Irshadat-e-Noor Volume 3

Irshadat-e-Noor Volume 3

ارشادات نور (جلد سوم۔ بعد از خلافت)

Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب ؓ کے ارشادات، متفرق تحریرات، مکتوبات، سوالوں کے جوابات جو جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے، کو نظارت اشاعت ، صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے تین جلدوں میں یکجائی صورت میں شائع کیا ہے۔ جلد اول قبل از خلافت ارشادات و فرمودات مشتمل ہے جبکہ  جلد دوم اور سوم زمانہ خلافت کے دور کے متعلق ہے ۔اس مجموعہ میں الحکم ، البدر وغیرہ سے ماخوذ مواد کی  ترتیب تاریخ اشاعت کے اعتبار سےرکھی گئی ہے۔ حضورؓ کی تحریرات سے پہلے بسا اوقات ان اخبارات و رسائل کے ایڈیٹر صاحبان نے بعض نوٹ دیئے تھے، اس مجموعہ میں تحریر کا پس منظر واضح کرنے اور افادیت کی خاطر وہ نوٹ شامل رکھے گئے ہیں، تاہم فرق کی خاطر ان کا فونٹ سائز حضورؓ کی تحریرات سے چھوٹا رکھا گیا ہے۔ ایک ہزار صفحات سے زیادہ ضخیم اس مجموعہ کی ہر جلد کے آخر پرتفصیلی انڈیکس درج کیا گیا ہے لیکن جلد کے آغاز پر فہرست مضامین موجود نہ ہے۔


Book Content

Page 1

Page 2

بِسْـمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْــــمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ارشادات نور (بعد از خلافت) مہمان مریض کا خیال حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور ایک دوست حاضر ہوا.آتے ہی وہ ضعف دل کی وجہ سے بیمار ہوگیا.اس کا علاج ہوتا رہا اور حضرت خلیفۃ المسیحکی مجلس میں تکلّف اور وہ مسند اور صدر تو ہوتی ہی نہیں جو دوسرے پیروں اور سلسلوں میں پائی جاتی ہے.پاس ہی وہ مریض ایک چارپائی پر پڑا ہوا تھا.فرمایا.ان کو کہہ دو کہ خوب کھلے ہوکر لیٹ جاویں سایہ میں یا دھوپ میں جو جگہ پسند ہو.پانی لاگ اور مسلمان کسی نے کہا کہ پانی لاگ بھی ہوجاتا ہے؟ اس پر فرمایا.آہ! پانی لاگ اب مسلمانوں ہی کو ہوتا ہے.ایک وقت تھا کہ ان کو پانی لاگ نہ ہوتی تھی.ایک مسلمان فاتح نے مغربی ساحل افریقہ پر پہنچ کر سمندر میں گھوڑا ڈال دیا اور پرواہ تک بھی نہیں کی کہ یہ سمندر ہے.ایک سپہ سالار افریقہ کے صحراء میں ایک چھاؤنی بنانا چاہتا تھا.وہ جگہ کی تلاش اور مناسب موقع کی تلاش کرتا ہوا اس جگہ پہنچا جہاں قیروان ہے.وہاں پہنچ کر تمام ملک میں گشت کے بعد اسی جگہ کو پسند کیا اور کہا کہ یہ عمدہ جگہ ہے یہاں سے افریقہ کے ہر طرف گھوم سکتے ہیں مگر وہاں بڑی دلدل تھی.اس کے علاوہ درندے جانور کثرت سے ہیں.شیر ہیں، چیتے ہیں، سانپ ہیں.گویا وہ مصائب کا ایک جنگل ہے.اس نے اپنے آدمیوں کو کہا کہ یہاں چھاؤنی بناؤ.آدمیوں نے کہا کہ یہاں کیونکر ٹھہر سکتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ کون کہتا ہے کہ یہاں نہیں ٹھہر سکتے.یہ کہہ کر ان کے

Page 3

دیا اور کہا سنو او درندو! اور چرندو! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یہاں کیمپ بنانا چاہتے ہیں تم یہاں سے نکل جاؤ.آج کوئی اس کا نام سپریچولزم یا مسمریزم کہہ دے مگر سچ یہ ہے کہ یہ ایمان کی قوت ہے.لکھا ہے کہ اس کی آواز سنتے ہی شیرنیاں اپنے بچوں کو لے کر بھاگ گئیں اور قیروان میں چھاؤنی بن گئی اور اتنی بڑی جگہ میں کہ میرے پاس ۴ جلدوں میں صرف وہاں کے علماء کا ذکر ہے.اس بات کے بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ جب مسلمانوں کی ایمانی قوت بڑھی ہوئی تھی ان کے حوصلے وسیع اور ارادے بلند تھے دنیا کی کوئی تکلیف اور مصیبت ان کے ارادہ کو پست نہ کرسکتی تھی.وہ تکلیف اور مصیبت کو جانتے ہی نہ تھے مگر اب جبکہ ان کی ایمانی حالت کمزور ہوگئی ہے ان کے حوصلے اور ہمتیں بھی پست ہوگئی ہیں.ان میں سستی اور کاہلی آگئی ہے اور اب وہ ہر امر میں پانی لاگ سمجھنے لگے ہیں.آج پانی لاگ انگریزوں کو کیوں نہیں ہوتا؟ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو وہ ہمت ،عزم اور استقلال دیا ہے کہ وہ ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے.ایک سرد ملک کے رہنے والی قوم کس جرأت اور دلیری کے ساتھ افریقہ میں جاتی ہے اور ذرہ نہیں گھبراتی.دنیا کے دور دراز حصوں میں پھیل گئے ہیں اور پھیلتے جاتے ہیں.جیسے آج ان کو پانی لاگ نہیں ہوتی، اسی طرح پر ایک زمانہ تھا کہ مسلمانوں کو بھی نہیں ہوتی تھی.ایمان کی قوت مضبوط ہو تو پھر کوئی تکلیف کوئی مصیبت رہتی ہی نہیں.اس لیے کہ مومن کی تو شان ہی یہی ہے کہ وہ لا یحزن ہوتا ہے.پس تم بھی مومن بنو میں تو یہی چاہتا ہوں کہ تم سب کو خوش دیکھوں.میں آپ خدا کے فضل سے خوش رہتا ہوں اور بہت ہی خوش رہتا ہوں.یہ خوشی تمہیں صرف ایمان سے مل سکتی ہے.اگر ایمان مضبوط ہو تو پھر کیا غم؟ ترقی کرو اور سستی چھوڑدو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا سکھائی ہے.اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب ما یتعوذ من الجبن).کسل اور عجز دو لفظ ہیں.عجز کے معنی ہیں اسباب ہی مہیا نہ کریں.اور کسل مہیا شدہ اسباب سے کام ہی نہ لیا جاوے.پس تم کسل اور عجز چھوڑ دو اور اس کے لیے دعاؤں سے کام لو.یہ بڑا ہتھیار ہے اور ایسا ہتھیار کہ جس قدر اس کو چلاؤ اسی قدر زیادہ کارگر اور مفید ہوتا جاتا ہے.میں نے اس کو خود تجربہ کیا ہے اور اپنے تجربہ کی بنا پر تم کو کہتا ہوں.

Page 4

دو عجیب خط فرمایا.دو خط میں نے عجیب دیکھے ہیں.ایک ہلاکو خاں کا اور ایک چنگیز خاں کا.خط جو اس نے شاہ خوارزم کو لکھا تھا جو مسلمان کہلاتا تھا.قرآن مجید کی ایک آیت   (الانعام :۱۳۰) کو تم ہمیشہ مدنظر رکھو.جب انسان بداعمالی اور نافرمانی کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس پر ایسے حاکم بھیج دیتا ہے.بعض لوگ شکایت کیا کرتے ہیں کہ مجھے اپنے افسر سے دکھ پہنچا، وہ استغفار کریں اور اپنی حالت کی خود اصلاح کریں.اگر وہ خود متقی اور خداترس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں کسی سخت گیر افسر کے ماتحت نہیں رکھے گا بلکہ اگر وہ شخص فطرتاً سخت گیر بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی فطرت میں تبدیلی کردے گا.میں اسی کو مفید سمجھتا ہوں.تم نہ مقامی حکام کی کبھی شکایت کرو نہ کسی اور کی.اپنی اصلاح کرو یہی بہترین طریق ہے.غرض وہ دو خط عجیب ہیں.یہاں ایک کتاب ہے جس میں درج ہیں.ہلاکو خاں اور اس کی اولاد نے جو خط مکہ معظمہ لکھا اس میں ایک فقرہ ہے نَحْنُ قَوْمٌ خُلِقْنَا مِنْ غَضْبِ اللّٰہِ یعنی ہم ایک ایسی قوم ہیں کہ ہم اللہ کے غضب سے پیدا ہوئے ہیں.رحم کو نہیں جانتے.میں یقین رکھتا ہوں جب ایک قوم کی حالت خراب ہوگئی اور خدا تعالیٰ کے حضور اس پر سزا کا فتویٰ جاری ہوگیا تو ہلاکو خاں کو اس پر مامور کردیا.چنگیزخاں نے شاہ خوارزم کو لکھا کہ حدیث میں آیا ہے اُتْرُکُوْا تُرْکَ.مغول سے جنگ نہ کرو.پھر قرآن مجید میں ارشاد الٰہی یوں ہے    (البقرۃ:۱۹۱) جو تم سے جنگ کریں تم ان کا مقابلہ کرو.ہم نے کسی ملک پر چڑھائی نہیں کی پھر تم نے ہمارے تاجروں کو مار ڈالا اور لوٹ لیا یہ معاملہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہوا.اگر کسی احمق نے کیا ہے تو آپ ان سے روپیہ لے کر ہمارے تاجروں کے ورثاء کو بھیج دو اور اپنے قانون کے موافق ان کو سزا دے دو مگر وہاں کون سنتا تھا.چنگیزخاں نے سمجھا تھا کہ بڑا نرم جواب دیں گے مگر وہاں الٹا اثر ہوا.انہوں نے ان وکلاء کو جو خط لے کر گئے تھے ان کو بھی پکڑ لیا.چنگیز خاں نے پھر لکھا کہ ان کا کوئی قصور نہیں انہیں چھوڑ دو.

Page 5

اس کا بھی جواب نہ دیا.جب مسلمان ایسے ہوگئے تو پھر تم نے سنا یا پڑھا ہوگا کہ چنگیز خاں نے کیا کیا.خوارزم وہاں سے بھاگ کر سندھ آیا اور پھر ایران بھاگا.خدا کی بات سچی ہوگئی  .میری نصیحت کو یاد رکھو سکھ پاؤ گے کہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ حاکم کا بھی تعلق ہو اور تمہیں کوئی دکھ پہنچے تو اپنی تبدیلی کرو اور استغفار کرو.جب تک تم اپنی حالت نہیں بدلو گے سکھ نہیں ملے گا.(الرعد:۱۲) مجلس انصاراللہ میں شمولیت حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اجازت اور ایک رؤیا صالحہ کی بنا پر انصاراللہ نام ایک مجلس قائم کی ہے جس کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا تھا کہ ’’میں آپ کے انصاراللہ میں داخل ہوتا ہوں.‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح سپارش کرتے ہیں میرے مکرم دوست منشی حسین بخش صاحب اپیل نویس سیکرٹری انجمن اسلامیہ بٹالہ ایک مستعد کام کرنے والے اور اسلام کے لیے غیرت رکھنے والے بزرگ ہیں.انہوں نے ’’ثبوت واجب الوجود‘‘ اور ’’تدبیر‘‘ کے علاوہ ایک کتاب بھارت برکش نام نخل اسلام کے جواب میں شائع کی ہے.اس کتاب پر میں اپنی رائے ظاہر کرچکا ہوں.حضرت خلیفۃ المسیح مدظلہ العالی نے کتاب کے متعلق جو رائے دی ہے وہ درج ذیل ہے.’’رائے حضرت خلیفۃ المسیح مَدَّ ظِلُّہُ الْعَالِیْ‘‘ منشی حسین بخش صاحب سیکرٹری انجمن اسلامیہ بٹالہ باوجود اپنے دوسرے مشاغل کے مذہبی اور اسلامی خدمت کی طرف بھی متوجہ رہتے ہیں جو قابل شکرگزاری ہے.انہوں نے بھارت برکش نام ایک نیا رسالہ ان اعتراضات کے جواب میں لکھا ہے جو نخل اسلام نامی کتاب میں ایک نوآریہ نے اسلام پاک پر کئے تھے.منشی صاحب کی یہ اسلامی خدمت بہت قابل قدر ہے.پڑھے لکھے مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسی کتابوں کی قدر کریں اور ان کے مطالعہ سے واقفیت بڑھائیں.ایسی کتابوں کی اشاعت

Page 6

سے اس وقت ایک دینی خدمت ہے اور یہ بھی فائدہ کہ ایسے مفید رسائل کی آئندہ ترقی ہو.آمین (نورالدین) (الحکم جلد۱۶ نمبر۱ مورخہ ۷؍ جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۹،۱۰) مولوی عبدالحق کے خط کا جواب مکرم معظم مولانا ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.خاکسار ایک ضعیف، ضیعف العمر اس پر علیل ہے.گھوڑے سے گرا تھا اب تک زخم باقی ہیں.پھر مولانا ! ہم لوگ نہ علماء ہیں نہ حکماء نہ اطباء ہیں.پھر بادشاہوں کے حضور جانا روئے باید.بہرحال جناب خود ہر طرح منتخب اور ایسے امور کے لائق ہیں.دعا کولوگ کچھ سمجھیں میں اس کا قائل ہوں دعا کروںگا.مولانا ! آپ بحمداللہ عالم ہیں.علماء اگر اپنی اصلاح فرماویں توکونسی عزت ان کو حاصل نہیں اور ان کو مل نہیں سکتی مگر موجودہ حالت میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کو  (الشوریٰ : ۳۱)کی تصدیق ہے.بادشاہ کیا کرسکے گا.یہ علماء حاصل شدہ عزت سے متمتع نہیں ہوتے کیوں؟ اس میں کس کا قصور ہے.خاکسار ۱۸؍ نومبر ۱۹۱۰ء سے علیل ہے اس لئے سفر کے قابل نہیں.والسلام نورالدین ۱۱ ؍ نومبر ۱۹۱۱ء (ماخوذ از دربار دہلی پر علماء ومشائخ اور حضرت خلیفۃ المسیح.الحکم جلد ۱۶ نمبر ۳ مورخہ ۲۱؍ جنوری۱۹۱۲ء صفحہ ۱۰ ) حضرت خلیفۃ المسیح کی سب سے پہلی تقریر اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ ازلی کے ماتحت ایک کثیر جماعت کو امیر المؤمنین نور الدین کے ہاتھ پر جمع کیا اور آپ خلیفۃ المسیح کے نام سے قوم میں ممتاز ہوئے اس وقت آپ نے ایک تقریر فرمائی تھی جس کا ایک اقتباس درج ذیل ہے.

Page 7

ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ میں ……حضرت موسیٰ ؑکو اللہ تعالیٰ نے باخدا انسان بنا کر کامل اور مکمل بنایا کہ اس نے لوگوں کو ایک باخدا انسان بنایا اور اپنا قرب ان کو عطا کر کے اپنی ربوبیت کی شان کا نمونہ دنیا میں ظاہر کیا.وہ ایک ایسا وقت تھا کہ یہودی فرعون کے ظلم و ستم اور طرح طرح کے دکھوں کے نیچے آنے کی وجہ سے انسانیت کے درجے سے بھی بہت نیچے گر گئے تھے.جیسا کہ آیت الخ(البقرۃ:۵۰) سے استنباط ہوتا ہے سو ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ الصلوٰۃ السلام کے ذریعہ اس قوم کو انسان اور پھر باخدا انسان اور پھر مقربانِ بارگاہ الٰہی بنا کر اپنی ربوبیت کا اظہار کیا.پھر ایک زمانہ کے بعد جب کہ یہودی وہ موسوی یہودی نہ رہے بلکہ ان کا صرف یہودیت کا دعویٰ ہی دعویٰ رہ گیا وہ ممتاز نہ رہے بلکہ اپنے اعمال بد کی وجہ سے انسانیت سے بھی گرگئے.وہ موحد نہیں بلکہ مشرک، وہ خدا پرست نہیں بلکہ دنیا پرست رہ گئے اور ایسے گرے کہ وہ خدا سے بالکل دور جاپڑے تو پھر خدا کی شان ربوبیت نے مسیح علیہ السلام کو پیدا کر کے اپنی شان کا جلوہ ظاہر کیا اس وقت نام کے یہود نے کیسی مخالفت کی مگر بہت نے مسیح کی تعلیم کی وجہ سے اعلیٰ ترقیاں پائیں اور وہ باخدا اور مقرب بارگاہِ الٰہی بنے.مگر پھر جب ایک زمانہ گزرنے پر ان میں بھی سستی اور کاہلی پھیل گئی اور وہ خدا کے احکام کو ترک کر کے شرک میں گرفتار ہوگئے اور ان کا اصل فرقہ باقی نہ رہا بلکہ گندے اور بت پرست لوگوں کا ایک فرقہ باقی رہ گیا.پیٹرا مون کو چھوڑا تو مسیح علیہ السلام کو پکارنا شروع کر دیا.غرض جب یہ حالت ہو گئی تو پھر خدا کی ربوبیت نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اپنی ربوبیت عامہ کا جلوہ دکھایا اور قدیم بت پرستانِ عرب کو جو مسلّمہ طور پر انسانی حالت سے بھی گرے ہوئے تھے پہلے انسان پھر باخدا انسان اور پھر مقربانِ بارگاہِ الٰہی بنا کر دکھادیا اور ہزاروں ہزار یہودی اور ہزاروں ہزار عیسائی قوموں کی قومیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی تعلیم کے نیچے آکر توحید کی قائل ہوئیں حتی کہ حضرت امام حسن بصری جیسے عظیم الشان لوگ جو کہ عیسائی خاندان سے تھے.ان لوگوں کو توحید سکھائی اور یہ خدا کی ربوبیت عامہ کا ایک خاص جلوہ تھا.اسی طرح سلمان فارسی عیسائی تھے جو آخر اہل بیت نبوی میں شامل

Page 8

کچھ ان کے عقائد فاسدہ کی تردیدفرمائی.پھر جب لوگ احادیث رسول صلعم کو بھول گئے اور دین کا دارومدار چند اقوال پر رہ گیا تو اللہ تعالیٰ نے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو بھیج دیا جنہوں نے احادیث کی کتب و احادیث کے مسائل کا رواج دیا.چنانچہ اس کے بعد لوگ کم از کم صحاح ستہ کے نام سے واقف ہوگئے اور ایک گروہ ہندوستان میں بھی سنت نبوی کو زندہ کرنے والا پیدا ہوگیا.پھر جب عیسائیوں کے اعتراض بڑھے اور ان لوگوں نے اپنے دین کو پھیلانے اور انسان کے بیٹے کو خدا منوانے کے لیے ہرایک تدبیر سے جو کسی انسانی ذہن میں آسکتی ہے کام لینا شروع کیا.یہاں تک کہ الخمر جو جماع الاثم ہے اور النساء جو حبائل الشیطان ہیں وہ بھی معاون ہوئے تو خدا نے اپنے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث کیا اور یہ فتنہ کمزور پڑا اور اس کے خدام کی ایک جماعت پیدا ہوگئی جو ان کے سب مقاصد کو پورا کرنے والے ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ.عباد الرحمن کون ہیں؟ جو متکبر نہ ہوں، متحیر نہ ہوں، سکونت اور وقار ان کا شیوہ ہو، سہولت سے کام لیں، فساد ان کے کسی فعل سے نہ پڑے، جاہلوں سے الگ تھلگ رہیں، بغیر حق کسی قتل کے مرتکب نہ ہوں، ایک اللہ کی عبادت کرنے والے ہوں، خرچ میںمیانہ رو ہوں، لغو سے اعراض کرنے والے ہوں، آیات اللہ کی پوری تعظیم کرنے والے ہوں، اپنے لیے اپنی اولاد کے لیے دعا میں لگے رہیں.برہمو سماج کے فتنے سے بچو یہ لوگ بظاہر بہت نرم گفتگو کرتے ہیں مگر دراصل تمام انبیاء علیہم السلام اور راستبازوں کی جماعت کو مفتری اور دروغ مصلحت آمیز بولنے والے قرار دیتے ہیں.ایسا کہہ کر یہ لوگ تمام انبیاء کے متبعین کی دل آزاری کرتے ہیں اور ان کے ا ئمہ کو جھوٹا اور لوگوں کو دھوکا دینے والے قرار دیتے ہیں.ان کے نزدیک نعماء جنت کا ذکر گویا جہلاء کو بات منوانے کا ایک ذریعہ ہے.اور الہام تو ان کے نزدیک ایک خیال ہے جو دل میں آجائے.ان کی دیکھا دیکھی بعض مسلمان کہلانے والے بھی ملائکہ کے وجود کے منکر ہیں اور ان سے مراد اچھے لوگ لیتے ہیں.چنانچہ ایک نے کہا ہے ؎ نہ جبریل امین قرآن بہ پیغامے نمے خواہند ہمان گفتار محبوب است قرآنے کہ من دارم

Page 9

خدا ان لوگوں کو ہدایت دے.یہ لوگ تمام انبیاء کی تعلیم پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں اور جزا و سزا کے بے ایمان ہیں.قرآن مجید کی صداقت سچائی اپنے انوار و برکات سے ثبوت دیتی رہتی ہے.سچائی کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ جوں جوں اس پر اعتراض کیے جائیں اس کا صدق ہی کھلتا رہے.قرآن مجید کی صداقت پر ضمیر انسانی گواہ ہے.پھر فطرت سلیمہ، تجارب، کتب سابقہ، تمام قوموں کا عملدر آمد.غور سے دیکھو تو تمام کتب سابقہ کا خلاصہ قرآن مجید کی چند آیات کا ترجمہ ہے.پھر صحابہ کی بزرگی قرآن مجید کی صداقت پر زندہ گواہ ہے.حضرت ابوبکرؓ کے باپ کا نام بحیثیت تاریخی انسان ہونے کے کسی تاریخ میں نہ پاؤ گے مگر اب حضرت ابوبکرؓ کی قوم صدیقی کہلاتی ہے اور دنیا کے ہر حصے میں موجود اور معزز و محترم ہے.(تشحیذالاذہان قادیان) (الحکم جلد ۱۶ نمبر۵ مورخہ ۷؍ فروری ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۰) کلام الملوک ملوک الکلام (مکتوبہ سید بشارت احمد صاحب دکنی) نوٹ.سید صاحب نے اس کلام کے ترتیب دینے میں دکنی اردو زبان کا استعمال کیا ہے جو کہ ان کی مادری زبان ہے ہم نے بھی اس میں تغیر نہیں کیا کیونکہ اس میں بھی ایک لطف ہے.(ایڈیٹر) حضرت امام بخاریؒ کے سفر کا واقعہ فرمایا.ایک وقت امام بخاری علیہ السلام جہاز میں سفر کر رہے تھے اور ان کے ہاں ایک ہزار دینار بھی تھے.اچانک کسی بدمعاش نے جو دیکھ پایا تو غل مچانے لگا کہ میرے ایک ہزار دینار کسی نے چرا لیا.حضرت نے جو سنا تو فوراً آہستگی سے دینار دریا میں ڈال دیا.جب سب کی تلاشی لی گئی تو ان کی بھی تلاشی لی گئی لیکن ان کے ہاں سے بھی نہ نکلے.اس بدمعاش نے بعد میں پوچھا کہ حضرت آپ کے ہاں تو ایک ہزار دینار میں نے اپنی آنکھوں خود دیکھ چکا تھا، پھر آپ نے اسے کہاں غائب کیا.فرمایا.او کمبخت! میں نے اپنی تمام عمر حدیث میں صرف کیا اور تو چاہتا تھا کہ مجھے متہم کردیوے، اس لیے میں نے انہیں دریا میں ڈال دیا تاکہ متہم نہ ہوجاؤں ورنہ میری تمام

Page 10

عمر کی خدمت خاک میں مل جاتی.فرمایا.دیکھو اس کے بعد امام صاحب کبھی کسی کے آگے ہاتھ تو نہیں پسارے.خدا تعالیٰ انہیں خود ہی دیتا رہا.سفر مکہ میں پیش آنے والا واقعہ فرمایا.ہروقت خدائی فضل میرے شامل حال رہا ہے چنانچہ ایک واقعہ بیان فرمایا کہ مکہ معظمہ جاتے وقت بمبئی میں میرے ایک معزز دوست مل گئے جو وہ بھی مکہ جاتے تھے.انہوں نے کہا کہ میرا صندوق خالی ہے آپ اپنی کتابیں و سامان بھی اسی میں رکھ دیں.میں نے بے تکلف رکھ دیا.اتفاقاً جدہ میں وہ جب ضرورتاً اپنی کنجی دیکھی تو نہ پایا.پس وہ کہنے لگے کہ آپ کا سامان رکھنے سے میری کنجی کھوئی گئی ہے لہٰذا اب آپ کو دینا ہوگا.میں حیران کہ میں کیا جانوں.پھر وہ تو لڑنا شروع کیا.اتنے میں ایک شخص نے کہا اس قدر کیوں دِق کرتے ہو مکہ چلو میں لوہار ہوں اس سے عمدہ کنجی تمہیں بنادوں گا.وہ تھے ضدی کہنے لگے مجھے دوسری کنجی سے کوئی سروکار نہیں مجھے تو اپنی وہی کنجی چاہیئے.خیر میں نے کہا کہ صبر کرو اگر خدا چاہے تو آپ کو وہی کنجی مل جائے گی لیکن وہ نہ مانتا تھا نہ مانے اور اس قدر روز مُصِر ہوتے کہ جو آب و خور میرا تلخ کردیتے اور کوئی کام بھی مجھے کرنے نہ دیتے اور بالکل ناک میں دم کردیا.بالآخر میں نے دعا کیا کہ یاالٰہی تو ہی ہر بات پر قادر ہے تو فضل کر اور ان کی کنجی دلادے.چنانچہ اس کے بعد صبح کو اتفاقاً ترکوں کے کیمپ میں چوری ہوئی اور چور فرار ہوگئے.ایک ترک جو چوروں کے پیچھے دوڑا تو صرف ایک کنجیوں کا گچھا کہ جس میں بہت سی کنجیاں تھیں ہاتھ آگیا جس کو چوروں نے غفلت سے جلدی میں چھوڑکر بھاگ گئے تھے.وہ اس گچھے کو غصہ سے ہماری طرف لے آیا.میں جو دیکھا تو اس گچھے میں وہ کنجی بھی موجود تھی.چونکہ ترک عربی نہیں جانتے.میں نے ایک مترجم سے کہا کہ اس کو کہو کہ اس میں ایک کنجی میری بھی ہے اگر مجھ کو آپ چور سمجھتے ہیں تو بے دریغ پکڑ لیں لیکن براہ کرم وہ کنجی تو مجھے دے دیں.وہ یہ سن کر بہت غصہ ہوا.اگرچہ میں نہیں سمجھ سکتا

Page 11

تھا لیکن بشرہ و طرز گفتگو سے سمجھ گیا کہ وہ بہت غصے میں ہے مگر پھر بھی میں نے یہی کہوایا تو وہ بالآخر ہنس پڑااور کہنے لگا کہ کبھی چور نے اپنے منہ سے بھی اقبال کیا ہے.لہٰذا وہ گچھا پھینک دیا.میں نے جھٹ وہ کنجی نکال لی اور پھر وہ صاحب کو دے دی.وہ بہت ہی نادم اور خفیف ہوئے اور بڑی ہی معذرت چاہی.ہادی کے آنے سے پہلے اور بعد میں قوم کی حالت فرمایا.جب تک ہادی نہیں آتا اس وقت تک بڑی بڑی قسمیں کھا کر لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر ہمارے وقت میں ہادی آجاوے تو ہم اور قوموں سے بڑھ کر اس کی فرمانبرداری کریں گے مگر جب ہادی آتا ہے تو اس سے دشمنی کرتے ہیں گھر سے نکالتے ہیں.یہ سب بوجہ استکبار کرتے ہیں.پھر یہ برائی کے مکر آخرکار انہیں پر لوٹ پڑتے ہیں.یہی اللہ تعالیٰ کی سنت قدیم سے ہے اس میں کوئی تبدل نہیں ہوتا اور نہ آیا ہوا عذاب لوٹ جاتا ہے.انبیاء آتے ہیں اور اپنا کام کرہی جاتے ہیں.اس زمانہ میں اس کی نظیر ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے.وقت معین کی قدر کرو فرمایا.اگر اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے اعمال بد پر پکڑنے لگے تو کوئی ایک جاندار بھی زمین پر باقی نہ رہے.کُل چرند و پرند جو انسان ہی کے لیے خادم پیدا کیے گئے تھے وہ بھی ساتھ ہی نیست کردیئے جاویں.یہ اس کا بڑا فضل ہے کہ ایک وقت معین تک مہلت دی گئی ہے اس کی قدر کرو.جب اجل مقدر آپہنچے گی تو کیا معلوم کہاں پہنچائے جاؤ گے.اللہ تعالیٰ ہی خبیر و بصیر ہے کہ کیا معاملہ اس کے ساتھ ہوگا.وحی الٰہی اور مہبط وحی فرمایا.اللہ تعالیٰ کی وحی مہبط وحی پر اس کے حسب استعداد نازل ہوتی ہے.خاتم انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی استعداد معلوم کرنا ہو تو سارے قرآن کریم پر نظر کرے.حضرت عائشہؓ سے کسی نے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلق کی نسبت سوال کیا تھا.حضرت عائشہ نے جواب ایک ایسا ممتاز فقرہ فرمایا کہ جتنی تاریخیں جس قدر سوانح آپ کے حالات میں لکھی گئی ہیں وہ سب اس

Page 12

ایک چھوٹے سے فقرے کے برابر نہیں.رضی اللہ عنہا نے خُلُقُہُ الْقُرْانُ (مسند احمد بن حنبل مسند النساء حدیث نمبر۲۴۶۰۱)فرما کر یہ سمجھایا کہ آپ کی ۲۳ سالہ سوانح عمری قرآن ہے.کیسا خوش قسمت ہے وہ انسان جو قرآن شریف کو اس غرض سے پڑھتا ہے کہ اس کی اپنی لائف قرآن شریف کی آیات سے کہاں تک مطابقت رکھتی ہے.مؤمن اگرچہ کہنے کے لیے ایک نفس واحد ہے مگر بہ اعتبار اپنے جمیع اعضاء کے وہ ایک جماعت کا حکم رکھتا ہے.عربی میں سر کے درمیانی خط کو مَفرق بھی کہتے ہیں اور مفارق بھی کہتے ہیں.عاقل بالغ انسان کے اعضا ایسے ہیں جیسے جوارح اللّٰہ ملائکۃ اللّٰہ ہیں.پس اے انسان کامل! قسم ہے اس قرآن حکمت والے، قرآن محکم کی کہ بے شک تو رسول ہے.رسول نمونہ ہوتا ہے دنیا کے لیے.قرآن شریف پڑھنے میں غفلت فرمایا.اس وقت لوگ سخت غفلت میں ہیں.اسباب تنعم، اسباب غفلت بہت بڑھ گئے ہیں.طالب علموں کو اپنے کورس (نصاب) کے پورا کرنے کی ہی فرصت نہیں.ان کو کب موقع ملتا ہے کہ قرآن شریف پر کچھ غور و فکر کریں.ان کے والدین کا بھی یوں ہی حال ہے.نہ تو اپنے بچوں کو قرآن شریف کی طرف متوجہ کرنے کی فرصت ہے نہ خود ان کے اپنے لیے.بعد سکول کی چھٹی کے ورزش کا شغل ہے قرآن شریف کی طرف توجہ ہو تو کیونکر ہو.بورڈنگ کے مہتمم اپنے بورڈنگ کے انتظام کو ہی اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں.قرآن شریف کی طرف غور و فکر کرنے اور کرانے کی طرف ان کو بھی کم فرصتی اور غفلت ہے.گدی نشینوں میں غفلت ہے.علماء میں بھی غفلت ہے.طالب علموں میں بھی غفلت ہے.فقراء اور ان کے معتقدین میں بھی غفلت ہے.امراء میں تو سب سے بڑھ کر غفلت ہے.(البدر جلد۱۱ نمبر۲۰و۲۱ مؤرخہ ۱۵ ؍ فروری ۱۹۱۲ء صفحہ ۷) روز قیامت سایہ عرش میں آنے والے فرمایا.یہ کتاب اللہ جلّ شانہٗ جس کو اس کا وارث کرتا ہے پہلے اس کو اپنے نفس پر کچھ ظلم و زبردستی کرکے کتاب پر عمل کرنا پڑتا ہے.صبح کے وقت سردیوں میں کیسا ٹھنڈا پانی ہوتا ہے، نفس پر ظلم کرکے وضو غسل کرنا پڑتا ہے.پھر طبیعت خوگیر ہوجاتی ہے تو نیکی سے مزا آنے لگتا ہے.پھر اور زیادہ ترقی کرتا ہے تو انسان کے لیے نیکی کرنا اور خدا تعالیٰ کی

Page 13

فرمانبرداری میں قدم مارنا جزوطبیعت ہوجاتا ہے.پہلی حد مکلف ہونے کی ۱۸ سال کی عمر سے ہے.حدیث شریف میں سات خصلتیں بیان ہوئی ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ اس دن ملے گا جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا.(۱)امام عادل.(۲)جوان صالح جس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں عمر گزاردی.(۳)وہ شخص جس کا قلب مسجد میں انتظار میں معلق ہو.(۴)دو مرد باہم محبت کیے تو اللہ تعالیٰ کے لیے، اکٹھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے لیے اور جدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے لیے.(۵)وہ مرد کہ بلایا اس کو ایسی عورت نے جو منصب اور جلال رکھتی ہے.پس کہا اس نے کہ میں اللہ سے ڈرتاہوں.(۶)اور وہ مرد کہ صدقہ کیا اللہ کے راہ میں ایسا مخفی کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی.(۷) وہ شخص کہ ذکر کیا اللہ تعالیٰ کا تخلیہ میں.پس خوف خدا سے جاری ہوئی اس کی آنکھیں.دعا اور استخارہ کرنے کی تحریک فرمایا.انسان بالطبع سکھ اور آرام کی تلاش میں لگا رہتا ہے.کوئی نوکری کرتا ہے تو اپنے آرام کو نوکری کے متعلق سوچ لیتا ہے.نکاح کرتا ہے تو نکاح میں بھی سکھ وآرام کو سوچ لیتا ہے.لڑکے مڈل تک ہی تعلیم میں جب پہنچتے ہیں تو دل میں کیا کیا خیال کرلیتے ہیں کہ ہم کیا کیا ہوجائیں گے.کوئی تو یوں سمجھ لیتا ہے کہ میں ڈپٹی کمشنر ہوجاؤں گا.یہ سب خیالی خوشیاں ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے، معلوم نہیں کہ کس کام میں ہمیں سکھ ملے گا اور کس کام میں دکھ.پس چاہیے کہ کثرت سے دعاؤں اور استخارات کو کیا کرو.ملازمت کرو تو کثرت سے استخارات پہلے کرلو.تجارت کرو تو پہلے استخارات کرلو.حقیقی سکھ اور دکھ کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے.درون سینہ کا علم اللہ کو ہے فرمایا.بعض آدمی بظاہر دیکھنے میں بڑا ہی نیک معلوم ہوتا ہے مگر اس کے درون سینہ کا علم اللہ ہی کو ہے کہ کیسا ہے.جتنے تم یہاں بیٹھے ہو سب کا حال مستتر ہے.معلوم نہیں کہ کون کیسا نکلے گا اور کون کیسا؟ میں تم کو قرآن شریف سناتا ہوں.میرے دل کی حالت کیسی ہے کسی کو اس کی کیا خبر؟

Page 14

کلام الملوک ملوک الکلام (مکتوبہ سید بشارت احمد صاحب دکنی) نوٹ.سید صاحب نے اس کلام کے ترتیب دینے میں دکنی اردو زبان کا استعمال کیا ہے جو کہ ان کی مادری زبان ہے ہم نے بھی اس میں تغیر نہیں کیا کیوں کہ اس میں بھی ایک لطف ہے.(ایڈیٹر) کلیاتِ خمسہ فرمایا.مومن کو چاہئے کہ ہر وقت کلیات خمسہ کا پابند رہے.ایمان۱ کی حفاظت، نفس۲ کی حفاظت، مال۳ کی حفاظت، عزت ۴کی حفاظت، عقل۵ کی حفاظت.نصیحت کی بجائے دعا فرمایا.بعض لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں.کہ ہم کو یہ بدکار سمجھتے ہیں.ایک وقت مجھے خیال ہوا کہ کسی شخص کو بہت نصیحت کروں.مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا معلوم ہوا کہ اس کو نصیحت نہ کی جائے اگر یہ نہ مانے گا تو تجھے جوش آ جائے گا اور اسے ندامت ہو گی.البتہ دعا کر، ہمارا اختیار ہے چاہیں تو قبول کریں گے یا نہیں.ایام حج میں غیر احمدی کے پیچھے نماز ایک حج کو جانے والے صاحب نے دریافت کیا کہ ایام حج وغیرہ پر نماز غیر احمدی کے پیچھے پڑھیں یا نہیں؟ فرمایا.وہاں کے لوگوں کو روپیہ اور دنیا سے غرض ہے.نیک لوگوں کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو.بعض امام وہاں کے نیک بھی ہیں.نیک عالم یا امام کو دیکھو اگر داڑھی وغیرہ ہو اور اچھا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھ لو.عرب بدؤوں کی عادات فرمایا.بدوؤں کا خاصہ ہے کہ اگر انہیں کوئی چیز دی جائے تو وہ سب مل کر کھائیں گے چاہے تھوڑی ہی کیوں نہ ہو.اس لئے سب کے سب بھوکے رہتے ہیں اور پھر ہندوستانی بولی بھی انہیں نہیں آتی.دو وجوہات سے اکثر خرابیاں باہم پیدا ہو جاتی ہیں.لیکن جب رات ہو جاتی ہے تو ہر ایک بدو اپنے اپنے اونٹ کے پاس آ جاتا ہے اور دوسرے کے قریب نہیں جاتا کہ کہیں دوسرے کو یہ شبہ نہ پڑ جائے کہ قریبی اونٹ کو چرانے یا ستانے گیا تھا.چونکہ میری جوانی تھی اور

Page 15

چوبیس پچیس سال کا سن تھا اور قویٰ مضبوط تھے میں بھی صرف کھجور رکھ لیا کرتا تھا اور پھر وہی کھا کر پانی یا دودھ پی لیا کرتا.لہٰذا میں اپنے اونٹ والے کو رات کے وقت پیٹ بھر کر کھجور دے دیتا.چونکہ رات کو ایک دوسرے سے تو مل نہیں سکتے.پس وہ تنہا بخوشی کھا کر شکم سیر ہو جاتا اور پھر میرا از حد شکر گزار رہ کر بہت فرمانبرداری کرتا اور دوسرے یہ کہ میں عربی بھی خوب بات کرتا تھا اس سے بھی آسانی تھی.مجھے جوانی میں بہت پیاس ہوا کرتی تھی بالخصوص علی الصباح پیاس سے بے تاب ہو جاتا تھا چنانچہ حسب عادت ایک وقت مجھے آخر شب میں پیاس ہوئی.دیکھا تو پانی نہیں بالآخر بدوی سے کہا کہ مجھے پیاس ہو رہی ہے کہیں سے ایک گلاس پانی لا.وہ فورًا چلا گیا اور خلاف قاعدہ میری مروت سے وہ ایک دوسرے کے اونٹ کے قریب چلا گیا کہ جس پر ایک ہندوستانی معزز بہت سا پانی مشکیزہ میں رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے اور وہ باادب کہا کہ ایک مولوی صاحب جو آپ کے ہی وطن کے ہیں ان کو ایک گلاس پانی چاہئے.وہ زبان نہیں جانتے تھے پکارنے لگے حرامی حرامی یعنی چور چور.پس لفظ حرامی منہ سے نکلنا تھا کہ اس تیزی سے وہ میرے اونٹ کے پاس آ گیا کہ گویا وہ یہیں تھا لیکن بہت غصہ میں بھرا ہوا اور کچھ بڑبڑاتا تھا.میں نے پوچھا.اَیْنَ الْمَائُ کہا بَخَلُوْہُ.اور طیش سے کہنے لگا سَیَذْکُرُوْنَ اِنْشَائَ اللّٰہُ.پھر مجھ سے کہا کہ دو میل پر ایک میٹھا چشمہ آتا ہے وہاں پانی پی لینا.جب صبح ہوئی تو قافلہ میں ایک شور ہوا اور ایک صاحب بہت کچھ چیخنے لگے.دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ ایک چور نے رات کو ان کے مشکیزہ میں ایک بڑا سؤا گھسیڑ دیا جس سے ہولے ہولے پانی سب نکل گیا.میں نے ان سے کہا کہ آپ کو چاہئے تھا کہ ایک گلاس پانی اس غریب کو دے دیتے.انہوں نے کہا حضرت میں تو زبان ہی نہیں جانتا ہوں میں اسے چور ہی سمجھا.خیر میں بعد اس کو نرمی سے جب نصیحت کی تو کہنے لگا یاشیخ ایک گلاس پانی کے لئے اس نے بخیلی کی اب معلوم ہو جائے گا کہ مکہ تک اس کو کیسے پانی ملے گا.آپ فرماتے ہیں کہ کسی کی تکلیف یا مصیبت کا ذرا بھی انہیں احساس نہیں ہوتا.چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس کو وہ صاحب کی تکلیف پر ذرا بھی رنج نہ ہوا.فرمایا.بدوی اسلام مطلق نہیں جانتے بالکل جاہل ہیں.

Page 16

حیدر آباد اور مرحوم نظام کی فیاضی کا ذکر خادم سے حیدر آباد کی نسبت گفتگو فرما رہے تھے کہ فرمایا.ہمیں حیدر آباد کی چھپی ہوئی کتابیں بہت پسند آئیں.پھر فرمایا کہ بالخصوص مطبع دائرۃ المعارف میں کنز العمال کی کل جلدیں نہایت عمدگی سے چھپی ہیں.مرحوم نظام کی بخشائش کے لئے یہ بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں کہ ان کے عہد میں حدیث کی خدمت ہوئی ہے.حیدر آباد کے تکلفات و مراسم آداب و سلام کا تذکرہ تھا.فرمایا.میں تمام ہندوستان طلب علمی وغیرہ کے لئے پھرا لیکن حیدر آباد جانا نہ ہوا اور نہ کبھی طبیعت چاہی.جہاں اس مولا کریم کا مجھ پر بے حد احسان ہے یہ بھی احسان ہے کہ جو مجھ جیسے بے تکلف کو وہاں نہ لے گیا ورنہ وہاں کے امراء وعلماء کو میری سادگی اور بے تکلفی سے رنج پہنچتا اور مجھے تکلیف رہتی.مرحوم نظام کی فیاضی و ہمددری ہر قوم و ملت کے ساتھ فیاضی و خیرات کا ذکر تھا.فرمایا.معلوم ہوتا ہے کہ نہایت مخیر تھے.مکہ کے ایک ہم مکتب کے روپیہ ہتھیانے کا واقعہ فرمایا.مکہ مدینہ کے لوگوں پر پورا پورا اعتماد نہ کیا جاوے.چنانچہ اپنا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ مکہ میں جب میں گیا تو ایک ہم مکتب وہیں کا رہنے والا ہمیں اتفاقًا مل گیا.پس اس نے ایسے ایسے آرام دیئے اور ایسا ساتھ دیا کہ جو میں سفر میں اس کے بغیر کبھی نہیں حاصل کر سکتا تھا.لہٰذا میں جب مدینہ طیبہ جانے لگا تو اس کو کہا کہ میرا یہ سامان اور یہ روپیہ ہے سامان تو امانتًا رکھنا اور البتہ روپیہ ہے اس کو تم تجارت میں لگا کر نفع کمانا.میں بہت دنوں میں آؤں گا اگر زندہ رہا اور واپس آیا تو پھر تم میرے آئے بعد اس روپیہ کو اکٹھا کر دینا میں لے لوں گا.چنانچہ میں روپیہ اور سامان دے کر چلا

Page 17

گیا.جب بہت دنوں کے بعد واپس آیا تو جب بھی اس نے مجھے بہت آرام و آسائش سے رکھا.پھر چند دنوں کے بعد میں نے کہا کہ اب میں وطن روانہ ہو جاؤں گا میرا روپیہ اور سامان اکٹھا کر دو.کہا بہتر.آپ مطمئن رہیں چار روز انتظار کیا لیکن کچھ بھی انتظام نہ کیا.تو پھر اور ایک دفعہ کہا مگر تب بھی کوئی اثر نہ ہوا.بالآخر تیسری دفعہ جب میں نے تشدد کیا تو کہا کہ آپ مطمئن رہیں وہ آپ کا سامان و روپیہ ایک بہت بڑے امیر کے ہاں رکھوایا ہوا ہے اب میں جا کر لاتا ہوں.میں نے کہا کہ اچھا چلو میں بھی چلتا ہوں.لہٰذا میں ساتھ ہو گیا وہ مجھے لئے ہوئے ایک مکان پر گیا جو کہ بہت بڑا عالی شان محل تھا لیکن اس کا دروازہ بند تھا.کہا کہ دیکھئے گھر کا دروازہ بند ہے.اتنے میں ایک عرب اتفاقًا ادھر سے نکل آیا اور کہا کہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ اتنا بڑا مکان اور دروازہ بند؟ اس نے کہا کہ مطلب کیا ہے کہو؟ میں نے کہا کہ اس مکان میں ہمارا سامان ہے.معًا وہ سمجھ گیا اور کہا کہ مولوی صاحب یہ بہت بڑے امیر کا مکان ہے وہ اپنے مہمانوں کو جدہ تک پہنچانے معہ زنانہ کے گئے ہوئے ہیں اس لئے بند ہے.وہ کسی کا سامان امانت نہیں رکھا کرتے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ بدمعاش جن کو میں خوب پہچانتا ہوں آپ کو دھوکہ دیا اور سب مال کھا گیا ہے.پھر اس کے بعد اس کو بہت گالی گلوچ دیا اور مجھ سے کہا کہ مولوی صاحب بہتر یہ ہے کہ آپ صبر کر کے چپ چاپ چلے جاویں یہ نہ دے گا بلکہ دھوکہ میں رکھے گا.خیر میں چلا آیا.کئی سال کے بعد پھر اتفاقًا ایک وقت ہندوستان میں اسی شخص سے ملاقات ہوئی.دیکھا کہ نہایت افلاس میں ہے اور میں اس زمانہ میں نہایت متمول تھا.مجھ سے کہا اب آپ بہت جلیل القدر ہو گئے ہیں اور میں اپنے شامتِ اعمال سے ان حالوں پہنچا ہوں لہٰذا میرے ساتھ کچھ سلوک کیجئے.(ماخوذ از کلام امیر البدر جلد۱۱نمبر۲۰و۲۱ مؤرخہ ۱۵؍ فروری ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۴، ۱۵) معارف قرآن مجید مذاہب عالم پر سرسری نظر سناتن دھرم تو کوئی مذہب نہیں.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہندوؤںکے تمام لیڈر جمع ہوکر ہندو کی کوئی جامع مانع تعریف نہیں کرسکے.نہ کھان پان کا امتیاز رکھنے

Page 18

والوں کا نام ہندو ہے نہ قائلین تناسخ کا، نہ وید کے ماننے والوں کا، نہ مردے جلانے والوں کا، نہ گائے کا گوشت کھانے والوں کا.ہندوؤں میں وہ بھی داخل ہیں جو مرگھٹ میں آگ جلا کر انسان کی کھوپڑی میں کھانا پکاکر کھاتے ہیں اور انسانی دانتوں کی تسبیح (مالا) رکھتے ہیں.عیسائی مذہب عیسائی مذہب بھی کوئی مذہب نہیں.ان میں شریعت جو مذہب کے دستورالعمل کا نام ہے لعنت قرار دی گئی ہے.سارا دارومدار کفارہ پر ہے.معلوم نہیں کفارہ نے ان کو کیا فائدہ دیا اور کس طرح سب کی نجات کا موجب ہوگیا.اس میں گناہ کی مزدوری موت بتائی جاتی ہے اور یہ کہ عورت کو دردِ زہ ہوگا اور کہ آدمی اپنی پیشانی کے پسینے سے روٹی کھائے گا.اب یہ باتیں جو گناہوں کی سزا میں ہیں یہ تو اب تک کفّارہ پر ایمان لانے والوں میں بھی ہیں.پس کفّارہ نے ان کو کیا فائدہ دیا.آریہ دھرم سناتن دھرم والے تو بت پرست ہیں ان کے بتوں کی تعداد تو پھر تھوڑی ہے مگر یہ تمام کائنات عالم کو خدا کہتے ہیں کیونکہ مادہ اور روح کو خدا کے برابر ازلی ابدی سمجھتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ فضا اور اس زمانے کا بھی ازلی ابدی ہونا لازم آتا ہے.اس سے بڑھ کر شرک اور اللہ تعالیٰ کی بے قدری کیا ہوگی کہ وہ چیزیں بنانے میں دو اور چیزوں کا محتاج ہے اور ان کا خالق نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خواص سے ناآشنا اور معبود بننے کا کوئی حق نہیں رکھتا.پھر یہ لوگ ابدی نجات کے قائل نہیں تو اس صورت میں ایک مسلمان اور آریہ میں کیا فرق رہ گیا.اگر مسلمان ان کے نزدیک مکتی نہیں پانے کا تو ایک آریہ بھی تو ابدی مکتی سے محروم ہے.سکھ ازم یہ لوگ بھی دوسروں کے مذہب پر چلنے والے ہیں.اوّل تو سنگھ کہتے ہی سپاہی کو ہیں.پھر ان کی اپنی کوئی شریعت نہیں.کچھ مسلمانوں کے تابع ہیں کچھ ہندوؤں کے.برہمو سماج یہ لوگ بھی عجیب مذہب رکھتے ہیں.ان کا قول ہے کہ ہم یونیورسل بات اور کانشس کیہدایت پر چلتے ہیں مگر اس کانشس پر ہزار افسوس جو یہ تعلیم دے کہ تمام انبیاء جھوٹے اور دروغ مصلحت آمیز کے پابند تھے.ساری دنیا کے مذاہب نے پیغمبروں کو مانا اور ان کو راستباز جانا مگر یہ

Page 19

اس کے خلاف عقیدہ رکھتے ہیں اور پھر دعویٰ ہے کہ ہم تو یونیورسل بات ضرور مانتے ہیں اور تجربہ اور مشاہدہ کو صحیح جانتے ہیں.کیا یہ بات ان کے تجربہ میں نہیں آئی کہ بیٹھے بیٹھے یکدم بدی یا نیکی کی تحریک ہوتی ہے.جب ہر تحریک کے لیے ایک محرک ہے تو کیا وجہ کہ اس بدی یا نیکی کے محرک شیطان یا ملک پر ایمان نہیں لاتے.معیار صداقت مذاہب مختلف مذاہب کا یہ حال ہے اب یہ سوال کہ سچا مذہب کون سا ہے بہت صفائی سے حل ہوسکتا ہے.وہی جو فطرت صحیحہ کے مطابق انسان کو دینی دنیوی ترقیات دلانے والا ہو اور ہرزمانہ میں اس کے نمونہ خلقت کے سامنے پیش ہوتے ہیں.ایک امیر نے مجھے کہا کہ پراچین مذہب سچا ہوسکتا ہے.(اس کا مطلب تھا کہ اسلام تو تیرہ سو برس سے ہے وہ سچا نہیں ہوسکتا.) میں نے کہا بہت صحیح اسلام بھی پراچین ہی ہے کیونکہ ہمارے نبی کریم صلعم کو ارشاد ہوتا ہے (الانعام :۹۱).وہ کہنے لگا رامچندر جی بہت پہلے ہوئے ہیں.میں نے کہا وہ کس کی پرستش کرتے تھے؟ کہا وشنو کی.میں نے کہا وشنو کس کی؟ کہا ردر کی.میں نے کہا اور ردر کس کی؟ کہا برہما کی.میں نے کہا برہما کس کی؟ اسے کہنا پڑا پرمیشور کی.میں نے کہا پس لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ کے قائل تھے جو ہمارے مذہب اسلام کا خلاصہ ہے اور یہی پراچین مذہب ہے.انبیاء کس قدر محتاط ہوتے ہیں جب ابن صیاد کی بعض مشابہ بہ دجّال شعبدہ بازیوں کا حال نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پہنچا تو آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے پوچھا اَتَشْھَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے جواب دیا آپ امیوں کے رسول ہیں.پھر اس نے اپنی نسبت سوال کیا تو آپ نے جواب دیا میں اللہ کے سب رسولوں کو مانتا ہوں.اس سے اس احتیاط کا پتہ چلتا ہے جو انبیا کرتے ہیں.یہ اور ان کے پیرو لوگ کبھی تکذیب کی راہ اختیار نہیں کرتے.پھر آپ نے پوچھا کہ میرے دل میں اس وقت کیا ہے تو اس نے کہا دخ.روایت میں آیا ہے کہ رسول ﷺ نے اس وقت

Page 20

(الدخان :۱۱) کا خیال فرمایا تھا.ابن عربی نے اپنا ایک ذوقی (نکتہ) اس واقعہ کے متعلق لکھا ہے.وہ کہتے ہیں ابن صیاد کو دُخ بھی معلوم نہ ہوتا مگر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طور پر بغیر صریح امر ربی تشریف لے گئے تھے.میں نے اس حکایت سے یہ فائدہ اٹھایا ہے کہ مباحثہ کبھی اپنی خواہش سے نہیں کرنا چاہئے اور کبھی پہل نہ کرو.چنانچہ میرا معمول ہے کہ جب بات گلے پڑ جائے تو پھر میں اللہ سے دعا مانگتا ہوں اور خدا کے فضل سے ہمیشہ کامیاب ہوتا ہوں اور مجھے کوئی ایسا واقعہ یاد نہیں کہ میں نے کسی مباحثہ میں زک اٹھائی ہو.مامورین کی جدا بات ہے.انہیں تو اللہ کے حکم سے بعض وقت چیلنج کرنا پڑتا ہے مگر غور سے دیکھا جائے تو ابتدا ان کی طرف سے بھی نہیں ہوتی.ایک علمی لطیفہ بعض لوگوں نے قرآن مجید کی زبان پر اعتراض کیا کہ  (صٓ :۶) اور کِبَارًا اور ھُزُوًا خلاف محاورہ و غیر فصیح الفاظ ہیں.آپ نے فرمایا کہ اپنے کسی زبان دان بوڑھے کو بلا لاؤ.چنانچہ ایک کو مجلس نبوی میں لے آئے.آپ نے اسے فرمایا بیٹھ جاؤ.جب بیٹھا تو فرمایا ذرا اٹھنا.پھر بیٹھا تو پھر فرمایا ذرا آپ اٹھ کر اس طرف تشریف رکھ لیں.جب وہ اس طرف بیٹھا تو پھر آپ نے فرمایا آپ ذرا یہاں سے اٹھیے اور ادھر آجائیے تو وہ جھنجلا کر بول اٹھا یَا مُحَمَّدُ اَتَتَّخِذُنِیْ ھُزُوًا وَ اَنَا شَیْخٌ کِبَارٌ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْ ئٌ عُجَابٌ.اے محمدؐ کیا تو مجھے خفیف بنانا چاہتا ہے حالانکہ میں ایک بڈھا بڑی عمر کا آدمی ہوں.یہ بڑی عجیب بات ہے.اس طرح پر وہ تینوں الفاظ اس زبان دان تجربہ کار فصیح و بلیغ بڈھے کے منہ سے نکلوالیے اور معترضین نادم ہوکر دم بخود رہ گئے.لوگ کیوں غافل ہیں ایک بچہ بھی جزو کل میں فرق سمجھتا ہے.آپ اسے ایک چیز دے کر پھر اس سے آدھی دیں تو وہ فوراً اپنی ناراضگی کا اظہار کرے گا.جس سے ثابت ہوگا کہ وہ جزو کل میں خوب فرق سمجھتا ہے.پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کسی چیز کے حصول کے لیے ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے.اگر کوئی چیز اس کے دست قدرت سے اوپر یا دور پڑی ہوگی تو وہ اپنی اماں سے اشارۃً کہے گا کہ وہ

Page 21

مجھے لادو.ایسا ہی میں دیکھتا ہوں کہ پاگل روٹی منہ میں ہی ڈالتا ہے.میں پچاس سال سے طب کا پیشہ کررہا ہوں میں نے کوئی مجنون ایسا نہیں دیکھا جو کھانا کھاتے ہوئے منہ کی بجائے کسی اور جگہ ڈالتا ہے.ایک زمیندار بھی اس نکتہ کو خوب سمجھتا ہے کہ غلہ کے حصول کے لیے زمین کی کاشت اور پھر اس میں تخمریزی، آب رسانی کی ضرورت ہے اور باوجود اللہ تعالیٰ کو جاننے اور (ھود:۷) (کوئی جانور نہیں مگر کہ اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے) پر ایمان لانے کے محنت کرتا اور ان اسباب سے کام لیتا ہے.ایک بیوقوف سے بیوقوف شخص بھی مانتا ہے کہ آنکھیں بند کرلیں تو زبان سے نہیں دیکھ سکتے اور مشک کا منہ اگر کھول دیں تو پانی سے خالی ہوجائے.غرض یہ تو سب جانتے ہیں کہ سلسلہ اسباب کا مسببات سے وابستہ ہے اور ہر ایک فعل کا ایک نتیجہ ہے اور خدا تعالیٰ کے قواعد و ضوابط اٹل ہیں مگر بڑے تعجب کی بات ہے کہ بایں ہمہ لوگ دین میں بداعمالی و نیک اعمالی کے نتائج سے غافل ہیں اور جنت کو بغیر کسی عمل صالح و ایمان صحیح کے حاصل کرنا چاہتے ہیں.دین کے بارے میں (المائدۃ : ۴۰) (اللہ بخشنہار) (البقرۃ : ۲۱) (اللہ ہرچیز پر قادر ہے) پڑھنے میں بڑے دلیر ہیں.کچھ داؤد و سلیمان علیہما السلام کی نسبت سورۃ صٓ میں چند آیات کے معانی نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت داؤد پر تہمت لگادی ہے کہ انہوں نے ایک بی بی کے خاوند کوجنگ میں بھجواکر مروادیا اور اس کی بی بی سے خود نکاح کرلیا اور فرشتے انہیں سمجھانے آئے حالانکہ یہ بات ہے کہ وہ ملائکہ نہ تھے بلکہ دشمن تھے کہ دیواریں پھاند کر آپ کے مکان میں گھس آئے تھے.آپ بہت گھبرائے کہ ملک میں انارکسٹوں کا غلبہ ہے اور وہ یہاں تک دلیر ہوگئے ہیں کہ شاہی خیموں میں کود کر آنے میں تامل نہیںکرتے.مگر معاً شاہی رعب ان پر غالب آیا اور انہوں نے ایک جھوٹی بات بنا لی.آپ نے نہایت متانت سے انہیں جواب دیا اور (صٓ :۲۵) کے یہ

Page 22

معنی ہیں کہ جب داؤد نے یقین کیا کہ رعایا میں بغاوت اور بدامنی کا زور ہے تو سمجھا آخر کوئی کمزوری اور نقص ہے جس کی وجہ سے حکومت کے رعب و جلال میں فرق آرہا ہے.اس لیے خدا سے مغفرت طلب کی اور خدا کے حضور گر پڑے تو خدا نے آپ کی حفاظت کی اور اپنے تسلی بخش کلام سے ممتاز فرمایا.چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ خلیفہ تو ہم نے تجھے بنایا ان لوگوں کی شرارتوں کا کیا خوف اور کیوں پریشان ہوتے ہو.تم حق حق فیصلہ کرتے جاؤ اور عدل و انصاف پر قائم رہو تمہاری ہی فتح ہوگی.حضرت سلیمان کی نسبت بعض لوگوں نے یہ مشہور کررکھا ہے کہ آپ کی عصر کی نماز قضا ہوگئی تو گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں کو تلوار سے اڑادیا.یہ مجنونانہ فعل ایک نبی کی شان سے بعید ہے.بات یہ ہے کہ آپ گھوڑوں کا معائنہ فرما رہے تھے.آپ نے فرمایا کہ حُب بھی دو قسم کی ہے.بعض حبیّں دکھ کا موجب ہوتی ہیںجیسے عشق مگر میری یہ حُب جو ان گھوڑوں سے ہے یہ پسندیدہ حُب ہے کیونکہ ان سے میں اپنے مولا کو یاد کرتا ہوں.حدیث شریف میں آیا ہے اَلْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ فِیْ نَوَاصِیْھَا الْخَیْرُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (صحیح البخاری کتاب الجہاد و السیر باب الخیل معقود فی نواصیھا) آپ خدا تعالیٰ کے فضل و احسان بیان کرنے میں مشغول رہے اتنے میں گھوڑے سامنے سے گزر گئے.( صٓ :۳۳).آپ نے فرمایا.انہیں پھر واپس لاؤ.جب پھر گزرنے لگے تو آپ ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے.گھوڑوں کو پیار کرنے کا یہی طریق ہے.اگر مسح کے معنی تلوار مارنے کے ہی ہوں تو پھر سب سے پہلے وضو کرنے والے ہی اپنی گردن کاٹ لیا کریں.آپ ہی کے متعلق ( صٓ :۳۵) آیا ہے.جس سے مراد یہ ہے کہ آپ کا بیٹا نالائق تھا اور ( صٓ :۳۶)سے مراد رضا و قرب الٰہی کا مقام ہے.ایوب صابر دوسری کتابوں کے قصے اور خدا کی کتاب میں جو واقعہ گزشتہ بیان ہو اس میں فرق یہ ہے کہ خدا کی کتاب میں صرف قصہ نہیں ہوتا بلکہ بتایا جاتا ہے جو ایسا کرے گا وہ بھی انہیں انعامات سے

Page 23

سرفراز ہوگا.چنانچہ (صٓ :۳۵) اور (یوسف :۲۳) ایسے پاک کلمات سے ان کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے.حضرت ایوب کے صبر کا بیان کیا ہے.انبیاعلیہم السلام خدا کے حضور بڑے ادب سے کام لیتے ہیں.وہ کسی دکھ کو اس کی طرف منسوب نہیں کرتے.جب وہ خدا کے حضور اپنی تکالیف کے متعلق گڑگڑائے تو ارشاد ہوا (صٓ :۴۳) اپنی سواری کو اس سرزمین کی طرف لے چل جہاں آپ کے لیے آرام کے سامان مہیا ہیں اور وہاں اہل و عیال اور احباب اس کی مثل دیئے جاویں گے.اور اپنی سواری کو درخت کی ایسی شاخوں سے جس کے ساتھ پتے بھی ہوں چلائے جا مگر اسے ضرر نہ پہنچا.یہ دراصل ایک پیشگوئی تھی.نبی کریم صلعم سے بھی ایسا ہی معاملہ پیش آنے والا تھا.چنانچہ آپ نے بھی مکہ سے ہجرت فرمائی اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے جہاں آپ نے بہت سے اہل اور وفادار احباب پائے.اب بھی جو خدا کی راہ میں ہجرت کرے اس کے لیے امن و آسائش بموجب وعدہ الٰہی (النساء :۱۰۱) موجود ہے اور ہرگز خیال نہ کرے کہ اگر میں اپنا گھر یا اپنے رشتہ دار چھوڑ کر جاؤں گا تو نقصان اٹھاؤں گا.خدا تعالیٰ ایسے شخص کو بہتر سے بہتر احباب، اصحاب اور رشتہ دار دے گا.راستباز کی پہچان کسی نبی کسی مامور کے دل میں یہ خواہش پنہاں نہیں ہوتی کہ میں لوگوں کا حاکم بنوںاور بڑا آدمی کہلاؤں.وہ مخلوق سے کنارہ کش اور گوشہ نشین ہوتے ہیں پھر خدا تعالیٰ انہیں اپنے حکم سے نکالتا ہے تو وہ مجبور ہوکر پبلک میں آتے ہیں.حضرت موسیٰ کو دیکھو کہ آپ کے دل میں ہرگز یہ بات نہ تھی کہ میں قوم کا امام بن جاؤں.چنانچہ ارشاد ہونے پر عذر و معذرت کرتے اور اپنے بھائی کو  (القصص :۳۵) سے پیش کرتے ہیں.اسی طرح نبی کریم صلعم فرماتے ہیں.(صٓ :۷۰) مجھے کیا علم تھا کہ ملاء اعلیٰ میں میری نبوت کی نسبت کیا مباحثات ہورہے ہیں جیسا کہ ہر مامور کی بعثت پر آسمانوں میں بڑی بحث ہوتی ہے.

Page 24

پھر ہر نبی کے لیے ایک نہ ایک بڑا دشمن اٹھتا ہے جسے ایک وقت مقررہ تک مہلت دی جاتی ہے تاکہ اپنا زور لگالے اور اپنے تمام قویٰ اور لاؤ لشکر کے ساتھ ناکام رہ کر ثابت کردے کہ یہ مامور واقعی خدا کا برگزیدہ ہے.اسی نبی کے ہر ایک قول و فعل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بناوٹ اس میں بالکل نہیں.اس کی کوئی بات بناوٹ سے نہیں ہوتی اور نہ اس کا کوئی فعل تکلف سے ہوتا ہے اور نہ وہ خلقت کو نصیحت دنیوی فائدہ اٹھانے کی امید یا نیت پر کرتے ہیں بلکہ وہ بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا اجر اللہ پر ہے.چنانچہ سیدنا و مولٰنا حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو سنا دے (صٓ:۸۷).اسی معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ملتا ہے.آپ اپنے بارہ میں لکھتے ہیں.؎ ابتدا سے گوشۂ خلوت رہا مجھ کو پسند شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار (درثمین صفحہ ۱۴۶) اور آپ میں تکلف اور بناوٹ نام کو نہ تھی.اس کی شہادت ہزاروں آدمی دے سکتے ہیں.نہ تقریر میں کوئی بناوٹ تھی نہ تحریر میں نہ لباس میں اور (یونس :۷۳) پر جو عمل فرمایا تو اب بھی ظاہر ہے کیونکہ اپنے لیے باوجود اس قدر روپیہ کے آنے کوئی جائداد نہیں خریدی اور نہ کوئی نفع اپنی ذات کے لیے مخصوص کیا.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ (الحکم جلد۱۶ نمبر۸ مورخہ ۲۸؍ فروری ۱۹۱۲ء صفحہ ۴، ۵) حضرت خلیفۃ المسیح کا ریویو برکتاب ’’چشمہ زندگی‘‘ ’’سوجیوں سردور‘‘ کیا معنے ’’چشمہ زندگی‘‘ جناب کی تصنیف کو میں نے ۱۵؍ جنوری جس وقت ڈاک میں آئی پڑھا اور دلچسپی سے پڑھا.فزیکل

Page 25

کانگریس نام کے بعد یہی دوسری کتاب ہے جو مجھے اپنے مضمون میں پسند آئی ہے.جناب الٰہی کافضل ہر ایک ملک پر ہوا ہے اور ہوتا ہے.ہماری پاک کتاب میں ہمارے خالق و مالک کا نام ربّ العالمین ہے.اگر یونان کی زمین نے مخلوق کے لیے مفید روحوں کو پیدا کیا ہے تو وسط ایشیا کو بھی ایسے پاک ارواح سے محروم نہیں رکھا.اگر ملک عرب و ایران راحت بخش قطعہ دنیا کا ہے جس میں قلب و قالب کے لیے مفید سامان مہیا ہیں تو ہندوستان بھی اس کی ربوبیت و فضل عام سے سیراب ملک تھے.جالینوس وبقوریدوس وغیرہ پر فضل محدود نہیں.بوعلی و زکریا، رازی وغیرہ بھی اس کے کرم و فضل کے نیچے تھے.چرک، شرت، باگ بھٹ وغیرہ کی محنتیں بے ریب قابل قدر ہیں.آج کل یورپ کی مفید عام محنتوں کا کون انکار کرسکتا ہے.تار، ڈاک، ریلوے، کاغذ، مطبع، سلطنت وسیع وغیرہ وغیرہ اورپھر ان کے ڈاکٹروں کی محنت سے نادان ہی منکر ہوسکتا ہے.اس وقت ایک مجموعہ طب کی بھاری ضرورت ہے جس پر ملک کی بہبودی منحصر ہے.مہتہ سیتا رام جی دت کویراج کویرنجن، ادتیہ، اوشد ہالہ، صدربازار، راولپنڈی کی محنت بہت ہی قابل قدر ہے.ہندو مسلمانوں کی کشیدگی خدا کرے ملک کی ترقی کا موجب ہو.مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر ملک اس رسالہ کی قدر کرے.دستخط نورالدین از قادیان (البدر جلد ۱۱ نمبر۲۴ مؤرخہ ۷؍ مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ ۳) بِسْـمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْــــمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اشتہار ضروری مجھے اس بات کو معلوم کرکے بہت افسوس ہوا ہے کہ فنڈ یتامیٰ اس وقت پانچ چھ سو روپیہ کا مقروض ہے اور جہاں اس کے اخراجات دو سو روپیہ ماہوار کے قریب یا اس سے بھی بڑھے ہوئے ہیں آمدنی پچاس روپیہ ماہوار بلکہ اس سے بھی کم ہے.اس لئے میں جماعت کے مخلصوں کو اس طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.

Page 26

Page 27

یتیم کوئی اس کا اپنا رشتہ دار ہو یا کوئی اور ہو.میرے دوستو! تم میں سے کون ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں ہو.پس تم علیحدہ علیحدہ تو یتیموں کے کفیل بن نہیں سکتے.اگر تم اس ثواب میں شریک ہونا چاہو تو یتیم فنڈ کے لئے کچھ اپنے ذمہ لگالو خواہ وہ تھوڑی رقم ہی ہو.یہاں انجمن کی زیر نگرانی تمہاری قوم کے بہت سے یتیم بچے پرورش پارہے ہیں اور بہت سے ہیں جن کی درخواستیں آتی ہیں.پس جو شخص تم میں سے، جو شخص تم میں سے ان کی پرورش کے لئے چندہ دیتا ہے وہ یتیم کی کفالت کرتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے مخلص جلد اس طرف توجہ کرکے یتیم فنڈ کی موجودہ حالت کو ایسا بنانے کی کوشش کریں گے کہ اس کے لئے دوبارہ مجھے کہنے کی ضرورت نہ ہو.نور الدین (الحکم جلد ۱۶ نمبر ۱۰ مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ۲) لغویات سے بچو ایک روز (اٰل عمران:۱۰) پر ایک شخص نے اعتراض کیا کہ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ’’اللہ تعالیٰ کسی جنتی کو دوزخ میں ڈال دے.‘‘ اس پر آپ نے ایک تقریر بڑے جوش سے فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں بامراد ہونے والے مومنوں کی یہ بھی ایک صفت ہے  (المومنون:۴) جو لوگ لغو سے اعراض کرتے ہیں.لوگوں نے قرآن مجید کی غرض کچھ اور سمجھی ہو مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ’’قرآن مجید کے پڑھنے سے غرض عمل ہے.‘‘ اس واسطے لغو باتوں میں کبھی وقت ضائع نہ کرو.ان لغو امور کی میں مختصر سی مثال سناتا ہوں.مثلاً آدم کی پیدائش پر بحث شروع کردی کہ آدم حوا سے پیدا ہوا یا حوا آدم سے؟ وہ کہاں پیدا ہوا؟ جنت کہاں تھا؟ وہاں سے نکل کر کہاں گرا.دانہ کس چیز کا تھا یا نوح کی کشتی کس درخت کی لکڑی تھی وغیرہ.یہ تمام امور ایسے ہیں کہ ان کو عمل سے کوئی تعلق نہیں.پس میں تم کو نصیحت کرتا ہوں اس کو ہمیشہ یاد رکھو کہ کبھی اس قسم

Page 28

کی بحثوں میں نہ پڑو تفسیروں کو پڑھو تو جہاں اس قسم کی بحثیں آئیں ان کو چھوڑ دو.اسی طرح پر بہت سے لوگ خدا تعالیٰ کی صفات پر بحثیں کرتے ہیں.اور میں نے دیکھا ہے کہ امکان کذب باری پر کتابیں لکھی ہیں.یہ سوال بھی اسی قسم کا ہے.میں پھر تاکید کرتا ہوں کہ یہ سب لغو باتیں ہیں.پھر اسی سلسلہ میں بعد درس فرمایا کہ قدرت و طاقت اور اس کا حیز فعل میں آنا قدرت اور طاقت جدا امر ہے اور اس قدرت کا حیز فعل میں آنا امر دیگر.مثلاً ایک شخص ہے وہ اپنی بیوی سے جماع کرتا ہے، اس کے قویٰ درست ہیں، کیا اس سے یہ نتیجہ نکال لیں کہ وہ اپنی لڑکی یا بہن سے بھی جماع کرسکتا ہے؟ ایک شریف اور غیور انسان کب یہ پسند کرسکتا ہے.پھر تعجب کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق ایسی ناقص اور ردّی صفات منسوب کی جائیں.خدا تعالیٰ قادر ہے یہ ایک جدا بات ہے مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ افعال ذنبیہ کا ارتکاب بھی کرتا ہے نہایت بے ادبی اور گستاخی اور جرأت ہے.توبہ کرنی چاہئے.ایک نو مسلم کو اسلامی تلقین ۱۵ ؍ مارچ بعد نماز جمعہ حضرت امیرالمؤمنینؓ مکان پر تشریف لائے.اخویم غلام حسین صاحب دفتر ملٹری اکونٹنٹ راولپنڈی نے اپنے ایک دوست مسٹر جی جی سمتھ عیسائی کو پیش کیا کہ یہ مسلمان ہونا چاہتے ہیں اور اسی غرض کے لیے میرے ہمراہ آئے.مسٹر سمتھ بعہدۂ کمپونڈر شفاخانہ ملازم ہیں.حضرتؓ نے اوّل امیر احمد صاحب قریشی کو حکم دیا کہ ان کے یہ کپڑے جو اب پہنے ہوئے ہیں تبدیل کراؤ یعنی ہمارے گھر سے کپڑے منگواکر پہناؤ.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب مسٹر سمتھ تبدیل لباس کے بعد آئے آپ نے فرمایا.میرا عقیدہ یہ ہے کہ مذہب کا بوجھ جو اللہ تعالیٰ کسی کے اوپر رکھتا ہے تو چونکہ وہ رحیم و حکیم ہے ایسا نہیں کرسکتا کہ جو ایک من بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اس پر دس من بوجھ رکھ دے.مذہب ایسا صاف اور سیدھا ہونا چاہئے کہ اس کو عامی جاہل آدمی بھی سمجھ سکے کیونکہ مذہب تو سب کے لیے ہوتا ہے.خدا تعالیٰ اگر انسان کا جنم لے سکتا ہے تو جو لوگ کہتے ہیں کہ رامچندر جی پرمیشر کے اوتار تھے یا کرشن خدا تھے تو ان میں اور مسیح کو خدا ماننے والوں میں فرق ہی کیا ہوا.پھر جو کوئی جرم کرتا ہے

Page 29

عیسائی عدالتوں میں اس کو سزا دی جاتی ہے.گورنمنٹ بھی مجرم کو سزا دیتی ہے.پس کفارہ پر تو ایمان نہ ہوا.اب اگر یہ کہا جائے کہ کفارہ سے انسان جرم کرتا ہی نہیں تو پوچھنا چاہئے کہ عیسائی جرم کیوں کرتے ہیں؟ جیل خانوں میں کوئی عیسائی نہ ہونا چاہئے.میری سمجھ میں جو مذہب آیا ہے وہ اسلام ہے.اسلام ایسا سیدھا مذہب ہے کہ اس کا کوئی کلمہ چھپا ہوا نہیں.کوٹھوں اور بلند میناروں پر چڑھ کر بڑے دور سے پکارتے ہیں اللّٰہ اکبر (اذان دیتے ہیں) اللّٰہ اکبر سے پرے اور کلمہ کیا رہ گیا.تمام کائنات کا خالق، تمام اچھی اور اعلیٰ صفات سے موصوف، تمام عیبوں سے منزہ اور بدیوں سے پاک اور عبادت کے لائق وہ ہے جس کو اللّٰہ کہتے ہیں.اس کی ذات جیسی کوئی ذات نہیں.اس کی صفات جیسی صفات کسی میں نہیں.جو بڑائی ہم اس کی کریں وہ بڑائی کسی دوسرے کی جائز نہیں.دنیا میں جو ایسے لوگ آئے کہ انہوں نے نیکی سمجھائی اور خدائے تعالیٰ کی رضا کی راہ بتائی بعد میں لوگوں نے ان کو خدا بنالیا.عیسائی خود اس کا نمونہ ہیں.حضرت مسیحؑ آئے تھے خدائے تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے، لوگوں نے خود ہی ان کو خدا بنالیا.ہمارے اسلام نے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ سکھا کر اور اسلام کا جزو لازم قرار دے کر ہم کو بتایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور بندے ہیں ان کو خدا ہرگز نہ بناؤ.قرآن شریف اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب ہے.کبھی بیٹھے بیٹھے نیکی کا کبھی بدی کا کوئی خیال آجاتا ہے.نیکی کا خیال جن ذرائع سے ہوتا ہے ان کو فرشتہ کہتے ہیں.نیکی کا خیال آئے تو انسان ضرور اس کو کر گزرے.مر کر ہم فنا نہ ہوں گے.ہم مرکر کسی اور عالم میں جائیں گے جو ہماری آنکھ سے غائب ہے.اور یہ عقل کے خلاف نہیں.اسلام کے معنی ہیں فرمانبرداری اور پابند ہونا.میں نے وید، ژند، استا، دساتیر، گاتھ، سفرنگ وغیرہ پڑھے ہیں اور خوب پڑھے ہیں مذہب کا نام کسی نے کوئی نہیں بتایا.ہمارے مذہب کا نام اسلام ہی ایک بڑی بھاری حجت ہے.توحید میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُنے کمال کردیا.ملائکہ کے متعلق ان کی تحریک نے.پھر مذہب کا نام اسلام ایسا رکھا ہے جو کسی نے نہیں رکھا.فرمانبرداری کے نشانوں میں نماز، حج، زکوٰۃ، روزہ ہیں.اگر تمہارا دل میری ان باتوں کو مانتا ہے اور

Page 30

تم سمجھ گئے ہو تو تم مسلمان ہوگئے ورنہ ہم سے سمجھ سکتے ہو.اقرار کرنے کا نام ہی بیعت ہے.ہاتھ میں ہاتھ لے کر پھر مختصراً مذکورہ بالا باتیں فرمائیں اور حسب معمول بیعت ہوئی.پھر فرمایا.میرے آپ فرمانبردار ان باتوں میں ہیں.اسلام اسی کا نام ہے.اسلام کوئی بھید نہیں ہے.عیسائی مذہب میں عیسائی ہونے کے بعد کچھ کرنا نہیں پڑتا.اسلام میں نماز روزہ وغیرہ فرمانبرداری کے نشان بجالانے پڑتے ہیں.اسلام میں دقت اور تکلیف کچھ نہیں، آسانی ہی آسانی ہے.نام انسان کوئی رکھے اسلام میں رہ سکتا ہے.مگر مذہب کے ساتھ نام بھی تبدیل کرہی لیتے ہیں.میں تمہارا نام عبدالحی رکھتا ہوں.عبدالحی ہمارا ایک بچہ ہے.اس کے بعد حاضرین نے عبدالحی صاحب نومسلم سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی.حضور اندرتشریف لے گئے اور عبدالحی صاحب اپنے جائے قیام کو اپنے دوست مسٹر غلام حسین صاحب کے ہمراہ گئے.والسلام نور الدین بہ حیثیت پیر ایک دن فرمایا کہ بعض لوگ دنیا میں چاہتے ہیں کہ کوئی ان کا مرید ہو اور مرید بنانے سے ان کی مختلف اغراض ہوتی ہیں.کوئی جمع جتھا بنانا یا روپیہ پیسہ اکٹھا کرنا چاہتا ہے مگر میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں کبھی خواہش نہ تھی کہ لوگ میرے مرید ہوں بلکہ میں نے خود مرید ہونا پسند کیا اور میری خواہش، آرزو کے بغیر جب اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو میرے ہاتھ پر مرید کردیا اور میں پیر ہوگیا تو مجھے پھر بھی یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ میں تمہارے اموال پر قبضہ کروں.میں اپنی ضروریات زندگی کے لیے کسی انسان کا ایک لحظہ کے لیے بھی محتاج نہیں ہوں.حتیٰ کہ میری اتنی خواہش بھی نہیں کہ کوئی مجھے آکر سلام کرے.اموال لینا تو درکنار، میری ضروریات زندگی کا وہی متکفل ہے جو ہمیشہ سے رہا ہے.ایک مرتبہ انجمن والوں نے میرے لیے وظیفہ کی تجویز کی.میں نے اس تجویز کو سنا تو مجھے سخت کرب ہوا کہ افسوس ساری عمر خدا تعالیٰ پر بھروسہ کیا کہ وہ آپ ہی دے اور اب انسانوں کی طرف توجہ ہو.میں نے فوراً ان لوگوں کو منع کردیاکہ میں ایسی رقوم نہیں لیتا اور نہ مجھے ضرورت ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے محض

Page 31

فضل و کرم سے مرزا صاحب کے بعد میں نے سلسلہ کی ضروریات کے لیے اپنے چندوں میں پہلے سے زیادتی کردی ہے.غرض میری خواہش نہ پیر بننے کی تھی اور نہ ہے.اور اب جو خدا تعالیٰ نے مجھے اس منصب پر مقرر کردیا میں خدا تعالیٰ کے اس فضل کی بے ادبی سمجھتا ہوں اگر اس سے پہلو تہی کرتا.اس پیر بننے نے میرے مشاغل میں زیادتی کردی.قوم کے جوانوں ، بچوں، بوڑھوں، عورتوں، لڑکیوں، بیماروں، مقدمات میں مبتلا، زیرباروں اور مختلف قسم کے حاجت مندوں کے لیے مجھے بہت وقت دعاؤں میں صرف کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور میں خدا ہی کی توفیق سے اس فرض کو ادا کرتا ہوں جس طرح پر پیر بننا مشکل ہے اسی طرح مرید بننا بھی سہل نہیں ہے.بیعت کے معنے بک جانا ہے.جو شخص بک جاتا ہے اس کا پھر اپنا کچھ نہیں رہتا.اپنی تمام آرزوؤں اور خواہشوں کو چھوڑ دینا پڑتا ہے اور پیر کی سچی فرمانبرداری حسن ظن کے ساتھ لازمی ہوجاتی ہے.میں اپنے فرائض کو سمجھتا ہوں مگر تمہیں مرید ہونے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ تم کس قدر نازک ذمہ واری کے لیے آگے بڑھتے ہو.بڑی دعائیں اور استخارے کرنے چاہئیں.پیری مریدی کچھ آسان نہیں ہے اور نہ یہ تر نوالہ ہے جو آسانی سے منہ سے اتر جاوے خدا کے فضل سے ہی بیڑا پار ہوتا ہے.(الحکم جلد۱۶ نمبر۱۱ مؤرخہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ ۴،۵) ملفوظات حضرت خلیفۃ المسیح (مرقومہ محمد عبداللہ بوتالوی) مسلمانوں کی حالت فرمایا.مسلمانوں میں آیات الکتاب کاکفر بہت ہے اسی وجہ سے مسلمان تباہہورہے ہیں.کنجر اور کنچنیاں اور بھڑوے سب مسلمان کہلانے والے ہیں.جیل میں بھی مسلمان زیادہ جاتے ہیں.میں نے ایک جیل کی بابت دریافت کیا.۳۳۵ قیدیوں میں سے ۳۲۲ مسلمان تھے.ایک نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے.میں نے کہا کہ چلو ذرا

Page 32

مدرسہ کا حال بھی معلوم کریں.وہاں چودہ سو میں سے ۱۴ طالب علم مسلمان تھے.زانی اور لونڈے باز اکثر مسلمان.حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر لواطت کا ذکر قرآن مجید میں نہ ہوتا تو مجھے معلوم ہی نہ ہوتا کہ یہ بھی بدکاری ہوتی ہے.میری فطرت بھی اس بات کو تسلیم نہ کرتی تھی.ایک دفعہ میں نے جب طب کی کتاب میں مرض اُنبہ کا حال پڑھا تو میں نے نہ مانا کہ ایسے الٹے فعل کا وجود بھی دنیا میں موجود ہے اور کہ یہ کام انسان کرسکتا ہے.پھر ڈاکہ مارنے والے اکثر یہی لوگ ہیں.پھر عورتوں کو جائداد کا حصہ دینے سے مسلمانان پنجاب نے انکار کردیا ہے.یہ کتنا ظلم اور قرآن شریف کی خلاف ورزی ہے.ہمارے ایک دوست رئیس تھے.میں اس وقت جوان تھا.ہمارے ساتھ مذہبی لڑائیاں ہوتی رہیں وہ ہمارا ساتھ دیتے تھے.ایک اور رئیس ان کے مقابلہ کا تھا.جب وہ ملا تو اس نے کہا کہ تم نورالدین کے پاس کیا جاتے ہو وہ تو وہابی ہے.وہ دونوں رئیس ضلع کی کمیٹی میں شریک تھے.جب وہ دونوں کمیٹی پر چھاؤنی گئے تو ہیڈکلرک کو کہا کہ بندوبست کی مسل لاؤ.وہ امیر بھی آگیا.اس کو مسل کا وہ مقام نکال کر دکھایا کہ جہاں پر عورتوں کو حصہ جائداد دینے کا فیصلہ درج تھا.مہتمم بندوبست نے لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا ہوا تھا اور اس امیر نے جواب لکھایا ہوا تھا کہ ہم ان کو حصہ نہیں دیں گے.پھر مہتمم نے سوال کیا کہ تمہارا رسول تو دیتا تھا مگر اس نے پھر یہی لکھایا کہ ہمارا رواج نہیں ہے.اس پر اس نے پوچھا کہ رفع یدین کو تم جانے دو یہاں تم نے کیا کیا ہے.وہ نادم ہوکر لاجواب ہوگیا.فرمایا.مسلمانوں میںکسل بہت ہے، خودپسندی اور خود غرضی بہت ہے.میرے دیکھتے دیکھتے گیارہ ریاستیں برباد ہوگئیں.سمر۱قند، بخا۲را، یار۳قند، دہلی۴، اود۵ھ، زنجبا۶ر، مصر۷، ٹیونس۸.اب ایر۹ان بھی جاتی ہے اور عرب کاسارا کنارہ جاتا ہے.طرابلس۱۰ پر لڑائی ہے، مراکش بلا لڑائی کے لے لیا ہے.یہ سب کچھ ہورہا ہے مگر مسلمانوں کے کانوں پر جوں نہیں چلتی.  (الشوریٰ :۳۱).

Page 33

حالت طلباء پانچ گروہ ہیں.علماء۱، صو۲فیاء، امر۳ا، طلبۃ۴ العلوم اور عوام ۵الناس.امیر یہچاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی دکھ نہ دے اور ہم مزے اڑاتے رہیں.علماء شرعی احکام پر عامل نہیں رہے.گدی نشینوں کو یہ خواہش ہے کہ ہماری طرف لوگوں کا رجوعات ہو اور بس.خدا اور رسول کی فرمانبرداری سے نہ خود ان کو غرض ہے نہ دوسروں کو چلانا چاہتے ہیں.طالب علموں پر بہت مصیبتیں ہیں.لڑکوں کے اصلی نگران نہیں رہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَلْمَرْئُ عَلٰی مَذْھَبِ خَلِیْلِہٖ(مسند احمد بن حنبل مسند المکثرین من الصحابۃ مسند ابی ہریرۃؓ حدیث نمبر ۸۰۲۸) آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے.لڑکے ایک دوسرے کی صحبت میں وہ وہ باتیں سیکھتے ہیں جو ان کے شیطان کو بھی معلوم نہیں ہوتیں.خشیۃ اللہ کا کوئی علم ان کو نہیں پڑھایا جاتا.پندرہ برس انگریزی پڑھتے رہیں اس میں خشیۃ اللہ کا ایک مضمون بھی نہ آوے گا.جو عربی پڑھائی جاتی ہے وہ بھی خشیۃ اللہ کے خلاف کہتی ہے.تصوف اور اسلامی تاریخ درس میں سے نکال دی گئی ہیں.کیا مصیبت کا وقت ہے.ان کے تفسیر پڑھنے کا یہ حال ہے کہ ایک شخص جو میرا ہم جماعت تھا اور تفسیر بیضاوی پڑھا کرتا تھا اس نے ایک دن فضل الدین صاحب سے کہا کہ حکیم جی تفسیر بیضاوی کا جو متن ہے یہ بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے.یہ کہیں سے مل جاوے تو بہت عجیب ہو.حکیم صاحب نے ہنس کر کہا کہ اس کا ملنا تو دنیابھر میں مشکل ہے.پھر باوجود علم سے اس قدر بے خبری کہ میں دیکھتا ہوں کہ بعض طالب علم مڈل میں پہنچ کر مذاہب پر ریویو کرنے لگ جاتے ہیں.ایک شخص نے اپنے باپ کو تو حضرت صاحب کا مرید کیا اور پھر خود کچھ عرصہ کے بعد دہریہ ہوگیا.ایک دن مجھے قادیان میں کہا کہ کوئی طاقت آپ کے پاس ہے کہ میری تسلی کرادیوے؟ میں نے کہا کہ میں چپ کرادوں گا.میں نے کہا کہ تم کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ دلیل سناؤ.جو دلیل اس نے سنائی اس کا جواب مجھے اچھا سوجھا.میں نے اس کو ردّ کردیا اور کہا کہ یہ دلیل تو تمہاری لغو ہے.وہ چپ ہوگیا اور کہا کہ میری ابھی تسلی نہیں ہوئی.میں نے کہا کہ یہ اللہ کے اختیار میں ہے.(۹ ؍مارچ ۱۹۱۲ء) (البدر جلد۱۱ نمبر۲۵ مؤرخہ ۲۸ ؍مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ ۳)

Page 34

جس نے بیوی کو تین دفعہ حرام کیا سوال ہوا کہ ایک شخص نے غصے میں آکر اپنی بیوی کو تین دفعہ کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے، اب پچھتاتا ہے.اس کی نسبت کیا حکم ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.یہ طلاق نہیں ہے بلکہ قسم ہے اس نے اپنی بیوی کو اپنے واسطے حرام کہا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.(المائدۃ:۸۸) اور فرمایا ہے. (التحریم:۲)جو شے اللہ تعالیٰ نے تجھ پر حلال کی ہے تو اسے اپنے اوپر کیوں حرام کرتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.  (التحریم:۳) اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے کہ قسموں کو کھول دو.پس اس شخص پر لازم ہے کہ اپنی قسم کا کفارہ دیوے تاکہ اس کی بیوی اس پر حلال ہوجاوے.غیر احمدی کے پیچھے نماز ایک شخص نے دریافت کیا کہ ایک غیراحمدی نیک طینت پنجوقتہ نماز گزار حضرت مرزا صاحب کا مدح خوان ان کے دعوے پر غور کررہا ہے.کیا ایسے شخص کے پیچھے احمدی نماز پڑھ لے؟ فرمایا.یہ سب ترکیبیں ہیں جو لوگ بناتے ہیں.میں ایسی تراکیب کو پسند نہیں کرتا.کلام امیر (رقم زدہ منشی محمد عبداللہ صاحب) اللہ تعالیٰ خود قرآن شریف کی تفہیم کر دیتا ہے فرمایا کہ میں چھوٹی مسجد میں نماز پڑھتا تھا.بین السجدتین دل میں خیال اٹھا اور میں نے دعا کی کہ خدایا! دھرم پال نے جو ترک اسلام میں مقطعات قرآنی پر سوال کیا ہے اس کا صحیح صحیح جواب مجھے سمجھا دے.تیرا وعدہ ہے کہ ہم تم کو قرآن شریف کے معانی بتائیں گے اور مشکلات سمجھائیں گے.معاً دوسرے سجدہ میں جانے سے پہلے مجھے جواب سمجھایا گیا.جس کو میں نے کتاب نورالدین میں درج کردیا ہے.

Page 35

الہام کے اقسام فرمایا کہ (۱)یا تو زبان بے اختیار ہوجاتی ہے اور کلام جاری ہوجاتا ہے.(۲) یا ایسی آواز ہوتی ہے جس طرح کٹورے کو چھنکایا جاوے تو بعد میں ایک سُر سی پیدا ہوجاتی ہے.(۳) یا کسی آدمی کی شکل سامنے آجاتی ہے اور وہ بولنے لگ جاتا ہے اور دل میں القاء ہوجاتا ہے کہ یہ وحی ہے.(۴) یا اس طرح سے آواز آتی ہے جس طرح دور سے کسی کا سَدّ سنائی دیتا ہے.اور بھی اقسام ہیں مگر یہ صورتیں میرے دیکھنے میں آئی ہیں.جھوٹ کا دخل بے جا ایک صاحب کا سوال تھا کہ سچے سلسلہ میں جھوٹ بھی دخل دینے لگ جاتا ہے اس میں کیا حکمت الٰہی ہے؟ فرمایا.ہر ایک سچائی کے ساتھ جھوٹ لگا ہوا ہے.حتیٰ کہ گورنمنٹ کا جو رائج الوقت سکہ ہے اس میں بھی جھوٹ اور جعلسازی کا دخل مواد ہے.ہم نے بعض ایسے روپے دیکھے ہیں جن پر ایک باریک سا نقطہ ہوتا ہے پھر کسی پر دو کسی پر تین.یہ روپے جعلی ہوتے ہیں اور اس نقطہ کی تعداد اس بات کے اظہار کے واسطے ہوتی ہے کہ اب اتنے لاکھ روپیہ اس قسم کا نکل چکا ہے.ایک لاکھ بناتا ہے تو ایک نقطہ دے دیتا ہے.اور جب دو لاکھ بناتا ہے تو دو نقطے دے دیتا ہے.دنیا کے سارے ہی کارخانے میں سکھ کے ساتھ دکھ موجود ہے.حدیث ہے تو وہاں بھی جھوٹی اور وضعی حدیثیں موجود ہیں.پھر ریل کیا آرام کی چیز ہے مگر ساتھ ہی کبھی کبھی کولیژن (ٹکریں) بھی ہوجاتی ہیں جس سے بڑا بڑا نقصان ہوجاتا ہے جہاز کیسے آرام کی چیز ہے مگر اس میں بھی بعض وقت بڑا نقصان پہنچ جاتا ہے.آگ لگ جاتی ہے، غرق ہوجاتے ہیں.رؤیا کیسی مفید چیز ہے مگر اس کی بھی تعبیر کبھی سمجھ میں آتی ہے کبھی نہیں آتی.پھر اس کی تفہیم میں طرح طرح کے مشکلات ہوتے ہیں.تجارت کا بھی یہی حال ہے.ایک خبرآتی ہے کہ فلاں مال کی یہاں بہت طلب ہے.پھر لوگ اپنے گھر کا مال اسباب فروخت کرکے وہ

Page 36

مال خرید کر وہاں پہنچاتے ہیں.چونکہ کئی جگہ ایسی چٹھیاں جاتی ہیں اس واسطے وہ مال بہت جمع ہوجاتا ہے اور اس طرح بعض دفعہ سب کو بجائے فائدے کے نقصان ہوتا ہے.زراعت میں بھی کبھی بیج بھی واپس نہیں آتا.مقدمات میں ہر ایک آدمی یقین کرتا ہے کہ میں ہی کامیاب ہوں گا پھر بھی کبھی نتیجہ الٹا ہو جاتا ہے.آپ (مخاطب شیخ محمد حسین خاں صاحب ڈسٹرکٹ جج تھے) خواہ کتنا ہی سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں پھر بھی اپیل میں کبھی الٹ جاتا ہے.میرے دل میں اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مفید اور بابرکت چیز بابرکت ہی رہتی ہے.حدیث کو لو.جھوٹی حدیثیں بھی ہیں مگر سچی بھی ہیں.خدا کے فضل سے میرے پاس ایسے مصالحے موجود ہیں کہ میں ان کے ذریعہ سے جھوٹی حدیث کو معلوم کرلیتا ہوں.یہ ایک ملکہ ہوجاتا ہے.ہاں غلطی بھی لگ جاتی ہے مگر آخر پتہ لگ ہی جاتا ہے.ان باتوں میں کثرت اور قلت کا لحاظ کرلیا جاتا ہے.قوت اور ضعف کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے.جناب الٰہی کی باریک در باریک حکمتیں جس طرح اس کے افعال میں پائی جاتی ہیں اسی طرح اس کے اقوال میں بھی پایا جاتا ہے.چونکہ افعال میں ایسی باتیں دیکھنے کے لوگ عادی ہوگئے ہیں اس واسطے ان اختلافات کو محسوس نہیں کرتے.دیکھو ہوائی جہازوں سے بہت نقصان بھی ہوئے مگر لوگ ان کو مفید ہی خیال کرتے ہیں.اسی طرح الٰہی سلسلہ میں بھی کثرت کا خیال رکھ کر اس کے مفید ہونے کا فیصلہ کرنا چاہیے.آسمان پر تیر فرمایا.حدیث میں ہے کہ یاجوج ماجوج جب چڑھائی کریں گے اور اہل زمین پر فتح پالیں گے تو کہیں گے کہ اب ہم نے زمین کے لوگوں کو تو قتل کرلیا ہے آسمان میں بھی تیر چلائیں گے.میں اس کے یہ معنے لیا کرتا تھا کہ اہل اللہ لوگوں کو جو آسمانی ہوتے ہیں تیر چلائیں گے.اب ہوائی جہازوں کے ذریعہ ان کی بلندپروازی ظاہر ہورہی ہے.میرے خیال میں اب یہ لوگ ان جہازوں کے مقابلہ کی کوئی چیز تیار کریں گے.

Page 37

دجال کی حدیثیں فرمایا.یہاں ایک مولوی صاحب آئے تھے.میں نے ان کو دکھلایا کہ دجال کی حدیث میں کس قدر اشکال لوگوں کو پیدا ہوئی ہیں.ایک حدیث ہے کہ جوان ہوگا.ایک حدیث میں ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھا.اس حساب سے وہ اب تک بڈھا کیوں نہ ہوا ہوگا.ایک حدیث میں ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے.دوسری حدیث میں ہے کہ دجال بہت سی مخلوق بنائے گا.باپ، بہن اور بھائی بھی بنالے گا.ایک حدیث میں ہے کہ مغرب میں ہوگا.ایک حدیث میں ہے کہ مشرق میں ہوگا.ایک حدیث میں ہے کہ عراق اور شام کے درمیان ہوگا.ایک حدیث میں ہے کہ روٹیوں اور پانیوں کے پہاڑ اس کے ساتھ ہوں گے اور جب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکرکیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ کیا خدا کے دشمنوں کو ایسی عزت مل سکتی ہے.میں نے ان کو یہ سنایا کہ اب یہاں کوئی کیا کرسکتا ہے اور ایک آدمی میں یہ سب باتیں کس طرح جمع ہوسکتی ہیں.دراصل یہ سب باتیں قوت قدسیہ سے درست ہوسکتی ہیں.اس میں اللہ تعالیٰ کی باریک در باریک حکمتیں ہوتی ہیں.مثلاً ایک بچہ اگر مدرسہ میں نہیں جاتا تو اس کو کہا جاتا ہے کہ اگر تم جاؤ گے تو ہم تم کو ایک چیز دیں گے.پھر جب وہ چیز اس کو دی جاتی ہے تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ یہی کچھ ہے جو مجھ کو دیا جاچکا ہے مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ اس چیز کی کیا ہستی ہے.ہم کو تو ایم اے تک تعلیم دلا دو تب ہم خوش ہوں گے.ہر ایک بات کی حقیقت ایک وقت مقرر سے پہلے نہیں معلوم ہوسکتی.کیسے آدمیوں کی ضرورت ہے فرمایا کہ ایک شخص بڑا انگریزی خوان اور لسان تھا.وہ یہاں قادیان میں آیا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ایک جلسہ کرکے آپس میں لیکچر بازی کرکے معلوم کریں کہ اسلام کے واسطے فی زمانہ کیا مفید بات ہے.وہ شخص بڑا مدلل تھا اس نے اپنے لیکچر میں اس بات پر بڑا زور دیا کہ ہم کو اس وقت بڑے سائنسدانوں اور لیکچراروں کی ضرورت ہے.اب سوائے انگریزی خوانوں کے دوسرے پر امید رکھنے سے بڑھ کر کوئی اور جہالت ہی نہیں.غرض اس

Page 38

کی تقریر کا بڑا اثر لوگوں پر پڑا.جب وہ تقریر ختم کرکے بیٹھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب انگریزی جانتے ہیں؟ اس نے کہا.نہیں مگر ان کا فلاں مرید انگریزی خواں ہے.ہم نے کہا کہ تم خود بھی بڑے انگریزی خوان ہو مگر تمہارا بھی کوئی معتقد ہے.اس نے کہا.ہم کو تو لوگ ُبرا ہی سمجھتے ہیں.میں نے کہا کہ تم نے تو یہ زور دیا ہے کہ اسلام کو انگریزی خوانوں کی ہی ضرورت ہے.اب آپ کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی معتقد نہیں.سو آپ لوگ کسی کام کے نہیں یہی لوگ کام کے ہیں.پھر میں نے کہا کہ آپ لوگوں کے باوا آدم سر سید صاحب انگریزی پڑھے ہوئے ہیں.کہا کہ وہ تو بولنا بھی نہیں جانتے.میں نے کہا کہ تم سب لوگ اس کے پیچھے ہو اور اس جیسا کسی کو عظمت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے.یہ دوسرا ثبوت ہے اس بات کا کہ آپ کو غلطی لگی ہے.پھر اس نے کہہ دیا کہ خدائی لوگوں سے ہی فائدہ پہنچتا ہے.ہم لوگوں میں نمونہ نہیں ہوتا.جلد بازی اچھی نہیں ایک صاحب جنہوں نے رات کو حضرت خلیفۃ المسیح سے یوکلڈ (اقلیدس) شروع کی اور دن کو یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے صرف فلاں فلاں موقع سمجھا دیا جاوے تو کافی ہے.اس پر فرمایا کہ دیکھو اشکال معہ حواشی پندرہ مقالہ اقلیدس دنیا بھر میں کسی کے پاس ہی پائو گے.میں بڈھا آدمی ہوں.اس پر بھی میرا خیال تھا کہ میں ہفتہ عشرہ تک پڑھا دوں گا.رات کو صرف اصول موضوعہ ہی پڑھے اور اب جلدی ختم کرنے کی پڑ گئی.ایک ہفتہ ہی صبر کرتے کہ میں تمہیں یوکلڈ کا عالم بنا دیتا.میں نے تمہارے سبق کی خاطر وہ وقت دیا ہے کہ جب میں عشاء کے بعد کسی سے بات نہیں کرتا.اسی طرح ایک مولوی عبدالقادر رام پور میں ہوتے تھے ڈپٹی تھے.بڑے ہوشیار تھے.وہ طالب علموں کو بھی پڑھایا کرتے تھے.ایک شخص نے جا کر کہا کہ میرا بیٹا تحصیل کرچکا ہے اب آپ اس کو صرف شرح چغمینی جلدی پڑھا دیویں.مولوی صاحب نے کہا کہ پڑھا دیں گے.پھر اس نے کہا کہ میں اس کو لینے آیا ہوں آپ جلدی پڑھادیویں.انہوں نے کہا کہ جلدی پڑھا دوں گا.پھر اس نے کہا کہ میں یہاں بیٹھا ہوںآپ ابھی پڑھا دیویں.انہوں نے لڑکے کو بلایا اور کاغذ پر لفظ شرح چغمینی لکھ کر لڑکے کو ہجا کرا دیا اور کہا کہ لو بابا.رخصت.

Page 39

حکمت سے سمجھائو فرمایا.انہیںمولوی عبدالقادر صاحب کے پاس ایک بڑا پیچیدہ مقدمہ آیا.انہوں نے اس کی چھان بین میں بہت محنت کی اور فیصلہ کردیا.جس کے برخلاف فیصلہ ہوا وہ نواب صاحب کا آدمی تھا اس نے جاکر نواب صاحب سے کہا.نواب صاحب نے اس سے اپیل لے لی اور برخلاف فیصلہ کردیا.مولوی صاحب نے جب یہ حال سنا تو ان کو بہت حیرانی ہوئی.کئی دن سوچتے رہے مگر کوئی وجہ سمجھ میں نہ آئی کہ کس طرح نواب صاحب نے فیصلہ کو توڑا ہے.آخر نواب صاحب کے پاس گئے اور جاکر پوچھا کہ میں نے اس مقدمہ پر بہت محنت کی تھی اور اپنی طرف سے تحقیقات کا کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا تھا.مجھے اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ آپ نے کن وجوہات پر بر خلاف فیصلہ دیا ہے.نواب صاحب نے سرسری کہہ دیا کہ تقدیر ہی ایسی تھی.یہ بات سن کر مولوی صاحب نہایت ادب سے واپس چلے آئے اور ذرہ بھی ملال کا اظہار نہ کیا.آکر اجلاس لگایا اور منشی سے پوچھا کہ ہمارے پاس کس قدر امثلہ دائر ہیں.اس نے بہت سی تعداد بتائی.کل مثلیں منگوائیں اور ہوشیار منشی ادھر ادھر بٹھا لئے اور حکم لکھوانے شروع کئے.کسی پر ڈسمس ، کسی پر ڈگری، کسی پر کچھ کسی پر کچھ لکھوانا شروع کیا.منشی نے پوچھا وجوہ بھی لکھوائو.مولوی صاحب نے کہا کہ لکھ دو ’’ تقدیر ‘‘.جب کل مثلوں کا فیصلہ ہوگیا تو ان منشیوں کو حکم دیا کہ یہ سب انبار لدوا کر فلاں راستہ سے گزر کر دفتر میں لے جائو.وہ راستہ نواب صاحب کی نشست گاہ کے پاس سے گزرتا تھا.نواب صاحب نے دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ انہوںنے کہا کہ مولوی صاحب نے آج کُل متدائرہ مثلوں کا آناً فاناً فیصلہ کردیا ہے اور اب داخل دفتر کرنے کے واسطے بھیج دی ہیں.نواب صاحب تاڑ گئے.انہوں نے کہا کہ مثلیں واپس لے جائو اور مولوی صاحب کو بلائو.جب مولوی صاحب آئے تو پوچھا کہ آپ نے یہ کیا فیصلہ کیا ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ حضور کی رعایا ہے اور حضور کا ہی قانون ہے اور حضور کا ہی یہ فیصلہ ہے.آپ مجھ سے قسم لے لیں کہ میں نے مثل کو دیکھا بھی نہیں.آنکھ بند کرکے تقدیر کا فیصلہ لکھتا رہا ہوں.نواب صاحب نے کہا کہ یہ تو ہمارا خدمت گزار تھا.مولوی صاحب نے کہا کہ میں بھی آئندہ خدمت گزار کے واسطے ڈگری لکھا کروں گا اور باقیوں کو تقدیر پر چھوڑا کروں گا.غرضیکہ نواب صاحب

Page 40

نے تنگ آکر وہ مثل وہاں نظر ثانی کے واسطے مولوی صاحب کے پاس بھیجی تو مولوی صاحب نے پھر بھی اپنا ہی فیصلہ بحال رکھا اور نواب صاحب کے منشاء کی پروا نہ کی.ذریعہ تحریکات فرمایا.مسلمانوں میں ایک بات ترقی کرنے کی ہے کہ مکہ معظمہ میں ہرسال دنیا کے سب حصوں کے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں.اگر وہاں کوئی تحریکیں کرتا رہے تو ان کے دن بدل سکتے ہیں.قومیت فرمایا.دراصل مسلمانوں میں قومیت کی روح نہیں رہی.میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ ایک چھوٹی سی نالی سے فرانسیسی لڑکے کود رہے تھے.مدرسہ کے لڑکے سب کودنے لگے.ایک لڑکا انگریز تھا اس کو ہرنیا کی بیماری تھی جس کے سبب اس کے خصیوں میں سے انتڑیاں نکل جاتی تھیں.ایک نے اس کو منع کیا کہ تم چھال نہ مارو.اس نے کہا کہ میں کیوں فرانسیسی قوم سے پیچھے رہوں.غرضیکہ اس نے چھال ماری اور مرگیا.اس کی وجہ کیا ہے اس میں قومیت کی روح تھی.محکمات فرمایا.مومن کو چاہئے کہ جب قرآن اور حدیث پڑھنے لگے تو محکمات اور متشابہات کا خیال رکھے.اگر قرآن سے کسی بات کا پتہ لگے تو اس کو مان لے.اگر نہیں لگتا تو اس کو محکم سے حل کرے.پھر اللہ سے دعائیں کرے وہ راہ اور حقیقت کھول دے گا.قرآن شریف کو پڑھتے ہوئے اور قصے کہانیوں کا خیال دل سے دور کرلینا چاہیے.بعض لوگوں کی یہ عادت ہے کہ جب متشابہ آیت پڑھتے ہیں تو محکم کا نام نہیں لیتے.دیگر مذاہب پر قرآن کا احسان فرمایا.میں نے دنیا میں جس قدر مذہب دیکھے ہیں وہ دوسرے مذہب کی تعریف نہیں کرتے.قرآن کا ہر مذہب پر احسان ہے.مشرک پراحسان ہے کہ   (الانعام:۱۰۹)یعنی کسی بت کو گالیاں نہ دیا کرو.عیسائیوں پر یہ احسان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر جو الزام تھا وہ دور کیا.اگر عیسائیوں کو خدا کا خوف ہوتا تو وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں دھو دھو کر پیتے.(البدر جلد۱۱ نمبر۲۶و۲۷ مؤرخہ ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ ۲تا۵)

Page 41

ممیرے کا سرمہ اصلی ممیرہ اور ممیرے کے سرمہ کا اعلان عرصہ سے شائع ہورہا ہے اس اثنا میں بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے.یہ سرمہ حضرت خلیفۃ المسیح مولوی حکیم نور الدین صاحب مدظلہ کا بتایا ہوا ہے.آپ نے اس سرمہ کے متعلق فرمایا کہ ’’برائے امراضِ چشم بسیار مفید است‘‘ (البدر جلد ۱۱ نمبر۲۶،۲۷ مورخہ ۱۱ ؍اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۲) معارف قرآن مجید  سورہ زخرف کو اگر غور سے مطالعہ کیا جاوے تو صاف کھل جاتا ہے کہ انہٗ کی ضمیر قرآن مجید کی طرف راجع ہے چنانچہ شروع سورہ میں ہے  (الزخرف : ۴، ۵).یہ اِنَّہٗ قرآن مجید ہے پھر اس سے آگے اسی سورۃ میں دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے. ( الزخرف : ۴۵) یہاں بھی اِنَّہٗ قرآن مجید ہے.آگے چل کر تیسرے مقام پر فرمایا(الزخرف : ۶۲) یہاں کیوں قرآن مجید مراد نہ ہو.اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میںانسان کے تنزل و ترقی کی گھڑیوں کا علم ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ قومیں کیوں کر بنتی اور بگڑتی ہیں.پس تو اے قرآن پڑھنے والے! ان میں شک نہ کرو کیونکہ یہ بہت ہی قطعی اور صحیح اور سچی باتیں ہیں.اگر یہ ضمیر عیسیٰ ؑکی طرف پھیری جائے تو یہ خرابی پڑتی ہے کہ علم صفت ہے اور مبتدا کی خبر صفت نہیں ہوسکتی.پھر اس کا بھی (الزخرف : ۸۶) سے فیصلہ ہوگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام عِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ اور وہ عِلْمُ السَّاعَۃِ خدا کے پاس ہے.اور تم بھی اے مخاطبو! اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے.

Page 42

گے.تُرْجَعُوْنَ اور (البقرۃ : ۱۵۷) سے ظاہر ہے کہ اللہ کے پاس زندہ بجسدہ العنصری موجود نہیں بلکہ جس طرح اور ابرار مر کر جاتے ہیں اسی طرح وہ بھی چلاگیا.سیدنا محمدؐ خاتم النبیین ہیں مشرق میں ایرانیوں کا اثر تھا اور مغرب میں عبرانیوں کا.تمام یورپ،امریکہ ، افریقہ کے کناروں اور جزائرپر بائبل کا اثر اور ایران اور اس کے قرب وجوار و ہندوستان میں ایرانیوں کی کتابوں کا اثر تھا.ہاں عرب پر کسی کا اثر نہ تھا.ان میں بت پرستی تھی اور مکہ ان کا مرکز تھا.ہمارے نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے وہ مرکز فتح کیا جس پر کوئی مغرب یا مشرق کا بادشاہ کامیاب نہیںہوا.حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے میں پہلا حملہ ایران کی طرف ہوا اور ان پر اسلامی تسلط ہوا اور ادھر شام کے ملک کو فتح کرنے کی توفیق حضرت عمرؓ کو ملی.اس طرح پر تمام دنیا میں حجت قائم ہوگئی کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں کیونکہ جب تینوں مشہور مذہبوں کے مرکز ہماری سرکار نے فتح کر لئے تو اب کسی ہادی کے لئے کو ن سا عظیم الشان کام باقی رہ گیا جس کو کرنے کے لئے اس کا مبعوث ہونا ضروری تھا اور اب بھی باوجودیکہ اسلام کی حالت نازک ہے اس خصوص میں اسلام کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا کہ اس کے مذہب کا مرکز اس کے اپنے قبضے میں ہو بلکہ دوسری قوموں کے مذہبی مرکز بھی اسلام ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ بے نظیر فتح ہے اور لازوال نشان ہے.ایک تویہ ختم نبوت کی دلیل ہے.دوم.ایک دعویٰ ہوتا ہے ایک دلیل اگلی کتابوں میں دعوے تو بے شک بہت ہیں مگر دلائل کم.قرآن مجید نے دونوں کام کئے دعاوی اور دعاوی کے ساتھ دلائل بھی ایسے پُرزور کہ انہیں کوئی دنیاوی طاقت باطل نہیں کرسکتی.مثلاً بت پرستی سے منع فرمایا اور بہت سی دلیلوں میں سے ایک دلیل یہ بھی دی  (الاعراف : ۱۴۱) یعنی انسان غور کرے تو دنیا کی تمام چیزیں اسی کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں.پس جو چیزیں مخدوم ہونے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتیں وہ معبود کس طرح ہوسکتی ہیں.یہ بھی ختم نبوت کی ایک دلیل ہے کہ جو دعویٰ کیا ہے اس کی دلیل بھی دی ہے اور یہ بات اور کسی الہامی کتاب میں نہیں اور آئندہ ان سے بڑھ کر اور کیا کوئی دلیلیں دے گا.

Page 43

سوم.تمام مذاہب جو خدا کی طرف سے ہونے کے مدعی ہیں ان میں یہ امر مشترک پایا جاتا ہے کہ وہ دعا کے قائل ہیں.الفاظ دعا میں خواہ اختلاف ہو مگر اصل دعا میں کسی کو اختلاف نہیں اب یہ بات بھی دنیا میں نبی کریم ﷺ اور صرف نبی کریم ﷺکو حاصل ہے کہ ان کے متبعین ان کے لئے دن رات کے ہر ایک حصے میں دعائے ترقی درجات مانگتے ہیں.کسی مذہب کا ہرگز ہرگز کوئی مقتدا نہیں جس کے لئے اس کے مقتدیوں نے اس قدر دعا کی ہو.اس کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پردرود کم از کم ہر نماز میں پڑھا جاتا ہے اور زمین گول ہے.پس دنیا میں ہر ایک وقت کسی نہ کسی نماز کا وقت رہتا ہے اور نماز میں ضرور پڑھاجاتا ہے جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ترقی درجات وازدیاد برکات کے لئے خلوص بھرے دلوں سے دعا کی جاتی ہے.عیسائی مسیح کے لئے دعا ہی نہیں کرتے اور ایسا ہی ہندو سری رامچندر و کرشن جی کے لئے اس کی ضرورت نہیں سمجھتے ہاں مسلمان ہیں جو اپنے محسن نبی کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور تیرہ سو برس سے بتَوالی آنائِ لیل ونَہَار اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ پڑھ رہے ہیں.پھر دنیا میں مومن مسلمان جو نیک کام آپ ؐ کی تحریک وارشاد کے ماتحت کرتا ہے اس کا ثواب بھی آپ ؐ کو ملتا ہے.پس اس لحاظ سے بھی آپؐ ہی کی ذات بابرکات خاتم النبیین ٹھہرتی ہے.شفاعۃ النّبی بعض لوگ حضرت نبی کریم ﷺ کے شافع ہونے کا ثبوت قرآن مجید سے طلب کرتے ہیں.ان کے لئے یہ آیت حجت قویہ ہے. (الزخرف : ۸۷) اور جن کو یہ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کے مالک نہیںہاں یہ بات صحیح ہے کہ ایک شافع ہے جس نے حق کی گواہی دی اور وہ لوگ اسے خوب جانتے ہیں (یعنی سیدنا محمد ﷺ) اسی طرح ایک اور آیت ہے پارہ ۵ رکوع۶؍۹ ( النساء : ۶۵) اور جب ان لوگوں نے اپنی جان پر ظلم کیا تو اگر وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے مغفرت مانگتا تو اللہ کو توبہ قبول

Page 44

کرنے والا مہربان پاتے.شفاعت کی حقیقت سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ لفظ شفع سے نکلا ہے اور مندرجہ ذیل آیت  (اٰل عمران : ۳۲) سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اتباع انسان کے گناہوں کی مغفرت کا موجب ہے.حضور انور کی ذات ستودہ صفات ایک نور ہے جو اس نور سے تعلق پیدا کرتا ہے اس سے ظلمات دور ہوتی ہیں یہ شفاعت ہے.مجرموں کی جنبہ بازی کا نام شفاعت نہیں جیسا کہ بعض نادانوں نے غلطی سے سمجھا ہے اور اس پر اعتراض کرتے ہیں.حل مشکل جب کوئی ایسا مسئلہ تمہارے سامنے پیش ہو جس کا جواب تمہیں نہ آتا ہو تو خصم کو محض الزامی جواب دینا جوانمردی نہیں کیونکہ جس بات پر خود تم کو یقین نہیں اسے دوسرے کو منوانا یا ماننے کے لئے کہنا دیانتداری کے خلاف ہے.چاہیے کہ اس آیت یا سوال کو لکھ کر دیوار پر کسی نمایاں جگہ جہاں ہر وقت تمہاری نظر پڑتی رہے آویزاں کر دو.ادھر صدقہ و خیرات کرو.استغفار بہت پڑھو.ایمان بالغیب کے رنگ میں اللہ تعالیٰ سے بہت بہت دعائیں کرو.یقینا یقینا تم کو سچائی کی راہ نظر آجائے گی.قرآن کریم کے ابتدا میں ہی اس نکتہ کو ظاہر کیا گیا ہے.فرماتا ہے  ( البقرۃ: ۳،۴) ہدایت ان لوگوں کا حصہ ہے جو گناہ آلود زندگی سے بچنے والے ہوں.پھر ایمان بالغیب رکھیں دعاؤں میں لگے رہیں اور کچھ صدقہ خیرات بھی کریں.حضرت امام شافعیؓ کا ایک شعر ہے.فَاِنَّ الْعِلْمَ نُورٌ مِّنْ اِلٰہٍ وَ نُورُ اللّٰہِ لَا یُعْطٰی لِعَاصِیْ یہ دراصل تفسیر ہے(الواقعۃ : ۸۰) کی.پس قرآن مجید کے غوامض کی تہہ کو پہنچنے اور معضلات مسائل کے لئے پاک زندگی اور مطہر قلب ہونا چاہیے.ایک معمولی

Page 45

مہمان کے لئے مکان صاف کیا جاتاہے اور حتی الوسع کوئی ناپاکی اور گندگی رہنے نہیں دی جاتی تو خدا کے کلام کے معانی کے نزول کے لئے ایک مصفّٰی دل کی کیوں ضرورت نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاملہ میں اگر لوگ اس اصل پر چلتے تو کبھی دھوکہ نہ کھاتے اور نہ مستوجب وعید ہوتے.چاہیے تھا کہ وہ خدا کے حضور رو رو کر عرض کرتے کہ الٰہی ہم پر حق کھل جائے.استغفار کرتے، صدقہ و خیرات دیتے اور پاک زندگی اختیار کرتے.انسان جو بُرے کام کرتا ہے.ان کی ابتدا ان وسوسوں سے ہوتی ہے جو سینوں میں اٹھتے ہیں.ان کا علاج یہ ہے کہ جب ایسے خیالات کا سلسلہ اٹھنے لگے تو اس جگہ کو بدل دے باہر چلاجائے کسی سے باتوں میں لگ جائے.موت کو یاد کرے ایک مشغلہ میں اگر وہ سلسلہ نہ ٹوٹے تو دوسرا مشغلہ اختیار کرے۱؎.تنہا نہ رہے قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دے.عام طور پر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ بہت پڑھے.الحمد پڑھے.استغفار کرے.نبی ﷺ پر درود بھیجے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ کا ورد کرے.اختلافات سے گھبرانا مومن کا کام نہیں اللہ تعالیٰ نے اختلاف کے رفع کے لئے یہ آیت فرمائی ہے. (الحدید : ۲۶) یعنی اختلاف رفع ہوتے ہیں کتاب سے اور پھر......سے جس میں علم مناظرہ شامل ہے.پھر لوہا بھی فیصلہ کرتا ہے جو پچھلے زمانہ میں اگر بصورت تلوار فیصلہ کن تھا تو اس زمانہ میں بصورت قلم ، غرض اسلام نے ہر مشکل کے حل کرنے کے لئے طریق سکھایا.مبارک وہ جو قرآن شریف پر عمل کرتے ہیں.(تشحیذ الاذہان) (الحکم جلد۱۶ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۴؍ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ ۱ تا ۳) دینی سفر پر روانگی کے لئے اجازت اور طلب دعا ۲؍اپریل ۱۹۱۲ء کو عشاء کی نماز سے پہلے (علوم عربیہ کی تحصیل کے سلسلہ میں ایک دینی سفر پر جانے والے وفد حافظ مولوی روشن علی صاحب، مولوی سید سرور شاہ صاحب ، مولوی قاضی سید امیر حسین صاحب، مولوی فاضل عبد المحی عرب صاحب اور حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب پر مشتمل)یہ کل احباب ۱؎ نماز کے ارکان قیام، رکوع ، سجود سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے.

Page 46

حضرتخلیفۃ المسیح کے حضور حاضر ہوئے.خاکسار ایڈیٹر الحکم ان بزرگوں سے پہلے پہنچ گیا تھا.اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح ایک خادم کو کسی خط کا جواب لکھ رہے تھے.جب جواب سے فارغ ہوئے تو خاکسار ایڈیٹر الحکم کو قریب بلاکر فرمایا.ندوۃ نمبر پر ریمارک میں نے آپ کا ندوۃ نمبر پڑھ لیا ہے اور خوب غور سے پڑھا ہے.مجھے اس میں دو نقص معلوم ہوئے ہیں ایک تو یہ کہ کسی قدر سختی سے کام لیا ہے اور اس سختی میں بعض لوگوں کے نام لئے ہیں.قرآن مجید طرز کو اختیار کرنا چاہیے.قرآن مجید بلا اظہار نام غلط اور باطل عقائد پر زد مارتا ہے اور ایسی زد مارتا ہے کہ کوئی کیا مار سکے گا.اگر قرآن مجید میں ابوجہل یا دوسرے منکرین مخالفین کا ذکر بقید نام ہوتا تو ان کی اولاد کو اس کا پڑھنا سخت ناگوار ہوتا.انبیاء علیہم السلام اور مامورین کی حالت کچھ اور ہوتی ہے وہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی کسی تحریک کے نیچے بعض لوگوں کے نام لیتے ہیں اور ان کے متعلق بعض اوقات ایک ایسی سختی سے کام لیتے ہیں جو سراسر رحمت ہوتی ہے.مگر ہر شخص کا کام نہیں کہ اس طریق کو اختیار کرے.آپ جانتے ہیں کہ میں اپنی تحریروں میں مخالفین کو نام لے کر مخاطب نہیںکرتا.اب آپ کو معلوم ہوا ہے کہ فصل الخطاب کس کے لئے لکھی گئی مگر جو شخص فصل الخطاب کو پڑھ جاوے گا اور اسے بتایا نہ جاوے اس کو معلوم نہیں ہوسکتا کہ کس کے جواب میں ہے.اس لئے قرآن کریم کے اس طریق کو میں بہت پسند کرتا ہوں.مولوی عبدالکریم مرحوم (بڑی لمبی دعا ان کے لئے فرمائی) مجھ کو بہت پیارا تھا میں اس کی تقریر اور تحریر کو پیار سے پڑھتا اور سنتا تھا.ان کی تحریر میں اور تقریر میں تیزی ہوتی تھی میں اس تیزی کو بھی پسند کرتا مگر باوجود اس پیار کے جو مجھے ان سے تھا.خدا تعالیٰ کی کتاب تو ان سے پیاری تھی اور پیاری ہے عبدالکریم کیامجھے تو خدا تعالیٰ کی کتاب سب سے پیاری ہے ہاں اس کے لانے والا بھی میرا محبوب ہے اور بہت ہی محبوب ہے مگر اس کو بھیجنے والا پھر ایک ہی محبوب ہے کہ اس کے سامنے ساری محبتیں فنا ہو جاتی ہیں اور یہ اسی محبوب کا کلام ہے.پیارے کی پیاری باتیں ہوتی ہیں اور میری تو یہ غذاہے.پس میں آپ کو طرز تحریر اور طرز بیان میں قرآن مجید کے اسلوب کے اتباع کی طرف توجہ

Page 47

دلاتا ہوں.غرض مولوی عبدالکریم مرحوم نے ایک مرتبہ حضرت صاحب سے کہا کہ نورالدین کی تحریر میں تیزی نہیں ہوتی.حضرت صاحب نے فرمایا.ہاں ان کا طریق ایسا ہی ہے یہ نرم طبیعت رکھتے ہیں.بات اصل میں یہ ہے کہ میں ہر قسم کی تحریر اور تقریر پر خدا کے فضل سے قادر ہوں مگر میں سچ کہتا ہوں کہ جب بولتا ہوں یا لکھتا ہوں تو میرے زیر نظر یہ امر ہوتا ہے کہ کوئی ا س سے نفع اٹھاوے.پس نفع رسان بنو اور جس طرح پر یہ تحریریں مفید اور نفع رساں ہوں اس کو مدنظر رکھو ہمارے طریق کو استعمال کرو اور ہمیشہ یہ مدنظر رکھو کہ کوئی سعادت مند فائدہ اٹھاوے مہدی کے متعلق جو مضمون آپ نے کہیں سے لیا ہے اس کا طرز بیان مجھے پسند نہیں آیا ایسے طرز بیان سے بعض اوقات صداقت مشتبہ ہوجاتی ہے اور لوگ اس کو معمولی پھبتی سمجھ لیتے ہیں.متانت کی قدر اس واسطے صداقت کے اظہار میں ہمیشہ متانت اور ثقاہت سے کام لینا چاہیے.دہلی کی زبان میں شوخ کلام کرنے والے بھی ہوتے ہیں مگر مجھے پسند نہیں.میرے کتب خانہ میں دواوین اردو میں سے ذوق، غالب اور مومن کے دیوان موجود ہیں مگر سودا اور ابوظفر کا کلام نہیں رکھا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کلام میں وہ بات نہیں جو ذوق اور مومن کے کلام میں ہے.دہلی کے بعض لوگوں سے مجھے بڑی محبت ہے.شاہ ولی اللہ صاحب، شاہ عبدالغنی صاحب، شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادر صاحب وَغَیْرُہُمْ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی سے میں محبت رکھتا ہوں.آپ کو معلوم ہے بارہا میں نے اس کا ذکر کیا ہے ان کی زبان میں بڑی پاکیزگی اور ثقاہت ہے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے دوست اپنی تحریروں میں ان لوگوں کا اتباع کریں.آپ ہمارے اسلوب تحریر کا بھی اتباع کر کے دیکھیں.تقریر امیر اور نصائح یہاں تک حضرت نے گفتگو فرمائی تھی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب اور مولوی حافظ روشن علی صاحب اور قاضی مولوی سید امیر حسین صاحب اور مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی حصو ل اجازت کے لئے آ حاضر ہوئے مختصراً حضرت نے پھر ان ریمارکس کا ذکر کیا جو پہلے فرمائے تھے پھر فرمایا کہ

Page 48

میں میاں صاحب کو تم پر امیر مقرر کرتا ہوں کوئی سفر بدوں امیر کے جائز نہیں اس لئے میاں صاحب کو تمہارا امیر مقرر کیا ہے.میاں صاحب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ تقوی اللہ سے اور چشم پوشی سے عموماً کام لیں.بہت دعائیں کریں.جناب الٰہی میں گرجانے سے بڑے بڑے برکات اترتے ہیں.اور آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے امیر کی پوری اطاعت اور فرمانبرداری کریں کوئی کام ان کی اجازت کے بدوں نہ کریں.علم کا گھمنڈ کوئی نہ کرے.میں نے بھی علوم پڑھے ہیں میں بعض وقت کوئی لفظ بھول بھی جاتا ہوں مگر خدا کے فضل سے خوب سمجھتا ہوں.بہت پڑھایا بھی ہے اور پڑھاتا بھی ہوں مگر میں نے دیکھا ہے کہ محض علوم کچھ چیز نہیں.علم آن بود کہ نور فراست رفیق اوست تم بھی اسی علم کو حاصل کرو اور یہی اپنا مقصد بناؤ.باقی علوم کچھ بھی چیز نہیںہوتے.ان کا گھمنڈ بھی نہ کرنا.دعاؤں سے بہت کام لینا.یہاں سے چلتے وقت راستہ میں کسی قریہ کو دیکھو تو برابر دعائیں کرو.کسی سے مقابلہ ہو تو دعاؤں سے کام لو.کوئی بات سمجھ میں نہ آوے تو دعاؤں سے اس کا حل چاہو.میرا اپنا تجربہ ہے.میں بڈھا ہو گیا.جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر گر جاتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ اس کے دل کو کھول دیتا ہے اور آپ اس کی مشکل کا حل بتادیتاہے.صاحب منار نے سلسلہ کی مخالفت کی ہے اس سے ملو تو بیشک عمدہ پیرایہ میں اس کو جتادو کہ گو تم نے مخالفت کی ہے مگر ہم لوگ ایسی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے.علماء سے ملو اگر کسی سے کوئی عمدہ بات ملے تو اسے فوراً لے لو کیونکہ کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ اَخَذَھَاحَیْث.ُ وَجَدَھَا یعنی حکمت کی بات مومن کی گم گشتہ متاع ہے اسے لے لو جہاں سے ملے.پھر چند علماء کے نام بتائے اور چند مدارس کے نام لئے کہ ان سے ملو اور ان مدارس کو دیکھو.بالآخر فرمایا.دعاؤں سے کام لو.اب تم سب میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دو میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.

Page 49

پھر بھی دعا کروں گا اللہ تعالیٰ نے موقع دیا.۱؎ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز دیر تک نصائح فرماتے رہے اور فرمایا کہ ہر قسم کے لوگوں سے ملنا چاہیے اس سے بہت کچھ تجربہ اور فوائد حاصل ہوتے ہیں مومن کو ایک نیت کر لینی چاہیے جو نیک ہو.میرا اپنا تو یہ حال ہے کہ من بہر جمعیت نالان شدم جفت خوش حالان وبد حالان شدم میں چاہتا تھا کہ میاں صاحب کو ساری مثنوی پڑھادوں مگر جس قدر پڑھ لی ہے وہ کافی ہے باقی اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کو پڑھادے گا.فرمایا.کانپور جاؤ تو مدرسہ الٰہیات والوں کو یوگ ابھیاس کے متعلق ضرور سمجھانا اور جرأت سے یہ بات کہہ دو کہ یوگ ودّیا کا نتیجہ شاکت مت نکلا ہے اس کو تم کیوںکوئی مفید چیز سمجھتے ہو؟ قرآن کریم کی ایک ہدایت حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح کی ایک بات جو ایک موقع پر آپ نے فرمائی تھی اور وہ یہ ہے کہ انسان جس جس قدر اپنے آپ کو قرآن مجید کی حکومت کے نیچے لاتا ہے اسی قدر وہ (البقرۃ:۶۳) کے نیچے آجاتا ہے.قرآن مجید کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری انسان کو اس مقام پر پہنچادیتی ہے جس کا نام جنت ہے اورقطع نظر اور باتوں کے کوئی شخص بھی جو قرآن کریم کی کسی ہدایت پر عمل کرتا ہے وہ اس کا پھل پاتا ہے.چراغ کا کام روشنیکا دینا ہے خواہ ایک مومن اس کو جلائے یا فاسق فاجر، وہ روشنی ضرور دے گا.اسی طرح پر قرآن کریم کی ہدایت ہے.میں نے ایک شخص کو ایک مرتبہ کہا کہ قرآن مجید میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں.وہ ایک ایسی جگہ جاتا تھا جہاں اکثر لوگ زنا میں مبتلا ہوکر ان امراض خبیثہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو اس کا لازمی نتیجہ ہیں.اس کو کہا کہ قرآن مجید کی ایک ہدایت کو یاد رکھو 

Page 50

(بنی اسرائیل:۳۳) زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یہ بڑی بے حیائی اور بری راہ ہے.اس شخص نے اس بات پر عمل کیا اور وہ خدا کے فضل سے محفوظ رہا.۲؎ ۱؎ (ماخوذ از ایک دینی سفر الحکم جلد ۱۶نمبر ۱۴مورخہ۱۴؍اپریل۱۹۱۲ء صفحہ۱۰،۱۱) ۲؎ (ماخوذ از ایک دینی سفر الحکم جلد ۱۶نمبر ۱۵،۱۶مورخہ۲۸؍اپریل۱۹۱۲ء صفحہ۱،۲) ملفوظات حضرت خلیفۃ المسیح (مرتّبہ محمد عبداللہ صاحب بوتالوی) حضرت خلیفۃ المسیح کا خاص درس مورخہ ۱۰ ؍مارچ ۱۹۱۲ء نماز مغرب کے بعد حسب معمول صاحبزادہ حضرت خلیفۃ المسیح میاں عبدالحی صاحب قرآن شریف کا سبق پڑھ رہے تھے اور ایک کثیرتعداد دیگر طالب علموں کی بھی موجود تھی جو کہ روزانہ اس درس میں شریک ہوا کرتے تھے.اثنائے درس میں میاں شریف احمد صاحب صاحبزادہ خورد حضرت مسیح موعود صاحب علیہ السلام کسی ضرورت کے واسطے باہر جانے لگے تو حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایاکہ جلدی واپس آنا.پھر فرمایا کہ ایک شاہ عبدالرحیم بزرگ تھے ان کو خدا تعالیٰ نے توجہ دلائی کہ گنو اس وقت کتنے آدمی موجود ہیں.انہوں نے گن لئے.پھر الہام ہوا کہ آج عصر کی نماز جس قدر لوگ تمہارے پیچھے پڑھیں گے سب جنتی ہوں گے.ایک آدمی سے وہ خوش نہ تھے.جب انہوں نے نماز شروع کی تو وہ آدمی موجود تھا.جب نماز ختم کی تو دیکھا کہ وہ آدمی پیچھے نہیں ہے.آدمی گنے تو پورے تھے.پوچھا کہ ان میں کوئی اجنبی آدمی آکر شامل ہوا ہے؟ آخر ایک اجنبی آدمی پایا گیا.اس سے پوچھا کہ تم کس طرح شامل ہوگئے.اس نے کہا کہ میں جارہا تھا اور میرا وضو تھا جماعت کھڑی ہوئی دیکھی میں نے کہا کہ میں بھی شامل ہوجاؤں.پھر وہ دوسرا آدمی آگیا.اس سے پوچھا کہ تم کہاں چلے گئے تھے.اس نے کہا کہ میرا وضو ٹوٹ گیا تھا اور میں وضو کرنے گیا تھا.مجھے وہاں دیر ہوگئی اتنے میں

Page 51

نماز ختم ہوگئی.یہ معاملہ ہمارے درس سے بھی کبھی کبھی ہوتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے.ہم نے آج ایک دعا کرنی ہے وہ دعا بڑی لمبی ہے مگر سب دعا اس وقت نہیں کریں گے.ہمارا دل چاہتا ہے کہ جس قدر لوگ اس وقت درس سن رہے ہیں اللہ تعالیٰ ایسا کرم کرے کہ اس دعا سے کوئی محروم نہ رہے.خوب یاد رکھو کہ اللہ ایک ہے اور وہ سب صفات کاملہ سے موصوف اور سب برائیوں سے منزہ ہے.اس کا نام اللہ ہے، ربّ ہے، رحمن ہے، رحیم ہے، مالک یوم الدین ہے.ان اسماء کاملہ سے وہ موسوم ہے.عبادت کے لائق صرف وہی ہے بندگی صرف اسی کی چاہیے.اور ملائکہ پر ایمان لاویں وہ اللہ کی مخلوق ہیں وہ مومنوں کو نیک تحریکیں دیا کرتے ہیں.ہم کو چاہیے کہ ان کی نیک تحریک کو مانا کریں.شیاطین بدی کی تحریک کرتے ہیں وہ کوئی نہ کوئی شریعت حق کے اوپر حملہ کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم کو اس کے داؤ سے محفوظ رکھے.اللہ کی کتاب پر ہمارا خاتمہ ہو.نبی سب سچے ہیں.جزا وسزا کا معاملہ سچا ہے.ہمیں اپنا مال خدا کی راہ میں لگانا چاہیے.ہمیں چاہیے کہ نماز پڑھیں، روزے رکھیں، بدیوں سے بچتے رہیں.دین کے خادم ہوں.اللہ کی تعظیم میں ہم چست ہوں اور اس کی مخلوق کا اکرام کرنے اور بھلائی کرنے میں چست ہوں.ہم کسی کے ساتھ عداوت کرکے گمراہ نہ ہوجاویں.اللہ تعالیٰ تم کو توفیق دے کہ اللہ کی باتیں اور اس کے دین کو دنیاوی لالچ سے خراب نہ کرو اور اللہ پر توکل کرو.میرا وہ مطلب حاصل ہوگیا ہے.الحمدللہ کہ راقم الحروف حسن اتفاق سے اس درس میں شامل تھا.اللہ تعالیٰ عاجز کے حق میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح کی دعا کو منظور فرماوے.آمین   (اٰل عمران:۸۰).اس آیت کے ضمن میں فرمایا کہ یہ بڑی پہچان ہے شریر اور پاکباز کی.شریر لوگ اپنی بڑائی کا بہت اظہار کرتے ہیں.پاکوں کے منہ سے نہ نکلے گا.حاتم کا بیٹا عدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 52

خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اپنے پادریوں کو ربّ تو نہیں سمجھتے.آپ نے فرمایا کہ جس کو وہ حلال کہتے ہیں تم اس کو حلال اور جس کو وہ حرام کہتے ہیں تم اس کو حرام نہیں سمجھتے؟ غرض کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں تم وہی کچھ مان لیتے ہو.وہ کتاب اللہ کا حوالہ تو نہیں دیتے.یہی ربّ بنانا ہوتا ہے.مسلمانوں کے علماء کا بھی یہی حال ہوگیا ہے.سہارنپور میں کوّے کی حلت اور حرمت کا جھگڑا عرصہ تک چھڑا رہا.تین کتابیں چھپیں.غدر سے پہلے اُلّو کی حلت اور حرمت کا جھگڑا برپا رہا اور اس پر خوب فتویٰ بازی ہوتی رہی.ایک نے لکھا ؎ اُلّو ہے وہ جو کہتا ہے اُلّو حلال ہے دوسرے نے یہ لکھا کہ ؎ اُلّو ہے وہ جو کہتا ہے اُلّو حرام ہے ایک نے ’’بال کی کھال‘‘ کتاب بنائی.دوسرے نے اس کا جواب بنایا جس کا پہلا شعر یہ ہے ؎ زاہد اس نے جو کھال نکالی ہے بال کی مزدوری دینا چاہیے اس خستہ حال کی ۱۱؍ مارچ ۱۹۱۲ء قرآن سیکھنا آسان ہے فرمایا.میں ایک دفعہ وزیرآباد کے اسٹیشن پر تھا.ایک آدمی کا جموں میں ہمارے ساتھ تعلق تھا.اس نے کہا کہ آپ کہتے ہو کہ ہم قرآن پڑھیں مگر اب ہم اس عمر میں صَرف کس طرح پڑھ سکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ صَرف آسان ہے.صَرف کہتی ہے کہ قَالَ قَوَلَسے بنا.قرآن شریف میں پہلے ہی قَالَ بنا ہوا ہے قَوَلَ سے نہیں بنانا پڑتا.پھر کہا کہ نحو کی تو ضرورت ہے.میں نے کہا کہ اس کا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ سامان ہوچکا ہے کہ اب نحو سے مدد لینے کی ضرورت باقی نہیں رہی.یعنی موجودہ قرآن شریفوں پر زبر زیر پڑے ہوئے ہیں.پھر کہا کہ لغت کی تو

Page 53

ضرورت ہے.میں نے کہا کہ کوئی مثال دو.اس نے جھٹ پڑھ دیا کہ (الاحزاب:۷۱)میں نے اس کا ترجمہ یہ سنادیا کہ گلاؤ گل سدھی.بات کہنے کو اس طرف گلانا بھی کہتے ہیں.یہ ترجمہ آیت کے الفاظ سے ایسا مطابق تھا کہ گویا عربی سے ہی بگاڑا گیاہے.۲۴ مارچ ۱۹۱۲ء(درس حدیث شریف) تجارت کی عمدہ راہ فرمایا.تجارت کی راہ یہ ہے کہ جنس کو چالیس چالیس دن تک رکھ کر بیچ دیا کرے.اتنا حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے اس سے زیادہ عرصہ رکھنا نہیں چاہیے.تھوڑا عرصہ رکھنے میں اگر گھاٹا ہوگا تو بھی کم ہی ہوگا.یہ تجارت کی بڑی عمدہ راہ ہے.دوسرے یہ کہ ہر قسم کے غلے رکھے کیونکہ عموماً تمام غلے یکدم گراں نہیں ہوجاتے.فرمایا.ایک دفعہ بھیرہ میں غلہ اتنا مہنگا تو نہ تھا مگر مجھے معلوم ہوا کہ یہ گراں ہوجاوے گا دل میں آیا کہ غلہ کافی خرید لوں.پھر خیال آیا کہ ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں بہشت.جو دوسروں کا حال ہوگا ہم بھی گزر لیںگے.چنانچہ غلہ سات سیر فی روپیہ ہوگیا مگر خدا نے وہ فضل کیا کہ میری آمدنی اس قدر بڑھادی کہ مجھے اس سات سیر کے نرخ میں ذرا بھی بوجھ معلوم نہ ہوا.فرمایا.ایک بزرگ تھے ان کو الہام ہوا کہ اس دفعہ چنے بہت گراں ہوجاویں گے.انہوں نے یہ الہام عام لوگوں کو بھی بتادیا مگر خود صرف سوروپیہ کے چنے خریدے حالانکہ وہ ہزارہا روپیہ کے مالک تھے.ان کو اس سو روپیہ کے چنوں میں کافی نفع ہوا.میں نے ان کو کہا کہ آپ نے زیادہ روپیوں کے چنے کیوں نہ خرید لیے.انہوں نے کہا اس واسطے کہ میں اس الہام کو دنیا طلبی کا ذریعہ نہ بنالوں.پھر پوچھا کہ سو روپیہ کے چنے کیوں خریدے.فرمایا.اس واسطے کہ خدا کے فضل کو قبول کرلوں جو اس نے خود مجھے اطلاع دی ہے.اگر ایسا نہ کرتا تو کفران نعمت تھا اور الہام الٰہی کی بے ادبی تھی.(البدر جلد۱۱ نمبر۲۸،۲۹ مؤرخہ ۲مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۳،۴)

Page 54

کاش !خدیو نمازی بناتا ایک شخص نے ذکر کیا کہ اخبار میں لکھا ہے کہ خدیو مصر نے ایک کروڑ روپیہ لگا کرایک مسجد بنوائی ہے.فرمایا.کاش کہ وہ ایک کروڑ روپیہ نمازیوں کے تیار کرنے میں لگاتا.ایسی مساجد تو پہلے بھی موجود ہیں اب تو نمازیوں کی ضرورت ہے.لاہور کی شاہی مسجد پر ایک کروڑ روپیہ لگا ہوگا اور مسجدوزیرخاں پر تو اس سے بھی زیادہ لگا ہے.اس کی کاریگری کی آج تک کوئی نقل نہیں کرسکا.ہماری دولت ایک دوست کا خط پیش ہوا کہ میں مبلغ تین سو روپے کا مقروض ہوں اور قرضہ کے سبب لاچار ہوں میری امداد فرمائی جاوے اور ایک کا نام لکھا کہ اس سے مجھے قرضہ لے کر دیا جاوے.حضور نے اس خط کو لے کر اپنے دست مبارک سے اس پر ایک دعا لکھی اور فرمایا.اس کو لکھ دو کہ ہمارے پاس تو یہ دولت ہے اس کو لے لو اور اس کے ساتھ خود خط وکتابت کرو.وہ دعا بمعہ ترجمہ فائدہ عام کے واسطے درج اخبار کی جاتی ہے.اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَ قَھْرِالرِّجَالِ.اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَ اغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ.ترجمہ.اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر اور غم سے.اور تیری پناہ چاہتا ہوں ناتوانی اور سستی سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں بخل اور نامردی سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں میں قرض کے غلبے سے اور لوگوں کے دباؤ سے.الٰہی کفایت کر مجھ کو اپنی حلال روزی سے بچا کر اپنی حرام روزی سے اور بے پرواہ کر مجھ کو ساتھ اپنے فضل کے اپنے ماسوا ئے.گناہ سے نفرت کس طرح ہو ؟ ایک شخص نے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا طریق بتلائیں جس سے گناہ سے قطعی نفرت ہوجاوے.فرمایا.نیکوں کی صحبت اختیار کرو اور موت کو یاد رکھو.

Page 55

چند سوالات اور ان کے جوابات پوسٹل لائف انشورنس سوال.زندگی کا بیمہ ڈاکخانہ میں کرانا کیسا ہے؟ جواب:.یہ ایک جوا بازی ہے اور منع ہے.مسلمان ان باتوں سے ترقی نہیں پکڑ سکتے.کُشتی سوال.کشتی دیکھنا کیسا ہے؟ جواب.جن لوگوں کو خدا کی یاد کے واسطے وقت اور توفیق نہیں وہ ایسے کاموںمیں لگتے ہیں.عمدہ غذا سوال.میں چاہتا ہوں عمدہ غذا کھاؤں تا خوب عبادت کرسکوں؟ جواب.انبیاء اور اولیاء جو سب سے زیادہ عابد و زاہد گزرے ہیں وہ عمدہ غذا کے شائق نہ تھے.عمدہ غذاؤں کے پیچھے پڑنے والوں کو کم ہی یہ توفیق ملتی ہے کہ عبادتوں میں مصروف ہوں.ورزش سوال.ورزش میں وقت صرف کرنا کیسا ہے؟ جواب.جائز ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوڑتے تھے.تھیٹر ، سرکس سوال.تھیٹر، سرکس اور مسمریزم کے تماشے دیکھنے کیسے ہیں؟ جواب:.اہل دل کے واسطے جائز ہیں.غیراحمدی کا سلام سوال.غیراحمدی السلام علیکم کہے تو اسے کیا جواب دیں؟ جواب.جس طرح وہ سلام کرے اسی طرح تم جواب دو.جو سلام کہے اس کو سلام کہو.چائے ، قہوہ سوال.چائے قہوہ کا استعمال کیسا ہے؟ جواب.جائز ہے.کثرت مضر ہے.تمباکو پینا سوال.تمباکو پینا کیسا ہے؟ جواب.فضول خرچی میں داخل ہے.کم از کم ماہوار کا تمباکو جو شخص پیئے سال میں اور سولہ سترہ سال میں یکصد روپیہ ضائع کرتا ہے.ابتدا تمباکو نوشی کی عموماً بری مجلس سے ہوتی ہے.

