا آپ پر ایسا کھلا کھلا اثر پڑے گا جو دوسرں کے لیے بطورِ نشان کے ہو جائے گا.لہٰذا مظہر ہوں کہ اگر بحث سے کنارہ ہے تو اسی طور سے فیصلہ کر لیجئے تا وہ لوگ جو نشان نشان کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ کوئی نشان دکھا دیوے.وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.حلفی اقرار دربارہ ادائے پچیس روپیہ فی حدیث اور فی آیت.بالآخر مولوی سیّدنذیر حسین صاحب کو یہ بھی واضح رہے کہ اگر وہ اپنے اس عقیدہ کی تائید میں جوحضرت مسیح ابن مریم بجسدہِ العنصری زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے آیات صریحہ بینّہ قطعیۃ الدلالت و احادیث صحیحہ متصلہ ۱؎ بنی اسراء یل :۳۷

Page 311

مرفوعہ مجلس مباحثہ میںپیش کر دیں اور جیسا کہ ایک امر کو عقیدہ قرار دینے کے لیے ضروری ہے یقینی اور قطعی ثبوت صعود جسمانی مسیح ابن مریم کا جلسہ عام میں اپنی زبا ن مبارک سے بیان فرما دیں تو مَیں اللّٰہ جَلّ شَانُـہٗکی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ فی آیت و فی حدیث پچیس روپیہ اُن کی نذر کروںگا.الناصح المشفق المشتھر المعلن مرزا غلام احمد قادیانی (۱۷؍ ۱کتوبر ۱۸۹۱ء ) (مطبوعہ مطبع جوہر ہند دہلی) (یہ اشتہارکے دو صفحوں پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۳۰ تا ۳۹)

Page 312

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ تقریر واجب الاعلان متعلق ان حالات و واقعات کے جو مولوی سیّد نذیر حسین صاحب ملقب بہ شیخ الکل سے جلسۂ بحث ۲۰؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء کوظہور میں آئی حضرت شیخ الکل صاحب جلسۂ بحث ۲۰؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء میں حاضر تو ہوئے مگر اپنی خوشی سے نہیں بلکہ اس غیرت دلانے والے اشتہار کی وجہ سے جومیری طرف سے ۱۷؍ ۱؎ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو شائع کیا گیا تھا.جس میں بالفاظ دیگر یہ بھی بیان تھا کہ یہ عاجز یا شیخ الکل صاحب یعنی کوئی ہم دونوں میں سے جلسہ بحث میں حاضر ہونے سے تخلّف کرے تو اس پر بوجہ حق پوشی و صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ و اخفائے شہادت خدائے تعالیٰ کی لعنت ہو.سو اس مجبوری سے اُن کو بہرحال حاضرہونا پڑا تا وہ اپنے تئیں اس داغ ملامت سے بچا لیں جو در صورت غیر حاضری ان کے چہرہ مشیخت پر لگتا تھا.مگر جلسہ بحث کے منصف اور معزز حاضرین خوب سمجھ گئے ہوں گے کہ شیخ الکل صاحب اس داغ سے بچ نہیں سکے.کیونکہ ان ۱؎ یہ اشتہار جلد ہذا کے صفحہ ۲۸۳ پر ہے.(مرتب)

Page 313

کافقط حاضر ہونا اس داغ سے محفوظ رہنے کے لیے کافی نہ تھابلکہ اس کے ساتھ یہ بھی توضرور تھاکہ وہ اصل مقصد حاضری کو جو مباحثہ تھا.نیک نیّتی کے ساتھ مدِّنظر رکھ کر بلاتوقف اِظْہَارًا لِلْحَقّمسئلہ وفات و حیات مسیح میں ا س عاجز سے بحث کرتے اور حاضرین کو جوشوق سے آئے تھے دکھلاتے کہ حیات مسیح ابن مریم پر کون سے قطعی اور یقینی دلائل ان کے پاس موجود ہیں اور نیز براہین وفات مسیح کے بارے میں کیا کیا تسلّی بخش جوابات اُن کے پاس ہیں، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا.کیوں نہیں کیا؟ اس کا یہی باعث تھے کہ وہ تہی دست محض تھا.جس حال میں قرآن کریم اوراحادیث صحیحہ نبویہ میں حیات جسمانی مسیح ابن مریم کے بارے میں ایک ذرّہ یقینی اور قطعی ثبوت نہیں ملتا اور وفات مسیح پر اس قدر ثبوت قرآن کریم اور احادیث نبویّہ میں موجود ہیں جو چمکتے ہوئے نُور کی طرح دل کو تسلّی اور اطمینان کی روشنی بخشتے ہیں.پھر حضرت شیخ الکل صاحب حیات مسیح ابن مریم پر کون سی دلیل لاتے اور کہاں سے لاتے.پس یہی وجہ تھی کہ وہ ایسے چُپ ہوئے کہ گویا قالب میں جان نہیں یاجسم میں دم نہیں.اس نازک وقت میں جب اُن سے دمبدم یہ مطالبہ ہو رہا تھا کہ اگر آپ یہ عقیدہ مسیح کی حیات جسمانی کا درحقیقت صحیح اور یقینی اور آیات قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے ثابت کر دیں تو ہم اس ایک ہی ثبوت سے تمام دعوے چھوڑ دیتے ہیں.آئیے وہ ثبوت پیش کیجئے.شیخ الکل کی وہ حالت محسوس ہوتی تھی کہ گویا اس وقت جان کندن کی حالت ان پر طاری تھی.اس جلسہ میں تخمیناً پانچ ہزار سے کچھ زیادہ آدمی ہوں گے اور شہر کے معزّز اور رئیس بھی موجود تھے اور سرکار انگریزی کی طرف سے امن قائم رکھنے کے لیے ایسا احسن انتظام ہو گیا تھا کہ جس سے بڑھ کر متصور نہیں.صاحب سٹی سپریٹنڈنٹ پولیس یورپین مع انسپکٹر صاحب اور ایک کافی جماعت پولیس کی موقع جلسہ پر جو جامع مسجددہلی تھی، تشریف لے آئے تھے اور ایک طور اور پہلو سے حفظ امن کے مراتب اپنے ہاتھ میں لے کر اس بات کے منتظر تھے کہ اب فریقین تہذیب اور شائستگی سے بحث شروع کر یں اس وقت تاکیداً و اتماماً للحجّۃ حضرت شیخ الکل صاحب کی خدمت میں جو ایک گوشہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے.مَیں نے یہ رقعہ بھیجا کہ میں موجود ہوں.اب آپ جیسا کہ اشتہار ۱۷؍۱؎ اکتوبر ۱۸۹۱ء میں میری طر ف سے شائع ہو چکا ۱؎ اشتہار جلد ہٰذا کے صفحہ۲۸۳ پرہے.(مرتب )

Page 314

ہے، حیات و وفات مسیح کے بارے میں مجھ سے بحث کریں اور اگر بحث سے عاجز ہیں تو حسب منشاء اشتہار مذکورہ بدیں مضمون قسم کھا لیں کہ میرے نزدیک مسیح ابن مریم کا زندہ بجسدہ العنصری آسمان پر اُٹھایاجانا قرآن اور احادیث کے نصوص صریحہ قطعیہ بیّنہ سے ثابت ہے تو پھر آپ بعد اس قسم کے اگر ایک سال تک اس حلف دروغی کے اثرِ بد سے محفوظ رہے تو مَیں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا.بلکہ اس مضمون کی تمام کتابیں جلا دوں گا.لیکن شیخ الکل صاحب نے ان دونوں طریقوں میں سے کسی طریق کو منظور نہ کیا.ہر چند اس طرف سے بار بار یہی درخواست تھی کہ آپ بحث کیجئے یا حسب شرائط اشتہار قسم ہی کھائیے تا اہل حق کے لیے خدائے تعالیٰ کوئی نشان ظاہر کرے.مگر شیخ الکل صاحب کی طرف سے گریز تھی اور آخر انہوں نے اس غرق ہونے والے آدمی کی طرح جو بچنے کی طمعِ خام سے گھاس پات کو ہاتھ مارتا ہے یہ حیلہ و بہانہ بوساطت اپنے بعض وکلاء کے صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کی خدمت میں جو اسی کام کے لیے فریقین کے درمیان کھڑے تھے پیش کیا کہ یہ شخص عقائد اسلام سے منحرف ہے.معجزات کو نہیں مانتا.لیلۃ القدر کو تسلیم نہیں کرتا.اور معراج اور وجود ملائکہ سے منکر ہے اور پھر نبوت کا بھی مدعی اور ختم نبوت سے انکاری ہے.پس جب تک یہ شخص اپنے عقائد کا ہم سے تصفیہ نہ کرے ہم وفات و حیات مسیح کے بارے میں ہرگز بحث نہ کریں گے.یہ تو کافر ہے.کیا کافروں سے بحث کریں.اس وقت میری طرف سے روبرو صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ان کو یہ جواب ملا کہ سب باتیں سراسر افتراء ہیں.مجھے ان تمام عقائد میں سے کسی کا بھی انکار نہیں.ہاں اصل عقائد کو مسلّم رکھ کر بعض نکات و معارف ارباب کشف کے طور پر کتاب توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں لکھے ہیں جو اصل عقائد سے معارض نہیں ہیں.اگر فریق مخالف اپنی کوتہ فہمی اور بدنیتی سے انہیں متصوفانہ اسرار اور الہامی نکات و معارف کو خلاف عقائد اہلِ سنت خیال کرتے ہیں تو یہ خود ان کا قصور فہم ہے.میری طرف سے کوئی اختلاف نہیں.اور میں یہ وعدہ بھی کرتا ہوں کہ عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ ایک رسالہ مستقلہ ان کی تفہیم و تلقین کی غرض سے اس بارے میں شائع کروں گا تا پبلک خود فیصلہ کر لے کہ کیا ان عقائد میں اہلِ سنت و الجماعت کے عقائد سے میں نے علیحدگی اختیار کی ہے یا درحقیقت بہت سے

Page 315

لطائف اسرار کے ساتھ وہی عقائد اہلِ سنت ہیں.کوئی دوسرا امر نہیں.صرف معترضین کی آنکھوں پر غبار ہے جو خویش کو اجنبی کی صورت پر دیکھتے ہیں اور موافق کلی کو مغائر کلی خیال کرتے ہیں.اور بار بار یہ بھی کہا گیا کہ جس حالت میں مَیں نے اشتہار بھی شائع کر دیا ہے کہ ان عقائد سے انکار کرنا میرا مذہب نہیں ہے بلکہ منکر کو میں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں.تو پھر میں ان عقائد مسلّمہ میں بحث کیا کروں.بحث تو اختلاف کی حالت میں ہوتی ہے نہ اتفاق کی حالت میں.سو تم مسلّمات فریقین میں خواہ مخواہ کی گفتگو نہ کرو.اس بات میں بحث کرو جس میں مجھے تمہارے عقیدہ موجودہ سے مخالفت ہے.یعنی صعودونزول مسیح ابن مریم بجسدہ العنصری میں.لیکن حضرت شیخ الکل صاحب اپنی اِس ضدسے باز نہ آئے اوربحث حیات و وفات مسیح سے صاف صاف انکار کرتے رہے.آخر ان کی اس ضِد اور اصرار سے فہیم لوگوں نے سمجھ لیا کہ حضر ت کے پاس حیات جسمانی حضرت مسیح ابن مریم پر کوئی دلیل نہیں اور نہ وہ دلائل وفات ابن مریم کو ردّ کر سکتے ہیں.اور رعب حق کی وجہ سے حسب شرائط اشتہار قسم کھانے کے لیے بھی جرأت نہیں.تب صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس نے اس کشمکش سے تنگ آ کر اور لوگوں کی ایک وحشیانہ حالت اور نیز کثرت عوام دیکھ کر خیال کیا کہ اب دیر تک انتظار کرنا اچھا نہیں.لہٰذا عوام کی جماعت کو متفرق کرنے کے لیے حکم سُنا دیا گیا کہ چلے جائو.بحث نہیں ہو گی.یہ وہ واقعات ہیں جو صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اور نیز ان کے معزز ماتحت انسپکٹر صاحب خود درمیان میں کھڑے ہو کر سُن چکے ہیں.اس جلسۂ بحث میں خواجہ محمد یو سف صاحب رئیس و وکیل و آنریری مجسٹریٹ علی گڑھ بھی موجود تھے.اور یہ ایک حُسن اتفاق تھاکہ ایک ایسا ثِقہ آدمی اس جلسہ میں شامل ہو گیا.غرض خواجہ صاحب نے بھی فریق ثانی کے بے ہودہ عذرات سُن کر میری طر ف توجہ کی اور کہا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ برخلاف عقیدہ اہلِ سنت و الجماعت.لیلۃ القدر اور معجزات اور ملایک اور معراج وغیرہ سے منکر اور نبوت کے مدعی ہیں.میں نے کہا یہ سراسر میرے پر افتراء ہے.مَیں ان سب باتوں کا قائل ہوں.اور ان لوگوں نے میری کتابوں کا منشاء نہیں سمجھا.اور غلط فہمی سے مجھ کو منکر عقائد اہل سنت کا قرار دے دیا.تب انہوں نے کہاکہ بہت اچھا.اگر فی الحقیقت یہی بات تو مجھے ایک پرچہ پر یہ سب باتیں لکھ دیں.میں ابھی صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو

Page 316

اور نیز پبلک کو سُنا دوں گا.اور ایک نقل اس کی علی گڑھ بھی لے جائوں گا تب مَیں نے مفصّل طور پر اس بارے میں ایک پرچہ لکھ دیا جو بطور نوٹ درج ذیل ہے اور خواجہ صاحب نے وہ تمام مضمون صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو بلند آواز سُنایا اور تمام معزز حاضرین نے جو نزدیک تھے سُن لیا. نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ واضح ہو کہ اختلافی مسئلہ جس پر میں بحث کرنا چاہتا ہوں.صرف یہی ہے کہ یہ دعویٰ جو حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام زندہ بجسدہ العنصری آسمان پر اٹھائے گئے ہیں.میرے نزدیک ثابت نہیں ہے اور نصوص قرآنیہ و حدیثیہ میں سے ایک بھی آیت صریحۃ الدلالۃ اور قطعیۃ الدلالت یا ایک بھی حدیث صحیح مرفوع متصل نہیں مل سکتی جس سے حیات مسیح علیہ السلام ثابت ہو سکے بلکہ جابجا قرآن کریم کی آیات صریحہ اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے وفات ہی ثابت ہوتی ہے.اور میں اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر حضرت مولوی سیّد محمد نذیر حسین صاحب حیات حضرت مسیح علیہ السلام کی آیات صریحۃ الدلالۃ اور قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے ثابت کر دیں.تو میں دوسرے دعوے مسیح موعود ہونے سے خود دست بردار ہو جائوں گا اور مولوی صاحب کے سامنے توبہ کروں گا.بلکہ اس مضمون کی تمام کتابیں جلا دوں گا، اور دوسرے الزامات جو میرے پر لگائے جاتے ہیں کہ یہ شخص لیلۃ القدر کا منکر ہے اور معجزات کا انکاری اور معراج کا منکر اور نیز نبوت کا مدعی اور ختم نبوت سے انکاری ہے یہ سارے الزامات باطل اور دروغ محض ہیں.ان تمام امور میں میرا وہی مذہب ہے جو دیگر اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے.اور میری کتاب توضیح مرام اور ازالہ اوہام سے جو ایسے اعتراض نکالے گئے ہیں.یہ نکتہ چینوں کی سراسر غلطی ہے.اب مَیں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانۂ خدا مسجد میں کرتا ہوں کہ میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں.اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں.ایسا ہی میں ملائکہ اور معجزات اور لیلۃ القدر وغیرہ کا قائل ہوں اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ جو کچھ بدفہمی سے بعض کوتہ فہم لوگوں نے سمجھ لیا ہے ان اوہام کے ازالہ کے لیے عنقریب ایک مستقل رسالہ تالیف کر کے شایع کروں گا.غرض میری نسبت جو بجز میرے دعویٰ وفات مسیح اور مثیل مسیح ہونے کے اور اعتراض تراشے گئے ہیں وہ سب غلط اور ہیچ اور صرف غلط فہمی کی وجہ سے کئے گئے ہیں.پھر بعداس کے خواجہ صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ جب کہ ان عقائد میں درحقیقت کوئی

Page 317

نزاع نہیں.فریقین بالاتفاق مانتے ہیں توپھر ان میں بحث کیونکر ہو سکتی ہے.بحث کے لائق وہ مسئلہ ہے جس میں فریقین اختلاف رکھتے ہیں یعنی وفات و حیات مسیح کا مسئلہ جس کے طے ہونے سے سارا فیـصلہ ہو جاتا ہے.بلکہ بصورت ثبوت حیات مسیح، مسیح موعود ہونے کا دعویٰ سب ساتھ ہی باطل ہوتا ہے.اور یہ بھی بار بار اس عاجز کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے خود وعدہ کر لیا ہے کہ اگر نصوص بیّنہ قطعیہ قرآن و حدیث سے حیات مسیح ثابت ہو گئی تو مَیں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا، لیکن باوجود اس کے کہ خواجہ صاحب نے اس بات کے لیے بہت زور لگایا کہ فریق مخالف ضدّ اور تعصّب کو چھوڑ کر مسئلہ حیات و وفات مسیح میں بحث شروع کر دیں.مگر وہ تمام مغز خراشی بے فائدہ تھی.شیخ الکل صاحب کی اس بحث کی طرف آنے سے جان جاتی تھی.لہٰذا انہوں نے صاف انکار کر دیا اور حاضرین کے دل ٹوٹ گئے.میں نے سُنا ہے کہ ایک شخص بڑے درد سے کہہ رہا تھا کہ آج شیخ الکل نے دہلی کی عزت کو خاک میں ملا دیا اور ہمیں خجالت کے دریا میں ڈبو دیا.بعض کہہ رہے تھے کہ اگر ہمارا یہ مولوی سچ پر ہوتاتو اس شخص سے ضرور بحث کرتا لیکن جاہل اور نادان لوگ جو دور کھڑے تھے وہ کچھ نہیں سمجھتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے بلکہ تعصب کی آگ میں جلے جاتے تھے.شیخ الکل صاحب کے ان معتقدین کو جو دور رہنے والے اور خاص کر جو پنجابی ہیں بڑا تعجب ہو گیا کہ یہ کیا ہوا اور کیوں شیخ الکل نے ایسے ضروری وقت میں بحث سے انکار کر دیا اور بزدلی اختیار کی.اس کاجو اب یہ ہے کہ وہ حق پر نہیں تھے اور قرآن کریم ان کو اپنے پاس آنے سے دھکے دیتا تھا اور احادیث صحیحہ دور سے کہتی تھیں کہ اس طرف مت دیکھ.ہمارے خوان نعمت میں تیرے لیے کچھ نہیں.سو بوجہ اس کے کہ ان کے ہاتھ میں کوئی دلیل نہیں تھی اور نہ اس طر ف کے دلائل کا ان کے پاس کوئی کافی جواب تھا.اس لیے وہ عاجز ہو کر کَالْمیَّت ہو گئے.اور ان پر یہ خوف غالب آ گیا کہ اگر میں بحث کروں گا تو سخت رسوائی میر ی ہو گی.اور تمام رونق شیخ الکل ہونے کی ایک ہی دفعہ جاتی رہے گی اورزندگی مرنے سے بدتر ہو جائے گی.اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر فی الحقیقت ایسی ہی حالت تھی تو پھر شیخ الکل نے جلسۂ بحث میں صاف صاف کیوں نہ کہہ دیا کہ مَیں غلطی پر تھا.اب مَیں نے اپنے قول سے رجوع کیا.توا س کا جواب

Page 318

یہی ہے کہ اگر حقیقی تقویٰ شامل حال ہوتا اور خدائے تعالیٰ کا کچھ خوف ہوتا تو بیشک وہ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ اپنی غلطی کا اقرار کر کے خدائے تعالیٰ کو خوش کرتے.لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب انسان کا دل سخت ہو جاتا ہے اور ننگ اور ناموس اور پندار اور عُجب اور تکبّر کا زنگ اس کے رگ و ریشہ میں رچ جاتا ہے تو یہ ذلّت قبول کر کے اپنی مشہور کردہ رائے سے رجوع کرنا بہت مشکل اس کے لئے ہو جاتا ہے.تو پھر صرف حق پوشی کیا بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر افعال ناشائستہ اس سے صادر ہوتے ہیں.غرض علماء کے لئے مشہور کردہ رائے سے رجوع کرنا اَشَدُّ مِنَ الْمَوْتِ ہے اور اسی وجہ سے شیخ الکل صاحب شہادتِ حقّہ کے ادا کرنے کے لیے توفیق نہ پا سکے اور خدائے تعالیٰ جانتا ہے کہ مجھے اس بات کاسخت رنج ہے کہ شیخ الکل صاحب نے اپنی اس پیرانہ سالی کی عمر میں شہادت حقّہ کا اخفا کر کے اپنی سوء خاتمہ کی ذرا پروا نہ کی.اُن کا یہ فرض تھا کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر اس شہادت کو ادا کر دیتے کہ کیا قرآن اور احادیث کے نصوص بیّنہ سے قطعی اور یقینی طور پر مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی ثابت ہوتی ہے یا اس کے مخالف ثابت ہوتا ہے.انہوں نے اپنی اس شہادت کو جو اُن سے محض لِلّٰہ طلب کی گئی تھی کیوں چھپایا.کیا انہیں معلوم نہ تھا کہ اللّٰہ جَلّ شَانُـہٗ اپنی کتاب عزیز میں فرماتا ہے.    .۱؎ الآیۃ یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ کی ان کھلی کھلی تعلیمات اور ہدایتوں کو لوگوں پر پوشیدہ رکھتے ہیں جن کو ہم نے اپنی کتاب میں بیان کر دیا ہے.اُن پر خد اتعالیٰ کی لعنت ہے اور نیز اس کے بندوں کی بھی لعنت.اب اے ناظرین !میں اللہجَلّ شَانُـہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی کا قرآن اور احادیث میں ایک ذرہ نشان نہیں ملتا، لیکن ان کی وفات پر کھلے کھلے نشان اور نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ موجود ہیں.اور اگرا ن کی وفات کی نسبت قرآن اور حدیث میں کچھ ذکر بھی نہ ہوتا تب بھی اس وجہ سے کہ حیات ثابت نہیں کی گئی.اُن کی وفات ہی ثابت ہوتی.قرآن کریم میں بہتیرے ایسے نبیوں کا ذکر ہے جن کی وفات کا کچھ حال بیان نہیں کیا گیا کہ آخر وہ مرے یا کیا ہوئے، لیکن محض اس ۱؎ البقرۃ: ۱۶۰

Page 319

خیال سے کہ ان کی وفات کا قرآن کریم میں ذکر نہیں ہے یہ ثابت نہیں ہو گا کہ وہ زندہ ہیں.وفات انسان اور ہر ایک حیوان کے لیے ایک اصلی اور طبعی امر ہے جس کے ثبوت دینے کے لیے درحقیقت کچھ بھی ضرورت نہیں.جو شخص کئی سو برس سے مفقود الخبرہو.وہ قوانین عدالت کی رُو سے مُردوں میں شمارکیا جائے گا گو اس کو مرتے ہوئے کسی نے بھی نہ دیکھا ہو لیکن حیات خارق عادت ایک استدلالی امر ہے جو اپنے ثبوت کے لیے دلیل کا محتاج ہے.یعنی جب تک کسی مفقود الخبر غائب از نظر کی ایسی لمبی عمر جو طبعی عمر سے صدہا گونا زیادہ ہے.دلائل یقینیہ سے ثابت نہ کی جائے تب تک کوئی عدالت اس بیان کو تسلیم نہیں کر سکتی.کہ وہ زندہ ہے.اِس تقریر سے اس جگہ میری غرض صرف اس قدر ہے کہ جو شخص حضرت مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی خارق عادت کا دعویٰ کرتا ہے.بارِ ثبوت اس پر ہے اور اسی کا یہ فرض ہے کہ آیات قطعیہ اور احادیث صحیحہ کے منطوق سے اس دعویٰ کو ثابت کرے اوراگر یہ دعویٰ ثابت نہ ہو اس کا عدم ثبوت ہی وفات کے لیے کافی دلیل ہے.کیونکہ وفات ایک طبعی امر ہے جو عمر طبعی کے بعدہر ایک متنفس کے لیے ضروری ہے لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اُن وہموں کی بیخ کنی کرنے کے لیے مسیح ابن مریم کی وفات کو شافی بیان کے ساتھ ظاہر فرما دیا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آخری زمانہ کے فتنوں میں سے ایک یہ بھی فتنہ ہو گا کہ ایک عاجز بندہ مسیح ابن مریم اخیر زمانہ تک زندہ رہنے والا قرار دیا جاوے گا.سو اُس نے مسیح کی وفات کو ایسے صاف طور سے بیان کیا ہے کہ ہر ایک وہم کی جڑ کاٹ دی.ہماری کتاب ازالہ اوہام کو دیکھو اور ان تمام دلائل کو غور سے پڑھو جو مسیح ابن مریم کی وفات کے بارے میں ہیں.اِن تمام واقعات سے جو ہم نے اس اشتہار میں ظاہر کئے ہیں، منصف مزاج لوگ بخوبی مطمئن ہو سکتے ہیں کہ شیخ الکل صاحب نے اس عاجز کے مقابلہ پر وہ طریق اختیار نہیں کیا جو ایسے موقع پر ایک متقی پارسا طبع کو کرنا پڑتا ہے بلکہ اپنے زُعم میں کل اکابر اور ائمہ کے مقتداء بن کر اور شیخ العرب و العجم کہلا کر پھر اظہار حق سے ایسا منہ چھپایا کہ ایک ادنیٰ درجہ کا مومن بھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا.اور ہرگز نہ چاہا کہ سیدھے ہو کر بحث کریں.مَیں نے اپنے ہر ایک اشتہار میں شیخ الکل صاحب کو مخاطب کیا اور

Page 320

انہیں کی مشیخت آزمانے کے لیے دہلی تک پہنچا.اور اپنے وطن کوچھوڑ کر اور تکالیف و مصائب غربت اُٹھا کر اس شہر میں آ ٹھہرا.کوئی منصف مجھے سمجھا دے کہ میرے مقابلہ پر شیخ الکل صاحب نے کیا کیا.ہاں ایک یکطرفہ جلسہ مقرر کر کے یہ چال تو ضرور چلے کہ ایک طرف ناگہانی طور پر مجھے بلایا اور دوسری طر ف دہلی کے سفہاء اور اوباشوں کو بے اصل بہتانوں سے ورغلا کر اسی دن میرے گھر کے گردا گرد جمع کر دیا.اور صدہا بدسرشت لوگوں کے دلوں میں جوش ڈال دیا.جس سے وہ بڑی دلیری سے کوہستانی غازیوں کی طرح مارنے کے لیے مستعد ہو گئے اور مجھے باہر قدم رکھنے کی بھی گنجائش باقی نہ رہنے دی بلکہ زنانہ مکان کے کواڑ توڑنے لگے اور بعض وحشی خونخوار زنانہ مکان میں گھس آئے اور پھر اس مجبوری کی وجہ سے جو میں اس پہلے جلسہ یکطرفہ میں حاضر نہ ہو سکا تو عام طور پر شایع کر دیا کہ ہم نے فتح پائی.ناظرین خود سوچ لیں کہ یہ کیسا کام تھا اور کن لوگوں سے ایسے کام ہوا کرتے ہیں.پھر دوسری چال یہ چلے کہ جب کہ انہیں خوب معلوم ہو گیا کہ وہ حضرت مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی کا ثبوت ہرگز دے نہیں سکتے.اور اگر اس بحث کے لیے مقابلہ پر آتے ہیں تو سخت رسوائی ہوتی ہے تو انہوں نے بعض زبان دراز شاگردوں کو جن میں صرف نقّالوں کی طرح تمسخر کا مادہ ہے.بیہودہ اشتہارات کے جاری کرنے اور وقت کے ٹالنے کے لیے کھڑا کر دیا.گویا حضر ت نے اس تدبیر سے ان تلامیذ کو اپنا فدیہ دے کر اپنی جان چھڑانے کا ارادہ کیا، لیکن منصفین سوچ سکتے ہیں کہ اُن دھوکہ دہ اشتہاروں میں مطلب کی بات کون سی لکھی گئی یا اس بات کا کیا جواب دیا گیا کہ کیوں شیخ الکل صاحب اتنا بڑا موٹا نام رکھوا کر اس ضروری بحث سے گریز کرتے ہیں اور کون سی ایسی آفت اُن پر نازل ہے جو ان کو بحث کرنے سے روکتی ہے.شیخ الکل صاحب کی ان کارروائیوں سے ہر ایک عقلمند ان کی دیانت و امانت و حق پرستی و دینداری و ہمدردی اسلام کا اندازہ کر سکتا ہے.اگر وہ مثلاً اس بیان کے ادا کرنے کے لیے عدالت میں بُلائے جاتے اور حُکماً پوچھا جاتاکہ سچ کہو تمہارے پاس حضرت مسیح ابن مریم کی جسمانی حیات اور جسمانی صعود و نزول پر کیا کیا قطعی دلائل قرآن اور حدیث کی رو سے موجود ہیں جو عقیدہ قرار دینے کے لیے کافی ہوں تو کیا شیخ الکل صاحب عدالت میں حاضر نہ ہوتے اور اپنا بیان نہ

Page 321

لکھواتے؟ پھر خدا تعالیٰ کی عدالت سے کیوں نہ ڈرے.ایک دن مرنا ہے یا نہیں؟ غضب کی بات ہے کہ نام شیخ الکل اور کرتوت یہ.اے شیخ الکل! بھلا آپ انصافاً فرماویں کہ آپ اس جرم کے مرتکب ہوئے یا نہیں کہ آپ نے کتاب اللہ کے اُس حکم کو چھپایا جس کے ظاہر کرنے کے لیے تاکید کی گئی تھی.اگر مثلاً عدالت برطانیہ سے اسی امر کے دریافت کے لیے آپ کے نام سمن جاری ہوتا اور درحالت اخفائے شہادت کسی قانونی سزا کی دھمکی بھی دی جاتی توکیا آپ اپنا بیان لکھوانے سے انکار کرتے یا یہ کہتے کہ میں نہیں جائوں گا.بٹالوی شیخ کو لے جائو یا مولوی عبد المجید کی شہادت قلمبند کر لو.آپ کو عدالت ربّانی سے کیوں اس قدر استغنا ہے.ہم توآپ کے منہ کو دیکھتے دیکھتے تھک بھی گئے.آپ ۲۰؍ اکتوبر کے جلسہ میں بھی آئے تو کیا خاک آئے.آتے ہی بحث سے انکار کر دیا اور حسبِ منشاء اشتہار قسم کھا نے سے گریز کی اور اخفاء شہادت کا کبیرہ گناہ ناحق اپنے ذمہ لے لیا.اشتہار ۱۳؍ ربیع الاوّل میں جو آپ کی طر ف سے جاری ہوا ہے.حوا س کی خوب تعریف لکھی ہے کہ بدیں پیرانہ سالی تمام قویٰ نہایت عمدہ ہیں اورہاتھ پیروں کی قوت اور آنکھوں کی بینائی قابل تعریف ہے.ہر ایک مرض سے بفضلہ تعالیٰ امن ہے.پھر جس حالت میں ایسی عمدہ صحت ہے اور تمام قویٰ تعریف کے لائق ہیں تو پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ بحث سے گریز کیوں ہے.کیا ناظرین آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں؟ اے شیخ الکل اُس خدائے عزّوجل سے ڈر جو تیرے دل کو دیکھ رہا ہے.جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ فَھُوَ ذَنْبُکَ یعنی جو کام تیرے دل پر قبض وارد کرے اور تیرا دل اس کے کرنے سے رُکتا ہو اور وہی کام تو کر بیٹھے تو وہ تیر اگناہ ہے.اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انکار وفات مسیح کے بارے میں اگر آپ کے دل میں ایک قبض نہ ہوتی تو آپ ضرور علانیہ بحث کرنے کے لیے تیار ہو جاتے، لیکن یوں تو آپ نے گھر میں لاف و گزاف کے طور پر بارہا کہا کہ مسیح ابن مریم بجسدہ العنصری زندہ ہے.یہی قرآن اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے.چنانچہ میرے بعض مخلص جو آپ کے پاس گئے تو انہوں نے بھی آ پ کی ان بے اصل لافوں کا ذکر کیا، لیکن چونکہ صرف یہ زبان کی فضول باتیں تھیں.اور محض دروغ بے فروغ تھا اور دل پر قبض اور نومیدی تھی.اس لیے آپ بحث کرنے کے لیے پیش قدمی نہ کر سکے.

Page 322

سکے.اگر آپ کے ہاتھ میں ثبوت ہوتا تو آپ مجھے کب چھوڑتے.مَیں نے غیرت دلانے والے لفظ بھی سراسر نیک نیتی سے استعمال کئے اور اب بھی کر رہا ہوں مگر آپ کوکچھ شر م نہ آئی.میں نے یہ بھی لکھ بھیجا کہ حضرت مجھے اجازت دیجئے اورا پنی خاص تحریر سے مجھے اشارہ فرمائیے تو میں آپ ہی کے مکان پر حاضر ہو جائوں گا اور مسئلہ حیات و وفات مسیح میں تحریری طور پر آپ سے بحث کروں گا اور مَیں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر میں اپنے اس الہام میں غلطی پر نکلا اور آپ نے نصوص صریحہ بیّنہ قطعیہ سے مسیح ابن مریم کی جسمانی حیات کو ثابت کر دکھایا تو تمام عالم گواہ رہے کہ میں اپنے اس دعوے سے دستبردار ہو جائوں گا.اپنے قول سے رجوع کروں گا.اپنے الہام کو اَضْغَا ُ ث اَحْلَام قرار دے دوں گا اور اپنے اس مضمون کی کتابوں کو جلا دوں گا.اورمیں نے اللہجَلَّ شَانُـہٗ کی قسم بھی کھائی کہ درحالت ثبوت مل جانے کے میں ایسا ہی کروں گا، لیکن اے حضرت شیخ الکل! آپ نے میری طرف تو نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا.میں مسافر تھا.آپ نے میری تکالیف کا بھی خیال نہ فرمایا.میں آپ ہی کے لیے دہلی میں اس مدت تک ٹھہرا رہا.آپ نے میری طر ف ذرا رُخ نہ کیا.عوام کو میری تکفیر کا فتویٰ سُنا کر فتنہ انگیز ملّائوں کی طرح بھڑکا دیا.مگر اپنے اسلام اور تقویٰ کا تو کوئی نشان نہ دکھلایا.آپ خوب یاد رکھیں کہ ایک دن عدالت کا دن بھی ہے.ان تمام حرکات کااس دن آپ سے مواخذہ ہو گا.اگر مَیں دہلی میں نہ آیا ہوتا اور اس قدر قسمیں دے کر اور عہد پر عہد کر کے آپ سے بحث کا مطالبہ نہ کرتا تو شاید آپ کا اس انکار میں ایسا بڑا گناہ نہ ہوتا.لیکن اب تو آپ کے پاس کوئی عذر نہیں.اور تمام دہلی کا گنہ آپ ہی کی گردن پر ہے.اگر شیخ بٹالوی اور مولوی عبد المجید نہ ہوتے تو شاید آپ راہ پر آسکتے لیکن آپ کی بدقسمتی سے ہر وقت ان دونوں کی آپ پر نگرانی رہی.مَیں تو مسافرہو ں.ا ب انشاء اللہ تعالیٰ اپنے وطن کی طر ف جائوں گا.آپ کی برانگیخت سے بہت سے لعن طعن اور گندی گالیاں دہلی والوں سے سُن چکا.اور آپ کے اُن دونوں رشید شاگردوں نے کوئی دقیقہ لعن طعن کا اُٹھا نہ رکھا، مگر آپ کو یاد رہے کہ آپ نے اپنے خداداد علم پر عمل نہیں کیا، اور حق کو چھپایا اور تقویٰ کے طریق کو بالکل چھوڑ دیا.انسان اگر تقویٰ کی راہوں کو چھوڑ دے تو وہ چیز ہی کیا ہے مومن کی ساری عظمت اوربزرگی تقویٰ سے

Page 323

ہے.شریر آدمی چالاکی سے جو کچھ چاہتا ہے بغیر کسی قطعی ثبوت کے مُنہ پر لاتا ہے، مگر عادل حقیقی کہتا ہے کہ اے عمداً کجی کے اختیار کرنے والے! آخر مرنے کے بعد تو میری ہی طرف آئے گا اور مَیں تیرے ساتھ کوئی دوسرا حمایتی نہیں دیکھتا.تیری باتوں کا ثبوت تجھ سے پوچھا جائے گا.سو اَے شیخ الکل! اُس دن سے ڈر جس دن ہاتھ اور پیر گواہی دیں گے اور دل کے خیال مخفی نہیں رہیں گے.اے غافل مغرور! تو کیوں اپنے ربّ کریم سے نہیں ڈرتا.تیرے پاس مسیح ابن مریم کے بجسدہ العنصری اُٹھائے جانے کا کون سا ثبوت ہے تو کیوں اسے پیش نہیں کرتا.ہائے تو اپنے دل کی حالت کو کیوں چھپاتا ہے.اَے شیخ !سفر نزدیک ہے.میں محض نیک نیتی سے اور اخلاص سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ کہتا ہوں.میرا خدا اس وقت دیکھ رہا ہے اور سُن رہا ہے اور میرے دل پر نظر ڈال رہا ہے.بخدا میرے پر ثابت ہو چکا ہے کہ آپ نے محض مولویانہ ننگ و ناموس کی وجہ سے سچی گواہی نہیں دی اور باطل سے دوستی کی اور حق سے دشمنی.اور آپ نے دہلی والوں کو حق پوشی کی وجہ سے سخت بے باک کر دیا.یہاں تک کہ بعض نے تمسخر اورٹھٹھے کی راہ سے میرے مقابلہ پر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور چند اشتہار شائع کر دئیے.جن میں بعض کے اندر حد سے زیادہ آپ کی تعریف تھی جس پر نظر ڈالنے سے قوی شک گزرتا تھا کہ وہ اشتہارات آپ ہی کے اشارہ سے لکھے گئے ہیں.ان اشتہاروں میں یہ کوشش کی گئی تھی کہ اوباشانہ باتوں سے نوراللہ کو منطفی کر دیا جائے، مگر یہ کوشش کچھ نئی نہیں.قدیم سے یہ دستور ہے کہ جو لوگ حق کے دشمن ہیں وہ سچائی کے نوروں کو بجھانے کے لیے ہر ایک قسم کے مکر کیا کرتے ہیں.آخر حق ظاہر ہو جاتا ہے.اور وہ کراہت ہی کرتے رہ جاتے ہیں.انسان کا اپنا تراشا ہوا کام نہیں چل سکتا.بلکہ ایسی جماعت جلد متفرق ہو جاتی ہے لیکن جو سلسلہ آسمان اور زمین کے بنانے والے کی طرف سے ہوتا ہے.کوئی ہے جو اس کو نابود کر سکے؟ سو اَے شیخ الکل! تو کیوں تیز تلوار پر ہاتھ مار رہا ہے.کیا تجھے اپنے ہاتھ کا اندیشہ نہیں.خدا تجھے دیکھ رہا ہے.اگرچہ تُو اُسے نہیں دیکھتا.اپنے علم سے بڑھ کر کیوں زیادہ دلیری کرتا ہے.کچھ خوف کر لَمَقْتُ اللّٰہِ اَکْبَرُ مِنْ مَّقْتِکُمْ.اے ٹھٹھا کرنے والو! اور تمسخر سے افترا کرنے والو! اور بے باکی سے کہنے والو کہ مسیح موعود تو

Page 324

ہم ہیں کہ ابھی سے آسمان سے فتح گڑھ کی چھت پر اُترے ہیں.اگرچہ تم اپنے اس امن اورصحت اور جوانی اور غفلت کی حالت میں کب ڈرو گے، مگر پھر بھی کہتا ہوں کہ اس خدا سے ڈرو جو ایک دم میں خوشی کرنے والوں کو غمگین بنا سکتا ہے اور راحتوں کو رنجوں کے ساتھ بدل سکتا ہے.کیا انسان اس کے ہاتھ میں نہیں؟ اے دہلی تجھ پر افسوس! تُو نے اپنا اچھا نمونہ نہیں دکھلایا.اے مسلمانوں کی ذریّت! یاد کرو کہ اسلام کیا شَے ہے؟ ڈرو کہ اللہ جَلّ شَانُـہٗ بے نیاز ہے.یقینا یاد رکھو کہ جو اس کی طرف سے ٹھہر چکا ہے.وہ انسان کے منصوبوں سے باطل نہیں ہو سکتا.اے دہلی والو! تم اُس زمین میں رہتے ہو جس میں بہت سے راست باز سوئے ہیں.شرم کرو کہ تمہارے اوپر خدا ہے، اور تمہارے نیچے راستباز ہیں.جو خاک میں ملے پڑے ہیں. اللّٰہُ.وَ السَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ.اَلنَّاصِحُ عَبْدُ اللّٰہِ الصَّمَدْ غلام احمد.قادیانی.۲۳؍ اکتوبر ۱ ۱۸۹ ء از مقام دہلی بازار بلیماراں.کوٹھی نواب لوہارو (مطبوعہ مطبع افتخار دہلی) ضروری اور مفید اعلان بیقرار اور منتظر شائقین کو جن کے متعاقب استفساری خطوط ہمارے پاس آتے تھے اطلاع دی جاتی ہے کہ ازالہ اوہام تمام و کمال مرتب ہو کر شائع ہو گیا ہے.اس میں ربِّ جلیل کے القاء سے علاوہ اُن قاطعہ دلائل اور ساطعہ حجج کے جو جناب مسیح علیہ السلام کی وفات کے ثبوت میں بڑے بسط سے لکھے گئے ہیں.کلامِ الٰہی کے بہت سے دقیق مقامات کے معارف اور حقائق آمیز تفسیریں بھی ثبت کی گئی ہیں.مثلاً بہشت میں اللہ جَلَّ شَانُـہٗ کے حساب و کتاب لینے کی حقیقت، معجزات مسیحیہ کی

Page 325

ماہیت وغیرہ صدہا امور ایسے ہیں جو اللّٰہ جَلَّ شَانُـہٗ نے اس عاجز پر منکشف کئے ہیں اور جابجا اس کتاب میں درج کئے گئے ہیں.میں نے اِتْمَامًا لِلْحُجَّۃ وَ نُصْحًا لِلْعِبَاد حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے بارے میں ایسی وسعت سے بحث کی ہے کہ اس کے متعلق قرآن کریم اور احادیث شریفہ سے کوئی بھی پہلو فروگزاشت نہیں کیا ہر ایک حدیث پر سیری بخش اور کافی اطمینان دہ کلام کیا ہے.اور محض حکیم حمید تَعَالٰی شَانُـہٗ کی تفہیم و تعلیم سے قرآن کی تیس۳۰ صریح اور بیّن آیتوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر استدلال کیا ہے.اور اس زمانہ میں اب تک جس قدر دلائل حیات پر مسیح علیہ السلام کے دئیے گئے اور دئیے جاتے ہیں.ان کو بڑے انصاف اور نیک نیّتی سے بدلائل کتاب وسنّت توڑا ہے.اس کتاب میں ایک کافی حصّہ الہامی پیشین گوئیوں کا بھی ہے جو سُنّت اللہ کے موافق صادق اور کاذب کے امتیاز اور شناخت کا سچا اور کامل آلہ اور معیار ہیں.اگر لوگ تحمل کریں تو بہت جلد ہماراصدق اور کذب آفتاب کی طرح ان پر کھل جائے.اس عاجز نے وابستگانِ زنجیرِ فلسفہ اور منطق کی طرح زمانہ کی بے بنیاد خشک اور بے مغز عقلی فلاسفی سے اس بارے میں کام نہیں لیا.اور نہ درحقیقت وہ اس قابل ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وَرَائُ الْوَرَاء اسرار اور اُس کے کلام کریم کے اعلیٰ معارف کے حلّ و انکشاف میں مجرداً بلا مدد الہام و وحی اس سے اعانت کی توقع رکھی جا سکے بلکہ ہر قسم کے ثبوت کے پیش کرنے میں قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کو ہی پیش نظر رکھا ہے.چنانچہ ازالہ اوہام کو پڑھ کر ہمارے اس بیان کی بخوبی تصدیق ہو سکتی ہے.نیز اس کتاب میں اپنے مسیح موعود ہونے کا ثبوت دلائل شافیہ اور براہین کافیہ سے دیا ہے.جسے پڑھ کر ہر طالب حق اور رموز کلام الٰہی اور انبیاء علیہم السلام کے کلمات کے اسرار کا بصیر پورا اطمینان حاصل کر سکتا ہے.یہ وہی کتاب ہے جس کی نسبت لکھا گیا تھا کہ اس کے طبع اور پھر بغور مطالعہ کرنے کے بغیر کوئی شخص اس عاجز کی نسبت ردّ و تردید میں جرأت نہ کرے.مگر عجول انسان افسوس ادنیٰ تحریک پر قابو سے نکل جاتا ہے اور پھر جذباتِ نفسانیہ پر غلبہ پانے کی اس میں مقدرت نہیں رہتی.بڑی بڑی بُردباری کے دعوے کرنے والے مولویوں اور فقیہوں نے عُجلت مزاجی کی راہ سے تیغ زبان اور شمشیر قلم

Page 326

کے جوہر دکھائے جنہیں آخر اس عظیم الشان کتاب نے اپنی کمال قوت دلائل سے پست اور ذلیل کیا.وہ لوگ جن میں سچا تقویٰ اور خشیۃ اللّٰہ ہوتا ہے بے جانے بوجھے کسی بھاری بات کی نسبت اپنی زبان نہیں کھولا کرتے.انہیں ہمیشہ اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اس گوشت کے ٹکڑے (زبان) کی سب کارروائی کی سخت باز پُرس ہو گی.اے ناظرین! میں تمہیں ہمدردی اور خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ ایک دفعہ تمام و کمال میری اس کتاب کو پڑھ جائو.یقین سمجھو کہ تمہیں اس میں نور ہدایت اور حق کا راستہ ملے گا.یہ کتاب قریب ساٹھ جزو کے بڑی صفائی سے طبع ہوئی ہے اور دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے.جن کی قیمت فقط (تین روپے)بِلامحصول ڈاک ہے.یہ کتاب اس عاجز اور پنجاب پریس سیالکوٹ سے درخواست کرنے پر بصیغہ وی پی منگوائی جا سکتی ہے.اس وقت دہلی والوں کو اس کالینا آسان ہے کیونکہ یہاں میرے پاس کسی قدر نسخے موجود ہیں.(یہ اشتہارکے ۱۶ صفحوں پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۳۹ تا ۵۵)

Page 327

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ  ۱؎ اشتہار واجب الاظہار جس میں مولوی محمد اسحاق صاحب کو حضرت مسیح ابن مریم کی حیات و وفات کے بارے میں بحث کے لئے دعوت کی گئی ہے واضح ہو کہ کل ۳۰؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو مولوی محمد اسحق صاحب اس عاجز کے مکان (فرودگاہ) میں تشریف لائے اور ایک جلسہ عام میں حضرت مسیح ابن مریم کی وفات کے بارے میں مولوی صاحب موصوف نے گفتگو کی.اور یہ بھی فرمایا کہ اس قدر تو ہم بھی مانتے ہیں کہ بعض احادیث میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم چند گھنٹے کے لیے ضرور فوت ہو گئے تھے.مگر ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ وہ پھر زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے تھے.اور پھر کسی وقت زمین پر اُتریں گے اور پینتالیس برس تک زمین پر بسر کرکے پھر دوبارہ مریں گے یعنی دو موتیں ان پر ضرور وارد ہوں گی.اس پر مولوی صاحب کو ایک مبسوط ۱؎ الاعراف: ۹۰

Page 328

تقریر میں سمجھایا گیا کہ حضرت مسیح کی دو موتیں قرآن کریم اور حدیث سے ثابت نہیں ہوتیں بلکہ وہ ایک ہی دفعہ مر کر خدا تعالیٰ کی طرف انتقال کر گئے اور فوت شدہ انبیاء میں جا ملے اور دوبارہ دنیا میں وہ آنہیں سکتے کیونکہ اگر دوبارہ دنیا میں آویں تو پھر یہ دعویٰ قرآن کریم کے مخالف ہو گا اور کئی دلائل سے اُن کو سمجھا دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ حقیقت میں فوت ہو چکے ہیں.اب دوبارہ دنیا میں ان کا آنا تجویز کرنا گویا قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو چھوڑ دینا ہے، لیکن مولوی صاحب یا تو اُن دلائل کو سمجھ نہیں سکے یا عمداً حق پوشی کی راہ سے اس کی مخالف اشاعت کرنا انہو ں نے اپنی دنیوی مصلحت قرار دے دیا ہو گا.چنانچہ سُنا گیا ہے کہ ان کے بعض دوستوں نے عام طور پر شہر پٹیالہ میں شائع کر دیا کہ گویا مولوی صاحب اپنی اُس تقریر میں جو اس عاجز سے کی تھی فتحیاب ہوئے.چونکہ معلوم ہوتا ہے کہ اس خلاف واقعہ تقریر کا پٹیالہ کے عوام پر بداثر پڑے گا.اور شاید وہ اس مفتریانہ تقریر کو سُن کر یہ سمجھ بیٹھے ہوں گے کہ درحقیقت مولوی صاحب نے فتح پا لی ہے.لہٰذا مولوی محمد اسحق صاحب کو مخاطب کر کے اشتہار ہذا شائع کیا جاتا ہے کہ ہریک خاص و عام کو اطلاع رہے کہ جو بیان مولوی صاحب کی طرف سے شائع ہوا ہے وہ محض غلط ہے.حق بات یہ ہے کہ ۳۰؍ اکتوبر کی تقریر میں مولوی صاحب ہی مغلوب تھے اور ہمارے شافی و کافی دلائل کا مولوی صاحب ایک ذرا جواب نہیں دے سکے.اگر ہمارا یہ بیان مولوی صاحب کے نزدیک خلاف واقعہ ہے تو مولوی صاحب پر فرض ہے کہ اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعدایک جلسہ بحث مقرر کر کے اس مسئلہ حیات و وفات مسیح میں اس عاجز سے بحث کر لیں اور اگر بحث نہ کریں تو پھر ہریک منصف کو سمجھنا چاہیے کہ وہ گریز کر گئے.شرائط بحث بہ تفصیل ذیل ہوں گے.(۱) حیات و وفات مسیح ابن مریم کے بارہ میں بحث ہو گی (۲) بحث تحریری ہو گی یعنی دو کاتب ہماری طرف سے اور دو کاتب مولوی صاحب کی طرف سے اپنی اپنی نوبت پر بیانات قلم بند کرتے جائیں گے.اور ہریک فریق ایک ایک نقل دستخطی اپنے فریق ثانی کو دے دے گا.پرچے بحث کے تین ہوں گے.مولوی صاحب کی طرف سے بوجہ مدعی حیات ہونے کے پہلا پرچہ ہو گا.پھر ہماری طرف سے اس کا جواب ہو گا.تحریری بحث سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ فریقین کے بیانات محفوظ رہتے ہیں

Page 329

اور دور دست کے غائبین کو بھی ان پر رائے لگانے کا موقع مل سکتا ہے اور کسی کو یہ یارا نہیں ہوتا کہ خارج از بحث یا رطب ویا بس کو زبان پر لا سکے.پبلک اس بات کو سُن رکھے کہ ہم اس اشتہار کے بعد ۲؍ نومبر ۱۸۹۱ء کے ۱۲؍ بجے دن تک مولوی صاحب کے جواب اورشروع بحث کا انتظار کریں گے جس طرح دہلی میں مولوی سیّد نذیر حسین کو اشتہار ۷ا۱؎؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء میں قسم دی گئی تھی، وہی قسم آپ کو بھی دی جاتی ہے.اُمید ہے کہ آپ بحث سے ہرگز احتراز نہ کریں گے.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی وارد حال شہر پٹیالہ مکان شیخ فضل کریم صاحب سرشتہ محکمہ اڈیشنل جج.المرقوم ۳۱؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء واضح ہو کہ میری کتاب ازالہ اوہام یہاں پٹیالہ میں میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس محکمہ نہر سرہند سے مل سکتی ہے.(یہ اشتہارکے ایک صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۵۵ تا ۵۸)

Page 330

 میر عباس علی صاحب لدھانوی چو بشنوی سخن اہل دل مگو کہ خطااست سخن شناس نۂِ دلبرا خطا اینجا است۱؎ یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کا ذکر بالخیر میں نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۷۹۰ میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں لکھا ہے افسوس کہ وہ بعض مو سوسین کی وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آگئے بلکہ جماعت اعدا میں داخل ہوگئے.بعض لوگ تعجب کریں گے کہ ان کی نسبت تو الہام ہوا تھا کہ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ اس کا یہ جواب ہے کہ الہام کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ اصل اُس کا ثابت ہے اور آسمان میں اُس کی شاخ ہے اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں بلاشبہ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے جس پر وہ ہمیشہ ثابت اور مستقل رہتا ہے اور اگر ایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تو وہ فطرتی خوبی ساتھ ہی لاتا ہے اور اگر پھر اسلام سے کفر کی طرف انتقال کرے تو اس خوبی کو ساتھ ہی لے جاتا ہے کیونکہ فطرت اللہ اور خلق اللہ میں تبدل اور تغیر نہیں افراد نوع انسان مختلف طور کی کانوں کی طرح ہیں کوئی سونے کی کان، کوئی چاندی کی کان، کوئی پیتل کی کان، پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے بلاشبہ یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض ۱؎ ترجمہ.جب تو دل والوں کی کوئی بات سنے تو مت کہہ اٹھ کہ غلط ہے اے عزیز! تو بات نہیں سمجھ سکتا غلطی تو یہی ہے.

Page 331

اخلاق فطرتاً ان کو حاصل ہوتے ہیں خدا تعالیٰ نے مجسم ظلمت اور سراسر تاریکی میں کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا ہاں یہ سچ ہے کہ کوئی فطرتی خوبی بجز حصول صراط مستقیم کے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے موجب نجات اُخروی نہیں ہوسکتی کیونکہ اعلیٰ درجہ کی خوبی ایمان اور خدا شناسی اور راست روی اور خدا ترسی ہے اگر وہی نہ ہوئی تو دوسری خوبیاں ہیچ ہیں.علاوہ اس کے یہ الہام اُس زمانہ کا ہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی موجود تھی.زبردست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اور اپنے دل میں وہ بھی یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت رہوں گا سو خدا تعالیٰ نے اُن کی اُس وقت کی حالت موجودہ کی خبر دے دی یہ بات خدا تعالیٰ کی تعلیمات وحی میں شائع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبردیتا ہے کسی کے کافر ہونے کی حالت میں اس کا نام کافر ہی رکھتا ہے.اور اُس کے مومن اور ثابت قدم ہونے کی حالت میں اس کا نام مومن اور مخلص اور ثابت قدم ہی رکھتا ہے.خدا تعالیٰ کی کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ میر صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجز کے مخلصوں میں شامل رہے اور خلوص کے جوش کی وجہ سے بیعت کرنے کے وقت نہ صرف آپ انہوں نے بیعت کی بلکہ اپنے دوسرے عزیزوں اور رفیقوں اور دوستوں اور متعلقوںکو بھی اس سلسلہ میں داخل کیا اور اس دس سال کے عرصہ میں جس قدر انہوں نے اخلاص اور ارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے اُن کا اِس وقت مَیں اندازہ بیان نہیں کرسکتا لیکن دو سو کے قریب اب بھی ایسے خطوط ان کے موجود ہوں گے جن میں انہوں نے انتہائی درجہ کے عجز اور انکسار سے اپنے اخلاص اور ارادت کا بیان کیا ہے بلکہ بعض خطوط میں اپنی وہ خوابیں لکھی ہیں جن میں گویا روحانی طور پر اُن کو تصدیق ہوئی ہے کہ یہ عاجز منجانب اللہ ہے اور اس عاجز کے مخالف باطل پر ہیں اور نیز وہ اپنی خوابوں کی بناء پر اپنی معیت دائمی ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اِس جہان اور اُس جہان میں ہمارے ساتھ ہیں ایسا ہی لوگوں میں بکثرت انہوں نے یہ خوابیں مشہور کی ہیں اور اپنے مریدوں اور مخلصوں کو بتلائیں اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس قدر جوش سے اپنا اخلاص ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگر خدائے تعالیٰ کا الہام ہو کہ یہ شخص اس وقت

Page 332

ثابت قدم ہے متزلزل نہیں تو کیا اس الہام کو خلاف واقعہ کہا جائے گا بہت سے الہامات صرف موجود ہ حالات کے آئینہ ہوتے ہیں عواقب امور سے ان کو کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نیز یہ بات بھی ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے اس کے سوئِ خاتمہ پر حکم نہیں کرسکتے کیونکہ انسان کا دل اللہ جَلَّ شَانُـہٗ کے قبضہ میں ہے میر صاحب تو میر صاحب ہیں اگر وہ چاہے تو دنیا کے ایک بڑے سنگدل اور مختوم القلب آدمی کو ایک دم میں حق کی طرف پھیر سکتا ہے.غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتا ہے مآل پر ضروری طور پر اس کی دلالت نہیں ہے اور مآل ابھی ظاہر بھی نہیں ہے بہتوں نے راست بازوں کو چھوڑ دیا اور پکے دشمن بن گئے مگر بعد میں پھر کوئی کرشمہ قدرت دیکھ کر پشیمان ہوئے اور زارزار روئے اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور رجوع لائے.انسان کا دل خدائے تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس حکیم مطلق کی آزمائشیں ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہیں.سو میر صاحب اپنی کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلا کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پیدا ہوئی اور پھر قبض سے خشکی اور اجنبیت اور اجنبیت سے ترکِ ادب اور ترکِ ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جہری عداوت اور ارادہ تحقیر و استحقاق۱؎ و توہین پیدا ہوگیا.عبرت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے.کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہوگا.مالک الملک جو چاہتا ہے کرتا ہے میرے دوستوں کو چاہیے کہ ان کے حق میں دعا کریں اور اپنے بھائی فروماندہ اور درگذشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں اور میں بھی انشاء اللہ الکریم دعا کروں گا.میں چاہتا تھا کہ ان کے چند خطوط بطور نمونہ اس رسالہ میں نقل کر کے لوگوں پر ظاہر کروں کہ میر عباس علی کا اخلاص کس درجہ پر پہنچا تھا اور کس طور کی خوابیں وہ ہمیشہ ظاہر کیا کرتے تھے اور ’’کن انکساری کے الفاظ‘‘ اور تعظیم کے الفاظ سے وہ خط لکھتے تھے لیکن افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے وقت میں حسب ضرورت ظاہر کیا جائے گا.یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفۃ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا آج ۱؎ نقل بمطابق اصل سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.سیاق کلام سے درست لفظ استخفاف ہے.واللّٰہ اعلم (ناشر)

Page 333

اس کی کیاحالت ہے.پس خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے اپنی استقامتوں پر بھروسہ مت کروکیا استقامت میں فاروق رضی اللہ عنہ سے کوئی بڑھ کر ہوگا جن کو ایک ساعت کے لیے ابتلا پیش آگیا تھا اور اگر خدائے تعالیٰ کا ہاتھ ان کو نہ تھامتا تو خدا جانے کیا حالت ہوجاتی.مجھے اگرچہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج بہت ہوا لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو اُن کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے جن کی تعریف میں وحی الٰہی بھی نازل ہوگئی تھی آخر حضرت مسیح سے منحرف ہوگئے تھے یہودا اسکریوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کا تھا جو اکثر ایک ہی پیالہ میں حضرت مسیح کے ساتھ کھاتا اور بڑے پیار کا دم مارتا تھا جس کو بہشت کے بارھویں تخت کی خوشخبری بھی دی گئی تھی اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے جن کی نسبت حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ آسمان کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں جن کو چاہیں بہشت میں داخل کریں اور جن کو چاہیں نہ کریںلیکن آخر میاں صاحب موصوف نے جو کرتوت دکھلائی وہ انجیل پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہوکر اور ان کی طرف اشارہ کر کے نَعُوْذُ بِاللّٰہ بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پرلعنت بھیجتا ہوں.میر صاحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں کل کی کس کو خبر ہے کہ کیا ہو.میر صاحب کی قسمت میں اگرچہ یہ لغزش مقدر تھی اور أَصْلُھَا ثَابِتٌ کی ضمیر تانیث بھی اس کی طرف ایک اشارہ کررہی تھی لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میرصاحب کی حالت کو لغزش میں ڈالا میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جن کو مسائل دقیقہ دین کی کچھ بھی خبر نہیں حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ یہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے میں نے سنا ہے کہ شیخ بٹالوی اِس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ  ۱؎ اور اس قدر غلو ہے کہ شیخ نجدی کا استثناء بھی ان ۱؎ الحجر:۴۰

Page 334

کے کلام میں نہیں پایا جاتا تا صالحین کو باہر رکھ لیتے اگرچہ وہ بعض روگردان ارادتمندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں مگر انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہوجانے سے سارا باغ بر باد نہیں ہوسکتا.جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خشک کردیتا ہے اور کاٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا کردیتا ہے بٹالوی صاحب یاد رکھیں کہ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدائے تعالیٰ اس کی جگہ بیس لائے گا اور اس آیت پر غور کریں    .۱؎ بالآخر ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ میر عباس علی صاحب نے ۱۲ ؍دسمبر ۱۸۹۱ء میں مخالفانہ طور پر ایک اشتہار بھی شائع کیا ہے جو ترکِ ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے سو ان الفاظ سے تو ہمیں کچھ غرض نہیں جب دل بگڑتا ہے تو زبان ساتھ ہی بگڑ جاتی ہے لیکن اس اشتہار کی تین باتوں کا جواب دینا ضروری ہے.اوّل.یہ کہ میر صاحب کے دل میں دہلی کے مباحثات کا حال خلاف واقعہ جم گیا ہے سو اِس وسوسہ کے دور کرنے کے لئے میرا یہی اشتہار کافی ہے بشرطیکہ میر صاحب اس کو غور سے پڑھیں.دوم.یہ کہ میر صاحب کے دل میں سراسر فاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا میں ایک نیچری آدمی ہوں معجزات کا منکر اور لیلۃ القدر سے انکاری اور نبوت کا مدعی اور انبیاء علیہم السلام کی اہانت کرنے والا اور عقائد اسلام سے منہ پھیرنے والا سو ان اوہام کے دور کرنے کے لئے میں وعدہ کرچکا ہوں کہ عنقریب میری طرف سے اس بارہ میں رسالہ مستقلہ شایع ہوگا اگر میر صاحب توجہ سے اس رسالہ کو دیکھیں گے تو بشرط توفیق ازلی اپنی بے بنیاد اور بے اصل بدظنیوں سے سخت ندامت اٹھائیں گے.سوئم.یہ کہ میرصاحب نے اپنے اس اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر فرماکر تحریر فرمایا ہے کہ گویا ان کو رسول نمائی کی طاقت ہے چنانچہ وہ اس اشتہار میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں میرا مقابلہ نہیں کیا میں نے کہا تھا کہ ہم دونوں کسی ایک مسجد میں بیٹھ جائیں اور پھر یا تو مجھ کو رسول کریمؐ ۱؎ المائدۃ: ۵۵

Page 335

کی زیارت کراکر اپنے دعاوی کی تصدیق کرادی جائے اور یا میں زیارت کراکر اس بارہ میں فیصلہ کرادوں گا.میر صاحب کی اس تحریر نے نہ صرف مجھے ہی تعجب میں ڈالا بلکہ ہر ایک واقف حال سخت متعجب ہورہا ہے کہ اگر میرصاحب میں یہ قدرت اور کمال حاصل تھا کہ جب چاہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیں اور باتیں پوچھ لیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھلاویں تو پھر انھوں نے اس عاجز سے بدوں تصدیق نبوی کے کیوں بیعت کر لی اور کیوں دس۱۰ سال تک برابر خلوص نمائوں کے گروہ میں رہے تعجب کہ ایک دفعہ بھی رسول کریمؐ اُن کی خواب میں نہ آئے اور ان پر ظاہر نہ کیا کہ اس کذّاب اور مکّار اور بے دین سے کیوں بیعت کرتا ہے اور کیوں اپنے تئیں گمراہی میں پھنساتا ہے کیا کوئی عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کو یہ اقتدار حاصل ہے کہ بات بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حضوری میں چلا جاوے اور ان کے فرمودہ کے مطابق کاربند ہو اور اُن سے صلاح مشورہ لے لے وہ دس برس تک برابر ایک کذّاب اور فریبی کے پنجہ میں پھنسا رہے اور ایسے شخص کا مرید ہوجاوے جو اللہ اور رسول کا دشمن اور آنحضرتؐ کی تحقیر کرنے والا اور تحت الثریٰ میں گرنے والا ہو، زیادہ تر تعجب کا مقام یہ ہے کہ میر صاحب کے بعض دوست بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بعض خوابیں ہمارے پاس بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھا اور آنحضرت ؐنے اِس عاجز کی نسبت فرمایا کہ وہ شخص واقعی طور پر خلیفۃ اللہ اور مجدّد دین ہے اور اسی قسم کے بعض خط جن میں خوابوں کا بیان اور تصدیق اس عاجز کے دعویٰ کی تھی میر صاحب نے اس عاجز کو بھی لکھے اب ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اگر میر صاحب رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں تو جو کچھ انہوں نے پہلے دیکھا وہ بہرحال اعتبار کے لائق ہوگا اور اگر وہ خوابیں ان کی اعتبار کے لائق نہیں اور اَضغَا ُث اَحْلَام میں داخل ہیں تو ایسی خوابیں آئندہ بھی قابل اعتبار نہیں ٹھہر سکتیں.ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ رسول نمائی کا قادرانہ دعویٰ کس قدر فضول بات ہے حدیث صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثلِ شیطان سے وہی خواب رسول بینی کی ُمبرّا ہوسکتی ہے جس میں آنحضرت صلعم کو اُن کے حُلیہ پر دیکھا گیا ہو، ورنہ شیطان کا تمثل انبیاء کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے ہے.اور شیطان لعین تو خدائے تعالیٰ کا تمثل اور اس کے عرش

Page 336

کی تجلّی دکھلا دیتا ہے تو پھر انبیاء کا تمثل اُس پر کیا مشکل ہے اب جب کہ یہ بات ہے تو فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ کسی کو آنحضرت صلعم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر کیونکر مطمئن ہوں کہ وہ زیارت درحقیقت آنحضرت صلعم کی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک حلیہ نبوی پر اطلاع نہیں اور غیر حلیہ پر تمثل شیطان جائز ہے پس اس زمانہ کے لوگوں کے لئے زیارت حقہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اُس زیارت کے ساتھ بعض ایسے خوارق اور علامات خاصہ بھی ہوں جن کی وجہ سے اُس رئویا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے مثلاً رسول اللہ صلعم بعض بشارتیں پیش از وقوع بتلادیں یا بعض قضاوقدر کے نزول کی باتیں پیش از وقوع مطلع کردیں یا بعض دعائوں کی قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقائق و معارف بتلادیں جو پہلے قلم بند اور شائع نہیں ہوچکے تو بلاشبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی.ورنہ اگر ایک شخص دعویٰ کرے جو رسول اللہ صلعم میری خواب میں آئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ فلاں شخص بے شک کافر اور دجّال ہے اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ یہ رسول اللہ صلعم کا قول ہے یا شیطان کا یا خود اس خواب بین نے چالاکی کی راہ سے یہ خواب اپنی طرف سے بنالی ہے سو اگر میر صاحب میں درحقیقت یہ قدرت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلعم ان کی خواب میں آجاتے ہیں تو ہم میر صاحب کو یہ تکلیف دینا نہیں چاہتے کہ وہ ضرور ہمیں دکھادیں بلکہ وہ اگر اپنا ہی دیکھنا ثابت کردیں اور علامات اربعہ مذکورہ بالا کے ذریعہ سے اس بات کو بپایۂ ثبوت پہنچا دیں کہ درحقیقت انہوں نے آنحضرت صلعم کو دیکھا ہے تو ہم قبول کرلیں گے اور اگر انہیں مقابلہ کا ہی شوق ہے تو اس سیدھے طور سے مقابلہ کریں جس کا ہم نے اس اشتہار میں ذکر کیا ہے ہمیں بِالفعل ان کی رسول بینی میں ہی کلام ہے چہ جائیکہ ان کی رسول نمائی کے دعویٰ کو قبول کیا جائے پہلا مرتبہ آزمائش کا تو یہی ہے کہ آیا میر صاحب رسول بینی کے دعویٰ میں صادق ہیں یا کاذب اگر صادق ہیں تو پھر اپنی کوئی خواب یا کشف شائع کریں جس میں یہ بیان ہو کہ رسول اللہ صلعم کی زیارت ہوئی اور آپ نے اپنی زیارت کی علامت فلاں فلاں پیشگوئی اور قبولیت دعا اور انکشاف حقائق و معارف کو بیان فرمایا پھر بعد اس کے رسول نمائی کی دعوت کریں اور یہ عاجز حق کی تائید کی غرض سے اس بات کے لئے

Page 337

حاضر ہے کہ میر صاحب رسول نمائی کا اعجوبہ بھی دکھلاویں قادیان میں آجائیں مسجد موجود ہے ان کے آنے جانے اور خوراک کا تمام خرچ اس عاجز کے ذمہ ہوگا اور یہ عاجز تمام ناظرین پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف لاف و گزاف ہے اور کچھ نہیں دکھلا سکتے.اگر آئیں گے تو اپنی پردہ دری کرائیں گے.عقل مند سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے بیعت کی، مریدوں کے حلقہ میں داخل ہوا اور مدت دس سال سے اس عاجز کو خلیفۃ اللہ اور امام اور مجدّد کہتا رہا اور اپنی خوابیں بتلاتا رہا کیا وہ اس دعویٰ میں صادق ہے.میر صاحب کی حالت نہایت قابل افسوس ہے خدا اُن پر رحم کرے.پیشگوئیوں کے منتظر رہیں جو ظاہر ہوں گی.ازالہ اوہام کے صفحہ ۸۵۵ کو دیکھیں ازالہ اوہام کے صفحہ ۶۳۵.اور ۳۹۶ کو بغور مطالعہ کریں.اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں.جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے وَ یَسْئَلُوْنَکَ أَحَقٌّ ھُوَ.قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْ اِنَّہٗ لَحَقٌّ وَ مَا اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ.زَوَّجْنَاکَھَا لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِیْ.وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ.اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے.کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے.ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کر منہ پھیرلیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکّافریب یا پکّا جادو ہے. وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنْ فَھِمَ اَسْرَارَنَا وَ ا تَّبَعَ الْھُدٰی الناصح المشفق خاکسار غلام احمد قادیانی.۲۷؍دسمبر ۱۸۹۱ء (یہ اشتہار آسمانی فیصلہ بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر تقطیع کلاں ٹائٹل کے آخری دو صفحوں پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۴۳ تا ۳۵۰)

Page 338

 اطلاع تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی بُرہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہوجائے سو اس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہیے اور دعا کرنا چاہیے کہ خدائے تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہیے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہریک کے لئے بباعث ضعف فطرت یا کمی ٔ مقدرت یا بُعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے آوے کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعالِ شوق نہیں کہ ملاقات کیلئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں لہٰذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کیلئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرطِ صحت و فرصت و عدمِ موانع قویہّ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیںسو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ ؍دسمبرسے ۲۹ ؍دسمبر تک قرار پائے یعنی آج کے دن کے بعد جو تیس۳۰ دسمبر ۱۸۹۱ء

Page 339

ہے آئندہ اگر ہماری زندگی میں ۲۷؍ دسمبر کی تاریخ آجاوے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربّانی باتوں کے سننے کیلئے اور دعا میں شریک ہونے کیلئے اس تاریخ پر آجانا چاہیے اور اس جلسہ میں ایسے حقایق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کیلئے ضروری ہیں اور نیز اُن دوستوں کیلئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہ ِارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال میں جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اس کیلئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کیلئے اوران کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کیلئے بدرگاہ حضرت عزت جَلَّ شَانُـہٗ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے اور کم مقدرت احباب کیلئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں.اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑا سرمایہ خرچ سفر کیلئے ہر روز یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلادقت سرمایہ سفر میسر آجاوے گا گویا یہ سفر مفت میسر ہوجائے گا اور بہتر ہوگا کہ جو صاحب احباب میں سے اس تجویز کو منظور کریں وہ مجھ کو ابھی بذریعہ اپنی تحریر خاص کے اطلاع دیں تاکہ ایک علیحدہ فہرست میں ان تمام احباب کے نام محفوظ رہیں کہ جو حتی الوسع والطاقت تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے کیلئے اپنی آئندہ زندگی کیلئے عہد کر لیں اور بدل و جان پختہ عزم سے حاضر ہو جایا کریں بجز ایسی صورت کے کہ ایسے موانع پیش آجائیں جن میں سفر کرنا اپنی حدِّ اختیار سے باہر ہوجائے.اور اب جو ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کو دینی مشورہ کے لئے جلسہ کیا گیا.اِس جلسہ پر جس قدر احباب محض لِلّٰہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے خدا ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہریک قدم کا ثواب ان کو عطا فرماوے.آمین ثم آمین

Page 340

اعلان ہمارے پاس کچھ جلدیں رسالہ فتح اسلام و توضیح مرام موجود ہیں جن کی قیمت ایک روپیہ ہے اور کچھ جلدیں کتاب ازالہ اوہام موجود ہیں جن کی قیمت فی جلد تین روپیہ ہے محصول ڈاک علاوہ ہے جو صاحب خرید کرنا چاہیں منگوالیں.پتہ یہ ہے قادیان ضلع گورداسپور بنام راقم رسالہ ہذا یا اگر چاہیں تو بمقام پٹیالہ میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس دفتر نہر سے لے سکتے ہیں.اور نیز یہ کتابیں پنجاب پریس سیالکوٹ میں مولوی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع کے پاس بھی موجود ہیں وہاں سے بھی منگوا سکتے ہیں.(یہ اشتہار آسمانی فیصلہ بار اوّل تقطیع کلاں مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر کے ٹائیٹل کے دوسرے صفحہ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۵۱ تا ۳۵۳)

Page 341

 ڈاکٹر جگننا۱؎تھ صاحب ملازم ریاست جموں کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت میرے مخلص دوست اور للّہی رفیق اخویم حضرت مولوی حکیم نورِ دین صاحب فانی فی ابتغائِ مرضاتِ ربّانی ملازم و معالج ریاست جموں نے ایک عنایت نامہ۲؎ مورخہ ۷ ؍جنوری ۱۸۹۲ء ۱؎ چونکہ یہ اشتہار حضرت اقدس علیہ السلام نے جلی لکھا تھا اس لئے جلی نقل کیا گیا (مرتب ) ۲؎ نوٹ.حضرت مولوی صاحب کے محبت نامہ موصوفہ کے چند فقرہ لکھتا ہوں غور سے پڑھنا چاہیے تا معلوم ہو کہ کہاں تک رحمانی فضل سے ان کو انشراح صدر و صدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں.’’عالی جناب مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو.اللہ کی رضا مندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہوسکے طیار ہوں اگر آپ کے مشن کو انسانی خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ نابکار(مگر محب انسان) چاہتا ہے کہ اس کام میں کام آوے‘‘.تَمَّ کَلَامُہٗ جَزَاہُ اللّٰہٗ.حضرت مولوی صاحب جو انکسار اور ادب اور ایثار مال و عزت اور جان فشانی میں فانی ہیں وہ خود نہیں بولتے بلکہ ان کی روح بول رہی ہے.درحقیقت ہم اسی وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہم اس کو واپس دیں یا واپس دینے کیلئے تیار ہوجائیں.ہماری جان اس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے کہ اَنْ .۳؎ سرکہ نہ درپائے عزیزش رود بارِگران ست کشیدن بدوش۴؎ منہ ۳؎ النساء: ۵۹ ۴؎ ترجمہ.وہ سر جو محبوب کے قدموں میں قربان نہ ہو اسے کندھوں پر اٹھائے رکھنا ایک بار گراں ہے.

Page 342

اس عاجز کی طرف بھیجا ہے جس کی عبارت کسی قدر نیچے لکھی جاتی ہے اور وہ یہ ہے.خاکسار نابکار نور الدین بحضور خدّام والا مقام حضرت مسیح الزمان سَلَّمَہُ الرَّحْمٰن.اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُـہٗ کے بعد بکمال ادب عرض پرداز ہے.غریب نواز.پر یروز ایک عرضی خدمت میں روانہ کی اس کے بعد یہاں جموں میں ایک عجیب طوفانِ بے تمیزی کی خبر پہنچی جس کو بضرورت تفصیل کے ساتھ لکھنا مناسب سمجھتاہوں.ازالہ اوہام ۱؎ میں حضور والا نے ڈاکٹر جگن ناتھ کی نسبت ارقام فرمایا ہے کہ وہ گریز کر گئے اب ڈاکٹر صاحب نے بہت سے ایسے لوگوں کو جو اس معاملہ سے آگاہ تھے کہا ہے.سیاہی سے یہ بات لکھی گئی ہے سرخی سے اس پر قلم پھیر دو میں نے ہرگز گریز نہیں کیا اور نہ کسی نشان کی تخصیص چاہی مردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور نہ خشک درخت کا ہرا ہونا.یعنی بلا تخصیص کوئی نشان چاہتا ہوں جو انسانی طاقت سے بالاتر ہو.اب ناظرین پر واضح ہو کہ پہلے ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کو تخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مردہ زندہ کرنا وغیرہ اس پر ان کی خدمت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص ناجائز ہے خدائے تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے اور جب کہ نشان کہتے ہی اس کو ہیں کہ جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہوتو پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے.کسی نشان کے آزمانے کیلئے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں ا س کی نظیر پیدا نہ کرسکیں اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا اب پھر ۱؎ یہ ذکر ازالہ اوہام حصہ دوم ایڈیشن اول کے صفحہ ۷۷۹ پر ہے.(مرتب)

Page 343

ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرماکر اپنی اس پہلی قید کو اٹھالیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو.لہٰذا آج ہی کی تاریخ یعنی ۱۱؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو بروز دوشنبہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکرراً دعوت حق کے طور پر ایک خط رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ اگر آپ بلاتخصیص کسی نشان دیکھنے پرسچے دل سے مسلمان ہونے کیلئے تیار ہیں تو اخبارات ۱؎ مندرجہ حاشیہ میں حلفاًیہ اقرار اپنی طرف سے شائع کردیںکہ میں جو فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں ریاست جموں میں برعہدہ ڈاکٹری متعین ہوں اس وقت حلفاًاقرار صحیح سراسر نیک نیتی اور حق طلبی اور خلوص دل سے کرتا ہوں کہ اگر میں اسلام کی تائید میں کوئی نشان دیکھوں جس کی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آجائوں اور انسانی طاقتوں میں اس کا کوئی نمونہ انہیں تمام لواز م کے ساتھ دکھلا نہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہوجائوں گا اس اشاعت اور اس اقرار کی اس لئے ضرورت ہے کہ خدائے قیّوم وقدّوس بازی اور کھیل کی طرح کوئی نشان دکھلانا نہیں چاہتا جب تک کوئی انسان پوری انکسار اور ہدایت یابی کی غرض سے اس کی طرف رجوع نہ کرے تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے اور چونکہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوں کے ظہور کیلئے ایک سال کے وعدہ پر اشتہار دیا ہے سو وہی میعاد ڈاکٹر صاحب کیلئے قائم رہے گی طالب حق کیلئے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں.اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میری مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز ۱؎ پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور اور ناظم الہند لاہور اور اخبار عام لاہور اور نورافشاںلدھیانہ.

Page 344

کریں وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں.ہماں بہ کہ جاں در رہِ او فشانم جہاں را چہ نقصاں اگر من نمانم۱؎ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المعــــــــــــــــــــــــــــــــلن المشــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی عفی اللہ عنہ یاز دہم جنوری ۱۸۹۲؁ء (منقول از رسالہ آسمانی فیصلہ صفحہ ۱۷،۱۸ تقطیع کلاں.ایڈیشن اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر) (روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۳۸ تا ۳۴۰) ۱؎ ترجمہ.یہی بہتر ہے کہ میں اُس کی راہ میں جان قربان کردوں.اگر میں نہ رہوں تو دنیا کا کیا نقصان ہے.

Page 345

منصفین کے غور کے لائق یہ بات بالکل سچ ہے کہ جب دل کی آنکھیں بند ہوتی ہیں تو جسمانی آنکھیں بلکہ سارے حواس ساتھ ہی بند ہوجاتے ہیں پھر انسان دیکھتا ہوا نہیں دیکھتا اور سنتا ہو۱ نہیں سنتا اور سمجھتا ہوا نہیں سمجھتا اور زبان پر حق جاری نہیں ہوسکتا.دیکھو ہمارے محجوب مولوی کیسے دانا کہلا کر تعصب کی وجہ سے نادانی میں ڈوب گئے دینی دشمنوں کی طرح آخر افترائوں پر آگئے.ایک صاحب اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ ایک اپنے لڑکے کی نسبت الہام سے خبردی تھی کہ یہ باکمال ہوگا حالانکہ وہ صرف چند مہینہ جی کر مر گیا.مجھے تعجب ہے کہ ان جلد باز مولویوں کو ایسی باتوں کے کہنے کے وقت کیوں   ۱؎ کی آیت یاد نہیں رہتی اور کیوں یکدفعہ اپنے باطنی جذام اور عداوت اسلام کو دکھلانے لگے ہیں اگر کچھ حیا ہو تو اب اس بات کا ثبوت دیں کہ اس عاجز کے کس الہام میں لکھا گیا ہے کہ وہی لڑکا جو فوت ہوگیا درحقیقت وہی موعود لڑکا ہے الہام الٰہی میں صرف اجمالی طور پر خبر ہے کہ ایسا لڑکا پیدا ہوگا اور خدا تعالیٰ کے پاک الہام نے کسی کو اشارہ کر کے مورد اس پیشگوئی کا نہیں ٹھہرایا بلکہ اشتہار فروری ۱۸۸۶ء میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ بعض لڑکے ِصغرسن میںفوت بھی ہوں گے پھر اس بچے کے فوت ہونے سے ایک پیشگوئی پوری ہوئی یا کوئی پیشگوئی جھوٹی نکلی.اب فرض کے طور پر کہتا ہوں کہ اگر ہم اپنے اجتہاد سے کسی اپنے بچہ پر یہ خیال بھی کرلیں کہ شاید یہ وہی پسر موعود ہے اور ہمارا اجتہاد خطا جائے ۱؎ آل عمران: ۶۲

Page 346

تو اس میں الہام الٰہی کا کیا قصور ہوگا کیا نبیوں کے اجتہادات میں اس کا کوئی نمونہ نہیں؟ اگر ہم نے وفات یافتہ لڑکے کی نسبت کوئی قطعی الدلالت الہام کسی اپنی کتاب میں لکھا ہے تو وہ پیش کریں جھوٹ بولنا اور نجاست کھانا ایک برابر ہے تعجب کہ ان لوگوں کو نجاست خوری کا کیوں شوق ہوگیا آ ج تک صدہا الہامی پیشگوئیاں سچائی سے ظہور میں آئیں جو ایک دنیا میں مشہور کی گئیں مگر ان مولویوں نے ہمدردی اسلام کی راہ سے کسی ایک کا بھی ذکر نہ کیا.دلیپ سنگھ کا ارادہ سیر ہندوستان و پنجاب سے ناکام رہنا صدہا لوگوں کو پیش از وقوع سنایا گیا تھا.بعض ہندوئوں کو پنڈت دیانند کی موت کی خبر چند مہینے اس کے مرنے سے پہلے بتلائی گئی تھی اور یہ لڑکا بشیر الدین محمود جو پہلے لڑکے کے بعد پیدا ہوا ایک اشتہار میں اس کی پیدائش کی قبل از تولد خبر دی گئی تھی سردار محمد حیات خان کی معطلی کے زمانہ میں ان کی دوبارہ بحالی کی لوگوں کو خبر سنادی گئی تھی.شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور پر مصیبت کا آنا پیش از وقت ظاہر کیا گیا تھا اور پھر ان کی بریّت کی خبر نہ صرف ان کو پیش از وقت پہنچائی گئی تھی بلکہ صدہا آدمیوں میں مشہور کی گئی تھی.ایسا ہی صدہا نشان ہیں جن کے گواہ موجود ہیں.کیا ان دیندار مولویوں نے کبھی ان نشانوں کا بھی نام لیا جس کے دل پر خدا تعالیٰ مہر کرے اس کے دل کو کون کھولے.اب بھی یہ لوگ یاد رکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ ضرر نہیں پہنچ سکتا.کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا.خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلا وے- اسلام کی برکتیں اب ان مگس طینت مولویوں کی َبک َبک سے رک نہیں سکتیں.خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے اَنَا الْفَتَّاحُ اَفْتَحُ لَکَ.تَرٰی نَصْرًا عَجِیْبًا وَ یَخِرُّوْنَ عَلَی الْمَسَاجِدِ.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.جَلَابِیْبُ الصِّدْقِ.فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ.اَلْخَوَارِقُ تَحْتَ مُنْتَہٰی صِدْقِ الْاَقْدَامِ.کُنْ لِلّٰہِ جَمِیْعًا وَ مَعَ اللّٰہِ جَمِیْعًا.عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا.یعنی میں فتاح ہوں تجھے فتح دوں گا ایک عجیب مدد تو دیکھے گا اور منکر یعنی بعض ان کے جن کی قسمت میں ہدایت مقدر ہے اپنی سجدہ گاہوں پر گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش ہم خطا پر تھے.یہ صدق کے جلابیب ہیں جو ظاہر ہوں گے.سو

Page 347

جیسا کہ تجھے حکم کیا گیا ہے استقامت اختیار کر.خوارق یعنی کرامات اس محل پر ظاہر ہوتی ہیں جو انتہائی درجہ صدق اقدام کا ہے.تو سارا خدا کیلئے ہو جا، تو سارا خدا کے ساتھ ہوجا.خدا تجھے اس مقام پر اٹھائے گا جس میں تُو تعریف کیا جائے گا اور ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھائوں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاںتک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اب اے مولویو.اے بخل کی سرشت والو.اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھلائو ہریک قسم کے فریب کام میں لائو اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو پھر دیکھو کہ آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی اَلمُنَبِّہ النّاصِح.مرزا غلام احمد قادیانی.جنوری ۱۸۹۲ء یہ اشتہار علیحدہ بھی شائع ہوا.اور رسالہ آسمانی فیصلہ تقطیع کلاں بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر کے صفحہ ۱۹ پر بھی ہے.(روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۴۱ و ۳۴۲)

Page 348

 عام اطلاع ۱؎ اِس عاجز نے عوام کے اوہام اور وساوس دُور کرنے کے لیے یہ بات قرین مصلحت سمجھی ہے کہ ایک جلسہ عام میں ان الزامات کا شافی جواب سنایا جاوے جو علماء اس عاجز پر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنی کتابوں میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے.کواکب کو ملائک قرار دیا ہے.معجزات اور لیلۃ القدر سے انکار ہے وغیرہ وغیرہ.سو ان بے جا الزامات کے رفع دفع کے لیے یہ تقریر سنائی جاوے گی اور تمام صاحبوں پر واضح رہے کہ اس جلسہ میں کوئی بحث نہیں ہو گی.بحث اور سوالات کے جواب دوسرے وقتوں میں ہو سکتے ہیں.اِس جلسہ میں صرف اپنی تقریر سُنائی جائے گی.لہٰذا عام اطلاع دی جاتی ہے کہ جو صاحب اس شرط سے تشریف لانا چاہیں کہ صرف اس عاجز کی تقریر کو سُنیں اور اپنی طرف سے کوئی کلمہ مُنہ سے نہ نکالیں وہ اس تقریر کے سُننے کے لیے چونی منڈی کوٹھی منشی میراں بخش صاحب میونسپل کمشنر میں بتاریخ ۳۱؍ جنوری ۱۸۹۲ء بروز یک شنبہ بوقت ڈیڑھ بجے دن کے تشریف لاویں.اور واضح رہے کہ اس جلسہ میں کسی قدر اس طریق فیصلہ کے بارے میں تقریر ہو گی.جو انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سچوں کی تائید میں خود آسمان سے اس فیصلہ کو ظاہر کرتا ہے تا جھوٹے چالاک زبان دراز کو ملزم اور ساکت اور ذلیل کرے.فقط.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المطّلع.میرزا غلام احمد عفی عنہ قادیانی مقام لاہور (مطبوعہ مصطفائی پریس لاہور) مورخہ ۲۸؍ جنوری ۱۸۹۲ء (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۹۳، ۹۴) ۱؎ یہ اشتہار شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم سے لے کر نقل کیا گیا ہے.(مرتب)

Page 349

  جو مباحثہ لاہور میں مولوی عبد الحکیم صاحب اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے درمیان چند روز سے بابت مسئلہ دعوئے نبوت مندرجہ کتب مرزا صاحب کے ہو رہا تھا.آج مولوی صاحب کی طرف سے تیسرا پرچہ جواب الجواب کے جواب میں لکھا جا رہا تھا.اثنائے تحریر میں مرزا صاحب کی عبارت مندرجہ ذیل کے بیان کرنے پر جلسہ عام میں فیصلہ ہو گیا جو عبارت درج ذیل ہے.المرقوم ۳؍ فروری ۱۸۹۲ ء مطابق ۳؍ رجب ۱۳۰۹ ھ العبد برکت علی وکیل چیف کورٹ پنجاب العبد محی الدین المعروف صوفی العبد خاکسار رحیم بخش العبد فضل دین العبد  العبد رحیم اللہ العبد ابویوسف محمد مبارک علی العبد حبیب اللہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ خَاتَمَ النَّبِیِّین.امّا بعد.تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام و توضیح مرام و ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدّث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدّثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے.یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پرمحمول نہیں ہیں بلکہ صرف سادگی سے اس کے لغوی معنوں کے رو سے بیان کئے گئے ہیں.ورنہ حَاشَا وَ کَلَّا.مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں کتاب ازالہ اوہام کے صفحہ ۱۳۷ میں لکھ چکا ہوں.میرا اس بات پر ایمان ہے کہ ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.سو میں تمام مسلمان بھائیوں

Page 350

کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں پر یہ الفاظ شاق ہیں تو وہ ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدّث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں.کیونکہ کسی طرح مجھ کو مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق ڈالنا منظور نہیں ہے.جس حالت میں ابتداء سے میری نیّت میں جس کو اللہ جَلَّ شَانُـہٗ خوب جانتا ہے اس لفظ نبی سے مُراد نبوت حقیقی نہیں ہے بلکہ صرف محدّث مُراد ہے جس کے معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مُکَلََّم مراد لئے ہیں.یعنی محدثوں کی نسبت فرمایا ہے.عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ فِیْمَنْ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ رِجَالٌ یُکَلِّمُوْنَ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّکُوْنُوْا اَنْبِیَآئَ فَاِنْ یَّکُ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْھُمْ اَحَدٌ فَعُمَرُ.صحیح بخاری جلد اوّل صفحہ ۵۲۱ پارہ ۱۴ باب مناقب عمرؓ.تو پھر مجھے اپنے مسلمان بھائیوں کی دلجوئی کے لیے اس لفظ کو دوسرے پیرایہ میں بیان کرنے سے کیا عذر ہو سکتا ہے.سو دوسرا پیرایہ یہ ہے کہ بجائے لفظ نبی کے محدّث کا لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اس کو (یعنی لفظ نبی کو) کاٹا ہوا خیال فرما لیں.اور نیز عنقریب یہ عاجز ایک رسالہ مستقلہ نکالنے والا ہے.جس میں ان شبہات کی تفصیل اور بسط سے تشریح کی جائے گی جو میری کتابوں کے پڑھنے والوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں اور میری بعض تحریرات کو خلاف عقیدہ اہلِ سنت و الجماعت خیال کرتے ہیں.سو مَیں انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب ان اوہام کے ازالہ کے لیے پوری تشریح کے ساتھ اس رسالہ میں لکھ دوں گا اور مطابق اہل سُنّت و الجماعت کے بیان کر دوں گا.راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی مؤلّف رسالہ توضیح مرام و ازالۃ الاوہام  ۳؍ فروری ۱۸۹۲ ء (محمدی پریس لاہور) غلام نبی سنگ ساز و کاتب (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ۴ ۹ تا ۹۶)

Page 351

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اس عاجز کے ایک مخلص دوست جو سلسلہ مبائعین میں داخل ہیں اور خاص مکہ معظمہ کے رہنے والے ہیں.جو ان، صالح اور پرہیزگار.جس کا کسی قدر ذکر خیر رسالہ ازالہ اوہام میں موجود ہے.بعض مالی حوادث کی وجہ سے اس ملک ہند میں تشریف لائے تھے اور مدت چار سال سے اس انتظار میں رہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فتوح غیب میسر آوے تا کسی قدر با سامان ہو کر اپنے وطن مقدس کی طرف مراجعت فرما ویں لیکن اﷲجَلَّ شَانُـہٗ کی مشیت سے آج تک ایسا اتفاق نہ ہوا.اور مسلمانوں نے حق ہمدردی کا پورا نہ کیا.اس عرصہ میں صاحب موصوف ہماری جماعت میں داخل ہوئے اور ایک مدّت سے میری صحبت میں ہیں اور میں دن رات نظر تعمق سے اُن کے حالات کو دیکھتا اور جانچتا ہوں.فی الواقعہ وہ صالح اور تفرقہ زدہ اور قابل رحم ہیں.اور اس قدر حالت عُسر اور تنگدستی میں مبتلا ہیں کہ دس کوس تک چلنے کے لیے ان کے پاس زادِ راہ نہیں ہے چہ جائیکہ اپنے وطن مانوس میں پہنچ سکیں یا اپنے ما فات کا تدارک کر سکیں.لہٰذا مَیں محض لِلّٰہ اپنے تمام بھائیوں کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ جیسا اﷲ جلّشانہٗ نے فرمایا ہے  ۱؎ اور نیز فرماتا ہے ۲؎. ۳؎.اپنے اس غریب بھائی اور مسافر اور تفرقہ زدہ اور ہموطن ہمارے سیّد و مولیٰ رسول اﷲؐ کی اپنی مقدرت اور وسعت کے موافق ہمدردی اور خدمت کریں ۱؎ المائدۃ: ۳ ۲؎ العصر: ۴ ۳؎ البلد : ۱۸

Page 352

اور اس خدمت کی بجا آوری میں کوئی فوق الطاقت امر مقصود نہیں ہے بلکہ جو شخص ایک پیسہ دینے کی توفیق رکھتا ہے.وہ پیسہ دیوے.اور جو شخص ایک روپیہ دے سکتا ہے وہ روپیہ ادا کرے بلکہ توفیق پر کچھ موقوف نہیں ہے.اپنے انشراح صدر کے لحاظ سے کم و بیش چندہ میں شریک ہو جائیں.یعنی اگر کوئی اپنی خوشی کی خاطر اور پوری پوری انشراح سے زیادہ دینے پر قادر ہو وہ زیادہ دیوے.اور کچھ گرانی ہو تو ایک پیسہ یا ایک کوڑی کافی ہے.ہماری طرف سے تاکید یہ ہے کہ کوئی شخص ہماری جماعت میں سے بکلّی ثواب سے محروم نہ رہے.اور اس ناجائز حیا اور شرم کی وجہ سے کہ بہت دینے کو دل نہیں چاہتا اور ایک پیسہ یا ایک پائی دینا اپنی مقدرت سے کمتر ہے امر صالح کو نہ چھوڑے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں کوئی ایسا شخص مصیبت زدہ نہیں کہ وہ ایک پیسہ دینے پر بھی قادر نہ ہو سکے اور اس چندہ کے لیے میں نے یہ انتظام کیا ہے کہ اس روپیہ کے تحویل دار منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے پنجاب لاہور مقرر کئے گئے ہیں.ہر ایک صاحب جو چندہ دینا چاہیں وہ براہ راست منشی صاحب موصوف کی خدمت میں بھیج دیں.اور میرے نزدیک مناسب ہے کہ جس شہر کی جماعت کو اس چندہ پر اطلاع ہو وہ الگ الگ اپنا چندہ ارسال نہ کریں.بلکہ تمام صاحبوں کا جو اس شہر میں رہتے ہوں ایک جگہ چندہ جمع کر کے وہ رقم اکٹھی منشی صاحب کی خدمت میں بھیجی جاوے اور اس میں تاخیر اور توقف جائز نہیں.بہت جلد اس پر عمل کرنا چاہیے.اور اس جگہ قرین مصلحت سمجھ کر چند خاص دوستوں کے نام ذیل میں لکھے جاتے ہیں جنہوں نے آج ۱۷؍ مارچ ۹۲ء کو چندہ دیا.فہرست چندہ دہندگان مرزا غلام احمد (صاحب) .مولوی محمد احسن صاحب ۸؍.حاجی عبد المجید خاں صاحب لدھانوی۸؍.محمد خاں صاحب کپورتھلہ ۸؍.ظفر احمد صاحب کپورتھلہ ۸؍.مولوی محمد حسین صاحب سلطان پور۴؍ چودھری امیر الدین گڑھ شنکر ۴؍.رحمت اﷲ صاحب لدھانوی.انگشتری.شیخ عبد الرحمن لدھانوی سہ پائی.شیخ برکت علی گورداسپور ۴؍.نجم الدین صاحب ۴؍.رستم علی ڈپٹی انسپکٹر .المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار مرزا غلام احمد از جالندھر.۱۷؍ مارچ ۹۲ء (مطبوعہ مطبع منشی فخر الدین لاہور) (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۹۶ تا ۹۸)

Page 353

 آسمانی فیصلہ کے متعلق خط و کتابت  از جانب عباس علی.بخدمت مرزا غلام احمد قادیانی.عرض ہے کہ جواب فیصلہ آسمانی مندرجہ اشاعۃ السنہ صفحہ ۵۱ جو ایک صوفی صاحب بالمقابل آپ سے بموجب آپ کے وعدے کے کرامت دیکھنے یا دکھلانے کی درخواست کرتے ہیں.بھیج کر التماس ہے کہ آپ کو اس میں جو کچھ منظور ہو تحریر فرماویں کہ اس کے موافق عملدرآمد کیا جاوے.اور مضمون صفحہ ۵۱ بغور ملاحظہ ہو کہ فریق ثانی آپ کے عاجز ہونے پر کام شروع کرے گا.الراقم عباس علی از لودہانہ ۶؍مئی ۱۸۹۲ء الجواب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی.امّابعد بخدمت میر عباس علی صاحب واضح ہو کہ آپ کا رقعہ پہنچا.آپ لکھتے ہیں جو ایک صوفی صاحب بالمقابل آپ سے بموجب آپ کے دعوے کے اشاعۃ السنہ میں کرامت دیکھنے یا دکھلانے کی

Page 354

درخواست کرتے ہیں.آپ کو اس میں جو کچھ منظور ہو تحریر فرماویں.فقط.اس کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ اگر درحقیقت کوئی صوفی صاحب اس عاجز کے مقابلہ پر اُٹھے ہیں اور جو کچھ فیصلہ آسمانی میں اس عاجز نے لکھا ہے اس کو قبول کر کے تصفیہ حق اور باطل کا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ لازم ہے کہ وہ چوروں کی طرح کارروائی نہ کریں.پردہ سے اپنا مونہہ باہر نکالیں اور مرد میدان بن کر ایک اشتہار دیں.اسی اشتہار میں بتصریح اپنا نام لکھیں اور اپنا دعویٰ بالمقابل ظاہر فرمائیں او رپھر اس طرز پر چلیں جس طرز پر اس عاجز نے فیصلہ آسمانی میں تصفیہ چاہا ہے.اور اگر وہ طرز منظور نہ ہو تو فریقین میں ثالث مقرر ہو جائیں.جو کچھ وہ ثالث حسب ہدایت اﷲ اور رسول کے رُوحانی آزمائش کا طریق پیش کریں وہی منظور کیا جائے.چوروں اور نامردوں اور مخنثوں کی طرح کارروائی کرنا کسی صوفی صافی کا کام نہیں ہے جبکہ اِس عاجز نے علانیہ اپنی طرف سے دوہزار جلد فیصلہ آسمانی کی چھپوا کر اسی غرض سے تقسیم کی ہے تا اگر اس فرقہ مکفّرہ میں کوئی صوفی اور اہل صلاح موجود ہے تو میدان میں باہر آ جائے.تو پھر بُرقع کے اندر بولنا کس بات پر دلالت کر رہا ہے.کیا یہ شخص مرد ہے یا عورت جو اپنے تئیں صوفی کے نام سے ظاہر کرتا ہے.کیا اس عاجز نے بھی اپنا نام لکھنے سے کنارہ کیا ہے؟ پھر جس حالت میں میری طرف سے مردانہ کارروائی ہے اور کھلے کھلے طور سے اپنا نام لکھا ہے تو یہ صوفی کیوں چھپتا پھرتا ہے.مناسب ہے کہ اُسی طرح مقابل پر اپنا نام لکھیں کہ میں ہوں فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں.اور اگر ایسا نہ کریں گے تو منصف لوگ سمجھ لیں گے کہ یہ کارروائی ان لوگوں کی دیانت اور انصاف اور حق طلبی سے بعید ہے.اب بالفعل اس سے زیادہ لکھنا ضرورت نہیں.جس وقت اس صوفی محجوب پردہ نشین کا چھپا ہوا اشتہار میری نظر سے گزرے گا اس وقت اس کی درخواست کا مفصّل جواب دوں گا.ابھی تک میرے خیال میں ایسے صوفی اور عنقا میں کچھ فرق معلوم نہیں ہوتا.فقط.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.الراقم خاکسار غلام احمد ۷؍ مئی ۹۲ ء مکرر یہ کہ ایک نقل اس کی چھپنے کے لیے اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ میں بھیجی گئی تا کہ یہ کارروائی مخفی نہ رہے.بالآخر یاد رہے کہ اگر اس رقعہ کے چھپنے اور شائع ہونے کے بعد کوئی صوفی صاحب میدان