Page 56

پان کا استعمال سوال.پان کا استعمال کیسا ہے؟ جواب.بعض طبائع کے واسطے ہاضم اور مفرح ہوتا ہے.زیادتی فضول ہے.مسمریزم ایک شخص کا خط پیش ہوا کہ کیا علم مسمریزم سیکھنا بدیں نیت جائز ہے کہ انسان اس کے ذریعہ بیماروں کا علاج کرے؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ جائز ہے.۱۹؍ جنوری ۱۹۱۲ء (ماخوذ از کلام امیرالبدر جلد۱۱ نمبر۳۰،۳۱ مؤرخہ ۱۶ ؍ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۳) عمر قیدی کی عورت سوال ہوا کہ ایک شخص بیس سال کے واسطے قید ہوگیا ہے اور عورت کو طلاق نہیں دے گیا.اس کی عورت کیا کرے؟ فرمایا.وہ نکاح کرسکتی ہے.عدالت سرکاری میں درخواست دے کر فیصلہ کرالینا چاہیے.ناجائز تجارت ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ مجھے ایک صاحب اپنی تجارت میں شریک کرنا چاہتے ہیں بدیں شرط کہ نقصان میں میرا حصہ نہ ہوگا صرف منافع میں ہوگا.فرمایا.ایسی تجارت ناجائز ہے.(ماخوذ از المفتی البدر جلد۱۱ نمبر۳۰،۳۱ مؤرخہ ۱۶؍ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۱۰) البدر کی عارضی بندش کا رنج افضل مرحوم کی وفات پر احیاء بدر کے لیے آپ نے جو کچھ ارقام فرمایا اس میں ظاہر کیا کہ میرا دل گوارا نہیںکرسکتا تھا کہ قادیان سے کوئی مفید سلسلہ جاری ہو اور وہ رک جاوے.البدر کا چندروزہ وقفہ رنج تھا.الحکم کی اشاعت کے متعلق تڑپ حضرت خلیفۃ المسیح نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعدسالانہ جلسہ میں جو تقریر کی تھی اس میں فرمایا تھا.ہمارے شیخ یعقوب علی اٹھتے ہیں وہ کہتے ہیں مشینوں کے ذریعہ کام ہونا چاہئے اور مشینیں آنی

Page 57

چاہئیں.اس کے لیے اتنے ہزار چاہئیں.میں کہتا ہوں کروڑ مانگتا ہے تو یہ بھی ضروری ہے.(ماخوذ از ایک بیہودہ تجویز اخبارات سلسلہ کے متعلق.الحکم جلد۱۶ نمبر۱۹ مؤرخہ ۲۱ ؍ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۸) بسم اللہ و اٰمین جہراً اور آہستہ پڑھنا ۱۵ ؍مئی ۱۹۱۲ء.فرمایا.بسم اللہ جہراً اور آہستہ پڑھناہر دو طرح جائز ہے.ہمارے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب (اَللّٰھُمَّ اغْفِرْہُ وَارْحَمْہُ) جوشیلی طبیعت رکھتے تھے بسم اللہ جہراً پڑھا کرتے تھے.حضرت مرزا صاحبؑ جہراً نہ پڑھتے تھے.ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں.صحابہ میں ہردو قسم کے گروہ ہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو.ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے ہردو طرح جائز ہے.بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا برا لگتا تھا تو صحابہ خوب اونچی پڑھتے تھے.مجھے ہر دو طرح مزہ آتا ہے کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے.سورۃ فاتحہ فرمایا.سورہ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے خواہ آدمی کے پیچھے ہو.دن کی نمازوں میں یا رات کی نمازوں میں.قرآن شریف کی کوئی آیت اس کے مخالف نہیں نہ کوئی حدیث اس کے مخالف ہے.قرآنی ترتیب کا نمونہ فرمایا.ہم نے تین دعائیں الحمد میں کی ہیں.منعم علیہ بنیں.مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ اور ضَآلّ نہ بنیں.ہرسہ خدا نے قبول کی ہیں.انعام ان پر ہوا جو متقی ہیں.مَغْضُوْب بے ایمان منکر ہیں جن کو وعظ کرنا نہ کرنا برابر ہو.ضَآلِّیْنَ منافق لوگ ہیں.ہرسہ کا ذکر اَلْحَمْد میں ہے.پھر ترتیب وار ہرسہ کا ذکر سورہ بقرہ کے ابتدا میں ہے.یہ قرآن شریف کی ترتیب کا ایک نمونہ ہے.منافق فرمایا.منافق دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک اعتقادی اور دوسرے عملی.عملی منافق وہ ہیں جو غداری کرتے ، جھوٹ بولتے ، عشاو فجر کی نماز کے چور.اس قسم کے لوگ عملی منافق ہیں.تین نصیحتیں مسجد اقصیٰ میں جہاں سب لوگ جمع تھے جماعت کو مخاطب کرکے فرمایا.

Page 58

اس وقت میںتین نصیحتیں کرتا ہوں.اوّل پڑوسیوں کو دکھ دینا ہماری شریعت میں جائز نہیں.کسی ہمسا یہ کو کبھی دکھ نہ دو بلکہ اسے آرام پہنچاؤ.میں نے سنا ہے کہ کوئی دو لڑکے مسجد میں کھیلتے تھے اور انہوں نے جوتا پھینکا جو ہندوؤں کے گھر میں جاپڑا اور انہیں تکلیف ہوئی.ایسا نہیں ہونا چاہیے.(۲) میری دوسری عرض یہ ہے کہ بچوں کو پیٹنا چھوڑ دو.مدرسہ کے بعض استاد بچوں کو مارتے ہیں.مجھے یہ خبر بہت دکھ دیتی ہے.گورنمنٹ نے بھی اس بات سے منع کیا ہے.صدر انجمن نے بھی قاعدہ بنایا ہوا ہے کہ کوئی استاد بچوں کو نہ مارا کرے.میں بھی اس بات کو بہت برا سمجھتا ہوں اور بارہا کہہ چکا ہوں.حضرت مرزا صاحب نے بھی سخت ممانعت کی تھی.اس بدعادت کو چھوڑ دو.تم بچوں کو مار کر بہشت میں نہیں پہنچادو گے.(۳) تیسری بات یہ ہے کہ باہمی بدظنی نہ کیا کرو.بدظنی سے ہمارے دل کو دکھ پہنچتا ہے جو بدظنی کو نہیں چھوڑ سکتا وہ اس شہر کو چھوڑ دے.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۱ نمبر۳۲ مورخہ ۲۳؍ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۳) ختم قرآن پر آمین ایک شخص کے دریافت کرنے پر کہ میری لڑکی نے قرآن ختم کیا ہے آمین کے متعلق شرعی احکام کیاہیں جو بجالائے جاویں؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ آمین صرف ایک خوشی کا اظہار ہے بقدر طاقت خود کرسکتے ہیں.اس کے واسطے کوئی شرعی احکام نہیںہیں.ننگے سر نماز جائز ہے فرمایا.سر پر ٹوپی یا پگڑی نہ ہو تب بھی نماز جائز ہے.یہ اس حدیث سے ثابت ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وبارک وسلم نے ایک صحابی کے نکاح کے وقت اس سے پوچھا کہ تیرے پاس کچھ ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے پاس ٹوپی بھی نہ تھی اور وہ ننگے سر نماز پڑھتا تھا.نماز میںچور کو پکڑو فرمایا.اگر ایک شخص نماز پڑھتا ہو اور اسے معلوم ہوکہ کوئی شخص کچھ چرا لے جاتا ہے تو چاہیے کہ چور کو پکڑے اور اسے روکے.اسی طرح گھوڑے کو پکڑے ہوئے نماز پڑھنا

Page 59

جائز ہے خواہ گھوڑے کے روکنے میں چند قدم آگے پیچھے ہونا پڑے.اس سے نماز میں کچھ ہرج نہیں.احادیث میں یہ سب مذکور ہے.(ماخوذ از المفتی.البدر جلد۱۱ نمبر۳۲ مورخہ ۲۳؍ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۵) بنی اسرائیل کون ہے؟ فرمایا.قرآن شریف میں جہاں اس قسم کے الفاظ آتے ہیں کہ مثلاً یَا بَنِیٓ اِسْرَآئِیْلَ.اے بنی اسرائیل.وہاں مخاطب کون ہے؟ کیا ہمارے قرآن سنانے کے وقت کوئی یہودی سامنے ہے یا کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس یہود جمع رہتے تھے؟ نہیں بلکہ وہاں تو اکثر صحابہ ہی جمع رہتے تھے.پس ان الفاظ کے مخاطب بھی ہم ہی ہیں.یہ بھی عرب میں بیان کا ایک طریقہ تھا.شاعر کسی پڑوسن کا نام لے کرکچھ بات کرتا اور اصل مطلب محبوبہ کو مخاطب کرناہوتا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صاف روایت ہے کہ مَضَوْا.وہ قوم چلی گئی اب تم مراد رکھے گئے ہو.اسرائیل کے معنے ہیں خدا کا بہادر سپاہی.تم بہادر سپاہی کی اولاد ہو بہادر بنو.ان نعمتوں کو یاد کرو جو خدا نے تم پر کیں.خدا کے عہد کو پورا کرو.مجھے تو ان آیات کو پڑھ کر بہت حیرانی اور دکھ ہوتا ہے کہ مسلمان ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.منکر کہو فرمایا.ہمارے ملک میں کافر کا لفظ خاص بن گیا ہے اور لوگ اس سے بہت گھبراتے ہیں.اگر منکر کا لفظ رکھو تو لوگوں کو دوبھر نہیں ہوتا.علماء پر زکوٰۃ فرمایا.علماء پر بھی زکوٰۃ واجب ہے جب ان کے پاس مال ہومگر ہم نے سوائے ایک کے کبھی کسی کو زکوٰۃ دیتے نہیں دیکھا.فرمایا.لکھنؤ میں ایک نمکین الدولہ ہوئے ہیں.انہوں نے ظرافت پر ایک کتاب لکھی ہے.ہمارے گھر میں بھی وہ کتاب تھی.میں چھوٹی عمر میں ایک دفعہ اس کتاب کو لے کر اپنی مسجد میں چلا گیا.وہاں ایک واعظ آئے ہوئے تھے.جب انہوں نے وہ کتاب دیکھی تو بہت منت سماجت کی کہ یہ کتاب مجھے دے دو.میں حیران ہوا کہ یہ تو واعظ ہیں یہ ایسی کتاب کیا کریں گے.وہ کہنے لگے کہ وعظ کے واسطے دو باتیں ضروری ہیں.مضحکات اور مبکیات.کچھ ہنسانے والی باتیں کچھ رلادینے والی

Page 60

باتیں.سو ایک بات اس کتاب سے حاصل ہوجاوے گی.اب تک میرے دل پر اس کی بات کا اثر ہے کہ ہمارے واعظین کا یہ حال ہے کہ خشیۃ اللہ، خوف الٰہی، دنیا کی بے ثباتی، کسل و کاہلی کو دور کرنے کی تجاویز، وحدت و اتحاد وہ نہیں پیش کرتے بلکہ صرف ہنسانے اور رلانے کی طرف متوجہ رہتے ہیں.میں خوف کرتا ہوں کہ واعظوں کا وہ حال ہوجو کہا گیا ہے کہ بدار.بدار.بدار.وَ یَذْھَبُ اِلٰی دَارِ الْبَوَارِ.لوگوں کو تو کہیں کہ خبردار ہوشیار ہوجاؤ.یہ کرو وہ نہ کرو.اور خود جہنم کو چلے جاویں.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۱ نمبر۳۳ مورخہ۳۰ ؍ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۴) ملفوظات حضرت خلیفۃ المسیح (مرقومہ.محمد عبداللہ بوتالوی) نبی کی حالت الہام کے وقت ۱۲ ؍اپریل ۱۹۱۲ء.سوال ہوا کہ نبی کی حالت الہام کے وقت کیا ہوتی ہے؟ فرمایا.یہ ذوق کی حالت ہے.نہ یہ تقریر سے بیان ہوسکتی ہے اور نہ کسی کی سمجھ میں آسکتی ہے.شہد اور گُڑ دونوں میٹھے ہیں مگر کوئی ان کے فرق کو تقریر سے بیان نہیں کرسکتا.ہیر کو رانجھا کے متعلق ایک ذوق تھا جو دوسرے کو نہیں ہوسکتا.حالانکہ اس کو اور بھی ہزاروں نے دیکھا ہوگا.اسلام سہل مذہب ہے ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۲ء.فرمایا.اسلام بڑا سہل مذہب ہے.ایک قرآن اور ایک بخاری پاس ہو تو پھر کسی قسم کی حاجت باقی نہیں رہتی.اور میرے جیسا اگر قرآن آتا ہو تو پھر بخاری کی بھی کم ہی ضرورت پڑتی ہے.پھر فرمایاکہ مجھے خدا کے فضل سے قرآن خوب آتا ہے بلکہ مجھے تو بعض وقت قرآن میں سے عجیب عجیب انوار صداقت کے نظر آتے ہیں جن کو میں دوسروں کے آگے بیان نہیں کرسکتا.

Page 61

حضرت علیؓ کی انصاف پسندی فرمایا.لکھا ہے کہ حضرت علیؓ اور ایک یہودی کا آپس میں مقدمہ تھا جوحضرت عمرؓ کے پاس دائر ہوا.حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کو فرمایا کہ ابوالحسن اٹھو اور بیان دو.غرضیکہ وہ اٹھے اور انہوں نے بیان دیا.جب فیصلہ ہوچکا تو حضرت عمرؓ نے حضرت علی کو پوچھا کہ آپ کو برا تو نہیں لگا.آپ نے فرمایا کہ ہاں برا تو لگا ہے.حضرت عمرؓ نے خیال کیا کہ شاید کھڑا ہونے کو برا مانا ہے.مگر حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ مجھے یہ برا لگا ہے کہ آپ نے مجھے تو ابوالحسن کرکے پکارا اور اعزاز دیا اور میرے مدعی کو یہودی نام لے کر پکارا.یہ عدل نہیں ہے.عیسائیوں کے مقابل ایک دلیل فرمایا. (الانعام:۱۰۲)یعنی کس طرح ہوسکتا ہے اللہ کا بیٹا جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں ہے.یہ ایک دلیل ہے عیسائیوں کے مقابل پر.کیونکہ عیسائی مریم کو خدا کی جورو نہیں مانتے اور بیٹے کے لیے ضروری ہے کہ وہ نتیجہ ہو دو چیزوں کا.ایک ابا جی ہوں اور ایک اماں جی.جب تم مریم کو بیوی نہیں مانتے تو بیٹا جو ان دونوں کا نتیجہ ہوتا ہے کس طرح پیدا ہوسکتا ہے.جس طرح ایک کیڑا ہوتا ہے جب دوسرا وجود اس کے اثر کو جذب کرنے والا ہو تب مرض پیدا ہوسکتا ہے.ایک طرف تعدیہ ہو اور دوسری طرف انفعال ہو تب کچھ نتیجہ پیداہوسکتا ہے.سید عبدالقادر جیلانی ؒ بلحاظ تصنیف ۲۷؍ مارچ ۱۹۱۲ء.فرمایا.سید عبدالقادر جیلانی ؒ بلحاظ تصنیف کے میں کہہ سکتا ہوں کہ بڑے عظیم الشان آدمی تھے.اوروں کے کلام تو سمجھ میں ہی مشکل سے آتے ہیں.میرا منشاء تھا کہ ’’فصوص الحکم‘‘ تم کو (مخاطبین مولوی محمد اسماعیل صاحب اور دیگر چند شاگردان حضرت خلیفۃ المسیح تھے) پڑھاؤں مگر وہ مجلس میں پڑھانے کے لائق نہیں ہے.(البدر جلد۱۱ نمبر۳۴ مورخہ ۶؍ جون ۱۹۱۲ء صفحہ۲،۳)

Page 62

مسیح موعود ؑ کے ایک وعدہ کا ایفاء مجھے(ایڈیٹر الحکم) ایک واقعہ یاد ہے.میرے عزیز مبارک سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دعا کا وعدہ کیا تھا جس مقصد کے لیے دعا چاہی تھی اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوگیا.اس پر حضرت خلیفۃ المسیح کو وہ وعدہ تحریری یاد دلایا گیا.حضرت خلیفۃ المسیح نے اس پر اس قدر دعا کی کہ وہ مقصد پورا ہوگیا مگر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ ایک ابتلا تھا.وہ جوش جو حضرت مسیح موعود میں تھا اور جس رنگ میں وہ دعا کرتے وہ ایک الگ چیز تھی.اب مجھے اس کام کو کرنا پڑا.یہ خدا ہی کے خاص فضل سے ہوا.( ماخوذ از’’ لاہور میں حضرت خلیفۃ المسیح کے ہاتھ سے بنیادی پتھر ‘‘الحکم جلد۱۶ نمبر۲۰،۲۱ مؤرخہ۷،۱۴؍ جون ۱۹۱۲ء صفحہ۱۱) حضرت خلیفۃ المسیح مَدَّ ظِلُّہُ الْعَالِیْ کا سفر لاہور حضرت خلیفۃ المسیح ۱۵؍ جون۱۹۱۲ء کو لاہور کی طرف روانہ ہوئے.اس سفر کی غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک وعدہ کا ایفاء تھا جو آپؐ نے اپنے ایک خادم شیخ رحمت اللہ صاحب سے کیا تھا.اس غرض کے ساتھ آپ نے یہ نیت بھی کی تھی کہ لاہور میں اپنی جماعت کو خصوصیت سے نصیحت فرمائیں گے اور بعض امور میں جو اختلاف ہوجاتا ہے اس کو مٹانے کی للہی کوشش کریں گے اور اگر موقع ملا تو تبلیغ حق بھی کریں.ان پاک اغراض کو لے کر آپ نے اس شدت گرما اور ضعف وعلالت میں لاہور کا سفر گوارا کیا.یہ ایک عملی تعلیم تھی قوم کے لیے استقلال، ہمت، عزم صحیح اور تبلیغ حق اور عام نفع رسانی کے لیے سچا جوش پیدا کرنے کی.روانگی سے پہلے خدام قادیان کو آپؓ کی نصیحت چونکہ شیخ صاحب نے چند مخصوص دوستوں کو مدعو کیا تھا اس لیے حضرت خلیفۃ المسیح کو اپنی جماعت کو نصیحت کرنی پڑی کہ کوئی شخص لاہور میرے ساتھ نہ جاوے.واِلّا میں وہاں پہنچ کر اپنے سیدو مولا آقا نبی کریم

Page 63

صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر وہاں اس کا اعلان کردوں گا کہ یہ لوگ میرے ساتھ نہیںآئے.آپ نے یہاں تک فرمایا کہ میری بیوی جاتی ہے.میں اس کو بھی دوسرے مکان میں ٹھہراؤں گا اور میںجائز نہیں رکھتا کہ وہ بن بلائے ان کی مہمان ہو.پھر یہ بھی فرمایا کہ اگر میرے اختیارات میں ہوتا تو میں تم سب کو ساتھ لے جاتا.حضرت خلیفۃ المسیح نے سفر ملتان سے واپس آکر پوچھا تھا کہ تم کیوں نہیں گئے تھے اور مجھ سے کیوں نہیں پوچھا تھا؟ اس بناء پر میں نے حضرت سے اس سفر میں ہمرکاب ہونے کی اجازت چاہی جو آپ نے عطا فرمائی اور ساتھ ہی دوسرے موقع پر ایک اور شخص کے اجازت مانگنے پر فرمایا کہ میں نے صرف ایک شخص کو اجازت دی ہے اور میں اس کا خرچ اپنی جیب سے دوں گا.عورتوں میں تبلیغ ۱۶ ؍ جون ۱۹۱۲ء کی صبح کو بعد نماز فجر حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب احمدی جماعت کا خاص جلسہ کرکے ایک تقریر ضرور کریں.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشاد اور حکم سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے ۹ بجے دن کے احمدیہ مسجد میں ایک تقریر فرمائی.ایڈیٹر زمیندار کی پسندیدگی کا اظہار ایڈیٹر زمیندار نے آپ کی تقریر کے متعلق پسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ غیراحمدی مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ صاف کردیا جاوے جس پر آپ نے فرمایا کہ تم نے کبھی کوئی جماعت نہیں بنائی؟ (الحکم جلد۱۶ نمبر۲۲،۲۳ مورخہ۲۱،۲۸؍ جون ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۰ تا ۱۳)

Page 64

پیشوں میں دخل میعاد اور فن طبابت ۱۱ ؍جون ۱۹۱۲ء ساڑھے گیارہ بجے ایک مریض سے فرمایا کہ ہر پیشہ میںمیعاد کو دخل ہے.ایک معمار کہہ سکتا ہے کہ میںمکان اتنے دنوں میں طیار کردوں گا ایک کلرک کہہ سکتا ہے کہ میںاتنے دنوں میں اس رجسٹر کی خانہ پُری کردوں گا.ایک درزی کہہ سکتا ہے کہ میں اتنے دنوں میں کپڑا سی کر تیار کردوں گا.لیکن ایک طبیب یہ نہیںکہہ سکتا کہ میں اتنے دنوں میں مرض کو اچھا کر دوں گا.ہاں جاہل طبیب ایسا کہہ دیتے ہیں لیکن جس قدر اعلیٰ درجہ کا طبیب ہو گا اسی قدر اس قسم کے دعویٰ سے ڈرے گا.ہم شوقین بھی اتنے ہیں کہ چین سے بھی دوائیاں منگوا لیتے ہیں اور محتاط بھی اس قدر ہیں کہ بعض وہ دوائیاں جو بڑی محنتوں اور صرف زر کثیر کے بعد میسر ہوئیں ان کو آج تک کسی مریض پر تجربہ نہیں کیا.صرف اس لئے کہ کوئی طبیب ایسانہیں ملا جو ان کے متعلق کوئی اپنا ذاتی تجربہ اور طریق استعمال بیان کرسکے.بوٹیاں اور ایسی دوائیاں جو سہل الوصول نہ ہوں ہم کبھی استعمال نہیں کرتے.(اکبر ) سفر لاہور کے دوران احباب کی دعوتیں حضرت خلیفۃ المسیح بمعہ خدام یوم السبت ۱۵ ؍جون ۱۹۱۲ ء دس بجے دن کے لاہور پہنچے.کھانے پینے اور رہائش کا انتظام تشفی آمیز تھا.ملک غلام محمد صاحب نے حضرت صاحب کی دعوت کرنی چاہی.فرمایا.کل علی الصبح جوار (مکئی ) کی چھوٹی سی روٹی اور چائے آپ پلا دیں.ملک صاحب نے اس کی تعمیل کی ایسا ہی قاضی حبیب اللہ کی درخواست دعوت پر ان سے شام کے وقت چائے پی.تعمیر مسجد پراظہار مسرت اور تقریر لاہور پہنچ کر سب سے پہلی بات جو حضرت خلیفۃ المسیح کو خوش کرنے والی ہوئی وہ مسجد احمدیہ ہے جو احمدیہ بلڈنگس کے وسط میں بنی ہوئی ہے.حضرت سب سے اوّل مسجد میں داخل ہوئے دو نفل نماز ادا کر

Page 65

کے بانیان مسجد اور ان کی اولاد اوراولاد در اولاد کے واسطے بہت دعائیں کیں.ایسی دعائیں کیں کہ فرمایا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ میری وہ دعائیں عرش تک پہنچ گئیں.حضرت نے اس مسجد کی خوشی کااظہار واپسی پر قادیان کے پہلے درس میں بھی کیا.مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد حضرت نے ایک مختصر سی تقریر کی جو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے مجھے لکھ کر دی تھی اور وہ درج ذیل ہے.چھوٹی بات سے بڑی بن جاتی ہے ہمیشہ کوشش کرو کہ اختلاف نہ ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہر ایک بات میں اتفاق اور وحدت کا رنگ رکھا ہے.پیمبر صاحب نے ہر ایک بات میں چاہا ہے کہ ہم ایک ہوں.آج اگر مسلمان ایک ہوتے تو کوئی قوم مقابلہ نہ کرسکتی. (الانعام : ۴۵) ( المائدۃ : ۱۵)قرآن کو جب چھوڑا.عداوت اور بغض آگیا.اسی طرح یہود تباہ ہوئے اسی سے مسلمان تباہ ہورہے ہیں.جب اٹکل بازیوں پر بات آگئی تو سب کے خیالات جدا.اس لئے خدا، بہشت، دوزخ وغیرہ سب جدا، نیوفیشن کے لوگ پرانے لوگوں کو اولڈ فیشن کہتے ہیں وہ ان کو ملحد کہتے ہیں.جھگڑے کی بناء قرآن کو چھوڑنا ہی ہے.منجملہ ان باتوں کے جو ایک کرنے والی ہیں.نماز، فرائض، خدا کو ماننا سب میں اب تک اتحاد ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا.اپنی صفوں کو تم سیدھی کرو.اگر تمہاری صفیں ٹیڑھی ہوں گی تو تمہارے دل بھی ٹیڑھے ہوں گے.اس لئے صفوں کوسیدھا کرنے کی ہمیشہ کوشش کرو.یہ مسجد مجھے بہت پیاری معلوم ہوئی ہے جب میںاس مسجد میں آیا ہوں مجھے دعا کی بڑی تحریک ہوئی ہے.بنانے والوں کی نسبت مجھے بہت راحت ہوئی ہے صف بندی کا فکر چاہیے.چھوٹی باتوں سے بڑی بات بن جاتی ہے اللہ تعالیٰ تم کو اتفاق کی توفیق دے.میں خد اکی تحریک سے کھڑا ہواتھا بناوٹ سے نہیں کھڑا ہوا.(ماخوذ از کلام امیرضمیمہ البدر جلد ۱۱ نمبر ۳۷ مورخہ ۲۷؍ جون ۱۹۱۲ء صفحہ ۳،۴)

Page 66

صرف مرید کہلانا مفید نہیں ایک شخص کا خط پیش ہو ا کہ آپ کے ایک مرید نے جھوٹی گواہی دی ہے.فرمایا.میری مریدی پر کیا منحصر ہے؟ لوگ امت محمدیہ میں شامل ہوکر زنا، چوری اور ڈاکہ زنی کرتے ہیں.رنڈیاں بھی مسلمان اور محبان حسین کے گروہ میں شامل ہیں.خدا کی مخلوق میں کیا کچھ بدیاں ہیں.کسی قوم میں داخل ہونے سے یا کسی کے مرید کہلانے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ انسان اپنے اعمال کو درست نہ کرے.ذریعہ نجات ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیحؑ سے سوال کیا کہ حضرت مرزا صاحب کے ماننے کے بغیر نجات ہے یا نہیں؟ فرمایا.اگرخدا کا کلام سچ ہے تو مرزا صاحب کے ماننے کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی.محمد ظہیر الدین اروپی کچھ عرصہ ہوا اخبار بدر میں ایک اعلان نکلا تھا کہ بعض لوگ خودبخود اشتہار چھاپتے ہیں ایسے اشتہارات سلسلہ احمدیہ کی طرف سے نہ سمجھے جائیں کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت اور رضامندی سے وہ نہیں ہوتے.اس پر منشی محمد ظہیرالدین صاحب اروپی کے ایک خط کی تحریک پر حضرت خلیفۃ المسیح نے حکم دیا ہے کہ اخبار میں شائع کردیا جاوے کہ ’’اس اعلان کے ساتھ محمد ظہیرالدین کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ وہ اعلان مولوی یار محمد و عبداللہ تیماپوری کے متعلق تھا مگر افسوس محمد ظہیرالدین نے اس کی عجیب تلافی کی ہے کہ اپنے ایک تازہ خط میں مجھے اطلاع کی ہے کہ میرا آپ کے بعض عقائد کے ساتھ اختلاف ہے.لہٰذا میں ان کی تحریر کے مطابق اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں.محمدظہیرالدین میرے عقائد سے اختلاف رکھتے ہیں.پس ایسی صورت میں وہ مینہہ سے بھاگ کر پرنالہ کے نیچے کھڑے ہوگئے.بھلا کسی فروعی اختلاف کا ذکر فرماتے تو مقام سکوت ہوتا.اب وہ مجھ سے عقائد کا اختلاف رکھتے ہیں اور اپنے عقائد پر مضبوطی سے قائم ہیں اس لیے میرا ان سے کیا تعلق اور میری جماعت کا ان سے کیا علاقہ.

Page 67

محمد ظہیرالدین نے عجیب تلافی کی ہے.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.‘‘ (ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۲ نمبر۲ ۰مورخہ ۱۱؍ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۲) درس خواتین میں سے چنے ہوئے انمول موتی خلاف قرآن اعمال نتائج فرمایا.اگر قرآن کے مطابق عمل کرو تو تمہارے سب کام سنور جاویں.ہمارے ملک میںایک فقرہ بہت دغا کا ہے.’’خالق سے خلقت رکھنا مشکل ہے‘‘.یہ کفر کا کلمہ ہے دیکھو اب مسلمانوں نے خلاف قرآن کیا تو تمام دنیا میں ذلیل ہوگئے بادشاہیاں جا رہی ہیں تمہیں تو خبر نہیں مگر آج کل ہمیں بہت دکھ پہنچ رہا ہے.مسلمانوں پر ہر طرف سے تباہیاں آرہی ہیں.حق مہر.متعہ فرمایا.مہر حیثیت کے مطابق مقرر کرنا چاہیے.متعہ ناجائز ہے اور گناہ.اصیل اور لونڈی فرمایا.اصیل کے حقوق لونڈی سے زیادہ ہیں مگر سزا بھی لونڈی کو اصیل سے نصف ہوگی.حافظات عورتیں فرمایا.یہ بہت غلطی ہے کہ مرد عورت کوئی سودا لینے جاوے تو مرد پیچھے کھڑا رہے اور عورت چیزیں پسند کرے.انگریزوں میں یہ بد رسم ہے.عورتوں کا یہ بہانہ ہے کہ مرد کیا جانیں خانہ داری کے کام.یہ غلطی ہے دیکھو تم سب میری عزیز بیٹیاں بہنیں ہو.میں حق کہتا ہوںکہ مردوں کے ماتحت کام کرو.قرآن کریم کا یہ حکم ہے.حافظات عورتیں وہ ہوتی ہیں جو خاوند کے مال کی حفاظت اپنی عزت کی حفاظت کرنے والیاں اولاد کی نگہبان ہوں.فضول خرچی نہ کرو فرمایا.اپنے گھروں کو جنت بناؤ.قرآن حمید نے مردوں کو تمہارا مصلح بنایا ہیگھر میں ایک بادشاہ چاہیے.مرد بادشاہ ہوتا ہے اس کی کمائی میں اسراف نہ چاہیے.دیکھو! میں تم کو پیار سے، محبت سے، اخلاص سے قرآن کریم کا حکم سناتا ہوں کہ فضولی نہ کرو.پانچ روپیہ کی آمد ہوتو بیس روپیہ کا خرچ نہ نکال لو.یا اگر بیس کی آمدن ہے تو پچاس کا خر چ نہ بنا لو.خدا جانے مرد

Page 68

بچارے کن مصیبتوں سے کماتے ہیں اور حلال طیب رزق کمانا سخت مصیبت کا کام ہے.پھر اگر بیوی تنگ کرے توحرام مال لانا پڑتا ہے.میں نے بعض عورتوں کو کچھ نصیحت کی.تو کہہ دیا آپ ہنسی کرتے ہیں یا کہ … اجی آپ سیدھے سادے آپ کو دنیاوی معاملات کی کیا خبر! بدظنی نہ کرو فرمایا.بدظنی نہ کرو ، بدظنی سخت گناہ کا کام ہے.عورتوں میں خاص کر یہ مرض بہت پھیلا ہوا ہے.امام شعرانی نے ایک لطیفہ لکھا ہے کہ ایک ولی اللہ لڑکوں سے خدمت لیتے مگر بدظن لوگوں نے بہتان باندھا کہ یہ سیاہ کار ہے.آخر کار ایک دن انہوں نے دعا کی کہ یا مولیٰ کریم ! اس محلہ میں اور مجھ میں فیصلہ کردے.آخر امام شعرانی فرماتے ہیں.میں نے وہ محلہ دیکھا ہے اس میں اب تک کنچنیاں اور گنڈے اور ہیجڑے آباد ہیں.اللہ تعالیٰ بڑی غیرت والا ہے.عورتوں کا حصہ فرمایا.لوگ اب عورتوں کو حصہ نہیں دیتے ہم نے کسی شخص کو نصیحت کی کہ یہ مال اپنی بہن کو دے دو.کہا میں کچھ نہیں دوں گا مگر اس کو بھی کچھ نہ ملا.اچھے اخلاق فرمایا.اچھے اخلاق یہ ہیں.دغا، فریب، جھوٹ، تکبر، غیبت، کم حوصلگی سے بچنا.مہمان نوازی، اخلاق سے پیش آنا.دینی باتوں کی ہنسی نہ اڑائو فرمایا.دین کی باتوں کی ہنسی نہ اڑاؤ.جو دین کی باتوں کو حقیر جانے اس کو مطلق محبت کی نگاہ سے نہ دیکھو.اذان میں اللہ اکبر کیا اعلیٰ درجہ کا فقرہ ہے پھر ساری اذان کو غور سے سنو تو کیا لطیف مضمون ہے مگر ہمارے ملک کے لوگ اذان ہوتی تو کھڑے ہو کر سنتے اور پھر چل پڑتے ہیں مگر اذان تو نماز کو بلانے والی ہوتی ہے.عورتوں کی نماز میں سستی فرمایا.عورتیں نماز میں بے حد سست ہوتی ہیں خاص کر عصر، شام، فجر کو تو ضرور بہانہ بنالیتی ہیں کہ روٹی پکانی ہے.ادائیگی نماز میں آسانی فرمایا.یہ آسان بات ہے کہ غریب بی بی شام کو روٹی پکائے تو ایک پانی کا لوٹا اور جا نماز چولہے پاس رکھ لے جب اذان ہو وضو کر وہیں نماز پڑھ لے.

Page 69

باورچی خانہ میں نماز فرمایا.میری ماں نے تو باورچی خانہ میں تو ایک جانماز ایک کھونٹی پر ٹنگی ہوئی تھی نماز کا وقت ہوتا تو بے تامل وہیںنماز پڑھ لیتیں.نیکی کی تحریک فرمایا.حکم قرآن ضرور کسی نہ کسی کو پہنچاتے رہو.عورتوں میں تبلیغ کا مادہ کم ہے اور اور جب ہم کسی کو کہتے ہیں کہ تبلیغ یعنی نیکی سمجھا دو تو کہتی ہیں اجی ہمیں کیا ضرورت کہ کسی کو رنجیدہ کریں یا لڑائی مفت کی لے لیں.مگر یہ غلط راہ ہے کوئی برا مانے یا نہ تم حق کہنے سے نہ رکو.اولاد کے لئے دعا اور بیٹی کی عظمت فرمایا.اولاد کے لئے دعائیں مانگو.بہت بہت دعائیں کرو.تمہارے خاوند نیک ہوں.اولاد نیک ہو.لڑکی ہونے پر برا نہ مانو.نیک ہوخواہ لڑکی ہو.دیکھو! ہماری سرکار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک ہی بیٹی فاطمہتھی۱؎ مگر دیکھو قیامت تک فاطمہ کی اولاد کو خدا تعالیٰ نے کتنا بڑھایا گویا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے باوا آدم معلوم ہوتے ہیں.تکرار مضامین قرآنی کی حکمت فرمایا.بعض لوگ نادانی سے اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مجیدمیں باربار ایک ہی مضمون کیوں ہے.دیکھو! یہ انسان کی فطرتی بات ہے جس طرح باربار سانس لینے کی ، کھانے کی ، پینے کی، ضروری حاجات کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح قرآن پاک کی نصائح سے سیاہی دل کی دور ہوتی ہے.بہکانے والی عورتوں سے بچنے کی نصیحت فرمایا.بعض عورتیں نئی بیاہی دلہن کو بہکاتی ہیں کہ تیرا خاوند ایسا ہے.تجھے یوں اس پر حکمرانی کرنی چاہیے.اس طرح منہ موڑے رکھنا چاہیے تا وہ تیرا تابع ہوجاوے.یہ گمراہ کرنے والیاں ہوتی ہیں.ایسی عورتوں کو گھر میں نہ آنے دو.شریف بیبیاں ان کو منہ نہ لگائیں.اختتام درس پر زریں نصائح درس ختم پر اکثر فرمایا کرتے ہیں.جاؤ اپنے گھروں کو جنت بنائو.۱؎ یعنی آنحضورؐ کی ایک ہی ایسی بیٹی تھی جن سے اولاد چلی.(ناشر)

Page 70

اپنے خاوندوں کو راضی کر لو.اولادیں نیک تربیت والیاں بناؤ.اللہ تعالیٰ تمہیں عمل کی توفیق عنایت کرے.آمین! عاجزہ سکینۃ النساء از قادیان (الحکم جلد ۱۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۴ ؍ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۴ ) ملفوظات حضرت خلیفۃ المسیح (مرقومہ محمد عبداللہ بوتالوی منشی ضلعداری بیریوالہ) بدی کا مقابلہ کرو ۱۳ ؍ مارچ ۱۹۱۲ء فرمایا.ہر بد کار جب اس کی ذرا بھی بات ماننے لگیں تو وہ موقعڈھونڈنے لگ جاتا ہے کہ ہم اس کو اور بات بھی کسی طرح منوالیں.میں نے جموں میں ہندو لڑکادیکھا میرے پاس آیا.اس کو ایک سخت بیماری تھی.اس کو میں نے کہا کہ تم بتلاؤ کہ کوئی عجیب بات اس شہر میں کیا ہے تم جو لچے ہو تم لوگوں کو کس طرح بگاڑلیتے ہو.اس نے کہا کہ میری عادت تھی کہ کسی کا مفت خدمتگار بن جاتا.پھر اس کو بدی پر لگا لیتا اور اس سے فائدہ اٹھاتا.اس نے ایک لڑکا بے ریش دکھایا کہ میں اس کے پاس مفت نوکر رہ پڑا.میں رات کو اس کو مٹھیاں بھرنے لگا اور بدی کی تحریک دے دی.جب وہ سمجھ گیا تو جھٹ کھڑا ہوگیا کہ کوئی ہے ؟ میں وہاں سے تیر کی طرح بھاگا اور نکل گیا پھر اب تک میں اس کے سامنے کبھی نہیں ہوا.وہ کہنے لگا کہ میں اب بھی اس کو دیکھ کر بھاگ جاتا ہوں.میں تم سب کو کہتا ہوں کہ جب کوئی بدکار بدی کی ترغیب دینے لگے تو جھٹ اس کے دشمن ہوجاؤ.اللہ کا فضل تم پر ہو.میں چاہتا ہوں کہ تمہارے دوست برے نہ ہوں اور ایسے بھی ہوں جن کے آگے جا کر تم ہاتھ رکھو اور محتاج ہو.بدمعاش لوگ تمہاری کمزور جگہ ڈھونڈتے ہیں.امیروں کو ان کے نوکر خراب کرتے ہیں.میاں اور سرکار کہہ کہہ کر بڑی مصیبت میں ڈالتے ہیں.دعا کرانا سنت ہے ۱۸ ؍ مارچ ۱۹۱۲ء.ایک شخص نے عرض کی کہ میرے دل میں جب کبھی خیال آجاتا ہے کہ حضور کو دعا کے واسطے عرض کروں تو ساتھ ہی یہ بھی خیال آجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو

Page 71

سب حال معلوم ہے پھر دعا کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر فرمایا.پیغمبر صاحب ﷺ نے حضرت عمر کو فرمایا تھا جب وہ مکہ جانے لگے لَا تَنْسَانِیْ مِنَ الدُّعَائِ (یعنی مجھے دعا سے نہ بھلانا) وہ کتنے بڑے آدمی تھے.ان سے بڑا تو کوئی نہیں ہوسکتا.بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے مگر دعا بھی اسی نے بتائی ہے.نمازیں بھی اسی نے فرمائی ہیں روزے بھی اسی نے فرمائے ہیں.قرآن شریف سائنس کی طرف متوجہ کرتا ہے ۱۸ ؍مارچ ۱۹۱۲ء.فرمایا.ہماری کتاب بڑی عجیب ہے.ہماری کیا؟ حضرت نبی کریم ﷺ کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی.دنیا کی کوئی کتاب نہیں جو سائنس کی طرف توجہ دلاتی ہو.قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(البقرۃ : ۱۶۵) اس میں آسمان کی بناوٹ کا ذکر ہے. پھر زمین کے بارہ میںسارا علم جیالوجی داخل کردیامیں علم جغرافیہ آجاتا ہے.اس میں سٹیمر، جہاز، قطب شمالی کی سوئی، سمندر، پانی، ہوا اور کشتیوں کا علم آجاتا ہے. اس میں بخارات اور بارشوں اور نباتات کا علم آجاتا ہے.اس میں جانوروں کا علم آجاتا ہے. اس میںہوا اور ہوا کی قسموں کا ذکرہے.کاربالک ہائیڈروجن وغیرہ موٹی موٹی چیزیں ہیں.علاوہ ان کے اور بھی ہوا میں کئی اجزا ہیں.بادلوں میں روشنی، لچک، ایتھر کاکارخانہ الگ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری کتاب کسی علم سے نہیں ڈرتی. اس میں نشان ملتے ہیں مگر عقلمندوں کے لئے.وہ کون لوگ ہیں (اٰل عمران: ۱۹۲) اس میں اب ہی مجھے ایک لطیفہ خیال میں آیا کہ اس موجودہ سائنس پر جس قدر لوگ غور کرتے ہیں وہ دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو اٹھتے بیٹھتے جب سوچتے ہیں تو ساتھ ہی خدا کو بھی یاد کرلیتے ہیں.ایک وہ جو قدرت الٰہی پر غور کرتے ہیں تو مولا کو بھول جاتے ہیں.یہاں یہ فرمایا ہے کہ اگر تم سائنس پر غور کرو

Page 72

تو اللہ کو بھی یاد کیا کرو کیونکہ ایسے وقت میں جواللہ کا خیال نہیں رکھتے ان کو سکھ حاصل نہیںہوتا.میں نے سنا ہے کہ جس نے کونین بنائی تھی اس کو قید کردیا گیاتھا اس خیال سے کہ اس نے کسی جن کو قابو کر کے اس سے یہ کام لیاہے.درس خواتین سے قیمتی نوٹ (مرقومہ سکینۃ النساء قادیان) متقی کی تین صفات فرمایا.( الفاتحۃ : ۶) میں جو دعا ہے اگر مقبول ہوجاوے تو انسان متقی بن جاتا ہے.متقی کی تین صفتیں ہیں.(۱) متقی وہ ہے جو غیب سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوے.(۲) جس طرح ہوسکے نماز قائم رکھے اور اسے سنوار کر ادا کرتا رہے.(۳) اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے.دینی چندہ دینے میں سست نہ ہو.فتح مند کون ؟ فرمایا.فتح مند وہ ہوتا ہے جو اسلام کے پھیلانے میں خود عمل کرنے میں کوشش کرتا رہتا ہے.چاہے ہزار کوئی زور لگائے کہ یہ ہلاک ہو، ذلیل ہو، مگر وہ اللہ والی جماعت بنانے میں مصروف رہتا ہے اور جب خدا تعالیٰ کا نام لینے اور خدا کاکلام پہچاننے والی جماعت بن جاتی ہے تو وہ دنیا سے بلا لیا جاتا ہے.مامور من اللہ کی بعثت کا وقت فرمایا.جب کوئی بستی یا ملک گندے، بدکار، بدزبان لوگوں سے بھر جاتا ہے تو خداوند کریم ضرور وہاں کوئی اپنا پاک بندہ بھیجتا ہے.چشم معرفت رکھنے والا انسان فرمایا.چشم معرفت رکھنے والے انسان کو چاہیے کہ دیکھے تو سہی جہاں کوئی نیا مذہب نکلا ہے وہاں کون اور کیسے لوگ اس دین میں داخل ہوتے ہیں آیا گندے، بدزبان، بدکارہیں یا نیک جسے یہ پہچان نہیں وہ ہرگز کوئی نیک بات نہیں سمجھ سکتا اور خدا تعالیٰ اس کے

Page 73

دل پر مہر کردیتا ہے.پھر نہ وہ حق کے شنوا رہتے ہیں نہ بینا.افشائے نفاق فرمایا.دنیا میںنفاق بہت پھیل رہا ہے مردوں میں، عورتوں میں بے حد نفاق ہے اس وجہ سے عمدہ فیصلہ نہیں ہوتا.منافق کی نو نشانیاں فرمایا.منافق کی نو نشانیاں ہیں.جھوٹ۱ بولے، وعدہ ۲خلافی کرے، خیانت ۳کرے، گندی گالیاں۴ نکالنے والا، معاہدہ کر۵کے غداری کرنے والا، عشاء کی۶ نماز میں سستی، صبح کی۷ نماز میں سستی، عصر کی ۸نماز میں سستی کرنے والا، چندہ نہ د۹ینے والا نہ دلانے والا بلکہ دوسرے کو روکنے والا.منافق کی مثال مکھی سے فرمایا.منافق کی مثال مکھی کی طرح ہے یعنی وہ شہد پر بھی بیٹھتی ہے اور پاخانہ پر بھی مگر اس کا تعلق کسی سے نہیں ہوتا یہی حال منافق کا ہوتا ہے.ناصحین کی تین اقسام فرمایا.ناصح تین قسم کے ہوتے ہیں.اوّل.منافق وہ جو کسی کا مذاق ہوجیسا کسی کا مذاق ہو وعظ کرتے ہیں.ہمارے پرانے وطن بار کی طرف چوری چھڑانے کا وعظ نہیں کریں گے.دوم.خود بے عمل دوسروں کو بتانا.سوم.حق کہنے والا خود حق پر عامل مگر اس پر لوگ اعتبار کرتے نہیں اور کوئی نہ کوئی اعتراض کردیتے ہیں.تم نیکی سنانے والے پر اعتراض نہ کیا کرو.یہ بھی قدر کرو کہ نیکی بتاہَے.اعتراض کر کے اپنے آپ کو گناہگارنہ بناؤ.گھروں میں داخل ہونے پر سلام فرمایا.جب گھروں میں داخل ہو السلام علیکم ضرور کہہ لیا کرواس سے برکتیں نازل ہوتی ہیں.سبت کے معانی فرمایا.سبت آرا م کو بھی کہتے ہیں اور ہفتہ کو بھی مگر آرام ملنے سے تو خدا بھول

Page 74

جاتا ہے.غریبی بھی شامت ہے کہ نیک اعمال کی فراغت نہیں ملتی مگر میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ادھر جمعہ آیا اور ادھر عورتوں نے اپنے دکھ بیان کرنے شروع کئے کہ نئے کپڑے ہوں، وہ چیز ہو، یہ ہو تو مجلس میں بیٹھنے کے قابل ہوں.……………… کتاب کی اشاعت کے متعلق نصیحت میرے احباب کو معلوم رہے کہ حضور امیر المومنینؓ کی سوانح کی تسوید و تسطیر و ترتیب کا کام الحمدللہ بہت کچھ ہوچکا ہے.ایک روزمیں( اکبر شاہ خان نجیب آباد آپ کی سوانح لکھنے کی غرض سے حسب معمول کا غذ اور پنسل لے کر خدمت میں حاضرہوا تو فرمایا کہ آپ کا اشتہار بدر میں میں نے پڑھا کہ ہم کتاب کو آگرہ یا کانپور میں ایسا اچھا چھپوائیں گے … گویا آپ کتاب کو بت بنانا چاہتے ہیں.....اتنے بڑے اہتمام کی کیا ضرورت ہے.پھر فرمایا.اب صرف قادیان کے حالات رہ گئے ہیں ان کو سب جانتے ہیں کسی سے پوشیدہ نہیں خیر ہم وہ بھی لکھوادیں گے مگر ابھی چند روز صبر کرو.تعطیلات کے فوائد درمیان میں تعطیل بھی ضروری ہے.دیکھو لڑکوں کو سالانہ چھٹیاں ہوتی ہیں.ہم نے ایک مرتبہ سالانہ چھٹیوں کے موقع پر ان کو بتایا تھا کہ یہ تعطیل نہایت ضروری ہے.تعطیل سے قویٰ میں قوت پیدا ہوتی ہے اور دماغی نشوونما میں ترقی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے بھی اس کواپنے قانون قدرت میں ضروری قرار دیا ہے.درختوں میں اگر خزاں نہ ہوتو بہار نہ آئے.کچھ عرصہ تک بے برگ وبار رہ کر پھر بڑے زور سے ان میں پتے اور کلیاں نکلنی شروع ہوتی ہیں.یہ بھی ایک نکتہ ہے اس کو سمجھواور غور کرو.اور کچھ روز صبر کرو.……………… تحریر اظہار خوشنودی ظہیر الدین اروپی صاحب کو آپؓ نے مندرجہ ذیل تحریر اظہار خوشنودی

Page 75

میںدی.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم وآلہ مع التسلیم اما بعد میاں ظہیر الدین اپنی غلطی سے پشیمان ہیں.فَیَغْفِرُاللّٰہُ لِیْ وَلَہٗ وَلَا تَثْرِیْبَ عَلَیْہِ الْیَوْمَ میں اس کے اس رجوع پر بہت خوش ہوگیا.جَزَاہُ اللّٰہُ جَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ نور الدین ۲۹؍ جولائی ۱۹۱۲ء..............................بے کار روپے پر زکوٰۃ ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ اگر ایک رقم پر اس سال زکوٰۃ ادا کی جائے اوراگلے سال پھر وہ روپیہ بے کار پڑا رہے تو اس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا.شریعت اسلام میں جائز نہیں کہ انسان اپنے روپے کو بے کار رکھ چھوڑے اس واسطے زکوٰۃ ضروری ہے.حق مہر ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ ایک مرد اپنی عورت کو طلاق نہیں دینا چاہتا لیکن عورت کے رشتہ دار طلاق لینے کے خواہشمند ہیں.اس صورت میں مرد پر مہر کا ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ فرمایا.اس صورت میں مرد کو مہر قطعاً نہیں دینا پڑتا بلکہ مردکچھ لے لے تو بھی جائز ہے.(البدر جلد ۱۲ نمبر ۶ مورخہ ۸؍ اگست ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ تا ۵) درس خواتین میں سے کچھ فرمان

Page 76

اولاد میں عورتوں کے لئے بڑا فتنہ فرمایا.یہ جو قرآن حمید میں فرمایا گیا ہے  (التغابن :۱۶) یہ بالکل ٹھیک بات ہے اور خاص کر عورتوں کے لئے بہت ہی فتنہ ہے.فتنہ عربی بولی میں سنار کی کٹھالی جس میں سونا کھرا کھوٹا پہچانتے ہیں اسے بھی کہتے ہیں.تو انسان مومن مال، اولاد میں پہچانا جاتا ہے.مثلاً دیکھو صبح کی نماز کا وقت ہے ادھر رات بچہ نے پیشاب کر کر کے کپڑے بھگو دیئے بدن پر پیشاب لگادیا وہ دھونا ہے ادھر سردی ہے بچہ رو رہا ہے.ادھر میاں کا ناشتہ تیار کرنا ہے تو ایسی حالت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ نماز پڑھ لینا بہادروں کا کام ہے گویا فتنہ سے کامل اترنا ہے.اسی طرح عصر کو، شام کو، عشا کو ایسے ہی مشکلات سے نکل یاد خدا کرلینا بہت بڑا بہادری کا کام ہے.خوف خدا والوں کا حال ایک بزرگ نے اپنی بیٹی کہیں دور بیاہ دی پھر مدت کے بعد وہ میکے آئی تو وہ بزرگ بھری مجلس میں بیٹھے تھے جونہی دامادان کی نظر پڑا.فرمایا کیوں جی جب ہماری لڑکی ڈولی میں تھی نماز کہاں پڑھی؟ اس نے کہا حضور شاید اندر پڑھ لی ہوگی.کہاباہر چونکہ ناواقف ہوتے ہیں باہر کہاں نکلتی، تو پھر کہا وضو کہاں کیا نہ پڑھی ہوگی؟ وہ خاموش رہا.تو فرمایا تو نے اسے طلاق کیوں نہ دے دی.یہ تھا خدا کے خوف والوں کا حال.نماز عصر فرمایا.دھوپ زرد ہوجاوے تو عصر کی نماز جائز نہیں.نیکی کو تنگی اور تکلیف نہیں فرمایا.کوئی آدمی تنگی و تکلیف میں رہنا نہیں چاہتا.لوگوں نے یہ قرآن حمیدکے خلاف مثل گھڑی ہوئی ہے کہ نیکوں کو تکلیفیں ہوتی ہیں.یہ جھوٹی کہانیاں بنی ہوئی ہیں اور یہ کہ پیغمبر ﷺ جَو کھاتے بکریوں کا دودھ پیتے تھے.اجی عرب میں جَو تو پیدا ہی ہوتے ہیں.ہمارے نبی اکرم ﷺکے پاس بڑے بڑے جلیل القدر بادشاہوں کی بیٹیاں بیاہی تھیں.ایک دفعہ اس قدر روپیہ آیا کہ صحن مسجد بھر گیا.تو آپ نے کوئی حساب نہ رکھا اور حکم فرمایا کہ جتنا کوئی چاہے لے جائے.کیا یہ بھوکوں ننگوں کا کام ہے.یہ بہت غلط باتیں ہیں.مومن اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا لگتا

Page 77

ہے اور اللہ پاک اس کو ہر تنگی سے ضرور نکالتا ہے.اب دیکھو قادیان کی طرف یہاں کا لباس، زبان، طرز معاشرت کوئی اچھی نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنا ایک بندہ پیدا کیا.ہم سب پروانے کی طرح اس پر نثار ہیں.فرقان کے معنی بھی یہی ہیں ہر دکھ سے سکھ پہنچانا ہر تنگی سے نجات دینا.کوئی متقی ہو ضرور اسے تنگی سے فراخی ہوتی ہے اور دشمن ہلاک ہوجاتا ہے.یہ نہ ماننا خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے.خدا کی نافرمانی فرمایا.کوئی شخص جب تک کوئی گناہ قصور نہ کرے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بادشاہی نہیں لیتا جب تک اس کی نافرمانی نہ کی جاوے.ایک میرے پیر تھے حضرت شاہ عبدالغنی.میں نے سنا ان کا مرید دہلی کا ایک شہزادہ تھا، کامران نام.ایک دن اس نے سنایا حضرت ہمارے قلعہ میں اس قدر سیہ کاری ہوتی ہے.رات کو جتنی رذیل چوہڑیاں ہیں وہ شہزادوں کے بستروں پر اور جس قدر شہزادیاں ہیں وہ رذیل لوگوں کے بستروں پر ہوتی ہیں.تو شاہ صاحب نے فرمایا.تم نکل آؤ وہاں سے.کہتے ہیں کہ نماز عصر کا وقت تھا کہ شہزادہ کامران مع اہل و عیال آگیا.حضرت کو الہام ہوا کہ ہم نے قلعہ کامران کی خاطر سے بچایا ہوا تھا.پھر رات کو وہاں غدر ہوگیا اور بڑی بڑی شریف شہزادیاں خاک میں مل گئیں اور عزت برباد ہوئیں.مصائب آنے کے اسباب فرمایا.تکبر فضولی نکما پن تباہ کردیتاہے.یاد رکھو جو تکلیفیں مصائب آتے ہیں ضرور کسی گناہ کے سبب آتے ہیں مگر اب مسلمان اس مسئلہ کو مانتے نہیں.احکام قرآن چھوٹنے کا نتیجہ فرمایا.دنیا میں اللہ تعالیٰ کی کتاب پھیلاؤ حدیثوں کو پھیلاؤ.یہ بھی لوگوں نے دنیا میں اب راہ نکالی ہے کہ لمبی نمازیں پڑھتے ہیں مگر لڑکیوں کو حصہ نہیںدیتے یا تو عورت کو گھر کی مالک ہی بنا دیتے ہیں یا پھر ذرا غصہ آیا بس چوٹی پکڑ کر باہر نکال دیا.قرآن کے احکام چھوڑدیئے.خانگی لڑائی جھگڑوں کا سبب فرمایا.یہ بھی ایک بڑا دکھ ہے گھر گھر لڑائی ہے.ساس بہؤوں میں لڑائی ،دیورانی جٹھانیوں میں فساد، میاں بیوی میں جھگڑا، بہن بھائیوں میں، رشتہ داروں میں

Page 78

پھوٹ.اس سے تو مسلمان ذلیل ہوگئے مگر قرآن حمید نے اس کی کیا عمدہ راہ بتائی تھی کہ تمہارے گھر الگ الگ ہوں.جب کبھی محبت آئی آپس میں مل لیا.اصل میں جب کبھی کوئی لڑائی فساد ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ہوتا ہے.کسب حلال اور محنت کی کمائی فرمایا.محنت کر کے کھانا بہت خوشگوار ہوتا ہے اور انسان خوش رہتا ہے.جموں میں ایک دفعہ میں نے دیکھاکڑکڑاتی دھوپ گرمیوں کے دنوں میں ایک موچی دیوار کے سایہ تلے بیٹھ کر جوتے گانٹھا کرتا.میں خود اس کے پاس گیا کہ جوتا گانٹھ دے حالانکہ جموں میں ہمیں خود جوتے گانٹھوانے کی کیا ضرورت تھی.تو وہ کہتا ہے جا میاں اس وقت نہیں.یہ آرام کا وقت ہے.فرمایا.حضرت عالمگیر بہت بڑے عالیشان بادشاہ تھے.زیب النساء ان کی بہت پیاری بیٹی تھی.دونوں باپ بیٹی قرآن مجید لکھتے یا ٹوپی کاڑھتے اور اسے فروخت کروا کر حلال طیّب روٹی کھاتے.بلبن التمش بھی یہی کرتے.محنت کا کھانا، حلال اور طیّب، کیا عمدہ بات ہے.دیکھو! میں خود بھی محنت سے کھاتا ہوں اور خوب محنت کرتا ہوں.پیری مریدی کے روپیہ کو میں دیکھتا بھی نہیں.نکمی عورتیں فرمایا.نکمی عورتیں اپنے خاوندوں کے لئے بہت بہت دکھ بنا لیتی ہیں.شادیوں غمیوں کے لئے ناحق فضول سامان بنا لیتی ہیں.سو تم یہ طریق چھوڑ دو.فقط سکینۃ النساء از قادیان (الحکم جلد ۱۶ نمبر ۲۸، ۲۹ مورخہ ۱۴، ۲۱ ؍ اگست ۱۹۱۲ ء صفحہ ۴،۵) عقیقہ و ختنہ ایک شخص نے عقیقہ و ختنہ کے متعلق کچھ مسائل لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں بھیجے تھیحضرت نے ان کی تصحیح تصدیق کی اس واسطے فائدہ عام کے واسطے درج ذیل کیے جاتے ہیں.جاننا چاہیے کہ جب لڑکا پیدا ہو تو اس کو آلائش سے صاف کرکے نہلائیں اور سفید کپڑے پہنائیں اور زرد کپڑے سے احتراز کریں اور اس کے داہنے کان کی طرف تکبیر کہیں اور نام اس کا نیک

Page 79

رکھیں جیسے عبداللہ یا عبدالرحمن یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں پر جیسے محمدعلی یا احمدحسن وغیرہ.اور ساتویں دن روز پیدائش سے حساب کرکے عقیقہ کریں کہ سنت ہے.اگر بیٹا ہوتو دو بکرے اگر مقدور ہو، ورنہ ایک بھی درست ہے اور اگر بیٹی ہو تو ایک بکری نذراللہ ذبح کریں اور گوشت احباب اور عزیزوں کو، مسکینوں کو دیں.بکری میں نرومادہ کی کوئی احتیاط نہیں مگر اعضا سب درست ہوں.بچہ کے بالوں کے برابر وزن چاندی خیرات کریں.بکرا ذبح کرتے وقت یہ دعا پڑھے مگر جس وقت بال نائی اتارے اسی وقت بکرا بھی ذبح ہو.دعا کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ یہ میرے فلانے بیٹے کے لیے قربانی ہے.لہو اس کا بدلہ ہے اس کے لہو کا، گوشت اس کا عوض ہے اس کے گوشت کا اور ہڈی اس کا بدلہ ہے اس کی ہڈی کا.اس طرح سے سب عضو کا نام لے کر حتیٰ کہ بالوں تک بھی کہے.ختنہ سنت ہے اور جس کا پیدائشی ختنہ کیا ہوا ہو اس کا دوبارہ کرنا لازم نہیں ہے.ختنہ میں تمام جلد یا نصف سے زیادہ کٹ جاوے تو جائز ہے.اگر نصف کٹے تو ناجائز ہوگی.(البدر جلد۱۲ نمبر۷ مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۱۲ء صفحہ ۲) ملفوظات حضرت خلیفۃ المسیح ؓ منّاد فرمایا.مسیحی لوگ واعظوں کو مَنّاد کہتے ہیں.یہ کوئی لفظ نہیں ہے اصل لفظ مُنَادِی ہے اور مُنَادی کرنے والے کو نادی کہتے ہیں.یورپین کی ناواقفی (اٰل عمران:۱۹۶) اس پر ایک لطیفہ فرمایا کہ ہندوستان میں ابھی علم نہیں.عیسائی لوگوں نے اور یورپین نے مسلمانوں کو بڑا ذلیل سمجھ رکھا ہے.ایک لکھتا ہے کہ ازہر ایک مدرسہ مصر میں ہے.میں ایک انگریز کے ساتھ تھا ایک لڑکی مسجد میں آگئی وہ دیر تک اس کو دیکھتا رہا.میں حیران رہا اور پوچھا کہ اس میں کیا ہے جو تم اس قدر حیرت سے

Page 80

اس کی طرف دیکھ رہے ہو؟ اس نے کہا کہ ہم نے یورپ میں پڑھا تھا کہ مسلمانوں نے عورت میں روح کو مانا ہی نہیں اور وہ مسجد میں آ ہی نہیں سکتی.میں نے آج اس لڑکی کو مسجد میںدیکھا ہے کہ مسلمان تو عورت کا وجود مانتے ہیں اور ان کو موجود سمجھتے ہیں.عورتوں کے حقوق ایک آریہ مجھ سے کہنے لگا کہ آخر عورت بھی کوئی چیز ہے.میں نے کہا کہ عورت تو ہماری ماں ہے.اس نے کہا کہ اس کے حقوق کیوں نہیں لکھے؟ میں نے یہ آیت نکال کر دکھائی کہ کوئی نیکی کرے عورت ہو یا مرد، ہم اس کی نیکی کو ضائع نہیں کرتے.وہ میرے ہاتھ سے قرآن لے کر غور سے دیکھتا رہا.اس نے کہا کہ ہم کو تو یہ پڑھایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے ہاں عورت کوئی چیز ہی نہیں.انگریزوں نے ایک ذلت عورت کی تو یہ کی ہے کہ عورت کے باپ کی قوم اور اس کا نام سب کچھ چھین لیتے ہیں خاوند کی طرف لیڈی منسوب ہوجاتی ہے.دوسرے اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر ارب روپیہ بھی والدین سے لے آوے تو ایک پیسہ کا معاہدہ بھی خاوند کے اذن کے سوا نہیں کرسکتی.ایک دفعہ ایک عیسائی نے ہماری دعوت کی.اندر سے بلایا ’’لیڈی پیٹرسن‘‘! میں نے کہا کہ عورتوں کے حقوق پر ہی تو بحث تھی سو ایک تو تم نے اس کا نام و نشان ہی بُرد کردیا.دوسرے یہ کہ وہ ایک پیسہ کا معاہدہ بھی خاوند کے اذن کے سوا نہیں کرسکتی.پس ہمارا تمہارا مباحثہ تو ختم ہوگیا.ـــــــــــ...............................

Page 81

درس خواتین سے قیمتی نوٹ (مرقومہ سکینۃ النساء از قادیان) عورتوں میں صبر و توکل فرمایا.میرا تجربہ ہے کہ جب انسان آرام کے کھانے کو دکھ کے ساتھ کھاتا ہے تو ذرا بھر برکت نہیں ہوتی مگر عورتوں میں صبر ، توکل بہت کم ہوتا ہے.مسلمانوں میں تکبر فرمایا.غریبی بھی ذلت ہے مگر دولتمند خدا کی طرف سے غافل ہو جاتا ہے اور متکبر ہوجاتا ہے.یہ مرض مسلمانوں میں بہت بڑھ گیا ہے.دیکھو ان کی بادشاہیاں جارہی ہیں مگر تکبر ان میں بے حد ہے.الگ الگ گھر بنائو فرمایا.خدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ اپنے اپنے الگ الگ گھر بناؤ پھر کوئی فساد نہیں ہوگا.اصل میں ساس بہوؤں کے، نندوں بھاوجوںکے، دیورانیوں جٹھانیوں کے جھگڑے اسی واسطے زوروں پر ہیں کہ ایک جگہ اکٹھے ایک گھر میں رہتے ہیں.فرمایا.میرے خیال میں تو میاں بیویوں کے بھی الگ گھر ہونے چاہیے.جب آپس میں محبت کا خیال آوے میل ملاقات کرلیں.بیوی کی چیزوں کا تجسس فرمایا.میں نے اپنی بیوی کی چیزیں کبھی نہیں دیکھیں نہ ہمیں اب تک معلوم ہے کہ ان کے پاس کتنے ٹرنک، برتن، کپڑے، چیزیں ہیں.ہمیںکیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ عورتوں کی باتوں میں دخل دیں.فرمایابلکہ میں اپنی بیوی کی کوٹھڑی کی جانب بھی کم ہی جاتا ہوں.زبان پر قابو رکھو فرمایا.اپنی زبان قابو میں رکھو.تمہاری زبان سے، ہاتھ سے، پاؤں سے، کان سے، آنکھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے.حیض میں قرآن پڑھنا کسی خاتون کو دریافت مسئلہ پر فرمایا کہ حیض میں قرآن بادب پکڑے اور پڑھ لے جائز ہے.سبحان اللّٰہ والحمدللّٰہ.پڑھنا

Page 82

جائز ہے.نماز کا حکم نہیں اس لیے کہ نماز عظیم الشان چیز ہے.حیض میں بدبو آتی ہے عورت ہاتھ، منہ، پاؤں نہیں دھوسکتی.دماغ میں کمزوری آجاتی ہے.فرشتوں سے ملاقات نہیں ہوسکتی اس لیے نماز نہیں پڑھنی.دیکھو دوسرے مذاہب میں ایسی احتیاط ہے کہ عورت کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھا سکتے مگر ہماری سرکار حضرت صلعم نے بہت بڑا احسان فرمایا کہ فرمایا قرآن متقی بناتا ہے تو سوائے خاص حالتوں کے قرآن پڑھنا پکڑنا جائز ہے.نبی عربیؐ کے احسانات فرمایا.دیکھو! تم پر نبی عربی صلعم نے کس قدر احسان کئے ہیں اور وہ کیسا جامع کمالات، رحمۃ للعالمین، خیرخواہ مخلوق تھا.وہ عظیم الشان نبی اکرم کہ ہم کو کھانے کے، پینے کے، پہننے کے، اٹھنے کے، بیٹھنے کے، حتیٰ کہ پاخانہ، پیشاب کے آداب سکھائے اور دعائیں سکھلائیں.ہرایک بستی میں داخل ہونے، سفر پر جانے کی ایسی ایسی بے نظیر دعائیں سکھلائیں کہ سبحان اللہ بے اختیار اس پیارے نبی پر درود پڑھنے اور دعائے رحمت مانگنے کو دل چاہتا ہے.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ.نبی اور رسول کو پہچاننے کا معیار فرمایا.نبی اور رسول لوگوں کو سچا پہچاننے کا پختہ معیار یہ جان لینا چاہیے کہ اوّل تو یہ لوگ اگلے نبیوں کی ہدایات پر قائم رہتے ہیں.ان کی تعلیم ایک ہی ہوتی ہے یعنی خداوند کریم کو ایک مانو، اس کے احکام پر چلو.دوم.یہ لوگ مخلوق کے بہت خیرخواہ ہوتے ہیں.کوئی انہیں ستائے، مارے، تکلیفیں دے مگر ان کے لیے دعائے نیک مانگتے ہیں.ہاں کوئی سخت تکالیف دینے میں حد سے گزر جائے تو معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں.سوم.اس شہر کے امیر لوگ ان کی پرواہ نہیں کرتے، غریب لوگ ساتھ دیتے ہیں.اگر کوئی ایسا نہ ہو تو پھر اسے برخلاف جاننا چاہیے.معنی پوچھنے میں حکمت فرمایا.میں تم سے کسی لفظ کے معنی پوچھتا ہوں تو یہ مت سمجھو ہماری ہتک ہوتی ہے.یہ نبی کریم صلعم کی بھی عادت تھی صحابہ کرام سے کبھی خوب سمجھانے کے لیے کچھ پوچھاکرتے.سوائے عمل کچھ نہیں بنتا فرمایا.ہم تو چاہتے ہیں اور تہ دل سے چاہتے ہیں تمہیں فہم قرآن

Page 83

آجاوے، تمہاری اولادیں نیک ہوں، تمہارے خاوند نیک ہوں، خداوند کریم تمہیں تکبر، غیبت، چغلی، گلہ، جھوٹ، بدکاریوں سے بچائے.سو عمل کرو سوائے عمل کچھ نہیں بنتا.فقط.(البدر جلد۱۲ نمبر۷ مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۱۲ء صفحہ۳) حضرت خلیفۃ المسیح کا ایک مولوی صاحب سے مکالمہ ( مورخہ ۱۳؍ اگست ۱۹۱۲ء) سوال.آپ کے اصول کیا کیا ہیں.دوسرے مسلمانوں سے آپ کو کیا اختلاف ہیں؟ جواب.ہمارے اصول یہ ہیں.اللہ تعالیٰ ایک ہے.مستجمع جمیع محامد کاملہ ہے.ہر ایک قسم کے عیب و نقص سے منزہ.ملائکہ ہیںاور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف کاموں پر متعین ہیں.تمام رسول برحق ہیں کتابیں جو ان پر اتریں برحق ہیں.جزا و سزا کا مسئلہ برحق ہے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں.دوسرے مسلمانوں سے اصول دین میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں جہاں وہ ایک لاکھ سے زیادہ انبیاء کی وفات کو مانتے ہیں وہاں ایک حضرت مسیح کی وفات کو ہم نے مان لیا تو کیا گناہ ہے.ایسا ہی امت محمدیہ میں مکالمہ ومخاطبہ الٰہی اولیاء اللہ سے جاری ہے تو مرزا صاحب سے خدا تعالیٰ کا مکالمہ ماننا کیا حرج رکھتا ہے.مسیح کا نزول ماننا اصول دین میں داخل نہیں.سوال.مرزا صاحب کیا تھے؟ کیا وہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں؟ جواب.مرزا صاحب امتی ہیں.اپنا نام ہمیشہ غلام احمد فرماتے رہے.جس طرح ہم لوگ ابراہیم، اسمٰعیل وغیرہ نام رکھ لیتے ہیں اسی طرح خدا نے ان کا نام عیسیٰ رکھا.بنی اسرائیل کا عیسیٰ فوت ہوچکا ہے.عیسیٰ کے نزول کا مسئلہ الفاظ قرآنی(البقرۃ :۵۸) ( الزمر : ۷) پر غور کرنے سے حل ہو جاتا ہے کیونکہ لوہا

Page 84

وغیرہ جیسے اترے ایسا ہی عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہے یہ معنی نہیں کہ آسمان سے اتریں.مرزا صاحب کا ایک شعر ہے.من نیستم رسول و نَیاوَردہ اَم کتاب ہاں ملہم استم و ز خداوند مُنذِرَم (درثمین فارسی صفحہ ۱۱۳) سوال.کیا مرزا صاحب مہدی تھے؟ جواب.ہاں مہدی تھے.آپ کے صدق کی دلیل وہ حدیث ہے جو دارقطنی صفحہ ۱۸۸ میں اہل بیت سے مروی ہے کہ ماہ رمضان میں سورج گرہن لگنے کی درمیانی تاریخوں میں اور چاند گرہن لگنے کی پہلی تاریخ میں ہوگا.یہ نشان آپ کے دعویٰ کے ساتھ ظاہر ہوا.سوال.مرزا صاحب نے یہ نشان دیکھ کر دعویٰ کرلیا ہوگا؟ جواب.دعویٰ اس سے پہلے کا تھا اور اس طرح تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ توریت میں نشان دیکھ کر دعویٰ کردیا.سوال.عرب میں بھی اس زمانے میں کسی نے دعویٰ کیا ہوگا؟ جواب.آپ کے دعویٰ کے پہلے کسی نے دعویٰ نہیں کیا اور بعد بھی بایں دلیل اگر آپ ثابت کردیںتو میں آپ کو ایک ہزار روپیہ دوں گا.سوال.کیا مسیح اور مہدی ایک ہیں؟ جواب.ابن ماجہ صفحہ ۲۵۷ میں حدیث ہے لَامَہْدِی اِلَّا عِیْسٰی اور مسند امام احمد حنبل میں بھی یہ حدیث ہے جلد ۲ صفحہ ۴۱۱ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ یُوْشِکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ اَنْ یَّلْقٰی عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اِمَامًا مَہْدِیًّا وَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَ یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَ الْجِزْیَۃَ وَتَضَعُ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا اور ہمارے نزدیک کئی مہدی ہیں.ابوبکر، عمر، عثمان و حیدر کرار، عبداللہ بن زبیر، محمد عبداللہ بن حسن مثنیٰ، مہدی ہارون کے والد فاتح قسطنطنیہ مگر جو مسیح کے زمانہ

Page 85

میںمہدی ہوگا وہ مہدی اور عیسیٰ ایک ہے.سوال.کیا مرزا صاحب عالم تھے؟ جواب.ظاہری علوم میں کوئی ایسے عالم نہ تھے.ایک مولوی گل علی شاہ شیعہ بٹالہ کے رہنے والے معمولی مولوی تھے.لڑکپن میں مرزا صاحب کے والد صاحب نے ان کے پاس بٹھایا تھا.ہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا علم بخشاتھا کہ آپؑ کی عربی کتابوں کے مقابلے میںہند او رعرب کے علماء عاجز آگئے.آپؑ کو دعا پر بہت بھروسہ تھا اور دعا سے خدا نے تمام علوم آپ کو سکھا دیئے تھے.سوال.آپ مجازی معنی کیوں لیتے ہیں؟ جواب.اچھا ایک شخص کا نام عیسیٰ ہو، اس کی ماں کا نام مریم ہو، وہ ایک صلیب کو توڑ دے اور ایک سؤر کو لے کر قتل کردے تو کیا تم اسے مان لو گے کہ یہی موعود ہے.بات یہ ہے کہ پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھنے کے لئے کتاب الٰہیہ کی طرز پر گہری(نظر) ڈالنی چاہیے.(ابواللیث) صحبت کا فیض ایک شخص نے عرض کی کہ کوئی مجھے حضور کے کلمات نصائح روزانہ لکھ کر بھیجتا رہے.اس کو میں اجرت دوں گا؟ فرمایا.صحبت میں اور فیض ہوتا ہے بولنے والے کی طبیعت میں ایک خاص جوش ہوتا ہے لکھنے والا اس کو ادا نہیں کرسکتا بلکہ بعض وقت سمجھ بھی نہیں سکتا کہ یہ کیا کہتا ہے.(۱۴؍اگست ۱۹۱۲ء) ایمان کسی آدمی کا ذکر تھا.فرمایا.یہ تو دنیا دار اور مالدار آدمی ہے.ایمان ایک سیدھی راہ ہے جس میں پیچ نہ ہو.(۱۴؍اگست ۱۹۱۲ء) ثبوت مخالف کے ذمہ ہے ایک صاحب کا خط پیش ہو اکہ مجھے مجمع البحار بھیجی جائے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے.فرمایا.یہ راہ ٹھیک نہیں کہ ہم وفات مسیح کا ثبوت دیں.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہوا.کس کس کے مرنے کا ثبوت ہم دیتے پھریں گے.عام بات یہ ہے کہ سب انسان جو پیدا ہوتے ہیں مرتے ہیں.تمام نبی بشرتھے وہ پیدا ہوئے اور فوت ہوگئے.جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان میں سے کوئی نہیں

Page 86

مرا.اسی کے ذمے بار ثبوت ہے کہ اس کو زندہ دکھائے یا ثابت کرے ورنہ موت ظاہر ہے.حیات عیسیٰ کا دعویٰ کرنے والے پر بار ثبوت ہے.(۱۴؍اگست ۱۹۱۲ء) کتابیں باہر نہیں جا سکتیں فرمایا.کتابوں کا یہاں سے منگوانے کا طریق درست نہیں.ہمارے کتب خانہ میں عموماً ہرایک کتاب کا ایک ایک نسخہ ہوتا ہے اور اس کی یہاں بھی ضرورت رہتی ہے کیونکہ اکثر لوگ یہاں آکر ان مسائل کے متعلق دریافت کرتے رہتے ہیں اور ان کو کتابیں دکھانے کی ضرورت رہتی ہے.مباحثات کا دامن وسیع ہے ہر جگہ احباب کے ساتھ ایسی گفتگو چھڑی رہتی ہے.ہم کہاں کہاں کتابیں بھیج سکتے ہیں.(۱۴؍اگست ۱۹۱۲ء) (ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد ۱۲ نمبر ۸ مورخہ ۲۲؍اگست ۱۹۱۲ء صفحہ ۳) قرآن رمضان (البقرۃ : ۱۸۶) کے معنے حضرتخلیفۃ المسیح نے یہ فرمائے ہیں کہ رمضان کا مہینہ ایسا بابرکت ہے کہ اُس کے متعلق قرآن شریف میں ذکر ہوا ہے اور اس میں ایک خاص عبادت کے احکام نازل ہوئے ہیں.کیا ہی سچے اور صحیح معنے ہیں.بعض مفسرین نے اس کلمہ طیبہ کے یہ معنے کئے ہیں کہ قرآن شریف سارا یک دفعہ رمضان کے مہینہ میں نازل ہوا تھا.پھر اس تفسیر کو قرآن شریف کے تئیس ۲۳ سالہ نزول مختلف اوقات و مختلف مقامات کے مخالف پا کر اپنی تفسیر کی.یوں تفسیر کی ہے کہ پہلے رمضان کے مہینہ میں قرآن شریف اکٹھا کسی آسمان پر نازل ہوا تھا وہاں سے رفتہ رفتہ تئیس ۲۳ سال کے عرصہ میں زمین پر آیا.بعض اصحاب نے کچھ اور توجیہات بھی نکالی ہیں.مثلاً یہ کہ قرآن شریف کا کچھ حصہ ماہ رمضان میں بھی نازل ہوا.اور یہ صحیح بات ہے لیکن میری رائے میں قرآن شریف کے ماہ رمضان میں نازل ہونے کی ایک صحیح تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس مبارک مہینہ میں قرآن شریف کے پڑھنے اور سننے اور اس پر عمل کرنے کا اس قدر موقع ہوتا ہے کہ گویا اس ماہ میں ہر سال نئے طور پر قرآن شریف نازل ہوتا ہے.مجھے جنٹلمینوں

Page 87

کی تو خبر نہیں جو ملاقاتوں، تماشائوں اور ناول خوانی وغیرہ سے فارغ ہو کر رات کے ۲ بجے بستر پر گرے تو صبح کے دس بجے اُٹھ کر چائے پی مگر پرانے لوگوں میں اتنی نیکی اب تک چلی آتی ہے کہ گیارہ مہینے کیسی ہی غفلت میں گزرے ہوںرمضان کے روزے ضرور اہتمام سے رکھے جاتے ہیں اور اس ماہ میں نمازوں کی پابندی بھی کی جاتی ہے اور صدقہ وخیرات کا دروازہ بھی حسب مقدور کھولا جاتا ہے.یہ تو عام اسلامی دنیا کا رنگ ہے ہی لیکن قادیان کا رمضان قرآن شریف کے پڑھنے اور سننے کے لحاظ سے ایک خصوصیت رکھتا ہے.تہجد کے وقت مسجد مبارک کی چھت پر اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتا ہے.صوفی تصورحسین صاحب خوش الحانی سے قرآن شریف تراویح میں سناتے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب میاں محمود احمد صاحب بھی قرآن شریف سننے کے لئے اسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں.تراویح ختم ہوئیں تو تھوڑی دیر میں اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِکی آواز بلند ہوتی ہے.زاہد وعابد تو تہجد کی نماز کے بعد اذان فجر کے انتظار میں جاگ ہی رہے ہوتے ہیں.دوسرے بھی بیدار ہو کر حضرت صاحبزادہ صاحب کے لحن میں کسی محبوب کی آواز کی خوشبو سے اپنے دماغوں کو معطر کرتے ہوئے فریضہ صلوٰۃ فجر کو ادا کرتے ہیں.جس کے بعد مسجد کی چھت قرآن الفجر کے محبین سے گونجے لگتی ہے.مگر چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح جلد اپنے مکان کے صحن میں درس دینے والے ہوتے ہیں اس واسطے ہر طرف سے متعلمان درس بڑے اور چھوٹے بچے اور بوڑھے پیارا قرآن بغلوں میں دبائے حضرت کے مکان کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں.تھوڑی دیر میں صحن مکان بھر جاتا ہے.حضرت کے انتظار میں کوئی اپنی روزانہ منزل پڑھ رہا ہے، کوئی کل کے پڑھے ہوئے کو دُہرا رہا ہے.کیا مبارک فجر ہے مومنوں کی.تھوڑی دیر میں حضرت کی آمد اور قرآن خوانی سے ساری مجلس بُقعۂ نور نظر آنے لگتی ہے.نصف پارہ کے قریب پڑھا جاتا ہے.اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے تفسیر کی جاتی ہے.سائلین کے سوالات کے جواب دئیے جاتے ہیں.تقویٰ وعمل کی تائید بار بار کی جاتی ہے.لطیف مثالوں سے مطالب کو عام فہم اور آسان کر دیا جاتا ہے.اس کے بعد اندرون مکان میں عورتوں کو درس قرآن دیا جاتا ہے.پھر ظہر کے بعد سب لوگ مسجد اقصیٰ میں جمع ہوتے ہیں.وہاں حضرت خلیفۃ المسیح بھی تشریف لے جاتے ہیں اور صبح کی طرح وہاں پھر درس ہوتا ہے.بعد مغرب مسجد اقصیٰ میں حافظ جمال الدین صاحب تراویح میں قرآن شریف سناتے ہیں اور حضرت

Page 88

کے مکان پر حافظ ابو اللیث محمد اسماعیل صاحب سناتے ہیں.غرض اس طرح قرآن شریف کے پڑھنے پڑھانے اور سننے کا ایسا شغل ان ایام میں دن رات رہتا ہے کہ گویا اس مہینہ میں قرآن شریف کا ایک خاص نزول ہوتا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح اپنے درد مند دل کی دعائوں کے ساتھ قرآن شریف سناتے ہیں.ہر درس کے بعد سامعین کے واسطے دعا کرتے ہیں.اس واسطے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس درس رمضان کو کلام امیر میں درج کیا جائے اور اُس کے صفحات بھی دو یا چار ہر ہفتے الگ رکھے جائیں تاکہ جو احباب چاہیں ان صفحات کو بعد میں الگ کر کے ایک کتاب بنا سکیں.اس اخبار میں دو صفحات لگائے گئے ہیں.اگلے میں انشاء اللہ تعالیٰ چار لگائے جائیں گے تاکہ جلد یہ کاپی الگ ختم ہو جائے.کلام امیر قرآن رمضان کی شان کے لحاظ سے خوشخطی اور خوبصورتی اور خوشنمائی کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے.اخباری مسطر کی گنجانی نہیں رکھی گئی کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کو سب دوست سال کے آخر میں جلد کرا کر اپنے پاس محفوظ رکھنا ضروری خیال کریں گے.ضمیمہ درس جو پہلے اخبار کے ساتھ شائع ہوتا ہے ا ور اب آخری پارہ چھپ رہا ہے اور عنقریب ختم ہونے والا ہے اُس کے پورا ہونے پر ایک دور قرآن شریف کے نوٹوں کا مکمل ہو جائے گا.لیکن اس میں حضرت خلیفۃ المسیح کی علالت کے ایام میں چند پارے ایسے ہیں جن کا درس حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے دیا تھا.اُن پاروں کا درس اُس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح نے بھی دیا تھا اور وہ نوٹ محفوظ ہیں اس واسطے اُس دور کے ختم ہونے پر اخبار کے ساتھ وہ پارے بطور ضمیمہ کے شائع ہوتے رہیں گے تاکہ ایک دفعہ سارا قرآن شریف حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ العزیز کا بیان کردہ احباب کو پہنچ جائے.اُس کے بعد پھر ضمیمہ درس میں دوسرا دور شروع کیا جائے گا جس میں صرف وہ باتیں لکھی جائیں گی جو کہ پہلے دور میں درج نہیں ہوئیں اور اس طرح یہ سلسلہ ضمیمہ کا برابر جاری رہے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.بعض دوستوں کی یہ بھی رائے ہے کہ نئے دور میں ایک ورق قرآن شریف کا اور ایک ورق کتاب حدیث صحیح بخاری کے نوٹ ہوں.اس کے واسطے ناظرین کی رائے طلب کی جاتی ہے.اب ہم درس قرآن رمضان کو شروع کرتے ہیں اور سب سے اوّل حضرت

Page 89

خلیفۃ المسیح کی تمہیدی تقریر کو لکھتے ہیں جو کہ حضور نے اس درس کے شروع میں کی.(ایڈیٹر) نوٹ.اس درس میں سیپاروں کے نمبر اور سیپاروں کے رکوع کے نمبر دئیے جائیں گے.یاد رہے کہ قرآن شریف پر رکوع کا نمبر رکوع کے خاتمہ پر دیا جاتا ہے، رکوع کے شروع میں نہیں دیا جاتا.مثلاً جہاں قرآن شریف میں لکھا ہو گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ سورۃ کا دوسرا رکوع ختم ہوا ہے ا ور سیپارے کا ساتواں رکوع ختم ہوا ہے اور اس رکوع میں چھ آیات پڑھی گئی ہیں.’’ع ‘‘ کے درمیان کا نمبر تعداد آیت کا ہوتا ہے اوپر کا نمبر سورۃ کا ہوتا ہے اور نیچے کا نمبر سیپارے کا ہوتا ہے.ا س بات کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہاں سے رکوع شروع ہوتا ہے.یہ بات نہیں ہے بلکہ یہاں رکوع ختم ہوتا ہے.۱؎ یہی وجہ ہے کہ پہلے ہی پارہ میں .کے حاشیہ پر کوئی علامت رکوع کی نہیں لگائی گئی ہے.سب سے پہلا ’’ع ‘‘جو قرآن شریف کے حاشیہ پر لکھا گیا ہے وہ سورہ بقرہ کی ساتویں آیت کے خاتمہ پر لفظ عظیم کے بعد ہے. اس کا یہ مطلب ہے کہ سورۂ بقرہ کا پہلا رکوع یہاں پورا ہوا اور پہلے پارہ کا پہلا رکوع یہاں پورا ہوا اور اس پہلے رکوع میں سات آیات ہیں.رکوع شماری میں سورۂ الحمد کو پہلے پارے میں شمار نہیں کیا جاتا.الفاظ کی تشریح میں رکوع کی آیات کا نمبر بھی دیا جائے گا تاکہ تلاش میں آسانی ہو.……………………… یکم رمضان المبارک ۱۳۳۰ ھ عَلٰی صَاحِبِہَا التَّحِیَّۃُ وَالسَّلَامُ ۱۵؍اگست ۱۹۱۲ء بوقت صبح تقریری تمہید میں نے قرآن شریف کو بہت غور، فکر، تدبر اور توجہ سے پڑھا ہے.ہمیشہ پڑھتا ہوںاور آج بھی بہت غور سے پڑھا ہے.دعائیں کرتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں اور قرآن شریف کو پڑھتا ہوں.انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا بنایا ہے اور اُس کے اندر ایسے قویٰ رکھ دئیے ہیں کہ وہ تمام

Page 90

دنیا پر حکومت کرنا چاہتا ہے.ہر چیز کو اپنے تصرف اور قابو میں لانے کی کوشش کرتا ہے جنگل کے جانوروں کو اُس نے قبضے میں کیا.ہاتھی جیسے بڑے جانور کو پائوں کے انگوٹھے کے اشار ے کے ماتحت چلایا.گھوڑے جیسے طاقتور جانور سے سواری کا کام لیا.آگ اور پانی کو اپنے تصرف میں لاکر ریل بنائی.جہاز چلائے.اب ہوا میں اوپر ایرو پلین چل رہے ہیں.پھر بس نہیں دن بدن آگے بڑھتا ہے نئی نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے.ایک کپڑے ہی کو دیکھو.اس کو بنانے کے واسطے کیا کچھ عقل خرچ کی گئی ہے.پُرانے کرگہ سے لے کر نئے ملوں تک اور پھر اُس کے آگے روز نئی ترقی ہے.ایسے با خبر ہوشیار عاقل، فہیم، صاحب فراست کی روحانی ضروریات اور ترقیوں کے واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف عطا کیا ہے.قرآن شریف تمام اختلافات کو مٹانے کے واسطے آیا ہے مگر افسوس ہے کہ بعض لوگ بجائے اس کے کہ اس کتاب پر عمل کریں اور اُس کے ذریعہ سے اختلافات مٹائیں خود قرآن شریف کو نَعُوْذُبِاللّٰہِ.نَعُوْذُبِاللّٰہِ.نَعُوْذُبِاللّٰہِ موجب اختلاف بناتے ہیں اور خود اس میں بھی اختلاف نکالنے کی کوشش کرتے ہیں.انسان میں قوت اور طاقت ادراک بہت ہے.جس طرف اپنی طاقت کو چلائے اُسی طرف چلتا ہے اور ترقی کرتا ہے.قرآن شریف کی طرف جو کچھ منسوب کیا جا رہا ہے وہ ممکن ہے کہ ایک حد تک درگزر کے قابل بھی ہو مگر بعض دفعہ بات اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ عقائد پر بھی حملہ کیا جاتا ہے.میں نے اس امر کا ذکر اس واسطے کردیا ہے کہ تم اس درس کے سننے میں اس بات پر غور کرتے جائو کہ آیا قرآن شریف کہاں تک الجھاتا ہے یا سلجھاتا ہے.مسلمانوں کے درمیان ایک جماعت ایسی بھی ہے جو وحدت وجود کی قائل ہے.ان کے خیال میں ہم سب خدا ہیں یا ہر ذرہ خدا ہے.بہت لوگ اس میں مبتلا ہیں.بڑے بڑے دیندار اور دنیا دار بھی اس میں گرفتار ہیں.سرسید کا بھی یہ مذہب تھا کہ سارا نیچر مل کر بحذ ف تشخصات خدا ہے.ا ن خیالات کے لوگ عموماً بے باک ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ اباحت تک ان کی نوبت پہنچتی ہے.بعض لوگ وہ ہیں جو ملائکہ اور شیطان کے وجود کے قائل نہیں.صرف اپنے نفس کی ایک قوت کو

Page 91

فرشتہ یا شیطان کہتے ہیں.کچھ وہ لوگ ہیں جو قرآن شریف کے صرف باطنی معنے کرتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ باطنی معنے بھی ہوتے ہیں مگر ان لوگوں نے ظاہر کو بالکل چھوڑ ہی دیا ہے اور یہ ٹھیک نہیں ہے.ایک اور جماعت بڑے زور شور سے طیار ہو رہی ہے ہزاروں لاکھوں ہر سال پیدا ہوتے ہیں.وہ کالجوں میں طیار ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن پر فضل کرے اور انہیں راہ راست پر لاوے.ان کا یہ حال ہے کہ کوئی عبادت انہوں نے اپنے ذمے نہیں لگائی.نہ نماز پڑھتے ہیں، نہ روزہ رکھتے ہیں، نہ قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں، نہ حج کو جاتے ہیں، ہاں بڑے بڑے لیکچر دیتے ہیں کہ اسلام کے واسطے یہ کرنا چاہئے اور مسلمانوں کے واسطے وہ کرنا چاہئے اور قوم کے واسطے ہم ایسے دردمند ہیں اور فکر مند ہیں اور غمگین ہیں.شراب پیتے ہیں اور شراب کے نشہ میں تقریر یں کرتے ہیں اور کیا کیا شکلیں بناتے ہیں مگر عمل سے خالی ہیں.ہاں ان میں سے مستثنیٰ بھی ہیں.ایسے ہی ……ایک جنٹلمین نے ہمارے ایک احمدی سے پوچھا کہ تم ہمارے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے.اُس احمدی نے خوب جواب دیا کہ جناب مسلمان دو قسم کے ہیں.ایک تو ملّاں لوگ ہیں جن کو آپ حقارت سے دیکھتے ہیں اور ان کو میلے کچیلے لوگ بتلاتے ہیں اور اولڈ فیشن کہتے ہیں ان کے پیچھے تو آپ خود بھی نہیں پڑھتے اور نہ ان کی مسجدوں میں جاتے ہیں.جنٹلمین نے کہا.ہاں یہ ٹھیک ہے وہ بہت میلے لوگ ہیں.احمدی نے کہا.اچھا دوسرے آپ ہیں جو بخیال خود صاف ستھرے رہتے ہیں مگر آپ نماز پڑھتے ہی نہیں سو آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کی تجویز کی جائے تو نماز ہی جائے.جنٹلمین بولا کہ بات تو تمہاری معقول ہے.یہ جماعت کالجوں میں طیار ہو رہی ہے.وہاں ان کو دین تو پڑھایا نہیں جاتا اس واسطے مذہب سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں.ایک انگریز کو ہم نے دیکھا کہ گھڑی کی زنجیر کے ساتھ اُس نے ایک صلیب لٹکائی ہوئی تھی.دریافت کرنے پر کہنے لگا کہ یہ مذہب کے خیال سے نہیں لٹکائی گئی یہ ایک قومی نشان ہے.ہمارے دیسی جنٹلمین یورپ کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مذہب کی ضرورت نہیں سمجھتے اس

Page 92

واسطے یہ بھی ایسے ہی بن جاتے ہیں.ا ن کی تقلید کرتے ہیں مگر وہ بھی پوری نہیں.ہم نے دیکھا ہے کہ انگریز کیسے ہی مذہب سے بے تعلق ہوں سونے کے وقت کم از کم تھوڑی سی انجیل ضرور پڑھ لیا کرتے ہیں مگر ان لوگوں سے اتنا بھی نہیں ہو سکتا کہ تھوڑا سا قرآن روزانہ پڑھ لیا کریں.ایسے ہی ایک جنٹلمین میرے آشنا تھے اور مجھ سے محبت رکھتے تھے.ایک ایسا موقع پیش آیاکہ وہ اور میں عصر کی نماز کے وقت بہت دنوں تک متواتر جمع ہوتے تھے.جب میں نماز عصر کے واسطے اُٹھتا تو وہ بھی میرے ساتھ نمازمیں شامل ہوتے مگر کسی دن میں نے ان کو وضو کرتے نہ دیکھا.میں خیال کرتا تھا کہ بڑے نیک آدمی ہیں ہمیشہ باوضو رہتے ہیں.ایک دن میں نے انہیں کہا کہ آپ تو وضو کے بڑے پابند ہیں ہمیشہ اس وقت آپ با وضو ہوتے ہیں.فرمانے لگے.ہاں ہم لوگ (جنٹلمین)رات کو شراب پیتے ہیں، زنا کرتے ہیں مگر صبح سویرے اُٹھ کر خوب نہا کر روز نئے کپڑے پہن لیتے ہیں.دن بھر پھر کوئی ایسا کام نہیں کرتے.میں نے کہا.اچھا تو آ پ صبح کے بعد پھر وضو نہیں کرتے.فرمانے لگے.اور تو ہمیں معلوم نہیں اگر وضو کو توڑنے والی کوئی اور شئے ہے تو اس سے آپ مجھے مطلع فرماویں.غرض اس قسم کے لوگ بھی اس زمانہ میں بکثرت طیار ہو رہے ہیں.ایک اور قوم ہے ہر قسم کا شرک، دغا، فریب، دھوکہ بے ایمانی کر لیتے ہیں.نماز نہیں پڑھتے، جھوٹ بول لیتے ہیں، زنا کرتے ہیں، شراب پیتے ہیں پھر بزرگ کے بزرگ بنے بیٹھے ہیں.یہ گدی نشین لوگ ہیں.نہ انہیں نماز سے تعلق نہ قرآن شریف سے کوئی غرض.اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ دنیا نیکوں سے خالی نہیں.پھر بعض علماء ہیں وہ قرآن شریف کے الفاظ سے اپنے مطلب کے مطابق عجیب عجیب باتیں بناتے ہیں.میں نے ایک عالم دیکھا.یہاں آیا.ہمارا کتب خانہ دیکھتا تھا.اچھا مولوی صاحب یہ جو قرآن شریف میں آیا ہے کہ (الانعام :۱۶۱) جو ایک نیکی کرے اُسے دس گنا بدلا ملے گا.کیا یہ پختہ بات ہے.میں نے کہا.ہاں پختہ بات ہے.قرآن شریف میں آیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.تب مولوی صاحب کہنے لگے کہ میں تو اسی واسطے

Page 93

ہر ماہ میں تین دن نماز پڑھ لیتا ہوں مہینے کی نمازوں کا ثواب مل جاتا ہے.یہ حال علماء کا ہے.یہ باتیں میں نے تم کو اس واسطے سنائی ہیں کہ اب جو میں قرآن شریف تمہیں سنائوں گا اور اللہ تعالیٰ نے عمر، صحت اور توفیق دی تو ابتدا سے انتہا ء تک سنائوں گا.تم غور کرتے جائو کہ آیا یہ امور جو لوگ بناتے ہیں اور کرتے ہیں فی الحقیقت قرآن شریف میں موجود ہیں یا یونہی کسی لفظ کی ٹانگ پکڑ کر یہ لوگ گھسیٹ کر کہیں کہیں لے جاتے ہیں.میرا جی چاہتا ہے کہ تم ان باتوں کو دل میں رکھو اور غور سے سنو.کیا ایسی باتوں کی تائید آیات قرآنی سے نکلتی ہے یا کیا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا چال چلن دیکھتے ہیں مگر خود اُس پر عمل کوئی نہیں کرتے.تم اس واسطے سنو کہ عمل کرو نہ اس واسطے کہ صرف سن لو یا اپنی کاپیوں میں نوٹ کر لو اور بس.اس سے کچھ فائدہ نہیں.(البینـۃ:۶).اللہ تعالیٰ کی عبادت خالص اللہ کے واسطے کرو جس میں کوئی ملاوٹ ریاء کی نہ ہو اور نہ کوئی اپنی نفسانی غرض ہو.قرآن شریف جامع کتاب ہے وہ تمام اختلافات کو مٹانے کے واسطے آئی ہے.بعض دفعہ ایک لفظ کے دو تین چارمعنے ہوتے ہیں اور لغت میں اختلاف ہوتا ہے.یہ اس واسطے ہے کہ تمہیں دعا، محنت، تدبر، فہم کے واسطے موقع مل جائے.قرآن شریف میں تمام اصول مفصل اورمدلل بیان کئے ہیں.حدیث میں دلائل نہیں ہیں.عمل کے واسطے حدیث بہت مفید اور بابرکت ہے.بخاری کومیں نے بہت پڑھا ہے.اب بھی پڑھتا ہوں.صحابہ، تابعین کا عملدرآمد بڑی ہدایت اپنے اندر رکھتا ہے.قرآن شریف اصل ہے.پھر حدیث.پھر تعامل، صحابہ،تابعین، تبع تابعین، اولیاء اور صلحائے امت کا.اس کا علم اور اس پر عمل رضائے الٰہی کے حصول کا موجب ہے.یہ ہماری نجات کا ذریعہ ہے اور اسی طرح سے کام چلتا ہے.آج دھواں دھار تقریریں کرنے والے اور مضامین لکھنے والے خود عمل نہیں کرتے.شراب کی مذمت میں تقریریں کرتے ہیں حالانکہ خود اُس وقت شراب پئے ہوئے ہوتے ہیں.

Page 94

اس کے بعد حضرت نے اپنا مذہب متعلق خدا، ملائکہ، قرآن، قرآن شریف، صحابہ، اولیاء اللہ، فقہا بیان کیا.چونکہ حضور نے اپنا یہ مذہب اپنی وصیت کے رنگ میں عربی زبان میں ایک دفعہ لکھا تھا.اس واسطے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فائدہ عام کے واسطے وہ وصیت بمعہ ترجمہ یہاں درج کر دی جائے.اس کے اندر وہ ساری تقریر آ جاتی ہے جو اب حضرت صاحب نے فرمائی.وصیّت نور الدین ھٰذَا شَھَادَتِیْ اَمَانَۃٌ عِنْدَ کُلِّ مَنْ سَمِعَ اَوْنَظَرَ فَفَھِمَ بَعْدَ اَنْ اَشْھَدْتُّ اللّٰہَ تَعَالٰی وَمَلٰٓئِکَتَہٗ عَلَیْھَا.وَاَنَا الْفَقِیْرُ اِلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.نُوْرُ الدِّیْنِ.اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ کَاسْمِہٖ.اٰمِیْن.اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی رَبِّیْ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ.الرَّحْمٰنَ الرَّحِیْمَ مَالِکَ یَوْمِ الدِّیْنِ.وَاِنَّ اللّٰہَ الْاَحَدُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ.اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ.وَاِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ یُدَبِّرُ ا لْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ، اَلْقَادِرُ، اَلْفَعَّالُ لِمَا یُرِیْدُ، اَلسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ.کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا وَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی وَھُوَ الْغَنِیُّ مِنَ الْعَالَمِیْنَ.اِسْتَوٰی عَلٰی عَرْشِہٖ وَلَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْء ٌ.اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍعِلْمًا وَخَلْقًا وَوَسِعَ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْئٍعَدَدًا یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی.اَ لَایَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَا للَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ.(الملک:۱۵) عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ.ھُوَ الْاَ وَّلُ لَیْسَ قَبْلَہٗ شَیْء ٌ ھُوَ الْاٰخِرُ لَیْسَ بَعْدَہٗ شَیْء ٌ ھُوَ الظَّاھِرُ لَیْسَ فَوْقَہٗ شَیْء ٌ ھُوَا لْبَاطِنُ لَیْسَ دُوْنَہٗ شَیْء ٌ لَا رَآدَّ لِقَضَآئِہٖ وَلَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ بِیَدِہِ الْخَیْرُ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ.وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا.لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَلَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا.وَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ وَلَوْ شَآئَ لَھَدَی النَّاسَ جَمِیْعًا.یَغْضَبُ وَیَرْضٰی وَیَفْرَحُ بِتَوْبَۃِ الْعَبْدِ.لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَ بْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ وَمَعَ ھٰذَا وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ.

Page 95

وَالْقُرْاٰنُ کَلَامُ اللّٰہِ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی مَوْلَانَا وَ رَسُوْلِنَا خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ وَسَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ رَحْمَۃٍ لِّلْعٰلَمِیْنَ.اُرْسِلَ اِلَی النَّاسِ نَعَمْ اِلَی النَّاسِ کَآفَّۃً.قَالَ تَعَالٰی (الاعراف:۱۵۹) وَنَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ وَوَعَدَ اَنَّـہٗ حَافِظُہٗ کَمَا قَالَ تَعَالٰی (الحجر: ۱۰) وَھُوَ ھُدًی وَّرَحْمَۃٌ وَّشِفَاء ٌ وَّرَوْحٌ وَّفَضْلٌ.وَکِفَایَۃٌ وَقَدْ کَفٰی.وَالْمَلٰٓئِکَۃُ حَقٌّ وَالرُّسُلُ حَقٌّ وَکِتٰبُ اللّٰہُ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ حَقٌّ وَلَمْ یَزَلِ اللّٰہُ رَبًّا رَحِیْمًا مُّتَکَلِّمًا وَلَا یَزَالُ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا وَالْقَبْرُ وَالسُّؤَالُ فِیْہِ وَالنَّشْرُ وَ الْحَشْرُ حَشْرُ الْاَ جْسَادِ وَالْحِسَابُ وَفَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ وَالصِّرَاطُ وَالشَّفَاعَۃُ لِاَھْلِ الْکَبَائِرِ فَضْلًا عَنِ الصَّغَائِرِ وَلَرَفْعُ الدَّرَجَاتِ حَقٌّ، نَعْمَآئُ الْجَنَّۃِ حَقٌّ فَھِیَ عَطَاء ٌ غَیْرُ مَجْذُوْذٍ وَآ لَامُ النَّارِ وَاَنَّ عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشْرٍ حَقٌّ.وَاِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَایُرِیْدُ (ہود:۱۰۸)وَقَدْ سَبَقَتْ رَحْمَتُہٗ غَضَبَہٗ وَاِنَّـہٗ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ وَاَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ وَاَکْرَمُ الْاَکْرَمِیْنَ.ثُمَّ الْاِ سْلَامُ بُنِیَ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَالصَّوْمِ وَالْحَجِّ.وَاِنَّ الصَّلٰوۃَ وَسِوَا ھَا کَمَا ثَبُتَتْ فِی التَّعَامُلِ وَالسُّنَّۃِ وَکَمَابُیِّنَتْ مُشَرَّحًا فِی الْمُؤَطَّا وَالْبُخَارِیِّ وَرَاَیْنَاھَا فِی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَیْقَنَّا اَنَّھَا سَبِیْلُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَقَالَ تَعَالٰی ..... (النساء :۱۱۶).وَاِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَـہٗ تَعَالٰی کَمَا اَمَرَنَا بِاتِّبَاعِ مَا اَنْزَلَ اِلَیْنَا اَمَرَنَا بِاتِّبَاعِ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِہٖ، کَمَا قَالَ (اٰل عمران:۲۳) وَکَمَا اَمَرَبِاِطَاعَتِہٖ اَمَرَنَا طَاعَۃَ رَسُوْلِہٖ وَاِطَاعَۃَ اُولِی الْاَمْرِ.فَقَالَ(النساء :۶۰).بَلْ وَقَالَ فِیْ اِطَاعَۃِ الْوَالِدَیْنِ

Page 96

(لقمٰن :۱۶) وَلَا بُدَّ اَنْ نُّقَدِّمَ اِطَاعَۃَ اللّٰہِ وَاِطَاعَۃَ کِتَابِہٖ عَلٰی اِطَاعَۃِ الْخَلْقِ.وَاِطَاعَۃُ رَسُوْلِہٖ اِطَاعَتُہٗ تَعَالٰی عَزَّ سُلْطَانُہٗ کَمَا قَالَ (النساء :۸۱) وَاُحِبُّ اِتِّبَاعَ السَّابِقِیْنَ الْاَوَّلِیْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ کَمَا قَالَ تَعَالٰی (التوبۃ : ۱۰۰).فَاِنَّھُمْ اَوَّلُ مَنْ تَزَکّٰی بِتَزْکِیَۃِ حَبِیْبِنَا وَسَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.وَالْخُلَفَآئُ الرَّاشِدُوْنَ مِنْھُمْ اَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ مَاکَانُوْا وَلَا وَاحِدٌ مِّنْھُمْ مُنَافِقًا اَبَدًا فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی وَصَفَ الْمُنَافِقِیْنَ بِاَنَّھُمْ (التوبۃ:۷۴) وَھٰٓؤُلٓائِ نَالُوْا مَا ھَمُّوْا.وَھُمْ مِصْدَاقُ (النور:۵۶).وَھُمُ الْغَالِبُوْنَ کَمَا ذَکَرَ فِی الْمَائِدَۃِ.وَعَلِیٌّ مِّنْھُمْ صِھْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَخَتَنُہٗ وَزَوْجُ بِنْتِ الرَّسُوْلِ فَاطِمَۃَ الْبَتُوْلِ وَحُبُّہٗ اِیْمَانٌ وَبُغْضُہٗ نِفَاقٌ وَھُوَاَخُ رَسُوْلِنَا مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی وَمِنْھُمْ سَیِّدٌ وَھُوَ حَسَنُ الْمُجْتَبٰی.اَللّٰھُمَّ تَرٰی فِیْ قَلْبِیْ حُبَّہٗ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَاِنَّہٗ مِصْدَاقُ یُصْلِحُ اللّٰہُ بِہٖ بَیْنَ الْفِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاُحِبُّ اَخَاہُ الْحُسَیْنَ سَیِّدَ شَبَابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ قُتِلَ غِرًّا مَظْلُوْمًا شَھِیْدًا وَاُبْغِضُ فِیْ مُقَابَلَتِہِ الْعَنِیْدَ ذَالْخَیْبَۃِ فَاِنَّہٗ مَااَثْنٰی عَلَیْہِ اَحَدٌ خَیْرًا بَلْ اَثْنَوْا عَلَیْہِ شَرًّا.وَاُحِبُّ الْعَشَرَۃَ الْمُبَشَّرَۃَ وَاَصْحَابَ الْبَدْرِ وَبَیْعَۃِ الرِّضْوَانِ وَمَنْ قُتِلَ فِیْ اُحُدٍ وَّجَمِیْعَ مَنْ بَشَّرَہٗ سَیِّدُنَا.وَقَرَأْنَا فِی الصِّحَاحِ بَلْ وَمَنْ اَسْلَمَ عَلٰی یَدِہِ الْکَرِیْمَۃِ وَمَاتَ عَلَی الْاِسْلَامِ کَمُعَاوِیَۃَ وَمُغِـیْـرَۃَ ابْنِ شُعْبَۃَ مَا کَذَبَ مِنْھُمْ اَحَدٌ

Page 97

فِیْ اَمْرِ الدِّیْنِ عَنِ الرَّسُوِلِ الْاَکْرَمِ وَمَا کَانَ اَحَدٌ مِّنْہُمْ اَطْرَشَ.وَتَرَکْتُ مِنْ بَدْوِالشُّعُوْرِ الرَّوَافِضَ وَالشِّیْعَۃَ وَالْخَوَارِجَ وَالْمُعْتَزِلَۃَ وَالْمُقَلِّدَۃَ الْجَامِدَۃَ التَّارِکِیْنَ لِنُصُوْصِ الْقُرْاٰنِ وَالسُّنَّۃِ وَالْاَحَادِیْثِ الصَّحِیْحَۃِ الثَّابِتَۃِ لِقَوْلِ اَحَدٍ.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.وَمَعَ ھٰذَا اُحِبُّ اَبَا حَنِیْفَۃَ وَمَالِکاً وَالشَّافِعِیَّ وَاَحْمَدَ وَمُحَمَّدَ بْنَ اسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیّ وَاَصْحَابَ السُّنَنِ وَالْفُقَھَائَ وَالْمُحَدِّثِیْنَ رَحِمَھُمُ اللّٰہُ وَاُعَظِّمُ مَا عَلَیْہِمْ، وَ اُحِبُّ اِتِّبَاعَھُمْ فَاِنَّھُمْ ھُمُ الْقُدْوَۃُ وَاُثْنِیْ عَلَیْھِمْ خَیْرًا وَاَحْتَاجُ اِلٰی تَـحْقِیْقَاتِھِمْ وَمَـعَ ھٰذَا اُقَـدِّمُ مَـنْ قَـدَّمَـہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَاَعْتَقِدُ اَنَّ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ قَبْلَ رَفْعِہٖ اِلَیْہِ کَمَا وَعَدَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیْ َّ (اٰل عمران:۵۶) وَمَا قُتِلَ وَمَا صُلِبَ وَثَبَتَ رَفْعُہٗ لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی (النساء :۱۵۹) وَقَدَّمَ سُبْحَانَہٗ فِی الْوَعْدِ تَوَفِّیْہِ وَمَا قَدَّمَہُ اللّٰہُ قَدَّمْنَا وَمَا اَخَّرَہٗ اَخَّرْنَا ثُمَّ اللّٰہُ جَعَلَ الْاَرْضَ کِفَاتًا اَحْیَآئً وَّاَمْوَاتًا.وَقَالَ تَعَالٰی (اٰل عمران:۱۴۵) فَخَلٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ کَمَا خَلَتِ الرُّسُلُ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَاِنَّ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الَّذِیْ نَازِلٌ نَزَلَ صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ وَعَدَ لَنَا فِی الْقُرْاٰنِ فِی النُّوْرِ بِاَنَّ اللّٰہَ یَسْتَخْلِفُ مَنْ یَّسْتَخْلِفُ مِنَّا.وَصَرَّحَ رَسُوْلُنَا سَیِّدُ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاَنَّ النَّازِلَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ وَشَھِدَ اللّٰہُ وَمَلٰٓئِکَتُہٗ وَاُولُوالْعِلْمِ بِاَنَّہٗ ھُوَ.وَشَھِدَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِاَنَّہُ الْمَھْدِیُّ وَالطَّاعُوْنُ وَالْجَدْبُ وَالْقِتَالُ بِاَنَّہُ الْمُرْسَلُ کَمَا قَالَ (الانعام:۴۳) وَفَوْزُہٗ وَفَلَاحُہٗ مَعَ مُخَالِفِیْہِ الْاٰرِیَۃِ وَالْبَرَاھِمَۃِ وَالنَّصَارٰی وَالسِّکہ وَالْعُلَمَآئِ وَالْمُتَصَوِّفِیْنَ وَالْحُکَّامِ وَاَقَارِبِہٖ بَنِیْ عَمِّہٖ بِبَکْرَۃِ اَبِیْھِمْ بِاَنَّـہٗ ھُوَ الْمُطَاعُ.وَتَحَدِّیْہِ وَنُصْرَتُـہٗ بِاَنَّہٗ ھُوَ عَلَی الْحَقِّ.

Page 98

یہ میری شہادت ہے ہر ایک جو اس کو سنے یا دیکھے اور سمجھے اس کے پاس یہ میری امانت ہے سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کو اور اس کے فرشتوں کو اپنی اس وصیت پر گواہ کرتا ہوں میں ربّ العالمین کا ایک فقیر ہوں اور میرا نام نورالدین ہے اے اللہ! تو اس نام والے کو اسم بامسمّٰی بنادے.آمین.میرا ربّ اللہ تعالیٰ ہے جو تمام عالموں کا ربّ ہے جس کی بخششیں بغیر ہماری کسی محنت کے ہمیں عطا ہوئیں اور جو ہماری محنتوں کو بارآور کرتا ہے.جزاء وسزا کے وقت کا وہ مالک ہے وہ اللہ ایک ہے بے احتیاج ہے نہ اس کو کسی نے جنا تھا اور نہ آگے اس نے کسی کو جنا اور نہ اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں سب بادشاہی اس کی ہے سب حمد اس کے لئے ہے وہ زندہ ہے دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے.آسمان سے زمین تک تمام امور کی تدبیر کرتا ہے وہ قدرت والا ہے جو ارادہ کرتا ہے وہی کر لیتا ہے سنتا ہے دیکھتا ہے اسی نے موسیٰ سے کلام کیا اور اس کے خوبصورت نام ہیں اور وہ سب سے بے پروا ہے.وہ اپنے عرش پر ٹھیک ٹھاک حکمران ہے اور کوئی اس کی مانند نہیں اس کے علم اور خلق کا احاطہ سب پر ہے اور اس کا علم سب پر وسیع ہے اور ہر ایک شے کو اس نے گن رکھا ہے وہ چھپے رازوں کو جانتا ہے اور مخفی باتوں سے آگاہ ہے.کیا وہ جس نے پیدا کیا نہیں جانتا؟ حالانکہ وہ تو بڑا باریکبین اور باخبر ہے.وہ غیب کو جانتا ہے ظاہر سے آگاہ ہے.اس کی ذات برتر ہے اس سے جو وہ شریک کرتے ہیں.وہ اوّل ہے اس کے قبل کوئی نہیں وہ آخر ہے اس کے بعد کوئی نہیں وہ ظاہر ہے اس کے اوپر کوئی نہیں وہ باطن ہے اس کے سوا کوئی نہیں.اس کی قضا کو کوئی رد نہیں کر سکتا اور اس کے حکم کو کوئی موڑ نہیں سکتا.اسی کے ہاتھ میں خیر ہے اور وہ سب چیزوں پر قادر ہے اور تیرے ربّ کی باتیں صدق وعدل سے پوری ہوئیں.اس کے کلمات کو کوئی بدل نہیں سکتا اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا اور تیرا ربّ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اللہ کی حجت سب پر غالب ہے اگر وہ چاہتا سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا.وہ غضبناک ہوتا ہے اور راضی بھی ہوتا ہے اور بندہ کی توبہ پر خوش ہوتا ہے اور آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کر

Page 99

سکتیں اور وہ سب بصارتوں پر احاطہ کرتا ہے.وہ باریک باتوں سے خبردار ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ کئی منہ اس دن خوش ہوں گے اور اپنے ربّ کی طرف نظر کرنا ان کو نصیب ہو گا.اور قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے رُوح الامین نے یہ کلام ہمارے مولیٰ اور ہمارے رسول خاتم النبیین اور سردار بنی آدم رحمۃً للعالمینؐ پر نازل فرمایا.یہ رسول لوگوں کی طرف ہاں تمام جہان کے لوگوں کی طرف بھیجا گیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہہ دے اے لوگو! خدا کی طرف سے تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں.خدا نے جو سب باتوں سے عمدہ بات نازل فرمائی ہے وہ قرآن ہے اور خود اس نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے جیسا کہ قرآن شریف میںفرماتا ہے.ہم نے ہی یہ نصیحت نامہ نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.یہ کلام ہدایت ہے، رحمت ہے، شفا ہے، روح ہے اور فضل ہے اور کفایت کرنے والا ہے اور بیشک اس نے کفایت کی.اور فرشتے حق ہیں اور رسول حق ہیں اور اللہ کی کتاب حق ہے اور جو کچھ اس سے پہلے نازل ہوا وہ سب حق ہے.اور ہمیشہ سے اللہ ربّ رحیم کلام کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا ہر شے کو اس نے پیدا کیا اور ہر شے کا ایک اندازہ مقرر کیا.اور قبر میں سوال اور ُمردوں کا جی اٹھنا اور جسموں کا پھر نکلنا اور حساب کا ہونا اور ایک گروہ کا بہشت کو جانا اور ایک گروہ کا دوزخ میں جانا اور صراط سے گزرنا اور چھوٹے گناہ تو کجا بڑے بڑے گناہوں کی شفاعت اور درجات کی بلندی یہ سب باتیں حق ہیں اور ضرور ہونے والی ہیں.جنت کی نعمتیں حق ہیں اور وہ(یعنی جنت) ایک ایسی نعمت ہے جو کبھی منقطع نہ ہو گی اور آگ کا عذاب، اور اس پر انیس داروغوں کا ہونا یہ سب حق ہے.بے شک تیرا رب بخوبی کرسکتا ہے جو چاہتا ہے.اوراللہ کی رحمت اس کے غضب سے بڑھ گئی ہے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اور سب حاکموں کا حاکم ہے اور سب کرم کرنے والوں سے بڑھ کر کرم کرنے والا ہے.اسلام کی پانچ بنا ہیں.اوّل گواہی دینا کہ اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کا رسول ہے دوم نماز سوم زکوٰۃ چہارم روزہ پنجم حج.اور نماز اور دیگر عبادات اس طرح ہیں جس طرح تعامل اور سنّت سے ثابت ہے اور جس طرح اس کی تشریح مؤطّا اور بخاری میں آچکی ہے ہم نے مومنوں کو

Page 100

ویسے ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے اور یقین کیا ہے کہ یہی مومنوں کی راہ ہے.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص مومنوں کی راہ کے سوا کسی اور راہ کی تلاش کرے ہم اسے اُدھر ہی پھیر دیں گے جِدھر وہ پھرا اور اس کو جہنم تک پہنچا دیں گے جو بہت بُری جگہ ہے.اور اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ ہمیں حکم فرمایا ہے کہ نازل کردہ کتاب پر ایمان لائیں ایسا ہی یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ محمدؐ اس کے رسول کی اتباع کریں جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے اے رسول ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا تم سے پیار کرے گا.اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی اطاعت کا حکم فرمایا ہے ایسا ہی اپنے رسول کی اور حاکم وقت کی اطاعت کا بھی حکم فرمایا ہے.چنانچہ قرآن مجید میں آیا ہے اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسول کی اور جو تم پر حاکم ہو اس کی بھی اطاعت کرو بلکہ والدین کی اطاعت کا بھی حکم فرمایا ہے.اور فرمایا ہے کہ اگر تیرے والدین یہ کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے حالانکہ تجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں دیا گیا تو اس معاملہ میں ان کا کہنا نہ ماننا باقی دنیا میں ان کا اچھی طرح سے ساتھ دو.ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو خلقت کی اطاعت پر مقدم کیا جاوے اور اس کے رسول کی اطاعت خود اس کی اطاعت ہے جو سب پر غالب ہے.جیساکہ فرمایا ہے اور جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی.میں اس بات سے محبت رکھتا ہوں کہ مہاجرین میں سے سابقین اوّلین کی اتباع کروں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سبقت لے جانے والے پہلے مہاجر اور انصار اور جن لوگوں نے اخلاص سے ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سب سے پہلے پاک کئے گئے تھے.اور ان میں سے خلفاء جو راہ راست پر چلنے والے ابوبکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ ان میں سے کوئی بھی منافق نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ نے منافقین کی صفت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ جس امر کا قصد کرتے ہیں اس کو حاصل نہیں کر سکتے لیکن اِن بزرگوں نے جس امر کا قصد کیا اُس میں کامیاب ہوئے اور وہ اس کے مصداق ٹھہرے کہ جو تم میں سے ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا ہم ان کو زمین میں خلیفہ بنا دیں

Page 101

گے اور وہی غالب رہیں گے جیسا کہ سورۃ مائدہ میں ذکر ہوا ہے اور انہیں میں سے حضرت علیؓ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اور آنحضرتؐ کی بیٹی فاطمہؓ بتول ان کے گھرمیں تھی اُن کے ساتھ محبت رکھنا ایمان ہے اور اُن کے ساتھ بُغض رکھنا نفاق ہے وہ تو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی تھے اور ان کا مرتبہ ایسا تھا جیسا کہ ہارونؑ کا موسیٰ ؑکے پاس تھا اور انہیں میں سے سید حسن المجتبٰی تھے.اے اللہ تو میرے دل میں ان کی محبت دیکھتا ہے.خدا اُن سے راضی ہو وہ اس امر کے مصداق ہوئے کہ اُن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دو مسلمان گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا.اور میں اس کے بھائی حسینؓ سے بھی محبت رکھتا ہوں جو اہل جنت کے نوجوانوں کا سردار تھا جو دھوکا سے مظلوم شہید ہو کر مارا گیا اور اس کے مقابلہ کے دشمن نامراد کے ساتھ بغض رکھتا ہوں کسی نے بھی اس کی نیک تعریف نہیں کی بلکہ انہوں نے اس کی برائی بیان کی.اور میں ان دس سے بھی محبت رکھتا ہوں جن کو بہشت کی بشارت دی گئی تھی اور ان سے بھی جو جنگ بدر میں شامل تھے اور ان سے جو بیعت الرضوان میں شامل تھے اور ان سے جو جنگ احد میں قتل کئے گئے تھے اور ہر ایک سے جس کو آنحضرتؐ نے بشارت دی اور ان کا ذکر ہم نے صحاح( ّستہ) میں پڑھا ہے بلکہ ہر ایک سے میں محبت رکھتا ہوں جو آپؐ کے دست مبارک پر اسلام لایا اور اسلام پر فوت ہوا جیسا کہ معاویہ اور مغیرہ ابن شعبہ.ان میں سے کسی نے رسول اکرمؐ سے دین کے معاملہ میں جھوٹ نہیں بولا اور نہ ان میں سے کوئی بہرہ تھا.جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں نے ترک کر دیا ہے، روافض اور شیعہ کو خوارج اور معتزلہ کو اور ایسے مقلّدین کو جو کسی ایک کے قول کی خاطر قرآن وسنّت اور احادیث صحیحہ کے نصوص کو چھوڑ دیتے ہیں.وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن اور اس کے ساتھ میں ابوحنیفہ اور مالک اور شافعی اور احمد سے محبت رکھتا ہوں اور محمدبن اسماعیل بخاری اور اصحاب السنن اور فقہا ء اور محدِّثین سے محبت رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.میں ان کی اور ان کے اقوال کی تعظیم کرتا ہوں اور ان کے متبعین سے محبت رکھتا ہوں.وہ مقتدا لوگ ہیں ان کی اچھی

Page 102

تعریف کرتا ہوں اور ان کی تحقیقات کا محتاج ہوں اور باوجود اس کے میں اسی کو مقدم سمجھتا ہوں جس کو اللہ اور اس کے رسول نے مقدم کیا اور میں اعتقاد رکھتا ہوں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پہلے وفات دی پھر اپنی طرف اُن کا رفع کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ دیا تھا کہ میں تجھے مارنے والا ہوں اور پھر اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور وہ نہ قتل کیا گیا اور نہ صلیب دیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے اس کا رفع ثابت ہے بلکہ اللہ نے اس کا اپنی طرف رفع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں موت کا ذکر پہلے فرمایا ہے.جس چیز کو خدا نے پہلے رکھا اس کو ہم بھی پہلے رکھتے ہیں اور جس کو پیچھے رکھا اس کو ہم بھی پیچھے رکھتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہی زندہ اور مردوں کے ٹھہرنے کی جگہ بنائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ محمدؐ ایک رسول ہے اور اس سے پہلے سب رسول گزر چکے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح گزر گئے جس طرح پہلے رسول گزر گئے تھے ان پر صلوٰۃ وسلام اور عیسیٰ ابن مریم جو نازل ہونے والا تھا وہ نازل ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی صلوات اور سلام اس پر ہو.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سورہ نور میں وعدہ فرمایا تھا کہ خلیفہ جو ہو گا تم میں سے ہو گا اور رسول کریم سید الاوّلین والآخرین سید ولدآدم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصریح فرمائی تھی کہ نازل ہونے والا تم میں سے ہی ایک امام ہو گا اور اللہ نے اور اس کے فرشتوں نے اور صاحبانِ علم نے گواہی دی ہے کہ یہی وہ ہے جو آنے والا تھا اور سورج اور چاند نے بھی شہادت دی ہے کہ یہی مہدی ہے.اور طاعون نے اور قحط نے اور جنگوں نے ثابت کر دیا کہ یہی مرسل ہے.جیسا کہ قرآن میں آیا ہے اور تجھ سے پہلے امتوں کی طرف ہم نے رسول بھیجے پھر ہم نے وہاں کے باشندوں کو قحط اور بیماری میں مبتلا کیا.اور خدا نے اس کو بامراد کیا ہے باوجود یکہ آریہ اور برہمو اور عیسائی اور سکھ اور علماء اور صوفی اور بعض حُکّام اور چچا زاد بھائی اور اقارب اور سب نے سارا زور لگا کر اس کی مخالفت کی باوجود اس کے اس کی کامیابی ثابت کرتی ہے کہ وہ امام ہے اور اس کا تحدّی کرنا اور پھر خدا سے ُنصرت پانا ظاہر کرتا ہے کہ وہ حق پر ہے.ایک اور مصیبت ایک اور مصیبت ہم پر یہ ہے کہ بہت سی اصطلاحات لوگوں نے آپ بنائی ہیں

Page 103

اور پھر ان کو قرآن وحدیث پر چسپاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.مجوسی ، صابی، یہودی ، عیسائی بہت لوگ عرب میں اور اس کے قریب قریب آباد تھے.ان کے علاوہ عرب کے کناروں پر ایک فلسفیوں کا مذہب جاری ہو چکا تھا اور بہت لوگ اس کو اختیار کر چکے تھے.انہوں نے بہت سی اصطلاحیں عجیب درعجیب گھڑی تھیں اور پھر اپنے مطلب کے مطابق اُن اصطلاحات کو قرآن و حدیث پر لگا کر نئے نئے معنے کئے جاتے ہیں.یہ بھی ایک بلا ہے.جتنی منطق فلسفہ طبیعات آجکل پڑھی جاتی ہے.قال اقول، ایسا غوجی ، مسلم ، میر زاہد، صدرہ، شمس بازغہ وغیرہ اٹھار ہ کتابیں ہیں.ا ن کی اصطلاحات کے ماتحت قرآن شریف کے معنے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.بہت سے طلباء اس میں گرفتار ہیں.اللہ ہی ہے جو کسی ذریعہ سے اس کو گھٹائے.دوسری صدی کے اخیر میں اور تیسری کی ابتداء میں ایک کتاب لکھی گئی جس کی اصطلاحات کی بنا لفظ عقل پر رکھی گئی ہے.لکھا ہے ایک عقل اوّل ہوتا ہے ایک عقل دوم.ایسا ہی جو عقل دسویں ہے وہ اصل خالق اور ربّ ہے.ایک عقل فعّال ہوتا ہے.اس قسم کی بہت سی بیہودگیاں گھڑی گئی ہیں.میں تو ان پر تھوکتا بھی نہیں.یہ سب جھوٹی باتیں ہیں.میں نے تم کو سنایا ہے تاکہ تم ان سے بچو.ایسا ہی ایک شخص نے لکھا ہے کہ خَلْعُ النَّعْلَیْنِ سے یہ مراد ہے کہ دین او ردنیا دونوں کے تعلقات کو چھو ڑدو.نَعْلَیْن سے مراد ایک دین اور دوسری دنیا ہے.نَعُوْذُ بِا للّٰہِ مِنْ ذَالِکَ.یہ جھوٹی بات ہے اور کسی خود غرض نے اپنے پاس سے بنائی ہے.یہ اصطلاحیں لوگوں نے آپ گھڑی ہیں قرآن شریف نے نہیں بتلائیں.نہ صحابہ و تابعین نے، نہ ائمہ دین نے، نہ لغت عرب نے.۳؎

Page 104

سورۃ الفاتحۃ .سارے جہانوں کا ربّ.عبادت کے لائق وہی ہے اسی کے لئے سب محامد ہیں.اس میں حکم ہے کہ عبادت اسی کی کی جائے جو سارے جہانوں کا ربّ ہے.کوتاہ نظر لوگ اپنی نادانی سے کسی ادنیٰ چیز میں اپنے زعم کے مطابق کوئی حسن یا احسان خیال کر کے اُسی کی پرستش کرنے لگتے ہیں.ا للہ تعالیٰ اُن کے عقیدہ باطل کی تردید فرماتا ہے کہ وہ اشیاء ربّ العالمین نہیں ہیںسب جہانوں کی ربوبیت نہیں کر سکتے، تم خود دیکھ رہے ہو.پھر وہ عبادت و اعلیٰ محامد کے لائق کیونکر ہو سکتے ہیں.ماں کے پیٹ سے لے کر بچپن، جوانی، بڑھاپا، موت تک ہر حالت میں اور ہر جگہ انسان اللہ تعالیٰ کی ربویت کا محتاج ہے بلکہ باپ کے جسم میں بلکہ عنصری حالت میں.پھر بعد الموت جو حالات انسان پر وارد ہونے والے ہیں ان سب میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ربوبیت کام آوے گی.لوگ پتھر، مورت، تصویر، قبر، آدمی، فرشتہ وغیرہ کیا کیا کی پرستش کرتے ہیں.یہ سب عبادت بے سود ہے کیونکہ یہ اشیاء ربّ العالمین نہیں بلکہ خود ربّ العالمین کی ربوبیت کے ماتحت ہیں.یہی دلائل الرحمٰن.الرحیم.مالک یوم الدین میں مذکور ہیں..یہ ایک دعویٰ ہے کہ اے اللہ ہم تیری ہی فرمانبرداری کرتے ہیں اور کریں گے.ہمارے سب کام تیری ہی اطاعت کے لئے ہیں اور ہوں گے اور کسی کی پرستش ہم نہیں کرتے نہ کریں گے.عبادت کے اصول یہ ہیں کہ جس کی عبادت کی جائے.اُس کے ساتھ کامل محبت ہو.اُس کے حضور اپنا کامل تذلل ہو.کیا معنے اُس کے حضور میں کامل تواضع وا نکسار کیا جائے جو اُس کا ارشاد ہو اُس کے مطابق عملدرآمد ہو.ہر وقت اُسی پر بھرو سہ ہو..میں جتلایا گیا ہے کہ آدمی کو سست نہیں ہونا چاہئے بلکہ چست کام کرنے والا بننا

Page 105

چاہئے.شیطان انسان کو دھوکا دیتا ہے کہ تو کمزور ہے یہ دینی خدمت ادا نہیں کر سکتا اور وہ نہیں کر سکتا.کئی ایک نالائق عذر دل میں پیدا ہوجاتے ہیں کہ ہم معذور ہیں مسجد نہیں جا سکتے یا روزہ نہیں رکھ سکتے یا نماز جمع کر لینی چاہیے.ایسے عذرات سے بچنا چاہئے.چستی سے خدا کی عبادت اور فرمانبرداری کی طرف متوجہ ہونا چاہئے. کا دعویٰ اور سستی میںبھلا کیا تعلق..سارا قرآن شریف صراط مستقیم سیدھی راہ دکھانے کے واسطے آیا ہے صراط مستقیم وہی ہے جو نبیوں ، صدیقوں، شہیدوں ، صالحین کی راہ ہے.آنحضرت ﷺ کی راہ ، آپ کے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا تعامل.وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کی اطاعت ضروری نہیں.ایسے لوگوں کو عملدرآمد کی توفیق نہیں ملتی. اور اَلضَّآلّ.مَغْضُوْب وہ قومیں ہیں جنہوں نے علم پڑھا پر اُس پر عمل نہ کیا اور ضَآلّ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دینی علم پڑھا ہی نہیں یا کسی سے بے جا محبت کی یا محبت میں غلو کیا.مسلمانوں کو صراط مستقیم کی دعا ماننگے کی ضرورت سوال.ایک شخص نے سوال کیا کہ سب لوگ جو مسلمان ہیں وہ تو خود صراط مستقیم پر ہیں.اب ان کو صراط مستقیم کی دعا مانگنے کی کیا ضرورت ہے.جواب میں حضرت نے فرمایا.اوّل تو یہ کہنا غلط ہے کہ سب مسلمان ہیں.مسلمان کہاں ہیں؟ چوریاں کرتے ہیں، زنا کرتے ہیں اور ان باتوں کو پسند کرتے ہیں بلکہ ضروری و حلال جانتے ہیں.جیل خانے ان سے بھرے پڑے ہیں.وحدت ملیہ اور غیرت دینیہ کا ان میں نام نہیں.اِلَّا مَاشَآئَ اللّٰہ.کیا یہ مسلمان ہیں ؟ پھر کیا وہ مسلمان ہیں جو پورٹ بلیر میں اور گجپت کے قلعہ میں مقید ہیں.یا وہ رنڈیاں جو بازاروں میں پائی جاتی ہیں وہ مسلمان ہیں.یا وہ عیاش جو صبح کو رنڈیاں پسند کرتے ہیں اور رات کو بدکاری کرتے ہیں وہ مسلمان ہیں یا وہ امراء مسلمان ہیں جنہوں نے شریعت کا کوئی حکم اپنے واسطے ضروری نہیں سمجھا.کیا کسی نواب یا بادشاہ اسلام بلکہ مکہ شریف کے پاس کوئی بیت المال ہے اور اس

Page 106

میں ان کا تصرف بے جا نہیں.یا وہ لوگ مسلمان ہیں جو قبروں کے آگے سجدہ کرتے ہیں.یا وہ عوام مسلمان ہیں جنہوں نے کبھی نماز کا نام نہیں لیا یا وہ ملاں مسلمان ہیں جو مساجد میں بدکاری کرتے ہیں اور جنابت کے ساتھ امامت کرتے ہیں.یا عدالتوں کے وہ گواہ مسلمان ہیں جو قرآن شریف لے کر جھوٹی قسم کھاتے ہیں.یا وہ مقدمہ بازاور وکیل مسلمان ہیں جو خود ایسے گواہ بناتے ہیں.آہ! مسلمان کہاں ہیں؟ ذرا قرآن شریف پڑھو.ذرا قرآن شریف پڑھو.اس میں مومنوں کی کیا نشانی لکھی ہے.(الانفال : ۳).ترجمہ.مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دھڑ کتے ہیں اور جب اُن پر نشانات الٰہی پڑھے جائیں تو ان کا ایمان بڑھتا ہے اور وہ اپنے ربّ پر بھروسہ کرے ہیں.ایسا ہی دوسری جگہ لکھا ہے کہ ذکر الٰہی سے اُن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پس غور کرو کہ ایسے لوگوں کو صراط مستقیم مانگنے کی ضرورت ہے یا نہیں.دوم.جیسا کہ دنیوی امور میں ترقی کی کوئی حد نہیں ایسا ہی دینی امور میں بھی ترقی کی کوئی حد نہیں.دنیوی مثال دیکھو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے وقت انسان پیادہ جاتا ہے.گھوڑے پر سوار ہو کر جاتا ہے.پھر ہاتھی کی سواری ہے.پھر بیل گاڑی، اکّہ، ٹم ٹم، فٹن ہے.پھر بائیسکل، موٹر ،ٹریم، ریل، جہاز ہے اور اب ایک نئی سواری ایرو پلین ہے ابھی بس نہیں.دیکھئے آگے کیا کچھ ایجاد ہوتا ہے.یہ دنیوی راہوں کے طے کرنے کے ذرائع ہیں.ایسا ہی دینی راہوں کے طے کرنے واسطے بھی طریقے ہیں اور محامد الٰہیہ اور اس کی رضا کی راہوں کے علم میں ترقی کی حد نہیں.علماء ، اولیاء، انبیاء جس قدر ترقی کرتے جاتے ہیں اسی قدر انشراح بڑھتا جاتا ہے.میں نے آج قرآن شریف شروع کرنے سے قبل دعا کی ہے.ہر دفعہ جب قرآن شریف سناتا ہوں مجھے ایک نیا انشراح ہوتا ہے اور ہر دَور میں کچھ نئے علوم کھلتے ہیں.ہمارے زمانے میں جو لٹریچر تھا اس میں آج بہت فرق ہو گیا ہے.الفاظ کا ہجا کرنے تک طریق بدل گیا ہے.ہر روز طریقہ تعلیم میں ایک نئی

Page 107

راہ نکلتی ہے.آنحضرت ﷺ تک کو تو حکم ہوتا ہے کہ  (طٰہٰ : ۱۱۵)دعا مانگ کہ اے ربّ میرا علم بڑھا.جب یہ دعا آپ کی ہے ﷺ تو ہم کون ہیں جو کامل ہو چکے.یہ سب صراط مستقیم ہے.فطرت انسانی انسان کی منی کے ان کیڑوں میں جو کچھ بننے والے ہوتے ہیں تین صفات عجیبہ پائے جاتے ہیں.(۱) چلنے میں انحراف نہیں کرتے.ادھر اُدھر نہیں ہوتے سیدھا چلتے ہیں.(۲) پیچھے نہیں ہٹتے.(۳) ان کا ایک انتہائی مقصد ہوتا ہے کہ انڈے کے اندر گھس جائیں.اس مقصد کو نہیں چھوڑتے.ان ہر سہ باتوں کی ہم کو اب بھی ضرورت ہے.انسان کی ترقی اگر ہر آن جاری نہ رہے تو وہ مر جاتا ہے.ہر آن دوران خون کے چلتا رہنے کی ضرورت ہے جو انسان کل تھا وہ آج نہیں.ہر آن جسم میں ایک تغیر ہے.ہم بچے تھے، جوان ہوئے، اب بوڑھے ہو گئے.وہ جسم جو بچپن میں تھا وہ کہاں ہے.اسی طرح ہر وقت علم میں بھی ترقی چاہئے.کل والا علم آج کے واسطے بس نہیں اور اسی طرح عمل میں ترقی ضروری ہے.سورۃ البقرۃ پارہ اوّل.رکوع اوّل  یہ کی دعا کا جواب ہے.آنحضرت ﷺ نے یہ ایک ہی کتاب دیکھی، لکھی، پڑھی، پڑھائی ، سنی اور سنائی.اس کے سوائے آپ نے کوئی اور کتاب نہ دیکھی.یہود و نصاریٰ کو کہا گیا تھا.(الصافات:۱۵۸) مگر کوئی نہ لایا.(اور لاتے کہاں سے.ان کے پاس کوئی کتاب اپنی اصلی حالت پر موجود تو تھی ہی نہیں.نبی کے

Page 108

سامنے کتاب پیش کرنا کوئی آسان امر نہ تھا.عوام کے سامنے پیش کر لینا اور کہہ دینا کہ یہ خدا کا کلام ہے آسان امر ہے مگر خداکے نبی اور پھر خاتم النبیین کے سامنے بائبل یا اس کے اجزاء رکھے جاتے تو ساری قلعی کھل جاتی.آخر انبیاء اور ان کے انکشاف کی کہانیاں تو انہوں نے سنی ہوئی تھیں.جرأت ہی نہ ہوئی کہ کوئی کتاب افضل الرسل کے سامنے پیش کرے.مدعی بنیں کہ یہ خدا کا کلام ہے.ایڈیٹر) .نہ اس کتاب میں کوئی ہلاکت کی بات ہے اور نہ کوئی شک و شبہ کی جگہ ہے.کتاب کی تو یہی حالت ہے باقی کوئی اور آدمی شکی ہواس کے لئے جواب موجود.( دیکھو  کو )..یہ وہ ہدایت ہے جسے سورۂ فاتحہ میں طلب کیا گیا تھا.اسے سیکھو اور اس پر عمل کرو.اس راہ پر چلو یہ خدا نے تمہارے لئے بنایا ہے.مُتَّقِیْن.تمہاری دعا قبول ہوئی.خدا نے متقی بننے کا طریقہ بتلا دیا.پہلے جس قدر متقی دنیا میں گزرے اور جو آئندہ متقی ہوں گے ان کے طریق بھی سب اس میں درج کئے گئے.یہ کامل ہدایت نامہ ہے.فرمایا اللہ تعالیٰ نے(النساء : ۲۷) اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ پہلے نیک لوگوں کی راہیں تم پر ظاہر کرے اور ان پر تجھے چلائے اور تم پر رجوع برحمت ہو.اللہ تعالیٰ کو سب علم ہے کہ پہلے لوگوں کی کیا راہیں تھیں اور وہ اپنی حکمت کا ملہ سے اُنہیں تم پر کھولتا ہے..اس آیت شریفہ میں کامیابی کے تین اصول بتلائے گئے ہیں.ایمان۱ بالغیب ، د۲عا اور اللہ کی ۳راہ میں خرچ کرنا.دراصل ہر ایک کام جس کو انسان اختیار کرے اس میں انسان تب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جبکہ یہ تین کام کرے.سب سے اوّل غیب سے کام لیا جاتا ہے.تمام ریاضی کی بنیاد غیب پر ہے.نقطہ، دائرہ اور خط سب فرضی ہوتے ہیں اور اسی پر سب ریاضی کا علم بنتا ہے.علم حساب بھی فرضی باتوں سے شروع ہوتا ہے.لڑکوں کو سوال حل کرنے کے لئے دیا جاتا ہے کہ ایک شخص کے پاس دس ہزار روپیہ

Page 109

ہے.وہ تجارت کرتا ہے اس بھائو خریدتا ہے اُس بھائو بیچتا ہے.بتلائو کیا منافع ہو گا.یہ سب فرضی باتیں ہیں نہ کوئی شخص ہے، نہ کچھ روپیہ ہے، نہ کوئی تجارت ہے لیکن اسی سے بچہ بڑا حساب دان بن جاتا ہے.پولیس بھی غیب سے کام چلاتی ہے.اس کو پکڑو، اس کی تلاشی لو، آخر مقدمہ نکل ہی آتا ہے.ایسا ہی دعا اور توجہ ہے.میری تحقیق ہے کہ جو شخص ہدایت کے واسطے دعا نہیں مانگتا وہ کبھی فائدہ نہیں اُٹھاتا.تیسراگُر کامیابی کا خرچ کرنا ہے.ہر ایک کام کے واسطے پہلے کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے پھر اتنا ہی نفع ہوتا ہے.ریل بنائی جاتی ہے.ایک میل پر ایک لاکھ روپے کے خرچ کا اندازہ ہوتا ہے.جب یہ خرچ ہو چکتا ہے توپھر آمدنی بھی کروڑوں کی ہوتی ہے..پہلے لوگوں کو جو ہدایت نامے آئے وہ سب قرآن شریف میں موجود ہیں.ہمیں کیا معلوم ہے کہ جہان کب سے ہے اور خدا کے نبیوں اور رسولوں او رکتابوں کا کیا شمار ہے.یسوعی لوگ دنیا کی عمر پانچ چھ ہزار سال قرار دیتے ہیں اور آریہ لوگ بھی کچھ ہندسے لکھ کر دنیا کی عمر قرار دیتے ہیں مگر قرآن شریف نے کوئی حد بندی نہیں کی.ہاں اُن تمام مشترکہ ہدایت کی باتوں کو جو پہلوں پر نازل ہوئیں اور ہمارے لئے ضروری ہیں اس پاک کتاب میں جمع کر دیا ہے.آیت۵.مُفْلِحُوْنَ.مظفر و منصور کا میاب.یہ ہدایت یافتوں کا نشان ہے.اگر آجکل مسلمان ہدایت پر ہوتے تو وہ ایسے ذلیل و حقیر نہ بنتے بلکہ اپنے ہر کام میں مظفر و منصور ہوتے.آیت ۶.کفار تین قسم کے ہوتے ہیں.(۱) وہ جو بات کو سنتے ہی نہیں اور انکار کرتے چلے جاتے ہیں.(۲) و ہ جو بات کو سن تو لیتے ہیں مگر کچھ توجہ نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہاں ایسی باتیں سنا ہی کرتے ہیں.اور یہ دلیلیں سنی ہوئی ہیں.کچھ قابل توجہ نہیں.(۳) تیسرے وہ جو توجہ کرتے ہیں مگر اچھی چیز کو سمجھ کر بھی قبول نہیں کرتے.

Page 110

جو کفار ایسے ہیں کہ ان کی سخت دلی اُس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان کو نصیحت کوئی فائدہ نہیں دیتی.عذاب الٰہی سے ڈرانا بھی کچھ کار گر نہیں ہوتا.انہوں نے جن قوتوں سے کام لینے سے انکار کیا ہے وہ قوتیں ان کی چھین لی جاتی ہیں.ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک تحصیلدار اپنے عہدے سے فائدہ نہیں اٹھاتا.سرکار کا کام پورا نہیں کرتا تو بالآخر اُسے عہدہ تحصیلداری سے علیحدہ کیا جاتا ہے.ایسا ہی جو لوگ خدا کی باتوں کو کسی حالت میں نہیں ماننے میں آتے ان کے دلوں او رکانوں پر مُہر ہو جاتی ہے.پھر کسی بات کا اثر ان پر نہیں ہو سکتا.جیسا کہ بعض ہندو فقیر اپنا ہاتھ اونچا کرتے ہیں اور اسی طرح رہنے دیتے ہیں او رنیچے نہیں کرتے تو کچھ عرصہ کے بعد پھر وہ ہاتھ وہیں خشک ہو جاتا ہے اور اس میں نیچے آنے کی طاقت رہتی ہی نہیں پھر اگر وہ چاہیں بھی کہ اُسے نیچے کریں تو بھی نہیں کر سکتے.رکوع دوم آیت ۳.زَادَ.چونکہ ان پر یہ ابتلا نئے مسائل کی وجہ سے تھا جو کہ ان کے رسم و رواج یا عام خیالات کے خلاف تھے.اس واسطے فرمایا کہ ایسے مسائل تو دن بدن بڑھتے جائیں گے.ابھی قرآن شریف نازل ہو رہا ہے ساتھ ہی ان کا مرض بھی بڑھتا جائے گا..یہ لوگ ہمیشہ دکھ میں رہیں گے کیونکہ مسلمانوں کی فتوحات دن بدن ترقی کریں گی.آیت ۷..تحقیر کرتے ہیں.خفیف سمجھتے ہیں.ہُزُوَ کے معنے ہیں.تحقیر کرنا.۴؎ آیت ۹..ان کی تجارت بھی ان کے لئے فائدہ مند نہ ہوئی.اس کی مثال انگریزوں کے حالات میں خوب پائی جاتی ہے.کس قدر وسیع تجارت کرتے ہیں.سب ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں.سب زبانیں سیکھتے ہیں.تمام علوم میں ترقی کرتے ہیں.لیکن

Page 111

یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے مذہب کی اصلاح کر لیں.ان کی تجارت نے ان کو یہ فائدہ نہ دیا کہ وہ راہ پانے والے ہو جاتے.ہرایک ملک سے وہاں کی صنعت کا نمونہ لے جاتے ہیں.چکیاں، جوتیاں، لوہاروں کی چیزیں، ترکھانوں کی چیزیں، کشیدہ، برتن.غرض ہر شے کا نمونہ ہر ملک سے لیتے ہیں اور اس کی نقل کرتے ہیں بلکہ اس سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اتنی عقل نہیں اور نہ توفیق ملتی ہے کہ اور مذاہب میں سے اچھے مذہب کو قبول کریں اور اُس سے فائدہ اُٹھائیں.آیت ۱۲..دین کے کام میں مشکلات ہوتے ہیں اور یہ مشکلات منافقوں کی منافقت کو ظاہر کر دیتے ہیں.منافقوں کو جب لڑائی کا حکم ہوتا تو عذر کر دیتے.یہاں ہم نے ایک شخص کو جو مہاجر ہونے کا دعویٰ کرتاتھا ایک نصیحت کی کہ تم اپنی محنت سے کچھ اپنے لئے کما لیا کرو سُست بیٹھنا اچھا نہیں.تو بہت خفا ہو کر بولا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ٹوکری اُٹھائوں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا.ایسا ہی ایک اور شخص کو نصیحت کی کہ کچھ ملازمت یہاں کر لے جس سے گزارہ چل جائے اور کسی سے کچھ مانگنا نہ پڑے.تو بولا کیا میں محمد علی کو اپنا بادشاہ بنا لوں.یہ سب فضول تکبر کے کلمات ہیں.بعض منافق ایسے ہوتے ہیں کہ کچھ حصہ شریعت کو مانتے ہیں باقی پر عمل کرنے سے ڈرتے ہیں.جس حصے میں شامل ہوتا ہے اس کی برسا ت رحمت اُس پر پڑتی ہے مگر بعض باتوں کو برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ بارش میں اگر چہ بڑی بڑی رحمتیں ہیں مگر ابتلاء بھی ہیں.مثلاً رات کا وقت ہو اندھیرا ہو.بادلوں کے سبب چاند اور ستارے بھی نظر نہ آویں.ایسی سخت تاریکی پھر گرج اور کڑک.کس قدر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.ایک دفعہ ہم کشمیر سے آ رہے تھے.ٹانگہ پر سوار تھے.راستہ میں ایک جگہ ہوا کی بالکل بندش کے سبب بہت تکلیف تھی.ٹانگہ والا بھی کہتا تھا کہ غضب ہے.تھوڑی دیر میں خدا تعالیٰ نے بادل بھیجے خوب بارش ہوئی.سڑک پر پانی ہو گیا جس سے ٹانگے کو چلنے میں دقت ہوئی.ٹانگے والا بولا

Page 112

غضب الٰہی میں چلتے تو تھے اب رحمت الٰہی تو چلنے بھی نہیں دیتی.یہی حال منافق کا ہے.منافق جہاد میں جانے سے ڈرتا ہے کہ کہیں موت نہ آجائے.بعض لوگ اپنی ملازمت پر معقول تنخواہ پاتے ہیں لیکن وہ عہدہ ایسا ہوتا ہے کہ وہاں رشوت لے سکتے ہیں ساتھ والوں کو رشوت لیتے ہوئے دیکھ کر رہ نہیں سکتے.آخر اس بدی میں گرفتار ہو جاتے ہیں یہ عملی منافق ہیں.ایسے لوگ اپنے آپ کو پاک قرار دیتے ہیں اور دلائل دینے لگتے ہیں.ایسوں کے متعلق فرمایا کہ ان کو تھوڑی بینائی لگی ہے مگر جو لگی ہے وہ بھی کہیں جاتی نہ رہے.بعض لوگ انگریزوں کی نقل کے سبب چھری کانٹے سے کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے ایک دفعہ چھری سے کھایا تھا یا پتلون کے سبب کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے ایسا کیا تھا.یہ منافق ہیں کیونکہ دین کی باتیں جب ان کو سنائی جاتی ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور ان پر عمل نہیں کرتے.صرف اپنے نفسانی مطالب کے مسائل مانتے ہیں باقی کے متعلق کہتے ہیں کہ مشکلات ہیں عمل نہیں ہو سکتا ہم کیا کریں.منافق کا دل کمزور ہوتا ہے.نہ اس میں قوت فیصلہ اور نہ تاب مقابلہ.اسی واسطے فرمایا کہ تم فیصلہ تو کر نہیں سکتے کہ حق بات کون سی ہے اور یہاں مسائل دن بدن بڑھیں گے.سارا قرآن شریف نازل ہو گا.تمہارا مرض بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھتا جائے گا اور مسلمانوں کی تعداد بڑھتی رہے گی..یا تو دعا کے رنگ میں ہے یا امر واقعہ ہے کہ ایسا ہونے والا ہے.رکوع سوم آیت۱..اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد کرنے سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے.آیت۲..آسمان کو جہاں دیکھو گول ہی نظر آتا ہے.جیسے ڈیرہ اور خیمہ.نِدّ.مدِّ مقابل.نہ خدا کا کوئی شریک ہے نہ اس کا کوئی مدِّ مقابل ہے.آیت۵..یہ وہی چیز ہے جس کا ہم کو پہلے سے وعدہ دیا گیا تھا.آیت۶..نہیں رکتا.

Page 113

.منافقوں کے متعلق جب آگ جلانے کی مثال دی گئی تو بڑبڑانے لگے کہ آگ تو مچھر ہٹانے کے واسطے جلائی جاتی ہے کیا ہم مچھر ہیں جو ہمارے واسطے ایسی مثال پیش کی گئی ہے.آیت۷.فَاسِقِیْنَ.بد عہد.آیت۸..اس کے حضور حاضر ہونا ہے..متوجہ ہوا.رکوع ۴ آیت ۱..خَلِیْفَۃً مِّنَ اللّٰہِ.خدا کی طرف سے بنا ہوا خلیفہ.خلیفۃ اللہ کے یہ معنے کرنے کہ اللہ کا قائمقام غلط ہیں.ہم نے کبھی کسی انسان کو انسانوں کی ربوبیت کرتے نہیں دیکھا.اس واسطے ایسے معنے مشرکانہ ہیں.خلیفہ وہ ہے جو کسی کے بعد آوے یا کسی کو اپنے پیچھے چھوڑ جائے.نافذ الحکم اور بادشاہ کو بھی خلیفہ کہتے ہیں..ملائکہ نے پہلے عذر کیا مگر پھر کہا کہ ہم بہرحال حاضر ہیں.آیت۲.سوال ہوا کہ اس مقام پر آریہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایسی باتیں آدم علیہ السلام کو سکھائیں جو فرشتوں کو معلوم نہ تھیں.پھر اسے فرشتوں کے سامنے پیش کیا.جواب.فرمایا.فرشتوں کو یا انسان کو جو کچھ ملا ہے سب خدا ہی کی طرف سے ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ہمیں خدا نے کسی بیماری کا ایک نسخہ سکھلا دیا.دوسرے نہیں جانتے وہ اس میں ہمارے محتاج ہیں جس کو ہم بتائیں وہی جانے.اسی طرح ملائکہ کو ارشاد ہے کہ تم سب ہماری تعلیم میں محتاج ہو جس کو ہم پڑھائیں وہی پڑھے.اَسْمَاء.وہ اسماء کیا تھے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھلائے.بعض صحابہ نے فرمایا ہے کہ وہ زبان تھی.بعض نے لکھا ہے کہ وہ اسماء الٰہیہ تھے.بعض کے نزدیک کلمات دعائیہ تھیمگر ایسی تحقیقاتوں میں تو غل کرنا ایک بے فائدہ کوشش ہے.

Page 114

ترتیب.اس سورۂ شریف میں سب سے اوّل ایمانداروں کا ذکر ہے.پھر وہ جو کافر ہوئے.اُس کے بعد منافقوں کا ذکر ہے.پہلے علمی رنگ میں ان امور کا ذکر تھا اس کے بعد نام لئے گئے.پہلے آدم ؑ کا ذکر ہے پھر ابلیس کا.درمیان میں اعتراض کرنے والوں کی غلطی کا اظہار ہے.مخلوق دو قسم کی ہے.ایک وہ جو نور کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ان میں ملائکہ ہیں، نیک لوگ ہیں اور تمام مفید اور بابرکت اشیاء ہیں.دوسری جو ظلمت سے تعلق رکھتی ہیں.ان میں ابلیس ہے شریر لوگ ہیں اور تمام موذی جانور اور ضرر دینے والی اشیاء ہیں.بعض شریر آدمیوں کو بھی قرآن شریف میں شیطان کہا گیا ہے.مثلاً (البقرۃ :۱۵) جبکہ اپنے سرداروں شیطانوں کی طرف علیحدہ ہوتے ہیں.خدا کے نیک بندوں کو فرشتہ کہا جاتا ہے.حضرت یوسف کے متعلق مصر کی عورتیں بول اُٹھیں.(یوسف : ۳۲).یہ انسان نہیں یہ تو صرف فرشتہ ہی ہے.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ مولوی شیر علی صاحب بی اے کے متعلق فرمایا تھا کہ شیر علی تو فرشتہ ہیں.ایڈیٹر ) بعض جگہ میں نے ملک کا ترجمہ نیک بندے یا شیطان کا ترجمہ شریر لوگ کیا ہے.اس سے کسی کو یہ دھوکہ نہ لگے کہ میں فرشتے یا شیطان کے وجود کا قائل نہیں ہوں.میں ان کے علیحدہ وجود کو مانتا ہوں لیکن ان کے مظاہر بندوں میں اور دیگر اشیاء میں بھی ہوتے ہیں.آیت ۵..تکبر اورابٰیبہت برا مرض ہے او رآجکل کثرت سے پھیلا ہوا ہے.فرمانبرداری بہت کم رہ گئی ہے.فضولی، سُستی اور ساتھ ہی تکبر بہت بڑھ گیا ہے اور یہ زیادہ تر یورپ سے سیکھا گیا ہے.افسوس ہے کہ ہمارے لوگ یورپ کی نیکیاں نہیں لیتے اور ان کی بدیاں اختیار کرتے ہیں.آیت۶.شجرۃ.جھگڑے کو بھی کہتے ہیں.مطلب یہ ہے کہ کسی جھگڑے کی بات میں نہ پڑو.نسل بڑھانے کو بھی شجرہ کہتے ہیں.اسی واسطے شجرۂ نسب ہوتا ہے.اور شجرہ کے معنے ہیں درخت.

Page 115

آیت ۷..میں بھی اپنے دوستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ چوکس ہو کر رہو.مومن کو چاہئے کہ دشمن سے کبھی بے خبر نہ ہو.آیت ۹..خدا تعالیٰ کی ہدایت پر چلنے والوں کا یہ نشان بتلایا گیا ہے کہ ان پر حزن و خوف نہیں. والی دعا کا یہ نتیجہ ہے.یہ آیت قابل نوٹ ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی حالت کو اس کے مطابق پر کھیں اور دیکھیں کہ آیا وہ اس درجے کو پہنچے ہیں یا کہ نہیں.کیا مسلمانوں میں اب خوف و حزن نہیں.رکوع ۵ آیت ۵..یہ غلط ہے جو کہا گیا ہے کہ عقل جو ہر ہے.عقل جو ہر نہیں بلکہ ایک صفت ہے.قرآن شریف میں آیا ہے.(الحج:۴۷).عقل کے معنے ہیں روکنا اور باندھنا.جو شخص حکم سن کر پھر نہیں رکتا وہ لایعقل ہے.۱۵؍اگست ۱۹۱۲ء جمعرات بعد نما زظہر مسجد اقصیٰ میں درس قرآن شریف شروع ہوا.درس دینے سے قبل حضرت نے فرمایا.جو لوگ ملازم ہیں وہ اپنی ملازمت پر چلے جائیں.اپنے فرض منصبی کا حرج نہ کریں ورنہ ان کا مال طیب نہ رہے گا.درس کی خاطر اپنی نوکری کا نقصان نہ کرو.اللہ تعالیٰ نیک آدمی کو ضائع نہیں کرتا.خدا تعالیٰ یہ درس تمہارے کانوں سے کسی اور ذریعہ سے نکلوا دے گا.جو لوگ دوکاندار ہیں ان کو بھی اپنی دکان کی فکر کرنی چاہئے.ہماری طرف سے اجازت ہے ایسے لوگ چلے جائیں.ہم تو ہمیشہ درس دیتے ہی رہتے ہیں وہ دوسرے اوقات میں سن سکتے ہیں.آج کے حصہ درس ( پہلا پارہ رکوع ششم سے شروع کر کے آخر تک ) میں یہ بتلایا گیا ہے کہ بندہ مغضوب کس طرح بنتا ہے.گویا قرآن شریف کی آیت  کی تفسیر ہے.بعض لوگ ایسے بد نصیب ہوتے ہیں کہ مُنْعَمْ عَلَیْہ بن کر پھر مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ ہو جاتے ہیں.

Page 116

ان کے متعلق بتلایا گیا ہے کہ وہ کس قسم کی نافرمانیاں ہیں جن میں سے انسان اس حالت میں گرفتار ہوتا ہے.ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے حالات بسط کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں.کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی نبوت کا ثبو ت ہے.توریت کتاب استثناء باب ۱۸ آیت۱۵ ۱ ؎تا ۲۲ جو پیشگوئی درج ہے اس کے ذریعہ سے یہود پر حجت قائم کی گئی ہے کیونکہ یہود جس کتاب کی اشاعت کرتے تھے اس میں یہ پیشگوئی بوضاحت درج ہے.اس سے یہود پر حجت قائم ہوتی ہے.( چونکہ ان رکوعوں میں یہود کا خصوصیت سے ذکر ہے اس واسطے یہود کے حالات پر اس جگہ حضرت نے درس میں ایک تقریر فرمائی جس کا مطلب حضرت کی ایک تحریر(ماخوذ از فصل الخطاب صفحہ ۱۱۲ تا ۱۲۲) سے اس جگہ نقل کیا جاتا ہے.ایڈیٹر ) مدینے کی رونق افروزی کے وقت عرب تین قسم کے لوگ تھے.کھلے دشمن جیسے قریش اور اُن کے حلیف.دوسرےؔ معاہدین جیسے یہود کے مختلف قبائل.تیسرےؔ منافق بظاہر اسلام کے ساتھ اور ۱؎ نوٹ.۱۵.خدا وند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گاتم اس کی طرف کان دھریو.۱۶.اس سب کی مانند جو تو نے خدا وند اپنے خدا سے حورب میں مجمع کے دن مانگااور کہا کہ ایسا نہ ہو کہ میں خداوند اپنے خدا کی آوازپھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ میں پھر دیکھو ں تاکہ میں مرنہ جاؤں.۱۷.اور خدا وند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سواچھا کہا.۱۸.میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا.۱۹.اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا.۲۰.لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جاوے.۲۱.اور اگر تو اپنے دل میں کہے کہ میں کیونکر جانوں کہ یہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں.۲۲.تو جان رکھ کہ جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خدا وند نے نہیں کہی بلکہ اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے تو اس سے مت ڈر.

Page 117

بباطن کفار کے دوست.عامّہ عرب میں بعض قومیں اسلام کی ترقی خواہ تھیں جیسے خزاعہ اور بعض دشمن کی فتح کے طالب جیسے بنوبکر.اور بعض قومیں بالکل خاموش اور حیران تھیں.آنحضرت ؐ نے مدینہ میں پہنچتے ہی یہود سے ایک عہد کیا جس کا خلاصہ یہ ہے.یہ فرمان محمد رسول اللہ نے تمام مسلمانوں کو خواہ قریش ہوں خواہ اہل یثرب ( مدینے کا پرانا نام ہے) اور سب لوگوں کو چاہے کسی مذہب اور قوم کے ہوں جنہوں نے مسلمانوں سے صلح و آشتی رکھی ہے لکھ دیا ہے.صلح اور جنگ کی.؎۵ حالت سب مسلمانوں کے لئے عام ہوگی اور کسی مسلمان کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ اپنے برادرانِ اسلام کے دشمنوں سے صلح یا جنگ کریں.یہود جو ہماری حکومت اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں تمام ذلتوں اور اذیتوں سے بچائے جائیں گے اور ہماری امت کے ساتھ متساوی حقوق اُن کو ہماری نصرت اور حمایت اور حسن سلوک کے حاصل رہیں گے.یہود ان بنی عوف بنی نجار بنی حارث بن حسم بنی غالب بنی اوس اور سب ساکنانِ یثرب مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک قوم سمجھے جائیں گے اور وہ اپنے اعمال مذہبی کو ویسی آزادی کے ساتھ بجالائیں گے جیسے مسلمان اپنے رسومات دینی کو ادا کرتے ہیں.یہود کی حفاظت اور حمایت میں جو لوگ ہیں یا جو اُن سے دوستی رکھتے ہیں اُن کو بھی تحفظ اور آزادی حاصل رہے گی.مجرموں کا تعاقب کیا جائے گا اور ان کو سزا دی جائے گی.یہود مسلمانوں کی شرکت یثرب کو سب دشمنوں سے بچانے میں کریں گے اور تمام وہ لوگ جو فرمان قبول کریں گے یثرب میں محفوظ و مامون رہیں گے.مسلمانوں اور یہود کے دوست آشنا کا بھی ویسا ہی اعزاز کیا جاوے گا جیسا خود اُن کا کیا جاوے گا.سب سچے مسلمان اُس شخص سے بیزار رہیں گے جو کسی گناہ یا ظلم، نااتفاقی یا بغاوت کا مرتکب ہوگا اور کوئی شخص کسی مجرم کی حمایت نہ کرے گا گو وہ کیسا ہی عزیز و قریب ہووے.آئندہ جو تنازعات اِن لوگوں میں ہوں گے جو اس فرمان کو قبول کریں گے اُن کا فیصلہ خداوندعالَم کے حکم کے موافق رسولؐ اللہ فرمائیں گے.تھوڑے دنوں بعد یہودان بنی نضیر اور بنی قریظہ اور بنی قینقاع اِس معاہدے میں شامل

Page 118

ہوگئے.اِس فرمان سے وہ قبیح رسم دفع ہوگئی جو عرب میں رائج تھی کہ مظلوم ظالم سے انتقام لینے میں اپنی ذاتی قویٰ یا اپنے اعزہ کی طاقت پر بھروسہ کرتاتھا.دادرسی اور عدل گستری جنگ وجدل پرموقوف تھی.ابن ہشام صفحہ ۷۸ا و لائف آف محمدؐ صفحہ ۷۲.یہود بڑے قسی القلب تھے.چونکہ وہ اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ بھی تھے اور عقیل بھی.اور فرقہ ٔ منافقین سے اُن کو اتفاق تھا اور باہمی بھی یہود میںاتفاق تھا (برخلاف عرب جن میں باہمی سخت نااتفاقی تھی) لہٰذا وہ نہایت خطرناک دشمن اِس جمہوری سلطنت کے تھے جو شارع اسلام کے زیر حکومت قائم ہوئی تھی.ناتربیت یافتہ قوموں میں شاعروں کا وہی مرتبہ ہوتا ہے اور شاعر وہی اقتدار رکھتے ہیں جو اہل اخبار مہذب قوم میں.شعرائے یہود چونکہ نہایت ذی علم اور ذی شعور تھے لہٰذا اہل مدینہ پر بڑے حاوی تھے.اِس قوت کو اُنہوں نے اِس میں صَرف کیا کہ مسلمانوں میں نفاق ڈالنے لگے اور اُن میں اور فریق مخالف میں بُغض و عداوت کو ترقی دینے لگے.بلکہ مَیں کہتا ہوں باہم اہل اسلام میں اختلاف و عناد کا بیج بوتے تھے.شاس بن قیس یہودی نے ایک بار دیکھا کہ انصار مسلمان (مدینے کے اصل باشندے) باہم کمال محبت و اتفاق سے بیٹھے ہیں اور خیال کیا یہ وہی گروہ اوس اور خزرج کا ہے جو ہمیشہ جنگ و جدل میں بسر کرتے تھے اب بالکل شیروشکر ہیں اور اسلام کی پاک تعلیم کی بدولت کمال اتحاد اور اخوت کے ساتھ ملے جلے ہیں.اِس اتفاق کو دیکھ شاس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور ایک جوان یہودی سے کہا تو ان میں بیٹھ جا اور باتوں باتوں میں بعاث۱؎ کی لڑائی کا قصہ چھیڑ دے اور وہ اشعار پڑھ سنا جو اُس وقت پڑھے گئے تھے.غرض اُس بدذات نے وہی کرتوت شروع کئے.آخر وہ نئے نئے اپنی قدیمی چال پر آگئے اورباہم کہنے لگے آئو اِس معاملے کو نیا کر دکھلائیں.خلاصہ کلام حرہ نام جگہ مقام جنگ تجویز ۱؎ باہم اوس اور خزرج کے ایک سخت جنگ ہوئی تھی اور اُس میں سینکڑوں آدمی اور امراء مارے گئے تھے اور کھیت اوس کے ہاتھ رہا تھا.۱۲

Page 119

ہوا اور ہتھیار لینے کو وہاں سے چل دئیے.مصلح عالم خیرخواہ بنی آدم کو خبر ہوگئی.آپؐ جھٹ پہنچ گئے اور فرمایا اے مسلمانو! اَللّٰہُ اَللّٰہُ اَبِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ وَاَنَا بَیْنَ اَظْہُرِکُمْ بَعْدَ اَنْ ھَدَاکُمُ اللّٰہُ لِلْاِسْلَامِ وَ اَکْرَمَکُمْ بِہٖ وَ قَطَعَ بِہٖ عَنْکُمْ اَمْرَ الْجَاہِلِیَّۃِ وَاسْتَنْقَذَکُمْ بِہٖ مِنَ الْکُفْرِ وَ اَلَّفَ بِہٖ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ.۱؎ غرض یہ آرام بخش اور حیات افزابات سن کر روپڑے اور باہم گلے ملے اور آپ کے ساتھ شہر میں چلے آئے.اس وقت یہ آیت اُتری. (اٰل عمران:۱۰۰)۲؎ اور انصار اہل اسلام کو قرآن نے بتایا. (اٰل عمران:۱۰۱)۳؎ بدر کی لڑائی میں چونکہ مسلمانوں کی فتح پر ایک طرف قریش مکہ آگ بگولہ ہوگئے تھے اور ایک طرف ان یہود کو غضب آیا اور ابوعفک نام یہودی نے آپ کے مارڈالنے پر کوشش کی اور بہت اشعار میں لوگوں کو نبیؐ عرب کے مارڈالنے کی ترغیب دی اِس واسطے وہ مارا گیا.کچھ عداوت سابقہ اور کچھ اس ابوعفک کا مارا جانا یہود کی خطرناک کارروائیوں کا باعث ہوا.۱؎ اللہ اللہ یہ جہالت کے دعوے اور مَیں تمہارے درمیان ہوں اس کے پیچھے کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی طرف ہدایت کی اور اسلام کے ساتھ تم کو عزت بخشی اور جہالت کی باتیں تم سے کاٹ دیں اور اسلام کے باعث تم کوکفر سے نکالا اور تم کو باہم الفت دی.۱۲ ۲؎ اے کتاب والو!کیوں روکتے ہو خدا کی راہ سے ایمان والے کو.چاہتے ہو اس میں ٹیڑھا پن.۱۲ ۳؎ اے ایمان والو !اگر تم اطاعت کرو گے ایک گروہ کی اہل کتاب کے پھیریں گے وہ لوگ تم کو بعد تمہارے ایمان کے کافر.۱۲

Page 120

یہودان بنی قینقاع صنعت اور حرفت والی قوم تھے مگر اسکندریہ کے یہودوں کی طرح شریروغدار،فاسق و فاجر تھے.ایک روز ایک نوجوان مسلمان لڑکی اُن کے بازار میں گئی اور بضرورت اپنے کاروبار کے ایک یہودی لوہار کی دکان پر پہنچی.نوجوانانِ یہود نے حرمت نسواں اور مہمان نوازی کے اصول کو بالائے طاق رکھ اُس نوجوان عورت کی ہتک حرمت اور آبروریزی چاہی.وہاں ایک مسلمان راہگیر اُس عورت کا شریک ہوگیا اور خوب مارپیٹ ہوئی.جو یہودی شرارت کا بانی تھا ماراگیا.تب یہودوں نے جمع ہو کر اُس مسلمان کو قتل کر ڈالا اور فتنہ ٔ عظیم برپا ہوا.ادھر مسلمان جوش میں آگئے اورہتھیار لے یہودوں پرجاپڑے اور طرفین میں لوگ مارے گئے.جونہی مصلح عالم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے فساد کو فرو کیا اور مسلمانوںکا طیش کم ہوا.اس عاقبت اندیش اور دوربین مصلح نے دیکھا غور کیا کہ اگر یہی حالت مدینے کی رہی تو انجام اچھا نہ ہوگا.مدینہ باہمی فسادوں کا جنگ گاہ ہی نہ رہے گا بلکہ مخالف فرقوں کے لئے بے تردّد حملہ آوری کا باعث ہوگا.یہود خلافِ عہد کرہی چکے تھے آنحضرتؐ فوراً یہود کے محلے میں جا پہنچے اور یہ حکم قرآنی اُترا. (الانفال:۵۹)۱؎ اوراسی واسطے آپ نے خود تشریف لے جا کر یہود سے فرمایا.یا تو مسلمان ہو جائو یا یہاں سے چل دو.یہود نے بڑی سختی سے جواب د۲؎یا کہ قریش کو شکست دے کر (بدر میں) نازاں نہ ہو وہ فنون جنگ سے ناواقف ہیں.اگر ہم سے لڑا تو دیکھے گا لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں.یہ کہہ کر قلعہ بند ہوگئے اور آنحضرتؐ کی حکومت سے باہمہ عہد سرکش بن گئے.اس شریر قوم کا فتنہ فرو کرنا نہایت ضروری تھا.بنابراںاُن کا محاصرہ کیاگیا.پندرہ روز کے بعد قلعہ بند لوگ گھبرا گئے اور یہ کہہ کر اُتر آئے.محمدؐصاحب جو ہماری نسبت فیصلہ فرمائیں وہ فیصلہ ہمیں منظور ہے.آپؐ نے پہلے سخت سزا تجویز فرمائی مگر ۱؎ اور اگر تجھ کو ڈر ہو ایک قوم کی دغا کا تو جواب دے اُن کو برابر کے برابر اللہ کو خوش نہیں آتے دغا باز.۱۲ ۲؎ ابن ہشام.۱۲

Page 121

آپؐ کا جبلی رحم، طبعی خلق ان کے سزا دینے پر غالب آگیا.اورعبداللہ بن ابی نے بھی سفارش کی اِس لئے بنوقینقاع صرف جلا وطن کئے گئے.یہود کے ساتھ دوسری لڑائی کا نام غزوۂ بنونضیرہے.کعب بن اشرف یہود میں ہاں بنونضیر میں کا سردار تھا اور بڑا شاعر، برخلاف عہدنامہ بدر کی لڑائی کے بعد قریش مکہ کے پاس پہنچا اور اُن کو بڑا طیش دلایا اور وعدہ کیا کہ ہم تم کو مدینے میں امداد دیں گے تم اسلام پر حملہ کرو اور اپنی جادو انگیز تقریر سے قریش کو انتقام پرآمادہ کیا.آخر قریش کعب بن اشرف کی اثر بھری تقریروں سے مدینے پر حملہ آور ہوئے.مدینے سے تین میل کے فاصلے پر جبل اُحد کے پاس لڑائی ہوئی اور نیز کعب بن اشرف نے رسولِؐ خداکے قتل پر منصوبہ باندھا مگر قدرت الٰہی سے وہ راز کھل گیا اور یہ کعب بن اشرف اپنی ایسی ایسی حرکتوں سے مارا گیا.بنونضیر کے دلوں میں اُس کے قتل کا رنج پیداہوا اور اُس پر یہ طرہ ہوا کہ ابو براء نام عامری آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دم دلاسادے کر اپنے ہمراہ رسولِؐ خدا کے ستر حواری جو قرآن کے قاری تھے اِس عہد پر ساتھ لے گیا کہ ان کو ہر طرح امداد دی جائے گی.جب اپنے ملک میں پہنچا اور صحابۂ کرامؓ نے آنحضرتؐ کا خط عامر عامری اہل نجد کے رئیس کے پاس پہنچایا تو عامر نے ایلچی کو مارڈالا اور عصیہ اور رعل قبیلوں کے لوگوں کو اپنا ممد بنا کر ان ستر قاریوں، محمدرسولؐ اللہ کے اصحابوں پر آپڑا اور ان مسلمانوں کو مارڈالا.صرف دو آدمی بچ گئے ایک توزخمی تھا اور دوسرا قید کیاگیا.اِس مقید کا نام عمرو بن اُمیہ تھا اور اِس لئے کہ مضری قوم کاتھا اس کو عامر ابن طفیل نے اپنی ماں کے کسی کفارے میں آزاد کردیا.یہ قیدی عمرو بن اُمیہ آزاد ہو کر مدینے کو آتا تھا راستے میں اسے دوعامری مل گئے.یہ دونوں عامری اگرچہ اُس قوم کے تھے جنہوں نے غداری سے ستر آدمیوں کو مع ایلچی مارا تھا مگر یہ دو عامری بخلاف اپنی قوم کے رسولؐ اللہ کے ہم عہد تھے اور عمرو اس عہد سے ناواقف تھا.عمرو نے موقع پا کر ان دونوں عامریوں کو مارڈالا.جب رسولؐ اللہ کو خبر ہوئی کہ عمرو بن امیہ نے اُن دوعامریوں کو مار ڈالا ہے جو ہمارے ہم عہد تھے توآپؐ نے تجویز

Page 122

کی اِن دومقتولوں کا خون بہا (بدل قتل) دیا جاوے.حسب عہد نامۂ مذکورۂ سابق یہودیوں کو بھی اس خون بہا کے چندے میں شریک ہونا ضرور تھا.آپ یہود کے پاس تشریف لے گئے.دونوں مقتولین کے وارث بنونضیر کے دوست تھے اور انہیں کو یہ چندہ دیا جاناتھا اِس لئے آنحضرتؐ کو بنو نضیر کی شرکت کا اس چندے میں بڑا یقین تھا.اور یہ خیال کیا اوّل تو حسب معاہدہ یہود کو اس چندے میں شریک ہونا ضرورہے.دوم جن کو روپیہ دیا جاتا ہے وہ اُن کے دوست ہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہودانِ بنو نضیر کے محلے میں تشریف لے گئے توانہوں نے چندہ دینے سے انکار کیا اور اُس وقت ایک دلیر بہادر عمرو بن حجاش نام یہودی سے کہہ دیا کہ ایک بڑابھاری پتھر کوٹھے کی چھت پر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لڑھکا دے اور اُن کا کام تمام کر.سلام بن مشکم نے یہود کو بہت روکا اور منع کیا مگر وہ اس غدر سے باز نہ آئے.آخر اُس سچے حافظ حقیقی نے جس نے (المائدۃ:۶۸) کہا تھا خبر دے دی.۱؎ زرقانی نے لکھا ہے ایک یہودیہ عورت نے اپنے مسلمان بھائی کے ذریعے سے جناب کو یہود کی غداری کی اطلاع دے دی اِس لئے یہودانِ بنونضیر کا محاصرہ کیاگیا.آخر چھ دن کے بعد اُنہوں نے صلح چاہی مگر عبداللہ بن ابی منافق نے کچھ اپنی امداد کا ایسا چکما دیا کہ پھر باغی بن بیٹھے اِس لئے پھر محاصرہ کیاگیا.بہت دنوں بعد لاچار ہو کر جلاوطنی پر راضی ہوگئے.رسولِؐ خدا کو جبرو اِکراہ سے مسلمان بنانا منظور ہی نہ تھا.اُن کو اجازت دے دی مدینے سے چلے جاویں اور مدینے کو امن و امان کا محل بنایا اور وہ خیبر کو چلے گئے.غزوۂ قریظہ.خندق اور احزاب کی لڑائی میں تم دیکھ چکے ہو مشرکوں کے مختلف گروہ اور یہودی اورغطفانی خاص مدینے میں اسلامیوں پر چڑھ آئے.حیی ابن اخطب یہودی بنونضیر کی جلاوطنی کے بعد قریش کو تحریص دیتا اور کنانہ ابوالحقیق کا پوتا غطفانیوں کو اُکسالایا اور اُن سے وعدہ کیا ۱؎ پہنچا دے جو تجھ کو اُترا تیرے ربّ سے اور اگر یہ نہ کیا تو تُو نے کچھ نہ پہنچایا اُس کا پیغام اور اللہ تجھ کو بچا لے گا لوگوں سے.۱۲

Page 123

خیبر کی آمدنی سے نصف آمدنی مَیں دوں گا اگر مسلمانوں پر حملہ آوری کرو.سلام بن مشکم اور ابن ابوالحقیق اور حیی اور کنانہ یہ سب بنونضیر مکے میں پہنچے اور کہا ہم تمہارے ساتھ ہیں اگر تم اسلام پر حملہ آوری کرو.۱؎ ان یہودوں کی کارستانی اور جادوبیانی قریش کے غیظ وغضب سے مل کر تمام عرب کو مدینے پر چڑھا لائی.جب یہ مختلفہ اقوام بغرض استیصالِ اسلام مدینے میں پہنچے حیی ابن اخطب یہودی خیبری نضری کعب بن اسد قرظی (یہ شخص بنوقریظہ کا ہم عہد تھا) کے پاس پہنچا.پہلے تو کعب نے حیی کو گھر میں گھسنے نہ دیا اور کہا ہمارا اوراسلامیوں کا باہم معاہدہ اور اتحاد ہے اور بنوقینقاع اور بنونضیر پر جو کچھ بدعہدی کا وبال آیا اُسے یاد کیا مگر حیی نے کہا مَیں تمام قریش اور عرب کے مختلف قبائل کو مدینے پر چڑھا لایا ہوں اوراُن تمام اقوامِ عرب نے عہد کرلیا ہے کہ جب تک اسلام کا استیصال نہ کرلیں گے مدینے سے واپس نہ جائیں گے.کعب نے پہلے پہل بہت ٹالم ٹالا کیا اور کہا محمدؐ بڑا راست گو راستی پسند انسان ہے اور عہد کا بڑا پکا ہے ہم کو مناسب نہیں اُس کے ساتھ بدعہد بنیں مگر آخر دشمنوں کی کثرت اور اُن کے استقلال کو دیکھ اور حیی کے پُھسلانے اور عداوتِ اسلام کی قدیم بدعہدی میں آکر باغی بن گیا اور تمام عہدوں کو بالائے طاق رکھ کر اُس عبرت بخش عاقبت اندیش عقل کو کھو بیٹھا جو معاملات بنو قینقاع اور بنونضیر میں تجربہ کار ہو چکی تھی اور عین جنگ کے وقت آنحضرتؐکو اِن یہودیوں کی بدعہدی کی خبر پہنچی.آپؐ نے بہت سے آدمی تحقیق خبر کے لئے روانہ فرمائے اور کہا ان لوگوں کو فہمائش کرو عہد پر قائم رہیں مگر یہود نے درشت جواب دیا اور کہا رسولؐ اللہ کیا ہیں جو ہم اُن کی اطاعت کریں.ہمارا اُن کا کوئی عہد نہیں.اِن تمام آدمیوں نے جو یہود کے مقابلے کی خبر لینے گئے تھے آکر عرض کیا یہود دشمن کے ساتھ ہوگئے.قرآن بھی اِس کی خبر دیتا ہے اور احزاب کے قصے میں کہتا ہے. (الاحزاب:۱۱،۱۲)۲؎ ۱؎ زرقانی جلد ۲ صفحہ ۱۳۳،۱۳۵،۱۴۱ ۲؎ جب آئے وہ لوگ اوپر تمہارے اور نیچے تمہارے سے اور جب کج ہوئیں آنکھیں اور پہنچ گئے دل گلوں تک اور تم گمان کرتے تھے اللہ کے ساتھ طرح طرح کے.اُس جگہ ایمان والے آزمائے گئے اور ہلائے گئے اور ہلانا سخت.۱۲

Page 124

جہاں یہود کی سزا کا قرآن نے تذکرہ کیا ہے وہاں صاف وجہ سزا کو بیان فرمایا ہے اور اسی سورۃ میں کہا ہے.۶؎  (الاحزاب:۲۷)٭ آپؐ کے ساتھی گھبرا گئے.اِدھر تھوڑے سے معدود گروہ پر سارے عرب کی چڑھائی اُدھر گھر میں یہود کی بدعہدی.پھر یہود مدینے کے طرق اور راستوں کی کیفیت سے واقف، محاصرین کفار کو غیرمحفوظ مقام بتا سکتے تھے اِس لئے بڑا خوف ہوا.علاوہ براں منافقوں کا نکل بھاگنا اور کمزور دلوں کا عذر بلائوں پر بلائیں لایا.قربان جائیے الٰہی عاجز نوازی کے اُسی کے جنود نے اِن سب اعداء کو بھگوڑا بنایا اور تخمیناً ایک مہینے کے محاصرے پر کفارِعرب الٰہی اسبابوں سے بھاگ گئے کیونکہ دس ہزار کی بھیڑ کے ساتھ تین ہزار اسلامیوں میں سے صرف تین سَو باقی رہ گئے (وہی جو سچے مسلمان تھے).جب دشمن خود بخود بھاگ گئے اور آپ کو اُن کی طرف سے امن ہوا اور یہ اندیشہ مٹ گیا تو اہل اسلام کو ایک نیا کھٹکا ہوا کہ بنوقریظہ عہدشکنی کرچکے ہیں اگر انہوں نے مدینے پرشبخون مارا تو ہر ایک اسلام والا قتل ہوجائے گا لہٰذا مقتضی عاقبت اندیشی نے بتایا تو آپ مقامِ جنگ سے جہاں خود حفاظتی کے لئے آپ نے کھائی کھود لی تھی مدینے میں تشریف لائے اور قلعہ جات بنوقریظہ کا محاصرہ کیا.دس پندرہ روز محاصرے میں لگ گئے.اب قلعہ بند لوگ گھبرائے.اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں رعب ڈالا ( (الاحزاب:۲۷)٭٭) تب یہودانِ بنوقریظہ کا رئیس کعب بن اسد قوم میں کھڑا ہوا اور وہ اسپیچ دی جس میں کہا.اے قوم تم کو مناسب ہے تین باتوں میں سے ایک بات مان لو.یا تو اِس شخص(محمدؐ) پر ایمان لائو.تم کو صاف عیاں ہو چکا ہے یہ شخص بیشک نبی ہے اور یہ وہی ہے جس کی ٭ اور اتارا اللہ نے اُن لوگوں کو جنہوں نے اہل کتاب سے ان کی مدد کی اُن کے قلعوں سے اور ڈالا اُن کے دلوں میں خوف کو.ایک گروہ کو ہلاک کرتے ہو اورایک گروہ کو تم قید کرتے ہو.۱۲ ٭٭ اورڈالا اُن کے دلوں میں خوف کو.یہ آیت سیپارہ ۲۱ رکوع ۱۹ سورۂ احزاب میں ہے.۱۲

Page 125

بابت توریت میں پشین گوئی اور بشارت ہو چکی ہے.تم اور تمہارا مال واسباب اور تمہاری جانیں بچ رہیں گی.قوم نے اِس پر انکار کیا.تب اُس نے کہا آئو عورتوں اور بچوں کو قتل کر ڈالیں (اس کی سزا پائی) اور تلواریں لے؟ مسلمانوں پر گر پڑیں یہاں تک کہ شہید ہو جاویں.قوم نے کہا اگر ہم جیت گئے تو بال بچوں اور عورتوں کے بغیر ہماری زندگی کیونکر ہوگی.تب کعب نے کہا آج سبت کی رات ہے.محمدی جانتے ہیں آج ہم غافل ہیں لڑنہیں سکتے اِس لئے مسلمان بھی غافل اور سُست ہیں آئو غفلت میں مسلمانوں پر حملہ آوری کریں.تب قوم نے کہا تجھ کو خبر نہیں سبت کی بے حُرمتی سے ہمارے بڑوں پر کیسے وبال آئے.وہ سؤر اور بندر بن گئے.آخر قوم کے اتفاقات سے یہود نے ایک سفیر جناب رسالت مآبؐ کے حضور روانہ کیا اور کہا ابولبابہ بن منذر کو ہمارے پاس بھیجئے ہم اُس سے صلاح لیں گے.جب ابولبابہ ان کی درخواست سے وہاں آئے عورتیں اور بچے چلائے اور یہود نے کہا کیا تیری صلاح ہے ہم لوگ محمدؐ کے فیصلے پر دروازہ کھول دیں.اُس نے کہا بیشک.مگر اشارہ کیا وہ تم کو ذبح کا فتویٰ دیں گے.پھر ابولبابہ پچتایا اور اپنے آپ کو مسجد میں جاباندھا.جب محاصرے پر مدت گزری اور وہ یہود تنگ ہوئے تو ان کمبخت لوگوں نے کہلا بھیجا ہماری نسبت جو سعدبن معاذ فیصلہ کرے وہ فیصلہ ہم کو منظور ہے.بدقسمتوں نے رحمۃٌ للعالمین کو حاکم نہ بنایا بلکہ سعد کے فتوے پر راضی ہوگئے اور قلعے سے نکل آئے.رسولِؐ خدا نے سعد بن معاذکو بلایا اور کہا یہ لوگ تیرے فیصلے پر ہمارے پاس آئے ہیں.اس سپاہی کو اس قوم کی بدچلنی اور بدعہدی اور ناعاقبت اندیشی اور بنوقینقاع اور بنونضیر سے عبرت نہ پکڑنے پر یہی سوجھی کہ اس بدذات قوم کا قصّہ تمام کرو.اس نے کہا.ان کے قابلِ جنگ لوگ مارے جاویں اور باقی قید کئے جاویں.غرض کئی سَو آدمی قریظی مدینے میں لا کر قتل کیا گیا.مانا انسانی فطرت کا خاصہ ہے.چاہے کوئی کیسے جرائم اور معاصی کا مرتکب ہو جب اُس سے کوئی ایسا سلوک کیا جاوے جو ہمارے نزدیک سختی اور بے رحمی ہے تو اُس وقت ہمیں خواہ مخواہ ایک نفرت اور کراہت معلوم ہوتی ہے اورہمارے دل میں رحم عدل کی جگہ کو چھین لیتا ہے مگر رحم کے باعث

Page 126

عدل چھوڑنا اور جرائم کی سزا سے درگزر نہ چاہیے.یہود نے دغا دی.بدعہدی کی.عین شہر کا امن کھودیا.مسلمانوں کی توحید اور موسیٰ و توریت کی تعظیم کو بت پرست قوم کے مقابلے میں بھولا دیا.بہرحال مسلمانوں کاحکم قریظہ کی نسبت گرامول کے حکم سے بہت کم تھا جس کے بموجب آئرلینڈ میں شہرورڈہیڈا کے سب باشندے بلافرق تہِ تیغ بے دریغ کئے گئے.کارلائل لکھتا ہے سچ ہے شریر کا سَومرتبہ قتل ہونا بہتر ہے کہ وہ بے گناہوں کو اغوا کرے.یہ اسلام کافعل اِس وقت کے مارشل لاء سے بہت نرم تھا اور حضرت دائود ؑکی سزا سے جس میں انہوں نے جیتے آدمی جلتے پزاووں میں جلائے اور پھر ہمیشہ خدا کے مطیع کہلائے نہایت نرم ہے.غزوۂ خیبر.غزوۂ احزاب کے بیان میں گزر چکا سلام بن مشکم اور ابن ابی الحقیق اور حیی اور کنانہ اورہوذہ اور ابوعمار خیبر سے قریش پاس پہنچے اور اُن کو اور عرب کے مختلف اقوام غطفان اور فزارہ کو مدینے پر چڑھا لائے.پھر ابورافع سلام بن مشکم جو یہودیوں کا راس رئیس تھا اپنی ایسی حرکتوں سے مارا گیا اور یہود نے اُس کے جا پر اُسَیْربن رزام یہودی کو اپنا امیر بنایا اور اس نئے امیر نے اپنی بڑائی کے لئے یہ تدبیر نکالی کہ غطفان قبیلے میں پھروں اور اُن کو ہمراہ لے کے اسلامیوں پر چڑھائی کروں.اسی فکر میں تھا مصلح عالم کو خبر ہوگئی.آپ نے اپنا سفیر بھیجا.اُس نے جا کر اس نئے امیر کو فہمائش کی اور ہمراہ لایا.اِلّا نئے امیر کو پھر ایک خبط سوجھا اور چاہا ان سفیروں کو مارڈالے.اِس امر کی اطلاع پر عبداللہ انیس نے اُسَیْر کو مارڈالا.غرض اہل خیبر سے یہ معاملات صادر ہوتے رہے.علاوہ بریں خیبروالوں سے بنونضیر بنوقینقاع جاملے تھے اُن کے شوروفساد کرنے کے خیال سے آپ نے خیبر کا عزم کیا اور وہاں کی رجز صاف اسباب اور وجہ جنگ کو ظاہر کرتی ہے.؎ ۱؎ اِنَّ الْأُولٰی قَدْ بَغَوْاعَلَیْنَا اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَۃً اَبَیْنَا خیبری اور سب قومیں اسی سازش میں رہتی تھیں کہ مسلمانوں کی بیخ کنی کریں.۲؎ اسلام نے اِس ۱؎ انہوں نے ہم پر ظلم کیا ہے جب کبھی وہ کسی فتنہ کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اس کا انکار ہی کرتے رہے ہیں.(ناشر) ۲؎ وہ صحرائی قومیں اُن کے ساتھ متفق تھیں اور ہمیشہ اُن لوگوں کی یہ حالت تھی.لُوٹ مار کی.جب اُدھر سے حملہ ہوا جنگلوں میں بھاگ گئے.۱۲

Page 127

بات کاتدارک یہ کیا کہ چودہ سَو سپاہیوں کے ساتھ خیبر چل دئیے.اوّل اسلام نے صلح کا پیغام بھیجا.جب خیبریوں نے نہ مانا تب اُن پر حملہ کیا.خیبر میں یہود کے بہت قلعے تھے اور آہستہ آہستہ وہ سب فتح ہوگئے.آخر بڑا قلعہ القموس نام تھا اُس پر لڑائی ہوئی.جب وہ فتح ہوا یہود کو شکست کا یقین ہوگیا تب انہوں نے معافی مانگی اور اُن کی درخواست پر معافی دی گئی مگر اُن کی نیک کرداری کی ضمانت (کاسن دی پرسول جلد ۲ صفحہ ۱۹۳، ۱۹۴) جائیداد غیرمنقولہ سے کی گئی اور رسوماتِ مذہبی کی نسبت یہود کو آزادی دی گئی.چونکہ کوئی باضابطہ ٹیکس اُن پر نہ تھا اور سلطنت کے خرچ میں شرکت اُن پر فرض نہ تھی.آنحضرتؐ نے اُن کی حفاظت کے معاوضے میں جو اَب ان کو حاصل ہوئی ایک محصول بقدر نصف پیداوار اُن کی اراضی کے اُن پر مقرر کیا اور منقولہ جائیداد جو لڑائی اور محاصرے کے بعد قلعوں سے نکلی اور ضبط ہوئی وہ لشکر اسلام میں سپاہیوں کو تقسیم کی گئی.پادریوں اور ان کے ممد لوگوں کی یہ روایت غلط ہے کہ کنانہ کو خزائن ودفائن بتانے کے لئے عذاب دیاگیا.یہاں آنحضرتؐ کو زہر دینے کا منصوبہ ہوا اور اس دغاباز قوم نے گوشت میں زہر ملا کر آپ کو کھلانا چاہا.اس دعوت میں ایک صحابی اسی زہر سے مَرگئے اور آنحضرتؐ کو زہر کی بڑی تکلیف رہی مگر آپؐ نے اُس عورت کاجرم معاف کیا جس نے زہر دیا تھا.غزوۂ تبوک.آنحضرتؐ نے حارث بن عمیرالازدی کو امیربصریٰ کے پاس ایک خط دے کے روانہ کیا.جب یہ قاصد موتہ نام مقام پر پہنچا تو وہاں کے حاکم شرجیل غسانی عیسائی نے اس قاصد کو مارڈالا (یہ عیسائی صاحبوں کی تہذیب اور خاکساری ہے).اِس واقعے کی جب مدینے میں اطلاع ہوئی تو آپؐ نے زید بن حارث کو تین ہزار سپاہ کا افسر بنا کرموتہ کی طرف روانہ کیا اور فرمایا جہاں حارث مارا گیا وہاں جائواور یہ ارشاد فرمایا.

Page 128

اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَبِمَنْ مَّعَکُمْ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرًا اُغْزُوْا بِسْمِ اللّٰہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ لَا تَغْدَرُوْا وَلَا تَغُلُّوْا وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا وَلَا اِمْرَاَۃً وَلَا کَبِیْرًا فَانِیًا وَلَا مُنْعَزِلًا بِصَوْمَعَۃٍ وَلَا تَقْرَبُوْا نَخْلًا وَلَا تَقْطَعُوْا شَجْرًا وَلَا تَھْدِمُوْا بِنَائً.۱؎ غرض یہ فوج ظفر مَوج وہاں پہنچی اور موتہ کے لوگ مقابلے کو کھڑے ہوئے.زید سپہ سالار ماراگیا اور اُس کی جگہ عبداللہ بن رواحہ مقرر ہوا.پھر جعفرؓ بن ابی طالب علیؓ ابن ابی طالب کے بھائی سپہ سالار ہوئے.ان کے نصف بدن میں اسّی ۸۰سے زیادہ زخم تھے اور وہ سب آگے کی جانب.پھر خالد بن ولید سپہ سالار ہوئے اور یہ تدبیر کی کہ میمنہ اور میسرہ اور سائق اور قدام کو بدل دیا.دشمن نے سمجھا کہ ان کی مدد آگئی ہے.غرض وہاں مخالف کو شکست ہوئی.لڑائی میں مخالف ہرقل شاہِ روم کے ماتحت تھے اِس لئے عرب کی طرف روم کا خیال بڑھ گیا.پہلے بھی وہ فتح عرب کے خواہاں تھے اب وہ خواہش دوبالا ہوگئی.ہجرت کے نویں سال شام کے تجار سے خبرملی ہرقل ایک لاکھ سپاہ کے ساتھ حملہ آوری کی تیاری کررہا ہے.جب یہ خبر مدینے میں پہنچی اُن دنوں بڑی گرمی پڑتی تھی.آپ نے جب کوچ کیا راستے میں اونٹوں کے اوجھ سے پانی میسر ہوتا تھا.عثمان رضی اللہ عنہ نے اِس جنگ میں ایک ہزار اونٹ مع سازوسامان اور ستر گھوڑے اور دوسَواوقیے چاندی کے بلکہ ہزار اشرفی کا چندہ دیا.جس پر آپ نے فرمایا لَایَضُرُّ عُثْمَانَ مَاعَمِلَ بَعْدَھَا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال واسباب چارہزار درم کا اور عمررضی اللہ عنہ نے نصف مال دیا.غرض اس جنگ میں عثمان رضی اللہ عنہ کی امداد تہائی لشکر کو کافی تھی.منافقوں نے لوگوں کو بہت بہکایا.اِلّا خالص مسلمان جس قدر تھے وہ سب ساتھ ہولئے.تیس ہزار سپاہ آپ کے ساتھ تھی اور اُس میں دس ہزار گھوڑے تھے.غرض آپ تبوک پہنچے.ایلیہ کے رئیس نے ٹیکس منظور کرکے صلح کرلی.پھر ۱؎ مَیں وصیت کرتاہوں تم کو اللہ کے ساتھ پرہیزگاری کی اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ نیکی کرنے کی راہ خدا میں اللہ کے نام سے اُس شخص کے ساتھ لڑو جس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہے اور بیوفائی اور سرکشی نہ کرو اور بچے اور عورت اور بڈھے اور عبادت خانے کے گوشہ نشینوں کو نہ مارو اور باغ کے نزدیک نہ جائو اور درخت نہ کاٹو اور مکانات کو نہ ڈھائو.

Page 129

آپ نے خالد بن ولید کو دومۃ الجندل بھیجا.وہاں یہود سے لڑائی ہوئی اورا کیدر یہود کا رئیس اعظم قید ہوگیا.اکیدر جب آنحضرتؐ کے سامنے لایا گیا اس نے جزیہ منظور کیا اِس واسطے رہا کیاگیا اور بدستور رئیس بنایاگیا.پھرآنحضرتؐ نے ہرقل کو خط لکھا اور چونکہ بڑا بھاری سفر فوج کو طے کرنا پڑا اور تبوک میں کھانا، چارہ، پانی زیادہ تھا اور نیز ہرقل کی خبر کو جاسوس بھیجے گئے تھے اِس لئے آپ بیس روز وہاں ٹھہرے.تبوک نصف راہ شام سے تھا وہاں معلوم ہوا ہرقل کو اندرونی مشکلات ایسے آپڑے ہیں کہ وہ مدینے کو فوج نہیں پہنچا سکتا اِس لئے وہاں سے واپس تشریف لائے.رکوع ۶ آیت ۱.کے معنے ہیں بہادر سپاہی اے بہادر سپاہی یعنی اسحق کی اولاد تم میرے وہ احسانات یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہارے بزرگوں پر کئے.احسان اللہ تعالیٰ نے اس لئے یاد دلائے کہ یہ انسان کا فطری تقاضا ہے کہ جب وہ اپنے محسن کے احسانات یاد کرتا ہے تو خواہ مخواہ اُس کے دل میں اپنے محسن کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اس کا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اپنے محسن کو کسی طرح سے خوش رکھوں.اُس کی فرمانبرداری اور اس کا شکریہ ادا کروں کہ شکریہ اور فرمانبرداری میں خدا کی رحمت اور اُس کے فضل کی ترقی کا راز پنہاں ہے.اس لئے خدا نے فرمایا کہ پھر اگلی آیت میں یہ فرما کر ڈرایا کہ.ایک طرف تم کو میں اپنے احسانات اس لئے یاد دلاتا ہوں کہ تا تمہاری سوئی ہوئی فطرتیں بیدار ہو کر محسن کے بھیجے ہوئے شخص کو تسلیم کر لیں.اگر تم میرے بھیجے ہوئے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرو تو یا درکھو کہ جیسی بزرگی میں نے تم کو اپنے اور انبیاء کے قبول کرنے پر دی تھی ویسی اب دوں گا اور تمہارے تمام خوف حزن  کے ماتحت دور کر دوں گا لیکن اگر تم اس کی اتباع نہیں کرو گے تو یاد رکھو کہ ایک وہ دن آنے والا ہے کہ

Page 130

اس وقت کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا.نہ اُس روز کسی کی سفارش قبول ہو گی اور نہ کسی کو جرمانہ لے کر بغیر سزا کے چھوڑا جاوے گااور نہ وہاں پر کوئی کسی کی مدد کر سکے گا.آیت ۲..یوم سے مطلب قیامت کا دن بھی ہے اور وہ دن بھی ہے جو خدا نے کفار کو جنگ بدر میں قیامت کے ثبوت میں دکھلایا.کیونکہ مومن اور مسلمان تو جزا و سزاکو اپنے عقیدہ کے موافق یقین جانتے ہیں.پر کفار کی تسلی بھی توضروری تھی کہ دیکھو جس طرح اس دنیا میں جب تم کو خدا کے عقاب سے کوئی نہ بچا سکا تو قیامت میں تم کو کون بچا سکتا ہے اور یہود کے لئے تو وہ دن ہے جب جلا وطن ہوئے اور قریظہ قتل ہوئے.آیت ۳.پھر بنی اسرائیل کو اپنے احسانات یاد دلا کر فرماتا ہے کہ دیکھو اس زمانہ کو یاد کرو جبکہ فرعونی تمہاری لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے اور تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے.پھر دیکھو ہم نے تم کو ان سے نجات دلائی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے ان ظالموں کو غرق کیا.کیا یہ کچھ تھوڑا سا احسان تھا.پھر جب ہم نے موسیٰ کو کتاب کا وعدہ دیا اور وہ جیسا کہ عبادت الٰہی کے لئے تنہائی کے لئے نہایت مناسب موقع ہوتا ہے کوہ طور پر تم سے علیحدہ چلا آیا تو تم نے اس کے بعد میں خدا کے احسانات کو بھلا دیا اور ایک بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر اپنی جان پر ظلم کیا مگر دیکھو ہمارے رحم کو کہ ہم نے تمہاری اس نہایت عظیم الشان خطا کو بھی معاف کر دیا اور یہ اس لئے تاکہ تم شکر کرو.آیت ۵.عجل.بچھڑا.اے بنی اسرائیل ہم نے تو تم کو تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی پر تمہاری عقل کو کیا ہو گیا تھا کہ تم نے ایک بچھڑے کو جو تمہارا خادم ہونے کے سوا مخدوم ہونے کی بھی حیثیت نہیں رکھتا تھا معبود بنالیا.آیت۸.پھر ہم نے کہا.اُقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ یعنی ان لوگوں کو قتل کرو.جنہوں نے بت پرستی کی.۷؎ .( خالق کا مرادف نہیں ) مختلف اشیاء میں سے خلاصہ در خلاصہ نکالنے والا.انسان کو ممتاز کرنے اور مصیبت سے نکالنے والا.اسی کی طرف قرآن مجید میں اشارہ.

Page 131

(المؤمنون :۱۳).آیت ۹.پھر تم نے اس کے بعد ایک بڑی بھاری گستاخی یہ کی کہ تم نے موسیٰ کو یہ کہا.اے موسیٰ! ہم تجھ پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ تو ہم کو صاف طور پر خدا کا چہرہ نہ دکھلا دے.پھر تم کو بجلی کے عذاب نے پکڑ کر بیہوش کر دیا اور تمہاری حالت مُردوں جیسی ہو گئی مگر ہم نے پھر تم سے اُس غشی کو دور کر دیا تا کہ تم شکر کرو..ظاہراً.علانیہ.بعض طبائع الہامات نبی کو سن کر یہ خواہش کیا کرتی ہیں کہ کاش ہم کو بھی رویاء ، الہام ہونے لگے.صَاعِقَۃٌ.ایک قسم کی غشی یا مہلک عذاب.پھر تمہاری اس خطاء سے بھی در گزر کر کے تم پر یہ اپنا فضل کیا کہ تم کو بلا کسی محنت و مشقت برداشت کرنے کے اعلیٰ درجہ کا کھانا اور تمہاری صحت کے لئے جنگل کی تازہ ہوا دی.تم کو آزاد کیا تاکہ تم سے غلاموں والی عادتیں دور ہو جائیں او رتم بادشاہ بننے کے قابل ہو جائو مگر تم نے اس کی ناقدری کی اور کفران نعمت کر کے اپنی ہی جان پرظلم کیا.تم شہروں میں بودو باش کرنے اور اعلیٰ اور بلا مشقت کے کھانا کھانے کو چھوڑ کر لہسن، پیاز اور دالوں کے خواہشمند ہوئے.آیت ۱۱.سَلْوٰی.شہد، بیڑ..جو رزق بلا محنت و مشقت ملے..اٹل، ناگزیر، آسمان سے، بادل سے.پس پھر جب ہم نے تمہاری خواہش پورا کرنے کے لئے کہا کہ جائو شہروں میں رہو اور بافراغت کھائو اور پیو اور داخل ہو دروازوں میں فرمانبر دار ہو کر دعائیں اور استغفار کرتے ہوئے.آیت ۱۲.مگر ظالموں نے ہماری بتلائی ہوئی دعائوں کو تبدیل کر کے کچھ کا کچھ بنا لیا.پس نازل کیا ہم نے اوپر ان کے عذاب ناگزیر بدلے اس کے کہ وہ فسق کرتے تھے.

Page 132

رکوع ۷ آیت ۱..اور جب موسیٰ نے بہ سبب قلت کے اپنی قوم کے لئے پانی کے واسطے دعا کی تو ہم نے کہا کہ..اپنی جماعت کو پہاڑ پر لے جا یا اپنے عصا کو پتھر پر مار.اُس نے ایسا ہی کیا.پس وہاں بارہ چشمے موجود ہو گئے. بھی سنت انبیاء ہے.حضرت نبی کریم ؐ نے بھی نماز استسقا پڑھی ہے.عصاء کے معنے جماعت کے بھی ہیں اور لاٹھی پر چونکہ پانچوں اُنگلیاں جمع ہو جاتی ہیں.اس لئے اس کو بھی عصاء کہتے ہیں..بہتے تھے.فُوْم.لہسن.پس ہر ایک سردار نے اپنی اپنی قوم کے ساتھ ایک ایک چشمہ پر قبضہ و تصرف کیا.پس کھائو اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں سے اور زمین میں فساد مت کرو.اور جب کہا تم نے اے موسیٰ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کر سکتے.پس تو اپنے ربّ سے ہمارے لئے دعا کر کہ اُگائے ہمارے واسطے اُس چیز سے کہ اُگاتی ہے زمین.مثل سبزی ساگ، ککڑیاں، لہسن، مسور اور پیاز کے.حکم ہوا کیا بدلتے ہو ادنیٰ چیز کو اعلیٰ کے بدلہ میں.جائو کسی شہر میں اس میں تم کو وہ ملے گا جو تم مانگتے ہو اور اُن پر ذلت اور مسکنت ماری گئی.اور وہ اللہ کا غضب کما لائے.اور یہ سب کچھ اس واسطے ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے.ا نبیاء کے ساتھ بغیر حق کے لڑتے تھے.ا ور یہ بدلہ تھا اس بات کا کہ وہ حد سے تجاوز کر جاتے تھے..کھیتی باڑی میں پڑو گے تو ذلیل ہو جائو گے کیونکہ خدا نے تو یہ حالت جس سے تم نکلنے کی کوشش کر رہے ہواس لئے تجویز کی کہ تا تم آزادی پسند ہو.فرعون کی غلامی کرتے کرتے جو

Page 133

کمینہ خصلتیں تم میں پیدا ہو گئی ہیں وہ دور ہو جائیں اور بادشاہت کرنے کے لئے تم میں طاقت ولیاقت پیدا ہو جائے.مَسْکَنَتْ.بے دست و پاہو جانا.بنی اسرائیل نے یہ دعا کی اور قبول ہو گئی.مگر کیسا نقصان اُٹھایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض دعائوں کا قبول ہونا اچھا نہیں بلکہ نہ ہونا ہی اچھا ہوتا ہے.آیت ۲..مسلمانوں کی تباہی بھی اسی طرح سے ہوئی چھوٹے گناہوں سے بڑے گناہ پیدا ہو تے ہیں یہاں تک کہ آدمی نبیوں کے قتل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.افسوس ہے کہ اس زمانہ کے مسلمان ان تمام مصائب میں گرفتار ہیں لیکن اب تک کروٹ نہیں بدلتے.رکوع ۸ آیت ۱.تحقیق وہ لوگ جو مسلمان ہوئے خواہ وہ یہودی تھے یا عیسائی تھے یا صائب تھے.پس جو اللہ تعالیٰ پر آخرت پر ایمان لے آئے اور نیک اعمال کرنے لگے اُن کے ان نیک کاموں کا خدا بدلہ دے گا اور اُن سے تمام خو ف وغم دور کر دے گا.صَابِیْ.اپنے آپ کو دین ادریس پر سمجھتے ہیں اور بعض حضرت یحییٰ کو اپنا مطاع مانتے ہیں.آیت ۲.بنی اسرائیل کو فرماتا ہے کہ ہم نے تم سے کوہ طور کے نیچے پختہ وعدہ لیا اور تم کو اس امر کی ہدایت کی کہ جو کچھ ہم تم کو دیتے ہیں تم اس پر پورے طور سے عملدرآمد کرنا تاکہ متقی بن جائو.رَفَعْنَا.اونچا رکھا.جیسا کہ (یوسف :۱۰۰) اس کا یہ مطلب نہیں کہ یوسف کے اوپر چڑھ گئے بلکہ یوسف کے پاس گئے.ایسا ہی ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ لاہور دریائے راوی پر ہے.عَلٰی اور پر کے مضمون پر غور کرنا چاہئے.آیت ۳.تم نے عہد کیا پر پھر تم پھر گئے.پس یادر کھو کہ اگر تمہاری اس بدعہدی کے بدلہ میں تم کو سزا ملتی اور خدا کا فضل اور رحم تم پر نہ ہوتا تو تم نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہوتے.

Page 134

وَاذْکُرُوْا.عمل کرو.آیت ۴.اور تحقیق تم جانتے ہو کہ جو لوگ سبت کے دن میں حد سے بڑھ گئے تھے یعنی وہ سبت کے دن کی بے حرمتی کرتے تھے ان کو ہم نے بندر بنا کر …… ذلیل کر دیا.وہ دراصل بندر ہو گئے تھے.پارہ ۶ رکوع ۱۳میں بھی ان کا ذکر ہے کہ یہ بندر اور سؤر جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لائے.نیز دیکھو پارہ نمبر۹.آیت ۵.پس ہم نے اس واقعہ کو اُن کی آئندہ نسلوں اور متقیوں کے لئے عبرت بنایا.وہاں بنی اسرائیل کو سبت کے دن کی عزت وحرمت کی تاکید تھی اور یہاں جمعہ کے دن عزت کی مسلمانوں کو تاکید کی گئی.مسلمانوں کے سامنے یہودیوں کے اس سبت کے دن کی بے حرمتی کرنے سے بند ربنے، سؤر بنے، بت پرست بنے، ذلیل ہوئے.اس ذلت کو عبرت کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے اور ڈرایا گیا ہے کہ دیکھو سبت کے دن کی بے حرمتی کر کے یہودیوں نے یہ پھل پایا ایسا نہ ہو کہ کہیں تم جمعہ کے دن کی عزت سے لاپروائی کر کے موردِ غضب بنو مگر افسوس کہ مسلمانوں نے جمعہ کے دن سے پھر بھی غفلت کی.آخر کو اب وہ زمانہ آ گیا کہ یہ بھی ذلیل ہو گئے.مسلمانوں نے عالمگیر کے آخری زمانہ سے جمعہ کے معاملہ میں سستی شروع کی تھی.آیت۶.جب خدا تعالیٰ نے یہ دیکھا کہ موسیٰ کی قوم میں گائے کی عظمت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ وہ اُس کو خدا کا شریک ٹھہرانے لگے تو اس کی غیرت جوش میں آئی اور اس نے چاہا کہ ان کے دلوں سے اس شرک کا نام و نشان تک بھی اُٹھا دے.اس کے لئے یہ ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ !تو اپنی قوم کو یہ حکم دے کہ وہ گائے کو ذبح کریں اور اس کی قربانی کریں.تاکہ جب وہ اس کے گوشت کو کھائیں تو ان کو یہ بات محسوس ہو جائے کہ واہ ! ہم نے یہ اچھا معبود بنایا ہے کہ جس کا ہم گوشت بھی کھا جاتے ہیں.جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا کہ دیکھو خدا تم کو حکم کرتا ہے کہ تم گائے کو ذبح کرو تو قوم نے کہا کہ اے موسیٰ کیا تو ہمارے ساتھ ہنسی کرتا ہے.آپ نے فرمایا..میں اس امر کے لئے خدا

Page 135

سے مدد طلب کرتا ہوں کہ میں جاہلوں سے نہ ہو جائوں.یہاں پر ایک نکتہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہنسی ٹھٹھا کرنا جاہلوں کا کا م ہوتا ہے تب ہی تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں تو اس بات سے خدا کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ میں وہ کام کروں جو جاہل کیا کرتے ہیں..جس چیز سے ہنسی کی جاتی ہے اور جس کی تحقیر ہو..کَبِیْرَۃٌ..جس نے ایک بار بچہ دیا ہو..جس نے دو بارہ بچہ دیا ہو..درشنی گائے.خوش کرے دیکھنے والوں کو.رکوع۹ آیت۱..تم گائے کی خفیہ طور سے عبادت کرتے تھے خدا نے اس کو ظاہر کر دیا.آیت۲.پس کہا ہم نے کہ قتل کرو گائے کوکیونکہ اُ س کو تم نے معبود بنا یا تھا.تم گائے کی پوجا کر کے مُردہ ہو گئے تھے.اس لئے خدا نے چاہا کہ تمہارے دلوں سے شرک کی تاریکی اور زنگ دور کرکے نور ایمان اور روحانیت سے بھر دے اور تم کو زندہ کر دے.دیکھو اس طرح سے اللہ تعالیٰ مُردوں کو زندہ کر کے اپنے نشان دکھلاتا ہے تاکہ تم اُلو نہ بنو بلکہ عقل کرو.آیت۳.مگر پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اور سخت بھی ایسے کہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو گئے کیونکہ پتھروں سے تو پانی بھی جاری ہو جاتا ہے مگر تمہار ے دل خوف الٰہی سے پسیجے تک بھی نہیں.آیت۴.پس اے مومنو! کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ وہ ایمان لائیں گے کیونکہ وہ تو ایک ایسا خبیث فریق تھا کہ باوجود اُس نے کلام الٰہی کو سننے اور سمجھنے کے تبدیل کر دیا.اس رکوع کی تین آیتوں میں خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود کا قصہ سنا کر ڈرایا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی ( گئو ماتا جی کے) پرستاروں یا اُن کے معاونین میں شامل ہو جائو.اگر تم نے ان جیسی چال اختیار کی تو یاد رکھو کہ جس جس قسم کی ذلتیں ان پہلے خبیثوں کو اُٹھانی پڑی ہیں تم بھی اُن کے برداشت کرنے کے لئے

Page 136

کمربستہ ہو جانا.مگر افسوس کہ اب مسلمانوں پر وہی زمانہ آ گیا جس کے لئے اُن کو پہلے ہی تنبیہ کی گئی تھی.آج ہم دیکھتے ہیں کہ بعض بعض اُلو کے چرخے گائو کشی کے خلاف گئو رکھشا کے ہیڈنگ دے دے کر گائے کی پرستش کے ممد و معاون ہیں اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں نہایت صفائی کے ساتھ ارشاد الٰہی لوگوں کے دلوں سے گائے کی عظمت اُٹھا دینے کے لئے.اس کے ذبح اورقربان کرنے کے لئے لکھا پا کر بھی قرآن کی مخالفت کرتے اور اُس کے حرفوں کو تبدیل کر کے  (البقرۃ : ۷۶) کے مصداق بنتے ہیں.اُن کی یہ حالت اس امر کا اظہار کرتی ہے کہ یا تو وہ برائے نام ہی مسلمان ہیں.قرآن کو جانتے ہیں خوب سمجھتے ہیں مگر اپنی خباثت اور منافقت طبع کی وجہ سے وہ ہندوئوں سے سگڑ بھلائی لینے کے لئے خدائی احکام کی مخالفت اسلام کی آڑ میں کر رہے ہیں.یا وہ بالکل قرآن سے واقف ہی نہیں بلکہ لا یعقل بیوقوف ہیں.اس لئے بیہودہ بکواس کر رہے ہیں اور مطلب اس سے صرف اسی قدر ہے کہ کوئی ہمیں بھی قاضی و مفتی سمجھے.یا یہ بات ہے کہ اگر چہ وہ بظاہر کسی مسلمان کے گھر پیدا ہو گئے مگر حقیقتاً ان میں کسی دال خور گئو کی رکھشا کرنے والے اور اس کے پرستار کا خمیر شامل ہے جو اُن کو ان کے آبائی فطرت کے مطابق مجبور کر کے یہ کارروائی کرا رہا ہے.ورنہ اگر یہ بات بھی نہیں تو اُن کو مفتی و قاضی مقرر کس نے کیا ہے؟ کہ تم اس امر میں ضرور ہی فتویٰ دو.آیت۵.اُ مِّی.صرف تلاوت قرآن کرتا ہے اور معنے نہیں جانتا..امیدیں..ماں والے، ماں کے لاڈلے، ان پڑھ..کلمہ افسوس ہے اور جہنّم کی ایک وادی کا نام ہے. سے مطلب عیسائیوں کے ترجموں سے ہے کہ وہ ترجمے در ترجمے کرتے

Page 137

چلے جاتے ہیں اور اصل عبارت کا پتہ بھی نہیں ہوتا.ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے کرنے سے فرق پڑ پڑ کر کچھ کا کچھ بن جاتا ہے مگر وہ اُس کو کلام الٰہی کہہ کہہ کر تھوڑی تھوڑی قیمتوں پر فروخت کرتے رہتے ہیں.فَتَحَ اللّٰہُ کے معنے پیشگوئیوں کے ہیں.کھولا اللہ نے تم پر.نیم ایرین.براھمو بلٰی.پیشگوئی ہے.رکوع ۱۰ آیت۱.ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو.جب عہد لیا ہم نے بنی اسرائیل سے کہ تم خدائے واحد کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اپنے والدین کے ساتھ احسان کرنا اور اپنے قریبی رشتہ داروں یتیموں ، مسکینوں کو بھلی باتیں بتلائو اور نیک سلوک کرو ا ور نماز کو مع پابندی ارکان کے قائم رکھو.زکوٰۃ دیتے رہو مگر افسوس ہے کہ تم میں تھوڑے لوگ ایسے تھے جو اپنے عہد پر قائم رہے باقی سب کے سب بدل گئے.قرآن شریف میں اس قصہ کو بیان کرنے سے ایک تو پیشگوئی کا اظہار کرنا تھا کہ تم ایک زمانہ میں چل کر بد عہد ہو جائو گے.دوسرے مسلمانوں کو تاکید اس امر کی گئی کہ دیکھو ایسا نہ ہو کہ کہیں تم بھی یہود جیسی کرتوتیں کرنے لگو مگر افسوس کہ مسلمانوں نے سب کچھ بھلا دیا اور وہی روش اختیار کی جس سے ان کو منع کیا گیا تھا..پختہ وعدہ.نبی کریم نے بھی تمام اقوام سے وعدہ لیا..اَقَمْتُ.یتیم.اکیلا ہونا.تم سے عہد لیا کہ تم خونریزی نہ کرنا اور آپس میں ایک دوسرے کو اس کے گھر سے نہ نکالنا.مگر افسوس کہ تم نے باوجود اس عہد کو جاننے اور سمجھنے کے خونریزی بھی کی اور اپنے اہل برادری کو شرمندہ

Page 138

کرنے اور ان پر اپنا احسان جتانے کی غرض ۸؎سے پہلے اُن کے دشمنوں سے مل کر اُن کو اُن کے گھروں سے نکلوا دیا.پھر بظاہر تم نے اُن کے دشمنوں کو کچھ روپیہ دے کر چُھڑا دیا.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو تم کو جو اس بات سے منع کیا گیا تھا کہ تم ان کو ان کے گھروں سے مت نکلوانا اُس پر تو تم نے عمل نہیں کیا.دوسرا حکم تم کو یہ دیا گیا تھا کہ اگر تمہارے متعلقین میں سے کسی پر کوئی مصیبت آوے تو اس کی مدد کرنا.اس پر تم نے عمل کیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم بعض حصص کتاب پر ایمان لائے اور بعض پر ایمان نہیں لائے.یاد رکھو کہ جو لوگ ایسے ہوتے ہیں ہم اُن کو دین و دنیا میں ذلیل کر دیتے ہیں.اِثْمٌ.جو بات انسان کے دل میں کھٹکے اس کو اِثم کہتے ہیں..شاباش دیتے ہو، پیٹھ ٹھونکتے ہو، مدد کرتے ہو..شرارت کر کے نکلواتے ہو.رکوع ۱۱ .موسیٰ کو کتا ب دی.روح.کلام الٰہی.مسیح علیہ السلام تو موٹی موٹی باتیں ارشاد فرماتے تھے.اخلاقی امور ،کوئی باریک باتیں نہیں بتا تے تھے..حجت نیرہ، شہادت، عظیم الشان نشان.ھَوٰی.گرنا ھَوِیَ کے معنے پیارا لگنا..جن چیزوں کو تم پسند نہیں کرتے..توریت میں اس لفظ کو نامختون کہا ہے.وہاں اس لفظ کے یہ معنے ہیں کہ جو

Page 139

ملت ابراہیم کے خلاف ہو.یہ معنے بھی ہیں کہ ہمارے دل غلافوں میں ہیں.لَعَنَ.دھتکارا ہوا.علم پر عمل نہ کرنا اور پاک بندوں سے مخالفت کرنا غضب ہے..اور پہلے اس آنے والے رسولوں کے متعلق خوب کھول کھول کر بیان کرتے تھے.باب استفعال مبالغہ کے لئے بھی آتا ہے.یہ بھی معنے ٹھیک ہیں کہ آپ کے نام سے ہی فتح طلب کرتے تھے..تم نے کس لئے اللہ کے انبیاء کو قتل کیا جو پہلے آئے.میرے خیال میں یہ تو صاف ظاہر ہے کہ انبیاء تو قتل نہیں ہوئے.میرے نزدیک قتل کے معنے سخت مقابلہ کے ہیں..بڑی قوت سے اس پر عمل کرو..اچھا تو یہ بتائو کہ آخرت پر ایمان لاتے ہوا ور اپنے آپ کو کامیاب ہونے والا سمجھتے ہو تو آئو ایک فیصلہ کن جنگ کر لو مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ زندگی کے بڑے شائق ہیں.مگر یہ یاد رہے کہ بڑی عمر پانا عذاب سے نہیں بچا سکتا.رکوع ۱۲ مباحثات سے بہت بچنا چاہئے.مباحثات میں ابتداء کبھی نہ کرے ابتدا ء کسی اور کی طرف سے ہونی چاہئے.جب ابتدا اپنی طرف سے نہ ہو تو خدا تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے..تو کہہ دے جو جبر۱ئیل کا عدو ہے …… کہتے ہیں کہ کچھ یہودی مدینہ میں آئے اور نبی کریم سے مباحثہ کیا ا ور مباحثہ میں کہا کہ کیا ثبوت ہے کہ آپ کو الہامات ہوتے ہیں.آپ نے جواب دیا کہ وہی ثبوت ہے جو حضرت موسیٰ کے لئے الہام کا ثبوت ہے.ا یک جگہ فرمایا ہے.(الانعام :۹۲) اُس نے کہا کہ ہم تو موسیٰ کے الہام کو بھی نہیں مانتے کہنے کو تو یہ بات کہہ گیا مگر پھر حیران رہ گیا.

Page 140

پھر سوچ کر کہنے لگا کہ آپ کے پاس کونسا فرشتہ وحی لاتا ہے.آپ نے کہا جبرئیل.اس نے کہا کہ جبرئیل تو ہمیشہ سے یہود کا دشمن ہے.یہ صرف مباحثات کا نتیجہ ہے کہ انسان اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اپنا مذہب بھی چھوڑ بیٹھتا ہے اسی واسطے.احادیث میں مذکور ہے کہ زمانہ وغیرہ کو بھی گالی نہ دو..عہد کرتے ہیں اور پھر توڑ دیتے ہیں.خدا تعالیٰ کی کتاب کو اس طرح سے پس پشت ڈال دیتے گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں.انسان کے قویٰ محدود ہیں ایک حد تک کام کر کے تھک جاتے ہیں.اسی واسطے انسان بعض اوقات لعب کی کتابوں میں مصروف ہو جاتا ہے.حضرت سلیمان کے زمانہ میں بڑا امن ہو گیا تھا.ایسی ہی حالت میں بیرونی آدمی آتے تھے ا ور اپنے ہمراہ عجیب عجیب دلربا اشیاء لاتے تھے تاکہ مقبول ہوں مگر جب مقبول نہیں ہوتے تو بر ا بھلا کہتے ہیں.اس لئے بہت سے لوگوں نے اپنی عجیب عجیب بد ذاتیوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہے..سلیمان علیہ السلام کافر نہ تھے بلکہ کافر شیطان تھے جو سحر کی باتیں کرتے تھے.سِحْر.کُلُّ مَا دَ َّق وَ لَطُفَ مَأْخَذُہٗ.ناول، دلربا باتیں، حقیقت سے بات کو ہٹا دینا.ایسے اعمال جن سے انسان ارواح خبیثہ سے تعلق پیدا کرتا ہے.اعلیٰ درجہ کی لطیف بات کو بھی سحر کہتے ہیں.حضرت نبی کریم نے فرمایا ہے.وَاِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا (صحیح بخاری کتاب النکاح باب الخطبۃ).پس معلوم ہوا کہ سحر ممدوح بھی ہے او رمذموم بھی.سحر کی میں نے بڑی کتابیں پڑھی ہیں.بعض لوگ تو خواص اشیا میں کام کرتے ہیں.ہمارے ملک کے لوگ تو کیمیا کے پھندے میں پھنس گئے ہیں.پھر مغربی ملک کے لوگوں نے ریل اور تار برقی وغیرہ ایجادیں کیں.باریک در باریک تدابیر جس کو پولیٹیکل اکانومی کہتے ہیں.ایک ہاتھ کی چلاکی، ایک قوت نفسانی کی تحریک، ایک روحوں کی بڑی طاقت ہوتی ہے کبھی لوگوں کو دھوکا دے دیتے ہیں.جیسے حضرت موسیٰ کے مقابل پر

Page 141

ساحروں نے کیا.کچھ ستاروں کی تاثیریں ہوتی ہیں.ان میں بھی عجیب در عجیب باتیں ہوتی ہیں.سورج کے پوجاری میں نے دیکھے ہیں کہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک تمام دن ٹکٹکی باندھ کر سورج کو دیکھتے ہی رہتے ہیں اور ایسے لوگوں میں ہندوئوں کو بھی دیکھا اور مسلمانوں کو بھی.بعض شریف بھی ہیں.ہمارے زمانہ میں بعض لوگ بڑے بزر گ کہلاتے ہیں اور وہ ان سب باتوں میں مبتلا ہوتے ہیں..وہ لوگ جو ہم پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کو کیا خصوصیت ہے … وہ غور کریں کہ کیا نبی کافر ہوا کرتے ہیں.حضرت سلیمان کی نسبت یہودیوں میں ساڑھے نو قومیں یہ اعتقاد رکھتی ہیں کہ وہ کافر تھے.اسی طرح عیسائی بھی کہتے ہیں کہ وہ ایک عورت کی محبت میں مشرک ہو گئے تھے.خدائے تعالیٰ نے ان دونوں کی یہاں پر نفی فرمائی ہے.یاد رکھو کہ جس قدر کتابیں نقش سلیمانی اور طلسم سلیمانی وغیرہ سلیمان کی طرف منسوب ہیں وہ سب افتر ا پردازیاں ہیں.میں نے بابل کی کہانیاں بھی بہت پڑھی اور سنی ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ دو فرشتوں نے آدمیوں کی سیہ کاریوں پر اعتراض کیا چنانچہ وہ آدمی بنا کر بھیجے گئے.قوت شہوت نے غلبہ کیا …… یہ تمام جھوٹی کہانیاں ہیں.ملائکۃ اللہ ایسی باتوں سے بالکل پاک ہوتے ہیں.حضرات انبیاء مثلاً حزقیل وغیرہ کو خدائے تعالیٰ نے بتایا کہ تم فارس اور مید کے بادشاہوں سے تعلق پیدا کر لو تو آزاد ہو جائو گے اور اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.اسی واسطے انہوں نے تعلق پیدا کیا.چونکہ یہ موقع خطرناک تھا.ا س لئے بتایا کہ اپنی عورتوں کو بالکل آگاہ نہ کرو صرف جری مرد واقف ہوں.جن مَلک نے یہ تعلیم دی ان میں سے ایک کا نام ہارو ت اور دوسرے کا نام ماروت تھا.ان کے ذریعہ سے سمجھایا گیا کہ ایسا نہ ہو کہ تم اس راز کو ظاہر کر کے انبیاء کے قتل کا موجب ہو اور وہ وہ علم تھا جو شوہر و بیوی کے درمیان تفرقہ تھا یعنی بی بی کو نہیں بتایا گیا تھا.اس کے سبب سے بابلیوں کو نقصان پہنچا.

Page 142

ہَرْتٌ.تہ و بالا کر کے.میدان کو صاف کر دینا.مَرْتٌ.کہتے ہیں زمین کو اس طرح صاف کر نا کہ درخت تک بھی باقی نہ رہے.اس لئے جن دو فرشتوں کے ذریعہ سے حزقیل اور دانیال نبی کو یہ تعلیم دی گئی کہ تم ایران اور مید کے بادشاہوں سے مل کر بابل کو اڑا دو اور یہود کو آزا د کرنے کے لئے بابل کے بادشاہوں کو اُڑا بھی دیا گیا تو ان کو ہاروت و ماروت کہا گیا.ا س خفیہ کارروائی کے لئے اُن کو خاص اشارات اور زبانیں سمجھائی گئیں.ہمارے ایک بہت پیارے کے والد فریمسن تھے.میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کی کمیٹی کب سے ہے.کہا حضرت سلیمان کے وقت سے.میں نے کہا پھر کب سے.کہا بابل کے وقت سے.پھر میں نے پوچھا کہ قانون کے ذریعہ سے جس شخص کو نہ ما رسکو کیا اس کے ذریعہ سے قتل کر سکتے ہو.کہا کہ اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا.پھر میں نے چند اورسوالات کئے جن کے ذریعہ سے معلوم ہوا کہ مار ڈالتے ہیں.عورت فریمسن نہیں بن سکتی.ان کے چند اشارات ہوتے ہیں اشاروں سے باتیں کرتے ہیں.ایک اور فریمسن سے بھی باتیں ہوئیں.پھر مجھ کو خدا تعالیٰ نے عالم رؤیا میں …… یہاں ایک شخص دکھایا کہ یہ فریمیسنوں کی طرف سے خاص طور پر یہاں رہتا ہے.یہ لوگ رات دن دشمنوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں.مذہب سے ان کو کوئی تعلق نہیں.ان کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت محمد صلعم اور حضرت ابوبکر ؓ و عمرؓ نے ملک عرب میں سے اس کمیٹی کا نام و نشان تک اُڑا دیا اور پینتیس سال تک اس کا کوئی پتہ و نشان باقی نہ رہا اور آپ کے اصحاب میں سے کوئی اس کمیٹی میں قطعاً شریک نہ ہوا.پھر جناب علی مرتضیٰ کے عہد میں انہوں نے سرنکالا..سونے کو کٹھالی میں رکھنا تاکہ اس کا کھرا اور کھوٹا پن معلوم ہو جاوے.آزمائش، امتحان.دیکھو (الذّٰریٰت :۱۴) … (العنکبوت :۳) … (الانفال :۲۹)  … (البقرۃ :۱۵۶) …(الانبیاء :۳۶).

Page 143

.پھر کفر کا ار تکاب نہ کرنا.تعلیم کے خلاف نہ کرنا..سیکھتے ہیں اُن دونوں فرشتوں سے.یہاں پر خدا تعالیٰ حضرت نبی کریم ﷺ کے دشمنوں کوجو خفیہ خفیہ آپ کو تباہ کرنے کی تجویزیں اور تدبیریں کرتے تھے یہ بتلاتا ہے کہ دیکھو تم نے محمد رسول اللہ کے تباہ کرنے کی وہی روش اختیار کی ہے جو دانیال اور حزقیل کی اقوام نے ظالم بابلیوں کو تباہ کرنے کے لئے کی تھی.تو یاد رکھو کہ تم اس سے محمد رسول اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ خدا کا منشاء نہیں ہے کہ اس کو ضرر پہنچے.پھر دانیال اور حزقیل کی قوموں کو مظلوم ہونے کے سبب سے ہماری جانب سے یہ حکم ہوا تھا.تب شہر بابل کے ظالم مفتوح ہوئے.یہاں پر تو معاملہ ہی برعکس ہے یعنی تم خود ظالم ہو اور پھر خدا کے نیک اور متقی بندوں کی جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہو.خدا سے تم کو اس قسم کا کوئی حکم بھی نہیں آیا.اُس میں خدا اُن کا مدد گار تھا مگر یہاں پر خدا تم سے بیزار ہے.تو کیا تم ایک اللہ تعالیٰ کے رسول کے مقابلہ میں کامیاب ہو جائو گے؟ نہیں.یاد رکھو کہ جس طرح یہاں پر معاملہ برعکس ہے اسی طرح تم ان تجاویز سے اُن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے بلکہ اُ لٹا تمہیں کو نقصان پہنچے گا.اس لئے فرمایا..رکوع ۱۳ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے قوتیں ترقی کرنے کے لئے رکھی ہیں.او رمنشاء اُن کا یہ ہے کہ ایک دوسرے پر بڑھو اور ترقی کرو ایک آدمی دوسرے سے بڑھتا چلا جائے.یہ فطرت انسان کی تمام ترقیات کے لئے رکھی گئی ہے.لیکن بعض لوگ ناجائز استعمال کرکے حسد سے کام لیتے ہیں.ایک شخص جو خوش چلن ، نیک اور خوش رہنے والا ہو اُس سے اُن باتوں میں ترقی کرنے کے بجائے حسد کرتے ہیں.حسد کی صفت کو ناجائز استعمال کر کے اس کے منافع سے محروم رہتے ہیں.نیکیوں میں رشک کرنا مفید ہو سکتا ہے.حسد کو جب ناجائز استعمال کرتے ہیں تو محسود کی نسبت بُرے الفاظ زبان سے نکالتے ہیں.ا للہ جلشانہ اس رکوع شریف میں فرماتا ہے کہ ایمان والو! لوگ دغا، فریب اور حسد کے وقت برے برے الفاظ استعمال کیا کرتے ہیں.تم کو چاہئے کہ تم ایسے دو رخے

Page 144

ذو معنی الفاظ بھی استعمال نہ کیا کرو.د یکھو رَاعِنَا ایک دو رُخہ لفظ ہے تم محمد رسول اللہ (ﷺ)کے سامنے یہ لفظ بھی مت بولاکرو کیونکہ یہود کی زبان میں اس کے کچھ اچھے معنے نہیں ہیں.اس کی بجائے تم اُنْظُرْنَا کہا کرو..یُحِبُّ .یہ منکر اہل کتاب چاہتے ہی نہیں کہ تم پر کوئی مکرم چیز اُتاری جائے.اُ.آپ ہماری طرف توجہ فرماویں.آپ ہم پر نظر عنایت فرماویں..مسلمانوں کو روکا توپھر یہودیوں کو بھی رُکنا پڑا.حدیث میں ہے کہ عشاء کے واسطے عَتَمَۃً کا لفظ نہ بولو کیونکہ یہ جنگلیوں کا لفظ ہے.نُنْسِ.بھلا دیتے ہیں.چھوڑ دیتے ہیں..جو کچھ ہم کھو دیں یا بھول جائیں مٹا دیں.خدا ہم کو اُس سے بہتر دے سکتا اور سکھلا سکتا ہے.قرآن شریف میں کوئی ایسا حکم نہیں جو منسوخ ہو چکا ہے اور اس پر عمل کرنا اس وقت ممنوع ہو..ہم دنیا کے کچھ مذاہب کو مٹا دیں گے..اللہ تعالیٰ اس وقت ایک شخص کو خصوصیت دے رہا ہے..باطل کرنا، ازالہ کرنا، نقل کرنا، حالتوں کو بدل دینا.توریت و انجیل کا اصل نہیں ملتا.مٹ گئیں.اُن کی جگہ ان سے اعلیٰ و افضل تریں کتاب یعنی قرآن شریف عطا کیا گیا..نشان، عبرت، ایک فقرہ قرآنی، ( نبی ). کے یہ معنے ہوئے کہ اس کو اس طرح سے مٹاد ے کہ نام و نشان تک بھی باقی نہ رہے.رسول اللہ ﷺ نے تمام عربی اقوام کے رسم و رواج، اخلاق و عادات میں کیسی تبدیلی پیدا کر دی.شرک کو بالکل مٹا کر وحدانیت کو پھیلا دیا.

Page 145

 میں تعظیم الٰہی ہے اور زکوٰۃ میں مخلوق سے ہمدردی ہے.جو کچھ کرو گے.اللہ تعالیٰ سے اجر پائو گے.وہ داناو بینا ہے.۹؎ رکوع ۱۴ جب کوئی کسی کا دشمن ہو جاتا ہے تو اس کی کسی خوبی کا قائل نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی ایسی چیز ہوتی ہے کہ جس میں کچھ بھی خوبی اور کوئی بھی فائدہ نہ ہو تو ہم اُس کو دنیا میں رہنے نہیں دیتے جیسے فرمایا.(الرعد :۱۸).اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود کا نصاریٰ کو یہ کہنا کہ یہ کچھ بھی نہیں اور نصاریٰ کا یہود کو یہ کہنا یہ کچھ نہیں عداوت پر مبنی ہے.اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ یہ یہود و نصاریٰ ہی سے متعلق نہیں بلکہ فرمایا. یعنی جو کوئی بھی ایسا کہے وہ سب اسی بنا پر مبنی ہے.پھر قرآن میں سب سے بڑا سبب عداوت کا (الانعام :۴۵) لکھا ہے یعنی جب لوگ قرآن کریم یا کتاب اللہ کو چھوڑ دیتے ہیں تو اُن میں بغض و عداوت پڑ جاتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آجکل جو مسلمانوں میں باہم ناچاقی کی وبا پھیلی ہوئی ہے تو اس کا سبب قرآن کو پس پشت ڈال دینا ہے.مسلمانوں میں پہلے یہ وبا شروع ہوئی تو جبر وقدر کا جھگڑا شروع ہوا پھر خوارج کا پھر شیعوں کا.میں کہتا ہوں کہ انہوں نے قرآن کریم کو چھوڑ کر جبر وقدرکو کیوں چھیڑا.میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کسی کو ردّی نہیں سمجھتا.اس جھگڑے کو بھی مفید ہی سمجھتا ہوں.میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھ کو ہر گز کسی سے بھی بغض نہیں حتیٰ کہ شیطان سے بھی نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے اس کو بھی کسی غرض سے ہی پیدا کیا ہے.بھوپال میں میرے اُستاد مولوی عبدالقیوم صاحب تھے.جب میں اُن سے رخصت ہونے لگا تو میں نے کہا کہ مجھے کوئی ایسی بات بتلائیے کہ جس سے میں ہمیشہ ہی خوش رہوں.فرمایا کہ تم اپنے آپ کو خدا اور رسول نہ سمجھنا.میں نے عرض کیا کہ بھلا میں اپنے آپ کو خدا اور رسول کیسے سمجھ سکتا ہوں.

Page 146

انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ تم خدا کس کو کہتے ہو؟ میں نے کہا.(ھود:۱۰۸) یعنی خدا وہ ہے کہ جو چاہے سو کر گزرے.انہوں نے فرمایا کہ بس اگر تمہاری خواہش پوری نہ ہو تو اپنے نفس کو کہنا کہ میاں تم کوئی خدا ہو؟ اس نکتہ سے مجھے اب تک فائدہ پہنچا ہے اور میں بہت راحت وآرام میں رہتا ہوں.دوسری بات یہ کہ رسول نہ بننا.میں نے کہا وہ کیسے ؟ فرمایا کہ رسول کے پاس خدا سے حکم آتا ہے.اس کو خوف ہوتا ہے کہ اگر لوگ میری باتوں کو نہ مانیں گے تو دوزخ میں جائیں گے اس لئے وہ کڑھتا ہے مگر جو تمہارا فتویٰ نہ مانے تو وہ تو دوزخ میں نہیں جا سکتا.اس لئے تم اس کا بھی کبھی رنج نہ کرنا کہ فلاں شخص نے ہمارا کہنا کیوں نہ مانا.ہمارے شیخ المشائخ شاہ ولی اللہ صاحب کے والد ماجد کو ایک مرتبہ الہام ہوا کہ اس وقت جو لوگ تمہارے پیچھے نماز پڑھیں گے سب جنتی ہیں.ایک شخص پر ان کو شبہ پڑ گیاکہ یہ نیک نہیں معلوم ہوتا.جب انہوں نے نماز پڑھ کر سلام پھیرا تو دیکھا کہ وہی شخص اُن میں نہ تھا.دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ وضو کرنے کے لئے چلا گیا تھا اور بعد میں نماز ہو چکی.مگر مقتدیوں کو شمار کرنے سے معلوم ہوا کہ اتنے ہی ہیں جس قدر پہلے تھے.ایک شخص نے اُٹھ کر بیان کیا کہ میں وضو سے تھا جب میں نے دیکھا کہ یہاں جماعت طیار ہے تو میں فوراً ہی شامل ہو گیا..خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی شخص ظالم ہے جو لوگوں کو مسجدوں میں ذکر الٰہی کرنے سے روکے مگر افسوس کہ شیعوں کی مسجدوں میں سنی نہیں جا سکتے اور سنیوں کی مسجدوں میں شیعہ نہیں گھس سکتے.بعض بعض مسجدوں کے دروازوں پر لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص نہ آئیں.ایسے لوگ دنیا میں ذلیل ہوں گے اور آخرت میں ان کو بڑا عذاب دیا جائے گا..سار اجہان خدا کا ہی ہے جس طرف تم توجہ کرو خدا کی فتح ونصرت تمہارے ساتھ ہو گی.

Page 147

اَیْنَ.ظرف مکان بھی ہے اور ظرف زمان بھی ہے.اس میں سارا جہان مخاطب ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور جس وقت توجہ کرو پس اسی طرف توجہ ہے اللہ کی.فی الواقع جدھر صحابہ متوجہ ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی توجہ کو مثمر ثمرات بنا یا..بیٹا ہونا سبحان کے بالکل خلاف ہے.عیسائیوں نے ایک مجلس کا نام تقدیس رکھا ہے اور اُس میں بیٹا ہونے کا ذکر کرتے ہیں.اس لئے فرمایا کہ یہ تقدیس نہیں.قنوت.نماز میں کھڑا ہونا، فرمانبرداری، دعا مانگنا، عام عبادت سب کو قنوت کہتے ہیں..قَدَّرَ، اندازہ کیا، حکم جاری کیا، کام کو پورا کیا، پیدا کیا، خبر دی.رکوع ۱۵ اللہ جلّشانہ نے اَلْحَمْد میں اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ.مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ اور ضَآلِّیْن کا ذکر فرمایا ہے.علمی طور پر فرمایا کہ جو لوگ نمازوں کے پابند ہیں، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، کتاب اللہ اور آخرت یا جزا سزا پر ایمان رکھتے ہیں وہ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْمیں ہیں مگر دوسرے لوگ جو انکار کرتے ہیں مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ ہیں.تیسرے وہ جو ضَآلِّیْن ہیں جو تجارت کے ذریعہ سے تمام مذہبوں سے واقف ہو سکتے تھے اور وہ نصاریٰ ہیں.پھر فرمایا کہ بد عہد لوگ ضَآلّہوتے ہیں.ان کا ذکر لمبا کیاپھر مَغْضُوْب اور مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کا نام لے کر بتایا.پھر بنی اسرائیل کا بار بار ذکر کیا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ کی اُن نعمتوں کو یاد کرو جو اُس نے تم پر کیں.پہلوں میں اور ان میں یہ فرق دکھلایا کہ یہاں عدل کو مقدم کر دیا اور ان میں شفاعت مقدم تھی اس لئے کہ بعض دنیا کو چھوڑ نہ سکے پہلے سپارش سے کام لیا جب اس سے کام نہ چلا تو بدلہ دینے کو ہوئے.دوسروںنے مال کا دینا مقدم کیا جب کام نہ چلا تو لگے سپارش کرانے..امتحان، آزمائش.اور امتحان کے معنے ہیں کسی کی محنت لینا اور محنت کے بدلہ میں کچھ دینا.ایک جگہ اظہار کے معنے بھی آتے ہیں. (الطارق :۱۰).یہاں بھی محنت لینے کے معنے ہو سکتے ہیں.

Page 148

اِمَام.اس دھاگے کو کہتے ہیں جو معماروں کے پاس ہوتا ہے جس کو شاقول کہتے ہیں.دیکھو پھر اس لفظ کو کس قدر وسیع کیا ہے کہ جس کی اتباع سے انسان اپنا سیدھا اور ٹیڑھا پن دیکھ سکے ایسے شخص کو امام کہتے ہیں.قرآن بھی امام ہے، محمد رسول اللہ بھی امام ہیں ،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے متبع بھی ہیں.ذُرِّیَّۃ.ٌ.پھیلنا.نسل .ثبہ جماعت کو کہتے ہیں اور مثابہ جماعتوں کے آنے یا امن کی جگہ کو کہتے ہیں. سے ابراہیم کے مقام کا صاف پتہ لگتا ہے.ہم نے ابراہیم کو بڑا ضروری حکم بھیجا کہ اس گھر کو ان لوگوں کے لئے ہمیشہ پاک رکھیو جو طواف، اعتکاف اور رکوع و سجود کے لئے یہاں آئیں.حضرت ابراہیم ؑنے قد آدم دیوار بنانے میں سات ردے رکھے.سات ہی مرتبہ طواف کیا اور ہر جگہ دعائیں کیں.رکوع ۱۶ ایک شخص گزرا ہے عراق عرب کا رہنے والا.اس پاک انسان کا نام ابراہیم ہے.جو کچھ خدا کے فضل کے متعلق سمجھ میں آ سکتا ہے وہ سب ہی کچھ اس کو میسر تھا.صحت کا یہ حال تھا کہ ۹۹ برس کی عمر میں حضرت اسحق پیدا ہوئے.جاہ و جلال کا یہ عالم تھا کہ تمام مسیحی قومیں، تمام یورپ، تمام ایشیا اور براعظم افریقہ میں اس کا نام عزت سے لیا جاتا ہے.اولاد میں کیسے کیسے نبی اور کس کثرت سے موجود ہیں..تورات میں میں نے پڑھا ہے کہ اے ابراہیم جو تجھ کو مبارک سمجھتا ہے اس کے لئے برکت ہے اور جو تجھ کو برا کہتا ہے اُس پر خدا کی لعنت ہے.اب خدائے تعالیٰ یہاں پر گُر بتلاتا ہے جس پر وہ عمل کرنے سے اس قدر بڑا انسان بنا تھا وہ گر یہ ہے کہ  یعنی جب خدا نے ابراہیم! کو کہا کہ اے ابراہیم تم فرمانبردار ہو جائو تو عرض کی اے ربّ العالمین!

Page 149

میں تو تیرا فرمانبردار ہو چکا.فرمانبرداری کا وعظ ابراہیم نے اپنی اولاد اور اسحق نے اپنی اولاد کو کیا اور فرمایا کہ خدا نے تمہارے لئے ایک دین کو پسند کیا ہے جب تمہاری موت آئے تو تم کو فرمانبردار پائے..یاد رکھو وہ ایک گروہ تھا جو گزر چکا.تم کہیں یہ خیال نہ کر لینا ہم ان کی اولاد ہیں.جو تم کرو گے تم کو اس کا بدلہ ملے گا..اِمْلَالٌ سے نکلا ہے.جب نبیوں پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے تب لکھواتے ہیں.دین کا لفظ جناب الٰہی کی طرف مضاف ہوتا ہے مگر ملت کا لفظ کبھی جناب الٰہی کی طرف مضاف نہیں ہوتا.کافی ہو جائے گا اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے اور وہ سمیع و بصیر ہے.پارہ سیقول.سورہ بقرہ رکوع ۱۷ میں نے اس آیہ کریمہ پر مدتوں غور کیا ہے ہمارے مفسر لوگ تحویل قبلہ کے متعلق لکھتے ہیں.مجھ کو روایت سے باہر جانے میں جب تک الہام یا وحی نہ ہونکلنا دشوار ہے بیس صحابی ہیں جو اس آیہ کو تحویل قبلہ کے متعلق بتاتے ہیں.بنی اسرائیل کے متعلق سورۃ البقر میں خوب بوچھاڑ ہے.اُن کو اور ان کے علماء وغیرہ سب کو خوب خوب بتایا ہے اور اُن کے حالات گزشتہ یاد دلائے ہیں.اُن کی غلط کاریاں اور اپنے احسانات و انعامات یاد دلائے ہیں.پھر اُن کی غلطیاں اور جہالتیں بتا کر ابراہیمی لوگوں کی غلطیاں بتائی ہیں.میرے اُستاد حضرت رحمت اللہ صاحب کو نبی کریمؐ نے خواب میں بتایا تھا کہ تم سے مباحثہ ہو گا.تم نے آیت ۱۹ اور ۲۱ سے استدلال کرنا.یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب تم ابراہیمی تھے تو تم نے قبلہ سے کیوں منہ پھیرا ؟ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب مشرق و مغرب ہمارا ہی ہے.ہم اپنے مصالح سے جس کو چاہیں ہدایت کریں. کے معنے بسبب کے ہیں.ہم نے تم کو  بنایا ہے.تم لوگوں کی نگرانیاں کرو اور رسول تمہارا نگران ہو.

Page 150

کے معنے اعلیٰ درجے کے ہیں.اس لئے تم کو چاہئے کہبنو.پارہ ۴ رکوع ۳ اور سورہ(اٰل عمران) کے رکوع۱۲ میں لکھا ہے کہ تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرو اور برائیوں سے روکو.یہ تحویل قبلہ بھی بڑا بھاری امتحان تھا کہ کون خدا تعالیٰ اور رسول کا متبع ہوتا ہے اور کون نہیں ہوتا.کی ضمیر مجھ کو حضرت نبی کریم ہی کی طرف پسند معلوم ہوئی ہے. سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ذکر پہلے آیا ہے.رکوع ۱۸ بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے پر آریہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تم بیت اللہ کی پوجا کرتے ہو.یہ خیال اُن کا بالکل غلط ہے.وہ نہیں جانتے کہ انسان جب عبادت الٰہی کرے گا تو کسی نہ کسی سمت کو تو اُس کا منہ ہو ہی گا.ہر صورت یہ اعتراض انسان پر آ سکتا ہے کیونکہ وہ بھی مشرق کی طرف عبادت میں اور آگ کی طرف ہَون میں منہ کرتے ہیں اس لئے آریہ لوگ خود بھی اس کے نیچے ہی ہیں.اہل اسلام اگر نماز اس طرح سے پڑھتے کہ کسی کا منہ پورب کو کسی کا پچھم کو کسی کا اُوتر کو اور کسی کا دکن کو تو کیا اس سے سب کے خیالات و اعتقادات کا یکساں ہونا اور سب کے اتفاق و محبت کا اظہا رہو سکتا تھا.پھر جو خوبی اور خوبصورتی دوش بدوش کھڑے ہو کر اور ایک جانب کو منہ کر کے عبادت الٰہی کرنے میں پائی جاتی ہے وہ دوسری صورت میں کہاں پیدا ہو سکتی ہے.لطف تو اس میں ہے کہ ایک خدا کے پرستار ایک کتاب کے ماننے والے ایک ہی رسول کے مطیع ایک ہی جانب کو منہ کر کے عبادت الٰہی کرتے ہوں جو اُن کی یکجہتی اور ان کے ہم اصول ہونے پر ایک مضبوط دلیل ہے.اور اس میں کیا مزا ہے کہ زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کی پرارتھنا کرتے ہیں اور جب پرارتھنا کرنے کے لئے بیٹھیں تو جس طرف کو ایک مہاشہ کا منہ ہو اُدھر دوسرے کے چوتڑہوں اور جدھر تیسرے کے چوتڑہوں اُدھر چوتھے کا منہ ہو.گویا کہ جنگل میں ایک دوسرے سے روٹھے ہوئے بیٹھے ہیں.

Page 151

اب غو ر کر کے دیکھو کہ آیا یہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے یا وہ.پھر کسی کی عبادت کے لئے دل میں اعتقاد ہوتا ہے معبود کے سامنے انسان اپنے آپ کو ذلیل خیال کرتا ہے.تعظیمات کے الفاظ بولتا ہے.اس سے دعائیں مانگتا اور التجائیں کرتا ہے.اُس کے حسن و احسان کا اقرار کرتا ہے اس سے امن وامان کی درخواست اور مصائب کے دور ہونے کی نہایت تذلل کے ساتھ دعائیں کرتا ہے.نماز اللہ کے نام سے شروع ہوتی اور اللہ ہی کے نام پر ختم ہوتی ہے..ہر ایک آدمی کی کسی نہ کسی طرف توجہ لگی رہتی ہے..شہید کے اعمال ترقی کرتے رہتے ہیں.صبر کے معنے روزہ ، برائیوں سے پرہیز ا ور نیکیوں پر استقامت..ان کا بدلہ ضرور لیا جائے گا..تھوڑا سا.رکوع ۱۹ حضرت نبی کریم مکہ میں تھے تو آپ کی قوم ہی آپ کی دشمن تھی لیکن ہجرت کے بعد یہود دشمن ہوئے ان کے سبب کسریٰ سے دشمنی ہوئی.پھر عیسائی دشمن ہوئے تو ان کی وجہ سے قیصرسے دشمنی.اس لئے وہاں صبر کا زیادہ موقع تھا.صبر کی مختصر حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک نیکی پر قائم رہنا اور ہر ایک بدی سے بچنا.۱۰؎ حوالہ جات قرآن رمضان ۱؎ بدر حصہ دوم مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۷،۸.قرآن رمضان صفحہ ۱،۲ ۲؎ بدر حصہ دوم مورخہ ۲۶ ؍ ستمبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۱۳تا ۱۶.قرآن رمضان صفحہ۳تا۶ ۳؎ بدر حصہ دوم مورخہ ۳؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ۲۱ تا ۲۴.قرآن رمضان صفحہ۷تا۱۰ ۴؎ بدر حصہ دوم مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۲۹ تا ۳۲.قرآن رمضان صفحہ۱۱تا۱۴

Page 152

۵؎ بدر حصہ دوم مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۳۷ تا ۴۰.قرآن رمضان صفحہ۱۵تا۱۸ ۶؎ بدر حصہ دوم مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ۴۵تا۴۸.قرآن رمضان صفحہ۱۹تا۲۲ ۷؎ بد رحصہ دوم مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۵۳تا۵۶.قرآن رمضان صفحہ۲۳تا۲۶ ۸؎ بد رحصہ دوم مورخہ۷؍ نومبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ۶۱تا۶۴.قرآن رمضان صفحہ۲۷تا۳۰ ۹؎ بدر حصہ دوم مورخہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۶۹ تا ۷۲.قرآن رمضان صفحہ۳۱تا۳۴ ۱۰؎ بدر حصہ دوم مورخہ ۲۱؍ نومبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۷۷ تا ۸۰.قرآن رمضان صفحہ۳۵تا۳۸

Page 153

کلام امیر علالت کے باوجود درس قرآن ۸؍ ستمبر ۱۹۱۲ء ( یوم الاحد) صبح حضرت کی طبیعت کچھ علیل ہے.متلی ہوتی ہے پھر بھی قرآن شریف کا درس دیا.فرمایا.آج تو درس دینا مشکل معلوم ہوتا ہے مگر خیرشروع کرتے ہیں.سورئہ صف میں مثیل مسیح کی بشارت ۱۰؍ستمبر ۱۹۱۲ء ( یوم الثلا ثہ ) صبح درس کے بعد بیماروں کو دیکھا.پھر بارہ بجے بھی بیماروں کو دیکھا اور ڈاک سنی اور جواب لکھائے.آج بعد از ظہر مسجد اقصیٰ میں سورہ ٔ صف کے پڑھنے سے قبل کسی نے کہا کہ اس سورۃ کو کھول کر بیان کرو حالانکہ حضرت صاحب تمام ضروری باتوں کو کھول کر بیان کرتے ہیں اور عام تراجم سے جہاں اختلاف ہو وہ بھی خصوصیت سے بتلا دیتے ہیں مگر افسوس ہے کہ نادان لوگ بے فائدہ سوالات سے باز نہیں آتے.اس سورۃ کی تفسیر میں آپ نے ثابت کیا کہ جس احمد کی بشارت اس سورہ شریف میں ہے وہ مثیل مسیح ہے.حضرت موسیٰ نے اپنے مثیل کے متعلق پیشگوئی کی تھی اور حضرت مسیح نے اپنے مثیل کے متعلق پیشگوئی کی ہے.فرمایا.میں اپنی ذوقی باتیں کم کیا کرتا ہوں.سائل تو صرف احمد ؐ کے متعلق کھول کر بیان چاہتا ہے.یہاں تو خدا نے احمد کے بعد نور کی طرف بھی قرآن شریف میں اشارہ کر دیا ہے.آگے دین کا لفظ بھی ہے اور اس نور کو نہ ماننے کے متعلق بھی کہا ہے.(الصّف :۹) (اگرچہ منکرین برامنائیں ) زخم ناسور ۱۱ ؍ ستمبر ۱۹۱۲ء ( یوم الاربع ) صبح فرمایا کہ رات زخم ناسور کے اندر اس طرح محسوس ہوتارہا جیسا پیپ ہوتی ہے.ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب نے بامداد ڈاکٹر عبداللہ صاحب ڈریس کیا.اس کے بعد درس ہوا.۱؎

Page 154

لغو سوالات سے پرہیز چاہیے ۱۸ ؍مارچ ۱۹۱۲ء بوقت درس قرآن مجید بعد مغرب ایک مولوی صاحب نے جو ہندوستان کے مدرسوں سے فارغ التحصیل ہو کر قادیان میں بارادہ بیعت آئے ہوئے تھے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ (الرعد :۳۲) تو کیا وہ اگر چاہے تو کفار کو جنت میں اور مومنوں کو دوزخ میں نہیں ڈال سکتا؟ اس پر بڑے جوش اور کمال دلسوزی اور ہمدردی سے حسب ذیل تقریرفرمائی.میں ایک بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں.خوب سنو.چھوٹے ہو یابڑے، جوان یا بڈھے خواہ سبق لمبا ہی ہو جاوے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (المؤمنون :۲ تا۴).مظفر ومنصور وہی مسلمان ہوتا ہے جو لغو سے بچتا رہے.یہ ایک معرفت کا نکتہ ہے.جب تک یہ عادت ان میں نہ ہو گی کامیاب نہ ہوں گے مگر اب اسلام میں کیا کیا فضول بحثیں چلی ہیں.اوّل.حضر ت آدم ؑ بہشت میں پیدا ہوئے یا زمین پر.(۲) حوّا آدم سے نکلی یا آدم حوّا سے.(۳) آدم کا بدن کس شکل کا تھا.(۴) کپڑے کیسے تھے.(۵) وہ درخت کیسا تھا (۶) شیطان کیا چیز ہے.(۷) آدم کو جب دھکہ دیا گیا تھا وہ کہاں اُترا تھا.(۸) حضرت نوح کی کشتی کس لکڑی کی تھی.(۹) وہ جانور جو پتہ لگانے کے واسطے گیا تھا وہ کون تھا.(۱۰) اس کشتی میں ہاتھی گھوڑے سب کچھ ڈالے گئے.گویا سارا جہان ہی ہوا.(۱۱) حضرت موسیٰؑ کی لاٹھی کس درخت کی تھی.(۱۲) حضرت موسیٰؑ کا قد کتنا لمبا تھا.کہتے ہیں کہ ستر ہاتھ لاٹھی تھی اور ستر ہاتھ حضرت موسیٰ کاقد تھا اور ستر ہاتھ اُچھل کر عوج بن عنق کو مارا مگر اُس کے گِٹے (ٹخنے ) پر لگی.گویا اس کا ٹخنہ ۲۱۰ ہاتھ زمین سے اونچا تھا.اور اب دریائے نیل پر اس کی ٹانگ کی نلی کا پل بنا ہوا ہے اور جب نوح نبی کی لہر آئی تو عوج مذکور کو گِٹے گِٹے آئی.غرضکہ بڑے بڑے لمبے قصے کئے گئے ہیں.میں تو ایسے مسئلوں سے دنیا میں آگے ہی گھبرایا ہوا ہوں.اب میں بڈھا ہوں.میں نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کی کتاب میں لغو سے کام نہ لو.تفسیریں

Page 155

پڑھو.جب ایسے قصے آویں انہیں چھوڑ دو.معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور نصاریٰ اور مجو سیوں نے وہ قصے ڈال دئیے ہیں.قصوں کی وہ بھرمار ہے کہ ہم اصل قرآن تو پڑھ ہی نہیں سکتے.ہزار در ہزار ورق لکھ دئیے ہیں.نعوذ باللہ ایک کہانی ایک آیت پر یہ لکھ دی گئی ہے کہ ایک چار پائی پر ایک بادشاہ بیٹھ گیا.چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ دئیے اور گرجھیں ( گدھیں ) بھی باندھ دیں.وہ اُس کا کھٹولا ہی اُڑا کر آسمان کی طرف لے گئیں.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ خاص فضل کیا ہے میں تو ان لغو باتوں کے نزدیک بھی نہیں آ سکتا.اب لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا خدا جھوٹ بھی بول سکتا ہے.پہلے خدا کے بولنے کا تو فیصلہ کرو کہ آیا بولتا بھی ہے یا نہیں.اب پوچھتے ہیں کہ اگر خدا بروں کو دوزخ میں ڈالنے کا وعدہ کرتا ہے تو کیا نیکوں کو نہیں ڈال سکتا.میں خدا کے فضل سے اس پر بحث کر سکتا ہوں.میں نے قرآن کی غرض سمجھی ہوئی ہے مگر لوگوں نے قرآن کی اور ہی غرض سمجھی ہے.بعض سمجھتے ہیںکہ قرآن میں صیغے عجیب عجیب ہیں.وہ حل ہو جاویں.یتقہ کا صیغہ کیا ہے.کوئی کہتا ہے اس میں ترکیبیں مشکل ہیں وہ حل کی جاویں.اگر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو دوزخ میں ٹھونسنا ہے اور بدکاروں کو جنت میں بھیجنا ہے تو اس قرآن کا آنا تو خاک میں مل گیا.اللہ تعالیٰ کی شناخت میں بھی لغو سے بہت کام لیا گیا ہے.بعض ع خود کوزہ و خود کوزہ گَر و خود گِلِ کوزہ وغیرہ کہتے ہیں پھر عیسائی اس قاعدے پر چلے ہیں کہ خدا مجسم ہو سکتا ہے جیسا کہ وہ ہوا.پھر ہندو کہتے ہیں کہ خدا ایک سنسار بنا پھر کچھو کماں.پھر ایک دفعہ سؤر بن گیا.چنانچہ کہتے ہیں.کچھ مچھ دراہ تُوں یعنی سؤر.ژا شنگھ تُوں یعنی شیر بھی تو ہی ہے.میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور اپنے بڑھاپے کو حاضر کرتا ہوں.میں ہر رات کو یہ خیال کرتا ہوں کہ شائد میں صبح کو ہوں گا یا نہ.میں تم کو کہتا ہوں کہ یہ باتیں بالکل بیہودہ ہیں.نہ ہمارے دین کے کام کی ہیں نہ دنیا کے کام کی نہ صحت کے کام کی.صحابہ۱ ، ائمہ حد۲یث، ائمہ۳ فقہ، ائمہ۴ تصوف چاروں قسم کے لوگوں نے قطعاً یہ بحثیں نہیں کی ہیں.جب مسلمان لوگ فاتح ہو گئے اور ہزاروں کتابیں دیکھیں تو وہ باتیں اپنی کتابوں میں لکھ

Page 156

ماریں.میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کسی سوال میں اللہ رسول ؐ، فرشتوں ، جزا و سز ا کے بارہ میں، اخلاق کے بارہ میں نفع پہنچے تو ان مسئلوں پر بحث کرو.اگر نہ پہنچے تو ان پر تھوک دو.ہم نہیں جانتے کہ موسیٰ کا عصا کتنا لمبا تھاا ور کس لکڑی کا تھا.آدم کے گرنے کی جگہ کہاں ہے اور نوح کی کشتی کس لکڑی کی تھی وغیرہ.میرا ایک اُستاد منشی قاسم علی رافضی تھا.میں اُس سے فارسی پڑھا کرتا تھا.وہ مجھے کہتا آج بزم کا رقعہ لکھو.آج رزم کا رقعہ لکھو.آج بہاریہ رقعہ لکھو.آج خزاں کا رقعہ لکھو.مجھے حکم ہوا کہ آج یہ سب رقعے یاد کر کے ہمیں سنا دو.میں اس کو فر فر کر کے سنا بھی دیا کرتا تھا.شاباش لے کر اُدھر جلا دیا کرتا تھا.آٹھ آٹھ ورق کا سرنامہ میں نے پڑھا ہے.اس سے مجھے یہ فائدہ پہنچا کہ میں نے اب سرناموں کو جڑھ سے ہی کاٹ دیا ہے.میرے سر نامے یہ ہیں.عزیز، عزیز مکرم ، مکرم، جناب السلام علیکم.جن سے مجھے محبت نہیں ہے ان کو میں صرف جناب لکھ دیتا ہوں یعنی تم اُس طرف میں اس طرف.غرض ہم کو ان فضول باتوں کی ضرورت نہیں ہے ہم کو پنج بناء اسلام کی ضرورت ہے.اخلاق کی ضرورت ہے.میں نے بڑی کتابیں پڑھی ہیں.مولوی عبداللہ ٹونکی نے کذب باری تعالیٰ پر کتاب لکھی ہے.رشید احمد، مولوی قلندر علی پانی پت کرنال والے نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں.مولوی حیدر علی ٹونکی نے بھی اس پر کچھ لکھا ہے.یہ سب کتابیں میرے پاس ہیں.اس قدر تقریر کے بعد سبق شروع ہو گیا.خاتمہ پر مولوی صاحب نے مذکور سوال کنندہ کو پاس بُلاکر پھر اُسی مضمون پر ذیل کی تقریر کی.میں نے دنیا کے بڑے مذاہب دیکھے ہیں اور اُن کے حالات پڑھے ہیں اب بھی پڑھتا ہوں مگر اُن میں سیدھا اور سلامتی کا مذہب ایک اسلام ہی ہے اور پھر اُس میں سنّی مذہب اور پھر مرزا صاحب کے رنگ میں مَیں نے اس کو مقابلۃً بھی دیکھا ہے.ہر ایک مذہب میں ایک بجھارت ہوتی ہے مثلاً عیسائیو ں میں عیسیٰ خدا کا مسئلہ ہے اس کو وہ نہیں سمجھا سکے.بپتسمہ یوں دیتے ہیں.خدا قادر مطلق، بیٹا قادر مطلق، روح قادر مطلق مگر تین قادر مطلق نہ کہو ایک ہی قادر مطلق ہے.پھر خدا وحدہٗ لا شریک، بیٹا وحدہ لا شریک، روح القدس وحدہ لا شریک مگر تین نہ کہو ایک ہی وحدہٗ لاشریک

Page 157

ہے.پھرخدا ازلی، بیٹا ازلی، رو ح القدس ازلی مگر ازلی تین نہ کہو ایک ازلی ہے.بخاری میں لکھا ہے.ربّانی وہ لوگ ہیں کہ جو آہستگی سے علوم میں ترقی دیتے ہیں.ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایسی تقریر نہ کرو جو اللہ اور رسول کی تکذیب کرے.بات ہمیشہ سنبھال کر کرنی چاہیے.میں نے بہت کہا ہے مگر یہ دنیا حکم کو کم مانتی ہے.تلوار کی دھار پر چلنا اور حکم ماننا مشکل ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے بہت فہم دیا ہے.اب میں آپ کو یہ کہتا ہوں کہ ایک قدرت اور طاقت ہوتی ہے اور ایک فعل اور اُس کا وقوع.میں ایک مثال دیتا ہوں.میں آپ اس وقت صحت سے اگر اپنی اس زبان کو کہوں کہ میٹھے کونمک سمجھ اور نمک کو میٹھا سمجھ تو یہ نہیں مانے گی.ایسا ہی اگر اس زبان کو کہوں کہ کلمہ کفر کہہ ، قدرت اور ہے مگر جب تک مسلمان ہوں نہیں کر سکتا.ایسا ہی جس طرح میں بیوی سے جماع کر سکتا ہوں بیٹی سے بھی کر سکتا ہوں مگر نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں قادر ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے..(النساء : ۱۳۴) یعنی اگر اللہ چاہے تو تم سب کو دنیا سے لے جاوے اور اوروں کو لے آوے اور وہ اس بات پر قادر ہے.قدرت اور وقوعہ میں تفرقہ کرنا مشکل ہے.تو کیسا نادا ن ہے وہ عالم جو اس مضمون کو عوام میں لے بیٹھتا ہے.دیکھو میں خدا کی قدرت کا بیان کرتا ہوں کہ اللہ بڑا قادر ہے اگر چاہے تو سارے جہان کو غرق کر دے اور نئی مخلوق پیدا کر دے.ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ ہاتھ اور پائوں کا ذکر جو خدا کے بارہ میں ہے یہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ آج لیکچر میں یہ سب الفاظ میں خدا کی نسبت بول جائوں گا.میں نے لیکچر میں خدا کی تعریف کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ اُسی کے ہاتھ میں یہ سب جہان ہے.پھر میں نے ایک موقع پر کہہ دیا وہ چاہے تو نبیوں کے دشمنوں کو پائوں کے نیچے کچل دے.پھر اخلاق فاضلہ کے ذرائع میں بیان کیا کہ اگر انسان یہ خیال کر لیوے کہ میں خدا کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا تو اُس کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے.غرض کہ اس طریق سے وہ سمجھ گیا.یہ بات بھی میں نے بچ کر کی ہے.بعض لوگ موٹی سمجھ والے ہوتے ہیں وہ نہیں سمجھ سکتے.ایک قدرت کا بیان ہوتا ہے اُس کو قدرت کے نیچے رکھیں

Page 158

اور جہاں محامد کا بیان ہو اُس کو محامد کی ذیل میں رکھیں.اللہ تعالیٰ کا صادق الوعد ہونا اُس کے محامد سے ہے اُس کو قدرت کے نیچے نہیں لے آنا چاہیے.ہمارے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ خلاف وعید بھی ہوتا اور خلاف وعدہ بھی ہو جاتا ہے.اسی سے تو فرمایا ہے کہ اِیْمَان بَیْنَ الْخَوْفِ وَ الرَّجَائِ چاہیے جس کا مطلب یہ ہے کہ خوف تو یہ کہ مبادا ہم کو دوزخ میں ڈال دے.اور رجایہ کہ خواہ کچھ کریں ہم کو جنت میں ڈالے گا.اس مسئلہ کو مولوی اسماعیل صاحب نے ایضاح الحق کے حاشیہ پر لکھا ہے مگر بڑی عمدگی سے لیا ہے.میں محمد اسماعیل صاحب کو بہت بڑا آدمی سمجھتا ہوں.خدا رازق ہے فرمایا.ایک دفعہ میرے ہاں مہمان آ گئے.میں نے بیوی سے پوچھا مگر جواب ملا کہ ہمارے ہاں تو کچھ نہیں.یہ جموں کا واقعہ ہے.روپے تو ہمیں بہت آتے تھے مگر بعض وقت ہمارے گھر میں کچھ بھی نہ ہوتا تھا.کہیں سے میں نے پانچ روپے اُدھار لئے.میں بازا ر کے راستہ سے گھر کو جانے لگا تو دیکھا کہ ایک دوکاندار اپنی دکان کو ماتھا ٹیکنے لگا ہوا تھا.اُس نے خوش ہو کر پانچ روپے میرے آگے رکھ دئیے.میں نے کہا کہ کیوں دیتے ہو.اس نے کہا.آپ بڑے آدمی ہیں آپ کے سویرے ہی درشن ہو گئے ہیں آج ہمیں بہت کچھ ملے گااس واسطے خالی ہاتھ درشن نہیں کرتا ہوں.حلال حرام میرے والد صاحب کو گھوڑی، بھینس رکھنے کا بہت شوق تھا.ایک آدمی کو کہا کہ ہماری بھینس چرایا کرو مگر خود دودھ نہ لیا کرو ہم تمہیں خوب مزدوری دیں گے.ان کی عادت تھی کہ جس طرح ہمارے مدرسہ میں اتفاقیہ کبھی کبھی آجایا کرتے تھے اسی طرح بھینس کی بھی خبر گیری کے واسطے کبھی کبھی آنکلتے تھے.ایک دفعہ اتفاقاً آئے.دیکھا کہ وہ دودھ دوہ رہا ہے.کہنے لگا کہ مجھے چور نہ سمجھیں میر الڑکا مر گیا تھا.آج جمعرات ہے اور لوگوں کا دودھ شکی تھا آپ کا حلال مال ہے اس واسطے میں نے اس کو دوہ لیا کہ اس پر فاتحہ کہلوائوں.ضلع شاہ پور کے جنگلیوں میں عام طور پر یہ ایک رسم ہے کہ دودھ کے بارہ میں شک اور حلال میں بہت فرق رکھتے ہیں جو گائے یا بھینس کبھی چوری کے

Page 159

ذریعے سے اُن کے پاس آ جاوے اُس کی تمام پشتوں کی اولاد کو شک کا مال کہتے ہیں اور جو اُس کے ماسوا ہو اُس کو حلال.یوں تو دونوں قسم کے مال مویشی کا ہی استفادہ حاصل کرتے رہتے ہیں مگر برتن جدا جدا ہوتے ہیں.شک والا دودھ جدا اور حلال جدا جدا ہی دہتے ہیں جدا ہی بلوتے ہیں گو پیٹ میں دونوں ہی جمع ہو جاویں نیز فاتحہ کہلانے کے واسطے اورپیروں فقیروں کو پلانے کے واسطے بھی حتی الوسع حلال کا دودھ مہیا کیا جاتا ہے.چونکہ اس نواح کے لوگوں کا آبائی پیشہ عموماً مال مویشی کی چوری تھا اس واسطے ان کی اصطلاح کے مطابق حلال کا دودھ مشکل سے ہی دستیاب ہوتا ہے.گھر میں آ کرہنسے کہ یہ بھی حلال کی ایک قسم نکالی ہے.۲؎ بچپن کی یاد داشت بچپن کی باتیں انسان کو کم یا د رہتی ہیں.بالخصوص اس واسطے بھی کہ ان کے یاد رکھنے اور دہرانے اور ذکر کرنے کی ضرورت بڑی عمر میں نہیں پڑتی یا کم پڑتی ہے.حضرت خلیفۃ المسیح فرمایا کرتے ہیں کہ مجھے وہ وقت اور حالت یاد ہے.جب کہ میں نے اپنی ماں کا دودھ چھوڑا اور میرے دودھ چھڑانے کے واسطے کوئی ایسی شئے لگائی گئی جو مجھے مکروہ معلوم ہو.مکتوبات خلیفۃ المسیح ہم نے ارادہ کیا ہے کہ کلام امیر کی ذیل میں حضرت خلیفۃ المسیح کے بعض خطوط بھی درج کئے جائیں جن اصحاب کے پاس اس قسم کے خطوط ہوں جن کا شائع کرنا پبلک کے واسطے مفید ہو وہ اصل یا نقل مجھے بھیج دیں.مجھے حضرت کا ایک پرانا خط میرے نام اتفاقاً اپنے پرانے کاغذات میں سے ملا ہے.سب سے اوّل اسی کو درج کیا جاتا ہے.یہ خط اس وقت کا ہے جبکہ میں جموں اسکول میںٹیچر تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح ہجرت کر کے قادیان آ گئے تھے.اس خط پر ڈاک خانہ قادیان کی مہر ۶؍دسمبر ۱۸۹۳ء کی ہے اور یہ کارڈ ہے.

Page 160

مکتوب نمبر ۱ پیارے بچہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دنیا روزے چند عاقبت کار با خداوند.دوسرے سیپارے میں (البقرۃ : ۱۷۸) سے دوسرا پارہ شروع ہوتا ہے اس کو پڑھو.اس میں متقی کی صفتیں مندرج ہیں اور ادھر الم کا پہلا رکوع دیکھو اس میں (البقرۃ :۳) آیا ہے.پھر بدوں تقویٰ ہدایت ہی نہیں.مولوی صادق صاحب تو بھول جاتے ہیں خط تک نہیں لکھتے.ہاں تمہیں سیالکوٹ بلاتا مگر وہاں رہنے کا ارادہ نہ تھا.گلگت کے لئے اپنی کوشش رکھنا اور ضرور رکھنا.حضرت بھی آجکل فیروزپور میں ہیں جب تشریف لائیں گے.آخری زمانہ کے معنے مفصل آپ کو لکھوں گا.میاں غلام محمد کو سلام علیکم.آپ فیروز الدین کو بے ناغہ بقدر امکان سبق دیا کریں اور حساب کا بھی انتظام کر دیں.اس کی نوکری کا بھی مجھے فکر ہے.فقط ۳؎ احسن اللطائف سب حمد و ثناء اس لطیف وخبیر کے لئے ہے جس نے اپنے لطف و کرم سے اپنے بندوں کی راہنمائی کے واسطے اپنا پاک کلام نازل کیا اور اس مقدس کلام کے طفیل اپنے محبّین کے واسطے روح پاک کے نزول کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رکھا.اللہ کے پیارے جب اپنے محبوب کی محبت میں اپنی ہستی کو محو کر دیتے ہیں تو خود محبوب بن جاتے ہیں او ر ان کے افعال اور اقوال اور اعمال کلام پاک کی ایک چلتی پھرتی زندہ تفسیر ہوتے ہیں.کیسے ہی بدبخت ہیں وہ جنہوں نے اس حکمت کو شناخت نہ کیا اور احادیث و آثار کی سچی راہنمائی کا انکار کر کے حقیقی علم و معرفت کے ایک بڑے ذخیرے سے اپنے آپ کو محروم کر دیا.اللہ تعالیٰ جلّ شانہٗ کے برگزیدہ رسول اور اس رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے برگزیدہ اصحاب کے حالات بجائے خود جس قدر ہدایت و رحمت کا موجب ہمارے لئے ہیں سو ہیں مگر ان کا نمونہ ظلّی رنگ میں ہم خود اس زمانہ میں بھی دیکھ رہے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح اپنے بیان تفسیر میں بہت سے

Page 161

ایسے واقعات اور مکالمات اور مباحثات سنایا کرتے ہیں جو حکایات اور امثلہ کے رنگ میں قرآن شریف کی بعض آیات کی لطیف تاویل و تعبیر ہوتے ہیں.وہ کوئی قصے کہانیاں نہیں ہوتیں بلکہ کسی آیت قرآنی کے ماتحت ایک لطیف بات ہوتی ہے جو دلوں کی پاکیزگی میں امداد دیتی ہے.ا ن لطائف کو نمبر وار احسن اللطائف کی سرخی کے نیچے درج مکالمہ امیر کیا جایا کرے گا.انشاء اللہ اور آج پہلا لطیفہ درج کیا جاتا ہے.لطیفہ نمبر ۱ فرمایا.ریاست بھوپا ل میں ہمارے ایک مربی محسن جمال الدین صاحب تھے.غَفَرَہُ اللّٰہُ وَرَحِمَہُ اللّٰہُ اُن کے ہم پر بڑے احسانات ہیں.اُن کے پاس بیش قیمت اصلی موتیوں کا ایک ہار تھا جو جلسوں پر یا دیگر زینت کے موقعوں پر پہنا کرتے تھے.بوڑھے سفید ریش آدمی تھے ہار کو سامنے ہاتھ میں لے کر ایک وجدانی حالت میں سر مٹکاتے ہوئے بڑے لطف سے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھتے ہوئے پہنتے.(النحل:۱۵) اور اس (سمندر) میں سے زیور نکال کر پہنتے ہو.نوٹ :موتی سمندر میں سے ہی نکلتے ہیں.۴؎ ۵؍ ستمبر ۱۹۱۲ء ادب چاہیے ایک صاحب نے حضرت کو لکھا کہ فلاں شخص کو آپ نے وعظ کیا ہے مگر اب یہ وعظ بھی کرو اور وعظ بھی کرو.فرمایا.اس کو لکھو کہ تم اب ہم کو سبق دیتے ہو؟ (ادب سیکھنا چاہیے.ایڈیٹر) مدد مسکین ایک مسکین طالب علم ضلع ہوشیار پور کا خط آیا کہ میں قادیان میں طب پڑھنا چاہتا ہوں مگر بہت مسکین ہوں.حضرت نے فرمایا.د۲و روپے ماہوار کی امداد ہم دیں گے.نوکر سے پردہ ایک گائوں سے ایک زمیندار کا خط آیا کہ ہمارا ایک کا ماں (خدمتگار) ہے.

Page 162

اٹھارہ سال سے گھر میں رہتا ہے بے تکلف آتا جاتا ہے کیا یہ جائز ہے ؟ فرمایا.اُس کے آنے پر عورتیںاتنا کپڑا منہ پر کر لیں کہ پیشانی اور ٹھوڈی کپڑے سے ڈھکی ہوئی ہو.کان بھی ڈھکے ہوئے ہوں اور ناک میں کوئی زیور نہ ہو.عیسائیت سندھ سے ایک شخص کا خط پڑھا گیا کہ اس ملک میں عیسائی لوگ نا واقف مسلمانوں کو بہت بہکا رہے ہیں ان کا جال بھی سب طرف پھیل رہا ہے.اللہ ہی ہے جو مسلمانوں کو بچائے.حج کی اجازت شاہجہان پور کے میاں امام بخش صاحب نے حضرت سے امسال حج پر جانے کی اجازت چاہی.فرمایا.اگر آپ پر فرض ہے تو ضرور جانا چاہیے.۶؍ستمبر ۱۹۱۲ء اپنا حق لو ایک گائوں کے دوستوں کا خط پیش ہوا کہ یہاں کے لوگ ہمیں اپنے گائوں کی مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دیتے جس میں ہمارا قانوناً حق ہے.فرمایا.اپنا حق امن اور کوشش کے ساتھ گورنمنٹ کے ذریعہ سے حاصل کریں.ایسا ہی ایک صاحب کا خط پیش ہوا کہ میری ایک جائیداد ہے جسے میرے بعض رشتہ دار دبا بیٹھے ہیں.فرمایا.عدالت کے ذریعہ سے اپنا حق حاصل کر لیں.۷؍ستمبر ۱۹۱۲ء اعتکاف الہ آباد سے ایک دوست نے دریافت کیا کہ یہاں احمدیوں کی مسجد تو کوئی نہیں.میں نے ایک مکان اپنی رہائش کے واسطے کرایہ پر لیا ہوا ہے اُسی کے ایک کمرے میں احمدی برادران نماز اور جمعہ پڑھ لیتے ہیں کیا ماہ رمضان میں وہاں میں اعتکاف کرسکتا ہوں؟ فرمایا.ہاں آپ وہیں اعتکاف کر لیں.

Page 163

اپنی مسجد بنائو پھر فرمایا.لوگ اپنی مساجد بنانے کی طرف توجہ نہیں کرتے.لوگوں کو خیال ہوتا ہے کہ مسجد پر بڑا روپیہ خرچ ہوتا ہے.بڑا روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں کوئی چھوٹا سامٹی کا چبوترہ بنا لیں اس پر نماز پڑھ لیا کریں.پھر کبھی توفیق ہو اسی کو چھت لیں.خواہ کچی دیواریں.جہاں مسجد بنالی جائے وہاں دین کا استحکام ہوتا ہے.فصیح الدین احمد مولوی مرزا کبیر الدین صاحب کے خطوط کے جواب میں فرمایا کہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیے.اپنے بچے فصیح الدین احمد کو تعلیم کے واسطے یہاںبھیج دیں.تعبیر حج ایک شخص نے لکھا کہ میں نے خواب میں حج کیا ہے.فرمایا.آپ کو اپنی کوئی مراد حاصل ہو گی.ایک کتاب ایک شخص کا خط آیا کہ میرے پاس کتاب محلّٰی ابن حزم کا ایک ناقص نسخہ ہے اگر آپ خریدنا چاہیں تو مبلغ دو سو روپیہ لوں گا.فرمایا.ایسی کتاب کے واسطے دو سو روپے کچھ شے نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کتاب کا کامل نسخہ میرے پاس موجود ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کتاب کا کامل نسخہ ہندوستان میں صرف ایک اور ہے جو نواب رام پور کے پاس ہے.۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء دعا حافظ محمد اسحق صاحب کی بیوی ( حید رآبادی) کی بیماری کی خبر تار میں آئی.حضرت نے بمعہ حاضرین ہاتھ اٹھا کر دعا کی اللہ تعالیٰ شفا دیوے.دو خوابوں کی تعبیر (۱) ایک شخص کا خط آیا کہ میں نے اپنی ہمشیرہ کو خواب میں دیکھا ہے وہ کہتی ہے میری اُنگلی پر پھنسی ہے.فرمایا.اگر اس کی اولاد ہے تو ان کے ساتھ نیک سلوک کریں ورنہ اس کے واسطے صدقہ دیں.

Page 164

(۲) ایک شخص نے خواب بیان کیا کہ چاند کے دوٹکڑے ہو گئے ایک سیاہ ہے.فرمایا.اہل اسلام پر کوئی مصیبت ہے مگر انجام بخیر ہے.جو غیر احمدی کو لڑکی دے ایک شخص نے دریافت کیا کہ جو احمدی کسی غیر احمدی کو اپنی لڑکی کا ناطہ دے اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا.جو غیر احمدی کو لڑکی دے وہ احمدی ہی نہیں اُس کے پیچھے نماز کیسی.۱۱؍ستمبر ۱۹۱۲ء حافظ محمد اسحق صاحب کی بیوی کی خبر وفات تار میںآئی.حافظ صاحب نے اجاز ت چاہی کہ میّت کو یہاں مقبرہ بہشتی میں لائیں.فرمایا.دفتر مقبرہ سے دریافت کرو کہ وصیت ہے یا نہیں.۱۲؍ستمبر ۱۹۱۲ء مجربات ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا مجربات نور الدین آپ کی کتاب ہے.فرمایا.ہے تو میری پر بہت ہی غلط چھپی ہے.جلد باز طالب علم ایک شخص کا خط آیا کہ میں چند روز میں طبّ پڑھنا چاہتا ہوں.فرمایا.رام پورمیں ایک مولوی عبدالقادر صاحب ڈپٹی تھے سرکار میں ملازم تھے مگر انہیں شوق تھا.کچھ طالب علموں کو سبق بھی دیا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک شخص ا ن کے پاس آیا اور اپنے بیٹے کو ساتھ لایا.اُس نے کہا کہ میرا بیٹا اور کتابیں تو پڑھ چکا ہے صرف چغمینی باقی ہے سو آپ پڑھا دیں.میں اُسے جلد واپس لے جانا چاہتا ہوں.آپ بہت جلد پڑھا دیں.تب اُ نہوں نے اس لڑکے کو اپنے سامنے بُلا کر ایک کاغذ پر لکھا.شرح چغمینی اور اُسے کہا کہ پڑھو.اس نے پڑھ لیا.فرمایا.لو بڑے میاں اپنے بیٹے کو لے جائو ہم نے پڑھا دیا ہے.

Page 165

۱۳؍ستمبر ۱۹۱۲ء نوجوان واعظ چند نوجوان دوستوں کا خط آیا کہ ہم اپنے فرصت کے دن وعظ کے واسطے باہر جاتے ہیں ہمارے وعظ کا مضمون کیا ہونا چاہیے؟ فرمایا.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا وعظ کرو یہ اصل ہے اس پر لوگوں کا ایمان قائم ہونا ضروری ہے اور لوگوں کو سمجھائیں عملی نمونہ اسلام کا اختیار کریں قوم کے سچے خیر خواہ ہوں.نفاق کو چھوڑ دیں نمازوں کے پابند ہوں نیک نمونہ بنیں آپس میں لڑائیاں نہ کریں اور وفات مسیح کا مسئلہ لوگوں کو سمجھائیں اور مولویوں سے جو شرارت کرنا چاہتے ہیں چوکس رہیں.۱۳؍ستمبر ۱۹۱۲ء خائن منافق ایک شخص کے متعلق خبر آئی کہ اُس نے اپنے آقا کے روپیہ میں سے جو اس کے امانت تھا قرضہ دے دیا ہے اور اب واپس ملتا نہیں.مشکلات میں اور قابل امداد ہے.فرمایا.اُس نے امانت میں خیانت کی اور خدا کی نافرمانی کی.منافق ہے ایسا آدمی میرا کیا لگتا ہے کہ میں اس کی کوئی امداد کروں.مجھ سے وہ کسی قسم کی اُمید نہ رکھے.۵؎ حضرت مسیح موعود ؑ کی نسبت تا حال وقوع پذیر نہ ہونے والی پیشگوئیاں ایک شخص کا سوال اور حضرت کا جواب سوال.حضرت مسیح موعود مغفور مرحوم کی نسبت جو پیشگوئیاں ہیں وہ تو بہت ہیں لیکن ابھی اُن کا ظہور نہیں ہوا اس کی نسبت کچھ فرماویں.فرمایا.اللہ تعالیٰ کے سب کام تدریجاً ہوتے ہیں.عناصر سے غلہ کس طرح آہستہ آہستہ بنتا ہے.نمک کروڑہا سال سے بنا پڑا ہے لیکن آج ہمارے کھانے میں آتا ہے.یہ نمک کتنا عرصہ ہوا کہ

Page 166

بنا تھا.پھر نہیں معلوم کان میں سے کب کاٹا گیا.پھر وہاں سے کروڑہا من چلا اس میں ہمارا حصہ تھا.پھر کچھ بٹالہ میں آیا اس میں ہمارا حصہ تھا.وہ بھی ہزاروں من تھا.پھر وہاں سے قادیان آیا اس میں بھی ہمارا حصہ تھا.پھر اس میں سے ہمارے گھر میں آیا جس میں ہم سب گھر والوں کا حصہ تھا.اس میں سے ہی میرا بھی تھا.پھر میرے کھانے کے لئے آیا اس میں سے جو میرا بھی حصہ تھا میں نے کھایا لیکن اس میں سے بھی میرا جزو بدن بہت تھوڑا بنتا ہے.کچھ پیشاب کچھ پاخانے میں اور کچھ پسینے میں نکل گیا.سب کچھ تدریجاً ہوا.پھر اس میں سے میرے نطفے کے حصے بھی کچھ آیا جس سے کسی اور جسم کا وہ جزو بدن بن گیا.کان میں کون کہہ سکتا تھا کہ اس کا انجام کیا ہو گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (الروم:۱۲).خو ن ایک وقت جزو بنتا ہے پھر فوراً ہی واپس چلا جاتا ہے.پس خدائی کارخانوں میں خدا ہی اصل بات کو جانتا ہے یا جو کچھ انبیاء کو سکھایا ہے وہ جانتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک وقت دعا کی(البقرۃ :۱۳۰).جب دعا مانگی گئی اس وقت حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام چند سال کے ہوں گے.کون جانتا تھا کہ یہ کیا ہوں گے.پھر جب سوتیلی والدہ نے نکلوا دیا اور وادی غیرذی زرع میں چلے گئے تو اس وقت ماں کو بھی یقین ہو گیا ہو گا کہ اب یہ مر جائے گا مگر اللہ کا وعدہ تھا کہ میں اس کی اولاد اتنی کروں گا کہ ریت کے ذروں کی طرح گنی نہ جا سکے گی.میرے خیال میں ابراہیم علیہ السلام بھی اس وقت نہ جانتے ہوں گے کہ یہ کس طرح واقعہ ہو گا مگر ان کا ایمان ضرو ر تھا کہ ایسا ہو گا.پھر دیکھو ہوا اور کس طرح سے ہوا.اللہ کا وعدہ سچا نکلا اور کس طرح سے پیغمبر خدا ﷺ آپ کی نسل سے عظیم الشان بادشاہ خاتم النبیین بنا کر بھیجے گئے.یہ مذہبی مثال ہے.پھر موجودہ انسانوں کے شجرہ کو ذرا اوپر کی طرف لے جائو تو ایک ایک انسان سے ہزارہا نکلے ہوئے نظر آئیں گے.کیا اس وقت اس انسان کو خیال بھی ہوتا ہے کہ وہ اتنے ہو جائیں گے مثلاً

Page 167

سیدوں کی نسل لے لو.افریقہ ، عرب ، شام وغیرہ میں گائوں کے گائوں ان کی کروڑوںکی کروڑوں اولاد ہوئی ہے لیکن جب حضرت خاتون جنت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے حضرت رسول کریم ﷺ نے کہا کہ یا الٰہی اس میں برکت دے.تو اس وقت تو یہ لفظ اتنے ہی تھے کہ یا خدا اس میں برکت دے.کون اس کی سمائی کو سمجھ سکتا تھا.یہ مثال بھی ذرا مذہبی رنگ اپنے اندر رکھتی ہے.پھر بڑ کا دانہ ہے.ہندو امراء کے مرنے پر یادگار میں لگایا جاتا ہے.میں نے دیکھا ہے پہلے بالکل چھوٹی لو نکلتی ہے.اس کو پانی کے نزدیک عمدہ جگہ پر لگاتے ہیں.پھر میں نے دیکھا ہے کہ ایسے درخت ان سے بن گئے ہیں جن کے سائے میں دو ہزار گھوڑے آ جائیں لیکن بیج اس کا خشخاش کے دانے جتنا ہوتا ہے اس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیا ہو گا.پھر نسل آدم میں غور کریں.شروع میں کون جانتا تھا کہ تعداد میں اس قدر ہو جائیں گے.بابربادشاہ کیا تھا جس وقت ہندوستان میں آیا ہے.پھر اس کا کتنا عروج تھا.اتنا عروج ہوا کہ کوئی انتہا نہ رہی لیکن پشتوں کے بعد ہوا.اس وقت انگریز بھی آئے اور کپڑے اور لوہے اور کانچ کی چیزیں لائے اور اُس کے عوض کچھ روپیہ مل گیا.کیا اس وقت بادشاہ کے وہم و گمان میں بھی تھا.کہ یہ کبھی بادشاہ ہو جائیں گے اور اس کی گدی سنبھالیں گے.اور نہ ہی انگریزوں کو ہی ایسا خیال تھا.صرف غریب سمجھ کر کچھ دے دیا.ایک مدت کے بعد عالمگیر کو ان کا کچھ خطرہ محسوس ہوا تو اُس نے صرف یہی کہا کہ بر آیند بر آیند.اگر ان کو خیال ہوتا کہ یہ بادشاہ بننے والے ہیں تو کوئی بڑی تدبیر کرتا.آج وہی سلطنت ہے جو کہتی ہے کہ ہماری سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا.پھر اس پیشگوئی کو دیکھیں جو تورات میں ہے کہ انگریز اور روسی زور پکڑیں گے.اس وقت کوئی یہ بات خیال میں بھی لا سکتا تھا.ایک میرے دوست ولایت گئے.ا نہوں نے کہا کہ تمہارے لئے کیا تحفہ لائوں؟ میں نے کہا کہ پرانے سے پرانے میوزیم میں جانا اور وہاں سے جو پرانی سے پرانی چیز جو ہو اس کی فوٹو میرے لئے لانا.وہ گئے تو اتفاق سے پرانی سے پرانی چیز یاجوج ماجوج کی تصویر تھی.وہ فوٹو وہاں کی میوزیم کی کتاب میں تھی.انہوں نے کتاب دے دی جو میرے پاس موجود ہے.ان کی شکل دیکھ

Page 168

کر کسی کو خیال بھی نہیں آسکتا ہے جو پیشگوئی میں اظہار کیا گیا ہے.علیٰ ہٰذ القیاس پیغمبر خدا ﷺ نے جب دعویٰ کیا تو مخالفین نے صرف یہی تکلیف سمجھی کہ ان کے بتوں کے خلاف کہتا ہے ان کو خیال بھی نہ تھا کہ یہ کیا ہو جاوے گا.مجلس ندوہ نے فیصلہ کیا کہ یہاں سے نکال دو.اگرچہ بعض نے کہا کہ قتل کر دو.اُن کو دنیوی وجاہت پسند تھی.اگر ابوجہل کو ذرا وہم بھی ہوتا کہ یہ بڑا آدمی ہو جائے گا تو وہ اور اس کے سب ساتھی ضرور مسلمان ہو جاتے.ان کے وہم میں بھی یہ نہ تھا لیکن آج کیا ہو گیا.اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مشکل کے وقت پیغمبر خدا ﷺ کے پاس گئے.آپ چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے جس پر کوئی کپڑا نہ تھا اور سرہانے کا تکیہ کھجور کی لیف کا بھرا ہوا تھا…… اور پھر سارے گھر میں کیکر کی پھلی کے دو ٹوکرے تھے اور دو چمڑے بکری کے ایک کونے میں لٹکے ہوئے تھے.سوائے ان کے کوئی چیز گھر میں نہ تھی.تب انہوں نے بھی یہی سوال کیا جو آپ نے کیا ہے کہ آپ تو بڑے رسول ہیں اور بڑے بڑے وعدے لے کر آئے ہیں وہ کہاں ہیں.آپ کی حالت تو یہ ہے اور پھر قیصرو کسریٰ کی حالت کو دیکھیں کتنے بڑے بادشاہ ہیں.پیغمبر خدا ﷺ بیٹھ گئے اور کہا میں دیکھ رہا ہوں کہ قیصر وکسریٰ کی کنجیاں تُو لوٹ رہا ہے.پھر دیکھو کہ یہ بات کس طرح سچی ہوئی.سراقہ بن مالک بن جُعْشُم ایک صحابی تھا جس کے ہاتھ پر چاند گرہن تھاا وربکری کی طرح موٹے سیاہ بال تھے.اس نے آ کر عرض کی کہ ہم سب غریب ہو گئے ہیں.پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا کہ تو ہی سراقہ بن مالک بن جُعْشُم ہے جس کے ہاتھ پر میں نے قیصر و کسریٰ کے خزانے کے کڑے دیکھے ہیں.میں تو یہ بات پاس کھڑا دیکھ رہا ہوں اور کہا کہ تم جائو وہ غریب چلا گیا اور خدا جانتا ہے کہ وہ اس وقت بھوکا ہی سویا ہو گا.رسول اللہ کا زمانہ گزر گیا.حضرت ابوبکر رضی اللہ کا زمانہ گزر گیا.حضر ت عمر کے وقت میں کڑے ُلوٹ(مال غنیمت) میں آئے.بہت جگمگاتے تھے.حضرت عمر نے فرمایا کہ سراقہ بن مالک بن جُعْشُم کو بلائو اور کڑے پہنائو.اُس نے کہا کہ سونے کے کڑے مردوں کو حرام ہیں.حضرت عمر نے فرمایا ’’ کَافِیْ بِکَ ‘‘ کا معاملہ بھول گیا ہے.پس کڑے پہنا دئیے لیکن جس وقت یہ کہا گیا تھا اس وقت کون جانتا تھا کہ ایسا ہو گا.