Page 355

میں نہ آئے اور بالمقابل کھڑے نہ ہوئے اور مرد میدان بن کر بتصریح اپنے نام کے اشتہار شائع نہ کئے تو سمجھا جائے گا کہ دراصل کوئی صوفی نہیں.صرف شیخ بٹالوی کی ایک مفتریانہ کارروائی ہے.فقط.جواب الجواب  بَعْدَ الْحَمْدِ وَ الصَّلٰوۃِ.بخدمت میرزا غلام احمد صاحب.سلام مسنون.آپ کا عنایت نامہ مؤرخہ ۷؍ مئی میرے نیاز نامہ کے جواب میں وارد ہوا.اُسے اوّل سے آخر تک پڑھ کر سخت افسوس ہوا کہ آپ نے دانستہ ٹلانے کے واسطے سوال از آسمان جواب از ریسمان کے موافق عمل کر کے بچنا چاہا ہے اصل مطلب تو آپ نے چھوڑ دیا.یعنی آزمائش کے واسطے وقت اور مقام مقرر نہیں کیا بلکہ پھر آپ نے اپنی عادت قدیمہ کے مطابق کاغذی گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے.جناب من! جس طرح آپ نے فیصلہ آسمانی میں چھاپا تھا.اسی طرح اشاعۃ السنہ میں ان صوفی صاحب نے جواب تُرکی بہ تُرکی شائع کر دیا ہے.آپ کو تو غیرت کر کے بلا تحریک دیگرے خود ہی طیار ہو جانا چاہیے تھا.برعکس اس کے تحریک کرنے پر بھی آپ بہانہ کرتے ہیں اور ٹلاتے ہیں.صوفی صاحب نے خود قصداً اپنا نام پوشیدہ نہیں رکھا بلکہ مولوی محمد حسین صاحب نے کسی مصلحت سے ظاہر نہیں کیا.ناحق آپ نے کلمات گستاخانہ صوفی صاحب کی نسبت لکھ کر ارتکاب عصیان کیا.سو آپ کو اس سے کیا بحث ہے.آپ کو تو اپنے دعویٰ کے موافق تیار ہونا چاہیے.مولوی محمد حسین صاحب خود ذمہ وار ہیں.فوراً مقابلہ پر موجود کر دیں گے.لہٰذا اب آپ ٹلائیں نہیں.مرد میدان بنیں اور صاف لکھیں کہ فلاں وقت اور فلاں جگہ پر موجود ہو کر سلسلہ آزمائش و اظہار کرامت متدعو یہ شروع کیا جائے گا.یہ عاجز بصد عجزونیاز عرض کرتا ہے کہ آپ اپنے دعویٰ میں اگر سچے ہو تو حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو.میدان میں آئو.دیکھو یا دکھائو.صاف باطن لوگ دغل باز نہیں ہوتے.حیلہ بہانہ نہیں کیا کرتے.برکات آسمانی والے کمیٹیاں مقرر کیا کرتے ہیں رجسٹر کھلوایا کرتے ہیں.اس قسم کی کارروائی صرف دھوکہ دینا اور

Page 356

دفع الوقتی پر مبنی ہے.افسوس صد افسوس.اﷲ سے ڈرو.قیامت کو پیش نظر رکھو.ایسی مُریدی پیری پر خاک ڈالو.جس مطبع میں آپ اپنا مضمون چھاپنے کے لیے بھیجیں اس عاجزکے مضمون کو بھی زیرقدم چھاپ دیں.عریضہ نیاز.میر عباس علی از لدھیانہ.روز دو شنبہ ۹ ؍ مئی ۱۸۹۲ء جواب جواب الجواب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.بعد ہذا بخدمت میر عباس علی صاحب واضح ہو کہ آپ کا جواب الجواب مجھ کو ملا.جس کے پڑھنے سے بہت ہی افسوس ہوا.آپ مجھ کو لکھتے ہیں کہ صوفی صاحب کے مقابلہ پر مرد میدان بنیں.اگر سچے ہو تو حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو.آپ کی اس تحریر پر مجھ کو رونا آتا ہے.صاحب مَیں نے کب اور کس وقت حیلہ بہانہ کیا.کیا آپ کے نزدیک وہ صوفی صاحب جن کے نام کا بھی اب تک کچھ پتہ و نشان نہیں میدان میں کھڑے ہیں.مَیں نے آپ کو ایک صاف اور سیدھی بات لکھی تھی کہ جب تک کوئی مقابل پر نہ آوے اپنا نام نہ بتاوے.اپنا اشتہار شائع نہ کرے کس سے مقابلہ کیا جائے.میں کیونکر اور کن وجوہ سے اس بات پر تسلی پذیر ہو جائوں کہ آپ یا شیخ بٹالوی اس صوفی گمنام کی طرف سے وکیل بن گئے ہیں.کوئی وکالت نامہ نہ آپ نے پیش کیا اور نہ بٹالوی نے.اور اب تک مجھے معلوم نہیں ہوا کہ اس صوفی پردہ نشین کو وکیلوں کی کیوںضرورت پڑی.کیا وہ خود ستر میں ہے یا دیوانہ یا نابالغ.بجُز اس کے کیا سمجھنا چاہیے کہ اگر فرض کے طورپر کوئی صوفی ہی ہے تو کوئی فضول گو اور مفتری آدمی ہے جو بوجہ اپنی مفلسی اور بے سرمائیگی کے اپنی شکل دکھلانی نہیں چاہتا.مَیں متعجب ہوں.یہ سیدھی بات آپ کو سمجھ نہیں آتی.یہ کس قسم کی بات ہے کہ صوفی تو عورتوں کی طرح چھپتا پھرے اور مرد میدان بن کر میرے مقابلہ پر نہ آوے اور الزام اس عاجز پر ہو کہ کیوں صوفی کے مقابل

Page 357

پر کھڑے نہیں ہوتے.صاحب من! میں تو بحکم اﷲ جَلَّ شَانُـہٗ کھڑا ہوں اور خدا تعالیٰ کے یقین دلانے سے قطعی طور پر جانتا ہوں کہ اگر کوئی صوفی وغیرہ میرے مقابل آئے گا.تو خدا تعالیٰ اس کو سخت ذلیل کرے گا.یہ میں نہیں کہتا بلکہ اس واحد لاشریک عَزَّ اِسْمُہٗ نے مجھ کو خبر دی ہے جس پر مجھ کو بھروسہ ہے.ایسے صوفیوں کی مَیں کس سے مثال دوں وہ ان عورتوں کی مانند ہیں جو گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھیں اور پھر کہیں کہ ہم نے مردوں پر فتح پائی.ہمارے مقابل پر کوئی نہ آیا.مَیں پھر مکرر کہتا ہوں کہ بٹالوی کی تحریر سے مجھ کو سخت شُبہ ہے اور اس کے ہر روزہ افترا پر خیال کر کے میرے دل میں یہی جما ہوا ہے کہ یہ صوفی کا تذکرہ محض فرضی طور پر اس نے اپنی اشاعۃ السنّہ میں لکھ دیا ہے ورنہ مقابلہ کا دم مارنا اور پھر پردہ میں رہنا کیا راست باز آدمیوں کا کام ہے.اس صوفی کو چاہیے کہ میری طرح کھلے اشتہار دے کہ میں حسب دعوت فیصلہ آسمانی تمہارے مقابل پر آیا ہوں.اور میں فلاں ابن فلاں ہوں.اگر اس اشتہار کے شائع ہونے اور میرے پاس پہنچائے جانے کے بعد میں خاموش رہا تو جس قدر آپ نے اپنے اس خط میں ایسے الفاظ لکھے ہیں کہ ’’حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو.صاف باطن دغل باز نہیں ہوتے.‘‘ یہ سارے الفاظ آپ کے میری نسبت صحیح ٹھہریں گے ورنہ دشنام دہی سے زیادہ نہیں.جب انسان کی آنکھ بند ہو جاتی ہے تو اس کو روز روشن بھی رات ہی معلوم ہوتی ہے.اگر آپ کی آنکھ میں ایک ذرّہ بھی نُور باقی ہوتا تو آپ سمجھ لیتے کہ حیلہ بہانہ کون کرتا ہے.کیا وہ شخص جس نے صاف طور پر دو ہزار اشتہار تقسیم کر کے ایک دنیا پر ظاہر کر دیا کہ میں میدان میں کھڑا ہوں.کوئی میرے مقابل پر آوے یا وہ شخص کہ چوروں کی طرح غار کے اندر بول رہا ہے.جو لوگ حق کو چھپاتے ہیں.خدا تعالیٰ کی ان پر لعنت ہے.پس اگر یہ صوفی درحقیقت کوئی انسان ہے تو محمد حسین کی ناجائز وکالتوں کے بُرقع میں مخفی نہ رہے اور خدا تعالیٰ کی لعنت سے ڈرے.اگر اس کے پاس حق ہے تو حق کو لے کر میدان میں آ جائے.جبکہ مجھ کو کوئی معیّن شخص سامنے نظر نہیں آتا تو میں کس سے مقابلہ کروں.کیا مُردہ سے یا ایک فرضی نام سے.اور آپ کو یاد رہے کہ اگر میری نظر میں یہ صوفی ایک خارجی وجود رکھتا تو مَیں جیسا کہ میر ے پر ظاہر ہوتا اس کے مرتبہ کے لحاظ سے باخلاق اس سے کلام کرتا.مگر جبکہ

Page 358

میری نظر میں صرف یہ ایک فرضی نام ہے جس کا میرے خیال میں خارج میں وجود ہی نہیں تو اس کے حق میں سخت گوئی محض ایک فرضی نام کے حق میں سخت گوئی ہے.ہاں سخت گوئی آپ نے کی ہے سو میں آپ کے اس ترک ادب اور لعن طعن اور سبّ اور شتم کو خدا تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں.فقط راقم مرزا غلام احمد مکرر واضح رہے کہ اب اتمام حجت کر دیا گیا.آئندہ ہماری طرف ایسی پُرتعصّب تحریریں ہرگز ارسال نہ کریں.جب یہ تحریریں چھپ جائیں گی منصف لوگ خود معلوم کرلیں گے کہ کس کی بات انصاف پر مبنی ہے اور کس کی سراسر ظلم اور تعصب سے بھری ہوئی ہے.میرزا غلام احمد.۹؍ مئی ۱۸۹۲ء.۱۱ عید الفطر ۱۳۰۰ھ (مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ) یہ اشتہار کے دو صفحوں پر ہے جو ضمیمہ پنجاب گزٹ سیالکوٹ مورخہ ۱۴؍ مئی ۱۸۹۲ء میں طبع ہوا ہے.(مرتب) (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۹۸ تا ۱۰۳)

Page 359

گئے کیونکہ شیخ صاحب موصوف نے ہمدردی قوم کے لحاظ سے بہت سا اپنی قیمتی وقت اس مصالحت کی انجام دہی میں خرچ کیا اور کوشش بلیغ فرمائی.مصالحت کرانے والوںنے مسودہ مجوزہ کو پسند فرما کہ کہا کہ یہ مسودہ اب کسی طرح قابل اعتراض نہیں.البتہ اس میں لفظ لعنت ثقیلہے اس کو کسی طرح بدل دیا جاوے.راقم نے اس پر بھی رضامندی ظاہر کی اور بجائے لفظ لعنت کے مسودہ کی صورت حسب ذیل تجویز کر دی کہ مَیں اس مقدمہ کو انصاف کے لئے خدا تعالیٰ کی عدالت میں سپرد کرتاہوں.جب یہ مسّودہ مولوی کریم دین کے پاس پیش کیا گیا تو اس نے منظور نہ کیا اور یہ عذر پیش کیا کہ مَیں قسم نہیں کھاتا.حالانکہ عدالت میں بھی بیان اس کا حلفیہ ہو چکا تھا اور جب اس کے حلفیہ بیان کی مصدقہ نقل دکھلا کر اس کو کہا گیا کہ تم نے جب عدالت میں رو بروئے رائے چندولعل صاحب مجسٹریٹ حلفیہ بیان باقرار صالح دیا کہ نہ مَیں نے یہ خطوط لکھے ہیں اور نہ سراج الاخبار کے مضامین میرے ہیں تو پھر وہی حلفیہ بیان اب دینا ہے.اس پر مولوی موصوف نے کہا کہ وہ ایک مجبوری تھی و اِلّا بلا ضرورت اشد قسم کھانا جائز نہیں اس لئے مَیں ۱؎ قسم نہیں کھاتا.آخر یہ تجویز ہوا کہ بجائے خدا کی قسم کے اقرار صالح لکھا جاوے اس تجویز پر ذیل کا مسودہ تجویز کیا گیا کیونکہ پہلا بیان مولوی مذکور کا باقرار صالح تھا.’’مَیں اقرار صالح سے سچ سچ اپنے ایمان سے خدا تعالیٰ کے حضو رمیں بیان کرتاہوں کہ خطوط محولہ مقدمہ جن سے مَیں نے انکار کیا ہے اور مضمون سراج الاخبار ۶؍ اکتوبر اور ۱۳ ؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء جس سے مَیں انکاری ہوں.درحقیقت وہ خطوط اور وہ مضامین ہرگز ہرگز میرے نہیں

Page 360

 ضروری گزارش اُن باہمت دوستوں کی خدمت میں جو کسی قدر امداداُمور دین کے لیے مقدرت رکھتے ہیں اے مردان بکوشید و برائے حق بجوشید اگرچہ پہلے ہی سے میرے مخلص احباب للّہی خدمت میں اس قدر مصروف ہیں کہ میں شکر ادا نہیں کرسکتا اور دعا کرتا ہوں کہ خدا وند کریم ان کو ان تمام خدمات کا دونوں جہانوں میں زیادہ سے زیادہ اجر بخشے.لیکن اس وقت خاص طور پر توجہ دلانے کیلئے یہ امر پیش آیا ہے کہ آگے تو ہمارے صرف بیرونی مخالف تھے اور فقط بیرونی مخالفت کی ہمیں فکر تھی اور اب وہ لوگ بھی جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ مولوی اور فقیہ کہلاتے ہیں سخت مخالف ہوگئے ہیں یہاں تک کہ وہ عوام کو ہماری کتابوں کے خریدنے بلکہ پڑھنے سے منع کرتے اور روکتے ہیں.اس لئے ایسی دقتیں پیش آگئی ہیں جو بظاہر ہیبت ناک معلوم ہوتی ہیں.لیکن اگر ہماری جماعت سُست نہ ہوجائے تو عنقریب یہ سب دقتیں دور ہوجائیں گی اس وقت ہم پر فرض ہوگیا ہے کہ بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کی خرابیوں کی اصلاح کرنے کیلئے بدل و جان کوشش کریں اور اپنی زندگی کو اسی راہ میں فدا کردیں اور وہ صدق قدم دکھلاویں جس سے خدائے تعالیٰ جو پوشیدہ بھیدوں کو جاننے والا اور سینوں کی چھپی ہوئی باتوں پر مطلع ہے راضی ہوجائے.اسی بنا پر میں نے قصد کیا ہے کہ اب قلم اٹھا کر پھر اس کو اس وقت تک موقوف نہ رکھا جائے

Page 361

جب تک کہ خدائے تعالیٰ اندرونی اور بیرونی مخالفوں پر کامل طور پر حجت پوری کر کے حقیقت عیسویہ کے حربہ سے حقیقت دجّالیہ کو پاش پاش نہ کرے.لیکن کوئی قصد بجز توفیق و فضل و امداد و رحمت الٰہی انجام پذیر نہیں ہوسکتا اور خدائے تعالیٰ کی بشارات پر نظر کر کے جو بارش کی طرح برس رہی ہیں اس عاجز کو یہی امید ہے کہ وہ اپنے اس بندہ کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنے دین کو اس خطرناک پراگندگی میں نہیں چھوڑے گا جو اب اس کے لاحقِ حال ہے مگر برعایت ظاہری جو طریق مسنون ہے   ۱؎ یہی کہنا پڑتا ہے.سو بھائیو جیسا میں ابھی بیان کرچکا ہوں سلسلہ تالیفات کو بلافصل جاری رکھنے کیلئے میرا پختہ ارادہ ہے اور یہ خواہش ہے کہ اس رسالہ کے چھپنے کے بعد جس کا نام نشان آسمانی ہے رسالہ دافع الوساوس طبع کرا کر شائع کیا جاوے اور بعد اس کے بلا توقف رسالہ حَیَاتُ النَّبِی وَمَمَاتُ الْمَسِیْح جو یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں بھی بھیجا جائے گاشائع ہو اور بعد اس کے بلا توقف حصہ پنجم براہین احمدیہ جس کا دوسرا نام ضرورت قرآن رکھا گیا ہے ایک مستقل کتاب کے طور پر چھپنا شروع ہو لیکن میں اس سلسلہ کے قائم رکھنے کیلئے یہ احسن انتظام خیال کرتا ہوں کہ ہر ایک رسالہ جو میری طرف سے شائع ہو میرے ذِی مقدرت دوست اس کی خریداری سے مجھ کو بدل و جان مدد دیں اس طرح پر کہ حسب مقدرت اپنی ایک نسخہ یا چند نسخے اس کے خریدلیں جن رسائل کی قیمت تین آنہ یا چار آنہ یا اس کے قریب ہو.ان کو ذی مقدرت احباب اپنے مقدور کے موافق ایک مناسب تعداد تک لے سکتے ہیں اور پھر وہی قیمت دوسرے رسالہ کے طبع میں کام آسکتی ہے.اگر میری جماعت میں ایسے احباب ہوں جو ان پر بوجہ املاک و اموال و زیورات وغیرہ کے زکوٰۃ فرض ہو تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت دینِ اسلام جیسا غریب اور یتیم اور بے کس کوئی بھی نہیں اور زکوٰۃ نہ دینے میں جس قدر تہدید شرع وارد ہے وہ بھی ظاہر ہے اور عنقریب ہے جو منکر زکوٰۃ کافر ہوجائے پس فرض عین ہے جو اسی راہ میں اعانت اسلام میں زکوٰۃ دی جاوے زکوٰۃ میں کتابیں خریدی جائیں اور مفت تقسیم کی جائیں اور میری تالیفات بجز ان رسائل کے اور بھی ہیں جو نہایت مفید ہیں جیسے رسالہ ۱؎ الصّف: ۱۵

Page 362

احکام القرآن اور اربعین فی علامات المقربین اور سراج منیر اور تفسیر کتاب عزیز.لیکن چونکہ کتاب براہین احمدیہ کا کام از بس ضروری ہے اسلئے بشرط فرصت کوشش کی جائے گی کہ یہ رسائل بھی درمیان میں طبع ہو کر شائع ہوجائیں آئندہ ہر ایک امر اللہ جَلّ شَانُـہٗ کے اختیار میں ہے یَفْعَلُ مَایَشَآئُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۲۸؍ مئی ۱۸۹۲ء (منقول از نشان آسمانی.بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر صفحہ ا، ب) (روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۰۶، ۴۰۷)

Page 363

 تبلیغِ رُوحانی  ۱؎ اگرخود آدمی کاہل نباشد در تلاشِ حق خدا خود راہ بنماید طلب گارِ حقیقت را۲؎ یہ بات قرآن کریم اور حدیث نبوی سے ثابت ہے کہ مومن رؤیا صالحہ مبشرہ دیکھتا ہے اور اس کے لئے دکھائی بھی جاتی ہیں.بالخصوص جب کہ مومن لوگوں کی نظر میں مطرود اور مخذول اور ملعون اور مردود اورکافر اور دجال بلکہ اَکْفَر اور شرّ البریّہ ہو.اس کوفت اور شکست خاطر کے وقت میں جو کچھ مکالمات پُرازلطف و احسان خدا تعالیٰ کی طرف سے مومن کے ساتھ واقع ہوتے ہیں اس کو کون جانتا ہے.رحمتِ خالق کہ حِرزِ اولیاست ہست پنہان زیر لعنت ہائے خلق۳؎ یہ عاجز خدائے تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتا کہ اس تکفیر کے وقت میں کہ ہر ایک طرف سے اس زمانہ کے علماء کی آوازیں آرہی ہیں کہ لَسْتَ مُؤْمِنًا.اللہ جَلَّ شَانُـہٗ کی طرف سے یہ ندا ہے کہ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.ایک طرف حضرات مولوی صاحبان کہہ رہے ہیں کہ کسی طرح اس شخص کی بیخ کنی کرو اور ایک طرف الہام ہوتا ہے یَتَرَبَّصُوْنَ عَلَیْکَ الدَوَآئِرَ ۱؎ یونس: ۶۵ ۲؎ ترجمہ.اگر آدمی خود ہی تلاش حق میں سست نہ ہو تو خدا آپ طالب حق کو راستہ دکھا دیتاہے.۳؎ ترجمہ.خدا کی رحمت جو اولیاء اللہ کا تعویذ ہے وہ خلقت کی لعنت کے نیچے مخفی ہوا کرتی ہے.

Page 364

عَلَیْھِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْئِ.اور ایک طرف وہ کوشش کررہے ہیں کہ اس شخص کو سخت ذلیل اور رسوا کریں اور ایک طرف خدا وعدہ کررہا ہے کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.اَللّٰہُ اَجْرُکَ.اَللّٰہُ یُعْطِیْکَ جَلَالَکَ.اور ایک طرف مولوی لوگ فتوے پر فتوے لکھ رہے ہیں کہ اس شخص کی ہم عقیدگی اور پیروی سے انسان کافر ہوجاتا ہے اور ایک طرف خدا ئے تعالیٰ اپنے اس الہام پر بتواتر زور دے رہا ہے کہ  .غرض یہ تمام مولوی صاحبان خدا تعالیٰ سے لڑ رہے ہیں اب دیکھیے کہ فتح کس کی ہوتی ہے؟ بالآخر واضح ہو کہ اس وقت میرا مدعا اس تحریر سے یہ ہے کہ بعض صاحبوں نے پنجاب اور ہندوستان سے اکثر خوابیں متعلق زیارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور نیز الہامات بھی اس عاجز کے بارہ میں لکھ کر بھیجی ہیں جن کا مضمون قریباً اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا ہے اور یا بذریعہ الہام کے خدائے تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے اس کو قبول کرو چنانچہ بعض نے ایسی خوابیں بھی بیان کیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہایت غضب کی حالت میں نظر آئے اور معلوم ہوا کہ گویا آنحضرت روضہ مقدسہ سے باہر تشریف رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمام ایسے لوگ جو اس شخص یعنی اس عاجز کو عمداًستا رہے ہیں قریب ہے جو اُن پر غضب الٰہی نازل ہو.اوّل اوّل اس عاجزنے ان خوابوں کی طرف التفات نہیں کی مگراب میں دیکھتا ہوں کہ کثرت سے دنیا میں یہ سلسلہ شروع ہوگیا یہاں تک کہ بعض لوگ محض خوابوں کے ہی ذریعہ سے عناد اور کینہ کو ترک کر کے کامل مخلصین میں داخل ہوگئے اور اسی بنا پر اپنے مالوں سے امداد کرنے لگے سو مجھے اس وقت یاد آیا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۱ ۲۴ میں یہ الہام درج ہے جس کو دس۱۰ برس کا عرصہ گزر گیا اور وہ یہ ہے.یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَائِ.یعنی ایسے لوگ تیری مدد کریں گے جن پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے سو وہ وقت آگیا.اس لئے میرے نزدیک قرین مصلحت ہے کہ جب ایک معقول اندازہ ان خوابوں اور الہاموں کا ہوجائے تو ان کو ایک رسالہ مستقلّہ کی صورت میں طبع کرکے شائع کیا جائے.کیونکہ یہ بھی ایک شہادت آسمانی اور

Page 365

نعمت الٰہی ہے اور خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ .۱؎ لیکن پہلے اس سے ضروری طور پر یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ آئندہ ہر ایک صاحب جو کوئی خواب یا الہام اس عاجز کی نسبت دیکھ کر بذریعہ خط اس سے مطلع کرنا چاہیں تو ان پر واجب ہے کہ خدائے تعالیٰ کی قسم کھاکر اپنے خط کے ذریعہ سے اس بات کو ظاہر کریں کہ ہم نے واقعی اور یقینی طور پر یہ خواب دیکھی ہے اور اگر ہم نے کچھ اس میں ملایا ہے تو ہم پر اسی دنیا اور آخرت میں لعنت اور عذاب الٰہی نازل ہو اور جو صاحب پہلے قسم کھاکر اپنی خوابیں بیان کر چکے ہیں ان کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں مگر وہ تمام صاحب جنہوںنے خوابیں یا الہامات تو لکھ کر بھیجے تھے لیکن وہ بیانات ان کے مؤکد بقسم نہیں تھے ان پر واجب ہے کہ پھر دوبارہ ان خوابوں یا الہامات کو قسم کے ساتھ مؤکد کرکے ارسال فرماویں اور یاد رہے کہ بغیر قسم کے کوئی خواب یا الہام یا کشف کسی کا نہیں لکھا جاوے گا.اور قسم بھی اس طرز کی چاہیے جو ہم نے ابھی بیان کی ہے.اس جگہ یہ بھی بطور تبلیغ کے لکھتا ہوں کہ حق کے طالب جو مؤاخذہ الٰہی سے ڈرتے ہیں وہ بلاتحقیق اس زمانہ کے مولویوں کے پیچھے نہ چلیں اور آخری زمانہ کے مولویوں سے جیسا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے ویسا ہی ڈرتے رہیں اور ان کے فتووں کو دیکھ کر حیران نہ ہوجاویں کیونکہ یہ فتوے کوئی نئی بات نہیں اور اگر اس عاجز پر شک ہو اور وہ دعویٰ جو اس عاجز نے کیاہے اس کی صحت کی نسبت دل میں شبہ ہو تو میں ایک آسان صورت رفع شک کی بتلاتا ہوں جس سے ایک طالب صادق انشاء اللہ مطمئن ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اول توبہ نصوح کرکے رات کے وقت دو رکعت نماز پڑھیں جس کی پہلی رکعت میں سورۃ یٰسین اور دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورۃ اخلاص ہو اور پھر بعد اس کے تین سو مرتبہ درود شریف اور تین سو مرتبہ استغفار پڑھ کر خدائے تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اے قادر کریم تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے اور مقبول اور مردود اور مفتری اور صادق تیری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا.پس ہم عاجزی سے تیری جناب میں التجا کرتے ہیں کہ اس شخص کا تیرے نزدیک ۱؎ الضُّحٰی:۱۲

Page 366

کہ جو مسیح موعود اور مہدی اور مجدّد الوقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا حال ہے.کیا صادق ہے یا کاذب اور مقبول ہے یا مردود.اپنے فضل سے یہ حال رؤیا یا کشف یا الہام سے ہم پر ظاہر فرما تا اگر مردود ہے تو اس کے قبول کرنے سے ہم گمراہ نہ ہوں اور اگر مقبول ہے اور تیری طرف سے ہے تو اس کے انکار اور اس کی اہانت سے ہم ہلاک نہ ہوجائیں.ہمیں ہر ایک قسم کے فتنہ سے بچا کہ ہر ایک قوت تجھ کو ہی ہے.آمین.یہ استخارہ کم سے کم دو ہفتے کریں لیکن اپنے نفس سے خالی ہو کر.کیونکہ جو شخص پہلے ہی بُغض سے بھرا ہوا ہے اور بدظنی اس پر غالب آگئی ہے اگر وہ خواب میں اس شخص کا حال دریافت کرنا چاہے جس کو وہ بہت ہی ُبرا جانتا ہے تو شیطان آتا ہے اور موافق اُس ظلمت کے جو اس کے دل میں ہے اور ُپر ظلمت خیالات اپنی طرف سے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے.پس اُس کا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہوتا ہے.سو اگر تو خدائے تعالیٰ سے کوئی خبر دریافت کرنا چاہے تو اپنے سینہ کو بکلّی بغض اور عناد سے دھو ڈال اور اپنے تئیں بکلّی خالی النفس کر کے اور دونوں پہلوئوں بغض اور محبت سے الگ ہو کر اس سے ہدایت کی روشنی مانگ کہ وہ ضرور اپنے وعدہ کے موافق اپنی طرف سے روشنی نازل کرے گا جس پر نفسانی اوہام کا کوئی دُخان نہیں ہوگا.سو اَے حق کے طالبو! ان مولویوں کی باتوں سے فتنہ میں مت پڑو اٹھو اور کچھ مجاہدہ کر کے اُس قوی اور قدیر اور علیم اور ہادی مطلق سے مدد چاہو اور دیکھو کہ اب میں نے یہ روحانی تبلیغ بھی کردی ہے آئندہ تمہیں اختیار ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المبلغ غلام احمد عفی عنہ (منقول از نشان آسمانی ایڈیشن اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر صفحہ ۳۸ تا ۴۱) (روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۹۸ تا ۴۰۱)

Page 367

 شیخ بٹالوی صاحب کے فتویٰ تکفیر کیکیفیّت اس فتویٰ کو میں نے اوّل سے آخر تک دیکھا.جن الزامات کی بناء پر یہ فتویٰ لکھا ہے انشاء اللہ بہت جلد اُن الزامات کے غلط اور خلاف واقعہ ہونے کے بارے میں ایک رسالہ اس عاجز کی طرف سے شائع ہونے والا ہے جس کا نام دافع الوساوس ہے باایں ہمہ مجھ کو ان لوگوںکے لعن و طعن پر کچھ افسوس نہیں اور نہ کچھ اندیشہ بلکہ میں خوش ہوں کہ میاں نذیر حسین اور شیخ بٹالوی اور ان کے اتباع نے مجھ کو کافر اور مردود اور ملعون اور دجّال اور ضال اور بے ایمان اور جہنمی اور اکفر کہہ کر اپنے دل کے وہ بخارات نکال لئے جو دیانت اور امانت اور تقویٰ کے التزام سے ہرگز نہیں نکل سکتے تھے اور جس قدر میری اتمام حجت اور میری سچائی کی تلخی سے ان حضرات کو زخم پر زخم پہنچا.اس صدمہ عظیمہ کا غم غلط کرنے کیلئے کوئی اور طریق بھی تو نہیں تھا بجز اس کے کہ لعنتوں پر آجاتے مجھے اس بات کو سوچ کر بھی خوشی ہے کہ جو کچھ یہودیوں کے فقیہوں اور مولویوں نے آخرکار حضرت مسیح علیہ السلام کو تحفہ دیا تھا وہ بھی تو یہی لعنتیں اور تکفیر تھی جیسا کہ اہل کتاب کی تاریخ اور ہر چہار انجیل سے ظاہر ہے تو پھر مجھے مثیل مسیح ہونے کی حالت میں ان لعنتوں کی آوازیں سن کر بہت ہی خوش ہونا چاہیے کیونکہ جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے مجھ کو حقیقت دجّالیہ کے ہلاک اور فانی کرنے کے لئے حقیقت عیسویہ سے متصف

Page 368

کیا.ایسا ہی اس نے اس حقیقت کے متعلق جو جو نوازل و آفات تھے ان سے بھی خالی نہ رکھا لیکن اگر کچھ افسوس ہے تو صرف یہ کہ بٹالوی صاحب کو اس فتویٰ کے طیار کرنے میں یہودیوں کے فقیہوں سے بھی زیادہ خیانت کرنی پڑی اور وہ خیانت تین قسم کی ہے.اوّل یہ کہ بعض لوگ جو مولویّت اور فتویٰ دینے کا منصب نہیں رکھتے وہ صرف مکفرین کی تعداد بڑھانے کیلئے مفتی قرار دیئے گئے.دوسری یہ کہ بعض ایسے لوگ جو علم سے خالی اور علانیہ فسق و فجور بلکہ نہایت بدکاریوں میں مبتلا تھے وہ بڑے عالم متشرع متصور ہو کر ان کی مہریں لگائی گئیں.تیسرے ایسے لوگ جو علم اور دیانت رکھتے تھے مگر واقعی طور پر اس فتوے پر انہوں نے مہرنہیںلگائی بلکہ بٹالوی صاحب نے سراسر چالاکی اور افترا سے خودبخود ان کا نام اس میں جڑ دیا.ان تینوں قسم کے لوگوں کے بارے میں ہمارے پاس تحریری ثبوت ہیں اگر بٹالوی صاحب یا کسی اور صاحب کو اس میں شک ہو تو وہ لاہور میں ایک جلسہ منعقد کر کے ہم سے ثبوت مانگیں.تاسیہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد.یوں تو تکفیر کوئی نئی بات نہیں ان مولویوں کا آبائی طریق یہی چلا آتا ہے کہ یہ لوگ ایک باریک بات سن کر فی الفور اپنے کپڑوں سے باہر ہوجاتے ہیں اور چونکہ خدائے تعالیٰ نے یہ عقل تو ان کو دی ہی نہیں کہ بات کی تہہ تک پہنچیں اور اسرار غامضہ کی گہری حقیقت کو دریافت کرسکیں اس لئے اپنی نافہمی کی حالت میں تکفیر کی طرف دوڑتے ہیں اور اولیاء کرام میں سے ایک بھی ایسا نہیں کہ ان کی تکفیرسے باہر رہا ہو.یہاں تک کہ اپنے مُنہ سے کہتے ہیں کہ جب مہدی موعود آئے گا تو اس کی بھی مولوی لوگ تکفیر کریں گے اور ایسا ہی حضرت عیسیٰ جب اتریں گے تو ان کی بھی تکفیر ہوگی.ان باتوں کا جواب یہی ہے کہ اے حضرات! آپ لوگوں سے خدا کی پناہ.اُوسُبْحَانَہٗ خود اپنے برگزیدہ بندوں کوآپ لوگوں کے شر سے بچاتا آیا ہے ورنہ آپ لوگوں نے تو ڈائن کی طرح امت محمدیہ کے تمام اولیاء کرام کو کھا جاناچاہا تھا اور اپنی بد زبانی سے نہ پہلوں کو چھوڑا نہ پچھلوں کو.اور اپنے ہاتھ سے ان نشانیوں کو پوری کررہے ہیں جو آپ ہی بتلارہے ہیں.تعجب کہ یہ لوگ آپس میں بھی تو نیک ظن نہیں

Page 369

رکھتے.تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ موحّدین کی بے دینی پر مدار الحق میں شاید تین سو کے قریب مہر لگی تھی پھر جب کہ تکفیر ایسی سستی ہے تو پھر ان کی تکفیروں سے کوئی کیونکر ڈرے مگر افسوس تو یہ ہے کہ میاں نذیر حسین اور شیخ بٹالوی نے اس تکفیر میں جعل سازی سے بہت کام لیا ہے اور طرح طرح کے افترا کر کے اپنی عاقبت درست کر لی ہے اس مختصر رسالہ میں ہم مفصّل ان خیانتوں کا ذکر نہیں کرسکتے جو شیخ بٹالوی نے حسب منشاء شیخ دہلوی اپنے کفرنامہ میں کام میں لا کر اپنا نامہ اعمال درست کیا ہے.صرف بطور نمونہ ایک مولوی صاحب کا خط معہ ان کے چند اشعار کے ذیل میں لکھا جاتا ہے اور وہ یہ ہے.بحضور فیض گنجور حضرت مجدد وقت مسیح الزمان مہدی دوران حضرت مرزا غلامِ احمد صاحب دَامَ بَرَکَاتُـہٗ پس از سلام سُنّتِ اسلام گزارش حال اینکہ.غریب نواز پٹیالہ سے حضور کے تشریف لے جانے کے بعد سکنائے بلدہ نے مجھ کو نہایت تنگ کیا یہاں تک کہ مساجد میں نماز اداکرنے سے بند کیا گیا میں نے اپنے بعض دوستوں کو ناحق کا الزام دور کرنے کیلئے یہ لکھ دیا کہ میرا عقیدہ اہلسنت والجماعت کے موافق ہے اور انکار ختم نبوت اور وجود ملائکہ و معجزات انبیاء ولیلۃ القدر وغیرہ موجب کفر والحاد سمجھتا ہوں.وہی تحریر میری مولوی محمد حسین مہتمم اشاعۃ السنہ نے لے کر اپنے کفر نامہ میں جو آپ کیلئے تیار کیا تھا درج کردی میںنے خبر پا کر مولوی محمد حسین صاحب کی خدمت میں خط لکھا کہ جو میری طرف سے فتویٰ تکفیر پر عبارت لکھی گئی ہے وہ کاٹ دینی چاہیے کیونکہ میں حضرت مرزا صاحب کے مکفّر کو خود کافرو ملحد سمجھتا ہوں.مولوی صاحب نے اِس کا کوئی جواب نہیں بھیجا پیچھے سے مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے میرا نام مکفّرین کے زمرہ میں چھاپ کر شائع کردیا.سو میرے فتوے کی یہ حقیقت ہے.یہ نالائق حضور سے بیعت ہوچکا ہے ِللہ اس عاجز کو اپنی جماعت سے خارج تصوّر نہ فرماویں.میں اس ناکردہ گناہ سے خدا وند تعالیٰ کی درگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور حضور سے معافی مانگتا ہوں اور چند ابیات محبت اور عقیدت کے جوش سے میں نے حضور کے بارہ میں تالیف کئے ہیں وہ بھی ذیل میں تحریر کرتا ہوں.اور امیدوار ہوں کہ میری یہ تمام تحریر معہ اشعار کے طبع کرا کر شائع کردی جاوے.

Page 370

اشعار یہ ہیں موجبِ کفر است تکفیر تو اے کانِ کرم و این مواہیر و فتاویٰ رہزنِ راہِ ارم آرزو دارم کہ جان و مال قربانت کنم این تمنایم برآرد کارسازِ قادرم چون بتابم رُو زِ تو حاشا و کلّا این کُجا من فدائے روئے تو ای رہبرِ ِدین پرورم دین مردہ را بقالب جان درآمد از دمت چون ازین انفاس اعراضی کنم ای مہترم من کجا و ایں طور بدعہدی و بیراہی کجا خادمم تازندہ ہستم و از دل و جان چاکرم حملہ ہاکردند ایں غولانِ راہِ حق بہ من راہ زِ دندی گرنبودی لطفِ یزدان رہبرم ایں یہودی سیرتان قدر ترا نہ شناختند چوں نبیِّناصری نفرین شنیدی لاجرم ہر کہ تکفیرت کند کافر ہمان ساعت شود حق نگہدارد مرا زین زمرۂ نا محترم برمنِ اعمی بہ بخش ای حضرتِ مہرِ منیر گر خطا دیدی ازاں بگذرکہ من مستغفرم تا روانم ہست در تن از دل و جانم غلام لطف فرما کز تذلّل بر در تو حاضرم نورِ ماہِ دینِ احمد بر وجودت شد تمام آمدی درچاردہ اے بدر تام و انورم حسب تبشیر نبی بروقتِ خود کردی ظہور السلام ای رحمتِ ذات جلیل و اکبرم مشکلاتِ دینِ حق بر دست تو آسان شدند مے کنی تجدید دین از فضل ربّ ذوالکرم از رہِ منت درونم را مسلماں کردۂ گرنباشم جان نثارِ آستانت کافرم راقم خاکسار مولوی حافظ عظیم بخش پٹیالوی.۲۴؍ مئی ۱۸۹۲ء (منقول از رسالہ ’’نشانِ آسمانی‘‘ بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر صفحہ ۴۲ تا ۴۴)

Page 371

 طِبِّ روحانی یہ کتاب حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم کی تالیفات میں سے ہے.حاجی صاحب موصوف نے اس کتاب میں اس علم مخفی سَلبِ امراض اور توجہ کو مبسوط طور پر بیان کیا ہے جس کو حال کے مشائخ اور پیر زادے اور سجادہ نشین پوشیدہ طور پر اپنے خاص خاص خلیفوں کو سکھلایا کرتے تھے اور ایک عظیم الشان کرامت خیال کی جاتی تھی اور جس کی طلب میں اب بھی بعض مولوی صاحبان دور دور کا سفر اختیار کرتے ہیں اس لیے محض للہ عام و خاص کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کو منگوا کر ضرور ہی مطالعہ کریں کہ یہ بھی منجملہ ان علوم کے ہے جو انبیاء پر فائض ہوئے تھے بلکہ حضرت مسیح کے معجزات تو اسی علم کے سرچشمہ میں سے تھے.کتاب کی قیمت ایک روپیہ ہے.صاحبزادہ افتخار احمد صاحب جو لدھیانہ محلہ جدید میں رہتے ہیں.ان کی خدمت میں خط و کتابت کرنے سے قیمتاً مل سکتی ہے.(منقول از نشان آسمانی ایڈیشن اول صفحہ د.مطبوعہ ریاض ہند امرتسر) (روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۱۱)

Page 372

 آئینہ کمالاتِ اِسلام یہ کتاب جس کا نام عنوان میں درج ہے میں نے بڑی محنت اور تحقیق اور تفتیش سے صرف اس غرض اور نیت سے تالیف کی ہے کہ تا اسلام کے کمالات اور قرآن کریم کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کروں اور مخالفین کو دکھلائوں کہ فرقان حمید کن اغراض کے پورا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور انسان کے لیے اس کا کیا مقصد ہے.اور اس مقصد میں کس قدر وہ دوسرے مذاہب سے امتیاز اور فضلیت رکھتا ہے اور باایں ہمہ اس کتاب میں ان تمام اوہام اور وساوس کا جواب بھی دیا گیا ہے جو کوتاہ نظر لوگ مدعیان اسلام ہو کر پھر ایسی باتیں مونہہ پر لاتے ہیں جو درحقیقت اللہ اور رسول اور قرآن کریم کی ان میں اہانت ہے.اسی وجہ سے اس کتاب کا دوسرا نام دافع الوساوس بھی رکھا گیا ہے.لیکن ہر مقام اور محل میں زور کے ساتھ اس بات کو ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں ایک دین اسلام ہی ہے جس کو دین اللہ کہنا چاہیے.جو سچائی کو سکھلاتا اور نجات کی حقیقی راہیں اس کے طالبوں کے لیے پیش کرتا ہے اور اُخروی رستگاری کے لیے کسی بے گناہ کو پھانسی دینا نہیں چاہتا.اور نہ انسان کو بخشایش الٰہی سے ایسا نومید کرتا ہے کہ جب تک ایسا گنہگار انسان کروڑہا کیڑوں مکوڑوں وغیرہ حیوانات کی جون میں نہ پڑے تب تک کوئی سبیل اور کوئی چارہ اور کوئی علاج اس کے گناہ بخشے جانے کا نہیں.گویا اس دنیوی زندگی میں ایک صغیرہ گناہ کرنے سے بھی تمام دروازے رحمت کے بند ہو جاتے ہیں.اور آخر انسان ایک لاعلاج بیماری سے

Page 373

بڑے درد اور دُکھ کے ساتھ اور سخت نومیدی کی حالت میں دوسرے عالم کی طرف کوچ کرتا ہے بلکہ قرآن کریم میں نجات کی وہ صاف اور سیدھی اور پاک راہیں بتلائی گئی ہیں کہ جن سے نہ تو انسان کو خدا تعالیٰ سے نومیدی پیدا ہوتی ہے اور نہ خدائے تعالیٰ کو کوئی ایسا نالایق کام کرنا پڑتا ہے کہ گناہ تو کوئی کرے اور سزا دوسرے کو دی جاوے.غرض یہ کتاب ان نادر اور نہایت لطیف تحقیقاتوں پر مشتمل ہے.جو مسلمانوں کی ذرّیت کے لیے نہایت مفید اور آج کل روحانی ہیضہ سے بچنے کے لیے جو اپنے زہرناک مادہ سے ایک عالم کو ہلاک کرتا جاتا ہے نہایت مجرب اور شفابخش شربت ہے اور چونکہ یہ کتاب بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کے فسادوں کی اصلاح پر مشتمل ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے مَیں یقین کرتا ہوں کہ یہ کتاب اسلام اور فرقان کریم اور حضرت سیّدنا و مولانا خاتم الانبیاء صلّی اللہ علیہ وسلم کی برکات دنیا پر ظاہر کرنے کے لیے ایک نہایت عمدہ اور مبارک ذریعہ ہے.اس لیے میں نے اللہجَلَّ شَانُـہٗ پر توکّل کر کے چودہ سو ۱۴۰۰ کاپی اس کی چھپوانی شروع کر دی ہے اور امید ہے کہ ڈیڑھ ماہ یا غایت دو ماہ تک یہ کام بخیر و خوبی ختم ہو جائے.اور چونکہ میں نے بغرض اہتمام بلیغ صحت و خوش خطی و دیگر مراتب پریس کو اپنے مسکن قادیان میں معہ اس کے تمام عملہ و اسباب و سامان کے منگوا لیا ہے اور کاغذ بھی بہت عمدہ لگایا گیا ہے.اس لیے مجھ کو اس کتاب کے اہتمام طبع میں معمولی صورتوں سے دو چند خرچ کرنا پڑا.اور اگرچہ میری نظر میںیہ یقینی امر ہے کہ کتاب کی ضخانت اس قدر بڑھ جائے گی کہ شاید اصل قیمت اس کی بنظر تمام مصارف اور حرجوں کے دو روپیہ یا اس سے بھی زیادہ ہو.مگر چونکہ یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ بعض لوگ بباعث نابینائی اور نہایت کم توجہی کے دین اور دینی کتابوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتے اور حقایق اور معارف کے موتیوں کو کوڑیوں کے مول پر بھی لینا نہیں چاہتے.اس لیے ہریک نقصان اور حرج قبول کر کے صرف ایک روپیہ اس کتاب کی قیمت مقرر کی گئی ہے.مگر محصول علاوہ ہے.اِس مقام میں اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب اور اخویم حکیم فضل دین صاحب اور اخویم نواب محمد علی خان صاحب اور اخویم مولوی سیّدتفضل حسین صاحب اور احباب سیالکوٹ اور کپورتھلہ کی ہمدردی کا شکر قابل

Page 374

اظہار ہے کہ انہوں نے میری پہلی کتابوں کی خریداری میں بہت مدد دی.جس کا ذکر انشاء اللہ محض تَرْغِیْبًا لِلْمُسْلِمِیْنَ اِس کتاب کے آخر میں معہ ذکر دیگر احباب کیا جائے گا.خدا تعالیٰ سب کو ہمدردی اسلام کے لیے جگاوے.اور اس خدمت کے لیے آپ ان کے دلوں میں الہام کرے.اگرچہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں جان دینے کو بھی حاضر ہیں.اور اگر ہماری جانفشانی سے کچھ بن سکتا ہے تو ہم اپنا خون بہانے کو بھی طیّار ہیں.سرکہ نہ در پائے عزیزش رود بارِ گران است کشیدن بدوش۱؎ مگر اس وقت مال کا کام ہے جو ہمارے ہاتھ میں نہیں.جمہوری کام جمہور کی توجہ سے ہوتے ہیں.بھائیو! تم دیکھتے ہو کہ اسلام کے باغ پر کس قدر ہر طرف سے تیشے رکھے گئے ہیں اور اسلام کی نسبت کیا ارادہ کیا گیا ہے اور ہمارے پیارے نبی ہمارے محبوب رسول افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کچھ افترا کئے جاتے ہیں اور کس قدر ذریعے خلق اللہ کے بہکانے کے لیے استعمال کئے گئے ہیں.بھائیو! آج وہ دن ہے کہ فقرا کی دعا اور علماء کی علمیّت اور اغنیا کی دولت، اسلام کی عزت اور نبی کریمؐ کے جلال اور شوکت ظاہر کر نے کے لیے اس زورو شور سے خرچ ہو کہ جیسے ایک سفلہ دُنیاپرست کور باطن اپنے کسی عزیز فرزند کی شادی کے لیے دل کھول کر اپنامال عزیز خرچ کرتا ہے یا ایک جاہل امیر اپنی شان و شوکت کی عمارت بنانے کے لیے ایک خزانہ کھول دیتا ہے.سو اُٹھو اور کچھ خدمت کر لو کہ دنیا روزے چند اور آخرکار باخدواند.اگرچہ اس عاجز کا ذرہ ذرہ اس جوش میں ہے کہ اس پُرظلمت زمانہ میں اللہ جَلّ شَانُـہٗ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور صداقت ظاہر کرے تا اسلام کی روشنی کے دن دوبارہ آویں، لیکن جو باتیں مصارف مالی پر موقوف ہیں وہاں کیا ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ آپ پر رحم کرے.اگر اس وقت اور اس زمانہ میں کوئی دولت مند خواب غفلت سے بیدار ہو جائے تو مولیٰ کریم اور اس کے رسول سیّد الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے راضی کرنے کے لیے کیسا عمدہ اور مبارک وقت ہے.۱؎ ترجمہ.وہ سر جو محبوب کے قدموں میں قربان نہ ہو اسے کندھوں پر اٹھائے رکھنا ایک بار گراں ہے.

Page 375

بیدار شوگر عاقلی دریاب گر اہلِ دل شاید کہ نتواں یافتن دیگر چنیں ایام را ۱؎ المشــــــــــــــتہـــــــــــــــــر خاکسار میرزا غلام احمد از مقام قادیان ضلع گورداسپور مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان ضلع گورداسپور دہم اگست ۱۸۹۲ء (یہ اشتہارکے چارصفحوں پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۱۱۳ تا ۱۱۶) ۱؎ ترجمہ.اگر تو عقل والا ہے تو جاگ اٹھ، اگر ہمت والا ہے تو اپنا مقصد حاصل کرلے.شاید پھر ایسے دن نہ مل سکیں.

Page 376

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ دوست آں باشد کہ گیر د دستِ دوست در پریشان حالی و درماندگی ۱؎ اِس وقت میں ضروری طور پر اپنے دوستوں کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ اخویم مکرم حضرت مولوی سیّد محمد احسن صاحب جو اس وقت بمقام بھوپال محلہ چوبدار پورہ میں نوکری سے علیحدہ ہو کر خانہ نشین ہیں بوجہ تکالیفِ عُسر ہمدردی کے لائق ہیں.اگرچہ مولوی صاحب موصوف بڑے صابر اور متوکّل اور خدا تعالیٰ پر اپنے کاروبار چھوڑنے والے ہیں لیکن ہمیں خود موقعہ ثواب کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے.حضرت مکرم مولوی حکیم نور دین صاحب ایسے للّہی کاروبار اور نوائب الحق میں سب سے پہلے قدم رکھتے تھے.مگر اس وقت برادر موصوف اپنے تعلق ملازمت ریاست جموںسے علیحدہ ہو گئے ہیں.لہٰذا ہریک بھائی کی اپنی اپنی مقدرت کے موافق توجہ درکار ہے.پہلے اکثر صاحب اس رائے کی طرف مائل تھے کہ جس وقت حضرت مولوی سیّد محمد احسن صاحب کے لیے ایک رقم معقول چندہ ماہواری کی جو چالیس روپیہ ماہواری سے کم نہ ہو، قرار پا جائے تو اُس وقت مولوی صاحب کو پنجاب میں بُلا لیا جائے اور جس وقت وہ تشریف لے آویں اُسی تاریخ سے ماہواری چندہ ادا کرنا لازم سمجھا جائے، مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب موصوف کو اس تفرقہ اور پریشانی میں ڈالنا ضروری نہیں.خدمتِ دین کا کام وہ بھوپال میں رہ کر بھی کر سکتے ہیں.مناسب ہے کہ ہریک صاحب جو چندہ دینے کو طیار ہیں یکم اگست ۱۸۹۲ء سے اپنے ذمہ چندہ واجب الادا قرار دیں اور دو ماہ کا چندہ یعنی بابت ۱؎ ترجمہ.دوست وہی ہوتا ہے جو پریشانی اور لاچاری کی حالت میں دوست کا ہاتھ تھامے.

Page 377

اگست اور ستمبر ۱۸۹۲ء بلا توقف مولوی صاحب کی خدمت میں بھیج دیں.اور آئندہ ماہ بماہ یا دو ماہ کے بعد یاغایت تین ماہ کے بعد جس طرز سے سہولیّت دیکھیں براہ راست اپنا اپنا چندہ مولوی صاحب ممدوح کی خدمت میں ارسال فرما دیا کریں.اور میری معرفت چندہ بھیجنا کچھ ضرورت نہیں بلکہ اس میں حرج متصور ہے.چاہیے کہ براہِ راست بھوپال دار الریاست میں چوبدار پورہ کے محلہ میں چندہ بھیج دیا کریں.اور اب تک جن جن صاحبوں نے حضرت مولوی سیّد محمد احسن صاحب کے لیے چندہ دینا تجویز کیا ہے.ان کے نام نامی معہ تعداد چندہ ذیل میں لکھے جاتے ہیں.۱ منشی ہاشم علی صاحب پٹواری برنالہ علاقہ ریاست پٹیالہ (چار آنہ) ۲ شہزادہ عبد المجید صاحب لُدھیانہ کھڈ محلہ (دو آنہ) ۳ منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر ریلوے (دوروپیہ) ۴ منشی فیاض علی صاحب دارلریاست کپور تھلہ (چار آنہ ) ۵ منشی عبد الرحمن صاحب کپور تھلہ (چار آنہ) ۶ شیخ رحمت اللہ صاحب گجرات پنجاب (ایک روپیہ) ۷ دولت خان ملازم مقام کا لکا اسٹیشن کا لکا (چار آنہ ) ۸ مفتی محمد صادق مدرس جموں متوطن بھیرہ (چار آنہ) ۹ حکیم فضل الدین صاحب بھیروی (دوروپیہ) ۱۰ بابو محمد صاحب ہیڈ کلرک انبالہ چھائونی (ایک روپیہ) ۱۱ خلیفہ نور دین صاحب تا جر کتب.جموں (ایک روپیہ ) ۱۲ حضرت مولوی حکیم نورالدّین صاحب (پانچ روپیہ ) ۱۳ سید حمید شاہ صاحب زبانی حضرت حکیم نورالدین صاحب (آٹھ آنہ)

Page 378

مولوی غلام قادر فصیح صاحب سیالکوٹ (دوروپے) ۱۵ میاں محمد علی صاحب لاہور معرفت بابو نبی بخش صاحب کلرک دفتر ایگزیمینر ریلوے (چار آنے) ۱۶ میاں مظفر دین صاحب لاہور معرفت ؍؍ ؍؍ (چار آنے) ۱۷ میاں عبد الرحمن صاحب لاہور ؍؍ ؍؍ (چار آنے) ۱۸ حافظ فضل احمد صاحب لاہور ؍؍ ؍؍ (چار آنے) ۱۹ منشی مولا بخش صاحب لاہور ؍؍ ؍؍ (چار آنے) ۲۰ بابو نبی بخش کلرک دفتر ایگزیمنر صاحب ریلوے (آٹھ آنے) ۲۱ سید امیرعلی شاہ صاحب سارجنٹ.ضلع سیالکوٹ (ایک روپیہ) ۲۲ سید خصلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر کڑیانوالہ.گجرات ایک روپیہ ان تمام حضرات کی خدمت میں مکرر عرض ہے کہ اگر کوئی مجبوری بشریت یا کوئی پریشانی مانع نہ ہو توضرور اس اشتہار کے پہنچنے کے ساتھ ہی دو ماہہ چندہ یعنی بابت اگست و ستمبر ۹۲ء حضرت مولوی سیّدمحمداحسن صاحب کی خدمت میں بلاتوقف ارسال فرما ویں.پتہ وہی بھوپال محلہ چوبدار پورہ، لیکن جو حضرات کسی پریشانی یا تبدل حال کی وجہ سے بالفعل مجبور ہوں وہ اس عرضداشت سے مستثنیٰ ہیں.اطلاع و خوشخبری کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام پانچ جزو تک چھپ چکی ہے.لیکن پہلے جو ارادہ کیا گیا تھا اس سے کتاب کی ضخانت بڑھ گئی ہے.شاید دو چند یا اس سے بھی زیادہ ہو جائے.اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ کتاب کے دو حصّے کئے جائیں.ہریک حصہ قیمت مناسب کے ساتھ شائع ہو گا اور شاید ایک ماہ تک پہلا حصہ شائع ہو جائے.راقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور

Page 379

اطلاع{ ہمارے یہاں قادیان میں شیخ نور احمد صاحب کا پریس آ گیا ہے.اگر ہمارے دوستوں میں سے یا دوستوں کے دوستوں میں سے اس پریس میں کچھ چھپانا چاہیں تو پریس کی امداد اور قادیان میں اس کے قائم رہنے کا موجب ہو سکتا ہے.(یہ اشتہارکے ایک صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۱۱۶ تا ۱۱۹)

Page 380

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السَّلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتُہٗ بعد ہذا بخدمت جمیع احباب مخلصین التماس ہے کہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء کو مقام قادیان میں اِس عاجز کے محبوں اور مخلصوں کا ایک جلسہ منعقد ہو گا.اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تاہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو.پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے.ماسوا اس کے اس جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لیے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں.کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لیے طیار ہو رہے ہیں اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں اور ہراساں ہیں.چنانچہ انہیں دنوں میں ایک انگریز کی میرے نام چھٹی آئی جس میں لکھا تھا کہ آپ تمام جانداروں پر رحم رکھتے ہیں.اور ہم بھی انسان ہیں اور مستحق رحم.کیونکہ دین اسلام قبول کر چکے اور اسلام کی سچی اور صحیح تعلیم سے اب تک بے خبر ہیں.سو بھائیو یقینا سمجھو کہ یہ ہمارے لیے ہی جماعت

Page 381

طیار ہونے والی ہے.خدا تعالیٰ کسی صادق کو بے جماعت نہیں چھوڑتا.انشاء اللہ القدیر سچائی کی برکت ان سب کو اس طرف کھینچ لائے گی.خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہی چاہا ہے.اور کوئی نہیں کہ اس کو بدل سکے.سو لازم ہے کہ اس جلسہ پر جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے.ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لاویں جو زادِ راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور اپنا سرمائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدر ضرورت ساتھ لاویں.اور اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں ادنیٰ ادنیٰ حرجوں کی پرواہ نہ کریں.خدا تعالیٰ مخلصوں کو ہریک قدم پر ثواب دیتا ہے اور اس کی راہ میں کوئی محنت اور صعوبت ضائع نہیں ہوتی.اور مکرر لکھا جاتا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائِ کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قومیں طیار کی ہیں.جو عنقریب اس میں آ ملیں گی.کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گااور نہ نیچر کے تفریط پسند اور اوہام پرست مخالفوں کا، نہ خوارق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے، اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالف قرآن روایتوں کو ملانے والے.اور خدا تعالیٰ اس امّت وسط کے لیے بین بین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا.وہی راہ جس کو قرآن لایا تھا.وہی راہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلائی تھی.وہی ہدایت جو ابتدا سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے.یہی ہو گا.ضرور یہی ہو گا.جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے.مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے.بالآخر میں دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہریک صاحب جو اس للّہی جلسہ کے لیے سفر اختیار کریں.خدا تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو اور اُن کو اجر عظیم بخشے.اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات اُن پر آسان کر دیوے اور اُن کے ہم ّوغم دور فرماوے.اور ان کو ہریک تکلیف سے مَخلصی عنایت کرے.اور ان کی مُرادات کی راہیں اُن پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے اُن بندوں کو ساتھاُن کو اُٹھاوے جن پر اُس کا فضل و رحم ہے

Page 382

اور تا اختتامِ سفر اُن کے بعد اُن کا خلیفہ ہو.اے خدا اے ذوالمجد و العطا اور رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دُعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہریک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.آمین ثم آمین.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ.عفی اللہ عنہ (۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء) (یہ اشتہار کے دو صفحہ پر ہے) (مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان) (تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۱۱۹ تا ۱۲۱)

Page 383

 مُباہلہ کے لیے اشتہار اُن تمام مولویوں اور مفتیوں کی خدمت میں جو اس عاجز کو جزئی اختلافات کی وجہ سے یا اپنی نافہمی کے باعث سے کافر ٹھہراتے ہیں عرض کیا جاتا ہے کہ اب میں خدا تعالیٰ سے مامور ہوگیا ہوں کہ تا میں آپ لوگوں سے مباہلہ کرنے کی درخواست کروں اِس طرح پر کہ اوّل آپ کو مجلس مباہلہ میں اپنے عقائد کے دلائل ازروئے قرآن اور حدیث کے سنائوں اگر پھر بھی آپ لوگ تکفیر سے باز نہ آویں تو اسی مجلس میں مباہلہ کروں سو میرے پہلے مخاطب میاں نذیر حسین دہلوی ہیں اور اگر وہ انکار کریں تو پھر شیخ محمد حسین بطالوی اور اگر وہ انکار کریں تو پھر بعد اس کے تمام وہ مولوی صاحبان جو مجھ کو کافر ٹھہراتے اور مسلمانوں میں سرگروہ سمجھے جاتے ہیں.اور میں ان تمام بزرگوں کو آج کی تاریخ سے جو دہم دسمبر ۱۸۹۲ء ہے چار ماہ تک مہلت دیتا ہوں.اگر چار ماہ تک ان لوگوں نے مجھ سے بشرائط متذکرہ بالا مباہلہ نہ کیا اور نہ کافر کہنے سے باز آئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی حجت ان پر پوری ہوگی.میں اوّل یہ چاہتا تھا کہ وہ تمام بے جا الزامات جو میری نسبت ان لوگوں نے قائم کر کے موجب کفر قرار دیئے ہیں اس رسالہ میں ان کا جواب شائع کروں لیکن بباعث بیمار ہوجانے کاتب اور حرج واقع ہونے کے ابھی تک وہ حصہ طبع نہیں ہوسکا سو میں مباہلہ کی مجلس میں وہ مضمون بہرحال سنادوں گا اگر اس وقت طبع ہوگیا ہو یا نہ ہوا ہو.لیکن یاد رہے کہ ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تکفیر کے فتویٰ لکھنے والوں نے جو کچھ سمجھا ہے اوّل اس تحریر کی غلطی ظاہر کی جائے اور اپنی طرف سے دلائل شافیہ کے ساتھ اتمام حجت

Page 384

کیاجائے اور پھر اگر باز نہ آویں تو اسی مجلس میں مباہلہ کیا جائے اور مباہلہ کی اجازت کے بارے میں جو کلام الٰہی میرے پر نازل ہوا وہ یہ ہے.نَظَرَ اللّٰہُ اِلَیْکَ مُعَطَّرًا.وَ قَالُوْ ٓا اَ تَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.قَالُوْا کِتَابٌ مُّمْتَلِیٌٔ مِّنَ الْکُفْرِ وَالْکَذْبِ.قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَ اَبْنَائَ کُمْ وَ نِسَآئَ نَا وَ نِسَآئَ کُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.یعنی خدا تعالیٰ نے ایک معطّر نظر سے تجھ کو دیکھا اور بعض لوگوں نے اپنے دلوں میں کہا کہ اے خدا! کیا تو زمین پر ایک ایسے شخص کو قائم کردے گا کہ جو دنیا میں فساد پھیلاوے تو خدا تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور ان لوگوں نے کہا کہ اس شخص کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جو کذب اور کفر سے بھری ہوئی ہے.سو ان کو کہہ دے کہ آئو ہم اور تم معہ اپنی عورتوں اور بیٹوں اور عزیزوں کے مباہلہ کریں پھر ان پر لعنت کریں جو کاذب ہیں.یہ وہ اجازت مباہلہ ہے جو اس عاجز کو دی گئی.لیکن ساتھ اس کے جو بطور تبشیر کے اور الہامات ہوئے ان میں سے بھی کسی قدر لکھتا ہوں اور وہ یہ ہیں.یَوْمَ یَجِیْئُ الْحَقُّ وَ یُکْشَفُ الصِّدْقُ وَ یَخْسَرُ الْخَاسِرُوْنَ.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَا مَعَکَ وَ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا الْمُسْتَرْشِدُوْنَ.نُرَدُّ اِلَیْکَ الْکَرَّۃَ الثَّانِیَــۃَ وَ نُبَدِّلَنَّکَ مِنْ بَعْدِ خَوْفِکَ اَمْنًا.یَأْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَائَ.وَ اَمْرُکَ یَتَأَتّٰی.یَسُرُّ اللّٰہُ وَجْھَکَ وَ یُنِیْرُ بُرْھَانَکَ.سَیُوْلَدُ لَکَ الْوَلَدُ وَ یُدْنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ.وَ قَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَجِیْبٌ.وَ لَا تَیْئَسْ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ.اُنْظُرْ اِلٰی یُوْسُفَ وَ اِقْبَالِہٖ.قَدْ جَائَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَالْفَتْحُ اَقْرَبُ.یَخِرُّوْنَ عَلَی الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ نَجِیَّ الْاَسْرَارِ.اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ

Page 385

َوْمٍ مَّوْعُوْدٍ.یعنی اس دن حق آئے گا اور صدق کھل جائے گا اور جو لوگ خسارہ میں ہیں وہ خسارہ میں پڑیں گے.تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی جو رُشد رکھتے ہیں ہم پھر تجھ کو غالب کریں گے اور خوف کے بعد امن کی حالت عطا کردیں گے.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہوجائے گا.خدا تیرے منہ کو بشّاش کرے گا اور تیرے بُرہان کو روشن کردے گا.اور تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا.اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا.اور میرا نور نزدیک ہے.اور کہتے ہیں کہ یہ مراتب تجھ کو کہاں.ان کو کہہ کہ وہ خدا عجیب خدا ہے.اُس کے ایسے ہی کام ہیں جس کو چاہتا ہے اپنے مقر بوں میں جگہ دیتا ہے.اور میرے فضل سے نومیدمت ہو.یوسف کو دیکھ اور اس کے اقبال کو.فتح کا وقت آرہا ہے اور فتح قریب ہے.مخالف یعنی جن کے لئے توبہ مقدر ہے اپنی سجدہ گاہوں میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے.آج تم پر کوئی سرزنش نہیں.خدا تمہیں بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.میں نے ارادہ کیا کہ ایک اپنا خلیفہ زمین پر مقرر کروں تو میں نے آدم کو پیدا کیا جو نجی الاسرار ہے.ہم نے ایسے دن اس کو پیدا کیا جو وعدہ کا دن تھا.یعنی جو پہلے سے پاک نبی ؐ کے واسطہ سے ظاہر کردیا گیا تھا کہ وہ فلاں زمانہ میں پیدا ہوگا.اور جس وقت پیدا ہوگا فلاںقوم دنیا میں اپنی سلطنت اور طاقت میں غالب ہوگی اور فلاں قسم کی مخلوق پرستی روئے زمین پر پھیلی ہوئی ہوگی.اسی زمانہ میں وہ موعود پیدا ہوا اور وہ صلیب کا زمانہ اور عیسیٰ پرستی کا زمانہ ہے جو شخص کہ سمجھ سکتا ہے چاہیے کہ ہلاک ہونے سے پہلے سمجھ لے.یکسر الصلیب پر غور کرے یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ کوسوچے.یَضَعُ الْجِزْیَۃ کو نظر تدبّر سے دیکھے جو یہ سب امور اہل کتاب کے حق میں اور ان کی شان میں صادق آسکتے ہیں نہ کسی اور کے حق میں پھر جب تسلیم کیا گیا کہ اس زمانہ میں اعلیٰ طاقت عیسائی مذہب کی طاقت اور عیسائی گورنمنٹوں کی طاقت ہوگی جیسا کہ قرآن کریم بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے تو پھر ان طاقتوں کے ساتھ ایک فرضی اور خیالی اور وہمی دجّال کی گنجائش کہاں یہی لوگ تو ہیں جو تمام زمین پر محیط ہوگئے ہیں.پھر اگر ان کے مقابل پر کوئی اور دجّال خارج ہو تو وہ باوجود ان کے کیونکر زمین پر محیط ہو ایک میان میں دو تلواریں تو سما نہیں سکتیں جب ساری زمین پر دجال کی

Page 386

بادشاہت ہوگی تو پھر انگریز کہاں ہوں گے اور روس کہاں اور جرمن اور فرانس وغیرہ یورپ کی بادشاہتیں کہاں جائیں گی.حالانکہ مسیح موعود کا عیسائی سلطنتوں کے وقت میں ظاہر ہونا ضروری ہے اور جب مسیح موعود کیلئے یہی ضروری ہے کہ دنیا میں عیسائی طاقتوں کو ہی دنیا پر غالب پاوے.اور تمام مفاسد کی کنجیاں انہیں کے ہاتھ میں دیکھے انہیں کی صلیبوں کو توڑے اور انہیں کے خنزیروں کو قتل کرے اور انہیں کو اسلام میں داخل کر کے جزیہ کا قصہ تمام کرے.تو پھر سوچو کہ فرضی دجال کی سلطنت باوجود عیسائی سلطنت کے کیونکر ممکن ہے.مگر یہ غلط ہے کہ مسیح موعود ظاہری تلوار کے ساتھ آئے گا تعجب کہ یہ علماء یَضَعُ الْحَرْبَ کے کلمہ کو کیوں نہیں سوچتے اور حدیث اَ لْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ کو کیوں نہیںپڑھتے پس جب کہ ظاہری سلطنت اور خلافت اور امامت بجز قریش کے کسی کیلئے روا ہی نہیں تو پھر مسیح موعود جو قریش میں سے نہیں ہے کیونکر ظاہری خلیفہ ہوسکتا ہے اور یہ کہنا کہ وہ مہدی سے بیعت کرے گا اور اس کا تابع ہوگا اور نوکروں کی طرح اس کے کہنے سے تلوار اٹھائے گا عجب بے ہودہ باتیں ہیں.نہیں حضرات خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو ہدایت دے مسیح موعود کی روحانی خلافت ہے، دنیا کی بادشاہتوں سے اس کو کچھ تعلق نہیں اس کو آسمانی بادشاہت دی گئی ہے اور آج کل یہ زمانہ بھی نہیں کہ تلوار سے لوگ سچا ایمان لاسکیں.آج کل تو پہلی تلوار پر ہی نادان لوگ اعتراض کررہے ہیں چہ جائیکہ نئے سرے ان کو تلواروں سے قتل کیا جائے.ہاں روحانی تلوار کی سخت حاجت ہے سو وہ چلے گی اور کوئی اس کو روک نہیں سکتا اب ہم اس مقدمہ کو ختم کرتے ہیں لیکن ذیل میں ایک روحانی تلوار مخالفوں پر چلا دیتے ہیں اور وہ یہ ہے.۱؎ (یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان کے صفحہ ۲۶۱ سے ۲۷۱تک ہے) (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۶۱ تا ۲۷۱) ۱؎ یہ اشارہ اس اشتہار کی طرف ہے جو آگے نمبر ۹۳ پر درج ہے.(مرتب)

Page 387

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ (اَللّٰہُ اَکْبَرُ ضُرِبَتِ الذِّلَّۃُ عَلٰی کُلِّ مُخَالِفٍ) اشتہار بنام جملہ پادری صاحبان و ہندو صاحبان و آریہ صاحبان و برہمو صاحبان و سکھ صاحبان و دہری صاحبان و نیچری صاحبان وغیرہ صاحبان اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ رُسُلِہٖ وَ اَفْضَلِ اَنْبِیَائِہٖ وَ سُلَالَۃِ اَصْفِیَائِہٖ مُحَمَّدِ انِ لْمُصْطَفَی الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْہِ اللّٰہُ وَ مَلَآئِکَتُہٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ الْمُقَرَّبُوْنَ.امّابعد چونکہ اِس زمانہ میں مذاہب مندرجہ عنوان تعلیم قرآن کے سخت مخالف ہیں اور اکثر ان کے ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو حق پر نہیں سمجھتے اور قرآن شریف کو ربّانی کلام تسلیم نہیں کرتے اور ہمارے رسول کریم کو مفتری اور ہمارے صحیفہ پاک کتاب اللہ کو مجموعہ افترا قرار دیتے ہیں اور ایک زمانہ دراز ہم میں اور ان میں مباحثات میں گزر گیا اور کامل طور پر ان کے تمام الزامات کا جواب دے دیا گیا اور جو ان کے مذاہب اور کتب پر الزامات عائد ہوتے ہیں وہ شرطیں باندھ باندھ کر ان کو سنائے گئے اور ظاہر کردیا گیا کہ ان کے مذہبی اصول اور عقائد اور قوانین جو اسلام کے مخالف ہیں کیسے دوراز صداقت اور جائے ننگ و عار ہیں مگر پھر بھی ان صاحبوں نے حق کو

Page 388

قبول نہیں کیا اور نہ اپنی شوخی اور بد زبانی کو چھوڑا آخر ہم نے پورے پورے اتمام حجت کی غرض سے یہ اشتہار آج لکھا ہے جس کا مختصر مضمون ذیل میں درج کیا جاتا ہے.صاحبو! تمام اہل مذاہب جو سزا جزا کو مانتے ہیں اور بقاء روح اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں اگرچہ صدہا باتوں میں مختلف ہیں مگر اس کلمہ پر سب اتفاق رکھتے ہیں جو خدا موجود ہے.اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُسی خدا نے ہمیں یہ مذہب دیا ہے اور اسی کی یہ ہدایت ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے اور کہتے ہیں کہ اس کی مرضی پر چلنے والے اور اس کے پیارے بندے صرف ہم لوگ ہیں اور باقی سب مورد غضب اور ضلالت کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں جن سے خدا تعالیٰ سخت ناراض ہے.پس جب کہ ہریک کا دعویٰ ہے کہ میری راہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے اور مدار نجات اور قبولیت فقط یہی راہ ہے و بس اور اسی راہ پر قدم مارنے سے خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور ایسوں سے ہی وہ پیار کرتا ہے اور ایسوں کی ہی وہ اکثر اور اغلب طور پر باتیں مانتا ہے اور دعائیں قبول کرتا ہے تو پھر فیصلہ نہایت آسان ہے اور ہم اس کلمہ مذکورہ میں ہریک صاحب کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں ہمارے نزدیک بھی یہ سچ ہے کہ سچے اور جھوٹے میں اسی دنیا میں کوئی ایسا مابہ الامتیاز قائم ہونا چاہیے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو یوں تو کوئی اپنی قوم کو دوسری قوموں سے خدا ترسی اور پرہیزگاری اور توحید اور عدل اور انصاف اور دیگر اعمال صالحہ میں کم نہیں سمجھے گا پھر اس طور سے فیصلہ ہونا محال ہے اگرچہ ہم کہتے ہیں کہ اسلام میں وہ قابل تعریف باتیں ایک بے نظیر کمال کے ساتھ پائی جاتی ہیں جن سے اسلام کی خصوصیت ثابت ہوتی ہے مثلاً جیسے اسلام کی توحید اسلام کے تقویٰ اسلام کے قواعد حفظان عفت حفظان حقوق جو عملاً و اعتقاداً کروڑہا افراد میں موجود ہیں اور اس کے مقابل پر جو کچھ ہمارے مخالفوں کی اعتقادی اور عملی حالت ہے وہ ایسی شے ہے جو کسی منصف سے پوشیدہ نہیں لیکن جبکہ تعصب درمیان ہے تو اسلام کی ان خوبیوں کو کون قبول کرسکتا ہے اور کون سن سکتا ہے سو یہ طریق نظری ہے اور نہایت بدیہی طریق جو دیہات کے ہل چلانے والے اورجنگلوں کے خانہ بدوش بھی اس کو سمجھ سکتے ہیں یہ ہے کہ اس جنگ و جدل کے وقت میں جو تمام مذاہب میں ہورہا ہے اور اب کمال کو پہنچ گیا ہے اسی

Page 389

سے مدد طلب کریںجس کی راہ میں یہ جنگ و جدل ہے جبکہ خدا تعالیٰ موجود ہے اور درحقیقت اسی کے بارے میں یہ سب لڑائیاں ہیں تو بہتر ہے کہ اسی سے فیصلہ چاہیں.اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میری یہ حالت ہے کہ میں صرف اسلام کو سچا مذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پُتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہٰیہ اور اجابت دعائوں کا مجھے حاصل ہوا ہے کہ جو بجز سچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہوسکے گا اور اگر ہندو اور عیسائی وغیرہ اپنے باطل معبودوں سے دعا کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی ان کو وہ مرتبہ مل نہیں سکتا اور وہ کلام الٰہی جو دوسرے ظنی طور پر اس کو مانتے ہیں میں اس کو سن رہا ہوں اور مجھے دکھلایا اور بتلایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ یہ سب کچھ بہ برکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تجھ کو ملا ہے اور جو کچھ ملا ہے اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں کیونکہ وہ باطل پر ہیں.اب اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا برہمو یا کوئی اور ہے اس کیلئے یہ خوب موقعہ ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہوجائے اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعائوں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کرسکا تو میں اللہ جَلَّ شَانُـہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہوگی اس کے حوالہ کردوں گا یا جس طور سے اس کی تسلی ہوسکے اسی طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تسلی دوں گامیرا خدا واحد شاہد ہے کہ میں ہرگز فرق نہیں کروں گا اور اگر سزائے موت بھی ہو تو بدل و جان روا رکھتا ہوں میں دل سے یہ کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچ کہتا ہوں اور اگر کسی کو شک ہو اور میری اس تجویز پر اعتبار نہ ہو تو وہ آپ ہی کوئی احسن تجویز تاوان کی پیش کرے میں اس کو قبول کرلوں گا میں ہرگز عذر نہیں کروں گااگر میں جھوٹا ہوں تو بہتر ہے کہ کسی سخت سزا سے ہلاک ہو جائوں اور اگر میں سچا ہوں تو چاہتا ہوں کہ کوئی ہلاک شدہ میرے ہاتھ سے بچ جائے.اے حضرات پادری صاحبان! جو اپنی قوم میں معزز اور ممتاز ہو آپ لوگوں کو اللہ جَلَّ شَانُـہٗ کی قسم ہے جو اس طرف متوجہ ہوجائو اگر آپ لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ اس

Page 390

صادق انسان کی محبت ہے جس کا نام عیسیٰ مسیح ہے تو میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ ضرور میرے مقابلہ کیلئے کھڑے ہوجائو.آپ کو اُس خدا کی قسم ہے جس نے مسیح کو مریم صدیقہ کے پیٹ سے پیدا کیا.جس نے انجیل نازل کی، جس نے مسیح کو وفات دے کر پھر مُردوں میں نہیں رکھا بلکہ اپنی زندہ جماعت ابراہیم اور موسیٰ اور یحییٰ اور دوسرے نبیوں کے ساتھ شامل کیا اور زندہ کر کے انہیں کے پاس آسمان پر بُلا لیا جو پہلے اس سے زندہ کئے گئے تھے کہ آپ لوگ میری مقابلہ کیلئے ضرور کھڑے ہوجائیں اگر حق تمہارے ہی ساتھ ہے اور سچ مچ مسیح خدا ہی ہے تو پھر تمہاری فتح ہے اور اگر وہ خدا نہیں ہے اور ایک عاجز اور ناتوان انسان ہے اور حق اسلام میں ہے تو خدا تعالیٰ میری سنے گا اور میرے ہاتھ پر وہ امر ظاہر کردے گا جس پر آپ لوگ قادر نہیں ہوسکیں گے اور اگر آپ لوگ یہ کہیں کہ ہم مقابلہ نہیں کرتے اور نہ ایمانداروں کی نشانیاں ہم میں موجود ہیں تو آئو اسلام لانے کی شرط پر یکطرفہ خدا تعالیٰ کے کام دیکھو اور چاہیے کہ تم میں سے جو نامی اور پیشرو اور اپنی قوم میں معزز شمار کئے جاتے ہیں وہ سب یا ان میں سے کوئی ایک میرے مقابل پر آوے اور اگر مقابلہ سے عاجز ہو تو صرف اپنی طرف سے یہ وعدہ کر کے کہ میں کوئی ایسا کام دیکھ کر جو انسان سے نہیں ہوسکتا ایمان لے آئوں گا اور اسلام قبول کرلوں گا مجھ سے کسی نشان کے دیکھنے کی درخواست کریں اور چاہیے کہ اپنے وعدہ کو بہ ثبت شہادت بارہ کس عیسائی و مسلمان و ہندو یعنی چار عیسائی اور چار مسلمان اور چار ہندو مؤکد بہ قسم کر کے بطور اشتہار کے چھپوا دیں اور ایک اشتہار مجھ کو بھی بھیج دیں اور اگر خدا تعالیٰ کوئی اعجوبہ قدرت ظاہر کرے جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو تو بلا توقف اسلام کو قبول کر لیویں.اور اگر قبول نہ کریں تو پھر دوسرا نشان یہ ہے کہ میں اپنے خدا تعالیٰ سے چاہوں گا کہ ایک سال تک ایسے شخص پر کوئی سخت و بال نازل کرے جیسے جذام یا نابینائی یا موت اور اگر یہ دعا منظور نہ ہو تو پھر بھی میں ہریک تاوان کا جو تجویز کی جائے سزاوار ہوں گا یہی شرط حضرات آریہ صاحبوں کی خدمت میں بھی ہے اگر وہ اپنے وید کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھتے ہیں اور ہماری پاک کتاب کلام اللہ کو انسان کا افترا خیال کرتے ہیں تو وہ مقابل پر آویں اور یاد رکھیں کہ وہ مقابلہ کے وقت نہایت رسوا ہوں گے ان میں دہریت اور بے قیدی کی چالاکی سب سے زیادہ ہے.مگر خدا تعالیٰ

Page 391

ان پر ثابت کردے گا کہ میں ہوں اور اگر مقابلہ نہ کریں تو یکطرفہ نشان بغیر کسی بے ہودہ شرط کے مجھ سے دیکھیں اور میرے نشان کے منجانب اللہ ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اگر ایسا آریہ جس نے کوئی نشان دیکھا ہو بلا توقف مسلمان نہ ہوجائے تو میں اس پر بددعا کروں گا پس اگر وہ ایک سال تک جذام یا نابینائی یا موت کی بلا میں مبتلا نہ ہو تو ہریک سزا اٹھانے کیلئے میں طیار ہوں اور باقی صاحبوں کیلئے بھی یہی شرائط ہیں اور اگر اب بھی میری طرف منہ نہ کریں تو ان پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہوچکی.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار غلام احمد.قادیان ضلع گورداسپورہ (یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان کے صفحہ ۲۷۲ سے صفحہ ۲۷۸ تک ہے) (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۷۲ تا ۲۷۸)

Page 392

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ قیامت کی نشانی قرب قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ایک بڑی نشانی ہے جو اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو امام بخاری اپنی صحیح میں عبداللہ بن عمرو بن العاص سے لائے ہیں اور وہ یہ ہے یُقْبَضُ الْعِلْمُ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ حَتّٰی اِذَا لَمْ یَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رَئُ وْسًا جُھَّالًا فَسُئِلُوْا فَافْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَ اَضَلُّوْا.یعنی بباعث فوت ہو جانے علماء کے علم فوت ہو جائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں ملے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدا اور سردار قرار دیدیں گے اور مسائل دینی کی دریافت کے لئے ان کی طرف رجوع کریں گے تب وہ لوگ بباعث جہالت اور عدم ملکہ استنباط مسائل خلاف طریق صدق و ثواب فتویٰ دیں گے پس آپ بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے.اور پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ اس زمانہ کے فتویٰ دینے والے یعنی مولوی اور محدّث اورفقیہ ان تمام لوگوں سے بدتر ہوں گے جو روئے زمین پر رہتے ہوں گے.پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ قرآن پڑھیں گے اور قرآن ان کے حَنْجروں کے نیچے نہیں اترے گا یعنی اس پر عمل نہیں کریں گے.ایسا ہی اس زمانہ کے مولویوں کے حق میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں.مگر اس وقت ہم بطور نمونہ صرف

Page 393

اس حدیث کا ثبوت دیتے ہیں جو غلط فتووں کے بارے میں ہم اوپر لکھ چکے ہیں تا ہر یک کو معلوم ہو کہ آج کل اگر مولویوں کے وجود سے کچھ فائدہ ہے تو صرف اس قدر کہ ان کے یہ لچھن دیکھ کر قیامت یاد آتی ہے اور قرب قیامت کا پتہ لگتا ہے اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کی پوری پوری تصدیق ہم بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ سال گزشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں بہ نیت استفادہ ضروریاتِ دین و مشورہ اعلائِ کلمہ اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ ۲۷؍ دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا انسب اور اولیٰ ہے کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت رکھتے ہیں اور بباعث ایام سرمایہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں چنانچہ احباب اور مخلصین نے اس مشورہ پر اتفاق کر کے خوشی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بہتر ہے اب ۷؍ دسمبر ۱؎ ۱۸۹۲ء کو اسی بناء پر اس عاجز نے ایک خط بطور اشتہار کے تمام مخلصوں کی خدمت میں بھیجا جو ریاض ہند پریس قادیان میں چھپا تھا جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہر یک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں اور معرفت ترقی پذیر ہو.اب سنا گیا ہے کہ اس کارروائی کو بدعت بلکہ معصیت ثابت کرنے کیلئے ایک بزرگ نے ہمت کر کے ایک مولوی صاحب کی خدمت میں جو رحیم بخش نام رکھتے ہیں اور لاہور میں چینیانوالی مسجد کے امام ہیں ایک استفتا پیش کیا جس کا یہ مطلب تھا کہ ایسے جلسہ پر روز معیّن پر دور سے سفر کر کے جانے میں کیا حکم ہے اور ایسے جلسہ کیلئے اگر کوئی مکان بطور خانقاہ کے تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا حکم ہے استفتا میں یہ آخری خبر اس لئے بڑھائی گئی جو مستفتی صاحب نے کسی سے سنا ہوگاجو حِبِّیْ فِی اللّٰہ اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب نے اس مجمع مسلمانوں کیلئے اپنے صرف سے جو غالباً سات سو روپیہ یا کچھ اس سے زیادہ ہوگا قادیان ۱؎ دیکھئے اشتہار نمبر ۹۱ جلد ہذا صفحہ ۳۶۰ (مرتب)

Page 394

میں ایک مکان بنوایا جس کی امداد خرچ میں اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے بھی تین چار سو روپیہ دیا ہے.اس استفتا کے جواب میں میاں رحیم بخش صاحب نے ایک طول طویل عبارت ایک غیرمتعلق حدیث شَدِّ رِحَال کے حوالہ سے لکھی ہے جس کے مختصر الفاظ یہ ہیں کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کیلئے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں.اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے.اب منصف مزاج لوگ ایماناً کہیں کہ ایسے مولویوں اور مفتیوں کا اسلام میں موجود ہونا قیامت کی نشانی ہے یا نہیں.اے بھلے مانس! کیا تجھے خبر نہیں کہ علم دین کیلئے سفر کرنے کے بارے میں صرف اجازت ہی نہیں بلکہ قرآن اور شارع علیہ السلام نے اس کو فرض ٹھہرا دیا ہے جس کا عمدًاتارک مرتکب کبیرہ اور عمداً انکار پر اصرار بعض صورتوں میں.کفر کیا تجھے معلوم نہیں کہ نہایت تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ ؟ اور فرمایا گیا ہے کہ اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَ لَوْ کَانَ فِی الصِّیْنِ.یعنی علم طلب کرنا ہر یک مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے.اورعلم کوطلب کرو اگرچہ چین میں جانا پڑے.اب سوچو کہ جس حالت میں یہ عاجز اپنے صریح صریح اور ظاہر ظاہر الفاظ سے اشتہار میں لکھ چکا کہ یہ سفر ہر یک مخلص کا طلب علم کی نیت سے ہوگا پھر یہ فتویٰ دینا کہ جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے کس قدر دیانت اور امانت اور انصاف اور تقویٰ اور طہارت سے دور ہے رہی یہ بات کہ ایک تاریخ مقررہ پر تمام بھائیوں کا جمع ہونا تو یہ صرف انتظام ہے اور انتظام سے کوئی کام کرنا اسلام میں کوئی مذموم امر اور بدعت نہیں اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ.بدظنی کے مادہ فاسدہ کوذرا دور کرکے دیکھو کہ ایک تاریخ پر آنے میں کونسی بدعت ہے جبکہ ۲۷؍ دسمبر کو ہر یک مخلص بآسانی ہمیں مل سکتا ہے اور اس کے ضمن میں ان کی باہم ملاقات بھی ہو جاتی ہے تواس سہل طریق سے فائدہ اٹھانا کیوں حرام ہے تعجب کہ مولوی صاحب نے اس عاجز کا نام مردود تو رکھ دیا مگر آپ کووہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں طلب علم کیلئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی نسبت ترغیب دی ہے اور جن میں ایک بھائی مسلمان کی ملاقات کیلئے جانا موجب خوشنودی خدائے عَزَّوَجَلّ قرار دیا ہے اور

Page 395

جن میں سفر کرکے زیارت صالحین کرنا موجب مغفرت اور کفارہ گناہاں لکھا ہے.اور یاد رہے کہ یہ سراسر جہالت ہے کہ شَدِّ رِحَال کی حدیث کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ بجز قصد خانہ کعبہ یا مسجد نبوی یا بیت المقدس اور تمام سفرقطعی حرام ہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مسلمانوں کو مختلف اغراض کیلئے سفر کرنے پڑتے ہیں کبھی سفر طلب علم ہی کیلئے ہوتا ہے اور کبھی سفر ایک رشتہ دار یا بھائی یا بہن یا بیوی کی ملاقات کیلئے یا مثلًا عورتوں کا سفر اپنے والدین کے ملنے کیلئے یا والدین کا اپنی لڑکیوں کی ملاقات کیلئے اور کبھی مرد اپنی شادی کیلئے اور کبھی تلاش معاش کے لئے اور کبھی پیغام رسانی کے طور پر اور کبھی زیارت صالحین کیلئے سفر کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت اویس قرنی کے ملنے کیلئے سفر کیا تھا اور کبھی سفر جہاد کیلئے بھی ہوتا ہے خواہ وہ جہاد تلوار سے ہو اور خواہ بطور مباحثہ کے اور کبھی سفر بہ نیت مباہلہ ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور کبھی سفر اپنے مرشد کے ملنے کیلئے جیسا کہ ہمیشہ اولیاء کبار جن میں سے حضرت شیخ عبد القادر رضی اللہ عنہ اور حضرت بایزیدبسطامی اور حضرت معین الدین چشتی اور حضرت مجدد الف ثانی بھی ہیں اکثر اس غرض سے بھی سفر کرتے رہے جن کے سفرنامے اکثر ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اب تک پائے جاتے ہیں.اور کبھی سفر فتویٰ پوچھنے کیلئے بھی ہوتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے اس کا جواز بلکہ بعض صورتوں میں وجوب ثابت ہوتا ہے اور امام بخاری کے سفر طلب علم حدیث کیلئے مشہور ہیں شاید میاں رحیم بخش کو خبر نہیں ہو گی اور کبھی سفر عجائباتِ دنیا کے دیکھنے کیلئے بھی ہوتا ہے جس کی طرف آیت کریمہ  ۱؎ اشارت فرما رہی ہے اور کبھی سفر صادقین کی صحبت میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ .۲؎ ہدایت فرماتی ہے اور کبھی سفر عیادت کیلئے بلکہ اتباع جناز کے لئے بھی ہوتا ہے اور کبھی بیمار یا بیماردار علاج کرانے کی غرض سے سفر کرتا ہے اور کبھی کسی مقدمہ عدالت یا تجارت وغیرہ کیلئے بھی سفر کیا جاتا ہے اور یہ تمام قسم سفر کی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے رو سے جائز ہیں بلکہ زیارت صالحین اور ملاقات اخوان اور ۱؎ الانعام: ۱۲ ۲؎ التوبۃ:۱۱۹

Page 396

طلب علم کے سفر کی نسبت احادیث صحیحہ میں بہت کچھ حَثّ وترغیب پائی جاتی ہے اگر اس وقت وہ تمام حدیثیں لکھی جائیں تو ایک کتاب بنتی ہے.ایسے فتویٰ لکھانے والے اور لکھنے والے یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کو بھی تو اکثر اس قسم کے سفر پیش آ جاتے ہیں.پس اگر بجز تین مسجدوں کے اور تمام سفر کرنے حرام ہیں تو چاہیے کہ یہ لوگ اپنے تمام رشتے ناطے اور عزیز اقارب چھوڑ کر بیٹھ جائیں اور کبھی اُن کی ملاقات یا ان کی غم خواری یا ان کی بیمار پُرسی کے لئے بھی سفر نہ کریں.میں خیال نہیں کرتا کہ بجز ایسے آدمی کے جس کو تعصب اور جہالت نے اندھا کر دیا ہو وہ اِن تمام سفروں کے جواز میں متأمّل ہو سکے صحیح بخاری کا صفحہ ۱۶ کھول کر دیکھو کہ سفر طلب علم کیلئے کس قدر بشارت دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَطْلُبُ بِہٖ عِلْمًا سَھَّلَ اللّٰہُ لَہٗ طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ یعنی جو شخص طلب علم کیلئے سفر کرے اور کسی راہ پر چلے تو خدا تعالیٰ بہشت کی راہ اس پر آسان کر دیتا ہے.اب اے ظالم مولوی! ذرا انصاف کر کہ تُو نے اپنے بھائی کا نام جو تیری طرح کلمہ گو اہل قبلہ اور اللہ رسول پر ایمان لاتا ہے مردود رکھا اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بکلّی محروم قرار دیا اور اس صحیح حدیث بخاری کی بھی کچھ پروا نہ کی کہ اَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِہٖ اَوْ نَفْسِہٖ اور مردود ٹھہرانے کی اپنے فتویٰ میں وجہ یہ ٹھہرائی کہ ایسا اشتہار کیوں شائع کیا اور لوگوں کو جلسہ پر بلانے کیلئے کیوں دعوت کی.اے ناخدا ترس! ذرہ آنکھ کھول اور پڑھ کہ اس اشتہار ۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء کا کیا مضمون ہے کیا اپنی جماعت کو طلب علم اور حل مشکلاتِ دین اور ہمدردیِ اسلام اور برادرانہ ملاقات کیلئے بلایا ہے یا اس میں کسی اور میلہ تماشا اور راگ اور سرود کا ذکر ہے.اے اس زمانہ کے ننگِ اسلام مولویو! تم اللہجَلَّ شَانُـہٗ سے کیوں نہیں ڈرتے کیا ایک دن مرنا نہیں یا ہریک مؤاخذہ تم کو معاف ہے؟ حق بات کو سن کر اور اللہ اور رسول کے فرمودہ کو دیکھ کر تمہیں یہ خیال تو نہیں آتا کہ اب اپنی ضد سے باز آجائیں بلکہ مقدمہ باز لوگوں کی طرح یہ خیال آتا ہے کہ آئو کسی طرح باتوں کو بناکر اس کا ردّ چھاپیں تا لوگ نہ کہیں کہ ہمارے مولوی صاحب کو کچھ جواب نہ آیا.اس قدر دلیری اور بددیانتی اور یہ بخل اور بغض کس عمر کیلئے.آپ کو فتویٰ لکھنے کے وقت وہ حدیثیں یاد نہ

Page 397

رہیں جن میں علم دین کیلئے اور اپنے شبہات دور کرنے کیلئے اور اپنے دینی بھائی اور عزیزوں کو ملنے کیلئے سفر کرنے کو موجب ثواب کثیر و اجر عظیم قرار دیا ہے بلکہ زیارت صالحین کیلئے سفر کرنا قدیم سے سنت سلف صالح چلی آئی ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ جب قیامت کے دن ایک شخص اپنی بد اعمالی کی وجہ سے سخت مؤاخذہ میں ہوگا تو اللہ جَلّ شَانُـہٗ اس سے پوچھے گا کہ فلاں صالح آدمی کی ملاقات کیلئے کبھی تو گیا تھا تو وہ کہے گا بالارادہ تو کبھی نہیں گیا مگر ایک دفعہ ایک راہ میں اس کی ملاقات ہوگئی تھی تب خدا تعالیٰ کہے گا کہ جا بہشت میں داخل ہو میں نے اسی ملاقات کی وجہ سے تجھے بخش دیا.اب اے کوتہ نظر مولوی! ذرہ نظر کر کہ یہ حدیث کس بات کی ترغیب دیتی ہے.اور اگر کسی کے دل میں یہ دھوکہ ہو کہ اس دینی جلسہ کیلئے ایک خاص تاریخ کیوں مقرر کی.ایسا فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے کب ثابت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری اور مسلم کو دیکھو کہ اہل بادیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں مسائل کے دریافت کرنے کیلئے اپنی فرصت کے وقتوں میں آیا کرتے تھے اور بعض خاص خاص مہینوں میں ان کے گروہ فرصت پاکر حاضر خدمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوا کرتے تھے اور صحیح بخاری میں ابی جمرہ سے روایت ہے.قَالَ اِنَّ وَفْدَ عَبْدَالْقَیْسِ اَتَوا النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوْا اِنَّا نَأْتِیْکَ مِنْ شِقَّۃٍ بَعِیْدَۃٍ وَ لَا نَسْتَطِیْعُ اَنْ نَّأْتِیَکَ اِلَّا فِیْ شَھْرِ حَرَامٍ.یعنی ایک گروہ قبیلہ عبدالقیس کے پیغام لانے والوں کا جو اپنی قوم کی طرف سے آئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہم لوگ دور سے سفر کر کے آتے ہیں اور بجز حرام مہینوں کے ہم حاضر خدمت ہونہیںسکتے.اور ان کے قول کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ردّ نہیں کیا اور قبول کیا.پس اس حدیث سے بھی یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جو لوگ طلب علم یا دینی ملاقات کیلئے کسی اپنے مقتدا کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیں وہ اپنی گنجائش فرصت کے لحاظ سے ایک تاریخ مقرر کر سکتے ہیں جس تاریخ میں وہ بآسانی اور بلا حرج حاضر ہو سکیں اور یہی صورت ۲۷ ؍دسمبر کی تاریخ میں ملحوظ ہے کیونکہ وہ دن تعطیلوں کے ہوتے ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ بہ سہولت ان دنوں میں آ سکتے ہیں.اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس دین میں کوئی حرج کی بات

Page 398

نہیں رکھی گئی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر مثلًاکسی تدبیر یا انتظام سے ایک کام جو دراصل جائز اور روا ہے سہل اور آسان ہوسکتا ہے تو وہی تدبیر اختیار کرلو کچھ مضائقہ نہیں.ان باتوں کا نام بدعت رکھنا ان اندھوں کا کام ہے جن کو نہ دین کی عقل دی گئی اور نہ دنیا کی.امام بخاری نے اپنی صحیح میں کسی دینی تعلیم کی مجلس پر تاریخ مقرر کرنے کیلئے ایک خاص باب منعقد کیا ہے جس کا یہ عنوان ہے مَنْ جَعَلَ لِاَھْلِ الْعِلْمِ اَیَّامًا مَعْلُوْمَۃً یعنی علم کے طالبوں کے افادہ کیلئے خاص دنوں کو مقرر کرنا بعض صحابہ کی سنت ہے.اس ثبوت کیلئے امام موصوف اپنی صحیح میں ابی وایل سے یہ روایت کرتے ہیں کَانَ عَبْدُاللّٰہِ یُذَکِّرُ النَّاسَ فِیْ کُلِّ خَمِیْسٍ یعنی عبداللہ نے اپنے وعظ کیلئے جمعرات کا دن مقرر کر رکھا تھا.اور جمعرات میں ہی اس کے وعظ پر لوگ حاضر ہوتے تھے.یہ بھی یاد رہے کہ اللہ جَلّ شَانُـہٗ نے قرآن کریم میں تدبیر اور انتظام کیلئے ہمیں حکم فرمایا ہے اور ہمیں مامور کیا ہے کہ جو احسن تدبیر اور انتظام خدمت اسلام کیلئے ہم قرین مصلحت سمجھیں اور دشمن پر غالب ہونے کیلئے مفید خیال کریں وہی بجا لاویں جیسا کہ وہ عَزَّاِسْمُہٗ فرماتا ہے. .۱؎ یعنی دینی دشمنوں کیلئے ہر یک قسم کی طیاری جو کرسکتے ہو کرو اور اعلائِ کلمہئِ اسلام کیلئے جو قوت لگا سکتے ہو لگائو.اب دیکھو کہ یہ آیت کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرما رہی ہے کہ جو تدبیریں خدمت اسلام کیلئے کارگر ہوں سب بجا لائو اور تمام قوت اپنے فکر کی اپنے بازو کی اپنی مالی طاقت کی اپنے احسن انتظام کی اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو تا تم فتح پائو.اب نادان اور اندھے اور دشمن دین مولوی اِس صرفِ قوّت اور حکمت عملی کا نام بدعت رکھتے ہیں.اِس وقت کے یہ لوگ عالم کہلاتے ہیں جن کو قرآن کریم کی ہی خبر نہیں.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.اس آیت موصوفہ بالا پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ بَرطَبق حدیثِ نبوی کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ ِالنِّیَّاتِ کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کیلئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے جیسے جیسے بوجہ تبدل زمانہ کے اسلام کو نئی نئی صورتیں مشکلات کی پیش آتی ہیں یا نئے نئے طور پر ہم لوگوں پر ۱؎ الانفال:

Page 399

مخالفوں کے حملے ہوتے ہیں ویسی ہی ہمیں نئی تدبیریں کرنی پڑتی ہیں پس اگرحالت موجودہ کے موافق ان حملوں کے روکنے کی کوئی تدبیر اور تدارک سوچیں تو وہ ایک تدبیر ہے بدعات سے اُس کو کچھ تعلق نہیں اور ممکن ہے کہ بباعث انقلاب زمانہ کے ہمیں بعض ایسی نئی مشکلات پیش آجائیں جو ہمارے سید و مولیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس رنگ اور طرز کی مشکلات پیش نہ آئی ہوں مثلاً ہم اس وقت کی لڑائیوں میں پہلی طرز کو جو مسنون ہے اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانہ میں طریق جنگ و جدل بالکل بدل گیا ہے اور پہلے ہتھیار بیکار ہوگئے اور نئے نئے ہتھیار لڑائیوں کے پیدا ہوئے اب اگر ان ہتھیاروں کو پکڑنا اور اٹھانا اور ان سے کام لینا ملوک اسلام بدعت سمجھیں اور میاں رحیم بخش جیسے مولوی کی بات پر کان دھر کے اِن اسلحہ جدیدہ کا استعمال کرنا ضلالت اور معصیت خیال کریں اور یہ کہیں کہ یہ وہ طریق جنگ ہے کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور نہ صحابہ اور تابعین نے تو فرمائیے کہ بجز اس کے کہ ایک ذلت کے ساتھ اپنی ٹوٹی پھوٹی سلطنتوں سے الگ کئے جائیں اور دشمن فتح یاب ہو جائے کوئی اور بھی اس کا نتیجہ ہوگا.پس ایسے مقامات تدبیر اور انتظام میں خواہ وہ مثلاً جنگ و جدل ظاہری ہو یا باطنی اور خواہ تلوار کی لڑائی ہو یا قلم کی ہماری ہدایت پانے کیلئے یہ آیت کریمہ موصوفہ بالا کافی ہے یعنی یہ کہ.اللہ جَلَّ شَانُـہٗ اس آیت میں ہمیں عام اختیار دیتا ہے کہ دشمن کے مقابل پر جو احسن تدبیر تمہیں معلوم ہو اور جو طرز تمہیں موثر اور بہتر دکھائی دے وہی طریق اختیار کرو پس اب ظاہر ہے کہ اِس احسن انتظام کا نام بدعت اور معصیت رکھنا اور انصار دین کو جو دن رات اعلائِ کلمہئِ اسلام کی فکر میں ہیں جن کی نسبتآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حُبُّ الْاَنْصَارِ مِنَ الْاِیْمَانِ ان کو مردود ٹھہرانا نیک طینت انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کی روحانی صورتیں مسخ شدہ ہیں اور اگر یہ کہو کہ یہ حدیث کہ حُبُّ الْاَنْصَارِ مِنَ الْاِیْمَانِ.وَ بُغْضُ الْاَنْصَارِ مِنَ النِّفَاقِ یعنی انصار کی محبت ایمان کی نشانی اور انصار سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے یہ ان انصار کے حق میں ہے جو مدینہ کے رہنے والے تھے نہ عام اور تمام انصار تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جو اُس زمانہ کے بعد انصار رسول اللہ ہوں اُن سے