Page 169

پھر چاول کی پنیری لگائی جاتی ہے ا ور پھر اُکھیڑی جاتی ہے.نادان بچہ سمجھتا ہے کہ تباہ ہو گئی لیکن آخر پھر اس سے ہی کتنا غلہ ہوتا ہے.پس ظاہراً یہ سب دل خوش کن امور ہوتے ہیں لیکن جب کوئی قوم ہونہار ہوتی ہے تو اُس کی ترقی یک دم نہیں ہوتی اور بڑے بڑے آدمی اس میں پہلے ہی نہیں مل جاتے.(الانعام :۱۲۴).انہوں نے تو مجرم بننا ہوتا ہے اس لئے بڑے بڑے آدمی ان میں کبھی نہیں آ سکتے.میں جب قادیان میں آیا.شروع میں یہاں مرزا صاحب مرحوم و مغفور ہی تھے.ان کی بیوی خود کھانا پکاتی تھی اور ایک خادمہ تھی بس، لیکن جب تعلیم دیکھی تو میں نے کہا کہ ایسی ہے کہ عقل مندوں کو کھا جائے گی اور مجبوراً یہ صداقت دنیا کو پہنچ جائے گی لیکن امیر نہ مانیں گے چنانچہ میرے دیکھتے دیکھتے یہ سب آ گئے.اب بھی عقل مند سن کر مقابلہ نہیں کر سکتا.غرض اصل بات جو دیکھنے کے قابل ہوتی ہے وہ تعلیم ہے اگر سچی ہے تو ضرور کامیاب ہو جائے گی اور جو جو اس کے نشان ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے مگر سب تدریجاً ہی واقع ہوں گے.یہ سوال کہ حضرت نے کیا کام کیا ہے.کام تو بہت کئے ہیں اور ان کے سنانے کے لئے وقت نہیں صرف ایک سناتا ہوں.ایک عیسائی نے مجھ سے کہا کہ پندرہ دن امرتسر میں عیسائیوں سے مباحثہ ہوا اس کا کیا نتیجہ نکلا.میں نے کہا کہ چار نتائج ہوئے.اوّل.یہ کہ عیسائیوں جیسا کپتا دنیا میں کوئی نہیں.دوم.مرزا صاحب بڑے حوصلے والے ہیں.سوئم.آپ یعنی عیسائی ایک منٹ کے لئے بھی کسی مذہب کا مقابلہ نہیں کر سکتے.چہارم.یہ کہ ہم بادشاہ ہیں.یہ سب نتائج تو پہلے دن ہی میں نے نکال لئے باقی پندرہ دنوں میں تو بہت سے نتائج ظہور پذیر ہوئے.اس نے کہا کہ کس طرح سے؟ میں نے جواب دیا کہ (۱) حضرت مرزا صاحب نے ایک عمدہ اصل قائم کیا تھا کہ عقل مندجو دعویٰ کرے اس کی

Page 170

دلیل بھی دے اور جو اعتراض کرے یا جواب دے تو اس کی دلیل اپنی مسلّمہ کتاب الہامی میں سے دے اپنی طرف سے کچھ نہ کہے.پھر باوجود وعدہ کے آپ اس اصل کی طرف آئے ہی نہیں اس لئے کپتے ہو.(۲) مرز اصاحب وسیع حوصلہ اس لئے ہیں کہ باوجود اس کے بھی پندرہ روز تک تم سے مباحثہ کرتے رہے میرے جیسا ہوتا تو پہلے دن ہی ختم کر لیتا.(۳) آپ اپنے مذہب کی صداقت کی دلیل کسی مذہب کے سامنے نہیں دے سکتے اس لئے کسی مذہب کا مقابلہ نہیں کر سکتے.(۴) ہم اس لئے بادشاہ ہیںکہ ہمارے دعویٰ اور جواب کی دلیل ہماری کتاب میں موجود ہے.اب یہ ایک بیج بویا گیا ہے اور ایسا اصل ہے کہ سوائے قرآن دانوں کے کوئی مذہب والا نہیں چل سکتا.نہ آریہ ، نہ برہمو، نہ یہود، نہ عیسائی.یہ ایسا حربہ ہے کہ اس کا مقابلہ کوئی قوم نہیں کر سکتی.یہ ایسا اصول ہے کہ جب عقلمند لو گ اس کی طرف چلیں گے تو کچھ اس کے خلاف نہیں کرسکیں گے بس اس اصل سے کام لے کر دیکھو.ہر درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.میں چھوٹا ساتھا کہ غیر مقلدوں کا گروہ کا نکلا میں یقین کرتا تھا کہ یہ کامیاب ہوں گے.آج ہر ایک لڑکا جو کالج سے نکلتا ہے تقلید کی ضرورت سے آزاد ہوتا ہے.اسی طرح حضرت نے جو بیج بویا ہے وہ بڑا بھاری درخت ہونے والا ہے.لیکن یہ کہ کوئی ہم میں سے اس کو دیکھ سکے یہ اور بات ہے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشینگوئیوں کی بہت سی صداقتیں ہم اب دیکھ رہے ہیں لیکن وہ خود اس وقت نہ دیکھ سکے.اسی طرح جو سچائی ہے وہ ضرور ظاہر ہو کر رہے گی کب ہوگی.یہ تدریجاً ہی ہوتی ہے.اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خدا ماننا جھوٹ ہے اس لئے آخر یہ جھوٹ گر جائے گااور اب بہت حد تک گرچکا ہے.اگرچہ کسی وجہ سے وہ اس کے لئے اب روپیہ خرچ کرتے ہیں لیکن آخر تھک جائیں گے.پس ہر سلسلہ میں دیکھنا یہ ضروری ہے کہ آیا اس میں کوئی سچائی ہے یا کہ نہیں.سچائی اگر

Page 171

ہے تو وہ ضرور کامیاب ہوگی.ہمارے ملک ہاتھ سے نکل گئے سلطنتیں نہ رہیں.لیکن سچائی قرآن ہے اس کے ذریعے ہم اب بھی ان پر حملہ کر سکتے ہیں.ہم نے بہت لوگوں کے پیش کیا کہ سچائی ثابت کرو اور دکھاؤ کہ قرآن میں نہیں ہے.مثلاً قرآن میں لکھا ہے کہ مسیح انسان ہے خدا نہیں ہے یہ ایک سچائی ہے لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ وہ خدا ہے جس کے لئے وہ دلیل نہیں دے سکتے کہتے ہیں کہ مان لو دلیل نہیں آتی.ہمارے اصول یہ ہیں.(۱) قرآن سچی کتاب ہے.(۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرما گئے صحیح ہے.مشاہدہ اور عقل کے خلاف قرآن میں کچھ نہیں.(۳) نماز، روزہ ،حج اور زکوٰۃ تعامل کے ذریعے ہم کو پہنچے ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے ہماری کتابیں کہتی ہیں.(۴) عیسیٰ علیہ السلام مرگئے حیات کا عقیدہ اب دن بدن گھاٹے میں رہے گا(سر سید صاحب کا ایسا کہنا بھی مرزا صاحب کی سچائی کی دلیل ہے)کیونکہ یہ ظاہر کرنا ہے کہ اس مسئلے کی سچائی کے لکھنے کے لئے کوئی رسول آنا ضروری ہے سید صاحب نے ایک رنگ میں کہا.مرزا صاحب نے مذہب سے ثابت کیا.(۵) دعا کا ماننا.آجکل بہت اعتراض دعا پر ہوتا ہے ہم کہتے ہیں کہ دعا کا اثر ضرور ہوتا ہے.(۶) مرزا صاحب نے اپنے آپ کو مسیح کہا یہ ایسی سچی بات ہے کہ اس سے آئندہ انکار کرنا مشکل ہوجائے گا.دیکھنا صرف یہ ہی ہے کہ کوئی صداقت کسی قوم کے پاس ہے یا کہ نہیں.اگر صداقت ہے تو اس کا پھر کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا مثلاً اب کوئی تعلیم یافتہ کہہ سکتا ہے کہ مسیح زندہ موجود ہے کبھی نہیں کہہ سکتا.پس نتیجہ اس سلسلے کا مسلمہ امر ہے کہ صداقت کا نتیجہ ہمیشہ اچھا ہوتاہے اس کا بھی اچھا ہوگا.

Page 172

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھو کہ بادشاہ بننے کے لئے نکلے تو سب کے سب ہی مرگئے.صرف دوآدمی باقی رہ گئے.یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی مر گئے اور آخری ان کی التجا بھی تھی کہ فلسطین کو تو دکھا دیا ہوتا.لیکن آخر کامیاب ہوگئے.پس یہ ضروری نہیں کہ نتیجہ سب لوگ دیکھ لیں.ابھی تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں پیشگوئیاں موجود ہیں جو ہم نے دیکھنی ہیں تو پھر ہم ان سے کس طرح انکار کر سکتے ہیں.آپ کی صداقت کو ہم اور طرح سے دیکھ سکتے ہیں.۶؎ صداقت کے دیکھنے کے طریق مختلف ہیں.مثلاً ڈاکٹر کی صداقت کی شہادت بیمار بن کر ہی نہیں لی جاتی بلکہ کسی دوسرے کے کہنے سے کہ فلاں ڈاکٹر ہے ڈاکٹر پہچانا جاتا ہے.صادق کے لئے ہزاروں پیشگوئیاں ہوتی ہیں اور اس کی اپنی پیشگوئیاں ہزاروں ہوتی ہیں.اگر وہ ساری ایک زمانے میں پوری ہو جائیں تو پھر پچھلوں کے لئے اس کی صداقت کا کیا نشان باقی رہ جاوے.وہ تو پھر قصہ کہانیاں ہو گئیں.مرزا صاحب کے ساتھ ہمارا تعلق صداقت کی وجہ سے ہے.ورنہ خدا کو ہم نے جان دینی ہے کوئی مرزا صاحب ہی نے ہم کو بہشت میں لے جانا تھا.بغیر صداقت کے مان لینے کے میں تو سب سے پہلے انکار کرنے والا ہوتا.ایک دوائی ہے کونین اس کی صداقت باوجود مخالفت کے کس طرح دنیا میں ثابت ہوئی.یہی حالت مرزا صاحب کے متعلق ہے.اگر اصول میں مرزا جی کے سچائی ہے تو پھر وہ ضرور کامیاب ہوں گے.باقی رسولوں کے متبعین میں غور کرو مرزا جی کے سب سے زیادہ متبع تھے.مسیح کے ۱۲ حواری اور بعض نے ان میں سے لعنت دی.دوسرے نے تیس۳۰ روپے لے کر بیچ دیا.پھر خدا کا رسول تھا اس کی صداقت ظاہر ہو گئی دیکھ لو کس طرح کامیاب ہوا.قرآن خود انتخاب ہے ۲۸؍ستمبر ۱۹۱۲ء فرمایا.قرآن کریم کیسی کتاب ہے ایک دفعہ میرا جی چاہا کہ حاشیہ پر اس کی منتخب یادداشتیں لکھوں.میرے دماغ کو شعر سے تو کچھ نسبت نہیں.ایک روز جمعہ کے دن بڑے زور مار مار کر تین شعر لکھے تھے حالانکہ اس وقت میرے اندر ایک کیفیت بھی موجود تھی مگر جب قرآن کریم کے انتخاب کے لئے قلم اُٹھایا تو مجھ کو یہ شعر یاد آ گیا.؎

Page 173

زِ فرق تا بقدم ہر کجا کہ مے نگرم کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجاست میں نے قلم کو توڑ دیا.سیاہی کو اُلٹ دیا اور کہا کہ اے قلم تو بھی جھوٹا ہے اور اے دوات تو بھی جھوٹی ہے.کیا قرآن کریم کا انتخاب لکھنا چاہتے ہو یہ خود سارے کا سارا انتخاب ہے.بیعت فرمایا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ سے بیعت کی تو حضرت صاحب نے میرا ہاتھ کلائی پر سے زور سے پکڑا اور بڑی لمبی بیعت لی.مولانا عبدالکریم صاحب مرحوم مغفور سے اس طرح بیعت لی جس طرح کہ میں ہتھیلی سے ہتھیلی ملا دیتا ہوںا ور نہایت مختصر تھی.میں اس وقت بڑا متعجب ہوا مگر آج اس کی اصلیت کو دیکھتا ہوں.کافر کی دوستی سے بچو فرمایا.بہت سے لوگ بد معاملہ ہوتے ہیں.مومنوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی کرتے ہیں.اس لئے فرمایا کہ وہ منافق ہیں ا ن کو عذاب کی خبر دے اور کہہ دے کہ اعزاز و اکرام سب خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہے.کیا تم کافروں کو متمول اور معزز خیال کرکے اس لئے اُن سے دوستی کرتے ہو کہ تم معزز سمجھے جائو.کتابوں کی حفاظت کے تین طریق ایک شخص کا خط پیش ہوا کہ کتابوں کو ترڈیوں سے کس طرح بچایا جائے؟ فرمایا.موذی کیڑوں سے کتابوں کی حفاظت کے تین طریقے ہیں.(۱) الماری یا صندوقوں کے اندر مٹی کا تیل لگایا جائے.(۲) فنائل کی گولیاں رکھی جائیں.(۳) لٹو کری کے پتے رکھے جائیں..................................

Page 174

سب کے لئے دعا ۱۲؍ستمبر ۱۹۱۲ء بعد نماز ظہر درس قرآن شریف کا دور جو رمضان شریف میں شروع ہوا تھا رمضان ہی میں ختم ہوا.اس دور میں ۲۹ دن میں قرآن شریف کا ترجمہ اور تفسیر اور وعظ کس درد مند دل سے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ نے کیا.معارف و حقائق کا کیسا دریا بہا یا اور دل سے نکلی ہوئی باتیں کس طرح دلوں میں بیٹھیں اس کی کیفیت کو دیکھنے والے ہی جان سکتے ہیں.بعد ختم قرآن بہت دیر تک دعا مانگتے رہے.بعض نے دعا کے واسطے رقعے دئیے تھے.فرمایا.جن لوگوں نے رقعے نہیں دئیے تھے میں نے ان کے لئے بھی دعا کی ہے.قرآن شریف کو ختم کر کے پھر شروع کیا اور سورہ الحمد کو پڑھا.حضرت ام المومنین نے لڈو بھیجے تھے وہ تقسیم کئے گئے اور چھوہارے تقسیم کئے گئے.شوق مطالعہ ۱۳؍ ستمبر ۱۹۱۲ء عید اور جمعہ حضرت نے مسجد اقصیٰ میں پڑھا.ایک کتاب چھوٹی سی عربی کی تاریخ بعد یورپ کی چھپی ہوئی بمبئی سے آئی.کا وی پی ادا کیا گیا.فرمایا.اس کتاب کی ا سی جلدیں ہیں فی الحال ایک منگوائی ہے.اگر لطف آ گیا تو ساری منگوائی جائے گی................................شرک فی النبوت گجرات پنجاب کے ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح کو کہا کہ آپ جو حضرت مرزا صاحب کو نبی کہتے ہیں تو اس میں آپ شرک فی النبوت کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک دوسرا نبی بناتے ہیں.یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے.حضرت خلیفۃ المسیح نے جواب دیا کہ وہ شرک ہے جس کے واسطے موسیٰ جیسے نبی نے دعا کی کہ میرے بھائی کو میرے ساتھ شریک کیا جاوے اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول کیا اور موسیٰ کے ساتھ ہارون کو بھی نبی بنایا.( پارہ ۱۶.رکوع ۱۱)

Page 175

ایڈیٹر.بنی اسرائیل میں نبی تو بہت گزرے ہیں مگر حضرت موسیٰ کا مانگ کر خدا سے لیا ہوا نبی ایک ہارون ہی تھا.ایسا ہی امت مرحومہ محمدیہ میں علماء کا درجہ پہلے انبیاء کے برابر ہے تو پھر اولیاء کا درجہ کتنا بڑا ہے.سینکڑوں مسیح اس امت میں ہو سکتے ہیں، ہوئے اور ہوں گے.کئی’’ من عیسیٰئِثانی شدم‘‘ ۱؎ کہنے کے درجے تک پہنچے لیکن وہ مسیح جس کا ذکر خصوصیت سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا وہ ایک ہی ہے جس کا نام احمد ہے.مبارک ہیں وے جنہوں نے اُسے قبول کیا...........................قَابَ قَوْسَیْنِ کے معنے فرمایا.قَابَ قَوْسَیْنکے معنے ہیں فَتَدَلّٰی کہ کمان کی طرح اگر ایک طرف ڈھیلی ہو تو دوسری بھی فوراً ڈھیلی ہو جائے.ایک شخص کو فرمایا کہ یہ تم کو سمجھایا گیا ہے کہ کچھ تم ڈھیلے ہو اور کچھ تمہاری بیوی.استغفار بہت کرو ایک شخص کو اس کی بے خوابی بے چینی اور پریشانی طبیعت کی شکایت کے جواب میں لکھوایا کہ استغفار بہت کرو.حوادث الٰہیہ کے آنے کی حکمت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نے عرض کیا کہ حضور جاپان اور دوسرے کئی ملکوں میں اس مرتبہ بڑے طوفان آئے ہیں.فرمایا کہ جب لوگ بڑھنے لگتے ہیں تو خدا تعالیٰ کئی طرح سے کہیں ریلوں کے ٹکرانے سے کہیں طوفانوں سے کہیں جہازوں کو غرق کرکے لوگوں کی تعداد اندازے کے موافق رکھتا ہے.پھر ماسٹر عبدالرحیم صاحب نے دوبارہ جاپان کے طوفان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ لوگوں نے نہیںسمجھا حضرت نے تو لکھا ہے.وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے ۱؎ نوٹ.یہ پورا شعر جو حضرت معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ کا ہے اس طرح سے ہے.دم بدم روح القدس اندر معینے مے دمد من نمے دانم مگر من عیسیٰء ثانی شدم

Page 176

اور فرمایا کہ جاپان کا غرور یونہی ٹوٹ جائے گا کیونکہ وہ بھی تو روس کو شکست دینے پر کچھ کم مغرور نہیں ہے.بدھ کی تعلیم پھر بدھ کے ذکر پرفرمایا کہ بدھ کی تعلیم تو یہ ہے کہ دنیا کوبالکل چھوڑ اور اس سے علیحدہ ہو جائو مگر ساتھ ہی اس کے اہل بدھ اوّل درجہ کے دنیا دار بھی بنے ہوئے ہیں.بیعت کے لئے فرمانبرداری ضروری ہے عبدالستار نو مسلم نے نہایت منت سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضور میں بیعت کر کے اپنے دل کے اس شک کو رفع کرنا چاہتا ہوں کہ میں حضور کی پوری توجہ اور دعائوں سے حصہ حاصل کرنے کا جاذب نہیں ہوا کیونکہ اب تک میں نے خاص حضور کے دست مبارک میں ہاتھ دے کر بیعت نہیں کی.اس لئے حضور مجھے پھر بیعت کر لیں جس روز سے حضور مجھ پر ناراض ہوئے ہیں میں نماز کا بڑا پابند ہو گیا ہوں.جو اب میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت تک تم سے بیعت نہیں لوں گا جب تک کہ یہ معلوم نہ کر لوں کہ تم بالکل فرمانبردار ہو گئے ہو.گناہ انسان کو مار ڈالتا ہے فرمایا.گناہ انسان کو خود ہی مار ڈالتا ہے.میں نے ایک شخص کوکہا کہ تم زنا مت کر و.مجھے کہنے لگا کہ کیا آپ مجھے بے ایمان بناتے ہیں.میں نے کہا کہ میں تم کو تو بدکاری سے منع کرتا ہوں اور تم کہتے ہو کہ میں تم کو بے ایمان بناتا ہوں.تو کہنے لگا دیکھو صاحب صاف لکھا ہے کہ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب.میں نے اس عورت سے عہد کیا ہوا ہے اور اس نے مجھ سے بڑا پختہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ ایک د وسرے کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے.اب اس حالت میں کہ میں اس کو چھوڑ دوں اور وہ اپنے عہد پر قائم رہے تو میں بے ایمان ہوا کہ نہیں.فرمایا کہ ایسے بدمعاش ہیں کہ بدکاری کا نام ایمان رکھا ہوا ہے.آپ کے متعلق ایک خواب ماسٹر عبدالرحیم صاحب نے ایک خواب عرض کی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ گویا حضور دھوبیوں کے مکان کے قریب تشریف رکھتے ہیں اور حضور نے ایک گول دائرہ

Page 177

بنایا ہوا ہے.جس میں ۳۴ نام لکھے ہیں.حضور نے فرمایا کہ یہ سب ہماری بیبیاں ہیں.اس دائرہ میں کنوز کا لفظ لکھا ہوا ہے.حضرت نے جواب میں کچھ تعبیر نہ فرمائی.مسیحی لوگوں کو اللہ کا واعظ فرمایا.مسیحی لوگوں یعنی عیسائیوں کو جب اللہ تعالیٰ نے بہت بڑاوعظ سنایا تو احمقوں نے سمجھا کہ ہم آگے تو مسیح کو خدا سمجھتے تھے اب جو اس کو بندہ کہیں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ناراض نہ ہو جائے.ایک انگریز یہاں آیا اور جب اس نے بہت وعظ سنا تو وہ مسلمان ہو گیا اور امریکہ چلا گیا.وہاں ایک بہائی مذہب کا آدمی اُسے ملا.اُس نے کہا کہ تم ناحق مسلمان ہوئے لوگوں کو بھی ناراض کیا اور مسیح کو بھی.ہمارا مذہب اختیار کرو کہ اس میں ہر شخص اپنے مذہب پر رہ سکتا ہے.تم عیسائی بنے رہو مگر صرف اتنا خیال رکھو کہ بہاء اللہ ایک طاقت ہے جو ہمارے مشن میں کام کرتی ہے.اُس نے یہاں ایک خط لکھا کہ میں بہاء اللہ کا مسلمان بنتا ہوں کیونکہ تمہاری طرح کا مسلمان بننے سے تو بڑے مشکلات پیش آتے ہیں اور لوگوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے مگر اس میں کسی کا بھی مقابلہ کرنا نہیں پڑتا اور جبکہ یہ بھی اسلام کا ہی ایک فرقہ ہے تو پھر اس میں حرج ہی کیا ہے.اس قوم کے لوگ ہندوئوں میں بھی ہیں.ایک مرتبہ ایک ہندو سے میرا مباحثہ ہوا.اُس نے کہا کہ تم بھی کسی بت کو مانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں.کہا کہ مکہ کے بت کو؟ میں نے کہا نہیں.وہاں کوئی بت نہیں.کہا کہ دُرگاہ جی کو بھی نہیں؟ میں نے کہا نہیں.کہا کہ ہاں بات یہ ہے کہ تم بتوں کی حکومت سے باہر نکل گئے.میں نے کہا کہ کیا تم نہیں نکل سکتے.تو وہ مجھے اپنے سر کی بودی ( سر کا چوٹا) دکھا کر کہنے لگا کہ مہاراج ہم تو اس چوٹی سے جکڑے بیٹھے ہیں.میں نے کہا کہ یہ تو ایک اُسترے کی مار ہے.بیٹے سے تین زبانیں سیکھنے کی خواہش عبدالحی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ہماری خواہش ہے کہ تم تین زبانیں سیکھو.عربی اور انگریزی.تیسری زبان کا نام پھر بتائیں گے.مولوی صدر الدین صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ انگریزی میں اخلاق کی کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں ؟

Page 178

مولوی صدر الدین صاحب نے عرض کیا کہ مارل ریڈریں انٹرنس وغیرہ میں تو پڑھائی بھی جاتی ہیں لیکن چھوٹی جماعتوں میں معمولی کہانیوں وغیرہ کے انتخاب کی ہوتی ہیں.ہاں ویسے اصول اخلاق پر انگریزی میں بڑی بڑ ی کتابیں ہیں مگر چونکہ وہ سب عیسائی لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں ان میں عیسائی خیالات ضرور ہوتے ہیں.خاں صاحب اکبر شاہ خاں صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ ہی بتائو.آپ کی اُردوزبان میں کوئی اعلیٰ اخلاقی کتاب ہے.والدین کی اطاعت فرمایا کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ماں باپ مشرک بھی ہوں تب بھی ان کی رعایت و اطاعت ملحوظ رکھو اور(بنی اسرائیل : ۲۵) ثبوت دیا ہے.نازک مزاج فرمایا.میرزا مظہر جانِ جاناں نے تو لکھا ہے کہ ہمارا مزاج میرزا یانہ ( نازک ہے) لیکن ہم بھی بڑانازک مزاج رکھتے ہیں.۷؎ نصیحت مانو ایک بادشاہ کسی بزرگ کے پاس گیا.اس نے کہا کہ تم رعایا کے سبب سے بادشاہ بنے ہوئے ہو اگر رعایا نہ ہو تو تم بادشاہ نہیں ہو سکتے.اس لئے اپنی رعایا کے ساتھ بڑی رعایت کیا کرو.بادشاہ نے کہا بہت اچھا.پھر اس بزرگ نے کہا کہ فضولی مت کیا کرو.بادشاہ نے کہا بہت اچھا.پھر بزرگ نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم شکار بہت کھیلتے ہو.اس کو بھی چھوڑ دو کیونکہ اس سے بادشاہت کے کاموں میں حرج واقع ہوتا ہے جس سے رعایا کو تکلیف ہوتی ہے.بادشاہ نے کہا کہ حضور دعا فرماویں.اُس نے کہا کہ فوراً یہاں سے چلے جائو.جن کاموں کے نہ کرنے کو تمہاری طبیعت چاہتی تھی اُن کے نہ کرنے کا تم اقرار کرتے رہے لیکن جب تم کو شکار کے چھوڑنے کے لئے کہا تو تم نے کہا کہ میرے لئے دعا کرو.معلوم ہوا کہ تم شکار کی عادت کو تو چھوڑنا نہیں چاہتے اور میری دعا کی آزمائش کرنا چاہتے ہو.یہ حکایت سنا کر حضرت امیر المومنین نے ایک سے خطاب کر کے فرمایا اور کہا کہ تم قرض لینے

Page 179

سے تو باز نہیں آتے اور جب تمہیں قرض نہ لینے کے لئے کہا جاتا ہے تو تم کہتے ہو کہ حضور دعا فرماویں.یہ تو وہی بات ہوئی.پھر فرمایا کہ قرض ہرگز مت لو جن کے لئے تم قرض لیتے ہو اُنہیں کے سامنے تمہاری کوئی بھی عزت نہیں ہوتی.فضولی فرمایا.مسلمانوں کی حالت پر کمال افسوس ہے اور تعجب بھی ہے کہ غریب ہیں پر متکبر ہیں ، فضول ہیں، سُست، بدظن ہیں، نفاق بھی ان میں سب سے بڑھ کر ہے اور اس وقت تو ان کے مقتدایان دین کے پاس سوائے کفر کے فتوئوں کے اور کچھ بھی نہیں.ایک شخص کے شادی تھی اُس نے نٹ بلائے.دوسرے نے نٹوں سے پوچھا کہ تم کو کیا دیا ہے.جب انہوں نے بتلایا تو کہا کہ کچھ بھی نہیں دیا ہمارے یہاں آئو ہم تمہیں دیں گے.جب وہ بھی دے چکے تب ایک تیسرے نے کہا کہ اُس نے بھی کچھ نہیں دیا آئو ہم تمہیں دیں گے اور اُس نے ان کو اسی۸۰ روپیہ دئیے.فرمایا.دیکھو کس قدر فضولی ہے.اللہ پر بھروسہ کرو ایک شخص کوفرمایا کہ جہاں انسان کو اللہ تعالیٰ رکھے وہاں ہی رہنا چاہیے کیونکہ لکھا ہے کہ اَ لْاِقَامَۃُ فِیْ مَااَقَامَ اللّٰہُ اور مخالف کو تو انسان ( ناس ) کا بال بھی نہ سمجھے.خدا کو اگر اپنے مومن بندہ کے لئے سارا جہان بھی تباہ کر نا پڑے تو وہ کر دیتا ہے اور کچھ پرواہ نہیں کرتا کیونکہ وہ تو ہزاروں کو پیدا کر سکتا ہے اور ہزاروں کو تباہ کر سکتا ہے.دیکھو اس کے ایک مومن بندہ نے صرف اتنا ہی کہا کہ (نوح :۲۷) تو سب کو تہ آب کر کے تباہ کر دیا.تعلق چاہیے ایک شخص کے فوت ہونے کا ذکر ہوا.حضور نے افسوس کا اظہار فرمایا.پھر فرمایا کہ وہ کچھ کمزور آدمی تھا.حکیم محمد عمر صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری نے عرض کی کہ حضور اس نے اپنے آپ کو چھپایا کبھی کسی سے نہیں وہ علانیہ سب کے سامنے کہہ دیتا تھا کہ ہم میرزا صاحب کے مریدوں میں ہیں.آپ نے فرمایا کہ اچھا وہ ایسا شخص تھا.پھر حکیم محمد عمر صاحب نے عرض کی کہ حضور

Page 180

اُس کی والدہ نہایت ہی مخلص ہے.حضو رنے فوراً مرحوم کے لئے دعا فرمانی شروع کر دی اور فرمایا کہ اس کو ہم سے تعلق تو تھا.اگر اس سے لغزشیں ہوئیں خدا تعالیٰ ہر شخص کی خطا ئوں کو معاف کرنے والا ہے.پھر فرمایا کہ وہ شخص ہمارے پاس شرم کی وجہ سے نہیں آ سکا.کون لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک شخص کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا.پیارے مخدوم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں نے بَحَمْدِاللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ بچپن سے قرآن کریم کو پڑھا ہے اور بتدریج اُس کی فہم میں ترقی کی ہے اور کرتا ہوں.مجھے جو کچھ ملا ہے اور ملتا ہے وہ سب قرآن مجید سے ملا ہے اور میں ایک آیت پیش کرتا ہوں اُس پر آپ اور اَور علماء قرآن دان غور فرماویں.   (العنکبوت :۵۲).اس میں کا لفظ قابل غور و فکر ہے.آہ! کون فکر کرے.کون ذکر سے فائدہ اُٹھاوے.مجھے ایک لمبا خط عزیز نے لکھا.رمضان شریف کے باعث کسل ہوا.پھر وہ گم ہو گیا.ہر چند جستجو کی پتہ نہ لگا.اس میں پہلے صفحہ کا مضمون یاد ہے.’’کیمیا، سیمیا، ریمیا، ہیمیا وجفر آپ کو جو آتے ہیں کیا دوسرے کو سکھا سکتے ہیں.دوسرا مولوی … یا سائیں … اور مخدوم … کو کیا فائدہ آپ سے ہوا.‘‘ جواب.اوّل میں بھیرہ میں پیدا ہواوہاں جوان ہوا وہاں کفر کے فتوے لگے وہاں میں معزز ہوا مگر مجھے ان واہیات سے ذرا تعلق نہ ہوا.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ میں نے اپنے لئے نہ کسی سے وہاں مانگا اور نہ میرے دل نے خواہش کی.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ. کی تعلیم کا نتیجہ سچا دیکھتا رہا.سوال در سوال میں یہ بھی تھا کہ تمہاری مریدی اور دوسروں کی مریدی میں فرق کیا ہے تو اس کا صاف جواب قرآن مجید میں ہے.دیکھو پارہ نمبر۹ سورہ اعراف نمبر۷ رکوع ۹/۱۹

Page 181

(الاعراف :۱۵۸).مفلح کے معنے ہیں مظفر و منصور با مراد کامیاب.اب غور کرو جب سے مسلمانوں نے قرآن کی تعلیم سے منہ موڑا اور لگے کیمیا، سیمیا وغیرہ بنانے.مجربات دیربی، شمس المعارف، حزب البحر، حزب البر، دعا سیفی، دعا کبیر وغیرہ سے کامیاب ہونے.ان کا کیا بنا.ذلیل ہوتے گئے اور ابھی ختم نہیں ہوئے.تمام گدیاں تعلیم قرآن سے محروم ہیں اور ہم بِحَمْدِ اللّٰہِ وَ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ تمام مذاہب باطلہ کے سامنے قرآن پیش کر سکتے ہیں.اگر لوگ اس طرف توجہ کرتے تو بادشاہ بھی بن جاتے.اب اس میں جواب تو آ گئے.لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ ھُوَ شَہِیْدٌ.مولوی یا سائیں بار ہا مسیح کے دربار میں آئے اور بے اجاز ت چل دئیے.بھلا کیا نفع اٹھاتے.اب آئے فتوحات مکیہ خرید کر لے گئے اس میں سونے کی چڑیا ہو گی بلکہ مسیحؑ فرمایا کرتے اس کو پڑھنے والا نماز کو سست ہو جاتا ہے.ہمارے پاس وہ فضل ہے جو صحابہ کو ملا.میں خود غریب، غریب کا بچہ بادشاہ بن گیا اور جو کوئی اس راہ پر چلا مظفر ومنصور ہوا.مجھ سے یہ بھی سوال ہے تیرے جیسا کون بنا.اگر سائل یہاں ہوں تو میں ان کو دکھا دوں کتنے بنے.اگر در خانہ کس است قرآنے بس است ……………… ہمارے مکرم دوست بابو فرزند علی صاحب چند روز کے واسطے یہاں تشریف لائے ہوئے تھے انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح کی مجلس سے چند نکات لکھ کر دئیے ہیں جو شکریہ کے ساتھ درج کلام امیر کئے جاتے ہیں.( ایڈیٹر )

Page 182

صحابہ کی ہمیت اور توجہ فرمایا.اب تو مسلمان بہت سُست اور پست حوصلہ ہو گئے ہیں.زمانہ سابق میں ان میں بڑے بڑے اولو العزم لوگ گزرے ہیں غالباً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت میں یہ سوچا گیا کہ اگر قیروان کے جنگل کے موقع پر اسلامی کیمپ لگ جائے اور وہاں فوج کی رہائش ہو تو وہاں سے شمالی جنوبی افریقہ اور صحرائے اعظم سب پر قبضہ رہ سکتا ہے.اس جنگل میں دلدل تھی اور جنگل سانپوں اور درندوں سے پُر تھا اس لئے بعض صحابیوں کو اس جنگل کا انسانی آبادی کے قابل بنانا بہت مشکل معلوم ہوا.ایک صحابی گھوڑے پر سوار ہو کر اس جنگل میں گھس گئے.گھوڑا دوڑاتے جاتے اور بلند آواز سے کہتے جاتے کہ اس جنگل میں محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابی آباد ہونا چاہتے ہیں سانپو! درندو ! تم سب یہاں سے نکل جائو.آج کل تو کوئی ایسا کرے تو اسے مجنون کہا جائے.مگر اس وقت کے متعلق مؤرخ لکھتا ہے کہ اس آواز پر سب موذی جانور جنگل سے نکل گئے درخت کاٹے گئے اور چھائونی قائم کر دی گئی.پرستاران حسین توجہ کریں فرمایا.شیعہ لوگ سال بسال کسی ایسے صدمہ کی یادگار میں روتے اور ماتم کرتے ہیں جو کبھی حضرت امام حسین علیہ السلام پر گزرا اور بہت ہی سخت گزرا ہے مگر یہ نہیں سوچتے کہ جب حضرت امام خود اس مقدر تکلیف سے نہ بچ سکے تو اپنے پرستاروں کی کیا مدد کر سکتے ہیں اور مخلوق کو کیا نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ دور حاضر کا بڑا بت فرمایا.اس وقت بڑا بت روپیہ ہے.کسی زمانہ میں جموں کی عدالتیں رات کو لگتی تھیں اور چراغوں کی ضرورت ہوتی تھی.اس کے متعلق تقسیم تیل پر ایک شخص ملازم ہوتا تھا.اس کو تنخواہ تو صرف چارروپیہ ماہوار ملتی تھی مگر بالائی ناجائز آمدنی کی کوئی حد نہ تھی.ایک پنڈت ہمارے پاس آیا.کہنے لگا کہ اگر حضور کی سفارش سے مجھے یہ آسامی مل جائے تو چار سو روپیہ فلاں حاکم کو جس کے ہاتھ اس تقرر کا اختیار تھا دے سکتا ہوں.مجھے بڑا تعجب ہوا.کہنے لگا اس میں گنجائش بہت ہے.اوّل.وزن کا فرق.دوم.بھائو کا فرق.سوم.یہ کہہ دیا کہ اتنا تیل گر کر ضائع ہو گیا.مجھے بیٹی کی

Page 183

شادی کرنی ہے اس آسامی پر ہو کر کچھ روپیہ جمع کرلوں گا.فرماتے ہیں ہم نے اس کی سفارش کرنے سے انکار کر دیا.عورتوں کے حقوق فرمایا.اسلام میں عورتوں کے حقوق کی بڑی حفاظت کی گئی ہے مگر عملی طور پر سوائے مکہ مدینہ کے یہ حفاظت کسی اور جگہ نہیں پائی جاتی.وہاں زر مہر تو دم نقد نکاح کے وقت لے لیا جاتا ہے.آئندہ سوال رہ جاتا ہے نان و نفقہ کا یا خاوند میں قوت باہ کی کمی کا.اس کے فیصلہ کی نہایت آسان صورت ہے.عورت قاضی کے سامنے جا کر کہتی ہے.اَخَافُ مِنْ بَعْلِیْ نُشُوْزًا قاضی فوراً خاوند کوطلب کر کے پوچھتا ہے کیا تم میں مصالحت ہو سکتی ہے؟ اگر ممکن ہوا تو مصالحت کروا دی گئی.ورنہ خاوند کو حکم ہوتا ہے.طلاق دو.اگر ذرا تامل کرے تو قاضی خود طلاق دے دیتا ہے.البتہ یہ ایک طلاق ہوتی ہے اور رجوع کی گنجائش رہتی ہے.جہاں ہندی مسلمان آباد ہیں وہاں زن و مرد کا کپت لگا رہتا ہے.نکاح سے قبل لڑکی کو دیکھنا چاہیے فرمایا.ہندوئوں میں رسم ہوا کرتی تھی کہ عورت مرد جو باہم بیاہ کرنا چاہیں ایک دوسرے کو دیکھ لیں.اس کو سومبر کہتے تھے.مسلمانوں میں بھی یہ حکم تھا مگر اب عملدرآمد نہیں رہا.ایک صحابی نکاح کرنے لگا.حضرت نبی کریم ؐ نے پوچھا.کیا تم نے عورت کو دیکھ بھی لیا ہے؟ عرض کیا نہیں یا رسول اللہ ؐ.فرمایا.جائو دیکھ آئو.جب وہ دیکھنے گیا تو عورت کے بھائی باپ سخت ناراض ہوئے.عورت کو جب معلوم ہوا تو اس نے اوّل تحقیق کی کہ آیا سچ مچ رسول اللہ ﷺ نے ایسا حکم دیا ہے یا یہ کہ شخص اپنی طرف سے بات بناتا ہے.جب پتہ لگ گیا کہ ٹھیک رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے تو پردہ اُٹھا کر باہر آ گئی اور اس شخص کے سامنے آکھڑی ہوئی.کہا میں وہ عورت ہوں جس کے ساتھ تو نکاح کرنا چاہتا ہے.یہ شادی نہایت محبت کی ہوئی.فرمایا.یہ بڑی بے انصافی ہے کہ لڑکے کو دیکھ لیا جاتا ہے مگر لڑکی کو نہیں دکھایا جاتا.

Page 184

ضرورت نکاح ثانی فرمایا.بعض اوقات ضرورت پڑتی ہے نکاح ثانی کی مثلاً بی بی کو تپ دق کا مرض ہے یا سل کا یا مجنون یا مجذوم ہو جائے یا طبیعت رغبت نہ کرے اور متنفر ہو یا عورت بانجھ ہو تو ساری عمر ضائع ہو جاتی ہے.بعض عورتیں ایک لڑکی پیدا کر کے بانجھ ہو جاتی ہیں.اُس وقت مومن کیا کرے؟ البتہ جب ایک سے زیادہ بیبیاں ہوں تو انصاف کرنا چاہیے مگر ہوتا نہیں چاہے منشاء بھی ہو.آج کل تو نئی بیوی ماں بن جاتی ہے جوتے مارتی ہے اور ہر طرح سے خاوند کو ذلیل کرتی ہے.اوّل بیوی کو معلقہ چھوڑ دینا بڑا غضب ہے.بیاہ سکھ کے لئے ہوتا ہے جب دکھ ہو جائے تو علیحدہ ہوجائو.۸؎ مسیح کی تعلیم میں غلو فرمایا.مباحثہ آتھم کے وقت جب میں امرتسر میں ٹھہرا ہوا تھا تو ایک دن حافظ عبدالرحمن سیاح مجھے کہنے لگا کہ میرے باپ سے آپ ملیں اور گفتگو کریں.وہ پرانی طرز کے مولوی ہیں.مولوی عمر الدین اُن کا نام تھا.میں نے کہا کہ خاتِم کون نبی ہے جو سب سے پیچھے آنے والا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ تو مسیح ہے.میں نے کہا کہ مسیح کو حي اور قیوم اور عالم الغیب مانتے ہو.کہنے لگے ہاں.پھر پوچھا کہ محي اور ممیت اور لایموت بھی مسیح ہے اور باری بھی ہے.قدوس اور سبوح بھی ہے.کہنے لگے کہ ہاں ماننا ہی پڑے گا.میں نے حافظ صاحب کو کہا کہ حافظ صاحب اب پھر ان کو بپتسمہ ہی دلائو.اب اور کیا کسر باقی ہے.ختم نبوت فرمایا.ایک میں نے خاتم النبیین کا سوال بہت مولویوں سے کیا ہے مگر جوں جوں یہ ہاتھ پائوں مارتے ہیں تو ں توں نیچے ہی جاتے ہیں.جس کی زندگی میں ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور زندگی میں ہی فوت ہو گئے تو پھر خاتم کون رہا.دراصل ان کی مثال ایسی ہے جیسے چینے کے بھڑولے میں کوئی پھنس جاوے.جوں جوں نکلنے کے واسطے ہلے گا نیچے ہی نیچے جاوے گا.یہ لوگ بیچارے اسی طرح پھنستے جاتے ہیں.فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(البقرۃ :۲۵۴).اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں کے درمیان کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے.

Page 185

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضرت موسیٰ کا ذکر بہت کیا ہے جس کی و جہ (المزمل :۱۶) معلوم ہوتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں کے آپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن میں بھی آتا ہے. (اٰل عمران : ۶۹).اس قسم کے تعلقات ایک امت میں بھی فیما بین لوگوں کے ہوتے ہیں.ایک دفعہ جب کچھ قیدی آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں ان کوچھوڑ دیا جاوے.حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ بیٹا باپ کو اور باپ بیٹے کو قتل کرے.ا س پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ ابراہیم ہے اور عمرؓ نوحؑ ہے.ایسا ہی جو حدیث میں آیا ہے کہ ہر ایک نبی اپنے مبشر نبی کی عمر سے نصف عمر کا ہوا ہے.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم کسی خاص جماعت انبیاء کے بارہ میں ہے جن کا پتہ ہم نہیں لگا سکتے کیونکہ(المؤمن :۷۹) کا معاملہ بھی ساتھ ہے.فرمایا.حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے واسطے دعا کی(ھود :۴۶).اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا. (ھود :۴۷).مگر حضرت ابراہیمؑ کی بابت فرمایا. (ھود :۷۵).جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.(ھود :۷۶).وہاں تو یہ نہ فرمایا کہ  جیسا کہ نوح علیہ السلام کو فرمایا تھا.ہر نکتہ مقامے دارد.یہ حکموں کا اختلاف موقع کے مناسبت کے سبب سے فرمایا.انبیاء کے بکریاں چرانے کی حکمت فرمایا.میرے ایک استاد عبدالقیوم تھے فرمانے لگے کہ پہاڑ میں بکریاں چرانا بہت مشکل ہوتا ہے.شیر چیتے وغیرہ سب درندوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور

Page 186

ایک معمولی لاٹھی سے یہ کام نہیں چل سکتا بلکہ زبردست ہتھیار رکھنا پڑتا ہے اور پھر وہی ہتھیار بکریوں پر چلانا پڑتا ہے.گویا درشتی اور نرمی دونوں کو سیکھ جاتا ہے.یہ مثال مجھے اس وقت سے بہت پیاری ہے.رسول اللہ ﷺ کے بکریاں چرانے میں بھی یہی حکمت تھی.مہدی کا مال لٹانا فرمایا.حدیث میں آتا ہے کہ مہدی آئے گا اور مال لُٹائے گا مگر لوگ قبول نہ کریں گے.حضرت صاحب نے پانچ ہزار تک کا اشتہار تو آتھم کے بارہ میں ہی دیا اور براہین پر دس ہزار کا دیا مگر اب تک کسی نے وصول نہ کیا.کسی نے کہا کہ لوگ ایسے اشتہاروں پر ہنسی اُڑاتے ہیں.میں نے کہا کہ وہ ہنسی نہیں بلکہ اس حدیث کی تصدیق کررہے ہیں.ایک پٹھان کے سؤر چرانے کا واقعہ فرمایا.ایک سفر میں تھے.میرا ایک دوست کہنے لگا کہ مجھے پیاس لگی ہے.میں ایک گائوں میں گیا.دیکھا کہ تمام لوگوں نے گھروں میں سؤر رکھے ہوئے تھے.میں نے پوچھا کہ کوئی تمہارے گائوں میں مسلمان بھی ہے.اُنہوں نے کہا کہ ہاں دوسرے گائوں میں ایک مسلمان ہے.وہاں گیا اور دیکھا کہ ایک شخص سؤر چرارہا تھا.میں نے اُس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اُس نے کہا کہ ہم پٹھان مسلمان ہے.میں نے کہا کہ تم سؤر چرا رہے ہو؟ اُس نے کہا کہ ہم دارالحرب میں آیا ہوا ہے.یہاں ہم نے بیاہ کیا ہے.ہماری بی بی کے جہیز میں سؤر ملے ہیں اس واسطے ہم چرا رہا ہے.جب وطن میں جائے گا وہاں پکا مسلمان ہو جائے گا.اب یہاں دارالحرب میں ہے.ہمارے مولوی لوگ کہتے ہیں کہ دارالحرب میں سب کچھ جائز ہے.شیعہ کے مطاعن کا ردّ بوقت درس قرآن شریف فرمایا.دیکھو میں ایک کہانی سناتا ہوں.میرے ایک دوست شیعہ ہیں وہ میرے پیچھے نماز بھی پڑھ لیتے ہیں.مجھ سے سخت محبت بھی ہے.ایک دفعہ میرے پاس جموں میں آئے اب بھی کبھی آ جاتے ہیں.وہ میرے پاس ایک آٹھ جلد کی کتاب لائے ایک پانچ جلد کی ایک تین جلد کی، اور کہا آپ کو کتابوں کا شوق ہے میں آپ کی

Page 187

خاطر لایا ہوں.میں نے کہا مول کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ مول یہی ہے کہ ان کو پڑھ جائو.میں ۷۵صفحے وہیں بیٹھے بیٹھے پڑھ گیا.اس میں یہ تھا.ابوبکر میں یہ برائیاں تھیں، عمر میں یہ، عائشہ میں یہ برائیاں تھیں.اس کا نام تَشْئِیْدُالْمَطَاعِنْ تھا.میں نے کہا کہ انشاء اللہ میںاس کو ختم کر لوں گا مگر میں اس پر ایک سطر تمہارے سامنے لکھنی چاہتا ہوں.انہوں نے اجازت دے دی.میں نے یہ آیت لکھ دی.(اٰل عمران: ۱۹۶).اس نے کہا کہ اس کا ترجمہ کرو.میں نے خوب مزیدار ترجمہ کیا کہ’’ جولوگ اپنے گھر سے نکالے گئے اور انہوں نے ہجرت کی اس واسطے وہ مہاجر بنے اور ان سے لوگوں نے لڑائیاں کیں جیسے بدر میں اور اُحد میں.اُن کے سب گنا ہ ہم معاف کرتے ہیں اور ہم ان کو بہشت میں پہنچاویں گے.‘‘ یہ سن کر انہوں نے کہا کہ ہماری کتاب کی تو جڑ ہی آپ نے اُکھاڑ دی.ہم نے کہا کہ خدا نے ہی اُکھاڑ دی ہے.اُس نے کہا کہ مجھے تو یہ کتاب ایک شخص نے اس خیال سے دی تھی کہ اس کتاب سے نور الدین ضرور شیعہ ہو جائے گا.غرض کہ پھر اُنہوں نے کتاب کی قیمت بھی نہ لی.اس آیت کو خوب یاد رکھو میری سمجھ میں یہ آیت صحابہ کے دشمنوں کا خوب مقابلہ کرتی ہے.قَاتَلُوْا کے معنے لڑائی ہی درست ہیں.مرنے مارنے کا ذکر نہیں ہے آگے آتا ہے.  (اٰل عمران: ۱۹۶) یعنی ابوبکر ، عمر ، عثمان وغیرہ کو اور بھی بہت کچھ دیں گے.خلافت دیں گے حکومت اور بادشاہی دیں گے.گناہ کے اسباب فرمایا.جو گناہ کرتا ہے وہ جاہل ہوتا ہے وہ بدی کے انجام کو نہیں جانتا.میں نے بچھو، سانپ، شیر، گھوڑے، ا ونٹ کو دیکھا ہے کہ جو چیز اُن کے واسطے مضر ہوتی ہے اُس کے وہ نزدیک نہیں جاتے.گھوڑا خطرے کے مقام سے اپنا آپ بچاتا ہے ا ور سانپ بھی.اگر انسان پکی طرح یہ سمجھ لے کہ میری اس بدی کا انجام کیا ہو گا؟ بدیاں شہوت کے غلبہ سے، صحبت بد سے اور کوتاہ اندیشی سے ہوتی ہیں.میں نے ایک ڈاکو سے پوچھا کہ کیا تم کو رحم نہیں آتا.اُس نے کہا کہ اکیلے تو

Page 188

ہوتا ہے مگر جب دوسرے مل جاتے ہیں تو پھر رحم نہیں آیا.بُری صحبت کے بہت بُرے نتائج ہوتے ہیں.قواعد کی پابندی بوقت درس بخاری فرمایا.ہر کام کے ابتداء میں کچھ سنتیں ہوتی ہیں.ماہ رمضان سے پہلے شعبان میں نصف سے پہلے کچھ مسنون روزے رکھے گئے ہیں تاکہ فرض اور غیر فرض اور اصل اور غیر اصل میں فرق کیا جاوے کیونکہ اس طرح قانون مٹ جاتا ہے.جنہوں نے قانون بنائے ہیں کبھی اُن کی کتابیں پڑھو تو معلوم ہو کہ اُن کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور کچھ فروع.مقنون کو بہت بہت غور کرنے پڑتے ہیں.یہاں ایک فلاسفر ہے ( الہ دین سابق بافندہ المعروف فلا سفر ) اس کو ایک رؤیا ہوا.یہ آزاد آدمی ہے.رمضان کے مہینہ میں صبح صادق سے چند منٹ اوپر گزر چکے تھے اور اذان ہو چکی تھی.اُس نے بیان کیا کہ مجھے خیال آیا کہ پانی پی لینے سے کیا حرج ہے.چنانچہ پی لیا اور پھر نماز پڑھ کر سو گیا.خواب میں دیکھا کہ میں نے تانی لگائی ہے اور ایک سرے کا رسہ کیلے سے باندھ کر جب دوسری طرف کا رسہ کیلے سے باندھنے لگا ہوں تو رسہ چھوٹا ہے.کیلے اور رسے میں چار اُنگل کا فرق رہ گیا.زور لگا کر اُس کو کھینچتا ہوں اور دہائی دہائی کرتا ہوں کہ تانی بگڑ گئی.کام خراب ہو گیا کیونکہ اگر تانی سُو کھ جاوے تو اُس کی تاریں نہیں بکھر سکتیں اور اُسی وقت آنکھ کھل گئی اور اللہ کی طرف سے تفہیم ہوئی کہ قواعد اور ضوابط کی پابندی ضروری ہے جس طرح چند انگشت رسی کم ہونے سے تانی کا کام بگڑتا تھا اسی طرح خدائی قانون اور شریعت کے کام میں بھی چند منٹ کم و بیش ہو جانے سے نقصان ہے.اسی طرح کی ایک رئویا اَور اسی فلاسفر کو ہوئی تھی.ایک دفعہ اُس نے فرض نماز بیٹھ کر پڑھ لی.لوگوں نے ملامت کی کہ اس میں کیا حرج ہے عبادت ہی ہے.عشاء کی نماز کے بعد سو گیا.دیکھا کہ ایک خطرناک دریاکے کنارے بیٹھا ہوں کہ ایک طرف دریا میں ڈھالگ گئی ہے.جوں جوں وہ پشتہ گرتا جاتا ہے ذرا ذرا پیچھے ہٹتا جاتا ہوں.آگے ایک دیوار آ گئی ہے.ڈھااس کے قریب آ گئی میں نے دہائی دی تو ایک آدمی جو اُس دیوار پر ٹہل رہا تھا.اُس نے آواز دی کہ اگر تم کھڑے ہوئے ہوتے تو میں تمہیں پکڑ کر نکال لیتا.میں بیدار ہو گیا اور مجھے سمجھ آ گئی کہ اگر میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا

Page 189

تو میں پور افائدہ اٹھاتا اور مجھے اپنی حرکت پر بہت شرم آئی.پھر فرمایا کہ واقعہ ہے اور میں اس کو صحیح سمجھتا ہوں اور میں اس کو بڑی قدر سے دیکھتا ہوں.( حضرت خلیفۃ المسیح کی زبان فیض ترجمان سے فلاسفر صاحب کے یہ ہر دو رؤ یا سن کر خاکسار(مفتی محمد صادق صاحبؓ) زیادہ مفصل سننے کے واسطے فلاسفر صاحب کے پاس گیا اور ان کی زبانی پوری کیفیت سننے کی خواہش ظاہر کی.چنانچہ انہوں نے تمام ماجرا کھول کر سنایا جس کو میں تحریر کر چکا ہوں ).فرمایا کہ ایک دفعہ میں نے روٹی کھائی اور سست ہو گیا اور ہاتھ دھوئے کے بغیر سو گیا.خواب میں دیکھتا ہوں کہ میرا ایک بھائی ہے اُس کے ہاتھ میں خوبصورت قرآن ہے دور سے مجھے دکھاتے ہیں مگر دیتے نہیں.میں نے آگے ہو کر ہاتھ بڑھایا مگر انہوں نے قرآن شریف کو ہٹا لیا.جاگا اور ساتھ ہی تفہیم ہو گئی اور اس حدیث کی تصدیق ہو گئی جس میں ہے کہ ہاتھ پر غمر ہو تو نہ سوئے یعنی ان دھوئے ہاتھوں سے نہ سوئے.آنحضرت ﷺ نے اصلاح کی فرمایا.میں حضرت نبی کریم ﷺکے معاملات پر بہت بہت غور کیا کرتا ہوں.میں نے دیکھا ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کیسا کیسا فہم دیا ہے.کبھی کبھی جو میں قرآن پڑھنے لگتا ہوں تو میری طبیعت حیران ہو جاتی ہے کہ کسی قسم کی بھلائی کا کوئی پہلو چھوڑا نہیں گیا.نبی کریم ﷺ نے سمجھا کہ جھوٹ اور جھوٹے قصے بنانے اور نفاق شرک کی جڑ ہے.دیکھو بتوں کے واسطے کس قدر جھوٹے قصے بنانے پڑتے ہیں.پھر ایک دوسرے بت کی وجہ سے نفاق بھی ہو جاتا ہے.پھر جب ان پر بھروسہ ہو گیا تو شرک پیدا ہو گیا.پہلا وعظ آپ نے شرک کا فرمایا.جب اس کے ضمن میں دیکھا کہ خانہ جنگیاں بہت ہوتی ہیں.پھر اس کا انسداد کیا.(اٰل عمران : ۱۰۴).پھر ان کے رسوم و عادات پر غور کیا تو دیکھا کہ زنا اور شراب نے بہت نقصان پہنچایا.یہودی مذہب میں شراب منع نہ عیسائی مذہب میں.شراب نے یہ غضب ڈھایا ہے کہ لندن میں اتوار کو ماسوائے شراب

Page 190

کے سب دکانیں بند رہتی ہیں.مسیح کا ایک معجزہ شراب کا ہے.دنیا میں کوئی گناہ ایسا نہیں جس کو شرابی متوالا ہو کر نہ کرے مگر یورپ جیسے عقل مند ملک میں اس کی کوئی فکر نہیں بلکہ دن بدن بڑھ رہی ہے.ہندوستان میں ۵ کروڑ کی شراب ہر ہفتہ اُترتی ہے.پھر اُس کے ساتھ ہم زنا کو دیکھتے ہیں.کیسا ان دونوں کا تعلق اور رشتہ ہے.پھر میں دیکھتا ہوں کہ ہر ہر دعا جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھلائی ہے وہ تمام خوبیوں کی جامع ہوتی ہے.پھر اولاد کے عزیز و اقارب کے، بیوی کے، والدین کے، کھانے کمانے کے، عبادات کے ایسے فرائض لگا دئیے ہیں کہ انسان کو شراب پینے کی فرصت کہاں ملتی ہے.پھر آپؐ کے کاروبار اور تقسیم اوقات وہ ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.مقدمات کے فیصلے آپ کرتے ہیں، نماز آپ پڑھاتے ہیں، خطبے آپ پڑھتے ہیں، نکاح آپ پڑھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، وحی کی حفاظت کا انتظام آپ کے ذمہ ہے، شرع کی حدیں لگاتے ہیں.غرض کہ ان بے شمار کاموں کے باوجود آپ ایسے فارغ ہو تے تھے کہ بیویوں میں بیٹھ کر کہانیاں بھی سناتے تھے.۹؎ آنحضرت ؐ کی اصلاح شعر کوئی شاعر آتا ہے تو اُس سے شعر سنتے ہیں پھر ساتھ کے ساتھ اصلاح کرتے ہیںاور نہایت عمدہ اصلاح کرتے ہیں کعب نے قصیدہ پڑھا.؎ مُھَنَّدٌ مِّنْ سُیُوْفِ الْھِنْدِ مَسْلُوْلٌ آپ نے اس کی اصلاح یہ کی کہ مُھَنَّدٌ مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ مَسْلُوْلٌ آنحضرتﷺکی تہجد گزاری تہجد بھی روز ادا کرتے ہیں اور اس میں بہت بہت لمبی قرأت پڑھتے ہیں.ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرتؐ کے ساتھ تہجد پڑھنی شروع کر دی.آپ نے پہلے سورۂ بقر پڑھی پھر آل عمران شروع کر دی.پھر میں نے خیال کیا کہ اب رکوع جاتے ہیں مگر پھر سورۂ مائدہ شروع کردی.پھر میرے پائوں جواب دینے لگ گئے.پھر آپ نے سورئہ نساء شروع کر کے ختم کی.بارے خلاصی ہوئی اور آپ نے رکوع کیا.

Page 191

آنحضرت ﷺ کی دعائیں میرے ایک دوست نے بڑی کوشش سے آنحضرت ﷺ کی صبح اور شام کی دعائیں پڑھنے کا وظیفہ شروع کیا ہے.محمد صدیق اُس کا نام ہے.کہتا ہے کہ صبح سے پڑھنے لگتا ہوں تو دس بج جاتے ہیں.................................صبح کی نماز میں غفلت فرمایا.میرے ایک دوست دولت مند تھے.بیچارے دنیاد ار تھے وہ صبح کی نماز کی پہلی رکعت میں رہ ہی جاتے تھے.ایک نابینا تھے وہ انہیں اس غفلت پر ملامت کیا کرتے.انہوںنے جھٹ حافظ صاحب کی شادی کرا دی.پہلے ہی دن جب سورج نکلنے کے قریب ہوا اور ابھی تک حافظ صاحب حمام میں ہی تھے.اُنہوں نے باہر کھڑے ہو کر جا کھنگورا ا ور کہا کہ حافظ جی ابھی تو پہلا ہی دن ہے.اُس کے بعد حافظ صاحب نے اعتراض کرنا چھوڑ دیا.خدا کھلاتا ہے فرمایا.میں طالب علمی کے وقت میں چھ چھ سات سات وقت کھانا نہیں کھایا کرتا تھا.فرمایا.حافظ روشن علی نے میری تقریر ہوتے ہوئے آسمانی کھانا کھا لیا تھا.بیداری میں کباب اور پراٹھے کھاتا رہا.( خاکسار راقم الحروف نے حضرت اقدس سے حافظ صاحب کے متعلق یہ تقریر سن کر بعد میں حافظ صاحب سے مفصل حال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ایک دن میں نے ابھی کھانا نہیں کھایا تھا.سبق کی انتظار میں بیٹھے بیٹھے کھانے کا وقت گزر گیا حتیٰ کہ ہمارا حدیث کا سبق شروع ہو گیا.میں اپنی بھوک کی پروانہ کرکے سبق میں مصروف ہو گیا.درا نحالیکہ میں بخوبی سبق پڑھنے والے طالب علم کا آواز سن رہا تھا اور سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ یکایک سبق کا آواز مدھم ہوتا گیا اور میرے کان اور آنکھیں باوجود بیداری کے سننے اور دیکھنے سے رہ گئے.اس حالت میں میرے سامنے کسی نے تازہ بتازہ تیار ہوا ہوا کھانا لا رکھا.گھی میں تلے ہوئے پراٹھے اور بھنا ہوا گوشت تھا.میں خوب مزے لے لے کر کھانے لگ گیا.جب میں سیر ہو گیا تو میری یہ حالت منتقل ہو گئی اور پھر مجھے سبق کا آواز سنائی دینے لگ گیا مگر اس وقت تک بھی میرے منہ میں کھانے کی لذت موجود تھی اور میرے پیٹ میں سیری کی طرح ثقل محسوس ہوتا تھا اور سچ مچ جس طرح کھانا کھانے سے تازگی ہو جاتی ہے وہی تازگی اور سیری مجھے میسر تھی حالانکہ نہ میں کہیں گیا اور نہ کسی اور نے مجھے کھانا کھاتے دیکھا )

Page 192

فرمایا.شاہ ولی اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے بھوک تھی.میں سو گیا.خواب میں پلائو اور زردہ کھا لیا.جب جاگا تو دیکھا کہ پیٹ بھرا ہوا تھا.جو لوگ ان باتوں کو نہیں مانتے اور کہنے والے کو سودائی وغیرہ خیال کر لیتے ہیں وہ بھی معذور ہیں ان کو ایسا کبھی دکھایا ہی نہیں مگر جن لوگوں سے یہ واقعات گزرتے ہیں اُن کا تو واقعہ ہوتا ہے.میں نے خود ان باتوں کا بڑا تجربہ کیا ہے.بشارت ایک دن فرمایا کہ ہم کو بیماری کے ایام میں کبھی کبھی یہ خیال آتا تھا کہ شاید اب مر جاویں مگر پھر ساتھ ہی یہ بھی خیال آتا تھا کہ ابھی نہیں مریں گے کیونکہ مولوی عبدالکریم نے ایک دفعہ ایک خواب دیکھا تھا کہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں.اس واسطے خیال آتا ہے کہ ابھی تو ہمارے منہ میں دانت ہیں.قانون قدرت فرمایا.قدرت کا قانون ٹل نہیں سکتا.اگر ایک تہجد گزار کو کوئی خطرناک زہر دے دے تو وہ ضرور تکلیف پائے گا.یہ سزا اس کو قانون قدرت کے رنگ میں ہوگی مگر اس کا قصور نہیں ہے.اسی طرح اگر کسی زانی کی اولاد کو بھی آتشک ہو جاوے تو اس میں جو سزا اُس کو ملتی ہے یہ بھی اُسی قانون قدرت کے رو سے ہے نہ کہ اُس کے اپنے قصور سے.اس کے عوض میں روح کو بے شمار انعامات اور ابدی جزا مل سکتی ہے اور اُس تکلیف دہندہ کو سزا ملے گی.جو لوگ یہ قاعدہ باندھتے ہیں کہ موجود ہ جنم کی تکالیف ضروری ہے کہ کسی بد اعمالی کی سزا ہوں وہ غلطی پر ہیں.غیر احمدی یا کافر سوال.سیدنا! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ بدر میں ایک فتویٰ حضور کی طرف سے چھپا ہے کہ جو شخص رشوت ناجائز و سائل سے روپیہ کماتا ہے وہ احمدی نہیں ہے.چونکہ اہل سنت و جماعت کا مذہب میں نے یہ سنا ہوا ہے کہ ارتکاب معاصی سے انسان کافر نہیں ہوتا اس لئے حضور کے اس فتویٰ کے یہ معنے صحیح ہیں یا نہیں کہ یہ ارشاد اسی قبیل سے ہے جس سے

Page 193

لَایُؤْمِنُ اَحَدَکُمْ(صحیح بخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ) لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَۃَ لَہٗ (مسند احمد بن حنبل مسند المکثر ین عن الصحابۃ مسند انس بن مالک)وغیرہ ہے.تہدیدی یا کامل ایمان.جواب.عزیز مکرم احمدی ہونا اور بات ہے کافر ہونا اور بات ہے.کافر باللہ ہونا اور بات ہے.بخاری کے ابتدا ء میں ایک باب ہے.کفردون کفر نور الدین …………………… دائیں ہاتھ سے لو حضرت منشی محمد صادق صاحبؓ تحریر فرماتے ہیںکہ ایک دفعہ میرے والد مرحوم نے آپ سے ایک دوائی طلب کی اور مجھے آپ کے ساتھ کیا کہ میں جا کر لے آئوں.جب آپ اپنے مطب میں پہنچے تو آپ نے مجھے چند گولیاں دیں جن کے لینے کے واسطے میں نے اپنا بایاں ہاتھ بڑھایا.تب آپ نے مجھے گولیاںنہ دیں اور فرمایا.دائیں ہاتھ سے لو.میں نے دست راست بڑھایا اور آپ نے مجھے وہ حبوب عطا کیں.ادب کا یہ پہلا سبق تھا جو میں نے آپ سے سیکھا..................................اہل سنت والجماعت ایک شخص کا خط آیا کہ کیا احمدی صاحبان ان لوگوں سے میل ملاپ رکھ سکتے ہیں جو اہل سنت والجماعت ہیں.بجواب حضرت نے فرمایا کہ احمدی بھی اہل سنت والجماعت ہیں.اہل سنت کی بڑی علامت یہ ہے کہ وہ صحابہ کو برا نہیں کہتے.سو ہم کسی کو اصحاب نبویہ سے برا نہیں کہتے.چونکہ دوسرے اہل سنت نے ان کو کافر کہا ہے اور مکفرین سے بہت تعلق رکھنا مناسب نہیں ہوتا جماعت کی غیرت کے خلاف ہے.اس واسطے احمدی

Page 194

ان لوگوں سے تعلقات نہیں رکھتے.بعض جوشیلے مکفرین بہت شورمساجد میں احمدیوں کے خلاف مچاتے ہیں جنگ و فساد ہوتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مسجد میں داخل نہیں ہونا چاہیے مگر ڈرتے ہوئے (.البقرۃ :۱۱۵) آپ شائد واقف نہیں.احمدیوں کو مساجد سے نکالا جاتا ہے، بہت دکھ دیا جاتا ہے.بھیرہ میں احمدیوں کو صرف شر اور فساد سے بچنے کے واسطے محلہ کی پرانی مسجد چھوڑ کر اپنی نئی بنانی پڑی.کابل میں سنیوں حنفیوں نے بے زبان سیّد احمدیوں کو قتل کر دیا اور سنگسار کیا حالانکہ سنگساری کا تذکرہ ہی قرآن کریم میں نہیں.بد صحبت کا نتیجہ ایک شخص کا خط پیش ہوا کہ یہاں ایک بدمعاش ہمارے احمدیوں کے ہاں آیا جایا کرتا تھا اُس کے سبب سے ایک لڑائی ہو گئی مقدمہ عدالت تک پہنچ گیا حضور ہماری کچھ سفارش مددکریں.فرمایا.یہ بروں کی صحبت کا نتیجہ ہے ہم اس میں کچھ مدد نہیں کرتے.تم سب استغفار کرو اور خدا سے اپنے گناہ بخشوائو.روپے دیکھنے کی تعبیر ایک صاحب کا خط پیش ہوا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرے پاس ایک بیگ روپوںکا بھرا ہوا ہے.فرمایا.خواب میں بہت روپے دیکھنے اچھے نہیں.بہت روپیہ پریشانی ہے.ایک دو تین حد چار روپے تک اچھے ہیں.…………………… زبان کی فصاحت و بلاغت فرمایا.جن دنوں چراغ الدین جمونی مرتد ہوا.اس کے اشتہارات نہایت رنگین عبارت میں یہاں آتے تھے اور بڑے پر جوش الفاظ میں وہ دعائیں کرتا تھا اور اپنے درد دل کا اظہار کرتا تھا.اس وقت میں نے حضرت مرزا صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی خدمت میں عرض کیا کہ چراغ الدین ایسی دعا مانگتا ہے جس سے دل ہل جاتا ہے.حضرت نے فرمایا.زبان کی فصاحت و بلاغت کفار مکہ میں بھی تھی.کیا آپ نے ابوجہل اور دیگر عمائد کی فصاحت

Page 195

کلام قرآن شریف میں نہیں پڑھی؟ جہاں وہ رسول کریم ﷺ کے بالمقابل خدا سے دعا مانگتے ہیں. (الانفال:۳۳).اے اللہ اگر یہ دین سچ ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، ہم پر کوئی دردناک عذاب اُتار ( پارہ ۹ رکوع ۱۸).خالی فصاحت کچھ شے نہیں علم اور عمل صالح درکار ہے.۱۰؎ اولاد کے لئے دعا فرمایا.اولاد کے لئے دعا کی بڑی ضرورت ہے.بغیر دعا کے کچھ بھی نہیں بنتا.بیماریاں فرمایا.بیماریاں اس لئے نہیں آتیں کہ وہ کسی کو سکھ دیں بلکہ بیماریاں یا تو گناہوں کی سزا یا گناہوں کا کفارہ یا کسی شخص کا مرتبہ بڑھانے کے لئے آتی ہیں.معبر کون ہوسکتا ہے؟ حکیم محمد عمر صاحب نے سوال کیا کہ تعبیر کا بھی کوئی علم ہوتا ہے یا بعض طبیعتیںہی ایسی ہوتی ہیں ؟ فرمایا.حضرت یوسف علیہ السلام نے قرآن میں کہا ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرے خدائے تعالیٰ اس کو علم تعبیر بھی سکھا دیتا ہے.توکّل علی اللہ چوہدری فتح محمد صاحب ایم.اے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے.فرمایا.انسان کو چاہیے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے اور دعائیں کرتا رہے.فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ.اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ.قرآن شریف کو ڈرتے ہوئے دل کے ساتھ پڑھو ایک شخص اپنے لڑکے کو بیعت کرانے اور خود قرآن شریف پڑھنے کی غرض سے حاضر ہوا اور عرض کی کہ پہلے قرآن شریف کے مشکل مقامات مجھے سمجھا دیجئے.بعد میں پھر شروع سے قرآن شریف پڑھنا شروع کروں گا.فرمایا کہ قرآن شریف کو خشیۃ اللّٰہ کے لئے پڑھو اور یہ طریقہ خشیۃ اللّٰہ سے پڑھنے کا نہیں ہے.خیر تم قرآن شریف لائو ہم ابھی پڑھائیں گے.اس شخص نے سب سے پہلے یہ آیت پڑھی.

Page 196

(البقرۃ :۷۳).فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت(المائدۃ :۱۶) اور ہے.جب انسان گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے عفواور درگزر اس لئے کرتا رہتا ہے کہ اب بھی اصلاح کر لے ابھی اصلاح کر لے مگر جب دیکھتا ہے کہ اب یہ باز ہی نہیں آتا تو پھر سزا کے لئے اس کی پردہ دری کرتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودیوں … نے مسلمانوں کو مار مار کر تباہ کر دیا تو اللہ تعالیٰ ان کو کہتا ہے کہ بس اب ہم تمہارا پردہ فاش کرتے ہیں.(البقرۃ :۷۴).کہا ہم نے مارو اس شخص کو جس نے قتل کیا.کیا معنے قاتل کو مارو.قصاص کے فائدے ایک جگہ خون کا بدلہ لینے کی بابت فرمایا.  (البقرۃ :۱۸۰).مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے تو اُس سے قصاص لو.اس میں کئی فائدے ہیں.ایک یہ ہے کہ جب ایک قاتل قتل کیا جائے گا تو جو اور لوگ اُس کے ہاتھ سے مارے جاتے وہ بچ جائیں گے.دوسرے جو اور ایسے ہی قاتل ہوں گے وہ ڈر جائیں گے.اب بتلائو کہ جب مرنے مارنے والے بچ گئے تو حیاتی ہوئی کہ نہیں. پر بہت غور کرو.انشاء اللہ کہا کرو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذکر پر فرمایا کہ حدیث میں لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے کہا تھا کہ میں اپنی سوعورتوں سے جماع کروں گا تو سو لڑکے پیدا ہو جائیں گے مگر چونکہ انہوں نے انشاء اللہ نہیں فرمایا تھا اس لئے جو لڑ کا ولی عہد ہو کر ان کے تخت پر بیٹھا وہ صرف جسد ہی جسد تھا اس میں روحانیت نہ تھی.خضاب ایک شخص کا خط حضرت کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا تھا کہ مجھے خضاب کرنے کا

Page 197

بہت شوق ہے بہت سا روپیہ اس پر خرچ کر چکا ہوں مگر کوئی عمدہ خضاب نہیں ملا.حضور کوئی عمدہ سا نسخہ مرحمت فرماویں.آپ نے فرمایا کہ ان کو جواب لکھو کہ میں تو مہندی کیا کرتا ہوں.حضرت کے ایک بھائی فرمایا.لیہ میں میرے بھائی محمد بخش صاحب کی قبر ہے.و ہاں پر وہ کتابیں فروخت کرنے کے لئے گئے.مرض ( زحیر) ان کو ہوا اور وہیں انتقال کر گئے.غریب الوطن ہو کر مرنا بھی بخشش کا سامان ہو جاتا ہے.رسومات کے بندے مولوی غلام احمد صاحب واعظ حضرت کی خدمت میں کہیں وعظ کہنے کے لئے جانے کو طلب اجازت کے لئے حاضر ہوئے.آپ نے دریافت فرمایا کہ آپ وہاں کیوں جاتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ جس شخص نے مجھے بلایا ہے اس کے ہاں کسی کی شادی ہے وہ چاہتا ہے کہ اس موقع پر کوئی ترک رسوم کے متعلق وعظ ہو جائے.آپ نے فرمایا کہ تو بہ جی توبہ.لوگوں نے رسمیں حاکموں کے کہنے سے نہیں چھوڑیں، خدا کے کہنے سے نہ چھوڑیں تو تمہارے کہنے سے بھلا کون مانے لیتا ہے اس لئے اپنے وقت کو اس میں صرف ہی نہ کرو.لوگوں کو کلمہ خیر سنا کر خدا کی طرف بلائو جب وہ خدا کی طرف آ جائیں گے تو رسمیں خود ہی چھوڑ دیں گے.میں نے دیکھا ہے کہ ایک جگہ یہ قانون تھا کہ کوئی شخص شادی کے موقع پر رنڈی یا نقال وغیرہ نہ بلائے اور حکام ضلع اس معاملہ میں لوگوں کی خیر خواہی کرتے تھے اور وہ اس لئے کرتے تھے کہ تا لوگ فضول خرچی کر کے تباہ نہ ہوں.ایک شخص کے ہاں شادی تھی چونکہ رنڈی یا نقالوں کا بلانا قانوناً جائز نہ تھا.اس لئے اس نے رسم پوری کرنے کے لئے اور قانون سے بچنے کے لئے اپنے ہاں ناٹ بلائے اور ان ناٹوں کو پندرہ روپے دینے کا وعدہ دیا.ایک دوسرے نے انہی ناٹوں سے پوچھا کہ تم کو اس نے کیا دیا ہے.انہوں نے کہا کہ پندرہ روپیہ.تو اس نے کہا کہ اُس نے تو کچھ بھی نہ دیا تم ہمارے یہاں آئو ہم

Page 198

تمہیں دیں گے.اس نے ان کو تیس روپے دئیے اور ایک تیسرے شخص نے جو ان کی برادری کا دشمن تھا کہا کہ انہوں نے کچھ نہیں دیا آئو ہم تم کو دیں گے.اس نے ان کو ا۸۰سی روپے دئیے.ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ وہ ایک رنڈی کو ستر ہزار روپیہ ماہانہ دیا کرتا تھا.ایک میری خالہ زاد بہن تھی اُس کے لڑکے کی شادی تھی تو اُس نے مجھے کہا کہ تم مجھے کیا دو گے.میں نے کہا کہ ایک پیسہ بھی نہیں دوں گا.اس نے بہت کچھ کہا مگر میں نے اس کو کچھ بھی نہ دیا.وہ ہمارے یہاں سے چلی گئی اور ہم کو شادی میں بھی نہ بلایا.شادی کے بعد پھر ہمارے یہاں آئی ا ور کہنے لگی کہ نور دین تیرے سے تو حکم چند ہی اچھا ہے.اُس نے مجھے کہا کہ چاہے جتنا روپیہ لو میں تمہارے لئے گھر کو آگ لگا دوں گا.اُس نے ایسا ہی کیا اور جس قدر روپیہ کی ضرورت تھی اُتنا ہی روپیہ مجھ کو دیا.بس اب تو وہ تیری بجائے میرا بھائی ہی بن گیا ہے.میں نے اس سے گائیں تک بھی ذبح کرنے کے لئے منگائی ہیں.میں نے اس سے کہا کہ جو کچھ کہتی ہو سب صحیح ہے مگر میں دو سال کے بعد تم سے پھر ملوں گا.اُن کی یہاں بہت سی زمین تھی اور وہ زمیندار آدمی تھے.جب فصل کٹ کر طیار ہوئی تو اُن کے ہاں بڑا غلہ نکلا.بنیا آیا اور اُس نے ایک دانہ بھی اُن کو نہ اٹھانے دیا اور سب کچھ صرف سود ہی سود میں لے گیا.کئی فصلیں اسی طرح گزریں.کچھ ان کی حساب کی لا علمی سے ان کو لوٹا اور کچھ ویسے.پھر تو لگے چیخنے اور مجھے کہا کہ وہ تو بڑا بے ایمان نکلا.میں نے کہا کہ ابھی تو وہ تمہارا بھائی تھا ابھی وہ کافر بے ایمان بھی ہو گیا.رامچندر نبی نہ تھا ماسٹرمحمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار نور سے رامچندر اور سیتا کے متعلق باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ میں رامچند ر کو ہر گز نبی نہیں کہہ سکتا کیونکہ خدائے تعالیٰ نبیوں کو ذلیل نہیں کرتا کہ لوگ اُن کی بیویوں کو بھگا کر کے لے جائیں.ہندو حکام کو سلام درس کو جاتے وقت ایک شخص نے سوال کیا کہ ہندو حکام کو سلام کی نسبت کیاحکم ہے؟

Page 199

فرمایا کہ اگر تم ان کو سلام نہ کرو گے کیا وہ تمہارے جوتیاں نہیں ماریں گے ؟تم لوگ اپنی سلطنت کھو کر اب ہندو حکام کے سلام کرنے نہ کرنے کی بابت دریافت کرتے ہو.سلام کیا ہے جس طرح وہ ہاتھ اٹھا دیتے ہیں اور منہ سے کچھ بھی نہیں کہتے اسی طرح تم ہاتھ اُٹھا دیا کرو.منہ سے جواب کچھ کہو یا نہ کہو.۱۱؎ عربی سے ناواقفی عربی زبان کی نا قدری کے متعلق فرمایا کہ میں ایک شخص سے کتابیں خریدنے کے لئے گیا.ایک کتاب جو اڑھائی سو روپیہ کی تھی اُس کی میں نے قیمت دریافت کی تو کہنے لگا کہ جو چاہو سو دے دو.میں نے کہا کہ واہ ! کیا اگر میں تم کو پانچ یا چھ روپیہ دوں تو تم مجھ کو یہ کتاب دے دوگے.کہنے لگا کہ آپ مجھے اس کتاب کے سات روپے دے دیں.میں نے اس سے پوچھا کہ اس کتاب پر ڈھائی سو روپیہ قیمت لکھی ہے اور تم مجھ کو سات روپے میں دیتے ہو کہیں تم نے دھوکا تو نہیں کھایا.اُس نے کہا کہ نہیں صاحب مجھے اس کی قیمت بخوبی معلوم ہے میں نے دھوکا نہیں کھایا.مجھے خدا سے ڈر معلوم ہوا آخر میں نے اس کتاب کو سات روپے پر خرید کر لیا.حاوی کبیر اس کا نام تھا.اور ایک اَور کتاب کی قیمت دریافت کی جو تین روپے قیمت کی تھی.میں نے خیال کیا کہ جب یہ ڈھائی سو روپیہ قیمت کی کتاب سات روپیہ میں دیتا تھا تو اس کو آٹھ آنہ میں دے دے گا.اس نے کہا کہ اس کی قیمت پچیس روپے ہے.میں نے کہا کہ وہ کتاب جو ڈھائی سو کی تھی اُس کی قیمت تم نے سات روپیہ مانگی اور تین روپیہ کی کتاب کی قیمت تم نے پچیس روپے مانگی.پہلی کتاب کے حساب سے تو اس کی قیمت آٹھ آنہ بھی نہیں ہوتی.اس نے کہا کہ جناب یہ کتاب طب کی ہے.میں نے کہا کہ وہ بھی تو طب کی ہی ہے.اُس نے کہا کہ وہ عربی میں ہے اور میں تو یہ جانتا ہوں کہ آپ بھی سات روپیہ خراب ہی کرنے لگے ہیں.عربی کتاب کس کام کی ہے.جاہل اکڑ باز سندھ کے مسلمانوں کی مفلسی جہالت اور اکڑ بازی کے ذکر پر فرمایا کہ ایک بنیا میرادوست تھا.ایک مرتبہ میں اُس کے ہاں گیا اس کے پانی بھرنے اور روٹی پکانے والے بھی مسلمان ہی خدمتگار تھے اور وہ ایسا امیر تھا کہ پچیس لاکھ روپیہ اُس کے پاس موجود تھا.اس کے

Page 200

یہاں ایک نہایت اعلیٰ قسم کی ایک سانڈنی تھی.اس نے مجھے کہا کہ اگر آپ کو سانڈنی کی سواری کا شوق ہو تو آپ اس پر چڑھ کر سیر کر آئیں.میرا نوکر بھی اعلیٰ درجہ کی سانڈنی چلانا جانتا ہے.اس کی سانڈنی کا چلانے والا بھی مسلمان ہی تھا.میں اُس پر سوار ہو کر سیر کو گیا.وہ شخص سانڈنی کو لے کر بہت دور جنگل میں نکل گیا.اس سے جو اس کے آقا کی بابت کچھ ذکر چلا تو وہ ایک بڑی غلیظ گالی دے کر کہنے لگا کہ ہے ! وہ ہے ہی کیا ! ایک کراڑ ہے کراڑ.میں نے اُس سے کہا کہ ہیں ! کیا تم اپنے آقا سے ڈرتے نہیں ہو.کہنے لگا کہ اُس کراڑ سے ہم کیا ڈریں.بھلا اُس کو یہ تو کہو کہ وہ رات کو گھر سے باہر تو نکلے.ہم اس کا گلا کاٹ دیں.میں نے اس سے کہا کہ تمہاری تنخواہ کیا ہے؟ کہنے لگا کہ تین روپیہ.جب وہاں سے آئے تو اس بنئے سے میں نے پوچھا کہ یہ آپ کی سانڈنی پر جو شخص ملازم ہے.یہ کیسا شخص ہے ؟کہنے لگا کہ صاحب تین روپیہ کا یہ میرے یہاں ملازم ہے اور کام بھی خوب کرتا ہے مگر دن دن میں اور رات کو نہیں اور میری بالکل عزت نہیں کرتا.مجھے کراڑ کہتا ہے.ہم ان سے بہت ڈرتے ہیں.را ت کو گھر سے کبھی باہر بھی نہیں نکلتے.اگر رات کو ہم باہر نکلیں اور ان کے ہاتھ آ جائیں تو یہ ہی فوراً ہم کو مار ڈالیں.سچا علاج ایک شخص نے ذکر کیا کہ حضور میرے بھائی کو کئی سال سے آتشک ہے.سو روپیہ ماہوار کا جرمانہ مجھ پر بھی ہوتا ہے یعنی اُس کی ادویات وغیرہ میں سو روپیہ ماہوار مجھے بھی خرچ کرنے پڑتے ہیں مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا.حضور کوئی نسخہ مرحمت فرماویں.آپ نے فرمایا کہ اگر وہ سچی توبہ کرے تو سب تکلیف دور ہو جائے.اس کو کہو کہ وہ سچی توبہ کرے.حکیم محمد عمر صاحب نے عرض کی کہ حضور اگر سچی توبہ کرنے کے بعد انسان سے بدنظری وغیرہ ہو جائے تو توبہ ٹوٹ تو نہیں جاتی؟ آپ نے فرمایا کہ.صدبار اگر توبہ شکستی باز آ

Page 201

پھر اس شخص کو ایک نسخہ لکھ دیا اور چلتے ہوئے کو کہا کہ اگر تمہارا بھائی تین ماہ تک متواتر اس نسخہ کو استعمال رکھے اور سچی توبہ کرے تو تم پر سے بھی جرمانہ موقوف ہو جائے گا.طلائی انگشتری ایک شخص نے بذریعہ خط دریافت کیا کہ طلائی انگوٹھی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے سے مردوں کو منع فرمایا ہے.طلائی انگوٹھی پہنی تھی پھر پھینک دی.آجکل کے واعظ فرمایا کہ یہاں پر ایک مولوی صاحب تشریف لائے.انہوں نے چاندی کے بٹن لگا رکھے تھے.میں نے ان کو نسخہ لکھ دیا.کہنے لگے کہ یہ نسخہ میں نہیں لوں گا.کوئی بہت قیمتی نسخہ دیجئے.انہوں نے اپنا حال سنایا کہ ہم نے ایک مدرسہ …… جار ی کیا ہے.پڑھائی کیا ہوتی ہے کہ ۵یا۶ لڑکیوں کو میری ماں قرآن شریف پڑھا دیتی ہے کیونکہ قرآن شریف سے بڑھ کر اسلام کی اَور کیا شوکت ہو گی.پھر کہا کہ ہم کئی بھائی ہیں.جزائر تک اور آسٹریلیا تک جاجا کر ہم لوگ وعظ کرتے ہیں اور یہ کہا کرتے ہیں کہ مدرسہ … کی امداد کے لئے روپیہ دو.اس طرح سے ہم ہزاروں روپیہ کمالاتے ہیں.حضور کے پنجابی اشعار حضور نے اپنے بنائے ہوئے پنجابی کے شعر سنائے جو نہایت ہی لطیف تھے مگر پسند نہ فرمایا کہ ان کو اشاعت کے واسطے لیا جائے.فرمایا.ایک خاص وقت کا میرا ذوق ہے اس وقت میں شعر کہنے کے سوائے رہ ہی نہ سکتا تھا.پھر فرمایا کہ یہ آیت (ابرہیم :۲۸) کا ترجمہ ہے.پرسوں ایک خاص حالت میں میں نے یہ شعر لکھے تھے.ایک روز درس میں میں نے کہا تھا کہ میں نے بڑا زور مار کر تین شعر لکھے ہیں وہ بھی نہایت ہی مشکل ہیں اور وہ میں نے ایک ایسی حالت میں لکھے تھے کہ ان کے

Page 202

بغیر مجھے چین نہیں آتی تھی.ان کو بھی سمجھنا نہایت ہی مشکل ہے کیونکہ ان کا تعلق بہت دور جا کر چند آیتوں سے ہے.ممکن ہے کہ کسی وقت میں بھی ان کا مطلب بھول جائوں اور نہ بتا سکوں.صوفیوں کی اب بھی عادت ہے کہ وہ اشارہ سے باتیں کرتے ہیں اور بعض اوقات کچھ شعر پڑھ کر اپنی دل کی تسلی کر لیتے ہیں.مولو ی فضل حق صاحب خیر آبادی نے ایک مرتبہ مرزا غالب کے سامنے چند شعر پیش کر کے مطلب دریافت کیا.تو کہا کہ شعر تو یہ میرے بنائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں مگر اب مطلب سمجھ میں نہیں آتا.مولوی فضل حق صاحب نے کہا کہ جب ان کا مطلب آپ بھی نہیں سمجھ سکے تو اور کون سمجھے گا؟ آپ نے کہا کہ جتنے شعر آپ سمجھ سکتے ہوں اتنے انتخاب کر کے رکھ لیں باقی پھینک دیجئے.بے کار نہ بیٹھو فرمایا.میں کبھی نکما بیٹھنا پسند نہیں کرتا.پھر ایک بڑھیا کی جانب اشارہ کر کے فرمایاکہ یہ عورت ہمارے یہاں جایا کرتی ہے اس سے دریافت کر لو کہ کیا میں گھر میں بیکار بیٹھا رہتا ہوں.بے حیائی فرمایا.ہمارے شہر ایک بڑی نازک اندام رنڈی تھی.اس سے میں نے کہا کہ میں تم سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جب کبھی ہمارے یہاں کوئی نیا شخص آ جاتا ہے تو میں جھجک جاتا ہوں کہ اس شخص سے کس طرح اور کیسی گفتگو کرنی چاہیے مگر تمہارے یہاں تو ہر روز نئے ہی نئے لوگ آتے رہتے ہیں کیا تم کو کبھی جھجک پیدا نہیں ہوتی ؟ اس نے جواب دیا کہ میں تو اس بات پر حیران رہتی ہوں کہ خاوند والی عورتیں کس طرح ہمیشہ ایک ہی خاوند پر صبر کرتی ہیں.بدکاری میں انسان ترقی کرتا ہے تو بے حیا ہو جاتا ہے.غربت اچھی ہے فرمایا.مجھ پر خدا کا بڑا ہی فضل تھا کہ میرا باپ غریب تھا اور میری اولاد پر بھی بڑا ہی فضل ہے کہ میرے پاس روپیہ جمع نہیں.ایک لڑکے کو مخاطب کر کے فرمایا کہ خیالی امیر بننا اچھی بات نہیں.اصل میں بعض عادتوں کا چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے اور کسی کی بات نہ ماننا بھی ایک عادت ہوتی ہے.

Page 203

اللہ پر توکّل فرمایا.نبیوں کا سارا جہاں مقابلہ کرتا ہے مگر وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتے.ہماری تو سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ ڈر ہوتی کیا بلا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.مومن کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھے.(المائدۃ :۲۴).قرآن میں لکھا ہے.(البقرۃ :۳۹).مومن کیا اور ڈر کیا.ضرار بن ازورکی بہن کو دیکھو کہ جہاں ہزار دو ہزار ( دشمنان اسلام ) کی صف دیکھتی تھیں فوراً اس میں گھس پڑتی تھیں اور چیر کر چھوڑتی تھیں.رات کو آگ کا جلنا اچھا نہیں ہمارا رسول ﷺ رات کے وقت کبھی کوئی روشنی مثلاً آگ کو گھر میں نہیں رکھتا تھا.اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہ مجھ کو بھی روشنی میں نیند نہیں آتی.دن پڑھنے کے لئے ایک لڑکے سے فرمایا کہ کیا تم رات کو بھی پڑھا کرتے ہو؟ اُس نے کہا کہ جی ہاں.کہا کہ تو پھر مجھ سے اپنا علاج مت کروائو ورنہ رات کو مت پڑھو.اُس نے کہا کہ حضور ہماری اس سے پڑھائی نہیں ہو سکتی.آپ نے فرمایا کہ تم غلط کہتے ہو بارہ گھنٹے مسلسل تو انسان پڑھ بھی نہیں سکتا تو کیا بارہ گھنٹے تمہارے لئے تھوڑے ہوتے ہیں.ہاکی وغیرہ جو کھیلیں تم لوگ دن کو کھیلتے ہو مت کھیلا کرو.دن میں پڑھا کرو.حکیم محمد عمر صاحب نے کہا کہ دیہات کے لوگ تو دن میں اپنی محنت مزدوری کرتے ہیں اور رات کو کھیلتے ہیں.فرمایا کہ صحابہ بھی رات کو روشنی لے کر نہیں پڑھا کرتے تھے.لکھا ہے مغرب کے بعد تیر اندازی کرتے تھے.

Page 204

قرآن شریف کی خوبی فرمایا کہ قرآن کریم بھی کیا ہی لطیف کلام ہے کہ وہاں پر رمی کا لفظ رکھا ہے کیونکہ جس خدا کا کلام ہے اس کو معلوم تھا کہ ایک زمانہ میں تیر موقوف ہو کر بندوق اور تار پیڈو وغیرہ جاری ہو جائیں گے.(الملک :۴) کے معنے ہیں کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح یا جس کام پر مقرر کر دیا اس میں فر ق نہیں آتا.مثلاً دن کا رات کے بعد اور رات کا دن کے بعد دَور لگادیا.وہ اسی طرح ہے اس کے خلاف نہیں ہوتا.اسی طرح زمین 360دن میں سورج کے گرد گردش کر کے اپنا دور پور ا کرتی ہے تو وہ اسی طرح سے ہے جتنے عرصہ کے بعد اس سال موسم تبدیل ہوتے رہیں گے اتنے ہی عرصہ کے بعد آئندہ سال میں بھی تبدیل ہوں گے.جَوَّاظ.مٹک کر ، تکبر سے چلنا.زَنِیْمٌ.لِیْقٌ جس کا تعلق تھوڑا سا ہو.گلے میں جو گانی ہوتی ہے اس کو زَنَمَۃٌ کہتے ہیں.ولد الزنا کو بھی زنیم کہتے ہیں.شریر آدمی کو بھی زنیم کہتے ہیں.خدا کے بندوں کی بد دعا سے ڈرنا چاہیے بعض اللہ تعالیٰ کے بندے ہوتے ہیں.بڑے نرم ہوتے ہیں مگر بڑے گرم بھی ہوتے ہیں.حضرت نوح ؑ کو دیکھو کہ جب سمائی کی تو اس قدر عرصہ گزار دیا مگر جب گرم ہوئے تو صاف کہہ دیا.(نوح :۲۷).اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کا حال ہے.میں ایسی باتوں کا معتقد ہوں اس لئے سناتا ہوں.امام شعرا نی ؒ کہتے ہیں کہ مصر میں کسی … ایک محلہ میں ایک بزرگ رہتے تھے.ان کی خدمت میں چند چھوٹے چھوٹے لڑکے رہتے تھے.ا ہل محلہ نے کہا کہ یہ شخص تو لوطی ہے..انہوں نے ہر چند سب کو سمجھایا کہ تم ایسا نہ کہو مگر وہ باز نہ آئے.آخر کار انہوں نے تمام اہل محلہ کو جمع کر کے بددعا کی کہ تم سچے ہو تو خدا کا ہم پر غضب ہو لیکن اگر تم جھوٹے ہو تو اگر تمہاری لڑکیاں پیدا ہوں تو وہ زانیہ اور اگر لڑکے ہوں حِیض اور بدمعاش پیدا ہوں.ان لوگوں نے آمین کہہ دیا.بس پھر کیا تھا فوراً دعا

Page 205

قبول ہو گئی.اب وہاں جا کر دیکھو کہ کوئی بھی اس محلہ میںایسا لڑکا یا لڑکی نہیں ہے کہ جو ان تینوں حالتوں میں سے ایک نہ ایک میں گرفتار نہ ہو.ہمارے شہر میں جب ہم پر بڑے کفر کے فتو ے لگے تو دو شخص بڑے نمبردار مخالفت کے تھے.ایک کا بیٹا تو بڑا کٹّا وہابی ہے اور ایک کا بیٹا سب مراتب تقلید کو طے کر گیا.۱۲؎ شریعت میںکوئی امر انسان کے فوق الطاقت نہیں انسان میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے قویٰ رکھے ہیں کہ جن پر اس کا دست تصرف نہیں.وہاں اُس نے ایسے قویٰ بھی بخشے ہیں کہ جن پر اس کا دست تصرف ہے جو پاک اور سچی شریعت ہو گی وہ ہم کو ہمیشہ ان قویٰ پر حکومت کرنے کا حکم نہیں دے گی جن میں ہمارا دخل و تصرف نہ ہو.ایک مرتبہ ایک شخص ہمارے پا س آیا.اس نے اپنے آدمی کو کہا کہ بہت جلد دودھ کی خبر لائو کہ آیا بازار میں مل جائے گا یا نہیں.میں نے کہا کہ تم اس قدر جلدی کیوں کرتے ہو؟ اس نے آدمی بھیجا وہ گیا اور ایک دکان سے نو سیر پختہ دودھ خرید لایا.تب اس نے مجھے جواب دیا کہ میں نے اس قدر جلدی اس لئے کی کہ شاید پھر دودھ نہ ملتا.وہ شخص صرف اکیلا وہیں بیٹھا بیٹھا تمام دودھ پی گیا.میں تو حیران ہو گیا.میں نے کہا تم دیو ہو یا انسان؟ کہنے لگا کہ جی ہم سفر سے آئے تھے تھکے ماندے تھے اور یہ تو ایک معمولی سی بات ہے.اسی طرح ہمارے یہاں ایک ملازم تھا.میرے بھائی صاحب نے اس کو ایک دوسرے گائوں میں چند کسانوں کے پاس کسی کام کے لئے بھیجا.جب وہ ان کے پاس پہنچا تو وہ لوگ تو ہل چلا رہے تھے اور ان کے پاس سات ہالی گیروں کا کھانا رکھا ہوا تھا.انہوں نے اس کو کہا کہ ہم تو کام میں لگے ہوئے ہیں اور تم کھانا کھا لو.وہ ان ساتوں آدمیوں کا تمام کھانا کھا گیا.دیکھو ان کے پیٹ اس قدر دودھ اور کھانے کو برداشت کر گئے مگر میں تو اس قدر کھانا برداشت نہیں کر سکتا.تو شریعت ہم کو اس امر کا حکم نہیں دے سکتی کہ ہم کو کس قدر کھانا چاہیے.جو باتیں ہماری طاقت سے بالا تر ہیں اس میں شریعت کوئی حکم نہیں کرتی.دوسرا حصہ خد ا تعالیٰ نے انسان میں ایسا رکھا ہے کہ اس میں اس کا دخل و تصرف خوب ہے.مثلاً

Page 206

میں آنکھیں کھول کر تم کو دیکھ رہا ہوں.اگر میری خوشی ہو تو آنکھیں بند کر لوں اور تم کو نہ دیکھوں.انسان نہ سارا مجبور ہے اور نہ سارا مختار ہے بلکہ مجبور و مختار کا لفظ ہی گندا ہے کیونکہ مجبور کو پکڑنا بھی ظلم ہے اور مختار کو پکڑنا بھی ظلم ہے.مثلاً گورنمنٹ اور شریعت اسلام نے خود کشی کو منع فرمایا ہے.اگر کوئی شخص کسی کو زبردستی پکڑ کر کسی ( ہمپب پچکاری) کے ذریعہ سے زہر پلا دے تو نہ وہ گورنمنٹ کا مجرم ہے او رنہ شریعت کا.میں نے بہت سے مذہبوں کو چھوڑ دیا ہے.اس لئے کہ وہ ہمارے ایسے قویٰ پر حکومت کرتے ہیں کہ جو ہمارے قبضہ سے باہر ہیں.مثلاً عیسائی شریعت کہتی ہے کہ ایک تین اور تین ایک.پس چونکہ ہم میں خدا نے کوئی ایسی قوت نہیں رکھی جس کے ذریعہ سے ہم اس کو مان لیں اور چونکہ یہ فطرت انسانی کے خلاف ہے اس لئے بالکل جھوٹ او رباطل ہے.جو حصہ انسان کے دخل و تصرف کے نیچے ہے اُس میں خدائی صفات کی بھی ایک جھلک نظر آتی ہے.مثلاً خدائے تعالیٰ رحیم ہے تو انسان میں صفت رحیمیت پائی جاتی ہے.خدا ئے تعالیٰ غنی ہے تو انسان بھی بے پرواہ ہونے کی خواہش کرتا ہے.میں نے قرآن شریف کو اس نیت سے بھی پڑھا ہے کہ کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے جو ہماری طاقت سے باہر ہو تو معلوم ہوا کہ نہیں ہر گز نہیں بلکہ شروع ہی میں(الفاتحۃ :۶) لکھا ہوا ہے.اس میں نہ کوئی کمی ہے اور نہ کوئی زیادتی.یہ ایک راہ ہے جیسے دو نقطوں کے درمیان ایک سیدھا خط ہوتا ہے.یہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے جو اس سے ادھر ادھر ہو جاتا ہے وہ مرتد ہو جاتا ہے.بعض لوگ ایسی پاک و مطہر تعلیم کے ہوتے ہوئے نیچے گر گئے اور بعض اس سے بھی زیادہ بلندپروازی کرنا چاہتے ہیں.رہبانیت جائز نہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ تمام عمر روزے ہی روزے رکھتے ہیں.

Page 207

بعض بیویوں سے جماع نہیں کرتے.گھر نہیں بناتے.سیاحت ہی میں ہمیشہ رہتے ہیں.بعض بولنا چھوڑ دیتے ہیں.بعض سونا چھوڑ دیتے ہیں.بعض ایسے ہیں کہ وہ طیب چیزوں کو خراب کر کے کھاتے ہیں.بعض لوگ ہیں … انہوں نے نہایت عمدہ پلائو میں راکھ ملا کر کھائی.ایک شخص ہمارے یہاں ایک مسجد میںرہتا تھا اس نے ایک مٹکا بنا رکھا تھا.وہ ہر ایک قسم کا کھانا، کھٹا ، میٹھا ، سبزی وغیرہ اس میں ہی بھر دیتا تھا وہ سب سڑ جاتا تھا اور جب اس کو بھوک لگتی تو وہ اسی کو کھاتا اور چونکہ وہ سڑ کر ایک قسم کی شراب ہو جاتی تھی اس لئے وہ ہمیشہ نشہ میں چو ررہتا تھا اور آنکھیں سرخ رہتی تھیں لوگ اُس کے بڑے معتقد تھے.ہمیں ایک شخص نے کہا کہ تم اس کو نہیں مانتے.ہم نے کہا کہ کیا مانیں وہ تو شراب پیتا ہے او رمسجد میں بیٹھ کر پیتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (المائدۃ :۸۸).ایک تو ایسے ہیں کہ انہوں نے طیبات کو ترک کر دیا ہے اور ایک گروہ حرام کر کے کھاتی ہے.میرے خیال میں وہ لوگ جو اپنی ڈیوٹی پورے طور سے ادا نہیں کرتے وہ حکیم جو روپیہ بیماروں سے لے لیتے ہیں مگر ان کا علاج نہایت غور و توجہ سے نہیں کرتے سب حرام خور ہیں.اس لئے کہا.حلال چیزوں کو حرام کر کے مت کھائو.اَلْخَمْرُ جِمَاعُ الْاِثْمِ (سنن الدار قطنی کتاب الاشربۃ و غیرہا).شراب تمام بدیوں کی جامع ہے.سوالات کے جوابات ایک شخص کے چند تحریری سوالات حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش ہوئے.وہ سوالات بمعہ جوابات از جانب حضرت صاحب فائدہ عام کے واسطے درج ذیل کئے جاتے ہیں.سوال (۱) نماز کے بیچ میں ہوا آ جاوے تو وضو پھر کیا جاوے یا نہیں؟ بار بار آوے تو روکنا جائز ہے؟ جواب.جس کو بار بار ہوا آوے اُسے ایک بار وضو کر کے نماز شروع کر دینا چاہیے.بار بار توڑ

Page 208

کر وضو نہ کرے.(البقرۃ :۲۸۷).سوال (۲) زکوٰۃ کا کس طرح حکم ہے؟ چاندی سونے پر زکوٰۃ کتنی ہے؟ جواب.۵۲تولہ چاندی پر سوا تولہ چاندی زکوٰۃ ہے.۷ تولے سونے پر برس کے بعد ۲ماشہ سونا زکوٰۃ ہے.سوال (۳) میر امبلغ تین سو روپیہ ایک سکھ کے پاس عرصہ دس سال سے امانت جمع ہے.اس پر مجھ کو اعتبار تو ہے لیکن جب میں لینا چاہتا ہوں تو وہ وعدہ کرتا ہے کہ دوں گا.زکوٰۃ کا کس طرح حکم ہے؟ جواب.تمہاری غلطی ہے کہ ایک سکھ کے پاس روپیہ رکھا ہے.اس کے پاس تو بڑھتا ہے.وہ مزے اُڑاتا ہے.تم زکوٰۃ سے جی چراتے ہو.روپیہ تجارت پر لگائو جب روپیہ تم کو ملے تو پھر اس پر زکوٰۃ دے دو.سوال (۴) زیور کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟ جواب.زیور کی زکوٰۃ میں علماء کا اختلاف ہے.حنفی ضروری کہتے ہیں اور شافعی دیتے نہیں.ہم اور حضرت صاحب دیا کرتے ہیں.سوال (۵) مخالف مولوی سے علم قرآن شریف سیکھنا جائز ہے.لڑکے لڑکیا ں اس سے پڑھ لیں تو کوئی حرج تو نہیں ؟ جواب.مخالف مولوی قرآن پڑھاوے اور تم نگرانی رکھو.سوال (۶) ہندو یتیم ہو یا مخالف محتاج ہو تو اس کو زکوٰۃ یا صدقہ دینا جائز ہے؟ جواب.قرآن کریم میں زکوٰۃ کے مصرف لکھے ہیں.فقراء، مساکین، مؤلفۃ القلوب، غلاموں کی آزادی، اشاعت اسلام، مسافر، قرضدار اور لوگ جو اس محکمہ میں ملازم ہیں ان کی تنخواہیں.سوال (۷) کوئی یادداشت تختی پر لکھ کر اپنے گلے میں دوں.جب گناہ کرنے لگوں تو یاد آجاوے کیونکہ وہ پرانا خیال کود جاتا ہے جب منہ سے نکل چکتا ہے تو پھر پچھتاوا لگتا ہے او ہو یہ

Page 209

میں نے تو نہیں کہنا تھا شاید گناہ ہو گا؟ جواب.جس طرح گناہ سے بچ سکو بچو.سوال (۸) پچھلی عادت کے مطابق نماز میں ہاتھ پائوں کے کڑا کے نکالے جاویں جائز ہے یا نہیں ؟ جواب.کڑاکے نماز میں نہ نکالو.سوال (۹) میرے گھر کے آدمی بڑے سست ہیں بلکہ مخالف عورتوں کی جہالت میں ہیں.کچھ لکھی پڑھی بھی ہے حضرت صاحب کی بابت ان کو سمجھ نہیں آتی.میرے ذمہ گناہ تو نہیں ؟ جواب.عورت کے لئے دعا کرتے رہو، سمجھاتے رہو.سوال (۱۱) جہالت کے زمانہ میں اگر میں نے کسی کی چیز چرائی ہے یا کسی کا حق کھا لیا ہے تو واپس دینے میں ملزم ہوں کیا کروں؟ جواب.توبہ استغفار کرو.اُس کا حق اشاعت اسلام میں خرچ کر دو.اس کے لئے دعا کرو.سوال (۱۳) اپنے گائوں کی برادری یا اردگرد کے مخالف لوگوں کی بھانجی تنبول رکھنا جائز؟ اگر نہ رکھی جاوے تو ناطہ لینا دینا مشکل ہے؟ جواب.تنبول ممنوع نہیں معلوم ہوتا.سوال (۱۴) اگر جنازہ میں یا نکا ح خطبہ یا کلمہ زبانی نہ آوے یا دعا جنازہ نہ پڑھ سکے تو کیا کیا جاوے؟ جواب.جنازہ میں اپنی زبان میں دعا کرلے.سوال (۱۵) اگر کوئی معزز مخالف گھر میں آوے تو خاطر کرنی جائز ہے؟ جواب.کوئی گھر میں آوے اس کی خاطر مدارات کرو.سوال (۱۶) آج سے لے کر جو میں نے بڑے بڑے گناہ کئے ہیں کسی طرح سزا رک سکتی ہے خدا تعالیٰ معاف کر سکتا ہے؟

Page 210

جواب.اَللّٰہ غَفَّارُ الذُّنُوب ہے.سچی استغفار کرتے رہو.سوال (۱۷) وتر پچھلی رات پڑھنے چاہئیں اور کتنی رکعت پڑھنی چاہئیں؟ جواب.وتر ایک رکعت سے گیارہ تک ہیں جتنی پڑھ سکو پڑھو.سوال (۱۸) کتنی منزل پر نماز روزہ کم و بیش ہو سکتا ہے؟ جواب.سات کوس کا سفر ہے.سوال (۱۹) اگر گائوں میں ہنسی تماشا شادی ہو تو یا ر دوست تنگ کریں کہ ہمارے ساتھ دیکھنے چلو کیا کیا جاوے؟ جواب.گائوں میں ناچ ہو عورتیں لڑکے ناچیں تو ہرگزمت جائو.بھانڈوں کے تماشہ میں مت جائو.سوال (۲۰) پچھلی عادت کے مطابق بدن سے بال اُتارنے جائز ہیں یا نہیں ؟ جواب.بدن کے بال اُتارنے شرعاً جائز ہیں.نبی کریم نور ا لگا لیتے تھے.سوال (۲۱) کتے سے محبت کرنی چاہیے یا گھر میں رکھنا جائز ہے؟ جواب.کتے سے محبت کرنا مومن کا کام نہیں.شکار، حفظ مال ، حفظ زراعت کے لئے کتا رکھناجائز ہے.ہرگز محبت کے قابل یہ گندہ جانور نہیں.سوال (۲۲) نماز میں بڑی دلیلیں آتی ہیں؟ جب نماز میںکھڑا ہوتا ہوں تو گھر بار کے سارے کام یاد آ پڑتے ہیں؟ جواب.دلیلوں کے آنے سے نماز کا نقصان نہیں ہوتا.سوال (۲۳) مُتَوَفّٰی کے بعد قرآن شریف مولویوں سے پڑھا کر ختم کرنا یا قرآن شریف بقیمت لے کر ثواب کے واسطے عاجزوں کو دینے جائز ہیں؟ جواب.قرآن کا ثواب مردہ کو پہنچتا ہے.سوال (۲۴) قربانی دینی، مستورات بیوی دختر و آپ الگ الگ دینی چاہیے؟ عید بڑی پر وہ کھال چمڑا کس کو دینا چاہیے؟ ذبح کرائی یا گوشت بنوائی مزدوری دینی چاہیے؟

Page 211

جواب.سارے گھر کی طرف سے ایک قربانی جائز ہے.دولت مند بیوی قربانی کر سکتی ہے.مزدوری الگ دی جاوے جہاں چاہے کھال خرچ کرو.سوال (۲۵) شادی میں ڈھول بجانا آوازہ بجانا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب.دف جائز ہے.سوال (۲۶) زکوٰۃ کا روپیہ مسجد پر لگ سکتا ہے یا نہیں ؟ جواب.زکوٰۃ کا روپیہ مسجد پر نہیں لگ سکتا.ہم نے زکوٰۃ کے مصرف پہلے لکھ دئیے ہیں.۱۳؎ خلیفہ کی شناخت حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں ایک شیعہ صاحب کا سوال اور حضرت کا جواب سائل کا خط جناب مولانا مولوی صاحب کرم فرمائے بندہ زاد عنایۃ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے پیشتر جناب کی طبیعت کا پتہ نہ تھا کہ علیل ہو گئی ہے.خداوند تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے شفائے کلی عنایت فرماوے.ماہ جون ۱۹۱۲ء سے ۶ عریضے لکھ چکا ہوں.اصل حال پہلے چار عریضوں میں ہے باقی دو صرف یاددہانی کے واسطے لکھے تھے.امید ہے میاں محمد صادق صاحب کے پاس موجود ہوں گے.پہلے تین عریضوں کے تین جواب میاں محمد صادق صاحب نے جناب کی طرف سے دئیے تھے لیکن بعد میںکچھ خبر نہیں آئی.عرض گزار ہوں کہ اگر اصل عریضے میاں محمد صادق صاحب کے پاس سے مل جاویں تو ان کو بھی براہ نواز ش ملاحظہ فرما لیں اور یہاں بھی بطور اختصار ہر ایک عریضہ کا مضمون اور جواب عرض کرتا ہوں.

Page 212

عریضہ نمبر۱.امر خلافت جو اسلام میں ہے ( خلافت سے میری مراد خلافت رسول صلعم ہے ) آیا یہ امر دین میں داخل ہے یا نہ.جناب کی طرف سے جواب عریضہ نمبر ۱ خلافت امر دینی ہے.سورہ ٔ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں خلیفے مقرر کرتا ہوں جو انہیں نہ مانے وہ فاسق ہے.عریضہ نمبر ۲.کیونکر معلوم ہو کہ خدا نے کس کس کو خلیفہ مقرر کیا ؟ جواب عریضہ نمبر ۲ خلافت کا نشان وَلَیُمَکِّنَنَّ … میں دیا گیا ہے جس کو خدا خلیفہ بناتا ہے.اس کی مخالفت میں کون کھڑا ہو سکتا ہے.خد انے آدم کو خلیفہ بنایا، دائود کو خلیفہ بنایا، ابوبکر، عمر کو خلیفہ بنایا.نورالدین کو خلیفہ بنایا.کوئی مخالفت کر کے دیکھ لے کیا نتیجہ ہو تا ہے.عریضہ نمبر۳.جس کو کسی سے مخالفت نہ ہو وہ کیونکر معلوم کرے کہ خدا نے کس کو خلیفہ مقرر کیا.آدم علیہ السلام اور دائود علیہ السلام کا نام قرآن پاک میں موجود ہے.آنحضرت ؐ کے خلفاء کا نام قرآن پاک میں کہا ں ہے.کیا خلیفے اجماع سے بنائے گئے ہیں یا نہیں جیسا کہ کتب اہل سنت والجماعت سے پایا جاتا ہے اور اجماع کے وقت کتنے اصحاب موجود تھے اور وہ کون کون تھے؟ جواب نمبر۳.قرآن شریف میں خلفاء رسول صلعم کا نام نہیں اگر ہوتا تو یہی نام لوگ اپنی اولاد کا رکھ لیتے.ان کی نشانی ہے کہ وہ کامیاب ہو تے ہیں.عریضہ نمبر۴.نہ معلوم جواب نمبر۳ سے جناب کا کیا مطلب ہے.اگر یہ مراد ہے کہ ایسے ناموں والے اشخاص کا دعویٰ کر دیتے تو یہ امر ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کا دعویٰ صرف نام ہی کی وجہ سے پایۂ ثبوت کو پہنچتا جس طرح جناب فرماتے ہیں کہ اُن کا نشان دیا گیا ہے.اگرنام بھی دیا جاتا تو کیا حرج تھا کیونکہ نام و نشان دونوں مل کر خلیفہ کا پورا پتہ لگا دیں.جناب نے فرمایا ہے کہ اُن کا نشان ’’کامیابی ‘‘ہے.ارشاد ہو کہ کامیابی سے جناب کی کیا مراد ہے.جناب کس کامیابی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں.(۱) ملک گیری میں کامیاب ہونا.(۲)لڑائیوں میں کامیاب ہونا.اگر یہی دو صورتیں مراد ہیں تو ظاہر ہے کہ آج جو ملک گیری اور لڑائیوں میں کامیاب ہو وہی خلیفہ ہو اور اگر کوئی اور کامیابی مراد ہے تو ارشاد فرماویں کونسی کامیابی ہے اور اس کامیابی میں ظاہراً

Page 213

حالت دیکھی جاتی ہے یا کوئی اندرونی راز بھی مخفی ہوتا ہے کیونکہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہوا.ایک ظاہر اً غالب آیا دوسرا ظاہر مغلوب ہوا لیکن مغلوب ہو کر بھی اپنے دعویٰ کا اقرار کرتا رہا تو ان دونوں میں سے جناب کے نزدیک کون کامیاب رہا اور حق کس کے ساتھ رہا.آخر الا مر اگر قرآن پاک میں نام نہیں تو کسی حدیث میں ہونا چاہیے.حدیث شریف کا پتہ بتا دیں کیونکہ یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ ختم المرسلین جیسے مرسل اولوالعزم کے خلیفوں کا نام نہ قرآن پاک سے ملے اور نہ حدیث شریف سے اور وہ حضرت بغیر اپنے خلیفوں کے نام بتانے کے بڑی بھاری امت کو چھوڑ کر گئے ہوں.کئی امور اس عریضہ میں نئے الفاظ سے عرض کئے گئے ہیں ورنہ پہلے ہی عریضوں کی نقل ہے اور ابھی جناب کے جوابات میں سے کئی مسائل کی تحقیق باقی ہے.خاکسار از ملتان جواب از جانب حضرت خلیفۃ المسیح مکرم معظم حضرت شاہ صاحب السلام علیکم مفتی۱؎ اور خاکسار کے پاس ہزارہا خطوط آتے ہیں کس کس کو محفوظ رکھیں.نمبر ایک و دو پر جناب نے کوئی اعتراض نہیں فرمایا.نمبر ۳ پر اعتراض ہے جس کو کسی سے مخالفت نہ ہو وہ کیونکر معلوم کرے کہ فلاں مدعی حق پر ہے.جناب من ! یہ سنت اللہ ہے.نیکوں کی مخالفت ہوا کرتی ہے بلکہ انبیاء تک مخالفت و عداوت ضروری ہے.غور فرماویں (الانعام :۱۱۳) اور عام ارشاد مومنوں کو ہے.(الانفال :۶۱) ہے.جو مخالف نہیں وہ اور اعداء دین کو دیکھے.۱؎ مفتی محمد صادق خادم ڈاک.ایڈیٹر بدر

Page 214

دوسرا اعتراض قرآن کریم میں خلفا ء کے نام نہیں.میں نے عرض کیا تھا کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے خلفاء قیامت تک ہونے تھے.قیامت کا علم اللہ تعالیٰ نے کسی کو بتایا نہیں بلکہ فرمایا.(لقمان : ۳۵).خلفاء کی عمر ساٹھ ستر کے درمیان حد سواسو برس ہوتی تو کس قدر اسماء خلفاء کے قرآن میں سماتے اور آخر فیصلہ نام سے تو ہرگز نہ ہوتا.اب تک ہزاروں امام علی ، علی امام، علی ، حسن ، حسین، جعفر محمد نام کے موجود ہیں کس کس کو امام مانیں.پھر فیصلہ آخر تائیدات الٰہیہ پر ہی ہوتا.تو نام کا ذکر لغو جاتا.تَعَالٰی سُبْحَانَہٗ عَنِ اللَّغْوِ.باقی رہا اجماع کا جھگڑا.سو مولانا شاہ صاحب ! میں تو اس طرف آیا ہی نہیں.مجھ پر اعتراض کیا ہوا.ہاں میں بھی سنی ہوں گو ہمارے مخالف مجھے کافر اکفر کہیں.یہی ان کے پاس سروپا ہے اور ان کے پاس ہے ہی کیا جو دیں مگر میرے وہم میں کبھی نہیں آیا کہ خلافت کو اجماع سے ثابت کروں.پھر آپ کیوں بار بار اجماع کا جھگڑا لے بیٹھتے ہیں ہاں جو سنی اجماع سے خلافت ثابت کرتے ہیں اُن سے آپ دریافت فرماویں.تیسرا اعتراض کہ نام ہوتا تو کیا مفید نہ ہوتا.نام و نشان دونوں پورا پتہ دیتے.جواب عرض ہے کہ میرا اور آپ کا کام نہیں کہ اللہ رسول کو سمجھائیں اور بتائیں.اے اللہ! تو اس طرح کرتا تو اچھا ہوتا.پھر نام ہوتا تو قرآن کریم میں ہوتا اور کتنے نام ہوتے.چھ، بارہ ، پچاس، سو ، ہزار ، لاکھ ، کروڑ ، بے انتہا.سنیے.زیدی شیعہ ہیں ان کے یہاں زید بن علی بن حسین بن علی علیہم السلام امام ہیں نہ محمد بن علی علیہما و علیٰ آبائہما السلام.کیسانی محمد بن علی ابن حنیفہ کو امام برحق موجود صاحب العصر یقین کرتے ہیں.ان کا دعویٰ ہے اب تک وہ رضوی میں موجود ہیں آغا خانی کو اب غالباً امام پچاس ویں نمبر پر مانتے ہیں.امامیہ اثنا عشر بارہ پر ختم ہیں.خارجی ہر پچیس برس بعد ایک امام ضروری یقین کرتے ہیں اور بعض پچاس برس کے بعد امام کا آنا ضروری کہتے ہیں.شاہ صاحب ! میں نے جہاں تک مذاہب اسلام پر غور کیا ہے ان کی عمدہ سے عمدہ اور فی الواقع

Page 215

عمدہ پاک کتاب قرآن مجید ہے.اس میں تو نام نہیں.رہی کلینی، تہذیب ، استبصار ، من لا یحضرہ الفقیہ، نہج البلاغہ ، تفسیر منسوب بامام حسن عسکری علیہ السلام ، شیعہ کی کتب عزیز میں، قاموس الشریعہ ، ایضاح ونجاہ ، مسند ربیع، خوارج کی عمدہ کتابیں، بخاری ، مسلم سنیوں کی مایہ فخر، ان میں کوئی مرفوع متصل مسند ہاں متواتر جو مدار یقین وا یمان ہو مجھے نہیں ملی.تو فرمائیے جب ان مذاہب کے پاس ایسی بین فہرست نہ ہو تو میرا کیا قصور ہے.غالباً ان مصنفوں کو کوئی متواتر حدیث ملی نہیں جس میں یہ فہرست ہو.ہاں اپنے اپنے گھر کے لئے اپنی جماعت کے لئے خوش کن باتیں فرما دی ہیں مگر وہ دوسرے پر تو حجت نہیں ہو سکتیں.آپ میرے عریضہ پر مخلی بالطبع ہو کر غور فرماویں.میں تو اہل بیت علیہم الصلوٰۃ والسلام پر قربان ہوں مگر جو طریق آپ نے اختیار فرمایا ہے و ہ طریق میری سمجھ سے دور ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرے.آمین چوتھا اعتراض، کامیابی سے کیا مراد ہے؟ عرض ہے کہ وہی جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(المؤمن :۵۲) اور فرماتا ہے.(النور:۵۶).میں نے کیا کہنا ہے اور میں کون ہوں جو کچھ کہوں.آج کوئی مد عی من جانب اللہ ہو کر ملک گیری میں کامیابی والا مجھے آپ بتائیں.میں اس پر غور کروں گا اور جدھر اشارہ آپ نے فرمایا ہے وہ بحث ابھی آپ کے میرے درمیان نہیں آئی.اصولی بحث میں شخصی جھگڑا.ہنوز دہلی دور است.میں صفین، کربلا کے واقعہ ہائلہ سے بے خبر تو نہیں مگر سر دست اس بحث کا وقت نہیں اور نہ موقع ہے.بند ہ رخصت ہوتا ہے.والسلام نور الدین ۲۴؍اکتوبر ۱۹۱۲ء.......................

Page 216

آنحضرتؐ کی صداقت کا ظاہری معجزہ پکے سچے متقی ایمانداروں کا ذکر تھا.فرمایا.جن دنوں انگریزوں نے کابل پر چڑھائی کی تھی ان دنوں میں ایک انگریز پادری گارڈن نام ہمارے شہر آیا کرتا تھا.اس کی کوٹھی شہر سے باہر سڑک کے کنارے پر تھی اور اس سڑک پر سے کابل جانے والی فوجیں اور بار برداری کے سامان کثرت سے گزرا کرتے تھے.میں اس پادری کے پاس جایا کرتا تھا اور مذہبی گفتگو ہوا کرتی تھی.ایک دن اس نے سوال کیا کہ محمد صاحب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سچائی کا کوئی ظاہری معجزہ ہمیں دکھائو.میں نے اس سڑک کی طرف اشارہ کیا اور کابل کی سمت بھی وہی تھی.پہلے تو وہ نہ سمجھا اور دو تین دفعہ اس نے بات کو دہرایا لیکن آخر بات کو سمجھ گیا اور کہا ’’کابل ‘‘ ’’کابل ‘‘ میں نے کہا ہاں کابل.کہنے لگاا س میں کیا معجزہ ہے کھول کر بیان کیجئے؟ میںنے کہا دیکھئے.اوّل تو آپ اپنی دولت اور مسلمانوں کی دولت کا مقابلہ کریں.آپ کی دولت کا حساب اربوں پر بھی ختم نہیں ہوتا اور ہماری دولت کا یہ حال ہے کہ گنتی کے لئے سب سے بڑا لفظ ہمارے پاس الف ہے جس کے معنی ہیں ہزار.اس کے آگے کوئی لفظ ہی نہیں.پھر اس امر پر غور کریں کہ آپ کا بل سے کیا چاہتے ہیں نہ آپ ان کا مذہب لینا چاہتے ہیں نہ ان کے رسوم بدلنا چاہتے ہیں نہ آپ ان کے ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں.صرف سرحد پر امن کرنا آپ کا مقصد ہے اور بس.آپ کا لشکر ہزاروںکی تعداد میں اور سامان حرب کس قدر ہے.اس کے بالمقابل مسلمانوں نے کابل کو کس طرح فتح کیا.آپ غور فرماویں.جب سلطنت اسلامیہ کے مرکز میںبڑے لوگوں کا آپس میں کچھ تنازع تھا تو عبدالرحمن بن سمرہ نے چند آدمیوں کو ساتھ لیا اور کہا کہ دارالخلافت سے تو سردست کوئی ارشاد نہیں کہ ہم کہاں جائیں اور کیا کریں.آؤ اس عرصہ میں ذرا کابل کو ہی فتح کرلیں.کل چودہ آدمی اس کے ساتھ تھے جن کو لے کر اس نے کابل پر چڑھائی کی اور کابل سے کیا لینا چاہا ملک پر قبضہ، رسوم کی تبدیلی، مذہب کی تبدیلی اور یہ سب کچھ کر کے دکھادیا.کیا یہ اسلامی معجزہ نہیں جو اس وقت آپ کو دکھلایا اور منوایا جارہا ہے.یہ بات سن کر پادری صاحب کو جوش آیا کہ وہ بھی فتح کابل میں شریک ہوں اور وہاں صلیب کا جھنڈا گاڑیں.سو وہ قندھار کو چل پڑے اور چند روز کے بعد خبر آئی وہ قندھار میں توپ سے اڑائے گئے.

Page 217

درسی کتاب کے نام کی وجہ تسمیہ ایک بار آپ بھیرہ تشریف لے گئے.میں(مفتی محمد صادق) اس وقت جماعت سوم مڈل میں پڑھتا تھا اور میری عمر کوئی تیرہ سال تھی.آپ نے مجھ سے دریافت کیا کہ کون سی کتاب پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی کہ مورل ریڈر.فرمایا کہ الفاظ مورل ریڈر کے معنی کیا ہیں؟ میںبتا نہ سکا کیونکہ ہمیں مدرسہ میں استاد کتابیں پڑھاتے تھے مگر کبھی یہ نہ بتلاتے تھے کہ اس کتاب کا جو نام ہے اس کے کیا معنی ہیں یا اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے.فرمایا.اچھا ہم کل پوچھیں گے.دوسرے دن میں نے عرض کیا کہ اس کے معنے ادب آموز کتاب.میرے ساتھ میرے ایک عزیز دوست تھے ان سے بھی یہی سوال ہوا مگر انہوں نے میرے معاملہ سے فائدہ اٹھا کر اپنی درسی کتب میں سے ایک ایسی کتاب کا نام لیا جس کے معنے وہ جانتے تھے.خدا تعالیٰ انہیں دینی و دنیوی رہنمائی عطاکرے اور ان پر اپنا فضل عظیم کرے کہ وہ میرے بچپن کے یار ہیں.اس امتحان سے میںنے یہ فائدہ اٹھایا کہ بھیرہ،جموں ، لاہور اور قادیان میںجہاں کہیںمیں نے مدرسی کی.میںمتعلمین کو ہمیشہ کتاب کے نام کی وجہ تسمیہ بھی بتلاتا رہا ہوں.۱۴؎ اہل کتاب کا کھانا ایک دفعہ آپ بھیرہ میں گئے تو وہاں کے ایک مشنری عیسائی نے آپ کی دعوت کی.دعوت کو آپ نے قبول کیا.آپ نے اس کے مکان پر جا کر کھانا کھایا.کچھ مذہبی گفتگو بھی درمیان میں آنے لگی مگر عیسائی صاحب نے اعراض کیا.اس دعوت کے کھانے پر بھی کچھ خفیف سی ہلچل شہر میں ہوئی مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ حضرت کو کچھ کہہ سکے.ہاں محلہ کی ایک عورت جس کی آمد ورفت آپ کے ہاں بہت تھی اور بے تکلفی سے آپ کے حضور بات کر سکتی تھی یہ ذکر کیا کہ آپ نے عیسائیوں کا پکا ہوا کھانا کیوں کھایا؟ آپ نے اس کو اس کی سمجھ کے مطابق جواب دیا کہ

Page 218

تم بت پرست ہندوؤں کے بنائے ہوئے پکوڑے اور لچیاں کھا لیتی ہو.میں نے تو اہل کتاب کا کھانا کھایا ہے جو قرآن شریف سے جائز ہے.۱۵؎ ۱۶؍ نومبر ۱۹۱۲ء ایک نو مبائع طالب علم کو نصائح ایک طالب علم نے جو اپنے بزرگوں کے تقاضے کے سبب سے سکول چھوڑنے کو طیار تھا حضور امیرالمومنین کے ہاں حسب ذیل عریضہ پیش کیا.حضور نے وہ جواب جو اس کے خط کے بعد درج کیا جاتا ہے اسی کے خط پر تحریر فرما دیا اور پھر اس کو رخصت کردیا.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہٗ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم جناب امیرالمومنین سلّمکم اللّٰہ تعالٰی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مودبانہ التماس ہے کہ میں ایک سال سے اس سکول میںتعلیم حاصل کرتا ہوںاور اس عرصہ میں میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے.اس پر میرے گھر والے اور تمام رشتہ دار ناراض ہیں اور قریباً ایک ماہ سے مجھ کو بلاتے ہیں.اب میں اپنے بھائی کے پاس جس نے مجھے بڑی محبت سے بلایا ہے جاتا ہوں اور آگے حضور کا حکم چاہتا ہوں اور میں انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے حکم پر چلوں گا.والسلام

Page 219

کافروں کا مال ناجائز طریق سے ہتھیانا ایک مرتبہ مولوی … صاحب یہاں تشریف لائے انہوں نے ایک نوجوان کو میرے سامنے پیش کیا اور کہا کہ یہ غریب ہے پر بڑا ہی نیک ہے آپ اس کو اپنے ہاں ملازم رکھیں.میں نے اس کو رکھ لیا.اس کو ایک روز میں نے ایک چونی دی اور کہا کہ اس کے پیسے بازار سے لے آؤ.وہ بازار گیا اور اس نے سولہ پیسے مجھے لا کر دیئے.میاں نجم الدین بڑا ہوشیار آدمی ہے وہ کہیں اس کے پیچھے چلاگیا.معلوم نہیں کہ اس نے اس کو پیسے لیتے ہوئے دیکھا نہیں.جب وہ واپس آیا تو میاں نجم الدین نے اس سے پوچھا کہ چونی بھی تمہارے پاس ہے اور چار آنے کے پیسے بھی تم لے آئے ہو.اگر پیسے تمہارے پاس تھے تو تم نے وہیں دے دیئے ہوتے بازار جانے کی کیا ضرورت تھی.اس نے کہا کہ پیسے تو میں بازار ہی سے لایا ہوں میرے پاس تو نہیں تھے.دکان پر ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے چار آنے کے پیسے لئے.اس نے مجھے پیسے دے کر چو ّنی وہیں رکھ دی.میں نے اس کو دھوکا دینے کے لئے کہا کہ فلاں چیز اندر سے لا کر دکھلاؤ.وہ اندر لینے گیا.میں نے چو ّنی اٹھالی پھر اس کو کہہ دیا کہ میں یہ چیز نہیں خریدتا اور اس طرح سے چو ّنیبھی لے آیا اور پیسے بھی.میاں نجم الدین نے کہا کہ یہ تو ناجائز ہے.اس نے کہا کہ کافروں کا مال ہے ان سے ایسا ہی کرنا چاہیے.(النساء:۱۴۲).میاں نجم الدین نے مجھے بتلایا کہ یہ معاملہ اس طرح ہے.میں نے مولوی صاحب سے اس واقعہ کا ذکر کیا.انہوں نے کہا کہ یہ امام شوکانی صاحب کا فتویٰ ہے اس لئے جائز ہے.لڑکا نیک تو بہت ہے مگر اس فتویٰ سے مجبور ہے لیکن اگر یہ پکڑا جائے تو پھر کیا یہ نہ ہوگا کہ یہ نورالدین کا آدمی ہے.دوسرے جب کافروں کا مال اس طرح سے لینا جائز ہے تو کل کو اگر یہ ہمیں بھی کافر کہہ دے تو پھر ہم کو بھی اسی طرح سے لوٹ لے گا.پھر میں نے اس کو نکال دیا.ایک مولوی کا کتابیں چورانے کا واقعہ فرمایا.ایک اور لطیفہ سنائیں.بھیرہ میں ہمارے

Page 220

رہنے کا مکان اوپر تھا اور نیچے کتابیں رکھی ہوئی تھیں.ایک مولوی کتابوں کی گٹھڑی باندھ رہا تھا.میرے بھائی صاحب نے اس کو دیکھ لیا مگر وہ بہت نرم آدمی تھے میں تو گرم ہوں.ان کو وہ مولوی دیکھ کر مکان سے نکل گیا تھوڑی دیر کے بعد ایک بڑی موٹی کتاب قلمی لکھی ہوئی لے کر آیا اور دکھا کر کہنے لگا کہ صاحب میں پہلے بھی آپ کی کتابیں نکال لیا کرتا تھا.دیکھ جو کچھ اس کتاب میںلکھا ہے میں اس کو مان کر مسلمان رہوں یا اس کا انکار کر کے کافر ہوجاؤں.اس کتاب میں ایک دعا لکھی ہوئی تھی اور لکھا تھا جو شخص اس دعا کو پڑھے اس کو چوری ، زنا اور طرح طرح کے فسق وفجور کرنے سب معاف ہیں.عورتوں کو ان کا حق دو ایک مرتبہ ایک شخص کو میں نے سمجھایا کہ عورتوں کوان کا حق دو ورنہ صاف عَذَابٌ مُّہِیْنٌ لکھا ہوا ہے.میرے سامنے تو وہ خاموش بیٹھا رہا لیکن گھر میںجا کر اس عورت کو کہنے لگا کہ ہم تجھے ’’گوہ دیں گے گوہ.‘‘ ایک مرتبہ مفتی … کا لڑکا میرے پاس آکر بیٹھ گیا.ایک آریہ نے چند اعتراض کئے میں نے اس کو خوب جواب دیئے وہ لڑکا بھی غور سے سنتا رہا.جب وہ آریہ اٹھ کر چلاگیا تو وہ مجھ کو کہنے لگا کہ یہ اعتراض تو ہمیں اسلام پر ہوتے نظر آتے ہیں مگر آپ کے جواب بڑے زبردست تھے.ہم تو آج تک اسلام کو کچھ اور ہی سمجھتے رہے مگر اب کچھ اور ہی معلوم ہوا.میںنے کہا کہ تمہارے باپ کا کیا حال ہے؟ کہنے لگا جی اس کا بھی ایسا ہی حال ہے.پر پوتھیوں کو ہمارا باپ مانتا ہے؟ میں نے کہا کہ کیا تمہارے یہاں پھوپھیوں کا بھی کوئی حق ہے؟ اس نے کہا کہ آپ بھی الٹی ہی بات کرتے ہیں.لینے کی بات کیجئے کوئی دینے کی بات بھی کیا کرتا ہے؟ جناب ہم لینے کی بات پڑھے ہوئے ہیں دینے کی نہیں پڑھے.۱۷؍ نومبر ۱۹۱۲ء بیماری گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے محمد اسحاق کی نبض دیکھ کر فرمایا کہ اب بہت نیک ہوجاؤ.لکھا ہے کہ بیماری بھی گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے.

Page 221

موت کے ساتھ فرصت ایک شخص نے کہا کہ حضور کچھ فرصت ہے؟ کہا کہ ہم تو موت کے ساتھ فرصت چاہتے ہیں.فرصت ہو تو موت ہی کیوں نہ ہو.یہ ایک بے ہودہ بات ہے کہ آپ فرصت پوچھتے ہیں اگر آپ کو کچھ کام ہے تو آپ اپنا مطلب بیان کریں.عرب و عجم اور شرفاء میں گالی فرمایا.سب سے بڑھ کر پنجاب میں گندی اور فحش گالیاں دی جاتی ہیں، اس کے بعد ہندوستان میں.اس کے بعد کشمیر میں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بہت مظلوم رہے ہیں اس لئے ان بیچاروں کو گالیاں دینے کی عادت ہوگئی.عربوں کو دیکھو کہ ان کی زبان میں ’’تیرا کان کاٹاجائے‘‘ ہی گالی ہے.شرفاء میںگالی کم ہوتی ہے.جس قدر فراست بڑھتی جاتی ہے اسی قدر گالیاں بڑھتی جاتی ہیں.عبداللہ بن سہل کا قتل عبداللہ بن سہل کو یہودیوں نے مارڈالا.اس کے بھائی نے جو اس کو مرتے دیکھا اس وقت اس کے خون جاری تھا.اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمسے آکر کہاکہ میرے بھائی کو یہودیوں نے مار ڈالا.آپ نے فرمایا تم چھوٹے ہو کسی بڑے آدمی کو بلاؤ.جب بڑا آدمی آیا تو فرمایا.تم میں سے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ اس کو یہودیوں نے ہی قتل کیا ہے.انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ہم تو وہاں نہ تھے ہم کیسے قسم کھا سکتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اچھا یہودیوں میں سے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ ہمارے کسی آدمی نے اس کو قتل نہیں کیا.تو انہوں نے کہا کہ ایسے بے ایمان آدمیوں کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں.آپ نے فرمایا کہ پھر فیصلہ کیسے ہو؟ پھر کہا کہ اچھا ہمارے پاس سے یہ سو اونٹ لے جاؤ.آپ نے اپنے پاس سے سو اونٹ دے کر فیصلہ کردیا.شاعر کہتے تو ہیں مگر عمل نہیں کرتے شاعر بہادری اور سخاوت وغیرہ کی تعریف تو بہت کر دیتے ہیں مگر خود بہادر اور سخی نہیں ہوتے.ایک شاعر اپنے معشوق کی تعریف کرتے کرتے لکھتا ہے کہ میں تو اس کو ہاتھ لگاتے لگاتے تھک گیا مگر سورج کی کرنیں بھلا کب قابو میں آسکتی ہیں.

Page 222

پہلے زمانہ میں بادشاہ لوگ خود رات کو پہرے دیا کرتے تھے.ایک بادشاہ سنتاتھا اور ایک شاعر رات کو ایک شعر پڑھ رہا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے کنواری لڑکی کو گرا لیا اور پھر اس کا ….صبح کو اس نے اس کو پکڑا اور کہا کہ میں تم کو قتل کروں گا.اس نے کہا کیوں؟ بادشاہ نے کہا کہ تو نے خود زنا کا اقرار کیا ہے.اس نے کہا کہ نہیں.بادشاہ نے اس کو اس کاوہ شعر پڑھ کر سنایا اور دریافت کیا کہ بتاؤ یہ شعر کس کا ہے؟ اس نے کہا یہ شعر تو میرا ہی ہے اور رات میں اس کو پڑھ رہا تھا کہ اچھا اب بھی اقرار ہوا یا نہیں.کہا کہ نہیں کیونکہ قرآن میں لکھا ہے(الشعراء :۲۲۷) یہ کہتے تو ہیں مگر عمل نہیں کرتے.سو جناب ہم نے بھی کہہ تو دیا مگر کیا کرایا کچھ نہیں.عرب میں ایک مرتبہ میں ایک گاؤں میں چلا گیا.رات کو واپس آیا چاندنی رات تھی.ایک گدھے والا شخص راستے میں ملا.اس کے ایک لڑکا دائیں طرف تھا اور ایک بائیں طرف تھا.ہم بھی ساتھ ہی تھے تو وہ خاطر میں ہی نہ لایا اور سارے راستے وہ تینوں گاتے ہی چلے آئے.سَوْقُکَ بِالْقَوَارِیْرِ.شیشے لدے ہوئے ہیں یا عورتیں سوار ہیں ایسا نہ ہو کہ اونٹ ُکودے اور عورتیں گرجائیں یا ان کو ابتلاء ہو.حضرت نبی کریم ﷺ جب کسی شخص کو جہاد کے وقت رخصت کرتے وقت رَحِمَ اللّٰہُ یا یَرْحَمُہُ اللّٰہُ فرما دیتے تھے تو یقینا وہ شخص شہیدہو جاتا تھا.محمد نامی چور اور ایک میراثی ایک شخص محمد نامی نے (جو چور تھا) ایک ڈوم کو بہت تنگ کیا.اس نے کہا کہ میں تیری (سٹ) ہجو کہوں گا.اس پر اس نے کہا کہ اگر تو میرے لئے سٹ طیار کرے گا تو یاد رکھ میرا نام محمد ہے میں تجھے کافر بنا کر تیری خبر لوں گا.اس مراثی نے ہجو طیار کی جس کے ہر شعر کے آخر میں یہ آتاتھا کہ جس دا اسیں کلمہ پڑھ دے او محمد ہو رہے ایہہ محمد چور ہے

Page 223

۲۴؍ نومبر ۱۹۱۲ء طبّ کرنے کو جی نہیں چاہتا میںنے حضرت صاحب سے پوچھا تھا کہ طب کرنے کومیرا جی نہیں چاہتا.فرمایا کہ آپ نے اس کو بڑی محنت سے پڑھا ہے ضائع مت کرو.موت کی دعا بہت سے لوگوں نے موت کی دعا کی ہے اور لکھا ہے کہ امام بخاری نے بھی کی اور سجدہ میں مر گئے.سعد بن معاذ نے سناہے کہ یہ کہا تھا کہ اگر قریش سے لڑائی ہے تو میں زندہ رہوں ورنہ میرا زخم کھل جائے اور میں مر جاؤں.کہتے ہیں کہ اسی وقت ان کا زخم کھل گیا اور وہ مرگئے.مولویوں کے فتوے حضرت نظام الدین خواجہ کی قبر دہلی سے سات کوس پرے ہے.جب مولویوں کے فتوؤں سے تنگ ہوگئے تو انہوں نے کہا کہ کہیں اور جگہ ڈیرہ لگانا چاہیے.چنانچہ وہ دہلی سے اٹھ کر وہاں چلے گئے جہاں پر اب ان کا مزار ہے.پھر مولویوں کی جانب سے یہ ان پر فتویٰ لگایا گیا کہ یہ شخص بڑا متکبر ہے بادشاہوں کے سلام کو نہیں آتا.بادشاہ نے حکم دیا کہ ہم فلاں دن دربار کریں گے تمام علماء اور شیوخ کو حاضر ہونا پڑے گا اور جو نہ آئے گا اس کو قتل کیا جائے گا.انہوں نے کہا کہ میرے تو پیر نے دربار میں جا کر سلام کرنا نہیں بتایا میں کیسے جا سکتا ہوں.لوگوں نے کہا کہ اگر آپ نہ گئے تو کل بادشاہ مروادے گا.آپ نے فرمایا.مترس از بلائے کہ شب درمیاں جب ابوالفضل اور فیضی پر فتوے لگنے شروع ہوئے تو قبل اس کے کہ ان کی طرف سے بادشاہ کو بدظن کیا جاتا وہ خود اکبر بادشاہ کے پاس جاپہنچے دونوں بھائی بڑے ہوشیار تھے پھر انہوں نے مولویوں کی کچھ نہیں چلنے دی.اکبر بادشاہ جب دربار کرتا تو ایک بڑے لوہے کے پنجرے پر بیٹھا کرتا تھا اور اس کے اندر کوئی نہیں جاسکتا تھا.ابوالفضل کے بھائی فیضی نے ایک مرتبہ بادشاہ کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا اور کہا کہ قصیدہ اس وقت سناؤں گا جب پہلے ایک رباعی پڑھنے کی اجازت دی جاوے.اس نے کہہ دیا کہ اچھا ایسا ہی کرو.ایک رباعی پڑھی جس کا ایک مصرع یہ تھا کہ

Page 224

جائے طوطی درون پنجرہ بہ اکبر بادشاہ نے حکم دے دیا کہ اچھا اندر آجاؤ.اندر جا کر اس نے مزے سے قصیدہ سنایا.دونوں بھائی بڑے ہی ہوشیار تھے اور مولویوں کی تو بڑی گت بناتے تھے.مولوی لوگ اپنے فتوؤں سے جب ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو جہانگیر نے ابوالفضل کو ایک اور شخص کے ذریعہ سے راستہ میں قتل کرا دیا.صلوٰۃ کے معانی صلوٰۃ.تعریف کرنا، دعا کرنا.وَصَلِّ عَلَیْہِمْ.دعا کرو ، تعریف کرو.اللہ تعالیٰ جس طرح اپنے رسول کی تعریف کر سکتا ہے دوسرا اس طرح کیونکر کر سکتا ہے.صلٰوۃ کے معنے رحمت کے نہیں ہیں کیونکہ (البقرۃ:۱۵۷)(البقرۃ:۱۵۸)میں صَلٰوۃٌ کے معنے رحمت کے نہیں بنتے.چینیوں کی مقدس کتاب تینجور بینجور.چینیوں کی مقدس کتاب تین سو پچیس جلدوں میں ہے اور ہر ایک جلد تین سیر وزنی ہے.مقروض ضَلْعٌ.بوجھ.جب انسان پر بوجھ پڑتا ہے تو ٹیڑھا ہو جاتا ہے.جو انسان مقروض ہوتا ہے وہ بھی دین سے کسی قدر ہٹ جاتا ہے کیونکہ جن آنکھوں سے لیتا ہے ان آنکھوں سے دیتا نہیں.۱۶؎ حوالہ جات ۱؎ ماخوذ از ڈائری.بدر حصہ دوم مورخہ۱۹؍ ستمبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ا ۲؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ۱۹؍ ستمبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۲ تا ۴ ۳؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۶ ۴؎ ماخوذ از احسن اللطائف.بدر حصہ دوم مورخہ۲۶؍ ستمبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۹ ۵؎ ماخوذ از ڈاک خلافت.بدر حصہ دوم مورخہ ۲۶؍ ستمبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۹ تا ۱۲ ۶؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۳؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۱۷ تا ۲۰

Page 225

۷؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۲۵ تا ۲۸ ۸؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۱۷؍کتوبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۳۳ تا ۳۶ ۹؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۴۱تا ۴۴ ۱۰؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۴۹تا ۵۲ ۱۱؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ۷ ۵ تا ۶۰ ۱۲؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ۶۵تا ۶۸ ۱۳؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۲۱؍ نومبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۷۳ تا ۷۶ ۱۴؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۲۸؍ نومبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۸۱ تا ۸۴ ۱۵ ؎ ماخوذ از نور صادق نمبر ۴ بدر حصہ دوم مورخہ ۲۸ نومبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۸۸ ۱۶؎ ماخوذ از کلام امیر.بدر حصہ دوم مورخہ ۵؍ دسمبر ۱۹۱۲ء.کلام امیر صفحہ ۹۰ تا ۹۳

Page 226

ملفوظات حضرت خلیفۃ المسیح ذمہ واری بہت مشکل کام ہے فرمایا.ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ میںیہ تلوار دینی چاہتا ہوں.کوئی تم میں سے ہے جو اس کو لے.سب کھڑے ہوگئے اور ہر ایک کہنے لگ گیا کہ مجھے دیجئے.مجھے دیجئے.پھر آپ نے فرمایا.بِحَقِّہَا یعنی اس کا کچھ حق بھی ہے وہ بھی ساتھ ہی لینا ہوگا.اس بات کو سن کر سب صحابہ نے نیچے سر کر لیا اور کوئی نہ بولا.تھوڑی دیر کے بعد ایک صحابی اٹھا اور اس نے کہا.بِحَقِّہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ یعنی اس کو بمعہ اس کے حق کے لیتا ہوں.چنانچہ آپ نے اس کے حوالہ تلوار کردی.پھر ان کو بھاری بھاری کام کرنے پڑے.بات یہ ہے کہ جب ذمہ واری کا کام آپڑتا ہے تو مشکل پڑ جاتی ہے.عدم جواز بت سازی و بت فروشی کی حکمت فرمایا.بت سازی ، بت فروشی کی جو مسلمانوں کو ممانعت کی گئی ہے اس میں بھاری حکمت یہ ہے کہ تا یہ کام دوسری قومیں کریں اور وہ بھی فائدہ اٹھائیں.اسلام بخیل نہیں ہے کہ سارے کام خود ہی سنبھال لیوے.دنیا میں بعض کاموں کو اس نے اسلام کے واسطے خاص کیا ہے اور بعض دوسروں کے واسطے خاص کئے ہیں.بعض مشترک ہیں.اگر کوئی کہے کہ اس سے تو جواز ثابت ہوگیا جبکہ دیگر مذاہب کو اجازت دی گئی.نہیں جواز نہیں بلکہ یہ ایک طرح کی تقسیم کی گئی ہے اور منشاء الٰہی اسی طرح ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الحج :۴۱).جبکہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو اللہ تعالیٰ نے قائم رکھا ہے.تو ایک طرح کا منشاء ہی ہے.دراصل اسلام رحمۃ للعالمین ہے ، سب جہان کو فائدہ پہنچانے والا ہے.آنحضرت ﷺ نے چند کسب اپنی قوم کے واسطے تجویز کئے باقی اوروں کے لئے رکھے.ناچنا گانا آجکل کے یورپینوں کے واسطے چھوڑا ہے.تصویر بنانا بھی دوسرے مذاہب کے واسطے ہے.اسی طرح فرمایا کہ گدھے کو

Page 227

گھوڑی پر اور گھوڑے کو گدھی پر نہ ڈالے حالانکہ آپ خود خچر پر سوار ہوتے تھے تو پھر منع کیوں کیا.اس واسطے کہ تم یہ کام نہ کرو اور لوگ کریں.اسی طرح بت بنانے اور تصویر بنانے سے منع کیا.اسی طرح ثمن الکلب یعنی کتے کا مول لینے سے منع کیا ہے.اس واسطے کہ تم سارے جہان کے کسبوں کو کیوں چھینتے ہو.ان کو بھی بعض کام خاص طور پر کرنے دو.یورپین لوگوں کا یہ منشاء ہے کہ دنیا کے سارے کام ہمارے ہی قبضہ میں آجاویں.یہ بخل ہے.غرضیکہ جتنے ذلیل پیشے ہیں ان سے اسلام والوں کو منع کیا ہے.مسلمان گھوڑے رکھیں، گائے رکھیں، سور کیوں رکھیں.چوہڑے کا کسب شرفا کا پیشہ نہیں ہے.…… میں نے صحابہ میں بہت غور کیا ہے وہ کسی جولاہے کو حقارت سے نہیں دیکھتے تھے.بعض قصور ان لوگوں (جولاہوں ) سے سرزد ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ ذلیل ہوگئے ہیں.تعلیم دلانے کے بارہ میں وسیع حوصلہ فرمایا.ایک دفعہ میرے والد صاحب مکتب میں آنکلے.میں تختی کو ہوا میں ہلا ہلا کر سوکھا رہا تھا.انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے کہا کہ تختی کو سوکھا رہا ہوں.انہوں نے کہا.بازو کو کیوں گندہ کیا ہے؟ میںنے کہا کہ اس کے ساتھ تختی کو صاف کیا ہے.انہوںنے فرمایا کہ تختی کو تو صاف کیا مگر جسم کو گندہ کیا.پھر میں نے وہ گھڑا بھی جو کالے پانی سے بھرا ہوا تھا دکھایا کہ یہاں پر تختی دھوئی تھی.تو فرمایا کہ آئو ہم اس کام کو پسند نہیں کرتے.مجھے ہمراہ لے گئے.ایک دوکان سے سیالکوٹی کاغذ بہت سے خریدے اور ایک شخص غلام حسن کو دے کر کہا کہ ان کو وصلیاں بنادو اور مجھے وہاں بٹھا گئے.میں ان کے گرد ہوگیا اور زور دیا کہ ابھی بنا دو.انہوں نے ایک کاغذ کے چار چار ٹکڑے کرکے دو دو ٹکڑے جوڑ کر وصلیاں بنادیں اور گھونٹ کر خوب صاف کردیں.کسی قدر جو تیار ہوگئیں ان کو لے کر میں گھر چلا آیا اور لکھنے لگ گیا.کسی پر الف لکھا، کسی پر ب لکھا، کسی پر کچھ کسی پر کچھ.غرضکہ جھٹ پٹ وہ تمام وصلیاں لکھ کر ختم کردیں.میرے والد صاحب باہر سے آئے تو بھائی صاحب نے والد صاحب کو کہا کہ آج آپ نے نور الدین کو کیا بتایا ہے کہ یہ کاغذ ضائع کررہا ہے.دیکھو ! کتنے کاغذ اس نے

Page 228

تھوڑی دیر میں خراب کردئیے ہیں.انہوں نے فرمایا.کیا ہرج ہے؟ تم اس کے نام بہی کھاتہ جدا کردو اور وہاں سے خرچ کرتے رہو.جب بڑا ہوگا تو اپنا قرضہ خود اتار لے گا.فرمایا.میں ایک دفعہ گلستان پڑھ رہا تھا.میں نے کہا کہ یہ گلستان تو بہت بد خط ہے.انہوں نے فرمایا کہ چھوڑ دو.میں کئی دن فارغ رہا.انہوں نے کشمیر سے نہایت خوشخط گلستان منگوائی اور میرے حوالہ کی.ایک دفعہ میں نے اس پر بے احتیاطی سے جو دوات رکھی اور وہ ہوا سے الٹ گئی تو سیاہی اس پر پھیل گئی.میں نے کہا کہ میاں صاحب اس پر تو سیاہی گر گئی.انہوں نے نہایت عالی حوصلگی سے فرمایا کہ کیا ہرج ہے اور لے دیں گے.قناعت اور غناء فرمایا کہ نواب بہاولپور ہمیں ساٹھ ایکڑ زمین دیتا تھا.ہم نے انکار کیا اور کہا کہ اس قدر زمین سے کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ آپ اس سے امیر کبیر ہوجائو گے.میں نے کہا کہ اب تو آپ ہمارے پاس چل کر آتے ہیں.کیا پھر بھی آئیں گے.انہوں نے کہا کہ نہیں.میں نے کہا کہ پھر فائدہ ہی کیا ہے؟ پھر فرمایا کہ میں نے اپنی اولاد کے واسطے کبھی فکر نہ کیا.نہ زمین کا نہ کسی اور بات کا.اگر ہم زمین لینا چاہتے تو بے شمار زمین جمع کرلیتے.اللہ نے میرے دادا سے بڑھ کر اولاد اور رزق میرے باپ کو دیا پھر مجھ کو مال، کتابیں، علم، شہرت وغیرہ سب کچھ باپ سے زیادہ دیا.مہدی بہت ہیں فرمایا.مہدی بہت ہوئے ہیں.محمد بن عبداللہ بھی ایک مہدی گزرے ہیں.امام حسن کی اولاد سے تھے.ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی مہدی ہے.جس محمد نے قسطنطنیہ فتح کیا تھا وہ بھی مہدی ہے.سید عبدالقادر جیلانی بھی مہدی ہیں.یہ بھی حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ حضرت عباس کی اولاد سے مہدی ہوگا یہ حجج الکرامہ میں ہے.حدیث میں آیا ہے عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ(التوضیح لشرح الجامع الصحیح کتاب الطلاق باب حکم المفقود فی اہلہ و مالہ).سب خلفائے راشدین مہدی ہی ہیں.

Page 229

لوگ کہتے ہیں کیا مسیح مہدی ہے.میں کہتا ہوں کہ کیا مہدی کوئی کبوتر ہوتا ہے.ہمارے نزدیک تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علی ؓ اور امام حسنؓ، امام حسینؓ ، جعفر ؓ ابن محمد سب مہدی تھے.سید عبدالقادر جیلانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ ، حضرت مجدد الف ثانی ؒ ، حضرت شہاب الدین سہروردی ، حضرت زکریا ملتانی سب مہدی تھے.امرتسر میں ایک شخص کے ہاں ایک قسم کی گولی بکتی تھی.اس پر مسیح صادق لکھا تھا.حضرت صاحب نے کون سا اندھیر کیا کہ مہدی ہونے کا دعویٰ کردیا.لوگ اپنے دشمن کو سُؤر، گدھا، اُلو ، کتا وغیرہ کہہ دیتے ہیں.ہم پوچھتے ہیں کہ بددعاؤں میں تو یہ لفظ استعمال کر لئے.کبھی کسی اپنے بھائی کے واسطے یہ بھی دعا کی کہ تم مہدی یا مسیح ہو جاؤ.عمر یا ابوبکر ہوجاؤ، اس کے یہ معنے سمجھنے غلطی ہے کہ وہ عمر ہی ہو.جیسا کہ تم بروں کو کتا اور گدھا وغیرہ کہتے ہو.ایسا ہی نیکوں کو بھی کہہ دیا کرو کہ فلاںایسا ہے جیسا امام اعظم ہے.فلاں ایسا زاہد ہے جیسے فلاں زاہد ہے.لوگوں نے مہدی کے لفظ کو خوفناک بنادیا ہے.ہمارے بھیرے کے پاس ایک گاؤں ہجکہ ہے وہاں ایک حیدر نام ملنگ فقیر رہتا تھا.میں نے اس سے پوچھا کہ امام مہدی کی کیا علامت ہوگی.اس نے کہا کہ حضرت مہدی کی علامت صاف ہے.ہم سوالاکھ فقیر مُتہروں والے آگے آگے ہوں گے اور دھمال پاتے جائیں گے.(یعنی ڈھول بجا کر ناچتے ہوں گے.راقم) پیچھے امام مہدی ہوں گے.میں نے کہا کہ مولوی لوگ ساتھ نہ ہوں گے.اس نے کہا کہ اگر انہوں نے بھی ساتھ ہی ہونا ہے اور نمازیں ہی پڑھانی ہیں تو ہم نے ایسے امام مہدی کو کرنا ہی کیا ہے.وہاں تو سوالاکھ مُتہر (بھنگ گھوٹنے والا ڈنڈا.راقم) چلے گی پھر ہم کو لوگ خطوں میں لکھتے ہیں مسیح الزمان ہمارے آقا کو تو مسیح الزمان مانتے نہیں اور ہمیں مسیح الزمان سمجھتے ہیں.(محمد عبداللہ بوتالوی) (البدر جلد ۱۲ نمبر ۱۳ مورخہ۲۶؍ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ ،۴ ) مومن کو خوف نہیں  (البقرۃ:۳۹) پڑھ کر فرمایاکہ قرآن مجید مجھے ایسا نسخہ ملا ہے کہ ہمیں کبھی خوف اور حزن نہیں ہوتا خواہ کیسی ہی بڑی بات کیوں

Page 230

نہ ہو.آج کل ہمارے فرزندان عبدالحی اور عبدالسلام کشمیر کی سیر کو تشریف لے گئے ہوئے ہیں اور ہماری بی بی کو ان کا بہت فکر لگا ہوا ہے.چنانچہ کل تار کے جواب جلد نہ آنے سے ان کو بہت تکلیف ہوئی.میں نے ان کو سمجھایا کہ کوئی خوف و حزن کی بات نہیں اللہ تعالیٰ ان کا محافظ ہے وہ خود ہی ان کو یہاں لے آئے گا.پھر آپ نے فرمایا کہ ایک لڑکا علی گڑھ کالج میں ہمارے خرچ سے پڑھتا تھا اور وہ ہندو سے مسلمان ہوا تھا.ہم نے اس کے پڑھانے پر ہزاروں روپیہ خرچ کیے اور جب وہ پڑھ چکا تو اس نے ہمیں ایک خط اس مضمون کا لکھا کہ میں اسلام کو چھوڑتا ہوں اور اپنی ناپاکی کو اتارنے کے لیے گنگا جی جاتا ہوں.جس وقت میرے پاس یہ خط پہنچا اس وقت میرا ایک دوست میرے پاس بیٹھا ہوا تھا اور وہ جانتا تھا کہ میں نے اس لڑکے کی پڑھائی پر ہزاروں روپیہ خرچ کیے ہیں اس واسطے اس نے خیال کیا کہ یہ خط پڑھ کر چیخ اٹھے گا مگر ہم نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ہمیں ایک چھوٹا سا اور بڑا لطیف مضمون سمجھادے.چنانچہ میں نے خط کے جواب میں ایک کارڈ پر ایک آیت لکھ دی جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ایک آدمی تمہارے دین سے مرتد ہوجاوے تو خداوند کریم اپنے کرم سے ایک قوم دیتا ہے اور ہم کو اس تمہارے خط سے نہایت ہی خوشی ہوئی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایک جماعت عطا فرمائی.عمل کرو ایک شخص کے خط کے جواب میں فرمایا.کوئی شریر نہ ہمارا ہے اور نہ ہم اس کے.احمدی کہلانے سے کوئی احمدی نہیں ہوسکتا.میں نے بعضے کنجروں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ مسلمان کہلاتے ہیں لیکن کیا وہ مسلمان ہوتے ہیں؟ میرے نزدیک ایسے لوگوں کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں.مسجدیں اللہ کے نام کے لیے ہوتی ہیں اور جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہیئے.فرمایا.بعض لوگ خالص اللہ کے نام کو پسند نہیں کرتے اور برا جانتے ہیں.شیعہ میں اگر

Page 231

حضرت علیؓ امام حسن و حسینؓ کا ذکر نہ کیا جاوے تو اس کو بے ایمان جانتے ہیں.اسی طرح ہر ایک فرقہ کا نام نہ لیا جاوے تو وہ اس کو برا بلکہ بے ایمان سمجھتے ہیں.فرمایا.یہ غلط ہے.اسی طرح پر احمدیوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام نہ آوے تو اس کو بے ایمان سمجھتے ہیں.میرے گھر میں ایک عورت آئی.میری بی بی نے اس کو پوچھا کہ تمہاری فلاں گدی کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا (جی کیا بات ہے وہاں تو نور ہی نور ہے اور اندر باہر نور ہی نور نظر آتا ہے) پوچھا کہ آخر کیا ہے؟ تب اس عورت نے کہا کہ اندر بھی باہر بھی راگ کا نور برس رہا ہے.اندر باہر گانے والے قوال بیٹھے رہتے ہیں.خواجہ صاحب کو نصیحت درس ظہر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح نے خوا جہ کمال الدین صاحب کو اشارہ کرکے فرمایاکہ آؤ آپ کو بھی چند باتیں سنا دیں.فرمایا.تم ولایت کو جاتے ہو کسی اپنی خوبی کا گھمنڈ مت کرنا.فرمایا.ولایت میں بڑے بڑے کام ہوتے ہیں اور اس میں بڑے بڑے ابتلا بھی ہیں اور بڑے بڑے آرام بھی ہیں اور وہاں بڑے بڑے شریر بھی ہیں اور اس میں بڑے بڑے شرفا بھی ہیں.وہ شہر میرے نزدیک ایسا ہے کہ اس میں بڑے بڑے نیک لوگ بھی ہیں.فرمایا.میرا ایمان ہے کہ اگر اس شہر میں نیک لوگ نہ ہوتے تو وہ شہر آباد نہ ہوتا.فرمایا.شراب، سؤر، بری مجلس سے بچتے رہنا.میرے بھی تم پر بڑے بڑے حق ہیں میری باتوں کا خیال رکھنا.فرمایا.بقدر طاقت اپنی کے دین کی خدمت وہاں ضرور کرو.فرمایا.اور کوئی وہاں اپنی ترقی (وکالت) کا بھی کام کرو.فرمایا.ہفتہ میں ایک خط یہاں پہنچ جاتا ہے اس لیے ہم کو ایک خط ضرور لکھا کریں.اگر نہ

Page 232

ہوسکے توکارڈ ہی سہی.بعد دعا کے خوا جہ صاحب کو رخصت کیا گیا.نماز تہجد کی نذر ماننا ایک شخص نے سوال کیا کہ میں نے ایک کام کے عوض میں تہجد کی نماز نذر مانی ہے.فرمایا.تہجد کی نذر ماننی میرے نزدیک اچھی نہیں کیونکہ تہجد کی نماز اللہ تعالیٰ نے فرض نہیں فرمائی.جب تم نذر مانو گے تو اس صورت میں تہجد کی نماز تم پر فرض ہوجائے گی اور انسان کمزور ہے.احمدی ایک آدمی کا خط پیش ہوا تو فرمایا کہ جو شخص آپس میں فساد ڈلواتا ہے ، لڑائی جھگڑے کو پسند کرتا ہے اور رشوت اور ناجائز وسائل سے روپیہ کماتا ہے وہ احمدی نہیں ہے.ایک آدمی کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے کہ وہ احمدی نہیں.جو اس کو احمدی کہتا ہے وہ غلطی کرتا ہے وہ ہماری جماعت سے نہیں.لڑکیوں کا بغیر اجازت کے نکاح کردینا اور عدت وغیرہ کا کوئی لحاظ نہ کرنا کیا یہ احمدیوں کا کام ہے؟ طرز نظم فرمایا.میں نے تین زبانوں کا مطالعہ کیا ہے.عرب لوگ اپنے شعروں میں معشوق کو مؤنث باندھتے ہیں اور اپنے آپ کو مذکر.یہ فطرت کے مطابق معلوم ہوتا ہے.ایرانی لوگ، معلوم ہوتا ہے ا ن میں لواطت بہت کثرت سے ہے.اپنے معشوق اور اپنے آپ دونوں کو مذکر باندھتے ہیں اور خوب خط وخال کا نقشہ کھینچتے ہیں.سنسکرت اپنے معشوق کو نر باندھتے ہیں یعنی پتی اور اپنے آپ کو مؤنث.یہ پہلی قسم کا الٹ ہے.کرشن کی گوپیاں پھر فرمایا.کرشن کے متعلق یہ جو مشہور ہے کہ ان کی سولہ لاکھ گوپیاں تھیں.تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ سولہ لاکھ ان کے مرید ہوں گے اور محبت کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو کرشن صاحب کا اس طرح مطیع و فرمانبردار بنالیا جس طرح کہ بی بی اپنے آپ کو خاوند کا مطیع و فرمانبردار بنالیتی ہے تو اس واسطے ان کو اعنی کرشن کو پتی کہا اور خود پتنیاں بن گئیں.ورنہ نہ تو سولہ لاکھ عورتوں

Page 233

سے آدمی جماع کرسکتا ہے اور نہ ہی سولہ لاکھ سے محبت کرسکتا ہے.نہیں تو کوئی ہم کو سمجھادے.دراصل نکتہ یہی ہے مگر کم علمی کی وجہ سے اپنے مذہب کو بھول گئے.پھر فرمایا کہ یہ بھی ایک بڑا بھاری مسئلہ ہے کہ کرشن پہلے ہوئے یا رام چندر جی؟ رامائن میں کرشن کا ذکر نہیں اور مہابھارت میں رامچندر کا ذکر نہیں.پھر کوروں پانڈو کے جنگ میں یہ لوگ اس کو بھی شریک کرتے ہیں.جب تمام لوگ دور دور سے آئے تو رام چندر کا کچھ ذکر تو ہوتا.پھرفرمایا.بعض کشفی معاملات ہوتے ہیں.لوگ مانیںیا نہ مانیں.مجدد الف ثانی کہتے ہیں کہ سر ہند کا جو ٹبہ ہے وہاں نبیوں کی قبریں ہیں.صرف سرہند کے شہر میں.یہ کشفی معاملہ ہے.پھر فرمایا.مظہر جان جاناں متھرا گئے تو کشف میں آپ کو سات روپیہ دئیے اور کہا کہ آپ ہمارے ملک میں آئیے اور یہاں رہیے ہم آپ کی دعوت کے طور پر یہ روپیہ دیتے ہیں.تو آپ نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا.میں کرشن ہوں.(ماخوذ از بدر منور.البدر جلد۱۲ نمبر۱۴مورخہ ۳ا؍ کتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ۳) حضرت خلیفۃ المسیح کے خطوط ظہیر کے نام پہلا خط السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آپ کا لمبا چوڑا خط مجھے پہنچا ہے.آپ ایک جوان آدمی ہیں اور میں بڈھا ہوں.آپ کو خوب فرصت ہے اور میں عدیم الفرصت ہوں.آپ نہ میری مجلس میں رہے اور نہ میری طرز تعلیم کو پایا.آپ کا یہ فقرہ کہ ’’آپ کے بعض اعتقادات سے مجھے اختلاف ہیں.‘‘ آپ کی طبیعت میں تیزی بھی ہے.میری مخالفت میں آپ مستقل ہیں مگر آپ ویسے مستقل نہیں.مجھ پر جتنے اعتراض چاہو کرلو.

Page 234

آپ کے خط میں اناپ شناپ باتیں بہت بھری ہوئی ہیں اس لیے آپ سے میں آئندہ اب خط و کتابت کرنے کو پسند نہیں کرتا.آپ کا چونکہ میرے اعتقاد سے بھی اختلاف ہے جیساکہ آپ نے لکھا ہے اس واسطے آپ کو میں احمدی نہیں سمجھتا نہ مریدین میں شمار کرتا ہوں نہ آپ سے تعلق ہے نہ آپ سے مجھے رنج ہے.آپ کو باتیں بنانی آتی ہیں آپ کی جو خواہش ہے وہ اعلان بدر میں درج کرادوں گا.مگر آپ کا طرز کلام و مضمون جو آپ نے خط میں اختیار کیا ہے مجھے بہت ہی ناپسند ہے.خیر ہرکس بخیالی خویش مختار.جہاں عقائد میں باہم اختلاف ہو تو پیری مریدی کیا بلا ہے.آپ آزاد ہیں.والسلام نورالدین ۴؍ جولائی ۱۹۱۲ء دوسرا خط السلام علیکم روحانی تعلق بڑا نازک ہوتا ہے.آپ نے صاف مجھے لکھا ہے کہ ’’میں عقائد میں آپ کا مخالف ہوں‘‘.تو پھر میری سمجھ میں بھی نہیں آسکتا کہ میرے عقائد کے تو آپ مخالف کے مخالف ہی رہیں اور مرید بھی اور میں ادھر اپنی زندگی میں منافقانہ طرز کو اختیار کرلوں.میں پیری و مریدی کا خواہش مند نہیں ہوں نہ ایسی نمبرداری کا مجھے شوق ہے.ہاں جب کوئی میرے ہاتھ پر توبہ کرتا ہے تو اس وقت میں اس تعلق کے سبب سے جو اس کا میرے ساتھ ہوجاتا ہے گواہ ہوجاتا ہوں اور تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو استقامت عطا فرمادے.آمین.کوئی ایسی مصلحت الٰہی ہے جو میں کتابیں لکھا نہیں کرتا.بفضلہ تعالیٰ میں لکھنا جانتا ہوں.آپ نے کتاب نورالدین، فصل الخطاب، تصدیق براہین احمدیہ کو ملاحظہ کیا ہوگا اور آپ کو پتہ لگ گیا ہوگا کہ مجھے بھی لکھنے کا ڈھب آتا ہے.باوجود اس کے میں نے کبھی کوئی رسالہ اپنی جماعت کے لیے نہیں لکھا.اس کے بہت اسباب ہیں.منجملہ ان اسباب کے ایک یہ بھی سبب ہے کہ میرے کسی رسالہ میں یا میری

Page 235

کسی تحریر میں کوئی ایسا فقرہ جو کسی کے خیال میں حضرت کی تحریر کے مخالف ہو تفرقہ اور مخالفت کا باعث نہ بن جاوے.بڈھا ہوں، مدت سے بیمار ہوں، ضعیف ہوں، زندگانی کا اعتبار نہیں.میں تو ہر روز رات کو مرتا ہوں.حیاتی کا تو کسی کو بھی علم نہیں.پس میں اپنے ان تھوڑے دنوں میں اس چھوٹی سی جماعت میں تفرقہ کرنا ناپسند سمجھتا ہوں.اس کو آپ اخلاقی کمزوری یا عدم جرأت یا کوئی نیک ظنی سمجھ لیویں.میں عدیم الفرصت اور آپ کو لکھنے کا شوق ہے اور لکھنا آتا ہے آپ مجھے خط نہ لکھا کریں.آپ نے لاہور میں جو روپیہ مجھے دیا تھا آپ اس کی نسبت تعجب کریں گے کہ میں نے اب تک وہ روپیہ الگ کا الگ کر رکھا ہے.بحمد اللہ میں کماتا ہوں اور دوکان بظاہر طب کی بنائی ہوئی ہے.تم نے لکھا ہے کہ میری طرف اس میں اشارہ ہے.میں نے لکھا ہے کہ اس میں آپ کی نسبت اشارہ نہیں ہے حالانکہ میں اپنی طرز میں مناسب نہیں سمجھتا تھا مگر جن کی طرف اشارہ تھا اس کا نام بھی آپ کی طرف لکھ دیا.مگر پھر بھی آپ نے بڑی صفائی سے لکھ دیا کہ نورالدین کے عقائد سے میں مخالفت رکھتا ہوں اور ان عقائد پر میں بڑا مضبوط ہوں.میاں ظہیرالدین ایک بات میں نے صاف صاف لکھ دی آپ صبر فرماتے خوش ہوجاتے.مخالفت کے تذکرہ کی آپ کو کیا ضرورت تھی.ہمارے عقائد وہی ہیں جو قرآن کریم میں لفظ ایمان اور کفر کے نیچے مندرج ہیں.ایمان کے ماتحت جو کچھ مذکور ہوا ان پر میرا ایمان ہے والحمدللہ.اور جو کفر کے لفظ کے نیچے ہیں ان سے مجھے دلی انکار ہے.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.(نورالدین ۱۱ ؍ جولائی ۱۹۱۲ء) (الحکم جلد۱۶ نمبر ۳۱،۳۲ مورخہ ۷،۱۴؍ اکتوبر ۹۱۲ء صفحہ ۷،۸) خیالی تصویر نہ بنائو فرمایا.  (اٰل عمران:۱۸۴).اس کے بارہ میں ایک عجیب نکتہ میں تم کو سناتا ہوں.تم سب آدمی غور کرو جب تم کسی کا نام سنتے ہو تو تمہارے دل میں ایک

Page 236

شکل آجاوے گی مگر پھر جب اس کو دیکھتے ہو تو کیا فی الواقعہ ویسی ہی تصویر ہوتی ہے جو تم نے اپنے ذہن میں تجویز کر رکھی تھی؟ ہرگز نہیں بلکہ اور ہوتی ہے.اس سے میں نے ایک نتیجہ نکالا.جب میں نے اللہ کا نام سنا تو دل میںتصویر بنی تو اللہ نے مجھے سمجھایا کہ دنیا میں یہ قاعدہ نہیں ہے اس واسطے جو خیالی تصویر تو نے باندھی ہے یہ غلط ہے.ایک تو مجھے یہ فائدہ پہنچا جب میرے دل میں خیال آیا وہ ایسا ہوگا ویسا ہوگا تو میرے دل نے کہا کہ یہ تو تمہارا تجویز کردہ خدا ہے.اللہ کی صفتیں سنتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں مگر اللہ کی بابت یہ کبھی خیال نہ ہونا چاہیے کہ وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم نے اپنے دل میں سوچ رکھا ہے.دوسرا فائدہ یہ پہنچا ہے کہ اگلے زمانہ میں جب ہم چھوٹے تھے تو سنا کرتے تھے کہ حضرت (عیسیٰ) علیہ السلام آویں گے ایسے ہوں گے ویسے ہوں گے.غرض کہ یہ سب باتیں سن کر احمقوں نے جو دل میں ایک تصویر بنالی تھی اس کو عین سمجھ لیا اور مرزا صاحب کا انکار اسی بنا پر کیا گیا کہ وہ ان کی خیالی تصویر کے مطابق نہ اترے.انہوں نے دیکھا کہ وہ تو ایک ہماری طرح ہی آدمی ہیں.ہمارے پاس لوگ بیمار آتے ہیں وہ بھی دل میں کئی کئی خیال جما کرآتے ہیں کہ وہ ایسے ہوں گے اس طرح بیٹھے ہوں گے پھر دیکھنے کے وقت انہیں ہم ایک معمولی انسان نظر آتے ہیں.اس قاعدہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک حکمت رکھی ہوئی ہے اور اسی واسطے اللہ تعالیٰ وہ خیالی تصویر رہنے نہیں دیتا تاکہ خدا کی نسبت غلط خیال نہ بیٹھ جاویں.اس سے مجھے مرزا صاحب کے ماننے میں ذرا بھی دقت نہ ہوئی.خیالی تصویر تو ہم نے بنائی ہوئی نہ تھی حدیث والے خط و خال ہم کو مل ہی گئے.یہ تمہید میں نے اس واسطے بیان کی ہے کہ یہودیوں اور ہندوؤں اور آریوں اور اگنی ہوتر اور مجوسیوں میں ایک رواج ہے کہ زمین میں ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر عمدہ لکڑیاں اس میں جلادیتے ہیں اس کو اگنی کُنڈ کہتے ہیں.عربی میں اَجْ آگ کو کہتے ہیں.گویا آگ یا اگ لفظ کااَجْ معرب ہے.لوگ گرد بیٹھ جاتے ہیں صندل اور کستوری اور زعفران اور عود، گھی، شہد ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے پھر کچھ پڑھ کر آگ میں ڈال دیتے ہیں.ان کی قربانی کو آگ کھا لیتی ہے.یہودی لوگ بکرا ذبح کرکے

Page 237

آگ میں ڈالتے تھے اس کو سوختنی قربانی کہتے تھے.تورات میںبڑا لکھا ہے وہ جو خیال ان کا تھا کہ جو رسول آوے گا وہ ہماری سوختنی قربانی کا رواج بھی دے گا وہ پورا نہ ہوا اس واسطے انکار کردیا.اب بھی لوگ ایک خیالی تصویر دل میںبٹھالیتے ہیں.ہجکہ (بھیرہ کے متصل ایک چھوٹا سا گاؤں ہے) کا ایک فقیر شیعہ تھا اس کا نام حیدر تھا.میں نے اس سے پوچھا کہ امام مہدی جب آویں گے تو تم ان کو کس طرح پہچانو گے؟ اس نے کہا کہ ان کی یہ پہچان ہوگی کہ ان کے آگے آگے سوالاکھ فقیر متہریں (بھنگ گھوٹنے والے ڈنڈے) اٹھا کر ناچتے آویں گے.(ماخوذ از بدر منور.البدر جلد۱۲ نمبر۱۵ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ۳) تعلیم کا شوق ۵ا؍ کتوبر ۱۹۱۲ء بوقت صبح حضرت امیرالمومنین نے ڈاکٹر الٰہی بخش کے صاحبزادے بابو بشیر احمد صاحبکو جو کالج لاہور جاتے تھے رخصت کرتے ہوئے فرمایا کہ نیک مجلسوں میں رہو، جاؤ اور پڑھو، بار بار گھر کو نہیں دوڑنا چاہیے.بیمار بھی لڑکے ہوہی جایا کرتے ہیں.میرے باپ نے تو مجھ کو کہا تھا کہ اتنی دور جاکر پڑھو کہ ہمارے مرنے کی خبر بھی تم کو نہ پہنچ سکے.گناہ سے بچنے کا ذریعہ فرمایا کہ میں نے کئی ایک بزرگوں سے خود دریافت کیا ہے کہ انسان گناہ سے کس طرح بچ سکتا ہے؟ مولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے فرمایا کہ انسان موت کو یاد رکھنے سے بچ جاتا ہے.ایک میرے استاد میرے پیر تھے جن سے میں بیعت بھی تھا اور ان کا نام عبدالغنی تھا انہوں نے فرمایا کہ جو انسان ہر وقت خدا تعالیٰ کو سامنے رکھتا ہے وہ بچ جاتا ہے.مرزا صاحب مسیح موعود علیہ السلام بھی میرے پیر ہی تھے ان سے بھی میں نے بیعت ہی کی ہوئی تھی ان سے میں نے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ آدمی بہت کثرت سے استغفار کرنے سے بچ جاتا ہے.مدت کی بات ہے ایک مرتبہ میرے دل میں ایک گناہ کا ارادہ ہوا.یہاں تک کہ میرا نفس

Page 238

شریعت میں اس کے جواز کے لیے حیلے بہانے تلاش کرنے لگا.تب میں نے یہ علاج کیا کہ چھوٹی چھوٹی حمائلیں قرآن شریف کی لے کر اپنے سامنے اور اردگرد ایسے مقاموں پر لٹکادیں جہاں کہ جلدجلد میری نظر پڑتی رہے اور اپنی جیبوں میں بھی میں نے رکھ لیں.جب اس گناہ کا میرے دل میں خیال پیدا ہوتا تو ان حمائلوں میں سے کسی ایک کو دیکھتا اور کہتا کہ دیکھ تو اس کتاب پر ایمان لایا ہے اور پھر اس قسم کا خیال تیرے دل میں آتا ہے.پھر فرمایا کہ ایسا کرنے سے مجھے شرم آجاتی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وہ خیال میرے دل سے دور کردیا.بد صحبت سے بچو فرمایا کہ بری صحبت انسان کو بہت خراب کرتی ہے.ایک شخص نے جو بہت ہوشیار ہے مجھے خود بتلایا کہ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ فلاں شخص کے گھر لوہے کے صندوق میں بڑا زیور اور روپیہ ہے.ہم اس مکان پر …چڑھ گئے اور بڑی محنت و مشقت سے اس صندوق تک پہنچے مگر اس گھر کی مالکہ ایسی ہوشیار نکلی کہ اس نے روپیہ اور تمام زیور صندوق کے نیچے زمین میں گاڑ رکھا تھا اور اوپر صرف خالی صندوق رکھ دیا تھا.ہم صندوق کو مال سے پُر سمجھ کر بمشکل تمام اٹھالائے جب کھولا تو خالی پایا.ہم لوگ پکڑے گئے پولیس کے حوالے ہوکر جیل خانے میں پہنچے.جب وہ گئے تو دوسرے قیدی لگے ہم سے سرگزشت پوچھنے.جب انہوں نے سنا کہ ہم نے اس طرح سے دھوکا کھایا ہے تو لگے وہ ہر طرف سے تدبیریں بتانے کہ اگر اب کی مرتبہ چھوٹ کر جاؤ گے اس طرح کرنا اور اس طرح کرنا.فرمایا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بدکار لوگ بڑی بڑی بدیاں سکھاتے ہیں.پھر فرمایا کہ ایک ڈاکو جو بڑے ڈاکوؤں کا سردار تھا اور سرکار نے اسے دوسرے ڈاکوؤں کے پکڑنے کے لیے نوکر رکھا ہوا تھا مجھے ملا.اس سے میں نے دریافت کیا کہ تم نے کس قدر خون کیے ہیں؟ فرمایا کہ اس نے مجھے جواب دیا کہ کوئی تعداد نہیں.نہ بچہ چھوڑا، نہ بوڑھا، نہ جوان ، نہ عورت، نہ مرد، نہ فقیر، نہ امیر، غرض یہ کہ جو سامنے آتا تھا اسی کو قتل کرڈالتا تھا.فرمایا.میں نے اس سے سوال کیا کہ کبھی کسی کو قتل کرتے ہوئے خدا کا خوف بھی آیا ہے یا نہیں؟ کہنے لگا کہ مولوی صاحب! خدا کا خوف انسان کو اس وقت آتا ہے جبکہ وہ تنہا ہو.تنہائی میں مجھے بھی خدا کا خوف آتا ہے مگر جب

Page 239

پانچ چھ ملے پھر کسی کا بھی خوف نہیں آتا تھا.فرمایا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب پانچ چار بد لوگ جمع ہوجائیں تو پھر ان کو خدا کا خوف بھی نہیں آتا.پھر فرمایا کہ اس ڈاکو نے مجھے یہ بھی سنایا کہ ایک مرتبہ میں نے اپنی چَھوِی کو تیز کرایااور اس کو لے کر چلا.جب سڑک پر پہنچا تو میرے دل میں خیال آیا کہ اس چَھوِی کو دیکھنا چاہئے کہ آیا یہ اچھی چلتی بھی ہے یا نہیں.جب میں سڑک پر اور آگے بڑھا تو مجھ کو ایک عورت اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی جاتی ہوئی ملی.میں نے تو اپنی چَھوِی کو اس مرد کے سر پر مارا کہ فوراً اس کا سر بدن سے الگ جاپڑا.یہ دیکھتے ہی عورت کی چیخ نکل گئی.میں نے کہا کہ ہیں! روتی کیوں ہے؟ میں نے اپنی چَھوِی کی تیزی دیکھی ہے.پھر فرمایا کہ ایک بہت امیر کبیر سکھ میرے پاس آیا.میں نے اس کو چند نصیحتیں کیں اور کہا کہ برے آدمی کی صحبت سے بچو اور زنا نہ کرو.وہ میرے پاس سے اٹھ کر ایک ہندو سادھو کے پاس جابیٹھا.اس نے بھی اس کو یہی نصیحت کی کہ زنا نہیں کرنا چاہئے مگر اس کا ایک بد مصاحب اس کو اپنے ہمراہ ایک رنڈی کے یہاں لے گیا.دونوں کو آتشک ہوگئی مگر اس سکھ کو بڑی سخت قسم کی آتشک ہوئی.بیماری کے کئی دن بعد تک وہ ہم سے نہ ملا آخر کو بیچارہ ہمارے پاس آیا میرا لحاظ بھی وہ لوگ بہت کرتے تھے.میرے پاس وہ آتو گئے مگر اب وہ ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ تم کہو.آخر کو میں نے ان کے ایک دوسرے کو اشارے کرنے سے تاڑ لیا کہ ضرور ان کو کوئی سخت بیماری لگی ہے جس کے سبب سے یہ اپنا حال کہتے ہوئے شرماتے ہیں.میں نے کہا کہ دیکھو! تم ہمارے دوست ہو اور تمہارے سبب سے یہ لوگ بھی ہمارے دوست ہیں اور ہم طبیب ہیں.تم ایک دوسرے کو جو ہنس ہنس کر اشارے کررہے ہو تو مجھے ہی کیوں نہیں بتلادیتے.پھر میں نے خود ہی کہا کہ معلوم کرگیا ہوں کہ تم کو کوئی سخت بیماری مثل سوزاک یا آتشک ہوئی ہے.اس سکھ نے تو سرنیچا کرلیا مگر دوسرے نے کہا کہ ہاں! آتشک ہوئی مگر بڑی سخت ہوئی ہے.کئی سوروپیہ اس سکھ نے مجھ کو دیا.میں نے پوچھا کہ یہ بیماری تم کو کب لگی ہے؟ کہنے لگا کہ اسی روز ہوئی ہے جس روز آپ نے نصیحت فرمائی کہ زنا نہ کرنا چاہئے.پھرکہنے لگا کہ جب میں یہاں سے اٹھ کرگیا تو ایک ہندو سادھو نے بھی یہی نصیحت کی.میں نے اس سے سوال کیا کہ تم نے پھر کیوں

Page 240

نہ مانی؟ اپنے دوست کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ صاحب! اس نے مجھے پھنسادیا.پھر فرمایاکہ دیکھو! برے دوست انسان کو بڑا خراب کرتے ہیں.گناہ سے بچنے کے پانچ علاج فرمایا کہ میں نے گناہ سے بچنے کے پانچ علاج تجربہ کیے ہیں.(۱)ایک یہ کہ بروں کے پاس نہ بیٹھو.(۲)قرآن شریف پاس ہو تو شرم آہی جاتی ہے.(۳)موت کو یاد رکھنے سے انسان گناہوں سے بچ جاتا ہے.(۴)نیکوں کی صحبت میںرہنا چاہئے (۵) اور ایک علاج حضرت یوسف علیہ السلام نے بتایا ہے جبکہ ان کو زلیخا نے پھسلایا اور چاہا کہ میرے ساتھ زنا کرے تو آپ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا کی    (یوسف:۳۴) کہا اے حضرت باری تعالیٰ آپ خود ہی مجھے بچائیں کیونکہ یہ تو بری طرح میرے پیچھے پڑی ہے اور میں اس کا غلام ہوں اور رات دن رہتا بھی یہیں ہوں.نیک صحبت کے فائدے پھر فرمایا کہ نیک صحبت کے بڑے بڑے فائدے ہیں اگر میں تم کو سناؤں تو تم حیران ہوجاؤ.بعض اوقات جو لوگ میرے پاس بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں میرے دل میں بڑے زور سے تحریک ہوتی ہے کہ سب کے لیے دعا کر! اور بعض اوقات لوگوں کے دل میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں کہ ان کے لیے دعا کر!بعض اوقات نیک صحبت کے فیض سے بڑے بڑے گناہ ردّ ہوجاتے ہیں.ایک مرتبہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑے دربار میں تشریف رکھتے تھے.تین آدمی آپ کی مجلس میں آئے.ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت نبی کریم کے پاس ایک جگہ خالی ہے.وہ آپ کے قریب جاکر بیٹھ گیا.دوسرے نے دیکھا کہ قریب تو جگہ ہے نہیں وہ اتنی دور ہوکر بیٹھ گیا جہاں کہ اس کو آواز سنائی دے سکتی تھی.تیسرے شخص نے دیکھا کہ نہ تو کوئی ایسی جگہ ہے جہاں میں بیٹھ کر نبی کریم کی آواز سن سکوں اور نہ یہاں کھڑے کو آواز آتی ہے اس لیے یہاں کھڑا ہونا فضول ہے، یہ خیال کرکے وہ وہاں سے چل دیا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب وحی ہوتی تھی تو رنگت

Page 241

سرخ ہوجاتی تھی اور غنودگی سی طاری ہوجاتی تھی، آپ کی وہ حالت ہوگئی.پھر آپ نے بلند آواز سے فرمایا کہ اس وقت یہاں اس مجلس میں تین آدمی آئے ہیں ایک نے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ پائی اور وہ اسی قابل تھا.دوسرے شخص نے جانے سے شرم کی اور شرم کی وجہ سے یہیں بیٹھ گیا.خدا نے بھی اس کے گناہوں کے حساب سے شرم کی اور اس کو معاف کردیا مگر تیسرے نے منہ پھیرا اور یہاں بیٹھنے کو فضول سمجھ کر چلا گیا خدا نے بھی اس سے منہ پھیرلیا.(ماخوذ از بدر منور.البدر جلد۱۲ نمبر۱۶ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ۳،۴) مؤرخ حکیم سراج الدین صاحب کے صاحبزادے دہلی سے تشریف لائے.خلیفہ رشیدالدین صاحب نے سوال کیاکہ کیا ابن عبدالحکیم کوئی مؤرخ ہیں؟ فرمایا.ایک اور بڑے مؤرخ کو میں جانتا ہوں جو ادیب بھی ہیں اور جن کا نام احمد ابوالفضل بن ابی طاہر طیفوری ہے.نکاح کی خواہشمند عورتیں درس کو تشریف لے جاتے ہوئے فرمایا کہ لنڈن میں تین لاکھ عورتیں بغیر نکاح کے نکاح کی خواہش مند بیٹھی ہیں.علم حدیث مولوی سراج الدین صاحب کے صاحبزادے سے فرمایا کہ اگر میں تم سے کسی حدیث کی نسبت کچھ دریافت کروں تو یقینا تم جواب نہ دے سکو گے کیونکہ مولوی لوگ اچھے تو پڑھاتے ہی نہیں.انہوں نے عرض کیا کہ حضور بے شک! پھر حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا تم احادیث پڑھتے ہوئے مشکل حدیثوں کا خوب مطلب دریافت کرسکتے تھے.عرض کی کہ نہیں.آپ فرمانے لگے کہ میں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کے پاس گیا اور ان کو کہا کہ اگرچہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری عمر بھی پڑھنے کی نہیں رہی لیکن اگر آپ صرف دو تین ہی سوالات کا جواب دے دیں تو آپ کا شاگرد ضرور بن جاؤں گا.کہنے لگے کہ بہت اچھا.جب میں نے سوال کیا تو کہنے لگے کہ اس میں تو بڑا بکھیڑا ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ سوال آپ کے وقت کا ہے آپ ہی اس کا

Page 242

جواب دیں نہ یہ ہمارے وقت کا ہے اور نہ ہم اس کا جواب دے سکتے ہیں.پھر میں نے ایک اور سوال کیا تو کہا کہ اس میں اس سے بھی بڑا جھگڑا ہے اور کہا کہ اچھا یہ سوال نہیں کوئی اور سوال کرو.جب تیسرا سوال کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہمیں اس کا بھی جواب نہیں آتا.بغیر استقلال ہر کام لغو ہے پھر سراج الدین صاحب کے صاحبزادوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ جو پڑھو مستقل ہوکر، جو کام کرو مستقل ہوکر، تجارت کرو تو مستقل ہوکر.بغیر استقلال کے ہرکام لغو ہے.بیماری کا سبب درس کو تشریف لے جاتے وقت احمد نور صاحب کابلی سے فرمایا کہ تمہارے کنبہ میں جو اکثر آدمی بیمار ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں گھاس پھوس اور چھوٹے چھوٹے درخت بہت ہیں.گھاس میں مچھر بہت ہوں گے جو ان لوگوں کو کاٹتے ہیں اور مچھروں سے بخار بہت پھیلتا ہے اس لیے چھوٹے چھوٹے تمام درخت اپنے مکان میں سے اکھاڑ کر پھینک دو اور ان کی بجائے یوکلپٹس کے درخت لگا لو اور چونکہ تالاب تمہارے مکان کے نزدیک ہے جو وہ ایک بخار کا سبب ہے اس لیے تالاب کی طرف کی دیوار کو اور بلند کردو.۲؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء ۲؍اکتوبرکی صبح کو حضور حکیم محمد عمر صاحب کے مکان پر کسی مریض کو ملاحظہ فرمانے کے لیے تشریف لے گئے اور وہاں سے مکان پر تشریف لاکر فرمایا کہ میں ابھی باہر آتا ہوںمگر بہت تھک گیا ہوں.یہ فرماکر اندر تشریف لے گئے.قرآنی دعائیں ایک گمنام خط حضرت کی خدمت میں پیش ہوا.کسی نے لکھا کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.نَصْرٌمِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ.قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ.اَللّٰہُ الصَّمَدُ.لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ.وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ.اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ.صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ.یہ دعا آپ پڑھیں دوسروں کو پڑھنے کے لیے کہیں.

Page 243

حضرت نے فرمایا.کیا حرج ہے؟ یہ تو قرآن شریف کی دعائیں ہیں ہم تو یہ پڑھتے ہی رہتے ہیں اخبار میں چھاپ دیویں.اپنا حق لو ایک دوست نے دریافت کیا کہ میرے احمدی ہوجانے کے سبب میرے بھائی بڑے سخت دشمن ہوگئے ہیں.وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں.جائیداد میں جو میرا حصہ ہے وہ میں لینے لگتا ہوں تو ہتھیار لے کر مجھ پر حملہ کرتے ہیں.میں ان کا اس طرح مقابلہ کرنا چاہتا ہوں.حضرت نے فرمایا.اپنا حق لینا انسان کے واسطے ضروری ہے اور اپنے حق کا بچاؤ کرتے ہوئے جو قتل ہوجاوے وہ شہید ہے.بیوی کو ساتھ رکھو مہاجرین میں سے ایک صاحب سسرال گئے ہوئے تھے.انہوں نے لکھا کہ میں واپس قادیان آتا ہوں مگر بیوی کو سسرال میں چھوڑ جاؤں گا.حضرت نے جواب میں فرمایا کہ ہمیں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی.بی بی اس واسطے نہیں ہوتی کہ اس کو وہاں چھوڑ دیا جاوے آپ یہاں آرہیں.بی بی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیے.کثرت ازدواج غیرمذاہب والوں نے جہاں اور مسائل اسلام پر زہر اگلا ہے وہاںانہوں نے اسلامی مسئلہ کثرت ازدواجی پر بھی بڑی شد ومد سے اعتراض کیا ہے مگر انہیں واضح رہے کہ حضرت سلیمان کی سات سو بیویاں اور تین سو حرمیں تھیں اور حضرت داؤد کی سو جوروآں تھیں.(اوّل سلاطین باب۱۱ آیت۳).حضرت سلیمان کے بیٹے رحبعام کی اٹھارہ جوروآں اور ساٹھ حرمیں تھیں.(۲.تواریخ باب۱۱ آیت۲۲).حضرت سلیمان کے پوتے بسیاہ کی چودہ جورواں تھیں.(۲.تواریخ باب۱۳ آیت ۲۱) حضرت جدعون کی بہت سی جوروآں تھیں.(قاضیوں باب ۸ آیت ۳۰).یہ تو ابتدائی زمانہ کے حالات ہیں.۱۸۹۴ء میں مشنری پادریوں نے بیان کیا ہے کہ افریقہ کے علاقہ اوپو کے شاہ کے پاس آٹھ سو عورتیں ہیں.اور ایک اور بادشاہ ہے جو ہرسال تین ہزار عورتیں کرتا ہے اور سال کے بعد ان کو اپنے اہلکاروں اور سپاہیوں میں بطور انعام بانٹ دیتا ہے یا بطور غلاموں کے انہیں

Page 244

بیچ ڈالتا ہے.کیپ ٹاؤن میں ملایا کا رہنے والا ایک نجار ۱۹۰۴ء میں قتل کے جرم میں گرفتار ہوا تو اس نے اقرار کیا کہ میری ۲۷ بیویاں ہیں.اسی طرح ہندوستان اور کشمیر کے راجوں مہاراجوں نے بھی جن کے نام نامی ذیل میں درج ہیں کثرت ازدواج میں کسر نہیں رکھی.راجہ شہر پراگ جیوتش کی ۱۶۰۰۰ رانی.دیکھو تاریخ فرید کوٹ جلد۱ صفحہ ۲۷۰ و۲۷۲.سری کرشن جی مہاراج کی ۱۶۸ ۱؎.ہر ایک رانی سے دس لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی.(ایضاً صفحہ۱۷۲) راجہ سالہاہن کی رانیاں تو بہت تھیں لیکن اخیر وقت کی تعداد ۱۴۸۵ تھی.ایضاً صفحہ ۶۴ جلد۲.راجہ رسالو کی ان گنت ایضاً صفحہ ۶۸.راجہ بلبند کی ۱۲.ایضاً صفحہ۷۷.راؤ تنو کی ۱۵.صفحہ۷۷.راجہ دیوراج کی ۴۵.صفحہ۱۷۹.مہاراوّل مند کی ۱۵.صفحہ۱۸۱.راؤ جوندھر کی ۱۳.ایضاً جلد۳ صفحہ ۱۷.راجہ وزرلدت (بجرادت) کی ہروقت ۳۶۰ موجود رہتی تھیں.دیکھو تواریخ کشمیر حصہ اوّل صفحہ ۱۸۳.مصنفہ ملک محمدالدین صاحب فوق.راجہ پردہ گپت کی ۱۳.ایضاً صفحہ ۲۳.راجہ کلش دیو۷۲ ایضاً صفحہ ۲۳۷.راجہ ہرشدیو ۳۶۰ ایضاً صفحہ۲۴۱.اور راجہ رام دیونا کی ارجن شہزادہ اور راجہ مہرہ اور راجہ چکرر ورما اور راجہ اوسچل والیان کشمیر کی کئی رانیاں تھیں.ایضاً صفحہ ۵۸ و ۸۸و ۱۲۱و ۲۱۲ و۲۵۲ اور راجہ چندر دیو والی کشمیر نے حرم سرا کی اس قدر بھرتی کی تھی کہ سال کے دنوں کے حساب سے ہر وقت رانیوں کی تعداد ۳۶۰ سے کم نہ ہونے پاتی تھی.ایضاً صفحہ ۶۹.مہابھارت کے عہد میں ایک راجہ کی ہزار رانیاں ہوتی تھیں.(ماخوذ ازبدر منور.البدر جلد۱۲ نمبر۱۷ مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ۳) فیوضات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ ولسلام (حَدَّثَنَا اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ) اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ ایک اَخْشَی اللّٰہ عالم میں نے دیکھا ہے.ایک مخالف اسلام کے بعض اعتراضوں کے بارے میں میں نے حضور میں عرض کیا کہ ان کے جواب ۱؎ گوپیوں سے مراد مریدین ہیں.ایڈیٹر

Page 245

کے متعلق موجودہ صورت میں مجھے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یا تو ان اعتراضوں کا ذکر ہی نہ کروں اور اگر کروں تو الزامی جواب دے دوں.یہ سن کر آپ کو جوش آگیا فرمایا.جس بات پر تمہیں خود اطمینان نہیں اسے دوسروں کو منواتے ہو؟ مومن ایسا ہر گز نہیں کرتا.یہ کلمات طیبات سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بزرگ بڑی خشیت الٰہی رکھنے والا ہے اور کوئی بات نہیں کہتا جس کا خود اسے یقین نہیں.اس بزرگ کا نام مرزا تھا(علیہ الصلوٰۃ والسلام) کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ دوسرا فائدہ میں نے آپ کی صحبت میں یہ اٹھایا کہ دنیا کی محبت مجھ پر بالکل سرد پڑگئی کوئی ہو مخالف یا موافق میرے تمام کا روبار اور تعلقات کو دیکھے کیا مجھ میں ذرہ بھر بھی حُبِّ دنیا باقی ہے.یہ سب مرزا کی قوت قدسیہ اور فیض صحبت سے حاصل ہوا.یہ تو مشہور ہے کہ حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ.پس میں نے مرزا کی صحبت سے وہ فائدہ حاصل کیا جو تمام تعلیمات الٰہیہ کا منشاء ہے اور ذریعہ نجات اور اسی دنیا میں بہشتی زندگی.وَلْیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ ایک شخص سے کسی نے کہہ دیا تم جھوٹ بولتے ہو اس پروہ بہت ہی طیش میںآ گیا اور سخت سست کہنے لگا.اس کی آواز حضور معلیٰ کے گوش مبارک تک پہنچ گئی.فرمانے لگے کیا اس شخص نے اپنی عمر بھر میں کبھی جھوٹ نہیں بولا جو یہ اس قدر غیظ و غضب میں آرہا ہے.اتنی مدت خدا تعالیٰ نے ستاری سے کام لیا اگر ایک بار کسی کی زبان سے جھوٹا کہلوا دیا تو اسے اپنی اصلاح کر لینی چاہیے تھی اور خدا کے حضور شرمسار ہونا تھانہ یہ کہ شور ڈال دیا.وَاتَّقُوااللّٰہَ تمام انبیاء کی تعلیم کا خلاصہ تمام نیکیوں کا جامع یہ مبارک کلمہ ہے کہ اِتَّقُوااللّٰہَ.ایک دفعہ حضور انور سے ایک مخلص نے عرض کیا کہ مجھے ایک ہی نصیحت ایسی دے دیں جس سے میری دنیا و دین سنور جائے اور میں ٹوٹا پانے والوں میں سے نہ ہوں.فرمایا.’’خدا سے ڈر اور سب کچھ کر‘‘ یہ حضور ہی کے الفاظ ہیں جو مجھے یاد ہیں.

Page 246

اَلْمُؤْمِنُ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ موجودہ مادی ترقی اور کالجوں کی تعلیم اور اس کااثر دیکھ دیکھ کر خیال آتا ہے کہ دین کی طرف توجہ کب ہوگی.فرمایا.وہ زمانہ نزدیک ہے پہلی رات کا چاند سب کو نظر نہیں آیا کرتا.نبی کو جو فراست دی جاتی ہے وہ دوسروں کو نہیں دی جاتی.حضور نے جب میری بیعت لی تو میرا ہاتھ پہنچے سے پکڑا حالانکہ دوسروں کے ہاتھ اس طرح پکڑتے جیسے مصافحہ کیا جاتا ہے.پھر مجھ سے دیر تک بیعت لیتے رہے اور تمام شرائط بیعت کو پڑھوا کر اقرار لیا.اس خصوصیت کا علم مجھے اس وقت نہیں ہوا مگر اب یہ بات کھل گئی.فَاعْتَبِرُوْا یَااُوْلِی الْاَبْصَارِ مومن کو چاہیے کہ عبرت پکڑے اور ہر ایک واقعہ سے جو دیکھے کوئی نہ کوئی نصیحت حاصل کرے.ایک دفعہ حضرت اقدس کے مکان کے نزدیک رنڈی کا ناچ ہو رہا تھا.آپ نے آدمی بھیج کر دریافت کیا کہ یہ کیا لیتی ہے.معلوم ہوا پانچ روپے.فرمایا.میں (مسیح موعود)نے وہ رات سجدہ ہی میں گذار دی.جوں جوں اس کی آواز پہنچتی میں ندامت سے دبا جاتا کہ اللہ اللہ ایک پانچ روپے سی حقیر رقم لے کر یہ خدمت کو ساری رات کھڑی ہے اور ہم جو اپنے مولیٰ کی ہزار ہا نعمتوں سے مستفیض ہو رہے ہیں اور ہر وقت اس کے احسان اور انعامات کی بارش ہوتی رہتی ہے ایسے غافل ہوں.(تشحیذ الاذہان) (الحکم جلد ۱۶ نمبر ۳۳ مورخہ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ ) احمدی قوم توجہ کرے حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک درد بھری تقریر میں فرمایا کہ تم فارغ نہیں ہو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں بحث کرنے کے لیے وقت پالو بلکہ تمہارے لیے بہت سے کام ہیں.ہزاروں لوگ خدا کے منکر ہیں تمہارا فرض ہے کہ ان کے آگے خدا کی ہستی کے دلائل پیش کرو.ہزاروں نبوت کے منکر ہیں، ہزاروں ملائکہ کے منکر ہیں، ہزاروں قرآن مجید کو نہیں مانتے، ہزاروں یوم آخرت سے انکار کرتے ہیں، تمہیں چاہئے کہ ان بے خبروں کو خبر دو ان جاہلوں کے آگے علم کے خزائن رکھو.(الحکم جلد۱۶نمبر۳۳ مورخہ ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ۱۱)

Page 247

نفاق فرمایا.قدرت خداوندی ہے جب کوئی جماعت بڑھتی ہے تو اس میں کچھ نفاق کا بیج بھی پڑ جاتا ہے اور مفسدہ پرداز لوگ پید اہوجاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سے بچائے.مشورہ ضروری ہے ایک صاحب کا خط پیش ہوا کہ میں نے ایک معاملہ میں سات استخارے کئے تھے تب اس کام کو شروع کیا تھا لیکن نقصان ہوا.فرمایا.آپ نے مشورہ نہ کیا تھا.(الشورٰی:۳۹)کے خلاف کام ہوا اس واسطے نقصان ہوا.حضرت کا خط عباداللہ کے نام نفاق فرمایا.قدرت خداوندی ہے جب کوئی جماعت بڑھتی ہے تو اس میں کچھ نفاق کا بیج بھی پڑ جاتا ہے اور مفسدہ پرداز لوگ پید اہوجاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سے بچائے.مشورہ ضروری ہے ایک صاحب کا خط پیش ہوا کہ میں نے ایک معاملہ میں سات استخارے کئے تھے تب اس کام کو شروع کیا تھا لیکن نقصان ہوا.فرمایا.آپ نے مشورہ نہ کیا تھا.(الشورٰی:۳۹)کے خلاف کام ہوا اس واسطے نقصان ہوا.حضرت کا خط عباداللہ کے نام عزیز مکرم! ڈاکٹر عباداللہ حَفِظَکُمُ اللّٰہُ وَسَلَّمْ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ میرا دل چاہتا ہے کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے بن جاؤ اور اللہ تعالیٰ تمہارا بن جائے.لنڈن دارالابتلاء ہے.نماز کے پابند رہو اور جہاں تک ممکن ہو شرفا سے مجلس رکھو آزاد لوگ اچھے نہیں.آزاد سے مراد مادر پدر آزاد ہیں.استغفار بہت کرو.دعائیں مانگتے رہو کہ تم خادم دین بنے رہو.وہاں ایک لڑکا شکراللہ کا بھائی ظفراللہ خان ہے چوہدری نصراللہ خان کا بیٹا.وہ مخلص ہیں اس کو کبھی ملنا.خط لکھ دیناآپ کو آکر ملے گا.والسلام نورالدین ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء حضرت کا خط خواجہ صاحب کے نام مکرم! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ خوا جہ سنو.بہت امنگوں پر(الحجر:۴) کا مقدس فقرہ ہمیشہ یاد رکھو اور قرآن کریم میں صاف صاف ارشاد ہے.(لقمان:۳۵) پھر استغفار، دعاؤں پر زور دیتے رہو.تمام مذاہب میں اصل اصول دعا ہے اور اس دعا کو آج

Page 248

ہنسی مخول میں ڈالا گیا ہے.میرا پیارا اس پر زور دیتا رہے.وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ.عمدہ دعا الحمد ہے.اس میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ دونوں ترقی کے فقرہ موجود ہیں.سنا تھا کہ لنڈن میں مسجد ہے اور ووکنگ لین مسجد کے لیے ڈاکٹر لیٹز نے چندہ کیا تھا.لنڈن بے ریب دارالامتحان ہے مگر عربی فقرہ عِنْدَ الْاِمْتِحَانِ یُکْرَمُ الرَّجُلُ اَوْ یُھَانُ.امتحان کے بعد آدمی معزز ہوجاتا ہے یا ذلیل ہوتا ہے.کالج میں ضرور داخل ہوں تاکید ہے.وَلِلّٰہِ الْمُلْکُ اَیْنَمَا کُنْتَ ثُمَّ اُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَقَدْ فَازَ الْمُتَّقُوْنَ.وَ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ.نورالدین ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء از قادیان دارالامان (ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۲ نمبر ۱۸ مؤرخہ ۳۱؍ اکتوبر ۲ا۱۹ء صفحہ ۳) مکتوب امیر المومنینؓ عزیز من! السلام علیکم و رحمۃ اللہ! رسالہ پہنچتا ہے.نقد میں نے فصیح مرحوم کو بھیج دیئے تھے.جب یہ قیمت ختم ہو اور رسالہ جاری رہے تو پہلا پرچہ وی پی بھیج دیں.(البدر جلد۱۲ نمبر ۱۸ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۲ا۱۹ء صفحہ ۷) نبی کی عمر پہلے نبی سے نصف سوال.سیدنا ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک جگہ وہ حدیث لکھی ہے جس میں ہے کہ نبی کی عمر پہلے سے نصف ہوتی ہے.غالباً وہ یوں ہے اَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ اِلَّا عَاشَ نِصْفَ عُمْرِ الَّذِیْ کَانَ قَبْلَہٗ وَ اَنَّـہٗ اَخْبَرَنِیْ اَنَّ عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ عَلَیْہِمَاالسَّلَامُ عَاشَ عِشْرِیْنَ وَ مِائَۃَ سَنَۃٍ وَلَا أَرَانِیْ اِلَّا ذَاھِبًا

Page 249

عَلٰی رَأْسِ سِتِّیْنَ(الاحاد و المثانی النساء فاطمۃ ابنۃ رسول اللّٰہ).اس پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث عقل کے خلاف ہے.حضور فرماویں کیا جواب دیا جاوے.اکمل عفی اللہ عنہٗ جواب.صحیح حدیث پر اٹکل بازی کرنا چکڑالویوں، نیچریوں کا طرز ہے.صحت پر محدثانہ بحث ہونی چاہئے.انبیاء کے اقسام ہیں.حدیث میں یہ مذکور نہیں کہ کس کس قسم کے انبیاء میں یہ نسبت ہوتی ہے.(البقرۃ:۱۵۴) سے امتیاز ظاہر ہوتا ہے.ہر حدیث کی تکذیب کرنا چکڑالویوں کا کام ہے.مومن کا یہ طریق نہیں.والسلام کیا کسی نے اس کو وضعی کہا ہے اور کہنے والا ائمہ حدیث سے ہے.والسلام نورالدین طعام مسکین سوال.سیدنا و امامنا! السلام علیکم و رحمۃ اللہ ۱.فدیہ طعام مسکین میں طعام ایک وقت یا دو وقت؟ ۲.اور طعام کھلانا ہی ضرور ہے یا بصورت نقدی بھی کسی مسکین کو دیا جاسکتا ہے؟ ۳.پیشگی بھی ادا ہوسکتا ہے یعنی قبل از انقضائے رمضان؟ والسلام اکمل جواب.(۱) جہاں تک میری سمجھ ہے دو وقت کا کھانا معلوم ہوتا ہے.(۲)نقدی کا غلہ لے کر دیا جاسکتا ہے.(۳)پیشگی بھی ادا ہوسکتا ہے.نورالدین حضرت خلیفۃ المسیحؓ کی نصیحت بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ جناب ایڈیٹر صاحب بدر زَادَ لُطْفُہٗ.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ میرے پاس پرانی نوٹ بک میں حضرت خلیفۃ المسیح ؓ کی پندونصائح خود ان کے دست مبارک

Page 250

سے لکھی ہوئی موجود ہیں.جن کی ایک نقل اندراج کی غرض سے ارسال خدمت کرتا ہوں شاید کہ احباب فائدہ اٹھا لیویں.والسلام حسن علی سب اسسٹنٹ سرجن پشاور چھاؤنی ریلوے شفاخانہ ۲؍ اپریل ۱۹۱۲ء پندو نصائح ۱.اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کے لیے استغفار، لاحول، الحمد للہ اور درود کو بہت توجہ سے پڑھو.۲.متکبر، منافق، کنجوس، غافل، بے و جہ لڑنے والے، کم ہمت، مذہب کو لہو ولعب سمجھنے والے اور بے باک لوگوں سے تعلق نہ رکھو.۳.نماز مومن کا معراج ہے تمام عبادتوں کی جامع ہے کبھی اس میں غفلت نہ کرو.بے کس اور بے بس لوگوں کے ساتھ سلوک کیا جاوے.۴.اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے اور اپنے بڑوں کے ادب اور اپنے برابروں کی مدارات بقدر امکان کرو.۵.والدین اور افسروں کے راضی رکھنے میں کوشش کرو جہاں تک دین اجازت دیوے.۶.باہمی تعارف رکھو.۷.انگریزی اور عربی بولنے کی مشق کرو اور عادت ڈالو.۸.ہر کام احتیاط اور عاقبت اندیشی سے کرنا.۹.نیک نمونہ بنو.۱۰.جو کام ہو صرف اللہ ہی کے لیے ہو.کھانا ہو یا پہننا، سونا ہو یا جاگنا، اٹھنا ہو یا بیٹھنا ہو، دوستی ہو یا دشمنی.۱۱.ہر ایک مشکل میں دعا سے کام لو.

Page 251

Page 252

جوابات جناب من !بعد سلام مسنون جواب سوالات تحریر ہیں.(۱ ، ۲) مستقل نبی اور غیر مستقل نبی کی اصطلاح آپ سے سنی گئی.ہاں البتہ صوفیائے کرام نے تشریعی نبوت میں کچھ امتیاز کیا ہے.حضرت صاحب جو تھے وہ تمام کمالات قرب مدارج الٰہی کے حضرت نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع میں یقین فرماتے تھے اور ایک بال بھی اس کے خلاف کرنے کو کفر و بدقسمتی سمجھتے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ ناواقف بھی ہیں.حضرت شاہ نیاز احمد صاحب بھی فرماتے ہیں ؎ احمد ہاشمی منم عیسیٰئِ مریمی منم من نمنم نہ منمنم خود حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں ؎ بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم آپ کے پہلے سوال کا جواب اور دوسرے سوال کا جواب بھی ہوچکا.(۳ ، ۴) حضرت مرزا صاحب اہل سنت والجماعت خاص کر حنفی المذہب تھے.اسی طائفۃ ظاہرین علی الحق میں سے تھے.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.نورالدین ۲۹؍ اگست ۱۹۱۲ء نابالغہ کا نکاح عرض کیا گیا کہ ایک نابالغ لڑکی کا نکاح کسی شخص سے کیا گیا تھا اب بالغ ہونے پر وہ لڑکی اس کے پاس جانا نہیں چاہتی.اس صورت میں کیا کیا جائے؟ فرمایا.لڑکی کا اختیار ہے اس کی اجازت کے بغیر نکاح قائم نہیں رہ سکتا.بنے روز گار کو نہ چھوڑیں

Page 253

کرتے ہیں.اکثر افسروں کو بھی ہمارے برخلاف کردیتے ہیں.ہم بہت تنگ ہیں چاہتے ہیں کہ ملازمت چھوڑ دیں.فرمایا.نوکری نہ چھوڑو.بنے روزگار کو چھوڑنا اچھا نہیں.اپنی حالت کو نیک بناؤ اور دعا کرتے رہو اور کارخانہ قدرت کے کرشمے دیکھو.انجمن کا کورم ایک شخص کا خط آیا کہ ہم یہاں اکیلے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انجمن بنائیں.فرمایا.اپنے آپ کو اکیلا نہ رکھو.دعا کرو اور کوشش کرو خدا تعالیٰ تمہارے ساتھی بنادے گا.مومن اکیلا نہیں رہتا جب چار پانچ آدمی مل جاؤ تو انجمن بنالو.ُمردوں سے ملاقات کسی شخص کے سوال پر فرمایا کہ جو لوگ صاحب نسبت ہوتے ہیں وہ لوگ توجہ کرتے ہیں اور باتیں بھی قبر والوں سے کر لیتے ہیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام خواجہ قطب کی قبر پر ٹھہرے رہے.میں نے سوال کیا کہ حضور! آپ کی ملاقات بھی ہوئی ہے یا نہیں.تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں.میں نے پھر پوچھا کہ اگر آپ ان کو ملنا چاہیں تو کیا مل سکتے ہیں؟اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اگر یہاں میں کچھ دیر اکیلا بیٹھوں تو کچھ دیر کے بعد ملاقات ہوسکتی ہے.کیونکہ معلوم نہیں یہ لوگ کس عالم میں ہیں اس لیے بہت توجہ کرتے کرتے ان کی ملاقات ہوجائے گی.فرمایا.صاحب نسبت جو لوگ ہوتے ہیں ان کی ملاقات ہوجاتی ہے.میں نے کبھی توجہ نہیں کی باوجود اس کے میں نے بھی مردوں سے باتیں کی ہیں.سوال کنندہ نے پھر سوال کیا کہ اس وقت کیا حالت ہوتی ہے؟ فرمایا.بیداری سے بڑھ کر ہوش ہوتی ہے.ایک دفعہ میں سوگیا تو میرا ایک بھائی تھا فوت شدہ اس کے ہاتھ میں لطیف قرآن شریف تھا میں نے قرآن شریف کو دیکھ کر اس سے مانگا تو چونکہ میرے ہاتھ میلے تھے اور حقیقت میں بھی میلے تھے دھوئے ہوئے نہ تھے اس لیے اس نے کہا کہ ہاتھ دھو لو تب

Page 254

یہ قرآن شریف تم کو دوں گا.فرمایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف کو ہمیشہ صاف ہاتھوں سے پکڑنا چاہئے.قومی تاریخ فرمایا.جب کسی قوم کو اپنی تاریخ بھول جاتی ہے تو غیرت اٹھ جاتی ہے.اب مسلمانوں کواپنی تاریخ بھول گئی ہے.مسلمان اور یہود ایک شخص کا خط پیش ہوا کہ میں نے مخالفین سلسلہ کو ایک جگہ لکھا تھا کہ یہود الیاس کے آسمان پر سے آنے کے منتظر تھے اس واسطے انہوں نے مسیح ناصری کو نہ مانا اور مسلمان مسیح ناصری کے آسمان پر سے آنے کے منتظر ہیں اس واسطے مسیح محمدی کو نہیں مانتے تو یہودیوں اور مسلمانوں میں کیا فرق ہوا؟ اس بات پر مخالفین نے جوش میں آکر مجھ پر نالش کردی ہے.حضرت نے فرمایا.گھبرانے کی بات نہیں.اچھا ہے وہ ثابت کردیں کہ اس معاملہ میں ان میں اور یہودیوں میں کیا فرق ہے.آپ نے بھی ان سے فرق ہی طلب کیا ہے.مومن پر ابتلاء آتے ہیں دشمن چاہتا ہے کہ اس کو آگ میں ڈال دے مگر خدا اپنے بندوں کا محافظ ہے.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۲ نمبر۲۰ مورخہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳) سجدہ سہو ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ اگر امام پانچ رکعت سہواً پڑھ جائے تو پھر کیا کرنا چاہئے؟ فرمایا.حدیث سے ثابت ہے کہ سجدہ سہو کرلیا جائے.(البدر جلد۱۲ نمبر۲۰ مؤرخہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۷) قربانی کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح کا فتویٰ جنگ اغراب (بلقان) کی وجہ سے اکثر لوگوں نے حضرت خلیفۃ المسیح سے دریافت کیا ہے کہ کیا قربانی کی بجائے اس کی قیمت مجروحین ترکی کی اعانت میں دی جاوے تو یہ جائز ہے؟ ایڈیٹر وطن کو اس کے متعلق حضرت نے جو جواب دیا ہے وہ یہ ہے.شریعت اسلام کی رو سے جہاں تک میرا حافظہ کام دیتا ہے وہاں تک مجھے یہ علم حاصل نہیں ہوا

Page 255

کہ قربانی کے بدلہ روپیہ دیا جاوے.زمانہ کی حالت اور ہوا اور خیالات گریجویٹ لوگوں سے اور ان کی عقول سے بے خبر نہیں.جن پر قربانی ضرور ہے وہ علاوہ اس کے روپیہ وہاں بھیج سکتے ہیں.نورالدین قادیان ۷ ؍نومبر ۱۹۱۲ء (الحکم جلد۱۶ نمبر۳۵ مورخہ ۱۴ ؍ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۶.الف) ترکوں کی امداد میں قربانی کی قربانی جیسا کہ الحکم کی گزشتہ اشاعت میں میں نے لکھا تھا کہ بعض جگہ یہ تحریکیںہورہی ہیں کہ ترکوں کی امداد میں قربانی کا روپیہ بجائے قربانی کرنے کے بھیج دیا جاوے.میں نے اس خیال کی مخالفت کی تھی اور بتایا تھا کہ شعائر اسلام کسی حالت میں ترک نہیں ہونے چاہئیں.مجھے افسوس ہے کہ مسلمان اس لہر میں بے طرح بہہ رہے ہیں.ایک ہم عصر لکھتا ہے کہ ’’نماز اور حج سے بھی بڑھ کر بڑا فرض ترکوں کی مدد ہے.‘‘ تعجب کا مقام ہے کہ اوائل اسلام میں جبکہ صحابہ اپنے خون سے اسلام کی شہادت عرب کے ریگزارمیں دے رہے تھے تو ان ساعات عسر میں تلواروں کے سایہ کے نیچے بھی نمازکا فرض متروک نہیں ہوا.آج اس قسم کے الفاظ قوم میں مذہبی روح پھونکیں گے یا محض جوش ہی پیدا کریں گے.بہرحال میں نے بزور لکھا تھا کہ قربانی کی سنت متروک نہیں ہونی چاہئے.ترکوں کی مدد کا سوال الگ ہے اس کو قربانی کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں.الحکم کی اس اشاعت کے بعد ہمارے ایک معزز بھائی نے لاہور سے حضرت خلیفۃ المسیح ؓ کے حضور ایک خط لکھا.اس کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح ؓ نے جو خط لکھا ہے اس میں اس مسئلہ کی بھی آپ نے وضاحت فرمائی ہے.اور یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ جو امر چند روز قبل الحکم نے قوم کے سامنے رکھا تھا حضرت امام نے اس کی تائید اور تصدیق فرمائی.آپ نے لکھا ہے.’’حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بڑی ضرورتیں تھیں.خلفاء ؓ کے زمانہ میں سخت سے سخت ضرورتیں تھیں، قربانی ترک نہیں کی گئی.شیعہ کے مذہب کے بھی خلاف ہے.باقی رہا (الحج:۳۸) کا فرمان صحیح ہے مگر جس طرح شیعہ عالم نے سمجھا ہے اس

Page 256

طرح تو قربانی اصل سے ہی باطل ہوتی ہے.معلوم نہیں(الحج:۳۸) سے مولوی صاحب کی کیا مراد ہے.افسوس قرآن نہ سمجھنے کا وبال ہے.کیا مسلمانوں کے پاس مال ہی نہ رہا کہ اب قربانی پر ہاتھ صاف کرنے لگے.اگر ایسے ہی مفلس ہیں تو نہ زکوٰۃ، نہ قربانی اور نہ تعلیم پر روپیہ خرچ کریں.چٹھی ہوئی.اللہ اللہ ثم اللہ اللہ.مکہ میں قربانیاں بند کردیں.قربانی کو ترک خود بند کردیں…… یونیورسٹی کا روپیہ دے دیں.۷ کروڑ مسلمان ہیں  ہی دے دیں مگر خود اسلام کے شعار کو ہاتھ سے نہ دیں.طرابلس کے غریب عرب جان دے رہے ہیں.ترک میدانی جنگ چند روز جاری رکھیں.(المؤمنون:۲) (المنافقون:۹) (المؤمن:۵۲)بالکل سچ ہے.حرفے بس است.‘‘ (الحکم جلد۱۶ نمبر۳۵ مورخہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۷)اسلام تمام ہدایتوں کا جامع ہے ( ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۲ء)  (النساء:۲۷) (یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بیان کرے تمہارے آگے تمام ہدایت کی راہیںان لوگوں کی جو گزر گئے.) فرمایا.یہ دعویٰ کسی کتاب کا نہیں ہے سوائے قرآن شریف کے.اللہ فرماتا ہے کوئی بھی ایسی راہ نہیں جو کسی ملک کی بھلائی کے واسطے یا کسی قوم کی بھلائی کے متعلق پہلے لوگوں میں گزرچکی ہو اور ہم نے قرآن میں بیان نہ کی ہو.میں نے کوشش کی ہے کہ کوئی راہ بتاوے کہ جس سے اللہ راضی

Page 257

ہوجاوے اورمخلوق کا بھلا ہو جس کو کسی بزرگ نے بتایا ہو اور وہ اتم طور پر قرآن میں بیان نہ ہو.خواہ وہ ارسطو کا قول ہو، خواہ جالینوس نے بیان کیا ہو، خواہ زرتشت کا یا رامچندر کا یا کرشن جی کا یا بدھ فرمان ہو.غرضیکہ اللہ کوراضی کرنے کے لیے اور مخلوق پر شفقت کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں جو قرآن میں اتم طور پر اس کا بیان نہ ہو.میں تو بڈھا ہوگیا ہوں اور سب کو پوچھتا ہی رہا ہوں مگر کسی نے بیان نہیں کیا.اب تم لوگوں کا کام ہے تم کسی سے پوچھو.ایک شخص عزیز مرزا نے ایک مضمون لکھا تھا کہ میں نے بدھ کی کتاب میں ایک فقرہ دیکھا ہے جوکسی مذہب میں نہیں.ہمارے میرمحمد اسحاق کو توفیق ملی، انہوں نے اس کا ایسا لطیف جواب دیا کہ عزیز مرزا کو ماننا پڑا کہ میں نے غلطی کی ہے.میں نے میرصاحب کے لیے بہت دعا کی.ایک دفعہ ایک شخص نے میرے سامنے کہا کہ خدا کی ایک صفت ہم ہندوؤں میں ہے جو قرآن میں نہیں ہے.میں نے کہا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ ہم خدا کو باپ کہتے ہیں.میں نے کہا کہ کیا یہ بڑی بات ہے، باپ کا تعلق بیٹے سے پچیس منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا جو اوسط مدت امساک کی ہے اور اس عرصہ میں اس کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ میں کیا دے رہا ہوں، لڑکا یا لڑکی اور وہ اس بات سے بھی بے خبر ہوتا ہے کہ اچھا ہوگا یا برا.اس کے بعد پھر اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کی پرورش کون کررہا ہے.کیا باپ کے تعلقات ربّسے زیادہ ہوسکتے ہیں؟ ربّ کے ہم ہرآن میں محتاج ہیں.وہ ہروقت ہماری پرورش کرتا ہے.کھانا، پینا، روشنی، ہوا، آگ، سب اسی کا ہے.اندر سے نکلنے والی کاربن بھی اسی کی ہے.یہ سب ربّ کا فضل نہ ابّ کا.مولوی عبدالکریم نے ایک بحث میں کیا لطیفہ فرمایا ہے کہ برہمو خدا کو ماں کہتے ہیں، آریہ باپ کہتے ہیں کیا اچھا ہو یہ دونوں آپس میں بیاہ کرلیں.یہ میں نے اس واسطے کہا ہے کہ تب دوسروں سے ایسی تحدی کرو جب پہلے تم کو قرآن کا پورا علم ہو.(نور) (الحکم جلد۱۶ نمبر۳۶ مورخہ ۲۱؍ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳)

Page 258

بدُوں ولی نکاح بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم بحضور فیض گنجور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ میری سالی نے جو بالغ ہے اور عرصہ ایک سال سے بیوہ تھی خودبخود اب بغیر ولی جائز کی اجازت کے نکاح کرلیا ہے.کیا یہ نکاح جو بغیر ولی جائز و اجازت وارثان جائز کے کیا ہے از روئے شریعت درست ہے؟ عرضی اللہ دتا ساکن بھینی نقل جواب.میرے فہم میں شرعاً بدُوں ولی کے نکاح نہیں ہوسکتا.نورالدین (البدر جلد۱۲ نمبر۲۱ مورخہ ۲۱ ؍ نومبر۱۹۱۲ء صفحہ۷)شکر گزار بندہ فرمایا.ایک بزرگ کتابوں کا ایک انبار لئے جا رہے تھے.رستے میں دریا گزرنا پڑا اس میں کتابوں کا بنڈل گر پڑا.فرمایا.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! خادم نے کہا حضور کتابیں دریا میں گر پڑیں اور غرق ہوگئیں.فرمایا.اسی لئے تو میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہتا ہوں.میں نے ان کتابوں کو پڑھنے کی خاطر خریدا تھا خدا تعالیٰ نے مجھے ان کے پڑھنے کی تکلیف سے بچا لیا مگر میری نیت کا ثواب مجھے ضرور دے گا.آنحضرتؐ کے والدین کے نام فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا نام عبداللہ اور آمنہ ہونا ایک معجزہ تھا.اگر والد کا نام کہیں عبدالشمس ہوتا (جیسے کہ اس زمانہ میں نام ہوا کرتے تھے) تو عیسائی لوگ ہم کو زندہ نہ رہنے دیتے.عبداللہ نام رکھنے میں عبدالمطلب کے خیالات کا پتہ چلتا ہے.حرص اور رشوت خوری فرمایا.ایک انسپکٹر پولیس تھا وہ رشوت تہجد پڑھنے کے بعد لیا کرتا تھا اپنے آپ کو گالیاں دیتا جاتا.کمبختو ! مجھے کیوں سؤر کھلاتے ہو؟ کیوں میری عاقبت خراب کرتے ہو؟ اور ادھر روپیہ لیتاجاتا.حرص یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ گوشت اور سبزی تک کے ’’نمونے‘‘ منگواتا اور ان سے گزر اوقات کرتا قیمتاً خرید کر نہ کھاتا تھا.آخر کار اسے اوّل داماد لوٹ کر

Page 259

لے گیا.بعد میں مقدمہ چل پڑا.اس پر خرچ ہوا سات سال قید کی سزا ہوئی.رہائی پر سات روپے کا ماہوار ملازم ہوا.کوئی رشوت کا موقع سامنے آیا کہنے لگا.ابھی نہیں لیتا پندرہ روپے تک تو پہنچ لوں.اس قدر مصیبت کے بعد عبرت کا یہ حال تھا.(ماخوذ از کلا م امیر.البدر جلد ۱۲ نمبر ۲۲ مورخہ ۲۸؍ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ۳) بفضل خدا پورے ہونے والے تین رؤیا پہلا خواب آپ نے دیکھا کہ ’’ہندؤوں کے گھر میں میری شادی ہوئی ہے.اس کی تعبیر یہ بھی ہے کہ ہندؤوں میں میرا روحانی اثر بھی پھیلے گا.پھر میری ساس نے مجھ سے کہا کہ فلاں مندر کی پوجا کر آؤ.میں وہاں گیا ہوں دو بت دیکھے ہیں.میں کہتا ہوں کہ الٰہی میں تو بچپن سے مؤحد ہوں اس شرک سے محفوظ رکھ.پھر میں نے استغفار پڑھنا شروع کیا جس سے ایک بت گرگیا پھر دوسرے بت کی طرف میری توجہ ہوئی مگر استغفار سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تو میں نے لَاحَوْلَ پڑھنا شروع کیا.جب میں نے زور سے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ کہا تو وہ بھی گر پڑا.اس کے بعدشیطان کو میں نے دیکھا جس کے ہاتھ میں چمٹا ہے اور وہ میرے سر پر وار کرنا چاہتا ہے مگر میں نے جب لَاحَوْلَ پڑھا تو وہ بھاگ گیا.اس کی تعبیر مجھے یہ سمجھائی گئی کہ دھرم پال جس کی کتاب کا میں ردّ لکھ رہا تھا عنقریب اس باطل کا بت پاش پاش ہو جائے گا.چنانچہ اب اس نے اپنا عقیدہ ظاہر کردیا کہ میں وید کو کلام الٰہی نہیں مانتا.دوم میرا ارادہ تھا کہ ستیارتھ پر کاش کے چودھویں باب کا جواب لکھوں.اس کے متعلق مجھے سمجھایا گیا کہ خدا خود ہی اس کے لئے سامان کرے گا‘‘.دوسرا خواب ’’میں نے سلطان عبدالحمید کو دیکھا کہ ایک جھولدار چارپائی پر میلی توشک پڑی ہے اور وہ اس پر بیٹھا دکن کی طرف منہ کئے رو رہا ہے اور کپڑا چاروں طرف سے سمٹا جارہاہے اس کے ہاتھ میں ایک خالی گھڑی ہے میں نے چاہا کہ بھردوں.مگر بھری نہیں گئی ہے.تعبیر اس کی یہ سمجھائی گئی ہے کہ سلطان عبدالحمید کی سلطنت کے عمائد اچھے لوگ نہیں اور اس کا ملک کم ہوتا جارہا ہے اور میں نے دعا

Page 260

کرنی چاہی مگر توفیق نہ دی گئی‘‘.تیسرا خواب دیکھا کہ ’’امام موسیٰ رضا کا قبہ ہے اس کی مسجد میں نماز کے بعد متعے ہوتے ہیں.دو پیسے سے لے کر ۲۴ روپے تک اجرت مقرر ہے.میں نے ایک عورت کو دیکھا بڑھیا ہے اس کی چندیا کے بال اڑے ہوئے جوئیں پڑی ہیں اور نہایت ہی گندہ.اس کے متعہ کے متعلق میں نے کچھ گفتگو کی.اس کی تعبیر مشہد کی تباہی تھی اور ان کی روحانی حالت پر مجھے مطلع کیا گیا.یہ دنیا پرست اپنے ائمہ کی قبروں کو بھی نہیں بچا سکتے.میں خدا کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ میں نے یہ خواب بہت مدت ہوئی دیکھے اور جیسا خدا نے چاہا ان کوپورا کردیا.‘‘ مسیح نبی اللہ میں حیران ہوں کہ لوگ اگلے مجددوں کو تو مانتے ہیں جن میں کسی نے بھی کھل کر یہ دعویٰنہیں کیا کہ مجھ پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے اور محض اس لئے مان لیا کہ ان میں سے کسی نے بہت سی کتابیں تصنیف کر دیں.اور اس مجد د اعظم کا انکار کرتے ہیں جو حجج نیرہ کے ساتھ آیا اور اس میں دوسرے مجددوں سے کئی باتیں بڑھ کر ہیں.مثلاً یہ کہ خدا کی وحی مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اسے بطور حجت بارہا اعلان کر کے شائع کیا.پھر آنحضرت ﷺ کے سالہائے نبوت سے زیادہ مدت گزر گئی.دوم.تمام مجددوں میں سے نبی اللہ صرف آپ ہی کے لئے احادیث میں آیا ہے.دیکھو مسلم.سوم.آپ نے تمام مخالف اسلام مذاہب کی تردید قرآنی آیات سے کی اور اسلام کو تمام ادیان پر حسب پیشگوئی  ( الصّف : ۱۰)غالب کردکھایا.تمام مجددوں سے بڑھ کر آپ کی مخالفت ہوئی اور باوجود دشمنوں کے ناخنوں تک زور لگانے کے آپ کامیاب ہوئے اور ہزارہا مخلوق کو اپنا ہم خیال کر کے فوت ہوئے اور آپؑ کو ایک جماعت دی گئی جو اس عہد پر قائم ہے.غرض آپؑ کی شان بہت اعلیٰ ہے اور آپ ؑ پر ایمان لانے کے سوا نجات نہیں.بہرحال جن لوگوں نے مانا میں ان سے مخاطب ہو کے کہتا ہوں کہ حضرت اقدس کے بہت سے

Page 261

الٰہی وعدے ہیں جن میں صرف تمہاری غفلتوں ، سستیہے.تمہیں چاہیے کہ اپنی حالتوں کو سنوارو.ورنہ پھر وہی حال ہوگا جو حضرت موسیٰ کی قوم کا ہوا.انہوں نے ایک حکم کو نہ مانا.خدا نے ان ممالک کی فتح کو چالیس سال تعویق میں ڈال دیا.یہاں تک کہ حضرت موسیٰ بھی اس اثنا میں فوت ہوگئے.غرض قوم کی بداعمالی کا خمیازہ نبی کو بھی اٹھانا پڑتا ہے مجھے پورا یقین ہے کہ اگر وہ حضرت موسیٰ کی بات کو مان لیتے تو ضرور ضرور وہ علاقہ فتح ہوجاتا.میں تو تمہیں سنارہا ہوں.دنیا پرستی چھوڑدو تا وہ وعدے پورے ہوں جو خدا نے اپنے مسیح سے کئے اور یہ بھی یاد رکھو کہ جو اس لئے نبی کی مخالفت کرتا ہے کہ دنیا حاصل کرے وہ ضرور دنیا سے بے نصیب رہتا ہے.دیکھو انصار میں سے کسی نے حضرت نبی کریم ﷺ کے مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیا اور کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور اونٹ وغیرہ کسی اور کو دیئے جارہے ہیں.آپ ؐ نے ایک خیمہ میں سب انصار کو جمع کیا اور اس میں فرمایا کہ تم نے ایسا ایسا کہا تو انہوں نے عرض کیا.ہم میں سے نادان بچوں نے ایسا کہا ہوگا.آپ ؐ نے فرمایا.جو احسان تم نے مجھ سے کئے ہیں ان کا بدلہ تو ’’حوض کوثر‘‘ پر ملے گا.کسی شارح نے تو نہیں لکھا مگر میں اس سے سمجھ گیا.دراصل ان سے کہا تمہاری تیز زبانی اور بے ادبی کا، جو مالِ دنیا کے لئے کی، یہ نتیجہ ہوگا کہ اب تم دنیا میں بادشاہی سے محروم رہو گے.دیکھو تم بھی دنیا سے ایسا پیار نہ کرو کہ خدا کو بھول جاؤ اور دنیا میں ایسے منہمک نہ ہوجانا کہ مسیح اور اس کے جانشین کی بھی پرواہ نہ کرو.تمہارے مقتدا نے جس کے طفیل تم مجھے بھی اپنا امیر کہتے ہو تم سے عہد لیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرو.اس عہد کی خلاف ورزی کر کے منافق نہ بنو.قرآن میں ہے. (التوبۃ : ۷۷) بڑا نازک مقام ہے اس سے بچو.(الحکم جلد۱۶ نمبر ۳۸ مورخہ ۱۴؍ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۲، ۳) خلیفۃ المسیح کی آرزو حضرت خلیفۃ المسیح ؓ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ میری آرزو ہے کہ ایک قرآن مجید صحیح اور خوشخط چھپے اور اس کے حواشی پر مشکل لغت کل حل وں اور کوتاہیوں کی وجہ سے وقفہ پڑا ہوا ہو.

Page 262

مکتوب حضرت امیر المؤمنین مکرم معظم!السلام علیکم گرچہ خوردیم نسبتے است بزرگ.یہ خاکسار قریشی فاروقی ہے.میرا سلسلۂ نسب حضرت عمر سے پھر حضرت شعیب سے ملتا ہے جو کابل سے پشاور اور وہاں سے لاہور پھر قصور پھر کھتے وال علاقہ بہاولپور میںمقیم ہوئے.قاضی عبدالرحمن شاطر مدراسی، بابا نارنجی مقیم یاغستان اسی سلسلہ کے ممتاز ہیں.حضرت فرید شکر رحمۃ اللہ کے والد اور میرے جدامجد دونوں حقیقی بھائی تھے.یہ قصہ طویل ہے.بھیرہ ضلع شاہ پور میرا وطن تھا وہاں صدیقی قریشیوں کا ایک بڑا محلہ ہے.نورالدین (الحکم جلد۱۶ نمبر ۳۸ مؤرخہ ۱۴؍ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۴) ۱.خواب اور ان کی تعبیریں لکھنے کی تحریک حضرت امیرالمومنینؓ نے ہفتہ زیر اشاعت میں فرمایا کہ سورہ یوسف پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علم الرؤیا بھی ایک بڑا علم ہے.خوابیں کافر کی بھی ہوتی ہیں، مومن کی بھی.یہ علم اللہ تعالیٰ اپنے بعض انبیاء کو دیتا ہے اور ان سے ورثہ میں علماء امت محمدیہ کو بھی پہنچا ہے.چنانچہ پہلے مسلمانوں نے اس فن پر بہت عمدہ کتابیں لکھی ہیں.کامل التعبیر اور تعطیرالانام مجھے بہت پسند ہیں.آج کل کے نئی روشنی کے تعلیم یافتہ اور جنٹلمین تو خوابوں کو پریشان خیالات کا مجموعہ سمجھتے ہیں مگر ہمیں ایسی بے ادبی نہیں کرنی چاہئے.خوابیں تو نبوت کا جزو ہیں.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ جو جو خواب ان کو آئے وہ مختصر طور پر ان کو لکھ لیا کریں اور پھر جو تعبیر اللہ تعالیٰ سمجھائے یا دکھائے اسے بھی نوٹ کرلیا کریں.اس طرح پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس فن میں ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکے گی.ہم سے پہلوں نے تو اپنا فرض ادا کردیا لیکن اب کئی چیزیں ایسی نکل آئی ہیں جو پہلے موجود نہ تھیں اس لیے ان کی تعبیر ان کتابوں میں نظر نہیں آتی.مثلاً خواب میں کوئی موٹر کار دیکھے یا ہوائی جہاز یا ایسی اور ایجادیں، ایسے خوابوں کی تعبیریں تجارب کی بنا پر سمجھ میں آجاتی ہیں.

Page 263

۲.ہستی باری تعالیٰ ، آنحضرتؐ اور قرآن و حدیث پر رسالے لکھنے کی تحریک دوسری تحریک آپ نے یہ فرمائی کہ مال غنیمت کی تقسیم کے لیے جو اللہ اور رسول کا حق ہے اس کا مصرف اس زمانے میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی، اس کی صفات، اس کے افعال، اس کے اسماء، اس کے کلام پاک کی اشاعت پر رسالے اور ٹریکٹ لکھے جائیں اور رسول کا جو حصہ ہے اسے حدیث شریف کی اشاعت اور آپ پر آپ کے نواب پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ان کے جواب پر خرچ کیا جائے.۳.نومبائع مستورات کی فہرست تیار کرنے کی ہدایت آپ کے درس قرآن میں بہت بڑی تعداد مستورات کی ہوتی ہے.اس میں غیراحمدی عورتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں.آپ نے مستورات کی درخواست پر ان کی بیعت لی تاکہ ایسی بیبیوں کے لیے خصوصیت سے دعائیں ہوں اور حضور کو علم ہوجائے کہ کون کون بی بی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہے.حضرت ام المومنینؓ کو فرمایا کہ ان کی فہرست تیار کرا دیں.۴.بدگمانی اور گندوںکی حمایت نہ کرنے کی ہدایت آپ نے نہایت درد سے بھری ہوئی تقریر میں فرمایا کہ میں کسی گندہ شخص یا ایسے لڑکے کا ہرگز ہرگز حامی نہیں اور ایسوں کے لیے تمہارے مہتمموں پر کوئی بے جا دباؤنہیں ڈالتا اور میں پسند نہیں کرتا کہ ایسے لوگ باوجود اصلاح کا موقعہ کئی بار دیئے جانے کے پھر بھی مصلحین میں ملے جلے رہیں.اموال کے متعلق فرمایا کہ میں بڑا محتاط ہوں.اپنی محنت سے جو کماتا ہوں وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہوں.کبھی کسی قسم کی بدگمانی کو راہ نہ دو کہ میرا تمہارا رشتہ بہت نازک ہے.(ماخوذ از اس ہفتہ کی تحریکیں.الحکم جلد۱۶ نمبر ۳۸ مؤرخہ ۱۴؍ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۶)

Page 264

ایک شخص کے چند سوالات کے جواب ۱.ہجرت میں قادیان میں رہائش اختیار کرنا چاہتا ہوں حضور کوئی تجویز فرما دیں کہ میں وہاں رہ کر کیا کام کروں جو میرا گزا رہ چل جائے؟ فرمایا.قرآن شریف میں آیا ہے (النساء:۱۰۱) جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے واسطے سب سامان مہیا کردیتا ہے اور اسے کوئی تنگی نہیں ہوتی بلکہ ہر قسم کی فراخی حاصل ہوتی ہے.۲.تعلیم کو دیکھو ایک شخص کہتا ہے کہ میں دعا کر رہا ہوں کہ خدا مجھ پر خواب میں مرزا صاحب کی سچائی کھول دے.فرمایا.ایسا خیال تو بے ادبی میں داخل ہے.کل کو کوئی کہے گا کہ خدا مجھے خواب میں دکھائی دیوے تب میں ایمان لاؤں گا.قرآن شریف میں ایسے ہی لوگوں کا بیان لکھا ہے کہ وہ کہتے ہیں.(الانعام:۲۵)ہم ہر گز ایمان نہ لاویں گے جب تک ہم پر وہ چیز وارد نہ ہو جو رسولوں پر وارد ہوتی ہے.یہ درست نہیں.تعلیم موٹی شے ہے ہر شخص سمجھ سکتا ہے.تعلیم پر غور کرنا چاہیے.۳.تنگی مکان تنگی جگہ کے سبب نماز ایسی جگہ پڑھنی پڑے کہ سامنے کسی کی چارپائی ہے.فرمایا.جائز ہے.۴.غسل جنابت خروج منی نہ ہو تو غسل واجب ہے یا نہیں؟ فرمایا.اس میں صحابہ کا اختلاف ہے لیکن امام بخاری کے نزدیک احتیا ط اس میں ہے کہ غسل کر لیا جاوے.

Page 265

۵.لڑکا مدرسہ میں ایک لڑکا ساڑھے چار سال کا ہے کیا اس کو داخل مدرسہ کیا جاوے؟ فرمایا.میں اس امر کا مخالف ہوں کہ چھوٹی عمر میں بچوں کو داخل مدرسہ کیا جائے.اس سے قویٰ پر بہت برا اثر پڑتا ہے.(البدر جلد ۱۲ نمبر۲۵ مورخہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳) امداد مجروحین تُرک کسی پاگل نے یہ غلط مشہور کیا ہے کہ تُرک مجروحین کے واسطے حضرت خلیفۃ المسیح نے مخالفت کی ہے.حضرت نے بالکل منع نہیں کیا.نہ کسی احمدی اخبار نے ایسا لکھا ہے.ہاں حضرت نے یہ فرمایا ہے کہ اس امر کی پوری تشفی کر لینی ہے کہ جن غریبوں کے واسطے روپیہ لیا جاتا ہے ان کو فی الواقع پہنچتا بھی ہے یا نہیں.کیونکہ ترکی حکام کی جو حالت ہے وہ ظاہر ہے.جماعت احمدیہ کے بہت سے افراد نے اپنی وسعت اور گنجائش کے مطابق اس میں چندہ دیاہے.(البدر جلد ۱۲ نمبر۲۶ مورخہ ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۲)

Page 266

حضرت کا خط خوا جہ صاحب کے نام عزیز باکمال دین باشی السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آپ دردِ دل سے دعا مانگتے رہیں اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ جَلِیْسًا صَالِحًا کہ مجھے صالح جلیس عطا ہواور لنڈن سے باہر نکل کر جب شہر کو لوٹیں تو جس وقت واپسی پر شہر نظر آوے آپ پڑھیں.اَللّٰھُمَّ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَمَا اَظْلَلْنَ.وَرَبِّ الْاَرْضِیْنَ السَّبْعِ وَمَا اَقْلَلْنَ وَ رَبِّ الرِّیَاحِ وَمَا ذَرَیْنَ وَ رَبِّ الشَّیَاطِیْنِ وَمَا اَضْلَلْنَ اَسْئَلُکَ خََیْرَ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَخَیْرَ اَھْلِھَا وَ خَیْرَ مَافِیْھَا وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَ شَرِّاَھْلِھَا وَ شَرِّ مَا فِیْھَا.اَللّٰھُمَّ حَبِّبْنَا اِلٰی اَھْلِھَا وَحَبِّبْ صَالِحِیْ اَھْلِھَا اِلَیْنَا.اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا حَیَاھَا وَاَعِذْنَا مِنْ وَبَائِھَا مَالِکَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.مجھے ہر شر سے یہاں بچا اور خیر عطا فرما.میں یہاں کے لوگوں کو محبوب اور ان میں سے نیک میرے محبوب ہوں.اور الحمدپر بہت بہت زور دیں اور اس قدر کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوجاوے.لارڈ کا ملنا برکتوں کا باعث ہو.آمین.منن الرحمن کے حصہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہاں دعاؤں کا ہتھیار آپ کے ساتھ ہو اور لوگوں سے ملو اللہ تعالیٰ کوئی جوہر بے بہا عطا کرے جو خادم دین ہو.میں یہاں دعا کروں گا مولیٰ کریم تمہارے ساتھ ہو.آمین.وہاں کے مسلمان اور ہندو لڑکوں سے بھی ملو.قرآن کریم پیش کرو وقتی باتوں کے لیے دو رکعت نماز پڑھ کر جناب الٰہی کے اسماء و محامد کے بعد استغفار بہت کرو.(الانبیاء:۸۸) پڑھ کر دعا کرو کہ الٰہی مفید و بابرکت امر کی طرف راہنمائی فرما.شریرالنفس، منافق طبع، دنیا پرست، اللہ سے منکر، دعا نہ مانگنے والے یا اس پر اعتقاد نہ رکھنے والے اور بخیل و کاہل جو ہو اس پر وقت ضائع نہ کرنا.تاکید ہے وہاں اچھے لوگ بھی بہت ہیں ان سے ملو.ظفراللہ و عباداللہ عزیزان کو بھی خط نہ لکھ سکا ان کے لیے دعا کی ہے.قرآن کریم باری تعالیٰ کا

Page 267

کلام ہے حق و حکمت سے بھرپور ہے اس کی طرف دعوت کرو.لو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.آمین.نورالدین ۵ ؍جنوری ۱۹۱۳ء (البدر جلد ۱۲ نمبر ۲۸ و ۲۹ و ۳۰ مؤرخہ ۳۰؍ جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۲) بارہ وفات کے جلسہ کے متعلق رائے مجھے ہمیشہ تعیین تاریخ اور ایسے عرس میں گو نبی کریم ﷺ کا ہی ہو، بدعت نظر آتی ہے.صحابہ کرام سے بڑھ کر کوئی محب نبی کریم ﷺ کا مجھے نظر نہیں آتا.نہ تابعین میں نہ تبع تابعین میں.اس لئے میں ایسی تجویز کو محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا.یہ امور مخفی درمخفی رنگ میں روپیہ جمع کرنے کے ذرائع نظر آتے ہیں.خود مرزا صاحب مغفور نے کبھی بارہ وفات کا جلسہ اپنے گھر میں ہر گز نہیںکیا.غرض میں اپنے زندگی کے چند دنوں کے لئے بدعات کو گوارا نہیں کرسکتا.اور ایسے امور میں بدعت کے خطرناک زہروں سے بچنے کا لحاظ ضرور کہو.(الحکم جلد ۱۷ نمبر ۷،۸مورخہ ۲۱، ۲۸ ؍ فروری ۱۹۱۳ء صفحہ ۷) ہماری طرز کے خلاف ہے کلکتہ کی انجمن معین الاسلام کی طرف سے ایک خط اور اشتہار حضرتخلیفۃ المسیحؑ کی خدمت میں آیا کہ ترکوں کی نئی وزارت کے قائم ہونے پر جس نے یہ اعلان کیاہے کہ ہم مٹ جائیں گے مگر مسلمانوں کی عزت کو ہاتھ سے نہ دیں گے ایک جلسہ کیا جائے گا تاکہ اس آخری اور نازک موقع پر ہم اپنے دلی خیالات دنیا پر ظاہر کریں اور نئی جانباز وزارت کا پرجوش خیرمقدم بجالائیں اور چندہ فراہم کریں.وغیرہ.یہ جلسہ ہوگا آپ بھی شامل ہوں.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ یہ ہماری طرز کے خلاف ہے.مباحثہ کی تیاری بنگال میں ایک جگہ سے خط آیا کہ مخالفین سے مباحثہ کی تجویز ہے.حضرت خلیفۃ المسیح نے مفصلہ ذیل جواب لکھا.

Page 268

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ (۱) لَا تَتَمَنَّوْا لِقَائَ العَدُوِّ وَاسْئَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ(صحیح مسلم کتاب الجہاد و السیر باب کراہۃ تمنّی لقاء العدو والامر بالصبر عند اللقاء)یہ حدیث صحیح کے فقرے ہیں اس پر عمل کرو.(۲) مباحثہ ہو تو اس کا ابتدا دشمن کی طرف سے ہو. (البقرۃ:۱۹۱) حکم سرکار ربّ العالمین ہے.پرچہ ہو تو پہلے ان کا ہو.(۳) لا حول کی کثرت رکھو.اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ جماعت کا ورد ہو.خشیت و خوف صرف اللہ تعالیٰ عزّ و جل کا رکھو اور بس.مباحثہ کے واسطے اوّل اجازت حاکم، دوم اجازت پولیس و مجسٹریٹ ضروری ہے.احمدرضا خاں صاحب وہابیہ کے خطرناک دشمن ہیں.عبدالاوّل صاحب اور ان کا مقابلہ خوب ہے.اضطراب اور خوف خلق مضر ہے.مسلمان ڈپٹی مجسٹریٹ ضرور درمیان آوے.تم سب دعاؤں میں لگے رہو.ثُمَّ اُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ.فَقَدْ فَازَ مَنِ اتَّقَا.(النحل:۱۲۹).نورالدین ۲۴؍ جنوری ۱۹۱۳ء بی بی سے بہرحال نیک سلوک کرو ایک صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں لکھا کہ میں نے جو شادی کی ہے اس میں کئی ایک نقص ہیں.حضرت صاحب نے جواب میں فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ (۱) آپ نے خود بدُوں استخارہ خلاف حکم الٰہی نکاح کیا مخلوق سے ڈر گئے.اس میں کس کا قصور ہے؟

Page 269

(۲)اب علاج قرآن کریم میں ارشاد ہے.(النساء:۲۰).اور اس کے پہلے ہے (النساء:۲۰) مطلب یہ ہے عورت اگر مکروہ ہے تو اس سے نیک سلوک کرتے رہو اس کا نعم البدل ہم دیں گے.یہ اللہ تعالیٰ قادر کریم کا وعدہ ہے.پس آپ گھبرائیں نہیں.نیک سلوک بی بی سے کرنا ضروری ہے.سلوک کرتے جاؤ تھکو نہیں اور ہرگز نہ تھکو.اس کے رشتہ دار شیعہ ہیں تو ہوا کریں ان سے کیاتعلق ہے.آپ خلجان اور فکر نہ کریں خود کردہ را چہ علاج.بہرحال آپ کا قصور ہے اس لیے آپ توبہ استغفار (الانبیاء:۸۸) سے کام لیں.اللہ تعالیٰ سے امداد ہوگی.آپ جلدی نہ کرو اور ہرگز نہ کرو.یہ ہے میرا مشورہ اس کو مان لو.نورالدین ۲۴؍ جنوری ۱۹۱۳ء محمد بریل محمد بریل ہندی کا خط پیش ہوا.فرمایا.بڑے مخلص آدمی ہیں خدا انہیں کامیاب کرے.ولایت میں اشاعت اخبار لائٹ لنڈن میں جو خوا جہ صاحب کا مضمون چھپا ہے اس کا ترجمہ حضرت کی خدمت میں سنایا گیا.فرمایا.خوب ہے.رسائل تاریخ اسلام تاریخ اسلام کے رسائل جو نبی صاحب مرحوم نے لکھے ہیں اور اب ان کے برادرزادے شائع کرتے ہیں اس کے دو تازہ پرچے پیش ہوئے.پڑھ کر فرمایا.خوب لکھتا ہے.مجھے بڑی پسند ہے.اس رسالہ کے آنے کے وقت جب ہاتھ میں لیتا ہوں تو

Page 270

جب تک سارا پڑھ نہ لوں صبر نہیں آتا.خدا بچاتا ہے درس کو جاتے ہوئے ایک چھوٹا سا لڑکا نہایت میلا اور گندے کپڑے پہنے ہوئے کوچہ میں دیکھا.فرمایا.ہائی جین والے تو تم کو کہیں گے کہ ابھی مر جائے گا لیکن خدا ہی بچاتا ہے.غریب پرور ایک شخص نے دریافت کیا کہ اپنے افسر کو غریب پرور سلامت لکھنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.اس میں کیا دقت ہے.امراء غرباء کی پرورش کرتے ہی ہیں.مسجد میں جوتا مسجد مبارک کے خادم نے عرض کیا کہ بعض لوگ اپنے جوتے تہہ کرکے مسجد کے اندر لا رکھتے ہیں ان کو روکا جائے.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.جوتا پہن کر نماز پڑھ لینا بھی جائز ہے تو میں لوگوں کو کس طرح سے روکوں.باہر رکھنے سے تو لوگ چرا بھی لے جاتے ہیں.دعا میں عاجزی چاہیے فرمایا.دعا کرانے کے واسطے جو درخواستیں آیا کرتی ہیں ان میں بعض دفعہ لوگ اپنے دوستوں بزرگوں کے نام بڑے بڑے لمبے لمبے لکھ دیتے ہیں کہ ان کے لیے دعا کی جائے.مثلاً ایک لڑکے نے لکھا کہ جناب محمد اکبر شاہ خاں صاحب کے واسطے دعا کی جائے.یہ ٹھیک نہیں.دعا کے وقت ہر طرح سے عاجزی کا رنگ اختیار کیا جائے.میں نے دعا میں ایسا ہی کہا کہ اے خدا تو جانتا ہے کہ اس کا نام کیا ہے.ایسا ہی بعض لوگ بی بی صاحبہ کے متعلق لکھ دیتے ہیں کہ حضرت ام المومنین کے لیے دعا کی جائے.تب میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس کی اولاد کو نیک بناوے تا کہ اس کا یہ نام سچا ہو.مغالطے کس طرح لگتے ہیں فرمایا.ایک طب کی کتاب میں میں نے لکھا ہوا دیکھا کہ یہ نسخہ حضرت جبریل علیہ السلام حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے واسطے عرش پر سے لایا تھا.میں متعجب ہوا نسخہ بھی معمولی تھا.جب تحقیقات کی گئی اور پرانی کتابوں کا مطالعہ کیا گیا آخیر میں اصل حقیقت یہ کھلی کہ جبریل ایک یہودی طبیب تھا جو ایک اسلامی بادشاہ محمد نام کا معالج تھا اس نے اپنے

Page 271

بادشاہ کے واسطے یہ نسخہ تجویز کیا تھا جو کسی طب کی کتاب میں درج ہوا اور تخت شاہی کے واسطے عرش کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا تھا.غرض یہ سب الفاظ اس نسخہ میںموجود تھے بعد میں کسی نے جب اس کتاب کی نقل کی تو معلوم ہوا کہ ان الفاظ کو دیکھ کر اس نے غلطی کھائی اور خیال کیا کہ کاتب نے لکھنے میں طریق ادب اختیار نہیں کیا اس نے حضرت اور علیہ السلام کے لفظ بڑھا دیئے.اس طرح بات کہیں کی کہیں چلی گئی.نصیحت اہلیہ صاحبہ ملک کرم الٰہی کو حضرت خلیفۃ المسیح نے مفصلہ ذیل الفاظ نصیحت کے لکھ کر دیئے.’’جو کام کرو اس میں یہ خیال کرلیا کرو میرا ربّ اس میں راضی ہے یا ہوگا یا نہیں اور دعاؤں کی عادت ڈالو.‘‘ ہم کعبۃ اللہ میں دعا کی قدر کرتے ہیں ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح کو لکھا کہ مجھے آپ کی جماعت کے ایک آدمی کی کسی بات سے معلوم ہوا کہ احمدی لوگ مرزا صاحب کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر جانتے ہیں اور کعبۃ اللہ میں دعا کرنے کی قدر ان کو نہیں اس واسطے میں آپ کی بیعت سے علیحدہ ہوتا ہوں.حضرت نے جو جواب اس خط کا لکھوایا وہ فائدہ عام کے واسطے درج اخبار کیا جاتا ہے.ہمارا کبھی وہم و گمان بھی نہیں ہوا اور نہ کبھی ہمارے خیال اور اعتقاد میں آیا ہے کہ معاذاللہ حضرت صاحب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے برابر ہیں.حضرت صاحب تو یہ فرماتے ہیں کہ بعد از خدا بعشق محمد مخمرم وہ تو خادم دین رسول اللہ ہیں اور نام غلام احمد ہے.اور اس قرآن اور شریعت کے جو آنحضرت لائے ہیں تابعدار اور سچے فرمانبردار ہیں اور نہ کسی اور احمدی کا یہ عقیدہ ہے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کسی ناواقف یا کسی مخالف سے باتیں سن کر ایسا سمجھا اور لکھ دیا کہ میں بیعت سے علیحدہ ہوں.اس

Page 272

بات کی تو ہم کو کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی ہمارا مرید بنے.اگر کوئی بیعت کرے تو اپنے لیے اور سچ کے لیے کرے نہ ہمارے لیے.ہاں ہم اظہار حق کے لیے یہ بات کہتے ہیں اور اخبار میں بھی چھپوادیتے ہیں کہ آپ اور سب لوگ جان لیں اور یقین کرلیں کہ نہ ہمارا نہ کسی احمدی کا یہ عقیدہ ہے کہ معاذاللہ حضرت مرزا صاحب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہیں بلکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے فرمانبردار اور تابعدار اور خادم ہیں.احمدیوں اور غیراحمدیوں میں جو فرق ہے اس کے متعلق ایک رسالہ ارسال ہے جو ابھی چھپا ہے.ہماری ناراضگی کی وجہ بھی یہی تھی کہ آپ نے کسی ناواقف سے کچھ سنا اور ایسا ایسا لکھ دیا.کعبۃ اللہ میں دعا کے متعلق جو آپ نے لکھا ہے، ہم کعبۃ اللہ میں دعا کرنے اور کرانے کی قدر آپ سے زیادہ کرتے ہیں.وہاں کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں.حضرت مرزا صاحب نے ایک دعائیہ مضمون لکھ کر کاتب خط ہذا کے والد حاجی منشی احمد جان صاحب کو دیا تھا کہ بیت اللہ میں جاکر یہ دعا ہمارے لیے کرنا.حاجی صاحب موصوف وہ خط امانتاً اپنے ساتھ لے گئے اور عرفات میں جاکر وہ دعا کی.کاتب خط۱؎ ہذا بھی ان کے ساتھ موجود تھے جس وقت وہ دعائیہ خط پڑھا گیا اور دعا کی گئی.ہمارے دوست حج کو جاتے ہیں اور اب بھی گئے ہوئے ہیں.میرناصر نواب صاحب حضرت صاحب کے خسر اور میاں محمود احمد آپ کے بیٹے بھی گئے ہیں ان کا بڑا کام دعا ہی ہے.وہاں انہوں نے دعائیں بھی کیں ہیں.ہم بیت اللہ میں اور حج میں دعا کی بہت قدر کرتے ہیں.والسلام ۲۷؍نومبر۱۹۱۲ء ۱؎ شہادت افتخار احمد از قادیان کاتب خط ہٰذا بفضل اللہ تعالیٰ میں اس وقت جب کہ میرے والد عرفات کے میدان میں حضرت صاحب کے اس حکم کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوئے اور دعا مانگنی شروع کی موجود تھا.میرے والد دعا کے الفاظ کہتے جاتے تھے اور ہم بیس کے قریب جو آدمی ان کے ساتھ حج کو گئے تھے آمین کہتے جاتے تھے.والسلام افتخار احمد

Page 273

نماز کس واسطے پڑھی جاتی ہے ایک صاحب نے حضرت کی خدمت میں خط لکھا کہ مجھے نماز میں لذت نہیں آتی.حضرت نے جواب میں فرمایا.نماز ایک حکم ہے اس کی تعمیل ضروری ہے، لذت حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ فرمانبرداری کے واسطے.اگر لذت والی شے ہوتی تو ہر ایک اس کو کرتا اور لذت لینے کے لئے کرتا.پھر ثواب کہاں سے حاصل ہوتا.ارشاد الٰہی کی تعمیل انسان کے واسطے ضروری ہے.مالک راضی ہوگیا تو سارے جہان کے نفعے اس میں آجاتے ہیں.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد ۱۲ نمبر۳۱ تا ۳۳ مؤرخہ ۲۷؍ فروری ۱۹۱۳ء صفحہ۹ تا ۱۲) مکتوبات امام ربّانی حضرت خلیفۃ المسیح اس کتاب کے متعلق فرماتے ہیں.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمد ہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم وآلہٖ مع التّسلیم خدا تعالیٰ کے بڑے احسانات اور اس کے کرم اور غریب نوازی اور رحمت سے آج کل بہت بڑی رحمت کا ظہور یہ ہے کہ علمی جماعت کے لیے اوّل کاغذ کا میسر ہونا پھر مطابع کا ہونا اس پر محکمہ ڈاک تار اور ریلوے کا کارخانہ اس پر عام طور پر یا نسبتاً آرام اور سلطنت کی توسیع کے بڑے بڑے مخازن کا ظہور ہورہا ہے.حضرت شیخ المشائخ حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات کا شائع ہونا ہرچند نقشبندی سلسلہ کے لیے خاص فضل ہے.پھر اس کا اردو ترجمہ فضل کے اوپر فضل ہے.اس کی چھپائی اور تحریر اور کاغذنہایت ہی پسندیدہ ہے تقطیع بھی بہت دلربا ہے.اس پر قیمت بھیبہت تھوڑی ہے.میں نقشبندی احباب کے لیے بابرکت سمجھتا ہوں.چونکہ مجھے اس سلسلہ میں بھی بیعت کا شرف حاصل ہے اس لیے اس نعمت کی قدر خوب سمجھتا ہوں.نورالدین ۲۴؍ مئی ۱۹۱۳ء (ماخوذ از اخبار قادیان.البدر جلد ۱۲ نمبر ۳۱و۳۲ و ۳۳ مؤرخہ ۲۷؍ فروری ۱۹۱۳ء صفحہ۲۰)

Page 274

اشاعت رسالہ کے لئے احباب کو خواجہ صاحب کی اعانت کی تحریک بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ احباب و اہل اسلام اس چٹھی پر غور فرماویں ایک دردمند دل کی تحریر ہے دردمند دل سے پڑھو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ پوری توجہ کریں.تین ہزار ایک پرچہ کے لیے، زیادہ نہیں، چاہو خریدار بنو چاہو امدادی رنگ میں دو، جس طرح ہو خوا جہ صاحب کی ہمت بڑھاؤ. (الحج :۴۱).والسلام نورالدین عفی اللہ عنہ ۲۶؍ فروری ۱۹۱۳ء (البدر جلد۱۳ نمبر۱ مؤرخہ ۶؍ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۱) ایک شخص کے چند سوالوں کے جوابات کبیرہ سوال نمبر۱.بروئے قرآن کریم کبائر کیا کیا ہیں؟ جواب.ہر ایک بدی کی ایک ابتدا ہوتی ہے ایک اوسط ہوتا ہے اور ایک انتہا ہوتا ہے.انتہا کو کبیرہ کہتے ہیں.جو شخص ابتدا اور اوسط کا مرتکب ہوجائے اور انتہا سے بچ جائے اس کا گناہ بخشا جاتا ہے.(النساء :۳۲) میں اسی کی طرف اشارہ ہے.مثلاً ایک شخص نے کسی کا مال دیکھا اس کے دل میںلالچ پیدا ہوا کہ اس کا مال چوری کروں.یہ چوری کا ابتدا ہے.اس نے اس کے گھر میں داخل ہونے کے وسائل پیدا کیے اور داخل ہوا، یہ اوسط ہے.اب باقی رہا مال کو لے کر چلے آنا، یہ انتہا ہے اور اس کا نام کبیرہ ہے.اگر اس وقت اس کے دل میں خشیت اللہ پیدا ہو اور وہ چوری کا مال نہ لے اور اپنے پہلے خیال اور دخل پر پشیمان ہو کر چلا آئے تو اس کبیرہ کا ارتکاب نہ کرنے کے سبب اس گناہ کا ابتدا اور اوسط اسے معاف ہوجائے گا.قرآن شریف نے کبائر کی کوئی تعداد مقرر نہیں

Page 275

فرمائی ہر گناہ کی آخری حالت کا نام کبیرہ ہے.رکعات عشاء سوال نمبر۲.دارالامان میں تعداد رکعات عشاء کا معمول کیا ہے؟ جواب.ہمارا معمول یہ ہے.فرض۴، سنت۴، وتر۳، بیٹھ کر۲، کل۱۳ رکعت.وَارْکَعُوْا سوال نمبر۳.نماز باجماعت کی تاکید میں (البقرۃ:۴۴) کا ارشاد ہوا ہے.وَاسْجُدُوْا وغیرہ نہ ہونے کی مصلحت اور حکمت کیا ہے؟ جواب.رکوع رکعت کا درمیانی حصہ ہے.الفاظ رکوع اور رکعت ایک ہی مادہ سے نکلے ہیں.رکعت میں کھڑا ہونا، بیٹھنا، سجدہ کرنا اور رکوع کرنا سب شامل ہے.جو شخص نماز باجماعت میں رکوع میں آکر مل جائے اس کی رکعت ہوجاتی ہے سجدہ میں آکر ملنے سے وہ رکعت نہیں ہوتی.اس واسطے جماعت نماز کی تاکید کے وقت رکوع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.مامور کو نہ ماننے کا عذاب سوال نمبر ۴.کیا عذاب الٰہی جو مامور کے ظہور کا نشان ہو اس کے واصل الی اللہ ہونے کے بعد بھی رہتا ہے؟ جواب.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے تھے تو آپ کے بعد قیصر وکسریٰ مفتوح اور ہلاک ہوئے.کیا مامور کے منکر جو اس کی وفات کے بعد مریں گے دوزخ میں نہ جائیں گے؟ عذاب تو مامور کی وفات کے بعد بھی جاری رہتا ہے یہی ہمیشہ سے سنت اللہ ہے.صَلٰوۃُ الْوُسْطٰی سوال نمبر۵.صَلٰوۃُ الْوُسْطٰی سے کون سی نماز مراد ہے؟ جواب.خدا تعالیٰ نے کسی نماز کا نام نہیں لیا تو ہم اس کی تعین کس طرح کرسکتے ہیں.اس سے سب نمازوں کی تاکید نکلتی ہے.(دن کی درمیانی نماز ظہر ہے.رات کی تین نمازوں میں سے درمیانی نماز عشاء ہے.دن کے آخر کے درمیان عصر ہے.بیداری کے ثلث آخر کے درمیان مغرب ہے.روشنی اور تاریکی کے وقت کے درمیان فجر ہے.ایڈیٹر )

Page 276

مسئلہ تکفیر مولوی عبدالماجد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ غیراحمدی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور مجھ کو آپ کافر جانتے ہیں؟ اس کے جواب میں حضرت نے لکھا تھا کہ ہم کسی مسلمان کلمہ گو کو کافر نہیں سمجھتے.اس کے جواب الجواب میں پھر مولوی محمد عبدالماجد صاحب نے خط بقلم محمد عصمت اللہ صاحب ہیڈمولوی اسکول حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پہنچا جس میں لکھا ہے کہ نہایت افسوس کے ساتھ عرض ہے کہ آپ کی تحریر صاف طور سے پڑھی نہیں گئی، آپ اپنی صحیح رائے سے مطلع فرماویں.حضرت خلیفۃ المسیح نے جواب میں لکھا.مولٰنا! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ بجواب مکرمت نامہ عرض ہے.جب ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان یقین کرتا ہے تو فرمائیے میرا کیا حق ہے کہ میں اسے کہوں کہ تو مسلمان نہیں.کیا میں علیم بذات الصدور ہوں؟ نہیں ہرگز نہیں اور کیا میرے قبضہ میں بہشت اور دوزخ کی کنجیاں ہیں؟ ہرگز نہیں.ھَلْ شَقَقْتَ قَلْبَہٗ میرے زیرنظر ہے.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.میرا جواب بالکل صاف ہے.باقی رہا آپ کا افسوس اور نہایت افسوس سو اس پر عرض ہے ہزاروں کو مجھ پر افسوس ہوگا ان میں آپ کا اضافہ تعجب کا موجب نہیں.میری رائے کی کوئی ضرورت نہیں.مسلمان بیکار اور نکمے ہیں آج ان کو ایسے کام ضروری اور اصل مطلب کی طرف توجہ نہیں.یہ تحریر میرے ہاتھ کی ہے میں اس سے عمدہ نہیں لکھ سکتا.(البدر جلد۱۳ نمبر۱ مؤرخہ ۶؍ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ۳،۴) قوم کی آرام پسندی فرمایا.حضرت نوحؑ کے زمانہ میں بھی قوم ایسی ہی آرام میں اور دولت مند تھی جیسے کہ آج کل ہے.مرسلین و مامورین پر ایمان نہ لانے کی وجہ فرمایا.خدا کے مرسلین اور مامورین پر ایمان

Page 277

نہ لانے کی وجہ ضد ہٹ اور اپنی بات کی پچ ہے.جب ایک دفعہ تکذیب کر بیٹھے تو بس اپنی بات پر اڑ گئے.یہ عادت بڑی ابتلا میں ڈالنے والی ہے.مسلمانوں میں تکبر فرمایا.مسلمانوں میں بڑا تکبر ہے.ذلیل بھی ہیں، مال بھی پاسن نہیں مگر پھر بھی متکبر ہیں.حملہ میں پہل نہیں کرنی چاہیے فرمایا.میری سمجھ میں پہلے ہمیشہ دشمن کووار کرنے کا موقع دینا چاہئے خود پہلے حملہ کرنا نہیں چاہئے، مباحثہ یا جنگ ہو.دعاکی تاثیر فرمایا.دعا بڑی بھاری چیز ہے.ایک حدیث ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کے آستانے پر ایسا گرے کہ بس اس میں محو ہوجائے تو یہ ذرات عالم اس کے قبضہ میں ہوجاتے ہیں.جب لوہا گرم ہوجاتا ہے یہاں تک کہ آگ اس کو اپنے رنگ میں رنگین کرکے سرخ کردے تو اس کو النّار کہہ سکتے ہیں.وہ بھی ہر چیز کو آگ ہی کی طرح جلا سکتا ہے.بعض آدمی بڑے بڑے متبرک مقامات میں دعا کرنے جاتے ہیں.منہ سے کہتے ہیں یاربّ یاربّمگر ان کا لباس حرام اور ان کا کھانا حرام ہوتا ہے.تو پھر دعا کیونکر قبول ہو.والد صاحب کا نقد پیسے نہ دینا فرمایا.میرا باپ بڑے حوصلہ والا اور امیر آدمی تھا ہم ہر قسم کے میوے اپنے کھانے پر دیکھتے تھے اور ہر جگہ کے انار اور سیب و انگور وغیرہ ہم کھانے کے ساتھ کھاتے تھے مگر وہ ہم کو کبھی نقد پیسے نہیں دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شے تم چاہو ہم تم کو منگا کر کھلا دیں گے مگر نقد پیسے نہ دیں گے.ایک دفعہ میں عید میں جارہا تھا.میں نے کہا آج تو مجھ کو پیسے دیجئے.فرمایا کہ جو کچھ کہو گے ہم تم کو منگا دیں گے پیسے کیا کرو گے.اس وقت انہوں نے مجھ کو آدھ آنہ دیا تھا.غرض یہ ضروری ہے کہ یہاں بورڈنگ ہائوس میں لڑکوں کے پاس نقد پیسے نہ ہوں اور جس چیز کو لڑکے کہیں مہتمم ان کو منگا کر کھلادیں.میں نے مرأۃ العروس ساری پڑھی ہے اس میں سے ایک نکتہ سناتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ شرفا کا ذلیل لوگوں سے اور امیروں کا غریبوں سے اور بڑوں کا چھوٹوں سے تعلق اچھا نہیں.

Page 278

خدا کی کتاب فرمایا.میں چھوٹا سا تھا اور ہمارے ملک میں اندھیر تھا.جب میں اپنے استاد سے سبق پڑھنے لگا تو کلکتہ کا ایک شخص محض خدا کے فضل سے آگیا اس نے میرے استاد سے میری تعلیم کے متعلق پوچھا.انہوں نے کچھ جواب دیا ہوگا خدا اس پر رحم کرے.اس نے کہا کہ آپ جو اس کو مخلوق کی کتاب پڑھاتے ہیں خدا کی کتاب کیوں نہیں پڑھاتے.یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اس نے مجھے ایک پنجسورہ دیا.میرے استاد نے بھی مجھے وہی پڑھانا شروع کردیا.تب ہی سے مجھ کو کتاب اللہ سے محبت ہے.تین الفاظ قرآن سے مقابلہ مذاہب فرمایا.بعض وقت میں نے قرآن کے تین تین لفظوں کو علیحدہ چھانٹ کردیکھا ہے کہ انہیں تین الفاظ سے میں دنیا کے تمام مذاہب کا مقابلہ کرسکتا ہوں.شرک کے معنی سمجھانا فرمایا.ایک مولوی صاحب نے کہا کہ مجھے شرک کے معنی نہیں آتے.میں نے ہنس کرکہا کہ آؤ ہم تم کو سمجھائیں کیونکہ ہم اس کو بچپن میں ہی خوب سمجھ گئے تھے اور اب تو ہم اس کو اس طرح سمجھتے ہیں جیسے الحمد کو.میں نے ان کو شرک کے معنے سمجھائے اس نے کہا کہ ساری عمر میں نے کبھی بھی یہ معنے نہیں سنے تھے.عربی زبان کی وسعت فرمایا.ایک میرے دوست تھے مجھے بمبئی میں مل گئے وہ ہر بات سیاسی امور میں گھسیڑ دیتے تھے.میرے منہ سے یونہی نکل گیا کہ عربی زبان بڑی وسیع ہے.کہنے لگے کہ نہیں انگریزی کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتی.انہوں نے کہا کہ اکانومی کے کیا معنی ہیں؟ میں نے کہا کہ میں انگریزی پڑھا ہوا نہیں ہوں آپ مجھے اس کے معنی اردو میں سمجھائیں پھر میں آپ کو بتادوں گا کہ اکانومی کے کیا معنی ہیں.انہوں نے مجھے معنی سمجھائے تو پھر میں نے ان کو ایک ایسا لفظ بتایا کہ جس میں لفظ اکانومی کے معنوں سے بہت زیادہ وسعت تھی.وہ لفظ اقتصاد تھا جس کے معنی ہیں آمدنی اور خرچ کا مقابلہ کرکے اپنے خرچ کو سنبھالنا.شفاعت فرمایا.ایک شخص بڑا نیک تھا وہ مجھ سے دشمنی کرتا تھا مگر میں اس کو ہمیشہ اپنی غلطی سمجھتا اور خیال کرتا کہ شاید میری ہی کسی غلطی کا نتیجہ ہے کہ جو ایسا نیک شخص میری مخالفت کرتا ہے.ایک روز

Page 279

شفاعت کے مسئلہ پر بحث تھی اور وہ میرے بالکل ہی قریب آکر بیٹھ گیا مجھے کہنے لگا کہ نورالدین تُو تو ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیرتا ہے.ہم سینکڑوں ہزاروں بدکاریاں کرتے ہیں اور صرف شفاعت کے اوپر ہی ہمارا بیڑا ہے تُو اس کو بھی ہمارے ہاتھ سے کھوئے دیتا ہے.مدرسہ کے اساتذہ اور طالبعلموں کو نصائح فرمایا.مومن کو بڑا بہادر ہونا چاہئے.مومن بڑا بہادر ہوتا ہے.مومن کبھی نہیں گھبراتا.لڑکوں پر ہرگز کوئی سختی نہ ہو.صبر کرو صبر کرو اور دعاؤں کی تلوار چلائے جاؤ.جو لڑکے واقعی شرارت کرتے ہیں ان کے لیے دو راہیں ہیں.ایک تو یہ کہ اوّل تو وہ سب شکست کھاجائیں گے اور تمہارے سب احکام کو مان لیں گے ورنہ دوسری راہ یہ ہے کہ وہ یہاں سے رخصت ہوجائیں گے.لوگوں نے جب حضرت عمرؓ سے خالد کی معزولی کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں لوگوں کو یہ دکھلانا چاہتا ہوں کہ اسلام کی فتح خالد بن ولید کی تلوار پر موقوف نہیں بلکہ خدائے تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے.میں تو مباحثات وغیرہ میں کبھی مشرک سے بھی نہیں ڈرتا.مومن کی شان بہت بڑی ہے لڑکوں پر کوئی تشدد نہ ہو اور تم بھی ہرگز نہ گھبراؤ.ہمارے بچو ! ہماری بات کو تو کبھی تحقیر سے نہ سنا کرو اور اپنے افسروں، مہتمموں اور استادوں کے لیے بہت دعائیں کیا کرو.خدا کا بندوں سے سلوک فرمایا.بہت سے لوگوں پر جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو عمر دیتا ہے، قوت، عزت، مال اور حسن و جمال دیتا ہے تو بعض اوقات ایسے شخص نابکار سیہ کار ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے وہ نعمت چھین لیتا ہے اور مختلف قسم کے صدمات پہنچتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے منکر اور بالکل ناامید ہوجاتے ہیں.ورکس آف گارڈ فرمایا.عقل صحیح گواہی دیتی ہے.فطرت سلیمہ اقرار کرتی ہے سنن الٰہیہ جن کو ورکس آف گاڈ (Works of God) کہتے ہیںقرآن گواہ ہوتا ہے.افعال الٰہیہ، اسماء الٰہیہ اس

Page 280

کے گواہ ہوتے ہیں خود محمد رسول اللہ اس کا نمونہ بنتے ہیں.زمانہ کو گالی مت دو فرمایا.ایک ہی بات کل زمانہ میں چلتی ہے اس لیے حدیث میں آیا ہے لَا تَسُبُّوالزَّمَانَۃَ.زمانہ کو گالی مت دو.فارسی لٹریچر میں زمانہ کو بڑی گالیاں دی ہیں.شعراء لوگ گردش روزگار، گردش روزگار کہہ کر زمانہ کی بڑی شکایت کرتے اور اس کو گالیاں دیتے ہیں.زمانہ ایک آنی چیز ہے.جو ایک آن میں فنا ہونے والی چیز ہو تو ایسی کمزور شے کو گالیاں دینا کیا معنی؟ میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ زمانہ کو ہرگز گالی نہ دیں.فرمایا.ایک دفعہ لاہور میں دیانند آیا.ایک رتن چند داڑھی والاتھا اس کی کوٹھی پر ٹھہرا.میں بھی وہاں گیا.اس نے کہا کہ زمانہ قدیم ہے.میںنے کہا زمانہ چیز کیا ہے جس کو تم قدیم کہتے ہو؟ اور وہ ہے کیا؟ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ زمانہ کیاہے.میں نے کہا کہ زمانہ ہمارے مقدار فعل کا نام ہے اور فعل فاعل پر موقوف ہے اور وہ دو درجہ نیچے ہے وہ ایک آنی چیز ہے.جب زید بولتے ہیں تو ابھی ی پیدا بھی ہوتا کہ ز کا زمانہ موقوف ہوجاتا ہے پھر د بھی نہیں بولی جاتی کہ ی کا زمانہ فنا ہوجاتا ہے.منطق فرمایا.ایک ہمارے دوست نے کہا کہ آج کل علماء میں منطق کا بڑا رواج ہے.میں نے کہا کہ منطق تو ایسی چیز نہیں کہ جس کی علماء کو اشد ضرورت ہو.ایک ذہین آدمی منطق کا محتاج نہیں.ایک رخصت ہونے والے کو نصیحت حضرت صاحب نے ایک لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے ایک شخص کو جو اس لڑکی کو لے جانے والا تھا فرمایا کہ اس کو تین شرطوں پر لے جاؤ.اوّل یہ کہ وہ پانچ وقت نماز پڑھے.دوسرے جھوٹ بولنے کی عادت کو کم کرے اور گُرگابی اور جرابیں اس کو مت پہناؤ کیونکہ کنواری لڑکیوں کے لیے آج کل یہ باتیں بہت مضر ثابت ہوئی ہیں.

Page 281

اسنا دکشائش رزق کا ذریعہ نہیں ایک شخص نے اپنے دو لڑکوں کو پیش کرکے کہا کہ حضور یہ غلام زادے کالج میں پڑھتے ہیں ان کے لیے دعا فرمائیے کہ خدا ان کو جلد کامیاب کرے.آپ نے فرمایا کہ اگر ایم.اے، بی.اے ہونے سے اصل خوشی حاصل ہوسکتی ہے تو امریکہ اور یورپ میں بہت سے پاس ہوتے ہیں.حقیقت میں یہ اصل ذریعہ کشائش رزق کا نہیں.میں نے بھی نارمل پاس کیا تھا.میں ایک جگہ ہیڈ ماسٹر تھا وہاں پر انسپکٹر مدارس آگئے میں اس وقت کھانا کھا رہا تھا.میں نے ان کو کہا کہ آپ بھی آجائیں.تو انہوں نے بجائے اس کے کہ میرے ساتھ کھانا کھاتے مجھے فرمایا کہ کیاآپ نے مجھے پہچانا نہیں میں انسپکٹر مدارس ہوں اور میرا نام خدابخش ہے.میں نے کہا اچھا آپ بہت ہی نیک آدمی ہیں مدرّسوں کے ہاں کھانا نہیں کھاتے تو بس پھر تو یہ بہت ہی بہتر ہے.یہ کہہ کر میں بڑے مزے سے اپنی جگہ پر بیٹھا رہا اور وہ بیچارہ اپنا گھوڑا خود ہی پکڑے ہوئے اس بات کا انتظار کرتا رہا کہ شاید اب بھی یہ کسی لڑکے کو میرا گھوڑا پکڑنے کے لیے بھیجے.جب میں نے کوئی لڑکا نہ بھیجا تو اس نے خود مجھ سے کہا کہ کسی لڑکے کو تو بھیج دیجئے جو میرا گھوڑا تھام لے.میں نے کہا کہ جناب آپ مدرسوں کے گھر کا کھانا تو کھاتے ہی نہیں کیونکہ آپ اس کو رشوت سمجھتے ہیں تو پھر ہم لڑکے کو گھوڑا پکڑنے کے لیے کیسے کہہ دیں کیونکہ وہ تو یہاں صرف پڑھنے ہی آتے ہیں گھوڑے تھامنے کے لیے تو نہیں آتے.پھر اگر کسی لڑکے کو گھوڑا تھامنے کے لیے کہہ دیا جائے تو آپ یہ بھی کہیں گے کہ اس کو کہیں باندھ بھی دو اور گھاس بھی ڈالا جائے تو پھر جب آپ مدرسوں کے کھانے کو رشوت سمجھتے ہیں تو ہم آپ کے گھوڑے کو گھاس کیسے دیں.اس کاگھوڑا بڑا شور کرتا تھا اتنی دیر میں اس کے ملازم بھی آگئے انہوں نے گھوڑے کو باندھا اور جلدی ہی روٹی وغیرہ تیار کرلی.اس نے کہا کہ میں امتحان لوں گا.میں لڑکوں کو امتحان دینے کے لیے تیار کرکے علیحدہ جا بیٹھا وہ خود ہی امتحان لیتا رہا.بعد میں مجھے کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ بڑے لائق ہیں اور بڑی لیاقت سے آپ نے نارمل وغیرہ پاس کرکے بہت عمدہ اسناد حاصل کی ہیں معلوم ہوتا

Page 282

ہے کہ شاید اسی باعث سے آپ کو اس قدرناز ہے.میں نے یہ بات سن کر اس کو کہاکہ جناب ہم اس ایک بالشت کے کاغذ کوخدا نہیں سمجھتے اور ایک شخص کو کہا کہ بھائی اس بت کو ذرا نکال کر تو لاؤ.پھر اس کے سامنے ہی منگا کر اس کو پھاڑ ڈالا اور دکھلا دیا کہ ہم کسی چیز کو خدا کا شریک نہیں مانتے.اس شخص کو میری اس طرح پر اپنی اسناد کو پھاڑ ڈالنے سے رنج بھی ہوا جس کا اس نے نہایت تاسف سے اظہار کیا اور کہنے لگا کہ آپ کے اس نقصان کا باعث میں ہوا ہوں نہ میں یہ بات کہتا اور نہ آپ کا یہ نقصان ہوتا.لیکن حقیقت میں جب سے میں نے اس ڈپلومہ کو پھاڑا تب ہی سے میرے پاس اس قدر روپیہ آتا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.میں نے لاکھوں روپیہ کمایا ہے.آپ اپنے بچوں کے لیے خود بھی دعا کریں اور ان کو بھی کہیں کہ وہ خود بھی دعا کیا کریں اور اپنی صحت کا بھی لحاظ رکھیں.اصل میں پاس بھی خدا کے فضل سے ہوتا ہے.میں نے خود ان باتوں کا تجربہ کیا ہے کہ ادھر پاس ہونے کی خبرآتی ہے اور ادھر موت کا پیغام آجاتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ لڑکوں کے لیے بھی بڑی ہی مصیبت ہے.بورڈنگیں لڑکوں کے لیے بڑی خطرناک مقام ہیں.ایک جگہ بڑے ہندو عالموں کے لیکچر ہو رہے تھے میں بھی میز کے قریب سرجھکائے بیٹھا سن رہا تھا وہ سب اس بات پر زور دے رہے تھے اور اس بات کا ثبوت دیتے تھے کہ صغرسنی کی شادی نہایت مضر ہے.جب ان کے سب بڑے بڑے لیکچرار لیکچر دے چکے تو ان میں سے بہت سے لوگ میرے سر بھی ہوگئے کہ اس میں آپ کا حق بھی ہے کہ آپ بولیں کیونکہ آپ طبیب ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ آپ ویدک علاج سے بھی بخوبی واقف ہیں.غرض ان کے اصرار سے مجھے بولنا پڑا.میں نے کہا کہ تم لوگ جو صغرسنی کی شادی کی مخالفت کررہے ہو یہ تو بتاؤ کہ وہ شادی ہونے سے پیشتر ہی بورڈنگوں یا مدرسوں میں کوئی شادی کرلیتے ہیں یا نہیں.پھر میں نے کہا کہ میں نے تمہارے فارسی مدرسے، انگریزی مدرسے، ہندی مدرسے وغیرہ سب دیکھے ہیں جو جو کارروائیاں وہاں ہوتی ہیں وہ بھی مجھے معلوم ہیں.یہ سب کچھ کہہ کر پھر میں نے نظیریں پیش کیں کہ کس طرح لڑکے تباہ ہوتے ہیں.اس پر نئی تعلیم والوں نے تو بالکل گردنیں ایسی نیچی کیں کہ پھر وہ

Page 283

اوپر اٹھاہی نہیں سکے.میں نے یہ بھی بتایا کہ پچانوے فیصدی میرے پاس کالجوں کے خطوط آتے ہیں اور ان میں کالجوں کی بڑی بڑی غلطییں درج ہوتی ہیں.دعوے پر دلیل چاہیے آج حضرت نے درس میں فرمایا کہ دنیا میں اکثر لوگ اپنے عقائد صرف وجدان سے قائم رکھتے ہیں اور کوئی دلیل اس پر نہیں دے سکتے.چنانچہ عیسائی صاحبان سے اگر یہ سوال کیا جاوے کہ یسوع کی خدائی پر کوئی دلیل محکم ان کے پاس ہے تو اس کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے.کل میں نے خوا جہ کمال الدین صاحب کا ایک مضمون پڑھا ہے جس میں انہوں نے ایک پادری صاحب کے ساتھ کیمبرج میں گفتگو کی اور ان سے دعوے کی دلیل طلب کی تو اس کا کوئی جواب نہیں.صرف اپنا وجدان اور عقیدہ بیان کیا.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۳ نمبر۱ مؤرخہ ۶؍ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ۷تا۹) درس ہال کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم نحمدہٗ و نصلّی علٰی رسولہ الکریم (المائدۃ :۳) چونکہ مسجد جامع میں ایک عالی شان کمرہ برائے درس قرآن و آسائش نمازیان تجویز ہوا ہے لہٰذا احباب کو مناسب ہے کہ اس ایزادی مسجد کی تعمیرمیں روپیہ سے امداد فرماکر ثواب حاصل کریں.فراہمی چندہ کا کام میر صاحب کے سپرد کیا گیا ہے.ان کا ہاتھ بٹائیں خصوصاً جو کسی محکمہ کے افسر ہیں وہ خاص کر توجہ رکھیں.انشراح صدر سے جو ہوسکے.فقطنورالدین ۲۳؍ فروری ۱۹۱۳ء یہ عاجز چونکہ چند روز قادیان میں قیام کا ارادہ رکھتا اور ہر ایک جگہ خود جانا مشکل ہے لہٰذا یہ تحریر شائع کی جاتی ہے آپ سب صاحب جن کے پاس یہ عرض پہنچے خود جو کارگزار ہیں جیسا کہ سیکرٹری وغیرہ جماعت سے چندہ وصول فرماکر قادیان بنام عاجز ارسال فرماویں تاکہ کام شروع ہوکر انجام پذیر ہو.ناصر نواب

Page 284

خواجہ صاحب کے نام خط بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم نحمدہٗ و نصلّی علٰی رسولہ الکریم مخدومی مکرمی حضرت خوا جہ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ حضرت خلیفۃ المسیح فرماتے ہیں میں آپ کو ایک خوشخبری دیتا ہوں اور ایک ایسی مبارکباد جو کسی نے نہ کی ہو یا کم از کم میرا یہ خیال ہے اور وہ یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو سب سے پہلے جس نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا وہ ایک عورت تھی اور آپ کے ہاتھ پر بھی سب سے پہلے لنڈن میں ایک عورت مسلمان ہوئی ہے.یہ بڑا مژدہ ہے آپ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کریں میں بھی سجدہ کرتا ہوں.دوسری خوشخبری اور مبارکباد میں آپ کو یہ دیتا ہوں کہ اہل انگلستان ایک عورت کے بیٹے کے پرستار ہیں اور ایک عورت ہی وہاں سب سے پہلے آپ نے مسلمان کی ہے.والسلام.خادم اہل بیت رسولؐ اگلے دن کا ذکر ہے حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا تھا کہ حضرت عباسؓ بھی اہل بیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہیں.(البدر جلد۱۳ نمبر۲ مورخہ ۱۳؍ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ۲) بیاہ شادی پر روٹیاں ایک شخص کا خط پیش ہوا کہ شادی کے موقع پر جو برادری کو کھانا دیا جاتا ہے اورلڑکی والے بھی کھانا دیتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.انہیں بیجا خرچوں نے مسلمانوں کو تباہ کیا ہے.مسنون طریق یہ ہے اور قادیان میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ دولہا دولہن کے اکٹھا ہونے کے بعد لڑکے والے اپنے چند دوستوں کو اپنی مقدرت کے مطابق کھانا کھلادیں.