Page 400

بغض رکھنا جائز ہے نہیںنہیں بلکہ یہ حدیث گو ایک خاص گروہ کیلئے فرمائی گئی مگر اپنے اندر عموم کا فائدہ رکھتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اکثر آیتیں خاص گروہ کیلئے نازل ہوئیں مگر ان کا مصداق عام قرار دیا گیا ہے غرض ایسے لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں انصار دین کے دشمن اور یہودیوں کے قدموں پر چل رہے ہیں.مگر ہمارا یہ قول کُلّی نہیں ہے راستباز علماء اس سے باہر ہیں صرف خائن مولویوں کی نسبت یہ لکھا گیا ہے.ہر یک مسلمان کو دعا کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ جلد اسلام کو ان خائن مولویوں کے وجود سے رہائی بخشے.کیونکہ اسلام پر اب ایک نازک وقت ہے اور یہ نادان دوست اسلام پر ٹھٹھا اور ہنسی کرانا چاہتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو صریح ہریک شخص کے نور قلب کو خلاف صداقت نظر آتی ہیں.امام بخاری پر اللہ تعالیٰ رحمت کرے انہوں نے اس بارے میں بھی اپنی کتاب میں ایک باب باندھا ہے چنانچہ وہ اس باب میں لکھتے ہیں قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ أَتُحِبُّوْنَ اَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ اور بخاری کے حاشیہ میں اس کی شرح میں لکھا ہے اَیْ تُکَلِّمُوا النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِہِمْ یعنی لوگوں سے اللہ اور رسولؐ کے فرمودہ کی وہ باتیں کرو جو ان کوسمجھ جائیں اور ان کو معقول دکھائی دیں خواہ نخواہ اللہ رسول کی تکذیب مت کرائو.اب ظاہر ہے کہ جو مخالف اِس بات کو سنے گا کہ مولوی صاحبوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بجز تین مسجدوں یا ایک دو اور محل کے اور کسی طرف سفر جائز نہیں ایسا مخالف اسلام پر ہنسے گا اور شارع علیہ السلام کی تعلیم میں نقص نکالنے کیلئے اس کو موقع ملے گا اس کو یہ تو خبر نہیں ہوگی کہ کسی بخل کی بناء پر یہ صرف مولوی کی شرارت ہے یا اُس کی بیوقوفی ہے وہ تو سیدھا ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آورہوگا جیسا کہ انہیں مولویوں کی ایسی ہی کئی مفسدانہ باتوں سے عیسائیوں کو بہت مدد پہنچ گئی مثلاً جب مولویوں نے اپنے منہ سے اقرار کیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو نَعُوْذُ بِاللّٰہمُردہ ہیں مگر حضرت عیسیٰ قیامت تک زندہ ہیں تو وہ لوگ اہل اسلام پر سوار ہوگئے اور ہزاروں سادہ لوحوں کو انہوں نے اِنہیں باتوں سے گمراہ کیا اور اِن بے تمیزوں نے یہ نہیں سمجھا کہ انبیاء تو سب زندہ ہیں مردہ تو ان میں سے کوئی بھی نہیں.معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی لاش نظر نہ آئی سب زندہ تھے.دیکھئے اللہ جَلَّ شَانُـہٗ اپنے

Page 401

نبی کریمؐ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی قرآن کریم میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے ۱؎ اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت کے بعد اپنا زندہ ہو جانا اور آسمان پر اٹھائے جانا اور رفیق اعلیٰ کو جا ملنا بیان فرماتے ہیں پھر حضرت مسیح کی زندگی میں کونسی انوکھی بات ہے جو دوسروں میں نہیں.معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کو برابر زندہ پایا اور حضرت عیسیٰ کو حضرت یحییٰ کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا.خدا تعالیٰ مولوی عبدالحق محدّث دہلوی پر رحمت کرے وہ ایک محدّث وقت کا قول لکھتے ہیں کہ ان کا یہی مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو کر کسی دوسرے نبی کی حیات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے قوی تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا شاید یہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ وہ کافر ہو جائے لیکن یہ مولوی ایسے فتنوں سے باز نہیں آتے اور محض اس عاجز سے مخالفت ظاہر کرنے کیلئے دین سے نکلتے جاتے ہیں خدا تعالیٰ ان سب کو صفحہ زمین سے اٹھا لے تو بہتر ہے تا دین اسلام ان کی تحریفوں سے بچ جائے ذرا انصاف کرنے کامحل ہے کہ صدہا لوگ طلب علم یا ملاقات کیلئے نذیر حسین خشک معلّم کے پاس دہلی میں جائیں اور وہ سفر جائز ہو اور پھر خود نذیر حسین صاحب بٹالوی صاحب کا ولیمہ کھانے کیلئے بدیں عمر و پیرانہ سالی دو سو کوس کا سفر اختیار کر کے بٹالہ میں پہنچیں اور وہ سفر بالکل روا ہو اور پھر شیخ بٹالوی صاحب سال بسال انگریزوں کے ملنے کیلئے شملہ کی طرف دوڑتے جائیں تا دنیوی عزت حاصل کرلیں اور وہ سفر ممنوع اور حرام شمار نہ کیا جائے.اور ایسا ہی بعض مولوی وعظ کا نام لیکر پیٹ بھرنے کیلئے مشرق اور مغرب کی طرف گھومتے پھریں اور وہ سفر جائے اعتراض نہ ہو اور کوئی ان لوگوں پر بدعتی اور بد اعمال اور مردود ہونے کے فتوے نہ دے مگر جبکہ یہ عاجز باذن و امر الٰہی دعوت حق کیلئے مامور ہو کر طلب علم کیلئے اپنی جماعت کے لوگوں کو بلاوے تو وہ سفر حرام ہو جائے اور یہ عاجز اس فعل کی وجہ سے مردود کہلاوے کیا یہ تقویٰ اور خدا ترسی کا طریق ہے؟ افسوس! کہ یہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ تدبیر اور انتظام کو بدعات کی مد میں داخل نہیں کر سکتے.ہر یک وقت اور زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے.اگر مشکلات کی جدید ۱؎ السجدۃ: ۲۴

Page 402

صورتیں پیش آویں تو بجز جدید طور کی تدبیروں کے اور ہم کیا کر سکتے ہیں.پس کیا یہ تدبیریں بدعات میں داخل ہو جائیں گی جب اصل سنت محفوظ ہو اور اسی کی حفاظت کیلئے بعض تدابیر کی ہمیں حاجت پڑے تو کیا وہ تدابیر بدعت کہلائیں گی مَعَاذَ اللہ! ہرگز نہیں.بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سنت نبویہ کے معارض اور نقیض واقع ہو اور آثار نبویہ میں اُس کام کے کرنے کے بارے میں زجر اور تہدید پائی جائے.اور اگر صرف جدت انتظام اور نئی تدبیر پر بدعت کا نام رکھنا ہے تو پھر اسلام میں بدعتوں کو گنتے جاؤ کچھ شمار بھی ہے.علمِ صَرف بھی بدعت ہو گا اور علمِ نَحو بھی اور علم کلام بھی اور حدیث کا لکھنا اور اس کا مبوّب اور مرتب کرنا سب بدعات ہوں گے ایسا ہی ریل کی سواری میں چڑھنا، کلوں کا کپڑاپہننا، ڈاک میں خط ڈالنا، تار کے ذریعہ سے کوئی خبر منگوانا اور بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا تمام یہ کام بدعات میں داخل ہوں گے بلکہ بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا نہ صرف بدعت بلکہ ایک گناہ عظیم ٹھہرے گا کیونکہ ایک حدیث صحیح میں ہے کہ آگ کے عذاب سے کسی کو ہلاک کرنا سخت ممنوع ہے.صحابہ سے زیادہ سنت کا متبع کون ہو سکتا ہے مگر انہوں نے بھی سنت کے وہ معنی نہ سمجھے جو میاں رحیم بخش نے سمجھے.انہوں نے تدبیر اور انتظام کے طور پر بہت سے ایسے جدید کام کئے کہ جو نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے اور نہ قرآن کریم میں وارد ہوئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محدثات ہی دیکھو جن کا ایک رسالہ بنتا ہے.اسلام کیلئے ہجری تاریخ انہوں نے مقرر کی اور شہروں کی حفاظت کیلئے کوتوال مقرر کئے اور بیت المال کیلئے ایک باضابطہ دفتر تجویز کیا.جنگی فوج کیلئے قواعد رخصت اور حاضری ٹھہرائے اور ان کے لڑنے کے دستور مقرر کئے اور مقدمات مال وغیرہ کے رجوع کیلئے خاص خاص ہدایتیں مرتب کیں اور حفاظت رعایا کیلئے بہت سے قواعد اپنی طرف سے تجویز کرکے شائع کئے اور خود کبھی کبھی اپنے عہد ِخلافت میں پوشیدہ طور پر رات کو پھرنا اور رعایا کا حال اس طرح سے معلوم کرنا اپنا خاص کام ٹھہرایا لیکن کوئی ایسا نیا کام اس عاجز نے تو نہیں کیا.صرف طلب علم اور مشورہ امداد اسلام اور ملاقات اخوان کے لئے یہ جلسہ تجویز کیا.رہا مکان کا بنانا تو اگر کوئی مکان بہ نیّت مہمانداری اور بہ نیّت آرام ہر یک صادر و وارد بنانا حرام ہے تو اس پر کوئی حدیث یا آیت پیش کرنی چاہیے اور اخویم حکیم نورالدین صاحب نے کیا گناہ کیا کہ محض ِللہ اس سلسلہ کی جماعت کیلئے ایک مکان بنوا دیا جو شخص اپنی

Page 403

تمام طاقت اور اپنے مال عزیز سے دین کی خدمت کر رہا ہے اس کو جائے اعتراض ٹھہرانا کس قسم کی ایمانداری ہے.اے حضرات! مرنے کے بعد معلوم ہوگا ذرا صبر کرو وہ وقت آتا ہے کہ ان سب منہ زوریوں سے سوال کئے جائو گے.آپ لوگ ہمیشہ یہ حدیث پڑھتے ہیں کہ جس نے اپنے وقت کے امام کو شناخت نہ کیا اور مر گیا وہ جاہلیت کی موت پر مرا لیکن اس کی آپ کو کچھ بھی پرواہ نہیں کہ ایک شخص عین وقت پر یعنی چودھویں صدی کے سر پر آیا اور نہ صرف چودھویں صدی بلکہ عین ضلالت کے وقت اور عیسائیت اور فلسفہ کے غلبہ میں اس نے ظہور کیا اور بتلایا کہ میں امام وقت ہوں اور آپ لوگ اس سے منکر ہوگئے اور اس کا نام کافر اور دجّال رکھا اور اپنے بد خاتمہ سے ذرا خوف نہ کیا اور جاہلیت پر مرنا پسند کیا.اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی کہ تم پنج وقت نمازوں میں یہ دعا پڑھا کرو کہ ۱؎ یعنی اے ہمارے خدا اپنے منعم علیہم بندوں کی ہمیں راہ بتا وہ کون ہیں.نبی اور صدیق اور شہید اور صلحاء.اس دعا کا خلاصہ مطلب یہی تھا کہ ان چاروں گروہوں میں سے جس کا زمانہ تم پائو اس کے سایہ صحبت میں آجائو اور اس سے فیض حاصل کرو لیکن اس زمانہ کے مولویوں نے اس آیت پر خوب عمل کیا.آفرین آفرین!! میں ان کو کس سے تشبیہ دوں وہ اس اندھے سے مشابہ ہیں جو دوسروں کی آنکھوں کا علاج کرنے کیلئے بہت زور کے ساتھ لاف و گذاف مارتا ہے اور اپنی نابینائی سے غافل ہے.بالآخر میں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ اگر مولوی رحیم بخش صاحب اب بھی اس فتویٰ سے رجوع نہ کریں تو میں ان کو اللہ جَلَّ شَانُـہٗ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر وہ طالب حق ہیں تو اس بات کے تصفیہ کے لئے میرے پاس قادیان میں آجائیں میں ان کی آمد و رفت کا خرچ دے دوں گا اور ان پر کتابیں کھول کر اور قرآن اور حدیث دکھلا کر ثابت کر دوں گا کہ یہ فتویٰ ان کا سراسر باطل اور شیطانی اغوا سے ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور (۱۷؍دسمبر ۱۸۹۲ء) مطبوعہ ریاض ہند (یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام کے آخر میں بطور ضمیمہ صفحہ الف تا ح طبع ہوا ہے) (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۰۵ تا ۶۱۲) ۱؎ الفاتحۃ: ۶،۷

Page 404

 ناظرین کی توجہ کے لایق اس بات کے سمجھنے کے لئے کہ انسان اپنے منصوبوں سے خدا تعالیٰ کے کاموں کو روک نہیں سکتا یہ نظیر نہایت تشفی بخش ہے کہ سال گزشتہ میں جب ابھی فتویٰ تکفیر میاں بٹالوی صاحب کا طیار نہیں ہوا تھا اور نہ انہوں نے کچھ بڑی جدوجہد اور جان کنی کے ساتھ اس عاجز کے کافر ٹھہرانے کے لئے توجہ فرمائی تھی صرف ۷۵ احباب اور مخلصین تاریخ جلسہ پر قادیان میں تشریف لائے تھے.مگر اب جبکہ فتویٰ طیار ہوگیا اور بٹالوی صاحب نے ناخنوں تک زور لگا کر اور آپ بصد مشقت ہر یک جگہ پہنچ کر اور سفر کی ہر روزہ مصیبتوں سے کوفتہ ہو کر اپنے ہم خیال علماء سے اس فتویٰ پر مہریں ثبت کرائیں اور وہ اور ان کے ہم مشرب علماء بڑے ناز اور خوشی سے اس بات کے مدعی ہوئے کہ گویا اب انہوں نے اس الٰہی سلسلہ کی ترقی میں بڑی بڑی روکیں ڈال دی ہیں تو اس سالانہ جلسہ میں بجائے ۷۵ کے تین سو ستائیس احباب شامل جلسہ ہوئے اور ایسے صاحب بھی تشریف لائے جنہوں نے توبہ کر کے بیعت کی.اب سوچنا چاہیے کہ کیا یہ خدا تعالیٰ کی عظیم الشان قدرتوں کا ایک نشان نہیں کہ بٹالوی صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کی کوششوں کا الٹا نتیجہ نکلا اور وہ سب کوششیں برباد گئیں.کیا یہ خدا تعالیٰ کا فعل نہیں کہ میاں بٹالوی کے پنجاب اور ہندوستان میں پھرتے پھرتے پائوں بھی گھس گئے لیکن انجام کار خدا تعالیٰ نے ان کو دکھلا دیا کہ کیسے اُس کے ارادے انسان کے ارادوں پر غالب ہیں.  .۱؎ اس سال میں خدا تعالیٰ نے دو نشان ظاہر کئے.ایک ۱؎ یوسف: ۲۲

Page 405

بٹالوی کا اپنی کوششوں میں نامراد رہنا.دوسرے اس پیشگوئی کے پورے ہونے کا نشان جو نور افشاں.۱۰ مئی ۱۸۸۸ء میں چھپ کر شائع ہوئی تھی.اب بھی بہتر ہے کہ بٹالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب باز آجائیں اور خدا تعالیٰ سے لڑائی نہ کریں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان (یہ اشتہار ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۱۷، ۱۸ پر طبع ہوا ہے) (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۲۹ و ۶۳۰)

Page 406

 قابل توجہ احباب اگرچہ مکرر یاد دہانی کی کچھ ضرورت نہیں تھی لیکن چونکہ دل میں انجام خدمت دینی کے لئے سخت اضطراب ہے اس وجہ سے پھر یہ چند سطریں بطور تاکید لکھتا ہوں.اے جماعت مخلصین !خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اس وقت ہمیں تمام قوموں کے ساتھ مقابلہ درپیش ہے اور ہم خدا تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ اگر ہم ہمت نہ ہاریں اور اپنے سارے دل اور سارے زور اور ساری توجہ سے خدمت اسلام میں مشغول ہوں تو فتح ہماری ہوگی.سو جہاں تک ممکن ہو اس کام کیلئے کوشش کرو.ہمیں اس وقت تین قسم کی جمعیت کی سخت ضرورت ہے.جس پر ہمارے کام اشاعت حقائق و معارف دین کا سارا مدار ہے.اوّل یہ کہ ہمارے ہاتھ میں کم سے کم دو پریس ہوں.دوئم ایک خوشخط کاپی نویس.سوئم کاغذ.ان تینوں مصارف کے لئے اڑھائی سو روپیہ ماہواری کا تخمینہ لگایا گیا ہے.اب چاہیے کہ ہر ایک دوست اپنی اپنی ہمت اور مقدرت کے موافق بہت جلد بلاتوقف اس چندہ میں شریک ہو.اور یہ چندہ ہمیشہ ماہواری طور سے ایک تاریخ مقررہ پر پہنچ جانا چاہیے.بالفعل یہ تجویز ہوئی کہ بقیہ براہین اور ایک اخبار جاری ہو اور آئندہ جو جو ضرورتیں پیش آئیں گی ان کے موافق وقتًا فوقتًا رسائل نکلتے رہیں گے.اور چونکہ یہ تمام کاروبار چندہ پر موقوف ہے اس لئے اس بات کو پہلے سوچ لینا چاہیے کہ اس قدر اپنی طرف سے چندہ مقرر کریں جو بہ سہولت ماہ بماہ پہنچ سکے.

Page 407

اے مردامانِ دین! کوشش کرو کہ یہ کوشش کا وقت ہے اپنے دلوں کو دین کی ہمدردی کیلئے جوش میں لائو کہ یہی جوش دکھانے کے دن ہیں.اب تم خدا تعالیٰ کو کسی اور عمل سے ایسا راضی نہیں کر سکتے جیسا کہ دین کی ہمدردی سے.سو جاگو اور اٹھو اور ہوشیار ہو جائو!! اور دین کی ہمدردی کے لئے وہ قدم اٹھائو کہ فرشتے بھی آسمان پر جزاکم اللہ کہیں اس سے مت غمگین ہو کہ لوگ تمہیں کافر کہتے ہیں تم اپنا اسلام خدا تعالیٰ کو دکھلائو اور اتنے جھکو کہ بس فدا ہی ہو جائو.دوستاں خود را نثارِ حضرتِ جاناں کنید در رہِ آں یار جانی جان و دل قربان کنید۱؎ آن دلِ خوش باش را اندر جہان جویدخوشی ازپئے دین محمد کلبۂ احزان کنید از تعیش ہا بروں آید اے مردانِ حق خویشتن را از پئے اسلام سرگردان کنید (یہ اشتہار ضمیمہ آئینہ کمالاتِ اسلام بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان کے صفحہ ۲۴ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۳۶) ۱؎ ترجمہ اشعار.اے دوستو اپنے تئیں محبوب حقیقی پر قربان کردو اور اس جانی دوست کی راہ میں جان و دل نثار کردو.اس آرام پسند دل کو جو اس جہاں میں خوشیاں ڈھونڈتا ہے محمد کے دین کی خاطر بیت الحزن بنادو.اے مردانِ خدا عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ دو اور اب اپنے آپ کو اسلام کی خاطر سرگرداں کرو.

Page 408

 اشتہار کتاب آئینہ کمالات اسلام  ۱؎ اے ایماندارو اگر تم اللہ تعالیٰ کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا.اے عزیزان مدد دین متین آں کارے ست کہ بصد زہد میسّر نہ شود انسان را۲؎ واضح ہو کہ یہ کتاب جس کا نامِ نامی عنوان میں درج ہے.ان دنوں میں اس عاجز نے اس غرض سے لکھی ہے کہ دنیا کے لوگوں کو قرآن کریم کے کمالات معلوم ہوں اور اسلام کی اعلیٰ تعلیم سے ان کو اطلاع ملے اور میں اس بات سے شرمندہ ہوں کہ میں نے یہ کہا کہ میں نے اس کو لکھا ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اوّل سے آخر تک اس کے لکھنے میں آپ مجھ کو عجیب در عجیب مددیں دی ہیں اور وہ عجیب لطائف و نکات اس میں بھر دئیے ہیں کہ جو انسان کی معمولی طاقتوں سے بہت بڑھ کر ہیں.میں جانتا ہوں کہ اس نے یہ اپنا ایک نشان دکھلایا ہے تاکہ معلوم ہو کہ وہ کیونکر اسلام کی غربت کے زمانہ میں اپنی خاص تائیدوں کے ساتھ اس کی حمایت کرتا ہے اور کیونکر ایک عاجز انسان کے دل پر تجلی کر کے لاکھوں آدمیوں کے منصوبوں کو خاک میں ملاتا اور ان کے حملوں کو پاش پاش کر کے دکھلا دیتا ہے.مجھے یہ بڑی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی اولاد اور اسلام کے شرفاء کی ذرّیت جن کے سامنے نئے علوم کی لغزشیں دن بدن بڑھتی جاتی ہیں.اس کتاب کو دیکھیں.اگر مجھے وسعت ہوتی تو میں تمام ۱؎ محمّد: ۸ ۲؎ ترجمہ.اے عزیزو! دین متین کی مدد ایسا عظیم الشان کام ہے کہ انسان اسے سو زُہد کے بدلے بھی حاصل نہیں کرسکتا.

Page 409

جلدوں کو مفت ِللہ تقسیم کرتا.عزیزو! یہ کتاب قدرت حق کا ایک نمونہ ہے اور انسان کی معمولی کوششیں خودبخود اس قدر ذخیرہ معارف کا پیدا نہیں کر سکتیں.اس کی ضخامت چھ سو۶۰۰ صفحہ کے قریب ہے اور کاغذ عمدہ اور کتاب خوشخط اور قیمت دو روپیہ اور محصول علاوہ ہے اور یہ صرف ایک حصہ ہے اور دوسرا حصہ الگ طبع ہوگا اور قیمت اس کی الگ ہوگی.اور اس میں علاوہ حقائق و معارف قرآنی اور لطائف کتاب ربِّ عزیز کے ایک وافر حصہ اُن پیشگوئیوں کا بھی موجود ہے جن کو اوّل سراج منیر میں شائع کرنے کا ارادہ تھا.اور میں اس بات پر راضی ہوں کہ اگر خریدارانِ کتاب میری اس تعریف کو خلاف واقعہ پاویں تو کتاب مجھے واپس کر دیں میں بلاتوقف ان کی قیمت واپس بھیج دوں گا.لیکن یہ شرط ضروری ہے کہ کتاب کو دو ہفتے کے اندر واپس کریں اور دست مالیدہ اور داغی نہ ہو.اخیر میں یہ بات بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ اس کتاب کی تحریر کے وقت دو د فعہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھ کو ہوئی اور آپ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر کی اور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آواز سے لوگوں کے دلوں کو اس کتاب کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے ھٰذَا کِتَابٌ مُّبَارَکٌ فَقُوْمُوْا لِلْاِجْلَالِ وَالْاِکْرَامِ یعنی یہ کتاب مبارک ہے اس کی تعظیم کیلئے کھڑے ہو جائو.اب گزارش مدعا یہ ہے کہ جو صاحب اس کتاب کو خریدنا چاہیں وہ بلاتوقف مصمم ارادہ سے اطلاع بخشیں تاکہ کتاب بذریعہ ویلیو پی ایبل ان کی خدمت میں روانہ کی جائے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی خـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ پنجاب (مطبوعہ ریاض ہند قادیان) (یہ اشتہارضمیمہ آئینہ کمالات اسلام ایڈیشن اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان کے صفحہ ۴ پرہے) (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۵۲)

Page 410

 حاشیہ متعلقہ صفحہ ۲.اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء.مندرجہ آئینہ کمالات اسلام ۱؎ ۱) عجب نوریست در جانِ محمدؐ عجب لعلیست درکانِ محمدؐ (۲) زظلمت ہا دلے آنگہ شود صاف کہ گردد از محبّان محمدؐ (۳) عجب دارم دلِ آن ناکسان را کہ رو تابند از خوانِ محمدؐ (۴) ندانم ہیچ نفسے در دو عالم کہ دارد شوکت و شانِ محمدؐ (۵) خدا زان سینہ بیزارست صدبار کہ ہست ازکینہ وارانِ محمدؐ (۶) خدا خود سوزد آن کرمِ دنی را کہ باشد از عدوّانِ محمدؐ (۷) اگر خواہی نجات از مستیِ نفس بیا در ذیل مستانِ محمدؐ (۸) اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت بشو از دل ثنا خوانِ محمدؐ ترجمہ اشعار.(۱ )محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان میں ایک عجیب نور ہے محمدؐ کی کان میں ایک عجیب وغریب لعل ہے.(۲)دل اُس وقت ظلمتوں سے پاک ہوتا ہے جب وہ محمد ﷺ کے دوستوں میں داخل ہو جاتا ہے.(۳)میں اُن نالایقوں کے دلوں پر تعجب کرتا ہوں جو محمد ﷺ کے دستر خوان سے منہ پھیرتے ہیں.(۴)دونوں جہان میں مَیں کسی شخص کو نہیں جانتاجو محمد ﷺ کی سی شان وشوکت رکھتا ہو.(۵)خدا اُس شخص سے سخت بیزار ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کینہ رکھتا ہو.(۶)خدا خود اس ذلیل کیڑے کو جلا دیتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں میں سے ہو.(۷)اگر تو نفس کی بدمستیوں سے نجات چاہتا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مستانوں میں سے ہو جا.(۸)اگر تو چاہتا ہے کہ خدا تیری تعریف کرے تو تہ دل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مدح خواں بن جا.

Page 411

۹) اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمدؐ ہست ُبرہانِ محمدؐ (۱۰) سرے دارم فدائے خاک احمد دلم ہر وقت قربانِ محمدؐ (۱۱) بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم نثارِ روئے تابانِ محمدؐ (۱۲) دریں رہ گر کشندم ور بسوزند نتابم رو زِ ایوانِ محمدؐ (۱۳) بکارِ دین نترسم از جہانے کہ دارم رنگ ایمانِ محمدؐ (۱۴) بسے سہلست از دنیا بریدن بیادِ حُسن و احسانِ محمدؐ (۱۵) فدا شد در رہش ہر ذرۂ من کہ دیدم حسن پنہانِ محمدؐ (۱۶) دِگر اُستاد را نامے ندانم کہ خواندم در دبستانِ محمدؐ (۱۷) بدیگر دلبرے کارے ندارم کہ ہستم کُشتۂ آنِ محمدؐ (۱۸) مر آں گوشۂ چشمے بباید نخواہم جز گلستان محمدؐ (۱۹) دلِ زارم بہ پہلوئم مجوئید کہ بستیمش بدامانِ محمدؐ (۲۰) من آں خوش مرغ از مرغانِ قدسم کہ دارد جا بہ بُستانِ محمدؐ (۹)اگر تو اُس کی سچائی کی دلیل چاہتا ہے تو اُس کا عاشق بن جا کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی خود محمد کی دلیل ہے.(۱۰)میرا سر احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاک پا پر نثار ہے اور میرا دل ہر وقت محمد ﷺ پر قربان رہتا ہے.(۱۱)رسول اللہ کی زلفوں کی قسم کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی چہرے پر فدا ہوں.(۱۲)اس راہ میں اگر مجھے قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جاوے تو پھر بھی میں محمد ؐ کی بارگاہ سے منہ نہیں پھیروں گا.(۱۳)دین کے معاملہ میں مَیں سارے جہان سے بھی نہیں ڈرتا کہ مجھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا رنگ ہے.(۱۴)دنیا سے قطع تعلق کرنا نہایت آسان ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کو یاد کر کے.(۱۵)اُس کی راہ میں میرا ہر ذرّہ قربان ہے کیونکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مخفی حسن دیکھ لیا ہے.(۱۶)میں اور کسی استاد کا نام نہیں جانتا میں تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدرسہ کا پڑھا ہوا ہوں.(۱۷)اور کسی محبوب سے مجھے واسطہ نہیں کہ میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نازو ادا کا مقتول ہوں.(۱۸)مجھے تو اسی آنکھ کی نظرِ مہر درکار ہے.میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا(۱۹)میرے زخمی دل کو میرے پہلو میں تلاش نہ کرو کہ اسے تو ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے باندھ دیا ہے.(۲۰)میں طائرانِ ُقدس میں سے وہ اعلیٰ پرندہ ہوں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں بسیرا رکھتا ہے.

Page 412

۲۱) تو جان ما منوّر کردی از عشق فدائت جانم اے جانِ محمدؐ (۲۲) دریغا گردہم صد جان درین راہ نباشد نیز شایانِ محمدؐ (۲۳) چہ ہیبت ہا بدادند این جوان را کہ ناید کس بہ میدانِ محمدؐ (۲۴) الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغِ ُبرّانِ محمدؐ (۲۵) رہِ مولیٰ کہ ُگم کردند مردم بجو در آل و اعوانِ محمدؐ (۲۶) الا اے منکر از شانِ محمدؐ ہم از نورِ نمایانِ محمدؐ (۲۷) کرامت گرچہ بے نام و نشان است بیا بنگر زِ غلمانِ محمدؐ لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک پیشگوئی واضح ہو کہ اس عاجز نے اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں جو اس کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا اندرمن مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو ان کی قضا و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں.سو اس اشتہار کے بعد اندرمن نے تو اعراض کیا اور کچھ (۲۱)تو نے عشق کی وجہ سے ہماری جان کو روشن کر دیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر میری جان فدا ہو.(۲۲)اگر اس راہ میں سو جان سے قربان ہو جائوں تو بھی افسوس رہے گا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے شایاں نہیں.(۲۳)اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی بھی )مقابلہ پر( نہیں آتا.(۲۴)اے نادان اور گمراہ دشمن ہوشیار ہو جا.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر.(۲۵)خدا کے اس راستہ کو جسے لوگوں نے بھلا دیا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آل اور انصار میں ڈھونڈ.(۲۶)خبردار ہو جا! اے وہ شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چمکتے ہوئے نور کا منکر ہے.(۲۷)اگرچہ کرامت اب مفقود ہے.مگر تو آ اور اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھ لے.

Page 413

عرصہ کے بعد فوت ہوگیا لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کردو میری طرف سے اجازت ہے.سو اُس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہجَلَّ شَانُـہٗ کی طرف سے یہ الہام ہوا.عِجْلٌ جَسَدٌ لَّـہٗ خُوَارٌ.لَہٗ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ ٰؑیعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے.اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل رہے گا.اور اس کے بعد آج جو ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ء روز دو شنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو بیس فروری ۱۸۹۳ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخض اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.سو اب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب ۱؎ نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہر یک سزا کے بھگتنے کے لئے میں طیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسّہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے زیادہ اس سے کیا لکھوں.واضح رہے کہ اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بے ادبیاں کی ہیں جن کے تصور سے بھی بدن کانپتا ہے.اِس کی کتابیں عجیب طور کی تحقیر اور توہین اور دشنام دہی سے بھری ہوئی ہیں کون مسلمان ہے جو ان کتابوں کو سنے اور اس کا دل اور جگر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو.با ایںہمہ شوخی و خیرگی یہ شخص سخت جاہل ہے.عربی سے ذرّہ مس نہیں بلکہ دقیق ۱؎ اب آریوں کو چاہیے کہ سب مل کر دُعا کریں کہ یہ عذاب ان کے اس وکیل سے ٹل جائے.منہ

Page 414

اردو لکھنے کا بھی مادہ نہیں اور یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ اس عاجز نے خاص اسی مطلب کیلئے دعا کی جس کا یہ جواب ملا.اور یہ پیشگوئی مسلمانوں کیلئے بھی نشان ہے.کاش وہ حقیقت کو سمجھتے اور ان کے دل نرم ہوتے.اب میں اسی خدا عزّوجلّ کے نام پر ختم کرتا ہوں جس کے نام سے شروع کیا تھا.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مُحَمَّد نِ الْمُصْطَفٰی، اَفْضَل الرُّسُلِ وَ خَیْرُ الْوَرٰی سَیِّدُنَا وَ سَیِّدُ کُلّ مَا فِی الْاَرْضِ وَالسَّمَائِ.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ (یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام کے آخر میں بطور ضمیمہ شامل ہے اور علیٰحدہ بھی ۲۰x۲۶ کے سائز پر بشمول اشتہار نمبر ۹۹ شائع ہوا تھا) (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۹ تا ۶۵۱) (۲۰ ؍فروری ۱۸۹۳ء)

Page 415

 شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیارپور  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ تا دلِ مردِ خدا نامد بدرد ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد۱؎ ( ) ۲؎ انسان باوجود سخت ناچیز اور مُشت خاک ہونے کے پھر اپنی عاجزی کو کیسے جلد بھول جاتا ہے ایک ذرہ درد فرو ہونے اور آرام کی کروٹ بدلنے سے اپنی فروتنی کا لہجہ فی الفور بدل لیتا ہے پنجاب کے قریباً تمام آدمی شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیارپور سے واقف ہوں گے اور میرے خیال میں ہے کہ جس ایک بیجا الزام میں اپنے بعض پنہانی قصوروں کی وجہ سے جن کو خدا تعالیٰ جانتا ہوگا وہ پھنس گئے تھے.وہ قصہ ہمارے ملک کے بچوں اور عورتوں کو بھی معلوم ہوگا.سو اِس وقت ہمیں اس منسوخ شدہ قصہ سے تو کچھ مطلب نہیں صرف اس بات کا ظاہر کرنا مطلوب ہے کہ اس قصہ سے تخمیناً چھ ماہ پہلے اس عاجز کو بذریعہ ایک خواب کے جتلایا گیا تھا کہ شیخ صاحب کی جائے نشست فرش کو آگ لگی ہوئی ہے اور اس آگ کو اس عاجز نے بار بار پانی ڈال کر بجھایا ہے سو اُسی وقت میرے دل میں خدا تعالیٰ کی ۱؎ ترجمہ.جب تک کسی مرد خدا کے دل کو تکلیف نہیں پہنچتی خدا کسی قوم کو رسوا نہیں کرتا.۲؎ العلق: ۷،۸

Page 416

طرف سے بہ یقین کامل یہ تعبیر ڈالی گئی کہ شیخ صاحب پر اور ان کی عزت پر سخت مصیبت آئے گی اور میرا پانی ڈالنا یہ ہوگا کہ آخر میری ہی دعا سے نہ کسی اور وجہ سے وہ بلا دور کی جائے گی اور میں نے اس خواب کے بعد شیخ صاحب کو بذریعہ ایک مفصل خط کے اپنے خواب سے اطلاع دیدی اور توبہ اور استغفار کی طرف توجہ دلائی مگر اس خط کا جواب انہوں نے کچھ نہ لکھا آخر قریباً چھ ماہ گزرنے پر ایسا ہی ہوا اور میں انبالہ چھائونی میں تھا کہ ایک شخص محمد بخش نام شیخ صاحب کے فرزند جان محمد کی طرف سے میرے پاس پہنچا اور بیان کیا کہ فلاں مقدمہ میں شیخ صاحب حوالات میں ہوگئے میں نے اس شخص سے اپنے خط کا حال دریافت کیا جس میں چھ ماہ پہلے اس بلا کی اطلاع دی گئی تھی تو اُس وقت محمد بخش نے اس خط کے پہنچنے سے لا علمی ظاہر کی لیکن آخر خود شیخ صاحب نے رہائی کے بعد کئی دفعہ اقرار کیا کہ وہ خط ایک صندوق میں سے مل گیا.پھر شیخ صاحب تو حوالات میں ہو چکے تھے لیکن ان کے بیٹے جان محمد کی طرف سے شاید محمد بخش کے دستخط سے جو ایک شخص ان کے تعلق داروں میں سے ہے کئی خط اس عاجز کے نام دعا کیلئے آئے اور اللّٰہ جَلَّ شَانُـہٗ جانتا ہے کہ کئی راتیں نہایت مجاہدہ سے دعائیں کی گئیں اور اوائل میں صورت قضا و قدر کی نہایت پیچیدہ اور مبرم معلوم ہوتی تھی لیکن آخر خدا تعالیٰ نے دعا قبول کی اور اُن کے بارے میں رہا ہونے کی بشارت دیدی اور اس بشارت سے ان کے بیٹے کو مختصر لفظوں میں اطلاع دی گئی.یہ تو اصل حقیقت اور اصل واقعہ ہے لیکن پھر اس کے بعد سنا گیا کہ شیخ صاحب اس رہائی کے خط سے انکار کرتے ہیں جس سے لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ گویا اس عاجز نے جھوٹ بولا سو اِس فتنہ کے دور کرنے کی غرض سے اس عاجز نے شیخ صاحب سے اپنا خط طلب کیا جس میں ان کی بریت کی خبر دی گئی تھی مگر انہوں نے وہ خط نہ بھیجا بلکہ اپنے خط ۱۹؍ جون ۱۸۹۲ء میں میرے خط کا گم ہو جانا ظاہر کیا لیکن ساتھ ہی اپنے بیٹے جان محمد کی زبانی یہ لکھا کہ قطعیت بریت کا خبر دینا ہمیں یاد نہیں مگر غالباً خط کے یہ الفاظ یا اس کے قریب قریب تھے کہ فضل ہو جائے گا دعا کی جاتی ہے.۱؎ یہ قصہ تو یہاں تک رہا اور وہ خط ۱؎ یہ اس عاجز کا لفظ نہیں ہے کہ دعا کی جاتی ہے بلکہ یہ تھا کہ دعا بہت کی گئی اور آخر فقرہ میں بریّت اور فضل الٰہی کی بشارت دی گئی تھی وہ الفاظ اگرچہ کم تھے مگر قلّ و دلّ تھے.خدا تعالیٰ کسی کا محتاج اور خوشامد گر لوگوں کی طرح نہیں اس کی بشارتیں اکثر اشارات ہی ہوتے ہیں اس کا ہاں یا نہیں کہنا دوسرے لوگوں کے ہزار دفتر سے زیادہ معتبر ہے مگر نادان اور متکبر دنیا دار یہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بھی فرمانبرداروں کی طرح لمبی تقریریں کرے تا اُن کو یقین آوے اور پھر اس بات کو قطعی سمجھیں.منہ

Page 417

شیخ صاحب کا میرے پاس موجود پڑا ہے لیکن اب بعض دوستوں کے خطوط اور بیانات سے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب یہ مشہور کرتے پھرتے ہیں کہ ہمیں رہائی کی کوئی بھی اطلاع نہیں دی تھی.اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اس عاجز پر ایک اور طوفان باندھتے ہیں اور وہ یہ کہ گویا یہ عاجز یہ تو جانتا تھا کہ میں نے کوئی خط نہیں لکھا مگر شیخ صاحب کو جھوٹ بولنے کے لئے تحریک دے کر بطور بیان دروغ ان سے یہ لکھوانا چاہا کہ اس عاجز نے رہائی کی خبر دے دی تھی گویا اس عاجز نے کسی خط میں شیخ صاحب کی خدمت میں یہ لکھا ہے کہ اگرچہ یہ بات صحیح اور واقعی تو نہیں کہ میں نے رہائی کی اطلاع قبل از وقت بطور پیشگوئی دی ہو مگر میری خاطر اور میرے لحاظ سے تم ایسا ہی لکھ دو تا میری کرامت ظاہر ہو.شیخ صاحب کا یہ طریق عمل سن کر سخت افسوس ہوا.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ شیخ صاحب کے اول و آخر کے متعلق ضرور شیخ صاحب کو اطلاع دی گئی تھی اور وہ دونوں پیشگوئیاں صحیح ہیں اور دونوں کی نسبت شیخ صاحب کی طرف خط بھیجا گیا اور وہی خط مانگا گیا تھا یا اس کا مضمون طلب کیا گیا تھا.شیخ صاحب نے اگر درحقیقت ایسا ہی بیان کیا ہے تو اُن کے افترا کا جواب کیا دیا جائے ناظرین اس بارے میں میرے خطوط ان سے طلب کریں اور ان کو باہم ملا کر غور سے پڑھیں.۱؎ اگر شیخ صاحب میں مادہ فہم کا ہوتا تو پہلی ہی پیشگوئی کے خط سے میرا بریت کا خبر دینا سمجھ سکتے تھے کیونکہ اس سے بھی بہ بداہت سمجھا جا سکتا تھا کہ اس عاجز کے ذریعہ سے ہی ان کی بند خلاص ہوگی وجہ یہ کہ ان کو اطلاع دی گئی تھی کہ مَیں نے ہی پانی ڈال کر آگ کو بجھایا.کیا شیخ صاحب کو یاد نہیں کہ بمقام لودہیانہ جب وہ میرے مکان پر ۱؎ مناسب ہے کہ ناظرین ان قریب قریب تاریخوں کے تمام میرے خطوط کو شیخ صاحب سے لے کر پڑھیں.میرے کسی خط کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شیخ صاحب کوئی بات خلاف واقعہ لکھیں بلکہ ان کو اپنے خط سابق کے مضمون سے اطلاع دی گئی تھی اور امید تھی کہ یاد دلانے سے وہ مضمون انہیں یاد آجائے گا.اس بناء پر اُن سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ ہمارے خط کا یہ خلاصہ ہے اور اس کی ہم آپ سے تصدیق چاہتے ہیں مگر افسوس کہ شیخ صاحب نے میرے خط کو تو تحکم کی راہ سے دبا لیا اور مجھ پر یہ افترا کیا کہ گویا میں نے ان سے جھوٹ کہلوانا چاہا.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے تو صرف اپنے خط کے مضمون کی تصدیق کرانی چاہی تھی.اگر میں سچ پر نہیں تو شیخ صاحب میرا متنازعہ فیہ خط پیش کریں جس کے پہنچنے کا ان کو اقرار ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ یہ بھی اقرار ہے کہ اس میں لکھا تھا کہ فضل ہو جائے گا.منہ

Page 418

دعوت کھانے آئے تھے تو انہوں نے اس خط کو یاد کر کے رونا شروع کر دیا تھا اور شاید روٹی پر بھی بعض قطرے آنسوئوں کے پڑے ہوں.پھر وہ آگ پر پانی ڈالنا کیوں یاد نہ رہا.اور اگر میں نے رہائی کی خبر شائع نہیں کی تھی تو پھر وہ صد ہا آدمیوں میں قبل از رہائی مشہور کیونکر ہوگئی تھی اور کیوں آپ کے بعض رشتہ دار جلدی ۱؎ کر کے اس خبر کے صدق پر اعتراض کرتے تھے جو اب تک زندہ موجود ہیں اور پھر آپ نے کیوں میرے خط کا یہ خلاصہ مجھ کو تحریر کیا کہ گویا میں نے خط میں صرف اتنا ہی لکھا تھا کہ فضل ہوجائے گا یہ کیسی ناخدا ترسی ہے کہ مجالس میں افترا کی تہمت لگا کر دل کو دکھایا جائے.خیر اب ہم بطریق تنزل ایک آسان فیصلہ اپنے صدق اور کذب کے بارے میں ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے.فیصلہ آج رات میں نے جو ۲۵؍ فروری ۱۸۹۳ء کی رات تھی.شیخ صاحب کی ان باتوں سے سخت دردمند ہو کر آسمانی فیصلہ کیلئے دعا کی.خواب میں مجھ کو دکھلایا گیا کہ ایک دوکاندار کی طرف میں نے کسی قدر قیمت بھیجی تھی کہ وہ ایک عمدہ اور خوشبودار چیز بھیج دے اس نے قیمت رکھ کر ایک بدبودار چیز بھیج دی وہ چیز دیکھ کر مجھے غصہ آیا اور میں نے کہا کہ جائو دوکاندار کو کہو کہ وہی چیز دے ورنہ میں اس دغا کی اُس پر نالش کروں گا اور پھر عدالت سے کم سے کم چھ ماہ کی اُس کو سزا ملے گی اور امید تو زیادہ کی ہے تب دوکاندار نے شاید یہ کہلا بھیجا کہ یہ میرا کام نہیں یا میرا اختیار نہیں اور ساتھ ہی یہ کہلا بھیجا کہ ایک سودائی پھرتا ہے اس کا اثر میرے دل پر پڑ گیا اور میں بھول گیا اور اب وہی چیز دینے کو تیار ہوں- اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ شیخ صاحب پر یہ ندامت آنے والی ہے اور انجام کار وہ نادم ہوں گے اور ابھی کسی ۱؎ آپ کے رشتہ دار شاید ہمشیرہ زادہ شیخ میراں بخش ساکن دسوہہ نے بمقام امرتسر اپنی دوکان پر روبرو شیخ سندھی خان ساکن خانپور میرے ملازم شیخ حامد علی سے نومیدی رہائی کی حالت میں تکرار کی تھی کہ مرزا غلام احمد تو کہتے تھے کہ شیخ صاحب بَری ہو جائیں گے اور اب وہ پھانسی ملنے لگے ہیں.حامد علی کا بیان ہے کہ میں نے کہا تھا کہ انجام دیکھنے کے بعد اعتراض کرنا.منہ

Page 419

دوسرے آدمی کا اُن کے دل پر اثر ہے.پھر میں نے توجہ کی تو مجھے یہ الہام ہوا اِنَّا نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ.نُقَلِّبُ فِی السَّمَآئِ مَا قَلَّبْتَ فِی الْاَرْضِ اِنَّا مَعَکَ نَرْفَـعُکَ دَرَجَاتٍ.یعنی ہم آسمان پر دیکھ رہے ہیں کہ تیرا دل مہر علی کی خیر اندیشی سے بد دعا کی طرف پھر گیا سو ہم بات کو اُسی طرح آسمان پر پھیر دیں گے جس طرح تو زمین پر پھیرے گا.ہم تیرے ساتھ ہیں تیرے درجات بڑھائیں گے.لہٰذا یہ اشتہار شیخ صاحب کی خدمت میں رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں کہ اگر وہ ایک ہفتہ کے عرصہ میں اپنے خلاف واقعہ فتنہ اندازی سے معافی چاہنے کی غرض سے ایک خط بہ نیت چھپوانے کے نہ بھیج دیں تو پھر آسمان پر میرا اور ان کا مقدمہ دائر ہوگا اور میں اپنی دعائوں کو جو ان کی عمر اور بحالی عزت اور آرام کیلئے تھیں واپس لے لوں گا یہ مجھے اللّٰہ جَلَّ شَانُـہٗ کی طرف سے بتصریح بشارت مل گئی ہے پس اگر شیخ صاحب نے اپنے افترائوں کی نسبت میری معرفت معافی کا مضمون شائع نہ کرایا تو پھر میرے صدق اور راستی کی یہ نشانی ہے کہ میری بد دعا کا اثر ان پر ظاہر ہوگا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو وعدہ دیا ہے.ابھی میں اس کی کوئی تاریخ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ ابھی خدا تعالیٰ نے کوئی تاریخ میرے پر کھولی نہیں اور اگر میری بددعا کا کچھ بھی اثر نہ ہوا تو بلاشبہ میں اسی طرح کاذب اور مفتری ہوں جو شیخ صاحب نے مجھ کو سمجھ لیا.میں اللّٰہ جَلَّ شَانُـہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے مصیبت سے پہلے بھی شیخ صاحب کو خبر دی تھی اور مصیبت کے بعد بھی.اور اگر میں جھوٹا ہوں تو شیخ صاحب میری بددعا سے صاف بچ جائیں گے اور یہی میرے کاذب ہونے کی کافی نشانی ہوگی.اگر یہ بات صرف میری ذات تک محدود ہوتی تو میں صبر کرتا.لیکن اس کا دین پر اثر ہے اور عوام میں ضلالت پھیلتی ہے اس لئے میں نے محض حمایت دین کی غرض سے دعا کی اور خدا تعالیٰ نے میری دعا منظور فرمائی.دنیا داروں کو اپنی دنیا کا تکبر ہوتا ہے اور فقیروں میں کبریائی، تکبر اپنے نفس پر بھروسہ کر کے پیدا ہوتا ہے اور کبریائی خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر کے پیدا ہوتی ہے.پس میرے صادق اور کاذب ہونے کیلئے یہ بھی

Page 420

ایک نشانی ہے.میرا یہ دعویٰ ہے کہ شیخ صاحب کی نجات صرف میری ہی دعا سے ہوئی تھی جیسا کہ میں نے آگ پر پانی ڈالا تھا.اگر میں اس دعویٰ میں صادق نہیں ہوں تو میری ذلت ظاہر ہو جاوے گی.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.راقم خاکسار غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپورہ (مطبوعہ ریاض ہند قادیان) (یہ اشتہارکے چار صفحوں پر ہے اور آئینہ کمالات اسلام کے آخر میں بھی شامل ہے) (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۵۳ تا ۶۵۶)

Page 421

 ایک روحانی نشان جس سے ثابت ہو گا کہ یہ عاجز صادق اور خدا تعالیٰ سے مؤیّد ہے یا نہیں اور شیخ محمد حسین بٹالوی اس عاجز کو کاذب اور دجّال قرار دینے میں صادق ہے یا خود کاذب اور دجّال ہے عاقل سمجھ سکتے ہیں کہ منجملہ نشانوں کے حقائق اور معارف اور لطائف حکمیہ کے بھی نشان ہوتے ہیں.جو خاص ان کو دئیے جاتے ہیں جو پاک نفس ہوں اور جن پر فضل عظیم ہو جیسا کہ آیت  ۱؎ اور آیت  ۲؎ بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے.سو یہی نشان میاں محمد حسین کے مقابل پر میرے صدق اور کذب کے جانچنے کیلئے کھلی کھلی نشانی ہوگی اور اس فیصلہ کیلئے احسن انتظام اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مختصر جلسہ ہو کر منصفان تجویز کردہ اس جلسہ کے چند سورتیں قرآن کریم کی جن کی عبارت اسی۸۰ آیت سے کم نہ ہو تفسیر کیلئے منتخب کر کے پیش کریں.اور پھر بطور قرعہ اندازی کے ایک سورۃ ان میں سے نکال کر اسی کی تفسیر معیار امتحان ٹھہرائی جائے اور اس تفسیر کیلئے یہ امر لازمی ٹھہرایا جاوے کہ بلیغ فصیح زبان عربی اور مقفّّٰی عبارت میں قلمبند ہو اور دس جزو سے کم نہ ہو.اور جس قدر اس میں حقائق اور معارف لکھے جائیں وہ ۱؎ الواقعۃ: ۸۰ ۲؎ البقرۃ: ۲۷۰

Page 422

نقل عبارت کی طرح نہ ہو بلکہ معارف جدیدہ اور لطائف غریبہ ہوں.جو کسی دوسری کتاب میں نہ پائے جائیں.اور باایں ہمہ اصل تعلیم قرآنی سے مخالف نہ ہوں بلکہ ان کی قوت اور شوکت ظاہر کرنے و الے ہوں ۱؎ اور کتاب کے آخر میں سو شعر لطیف بلیغ اور فصیح عربی میں نعت اور مدح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں بطور قصیدہ درج ہوں.اور جس بحر میں وہ شعر ہونے چاہئیں وہ بحر بھی بطور قرعہ اندازی کے اسی جلسہ میں تجویز کیا جائے اور فریقین کو اس کام کیلئے چالیس دن کی مہلت دی جائے.اور چالیس دن کے بعد جلسہ عام میں فریقین اپنی اپنی تفسیر اور اپنے اپنے اشعار جو عربی میں ہوں گے سنادیں.پھر اگر یہ عاجز شیخ محمد حسین بٹالوی سے حقائق و معارف کے بیان کرنے اور عبارت عربی فصیح و بلیغ اور اشعار آبدار مدحیہ کے لکھنے میں قاصر اور کم درجہ پر رہا.یا یہ کہ شیخ محمد حسین اس عاجز سے برابر رہا تو اسی وقت یہ عاجز اپنی خطا کا اقرار کرے گا اور اپنی کتابیں جلا دے گا.اور شیخ محمد حسین کا حق ہوگا کہ اس وقت اس عاجز کے گلے میں رسہ ڈال کر یہ کہے کہ اے کذّاب.اے دجّال.اے مفتری.آج تیری رسوائی ظاہر ہوئی.اب کہاں ہے وہ جس کو تو کہتا تھا کہ میرا مددگار ہے.اب تیرا الہام کہاں ہے اور تیرے خوارق کدھر چھپ گئے لیکن اگر یہ عاجز غالب ہوا تو پھر چاہیے کہ میاں محمد حسین اسی مجلس میں کھڑے ہو کران الفاظ سے توبہ کرے کہ اے حاضرین! آج میری رو سیاہی ایسی کھل گئی کہ جیسا آفتاب کے نکلنے سے دن کھل جاتا ہے اور اب ثابت ہوا کہ یہ شخص حق پر ہے اور میں ہی دجّال تھا اور میں ہی کذّاب تھا اور میں ہی کافر تھا اور میں ہی بے دین تھا اور اب میں توبہ کرتا ہوں.سب گواہ رہیں.بعد اس کے اسی مجلس میں اپنی کتابیں جلادے.اور ادنیٰ خادموں کی طرح پیچھے ہولے.۲؎ ۱؎ اگر کسی کے دل میں یہ خدشہ گزرے کہ ایسے جدید حقائق و معارف جو پہلی تفاسیر میں نہ ہوں وہ کیونکر تسلیم کئے جاسکتے ہیں اور وہ انہیں پہلی ہی تفاسیر میں محدود کرے تو اسے مناسب ہے کہ عبارت ذیل کو ملاحظہ کرے.ثُمَّ رَأَیْتُ کُلَّ آیَۃٍ وَکُلَّ حَدِیْثٍ بَحْرًا مَوَّاجًا فِیْہِ مِنْ اَسْرَارٍ مَا لَوْ کُتِبَ شَرْحُ سِرٍّ وَّاحِدٍ مِنْہَا فِیْ مُجَلّدَاتٍ لَمَا اَحَاطَتْہُ وَ رَأَ یْتُ الْاَسْرَارَ الْخَفِیَّۃَ مُتَبَذِّلَۃً فِیْ اَشَارَاتِ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّۃِ فَقَضَیْتُ الْعَجَبَ کُلَّ الْعَجَبِ.فیوض الحرمین.صفحہ ۴۲ ۲؎ شیخ بٹالوی کو اختیار ہو گا کہ میاں شیخ الکل اور دوسرے تمام متکبر مُلّاؤں کو ساتھ ملا لے.منہ

Page 423

صاحبو! یہ طریق فیصلہ ہے جو اس وقت میں نے ظاہر کیا ہے.میاں محمد حسین کو اس پر سخت اصرار ہے کہ یہ عاجز عربی علوم سے بالکل بے بہرہ اور کو دن اور نادان اور جاہل ہے۱؎ اور علم قرآن سے بالکل بے خبر ہے اور خدا تعالیٰ سے مدد پانے کے تو لائق ہی نہیں.کیونکہ کذّاب اور دجّال ہے اور ساتھ اس کے ان کو اپنے کمال علم اور فضل کا بھی دعویٰ ہے.کیونکہ ان کے نزدیک حضرت مخدوم مولوی حکیم نور الدین صاحب جو اس عاجز کی نظر میں علّامہ عصر اور جامع علوم ہیں.صرف ایک حکیم؟ اور اخویم مکرم مولوی سید محمد احسن صاحب جو گویا علم حدیث کے ایک پُتلے ہیں صرف ایک منشی ہیں.پھر باوجود ان کے اس دعویٰ کے اور میرے اس ناقص حال کے جس کو وہ بار بار شائع کرچکے ہیں.اس طریق فیصلہ میں کون سا اشتباہ باقی ہے.اور اگر وہ اس مقابلہ کے لائق نہیں.اور اپنی نسبت بھی جھوٹ بولاہے اور میری نسبت بھی.اور میرے معظم اور مکرم دوستوں کی نسبت بھی تو پھر ایسا شخص کسی قدر سزا کے لائق ہے کہ کذّاب اور دجّال تو آپ ہو.اور دوسروں کو خواہ نخواہ دروغ گو کر کے مشتہر کرے.اور یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ عاجز درحقیقت نہایت ضعیف اور ہیچ ہے گویا کچھ بھی نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ متکبر کا سر توڑے اور اس کو دکھاوے کہ آسمانی مدد اس کا نام ہے.چند ماہ کا عرصہ ہوا ہے جس کی تاریخ مجھے یاد نہیں کہ ایک مضمون میں نے میاں محمد حسین کا دیکھا.جس میں میری نسبت لکھا ہوا تھا کہ یہ شخص کذّاب اور دجّال اور بے ایمان اور باایںہمہ سخت نادان اور جاہل اور علوم دینیہ سے بے خبر ہے.تب میں جنابِ الٰہی میں رویا کہ میری مدد کر تو اس دعا کے بعد الہام ہوا کہ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ یعنی دعا کرو کہ میں قبول کروں گا مگر میں بالطبع نافرتھا کہ کسی کے عذاب کیلئے دعا کروں آج جو ۲۹؍شعبان ۱۳۱۰ھ ہے اس مضمون کے لکھنے کے وقت خدا تعالیٰ نے دعا کیلئے دل کھول دیا.سو میں نے اس وقت اسی طرح سے رقت دل سے اس مقابلہ میں فتح پانے کیلئے دعا کی اور میرا دل کھل گیا اور میں جانتا ہوں کہ قبول ہوگئی.اور میں جانتا ہوں کہ وہ الہام جو مجھ کو میاں بٹالوی کی نسبت ہوا تھا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ وہ اسی موقع کیلئے ہوا تھا.میں نے اس مقابلہ کیلئے چالیس دن کا عرصہ ٹھہرا کر دعا کی ہے اور وہی عرصہ میری زبان پر جاری ہوا.اب صاحبو! اگر میں اس نشان میں جھوٹا نکلا یا ۱؎ دیکھو ان کا فتویٰ نمبر ۴ جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۵.

Page 424

میدان سے بھاگ گیا.یا کچے بہانوں سے ٹال دیا تو تم سارے گواہ رہو کہ بے شک میں کذّاب اور دجّال ہوں.تب میں ہر یک سزا کے لائق ٹھہروں گا.کیونکہ اس موقعہ پر ہر یک پہلو سے میرا کذب ثابت ہو جائے گا اور دعا کا نامنظور ہونا کھل کر میرے الہام کا باطل ہونا بھی ہر یک پر ہویدا ہو جائے گا.لیکن اگر میاں بٹالوی مغلوب ہوگئے تو اُن کی ذلت اور رو سیاہی اور جہالت اور نادانی روز روشن کی طرح ظاہر ہو جائے گی.اب اگر وہ اس کھلے کھلے فیصلہ کو منظور نہ کریں اور بھاگ جائیں اور خطا کا اقرار بھی نہ کریں تو یقیناً سمجھو کہ ان کیلئے خدا تعالیٰ کی عدالت سے مندرجہ ذیل انعام ہے.(۱) لعنت (۲) لعنت (۳) لعنت (۴) لعنت (۵) لعنت (۶) لعنت (۷) لعنت (۸) لعنت (۹) لعنت (۱۰) لعنت تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ المشتھر میرزا غلام احمد قادیانی ۳۰؍ مارچ ۱۸۹۳ء نوٹ.اگر میاں بٹالوی اس نشان کو منظور نہ کریں اور کسی قسم کا نشان چاہیں تو پھر اسی کے بارے میں دعاکی جائے گی مگر پہلے اشتہارات کے ذریعہ سے شائع کر دیں کہ مَیں اس مقابلہ سے عاجز اور قاصر ہوں.تنبیہ: اگر اس کا جواب یکم اپریل سے دو ہفتہ کے اندر نہ آیا تو آپ کی گریز سمجھی جائے گی.(یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام طبع اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان کے صفحہ ۶۰۲ سے ۶۰۴ تک ہے) (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۰۲ تا ۶۰۴)

Page 425

 نمونہ دُعائے مستجاب انیس ہند میرٹھ اور ہماری پیشگوئی پر اعتراض اس اخبار کا پرچہ مطبوعہ ۲۵ مارچ ۱۸۹۳ء جس میں میری اس پیشگوئی کی نسبت جو لیکھرام پشاوری کے بارے میں مَیں نے شائع کی تھی کچھ نکتہ چینی ہے مجھ کو ملا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض اور اخباروں پر بھی یہ کلمۃ الحق شاق گزرا ہے اور حقیقت میں میرے لئے خوشی کا مقام ہے کہ یوں خود مخالفوں کے ہاتھوں اس کی شہرت اور اشاعت ہو رہی ہے سو میں اس وقت اس نکتہ چینی کے جواب میں صرف اس قدر لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس طور اور طریق سے خدا تعالیٰ نے چاہا اسی طور سے کیا میرا اس میں دخل نہیں ہاں یہ سوال کہ ایسی پیشگوئی مفید نہیں ہوگی اور اس میں شبہات باقی رہ جائیں گے اس اعتراض کی نسبت میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ پیش از وقت ہے میں اس بات کا خود اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخر کار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور پر کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہوگئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہوگی اور بلاشبہ ایک مکر اور فریب ہوگا کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں پس اس صورت میں بلاشبہ میں اس سزا کے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الٰہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئی کی

Page 426

ذاتی عظمت اور ہیبت دنوں اوروقتوں کے مقرر کرنے کی محتاج نہیں اس بارے میں تو زمانہ نزول عذاب کی ایک حدمقرر کردینا کافی ہے پھر اگر پیشگوئی فی الواقعہ ایک عظیم الشان ہیبت کے ساتھ ظہورپذیر ہوتو وہ خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اوریہ سارے خیالات اوریہ تمام نکتہ چینیاں جوپیش از وقت دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ایسی معدوم ہوجاتی ہیں کہ منصف مزاج اہل الرائے ایک انفعال کے ساتھ اپنی رایوں سے رجوع کرتے ہیں.ماسوا اس کے یہ عاجز بھی تو قانون قدرت کے تحت میں ہے اگرمیری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اسی قدر ہے کہ میں نے صرف یاوہ گوئی کے طورپر چند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کر اور اٹکل سے کام لے کریہ پیشگوئی شائع کی ہے توجس شخص کی نسبت یہ پیشگوئی ہے وہ بھی توایسا کرسکتا ہے کہ انہی اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کردے بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو میں نے اس کے حق میں میعاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس برس لکھ دے لیکھرام کی عمراس وقت شاید زیادہ سے زیادہ تیس برس کی ہوگی اور وہ ایک جوان قوی ہیکل عمدہ صحت کاآدمی ہے اور اس عاجز کی عمراس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اور دائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے پھرباوجود اس کے مقابلہ میں خود معلوم ہوجائے گا کہ کونسی بات انسان کی طرف سے ہے اورکونسی بات خدا تعالیٰ کی طرف سے.اور معترض کا یہ کہناکہ ایسی پیشگوئیوں کا اب زمانہ نہیں ہے ایک معمولی فقرہ ہے جواکثر لوگ منہ سے بول دیاکرتے ہیں میری دانست میں تو مضبوط اور کامل صداقتوں کے قبول کرنے کیلئے یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ شائد اسکی نظیرپہلے زمانوں میں کوئی بھی نہ مل سکے.ہاں اس زمانہ سے کوئی فریب اورمکر مخفی نہیں رہ سکتامگر یہ تو را ستبازوں کیلئے اور بھی خوشی کا مقام ہے کیونکہ جو شخص فریب اورسچ میں فرق کرنا جانتاہے وہی سچائی کی دل سے عزت کرتا ہے اوربخوشی اور دوڑکر سچائی کو قبول کرلیتا ہے اور سچائی میں کچھ ایسی کشش ہوتی ہے کہ وہ آپ قبول کرالیتی ہے.ظاہر ہے کہ زمانہ صدہا ایسی نئی باتوں کو قبول کرتاجاتا ہے جو لوگوں کے باپ دادوں نے قبول نہیں کی تھیں اگر زمانہ صداقتوں کا پیاسا نہیں تو پھر کیوں ایک عظیم الشان انقلاب اس میں شروع ہے زمانہ بیشک حقیقی صداقتوں کا دوست ہے نہ دشمن اور یہ کہنا کہ زمانہ عقلمند ہے اور

Page 427

سیدھے سادے لوگوں کا وقت گزر گیا ہے یہ دوسرے لفظوں میں زمانہ کی مذمّت ہے گویا یہ زمانہ ایک ایسا بدزمانہ ہے کہ سچائی کو واقعی طور پر سچائی پاکر پھر اس کو قبول نہیں کرتا لیکن میں ہرگز قبول نہیں کروں گا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ زیادہ تر میری طرف رجوع کرنے والے اور مجھ سے فائدہ اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جو نو تعلیم یافتہ ہیں جو بعض ان میں سے بی اے اور ایم اے تک پہنچے ہوئے ہیں اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ یہ نو تعلیم یافتہ لوگوں کا گروہ صداقتوں کو بڑے شوق سے قبول کرتا جاتا ہے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ ایک نو مسلم اور تعلیم یافتہ یوریشین انگریزوں کا گروہ جن کی سکونت مدراس کے احاطہ میں ہے ہماری جماعت میں شامل اور تمام صداقتوں پر یقین رکھتے ہیں.اب میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جو ایک خدا ترس آدمی کے سمجھنے کیلئے کافی ہیں آریوں کا اختیار ہے کہ میرے اس مضمون پر بھی اپنی طرف سے جس طرح چاہیں حاشیے چڑھاویں مجھے اس بات پر کچھ بھی نظر نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس پیشگوئی کی تعریف کرنا یا مذمت کرنا دونوں برابر ہیں اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ اسی کی طرف سے ہے تو ضرور ہیبت ناک نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہوگا اور دلوں کو ہلا دے گا اور اگر اس کی طرف سے نہیں تو پھر میری ذلت ظاہر ہوگی اور اگر میں اس وقت رکیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلت کا موجب ہوگا وہ ہستی قدیم اور وہ پاک و قدوس جو تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ کاذب کو کبھی عزت نہیں دیتا یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا توہین سے یاد کیا اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہر کرے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر آج ۲؍ اپریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴؍ ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ ہے صبح کے وقت تھوڑی غنودگی کی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہو ا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود

Page 428

ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اُس کے چہرے پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا.میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شدّا د غلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اُس کو دیکھتا ہی تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے تب میں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کیلئے مامور کیا گیا ہے مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے ہاں یہ یقینی طور پر یاد ہے کہ وہ دوسرا شخص انہیں چند آدمیوں میں سے تھا جن کی نسبت میں اشتہار دے چکا ہوں اور یہ یکشنبہ کا دن اور ۴ بجے صبح کا وقت تھا.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ.(یہ اشتہار برکات الدعا کے ٹائیٹل مطبوعہ ریاض ہند قادیان کے صفحہ ۲ سے ۴ تک ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۲تا ۴و۳۳)

Page 429

 اِس کو غور سے پڑھو کہ اس میں آپ لوگوں کے لیے خوشخبری ہے بخدمت امراء و رئیسان و منعمان ذی مقدرت و والیان اربابِ حکومت ومنزلت  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اے بزرگانِ اسلام! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں تمام فرقوں سے بڑھ کر نیک ارادے پیدا کرے اور اس نازک وقت میں آپ لوگوں کو اپنے پیارے دین کاسچا خادم بناوے.میں اس وقت محض لِلّٰہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کرکے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پُرآشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی عظمتیں ظاہر کروں اور اُن تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں اُن نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں سو یہ کام برابر دس برس سے ہو رہا ہے لیکن چونکہ وہ تمام ضرورتیں جو ہم کو اشاعتِ اسلام کیلئے درپیش ہیں بہت سی مالی امدادات کی محتاج ہیںاس لئے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ بطور تبلیغ آپ صاحبوں کو اطلاع دوں سو سنو اے عالیجاہ بزرگو!ہمارے لئے اللہ جَلَّ شَانُـہٗ اور

Page 430

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی راہ میں یہ مشکلات درپیش ہیں کہ ایسی تالیفات کے لئے جو لاکھوں آدمیوں میں پھیلانی چاہیے بہت سے سرمایہ کی حاجت ہے اور اب صورت یہ ہے کہ اوّل تو ان بڑے بڑے مقاصد کے لئے کچھ بھی سرمایہ کا بندوبست نہیں اور اگر بعض پُرجوش مردانِ دین ۱؎ کی ہمت اور اعانت سے کوئی کتاب تالیف ہو کر شائع ہو تو بباعث کم توجہی اور غفلت زمانہ کے وہ کتاب بجز چند نسخوں کے زیادہ فروخت نہیں ہوتی اور اکثر نسخے اس کے یا تو سالہا سال صندوقوں میں بند رہتے ہیں یا لِلّٰہ مفت تقسیم کئے جاتے ہیں اور اس طرح اشاعت ِ ضروریاتِ دین میں بہت سا حرج ہورہا ہے اور گو خدا تعالیٰ اس جماعت کو دن بدن زیادہ کرتا جاتا ہے مگر ابھی تک ایسے دولتمندوں میں سے ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں کہ کوئی حصّہ معتدبہ اس خدمتِ اسلام کا اپنے ذمّہ لے لے اور چونکہ یہ عاجز خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر تجدید دین کے لئے آیا ہے اور مجھے اللہجَلَّ شَانُـہٗ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا اور مجھے اُس نے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دُوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سو اسی بنا پر آج مجھے خیال آیا کہ میں اربابِ دولت اور مقدرت کو اپنے کام کی نصرت کے لئے تحریک کروں.اور چونکہ یہ دینی مدد کا کام ایک عظیم الشان کام ہے اور انسان اپنے شکوک اور شبہات اور وساوس سے خالی نہیں ہوتا اور بغیر شناخت وہ صدق بھی پیدا نہیں ہوتا جس سے ایسی بڑی مددوں کا حوصلہ ہوسکے اس لئے میں تمام امراء کی خدمت میں بطور عام اعلان کے لکھتا ہوں کہ اگر ان کو بغیر آزمائش ایسی مدد میں تامل ہو تو وہ اپنے بعض مقاصد اور مہمات اور مشکلات کو اس غرض سے میری طرف لکھ بھیجیں کہ تا میں اُن مقاصد کے پورے ہونے کے لئے دعا کروں.مگر اس بات کو تصریح سے لکھ بھیجیں کہ وہ مطلب کے پورا ہونے کے وقت کہاں تک ہمیں اسلام کی راہ میں مالی مدد دیں گے اور کیا ۱؎ پُرجوش مردانِ دین سے مراد اس جگہ اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی ہیں جنہوں نے گویا اپنا تمام مال اسی راہ میں لٹا دیا ہے.اور بعد ان کے میرے دلی دوست حکیم فضل الدین صاحب اور نواب محمدعلی خانصاحب کوٹلہ مالیر اور درجہ بدرجہ تمام وہ مخلص دوست ہیں جو اس راہ میں فدا ہورہے ہیں.منہ

Page 431

انہوں نے اپنے دلوں میں پختہ اور حتمی وعدہ کر لیا ہے کہ ضرور وہ اس قدر مدد دینگے اگر ایسا ۱؎ خط کسی صاحب کی طرف سے مجھ کو پہنچا تو میں اُس کے لئے دُعا کروں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ بشرطیکہ تقدیر مبرم نہ ہو ضرور خدا تعالیٰ میری دعا سنے گا اور مجھ کو الہام کے ذریعہ سے اطلاع دے گا.اس بات سے نومید مت ہو کہ ہمارے مقاصد بہت پیچیدہ ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے بشرطیکہ ارادہ ازلی اُس کے مخالف نہ ہو.اور اگر ایسے صاحبوں کی بہت سی درخواستیں آئیں تو صرف اُن کو اطلاع دی جائے گی جن کے کشود کار کی نسبت از جانب حضرت ِ عَزَّوَ جَل خوشخبری ملے گی.اور یہ امور منکرین کیلئے نشان بھی ہوںگے اور شاید یہ نشان اس قدر ہو جائیں کہ دریا کی طرح بہنے لگیں.بالآخر میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحتًا کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور میں اسی لئے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علم قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں سو میری طرف آئو تا اس نعمت سے تم بھی حصّہ پائو.مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں کیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتن صدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں ایک مجدد کھلے کھلے دعویٰ کے ساتھ آتا سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کروگے ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اُس وقت کے علماء کی ناسمجھی اُس کی سدّ ِ راہ ہوئی آخرجب وہ پہچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہچانا گیا کہ تلخ درخت شیریں پھل نہیں لا سکتا اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتاجو خاصوں کو دی جاتی ہیں.اے لوگو ! اسلام نہایت ضعیف ہو گیا ہے ا و راعداء دین کا چاروں طرف سے محاصرہ ہے اور تین ہزار سے زیادہ مجموعہ اعتراضات کا ہوگیا ہے ایسے وقت میں ہمدردی سے اپنا ایمان دکھائو اور مردانِ خدا میں جگہ پائو.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.۱؎ چاہیے کہ خط نہایت احتیاط سے بذریعہ رجسٹری سر بمہر آوے اور اس راز کو قبل از وقت فاش نہ کیا جاوے اور اس جگہ بھی پوری امانت کے ساتھ وہ راز مخفی رکھا جائے گا اور اگر بجائے خط کوئی معتبر کسی امیر کا آوے تو یہ امر اور بھی زیادہ مؤثر ہوگا.منہ

Page 432

بیکسے شد دین احمد ؐ ہیچ خویش و یارنیست ہر کسے درکار خود بادین احمدؐ کارنیست ہر طرف سیلِ ضلالت صد ہزاران تن ربود حیف بر چشمے کہ اکنون نیز ہم ہشیار نیست اے خدا وندانِ نعمت ایں چنیں غفلت چراست بیخود از خوابید یا خود بختِ دین بیدار نیست اے مسلمانان خدا را یک نظر برحالِ دین آنچہ می بینم بلاہا حاجتِ اظہار نیست آتش افتاد است دررختش بخیزید اے یلان دید نش از دور کارِ مردمِ دیندار نیست ہر زمان از بہرِ دین درخون دلِ من می تپد محرمِ این درد ماجز عالمِ اسرار نیست آنچہ برما می رود از غم کہ داند جُز خدا زہر می نوشیم لیکن زہرہء گفتار نیست ہر کسے غمخواری اہل و اقارب می کند اے دریغ این بیکسی راہیچ کس غمخوار نیست خونِ دین بینم روان چون کشتگانِ کربلا اے عجب ایں مرد مان رامہرآن دلدار نیست حیر تم آید چو بینم بذل شان درکار نفس کاین ہمہ جود و سخاوت در رہِ دا دار نیست اے کہ داری مقدرت ہم عزم تائیداتِ دیں لُطف کن مارا نظر براندک و بسیار نیست ۱؎ ترجمہ اشعار.(۱)دین احمد بیکس ہو گیا کوئی اس کا غم خوار نہیں ہر شخص اپنے اپنے کام میں مصروف ہے احمد کے دین سے کچھ واسطہ نہیں.(۲)گمراہی کا سیلاب ہرطرف لاکھوں انسانوں کو بہا کر لے گیا اُس آنکھ پر افسوس جو اب بھی ہشیار نہیں ہوئی.(۳)اے دولت مندو! اس قدر غفلت کیوں ہے تم ہی نیند سے بے ہوش ہو یا دین کی قسمت سو گئی ہے.(۴)اے مسلمانو! خدا کے لئے دین کی طرف ایک نظر تو دیکھ لو میں جو بلائیں دیکھ رہا ہوں ان کے اظہار کی حاجت نہیں.(۵)اے جوانمردو! اٹھو اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی ہے دین داروں کا یہ کام نہیں کہ اسے دور سے دیکھتے رہیں.(۶)میرا دل دین کی خاطر ہر وقت خون میں تڑپ رہا ہے.ہمارے اس درد کا واقف خدا کے سوا اور کوئی نہیں.(۷)غم جو ہم پر گذر رہا ہے اسے خدا کے سوا کون جان سکتا ہے ہم زہر پی رہے ہیں لیکن بولنے کی طاقت نہیں رکھتے.(۸)ہر شخص اپنے اہل وعیال کی غمخواری کرتا ہے.مگر افسوس کہ دین بیکس کا کوئی غمخوار نہیں.(۹)کشتگانِ کربلا کی طرح میں دین کا خون بہتا ہوا دیکھتا ہوں مگر تعجب ہے کہ ان لوگوں کو اس محبوب سے کچھ بھی محبت نہیں.(۱۰)جب میں نفسانی کاموں میں ان کی سخاوت دیکھتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں کہ یہ دریا دلی اور سخاوت خدا کی راہ میں نہیں ہے.(۱۱)اے وہ شخص! جو توفیق بھی رکھتا ہے اور نصرت دین کا ارادہ بھی رکھتا ہے جتنا ہو سکے دے، ہمیں تھوڑے بہت کا خیال نہیں.

Page 433

بین کہ چون درخاک می غلطدز جورِ ناکساں آنکہ مثل او بزیر گنبدِ دوّار نیست اندرین وقتِ مصیبت چارۂ ما بیکساں جُز دُعاء بامداد و گریۂ اسحار نیست اے خدا ہر گز مکن شادآن دلِ تاریک را آنکہ او را فکرِ دینِ احمدِؐ مختار نیست اے برادرپنج روز ایّام عشرت ہا بود دائمًا عیش و بہار گلشن و گلزار نیست راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم مرزا غلام احمد.از قادیان ضلع گورداسپورہ.پنجاب اپریل ۱۸۹۳ء مطبوعہ ریاض ہند قادیان (یہ اشتہار برکات الدعا ایڈیشن اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان کے صفحہ ۲۹ تا ۳۲ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۴ تا ۳۷)

Page 434

 شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کا خط ۱؎ دوسری شوال ۱۳۱۰ھ کو مجھ کو ملا.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالْمِنَّۃِ کہ آپ نے میرے اشتہار مورخہ ۳۰؍ مارچ ۱۸۹۳ء کے جواب میں بذریعہ اپنے خط ۱۸؍ اپریل ۱۸۹۳ء کے مجھ کو مطلع کیا کہ میں بالمقابلہ عربی عبارت میں تفسیر قرآن لکھنے کو حاضر ہوں.خاص کر مجھے اس سے بہت ہی خوشی ہوئی کہ آپ ۱؎ (لاہور ۱۸؍ اپریل ۱۸۹۳ء) غلام احمد قادیانی تمہارے چند اوراق کتاب وساوس کے ہمدست عزیزم مرزا خدا بخش اور دو رجسٹرڈ خط موصول ہوئے.(۱) مَیں تمہاری اس کتاب کا جواب لکھنے میں مصروف تھا، اس لیے تمہارے خطوط کے جواب میں توقف ہوا.اب اس سے فارغ ہوا ہوں تو جواب لکھتا ہوں.(۲) میں تمہاری ہر ایک بات کی اجابت کیلئے مستعد ہوں.مباہلہ ۱ کے لیے طیار ہوں.بالمقابلہ ۲ عربی عبارت میں تفسیرِ قرآن لکھنے کو بھی حاضر ہوں.میری۳ نسبت جو تم کو منذر الہام ہوا ہے اس کی اشاعت کی اجازت دینے کو بھی مستعد ہوں، مگر ہر ایک بات کا جواب و اجابت رسالہ میں چھاپ کر مشتہر کرنا چاہتا ہوں.جو انہیں باقی ماندہ ایّام اپریل میں ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.(۳) تمہارا سابق تحریرات میں یہ قید لگانا کہ دو ہفتہ میں جواب آوے اور آخری خط میں یہ لکھنا کہ ۲۰؍ اپریل تک جواب ملے ورنہ گریز مشتہر کیا جائے گا.کمال درجہ کی خفت و وقاحت ہے.اگر بعد اشتہار انکار ادھر سے اجابت کا اشتہار ہوا تو پھر کون شرمندہ ہو گا؟ (۴) ہماری طرف سے جو جواب خط نمبری ۲۱.مورخہ ۹؍ جنوری ۱۸۹۳ء کے لیے ایک ماہ کی میعاد مقرر ہوئی تھی.اس کا لحاظ تم نے یہ کیا کہ تیسرے مہینے کے اَخیر میں جواب دیا.پھر اپنی طرف سے یہ حکومت کہ جواب دو ۲ ہفتہ یا ۲۰؍ اپریل تک آوے.کیوں موجب شرم نہ ہوئی.تم نے اپنے آپ کو کیا سمجھا ہے؟ او ر اس حکومت کی کیا وجہ ہے.جن پر تم حکومت کرتے ہو

Page 435

نے اپنے خط کی دفعہ ۲ میں صاف لکھ دیا کہ میں تمہاری ہر ایک بات کی اجابت کے لیے مستعد ہوں.سو اس اشتہار کے متعلق باتیں جن کو آپ نے قبول کر لیا.صرف تین ہی ہیں.زیادہ نہیں.اوّل یہ کہ ایک مجلس قرار پا کر قرعہ اندازی کے ذریعہ سے قرآن کریم کی ایک سُورۃ جس کی آیتیں اسّی ۸۰ سے کم نہ ہوں، تفسیر کرنے کے لیے قرار پاوے.اور ایسا ہی قرعہ اندازی کے رو سے قصیدہ کا بحر تجویز کیا جائے.دوسری یہ کہ وہ تفسیر قرآن کریم کے ایسے حقایق و معارف پر مشتمل ہو جو جدید ہوں.اور منقولات کی مدّ میں داخل نہ ہو سکیں.اور باایں ہمہ عقیدہ متفق علیہا اہل سنّت و الجماعت سے مخالف بھی نہ ہو.اور یہ تفسیر عربی بلیغ فصیح اور مقفّیٰ عبارت میں ہو.اور ساتھ اس کے سو ۱۰۰ شعر عربی بطور قصیدہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں ہو.تیسری یہ کہ فریقین کے لیے چالیس دن کی مُہلت ہو.اس مُہلت میں جو کچھ لکھ سکتے ہیں لکھیں اور پھر ایک مجلس میں سُناویں.پس جبکہ آپ نے یہ کہہ دیا کہ میں آپ کی ہر ایک بات کی اجابت کے لیے مستعد ہوں تو صاف طور پر کھل گیا کہ آپ نے یہ تینوں باتیں مان لیں.اَب انشاء اللہ القدیر اسی پر سب فیصلہ ہو جائے گا.آج اگرچہ روز عید سے دوسرا دن ہے.مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آپ کے مان لینے اور قبول کرنے سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ میں آج کے دن کو بھی عید کا ہی دن سمجھتا ہوں.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِکہ اب ایک کھلے کھلے فیصلہ کے لیے بات قائم ہو گئی.اب لوگ اس بات کو بہت جلد اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ اس عاجز کو بقول آپ کے کافراور کذّاب ثابت کرتا ہے یا وہ امر ظاہر بقیہ حاشیہ.وہ تم کو دجّال.کذّاب.کافر و زندیق سمجھتے ہیں.پھر وہ ایسی حکومتوں کو کیونکر تسلیم کریں.کیا تم نے سب کو اپنا مُریدہی سمجھ رکھا ہے.ذرا عقل سے کام لو.کچھ تو شرم کرو.دین سے تعلق نہیں رہا تو کیا دنیا سے بھی بے تعلق ہو؟ اس خط کی رسید ڈاکخانہ سے لی گئی ہے.وصول سے انکار کرو گے تو وہ رسید تمہاری مکذّب ہو گی.(ابو سعید محمد حسین عفا اللہ عنہ ایڈیٹر اشاعۃ السنہ)

Page 436

کرتا ہے جو صادقین کی تائید کے لیے اس کی عادت ہے اگرچہ دل میں اس وقت یہ خیال بھی آتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ اس صاف اقرار کے بعد رسالہ میں کچھ اَور کا اَور لکھ ماریں، لیکن پھر اس بات سے تسلّی ہوتی ہے کہ ایسے صاف اور کھلے کھلے اقرار کے بعد کہ میں نے آپ کی ہر ایک بات مان لی ہے، ہرگز ممکن نہیں کہ آپ گریز کی طرف رُخ کریں اور اب آپ کے لیے یہ امر ممکن بھی نہیں.کیونکہ آپ ان شرائط پیش کردہ کو بغیر اس عذر کے کہ ان کی انجام دہی کی مجھ میں لیاقت نہیں اور کسی صورت سے چھوڑ نہیں سکتے اور خود جیسا کہ آپ اپنے اس خط میں قبول کر چکے ہیں کہ میں نے ہر ایک بات مان لی تو پھر ماننے کے بعد انکار کرنا خلاف وعدہ ہے.مجھے اس بات سے بھی خوشی ہوئی کہ میری تحریر کے موافق آپ مباہلہ کے لیے بھی تیار ہیں اوراپنی ذات کی نسبت کوئی نشان بھی دیکھنا چاہتے ہیں.سبحان اللہ اب تو آپ کچھ رُخ پر آ گئے اگر رسالہ میں کچھ نئے پتھر نہ ڈال دیں.مگر کیونکر ڈال سکتے ہیں.آپ کا یہ فقرہ کہ میں آپ کی ہر ایک بات کی اجابت کے لیے مستعد ہوں.طیار ہوں.حاضر ہوں.صاف خوشخبری دے رہا ہے کہ آپ نے میر ی ہر ایک بات اور ہر ایک شرط کو سچے دل سے مان لیا ہے.اب میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اس خوشخبری کو چھپایا نہ جائے بلکہ چھپوایا جائے.اس لئے معہ آپ کے خط کے اس خط کو چھاپ کر آپ کی خدمت میں نذر کرتا ہوں.اور اِیفائِ وَعْدَہ کا منتظر ہوں.وَالسََّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.الراقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۱۹؍ اپریل ۱۸۹۳ ء منکرین کے ملزم کرنے کے لئے ایک اور پیشگوئی.خاص کرشیخ محمد حسین بٹالوی کی توجہ کے لائق ہے ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۳ء سے چار مہینہ پہلے صفحہ ۲۲۶.آئینہ کمالات اسلام میں بقید تاریخ شائع ہو چکا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک اَور بیٹے کا اس عاجز سے وعدہ کیا ہے جو عنقریب پیدا ہو گا.اس پیشگوئی

Page 437

کے الفاظ یہ ہیں.سَیُوْلَدُ لَکَ الْوَلَدُ وَ یُدْنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ.ترجمہ.یعنی عنقریب تیرے لڑکا پیدا ہو گا.اور فضل تیرے نزدیک کیا جائے گا.یقینا میرا نُور قریب ہے.سو آج ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۳ء کو وہ پیشگوئی پوری ہو گئی.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو خود اپنی زندگی کا اعتبار نہیں.چہ جائیکہ یقینی اور قطعی طور پر یہ اشتہار دیوے کہ ضرور عنقریب اُس کے گھر میں بیٹا پیدا ہو گا.خاص کر ایسا شخص جو اس پیشگوئی کو اپنے صدق کی علامت ٹھہراتا ہے.اور تحدّی کے طور پر پیش کرتا ہے.اب چاہیے کہ شیخ محمد حسین اس بات کا بھی جواب دیں کہ یہ پیشگوئی کیوں پوری ہوئی.کیا یہ استدراج ہے یا نجوم ہے یا اٹکل ہے.اور کیا سبب ہے کہ خد تعالیٰ بقول آپ کے ایک دجّال کی ایسی پیشگوئیاں پوری کرتا جاتا ہے جن سے اُس کی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے.الراقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور (یہ اشتہار کے دو صفحوں پر ہے ) (مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ) (تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۲۲ تا ۲۵)

Page 438

 اشتہار مُباہلہ میاں عبد الحق غزنوی و حافظ محمد یوسف صاحب ناظرین کو معلوم ہو گا کہ کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ غزنوی صاحبوں کی جماعت میں سے جو امرتسر میں رہتے ہیں ایک صاحب عبد الحق نام نے اس عاجز کے مقابلہ پر مباہلہ کے لیے اشتہار دیا تھا، مگر چونکہ اس وقت یہ خیال تھا کہ یہ لوگ کلمہ گو اور اہل قبلہ ہیں ان کو لعنتوں کا نشانہ بنانا جائز نہیں.اس لیے اس درخواست کے قبول کرنے سے اس وقت تک تأمل رہا ،جب تک کہ ان لوگوں نے کافر ٹھہرانے میں اصرار کیا.اور پھر تکفیر کا فتویٰ تیار ہونے کے بعد اس طرف سے بھی مباہلہ کا اشتہار ۱؎ دیا گیا ہے.جو کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ بھی شامل ہے اور ابھی تک کوئی شخص مباہلہ کے لیے مقابلہ پر نہیں آیا.مگر مجھ کو اس بات کے سُننے سے بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے ایک معزز دوست حافظ محمد یوسف صاحب نے ایمانی جوانمردی اور شجاعت کے ساتھ ہم سے پہلے اس ثواب کو حاصل کیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حافظ صاحب اتفاقاً ایک مجلس میں بیان کر رہے تھے کہ مرزا صاحب ؑ یعنی اس عاجز سے کوئی آمادۂ مناظرہ یا مباہلہ نہیں ہوتا.اور اسی سلسلہ گفتگو میں حافظ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ عبد الحق نے جو مباہلہ کے لیے اشتہار دیا تھا اب اگر وہ اپنے تئیںسچا جانتا ہے تو میرے مقابلہ پر آوے.مَیں ۱؎ یہ اشتہار جلد ہذا میں زیر نمبر ۹۲ صفحہ ۳۶۳ پر درج ہے.(مرتب)

Page 439

س سے مباہلہ کے لیے تیار ہوں.تب عبد الحق جو اسی جگہ کہیں موجود تھا.حافظ صاحب کے غیرت دلانے والے لفظوں سے طَوْعًا وَ کَرْہًا مستعد مباہلہ ہو گیا اور حافظ صاحب کا ہاتھ آکر پکڑ لیا کہ مَیں تم سے اسی وقت مباہلہ کرتا ہوں.مگر مباہلہ فقط اس بارہ میں کروں گا کہ میرا یقین ہے کہ مرزا۱ غلام احمد ومولوی حکیم۲ نور الدین اور مولوی محمد احسن یہ تینوں مرتدین اور کذّابین اور دجّالین ہیں.حافظ صاحب نے فی الفور بلاتامل منظور کیا کہ مَیں اس بارہ میں مباہلہ کروں گا.کیونکہ میرا یقین ہے کہ یہ تینوں مسلمان ہیں.تب اسی بات پر حافظ صاحب نے عبد الحق سے مباہلہ کیا اور گواہانِ مباہلہ منشی محمد یعقوب اور میاں نبی بخش صاحب اور میاں عبد الہادی صاحب اور میاں عبد الرحمن صاحب عمر پوری قرار پائے اور جب حسبِ دستورِ مباہلہ فریقین اپنے اپنے نفس پر لعنتیں ڈال چکے اور اپنے مُنہ سے کہہ چکے کہ یاالٰہی اگر ہم اپنے بیان میں سچائی پر نہیں تو ہم پرتیری لعنت نازل ہو.یعنی کسی قسم کا عذاب ہم پر وارد ہو.تب حافظ صاحب نے عبد الحق سے دریافت کیا کہ اس وقت مَیں بھی اپنے آپ پر بحالت کاذب ہونے کے لعنت ڈال چکا اور خدا تعالیٰ سے عذاب کی درخواست کر چکا اور ایسا ہی تم بھی اپنے نفس پر اپنے ہی مُنہ سے لعنت ڈال چکے اور بحالت کاذب ہونے کے عذاب الٰہی کی اپنے لیے درخواست کر چکے.لہٰذا اب مَیں تو اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ اگر اس لعنت اور اس عذاب کی درخواست کا اثر مجھ پر وارد ہوا اور کوئی ذلّت اور رسوائی مجھ کو پیش آ گئی تو مَیں اپنے اس عقیدہ سے رجوع کر لوں گا.سو اب تم بھی اس وقت اپنا ارادہ بیان کرو کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے نزدیک کاذب ٹھہرے اور کچھ لعنت اور عذاب کا اثر تم پر وارد ہو گیا تو تم بھی اپنے اس تکفیر کے عقیدہ سے رُجوع کرو گے یا نہیں.فی الفور عبدالحق نے صاف جواب دیا کہ اگر مَیں اپنی اس بد دعا سے سؤر ؔاور بندرؔ اور ریچھؔ بھی ہو جائوں.تب بھی اپنا یہ عقیدہ تکفیر ہرگز نہ چھوڑوں گا اور کافر کافر کہنے سے باز نہیں آئوں گا.تب حاضرین کو نہایت تعجب ہوا کہ جس مباہلہ کو حق اور باطل کے آزمانے کے لئے اس نے معیار ٹھہرایا تھا اور جو قرآن کریم کی رُو سے بھی حق اور باطل میں فرق کرنے کے لیے ایک معیار ہے کیونکر اور کس قدر جلد اس معیار سے یہ شخص پھر گیا؟ اور زیادہ تر ظلم اور تعصّب اس کا اس سے ظاہر ہوا کہ وہ اس بات کے لیے تو تیار ہے کہ فریق مخالف پر

Page 440

مباہلہ کے بعد کسی قسم کا عذاب نازل ہو اور وہ اس کے اس عذاب کو اپنے صادق ہونے کے لیے بطور دلیل اور حجت کے پیش کرے.لیکن وہ اگر آپ ہی مَوردِ عذاب ہو جائیں تو پھر مخالف کے لیے اس کے کاذب ہونے کی یہ دلیل اور حجت نہ ہو.اب خیال کرنا چاہیے کہ یہ قول عبدالحق کا کس قدر امانت اور دیانت اور ایمانداری سے دور ہے.گویا مباہلہ کے بعد ہی اس کی اندرونی حالت کا مسخ ہونا کھل گیا.یہودی لوگ جو موردِ لعنت ہو کر بندرؔ اور سؤرؔ ہو گئے تھے.ان کی نسبت بھی تو بعض تفسیروں میں یہی لکھا ہے کہ بظاہر وہ انسان ہی تھے لیکن ان کی باطنی حالت بندروں اور سؤروں کی طرح ہو گئی تھی اور حق کے قبول کرنے کی توفیق بکلّی اُن سے سلب ہو گئی تھی اور مسخ شدہ لوگوں کی یہی تو علامت ہے کہ اگر حق کھل بھی جائے تو اس کو قبول نہیں کر سکتے.جیسا کہ قرآن کریم اسی کی طرف اشارہ فرما کر کہتا ہے   .۱؎    .۲؎ یعنی کافر کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں.ایسے رقیق اور پتلے دل نہیں کہ حق کا انکشاف دیکھ کر اس کو قبول کریں.اللہ جَلَّ شَانُـہٗ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ یہ کچھ خوبی کی بات نہیں بلکہ لعنت کا اثر ہے جو دلوں پر ہے.یعنی لعنت جب کسی پر نازل ہوتی ہے اس کے نشانوں میں سے یہ بھی ایک نشان ہے کہ دل سخت ہو جاتا ہے.اور گو کیسا ہی حق کھل جائے، پھر انسان اس حق کو قبول نہیں کرتا.سو یہ حافظ صاحب کی اسی وقت ایک کرامت ظاہر ہوئی کہ دشمن نے مسخ شدہ فرعون کی طرح اسی وقت مباہلہ کے بعد ہی ایسی باتیں شروع کر دیں.گویا اسی وقت لعنت نازل ہو چکی تھی.اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ یہ وہی عبد الحق ہے کہ جس نے الہام کا بھی دعویٰ کیا تھا.اب ناظرین ذرا ایک انصاف کی نظر اس کے حال پر ڈالیں کہ یہ شخص سچائی سے دوستی رکھتا ہے یا دشمنی ظاہر ہے کہ ملہم وہ شخص ہو سکتے ہیں جو ہمیشہ سچائی کے پیاسے اور بھُوکے ہوتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ سچائی ہمارے ساتھ نہیں بلکہ فریق مخالف کے ساتھ ہے اُسی وقت اپنی ضِد کو چھوڑ دیتے ہیں اور حق کے ۱؎ البقرۃ: ۸۹ ۲؎ النساء: ۱۵۶

Page 441

قبول کرنے کے لیے ننگ و ناموس بلکہ موت سے بھی نہیں ڈرتے.اب سوچنے ہی کا مقا م ہے کہ عبدالحق نے آپ ہی مباہلہ کو معیار حق و باطل ٹھہرا کر اشتہار دیا.اور جب ایک مردِ خدا اُس کے مقابل پر اُٹھا اور مباہلہ کیا تو ساتھ ہی فکر پڑی کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی عذاب نازل ہو کر پھر مجھ کو حق کے قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جاوے.تب اسی وقت اُس نے اُسی مجلس میں کہہ دیا کہ اگر وہ لعنت جو میں نے اپنے ہی مُنہ سے اپنے پر کی ہے.مجھ پر نازل ہو گئی اور میرا جھوٹا ہونا کھل گیا.تب بھی مَیں سچ کو قبول نہیں کروں گا گو میں سؤر اور بندر اور ریچھ بھی بنایا جائوں.پس اس سے زیادہ تر لعنت اَور کیا ہو گی کہ دُور دُور تک ضِد کے خیمے لگا رکھے ہیں اور بندر اور سؤر بننا اپنے لیے پسند کر لیا، مگر حق کو قبول کرنا پسند نہیں کیا.یہ بھی سمجھ نہیں کہ اگر مباہلہ کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتا توپھر ایسے مباہلہ سے فائدہ ہی کیا ہے؟ اور اگر اپنی ہی دعا کے قبول ہونے اور لعنت کے آثار ظاہر ہونے پر بدن نہیں کانپتا تو یہ ایمان کس قسم کا ہے اور تعجب کہ یہ بات کہنا کہ اگر مَیں اپنے منہ کی لعنت کا اثر اپنے پر دیکھ بھی لوں اور جو تضرع سے درخواست عذاب کی تھی اس عذاب کا وارد ہونا بھی مشاہدہ کر لوں.پھر بھی میں تکفیر سے باز نہیں آئوں گا.کیا یہ ایمانداروں کے علامات ہیں.اور کیا اسی خُبثِ نیّت پر مباہلہ کا جوش و خروش تھا.اور چونکہ اس عاجز کی طرف سے مباہلہ کا اشتہار شائع ہو چکا ہے.اور یہ اندیشہ ہے کہ کہیں دوسرے بزرگ بھی وہی اپنا جوہر نہ دکھاویں جو عبد الحق نے دکھلایا.یعنی مباہلہ کے آثار کو اپنے لیے تو اپنے مفید مطلب ہونے کی حالت میں حجت ٹھہرا لیا.مگر مخالف کے لیے یہ حجت نہیں.لہٰذا اس اشتہار میں خاص طور پر میاں محمد حسین بطالوی اور میاں محی الدین لکھوکے والا.اور مولوی عبد الجبّار صاحب غزنوی اور ہر ایک نامی مولوی یا سجادہ نشین کو جو اس عاجز کو کافر سمجھتا ہو.مخاطب کر کے عام طور پر شائع کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے تئیں صادق قرار دیتے ہیں تو اس عاجز سے مباہلہ کریں اور یقین رکھیں کہ خداوند تعالیٰ ان کو رُسوا کرے گا.لیکن یہ بات واجبات سے ہو گی کہ فریقین اپنی اپنی تحریریں بہ ثبت دستخط گواہان شائع کر دیں کہ اگر کسی فریق پر لعنت کا اثر ظاہر ہو گیا تو وہ شخص اپنے عقیدہ سے رجوع کرے گا اور اپنے فریق مخالف کو سچا مان لے گا.اور اس مباہلہ کے لیے اشخاص مندرجہ ذیل بھی خاص

Page 442

طب ہیں.(۱) محمد علی واعظ(۲) ظہور الحسن سجادہ نشین بٹالہ (۳)منشی سعد اللہ مدرس لدھیانہ (۴) منشی محمد عمر سابق ملازم لدھیانہ(۵) مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ (۶)میاں نذیر حسین دہلوی (۷)حافظ عبد المنان وزیر آبادی (۸) میاں میر حیدر شاہ وزیر آبادی(۹) میاں محمد اسحاق پٹیالوی.راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم مرزا غلام احمد قادیانی.۲۵؍ اپریل ۱۸۹۳ء (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر پنجاب ) بقلم غلام محمد امرتسری (یہ اشتہار کے چار صفحوں پرہے) (تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۲۵ تا ۲۹)

Page 443

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ اشتہار براہینِ احمدیّہ اور اس کے خریدار واضح ہو کہ یہ کتاب اس عاجز نے اس عظیم الشان غرض سے تالیف کرنی شروع کی تھی کہ وہ تمام اعتراضات جو اس زمانہ میں مخالفین اپنی اپنی طرز پر اسلام اور قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کر رہے ہیں.ان سب کا ایسی عمد گی اور خوبی سے جواب دیا جائے کہ صرف اعتراضات کا ہی قلع قمع نہ ہو بلکہ ہر ایک امر کو جو عیب کی صورت میں مخالف بداندیش نے دیکھا ہے.ایسے محققانہ طور سے کھول کر دکھلایا جائے کہ اس کی خوبیاں اور اس کا حسن و جمال دکھائی دے.اور دوسری غرض یہ تھی کہ وہ تمام دلائل اور براہین اور حقایق اور معارف لکھے جائیں جن سے حقانیّت اسلام اور صداقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حقیّت قرآن کریم روز روشن کی طرح ثابت ہو جائے.اور تیسری غرض یہ تھی کہ مخالفین کے مذاہب باطلہ کی بھی کچھ حقیقت بیان کی جائے اور ابتدا میںیہی خیال تھا کہ اس کتاب کی تالیف کے لیے جس قدر معلومات اب ہمیں حاصل ہیں وہی اس کی تکمیل کے لیے کافی ہیں، لیکن جب چار حصّے اس کتاب کے شائع ہو چکے.اور اس بات پر اطلاع ہوئی کہ کس قدر بد اندیش مخالف حقیقت سے