Page 285

دوستانہ ہدیہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ دیوالی وغیرہ پر ہندو صاحبان کچھ مٹھائی مسلمانوں کے درمیان بھی تقسیم کرتے ہیں اس کا لینا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.دوستانہ ہدیہ کے لینے میںہرج نہیں.لڑکیوں کا ورثہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ بعض لوگ لڑکیوں کو شادی کے وقت کوئی بھینس یا گائے یا کپڑے دیتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.جو مرضی ہو دو لوگ لڑکیوں کو جائداد کا ورثہ تو دیتے نہیں یہی سہی.عیسائیوں کا کھانا ایک شخص نے دریافت کیا کہ چوہڑے جو عیسائی ہوجاتے ہیں ان کے ساتھ کھانا پیناجائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.حلال طیب چیزوں کا ان کے ساتھ مل کر کھانے میں ڈر نہیں.مسائل عقیقہ و ختنہ ایک صاحب کے دریافت کرنے پر کہ عقیقہ اور ختنہ کے مسائل کس کتاب میں پائے جاتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.مالا بدر فارسی.بلوغ المرام عربی.اکمل صاحب کی کتاب سنت احمدیہ.حضرت خلیفۃ المسیح کا ایک خط مکرم معظم …… السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ میں نے چند روز ہوئے آپ کو ایک طویل خط لکھا ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس سے پہلے یا اس کے ساتھ آپ کو ملے گا.چکڑالوی صاحب کے اصول آپ سمجھے یا شخ صاحب.میں نے تو بہت غور کیا عملی طور پر ان کے اصول دہریہ کے اصول سے زیادہ وقعت نہ پاسکے.جس بے ادبی سے یہ شخص حضرت نبی کریم اور عمرؓ کو یاد کرتا ہے آپ لوگوں کا دل گردہ سن سکتا

Page 286

ہے.الحمدللہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر کی.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الْکَرِیْمِ.آپ ہماری باتوں کو آہستہ آہستہ مان رہے ہیں.… ہو یا چکڑالوی خیالات.آپ نورالدین کا کہا مان لیں قادیان کو آجائیں.سیاسی حالت کو تم چند روز ترک کر دو یا یوں کرو سوچتے رہو لو میں بادشاہ بنا ہوں تم میرے فوجی ملازم ہو روپیہ یا آنریری آپ کو اختیار ہے.فتوحات کا درلکھا ہے اَلْبَحْر کے معنی مصر ہیں.آپ وطن قادیان بنائیں یہ ہے ہمارا مشورہ.بادشاہ مانو یہ ہے ہمارا حکم.چٹ پٹ تعمیل کرو ہم مصر سے تو زیادہ آزاد ہیں.ہند عمدہ ملک ہے.ہم تم کو انشاء اللہ قرآن کریم، انشاء اللہ جلد، انشاء اللہ صحیح پڑھادیں گے.نورالدین جیسا قرآن پڑھانے وَاِلّا مصر و استنبول و شام میں ٹٹولو اور ضرور جواب لو.لو ہم دعا کریں گے انشاء اللہ کامیابی ہوگی.آؤ دعا کراؤ قادیان جلد پہنچو.ہمارے پاس استنبول کے تعلقات کا ذریعہ نہیں نہ کوئی درس نہ کتاب.روپیہ میں دوں گا آپ دوکان نکالیں.روس، شام ، مصر سے کتابیں منگوائیں منافع تم کو ہی دوں گا.نورالدین ۲۰ ربیع الثانی خوا جہ صاحب کے نام تین خط خط نمبر ۱ خوا جہ عزیز ! اگر لندن میں عورتوں کی حکومت ہے تو ایک بات بتائیں کہ جو مرد عورتوںکو آباد نہیں کرتے اور خرچ بھی نہیں دیتے نہ حسن سلوک ہے ان کے لیے لندن میں کیا قانون ہے؟ (الروم:۲۲) اور (النساء:۲۰)(البقرۃ:۲۲۹) پر قانون وازہ کھل جائے لو آجاؤ مصر کو چھوڑ دو.(الروم:۴۲) کے معنی میں

Page 287

نے کیا توجہ کی ہے؟ یہاں ہزارہا عورتیں بے خانماں ہیں نہ قانون طلاق دے اور نہ آباد کرے کیا کیا جاوے.قرآن کی حکومت ہو تو الگ کیا جاوے.مثنوی اور اس کی شرح اور تصوف کی عمدہ کتاب فتوح الغیب مرسل ہے نفع اٹھاویں.مجھے بہرحال قرآن پسند ہے جس پہلو کو دیکھوں ع زِ پائے تابسرش ہر کجا نگرم کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجاست

Page 288

ہے اور شام مسیحیوں سے پر ہے اور قسطنطنیہ کی حالت مذبوحی ہے.وَ عِنْدَاللّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْر.وَھُوَ یَرِ ُث الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَیْھَا وَ ھُوَ یُوْرِ ُث مَنْ یَّشَآئُ.آپ کالج میں داخل ہوں اور لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ کی تعلیم اور محمد رسول اللہ اور کلمات اذان کی تعلیم دیں.حضرت مرزا کوئی انگریزی داں نہ تھے مگر بہت انگریزی داں آپ کی بیعت میں داخل ہوئے.قادر الکلامی نعمت ہے فضل ہے مگر اثر ڈالنا اس کو مفید کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے.والسلام نورالدین عمر خیام حافظ نے کون سی جماعت بنالی یہ چند روزہ جوش قابل قدر نہیں.تمام جہاں ایک تعلیم کا پابند نہیں ہوسکتا اور نہ ہوگا.مختلف طبائع اورفوری جوش میں کچھ کرلیتے ہیں پھر اور خیال میں غرق ہوجاتے ہیں.آپ انبیاء کی طرز پر چلو اس میں برکت ہوگی.تصوف لسانی اور قولی بات کا نام نہیں وہ ایک فعلی امر ہے.مثنوی کی شرح بھیجتا ہوں، مثنوی میں ایک باب باندھا ہے جس کی یہ سرخی ہے اس پر غور کرو اور خوب غور کرو آپ کو واضح ہوجائے گا مثنوی تصوف کی کتاب نہیں علم کلام کی کتاب ہے.مخالفین کتاب وسنّت کے ساتھ مباحثہ ہے.مسیح اللہ یا ابن اللہ اور کفارہ دو مسئلہ ہیں جن پر ہم کو مسیحی لوگوں سے مباحثہ ہے اور بس.خط نمبر۳ عزیز ! حَفِظَکَ اللّٰہُ وَسَلَّمْ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ فرحت نامہ پہنچا.جَزَاکَ اللّٰہُ احْسَنَ الْجَزَائِ.لندن ایسا شہر نہیں کہ وہاں کا مذہب اسلام کے مذہب سے مقابلہ کرے.ہاں وہاں شراب اور نوجوان عورتیں زبردست نوجوانوں پر خطرناک حملہ کرسکتی ہیں.وَلَا عِصْمَۃَ اِلَّا لِمَنْ عَصِمَہُ اللّٰہُ اور جس طرح مذہب اور قویٰ پر حملہ کرتی ہیں اسی طرح مال پر بھی حملہ ہوتا ہے.

Page 289

اللہ تعالیٰ تم کو معاملہ کی توفیق دے اور کامیاب واپس لاوے.جمعہ مبارک ہو.والسلام دعا گو نورالدین ۵ ؍نومبر ۱۹۱۲ء (ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۳ نمبر۳؍مؤرخہ ۲۰؍ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ۳،۴) ملفوظات حضرت خلیفۃ المسیح (محررہ خاکسار محمد عبداللہ عفی عنہ بوتالوی) کبیرہ اور صغیرہ گناہ کے احکام   (النساء:۳۲)ترجمہ.اگر تم ہٹ جاؤ گے بڑے گناہوں سے جن سے تم روکے گئے ہو معاف کردیں گے ہم تمہارے چھوٹے گناہ اور داخل کریں گے ہم عزت کے مقام میں.یہ ایک مسئلہ ہے جس میں جھگڑے کرتے تیرہ سو برس گزر گئے.لوگ کہتے ہیں کہ مسئلہ حل ہو ہی نہیں سکتا.پہلے جھگڑا یہ کیا ہے کہ کبیرہ گناہ کس کو کہتے ہیں.پھر اگر کبیرہ گناہ کا فیصلہ ہوجاوے تو پھر یہ کہتے ہیں کہ یہ بخشا جاوے گا یا نہیں.پھر یہ کہ کبیرہ گناہ والا کافر کے برابر ہوتا ہے یا نہیں.یہ بحث صحابہ کے وقت ہی شریر لوگوں نے چھیڑ دی تھی.مجھے اللہ کے فضل سے مذہب کے ساتھ ایک خاص تعلق دیا گیا ہے.ہم آپ کو سناتے ہیں اللہ نے ہم پر کھول دیا ہے.ان لوگوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ اگر تم اجتناب کرو کبیرہ گناہوں سے تب ہم معاف کردیں گے دوسرے گناہ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ہم توبہ سے معاف کرتے ہیں.ایک جگہ فرمایا ہے کہ ہم گناہ معاف کرتے ہیں.اصل مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو بدی، بدکاری، شرارت، اللہ کی نافرمانی ہے یہ سب گناہ پہلے ادنیٰ سیڑھی سے شروع ہوتے ہیں پھر وہ اس میں ترقی کرتا جاتا ہے اس کی آخری حالت

Page 290

کبیرہ ہے.مثال یہ ہے کہ کسی نے ایک عورت کو بدنظری سے ایک دفعہ دیکھا پھر مکرر ، سہ کرر دیکھا.پھر کسی دوست سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ پہلے آنکھ کا گناہ تھا اب زبان کا ہوگیا، جواب سننے سے کان کا ہوگیا.پھر پوچھتا ہے کہ یہ کس طرح ملتی ہے؟ وہ کوئی عورت بتائے گا.پھر ادھر چلے گا یہ پاؤں کا گناہ ہوگیا.اس کو ماں بہن بناکر روپے رکھے گا.اب ہاتھ کا اور مال کا گناہ ہوگیا.اسی طرح بڑھتا جاوے گا.اگر اب یہ کامیاب ہوگا اور بدکاریاس کے آخری فیصلہ کا وقت ہے یہ آخری فیصلہ کبیرہ ہوگا.اگر اللہ کریم اس پر رحم کرے اور وہ خدا کاخوف کرکے قبل از ارتکاب ہٹ جاوے تو وہ جو ابتدائی کام کیا گیا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (النساء:۳۲) وہ ہم معاف کردیں گے.اس دعوے کی دلیل میں ایک واقعہ حدیث میں مذکور ہے کہ ایک شخص اپنی چچا زاد ہمشیرہ پر عاشق ہوگیا تھا اورسو پونڈ اس کو دیئے.جب بدی پر تیار ہوئے تو عورت نے کہا کہ اگر تم اب ربّ سے ڈر جاؤ تو ہم بدی سے بچ سکتے ہیں.چنانچہ وہ باز رہے اور اللہ نے ان کے پچھلے ابتدائی گناہوں سے درگزر فرمایا.اب اس طرح سے وہ کبیرہ صغیرہ کا جھگڑا ہی نہ رہا.رہی وہ بات کہ جس نے کبیرہ کیا ہے اس کی پہلی کارروائیاں معاف نہیںہوسکتیں کیونکہ وہ کبیرہ سے ٹلا نہیں.سو اس آیت میں صرف یہی صورت مذکور ہے جو بیان کی گئی ہے.البتہ عام کبیروں اور صغیروں کا فیصلہ یہ ہے.(النساء :۱۱۷) (ترجمہ) تحقیق اللہ نہیں بخشتا اس بات کو کہ شرک کیا جائے ساتھ اس کے اور بخشے گا ما سوائے اس کے جس کو چاہے گا.اور جگہ فرمایا.(الفرقان:۷۲) (ترجمہ)اور جو شخص توبہ کرے اور عمل اچھے کرے پس تحقیق وہ رجوع کرتا ہے اللہ کی طرف پورا پورا.ایک میرے ایک میرے پیر نے گناہوں سے بچنے کا قاعدہ بتایا تھا.میں اس کا عمل کررہا تھا ایک دفعہ دوپہر کو سوگیا اٹھا تو جماعت ہوگئی تھی.میرا خون خشک ہوگیا کہ گویا میںہلاک ہوگیا ہوں.مدینہ کے ایک دروازہ پر لکھا ہے کہ

Page 291

(الزمر:۵۴) جب میں نے یہ آیت دیکھی تو اس سے میرے دل میں اتنا جوش کم ہوگیا کہ مسجدمیں داخل ہوسکا.منبر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے درمیان نماز شروع کردی.منبر اور حضرت صلعم کے گھر کے درمیان کاٹکڑہ بہشتی ہے میں نے دعا مانگی کہ الٰہی اگر یہ گناہ ترک جماعت کا معاف کردیا جائے تو مجھے دلیل بتائی جائے.ظہر کی نماز تھی رکوع میں ہی مجھے یہ آیت بتائی گئی (حٰمٓ السّجدۃ :۳۲) اور یہ سمجھایا گیا کہ تمہارا گناہ بخشا گیا ہے.حضرت مسیح موعود کی تصویر کے متعلق فرمایا کہ دنیا میں دعوے تین قسم کے لوگ کرتے ہیں.ایک مجنون لوگ کرتے ہیں.دوسرے دوکاندار لوگ بھی کرتے ہیں.مثلاً ایک فقیر گدی والا ہے چوری ہورہی ہے دو غلام موجود ہیں کوئی کسی کو بات نہیں کرنے دیتے.تیسرے راستباز لوگ ہوتے ہیں.یورپ میں جب حضرت کی دعوت پہنچی تو ان لوگوں کے خط آئے کہ ہمیں تصویر دکھائی جائے کہ وہ پاگل تو نہیں ہے.شکل سے معلوم ہوسکتا ہے.یہاں ایک پڑھی لکھی عورت ہے جو پاگل ہے.اس کو ہر ایک معلوم کرلیتا ہے.حضرت صاحب اب یورپ میں ہر ایک کے گھر کب پہنچ سکتے ہیں اس ضرورت کے واسطے تصویر بنائی گئی.پوچھا گیا کہ اگر پوشیدہ گھر میں رکھ لیں تو کیا ہرج ہے؟ فرمایا کہ ہمارا کوئی کام مخفی نہیں ہے سب کچھ ظاہر ہے.ہمارے گھر میں کوئی نہیں ہے.ہم کیوں رکھیں.رعب فرمایا.قرآن میں لکھا ہے کہ ہر ایک اپنی قوم میں واعظ ہو اپنی قوم کی ہدایت کے واسطے مشکل پڑتی ہے کیونکہ وہ رعب نہیں مانتے.رعب پیدا کرنے کے واسطے ایک بات چاہیے.میں اور یہ لوگ ایک پیر کے پیرو ہیں مگر اب میرا ان پر رعب کیوں ہے؟ میر صاحب ان کے باپ کے برابر بیٹھے ہیں مگر میرا رعب خوب مانتے ہیں.حکیم فضل الدین صاحب (مرحوم) جس قدر مجھ سے ڈرتے تھے اتنا اور کسی سے نہ ڈرتے تھے.بھیرہ کے لوگ سب میرا رعب مانتے ہیں.

Page 292

واقعات بیان فرمودہ متعلقہ سوانح عمری خود والدہ کی نصیحت فرمایا.ایک دفعہ میری ماں نے مجھے علیحدہ بلایا اور کہا کہ میں تجھے ایک بھلائی کی بات کہوں؟ میں نے کہا وہ کیا؟ انہوں نے کہا کہ تیرا بھائی جو طب کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ نورالدین کو طب کرنا نہیں آتا اور اس کو شربت شیرہ بنانا بھی نہیں آتا وہ میرے پاس آیا کرے اور سیکھا کرے.میں نے کہا کہ یہ پنساریوں کا کام ہے.اس نے کہا تم اس کام کو سیکھنا نہیں چاہتے؟ میں نے کہا جب پنساری بننے لگوں گا تو سیکھ لوں گا.شادی کا ایک واقعہ فرمایا.میری شادی تھی مفتیوں کے محلہ میں وہاں جراح رہتے تھے میرا بیاہ تھا وہ آتے رہتے تھے.ایک نے مجھ سے کچھ ہنسی کی.میں نے کہا کہ تم بڑے جاہل ہو.اس نے کہا کہ کیا تو ہمارا محتاج نہیں ہے؟ کبھی خون نہ نکلوانا ہوگا؟ میں نے کہا کہ میں نکلواؤں گا ہی نہ بلکہ یہ تمہاراکام ہی چھڑادوں گا.میاں شیخ احمد صاحب نے مجھ سے کہا کہ یہ لوگ آپ سے ناراض ہوجائیں گے اور طب کے کام میں مشکل پڑے گی.ایک دفعہ ایک کرپا نام پنساری تھا اس کو ماشرا ہوجاتا تھا.انہوں نے کہا کہ جب تک اس کا تین سیر خون نہ نکلے آرام ہوہی نہیں سکتا.چنانچہ ایک دفعہ اس کو سخت ماشرا ہوگیا.میں نے اس کا دوسری طرح علاج شروع کیا اور ایسا انتظام کیا کہ جس سے اس کو غش ہوگیا.غش کے ساتھ ہی سب ورم وغیرہ دور ہوگیا.شیخ احمد صاحب نے مجھے کہا کہ یہ مرجائے گا مگر بجائے اس کے اس کو بالکل آرام ہوگیا اور پھر کبھی نہ ہوا.جس کو وہ حجام لوگ بھی مان گئے.فقط (البدر جلد۱۳ نمبر۳مؤرخہ ۲۰؍ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ۱۱،۱۲) مخلص ہیں کسی تحریک پر حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.مولوی فضل دین صاحب مختار گوجرانوالہ اب تک مخلص آدمی ہیں ان کی نسبت ہمارے دوست کوئی بدظنی نہ پھیلائیں.

Page 293

ایسوں کو عیسیٰ نہ ملے گا ایک شخص کا خط حضرت کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا ہے کہ میں نے حضرت عیسیٰ کو خواب میں دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اتروں گا.فرمایا.اس کو لکھ دو کہ یہ ہماری بات یاد رکھو کہ تم اور تمہارے تمام ہم خیال حضرت عیسیٰ کی ملاقات کے خواہش مند مر جائیں گے اور مرتے رہیں گے اور وہ کبھی حضرت عیسیٰ کو نہ ملیں گے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام یقینا فوت ہوچکے ہیں.(البدر جلد۱۳ نمبر۴مؤرخہ ۲۷؍ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ۱) کتاب ’’ چشمہ زندگی ‘‘ کی نسبت رائے جناب حضرت خلیفۃ المسیح مولوی حکیم نور الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں.جناب کی تصنیف چشمہ زندگی کو جس وقت ڈاک میں آئی دلچسپی سے پڑھا.یہ کتاب مجھے اپنے مضمون میں پسند آئی ہے.آپ کی محنت بہت ہی قابل قدر ہے.مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر ملک اس کتاب کی قدر کرے.نورالدین از قادیان (البدر جلد۱۳ نمبر۴مورخہ ۲۷؍ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ۱۶) کتاب ’’نیر اسلام ‘‘کی نسبت رائے کتاب نیر اسلام میں واقف کار مصنف نے بائبل کی پیشگوئیوں کو جو بانی ٔاسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو ظاہر کرتی ہیں بہت عمدگی سے واضح کیا ہے.کچھ اپنا اور اپنی مرحومہ بی بی کے ترک دین عیسوی و قبولیت اسلام کا حال بھی دلچسپ الفاظ میں بیان کیا ہے اور عیسائیت کے ردّ میں مختلف مفید باتوں کو نئے طرز میں ادا کیا ہے جس کا پڑھنا انشاء اللہ تعالیٰ مفید ہوگا.احباب اس کو خرید کریں اس میں شیخ رحیم بخش صاحب نومسلم کی امداد بھی ہے.قیمت کتاب  فی نسخہ ہے.نورالدین ۲۲؍ مارچ ۱۹۱۳ء (البدر جلد۱۳ نمبر۵مؤرخہ ۳؍ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ۱) روحانی ترقی حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.قادیان میں رہ کر جس قدر روحانی ترقی انسان دو ماہ میں کرسکتا ہے باہر والے اتنی عمر بھر میں نہیں

Page 294

کرسکتے.اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے اوقات کو ضائع نہ کرو.جڑھ کو پانی دو ایک صاحب نے داڑھی رکھنے کے متعلق ایک مضمون لکھ کر حضرت کی خدمت میں پیش کیا.فرمایا.آپ تو پتوں کو پانی دیتے ہو جڑھ کو پانی دینا چاہئے.فرمایا.آج کل مسلمانوں میں بڑا مرض یہ ہے کہ اپنے نفس پر حکومت نہیں کرتے.جو شخص اپنے نفس پر حکومت نہیں کرسکتا اسے دوسروںپر حکومت کس طرح دی جاوے.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۳ نمبر۵مؤرخہ ۳؍اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ۴) ۲۴؍ فروری ۱۹۱۳ء قرآن شریف عمل کے واسطے نازل ہوا ہے فرمایا.قرآن شریف عمل کرنے کے لئے ہے.قرآن شریف عمل کرنے کے لئیہے.قرآن شریف عمل کرنے کے لئے ہے.(باربار درد بھری آواز سے تاکیداً اس کلمہ کو دہرایا.ایڈیٹر) ہندؤوں میں منتروں کی کتابیں ہوتی ہیں کہ صرف ایک منتر کے پڑھنے سے وہ کہتے ہیں کہ یہ اثر ہوتا ہے.اب مسلمانوں نے افسوس صدہا کتابیں اس طرح کی بنالیں.جب سے مسلمان وہندو اس خبط میں پڑے ہیں سب کچھ کھو بیٹھے مگر یاد رکھ کہ قرآن شریف کوئی منتر کی کتاب نہیں.یہ اس واسطے نازل ہوا کہ اس پر عمل کیا جائے.نوٹ بکیں بناؤ اور یادداشتیں لکھو کہ کن کن باتوں پر عمل کرنا قرآن شریف سکھاتا ہے اور کہاں تک تم ان پر عامل ہوچکے ہو.میں تو بچپن سے یادداشتیں لکھنے کا عادی ہوں، بیسیوں قرآن شریف ہیں جن پر میں اپنی یادداشتیں لکھ چکا ہوں.عزیزان و دوستان ( البروج : ۱۲) کے ساتھ دیکھو لگا ہوا ہے.سوچو صرف احمدی نام رکھانے سے نجات غلط خیال ہے.قوال نہ بنو فعال بنو.مسلمانوں میں شیعہ خصوصیت سے مومن کہلاتے ہیں مگر عملاً قرآن سے بُعد میں ہیں.امام حسین علیہ السلام کی قبر بنا کر اس کی پوجا کرتے

Page 295

.ہمارے ملک میں عورتیں محرم میں صرف ثواب کے لئے حُسّے پٹتی ہیں.حُسّے کا لفظ، لفظ حسین سے نکلا ہے اس طرح حضرت سبط اصغر شہید کربلا کے نام کی بے ادبی کی جاتی ہے.لکھنؤ میں بعض مساجد پر لکھا ہوا ہوتا ہے ہائے حسین آپ کی دہائی ہے.اعراب قرآنی فرمایا.جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ قرآن شریف پر پیچھے سے زیریں زبریںلگائی گئی تھیں.ہم نے خوب سوچا ہے اور غور کیا ہے یہ سب کچھ وحی الٰہی سے ہے.آغاز عالم فرمایا.وہ جھوٹے ہیں جو کہتے کہ ابتدا دنیا کا اس طرح سے ہواتھا یا اس طرح سے ہوا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ( الکہف : ۵۲) خدا نے تمہیں سامنے کھڑا کر کے زمین و آسمان کو پیدا نہ کیاتھا.سب کے لئے دعائے خیر فرمایا.محمدرسول اللہ ، خاتم کمالات نبوت اور خاتم کمالات انسانیہ ہیں.اس امت میں ہمیشہ ایک گروہ عملدرآمد کرنے والوں کا ہوتا رہا ہے.اولیاء، علماء، محدثین، فقہاء ، علم ادب کے بادشاہ میں سب کے لئے دعائے خیر کرتا ہوں.تم یاد رکھو اور گواہ رہو.لغتِ قرآن فرمایا.قرآن شریف کی عربی سہل اور اس کا لغت بہت ہی آسان ہے.خلاف سلسلہ لکھی گئی کتاب کا لطیف جواب فرمایا.بہار میں جو کتاب سلسلہ کے خلاف لکھی گئی ہے اس کا جواب وہاں کے ایک انگریزی خوان نوجوان نے لکھا ہے.بہت لطیف جواب ہے.اسے پڑھ کر میرا دل باغ باغ ہوگیا اور میں نے اس کے واسطے بہت دعا کی.(کتاب کا نام ہے حمید مجید اور اس پتہ پر مفت مل سکتی ہے.ایڈیٹر مولوی عبدالحمید صاحب بی اے بی ایل انسپکٹر پولیس، بھاگلپور) لیڈی نرسز میر ناصر نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ ہسپتال بنانے کی فکر میں ہیں میں نے ایک عورت کو فن ڈاکٹری سیکھنے کے واسطے بھیجا ہے اور اس کا خرچ بھی دیتا ہوں تا کہ آپ کے شفاخانہ میں کام کرنے والی عورتیں بھی ہوں.(۲۴ ؍ فروری۱۹۱۳ء)

Page 296

ٹیم مدرسہ مدرسہ تعلیم الاسلام کے بچوں کی ٹیم لاہور جانے سے قبل رخصت کے واسطے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی.حضور نے دعا ئے مسنونہ کے ساتھ ان کو رخصت کیا اور فرمایا.’’اللہ کے سپرد.‘‘ لاہور میں ہمارے فٹبال کی ٹیم فٹبال میچ کی شیلڈ جیت لائی ہے.(۲۴؍ فروری ۱۹۱۳ء) عورت کی ناراضگی پر نکاح فسخ ایک مسئلہ پیش ہوا کہ ایک عورت نابالغہ کا نکاح اس کے باپ نے ایک جگہ کردیا تھا.عورت کے بالغ ہونے پر باہمی تنازعہ فریقین کے سبب ایک جج نے نکاح فسخ کردیا.کیا یہ درست ہے؟ فرمایا.ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ایک لڑکی کا نکاح اس کے باپ نے صغر سنی میں کردیا تھا.لڑکی جب بالغ ہوئی تو حضرت نبی کریم ﷺ کے حضور اس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا.تو آپ نے فرمایا.تجھ کو اختیار ہے.پھر اس نے کہا.یہ میں نے اس لئے کیا کہ لوگ آگاہ ہوں.اچھا میں باپ کے کئے پر راضی ہوں.غیروں سے چندہ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے عرض کیا کہ میں درس قرآن کے ہال کے واسطے چندہ خرچ کرتا تھا.ایک ہندو مستری نے اور نیز ایک چوہڑے نے جو دارالعلوم میں کام کرتے ہیں اس کے واسطے چندہ دیا ہے.فرمایا.کچھ عیب نہیں لے لیں.ایک بھاگلپوری مولوی کا خط بسم اللہ تعالیٰ بعالی جناب حکیم نور الدین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا کارڈ مورخہ ۲۲؍ فروری ۱۹۱۳ء کا آج ۲۵ فروری کو ملا.آپ نے میرے سوال کا جواب صاف نہیں دیا.ہم نے آپ سے پوچھا ہے کہ میرے بھائی حبیب الدین جو احمدی ہوگئے ہیں وہ ہم

Page 297

لوگوں کو کہتے ہیں کہ تم لوگ مسلمان نہیں ہو.حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم لوگ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر اور قرآن شریف پر ایمان رکھتے ہیںاور نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں.مگر مرزا صاحب کو ان کے دعوے میں کاذب جانتے ہیں.مرزا صاحب ہر گز رسول یا نبی یا مسیح موعود یا مہدی یا امام وقت کچھ نہیں تھے.یہی میرا ایمان ہے.ایسی حالت میں ہم آپ کے نزدیک مسلمان ہیں یا نہیں.اس بات کا جواب مہربانی فرماکر دیجئے اور صاف صاف جواب عنایت فرمایئے تا کہ میں سمجھ جاؤں.اگر صاف صاف جواب نہیں عنایت فرماویں گے تو یاد رکھیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آپ سے مواخذہ کرے گا.جب ہم خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ بھائی حبیب الدین احمدی ہم لوگوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ہیں.محمد حنیف احمدی عفی عنہ سوپول مورخہ یکم مارچ ۱۹۱۳ء ڈاک خانہ سوپول ضلع بھاگلپور.جواب از جانب حضرت خلیفۃ المسیح آپ نے بڑی جرأت سے کام لیا.ایک شخص کو جسے ہم نے بہت تجربوں کے بعد صادق مانا اس کو آپ نے کاذب کہا اور اسی پر آپ نے بس بھی نہ کی مفتری بھی مانا. (الانعام : ۲۲) اور اس کی تکذیب کو اپنا ایمان قرار دیا.ایسی جرأت پر میں تو آپ کو مومن نہیں سمجھ سکتا.کیا لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور قرآن نے آپ کو یہی بتلایا ہے.قرآن کی تعلیم نہیں.میں تو کسی مومن کو کافر نہیں کہتا مگر ان لوگوں کو بھی مومن نہیں سمجھتا جو ایک راستباز کو کافر اور مفتری اور پھر اس پر ایمان ہونا یقین کرتے ہیں.آپ اگر اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے تو اتنی جرأت نہ کرتے جتنی کی ہے.کچھ خدا کا خوف نہیں کیا اور اتنی جرأت سے کام لیا ہے مومن بہت محتاط ہوتا ہے اب بھی اگر آپ نہ سمجھیں تو ہم کیا کریں.غنی ہونے کا عمل ایک شخص کا خط پیش ہوا کہ حضور مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے میںغنی ہوجاؤں.فرمایا.آپ میرے بڑے مخلص دوست ہیں اور آپ کے اخلاص کو میں جانتا ہوں اور وہ عمل

Page 298

دنیوی اور دینی بھی جانتا ہوں.دنیوی وہ ہے جو اللہ کریم نے قرآن کریم میں فرمایا ہے  (الجاثیۃ : ۱۴)اور اس کا نمونہ موجود ہے یورپ والوں نے جتنی کوشش صحیح کی اتنا ہی نفع اٹھایا.دینی عمل یوں ہے کہ (المؤمن : ۵۲).(۱) آپ استغفار بہت کریں.(۲) اور خداوند کریم جو کچھ دے اس پر شکر کریں.(۳) دعا مانگیں یہ سب مجرب عمل ہیں بے خطا ہیں.مخلص لوگ ہیں رجسٹریشن کی منظوری کے جھگڑے کے سبب جب بدر اخبار شائع نہیں ہوسکا تھا تو ڈاکٹرعباداللہ صاحب امرتسری نے جوآج کل ولایت میں ہیں اور حضرت خواجہ صاحب کی دینی خدمات میں ان کے ممد و معاون ہیں، اپنے ایک خط میں جو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں لکھا تھا بدر کے نہ بھیجنے کی شکایت کی.حضرت خلیفۃ المسیح نے اس خط پر مفصلہ ذیل الفاظ لکھ کر دفتر بدر میں بھیجے.’’عباد اللہ کو آپ نے نہیں بھیجی.یہ خط اور پرچہ ہائے بدر ان کو بھیج دیں.یہ بڑے مخلص لوگ ہیں‘‘ (مرقومہ منشی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی حال منشی ضلعداری بیری والا) دلیل صداقت نبی کریم ﷺ فرمایا.(النجم:۲) (ترجمہ.قسم ہے ستارے کی جب کہ وہ جھکاؤ پر ہو).قسم بطور شہادت کے ہوتی ہے.وائسرائیوں اور بادشاہوں کو بھی قسمیں دی جاتی ہیں.اس کو اقرار صالحہ کہا جاتا ہے جھوٹی قسمیں کھانے والا ذلیل بے اعتبار ہوجاتا ہے.زیادہ قسمیں تباہی کا موجب ہوتی ہیں.یہ ایک مشہور مقولہ ہے.حضرت رسول اکرم ﷺ کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے بہت قسموں کا اظہار فرمایا ہے تا کہ آنحضرت کی صداقت ظاہرہو.باوجود اس قدر قسمیں کھانے کے آنحضرت ﷺ نہ لوگوں میں بے اعتبار ہوئے نہ رسوا اور تباہ ہوئے بلکہ دن بدن ترقی ہی ہوتی گئی.عرب ایک ویران ملک تھا تھوڑے ہی دنوں میں آباد ہوگیا.قسم کو ایک قسم کا زہر سمجھا جاتا تھا مگر جو چیز دنیا کے لئے زہر تھی وہ آنحضرت ﷺ کے حق میں تریاق ثابت ہوئی.یہاں بھی آنحضرت ﷺ کی سچائی کے ثبوت میں قسم دی گئی ہے.یہ قسم تمثیلی استدلال

Page 299

کے طور پر بیان ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے عقلمندوں کو تمثیل سے بہت سمجھایا ہے تمثیلی استدلال کی مثال یہ ہے کہ مثلاً نباتات میں ایک کلیہ مقرر کیا گیا ہے کہ کلُّ حُلُوٍّ حَارٌ یعنی جو میٹھی چیز ہے وہ پھیکی کی نسبت گرم ہوتی ہے.میٹھا تربوز پھیکے سے گرم ہے.صرف و نحو والوں نے بھی تمثیلی استدلال سے بہت کام لیا ہے.مثلاً یہ کہ فاعل کو ضمّہ ہوتا ہے مگر کبھی نہیں بھی ہوتا.مثلاً کَفٰی بِاللّٰہِ کَسْرَ الزُّجَاجِ الْحَدِیْدِ.کیونکہ تمثیل کا علم مضبوط نہیں ہوتا.قرآن شریف نے بھی تمثیلی استدلال کو اختیار کیا ہے مگرقرآن شریک کا استدلال بالاولیٰ ہوتا ہے.مثلاً اگر ایک موم بتی جلتی ہو اور وہ دو بالشت پر روشنی دیتی ہو تو ایسی دس بتیاں بطریق اولیٰ روشنی دیں گی.قرآن کا استدلال ایسا ہی ہے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قرآن میں شرک کے برا ہونے کا ثبوت یہ دیا ہے کہ جو تمہاری پرستش والی چیزیں ہیں وہ تو خادم ہیں نہ کہ مخدوم.جبکہ وہ مخدوم بھی نہیں ہیں تو معبود کس طرح ہوسکتی ہیں.اسی طرح نجم سے استدلال کیاگیا.نجم ستارہ کو کہتے ہیں.قطب کو بھی کہتے ہیں.یہ جہاز جو مشرق مغرب کو چلتے ہیں ان کا مدار ستاروں کے اوپر ہے.قطب نما کا حال سب کو معلوم ہے.جب قطب کا ستارہ سر پر ہوتا ہے کوئی رہنمائی نہیں کرتا.اس واسطے فرمایا ہے یعنی جب وہ جھکاؤ پر ہوتا ہے سمت الرأس سے نیچے گرتا ہے تب ہدایت کرتا ہے.جب دنیا کی منزلوں کے واسطے راہ نما بنائے گئے ہیں تو آخرت کے واسطے بطریق اولیٰ راہ نما ہوں گے.جس طرح آسمانی ستارہ رہنمائی کرتا ہے اسی طرح روحانی ستارہ بھی رہنمائی کرتا ہے.پھر راہ بتانے والے میں تین شرطیں ہونی چاہئیں.(۱) جاہل آدمی راہ بتانے والا نہ ہو واقف کار ہو (کیونکہ جو خود گمراہ ہو وہ دوسروں کی کیا رہبری کرسکتاہے.ع او خویشتن گم است کرا رہبری کند (۲) کوئی اجنبی آدمی نہ ہو دیکھا بھالا ہو کیونکہ اجنبی دھوکا دیتا ہے.(۳) باعمل آدمی ہو کیونکہ علم پڑھ کر ہر شرارت کرنے والے سے بھی ہدایت نہیں ہوسکتی.

Page 300

یہاں بھی یہ تینوں اوصاف آنحضرت ﷺ کے بیان فرمائے ہیں.(اوّل) (النجم: ۳) جاہل اور بے علم نہیں.(دوم) تمہارے ساتھیوں میں سے ہے.دیکھا بھالا ہے.ایسا نہیں کہ اجنبی ہو اور چند روز سے تمہارے درمیان آکر نیک بن گیا ہو.(سوم ) ٰ صرف تم کو ہی بہکانے والا نہیں اور نہ شرارتی ہے بلکہ باعمل ہے اور اعمال صالح کرتا ہے.شق القمر فرمایا.انسان کو واجب ہے کہ کسی حکیم علیم عاقبت اندیش تجربہ کار سے کوئی بات سنے اگر سمجھ میں آجاوے تو بڑی خوش نصیبی ہے.اگر سمجھ میں نہ آوے تو بلحاظ کہنے والے کے تجربہ کار اور دانا ہونے کے تکذیب نہ کرے.بعض علوم اور تجارب صحیحہ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا عوام کو علم نہیں ہوتا اور وہ انکار کر دیتے ہیں.ایسا نہیں چاہیے.دیکھو آج کل کیا کیا عجائبات ظاہر ہورہے ہیں.ایک شخص یہاں آیا.صنائع بدائع کا ذکر تھا جیب سے ایک زردی مائل کا غذ نکالا اور کہا کہ میں دنیا میں بہت پھرا ہوں اور کاغذ بنانا سیکھا ہے مگر یہ کاغذ جو بنا ہے اس کی ماہیت کسی کی عقل میں نہیں آسکتی.وہ کاغذ کٹا ہوا نہ تھا.اس نے کھولا وہ ۱۸ گز تک چلا گیا.کہنے لگا کہ میں بڑا استاد ہوں مگر اس کی تہہ کو نہیں پہنچا.یہ کاغذ میں بطور اعجاز کے لایا ہوں کہ اتنا بڑا لمبا کاغذ کس طرح پانی سے نکالاگیا اور اس سے پہلے مجھ سے ایسے کاغذ کا ذکر کیا جاتا تومیں تسلیم نہ کرسکتا مگر واقعات کا انکار نہیں ہوسکتا.ہمارے شہر میں ایک شخص میرے معتقد تھے وہ میرے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے.میں نے پوچھا تو انہوں نے مانا کہ ہم نہیں پڑھتے.وجہ یہ بیان کی کہ تم جو شیطان پر ایمان لاتے ہو یہ ہمارے مذہب میں منع ہے.میں نے پوچھا کہ میرا شیطانوں پر ایمان تمہیں کس طرح معلوم ہوا.اس نے کہا کہ ایک دن تم نے لاہور میں تار دیا اسی وقت جواب آگیا.حالانکہ اگر لاہور پرندہ بھی جاوے یا ہوا بھی اڑ کر جاوے تب بھی اتنی جلدی نہیں پہنچ سکتی تو پھر تجھے تو شیطانوں نے ہی جواب لا کر دیا ہوگا ورنہ اتنی جلدی کب جواب آسکتا ہے.احمق انسان جب کسی چیز کی حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے تو وہ پاک بات کی تردید یا تکذیب

Page 301

کردیتا ہے.آج علوم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سورج کی طرف سے بھی اور چاند کی طرف سے بھی زمین پر ٹکڑے گرتے رہتے ہیں اور وہ علیحدہ علیحدہ قسم کے ہوتے ہیں.کروڑوں ٹکڑے ہوتے ہیں جو ادھر سے آتے ہیں.اب قرآن کو تیرہ سو برس ہوگیا کہ اس نے اس بات کی خبر دی.اسلام تو ہمیشہ اسلام ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا جوں جوں نئی تحقیقاتیں ہوں گی تو ں توں اس کی صداقتیں ظاہر ہوں گی.آنحضرت ﷺ کفار کو جگا رہے تھے کہ دنیا فنا کا مقام ہے تم اس فانی دنیا کے خیال سے اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کرو.دیکھو قیامت قریب آرہی ہے چنانچہ چاند کا ٹکڑا زمین پر گرا ہے.یہ واقعہ رات کا ہے اس وقت سب لوگ سوتے ہوتے ہیں اور لوگ دیکھتے نہیں رہتے.نیز مورخ کو یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ میری آنکھ غلطی کرتی ہے تا ہم تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ سند ھ کے علاقہ میں دیکھاگیا.ان لوگوں کی سلطنت علاقہ گجرات والی تھی راجہ داہر بھی انہیں میںسے تھا.داب الشلیم انوار سہیلی والے نے بھی دیکھا ہے اس کی کتاب بھی موجود ہے.تاریخ فرشتہ والے نے بھی اس کتاب کو دیکھا ہے.چاند سے اہل عرب کا تعلق عرب کا ماٹو چاند ہے.ہماری جس قدر عیدین اور تیوہار (تہوار) ہیں چاند سے ہی ان کا تعلق ہے اس واسطے مکہ والوں کو دو قسم کی تاریخیں رکھنی پڑتی تھیں.دنیا کے واسطے سورج کی ، دین کے واسطے چاند کی، ان دونوں قسم کے سالوں میں فرق ہوتا ہے.۳۶ سال کے بعد ایک سال کا فرق ہوجاتا ہے.جب وہ چاند اور سورج کی تاریخیں ملاتے تھے ایک لوند کا مہینہ بڑھانا پڑتا تھا.اور محرم کی ۱۵ سے صفر کی ۱۵ تاریخ تک محرم ہی شمار کرتے تھے.ابن عربی کا قول ہے کہ جب قیامت میں سالیانہ تاریخوں کے لحاظ سے روزے کے بارے میں پکار ا جاوے گا کہ کب کب رکھے ہیں تو امت محمدیہ جواب دے گی کہ ہر مہینے میں.گویا اس طرح امت محمدی ہر رنگ میں پوری اترے گی.ایسا ہی زمین کی گولائی کے سبب سے تمام امت محمدیہ ہر طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہی ہے اور ایسا ہی دن رات کی کمی بیشی کے سبب سے ہر وقت ہی سطح زمین پر نماز پڑھی جاتی ہے اور ہر وقت ہی کوئی نہ کوئی نماز کا وقت ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ کے عہد میں صفیہ بی بی یہودی تھیں انہوں نے خواب میں دیکھا کہ چاند میری گود میں ہے.ان کے خاوند نے ملامت کی اور تھپڑ مارا کہ کیا

Page 302

تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرتی ہے کیا ہم دے سکتے ہیں؟ آخر وہی ہوا جو خواب میں دیکھاتھا.معلوم ہوا کہ عرب کا ماٹو چاند ہے.تعلیم قرآن عملی طور پر آسان ہے فرمایا.قرآن کا کوئی حکم ایسا نہیں ہے جس کو انسان کر نہ سکے.دھوکے باز لوگوں نے یہ کام کیا ہے کہ خود بخود کوئی کام ضروری خیال کر لیا کرتے ہیں کہ یہ کام ضروری ہے اور یہ مقدم ہے اور یہ ہونا چاہیے.پھران دھندوں بدکاریوں میں پڑ کر کہتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں.حتیٰ کہ یہ لوگ ناملائم حرکات سے برباد ہوجاتے ہیں بدنام ہوجاتے ہیں اور آخر کار اولاد سے بھی محروم رہ جاتے ہیں.دیکھو میں بھی ایک آدمی ہوں اور مسلمان ہوں.بچہ بھی تھا.جوان بھی تھا.قویٰ بھی مضبوط تھے.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیئے ہیں وہ سب انسان کرسکتا ہے.(البقرۃ : ۲۸۷) اللہ تعالیٰ کسی کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیںدیتا.خدا تعالیٰ نے اپنے اسماء اور محامد کے بیان میں وہی لفظ استعمال کئے ہیں جو انسان کے فہم کے خلاف نہ ہوں انسان قرآن کو اپنا امام بنالیوے تو کوئی تکلیف نہیں ہوتی.اس زمانہ میں تنہا اور بے شغل بیٹھنا مفید نہیں فرمایا.جن کو بہت خیال اٹھتے ہیں وہ تنہا نہ بیٹھا کریں تنہائی میں نقصان ہوتا ہے ایسے بہت سے گناہ ہوتے ہیںجن کی طرف تنہائی میں تحریک ہوتی ہے.بہتوں کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ وہ تنہا اور بے شغل نہ بیٹھا کریں.اگر چہ صوفی کہتے ہیں کہ تنہائی اچھی ہے مگر یہ بیماری ہے مجھے ان باتوں کا بہت علم ہے.ایک مرتبہ مجھے یہ مرض بڑھتا ہوا معلوم ہوا میں نے اپنا شہر چھوڑدیا.پھر وطن چھوڑدیا.پھر پنجاب چھوڑدیا.پھر اپنا ملک چھوڑدیا.جوان آدمی کو یہ صورت چاہیے کہ دن بھر لوگوں کے ساتھ رہے رات کو بیوی کے پاس رہے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور درود اور استغفار بکثرت پڑھتا رہے.نماز.نزول قرآن صفت رحمانی سے ہوا فرمایا.اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور فضل اور مہربانیاں اس قسم کیہوتی ہیں کہ بلا مبادلہ ہم کو عطاہوتی ہیں. (الرحمٰن:۲،۳) نزول قرآنی

Page 303

صفت رحمانی سے ہوا.قرآن کریم جیسی کتاب کا ملنا کسی انسان کے فکر و وہم میں آسکتا تھا؟ جب میں اس قرآن کو پڑھتا ہوں تو مجھ کو حیرت ہوتی ہے اب فضل خدا کا ہم پر ہوا ہے اور ایسی کتاب ہم کو عطا ہوئی ہے کہ جو دنیا میں بے نظیر ہے.پھر اس کتاب کی بابت حضرت نبی کریم ﷺ کو کس قدر خوشی ہوئی ہوگی.مجھے بعض وقت ایک ہی آیت پر غور کرنے سے یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر صرف یہی ایک آیت ہوتی تو دنیا بھر کے کاموں کے واسطے کافی تھی.(نور) (ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۳ نمبر ۵ مورخہ ۳؍ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ ۷ تا ۱۰) گھر نہیں مسجد لے جاؤ حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ اچھی ہے اور سب درس روزانہ ہوتے ہیں.یکم اپریل ۱۹۱۳ء کی شام کو مسجد اقصیٰ میں درس دیتے ہوئے اچانک حضرت خلیفۃ المسیح کو ضعف جسمی ہوگیا.بیٹھ گئے، پھر لیٹ گئے، ہاتھ پاؤں سرد ہوگئے، چلنے کی قوت نہ رہی، چارپائی پر اٹھا کر لائے مگر راستہ میں جب مسجد مبارک کے پاس پہنچے تو فرمایا.مجھے گھر نہ لے جاؤ مسجد میں لے جاؤ.بمشکل تمام مسجد کی چھت پر پہنچ کر نماز مغرب پڑھی.کچھ دوائیں مقوی استعمال کی گئیں باوجود اس تکلیف کے بعد نماز مغرب کا درس ایک رکوع دیا پھر چارپائی پر اٹھا کر گھر تک لائے رات کو افاقہ ہوا صبح کو پھر درس دیا اور بیماروں کو دیکھا.ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے کہ یکم اپریل سے اوّل شب میں کثرت پیشاپ کے سبب یہ دورہ ہوا تھا.اللہ تعالیٰ ہمارے مکرم محسن مرشد کو دیر تک سلامتی و عافیت سے رکھے.آمین.اب بالکل آرام ہے.فالحمدللہ.(ماخوذ از اخبار قادیان.البدر جلد۱۳ نمبر۶مؤرخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ۱۰)

Page 304

پانچ سوالوں کے جوابات سوالات (۱) خدا، پیغمبر اسلام اور قرآن پاک کی نسبت آپ کا کیا اعتقاد ہے؟ (۲) صحابہ کرام کے مرتبہ وغیرہ کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ (۳) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے خصوصی و اصولی اعتقادات کیا ہیں؟ انہوں نے کس معنی میں مسیح موعود و مہدی معہود کا دعویٰ کیا؟ (۴) اسلام کے دیگر فرقوں خصوصاً اہل سنت اور آپ کے عقیدوں میں کیا فرق ہے؟ (۵)موجودہ حالت میںمسلمانوں کا کیا طرز عمل ہونا چاہئے.جواب جناب خاں صاحب ! السلام علیکم آپ کا خط مؤرخہ ۲۶؍ مارچ ۱۹۱۳ء جس میں آپ نے پانچ سوالات لکھے ہیں بخدمت حضرت خلیفۃ المسیح پہنچا.بجواب حضرت فرماتے ہیں.(۱)الف.میں اللہ تعالیٰ کو ربّ العالمین، الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین اور ساری دنیا کا خالق اور مالک یقین کرتا ہوں.اس عقیدہ میں مجھے کوئی تأمل مضائقہ اور کپکپی نہیں.وہ خالق ہے اور سارا جہاں اس کی مخلوق ہے.ب.قرآن شریف کی نسبت میرا یقین ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے.محفوظ، غیرمبدل، غیرمحرف، مرتب ہمارے پاس موجود ہے.ج.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین، رسول ربّ العالمین ہیں اور ایسے ہیں کہ ان کی اتباع سے انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب بن سکتا ہے.(۲) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے مراتب موقوف ہیں اس محبت پر جو انہیں

Page 305

اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھی اور اس کا علم حضرت حق سبحانہٗ تعالیٰ کو ہو سکتا ہے اور کسی کو نہیں ہوسکتا.اس پر غورکرو.اسلام کے انتظام میں بظاہر پہلا نمبر ابوبکر کا ہے رضی اللہ عنہ.پھر عمر کا رضی اللہ عنہ.پھر عثمان کا رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مگر ان کے اس ظاہری انتظام سے وارء الوراء ان کے پاک تعلقات ہیں جن کو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رکھتے تھے اور وہ تعلقات انسانی فہم سے بالاتر ہیں.اگر جناب ابوبکر نے فتنے کو فرو کیا تھا، امن قائم کیا، اپنی چھوٹی سی لڑکی نبی کریم کے آرام کے لیے بیاہ دی تو جناب امیر کے ذریعہ سے اولیاء کرام نے جو کام کئے وہ تھوڑے نہیں اور مسلّم ہیں.(۳) حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے عقائد اصولی اور خصوصی وہی تھے جو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں موجود ہیں.قرآن جو محفوظ ہی ہے مرزا صاحب کے پاس تھا اور حدیث کی کتابوں میں وہ بخاری کو اَور کتابوں پر ترجیح دیتے تھے.انہیں دو کتابوں میں اصول اسلام درج ہیں.تعجب ہے کہ مرزا صاحب نے پچاسی کتابیں لکھی ہیں اور آپ نے ان کا مطالعہ نہیں کیا کہ آپ کو معلوم ہوجاتا کہ مرزا صاحب نے کن معنوں میں مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا.مختصراً مرزا صاحب نے خود فرمایا ہے.؎ چوں مرا نورے پئے قوم مسیحی دادہ اند مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند اللہ اور ملائکہ اور نبی نے ان کو انہیں معنوں میں مسیح کہا ہے.بیرونی فسادوں کے روکنے کے واسطے وہ مسیح تھے اور اندرونی جھگڑوں کے دور کرنے میں انہوں نے مہدی کا کام دیا اور آریہ کے واسطے کرشن تھے.(۴) ہم اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت یقین کرتے ہیں اور اس کا بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ قرآن و سنت کو ہم نے اپنا امام و مقتدامانا ہے اور یہ ایک جماعت ہے جو ایک امام کے ماتحت ہے.باقی لوگ کہ وہ کسی ایک امام کے ماتحت نہیںہیں نہ ان کے پاس کوئی سنت مسلّم اور نہ

Page 306

ان کی کوئی جماعت ہے.کس طرح اہل سنت والجماعت ہوسکتے ہیں.(۵) موجودہ حالت میں مسلمانوں کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ وہ باہم تنازع کو چھوڑ دیں یا کم کردیں.واعظوں اور ملاّنوں کے پیچوں کا خوب مطالعہ کریں جو اپنی مٹھی گرم کرنے کی خاطر لوگوں کے درمیان باہم جھگڑے ڈلوا دیتے ہیں.چھوٹی چھوٹی باتوں میں جو اختلاف ہیں ان کی پروا نہیں کرنی چاہئے مگر ایسے اختلافات چھوڑ دینے چاہئیں جس سے جوت پیزار ہوجاوے.مثلاً شیعہ لوگ صرف گالیاں دینا اور شرک کو چھوڑ دیں.بت پرستی ترک کردیں.ان کے مخالف خوارج اہل بیت کو سبّ و شتم نہ کیا کریں اور قتل کی عادت چھوڑ دیں.غیر مقلدین احادیث صحیحہ پر عمل کریں.مقلد لوگ احادیث صحیحہ کے مقابلے میں ائمہ کے اقوال پر ہٹ نہ کریں.سب لوگ کفربازی میں نرمی اختیار کریں.صریح قرآن اور صریح حدیث صحیح کو سب مانیں.اس کے فہم میں اختلاف ہو تو اس پر جھگڑا نہ کریں یا خفیف جھگڑا رکھیں.ہر ایک کو اس کے فہم پر چلنے دیں.والسلام خادم محمد صادق عفی اللہ عنہ حضرت کے سوانح سے ایک ورق حضرت خلیفۃ المسیح نے کسی صاحب کو ایک خط لکھتے ہوئے چند ایسی باتیں لکھی ہیں جن سے آپ کے سوانح پر کچھ روشنی پڑتی ہے.اس لیے اس خط کا اقتباس درج ذیل کیا جاتا ہے.(ایڈیٹر) خاکسار نو اولاد ایک ماں باپ کے تھے.میری والدہ بڑی عظیم الشان تھی.لوگ حسن عقیدت کے باعث یا دنیوی آرام یا دینی اغراض پر اپنی اولاد کو ان کا دودھ پلانے کے خواہش مند تھے.اس لیے بہت لوگ ہمارے دودھ بھائی ہیں.مولوی امام الدین، میاں غلام محی الدین تاجر کتب جہلم ان میں سے ہیں.میرے خیالات بچپن سے مولوی محمد اسمٰعیل دہلوی مؤلف تقویۃ الایمان کے رنگ سے رنگین تھے مگر گھر والے اور یہ لوگ ان خیالات سے محض ناواقف.جب خاکسار طلب علم کے لیے لکھنؤ،

Page 307

رامپور پہنچا تو حجۃ اللہ البالغہ، ازالۃ الخفا، خیرکثیر کے پڑھنے سے عین طلب علم کے زمانے میں شاہ ولی اللہ کا معتقد ہوا.عرب میں گیا تو محی الدین ابن عربی اور شیخ ابن تیمیہ دو متضاد بزرگوں کی محبت دل میں جاگزین ہوئی.حضرت شیخی و استاذی و محسنی حضرت شاہ عبدالغنی مجددی کا مرید بنا اور دل سے اب تک مرید ہوں جَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْجَزَاء.مگرمحمد اسمٰعیل دہلوی، شاہ ولی اللہ دہلوی، ابن عربی، ابن تیمیہ اور ان سے پہلوں میں امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد، امام ابویوسف، امام محمد، امام بخاری میرے محبوب و مقتدا تھے اور ہیں.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.السید عبدالقادر الجیلی رحمہ اللہ کی فتوح الغیب نے اپنا گرویدہ کرلیا.وطن آیا تو مقلد لوگ شیخ ابن عربی، محمد اسمٰعیل کے باعث، صوفی ابن تیمیہ کے سبب، غیرمقلد ائمہ اربعہ اور امام یوسف و امام محمد کی محبت کے موجب کافر بنانے لگے.پیرومرشد شاہ عبدالغنی اور استاذی شیخ رحمہ اللہ مہاجر تک پہنچ گئے مگر ناکام واپس آئے.ایک نو مسلم شامی کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح کی تحریر اَنَا اُحِبُّ اَمْثَالَ ھٰؤُلَآئِ الرِّجَالِ حُبًّا جَمًّا لٰـکِنْ اُکْرِہُ اَنْ یَّدُوْرُوْا فِی الْبِلَادِ بِمِثْلِ ھٰذِہِ الْقَرَاطِیْسِ وَ یُذِلُّوا اَنْفُسَھُمْ اِلٰی مَتٰی وَ اِلٰی اَیْنَ ھٰذَاالْاَمْرُ.فَلَا بُدَّ اَنْ یَّتَوجَّہَ الْفَتٰی اِلٰی طَرْفِ حِرَفٍ مَرْضِیَّۃٍ وَ اَنْ یَّقُوْمَ عِنْدَنَا لِتَحْصِیْلِ الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا.ترجمہ.میں ایسے صاحبان سے بہت ہی محبت رکھتا ہوں لیکن یہ امر مجھے ناپسند ہے کہ ایسے سرٹیفیکٹ لے کر شہر بہ شہر پھرا کریں.کب تک اس طرح پر پھرا کریں گے.سو ضروری ہے کہ کسی عمدہ حرفہ کی طرف توجہ کریں اور ہمارے ہاں رہ کر دینی و دنیوی علوم حاصل کریں.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۳ نمبر۷مؤرخہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ۷،۸) ریز گاری کی اجرت سوال.کیا جائز ہے کہ روپیہ کے پیسے دینے کے وقت ایک پیسہ کم دیا جاوے؟ جواب.اس کا نام سود نہیں.ایک دوکاندار محنت سے پیسے مہیا کرتا ہے اور اس نے ایک پیسہ اجرت لے لی تو حرج نہیں.

Page 308

سود خور کے گھر کا کھانا سوال.کیا سود خور مسلمان کے گھر کا کھانا جائز ہے؟ جواب.فرمایا.یہ ضروری نہیں کہ اس کا سارا مال سود ہی سے آیا ہے اور بہت تجسس ایسے معاملات میں مناسب نہیں.ہاں اگر آپ کے انکار دعوت سے وہ سود چھوڑ دے تو بے شک انکار کریں تاکہ اصلاح ہوجاوے.جواز نماز جمعہ سوال.جس گاؤں میں پچاس آدمی جمع ہوجائیں وہاں جمعہ جائز ہے یا نہیں؟ جواب.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.ہمارے نزدیک تو دو آدمی بھی ہوں تو جمعہ جائز ہوسکتا ہے.خراجی زمین پر عُشر نہیں سوال.عُشراخراجات پر جائز ہے یا نہیں؟ جواب.فرمایا خراجی زمین پر عُشر نہیں ہے.ہمارے کسی حکم کے خلاف نہ کرو لاہور کے میاں نبی بخش صاحب کا خط پیش ہوا کہ نصف رات کے بعد مجھے ایک الہام ہوا اور اس طرح کی کیفیت ہے کہ جس طرح کسی نے غیب سے ایک برچھا میرے دل میں لگا دیا اور وہ الہام یہ تھا ’’نورالدین بادشاہ ۱؎‘‘ ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ایک لاکھ بار‘‘ مجھ کو اس سے اور کچھ سمجھ نہ آئی مگر یہ ایک تو حضور کے مرتبہ کی نسبت جتلایا گیا.دوم یہ کہ میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ایک لاکھ بار پڑھوں.اس کے بعد میں نے اس کو ایک لاکھ بار پڑھا.اب اگر اجازت ہو تو آگے بھی پڑھوں اور آیا اس کے پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ ہے؟ میں نے ایک صحیح کیفیت حضور کی خدمت میں تحریر کردی ہے اور اس سے زیادہ مجھے کوئی سمجھ نہیں.اس کے بعد دو دن تک ہروقت یہی کیفیت رہی کہ میرا دللَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھتارہتا.بجواب لکھوایا کہ آپ ہم کو بادشاہ مان لو۱؎ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے کسی حکم کے خلاف نہ کرو.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۳ نمبر۸مؤرخہ۲۴؍ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ۲) ۱؎ ’’روحانی بادشاہ‘‘ حضرت مسیح موعود مرزا صاحب کے الہامات میں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں.(ایڈیٹر)

Page 309

مصر میں موجود ایک صاحب کے نام خط جناب من السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ مولانا! (المؤمن:۵۲) ایک (المنافقون:۹) دو (البقرۃ:۶) تین مفلح کے معنی ہیں مظفر و منصور، کامیاب و بامراد.پس کیا قرآن کریم غلط ہے؟ آہ! قرآن کریم صحیح ہے.خلافت نے ایام حج میں(التوبۃ : ۳۶) کو منسوخ نہیں کیا.صدہا حاجی جان و مال سے تباہ نہیں ہوئے.اسلام کا محافظ یقینا اللہ ہے.بغداد کو شیعہ نے ہلاکو سے بے نام و نشان بنایا، آخر ہلاکو کا پوتا مسلمان ہوا.بنوامیہ کو عباسیوں نے نابود کیا آخر عباسی خادم اسلام بنے.یزید نے کربلا و مدینہ و مکہ میں جو کیا جلد اس کا بدلہ پایا.یہ ہزار، انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کے لیے بہار کے دن ہیں.علمہ من علمہ و جہلہ من جہلہ.تنبیہ ہمارے خالد بن ولید … بارش کے باعث جہاد سیفی میں جا نہ سکے.کیا کہنا ہے یہ ہے شجاعت.مصر میں کوٹھی، بجلی کی روشنی، خدام، مفت کے سیگریٹ، گاڑی وغیرہ وغیرہ.بمبئی کے قونصل صاحب نے بھی چھ سو کرایہ کا مکان لے رکھا ہے.اور اور اور.نظم مرزا جس کا قافیہ وہ ہمت نہیں رہی، وہ شجاعت نہیں رہی، یار سے الفت نہیں رہی، وہ طاقت نہیں رہی، وہ غیرت نہیں رہی غالباً آپ کے گوش گزار ہوچکی ہوگی.

Page 310

پیارے معاف فرمائیے میں نے خود چندہ ایک بار نہیں کئی بار دیا.جماعت نے چندہ دیا دوبارہ اب کررہے ہیں مگر اس کو لکھے کون.آپ کے سیاسی اخبار، آپ کے پیسہ، وطن، زمیندار اور وکیل جن کو مع آپ کے مخالفت کی دھت ہے.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.ہماری جماعت اوّل ضعیف اور سیاسی عقلمندوں میں … تھے جنہوں نے نادان قوم یقین کرکے با اثر شیخ و مولوی گجراتی جماعت سے اپنا نام الگ کرلیا … احمدیوں کو حضرات آپ نے لکھا ہے اس کے دو معنی ہیں کس معنی میں لیا ہے. (البقرۃ :۱۰۵) چندہ دیا ہے اور دیتے ہیں.سیاسی نکتہ خیال آپ کو مبارک ہو.میں نے سیاسی کتاب کوئی نہیں پڑھی.ترکوں نے فلاحی زبان میں کوئی کتاب لکھی ہو یا قرآن کریم کی خدمت کی ہو مجھے اس کا علم نہیں.بخاری کی عینی بے ریب عمدہ کتاب استنبول میں طبع ہوئی ہے.جَزَاہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ.ہمارے اکفار میں فتاوے شائع ہوتے ہیں.یہ……وائسرائے پر بمب چلایا.ہندو اخبار لکھتے ہیں قسطنطنیہ کا بدلہ لیا ہے.آپ کو اطلاع ملی ہے کہ ہندو مسلمان کا ہند میں اتفاق ہورہا ہے کیسا غلط کام ہے.لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ.آپ نے لکھا ہے صوفیائے کرام نے ’’ مانگتے جاؤ ‘‘ کا اصول سمجھا تھا.مولانا کیا اب صوفیاء کو مان گئے.فقیر خاکسار (اَلْفَقِیْرُ اِلَی اللّٰہِ الْغَنِیِّ الْحَمِیْدِ) صوفیاء سے ایک قدم آگے نورالدین ہے.سبحان اللہ کیسی ترقی کی ہے..محمود کی پُر تکلف آپ دعوت کرتے ہیں.وہ روپیہ چندہ میں دیجئے.اس اصل پر مانگتے جاؤ.موجودہ حکومت آپ کی دوست ہے تو ان کو کہو قرآن کے عالم و عامل ہوں، تفریح کم کردیں، اسلام کو حقارت سے نہ دیکھیں، اسلامیوں سے اتحاد پیدا کریں، عرب پر نظر ترحم ڈالیں، محبت بڑھائیں، نجدو یمن و حجاز، کویت پر نظر شفقت ڈالیں، حجاج کے مأمن بنیں، مکہ کے خادم ہوں.آہ ! دولاکھ کے قریب اپنے اور عرب کے لوگ انہوں نے تباہ کئے.یورپ کی حکمت عملیہ کو

Page 311

سمجھیں ایسے قونصل نہ بنائیں جیسے انڈیا میں رکھے ہیں.الاماں الاماں سرویہ مانٹی نگرو، ہرزیگونیہ، یونانی سلطنت، اٹلی اور لنڈن میں قونصل ہوشیار مومن ہوتے تو ان کی تیاری سے آگاہ کرتے.بابا میں سیاست کی کتابیں نہیں پڑھا.ہمارا ملک عہد سکھاں سے انگریزوں تک عہدغزنوی سے افغانوں تک مغلوں تک غلام ہے.سیاست کو نہیں جانتے.اگر کوئی مناسب بات کہی ہے تو کودک نادان کا تیر بہدف ہے واِلّا ناشناسی عذر ہے.کوئی کتاب سیاست کی مگر دقیانوسی نہ ہو اگر مل سکے......مجھے بھیج دیں.یہ سوال ہے مصر کی بجلی کی روشنی والی کوٹھی میں آپ ہیں.کھانے کا کمرہ الگ، سلاملک الگ، لکھنے پڑھنے کا الگ، نوکر چاکر مفت، روزانہ سگریٹ ،گاڑی ہے.علم سیاست میں بایں شورقیامت و چندہ ہند.اس خرچ کا نام کیا ہے.تبذیر و اسراف تو ہوگا.نہیں.آپ ماشاء اللہ فہیم ہیں، سخن فہم ہیں، ضرور بتائیں.خواجہ کمال الدین لنڈن میں گئے……ہاں مصریوں نے طرابلس میں سنا ہے شکست کھائی تھی وہ متفرنج تھے یا اور.مصر میں آج خیالات کیا ہیں؟مصر میں آج کل کیا ہوتا ہے.وہاں یونیورسٹی کوئی ہے.اس کی کتابیں اور سکیم کیا ہے.کوئی کالج ہے.اس کی کتابیں اور سکیم کیا ہے.مصر میں آج کل کیا طبع ہوتا ہے؟؟؟ میں تو آپ سے ہرگز خلاف نہیں آپ کس امر میں مجھ سے خلاف ہوئے؟ ہم سے دور آپ کیوں مخالف ہوئے؟ آہ ! میرا دل چاہتا ہے تم مجھ سے قرآن سیکھتے اس کا عمل سیکھتے اس کے بعد انشاء اللہ آپ کا سفر بہت مفید و بابرکت ہوتا.آپ کے مہمان نواز کو کیا خبراس تحریر کا محرر قرآن کا کیسا ماہر وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.مگر آپ کو ایک طرف میرے تلامذہ کی تحقیر، دوسرے ہمچو من، تیسرے گجراتی جماعت کا اثر (ھود:۹) اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ …… وقت ہے نورالدین بڈھا قریب بگور اور اور قرآن جاننے والے تم.قرآن پڑھو.سگریٹ جل جاتا، گاڑی کی ہوا نابود زمانہ معدوم، روشنی نے آکسیجن کو ہلاک کیا.آیا اس ترک مہمان نواز نے

Page 312

آپ کو غلط کہا ہے.آپ قرآن سمجھو، سیکھو گو مصر میں کوئی ملے.ہمارے لیے کوئی عمدہ کتاب مہیا کرو ہمارے پاس قرآن ہے ….والسلام نورالدین ۱۷؍ فروری ۱۹۱۳ء (ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۳ نمبر۹مؤرخہ یکم مئی ۱۹۱۳ء صفحہ۴،۵) اخروی عذاب کا نظارہ دنیا میں درس قرآن میں آیات ذیل کا موقع تھا(الواقعۃ:۵۲تا۵۶) ترجمہ: پھر تم اے گمراہ اور مکذب لوگو! ضرور کھاؤ گے تھوہر کے درخت سے پھر اس سے پیٹ بھرنا ہوگا پھر اس پر گرم پانی پینا ہوگا اور اس طرح پیوگے جس طرح پیاسا اونٹ بے تکا ہوکر پانی پیتا ہے.اس پر فرمایا.میں نے ایک شخص کو ایک بے نماز دکھلایا جس کے گلے میں ایک زخم آتشک کا تھا جس میں پیپ بھری ہوئی تھی اور اس کا کھانا پینا پیپ سے آلودہ ہوکر اندر جاتا تھا.اس طرح سے پیپ کھانے کا عذاب میں نے دنیا میں دیکھا ہے.اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے اس سے ڈرنا چاہئے.جب میں جوان تھا مجھے طب کا بھی شوق تھا.ایک شخص میرے پاس آتشک زدہ آیا.مجھے خیال آیا کہ جَو بُھنواکر اس میں تھوہر کا دودھ جذب کرکے گولیاں بنائیں.میں نے اسے طَعَامُ الْاَثِیْم (یعنی گنہگاروں کی غذا) سمجھ کر اس کو بھی وہ گولی دی.اس نے اس کو گھبرا دیا اور کہنے لگا میرے اندر تو آگ لگ گئی ہے پانی دو.پھر میں نے (اس آیت کا خیال کرکے) گرم پانی چند گھونٹ پلادیا.اس کو قے اور دست شروع ہوگئے مگر آتشک اچھا ہوگیا.صفات باری تعالیٰ (الحدید:۲) فرمایاکہ جو چیز نئی دنیا میں آتی ہے کیسی پاکیزگی اپنے ساتھ لاتی ہے.جب یہ پتے گرے تھے

Page 313

کیسی خراب شکل تھی (جس درخت کے نیچے کھڑے ہوکر درس فرما رہے تھے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا)جب نئے پتے نکلتے ہیں کیسے بھلے معلوم ہوتے ہیں.اروڑیوں پر کیسا گند ہوتا ہے مگر وہاں بھی جو پتہ نکلتا ہے کیسا صاف ہوتا ہے.جب بارش کا پانی برستا ہے کیسا صاف ہوتا ہے.ماں کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہوتا ہے کیسا مصفا اور بے عیب ہوتا ہے نہ مشرک ہوتا ہے نہ بے ایمان ہوتا ہے.بھینسوں اور کتیوں کے چھوٹے بچوں میں جو خوبصورتی پائی جاتی ہے وہ بڑوں میںنہیں پائی جاتی.اگر یہ آنکھیں نہ ہوں کیسی دقت ہو.کان سے کیسی باتیں سنتے ہیں، زبان سے کیسی پاک باتیں نکلتی ہیں.خدا کے یہاں سے سب چیزیں پاک آتی ہیں. ہر چیز اللہ کی پاکیزگی بیان کررہی ہے.میرے پاس کوئی ایسا چاقو نہیں جس سے میں اپنا دل چیر کر تمہیں دکھلا سکوں کہ مجھے قرآن سے کس قدر محبت اور پیار ہے.قرآن کا ایک ایک حرف کیسا عمدہ اور پیارا لگتا ہے.مجھے قرآن کے ذریعہ بڑی بڑی فرحتوں کے مقام پر پہنچایا جاتا ہے.دنیا میں جتنی حکمتیں بنی ہوئی ہیں سب اسی حکیم کی بنائی ہوئی ہیں.(الحدید :۳) وہ ایک ایسا بادشاہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے.ہر گھڑی میں پیدا بھی ہورہے ہیں اور مر بھی رہے ہیں.کوئی ایسا نہ پیدا ہوا جو موت کی دوا کرے یا کسی انسان کو پیدا ہی کرسکے.موت سے بچنے کے لیے بادشاہوں نے فوجیں رکھیں ہتھیار اور قلعے بنائے دوائیں اور منتر اور ختم … اور انتظام بنائے، یہ سب کچھ ہوا مگر کون کہہ سکتا ہے کہ کوئی اس سے بچا ہو. (الحدید :۴) اللہ تعالیٰ کی یہ چار صفتیں ہر وقت رہتی ہیں.اللہ اوّل ہے اور جس وقت وہ اوّل ہے اسی وقت آخر بھی ہے اور ظاہر بھی اور باطن بھی.کے یہ معنی غلط کئے گئے ہیں کہ ایک وقت میں خدا اکیلا تھا پھر جہان بنایا.دیانندیوں نے بھی غلطی کی ہے کہ کہا کہ چار ارب سال ہوگیا حالانکہ اگر مہا سنکھ کو مہا سنکھ میں مہا سنکھ دفعہ بھی ضرب دیں تب بھی خدا کی ہستی کا پتہ نہیں لگ سکتا.مگر قربان جائے الحمد شریف کے جس

Page 314

نے  فرماکر فیصلہ کردیا.سب لوگوں نے جہاں کی تاریخیں لکھیں مگر قرآن نے اس کو چھوڑ دیا.عیسائی بڑے بے ہنگم مؤرخ ہیں سات آٹھ ہزار سے نیچے ہی رہتے ہیں.پانڈوں کی لڑائی مسیح سے چار ہزار برس پہلے ہوئی.قرآن کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ اللہ جلشانہٗ کے بنانے کی کوئی تاریخ ہی نہیں بتائی دراصل کوئی ہے ہی نہیں.آج بھی اللہ اوّل ہے اور آج ہی آخر بھی ہے.جس وقت وہ مجھ کو بنا رہا تھا نطفہ سے بھی پہلے بقول ؎ ہم چوسبزہ بارہا روئیدہ ام الخ.....کے جبکہ اناج تھا پھر روٹی بنی خون بنا نطفہ بنا.غرض کہ جس وقت وہ بنارہا تھا جتنا حصہ میرا بن چکا تھا ان سب وقتوں میں ربوبیت سے میری حفاظت فرماتا رہا.وہ ہر چیز کے بنانے کے وقت اس کی ابتداء اوسط اور انتہا میں موجود ہوتا ہے.اَوَّلُ: لَیْسَ قَبْلَہٗ شَیْ ئٌ (جس سے پہلے کوئی شئے نہ تھی) اٰخِرُ: لَیْسَ بَعْدَہٗ شَیْ ئٌ (جس کے بعد کوئی شئے نہیں) اَلظَّاھِرُ: لَیْسَ فَوْقَہٗ شَیْ ئٌ (اس پر کسی وقت کوئی حکمران نہیں) اَلْبَاطِنُ: لَیْسَ دُوْنَہٗ شَیْئٌ.اللہ کی ربوبیت، رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیت اس سے کوئی الگ چیز ہو ہی نہیں سکتی.ایسی کوئی چیز نہیں جس پر اللہ کی ان صفات کا تسلط نہ ہو.لوگوں نے اس بات پر ہنسی اڑائی ہے کہ تم ہمیشہ کا بہشت کس طرح لو گے جبکہ صرف خدا ہی پیچھے رہ جائے گا.ربّ ، رحمن، رحیم ، مالک یہ چاروں صفتیں کبھی خالی نہیں رہتیں.زمانہ ہر وقت فنا ہوتا رہتا ہے.ماضی مرگیا مستقبل دنیا پر آیا نہیں حال کا کوئی زمانہ ہی نہیں.یہ زمانہ جو ہر وقت فناہوتا ہے اس کے اوّل و آخر خدا ہی ہے.ہر آن میں خدا ہی ہمارے ساتھ ہے.یہ معنی سوائے قرآن کریم کے اور کسی کو نہیں آتے.(نور) مظہر جَانِ جَانَاں فرمایا.ایک دفعہ حضرت مظہرجانِ جَانَاں کے پاس جوتا نہ تھا.عادت نہ تھی کہ کسی کے آگے اپنی حاجت یا حالت کو ظاہر کریں.ایک مخلص مرید نے دعوت کی آپ نے عذر کردیا

Page 315

تاکہ برہنگی پا کسی پر ظاہر نہ ہو.وہ بہت مخلص مرید تھا اس نے پتہ لگانا چاہا کہ وجہ کیا ہے اور جو معلوم ہوا تو بے اختیار رو پڑا.تب حضرت نے ایک شعر کہا ؎ ہزار حیف کہ گل کرد بینوائی من بہ چشم آبلہ کردہ برہنہ پائی من نصیحت برادر مکرم منشی فرزند علی کو حضرت خلیفۃ المسیح نے ۲۰؍ اپریل کی صبح بوقت رخصت مفصلہ ذیل نصیحت لکھ کر دی.اُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَقَدْ فَازَ الْمُتَّقُوْنَ وَ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ.قرآن مجید پڑھو اور اس کا تدبر کرتے رہو، دعائیں مانگو ، قرآن کریم پر عمل کرتے رہو، قرآن کریم خلقت کو پہنچاؤ.مرزا صاحب کی کتابیں ہمیشہ مدنظر رہیں، مخلوق کے ساتھ خوش معاملگی ہو، افسروں کو ناراض مت رکھو.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۳ نمبر۱۰و۱۱مؤرخہ ۱۵؍ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ۲۷،۲۸) ایک شیعہ کے خط کا جواب مولانا! السلام علیکم ۱.جناب ایک ماہ کامل گھر سے باہر رہے کیا ہی پسندیدہ بات ہوتی کہ اس میں قادیان دیکھ لیتے.خاکسار ضرور آمد و رفت اور کچھ زائد نذر کردیتا اور اب بھی یہاں جناب کو انشاء اللہ تعالیٰ کچھ ضرر نہ پہنچتا.۲.غور فرمایئے اللہ تعالیٰ کے دشمن،ملائکہ کے دشمن،جبرائیل و میکائیل کے دشمن ہوئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (البقرۃ:۹۹)

Page 316

آدم، ابراہیم، داؤد، سلیمان، یوسف، موسیٰ اور عیسیٰ کے دشمن ہوئے.ابلیس، شیطان، نمرود و آزر، رحبعام،ساؤل، یوسف کے بھائی، فرعون اور یافا.ہمارے سید ومولا خاتم النبیین رسول ربّ العلمین، شفیع یوم الدین صلی اللہ علیہ وآلہٖ اجمعین کے اعداء، ابوجہل، عتبہ، شیبہ، ربیعہ، عقبہ، ابی، ابی بن سلول، ولید وغیرہ وغیرہ.کیا خلفاء کے دشمن نہ ہوں؟ عجب، عجب، اعجب.مسلمانوں کے ہندو، عیسائی، مسیحی، یہودی دشمن بلکہ ملتان میں مقلد و غیرمقلدوں کے شیعہ و خوارج.بل کوئی مومن دشمن سے خالی نہیں.ایک خلیفہ کے وقت تمام عرب سوائے مکہ و مدینہ وحواثیٰ کے دشمن.اسود عنسی، مسیلمہ وغیرہ جن میں بعض تو بالکل جاہلیت میں چلے گئے.بعض نے اپنے اپنے نبی بنائے.بعض زکوٰۃ کے منکر بھی تھے.بعض زکوٰۃ کو مدینہ میں بھیجنے کے منکر ہوگئے.مولانا ! کوئی مومن دشمن سے خالی نہیں رہا نہ رہے گا.مرے جیتے کے ہزاروں دشمن ہیں.ایسی صاف بات قدرت الٰہیہ ہے بحث کے نیچے آگئی.اللہ اللہ تمام عرب میں مخالفت و ارتداد.آپ فرماتے ہیں مخالف کون؟ سنیئے ایک تو وہ تھے جن کی ایک عورت مولیٰ مرتضیٰ کو ملی.حنیفہ اس کا نام محمد بن علی علیہما السلام کی ماں.دوسرے کے عہد میں ایران وعراق و شام ومصر اعدا سے بھرا پڑا تھا.تیسرے کے دشمن تمام خوارج تھے.چوتھے کے اعداء، شیعہ ملتان سے پوچھ لیجیئے.ایسی سیدھی ظاہر صاف بات پر آپ کا سوال حیرت ہے.ہاں آپ کی طرز تحریر سے یہ بات مجھے ثابت ہوگئی ہے آپ جواب الجواب میں کسی قدر مقابلہ مدنظر رکھتے ہیں.مولانا ! خلیفہ بنانا میرے نزدیک صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے.پھر ابوبکر کو مولٰنا کیا ضرورت پڑی کہ آیت استخلاف سے استدلال کرتا.میںبہت بار عرض کرچکا ہوں اجتماع کیا ہوتا ہے.ذرہ سنّی شیعہ خوارج کے اصول میں

Page 317

اجماع کی تعریف تو سنوآپ کو ہنسی آجائے گی.اجماع اس زمانہ کا ایک ہوا ہے اس کا باربار ذکر حیرت بخش ہے.(۱)مولانا ! خاص عام کا فرد ہوتاہے.(۲) (المائدۃ :۲۱) میں کم اور ملوک جمع کیا خاص ہے؟ اس پر مکرر نظر فرمانا ضروری ہے.جمع کے الفاظ کو خاص کہنا؟ بادشاہ مولانا ! (النور :۵۶) میں سزا اور جزا کا کون سا کلمہ ہے اس پر توجہ ہو.آپ توریت کو پڑھ لیتے.اگر موقع نہ تھا تو قرآن کو پڑھ لیتے جہاں کے ساتھ (المائدۃ:۶۲) لگا ہوا ہے تو کبھی نہ لکھتے کہ ہر فرد بشر پر موسیٰ کے زمانہ میں وعدہ پورا ہوا.حضرت مولٰنا!موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، قارون اور اس کا سارا کنبہ اور جو لوگ (البقرۃ:۶۲)کے مخاطب ہوئے ایک بھی ارض موعود پر نہ پہنچا.صرف دو آدمی جو میرے مطلب کو حل کرگئے.میں اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے مذاہب پر آگہی رکھتا ہوں.آپ نے بے وجہ یہاں اللہ تعالیٰ کے عادل نام پر توجہ فرمائی ہے.مولانا ! عادل نام اللہ تعالیٰ کا کس قرآن کریم اور کس حدیث مسلّم میں ہے.اس لفظ کی جڑھ کیا ہے اور کب نکلا.کیوں نکلا.کس تفسیر میں اس پر زور ہے.مجھے معلوم ہے وَا.آپ لفظ الربّ، الرحمٰن، الرحیم پر زور دیتے ہیں.یہ طریق کہ میں نے اصل بحث کو کس قدر مدنظر رکھا ہے اور شخصی جھگڑا پسند نہیں کیا.مگر اس طریق بحث سے چونکہ اب تک کہیں آپ ہاتھ نہیں ڈال سکے آپ نے مجھے طعنہ دیا ہے.میں گھبراتا نہیں، وسیع الحوصلہ ہوں.ہاں دل چاہتا ہے آپ کا حرج بھی نہیں.آپ ضرور ایک بار مجھے ملیں.مجھے نہ تعصب نہ ہٹ.نہ کسی کا اللہ کے سوا خوف! تاریخ کی خوب کہی.کیا شیعہ کی تاریخ ،خوارج کی تاریخ، سنیوں کی؟ نورالدین

Page 318

عیسائی چوہڑوں سے برتائو دریافت ہوا کہ چوہڑے جو عیسائی ہوجاتے ہیں ان کے ساتھ بہ لحاظ اہل کتاب ہونے کے کھانا جائز ہے مگر اکثر چوہڑے عیسائی ہوکر اپنی پچھلی عادتوں پر قائم رہتے ہیں حرام کھاتے اور گاؤں کے مسلمان ان سے نفرت رکھتے ہیں.اگر ہم ان کے ساتھ کھان پان کریں تو دوسرے مسلمانوں کے درمیان انگشت نما ہوجاتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایاکہ یہ ضروری نہیں کہ ان کے ساتھ کھایا جاوے اور جو چوہڑاپن کی عادتوں اور رسموں کا تارک نہیں ہوتا اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہئے جیسا کہ چوہڑوں کے ساتھ کیا جاتا ہے.قدرت ثانیہ ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ قدرت ثانیہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا.جب کسی قوم کا مورث اوّل اپنا کام پورا کرتا ہے تو اس کے کام کے سرانجام دینے کے واسطے قدرت کاہاتھ نمودار ہوتا ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے.  (المائدۃ:۴)اس کا ظہور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوگیا مگر آپ کے بعد آپ کے خلفاء نواب مجددین کے وقت بھی ہوتا رہا، وہ سب قدرت ثانیہ تھے.قدرت ثانیہ کی حدبندی نہیں ہوسکتی.جب کوئی قوم کسی قدر کمزور ہوجاتی ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت سے اس کی طاقت کو پورا کرنے کے واسطے قدرت ثانیہ بھیجتا رہتا ہے.خفیہ نکاح ایک شخص نے دریافت کیا کہ میری بی بی بیمار رہتی ہے اور کمزور ہے میں اسے ناراض کرنا بھی پسند نہیں کرتا لیکن دوسری شادی کا بہت محتاج ہوں کیا جائز ہے کہ میں کسی سے خفیہ نکاح کرلوں؟ نکاح خواں اور گواہوں کے سوائے کسی کو خبر نہ ہو.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ میں ایسی پلیدیوں کا فتویٰ نہیں دیتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (المائدۃ:۶) چھپی دوستیاں لگانا جائز نہیں.خدا سے ڈرو.ایسی ہی کرتوتوں کی بدولت مسلمانوں پر مصائب پڑے ہیں.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۳ نمبر۱۲ مؤرخہ ۲۲ ؍ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۳،۴)

Page 319

خیرات کے متعلق ہدایتیں تمام کتب الٰہیہ سے زیادہ قرآن مجید میں خیرات کے متعلق ہدایتیں ہیں.اس میں بتایا گیا ہے کہ کیوں دے؟ ا س لیے کہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بہت عمدہ بدلہ میںدیتا ہے اس کے مال کو بڑھا دیتا ہے.(البقرۃ:۲۶۲) (۲)(البقرۃ:۲۷۷).کیا دے؟ عفو یعنی جو حاجت اصلیہ سے زیادہ ہو، حلال اور طیب مال دے، ردّی چیز نہ ہو.اِبْتِغَا لِوَجْہِ اللّٰہ دے.چنانچہ فرماتا ہے.(ا)(البقرۃ :۲۶۸) (ب)    (البقرۃ:۲۶۸) (ج) (البقرۃ :۲۲۰) (د)(البقرۃ:۲۷۳) کس طرح دے؟ پس جس کو دے احسان نہ جتائے، اسے دکھ نہ دے، ظاہر دے تو بھی اچھا اور اگر پوشیدہ دے تو یہ اس کے حق میں بہتر ارشاد ہوتا ہے.(۱)(البقرۃ :۲۶۵).(۲)       (البقرۃ :۲۷۲) نِعِمَّا اور کے فرق کو غور سے دیکھنا چاہئے.کس کس کو دے ؟ فقراء اور مساکین کو، ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں روکے گئے ہوں یعنی طلباء علماء جو محض دین کے کاموں میں مصروف ہوں اور اس وجہ سے کوئی کسب نہ کرسکتے ہوں (البقرۃ : ۲۷۴).پھر خیرات کے متعلق ایک عام ہدایت ہے کہ (البقرۃ : ۲۶۴).مسئول کے لیے قول معروف کی صورت یہ ہے کہ پاس کچھ نہیں دیکھ سکتا تو کوئی بات ہی کہہ دے.اور اگر پاس ہے مگر ایسی چیز ہے کہ اس وقت جو دینا چاہتا ہے دے نہیں سکتا تو کوئی بات ہی کہہ دے.اور اگر پاس ایسی چیز ہے کہ اس وقت جو دینا چاہتا ہے دے نہیں سکتا مثلاً پونڈ یا نوٹ جیب میں ہے اور دینا ہے ایک پیسہ تو اس صورت میں بھی نیک بات کہہ دے.اور سائل کے قول معروف کی یہ صورت ہے کہ اگر باوجود موجود ہونے کے عادتاً مانگتا ہے تو اپنے آپ کو سمجھائے کہ کیوں سوال کرتا پھرتا ہے.اور اگر

Page 320

واقعی احتیاج ہے تو بھی اپنے آپ کو قول معروف کرے کہ کیوں عجز یا کسل سے کام لیتا ہے کیوں نہیں محنت مزدوری کرلیتا.اسی طرح مسئول کے لیے استغفار کی صورت یہ ہے کہ پاس تو ہے مگر دینے کو دل نہیں چاہتا اس وقت استغفار کرے کہ جود و سخا کی توفیق اور شرح صدر عطا ہو.اور اگر پاس ہی کچھ نہیںیا جو کچھ پاس ہے وہ دینے کی استطاعت نہیں تو استغفار کرے کہ اللہ تعالیٰ مجھے کشائش دے تا کہ اس کی راہ میں دے سکوں.اور سائل کے لیے بھی دو صورتوں میں استغفار ہے اگر باوجود مال کے مالک ہونے کے مانگتا ہے تو استغفار کرے کیوں خواہ مخواہ مانگتا پھرتا ہے.اور اگر واقع میں محتاج ہے تو استغفار کرے تا اس سوال کی ذلت سے محفوظ رہے.اور پھر ان صورتوں میں مسئول سائل کے لیے اور سائل مسئول کے لیے استغفار کرے.توکل کے کیا معنی آج کل اہل اللہ اور خدا کا ولی اسے سمجھاجاتا ہے جو اوّل درجہ کا سست ہو، کاہل ہو، نہ اسباب کو مہیا کرے نہ مہیا شدہ سے کام لے.حلال طیب رزق محنت سے کما کر کھانے کا عادی نہ ہو بلکہ اس بات کا امیدوار کہ کوئی آئے اور لقمہ منہ میں ڈال جائے.بظاہر ترک کر دینا اور دراصل طلب دنیا کے لیے ہمہ تن آرزو بن کے بیٹھا رہے.حضرت یعقوب نے اپنے قول و فعل سے توکل کے معنے خوب حل کئے.پہلے تو بنیامین کے لیے اس کے بھائیوں سے مؤکدہ بہ قسم عہد لئے پھر ایک تجویز بتائی اس کے بعد  فرمایا.چنانچہ آیات یوں ہیں.(یوسف:۶۷،۶۸) (ترجمہ)میںتمہارے ساتھ اسے نہیں بھیجوں گا جب تک مجھے اللہ کی طرف سے عہد نہ دو کہ اسے

Page 321

ضرور میرے پاس واپس لاؤ گے بجز اس صورت کے کہ کوئی مشکل بن جائے.جب انہوں نے اپنا عہد دیا تو یعقوب نے کہا اللہ اس پر جو ہم وعدہ کرتے ہیں نگہبان ہے.پھر کہا بیٹو ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا اور کہ میں تم کو اللہ کی طرف سے کسی چیز سے نہیں بچا سکتا.حکومت سب اللہ ہی کی ہے.اسی پر میں نے توکل کیا اور اسی پر بھروسہ کرنے والے بھروسہ کرتے ہیں.پھر حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان کی خبر دی جاتی ہے اور یہ بھی کہ خدا تمہیں ضرور بچائے گا مگر ساتھ ہی ارشاد ہوتاہے کہ ایک کشتی بنا کر اس میں سوار ہوجاؤ (ھود:۲۷،۲۸) اور نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تیری قوم سے ایمان نہیں لائے گا مگر یہی جو لاچکے.پس رنجیدہ خاطر نہ ہو کفار کی کرتوتوں سے.اور ہماری نگرانی میں ہمارے حکم کے مطابق کشتی بنا اور ظالموں کی نسبت کوئی سفارش نہ کر وہ ضرور ڈوبنے والے ہیں.اسی طرح حضرت لوط سے وعدہ کیا اور بشارت دی (العنکبوت:۳۴) نہ ڈر نہ غم کھا ہم تجھے نجات دینے والے ہیں اور تیرے اہل کو مگر ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے (ھود:۸۲) کہ اپنے اہل کو تھوڑی رات سے چپکے نکل جاؤ.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ ہے کہ(المائدۃ:۶۸) اللہ تجھے لوگوں سے محفوظ رکھے گا مگر باوجود اس کے آپ جنگ میں دو زرہیں بھی پہن کر نکلتے.میرا مقصود ان واقعات کے بیان سے یہ ہے کہ شریعت اسباب کی رعایت سے مستغنی نہیں کرتی.چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات نہایت درجہ غناء میں ہے اور آدمی کمزور، اس لیے ظاہری اسباب کو

Page 322

ترک کردینے کا کہیں حکم نہیں ( اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ) حضرت موسیٰ کی ماں کو وحی بھیجی کہ اسے دودھ پلا اور جب تو اس پر ڈرے تو اسے سمندر میں ڈال دے اور کچھ خوف نہ کرنا نہ غم کھانا ہم اسے تیری طرف لوٹاکر لائیں گے اور اسے پیغمبروں میں سے بنائیں گے.(القصص:۸) باوجود اس مؤکد وعدہ کے اور اس تسلی کے کہ نہ خوف کھا اور نہ غم کر اور یہ کہ ہم اسے ضرور تیری طرف لوٹانے والے ہیں بلکہ اسے مرسل بنانے والے ہیں آپ نے اسے یونہی دریا میں نہیں ڈال دیا بلکہ رعایت اسباب کو نہیں چھوڑا اور حکم الٰہی کے مطابق صندوق میں ڈال کر بہایا.پھر اس کی بہن کو خبرگیری کے لیے ساتھ ساتھ روانہ کیا.(القصص:۱۲) اور ماں نے کہا موسیٰ کی بہن کو اس کے پیچھے پیچھے چلی جا اور وہ موسیٰؑ کو کنارے سے دیکھتی گئی بحالیکہ ان کو معلوم نہ تھا.غرض توکل کے یہ معنی ہیں کہ پہلے اس کے مدعا کے جس قدر اسباب ممکن الحصول ہوں ان سے کام لے کر پھر نتیجہ کو خدا پر چھوڑ دے.دعا کا طریق دعا کرنے کا بھی ایک علم ہے اور یہ اللہ کے فضل ہی سے ملتا ہے.ہمارے خلیفۃ المسیح فرمایا کرتے ہیں کہ میں نے مکہ میں جب دعا کرنی چاہی تو مجھے خیال گزرا کہ ممکن ہے ایک مطلب کے واسطے جس کا اس وقت میرے قلب میں بڑا جوش ہے دعا کرلوں اور وہ قبول ہوجائے مگر دوسرے وقت میں آخر انسان کمزور ہے کوئی اور مشکل پیش آجائے یا اس مدعا کی ضرورت نہ رہے تو پھر یہ دعا کافی نہ ہوگی اس لیے کوئی جامع دعا کرنی چاہئے.آپ نے اس کے لیے بھی خدا ہی سے استعانت کی تو آپ نے یوں دعا کی کہ الٰہی میں کمزور اور تیری جناب کا فقیر، مجھے اپنی حاجتوں اور پیش آنے والی ضرورتوں کا علم نہیں پس تو میری یہ دعا قبول

Page 323

کرلے کہ ضرورت کے وقت جو دعا مانگوں وہ قبول کرلینا.چنانچہ اب خدا کا فضل شامل حال ہے جب کسی ایسے اڑے وقت میں دعا کی خدا نے قبول فرمالی اور یہ اس جامعہ دعا کی قبولیت کا نشان ہے.غرض دعائیں بھی وہی پسندیدہ ہیں جو خود خدا تعالیٰ سکھائے اور اس کے انبیاء اس سے مانگیں.دعا میں مسئول کی تعریف ہوتی ہے اور سائل کا حال اور پھر عرض مدعا.چنانچہ حضرت نوح دعا فرماتے ہیں.(ھود :۴۸) اللہ تعالیٰ کو غفور الرحیم کہہ کر اپنے مسئول کی تعریف کی ہے اور عرض کرکے اپنی کمزوری کا اقرار کیا ہے اور پھر دعویٰ نہیں کیا کہ میں ایسے سوالات نہیں کروں گا بلکہ اس کے لیے بھی جناب الٰہی سے استعانت کی ہے کہ انبیاء کا غایت درجہ ادب ہے.حضرت آدم علیہ السلام نے (الاعراف:۲۴) میںاپنی کمزوری اور نقصان زدہ ہونے کا اقرار کیا اور خدا کی کمزوریوں سے محفوظ رکھنے والی اور نیک اعمال پر نیک نتائج مرتب کرنے والی صفت سے استمداد کی ہے.حضرت موسیٰ نے ایک دعا کی ہے جس میں اپنی کمزوری اور حاجت کا اظہار کردیا ہے اور صفت ربوبیت سے استعانت کی ہے. (القصص:۲۵) اور تقرر مقصود نہیں کیا.یہ دعا بہت جامعہ ہے.(البقرۃ :۲۰۲).مگر حضرت یونس کی دعا بھی اپنے اندر بہت سے اسرار رکھتی ہے.وہ یہ ہے  (الانبیاء :۸۸).پہلےسے مسئول کی تعریف کی ہے اور اسے مبدء تمام فیوضات کا اور اپنی ذات میں کامل اور صمد قبول کیا

Page 324

اور سے اس پر بہت زور دیا. (الانعام:۱۸)( اگر تجھے اللہ کسی تکلیف میں ڈالے تو اس کا دور کرنے والا بھی اس کے سوا کوئی نہیں) کے ماتحت دکھ درد دور کرنے والا اللہ ہی کو مانا اور اسے تمام نقصوں سے منزہ اور تمام عیبوں سے مبرا جانا.دوسری طرف (الشورٰی :۳۱) (جو تمہیں مصیبت پہنچے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں سے ہے )کے موافق اس مصیبت کو اپنی کسی کمزوری کانتیجہ قرار دیا پھر  سے تمسک کرکے اپنی مصیبت میں پڑنے اور اپنی کمزوری کا اقرار کیا کہ .گویا استغفار کیا کہ توحید ہے اور توحید فاتح ابواب خیر ہے اور استغفار مغلق ابواب الشر ہے اور اس دعا میں سب کچھ ہے اور اس پر صادق آتا ہے (الانبیاء :۹۱).(تشحیذالاذہان) (ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۳ نمبر۱۳ مؤرخہ ۲۹؍ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ۳تا۵) اخبار الفضل کے اجراکے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح کی رائے میں (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ.ناقل)نے اس امر کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح سے مشورہ لیا تو آپ نے جو کچھ اس پر تحریر فرمایا وہ جماعت کی آگاہی کے لیے نقل کیا جاتا ہے.ہفتہ وار پبلک اخبار کا ہونا بہت ہی ضروری ہے.جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خودبخود پیدا ہوں گے.ہاں تائیدالٰہی، حسن نیت، اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے.زمیندار، ہندوستان، پیسہ میں اور کیا اعجاز ہے.وہاں تو صرف دلچسپی ہے اور یہاں دعا، نصرت الٰہیہ کی امید بلکہ یقین.تَوَکُّـلًا عَلَی اللّٰہِ کام شروع کردیں.نورالدین (دستخط) پیغام صلح سب انتظام مکمل ہوچکا تھا کہ لاہور سے ایک دوست نے پیغام صلح کا پراسپکٹس ارسال کیا.پیغام صلح کا ذکر تو پہلے سن چکا تھا لیکن پہلے تو ایک دوست نے بتایا کہ ابھی اس کی تجویز معرض التواء میں رکھی گئی ہے جب تک کہ خواجہ صاحب کے رسالہ کے لئے انتظام مکمل نہ ہوجائے.

Page 325

بعد میں معلوم ہوا کہ وہ جاری تو ہوگا لیکن یہ نہ معلوم تھا کہ کب تک.لیکن پراسپکٹس سے معلوم ہوا کہ اس کا اعلان ہوچکا ہے.گو کہ پہلے بھی جماعت میں ایک سے زیادہ اخبار موجود ہیں لیکن ایک وقت میں دو اخبار کا نکلنا مناسب نہ جان کر حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور معاملہ دوبارہ پیش کردیا کہ وہ اخبار بھی شائع ہوتا ہے اس لیے اگر مناسب ہو تو فی الحال اسے بند رکھا جائے.لیکن حضرت خلیفۃ المسیح نے اس پر ذیل کی عبارت تحریر فرمائی.مبارک ہے کچھ پرواہ نہ کریں وہ اور رنگ ہے یہ اور.کیا لاہور اخبار بہت نہیں؟ اس لیے ’’فضل‘‘ (جو نام کہ اس اخبار کا حضرت خلیفۃ المسیحؑ نے رکھا ہے) کا پراسپکٹس بھی شائع کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ پیغام صلح اورفضل دونوں کو جماعت کے لیے مفید اور بابرکت بنائے.آمین (ماخوذ از اعلان فضل ضمیمہ اخبار بدر جلد۱۳ نمبر۱۴ مؤرخہ ۵؍ جون ۱۹۱۳ء صفحہ۱۹،۲۰) حضرت خلیفۃ المسیح کی نوٹ بک سے ایک ورق مسیحی لوگ ۱.عملاً توریت کے حلال وحرام اور اوامر ونواہی اور اس کے احکام سے قطعاً ان کو سروکار نہیں اور بائبل کی اشاعت پر ایسا زور لگاتے ہیں جسے دیکھ کر تعجب آتا ہے اور یوں روپیہ پانی کی طرح اس پر بہاتے ہیں اس کا ایک سرّ ہے.۲.تحقیق در تحقیق میں لگے ہوئے ہیں قطب جنوبی میں غرق ہورہے ہیں.مسیح کی انجیل کو کھو بیٹھے ہیں اس کا نام نشان نہیں ہاں(ایلی ایلی لما سبقتانی ) باقی رہ گیاہے.۳.سنن اللہ اہداف نیچر کے دلدادہ ہیں.شیر کا بچہ شیر اور شیر کے اوصاف سے متصف ، الٰہی صفات میں علم کامل، تصرف کامل اور یہی ربوبیت کے در پر ہیں.گو مسیح فرماتے ہیں کہ اس گھڑی کا علم بیٹے کو بھی نہیں اور دو حواریوں کو فرمایا.دائیں بائیں بٹھانا میرے اختیار میں نہیں.۴.زانی کو آتشک اور خاص سوزاک، اور مرتکب جرائم کو خاص دھڑکا ہو اور مسیح کفارہ ہے.گناہ کا اثر جسم پر پڑتا ہے اسی واسطے عورت درد زہ میں مبتلا ہوتی ہے اور تکلیف سے بچہ جنتی ہے.گو مسیحی عورت ہو اور مرد پسینہ سے ہاں ماتھے کے پسینہ سے روٹی کھائے، گو نیک مسیحی ہو.آتشک کا مارا

Page 326

بپتسمہ سے شفا نہیں پاتا.مسیح جب شیطان پر فتح یاب ہوا تو تمام مسلمان جو مسیح کے مخالف ہیں اور مسیح فرماتا ہے جو ہمارا مخالف نہیں وہ ہمارا ہے، مسلمان بھی نجات پائیں گے.۵.مسئلہ تثلیث وکفارہ میں دعویٰ ہے.اس میں عقل کو دخل نہیں.الٰہی کلام سے اس کو قائم کرو.اور خیال نہیں کرتے اگر عقل کا دخل باقی نہ رہے تو کسی غلط مذہب پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.ایک سناتن دھرمی کہہ سکتا ہے کلام الٰہی بت پرستی کا حکم دیتی ہے ، مجوسی کہہ سکتا ہے کلام الٰہی آگ کی پرستش کی رہنمائی فرماتی ہے، آریہ کہتا ہے روح، زمانہ، مکان، پھرکرتی اور پرمیشر کے غیر مخلوق ہونے پر وید کلام الٰہی رہنما ہے اور بس.۶.مسیحی فلسفی (ارنلڈ) نے کہا.تثلیث اور کفارہ کے سمجھنے میں ایشیائی عقلیں قاصر ہیں.میں نے کہا کہ خداوند نے ایشیائی جسم میں جنم لیا ہاں پطرس وغیرہ سب ایشیائی تھے.وہ تو اس کے ناواقف ثابت ہوئے.اس لئے مسئلہ ایجاد یورپ ہے.۷.دعاوی اناجیل کو انجیل مدلل نہیں کرتی.اسلام پر جواعتراض کرتے ہیں ان سے انجیل ساکت ہے اور جرح کو مدلل اور مبرہن نہیں کرتے.جہاد، غلامی، کثرت ازدواج، طلاق پر نالاں ہیں.لاکن توریت کے جہاد، خود ان کے قومی مذہبی جہاد ناگفتہ بہ ہیں.غلامی، جنگی قیدی، جیل خانوں میں اور مسلمانوں کے یہ قیدی بچوں کی طرح گھر بلا پردہ رہیں.کثرت ازدواجی کے … مگر تقویٰ کا حال ناگفتہ بہ.کنچنیوں کا لشکر میں ہونا ضروری ہے.نور الدین (البدر جلد ۱۳ نمبر ۱۵ مورخہ ۱۲؍ جون ۱۹۱۳ء صفحہ ۵، ۶) کوئی خاتون حج پر جانے والی حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ نے دریافت فرمایا ہے کہ اگر کوئی احمدی خاتون اس سال حج پر جانے والی ہو تو مطلع کرے.ایک شریف خاتون کے ساتھ اس کا ساتھ ہوسکتا ہے.(البدر جلد۱۳ نمبر۱۷ ؍مؤرخہ ۲۶ جون ۱۹۱۳ء صفحہ۲)

Page 327

ہدایت نامہ احباب کرام کو یہ خبر دے چکے ہیں کہ چوہدری فتح محمد خان صاحب ( انصار اللہ) جو تعلیم الاسلام قادیان کے پرانے طالبعلم اور عربک ایم اے ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود کی خاص صحبتوں کے تربیت یافتہ ہیں اور جناب خلیفۃ المسیح کے رشتہ دار بھی ہیں اور ان سے دینیات کا بہت سا حصہ سیکھ چکے ہیں، اشاعت سلسلہ حقہ کے لئے لندن جاتے ہیں.ان کو جو ہدایت نامہ حضرت امیر المومنین نے لکھ کر دیا ہے وہ مجھے مل گیا ہے جسے میں بڑی خوشی سے شائع کرتا ہوں تا کہ احباب ان پاک خیالات سے مطلع ومتمتع ہو سکیں جو ہمارے پیرو مرشد کے قلب مطہر میں موجزن ہیں.ان ہدایات کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ حضور کس اصول پر کام کرانا چاہتے ہیںاور گورنمنٹ کی خیر خواہی کہاں تک آپ کے دل میں ہے کہ اس کے لئے اپنے مخلصوں کو دعا کرنے کی تاکید فرماتے ہیں.یہ باتیں صرف انہیں لوگوں میں پائی جاسکتی ہیں جو اپنا قول فعل ، حرکت و سکون محض اللہ کے لئے کر دیتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں اسی کی رضا کے لئے کرتے ہیں.(۱) جہاں تک ممکن ہو اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرتے رہو.(۲) اور اتباع نبی کریم ﷺ مدنظر ہو اور ہمیشہ رہے.(۳) استغفار ، درود اور دعا کو کبھی ترک نہ کرو.(۴) نماز کی پابندی رہے.(۵) شراب ، سور ، بدصحبت سے اجتناب ہو.(۶) جس شہر میں جاؤ جناب الٰہی سے دعا کرو.اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ جَلِیْسًا صَالِحًا.(۷) اور یہ دعا بھی نہ بھولیں اَللّٰہُمُّ رَبِّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَمَا اَظْلَلْنَ وَ رَبِّ الْاَرْضِ السَّبْعِ وَمَا اَقْلَلْنَ وَرَبِّ الرِّیَاحِ وَمَا ذَرِیْنَ.وَرَبِّ الشَّیٰطِیْنَ وَمَا اَضْلَلْنَ اَسْئَلُکَ خَیْرَ ہٰذِہِ الْاَرْضِ وَ خَیْرَ اَہْلِہَا وَخَیْرَ مَا فِیْہَا وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَشَرِّ اَہْلِہَا وَشَرِّ مَا فِیْہَا اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا حَیَاھَا وَاَعِذْنَا مِنْ وَبَائِھَا.اَللّٰہُمَّ حَبِّبْنَا اِلٰی اَہْلِہَا وَحَبِّبْ

Page 328

صَالِحِیْ اَہْلِہَا اِلَیْنَا.(۸) … جو شریر اختلاف ڈالتے خطوط لکھتے ہیں ان خطوط کی طرف توجہ نہ رکھ.اپنے کام سے تعلق رہے، دعاؤں اور درود ، تضرع وزاری، خشیۃ اللہ سے غرض رہے.(۹) باہمی اختلاف سے دور رہنا، عفو و عافیت طلب کرتے رہنا، استغفار سے کام رکھنا ، راستہ میں اور وہاں میرے لئے دعا کرتے رہنا.(۱۰) انگریزوں کا ہم پر حق ہے ان کے باعث اللہ تعالی نے ہم کو امن وامان، آرام اور چین بہت دیا.ان کے لئے دعا کرو، وہ قائل دعا ہوں یا نہ ہوں اور انڈین طالبعلم جو وہاں رہتے ہیں … دہریت کی طرف جاتے ہیں ان کے لئے دعا، اگر کوئی مل جاوے تو اس کو حق پہنچا دو.(۱۱) سورہ والعصر ہمیشہ یاد رکھو.(۱۲) قرآن شریک ، بخاری، حضرت صاحب کی تصانیف، فصل الخطاب، الوہیت مسیح، نورالدین، اگر پاس رہیں تو اچھا ہے.وَ اِلَّا برٹش میوزم میں یا برٹش لائبریری میں مل جائیں گی.غرض تقویٰ ہے اس کو مدنظر رکھنا اور وہاں ترقی کے لاکھوں سامان ہیں اپنی اور دلچسپی کے مطابق کوئی ڈگری حاصل کرلینا جو یہاں کام آوے.کام سب اللہ تعالیٰ نے کرنے ہیں.(نورالدین) دعائے امیرؓ مؤرخہ ۲۵؍ جون کے دن آپ کو ۱۰۴ ڈگری کا بخار ہوگیا اس لئے آپ اس روز درس نہ فرما سکے.۲۶کی صبح کو بھی میاںبشیراحمد صاحب والا درس نہ ہوا مگر شام کا درس ہوا اور اس میں بسبب ضعف کے حدیث کا درس آپ نہ دے سکے.درس کے بعد آپ نے فرمایا کہ بیماری کے وقت مجھے ایسا خیال رہتا ہے کہ شائد میں اب زندہ نہ رہوں.چنانچہ اب کے بھی ایسا ہی ہوا میں نے دو رکعت نماز ادا کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد سورۃ ضحی اور دوسری میں الم نشرح پڑھی اور پھر میں نے اللہ کی حمدکی اور اس کے بعد استغفار کیا پھر میں نے ایک دعا کی اور مجھے یقین ہے کہ وہ قبول ہوگئی اور اس دعا میں میں تم کو بھی شریک کرنا چاہتا ہوں وہ دعا یہ ہے.

Page 329

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ(العلو للعلی الغفار فمن الاحادیث المتواترۃ الواردۃ فی العلو.حدیث نمبر ۱۴۱).استغفار یوں ہے اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَ عَزَائِمِ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بَرٍّ وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَا تَدْعُ لِیْ ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَہُ وَلَا ھَمَّا اِلَّا فَرَّجْتَہُ وَلَا حَاجَۃً ھِیَ لَکَ رَضًا اِلَّا قَضَیْتَھَا یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ(سنن الترمذی ابوب الوتر باب ماجاء فی صلٰوۃ الحاجۃ).یہ دعا حزب الاعظم اور ادعیۃ الاحادیث میں بھی ہے.الٰہی ہم پر ہر طرف سے زور ہورہا ہے، الٰہی اسلام پر بڑا تبر چل رہا ہے، مسلمان اوّل تو سست دوسرے دین سے بے خبر، قرآن شریف سے بے خبر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح سے بے خبر.اس لیے دشمن کھانے لگ گیا ہے.الٰہی تو ایسا آدمی پیدا کر جس میں قوت جاذبہ ہو، سست نہ ہو، ہمت بلند رکھتا ہو، پھر استقلال کمال رکھتا ہو، دعائیں بڑی کرنے والا ہو، تیری تمام رضاؤں کو اس پھوٹ نہ ڈالو فرمایا.لوگوں کے کام نابکار ہیں اور گندے ہیں برے کام کرتے ہیں پھر مجھے رقعے لکھتے ہیں.میں ایسے لوگوں کے رقعے دیکھنا بھی نہیں چاہتا اور نہ ان کی کچھ پرواہ کرتا ہوں.میں

Page 330

اللہ تعالیٰ ہی کے حضور میں ہی عرض کروں گا اسی پر سب میرا بھروسہ ہے.بعض شریر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ خود ایک بدی کرتے ہیں یا آپس میں لڑتے ہیں پھر بڑوں کو اور افسروں کو اس لڑائی میں شامل کرنے کے واسطے کوشش کرتے ہیں اور شکایتوں کا سلسلہ کھولتے ہیں اور اس طرح زمین میں فساد پھیلاتے ہیں.تاریخ کے صفحات الٹا کر دیکھو اختلاف ڈالنے والوں نے کس قدر نقصان دنیا کو پہنچایا ہے.سنی شیعہ کا ابتدائی جھگڑا کوئی بڑی بات نہ تھی مگر تفرقہ کہاں سے کہاں تک پہنچا.مقلد اور غیرمقلد کا فرق کوئی بڑا فرق نہ تھا مگر بعد میں کس قدر خوفناک شکل اس نے اختیار کی.میں تعجب کرتا ہوں کہ لوگ چھوٹی سی بات پر جھگڑ پڑتے ہیں پھر انجام بہت برا ہوتا ہے.(البقرۃ:۱۵۴) کا لطیفہ لوگ بھول گئے ہیں.ایک گالی کے بدلے میں سو گالی دیئے بغیر نہیں رہ سکتے.ایسے لوگ خود ایک دوزخ میں پڑئے ہوئے ہیں.اور اس سے بڑھ کر کوئی بدکار نہیں جو لوگوں کے درمیان پھوٹ ڈالے، چالاکیوں سے کام لے اور پھر اپنے آپ کو بری ٹھہرائے.تمہاری محبت کا حریص نہیں فرمایا.عمر بن عبدالعزیز نے اپنے ساتھیوں کو کہا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو کچھ فرائض اور سنن تمہارے سامنے بیان کروں گا اور اگر میں مرگیا تو یاد رکھو کہ میں تمہاری محبت کے لیے حریص نہیں ہوں.یہی حال تم میرا سمجھو.میں خدا کی قدرت سے زندہ ہوں اور تمہیں رات دن نصیحت کرتا ہوں پر تمہارے درمیان رہنے کی حرص نہیں رکھتا.ایسا ہی ذکریا رازی ایک ہشیار طبیب تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ نابینا ہوگئے لوگوں نے کہا کہ آپ کی آنکھ درست ہونے کے لائق ہے آپ چاہیں تو ہم بنادیں؟ کہنے لگے مجھے اب تمہارے دیکھنے کی خواہش نہیں اس واسطے آنکھ بنوانے کی ضرورت نہیں سمجھتا.حضور کی دردمندانہ دعا اے ہمارے ربّ قدیم سب دل تیرے ہاتھ میں ہیں تیری مدد کے سوائے ہمیںکوئی توفیق حاصل نہیں ہوسکتی تو ہم پر رحم فرما اور اس نور سے جو تو نے ہمارے درمیان اپنے فضل سے نازل کیا رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنے کی ہمت اور قوت عطا کر.تو ہی ہے جو دیتا ہے اور تیرے سوائے کوئی نہیں جس سے ہم مانگیں اور پائیں.تو اس نورالدین کی دعاؤں کو قبول کر اس کی

Page 331

خواہشوں کو پورا کر اور اسے دینی دنیوی حسنات سے مالا مال کردے کہ تو ہی خالق ہے اور تو ہی مالک ہے اور سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۴ نمبر۲ مؤرخہ ۲۴؍ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۲) دیدار رسول کا شوق ایک شخص نے عرض کی کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے کا بہت خواہش مند ہوں.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.آپ درود شریف بہت پڑھا کریں.توکل فرمایاکہ حضرت شاہ غلام علی صاحب جب کہ حضرت جانِ جان رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہوئے تو اس گڑبڑ میں تین روز گزر گئے لیکن کسی نے ان کو کھانا نہ دیا.وہ بھی انتظار میں بھوکے رہے لیکن نہ مانگا.تیسرے روز رات کو جب کہ سب سو رہے تھے تو ایک شخص نے پکارا کہ (باقر خانی لو) آپ نے اس کو لے کر بھوک کے مطابق کھا لیا پھر بھی وہ بہت بچ رہی.خیال ہوا کہ بقیہ رکھ چھوڑیں لیکن معاً دل میں گزرا کہ خدا مالک و رزاق ہے پھر آئندہ کی اس قدر کیوں فکر.لہٰذا اسے لے کر مسجد کے باہر نکلے،دیکھا کہ ایک فقیر سوال کررہا ہے آپ نے بلا تأمل اسے دے دیا.جب سورہے تو الہام ہوا کہ ہم نے تمہارا امتحان کیا تھا ایک تو بھوکے رکھ کر دوسرے روٹی دے کر.لیکن تم پاس ہوگئے اب ہم مرنے تک تمہیں بھوکا نہ رکھیں گے.جب صبح ہوئی تو ناگہاں سب کو خیال ہوا کہ ہم نے تین روز سے حضرت کو کھاتے نہیں دیکھا.لنگرخانہ سے آخر کسی نے آپ کو کھانا کھلایا بھی ہے یا نہیں.ہوتے ہوتے پھر آپ سے ہی سبھوں نے دریافت کیا اور معلوم ہونے پر سب نے معذرت خواہی کی لیکن جیسے جیسے کہ لوگ آپ سے اپنی غفلت کی معافی چاہتے تو آپ ویسے ہی بہت ہنستے جاتے تھے.فرمایا.یہ خدائی تصرفات ہوتے ہیں.(اعلیٰ حضرت خلیفۃ المسیح کو بھی اس سلسلہ میں بیعت تھی.) کتب حدیث کسی کا سوال پیش ہوا کہ حدیث میں کون سی کتابیں پیش نظر رہیں؟ فرمایا.مؤطا، عمدۃ الاحکام ہمیشہ زیرمطالعہ رہیں.ظالم سے کیونکر بچ سکتے ہیں ایک صاحب نے اپنا مقدمہ اور اس کی پریشانی اور پھر حاکم کا ظلم

Page 332

سنایا تو فرمایا کہ ایک دفعہ کسی صاحب کو بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جب کہ مجھ سے مشورہ کے لیے پوچھا تو میں نے کہا کہ پہلے تم خوب خوب توبہ کرلو.جب انہوں نے توبہ کرلی تو اتفاقاً وہ ظالم حاکم ان کی پیشی سے پہلے ہی چلاگیا.معیار صداقت فرمایا.معیار صداقت فضل الٰہی ہی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں.جس پر فضل ہوا حق کو پالیا.اگر حقیقت میں کوئی معیار ظاہراً ہوتا تو پھر سب ہی حق کو شناخت کرلیتے.پل صراط سے بچائو فرمایا.پل صراط سے بچنے کے لیے لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں.تحصیل علم ایک امیر کے لڑکے کا واقعہ بیان فرمایا جو آپ اور وہ ایک مولوی کے پاس پڑھا کرتے تھے کہ وہ لڑکا ایک ایک صفحہ صرف میر کا ۶ بجے صبح سے شام کے ۶ بجے تک بڑے غور و فکر اور تحقیق سے پڑھا کرتا.آپ نے تو ایک ہی روز میں تنگ آکر چھوڑ دیا اور استاد صاحب سے کہا کہ اس طرح تو تحصیل کے لیے عمرنوح ؑچاہئے؟ مولوی صاحب نے بھی کہا کہ واقعی میرا بھی دم ناک میں ہے لڑکے کی طبیعت میں شک بہت ہے ذری ذری بات پر بیسیوںسوالات کے جوابات مجھے دینے پڑتے ہیں میں بھی قریب میں جواب دینے والا ہوں.فرمایا کہ میں جب کہ عرب سے سب علم تحصیل کر کے آیا تو وہ فصول اکبری پڑھ رہے تھے.ایک روز میرے پاس آئے اور کہا کہ میں پڑھنے آیا ہوں لیکن پہلے میںکچھ دن آپ کو آزمالوں گا.پس ایک سال ایسا ہی گزرا.پھر ایک روز کہنے لگے کہ میں نے دعا کی ہے کہ آپ کو لڑکاہو جب کہ آپ اپنے لڑکے کو پڑھائیں گے تو میں بھی اس کے ساتھ پڑھوں گا.بالآخر چند دنوں بعد ان کا انتقال ہوگیا.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۴ نمبر۳ مؤرخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۳)

Page 333

رمضان میں درس قرآن کا اجراء ۳؍ اگست کو ہلال نظر نہیں آیااس لئے ۵؍ اگست سے روزہ شروع ہوگا.حضور نے اعلان فرمایا ہے کہ میں بعد نماز فجر ایک پارہ روز درس قرآن مجید دیا کروں گا.بیرونی قلیل الفرصت احباب کے لئے اچھا موقع ہے.بخاری کا درس نہیں ہوسکے گا.ہم کتاب الشہادت تک پہنچے ہیں.شادی کے موقع پر بیٹے اور بہو کے لئے تحائف حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.ہم نے تو اپنی بہو اور بیٹے کو دو قرآن مجید ، دو صحیح البخاری اور ان کے لئے رحل اور حزب المقبول ، فتوح الغیب اور براہین احمدیہ اور الماری اور تہجد کے لئے لالٹین اور لوٹادیئے ہیں اور بس.(ماخوذ از مدینۃ المسیح.الفضل جلد۱ نمبر ۸ مورخہ ۶؍ اگست ۱۹۱۳ء صفحہ ۱) سورہ عنکبوت کا پہلا رکوع ۲۹؍ جولائی کی شام کو درس قرآن شریف کے شروع کرنے سے پہلے فرمایا کہ سبق تو شروع کرتا ہوں مگر دل گھبراتا ہے کچھ اس وجہ سے کہ رات سے بیمار ہوں اور کچھ اس رکوع (سورہ عنکبوت کا پہلا رکوع)کے الفاظ ہی گھبرادینے والے ہیں.خدا حافظ مدرسہ کے بچوں کو مخاطب کرکے فرمایا.بہت لوگ تم میں سے کل جائیں گے (تعطیلات موسم گرما).جانا بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے اور رہنا بھی حکمت ہے.ہمیں کیا خبر ہے کہ تم واپس آؤ گے تو ہم جیتے ہوں گے یا نہ ہوں گے.جو درس قرآن شریف کا گزرتا ہے میں اسی کو غنیمت جانتا ہوں اور اللہ کا فضل مانگتا ہوں.میں تم سب کو حوالہ بخداکرتا ہوں اور وصیت کرتا ہوں کہ دعائیں بہت کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق نہ چھوڑو.استغفار بہت کرو.اللہ تمہارے ساتھ ہو.خدا کے عذاب سے ڈرو فرمایا.جب کوئی سلطنت یا قوم، گھر یا انسان ہلاک ہونے کے

Page 334

قریب ہوتے ہیں توان میں سچائیوں پر عمل درآمد کم ہوتا ہے یہ ہلاکت کی نشانی ہے.بغداد کا آخری بادشاہ جب سلطنت تباہ ہوئی کبھی سال میں ایک دفعہ ہوادار میں بیٹھ کر اپنے محل سے باہر نکلا کرتا تھا اور وہ بھی اپنی بی بی کے مجبور کرنے پر ورنہ اسی بی بی کی گود میں پڑا رہتا تھا جس کا نام نسیم السحر رکھا ہوا تھا اور ایک باغ بنایا ہوا تھا جس کے پتے اور پھول سب موتیوں اور جواہرات کے تھے.تاتاری لوگوں نے اس باغ کو لوٹ لیا سب زر و جواہر اتارلیا.نسیم السحر بھی ان کے قابو میں آگئی اس کے پاس جو بیش قیمت موتی تھے وہ لینے لگے اس نے کچھ مزاحمت کی تو اسے وہیں قتل کرکے رستے میں پھینک دیا.ایک شخص لکھتا ہے کہ میں نے دیکھا کوچے میں اس کی لاش پڑی اور کتا لہو چاٹ رہا تھا.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ  (اٰل عمران :۹۸) ہے اس کا کسی کے ساتھ رشتہ نہیں.وہ کسی خاندان، ملک یا آدمی کو بڑا بناتا ہے جب وہ بدیوں پر اتر آتے ہیں تو ایک آن میں ہلاک کردیتا ہے.بغداد میں چودہ لاکھ اندر اور چا ر لاکھ باہر اٹھارہ لاکھ آدمی قتل کیا گیا تھا اور پانچ لاکھ کتاب کسی نے اپنے مطلب کے مطابق منتخب کرلی تھی باقی سب دریا برد کردی گئی تھیں.وہ کتابیں آج کل روس کے ایک کتب خانہ میں پڑی ہیں، بڑی مشکل کتابیں اسی جگہ صحیح کی جاتی ہیں.اب اس زمانہ میں مسلمانوں پر مصیبت یہ ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے واقف نہیں.انہیں علم نہیں کہ بدی کیا ہے اور کن باتوں میں خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے جن سے عذاب نازل ہوتا ہے.اکثروں کو قرآن شریف کے پڑھنے کا شوق ہی نہیں.اگر شوق ہو تو فرصت نہیں.زمیندار، تاجر، ملازم سب رات دن اپنے کاموں میں ایسے مصروف ہیں کہ قرآن شریف کے واسطے کوئی وقت نہیں.قرآن خوانی کی قدر کرو ایک شخص میرے پاس آئے.قرآن شریف کے پڑھنے کا بڑا شوق ظاہر کیا.مجھے کہا کہ آپ کوئی انتظام کردیں کوئی استاد مقرر ہو جو مجھے قرآن شریف پڑھا دیا کرے اس کے ساتھ وقت مقرر ہو.میں نے ایک استاد مقرر کردیا وقت بھی مقرر ہوا.وہ استاد جب ان کے مکان پر گیا تو خفا ہونے لگے کہ یہ کیسے ملّاں لوگ ہیں نہ طریق ادب سے واقف ہیں نہ ہماری مصروفیتوں سے آگاہ ہیں آگئے کہ سبق پڑھ لو دیکھتے نہیں کہ ہم کیسے ضروری کام میں مصروف ہیں.باہر بیٹھ جاؤ

Page 335

وقت فرصت دیکھا جاوے.وہ استاد صاحب تو گھبرائے مگر میں نے انہیں کہا کہ چند روز دیکھو اور اس کے مکان پر جاتے رہو.خیر وہ جاتے رہے آخر شاگرد صاحب نے خود ہی مجھے کہا کہ میں ایسے لوگوں سے نہیں پڑھ سکتا.یہ تکبر کا حال ہے حالانکہ یہ لوگ اس لائق نہیں کہ تکبر کریں.بت پرستی سے بچو فرمایا.بت پرستی کی جڑھ ہے بے جا محبت.کوئی تو رنگ و روغن پر مرتا ہے، جہاں کوئی خوبصورت شکل دیکھی بس عاشق ہوگئے.اور بعض لوگ دینی رنگ میں اس محبت میں غلو کرتے ہیں مرزا صاحب کی تصویر ہوئی یا نورالدین کی یا خواجہ تونسوی کی یا کسی اپنے مرشد کی، اس کی تعظیم کرنے لگے.رفتہ رفتہ بات دور چلی گئی اور وہی بت بن گیا.میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ سیال شریف کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا تھا کیونکہ وہاں کے بزرگوں کا مرید تھا.کہنے لگا کہ ہمیں تو ادھر ہی سے سب کچھ ملا ہے.میں نے کہا قرآن شریف میں آیا ہے کہ خانہ کعبہ کی طرف نماز میں منہ کا حکم اس واسطے ہے کہ (البقرۃ :۱۴۴) تاکہ ظاہر ہو جاوے کہ رسول کی پیروی کون کرتا ہے.جو شخص اور طرف منہ کرتا ہے وہ رسول کا پیرو نہیں.کہنے لگا یہ ملّاں لوگوں کی باتیں ہیں میں نہیں جانتا.خانہ کعبہ سے جب بت نکالے گئے تو ان میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل کے بت بھی تھے اور اس مینڈھے کے سینگ بھی رکھے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب ہی باہر پھنکوادیئے.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۴ نمبر۴ مؤرخہ ۷؍ اگست۱۹۱۳ء صفحہ۳) میری بات نہ بھلائو فرمایا.امن و خوف کی جو بات تم کو پہنچے اسے ایسے لوگوں تک پہنچاؤ جو اس کے اہل ہوں.بعض لوگوں کی عادت ہے کہ کسی کے متعلق کوئی زنا کی تہمت سنی فوراً لوگوں میں مشہور کرنے لگ گیا.ایسے لوگوں کو قرآن شریف نے شیطان کہا ہے.ایڈیٹر بھی فساد کی باتوں کو پھیلانے اور شر پیدا کرنے میں بہت حصہ لیتے ہیں.بعض تو اپنے اندر خدائی کا مادہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہ کر دکھائیں گے اور وہ کر دکھائیں گے.

Page 336

بڑے اصول فرمایا.بڑے اصول میں سے ایک یہ ہے کہ کسی کا مال ناحق نہ کھاؤ اپنے معاملہ کی صفائی رکھو.بعض چور تورات کو نقب لگاتے ہیں مگر بعض دن کے چور ہیں جو تاڑتے رہتے ہیں کہ کس کے پاس روپیہ ہے.پھر روپیہ والے سے روپیہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں.قرض لیں یا تجارت کے بہانہ سے وصول کریں، لے لیتے ہیں اور پھر دینے کا نام نہیںلیتے.ایسے لوگ دن کے ڈاکو ہیں.آج کل کے مسلمان فرمایا.آج کل کے مسلمان اکثر جھوٹے، بد عہد اور بدمعاملہ ہیں.مفلس اور سست پن.کام کرنا نہیں چاہتے مگر ساتھ ہی تکبر اور فضول خرچ بھی ہیں.لباس اور خوراک اور عمدہ مکان بھی مانگتے ہیں مگر آمدنی کے ذرائع حاصل نہیں کرتے.نادان ہیں ناصح کی نصیحت کو نہیں مانتے اور اپنے آپ کو افلاطون سے بڑھ کردانا گمان کرتے ہیں.ضروری بحث فرمایا.لوگ اس قسم کے سوالات بہت شوق سے کرتے ہیں کہ آدم پہلے تھا یا ّحوا پہلے تھی.نوح کی کشتی کتنی چوڑی تھی حالانکہ ان سوالات پر بحث کرنے کا نتیجہ انسان کے واسطے مفید نہیں.چاہئے کہ انسان ان باتوں پر غور کرے جن سے اس کے نفس کی پاکیزگی کے وسائل پیدا ہوں.انسان کے واسطے یہ باتیں قابل غور ہیں کہ وہ اپنے نفس، زبان، شرمگاہ، خواہشات غضب، سستی پر کیونکر غالب آسکتا ہے.اللہ کس طرح راضی ہو ایک شخص نے عرض کی کہ اللہ کس طرح راضی ہوتا ہے.حضرتخلیفۃ المسیح نے جواب میں تحریر فرمایا.اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے اور حضرت نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے اللہ خوش ہوتا ہے.قرآن کریم میں ارشاد ہے (البقرۃ :۳۹).(ترجمہ) جس کسی نے میری ہدایت کی پیروی کی اس پر نہ کوئی خوف ہے نہ غم ہے.اور فرماتا ہے. 

Page 337

(اٰل عمران :۳۲).کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے پیار کرے گا.استغفار بہت کرو.والسلام نورالدین.۳۱؍جولائی ۱۹۱۳ء بیماری کے باوجود درس گزشتہ شنبہ کو حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت بہت علیل تھی.اسہال ہوئے.ضعف بہت ہوگیا مگر درس عصر میں تشریف لائے اور حسب معمول نصف پارہ سنایا.اخیر میںفرمایا.محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کا پارہ ختم ہوا ورنہ مجھے امید نہ تھی کیونکہ اسہال کے سبب آج میں بہت بیمار رہا.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۴ نمبر ۵ مورخہ ۱۴؍ اگست ۱۹۱۳ء صفحہ ۴) غیر مسلموں میں تبلیغ کس اسلام کی ہو؟ حضور کی خدمت میں کسی صاحب نے سوال کیا کہ مسلمانوں میں بہت سے فرقے ہیں اور ہر ایک اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے.پس غیر مسلموں میں تبلیغ کس اسلام کی ہو؟ فرمایا کہ اصول اسلام کی.پہلے انہیں اللہ تعالیٰ منوائو.ملائکہ، کتب، رسل، یوم الآخر، قدر خیرہ و شرہ، بعث بعد الموت.اس پر کسی نے یہ سمجھا کہ سب فرقے مسلمان ہی ہیں اور احمدی و غیر احمدی میں کچھ فرق نہیں.اس لئے حضور نے پھر ایک بسیط تقریر فرمائی کہ جن لوگوں کے دلوں میں گند بھرا ہوتا ہے وہ ایک پاک بات کو بھی اپنے مطلب کی بنا لیتے ہیں.میری کل کی بات پر یہ کہنا کہ مرزا کے منکر بھی موحد مسلمان ہیں اور اس پر  (بنی اسرائیل:۸۲) پڑھنا ٹھیک نہیں کیونکہ اس شخص نے ان احمدیوں کو جو غیر احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے باطل ٹھہرایا ہے اور اس طرح خود اپنے اس عقیدے پر کہ سب فرقے مسلمان ہیں ایک زدّ کی ہے.میں نے ہرگز نہیں کہا کہ سب مسلمان ہیں اور ایک ہیں.میں تو اعمال کو بھی جزو ایمان سمجھتا ہوں اور میں نے اس قسم کے مدعیان اسلام دیکھے ہیں جو نمازوں کے قائل نہیں.کتنے ایسے ہیں

Page 338

جو نماز نہیں پڑھتے.بعض زکوٰۃ قطعاً نہیں دیتے.صحابہؓ نے تو زکوٰۃ نہ دینے والوں کو قتل کیا ہے.ایک جنٹلمین کی ملاقات مجھ سے ریل میں ہوئی.اس نے کہا.اسلام میں تفرقہ نہیں چاہیے.مرزا صاحب نے تفرقہ ڈالا ہے.باتوں میں اس نے کہا کہ یہ ملّاں جو ہیں ان کو نکال دینا چاہیے یہی فسادی ہیں.پھر گدی نشینوں کو سخت سست کہا.پھر ان کے متبعین کو.میں نے کہا.ہم نے تو شیرازہ بگاڑا مگر آپ نے اچھا مستحکم باندھا.مرزا نے تو اسلام کے بکھرے ہوئے ورق اکٹھے کئے ہیں.۲.مسلمانوں پر اس وقت سب مصائب نازل ہورہے ہیں.بارہ سلطنتیں میری آنکھوں کے سامنے انہوں نے چھنوائی ہیں.تو کیا ابھی یہ مومن کے مومن ہیں؟ مومن کی نسبت تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(المؤمنون:۲).مومن تو ہر جگہ فتح مند ہوتا ہے.مومن تو کسی خدا کے بھیجے ہوئے کا انکار نہیں کرتا.میں اس شخص کو اس آیت کی طرف کرتا ہوں. (النساء:۱۵۱تا۱۵۳).(ماخوذ از مدینۃ المسیح.الفضل جلد۱ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۰؍ اگست ۱۹۱۳ء صفحہ ۱)

Page 339

عید کے احکام ۱.یہ باتیں عید والے دن مسنون ہیں (۱) مسواک.(۲)غسل.(۳) عمدہ کپڑا، سرمہ، تیل، کنگھی.(۴)خوشبو لگائے.(۵)سویرے اٹھے.(۶)عید گاہ میں جائے.(۷) کچھ کھا کر جائے.رسول کریم ؐطاق کھجوریں کھا کر تشریف لے جاتے.(۸) جس راہ سے جائے اس سے دوسری راہ آئے.(۹)تکبیر کہتا جائے.اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَر لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ.اَلْحَمْدیا کلمہ شہادت بھی (۱۰ )نماز دو رکعت.(۱۱) مستورات کا بھی عید گاہ میں جانا امر مسنون ہے.۲.صدقۃ الفطر.اس لئے مشروع ہے کہ عید کے دن مساکین کی امداداور روزہ رکھنے میں جو کچھ نقص رہ گئے ہیں.ان کا جبر ہو.یہ صدقہ غلام، آزاد، مرد ،عورت، چھوٹے بڑے، غنی فقیرپر ہے.جو نماز پڑھنے سے پہلے ادا ہوناچاہیے.جَو اور اس قسم کا غلہ پورا صاع اور گندم نصف صاع.یعنی..........ایک سیرچھ چھٹانک.......غلہ کے عوض نقدی بھی جائز ہے.۳.اس نماز میں اذان واقامت نہیں اور اوّل و آخر کوئی اور نماز نہیں.طریق نمازیوں ہے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لے ثناء پڑھ کر پھر سات تکبیریں کہیں جائیں.اللہ اکبر کے ساتھ ہر تکبیر پر ہاتھ کانوں تک لے جا کر کھلے چھوڑے جائیں.ساتویں تکبیر پر ہاتھ باندھ لیں.دوسری رکعت میں بھی قبل قرأت پانچ تکبیریں کہیں ماسوائے اس تکبیر کے جو سجدہ سے اٹھتے وقت کہی جاتی ہے.پانچویں تکبیر پر ہاتھ باندھیں.آثار سے یہ بھی ثابت ہے کہ پہلی رکعت میں قبل قرأت علاوہ تکبیر تحریمہ تین تکبیر اور دوسری رکعت میں بعد قرأت تین تکبیریں کہے.اس نما ز میں علی العموم حضور علیہ الصلوٰۃ سَبِّحِ اسْمِ.ھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ پڑھتے.

Page 340

بعد نماز خطبہ سب کو سننا چاہیے.ایک ہی خطبہ ہے بیٹھ کر پھر نہیں اٹھتے.بچے بھی عید گاہ میں جائیں.عید کی نماز باجماعت ایک ہے.کئی جماعتیں نہیں ہونی چاہئیں اور عید کی نماز میں جمع ہونے کے لئے ڈونڈی پیٹنا ثابت نہیں اور نہ نماز کے بعد مصافحہ و معانقہ امر مسنون ہے.(الفضل جلد ۱ نمبر ۱۲مورخہ ۳؍ستمبر۱۹۱۳ء صفحہ ۱۴) ایک آیت کے معنی کے متعلق ایک خط کا جواب ایک خط بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم نحمدہٗ و نصلّی علٰی رسولہ الکریم بعز عرض حضرت حجۃ اللہ امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ.معروض آنکہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ.خاکسار پرسوں صبح کے وقت اپنے دوست قاسم علی خاں کو ترجمہ قرآن کریم پڑھا رہا تھا جب    (البقرۃ:۷۳،۷۴) پر پہنچا تو معاً ذہن میں آیا کہ اس آیت کا ترجمہ اس طرح پر بھی ہوسکتا ہے.جب تم نے مار ڈالا ایک شخص کو پھر لگے تم ایک دوسرے پر دھرنے.اور اللہ نکالنے والا ہے جو تم چھپاتے تھے.پس ہم نے کہا بیان کرو اس کو (یعنی کیفیت قتل کو) ساتھ بعض (امور) اس (نفس) کے.اس طرح اللہ قصاص لیتا ہے. کا (یعنی ان مقتولوں کا جن کا قصاص نہ لیا گیا ہو) اب اس ترجمہ کی نسبت چند امور عرض ہیں.(۱)  کے معنی بَیِّنُوْہُ کے لیے جائیں جیسے (یٰس:۱۴) میں لفظ اِضْرِبْ کے معنی بَیِّنْ کے ہیں.

Page 341

(۲)  میں ضمیر منصوب کا مرجع معنوی یعنی قتل سمجھا جائے جو لفظ  کا مصدر ہے جیسے آیۂکریمہ (المائدۃ:۹) میں لفظ  کا مرجع معنوی عدل ہے جو  کا مصدر ہے.اور جس طرح آیت (النساء:۱۶۰) میں بہ کی ضمیر مجرور کا مرجع معنوی صلب ہے جو کا مصدر ہے.اب اس صورت میں  کی تفسیر یہ ہوگی بَیِّنُوْہُ بِبَعْضِھَا اَیْ بَیِّنُوا الْقَتْلَ بِبَعْضِ الْاُمُوْرِ النَّفْسِ.سرسید نے بھی برخلاف دیگر مفسرین کے  کا ضمیر مؤنث راجع الی النفس لکھا ہے لیکن بہ کی ضمیر مذکر کا مرجع بتانے میں کوتاہی کی ہے.اب (البقرۃ:۷۴) کی تفسیر کے متعلق گزارش ہے کہ اہل عرب اپنے محاورہ میں جن مقتولوں کا قصاص لے لیا جاتا تھا ان کو اَحْیَائٌ اور جن کا قصاص نہیں ملتا تھا ان کو اَمْوَاتٌ کہا کرتے تھے.چنانچہ حارث بن حِلّزۃ الیشکری البکری ساتویں معلقہ میں کہتا ہے.اِنْ نَبَشْتُمْ مَا بَیْنَ مِلْحَۃَ فَالصَّا قِبِ فِیْہِ الْاَمْوَاتُ وَالْاَحْیَآئُ شارح زوزنی اس شعر کی تشرح میں لکھتا ہے.فَسَمَّی الَّذِیْ لَمْ یُثْأَرْبِھَا اَمْوَاتًا وَالَّذِیَْ ثُئِرَبِھِمْ اَحْیَآئٌ لِاَنَّھُمْ لَمَّا قُتِلَ بِھِمْ مِنْ اَعْدَائِھِمْ کَاَنَّھُمْ عَادُوْا اَحْیَآئً اِذْلَمْ تَذْھَبْ دِمَآئُھُمْ ھَدَرًا(شرح المعلقات السبع للزوزنیصفحہ ۲۷۶).پس اس تقدیر پر  کے یہ معنے ہوئے اسی طرح اللہ بدلہ لیتا ہے (الموتٰی) کا یعنی ان مقتولوں کا جن کا بدلہ نہ لیا گیا ہو.چونکہ یہ معنے دفعۃً میرے ذہن میں آئے ہیں جب تک کہ نظر اشرف سے نہ گزر جاویں اس وقت تک میں ان پر پورا بھروسہ نہیں کرسکتا.اگر یہ معنے درست نہ ہوں تو خاکسار کو متنبہ فرما دیا جائے زیادہ.والسلام خاکسار عبیداللہ احمدی پروفیسر عربی ہائی اسکول از ریاست رام پور معروضہ ۶؍ اگست ۱۹۱۳ء

Page 342

جواب حضرت خلیفۃ المسیح نے اس خط کے جواب میں لکھا.مولٰنا ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ سالہا سال کے بعد مکرمت نامہ باعث سرور ہوا.جَزَاکَ اللّٰہُ اَحْسَنَ الُجَزَاء.پر خوب لکھا ہے.اَللّٰہُ یَجْزِیْکَ.مگریوں کیوں نہ کہا جاو ے یاد کرو جب تم نے ایک جی کو قتل کیا اور لگے ایک دوسرے پر تھوپنے.اللہ تعالیٰ نکالنے والا ہے جو تم چھپاتے ہو.تب ہم نے کہا قاتل کو ماردو اور یہ قتل تو بعض نفوس کے بدلہ ہے.تمہیں کیا معلوم کتنے آدمی اس قاتل نے مارے کیونکہ  (المائدۃ:۱۶) آیا ہے اور آئندہ اس کے ہاتھ سے قتل ہونے والے بچ گئے.جیسے فرمایا.(البقرۃ:۲۸۰) دعاگو نورالدین ۸؍ رمضان المبارک ۱۳۳۱ھ (البدر جلد۱۴ نمبر۷ مؤرخہ ۲۸؍ اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۳) تصدیق المسیح از زبان در افشان خلیفۃ المسیح ۱.ایک دفعہ میں نے حضور میں عرض کیا، خصم کے بعض اعتراض ایسے ہیں کہ ان کا جواب مفصل دینا مشکل ہے اس لئے میرا ارادہ ہے کہ الزامی جواب دے دوں یا اس سوال ہی کو چھوڑ جاؤں.ارشاد فرمایا.مولوی صاحب ! کیا آپ اپنے مخالف کو وہ بات منوانی چاہتے ہیں جس کے لئے آپ کے پاس دلائل نہیں یا جو ابھی پورے طور سے آپ پر بھی نہیں کھلی.میں تو اس بات کو سخت ناپسند کرتا ہوں کہ کسی کو وہ بات ماننے کی تحریک کی جائے جس پر اپنے آپ کو پورا اطمینان نہ ہو.اس وقت مجھے یقین ہوگیا کہ یہ شخص ضرور ضرور راستباز ہے اور اس کا سینہ صداقت کا گنجینہ ہے.یہ اپنے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکالتا جب تک کہ اسے اس پر کامل یقین نہیںہوتا.اس نے جو دعویٰ کیا ہے اس کا لفظ لفظ درست ہے اور اس میں ذرا بھی شک نہیں.ورنہ یہ

Page 343

ایسے پاک خیالات رکھتا ہے کہ بغیر یقین و اطمینان کے اسے کبھی دوسروں کے سامنے پیش نہ کرتا.۲.ایک مولوی صاحب یہاں آئے اور مجھے کہاکہ مسیح موعود کے ساتھ تو دو فرشتے ہوں گے.مگر تمہارے مرزا کے ساتھ تو میں کوئی فرشتہ نہیں دیکھتا.اس روز جمعہ تھا میں باتوں ہی باتوں میں انہیں مسجد کے قریب لے آیا.دروازے کے پاس پہنچ کر میں نے کہا.مولوی صاحب حدیث میں آیا ہے کہ جمعہ کے روز مسجد کے دروازے پر دو فرشتے ہر آنے والے کا نام لکھتے جاتے ہیں اس دروازے پر تو نظر نہیں آتے آپ اس دوسرے دروازے کو دیکھتے آیئے شاید وہاں کھڑے ہوں.بہت ہی ناد م ہوا اور پھر یہ اعتراض مجھ سے نہیں کیا.۳.لاہور میں ایک وکیل مجھے کہنے لگا کہ مرزا صاحب مجنون ہیں اور یہ دعویٰ اسی جنون کا نتیجہ ہے.میں باتوں ہی باتوں میں اسے پاگل خانے لے گیا.وہاں کا مہتمم میرا واقف تھا اس لئے ہمیں اندر جانے میں کچھ دقت نہ ہوئی.اس ڈاکٹر سے میں نے سوال کیا کہ جنون کی تعریف کیا ہے؟ اس نے کہا یہ تو بڑا مشکل سوال ہے اور کسی کو مجنون کہنا آسان نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک تو ایک چور ایک زانی بھی جنون سے خالی نہیں.میں نے کہا اگر کوئی وکیل کسی شخص پر جنون کا فتویٰ دے دے تو کیا وہ صحیح مان لینے کے قابل ہے.کہنے لگا وہ تو بیوقوف ہے.میرے خیال میں ایسا وکیل خود مجنون ہے.غرض اس ڈاکٹر نے اس مسئلہ کو ایسامشکل بتایا کہ وکیل سخت نادم ہوا.میں نے اسے کہا کہ آدمی کے سات قسم کے تعلقات ہوتے ہیں.اپنے رشتہ داروں سے، اپنی اولاد سے، اپنی بیوی سے، اپنے احباب سے، اپنے بادشاہ سے، اپنے ملازموں سے، اپنے مولیٰ سے.ان سب میں مرزا صاحب کو دیکھ لو کیسے عمدہ و کامل تعلقات ہیں.کیا ان میں کوئی بگاڑ پیدا ہوا.کیا وہ ایسا اسوہ حسنہ نہیں کہ ایک جہان اس کی تقلید کرے.ان حالات کو دیکھتے ہوئے جو انہیں مجنون سمجھے اس کے آپ کو مجنون ہونے میں شک ہے.۴.انبیاء علیہم السلام کا ساتھ اوائل میں ہمیشہ غریب اور ضعیف لوگ دیتے ہیں.اس میں حکمت یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی حکمت کا جلوہ دکھائے.ایک چھوـٹی سی جماعت آخر باوجود

Page 344

مخالفت شدیدہ کے کامیاب ہوجاتی ہے.اگر امراء پہلے پہلے ساتھ ہوں تو ان کے دل میں بھی غرور آجائے کہ یہ سب کچھ ہماری قوت کی طفیل ہے اور عام نظروں میں بھی تائید الٰہی کا معاملہ مشتبہ ہوجائے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ ومصلحت کاملہ سے یہ پسند فرمایا ہے کہ انبیاء کے ساتھ دینے والوں میں غریب اور ضعیف آدمی ہوں.ہمارے زمانہ میں دیانند، سرسید احمد خاں اور ایک برہمو ؤں کے لیڈر نے مصلح قوم ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور ایک حضرت مرزا صاحب نے.خوب پڑتال کر کے دیکھ لو پہلے تین کا ساتھ بڑے امراء نے دیا اور ان کی تعریف کرنے والوں میں، ان کو مدد دینے والوں میں بڑے بڑے لوگ ہیں مگر حضرت مرزا صاحب کا ساتھ بہت غریب لوگوں نے دیا جو مخلوق میں بہت کمزور قوت و مال کے سمجھے جاتے تھے.میںنے اس معیار کو نہایت صحیح پایا ہے.یہاں تک کہ حضور کی زندگی میں کوئی اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کہ یہی بڑا آدمی ہونے کی پہلی سیڑھی ہے، داخل جماعت نہیں ہوا.ایک دفعہ ایک اکسٹرا اسسٹنٹ آگیاتو میں بہت گھبرایا کہ الٰہی تیرا کلام تو بہت سچا ہے.آخر وہ نکل گیا.یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے ساتھ والوں پر امیر آوازے کستے رہے اور کہتے کہ  (ہود: ۲۸) مگر رسولوں نے ان کے اس اعتراض کی کچھ پروا نہیں کی اور نہ ان کی خاطر سے ایسے لوگوں کو دھتکار دیا.۵.ایک بڑے مشہور پیر صاحب تھے.مجھے کہنے لگے تم مرزا کے مرید ہوگئے ہمارے مرید کیوں نہیں ہوئے.میں نے کہا حضرت میں تو حاضر ہوں مگر فرمائیے آپ کے دربار سے مرزا سے بڑھ کر کیا ملے گا.کہنے لگے میں تجھے نماز پڑھاؤں گا تو پہلا سجدہ عرش پر کراؤں گا.میں نے کہا سجدہ تو خدا تعالیٰ کو کرنا ہے سجدہ کے لئے عاجزی چاہیے اور وہ زمین پر ہی ہوتی ہے اور پھر قبلہ رُوزمین پر سجدہ کرنے میں(البقرۃ : ۱۴۵) کی تعمیل آجائے گی.عرش پر سجدہ کرنے کی سرکاری اجازت بھی خدا جانے ہے کہ نہیں اگر وہاں کی پولیس دخل بیجا میں مجھے گرفتار کرے تو میں کیا کروں گا.آپ کا مقام تو خدا جانے اس سے آگے کتنے فاصلہ پرہو.