Page 444

دور و مہجور ہیں اور کیسے صدہا رنگا رنگ کے شکوک و شبہات نے اندر ہی اندر ان کو کھا لیا ہے.وہ پہلا ارادہ بہت ہی ناکافی معلوم ہوا.اور یہ بات کھل گئی کہ اس کتاب کا تالیف کرنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک ایسے زمانہ کے زیر و زبر کرنے کے لیے یہ ہماری طرف سے ایک حملہ ہے.جس زمانہ کے مفاسدان تمام فسادوں کے مجموعہ ہیں.جو پہلے اس سے متفرق طور پر وقتاً فوقتاً دنیا میں گزر چکے ہیں بلکہ یقین ہوگیا کہ اُن تمام فسادوں کو جمع بھی کیا جائے.تو پھر بھی موجودہ زمانہ کے مفاسد ان سے بڑھے ہوئے ہیں اور عقلی اور نقلی ضلالتوں کا ایک ایسا طوفان چل رہا ہے جس کی نظیر صفحۂ دُنیا میں نہیں پائی جاتی.اور جو ایسا دلوں کو ہلا رہا ہے کہ قریب ہے کہ بڑے بڑے عقلمند اس سے ٹھوکر کھاویں.تب ان آفات کو دیکھ کر یہ قرین مصلحت سمجھا گیا کہ اس کتاب کی تالیف میں جلدی نہ کی جائے.اور ان تمام مفاسد کی بیخ کنی کے لیے فکر اور عقل اور دعا اور تضرع سے پورا پورا کام لیا جائے اور نیز صبر سے اس بات کا انتظار کیا جائے کہ براہین کے چاروں حصوں کے شائع ہونے کے بعد کیا کچھ مخالف لوگ لکھتے ہیں اور اگرچہ معلوم تھا کہ بعض جلد باز لوگ جو خریدار کتاب ہیں.وہ طرح طرح کے ظنّوں میں مبتلا ہوںگے اور اپنے چند درم کو یاد کر کے مؤلف کو بددیانتی کی طرف منسوب کریں گے.چونکہ دل پر یہی غالب تھا کہ یہ کتاب رطب و یابس کا مجموعہ نہ ہو بلکہ واقعی طور پر حق کی ایسی نُصرت ہو کہ اسلام کی روشنی دنیا میں ظاہر ہو جائے.اس لیے ایسے جلد بازوں کی کچھ بھی پروا نہیں کی گئی.اور اس بات کو خدا تعالیٰ بخوبی جانتا ہے اور شاہد ہونے کے لیے وہی کافی ہے کہ اگر پوری تحقیق اور تدقیق کا ارادہ نہ ہوتا تو اس قدر عرصہ میں جو براہین کی تکمیل میں گزر گیا.ایسی بیس تیس کتابیں شائع ہو سکتی تھیں.مگر میری طبیعت اور میرے نُورِ فطرت نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ صرف ظاہری طور پر کتاب کو کامل کر کے دکھلا دیا جائے.گو حقیقی اور واقعی کمال اس کو حاصل نہ ہو.ہاں یہ بات ضرور تھی کہ اگر میں ایسا کرتا اور واقعی حقیقت کو مدِّنظر نہ رکھتا تو لوگ بلا شُبہ خوش ہو جاتے لیکن حقیقی راست بازی کا ہمیشہ یہ تقاضا ہوتا ہے کہ مستعجل لوگوں کی لعنت ملامت کا اندیشہ نہ کر کے واقعی خیر خواہی اور غم خواری کو مدّنظر رکھا جائے.یہ سچ ہے کہ اس دس برس کے عرصہ میں کئی خریدار دنیا سے گزر بھی گئے اور کئی لمبے انتظاروں میں پڑ کر نومید

Page 445

ہوگئے، لیکن ساتھ اس کے ذرّہ انصاف سے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا وہ لوگ کتاب کے دیکھنے سے بکلی محروم گئے.اور کیا انہوں نے ۳۶ جزو کی کتاب پُر از حقایق و معارف نہیں دیکھ لی.اور یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ تما م دنیا کا مقابلہ کرنا کیسا مشکل امر ہے.اور کس قدر مشکلات کا ہمیں سامنا پیش آ گیا ہے.اور جو کچھ زمانہ کی حالت موجودہ اپنے روز افزوں فساد کی وجہ سے جدید در جدید کوششیں ہم پر واجب کرتی جاتی ہے، وہ کس قدر زمانہ کو چاہتی ہیں.ماسوا اس کے ایسے بدظن خریدار اگر چاہیں تو خود بھی سوچ سکتے ہیں کہ کیا ان کے پانچ یا دس روپیہ لے کر اُن کو بکلّی کتاب سے محروم رکھا گیا، کیا ان کو کتاب کی وہ ۳۶ جزو نہیں پہنچ چکیں جو بہت سے حقایق و معارف سے پُر ہیں.کیا یہ سچ نہیں کہ براہین کا حصہ جس قدر طبع ہو چکا وہ بھی ایک ایسا جواہرات کا ذخیرہ ہے کہ جو شخص اﷲجَلَّ شَانُـہٗ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو بلاشبہ اس کو اپنے پانچ یا دس روپیہ سے زیادہ قیمتی اور قابلِ قدر سمجھے گا.مَیں یقینا یہ بات کہتا ہوں اور میرا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہے کہ جس طرح میں نے محض اﷲ جَلَّ شَانُـہٗ کی توفیق اور فضل اور تائید سے براہین کے حصص موجودہ کی نثر اور نظم کو جو دونوں حقایق اور معارف سے بھری ہوئی ہیں تالیف کیا ہے.اگر حال کے بدظن خریدار اُن مُلّائوں کو جنہوں نے تکفیر کا شور مچا رکھا ہے اس بات کے لیے فرمایش کریں کہ وہ اسی قدر نظم اور نثر جس میں زندگی کی رُوح ہو اور حقایق معارف بھرے ہوئے ہوں دس برس تک تیار کر کے ان کو دیں اور اسی قدر کی پچاس پچاس روپیہ قیمت لیں تو ہرگز اُن کے لیے ممکن نہ ہو گا.اور مجھے اﷲ جَلَّ شَانُـہٗ کی قسم ہے کہ جو نُور اور برکت اس کتاب کی نثر اور نظم میں مجھے معلوم ہوتی ہے.اگر اس کا مؤلف کوئی اور ہوتا اور میں اس کے اسی قدر کو ہزار روپیہ کی قیمت پر بھی خریدتا تو بھی مَیں اپنی قیمت کو اس کے ان معارف کے مقابل پر جو دلوں کی تاریکی کو دور کرتی ہیں، ناچیز اور حقیر سمجھتا.اس بیان سے اس وقت صرف مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بقیہ کتاب کے دینے میں معمول سے بہت زیادہ توقف ہوا لیکن بعض خریداروں کی طرف سے بھی یہ ظلم صریح ہے کہ انہوں نے اس عجیب کتاب کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور ذرا خیال نہیں کیا کہ ایسی اعلیٰ درجہ کی تالیفات میں کیا کچھ مؤلفین کو خون جگر کھانا پڑتا ہے اور کس طرح موت

Page 446

کے بعد وہ زندگی حاصل کرتے ہیں.ظاہر ہے کہ ایک لطیف اور آبدار شعر کے بنانے میں جو معرفت کے نُور سے بھرا ہوا ہو اور گرتے ہوئے دلوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اُوپر کو اُٹھا لیتا ہو.کس قدر فضلِ الٰہی درکار ہے اور کس قدر وقت خرچ کرنے کی ضرورت ہے.پھر اگر ایسے آبدار اور پُرمعارف اشعار کا ایک مجموعہ ہو تو ان کے لیے کس قدر زمانہ درکار ہو گا.ایسا ہی نثر کا بھی حال ہے.جاندار کتابیں بغیر جانفشانی کے طیار نہیں ہوتیں.اور متقدمین ایک ایک کتاب کی تالیف میں عمریں بسر کرتے رہے ہیں.امام بخاری نے سولہ برس میں اپنی صحیح کو جمع کیا.حالانکہ صرف کام اتنا تھا کہ احادیث صحیحہ جمع کی جائیں.پھر جس شخص کا یہ کام ہو کہ زمانہ موجودہ کے علم طبعی علم فلسفہ کے ان امور کو نیست و نابود کرے جو ثابت شدہ صداقتیں سمجھی جاتی ہیں اور ایک معبود کی طرح پوجی جا رہی ہیں.اور بجائے اُن کے قرآن کا سچا اور پاک فلسفہ دنیا میں پھیلاوے اور مخالفوں کے تمام اعتراضات کا استیصال کر کے اسلام کا زندہ مذہب ہونا اور قرآن کریم کا منجانب اﷲ ہونا اور تمام مذاہب سے بہتر اور افضل ہونا ثابت کر دیوے کیا یہ تھوڑا سا کام ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس عاجز کی نسبت اعتراض کئے ہیں کہ ہمارا روپیہ لے کر کھا لیا اور ہم کو کتاب کا بقیہ اب تک نہیں دیا.انہوں نے کبھی توجہ اور انصاف سے کتاب براہین احمدیہ کو پڑھا نہیں ہو گا.اگر وہ کتاب کو پڑھتے تو اقرار کرتے کہ ہم نے براہین کا زیادہ اس سے پھل کھایا ہے اور اس مال سے زیادہ مال لیا ہے جو ہم نے اپنے ہاتھ سے دیا.اور نیز یہ بھی سوچتے کہ اگر ایسی اعلیٰ درجہ کی تالیفوں کی تکمیل میں چند سال توقف ہو جائے تو بلاشبہ ایسا توقف ملامتوں کے لایق نہیں ہو گا.اور اگر ان میں انصاف ہوتا تو وہ دغا باز اور بددیانت کہنے کے وقت کبھی یہ بھی سوچتے کہ اس عظیم الشان کام کا انجام دینا اور اس خوبی کے ساتھ اتمامِ حجت کرنا اور تمام موجودہ اعتراضات کو اٹھانا اور تمام مذاہب پر فتحیاب ہو کر اسلام کی صداقتوں کو آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے دکھلا دینا کوئی ایسا امر نہیں ہے کہ بغیر ایک معقول مدت اور تائید الٰہی کے ہو سکے.اگر انسان حیوانات کی طرح زندگی بسر نہ کرتا ہو تو اس بات کا سمجھنا اس پر کچھ مشکل نہیں کہ ایک سچا مخلص اور غمخوار اسلام کا جو

Page 447

اسلام کی تائید کے لیے قلم اُٹھاوے.اگرچہ وہ اپنے کسی موجودہ سامان کے لحاظ سے یہ بھی لکھ دے کہ میں صرف چند ماہ میں فلاں کتاب بمقابلہ مخالفین شائع کروں گا، لیکن وہ اس بات کا مجاز ہو گا کہ جدید خرابیاں مشاہدہ کر کے حقیقی اصلاح کی غرض سے اپنے پہلے ارادہ کو کسی ایسے ارادہ سے بدل دے جو خدمتِ اسلام کے لیے احسن ہے اور جس کا انجام مدت مدید پر موقوف ہے.درحقیقت یہی صورت اس جگہ پیش آ گئی.اور اس عرصہ میں مخالفین کی طرف سے کئی کتابیں تالیف ہوئیں اور کئی ردّ ہماری کتاب براہین کے لکھے گئے اور مخالفین نے اپنے تمام بخارات نکال لئے اور تمام طاقتیں ان کی معلوم ہو گئیں.اور اس عرصہ میں اپنی فکر اور نظر نے بھی بہت ترقی کی اور ہزارہا باتیں ایسی معلوم ہوئیں جو پہلے معلوم نہ تھیں اور کتاب کی تکمیل کے لیے وہ سامان ہاتھ میں آ گیا کہ اگر اس سامان سے پہلے کتاب چھپ جاتی تو ان تمام حقایق سے خالی ہوتی.اور اس عرصہ میں یہ عاجز فارغ بھی نہیں بیٹھا رہا.بلکہ تیس ہزار کے قریب اشتہار شائع کیا اور بارہ ہزار کے قریب مخالفین اسلام کو اتمامِ حجت کے لیے رجسٹری کرا کر خط بھیجے اور بعض کتابیں جو براہین احمدیہ کے لیے بطور ارہاص کے تھیں.تالیف کیں.جیسا کہ سُرمہ چشم آریہ.شحنہ حق.فتح اسلام.توضیح مرام.ازالہ اوہام.آئینہ کمالات اسلام.اور اس شغل میں صدہا حقایق معارف براہین کے لیے جمع ہو گئے.اور انہیں حقایق معارف نے اب مجھے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ براہین کے پنجم حصہ کو جو اَب انشاء اﷲ تعالیٰ آخری حصہ کی طرح اس کو نکالوں گا.ایک مستقل کتاب کے طور پر نکالا جائے.سو اَب پنجم حصہ کی خوبیاں جس قدر میری نظر کے سامنے ہیں ان کے مناسب حال میں نے ضروری سمجھا کہ اس پنجم حصہ کا نام ضرورتِ قرآن رکھا جائے.اس حصہ میں یہی بیان ہو گا کہ قرآن کریم کا دنیا میں آنا کیسا ضروری تھا.اور دنیا کی روحانی زندگی بغیر اس کے ممکن ہی نہیں.اب میں یقین رکھتا ہوں کہ اس حصہ کے شروع طبع میں کچھ بہت دیر نہیں ہو گی، لیکنمجھے اُن مسلمانوں کی حالت پر نہایت افسوس ہے کہ جو اپنے پانچ یا دس روپیہ کے مقابل پر ۳۶ جزو کی ایسی کتاب پا کر جو معارف اسلام سے بھری ہوئی ہے.ایسے شرمناک طور پر

Page 448

بدگوئی اور بدزبانی پر مستعد ہو گئے کہ گویا اُن کا روپیہ کسی چور نے چھین لیا، یا اُن پر کوئی قزاق پڑا.اور گویا وہ ایسی بے رحمی سے لوٹے گئے کہ اس کے عوض میں کچھ بھی ان کو نہیں دیا گیا.اور ان لوگوں نے زبان درازی اور بدظنّی سے اس قدر اپنے نامۂ اعمال کو سیاہ کیا کہ کوئی دقیقہ سخت گوئی کا باقی نہ رکھا.اس عاجز کو چور قرار دیا.مکّار ٹھہرایا.مال مردم خور کر کے مشہور کیا.حرام خور کہہ کر نام لیا.دغا باز نام رکھا.اور اپنے پانچ یا دس روپیہ کے غم میں وہ سیاپا کیا کہ گویا تمام گھر ان کا لُوٹا گیا اور باقی کچھ نہ رہا، لیکن ہم ان بزرگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے یہ روپیہ مفت دیا تھا اور کیا وہ کتابیں جو اس کے عوض میں تم نے لیں جن کے ذریعہ سے تم نے وہ علم حاصل کیا جس کی تمہیں اور تمہارے باپ دادوں کو کیفیت معلوم نہیں تھی اور وہ بغیر ایک عمر خرچ کرنے کے اور بغیر خون جگر کھانے کے یونہی تالیف ہو گئی تھیں.اور بغیر صرف مال کے یونہی چھپ گئی تھیں.اور اگر درحقیقت وہ بے بہا جواہرات تھی جس کے عوض آپ نے پانچ یا دس روپے دیئے تھے تو کیا یہ شکوہ روا تھا کہ بے ایمانی اور دھوکہ دہی سے ہمارا روپیہ لے لیا گیا.آخر ان جوانمردوں اور پُرجوش مسلمانوں کو دیکھنا چاہیے کہ جنہوں نے براہین کے ان حصوں کو دیکھ کر بغیر خریداری کی نیّت کے صرف حقایق معارف کو مشاہدہ کر کے صدہا روپیہ سے محض ﷲ مدد کی اور پھر عذر کیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکے.ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں تمام قومیں تلواریں کھینچ کر اسلام کے گرد ہو رہی ہیں اور کروڑہا روپیہ چندہ کر کے اس فکر میں ہیں کہ کسی طرح اسلام کو روئے زمین سے نابود کر دیں.ایسے وقت میں اگر اسلام کے حامی اسلام کے مددگار اسلام کے غم خوار یہی لوگ ہیں کہ ایسی کتاب کے مقابل پر جو اسلام کے لئے نئے اور زندہ ثبوتوں کی بنیاد ڈالتی ہے اس قدر جزع فزع کر رہے ہیں اور ایک معقول حصہ کتاب کا لے کر پھر یہ ماتم اور فریاد ہے تو پھر اس دین کا خدا حافظ ہے مگر نہیں.اﷲ جَلَّ شَانُـہٗ کو ایسے لوگوں کی ہرگز پروا نہیں جو دنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہیں.نہایت تعجب انگیز یہ امر ہے کہ اگر کسی صاحب کو بقیہ براہین کے نکلنے میں دیر معلوم ہوئی تھی اور اپنا روپیہ یاد آیا تھا تو اس شور و غوغا کی کیا ضرورت تھی.اور دغا باز اور چور اور حرام خور نام رکھ کر اپنے نامۂ اعمال کے

Page 449

سیاہ کرنے کی کیا حاجت تھی.ایک سیدھے معاملہ کی بات تھی کہ بذریعہ خط کے اطلاع دیتے کہ براہین کے چاروں حصے لے لو اور ہمارا روپیہ ہمیں واپس کرو.مجھے ان کے دلوں کی کیا خبر تھی کہ اس قدر بگڑ گئے ہیں.میرا کام محض ِ ﷲ تھا.اور مَیں خیال کرتا تھا کہ گو بعض مسلمان خریداری کے پیرایہ میں تعلق رکھتے ہیں.مگر اس پُرفتن زمانہ میں ہی للّٰہی نیّت سے وہ خالی نہیں ہیں.اور للّٰہی نیّت کا آدمی حسن ظن کی طرف بہ نسبت بدظنی کے زیادہ جھکتا ہے.اگرچہ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص بدنیتی سے کسی کا کچھ روپیہ رکھ کر اس کو نقصان پہنچاوے.مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک مؤلف محض نیک نیتی سے پہلے سے ایک زیادہ طوفان دیکھ کر اپنی تالیف میں تکمیل کتاب کی غرض سے توقف ڈال دے.اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ.اﷲ جَلَّ شَانُـہٗ جانتا ہے کہ میرا یہ یقین ہے کہ جیسا کہ میں نے اس توقف کی وجہ سے قوم کے بدگمان لوگوں سے لعنتیں سنی ہیں.ایسا ہی اپنی اس تاخیر کی جزا میں جو مسلمانوں کی بھلائی کی موجب ہے.اﷲ تعالیٰ سے عظیم الشان رحمتوں کا مورد بنوں گا.اب میں اس تقریر کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا.اصل مدعا میرا اس تحریر سے یہ ہے کہ اَب میں اُن خریداروں سے تعلق رکھنا نہیں چاہتا جو سچے ارادتمند اور معتقد نہیں ہیں.اس لیے عام طور پر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ ایسے لوگ جو آیندہ کسی وقت جلد یا دیر سے اپنے روپیہ کو یاد کر کے اس عاجز کی نسبت کچھ شکوہ کرنے کو تیار ہیں یا اُن کے دل میں بھی بدظنّی پیدا ہو سکتی ہے.وہ براہِ مہربانی اپنے ارادہ سے مجھ کو بذریعہ خط مطلع فرماویں اور میں اُن کا روپیہ واپس کرنے کے لیے یہ انتظام کروں گا کہ ایسے شہر میں یا اُس کے قریب اپنے دوستوں میں سے کسی کو مقرر کر دوں گا کہ تا چاروں حصے کتاب کے لے کر روپیہ ان کے حوالہ کرے اور میں ایسے صاحبوں کی بدزبانی اور بدگوئی اور دشنام دہی کو بھی محض ِ ﷲ بخشتا ہوں کیونکہ مَیں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے لیے قیامت میں پکڑا جائے.اور اگر ایسی صورت ہو کہ خریدار کتاب فوت ہو گیا ہو.اور وارثوں کو کتاب بھی نہ ملی ہو تو چاہیے کہ وارث چار معتبر مسلمانوں کی تصدیق خط میں لکھوا کر کہ اصلی وارث وہی ہے جو خط میری طرف بھیج دے تو بعد اطمینان وہ روپیہ بھی بھیج دیا جائے گا اور اگر کسی وارث کے پاس کتاب ہو تو وہ بھی بدستور اس میرے دوست کے پاس روانہ کرے لیکن اگر کوئی کتاب کو روانہ کرے اور یہ معلوم ہو

Page 450

کہ چاروں حصے کتاب کے نہیں ہیں تو ایسا پیکٹ ہرگز نہیں لیا جائے گا جب تک شخص فریسندہ یہ ثابت نہ کرے کہ اسی قدر کتاب اُن کو بھیجی گئی تھی.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی خاکسار غلام احمد.ا ز قادیان ضلع گورداسپور یکم مئی ۱۸۹۳ء (یہ اشتہار کے آٹھ صفحوں پر ہے) (مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ) (تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۲۹ تا ۳۶)

Page 451

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ڈاکٹر پادی کلارک صاحب کا جنگ مقدس اور اُن کے مقابلہ کے لییاشتہار واضح ہو کہ ڈاکٹر صاحب مندرج العنوان نے بذریعہ اپنے بعض خطوط کے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ علماء اسلام کے ساتھ ایک جنگ مقدس کے لئے طیاری کر رہے ہیں انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ جنگ ایک پورے پورے فیصلہ کی غرض سے کیا جائے گا اور یہ بھی دھمکی دی کہ اگر علمائِ اسلام نے اس جنگ سے مُنہ پھیر لیا یا شکست فاش کھائی تو آئندہ ان کا استحقاق نہیں ہوگا کہ مسیحی علماء کے مقابل پر کھڑے ہو سکیں یا اپنے مذہب کو سچا سمجھ سکیں یا عیسائی قوم کے سامنے دم مار سکیں.اور چونکہ یہ عاجزانہیںروحانی جنگوں کے لئے مامور ہو کر آیا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر یہ بھی جانتاہے کہ ہر ایک میدان میں فتح ہم کو ہے اس لئے بلا توقف ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ خط کے اطلاع دی گئی ہے کہ ہماری عین مراد ہے کہ یہ جنگ وقوع میں آکر حق اور باطل میں کھلا کھلا فرق ظاہر ہوجائے اور نہ صرف اسی پر کفایت کی گئی بلکہ چند معزز دوست بطور سفیران پیغامِ جنگ ڈاکٹرصاحب کی خدمت میں بمقام امرت سر بھیجے گئے جن کے نام نامی یہ ہیں.(۱)مرزاخدا بخش صاحب (۲) منشی عبدالحق صاحب (۳) حافظ محمد یوسف صاحب.

Page 452

(۴)شیخ رحمت اللہ صاحب(۵) مولوی عبدالکریم صاحب (۶) منشی غلام قادر صاحب فصیح.(۷)میاں محمدیوسف خاں صاحب (۸) شیخ نوراحمدصاحب (۹) میاں محمدا کبر صاحب.(۱۰)حکیم محمد اشرف صاحب (۱۱)حکیم نعمت اللہ صاحب (۱۲) مولوی غلام احمدصاحب انجینئر.(۱۳)میاں محمد بخش صاحب (۱۴)خلیفہ نورالدین صاحب (۱۵) میاں محمد اسمٰعیل صاحب.تب ڈاکٹر صاحب اور میرے دوستوں میں جو میری طرف سے وکیل تھے کچھ گفتگو ہو کر بالاتفاق یہ بات قرار پائی کہ یہ مباحثہ بمقام امرت سر واقع ہو اور ڈاکٹر صاحب کی طرف سے اِس جنگ کا پہلوان مسٹر عبداللہ آتھم سابق اکسٹرا اسسٹنٹ تجویز کیا گیا اور یہ بھی اُن کی طرف سے تجویز کیا گیا کہ فریقین تین تین معاون اپنے ساتھ رکھنے کے مجاز ہوں گے اور ہر یک فریق کو چھ چھ دن فریق مخالف پر اعتراض کرنے کے لئے دیئے گئے اس طرح پر کہ اوّل چھ روز تک ہمارا حق ہوگا کہ ہم فریق مخالف کے مذہب اور تعلیم اور عقیدہ پر اعتراض کریں مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام کی الُوہیّت اور اُن کے منجّی ہونے کے بارہ میں ثبوت مانگیں یا اور کوئی اعتراض جو مسیحی مذہب پر ہوسکتا ہے پیش کریں ایسا ہی فریق مخالف کا بھی حق ہوگا کہ وہ بھی چھ روز تک اسلامی تعلیم پر اعتراض کئے جائیں.اور یہ بھی قرار پایا کہ مجلسی انتظام کے لئے ایک ایک صدر انجمن مقرر ہو جو فریق مخالف کے گروہ کو شور و غوغا اور ناجائز کارروائی اور دخل بیجا سے روکے اور یہ بات بھی باہم مقر ّر اور مسلّم ہو چکی کہ ہریک فریق کے ساتھ پچاس سے زیادہ اپنی قوم کے لوگ نہیں ہوں گے اور فریقین ایک سو ٹکٹ چھاپ کر پچاس پچاس اپنے اپنے آدمیوں کے حوالہ کریں گے اور بغیر دکھلانے ٹکٹ کے کوئی اندر نہیں آسکے گا اور آخر پر ڈاکٹر صاحب کی خاص درخواست سے یہ بات قرار پائی کہ یہ بحث ۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ء سے شروع ہونی چاہیے انتظام مقام مباحثہ اور تجویز مباحثہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق رہا اور وہی اس کے ذمّہ دار ہوئے.اور بعد طے ہونے ان تمام مراتب کے ڈاکٹر صاحب اور اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کی اس تحریر پر دستخط ہوگئے جس میں یہ شرائط بہ تفصیل لکھے گئے تھے اور یہ قرار پایا کہ ۱۵؍ مئی ۱۸۹۳ء تک فریقین ان شرائط مباحثہ کو شائع کر دیں اور پھر میرے دوست قادیان میں پہنچے اور چونکہ اکٹر صاحب نے اس مباحثہ کا

Page 453

نام جنگ مقدس رکھا ہے اس لئے ان کی خدمت میں بتاریخ ۲۵ ؍اپریل ۱۸۹۳ء کو لکھا گیا کہ وہ شرائط جو میرے دوستوں نے قبول کئے ہیں وہ مجھے بھی قبول ہیں لیکن یہ بات پہلے سے تجویز ہوجانا ضروری ہے کہ اس جنگِ مقدس کا فریقین پر اثر کیا ہوگا.اور کیونکر کھلے کھلے طور پر سمجھا جائیگاکہ درحقیقت فلاں فریق کو شکست آگئی ہے کیونکہ سالہاسال کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ معقولی اور منقولی بحثوں میں گو کیسی ہی صفائی سے ایک فریق غالب آجائے مگر دوسرے فریق کے لوگ کبھی قائل نہیں ہوتے کہ وہ درحقیقت مغلوب ہوگئے ہیں بلکہ مباحثات کے شائع کرنے کے وقت اپنی تحریرات پر حاشیے چڑھاچڑھا کر یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنا ہی غالب رہنا ثابت ہو اور اگر صرف اسی قدر منقولی بحث ہو تو ایک عقلمند پیشگوئی کر سکتا ہے کہ یہ مباحثہ بھی انہیں مباحثات کی مانند ہوگا جو ابتک پادری صاحبوں اور علماء اسلام میں ہوتے رہے ہیں بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ایسے مباحثہ میں کوئی بھی نئی بات معلوم نہیں ہوتی پادری صاحبوں کی طرف سے وہی معمولی اعتراضات ہوں گے کہ مثلاََ اسلام زورِشمشیر سے پھیلا ہے اسلام میں کثرتِ ازدواج کی تعلیم ہے.اسلام کا بہشت ایک جسمانی بہشت ہے وغیرہ وغیرہ.ایسا ہی ہماری طرف سے بھی وہی معمولی جواب ہونگے کہ اسلام نے تلوار اُٹھانے میں سبقت نہیں کی اور اسلام نے صرف بوقت ضرورت امن قائم کرنے کی حد تک تلوار اُٹھائی ہے اور اسلام نے عورتوں اور بچوں اور راہبوں کے قتل کرنے کیلئے حکم نہیں دیا بلکہ جنہوں نے سبقت کر کے اسلام پر تلوار کھینچی وہ تلوار سے ہی مارے گئے.اور تلوار کی لڑائیوں میں سب سے بڑھ کر توریت کی تعلیم ہے جس کی رو سے بیشمار عورتیں اور بچّے بھی قتل کئے گئے جس خدا کی نظر میں وہ بے رحمی اور سختی کی لڑائیاں بُری نہیں تھیں بلکہ اُس کے حکم سے تھیں تو پھر نہایت بے انصافی ہوگی کہ وہی خدا اسلام کی ان لڑائیوں سے ناراض ہو جو مظلوم ہونے کی حالت میں یا امن قائم کرنے کی غرض سے خدا تعالیٰ کے پاک نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمکو کرنی پڑی تھیں ایسا ہی کثرتِ ازدواج کے اعتراض میں ہماری طرف سے وہی معمولی جواب ہوگا کہ اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرتِ ازدواج کی سینکڑوںاور ہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعداد ازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ.بلکہ یہ قرآن میں ہی

Page 454

ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی اور بے قیدی کو رد کر دیا ہے.اور کیا وہ اسرائیلی قوم کے مقدس نبی جنہوں نے سَو سَو بیوی کی بلکہ بعض نے سات سو تک نوبت پہنچائی وہ اخیر عمر تک حرامکاری میں مبتلا رہے اور کیا اُن کی اولاد جن میں سے بعض راستباز بلکہ نبی بھی تھے ناجائز طریق کی اولاد سمجھی جاتی ہے ؟ ایسا ہی بہشت کی نسبت بھی وہی معمولی جواب ہوگا کہ مسلمانوں کا بہشت صرف جسمانی بہشت نہیں بلکہ دیدار الٰہی کا گھر ہے اور دونوں قسم کی سعادتوں روحا نی اور جسمانی کی جگہ ہے ہاں عیسائی صاحبوں کا دوزخ محض جسمانی ہے.لیکن اس جگہ سوال تو یہ ہے کہ ان مباحثات کا نتیجہ کیا ہوگاکیا امید رکھ سکتے ہیں کہ عیسائی صاحبان مسلمانوں کے ان جوابات کو جو سراسر حق اور انصاف پر مبنی ہیں قبول کر لیں گے یا ایک انسان کے خدا بنانے کیلئے صرف معجزات کافی سمجھے جائیں گے یا بائیبل کی وہ عبارتیں جن میںعلاوہ حضرت مسیح کے ذکر کے کہیں یہ لکھا ہے کہ تم سب خدا کے بیٹے ہواور کہیں یہ کہ تم اس کی بیٹیاں ہو اور کہیں یہ کہ تم سب خدا ہو ظاہر پر محمول قرار دئے جائیں گے اور جب کہ ایسا ہونا ممکن نہیں تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس بحث کا عمدہ نتیجہ جس کے لئے ۱۲ دن امرتسر میں ٹھہرنا ضروری ہے کیا ہوگا.ان وجوہات کے خیال سے ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ خط رجسٹرڈ یہ صلاح دی گئی تھی کہ مناسب ہے کہ چھ دن کے بعد یعنی جب فریقین اپنے اپنے چھ دن پورے کر لیں تو ان میں مباہلہ بھی ہو اور وہ صرف اس قدر کافی ہے کہ فریقین اپنے مذہب کی تائید کے لئے خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان چاہیں اور ان نشانوں کے ظہور کے لئے ایک سال کی میعاد قائم ہو پھر جس فریق کی تائید میں کوئی آسمانی نشان ظاہر ہو جو انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہو جس کا مقابلہ فریق مخالف سے نہ ہوسکے تو لازم ہوگا کہ فریق مغلوب اس فریق کا مذہب اختیار کرلے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے آسمانی نشان کے ساتھ غالب کیا ہے اور مذہب اختیار کرنے سے اگر انکار کرے تو واجب ہوگا کہ اپنی نصف جائداد اس سچے مذہب کی امداد کی غرض سے فریق غالب کے حوالہ کردے یہ ایسی صورت ہے کہ اس سے حق اور باطل میں بکلّی فرق ہو جائے گا کیونکہ جب ایک خارق نشان کے مقابل پر ایک فریق بالمقابل نشان دکھلانے سے

Page 455

بکلّی عاجز رہا تو فریق نشان دکھلانے والے کا غالب ہونا بکلی کھل جائے گا اور تمام بحثیں ختم ہو جائیں گی اور حق ظاہر ہو جائیگا لیکن ایک ہفتہ سے زیادہ گذرتا ہے جو آج تک جو ۳ ؍مئی ۱۸۹۳ء ہے ڈاکٹر صاحب نے اس خط کا کچھ بھی جواب نہیں دیا لہٰذا اس اشتہار کے ذریعہ سے ڈاکٹر صاحب اور ان کے تمام گروہ کی خدمت میں التماس ہے کہ جس حالت میں انہوں نے اس مباحثہ کا نام جنگِ مقدس رکھا ہے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں قطعی فیصلہ ہوجائے اور یہ بات کھل جائے کہ سچااور قادر خدا کس کا خدا ہے تو پھر معمولی بحثوں سے یہ اُمید رکھنا طمع خام ہے اگر یہ ارادہ نیک نیتی سے ہے تو اس سے بہتر اور کوئی بھی طریق نہیں کہ اب آسمانی مدد کے ساتھ صدق اور کذب کو آزمایا جائے اور میں نے اس طریق کو بدل و جان منظور کرلیا ہے اور وہ طریق بحث جو منقولی اور معقولی طور پر قرار پایا ہے گو میرے نزدیک چنداں ضروری نہیں مگر تاہم وہ بھی مجھے منظور ہے لیکن ساتھ اسکے یہ ضروریات سے ہوگا کہ ہر یک چھ دن کی میعاد کے ختم ہونے کے بعد بطور متذکرہ بالا مجھ میں اور فریق مخالف میں مباہلہ واقع ہو گا اور یہ اقرار فریقین پہلے سے شائع کردیں کہ ہم مباہلہ کریںگے.یعنی اس طور سے دعا کریں گے کہ اے ہمارے خُدا! اگر ہم دجل پر ہیںتوفریق مخالف کے نشان سے ہماری ذلّت ظاہر کر اوراگر ہم حق پر ہیں تو ہماری تائید میں نشان آسمانی ظاہر کر کے فریق مخالف کی ذلّت ظاہر فرما اور اس دُعا کے وقت دونوں فریق آمین کہیںگے اور ایک سال تک اسکی میعاد ہوگی اور فریق مغلوب کی سزا وہ ہوگی جو اوپر بیان ہو چکی ہے.اور اگر یہ سوال ہو کہ اگر ایک سال کے عرصہ میں دونوں طرف سے کوئی نشان ظاہر نہ ہو یا دونوں طرف سے ظاہر ہو تو پھر کیونکر فیصلہ ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ راقم اس صورت میں بھی اپنے تئیں مغلوب سمجھے گا اور ایسی سزا کے لائق ٹھہرے گا جو بیان ہو چکی ہے چونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اور فتح پانے کی بشارت پا چکا ہوں.پس اگر کوئی عیسائی صاحب میرے مقابل آسمانی نشان دکھلاویں یا میں ایک سال تک دکھلا نہ سکوں تو میرا باطل پر ہونا کھل گیا اور اللہجَلَّ شَانُـہٗ کی قسم ہے کہ مجھے صاف طور پر اللہجَلَّ شَانُـہٗ نے اپنے الہام سے فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بلاتفاوت ایسا ہی انسان تھا جس طرح اور انسان ہیں مگر خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور اُس کا مرسل

Page 456

اور برگزیدہ ہے اور مجھ کو یہ بھی فرمایا کہ جو مسیح کو دیا گیا وہ بمتابعت نبی علیہ السلام تجھ کو دیا گیا ہے اور تو مسیح موعود ہے اور تیرے ساتھ ایک نورانی حربہ ہے جو ظلمت کو پاش پاش کرے گا اور یکسر الصلیب کا مصداق ہو گا پس جبکہ یہ بات ہے تو میری سچائی کے لئے یہ ضروری ہے کہ میری طرف سے بعد مباہلہ ایک سال کے اندر ضرور نشان ظاہر ہو اور اگر نشان ظاہر نہ ہوتو پھر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں اور نہ صرف وہی سزا بلکہ موت کی سزا کے لائق ہوں سو آج میں ان تمام باتوں کو قبول کر کے اشتہار دیتا ہوں.اب بعد شائع ہونے اس اشتہار کے مناسب اور واجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی اس قدر اشتہار دے دیں کہ اگر بعد مباہلہ مرزا غلام احمد کی تائید میں ایک سال کے اندر کوئی نشان ظاہر ہوجائے جس کے مقابل پر اسی سال کے اندر ہم نشان دکھلانے سے عاجز آجائیں تو بلا توقف دین اسلام قبول کر لیں گے ورنہ اپنی تمام جائداد کا نصف حصہ دین اسلام کی امداد کی غرض سے فریق غالب کو دے دیںگے.اور آئندہ اسلام کے مقابل پرکبھی کھڑے نہیں ہوں گے.ڈاکٹر صاحب اس وقت سوچ لیویں کہ میں نے اپنی نسبت بہت زیادہ سخت شرائط رکھی ہیں اور انکی نسبت شرطیں نرم رکھی گئی ہیں.یعنی اگر میرے مقابل پر وہ نشان دکھلائیں اور میں بھی دکھلاؤ ں تب بھی بموجب اس شرط کے وہی سچے قرار پائیں گے.اور اگر نہ میں نشان دکھلا سکوں اور نہ وہ ایک سال تک نشان دکھلا سکیں تب بھی وہی سچے قرار پائیں گے.اور میں صرف اس حالت میں سچا قرار پاؤں گا کہ میری طرف سے ایک سال کے اندر ایسا نشان ظاہر ہو جس کے مقابلہ سے ڈاکٹر صاحب عاجز رہیں اور اگر ڈاکٹر صاحب بعد اشاعت اس اشتہار کے ایسے مضمون کا اشتہار بالمقابل شائع نہ کریں تو پھر صریح ان کی گریز متصور ہو گی اور ہم پھر بھی ان کی منقولی و معقولی بحث کے لئے حاضر ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس بارے میں یعنی نشان نمائی کے امر میں اپنا اور اپنی قوم کا اسلام کے مقابل پر عاجز ہونا شائع کر دیں یعنی یہ لکھ دیں کہ یہ اسلام ہی کی شان ہے کہ اس سے آسمانی نشان ظاہر ہوں اور عیسائی مذہب ان برکات سے خالی ہے.میں نے سنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے دوستوں کے روبرو یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم مباحثہ تو کریں گے مگر یہ مباحثہ فرقہ احمدیہ سے ہوگا نہ مسلمانانِ جنڈیالہ سے.سو ڈاکٹر صاحب کو واضح رہے کہ فرقہ احمدیہ ہی

Page 457

سچے مسلمان ہیں جو خدا تعالیٰ کی کلام میں انسان کی رائے کو نہیں ملاتے اور حضرت مسیح کا درجہ اسی قدر مانتے ہیں جو قرآنِ شریف سے ثابت ہوتا ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.(یہ اشتہار حجۃ الاسلام بار اوّل مطبوعہ ۸؍ مئی ۱۸۹۳ء ریاض ہند پریس امرتسر کے صفحہ ۱ تا صفحہ ۱۱ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۴۴ تا ۵۰)

Page 458

 میاں بٹالوی صاحب کی اطلاع کے لیے اشتہار واضح ہو کہ شیخ بٹالوی صاحب کی خدمت میں وہ اشتہار جس میں بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے ان کو دعوت کی گئی تھی بتاریخ یکم اپریل ۱۸۹۳ء پہنچایا گیا تھا چنانچہ مرزا خدا بخش صاحب جو اشتہار لے کر لاہور گئے تھے یہ پیغام لائے کہ بٹالوی صاحب نے وعدہ کر لیا ہے جو یکم اپریل سے دو ہفتہ تک جواب چھاپ کر بھیج دیں گے سو دو ہفتہ تک انتظار جواب رہا اور کوئی جواب نہ آیا پھر دوبارہ اُن کو یاد دلایا گیا تو انہوں نے بذریعہ اپنے خط کے جو میرے اشتہار میں چھپ گیا ہے یہ جواب دیا کہ ہم اپریل کے اندر اندر جواب چھاپ کر روانہ کریں گے چنانچہ اب اپریل بھی گزر گیا اور بٹالوی صاحب نے دو وعدے کر کے تخلّف وعدہ کیا ہم اُن پر کوئی الزام نہیں لگاتے مگر انہیںآپ شرم کرنی چاہیے کہ وہ آپ تو دوسروں کا نام بلا تحقیق کاذب اور وعدہ شکن رکھتے ہیں اور اپنے وعدوں کا کچھ بھی پاس نہیں کرتے تعجب کہ یہ جواب صرف ہاں یا نہیں سے ہو سکتا تھا مگر انہوں نے ایک مہینہ گزاردیا اور یہ مہینہ ہمارا صرف انتظاری میں ضائع ہوا اب ہمیں بھی دو ضروری کام پیش آگئے ایک ڈاکٹر کلارک صاحب کے ساتھ مباحثہ دوسرے ایک ضروری رسالہ کا تالیف کرنا جو تائید اسلام کے لئے بہت جلد امریکہ میں بھیجا جائے گا جس کا یہ مطلب ہوگاکہ دنیا میں سچا اور زندہ مذہب صرف اسلام ہے اس

Page 459

لئے میاں بٹالوی صاحب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اگر ان دونوں کاموں کی تکمیل کے پہلے آپ کا جواب آیا تو ناچار کوئی دوسری تاریخ آپ کے مقابلہ کے لئے شائع کی جائے گی جو ان دونوں کاموں سے فراغت کے بعد ہوگی.(یہ اشتہار حجۃ الاسلام بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند امرتسر ۸؍ مئی ۱۸۹۳ء کے صفحہ ۱۱،۱۲ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۵۱)

Page 460

 شیخ محمد حسین بٹالوی کی نسبت ایک پیشینگوئی شیخ محمد حسین ابو سعید کی آجکل ایک نازک حالت ہے.یہ شخص اس عاجز کو کافر سمجھتا ہے اور نہ صرف کافر بلکہ اس کے کفر نامہ میں کئی بزرگوں نے اس عاجز کی نسبت اَکْفَر کا لفظ بھی استعمال کیا ہے.اپنے بوڑھے استاد نذیر حسین دہلوی کو بھی اس نے اسی بلا میں ڈال دیا ہے سبحان اللہ ایک شخص اللہجَلَّ شَانُـہٗ اور اس کے رسول کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر ایمان رکھتا ہے اور پابند صوم و صلوٰۃاور اہل قبلہ میں سے ہے اور تمام عملی باتوں میں ایک ذرہ بھی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا مخالف نہیں اس کو میاں بٹالوی صرف اس وجہ سے کافر بلکہ اَکْفَر اور ہمیشہ جہنم میں رہنے والا قرار دیتا ہے کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بموجب نص بیّن قرآن کریم  ۱؎ فوت شدہ سمجھتا ہے.اور بموجب پیشین گوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا اپنے متواتر الہامات اور قطع۲؎ نشانوں کی بناء پر اپنے تئیں مسیح موعود ظاہر کرتا ہے.اور میاں بٹالوی بطور افتراء کے یہ بھی کہتا ہے کہ گویا یہ عاجز ملائک کا منکر اور معراج نبوی کا انکاری اور نبوت کا مدعی اور معجزات کو بھی نہیں مانتا.سبحان اللہ کافر ٹھہرانے کے لئے اس بیچارے نے کیا کچھ افتراء کئے ہیں.انہیں غموں میں مر رہا ہے کہ کسی طرح ایک مسلمان کو تمام خلق اللہ کافر سمجھ لے.بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی کفر میں بڑھ کر قرار دیوے.دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اب اس شخص کا بہت ہی بُرا حال ہے.اگر کسی کے منہ ۱؎ المائدۃ: ۱۱۸ ۲؎ مطابق ایڈیشن اوّل.یہ سہو کتابت ہے صحیح لفظ ’’قطعی‘‘ ہے.(ناشر)

Page 461

سے نکل جائے کہ میاں کیوں کلمہ گوئوں کو کافر بناتے ہوکچھ خدا سے ڈرو تو دیوانہ کی طرح اس کے گرد ہو جاتا ہے اور بہت سی گالیاں اِس عاجز کو نکال کر کہتا ہے کہ وہ ضرور کافر اور سب کافروں سے بدتر ہے.ہم اس کے خیر خواہوں سے ملتجی ہیں کہ اس نازک وقت میں ضرور اس کے حق میں دعا کریں.اب کشتی اس کی ایک ایسے گرداب میں ہے جس سے جان بَر ہونا بظاہر محال معلوم ہوتا ہے.وَ اِنِّیْ رَأَ یْتُ اَنَّ ھٰذَا الرَّجُلُ یُؤْمِنُ بِاِیْمَانِیْ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَرَأَیْتُ کَاَنَّہٗ تَرَکَ قَوْلَ التَّکْفِیْرِ وَ تَابَ.وَ ھٰذِہٖ رُؤْیَایَ وَ اَرْجُوْ اَنْ یَّجْعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور.۴؍ مئی ۱۸۹۳ء (یہ اشتہار حجۃ الاسلام بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند امرتسر ۸؍ مئی ۱۸۹۳ء کے صفحہ ۲۱، ۲۲ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۵۸، ۵۹)

Page 462

  ۱؎ کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے یہ تو ہر ایک قوم کا دعویٰ ہے کہ بہتیرے ہم میں ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیںمگر ثبوت طلب یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اُن سے محبت رکھتاہے یا نہیں.اور خدا تعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ پہلے تو اُن کے دلوں پر سے پردہ اُٹھاوے جس پردہ کی وجہ سے اچھی طرح انسان خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا اور ایک دُھندلی سی اور تاریک معرفت کے ساتھ اس کے وجود کا قائل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات امتحان کے وقت اس کے وجود سے ہی انکار کر بیٹھتا ہے اور یہ پردہ اُٹھا یا جانا بجز مکالمہ الہٰیہ کے اور کسی صورت سے میسر نہیں آ سکتا پس انسان حقیقی معرفت کے چشمہ میں اس دن غوطہ مارتا ہے جس دن خدا تعالیٰ اس کو مخاطب کر کے اَنَا الْمَوْجُوْد کی اس کو آپ بشارت دیتا ہے.تب انسان کی معرفت صِرف اپنے قیاسی ڈھکوسلے یا محض منقولی خیالات تک محدود نہیں رہتی بلکہ خدا تعالیٰ سے ایسا قریب ہو جاتا ہے کہ گویا اس کو دیکھتا ہے اور یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان اسی دن انسان کو نصیب ہوتا ہے کہ جب اللہجَلَّ شَانُـہٗ اپنے وجود سے آپ خبر دیتا ہے.اور پھر دُوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ اپنے پیارے بندوں کو صرف اپنے وجود کی خبر ہی نہیں دیتا بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر اُن پر ظاہر کرتا ہے اور وہ اس طرح پر کہ اُن کی دعائیں جو ۱؎ الشمس:

Page 463

ظاہری اُمیدوں سے زیادہ ہوں قبول فرما کر اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ سے ان کو اطلاع دے دیتا ہے تب اُن کے دل تسلّی پکڑ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا قادر خدا ہے جو ہماری دعائیں سُنتا اور ہم کو اطلاع دیتا اور مشکلات سے ہمیں نجات بخشتا ہے.اسی روز سے نجات کا مسئلہ بھی سمجھ آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی پتہ لگتا ہے اگرچہ جگانے اور متنبّہ کرنے کے لئے کبھی کبھی غیروں کو بھی سچی خواب آسکتی ہے مگر اس طریق کا مرتبہ اور شان اور رنگ اور ہے یہ خدا تعالیٰ کا مکالمہ ہے جو خاص مقربوں سے ہی ہوتا ہے اور جب مقرب انسان دُعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنی خدائی کے جلال کے ساتھ اس پر تجلّی فرماتا ہے اور اپنی رُوح اُس پر نازل کرتا ہے اور اپنی محبت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ اس کو قبولِ دعا کی بشارت دیتا ہے اور جس کسی سے یہ مکالمہ کثرت سے وقوع میں آتا ہے اس کو نبی یا محدّث کہتے ہیں اور سچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستباز پیدا ہوتے رہیں جو محدّث کے مرتبہ تک پہنچ جائیں جن سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے اور اسلام کی حقیت اور حقانیت کی اوّل نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستباز جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہو پیدا ہوتے ہیں.   .۱؎ سو یہی معیار حقیقی سچے اور زندہ اور مقبول مذہب کی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نور صرف اسلام میں ہے عیسائی مذہب اس روشنی سے بے نصیب ہے.اور ہماری یہ بحث جو ڈاکٹرکلارک صاحب سے ہے اس غرض اور اسی شرط سے ہے کہ اگر وہ اس مقابلہ سے انکار کریں تو یقینا سمجھوکہ عیسائی مذہب کے بطلان کے لئے یہی دلیل ہزار دلیل سے بڑھ کر ہے کہ مردہ ہر گز زندہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ اندھا سُوجاکھے کے ساتھ پورا اُتر سکتا ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ ۵؍ مئی ۱۸۹۳ء (یہ اشتہار حجۃ الاسلام بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند امرتسر ۸؍ مئی ۱۸۹۳ء کے ٹائیٹل پیج پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۴۲، ۴۳) ۱؎ حٰمٓ السجدۃ: ۳۱

Page 464

 اطلاع عام شیخ بٹالوی صاحب اشاعۃ السنۃ نے دو مرتبہ یہ پختہ عہد کیا تھا کہ میں اس خط کا جواب جو عربی تفسیراور قصیدہ بالمقابل کے بارہ میں اس طرف سے بطور اتمام حجت کے لکھا گیا تھا فلاں فلاںتاریخ کو ضرور بھیج دوں گا تخلّف نہیں ہوگا.اب ان دونوں تاریخوں پر سولہ دن اور گزر گئے اور خدا جانے ابھی کس قدر گزرتے جائیں گے.شیخ صاحب کا بار بار وعدہ کرنا اور پھر توڑنا صاف دلالت کررہا ہے کہ وہ اب کسی مصیبت میں مبتلا ہورہے ہیں اور تین روز کا ذکر ہے کہ ایک مجمل پیغام مجھ کو امرتسر سے پہنچا کہ بعض مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اس مباحثہ میں اگر مسیح کی وفات حیات کے بارہ میں بحث ہوتی تو ہم اس وقت ضرور ڈاکٹر کلارک صاحب کے ساتھ شامل ہوجاتے.لہٰذا عام طور پر شیخ جی اور ان کے دوسرے رفیقوں کو اطلاع دی جاتی ہے بلکہ قسم دی جاتی ہے کہ یہ بخار بھی نکال لو.حیات وفات مسیح کے بارے میں ڈاکٹر کلارک صاحب کے ساتھ ضرور بحث ہوگی بیشک اس کی مدد کرو.وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ یُخْزِی الْکَاذِبِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.(یہ اشتہار سچائی کا اظہار بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند امرتسر کے صفحہ ۵ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۷۴)

Page 465

 مسٹر عبداللہ آتھم صاحب وکیل ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب و دیگر عیسائیان کا بصورت مغلوب ہوجانے کے مسلمان ہوجانے کا وعدہ ہم اس وقت مسٹر عبداللہ آتھم صاحب سابق اکسٹرا اسسٹنٹ حال پنشنررئیس امرتسر کا وہ وعدہ ذیل میں لکھتے ہیں جو انہوں نے بحیثیت وکالت ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب و عیسائیان جنڈیالہ مسلمان ہونے کے لئے بحالت مغلوبیت کیا ہے.صاحب موصوف نے اپنے اقرر نامہ میں صاف صاف اقرار فرما دیاہے کہ اگر وہ معقولی بحث کی رو سے یاکسی نشان کے دیکھنے سے مغلوب رہ جائیں تو دین اسلام اختیار کر لیں اور وہ یہ ہے.نقل خط مسٹر عبداللہ آتھم صاحب ۹؍ مئی ۱۸۹۳ء من مقام امرت سر جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان بجواب جناب کے حجۃ الاسلام متعلق بندہ کے عرض ہے کہ اگر جناب یا اور کوئی صاحب کسی صورت سے بھی یعنی بہ تحدی معجزہ یا دلیل قاطع عقلی

Page 466

تعلیمات قرآنی کو ممکن اور موافق صفات اقدس ربّانی کے ثابت کرسکیں تو میں اقرار کرتاہوں کہ مسلمان ہوجائوں گا.جناب یہ سند میری اپنے ہاتھ میں رکھیں باقی منظوری سے مجھے معاف رکھیئے کہ اخباروں میں اشتہار دوں.دستخط مسٹر عبداللہ آتھم صاحب (یہ اشتہار سچائی کا اظہار بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند امرتسر کے صفحہ ۱۴ تا ۱۶ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۸۰)

Page 467

 اعلان مباہلہ بجواب اشتہار عبد الحق غزنوی مورخہ ۲۶؍ شوال ۱۳۱۰ھ ایک اشتہار مباہلہ ۱؎ ۲۶؍ شوال ۱۳۱۰ھجری شائع کردہ عبد الحق غزنوی میری نظر سے گزرا.سو اس ۱؎ جس اشتہار کا یہ ذکر ہے.وہ حاشیہ ہذا میں نقل کیا جاتا ہے تا کہ ناظرین اس سے واقفیت حاصل کر لیں اور وہ یہ ہے.(مرتب) استدعاء مباہلہ از مرزا قادیانی بذریعہ اشتہار  ایک اشتہار مطبوعہ ۲۵؍ اپریل ۱۸۹۳ء از جانب مرزا بتاریخ ۱۹؍ شوال ۱۳۱۰ھ میری نظر سے گزرا.جس میں اُس مُباہلہ کا ذکر تھا جو بتاریخ ۲؍ شوال ۱۳۱۰ھ میرے اور حافظ محمد یوسف کے درمیان مرزا اور اس کے چیلوں کے ارتداد کی بابت ہوا تھا.نیز اس میں استدعا مباہلہ علمائے اسلام سے تھی.صاحب قادیانی کا یہ اشتہار حسب عادت خود پُر از کذب و بہتان و افتراء ہے.ارے مرزا جب تجھے کلام اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور چودہ سو برس کے مسلمانوں کو جھٹلاتے شرم نہ آئی تو ہم سے کیا شرم.اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ.طعنہ گیر د در سخن بر با یزید ننگ دارد از درون او یزید جو لوگ بمضمون سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ جاہلوں اور یاوہ گوؤں کے جھگڑوں سے بچتے اور کنارہ کرتے ہیں.اور آیۃ   ۲؎ پر عامل اور گوشہ نشینی اور خلوت گزینی کی طرف مائل ہیں.ان سے مباحثہ اور مباہلہ کی درخواست ہے.اور جو لوگ شاہ سوارِ میدان ہیں اور بار بار ۲؎ الاعراف: ۲۰۰

Page 468

لیے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے کہ مجھ کو اس شخص اور ایسا ہی ہر ایک مکفّر سے جو عالم یا مولوی کہلاتا ہے، مباہلہ منظور ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ القدیر میں تیسری یا چوتھی ذیقعد۱۳۱۰ھ تک امرتسر میں پہنچ جائوں گا اور تاریخ مباہلہ دہم۱۰ ذی قعد اور یابصورت بارش وغیرہ کسی ضرروری وجہ سے بقیہ حاشیہ.مباہلے اور مباحثے کے اشتہار چھپو اکر اور رجسٹری شدہ خطوط اور دستی خطوط معتبر اشخاص کی وساطت سے پہنچا کر دل و جان سے تیرے لقا کے میدان مباحثہ و مباہلہ میں شایق و مشتاق ہیں.ان سے کیوں گریز اور روپوشی کرتے ہو.اور مصداق ..۱؎ بنتے ہو.؎ اے دل عشّاق بہ دامِ تو صید مابہ تو مشغول تو باعمر و زید اور اگر ان اشتہاروں سے آنکھوں پر پردہ اور گوش باطل نیوش بَہرے ہو گئے ہوں تو ناظرین کے ملاحظے اور اتمامِ حجت کے لیے پھر ان کا ذکر کردیتے ہیں.ا وّل تین خط مفتی مولوی عبد اللہ صاحب ٹونکی متضمن استدعائے مباحثہ خط اوّل مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۸۹۱ء مطبوعہ جعفری پریس لاہور.خط دوم ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء مطبوعہ لاہور.خط سوم مورخہ ۲۴؍جنوری۱۸۹۲ء مطبوعہ لاہور.دوئم اشتہار ضروری مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری مورخہ ۲۶؍ مارچ ۱۸۹۱ء مطبوعہ اسلامیہ پریس لاہور.سوئم اعلان عام از طرف انجمن اسلامیہ لدھیانہ مورخہ ۲۱؍ ستمبر ۱۸۹۱ء مطبوعہ انصاری دہلی.چہارم نوٹس مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مورخہ ۱۵؍ فروری ۱۸۹۱ء مطبوعہ لاہور.پنجم نوٹس اتمام حجت مولوی عبد المجید مالک مطبع انصاری مورخہ ۱۳؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۹ھ.ششم اشتہار مولوی صاحب عبد الحق دہلوی مصنّف تفسیر حقانی مورخہ یکم اکتوبر ۱۸۹۱ء مطبوعہ انصاری.ہفتم اشتہار محمد عبد الحمید مورخہ ۷؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء مطبوعہ دہلی.ہشتم اشتہار مولوی محمد صاحب اور مولوی عبد العزیز صاحب اور مولوی عبد اللہ صاحب مفتیان شہر لدھیانہ مورخہ ۲۹؍ رمضان المبارک مطبوعہ لدھیانہ.نہم اشتہار مولوی مشتاق احمد صاحب مدرس مورخہ ۲۴؍ رمضان شریف مطبوعہ لدھیانہ وغیرہ.مَا لَا یُحْصِیْھَا اِلَّا اللّٰہُ.اب اتنے اشتہارات متفرق علماؤں نے متفرق شہروں میں دیئے.تم نے کس سے بحث کی اور کس جگہ میدان میں حاضر ہوئے.پس جب تمہاری مکّاری اور دھوکہ دہی عام پر کُھل گئی تو پھر تمہارے دام میں وہی شخص آوے گا جو شقی سرمدی ہو.   .   .۲؎ ایک اور ابلہ فریبی و شعبدہ بازی کاریگر کی سنیے.ایک اشتہار مورخہ ۳۰؍ مارچ ۱۸۹۳ء میں خامہ فرسائی کی ہے کہ ایک سورۃ کی تفسیر عربی میںلکھتا ہوں اور ایک جانب مخالف لکھے اور اس میں ایسے معارف جدیدہ و لطائف غریبہ لکھے جائیں جو کسی دوسری ۱؎ المدثر: ۵۱، ۵۲ ۲؎ النحل: ۱۰۰، ۱۰۱

Page 469

گیارویں۱۱ ذیقعدہ۱۳۱۰ھ قرار پائی ہے.جس سے کسی صورت میں تخلّف لازم نہیں ہو گا.اور مقام مباہلہ عیدگاہ جو قریب مسجد خاں بہادر محمد شاہ مرحوم ہے قرار پایا ہے.اور چونکہ دن کے پہلے حصّہ میں قریباً بارہ ۱۲ بجے تک عیسائیوں سے دربارہ حقیّتِ اسلام اس عاجز کا مباحثہ ہو گا.اور یہ مباحثہ برابر ۱۲ دن تک ہوتا رہے گا.اس لئے مکفّرین جو مجھ کو کافر ٹھہر اکر مجھ سے مباہلہ کرنا چاہتے ہیں دو بجے سے شام تک بقیہ حاشیہ.کتاب میں نہ پائے جائیں.ارے مخبوط الحواس ہم تو اسی سبب سے تجھے ملحد اور ضال اور مضل اور زندیق کہتے ہیں کہ تم وہ معانی قرآن اور حدیث کے کرتے ہو جو آج تک کسی مفسّر و محدّث متبع سُنّت نے نہیں کئے.پھر اور جو کوئی مسلمان ایسے معانی کرے گا تو وہ بھی آپ کا ہی بھائی ہو گا.نیز اسی اشتہار میں لکھا ہے کہ آخر میں ۱۰۰ شعر لطیف بلیغ و فصیح عربی میں بطور قصیدہ فریقین بناویں.پھر دیکھیں کہ کس کا قصیدہ عمدہ و پسندیدہ ہے.قصیدہ و شعر گوئی تو کوئی فضیلت اور بزرگی اور حقانیّت و علمیّت کا معیار و مدار نہیں.تک بندی اور قافیہ سازی ایک ملکہ ہے جو فسّاق اور فجّار اور بے دینوں کو بھی دیا جاتا ہے.بلکہ ایک طرح کا نقص ہے.اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بچایا..۱؎ اگر کچھ فضیلت اور حقیّت کی بات ہوتی تو اوّل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جاتی کچھ مردانگی بھی چاہیے.خنثوں کی طرح بیہودہ سمع خراشی اور بکواس کیوں کرتے ہو.؎ اِنْ کُنْتُمْ اَنْتُمْ فَحُوْلًا فَابْرِزُوْا وَ دَعُوْ الشَّکَاوٰی حِیْلَۃَ النِّسْوَانِ شاید اب یہ حیلہ کرو کہ تم سے مباہلہ کا کیا فائدہ کیونکہ تم حافظ محمد یوسف کو کہہ چکے کہ اگر مجھ پر لعنت کا اثر بھی ظاہر ہوا تو بھی میںکافر کافر کہنے سے باز نہیں آؤں گا.سو اس کا جواب یہ ہے کہ مَیں تو مسیح قادیانی کی طرح معصومیت کا دعویٰ نہیں رکھتا ہوں.اگر مجھ سے غَضْبًا لِلّٰہِ وَ غَیْرَۃً لِدِیْنِ اللّٰہِ کوئی کلمہ زیادتی یا خلاف ادب نکلا بھی ہو تو میں اس سے بہزار زبان تائب ہوں.؎ گفتگوئے عاشقاں دَربابِ ربجوششِ عشق است نَے ترکِ ادب ہر کہ کرد از جامِ حق یک جرعہ نوشنے ادب ماند درونے عقل و ہوشحافظ کے مباہلہ کی تفصیل یہ ہے کہ حافظ محمد یوسف جو مرزا کا اوّل درجہ کا ناصر و مؤید و مددگار ہے.اس نے ۲؍ شوال بوقت شب مجھ سے بار بار درخواست مباہلہ کی.آخر الامر اس وقت اس بات پر مباہلہ ہوا کہ مرزا اور نور الدین و محمداحسن امروہی یہ تینوں مُرتد اور دجّال اور کذّاب ہیں.چونکہ تا ہنوز لعنت کا اثر ظاہراً اس پر نمُودار نہیں ہوا.لہٰذا پیرجی کو بھی گرمی آ گئی اور عام طور پر اشتہار مباہلہ دے دیا.ذرا صبر تو کرو.دیکھو.اللہ کیا کرتا ہے.وَ کُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ ۱؎ یٰسٓ: ۷۰

Page 470

مجھ کو فرصت ہو گی.اس وقت میں بتاریخ دہم۱۰ ذیقعد یا بصورت کسی عذر کے گیاراں ذیقعد ۱۳۱۰ھ کو مجھ سے مباہلہ کر لیں اور دہم ذیقعد اس مصلحت سے تاریخ قرار پائی ہے کہ تا دوسرے علماء بھی جو اس عاجز کلمہ گو اہل قبلہ کو کافر ٹھہراتے ہیں.شریک مباہلہ ہو سکیں.جیسے محی الدین لکھوکے والے اور مولوی عبدالجبار صاحب اور شیخ محمد حسین بٹالوی اور منشی سعد اللہ مدرس ہائی سکول لدہانہ اور عبد العزیز واعظ لدہانہ اور منشی محمدعمر سابق ملازم ساکن لدہانہ اور مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدہانہ اور میاں بقیہ حاشیہ.بِاَجَلٍ مُّسَمّٰی اِنَّہٗ حَکِیْمٌ حَمِیْدٌ.مجھ کو دو روز پیشتر محمد یوسف کے مباہلہ سے دکھایا گیا کہ مَیں نے ایک شخص سے مباہلہ کی درخواست کی اور یہ شعر سُنایا.؎ بہ صوت بُلبل و قمری اگر نگیری پند علاج کے کنمت آخر الدواء الکیُّ اوربھی کچھ دیکھا جس کا بیان اس وقت مناسب نہیں.میں خود حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے.دو دن بعد یہ مباہلہ درپیش ہوا.اب بذریعہ اشتہار ہذا بدستخط خود مطلع کرتا ہوں اور سب جہان کو گواہ کرتا ہوں کہ اگر تمہارے ساتھ مباہلہ کرنے سے مجھ پر کچھ لعنت کا اثر صریح طور پر جو عموماً سمجھا جاوے کہ بیشک یہ مباہلہ کا اثر ہوا ہے.تو میں فوراً تمہارے کافر کہنے سے تائب ہو جاؤںگا.اب حسبِ اشتہار خود مباہلہ کے واسطے بمقام امرت سر آؤ.مباہلہ اس بات پر ہوگا کہ تم اور تمہارے سب اتباع دجّالین کذّابین ملاحدہ اور زنادقہ باطنیہ ہیں.اور میدان مباہلہ عیدگاہ ہو گا.تاریخ جو تم مقرر کرو.اب بھی تم بموجب اشتہار خود میرے ساتھ مباہلہ کے واسطے بمقام امرت سر نہ آئے تو پھر اور علماؤں سے درخواست مباہلہ اوّل درجہ کی بے شرمی اور پرلے سرے کی بے حیائی ہے.اور اَ لَا لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کا مصداق بننا ہے.اب ضروری دلیری و توکّل کر کے ہزیمت نہ کرو.بُلُوْغُ الْاَ مَالِ فِیْ رُکُوْبِ الْاَھْوَالِ.اور اگر ایسے ہی کاغذوں کی گڈیاں اُڑانا ہے اور حقیقت اور نتیجہ کچھ نہیں.پھر تم پر یہ مسیحیت مبارک ہو.اللہ نے تمہاری عمر کو ضائع کیا اور مسلمانوں کی عمر عزیز کا ناحق خون کیوں کرتے ہو.؎ گر ازیں بار باز ہم پیچی سرے بر تو شد نفرین ربّ اکبرے المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر عبد الحق غزنوی.از امرت سر (پنجاب) ۲۶؍ شوال ۱۳۱۰ھ (نیشنل پریس امرتسر) بار سوم ۳ (یہ اشتہار  کے دو صفحوں پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۴۸ تا ۵۲ حاشیہ)

Page 471

نذیرصاحب دہلوی اور پیر حیدر شاہ صاحب اور حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی اور میاں عبد اللہ ٹونکی اور مولوی غلام دستگیر قصوری اور مولوی شاہدین صاحب اور مولوی مشتاق احمد صاحب مدرس ہائی سکول لدہانوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی محمد علی واعظ ساکن بوپراں ضلع گوجرانوالہ اور مولوی محمد اسحاق اور سلیمان ساکنان ریاست پٹیالہ اور ظہور الحسن سجادہ نشین بٹالہ اور مولوی محمد ملازم مطبع کرم بخش لاہور وغیرہ.اور اگر یہ لوگ باوجود پہنچنے ہمارے رجسٹری شدہ اشتہارات کے حاضر میدان مباہلہ نہ ہوئے تو یہی ایک پختہ دلیل اس بات پر ہو گی کہ وہ درحقیقت اپنے عقیدہ تکفیر میں اپنے تئیں کاذب اور ظالم اور نا حق پر سمجھتے ہیں.بالخصوص سب سے پہلے شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنہ کا فرض ہے کہ میدان میں مباہلہ کے لیے تاریخ مقررہ پر امرت سر میں آ جاوے.کیونکہ اس نے مباہلہ کے لیے خود درخواست بھی کر دی ہے.اور یاد رہے کہ ہم بار بار مباہلہ کرنا نہیں چاہتے کہ مباہلہ کوئی ہنسی کھیل نہیں.ابھی تمام مکفّرین کا فیصلہ ہو جانا چاہیئے.پس جو شخص اب ہمارے اشتہار کے شائع ہونے کے بعد گریز کرے گا اور تاریخ مقررہ پر حاضر نہیں ہو گا آئندہ اس کا کوئی حق نہیں رہے گا کہ پھر کبھی مباہلہ کی درخواست کرے اور پھر ترک حیا میں داخل ہو گا کہ غائبانہ کافر کہتا رہے.اتمامِ حجت کے لیے رجسٹری کرا کر یہ اشتہار بھیجے جاتے ہیں تا ا س کے بعد مکفّرین کو کوئی عذر باقی نہ رہے.اگر بعد اس کے مکفّرین نے مباہلہ نہ کیا اور نہ تکفیر سے باز آئے تو ہماری طرف سے اُن پر حجت پوری ہو گئی.بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ مباہلہ سے پہلے ہمارا حق ہو گاکہ ہم مکفّرین کے سامنے جلسہ عام میں اپنے اسلام کے وجوہات پیش کریں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر خاکسار میرزا غلام احمد.۳۰؍ شوال ۱۳۱۰ھ (مطابق مئی ۱۸۹۳ء) (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر) (یہ اشتہار کے ایک صفحہ پر ہے) (یہ اشتہار رسالہ سچائی کا اظہار مطبوعہ بار اوّل ریاض ہند پریس امرتسر کے صفحہ ۱۷ پر بھی طبع ہوا ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۸۱، ۸۲)

Page 472

 اعلان عام  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ .۱؎ اُس مُباہلہ کی اہلِ اسلام کو اطلاع جو دہم۱۰ ذیقعد روز شنبہ کو بمقام امرتسر عیدگاہ متـصل مسجد خان بہادر حاجی محمد شاہ صاحب مرحوم ہو گا اے برادران اہل اسلام! کل دہم۱۰ ذیقعد روز شنبہ کو بمقام مندرجہ عنوان میاں عبدالحق غزنوی اور بعض دیگر علماء جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے اس عاجز سے اس بات پر مباہلہ کریں گے کہ وہ لوگ اس عاجز کو کافر اور دجّال اور بیدین اور دشمن اللہجَلَّ شَانُـہٗ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سمجھتے ہیں.اور اس عاجز کی کتابوں کو مجموعہ کفریات خیال کرتے ہیں.اور اس طرف یہ عاجز نہ صرف اپنے تئیں مسلمان جانتا ہے بلکہ اپنے وجود کو اللہ اور رسول کی راہ میں فدا کئے بیٹھا ہے.لہٰذا ان لوگوں کی درخواست پر یہ مباہلہ تاریخ مذکورہ بالا میں قرار پایا ہے، مگر مَیں چاہتا ہوں کہ مباہلہ کی بددُعا کرنے کے وقت بعض اور مسلمان بھی حاضر ہو جائیں کیونکہ میں یہ دعا کروں گا کہ ۱؎ النحل: ۱۲۹

Page 473

جس قدر میری تالیفات ہیں،ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول کے فرمودہ کے مخالف نہیںہیں اور نہ میں کافر ہوں.اور اگر میری کتابیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ سے مخالف اور کفر سے بھری ہوئی ہیں تو خدا تعالیٰ وہ لعنت اور عذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پر نہ کی ہو.اور آپ لوگ آمین کہیں.کیونکہ اگر میں کافر ہوں اور نعوذ باللہ دین اسلام سے مُرتد اور بے ایمان تو نہایت بُرے عذاب سے میرا مرنا ہی بہتر ہے اور میں ایسی زندگی سے بہزار دل بیزار ہوں.اور اگر ایسا نہیں تو خدا تعالیٰ اپنی طر ف سے سچا فیصلہ کر دے گا.وہ میرے دل کو بھی دیکھ رہا ہے اور میرے مخالفوں کے دل کو بھی.بڑے ثواب کی بات ہو گی اگر آپ صاحبان کل دہم۱۰ ذیقعدہ کو دو بجے کے وقت عیدگاہ میں مُباہلہ پر آمین کہنے کے لیے تشریف لائیں.وَالسَّلام خاکسار غلام احمد قادیانی عفی اللہ عنہ ۹؍ ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر) (یہ اشتہار  کے ایک صفحہ پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد۳ صفحہ ۵۳،۵۴)

Page 474

 اتمام حجت اگر شیخ محمد حسین بٹالوی دہم ۱؎ ذیقعد ۱۳۱۰ھ کو مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوا تو اُسی روز سے سمجھا جائے گا کہ وہ پیشگوئی جو اس کے حق میں چھپوائی گئی تھی کہ وہ کافر کہنے سے توبہ کرے گا پوری ہوگئی بالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ اے خداوند قدیر اس ظالم اور سرکش اور فتان پر لعنت کر اور ذلّت کی مار اس پر ڈال جو اب اس دعوت مباہلہ اور تقرری شہر اور مقام اور وقت کے بعد مباہلہ کے لئے میرے مقابل پر میدان میں نہ آوے اور نہ کافر کافرکہنے اور سبّ اور شتم سے باز آوے.آمین ثم آمین.یَااَیُّھَاا لْمُکَفِّرُوْنَ تَعَالَوْااِلٰی اَمْرٍھُوَسُنَّۃُ اللّٰہِ وَنَبِیِّہٖ لِاَفْحَامِ الْمُکَفِّرِیْنَ الْمُکَذِّبِیْنَ.فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْا اَنْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْمُکَفِّرِیْنَ الَّذِیْنَ اِسْتَبَانَ تَخَلُّفُھُمْ وَشَھِدَ تَخَوُّفُھُمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کَاذِبِیْنَ.المشتھر مرزا غلام احمد قادیانی (یہ اشتہار رسالہ سچائی کا اظہار مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر کے صفحہ ۱۹ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۸۲) ۱؎ اس میں تمام علماء مکفّرین کو بہ تقرری تاریخ دہم ذیقعد ۱۳۱۰ھ بمقام امرتسر مباہلہ کے لیے بُلایا گیا ہے.

Page 475

 جنگ مقدّس مضمون آخری حضرت مرزا صاحب (۵؍ جون ۱۸۹۳ء) آج یہ میرا آخری پرچہ ہے جو میں ڈپٹی صاحب کے جواب میں لکھاتا ہوں مگر مجھے بہت افسوس ہے کہ جن شرائط کے ساتھ یہ بحث شروع کی گئی تھی ان شرائط کا ڈپٹی صاحب نے ذر ا پاس نہیں فرمایا.شرط یہ تھی کہ جیسے میں اپنا ہرایک دعویٰ اور ہر ایک دلیل قرآن شریف کے معقولی دلائل سے پیش کرتا گیا ہوں ڈپٹی صاحب بھی ایسا پیش کریں لیکن وہ کسی موقع پر اس شرط کو پورا نہیں کر سکے.خیر اب ناظرین خود دیکھ لیں گے.اس جواب کے جواب الجواب میں صرف اتنا کہنا مجھے کافی ہے کہ ڈپٹی صاحب نے یہ جو توبہ کی سورت کو پیش کر دیا ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ایمان نہ لانے پر قتل کا حکم ہے یہ اُن کی غلط فہمی ہے بلکہ اصل مدعا وہی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے جو ہم بیان کر چکے ہیں یعنی جو شخص اپنی مرضی سے باوجود واجب القتل ہونے کے ایمان لے آوے وہ رہائی پا جاوے گا.سواللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ جو لوگ رعایت سے فائدہ نہ اٹھاویں اور اپنی مرضی سے ایمان نہ لاویں ان کو سزائے موت اپنے پاداش کردار میں دی جائے گی اِس جگہ یہ کہاں ثابت ہوا کہ ایمان لانے پر جبر ہے بلکہ ایک رعایت ہے جو ان کی مرضی پر چھوڑی گئی ہے اور سات قوموں کا جو آپ ذکر فرماتے ہیں کہ ان کو قتل کیا گیا اور کوئی رعایت نہ کی گئی یہ تو آیت کی تشریح کے برخلاف ہے دیکھو قاضیوں کہ کنعانیوں سے جو ا

Page 476

ان ساتوں قوموں سے ایک قوم ہے خراج لینا ثابت ہے.پھر دیکھو یشوع اور قاضیوں  جو قوم اموریوں سے جزیہ لیا گیا.پھر آپ اعادہ اس بات کا کرتے ہیں کہ قرآن نے یہ تعلیم دی ہے کہ خوفزدہ ہونے کی حالت میں ایمان کو چھپاوے.میں لکھ چکا ہوں کہ قرآن کی یہ تعلیم نہیں ہے.قرآن نے بعض ایسے لوگوں کو جن پر یہ واقعہ وارد ہو گیا تھا ادنیٰ درجہ کے مسلمان سمجھ کر ان کو مومنوں میں داخل رکھا ہے.آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک طبقہ کے ایماندار نہیں ہوا کرتے اور آپ اس سے بھی نہیں انکار کریں گے کہ بعض دفعہ حضرت مسیح یہودیوں کے پتھرائو سے ڈر کر ان سے کنارہ کرگئے اور بعض دفعہ توریہ کے طور پر اصل بات کو چھپا دیا.اور متی میں لکھا ہے تب اُس نے اپنے شاگردوں کو حکم کیا کہ کسوسے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں.اب انصاف سے کہیں کہ کیا یہ سچے ایمانداروں کا کام ہے اور ان کا کام ہے جو رسول اور مبلّغ ہوکر دنیا میں آتے ہیں کہ اپنے تئیں چھپائیں.اس سے زیادہ آپ کو ملزم کرنے والی اور کونسی نظیر ہوگی بشرطیکہ آپ فکر کریں.اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ دَلدل میں آفتاب کا غروب ہونا سلسلہ مجازات میں داخل نہیں مگر عَیْنٍٍ حَمِئَۃٍ ۱؎ سے تو کالا پانی مراد ہے اور اس میں اب بھی لوگ یہی نظارہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور مجازات کی بنا مشاہداتِ عینیہ پر ہے جیسے ہم ستاروں کو کبھی نقطہ کے موافق کہہ دیتے ہیں اور آسمان کو کبود رنگ کہہ دیتے ہیں اور زمین کو ساکن کہہ دیتے ہیں پس جب کہ انہیں اقسام میں سے یہ بھی ہے تو اس سے کیوں انکار کیا جائے.آپ فرماتے ہیں کہ کلام مجسّم بھی ایک استعارہ ہے مگر کوئی شخص ثبوت دے کہ دنیا میں یہ کہاں بولا جاتا ہے کہ فلاں شخص کلام مجسّم ہو کر آیا ہے اورگوڈنس کی تاویل پھر آپ تکلف سے کرتے ہیں.میں کہہ چکا ہوں کہ گوڈنس یعنی احسان کوئی صفت صفات ذاتیہ میں سے نہیں ہے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے رحم آتاہے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے احسان آتا ہے مگر آپ پوچھتے ہیں کہ اگریونہی بغیر کسی کی مصیبت دیکھنے کے اس سے خوش سلوکی کی جائے تو اس کو کیا کہیںگے.سو آپ کویاد رہے کہ وہ بھی رحم کے وسیع مفہوم میں داخل ہے کوئی انسان کسی سے ۱؎ الکھف: ۸۷

Page 477

خوش سلوکی ایسی حالت میں کرے گا کہ جب اوّل کوئی قوت اُس کے دل میں خوش سلوکی کے لیے وجوہات پیش کرے اور اس کو خوش سلوکی کرنے کے لئے رغبت دے تو پھر قوتِ رحم ہے جو نوع انسان کی ہر ایک قسم کی ہمدردی کے لئے جوش مارتی ہے اورجب تک کوئی شخص قابل خوش سلوکی کے قرار نہ پاوے اور کسی جہت سے قابل رحم نہ نظر آوے بلکہ قابلِ قہر نظر آوے تو کون اس سے خوش سلوکی کرتاہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ حیوانات کو قتل ہوتے دیکھ کر کیا ہم فرض کرلیں کہ خدا نے ظلم کیا.مَیں کہتا ہوں مَیں نے کب اِس کا نام ظلم رکھا ہے مَیں تو کہتا ہوں کہ یہ عمل در آمد مالکیت کی بنا پر ہے.جب آپ اِس بات کو مان چکے کہ تفاوت مراتب مخلوقات یعنی انسان و حیوانات کا بوجہ مالکیت ہے اس کی تناسخ وجہ نہیں تو پھر اِس بات کو مانتے ہوئے کون سی بات سدّراہ ہے جو دوسرے لوازم جو حیوان بننے سے پیش آگئے وہ بھی بوجہ مالکیت ہیں اور بالآخر قرآن کریم کے بارہ میں آپ پر ظاہر کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے اپنے کلام اللہ ہونے کی نسبت جو ثبوت دیئے ہیں اگرچہ میں اس وقت اِن سب ثبوتوں کو تفصیل وار نہیں لکھ سکتا لیکن اِتنا کہتا ہوں کہ منجملہ ان ثبوتوں کے بیرونی دلائل ہیں جیسے پیش از وقت نبیوں کا خبر دینا جو انجیل میں بھی لکھاہوا آپ پاؤ گے دوسرے ضرورتِ حقہ کے وقت پر قرآن شریف کا آنا یعنی ایسے وقت پر جبکہ عملی حالت تمام دنیا کی بگڑ گئی تھی اورنیز اعتقادی حالت میں بھی بہت اختلاف آگئے تھے اور اخلاقی حالتوں میں بھی فتور آگیاتھا.تیسرے اس کی حقانیت کی دلیل اس کی تعلیم کامل ہے کہ اُس نے آکر ثابت کر دکھلایاکہ موسیٰ ؑکی تعلیم بھی ناقص تھی جوایک شق سزا دہی پر زور ڈال رہی تھی اور مسیحؑ کی تعلیم بھی ناقص تھی جو ایک شق عفو اوردرگزرپر زور ڈال رہی تھی اور گویا ان کتابوں نے انسانی درخت کی تمام شاخوں کی تربیت کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا صرف ایک ایک شاخ پر کفایت کی گئی تھی لیکن قرآن کریم انسانی درخت کی تمام شاخوں یعنی تمام قویٰ کو زیر بحث لایا اور تمام کی تربیت کے لئے اپنے اپنے محل و موقع پر حکم دیا.جس کی تفصیل ہم اس تھوڑے سے وقت میں کر نہیں سکتے.انجیل کی کیا تعلیم تھی جس پر مدار رکھنے سے سلسلہ دنیا کا ہی بگڑتا ہے اور پھر اگر یہی عفو اور درگزر عمدہ تعلیم کہلاتی ہے تو جَین مَت والے کئی نمبر اس سے بڑھے ہوئے ہیں جو کیڑے مکوڑوں اورجوؤں

Page 478

اور سانپوں تک آزار دینانہیں چاہتے.قرآنی تعلیم کا دوسرا کمال کمال تفہیم ہے.یعنی اس نے ان تمام راہوں کو سمجھانے کیلئے اختیار کیا ہے جو تصور میں آسکتے ہیں.اگر ایک عامی ہے تو اپنی موٹی سمجھ کے موافق اس سے فائدہ اٹھا تاہے اور اگر ایک فلسفی ہے تو اپنے دقیق خیال کے مطابق اس سے صداقتیں حاصل کرتا ہے اور اس نے تمام اصول ایمانیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے دکھلا دیا ہے اور آیت .۱؎ میں اہل کتاب پریہ حجت پوری کرتا ہے کہ اسلام وہ کامل مذہب ہے کہ زوائد اختلافی جو تمہارے ہاتھ میں ہیں یا تمام دنیا کے ہاتھ میں ہیں ان زوائد کو نکال کر باقی اسلام ہی رہ جاتا ہے اور پھر قرآن کریم کے کمالات میںتیسرا حصہ اُس کی تاثیرات ہیں اگر حضرت مسیح کے حواریوں اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ایک نظر صاف سے مقابلہ کیا جائے تو ہمیں کچھ بتلانے کی حاجت نہیں اُس مقابلہ سے صاف معلوم ہوجائے گا کہ کس تعلیم نے قوت ایمانی کو انتہا تک پہنچا دیاہے.یہاںتک کہ ان لوگوں نے اس تعلیم کی محبت سے اور رسولؐ کے عشق سے اپنے وطنوں کو بڑی خوشی سے چھوڑ دیا اپنے آراموں کو بڑی راحت کے ساتھ ترک کر دیا.اپنی جانوں کو فدا کر دیا.اپنے خونوں کو اس راہ میں بہا دیا اورکس تعلیم کا یہ حال ہے.اس رسول کو یعنی حضرت مسیح کو جب یہودیوں نے پکڑا تو حواری ایک منٹ کے لئے بھی نہ ٹھہرسکے.اپنی اپنی راہ لی اور بعض نے تیس روپیہ لے کر اپنے نبی مقبول کو بیچ دیا.اور بعض نے تین دفعہ انکار کیااور انجیل کھول کر دیکھ لو کہ اس نے لعنت بھیج کر اور قسم کھا کر کہا کہ اِس شخص کو نہیں جانتا پھر جبکہ ابتدا سے زمانہ کا یہ حال تھایہاںتک کہ تجہیز و تکفین تک میں بھی شریک نہ ہوئے تو پھر اس زمانہ کا کیا حال ہوگا جبکہ حضرت مسیح ان میں موجود نہ رہے.مجھے زیادہ لکھانے کی ضرورت نہیں.اِ س بارہ میں بڑے بڑے علماء عیسائیوں نے اِسی زمانہ میں گواہی دی ہے کہ حواریوں کی حالت صحابہ کی حالت سے جس وقت ہم مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں شرمندگی کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حواریوں کی حالت اُن کے مقابل پر ایک قابل شرم عمل تھا.پھر آپ قرآنی معجزات کا انکار کرتے ہیں آپ کو معلوم نہیں کہ وہ معجزات جس تواتر اور قطعیت سے ثابت ہو گئے اُن ۱؎ اٰل عمران: ۶۵

Page 479

کے مقابل پر کسی دوسرے کے معجزات کا ذکر کرنا صر ف قصّہ ہے اِ س سے زیادہ نہیں مثلًا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس زمانہ میں اپنی کامل کامیابیوں کی نسبت پیش گوئی کرنا جو قرآن شریف میں مندرج ہے یعنی ایسے زمانہ میں کہ جب کامیابی کے کچھ بھی آثار نظرنہیں آتے تھے بلکہ کفار کی شہادتیں قرآن شریف میں موجود ہیں کہ وہ بڑے دعویٰ سے کہتے ہیں کہ اب یہ دین جلد تباہ ہو جائے گا اورناپدید ہوجائے گا ایسے وقتوں میں ان کو سنایا گیا کہ     .۱؎ یعنی یہ لوگ اپنے منہ کی لاف و گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو کبھی کامیابی نہ ہوگی.یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہوجاوے گا.لیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا اورنہیں چھوڑے گا جب تک اس کو پورا نہ کرے.پھر ایک اور آیت میں فرمایا ہے… الخ ۲؎ یعنی خدا وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا.یعنی جس طرح موسیٰ کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایسا ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا.اَب قرآن شریف موجود ہے حافظ بھی بیٹھے ہیں دیکھ لیجئے کہ کفار نے کس دعویٰ کے ساتھ اپنی رائیں ظاہر کیں کہ یہ دین ضرور معدوم ہو جائے گا اور ہم اس کو کالعدم کر دیںگے اور ان کے مقابل پر یہ پیشین گوئی کی گئی جو قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہرگز تباہ نہیں ہوگا یہ ایک بڑے درخت کی طرح ہو جائے گا اور پھیل جائے گا اور اس میں بادشاہ ہوں گے اور جیساکہ   ۳؎ میں اشارہ ہے اور پھر فصاحت بلاغت کے بارہ میں فرمایا  ۴؎ اورپھر اس کی نظیر مانگی اور کہا کہ اگر تم کچھ کر سکتے ہو اس کی نظیر دو.پس عَرَبِیٌّ مُبِیْنٌ کے لفظ سے فصاحت بلاغت کے سوا اور کیامعنی ہو سکتے ہیں؟ خاص کر جب ایک شخص کہے کہ میں یہ تقریر ایسی زبان میں کرتا ہوں کہ تم اُس کی نظیرپیش کرو.تو بجز اِس کے کیاسمجھا جائے گا کہ وہ کمال بلاغت کا مدعی ہے اور مُبِیْنٌ کا لفظ بھی اسی کو چاہتاہے.بالآخر چونکہ ۱؎ التوبۃ: ۳۲ ۲؎ النور: ۵۶ ۳؎ الفتح: ۳۰ ۴؎ الشعراء : ۱۹۶

Page 480

ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب قرآن شریف کے معجزات سے عمدًا منکر ہیںاور اس کی پیشین گوئی سے بھی انکاری ہیں اورمجھ سے بھی اسی مجلس میں تین بیمار پیش کر کے ٹھٹھا کیا گیا کہ اگر دینِ اسلام سچا ہے اور تم فی الحقیقت ملہم ہو تو ان تینوں کو اچھے کر کے دکھلاؤ حالانکہ میرا یہ دعویٰ نہ تھا کہ میں قادر مطلق ہوںنہ قرآن شریف کے مطابق مواخذہ تھا.بلکہ یہ تو عیسائی صاحبوں کے ایمان کی نشانی ٹھہرائی گئی تھی کہ اگر وہ سچے ایماندار ہوں تووہ ضرور لنگڑوں اور اندھوں اوربہروں کو اچھاکریں گے.مگر تاہم مَیں اِس کے لئے دعا کرتا رہا.اورآج رات جو مجھ پر کھلاوہ یہ ہے کہ جب کہ مَیں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے جنابِ الٰہی میں دُعا کی کہ تُو اِس امر میں فیصلہ کر اورہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اُس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طورپر دیاہے کہ اِس بحث میں دونوںفریقوں میں سے جو فریق عمدًا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اورسچے خدا کوچھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دِنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دِن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذِلّت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طر ف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اورسچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہو گی اور اس وقت جب یہ پیشین گوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سُوجاکھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اوربعض بہر ے سُننے لگیں گے.۱؎ اِسی طرح پر جس طرح اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے.سو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالْمِنَّۃ کہ اگر یہ پیشین گوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظہورنہ فرماتی تو ہمارے یہ پندرہ دن ضائع گئے تھے ۱؎ نوٹ:.آج جلسہ مباحثہ سے واپس آنے کے بعد قریب ایک بجے دن کے حضرت اقدس کو اس مباحثہ کی فتح پر ایک بشارت بخش الہام ہوا جو حضور نے اُسی وقت حاضرین کو آ کر سُنایا.او ر وہ یہ ہے.ھَنَّأَکَ اللّٰہُ یعنی اللہ تعالیٰ تجھے مبارک باد دیتا ہے.(عبد الکریم)

Page 481

اِنسان ظالم کی عادت ہوتی ہے کہ باوجود دیکھنے کے نہیں دیکھتا اور باوجود سننے کے نہیں سنتا اور باوجود سمجھنے کے نہیں سمجھتا اور جُرأت کرتا ہے اور شوخی کرتا ہے اورنہیں جانتا کہ خدا ہے لیکن اَب مَیں جانتا ہوں کہ فیصلہ کا وقت آگیا.مَیں حیران تھا کہ اس بحث میں کیوں مجھے آنے کا اتفاق پڑا.معمولی بحثیں تو اَور لوگ بھی کرتے ہیں.اب یہ حقیقت کھلی کہ اس نشان کیلئے تھا.مَیں اِسوقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نِکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو مَیں ہر ایک سزا کے اُٹھانے کے لئے تیار ہوں مجھ کو ذلیل کیاجاوے.رُوسیاہ کیاجاوے.میرے گلے میں رسّہ ڈالدیاجاوے مجھ کو پھانسی دیا جاوے.ہر ایک بات کیلئے تیار ہوں اور مَیں اللہجَلَّ شَانُـہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا.ضرور کرے گا.ضرورکرے گا.زمین آسمان ٹل جائیں پر اسکی باتیں نہ ٹلیں گی.اَب ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہوگیا تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق کامل پیشین گوئی اور خدا کی پیشین گوئی ٹھہرے گی یا نہیں ٹھہرے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارہ میں جن کو اندرونہ بائبل میں دجّال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں محکم دلیل ہوجائے گی یا نہیں ہو جائے گی؟ اب اس سے زیادہ میں کیا لکھا سکتا ہوں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ہی فیصلہ کر دیا ہے.اب ناحق ہنسنے کی جگہ نہیں اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو.اور تمام شیطانوں اور بد کاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو.لیکن اگر میں سچا ہوں تو انسان کو خدا مت بناؤ.توریت کو پڑھو کہ اس کی اوّل اورکھلی کھلی تعلیم کیا ہے اور تمام نبی کیا تعلیم دیتے آئے اور تمام دُنیا کس طرف جُھک گئی.اَب میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں اِس سے زیادہ نہ کہوںگا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی ( مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر) (یہ اشتہارکے آٹھ صفحوں پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۲۸۶ تا ۲۹۳)

Page 482

اشتہار نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ (۱) بہر دم از دل و جان وصفِ یار خود بکنم من آں نیم کہ تغافل زِ کار خود بکنم۱؎ (۲) بہر زماں بدلم ایں ہوس ہمے جوشد کہ ہرچہ ہست نثارِ نگار خود بکنم (۳) اگرچہ در رہِ جاناں چو خاک گردیدم دلم تپد کہ فدایش غبار خود بکنم (۴) روم بگلشن دلدادگاں کزاں باغم چرا بکوچۂ غیرے قرار خود بکنم (۵) رسید مژدہ کہ ایّام نو بہار آید زمانہ را خبر از برگ و بار خود بکنم (۶) تعلّقات دلآرام خویش بنمایم ہمائے اوجِ سعادت شکار خود بکنم (۷) بگوش ہوش شنو از من اے مکفّر من کہ من گواہ بدیں کردگار خود بکنم ترجمہ اشعار.(۱)میں ہر دم دل وجان سے اپنے خدا کی تعریف کرتا ہوں میں وہ نہیں ہوں کہ اپنے کام سے غفلت کروں.(۲)ہر وقت میرے دل میں یہ شوق جوش مارتا ہے کہ جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ اپنے محبوب پر قربان کر دوں.(۳)اگرچہ میں محبوب کی راہ میں خاک کی طرح ہو گیا ہوں مگر میرا دل تڑپتا ہے کہ اپنا غبار بھی اُس پر فدا کر دوں.(۴)میں عاشقوں کے ُگلشن میں جاتا ہوں اس باغ کو چھوڑ کر میں کسی غیر کے کوچہ میں کیوں اپنا مسکن بنائوں.(۵)مجھے خوشخبری ملی ہے کہ پھر موسم بہار آگیا تاکہ زمانہ کو میں اپنے پھلوں اور پتوں کی خبر کر دوں.(۶)اور اپنے محبوب کے تعلقات کا اظہار کروں اور ہمائے اَوجِ سعادت کو اپنا شکار بنائوں.(۷)اے میرے مکفر ہوش سے یہ میری بات سن کہ میں اس پر اپنے خدا کو گواہ کرتا ہوں.

Page 483

۸) زِ فکر تفرقہ باز آ بآشتی پرداز وگرنہ گریہ بر غمگسار خود بکنم (۹) عمارت ہمہ دوناں خراب خواہم ساخت اگر زِ چشمرواں آبشارِ خود بکنم (۱۰) مقیم بر سر راہے نشستہ ام ہر دم کہ تا گزارش عرضے بیار خود بکنم (۱۱) بروئے یار کہ از بہر قوم مے سوزم مگر دلش چو دلِ ریش و زار خود بکنم بنام مسلمانانِ ہند.یعنی ان سب کی طرف جو مختلف مذاہب کے اسلامی فرقے ملک ہند میں موجود ہیں.اے اخوان دین و متبعین خاتم النّبیّن صلی اللہ علیہ وسلم! اگرچہ میں نے علماء اور فقراء کی خدمت میں بہت کچھ لکھا اور اتمامِ حجت کا حق ادا کر دیا مگر آج میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ ایک اشتہار عام طور پر آپ لوگوں پر حجت پوری کرنے کے لیے شائع کروں تا میں اس امر تبلیغ میں ہریک پہلو سے سُرخرو ہو جائوں.سو بھائیو! میں آپ لوگوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ وہ جو چودھویں صدی کے سر پر ایک مجدّد موعود آنے والا تھا جس کی نسبت بہت سے راستباز ملہموں نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ مسیح موعود ہو گا.وہ مَیں ہی ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر شاہ ولی اللہ تک مقدس لوگوں نے الہام پا کر یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ آنے والا مسیح موعود چودھویں صدی کا مجدّد ہو گا.سو اب وہ تمام باتیں پُوری ہوئیں.اے بزرگو! یہ بات صحیح نہیں ہے کہ چودھویں صدی مجدّد کے ظہور سے خالی گئی.اور اگر آیا تو ایک دجّال آیا.اے حق کے طالبو! یہ وہ صدی تھی جس کے آنے سے پہلے ہی خدا تعالیٰ نے تمام خیالوں کو اس طرف پھیر دیا تھا کہ اس کے سر پر ایک عظیم الشان مجدد پیدا ہو گا.کتابوں کو دیکھو اور بزرگوں کے نوشتوں کو غور سے پڑھو کہ کیونکر ان کے دل اسی طرف یک دفعہ جُھک گئے کہ وہ آنے والا ضرور اسی صدی کے سر پر آئے گا.یہاں تک کہ نواب صدیق حسن خاں صاحب مرحوم نے بھی اپنے خیال کو بقیہ ترجمہ اشعار.(۸)تفرقہ پردازی کے ارادہ سے باز آ اور صلح کر لے ورنہ میں اپنے خدا کے سامنے آہ وزاری کروں گا.(۹)میں ان سب نالایقوں کی عمارت کو برباد کر کے رکھ دوں گا اگر میں اپنی آنکھوں سے (آنسوئوں کا) ایک چشمہ جاری کر دوں.(۱۰)میں تو ہر وقت ایک رستہ پر بیٹھا ہوں تا کہ اپنے خدا کے حضور اپنی التجا پیش کروں.(۱۱)خدا کی قسم میں اپنی قوم کی خیر خواہی میں جل رہا ہوں تا کہ قوم کے دل کو بھی اپنے زخمی اور نالاں دل کی طرح کر دوں.

Page 484

چودھویں صدی پر جما کر اپنی اولاد کو وصیّت کی کہ اگر مَیں چودھویں صدی کے دنوں تک زندہ نہ رہوں تو میری اولاد اُس آنے والے موعود کو السلام علیکم کہہ دے.ایسا ہی شاہ ولی اللہ صاحب بھی السلام علیکم کی وصیت کر گئے.مگر جب وہ موعود ـآیا.تو لوگ بگڑ گئے.اور مسیح کی وفات کے بارہ میں جس کا قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کر دیا شک میں پڑ گئے.اور یہ نہ سمجھے کہ اگر بالفرض وفات یا عدم وفات میں شک ہے تو ایسی پیچ دار اور مبہم پیشگوئی کا فیصلہ اُس آنے والے کی زبان سے ہونا چاہیے جس کا نام حَکَم رکھا گیا.اب اس اشتہار میں اس حجت کو آپ لوگوں پر پورا کرنا مقصد ہے کہ وہ مسیح موعود درحقیقت یہی عاجز ہے.قرآن کریم کو کھولواور توجہ سے دیکھو کہ حضرت مسیح علیہ السلام بلاشبہ فوت ہو گئے.اور اگر اِس عاجز کے بارے میں شک ہو تو ایک فیصلہ نہایت آسان ہے کہ ہر ایک شخص آپ لوگوں میں سے جس کا مُرید ہے اُس کو اس عاجز کے مقابل پر کھڑا کرے تا صداقت کے نشان دکھلانے میں وہ میرے ساتھ مقابلہ کر سکے.اور یقینا سمجھو کہ اگر وہ مقابل پر آیا تو اُس سے زیادہ اس کی رُسوائی ہو گی جو حضرت موسیٰ ؑ کے مقابل پر بَلعَم کی ہوئی.اور اگر وہ مقابلہ منظور نہ کرے اور حق کا طالب ہو تو خدا تعالیٰ اُس کی درخواست پر اور اس کے حاضر ہونے سے نشان دکھلائے گا.بشرطیکہ وہ اس جماعت میں داخل ہونے کے لیے مستعد ہو.اور اگر اس اشتہار کے جاری ہونے کے بعد آپ لوگوں کے پیر اور مشایخ اور مجتہد بدگوئی اور تکفیر سے باز نہ آویں اور اس عاجز کی صداقت کو قبول نہ کریں اور مقابلہ سے روپوش رہیں تو دیکھو کہ میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ خدا انہیں رُسوا کرے گا.اے شوخ چشم اور گرمی دار لوگو! جو کسی شیخ اور پیر زادہ کے مُرید ہو.یہ میرا اشتہار ضرور اپنے ایسے مُرشد کو جو میرے مقام کو تسلیم نہیں کرتا دکھلاؤ، اور اگر وہ اس وقت مقابلہ سے روپوش رہے تو یقینا سمجھو کہ وہ اپنی مشیخت نمائی میں کذّاب ہے.مجھے خدا تعالیٰ نے کئی قسم کے نشان دئیے ہیں.جیسا کہ اس میں سے استجابت دعوات اور مکالمات الٰہیہ کا نشان اور معارف قرآنی کا نشان ہے.سو اپنے تئیں دھوکہ مت دو.ہر یک کو پرکھو اور پھر سچ کو قبول کرو.اے ضعیف بندو! خدا تعالیٰ سے مت لڑو.اپنے پلنگوں پر لیٹ کر سوچو اور اپنے

Page 485

بستروں پر غور کرو کہ کیا ضرور نہ تھا کہ ایک دن ہمارے سیّد اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوتی.غافل مشوگر عاقلی دریاب گر صاحبدلی شاید کہ نتواں یا فتن دیگر چنیں ایام را۱؎ آئینہ کمالات اسلام شائقین کے لئے اطلاع اس وقت ایک کتاب آئینہ کمالات اسلام نام سے تالیف کی ہے جس میں بڑی تحقیق و تدقیق سے اسلام اور قرآن کی خوبیوں اور کمالات کا بیان ہے.اور علاوہ اس کے مخالفین مذہب کے عقایدباطلہ کا ردّ ہے اور فرقہ نیچریہ کے خیالات باطلہ کا بھی اچھی طرح استیصال کیا گیا ہے.ضخامت اس کی ساڑھے چھ سو صفحہ سے زیادہ ہے.قیمت دو روپیہ اور محصول علاوہ ہے.اور ماسوا اس کے مفصلہ ذیل کتابیں بھی موجود ہیں.فتح اسلام.توضیح مرام.ازالہ اوہام محصول علاوہ ہے اور فتح اسلام اور توضیح مرام کی قیمت آٹھ آٹھ آنہ تھی.اب ہم نے چار چار آنہ کم کر دیئے ہیں.المشــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب (مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان) (تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۶۳ تا ۶۵) ۱؎ ترجمہ.اگر عقلمند ہے تو غافل نہ ہو اور اگر صاحب دل ہے تو معاملات کا ادراک حاصل کر کیونکہ پھر یہ ایّام میسر نہ ہوں گے.