Page 345

پھر کہنے لگے کہ اچھا ہم تمہیں مثنوی پڑھاویں گے اور ایک شعر کی ایسی تشریح کی جو واقع میں ایسی تھی کہ میں نے کبھی نہ سنی تھی.میں نے عرض کیا کہ حضرت اس بارگاہ ربی کی کتاب سمجھائیے.یہ نزدیک کی کتابیں اگر میں پڑھ بھی لوں گا تو کیا بن جائے گا.دُھردرگاہ (پنجابی) کی بولی سمجھایئے.آخر آپ تو بڑی’’ پہنچ والے‘‘ (مقرب بارگاہ ایزی) ہیں آپ جیسے بزرگوںکی زبانی سنا ہے اور خود میرا بھی یہی یقین ہے کہ قرآن اس بارگاہ کی بولی میں ہے.اس میں کھیٰعص اور یٰس اس قسم کے جو الفاظ ہیں ان کا مطلب سمجھا دیجئے.آخر یہ اسی دُرگاہ کی بولی ہے جہاں آپ بودو باش رکھتے ہیں.کہنے لگے کوئی اور بھی ذریعہ ہے.میں نے عرض کیا حضور جھوٹ نہ بولیں یہ آپ کے مقام کا تقاضا ہے.پس آپ بارگاہ ربی سے دریافت کریں کہ اس زمانے کا امام کون ہے کیونکہ بغیر امام کے تو کوئی صدی نہیں.امریکہ میں ہو یا افریقہ میں یا مصر میں یا استنبول میں یا افغانستان میں میں انشاء اللہ وہیں جاپہنچوں گا.آپ احسان فرمایئے اور پتا لے دیجئے اور اگر آپ خود ہی ہیں تو دعویٰ فرمایئے میں حاضر ہوں.اس کے بعد میں چلاآیا اور قادیان آکر ’’فریاد درد اسلام‘‘ ایک اشتہار لکھا.اس میں میں نے یہی سوال تمام گدی نشینوں، متصوفین وفقراء سے کیا اور چھپوا کر ان کو بھی بھیج دیا.امرتسر آئے تو میں بھی اتفاقاً وہاں پہنچا.کچھ پھل پھلاری لے کر حاضر ہوا.کہنے لگے ُتو بڑا بے ادب ہے.ُتونے ہمیں اشتہار چھاپ کر کیوں بھیجا.یہ گستاخی ہے.میں نے کہا حضور ! یہ غلطی زمانے نے کرائی.میں نے انگریزی پڑھے ہوؤں سے یہی سنا کہ گورنروں، لفٹنٹوں اور بڑی بڑی سرکاروں میں آج کل چھاپ کر عرضی پیش کرتے ہیں.معاف فرمایئے.کہنے لگے ہاں معاف ہے.میں نے کہا.یہ پھل تو قبول ہوں اور مجھے دوات قلم کاغذ ذرا منگوادیں میںیہیں ہاتھ سے لکھ کر سوال پیش کردیتا ہوں.ٹال گئے اور میں نے بھی زیادہ اصرار مناسب نہ سمجھا.اس پاک کتاب کا فہم اور اس پر عمل کی توفیق مجھے مرزا کی طفیل حاصل ہوئی اور یہ اس کی راستبازی کا نشان ہے.

Page 346

۶.قرآن جیسی پاک کتاب، اسلام جیسا فطرت کے مطابق دین اس کے بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ اس کی طرف ہدایت اسی کو ہوگی جس میں تین باتیں ہوں.ایک تو ایمان بالغیب کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ دنیا کے تمام کارخانے، تمام علوم کی تحصیل پہلے فرض وایمان بالغیب پر مبنی ہے.پس ایک طالب حق کو چاہیے کہ دین کے معاملہ میں بھی پہلے غیب پر ایمان لائے.دوم کچھ خدا کے نام پر صدقہ و خیرات دینے کا عادی ہو کیونکہ بعض اوقات محتاج کے منہ سے ایسی دعا نکل جاتی ہے کہ جاتیرا دونوں جہانوں میں بھلا اور پھر اس دینے والے کا بیڑا پار ہوجاتا ہے.سوم دعا کا عادی رہے.حق کی طلب صادق بھی دعا کہلاتی ہے.جو دعا نہیں کرتا جو کسی چیز کو پانے کی خواہش نہیں کرتا اور اس کے پانے کے اسباب مہیا نہیں کرتا وہ ہر گز اس چیز کو نہیں پاتا.پس حضرت مرزا صاحب کے معاملہ میں بھی یہ طریق ہے کہ ایمان بالغیب لاؤ، صدقہ خیرات کرتے رہو اور دعا کرتے رہوکہ حق مجھ پر ظاہرہوجائے.میں یقین رکھتا ہوں  ( العنکبوت : ۷۰) کے مطابق اسے اللہ تعالیٰ خود مرزا صاحب کی سچائی بتا دے گا.یہ بڑی پکی بات ہے جو چاہے تجربہ کرلے.(الفضل جلد۱ نمبر۱۲ مورخہ ۳؍ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۸) عاقبت کی فکر کرو فرمایا.انسان کو چاہیے اپنے افعال، اقوال اور اعمال پر غور کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ کی حضور میں حاضر ہونے کے لئے اس نے کیا کچھ تیاری کی ہے.آخر ایک دن اس دنیا کو چھوڑ کر خدا کے پاس جانا ہے، عاقبت کی فکر کرو.بسم اللہ اور الحمد کیوں نہیں پڑھتے ایک شب نماز تراویح میں قرآن شریف سننے کے بعدحضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.دو باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی ہیں.ایک تو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے شروع سورۃ ہونے پر بالجہر نہ پڑھنا جبکہ بسم اللہ کو قرآن کریم کا جزو مانا ہے مگر پڑھتے ہوئے ایک سو چودہ آیتیں کھا جاتے ہیں.دوسرا جب حافظ قرآن کریم کو شروع کرتے ہیں تو الحمد شریف کو چھوڑ جاتے ہیں اور وہ جو الحمد شریف ایک دفعہ پڑھتے ہیں وہ تو ہر رکعت کے

Page 347

شروع میں پڑھی جاتی ہے.بس جب قرآن کریم شروع کریں گے ہر رکعت اوّل الحمد شریف پڑھ کر الف لام میم سے قرآن کریم شروع کردیں گے دوسری بار الحمد شریف نہیں پڑھتے حالانکہ وہ بھی تو قرآن کریم میں داخل ہے.نصیحت ایک شخص کو حضرت نے رخصت کے وقت یہ نصیحت لکھ کر دی.آپ استغفار بہت کیا کریں.نرمی مزاج میں پیدا ہو، نیک نمونہ بنیں.گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھ لیا کرو.بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ بِسْمِ اللّٰہِ عَلٰی نَفْسِیْ وَمَالِیْ وَدِیْنِیْ.اَللّٰہُمَّ ارْضِنِیْ بِقَضَائِکَ حَتّٰی لَا اُحِبُّ تَعْجِیْلَ مَا اَخَّرْتُ وَلَا تَاخِیْرَ مَا عَجَّلْتُ.دینی معاملات میں دیانت امانت مدنظر رہے.معاملہ بہت صاف ہو جھوٹ سے ہر حالت میں ہمیشہ پرہیز رہے.مجروحین کانپور کی امداد ایک شخص نے دریافت کیا کہ مجروحین وغیرہ کانپور کی امداد میں جو چندہ لوگ کر رہے ہیں اس میں چندہ دے سکتے ہیں ؟ فرمایا.چندہ دے سکتے ہیں.امام نے جماعت بنائی ایک شخص کے خط کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح نے لکھا.’’السلام علیکم.ایک نامور مولوی صاحب جو ہند میں مشہور ہیں حضرت مرزا کو ملے اور فرمایا.آپ امام ، مجدد، مصلح، ریفارمر سب کچھ بنیں صرف مہدی و مسیح کا دعویٰ سردست نہ فرمائیں تو ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اسلام کے خادم ہیں.حضرت مرزا نے فرمایا.مولوی صاحب ! اگر منصوبہ سے کام کرتا تو اسی طرح کرتا مگر میرا کام حکم کے نیچے ہے.کیا کروں حکیم صاحب ! میں نے حضرت سید محمد صاحب مجتہد العصر لکھنو اور مولوی محمد تقی صاحب اور سید حامد حسین صاحبان کو دیکھا ہے کیسے کیسے لائق تھے کہ حیرت ہوتی ہے مگر جماعت مخلصین مومنین جو سچ طور پر قرآن کریم کے عامل ہوں تیار کر کے نہ گئے.آپ بھی ماشاء اللہ لائق ہیں عالم ہیں طبیب ہیں.آپ کے اندر درد اسلام بھی موجود ہے فرمایئے کس قدر گروہ آپ کے حکم کے ماتحت کام کرتا ہے.ہمارے ماتحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے شیعہ، خوارج، نیچری، وہابی، مقلد، غیرمقلد، پیر پرست، گدی نشین، علماء اور عوام بھی کام کرتے ہیں

Page 348

ہم ہر گز اخفا اور چرب زبانی سے کام نہیں لیتے.خاں صاحب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر کوٹلہ کو تشیع میں غلو تھا حضرت سے ملے تو آپ نے فرمایا.میاں تبرااور تعزیہ پرستی دو امر تشیع کے ہمیں ناپسند باقی جو چاہو کرو.اس پر وہ درہم برہم ہوئے مگر آخر جماعت میں داخل ہوگئے.ہندؤوںمسیحیوں کو تو میں گن نہیں سکتا ہوں کس قدر ہماری جماعت میں آئے.معلوم ہوتا ہے آپ نے توجہ سے قرآن کریم اور غور سے صحاح اربعہ ونہج البلاغہ شیعوں کی کتابیں اور بخاری، مسلم، موطا سنیوں کی، قاموس الشریعہ مسند بن ربیع، دیبا، خوارج کی کتب کو نہیں پڑھا کبھی کوئی شخص ایسا رسالہ اور کتاب جو تمام جہاں کو پسندیدہ ہو ہر گز نہیں لکھ سکتا.سید احمد خاں نے بہت مداہنت چاہی آخر جماعت اور گروہ اس وقت بنا سکا جب اس نے اپنے عقائد کا صاف صاف اظہار کردیا.جو لوگ آج کل ہماے پنجابی ریفارمر ہیں ان سے دریافت فرمائیں آپ نے کس قدر فرمانبردار جماعت بنائی ان کے ماتحت پابند صوم و صلوٰۃ و حج و زکوٰۃ کتنے ہیں.ہماری جماعت چار لاکھ سے زیادہ ہے اور بلاد افریقہ و یورپ و امریکہ و چین و آسٹریلیا میں ابھی پہنچے ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ برس کے بعد آپ دیکھیں گے کس قدر کامیاب ہوئے.غزالی، رازی ، ابن سینا، ابن رشد، طوسی اور ان کے طرز کی کوئی جماعت کسی زمانہ میں قائم نہیں ہوئی.ذرہ آپ ہی فرمائیں.آپ نے کچھ لوگ دیکھے مہدی جونپوری اور علماء، بلکہ شیخ مبارک ابوالفضل فیضی کو خوب جانتا ہوں.درمحفل رنداں خیرے نیست کہ نیست اور شرعاً مراتب کمال میں مہدویت و عیسویّت بھی ہے.برادران مصر کو خط عزیزان ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.انشاء اللہ تعالیٰ اس خط پر عید گزشتہمبارک کا بولنا صحیح ہوگا.آپ کوابو سعید کو سب مبارک.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ مصر میں صحت وعافیت سے ہوںگے.مفصّل لکھو کیا تدبیر کی کیا کام ہوا.کیا ہونے کی امید ہے.آپ کو کوئی حرج وتکلیف تو نہیں اَللّٰہُ یَحْفِظُکُمْ وَیَعْصِمُکُمْ وَیُغْنِیْکُمْ وَیُوَفِّقُکُمْ لِمَا یَرْضٰی.والسلام نورالدین ۲۳ رمضان شریف ۳۳ھ

Page 349

شیعہ مذہب شیعہ مذہب بھی ایک عجائبات کا مجموعہ ہے.(۱) لوگ تو مرنے والوں پر رویا کرتے ہیں.یہ ان کو روتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ زندہ اور خوش و خرم فرمایا ہے.(۲) بنو امیہ کو باوجود بہت ہی برا سمجھنے کے ہر سال بھاٹوں کی طرح ان کے تاج تخت حکومت ، جلال، عظمت شاہانہ، رعب داب و فتحمندی اور کامیابی کی دھاک باندھ کر گویا دکھلا دیتے ہیں.(۳) اہل بیت کو باوجود بعد از خدا یکے توئی قصہ مختصر جاننے کے بھی ذلت ، حقارت، ناکامی، ہتک عزت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے.(۴) منافق کو برا بھی کہے جاتے ہیں اور تقیہ نفاق کا چھوٹا بھائی فرض و واجب سمجھتے ہیں.اس کے سوائے ان کا گزارہ ہی مشکل بلکہ محال ہے.(۵) جھوٹے پر لعنت بھی کہے جاتے ہیں اور جھوٹ موٹ ایک لکڑی اور کاغذ کی بنی ہوئی قبر (تعزیہ) کو روضہ اور مقبرہ جناب امام حسین علیہ السلام کا قرار دے کر اس کے ساتھ ساری باتیں اصل قبر مبارک کی مانند بجا لاتے ہیں.بزرگوں کو برا کہنے کے سبب عقل ماری گئی ہے.ابھی وقت ہے استغفار کریں اور حضرت مسیح موعود اور ان کے خلیفہ کے قدموں پر گریں بفضل الٰہی اندھیروں سے نکل کر فوراً روشنی میں آجاویں گے.(گلاب الدین احمدی.رہتاسی) (ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۴ نمبر ۱۰ مورخہ ۱۸؍ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲) ایک مضمون کے بارہ میں رائے حضرت میر ناصر نوابؓ کے ایک مضمون ’’ قرآن شریف چھپے اور احادیث ‘‘ (مطبوعہ البدر ۱۸؍ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۳، ۴) کو پڑھ کر حضرت خلیفۃ المسیح نے اس پر اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا.یہ مبارک تحریک ہے.اللہ تعالیٰ اس کو مثمر ثمرات بابرکات کرے.آمین.خاکسار انشاء اللہ تعالیٰ بقدرطاقت امداد کو حاضر ہے.مولوی محمد علی صاحب نے جو ترجمہ کیا اس کے دوپارے میں نے بغور دیکھے ہیں، عمدہ ہیں.اور پہلا پارہ مطبوع قدرے اصلاح طلب ہے.والسلام نورالدین (البدر جلد۱۴ نمبر۱۰ مؤرخہ ۸؍ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۴)

Page 350

مصر میں اسلام کا مستقبل حضور کی خدمت میں مصر کا ایک خط پیش ہوا جس میں لکھا تھا.حالت ایسی نازک ہے کہ تیس برس تک مصر میں اسلام کا نشان نہ رہے گا.فرمایا.یاد رکھو اور لکھ لو کہ تیس برس تک وہاں اسلام چمک اٹھے گا.اندھیری رات ایک صبح صادق کی خبردیتی ہے.(ماخوذ از مدینۃ المسیح.الفضل جلد۱ نمبر ۱۵ مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱) پریمیم بانڈ کا انعام جوا ہے سوال ہوا کہ ہندوستان میں انگریزی پرامیسری نوٹ رائج ہیں خریدنے والے کو سود ملتا ہے.اب یورپ کے دیگرملکوں نے بھی ہندوستان میں اپنے پرامیسری نوٹ رائج کئے ہیں اور بعض سہولتیں زائد دی ہیں.(۱)سود ملتا ہے.(۲)جب کوئی چاہے اپنا روپیہ واپس منگوا لے.(۳)روپیہ ایک دفعہ نہیں بلکہ باقساط دینا پڑتا ہے.(۴)نوٹ خریدنے والوں کو سال کے سال انعام دیا جاتا ہے بطور قرعہ اندازی جس کا نام نکل آوے.مگر جس کو انعام دیا جاتا ہے اس کا روپیہ واپس نہیں دیا جاتا.ان پرامیسری نوٹوں کا نام پریمیم بانڈ ہے.ایک صاحب دریافت کرتے ہیں کہ کیا اس کا کاروبار کرنا اور انعام حاصل کرنا جائز ہے؟ بجواب حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.یہ جُوا ہے.(قماربازی) حضرت کا خط ظفر اللہ خان صاحب کے نام بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ شیخ محمد اکبر صاحب کو محبت بھرا سلام علیکم.یہ مبارک دعا ہے افسوس ہندوستان کے مسلمان اس سے محروم ہوگئے آہ ! آہ ! سیر میں کوئی دین و دنیا کا خیال رکھنا چاہئے و اِلَّا فضول ہے.مسجد کی خبر مبارک ہو.فِن لینڈ میں گھنٹوں کے حساب سے نماز روزہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (یٰس:۴۰) یہ تقدیر منازل کا ارشاد ایسے بلاد کے واسطے ہے.پیارے غور کرو چھتیس کروڑ روپیہ سالانہ چرچ آف انگلینڈ، اگر یہ لوگ مسیحی نہیں تو اتنا روپیہ پانی کی طرح کیوں بہاتے ہیں؟

Page 351

ہیں؟ پھر اسلام کے مقابل انہیں دو سالوں میں مراکش، طرابلس، ترکی میں بلقان نے اٹلی نے فرانس نے کیوں اس قدر خونریزی کی.تثلیث کی دلیل تو ہے ہی نہیں اس کا عقل مند کے سامنے اقرار کریں.مسیح کے ساتھ اس مذہب کے زوال کے دن وابستہ ہیں.اندر سے کھوکھلے ہیں اسلام کو بظاہر ماننے سے مضائقہ کرتے رہیں.آپ توحید کی تبلیغ کردیا کریں.پنجابی ہندوستانی طلباء کو بقدر طاقت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام پہنچادیں اتنا ہی غنیمت ہے.نمازوں میں غفلت مت کرو.قرآن کریم ضرور پڑھو.دعائیں بہت مانگو.وہ آپ کا جرمن دوست کیا ہوا؟ پھر آپ نے ان کا حال نہ لکھا، تعجب ہے.والسلام نورالدین ۱۶ ؍ستمبر ۱۹۱۳ء حضرت کا خط برادران مصر کے نام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ ۱.خاکسار کی طرف سے احمد بِک تیمور کو خصوصیت سے ملو اور میرا دلی محبت سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ کہو.عرض کرو یہ وقت اسلام کے لیے بابرکت ہے آپ ناامید نہ ہوں.(یوسف :۸۸) یاد کرو.کشوف صحیحہ سے یہ دن اسلام کے لیے بابرکت آرہے ہیں اور یاد رکھو عمدہ نقش تختی پر اس وقت منقش ہوتا ہے جب پہلا نقش دھو دیا جاتا ہے.۲.احمد بِک تیمور کی معرفت استاد کا پتہ لگاؤ پھر انتخاب کتب اور استخارہ سے کام لو.۳.ان کا لباس پنجابی ہو واِلَّا عربی، دونوں لباسوں کے سوا کوئی لباس ضروری نہیں گو لباس کے متعلق اسلام نے کوئی فیشن تجویز نہیں فرمایا.۴.پیار و نیک اعمال انسان تکبر میں مبتلا ہوکر بعض دفعہ صداقت سے محروم ہوجاتا ہے اور

Page 352

بداعمال فطرۃً اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوا تائب ہوجاتا ہے.حضرت عمر چار برس انکار پر اڑے رہے.خالد بن ولید جنگ احد میں کفار کا کمان افسر تھا.میاں محمد بخش کو میری طرف سے بہت بہت شکریہ اور جَزَاکَ اللّٰہ کہہ دینا.ہم بہت خوش ہوئے اس کے اس سلوک سے جو آپ سے اس نے کئے.جَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْجَزَاء.ولی باپ ہے ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک لڑکی کو اس کی نانی نے پرورش کیا ہے اس کے پاس پلی اور بڑھی ہوئی ہے اب اس کی شادی کا وقت آیا ہے تو اس کا باپ جس نے کبھی اس کو پوچھا بھی نہ تھا اپنی مرضی کے مطابق کہیں اس کی شادی کرنا چاہتا ہے اور نانی کہیں اور کرنا چاہتی ہے.حق کس کو ہے؟ حضور فیصلہ فرماویں.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ ولی تو باپ ہی ہے اور اسی کو اختیار ہے کہ جہاں چاہے نکاح کرے.ہر جگہ ایمان کو قائم رکھو ایک شخص نے عرض کیا کہ میں پٹواری ہوں مگر لوگ کہتے ہیں کہ اس ملازمت میں بے ایمانی کا بہت موقع ہوتا ہے نیک آدمی کے واسطے مناسب نہیں کہ ایسی نوکری کرے.حضرت نے فرمایا.خود انسان اپنے ایمان کو سمجھ سکتا ہے کہ وہ کس کام کو تقویٰ کے لوازمات کے ساتھ پورا کرسکتا ہے.بے ایمانی کرنے والا تو نماز میں بھی بے ایمانی کرسکتا ہے.ہرجگہ نیکی اور بدی دونوں باتوں کا موقع موجود ہے.ملازمت چھوڑنے کی ضرورت نہیں اپنے ایمان کو قائم رکھو.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۴ نمبر۱۱ مؤرخہ ۲۵؍ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲) ایک بت پرست رئیس سے مکالمہ ایک بت پرست رئیس نے حضرت خلیفۃ المسیح سے بڑے تعجب کے ساتھ دریافت کیا تھا کہ مولوی جی ! آپ کے گھر میں کوئی بھی دیوی نہیں.جب آپ نے

Page 353

فرمایا.کوئی بھی نہیں.تو اس نے حیرت سے کہا.کیا درگا بھی نہیں.آپ نے فرمایا.نہیں وہ بھی نہیں.ہم تو ایک اللہ کے پرستار ہیں.اس پر وہ رئیس کچھ دیر تامل کرکے بولا.مولوی صاحب اب میں سمجھ گیا آپ لوگ دیوی دیوتا کے حدود سے باہر رہتے ہیں اس لئے ان کی ناراضی کا اثر آپ پر نہیں پڑتا اور ہم تو ان کی حدود کے اندر ہیں اس لئے بجز ان کی پرستاری کے چارہ نہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہمارے علاقہ سے کوئی نکل کرانگریزوں کے ملک میں چلا جائے تو پھرہمارے بس نہیں چلتا.خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ جناب آپ بھی دیوی دیوتا کی حدود سے باہر نکل سکتے ہیں کوئی بڑی محنت بھی نہیں کرنی پڑتی.صرف ایک کلمہ کہنے کی دیر ہے جو لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ ہے.(ماخوذ از امر بالمعروف.الفضل جلد۱ نمبر ۱۶ مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۹) عید کا خطبہ ایک ہے سوال.اخبار الفضل بابت ۳؍ستمبر ۱۹۱۳ء میں زیر عنوان ’’عید کے احکام‘‘ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’عید میں صرف ایک ہی خطبہ ہے بیٹھ کر پھر نہیں اٹھتے تھے ‘‘ چونکہ یہ ایک نئی بات تھی اس لئے میں نے ابن ماجہ ، نسائی ، مشکوٰۃ میں حدیثوں کا مطالعہ کیا.ابن ماجہ میں لکھا ہے(حَدَّثَنَا اِسْمٰعِیْلُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا اَبُو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ یَوْمَ فِطْرٍ اَوْ اَضْحٰی فَخَطَبَ قَائِمًا ثُمَّ قَعَدَ قَعْدَۃً ثُمَّ قَامَ(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلٰوۃ والسنۃ فیھا باب ما جاء فی الخطبۃ فی العیدین))اسی کی تائید میں نسائی میں بھی حدیث آئی ہے اور اسی حدیث کو لے کر امام نسائی نے یہ استدلال کیا ہے کہ دوخطبوں میں قعدہ مسنون ہے.صاحب تلخیص الجبیر نے بیہقی اور ابن ابی شیبہ سے اس روایت کی تائید کی ہے.جواب از خلیفۃ المسیح.عید کے دو خطبے میں نے کہیں احادیث صحیحہ میں نہیں دیکھے.ابن ماجہ کی حدیث میں اسمعیل بن مسلم ضعیف ہے اور نسائی کی حدیث میں عید کے دو خطبوں کا ذکر نہیں.ہاں جہاں دو خطبے ہوں جیسے جمعہ میں وہاں ہم خود بیٹھتے ہیں.نسائی کا خلاف نہیں کرتے اوّل

Page 354

شافعی والی حدیث میں عبد الرحمن بن سعد بن عمار سعد ضعیف ہے فرمائیے ہم کہاں صحیح حدیث کے تارک ہوئے.نور الدین (الفضل جلد ۱ نمبر۱۶مورخہ یکم اکتوبر۱۹۱۳ء صفحہ ۱۱) انبیاء کے طرز پر چلو فرمایا.انسان کی حالت عجیب ہے اگر ذرا سفید بال آجاویں تو کہتا ہے کہ میری عمر تو کچھ بڑی نہیں نزلہ ہوگیا تھا یا کچھ صدمہ پہنچا تھا اس سے بال سفید ہوگئے عمر تو چھوٹی ہے اور اگر ساٹھ سال کو پہنچ گیا ہے تو کہتا ہے اب بھی ضعف کیسے نہ ہو ستّر اسّی سال تو عمر ہوگئی ہے.غرض کسی زمانہ میں بھی اپنی کمزوری کو قبول نہیں کرتا، تعلّی اور بڑائی چاہتا ہے لیکن کمزوری کا یہ کمال ہے کہ جب کوئی نصیحت کرو اور انبیاء کے طرز پر چلنے کا طریق بتلاؤ کہہ دیتا ہے کیا میں نبی ہوں یا ولی ہوں؟ ایسے لوگ جھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ انبیاء کے اسوئہ پر چلیں اور اس پر بڑی تاکید فرمائی ہے.چار پیارے فرمایا.میں نے جب سے ہوش سنبھالی ہے صو۱فیاء ، فقہا۲ء ، محد۳ثین اور فلا۴سفر ہر چہار سے مجھے محبت رہی ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے کیونکہ وہ اپنی کتب میں چاروں کے جامع ہوتے ہیں.شریر سے قطع تعلق رکھو فرمایا.مومن کو چوکس رہنا چاہئے اور بدمعاش سے قطع تعلق رکھنا چاہئے ورنہ بدمعاش اور مومن اکٹھے رہتے ہوں تو جب اس پر عذاب آتا ہے اس پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے.ایک شخص جو آپ بیٹھا غرق ہورہا ہے ہم بھی اس کے پاس بیٹھے رہیں گے تو غرق ہوجائیں گے.تعجب فرمایا.مجھے تعجب آتا ہے کہ کانپور میں مرنے والوں کو اخباروں والے شہید کہتے ہیں حالانکہ کسی کو کیا معلوم ہے کہ کس نیت سے وہ وہاں گئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مرنے والے کے متعلق ایسا زور دینے سے منع کیا ہے کہ وہ ضرور ضرور بہشتی ہے.پھر تعجب ہے کہ ان مقتولین کے واسطے جنازے پڑھے جاتے ہیں حالانکہ شہداء کے واسطے جنازہ نہیں ہوتا.

Page 355

مولوی ابو القاسم صاحب فرمایا.میں نے ابوالقاسم نانوتوی صاحب کو دیکھا ہے بڑے تیز آدمی تھے، فلسفیانہ طبع تھے، ہر سوال کا جواب فوراً دیتے تھے.دیانند ان کے مقابلہ میں آنے سے ڈرتا تھا ایک دفعہ حدیث پڑھا رہے تھے ایک حدیث میں آیا کہ آخری زمانہ میں مال کم ہوگا اس کے بعد ایک اور حدیث آئی کہ کسی جگہ سونا نکلے گا.میں نے چاہا کہ سوال کروں ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ ’’حضور پہلی‘‘ تو فوراً سمجھ گئے اور جھٹ جواب دیا کہ میاں کیا تم نے چراغ بجھتا ہوا نہیں دیکھا.میں بھی جواب سمجھ گیا اور خاموش ہوگیا.مطلب یہ تھا کہ بجھتے بجھتے چراغ کی روشنی یک دفعہ آخر میں اٹھتی ہے یہ آخری جوش تھا.فرمایا.ان کی دوکتابیں بہت عمدہ ہیں مگر عبارت عام فہم نہیں.ایک تقریر دلپذیر دوسری قبلہ نما.ظاہر کا اثر باطن پر پڑے گا فرمایا.ایک شخص نے ہمیں خط لکھا ہے کہ ہندو جو مسلمانوں کے ساتھ عداوت و کینہ رکھتے تھے اب بظاہر انہوں نے وہ عداوت چھوڑ دی ہے مل بیٹھتے ہیں اور کسی ُبغض کا اظہار نہیں کرتے لیکن افسوس ہے کہ ان کے دل پہلے سے بھی زیادہ کینوں سے بھرے ہوئے ہیں اور اندر ہی اندر بہت دشمنی دل میں رکھتے ہیں.میں نے اس خط کو پڑھ کر بہت توجہ کی اور بالآخر مجھے یہی معلوم ہوا کہ یہ ظاہری محبت باطن پر بھی اثر کرے گی اور اندر کے کینے اور بغض بھی رفتہ رفتہ نکل جائیں گے.پس یہ خوشی کی بات ہے نہ کہ غم کی.باپ یا بیعت، مقدم کیا ہے؟ ملک اڑیسہ کے ایک نوجوان کا خط حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں مسیح موعود پر ایمان رکھتا ہوں لیکن اگر بیعت کا ارادہ ظاہر کرتا ہوں تو میرا باپ رونا دھونا شروع کردیتا ہے.فرمایا.اس کو کہا جائے کہ اگر تم اس کو اسلام سمجھتے ہو کہ مسیح موعود کو قبول کرو اور بیعت میں داخل ہو تو پھر باپ کو کرنے دو جو اس کا جی چاہے.باپ کو راضی رکھنے کی خاطر اسلام کو ترک نہیں کیا جاسکتا.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۴ نمبر۱۲ مؤرخہ۲؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱)

Page 356

قادیان کو مجازاً دمشق قرار دینا ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح سے کسی غزنوی نے اعتراض کیا کہ جب دمشق موجود ہے تو پھر قادیان کو کیوں دمشق قرار دیا گیا اور کیا وجہ ہے کہ مرزا صاحب مجازواستعارہ زیادہ مراد لیتے ہیں؟ اللہ نے آپ کو خبر دی کہ وہ اعتراض کرنے والے خود مجاز پر مجبور کئے جائیں گے.چنانچہ کچھ روز کے بعد ایک اس کے بزرگ کا اشتہار آیا جس میں لکھا تھا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ خَرِبَتْ خَیْبَرَ.پھر اس ملہم نے یہ لکھا تھا کہ خیبر سے مراد قادیان ہے.تب آپ نے فرمایا کہ اب بتائو خیبر کی موجودگی میں خیبر سے مراد قادیان کس قاعدے سے لیا گیا.اس کے بعد اس کے دوسرے بزرگ کا خط آیا جس میں الہام تھا مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْمِلَّۃِ الآخِرَۃِ اوراَلْمِلَّۃُ الْآخِرَۃِکے معنی ملّتِ محمدیہ لکھے تھے.آپ نے فرمایا.یہ قول ایک بڑے کافر و مشرک کا ہے اوراس نے ملت آخرہ سے مراد اپنے آباء کا رسمی دین لیا ہے مگر اب ملہم صاحب اس سے مراد ملت محمدیہ لیتے ہیں.کیا یہ مجاز نہیں ہے؟ تب وہ بہت نادم ہوا.(ماخوذ از تصدیق المسیح.الفضل جلد۱ نمبر ۱۸ مورخہ ۱۵ ؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۸) شاہ ولی اللہ صاحب کو زبان سیکھنے کی نصیحت برادر عزیز ولی اللہ شاہ نے مصر سے اپنے ایک خط میںلکھا کہ قرآن کے فہم کا لطف قادیان میں ہی ہے.یہاں کے لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر سمجھتے نہیں.حضرت خلیفۃ المسیح نے انہیں جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ آپ اس واسطے وہاں نہیں گئے کہ مصریوں سے قرآن پڑھیں بلکہ آپ کا یہ کام ہے کہ وہاں زبان سیکھیں اور قادرالکلام ہو کر اہل مصر کو قرآن پڑھائیں.بیعت کا خط اور اس کا جواب ایک نوجوان جو ولایت میں انجینئر کلاس میںتعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے متعلقکئی مہینوں سے خواجہ صاحب اطلاع دے رہے تھے کہ وہ متاثر ہورہا ہے.آخر اس نے اب سلسلہ عالیہ میں داخل

Page 357

ہونے کے لیے خواجہ صاحب کی خدمت میں درخواست کی کہ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں.ان کی اصل درخواست اس وقت راقم کے پاس موجود ہے.اس پر خواجہ صاحب نے انہیں ہدایت کی، ہمارے سلسلہ کے امام حضرت خلیفۃ المسیح ہیں میں خود ان کے ہاتھ پر بکا ہوا ہوں آپ بھی ان کی خدمت میں بیعت کا خط تحریر کردیں.چنانچہ انہوں نے خواجہ صاحب کی معرفت بیعت کا خط بھیجا ہے.ان کے اشتیاق کو ظاہر کرنے کے لیے ان کے خط سے ناظرین کے لیے کچھ اقتباس پیش کرتا ہوں.’’چند ماہ سے سخت اشتیاق تھا کہ میں جناب والا کی بیعت کا فخر ہندوستان پہنچ کر کروں گا مگر اب دل میں قرار باقی نہیں رہا کہ اپنی واپسی تک اس ثواب سے محروم رہوں.جناب خواجہ صاحب کی خط و کتابت اور ان کے مضامین اور ان کے واحد مثال نے طبیعت میں ایک ایسی تڑپ پید اکردی ہے کہ طبیعت کو چین لینے نہیں دیتی اور اس کا درمان اسی میں ہے کہ جناب کی بیعت کا جتنی جلدی بھی فخر حاصل ہو اتنا ہی اس کمترین کے حفر میں بہتر ہوگا.‘‘ اس پر حضرت خلیفۃ المسیحؑ نے ان کی طرف اپنے دست مبارک سے خط تحریر فرمایا ہے جس کی نقل ذیل میں ہے.عزیز مکرم ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آپ کے فرحت نامہ میں کوثر کا لفظ پڑھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام سے سچی محبت، قرآن کریم سے دلی تعلق اور اس کے فرمانوں پر چلنے کی پوری توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ صداقت، سچائی، ہمت بلند، استقلال بخشے.بد صحبت، بری کتابوں سے بچائے.بے استقلال انسان بابرکت نہیں ہوسکتا.ثُمَّ اُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَقَدْ فَازَ الْمُتَّقُوْنَ.نورالدین بقلم خود ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء راقم صدرالدین ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء (ماخوذ از اخبار قادیان البدر جلد۱۴ نمبر ۱۳،۱۴ مؤرخہ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲) ہجرت ایک صاحب نے ہجرت کا ارادہ ظاہر کیا.حضرت نے انہیں فرمایا.

Page 358

ہجرت میں کئی ایک مشکلات ہیں.اوّل مکان چاہئے، پھر کپڑا، خوراک اور دیگر ضروریاتِ انسانی.حدیث میں آیا ہے اِنَّ شَأْنَ الْھِجْرَۃِ لَشَدِیْدٌ(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب المبائعۃ بعد فتح مکّۃ علی الاسلام والجھاد والخیر و بیان معنی لا ھجرۃ بعد الفتح).اس میں کئی قسم کے ابتلاء ہیں.ہرایک کا کام نہیں کہ ہجرت کرے.ہاں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی خاطر ہجرت کرے گا اسے زمین میں فراخی عطا ہوگی مگر اس کے واسطے عالی ہمت اور استقلال چاہئے.کیا مسیح کو نہ ماننے والے مسلمان ہیں؟ ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ غیراحمدیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں؟ فرمایا.میرے خیال میں مسلمان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو مانے.ایک شخص اگر مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو مدعی دو حال سے خالی نہیں، یا تو وہ جھوٹا ہے تب تو اس سے بڑھ کر کوئی شریر نہیں اور اگر وہ سچا ہے تو اس کو نہ ماننے والا خدا تعالیٰ سے جنگ کرتا ہے.خواجہ صاحب کو ایک خط عزیز فتح محمد ۲؍ جولائی کو جہاز پر سوار ہوگیا آپ اس سے بہ محبت کام کام لیں غرباء سے کام زیادہ نکلتا ہے کیونکہ ان کا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے نہ کہ اپنے علم اور لیاقت پر.قرآن کریم بہت پڑھو اور سناؤ عجب کتاب ہے.دعا، تضرع، توبہ، ہمت بلند اور استقلال سے کام لو.لیور پول میں عبداللہ کوئیلم کے احباب میں سے کوئی ہوگا اس کا پتہ لو.دعائیں بہت کرو.دینی ذکر ضرور ہو فرمایا.میرے ایک دوست تھے ان کا نام فضل اللہ تھا مکہ کے باشندے تھے.ایک دفعہ میں نے ان کو ایک خط لکھا.کتابوں کا مجھے بہت شوق تھا صرف کتابوں کے متعلق کچھ لکھ دیا اور وہ تاجر کتب بھی تھے میرا کام تو انہوں نے کردیا مگر بڑی شکایت کی کہ آپ نے پیسے بھی لگائے اور تحریر بھی کی مگر اس میں دین کا کوئی حصہ نہ ہو بہت افسوس ہے.اس زمانہ سے لے کر کہ پرانا زمانہ ہے آج تک مجھے ایسا روکھا خط جس میں تذکرہ دین کا نہ ہو ناپسند ہوتا ہے اور وہ فضل اللہ مجھے یاد آجاتے ہیں.مفقود الخبر کی بی بی کا نکاح سوال ہوا کہ ایک شخص تین سال سے مفقودالخبر ہے اور بی بی خرچ

Page 359

سے لاچار، کیاکرے؟ فرمایا.قرآن شریف کی رو سے جائز ہے کہ اس کا نکاح اور کردیا جاوے.ہاں قانون ملکی کے متعلق پہلے حکام کی معرفت فیصلہ کرلینا چاہئے.(ماخوز از کلام امیر.البدر جلد ۱۴ نمبر ۱۵ مورخہ ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲) مناظرہ اور اس کے اصول مباحث کے متعلق ایک صحبت میں ارشاد کیا کہ اس بستی کے امراء شرفاء کا بیچ میں ہونا اور مجسٹریٹ کی اجازت اور پولیس کا انتظام اور تحریری مباحثہ اور پرچوں کی تعداد محدود اور اوقات کا تقرر اور پہلا پرچہ مخالف کا، یہ نہایت ضروری ہے.یہ اصول مناظرہ میں نے قرآن مجید سے نکالے ہیں.اور بالآخر دعا سے بہت کام لیا جائے اور کبھی اپنے علم پر گھمنڈ نہ ہو اور ہار جیت و شہرت کا منشاء بلکہ محض احقاق حق للہ فی اللہ گفتگو کی جائے.(ماخوذ از مدینۃ المسیح.الفضل جلد۱ نمبر ۲۰ مورخہ ۲۹ ؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱) احباب کے اصلاح اعمال کی فکر آپ نے دو تین بار فرمایا کہ تم خود ہی بتائو میں تمہیںکس طریق سے سمجھائوں کہ تمہارے اعمال کتاب و سنت کے مطابق ہوجائیں.اس پُردرد فقرہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کو ہماری اصلاح کا کہاں تک خیال ہے.آپ جمعرات ۳۰؍ اکتوبر کو دارالعلوم میں ٹانگہ پر تشریف لے گئے.پہلے مولوی شیر علی صاحب بی اے کے مکان کی بنیاد رکھی.دو اینٹیں خود اپنے دست مبارک سے اور تیسری صاحبزادہ صاحب کے ہاتھ سے.پھر مدرسہ و دارالمقام کی عمارت کا ملاحظہ فرمایا.کرکٹ کھیلنے کے لئے مالی مدد کرنے کا اظہار لڑکوں کے بہت سے کھیل دیکھے اورفرمایا.کرکٹ کیوں نہیںکھیلتے.ہم اس میں روپیہ دیں گے.(ماخوذ از مدینۃ المسیح.الفضل جلد۱ نمبر ۲۱ مورخہ ۵ ؍ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱) اصلاح احباب اور تعلیم القرآن کی فکر ۶؍ نومبر ۱۹۱۳ء کو فرمایا.

Page 360

رات میری ایسی نازک حالت ہوگئی کہ سمجھا بس اب خاتمہ ہے.اس وقت بھی مجھے یہی خیال تھا کون سی ایسی تجویز ہو کہ تم مان جائو.پھر صاحبزادہ بشیر احمد کو فرمایا.میاں کل جمعہ ہے مگر تم آجانا اگر زندگی باقی ہے تو تمہیں ہفتہ کے روز قرآن ختم کرا دینے کا ارادہ ہے ورنہ میرے بعد اپنے بھائی صاحب سے ختم کر لینا.قربانی کا فلسفہ سوموار ۱۰؍ نومبر کو عید ہوئی.دس بجے حضرت خلیفۃ المسیح نے نماز پڑھائی.خطبہ میں قربانی کی فلاسفی بیان فرمائی کہ تمام کارخانہ عالم قربانیوں پر چل رہا ہے.صحیفہ قدرت سے اس کی بہت سی مثالیں دیں.پھر فرمایا.کوئی آرام، کوئی انعام بغیر قربانی کے نہیں مل سکتا.جانوروں کی قربانیاں تمہیں سکھاتی ہیں کہ تقرب الی اللہ کے لئے اپنی خواہشات اپنے معتقدات پھر اپنی نفسوں کی قربانیاں دو اور اس کے لئے تیار رہو.(ماخوذ از مدینۃ المسیح.الفضل جلد۱ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۲ ؍ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱) آپ کا ایک الہام حضور نے اپنا الہام سنایا.لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ.(ماخوذ از مدینۃ المسیح.الفضل جلد۱ نمبر۲۳مورخہ ۱۹؍نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱) فصل الخطاب اگرچہ کئی ایک اخباروں میں یہ عاجز شائع کر چکا ہے کہ چار سو درخواست آنے پر اس کے چھاپنے کا انتظام کردیا جائے گا لیکن اب چونکہ امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح والمہدی نے محض خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے قیمتی وقت سے کچھ حصہ اس کی تصحیح و ترمیم پر خرچ کرنا شروع کردیا ہے اور بلکہ کچھ حصہ کتاب حضور نے تصحیح فرما کر اس عاجز کو دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کتاب بہت اصلاح طلب ہے.غرضیکہ ایک سو درخواست ہونے پر میں حضرت کی خدمت میں بمشورہ اور دعا کی خاطر حاضر

Page 361

خدمت ہوا.آپ نے زبان مبارک سے فرمایا.دو سو ۲۰۰درخواست پر کام شروع کرو.اور بلکہ آپ نے مکرر فرمایا.ہماری طرف سے پھر لکھو کہ دو سو ۲۰۰درخواست آجانے پر....شروع کیا جاوے گا.چنانچہ آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ دو سو کی تعداد پوری ہونے پر انشاء اللہ کام شروع ہوگا.درخواستیں بنام محمد یمین احمدی تاجر کتب قادیان شریف ہوں.(البدر جلد ۴ نمبر ۱۷،۱۸ مورخہ ۶.۱۳؍ نومبر۱۹۱۳ء صفحہ ۳) فرزند کی ولادت کا نشان ہمارے موجودہ امام اور سب سے بڑے احمدی کا وجود اپنے آقا کے راستباز ہونے کی سب سے بڑی شہادت ہے اس کی اولاد مرزا غلام احمد مامور من اللہ ہونے کا نشان ہے.اس کی زندگی اس کی بیماری پیارے مہدی کے دعاوی و صداقت کی مصدق ہے.آج ہم اپنے ناظرین کو وہ مژدہ جان فزا سناتے ہیں.اس نشان کا پتہ دیتے ہیں جو دہریہ کو ساکت کرنے اور خدا کے منکر کو مبہوت کرنے کے لئے شہاب ثاقب ہے یعنی حضرت خلیفۃ المسیح کے ہاں اللہ تعالیٰ نے ایک موعود بیٹا آج ۱۸؍ نومبر ۱۳ء کو عطا فرمایا.یہ موعود اس لئے زبردست نشان ہے کہ اس کی خبر اس زمانہ میں دی گئی تھی جب جماعت کے مخلصین کو قوت کی ظاہری حالت دیکھ کر بے چینی ہو رہی تھی اور انسانی آنکھ و قیاس ہرگز یہ گمان نہ کرسکتے تھے کہ نور الدین کی زندگی کا آفتاب غروب ہو نے سے رک جائے گا.بڑھاپا، گھوڑے سے گرنا ، دیر تک بیمار ہو کر سخت لاغر ہوجانا سخت مایوسی پیدا کررہے تھے.اس وقت حضور نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میری جیب میں کسی نے ایک روپیہ ڈال دیا.اس کی تفہیم یہ ہے کہ ایک لڑکا ہوگا.عجیب بات ہے کہ بظاہر مجھے زیست کی امید نہیں اور اس وقت قوائے رجولیت بھی موجود نہیں.۱؎ مولود مسعود کا نام محمد عبد اللہ رکھا گیا.خدا مبارک کرے اور اسم بامسمّی بنائے.گزشتہ دو شنبہ کو عزیہ کا عقیقہ اور ختنہ ہوا.سب طرف سے مبارکباد کے خطوط آرہے ہیں حضرت جواب میں ’’جزاکم اللہ‘‘ فرماتے ہیں اور دعا کرتے ہیں.۲؎ ۱؎(ماخوذ از اخبار قادیان البدر جلد۱۴نمبر ۱۷ تا ۱۹ مورخہ ۲۰؍ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲) ۲؎(ماخوذ از اخبار قادیان البدر جلد۱۴نمبر ۲۰ مورخہ ۲۷؍ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲)

Page 362

بعثت انبیاء فرمایا.دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم و غریب نوازی سے ہمیشہ انسان کی فطرت کو جگانے اور سیدھا کرنے کے لیے اپنے بندے بھیجے.ہرایک جگہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے آتے رہے، نیکیاں سکھاتے رہے اور نیک نمونہ بنتے رہے.ان میں سے ایک حضرت موسیٰ بھی تھے.میری سمجھ میں جو نبی کہتے ہیں اس کی فطرت گواہ ہے، عقل گواہ ہے، وجدان صحیحہ، نورمعرفت، نورایمان، تجربہ، مشاہدہ، اگلی کتابوں میں تعلیم، تصدیق کرتے ہیں.اتنی باتوں کے بعد جو نہ مانے تو بڑا بے وقوف ہے.نصیحت جو لوگ بزرگوں کو برا کہتے ہیں وہ ضرور کسی بدی میں گرفتار ہوتے ہیں.جس کسی کو لوگ اچھا کہتے ہوں تم کبھی اس کو برا نہ کہو.مصائب اپنی ہی بد عملیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں فرمایا.آدمی کو جب کبھی بیماری آتی ہے یا کوئی اور تکلیف یا مصیبت وارد ہوتی ہے تو اس کے متعلق قرآن کریم نے یہ قاعدہ بتایا ہے کہ (الشورٰی:۳۱) جو مصیبت آئی ان کے اپنے ہی کرتوتوں سے آئی.ابھی تھوڑے دن ہوئے کہ مجھ کو الہام ہوا تھا.لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں.اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ.الخ.یہ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں.پھر تکلیفیں یا مال کے ذریعہ ہوتی ہیں یا جان پر پڑتی ہیں یا بیوی بچوں کے ذریعہ آتی ہیں یا آبرو خراب ہوتی ہے یا رشتہ داروں کے ذریعہ سے یا ملک پر.اور اس کے علاوہ ایک اور زبردست مصیبت ہے جو سب سے بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے انسان کا بُعد ہوجاتا ہے.اس کے متعلق دو آیتیں میں پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 363

(التوبۃ:۷۷) ترجمہ.اللہ تعالیٰ کا وعدوں کے خلاف کرنے اور جھوٹ بولنے کے سبب ان کے دلوں میں نفاق پڑگیا اس دن تک کہ وہ اللہ کے حضور میں حاضر ہوں.دوسری آیت.(البقرۃ:۷،۸) اس کے لطیف معنے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتائے ہیں.ایک آدمی ایسا شریر ہوتا ہے اور گندا ہوتا ہے کہ جب اس کو اس کی بھلائی کے لیے کوئی بات کہتے ہیں تو معاً وہ انکار کر جاتا ہے.اس کو اس خیرخواہی پر ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی اس واسطے اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے.میں نے بارہا یہ کہا ہے کہ میں تم سے کسی بات کا خواہش مند نہیں.اپنی تعظیم کے لیے تمہارے اٹھنے کا محتاج نہیں.تمہارے سلام تک کا محتاج نہیں.باوجود اس کے میں کسی کو کچھ کہتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں لیکن ایسے بھی ہیں کہ ابھی تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو نصیحت کی اس نے مجھ کو دو ورق کا خط لکھ کردیا.خلاصہ کلام جو انسان کو دکھ پہنچتا ہے تو کسی گناہ کے ذریعہ سے اس کو پہنچتا ہے.بے فائدہ بحثیں نہ کرو ایک شخص کا خط پیش ہوا کہ ایک جگہ احمدیوں میں یہ بحث ہورہی تھی کہ فرشتے جسم رکھتے ہیں یا بے جسم ہیں اس پر حضرت خلیفۃ المسیح رنجیدہ خاطر ہوئے کہ ہماری جماعت کے لوگ کن نکمی بحثوں میں لگ جاتے ہیں.کیا ان کے پاس دین دنیا کا کوئی مفید کام نہیں یا وہ سب کام انہوں نے ختم کرلیے ہیں.فرمایا.مِنْ حُسْنِ الْاِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنۃ).انسان کے اسلام کی خوبی اس بات میں ہے کہ بے فائدہ باتوں کے پیچھے نہ پڑے.اگر فرشتے جسم کے ہیں تو اس سے تم کو کیا مل جاوے گا اور اگر جسم کے نہیں تو تمہارا کیا نقصان

Page 364

ہوگا اور اگر یہ علم تم کو حاصل ہوگیا تو دین دنیا میں کون سی نیکی ہے جو اس کے ذریعہ سے تم کماؤ گے.اگر کوئی فائدہ حاصل نہیں تو پھر قرآن شریف کی اس آیت پر کیوں عمل نہیں کرتے کہ   (المؤمنون:۲تا۴)تحقیق بامراد اور کامیاب ہوئے وہ مؤمن جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہیں اور وہ جو بے فائدہ باتوں سے کنارے میں رہتے ہیں.آج تک انسان اپنی بناوٹ کی حقیقت سے تو آگاہ نہیں ہوا پھر فرشتوں کی بناوٹ پر بحث کرنے سے کیا حاصل.تو کارِزمین کے نکوساختی کہ باآسمان نیز پرداختی اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے. (الکہف:۵۲)آسمان زمین کے پیدا کرنے کے وقت میں نے ان لوگوں کو سامنے کھڑا نہیں کر رکھا تھا کہ یہ اس کو دیکھتے اور شاہد حاضر بنتے بلکہ یہ اپنی پیدائش کے وقت کے بھی گواہ نہیں.ملائکہ کے متعلق شریعت میں لفظ جسم کا نہیں آیا پس ہم جسم کا لفظ نہ بولیں اور ان کی بناوٹ کی کیفیت کو خدا پر چھوڑیں.اس سے زیادہ اس معاملہ میں گفتگو نامناسب ہے.فضل درکار ہے فرمایا.نیک اولاد بھی اللہ کے فضل سے ہی ملتی ہے.ایک امیر تھا.میں اس کے پاس رہتا تھا.اس نے مجھے کہا کہ بڑے بڑے دکھی، بیمار، آتشک کے مارے ہوئے میرے بیٹوں کو دکھایا کرو.میں بڑے بڑے بدکار، آتشک کے مارے ہوئے، جن کے عضو تناسل گرگئے تھے ان کو دکھایا کرتا تھا.باپ کی غرض یہ تھی کہ یہ بدیوں سے بچ جاویں لیکن اس کے بیٹے بڑے بدکار نکلے جس سے ان کے باپ کا دل خوش نہ ہوا.افسوس ہوتا ہے.قارون فرمایا.قارون کو الہام بھی ہوتے تھے کشف ،بھی خواب بھی آتے تھے جیسا کہ آج کل بھی بعض لوگوں کو ایسے خیال آتے ہیں لیکن آخرکار جب قارون نے حضرت موسیٰ سے مباہلہ کیا تو اس

Page 365

مباہلہ میں ہلاک ہوگیا.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد۱۴ نمبر۲۰ مؤرخہ ۲۷؍ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲،۳) ہر طرح کے شرک سے بچو برادر سراج الدین صاحب احمدی پنجابی سرسہ سے اپنی حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ ملاقات کا کچھ ذکر ہدیہ ناظرین کرتے ہیں.برادران سلسلہ عالیہ احمدیہ ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خاکسار ۳ ؍ نومبر ۱۹۱۳ء بروز سوموار ۱۰ بجے دارالامان پہنچا.حضور خلیفۃ المسیح کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف زیارت سے مشرف ہوا.اس دن حضرت خلیفۃ المسیح کو ابھی سخت درد تھی.باوجود درد کی تکلیف کے حضور مریضوں کو نہایت شفقت سے ملاحظہ فرما کر نسخے دے رہے تھے.پھر درد سے زیادہ تکلیف ہوجانے کے سبب سے مکان میں تشریف لے گئے.اس وقت ڈاکٹر صاحب آئے تھے تو درد پر پلستر لگانے کا مشورہ دیا تھا.آپ نے فرمایا.اچھا لگا دینا.پھر حضور عصر تک باہر تشریف نہ لائے.بعد عصر کے درس کے لئے تشریف لائے اور مسجد اقصیٰ کی طرف چلے.درد وغیرہ سے اس قدر کمزوری تھی کہ ایک وقت راستہ میں بیٹھ کر مسجد تک پہنچے.لیکن امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے اپنی بیماری کی پرواہ نہیں.یہی تڑپ ہے کہ لوگ قرآن کریم پر عامل ہوں.مسجد میں بیٹھتے ہی خاکسار نے رقعہ پیش کیا جس میں خاکسار نے لکھا تھا کہ بندہ اس سال اپنے خسر کے ہمراہ ضلع الٰہ آباد جاتا ہے اور امسال بہت پچھڑ کر جاتا ہے.حضور دعا فرماویں نیز بندہ کے ہمراہی امرتسر سے آگے کانپور کی طرف چلے گئے ہیں اگر اجازت ہو تو بندہ جاکر ان کو کانپور مل جاوے.رقعہ پڑھتے ہی فرمایا.پچھڑنا کیا ہوتا ہے؟ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرو وہی روزی دینے والا ہے.پھر کیا پچھڑنا ہوا.خدا پر بھروسہ چاہیے.پھر فرمایا.روزی دینے والا خدا ہے وہ اپنے فضل سے دیتا ہے.کیا اس نے روزی کے لئے کوئی وقت بتایا ہے.وہ محض اپنے فضل سے جب اور جس طرح چاہتا ہے روزی دیتا ہے.اسی پر بھروسہ چاہیے.

Page 366

باوجود اتنی بار فرمانے کے بندہ تو صرف نصیحت ہی سمجھا تھا کہ نصیحت فرما رہے ہیں لیکن حضور کو میرا پچھڑکر جانا کہنا سخت برا معلوم ہوا کیونکہ پھر میں نے عرض کی.حضور میں نے رخصت کے لئے عرض کی تھی.کیا آج میں رہ جائوں.اس پر حضور نے فرمایا.جائو چلے جائو.ہم نے تو اجازت دے دی ہے لیکن تم نے یہ شرک بنایا ہے.پچھڑنا جو لکھا ہے پچھڑنا کیا ہوتا ہے؟ خدا ہی پر بھروسہ چاہیے.روزی کا اس نے وقت نہیں رکھا.(البدر جلد ۱۴ نمبر ۲۱ مورخہ ۴؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۶) سورۃ زخرف کی ابتدائی آیات کی تفسیر ۶؍ دسمبر ۱۹۱۳ء کو حضور نے سورہ زخرف کا ابتداء پڑھ کر فرمایا.۱.(الزخرف:۴)میںجَعَلْنَا پر بڑی بڑی بحثیں ہوئی ہیں کیونکہ مسلمانوں میں ایک فرقہ قرآن کو مخلوق اس بناپر کہتا ہے.امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ جَعَلَ کا لفظ بولو نہ کہ خَلَقَ کا.کے معنے بَیَّنَّاہُ (بیان کیا ہم نے).ان معنوں کے رو سے کوئی مشکل نہیں پڑتی.۲.(الزخرف:۵)کے متعلق فرمایا کہ اس پر بھی مفسرین نے بہت بحث کی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص فضل کیا اور اس کے معنے سمجھائے کہ اَلْکِتٰبِ سے مراد تورات ہے اور اُمّ کے معنے محکمات.تو مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی پیشگوئی تورات کے محکمات میں موجود ہے.چنانچہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کو پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے.۳.فرمایا.(الزخرف:۵) سے(بنی اسرائیل:۵) کے معنے حل ہوتے ہیں.فرمایا.جیسے تمہارے خطا کار ہونے سے ہم اس قرآن مجید کے بھیجنے سے نہیں رک سکتے ایسے ہی نشانات بھیجنے سے ہمیں یہ بات نہیں روک سکتی کہ پہلوں نے جھٹلا یا.۴.فرمایا.ہم بچپن سے سنتے تھے کہ گھوڑے کی ایک رکاب میں پائوں رکھ کر دوسری میں رکھنے تک

Page 367

مولیٰ مرتضیٰ قرآن مجید پڑھ لیا کرتے.اب اس کا مطلب سمجھ میں آیا کہ جزو قرآن بھی قرآن ہے.پس اس سے یہ مراد ہے کہ وہ آیت (الزخرف:۱۴،۱۵) پڑھ لیتے تھے.۵.فرمایا.علماء میں بحث ہے کہ جس گائوںمیں طاعون ہو اس کے باشندوں کو باہر ڈیرہ لگانا چاہیے یانہیں.(الزخرف:۱۲) سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے کیونکہ بارش اس گائوںکی زمینوںکو تروتازہ و شاداب کرتی ہے نہ مکانوں کو.پس گائوں سے نکل کر اس کی زمین میں ڈیرہ لگانا منع نہیں.(ماخوذ از مدینۃ المسیح.الفضل جلد۱ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۰ ؍ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱) مسائل قرآن فرمایا.قرآن شریف میں بعض مسائل ایسے بھی ہیں جو خاص قسم کے انسانوں کے واسطے ہیں.مثلاً مسائل حیض صرف عورتوں کے واسطے ہیں مگر بعض مسائل ایسے ہیں جو سب کے واسطے برابر ہیں.انسانی اختلاف و اتفاق فرمایا.آدمیوں کے درمیان اختلافات بہت ہیں.ہر ایک کا کھانا، پینا، پہننا،مال و دولت، مکانوں کا نشیب و فراز سب جدا ہے.اس اختلاف کا کوئی حد بسط نہیں.لیکن باوجود اس کے اتفاق بھی ہے اور اگر اتفاق نہ ہو تو انسان کا زندہ رہنا مشکل.عرب اور یاغستان میں بھی خواتین اور شریف اور امیر ہیں جن کی ماتحتی پر اتفاق کرکے لوگ وہاں امن پاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جتنی کوئی سلطنت بڑی ہوتی ہے اس کا امن بھی بڑا ہوتا ہے.سلطنت برطانیہ کے ذریعہ سے جو اتفاق ہے اس سے فائدہ اٹھا کر ہم لنڈن، ہند، کینیڈا اور آسٹریلیا تک کی اشیاء منگوا سکتے ہیں.انسان بالکل شتربے مہار نہیں رہ سکتا.کوئی کسی قسم کی جوتی یا کپڑا پہنے ہمیں اس اختلاف سے غرض نہیں ہم صرف ان باتوں میں اتفاق چاہتے ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائیں.فَحُکْمُہٗ اِلَی اللّٰہِ ہر وقت مدنظر رہے.ایام علالت میں ڈاکٹرز کی خدمت فرمایا.جب میں بہت بیمار ہوگیا تھا تو ان ایام میں ہمارے ڈاکٹروں نے میری بڑی خدمت کی.ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب رات کو بھی آتے رہتے انہوں

Page 368

نے بہت ہی خدمت کی میرا رونگٹا رونگٹا ان کا احسان مند ہے.ایسا ہی ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب بہت خدمت کرتے رہے ہیں مگر ان کو میرے بچنے کی امید نہ تھی.ایسے وقت نے خدا تعالیٰ نے ایک بیٹے کی بشارت دی جو اب پوری ہوئی.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ.(ماخوذ از کلام امیر.البدر جلد ۱۴ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۱؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲) جھگڑے کی باتوں سے بچو حضور نے نہایت درد دل سے فرمایا.مَا ضَلَّ قَوْمٌ مِّنَ الْحَقِّ اِلَّا اُوتُوا الْجَدَلَ.ہدایت کے بعد قوم گمراہ ہوتی ہے تو اس وقت کہ وہ باہم جھگڑا کرنے لگیں.پس تم جھگڑے کی باتوں سے بچو.(ماخوذ از مدینۃ المسیح.الفضل جلد۱ نمبر ۲۷ مورخہ ۱۷ ؍ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱) ملتان جلسہ پر جانے والے وفد کو نصائح احباب ملتان نے اپنے اہل وطن پر حجت پوری کرنے کے لئے ایک جلسہ کی اجازت حضرت خلیفۃ المسیح سے حاصل کی جو ۲۹، ۳۰؍ نومبر ۱۹۱۳ء کو منعقد ہوا اور احباب کے اصرار پُر تکرار پر حضرت خلیفۃ المسیح نے صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو بھی اجازت دے دی کہ ملتان تشریف لے جائیں اور آپ کے ہمراہ حافظ روشن علی صاحب اور مولوی سرور شاہ صاحب اور عاجز راقم (یعقوب علی عرفانی) کو جانے کا حکم دیا اور بعض احباب لاہور کی درخواست قبولیت میں صاحبزادہ صاحب کو فرمایا کہ خطبہ جمعہ لاہور میں پڑھیں.اس واسطے ۲۷ کی شام کو ہمارا قافلہ قادیان سے چلا.جب ہم حضرت خلیفۃ المسیح سے رخصت ہونے لگے تو آپ نے ہم سب کو دعا کرکے رخصت کیا.فرمایا.میں نے بہت دعا کی ہے.ملتان میں شیعہ بہت ہیں پر تم چار یار وہاں جاتے ہو نرمی سے وعظ کرو، سخت کلامی نہ کرو، دعاؤں سے بہت کام لو، امیر بنا بنایا تمہارے ساتھ ہے.(ماخوذ از سفر ملتان.البدر جلد ۱۴ نمبر ۲۳ مورخہ ۱۸؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۳) شَجَرَۃَ الزَّقُّوْمِ طَعَامُ الْاَثِیْم فرمایا.جوانی میں طبیعت بڑی دلیر تھی.بعض اوقات میں

Page 369

فکر کرتے کرتے دور تک پہنچ جاتا تھا.ایک دفعہ ایک آتشک زدہ میرے پاس آیا.میں نے جی میں کہا آئو اس کا قرآن مجید سے جو شفا ہے علاج کریں.فرماتا ہے.(الدخان:۴۴،۴۵).اس لئے میں نے پیغمبری جو میں تھوہر ملا کر ٹکیاں بنائیں اور اسے ایک ٹکیا کھلا دی.تھوڑی دیر کے بعد بیمار نے یہ کہنا شروع کیا کہ مجھے تو آگ لگ گئی ہے.میں نے کہا.گرم پانی پیو.غرض (الدخان:۴۶تا۴۹) کا نظارہ پیش نظر ہوگیا.آخر اسی نسخہ سے اس نے صحت پائی.دوزخ میری دانست میں ہسپتال ہے وہاں گندی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے.جب بیمار اچھے ہوجاتے ہیں نکال لئے جاتے ہیں.جزیہ بعض نادان جزیہ پر اعتراض کرتے ہیں اور اسے انتہا درجہ کا ظلم قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ ایک قسم کا ٹیکس ہے اور ایسے ٹیکس ہر سلطنت میں ہوتے ہیں.میں نے کپڑوں پر ، گھوڑوںپر، دوکانوں پر غرض ہر چیز پر ٹیکس دیکھا ہے.مدرسہ، سڑکانہ، مالگزاری کے ساتھ وصول کیا جاتا ہے پھر فیس الگ.بر خلاف ان کے یہ ٹیکس جس کا دوسرا نام جزیہ ہے ایک بہت ہی قلیل رقم ہے مثلاً ایک کروڑ روپیہ کسی مسلمان کے پاس ہے تو اسے اڑھائی لاکھ روپیہ زکوٰۃ کا دینا پڑے گا مگر ایک غیر مسلم کو صرف ساڑھے چار دینے پڑیں گے اور اس کے معاوضہ میں اس کے جان و مال کی حفاظت کی جائے گی اور مسلمان کو تو علاوہ اڑھائی لاکھ کے جان بھی دینی پڑتی ہے.باوجود اس فرق بین کے پھر بھی یہ کہنا کہ مسلمانوںنے اپنی حکومت کے زمانے میں غیر مسلموں پر ظلم کیا اور ان پر جزیہ لگایا حد درجے کی بے انصافی ہے.اہل کتاب عیسائیوں ، یہودیوں کے علاوہ مجوس بھی اہل کتاب میں داخل ہیں جو وید کو کتاب اللہ مانتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اکبر نے ان کی عورتوں سے نکاح کیا.علماء نے اس معاملہ میں اس کی کچھ مدد نہ کی حالانکہ وہ عین شریعت کے مطابق یہ کام کرتا تھا.

Page 370

اکبر اور جہانگیر ایک سکھ نے مجھ سے پوچھا.اکبر اچھا تھا یا جہانگیر.میں نے کہا.اکبر.تو وہ بہت خوش ہوا.جب اس کی وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ اکبر اس لئے اچھا تھا کہ وہ بہ نسبت جہانگیر کے بہت متعصب تھا.ہندوؤں میں سب سے بڑی چیز ذات اور گوت ہی ہے.ورنہ یوںتو ان میں خدا کو ماننے والے نہ ماننے والے سب قسم کے لوگ موجود ہیں.اکبر نے اپنی اور اپنے خاندان کی شادیوں سے اسے بھی مٹا دیا.(ماخوذ از کلام امیر.الفضل جلد۱ نمبر ۲۹ مورخہ ۳۱ ؍ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۶) حضرت عمر کی شہادت کی ایک وجہ فرمایا.میرے نزدیک حضرت عمرؓ کی یہ پہلی غلطی تھی کہ بڑے بڑے قیدی جو آئے تھے انہیں وہیں رکھ لیا.بڑے بڑے مخالفوں کو دارالخلافہ میں رکھنا بہت خطرناک بات ہے.آخر اس کا نتیجہ آپ کی شہادت کی صورت میں ظاہر ہوا.بمطابق احادیث امام کے اختیارات فرمایا.بخاری کی احادیث پر اگر سرسری نظر کی جائے تو امام کے اختیارات کا علم ہوتا ہے.ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.لَوْ قَدْ جَائَ نَا مَالُ الْبَحْرَیْنِ قَدْ اَعْطَیْتُکَ ھٰکَذَا وَ ھٰکَذَا وَ ھٰکَذَا(صحیح بخاری کتاب الجزیۃ باب اقطع النبی ؐ من البحرین و ما وعد من مال البحرین) اسی طرح ایک خون بہا حضور نے بیت المال سے دلایا.فَعَقَلَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِہٖ(المختصر النصیح فی تھذیب الکتاب الجامع الصحیح کتاب الدیات باب القسامۃ) اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں کیوں چٹی پڑی.بس امام نے صدر انجمن کے دفتر سے دلایا.غلطی کا خمیازہ فرمایا.آدمی بات تو منہ سے نکال بیٹھتا ہے اور پھر کہتا ہے غلطی ہوگئی مگر اس غلطی کا خمیازہ اٹھانا پڑتا ہے.انصار کے نوجوانوں نے مال کے متعلق ایک بات کہی.حضور نے فرمایا.اب تم قیامت تک سلطنت سے محروم رہو گے.البتہ حوض پر مجھے ملنا وہاں تمہیں اجر ملے گا.جہاز اور ان سے استفادہ فرمایا.یہ جو سودیشی بدیشی لئے پھرتے ہیں  (الروم:۴۷) نے اس کا قلع قمع

Page 371

کردیا.جہاز تو اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ہیں اور تبادلہ اشیاء کے لئے.پس ان سے فائدہ اٹھانا مومن کا کام ہے.(الجاثیۃ:۱۴) آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب مومن کے لئے ہے چاہیے کہ اس سے فائدہ اٹھائے.پیرانہ سالی میں بیٹے کی ولادت فرمایا.میں بیمار ہوگیا اور لوگ میری صحت سے نا امید تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ یہ تو صحت سے نا امید ہیں اور میں تجھے ایک لڑکا بخشنے والا ہوں.چنانچہ اس نے اپنی غریب نوازی سے ۷۴ سال کی عمر میں مجھے لڑکا بخشا.رسالت اور خلافت کی شناخت فرمایا.سب سے پہلے جو رسول آیا اس کے بارے میں لوگوں کو کیا کیا مشکلات پیش آئے ہوں گے مگر اس کے بعد کے رسولوں کے پہچاننے میں اتنی مشکل نہ تھی.پھر علی الخصوص جناب سید المرسلین کی شناخت میں تو کوئی دقت نہ ہوسکتی تھی.اسی لئے فرمایا.(الاحقاف:۱۰).اسی طرح اب جو ہمارا مسیح تھا اس کے بارے میں لوگوں نے عبث جھگڑا کیا.اس سے پہلے کئی نبی آچکے.پھر کئی مجدد بھی ہو گزرے.علیٰ ھٰذا القیاس تمہارا خلیفہ بھی تم میں موجود ہے اس کی خلافت کا مسئلہ بھی صاف ہے.پہلے کئی خلفاء ہوچکے.(ماخوذ از کلام امیر.الفضل جلد۱ نمبر ۲۹ مورخہ ۳۰ ؍ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰)

Page 372

جنّ حضورؐ نے فرمایا کہ میرے ہاتھ پر بہت سے جنّوں نے بیعت کی میں نے انہیں دیکھا نہیں پوچھنے پر بتایا ہم نصیبین کے رہنے والے ہیں.ہدایت سے روکنے والی چار چیزیں فرمایا کہ ہدایات سے روکنے والی چار چیزیں ہیں رسم، عادت، بد ظنی ، خود پسندی.ان چاروں سے بچو.قرآن کی نافرمانی (الاحقاف:۲۲) پڑھاتے ہوئے فرمایا.دیکھا کہ ایک نبی کی تعلیم پر نہ چلنے سے عاد ہلاک ہوگئے.قرآن مجید میں تمام انبیاء کی تعلیم ہے پس جو قرآن مجید کی نافرمانی کرے گا اس کا کیا حال ہوگا؟ عبرت پکڑو اور خدا کے فرمانبردار ہوجاؤ.(ماخوذ از مدینۃ المسیح الفضل جلد۱ نمبر۳۰مورخہ ۷؍ جنوری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱) شکریہ از طرف حضرت خلیفۃ المسیح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے  (ابراہیم : ۸)اگر تم شکر کرو تو ہم اپنی نعمتوں میں ضرور بالضرور اضافہ کر دیں گے.اس لئے خدا تعالیٰ کے انعامات پر شکر کرنا انسان کے لئے اور بہت سے الطاف کا موجب ہو جاتا ہے.پس تحدیث نعمت الٰہی کے طور پر میں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہم پر بہت سے احسان کئے ہیں.پچھلے سال بعض نادانوں نے قوم میں فتنہ ڈلوانا چاہا اور اظہار حق نامی اشتہار عام طور پر جماعت میں تقسیم کیا گیا جس میں مجھ پر بھی اعتراضات کئے گئے.مصنف ٹریکٹ کا تو یہ منشاء ہوگا کہ اس سے جماعت میں تفرقہ ڈال دے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بندہ نوازی سے مجھے اور جماعت کو اس فتنہ سے بچالیا اور ایسے رنگ میں مدد اور تائید کی کہ فتنہ ڈلوانے والوں کے سب منصوبہ باطل اور تباہ ہوگئے اور جماعت ہر ایک قسم کے صدمہ سے محفوظ رہی.جس کا نمونہ اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر نظر آرہا تھا.یہ خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت تھی کہ امسال باوجود بہت سے موانع کے اور باوجود اظہار حق

Page 373

جیسے بدظنی پھیلانے والے ٹریکٹوں کے اشاعت کے جلسہ پر لوگ معمول سے زیادہ آئے.اور ان کے چہروں سے وہ محبت اور اخلاص ٹپک رہا تھا جو بزبان حال اس بات کی شہادت دے رہا تھا کہ جماعت احمدیہ ہر ایک بداثر سے محفوظ اور مصئون ہے.علاوہ ازیںمختلف جماعتوں نے ایثار کا بھی اس دفعہ وہ نمونہ دکھایا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ثابت ہوتا تھا.باوجود اس کے کہ اس سال چندوں کا خاص بوجھ تھا اور صدر انجمن مقروض ہوگئی تھی.مختلف جماعتوں نے نہایت خوشی اور رضا و رغبت سے وہ سب قرضہ ادا کردینے کا وعدہ کیا اور بہت سا روپیہ نقد بھی دیا.حتی کہ پچھلے تمام سالوں کی نسبت اب کی دفعہ تگنے روپیہ کے وعدے اور وصولی ہوئی جس کی مجموعی تعداد اٹھارہ ہزار کے قریب ہے جو اس قلیل جماعت کی حالت کو دیکھتے ہوئے ایک خاص فضل الٰہی معلوم ہوتا ہے.اس جلسہ نے ان لوگوں کے خیالات کو بھی باطل کردیا جو کہتے تھے کہ نورالدین گھوڑے سے گر گیا ہے.جب ایک دفعہ خلافت کے خلاف شور ہوا تھا تو مجھے اللہ تعالیٰ نے رؤیا میںدکھایا تھا کہ میںایک گھوڑے پر سوار ہوں اور ایسی جگہ پر جار ہا ہوں جہاں بالکل گھانس پھونس نہیں ہے اور خشک زمین ہے.پھر میں نے گھوڑے کو دوڑانا شروع کیا اور گھوڑا ایسا تیز ہوگیا کہ ہاتھوں سے نکلا جارہا تھا.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری رانیں نہ ہلیں اور مَیں یا یہ کہوں نہایت مضبوطی سے گھوڑے پر بیٹھا رہا.دور جا کر گھوڑا ایک سبزہ زار میدان میں داخل ہوگیا جس میں قریباً نصف نصف گز سبزہ اُگا ہوا تھا.اس میدان میں جہاں تک نظر جاتی تھی سبزہ ہی سبزہ نظر آتا تھا.گھوڑے نے تیزی کے ساتھ اس میدان میں بھی دوڑنا شروع کیا.جب میں درمیان میں پہنچا تو میری آنکھ کھل گئی.میں نے اس خواب سے سمجھا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ خلافت کے گھوڑے سے گر جائے گا جھوٹے ہیں اور اللہ تعالیٰ مجھے اس پر قائم رکھے گا بلکہ کامیابی عطا فرمائے گا.سو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے میری اس خواب کو بھی پورا کیا اور اس سال کے جلسہ نے اس کی صداقت بھی ظاہر کردی کہ باوجود لوگوں کی کوششوں اور

Page 374

مخالفتوں کے اور باوجود گمنام ٹریکٹوں کی اشاعت کے اس نے میری تائید پر تائید کی اور جماعت کے دلوں میں روز بروز اخلاص اور محبت کو بڑھایا اور ان کے دل کھینچ کر میری طرف متوجہ کر دیئے.اور انہیں اطاعت کی توفیق دی اور فتنہ پردازوں کی حیلہ سازیوں کے اثر سے بچائے رکھا.اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ ایک عام اعلان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں اور اس کی نعمت کا اظہار کروں تا باقی جماعت بھی اس شکر میں میرے ساتھ شامل ہو اور اس ادائے شکر کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ ہماری بیش از بیش مدد فرمائے اور اپنے وعدہ کے مطابق کہ  اگر تم میرا شکر کرو تو میں اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں بھی تم پر اپنے خاص فضل نازل کروں گا.ہمارے اس ادائے شکر پر جو سب جماعت کی طرف سے ہو اپنی خاص نعمتیں ہم پر نازل فرمائے.آمین.نیز مغرب میں جس قدر تحریک لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی ہورہی ہے وہ بھی کسی کم شکر یہ کی موجب نہیں.اس لئے خاکسار اس کا بھی شکریہ کرتا ہے.(نورالدین) ( الفضل جلد ۱نمبر ۳۰مورخہ ۷؍جنوری۱۹۱۴ء صفحہ ۱۴) حفاظت مولیٰ حضرت خلیفۃ المسیح نے درس میں حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا.نصیحت گوش کن جاناں کہ از جان دوست تر دارند جوانا سعادتمند پند پیر دانا را.پیر تو میں ہوں ہی اور اب تو یہ حال ہے کہ بہت رات گزرے پیشاب کے لئے اٹھا تو سینے کے بل دھڑام سے گر پڑا.میرے مولیٰ ہی نے میری حفاظت کی اور اسی نے مجھے طاقت بخشی اور میں بہت دیر کے بعد زمین سے اٹھنے کے قابل ہوا.پھر ابھی مجھے قے ہوچکی ہے اس حالت میں بھی تمہیں قرآن سنانے کے لئے ہر روز آتا ہوں.قدر کرو.(یعنی عمل کرو) اور غنیمت سمجھو.دانا اس لئے ہوں کہ قرآن سمجھتا ہوں.غیر احمدی چور فرمایا.یہاں کچھ چوریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا.(الفضل کے مینجر صاحب کا کوٹ واسکٹ اور ۳۵ کی گھڑی اور دو تین اور صاحبوں کے کمبل جن میں سے ایک کی قیمت ساٹھ روپے کے قریب تھی).میں نے اپنے مولیٰ سے دعا کی کہ اگر کوئی احمدی چور ہے تو پھر افسوس ہے اس پر بھی اور

Page 375

مجھ پر بھی اور میری تعلیم پر بھی.مجھے اپنے کرم سے آگاہ کر دے کہ چور کن میں سے ہے.الحمد للّٰہ کہ آج ان (مذکورہ بالا) چیزوں کے چور عجیب طور پر خود بخود ظاہر ہوگئے اور وہ دونوں غیر احمدی ہیں.ابلاغ حق فرمایا.میں تو طالب علمی میں بھی حق پہنچا دیتا تھا اور خطرناک سے خطرناک مقام میں بھی کوئی مجھے نقصان نہ پہنچا سکا.میں منافق نہیں کہ اپنا عقیدہ چھپالوں.(ماخوذ از مدینۃ المسیح الفضل جلد۱ نمبر ۳۱ مورخہ ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱) شیعوں پر حجت قویہ ۱۷؍ جنوری کو پیر منظور محمد صاحب کے صحـن میں درس قرآن مجید و بخاری شریف دیا.حضور کی توجہ آج کل اس مضمون پر مبذول ہے کہ بخاری کو دوسری کتب حدیث پر ہم کیوں ترجیح دیتے ہیں.چند فضلاء کو بھی اس پر غور کرنے کے لئے فرمایا ہے.آپ نے درس دیتے ہوئے فرمایا.(الفتح:۱۹)شیعہ پر حجت قویہ ہے اور سے ان کے دلی اخلاص کی شہادت دی.میاں عبد الحی علاوہ تھرڈ مڈل کی تعلیم کے سورہ بقرہ حفظ کرچکے ہیں.اب آل عمران شروع ہے فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ.(ماخوذ از مد ینۃ المسیح الفضل جلد ۱ نمبر۳۲ مورخہ ۲۱ ؍جنوری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱) مہمان نوازی ، سلام کا جواب حضرت خلیفۃ المسیح کی صحت نسبتاً اچھی ہے حضور کمال محبت سے عصر کے وقت عزیز عبد الحی کے مکان میں درس دیتے ہیں.فرمایا.(۱)مہمان نوازی کی عادت ڈالو.(۲) اگر کسی نووارد کو نہ پہنچا نو تو کہہ دو پہچانا نہیں.(۳) سلام کے جواب میں بڑھ کر سلام کہو.(۴) روٹی پانی پوچھو مت ماحضر لاکر سامنے رکھ دو.کے معنے دوسرے رو ز (الذاریات:۴۸)کے معنے تفصیل سے سمجھائے کہ ایک مقام پر (صٓ:۷۶)(دو ہاتھوں سے بنایا) فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے

Page 376

اسما یا کسی معنی کو سمجھانے کے لئے تجلی فرماتا ہے اور اس تمثل کو انسان دیکھتا ہے جس کی وجہ سے بعض کودھوکہ ہوا اور وہ سوہنا آدمی بن آیا بول اٹھے حالانکہ یہ ایک تجلی تھی.(الذاریات:۵۱)کے یہ معنے ہیں کہ اللہ کے جو اسماء ہیں ان کی پناہ میں آؤ.(ماخوذ از مدینۃ المسیح الفضل جلد ۱ نمبر۳۴ مورخہ۴؍فروری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱) حضرت خلیفۃ المسیح اچھے ہیں! تمام جماعت کو اطلاع حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمام جماعت احمدیہ کو اطلاع دے دی جائے میں اچھا ہوں میری بیماری کچھ ایسی نہیں کہ لوگ یہاں بیمار پرسی کے لئے آئیں.اس لئے سب دوست اپنے اپنے مقام پر دعائیں کریں یہی کافی ہے.کوئی تشویش والی بات نہیں.مرزا محمود احمد اشتہاربحکم خلیفۃ المسیح ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری و نظم پنجابی‘‘ یہ کتاب پنجابی نظم میں میں نے تصنیف کی ہے.جس میں آنحضرت صلعم کی سنہ پیدائش سے لے کر سنہ وفات تک مفصل و دلچسپ حالات لکھے گئے ہیں.جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق، جنگ خیبر وغیرہ اپنے اپنے مناسب موقعوں پر نہایت وضاحت سے درج ہیں.مثال کے طور پر پہلے تمام مشہور نبیوں کے حالات قلمبند کئے گئے ہیں.جناب حضرت خلیفۃ المسیح نے اس کتاب کو پڑھ کر اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ کتاب بہت عمدہ تیار کی گئی ہے.اور مبلغ ۳۰ روپیہ امداد کے لئے بھی مرحمت فرمائے ہیں.اس کے بعد جناب مولوی شیر علی صاحب سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ نے اسی کتاب کو پڑھ کر مفید عام تحریر فرمایا ہے.یہ کتاب مطبع انوار احمدیہ مشین پریس قادیان میں چھپ رہی ہے جو کہ ۱۰ ؍ تاریخ ماہ فروری ۱۹۱۴ء تک انشاء اللہ چھپ کر تیار ہوجائے گے.چونکہ مصنف خود غریب آدمی ہے.اس لئے

Page 377

حضرت خلیفۃ المسیح نے ارشاد فرمایاکہ اشتہار چھپوا دو.اس وقت مبلغ ۷۵ روپیہ کی ضرورت ہے.جو ناظرین کسی قدربھی مالی امداد فرمائیں گے خداوندکریم سے انشاء اللہ تعالیٰ اجر عظیم کے مستحق ہوں گے.ورنہ کتاب کو خرید کر کے مصنف کی مدد فرماویں.کتاب کی قیمت تقریباً ۸؍ ہو گی مگر جو صاحب پیشتر درخواست بھیجیں گے ان کو معہ محصول ڈاک ۷؍ میں ارسال کی جائے گی.خط و کتابت پتہ ذیل پر ہونی چاہیے.الراقم:.جھنڈے خان احمدی مدرس پتے ہالی و برانچ پوسٹ ماسٹر ڈاک خانہ خاص پتے ہالی تحصیل و ضلع گورداسپور (الفضل جلد ۱ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۱؍فروری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۶) ۱.درس قرآن کی فکر حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت اس ہفتے بدستور علیل رہی.۹؍ فروری دو تین دست آنے سے طبیعت بہت نڈھال ہوگئی مگر دوسرے دن افاقہ ہوگیا.پہلے پہر آرام ہوتا ہے اور پچھلے پہر خفیف سی حرارت ضعف کا یہ حال ہے کہ بغیر سہارے کے بیٹھنا تو درکنار باجود سہارے کے سر کو خود نہیں تھام سکتے.اس حالت میں ایک دن (ہفتہ ) فرمایا کہ بول تو میں سکتا ہوں خدا کے سامنے کیا جواب دوں گا.درس کا انتظام کرو کہ میں قرآن مجید سنادوں.۲.اہل خانہ کو صبرکی تلقین اپنے گھر والوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا.دکھوں میں کبھی نہ گھبراؤ.لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کا ورد رکھیو.اپنے محسن نبی کریم پر درود بھیجتے رہو.۳.لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہپر ایمان فرمایا.جو لوگ مجھے مسلمان نہیں سمجھتے انہیں کیا معلوم کہ نور الدین کاآخری وقت میں بھی لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہپر ایمان تھا.

Page 378

۴.تسکین قلب کا اظہار فرمایا.میرا دل خوش ہے میں مطمئن ہوں میں گھبراتا نہیں.اللہ تعالیٰ میرا مولیٰ ہے اور محمد رسول اللہ جیسا عظیم الشان (خاتم کمالات رسالت) میرا ہادی ہے.۵.مومنوں کی حاجات کا نقشہ فرمایا کہ شاعر اور مصور واقعات کی تصویر کھینچ دیتے ہیں مگر حضرت ربّ العزت نے ....(الاحزاب:۱۱) میں مومنوں کی حاجات کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس کا منظر ایک شاعر یا مصور کی کیا طاقت ہے کہ دکھا سکے.یہ فرما کر آپ پر رقت طاری ہوگئی.بادل تھا ڈاکٹر نے کپڑا اوڑھانا چاہا.فرمایا.کیوں اوڑھاتے ہو مجھے تو اس وقت آگ لگ رہی ہے.میرا دل دکھی ہے اللہ اللہ صحابہ کی یہ حالت اور اس جرم میں کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہکے قائل تھے.(ماخوذ از مدینۃ المسیح الفضل جلد۱ نمبر۳۶مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۱۴صفحہ۱) ڈاکٹر یعقوب بیگ سے گفتگو ۱۹ تاریخ (فروری۱۹۱۴ء)کو ۱۰ بجے کے قریب حضرت صاحب نے ڈاکٹر مرزایعقوب بیگ صاحب سے فرمایا کہ آپ نے بہت تکلیف فرمائی اور آپ کا بہت نقصان ہوا ہے آپ کمانے والے آدمی ہیں.مرزا یعقوب بیگ صاحب نے عرض کیا کہ آپ کی خدمت سے زیادہ اور کیا کام ہوسکتا ہے.ہم نے بہت کمایا ہے اور انشاء اللہ کمائیں گے.مگر حضور کی خدمت کا موقع کہاں مل سکتا ہے مجھے کوئی تکلیف نہیں.حضرت ام المؤمنین کے سلام کا جواب اتنے میں والدہ صاحبہ عبدالحئی اور حضرت امّ المومنین تشریف لائیں.حضرت امّ المومنین کے سلام کے جواب میں فرمایا.وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُـہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ وَعَلٰی اَبْنَائِ کُمْ وَبَنَاتِکُمْ.

Page 379

بیوی صاحبہ سے گفتگو اور نصیحت والدہ صاحبہ میاں عبدالحئی نے کہا.مولوی صاحب کیسی طبیعت ہے فرمایا کہ اچھی ہے.انہوں نے پوچھا کہ پھر آپ بولتے کیوں نہیں چپ کیوں لیٹے رہتے ہیں؟ فرمایا.حلق خشک ہوجاتا ہے.پھر فرمایا کہ بیوی، اللہ تعالیٰ سے صلح کر لو.چونکہ آپ کی آواز میں رقت تھی والدہ صاحبہ میاں عبدالحئی نے عرض کیاکہ مولوی صاحب آپ تو لوگوں کو تسلی دلایا کرتے ہو اب آپ خود گھبراتے ہو.فرمایا کہ میں گھبرایا نہیں میں کبھی نہیں گھبراتا.میں موت سے نہیں ڈرتا میں خدا سے ڈرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا ڈر نہایت عمدہ بات ہے.خدا خوش ہوجائے تو سب کچھ مل جاتا ہے.دوپہرکے وقت آپ نے فرمایا کہ مرزا صاحب (مرزا یعقوب بیگ صاحب) آپ کو دیکھ کر مجھے شرم آتی ہے.یوں تو اس بیماری کے دنوں میں بہت سے ڈاکٹر وقتاً فوقتاً آتے رہے ہیں.مگر مرزا یعقوب بیگ صاحب قریباً پندرہ دنوں سے برابر آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں اور ڈاکٹر رشید الدین صاحب اور آپ کا ہی علاج ہورہا ہے.ہزار سال عمر آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر کوئی قرآن شریف کا اشد مخالف آریہ تیرے پاس آکر کہے کہ ہزار سال کی عمر تو نا ممکن ہے.قرآن شریف میں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہو سکتاہے.تو اسے کہو تُو اعتراض کرتا ہے.تو خدا تعالیٰ اب بھی قادر ہے کہ تجھے ہزار سال عمر دے اور اگر وہ انکار کرے تو اسے میں ہزار سال تک زندہ رکھوں گا اور وہ عمر طبعی کے ایسی خطرناک ارذل العمر میں گرفتار ہوگا کہ باقی عرصہ نہایت دکھ میں کاٹے گا.کیونکہ اس نے ہماری بات کا انکار کیا.پھر فرمایا کہ ہر زمانہ کے مطابق عمریں بھی ہوتی ہیں.اب تو دو سو سال تک پہنچنا انسان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے.اب اگر زیادہ عمر ہوتو آدمی سخت تکلیف اٹھائے.

Page 380

شیعوں سے مباحثہ کے لئے جانے والے وفد کو نصائح بیس تاریخ بروز جمعہ مولوی سیدسرور شاہ صاحب میر محمد اسحق صاحب اور حافظ غلام رسول صاحب نے ایک مباحثہ کے لئے جانا تھا جو موضع مدرسہ کے احمدیوں اور شیعوں میں قرار پایا ہے.مولوی صاحب اور حافظ صاحب رخصت کے لئے حاضر ہوئے.فرمایا.دعائیں بہت کرنا، دعائیں بہت کرنا.یہ نیا مباحثہ ہے.شیعوں سے پہلے ہمارا مباحثہ نہیں ہوا.دعا سے کام زیادہ لینا اور آپس میں تبادلہ خیالات کرتے جانا.شیعوں کے متعلق جو ہمارے اصول ہیں وہ تو آپ لوگوں کو معلوم ہوں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق کی نشانی ہے(التوبۃ:۷۴).انہوں نے اس بات کا ارادہ کیا جسے نہ پاسکے.ہم تو نہیں مانتے کہ مولیٰ مرتضیٰ کو خلافت کی خواہش تھی لیکن اگر تھی تو انہوں نے بقول شیعوں کے وہ خواہش کی جو پوری نہ ہوئی اور ہم یہ بھی نہیں مانتے کہ حضرت ابوبکر نے خلافت کی خواہش کی لیکن اگر شیعوں کے نزدیک انہوں نے خواہش کی اور ان کی وہ خواہش پوری ہوگئی اور ھَمُّوْا بِمَا نَالُوْا ہوگئے.پس وہ منافق نہیں ہوسکتے کیونکہ جو انہوں نے چاہا ان کو مل گیا اور منافق تو  ہوتے ہیں.پھر فرمایا کہ ہمیں اہل بیت سے بھی محبت ہے.اہل بیت میں پہلے بیویاں ہیں پھر اولاد.پھر فرمایا کہ میر محمد اسحق صاحب نہیں آئے (ان کو بلوایا گیا).آپ نے سب کے لئے دعا کی اور ان کو کہا کہ آپ ان سب میں نوجوان ہیں آپ کی کامیابی پر ہمیں بہت خوشی ہوگی.یہ لوگ بھی تقریروں کے عادی ہوتے ہیں اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہیں.آپ بے شک سختی سے کہہ دیں کہ ہم ان باتوں کو نہیں جانتے.اصل مطلب پر گفتگو کرو.پھر فرمایا کہ ناکامیوں میں ہی کامیابی پوشیدہ ہوتی ہے.اس کے بعد دعا فرما کر رخصت کیا.مہمانوں کا خیال بروز ہفتہ کچھ مہمانوں کو دیکھ کر فرمایا کہ حدیث میں آیا ہے.اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ نُّنَزِّلَ النَّاسَ

Page 381

مَنَازِلَہُمْ(صحیح مسلم مقدمۃ الامام مسلم ؒ).(ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ لوگوں کو ان کے درجوں کے مطابق اتاریں) میں تو بیمار ہوں.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کو اس بیماری میں بھی مہمانوں کا اس قدر خیال رہتا ہے.(ماخوذ از کلام امیر.الفضل جلد۱ نمبر ۳۷ مورخہ ۲۵ ؍ فروری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۶) حالت بیماری کے اشغال حضرت خلیفۃ المسیح ساری عمر بیکاری سے لوگوں کو منع کرتے رہے اور ہمیشہ تاکید فرماتے رہے ہیں کہ بیکار مت رہو.بیماری کی حالت میںبھی آپ بیکار نہیں.بعض وقت کام کرنے کا اس قدر جوش آپ کے دل میں اٹھتا ہے کہ محبت کے رنگ میں ڈاکٹروں کو کہہ دیتے ہیں ’’ یہ روکتے ہیں اور مجھے بولنے نہیں دیتے‘‘ جس روز یورپین ڈاکٹر آیا اور اس نے آکر آپ کا مزاج پوچھا تو فرمایا.میں تو اچھا ہوں.ڈاکٹر نے لٹا دیا ہے.ڈاکٹر نے کہا کہ آپ بہت کام کرتے ہیں.فرمایا.خوب کام کرتا ہوں اور کر سکتا ہوں.دن میں سات لیکچر دیتا رہا ہوں.اس وقت بھی دماغ کام کررہا ہے اور لیکچر بناتا رہتا ہے.اس کے بعد اس نے آپ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر دیکھا اور کہا.عجیب نبض.موت کا کوئی غم اور خوف نہیں یورپین ڈاکٹر سے کلام کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ مجھے موت کا کوئی غم اورخوف نہیں.قرآن مجید کا عشق ان بیماری کے ایام میں جبکہ طبی مشورہ نے آپ کی بیش قیمت زندگی اور مفید ونافع وجود کی خاطر تمام اشغال سے آپ کو روکا.قرآن مجید کے درس و تدریس کا شغل بدستور جاری ہے.مولوی محمد علی صاحب کے ترجمہ کو نہایت شوق اور توجہ سے سنتے ہیں اور اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے قلب میں حقائق و معارف کا ایک جوش دریا کی صورت میں امڈا آرہا ہے.ایک دن کہنے لگے کہ

Page 382

دل میں بہت جوش ہے کہ بیان کروں مگر ڈاکٹر روکتے ہیں.ایک دن مولوی صاحب نے یورپین مصنفوں کے اعتراضات متعلقہ ازواج مطہرۃ کو مدنظر رکھ کر ایک نوٹ لکھا اور کچھ شک نہیں کہ وہ نوٹ بڑی محنت اور قابلیت سے لکھا گیا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح نے اسے سن کر ایک نہایت ہی قیمتی اور لاجواب نکتہ معرفت فرمایا جس کا خلاصہ مطلب یہ تھا کہ معترضین کی بے حیائی ہے.قرآن مجید میں تو کسی بیوی کا نام نہیں.قرآن مجید کو زیر نظر رکھ کر اعتراض تو کرکے دکھائیں؟ قرآن مجید کے ترجمہ کی تکمیل کا بے حد جوش آپ کے دل میں ہے اور صرف یہ خواہش آپ کو زندہ رہنے کی خواہش پیدا کرتی ہے کہ ’’ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ چھپا ہوا دیکھ لوں‘‘ اشاعت دین کا خیال ۲۰؍ فروری ۱۹۱۴ء کی صبح کو دس بجے کے قریب احباب آپ کے پاس موجود تھے اور ڈاکٹر صاحبان آپ کی غذا کا اہتمام کررہے تھے.مولانا سید سرور شاہ صاحب اور حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ایک مناظرہ پر جانے والے تھے.آپ نے اس وفد کو باوجود اپنی بیماری کی حالت کے دعائوں کے ساتھ مناسب ہدایات دے کر روانہ کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حالت میں بھی جو چیز آپ کو پسند ہے وہ اشاعت دین ہے.جو کچھ آپ نے فرمایا اس کا خلاصہ میرے الفاظ میں یہ ہے.دعائیں بہت کرو.اللہ تعالیٰ کے حضورگرجائو.تکبر نہ کرنا.اور پھر فرمایا کہ شیعہ کے ساتھ مناظرہ کے متعلق ہمارا اصول کسی کو معلوم ہے؟ آپ کے اس سوال پر عرض کیا گیا کہ ہاں.مگر آپ نے اس کی تصریح کی اور فرمایا کہ منافق کا ایک نشان ہے(التوبۃ:۷۴).اس اصل پر دیکھ لو کہ حضرت صدیق، فاروق اور عثمان اور علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کامیابیاں کس شان کی ہیں.پھر آیت استخلاف سے استدلال کا طریق بتایا.پھر اس طریق پر استدلال کرتے ہوئے حضرت

Page 383

مسیح موعود علیہ السلام کو پیش کیا اور آپ کی کامیاب زندگی اور موت کو بطور اعجاز اور نشان پیش کرکے خلافت راشدہ کی تصدیق کی اور پھر آخر میں اپنے وجود کو ایک دلیل کے رنگ میں دکھایا اور بتایا کہ یَسْلُبُ الْمُلْکُ مِنَ الْقُرَیْشِ کی حدیث پڑھاتے ہوئے مجھے خیال آتا تھا کہ قریش میں اب کوئی امیر المؤمنین نہیں ہوسکتا اور مجھے اپنی ذات کے متعلق تو کبھی وہم و گمان بھی نہیں آتا تھا مگر دیکھو خدا تعالیٰ نے مجھے کس طرح خلیفہ بنا دیا.آخر میں فرمایا.جائو بڑھو.ہمیں صحابہ بھی پیارے ہیں اور اہل بیت بھی.مولوی فاضل میر محمد اسحق صاحب اس وقت موجود نہ تھے وہ بعد میں آئے تو انہیں وحدت کی ضرورت کی ہدایت فرمائی اور نہایت ہی لطیف پیرایہ میں بتایا کہ سعادت، فضیلت اور جوانی پر گھمنڈ نہ کرنا.پہلا مناظرہ ہے.خدا کے حضور جھکو اور دعائیں کرو.پھر بہت دعاکی اور یہ کہہ کر رخصت کیا کہ میرا دل، جان، روح دعا کرتی ہے کہ تم فتح مند ہو.حفظ مراتب حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت میں حفظ مراتب کا ہمیشہ خیال رہتا ہے.۲۱؍ فروری ۱۹۱۴ء کو ۱۰ بجے صبح کے قریب جبکہ آپ کو کھانا کھلایا گیا.آپ کے سامنے ہمارے بزرگ بھائی میر عابد علی شاہ صاحب استادہ تھے.شاہ صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح سے بہت محبت ہے اور چونکہ آپ صوفی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.ان میں ادب بہت ہے.وہ حضرت کے سامنے نہایت مؤدب رہتے ہیں.حضرت نے انہیں دیکھ کر اشارہ کیا کہ آپ چارپائی پر بیٹھ جائیں اور پھر فرمایا.اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ نُّـنَزِلَ النَّاسَ مَنَازِلَہُمْ (صحیح مسلم مقدمۃ الامام مسلم ؒ).میں بیمار ہوں.توبہ کی حقیقت خدا تعالیٰ کے پاک لوگوں کو خدا کے دین اور شعار اللہ کی عظمت کے لئے ایک غیرت ہوتی ہے اور

Page 384

ان کا تعلق مخلوق سے محض خدا تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی میں بہت سی مثالیں مجھے یاد ہیں.زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ہر شخص کی زندگی کا مطالعہ ایک قیمتی چیز ہوتا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح کی علالت کے دنوں میں ان کی زندگی میرے لئے تو بہت ہی پُرغور مطالعہ ہوتا ہے.اسی تاریخ کو جبکہ ہمارے معزز احباب مثلاً برادرم صادق ، ڈاکٹر یعقوب بیگ، میاں معراج الدین عمر، شاہ صاحب موصوف، ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب، چوہدری محمد سرفراز خان صاحب، خلیفہ نور الدین وغیرہم موجود تھے مفتی صاحب نے بدر کے لئے ایک ضروری تحریک کی.آپ نے اسے پسند فرمایا اور چند احباب کا نام لیا کہ وہ اس کار خیر میں شریک ہوں یعنی مفتی صاحب مولوی ماسٹر محمد دین ، مولوی ماسٹر صدرالدین، مولوی ماسٹر غلام محمد صاحب.اسی سلسلہ میں مفتی صاحب نے لاہور کا ذکر کیا.اس سے حضرت کو ان فتنہ زا ٹریکٹوں کا خیال آگیا جن کے ذریعہ آدم کے دشمنوں نے آدم ثانی کی نسل کی ایڑی کو کاٹنا چاہا تھا.اس پر حضرت نے نہایت رنج کا اظہار فرمایا اور باوجودیکہ لاہور کی جماعت کے اکثرافراد خدمت سلسلہ کے لئے ایک پاک نمونہ اپنی زندگیوں کا رکھتے ہیں لیکن اس فتنہ نے اس وقت بھی حضرت کی طبیعت کو مکدر کردیا اور نہایت برہم ہوکر فرمایا.میں تو لاہور کو جانتا نہیں.وہ ایسا قصبہ ہے کہ جہاں سے مجھ کو ایسے بڑھاپے میں اس قدر تکلیف پہنچی ہے.اس ٹریکٹ کی یاد نے حضرت کو بہت دکھ دیا اور آپ نے از بس بیزاری کا اظہار کیا.آپ کی آنکھیں پُرآب او رآواز میں رنج کے جذبات تھے.فرمایا.میرا دل بہت جلایا گیا.میں اس وقت بوڑھا ہوں.کیا یہ مجھ کو دکھ دینے اور تکلیف دینے کا وقت تھا؟ یہ تو مجھے محبت کرنے کا وقت تھا.مجھے اس وقت راضی کرنا چاہیے تھا.فرمایا.میری دعائوں کو اللہ تعالیٰ سنتا ہے اور میں خوب جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ میری

Page 385

دعائیں وہ سنتا ہے اور قبول کرتا ہے.فرمایا.میں اس وقت رویا ہوں.اگر میری غضب کی آنکھ ہوتی تو کھا جاتی.پھر اسی سلسلہ میں فرمایا.وہ میری دعائیں سنتا ہے.اب میں بیمار ہوں.پھر ڈاکٹر برادرم یعقوب بیگ صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا.آپ اس کو لائے.آپ نے اس کی معافی کرائی لیکن آج تک اس کی تلافی نہیں ہوئی.قرآن مجید فرماتا ہے .....(المائدۃ:۴۰)(الشورٰی:۴۱)مگر اس نے کوئی اصلاح نہیں کی کوئی تلافی نہیں ہوئی.نہ آپ نے اصلاح کرائی نہ تلافی کرائی؟ خلافت فرمایا.وہ جو کہتا ہے کہ فلاں شخص کو میں نے خلیفہ مقرر کردیا ہے غلط ہے.مجھے کیا علم ہے کہ کون خلیفہ ہوگا.مجھے کیا علم ہے کہ دو دن کے بعد کون خلیفہ ہوگا اور کیا ہوگا.کون خلیفہ بنے گا یا مجھ سے بہتر خلیفہ ہوگا.میں نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا.میں کسی کو خلیفہ نہیں بناتا.میرا یہ کام نہیں.خلیفہ بنانا خدا کا کام ہے.جس کو وہ چاہتا ہے وہ خلیفہ بناتا ہے.فرمایا.میں اس وقت رویا ہوں.رضا بالقضا فرمایا.میں ہر طرح سے خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوں.نفس کی کوئی خواہش باقی نہیں رہی.۱۹؍ فروری کی صبح کو حضرت ام المؤمنین، آپ کی بی بی اور بعض دیگر مستورات عیادت کو حاضر ہوئیں.آپ کچھ چشم پُر آب ہوگئے.آپ کی بی بی صاحبہ نے عرض کیا کہ کیا آپ گھبرا گئے ؟ فرمایا.گھبرا کیسا ؟ میں بالکل نہیں گھبرایا.فرمایا.وہ خدا راضی ہوجائے سب کچھ پالیا.پھر آپ نے فرمایا.یہ ایک علم ہے جاہلوںکو معلوم نہیں.بیوی صاحبہ نے پوچھا کیا علم ہے؟ فرمایا.اللہ کولوں ڈرنا (اللہ سے ڈرنا).پھر فرمایا.میں کبھی نہیں گھبراتا.مجھے کوئی تکلیف نہیں معلوم ہوتی.چپ اس لئے ہوں کہ بولنے سے تکلیف ہوتی ہے.(ماخوذ از ایوان خلافت.الحکم جلد۱۸ نمبر۱مورخہ ۲۸ ؍ فروری ۱۹۱۴ء صفحہ۶،۷ )

Page 386

تین القاء ربّانی اس ہفتہ حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت بدستور علیل رہی.ضعف بھی بہت ہے حرارت بھی ہوجاتی ہے.کھانسی رات کے وقت زیادہ ہوتی ہے.حضور کو تین القاء ہوئے.(۱) اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ رَادُّکَ اِلٰی مِعَادٍ.(۲)اَلْحُمّٰی مِنْ نَّارِ جَہَنَّمَ فَاطْفِئُوھَابِالْمَائِ(۳) بتایا گیا کہ اکثر بیماریوں کا علاج ہوا ،پانی اور آگ سے اور دردوں کا آگ اور پانی سے.پھر فرمایا.بہت حکمتیں کھلی ہیں انشاء اللہ طبیعت اچھی ہوجانے پر بتاؤں گا.بغرض علاج تبدیلی ٔ آب و ہوا پس ہوا اور پانی سے علاج کرنے کے واسطے تبدیل آب و ہوا کی تجویز ہوئی اور بعض دوستوں کی رائے کے مطابق دارالعلوم کے بورڈنگ ہاؤس کی بالائی منزل خالی کرائی گئی.اس کے درمیانی کمرہ میں ایک دیوار کھڑی کی گئی تھی اسے نکال دیا گیا اوپر چڑھانے کے واسطے میزوں کی سیڑھی بنائی گئی.لیکن بعد از نماز جمعہ نواب محمد علی صاحب کی مکرر درخواست کی بناء پر حضور کو نواب صاحب کی کوٹھی (دارالسلام) میں پہنچایا گیا.راہ میں بورڈز صف بستہ کھڑے عرض کر رہے تھے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ.حضور نے ڈولی ٹھہرانے کا حکم دیا.ان کے لئے باچشم پُرآب......دعا کی اور مولوی محمد علی صاحب کو فرمایا.انہیں نصیحت کردینا.آپ کے اہل و عیال بھی آپ کے ساتھ ہیں وہاں کا منظر آپ کو پسند ہے.دو راتیں یعنی اتواروسوموار کی رات کو بے چینی بہت رہی آج رات دو بجے تک بے آرامی تھی.میاں شریف احمد صاحب کو جو پسلی درد کے سبب آپ کو ٹکور کر رہے تھے فرمایا کہ آپ کی مہربانی سے اب کچھ افاقہ ہے.(ماخوذ از مدینۃ المسیح الفضل جلد۱ نمبر۳۸ مورخہ ۴ ؍مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ۱)

Page 387

وصیت نوردین کے عنوان سے بہت عرصہ گزرا میں نے الحکم میں حضرت حکیم الامت کی ایک تحریری عربی وصیت شائع کی تھی اور اسے مع اردو ترجمہ برادرم مفتی (محمد صادق )صاحب نے بدر میں چھاپ دیا تھا.اس کے پڑھنے سے نورالدین کے عقائد کا پتہ معلوم ہوتا ہے.یہ بہت عرصہ کی لکھی ہوئی ہے لیکن اب جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت ناساز ہے ۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد نماز عصر یکایک آپ کو ضعف محسوس ہونے لگا.اسی وقت آپ نے مولانا مولوی سید سرور شاہ صاحب کو حکم دیا کہ قلم دوات لاؤ.چنانچہ سید صاحب نے قلم دوات اور کاغذ لا کر آپ کی خدمت میںپیش کیا.آپ نے لیٹے ہوئے ہی کاغذ ہاتھ میں لیا اور قلم لے کر لکھنا شروع کیا.اس وقت بہت سے احباب مثلاً مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، مولوی سید سرور شاہ صاحب ، قاضی سید امیر حسین صاحب ، نواب محمد علی خان صاحب، میاں عبدالحئی صاحب، حضرت صاحبزادہ صاحب، ڈاکٹر حافظ خلیفہ رشید الدین صاحب اور بہت سے بھائی قریباً جماعت قادیان کے سب لوگ موجود تھے.اور باہر سے بھی میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور( جو حضرت کی علالت کے ایام میں بہت کثرت سے آتے رہے اور ان کی اولاد بھی) ، حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ اور منشی محبوب عالم صاحب، چوہدری دولت خاں صاحب محکمہ پولیٹیکل کوئٹہ، چوہدری چھجو خان صاحب ملازم محکمہ جنگلات صاحب وغیرہم موجود تھے.اوّلاً آپ نے مختصر سا حصہ وصیت کا لکھا لیکن چونکہ قلم درست نہ تھا دیسی قلم منگایا گیا.آپ نے ایک وصیت اپنے قلم سے تحریر کر دی اور مولوی محمد علی صاحب کو دی کہ وہ اسے سنادیں.چنانچہ انہوں نے بآواز بلند اسے پڑھ کر سنادیا.پھر آپ نے فرمایا کہ تین مرتبہ سنادو.چنانچہ تین مرتبہ اس وصیت کو پڑھ کر سنایا گیا.جب وصیت پڑھی جاتی تھی حاضرین پر رقت کا عجیب اثرتھا.دل اور آنکھیں روتی تھیں اور خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت کا مشاہدہ کررہی تھیں.حضرت حکیم الامت نے بڑے حوصلہ اور ہمت سے لیٹے لیٹے باوجود ناتوانی کے وصیت کو لکھنے میں کمال کیا.غرض وصیت جو تین مرتبہ پڑھی جاچکی تو آپ نے فرمایا کہ نواب

Page 388

صاحب کے سپرد کردو وہ اسے محفوظ رکھیں گے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے حاضرین کی موجودگی میں اصل کاغذ نواب صاحب کے سپرد کردیا.پھر نواب صاحب نے عرض کیا کہ اس پر دستخط کرالئے جاویں اور اس مطلب کے لئے وصیت پھر حضرت کی خدمت میں پیش کی گئی.آپ نے اس پر دستخط کردیئے جیسا کہ وصیت کے پڑھنے سے معلوم ہوگا.بہرحال ۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد عصر حضرت خلیفۃ المسیح نے پاک وصیت کردی.اور یہ بھی فرمایا کہ جیتے رہے تو اور بھی کچھ کہیں گے.اس کے بعد کچھ یخنی اور دہی نوش فرمایا.میں ناظرین کے علم و آگاہی کے لئے اصل وصیت کو یہاں درج کردیتا ہوں.آپ نے اپنی اولاد کو جس طرح پر حوالہ بخد اکیا ہے اس سے آپ کی موحدانہ زندگی کا ایک نمونہ نظر آتا ہے اور اپنے قائمقام کو جو بیش قیمت ہدایات دی ہیں یہ ہیں.متقی ہو، ہردلعزیزہو، عالم باعمل ہو اور حضرت صاحب کے دوستوں سے سلوک ، چشم پوش اور درگزر کرے.یہ ایسی ہدایات ہیں کہ لاریب آپ کے جانشین کو ان پر عمل کرنا قوم کی بھلائی اور خوش قسمتی کی دلیل ہوگا.میں اس وصیت کے متعلق کچھ اور تفصیل کرنا نہیںچاہتا.سردست دعا کرتا ہوں اور احباب کو بھی دعا کے لئے کہتا ہوں کہ یہ پاک وجود عرصہ دراز تک ہماری رہنمائی کا موجب رہے اور اللہ تعالیٰ اس کے فیوض برکات سے ہمیں محروم نہ کرے اور ہمیں پاک تبدیلی کا موقع دے.اپنے وقت پر اللہ تعالیٰ اس کے جانشین کو وہ توفیق دے جس کی خواہش نورالدین نے اپنی وصیت میں کی ہے.آمین (ایڈیٹر) اصل وصیت بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمُدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ وَاٰلِہٖ مَعَ التَّسْلِیْمِ خاکسار بقائمی حواس لکھتا ہے.لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ میرے بچے چھوٹے ہیں ہمارے گھر میں مال نہیں ان کا اللہ حافظ ہے ان کی پرورش ، پرورش یتامیٰ ومساکین سے نہ ہو کچھ قرض حسنہ جمع کیا جاوے لائق لڑکے ادا کریں یا کتب جائیداد وقف علی الاولاد ہو.میرا جانشین متقی ہو، ہر دل عزیز ، عالم باعمل، حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی، درگزر کو کام

Page 389

میںلاوے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن و حدیث کا درس جاری رہے.والسلام نورالدین ۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء بعد ازا علان (الحکم جلد ۱۸نمبر۲ مورخہ ۷؍مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۵) تبدیل مکان ۲۷؍ فروری ۱۹۱۴ء کو حضرت امیر المؤمنین تبدیل آب و ہوا کی غرض سے دارالسلام کوٹھی نواب صاحب میں تشریف لے گئے.راستہ میں بورڈنگ ہاؤس کے پاس طلباء نے آپ کا استقبال کیا اور عرض کیا.اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْن.اس پر آپ نے وہاں ڈولی کو ٹھہرایا اور ان کے لئے باچشم نم دعا فرمائی کہ خدایا ان بچوں کو نیک اور متقی بنا اور دین و دنیا میں کامیاب کر اور بدکاریوں سے بچا.طلباء مدرسہ کو وعظ کی ہدایت آپ نے مولوی محمد علی صاحب کو بلایا.وہ پاس نہ تھے.اطلاع ہونے پر مسجد نور کے قریب آکر ملے تو دارالسلام پہنچ کر ارشاد فرمانے کے لئے کہا.وہاں پہنچ کر انہیں لڑکوں کو وعظ کرنے کے لئے فرمایا اور کہا.مجھے تو وہ (اللہ تعالیٰ) بہت ہی پیارا ہے.دو کام بتائے ہیں تواضع اور خاکساری.اس کی بچوں کو تاکید کردو اور ان کو وعظ کرو کہ بدکاریوں سے بچیں.فرمایا.یہ کام ابھی کرنا ہے

Page 390

۲۸؍ فروری ۱۹۱۴ء ڈاکٹر خلیفہ حافظ رشید الدین صاحب رات بھر حضرت کے پاس رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی جزاء ہو اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب بھی اپنے کاروبار کو لات مارکر آپ کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں.یہ قربانی قابل قدر ہے.اللہ تعالیٰ ہی جزا ہوسکتا ہے.صبح کو یہ بزرگ حاضر ہوئے تو فرمایا.کھانسی بہت ہوتی ، سیدھے لیٹے لیٹے چار گھنٹہ گزر گئے.پھر فرمایا.خاتمہ اسلام پر ہو.پھر نواب صاحب کو خطاب کرکے فرمایا کہ یہ مکان بہت خوب ہے اس میں مجھے بہت آرام ہے.خدا آپ کو جزائے خیر دے اور غریبوں کے پاس کیا ہے.درس قرآن کریم (الزخرف:۸۲) پر فرمایا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنیت مسیح کی خوب تردید کی ہے.بتایا کہ جب میں خدا تعالیٰ کا اتنا بڑا پرستار ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں بھلا اگر خدا کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں منکر ہوسکتا تھا؟ کیسے صاف معنے ہیں.پھر قرآن شریف کے متعلق فرمایا.دنیا میں بڑا اندھیر پڑا ہوا تھا اس نے حکمت کی باتیں دنیا میں پھیلا دی ہیں اب یہ نشوو نما پائیںگی.مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا.حضور پچیسواں پارہ ختم ہوگیا ہے.دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر کہا.تیرا فضل تیرا کرم.پھر خدا تعالیٰ کے انعامات اور برکات کے نزول کا یوں ذکر کیا کہ اس بیماری میں آپ قرآن کے لئے آتے ہیں تو لیلۃ القدر ہوجاتی ہے.کون جئے گا ، کیا ہوگا.مجھ پر تو خدا تعالیٰ کی رحمت کے عجیب عجیب بادل چڑھتے ہیں اور مجھ پر برستے ہیں.اس بہار کی پھوہار کو میں ہی سمجھتا ہوں.شام کے کھانے کے بعد فرمایا.اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ مَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ وَا تَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ.

Page 391

۲؍ مارچ ۱۹۱۴ء (محمد:۲) پر فرمایا کہ ان کو ناکام کردے گا.فرمایا.بڑے ہی بد بخت تھے وہ لوگ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردینا چاہا مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر رحم کیا، غریب نوازی کی.فرمایا.سیدھا سیدھا.قرآن بڑا عمدہ ہے.(محمد:۱۴) پر فرمایا.یہ جنت جو ہم صحابہ کو دیں گے تورات میں اس کی تصریح کردی.اسی کا نام جنت عدن ہے.تورات بڑی پیاری کتاب ہے.فرمایا.بعض وقت قرآن کریم کے فقرہ کو ایسا صاف کردیتی ہے.جنت عدن کی تعریف اور تشریح کی ہے.افسوس اس پاک کتاب کی قدر نہ ہوئی اور جو کروڑوںروپیہ صرف کیا ناعاقبت اندیشی کی مجھے تورات بڑی پیاری..الآیۃ(محمد:۲۳) پر فرمایا.میں تو جب اس کو پڑھتا ہوں تو یزید کے متعلق پاتا ہوں.اس پلید نے قطع رحم کیا.بڑا ہی بدبخت تھا.امام حسین رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت ہے اس نے اتنی بڑی نسل کو بری طرح ضائع کیا.پھر فرمایا.اتنی دیر مجھے طاقت رہتی ہے.خدا تعالیٰ نے اتنا رحم کیا ہے ساری دنیا سے بے پرواہ کردیا ہے.ایک مضمون سمجھا دیا ہے.سارا جہان ایک طرف ہوجاوے مجھے کیا پرواہ ہے.یہ اس کا فضل ہے.مکہ والوں پر مجھے تو رحم آتا ہے ان پر کتنا بڑا رحم کیا ادھر آئے ہی نہیں نہ فائدہ اٹھایا.ہزار ہا امام ہوگئے مکہ میں ایک بھی نہیں.ہزاروں مصنف ہوئے ان میں کوئی بھی نہیں.یہ بڑی سزا ہے.۶؍ مارچ ۱۹۱۴ء آج حضرت کی طبیعت بدستور کمزور رہی.رات کو کسی قدر بے چینی رہی، پیاس بھی تھی.مولوی محمد علی صاحب نے سورۃ نجم کے متعلق مخالفین کے اس اعتراض کا استفسار کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ بتوں کی تعریف کی گئی تھی.اس پر فرمایا.جھوٹے ہیں.قرآن مجید میں کہاں ہیں؟ ساری سورۃ میں بت پرستی کی مخالفت ہے اور مشرکین

Page 392

مکہ پر عذاب کی پیشگوئیاں ہیں.پھر مولوی صاحب نے اِنْشَقَّ الْقَمَرُ کے متعلق دریافت کیا.فرمایا.اب تو سائنس نے اس مسئلہ کو حل کردیا ہے.سائنس دان کہتے ہیں کہ چاند میں سے ٹکڑے گرتے رہتے ہیں اور بڑے بڑے میوزیم میں وہ رکھے بھی ہیں.حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے رؤیا کا حوالہ دیا اور آخر میں کہا.حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے اس پر بہت بسط سے لکھا ہے.تم لکھ کر مجھے سنالو.اس درس کے وقت قرآن مجید کھول کر سینہ پر رکھا اور چند منٹ اس کو دیکھتے رہے اور ورق الٹ کر غور کرتے رہے.فرمایا.آج مجھے بہت کمزوری رہی.کمزوری میں لوگوںکو خیالات بہت اٹھتے ہیں مگر مجھے نہیں اٹھتے.(ماخوذ از ایوان خلافت.الحکم جلد۱۸ نمبر۲ مورخہ۷؍ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ۶ ) استغفار پڑھنے کی تاکید آج ۱۱؍مارچ ۱۹۱۴ء صبح فرمایا کہ بات کرنے کے قابل ہوں.استغفار بہت پڑھنے کا ارشاد کیا.(ماخوذ از مدینۃ المسیح الفضل جلد ۱ نمبر ۳۹ مورخہ ۱۱ ؍مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ۱) موت و حیات کی خبر حضرت امیر المؤمنین ہی کے الفاظ میں جو آپ نے ۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو فرمائے.موت و حیات کی کسی کو خبر نہیں.اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے اور مجھے بھی خبر نہیں.(ماخوذ از اس وقت ہمیں کیا کرنا چاہیے.الحکم جلد۱۸ نمبر ۳ مورخہ ۱۴ ؍مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ۳ ) وفات سے قبل بیٹے کو نصائح اس (مدینۃ المسیح )عنوان کے ماتحت جس مقدس وجود کے حالات میں لکھا کرتاتھا اس نے ۱۳؍مارچ جمعہ کے روز نماز کے بعد وصال پایا.اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ وَاکْرِمْ نُزُلَـہٗ.وفات سے پہلے آپ نے میاں عبد الحی کو بلایااور فرمایا.

Page 393

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر میرا ایمان ہے اور اسی پر مرتا ہوں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب احباب کو میں اچھا سمجھتا ہوں.اس کے بعدمیں حضرت بخاری صاحب کی کتاب کو خدا کی پسندیدہ سمجھتا ہوں.حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور خدا کا برگزیدہ انسان سمجھتا ہوں.مجھے ان سے اتنی محبت تھی کہ جتنی میں نے ان کی اولاد سے کی تم سے نہیں کی.قوم کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں اور مجھے پورا اطمینان ہے کہ وہ ضائع نہیں کرے گا.تم کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی کتاب کو پڑھنا پڑھانا اور عمل کرنا.میں نے بہت کچھ دیکھا قرآن جیسی چیز نہ دیکھی.بے شک یہ خدا تعالیٰ کی اپنی کتاب ہے.باقی خدا کے سپرد.(ماخوذ از مدینۃ المسیح الفضل جلد۱ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۸ ؍مارچ۱۹۱۴ء صفحہ۱ ) حضرت خلیفۃ المسیح کی ایک خاص دعا مسجد اقصیٰ میں قرآن شریف کا درس دیتے ہوئے فرمایاکہ وضو کر کے دو رکعت پڑھ کر خدا کی تعریف و تحمید کرکے پہلی رکعت میں وَالضُّحٰی اور دوسری میں اَلَمْ نَشْرَحْ پڑھو اور حمد اور استغفار بھی بتادیا تھا اس کے بعد یہ دعا مانگو.الٰہی اسلام پر بڑا تبر چل رہا ہے مسلمان اوّل سست دوم دین سے بے خبر سوم قرآن سے بے خبر رسول کریم ؐ کی سوانح عمری سے بے خبر.تو اُن میں ایک ایساآدمی پیدا کر جس میں قوت جذب، قوت جاذبہ، ہمت بلند ،کمال استقلال پھر بڑی دعائیں کرے والا، تیری تمام یا اکثر رضاؤں کو اس نے پورا کیا ہو.قرآن اور صحیح حدیث سے باخبر ہو.پھر اس کو ایک جماعت بخش.وہ جماعت نفاق سے پاک ہو ان میں تباغض نہ ہو.اس جماعت کے لوگوں میں جذب، ہمت بلند اور وہ بھی قرآن و حدیث سے واقف ہوں.ان کو ابتلاؤں میں ثبات عطاکر.ابتلا ( البقرۃ : ۲۸۷)نہ ہوں.پھر اس شخص اور اس کی نسل کو ویسی ترقی دے جیسا کہ میں نے دعا کی ہے.تم بھی انصاراللہ اور حق کے مؤید بن جاؤ.(ماخوذ از تصدیق المسیح الفضل جلد ۱ نمبر۴۱ مورخہ ۲۵؍مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۸)

Page 394

نور کی کرنیں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل مرحوم مغفور کی نایاب ڈائری ۲۰ ؍ اپریل ۱۹۱۳ء یہ مسجد بھی نشان ہے فرمایا.یہ مسجد بھی نشان ہے.جہاں اب درس کررہے ہیں سکھ حکام کی کچہری کی جگہ ہے تم سب کو اللہ نے یہاں پکڑ کر جمع کررکھا ہے.مولویوں نے کیا کیا زور لگایا مگر خدا کی طاقت کے سامنے کوئی طاقت چل سکتی ہے ؟ نواب، امراء تمام جہان کو مسلمان بنا سکتے.پھر لوگ کس طرح زور لگاتے ہیں یہاں قادیان کے لوگوں نے زور لگایا.فرعون کے واقعہ سے عبرت حاصل کرو فرمایا.موسیٰ کو خدا نے نو نشان دیئے تھے عصا اور ید بیضاء، طوفان، دم وغیرہ وغیرہ.بنی اسرائیل کے پاس جب موسیٰ گئے تو فرعون نے کہا اے موسیٰ ُتو جادو گر ہے.موسیٰ نے کہا اے فرعون تو ہلاک ہونا چاہتاہے.جب رسول کریم ؐ مکہ چھوڑنے لگے تو آپ نے فرمایا.اے مکہ! میں تو تجھے نہ چھوڑتا مگر یہ قوم مجھے دکھ دیتی ہے.میں تو تجھ سے محبت کرتا ہوں.انجام اور نتیجہ پر غور کرو.ایک طرف فرعون اور دوسری طرف موسیٰ.مگر انجام اور نتیجہ کس کے ہاتھ رہا.ان باتوں سے عبرت حاصل کرو.خدا کے رسولوں پر ایمان لاؤ اللہ کے نیک بندے اولوالعزم رسول بڑے بڑے نشانوں کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں.کچھ پردے ہیں کہ وہ نشان سمجھ میں نہیں آتے.بہت لوگ ایسے ہیں کہ زمین کے نشان ہوں آسمان کے نشان ہوں کچھ پرواہ نہیں کرتے.دنیا چند روزہ ہے یہ جاہ وجلال سب کے سب یہاں ہی رہ جاویں گے.عبرت حاصل کرو فرمایا.میں نے بہت سے شہروں میں سفر کیا.مگر وہاں کے علماء خاک میں مل

Page 395

گئے.لاہور کی شاہی سنہری مسجد مسلمانوں کی جاہ وجلال و عظمت کا پتہ دیتی ہے.مگر اب کچھ نہیں خاک ہے.پری محل، رنگ محل، مبارک محل عبرت کے نمونے ہیں.بڑے بڑے شاہوں کے مقابر عبرت کے نشان ہیں.دہلی میں سینکڑوں کھنڈرات ہیں.بادشاہوں بیگموں کے مزار ہیں.ایسے ایسے امراء بھی ہیں جنہوں نے خاک بھی بادشاہ کی پرواہ نہیں کی.مگر دیکھئے اب ان کے نشان کہاں.خدا سے ڈرو دنیا چند روزہ ہے انسان کس بات پر گھمنڈ اور غرور کرتا ہے.دنیا دا ر احمق ہوتے ہیں کچھ پرواہ نہیں کرتے.بغراخاں ، خضرخاں کے واقعات دیکھو خدا نے جو کرنا تھا کر کے دکھا ہی دیا.بہت نشان لوگوں کے لئے ہوتے ہیں مگر لوگ اندھوں کی طرح ہوجاتے ہیں.بدمعاملگی سے بچو فرمایا.جن لوگوں میں بدمعاملگی ہے، جن میں بعض بداعمالی ہے، جھوٹ ہے، پڑوسی سے عناد ہے اس کو نہیں چھوڑتے قرآن سے منہ پھیرلیا.بدیوں کو ترک کرو تا خدا سے فلاح پاؤ.غیر کے نام کو نہ پکار فرمایا.خدا کے بہت سے نام ہیں ان ناموں سے اس کو پکارو.کفار جب دریا سے گزرتے تھے تو خدا کے نام کے سوا کسی اور کا نام پکارتے تھے.یہاں تو آج کل بھی یہ رسم ہے.دم بھاول حق کہتے ہیں.خدا سے منہ موڑتے اور مخلوق کو اپنا حاجت روا سمجھتے ہیں.خدا کا کوئی بیٹا نہیں فرمایا.خدا کا کوئی بیٹا نہیں.لوگوں میں یہ بڑی غلط راہ ہے جو دنیا میں بڑے زور وشور سے پھیل رہی ہے.ایک بیچارے کو خدا بنا دیا ہے یہ جو غلط عقیدہ اندر ہی اندر ہندوستان میں اپنا کام کررہا ہے.اللہ اکبر فرمایا.اللہ کی بڑائیاں بیان کریں.اللہ اکبر یہ تمام برائیوں سے نکلنے کی راہ ہے.آج کل شیطان بڑے زور سے تمہارا مقابلہ کر رہا ہے.مبارک ہیں وہ لوگ جو اضطراب سے اس کے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں.عشاء کی نماز سے پہلے سونا منع ہے فرمایا کہ عشاء کی نماز سے پہلے سونا منع ہے، مکروہ ہے،

Page 396

ناپسند ہے.اور پھر عشاء کی نماز کے بعد ٹریں مارنا نا پسند ہے.صرف ۹ بجے تک آپ کی نماز کا وقت تھا.فجر کی نماز منافق کا کام نہیں کہ وقت پر پڑھے.اللہ کی حمد سے نماز پڑھنی چاہیے طلوع شمس سے پہلے اور غروب شمس سے پہلے.جاہل لوگ بڑی جلدی سحر کیا کرتے ہیں.جمعہ اور ظہر فرمایا.اگر جمعہ کی نماز میں ایک رکعت ملے تو دوسری ایک رکعت پڑھ لے تو جمعہ ہوجاتا ہے.اگر سجدہ یا رکوع میں ملے تو پھر وہ جمعہ نہیں ہوتاوہ ظہر ہوجاتی ہے.ظہر پوری کرے.کن وقتوں میں نماز نہ پڑھے فرمایا.اگر سورج غروب ہورہا ہو تو نماز نہ پڑھے بعدہ پڑھے اور نہ ہی چڑھتے نماز پڑھے.بعض لوگ عصر کے بعد دو سنتیں کہتے تھے یہ ٹھیک نہیں.بادل کا دن ہو تو عصر کو سویرے پڑھ لینا چاہیے ورنہ رہ جاتی ہے یا دھوکا پڑ جاتا ہے.جو نماز رہ جاوے اس کے لئے جماعت کرنا اذان کہنا جائز ہے.۲۱ ؍ اپریل ۱۹۱۳ء بروزدو شنبہ سورۃ نمل سورۃ نمل میں مکہ معظمہ کے باشندوں کے لئے بتایا کہ اب تم تباہ ہوجاؤ گے.نہ کوئی تم میں سے کامیاب ہوا اور نہ کوئی نبی کریم کا مقابلہ کرے گا.پھر شام کے ملک کی طرف متوجہ کیا ان پر بھی مکہ والوں کی طرح اتمام حجت کی کہ اب تم ہلاک ہوجاؤ گے.(اخبار نور جلد ۵ نمبر ۲۴ مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۱) انجمن اور خلیفہ کی بحث اور خلیفۃ المسیح کا فیصلہ آئندہ خلیفہ کے متعلق بحث ان سوالات کے جواب دیتے ہوئے بعض بزرگوں نے کہا کہ آپ تو مستثنیٰ ہیں بحث آئندہ خلیفہ کے متعلق ہے اس پر فرمایا.یہاں قوت ایمانیہ روکتی ہے کہ موجودہ خلیفہ اچھا ہے یہ مستثنیٰ ہے اس کے متعلق بحث نہیں کرتے پھر آگے جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ پھر بحث اسی لئے ہے جو آئندہ ہو.آئندہ پیدا ہونے والا تو شائد لاکھ گنا بہتر ہوگا.

Page 397

انجمن کے حقوق خلیفہ کے مقابل حضرت خلیفۃ المسیح نے کسی شخص کے جوابات پر ریویو کرتے ہوئے فرمایا.پھر خلیفہ کو دبایا ہے کہ بانی سلسلہ نے صدر انجمن کو دبایا ہے خلیفہ اس کے ماتحت اور اتباع کا بنایا ہوا ہے.صدر انجمن ٹوٹی تو یہ خود ٹوٹ گیا.انجمن محافظ و مالک ہے خلیفہ کسی چیز کا مالک نہیں.انجمن کا فیصلہ قطعی ہے خلیفہ کا فیصلہ قطعی نہیں.یہ جواب ہیں واقعہ میں کسی نے دیئے ہیں یا افتراء باندھا ہے اس کو حوالہ بخدا کرتا ہوں.ایسی خبر بھی ہے کہ بیعت کے دوسرے روز یا تیسرے روز کسی نے یہ کہا کہ خلیفہ کے اختیارات محدود کرنے چاہیے.میں تمہارے قابو میں کب آسکتا تھا جو آج تمہارے پاس ہے اس پر تو پیشاب بھی نہیں کرتا.میرے دل میں اس کی عظمت ہی نہیں مجھے دنیا سے حرص ہی نہیں.انجمن کے لئے قاعدے دیئے ہیں، جیسے مسیح قاعدوں کے نہ تھا وہ خلیفہ بھی نہیں.عبرت! عبرت! !عبرت!!! اِتَّقُوااللّٰہ! اِتَّقُوااللّٰہ!! اِتَّقُوااللّٰہ!!! یہ کہنا کہ فلاں شخص کی خلافت کی تدبیریں ہیں.تم ہوکیا تم کو مرتد کر کے ہلاک کردے.جس کو تم قابل اعتراض سمجھتے ہو اگر خدا کے نزدیک ہوا تو تم کیا بلا ہو.حضرت مسیح موعوداولاد کے لئے کہتے ہیں.یاد رہے کہ ہر ایک کی شناخت اس کے وقت میں ہوتی ہے.میں سوال کرتا ہوں اگر تمہارے واسطے کوئی امام مقتدا جس کے ہاتھ پر بیعت کی ہو کچھ نہیں تو کون ہے جو تمہیں سمجھائے اوررات کے وقت اُبل اُبل کر دعائیں کرے.اگر اس کی ضرورت نہیں تو کیا تم خوش ہوسکتے ہو کہ قادیان میں صرف کلرکوں کو دیکھ کر خوش ہوجاؤ.جن کو خدا سلطنت دیتا ہے عقل بھی دیتا ہے.جس کے لئے خدا قلوب کو مسخر کردیتا ہے اسے عاقبت اندیشی بھی دیتا ہے.خالد بن ولید عرب کے ایک کنارے سے دوسرے کنارہ تک طواف کرگیا.اس نے وہ کام کئے کہ دنیا کی تاریخ گواہی نہیں دیتی.حضرت عمر ؓ خلیفہ ہو کر خالد بن ولید کو معزول کردیتا ہے.اب کسی کی طاقت نہیں کہ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے وقت سے سپہ سالار عرب ہے.وہ کسی سے پوچھتا نہیں اور حکم دیتا ہے خالد بن ولید معزول.اس کی جگہ ابو عبید ہ بن جرّاح کو مقررکردیا.

Page 398

کہتے ہیں انجمن اس لئے ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے مال کی محافظت کرے.مگر جب خلیفہ صاحب نہ ہوں گے تو مربیوں کا سلسلہ کیا.چار پانچ بوٹیاں فتو باغبان.یہ کہنا کہ الوصیت میں خلیفہ کا ذکر نہیں غلط ہے.سلسلہ احمدیہ کے معنے ہی یہ ہیں کہ ایک لڑی ہے.تم اس کو موقوف کرنا چاہتے ہو ایسا نہ کرو.تم نے یہ معنے کئے ہیں کہ خلیفہ لغو ہے صدر انجمن لغو ہے.خلیفہ کون ہے صدر انجمن کون ہے یہ غلطی تمہارے لئے نفع کا موجب ہو سکتی ہے.اگر میرا کہنا مانوتو ایک صلاح دیتا ہوں ساری دنیا میں ایک ہی خلیفہ ہو ساری دنیا کی انجمنیں صدر انجمن کے ماتحت ہوں.مخدوم کے قواعد مخدوم آپ جانے.اگر شریر بدنفس گُنڈہ ہوگا تو کیا خدا ہلاک کرنے کو کافی نہیں.ادھر ایسا امکان ہو سکتاہے کہ کوئی خلیفہ پاک نہ ہو تو کیا صدر انجمن کے ممبروں نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے.… دونوں طرف ہی خیر مناؤ.کہا گیا ہے کہ یہ کسی نے روپیہ کے لئے ایسا کیا اس سے توبہ کرو.میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ یہ غلط ہے.شیعہ اور خارجی موجود ہیںخارجی اور رافضی نمونہ نہ بنو.حضرت صاحب کا الہام ہے اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَہْلِکَ.اس الہام کے نیچے اولاد کو دیکھتے ہیں تو وہ جان قربان کرنے کو تیار ہیں.تم سے بڑھ کر بیوی صاحب حضرت صاحب سے منوا لیتی تھی مگر میرے سامنے اپنے آپ کو لونڈی کے برابر سمجھتی ہے خدا تو کہتا ہے اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَہْلِکَاور میرے لئے مال وجان سے تو قربان ہونے کو طیار ہیں.تم میں سے ایسے آدمی شائد بہت ہی کم ہوں جنہوں نے لباس کو استثناء کر کے کہا ہو کہ یہ روپیہ تیری ذات کے لئے ہے اور مجھے روپیہ دیا ہو.تم میں سے ایک بھی نہیں جس نے اتنا روپیہ دیا ہو.بیعت ایک معیار تھا.تمہارا سچ جھوٹ، دغا ،فریب، اقرار، عدم اقرار ان امور کی بیعت تصریح کرتی ہے.بڑی ہی پیاری روح یہ ہے محمود، پھر ان کی ماں ہے.یہ اقتباس اس تقریر کا ہے جو ضرورتاً پوری بھی دی جائے گی.(الفضل جلد ۱نمبر۴۳ مورخہ ۴؍اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۳) اپنی بیوی کو وصیت وفات کے ایک دو روز پہلے حضرت خلیفۃ المسیح مولوی نورالدین صاحب نے اپنی بیوی کو ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر دیا اور فرمایا کہ اسے پھر پڑھنا یہ دین ودنیا کے خزائن کی چابی ہے.

Page 399

ب حضرت کی وفات کے بعد اس کاغذ کو پڑھا گیا تو اس میں حضور نے یہ تحریر فرمایا تھا کہ (۱) پانچ وقت نماز کی پابندی رہے.(۲) شرک سے نفرت تامہ ہو.(۳) جھوٹ، چوری، بدنظری، حرص و بخل، عدم استقلال، بزدلی، بے وجہ مخلوق کا خوف تم میںنہ ہو بلکہ اس کی جگہ پابندی نماز، وحدت الٰہیہ، صداقت، عفت، غض بصر، ہمت بلند، شجاعت، استقلال میں اللہ کے فضل سے ترقی ہو.آمین اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس زرّیں نصیحت پر چلنے کی توفیق عطا فرماوے.(اخبارنور جلد۵مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۶) ایک شہادت ایک قابل اشاعت بات عرض کرتا ہوں اگر آپ اس کو اخبار میں درج کردیں تو ممنون ہوں گا.حضرت خلیفۃ المسیح مرحوم و مغفور (خدا کی ہزار ہزار رحمتیں ان پر اور ان کی آل پر) اپنے معمول کے مطابق بعد از درس صبح حضرت صاحبزادہ بشیر احمد مریضوں کو دیکھ رہے تھے جب ان سے کچھ فراغت ہوئی تو شیخ رحمت اللہ اور ڈاکٹر یعقوب بیگ اور اغلباً ڈاکٹر محمد حسین بھی حاضر خدمت ہوئے.بعد از سلام و آداب یہ لوگ بیٹھ گئے.دوران گفتگو میں حضور مغفور نے فرمایا.خواجہ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میر ناصر آپ کی خلافت کو کمزور کرنے اور میاں صاحب کی خلافت جمانے کے لئے چندہ جمع کرنے کے بہانہ سے لوگوں کو ورغلاتے ہیں.فرمایا.میں نے جواب لکھا ہے کہ میر صاحب تو ایک دہن کے آدمی ہیں ان کو ایسی باتوں سے تعلق نہیں.دارالضعفاء کا جوش آیا تو آخر دیکھ لو بنا ہی دیا؟ تم ایک ضروری کام کے لئے وہاں گئے ہو ان باتوں کا خیال چھوڑ دو.پھر آپ نے فرمایا کہ میں نے خواجہ صاحب کو لکھا ہے کہ میری خلافت میں تم نے جمہوریت کے واسطے شور مچایا تھا مگر یقینا جانو اسلام کو جمہوریت موافق نہیں.ٹرکی نے جمہوریت سے کیا پھل پایا.

Page 400

پھر ایک دفعہ مسجدخورد میں فرمایا.شیخ صاحب اور آپ کے دیگر احباب میاںسے صلح کرلیں اور ان کو منا لیں ورنہ تمام الزام تمہاری پنچایت کی گردن پر آئے گا.(اغلباً شیخ صاحب، ڈاکٹرین ماسٹر صدر الدین اور محمد علی) شیخ صاحب نے منانے کا وعدہ کیا.فرمایا.ابھی جائو.(میں اس کا حلفی گواہ ہوں).نواب دین گورنمنٹ کالج (الحکم جلد ۱۸ نمبر ۷،۸ مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۹) مکتوب دربارہ مسئلہ کفر و اسلام و نبوت مسیح موعود ؑ خلاصۂ سوالات کیا آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منکر برابر ہیں؟ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے معنی کیا ہیں؟ اگر نبی آسکتا ہے تو ابو بکر وغیرہ نبی کیوں نہ ہوئے؟ مکتوب میاں صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ آپ کے سوالات پر خاکسار کو تعجب آتا رہا.مجھے معلوم نہیں کہ آپ مقلد ہیں یا غیر مقلدہیں.پھر آپ کی استعداد کس قدر ہے جوابات کے لئے مخاطب کی حالت اگر معلوم ہو تو مجیب کو بہت آرام ملتا ہے.بہرحال گزارش ہے.آپ کفر دون کفر کے قائل معلوم ہوتے ہیں کیونکہ آپ نے کفر کے مساوات کا تذکرہ خط میں بہت فرمایا ہے.میاں صاحب ! رسولوں میں تفاضل تو ضرورہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(البقرۃ:۲۵۴) ابتداء پارہ تیسرا.جب رسل میں مساوات نہ رہی تو ان کے انکار کی مساوات بھی آپ کے طرز پر نہ ہوگی.تو آپ ایسا خیال فرمالیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے مسیح کا منکر جس فتویٰ کا مستحق ہے اس سے بڑھ کر خاتم الانبیاء کے مسیح کا منکر ہے.صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ.