Page 486

 التوائے جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۳ء ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ چند ایسے وجوہ ہم کو پیش آئے جنہوں نے ہماری رائے کو اس طرف مائل کیا کہ اب کی دفعہ اس جلسہ کو ملتوی رکھا جائے اور چونکہ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ اس التوا کا موجب کیا ہے لہٰذا بطور اختصار کسی قدر ان وجوہ میں سے لکھا جاتا ہے.اوّل.یہ کہ اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح باربار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی اُن میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں لیکن اس پہلے جلسہ کے بعد ایسا اثر نہیں دیکھا گیا بلکہ خاص جلسہ کے دنوں میں ہی بعض کی شکایت سنی گئی کہ وہ اپنے بعض بھائیوں کی بدخوئی سے شاکی ہیں اور بعض اس مجمع کثیر میں اپنے اپنے آرام کے لئے دوسرے لوگوں سے کج خلقی ظاہر کرتے ہیں گویا وہ مجمع ہی ان کے لئے موجب ابتلا ہوگیا اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ جلسہ کے بعد کوئی بہت عمدہ اور نیک اثر اب تک اس جماعت کے بعض لوگوں میں ظاہر نہیں ہوا اور اس تجربہ کے لئے یہ تقریب پیش آئی کہ ان دنوں سے آج تک ایک جماعت کثیر مہمانوں کی اس عاجز کے پاس بطور تبادل رہتی ہے یعنی بعض آتے اور بعض جاتے ہیں اور بعض وقت یہ جماعت سو۱۰۰ سو۱۰۰ مہمان تک

Page 487

بھی پہنچ گئی ہے اور بعض وقت اس سے کم لیکن اس اجتماع میں بعض دفعہ بباعث تنگی مکانات اور قلت وسائل مہمانداری ایسی نالائق رنجش اور خودغرضی کی سخت گفتگو بعض مہمانوں میں باہم ہوتی دیکھی ہے کہ جیسے ریل میں بیٹھنے والے تنگی مکان کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور اگر کوئی بیچارہ عین ریل چلنے کے قریب اپنی گٹھری کے سمیت مارے اندیشہ کے دوڑتا دوڑتا ان کے پاس پہنچ جاوے تو اس کو دھکے دیتے اور دروازہ بند کر لیتے ہیں کہ ہم میں جگہ نہیں حالانکہ گنجائش نکل سکتی ہے مگر سخت دلی ظاہر کرتے ہیں اور وہ ٹکٹ لئے اور بقچہ اٹھائے اِدھر اُدھر پھرتا ہے اور کوئی اس پر رحم نہیں کرتا مگر آخر ریل کے ملازم جبراً اس کو جگہ دلاتے ہیں.سو ایسا ہی یہ اجتماع بھی بعض اخلاقی حالتوں کے بگاڑنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے اور جب تک مہمانداری کے پورے وسائل میسرنہ ہوں اور جب تک خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں اپنے خاص فضل سے کچھ مادہ رفق اور نرمی اور ہمدردی اور خدمت اور جفاکشی کاپیدا نہ کرے تب تک یہ جلسہ قرین مصلحت معلوم نہیں ہوتا حالانکہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ مبائعین محض لِلّٰہ سفر کرکے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کرکے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں.میرے دیکھنے میں مبائعین کو فائدہ ہے مگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہے سو ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے کسی جلسہ پر موقوف نہیں بلکہ دوسرے وقتوں میں وہ فرصت اور فراغت سے باتیں کرسکتے ہیں اور یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ نخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے ورنہ بغیر اس کے ہیچ اور جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجربہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد کہ اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے ایک معصیت اور طریق ضلالت اور بدعت شنیعہ ہے.میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علّتِ غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاح خلق اللہ ہے پھر اگر کوئی امر یا انتظام موجب اصلاح نہ ہو بلکہ موجب فساد

Page 488

ہو تو مخلوق میں سے میرے جیسا اس کا کوئی دشمن نہیں اور اخی مکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب سَلَّمَہٗ تَعَالٰی بارہا مجھ سے یہ تذکرہ کرچکے ہیں کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگوں نے اب تک کوئی خاص اہلیت اور تہذیب اور پاک دلی اور پرہیز گاری اور للّہی محبت باہم پیدا نہیں کی سو میں دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب موصوف کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہوکر اوراس عاجز سے بیعت کرکے اور عہد توبہ نصوح کرکے پھر بھی ویسے کج دل ہیں کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں وہ مارے تکبر کے سیدھے منہ سے السلام علیک نہیں کرسکتے چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آویں اور انہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنیٰ ادنیٰ خود غرضی کی بناء پر لڑتے اور ایک دوسرے سے دست بد امن ہوتے ہیں اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کرلیتے ہیں اور کھانے پینے کی قسموں پرنفسانی بحثیں ہوتی ہیں اور اگرچہ نجیب اور سعید بھی ہماری جماعت میں بہت بلکہ یقیناً دو سو سے زیادہ ہی ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو نصیحتوں کو سن کر روتے اور عاقبت کو مقدم رکھتے ہیں اور ان کے دلوں پر نصیحتوں کا عجیب اثر ہوتا ہے لیکن میں اس وقت کج دل لوگوں کا ذکر کرتا ہوں اور میں حیران ہوتا ہوں کہ خدایا یہ کیا حال ہے.یہ کونسی جماعت ہے جو میرے ساتھ ہے.نفسانی لالچوں پر کیوں ان کے دل گرے جاتے ہیں اور کیوں ایک بھائی دوسرے بھائی کو ستاتا اور اس سے بلندی چاہتا ہے.مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے.اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تاوہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے

Page 489

سور ہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آئوں بلکہ مجھے چاہیے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کرو ںاور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہیے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں برجبین ہوکر تیزی دکھائوں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہوجائیں.خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہوکر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں بلکہ بعض میں ایسی بے تہذیبی ہے کہ اگر ایک بھائی ضد سے اس کی چارپائی پر بیٹھا ہے تو وہ سختی سے اس کو اٹھانا چاہتا ہے اور اگر نہیں اٹھتا تو چارپائی کو الٹا دیتا ہے اور اس کو نیچے گراتاہے ۱؎ پھر دوسرا بھی فرق نہیں کرتا اور وہ اس کو گندی گالیاں دیتا ہے اور تمام بخارات نکالتا ہے یہ حالات ہیں جو اس مجمع میں مشاہدہ کرتا ہوں تب دل کباب ہوتا اور جلتا ہے اور بے اختیار دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر میں درندوں میں رہوں تو ان بنی آدم سے اچھا ہے پھر میں کس خوشی کی امید سے لوگوں کو جلسہ کے لئے اکٹھے کروں.یہ دنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں ابھی تک میں جانتا ہوں کہ میں اکیلا ہوں بجز ایک مختصر گروہ رفیقوں کے جو دو سو۲۰۰ سے کسی قدر زیادہ ہیں جن پر خدا کی خاص رحمت ہے جن میں سے اوّل درجہ پر میرے خالص دوست اور محب مولوی حکیم ۱؎ یہ باتیں ہماری طرف سے اپنی عزیز جماعت کے لیے بطور نصیحت کے ہیں دوسرا کوئی مجاز نہیں کہ کسی کا نام لے کر ان کا تذکرہ کرے ورنہ وہ سب سے بڑھ کر گناہ اور فتنہ کی راہ اختیار کرے گا.

Page 490

نور الدین صاحب اور چند اور دوست ہیں جن کو میں جانتا ہوں کہ وہ صرف خدا تعالیٰ کے لئے میرے ساتھ تعلق محبت رکھتے ہیں اور میری باتوں اور نصیحتوں کو تعظیم کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی آخرت پر نظر ہے سو وہ انشاء اللہ دونوں جہانوں میں میرے ساتھ ہیںاورمیں ان کے ساتھ ہوں.میں اپنے ساتھ ان لوگوں کو کیا سمجھوں جن کے دل میرے ساتھ نہیں جو اس کو نہیں پہچانتے جس کو میں نے پہچانا ہے اور نہ اُس کی عظمتیں اپنے دلوں میں بٹھاتے ہیں اور نہ ٹھٹھوں اور بیراہیوں کے وقت خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور کبھی نہیں سوچتے کہ ہم ایک زہر کھا رہے ہیں جس کا بالضرور نتیجہ موت ہے.درحقیقت وہ ایسے ہیں جن کو شیطانی راہیں چھوڑنا منظور ہی نہیں.یاد رہے کہ جو میری راہ پر چلنا نہیں چاہتا وہ مجھ میں سے نہیں اور اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور جومیرے مذہب کو قبول کرنا نہیں چاہتا بلکہ اپنا مذہب پسندیدہ سمجھتا ہے وہ مجھ سے ایسا دور ہے جیسا کہ مغرب مشرق سے.وہ خطا پر ہے کہ سمجھتا ہے کہ میں اس کے ساتھ ہوں میں بار بار کہتا ہوں کہ آنکھوں کو پاک کرو اور ان کو روحانیت کے طور سے ایسا ہی روشن کرو جیسا کہ وہ ظاہری طور پر روشن ہیں ظاہری رؤیت تو حیوانات میں بھی موجود ہے مگر انسان اس وقت سوجا کھا کہلا سکتا ہے جب کہ باطنی رؤیت یعنی نیک و بد کی شناخت کا اس کو حصہ ملے اور پھر نیکی کی طرف جھک جائے سو تم اپنی آنکھوں کے لئے نہ صرف چارپائوں کی بینائی بلکہ حقیقی بینائی ڈھونڈو اور اپنے دلوں سے دنیا کے بت باہر پھینکو کہ دنیا دین کی مخالف ہے جلد مرو گے اور دیکھو گے کہ نجات انہیں کو ہے کہ جو دنیا کے جذبات سے بیزار اور بَری اور صاف دل تھے.میں کہتے کہتے ان باتوں کو تھک گیا کہ اگر تمہاری یہی حالتیں ہیں تو پھر تم میں اورغیروں میں فرق ہی کیا ہے لیکن یہ دل کچھ ایسے ہیں کہ توجہ نہیں کرتے اور ان آنکھوں سے مجھے بینائی کی توقع نہیں لیکن خدا اگر چاہے اور میں تو ایسے لوگوں سے دنیا اور آخرت میں بیزار ہوں.اگر میں صرف اکیلا کسی جنگل میں ہوتا تو میرے لئے ایسے لوگوں کی رفاقت سے بہتر تھا جو خدا تعالیٰ کے احکام کو عظمت سے نہیں دیکھتے اور اس کے جلال اور عزت سے نہیں کانپتے اگر انسان بغیر حقیقی راستبازی کے صرف منہ سے کہے کہ میں مسلمان ہوں یا اگر ایک بھوکا

Page 491

صرف زبان پر روٹی کا نام لاوے تو کیا فائدہ ان طریقوں سے نہ وہ نجات پائے گا اور نہ وہ سیر ہوگا.کیا خدا تعالیٰ دلوں کو نہیں دیکھتا.کیا اس علیم و حکیم کی گہری نگاہ انسان کی طبیعت کے پاتال تک نہیں پہنچتی؟ پس اے نادانوخوب سمجھو! اے غافلو خوب سوچ لو!کہ بغیر سچی پاکیزگی ایمانی اور اخلاقی اور اعمالی کے کسی طرح رہائی نہیں اورجو شخص ہر طرح سے گندہ رہ کر پھر اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو نہیں بلکہ وہ اپنے تئیں دھوکا دیتا ہے اور مجھے ان لوگوں سے کیا کام جو سچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر نہیں اٹھا لیتے اور رسول کریمؐ کے پاک جوئے کے نیچے صدق دل سے اپنی گردنیں نہیں دیتے اور راستبازی کو اختیار نہیں کرتے اور فاسقانہ عادتوں سے بیزار ہونا نہیں چاہتے اور ٹھٹھے کی مجالس کو نہیں چھوڑتے اور ناپاکی کے خیالوں کو ترک نہیں کرتے اور انسانیت اور تہذیب اور صبر اور نرمی کا جامہ نہیں پہنتے بلکہ غریبوں کو ستاتے اور عاجزوں کو دھکے دیتے اور اکڑ کر بازاروں میں چلتے اور تکبر سے کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور اپنے تئیں بڑا سمجھتے ہیں اور کوئی بڑا نہیں مگر وہی جو اپنے تئیں چھوٹا خیال کرے.مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا سمجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے ہیں اور کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے اور اپنے رب کریم کو یاد رکھتے ہیں اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں.سو میں بار بار کہتا ہوں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے نجات طیار کی گئی ہے.جو شخص شرارت اور تکبر اور خودپسندی اور غرور اور دنیا پرستی اور لالچ اور بدکاری کی دوزخ سے اسی جہان میں باہر نہیں وہ اس جہان میں کبھی باہر نہیں ہوگا.میں کیا کروں اور کہاں سے ایسے الفاظ لائوں جو اس گروہ کے دلوں پر کارگر ہوں خدایا! مجھے ایسے الفاظ عطا فرما اور ایسی تقریریں الہام کر جو ان دلوں پر اپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے ان کی زہر کو دور کردیں.میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ بھی دن ہوکہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہریک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبر سے جو تمام

Page 492

شرارتوں کی جڑ ہے بالکل دور جا پڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے مگر ابھی تک بجز خاص چند آدمیوں کے ایسی شکلیں مجھے نظر نہیں آتیں.ہاں نماز پڑھتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ نماز کیا شے ہے.جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجودو قیام نہ ہو.دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کیلئے اپنے وجود سے دست بردار ہو.سو افسوس ہزار افسوس کہ ان باتوں کا کچھ بھی اثر میں ان میں نہیں دیکھتا مگر دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دمِ زندگی ہے کئے جائوں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کرکے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے انکے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کردے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعائوں کو ضائع نہیں کرے گا.ہاں میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں بدبخت ازلی ہے جس کے لئے یہ مقدر ہی نہیں کہ سچی پاکیزگی اور خدا ترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کردے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لا جس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو.اب میری یہ حالت ہے کہ بیعت کرنے والے سے میں ایسا ڈرتا ہوں جیسا کہ کوئی شیر سے.اسی وجہ سے کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی دنیا کا کیڑا رہ کر میرے ساتھ پیوند کرے.پس التوائِ جلسہ کا ایک یہ سبب ہے جو میں نے بیان کیا.دوسرے یہ کہ ابھی ہمارے سامان نہایت ناتمام ہیں اور صادق جاں فشاں بہت کم اور بہت سے کام ہمارے اشاعت کتب کے متعلق قلّت مخلصوں کی سبب سے باقی پڑے ہیں پھر ایسی صورت میں جلسہ کا اتنا بڑا اہتمام جو صدہا آدمی خاص اور عام کئی دن آکر قیام پذیر رہیں اور جلسہ سابقہ کی طرح

Page 493

بعض دور دراز کے غریب مسافروں کو اپنی طرف سے زاد راہ دیا جاوے اور کماحقّہٗ کئی روز صدہا آدمیوں کی مہمانداری کی جاوے اور دوسرے لوازم چارپائی وغیرہ کا صدہا لوگوں کے لئے بندوبست کیا جائے اور ان کے فروکش ہونے کے لئے کافی مکانات بنائے جائیں.اتنی توفیق ابھی ہم میں نہیں اور نہ ہمارے مخلص دوستوں میں.اور یہ بات ظاہر ہے کہ ان تمام سامانوں کو درست کرنا ہزارہا روپیہ کا خرچ چاہتا ہے اور اگر قرضہ وغیرہ پر اس کا انتظام بھی کیا جائے تو بڑے سخت گناہ کی بات ہے کہ جو ضروریات دین پیش آ رہی ہیں وہ تو نظر انداز رہیں اور ایسے اخراجات جو کسی کو یاد بھی نہیں رہتے اپنے ذمہ ڈال کر ایک رقم کثیر قرضہ کی خوانخواہ اپنے نفس پر ڈال لی جائے.ابھی باوجود نہ ہونے کسی جلسہ کے مہمانداری کا سلسلہ ایسا ترقی پر ہے کہ ایک برس سے یہ حالت ہو رہی ہے کہ کبھی تیس تیس چالیس چالیس اور کبھی سو تک مہمانوں کی موجودہ میزان کی ہر روزہ نوبت پہنچ جاتی ہے جن میں اکثر ایسے غربا فقرا دور دراز ملکوں کے ہوتے ہیں جو جاتے وقت ان کو زادراہ دیکر رخصت کرنا پڑتا ہے برابر یہ سلسلہ ہر روز لگا ہوا ہے اور اس کے اہتمام میں مکرمی مولوی حکیم نور الدین صاحب بدل و جان کوشش کر رہے ہیں اکثر دور کے مسافروں کو اپنے پاس سے زاد راہ دیتے ہیں چنانچہ بعض کو قریب تیس تیس یا چالیس چالیس روپیہ کے دینے کا اتفاق ہوا ہے اور دو دو چار چار تو معمول ہے اور نہ صرف یہی اخراجات بلکہ مہمانداری کے اخراجات کے متعلق قریب تین چار سو روپیہ کے انہوں نے اپنی ذاتی جوانمردی اور کریم النفسی سے علاوہ امدادات سابقہ کے ان ایام میں دیئے ہیں اور نیز طبع کتب کے اکثر اخراجات انہوں نے اپنے ذمہ کر لئے کیونکہ کتابوں کے طبع کا سلسلہ بھی برابر جاری ہے گو بوجہ ایسے لابدی مصارف کے اپنے مطبع کا اب تک انتظام نہیں ہو سکا لیکن مولوی صاحب موصوف ان خدمات میں بدل و جان مصروف ہیں اور بعض دوسرے دوست بھی اپنی ہمت اور استطاعت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں مگر پھر کب تک اس قدر مصارف کا تحمل نہایت محدود آمدن سے ممکن ہے.غرض ان وجوہ کے باعث سے اب کے سال التوائے جلسہ مناسب دیکھتا ہوں آگے اللہ جَلَّ شَانُـہٗ کا

Page 494

جیسا ارادہ ہو.کیونکہ اس کا ارادہ انسان ضعیف کے ارادہ پر غالب ہے.مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے اور میں نہیں جانتاکہ خدا تعالیٰ کا منشاء میری اس تحریر کے موافق ہے یا اس کی تقدیر میں وہ امر ہے جو اب تک مجھے معلوم نہیں.وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ وَاَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ ھُوَ مَوْلَانَا نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر.خــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاکسار غلام احمد از قادیان (یہ اشتہار شہادت القرآن مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ بار اوّل کے آخر پر صفحہ ۱ تا ۵ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۹۴ تا ۴۰۰)

Page 495

۱۱۸  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ السَّمٰوَاتِ الْعُلٰی وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی مُحَمَّدٍ خَیْرِ الرُّسُلِ وَاَفْضَلِ کُلِّ مَنْ اُرْسِلَ اِلَی الْوَرٰی وَ اَصْحَابِہِ الطَّیِّبِیْنَ وَ اٰلِہِ الطَّاھِرِیْنَ وَ کُلِّ مَنْ تَبِعَہٗ وَاتَّقٰی ) رہبر ما سیّد ما مصطفیٰ است آنکہ ندیدست نظیرش سروش۱؎ آنکہ خدا مثل رخش نا فرید آنکہ رہش مخزنِ ہر عقل و ہوش (۳) دشمنِ دیں حملہ برو مے کند حیف بوَد گر بنشینم خموش (۴) چوں سخنِ سفلہ بگوشم رسید در دلِ من برخاست چو محشر خروش (۵) چند توانم کہ شکیبے کنم چند کند صبر دل زہر نوش (۶) آں نہ مسلماں بتر از کافرست کش نبود از پئے آں پاک جوش (۷) جاں شود اندر رہ پاکش فدا مژدہ ہمیں است گر آید بگوش (۸) سر کہ نہ در پائے عزیزش رود بار گراں است کشیدن بدوش ترجمہ اشعار.(۱)مصطفی ہمارا پیشوا اور سردار ہے جس کا ثانی فرشتوں نے بھی نہیں دیکھا.(۲)وہ ایسا ہے کہ خدا نے اُس کے چہرہ جیسا اور کوئی مکھڑا پیدا نہیں کیا اور جس کا طریقہ ہر قسم کی عقل اور دانش کا خزانہ ہے.(۳)دشمنِ دین اس پر حملہ کرتا ہے شرم کی بات ہو گی اگر میں خاموش بیٹھا رہوں(۴)جب کمینہ دشمن کی بات میرے کان میں پہنچی تو میرے دل میں قیامت کا جوش پیدا ہوا(۵)کب تک میں صبر کرتا رہوں.زہر پینے والا دل کب تک صبر کر سکتا ہے(۶)وہ شخص مسلمان نہیں بلکہ کافروں سے بھی بدتر ہے جسے اس پاک نبی کے لئے غیرت نہ ہو(۷)اس کے پاک مذہب پر ہماری جان قربان ہو مبارک بات یہی ہے اگر سننے میں آئے(۸)وہ سر جو اس کے مبارک قدموں میں نہ پڑے ُمفت کا بوجھ ہے جسے کندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے.

Page 496

اشتہار معیار الاخیار و الاشرار بمقابلہ پادری عماد الدین اور دوسرے پادری صاحبوں کے بوعدہ انعام پانچ ہزار روپیہ واضح ہو کہ پادری عماد الدین صاحب کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ ہے کہ قرآن شریف بلیغ فصیح کلام نہیں ہے اور جو کچھ اس پاک کلام میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کے فصاحت بلاغت وغیرہ لوازم دقائق حقائق کی رو سے معجزہ ہے، یہ بات نعوذ باللہ جھوٹ ہے.بلکہ وہ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ معجزہ کا تو کیا ذکر بلکہ قرآن ادنیٰ بلاغت فصاحت کے درجہ سے بھی گرا ہوا ہے.چنانچہ آپ آج کل کوئی تفسیر بھی لکھ رہے ہیں جس میں انہیں باتوں کا تذکرہ ہو گا اور وہ اس میں اپنی علمیّت اور سمجھ کے بھروسہ پر دوسرے حملے بھی کریں گے.پادری صاحب موصوف کی کتابوں کو دیکھنے والے اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تحریرات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی کس قدر توہین کی ہے.کیا کوئی گالی ہے جو نہیں دی؟ کیا کوئی ٹھٹھا ہے جو نہیں کیا؟ کیا کوئی دل آزار کلمہ ہے جو اُن کے مُنہ سے نہیں نکلا.سب کچھ کیا، لیکن گورنمنٹ انگریزی کی وفادار رعیّت اہلِ اسلام گورنمنٹ کے منہ کے لیے اور اس کے احسانوں کو یاد کر کے آج تک صبر ہی کرتی رہی اور کریں گے اور اگر نہ کریں تو کیا کر سکتے ہیں.کیا کسی قانون میں ایسے لوگوں کی کوئی سزا بھی ہے جو اظہارِ رائے کی اوٹ میں ہریک قسم کی اہانت اور بدگوئی اور دُشنام دہی کر رہے ہیں ۱؎ اور پھر عدالتوں ۱؎ نیک نیتی کی بنیاد پر اظہار رائے صرف اس حالت میں کہیں گے کہ جب بصیرت کی رُو سے رائے ظاہر کی جائے لیکن اگر بصیرت نہ ہو تو وہ اظہار رائے نہیں بلکہ مجرمانہ توہین ہے جو نیک نیتی سے نہیں.منہ

Page 497

میں سرخرو رہیں.فَمَا نَشْکُوْا اِلَّا اِلَی اللّٰہِ.اب ان دنوں میں پادری صاحب نے اپنی کتاب نَصِیْحَۃُ الْمُسْلِمِیْنَ وغیرہ کی گالیوں پر بس نہ کر کے ایک اور کتاب نکالی ہے جس کا نام تَوْزِیْنُ الْاَقْوَالُ رکھا ہے.اس میں بھی وہ بدگوئی سے باز نہیں رہ سکے.قرآن شریف کی فصاحت پر ٹھٹھا کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کا اُتارنے والا رُوح القدس نہیں بلکہ ایک شیطان ہے.اور پھر اپنی مولویت جتلائی ہے کہ ہم بڑے فاضل اور عالم ہیں اور عنقریب قرآن کی تفسیر شائع کرنی چاہتے ہیں.اور جو رسالہ انہوں نے ان دنوں میں امریکہ کے جلسہ نمایش مذہبی میں بھیجا ہے اور چھپوا کر شائع کر دیا ہے اس میں دعویٰ ہے کہ اسلام کے عمدہ عمدہ مولوی سب عیسائی مذہب میں داخل ہو گئے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں اور پھر ایک لمبی چوڑی فہرست ان مولویوں اور فاضلوں کی بغرض ثبوت دعویٰ پیش کی ہے جنہوں نے عیسائی دین قبول کر لیا ہے اور ان بزرگوں کی بہت علمی تعریف کی ہے کہ وہ ایسے ہیں اور ایسے ہیں.اور یہ سمجھانا چاہا ہے کہ تمام اعلیٰ درجہ کے مولوی تو عیسائی ہو چکے اور اب اسلام کے دین پر قائم رہنے والے صرف جاہل اور نادان اور بے تمیز لوگ باقی ہیں.مگر افسوس کہ یہ رسالہ مجھ کو وقت پر نہیں ملا اور نہ مؤلّف نے میری طرف بھیجا.صرف چند روز سے مَیں نے اطلاع پائی ہے.سو مَیں نے سوچا کہ اس طوفان کا بہت جلد جواب دینا ضروری ہے نیز اس حقیقت کو کھولنا واجبات سے ہے کہ گویا پادری عماد الدین صاحب نہایت اعلیٰ درجہ کے عالم دینِ محمدی تھے اور بڑے فاضل مولوی ہیں اور بباعث تبحر علمی ان کو حق پہنچتا ہے کہ قرآن شریف کی بلاغت فصاحت پر نکتہ چینی کریں اور اس کی اعلیٰ شان کے انکاری ہوں.رسول اللہ صلعم کو گالیاں نکالیں،ٹھٹھا کریں اور بُرے بُرے نادانی کے نام رکھیں اور اُستاد بن کر آنحضرت صلعم کی عربی دانی کے نقص نکالیں.اس لیے مَیں نے ان دنوں ایک رسالہ عربی میں لکھا ہے جس کا نام نور الحق رکھا ہے.۱؎ اس رسالہ میں کچھ کچھ فضائل قرآنِ شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے اور بعض اعتراضات تَوْزِیْنُ الْاَقْوَالُ کا ردّ ہے ۱ ؎حاشیہ.یہ رسالہ صرف چند روز میں بغیر کسی فکر اور سوچ کے لکھا گیا ہے کیونکہ وقت میں گنجائش نہ تھی تا ہم پادری صاحبوں کی عربی دانی کے لیے اسی قدر کافی ہے.منہ

Page 498

اور اس کے بین السطور میں اردو ترجمہ ہے.یہ رسالہ محض پادری عماد الدین کی عربی دانی اور مولویت کے آزمانے کے لیے اور نیز ان کے دوسرے مولویوں کے پرکھنے کے لیے تالیف کیا ہے اورا س میں یہ بیان ہے کہ اگر پادری عماد الدین صاحب اور ان کے دوسرے دوست جن کے نام ان کی فہرست میں اور نیز اس رسالہ میں بھی موجود ہیں حقیقت میں مولوی ہیں اور اسلام کے ان اعلیٰ درجہ کے فاضلوں میں سے ہیں جو عیسائی ہو گئے تو اُن کو چاہیے کہ خواہ جُدا جُدا اور خواہ اکٹھے ہو کر اس رسالہ کا جواب اسی حجم اور ضخامت کے لحاظ سے ویسی ہی عربی بلیغ فصیح میں لکھیں جس طرح پر یہ رسالہ لکھا گیا ہے.اور اسی قدر اس میں عربی اشعار بھی اپنی طبع زاد درج کریں جیسا کہ ہمارے اس رسالہ میں لکھے گئے ہیں.اگر انہوںنے عرصہ دو ماہ تک ۱؎ ہمارے رسالہ کی اشاعت سے ایسا کر دکھایا اور خود گورنمنٹ کی منصفی سے یا اگر گورنمنٹ منظور نہ کرے تو برضامندی طرفین منصف مقرر ہو کر ثابت ہو گیا کہ ہمارے رسالہ کے مقابل پر ان کا رسالہ نظم و نثر میں و بلحاظ دیگر مراتب قدم بہ قدم و نعل بہ نعل رہے اور اس سے کم نہیں ہے تو پانچ ہزار روپیہ نقد ان کو اسی وقت بلاتوقف بطور انعام دیا جائے گا اور آیندہ اقرار کر دوں گا کہ ان کو قرآن شریف پر حملہ کرنے اور بلاغت فصاحت پر ٹھٹھا کرنے کا حق حاصل ہے.یہ روپیہ کسی بینک گورنمنٹ میں یا دوسری جگہ میں اوّل جمع کرا دیا جائے گا اور لکھ دیا جائے گا کہ اگر گورنمنٹ اپنے طور پر ثابت کرلے کہ رسالہ کے مقابلہ پر فی الحقیقت ہریک بات میں رسالہ لکھا گیا ہے تو ہماری طرف سے گورنمنٹ مختار ہو گی کہ بلاتوقف وہ روپیہ پادری عماد الدین صاحب کے حوالہ کرے اور پادری صاحب موصوف جس طرح مناسب سمجھیں وہ روپیہ اپنے بھائیوں میں تقسیم کر لیں.اور اس وقت میں جبکہ ہم رسالہ شائع کر دیں اور پادری عماد الدین صاحب عربی میں برعایت شرائط مذکورہ جواب لکھنا چاہیں اور مستعد ہو کر ہمیں اطلاع دیں اور اپنی تسلّی کے لیے روپیہ جمع کرانے کا مطالبہ کریں.اگر ہم تین ہفتہ تک گورنمنٹ کے کسی بنک میں یا اور جگہ روپیہ ۱؎ حاشیہ.ہمارے رسالہ کے بالمقابل رسالہ اسی قدر اور انہیں لوازم کے لحاظ سے لکھنا درحقیقت چار روز سے کچھ زیادہ کام نہیں، لیکن ہم نے اتمام حجت کی غرض سے دو ماہ کی مہلت دی ہے.ایک مہینہ تالیف کے لیے اور ایک مہینہ چھاپنے اور شائع کرنے کے لیے.اس لیے اس عرصہ میں چھاپ کر شائع کرنے کی شرط ضروری ہے.منہ

Page 499

جمع نہ کراویں تو ہمارے دروغگو اور کاذب ہونے کے لیے اسی قدر کافی ہو گا.تب بلاشبہ ہم آیت لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الکَاذِبِیْنَ کے مصداق ہوں گے اور نہ ایک لعنت بلکہ کروڑ لعنت کے مستحق ٹھہریں گے.۱؎ لیکن اگر پادری عماد الدین صاحب اور اُن کی تمام جماعت جو مولوی اور فاضل کہلاتی ہے جواب نہ دے سکیں اور عاجز آ جائیں تو نہ ہم ان سے کچھ مانگتے ہیں نہ گالیاں نکالتے ہیں نہ دُکھ دیتے ہیں ۱؎ حاشیہ.اس رسالہ میں جیسا کہ ہم نے بصورت تخلّف وعدہ کروڑ لعنت کا مصداق اپنے تئیں ٹھہرا لیا ہے،اسی طرح اس صورت میں جو حضرات پادری صاحبان نہ ہمارے عربی رسالہ نور الحق کا دو ماہ تک جواب شائع کریں اور نہ مولوی کہلانے اور قرآن شریف کی فصاحت پر حملہ کرنے سے باز آویں ہزار لعنت صاحبان موصوفین کی خدمت میں ہماری طرف سے ہدیہ ہے.خیال رہے کہ یہ باتیں تہذیب کے برخلاف نہیں.ہم ستائے گئے.ہمارے سیّد و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو وہ صدہا گالیاں دی گئیں کہ اگر ایک محلہ کے ادنیٰ سے معزّز کو ایک ان میں سے دی جاتی تو بے شک گورنمنٹ اس کی نالش پر توجہ کرتی اور ہم کسی پر لعنت نہیں بھیجتے مگر کاذب اور موذی پر اس قسم کا لعنت نامہ توریت میں بھی موجود ہے.ظالموں اور جھوٹوں اور نادانوں کو روکنے کے لیے یہ تدبیریں ہیں.اس سے زیادہ ہم کیا کریں کہ جواب بالمقابل فصیح لکھنے پر پانچ ہزار روپیہ نقد انعام دیتے ہیں اور عمداً پہلوتہی کرنے کی حالت میں ہزار لعنت ہے مگر اس صور ت میں کہ جب مولوی کہلانے اور قرآن کریم پر حملہ کرنے سے باز نہ آویں.یہ بھی یاد رہے کہ چار دفعہ مجھے منجانب اللہ رؤیا اور الہام کے ذریعہ سے بشارت مل چکی ہے کہ عیسائی ہرگز اس رسالہ کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور ذلّت کے ساتھ خاموش رہ جائیں گے.پس اگر اور نہیں تو اس پیشگوئی کو ہی جھوٹی کر کے دکھلا ویں.اگر انہوں نے بالمقابل رسالہ لکھ مارا اور وہ رسالہ فصاحت میں ہمارے رسالہ کا ہم پلّہ ثابت ہو گیا تو بلاشبہ کاذب ٹھہروں گا.پس چاہیے کہ ہمّت نہ ہاریں بلکہ اپنے اس مسیح سے مدد طلب کریں جس کو ہم محض عاجز انسان جانتے ہیں اور اس سے وہ روح القدس رو رو کر مانگیں جو بولیاں سکھاتا ہے، مگر ساتھ اس کے یقینا یاد رکھیں کہ پیشگوئی سچی نکلے گی اور عیسائیوں کی مولویت کا ایسا پردہ فاش ہو جائے گا کہ بچے بھی ان پر ہنسیں گے اور ان کے خدا اور روح القدس کی کمزوری ایسی ثابت ہو جائے گی کہ سب خدائی اور مدد نمائی سرد پڑ جائے گی اور صلیب ٹوٹ جائے گی.بعض دوست یہ اندیشہ نہ کریں کہ ممکن ہے کہ شیخ محمد حسین بٹالوی جو عوام میں مولوی کر کے مشہور ہے اس وقت بھی ہمارے اس رسالہ کے شائع ہونے پر بالمقابل عربی رسالہ بنانے میں عیسائیوں کی ایسی ہی مدد کرے جیسا کہ اس نے جُون ۱۸۹۳ء میں ہمارے مباحثہ کے وقت پوشیدہ طور پر ان کی مدد کی تھی اور اپنے اشاعۃ السنۃ کا فتویٰ بھیج دیا تھا اور ان کی تائید میں ایک اشتہار بھی چھپوایا تھا جو بعض مسلمانوں کے لعن طعن کے باعث شائع ہونے سے رُک گیا جس کی ایک کاپی ایک خاص

Page 500

صرف اپنی مہربان گورنمنٹ کی خدمت میں فریاد کرتے ہیں اور ملتمس ہیں کہ آیندہ مولوی کے نام سے ان نادان دشمنوں کو روک دیا جائے اور قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت کی نکتہ چینی سے سخت ممانعت فرمائی جاوے.وَالسَّلَامُ عَلُی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی.بقیہ حاشیہ.ذریعہ سے ہم کو مل گئی جو اب تک موجود ہے.یہ وہی مخفی تحریرات تھیں جن کی وجہ سے پادری عماد الدین نے شیخ مذکور کو اپنی کتاب توزین الاقوال میںقابل تحسین لکھا ہے اور ہمارے نبی صلعم کو گالیاں نکالیں اور شیخ کی تعریف کی ہے.سو ایسا اندیشہ اس رسالہ کے نکلنے پر دل میں لانا بالکل بے بنیاد وہم اور خیال باطل ہے کیونکہ شیخ مذکور توآپ ہی علم اور ادب اور علوم عربیہ سے تہی دست اوربے نصیب اور صرف ایک اُردو نویس منشی ہے.پھر پادریوں کی کیا مدد کرے گا.ہاں یہ سچ ہے کہ اگر اس وقت بھی بس چل سکے تو عیسائیوں کو مدد دینے میں کبھی فرق نہ کرے.مگر اندھا اندھے کو کیا راہ دکھائے گا.ہاں شاید اتنی مدد کرے بلکہ ضرور کرے گا کہ جَل بُھن کر اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھ دے گا کہ یہ رسالہ کچھ نہیں کچھ نہیں.غلط ہے غلط ہے مگر شریر اور نامنصف اور ظالم آدمی کی صرف زبان کی بے دلیلبکواس کو کون سُنتا ہے اور ایسی بیہودہ باتوں کا ہماری طرف سے تو دندان شکن یہی جواب ہے کہ اگر شیخ مذکور کی نظر میں یہ رسالہ ہیچ اور غلط ہے اور وہ اپنے تئیں کچھ چیز سمجھتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ بھی اس رسالہ کی نظیر لکھے اور عیسائیوں کی طرح پانچ ہزار روپیہ انعام پاوے.۱؎ ورنہ بجز اس کے ہم کیا کہیں کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.شیخ جی جو کچھ آپ کی ذلّت ظاہر ہو رہی ہے اور آپ کے علم کی پردہ دری ہوتی جاتی ہے یہ اُس الہام کی تکمیل کی شاخیں ہیں جو لاہور کے ایک بڑے جلسہ میں آپ کو سُنایا گیا تھا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.آپ خدا تعالیٰ سے لڑیں.دیکھیں کب تک لڑیں گے.آپ نے کہا تھا کہ میں نے ہی اُونچا کیا اور مَیں ہی گراؤں گا.اس قدر دو طرفہ جھوٹ سے شیطان کو بھی پیچھے ڈال دیا.جس کو خدا اُونچا کرے کیا کوئی ہے کہ اس کو گِرا سکے؟ آپ اور آپ کی جماعت کیا چیز اور آپ کی دشمنی کیا حقیقت.کیا خدا ایسے موذیوں کے تباہ کرنے کے لیے اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں؟!! لوگوں کے بغضوں اور کینوں سے کیا ہوتا ہے جس کا کوئی بھی نہیں اس کا خُدا ہوتا ہے بے خدا کوئی بھی ساتھی نہیں تکلیف کے وقت اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جُدا ہوتا ہے الراقم المشتہر میرزا غلام احمد قادیانی عفی اللہ عنہ (مطبوعہ مصطفائی پریس لاہور) ۱۷؍ مارچ ۱۸۹۴ء (یہ اشتہار کے چار صفحوں پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۷۴ تا ۸۰) ۱؎ الحاشیہ.اور نیز ہمارے الہام کو بھی جھوٹا کرے جس کی فکر میں وہ مر رہا ہے.منہ

Page 501

 الاشتہار لِتَبْکِیْتِ النَّصَارٰی وَتَسْکِیْتِ کُلّ مَن بَارَی قالت النصاری إنّ لنا نصابًا تامًّا ونصیبًا عامًّا من العربیۃ، وقد لحِقتْ بنا من المسلمین جماعۃٌ سابقون فی العلوم الأدبیۃ، وجَمٌّ غفیر من أہل الفنون الإسلامیۃ.وقالوا إن القرآن لیس بفصیح بل لیس بصحیح، وکنا علی عیوبہ مُطّلعین.وألّفوا کُتُبًا وأشاعوا فی البلاد، لیضلّوا الناس ویُکثروا فساد الارتداد.وقالوا إنا نحن کنّا مِن فحول علماء الإسلام اشتہار نصاریٰ کو لاجواب اورہرمدمقابل کو خاموش کروانے کے لئے عیسائیوں نے کہا کہ ہمیں عربی زبان کامکمل نصاب اورحصہ عام حاصل ہے.اورمسلمانوں میں سے علومِ ادبیہ میں سبقت رکھنے والوں کی ایک جماعت اورفنون اسلامیہ کے ماہرین کا جم غفیر ہمارے ساتھ آملا ہے.نیز یہ کہا کہ قرآن نہ تو فصیح ہے اور نہ ہی صحیح.اورہم اس کے عیوب سے مطلع ہیں.لوگوں کو گمراہ کرنے اور فتنۂ ارتدادکوہوا دینے کے لئے انہوں نے کتب تالیف کرکے شہروں میں پھیلائیں.اوریہ بھی کہا کہ ہماراشمار عظیم علمائے اسلام اورفضلائے کرام و عظام میں ہوتاتھا ہم نے

Page 502

أفاضل الکرام العظام، وفکَّرْنا فی القرآن ونظرنا إلی الکلام، فما وجدنا بلاغتہ وفصاحتہ علی مرتبۃ الحسن التام وملاحۃ النظام، کما ہو مشہور عند العوام، بل وجدناہ مملوًّا من أغلاط کثیرۃ وألفاظ رکیکۃ وحشیۃٍ، ولیس فی دعواہ من صادقین.وکذٰلک حقّروا کتاب اللّٰہ المبین، وکانوا فی سبّہم وطعنہم معتدین.فألہمَنی ربّی لأُتمّ حُجّۃ اللّٰہ علیہم، وأُرِی الخَلق جہل الفاسقین.فألّفتُ ہذہ الرسالۃ وجعلتُہا حصّتَین حصّۃ فی ردّ کلماتہم، وحصّۃ فی آیۃ الکسوفین.وأُقسم بالذی أنزلَ الفرقان وأکمل القرآن، لقد کان کلّہم جہلاء ، وما مسّوا العلم والعرفان، ومن قال إنی عالم فقد مان.فمن ادّعی منہم أن لہ دخل فی العربیۃ، وید طولٰی فی العلوم الأدبیۃ، فأحسنُ الطرق لإثبات براعتہ وتحقیق صناعتہ بقیہ ترجمہ.قرآن پر غوروفکر کیا اور اس کلام پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اس کی فصاحت و بلاغت میں وہ حسن تام اور خوبی نظام مفقود ہے جو عوام میں مشہور ہے.اس کے برعکس اُسے کثیر اغلاط اوررکیک و غیرمانوس الفاظ سے پُر پایا.اوروہ اپنے دعویٰ میں ہرگز سچا نہیں.اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب مبین کی تحقیر کی اورگالی گلوچ اور طعن و تشنیع کی حد کردی.تب میرے ربّ نے مجھے الہام کیا تا میں ان پر حجت تمام کروں اوران فاسقوں کی جہالت خلقِ خدا پر طشت ازبام کروں.اس غرض سے میں نے یہ رسالہ تالیف کیا.اور اسے دو حصوں میں تقسیم کیا.ایک حصہ تو ان کے کلمات کا ردّ ہے اوردوسرا نشان کسوف وخسوف کے ذکر میں ہے.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے فرقان نازل کیا اور قرآن کامل کیا کہ وہ سب یقینا جہلا تھے.اورعلم وعرفان سے انہیں ذرا بھی مَس نہ تھا.ان میں سے جس نے عالم ہونے کا دعویٰ کیا اس نے جھوٹ بولا.اور جس نے یہ بڑ ہانکی کہ اُسے عربی زبان کا گہرا علم ہے اور علوم ادبیہ میں یَدِطولیٰ رکھتا ہے تواس کی مہارت کاثبوت اور اس کی

Page 503

ووزن صناعتہ، أن یتصدّی ذلک المدّعی لتألیف مثل ذلک الکتاب وإنشائِ نظیرِ ہذا العُجاب، بالتزام الارتجال والاقتضاب.وإنی أمہّل النصاری مِن یوم الطبع إلی شہرین کاملین، فلیُبادر من کان من ذوی العلم والعینین.وقد أُلہمتُ من ربّی أنّہم کُلّہم کالأعمٰی، ولن یأتوا بمثل ہٰذا، وإنہم کانوا فی دعاویہم کاذبین.فہل منہم مَن یُبارز برسالۃ، ویجلّی فی ہیجاء البلاغۃ عن بسالۃ، ویکذّب إلہامی ویأخذ إنعامی، ویتحامی اللعنۃَ ویُعین القوم والملّۃ، ویجتنب طعن الطاعنین؟ وإنی فرضتُ لہم خمسۃ آلاف من الدراہم المروّجۃ بعہد مؤکَّد من الحلف بکل حال من الضیق والسعۃ، بشرط أن یأتوا بمثلہا بقیہ ترجمہ.صنعت کی حقیقت معلوم کرنے اور اس کے متاعِ علم کوتولنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ ایسا مدّعی میری اس کتاب کی مانندکتاب تالیف کرے اور اس میں پائے جانے والے عجائب و غرائب کی نظیر فی البدیہہ تحریر کرنے کا التزام کرے.میں عیسائیوں کو اپنی اس کتاب کے یوم طباعت سے دو ماہ کی مہلت دیتا ہوں.لہٰذا جو شخص علم اور دوآنکھیں رکھتا ہے وہ جلدی کرے.مجھے تو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتادیا ہے کہ وہ سب اندھے ہیں اور اس کی نظیر ہرگز نہ لاسکیں گے اوراپنے دعاوی میں وہ جھوٹے ہیں.پس ہے کوئی ان میں؟ جو اپنے رسالہ کے ساتھ مقابلہ پرآئے.اور اس معرکۂ بلاغت میں بہادری کے ساتھ سبقت کرے.اور میرے الہام کوجھوٹا ثابت کرکے مجھ سے انعام پاوے.اورلعنت سے محفوظ رہے.اور قوم وملت کی مدد کرے اور نکتہ چینوں کے طعن وتشنیع سے بھی بچ جائے.میں نے ان کے لئے پانچ ہزار روپیہ رائج الوقت کا انعام موکّد بحلف اداکرنا اپنے پر فرض قرار دے لیا ہے.خواہ مجھ پر تنگی کی حالت ہو یافراخی کی.تاہم شرط یہ ہے کہ وہ ان خصوصیات کاحامل رسالہ اکیلے اکیلے یا میرے تمام مخالفین کی

Page 504

فُرادی فُرادی، أو بإعانۃِ کلِّ مَن عادیٰ، وإن لم یفعلوا، ولن یفعلوا، فاعلموا أنہم جاہلون کذّابون، وفاسقون خبّابون.إذا ما غُلبوا خلبوا، لا یعلمون شیئًا من علوم ہذہ الملّۃ ومعارف تلک الشریعۃ.یؤذون المسلمین من غیر حقّ، ولا یرتاعون قہر ربّ العالمین.ما للعدا مالوا الی الاھواء مالوا الٰی اموالھم وعلاء عادوا الٰـھًا واسع الآلاء مولًی ودودًا حاسم اللَّأْوَاء ملک العلٰی ومطھرالاسماء اھل السماح واھل کل عطاء الراقـــم میرزا غلام احمد القادیانی عفی عنہ ۱۸مئی ۱۸۹۴؁ روز جمعہ (نور الحق حصّہ دوم صفحہ ۶۱،۶۲ مطبوعہ مطبع مفید عام لاہور۱۳۱۱ھ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۲۵۹،۲۶۰) بقیہ ترجمہ.اعانت وامداد سے تحریر کرکے لاویں.اگر وہ ایسا نہ کریں اورہرگز نہ کرسکیں گے تو جان لو کہ وہ جاہل پرلے درجہ کے جھوٹے،فاسق اور روباہ صفت اور مغلوب ہوکر چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دینے والے ہیں.انہیں ملت اسلامیہ کے علوم اور شریعت حقہ کے معارف کا کچھ بھی علم نہیں.وہ مسلمانوں کو ناحق دکھ دیتے ہیں اور ربّ العالمین کے قہر سے نہیں ڈرتے.ترجمہ اشعار.دشمنوں کوکیاہوگیاہے کہ وہ خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہوگئے.وہ اپنے مالوںاورعزت کی طرف جھک گئے ہیں.انہوں نے وسیع نعمتوں والے معبود سے دشمنی کی ہے.جو مددگار بہت محبت کرنے والا اور مصائب کی بیخ کنی کرنے والا ہے، جو رفعت و شرف کابادشاہ ہے اور پاک صفات والا ہے.سخاوت والا اور ہر ایک عطا والا ہے.الراقم میرزا غلام احمدالقادیانی عفی عنہ ۱۸؍مئی ۱۸۹۴ء بروز جمعۃ المبارک

Page 505

 اشتہار واجب الاظہار       .۱؎ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ خَیْرِ خَلْقِہٖ وَ اَفْضَل رُسُلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ.اما بعد واضح ہو کہ سُنا گیا ہے کہ امرتسر کے بعض ایسے آدمی جن پر مادہ بدظنی یا تذبذب غالب ہے ایک افغان محمد یوسف خان نام کے عیسائی ہوجانے سے جس نے اب نام یوسف خان رکھوایا ہے یہ وہم بصورت اعتراض پیش کرتے ہیں کہ یہ شخص یوسف خان اس عاجز کی جماعت میں داخل تھا.پھر وہ کیونکر عیسائی ہو گیا تو اس کا یہی جواب ہے کہ اپنی شقاوت سے اپنی کور باطنی سے اور نفسانی اغراض کے جوش سے، وہ اُس شاخ کی طرح تھا جس کا سچا پیوند ہمارے ساتھ نہیں تھا.اس لیے مالک حقیقی نے اُس شاخ کو کاٹ دیا اور تنور میں پھینک دیا.اگر وہ شاخ پھل اور پھول لانے والی ہوتی تو ہرگز کاٹی نہ جاتی، لیکن وہ ایک خشک شاخ تھی سو مالک نے اس کے ساتھ وہی کیا جو خشک شاخوں کے ساتھ ہمیشہ سے وہ کرتا ہے.وہ غنی بے نیاز ہے کسی کے مُرتد ہو جانے سے اس کی ملکوت میں کچھ کمی نہیں آتی.اور ایساسمجھنا سراسر ظلم اور غلطی ہے کہ گویا یہ شخص ہمارے خاص بیعت کنندوں میں سے تھا.اصل حال یہ ہے کہ اکثر لوگ اس ۱؎ المائدۃ : ۵۵

Page 506

جگہ آتے رہتے ہیں اور جو شخص آتا ہے بیعت توبہ کی درخواست کرتا ہے اور قبل اس کے جو اس کے حال کی تفتیش کی جائے محض اس نیّت سے وہ سلسلہ بیعت میں داخل کیا جاتا ہے کہ توبہ کرنا بہرحال اچھا ہے.سو یہ شخص بھی ایسے ہی عام لوگوں میں سے تھا.جس جگہ صدہا آدمی آویں اس میں ضروری ہوتا ہے کہ جیسے پاک نیّت کے لوگ آتے ہیں ویسے خراب نیّت اور ناپاک دل کے لوگ جائیں.اس کا اگر نمونہ دیکھنا ہو تو اوّل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں ہی دیکھو کہ یہودا اسکریوطی کیونکر اوّل سے اخیر تک صحبت میں رہ کر صرف تیس روپیہ کے لالچ سے مُرتد ہوگیا.پطرس نے بھی تین مرتبہ لعنت کی.باقی سب بھاگ گئے.شاید حواریوں کی بد اعتقادی کا موجب وہی واقعات ہوں گے جو انجیل متی کے چھبیس باب میں بتفصیل درج ہیں.کیونکہ حضرت عیسیٰ تمام رات جاگتے رہے اور اپنی رہائی کے لیے دُعا مانگی.۱؎ اور حواریوں کو بھی کہا کہ تم بھی دُعا مانگو مگر وہ قبول نہیں ہوئی اور جس قدر تکلیف مقدر تھی پہنچ گئی.اس دُعا میں حضرت مسیح نے یہ بھی کہا تھا کہ میرا دل نہایت غمگین ہے بلکہ میری موت کی سی حالت ہے مگر دُعا کے نہ قبول ہونے سے حواری بدظن ہو گئے.اور یہ امر قابل بحث ہے کہ حضرت عیسیٰ نے نبی ہو کر اپنی جان بچانے کے لیے اس قدر کیوں اضطراب کیا.حاصل کلام یہ کہ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے حواری اکثر مُرتد ہوتے رہے.اور اس آخری واقعہ سے پہلے بھی ایک جماعت کثیر مُرتد ہو گئی تھی بلکہ ایک اور مقام میں حضرت عیسیٰ پیشگوئی کے طور ۱؎ حاشیہ.حضرت عیسیٰ کی اس دُعا کا قبول نہ ہونا جو ایسی سخت بے قراری کی حالت میں کی گئی جس کی نسبت وہ آپ کہتا ہے کہ میرا دل نہایت غمگین ہے بلکہ میری موت کی سی حالت ہے ایک ایسا امر ہے جس سے یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہرگز خدا نہ تھا بلکہ ایک عاجز اور ضعیف انسان تھا جو دُعا کرتا کرتا مارے غم کے موت تک پہنچ گیا.مگر خدائے غنی بے نیاز نے دُعا کو قبول نہ کیا.اگر کہو کہ وہ دُعا انسانی روح سے تھی نہ خدائی رُوح سے اس واسطے منظور نہ ہو سکی.تو ہم کہتے ہیں کہ تمام پاک انبیاء انسان ہی تھے خدائی کا کس کو دعویٰ تھا تا ہم اُن کی دعائیں اضطراب کے وقت منظور ہوتی رہیں.اور کوئی ایک نبی بھی بطور نظیر پیش نہیں ہوسکتاجس نے ایسے وقت میںایسے اضطراب کے ساتھ جو موت کی سی حالت ہو دعا کی ہو اور قبول نہ ہوئی ہو.ہمارے سیّد و مولیٰ خیر الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکّہ معظمہ میں جب دشمنوں نے قتل کرنے کے لیے چاروں طرف سے آپ کے گھر کو گھیر لیا تھا ایسا ہی اضطراب پیش آیا غمگین ہے بلکہ میری موت کی سی حالت ہے مگر دُعا کے نہ قبول ہونے سے حواری بدظن ہو گئے.اور یہ امر قابل بحث ہے کہ حضرت عیسیٰ نے نبی ہو کر اپنی جان بچانے کے لیے اس قدر کیوں اضطراب کیا.حاصل کلام یہ کہ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے حواری اکثر مُرتد ہوتے رہے.اور اس آخری واقعہ سے پہلے بھی ایک جماعت کثیر مُرتد ہو گئی تھی بلکہ ایک اور مقام میں حضرت عیسیٰ پیشگوئی کے طور ۱؎ حاشیہ.حضرت عیسیٰ کی اس دُعا کا قبول نہ ہونا جو ایسی سخت بے قراری کی حالت میں کی گئی جس کی نسبت وہ آپ کہتا ہے کہ میرا دل نہایت غمگین ہے بلکہ میری موت کی سی حالت ہے ایک ایسا امر ہے جس سے یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہرگز خدا نہ تھا بلکہ ایک عاجز اور ضعیف انسان تھا جو دُعا کرتا کرتا مارے غم کے موت تک پہنچ گیا.مگر خدائے غنی بے نیاز نے دُعا کو قبول نہ کیا.اگر کہو کہ وہ دُعا انسانی روح سے تھی نہ خدائی رُوح سے اس واسطے منظور نہ ہو سکی.تو ہم کہتے ہیں کہ تمام پاک انبیاء انسان ہی تھے خدائی کا کس کو دعویٰ تھا تا ہم اُن کی دعائیں اضطراب کے وقت منظور ہوتی رہیں.اور کوئی ایک نبی بھی بطور نظیر پیش نہیں ہوسکتاجس نے ایسے وقت میںایسے اضطراب کے ساتھ جو موت کی سی حالت ہو دعا کی ہو اور قبول نہ ہوئی ہو.ہمارے سیّد و مولیٰ خیر الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکّہ معظمہ میں جب دشمنوں نے قتل کرنے کے لیے چاروں طرف سے آپ کے گھر کو گھیر لیا تھا ایسا ہی اضطراب پیش آیا

Page 507

پر فرماتے ہیں کہ بعض میرے پر ایمان لانے والے پھر مُرتد ہو جائیں گے اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حقیقی بھائی ہی ان سے راہِ راست پر نہ آ سکے.چنانچہ جان ڈیون پورٹ صاحب لکھتے ہیں کہ اُن کے بھائی اُن سے ہمیشہ بگڑے ہی رہے بلکہ ایک دفعہ انہوںنے قید کرانے کے لیے گورنمنٹ میں درخواست بھی کر دی تھی.پھر جبکہ وہ لوگ جو اسی ماں کے پیٹ سے نکلے تھے جس پیٹ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نکلے تھے حضرت عیسیٰ سے درست نہ ہو سکے تو پھر عوام کی سرسری بیعتوں کی بناء پر کیوں اعتراض کیا جائے.حضرت عیسیٰ کے بھائی سمجھنے والوں کے لیے ایک نہایت عمدہ نمونہ ہے کہ ایک بھائی تو پیغمبر اور چار حقیقی بھائی بے دین بلکہ دشمن دین اور وہ بھائی باوجود دن رات کے تعلقات کے ایسے سخت منکر رہے کہ اُن سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ کسی نشان کے ہی قائل ہو جائیں.تعجب کہ کسی اعجوبہ کے بھی قائل نہ ہوئے اور نہ اس بات کے قائل کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت پہلی کتابوں میں کوئی پیشگوئی ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہی پرانا الزام تالاب معجزہ نما کا جواب تک حضرت عیسیٰ کے سر پر وارد ہوتا چلا آ یا ہے ان کے دلوں میں خوب راسخ تھا.ورنہ یہ کیا غضب آ گیا بقیہ حاشیہ.تھا اور آپؐ نے دُعا بھی نہیں کی تھی بلکہ راضی برضائِ مولیٰ ہو کر خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا تھا.پھر دیکھنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے کیسا بچا لیا.دشمنوں کے بیچ میں سے گذر گئے اور ان کے سر پر خاک ڈال گئے مگر ان کو نظر نہ آ سکے.پھر مخالف لوگ بمدد ایک سُراغ شناس کے اس غار تک پہنچے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخفی تھے.مگر اس جگہ بھی خدا تعالیٰ نے دشمنوں کو اندھا کر دیا اور وہ دیکھ نہ سکے.پھر ایک نے ان میں ایسے وقت میںخبر پاکر تعاقب کیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے راہ میں جا رہے تھے.مگر وہ اور اس کا گھوڑا ایسے طور سے زمین پر گرے کہ وہ سمجھ گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حق پرہیںاور خدا ان کے ساتھ ہے.ایسا ہی خسرو پرویز نے جب آپ کو گرفتار کرنا چاہا تو ایک ہی رات میں گرفتار پنجہئِ اَجَل ہوگیا.اور ایسا ہی بدر کی لڑائی میں جبکہ مخالف پوری طیاری کر کے آئے تھے اور اس طرف سراسر بے سامانی تھی خدا تعالیٰ نے وہ نمونہ تائید دکھلایا جس نے روئے زمین پر اسلام کی بنیاد جما دی.اب جبکہ یہ قاعدہ مسلّم الثبوت ہے کہ سچے نبیوں کے سخت اضطرار کی ضرور دعا قبول ہو جاتی ہے توبار بار یہی اعتراض پیش ہوگا اگر مسیح سچا نبی تھا تو اس کی دعا ایسے اضطراب کے وقت میں جس سے موت کی سی حالت اس پرطاری تھی کیوں قبول نہ ہوئی اور اس عذر کا بیہودہ ہونا تو ظاہر ہو چکا کہ مسیح نے الٰہی روح کے ساتھ دعا

Page 508

کہ حقیقی بھائی ہو کر اس قدر بھی قایل نہ ہوں کہ یہ آدمی اچھا اور بھلا مانس ہے ایسے حقیقی خویشوں کو جو اندرونی حال اور دن رات کے واقعات معلوم ہوتے ہیں دوسروں کو ان سے کیا اطلاع.تمام یہودی بھی درحقیقت دور نزدیک کے رشتہ دار تھے.انہوں نے کئی معجزے حضرت مسیح سے مانگے او ر آپ نے ان کو حرام کار کہہ کر ٹال دیا مگر معجزہ نہ دکھلایا.سچ ہے آپ کے اختیار اور اقتدار میں معجزات نہیں تھے.پھر کہاں سے دکھلاتے.یہودی بیوقوف جانتے تھے کہ کسی انسان کے اختیار میں معجزہ نمائی ہے.مگر درحقیقت معجزہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے.پھر عجب تر یہ ہے کہ جس کو حضرت عیسیٰ نے بہشت کی کنجیاں دی تھیں اسی نے برابر کھڑے ہو کر لعنتیں کیں.ہم نے نہ تو یوسف خان کو بہشتی ٹھہرایا نہ کنجیاں بقیہ حاشیہ.نہیں کی تھی بلکہ انسانی روح کے ساتھ کی تھی اس لیے ردّ ہوگئی.مسیح نے تو باپ باپ کر کے بہتیرا پکارا اور اپنا بیٹا ہونا جتلایا.مگر باپ نے اس طرف رُخ نہ کیا.اگر شک ہوتو آپ انجیل متی کھول کر ۲۶.۳۹ میں یہ آیت پڑھ لو.اور کچھ آگے بڑھ کے منہ کے بل گرا.اور دُعا مانگتے ہوئے کہا کہ اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذر جائے.عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح خدا تعالیٰ کو الٰہی روح کے لحاظ سے باپ کہتا تھا.پس اس سے ثابت ہوا کہ یہ دُعا اقنومِ ابن کی طرف سے تھی تب ہی تو باپ کر کے پکارا مگر باپ نے پھر بھی منظور نہ کی.تعجب کہ مسیح کا انجیل میں یہ بھی ایک قول ہے کہ مجھے کل اختیار دیا گیا.مگر کیا خاک اختیار دیا گیا ایک دُعا بھی تو منظور نہ ہوئی.اور جب مسیح کی اپنی ہی دعا منظور نہ ہوئی تو اس کا شاگردوں کو یہ کہنا کہ تمہاری دعائیں منظور ہوتی رہیں گی اور کوئی بات انہونی نہ ہوگی کس قدر بے معنی معلوم ہوتی ہے.بعض کہتے ہیں کہ مسیح نے خدا تعالیٰ کی تقدیر کو منظور کر لیا اس لیے دُعا منظور نہ ہوئی یہ بالکل بیہودہ جواب ہے.مسیح نے تو سُولی پر چڑھ کر بھی یہی کہا کہ ایلی ایلی لما سبقتنی یعنی اے میرے خدا، اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ تُو نے میری خواہش کے مطابق کیوں نہ کیا اور میری دُعا کیوں قبول نہ کی.اور یہ سوال کہ آخری وقت میں مسیح نے ایلی ایلی کیوں کہا ابی ابی کیوں نہ کہا.اس کا یہی جواب ہے کہ وہ کلمہ محبت کا تھا اور یہ کلمہ خوف کا.اس لیے اس وقت مسیح مارے خوف عظمت ِ الٰہی کے ابی ابی بُھول گیا اور ایلی ایلی یاد آ گیا اور بے نیازیِ الٰہی کی ایک تجلّی دیکھی اور عاجزی شروع کر دی.انسان بے بنیاد کی یہی حالت ہے.جلالی تجلّیات کی برداشت نہیں کر سکتا.مسیح کا راضی بقضاء ہونا اس وقت تسلیم کیا جاتا کہ جب اس کو موت اور زندگی کا اختیار دیا جاتا اور یہ کہا جاتا کہ ہماری مرضی تو یہ ہے کہ تجھ کو سولی

Page 509

دیں بلکہ اس میں نااہلی کی بُو پا کر اس کی طرف توجہ کرنا چھوڑ دیا.اس بات کا گواہ اس کا دل ہو گا گو زبان نہ ہو.غرض کسی کا مُرتد ہوناکوئی اعجوبہ بات نہیں جس کو سعادت ازلی سے حصّہ نہیں وہ شقاوت کی طرف جائے گا.ضرور جائے گا.ہماری طرف ایسے عوام النّاس ہر روز آتے ہیں.پس کیا حرج ہے ہم کسی ایک کو اس کی جگہ سمجھ لیں گے.ایسے آدمیوں کے مُرتد ہونے سے کوئی بدنتیجہ نکالنا بقیہ حاشیہ.دیدیں، لیکن اگر تو چاہے توتجھ کو بچا لیں لیکن یہ واقعہ تو ایسا نہیں ہے بلکہ مسیح نے اپنے افعال سے ظاہر کر دیا کہ وہ بدل و جان یہی چاہتا تھا کہ وہ سُولی سے بچ جائے.اس نے دعا کرنے میں کوئی کسر نہ کی اور کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا اور سُولی کے خوف سے اس کا دل نہایت غمگین ہوا.یہاںتک کہ اس کی موت کی سی حالت ہو گئی.تمام رات جاگتا رہا.دُعا کرتا رہا.سجدے کرتا رہا.روتا رہا بلکہ دوسروں سے بھی دعا کراتا رہا کہ شاید میری نہیں تو انہیں کی دعا منظور ہو جائے.اپنی عزیز جان بچانے کے لیے کیا کچھ بے قراریاں کیں اور اس چند روزہ زندگی کے لیے کس قدر بے تابی ظاہر کی.آخر جب دیکھا کہ بات بنتی نظر نہیں آتی تو کہہ دیا کہ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذر جائے، تو بھی میری خواہش نہیں بلکہ تیری خواہش کے مطابق مگر مارے سخت بے قراری کے اس رضا جوئی کے فقرہ پر بھی قائم نہ رہ سکا.آخر موت کے وقت ربّ جلیل کی شکایت شروع کر دی اور کہا کہ اے میرے خدا، اے میرے خدا تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اب دیکھو کہاںگئی وہ رضاجوئی.اگر مسیح باوجود ایسی دعا کے جو جان کی گدازش سے کی گئی تھی پھر بھی درحقیقت سُولی مِل گیا ہے تو ایسا شخص کسی طور سے نبی نہیںہو سکتا.حَاشَاوَکَلَّا کیونکہ تمام نبی اضطرار کے وقت میں مستجاب الدعوات ہوتے ہیں.یہ کیسا نبی تھا کہ اضطرار کے وقت اس کی دعا سُنی نہ گئی.اور اگر وہ سُولی نہیں ملا تو سچا نبی ہے اور ایسے ہی کی قرآن کریم نے تصدیق کی ہے اور توریت بھی یہی ظاہر کرتی ہے.بہرحال اگر مسیح کی وہ دعا منظور ہو گئی ہے اور وہ صلیب سے بچ گیا ہے تو اعتقاد صلیب اور کفّارہ باطل اور اگر ایسے اضطرار کے وقت کی دعا بھی منظور نہیں ہوئی اور صلیب نصیب ہو گئی تو نبوت باطل.تعجب کہ بائیبل میں یہ قصّہ موجود ہے کہ ایک بادشاہ کی پندرہ دن عمر رہ گئی تھی اور جب نبی کی معرفت اس کو خبر دی گئی تو وہ تمام رات دعا کرتا رہا.تو خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر کو اس کے لیے بدل دیا اور دعا کو منظور کر لیا اور پندرہ دن کو پندرہ سال کے ساتھ بدل دیا.مگر مسیح کی تمام رات کی دعا باوجود اس قدر دعووں کے منظور نہ ہوئی.تعجب کہ کسی پادری صاحب کو اس سچی حقیقت کی طرف توجہ نہیں اور ان کا کانشنس ایک دم کے لیے بھی ان کو ملزم نہیں کرتا کہ وہ شخص جس کی دُعا کی حالت ایک بادشاہ کی دعا کی حالت سے بھی گری ہوئی ہے وہ کیونکر سچا نبی ٹھہر سکتا ہے اور اس کی حقیقت تو اس قصّہ سے بدیہی طور پر معلوم ہو چکی.

Page 510

بداندیشوں کا کام ہے جن کی نظر گذشتہ تاریخوں پر بھی پھری نہیں.حکم خواتیم پر ہوتا ہے نہ درمیانی امور پر.اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے آدمیوں کا دین سے نکلنا بہتر ہے کیونکہ دین کی صفائی اور روشنی ان کے نکلنے پر موقوف ہے.راقم میرزا غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور ۲۷؍ مئی ۹۴ء (یہ اشتہارکے دو صفحوں پر گلزار محمدی پریس لاہور میں طبع ہو کر شائع ہوا تھا) (تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۸۱ تا ۸۶) ------------------------------

Page 511

 نکتہ چینوں کے لئے ہدایت اور واقعی غلطی کی شناخت کے لیے ایک معیار اکثر جلد باز نکتہ چین خاص کر شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی جو ہماری عربی کتابوں کو عیب گیری کی نیت سے دیکھتے ہیں بباعث ظلمت تعصب کا تب کے سہو کو بھی غلطی کی مد میں ہی داخل کر دیتے ہیںلیکن درحقیقت ہماری صرفی یا نحوی غلطی صرف وہی ہو گی جس کے مخالف صحیح طور پر ہماری کتابوں کے کسی اور مقام میں نہ لکھا گیا ہو.مگر جب کہ ایک مقام میں کسی اتفاق سے غلطی ہو اور وہی ترکیب یا لفظ دوسرے دس۱۰ بیس۲۰ یا پچاس۵۰ مقام میں صحیح طور پر پایا جاتا ہو تو اگر انصاف اور ایمان ہے تو اس کو سہو کاتب سمجھنا چاہیے نہ غلطی حالانکہ جس جلدی سے یہ کتابیں لکھی گئی ہیں اگر اس کو ملحوظ رکھیں تو اپنے ظلمِ عظیمِ کے قائل ہوں اور ان تالیفات کو خارق عادت سمجھیں.قرآن شریف کے سوا کسی بشر کا کلام سہو اور غلطی سے خالی نہیں.بٹالوی صاحب خود قائل ہیں کہ لوگوں نے کلام امرء القیس اور حریری کی بھی غلطیاں نکالیں مگر کیا ایسا شخص جس نے اتفاقاً ایک غلطی پکڑی حریری یا امرء القیس کے مرتبہ پر شمار ہو سکتا ہے.ہرگز نہیں.نکتہ آوری مشکل ہے اور نکتہ چینی ایک ادنیٰ استعداد کا آدمی بلکہ ایک غبی محض کر سکتا ہے.ہماری طرف سے حمامۃ البشریٰ اور نور الحق کے بالمقابل رسالہ لکھنے کے لئے اخیر جون ۱۸۹۴ء تک میعاد تھی وہ گذرگئی.مگر کسی مولوی نے بالمقابل رسالہ لکھنے کی غرض سے انعام جمع

Page 512

کرانے کے لئے درخواست نہ بھیجی اور اب وہ وقت جاتا رہا.ہاں انہوں نے نکتہ چینی کے لئے جو ہمیشہ نالائق اور حاسد طبع لوگوں کا شیوہ ہے بہت ہاتھ َپیر مارے اور بعض خوش فہم آدمی چند سہو کاتب یاکوئی اتفاقی غلطی نکال کر انعام کے امیدوار ہوئے اور ذرّہ آنکھ کھول کر یہ بھی نہ دیکھا کہ فی غلطی انعام دینے کے لئے یہ شرط ہے کہ ایسا شخص اوّل بالمقابل رسالہ لکھے ورنہ حاسد نکتہ چین جو اپنا ذاتی سرمایہ علمی کچھ بھی نہیں رکھتے دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں ہیں کس کس کو انعام دیا جائے.چاہیے کہ اوّل مثلاً اس رسالہ سرّ الخلافہ کے مقابل پر رسالہ لکھیں اور پھر اگر ان کا رسالہ غلطیوں سے خالی نکلا اور ہمارے رسالہ کا بلاغت فصاحت میں ہم پلّہ ثابت ہوا تو ہم سے علاوہ انعام بالمقابل رسالہ کے فی غلطی دو روپیہ بھی لیں جس کے لئے ہم وعدہ کر چکے ہیں ورنہ یونہی نکتہ چینی کرنا حیا سے بعید ہو گا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی خاکسار غلام احمد (یہ اشتہار سرّ الخلافہ طبع اوّل کے ٹائیٹل پر اندرونی صفحہ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۱۶) ------------------------------

Page 513

 عام اطلاع کے لئے ایک اشتہار وہ تمام صاحب جنہوں نے شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی کے رسائل اشاعۃ السنہ دیکھے ہوں گے یا ان کے وعظ سنے ہوں گے یا ان کے خطوط پڑھے ہوں گے وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ شیخ صاحب موصوف نے اس عاجز کی نسبت کیا کچھ کلمات ظاہر فرمائے ہیں اور کیسے کیسے خودپسندی کے بھرے ہوئے کلمات اور تکبر میں ڈوبے ہوئے ترہات اُن کے منہ سے نکل گئے ہیں کہ ایک طرف تو انہوں نے اس عاجز کو کذاب اور مفتری قرار دیا ہے اور دوسری طرف بڑے زور اور اصرار سے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ مَیں اعلیٰ درجہ کا مولوی ہوں اور یہ شخص سراسر جاہل اور نادان اور زبانِ عربی سے محروم اور بے نصیب ہے اور شاید اس بکواس سے ان کی غرض یہ ہو گی کہ تا ان باتوں کا عوام پر اثر پڑے اور ایک طرف تو وہ شیخ بطالوی کو فاضل یگانہ تسلیم کر لیں اور اعلیٰ درجہ کا عربی دان مان لیں اور دوسری طرف مجھے اور میرے دوستوں کو یقینی طور پر سمجھ لیں کہ یہ لوگ جاہل ہیں اور نتیجہ یہ نکلے کہ جاہلوں کا اعتبار نہیں.جو لوگ واقعی مولوی ہیں انہیں کی شہادت قابل ِ اعتبار ہے.مَیں نے اس بیچارہ کو لاہور کے ایک بڑے جلسہ میں یہ الہام بھی سنا دیا تھا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کہ مَیں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کے درپَے ہو.مگر تعصب ایسا بڑھا ہوا تھا کہ یہ الہامی آواز اس کے کان تک نہ پہنچ سکی اس نے چاہا کہ قوم کے دلوں میں یہ بات جم جائے کہ یہ شخص ایک حرف عربی

Page 514

کا نہیں جانتا پر خدا نے اسے دکھلا دیا کہ یہ بات الٹ کر اسی پر پڑی.یہ وہی الہام ہے جو کہا گیا تھا کہ مَیں اُسی کو ذلیل کروں گا جو تیری ذ ّلت کے درپے ہو گا.سبحان اللہ کیسے وہ قادر اور غریبوں کا حامی ہے.پھر لوگ ڈرتے نہیں کیا یہ خدا تعالیٰ کا نشان نہیں کہ وہی شخص جس کی نسبت کہا گیا تھا کہ جاہل ہے اور ایک صیغہ تک اس کو معلوم نہیں وہ ان تمام مکفرّوں کو جو اپنا نام مولوی رکھتے ہیں بلند آواز سے کہتا ہے کہ میری تفسیر کے مقابل پر تفسیر بناؤ تو ہزار روپے انعام لواور نور الحق کے مقابل پر بناؤ تو پانچ ہزار روپیہ پہلے رکھا لو اور کوئی مولوی دم نہیں مارتا.کیا یہی مولو ّیت ہے جس کے بھروسہ سے مجھے کافر ٹھہرایا تھا.اَیُّہَا الشَّیْخ اب وہ الہام پورا ہوا یا کچھ کسر ہے.ایک دنیا جانتی ہے کہ مَیں نے اسی فیصلہ کی غرض سے اوراسی نیت سے کہ تا شیخ بطالوی کی مولو ّیت اور تمام کفر کے فتوے لکھنے والوں کی اصلیت لوگوں پر کھل جائے.کتاب کرامات الصادقین عربی میں تالیف کی اور پھر اس کے بعد رسالہ نور الحق بھی عربی میں تالیف کیا اور میں نے صاف صاف اشتہار دے دیا کہ اگر شیخ صاحب یا تمام مکفرّ مولویوں میںسے کوئی صاحب رسالہ کرامات الصادقین کے مقابل پر کوئی رسالہ تالیف کریں تو ایک ہزار روپیہ ان کو انعام ملے گا.اور اگر نور الحق کے مقابل پر رسالہ لکھیں تو پانچ ہزار روپیہ ان کو دیا جائے گا.لیکن وہ لوگ بالمقابل لکھنے سے بالکل عاجز رہ گئے.اور جو تاریخ ہم نے اس درخواست کے لئے مقرر کی تھی یعنی اخیر جون ۱۸۹۴ء وہ گذر گئی.شیخ صاحب کی اس خاموشی سے ثابت ہو گیا کہ وہ علم عربی سے آپ ہی بے بہرہ اور بے نصیب ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ اوّل درجہ کے دروغ گو اور کاذب اور بے شرم ہیں کیونکہ انہوںنے تو تقریراً و تحریراً صاف اشتہار دے دیا تھا کہ یہ شخص علم عربی سے محروم اور جاہل ہے یعنی ایک لفظ تک عربی سے نہیں جانتا تو پھر ایسے ضروری مقابلہ کے وقت جس میں اُن پر فرض ہو چکا تھا کہ وہ اپنی علمیت ظاہر کرتے کیوں ایسے چُپ ہو گئے کہ گویا وہ اس دنیا میں نہیں ہیں.خیال کرنا چاہیے کہ ہم نے کس قدر تاکید سے اُن کو میدان میں بلایا اور کن کن الفاظ سے اُن کو غیرت دلانا چاہا مگر انہوں نے اس طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا.ہم نے صرف اس خیال سے کہ شیخ صاحب کی عربی دانی کا دعویٰ بھی فیصلہ پا جائے

Page 515

رسالہ نور الحق میں یہ اشتہار دے دیا کہ اگر شیخ صاحب عرصہ تین ماہ میں اسی قدر کتاب تحریر کر کے شائع کر دیں اور وہ کتاب درحقیقت جمیع لوازم بلاغت و فصاحت والتزام حق اور حکمت میں نور الحق کے ثانی ہو تو تین ہزار روپیہ نقد بطور انعام شیخ صاحب کو دیا جائے گا اور نیز الہام کے جھوٹا ٹھہرانے کے لئے بھی ایک سہل اور صاف راستہ ان کو مل جائے گا اور ہزار لعنت کے داغ سے بھی بچ جائیں گے.ورنہ وہ نہ صرف مغلوب بلکہ الہام کے مصدق ٹھہریں گے.مگر شیخ صاحب نے ان باتوں میں سے کسی بات کی بھی پرواہ نہ کی اور کچھ بھی غیرت مندی نہ دکھلائی.اس کا کیا سبب تھا؟ بس یہی کہ یہ مقابلہ شیخ صاحب کی طاقت سے باہر ہے سو ناچار انہوں نے اپنی رسوائی کو قبول کر لیا اور اس طرف رخ نہ کیا یہ اسی الہام کی تصدیق ہے کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.شیخ صاحب نے منبروں پر چڑھ چڑھ کر صدہا آدمیوں میں صدہا موقعوں میں بار بار اِس عاجز کی نسبت بیان کیا کہ یہ شخص زبان عربی سے محض بے خبر اور علوم دین سے محض نا آشنا ہے ایک جاہل آدمی ہے اور کذّاب اور دجّال ہے اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ صدہا خط اسی مضمون کے اپنے دوستوں کو لکھے اور جابجا یہی مضمون شائع کیا اور اپنے جاہل دوستوں کے دلوں میں بٹھا دیا کہ یہی سچ ہے.سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اِس متکبر کا غرور توڑے اوراس گردن کش کی گردن کومروڑے اور اس کو دکھلاوے کہ کیونکر وہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے.سو اس کی توفیق اور مدد اور خاص اس کی تعلیم اور تفہیم سے یہ کتابیں تالیف ہوئیں اور ہم نے کرامات الصادقین اور نور الحق کے لئے آخری تاریخ درخواست مقابلہ کی اس مولوی اور تمام مخالفوں کے لئے اخیر جون ۱۸۹۴ء مقرر کی تھی جو گذرگئی اور اب دونوں کتابوں کے بعد یہ کتاب سرّ الخلافۃ تالیف ہوئی ہے جو بہت مختصر ہے اور نظم اس کی کم ہے اور ایک عربی دان شخص ایسا رسالہ سات دن میں بہت آسانی سے بناسکتا ہے اور چھپنے کے لئے دس دن کافی ہیں لیکن ہم شیخ صاحب کی حالت اور اس کے دوستوںکی کم مائیگی پر بہت ہی رحم کر کے دس دن اور زیادہ کر دیتے ہیں اور یہ ستائیس دن ہوئے سو ہم فی دن ایک روپیہ کے حساب سے ستائیس روپیہ کے انعام پر یہ کتاب شائع کرتے ہیں اور شیخ صاحب اور ان کے اِسمی مولویوں کی

Page 516

خدمت میں التماس ہے کہ اگر وہ اپنی سُوء قسمت سے ہزار روپیہ کا انعام لینے سے محروم رہے اور پھر پانچ ہزار روپیہ کا انعام پیش کیا گیا تو وہ وقت بھی اُن کی کم مائیگی کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے جاتا رہا.اور تاریخ درخواست گذر گئی اب وہ ستائیس روپیہ کو تو نہ چھوڑیں ہم نے سنا ہے کہ ان دنوں میں شیخ صاحب پر تنگدستی کی وجہ سے تکلیفات بہت ہیں.خشک دوستوں نے وفا نہیں کی.پس ان دنوں ۱؎ میں تو اُن کے لئے ایک روپیہ ایک اشرفی کا حکم رکھتا ہے گویا یہ ستائیس روپیہ ستائیس اشرفی ہیں جن سے کئی کام نکل سکتے ہیں اور ہم اپنے سچے دل سے اقرار کرتے ہیں کہ اگر رسالہ سرّ الخلافہ کے مقابل پر شیخ صاحب نے کوئی رسالہ میعاد مقررہ کے اندر شائع کردیا اور وہ رسالہ ہمارے رسالہ کا ہم پلّہ ثابت ہوا تو ہم نہ صرف ستائیس روپیہ ان کو دیں گے بلکہ یہ تحریری اقرار لکھ دیں گے کہ شیخ صاحب ضرور عربی دان اور مولوی کہلانے کے مستحق ہیں بلکہ آئندہ مولوی کے نام سے ان کو پکارا جائے گا.اور چاہیے کہ اب کے دفعہ شیخ صاحب ہمت نہ ہاریں.یہ رسالہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اور کچھ بھی چیز نہیں.اگر ایک ایک جُز روز گھسیٹ دیں تو صرف چار پانچ روز میں اس کو ختم کرسکتے ہیں.اور اگر اپنے وجود میں کچھ بھی جان نہیں تو اُن سو ڈیڑھ سو مولویوں سے مدد لیں جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے کے مسلمانوں کو کافر اور جہنم ابدی کی سزا کے لائق ٹھہرایا اور بڑے تکبر سے اپنے تئیں مولوی کے نام سے ظاہر کیا اگر وہ ایک ایک جزُ لکھ کر دیں تو شیخ صاحب بمقابل اس رسالہ کے ڈیڑھ سو جُز کا رسالہ شائع کر سکتے ہیں.لیکن اگر شیخ صاحب نے پھر بھی ایسا کرنہ دکھایا تو پھر بڑی بے شرمی ہو گی کہ آئندہ مولوی کہلاویںبلکہ مناسب ہے کہ آئندہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ بلوانے سے پرہیز کریں.شیخ کا نام آپ کے لئے کافی ہے جو باپ دادے سے چلا آتا ہے یا منشی کا نام بہت موزوں ہو گا.لیکن ابھی یہ بات قابل آزمائش ہے کہ آپ منشی بھی ہیں یا نہیں.منشی کے لئے ضروری ہے کہ فارسی نظم میں پوری دسترس رکھتا ہو مگر میری نظر سے اب تک آپ کا کوئی فارسی دیوان نہیں ۱؎ نوٹ.شیخ صاحب اپنے حال کے پرچہ میں اقراری ہیںکہ اگر ان کے دوستوں نے اب بھی ان کی مدد نہ کی تو وہ اس نوکری سے استعفا دے دیں گے.منہ

Page 517

گذرا.بہرحال اگر ہم رعایت اور چشم پوشی کے طور پر آپ کا منشی ہونا مان بھی لیں اور فرض کر لیں کہ آپ منشی ہیں گو منشیانہ لیاقتیں آپ میں پائی نہیں جاتیںتو چنداںحرج نہیں کیونکہ منشی گری کو ہمارے دین سے کچھ تعلق نہیں لیکن ہم کسی طرح مولوی کا خطاب ایسے نادانوں کو دے نہیں سکتے جن کو ہم پانچ ہزار روپیہ تک انعام دینا کریں تب بھی اُن کی مردہ روح میں کچھ قوت مقابلہ ظاہر نہ ہو ہزار لعنت کی دھمکی دیں کچھ غیرت نہ آوے تمام دنیا کو مددگار بنانے کے لئے اجازت دیں تب بھی ایک جھوٹے منہ سے بھی ہاں نہ کہیں ایسے لوگوں کو اگر مولوی کا لقب دیا جاوے تو کیا بجز مسلمانوں کے کافر بنانے کے کچھ اور بھی ان میں لیاقت ہے.ہرگز نہیں.چار حدیثیں پڑھ کرنام شیخ الکل‘ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فِتَنِ ھٰذَا الدَّھْرِ وَ اَھْلِھَا وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ جَھَلَاتِ الْجَاھِلِیْنَ.یہ بھی واضح رہے کہ ہر یک باحیا دشمن اپنی دشمنی میں کسی حد تک جا کر ٹھہر جاتا ہے اور ایسے جھوٹوں کے استعمال سے اُس کو شرم آ جاتی ہے جن کی اصلیت کچھ بھی نہ ہو.مگر افسوس کہ شیخ صاحب نے کچھ بھی اس انسانی شرم سے کام نہیں لیا جہاں تک ضرر رسانی کے وسائل اُن کے ذہن میں آئے انہوں نے سب استعمال کئے اور کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا.اوّل تو لوگوں کو اٹھایا کہ یہ شخص کافر ہے اور دجال ہے اس کی ملاقات سے پرہیز کرو اور جہاں تک ہو سکے اس کو ایذا ء دو اور ہر یک ظلم سے اس کو دکھ دو سب ثواب کی بات ہے.اور جب اس تدبیر میں ناکام رہے تو گورنمنٹ انگریزی کو مشتعل کرنے کے لئے کیسے کیسے جھوٹ بنائے کیسے کیسے مفتریات سے مدد لی لیکن یہ گورنمنٹ دور اندیش اور مردم شناس گورنمنٹ ہے.سکھوں کے قدم پر نہیں چلتی کہ دشمن اور خود غرض کے منہ سے ایک بات سن کر افروختہ ہو جائے بلکہ اپنی خداداد عقل سے کام لیتی ہے.سو گورنمنٹ دانشمند نے اس شخص کی تحریروں پر کچھ توجہ نہ کی اور کیونکر توجہ کرتی اس کو معلوم تھا کہ ایک خود غرض دشمن نفسانی جوش سے جھوٹی مخبری کر رہا ہے.گورنمنٹ کو اس عاجز کے خاندان کے خیر خواہ ہونے پر بصیرت کامل تھی اور گورنمنٹ خوب جانتی تھی کہ یہ عاجز عرصہ چودہ سال سے برخلاف ان تمام مولویوں کے بار بار یہ مضمون شائع کر رہا ہے کہ ہم لوگ جو گورنمنٹ برطانیہ کی رعیت ہیں ہمارے لئے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 518

حکم سے گورنمنٹ ھٰذا کے زیر اطاعت رہنا اپنافرض ہے اور بغاوت کرنا حرام.اور جو شخص بغاوت کا طریق اختیار کرے یا اس کے لئے کوئی مفسدانہ بنا ڈالے یا ایسے مجمع میں شریک ہو یا راز دار ہو تو وہ اللہ اور رسول کے حکم کی نافرمانی کر رہا ہے اور جو کچھ اس عاجز نے گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ بننے کے لئے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے وہ سب سچ ہے.نادان مولوی نہیں جانتے کہ جہاد کے واسطے شرائط ہیں سکھا شاہی لوٹ مار کا نام جہاد نہیں اور رعیت کو اپنی محافظ گورنمنٹ کے ساتھ کسی طور سے جہاد درست نہیں.اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ ایک گورنمنٹ اپنی ایک رعیت کے جان اور مال اور عزت کی محافظ ہو اور ان کے دین کے لئے بھی پوری پوری آزادی عبادات کے لئے دے رکھی ہولیکن وہ رعیت موقع پا کر اس گورنمنٹ کو قتل کرنے کے لئے تیارہو یہ دین نہیں بلکہ بے دینی ہے اور نیک کام نہیں بلکہ ایک بدمعاشی ہے.خدا تعالیٰ ان مسلمانوں کی حالت پررحم کرے کہ جو اس مسئلہ کو نہیں سمجھتے اور اس گورنمنٹ کے تحت میں ایک منافقانہ زندگی بسر کر رہے ہیں جو ایمانداری سے بہت بعید ہے.ہم نے سارا قرآن شریف تدبر سے دیکھا مگر نیکی کی جگہ بدی کرنے کی تعلیم کہیں نہیں پائی.ہاں یہ سچ ہے کہ اس گورنمنٹ کی قوم مذہب کے بارے میں نہایت غلطی پر ہے وہ اس روشنی کے زمانہ میں ایک انسان کو خدا بنا رہے ہیں اور ایک عاجز مسکین کو ربّ العالمین کا لقب دے رہے ہیں.مگر اس صورت میں تو وہ اور بھی رحم کے لائق اور راہ دکھانے کے محتاج ہیں کیونکہ وہ بالکل صراط مستقیم کو بھول گئے اور دور جا پڑے ہیں.ہم کو چاہیے کہ ان کے احسان یاد کر کے ان کے لئے جنابِ الٰہی میں دعا کریں کہ اے خداوند قادر ذوالجلال ان کو ہدایت بخش اور ان کے دلوں کو پاک توحید کے لئے کھول دے اور سچائی کی طرف پھیر دے تا وہ تیرے سچے اور کامل نبی اور تیری کتاب کو شناخت کر لیں اور دینِ اسلام ان کا مذہب ہو جائے.ہاں پادریوں کے فتنے حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں اور ان کی مذہبی گورنمنٹ ایک بہت شور ڈال رہی ہے مگر ان کے فتنے تلوار کے نہیں ہیں قلم کے فتنے ہیں سو اَے مسلمانوں تم بھی قلم سے اُن کا مقابلہ کرو اور حد سے مت بڑھو.خدا تعالیٰ کا منشاء قرآن شریف میں صاف پایا جاتا ہے کہ قلم کے مقابل پر قلم ہے اور تلوار کے مقابل پر تلوار.مگر کہیں

Page 519

نہیں سنا گیا کہ کسی عیسائی پادری نے دین کے لئے تلوار بھی اٹھائی ہو.پھر تلوار کی تدبیریں کرنا قرآن کریم کو چھوڑنا ہے بلکہ صاف بے راہی اور الٰہی ہدایت سے سرکشی ہے.جن میں روحانیت نہیں وہی ایسی تدابیریں کیا کرتے ہیں جو اسلام کا بہانہ کر کے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو سمجھ بخشے.افغانی مزاج کے آدمی اس تعلیم کو برُا مانیں گے مگرہم کو اظہار حق سے غرض ہے نہ ان کے خوش کرنے سے اور نہایت مضر اعتقاد جس سے اسلام کی روحانیت کو بہت ضرر پہنچ رہا ہے یہ ہے کہ یہ تمام مولوی ایک ایسے مہدی کے منتظر ہیں جو تمام دنیا کو خون میں غرق کر دے اور خروج کرتے ہی قتل کرنا شروع کر دے.اور یہی علامتیں اپنے فرضی مسیح کی رکھی ہوئی ہیں کہ وہ آسمان سے اترتے ہی تمام کافروں کو قتل کر دے گا اور وہی بچے گا جو مسلمان ہو جائے.ایسے خیالات کے آدمی کسی قوم کے سچے خیر خواہ نہیں بن سکتے بلکہ ان کے ساتھ اکیلے سفر کرنا بھی خوف کی جگہ ہے.شاید کسی وقت کافر سمجھ کر قتل نہ کر دیںاور اپنے اندر کے کفر سے بے خبر ہیں.یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے بیہودہ مسائل کو اسلام کی جُزو قرار دینا اورنعوذ باللہ قرآنی تعلیم سمجھنا اسلام سے ہنسی کرنا ہے اور مخالفوں کو ٹھٹھے کا موقعہ دینا ہے.کوئی عقل اس بات کو تجویز نہیں کر سکتی کہ کوئی شخص آتے ہی بغیر اتمام حجت کے لوگوں کوقتل کرنا شروع کر دے.یا جس گورنمنٹ کے تحت میں زندگی بسر کرے اسی کی تباہی کی گھات میں لگا رہے.معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی روحیں بکلّی مسخ ہو چکی ہیں اور انسانی ہمدردی کی خصلتیں بتمامہا ان کے اندر سے مسلوب ہوگئی ہیں یا خالقِ حقیقی نے پیدا ہی نہیں کیں.خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے.نامعلوم کہ ہمارے اس بیان سے وہ لوگ کس قدر جلیں گے اور کیسے منہ مروڑ مروڑ کر کافر کہیں گے مگر ہمیں ان کی اس تکفیر کی کچھ پرواہ نہیں.ہر ایک شخص کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.ہمیں قرآن شریف کی کسی آیت میں یہ تعلیم نظر نہیں آتی کہ بے اتمام حجت مخالفوں کو قتل کرنا شروع کر دیا جاوے.ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس تک کفاّر کے جور و جفا پر صبر کیا.بہت سے دکھ دیئے گئے دم نہ مارا.بہت سے اصحاب اور عزیز قتل کئے گئے ایک ذرا مقابلہ نہیں کیا اور دکھوں سے پیسے گئے مگر سوائے صبر کے کچھ نہیں کیا.آخر جب کفار کے ظلم حد سے بڑھ

Page 520

گئے اور انہوں نے چاہا کہ سب کو قتل کر کے اسلام کو نابود ہی کر دیں تب خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو اُن بھیڑیوں کے ہاتھ سے مدینہ میں سلامت پہنچا دیا.حقیقت میں وہی دن تھا کہ جب آسمان پر ظالموں کو سزا دینے کے لئے تجویز ٹھہر گئی ؎ تا دلِ مرد خُدا نامد بدرد ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد۱؎ مگر افسوس کہ کافروں نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ قتل کے لئے تعاقب کیا اور کئی چڑھائیاں کیں اور طرح طرح کے دکھ پہنچائے.آخر وہ خدا تعالیٰ کی نظرمیں اپنے بے شمار گناہوں کی وجہ سے اس لائق ٹھہر گئے کہ اُن پر عذاب نازل ہو.اگران کی شرارتیں اس حد تک نہ پہنچتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز تلوار نہ اٹھاتے مگر جنہوں نے تلواریں اٹھائیں اور خدا تعالیٰ کے حضور میں بے باک اور ظالم ثابت ہوئے وہ تلواروں سے ہی مارے گئے.غرض جہاد نبوی کی یہ صورت ہے جس سے اہلِ علم بے خبر نہیں اور قرآن میں یہ ہدایتیں موجود ہیں کہ جو لوگ نیکی کریں تم بھی ان کے ساتھ نیکی کرو.جو تمہیں پناہ دیں اُن کے شکر گذار بنے رہو اورجو لوگ تمہیں دکھ نہیں دیتے ان کو تم بھی دکھ مت دو.مگر اِس زمانہ کے مولویوں کی حالت پر افسوس ہے کہ وہ نیکی کی جگہ بدی کرنے کو تیار ہیں اور ایمانی روحانیت اور انسانی رحم سے خالی.اَللّٰھُمَّ اصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.اٰمین (یہ اشتہار سِرُّ الْخِلَافَہ مطبوعہ ریاض ہند امرتسر محرم ۱۳۱۲ھ صفحہ ۶۸ تا ۷۴ سے نقل کیا گیا ہے) (روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۹۸ تا ۴۰۵) ------------------------------ ۱؎ ترجمہ.جب تک کسی اللہ والے کا دل نہیں کڑھتا.خدا کسی قوم کو ذلیل نہیں کرتا.

Page 521

 محمّدؐ عربی کآبرویٔ ہر دو سراست کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سرِ او ۱؎ فتح اسلام  ۲ ؎ واضح ہو کہ وہ پیشگوئی جو امرت سر کے عیسائیوں کے ساتھ مباحثہ ہوکر ۵؍ جون ۱۸۹۳ء میں کی گئی تھی جس کی آخری تاریخ ۵ ؍ستمبر ۱۸۹۴ء تھی وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ اور حکم کے موافق ایسے طور سے اور ایسی صفائی سے میعاد کے اندر پوری ہوگئی کہ ایک منصف اور دانا کو بجز اس کے ماننے اور قبول کرنے کے کچھ بن نہیں پڑتا ہاں ایک متعصب اور احمق یا جلد باز جو ان واقعات اور حوادث کو یکجائی نظر سے دیکھنا نہیں چاہتا جو پیشگوئی کے بعد فریق مخالف میں ظہور میں آئی اور الہامی الفاظ کی پیروی نہیں کرتا بلکہ اپنے دل کی آرزوئوں کی پیروی کرتا ہے اس کی مرض نادانی لاعلاج ہے اور اگر وہ ٹھوکر کھائے تو اس کی پست فطرتی اور ُحمق اور سادہ لوحی اس کا موجب ہوگی.ورنہ کچھ شک نہیں کہ فتح اسلام ہوئی اور عیسائیوں کو ذ ّلت اور ہاویہ نصیب ہوگیا.پیشگوئی کے الفاظ یہ تھے کہ دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے.وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس ۱؎ ترجمہ.محمد عربی ؐ جو دونوں جہاں کی عزت ہے جو شخص اس کے در کی خاک نہیں بنا اس کے سر پر خاک.

Page 522

کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب پیشگوئی ظہور میں آئے گی بعض اندھے سوجاکھے کئے جاویں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے.اب یاد رہے کہ پیشگوئی میں فریق مخالف کے لفظ سے جس کے لئے ہاویہ یا ذلت کا وعدہ تھا ایک گروہ مراد ہے.جو اس بحث سے تعلق رکھتا تھا خواہ خود بحث کرنے والا تھا یا معاون یا حامی یا سرگروہ تھا.ہاں مقدم سب سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم تھا کیونکہ وہی دوسرے عیسائیوں کی طرف سے منتخب ہوکر پندرہ دن جھگڑتا رہا مگر درحقیقت اس لفظ کے حصہ دار دوسرے معاون اور محرک اور ان کے سرگروہ بھی تھے کیونکہ عرفاًفریق اس تمام گروہ کا نام ہے جو ایک کام بالمقابل کرنے والا یا اس کام کا معاون یا اس کام کا بانی یا مجوز یا حامی ہو اور پیشگوئی کی کسی عبارت میں یہ نہیں لکھا گیا کہ فریق سے مراد صرف عبداللہ آتھم ہے.ہاں میں نے جہاں تک الہام کے معنے سمجھے وہ یہ تھے کہ جو شخص اس فریق میں سے بالمقابل باطل کی تائید میں بنفس خود بحث کرنے والا ہے اس کے لئے ہاویہ سے مراد سزائے موت ہے لیکن الہامی لفظ صرف ہاویہ ہے اور ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ حق کی طرف رجوع کرنے والا نہ ہو.اور حق کی طرف رجوع نہ کرنے کی قید ایک الہامی شرط ہے جیسا کہ میں نے الہامی عبارت میں صاف لفظوں میں اس شرط کو لکھا تھا اور یہ بات بالکل سچ اور یقینی اور الہام کے مطابق ہے کہ اگر مسٹرعبد اللہ کا دل جیسا کہ پہلے تھا ویسا ہی توہین اور تحقیر اسلام پر قائم رہتا اور اسلامی عظمت کو قبول کر کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی حصہ نہ لیتا تو اسی میعاد کے اندر اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا لیکن خدا تعالیٰ کے الہام نے مجھے جتلا دیا کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم نے اسلام کی عظمت اور اس کے رعب کو تسلیم کر کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کسی قدر حصہ لے لیا جس حصہ نے اس کے وعدہ موت اور کامل طور کے ہاویہ میں تاخیر ڈال دی اور ہاویہ میں تو گِرا لیکن اُس بڑے ہاویہ سے تھوڑے دنوں کے لئے بچ گیا جس کا نام موت ہے اور یہ ظاہر ہے کہ الہامی لفظوں اور شرطوں میں سے کوئی ایسا لفظ یا شرط نہیں ہے جو بے تاثیر ہو یا جس کا کسی قدر موجود ہو جانا اپنی تاثیر پیدا نہ کرے.لہٰذا ضرور تھا کہ

Page 523

جس قدر مسٹر عبد اللہ آتھم کے دل نے حق کی عظمت کو قبول کیا اس کا فائدہ اس کو پہنچ جائے سو خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کیا اور مجھے فرمایا اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَغَمِّہٖ.وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا.وَ لَا تَعْجَبُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ وَ بِعِزَّتِیْ وَ جَلَالِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی.وَ نُمَزِّقُ الْاَعْدَآئَ کُلَّ مُمَزَّقٍ.وَ مَکْرُ اُولٰٓئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ.اِنَّا نَکْشِفُ السِرَّ عَنْ سَاقِہٖ.یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمَؤْمِنُوْنَ.ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.وَ ھٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا.ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے ہم و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی جب تک کہ وہ بیباکی اور سخت گوئی اور تکذیب کی طرف میل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھلا دے (یہ معنے فقرہ مذکورہ کے تفہیم الٰہی سے ہیں) اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے اور تو رباّنی سنتوں میں تغیر اور تبدل نہیں پائے گا.اس فقرہ کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ایسے کامل اسباب پیدا نہ ہوجائیں جو غضب ِ الٰہی کو مشتعل کریں اور اگر دل کے کسی گوشہ میں بھی کچھ خوفِ الٰہی مخفی ہو اور کچھ دھڑکہ شروع ہو جائے تو عذاب نازل نہیں ہوتا اور دوسرے وقت پر جا پڑتا ہے اور پھر فرمایا کہ کچھ تعجب مت کرو اور غمناک مت ہو اور غلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر قائم رہو.یہ اس عاجز کی جماعت کو خطاب ہے اور پھر فرمایا کہ مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ تو ہی غالب ہے (یہ اس عاجز کو خطاب ہے) اور پھر فرمایا کہ ہم دشمنوں کو پارہ پارہ کر دیں گے یعنی ان کو ذلت پہنچے گی اور ان کا مکر ہلاک ہو جائے گا.اس میں یہ تفہیم ہوئی کہ تم ہی فتح یاب ہو نہ دشمن اور خدا تعالیٰ بس نہیں کرے گا اور نہ باز آئے گا جب تک دشمنوں کے تمام مکروں کی پردہ دری نہ کرے اور ان کے مکر کو ہلاک نہ کردے یعنی جو مکر بنایا گیا اور مجسم کیا گیا اس کو توڑ ڈالے گا اور اس کو مردہ کر کے پھینک دے گا اور اس کی لاش لوگوں کو دکھا دے گا اور پھر فرمایا کہ ہم اصل بھید کو اس کی پنڈلیوں میں سے ننگا کر کے دکھا دیں گے یعنی حقیقت کو کھول دیں گے اور فتح کے دلائل بینہ ظاہر کریں گے اور اس دن مومن خوش ہوں گے پہلے مومن بھی اور پچھلے مومن بھی اور پھر فرمایا کہ وجہ مذکورہ سے عذاب موت کی تاخیر ہماری سنت ہے جس کو ہم نے

Page 524

موت کی تاخیر ہماری سنت ہے جس کو ہم نے ذکر کر دیا اب جو چاہے وہ راہ اختیار کر لے جو اس کے رب کی طرف جاتی ہے.اس میں بدظنی کرنے والوں پر زجر اور ملامت ہے اور نیز اس میں یہ بھی تفہیم ہوئی ہے کہ جو سعادت مند لوگ ہیں اور جو خدا ہی کو چاہتے ہیں اور کسی بخل اور تعصب یا جلدبازی یا سوء فہم کے اندھیرے میں مبتلا نہیں وہ اس بیان کو قبول کریں گے اور تعلیم الٰہی کے موافق اس کو پائیں گے لیکن جو اپنے نفس اور اپنی نفسانی ضد کے پیرو یا حقیقت شناس نہیں وہ بیباکی اور نفسانی ظلمت کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کریں گے.الہام الٰہی کا ترجمہ معہ تفہیمات الٰہیہ کے کیا گیا جس کا ماحصل یہی ہے کہ قدیم سے الٰہی سنت اسی طرح پر ہے کہ جب تک کوئی کافر اور منکر نہایت درجہ کا بے باک اور شوخ ہوکر اپنے ہاتھ سے اپنے لئے اسباب ہلاکت پیدا نہ کرے تب تک خدا تعالیٰ تعذیب کے طور پر اس کو ہلاک نہیں کرتا اور جب کسی منکر پر عذاب نازل ہونے کا وقت آتا ہے تو اس میں وہ اسباب پیدا ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے اس پر حکم ہلاکت لکھا جاتا ہے عذاب الٰہی کے لئے یہی قانون قدیم ہے اور یہی سنت مستمرہ اور یہی غیرمتبدل قاعدہ کتاب الٰہی نے بیان کیا ہے اور غور کرنے سے ظاہر ہو گا کہ جو مسٹر عبد اللہ آتھم کے بارہ میں یعنی سزائے ہاویہ کے بارہ میں الہامی شرط تھی وہ درحقیقت اسی سنت اللہ کے مطابق ہے.کیونکہ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے ‘لیکن مسٹر عبد اللہ آتھم نے اپنی مضطربانہ حرکات سے ثابت کردیا کہ اس نے اس پیشگوئی کو تعظیم کی نظر سے دیکھا جو الہامی طور پر اسلامی صداقت کی بنیاد پر کی گئی تھی اور خدا تعالیٰ کے الہام نے بھی مجھ کو یہی خبر دی کہ ہم نے اس کے ہم اور غم پر اطلاع پائی.یعنی وہ اسلامی پیشگوئی سے خوفناک حالت میں پڑا اور اس پر رُعب غالب ہوا.اس نے اپنے افعال سے دکھا دیا کہ اسلامی پیشگوئی کا کیسا ہولناک اثر اس کے دل پر ہوا اور کیسی اس پر گھبراہٹ اور دیوانہ پن اور دل کی حیرت غالب آگئی اور کیسے الہامی پیشگوئی کے رُعب نے اس کے دل کو ایک کچلا ہوا دل بنا دیا یہاں تک کہ وہ سخت بے تاب ہوا اور شہر بشہر اور ہر ایک جگہ ہراساں اور ترساں پھرتا رہا اور اس مصنوعی خدا پر اس کا توکل نہ رہا جس کو خیالات کی کجی اور ضلا لت

Page 525

کی تاریکی نے الوہیت کی جگہ دے رکھی ہے وہ کتوں سے ڈرا اور سانپوں کا اس کو اندیشہ ہوا اور اندر کے مکانوں سے بھی اس کو خوف آیا.اس پر خوف اور وہم اور دلی سوزش کا غلبہ ہوا اور پیشگوئی کی پوری ہیبت اس پر طاری ہوئی اور وقوع سے پہلے ہی اس کا اثر اس کو محسوس ہوا اور بغیر اس کے کہ کوئی امرت سر سے اس کو نکالے آپ ہی ہراساں اور ترساں اور پریشان اور بیتاب ہوکر شہر بشہر بھاگتا پھرا اور خدا نے اس کے دل کا آرام چھین لیا اور پیشگوئی سے سخت متاثر ہوکر سراسیموں اور خوف زدوں کی طرح جابجا بھٹکتا پھرا اور الہام الٰہی کا رعب اور اثر اس کے دل پر ایسا مستولی ہوا کہ اس کی راتیں ہولناک اور دن بے قراری سے بھر گئے اور حق کی مخالفت کی حالت میں جو جو دہشتیں اور قلق اس شخص پر وارد ہوتا ہے جو یقین رکھتا ہے یا ظن رکھتا ہے کہ شاید عذاب ِالٰہی نازل ہو جائے.یہ سب علامتیں اس میں پائی گئیں اور وہ عجیب طور پر اپنی بے چینی اور بے آرامی جابجا ظاہر کرتا رہا اور خدا تعالیٰ نے ایک حیرت ناک خوف اور اندیشہ اس کے دل میں ڈال دیا کہ ایک پات کا کھڑکا بھی اس کے دل کو صدمہ پہنچاتا رہا اور ایک کتے کے سامنے آنے سے بھی اس کو ملک الموت یاد آیا اور کسی جگہ اس کو چین نہ پڑا اور ایک سخت ویرانے میں اس کے دن گذرے اور سراسیمگی اور پریشانی اور بیتابی اور بے قراری نے اس کے دل کو گھیر لیا.اور ڈرانے والے خیال رات دن اس پر غالب رہے اور اس کے دل کے تصوروں نے عظمت اسلامی کو رد نہ کیا بلکہ قبول کیا اس لئے وہ خدا جو رحیم و کریم اور سزا دینے میں دھیما ہے اور انسان کے دل کے خیالات کو جانچتا اور اس کے تصورات کے موافق اس سے عمل کرتا ہے اس نے اس کو اس صورت پر نہ پایا جس صورت میں فی الفور کامل ہاویہ کی سزا یعنی موت بلا توقف اس پر نازل ہوتی اور ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب اس وقت تک تھما رہے جب تک کہ وہ بے باکی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا کرے اور الہام الٰہی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کے آنے کا وعدہ تھا نہ مطلق بلا شرط وعدہ لیکن خدا تعالیٰ نے دیکھا کہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے اپنے دل کے تصورات سے اور اپنے افعال سے اور اپنی حرکات سے اور اپنے خوف شدید سے اور اپنے ہولناک اور ہراساں دل

Page 526

سے عظمت اسلامی کو قبول کیا اور یہ حالت ایک رجوع کرنے کی قسم ہے جو الہام کے استثنائی فقرہ سے کسی قدر تعلق رکھتی ہے کیونکہ جو شخص عظمت اسلامی کو رد نہیں کرتا بلکہ اس کا خوف اس پر غالب ہوتا ہے وہ ایک طور سے اسلام کی طرف رجوع کرتا ہے اور اگرچہ ایسا رجوع عذاب آخرت سے بچا نہیں سکتا مگر عذاب دنیوی میں بے باکی کے دنوں تک ضرور تاخیر ڈال دیتا ہے یہی وعدہ قرآن کریم اور بائبل میں موجود ہے اور جو کچھ ہم نے مسٹر عبد اللہ آتھم کی نسبت اور اس کے دل کی حالت کے بارہ میں بیان کیا یہ باتیں بے ثبوت نہیں بلکہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے اپنے تئیں سخت مصیبت زدہ بناکر اور اپنے تئیں شداید غربت میں ڈال کر اور اپنی زندگی کو ایک ماتمی پیرایہ پہنا کر اور ہر روز خوف اور ہر اس کی حرکات صادر کر کے اور ایک دنیا کو اپنی پریشانی اور دیوانہ پن دکھلا کر نہایت صفائی سے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اس کے دل نے اسلامی عظمت اور صداقت کو قبول کر لیا.کیا یہ بات جھوٹ ہے کہ اس نے پیشگوئی کے رعب ناک مضمون کو پورے طور پر اپنے پر ڈال لیا اور جس قدر ایک انسان ایک سچی اور واقعی بلا سے ڈر سکتا ہے اسی قدر وہ اس پیشگوئی سے ڈرا اس کا دل ظاہری حفاظتوں سے مطمئن نہ ہو سکا اور حق کے رعب نے اس کو دیوانہ سا بنا دیا سوخدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اس کو ایسی حالت میں ہلاک کرے کیونکہ یہ اس کے قانون قدیم اور سنت قدیمہ کے مخالف ہے.اور نیز یہ الہامی شرط سے مغائر اور برعکس ہے اور اگر الہام اپنی شرائط کو چھوڑ کر اور طور پر ظہور کرے تو گو جاہل لوگ اس سے خوش ہوں مگر ایسا الہام الہام الٰہی نہیں ہو سکتا اور یہ غیر ممکن ہے کہ خدا اپنی قرار دادہ شرطوں کو بھول جائے کیونکہ شرائط کا لحاظ رکھنا صادق کے لئے ضروری ہے اور خدا اصدق الصادقین ہے.ہاں جس وقت مسٹر عبد اللہ آتھم اس شرط کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور اپنے لئے اپنی شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو وہ دن نزدیک آجائیں گے اور سزائے ہاویہ کامل طور پر نمودار ہوگی اور پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی.اور توجہ سے یاد رکھنا چاہیے کہ ہاویہ میں گرائے جانا جو اصل الفاظ الہام ہیں وہ عبد اللہ آتھم نے اپنے ہاتھ سے پورے کئے اور جن مصائب میں اس نے اپنے تئیں ڈال لیا اور جس طرز سے

Page 527

مسلسل گھبراہٹوں کا سلسلہ اس کے دامن گیر ہوگیا اور ہول اور خوف نے اس کے دل کو پکڑ لیا یہی اصل ہاویہ تھا اور سزائے موت اس کے کمال کے لئے ہے جس کا ذکر الہامی عبارت میں موجود بھی نہیں بے شک یہ مصیبت ایک ہاویہ تھا جس کو عبد اللہ آتھم نے اپنی حالت کے موافق بھگت لیا لیکن وہ بڑا ہاویہ جو موت سے تعبیر کیا گیا ہے اس میں کسی قدر مہلت دی گئی کیونکہ حق کا رعب اس نے اپنے سر پر لے لیا.اس لئے وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں اس شرط سے کسی قدر فائدہ اٹھانے کا مستحق ہو گیا جو الہامی عبارت میں درج ہے اور ضرور ہے کہ ہر ایک امر کا ظہور اسی طور سے ہو جس طور سے خدا تعالیٰ کے الہام میں وعدہ ہوا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس ہمارے بیان میں وہی شخص مخالفت کرے گا جس کو مسٹر عبد اللہ آتھم کے ان تمام واقعات پر پوری اطلاع نہ ہوگی اور یا جو تعصب اور بخل اور سیہ دلی سے حق پوشی کرنا چاہتا ہے.اور اگر عیسائی صاحبان اب بھی جھگڑیں اور اپنی مکارانہ کارروائیوں کو کچھ چیز سمجھیں یا کوئی اور شخص اس میں شک کرے تو اس بات کے تصفیہ کے لئے کہ فتح کس کو ہوئی آیا اہل اسلام کو جیسا کہ درحقیقت ہے یا عیسائیوں کو جیسا کہ وہ ظلم کی راہ سے خیال کرتے ہیں تو میں ان کی پردہ دری کے لئے مباہلہ کے لئے طیار ہوں اگر وہ دروغ گوئی اور چالاکی سے باز نہ آئیں تو مباہلہ اس طور پر ہوگا کہ ایک تاریخ مقرر ہوکر ہم فریقین ایک میدان میں حاضر ہوں اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کھڑے ہوکر تین مرتبہ ان الفاظ کا اقرار کریں کہ اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رعب ایک طرفۃ العین کے لئے بھی میرے دل پر نہیں آیا اور میں اسلام اور نبی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ناحق پر سمجھتا رہا اور سمجھتا ہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسیٰ کی ابنیت اور الوہیت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتا ہوں اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پروٹسٹنٹ کے عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلاف واقعہ کہا ہے اور حقیقت کو چھپایا ہے تو اے خدائے قادر مجھ پر ایک برس میں عذاب موت نازل کر.اس دعا پر ہم آمین کہیں گے اور اگر دعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ ۱؎ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو بطور تاوان کے دیں گے چاہیں تو ۱؎ نوٹ.ہم اقرار کرتے ہیں کہ یہ ہزار روپیہ باضابطہ تحریر لینے کے بعد پہلے دے دیں گے.یہ قطعی اقرار ہے-منہ

Page 528

پہلے کسی جگہ جمع کرا لیں اور اگر وہ ایسی درخواست ۱؎ نہ کریں تو یقیناً سمجھو کہ وہ کاذب ہیں اور غلو کے وقت اپنی سزا پائیں گے.ہمیں صاف طور پر الہاماً معلوم ہوگیا ہے کہ اس وقت تک عذاب موت ٹلنے کا یہی باعث ہے کہ عبد اللہ آتھم نے حق کی عظمت کو اپنی خوف ناک حالت کی وجہ سے قبول کر کے ان لوگوں سے کسی درجہ پر مشابہت پیدا کر لی ہے جو حق کی طرف رجوع کرتے ہیں اس لئے ضرور تھا کہ ان کو کسی قدر اس شرط کا فائدہ ملتا اور اس امر کو وہ لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ جو ان کے حالات پر غور کریں اور ان کی تمام بے قراریوں کو ایک جگہ میزان دے کر دیکھیں کہ کہاں تک پہنچ گئی تھیں کیا وہ ہاویہ تھا یا کچھ اور تھا اور اگر کوئی ناحق انکار کرے تو اس کے سمجھانے کے لئے وہ قطعی فیصلہ ہے جو میں نے لکھ دیا ہے تاسیہ روئے شود ہرکہ دروغش باشد.ہم اپنے مخالفین کو یقین دلاتے ہیں کہ یہی سچ ہے ہاں یہی سچ ہے.اور ہم پھر مکرر لکھتے ہیں کہ ضرور مسٹر عبد اللہ آتھم نے کسی قدر ہاویہ کی سزا بھگت لی ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ قطرب اور مانیا کے مقدمات بھی ان کے دماغ کو نصیب ہوگئے ہیں جن کی طرف الہام الٰہی کا ہم اشارہ پاتے ہیں اور جس کے نتائج عنقریب کھلیں گے کسی کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتے پس اے حق کے طالبو یقیناً سمجھو کہ ہاویہ میں گرنے کی پیشگوئی پوری ہوگئی اور اسلام کی فتح ہوئی اور عیسائیوں کو ذلت پہنچی.ہاں اگر مسٹر عبد اللہ آتھم اپنے پر جزع فزع کا اثر نہ ہونے دیتا اور اپنے افعال سے اپنی استقامت دکھاتا اور اپنے مرکز سے جگہ بجگہ بھٹکتا نہ پھرتا اور اپنے دل پر وہم اور خوف اور پریشانی غالب نہ کرتا بلکہ اپنی معمولی خوشی اور استقلال میں ان تمام دنوں کو گذارتا تو بے شک کہہ سکتے تھے کہ وہ ہاویہ میں گرنے سے دور رہا مگر اب تو اس کی یہ مثال ہوئی کہ قیامت دیدہ ام پیش از قیامت اس پر وہ غم کے پہاڑ پڑے جو اس نے اپنی تمام زندگی میں ان کی نظیر نہیں دیکھی تھی.پس کیا یہ سچ نہیں کہ وہ ان تمام دنوں میں درحقیقت ہاویہ میں رہا اگر تم ایک طرف ہماری پیشگوئی کے الہامی الفاظ پڑھو اور ایک طرف اس کے ان مصائب کو جانچو جو اس پر وارد ہوئے تو تمہیں کچھ بھی اس بات میں شک نہیں رہے گا کہ وہ بے شک ہاویہ میں گرا ضرور گرا اور اس کے دل ۱؎ نوٹ.درخواست کے لیے روز اشاعت سے یعنی بذریعہ اشتہار پہنچنے کے بعد ایک ہفتہ کی میعاد ہے.

Page 529

پروہ رنج اور غم اور بدحواسی وارد ہوئی جس کو ہم آگ کے عذاب سے کچھ کم نہیں کہہ سکتے.ہاں اعلیٰ نتیجہ ہاویہ کا جو ہم نے سمجھا اور جو ہماری تشریحی عبارت میں درج ہے یعنی موت وہ ابھی تک حقیقی طور پر وارد نہیں ہوا کیونکہ اس نے عظمت اسلام کی ہیبت کو اپنے دل میں دھنسا کر الٰہی قانون کے موافق الہامی شرط سے فائدہ اٹھا لیا مگر موت کے قریب قریب اس کی حالت پہنچ گئی اور وہ درد اور دکھ کے ہاویہ میں ضرور گرا اور ہاویہ میں گرنے کا لفظ اس پر صادق آگیا پس یقینا سمجھو کہ اسلام کو فتح حاصل ہوئی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ بالا ہوا اور کلمہ اسلام اونچا ہوا اور عیسائیت نیچے گری.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ یہ تو مسٹر عبد اللہ آتھم کا حال ہوا مگر اس کے باقی رفیق بھی جو فریق بحث کے لفظ میں داخل تھے اور جنگِ مقدس کے مباحثہ سے تعلق رکھتے تھے خواہ وہ تعلق اعانت کا تھا یا بانی کار ہونے کا یا مجوز بحث یا حامی ہونے کا یا سرگروہ ہونے کا ان میں سے کوئی بھی اثر ہاویہ سے خالی نہ رہا اور ان سب نے میعاد کے اندر اپنی اپنی حالت کے موافق ہاویہ کا مزہ دیکھ لیا.چنانچہ اوّل خدا تعالیٰ نے پادری رائٹ کو لیا جو دراصل اپنے رتبہ اور منصب کے لحاظ سے اس جماعت کا سرگروہ تھا اور وہ عین جوانی میں ایک ناگہانی موت سے اس جہان سے گذر گیا اور خدا تعالیٰ نے اُس کی بے وقت موت سے ڈاکٹر مارٹین کلارک اور ایسا ہی اس کے دوسرے تمام دوستوں اور عزیزوں اور ماتحتوں کو سخت صدمہ پہنچایا ۱؎ اور ماتمی کپڑے پہنا دیئے اور اس کی بے وقت موت نے ان کو ایسے دکھ اور درد میں ڈالا جو ہاویہ سے کم نہ تھا اور ایسا ہی پادری ہاول بھی ایسی سخت بیماری میں پڑا کہ ایک مدت کے بعد مر مر کے بچا اور ۱؎ فٹ نوٹ.پادری رائٹ صاحب کی وفات پر جو افسوس گرجا میں ظاہر کیا گیا.اس میں عیسائیوں کی مضطربانہ اور خوف زدہ حالت کا نظارہ مفصلہ ذیل الفاظ سے آئینہ دل میں منقش ہوسکتا ہے جو اس وقت پریچر کے مرعوب اور مغضوب دل سے نکلے اور وہ یہ ہیں.آج رات خدا کے غضب کی لاٹھی بے وقت ہم پر چلی اور اس کی خفیہ تلوار نے بے خبری میں ہم کو قتل کیا و بس.رائٹ صاحب امرتسر کے آنریری مشنری تھے اور علاوہ ازیں پادری فورمین لاہور میں مرے.

Page 530

پادری عبداللہ بھی سخت بیماریوں کے ہاویہ میں گرا اور معلوم نہیں کہ بچا یا گذر گیا اور جہاں تک ہمیں علم ہے ان میں سے کوئی بھی ماتم اور مصیبت یا ذلت اور رسوائی سے خالی نہ رہا اور نہ صرف یہی بلکہ انہیں دنوں میں خدا تعالیٰ نے ایک خاص طور پر سخت ذلت اور رسوائی ان کو پہنچائی جس سے تمام ناک کٹ گئی اور وہ لوگ مسلمانوں کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے کیونکہ َمیں نے خدا تعالیٰ سے توفیق پاکر عیسائی پادریوں کی علمی قلعی کھولنے کے لئے اور اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے کہ قرآن اور اسلام پر حملہ کرنے کے لئے زبان دانی کی ضرورت ہے اور یہ لوگ زبان عربی سے بے بہرہ ہیں.ایک کتاب جس کا نام نور الحق ہے عربی فصیح میں تالیف کی اور عماد الدین اور دوسرے تمام باقی پادریوں کو رجسٹری کرا کر خط بھیجے گئے کہ اگر عربی دانی کا دعویٰ ہے جو اسلامی مسائل میں خوض کرنے اور قرآنی فصاحت پر حملہ کرنے کے لئے ضروری ہے تو اس کتاب کے مقابل پر ایسا ہی عربی میں کتاب بنا ویں اور پانچ ہزار روپیہ انعام پاویں اور اگر انعام کے بارہ میں شک ہو تو پانچ ہزار روپیہ پہلے جمع کرا دیں.اور یہ بھی لکھا گیا کہ اسلامی صداقت کا یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہے اگر اس کو توڑ دیں اور عربی میں ایسی کتاب بلیغ فصیح بناویں تو انعام مذکور بلاتامل ان کو ملے گا جس جگہ چاہیں اپنی تسلی کے لئے روپیہ جمع کرا لیں اور بالمقابل کتاب بنانے کی حالت میں نہ صرف انعام بلکہ آئندہ تسلیم کیا جائے گا کہ درحقیقت وہ اپنے دعوے کے موافق مولوی ہیں اور ان کو حق پہنچتا ہے کہ قرآن شریف کی فصاحت بلاغت پر اعتراض کریں اور نیز وہ بالمقابل کتاب بنانے سے ہمارے الہام کا کذب بھی بڑے سہل طریق سے ثابت کر دیں گے اور اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو پھر ثابت ہوگا کہ وہ جھوٹ اور افتراء سے اپنے تئیں مولوی نام رکھتے ہیں اور درحقیقت جاہل اور نادان ہیں اور نیز اس صورت میں وہ ہزار لعنت بھی ان پر پڑے گی جو رسالہ نور الحق کے چار صفحوں میں بلکہ کچھ زیادہ میں صرف اس غرض سے لکھی گئی ہے کہ اگر یہ پادری لوگ بالمقابل رسالہ نہ بنا سکیں اور نہ اپنے تئیں مولوی اور عربی دان کہلانے سے باز آویں اور نہ قرآن کی اعجازی فصاحت پر حملہ کرنے سے رکیں تو یہ ہزار لعنت ان پر قیامت تک ہے لیکن باوجود ان سخت لعنتوں کے جو مرنے سے کروڑہا درجہ بدتر ہیں پادری عماد الدین

Page 531

اور دوسرے تمام پنجاب اور ہندوستان کے عیسائی جو مولوی کہلاتے اور عربی دان ہونے کا دم مارتے تھے جو اب لکھنے سے عاجز رہ گئے اور باوجود اس کے اپنے ناجائز حملوں سے باز نہ آئے بلکہ انہیں دنوں میں پادری عماد الدین نے شرم اور حیا کو علیحدہ رکھ کر قرآن شریف کا ترجمہ چھاپا اور اپنی طرف سے اس پر نوٹ لکھے اور اس ہزار لعنت کا پہلا وارث اپنے تئیں بنایا اور جیسا کہ مباحثہ کی پیشگوئی میں درج تھا کہ اس فریق کو سخت ذلت پہنچے گی جو عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے ویسا ہی وہ تمام ذلت اور رسوائی ان نادان پادریوں کے حصہ میں آئی اور آئندہ کسی کے آگے منہ دکھانے کے قابل نہ رہے اور ہم لکھ چکے ہیں کہ یہ سب لوگ فریق بحث میں داخل اور مسٹر عبد اللہ آتھم کے معین اور حامی تھے بلکہ بحث کے بعد بھی یہ لوگ خیانت کے طور پر اخباروں کے کالم سیاہ کرتے رہے.اب دانا سوچ لے کہ ہریک کو ہاویہ ان میں سے نصیب ہوا یا کچھ کسر رہ گئی اور ہم اس جگہ ہریک دانا اور روشن دل کو انصاف کے لئے منصف بناتے ہیں کہ کیا اس قدر ذلت اور رسوائی ہاویہ کا نمونہ ہے یا نہیں اور کیا وہ ذلت جس کا الہامی عبارت میں وعدہ تھا اس سے یہ لوگ بچ سکے یا پورا پورا حصہ لیا.یہ خدا کا فعل ہے کہ اس نے بعد پیشگوئی کے ہریک پہلو سے ان لوگوں کو ملزم کیا اور سب پر پیشگوئی کو جال کی طرح ڈال دیا بعض کو اسرائیلی قوم کے نافرمانوں کی طرح دن رات کے دھڑکہ اور خوف اور ہول کے گڑھے میں دھکیل دیا جیسے مسٹر عبد اللہ آتھم کہ خدا تعالیٰ نے اس کے دل پر وہم کو مستولی کر دیا اور وہ قوم یہود کی طرح جان کے ڈر سے جابجا بھٹکتا پھرا اور دیوانہ پن کے حالات ان میں پیدا ہوگئے اور اس کے حواس اڑ گئے اور قطرب اور مانیا کی بیماری کا بہت سا حصہ اس کو دیا گیا اور اس کے دماغ کی صحت جاتی رہی اور ہوش میں فرق آیا اور ہر وقت موت سامنے دکھائی دی اور اس نے اس قدر خوف اور ڈر اور ہول کو اپنے دل میں جگہ دی کہ عظمت اسلام پر مہر لگا دی اور اپنے اس خوف اور دھڑکہ کو شہر بشہر لئے پھرا اور ہزاروں کو اس بات پر گواہ بنا دیا کہ اس کے دل نے اسلام کی بزرگی اور صداقت کو قبول کر لیا ہے.یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ وہ اس لئے شہر بشہر بھاگتا پھرا کہ مسلمانوں کے قتل کرنے سے ڈرتا تھا کیونکہ امرت سر کی پولیس کا کچھ ناقص اور ادھورا انتظام نہ تھا تاوہ لدھانہ کی

Page 532

پولیس کی پناہ لیتا اور پھر لدھانہ میں کسی نے اس پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا تاوہ فیروز پور کی طرف بھاگتا.پس اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اسلامی ہیبت کی وجہ سے اس شخص کی طرح ہوگیا جو قطرب کی بیماری میں مبتلا ہو اور حقاّنی عظمت نے اس کے دماغ پر بہت کچھ کام کیا جس کی وہ برداشت نہ کر سکا اور خدا تعالیٰ نے اس کو اس غم میں ایک سودائی کی طرح پایا پس اُس نے اپنے الہامی وعدوں کے موافق اس وقت تک اس کو تاخیر دی جب تک وہ اپنی بے باکی کی طرف رجوع کرکے بدزبانی اور توہین اورگستاخی کی طرف میل کرے اور شوخی اور بے باکی کے کاموں کی طرف قدم آگے رکھ کر اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کی غیرت کا محرک ہو اور اگر کوئی انکار کرے کہ ایسا نہیں اور وہ اسلامی عظمت سے نہیں ڈرا تو اس پر واجب ہوگا کہ اس ثبوت کے لئے مسٹر عبد اللہ آتھم کو اس اقرار اور حلف کے لئے آمادہ کرے جس سے ایک ہزار روپیہ بھی اس کو ملے گا ورنہ ایسے شخص کا نام بجز نادان متعصب کے اور کیا رکھ سکتے ہیں.کیا یہ بات سچائی کے کھولنے کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے صرف عبداللہ آتھم کے حالات پیش نہیں کئے مگر ہزار روپیہ کا اشتہار بھی دے دیا اور یاد رکھو کہ وہ اس اشتہار کی طرف رخ نہیں کرے گا کیونکہ کاذب ہے اور اپنے دل میں خوب جانتا ہے کہ وہ اس خوف سے مرنے تک پہنچ چکا تھا اور یاد رہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم میں کامل عذاب کی بنیادی اینٹ رکھ دی گئی ہے اور وہ عنقریب بعض تحریکات سے ظہور میں آجائے گی.خدا تعالیٰ کے تمام کام اعتدال اور رحم سے ہیں اور کینہ ور انسان کی طرح خواہ نخواہ جلد باز نہیں اور اس کی تلوار ڈرنے والے دل پر نہیں چلتی بلکہ سخت اور بے باک پر اور وہ اپنے لفظ لفظ کا پاس کرتا ہے.پس جس حالت میں الہامی عبارت میں مدعا یہ تھا کہ حق کی طرف کسی قدر جھکنے کی حالت میں موت وارد نہیں ہوسکتی بلکہ موت اسی حالت میں ہوگی کہ جب کہ بے باکی اور شوخی میں زیادتی کرے تو پھر کیونکر ممکن تھا کہ مسٹر عبد اللہ آتھم پر ایسے دنوں میں موت آجاتی جبکہ اس نے اپنے مضطربانہ افعال سے ایک جہان کو دکھا دیا کہ عظمت اسلام اس کے دل پر سخت اثر کر رہی ہے اس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ جس دل پر اسلامی پیشگوئی کی عظمت بہت ہی غالب ہوگئی گو اس دل نے اپنے نفسانی تعلقات کی وجہ سے اپنے مذہب کو

Page 533

چھوڑنا نہ چاہا.مگر بے شک اُس کے دل نے حق کی تعظیم کرکے رجوع کرنے والوں میں اپنے تئیں شامل کر لیا.بلکہ ایسا ڈرا کہ بہت سے عام مسلمان بھی ایسا نہیں ڈرتے غلبۂ خوف نے اس کو سودائی سا بنا دیا سو خدا تعالیٰ کے کمال رحم نے یہ ادنیٰ فائدہ اس سے دریغ نہ کیا کہ ہاویہ کی کامل سزا میں الہامی شرط کے موافق تاخیر ڈال دی گو ہاویہ کی سزا سے بچ نہ سکا مگر کامل سزا سے بچ گیا.جس قدر خدا تعالیٰ نے اس پر رعب ڈال دیا یہ وہ امر ہے جو اس زمانہ کے صفحہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.اور ہم مکرر لکھتے ہیں کہ اس کا ثبوت اس نے اپنی خوف زدہ حالت سے آپ دے دیا اور اگر کوئی متعصب اب بھی شک کرے تو پھر دوسرا معیار وہی ہے جو کہ ہم لکھ چکے ہیں اور ہم زور سے کہتے ہیں کہ مسٹر عبد اللہ آتھم اس مقابلہ کی طرف رجوع نہیں کرے گا کیونکہ وہ اپنے دل کے حالات سے بے خبر نہیں اور اس کا دل گواہی دے گا کہ ہمارا الہام سچا ہے گو وہ اس بات کو ظاہر نہ کرے مگر اس کا دل اس بیان کا مصدق ہوگا لیکن اگر دنیا کی ریاکاری سے اس مقابلہ پر آئے گا تو پھر الٰہی عذاب کامل طور سے رجوع کرے گا اور ہم حق پر ہیں اور دنیا دیکھے گی کہ ہماری یہ باتیں صحیح ہیں یا نہیں اور ہم لکھ چکے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ بھی دکھا دیا کہ فریق مخالف جو بحث کرنے والے یا ان کے حامی یا بانی کار یا مجوز تھے کوئی بھی ان میں سے مس ِّ عذاب سے نہیں بچا جیسا کہ ہم ابھی تفصیل کر چکے ہیں یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے مبارک وہ جو اس کے تمام پہلوئوں کو سوچیں اور اپنے نفسوں پر ظلم نہ کریں.ہم بے ثبوت کسی پر جبر کرنا نہیں چاہتے بلکہ یہ واقعات آفتاب کی طرح روشن ہیں اور ہم غور کرنے کے لئے سب کے آگے رکھتے ہیں اور اگر کوئی ایسا ہی اندھا ہو جو کچھ سمجھ نہ سکے تو ہم نے اس اشتہار میں اس کے لئے ایک ایسا معیار جدید مقرر کر دیا ہے جو بڑی صفائی سے اس کو مطمئن کرسکتا ہے بشرطیکہ فطرتی فہم اور انصاف سے حصہ رکھتا ہو اور تعصب کی تاریکی کے نیچے دبا ہوا نہ ہو اور نہ عقل سے بے بہرہ ہو.نوٹ.یہ ثابت ہے کہ یہ عاجز کسی جگہ کا بادشاہ نہ تھا بلکہ قوم کا متروک اور مسلمانوں کی نظر میں کافر اور اپنے چال چلن کے رو سے کوئی خونریز اور ڈاکو نہیں تھا.پھر اس قدر دہشت کہاں سے پڑ گئی.اگریہ خوف حق نہیں تھا تو اور کیا تھا-

Page 534

اور مسلمان مخالفوں کو چاہیے جو خدا تعالیٰ سے ڈریں اور تعصب اور انکار میں دوسری قوموں کے شریک نہ بن جائیں کیونکہ دوسری قومیں خدا تعالیٰ کی سنتوں اور عادتوں سے ناواقف ہیں اور اس کے ابتلائوں اور آزمائشوں سے بے خبر مگر اسلامی تعلیم پانے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ کیونکر خدا تعالیٰ پیشگوئیوں میں اپنی شرائط کی رعایت رکھتا ہے بلکہ بعض وقت خدا تعالیٰ ایسی شرائط کا بھی پابند ہوتا ہے جو پیشگوئیوں میں بتصریح بیان نہیں کی گئی تاکہ اپنے بندوں کی آزمائش کرے اور بعض وقت یہ آزمائش بہت ہی دقیق ہوتی ہے جو بظاہر عدم ایفاء وعدہ سے مشابہت رکھتی ہے.جیسا کہ اس بحث کو سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب کے انیسویں مقالہ صفحہ ۱۱۵، اور نیز دوسرے مقامات میں بیان کیا ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی کتاب فیوض الحرمین کے صفحہ ۷۴ میں اسی بحث کو بہت بسط سے لکھا ہے.تحقیق کرنے والے ان مقامات کو دیکھیں اور غور کریں لیکن یہ پیشگوئی تو صریح فتح کے آثار اپنے ساتھ رکھتی ہے چاہیے کہ لوگ تعصب کو الگ کر کے سوچیں کہ کیا کیا آثار نمایاں اس پیشگوئی کے ظاہر ہوگئے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ فریق مخالف پر یعنی اس سارے گروہ پر جو جو حادثے پڑے وہ اتفاقی ہیں اور خدا تعالیٰ کے ارادے کے بغیر ظاہر ہوگئے ہیں.اے مسلمانو! برائے خدا اس میں غور کرو اور ان میں حصہ نہ لو جن کی آنکھیں تعصب سے جاتی رہیں جن کے دل مارے بخل کے موٹے ہو گئے.ہماری پیشگوئی خدا تعالیٰ نے جہاں تک الہامی الفاظ اور شرائط اس کے ذمہ دار تھے بہت صفائی سے پوری کر دی.اب وہ رسّہ جو ہم نے دروغ گو نکلنے کی حالت میں اپنے لئے تجویز کیا تھا ان عیسائیوں کے گلے میں پڑ گیا جن پر یہ قضاوقدر نازل ہوئی اور اس رسّہ کے وہ نادان بھی شریک ہیں جو سمجھنے والا دل نہیں رکھتے اور تعصب نے ان کو اندھا کر دیا.بے شک فتح اسلام ہوئی اور نصاریٰ کو ہر طرف سے ذلت اور رسوائی پہنچی.خدا تعالیٰ کی آواز نے اس فتح کو روشن کر کے دکھا دیا اور آئندہ اور بھی اپنے فضل و کرم سے دکھائے گا.مگر عیسائی لوگ شیطانی منصوبہ اور شیطانی آواز سے چاہتے ہیں کہ فتح کا دعویٰ کریں لیکن خدا ان کے مکر کو پاش پاش کر دے گا

Page 535

ضرور تھا کہ وہ ایسا دعویٰ کرتے کیونکہ آج سے تیرہ سو برس پہلے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے جس کا ماحصل اور مدعا یہ ہے کہ اس مہدی موعود کے وقت جو آخری زمانہ میں آنے والا ہے مہدی کے گروہ اور عیسائیوں کا ایک مباحثہ واقعہ ہوگا اور آسمانی آواز یعنی آسمانی نشانوں اور علامتوں اور قرائن سے یہ ثابت ہوگا کہ اَلْحَقُّ مَعَ آلِ مُحَمَّدٍ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگ جو آل کی طرح اور اس کے وارث ہیں حق پر ہیں اور شیطانی مکائد سے جابجا یہ آواز آئے گی کہ اَلْحَقُّ مَعَ آلِ عِیْسٰی یعنی جو عیسیٰ کے لوگ کہلاتے ہیں وہ حق پر ہیں مگر آخر خدا تعالیٰ کھول کر دکھلا دے گا کہ آل محمد ہی حق پر ہے اور دین اسلام ہی کی فتح ہے.سو اَے مخالف لوگو دانستہ اپنے تئیں ہلاک مت کرو حق اسلام کے ساتھ ہے اور ہوگا مبارک وہ دل جو باریک سمجھ رکھتے ہیں اور تعصب اور بخل کے گڑھے میں نہیں گرتے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشتھر خاکسار غلام احمداز قادیان.گورداسپور مورخہ ۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء (یہ اشتہار انوار الاسلام طبع اوّل کے صفحہ ۱ تا صفحہ ۱۲ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱ تا ۱۳) ------------------------------

Page 536

  فتح اسلام کے بارے میں مختصر تقریر امرتسر کے مباحثہ میں جو عیسائیوں کے ساتھ ہوا تھا.اس میں جو ہم نے پیشگوئی کی تھی.اس کے دو حصے تھے.۱.اوّل یہ کہ فریق مخالف جو حق پر نہیں.ہاویہ میں گرے گا.اور اس کو ذلت پہنچے گی.۲.دوسری یہ کہ اگر حق کی طرف رجوع کرے گا تو ذلت اور ہاویہ سے بچ جائے گا.اب ہم فریق مخالف کی اس جماعت کا پیچھے سے حال بیان کریں گے جنہوں نے بنفس خود بحث نہیں کی بلکہ معاون یا حامی یا سرگروہ ہونے کی حیثیت سے اس فریق میں داخل تھے.اور پہلے ہم مختصر الفاظ میں مسٹر عبد اللہ آتھم کا حال بیان کرتے ہیں جو فریق مخالف سے خاص مباحثہ کے لئے اس فریق کی طرف سے تجویز کئے گئے تھے ان کی نسبت الہامی فقرہ یعنی ہاویہ کے لفظ کی تشریح ہم نے یہ کی تھی کہ اس سے موت مراد ہے بشرطیکہ حق کی طرف وہ رجوع نہ کریں.اب ہمیں خدا تعالیٰ نے اپنے خاص الہام سے جتلا دیا کہ انہوں نے عظمت اسلام کا خوف اور ہم اور غم اپنے دل میں ڈال کر کسی قدر حق کی طرف رجوع کیا.جس سے وعدہ موت میں تاخیر ہوئی کیونکہ ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے دل میں لحاظ رکھتا اور وہی رحیم اور کریم خدا ہے جس نے اپنی کتاب مقدس میں فرمایا ہے کہ    ۱؎ یعنی جو شخص ایک ذرہ بھر بھی نیک کام کرے وہ بھی ضائع نہیں ہوگا.اور ضرور اس کا اجر پائے گا.سو مسٹر عبد اللہ آتھم نے الہامی شرط کے موافق کسی قدر ؎ الزلزال : ۸

Page 537

اسلامی سچائی کی طرف جھکنے سے اپنا اجر پالیا.ہاں جب پھر بے باکی اور سخت گوئی اور گستاخی کی طرف میل کرے گا تو وہ وعدہ ضرور اپنا کام کرے گا.اس ہمارے وعدے کا ثبوت اگر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے اپنی خوفناک حالت اور وہم اور سراسیمگی اور شہر بشہر بھاگتے پھرنے سے آپ دکھا دیا لیکن ہم اپنی فتح یابی کا قطعی فیصلہ کرنے کے لئے اور تمام دنیا کو دکھانے کے لئے کہ کیونکر ہم کو فتح نمایاں حاصل ہوئی.یہ سہل اور آسان طریقِ تصفیہ پیش کرتے ہیں کہ اگر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے نزدیک ہمارا یہ بیان بالکل کذب اور دروغ اور افترا ہے تو وہ مردِ میدان بن کر اس اشتہار کے شائع ہونے سے ایک ہفتہ ۱؎ تک ہماری مفصلہ ذیل تجویز کو قبول کر کے ہم کو اطلاع دیں.اور تجویز یہ ہے کہ اگر اس پند۱۵رہ مہینہ کے عرصہ میں کبھی ان کو سچائی اسلام کے خیال نے دل پر ڈرانے والا اثر نہیں کیا اور نہ عظمت اور صداقت الہام نے گرداب غم میں ڈالا اور نہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اسلامی توحید کو انہوں نے اختیار کیا اور نہ ان کو اسلامی پیشگوئی سے دل میں ذرہ بھی خوف آیا اور نہ تثلیث کے اعتقاد سے وہ ایک ذرہ متزلزل ہوئے تو وہ فریقین کی جماعت کے روبرو تین مرتبہ انہیں باتوں کا انکار کریں کہ میں نے ہرگز ایسا نہیں کیا.اور عظمت اسلام نے ایک لحظہ کے لئے بھی دل کو نہیں پکڑا اور میں مسیح کی ابنیّت اور الوہیّت کا زور سے قائل رہا اور قائل ہوں اور دشمن اسلام ہوں.اور اگر میں جھوٹ بولتا ہوں.تو میرے پر ایک ہی برس کے اندر وہ ذلت کی موت اور تباہی آوے جس سے یہ بات خلق اللہ پر کھل جائے کہ میں نے حق کو چھپایا.جب مسٹر آتھم صاحب یہ اقرار کریں تو ہر ایک مرتبہ کے اقرار میں ہماری جماعت آمین کہے گی.تب اسی وقت ایک ہزار روپیہ کا بدرہ باضابطہ تمسک لے کر ان کو دیا جائے گا اور وہ تمسک ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عماد الدین کی طرف سے بطور ضمانت کے ہوگا جس کا یہ مضمون ہوگا کہ یہ ہزار روپیہ بطور امانت مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے پاس رکھا گیا.اور اگر وہ حسب اقرار اپنے کے ایک سال کے اندر فوت ہوگئے تو اس روپیہ کو ہم ۱؎ نوٹ.ایک ہفتہ کی میعاد تھوڑی نہیں بلکہ بہت ہے کیونکہ امرتسر سے قادیان میں دوسرے دن خط پہنچ جاتا ہے اور ہر چند اس قدر میعاد دینا مصلحت کے برخلاف ہے کیونکہ جو فریق درحقیقت شکست یافتہ ہے وہ انہیں چند روز میں سادہ لوحوں کو دھوکہ دے کر ہزاروں کو ورطہ ضلالت میں ڈال سکتا ہے مگر اتمامًا للحجّۃ یہ وسیع میعاد دی گئی ہے.۱۲

Page 538

دونوں ضامن بلا توقف واپس دے دیں گے اور واپس کرنے میں کوئی عذر اور حیلہ نہ ہوگا.اور اگر وہ انگریزی مہینوں کے رو سے ایک سال کے اندر فوت نہ ہوئے تو یہ روپیہ ان کا مِلک ہو جائے گا.اور ان کی فتح یابی کی ایک علامت ہوگی.اور اگر ہمارا رجسٹری شدہ اشتہار پاکر جو ان کے نام اور ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب کے نام ہوگا.تاریخ وصول سے ایک ہفتہ تک انہوں نے اس مقابلہ کے لئے درخواست نہ کی تو سمجھا جائے گا کہ فتح اسلام پر انہوں نے مہر لگا دی.اور ہمارے الہام کی تصدیق کر لی.یہ فیصلہ ہے جو خدا تعالیٰ اپنے سچے بندوں کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے کرے گا.اور جھوٹ کے منصوبہ کو نابود کردے گا اور دروغ کے پتلے کو پاش پاش کر دے گا.اور اس اقرار کے لئے ہم مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کو یہ تکلیف نہیں دیتے ہیں کہ وہ امرتسر میں ہمارے مکان پر آویں.بلکہ ہم ان کے بلانے کے بعد معہ ہزار روپیہ کے ان کے مکان پر آویں گے اور ان کے بلانے کی تاریخ سے ہمیں اختیار ہوگا کہ تین ہفتہ تک کسی تاریخ میں روپیہ لے کر ان کے پاس معہ اپنی جماعت کے حاضر ہوجائیں اور ان پر واجب ہوگا کہ ہمارے بلانے کے لئے رجسٹری شدہ خط بھیجیں پھر ہم اطلاع پاکر تین ہفتہ کے اندر معہ ہزار روپیہ کے حاضر نہ ہوں تو بلاشبہ وعدہ خلاف کرنے والے اور کاذب ٹھہریں گے اور ہم خود ان کے مکان پر آئیں گے اور ان کو کسی قدم رنجہ کی تکلیف نہ دیں گے ہم ان کو اتنی بھی تکلیف نہیں دیں گے کہ اس اقرار کے لئے کھڑے ہو جائیں یا بیٹھ جائیں.بلکہ وہ بخوشی اپنے بستر پر ہی لیٹے رہیں.اور تین مرتبہ وہ اقرار کر دیں جو لکھ دیا گیا ہے.اور ہم ناظرین کو مکرر یاد دلاتے ہیں کہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کی نسبت ہماری پیشگوئی کے دو پہلو تھے یعنی یا تو ان کی موت اور یا ان کا حق کی طرف رجوع کرنا اور رجوع کرنا دل کا فعل ہے جس کو خلقت نہیں جانتی اور خدا تعالیٰ جانتا ہے اور خلقت کے جاننے کے لئے یہ فیصلہ ہے جو ہم نے کر دیا اور خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نے مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو اس بات کی طرف تحریک نہ دی کہ وہ اس اثناء میں بدزبانی اور سخت گوئی کو کمال تک پہنچا کر موت کے اسباب اپنے لئے جمع کرتے بلکہ ان کے دل میں عظمت اسلام کا خوف ڈال دیا تاوہ اس شرط سے فائدہ اٹھا لیں جو رجوع کرنے والوں کے لئے الہامی الفاظ میں لکھے گئے

Page 539

تھے اور خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ عیسائیوں کو کچھ عرصہ تک جھوٹی خوشی پہنچاوے اور پھر وہ فیصلہ کرے جس سے درحقیقت اندھے آنکھیں پائیں گے اور بہروں کے کان کھلیں گے اور مردے زندے ہوں گے اور بخیل اور حاسد سمجھیں گے کہ انہوں نے کیسی غلطی کی.امرت سر کے عیسائی اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ خداوند مسیح نے مسٹر عبد اللہ آتھم کو بچا لیا.سو اب اگر وہ اپنے تئیں سچے خیال کرتے ہیں تو ان پر واجب ہے کہ مقابلہ سے ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر وہ مصنوعی خدا اُن کا درحقیقت بچانے والا ہی ہے تو ضرور اس آخری فیصلہ پر بچالے گا کیونکہ اگر موت وارد ہوگئی تو سب عیسائیوں کی روسیاہی ہے چاہیے کہ اپنے اس مصنوعی خداوند پر توکل کر کے اپنی پیٹھ نہ دکھلاویں.لیکن یاد رکھیں کہ ہرگز ان کو فتح نہیں ہوگی جو شخص آپ فوت ہوگیا ہے وہ دوسرے کو فوت ہونے سے کب روک سکتا ہے.روکنے والا ایک ہے جو حیّ قـیّوم ہے جس کے ہم پر ستار ہیں.یہ تو ہم نے مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کا حال بیان کیا.جو فریق مخالف سے بحث کے لئے منتخب کئے گئے تھے.لیکن اس جگہ سوال یہ ہے کہ اس فریق مخالف میں سے جو لوگ بطور معاون یا حامی یا سرگروہ تھے ان کا کیا حال ہوا انہوں نے بھی کچھ ہاویہ کا مزا چکھا ہے یا نہیں تو جواب یہ ہے کہ ضرور چکھا اور میعاد کے اندر ہر ایک نے کامل طور سے چکھا.چنانچہ پادری رائٹ صاحب جو بطور سرگروہ تھے.میعاد کے اندر عین جوانی میں اس دنیا سے کوچ کر گئے اور مسٹرعبداللہ آتھم صاحب اپنی مصیبت میں رہے غالباً وہ ان کے جنازہ پر بھی حاضر نہیں ہوسکے.ڈاکٹر مارٹن کلارک کے دل کو ان کی بے وقت موت کا ایسا صدمہ پہنچا کہ بس مجروح کردیا.اور فریق مخالف کے گروہ میں سے جو بطور معاونوں کے تھے ان میں سے ایک پادری ٹامس ہاول تھا جس نے بار بار محرف کتابوں کو پڑھ کر اپنا حلق پھاڑا اور لوگوں کا مغز کھایا.وہ مباحثہ کے بعد ہی ایسا پکڑا گیا اور ایسی سخت بیماری میں مبتلا ہوا کہ مر مر کے بچا اور ایک معاون عبد اللہ پادری تھا جو چپکے چپکے قرآن شریف کی آیتیں دکھاتااور عبرانی کے ٹوٹے پھوٹے حرف پڑھتا تھا.اس کو بھی میعاد کے اندر سخت بیماری نے موت تک پہنچایا.اور معلوم نہیں کہ بچایا گزر گیا.باقی رہا پادری عمادالدین اس کے گلے میں ہزار لعنت کی ذلت کا لمبا رسہ پڑا جو نور الحق کے جواب سے عاجز ہونے

Page 540

سے اس کو اور اس کے تمام بھائیوں کو نصیب ہوا.اب فرمایئے اس تمام فریق میں سے ہاویہ سے کون بچا کسی ایک کا تو نشان دیں.ہمارے یہ ثبوت ہیں جو ہم نے لکھ دیئے.بالآخر ہم یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر اب بھی کوئی مولوی مخالف جو اپنی بدبختی سے عیسائی مذہب کا مددگار ہو یا کوئی عیسائی یا ہندو یا آریہ یا کیسوں والا سکھ ہماری فتحِ نمایاں کا قائل نہ ہو تو اس کے لئے طریق یہ ہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو قسم مقدم الذکر کے کھانے پر آمادہ کرے اور ہزار روپیہ نقد ان کو دلا دے جس کے دینے میں ہم ان کے حلف کے بعد ایک منٹ کے توقف کا بھی وعدہ نہیں کرتے اور اگر ایسا نہ کرے اور محض اوباشوں اور بازاری بدمعاشوں کی طرح ٹھٹھا ہنسی کرتا پھرے تو سمجھا جائے گا کہ وہ شریف نہیں بلکہ اس کی فطرت میں خلل ہے سو اگر بجز اس تحقیق کے تکذیب کرے تو وہ کاذب ہے اور لَعْنَۃُاللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنکا مصداق.اور اگر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے پاس جانے کے لئے اس کو کچھ مسافت طے کرنی پڑتی ہے تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے خرچ سے اس کے لئے یکّہ یا ٹٹویا ڈولی جو کچھ چاہے مہیا کر دیں گے اور اگر وہ ہندو ہے یا کیسوں والا سکھ یا کوئی اور غیر مذہب والا ہے تو اس کی غذا کے لئے بھی ہم نقد دے دیں گے.یہ نہایت صفائی کا فیصلہ ہے اور کسی حلال زادہ کا کام نہیں جو بغیر رعایت اس فیصلہ کے ہم کو جھوٹا اور شکست خوردہ قرار دے یا بازاروںمیں ٹھٹھا یا ہنسی کرتا پھرے اور بغلیں بجاتا پھرے ہاں جو لوگ ناجائز طور کی عداوت رکھتے ہیں.وہ ناجائز تہمتوں کا طومار باندھ کر ناحق اسلام کے دشمن بن جاتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ اسلام کا خدا سچا خدا ہے.جو نہ کسی عورت کے پیٹ سے نکلا اور نہ کبھی بھوکا اور پیاسا ہوا وہ ان سب تہمتوں سے پاک ہے جو اس کی نسبت کوئی خیال کرے کہ ایک مدت تک اس کی خدائی کا انتظام درست نہ تھا اور نجات دینے کی کوئی راہ اور سبیل اسے نہیں ملتی تھی.یہ تو مدت کے بعد گویا ساری عمر بسر کر کے سوجھی کہ مریم سے اپنا بیٹا پیدا کرے اور مریم کی پیدائش سے پہلے یہ کفاّرہ کی تدبیر اس کے خیال میں نہ گذری اور نہ کامل خدا کی نسبت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ صرف نام ہی کا پرمیشر ہے ورنہ سب کچھ جیو اور پر کرتی وغیرہ آپ ہی آپ قدیم سے ہے.نہیں بلکہ وہ قادر مطلق اور کل کا خالق ہے.

Page 541

اور اگر کوئی سوال کرے کہ اس میں کیا بھید ہے کہ پیشگوئی کے دو پہلو میں سے موت کے پہلو کی طرف خدا تعالیٰ نے مسٹر عبد اللہ آتھم کے لئے رخ نہ کیا اور دوسرا پہلو لے لیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ موت کا پہلو مجروح اور تختہ مشق اعتراضات ہوگیا تھا.کوئی کہتا تھا کہ مرنا کیا نئی بات ہے.ایک ڈاکٹر صاحب پہلے موت کا فتویٰ دے چکے ہیں کہ چھ مہینہ تک فوت ہو جاوے گا اور کوئی کہتا تھا کہ بڈھا ہے کوئی کہتا تھا کمزور ہے موت کیا تعجب ہے.کوئی کہتا تھا کہ جادو سے مار دیں گے یہ شخص بڑا جادوگر ہے سو خدائے حکیم و علیم نے دیکھا کہ معترضوں نے اس پہلو کو بہت کمزور اور مشکوک کردیا ہے.اور خیالات پر سے اس کا اثر اٹھا دیا ہے اس لئے دوسرا پہلو اختیار کیا اور اس پہلو سے جادو کا گمان کرنے والے بھی شرمندہ ہوں گے کیونکہ دلوں کو حق کی طرف پھیرنا جادوگروں کا کام نہیں بلکہ خدا اور اس کے نبیوں اور رسولوں کا کام ہے سو اس وقت تک خدا تعالیٰ نے مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کی موت کو ان وجوہات سے ٹال دیا اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے دل پر عظمت اسلام کا رعب ڈال کر پہلو ثانی سے اس کو حصہ دے دیا لیکن اب عیسائیوں کی راہیں بدل گئیں اور بھولا بسرا خداوند مسیح کہیں سے نکل آیا یہ ان زبانوں پر جاری ہوگیا کہ خداوند مسیح بڑا ہی قادر خدا ہے جس نے مسٹر عبد اللہ آتھم کو بچا لیا اس لئے ضرور ہوا کہ خدا تعالیٰ اس مصنوعی خدا کی حقیقت دنیا پر ظاہر کرے کہ کیا یہ عاجز انسان جس کا نام رَبُّنَا الْمَسِیْح رکھا گیا کسی کو موت سے بچا سکتا ہے.سو اب موت کے پہلو کا وقت آگیا اب ہم دیکھیں گے کہ عیسائیوں کا خدا کہاں تک طاقت رکھتا ہے اور کہاں تک اس مصنوعی خدا پر ان لوگوں کا توکل ہے اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور جواب کے منتظر ہیں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی المشتھر خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۹؍ستمبر ۱۸۹۴ء (یہ اشتہار انوار الاسلام طبع اوّل میں بطور ضمیمہ کے چار صفحوں پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۵۵ تا ۶۲)

Page 542

 فتح اسلام فتح اسلام فتح اسلام اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ مرتبہ دوم یہ دو ہزار روپیہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کے حلف پر بلاتوقف ان کے حوالہ کیا جاویگا دو ہزار کا اشتہار  دو ہزار کا اشتہار اَلْحَقُّ مَعَ اٰلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہم نے ۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کے اشتہار میں لکھا تھا کہ آتھم صاحب نے ایام پیشگوئی میں ضرور حق کی طرف رجوع کر لیا اور اسلام کی عظمت کا اثر اپنے دل پر ڈال لیا.اگر یہ سچ نہیں تو وہ نقد ایک ہزارروپیہ لیں اور قسم کھا لیں کہ انہوں نے اس خوف کے زمانہ میں رجوع نہیں کیا.چنانچہ اسی حقیقت کو خلق اللہ پر ظاہر کرنے کے لئے تین رجسٹری شدہ خط ۱؎ آتھم صاحب اور ڈاکٹر مارٹن کلارک اور ۱؎ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کی طرف خط.مسٹر آتھم صاحب آپ کو معلوم ہے کہ کس قدر جھوٹے بے ایمانوں، نام کے مسلمان یا مولوی یا عیسائیوں نے یہ خلاف واقع خبر اڑا دی ہے کہ آپ نے باوجود یہ کہ خدا تعالیٰ کے سچے اور پاک دین اسلام کی طرف کچھ بھی رجوع نہ کیا.پھر بھی وعید موت سے بچ گئے اور عیسائی غالب رہے اور پیشگوئی جھوٹی نکلی اور اللہ ّجل شانہ جس کی عظمت اور ہیبت سے زمین اور آسمان کانپتے ہیں.اس نے مجھ کو خبر دی ہے کہ آپ نے خوف کے دنوں میں نہایت ہم و غم کی حالت میں در پردہ اسلام کی طرف رجوع کر لیا.یعنی اسلامی عظمت کو آپ نے دل میں بٹھا لیا.جس کو آپ پوشیدہ رکھتے ہیں اس لئے اس نے جو غیبوں کا جاننے والا اور انسان کے

Page 543

پادری عماد الدین صاحب کی خدمت میں روانہ کئے گئے.کل ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب کی طرف سے وکیل کے طور پر انکاری خط آیا جس سے صاف طور پر ثابت ہوگیا کہ آتھم صاحب کسی طور سے قسم کھانا نہیں چاہتے اور باوجودیکہ ۱۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ء سے ایک ہفتہ کی میعاد دی گئی تھی مگر وہ میعاد بھی گذر گئی مگر بجز ایک انکاری خط کے اور کوئی خط نہیں آیا.پس کیا اب بھی یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ مسٹرعبد اللہ آتھم صاحب نے ضرور پیشگوئی کے زمانے میں اسلامی عظمت کو اپنے دل میں جگہ دے کر حق کی طرف رجوع کرلیا تھا مگر اب بھی بعض متعصب ناقص الفہم لوگ شک رکھتے ہیں تو اب ہم یہ دوسرا اشتہار دو ہزار روپیہ انعام کے شرط سے نکالتے ہیں اگر آتھم صاحب جلسہ عام میں تین مرتبہ بقیہ حاشیہ.عمیق اور چھپے ہوئے خیالوں کو دیکھنے والا ہے اپنے وعدہ اور شرط کے موافق اس عذاب سے آپ کو بچا لیا جو اس صورت میں نازل ہوتا جبکہ آپ اس شرط کے موافق کچھ بھی اپنی اصلاح نہ کرتے اور نہ اسلامی عظمت سے ہراساں ہوتے اور اگر نعوذ باللہ یہ الہام الٰہی آپ کے نزدیک صحیح نہیں ہے تو میں آپ کو اس ذات پاک کی قسم دیتا ہوں جس نے آپ کو پیدا کیا اور جس کی طرف آپ کو جانا ہے کہ عام جلسہ میں تین مرتبہ قسم کھا کر میرے روبرو اس کی تکذیب کردیں اور صاف کہہ دیں کہ یہ الہام جھوٹا ہے.اور اگر سچا ہے اور میں نے ہی جھوٹ بولا ہے تو اے قادر غیور خدا مجھ کو سخت عذاب میں مبتلا کر اور اسی میں مجھ کو موت دے تب میں مع اپنے چند عاجز مخلصوں کے جو لعنتوں کا نشانہ ہو رہے ہیں آمین کہوں گا اور ربّ العرش سے چاہوں گا کہ میرا اور آپ کا قطعی فیصلہ کر دے جو کچھ میں نے الہام سنایا ہے بجز خدا تعالیٰ اور میرے اور آپ کے دل کے اور کسی کو خبر نہیں.سو میں اسی مالک کی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ اگر آپ میرے الہام کے مکذب ہیں تو میرے روبرو حلفاًاقرار مذکور کر کے آسمانی فیصلہ کا دروازہ کھول دیں ہم ستائے گئے اور دکھ دیئے گئے اور ہم پر لعنتیں ہوئیں اور ہم جھوٹے سمجھے گئے اس لئے ناچار میں تیسری مرتبہ آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ کو اس قادر توانا کی قسم ہے جس کے جلال سے ملائک پر بھی لرزہ پڑتا ہے کہ آپ حلفاًعام جلسہ میں میرے روبرو اس طور کی قسم کھا کر جو میں اشتہار میں بتلا چکا ہوں مجھ سے فیصلہ کرو تا کاذب ہلاک ہو اور جھوٹا تباہ ہو جائے.اور اگر ایسا نہ کرو تو آپ نے میری سچائی اور میری صداقت پر مہر لگا دی اور ان شریر مسلمانوں اور عیسائیوں کا جھوٹا اور رو سیاہ ہونا ثابت کر دیا کہ جو گدھے کی طرح زور زور سے چیخیں مار کر کہہ رہے ہیں عیسائیوں کی فتح ہوئی.اب دعا پر ختم کرتا ہوں اے حی و قیوم حق ظاہر کر اور اپنے وعدہ کے موافق جھوٹوں کو پامال کردے( آمین)

Page 544

قسم کھا کر کہہ دیں کہ میں نے پیشگوئی کی مدت کے اندر عظمت اسلامی کو اپنے دل پر جگہ ہونے نہیں دی اور برابر دشمن اسلام رہا.اور حضرت عیسیٰ کی ابنیت اور الوہیت اور کفارہ پر مضبوط ایمان رکھا تو اسی وقت نقد دو ہزار روپیہ ان کو بہ شرائط قرار دادہ اشتہار ۹ ؍ستمبر ۱۸۹۴ء بلا توقف دیا جائے گا اور اگر ہم بعد قسم دو ہزار روپیہ دینے میں ایک منٹ کی بھی توقف کریں تو وہ تمام لعنتیں جو نادان مخالف کر رہے ہیں ہم پر وارد ہوں گی اور ہم بلاشبہ جھوٹے ٹھہریں گے اور قطعاً اس لائق ٹھہریں گے کہ ہمیں سزائے موت دی جائے اور ہماری کتابیں جلا دی جائیں اور ملعون وغیرہ ہمارے نام رکھے جائیں اور اگر اب بھی آتھم صاحب باوجود اس قدر انعام کثیر کے قسم کھانے سے منہ پھیر لیں تو تمام دشمن و دوست یاد رکھیں کہ انہوں نے محض عیسائیوں سے خوف کھا کر حق کو چھپایا ہے اور اسلام غالب اور فتح یاب ہے.۱؎ پہلے تو ان کے حق کی طرف رجوع کرنے کا صرف ایک گواہ تھا یعنی ان کی وہ خوف زدہ صورت جس میں انہوں نے پندرہ مہینے بسر کئے اور دوسرا گواہ یہ کھڑا ہوا کہ انہوں نے باوجود ہزار روپیہ نقد ملنے کے قسم کھانے سے انکار کیا ہے اب تیسرا گواہ یہ دو ہزار روپیہ کا اشتہار ہے اگر اب بھی قسم کھانے سے انکار کریں تو رجوع ثابت.کیا کوئی سچا موت سے ڈر کر انکار کر سکتا ہے کیا ہر ایک جان خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں جبکہ عیسائیوں کا مقولہ ہے کہ ان کی جان مسیح نے بچائی اور ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہرگز نہیںہرگز نہیں.بلکہ اسلامی عظمت کو اپنے دل میں جگہ دینے سے الہام کی شرط کے موافق جان بچ گئی تو اب اس جھگڑے کا فیصلہ بجز ان کی قسم کے اور کیونکر ہو.اگر یہی بات سچی ہے کہ ۱؎ نوٹ.الہامی پیشگوئی نہ صرف آتھم صاحب کے متعلق تھی بلکہ اس تمام مخالف فریق کے متعلق تھی جو اس جنگ مقدس کیلئے اپنے اپنے طور پر خدمتوں کیلئے مقرر تھے آتھم صاحب کے ہاتھ میں تو وہ نابکار اور شکستہ تلوار پکڑائی گئی تھی جو سچائی کا ایک بال بھی نہیں کاٹ سکتی تھی اور باقی فریق میں سے کوئی بطور معاون اور کوئی مشیر جنگ اور کوئی سرگروہ تھا پس آخر اس جنگ کا یہ نتیجہ ہوا کہ کوئی ان سے پندرہ مہینے کے اندر مارا گیا کوئی زخمی ہوا اور کوئی لعنت کی ہزار کڑی والی زنجیر میں گرفتار ہوکر ہمیشہ کی ذلت کے قید خانے میں ڈالا گیا اور آتھم صاحب خوف کھا کر بھاگ گئے اور اسلامی عظمت کے جھنڈے کے نیچے پناہ لی.منہ

Page 545

صرف مسیح نے ان پر فضل کیا.تو اب اس معرکہ کی لڑائی میں جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں ضرور مسیح ان پر فضل کرے گا.اور اگر یہ بات سچی ہے کہ انہوں نے درحقیقت خوف کے دنوں میں اپنے دل میں اسلام کی طرف رجوع کر لیا تھا تو اب منکر انہ قسم کھانے کے بعد ضرور بغیر تخلّف اور بغیر استثناء کسی شرط کے ان پر موت آئے گی.غرض یہ فیصلہ تو نہایت ضرور ہے.اس سے وہ کہاں اور کیونکر گریز کرسکتے ہیں ۱ ؎ اور اگر اب بھی باوجود اس دوہزارروپیہکے جو نقد بلا تکلیف حلوائے بے دُود کی طرح ان کو ملتا ہے قسم کھانے سے انکار کریں تو سارا جہان گواہ رہے کہ ہم کو فتح کامل ہوئی اور عیسائی کھلے طور پر شکست پا گئے اور ہمارا تو یہ حق تھا کہ اوّل دفعہ کے اشتہار پر ہی کفایت کرتے کیونکہ جب ہزار روپیہ نقد دینے سے وہ قسم نہ کھا سکے تو صریح ان پر حجت پوری ہو گئی مگر ہم نے نہایت موٹی عقل کے لوگوں اور حاسدوں اور متعصبوں کی حالت پر رحم کر کے مکرر یہدوہزارروپیہ کا اشتہار ۱؎ نوٹ.مسٹر عبد اللہ آتھم نے بہ ایّام انعقاد شرائط مباحثہ اپنے ایک تحریری عہد سے جو ہمارے پاس موجود ہے.ہمیں اطلاع دی تھی کہ وہ کسی نشان کے دیکھنے سے ضرور اپنے عقائد کی اصلاح کر لیں گے یعنی دین اسلام قبول کر لیں گے.سو یہ خط بھی ایک گواہ ان کی اندرونی حالت کا ہے کہ وہ سچائی کے قبول کرنے کے لئے پہلے ہی سے مستعد تھے.پھر جب یہ الہام اپنے پُر رعب مضمون میں انہیں کے بارہ میں ہوا اور انہیں پر پڑا.اور الہام بھی موت کا الہام جو بالطبع ہر یک پر گراں گزرتی ہے اور ہریک اپنی چند روزہ زندگی کو عزیز رکھتا ہے.اور یہ اپنے اسلام لانے کا وعدہ انہوں نے اس وقت کیا تھا کہ جب انہیں اس بات کا خیال بھی نہیں تھا کہ وہ نشان مطلوب انہیں کی موت کے بارے میں ہوگا.بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کریں.اور وہ الہام نہایت شد و مد اور تاکید سے اور ایسے پرُ زور الفاظ میں سنایا گیا جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.تو کیا یہ نہایت قریب قیاس نہیں کہ ایسے مستعد اور قابل انفعال دل پر ایسی پرُ زور تقریر نے بہت برُ ا اثر کیا ہوگا.اور انہوں نے ایسے منذر الہام کو سن کر ضرور متاثر ہوکر اندر ہی اندر اپنی اصلاح کی ہوگی جیسے ان کے دوسرے مضطربانہ حالات بھی اس پر شاہد ہیں اور نیز اس خط سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ وہ ہرگز تثلیث اور مسیح کے خون اور کفارہ پر مطمئن نہیں تھے.کیونکہ ایک ایسا شخص جو اپنے عقائد پر سچے دل سے مطمئن ہو وہ ہرگز یہ بات زبان پر نہیں لاسکتا کہ بعض نشانوں کے دیکھنے سے ان عقائد کو ترک کر دوں گا.اصل خط ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا ہمارے پاس موجود ہے.جو صاحب شک رکھتے ہیں دیکھ لیں.منہ

Page 546

بطور تیسرے گواہ اپنی صداقت کے جاری کیا ہے.ہمارے مولوی مکفر جو عیسائیوں کی فتح کو بدل و جان چاہتے ہیں سب مل کر ان کو سمجھا ویں کہ ضرور قسم کھاویں اور ان کی بھی عزت رکھ لیں اور اپنی بھی.قطعی فیصلہ تو یہ ہے جو قسم کے کھانے یا انکار کرنے سے ہو نہ وہ یکطرفہ الہام جس کے ساتھ صریح شرط رجوع بحق کرنے کی لگی ہوئی تھی اور جس شرط پر عمل درآمد کا ثبوت آتھم صاحب نے اپنی خوفناک حالت دکھلانے سے آپ ہی دے دیا.بلکہ نور افشاں ۴ا ؍ستمبر ۱۸۹۴ء صفحہ بارہ ۱۲ پہلے ہی کالم کی پہلی ہی سطر میں ان کا یہ بیان لکھا ہے کہ میرا خیال تھا کہ شاید میں مار ابھی جائوں گا.اسی کالم میں یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے یہ باتیں کہہ کر رو دیا.اور رونے سے جتلا یا کہ میں بڑے دکھ میں رہا پس ان کا رونا بھی ایک گواہی ہے کہ ان پر اسلامی پیشگوئی کا بہت سخت اثر رہا ورنہ اگر مجھ کو کاذب جانتے تھے تو ایسی کیا مصیبت پڑی تھی جس کو یاد کر کے اب تک رونا آتا ہے پھر اب سب سے بڑھ کر گواہ یہ ہے کہ انہوں نے ہزار روپیہ لے کر قسم کھانا منظور نہیں کیا ورنہ جس شخص کو وہ پندرہ مہینے کے متواتر تجربہ سے جھوٹا ثابت کر چکے ہیں اس کے سراسر جھوٹ بیان کے رد کرنے کے لئے خواہ نخواہ غیرت جوش مارنی چاہیے تھی اور چاہیے تھا کہ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ قسم کھانے کو طیار ہو جاتے کیونکہ اپنے آپ کو سچا سمجھتے تھے اور مجھے صریح کاذب.خیر اب ہم الزام پر الزام دینے کے لئے ایک اور ہزار روپیہ خرچ کر دیتے ہیں اور یہ دو ہزار روپیہ کا اشتہار جو ہماری صداقت کے لئے بطور گواہ ثالث ہے جاری کرتے ہیں اور ہمارے مخالف حلّ الاشکال.بعض مخالف مولوی صاحبوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ ایک دشنام دہی کی قسم ہے کہ مخالف مولویوں اور ان کے پیروئوں کو اس طور سے اور اس شرط سے بداصل اور ولد الحرام قرار دیا ہے کہ نہ تو وہ اس خلاف حق کلمہ سے منہ بند کریں کہ اسلام اور عیسائیت کی بحث میں عیسائیوں کی فتح ہوئی.اور نہ مسٹر آتھم صاحب کو قسم کھانے پر آمادہ کریں.اور وجہ اعتراض یہ بیان کی گئی ہے کہ آتھم صاحب پر ہمارا کچھ زور اور حکم تو نہیں تاخواہ نخواہ قسم کھانے پر ان کو مستعد کریں.تو اس کا جواب یہی ہے کہ اے بے ایمانو اور دل کے اندھو اور اسلام کے دشمنو اگر آتھم صاحب قسم کھانے سے گریز کر رہے ہیں تو اس سے کیا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یا یہ نتیجہ کہ درحقیقت آتھم صاحب

Page 547

یاد رکھیں کہ اب بھی آتھم صاحب ہرگز قسم نہیں کھائیں گے کیوں نہیں کھائیں گے اپنے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اور یہ کہنا کہ شاید ان کو یہ دھڑکا ہو کہ ایک برس میں مرنا ممکن ہے.پس ہم کہتے ہیں کہ کون مارے گا کیا ان کا خداوند مسیح یا اورکوئی پس جبکہ یہ دو خدائوں کی لڑائی ہے ایک سچا خدا جو ہمارا خدا ہے اور ایک مصنوعی خدا جو عیسائیوں نے بنا لیا ہے.تو پھر اگر آتھم صاحب حضرت مسیح کی خدائی اور بقیہ نوٹ.نے دل میں اسلام کی طرف رجوع کر لیا ہے.تبھی تو وہ جھوٹی قسم کھانے سے پرہیز کرتے ہیں.جبکہ تم نیم عیسائی ہوکر بدل و جان زور لگا رہے ہو کہ آتھم صاحب کسی طرح اقرار کر دیں کہ میں درحقیقت ایام میعاد پیشگوئی میں اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن رہا اور عاجز انسان کو خدا جانتا رہا.تو پھر اگر آتھم صاحب درحقیقت پکے عیسائی اور دشمن اسلام ہیں.تو ان کو ایسی قسم سے کون روکتا ہے جس کے کھانے کے ساتھ دو ہزار روپیہ نقد ان کو ملے گا اور جس کے نہ کھانے سے یہ ثابت ہوگا کہ عظمت اسلام ضرور ان کے دل میں سما گئی.اور عیسائیت کے باطل اصول ان کی نظر میں حقیر اور مکروہ معلوم ہوئے.اے نیم عیسائیو ذرہ اور زور لگائو اور آتھم صاحب کے پیروں پر سر رکھ دو شاید وہ مان لیں اور یہ پلید لعنت تم سے ٹل جائے.ہائے افسوس عیسائی گریز کریں اور تم اصرار کرو عجیب سرشت ہے.اے نیم عیسائیو آج تم نے وہ پیشگوئی پوری کردی.جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جو ستر ہزار میری امت میں سے دجّال کے ساتھ مل جائے گا.سو آج تم نے دجالوں کی ہاں کے ساتھ ہاں ملا دی تا جو اس پاک زبان پر جاری ہوا تھا وہ پورا ہو جائے.تمہیں وہ حدیث بھی بھول گئی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک فتنہ ہوگا جس میں عیسائی کہیں گے کہ ہماری فتح ہوئی اور مہدی کے لوگ کہیں گے کہ ہماری فتح ہوئی اور عیسائیوں کیلئے شیطان گواہی دے گا کہ اَلْحَقُّ فِیْ آلِ عِیْسٰی اور مہدی کے لوگوں کیلئے رحمان گواہی دے گا کہ اَلْحَقُّ فِیْ آلِ مُحَمَّدٍ.سو اب سوچو کہ وہی وقت آگیا.عیسائیوں نے شیطانی مکائد سے پنجاب اور ہندوستان میں کیا کچھ نہ کیا.یہی شیطانی آواز ہے اب رحمانی آواز کے منتظر رہو.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی.یقینا سمجھنا چاہیے کہ ہمارا الہام کی رو سے آتھم صاحب کی پوشیدہ حالت پر اطلاع پانا کہ انہوں نے ضرور اسلامی عظمت اور صداقت کی طرف رجوع کیا ہے آتھم صاحب کے واسطے ایک نشان ہے اور اگرچہ کوئی دوسرا سمجھے یا نہ سمجھے مگر آتھم صاحب کا دل ضرور گواہی دے گا کہ یہ وہ پوشیدہ امر ہے جو ان کے دل میں تھا اور خدا تعالیٰ نے جو علیم و حکیم ہے اپنے بندہ کو اس سے اطلاع دی اور ان کے اس غم وہم سے مطلع فرمایا جو محض اسلامی شوکت اور صداقت کے قبول کرنے کی وجہ سے تھا نہ کسی اور وجہ سے اور یہی وجہ ہے کہ اب وہ میرے سامنے ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ میں صادق ہوں اور الہام سچا ہے.منہ

Page 548

اقتدار پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ آزما بھی چکے ہیں تو پھر ان کی خدمت میں عرض کر دیں کہ اب اس قطعی فیصلہ کے وقت میں مجھ کو ضرور زندہ رکھیو.یوں تو موت کی گرفت سے کوئی بھی باہر نہیں اگر آتھم صاحب چوسٹھ برس کے ہیں تو عاجز قریباً ساٹھ برس کا ہے اور ہم دونوں پر قانونِ قدرت یکساں مؤثر ہے لیکن اگر اسی طرح کی قسم کسی راستی کی آزمائش کے لئے ہم کو دی جائے تو ہم ایک برس کیا دس برس تک اپنے زندہ رہنے کی قسم کھا سکتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ دینی بحث کے وقت میں ضرور خدا تعالیٰ ہماری مدد کرے گا اور ایسا شخص تو سخت بے ایمان اور دہریہ ہوگا کہ جس کو ایسی بحث میں یہ خیال آوے کہ شاید میں اتفاقاً مر جائوں کیا زندہ رہنا اور مرنا اس کے خدا کے ہاتھ نہیں.کیا بغیر حکم حاکم کے یوں ہی اتفاقی طور پر لوگ مرجاتے ہیں.اور نیز اتفاق اور امکان تو دونوں پہلو رکھتا ہے مرنا اور نا مرنا بھی بلکہ نامرنے کا پہلو قوی اور غالب ہے کیونکہ مر جانا تو ایک نیا حادثہ ہے جو ہنوز معدوم ہے اور زندہ رہنا ایک معمولی امر ہے جو موجود بالفعل ہے پھر موت سے غم کرنا صریح اس امر کا ثبوت ہے کہ اپنے خدا کے کامل اقتدار پر ایمان نہیں حضرت یہ تو دو خدائوں کی لڑائی ہے اب وہی غالب ہوگا جو سچا خدا ہے.جبکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے خدا کی ضرور یہ قدرت ظاہر ہوگی کہ اس قسم والے برس میں ہم نہیں مریں گے لیکن اگر آتھم صاحب نے جھوٹی قسم کھا لی تو ضرور فوت ہو جائیں گے تو جائے انصاف ہے کہ آتھم صاحب کے خدا پر کیا حادثہ نازل ہوگا کہ وہ ان کو بچا نہیں سکے گا اور منجی ہونے سے استعفٰی دے دے گا.غرض اب گریز کی کوئی وجہ نہیں یا تو مسیح کو قادر خدا کہنا چھوڑیں اور یا قسم کھا لیں.ہاں اگر عام مجلس میں یہ اقرار کردیں کہ ان کے مسیح ابن اللہ کو برس تک زندہ رکھنے کی تو قدرت نہیں مگر برس کے تیسرے حصہ یا تین دن تک البتہ قدرت ہے اور اس مدت تک اپنے پرستار کو زندہ رکھ سکتا ہے تو ہم اس اقرار کے بعد چار مہینہ یا تین ہی دن تسلیم کر لیں گے اگر اب بھی یہ دو ہزار روپیہ کا اشتہار پاکر منہ پھیر لیا تو ہر یک جگہ ہماری کامل فتح کا نقاّرہ بجے گا اور عیسائی اور نیم عیسائی سب ذلیل اور پست ہو جائیں گے اور ہم اس اشتہار کے روز اشاعت سے بھی ایک ہفتہ کی میعاد آتھم صاحب کو دیتے ہیں اور باقی وہی شرائط ہیں جو اشتہار

Page 549

۹؍ستمبر ۱۸۹۴ء میں بتصریح لکھ چکے ہیں.وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی.المشتھر میرزا غلام احمد قادیانی ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ء تعداد اشاعت دس ہزار (۱۰۰۰۰) مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر (یہ اشتہارکے چار صفحوں پر ہے) (یہ اشتہار ضمیمہ انوار االاسلام میں صفحہ۱تا ۴ پر ہے) (روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۶۳ تا ۷۰)

Page 550

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ   ۱؎ اشتہار انعامی تین ہزار روپیہ بمرتبہ سویم اس تحریر میں آتھم صاحب کے لئے تین ہزار روپیہ کا انعام مقرر کیا گیا ہے اور یہ انعام بعد قسم بلا توقف دو معتبر متمول لوگوں کا تحریری ضمانت نامہ لے کر ان کے حوالہ کیا جاوے گا اور اگر چاہیں تو قسم سے پہلے ہی باضابطہ تحریر لے کر یہ روپیہ ان کے حوالہ ہوسکتا ہے یا ایسے دو شخصوں کے حوالہ ہوسکتا ہے جن کو وہ پسند کریں اور اگر ہم بشرائط مذکورہ بالا روپیہ دینے سے پہلوتہی کریں تو ہم کاذب ٹھہریں گے مگر چاہیے کہ ایسی درخواست روز اشاعت سے ایک ہفتہ کے اندر آوے اور ہم مجاز ہوں گے کہ تین ہفتہ کے اندر کسی تاریخ پر روپیہ لے کر آتھم صاحب کی خدمت میں حاضر ہو جائیں لیکن اگر آتھم صاحب کی طرف سے رجسٹری شدہ خط آنے کے بعد ہم تین ہفتہ کے اندر تین ہزار روپیہ نقد لے کر امرتسر یا فیروز پور یا جس جگہ پنجاب کے شہروں میں سے آتھم صاحب فرماویں ان کے پاس ۱ ؎ الاعراف : ۹۰

Page 551

حاضر نہ ہوں تو بلاشبہ ہم جھوٹے ہوگئے اور بعد میں ہمیں کوئی حق باقی نہیں رہے گا جو انہیں ملزم کریں بلکہ خود ہم ہمیشہ کے لئے ملزم اور مغلوب اورجھوٹے متصور ہوں گے.ہماری اس تحریر کے دو حصے ہیں پہلا حصہ ان مولویوں اور ناواقف مسلمانوں اور عیسائیوں سے متعلق ہے جو خواہ نخواہ عیسائیوں کو فتح یاب قرار دیتے ہیں اور ہماری فتح کے دلائل قاطعہ کو کمزور خیال کرتے ہیں اور اپنی خبث باطنی اور بخل اور غباوت کی وجہ سے اس سیدھی اور صاف بات کو نہیں سمجھتے جو نہایت بدیہی اور واضح ہے اور دوسرے حصہ میں آتھم صاحب کی خدمت میں ایک خط ہے جس میں ہم نے ان پر حجت اللہ پوری کردی ہے.اب سمجھنا چاہیے کہ بخیل مولویوں اور ناواقف مسلمانوں اور عیسائیوں کے اعتراض یہ ہیں جو ہم ذیل میں لکھ کر دفع کرتے ہیں.(۱)اعتراض اوّل.پیشگوئی تو جھوٹی نکلی اب تاویلیں کی جاتی ہیں.الجواب.منصف بنو اور سوچو اور خدا تعالیٰ سے ڈرو اور آنکھیں کھول کر اس الہام کو پڑھو جو مباحثہ کے اختتام پر لکھایا گیا تھا کیا اس کے دو پہلو تھے یا ایک تھا کیا اس میں صریح اور صاف طور پر نہیں لکھا تھا کہ ہاویہ میں گرایا جاوے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اب قسمًا کہو کیا اس کو تاویل کہہ سکتے ہیں یا صریح شرط موجود ہے کیا خدا تعالیٰ کا اختیار نہ تھا کہ دو پہلو میں سے جس کو چاہتا اسی کو پورے ہونے دیتا کیا ہم نے پیچھے سے تاویل کے طور پر کوئی بات بنالی یا پہلے سے صاف اور کھلی کھلی شرط موجود ہے.(۲) اعتراض دویم.بے شک شرط موجود تو ہے مگر یہ کہاں سے اور کیونکر ثابت ہوا کہ آتھم صاحب نے خوف کے دنوں میں رجوع اسلام کی طرف کر لیا تھا اور اسلامی عظمت کو دل میں بٹھا لیا تھا کیا کسی نے اس کو کلمہ پڑھتے سنا یا نماز پڑھتے دیکھا بلکہ وہ تو اب بھی اخباروں میں یہی چھپواتا ہے کہ میں عیسائی ہوں اور عیسائی تھا.الجواب.آتھم صاحب کا بیان بحیثیت شاہد مطلوب ہے نہ بحیثیت مدعا علیہ پس ۱؎ المنافقون:۱۲

Page 552

آتھم صاحب بغیر اس قسم غلیظ کے جس کا ہم مطالبہ کر رہے ہیں اور جس کے لئے اب ہم تین ہزار روپیہ نقد ان کو دیتے ہیں جو کچھ بیان فرما رہے ہیں یا اخباروں میں چھپوا رہے ہیں وہ سب بیان ایک مدعا علیہ کی حیثیت میں ہے اور ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت میں کھڑا ہوتا ہے تو اپنی ذاتی اغراض اور سوسائٹی اور اپنے دوسرے دنیوی مصالح کے لحاظ سے نہ ایک دفعہ بلکہ لاکھ دفعہ جھوٹ بولنے پر آمادہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس وقت حلف دروغی کا مجرم نہیں، اس قانون قدرت کو ہریک شخص جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ قسم کے وقت دروغ گو کو ضرور پکڑتا ہے اس لئے اگر جھوٹے بے ایمان کو کوئی قسم غلیظ دی جاوے مثلاً بیٹا مر جانے کی ہی قسم ہو تو ضرور اس وقت وہ ڈرتا ہے اور حق کا رعب اس پر غالب آجاتا ہے پس یہی سبب ہے کہ آتھم صاحب قسم نہیں کھاتے اور صرف بحیثیت مدعا علیہ انکار کئے جاتے ہیں.پس اس عجیب تماشا کو لوگ دیکھ لیں کہ ہم تو ان کو بحیثیت گواہ کھڑا کر کے اور گواہوں کی طرح ایک قسم غلیظ دے کر اس الہام کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ منکر ہیں اور وہ بار بار بحیثیت ایک مدعا علیہ کے اپنا عیسائی ہونا ظاہر کرتے ہیں یہ کس قدر دھوکا ہے جو لوگوں کو دے رہے ہیں.اس دجّالی فرقے کے مکروں کو دیکھو جو کیسے باریک ہیں ہمارا مدعا تو یہ ہے کہ اگر وہ درحقیقت خوف کے دنوں میں اور ان دنوں میں جو دیوانوں کی طرح وہ بھاگتے پھرتے تھے اور جبکہ ان پر بہت سا اثر دہشت پڑا ہوا تھا درحقیقت اسلامی عظمت اور صداقت سے متاثر نہیں تھے تو کیوں اب بحیثیت ایک گواہ کے کھڑے ہوکر قسم نہیں کھاتے اور کیوں اس طریق فیصلہ سے گریز کر رہے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ اس طور سے قسم کھانے ۱؎ سے ان کی جان نکلتی ہے جس طور کو ہم نے اپنے اشتہار ہزار روپیہ اور پھر اشتہار دو ہزار روپیہ میں بتصریح بیان کیا ہے یعنی یہ کہ وہ عام مجمع میں ہماری حاضری کے وقت ان صاف اور صریح لفظوں میں قسم کھا جاویں کہ میں نے میعاد پیشگوئی میں اسلام کی طرف ایک ذرہ رجوع نہیں کیا اور نہ اسلامی صداقت اور عظمت نے میرے دل ۱؎ نوٹ.اس قسم کا نام قسم آئینی ہے یعنی وہ قسم موکد بعذاب موت کھائیں اور ہم آمین کہیں.آخری فیصلہ قسم ہے اس لئے قانون انگریزی نے بھی ہریک قوم عیسائی وغیرہ کے لئے عند الضرورت قسم پر حصر رکھا ہے.منہ

Page 553

پر کوئی ہولناک اثر ڈالا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی روحانی ہیبت نے ایک ذرہ بھی میرے دل کو پکڑا بلکہ میں مسیح کی الوہیت اور ابنیت اور کفارہ پر پورا اور کامل یقین رکھتا رہا اور اگر میں خلاف واقعہ کہتا ہوں اور حقیقت کو چھپاتا ہوں تو اے قادر خدا مجھے ایک سال کے اندر ایسے موت کے عذاب سے نابود کر جو جھوٹوں پر نازل ہونا چاہیے یہ قسم ہے جس کا ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں اور جس کے لئے ہم اشتہار شائع کرتے کرتے آج تین ہزار روپیہ تک پہنچے ہیں.ہم قسمیہ کہتے ہیں کہ ہم باضابطہ تحریر لے کر یعنی حسب شرائط اشتہار نہم ستمبر ۱۸۹۴ء تمسک لکھوا کر یہ تین ہزار روپیہ قسم کھانے سے پہلے دے دیں گے اور بعد میں قسم لیں گے.پھر کیوں آتھم صاحب پر اس بات کے سننے سے غشی پر غشی طاری ہو رہی ہے کیا اب وہ مصنوعی خدا فوت ہوگیا جس نے پہلے نجات دی تھی یا اس سے اب منجی ہونے کے اختیار چھین لئے گئے ہیں.ہمیں بالکل سمجھ نہیں آتا کہ کیسی شوخی اور دجالیت ہے کہ یوں تو آتھم صاحب بحیثیت ایک مدعا علیہ کے بہت باتیں کریں یہاں تک کہ اسلام کو جھوٹا مذہب بھی قرار دے دیں اور شیخی کی باتیں منہ سے نکالیں مگر جب بحیثیت شاہد ٹھہرا کر بطرز مذکورہ بالا ان سے قسم لینے کا مطالبہ ہو تو ایسی خاموشی کے دریا میں غرق ہو جائیں کہ گویا وہ دنیا میں ہی نہیں رہے.کیا اے ناظرین! ان کے اس طرز طریق سے ثابت نہیں ہوتا کہ ضرور دال میں کالا ہے.غضب کی بات ہے کہ ایک ہزار روپیہ دینا کیا اور رجسٹری کر کے اشتہار بھیجا مگر وہ چپ رہے پھر دو ہزار روپیہ دینا کیا اور رجسٹری کر کے اشتہار بھیجا پھر بھی ان کی طرف سے کوئی آواز نہیں آئی اور دونوں میعادیں گذر گئیں اب یہ تین ہزار روپیہ کا اشتہار جاری کیا جاتا ہے کیا کسی کو امید ہے کہ اب وہ قسم کھانے کیلئے میدان میں آئیں گے ہرگز نہیں ہرگز نہیں.وہ تو جھوٹ کی موت سے مرگئے.اب قبر سے کیونکر نکلیں.ان کو تو یہ باتیں سن کر غش آتا ہے کیونکہ وہ جھوٹے ہیں اور ایک عاجز اور خاکی انسان کو خدا بناکر اس کی پرستش کر رہے ہیں.ابتدا میں جب وہ میعاد کی زندان سے نکلے بولتے بھی نہیں تھے اور سرنگوں رہتے تھے پھر رفتہ رفتہ شیطانی سوسائٹی سے مل کر اور دجالی ہوا کے لگنے سے دل سخت ہوگیا اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھلا دیا پس ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک سخت

Page 554

دل اور دنیا پرست آدمی ایک ایسے مقدمہ میں پھنس جائے جس سے اس کو جان کا اندیشہ یا دائم الحبس ہونے کا خوف ہو تب وہ دل میں خدا تعالیٰ کو پکارتا رہے اور اپنی بدافعالیوں سے باز رہے اور پھر جب رہائی پا جائے تو اس رہائی کو بخت اور اتفاق پر حمل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسانوں کو بھلا دیوے.قرآن کو کھول کر دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے کہ جو فرعونی صفت کا کوئی شعبہ اپنے اندر رکھتے ہیں کس قدر مثالیں دی ہیں چنانچہ منجملہ ان کے ایک کشتی کی بھی مثال ہے جب غرق ہونے لگی.پس اب آتھم صاحب اپنی دہریت پر ناز نہ کریں ذرہ قسم کھاویں پھر عنقریب دیکھیں گے کہ خدا ہے اور وہی خدا ہے جس کو اسلام نے پیش کیا ہے نہ وہ کہ کروڑہا اور بے شمار برسوں کے بعد مریم عاجزہ کے پیٹ سے نکلا اور پھر حباب کی طرح ناپدید ہوگیا.(۳) اعتراض سویم.یہ ہے کہ یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کسی پنڈت پاہندے یا رمّال یا جفری کی پیشگوئی پر بھی جب کسی کی موت کی نسبت وہ بیان کرے تو ضرور بوجہ بشریت اس پیشگوئی کا خوف اور دہشت دل میں پیدا ہو جاتا ہے پھر اگر آتھم صاحب کے دل پر بھی اسلامی پیشگوئی کی دہشت طاری ہوئی ہو تو کیوں اس خوف کو بھی بشریت کی طرف منسوب نہ کیا جاوے.الجواب.بشر تو بشریت سے کبھی منفک نہیں ہوتا لیکن جب بقول آپ کے اسلامی پیشگوئی کی عظمت اور صداقت نے آتھم صاحب کے دل پر اثر کیا اور ان کو ایک شدید خوف میں ڈال دیا تو بموجب تصریح قرآن کریم کے یہ بھی ایک رجوع کی قسم ہے کیونکہ اسلامی پیشگوئی کی تصدیق درحقیقت اسلام کی تصدیق ہے مثلاً منجم کی پیشگوئی سے وہ شخص ڈرتا ہے جو نجوم کو کچھ چیز سمجھتا ہے اور رمّال کی پیشگوئی سے وہی شخص خائف ہوتا ہے جو رمل کو کچھ حقیقت خیال کرتا ہے اسی طرح اسلامی پیشگوئی سے وہی شخص ہراساں اور لرزاں ہوتا ہے جس کا دل اُس وقت اسلام کا مکذب نہیں بلکہ مصدق ہے اور ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ اس قدر اسلام کی عظمت اور صداقت کو مان لینا اگرچہ نجات اخروی کیلئے مفید نہیں مگر عذاب دنیوی سے رہائی پانے کے لئے مفید ہے جیسا کہ قرآن کریم نے اس بارہ میں بار بار مثالیں پیش کی ہیں اور بارہا فرمایا ہے کہ ہم نے خوف اور تضرع کے وقت کفار کو

Page 555

عذاب سے نجات دے دی حالانکہ ہم جانتے تھے کہ وہ پھر کفر کی طرف عود کریں گے پس اسی قرآنی اصول کے موافق آتھم صاحب شدید خوف میں مبتلا ہوکر کچھ دنوں کے لئے موت سے نجات پاگئے کیونکہ انہوں نے اس وقت عظمت اور صداقتِ اسلامی کو قبول کیا اور ردّ نہ کیا جیسا کہ علاوہ ہمارے الہام کے ان کا پریشان حال ان کی اس اندرونی حالت پر گواہ رہا اور اگر یہ باتیں صحیح نہیں ہیں اور اسلام کا خدا ان کے نزدیک سچا خدا نہیں تو قسم کھانے سے کیوں وہ بھاگتے ہیں اور کون سا پہاڑ ان پر گرے گا جو انہیں کچل ڈالے گا کیا وہ تجربہ نہیں کر چکے جو ہم جھوٹے ہیں پس جھوٹوں کے مقابل پر تو پہلے سے زیادہ دلیری کے ساتھ میدان میں آنا چاہیے ۱؎ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہی جھوٹے اور ان کا مذہب جھوٹا اور ان کی ساری باتیں جھوٹی ہیں اور اس پر یہی دلیل کافی ہے کہ جیسا کہ جھوٹے بزدل اور ہراساں ہوتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ اپنے جھوٹ کی شامت سے سچ مچ مر ہی نہ جائیں یہی حال ان کا ہو رہا ہے اگر آتھم صاحب پندرہ مہینہ کے تجربہ سے مجھے کاذب معلوم کرلیتے تو ان سے زیادہ میرے مقابل پر اور کوئی بھی دلیر نہ ہوتا اور وہ قسم کھانے کے لئے مستعد ہوکر اس طرح میدان میں دوڑ کر آتے کہ جس طرح چڑیا کے شکار کی طرف باز دوڑتا ہے.مطالبہ قسم پر ان کو باغ باغ ہو جانا چاہیے تھا کہ اب جھوٹا دشمن قابو میں آگیا مگر یہ کیا آفت پڑی کیوں اب تجربہ کے بعد مقابل پر نہیں آتے یہی سبب ہے کہ انہیں میرے الہام کی حقیقت معلوم ہے دوسرے احمق عیسائی اور مسلمان نہیں جانتے مگر وہ خوب جانتے ہیں.۱؎ حاشیہ.بعض مخالف مولوی نام کے مسلمان اور ان کے چیلے کہتے ہیں کہ جب کہ ایک مرتبہ عیسائیوں کی فتح ہوچکی تو پھر بار بار آتھم صاحب کا مقابلہ پر آنا انصافاً اُن پر واجب نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اے بے ایمانو نیم عیسائیو دجال کے ہمراہیو اسلام کے دشمنو کیا پیشگوئی کے دو پہلو نہیں تھے پھر کیا آتھم صاحب نے دوسرے پہلو رجوع الی الحق کے احتمال کو اپنے افعال اور اپنے اقوال سے آپ قوی نہیں کیا.کیا وہ نہیں ڈرتے رہے کیا انہوں نے اپنی زبان سے ڈرنے کا اقرار نہیں کیا پھر اگر وہ ڈر انسانی تلوار سے تھا نہ آسمانی تلوار سے تو اس شبہ کے مٹانے کے لئے کیوں قسم نہیں کھاتے پھر جبکہ اس طرف سے ہزارہا روپیہ کے انعام کا وعدہ نقد کی طرح پاکر پھر بھی قسم سے انکار اور گریز ہے تو عیسائیوں کی فتح کیا ہوئی کیا تمہاری ایسی تیسی سے.منہ

Page 556

ناظرین! کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ میدان میں قسم کھانے کے لئے آجائیں گے ہرگز نہیں آئیں گے.کیا تم نہیں جانتے کہ کبھی جھوٹے بھی ایسی بہادری دکھلاتے ہیں جو ایمانی قوت پر مبنی ہو ان کے تو ڈر ڈر کے دست نکلتے رہے غشی پر غشی طاری ہوتی رہی سو خدا نے جو سزا دینے میں دھیما اور رحم میں سب سے بڑھ کر ہے اپنی الہامی شرط کے موافق ان سے معاملہ کیا اب چڑیا اپنے پنجرہ سے نکلی ہوئی پھر کیونکر اسی پنجرہ میں داخل ہوجائے.پیارے ناظرین! کیا تم ہماری تحریروں کو غور سے نہیں دیکھتے کیا سچائی کی شوکت تمہیں ان کے اندر معلوم نہیں ہوتی کیا نور فراست تمہارا گواہی نہیں دیتا کہ یہ ایمانی قوت اور شجاعت اور یہ استقلال دروغگو سے کبھی ظاہر نہیں ہوسکتا کیا میں پاگل ہوگیا یا میں دیوانہ ہوں کہ اگر قطعی طور پر مجھے علم نہیں دیا گیا تو یوں ہی تین ہزار روپیہ برباد کرنے کو تیار ہوگیا ہوں.ذرہ سوچو اور اپنے صحیح وجدان سے کام لو اور یہ کہنا کہ کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کا اثر عبد اللہ آتھم پر ہوا ہو کس قدر صداقت کا خون کرنا ہے اگر اثر نہیں تھا تو کیوں آتھم صاحب چوروں کی طرح بھاگتے پھرے اور کیوں اپنی سچائی کی بنا پر اب قسم کھانے کے لئے میدان میں نہیں آتے خط پر خط رجسٹری کراکر بھیجے گئے وہ مردے کی طرح بولتے نہیں.(۴) چوتھا اعتراض.یہ ہے کہ ایک صاحب اپنے اشتہار میں مجھ کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں کہ تم نے مباحثہ میں آتھم صاحب کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ تم عمداً حق کو چھپا رہے ہو پس اس سے ثابت ہوا کہ وہ اس وقت بھی بقول تمہارے اسلام کو حق جانتے تھے پس پیشگوئی کی میعاد میں کون سی نئی بات ان سے ظہور میں آئی.الجواب.جاننا چاہیے کہ امن کی حالت میں اپنے کفر کی حمایت کرکے حق کو چھپانا اور اپنے مخالفانہ دلائل کو کمزور سمجھ کر پھر بھی بحث کے وقت انہیں کو فروغ دینا اور اسلامی دلائل کو بہت قوی پاکر پھر بھی ان سے عمدًا حق پوشی کی راہ سے منہ پھیرنا یہ اور بات ہے لیکن خوف کے دنوں میں درحقیقت اسلامی صداقت کا خوف اپنے دل پر ڈال لینا یہاں تک کہ شدّتِ خوف سے دیوانہ سا ہو جانا یہ اور

Page 557

ہے اور دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور موجب التواء عذاب شق دوم ہے نہ شق اوّل.(۵) پانچواں اعتراض.یہ ہے کہ ایک سال کی میعاد کی کیا ضرورت ہے خدا ایک دن میں جھوٹے کو مار سکتا ہے.الجواب.ہاں بے شک خدائے قادر ذوالجلال ایک دن میں کیا بلکہ ایک طرفۃ العین میں مار سکتا ہے مگر جب اس نے الہامی تفہیم سے اپنا ارادہ ظاہر کر دیا تو اس کی پیروی کرنا لازم ہے کیونکہ وہ حاکم ہے مثلاً وہ اپنی قدرت کے رو سے ایک دن میں انسان کے نطفہ کو بچہ بنا سکتا ہے لیکن جب اس نے اپنے قانون قدرت کے ذریعہ سے ہمیں سمجھا دیا کہ یہی اس کا ارادہ ہے کہ نو مہینہ میں بچہ بناوے تو بعد اس کے نہایت چالاکی اور گستاخی ہوگی کہ ہم ایسا اعتراض کریں کیا ہمیں خدا تعالیٰ کے ارادوں اور حکموں کی پیروی کرنا لازم ہے یا یہ کہ اپنے ارادوں کا اس کو پیرو بناویں اس کی قدرت تو دونوں پہلو رکھتی ہے چاہے تو ایک طرفۃ العین میں کسی کو ہلاک کردے اور چاہے تو کسی اور مدت تک مثلاً ایک سال تک کسی پر موت وارد کرے اور پھر جب اسی کی تفہیم سے معلوم ہوا کہ اپنی قدرت کے وارد کرنے میں اس نے ایک سال کی مدت کو ارادہ کیا ہے تو یہ کہنا سخت بے جا ہے کہ یہ ارادہ اس کی قدرت کے مخالف ہے صدہا کام ہیں جو وہ ایک دم میں کرسکتا ہے مگر نہیں کرتا دنیا کو بھی چھ دن میں بنایا اور کھیتوں کو بھی اُس مدت تک پکاتا ہے جو اُس نے مقرر کر رکھی ہے اور ہر اک شے کے لئے اس کے قانون قدرت میں اَجَل مقرر ہے پس قانون الہام بھی اسی قانون قدرت کے مشابہ صفات باری کو ظاہر کرتا ہے لیکن یہ سیاپا ایسے لوگ کیوں کر رہے ہیں جو حضرت مسیح کو قادر مطلق خیال کرتے ہیں کیا ان کا وہ مصنوعی خدا ایک سال تک آتھم صاحب کو بچا نہیں سکتا حالانکہ ان کی عمر بھی کچھ ایسی بڑی نہیں ہے بلکہ میری عمر سے صرف چند سال ہی زیادہ ہیں پھر اس مصنوعی خدا پر کون سی ناتوانی طاری ہو جائے گی کہ ایک سال تک بھی ان کو بچا نہیں سکے گا ایسے خدا پر نجات کا بھروسہ رکھنا بھی سخت خطرناک ہے جو ایک سال کی حفاظت سے بھی عاجز ہے کیا ہم نے عہد نہیں کیا کہ ہمارا خدا اس سال میں ضرور ہمیں مرنے سے بچائے گا اور آتھم صاحب کو اس جہان سے رخصت کر دے گا کیونکہ وہی

Page 558

قادر اور سچا خدا ہے جس سے بدنصیب عیسائی منکر ہیں اور اپنے جیسے انسان کو خدا بنا بیٹھے ہیں تبھی تو بزدل ہیں اور ایک سال کے لئے بھی اس پر بھروسہ نہیں آسکتا اور سچ ہے باطل معبودوں پر بھروسہ کیونکر ہوسکے اور نور فطرت کیونکر گواہی دیوے کہ ایسا عاجز معبود ایک سال تک بچا سکے گا بلکہ ہم نے تو اشتہار ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ء میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اگر آتھم صاحب اپنے مصنوعی خدا کو ایسا ہی کمزور اور گیاگذرا یقین کر بیٹھے ہیں تو اتنا کہہ دیں کہ وہ ابن اللہ کے نام کا خدا ایک سال تک مجھے بچا نہیں سکتا تو ہم اس اقرار کے بعد تین دن ہی منظور کر لیں گے مگر وہ کسی طرح میدان میں نہیں آویں گے کیونکہ جھوٹے کو اپنے جھوٹ کا دھڑکا شروع ہوجاتا ہے اور سچے کے مقابل پر آنا اس کو ایک موت کا مقابلہ معلوم ہوتا ہے.( ۶) چھٹا اعتراض.یہ ہے کہ کیا خدا آتھم کے منافقانہ رجوع سے اپنے زبردست وعدہ کو ٹال سکتا تھا حالانکہ وہ خود ہی فرماتا ہے..۱؎ یعنی جب وعدہ پہنچ گیا تو کسی جان کو مہلت نہیں دی جاتی.الجواب.آپ سن چکے ہیں کہ وہ وعدہ خدا تعالیٰ کے الہام میں قطعی وعدہ نہ تھا اور نہ فیصلہ ناطق تھا بلکہ مشروط بشرط تھا اور بصورت پابندی شرط کے وہ شرط قرار دادہ بھی وعدہ میں داخل تھی.سو آتھم نے خوف کے دنوں میں بے شک حق کی طرف رجوع کیا اور وہ رجوع منافقانہ نہیں تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق موت میں تاخیر ڈال دی.افسوس کہ نادان لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ انسان کی فطرت میں یہ بھی ایک خاصہ ہے کہ وہ باوجود شقی ازلی ہونے کے شدت خوف اور ہول کے وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر لیتا ہے لیکن اپنی شقاوت کی وجہ سے پھر بلا سے رہائی پاکر اس کا دل سخت ہوجاتا ہے جیسے فرعون کا دل ہریک رہائی کے وقت سخت ہوتا رہا سو ایسے رجوع کا نام خدا تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں منافقانہ رجوع نہیں رکھا کیونکہ منافق کے دل میں کوئی سچا خوف نازل نہیں ہوتا اور اس کے دل پر حق کا رعب اثر نہیں ڈالتا لیکن اس شقی کے دل میں راہ راست کی ۱؎ المنافقون:۱۲

Page 559

عظمت کو خیال میں لاکر ایک سچا خوف پیشگوئی کے سننے کے وقت میں بال بال میں پھر جاتا ہے مگر چونکہ شقی ہے اس لئے یہ خوف اسی وقت تک رہتا ہے جب تک نزول عذاب کا اس کو اندیشہ ہوتا ہے اس کی مثالیں قرآن کریم اور بائبل میں بکثرت ہیں جن کو ہم نے رسالہ انوار الاسلام میں بتفصیل لکھ دیا ہے.غرض منافقانہ رجوع درحقیقت رجوع نہیں ہے لیکن جو خوف کے وقت میں ایک شقی کے دل میں واقعی طور پر ایک ہراس اور اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے اس کو خدا تعالیٰ نے رجوع میں ہی داخل رکھاہے اور سنت اللہ نے ایسے رجوع کو دنیوی عذاب میں تاخیر پڑنے کا موجب ٹھہرایا ہے گو اخروی عذاب ایسے رجوع سے ٹل نہیں سکتا مگر دنیوی عذاب ہمیشہ ٹلتا رہا ہے اور دوسرے وقت پر پڑتارہا ہے.قرآن کو غور سے دیکھو اور جہالت کی باتیں مت کرو اور یاد رہے کہ آیت کو اس مقام سے کچھ تعلق نہیں اس آیت کا تو مدعا یہ ہے کہ جب تقدیر مبرم آ جاتی ہے تو ٹل نہیں سکتی مگر اس جگہ بحث تقدیر معلّق میں ہے جو مشروط بشرائط ہے جبکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں آپ فرماتا ہے کہ میں استغفار اور تضرّع اور غلبہئِ خوف کے وقت میں عذاب کو کفار کے سر پر سے ٹال دیتا ہوں اور ٹالتا رہا ہوں پس اس سے بڑھ کر سچا گواہ اور کون ہے جس کی شہادت قبول کی جاوے.(۷) ساتواں اعتراض.یہ ہے اگر رجوع کے بعد عذاب ٹل سکتا ہے تو اب بھی اگر آتھم قسم کھا کر پھر اندر ہی اندر رجوع کر لے تو چاہیے کہ عذاب ٹل جائے تو اس صورت میں ایک شریر انسان کے لئے بڑی گنجائش ہے اور ربانی پیشگوئیوں کا بالکل اعتبار اٹھ جائے گا.الجواب.قسم کھانے کے بعد خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ فیصلہ قطعی کرے سو قسم کے بعد ایسے مکاّر کا پوشیدہ رجوع ہرگز قبول نہیں ہوگا کیونکہ اس میں ایک دنیا کی تباہی ہے اور قسم فیصلہ کے لئے ہے اور جب فیصلہ نہ ہوا اور کوئی مکاّر پوشیدہ رجوع کر کے حق پر پردہ ڈال سکا تو دنیا میں گمراہی پھیل جائے گی اس لئے قسم کے بعد خدا تعالیٰ کا عزمًا یہ ارادہ ہوتا ہے کہ حق کو باطل سے علیحدہ کر دے تا امر

Page 560

مشتبہ کا فیصلہ ہو جائے.(۸) آٹھواں اعتراض.یہ ہے کہ اگر صداقت کا صرف اقبال یا اقرار باعث تاخیر موت ہے تو ہم اہل اسلام کو کبھی موت نہیں آنی چاہیے کیونکہ صداقت کے پیرو ہیں.جبکہ دشمن خدا ذرا سے منافقانہ رجوع کے باعث جو وہ بھی پوشیدہ ہے موت سے بچ جائے تو ہم جو عَلٰی رُ ؤُسِ الْاَشْہَاد رجوع کئے بیٹھے ہیں.بے شک حیات جاودانی کے مستحق ہیں.الجواب.عزیز من جو لوگ سچے دل سے لَا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے قائل ہیں اور پھر بعد اس کے ایسے کام نہیں کرتے جو اس کلمہ کے مخالف ہیں بلکہ توحید کو اپنے دل پر وارد کر کے رسالت محمدیہ کے جھنڈے کے نیچے ایسی استقامت سے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کوئی ہولناک آواز بندوق یا توپ کی ان کو اس جگہ سے جنبش نہیں دے سکتی اور نہ تیز تلواروں کی چمکیں ان کی آنکھوں کو خیرہ کرسکتی ہیں اور نہ وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی ہوکر اس جھنڈے سے باہر آسکتے ہیں بیشک وہ لوگ حیاتِ جاودانی پائیں گے کس خبیث نے کہا کہ نہیں پائیں گے اور وہ دائمی زندگی کے ضرور ہی وارث ہوں گے کون ملعون کہتا ہے کہ نہیں وارث ہوں گے لیکن ایک کافر یا فاسق کا خوف کے دنوں میں کچھ مدت تک عذاب سے بچ جانا یہ خدا رحیم کی طرف سے ایک مہلت دینا ہے تا شاید وہ ایمان لاوے یا اس پر حجت پوری ہو جائے اور جب اللہ تعالیٰ ایک کافر کو اپنے غضب کی آگ سے ہلاک کرنا چاہے تو اس کی یہی سنت قدیم ہے کہ وہ خوف سے بھرے ہوئے رجوع کے وقت خواہ وہ رجوع بعد ایام خوف قائم رہنے والا ہو یا نہ ہو ضرور عذاب کو کسی دوسرے وقت پر ٹال دیتا ہے مگر مومنوں کی موت اگر اس کا وقت پہنچ گیا ہو تو وہ بطور عذاب نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک پُل ہے جو حبیب کو حبیب کی طرف پہنچاتا ہے اور وہ مرنے کے بعد اس لذت اور راحت کے وارث ہو جاتے ہیں جس کی نظیر اس دنیا میں نہیں مگر کافر کے لئے موت جہنم کا پہلا زینہ ہے جو اس سے گرتے ہی واصل ہاویہ ہوتا ہے.(۹) نواں اعتراض.یہ ہے کہ اگر پادری رائٹ فریق مخالف میں سے پیشگوئی کی میعاد میں مر گئے تو اس کے مقابلہ میں آپ کے کئی مقرب عیسائی ہوگئے.

Page 561

الجواب.اے صاحب آپ متوجہ ہوکر سنیں اور ہم سچ کہتے ہیں اور کاذب پر لعنت اللہ ہے کہ ہمارا کوئی مقرب یا بیعت کا سچا تعلق رکھنے والا عیسائی نہیں ہوا ہاں دو بدچلن اور خراب اندرون آدمی آنکھوں کے اندھے جن کو دین سے کچھ بھی تعلق نہیں تھا منافقانہ طور کے بیعت کرنے والوں میں داخل ہو گئے تھے لیکن ہم نے یہ معلوم کر کے کہ یہ بدچلن اور خراب حالت کے آدمی ہیں ان کو اپنے مکان سے نکال دیا تھا اور ناپاک طبع پاکر بیعت کے سلسلہ سے الگ کر دیا تھا.اب فرمایئے کہ ان کا ہم سے کیا تعلق رہا اور ان کے مرتد ہونے سے ہمیں کیا رنج پہنچا.پادریوں پر یہ بھی زوال آیا کہ ان کو انہوں نے قبول کیا اور آخر دیکھیں گے کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے.حرام خور آدمی کسی قوم کے لئے جائے فخر نہیں ہوسکتا اگر آپ کو اس بیان میں شک ہو تو قادیان میں آویں اور ہم سے پورا پورا ثبوت لے لیں لیکن رائٹ تو اپنی اس حیثیت منصبی اور سرگروہی کی عزت سے معطل نہیں کیا گیا تھا اور وہی تھا جس نے مباحثہ کے پہلے انگریزی میں شرائط لکھے تھے پھر آپ کیوں ایسی صریح اور چمکتی ہوئی صداقت پر خاک ڈالتے ہیں یہ بات نہایت صاف ہے کہ اس جنگ میں جس کا نام پادریوں نے خود اپنے منہ سے جنگ مقدس رکھا تھا شکست کی چاروں صورتیں ان بندہ پرست نصرانیوں کو نصیب ہوئیں کیونکہ کوئی ان میں سے مارا گیا اور کوئی زخمی ہوا یعنی بیمار شدید ہوا اور مر مر کے بچا اور کوئی لعنتوں کے زنجیر میں گرفتار ہوا اور کوئی بھاگ گیا اور اسلامی جھنڈے کے نیچے پناہ لے کر جان بچائی اس کھلی کھلی اور فاش شکست سے انکار کرنا نہ صرف حماقت بلکہ پرلے درجہ کی بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہے لیکن اگر مغلوب اور ذلیل پادریوں کو خواہ نخواہ غالب قرار دینا ہے تو ہم آپ کی زبان کو نہیں پکڑ سکتے ورنہ سچ تو یہی ہے کہ اس پیشگوئی کے بعد پادریوں پر بہت ہی ذلت کی مار پڑی ہے عین میعاد پیشگوئی میں پادری رائٹ صاحب عین جوانی میں جہنم کی رونق افروزی کے لئے اس دنیا سے بلائے گئے اور ان کی موت پر اس قدر سیاپے اور درد ناک نوحے ہوئے کہ عیسائیوں نے آپ اقرار کیا کہ بے وقت ہم پر قہر نازل ہوا.

Page 562

پھر دوسری ذلّت دیکھو کہ پچاس برس کی مولویت کا دعویٰ جس کی بناء پر عماد الدین وغیرہ کا اسلامی تعلیم میں دخل دینا جاہلوں کی نظر میں معتبر سمجھا جاتا تھا نجاست کی طرح جھوٹ کی بدبو سے بھرا ہوا نکلا اور یکدفعہ بوسیدہ بنیاد کی طرح گر گیا اور ہزار لعنت کا رسہ ہمیشہ کے لئے تمام ان پادریوں کے گلے میں پڑ گیا جو علم عربی میں دخل رکھنے کا دم مارتے تھے کیا یہ ایسی ذلت اور رسوائی ہے جو کسی کے چھپانے سے چھپ سکے اور کیا یہ وہ پہلی ذلت نہیں ہے جو پادریوں کو ہندوستان میں اور پنجاب میں نصیب ہوئی جس کے اشتہارات یورپ اور امریکہ اور تمام بلاد میں پھیل کر عام طور پر جہالت اور دروغگوئی ان پادریوں کی جو مولوی کہلاتے تھے ثابت ہوئی اور ہمیشہ کیلئے یہ داغ ان کی پیشانی پر لگ گیا جواب ابد الدہر تک دور نہیں ہوسکتا.کیا ایسی ذلت کی کوئی نظیر ہمارے فریق میں پیشگوئی کے بعد آپ نے دیکھی.بھلا ذرا کلمہ طیبہ پڑھ کر بیان تو کرو تاہم بھی سنیں اور پھر یہ ذلتیں اور رسوائیاں ابھی ختم کہاں ہوئیں ہمارا اشتہارپر اشتہار نکالنا یہاں تک کہ تین ہزار تک انعام دینا اور آتھم صاحب کی قسم کھانے سے جان نکلنا کیا اس سے اسلام کی ہیبت اور صداقت بدیہی طور پر ثابت نہیں کیا اب بھی عیسائیوں کے ذلیل اور جھوٹے ہونے میں کچھ کسر باقی رہ گئی ہے اور آپ کا یہ کہنا کہ رات کو آتھم کی موت کے لئے دعائیں مانگنا یہ بھی ایک عذاب تھا.سبحان اللہ کس قدر مسلمان کہلا کر بے ہودہ باتیں آپ کے منہ سے نکل رہی ہیں.سچے مسلمان ہمیشہ غلبہئِ اسلام کے لئے دعائیں مانگتے ہیں اور تہجد بھی پڑھتے ہیں اور نماز میں بھی ان کو رقت طاری ہوتی ہے اور آیت .۱؎ کا مصداق ہوتے ہیں اگر یہی عذاب ہے تو ہماری دعا ہے کہ قیامت میں بھی یہ عذاب ہم سے الگ نہ ہو دعاکرنا ہمیشہ نبیوں کا طریق اور صلحاء کی سنت ہے اور عین عبادت ہے اس کا نام عذاب رکھنا انہیں لوگوں کا کام ہے جو دنیا کے کیڑے ہیں اور روحانی جہان سے بے خبر ہیں میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مومن صادق پر اس وقت دکھ اور عذاب کی حالت وارد ہوتی ہے کہ جب نماز کی رقت اور پُر رقت دعا اس سے فوت ہو جاتی ہے.اے غافلو یہ تو دین داروں ۱؎ الفرقان:۶۵

Page 563

اور را ستبازوں کا بہشت ہے نہ کہ عذاب ؎ ہر دم براہ جانان سوزیست عاشقان را زِ جہان چہ دید آن کس کہ ندید این جہان را۱؎ (۱۰) دسواں اعتراض یہ کہ پادری عماد الدین تو ایک جاہل آدمی ہے اور عربی سے بے بہرہ وہ بے چارہ عربی کتابوں کا جواب کیونکر لکھتا.الجواب.ایسا جاہل ایک مدت دراز سے مولوی کہلاتا تھا اور ہزاروں نادان اس کو مولوی سمجھتے تھے تو کیا اس کی ان تالیفات سے ذلت نہیں ہوئی اور کیا وہ بباعث عاجز رہ جانے کے اس ہزار لعنت کا مستحق نہ ہوا جو نور الحق کے چار صفحہ میں لکھی گئی ماسوا اس کے اے حضرت اس سے تو ان تمام پادریوں کی ناک کٹ گئی جو مولوی کہلاتے تھے اور مولویت کے دھوکہ سے جاہلوں پر بداثر ڈالتے تھے.نہ صرف عمادالدین کا ناک.کیا ایسی ثابت شدہ ذلت اور لعنت کی نظیر ہماری جماعت کو بھی پیش آئی آپ عیسائیوں کے حامی تو بنے اب حلفاًپورا پورا جواب دیں.(۱۱) گیارھواں اعتراض یہ ہے کہ ایک ہندو زادہ سعد اللہ نام لدھیانہ سے اپنے اشتہار ۱۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء میں لکھتا ہے کہ صرف دل میں حق کی عظمت کو ماننا اور اپنے عقائد باطلہ کو غلط سمجھنا کسی طرح عمل خیر نہیں بن سکتا یہ دجاّل قادیانی کا ہی کام ہے کہ اس کا نام رجوع بحق رکھے.الجواب.اے احمق دل کے اندھے دجاّل تو توُ ہی ہے جو قرآن کریم کے برخلاف بیان کرتا ہے اور نیز اپنی قدیم بے ایمانی سے ہمارے بیان کو محرف کر کے لکھتا ہے ہم نے کب اور کس وقت کہا جو ایسا رجوع جو خوف کے وقت میں ہو اور پھر انسان اس سے پھر جائے نجات اخروی کے لئے مفید ہے بلکہ ہم تو بار بار کہتے ہیں کہ ایسارجوع نجات اخروی کے لئے ہرگز مفید نہیں اور ہم نے کب آتھم نجاست خوارشرک کو بہشتی قرار دیا ہے یہ تو سراسر تیرا ہی افترا اور بے ایمانی ہے ہم نے تو قرآن کریم کی تعلیم کے موافق صرف یہ بیان کیا تھا کہ کوئی کافر اور فاسق جب عذاب کے اندیشہ سے عظمت اور صداقت اسلام کا خوف اپنے دل میں ڈال لے اور اپنی ۱؎ ترجمہ.عاشق ہر وقت اپنے محبوب کے لئے تڑپتے رہتے ہیں، جسے یہ کیفیت حاصل نہ ہوئی اس نے اس دنیا سے کیا دیکھا.

Page 564

شوخیوں اور بے باکیوں کی کسی قدر رجوع کے ساتھ اصلاح کر لے تو خدا تعالیٰ وعدہ عذاب دنیوی میں تاخیر ڈال دیتا ہے یہی تعلیم سارے قرآن میں موجود ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہ کفار کا قول ذکر کر کے فرماتا ہے.   .۱؎ … اور پھر جواب میں فرماتا ہے  .۲؎ یعنی کافر عذاب کے وقت کہیں گے کہ اے خدا ہم سے عذاب دفع کر کہ ہم ایمان لائے اور ہم تھوڑا سا یا تھوڑی مدت تک عذاب دور کر دیں گے مگر تم اے کافرو پھر کفر کی طرف عود کرو گے.پس ان آیات سے اور ایسا ہی ان آیتوں سے جن میں قریب الغرق کشتیوں کا ذکر ہے صریح منطوق قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب دنیوی ایسے کافروں کے سر پر سے ٹل جاتا ہے جو خوف کے دنوں اور وقتوں میں حق اور توحید کی طرف رجوع کریں گو امن پاکر پھر بے ایمان ہو جائیں.بھلا اگر ہمارا یہ بیان صحیح نہیں ہے تو اپنے معلّم شیخ بٹالوی کو کہو کہ قسم کھا کر بذریعہ تحریر یہ ظاہر کرے کہ ہمارا یہ بیان غلط ہے کیونکہ تم تو جاہل ہو تم ہرگز نہیں سمجھو گے اور وہ سمجھ لے گا اور یاد رکھو کہ وہ ہرگز قسم نہیں کھائے گا کیونکہ ہمارے بیان میں سچائی کا نور دیکھے گا اور قرآن کے مطابق پائے گا پس اب بتلا کہ کیا دجال تیرا ہی نام ثابت ہوا یا کسی اور کا.حق سے لڑتا رہ آخر اے مردار دیکھے گا کہ تیرا کیا انجام ہوگا اے عدو اللہ تو مجھ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے لڑ رہا ہے بخدا مجھے اسی وقت ۲۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کو تیری نسبت الہام ہوا ہے اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْاَبْتَرْ اور ہم نے اس طرح پر آتھم کا رجوع بحق ہونا بے ثبوت نہیں کہا.کیا تو سوچتا نہیں کہ اگر وہ سچا ہے تو کیوں قسم نہیں کھاتا.اگر یہی سچ ہے تو وہ سچی قسم کھانے سے کس پہاڑ کے نیچے آکر دب جائے گا اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ آتھم صاحب کا صرف بحیثیت مدعا علیہ انکار کرتے رہنا کچھ بھی چیز نہیں جھوٹ بولنا نصاریٰ کی سرشت میں داخل ہے اگر بندہ پرست لوگ جھوٹ نہ بولیں تو اور کون بولے مگر ہمارا تو یہ مطلب اور مدعا ہے کہ بحیثیت ایک گواہ کے کھڑا ہوکر مجمع عام میں اس مضمون کی قسم کھا جائیں جس کی ہم بار بار تعلیم کرتے ہیں مگر کیا اس نے ۱؎ الدخان: ۱۳ ۲؎ الدخان: ۱۶

Page 565

کو ہی غالب سمجھتا ہے تو چاہیے کہ ہم سے دو ہزار روپیہ لے اور آتھم صاحب سے ہمارے منشاء کے موافق قسم دلادے پھر جو کچھ چاہے ہمیں کہتا رہے ورنہ یوں ہی اسلامی بحث پر مخالفانہ حملہ کرنا اور زبان سے مسلمان کہلانا کسی ولدالحلال کا کام نہیں مگرمیاں سعد اللہ صاحب نے آج تک آتھم صاحب کو قسم کھانے پر مستعد نہ کیا مگر عیسائیوں کو غالب سمجھتا رہا اور اپنے پر دانستہ وہ لقب لے لیا جس کو کوئی نیک طینت لے نہیں سکتا اور پھر یہ نادان کہتا ہے کہ اگر مرنا ہی عذاب کی نشانی ہے تو قادیانی بھی ضرور ایک دن اس عذاب میں مبتلا ہوگا.اے احمق تیری کیوں عقل ماری گئی کیا تو قرآن نہیں پڑھتا.یوں تو انبیاء بھی فوت ہو گئے بلکہ بعض شہید ہوئے اور ان کے دشمن فرعون اور ابوجہل وغیرہ بھی مر گئے یا مارے گئے لیکن وہ موت جو مقابلہ کے وقت اہل حق کی دعا سے یا اہل حق کے ایذا سے یا اہل حق کی پیشگوئی سے اشقیا پروارد ہوتی ہے وہ عذاب کی موت کہلاتی ہے کیونکہ جہنم تک پہنچاتی ہے مگر اہل حق اگر شہید بھی ہو جائیں تو وہ خدا کے فضل سے بہشت میں جاتے ہیں.(۱۲) بارواں اعتراض اِسی ہندو زادہ کا یہ ہے کہ جب کوئی عمل نہ چلا تو ڈھکوسلا بنا لیا کہ آتھم نے رجوع بحق کیا ہے.الجواب.ہاں اے ہندو زادہ اب ثابت ہوگیا کہ ضرور تو حلال زادہ ہے ہماری اس شرط پرکہ کوئی آتھم کو قسم دینے سے پہلے تکذیب نہ کرے خوب ہی تو نے عمل کیا آفرین آفرین.سچ کہہ کہ یہ ڈھکوسلا اب بنا لیا یا الہام میں پہلے سے شرط تھی اور کیا اس شرط کے تصفیہ کے لئے ضرور نہ تھا کہ آتھم قسم کھا لیتا.کیا قسم کے دو حرف منہ پر لانا اور تین ہزار روپیہ نقد لینا ایک سچے آدمی کے لئے کچھ مشکل ہے!!! (۱۳) بعض شبہات ایسے لوگوں کی طرف سے ہیں جو اخلاص رکھتے ہیں لیکن بباعث کمی معلومات بے خبر ہیں پس ہم اس جگہ ان کے اوہام کو بھی بطور قولہ اقول دفع کر دیتے ہیں.قولہ.آتھم اسلام کی طرف ر جوع کرنے سے صریح اپنے خط مطبوعہ میں انکار کرتا ہے

Page 566

صرف قسم کھا لینا اور روپے لینا باقی رہا ہے.اقول.یہ انکار برنگ شہادت انکار نہیں بلکہ ایسے طور کا انکار ہے جیسے بدمعاملہ مدعا علیہم کیا کرتے ہیں پس ایسا انکار اس دعوے کو توڑ نہیں سکتا جو خود آتھم صاحب کی حالی شہادت سے ثابت ہے کیا اس میں کچھ شک ہے کہ آتھم صاحب نے اپنی سراسیمگی اور دن رات کی پریشانی اور گر یہ و بکا اور ہر وقت مغموم اور اندوہناک رہنے سے دکھا دیا کہ وہ ضرور اس پیشگوئی سے متاثر اور خائف رہے ہیں بلکہ آتھم صاحب نے خود رو رو کر مجلسوں میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ وہ اس پیشگوئی کے بعد ضرور موت سے ڈرتے رہے.چنانچہ ابھی ستمبر ۱۸۹۴ء کے مہینہ میں وہ اقرار نور افشاں میں چھپ بھی گیا ہے جس کی اب وہ یہ تاویل کرتے ہیں کہ پیشگوئی سے ہمیں خوف نہیں تھا اور نہ اسلامی عظمت کا اثر تھا بلکہ یہ خوف تھا کہ کوئی مجھ کو مار نہ دیوے لیکن انہوں نے خوف کا صریح اقرار کر کے پھر اس کا کچھ ثبوت نہیں دیا کہ ایسا خوف جس نے ان کو حیوانوں کی طرح بنا رکھا تھا کیا سارا مدار اس کا صرف اس وہم پر تھا کہ کوئی مجھ کو قتل نہ کر دیوے پس جبکہ ہماری پیشگوئی کے بعد یہ سارا خوف تھا جس کے وہ خود اقراری ہیں جس کو یاد کر کے اب بھی وہ زار زار روتے ہیں تو ہمارا یہ حق ہے کہ ہم ان کی اس تاویل کو لَا نَسْلِم کی مَدمیں رکھ کر ان سے وہ ثبوت مانگیں جو موجب تسلی ہو کیونکہ جب کہ وہ نفس خوف کے خود اقراری ہیں تو ہمیں انصافاًو قانوناً حق پہنچتا ہے کہ ان سے وہ قسم غلیظ لیں جس کے ذریعہ سے وہ حق بیان کر سکیں اور بغیر قسم کے ان کے بیانات لغو ہیں کیونکہ وہ باتیں بحیثیت مدعا علیہ کے ہیں.قولہ.آتھم صاحب کے ذمہ اس طرح پر قسم کھانا انصافاًضروری نہیں.اقول.جبکہ آتھم صاحب کے وہ حالات جو پیشگوئی کی میعاد میں ان پر وارد ہوئے جنہوں نے ان کو مارے خوف کے دیوانہ سا بنا دیا تھا بلند آواز سے پکار رہے ہیں کہ ایک ڈرانے والا اثر ضرور ان کے دل پر وارد ہوا تھا اور پھر بعد اس کے ان کی زبان کا اقرار بھی نور افشاں میں چھپ گیا کہ وہ ضرور اس عرصہ میں خوف اور ڈر کی حالت میں رہے اور جو ڈر کے وجوہ انہوں نے بیان کئے

Page 567

ہیں وہ ایسا دعویٰ ہے جس کو وہ ثابت نہیں کرسکے.پس اس صورت میں وہ خود انصافاًو قانوناً اس مطالبہ کے نیچے آگئے کہ وہ اس الزام سے قسم کے ساتھ اپنی بریت ظاہر کریں جو خود ان کے افعال اور ان کے بیان سے شبہ کے طور پر ان کے عاید حال ہوتا ہے پس ان کی بریت اس شبہ سے جس کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے آپ پیدا کیا اسی میں ہے کہ وہ ایسی قسم جو مجھ مدعی کو مطمئن کرسکتی ہو یعنی میرے منشا کے موافق ہو جلسہ عام میں کھالیں اور یاد رہے کہ درحقیقت ان کے ایسے افعال سے جوان کی خوفناک حالت پر اور ان کے ڈر سے بھرے ہوئے دل پر پندرہ مہینہ تک گواہی دیتے رہے اور ان کے ایسے بیان سے جو رو رو کر اس زمانہ کی نسبت بتلایا جو نور افشاں ماہ ستمبر ۱۸۹۴ء میں چھپ گیا.یہ امر قطعی طور پر ثابت ہوگیا ہے کہ وہ ضرور ایام پیشگوئی میں ڈرتے رہے پس ان کا یہ دعوٰی کہ وہ عظمت حق کے خوف سے نہیں ڈرے بلکہ قتل کئے جانے سے ڈرے اس دعویٰ کا بار ثبوت قانوناً و انصافاًانہیں کے ذمہ تھا جس سے وہ سبکدوش نہیں ہوسکے لہٰذا ہمارے لئے یہ قانونی حق حاصل ہے کہ ایک قابل اطمینان ثبوت کے لئے ان کو قسم پر مجبور کریں اور ان پر قانوناً واجب ہے کہ وہ اس طریق فیصلہ سے گریز نہ کریں جس طریق سے پورے طور پر ان کے سر پر سے ہمارا شبہ اور الزام اٹھ جائے.یہی وہ طریق ہے جس کو قانون و انصاف چاہتا ہے.اب تم خواہ کسی وکیل یا بیرسٹر یا جج کو بھی پوچھ کر دیکھ لو ہاں اگر آتھم صاحب اب حسب تجویز قرار دادہ ہماری کے قسم کھا لیں تو بلا شبہ ان کی صفائی ہوجائے گی اور اگر قسم کے ضرر سے بچ گئے تو ثابت ہو جائے گا کہ وہ واقعی طور پر اسلامی پیشگوئی سے ذرہ نہیں ڈرے بلکہ وہ اس لئے خائف رہے کہ ان کو یہ پرانا تجربہ تھا کہ یہ عاجز خونی آدمی ہے ہمیشہ ناحق کے خون کرتا رہا ہے لہٰذا اب ان کا بھی ضرور خون کر دے گا.قولہ.اس قسم کی تحدّی اور پھر خفی طریقوں سے اس کا ثبوت.اقول.عقلمند کے لئے یہ خفی طریقہ نہیں جس حالت میں پندرہ مہینہ تک آتھم صاحب کے خوف کے قصے اور ان کی سراسیمگی کی حالت دنیا میں مشہور ہوگئی پھر اب تک وہ زبان سے بھی رو رو کر اقرار کرتے ہیں کہ میں ضرور ڈرتا رہا مگر تلواروں کا خوف تھا گویا کسی راجہ یا نواب یا کسی ڈاکو نے

Page 568

کو قتل کی دھمکی دی تھی اور جب کہا جاتا ہے کہ یہ کمال درجہ کا خوف جو آپ سے ظاہر ہوا اگر یہ تلوار کا خوف تھا سچے دین کی عظمت اور قہر الٰہی کا خوف نہیں تھا تو آپ قسم کھالیں کیونکہ اب آپ کے یہ دل کا بھید بجز قسم کے فیصلہ نہیں پاسکتا تو آپ قسم کھانے سے کنارہ کر رہے ہیں نہ ہزارروپیہ لیں نہ دو ہزار روپیہ اب اسی غرض سے تین ہزار روپیہ کا اشتہار جاری کیا گیا مگر قسم کی اب بھی امید نہیں.تو اب انصافاًفرمایئے کہ کیا اب بھی ہمارے ثبوت کا طریقہ پوشیدہ ہے دشمن تو اسی وقت سے پکڑا گیا کہ جب اس نے خوف کا اقرار کر کے پھر قسم کھانے سے انکار کیا اور آپ کو یاد ہوگا کہ حدیبیہ کے قصہ کو خدا تعالیٰ نے فتح مبین کے نام سے موسوم کیا ہے اور فرمایا ہے..۱؎ وہ فتح اکثر صحابہ پر بھی مخفی تھی بلکہ بعض منافقین کے ارتداد کی موجب ہوئی مگر دراصل وہ فتح مبین تھی گو اس کے مقدمات نظری اور عمیق تھے پس دراصل یہ فتح بھی حدیبیہ کی فتح کی طرح نہایت مبارک فتح اور بہت سی فتوحات کا مقدمہ اور بعض کے لئے موجب ابتلاء اور بعض کے لئے موجب اصطفاء ہے اور اس پیشگوئی کو بھی پوری کرتی ہے جس کے یہ الفاظ ہیں کہ اَلْحَقُّ فِیْ آلِ مُحَمَّدٍ اور اَلْحَقُّ فِیْ آلِ عِیْسٰی اور جو لوگ ابتلا میں گرفتار ہوئے انہوں نے اپنی بدنصیبی سے اس پیشگوئی کے سارے پہلو غور سے نہیں دیکھے اور قبل اس کے جو غور کریں محض جہالت اور سادگی سے اپنی کم عقلی کا پردہ فاش کر دیا اور کہا کہ یہ پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوئی.اگر وہ اس سنت اللہ سے خبر رکھتے جس کو قرآن کریم نے پیش کیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے..۲؎ الجزو نمبر ۲۵ سورۃ الزخرف تو جلدی کر کے اپنے تئیں ندامت کے گڑھے میں نہ ڈالتے مگر ضرور تھا کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اس زمانہ کے لئے پہلے سے فرمایا تھا وہ سب پورا ہوا اور دوسرا دھوکا ان کچے معترضوں کو یہ بھی لگا کہ وہ پیشگوئی کی عظمت اور کمال ظہور کو صرف اِسی حد تک ختم کر بیٹھے حالانکہ جس الہام پر اس پیشگوئی کی کیفیت مبنی ہے اس میں یہ فقرات بھی ہیں.اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰٰی ھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ.وَ لَنْ تَجِدَ ۱؎ الفتح : ۲ ۲؎ الزخرف : ۵۱

Page 569

لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا.وَ لَا تَعْجَبُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمُ مُّؤْمِنِیْنَ.وَ بِعِزَّتِیْ وَ جَلَالِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی وَ نُمَزِّقُ الْاَعْدَآئَ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَّ مَکْرُ اُولٰٓئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ.اِنَّا نَکْشِفُ السِرَّ عَنْ سَاقِہٖ.یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.وَ ھٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا.دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۲.یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ایک الہام کے لئے وہ سنت اللہ بطور امام اور مہیمن اور پیشرو کے ہے جو قرآن کریم میں وارد ہوچکی ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی الہام اس سنت کو توڑ کر ظہور میں آوے کیونکہ اس سے پاک نوشتوں کا باطل ہونا لازم آتا ہے پھر جبکہ قرآنی تعلیم نے صاف طور پر بتلا دیا کہ ایسا رجوع بھی دنیوی عذاب میں تاخیر ڈال دیتا ہے جو محض دل کے ساتھ ہو اور مَعَ ذَالِکَ ایسا ناقص بھی ہو جو امن کے ایام میں قائم نہ رہے تو پھر کیونکر ممکن تھا کہ آتھم اپنے اس رجوع سے فائدہ نہ اٹھاتا بلکہ اگر یہ شرط الہام میں بھی موجود نہ ہوتی تب بھی اس سنت اللہ سے فائدہ اٹھانا ضروری تھا کیونکہ کوئی الہام ان سنتوں کو باطل نہیں کرسکتا جو قرآن کریم میں آچکی ہیں بلکہ ایسے موقع پر الہام میں شرط مخفی کا اقرار کرنا پڑے گا جیسا کہ اس پر تمام اصفیاء اور اولیاء کا اتفاق ہے.(۱۴) اعتراض چودواں.دراصل آتھم صاحب کے حواس قائم نہیں ہیں او راب تک کچھ دہشت زدہ ہیں اس لئے پادری صاحبان ان کو قسم کھانے پر آمادہ نہیں کرسکتے اس اندیشہ سے کہ شاید قسم کھانے کے وقت اسلام کا اقرار ہی نہ کرلیں.الجواب.اگر آتھم صاحب کے حواس میں خلل ہے تو سوال یہ ہے کہ آیا یہ خلل پیشگوئی کے پہلے بھی موجود تھا یا پیشگوئی کے بعد ہی ظہور میں آیا اگر پیشگوئی کے پہلے موجود تھا تو ایسا خیال بدیہی البطلان ہے کیونکہ وہ اس حالت میں بحث کے لئے کیونکر اور کیوں منتخب کئے گئے اور طرفہ تر یہ کہ خود ڈاکٹر نے ان کو اس بحث کے لئے منتخب کیا تھا تو بجز اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ڈاکٹر مارٹن کلارک کے حواس میں بھی خلل تھا اور اگر یہ خلل پیشگوئی کے بعد میں پیدا ہوا تو پھر وہ پیشگوئی کی تاثیرات میں سے ایک تاثیر سمجھی جائے گی اور عذاب مقدر کا ایک جزو متصور ہوگا اور اس صورت میں

Page 570

یہ ماننا پڑے گا کہ جیسا کہ اکثروں کا خیال ہے کہ جو تحریریں آتھم صاحب کی طرف سے نور افشاں میں شائع کی گئیں ہیں یا جو ان کے خطوط بعضوں کو پہنچے ہیں یہ باتیں ان کے دل و دماغ سے نہیں نکلیں بلکہ طوطے کی طرح ان کے منہ سے نکلوائی گئیں یا لکھوائی گئیںہیں ورنہ ان کو معلوم نہیں کہ ان کے منہ سے کیا نکلا یا ان کے قلم نے کیا لکھا کیونکہ جبکہ حواس میں خلل ہے تو کسی بات پر کیا اعتماد.دوسرا حصہ اس اشتہار کا خاص طور پر آتھم صاحب کی خدمت میں بطور خط کے ہے اور وہ یہ ہے ازطرف عبد اللّٰہ الاحد احمد عافاہ اللّٰہ و ایّد.آتھم صاحب کو معلوم ہو کہ میں نے آپ کا وہ خط پڑھا جو آپ نے نور افشاں ۲۱ ؍ستمبر ۱۸۹۴ء کے صفحہ ۱۰ میں چھپوایا ہے مگر افسوس کہ آپ اس خط میں دونوں ہاتھ سے کوشش کر رہے ہیں کہ حق ظاہر نہ ہو میں نے خدا تعالیٰ سے سچا اور پاک الہام پاکر یقینی اور قطعی طور پر جیسا کہ آفتاب نظر آجاتا ہے معلوم کر لیا ہے کہ آپ نے میعاد پیشگوئی کے اندر اسلامی عظمت اور صداقت کا سخت اثر اپنے دل پر ڈالا اور اسی بناء پر پیشگوئی کے وقوع کا ہم و غم کمال درجہ پر آپ کے دل پر غالب ہوا.میں اللہ جلّ شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بالکل صحیح ہے اور خدا تعالیٰ کے مکالمہ سے مجھ کو یہ اطلاع ملی ہے اور اس پاک ذات نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ جو انسان کے دل کے تصورات کو جانتا اور اس کے پوشیدہ خیالات کو دیکھتاہے ۱؎ اور اگر میں اس بیان میں حق پر نہیں تو خدا مجھ کو آپ سے پہلے موت دے.پس اسی وجہ سے میں نے چاہا کہ آپ مجلس عام میں قسم غلیظ مؤکد بعذاب موت کھاویں ایسے طریق سے جو میں بیان کر چکا ہوں تامیرا اور آپ کا ۱؎ نوٹ.بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ الہام پندرہ مہینہ کے اندر ہی کیوں شائع نہ کیا سو واضح ہو کہ پندرہ مہینہ کے اندر ہی یہ الہام ہو چکا تھا پھر جبکہ الہام نے اپنی صداقت کا پورا ثبوت دے دیا تو ثابت شدہ امر کا انکار کرنا بے ایمانی ہے.منہ

Page 571

فیصلہ ہو جائے اور دنیا تاریکی میں نہ رہے اور اگر آپ چاہیں گے تو میں بھی ایک برس یا دو برس یا تین برس کے لئے قسم کھا لوں گا.کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ سچا ہرگز برباد نہیں ہوسکتا بلکہ وہی ہلاک ہوگا جس کو جھوٹ نے پہلے سے ہلاک کر دیا ہے.اگر صدق الہام اور صدق اسلام پر مجھے قسم دی جائے تو میں آپ سے ایک پیسہ نہیں لیتا لیکن آپ کے قسم کھانے کے وقت تین ہزار کے بدرے پہلے پیش کئے جائیں گے یا تحریر باضابطہ لے کر پہلے ہی دے دیئے جائیں گے اگر میں روپیہ دینے میں ذرہ بھی توقف کروں تو اسی مجلس میں جھوٹا ٹھہر جائوں گا مگر وہ روپیہ ایک سال تک بطور امانت آپ کے ضامنوں کے پاس رہے گا.پھر آپ زندہ رہے تو آپ کی مِلک ہو جائے گا.اور اگر اس کے سوا میرے لئے میرے کاذب نکلنے کی حالت میں سزائے موت بھی تجویز ہو تو بخدا اس کے بھگتنے کے لئے بھی تیار ہوں مگر افسوس سے لکھتا ہوں کہ اب تک آپ اس قسم کے کھانے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے اگر آپ سچے ہیں اور میں ہی جھوٹا ہوں تو کیوں میرے روبرو جلسہ عام میں قسم مؤکد بعذاب موت نہیں کھاتے مگر آپ کی یہ تحریریں جو اخباروں میں یا خطوط کے ذریعہ سے آپ شائع کر رہے ہیں بالکل سچائی اور راست بازی کے برخلاف ہیں کیونکہ یہ باتیں بحیثیت ایک مدعا علیہ کے آپ کے منہ سے نکل رہی ہیں جو ہرگز قابل اعتبار نہیں اور میں چاہتا ہوں کہ بحیثیت ایک گواہ کے جلسہ عام میں حاضر ہوں یا چند ایسے خاص لوگوں کے جلسہ میں جن کی تعداد فریقین کی منظوری سے قائم ہو جائے.آپ خوب سمجھتے ہیں کہ فیصلہ کرنے کے لئے اخیری طریق حلف ہے، اگر آپ اس فیصلہ کی طرف رخ نہ کریں تو آپ کو حق نہیں پہنچتاکہ آئندہ کبھی عیسائی کہلاویں مجھے حیرت پر حیرت ہے کہ اگر واقعی طور پر آپ سچے اور مَیں مفتری ہوں تو پھر کیوں ایسے فیصلہ سے آپ گریز کرتے ہیں جو آسمانی ہوگا اور صرف سچے کی حمایت کرے گا اور جھوٹے کو نابود کر دے گا.بعض نادان عیسائیوں کا یہ کہنا کہ جو ہونا تھا ہوچکا عجیب حماقت اور بے دینی ہے وہ اس امر واقعی کو کیونکر اور کہاں چھپا سکتے ہیں کہ وہ پہلی پیشگوئی دو پہلو پر مشتمل تھی پس اگر ایک ہی پہلو پر مدار فیصلہ رکھا جائے تو اس سے بڑھ کر کون سی بے ایمانی ہو گی اور دوسرے پہلو کے امتحان کا وہی ذریعہ ہے جو الٰہی تفہیم نے میرے پر

Page 572

ظاہر کیا یعنی یہ کہ آپ قسم مؤکد بعذاب موت کھا جائیں اب اگر آپ قسم نہ کھائیں اور یوں ہی فضول گو مدعا علیہوں کی طرح اپنی عیسائیت کا اظہار کریں تو ایسے بیانات شہادت کا حکم نہیں رکھتے بلکہ تعصب اور حق پوشی پر مبنی سمجھے جاتے ہیں سو اگر آپ سچے ہیں تو میں آپ کو اُس پاک قادر ذوالجلال کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ضرور تاریخ مقرر کر کے جلسہ عام یا خاص میں حسب شرح بالا قسم مؤکد بعذابِ موت کھاویں تاحق اور باطل میں خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے فیصلہ ہوجائے.اب میں آپ کی اس مہمل تقریر کی جو آپ نے پرچۂ نور افشاں ۲۱ ؍ستمبر ۱۸۹۴ء میں چھپوائی ہے حقیقت ظاہر کرتا ہوں کیا وہ ایک شہادت ہے جو فیصلہ کے لئے کارآمد ہوسکے ہرگز نہیں وہ تو مدعا علیہوں کے رنگ میں ایک یک طرفہ بیان ہے جس میں آپ نے جھوٹ بولنے اور حق پوشی سے ذرا خوف نہ کیا کیوں کہ آپ جانتے تھے کہ یہ بیان بطور بیان شاہد قسم کے ساتھ مؤکد نہیں بلکہ جاہلوں کے لئے ایک طفل تسلی ہے پھر آپ زبان دبا کر یہ بھی اس میں اشارہ کرتے ہیں کہ میں عام عیسائیوں کے عقیدہ ابنیت والوہیت کے ساتھ متفق نہیں اور نہ میں ان عیسائیوں سے متفق ہوں جنہوں نے آپ کے ساتھ کچھ بے ہودگی کی اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ قریب ستر۷۰ برس کی میری عمر ہے اور پہلے اس سے اسی سال کے کسی پرچہ نور افشاں میں چھپا تھا کہ آپ کی عمر چونسٹھ برس کے قریب ہے پس میں متعجب ہوں کہ اس ذکر سے کیا فائدہ کیا آپ عمر کے لحاظ سے ڈرتے ہیں کہ شاید میں فوت ہوجائوں مگر آپ نہیں سوچتے کہ بجز ارادہ قادر مطلق کوئی فوت نہیں ہوسکتا جبکہ میں بھی قسم کھا چکا اور آپ بھی کھائیں گے تو جو شخص ہم دونوں میں جھوٹا ہوگا وہ دنیا پر اثر ہدایت ڈالنے کے لئے اس جہان سے اٹھا لیا جائے گا.اگر آپ چونسٹھ برس کے ہیں تو میری عمر بھی قریباً ساٹھ کی ہوچکی دو خدائوں کی لڑائی ہے ایک اسلام کا اور ایک عیسائیوں کا پس جو سچا اور قادر خدا ہوگا وہ ضرور اپنے بندہ کو بچا لے گا.اگر آپ کی نظر میں کچھ عزت اُس مسیح کی ہے جس نے مریم صدیقہ سے تولّد پایا تو اس عزت کی سفارش پیش کر کے پھر میں آپ کو خداوند قادر مطلق کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اس اشتہار کے منشاء کے موافق عام مجلس میں قسم مؤکد بعذابِ موت کھاویں یعنی یہ کہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں

Page 573

نے پیشگوئی کی میعاد میں اسلامی عظمت اور صداقت کا کچھ اثر اپنے دل پر نہیں ڈالا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی حقّانی ہیبت میرے دل پر طاری ہوئی اور نہ میرے دل نے اسلام کو حقّانی مذہب خیال کیا بلکہ میں درحقیقت مسیح کی ابنیت اور الوہیت اور کفاّرہ پر یقینِ کامل کے ساتھ اعتقاد رکھتا رہا اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اے قادر خدا جو دل کے تصورات کو جانتا ہے اس بے باکی کے عوض میں سخت ذلت اور دکھ کے ساتھ عذاب موت ایک سال کے اندر میرے پر نازل کر اور یہ تین مرتبہ کہنا ہوگا اور ہم تین مرتبہ آمین کہیں گے اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کو مسیح کی عزت کا کچھ بھی پاس ہے یا نہیں زیادہ کیا لکھوں.۱؎ وَالسَّـلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی راقم میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۵ ؍اکتوبر ۱۸۹۴ء مطبوعہ گلزار محمدی پریس لاہور تعداد اشاعت دس ہزار ۱۰۰۰۰ (یہ اشتہارسائز کے ۳۰ صفحوں پر ہے) (ضمیمہ انوار الاسلام صفحہ ۱ تا ۲۰مطبوعہ ۱۸۹۴ء.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۷۱ تا ۹۶) ------------------------------ ۱؎ نوٹ.میں اس جگہ ڈاکٹر مارٹین کلارک اور پادری عماد الدین صاحب اور دیگر پادری صاحبان کو بھی حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم کی عزت اور وجاہت کو اپنے اس قول کا درمیانی شفیع ٹھہرا کر خداوند قادر ذوالجلال کی قسم دیتا ہوں کہ وہ آتھم صاحب کو حسب منشاء میری قسم کھانے کے لئے آمادہ کریں ورنہ ثابت ہوگا کہ ان کے دل میں ایک ذرہ تعظیم حضرت مسیح کی عزت اور وجاہت کی نہیں ہے.منہ

Page 574

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری اور اس کے داماد سلطان محمد کی نسبت جو پیشگوئی کی تھی اس کی حقیقت چونکہ بہت سے لوگ دریافت کرتے ہیں کہ اس پیشگوئی کی میعاد پوری ہو گئی.اور ابھی پیشگوئی کے پورے ہونے کا نام و نشان نہیں.اس لیے ان کو اصل حقیقت پر مطلع کرنے کے لیے لکھا جاتا ہے کہ اس پیشگوئی کے دو حصہ تھے.پہلا اور بڑا حصّہ مرزا احمد بیگ کی وفات معہ اس کی دوسری مصیبتوں کے تھی اور دوسرا حصّہ اس کے داماد کی وفات کی نسبت تھا جو سلطان محمد ساکن پٹی ہے.یہ دونوں حصّے ایک ہی پیشگوئی اور ایک ہی الہام میں داخل تھے.چنانچہ مدّت دو سال گذر چکی جو مرزا احمد بیگ میعاد کے اندر فوت ہو گیا اور جیسا کہ پیشگوئی کا منشاء تھا اس نے اپنی زندگی میں پیشگوئی کے بعد اپنے بیٹے کی وفات اور دو ہمشیروں کی وفات اور کئی قسم کی حرج اور تکالیف مالی اور کئی ناکامیاں دیکھ کر آخر مقام ہوشیارپور میںمیعاد کے اندروفات کی اور اس حصہ پیشگوئی کی نسبت میاں شیخ بٹالوی صاحب نے اپنی اشاعت السنہ میں لکھا کہ اگرچہ یہ پیشگوئی تو پوری ہو گئی مگر یہ الہام سے نہیں بلکہ علم رمل یا نجوم وغیرہ کے ذریعہ سے کی گئی.غرض اس بات سے بڑے بڑے دشمن بھی انکار

Page 575

نہ کر سکے کہ اس پیشگوئی کا نصف حصہ بڑی صفائی سے پورا ہو گیا.باقی رہا دوسرا حصہ جو احمد بیگ کے داماد کی وفات ہے یہ اگر میعاد مقررہ میں پورا نہ ہوا بلکہ میعاد کے بعد پورا ہوا تو اس پر وہی لوگ اعتراض کریں گے جن کو خدا تعالیٰ کی ان سنتوں اور قانون سے بے خبری ہے جو اس کی پاک کتاب میں پائی جاتی ہیں.ہم کئی بار لکھ چکے ہیں جو تخویف اور انذار کی پیشگوئیاں جس قدر ہوتی ہیں جن کے ذریعہ سے ایک بے باک قوم کو سزا دینا منظور ہوتا ہے ان کی تاریخیں اور میعادیں تقدیر مبرم کی طرح نہیں ہوتیں بلکہ تقدیر معلّق کی طرح ہوتی ہیں اور اگر وہ لوگ نزول عذاب سے پہلے توبہ اور استغفار اور رجوع الی الحق سے کسی قدر اپنی شوخیوں اور چالاکیوں اور تکبرّوں کی اصلاح کریں تو وہ عذاب کسی ایسے وقت پر جا پڑتا ہے کہ جب وہ لوگ اپنی پہلی عادات کی طرف پھر رجوع کر لیں.یہی سنّت اللہ ہے کہ قرآن کریم اور دوسری الٰہی کتابوں سے ثابت ہوتی ہے اور چونکہ یہ سنّت مستمرّہ اور عادتِ قدیمہ حضرت باری جلّ اسمہٗ کی ہے جس کا ذکر اس کی تمام کتابوں میں پایا جاتا ہے اس لیے انذار اور تخویف کے الہامات میں کچھ ضرور نہیں ہوتا کہ شرط کے طور پر اس سُنّت اللہ کاا لہام میں ذکر بھی کیا جائے.کیونکہ کوئی الہام اس سنّت اللہ کے مخالف ہو ہی نہیں سکتا جو خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں دائمی طور پر پائی جاتی ہے.وجہ یہ کہ ہر ایک الہام کے لیے کتاب الٰہی بطور امام اور مہیمن کے ہے اور ضرور ہے کہ الہام اپنے امام کی سنن اور حدود سے تجاوز نہ کرے ورنہ وہ الہامِ الٰہی نہیں ہوسکتا.اب بعد اس تمہید کے جاننا چاہیے کہ یہ پیشگوئی بھی بطور انذار اور تخویف کے تھی.ا ور موت کا نوٹ.اس عادت اللہ سے تو سارا قرآن اور پہلی سماوی کتابیں بھری ہوئی ہیں کہ عذاب کی پیشگوئیوں کی میعاد توبہ اور استغفار سے اور حق کی عظمت کا خوف اپنے دل پر ڈالنے سے ٹلتی رہی ہے.جیسا کہ یونس نبی کا قصّہ ہی اس پر شاہد ہے.جن کی قوم کو قطعی طور پر بغیر بیان کسی شرط کے چالیس دن کی میعاد بتلائی گئی تھی، لیکن حضرت آدم سے لے کر ہمارے نبی صلعم تک ایسی کوئی نظیر کسی نبی کے عہد میں نہیں ملے گی اور نہ کسی ربّانی کتاب میں اس کا پتہ ملے گا کہ کسی شخص یا کسی قوم نے عذاب کی خبر سُن کر اور اس کی میعاد سے مطلع ہو کر قبل نزول عذاب توبہ اور خوف الٰہی کی طرف رجوع کیا ہو اور پھر بھی ان پر پتھر برسے ہوں یااو ر کسی عذاب سے وہ ہلاک کئے گئے ہوں اور اگر کسی کی نظر میںکوئی بھی نظیر ہو تو پیش کرے اور یاد رکھے کہ وہ ہرگز کسی ربّانی کتاب سے پیش نہیں کر سکے گا پس ناحق ایک متفق علیہا صداقت سے انکار کر کے اپنے تئیں جہنم کا ایندھن نہ بناویں.منہ

Page 576

وعدہ بھی بطور عذاب کے وعدہ کے تھا.کیونکہ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جو دختر احمد بیگ مسمّٰی سلطان محمد سے بیاہی گئی اس کا والد اور اس کے اقارب اور عزیز بہت بے دین تھے اور تکذیبِ حق میں حد سے بڑھے ہوئے تھے اور ایک ان میں سے سخت دہریہ تھا جو اسلام سے مُرتد ہو کر اسلام کے مخالف اشتہار چھپاتا اور خدا تعالیٰ کے پاک دین کی بے ادبیاں کرتا تھا اور دوسرے سب اس کے موافق اور محب تھے.سو ایسا اتفاق ہوا کہ ایک مرتبہ اُس نے اشتہار چھپایا اور اسلام کی بہت توہین کی اور اس عاجز سے اسلام کی صداقت کے لیے نشان چاہا او ر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر ٹھٹھا کیا اور دوسرے اس سے الگ نہیں ہوئے بلکہ اس کے ساتھ رہے اس لیے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ ان کو وہ نشان دکھلاوے جس سے وہ ذلیل ہوں.پس اُس نے اُس تمام مُلحد گروہ کے حق میں مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ کَذَّبُوْا بِٰایَاتِنَا وَ کَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِئُ وْنَ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَ یَرُدُّھَآ اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.یعنی ان لوگوں نے ہمارے نشانوں کی تکذیب کی اور ان سے ٹھٹھا کیا.سو خدا اُن کے شر دور کرنے کے لیے تیرے لئے کافی ہو گا اور انہیں یہ نشان دکھلائے گا کہ احمد بیگ کی بڑی لڑکی ایک جگہ بیاہی جائے گی اور خدا اس کو پھر تیری طرف واپس لائے گا.یعنی آخر وہ تیرے نکاح میں آئے گی.اور خدا سب روکیں درمیان سے اُٹھا دے گا.خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.تیرا ربّ ایسا قادر ہے کہ جس کام کا وہ ارادہ کرے اس کام کو وہ اپنے منشاء کے موافق ضرور پورا کرتا ہے.سو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اس قوم کے لیے نشان تھا جو بیباکی اور نافرمانی اور ٹھٹھے میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تھے اور اس الہام کی تفصیل یعنی فقرہ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُکی شرح دوسرے الہاموں سے یہ معلوم ہوئی تھی کہ خدا تعالیٰ احمد بیگ کو نکاح سے تین سال کے اندر بلکہ بہت قریب موت دے گا اور اس کے داماد کو اڑھائی سال کے اندر روز نکاح سے وفات دے گا اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں احمد بیگ میعاد کے اندر یعنی روز نکاح سے چھ ماہ بعد وفات پا گیا اور اس نے اس ڈرانے والے الہام کی کیفیت دیکھ لی جو اس کو سنایا گیا تھا.ویسا ہی اس کے بے دین اقارب کو اس کے مرنے کا صدمہ کامل طور پر پہنچ گیا، لیکن اس کا داماد جو اڑھائی سال کے اندر فوت نہ ہوا تو اس کی یہی وجہ تھی جو اس عبرت انگیز واقعہ کے بعد جو احمد بیگ اس کے خسر کی

Page 577

وفات تھی ایک شدید خوف اور حزن اس کے دل پر وارد ہو گیا.اور نہ صرف اس کے دل پر بلکہ اس کے تمام متعلقین کو اس خوف اور حزن نے گھیر لیا اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب دو آدمی کی موت ایک ہی پیشگوئی میں بیان کی گئی ہو اور ایک ان میں سے میعاد کے اندر مر جائے تو وہ جو دوسرا باقی ہے اس کی بھی کمر ٹوٹ جاتی ہے کیونکہ ایک ہی موت کے دونوں نیچے تھے.پس جو زندہ رہ گیا ہے وہ جب ایسی موت کو دیکھتا ہے ایک ایسا جانکاہ غم اس کو پکڑ لیتا ہے کہ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے.یعنی وہ بھی قریب قریب میت ہی کے ہوتا ہے.سو ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ احمد بیگ کے مرنے کے بعد جس کی موت پیشگوئی کی ایک جزو تھی.دوسری جُز والی کا کیا حال ہوا ہو گا گویا وہ جیتا ہی مر گیا ہو گا.چنانچہ اس کے بزرگوں کی طرف سے دو خط ہمیں بھی پہنچے جو ایک حکیم صاحب باشندۂ لاہور کے ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے جن میں انہوں نے اپنے توبہ اور استغفار کا حال لکھا ہے سو ان تمام قرائن کو دیکھ کر ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ تاریخ وفات سلطان محمد قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ ایسی تاریخیں جو تخویف اور انذار کے نشانوں میں سے ہوتی ہیں ہمیشہ بطور تقدیر معلّق کے ہوتی ہیں اور سلطان محمد اور اس کے اقارب اس لیے مجرم ٹھہر گئے کہ انہوں نے یہ گناہ کیا کہ ان کو ہم نے بار بار بوساطت بعض مخلصوں اور نیز خطوط کے ذریعہ سے بہت کھول کر سُنا دیا تھا کہ یہ پیشگوئی ایک قوم سرکش کے لیے خد ا تعالیٰ کی طرف سے ہے تم ان کے ساتھ مِل کر ویسے ہی مستوجب عذاب مت بنو مگر چونکہ وہ بھی سخت دل اور دنیا پرست تھے اس لیے انہوں نے نہ مانا اور اسی طرح ٹھٹھا اور ہنسی کی اور اپنی بیباکی سے اس رشتہ سے دستکش نہ ہوئے.مگر احمد بیگ کی وفات کے بعد ان کے دلوں پر سخت رُعب طاری ہوا.اور انہوں نے ربّانی پیشگوئی کے خوف و غم کو کسی قدر اپنے دلوں پر غالب کر لیا.اور اگرچہ سخت دل بہت تھے لیکن احمد بیگ کے مرنے نے اُن کی کمر توڑ دی اور اسی وجہ سے ان کی طرف سے عذر اور پشیمانی کے خط بھی پہنچے اور جبکہ وہ اپنے دلوں میں بہت ڈرے اور سخت ہراساں ہوئے پس ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی سُنّت قدیمہ کے موافق تاریخ عذاب کو کسی اور موقع پر ڈال دے یعنی ان دنوں پر جبکہ وہ لوگ اپنی حالت بیباکی اور تکبرّ اور غفلت کی طرف کامل طور سے رجوع کر لیں کیونکہ عذاب کی میعاد ایک تقدیر معلّق ہوتی ہے جو خوف اور رجوع سے دوسرے وقت پر جا پڑتی ہے جیسا کہ تمام

Page 578

قرآن اس پر شاہد ہے لیکن نفس پیشگوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی.کیونکہ اس کے لیے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی.پس اگر ٹل جائے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے.سو ان دنوں کے بعد جب خدا تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں کو دیکھے گا کہ سخت ہو گئے اور انہوں نے اس ڈھیل اور مہلت کا قدر نہ کیا جو چند روز تک ان کو دی گئی تھی تو وہ اپنی پاک کلام کی پیشگوئی پوری کرنے کے لیے متوجہ ہو گا اور اسی طرح کرے گا.جیسا کہ اس نے فرمایا کہ میں اس عورت کو اس کے نکاح کے بعد واپس لاؤں گا اور تجھے دُوں گا اور میری تقدیر کبھی نہیں بدلے گی اور میرے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور مَیں سب روکوں کو اُٹھا دُوں گا جو اس حکم کے نفاذ سے مانع ہوں.اب اس عظیم الشان پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ وہ کیا کیا کرے گا اور کون کون سی قہری قدرت دکھلائے گا اور کس کس شخص کو روک کی طرح سمجھ کر اس دُنیا سے اُٹھا لے گا.یہ وہ پیشگوئی ہے جو قریباً سات برس سے شائع ہو چکی ہے اور اس وقت سے بذریعہ اشتہارات شائع ہے جبکہ احمد بیگ کی دختر کا سلطان محمد سے ناطہ بھی نہیں ہوا تھا بلکہ کسی کے خیال میں بھی نہیں تھا کہ اس جگہ ناطہ ہو گا.سو خدا نے اَور روکیں تو اس عورت کے نکاح کے بعد اُٹھا لیں یعنی احمد بیگ اور اس کی دو ہمشیرہ کو جو سخت مانع تھی اس دُنیا سے اُٹھا لیا.باقی جو کچھ خدا تعالیٰ کرے گا لوگ دیکھیں گے.یہ نشان ہے جو ایسے لوگوں کو دیا جائے گا جو ہماری قوم اور کنبہ سے خدا سے اور خدا کے دین سے منکر اور اس غفلت خانہ سے محبت لگائے بیٹھے ہیں، لیکن اب بہتیرے جاہل اس میعاد گذرنے کے بعد ہنسی کریں گے ۱؎ اور اپنی بدنصیبی سے صادق کا نام کاذب رکھیں گے، لیکن وہ دن جلد آتے جاتے ہیں کہ جب یہ لوگ شرمندہ ہوں گے اور حق ظاہر ہو گا اور سچائی کا نوُر چمکے گا اور خدا تعالیٰ کے غیرمتبدل وعدے پورے ہو جائیں گے.کیا کوئی زمین پر ہے جو اُن کو روک سکے؟ بدبخت انسان بدظنّی کی ۱؎ نوٹ.جاننا چاہیے کہ اسلامی پیشگوئیاں بھی منجملہ سماوی علوم کے ایک عظیم الشان علم ہے جو ربّانی کتاب کی سُنّتوں اور قانون سے باہر نہیں ہو سکتیں اور جو لوگ ان کی نسبت کچھ رائے ظاہر کریں اُن پر فرض ہے کہ پہلے ربّانی کتاب کا علم ان کو حاصل ہو کیونکہ وہ پیشگوئیاں الٰہی کتاب کے زیر سایہ چلتی ہیں.منہ

Page 579

طرف جلدی کرتا ہے.اور حلیم طبیعت اور عمیق فکر کے ساتھ نہیں سوچتا.اے بدفطرتو! اپنی فطرتیں دکھلاؤ‘ لعنتیں بھیجو، ٹھٹھے کرو اور صادقوں کا نام کاذب اور دروغگو رکھو، لیکن عنقریب دیکھو گے کہ کیا ہوتا ہے.تم ہم پر لعنت کرو تا فرشتے تم پر لعنت کریں.مَیں نے بہت چاہا کہ تمہارے اندر سچائی ڈالوں اور تاریکی سے تمہیں نکالوں اور نور کے فرزند بناؤں، لیکن تمہاری بدبختی تم پر غالب آگئی.سو اب جو چاہو لکھو.تم مجھے دیکھ نہیں سکتے.جب تک وہ دن نہ آوے کہ جو قادر کریم نے میرے دکھانے کے لیے مقرر کر رکھا ہے.ضرورتھا کہ تمہیں ابتلاء میں ڈالے اور تمہاری آزمایش کرے تا تمہارے جھوٹے دعوے فہم اور فراست اور تقویٰ اور علم قرآن کے تم پر کُھل جائیں.یاد رکھو کہ عورت مذکورہ کے نکاح کی پیشگوئی اس قادر مطلق کی طرف سے ہے جس کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.لیکن قرآن بتلا رہا ہے کہ ایسی پیشگوئیوں کی میعادیں معلّق تقدیر کی قسم میں سے ہوتی ہیں.لہٰذا ان کی تبدل اور تغیر کی وجوہ پیدا ہونے کے وقت ضرور وہ تاریخیں اور میعادیں ٹل جاتی ہیں.یہی سنت اللہ ہے جس سے قرآن بھرا پڑا ہے.پس ہر ایک پیشگوئی جو وحی اور الہام کے ذریعہ سے ہو گی ضرور ہے کہ وہ اسی سنّت کے موافق ہو جو خدا تعالیٰ کی کتابوں میں قرار پا چکی ہے اور اس زمانہ میں اس سے یہ فائدہ بھی متصور ہے کہ جو علوم ربّانی دنیا سے اُٹھ گئے تھے پھر لوگوں کی ان پر نظر پڑے اور معارف فرقانی کی تجدید ہو جائے اور نہ صرف پیشگوئی ظاہر ہو بلکہ ساتھ اس کے معارف بھی تازہ ہو جائیں اور اس پیشگوئی کے متعلق جو دقیقۂ معرفت ہے وہ یہ ہے کہ یہ پیشگوئی اسی قوم کے ڈرانے کے لیے ہے جن کی طبیعتوں میں الحاد اور ارتداد غلبہ کر گیا تھا.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے پہلے کلمات میں ہی فرمایا کہ یہ لوگ میری آیتوں کی تکذیب کرتے اور میرے نشانوں سے ٹھٹھا کرتے ہیں.پس جبکہ یہ پیشگوئی انذار اور تخویف پر مشتمل تھی اور موت کے وعدے محض عذاب کے طور پر تھے اس لیے ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ عذاب اور تاخیر عذاب میں اپنی اس سنّت اور

Page 580

عادت کا اس جگہ بھی پابند ہو جس کا ذکر قرآن کریم میں بتصریح موجود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس مہیمن اور امام کتاب میں یہ دائمی قاعدہ باندھ دیا ہے کہ فاسقوں اور کافروں کے رجوع اور توبہ سے میعاد عذاب میں تاخیر واقعہ ہو جاتی ہے.اور پھر جب وہ فسق اور کُفر اور سرکشی اور شوخی اور تکبّر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے اسباب ہلاکت پیدا کر لیتے ہیں تو وہ لازوال وعدہ ظہور پذیر ہو جاتا ہے.اور جب کتاب الٰہی میں ایک صریح سنّت اللہ موجود ہو جس کی رعایت بہرحالت ضروری ہے تو الہام میں یہ ضروری نہیں ہوگا کہ شرط کے طور پر اس سنت کا ذکر کیا جائے کیونکہ الہام ہمیشہ کتاب الٰہی کا تابع اور اس کی شرائط کا پابند ہے اور ممکن نہیں کہ صحیح اور حق الہام اس کے برخلاف ہو.پس اگر الہام میں ایک بات کا شرط کے طور پر صریح ذکر موجود ہو یا نہ ہو لیکن اگراس بات کا کلامِ الٰہی میں صریح ذکر موجود ہے اور وہ سنت اللہ ہے تو بموجب آیت کریمہ .۱؎ وہ سنت اللہ اگر اس کا موقعہ الہامی پیشگوئی میں پیدا ہو جائے تو ضرور پوری ہو گی اور ممکن نہ ہو گا کہ اس کے برخلاف الہام ظاہر ہو سکے.۲؎ مثلاً اگر کسی الہام میں عذاب کے طور پر کسی سرکش انسان کے لیے وعدہ ہے کہ وہ فلاں تاریخ تک مرے گا اور اس کا مرنا عذاب کے طور پر ہو گا اور الہام میں کوئی اور شرط بصراحت موجود نہیں.یعنی یہ نہیں بیان کیا گیا کہ اگر وہ سرکشی کے طریق کو چھوڑ دے گا تو عذاب ملتوی ہو جائے گا.سو اگر ایسے الہام کی میعاد میں وہ شخص جس کی نسبت الہام ہے توبہ اور استغفار کرے اور اپنے دل پر اس الہام الٰہی کی عظمت کو ڈال لے تو سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ وہ عذاب کا وقت ٹل جاتا ہے اور دوسرے وقت پر عذاب جاپڑتا ہے یعنی جب پھر سرکشی کی طرف رجوع کرے تو عذاب نازل ہو جاتا ہے اور یہ تاخیر عذاب ایک مہلت دہی کے طورپر ہوتی ہے.پس اگر وہ شخص اس تاخیر عذاب کی وجوہ بکلّی اپنے سر پر سے اُٹھا لیوے.مثلاً ۱؎ الاحزاب:۶۳ ۲؎ نوٹ.یہ بالکل سچ اور سراسر سچ ہے کہ سنت اللہ کے مخالف یعنی اس عادت اللہ کے مخالف جو ربّانی کتابوں میں قرار پا چکی ہے کوئی الہام ظاہر نہیں ہو سکتا.چاہیے کہ رائے لگانے سے پہلے اس بات پر خوب زور سے بحث کر لو.پھر رائے لگاؤ ورنہ وہ رائے سراسر ملحدانہ ہو گی.منہ

Page 581

اگر کافر ہے تو سچ مچ مسلمان ہو جائے اور اگر ایک جُرم کا مرتکب ہے تو سچ مچ اس جرم سے دست بردار ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے ظِلِّ امان میں آ جاتا ہے.پھر اگر کبھی مرتا بھی ہے تو عذاب سے نہیں بلکہ موت مقدر کی ضرورت کے باعث سے مرتا ہے، لیکن اگر سرکشی کو اور ان تمام امور کو جو اس کی سرکشی پر شاہد اور خدا تعالیٰ کے ارادہ کے مخالف ہوں چھوڑنا نہ چاہیے اور سچی اطاعت سے دُور رہے تو پھر اس عذاب سے بچ نہیں سکتا جو اس کے لیے مقدر ہے یہ تعلیم قرآن اور خدا تعالیٰ کی ساری کتابوں کی ہے اورا سی کے نیچے وہ تمام الہامات ہیں جو اولیاء اللہ کو ہوتے ہیں اور کوئی الہام اس سنت اللہ کے مخالف نہیں ہوتا.اور اگرچہ بظاہر مخالف ہو تو اس کے صحیح ۱؎ وہی ہوںگے جو اس سنّت اللہ کے موافق ہوں.پس یہی ربّانی الہامات کی اصل حقیقت اور سچّی فلاسفی ہے جس کے ماننے کے بغیر انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا، لیکن دُنیا میں بہتیرے ایسے یاوہ گو اور احمق ہیں جو اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کہ اگر کسی الہام میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میعاد مقرر ہو تو ضرور وہ میعاد اپنے وقت مقررہ پر پوری ہونی چاہیے.مگر ایسے لوگ اپنی بیوقوفی اور حماقت کی وجہ سے نہایت ہی قابل رحم ہیں.وہ نہیں سمجھتے کہ پیشگوئیوں کا خدا تعالیٰ کی کامل صفات اور ربانی کتاب کے موافق ظاہر ہونا ضروری ہے جبکہ وہ نہایت ہی رحیم و کریم و حلیم ہے.اور ڈرنے والے کو ایسے طور سے نہیں پکڑتا جیسا کہ سخت دل اور بیباک کو پکڑتا ہے اور سچّی توبہ اور صدقہ اور خیرات سے عذاب میں تاخیر ڈال دیتا ہے تو یہ بات نہایت ضروری ہے کہ اس کے وعدے اور اس کی پیشگوئیاں اس کی صفات کے مخالف نہ ہوں.اور یہ بات تو عام لوگوں کے لیے ہے جو خدا تعالیٰ کی کتابوں کو غور سے نہیں دیکھتے، لیکن جو لوگ خدا تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن کریم میں تدبّر کر سکتے ہیں اور ان الٰہی سنتوں سے واقف ہیں جو اُس مقدس کتاب میں درج ہیں.وہ ہمارے اس بیان کو خوب سمجھتے ہیں اور ان کی سخت بے ایمانی ہو گی اگر وہ اس کا انکار کریں.لیکن چونکہ وہ اس طوفان حسد اور تعصب کے وقت کسی قِسم کی بے ایمانی سے نہیں ڈرتے اس لئے ان کی پردہ دری کے لیے ایک اور انتظام کی ۱؎ ’’معنی‘‘ کا لفظ کاتب سے اصل اشتہار میں رہ گیا ہے اس لئے ہم نے بھی نہیں لکھا.(المرتب)

Page 582

ضرورت ہے.۱؎ اور وہ یہ ہے کہ اگر وہ کسی طرح اپنی بے ایمانی اور یاوہ گوئی سے باز نہ آویں تو ہم ان میں سے شیخ محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی ثم امرتسری اور مولوی رشید احمد گنگوہی کو اس فیصلہ کے لیے منتخب کرتے ہیں کہ اگر وہ تینوں یا ان میں سے کوئی ایک ہمارے اس بیان کا مُنکر ہو اور اس کا یہ دعویٰ ہو کہ کوئی ایسی الہامی پیشگوئی جس میں عذاب موت کے لیے کوئی تاریخ مقرر کی گئی ہو اس تاریخ کے بارے میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون قدرت اور سنّت قدیمہ نہیں ہے کہ وہ ایسے شخص یا ایسی قوم کی توبہ یا خائف اور ہراساں ہونے سے جن کی نسبت وہ وعدہ عذاب ہے دوسرے وقت پر جا پڑے تو طریق فیصلہ یہ ہے کہ وہ ایک تاریخ مقرر کر کے جلسہ عام میں اس بارہ میں نصوص صریحہ کتاب اللہ اور احادیث نبویہ اور کُتب سابقہ کی ہم سے سُنیں اور صرف دوگھنٹہ تک ہمیں مہلت دیں تا ہم کتاب اور سُنت اور پہلی سماوی کتابوں کے دلائل شافیہ اپنی تائید دعویٰ میں ان کے سامنے پیش کر دیں.پھر اگر وہ قبول کر لیں تو چاہیے کہ حیا اور شرم کر کے آئندہ ایسی پیشگوئیوں کی تکذیب نہ کریں بلکہ خود موء یّد اور مصدّق ہو کر دوسرے منکروں کو سمجھاتے رہیں اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور تقویٰ کا طریق اختیار کریں.اور اگر ان نصوص اور دلائل سے مُنکر ہوں اور ان کایہ خیال ہوکہ یہ دعویٰ نصوص صریحہ سے ثابت نہیں ہو سکا او ر جو دلائل بیان کئے گئے ہیں وہ باطل ہیں تو ہم ان کے لئے دو سو روپیہ نقد کا انعام مقرر کرتے ہیں کہ وہ اسی جلسہ میں تین مرتبہ بدیں الفاظ قسم کھائیں کہ اے خدا قادر ذوالجلال جو جھوٹوں کو سزا دیتا اور سچوں کی حمایت کرتا ہے، مَیں تیری ذات کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ جو کچھ دلائل پیش کئے گئے وہ سب ۱؎ نوٹ:.اس انتظام کی اس لیے ضرورت ہے کہ بعض ملحد جن کے سیاہ دل ہیں ضرور یہ کہیں گے کہ اب اپنے بچاؤ کے لیے یہ باتیں بنا لی ہیں.لہٰذا واجب ہے کہ یہ فیصلہ قرآن کریم اور آثار نبویہ کے رو سے کیا جائے اور مومن کو چاہیے کہ ہر یک مقدمہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف ردّ کرے اور ہر ایک امر میں خدا کی کتاب کو معیار بناوے.اور جو شخص قرآن اور رسولؐ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اور کوئی اور راہ ڈھونڈے تو وہ وہی ہے جو بے ایمان اور حیلہ ساز ہے.منہ

Page 583

معیار بناوے.اور جو شخص قرآن اور رسولؐ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اور کوئی اور راہ ڈھونڈے تو وہ وہی ہے جو بے ایمان اور حیلہ ساز ہے.منہ باطل ہیں اور تیری ہرگز یہ عادت نہیں کہ عذاب کے وعدوں اور میعادوں میں کسی کی توبہ یا خائف اور ہراساں ہونے سے تاخیر کر دے.بلکہ ایسی پیشگوئی سراسر جھوٹ ہے یا شیطانی ہے اور ہرگز تیری طرف سے نہیں اور اے قادر خدا اگر تو جانتا ہے کہ مَیں نے جھوٹ بولا ہے اور حق کے برخلاف کہا ہے تو مجھے ذلّت اور دُکھ کے عذاب سے ہلاک کر اور جس کی میںنے تکذیب کی ہے اس کو میری ذلّت اور میری تباہی اور میری موت دکھادے اور اس دُعا کے ساتھ ہریک دفعہ ہم آمین کہیںگے.اور تین مرتبہ دُعا ہو گی اور تین مرتبہ ہی آمین اور بعد اس کے بلا توقّف اس قسم کھانے والے کو دوسو روپیہ نقد دیا جائے گا.اور ہم واپسی کی شرط نہیں کرتے.ہمارے لیے یہ کافی ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی سخت موذی عذاب الٰہی میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو اور لوگ عبرت پکڑیں اور راہ راست پر آویں اور شیاطین کے پنجہ سے َمخلصی پاویں، لیکن اگر کوئی اب بھی باز نہ آوے اور بیجا تکذیب سے زبان بند نہ کرے تو وہ صریح ظالم اور خدا تعالیٰ کی کتاب سے مُنہ پھیرنے والا ہے پس حق کے طالبوں کو چاہیے کہ ایسے دروغگو اور مفسد کی کسی بات پر اعتماد نہ کریں کیونکہ اس نے سچائی کی طرف رُخ نہیں کیا اور دانستہ جھوٹ کی پیروی کی.اس سے زیادہ ہم کیا لکھیں اور کیا کہیں اور کس طور سے ایسے دلوں کو سمجھاویں جو دانستہ حق سے منہ پھیر رہے ہیں.اگر ہمارے مخالف سچے ہیں تو اس طریق فیصلہ کو قبول کریں ورنہ جو لوگ صاف اور سچے فیصلہ سے انکار کریں اور تکذیب سے باز نہ آویں تو ان پر نہ انسان بلکہ فرشتے لعنت کرتے ہیں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی.راقم غلام احمد از قادیان ۶؍ ستمبر ۱۸۹۴ء۱؎ تعداد اشاعت ۵۰۰۰ (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر) (یہ اشتہار سائز کے ۸ صفحوں پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۱۱۱ تا ۱۲۲) ۱؎ نوٹ از ناشر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اشتہار کی درست تاریخ ۶؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء بیان فرمائی ہے.(انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱۰۲ حاشیہ)

Page 584

  نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ بمرتبہ چہارم یہ چار ہزار روپیہ حسب شرائط اشتہار ۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ء و ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ء و ۵؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے قسم کھانے پر بلا توقف ان کو دیا جائے گا ناظرین! اس مضمون کو غور سے پڑھو کہ ہم اس سے پہلے تین اشتہار انعامی زر کثیر یعنی اشتہار انعامی ایک ہزار روپیہ اور اشتہار انعامی دوہزارروپیہ اور اشتہار انعامی تین ہزار روپیہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے قسم کھانے کے لئے شائع کر چکے ہیں اور بار بار لکھ چکے ہیں کہ اگر مسٹر آتھم صاحب ہمارے اس الہام سے منکر ہیں جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم پر یہ ظاہر ہوا کہ آتھم صاحب ایام پیشگوئی میں اس وجہ سے بعذابِ الٰہی فوت نہیں ہوسکے کہ انہوں نے حق کی طرف رجوع کر لیا تو وہ جلسہ عام میں قسم کھالیں کہ یہ بیان سراسر افترا ہے اور اگر افترا نہیں بلکہ حق اور منجانب اللہ ہے اور میں ہی جھوٹ بولتا ہوں تو اے خدائے قادر اس جھوٹ کی سزا مجھ پر یہ نازل کر کہ میں ایک سال کے اندر سخت عذاب اٹھا کر مر جائوں.غرض یہ قسم ہے جس کا ہم مطالبہ کرتے۱؎ نوٹ.عیسائی لوگ اس لئے بندہ پرست ہیں کہ عیسیٰ مسیح جو ایک عاجز بندہ ہے ان کی نظر میں وہی خدا ہے اور یہ قول ان کا سراسر فضول اور نفاق اور دروغ گوئی پر مبنی ہے جو وہ کہتے ہیں کہ ہم عیسیٰ کو تو ایک انسان سمجھتے ہیں مگر اس بات کے ہم قائل ہیں کہ اس کے ساتھ اقنوم ابن کا تعلق تھا کیونکہ مسیح نے انجیل میں کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اقنوم ابن

Page 585

اورہم یہ بھی کھول کر تحریر کر چکے ہیں کہ قانون انصاف آتھم صاحب پر واجب کرتا ہے کہ وہ اس تصفیہ کے لئے ضرور قسم کھاویں کہ وہ پیشگوئی کے ایام میں اسلامی صداقت سے خائف نہیں ہوئے بلکہ بقیہ حاشیہ.سے میرا ایک خاص تعلق ہے اور وہی اقنوم ابن اللہ کہلاتا ہے نہ مَیں بلکہ انجیل یہ بتلاتی ہے کہ خود مسیح ابن اللہ کہلاتا تھا اور جب مسیح کو زندہ خدا کی قسم دے کر سردار کاہن نے پوچھا کہ کیا تو خدا کا بیٹا ہے تو اس نے یہ جواب نہ دیا کہ میں تو ابن اللہ نہیں بلکہ میں تو وہی انسان ہوں جس کو تیس برس سے دیکھتے چلے آئے ہو ہاں ابن اللہ وہ اقنوم ثانی ہے جس نے اب مجھ سے قریباً دو سال سے تعلق پکڑ لیا ہے بلکہ اس نے سردار کاہن کو کہا کہ ہاں وہی ہے جو تو کہتا ہے پس اگر ابن اللہ کے معنی اس جگہ وہی ہیں جو عیسائی مراد لیتے ہیں تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مسیح نے خدائی کا دعویٰ کیا پھر کیونکر کہتے ہیں کہ ہم مسیح کو انسان سمجھتے ہیں.کیا انسان صرف جسم اور ہڈی کا نام ہے.افسوس کہ اس زمانہ کے جاہل عیسائی کہتے ہیں کہ قرآن نے ہمارے عقیدہ کو نہیں سمجھا حالانکہ وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح نے خود اپنے منہ سے ابن اللہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے ظاہر ہے کہ سردار کاہن کا یہ کہنا کہ کیا تو خدا کا بیٹا ہے اس کا مدعا یہی تھا کہ تو جو انسان ہے پھر کیونکر انسان ہوکر خدا کا بیٹا کہلاتا ہے کیونکہ سردار کاہن جانتا تھا کہ یہ ایک انسان اور ہماری قوم میں سے یوسف نجّار کی بیوی کا لڑکا ہے لہٰذا ضرور تھا کہ مسیح سردار کاہن کا وہ جواب دیتا جو اس کے سوال اور دلی منشاء کے مطابق ہوتا کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ سوال دیگر اور جواب دیگر ہو.پس عیسائیوں کے مصنوعی اصول کے موافق یہ جواب چاہیے تھا کہ جیسا کہ تم نے گمان کیا ہے یہ غلط ہے اور میں اپنی انسانیت کی رو سے ہرگز ابن اللہ نہیں کہلاتا بلکہ ابن اللہ تو اقنوم دوم ہے جس کا تمہاری کتابوں کے فلاں فلاں مقام میں ذکر ہے.لیکن مسیح نے ایسا جواب نہ دیا بلکہ ایک دوسرے مقام میں یہ کہا ہے کہ تمہارے بزرگ تو خدا کہلائے ہیں.پس ثابت ہے کہ دوسرے نبیوں کی طرح مسیح نے بھی اپنے انسانی روح کے لحاظ سے ابن اللہ کہلایا اور صحت اطلاق لفظ کیلئے گذشتہ نبیوں کا حوالہ دیا.پھر بعد اس کے عیسائیوں نے اپنی غلط فہمی سے مسیح کو درحقیقت خدا کا بیٹا سمجھ لیااور دوسروں کو بیٹا ہونے سے باہر رکھا پس اسی واقعہ صحیحہ کی قرآن مجید نے گواہی دی اور اگر کوئی یہ کہے کہ اقنوم ثانی کا مسیح کی انسانی روح سے ایسا اختلاط ہوگیا تھا کہ درحقیقت وہ دونوں ایک ہی چیز ہوگئے تھے اس لئے مسیح نے اقنوم ثانی کی وجہ سے جو اس کی ذات کا عین ہوگیا تھا خدائی کا دعویٰ کر دیا تو اس تقریر کا مآل بھی یہی ہوا کہ بموجب زعم نصاریٰ کے ضرور مسیح نے خدائی کا دعویٰ کیا کیونکہ جب اقنوم ثانی اس کے وجود کا عین ہوگیا اور اقنوم ثانی خدا ہے تو اس سے یہی نتیجہ نکلا کہ مسیح خدا بن گیا.سو یہ وہی ضلالت کی راہ ہے جس سے پہلے اور پچھلے عیسائی ہلاک ہو گئے اور قرآن نے درست فرمایا کہ یہ بندہ پرست ہیں.منہ

Page 586

برابر بندہ پرست ۱؎ ہی رہے کیونکہ جبکہ ڈرنے کا ان کو خود اقرار ہے چنانچہ وہ اس اقرار کو کئی مرتبہ رو رو کر ظاہر کر چکے ہیں تو اب یہ بار ثبوت انہیں کی گردن پر ہے کہ وہ الہامی پیشگوئی اور اسلامی صداقت سے نہیں ڈرے بلکہ اس لئے ڈرتے رہے کہ ان کو متواتر یہ تجربہ ہو چکا تھا کہ اس پیشگوئی سے پہلے اس عاجز نے ہزاروں کا خون کر دیا ہے اور اب بھی اپنی بات پوری کرنے کے لئے ضرور ان کا خون کر دے گا.۲؎ پس اسی وجہ سے ہمیں قانوناً و انصافاًحق پہنچا جو ہم پبلک پر اصل حقیقت ظاہر کرنے کے لئے آتھم صاحب سے قسم کا مطالبہ کریں.ظاہر ہے کہ اگر کوئی کسی کے گھر میں مداخلت بے جا کرتا ہوا پکڑا جاوے تو صرف یہ اپنا ہی عذر اس کا سنا نہیں جائے گا کہ وہ مثلاً حقہ پینے کے لئے آگ لینے آیا تھا بلکہ اس کی بریّت اور صفائی کے لئے کسی شہادت کی حاجت ہوگی.سو اسی طرح جب آتھم صاحب نے اپنے پندرہ مہینہ کے حالات اور نیز اقرار سے ثابت کر دیا کہ وہ ایام پیشگوئی میں ضرور ڈرتے رہے ہیں تو بے شک ان سے یہ ایک ایسی بے جا حرکت صادر ہوئی جو ان کی عیسائیت کے استقلال کے برخلاف تھی اور چونکہ وہ حرکت پیشگوئی کے زمانہ میں بلکہ بعض نمونوں کو دیکھ کر ظہور میں ۱؎ نوٹ.آتھم صاحب نے نور افشاں ۱۰؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء میں مطالبہ کی قسم کے بارے میں یہ جواب شائع کیا ہے کہ اگر مجھے قسم دینا ہے تو عدالت میں میری طلبی کرایئے یعنی بغیر جبر عدالت میں قسم نہیں کھا سکتا گویا ان کا ایمان عدالت کے جبر پر موقوف ہے مگر جو سچائی کے اظہار کے لئے قسم نہیں کھاتے وہ نیست و نابود کئے جائیں گے.یرمیا .۲؎ آتھم صاحب نے اپنی متواتر تحریروں میں میرے پر اور میرے بعض مخلصوں پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ اس لیے اپنی موت سے ڈرتے رہے کہ میں اور میرے بعض دوست ان کے قتل کرنے کے لیے مستعد تھے اور گویا انہوں نے کئی دفعہ برچھیوں اور تلواروں کے ساتھ حملہ کرتے بھی دیکھا تو اس صورت میں اگر وہ اپنے بیجا الزاموں کو ثابت نہ کریں تو کم سے کم وہ اس جرم کے مرتکب ہیں جس کی تشریح دفعہ ۵۰۰ تعزیرات میں درج ہے وہ خوب جانتے تھے کہ کبھی میرے پر ڈاکو یا خونی ہونے کا الزام نہیں لگایا گیا اور میرا باپ گورنمنٹ میں ایک نیک نام رئیس تھا تو کیا اب تک وہ اس بیجاالزام سے زیر مطالبہ نہیں آئے اور کیا وہ اس بیہودہ عذر سے جو قسم کھانا میرے مذہب میں درست نہیں قانونی جرم سے بری ہوسکتے ہیں اور ان کے حق میں موت کی پیشگوئی ان کی درخواست سے تھی نہ خود بخود کیونکہ انہوں نے الہامی نشان مانگا تھا.منہ

Page 587

آئی اس لئے وہ اس مطالبہ کے نیچے آگئے کہ کیوں یہ یقین نہ کیا جائے کہ پیشگوئی کے رعب ناک اثر نے ان کا یہ حال بنا دیا تھا اور ضرور انہوں نے اسلامی عظمت کا خوف اپنے دل پر ڈال لیا تھا پس اسی وجہ سے انصاف اور قانون دونوں ان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ہمارے منشاء کے موافق قسم کھا کر اپنی بریت ظاہر کریں مگر وہ ایک جھوٹا عذر پیش کر رہے ہیں کہ ہمارے مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے پس ان کی یہی مثال ہے کہ جیسے ایک چور بیجا مداخلت کے وقت میں پکڑا جائے اور اس سے صفائی کے گواہ مانگے جائیں تو چور حاکم کو یہ کہے کہ میرے مذہب کی رو سے یہ منع ہے کہ میں صفائی کے گواہ پیش کروں یا اپنی بریت کے لئے قسم کھائوں اس لئے میں آپ کی منت کرتا ہوں کہ مجھے یوں ہی چھوڑ دو.پس جیسا وہ احمق چور قانون عدالت کے برخلاف باتیں کر کے یہ طمع خام دل میں لاتا ہے کہ میں بغیر اپنی بریت ظاہر کرنے کے یوں ہی چھوٹ جائوں گا اسی طرح آتھم صاحب اپنی سادہ لوحی سے بار بار انجیل پیش کرتے ہیں اور اس الزام سے بری ہونے کا ان کو ذرہ فکر نہیں جو خود ان کے اقرار اور کردار سے ان پر ثابت ہوچکا ہے انہیں اس پیشگوئی سے پہلے جو ان کی نسبت کی گئی خوب معلوم تھا کہ احمد بیگ کی نسبت جو موت کی پیشگوئی کی گئی تھی جس کو ایڈیٹر نور افشاں نے چھاپ بھی دیا تھا اور جس کے بہت سے اشتہار بھی شائع ہو چکے تھے وہ کیسی صفائی سے پوری ہوئی ان کو خوب یاد ہوگا کہ انہیں ایام انعقاد مباحثہ میں اس پیشگوئی کا پورا ہونا بذریعہ ایک خط کے ان پر ظاہر کر دیا گیا تھا پس اسی سبب سے اس پیشگوئی کا غم ان کے دل پر بہت ہی غالب ہوا کیونکہ وہ نمونہ کے طور پر ایک پیشگوئی کا پورا ہونا ملاحظہ کر چکے تھے مگر میری قاتلانہ سیرت کی نسبت تو ان کے پاس کوئی نمونہ اور کوئی ثبوت نہ تھا کیا ان کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت تھا کہ میں جس کی نسبت موت کی پیشگوئی کرتا ہوں اس کو خود قتل کر دیتا ہوں.پھر کیا کسی عقلمند کا قیاس اس بات کو باور رکھ سکتا ہے کہ جس بات کا ان کے پاس کھلا کھلا نمونہ تھا بلکہ عیسائی پرچہ بھی اس کا گواہ تھا اس تجربہ کردہ اور آزمودہ بات کا تو کچھ بھی خوف ان کے دل پر طاری نہ ہوا مگر قتل کرنے کا خوف دل پر طاری ہوگیا جس کی تصدیق کے لئے کوئی نمونہ ان کے پاس موجود نہ تھا اور نہ شبہ کرنے کی کوئی وجہ تھی.کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ کبھی میں نے کوئی ظالمانہ حرکت کی یا

Page 588

ادنیٰ زد و کوب کا استغاثہ کبھی میرے پر دائر ہوا.پس جبکہ میرے سابقہ اعمال کسی شرّ کا احتمال نہیں پیدا کرتے تھے اور دوسری طرف پیشگوئی کے پورے ہونے کا احتمال آتھم صاحب کی نظر میں کئی وجوہ سے قوی تھا کیونکہ وہ احمد بیگ کی موت کی پیشگوئی کا پورا ہونا مجھ سے سن چکے تھے ۱؎ اور اس پیشگوئی کی کیفیت میرے اشتہارات اور پرچہ نور افشاں میں پڑھ چکے تھے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ ان کی نسبت پیشگوئی جس قوت اور شوکت اور پر زور دعویٰ سے بیان کی گئی وہ بھی ان کو معلوم تھا تو اب ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں مل کر ایسا دل پر قوی اثر ڈالتی ہیں جو تازہ بتازہ نمونہ دیکھ چکا ہے ۱؎ حاشیہ.مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری اور اس کے داماد کی نسبت ایک ہی پیشگوئی تھی اور احمد بیگ کی نسبت جو ایک حصہ پیشگوئی کا تھا وہ نور افشاں میں بھی شائع ہو چکا تھا.غرض احمد بیگ میعاد کے اندر فوت ہوگیا اور اس کا فوت ہونا اس کے داماد اور تمام عزیزوں کیلئے سخت ہم و غم کا موجب ہوا چنانچہ ان لوگوں کی طرف سے توبہ اور رجوع کے خط اور پیغام بھی آئے جیسا کہ ہم نے اشتہار ۶؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء میں جو غلطی سے ۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء لکھا گیا ہے مفصل ذکر کردیا ہے پس اس دوسرے حصہ یعنی احمد بیگ کے داماد کی وفات کے بارے میں سنت اللہ کے موافق تاخیر ڈالی گئی ٭ جیسا کہ ہم بار بار بیان کر چکے ہیں کہ انذار اور تخویف کی پیشگویوں میں یہی سنت اللہ ہے کیونکہ خدا کریم ہے اور وعید کی تاریخ کو توبہ اور رجوع کو دیکھ کر کسی دوسرے وقت پر ڈال دینا کرم ہے اور چونکہ اس ازلی وعدہ کی رو سے یہ تاخیر خدائے کریم کی ایک سنت ٹھہر گئی ہے جو اس کی تمام پاک کتابوں میں موجود ہے اس لئے اس کا نام تخلّف وعدہ نہیں بلکہ ایفاء وعدہ ہے کیونکہ سنت اللہ کا وعدہ اس سے پورا ہوتا ہے.بلکہ تخلّف وعدہ اس صورت میں ہوتا کہ جب سنت اللہ کا عظیم الشان وعدہ ٹال دیا جاتا مگر ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ اس صورت میں خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں کا باطل ہونا لازم آتا ہے.منہ ٭ نوٹ.احمد بیگ کے داماد کا یہ قصور تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پروا نہ کی خط پر خط بھیجے گئے ان سے کچھ نہ ڈرا پیغام بھیج کر سمجھایا گیا کسی نے اس طرف ذرا التفات نہ کی اور احمد بیگ سے ترک تعلق نہ چاہا بلکہ وہ سب گستاخی اور استہزا میں شریک ہوئے سو یہی قصور تھا کہ پیشگوئی کو سن کر پھر ناطہ کرنے پر راضی ہوئے اور شیخ بٹالوی کا یہ کہنا کہ نکاح کے بعد طلاق کیلئے ان کو فہمایش کی گئی تھی.یہ سراسر افترا ہے بلکہ ابھی تو ان کا ناطہ بھی نہیں ہوچکا تھا جبکہ ان کو حقیقت سے اطلاع دی گئی تھی اور اشتہار تو کئی برس پہلے شائع ہو چکے تھے.منہ

Page 589

پس جبکہ ایک طرف خوف اور ڈر کے یہ اسباب موجود ہوں اور دوسری طرف خود اقرار ہو کہ میں ایام پیشگوئی میں ضرور ڈرتا رہا.پس کیا اب تک وہ اس مطالبہ کے نیچے نہیں آسکے کہ ہمیں وہ قسم کھا کر مطمئن کریں کہ اس قسم کا ڈر جس کے اسباب اور محرک اور نمونے ان کی نظر کے سامنے موجود تھے وہ ہرگز ان کے دل پر غالب نہیں ہوا بلکہ ان تلواروں اور برچھیوں نے ان کو ڈرایا جن کا خارج میں کچھ بھی وجود نہ تھا.بہرحال اس دعویٰ کا بار ثبوت ان کی گردن پر ہے کہ یہ جان کا خوف جس کا وہ کئی دفعہ اقرار کر چکے اسلامی عظمت کے اثر اور پیشگوئی کے رعب سے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے تھا لیکن افسوس کہ آتھم صاحب نے باوجود تین اشتہار جاری ہونے کے اب تک اس طرف توجہ نہیں کی اور اپنی بریت ظاہر کرنے کے لئے اس اطمینان بخش طریق کو اختیار نہیں کیا جس سے مجھ حق دار مطالبہ کی تسلی ہوسکتی کیا اس میں کچھ شک ہے کہ مجھے بیجا الزام لگانے کی وجہ سے قانوناً و انصافاًو عرفاًحق طلب ثبوت حاصل ہے اور کیا اس میں کچھ شبہ ہے کہ اس بات کا بار ثبوت اُن کے ذمہ ہے کہ وہ کیوں پندرہ مہینہ تک ڈرتے رہے اور میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ڈرنے کی ثابت شدہ وجوہات میرے الہام کی صریح مؤید ہیں کیونکہ پیشگوئی کی شوکت اور قوت میرے پُر زور الفاظ سے ان کے دل میں جم چکی تھی اور پیشگوئی کی صداقت کا نمونہ مرزا احمد بیگ کی موت تھی جس کی سچائی ان پر بخوبی کھل چکی تھی لیکن تلواروں سے قتل کئے جانے کا کوئی نمونہ ان کی نظر کے سامنے نہ تھا سو آتھم صاحب پر واجب تھا کہ اس الزام کو قسم کھانے سے اپنے سر پر سے اٹھا لیتے لیکن عیسائیت کی قدیم بددیانتی نے ان کو اس طرف آنے کی اجازت نہیں دی بلکہ یہ جھوٹا بہانہ پیش کردیا کہ قسم کھانا ہمارے مذہب میں منع ہے گویا ایسی تسلی بخش شہادت جو قسم کے ذریعہ سے حاصل ہوتی اور خصومت کو قطع کرتی اور الزام سے برَی نوٹ.وہ فلاسفر جن کا قول ہے کہ خدا رحم ہے اور خدا محبت ہے وہ بھی اس مقام میں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک انسان اگر ایک وقت میں نہایت سرکشی اور ظلم اور بے ایمانی اور بے باکی کی حالت میں ہو اور دوسرے وقت میں وہی انسان نہایت خوف اور تضرع اور رجوع کی حالت میں ہو تو ان دونوں مختلف حالتوں کا ایک ہی نتیجہ ہرگز نہیں ہوسکتا پس کیونکر ممکن ہے کہ وہ حکم سزا کی پیشگوئی جو سرکشی اور بے باکی کی حالت میں ہوئی تھی وہ اطاعت اور خوف کی حالت میں قائم رہے اور اطاعت اور خوف کی حالت کے موافق کوئی پُر رحم امر صادر نہ ہو.منہ

Page 590

کرتی اور امن اور آرام کا موجب ہوتی ہے اور جو حق کے ظاہر کرنے کا انتہائی ذریعہ اور مجازی حکومتوں کے سلسلہ میں آسمانی عدالت کا رعب یاد دلاتی ہے اور جھوٹے کا منہ بند کرتی ہے وہ انجیلی تعلیم کے رو سے حرام ہے جس سے عیسائی عدالتوں کو پرہیز کرنا چاہیئے.لیکن ہریک دانا سمجھ سکتا ہے کہ یہ بالکل حضرت عیسیٰ پر بہتان ہے.حضرت عیسیٰ نے کبھی گواہی اور گواہی کے لوازموں کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہا حضرت عیسیٰ خوب جانتے تھے ۱؎ کہ قسم کھانا شہادت کی روح ہے اور جو شہادت بغیر قسم ہے وہ مدعیا نہ بیان ہے نہ شہادت، پھر وہ ایسی ضروری قسموں کو جن پر نظام تحقیقات کا ایک بھارا مدار ہے کیونکر بند کر سکتے تھے.الٰہی قانون قدرت اور انسانی صحیفہ فطرت اور انسانی کانشنس خود گواہی دے رہا ہے کہ خصومتوں کے قطع کے لئے انتہائی حد قسم ہی ہے اور ایک راستباز انسان جب کسی الزام اور شبہ کے نیچے آجاتا ہے اور کوئی انسانی گواہی قابل اطمینان پیش نہیں کرسکتا تو بالطبع وہ خدا تعالیٰ کی گواہی سے اپنی راستبازی کی بنیاد پر مدد لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی گواہی یہی ہے کہ وہ اس ذات عالم الغیب کی قسم کھا کر اپنی صفائی پیش کرے اور جھوٹا ہونے کی حالت میں خدا تعالیٰ کی لعنت اپنے پر وارد کرے یہی طریق آخری فیصلہ کا نبیوں کے نوشتوں سے ثابت ہوتا ہے مگر آتھم صاحب کہتے ہیں کہ قسم کھانا ممنوع اور ایمانداری کے برخلاف ہے.اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ عذر ان کا بھی صحیح ہے یا نہیں کیونکہ اگر صحیح ہے تو پھر وہ فی الحقیقت قسم کھانے سے معذور ہیں لیکن اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ عیسائیوں کے ہریک مرتبہ کے آدمی کیا مذہبی اور کیا دنیوی جب کسی شہادت کے لئے بلائے جائیں تو قسم کھاتے اور انجیل اٹھاتے ہیں اور ایک بڑے سے بڑا پادری جب کسی عدالت میں کسی شہادت کے ادا کرنے کے لئے بلایا جائے تو کبھی یہ عذر نہیں کرتا کہ انجیل کی رو سے قسم منع ہے بلکہ بطیبِ خاطر قسم کھاتا ہے بلکہ انگریزی سلطنت کے ُکل متعہد عہدہ دار اور پارلیمنٹ کے ممبر ۱؎ نوٹ.کوئی سچی اور حقّانی تعلیم مجرموں کو پناہ نہیں دے سکتی پس جبکہ آتھم صاحب نے اس ڈر کا اقرار کر کے جس کو وہ کسی طرح سے چھپا نہیں سکتے یہ مجرمانہ عذر پیش کیا کہ یہ عاجز کئی دفعہ اقدام قتل کا مرتکب ہوا تھا اس لئے دل پر موت کا ڈر غالب ہوگیا تو کیا انجیل آتھم صاحب کو اس مطالبہ سے بچا لے گی کہ کیوں انہوں نے بے جا الزام لگایا.پھر کیونکر انجیل ان کو اسی قسم سے روک سکتی ہے جس سے ان کی بریت ہو.منہ

Page 591

کہ گورنر جنرل سب حلف اٹھانے کے بعد اپنے عہدوں پر مامور ہوتے ہیں تو پھر کیا خیال کیا جائے کہ یہ تمام لوگ تعلیم انجیل پر ایمان رکھنے سے بے بہرہ ہیں اور صرف ایک آتھم صاحب مرد مسیحی دنیا میں موجود ہیں جو حضرت عیسیٰ کی تعلیم پر ایسا ہی کامل ایمان ان کو نصیب ہے جیسا کہ پطرس حواری اور پولس رسول کو نصیب تھا بلکہ اگر یہ بات فی الواقع سچ ہے کہ قسم کھانا انجیل کے رو سے منع ہے تو پھر آتھم صاحب کا ایمان پطرس اور پولس رسول کے ایمان سے بھی کہیں آگے بڑھا ہوا ہے کیونکہ آتھم صاحب کے نزدیک قسم کھانا بے ایمانی ہے لیکن متی ۲۷ باب ۷۲ آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ پطرس حواری بہشتی کنجیاں والے نے بھی اس بے ایمانی سے خوف نہیں کیا اور بغیر اس کے کہ کوئی قسم کھانے پر اصرار کرے آپ ہی قسم کھالی لیکن اگر آتھم صاحب کہیں کہ پطرس راستباز آدمی نہیں تھا کیونکہ حضرت مسیح نے اس کو شیطان کا لقب بھی دیا ہے مگر میں راستباز ہوں اور پطرس سے بہتر اس لئے قسم کھانا بے ایمانی سمجھتا ہوں تو ان کی خدمت میں عرض کیا جاتا ہے کہ آپ کے پولس رسول نے بھی جو بقول عیسائیاں حضرت موسیٰ ؑ سے بھی بڑھ کر ہے قسم کھائی ہے اگر اس کو بھی آپ ایمان سے جواب دیں تو خیر آپ کی مرضی اور اگر یہ سوال ہو کہ قسم کھانے کا ثبوت کیا ہے تو قرنتیان ۱۵ باب ۳۱ آیت دیکھ لیں جس میں پولس صاحب فرماتے ہیں مجھے تمہارے اس فخر کی جو ہمارے خداوند مسیح یسوع سے ہے قسم کہ میں ہر روز مرتا ہوں.اس جگہ ناظرین خوب غور سے سوچیں کہ جس حالت میں پطرس اور پولس رسول قسم کھائیں اور آتھم صاحب قسم کھانا بے ایمانی قرار دیں یعنی شرعی ممنوعات کی مدمیں رکھیں جس کا ارتکاب بلاشبہ بے ایمانی ہے تو کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ حسب قول آتھم صاحب مسیح کے تمام حواری اور پولس رسول سب ممنوعات انجیل کے مرتکب اور ایمانی حدود سے تجاوز کرنے والے تھے کیونکہ بعضوں نے ان میں سے قسمیں کھائیں اور بعض اس طرح پر بے ایمانی کے کاموں میں شریک ہوئے کہ قسم کھانے والوں سے جدا نہ ہوئے اور نہ امر معروف اور نہی منکر کیا لیکن آج تک بجز آتھم صاحب کے کسی عیسائی نے اس اعتقاد کو شائع نہیں کیا کہ حضرت مسیح کے تمام حواری یہاں تک کہ پولس رسول بھی ایمانی دولت سے تہی دست اور بے نصیب اور ممنوعات انجیل میں مبتلا تھے صرف اٹھارہ سو برس کے بعد آتھم صاحب کو یہ ایمان دیا گیا تعجب کہ اس قوم کے جھوٹ اور

Page 592

بددیانتی کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ اپنے نفس کے بچائو کے لئے اپنے بزرگوں کو بھی دولت ایمان سے بے نصیب قرار دیتے ہیں اگر آتھم صاحب جان بچانے کے لئے صرف یہ بہانہ کرتے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میں سال تک مر نہ جائوں تو اس صورت میں لوگوں کو فقط اتنا ہی خیال ہوتا کہ اس شخص کا ایمان مسیح کی طاقت اور قدرت پر ضعیف ہے اور درحقیقت اپنے دل میں اس کو قادر نہیں سمجھتا لیکن آتھم صاحب کا یہ ممانعت ِ قسم کا بہانہ ان کی بددیانتی اور ردی حالت کی کھلے طور پر قلعی کھولتا ہے کیونکہ اس بہانہ کو کوئی بھی باور نہیں کر سکتا کہ مسیح کے تمام حواری اور پولس رسول ممنوعات انجیل میں گرفتار ہوکر ایمانی دولت سے بے نصیب رہے اور یہ ایمان آتھم صاحب کے ہی حصہ میں آیا اور پھر مجھے یہ دعویٰ بھی سراسر جھوٹ معلوم ہوتا ہے کہ آتھم صاحب نے اب تک کسی عدالت میں قسم نہیں کھائی اور تمام حکاّم اس بات پر راضی رہے کہ آتھم صاحب کسی شہادت کے ادا کرنے کے وقت بغیر قسم اظہار لکھوا دیا کریں اور نہ میں یہ باور کر سکتا ہوں کہ اگر آتھم صاحب اب بھی کسی شہادت کے لئے بلائے جائیں تو یہ عذر پیش کریں کہ چونکہ میں پارلیمنٹ کے ممبروں اور تمام متعہد عیسائی ملازموں حتّٰی کہ گورنر جنرل سے بھی زیادہ ایماندار ہوں اس لئے ہرگز قسم نہیں کھائوں گا.آتھم صاحب خوب جانتے ہیں کہ بائیبل میں نبیوں کی قسمیں بھی مذکور ہیں خود مسیح قسم کا پابند ہوا دیکھو متی ۲۷ باب ۶۳ آیت خدا نے قسم کھائی.دیکھو اعمال ۷ باب ۶ آیت ۱۷.اور خدا کا قسم کھانا بموجب عقیدہ عیسائیوں کے مسیح کا قسم کھانا ہے کیونکہ بقول ان کے دونوں ایک ہیں اور جو شخص مسیح کے نمونہ پر اپنی عادات اور اخلاق نہیں رکھتا وہ مسیح میں سے نہیں ہے.اور یرمیا کی تعلیم کی رو سے قسم کھانا عبادت میں داخل ہے دیکھو یرمیا باب ۴ آیت ۲.اور زبور میں لکھا ہے کہ جو جھوٹا ہے وہی قسم نہیں کھاتا.دیکھو زبور ۶۳ آیت ۱۱.سوآتھم صاحب کے جھوٹا ہونے پر دائود نبی حضرت عیسیٰ کے دادا صاحب بھی گواہی دیتے ہیں.فرشتے بھی قسم کھاتے ہیں دیکھو مکاشفات ۶/۱۰ پھر عبرانیوں کے چھ ۶ باب ۱۶ آیت میں مسیحیوں کا معلّم کہتا ہے کہ ہریک قضیہ کی حد قسم ہے یعنی ہریک جھگڑا آخر قسم پر فیصلہ پاتا ہے.توریت میں خدا نے برکت دینے کے لئے قسم کھائی.دیکھو پیدائش ۱۶ /۲۲ اور پھر اپنی حیات کی قسم کھائی.غرض کہاں

Page 593

تک لکھیں اور مضمون کو طول دیں.بائیبل میں خدا کی قسمیں فرشتوں کی قسمیں نبیوں کی قسمیں ۱؎ موجود ہیں اور انجیل میں مسیح کی قسم پطرس کی قسم پولس کی قسم پائی جاتی ہے.اسی جہت سے عیسائیوں کے علماء نے جواز قسم پر فتویٰ دیا ہے.دیکھو تفسیر انجیل مؤ ّلفہ پادری کلارک اور پادری عمادالدین مطبوعہ ۱۸۷۵ء اور مسیح نے خدا تعالیٰ کی سچی قسم سے کسی جگہ منع نہیں کیا بلکہ اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی آسمان کی قسم کھاوے یا زمین کی یا یروشلم کی یا اپنے سر کی اور جو شخص ایسا سمجھے کہ خدا تعالیٰ کی سچی قسم کسی گواہی کے وقت کھانا منع ہے وہ سخت احمق ہے اور مسیح کے منشاء کو ہرگز نہیں سمجھا.اگر مسیح کا منشاء خدا تعالیٰ کی قسم کی ممانعت ہوتی تو وہ اپنی تفصیلی عبارت میں ضرور اس کا ذکر کرتا لیکن اس نے متی ۵ باب ۳۳ آیت میں ’’کیونکہ‘‘ کے لفظ سے صرف یہ سمجھانا چاہا کہ تم آسمان اور زمین اور یروشلم اور اپنے نفس کی قسم مت کھائو.خدا تعالیٰ کی قسم کا اس میں ذکر بھی نہیں اور موسیٰ کی تعلیم پر اس میں یہ تصریح زیادہ ہے کہ صرف جھوٹی قسم کھانا حرام نہیں بلکہ اگر غیر اللہ کی قسم ہو تو اگرچہ سچی ہو وہ بھی حرام ہے یہی وجہ ہے کہ اس تعلیم کے بعد حضرت مسیح کے حواری قسم کھانے سے باز نہیں آئے اور ظاہر ہے کہ حواری انجیل کا مطلب آتھم صاحب سے بہتر سمجھتے تھے اور ابتدا سے آج تک جواز قسم پر مسیحیوں کے اکثر فرقوں میں اتفاق چلا آیا ہے.پھر اب سوچنا چاہیے کہ جبکہ پطرس نے قسم کھائی پولس نے قسم کھائی مسیحیوں کے خدا نے قسم کھائی فرشتوں نے قسم کھائی نبیوں نے قسمیں کھائیں اور تمام پادری ذرہ ذرہ مقدمہ پر قسمیں کھاتے ہیں پارلیمنٹ کے ممبر قسم کھاتے ہیں ہریک گورنر جنرل قسم کھا کر آتا ہے تو پھر آتھم صاحب ایسے ضروری وقت میں کیوں قسم نہیں کھاتے حالانکہ وہ خود اپنے اس اقرار سے کہ میں پیشگوئی کے بعد ضرور موت سے ڈرتا رہا ہوں ایسے الزام کے نیچے آگئے ہیں کہ وہ الزام بجز قَسم کھانے کے کسی طرح ان کے سر پر سے اٹھ نہیں سکتا ۱؎ کیونکہ ڈرنا جو رجوع کی ایک قِسم ہے ان کے اقرار سے ثابت ہوا پھر بعد اس کے وہ ثابت نہ کر سکے کہ وہ صرف قتل کئے جانے سے ڈرتے تھے نہ انہوں نے حملہ کرتے ہوئے کسی قاتل کو پکڑا نہ انہوں نے یہ ثبوت دیا کہ ان سے

Page 594

پہلے کبھی اس عاجز نے چند آدمیوں کا خون کر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کے دل میں بھی دھڑکا بیٹھ گیا کہ اسی طرح میں بھی مارا جائوں گا بلکہ اگر کوئی نمونہ ان کی نظر کے سامنے تھا تو بس یہی کہ ایک پیشگوئی موت کی یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کی موت ان کے سامنے ظہور میں آئی تھی لہٰذا جیسا کہ الہام الٰہی نے بتلایا ضرور وہ پیشگوئی کی عظمت سے ڈرے اور یہ بات روئداد موجودہ سے بالکل برخلاف ہے کہ وہ پیشگوئی کی صداقت تجربہ شدہ سے نہیں ڈرے بلکہ ہمارا خونی ہونا جو ایک تجربہ کی رو سے ایک تحقیقی امر تھا اس سے ڈر گئے.پس اس الزام سے وہ بجز اس کے کیونکر برَی ہوسکتے ہیں کہ بحیثیت ایک شاہد کے قسم کھائیں اور بموجب قول پولس رسول کے جو ہریک مقدمہ کی حد قسم ہے اس مشتبہ امر کا فیصلہ کر لیں لیکن یہ نہایت درجہ کی مکّاری اور بددیانتی ہے کہ قسم کی طرف تو رجوع نہ کریں اور یوں ہی حق پوشی کے طور پر جا بجا خط بھیجیں اور اخباروں میں چھپوائیں کہ میں عیسائی ہوں اور عیسائی تھا.اے صاحب! آپ کیوں خلق اللہ کو دھوکا دیتے ہیں آپ کی ان مدعیانہ تقریروں کو وہی لوگ قبول کریں گے جن کا شیطانی مادہ پہلے سے یہی چاہتا ہے کہ حق ظاہر نہ ہو ورنہ ہریک منصف عقلمند جانتا ہے کہ آپکا بیان صرف بحیثیت شاہد معتبر ہوسکتا ہے نہ ان فضول باتوں سے جو آپ شائع کر رہے ہیں دنیا میں عیسائی مذہب جھوٹ بولنے میں اوّل درجہ پر ہے جنہوں نے خدا کی کتابوں میں بھی بے ایمانی کرنے سے فرق نہیں کیا اور صدہا جعلی کتابیں بنالیں پس کیا ایک بھلا مانس ان کے مدعیانہ بیان کو قبول کرسکتا ہے ہرگز نہیں بلکہ اگر ایک شخص راست باز بھی ہو تو وہ ایک فریق مقدمہ بن کر اس بات کا ہرگز مستحق نہیں کہ اس کا بیان جو بحیثیت مدعی یا مدعا علیہ ہے اس طور سے قبول کیا جائے جیسا کہ گواہوں کے بیانات قبول کئے جاتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا تو عدالتوں کو گواہوں کی کچھ بھی ۱؎ نوٹ.الہامی پیشگوئی کی عظمت سے ڈرنا بموجب تصریح قرآن کریم اور بائبل کے رجوع میں داخل ہے اور رجوع عذاب میں تاخیر ڈالتا ہے اس پر قرآن اور بائبل دونوں کا اتفاق ہے.منہ

Page 595

ضرورت نہ ہوتی.قانون شہادت میں ایک انگریز نے یہ بات خوب لکھی ہے کہ اگر فلاں تاجر جو کروڑہا روپیہ کی مالی عزت رکھتا ہے اور صدہا روپیہ روز صدقہ کے طور پر دیتا ہے اگر کسی پر ایک پیسہ کا دعویٰ کرے تو گو وہ کیسا ہی متمول اور مخیر اور سخی سمجھا گیا ہے مگر بغیر کامل شہادت کے ڈگری نہیں ہوسکتی.تو اب بتلائو کہ آتھم صاحب کا یک طرفہ بیان جو صرف دعویٰ کے طور پر اغراض نفسانیہ سے بھرا ہوا اور روئداد موجودہ کے مخالف ہے کیونکر قبول کیا جائے اور کون سی عدالت اس پر اعتماد کر سکتی ہے یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ صرف ہمارے الہام پر مدار نہیں رہا بلکہ آتھم صاحب نے خود موت کے نوٹ.ایک صاحب پشاور سے لکھتے ہیں کہ اگر عذاب کی پیشگوئی رجوع بدل کرنے سے ٹل جاتی ہے تو وہ ہرگز میعار صداقت نہیں ٹھہر سکتی اور اس پر تحدی نہیں ہو سکتی.مگر افسوس کہ وہ نہیں سمجھتے کہ عند اللہ انکار قسم بھی جب منکر پر قسم انصافاً واجب ہو ایک میعار صداقت ہے جس کو کتاب اللہ نے منکر پر حد شرعی جاری کرنے کے لئے معتبر سمجھا ہے پھر جس شخص نے چارہزار روپیہ تک اتمام حجت کی رقم لے کر قسم کھانے کے لئے جرأت نہ کی تو کیا اس نے اپنے افعال سے ثابت نہ کردیا کہ ضرور اس نے رجوع بحق کیا تھا اور جس قانونی مطالبہ سے یعنی قسم سے ملزم نے سخت گریز کی تو کیا وہ معیار صداقت نہیں اور کیا وہ اب تک ایسا رجوع رہا جس پر کوئی بھی دلیل نہیں اور یہ کہنا کہ اب تک وہ انکار کئے جاتا ہے کیسی بدفہمی ہے اگر وہ حقیقی طور پر منکر ہوتا تو پھر ایسی قسم کے کھانے سے جس کا کھانا اس پر انصافاًواجب تھا کیوں گریز کرتا پس اس کا قسم نہ کھانا یہی اقرار ہے جس کو عقل سلیم سمجھتی ہے اور یہ کہنا کہ اس کی کوئی نظیر نہیں یہ دوسری نافہمی ہے.مماثلت کی نظیریں بتلا دی گئی ہیں غور سے پڑھو اور یہ کہنا کہ ایک جھوٹا بھی ایسی پیشگوئی موت کی کر کے آخر عدم وقوع کے وقت یہ عذر پیش کرسکتا ہے کہ دلی رجوع کے باعث عذاب ٹل گیا ہے یہ بھی انصاف اور تدبر سے بعید ہے بلکہ حق اور ایمان کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی اور شخص بھی ایسی ہی پیشگوئی کرے اور یہی تمام واقعات ہوں تو قانون انصاف سے بعید ہوگا کہ ایسے شخص کو ہم کاذب کہیں جس کا صدق ملزم کے گریز سے ظاہر ہو رہا ہو بلکہ جھوٹا وہی کہلائے گا جو اس مطالبہ سے گریز کرے جو انصافاًاس پر عائد ہوتا ہے یعنی قسم نہ کھاوے پھر خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو صرف یہاں تک تو محدود نہیں رکھا اور اس کے کاموں میں عمیق حکمتیں اور مصالح ہیں اور انجام نمایاں فتح ہے پس ان پر افسوس جو جلد بازی سے اپنے ایمان اور عاقبت کو برباد کر رہے ہیں اور جس قدر ایک کسان مولی گاجر کا بیج بو کر ایک وقت تک مولیوں گاجروں کی انتظار کرتا ہے ان لوگوں میں اتنا بھی صبر نہیں.منہ

Page 596

خوف کا اقرار اخباروں میں چھپوا دیا اور جابجا خطوط میں اقرار کیا.اب یہ بوجھ آتھم صاحب کی گردن پر ہے کہ اپنے اقرار کو بے ثبوت نہ چھوڑیں بلکہ قسم کے طریق سے جو ایک سہل طریق ہے اور جو ہمارے نزدیک قطعی اور یقینی ہے ہمیں مطمئن کردیں کہ وہ پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرے بلکہ وہ فی الحقیقت ہمیں ایک خونی انسان یقین کرتے اور ہماری تلواروں کی چمک دیکھتے تھے اور ہم انہیں کچھ بھی تکلیف نہیں دیتے بلکہ اس قسم پر ۱؎ چار ہزار روپیہ بشرائط اشتہار ۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ء و ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ء ان کی نذر کریں گے اور ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کا یہ عذر کہ مسیحیوں کو قسم کھانے کی ممانعت ہے سخت ہٹ دھرمی اور بے ایمانی ہے.کیا پطرس اور پولس اور بہت سے عیسائی راست باز جو اول زمانہ میں گذر چکے مسیحی نہیں تھے یا وہ بے ایمان تھے کیا آتھم صاحب اس گورنمنٹ میں کسی ایک معزز عیسائی کا حوالہ دے سکتے ہیں جس نے شہادت کے لئے حاضر ہوکر قسم کھانے سے انکار کیا ہو.اب مناسب ہے کہ اگر آتھم صاحب کو بہرحال حیلہ سازی ہی پسند ہے اور کسی طرح قسم کھانا نہیں چاہتے تو اس عذر بے ہودہ کو اب چھوڑ دیں کہ قسم کھانا ممنوع ہے کیونکہ پورے طور پر ہم نے اس کی بیخ کنی کر دی ہے بلکہ چاہیے کہ اپنے دجالوں کے مشورہ سے جان بچانے کے لئے کوئی نیا عذر پیش کریں اور نیم عیسائی یاد رکھیں کہ آتھم صاحب کبھی قسم نہیں کھائیں گے بلکہ اس عذر کو چھوڑ کر کوئی اور دجّالی حیلہ نکالیں گے کیونکہ ہماری نسبت وہ اپنے دل میں جانتے ہیں کہ ہم سچے اور ہمارا الہام سچا ہے لیکن کوئی عذر پیش نہیں جائے گا جب تک میدان میں آکر ہمارے روبرو آکر قسم نہ اٹھاویں یقیناً آتھم صاحب تمام پادریوں اور نیم عیسائیوں کے منہ پر سیاہی مل رہے ہیں جو قسم نہیں کھاتے.ایک عیسائی صاحب لکھتے ہیں کہ روپیہ دینا صرف لاف و گزاف ہے.یعنی آتھم صاحب قسم تو کھالیں مگر ان کو یہ دھڑکہ ہے کہ روپیہ نہیں ملے گا.سو یاد رہے کہ یہ بالکل فضول گوئی اور ڈوموں کی طرح صرف رندانہ کلام ہے ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم قسم کھانے سے پہلے باضابطہ تمسک لے کر ۱؎ نوٹ : یہ چار ہزار ۴۰۰۰روپیہ آتھم صاحب کی درخواست آنے کے بعد پانچ ہفتہ میں ان کے پاس حاضر کیا جائے گا.منہ

Page 597

حسب شرائط اشتہار ۹؍ستمبر ۱۸۹۴ء و ۲۰ستمبر ۱۸۹۴ء کل روپیہ آتھم صاحب کے ضامنوں کے حوالہ کر دیں گے اور ہمیں منظور ہے کہ آتھم صاحب کے دو داماد ہیں جو معزز عہدوں پر ہیں ضامن ہو جائیں اگر ہم تکمیل تمسک کے بعد ایک طرفۃ العین کی بھی روپیہ دینے میں توقف کریں تو بلاشبہ ہم جھوٹے ٹھہریں گے اور ضامنوں کو اختیار ہوگا کہ ہمیں آتھم صاحب کی دہلیز میں پیر نہ رکھنے دیں جب تک بعد تکمیل تمسک روپیہ وصول نہ کرلیں اور ایسا انتظام ہوگا کہ دس معزز گواہ کے روبرو اور ان کی وساطت سے روپیہ دیا جائے گا اور تمسک لیا جائے گا اور ان د۱۰س گواہوں کی اس تمسک پر شہادت ہوگی اور وہ تمسک چند اخباروں میں چھپوا دیا جائے گا اور اس تمسک میں ضامنوں کی طرف سے یہ اقرار ہوگا کہ اگر تاریخ تمسک سے ایک سال تک پیشگوئی پوری نہ ہوئی اور آتھم صاحب صحیح و سالم رہے تو یہ کل روپیہ آتھم صاحب کی ملکیت ہو جائے گا.ورنہ ضامن کل روپیہ بلا توقف واپس کریں گے.اب آخر میں ہم پھر آتھم صاحب کو حضرت عیسیٰ مسیح کی عزت بطور سفارشی پیش کر کے اس زندہ خدا کی قسم دیتے ہیں.جو جھوٹوں اور سچوں کو خوب جانتا ہے کہ اس طریق تصفیہ کو ہرگز رد نہ کریں.وہ تو بقول خود ہمارا جھوٹا ہونا اور ہمارے الہام کا باطل ہونا اور مسیح کا معین و مددگار ہونا تجربہ کر چکے اب کیوں بعد تجربہ کے مرے جاتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ میری عمر قریب ۶۴ یا ۶۸ برس کی ہے اے صاحب بموجب قول ساٹھا پاٹھا کے آپ تو ابھی بچے ہیں کون سے بڑی عمر ہوگئی ہے.ماسوا اس کے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا زندہ رکھنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں یہ کیسی بے ایمان قوم ہے جو اپنے تئیں سچا سمجھ کر پھر بھی خدا تعالیٰ پر توکل نہیں کرسکتی.دیکھو میری عمر بھی تو قریب ساٹھ برس کے ہے اور ہم اور آتھم صاحب ایک ہی قانون قدرت کے نیچے ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مقابلہ کے وقت ضرور مجھے زندہ رکھ لے گا کیونکہ ہمارا خدا قادر اور حیّ و قیّوم ہے مریم عاجزہ کے بیٹے کی طرح نہیں اور ہم اس اشتہار کے بعد پھر ایک ہفتہ تک انتظار کریں گے.اے ہماری قوم کے اندھو نیم عیسائیو کیا تم نے نہیں سمجھا کہ کس کی فتح ہوئی.کیا حق بجانب آدمی کی وہ نشانیاں ہیں جو آتھم صاحب ظاہر کر رہے ہیں یا یہ نشانیاں جو ان پُر ہیبت اور متواتر

Page 598

اشتہارات سے روشن ہو رہی ہیں.کیا یہ استقامت کسی جھوٹے میں آسکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ اس کے ساتھ نہ ہو.اور اگر یہ کہو کہ یہ سب سچ مگر نشان کون سا ظاہر ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ اس پیشگوئی کے قوی اثر نشان کے طور پر ضرور فریق مخالف پر پڑے اور جیسا کہ شکست خوردہ لوگوں کا حال ہوتا ہے یہی برا حال اس جنگ مقدس میں ان کو پیش آیا اور چاروں صورتیں ذلت اور تباہی کی ان کو پیش آگئیں.اور ہنوز بس نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ میں بس نہیں کروں گا جب تک اپنے قوی ہاتھ کو نہ دکھلائوں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلت ظاہر نہ کروں.ہاں اس نے اپنی اس عادت اور سنت کے موافق جو اس کی پاک کتابوں میں مندرج ہے.آتھم صاحب کی نسبت تاخیر ڈال دی کیونکہ مجرموں کے لئے خدا کی کتابوں میں یہ ازلی وعدہ ہے جس کا تخلف روا نہیں کہ خوفناک ہونے کی حالت میں ان کو کسی قدر مہلت دی جاتی ہے اور پھر اصرار کے بعد پکڑے جاتے ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی پاک کتابوں کے وعدہ کا لحاظ رکھتا کیونکہ اس پر تخلف وعدہ جائز نہیں لیکن جو الہامی عبارات میں تاریخیں مقرر ہیں وہ کبھی ان سنت اللہ کے وعدوں سے جو قرآن میں درج ہیں برخلاف واقع نہیں ہو سکتیں کیونکہ کوئی الہام وحی الٰہی کے قرار دادہ شرائط سے باہر نہیں ہوسکتا.اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا لیکن ہم اس مؤخر الذکر شق کی نسبت ابھی صرف اتنا کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے نشان کو ایک عجیب طور پر دکھلانا ارادہ کیا ہے جس سے دنیا کی آنکھ کھلے اور تاریکی دور ہو اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں مگر اس وقت اور گھڑی کا علم جب دیا جائے گا تب اس کو شائع کر دیا جائے گا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.

Page 599

شیخ محمد حسین بٹالوی ہم کو ایک مخلص کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بٹالوی صاحب نے اس پیشگوئی کے متعلق اور نیز اشتہار ۶؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء کے متعلق جو احمد بیگ کے داماد کی نسبت شائع کیا گیا تھا چند اعتراض کئے ہیں جن کا جواب مع تصریح اعتراض ذیل میں لکھتا ہوں.قولہ.بے چارہ عبد اللہ آتھم عیسائی ان کے مذہب میں قسم کھانا منع ہے لالچ کرنا منع ہے.الجواب.اگر قسم کھانا منع ہے تو پطرس نے کیوں قسم کھائی پولس نے کیوں قسم کھائی خود مسیح نے کیوں قسم کی پابندی کی انگریزی عدالتوں نے کیوں عیسائیوں کے لئے قسم مقرر کی بلکہ قانون کے رو سے دوسروں کے لئے اقرار صالح اور عیسائیوں کے لئے حلف ہے تحریف اور تلبیس یہود اور نصاریٰ کے عادات میں سے ہے لیکن نہ معلوم کہ ان مولویوں نے کیوں یہ عادات اختیار کر لئے سو اے اسلام کے دشمنو اِن خیانتوں سے باز آ جائو کیا یہودیوں کا انجام اچھا ہوا کہ تا تمہارا بھی نیک انجام ہو اور لالچ وہ حرص ہے جو دیانت اور دین کے برخلاف ہو پس جبکہ ہم انعام کے طور پر خود روپیہ پیش کرتے ہیں اور آتھم صاحب اپنی نفسانی خواہش سے نہیں مانگتے بلکہ ہم خود دیتے ہیں اور قسم کھانا ان کے مذہب میں نہ صرف جائز بلکہ لکھا ہے کہ جو قسم نہ کھاوے وہ جھوٹا ہے تو ایسے روپیہ کا لینا جو بغیر میل نفس کے ہے لالچ میں کیونکر داخل ہوا.قولہ.یہ قرآن میں نہیں کہ عذاب کا وعدہ آیا اور کسی قدر خوف سے ٹل گیا.الجواب.تمام قرآن اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہ اگر تو بہ و استغفار قبل نزول عذاب ہو تو وقت نزول عذاب ٹل جاتا ہے بائبل میں ایک بنی اسرائیل کے بادشاہ کی نسبت لکھا ہے کہ اس کی نسبت نوٹ.اگر میاں محمد حسین بٹالوی آتھم صاحب کی وکالت کر کے یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ عیسائی مذہب میں قسم کھانا منع ہے تو ان پر واجب ہے کہ اب عیسائیوں کے مددگار بن کر اپنی اس ہذیان کا پورا پورا ثبوت دیں اور اس اشتہار کا رد لکھائیں ورنہ بجز اس کے اور کیا کہیں کہ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.

Page 600

صاف طور پر وحی وارد ہوچکی تھی کہ پندرہ دن تک اس کی زندگی ہے پھر فوت ہو جائے گا لیکن اس کی دعا اور تضرع سے خدا تعالیٰ نے وہ پندرہ دن کا وعدہ پندرہ سال کے ساتھ بدلا دیا اور موت میں تاخیر ڈال دی.یہ قصہ مفسرین نے بھی لکھا ہے بلکہ اور حدیثیں اس قسم کی بہت ہیں جن کا لکھنا موجب طول ہے بلکہ علاوہ وعید کے ٹلنے کے جو کرم مولیٰ میں داخل ہے اکابر صوفیاء کا مذہب ہے جو کبھی وعدہ بھی ٹل جاتا ہے اور اس کا ٹلنا موجب ترقی درجات اہل کمال ہوتا ہے دیکھو فیوض الحرمین شاہ ولی اللہ صاحب اور فتوح الغیب سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہما ۱؎ اور وقتوں اور میعادوں کا ٹلنا تو ایک ایسی ۱؎ نوٹ.ان بزرگوں نے جو عدم ایفاإ وعدہ خدا تعالیٰ پر جائز رکھا ہے تو اس سے یہی مراد ہے کہ جائز ہے کہ جس بات کو انسان نے اپنے ناقص علم کے ساتھ وعدہ سمجھ لیا ہے وہ علم باری میں وعدہ نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ایسے مخفی شرائط ہوں جن کا عدم تحقق عدم تحقق وعدہ کیلئے ضروری ہو اور علامہ محقق سید علی بن سلیمان مغربی نے اپنی کتاب وَشی الدیباج علٰی صحیح مسلم بن الحجاج کے صفحہ ۱۲۶ میں تحت حدیث یخشی ان تکون الساعۃ لکھا ہے.فانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لکمال معرفتہ بربہ لا یری وجوب شیء علیہ تعالٰی ککون الساعۃ لا تقوم الا بعد تلک المقدمات ای خروج الدجال وغیرہ و ان وعد بہ.یعنی آنحضرت صلعم اپنے کمال معرفت کی وجہ سے قبل از قیامت ان علامات کا ظاہر ہونا ضروری نہیں سمجھتے تھے اور خدا تعالیٰ پر یہ حق واجب نہیں خیال کرتے تھے کہ اس کے وعدہ کے موافق دجال اور دآبۃ الارض اور مہدی موعود وغیرہ علامات موعودہ پوری ہوں پھر قیامت آوے بلکہ وہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ ممکن ہے کہ قیامت آ جائے اور ان علامتوں میں سے کوئی بھی ظاہر نہ ہو اور کسی قدر اسی کے موافق مواہب لدنیہ کی شرح میں لکھا ہے جو امام علامہ محمد بن عبد الباقی کی طرف سے ہے اور جواز نسخ اخبار کی طرف اشارہ کیا ہے دیکھو صفحہ ۴۵ شرح مذکور لیکن میرے نزدیک ان بزرگوں کا ہرگزیہ منشا نہیں ہوگا کہ آنحضرت صلعم وعدہ کو فی الحقیقت وعدہ سمجھ کر پھر جو ازعدم ایفائے وعدہ کے قائل تھے کیونکہ تخلّف وعدہ ایک نقص ہے جو خدا تعالیٰ پر جائز نہیں بلکہ آنحضرت صلعم یہ سمجھتے ہوں گے کہ خروج دجال اور ظہور مہدی وغیرہ یہ سب مواعید تو برحق ہیں لیکن ممکن ہے کہ انکے ظہور کے لئے شرائط ہوں جن کے عدم سے یہ بھی حیز عدم میں رہیں اور یاممکن ہے کہ ایسے طور سے یہ وعدے ظہور میں آجائیں کہ ان پر اطلاع بھی نہ ہو کیونکہ سنت اللہ میں پیشگوئیوں کے ظہور کے لئے کوئی ایک طور اور طریق

Page 601

سنت اللہ ہے جس سے بجز ایک سخت جاہل کے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا.دیکھو حضرت موسیٰ کو نزول توریت کے لئے تیس رات کا وعدہ دیا تھا اور کوئی ساتھ شرط نہ تھی مگر وہ وعدہ قائم نہ رہا اور اس پر دس دن اور بڑھائے گئے جس سے بنی اسرائیل گو سالہ پرستی کے فتنہ میں پڑے پس جبکہ اس نص قطعی سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے وعدہ کی تاریخ کو بھی ٹال دیتا ہے جس کے ساتھ کسی شرط کی تصریح نہیں کی گئی تھی تو وعید کی تاریخ میں عند الرجوع تاخیر ڈالنا خود کرم میں داخل ہے اور ہم لکھ چکے ہیں کہ اگر تاریخ عذاب کسی کے توبہ استغفار سے ٹل جائے تو اس کا نام تخلّف وعدہ نہیں کیونکہ بڑا وعدہ سنت اللہ ہے پس جبکہ سنت اللہ پوری ہوئی تو وہ ایفاء وعدہ ہوا نہ تخلّف وعدہ.۱؎ ۱؎ حاشیہ.اگر بے چارہ شیخ بٹالوی کے دل کو دھڑکا پکڑتا ہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  ۲؎ اور تاریخ مقررہ کی کمی بیشی کرنا تخلف وعدہ کی ایک جز ہے تو اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ وعدہ سے مراد وہ امر ہے جو علم الٰہی میں بطور وعدہ قرار پاچکا ہے نہ وہ امر جو انسان اپنے خیال کے مطابق اس کو قطعی وعدہ خیال کرتا ہو اسی وجہ سے المیعاد پر جو الف لام ہے وہ عہد ذہنی کی قسم میں سے ہے یعنی وہ امر جو ارادہ قدیمہ میں وعدہ کے نام سے موسوم ہے گو انسان کو اس کی تفاصیل پر علم ہو یا نہ ہو.وہ غیر متبدل ہے ورنہ ممکن ہے جو انسان جس بشارت کو وعدہ کی صورت میں سمجھتا ہے اس کے ساتھ کوئی ایسی شرط مخفی ہو جس کا عدم تحقق اس بشارت کے عدم تحقق کے لئے ضرور ہو کیونکہ شرائط کا ظاہر کرنا اللہ جلّ شانہٗ پر حق واجب نہیں ہے چنانچہ اِسی بحث کو شاہ ولی اللہ صاحب نے بسط سے لکھا ہے اور مولوی عبد الحق صاحب دہلوی نے بھی فتوح الغیب کی شرح میں اس میں بہت عمدہ بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ آنحضرت صلعم کا بدر کی لڑائی میں تضرع اور دعا کرنا اسی خیال سے تھا کہ الٰہی مواعید اور بشارات میں احتمال شرط مخفی ہے اور یہ اس لئے سنت اللہ ہے کہ تا اس کے خاص بندوں پر ہیبت اور عظمت الٰہی مستولی ہو.پس ماحصل کلام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدوں میں بے شک تخلف نہیں وہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے علم میں ہیں پورے ہو جاتے ہیں

Page 602

قولہ.عذاب موت اگر استغفار سے ٹل جاتا ہے تو اس کی نظیر دو.الجواب.اے نادان اس کی نظیر قرآن آپ دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے   . .۱؎ الجزو ۱۱ اب ظاہر ہے کہ ان آیات کا حاصل مطلب یہی ہے کہ جب بعض گنہگاروں کو ہلاک کرنے کے لئے خدا تعالیٰ اپنے قہری ارادہ سے اس دریا میں صورت طوفان پیدا کرتا ہے جس میں ان لوگوں کی کشتی ہو تو پھر ان کی تضرع اور رجوع پر ان کو بچا لیتا ہے حالانکہ جانتا ہے کہ پھر وہ مفسدانہ حرکات میں مشغول ہوں گے.کیا اس طوفان سے یہ غرض ہوتی ہے کہ کشتی والوں کو صرف خفیف خفیف چوٹیں لگیں مگر ہلاک نہ ہوں اے شیخ ذرا شرم کرنا چاہیے اس قدر عقل کیوں ماری گئی کہ نصوص بدیہیہ سے انکار کئے جاتے ہو.قولہ.یونس کا وعدہ بھی شرطیہ تھا.الجواب.فتح البیان اور ابن کثیر اور معالم کو دیکھو یعنی سورۃ الانبیاء سورہ یونس اور والصافات کی تفسیر پڑھو اور تفسیر کبیر صفحہ ۱۸۸ سے غور سے پڑھو تا معلوم ہو کہ ابتلا کی وجہ کیا تھی یہی تو تھی کہ حضرت یونس قطعی طور پر عذاب کو سمجھے تھے اگر کوئی شرط منجانب اللہ ہوتی تو یہ ابتلا کیوں آتا.چنانچہ صاحب تفسیر کبیر لکھتا ہے اَنَّھُمْ لَمَّا لَمْ یُؤْمِنُوْا اَوْعَدَھُمْ بِالْعَذَابِ فَلَمَّا کُشِفَ الْعَذَابُ عَنْھُمْ بَعْدَ مَا تَوَعَّدَھُمْ خَرَجَ مِنْھُمْ مُغَاضِبًا یعنی یونس نے اُس وقت عذاب کی خبر سنائی جبکہ اس قوم کے ایمان سے نومید ہوچکا پس جبکہ عذاب اُن پر سے اٹھایا گیا تو غضب ناک ہوکر بقیہ حاشیہ : لیکن انسان ناقص العقل کبھی ان کو تخلف کی صورت میں سمجھ لیتا ہے کیونکہ بعض ایسی مخفی شرائط پر اطلاع نہیں پاتا جو پیشگوئی کو دوسرے رنگ میں لے آتے ہیں.اور ہم لکھ چکے ہیں کہ الہامی پیشگوئیوں میں یہ یاد رکھنے کے لایق ہے کہ وہ ہمیشہ ان شرایط کے لحاظ سے پوری ہوتی ہیں جو سنت اللہ میں اور الٰہی کتاب میں مندرج ہوچکی ہیں گو وہ شرائط کسی ولی کے الہام میں ہوں یا نہ ہوں.منہ

Page 603

نکل گیا پس ان تفسیروں سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اوّل یونس نے اس قوم کے ایمان کے لئے بہت کوشش کی اور جبکہ کوشش بے سود معلوم ہوئی اور یاس کلی نظر آئی تو انہوں نے خدا تعالیٰ کی وحی سے عذاب کا وعدہ دیا جو تین دن کے بعد نازل ہوگا اور صاحب تفسیر کبیر نے جو پہلا قول نقل کیا ہے اس کے سمجھنے میں نادان شیخ نے دھوکا کھایا ہے اور نہیں سوچا کہ اس کے آگے صفحہ ۱۸۸ میں وہ عبارت لکھی ہے جس سے ثابت ہوا ہے کہ عذاب موت کی پیشگوئی بلا شرط تھی اور یہی آخری قول قول مفسرین اور ابن مسعود اور حسن اور شعبی اور سعید بن جبیر اور وہب کا ہے پھر ہم کہتے ہیں کہ جس حالت میں وعدہ کی تاریخ ٹلنا نصوص قرآنیہ قطعیہ یقینیہ سے ثابت ہے جیسا کہ آیت .۱؎ اس کی شاہد ناطق ہے تو وعید کی تاریخیں جو نزول عذاب پر دال ہوتی ہیں جس کا ٹلنا اور رد بلا ہونا توبہ اور استغفار اور صدقات سے باتفاق جمیع انبیاء علیہم السلام ثابت ہے پس ان تاریخوں کا ٹلنا بوجہ اولیٰ ثابت ہوا اور اس سے انکار کرنا صرف سفیہ اور نادان کا کام ہے نہ کسی صاحب بصیرت کا.اور صاحب تفسیر کبیر اپنی تفسیر کے صفحہ ۱۶۴ میں لکھتے ہیں ان ذنبہ یعنی ذنب یونس کان لان اللّٰہ تعالٰی وعدہ انزال الاھلاک بقومہ الذین کذبوہ فظن انہ نازل لا محالۃ فلاجل ھذا الظن لم یصبر علٰی دعائھم فکان الواجب علیھم ان یستمر علی الدعاء لجواز ان لا یھلکھم اللّٰہ بالعذاب.یعنی یونس کا یہ گناہ تھا کہ اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ملا تھا کہ اس کی قوم پر ہلاکت نازل ہوگی کیونکہ انہوں نے تکذیب کی پس یونس نے سمجھ لیا کہ یہ عذاب موت قطعی اور اٹل ہے اور ضرور نازل ہوگا اسی ظن سے وہ دعا ہدایت پر صبر نہ کرسکا اور واجب تھا کہ دعا ہدایت کی کئے جاتا کیونکہ جائز تھا کہ خدا دعاء ہدایت قبول کر لے اور ہلاک نہ کرے.اب بولو شیخ جی کیسی صفائی سے ثابت ہوگیا کہ یونس نبی وعدہ اہلاک کو قطعی سمجھتا تھا اور یہی اس کے ابتلا کا موجب ہوا کہ تاریخ موت ٹل گئی.اور اگر اس پر کفایت نہیں تو دیکھو امام سیوطی

Page 604

کی تفسیر دُرّ منثور سور ہ انبیاء.قال اخرج ابن ابی حاتم عن ابن عباس قال لما دعا یونس علی قومہ اوحی اللّٰہ الیہ ان العذاب یصبحھم.....فلما رأوہ جاروا الی اللّٰہ و بکی النساء والولدان ورغت الا بل وفصلانہا وخارت البقر وعجاجیلہا ولغت الغنم و سخالہا فرحمھم اللّٰہ وصرف ذلک العذاب عنھم وغضب یونس وقال کُذِبْتُ فھو قولہ اذ ذھب مغاضبًا.یعنی ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جبکہ یونس نے اپنی قوم پر بددعا کی سو خدا تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ صبح ہوتے ہی عذاب نازل ہوگا پس جبکہ قوم نے عذاب کے آثار دیکھے تو خدا تعالیٰ کی طرف تضرع کیا اور عورتیں اور بچے روئے اور اونٹنیوں نے ان کے بچوں کے سمیت اور گائیوں نے ان کے بچھڑوں کے سمیت اور بھیڑ بکری نے ان کے بُزغالوں کے سمیت خوف کھا کر شور مچایا.پس خدا تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور عذاب کو ٹال دیا اور یونس غضب ناک ہوا کہ مجھے تو عذاب کا وعدہ دیا گیا تھا یہ قطعی وعدہ کیوں خلاف واقعہ نکلا.پس یہی اس آیت کے معنے ہیں کہ یونس غضبناک ہوا.اب دیکھو کہ یہاں تک یونس پر ابتلا آیا کہ کُذِبْتُ اس کے منہ سے نکل گیا یعنی مجھ پر کیوں ایسی وحی نازل ہوئی جس کی پیشگوئی پوری نہ ہوئی اگر کوئی شرط اس وعدہ کے ساتھ ہوتی تو یونس باوجودیکہ اس کو خبر پہنچ چکی تھی کہ قوم نے حق کی طرف رجوع کر لیا کیوں یہ بات منہ پر لاتا کہ میری پیشگوئی خلاف واقعہ نکلی.اور اگر کہو کہ یونس کو ان کے ایمان اور رجوع کی خبر نہیں پہنچی تھی اور اس وہم میں تھا کہ باوجود کفر پر باقی رہنے کے عذاب سے بچ گئے اِس لئے اُس نے کہا کہ میری پیشگوئی خلاف واقعہ نکلی سو اس کا دندان شکن جواب ذیل میں لکھتا ہوں جو سیوطی نے زیر آیت وان یونس الخ لکھا ہے قال واخرج ابن جریر وابن ابی حاتم عن ابن عباس قال بعث اللّٰہ یونس الی اھل قریۃ فردوا علیہ فامتنعوا منہ فلما فعلوا ذلک اوحی اللّٰہ الیہ انی مرسل علیھم العذاب فی یوم کذا وکذا فخرج من بین اظھرھم فاعلم قومہ الذی وعدھم اللّٰہ من عذابہ ایاھم … فلما کانت اللیلۃ التی وعد العذاب فی صبیحتہا فراٰہ القوم

Page 605

فحذروا فخرجوا من القریۃ الی برازٍ من ارضہم و فرقوا کل دابۃ و ولدھا ثم عجوا الی اللّٰہ وانابوا واستقالوا فاقالھم اللّٰہ وانتظر یونس الخبر عن القریۃ واھلہا حتی مرّ بہ مار فقال ما فعل اھل القریۃ قال فعلوا ان یخرجوا الی براز من الارض ثم فرقوا بین کل ذات ولد و ولدھا ثم عجوا الی اللّٰہ وانابوا فقبل منھم و اُخّر عنھم العذاب فقال یونس عند ذٰلک لا ارجع الیھم کذابا و مضی علی وجھہ.یعنی ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے یہ حدیث لکھی ہے کہ خدا نے یونس نبی کو ایک بستی کی طرف مبعوث کیا پس انہوں نے اس کی دعوت کو نہ مانا اور رک گئے سو جبکہ انہوں نے ایسا کیا تو خدا تعالیٰ نے یونس کی طرف وحی بھیجی کہ میں فلاں دن میں ان پر عذاب نازل کروں گا سو یونس نے اس قوم کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ فلاں تاریخ کو تم پر عذاب نازل ہوگا اور ان میں سے نکل گیا پس جبکہ وہ رات آئی جس کی صبح کو عذاب نازل ہونا تھا سو قوم نے عذاب کے آثار دیکھے سو وہ ڈر گئے اور اپنی بستی سے ایک وسیع میدان میں نکل آئے جو انہیں کی زمین کی حدود میں تھا اور ہریک جانور کو اس کے بچے سے علیحدہ کر دیا یعنی رحیم خدا کے رجوع دلانے کے لئے یہ حیلہ سازی کی جو شیر خوار بچوں کو خواہ وہ انسانوں کے تھے یا حیوانوں کے ان کی مائوں سے علیحدہ پھینک دیا اور اس مفارقت سے ایک قیامت کا شور اس میدان میں برپا ہوا مائوں کو ان کے شیر خوار بچوں کو جنگل میں دور ڈالنے سے سخت رقت طاری ہوئی اور اس طرف بچوں نے بھی اپنی پیاری مائوں سے علیحدہ ہوکر اور اپنے تئیں اکیلے پاکر درد ناک شور مچایا اور اس کارروائی کے کرتے ہی سب لوگوں کے دل درد سے بھر گئے اور نعرے مار مار کر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف تضرع کیا اور اس سے معافی چاہی تب رحیم خدا نے جس کی رحمت سبقت لے گئی ہے یہ حال زار ان کا دیکھ کر ان کو معاف کر دیا اور ادھر حضرت یونس عذاب کے منتظر تھے اور دیکھتے تھے کہ آج اس بستی اور اس کے لوگوں کی کیا خبر آتی ہے یہاں تک کہ ایک رہ گزر مسافر ان کے پاس پہنچ گیا انہوں نے پوچھا کہ اس بستی کا کیا حال ہے اس نے کہا کہ انہوں نے یہ کارروائی کی کہ اپنی زمین کے ایک وسیع میدان میں نکل آئے اور ہریک بچہ کو اس کی ماں سے الگ کر

Page 606

فحذروا فخرجوا من القریۃ الی برازٍ من ارضہم و فرقوا کل دابۃ و ولدھا ثم عجوا الی اللّٰہ وانابوا واستقالوا فاقالھم اللّٰہ وانتظر یونس الخبر عن القریۃ واھلہا حتی مرّ بہ مار فقال ما فعل اھل القریۃ قال فعلوا ان یخرجوا الی براز من الارض ثم فرقوا بین کل ذات ولد و ولدھا ثم عجوا الی اللّٰہ وانابوا فقبل منھم و اُخّر عنھم العذاب فقال یونس عند ذٰلک لا ارجع الیھم کذابا و مضی علی وجھہ.یعنی ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے یہ حدیث لکھی ہے کہ خدا نے یونس نبی کو ایک بستی کی طرف مبعوث کیا پس انہوں نے اس کی دعوت کو نہ مانا اور رک گئے سو جبکہ انہوں نے ایسا کیا تو خدا تعالیٰ نے یونس کی طرف وحی بھیجی کہ میں فلاں دن میں ان پر عذاب نازل کروں گا سو یونس نے اس قوم کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ فلاں تاریخ کو تم پر عذاب نازل ہوگا اور ان میں سے نکل گیا پس جبکہ وہ رات آئی جس کی صبح کو عذاب نازل ہونا تھا سو قوم نے عذاب کے آثار دیکھے سو وہ ڈر گئے اور اپنی بستی سے ایک وسیع میدان میں نکل آئے جو انہیں کی زمین کی حدود میں تھا اور ہریک جانور کو اس کے بچے سے علیحدہ کر دیا یعنی رحیم خدا کے رجوع دلانے کے لئے یہ حیلہ سازی کی جو شیر خوار بچوں کو خواہ وہ انسانوں کے تھے یا حیوانوں کے ان کی مائوں سے علیحدہ پھینک دیا اور اس مفارقت سے ایک قیامت کا شور اس میدان میں برپا ہوا مائوں کو ان کے شیر خوار بچوں کو جنگل میں دور ڈالنے سے سخت رقت طاری ہوئی اور اس طرف بچوں نے بھی اپنی پیاری مائوں سے علیحدہ ہوکر اور اپنے تئیں اکیلے پاکر درد ناک شور مچایا اور اس کارروائی کے کرتے ہی سب لوگوں کے دل درد سے بھر گئے اور نعرے مار مار کر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف تضرع کیا اور اس سے معافی چاہی تب رحیم خدا نے جس کی رحمت سبقت لے گئی ہے یہ حال زار ان کا دیکھ کر ان کو معاف کر دیا اور ادھر حضرت یونس عذاب کے منتظر تھے اور دیکھتے تھے کہ آج اس بستی اور اس کے لوگوں کی کیا خبر آتی ہے یہاں تک کہ ایک رہ گزر مسافر ان کے پاس پہنچ گیا انہوں نے پوچھا کہ اس بستی کا کیا حال ہے اس نے کہا کہ انہوں نے یہ کارروائی کی کہ اپنی زمین کے ایک وسیع میدان میں نکل آئے اور ہریک بچہ کو اس کی ماں سے الگ کر

Page 607

کوئی دوسرا پہلو ایمان لانے کا قوم کو بتلایا ہوتا تو وہ میدان میں ایسی درد ناک صورت اپنی نہ بناتے بلکہ شرط کے ایفاء پر عذاب ٹل جانے کے وعدہ پر مطمئن ہوتے ایسا ہی اگر حضرت یونس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم ہوتا کہ ایمان لانے سے عذاب ٹل جائے گا تو وہ کیوں کہتے کہ اب میں اس قوم کی طرف نہیں جائوں گا کیونکہ میں ان کی نظر میں کذّاب ٹھہر چکا جبکہ وہ سن چکے تھے کہ قوم نے توبہ کی اور ایمان لے آئی پس اگر یہ شرط بھی ان کی وحی میں داخل ہوتی تو ان کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ پیشگوئی پوری ہوئی نہ یہ کہ وہ وطن چھوڑ کر ایک بھاری مصیبت میں اپنے تئیں ڈالتے قرآن کا لفظ لفظ اسی پر دلالت کررہا ہے کہ وہ سخت ابتلا میں پڑے اور حدیث نے کیفیت ابتلا کی یہ بتلائی پس اب بھی اگر کوئی شیخ و شاب منکر ہو تو یہ صریح اس کی گردن کشی ہے.اور ہم اس مضمون کو اس پر ختم کرتے ہیں کہ اگر ہم سچے ہیں تو خدا تعالیٰ ان پیشگوئیوں کو پورا کر دے گا اور اگر یہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں تو ہمارا انجام نہایت بدہوگا اور ہرگز یہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوں گی..۱؎ اور میں بالآخر دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر و علیم اگر آتھم کا عذاب مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے ہیں تو ان کو ایسے طور پر ظاہر فرما جو خلق اللہ پر حجت ہو اور کور باطن حاسدوں کا منہ بند ہو جائے.اور اگر اے خداوند یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر اگر میں تیری نظر میں مردود اور ملعون اور دجال ہی ہوں جیسا کہ مخالفوں نے سمجھا ہے اور تیری وہ رحمت میرے ساتھ نہیں جو تیرے بندہ ابراہیم کے ساتھ اور اسحاق کے ساتھ اور اسمٰعیل کے ساتھ اور یعقوب کے ساتھ اور موسیٰ کے ساتھ اور دائود کے ساتھ اور مسیح ابن مریم کے ساتھ اور خیر الانبیاء محمد صلعم کے ساتھ اور اس امت کے اولیاء کرام کے ساتھ تھی تو مجھے فنا کر ڈال اور ذلتوں کے ساتھ مجھے ہلاک کر دے اور ہمیشہ کی لعنتوں کا نشانہ بنا اور

Page 608

تمام دشمنوں کو خوش کر اور ان کی دعائیں قبول فرما لیکن اگر تیری رحمت میرے ساتھ ہے اور توہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا.یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا.یَا عِیْسَی الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ.اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا.الیس اللّٰہ بکاف عبدہ اور توہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کرکے کہا.قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اور تو ہی ہے جو غالباً مجھے ہر روز کہتا رہتا ہے اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَا مَعَکَ تو میری مدد کر اور میری حمایت کے لئے کھڑا ہو جا وَ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ.راقم خاکسار غلام احمد ازقادیان ضلع گورداسپور ۲۷؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء (تعداد اشاعت ۴۰۰۰)ریاض ہند امرتسر (یہ اشتہار سائز کے۱۶ صفحوں پر ہے) (ضمیمہ انوار الاسلام صفحہ ۱ تا ۱۶.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۹۷ تا ۱۲۵)

Page 609

ایک فیصلہ کرنے والا اشتہار انعامی ہزار روپیہ میاں رشید احمد گنگوہی وغیرہ کی ایمانداری پرکھنے کے لئے جنہوں نے اس عاجز کی نسبت یہ اشتہار شائع کیا ہے کہ یہ شخص کافر اور دجال اور شیطان ہے اور اس پر لعنت اور سبّ و شتم کرتے رہنا ثواب کی بات ہے اور اس اشتہار کے وہ سب مکفّر مخاطب ہیں جو کافر اور اکفر کہنے سے باز نہیں آتے خواہ لدھیانوی ہیں یا امرتسری یا غزنوی یابٹالوی یا گنگوہی یا پنجاب اور ہندوستان کے کسی اور مقام میں الا لعنۃ اللّٰہ علی الکافرین المکفّرین الذین یکفرون المسلمین.اب اُن سب پر واجب ہے کہ اپنے ہم جنس مولوی محمدحسن صاحب لدھیانوی کو قسم دلوا کر ہزار روپیہ ہم سے لے لیں ورنہ یاد رکھیں کہ وہ سب بباعث تکفیر مسلم اور انکار حق کے ابدی لعنت میں مبتلا ہوکر تمام شیاطین کے ساتھ جہنم میں پڑیںگے اور نیز یاد رہے کہ قسم اسی مضمون کی ہوگی جو اشتہار ھٰذا میں درج ہے.اے علمائے مکفّرین اُن آثار اور اخبار کی نسبت کیا کہتے ۱؎ ہو جن کو امام عبد الوہاب شعرانی اور دوسرے اکابر متقدمین نے اپنی اپنی کتابوں میں مبسوط طور پر نقل کیا ہے.جن میں سے کچھ حصہ مولوی صدیق حسن خان بھوپالوی نے اپنی فارسی کتابوں حجج الکرامہ وغیرہ میں بطور اختصار لکھا ہے کہ مہدی موعود کے چار نشان خاص ہیں جن میں اس کا غیر شریک نہیں.۱؎ نوٹ.یہ کہنا بے جاہو گا کہ یہ احادیث ضعیف ہیں یا بعض روایات مجروح ہیں یا حدیث منقطع اور مرسل ہے.کیونکہ جس حدیث کی پیشگوئی واقعی طور پر سچی نکلی اس کا درجہ فی الحقیقت صحاح سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ اس کی صداقت بدیہی طور پر ظاہر ہوگئی.غرض جب حدیث کی پیشگوئی سچی نکلی تو پھر بھی اس میں شک کرنا صریح بے ایمانی ہے.

Page 610

(۱).یہ کہ علماء اس کی تکفیر کریں گے اور اس کا نام کافر اور دجّال اور بے ایمان رکھیں گے اور تمام مل کر اس کی تکذیب کریں گے اور اس کی تحقیر اور سبّ و شتم کے لئے کمر باندھیں گے اور اس کی نسبت نہایت سخت کینہ پیدا کریں گے اور اس کو ملحد اور مرتد خیال کریں گے اور اس کی نسبت مشہور کریں گے کہ یہ تو اسلام کی بیخ کنی کر رہا ہے یہ مہدی کیسا ہے.اور لعنت اور کافر کافر کہنے کو موجب ثواب اور اجر سمجھیں گے اور اس کو اس زمانہ کے مولوی ہرگز قبول نہیں کریں گے.مگر آخری دنوں میں جب اس کی حقیقت کھل جائے گی محض نفاق سے مان لیں گے دل سے نہیں اور مہدی کو قبول کرنے والے اکثر عوام یا گوشہ گزیں یا پاک دل فقرا ہوں گے جو اپنی صحیح مکاشفات سے اس کو شناخت کرلیں گے.مگر مولویوں کو بجز اس کے اور کوئی حصہ نہیں ملے گا کہ اس کو بے دین اور کافر اور دجال کہیں گے.اور اس وقت کے مولوی ان سب سے بدتر ہوں گے جو زمین پر رہتے ہیں.ان کی زیر کی اور فراست جاتی رہے گی وہ عمیق باتوں کو سن کر فی الفور انکار کردیں گے کہ یہ باتیں تو ہمارے قدیم عقائد کے مخالف ہیں.(۲).دوسرا نشان مہدی موعود کا یہ ہے کہ اُس کے وقت میں ماہ رمضان میں خسوف کسوف ہوگا اور پہلے اُس سے جیسا کہ منطوق حدیث صاف بتلا رہا ہے کبھی کسی رسول یا نبی یا محدث کے وقت میں خسوف کسوف کا اجتماع رمضان میں نہیں ہوا.اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے کسی مدعی رسالت یا نبوت یا محدثیت کے وقت میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن اکٹھے نہیں ہوئے.اور اگر کوئی کہے کہ اکٹھے ہوئے ہیں تو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے.مگر حدیث کا مفہوم یہ نہیں کہ مہدی کے ظہور سے پہلے چاند گرہن اور سورج گرہن ماہ رمضان میں ہوگا کیونکہ اس صورت میں تو ممکنات میں سے تھا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کو ماہ رمضان میں دیکھ کر ہریک مفتری مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور امر مشتبہ ہو جائے کیونکہ بعد میں مدعی ہونا سہل ہے اور جب بعد میں کئی مدعی ظاہر ہوگئے تو صاف طور پر کوئی مصداق نہ رہا.بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مہدی موعود کے دعوے کے بعد بلکہ ایک مدت گزرنے کے بعد یہ نشان تائید دعویٰ کے طور پر ظاہر ہو جیسا کہ اِنَّ لمھدینا اٰیتین ای لتائید دعوی مھدینا آیتانِ صاف دلالت کر رہی ہے.اور اس طور سے کسی مفتری کی پیش رفت نہیں

Page 611

جاتی اور کوئی منصوبہ چل نہیں سکتا کیونکہ مہدی کا ظہور بہت پہلے ہوکر پھر مؤید دعویٰ کے طور پر سورج گرہن بھی ہوگیا.نہ یہ کہ ان دونوں کو دیکھ کر مہدی نے سر نکالا.اس قسم کے تائیدی نشان ہمارے سید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی پہلی کتابوں میں لکھے گئے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد ظہور میں آئے اور دعویٰ کے مصدق اور مؤید ہوئے.غرض ایسے نشان قبل از دعویٰ مہمل اور بے کار ہوتے ہیں کیونکہ ان میں گنجائش افترا بہت ہے.اور اس پر اور بھی قرینہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خسوف۱ اور کسوف۲ اور مہدی کا رمضان کے مہینے میں موجود ہونا خارق عادت ہے اور صرف اجتماع خسوف کسوف خارق عادت نہیں.(۳).تیسرا نشان مہدی موعود کا یہ ہے کہ اس کے وقت میں ایک فتنہ ہوگا.اور نصاریٰ اور مہدی کے لوگوں کا ایک جھگڑا پڑ جائے گا.نصاریٰ کے لئے شیطان آواز دے گا کہ اَلْحَقُّ فِیْ اٰلِ عِیْسٰی یعنی حق عیسیٰ کے لوگوں میں ہے اور فتح عیسائیوں کی ہے.اور مہدی کے لوگوں کیلئے آسمانی آواز آئے گی یعنی نشانوں اور تائیدوں کے ساتھ ربّانی گواہی یہ ہوگی کہ اَلْحَقُّ فِیْ اٰلِ مُحَمَّدٍ یعنی حق مہدی کے لوگوں میں ہے.آخر اس آواز کے بعد شیطانی تاریکی اٹھ جائے گی اور لوگ اپنے امام کو شناخت کر لیں گے.(۴).چوتھی مہدی کی یہ نشانی ہے کہ اس کے وقت میں بہت سے مسلمان یہودی طبع دجّال سے مل جائیں گے یعنی وہ لوگ بظاہر مسلمان کہلائیں گے اور دجال کی ہاں کے ساتھ ہاں ملاویں گے یعنی نصاریٰ کے دعویٰ فتح کے مُصدِّق ہوں گے.یہ چار نشانیاں ایسی ہیں کہ مہدی کے لئے خاص ہیں اور اگرچہ اس زمانہ سے پہلے بھی بہت سے اہل اللہ اور بزرگوں کو کافر ٹھہرایا گیا مگر نشانی کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مہدی موعود کی اس زور و شور سے تکفیر کی جائے گی کہ اُس سے پہلے کبھی مولویوں نے ایسے زور و شور سے کسی کی تکفیر نہیں کی ہوگی اور نہ کسی کو ایسے زور و شور سے دجال کہا ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس عاجز کو نہ صرف کافر بلکہ اکفر کہا گیا.ایسا ہی ممکن ہے کہ پہلے بھی کسی مہینہ میں چاند گرہن اور سورج گرہن اکٹھے

Page 612

ہوگئے ہوں مگر یہ کبھی نہیں ہوا اور ہرگز نہیں ہوا کہ بجز ہمارے اس زمانہ کے دنیا کی ابتدا سے آج تک کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں ایسے طور سے اکٹھے ہوگئے ہوں کہ اس وقت کوئی مدعی رسالت یا نبوت یا محدثیت بھی موجود ہو.ایسا ہی اگرچہ پہلے بھی نصاریٰ سے مباحثات مذہبی ہوتے رہے ہیں لیکن جو نصاریٰ نے اب شوخیاں دکھلائیں اور تمام ملک میں شیطانی آوازیں سنائیں اور گدھوں پر سوار ہوئے اور بہروپ بنائے ایسا استہزا ان کی طرف سے کبھی ظہور میں نہیں آیا اور نہ اُس استہزا کا بدل جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والا ہے جو ربّانی آواز ہے کبھی ایسا ظاہر ہوا جیسا کہ بعد اس کے ظاہر ہوگا.سننے والے یاد رکھیں.ایسا ہی اگرچہ بعض مسلمان جو منافق طبع ہیں پادریوں کے ساتھ اس سے پہلے بھی مداہنہ کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں مگر جو اب مولویوں اور ان کے ناقص العقل چیلوں نے ان پادری دجالوں کی ہاں کے ساتھ ہاں ملائی اور ان کو فتح یاب قرار دیا اور ان کی خوشی کے ساتھ خوشی منائی اور شوخی اور چالاکی سے صدہا اشتہار لکھے اور اہل حق پر لعنتیں بھیجیں اور ان لعنتوں سے نصاریٰ کو خوش کیا اور نصاریٰ کو غالب قرار دیا اس کی نظیر تیرہ سو برس میں کسی صدی میں نہیں پائی جاتی.پس یہ اُسی پیشگوئی کا ظہور ہے کہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ ستر ہزار مسلمان کہلانے والے دجال کے ساتھ مل جائیں گے.اب علمائے مکفرین بتلا ویں کہ یہ باتیں پوری ہو گئیں یا نہیں.بلکہ یہ دو علامتیں یعنی مہدی ہونے کے مدعی کو بڑے زور و شور سے کافر اور دجال کہنا اور نصاریٰ کی تائید کرنا اور ان کو فتحیاب قرار دینا اپنے ہاتھ سے مولویوں نے ایسے طور سے پورے کیں جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں پائی جاتی.نادانی سے پہلے باہم مشورہ کر کے سوچ نہ لیا کہ اس طور سے تو ہم دو نشانیوں کا آپ ہی ثبوت دے دیں گے جس شدّ و مَد سے اس عاجزکی تکفیر کی گئی ہے اگر پہلے بھی کسی مہدی ہونے کے مدعی کی اس زور و شور سے تکفیر ہوئی ہے اور یہ لعن و طعن کی بارش اور کافر اور دجال کہنا اور دین کا بیخ کن قرار دینا اور تمام ملک کے علماء کا اس پر اتفاق کرنا اور تمام ممالک میں اس کو شہرت دینا پہلے بھی وقوع میں آیا ہے تو اس کی نظیر پیش کریں جو طَابَقَ النَّعْلُ بِالنَّعْلِ کا مصداق ہو ورنہ مہدی موعود کی ایک خاص نشانی انہوں نے اپنے ہاتھ سے

Page 613

قائم کر دی اور اگر پہلے بھی ایسا اتفاق انہوں نے نصاریٰ سے کیا ہے اور ان کو غالب قرار دیا ہے تو اس کی بھی نظیر بتلاویں.اور اگر پہلے بھی کسی ایسے شخص کے وقت میں جو مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہو چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان میں اکٹھے ہو گئے ہوں تو اس کی نظیر پیش کریں.اور اگر پہلے بھی کسی مہدی کے لوگوں اور نصاریٰ کا کچھ جھگڑا پڑا ہو اور نصاریٰ نے اپنی فتح یابی کے لئے ایسی شیطانی آوازیں نکالی ہوں تو اس کی نظیر بھی بتلا ویں.اور ہم ہر چہار نظیروں کے پیش کرنے والے کے لئے ہزار روپیہ نقد انعام مقرر کرتے ہیں.ہم اس روپیہ کے دینے میں کوئی شرط مقرر نہیں کرتے صرف اس قدر ہوگا کہ بعد درخواست یہ ہزار روپیہ مولوی محمد حسن صاحب لدھیانوی کے پاس تین ہفتہ کے اندر جمع کرا دیا جاوے گا اور مولوی صاحب موصوف ایک تاریخ پر جو ان کی طرف سے مقرر ہو فریقین کو اپنے مکان پر بلا کر بلند آواز سے تین مرتبہ قسم کھائیں گے اور کہیں گے کہ میں اللہ جلّ شانُـہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ واقعات جو پیش کئے گئے بے نظیر نہیں ہیں اور جو کچھ ان کی نظیریں بتلائی گئی ہیں وہ واقعی طور پر صحیح اور درست اور یقینی اور قطعی ہیں.اور بخدا ان نشانیوں کے مصداق ہونے کا مدعی درحقیقت کافر ہے اور میں بصیرت کاملہ سے کہتا ہوں کہ ضرور وہ کافر ہے اور اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو میرے پر وہ عذاب اور قہر الٰہی نازل ہو جو جھوٹوں پر ہوا کرتا ہے.اور ہم ہریک مرتبہ کے ساتھ آمین کہیں گے اور واپسی روپیہ کی کوئی شرط نہیں اور نہ عذاب کے لئے کوئی میعاد مقرر ہے.ہمارے لئے یہ کافی ہوگا کہ یا تو مولوی صاحب خدا تعالیٰ سے ڈریں اور قسم نہ کھاویں اور یا تمام مکفّروں کے سرگروہ بن کر قسم کھالیں اور اس کے ثمرات دیکھیں.اور ہم اس جگہ علمائے وقت کی خدمت میں بہ ادب عرض کرتے ہیں کہ وہ تکفیر اور انکار میں جلدی نہ کریں.کیا ممکن نہیں کہ جس کو وہ جھوٹا کہتے ہیں اصل میں سچا وہی ہو.پس جلدی کر کے ناحق کی رو سیاہی کیوں لیتے ہیں.کیا کسی جھوٹے کے لئے آسمانی نشان ظاہر ہوتے ہیں یا کبھی خدا نے کسی جھوٹے کو ایسی لمبی مہلت دی کہ وہ بارہ برس سے برابر الہام اور مکالمہ الٰہیہ کا دعویٰ کر کے دن رات خدا تعالیٰ پر افترا کرتا ہو اور خدا تعالیٰ اس کو نہ پکڑے بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو ایک تو بیان کریں ورنہ اس قادر منتقم سے ڈریں.جس کا غضب

Page 614

انسان کے غضب سے کہیں بڑھ کر ہے.اور اس بات پر خوش نہ ہوں کہ بعض مسائل میں اختلاف ہے اور ذرہ دل میں سوچ لیں کہ اگر مہدی موعود تمام مسائل رطب یا بس میں علمائے وقت سے اتفاق کرنے والا ہوتا تو کیوں پہلے سے احادیث میں یہ لکھا جاتا کہ علماء اس کی تکفیر کریں گے اور سمجھیں گے کہ یہ دین کی بیخ کنی کر رہا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ مہدی کی تکفیر کیلئے علماء اپنے پاس اپنے فہم کے مطابق کچھ وجوہ رکھتے ہوں گے جن کی بنا پر اس کو کافر اور دجال قرار دیں گے.فَاتَّقُوا اللّٰہَ یَا اُولِی الْاَبْصَارِ.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ وَاتَّقٰی وَاتَّبَعَ الْحَقَّ وَاھْتَدٰی.(یہ اشتہار انوار الاسلام طبع اوّل کے صفحہ ۴۶ سے ۵۰ تک درج ہے) (روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۴۷ تا ۵۲) ------------------------------

Page 615

 اشتہار لایق توجہ گورنمنٹ جو جناب ملکہ معظمہ قیصرۂ ہند اور جناب گورنر جنرل ہند اور لفٹنٹ گورنر پنجاب اور دیگر معزّز حکام کے ملاحظہ کے لیے شائع کیا گیا سول ملٹری گزٹ کے پرچہ ستمبر یا اکتوبر ۱۸۹۴ء میں میری نسبت ایک غلط اور خلاف واقعہ رائے شائع کی گئی ہے جس کی غلطی گورنمنٹ پر کھولنا ضرور ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ صاحب راقم نے اپنی غلط فہمی یا کسی اہلِ غرض کے دھوکہ دینے سے ایسا اپنے دل میںمیری نسبت سمجھ لیا ہے کہ گویا مَیں گورنمنٹ انگریزی کا بدخواہ اور مخالفانہ ارادے اپنے دل میں رکھتا ہوں، لیکن یہ خیال ان کا سراسر باطل اور دُور از انصاف ہے.اگر ان کو سچے واقعات سے کچھ بھی خبر ہوتی تو اس قدر قابل شرم جھوٹ پر ان کا ہاتھ اور قلم ہرگز دلیری نہ کرتا.یہ بات گورنمنٹ پر پوشیدہ نہیں کہ یہ راقم ایک نیک نام خاندان میں سے ہے اور میرا والد میرزا غلام مرتضیٰ صاحب ایک نیک نام اور معزز رئیس تھے جنہوں نے ہریک موقعہ پر عمدہ عمدہ خدمات بجا لا کر اپنے تئیں مورد مراحم گورنمنٹ ثابت کیا تھا اور گورنری دربار میں ان کو کُرسی ملتی تھی.چنانچہ ۱۸۵۷ء کی خدمات ان کی ایسی تھیں کہ وہ ایک پختہ ثبوت اُس خیر خواہی اور خیر اندیشی کا ہے جو قدیم سے اس خاندان سے ہوتی رہی یعنی یہ کہ انہوں نے

Page 616

(عین ان ایام میں کہ ہندوستان میں آتش فساد اور مفسدہ پھیل رہی تھی اور قدرتی اتفاق سے رعایا کے لیے یہ موقعہ پیش آیا تھا کہ وہ اس بات میں آزمائی جائیں کہ کہاں تک وہ گورنمنٹ برطانیہ کے خیر خواہ ہیں) اپنے افعال سے صاف طور پر بار بار حکام پر ظاہر کر دیا کہ ہم تمام مال و جان سے اپنی طاقت اور حیثیت کے موافق گورنمنٹ برطانیہ کی امداد کے لیے حاضر ہیں.اور نہ صرف یہی بلکہ پچاس۵۰ گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر کے اور پچاس۵۰ سوار بھی بہم پہنچا کر ۱۸۵۷ء کے شور و شر کے وقت میں گورنمنٹ کی نذر کئے.اور پھر دوسری مرتبہ چودہ۱۴ گھوڑے نذر کئے.اور اسی طرح وہ اور وقتوں میں بھی خدمات گورنمنٹ میں مشغول رہے اور وقتاً فوقتاً خوشنودی کی چٹھیات پاتے رہے اور انعام بھی ملتے رہے ۱؎ اور چالیس برس اپنی عمر عزیز کے انہی خدمات میں انہوں نے بسر کئے اور پھر بعد اُن کے انتقال کے میرا بڑا بھائی میرزا غلام قادر خدمات گورنمنٹ میںمشغول رہا.اور پھر ان کے بعد مَیں ایک گوشہ نشین آدمی تھا جس کی دنیوی طریق پر زندگی نہیں تھی اور نہ اس کے کامل اسباب مہیا تھے.تا ہم میں نے برابر ۱۶ برس سے یہ اپنے حق واجب ٹھیرا لیا کہ اپنی قوم کو اس گورنمنٹ کی خیرخواہی کی طرف بلاؤں اور ان کو سچّی اطاعت کی طرف ترغیب دوں.چنانچہ مَیں نے اس مقصد کی انجام دہی کے لیے اپنی ہریک تالیف میں یہ لکھنا شروع کیا ۲؎ کہ اس گورنمنٹ کے ساتھ کسی طرح مسلمانوں کو جہاد درست نہیں.اور نہ صرف اس قدر بلکہ بار بار اس بات پر زور دیا کہ چونکہ گورنمنٹ برطانیہ برٹش انڈیا کی رعایا کی محسن ہے اس لیے مسلمانان ہند پر لازم ہے کہ نہ صرف اتنا ہی کریں کہ گورنمنٹ برطانیہ کے مقابل پر بد ارادوں سے رُکیں بلکہ اپنی سچی شکر گذاری اور ہمدردی کے نمونے بھی گورنمنٹ کو دکھلاویں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  ۳؎ یعنی ۱؎ نوٹ:.سر لیپل گریفن کی کتاب تذکرہ رئیسان پنجاب میں میرے والد صاحب کا مفصّل ذکر ہے.یاد رہے کہ میرے والد صاحب کا نام میرزا غلام مرتضیٰ اور ان کے والد کا نام میرزا عطا محمد ہے.منہ ۲؎ نوٹ:.دیکھو براہین احمدیہ.شہادۃ القرآن.سرمہ چشم آریہ.آئینہ کمالات اسلام.حمامۃ البشریٰ.نور الحق وغیرہ

Page 617

احسان کا بدلہ بجز احسان کے اور کچھ نہیں.اور یہ بات قطعی اور فیصلہ شدہ ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ مسلمانان ہند کی محسن ہے کیونکہ سکھوں کے زمانہ میں ہمارے دین اور دُنیا دونوں پر مصیبتیں تھیں.خدا تعالیٰ اس گورنمنٹ کو دُور سے ابرِ رحمت کی طرح لایا اور ان مصیبتوں سے اس گورنمنٹ کے عہدِدولت نے ایک دم میں ہمیں چھوڑا دیا.پس اس گورنمنٹ کا شکر نہ کرنا بدذاتی ہے اور جو شخص ایسے احسانات دیکھ کر پھر نفاق سے زندگی بسر کرے اور سچّے دل سے شکر گذار نہ ہو تو بلاشبہ کافرِ نعمت ہے.۱؎ ۱؎ نوٹ:.اس زمانہ میں اکثر عیسائی معلّموں نے یہ اعتراض غلط فہمی سے اسلام پر کیا ہے کہ اسلام جبر اور تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے.مگر افسوس کہ ایسے معترضوں نے قرآن کریم کی ان تعلیموں پر غور نہیں کی جن میں لکھا ہے کہ تم دوسری قوموں کے ظلم اور ایذا کی برداشت کر کے نرمی کے ساتھ دعوتِ حق کرو.خاص کر عیسائیوں کے مقابل پر یہ حکم تھا کہ      ۲؎ یعنی جب تو کسی عیسائی معلّم کے ساتھ بحث کرے تو حکمت اور نیک نصیحتوں کے ساتھ بحث کر جو نرمی اور تہذیب سے ہو.ہاں یہ سچ ہے کہ بہتیرے اس زمانہ کے جاہل اور نادان مولوی اپنی حماقت سے یہی خیال رکھتے ہیں کہ جہاد اور تلوار سے دین کو پھیلانا نہایت ثواب کی بات ہے اور وہ پردہ اور نفاق سے زندگی بسر کرتے ہیں لیکن وہ ایسے خیال میں سخت غلطی پر ہیں اور ان کی غلط فہمی سے الٰہی کتاب پر الزام نہیں آ سکتا.واقعی سچّائیاں اور حقیقی صداقتیں کسی جبر کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ جبر اس بات پر دلیل ٹھہرتا ہے کہ رُوحانی دلائل کمزور ہیں کیا وہ خدا جس نے اپنے پاک رسول پر یہ وحی نازل کی کہ یعنی تو  یعنی تو ایسا صبر کر کہ جو تمام اولوالعزم رسولوں کے صبر کے برابر ہو.یعنی اگر تمام نبیوں کا صبر اکٹھا کر دیا جائے تو وہ تیرے صبر سے زیادہ نہ ہو اور پھر فرمایا کہ  ۳؎ یعنی دین میں جبر نہیں چاہیے اور پھر فرمایا کہ .۴؎ یعنی عیسائیوں کے ساتھ حکمت اور نیک وعظوں کے ساتھ مباحثہ کر نہ سختی سے.اور پھر فرمایا  .۵؎ یعنی مومن وہی ہیں جو غصّہ کو کھا جاتے ہیں اور یاوہ گو اور ظالم طبع لوگوں کے حملوں کو معاف کر دیتے ہیں اور بیہودگی کا بیہودگی سے جواب نہیں دیتے.کیا ایسا خُدا یہ

Page 618

ہماری ایمانداری کا یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ ہم تہ دل سے اقرار کریں کہ درحقیقت یہ گورنمنٹ ہماری مُحسن ہے.ہم اس گورنمنٹ کے قدوم میمنت لزوم سے ہزاروں بلاؤں سے بچے اور ہمیں وہ آزادی بقیہ حاشیہ.تعلیم دے سکتا تھا کہ تم اپنے دین کے منکروں کو قتل کر دو اور ان کے مال لُوٹ لو اور اُن کے گھروں کو ویران کر دو بلکہ اسلام کی ابتدائی کارروائی جو حُکمِ الٰہی کے موافق تھی صرف اتنی تھی کہ جنہوں نے ظالمانہ طور سے تلوار اُٹھائی وہ تلوار ہی سے مارے گئے اور جیسا کیا ویسا اپنا پاداش پا لیا.یہ کہاں لکھا ہے کہ تلوار کے ساتھ منکروں کو قتل کرتے پھرو یہ تو جاہل مولویوں اور نادان پادریوں کا خیال ہے جس کی کچھ بھی اصلیّت نہیں.اس لئے خُدا نے جو راستی کا حامی ہے اور کسی صداقت کو ضائع کرنا نہیں چاہتا.اس زمانہ میں اس عاجز کو مامور کر کے ارادہ کیا کہ جہاد کا الزام اسلام پر سے اُٹھاوے اور لوگوں کو دکھاوے کہ اسلام اپنی ترقیوں میں جبر اور تلوار کا ہرگز محتاج نہیں بلکہ اپنی رُوحانی طاقت سے دلوں پر اثر کرتا ہے.اور جو نادان مولوی جہاد کے مسئلہ کا وِرد زبان پر رکھتے ہیں گویا وہ چاہتے ہیں کہ اسلام کے دامِنِ پاک کو چار طرفہ اعتراضوں کی پلیدی سے آلودہ کریں.یہ معقول روشنی کا وقت اسلام کی بریّت ظاہر کرنے کا وقت ہے اور بخدا وہ حقیقت میں بری اور نہایت اعلیٰ شان کا مذہب ہے جو اسی خُدا کو پیش کرتا ہے جو درحقیقت خدا ہے اور نجات کو کسی بناوٹی کفارہ سے نہیں بلکہ سچّی پاکیزگی سے وابستہ کرتا ہے پس اس کی طرف جہاد اور جبر کومنسوب کرنا ایک ظلم صریح ہے.ہمارے اس ملک میں وہ لوگ نہایت خطرناک خیالات میں گرفتار ہیں جو ایک ایسے خونی مسیح کے منتظر ہیں جو اُن کے زعم میں عیسائیوں کے ساتھ سخت لڑائیاں کر کے ان کی صلیبوں کو توڑ دے گا اور ان کے خنزیروں کو قتل کر دے گا.گویا وہ اسلام پر ایک نیا الزام قائم کرانے کے لیے آئے گا نہ پہلے غلط الزاموں کو دُور کرنے کے لیے.ایسا ہی یہ لوگ ایک خونی مہدی کے منتظر ہیں جو دُنیا کو خون سے بھر دے گا بلکہ ایک گروہ ان میں سے ایک شخص سیّد احمد نام کا منتظر ہے جس نے سکھوں سے لڑائی کی تھی اور ان کا خیال ہے کہ وہ زندہ ہے اور پھر دنیا میں اس کا ظہور ہوگا.چنانچہ ان کی ایک جماعت پلوسہ کے قریب یاغستان میں ابتک پڑی ہے اور غالباً اور کئی ان کے ہم خیال ہندوستان میں ہوں گے.اسی بناء پر بعض مولویوں سے مفسدانہ حرکات ۱۸۵۷ء میں ظاہر ہوئیں.چنانچہ اُن میں سے مولوی عبد العزیز برادر مولوی محمد ساکن لدھیانہ ہیں جن کی نسبت سرکاری کاغذات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بماہ جون ۱۸۵۷ء ہمراہ پدر خود باغی مفسدوں کے ساتھ دہلی چلے گئے اور مفسدوں میں شامل رہے.اور پھر ۱۸۵۹ء میںدہلی سے گرفتار ہوئے اور آخر بدمعاشوں کی فہرست میں درج کئے

Page 619

جس کے ذریعہ سے ہم دین اور دُنیا دونوں درست کر سکتے ہیں.پس اگر اب بھی ہم اس گورنمنٹ کے سچّے خیرخواہ نہ ہوں تو خدا تعالیٰ کے سامنے ناشکرے ٹھہریں گے.یہ وہ تمام باتیں ہیں جن کو مَیں نے مختلف کتابوں میں شائع کیا اور سولہ۱۶ برس تک برابر میں اس خدمت کو بجا لاتا رہا.مگر نہ اس خیال سے کہ ریاکاروں کی طرح گورنمنٹ کو خوش کروں بلکہ میں نے ایمانداری کی راہ سے فی الحقیقت گورنمنٹ برطانیہ کے احسانات کو ایسا ہی پایا کہ جن کے شکر میں مجھ سے اب تک یہی ہو سکا کہ مَیں بذریعہ ان تالیفات کے مسلمانوں کے خیالات کو درست کروں اور ان کے دل گورنمنٹ کی طرف پھیروں.اور مَیں جانتا ہوں کہ بعض جاہل مولوی میری ان تحریرات سے ناراض ہیں اور مجھے علاوہ اور وجودہ کے اس وجہ سے بھی کافر قرا ر دیتے ہیں لیکن مجھے ان کی ناراضگی کی کچھ پرواہ نہیں.مَیں یقینا جانتا ہوں کہ جو شخص بندوں کے احسانات کا شکر گزار نہیں وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گذار نہیں.کیونکہ نیک اندیش اور عادل بادشاہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے.پس جوشخص اس بادشاہ کا شکر گذار نہیں اس نے خدا تعالیٰ کی نعمت کو ردّ کیا اور چونکہ مَیں نے دیکھا کہ بلاد اسلامی روم و مصر وغیرہ کے لوگ ہمارے واقعات سے مفصّل طور پر آگاہ نہیں ہیں اور جس قدر ہم نے اس گورنمنٹ سے آرام پایا اور اس کے عدل اور رحم سے فائدہ اُٹھایا وہ اس سے بے خبر ہیں اس لئے مَیں نے عربی اور فارسی میں بعض رسائل تالیف کر کے بلاد شامؔ اور رومؔ اور مصرؔ اور بخارا وغیرہ کی طرف روانہ کئے.اور ان میں اس گورنمنٹ کے تمام اوصاف حمیدہ درج کئے اور بخوبی ظاہر کر دیا کہ اس محسن گورنمنٹ بقیہ حاشیہ.گئے.دیکھو روبکار ۴؍ دسمبر ۱۸۵۸ء دفترضلع لدھیانہ.اور جو فتویٰ تکفیر مولوی نذیر حسین دہلوی کی طرف سے اس عاجز کی نسبت شائع ہوا ہے اور جو اشتہار تکفیر اس فتویٰ پر زور دینے کے لیے اسی عبد العزیز مولوی اور اس کے بھائیوں کی طرف سے نکلا ہے ان کاغذات کو اگر کبھی گورنمنٹ غور سے دیکھے تو ثابت ہوگا کہ یہ سب لوگ درحقیقت ایک ہی ہیں.ایک خونی مہدی اور خونی مسیح کے دن رات منتظر ہیں.سول ملٹری گزٹ کی کس قدر سادہ لوحی ہے کہ جو شخص ایسے خیالات کو مٹانا چاہتا ہے اور صلحکاری کی بنیاد ڈالنے والا ہے اسی کو مفسد قرار دیتا ہے اور مفسدوں کے خیالات سے بیخبر ہے.والسلام.منہ

Page 620

کے ساتھ جہاد قطعاً حرام ہے اور ہزارہا روپیہ خرچ کر کے وہ کتابیں مفت تقسیم کیں اور بعض شریف عربوں کو وہ کتابیں دے کر بلاد شام اور روم کی طرف روانہ کیا اور بعض عربوں کو مکّہ او ر مدینہ کی طرف بھیجا اور بعض بلاد فارس کی طرف بھیجے گئے اور اسی طرح مصر میں بھی کتابیں بھیجیں.اور یہ ہزارہا روپیہ کا خرچ تھا جو محض نیک نیتی سے کیا گیا.شاید اس جگہ ایک نادان سوال کرے گا کہ اس قدر خیر خواہی غیر ممکن ہے کہ ہزارہا روپیہ اپنی گرہ سے خرچ کر کے اس گورنمنٹ کی خوبیوں کو تمام ملکوں میں پھیلایا جاوے، لیکن ایک عقلمند جانتا ہے کہ احسان ایک ایسی چیز ہے کہ جب ایک شریف اور ایمان دار آدمی اس سے تمتع اُٹھاتا ہے تو بالطبع اس میں عشق اور محبت کے رنگ میں ایک جوش پیدا ہوتا ہے کہ تا اس احسان کا معاوضہ دے.ہاں کمینہ آدمی اس طرف التفات نہیں کرتا.پس مجھے طبعی جوش نے ان کاروائیوں کے لیے مجبور کیا.مجھے افسوس ہے کہ اگر سول ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر کو ان واقعات کی کچھ بھی اطلاع ہوتی تو وہ ایسی تحریر جو انصاف اور سچائی کے برخلاف ہے ہرگز شائع نہ کرتا.میرے اس دعویٰ پرکہ مَیں گورنمنٹ برطانیہ کا سچا خیر خواہ ہوں دو ایسے شاہد ہیں کہ اگر سول ملٹری جیسا لاکھوں پرچہ بھی ان کے مقابلہ پر کھڑا ہو تب بھی وہ دروغگو ثابت ہو گا.(اوّل) یہ کہ علاوہ اپنے والد مرحوم کی خدمت کے میں سولہ۱۶ برس سے برابر اپنی تالیفات میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ مسلمانان ہند پر اطاعت گورنمنٹ برطانیہ فرض اور جہاد حرام ہے.۲.دوسری یہ کہ مَیں نے کئی کتابیں عربی فارسی تالیف کر کے غیر ملکوں میں بھیجی ہیں جن میں برابر یہی تاکید اور یہی مضمون ہے.پس اگر کوئی نااندیش یہ خیال کرے کہ سولہ۱۶ برس کی کارروائی میری کسی نفاق پر مبنی ہے تو اس بات کا اس کے پاس کیا جواب ہے کہ جو کتابیں عربیؔ و فارسیؔ رومؔ اور شامؔ اور مصرؔ اور مکّہؔ اور مدینہؔ وغیرہ ممالک میں بھیجی گئیں اور ان میں نہایت تاکید سے گورنمنٹ انگریزی کی خوبیان بیان کی گئی ہیں وہ کاروائی کیونکر نفاق پر محمول ہو سکتی ہے.کیا ان ملکوں کے

Page 621

باشندوں سے بُجز کافر کہنے کے کسی اور انعام کی توقع تھی.کیا سول ملٹری گزٹ کے پاس کسی ایسی خیرخواہ گورنمنٹ کی کوئی اور بھی نظیر ہے؟ اگر ہے تو پیش کریں.لیکن مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جس قدر میں نے کارروائی گورنمنٹ کی خیر خواہی کے لیے کی ہے اس کی نظیر نہیں ملے گی.ہاں یہ سچ ہے کہ عیسائی مذہب کو مَیں اس کی موجودہ صورت کے لحاظ سے ہرگز صحیح نہیں سمجھتا کوئی انسان کیسا ہی برگزیدہ ہو اس کو ہم کسی طرح خدا نہیں کہہ سکتے.بلاشبہ وہ تعلیم جو انسان کو سچی توحید سکھاتی اور حقیقی خدا کی طرف سے رجوع دیتی ہے وہ قرآن کریم میںپائی جاتی ہے.قرآن بڑی سلوکی سے اسی خدا کو خدا قرار دیتا ہے جو قدیم سے اور ازل سے قانون قدرت کے آئینہ میں نظر آتا رہا ہے اور آ رہا ہے.پس جس مذہب کی خدا دانی ہی غلط ہے اس مذہب سے عقلمند کو پرہیز کرنا چاہیئے.جو لوگ نفسانی ہستی سے فنا ہو گئے ان کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا سے ہی نکلے ہیں کیونکہ انہوں نے خدا میں ہو کر ایک نئی اور نورانی پیدائش پائی.اور خدا نے ان کو اپنے ہاتھ سے ایسا صاف کیا کہ فی الحقیقت وہ ایک نئے طور سے پیدا ہوئے لیکن ہم کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ درحقیقت اِلٰہُ الْعَالَمِیْن وہی ہیں.خدا میں فانی ہو کر نئی پیدائش پانا کسی ایک انسان سے مخصوص نہیں بلکہ جس نے ڈھونڈا وہ پائے گا اور جو آیا اُسے بُلا لیا جائے گا.لیکن جس کریم خدا نے ہمیں یہ باتیں سکھائی ہیں اس نے یہ بھی سکھایا ہے کہ ہم محسن گورنمنٹ کے شکر گذار ہیں.قرآن کریم کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ ہم نیکی دیکھ کر اُس کے عوض بدی کریں بلکہ یہ تعلیم ہے کہ احسان کے عوض احسان کریں اور جو لوگ کسی محسن سلطنت کے احسان مند ہو کر پھر اسی کی نسبت بد ارادے دل میں رکھتے ہیں وہ وحشی نادان ہیں نہ مسلمان اور ہم نے اگر کسی کتاب میں پادریوں کا نام دجّال رکھا ہے یا اپنے تئیں مسیح موعود قرار دیا ہے تو اس کے وہ معنی مراد نہیں جو بعض ہمارے مخالف مسلمان سمجھتے ہیں.ہم کسی ایسے دجّال کے قائل نہیں جو اپنا کُفر بڑھانے کے لیے خونریزیاں کرے اور نہ کسی ایسے مسیح اور مہدی کے قائل ہیں جو تلوار کے ذریعہ سے دین کی ترقی چاہے.یہ اس زمانہ کے بعض کوتہ اندیش مسلمانوں کی غلطیاں ہیں جو کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کے منتظر ہیں.چاہیے کہ گورنمنٹ ہماری کتابوں کو دیکھے کہ کس قدر ہم اس اعتقاد کے دشمن ہیں اور کس قدر عام مولوی اس

Page 622

وجہ سے میرے دشمن ہو گئے ہیں کہ میں نے اُن کے خونی مہدی اور خونی مسیح سے انکار کر دیا اور نہ صرف انکار بلکہ منجانب اللہ ان باتوں کا صحیح ہونا بیان کر کے اور مہدی اور مسیح کے منصب کو صرف رُوحانی تعلیم تک محدود رکھ کر ان کی آرزوؤں کو خاک میں ملا دیا.اور مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کا کمال یہ نہیں ہے کہ کوئی مصلح آتے ہی خدا تعالیٰ کے بندوں کو قتل کرنا شروع کرے یا قتل کے منصوبے باندھے.کوئی سچائی قتل کرنے سے ثابت نہیں ہو گی بلکہ اس پر الزام آئے گا.بلکہ دین کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ دلائل شافیہ اور براہین ساطعہ کے روشن اور مجلّٰی ہتھیار رکھتا ہو نہ یہ کہ ایسا دین ہو کہ لوہے کی تلواروں کے ساتھ اپنی سچائی تعلیم کرانا چاہے اور اسلام نے اگر کسی زمانہ میں تلوار اُٹھائی تو وہ دین کی اشاعت کے لیے ہرگز نہیں تھی بلکہ جنہوں نے اسلام پر تلوار اُٹھائی اور اسلام کو نابود کرنا چاہا ان کو اسلام نے بھی تلوار کے ساتھ جواب دیا مگر اسی حد تک جو امن قائم ہو جائے اور عام آزادی میں کوئی روک نہ رہے پھر دوسرے زمانوں میں اکثر نادانوں میں غلطیاں پھیل گئیں اور انہوں نے ابتدائی جہادوں کو اصل حقیقت کو اُلٹے طور پر سمجھ لیا.پس انہیں غلطیوں کے نابود کرنے کے لئے ہم نے کمرِ ہمّت باندھی.سو دجّال کے لفظ سے مُراد دجل کرنے والے لوگ ہیںیعنی ایسے لوگ جن کو کسی زمانہ میں حق ملا تھا.مگر انہوں نے حق کو خالص نہ رہنے دیا بلکہ اس کے ساتھ باطل ملا دیا اور سکّہ قلب چلایا.سو ہریک محقق کی دانست میں اس زمانہ کے پادری ایسے ہی ہیں کیونکہ ان کو ایک پاک ہدایت ملی تھی اور وہ انجیل تھی جس میں سراسر نیک اور پاک تعلیم اور الٰہی اسرار تھے.مگر انہوں نے ارادتاً اس کے ساتھ اس قدر باطل ملایا اور باطل تاویلیں کیں کہ اب اُن کا وہ خدا نہیں جس کا جلال ظاہر کرنے کے لیے حضرت مسیح تشریف لائے تھے اور جو ایک سادہ تعلیم سے انجیل میںبیان کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے اپنی رکیک تاویلوں کے ساتھ اس پاک تعلیم کو ایسا بدل ڈالا کہ گویا ایک نئی انجیل بنائی پس جبکہ دجل کی حقیقت ان پر ثابت ہے تو اس صورت میں ایسے معلّموں کو اگر ہم دجّال نہ کہیںتو اور کیا کہیں.دجّال کے لیے ضروری ہے کہ کسی نبی برحق کا تابع ہو کر پھر سچ کے ساتھ باطل ملا دے.بے شک حضرت مسیح باخدا انسان تھے.خدا تعالیٰ کے پیارے تھے.نہایت مقدس تھے.مگر یہ تعلیم ان

Page 623

کی نہیں ہے جو آج کل دی جاتی ہے.الٰہی انصاف ہرگز یہ حکم نہیں دے سکتا کہ زیدؔ گناہ کرے اور خالدؔ پکڑا جائے اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ خدا بھی بیٹے رکھتا ہو او ر پھر باپ بیٹا عمر میں کمال میں، جلال میں، مساوی اور تین بھی ہوں اور پھر ایک بھی.یہ سب الٰہی تعلیم پر زیادت ہے جو بدقسمت انسانوں نے دلیری سے کر لی ہے ورنہ انجیل میں تثلیث کا نام و نشان نہیں.اگر حق محض پر زیادت کی جائے تو اس زیادت کا نام عربی زبان میں دجل ہے اور اس کے مرتکب کا نام دجّال ہے اور چونکہ آئندہ کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا اس لیے پہلے نبی کے تابع جب دجل کا کام کریں گے تو وہی دجّال کہلائیں گے.سو یہ دجل پادریوں کے حصہ میں آیا.اس لیے جو شخص اس کی اصلاح کرے اس کا نام مسیح ہے کیونکہ اس نے مسیح کی سچی اور پاک تعلیم کو جُھوٹ سے الگ کر کے دکھلا دیا.پس اس خیال سے جو اس نے خدا سے قوت پا کر مسیح کے خاص عہدے کا کام کیا مسیح کہلایا اور مسیح موعود ٹھہرا.اور چونکہ اس نے خدا تعالیٰ سے ہدایت پائی نہ کسی دوسرے ہادی سے اس لیے وہ مہدی بھی ٹھہرا.سو ہمارے مذہب کی اصل حقیقت یہ ہے اور جو شخص اس کے برخلاف کہے وہ دروغگو ہے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.المشتھر خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۸۹۴ء (گلزار محمدی پریس لاہور میں باہتمام مالک چھپی) (یہ اشتہار کے ۷ صفحوں پر ہے) (تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۱۹۲ تا ۲۰۰) ------------------------------

Page 623