Page 401

میاں صاحب! اللہ تعالیٰ مومنوں کی طرف سے ارشاد فرماتا ہے کہ ان کا قول ہوتا ہے.(البقرۃ:۲۸۷) اور آپ نے بلا وجہ یہ تفرقہ نکالا کہ صاحب شریعت کا منکر کافر ہوسکتا ہے اور غیر صاحب شرع کا منکر کافر نہیں مجھے اس تفرقہ کی وجہ معلوم نہیں ہوئی.نیز عرض ہے خلفاء کے منکر پر بھی کفر کافتویٰ قرآن مجید میں موجود ہے.آیت خلافت جو سورہ نور میں ہے اس میں ارشاد الٰہی ہے کہ (النور:۵۶).اور فاسق کو اللہ تعالیٰ نے مومن کے بالمقابل رکھا ہے.ارشاد ہے (السجدۃ:۱۹).بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں میں تفرقہ کنندہ کو قرآن کریم نے کافر فرمایا ہے.پارہ چھ۶ میں ہے.(النساء:۱۵۱) پھر فرمایا ہے (النساء:۱۵۱) یہاں تفرقہ بین اللہ و بین الرسل سچ مچ کفر کا باعث قرار دیا ہے.جن دلائل و وجوہ سے ہم لوگ قرآن کریم کو مانتے ہیںانہیں دلائل و وجوہ سے ہمیں مسیح کو ماننا پڑا ہے اگردلائل کا انکار کریں تو اسلام ہی جاتا ہے آپ اس آیت پر غور فرما دیں.(البقرۃ:۹۲) دلائل کی مساوات پر مدلول کی مساوات کیوں نہیں مانی جاتی.کیا آپ کے نزدیک مسلم رسل جو صاحب شریعت نہیں ان کا انکار بھی کفر نہیں میرے خیال میں مَیں اور اکثر عقلمند مرزائی یہ نہیں مانتے کہ تمام مساوی ہیں.کفردون کفر کے قائل ہیں.دوسرے سوال کا جواب عرض ہے.نازل ہونے والے عیسیٰ بن مریم کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ فرمایا ہے.نیز ان الہامات و وحیوں نے جو مرزا صاحب کو منجانب اللہ ہوئیں اگرآپ احادیث کو مانتے ہیں تو آپ لَااِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَۃَ لَـہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہٗ (مسند احمد بن حنبل مسند المکثرین من الصحابۃ مسند انس بن مالکؓ).لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ (القراۃ خلف الامام للبخاری باب وجوب القراء ۃ للامام).لَا نِکَاحَ اِلّ

Page 402

بِوَلِیٍّ(سنن ابن ماجۃ کتاب النکاح باب لا نکاح الا بولی).لَاحَدَّ اِلَّا فِی اثْنَتَیْنِ(المعجم الکبیر للطبرانی باب العین).میں غور فرماؤ.کیا یہ نفی آپ کے نزدیک عموم رکھتی ہے.پھر غور کرو اور قرآن کریم میں تو خاتم النبیین بفتح تاء ہے خاتم بکسر تاء نہیں.بھلا میاں صاحب!  (النساء:۶۲)میں آپ عموم کے قائل ہیں یا تخصیص کے.کسی شخص کو نبی اللہ کہنا خدا کے اختیار میں ہے انسان کے اختیار میں نہیں.ابوبکر کو نبی نہیں کہا گیا اور مسیح موعود کو کہا گیا.اس عرض پربس کرتا ہوں.یار باقی صحبت باقی.نور الدین ۵؍ جولائی ۱۹۰۷ء محمود کی مخالفت شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش دیئر ہاؤس راوی ہیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب حضرت خلیفۃ المسیح مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کی مخالفت میں بہت کچھ کہا.حضور نے فرمایا کہ خواجہ صاحب آپ خواہ کتنے ہی بڑے آدمی بن جائیں پھر بھی آپ سوچیں کہ یزید نے اہل بیت کی مخالفت کر کے کیا پھل پایا.میر محمد اسحٰق.(الفضل جلد۱ نمبر۴۶ ج مورخہ ۲۹ ؍اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۰) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ اور مسئلہ کفر واسلام دنیا میں جو قومی زلزلے آیا کرتے ہیں وہ نہایت ہی مفید ہوتے ہیں.بعض لوگ جو سست ہوجاتے ہیں وہ بھی اس موقع پر بیدار ہوجاتے ہیں اور ایسے ایسے لوگ میدان کارزار میں نکل آتے ہیں کہ جن کی خوبیوںکا ہمیں علم بھی نہیں ہوتا.ہماری جماعت کی موجودہ کشمکش نے بھی اس لحاظ سے اچھا اثر ڈالا ہے.اکثر دوست اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ میں مشغول ہوگئے ہیں.ان میں ہمارے دوست چوہدری برکت علی خان صاحب بھی ہیں.آج انہوں نے الحکم کے ۱۹۰۲ء کے فائل کی ورق گردانی کر کے ایک عجیب تحریر نکالی ہے جو مسئلہ کفر پر حضرت خلیفۃ المسیح خلیفہ اوّل کے الفاظ میں اچھی طرح روشنی

Page 403

ڈالتی ہے.اور جو ناظرین الحکم کے فائدہ کے لئے درج کی جاتی ہے.( اسسٹنٹ ایڈیٹرالحکم) آپ (سائل) فتویٰ پوچھتے ہیں کہ جن میں ۹۹ وجہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی ہو اسے ہم کافر کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ صاحب یہ حیرت انگیز اور بودا خیال و سوال ہے اور نہایت کمزور ہے.اس سوال پر اگر کوئی کہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کونہیں مانتا ، فرشتوں، رسولوں، انبیاء، جزاء وسزا کو نہیں مانتا.مثلاً.اور یہ پانچ باتیں ہیں.لیکن زنا نہیں کرتا یا شراب نہیں پیتا تو اسے مسلمان کہنا چاہیے؟ آپ تو ۹۹ کا سوال فرماتے ہیں میں تو صرف پانچ وجہ کا تذکرہ کرتا ہو.یا ایک شخص فرشتے مانتا ہے مگر نبی کریم ﷺ کو گالیاں دیتا ہے تو اس میں ایک وجہ کفر کی اور ایک وجہ اسلام کی ہے کیا آپ اسے مومن مسلمان کہیںگے؟ برادرم باشی سینکڑوں امور کفر کے ایسے ہیں کہ اگر ان میں ایک کا بھی معتقد ہو تو کافر ہوسکتا ہے کجا ۹۹.مثلاً کوئی کہے اللہ کا ماننا لغو ہے یا کہے رسول کا اعتقاد بیہودہ ہے تو کیا آپ کو اس کے کفر میں تردد ہوگا؟ اسرائیلی مسیح کے وقت منکر یہود اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے، توریت پر ان کا ایمان تھا، سب رسولوں کو مانتے تھے سوائے حضرت مسیح کے، کیا وہ کافر تھے یا نہ تھے؟ ہمارے پاک سردار سید و مولیٰ خاتم الرسل خاتم الانبیاء شفیع یوم الجزاء محمد رسول اللہ ﷺ کے منکر یہود و نصاریٰ اللہ کو مانتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے رسولوں، کتابوں، فرشتوں کو مانتے ہیں کیا اس انکار پر کافر ہیں یانہیں ؟کافر ہیں.اگر اسرائیلی مسیح رسول کا منکر کافر ہے تو محمدی مسیح رسول کا منکر کیوں کافر نہیں.اگر اسرائیلی مسیح موسیٰ کا خاتم الخلفاء یا خلیفہ یا متبع ایسا ہی اس کا منکر کافر ہے تو محمد رسول اللہ ﷺ کا خاتم الخلفاء یا خلیفہ یا متبع کیوں ایسا نہیں کہ اس کا منکر بھی کافر ہو.اگر وہ مسیح ایسا تھا کہ اس کا منکر کافر ہے تو یہ مسیح بھی کسی طرح کم نہیں.یہ محمدی مسیح اور محمد ﷺ کا جانشین اور اس کا غلام ہے.(الحکم جلد ۱۸ نمبر ۱۹ مورخۃ ۲۸؍ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸،۹) سیدنا نو رالدین قدرت ثانیہ کے کیا معنی کرتے ہیں صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفۃالمسیح اوّل کے عہد مبارک میں الوصیت دوبارہ طبع کرائی تھی اوراس کے ساتھ حضرت خلیفہ بلا فصل کی شرح بھی ساتھ ہی منسلک کی گئی ہے میں افراد سلسلہ عالیہ کی

Page 404

خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس کو ضرور ایک دفعہ مطالعہ فرماویں.اس میں صاف حضرت سیدنا نورالدین خلیفۃ المسیح رضی اللہ عنہ نے لکھ دیا ہے کہ یہ محض خدا کی قدرت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باوجود اتنے دعوے داروں کے مجھ کو خلافت کے لئے چن لیا اور جماعت کو مجھ پر جمع کردیا.اطاعت فی المعروف سے کیا معنی؟ حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ ان کی مرضی کے مطابق ہم فیصلہ کریں تو اطاعت کے لئے تیار ہیں.اگر ان کے ذرا بھی خلاف فیصلہ دیں تو کہتے ہیں کہ یہ امر بالمعروف نہیں ہے.(النور:۴۹تا۵۱) اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہیں.پھر ایک فریق ان میں سے پھر جاتا ہے اور وہ ایماندار نہیں ہیں اور جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ایک فریق ان میں سے پھر جاتا ہے اور اگر ان کے حق میں فیصلہ ہو تو فرمانبرداری کرتے ہوئے آجاتے ہیں.کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے.یا یہ شک میں پڑگئے ہیں یا ان کو ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا.بلکہ یہ خود ہی ظالم ہیں.(ماخوذ از قدرت ِ ثانیہ.الفضل جلد ۱ نمبر۵۲ مورخہ ۸ ؍ جون ۱۹۱۴ء صفحہ۱۱) منکران خلافت پر اتمام حجت حضرت خلیفۃ المسیح مولانا نورالدین کی قلمی شہادت مرزا یعقوب بیگ، شیخ رحمت اللہ، سید محمد حسین ، مولوی محمد علی صاحبان خطرناک مخالف ہیں.منکران خلافت کے سرغنوں کا جو طرز عمل اپنے مانے ہوئے مہدی اور خلیفہ سے تھا وہ حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی تحریر کے عکس سے ظاہر ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو اب

Page 405

پاک ممبر کہلاتے ہیں آپ کو نہ صرف تحریراً بلکہ سامنے زبانی بھی بہت دکھ دیتے رہتے اور آپ کی خطرناک مخالفت کرتے.مولوی محمدعلی صاحب چونکہ قادیان میں رہتے تھے اس لئے وہ خود ذرا پیچھے پیچھے رہتے اور ان کو اکسا دیا کرتے.جیسا کہ اس وقت ان کے سردار بن جانے سے ظاہر ہے کہ پسِ پردہ در اصل آپ ہی کا وجود تھا.اس خط کو پڑھ کر اب کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ خطرناک مخالف ہونے کا الزام جھوٹا ہے یا کسی نے حضرت مولانا خلیفۃ المسیح کو غلط فہمی میں ڈال دیا تھا.کیونکہ آپ نے لکھا ہے میرے سامنے اور تحریراً ان لوگوں نے خطرناک مخالفت کی ہے.پس سلسلہ کے غیور فرزند ایسے خطرناک عنصر سے علیٰحدہ ہو جاویں.یہ خط شیخ یعقوب علی صاحب کے نام ہے جو ان دنوںاجے گڈھ تھے.حضرت خلیفۃ المسیح نے ان کو اس لاہوری فتنہ کے مقابلہ کے لئے قادیان بلایا.نقل مطابق اصل السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ۱.سردار صاحب کومیری طرف سے سلام کہہ دیں.ان کے بچوں کی خیریت پوچھ لیں.۲.آپ اس علاقہ کا ذکر کرتے ہیں.مسلمانوں نے کیا عمدہ نمونہ دکھائے کہ لوگوں کے دلوں پر تصرف کرتے.کیاقادیان کی حالت قابل رحم نہیں.کیا یہاں سے آپ فارغ ہوگئے کہ وہاں کا فکر ہوا.اوّل خویشاں بعدہ درویشاں. حالت ناگفتہ بہ ہے.ایک برائے نام مسلمان ایڈیٹر نے مجھے بلاواسطہ کہا کہ اس وقت ضرورت ہے کوئی شخص مردم شماری میں مسلمان لکھوا دے چاہے کلمہ بھی نہ پڑھے.۳.للہ وفی اللہ وباللہ وعظ کرنے والے کہاں ہیں.بات کریں تو تنخواہ کا سوال پہلے پیدا ہوتا ہے.۴.شیخ محمد اسمٰعیل صاحب علیل ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جلد صحت بخشے ، مخلص ہیں.۵.جہاں علماء ، فقراء، امراء، اور کالجیٹ نوجوان ہی اسلام کو ایک غیر ضروری چیز یقین کریں وہاں ان بیچاروں کا کیا قصور خیال کیا جاوے.نورالدین۲۳ رمضان شریف

Page 406

یہاں خطرناک مخالفت کا جلوہ ہے.مرزا یعقوب بیگ صاحب ڈاکٹر اور شیخ صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب نے تو میرے سامنے اور سید محمد حسین صاحب نے تحریراً اور مولوی محمد علی صاحب نے سنتاہوں گو ابھی میرے پاس ثبوت کے لئے کوئی ذریعہ نہیں، کی ہے.فَاِنَّاْ لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن.نیز مولوی عبداللہ صاحب تیما پور سے تشریف لائے ہیں.ان کا کھلا دعویٰ ہے کہ قدرت ثانیہ میں ہوں اور ذریّت سے حضرت مسیح کے جس نے ہونا تھا وہ میں ہوں اَور بڑے بڑے دعاوی ساتھ ہیں.حتیٰ کہ سنا ہے کہتے ہیں مجھے کہاگیا ہے.اَنْتَ اللّٰہُ.اَنْتَ اَرْفَعُ مِنْ مُّحَمَّدٍ وغیرہ وغیرہ.میرے نزدیک ان کو جنون ہے وَالْعِلْمُ لِلّٰہِ الْکَرِیْم.ادھر ڈاکٹر عبدالحکیم اس پھوٹ کا منتظر ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرے.وَہُوَ حَسْبِیْ وَنِعْمَ الْوَکِیْل.یہ فقرات صرف اس لئے لکھے ہیں کہ آپ کو اجے گڑھ کے مسلمانوں کا فکر ہے اور مجھے سلسلہ احمدیہ کے مسلمانوں کا.وَاِلَّا مجھے یقین ہے کہ آپ نے آج تک میری اس رائے کی قدر نہیں کی کہ الحکم کو ترقی دو اور اس کا فکر کرو.تو اور کیا کہوں.والسلام نورالدین ۲۳ ؍رمضان شریف (الفضل جلد ۲ نمبر ۲۹ مورخہ ۲۳؍ اگست ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۲) پیغام صلح(لاہور) پیغام جنگ ہے آج کل ٹریکٹوں اور لاہور پیغام جنگ نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے اس لئے کسی آدمی کاروپیہکے لئے بھیجنا اور وہ بھی نور الدین کی طرف سے پسندیدہ نہیں.نیز نصرا للہ خان سے پہلے حاکم علی صاحب خود آگئے ہیں مجھے خود فکر ہے.نور الدین ۲۱؍نومبر۱۹۱۳ء (الفضل جلد۲ نمبر۳۳ یکم ستمبر ۱۹۱۴ء صفحہ۸) حضرت خلیفہ اوّل کا ایک پرانا خط شیخ عبدالرحمن صاحب و سید ولی اللہ شاہ صاحب مصر کو تشریف لے چلے تھے تو ان کو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے دو خط نصائح و ہدایات سے پر لکھ کر دئیے تھے.ان میں سے ایک اس اخبار میں شائع کیا جاتا

Page 407

ہے.اللہ تعالیٰ چاہے تو دوسرا خط کسی اگلے نمبر میں شائع ہوجائے گا.ایڈیٹر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَآلِہٖ مَعَ التَّسْلِیْمِ امّا بعد عزیزان ! علم نور ہے.اس کے لئے سفر کا ارشاد ہے.(التوبۃ:۱۲۲).سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے سفر کیا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا سفر فرمایا.مختصر فہرست علوم علم حفظ النفس، علم اصلاح النفس، علم ابقاء النفس، علم اوامر الٰہیہ و نواہی الٰہیہ، علم عقائد، علم الحساب، علم منطق، مبادی السنہ (اردو، عربی اور انگریزی) ، ہدایات الموسم، ہدایت البلاد، علم علاج، علوم طبعیہ، علوم ریاضیہ، علم تجارت، تاریخ، قانون، سیاست.پس علوم کا توازن و تفاضل ہو پھر اہم فالاہم کو دیکھا جائے پھر ترتیب دی جائے پھر ترتیب سے پڑھے.ہاں اپنی دلچسپی پر بنا ہو.جس علم سے دلچسپی نہیں اس کا پڑھنا تضیع اوقات ہے.اس لئے قلب کا فتویٰ تجربہ کاروں کا مشورہ لابد ہے.غور و فکر اور عاقبت اندیشی ضروری ہے.موانع علم بیماری ،ضیق الحال، سوء معرفت، لذات ناقصہ، انتقال الی الفوق قبل استحکام ماتحت، حبّ مال، کتب مختصرہ.پھر طالب علم صحیح الصدر والقلب والمعدہ ہو.مشورہ و ضرورت اوقات اور اہم کو مقدم کرے.ترتیب سے (البقرۃ:۱۲۲)سے پڑھے.عمدہ علوم و فنون کے بدیہی اصول پڑھ کر دلچسپی کا رنگ دیکھے.شریف الطبع ہو.کذب ، اسراف، غضب، شہوت ، کبر ، کثرت کلام، نمیمہ، ُغل، عجب و کسل، فسق و فجور، جزع، مخالطۂ سفہاء سے بچنے والا ہو.شاب، فارغ القلب، صحیح المزاج، محب العلم ، صاحب عزم و استقلال ، منصف، متدین، امین، مخلصم، مُطَہَّرٌعَنِ الْاِنْجَاسِ الظَّاہِرَۃِ وَالْبَاطِنَۃِ ہو.یَتَعَلَّمُ لِلّٰہِ وَ بِاللّٰہِ وَ فِی اللّٰہِ عَالِمًا بِوَظَائِفِ الشَّرِیْعَۃِ لَا یُبَاہِیْ وَ لَا یُبَارِیْ وَ یُذَاکِرُ وَ یُتَدَارَسُ وَلَا یُؤَخِّرُ شُغُلَ یَوْمٍ لِّیَوْمٍ اٰخَرِ.

Page 408

(اس فقرہ کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ علم سیکھے اللہ کے لئے، اللہ کی مدد سے اور اللہ میں ہو کر.شریعت کے احکام کا عالم ہو، نہ فخر کرنے والا اور نہ مقابلہ کرنے والا اور دوسروں سے علمی باتیں کرکے علم کو پکا کرتا رہے اور علم کو بار بار پڑھتا رہے اور ایک دن کا کام دوسرے دن پر نہ ڈالے.ایڈیٹر) ماہر فن، شریف الطبع ،صالح سے پڑھے.معلم وسیع الاخلاق ناصح ہو.تعلیم میں فہم و طاقت کو اور نشاط طالب کو مد نظر رکھے.عامل بالعلم ہو.تعلیم کے طریق سے آگاہ ہو.خلط بحث تعلیم و تعلم میں نہ ہونے پاوے.وَالْقُرْآنُ کَافٍ وَ شَافٍ بِحَمْدِاللّٰہِ وَ ہُوَ نُوْرٌوَّ ھُدًی وَّ شِفَائٌ وَّ رَحْمَۃٌ.(یونس:۵۹) (العنکبوت:۵۲).(اس عربی عباعت کا ترجمہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہی انسان کے لئے کافی ہے اور اس کی ہر مرض کا علاج ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کا اقرار کرتے ہیں کہ اس نے ہم کو ایسی کتاب دی اور وہ نور ہے اور ہدایت ہے اور شفاء ہے اور رحمت ہے.( آگے دو آیتیں لکھی ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے) پس چاہیے کہ لوگ اسی پر خوش ہوں اور یہ ان سب اشیاء سے جو لوگ جمع کرتے ہیں بہتر ہے.کیا ان لوگوں کے لئے کافی نہیں ہوا کہ ہم نے تجھ پر ایک کتاب اتاری ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے.اس میں رحمت اور نصیحت ہے مومنوں کے لئے.ایڈیٹر) سنا ہے کہ اصول التفسیر ابن قیم، استفتاء والقرآن ،بصائر ذوی التمییز مجدفیروزآبادی عمدہ ہیں.وہ میں نے نہیں دیکھیں اور شوق ہے.ایسا ہی قطف الثمر اور مترک الاقران جلال الدین سیوطی سنا ہے عمدہ ہیں.آپ بہت دعائوں سے عمدہ تفسیر اللہ تعالیٰ سے مانگو یا صرف بلکہ صرف قرآن پر تدبر کرتے رہو.مدیر المنار نے بنام محمد عبدہ ایک تفسیر نمبر ۲، ۳، ۴ شائع کی ہ مگر اس میں تعصب اور بے جا طول ہے.علاوہ بریں وہ ہمارا غالی دشمن اور مسیح پر بدزبان ہے.ہمیشہ اس کے پاس اس کو دشمن یقین کرکے جائو.ہاں فصیح اللسان والحق یقال.

Page 409

احادیث میں ۱.موطاء امام محمد اور امام یحيٰ.یہ دونوں موطاء امام مالک ہیں.اگر ان کی شرح تمہیدا ابن عبدالبر اور استذکار ابن عبدالبر مل جائے.۲.مسلم کی صحیح (یعنی امام مسلم کی کتاب جو صحیح مسلم کے نام سے مشہور ہے.ایڈیٹر) ۳.الجامع الصحیح البخاری بشرح فتح الباری لابن حجر الشافعی الحافظ و شرح ابن رجب الحنبلی و شرح الاسکندر انی المالکی و شرح بدر الفہی الحنفی بہت ہیں.ہاں ابو دائود پر منذری و تہذیب السنن.ترمذی پر قاضی ابوبکر ابن ماجہ پر ابن ملقن ابن رجب اور عراقی کی وہ یادداشتیں جو اس کے غلط مقامات پر ہوں.۴.فقہ میں مذاہب اربعہ کے وہ مختصرات جو صاف اور آساں ہوں مثلاً قدوری حنیفہ میں.۵.اصول میں اسی طرح صاف صاف مثلاً اصول شاشی حنفیہ میں رسائل اربعہ اتقان سے پڑھنا.اصول حدیث میں نخبہ.تجوید میں صالح قاری سے ایک دو آیات قرآنیہ ہر روز پڑھ لینا جزویہ.شاطبہ.ادب میں قرآن ، بخاری ، عمدہ اخباریں اور منتخب جرائد پھر وقت ملے تو السبع المعلقات، حماسہ، دیوان افوہ الدودی.بعض مقامات ہمدانی و حریری و بعض ابواب اطباق الذہب و اطواق الذہب و مقامات زمخشری.اگر دلچسپی ہو اور قوت برداشت کرے تو تمام مفتاح العلوم اتقان سے پڑھیں.جب سبق پورا سمجھ میں نہ آوے آگے مت پڑھو.مفتاح کے شروح میں صرف مقامات مشکلہ پڑھو.زبان صرف بولنے اور سننے سے آتی ہے.صرف و نحو کے پڑھنے سے ہرگزنہیں آتی.کیا ہم نے پنجابی صرف و نحو پڑھ کر سیکھی.کبھی صرف و نحو پر وقت ضائع نہ کرو.الکتاب سیبویہ بڑی عظیم الشان کتاب ہے مگر اس کے شروح دیکھ لئے اور بس.تاریخ میں مقدمہ ابن خلدون قابل پڑھنے کے ہے اور بدایہ و نہایہ، ابن کثیر، تاریخ کبیر بخاری قابل مطالعہ.تصوف میں فتوح الغیب ہے یا قشیریہ ماہر ملے تو فصوص الحکم.علم کلام میں صرف قرآن، صرف قرآن اور بس.ہاں.(الفضل جلد۲ نمبر ۷۲ مورخہ یکم دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ۶ )

Page 410

خط بطرف شیخ عبد الرحـمن صاحب و سید ولی اللہ شاہ صاحب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ امّا بعد اوّل استخارہ، استخارہ، استخارہ آپ ولی اللہ میاں صاحب سب کرو.دوم.صَلٰوۃُ الْحَاجَّۃ حسب آداب حدیث پڑھو.سوم.علوم کی قیمت اور ان کی ترتیب، ضرورت، اہمیت کا عظیم الشان مشورہ پہلے یہاں کرو.پھر جہاں جہاں موقع لگے.چہارم.ابو سعید عربی اور اس بزرگ سے جس کی میاں صاحب سے خط و کتابت ہے ملاقات کر کے بھی یہی سوال پیش ہو.پنجم.اعلیٰ ضروری اہم بڑی قیمت والا اپنی دلچسپی کے مطابق اور کس طریق سے علم پڑھا جاوے.پھر اس کے بعد کتابوں کا انتخاب ہو اور عمدہ سی کتابیں مہیا کی جاویں قدیم اور جدید.ششم.جہاں تک ممکن ہو عمدہ سے عمدہ، مفید ،جلد منزل مقصود کو پہنچانے والی ہوں.ہفتم.قرآن مجید منتخب شدہ کتاب ہے وَلَا کِتَابَ اَعْلٰی وَاَعَمُّ نَفْعًا وَ کِفَایَۃً وَ ھَدَایَۃً وَ نُوْرًا وَ رَحْمَۃً وَ شَفَاعَۃً وَ ھٰذَا....عَلٰی بَصِیْرَۃٍ مِّنِّیْ وَ مِمَّنْ تَبِعَنِیْ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.اور اس کا علم تقویٰ ،تدبر، دعا سے حاصل ہوتا ہے.ہر ایک آیت اس کی مصدق دوسری آیت ہی ہوتی ہے.ہشتم.مؤطا محمد و یحیٰ للامام مالک و مسلم وَالْاَ نْفَعُ الْاَرْفَعُ وَلَا....کِتَابَ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ الْجَامِعِ الصَّحِیْحِ الْبُخَارِیْ.مؤطا معہ قول محمد طبع ہند نُوَوِیْ عَلَی الْمُسْلِمِ نظر سے گزرے تو استذکار تمہید پر ضرور توجہ رکھیں.

Page 411

بخاری کے چند مقامات مشکلہ کو الگ نوٹ کرلینا.اوہام روات، اضطراب ، مشکلات اور زمانہ حال کے اعتراضات.پھر ان مقامات کے شروح اور ان کے سوالات علماء سے دریافت کرتے رہنا.مخالفت......کے لئے نہیں.ظہور حق کے لئے اس پر عمدہ شروح حنابلہ و مالکیہ کی دیکھ لینا اور دریافت کرنا.گو فتح الباری مفید اور عینی نافع ہے.قرآن کریم کی تفاسیر میں صرف متشابہات کو محکمات کے مطابق کرنے کی سعی کرنا اِلَّا لَا لِلْفِتْنَۃِ وَلَا لِشُغْلٍ.فقط.محلّٰی ابن حزم...............نیل الاوطار، ام ،امام ، المام، عمدہ کتب فقہ ہیں.مجمع الزوائد، ابن حبّان وابن خزیمہ اصلاح المستدرک، مسند عبد الرزاق، مسند سعید بن منصور، مصنف ابن ابی شیبہ گوموکی علیھا کتابیں ہیں.مگر گو نہ مفید ہیں.ادب میں کامل مُبَرَّدْ،ادب الکاتب ابن قتیبہ صناعتین.کتب ورسائل حافظ معتزلی، اسرار البلاغۃ اور دلائل الاعجاز لعبد القاہر، مفتاح العلوم، للسکا کی میرے خیال میں عمدہ ہیں، الکتاب لسیبویہ بابرکت ہے.صحاح جوہری مد نظر رہے اور اس کے اشعار حل کرتے رہو (گو آہستہ آہستہ اور بہت تدریج سے ہوں) صرف و نحو میں بہت تدقیق مناسب نہیں.نہ لمبی تحقیق نہ ان کے قواعد یاد کرنا ضروری ہیں.مختصراً اس پر نظرہو.فصیح بولنا، فصاحت سے لکھنا ، فصحاء کی مجالس، فصیح فقرات لکھ لینا، عمدہ اخباروں کے عمدہ آرٹیکل پڑھنا.اگر ممکن ہو تو عمدہ عمدہ جدید طب کی ہر شعبہ کی کتابیں ضرور نظر سے گزار لو اور کچھ طریق طبِّ جدید وہاں سیکھ لو.جلساء صالحون کے لئے دعا دعا.دعا رؤیت شہر وقریٰ، کبھی موقع ملے تو مکہ معظمہ، مدینہ طیّبہ ضرور جائیں.دعائیں، دعائیں، دعائیں.صحـبتِ صلحاء، مجالس اتقیاء ،قربِ ابرار و اَخیار ضروری اور لَابُد ہے.ہاں سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو.والسلام نور الدین ۸؍جولائی ۱۹۱۳ء (الفضل جلد ۲ نمبر۷۳ مورخہ ۳؍دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۵)

Page 412

خلافت راشدہ ہر چندخلافت راشدہ کی حقیقت اور تمکین کا اظہار پوری شوکت اور قوت سے ہوچکا ہے تاہم ابھی تک بعض برخود غلط اور نافہم لوگ کسی نہ کسی پہلو سے اس حقیقت کو مشکوک کرنے کی بیجا کوشش کرتے رہتے ہیں.میں نے ارادہ کیا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے خلافت کے متعلق جس قدر تقریریں یا تحریریں کی ہیں ان کو شائع کردیا جائے.خدا تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ وہ حقیقت شناس طبیعتوں کو اس سے بہرہ اندوز ہونے کی توفیق عطا فرمائے گا.ایڈیٹر اَللّٰہُ اَکْبَرُ.بڑا بننا اور بڑا بنانا بھی کوئی فطری امر ہے.یوں تو ہر ایک شخص کی فطرت میں کچھ نہ کچھ خود داری اور بڑائی کا مادہ ہوتا ہے مگر جو لوگ دنیامیں بڑے ہو کر گزرے ہیں اور وہ کئی اقسام ہیں.ان میں سے بعض کی نسبت ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے فضل سے بڑا بنایا اور ہزارہا نفوس کو ان کی طرف جھکا دیا اور وہ بڑے آدمی بن گئے لیکن جہاں تک ہم نے ان کی نسبت غور کیا ہے ان کے اندر بڑا بننے کی کوئی خواہش ہمیں نظر نہیں آتی.حضرت موسیٰ علیہ السلام ہم مسلمانوںکے نزدیک بہت بڑے آدمی ہیں.ان کو بڑا بنایا گیا اور جناب الٰہی نے فرمایا کہ تو فرعون کے پاس جا لیکن کبھی تو وہ یہ عذر کرتے ہیں کہ میرا بھائی ہارون بہت عمدہ بولنے والا ہے اور کبھی یہ عذر کرتے ہیں کہ فرعون کے متعلق ہم سے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے مجھے ڈر لگتا ہے کہ وہ مجھے قتل کر ڈالے گا.جائے غور ہے کہ خدا بنانے والا اور موسیٰ اس کی قدرتوں پر ایمان لانے والا مگر کیا عجیب نظارہ ہے کہ کہیں تو اپنی جان کا خوف بیان کرتے ہیں ، کہیں اپنے بھائی کو بڑھ کر بتلاتے ہیں.گویا کسی طرح بھی اس عہدے کے واسطے خواہشمند نہیں ہیں.کیا الفاظ فرماتے ہیں.(الشعراء:۱۴،۱۵).حضرت دائود علیہ السلام کا بھی ایسا ہی حال معلوم ہوتا ہے.ان کے متعلق کہا ہے کہ (صٓ:۲۵)جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معافی مانگتے ہیں.اگلی آیت اس مطلب کو صاف کرتی ہے جہاں فرمایا ہے.

Page 413

(صٓ:۲۷)جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خلافت کا عہدہ ان کے سر پر رکھا گیا جو انہیں اٹھانا پڑا.تاریخ کے پڑھنے سے بھی ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ بعض وقت لوگوں نے کسی کو پکڑ کر جبراً بادشاہ بنا دیا اور جناب الٰہی نے بھی اس کی مدد کی، موقع دیا، زندگی دی، کارکن آدمی دئیے وہ بڑا آدمی بن گیا.تاریخ ایسے لوگوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے بڑا بننے کی کوششیں بھی کیں ، زور بھی لگایا، مال بھی خرچ کیا، جتھے بھی بنائے جو کام نہ کرنے کے تھے وہ بھی کر گزرے مگر بڑائی کا تاج ان کے سر پر نہ رکھا گیا پر نہ رکھا گیا اور جب وقت آیا تب بازی کوئی اور ہی لے گیا.ہمیں اس وقت دنیا اور جہان کے بڑوں کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں.ہم تو اس وقت مذہبی پیشوائوں کا ذکر کرتے ہیں.جن کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے بہت سی مخلوق اکٹھی کردی ہے اور ان کو موقع، عمر، توفیق سب کچھ عطا فرمایا ہے.حیاتی بھی دی آدمی بھی دئیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور کیا عجب فرماتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو بڑا بنانا چاہا تو فرمایا.(البقرۃ:۱۲۵).پھر دیکھو خدا کے بنانے نے کیا کام کیا.کہتے ہیں نمرود حضرت ابراہیم کے زمانہ میں کوئی بڑا آدمی تھا مگر اب تو تاریخ میں صحیح اس کا نام و نشان بھی نہیںملتا.یہاں تک کہ یورپ کے لوگوں کو تو شبہ گزرا ہے کہ نمرود کوئی تھا بھی یا کہ نہیں اور قرآن شریف میں بھی نمرود کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صحیح حدیثوں میں بھی نہیں.غرض کچھ ہی ہوا ابراہیم کے دشمن کا نام و نشان دنیا میں نہ رہا.بالمقابل خود حضرت ابراہیمؑ کویورپ ، امریکہ، تمام یہودی ، تمام نصرانی ، تمام مسلمان آج تک عظیم الشان کہتے ہیں اور عزت و تعظیم کرتے ہیں.علیہ السلام والبرکات.غرض اپنی تدبیروں اور ڈھکوسلوں سے کوئی شخص بھی پیشوا نہیں بن سکتا.مجھے قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوگیا ہے کہ ائمہ دین اور ان کے نواب و خلفاء کا کام سب کام جناب الٰہی کے سپرد ہیں.وہ خود بھی کسی کو امام اور خلیفہ بناتے ہیں اور آ پ ہی اس کے متولی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.

Page 414

 (السجدۃ:۲۵).پس امامت کا حقیقی سرچشمہ حضرت حق سبحانہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے.آدم کی نسبت بھی ایسا ہی فرمایا ہے کہ (البقرۃ:۳۱).جس طرح امامت حقیقی حضرت پروردگار کی طرف سے ہی عطا ہوتی ہے ایسا ہی ان اماموں کے خلفاء اور اماموں کا بھی حال ہے.خلافت کسی شخص کی تدبیر سے نہیں بن سکتی.قرآن شریف میںصاف لکھا ہے (النور:۵۶).اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ امامت ہو یا خلافت ہو بدوں تائید الٰہی کے کچھ نہیں ہوسکتا.آیت استخلاف سے قبل جناب الٰہی نے ایک بہت لمبا ذکر کیا ہے.اس میں اشارہ ہے کہ جن لوگوں کو ہم خلیفہ بنانے والے ہیں وہ ایک نور الٰہی اپنے اندر رکھتے ہیں اور تا جر لوگ ہیں.جناب الٰہی کی بڑائی ان کے گھروں میں صبح شام ہوتی ہے.یہ بھی ذکر آیا ہے کہ ان کی مخالفت ہوگی مگر ایسی ہوگی جیسا کہ کوئی دور سے سراب کو پانی سمجھتا ہے یا دریا میں موجود ہے مگر ظلمتوں کے سبب اپنے ہاتھ کو بھی نہیں دیکھ سکتا.کیا معنے ان خلفاء کے دشمن یا دھوکے میں ہوں گے یا جان بوجھ کر غلطی و ظلمت میں.پھر خلفاء کے دشمنوں کی تباہی کا ذکر فرمایا ہے.بھلا کوئی بتائے کہ کیا موت اور حیاتی اور وحدت ارادی کوئی اختیاری امور ہیں.جہاں تک قرآن شریف اور اس کے مطابق واقعات کو دیکھا جاتا ہے امامت اور خلافت کے لئے پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ اس کا حسب و نسب اعلیٰ درجہ کا ہو.ولی بننا، قرب الٰہی کا حاصل کرنا اور فیضان الٰہی کا مظہر بننا کسی حسب و نسب پر موقوف نہیں مگر امامت و خلافت کے واسطے اس مرحلہ کو بھی طے کرنا ضروری ہے.جو بدوں ازاں اس کے ممکن نہیں.بخاری شریف کے ابتداء میںلکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی سوال ہوا تھا.کَیْفَ لِنَسَبِہٖ فِیْکُمْ ( وہ کیسا شریف و معظّم خاندان کا ہے) اور جواب دیا گیا تھا کہ ھُوَ فِیْنَا ذُوالنَّسَبِ.دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وہ بسط فی العلم رکھتا ہو.اس شرط کے متعلق قرآن شریف میں (البقرۃ:۲۴۸)فرما کر آگاہ کردیا ہے کہ امامت دینی کے لئے حوصلہ اور بسط فی العلم کی بڑی ضرورت ہے.ہر زمانہ کا امام اپنے مخالف سے وسعت کے ساتھ بحث کرسکے نیز خلیفہ اور امام کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اخلاق وسیع ہوں.جتنا

Page 415

بڑا ہو اتنے ہی اس کے اخلاق میں وسعت ہو.ہمارے مطاع و مقتدا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جناب الٰہی فرماتے ہیں.(القلم:۵).اس موقع اور محل پر عمدہ و مناسبت کے لحاظ سے کوئی سختی کرے جو مصالح وقتی پر موقوف ہو تو اس سے وہ نہیں چوکتا مگر اس کی کلام اور حرکات مجنونانہ نہیں ہوتے وہ مجنونانہ وار جامہ سے باہر نہیں نکلتا اور الٰہی نصرت ہر دم اس کے ساتھ ہوتی ہے. (القلم:۶،۷)اور فرمایا (المؤمن:۵۲)اور فرمایا (الروم:۴۸) اور فرمایا (المنافقون:۹).وہ محبت الٰہیہ میں روزانہ ترقی کرتا ہے کسی وقتی اور آنی ناکامی سے گھبرا تا نہیں بلکہ قدم آگے بڑھاتا ہے.نقص علم اور نقص تقریر سے اسے بہت تنفر ہوتا ہے اس لئے ان امور میں ترقی کرتا رہتا ہے.معارف قرآنیہ سے متمتع ہو کر عام مخالفوں کے لئے مقابلہ کے واسطے تیار رہتا ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الرحمٰن:۲تا۵).انسان سے مراد وہی کامل انسان ہے وہ ابکم نہیں جو اپنے مولا پر دو بھر نہ ہو.ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (النجم:۶تا۸).معلم عظیم کا سدھایا ہوا تعلیم میںکمال رکھتا ہے اور وہ اپنے زمانہ میں افق اعلیٰ پر ہوتا ہے.اس کا مقابلہ کرنا خوفناک ہوتا ہے.وہ اپنی ترقیات کے لئے دعائیں مانگتا ہے.حضرت موسیٰ فرماتے ہیں.(طٰہٰ:۲۶تا۲۹).وہ اپنے کسی علم کو کافی سمجھ کر نہیں ٹھہرتا بلکہ ہر وقت قدم آگے بڑھاتا ہے.موسیٰ علیہ السلام نے تو کہا ہی تھا مگر جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ (الانشراح:۲) وہ بھی کسی مقام پر ٹھہرنا پسند نہ کرتا تھا.اس واسطے الہام ہوا.(طٰہٰ:۱۱۵).اس کا عزم بڑا قوی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الاحقاف:۳۶)اس کی بعض تدابیر کارگر نہیں ہوتیں اور بعض وقت اس کے جان نثار احباب کو

Page 416

صدمات پہنچتے ہیں مگر یہ سب کچھ اس کی ترقی کا موجب ہوتا ہے اور رنگ برنگ صدمات میں وہ وفادار ثابت ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(النجم:۳۸)صدق و اخلاص اور اقبال علی اللہ میں اس کے لئے کوئی روک نہیں ہوتی.ہاں یہ لوگ مصائب میں آتے ہیں.قرآن شریف میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(یوسف:۱۱۱) (البقرۃ:۲۱۵).یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے.تب ان کو آواز آتی ہے کہ (البقرۃ:۲۱۵).کشوف صحیحہ الہامات صادقہ اور کائنات کے عظیم الشان تغیر سے اس کو بعض وقت آگاہی ملتی ہے.سرور اور شوکت اور نیکی میں ترقی پکڑنا یہ اس کا تاج ہوتا ہے.ہر ایک قسم کی بزدلی اور جبن سے اس کی طبیعت کراہت کرتی ہے.اس کی بہت دعائیں اس کے لئے قبول ہوتی رہتی ہیں کہ وہ اپنے مولیٰ کا شکر گزار ہو اور بعض دعائیں اس واسطے نہیں سنی جاتیں کہ وہ صبر کے.....سے متمتع ہو.یہ بھی ضرور ہے کہ لوگ اس کی مخالفت کریں اور کرتے ہیں وہ ناخنوں تک زور لگاتے ہیں تا کہ باوجود ان مخالفتوں کے اس کی کامیابی اس کی صداقت کا نشان ہو.ہم نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ بڑے بڑے دعاوی کرتے ہیں مگر کوئی ان کو پوچھتا بھی نہیں اور نہ کوئی ان کا معترض ہوتا ہے.لاہور میں ہمارے ایک پرانے آشنا ہیں ان سے وہاں ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مرزا صاحب کے معاملہ میں لوگ آپ کی مخالفت اس واسطے کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے پیر کا ادب نہیں کیا اور اسے صرف مسیح کہا.مسیح کیا ہوتا ہے؟ ہم تو اپنے پیر کو خدا کہتے ہیں.یہ کہہ کر اس نے وہاں جو بیٹھے تھے ان کو بلند آواز سے پکار کرکہا کہ کیوں او لاہوریو!ہم اپنے پیر کو خدا کہتے ہیں یا نہیں.انہوں نے کہا.بے شک آپ اپنے پیر کو خدا کہتے ہیں.پھر مجھے کہنے لگا دیکھو ہماری کوئی مخالفت نہیں کرتا.غرض ایسے لوگوں کی مخالفت میں جوش نہیں ہوتا مگر صادق حق گو کی مخالفت میں جوش اٹھتا ہے.پھر باوجود اس کے وہ ایک حد تک کامیاب ہو کر دنیا سے جاتا ہے اور اس کے پورے پورے مخالف کبھی تو (البقرۃ:۱۶)کے مصداق ہوتے ہیں اور گاہے(الطارق:۱۸)کے ماتحت کچھ

Page 417

مہلت حاصل کرتے ہیں اور(المومنون:۵۶)کے نیچے زندہ رکھے جاتے ہیں مگر اکثر ہلاک یا ذلیل ہوتے یا تھک جاتے ہیں.کم از کم کوئی جماعت نہیں بنا سکتے جو اصل مدعا ہے اور وہ جو صادق ہے اس کو تاج قبولیت عطا کیا جاتا ہے.وہ عملی نمونہ دکھاتا ہے اور تائیدات ارضیہ و سماویہ اس کے ساتھ ہوتی ہیں.اس کی مجلس اور صحبت میں جو لوگ زیادہ رہتے ہیں یا بار بار اس کے پاس آتے ہیں انہیں علوم دینیہ اور معارف قرآنیہ اور معرفت الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اور حقیقی محبوب کی لو ان کے دلوں کو لگ جاتی ہے.توبہ کی طرف توجہ کا ایک بڑا حصہ ان لوگوںکو عطا کیا جاتا ہے.اگر کوئی ان کی خدمت کرتا ہے تو نعم البدل سے محروم نہیں رہتا.جس امر کو وہ ضروری کرکے پیش کرتے ہیں زمانہ ان کی اور ان کے مسائل کی ضرورت کو پہلے محسوس کرتا ہے.تب ہی تو کہنے والے نے کہا ہے ؎ آسمان بار د نشان الوقت می گوید زمین ایں دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند بعض دعائوں سے بھی ان کو روکا جاتا ہے.چنانچہ حضرت نوح کو فرمایا گیا کہ (ھود:۴۷).حضرت ابو الخلفاء ابراہیم خلیل اللہ کو کس محبت سے فرمایا گیا ہے کہ(ھود:۷۵).ان لوگوں کی آمد پر ایک غلغلہ ہوتا ہے اور جن مسائل کے لئے وہ کوشش کرتے ہیں ان مسائل کی طرف لوگوں کی توجہ ان کی قبولیت کے لئے پہلے ہی سے شروع ہوجاتی ہے.نادان کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ نادان شخص نے بیان کیا ہے مگر وہ نہیں سمجھتے کہ اسی کی تصدیق کے لئے یہ کام پہلے سے ہوا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے کس قدر قبل شرک سے نفرت لوگوں کے دلوں میں آچکی تھی اور یہود کا بھی یہ حال ہوگیا تھا کہ (البقرۃ:۹۰).قوم کے اجزاء متفرق ہوتے ہیں اور یہ شخص ان متفرق اجزاء میں وحدانیت کی روح پھونکتا ہے.نادان یہ خیال کرتا ہے کہ یہ شخص تفرقہ پھیلاتا ہے حالانکہ تفرقہ تو پہلے سے موجود ہوتا ہے اور بڑا سخت ہوتا ہے.اس کے سبب سے تو ایک اجتماع کی صورت برپا ہوجاتی ہے.ایسے لوگوں پر جب فیضان الٰہی کی بارش ہوتی

Page 418

ہے تو بہت سارے چھینٹے ان کے سوائے لوگوں پر بھی جا پڑتے ہیں اور ان کو بھی الہام ہوجاتا ہے.جیسا کہ عبداللہ بن ابی سرح کو جو کاتب وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھا تَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ کا الہام اس وحی کے نزول کے وقت ہوگیا اور بے اختیار اس نے یہ کلمہ اپنے منہ سے نکال دیا مگر یہ امر اس کے واسطے موجب ابتلاء ہوا کیونکہ جس پر یہ وحی نازل ہوئی تھی اس کے بالمقابل ابن ابی سرح کی کیا ہستی تھی اور اس کو کیا کامیابی حاصل ہوسکتی تھی.حضرت عمر بھی ملہم اور محدث تھے اور اس انبساط کے وقت ان کو بھی حصہ ملا مگر سعادتمندی اور عاقبت اندیشی نے ان کو اصل مامور کا غلام ہی بنائے رکھا اور اس مامور کے خلیفہ اوّل کے خادم صادق ہی بنے رہے.جس طرح تمام انجمنیں کسی مرکز کے سہارے پر چلتی ہیں اور جس طرح نظام شمسی بھی کسی مرکز سے وابستہ ہے اور جس طرح اعضاء در اعضاء سلطنتوں میں صدر کی حاجت ہے اور جس طرح خاندانوں کے بقا اور اعزاز کے لئے سربراہ کی ضرورت ہے اسی طرح روحانی سلطنتیں بھی ضرور ایک مرکز پر ہوتی ہیں.کیا کوئی شک کرسکتا ہے کہ اس وقت مختلف مسلمانوں کے عقائد ایک نہیں اور ان کے اعمال میں کس قدر اختلاف ہے.معارف قرآنیہ کی تو بڑی شان ہے.اب تو لوگ معمولی طور پر جس قدر قرآن پڑھتے تھے اس کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں اور مدارس قرآن کی رونق کم ہورہی ہے.عمل بالقرآن تو بڑی بات ہے اور اس سے بے پرواہ ہورہے ہیں.علماء تو سر تھے اور اہل عرفان ان سروں کے سر تھے اور امراء دونوں کے مطیع اور دونوں کے مطاع تھے.باقی خلقت ان سب کی متبع ہے.پھر کیا یہ خلقت آجکل ایسی نہیں کہ قرآن کو چھوڑ کر سب الگ الگ اختلاف میںپڑے ہوئے ہیں.آجکل ہم سے بعض آدمیوں کے متعلق سوال کیا جاتا ہے جو کچھ اپنے دعاوی لوگوں کے سامنے تحریراً یا تقریراً پیش کرتے ہیں ان کے نام یہ ہیں.عبدالحکیم پٹیالوی، میاں نبی بخش بٹالوی، میاں محمد بخش جو آجکل گورداسپور میں ہے، مولوی یار محمد مختار، میاں عبداللہ تیماپوری.انہیں کے متعلق ہم نے یہ مضمون لکھا ہے اور اس میں صادق اور مقبولوں کے نشانات بتلادئیے گئے ہیں.ہر ایک شخص اپنے طور پر خود غور کرلے اور ان لوگوںکو اس کسوٹی پر پرکھ لے جو ہم نے ان کے سامنے پیش کردی ہے.میں

Page 419

ایسے لوگوں سے بہت دلچسپی نہیں لیتا کیونکہ یہ لوگ مولوی ثناء اللہ کی طرح اپنی مخالفت کو اپنی خیالی ترقیات کا ذریعہ خیال کرتے ہیں مگر باہر سے آئے ہوئے بہت سے خطوط کی بابت ہم کو مفتی محمد صادق نے مجبور کیا ہے اس واسطے ہم نے یہ مضمون ان کو لکھا دیا ہے تاکہ اپنے اخبار میں بطور معیار صداقت کے شائع کردیں.پھر ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی اپنی جگہ اس پر غور کرے.(الحکم جلد۱۹ نمبر ۱۸، ۱۹ مورخہ۱۴،۲۱؍ مئی ۱۹۱۵ء صفحہ۱تا۳ ) مولوی محمد علی صاحب کا حملہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفہ اوّل پر مولوی محمد علی صاحب نے اپنے اسی خطبہ میں (جس میں آپ نے ہم پر آیت  (اٰل عمران:۸۲)کے متعلق بہت سے انعامات قائم کئے ہیں) حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اوّل پر بھی حملہ کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ الآخرۃ سے مرزا صاحب کی وحی مراد لینا قرآن کریم کی وحی کے ساتھ صریح تمسخر اور استہزا ہے حالانکہ ہمارے احباب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ۱۹۰۷ء میں جو پارہ قرآن شریف کا حضرت خلیفہ اوّل نے حضرت مسیح موعود کی زندگی میں شائع کیا تھا اس میں یہی معنے حضرت خلیفہ اوّل نے لکھے تھے اور یہی معنے حضور نے اپنی تفسیر القرآن میںلکھے ہیں جو ماہ نومبر ۱۹۰۶ء کے رسالہ تفسیر القرآن میں شائع ہوچکے ہیں.حضور کے الفاظ یہ ہیں.کی تفسیر جو خلیفہ اوّل نے کی چونکہ قرآن مجید میں بعض مقام پردار یا یوم ملا کر لایا گیا ہے جیسا کہ آیا ہے وَلَدَارُ الْآخِرَۃِ خَیْرٌ اور اَلْیَوْمُ الْآخِرُ اور دارِ آخرت اور یوم آخر سے مراد حشر کا وقت ہے.لہٰذا مفسروں نے یہاں اکیلے اَلْآخِرَۃُ سے بھی حشر کا وقت اور قیامت ہی مراد رکھا ہے لیکن ما قبل پر یعنی اور(البقرۃ:۵) پر نظر کرنے سے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دووسری بعثت ثابت ہوتی ہے جس کا کہ اِلٰی(الجمعۃ:۳تا ۴)میں ذکر آیا ہے کیونکہ یہاں سے صاف صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت

Page 420

صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ تو امی لوگوں میں مبعوث ہوئے ہیں یعنی بھیجے گئے ہیں اور ایک دفعہ ان پیچھے آنے والوں میں بھی مبعوث ہوں گے جو کہ ان پہلوں کے ساتھ نہیں ملے.پس ما قبل پر نظر کرنے سے (البقرۃ:۵) کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ لوگ پیچھے آنے والی بعثت نبی کریمؐ پر یقین کرتے ہیں.یہ تو اس صورت میں ہوں گے جب ما قبل میں یعنی مَا اُنْزِلَ میںمَا مصدریہ لیا جاوے اور اگر مَا موصولہ بمعنی جو لیا جاوے تو اس سے وحی مراد ہے جو کہ پیچھے آنے والی ہے جیسے کہ مَا اُنْزِلَ سے وحی مراد ہے.پس پہلے ترجمہ کے لحاظ کے معنے یہ ہوں گے اور وہ لوگ پیچھے آنے والی وحی پر یقین لاتے ہیں.(الفضل جلد۳ نمبر ۸۱ مورخہ ۱۹؍ جنوری ۱۹۱۶ء صفحہ۵ ) ہندی طب کی دو کتب کی اشاعت پر اظہار خوشنودی چند روز کا ذکر ہے کہ میں نے چرک اور سشرت بذریعہ وی.پی آپ سے منگوائے تھے.یہ دونوں کتابیں میں نے حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور پیش کیں.آپ نے بعد ملاحظہ آپ کی طرف ان سطور کے لکھنے کا مجھے حکم فرمایا ہے.’’چرک اور سشرت کی اشاعت کے ذریعے جو نیکی آپ نے ہندوستان پر کی ہے بہت بڑی عظیم الشان ہے.ہر طبیب کو ضرور شکر گزار ہونا چاہیے.‘‘ (راقم محمد یوسف ایڈیٹر نور قادیان ضلع گورداسپور ۲۵ ؍فروری ۱۹۱۳ء) (ماخوذ از ملفوظات خلیفۃ المسیح.نور جلد ۷ نمبر ۲۱ مورخہ ۱۷؍ ستمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱) کتاب ’’قدیم ہندوستان کی روحانی تعلیم ‘‘کی نسبت رائے اس بہت بہتر کتاب کی نسبت حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب تحریر فرماتے ہیں.میں نے کتاب ہندوستان کی روحانی تعلیم کو کمال دلچسپی سے پڑھا مجھے بہت ہی پسند آئی.اس کتاب کے مطالعہ سے مجھے بہت ہی خوشی حاصل ہوئی.کتاب بہت ہی دلچسپ ہے.دستخط نور الدین (خلیفۃ المسیح) (اخبارنور جلد۸ نمبر۶ مورخہ ۱۷ ؍جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ۲)

Page 421

کیا فری تھنکر احمدی ہوسکتا ہے؟ حضرت نور الدین اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۃ المسیح نے جناب خواجہ کمال الدین سے ایک خط میں بطور سوال دریافت کیا تھا کہ ’’کیا فری تھنکر احمدی ہو سکتا ہے؟‘‘اور جناب خواجہ کے جواب کا انتظار نہ کیا بلکہ خود ہی متصل جواب تحریر کردیا تھاکہ ’’ نہیں اور ہرگز نہیں.‘‘ یہ خط قادیان سے لندن ارسال کیا گیا تھا.اغلباً وہ خط جناب خواجہ کے پاس موجود ہوگا اور ضرور ہوگا.اخبار پیغام لاہور میں بھی شائع ہوا تھا.(نوشتہ قاضی محمد یوسف صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ پشاور) (اخبار فاروق جلد۲ نمبر۹ مورخہ یکم فروری ۱۹۱۷ء صفحہ۳) حضرت مسیح موعود ؑ کی تفسیرقرآن حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کس پایہ اور علم کا آدمی تھا.میں(منشی محب الرحمن سب یونین ماسٹر جے جوں) نے بارہا ان سے سنا تھا فرمایا کرتے تھے.مرزا صاحـب ؑ نے کہاں اتنی کتابیں دیکھی ہیں جتنی انہوں نے، لیکن جب کبھی کسی آیت کی تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ سے سنتے گھر جاکر اپنی تفسیر کے اوراق چاک کر دیتے تھے.(ماخوذ از امیر پیام سے کچھ کلام، فاروق جلد۲ نمبر۹ مورخہ یکم فروری ۱۹۱۷ء صفحہ۴،۵) فلسفۂ تعلیم فضیلتِعلم سب سے اوّل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ علم ہے کیا چیز اور وہ کیسی نعمت ہے.پھر دینی طور پر کیسی اور دنیوی طور پر کیسی؟ فضیلتِعلم پر آیات قرآنیہ قرآن مجید پر غور کرنے سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (جو ا علم باللہ اور جامع کمالات نبوت وانسانیت ہیں) کو اللہ تعالیٰ نے ایک دُعا تعلیم فرمائی.(طٰہٰ :۱۱۵) (اے میرے ربّ میرا علم زیادہ کردے)(میں بھی کہتا ہوں رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا.آمین) تو پھر اور کون شخص ہے جس کو علم کی ضرورت نہیں.یہ آیت جہاں فضیلت علم کو

Page 422

ظاہر کرتی ہے وہاں دوسری طرف ضرورت علم پر بھی دلیل ہے.بخاری صاحب نے بھی فضیلت علم میں ایک آیت لکھی ہے.(المجادلۃ:۱۲) یہ آیت بھی جامع ہے.اس میں اس علم کو جو معاد سے تعلق رکھتا ہے جس سے انسانی نفوس کی تہذیب و اصلاح اور اس کے عقائد معاملات اور اعمال کی درستی مقصود ہے کے لفظ سے تعبیر کیا ہے.ایمان کے مدارج اعمال کے ساتھ اس کا تعلق یہ کتاب الایمان میں گذر چکا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ ایک رفعت شان عطا فرماتا ہے اور صاحبان علم کے مدارج بھی بلند ہوتے ہیں.چونکہ بعض علوم ایسے ہیں جن میں ایمان یا تزکیہ نفوس اور اصلاح اعمال کا کوئی تعلق نہیں اس لئے صاف الفاظ میں یہ آیت بہیئت مجموعی علم کی فضیلت کو بتاتی ہے اور پھر تحقیق کرکے جو  کو ہے علم الادیان کی فضیلت سمجھائی ہے.ان دو آیتوں کے سوا ایک تیسری آیت بھی ایک بزرگ نے فضل علم پر لکھی ہے. (اٰل عمران :۱۹).اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا ہے کہ اہل علم میری ہستی پر گواہی دیتے ہیں اور میری وحدانیت پر بھی شہادت دیتے ہیں.چونکہ بعض نادان ونابکار لوگ سا ئنس کے غلط استعمال اور عدمِ تدبّر کی وجہ سے خدا کی ہستی کا انکار بھی کرتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی غایت حکمت سے اس آیت میں ایک لفظ رکھ دیا ہے جو ہمیشہ اس کی صداقت کو ظاہر کرتا رہے گا اور وہ لفظ ہے کیامطلب کہ وہ اہل علم جو صحیح علوم رکھتے ہوں اور قائم بالقسط ہو کر غور کریں.اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کے سچے علوم کبھی بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کے خلاف نہیں ہوسکتے.اسی لئے میں کہا کرتا ہوں اور یہ میرا مذہب ہے کہ جوں جوں سائنس ترقی کرے گا اور علوم بڑھیں گے اسی

Page 423

قدر قرآن کریم کی صداقت جلوہ گر ہوگی.غرض یہ تین آیات علم کی فضیلت پر میں خلاصۃً پیش کرتا ہوں اور ان تینوں میں صحیح علوم کے حاصل کرنے کی ترغیب بھی موجود ہے.پہلی آیت میں تو خود دُعا ہی تعلیم کی ہے.دوسری میں رفع درجات کی خوشخبری ہے اور تیسری میں اللہ تعالیٰ قَائِمًا بِالْقِسْطِ اُولُو الْعِلْمِ کی شہادت کواپنی ہستی اور وحدانیت پر پیش کرکے بتاتا ہے ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم.ایسے قَائِمًا بِالْقِسْط ِ اہل علم جب اللہ تعالیٰ کی ہستی پر گواہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ جو عزیز اور حکیم ہے ان کو بھی معزز بنادے گا اور حکمت کے چشمے ان کے لبوں سے جاری ہوجائیں گے.سچے اور صحیح علوم کا نتیجہ سچے اور صحیح علوم کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ (فاطر :۲۹) خدا تعالیٰ کی خشیت ان عالموں کے قلوب میں پیدا ہوجاتی ہے اور اس خشیت سے پھر حکمت کے خزانے ان کے سینوں سے نکلتے ہیں.فضیلت علم پر عقلی دلیل یہ تو اللہ تعالیٰ کی اپنی دی ہوئی دلائل فضیلت علم پر ہیں.ان کے سوا ایک عقلی دلیل میری سمجھ میں آئی اور پھر سچ پوچھو تو یہ عقلی دلیل بھی اسی کے فضل کا عطیہ ہے اور ان علوم سے پیدا ہوئی جو اس نے اپنے محض فضل سے عطا کئے.بہرحال وہ یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ دنیا میں جس قدر چھوٹے چھوٹے کام ہیں جب ان کے ساتھ علمی رنگ آتا ہے اور علم کے تعلق سے ان کو کیا جاتا ہے تو وہ عظیم الشان ہوجاتے ہیں.مثلاً چکّی پیسنا، کپڑا بُننا، دھونا، سینا، کپڑا کاٹنا، رنگ بنانا، حجامت کرنا، لوہاری کام، چمڑہ رنگنا، گاڑی چلانا، جوتا بنانا وغیرہ.ان میں سے ایک ایک کام پر نظر کرو جب یہ اپنی عام حالت میں کئے جاتے ہیں تو عام لوگ اس کو کوئی بڑا کام یا عزت کا کام نہیں سمجھتے.مثلاً چکی پیسنا یہ معمولی کام ہے لیکن جب اس کو انجن کے ذریعہ کیا جاوے اور علمی طاقت اس کے ساتھ ہو تو وہی چکی پیسنے کا فعل جو معمولی اور ادنیٰ سمجھا جاتا تھا عظیم الشان سمجھا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ فلاں صاحب بڑے معزز اور مقتدر ہیں.ان کے ہاں فلور مل چلتی ہے.گویا وہی آٹے پیسنے کی کَل موجب فخر ہوگئی.اسی طرح پر کپڑے بُننے کا کام ایک ادنیٰ درجہ کا کام سمجھا گیاتھا لیکن جب علم نے اس کی سرپرستی کی اور

Page 424

ر مشینوں کے ذریعہ کپڑا تیار ہونے لگا تویہی لوگ معزز و صاحب ثروت ہوگئے.اسی طرح کپڑے دھونے، سینے اور کاٹنے کے کام ہیں.میں نے ایک آدمی کو دیکھا یا سنا کہ وہ صرف کپڑے کاٹتا تھا اور چھ سو روپیہ ماہوار تنخواہ پاتا تھا.کھٹیک کا کام نہایت حقیر سمجھا جاتا تھا لیکن آج دباغت کا فن اور موچی کا کام عجیب کام ہے اور چمڑے کی فیکٹریوں کے مالک بڑے آدمی ہیں.اسی طرح پر لوہے کا کام، ڈرائیوری وغیرہ.علم ادنیٰ چیزوں کو اعلیٰ بنا دیتا ہے پس تم دیکھ لو کہ علم ادنیٰ چیزوں کو کس طرح اعلیٰ بنادیتا ہے.میں نے ایک کتّا دیکھا کہ اس کی قیمت بائیس سو روپیہ تھی.محض اس لئے کہ وہ شکار کا علم جانتا تھا.معمولی باز جو چیل ہی کی قسم کے ہوتے ہیں سو سو روپیہ قیمت پاتے ہیں.کیوں؟ ان میں ایک علمی وصف ہوتا ہے.اب یہ بات تم نے آسانی کے ساتھ سمجھ لی ہوگی کہ علم بڑی دولت ہے اور بڑی نعمت ہے.علم کے لئے سفر ضروری ہے پھر علم کے حصول کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ سفر کیا جاوے.میں اس پر بھی قرآن مجید ہی سے استدلال کرتا ہوں.چنانچہ فرمایا. (التوبۃ:۱۲۲) یعنی ہر جماعت میں سے کیوں چند لوگ سفر کے لئے نہیں نکلتے تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو بیدار کریں.یہاں علمی ترقی کے سامان ہیں میں یہ امر اللہ تعالیٰ کے فضل و نعمت کے اظہار کے لئے بیان کرتا ہوں کہ یہاں علمی ترقی کے بہت سے سامان ہیں.کوئی مانے یا نہ مانے مگر میں اپنے ذاتی تجربہ سے کہتا ہوں کہ یہاں علمی ترقی کے لئے بہت بڑے اسباب ہیں اور پھر ایسی علمی ترقی جو دین و دنیا میں بھلائی کا ذریعہ ہو.اس لئے میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی کشمیر سے یہاں آوے تو اس کا فرض ہے،ایران و عرب و افغانستان یا ہندوستان سے آئے تو اس کا فرض ہے کہ یہاں علمی ترقی کرے.یہ تو ایک ضمنی بات تھی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علم حاصل کرنے کے لئے ایک لمبے سفر کی ضرورت پیش آئی اور انہوں نے

Page 425

سفر کیا، قرآن مجید سے ظاہر ہے.صحابہ کے سفر حصول علم کے لئے صحابہ نے حصول علم کے لئے جو سفر کئے ہیں ان کی تفصیل بڑی مہلت اور وقت چاہتی ہے.جابر۱؎ ایک صحابی کو معلوم ہوا کہ شام میں ایک حدیث ایک شخص کو آتی ہے.وہاں سے وہ تیس پڑاؤ تھا.ایک مہینے کے سفر کے بعد وہاں پہنچے اور اس سے وہاں جاکر پوچھا کہ میں ایک حدیث کے لئے آیا ہوں یہ معلوم ہوا ہے کہ تمہیں آتی ہے.اس نے کہا ہاں آتی ہے.کھڑے رہو میں سناتا ہوں.چنانچہ اس نے وہ حدیث سنائی اور جابر تو کھڑے ہی تھے.حدیث سن کر کہا السلام علیکم اب جاتے ہیں اتنا ہی کام تھا.اس ہمت مردانہ اور اولوالعزمی کو دیکھو کہ ایک حدیث کے لئے دو مہینے برابر سفر کیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے لئے کیسی محنت کی ضرورت ہے.جمع احادیث کے لیے امام بخاری کا سفر امام بخاری نے تو حد ہی کردی ہے.یہ بخارا کے رہنے والے تھے.جن دقتوں اور مشکلات میں انہوں نے جمع احادیث کے لئے سفر کئے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی.حیرت ہوتی ہے کہ یہ کس فضل کے آدمی تھے.آج بخارا میں ہیں توکل موصل، پرسوں مصر، اترسوں شام، بصرہ، کوفہ، مکّہ، مدینہ.غرض اس وقت کی اسلامی دنیا کے تمام ان مرکزوں میں پھر نکلے ہیں جہاں وہ اپنے گوہر مقصود کا نشان پاتے تھے.ایک شخص کہتا ہے کہ میں گن نہیں سکتا کہ وہ کتنی مرتبہ مدینہ میں آئے.غرض علم کی تحصیل کے لئے سفر کی بڑی ضرورت ہے.۱؎ فٹ نوٹ: جابر رضی اللہ عنہ کا واقعہ یوں لکھا ہے اور ان کی اپنی روایت میں یہ لکھا ہے کہ انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بواسطہ پہنچی جس کو بالمشافۃ میں نے آپ سے نہیں سنا تھا.اس کی تحقیق کے لئے میں نے ایک اونٹ خرید کیا اور اس پر پالان کس کر ایک ماہ کا سفر قطع کر کے ملک شام میں داخل ہوا.عبد اللہ بن انیس صحابی کے دوازے پر پہنچ کر دربان سے کہا اندر جا کر خبر دو کہ جابر دروازے پر کھڑا ہے.دربان نے خبر کی.حکم ہوا.دریافت کرو کون جابر؟ کیا جابر بن عبداللہ ؟ جابر نے کہا ہاں.عبداللہ بن انیس یہ سن کر بہت جلدی میں کپڑے سنبھالتے ہوئے نکلے.سلام اور مصافحہ کے بعد جابر نے پوچھا کہ تمہاری روایت سے مجھے ایک حدیث دربارہ قصاص پہنچی ہے جس کو میں نے خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے.مجھے خوف ہے کہ مبادا میری یا ر تمہاری موت آجاوے اور اس دولت سے محرومی رہ جاوے.یہ سن کر عبد اللہ بن انیس نے وہ حدیث بیان کردی.

Page 426

اقسام العلوم پھر یہ معلوم کرنا چاہیے کہ علم کے کتنے قسم ہیں.میں مختصراً بتاتا ہوں.علم حفظ النفس، یہ کبھی بلاواسطہ ہوتا ہے اور کبھی بالواسطہ.اصلاح النفس،ابقائے نفس ،علم العقائد، علم اوامر اللہ، علم نواہواللہ، علم حساب، ہندسہ، مساحت، علم الہوا، منطق، مبادی السنہ، طب، حفظ صحت، دواسازی، تربیت اطفال، ہدایۃ الموسم، علم نباتات، علم جمادات، حیوانات، جرثقیل، تعمیر، حرکت، سکون، برق، مقناطیس، کیمیا (کیمسٹری)،تجارت، زراعت، قیافہ، ہیئت، مناظر، مرایا، جغرافیہ، تاریخ، سیاست، قانون، علم تفریح جس میں مصوّری، شاعری، موسیقی (مع اپنی مختلف شاخوں کے)عروض وقافیہ و شعبدات شامل ہیں.اقسام ہیں علوم کے جو آج کل بآسانی انسان حاصل کرسکتا ہے.ایک بہت بڑی فرو گذاشت ایک بڑی غلطی ایک بڑی فروگذاشت جو مسئلہ تعلیم میں ہوتی چلی آئی ہے اور جس پر توجہ نہیں کی جاتی.وہ یہ ہے کہ ہر مربی اور ہر باپ کے لئے یہ ضروری امر تھا کہ تعلیم شروع کرانے سے پہلے یہ غور کرلیا جاتا کہ کون سا علم بچہ کو سیکھنا چاہیے.جب یہ فیصلہ ہوجاتا پھر اس علم کے سیکھنے کی ترکیب اور پھر ترتیب کہ کون سا علم مقدم ہے کون سا مؤخر ہے.پھر یہ دریافت کرنا کہ کس علم کی اس کی طبیعت سے مناسبت ہے اور اس کے لئے کیا اسباب اور وسائل حاصل ہیں.بڑے بڑے مشورے اور غوروفکر کی اس کے لئے ضرورت ہے مگر ان سوالوں پر آج کوئی غور نہیں کرتا.میں نے اس سوال کو بھی قرآن کریم سے حل کیا ہے.سورہ رحمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الرحمٰن :۸تا۱۰)وزن ضروری ہے.دوسری جگہ فرمایا.(الاعراف :۹).الٰہی ترتیب اور اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھی ایک ترتیب موجود ہے اور وہ ایسی ترتیب ہے کہ تمام امورمیں وہی مراتبِ ستّہ پائے جاتے ہیں.جب تک وہ تکمیل نہیں ہوتی.اور اللہ تعالیٰ نے انسانی تکمیل میں اس مثال کو دکھایا ہے کہ پہلے نُطفہ پھر عَلَقَہ پھر مُضْغَہ وغیرہ مراتب سے گذرتا ہوا بالآخر

Page 427

انسان سمیع و بصیر ہو جاتا ہے.اسی طرح پر اگر تحصیل علوم کے لئے ترتیب کو مدِّنظر نہ رکھا جاوے تو سخت غلطی پیدا ہوتی ہے.اور اس امر کو مدِّنظر نہ رکھنے کی وجہ سے آج مسئلہ تعلیم میں مشکلات بھی پیدا ہورہی ہیں.پس علوم میں ایک ترتیب ہو.برداشت کی قوت کا اندازہ علوم کی ترتیب کے بعد یہ دیکھنا ضروری ہے کہ طالب علم کس قدر محنت برداشت کرنے کی قوت رکھتا ہے.اس کے قویٰ، فہم وغیرہ کو دیکھنا چاہیے.جو بات بچہ نہیں سمجھ سکتا اس کا ذکر مت کرو اور جس قدر محنت وہ آسانی کے ساتھ برداشت کرسکتا ہے.ان امور کے لئے بھی مشورہ کی ضرورت ہے.قرآن مجید(اٰل عمران :۱۵۹) اور  (الشورٰی :۹)کی تعلیم دیتا ہے.غرض انتخاب علوم اس کی ترتیب، حصول علم کے اسباب اور بچہ کی قوت برداشت وغیرہ پر پورا غوروفکر اور باہم مشورہ کرنا چاہیے.(باقی پھر کبھی) (الحکم جلد ۲۰ نمبر ۲۰ مورخہ۲۸؍جون ۱۹۱۸ء صفحہ ۴تا۷) حضرت خلیفہ اوّلؓ کا ایک غیر مطبوعہ خط شیح عبدالحمید صاحب ریلوے آڈیٹر لاہور نے ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ میرا دفتر میرا کچھ مخالف ہے اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے جس کے جواب میں حضور نے مندرجہ ذیل خط لکھا.شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میری مصیبت رفع ہوگئی.(صاحبزادہ عبدالوہاب عمر) قادیان ۱۲؍ جولائی ۱۹۱۰ء السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ بہت استغفار کریں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر بھروسہ نہ رکھیں.اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ جب انسان کسی دروازہ پر بھروسہ کربیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ وہ دروازہ بند کردیتا ہے.کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بڑے بڑے تاجروں کی دوکان میں کبھی نقصان ہوجاتا ہے زمیندار کا خرمن جلتا ہے.اسی طرح ایک حال سے دوسرے حال پر بدلاتا ہے یہاں تک کہ اللہ ہی پر بھروسہ ہوجاوے.آپ ذرا

Page 428

بھی نہ گھبراویں.اللہ تعالیٰ خالق و مالک ہے انشاء اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز آپ کو ضائع نہ کرے گا.والسلام (دستخط)نور الدین ۱۲؍ جولائی ۱۹۱۰ء (الحکم جلد ۳۸ نمبر۱۴ مورخہ ۲۱ ؍اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۱) ملفوظات حضرت حکیم الامت (راوی منشی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی) مکرم و محترم جناب حضرت میر قاسم علی صاحب زَادَ عِنَایَتُـہٗ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.خاکسار نے اپریل ۱۹۱۲ء میں قریباً عرصہ دو ماہ تک حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کی خدمت میں حاضر رہ کر استفادہ حاصل کیا تھا.اس عرصہ میں خاکسار کو خدا کے فضل سے یہ توفیق ملی کہ حضور کے درس قرآن میں بھی جو دن میں تین دفعہ دوپہر، بعد عصر، بعد مغرب ہوا کرتا تھا شامل ہوتا رہا.اور بعض نکتے نقل کر لیا کرتا تھا.علاوہ اس کے حضور کی مجلس میں جو ملفوظات کے موتی لٹتے رہتے تھے بقدر استطاعت ان کو بھی نوٹ کر کے سمیٹ لیتا رہا.آج مجھے خیال آیاکہ بعض باتیں جو کسی نہ کسی رنگ میں دیگر اصحاب کو مفید ہوسکتی ہیں آپ کے اخبار کے ذریعہ سے احباب تک پہنچا دوں.اور ان کے فائدے کو اپنی ذات تک ہی محدود نہ رکھوں.وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ لِلصَّوَابِ.(محمد عبداللہ) (۱)حضرت مسیح موعود ؑ کو طریق شرائط بیعت کی تفہیم ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء کو بوقت درس دوپہر آیت ( المائدۃ : ۱۰۲)کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایاکہ حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کو اللہ تعالیٰ نے الہام کیا کہ لوگوں سے بیعت لیں.آپ بیعت کا طریق نہ جانتے تھے.آپ نے توجہ کی کہ کس طرح بیعت لوں.اللہ تعالیٰ کی

Page 429

طرف سے اشارہ ہوا اور ان دس شرائط بیعت کی تفہیم ہوئی.ایک شخص نے کہا کہ حضور مجھے یہ شرائط تحریر کرنے اور شائع کرنے سے پہلے ہی بتادیں تا کہ میں اوّل ہی عمل کرنا شروع کردوں.آپ کو یہ سوال بہت بُرالگا.چنانچہ بعد میں پہلا دشمن حضرت صاحب کا وہی شخص ہوا جو کہ اس قدر جلدی حکم کی تعمیل کرنے کے واسطے تیار تھا.(۲)بارہ علوم ضروریہ ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء کو فرمایا کہ بارہ علم ضروریہ ہیں.(۱) کل جزو سے بڑا ہوتا ہے.(۲) ایک جگہ میں دو جسم نہیں ہوسکتے.(۳) کوئی چیز یا چل کر آوے یا خواہ چل کر جاویں تب اس کو پاسکتے ہیں.(۴) کوئی چیز گم نہیں ہوسکتی.(۵) کوئی چیز بے سبب نہیں ہوسکتی.(۶) زبان بولتی ہے کان سنتے ہیں.اگر کوئی کہے کہ پاؤں سے بلالوںگا تو یہ ممکن نہیں.یہ علم ضروریہ ہیں جن کے بیان کرنے یا سمجھانے کی بھی ضرورت نہیںہوتی.یہ علوم خدا کی طرف سے انسان کو دیئے گئے ہیں.یہ چھ میں نے بیان کردیئے ہیں باقی چھ میں تم غور کرو.(۳) فرّاگ کوٹ اور قباء فرّاگ کوٹ کو (جو پیچھے سے پھٹا ہوا ہوتا ہے)عربی میں فوّاج کہتے ہیں اور جو پیچھے سے پھٹا ہوا نہ ہو اس کو قباء کہتے ہیں.(۴)بیعت کرنے میں جلد بازی ۴ ؍ اپریل ۱۹۱۲ء کو چند آدمی جو شادیوال ضلع گجرات کے باشندہتھے بیعت کرنے کے واسطے آئے.انہوں نے درخواست کی کہ ہماری بیعت جلدی ہوجاوے.اس پر فرمایا کہ لوگ جب دنیا کے کتوں اور حاکموں کے پاس جاتے ہیں دیکھتے ہو کس قدر تاریخیں پڑتی ہیں.ہمارے پاس جو بیعت کے واسطے آئے ہو دیکھنا تو چاہیے کہ ہم کیا ہیں؟ کس قسم کے ہیں؟ دین کوئی ٹھٹھا نہیں ہے.اگر ٹھٹھا (تمسخر) ہوتا تو بہت سے لوگ اکٹھے ہوجاتے.دیکھو کنچنی کا تماشا ہوتا ہے لوگ ان کوپیسہ روپیہ بھی دیتے ہیں ساری ساری رات سنتے رہتے ہیں.کوئی ان پر کفر کا فتویٰ بھی نہیںلگاتا.

Page 430

اس لئے آپ کو جلدی نہیںکرنی چاہیے.دیکھو مسجد میں دوڑ کرجانا منع ہے ادب سے جانا چاہیے.آئے ہو ٹھہرو، جمعہ پڑھو، بیعت بھی ہوجائے گی.(۵)ایک نومسلم کے مرتد ہونے کا خط اور آپ کا جواب ۴ ؍ اپریل ۱۹۱۲ء کو فرمایا.گجرات کے ضلع میں ایک گاؤں لنڈپور نام ہے.وہاں کا ایک ہندو نوجوان لڑکا تھا وہ ہندو سے مسلمان ہوا.اس کی تعلیم پر کئی ہزار روپیہ خرچ کیا.مجھے اس نے کشمیر خط لکھا کہ میں اب گنگا جی جاتا ہوں تا کہ اسلام کے ناپاک مذہب سے صاف ہوجاؤں.یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان کو ایسی بات سے تکلیف ہوتی ہے.مجھے بھی تکلیف ہوئی مگر میں اللہ کی طرف متوجہ ہوا کہ الٰہی میں اس کو جواب دینا چاہتا ہوں اور ایک ہی کارڈ بھیجنا چاہتاہوں.چنانچہ جواب میرے دل میں ڈالا گیا اور میں نے یہ آیت لکھی (المائدۃ: ۵۵)اللہ فرماتا ہے کہ اگر ایک مرتد ہوجاوے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ایک قوم دے دیتا ہے.میں نے اسے لکھا کہ تمہارا خوشی کا بھر اہوا خط مجھے ملا جس سے مجھے یہ خوشی کی خبر ملی ہے کہ خدا اس ایک کے بدلے ہمیں ایک ایسی قوم دے گا جو کی مصداق ہوگی.اس وقت میں نہ پیر تھا نہ کوئی میرا مرید.سو اب مجھے لاکھوں آدمی کی قوم ملی ہے.بعد میں اس کا خط مجھے آیا کہ یہ خط کسی اور نے لکھاتھا اور وہ اب ہمارا مرید بھی ہوگیا ہے اور اس نے حضرت صاحب کے ہاتھ پر بھی بیعت کی تھی.(۶)ایک شخص کو تجارت کے لیے روپیہ دینے کا واقعہ ۴ ؍ اپریل ۱۹۱۲ء کو فرمایا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور بہت شاکی ہواکہ میں کیا روزگار کروں.میں نے اس کو کہا کہ تجارت کرو اس نے کہا کہ وہ بھی روپیہ سے ہوسکتی ہے جو میرے پاس نہیں ہے.میرے پاس ایک شخص کے ایک سو ساٹھ روپے امانت تھے جو اس نے اس غرض کے واسطے دیئے تھے کہ اس کی طرف تجارت کے واسطے کہیں صرف کروں.میں نے وہی اس کو دے دیئے.کچھ عرصہ کے بعد مجھے اس کے شہر میں جانے کا اتفاق ہوا.میں نے اس کی بیوی سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے اور اب کیا حال ہے.اس نے کہا کہ کہیں سے

Page 431

کچھ روپیہ مارلایا ہے اور حلوے اور پلاؤ پکوا کر کھا رہا ہے.میں نے کہا کہ تم نے بھی کچھ اڑائے.اس نے کہا کہ مشکل سے چالیس روپے میں نے بھی چھینے ہیں باقی وہ سب کچھ کھاگیا ہے.میں نے کہا کہ وہ چالیس روپے کہاں ہیں.اس نے کہا کہ ایک جگہ دبا کر رکھے ہوئے ہیں.میں نے کہا کہ وہ نکال کر ہمارے پاس لے آنا اور اپنے خاوند کو بھی لانا.بہت دیر کے بعد وہ عورت واپس آئی اور کہنے لگی کہ وہ روپے بھی وہ کسی طرح سے نکال کر لے گیا ہے.(فاروق جلد ۲۵ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۴؍ ستمبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۹) اطباء کے لئے چند ضروری ہدایات حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کی مندرجہ ذیل اہم یادداشت آپ کی ذاتی نوٹ بک سے ماخوذ ہے جو اس وقت مکرم عبد الرحمن صاحب شاکر کے پاس موجود ہے.انشاء اللہ ’’خالد‘‘ آئندہ بھی اس روحانی خزانے کے جستہ جستہ حصے منظر عام پر لائے گا.ہم جناب شاکر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے ہمیں حضرت خلیفۃ اوّل ؓ کا یہ تبرک حاصل ہوا ہے.فَجَزَاھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی(ادارہ) طب میں اضطراب ، دعا ،توجہ الی اللہ تعالیٰ، اخلاص، تضرع اور اپنی کم علمی، کم فہمی سمجھنے کا خوب موقع ملتا ہے.پھراس لئے علاج کی جستجو میں الہام بھی ہوجاتا ہے اگر تقویٰ، رحم ، فکر، اسباب و علامات کی جستجو جو ہزاری ہیںساتھ مل جاویں تو موجب نجات ہیں اور ایک ہی علاج دین میں اور ایک ہی دنیا کے لئے کفایت کرجاتا ہے(اُذْکُرْ قِصَّۃَ بَغِیَّۃٍ اَشْرَبَتْ کَلْبًا) قرآن کریم نے اس علم کے اصول پر علماً اور خاتم الانبیاء نے عملاً توجہ دلائی.بڑے بڑے ڈاکٹروں میںمعالج بننا معیوب نہیں.وہ خود پسندی کے باعث....اور منکسر، متوجہ الی اللہ آگے نکل جاتا ہے.طب ہر دل عزیزی کا بڑا موجب ہے( اس پر درد سر والے کو.........کا قصہ فرمایا) ادیب نہ ہو تو کتنا حرج مگرطبیب نہ ہو تو کتنا حرج موجود ہے.طبیب اگر کامیابی تک نہ پہنچے تومت گھبرا وے.کیونکہ طبیب کا کام تقدیر کا مقابلہ کرنا نہیں بلکہ طبیب(کا کام) بہت ہمدردی اورغمخواری.

Page 432

انسان، جمادات، نباتات، حیوانات کی طرح بے فکر روٹی کھانے والا نہیں بنایا گیا.فکر.فکر.فکر.غور.غور.غور کرو.۲۴؍ اپریل مٹی کا برتن ٹوٹنے سے جتنا رنج ہوتا ہے اس کا عشر عشیر ارتکاب معاصی سے نہیں ہوتا.کتابیں اگر وہ کشش نہ پیدا کریں جو نیچر سے پیدا ہوتی ہے تو نقص نہیں.لَارَیْبَ فِیْہِ سے ثابت ہوتا ہے کہ اور دلائل میں ریب تھا.(ماہنامہ خالد جنوری ۱۹۶۱ء صفحہ ۹) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا ایک نصیحت آموز خط مندرجہ ذیل خط حضرت مولانا نور الدین (خلیفۃ المسیح اوّلؓ) نے یکم جولائی ۱۹۰۴ء کو مکرم قاضی محمدیوسف صاحب ہوتی مردان کے نام رقم فرمایا تھا جو ان دنوں مدرسہ اسلامیہ پشاور کی فورتھ ہائی کلاس میں تعلیم پا رہے تھے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اپنے ہر کام میں غور کر لیا کرو کہ آیا اس کام میں ہر ایک پہلو میں تعظیم الٰہی یا شفقت علیٰ (خلق) اللہ ہے یا نہیں.ہر وہ کام کرو جس میں تعظیم الٰہی ہو یا شفقت علیٰ خلق اللہ یا یوں سوچ لو کہ اس کام میں میرے مولا ربّ العالمین کی پروانگی ہے یا نہیں.جس کام میں اجازت ہے وہ کرو اور جس میں ممانعت ہے اس کو مت کرو اور جس میںجناب الٰہی کا سکوت ہے اس میں روک نہیں.اور اس علم کے حاصل کرنے کے لئے تلاوت قرآن مجید ضروری ہے.نور الدین یکم جولائی ۱۹۰۴ء (ماہنامہ خالد اپریل ۱۹۶۱ء صفحہ۶)

Page 433

درس حدیث صحیح بخاری حضرت خلیفۃ المسیح مولوی حکیم نور الدین صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے درس حدیث صحیح بخاری سے نوٹ جو حضرت کودکھا کر چھاپے جاتے ہیں مرتّبہ: محمد صادق عفی اللّٰہ عنہ تمہید اللہ تعالیٰ جَلَّ جَلَالُہٗ وَ عَمَّ نَوَالُہٗ کے انعامات کثیر کو کون گن سکتا ہے.پھر اس کے رؤف رحیم رسول کی کرم فرمائیوں کے احسان کاشکر کون ادا کرسکتا ہے.پھر مبارک ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہدایت کی پاک راہوں کی تلاش میں حضرت سرور انبیاء کے مقدس کلمات کو تلاش کیا اور جمع کیا اور یہ معارف و حقائق کا بڑا خزانہ ہم تک پہنچایا.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے جنہوں نے حدیث رسول کو سنا اور جمع کیا اور آگے سنایا اور ان کے درجات کو بلند کرے اور انہیں اپنے قرب میںزیادتی دے.آمین ثم آمین.مدت سے اکثر دوستوں کی خواہش تھی کہ جس طرح قرآن شریف کے درس کے نوٹ بدرؔ کے ساتھ چھپتے ہیں اسی طرح حدیث کے بھی چھپا کریں.اللہ تعالیٰ کے محض فضل اور کرم اور رحم اور غریب نوازی اور ذرہ پروری سے ہمیں توفیق ملی کہ ایک دَور درس قرآن شریف کا بدر کے ساتھ پوراہوا.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ.اب دوسرا دَور شروع کیا گیا ہے مگر چونکہ یہ دور پہلے دور کا ایک ضمیمہ ہے اس واسطے اس کے لئے دو صفحات اخبار کافی ہیں.باقی دو صفحات میں حدیث لکھنے کا میں نے ارادہ کیا تھا کہ رحمت الٰہی حضرت نور الدین علیہ الرحمۃ کے اس جوش میں ہم پر موجزن ہوئے کہ قرآن شریف کی طرح بخاری شریف کا بھی درس ہوا کرے.چنانچہ وہ درس شروع ہوگیا ہے اور اب اخبار کے ساتھ باقاعدہ شائع ہوتا رہے گا.اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی.(اڈیٹر)

Page 434

سوانح حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ درس بخاری شریف کے نوٹوں کے شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف کتاب حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ کے کچھ حالات اختصاراً لکھے جائیں.یہ بزرگ بخارا کے رہنے والے تھے اس واسطے بخارا کے نام کو مشہور کر گئے اور بخاری کہلائے.نیک لوگوں کے وجود کی برکت سے ان کا مسکن بھی دنیا میں مشہور ہوجاتا ہے.آج سے تیس۳۰ سال قبل قادیان کو کون جانتا تھا لیکن اس وقت آسٹریلیا اور امریکہ تک کے لوگ قادیان سے واقف ہورہے ہیں.ملک جرمن میں ایک کتاب چھپی ہے اس میں بھی قادیان اور نبی قادیان کا تذکرہ خصوصیت سے کیا گیا ہے.امام بخاری صاحب کا نام تھا محمد.آپ کے باپ کا نام اسماعیل.کنیت ابو عبد اللہ.پس آپ کا پورا نام اس طرح ہے.ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم ابن المغیرہ.مغیرہ مسلمان ہوئے تھے یمان جعفی کے ہاتھ پر.آپ کی پیدائش ۱۳؍ شوال ۱۹۴ھ میں ہوئی.حضرت بخاری صغیر سن تھے جبکہ آپ کے والد مرحوم فوت ہوئے اور آپ نے اپنی ماں اور اپنے بھائی احمد کے ساتھ چھوٹی عمر میں حج کیااور مکہ معظمہ میں رہ کر علم حاصل کیا.بچپن ہی سے آپ کا حافظہ بہت قوی تھا.اکثر حدیثیںخوب یاد رہتی تھیں.اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے کتاب قضایائے صحابہ اور تابعین تصنیف کی.پھر تاریخ تصنیف کی.شام، مصر ،جزیرہ اور بصرہ کی آپ نے سیر کی.حـجاز میں چھ سال رہے.کوفہ اور بغداد کو کئی بار گئے اور وہاں کے مشائخ سے فیض حاصل کرتے رہے.احادیث کے جمع کرنے اس کے سننے پڑھنے اور پڑھانے میں ساری عمر گزار دی.۲۵۶ھ میں آپ کی وفات ہوئی.رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَ غَفَرَ لَہٗ.کتاب حدیث کے جمع کرنے میں امام بخاری نے بہت ہی احتیاط سے ایسے کام کیا.فربری سے روایت ہے.امام بخاری علیہ الرحمۃفرمایا کرتے تھے.

Page 435

’’میں نے جامع صحیح میں جو حدیثیں درج کی ہیں ان کو چھ لاکھ حدیثوں سے انتخاب کیا ہے.اور کوئی حدیث اس کتاب میں داخل نہیں کی جب تک کہ پہلے دورکعت نماز نہ پڑھی ہو اور استخارہ نہ کر لیا ہو اور مجھے اس کی صحت پر یقین نہ ہوگیا ہو.‘‘ یہ کتاب سولہ سالوں میں جمع ہوئی تھی اور علماء نے اسے اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ کہا ہے.امام بخاری علیہ الرحمۃ کو اس کتاب کے اعتبار کا قائم رکھنا ایسا عزیر تھاکہ ایک دفعہ کشتی میں سوار کسی سفر میں تھے اور آپ کے پاس ایک تھیلی ایک ہزار اشرفی کی تھی.ایک بدمعاش نے اسے معلوم کرکے مشہور کردیا کہ میرے پاس ایک تھیلی ہزار اشرفی کی تھی کسی نے چوری کرلی ہے.کشتی کے افسر کے پاس فریاد پہنچی.اس نے سب کی تلاشی لینی شروع کی.اس بات کو دیکھ کر امام بخاری علیہ الرحمۃ نے وہ تھیلی اشرفیوں کی جو ان کے پاس تھی چپکے سے دریا میں پھینک دی.سب کی تلاشی ہوئی اور ان کی بھی ہوئی کہیں تھیلی نہ نکلی.چند روز کے بعد اس بدمعاش نے علیحدگی میں آپ کے ساتھ ذکر کیا کہ آپ کے پاس تو تھیلی تھی میں نے پہلے دیکھی تھی تلاشی کے وقت وہ کہاں گئی.انہوں نے فرمایا کہ میں حدیث کی کتاب جمع کر رہا ہوں.میں نے سوچا کہ میری تھیلی نکلی تو ایک جھگڑا پڑے گا بعض کے نزدیک بات شبہ میں پڑجائے گی اوراس کا اثر میری کتاب کی صحت کے اعتبار پر پڑے گا.اس واسطے میں نے کتاب حدیث کی خاطر ہزار اشرفی کو قربان کیا اور اتنا بھی پسند نہ کیا کہ چوری کا مجھ پر جھوٹا شبہ ہو.سبحان اللہ کیا پاک لوگ تھے.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا کیسا اعلیٰ نمونہ ہے.تمام مقدس اور نیک لوگوں کا جو ورثہ ہے کہ ان کو دنیا داروں سے دکھ پہنچتے ہیں.سو یہ حصہ بھی امام بخاری علیہ الرحمۃ کو ملا.یہا ں تک کہ حاکم وقت نے آپ کو بخارا سے نکلوا دیا یا خود اس کے شر کے خوف سے نکل آئے اور اپنے وطن کو چھوڑ کر ہجرت کی اور آپ کی وفات بھی باہر ہی ہوئی.

Page 436

بِسْـمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْــــمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ پارہ اوّل کتاب بدء الوحی باب ۱.ابتدائے وحی امام بخاری علیہ الرحمۃ نے پہلا باب یہ بنایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم پر وحی الٰہی کا ابتداء کس طرح سے ہوا.بایں الفاظ دیگر اسلام کا ابتداء کس طرح سے ہوا.نکتہ.وحی کے بہت سے اقسام ہیں.۱.زمین کو بھی وحی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزلزال میں فرمایا ہے.  (الزلزال :۶).بسبب اس کے کہ تیرے پروردگار نے اسے (زمین کو ) وحی کی.۲.آسمان کو وحی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے. (حٰمٓ السجدۃ :۱۳) اور ہر آسمان کا کام اس میں وحی کیا گیا.(پارہ ۲۴) ۳.حیوانات کو وحی ہوتی ہے.قرآن شریف میں آیا ہے. (النحل : ۶۹).۴.عورتوں کو وحی ہوتی ہے.قرآن شریف میں ہے.(القصص :۸) اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی.۵.عام مومنوں کو بھی وحی ہوتی ہے.جیسا کہ فرمایا.(المائدۃ :۱۱۲) اور جبکہ ہم نے حضرت عیسیٰ کے مخلصوںکو وحی کی.یہ سب وحیاں ہیں مگر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو وحی ہوئی وہ بہت اعلیٰ شان رکھتی ہے.اس سے مراد یہ وحیاں نہیں ہیں بلکہ اس کی شان بہت بلند ہے.اس واسطے

Page 437

امام علیہ الرحمۃ قول اللّٰہ عزّ وجلّ. (النساء :۱۶۴).اس جگہ لائے ہیں کہ ہم نے تیری طرف وحی کی جیسا کہ نوح کی طرف ہم نے وحی کی تھی اور اسی واسطے امام بخاری علیہ الرحمۃ نے ابتدائے وحی کا باب باندھا مگر سب سے پہلی حدیث جو لائے ہیں وہ ہے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ.کیا معنے؟ ارادی کام ارادہ پر موقوف ہیں.جیسی نیت ویسے پھل.گندم از گندم بروید َجو ز َجو.از مکافات عمل غافل مشو.جو آگ کھائے گا اس کا منہ جلے گا.حدیث کو جمع کرنے کا عظیم الشان کام اور اس کا ابتداء نزول وحی کے بیان سے کیا لیکن امام صاحب علیہ الرحمۃ ڈر گئے کہ کتاب کا لکھنا، لکھانا، پڑھنا پڑھانا، خرید کرنا، اس کا سننا یہ سب مخلوق الٰہی کا بہت سا وقت اور محنت اور روپیہ لے گا ایسا نہ ہو کہ یہ ضائع ہوجائے اور بے سود ثابت ہو اس واسطے ضروری ہے کہ پہلے اپنی نیتوں کو درست کرلو اور پھر اسے شروع کرو.اہل بیت امام بخاری علیہ الرحمۃ نے بڑی حکمت سے نزول وحی کے متعلق سب سے پہلی حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی لی ہے.عائشہ ایک عظیم الشان عورت تھی اوروہ جوان تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب حالات پوچھ سکتی تھی.امام بخاری نے اس میں اشارہ کردیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیاں اہل بیت میں تھیں.قرآن شریف سے بھی ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے.کلام پاک میں اہل بیت کا لفظ تین جگہ آیا ہے اور ہر جگہ بیبیوں کے متعلق بولا گیا ہے.۱.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بی بی کے متعلق    (ھود :۷۴).حضرت ابراہیم کو جب بیٹے کی خوشخبری دی گئی تو بی بی سارہ نے تعجب کیا.تب خوشخبری دینے والوں نے کہا.اے اہل بیت کیا تو اللہ کے حکم، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتوں پر جو تم پر میں تعجب کرتی ہو.بے شک وہ پاک ذات تعریف کیا گیا بزرگی والا ہے.(پارہ ۱۲ رکوع ۷) ۲.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے متعلق (القصص :۱۳).

Page 438

جب موسیٰ کو آل فرعون نے صندوق میں سے نکالا اور انہیں اس کے واسطے دودھ پلانے والی کی تلاش ہوئی اور وہ کسی کا دودھ نہ پیتے تھے تو حضرت موسیٰ کی ہمشیر وہاں پہنچیں اور کہا کہ میں تمہیں ایک اہل بیت بتلاتی ہوں.تمہارے لئے اس بچے کی پرورش کرے اور خیر خواہی سے کرے.(پارہ ۲۰ رکوع ۴) ۳. (الاحزاب :۳۴).آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیبیوں کو حکم ہوتا ہے اپنے گھروں میں ٹکی رہو.پہلی جاہلیت کے زمانہ کے نمائشی بنائو سنگار نہ کرو.نماز قائم رکھو، زکوٰۃ دو.اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.ضرور اللہ کا ارادہ ہے کہ تم سے بدی کو دور کرے اور تمہیں بالکل پاک و صاف کردے.غور کرو ان تمام جگہوں میں اہل بیت بیبیاں ہیں اور کے آگے پیچھے بیبیوں کا ہی ذکر ہے.باب۲ صَلْصَلَۃَ الْجَرَسِ.ٹلّی کی آواز.فرمایا.بعض دفعہ وحی اس طرح آتی تھی جس طرح کی ٹلّی کی آواز ہوتی ہے.فَیُفْصَمُ.اَلْفَصْمُ.اَلْقَطْعُ.جدا ہوجاتی تھی.جب وہ حالت الگ ہوجاتی تھی.یَتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلَکُ رَجُلًا معلوم ہوا کہ فرشتے اپنے اصل وجود کے ساتھ نہیں اترا کرتے بلکہ تمثیلی وجود ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی تفصیل اپنی کتاب توضیح مرام میں کی ہے جو کہ فائدہ عام کے واسطے اس جگہ درج کی جاتی ہے.’’محققین اہل اسلام ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ ملائک اپنے شخصی وجود کے ساتھ انسانوں کی طرح پیروں سے چل کر زمین پر اترتے ہیں اور وہ یہ خیال ببداہت باطل بھی ہے کیوں کہ اگر یہی ضرور ہوتا کہ ملائک اپنی اپنی خدمات کی بجاآوری کے لئے اپنے اصل وجود کے ساتھ زمین پر اترا کرتے تو پھر ان سے کوئی کام انجام پذیر

Page 439

ہونا نہایت درجہ محال تھا.مثلاً فرشتہ ملک الموت جو ایک سیکنڈ میں ہزارہا ایسے لوگوں کی جانیں نکالتا ہے جو مختلف بلاد و امصار میں ایک دوسرے سے ہزاروں کوسوں کے فاصلہ پر رہتے ہیں اگر ہر یک کے لئے اس بات کا محتاج ہو کر اوّل پیروں سے چل کر اس کے ملک اور شہر اور گھر جاوے اور پھر اتنی مشقت کے بعد جان نکالنے کا اس کو موقع ملے تو ایک سیکنڈ کیا اتنی بڑی کارگزاری کے لئے تو کئی مہینے کی مہلت بھی کافی نہیں ہوسکتی.کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص انسانوں کی طرح حرکت کرکے ایک طرفۃ العین کے یا اس کے کم عرصہ میں تمام جہان کو گھوم کر چلا آوے.ہرگز نہیں بلکہ فرشتے اپنے اصلی مقامات سے جو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں ایک ذرہ کے برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے جیسا کہ خدائے تعالیٰ ان کی طرف سے قرآن شریف میں فرماتا ہے. ۱؎ سورۃ صافات جزء ۳۳.پس اصل بات یہ ہے کہ جس طرح آفتاب اپنے مقام پر ہے اور اس کی گرمی و روشنی زمین پر پھیل کر اپنے خواص کے موافق زمین کی ہر یک چیز کو فائدہ پہنچاتی ہے اسی طرح روحانیات سماویہ خواہ ان کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں یا دساتیرا اوروید کی اصطلاحات کے موافق ارواح کواکب سے ان کو نامزد کریں یا نہایت سیدھے اور موحدانہ طریق سے ملائک اللہ ان کو لقب دیں٭.در حقیقت یہ عجیب مخلوقات اپنے اپنے مقام میں مستقر اور قرار گیر ہے اور بہ حکمتِ کاملہ خداوند تعالیٰ زمین کی ہریک مستعد چیز کو اس کے کمال مطلوب تک پہنچانے کے لئے یہ روحانیات خدمت میں لگی ہوئی ہیں.ظاہری خدمات بھی بجالاتے ہیں اور باطنی ٭ حاشیہ.مَلائک اس معنی سے ملائک کہلاتے ہیں کہ وہ ملاک اجرام سماویہ اور ملاک اجسام الارض ہیں یعنی ان کے قیام اور بقاء کے لئے روح کی طرح ہیں اور نیز اس معنے سے بھی ملائک کہلاتے ہیں کہ وہ رسولوں کا کام دیتے ہیں.منہ ۱؎ الصّٰفّٰت : ۱۶۵، ۱۶۶

Page 440

بھی.جیسے ہمارے اجسام اور ہماری تمام ظاہری قوتوں پر آفتاب اور ماہتاب اور دیگر سیاروں کا اثر ہے ایسا ہی ہمارے دل اور دماغ اور ہماری تمام روحانی قوتوں پر یہ سب ملائک ہماری مختلف استعدادوں کے موافق اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں.جو چیز کسی عمدہ جوہر بننے کی اپنے اندر قابلیت رکھتی ہے وہ اگر چہ خاک کا ایک ٹکڑا ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو صدف میں داخل ہوتا ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو رحم میں پڑتا ہے وہ ان ملائک اللہ کی روحانی تربیت سے لعل اور الماس اور یاقوت اور نیلم وغیرہ یا نہایت درجہ کا آبدار اور وزنی موتی یا اعلیٰ درجہ کے دل اور دماغ کا انسان بن جاتا ہے.‘‘ (توضیح مرام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۶۶ تا ۶۸) باب۳.رؤیائے صالحہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے رؤیائے صالحہ سے وحی شروع ہوئی.خدیجہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انسان کو یار و غمگسار بیبیاں ملتی ہیں.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایسی ہی تھیں.وہ بہت فہیم اور آنحضرتؐ کی خدمت گزار عورت تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں سے واقف تھیں.جب آنحضرتؐ وحی کی عظمت سے مرعوب ہوئے اور خوف زدہ ہو کر خدیجہ سے ذکر کیا تو اس پاک بی بی نے کیا لطیف جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا آ پ خوف نہ کھائیں.آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، دکھیاروں کا دکھ اٹھاتے ہیں جو چیز کہیں نہیں ملتی آپ کی صحبت سے حاصل ہوتی ہے، آپ مہمان نوازی کرتے ہیں، لوگوں کے مصائب کے وقت چندوں سے مدد دیتے ہیں.ایسا آدمی کبھی ضائع نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ ایسے کو ذلیل نہیں کرتا.خشیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ڈرگئے.انبیاء کے ساتھ بشریت رہتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ اب تو سارا جہان مخالف ہوجائے گا اور جان کے لالے پڑ جائیں گے.یہ بہت مشکل کام ہے جس پر بوجھ پڑتا ہے وہی جانتا ہے اور انبیاء کو اللہ تعالیٰ کا

Page 441

خوف و خشیت سب سے زیادہ ہوتا ہے.نصیحت ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ خدیجہ صدیقہ نے جو صفات حسنہ بیان فرمائی ہیں وہ اپنے اندر پیدا کرلیں.۱.صلہ رحمی.اپنے رشتہ داروں سے نیک سلوک.۲.دکھیاروں کا دکھ اٹھانا، ناتواں کا بوجھ اٹھانا.۳.جس چیز کی لوگوں کو ضرورت ہو اور کہیں نہ ملتی ہو اسے مہیا کرنا.۴.مہمان نوازی کرنا.۵.مصائب کے وقت چندوں سے مدد دینا.۶.سچی بات بولنا.۷.امانت کو واپس ادا کرنا.(پچھلی دو باتیں ایک اور حدیث میں اور جگہ بخاری صاحب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مذکور ہیں.) وحی الٰہی کے یاد ہوجانے کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو لفظ استعمال کئے ہیں.پہلی حالت میں سخت ہوتی ہے اور بیہوشی سی طاری ہوتی ہے.لفظ وَعَیْتُ.ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے جس کے معنے ہیں وحی یاد ہو جاتی ہے مگر فرشتوں کے متمثل ہونے کی صورت میں مضارع کا صیغہ استعمال کیا ہے اَعِیْ.انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بشریت تو لگی ہی ہوئی ہے.بڑے بڑے مجاہدات اور ریاضات کے ساتھ قویٰ بھی کمزور ہوجاتے ہیں.پھر اس پر وحی الٰہی کی تجلی کا زور، انبیاء اس کی طاقت کو نہ سہار کر بیہوش سے ہو جاتے ہیں اور جب ہوش آتی ہے تو وحی الٰہی ساری کی ساری خود بخود یاد آجاتی ہے.اس واسطے وَعَیْتُ صیغہ ماضی میں بیان کیا لیکن فرشتہ جب سامنے متمثل ہوکر کلام کرتا ہے تو انبیاء بھی ساتھ ساتھ یاد کرتے جاتے ہیں اس لئے اَعِیْ مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا.

Page 442

بَلَغَ مِنِّی الْجُھْدَ.مجھے بڑی طاقت خرچ کرنی پڑی، بہت زور لگانا پڑا.امام بخاری علیہ الرحمۃ نے وحی کے ابتداء کی حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زبان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت اثبات ثبوت (جو کہ اہم مسئلہ ہے) میں لی تا کہ ان لوگوں کا بھی ردّ ہوجائے جو کہا کرتے ہیں کہ ان ہر دو بیبیوں کا آپس میں نقار تھا.عَمِیَ.اس کی نظر بسبب بڑھاپے کے کمزور ہوگئی تھی.یہ مطلب نہیں کہ بالکل اندھا تھا.نَامُوْس.حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت نبی تھے.یہاں اس کے مثیل کا انتظار تھا اس واسطے ناموس کا نام لیا.اِبْنُ عَمّ.بعض روایات میں اَیْ عَمّ آیا ہے.تعجب نہیں کہ اَیْ کا لفظ لکھتے ہوئے بعد میں ابن لکھا گیا ہو.اَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا.کمر باندھ کر تیری مدد کروں.پنجابی میں کہتے ہیں لک بنھ کے تیرے نال ہو جاواں.فَتَرَ الْوَحْیُ.وحی کا آنا رک گیا.کچھ مدت تک پھر وحی نہیں آئی.حَمِیَ وَ تَتَابَعَ.گرم ہوگئی اور کثرت سے آنے لگی.کیا معنے ؟بہت وحی نازل ہونے لگی.بَوَادِرُ.کندھے اور گردن کے درمیان کے گوشت کو کہتے ہیں.ح.حدیث کے راویوں کے درمیان جو حرف ح آتا ہے اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ وہی حدیث اور سندوں سے بیان کی جاتی ہے اور اوپر کے سلسلہ میں مل جاتی ہے.اس حرف کو حا کرکے بولتے ہیں مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُحَوِّلُ بِسَنَدٍ کیا معنے ؟ کہ سند کو پھیر کر بیان کرتا ہوں.باب۴ (القیامۃ :۱۷).رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے یا چاہتے تھے کہ سب یک دم نازل ہوجائے.باب۵ اَجْوَدُ.جواد ، سخی، خبر گیر تھے.اَرِیْحِی.وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کو کچھ دینے کے بعد بہت خوش ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے سخی تھے مگر ماہِ رمضان میں بہت ہی زیادہ

Page 443

سخاوت کرتے تھے.نصیحت حضرت جبرائیل قرآن شریف کا دور رمضان میں کیا کرتے تھے.میں آپ لوگوںکو نصیحت کرتا ہوں کہ ہر رمضان شریف میں قرآن مجید کا دور خصوصیت سے کیا کریں.باب۶ تِجَارًا.تاجر کی جمع ہے.مَادَّ فِیْھَا اَبَا سُفْیَانَ.ابو سفیان کو بڑا زمانہ ہوگیا تھا.کیا مطلب ؟ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے ہوئے اور انہیں دیکھے ہوئے بہت مدت گزری تھی.ان کو کیا خبر باقی رہی تھی کہ آپ کا کیا حال ہے.اِیْلِیَاء.بیت المقدس کو کہتے ہیں.عبرانی زبان میں اسے بیت ایل کہتے ہیں.ایل عبرانی میں خدا کو کہتے ہیں.ذُوْنَسَبٍ.شریف آدمی.عظیم الشان نسل کا ہے.نکتہ بخاری صاحب نے اس جگہ ابوسفیان کی روایت کو حضرت ابن عباس سے بیان کیا ہے.ابن عباس بالاجماع اہل بیت سے ہیں اور ہاشمی ہیں.ان کا ابوسفیان سے روایت لینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سچائی کی بات کہیں ہو لے لینی چاہیے.کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَآلَّۃُ الْمُؤْمِنِ.امام بخاری نے اہل بیت میں بیبیوں کو بھی رکھا ہے اور ابن عباس کو بھی رکھا ہے.ابوسفیان کی روایت میں یہ لطیفہ ہے کہ سچائی کے لینے کے وقت مخالفت موافقت کی پروا نہیں کرنی چاہیے.گویا اس امر کو ظاہر کردیا ہے کہ روایت لینے میں کسی کی دوستی دشمنی کا خیال نہیں کرنا چاہیے.جہاں سے اچھی بات مل جائے لے لینی چاہیے.پھر ہرقل کی نجوم کی بات کا بھی ذکر کردیا ہے اس سے یہ فائدہ حاصل کرنا چاہیے کہ انسان تنگ دلی اختیار نہ کرے.اوّلین سابقین کون ہوتے ہیں؟ ہرقل کا یہ سوال کہ اس نبی کو ماننے والے ضعیف لوگ ہیں یا کبراء، ایک بہت مفید علم اپنے اندر رکھتا ہے.ہمارے زمانہ میں پانچ شخص ہندوستان میں مصلح یا لیڈر ہونے کے مدعی ہوئے ہیں.رائے رام، موہن رائے، کیشب چندر سین، سرسید احمد،

Page 444

دیانند اور حضرت مرزا صاحب.پہلے چاروں میں سے کوئی مکالمہ الٰہیہ کا مدعی نہ بنا.سید احمد خان اور کیشب چندر سین صرف ایسے الہام کے قائل تھے کہ دل میں کوئی بات آجاوے.انبیاء کی طرح وہ مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ سے آگاہ نہ تھے.ہاں مرزا صاحب نے ایسا دعویٰ کیا اور پہلے ہر چہار کے لیکچروں کو رونق دینے والے اور ان کی پارٹی میں شامل ہونے والے بڑے بڑے امراء اور کبراء ہوئے ہیں مگر مرزا صاحب کو ماننے والے ابتدا میں غرباء اورضعیف لوگ ہیں.یہ بھی ایک نشان اس شخص کا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوکر خلقت کی اصلاح کے لئے آتا ہے.۱؎ نصیحت اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بن جائو.کبھی روپے کو مت ڈھونڈو.اللہ تعالیٰ کے راضی کرنے کی سعی کرو اسی میں سب کچھ آجائے گا.اپنے معاملات میں تحریر کرلیا کرو.اگلے دن ایک عورت نے مجھے سنایا کہ ہم نے بیس روپے ایک شخص کو دئیے تھے وہ اب ہم کو آدھے روپے دیتا ہے آدھے کے متعلق کہتا ہے کہ آگے دے چکا ہوں مگر ہم کو کوئی نہیں ملے.اگر مطابق حکم شریعت لینے اور دینے کی رسید لکھی ہوئی ہوتی تو کیوں اتنی دقت ہوتی.وَکَذَالِکَ الرُّسُلُ.رسول ایسے ہوتے ہیں.ہرقل نے تسلیم کیا کہ رسولوں کی یہی علامات ہیں.عَفَاف.بدیوں سے بچنے کا حکم کرتا ہے.اِبْنُ اَبِیْ کَبْشَۃَ.ایک شخص تھا جو دیووں کی کہانیاں کہا کرتا تھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار طعن کے طور پر اس نام سے یاد کرتے تھے.سَیَمْلِکُ.بادشاہ بن جائے گا.آپ کے خلفاء اس ملک کے بادشاہ ہوئے.عَظِیْمُ بُصْریٰ.ایک شہر بصرہ ہے وہ اور ہے یہ بصریٰ (بضمہ با) اور شہر ہے.خَبِیْث.ُ النَّفْسِ.سُست.رنجیدہ خاطر.فِیْ دَسْکَرَۃٍ.ایک بڑے عالی شان مکان میں ان کو جمع کیا.

Page 445

یہ حدیث قابل یاد ہے.بھلے آدمیوں کے پہچاننے کا بڑا ذریعہ ہے.مجھ کو اس سے بہت فائدہ ہوا ہے.اس باب میں تین مقام بہت ہی قابل یاد ہیں.۱.اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ.۲.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ … الخ.۳.حدیث ہرقل.ــــــــــــــــــــــــــــ

Page 446

کتاب الایمان باب۱.بنائے اسلام قَوْل.منہ سے کہنا.(الفتح :۵).اس سے ظاہر کہ ایمان ترقی کرتا ہے.شَرَائِعُ.شِرْعَۃٌ.ابتدائی باتیں.شریعت کی.منہاج.ابتدا کے بعد آئندہ تک کی باتیں.یَقِیْن.ایمان کا نام ہے اور یقین بھی ترقی کرتا ہے.ایمان کی تعریف میں بہت کچھ جھگڑا ہوا ہے اور سننے والے ضرور تعجب کریں گے کیونکہ دراصل یہ کوئی مشکل بات نہیں.مگر جوبات ملاں لوگوں کے ہاتھ میں آجاتی ہے اس میں ایک دوسرے سے ہار جیت اور اس سے بڑھنے کا خیال بہت کچھ جھگڑے پیدا کردیتا ہے اور خواہ مخواہ موشگافیاں کی جاتی ہیں.کیا کوئی تاریخ و حدیث اور آثار صحابہ سے دکھا سکتا ہے کہ اس وقت بھی یہ جھگڑے ہوئے تھے؟ حنفی علماء کا یہ مذہب ہے کہ ایمان نہ بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے اور سب کا ایمان ایک جیسا ہوتا ہے اور کفر ایک جیسا ہوتا ہے اور عمل مطلق ایمان کا جزو نہیں.اس سے یہ نقص پیدا ہوا کہ لوگوں نے نجات کے لئے صرف ایمان کو ضروری سمجھ کر اعمال آخر آکر چھوڑ دئیے.ہمارے زمانہ میں بے باک بھی موجود ہوگئے.سلاطین عباسیہ کے آخر وقت میں یہ مصیبت مسلمانوں پر آئی.امام بخاری نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایمان اور کفر دونوں بڑھتے اور کم ہوتے ہیں اور ان کے درجات ہوتے ہیں اور یہ کہ ایمان میںعمل بھی شامل ہیں اور جہاں ایمان کے ساتھ عمل کا ذکر آیا ہے وہاں یہ مطلب نہیں کہ ایمان صرف اعتقاد کو کہا ہے بلکہ ایمان کی تصریح کردی ہے کیونکہ دوسری جگہوں میں اعمال پر ایمان کا لفظ بولا گیا ہے.ایمان کی مثال اور کفر کی مثال ایک درخت کی سی ہے جو بڑھتا اور کم ہوتا ہے.چھوٹے درخت کو بھی درخت اور بڑے درخت کو بھی درخت ہی کہتے ہیں.ایمان و کفر ، شرک و ظلم و فسق سب درخت کی مثال میں آجاتے ہیں.ایک شجرہ طیبہ

Page 447

دوسرے اشجار خبیثہ ہیں.میرا مذہب یہ ہے کہ ایمان کی اصطلاح چار طریقوں سے ہوسکتی ہے.۱.ایک ایمان وہ ہے جس پر احکام دنیا کے مرتب ہوتے ہیں.وہ اعمال ظاہرہ ہیں.شہادتیں، نماز، روزہ ، زکوٰۃ حج اور اکل ذبیحہ وغیرہ.۲.دوسرے رنگ میں ایمان وہ چیز ہے جس پر نجات اخرویہ کا مدار ہے.وہ ایمان ضروریات دین پر.۳.تیسری اصطلاح عقائد صحیحہ کا نام ایمان ہے.۴.چوتھی اصطلاح عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کا نام ایمان ہے.ایمان کے ۷۷ شعبے ہیں جو ذیل میں لکھے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور یقین کرنا کہ وہ ایک ہے کوئی اس کی مثل نہیں تمام عیبوں سے پاک ہے.تمام محامد کاملہ سے موصوف ہے.سب کا ربّ، رحمن، رحیم، وحدہٗ لا شریک ہے.اس کے ملائکہ پر ایمان لانا کہ جب وہ دلوں میں نیکی کی تحریک کریں تو اس پر عمل کرے.اور مختلف کاموں پر وہ متعین ہیں، اس کی کتابوں پر ایمان لانا، اس کے انبیاء پر ایمان لانا اور اس بات پر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ السلام خاتم النبیین ہیں، تقدیر پر ایمان لانا کہ ہر ایک چیز کے لئے ایک اندازہ ہے اور اس کی مقدار ہے.پس جیسا کوئی کرے گا ویسا پھل پائے گا اور اللہ تعالیٰ کے علم میں سب چیزیں موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کو تمام اشیاء اور واقعات قبل از وقوع کا علم تھا.بعث بعد الموت پر ایمان لانا، جزاء و سزا پر ایمان لانا، جنت اور دوزخ پر ایمان لانا، اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اوروں سے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے بغض کرنا، حبّ رسول اور اخلاص، توبہ، خوف، امید، نا امیدی کا ترک، شکر، وفاء ، صبر، تواضع، شفقت علیٰ خلق اللہ، رضا، توکل، ترک، عجب اور حسد اور کینہ اور بے محل غضب، شیخی اور گھمنڈ کا ترک کرنا، اخلاق فاضلہ کا پابند ہونا، برائیوں سے بچنا، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر رحم کرنا.

Page 448

متعلق زبان.تلفظ، کلمہ طیبہ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ، قرآن مجید کی تلاوت کرنا اور سیکھنا اور سمجھنا اور دعا، ذکر، استغفار ، لغو اور فضول باتوں سے دور رہنا.متعلق بدن.ہر وقت پاک صاف رہنا، ستر کو چھپانا، نماز، صدقہ، روزہ ، حج، اعتکاف، ہجرت، نذر کو پورا کرنا، کفارے اور قسم کو ادا کرنا، قربانی دینا، جنازہ پڑھنا، قرض کا ادا کرنا، معاملات میں صدق اختیار کرنا اور ریاء چھوڑ دینا، سچی گواہی ادا کرنی، گواہی کو نہ چھپانا، تعفُّف، اہل و عیال کا حق ادا کردینا، والدین پر رحم، تربیت اولاد، صلہ رحم، حکام کی اطاعت، خلق میں اصلاح کرتے رہنا، جماعت کی متابعت، نیک کاموں میں دوسروں کی مدد، بھلے کام کا حکم کرنا، برے کاموں سے منع کرنا، حدود شرعی کو قائم رکھنا، جہاد کرنا، امانت کو ادا کرنا، معاملہ صاف رکھنا، اپنا حق لینے میں سختی نہ کرنا، دوسروں کے حق دینے میں حیلہ یا سستی نہ کرنا، مال کا موقع پر صرف کرنا، مال کو فضول خرچ نہ کرنا، سلام کا جواب دینا، مریض کی بیمار پرسی کرنا، جب کسی مسلمان کو چھینک آوے اور وہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہے تو جواب میں یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہنا، تکلیف والی چیز کو راستہ سے ہٹا دینا، ہمسایہ کی عزت کرنا، خدا کی راہ میں خرچ کرنا، مخالفین اسلام کا ردّ کرنا.ترجمہ حدیث صحیح بخاری جو ترجمہ صحیح بخاری درس حدیث میں اکثر احباب کے سامنے ہوتا ہے وہ ترجمہ مولوی وحید الزمان کا ہے جو لاہور اور امرتسر میں چھپا ہے اور اس کا اشتہار اخبار بدر میں بھی ہوتا ہے.جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس کے سوائے اور کوئی ترجمہ بین السطور نہیں ہے.مولوی وحید الزمان سلسلہ حقہ احمدیہ کا سخت دشمن ہے اور اس نے جا بجا اپنے حاشیہ میں خواہ مخواہ ہم کو گالیاں دی ہیں لیکن جب تک کہ وہ وقت نہ آجائے کہ ہمارے اپنے ترجمے اور حاشیے چھپیں تب تک ایسا نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کی گالیوں سے ڈر کر ہم بخاری کے ترجموں کو پڑھنا چھوڑ دیں.اس ترجمہ کے شائع کنندہ نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ نئے ایڈیشن میں سے ان الفاظ کو نکال دے گا.اصل بخاری اور اس کے ترجمہ میں تو کوئی دخل ہی کیا دے سکتا ہے.باقی رہے حواشی سو خُذْ مَا صَفَا وَ دَعْ مَا کَدَرْ پر عمل کرنا چاہیے.

Page 449

نکتہ بڑے بڑے لوگوں نے تو یہ لکھ دیا ہے کہ رزق و ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں اور اس مسئلہ میں اتنی لمبی بحثیں ہوئی ہیں.ع شد پریشان خواب من از کثرت تعبیر ہا امام بخاری صاحب نے ایمان بڑھنے اور گھٹنے کے متعلق آٹھ آیتیں لکھ دی ہیں.میں جموں میں تھا کہ ایک طالب علم ہندوستان سے تازہ پڑھ کر میرے پاس آیا اور کہا کہ مولوی رشید احمد گنگوہی نے اس مسئلہ میں ایک ایسی بات نکالی ہے کہ ان کے مقابل غیر مقلدوں کو کچھ جواب نہ آیااور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف میں جو لکھا ہے کہ ایمان بڑھتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن شریف جب نازل ہوتا تھا تو اس وقت تو بے شک سننے والوں کا ایمان بڑھتا تھا لیکن جب قرآن شریف ختم ہوگیا اور وحی بند ہوگئی تب سے ایمان بڑھتا نہیں ہے.میں نے اسے جواب دیا کہ مسائل ایمان ترقی نہیں کرتے؟ اور جو نیا مسلمان ہوا وہ ہر روز نئے نئے احکام نہیں پڑھتا اور اس معنے کر اس کا ایمان نہیں بڑھتا؟ پھر علم حدیث کی ترقی سے نئے نئے علوم نہیں پیدا ہوتے؟ اچھا اس سب کے علاوہ اجماع اور قیاس صحیح نئے مسائل ایجاد کرنے سے مانع ہے وغیرہ وغیرہ.مجھے امام ابوحنیفہ پر ہمیشہ حسن ظن رہا ہے اور قرآن شریف میں صریحاً (الانفال :۳) کے الفاظ ہوتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آسکتا تھا کہ امام ابوحنیفہ اس کے قائل نہ ہوں.میرے حسن ظن کے واسطے خدا تعالیٰ نے ایک راہ نکال دی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ حضرت امام ابوحنیفہ کے پاس فقہی مقدمات بہت آیا کرتے تھے اور آپ ان کے فیصلے کیا کرتے تھے.بعض لوگ بعض کی نسبت ایسے الفاظ بولا کرتے ہیں کہ یہ بڑے تہجد گزار ہیں، بہت عبادت کرتے ہیں، بڑے ایماندار ہیں.تب آپ نے ایسے لوگوں کو کہا کہ محکمہ قضاء میں ایمان کی کمی زیادتی کا فیصلہ جات میں کوئی کام نہیں اس کا ذکر مت کرو.معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسی ہی بات کو لے کر پچھلے حنفیوں نے کچھ کا کچھ بنا دیا ہو اور نئے نئے وجوہات نکالے ہوں اور بعض آیات بھی لاتے ہوں مگر ان کے سب دلائل کچے ہیں

Page 450

نکتہ امام بخاری صاحب ۱۹۴ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۲۵۶ ہجری میں وفات پائی.اس وقت سنی، شیعہ، خواج سب موجود تھے.اگر بخاری صاحب ہمارے مولوی صاحبان کی طرح تنگ خیال ہوتے تو وہ اپنے ہم خیال لوگوں کے سوائے اور کسی کی روایت نہ لیتے تو ان کی کتاب جناب الٰہی کے حضور ایسی قبولیت حاصل نہ کرتی.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ میرا دل بھی وسیع بنایا گیا ہے.میں نے امام بخاری کی کتاب کو بڑے غور سے پڑھا ہے.بعض لوگوں نے اس کے راویوں پر جرح کی ہے.کسی کو کہا ہے کہ یہ قدری ہے کسی کو کہا کہ شیعہ ہے کسی کو کہا شافی ہے.بنو امیہ کی سلطنت کو اچھا سمجھتا تھا.کسی کو کہا کہ آخر عمر میں اس کا حافظہ گھٹ گیا تھا.کسی کو کہا کہ آخیر میں پاگل ہوگیا تھا.کسی کے متعلق بیان کیا کہ امیر نے اس کو تحفہ بھیجا تھا اور اس نے قبول کرلیا تھا.غرض اس قسم کے اعتراضات راویوں پر کئے گئے ہیں مگر امام بخاری نے ان باتوں کی پرواہ نہیں کی.انہوں نے صرف سچ کو دیکھا ہے.جہاں صداقت ملی لے لی.کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَآلَّۃُ الْمُؤْمِنِ اَخَذَھَا حَیْث.ُ وَجَدَھَا.اب حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی کوئی حدیث کی جامع کتاب پیش فرماویں.صرف ایک راوی کے متعلق مجھے شبہ ہوا کرتا تھا کیونکہ لکھا تھا کہ اس نے ہنسی ٹھٹھا کیا ہے اور ٹھٹھا کرنے والا آدمی بد احتیاط ہوجاتا ہے لیکن جب میں نے اصل واقعہ کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ اس شخص نے ٹھٹھا نہ کیا تھا بلکہ کسی کو اس کی بدی سے روکنے اور سمجھانے کے واسطے ایک بات کی تھی اور یہ اس کا مذہب تھا کہ دفع شر کے واسطے ایسا فعل کرنا جائز ہے.امام بخاری کا بڑا اصل یہ تھا کہ جس سے روایت لی جائے وہ سچا آدمی ہو.اٹھارہ سو شیخ سے روایت لی ہے اور اس کے واسطے کوفہ، بصرہ، مصر، مکہ ، مدینہ، موصل، بغداد سب جگہ سفر کیا ہے اور نوے ہزار آدمی کو احادیث سنائی ہیں.نکتہ الفاظ کے معانی کے متعلق کچھ اصول یاد رکھنے چاہییں.۱.لفظ جمع کا ہو تو اس سے مراد کُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ نہیں ہوگا جب تک کہ تصریح نہ ہو بلکہ مراد بعض سے ہوتی ہے.اَلنَّاس سے مراد بعض الناس ہے.۲.جب ایک لفظ تنہا آوے تو اس کے معنے وسیع ہوتے ہیں جیسا اٰمَنُوْا جب اکیلا ہو.مگر جب

Page 451

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنَاتِ مل کر ایک جگہ آیا تو معنے میں وہ وسعت نہ رہی.۳.اٰمَنُوْا کے ساتھ عَمِلُوا الصّٰلِحٰت آوے تو اٰمَنُوْا کے معنے کا دائرہ تنگ ہوجائے گا اور اس سے مراد اعتقاد رہ جائے گا.۴.کبھی تضاد بھی دو معنے میں واقع ہوجاتا ہے اور عدم توسیع جیسا کہ اسلام ایک وسیع لفظ ہے.ایمان و عقائد اعمال ظاہر ہ و باطنہ پر بولا گیا جیسے فرمایا.(اٰل عمران :۲۰) مگر جہاں آیا ہے کہ (الحجرات :۱۵) وہاں لفظ اسلام کے معنے تنگ اور متضاد ہوگئے حالانکہ اکیلے لفظ اسلام میں ایمان بھی شامل ہے.یہاں ظاہری فرمانبرداری مراد ہوگئی.پس توسیع، عدم توسیع اور تضاد تین حالات ہوئے ایمان میں عمل شامل ہے عمل کے بغیر ایمان نہیں ہوتا.ایمان ، اعتقاد و عمل صالح ظاہر و باطن پر حاوی ہے.نکتہ امام بخاری نے اہل بیت اور صحابہ سے سب سے روایت لی ہے.مجھے بِحَمْدِ اللّٰہِ وَلَہُ الْحَمْدُ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد بھی بہت ہی پیاری ہے اور صحابہ بھی پیارے ہیں.نکتہ احادیث میں یہ ذکر بہت آتا ہے لوگوں نے مختلف اوقات میں بار بار سوال کیا ہے بڑا عمل کونسا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کا جواب مختلف سائلین کو مختلف دیا ہے.کسی کو کہا ہے کہ ماں کی خدمت کرنا سب سے بڑا عمل ہے اور کسی کو فرمایا کہ زبان پر قابو رکھنا سب سے بڑا عمل ہے اور کسی کو حکم دیا کہ اپنی شرمگاہ پر قابو رکھو یہ سب سے بڑا عمل ہے.ان جوابات کے دینے میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس لائق طبیب و حکیم کا کام کیا ہے جو اپنے سائل مریضوں کو ان کے اس سوال کے جواب میں کہ مجھے سب سے عمدہ دوائی دی جائے ہر ایک کو اُس کی مرض کے مطابق مختلف دوائی دیتا ہے.شِرْعَۃً.سنت.وہ راہ جو اللہ تعالیٰ نے وحی میں بیان کی ہے.

Page 452

مِنْھَاجًا.سبیل.وہ راہ جو تجربہ اور جبلت سے اختیار کرنی پڑتی ہے.اس جگہ عمر بن عبدالعزیز خلیفہ کا ایک قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر میں زندہ رہا تو ایمان کے شرائع اور فرائض اور حدود اور سنن تمہارے سامنے بیان کروں گا اور اگر مر گیا تو تمہارے درمیان رہنے کی مجھے حرص نہیں.سبحان اللہ ! کیا ہی مومنانہ کلام ہے.انسان دنیا میں جئے تو قلب کی اس حالت کے ساتھ جئیے کہ یہاں رہنے کی حرص دامنگیر نہ ہو.خلیفہ عمر بن عبدالعزیز وہ ایک شخص ہے جس کو سنی ، شیعہ، خارجی سب پسند کرتے ہیں.پولوس نے تو شریعت کو ناقابل عمل اور لعنت کہا ہے مگر انسان کی حالت ایسی ہے کہ گرجے کی قوانین کی کتاب توریت سے بڑی ہے.ایمان ایک درخت کی مثال رکھتا ہے جیسا کہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے پاک کلام میں آیا ہے.(ابراہیم :۲۵) پاک کلمہ ایک پاک درخت کی طرح ہے.جب درخت پیدا ہوتا ہے تو پہلے اس کی لو نکلتی ہے.اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کا درخت ہے اور ا س کا کیا نام ہے.مثلاً پیپل کا درخت پہلے دن جب اس کی لو دکھائی دے گی تب بھی اس کا نام پیپل ہوگا.چار سال بعد بھی وہ پیپل ہی کہلائے گا.جب بہت بڑھ جائے گا اور سینکڑوں آدمی اس کے سایہ کے نیچے آرام پائیں گے تب بھی وہ پیپل ہی کہلائے گا اور جب وہ پرانا ہوکر اس کے پتے جھڑ جاتے ہیں اور شاخیں گر جاتی ہیں اور ایک ٹنڈ سا رہ جاتا ہے تب بھی اس کا نام پیپل ہوتا ہے.یہی حال ایمان کا ہے جو بڑھتا اور گھٹتا ہے لیکن اگر کوئی شخص پیپل کے ایک پتے کو ہاتھ میں لے کر کہے کہ یہ درخت پیپل کا ہے تو اس کی غلطی ہوگی.جس کے گھر میں ایمان کا درخت لگ گیا وہاں سے اس کے پھول ، پھل اور پتے بھی نظر آئیں گے.یہی حال کفر کا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(ابراہیم :۲۷) مَاحَاکَ فِی الصَّدْرِ.جو بات دل میں کھٹکتی ہو اسے چھوڑ دینا چاہیے.جس بدی کا اثر

Page 453

دل پر ہو.کھٹکا یہ ہے کہ اس امر سے ڈرے کہ میری بات پر کوئی آگاہ نہ ہوجائے.واقعہ ہمارے شہر میں ایک بیوہ تھی.میں نے اس سے نکاح کرنا چاہا مگر اس کے ولی اس امر پر راضی نہ ہوتے تھے کہ وہ کہیں نکاح کرے.ان کے ہاں دستور تھا کہ بیوائیں ساری عمر اسی طرح بیٹھی رہتی ہیں.میں نے بعض مولوی صاحبان کو خط لکھے اور ان سے فتویٰ طلب کیا کہ اس صور ت میں کیا کرنا چاہیے.وہاں سے جواب آیا کہ ایسے ولی کی ہرگز پرواہ نہیں کرنی چاہیے اور نکاح ضرور کرلینا چاہیے.اس خط کو پاکر میں خوشی سے اس عورت کے مکان کی طرف چلا.اپنے ہی اس دروازہ پر جس سے نکلنا تھا نکلنے کو تھا مجھے ایک شخص ملا.اس کے پاس حدیث کی کتاب ترمذی تھی.یہی حدیث اس نے نکال کر مجھے دکھائی اور اس کا مطلب دریافت کیا.میں جان گیا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے میرے سمجھانے کے لئے بھیجا ہے.میں اسی دروازہ میں بیٹھ گیا اور آگے نہ بڑھا.سائل بھی حیران ہوا.پھر میں وہاں سے اندر چلاآیا.تب میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ لیٹے ہوئے ہیں اور آپ کی داڑھی منڈی ہوئی ہے.جس پر میں نے تعجب کیا اور حدیث کا خیال بھی میرے دل میں تھا.پھر میں نے دیکھا کہ حدیث لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب لا نکاح ال بولی)ہے تو صحیح مگر لوگ اسے ضعیف کہتے ہیں.تب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پھر دیکھا.آپ بیٹھے ہیں اور ریش مبارک کو ایک طرف سے بڑھا ہوا اور دوسری طرف سے کٹا ہوا دیکھا.پھر میرے خیال نے ترقی کی کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور میں اسی کے مطابق انشاء اللہ تعالیٰ عمل کروں گا.تب میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کی ریش مبارک دونوں طرف عمدہ اور برابر ہے.اس طرح میرے مولیٰ نے مجھے سمجھایا کہ مولویوں کے فتوے کی کیا بات ہے.گناہ تو وہ ہے جو دل میں کھٹکے.فرمایا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اَ لْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَلَوْ اَفْتَاکَ الْمَفْتُوْنَ.اَلْحَیَآئُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ.حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے.

Page 454

حیا کے اصل معنے ہیں رک جانا.لوگوں کے مراتب مختلف ہوتے ہیں.انسان کو چاہیے کہ اسے قول و فعل میں ہر شخص کے مراتب کو مد نظر رکھے.مہاجر وہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی نواہی کو چھوڑ دے.لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبُّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ.کوئی تم میں سے اس وقت تک مؤمن نہیں ہوتا جب تک جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند نہ کرے.جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے نوکر تمہارا کام کریں اسی طرح تم اپنے آقا کا کام کرو.جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے آقا تم کو مزدوری دیں اسی طرح تم اپنے ملازموں کو مزدوری دو.جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہاری لڑکی کے ساتھ اس کے سسرال سلوک کریں ایسا ہی سلوک تم اپنی بی بی اور بہو سے کرو.غرض ہر امر میں اپنے دل سے فتویٰ لو.جو سلوک تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ کیا جائے ویسا ہی سلوک تم ان کے ساتھ کرو.انصار سے محبت کرنا ایمان کی نشانی ہے.اَحَدُ النُّقَبَائِ.تہتر آدمیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک رات بیعت کی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں میں سے بارہ آدمیوں کو ان کا سردار مقرر کیا تھا.ان سرداروں میں سے ایک عبادہ بن صامت تھے.سب کے نام یہ ہیں.اسعد بن زرارہ، عوف بن الحارث، معاذ بن عفراد، زکوان بن عبدالقیس، رافع بن مالک، عبادہ بن الصامت، عباس بن عبادہ، یزید بن بعثہ، عقبہ بن عامر، قطبۃ بن عامر یہ سب لوگ خزاعی تھے.ابولہیثم بن التیمان، عویم بن ساہہ اس میں تھے.عَوَاقِبُ فِی الدُّنْیَا.جو شخص یہاں صبر اور شکر اور ایمان کے ساتھ سزا کی تکلیف کو برداشت کرتا ہے اور صحت و آرام پر شکر گزار ہے وہ اس کے لئے کفارہ گناہ ہوجاتی ہے.مَا تَقَدَّمَ.جو کرنا نہیں چاہیے تھا اور کیا.مَا تَاَ خَّرَ.جو کرنا چاہیے تھا اور نہ کیا.

Page 455

ایڈیٹر.آج کل کے یسوعی صاحبان قرآن شریف کی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے حضرت محمد مصطفیٰ سرور انبیاء سید المعصومین کو نعوذ باللہ گنہگار اور اس طرح فضیلت یسوع ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں.اس مضمون پر ہمارا ایک مباحثہ بشپ لیفرائے سے ہوا تھا جس کا بیان اس جگہ فائدہ سے خالی نہ ہوگا اور وہ اس طرح ہے.معصوم نبی اور بشپ صاحب ماہ مئی ۱۹۰۰ء میں جبکہ دفتر اکونٹنٹ جنرل میں ملازمت کے سبب لاہور میں قیام پذیر تھا اور مخدومی مکرمی حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب کے ساتھ ایک مکان بیرون شہر میں رہا تھا تو ایک دن ہم نے اچانک سنا کہ پادری لیفرائے صاحب نے تمام مسلمانوںکو دعوت کرکے ایک لیکچر دینے کا اشتہار دیا ہے جو کہ انارکلی میں فورمن چیپل میں ہوگا۲؎ اور جس کا مضمون ہوگا ’’ معصوم نبی ‘‘.لیفرائے صاحب اب تک بھی لاہور کے بشپ اور پنجاب کے تمام پادریوں کے افسر یعنی لارڈ پادری ہیں.اس جلسہ کی خبر سن کر شام کے وقت میں مقام جلسہ پر گیا.وہاں لوگ نہایت کثرت کے ساتھ پہلے ہی سے جمع تھے کیونکہ لیکچر دینے والے صاحب بہت مشہور اور عیسائیوں میں ایک مانے ہوئے جید عالم اور مناظرہ و مباحثہ میں بہت مشق رکھنے والے لارڈ پادری صاحب تھے اور بالمقابل تمام مولوی صاحبان کو بلایا گیا تھا.ہماری جماعت احمدیہ کے چند آدمی بھی موجود تھے مگر ہم میں سے کوئی اس امر کے واسطے تیار ہوکر نہ آیا تھا کہ پادری صاحب کے بالمقابل کھڑا ہو.اور یہ بھی خیال تھا کہ لاہور کئی ایک اسلامی انجمنوں کا مرکز ہے جنہوں نے مخالفین اسلام کا مقابلہ کرنا اپنا فرض قرار دیا ہوا ہے اور بہت سے مولوی جمع تھے وہ صاحبان خود جواب دے دیں گے.ہماری جماعت بھی قلیل تھی لیکن اثنائے گفتگو میں مخدومی جناب مولوی عبیداللہ صاحب نے عصمت انبیاء پر چند کلمات فرمائے اور عصمت کے لفظ کو قرآن شریف میں  (المائدۃ :۶۸) کی طرف اشارہ کیا.خیر یہ باتیں سرسری طور پر ہوگئیں اور لیکچر کا وقت قریب ہونے کے سبب ہم لوگ چیپل ہال کے

Page 456

اندر چلے گئے.تھوڑی دیر میں لارڈ پادری صاحب بمع چند اور عیسائی انگریز اور دیسیوں کے تشریف لائے.لوگ بہت کثرت سے جمع ہوچکے تھے.کئی ہزار آدمی موجود تھا.بنچوں اور گیلری کے سوائے بہت سے لوگ زمین پر اور چبوترے پر بیٹھے تھے پا نیچے کھڑے تھے.اس قدر آدمی کثرت سے جمع ہوگئے تھے کہ بالآخر باہر کا دروازہ بند کردیا گیا تھا.بشپ صاحب نے اپنا لیکچر شروع کیا.قرآن شریف کی آیات اور احادیث پڑھ پڑھ کر یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ تمام انبیاء گنہگار تھے.ان کا دعویٰ تھا کہ میں ہر ایک بات قرآن شریف سے ثابت کروں گا.چنانچہ آدم کا ذکر کیا کہ قرآن مجید لکھا ہے کہ  (طٰہٰ : ۱۲۲) اورآدم نے گناہ کیا.ایسا ہی حضرت موسیٰ کا ذکر کیا اور دوسرے انبیاء کا ذکر کیا اور بالآخر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا.ایک تو قرآن شریف کی یہی آیت پڑھی جو اوپر لکھی ہے اور ایک یہ آیت پڑھی (محمد :۲۰) اور ایک حدیث پڑھی کہ مریم اور اس کے بیٹے کے سوائے باقی سب کی ولادت میں شیطان کا حصہ ہے اور پھر کہا کہ دیکھو تمام انبیاء کے متعلق یہ بیان ہے کہ انہوں نے گناہ کیا تھا خواہ وہ گناہ بعد میں معاف ہی ہوگیا ہو.تاہم کیا تو تھا لیکن ہمارے عیسیٰ کے متعلق کہیں یہ لفظ نہیں کہ اس نے کوئی گناہ کیا.اور انجیل میں بھی لکھا ہے کہ وہ نور تھا.پس ثابت ہوا کہ دنیا میں اگر کوئی معصوم ہے تو صرف یسوع مسیح ہے باقی سب گنہگار ہیں.پس بھائیو ! ہم کس کو اپنا شفیع بنائیں.کیا اس کو جو گنہگار ہے یا اس کو جو بے گناہ ہے.بشپ صاحب نے اس تقریر پر دو گھنٹے خرچ کئے.درمیان میں حدیث کے موقع پر بعض مسلمان بولے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے یا صحیح الفاظ اس طرح سے نہیں ہیں مگر بشپ صاحب نے درمیان میں بولنے سے لوگوں کو منع کیا اور کہا کہ بعد میں پندرہ منٹ اس بات کے واسطے رکھے گئے ہیں.چونکہ عاجز کو پادریوں کے ساتھ ملنے اور گفتگو کرنے اور ان کی کتابوں کے مطالعہ کرنے کا بہت موقع ملتا رہا ہے.اس واسطے میں بشپ صاحب کے ابتدائے تقریر ہی سے سمجھ گیا تھا کہ یہ

Page 457

دجل کا جال کہاں سے پھیلنا شروع ہوا ہے اور کہاں تک اس کا اثر جائے گا.تھوڑے ہی الفاظ سے میں جان گیا کہ بشپ صاحب کہاں سے شروع ہوئے اور کہاں پہنچیں گے.میں نے محسوس کیا کہ یہ حملہ نادان لوگوں کے ایمان پر بہت سخت ہے لیکن دوسری طرف جب میں نے نظر کی تو مولوی ملّانوں اور انجمن کے بزرگوں میں سے کسی کو میں نے نہ پایا کہ وہ اس وقت کافی جواب دے سکیں گے.اس خیال نے میرے دل پر ایک بڑا بھاری بوجھ رکھ دیا اور دین محمدی کی حمایت نے میرے خون کو جوش دیا.میرے پاس اس وقت کوئی کتاب نہ تھی اور نہ ہی کتاب دیکھنے کا وقت تھا اور نہ میں اپنے بزرگ مولویوں کو اور اپنے مرشد و ہادی جو کسر صلیب کے واسطے مبعوث ہوکرآیا ہے اس وقت اطلاع کرسکتا تھا کہ وہ آوے اور دیکھے کہ نبیوں کے سردار ، پاکوں کے پاک، راستبازوں کے راستباز کو گناہ گار اور خطا کار ثابت کرنے کے واسطے کس قدر کوشش کی جارہی ہے.سب طرف میں نے اسلام کو گونگا ہوا پایا اور اس کا کوئی شہسوار میدان کے اندر نہ دیکھتا تھا.تب میں نے سوچا کہ اس وقت سوائے دعا کے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں کیونکہ سب دور ہیں پر خدا بہت نزدیک ہے.تب میں نے اپنے سردار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت کے نام کے واسطے دردناک ہوکر اپنے خدا سے دعا مانگنے لگا اور دو گھنٹہ تک کہ پادری صاحب نے لیکچر دیا میں دعا کرنے اور درود شریف کو پڑھنے میں جوش اور درد کے ساتھ مصروف رہا.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت کا نزول مجھ پر کیا اور آیت  (المائدۃ :۶۸) کے معنے میرے دل پر نازل فرمائے اور میرے سینے کو ایک انشراح عطا فرمایا اور سارے بوجھ کو میرے اوپر سے اتار دیا اور مجھے ایک ہمت اور شجاعت عطا کی کہ میں خود اس میدان میں نکلوں.تب فریق مخالف کے دلائل مجھے بہت ہی حقیر نظر آئے اور کسی کا رعب تو پہلے ہی میرے دل پر نہ تھا.پس میں تیار ہوگیا کہ بشپ صاحب کے بیٹھتے ہی میں کھڑا ہو کر اپنی تقریر شروع کروں اور اسلام کی حمایت کروں اور خدا کے حبیب کی عزت کو اس میدان میں قائم رکھوں.چنانچہ جیسے ہی بشپ صاحب بیٹھ گئے تو میں کھڑا ہوگیا سب سے پہلے میں نے لارڈ

Page 458

پادری کو اس طرح توجہ دلائی کہ جیسا کہ انہوںنے خود مسلمانوں کو اپنی طرف کرکے اپنی تقریر سنائی ہے ایسا ہی میں میں امید کرتا ہوں کہ پادری صاحب مسلمانوں کو بھی موقع دیں گے کہ ان کی تقریریں سنیں.(اس سے میرا منشاء یہ تھا کہ آئندہ کوئی عظیم الشان جلسہ کیا جاوے جس میں مسلمانوں کو بھی دو چار گھنٹہ تقریر کرنے کا موقع ہو.چنانچہ بعد میں بشپ صاحب کو ایسے جلسہ کے واسطے حضرت مسیح موعود کی طرف سے مدعو کیا گیا تھا مگر آپ نے نہ مانا.اس کا مفصل ذکر اپنے موقع پر آئے ہوگا.) پھر میں نے کہا کہ لارڈ پادری صاحب نے دو گھنٹے تک تقریر فرمائی ہے اور ہمارے واسطے صرف پندرہ منٹ ہیں اتنی لمبی تقریر کا جواب ایسے تھوڑے وقت میں مفصل ہو نہیں سکتا.پس میں ایک مختصر بات کرتا ہوں جس سے بہت جلد فیصلہ ہوجائے.لارڈ پادری صاحب نے بہت سے انبیاء کا ذکر کیا ہے اور دلائل میں قرآن اور احادیث کو لیا ہے.حدیث کے متعلق ابھی ایک مسلمان نے اعتراض کیا تھا کہ یہ صحیح نہیں.پس یہ بھی ایک بحث طلب امر ہوگیا.اس واسطے دلائل میں سے سردست قرآن شریف ہی کو میں رکھتا ہوں جو سب مسائل کا اصل ہے.پھر انبیاء میں سے لارڈ پادری صاحب نے آدم، موسیٰ ، دائود علیہم السلام بہت کا ذکر کیا ہے اور بالآخر حضرت نبی کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر کیا ہے.چونکہ پہلے تمام انبیاء آپ کے اور ہمارے مشترک ہیں سب کو آپ بھی نبی مانتے ہیں اور ہم بھی نبی مانتے ہیں.معصوم تھے یا غیر معصوم تھے آپ کے بزرگ بھی تھے اور ہمارے بھی.اور وقت تنگ ہے اس واسطے ان کے ذکر کی بھی کوئی ضرورت نہیں.باقی رہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کو آپ نبی نہیں مانتے اور ہم ان کو تمام نبیوں کا سردار مانتے ہیں اور عیسائی لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منکر ہیں.اصل جھگڑا آپ کے اور ہمارے درمیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ہے.پس چونکہ وقت بھی تنگ ہے اور اصل مطلب مباحثہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معصومیت ہی ہے اس واسطے میں باقی تمام باتوں کو چھوڑ کر اصل مرکز پر گفتگو کرتا ہوں اور اسی قرآن شریف کو لیتا

Page 459

ہوں جسے بشپ صاحب نے دلائل کے واسطے پیش کیا ہے.سو واضح ہو کہ قرآن شریف کی آیات کو پیش کرنے کے وقت بشپ صاحب کو ایک غلطی لگی ہے جس کی وجہ ہے یہ بشپ صاحب زبان عربی سے نا آشنا ہیں.(گو بشپ صاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ میں عربی جانتا ہوں لیکن ان کی عربی دانی ایسی ہی تھی جیسے کہ عموماً انگریزوں کی ہوا کرتی ہے.یہاں تک کہ بشپ صاحب مجلس میں قرآن شریف کی سادہ عبارت بھی پڑھنے کی جرأت نہ کرسکے تھے صرف ترجمہ ہی پڑھ دیا تھا.اس واسطے میں نے مناسب سمجھا کہ بشپ صاحب کی عربی دانی کا جو رعب حاضرین پر ہو اس کو بھی دور کردیا جائے).قرآن شریف کی ان آیات میں دو الفاظ قابل غور ہیں.ذَنْب اور غَفَر.ان لفظوں کے اگر صحیح معنے کردئیے جاویں تو سب معاملہ طے ہو جاتا ہے.سب سے پہلی غلطی جو بشپ صاحب نے کی وہ لفظ ذَنْب کے ترجمہ کرنے میں ہے.عربی ایک وسیع زبان ہے اور جیسا کہ انگریزی میں (Synonyms) ہوتے ہیں یعنی مترادف الفاظ جو بظاہر ہم معنی ہوتے ہیں لیکن دراصل ان کے معانی میں بہت فرق ہوتا ہے ایسا ہی عربی میں بھی الفاظ ہوتے ہیں.عربی میں اس مفہوم کے واسطے بہت سے الفاظ ہیں.مثلاً جُرم.جَنَاحٌ.اِثْمٌ.خَطَأٌ.ذَنْبٌ وغیرہ وغیرہ.چونکہ اردو ایک محدود زبان ہے اس واسطے اس زبان میں ہر مفہوم کے واسطے جدا جدا الفاظ نہیں ہیں.گناہ کا ٹھیک ترجمہ عربی زبان میں جَنَاح ہے اور غالباً یہی جَنَاح کا لفظ بگڑ کر رفتہ رفتہ فارسی زبان میں گناہ بن گیا ہے.ایسا ہی جُرم کا لفظ ہے جس کے معنے خدا سے قطع تعلق کرنے کے ہیں.یہ الفاظ جُرم اور جَنَاحکے کبھی قرآن شریف میں یا حدیث میں ہمارے نبی کیا کسی نبی کے متعلق بھی نہیں آئے.کبھی کسی نبی سے جُرم یا جَنَاح (یعنی گناہ) کا ارتکاب نہیں ہوا.ہاں ذَنْب کا لفظ آیا ہے.سو ذَنْب کے معنے اس جگہ گناہ کے نہیں ہیں بلکہ ذَنْب صرف ایک کمزوری کو کہتے ہیں جو بشری تقاضا ہے کہ بشر کمزور ہوتا ہے وہ آخر انسان ہے.ممکن ہے کہ ایسے امور جو انسانی کمزوری کا نتیجہ ہوںکبھی نبی سے بھی صادر ہوں لیکن یہ باتیں الٰہی نارضامندی کا موجب نہیں ہیں اور اس واسطے گناہ کے ذیل میں ان کو شامل نہیں رکھا جاسکتا.

Page 460

یہ تو ذَنْب کا لفظ ہے جس کے مفہوم اور معنی میں بشپ صاحب نے دھوکا کھایا.اب میں دوسرا لفظ غَفَر کا لیتا ہوں.غَفَر کے معنے ہیں ڈھانکنا، روکنا، بچانا.جیسے کہ مِغْفَرٌ سپاہی کے سر کے خود کو کہتے ہیں کیونکہ مِغْفَر سپاہی کے سر کو تلوار کی زد سے بچاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کا آنحضرتؐ کو یہ کہنا کہ تیرے ذَنْب کو میں نے غَفَر کیا.اس کا یہ مطلب ہے کہ تو تمام نبیوں اور مرسلوں کا سردار اور تمام دنیا کے واسطے میرا رسول اور زمین پر میرا خلیفہ ہے تیرے واسطے لفظ جَنَاح اور جُرم وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا.بہ سبب بشر ہونے کے ممکن ہے کہ تیرے نزدیک ذَنْب آوے اور اس کا اثر تجھ پر پڑے لیکن میں نے ذَنْب کے درمیان اور تیرے درمیان غَفَر کردیا یعنی ذَنْب بھی نہ تیرے نزدیک آیا اور نہ آئے گا.پس اسی آیت سے جو بشپ صاحب نے پیش کی تھی یہ ثابت ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معصوم تھے.اور چونکہ اس قسم کی کوئی آیت حضرت عیسیٰ کے متعلق نہیں آئی اس واسطے ان کی معصومیت کا مسئلہ زیر بحث ہوجائے گا.یہ تو بشپ صاحب کے دلائل کا جواب ہوا لیکن جو پہلو بشپ صاحب نے دلائل کا آج اس جلسہ میں اختیار کیا ہے وہ ناک کو الٹا ہاتھ لگانے کا پہلو ہے.آپ نے دعویٰ تو یہ کیا تھا کہ معصوم نبی کون ہے؟ پس سیدھا طریق گفتگو کا یوں تھا کہ بشپ صاحب قرآن شریف میں سے لفظ معصوم کا نکالتے اور پھر دکھاتے کہ یہ لفظ حضرت عیسیٰ کے متعلق آیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق نہیں آیا لیکن چونکہ یہ طریق بشپ صاحب نے نہیں اختیا رکیا اس واسطے میں چاہتا ہوں کہ اس آسان راہ سے بھی دکھائوں کہ معصوم کون ہے.پس اگر سارے قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک دیکھا جاوے تو لفظ عصمت کا صرف ایک جگہ ایک ہی نبی کے حق میں بولا گیا ہے.جہاںخدا اپنے ایک پیارے کو خطاب کرکے کہتا ہے. (المائدۃ :۶۸) اور خدا تجھے تمام جہان کے لوگوں میں سے معصوم قرار دیتا ہوں.یہ خطاب کس کو ہوا؟ اس پیارے نبیؐ کو جو ہمارا سردار بلکہ تمام جہان کا سردار اور سب کا ہادی ہے.اس کا پیارا نام محمدؐ ہے.

Page 461

(صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک وسلم).اور یہ لفظ معصومیت کا عیسیٰ کے متعلق کہیں قرآن شریف میں بیان نہیں کیا گیا.پس ہر طرح سے ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معصوم نبی تھے یسوع کی معصومیت کا ثبوت آپ لوگوں کی گردن پر ہے.اگر چہ بشپ صاحب نے فرمایا تھا کہ آج رات میںجو کچھ تقریر کروں گا.وہ سب قرآن شریف کی سند پر ہوگی تا ہم چونکہ آپ نے انجیل کا بھی ذکر فرمایا اس واسطے میں بھی اتنا کہہ دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ انجیل میں بھی یسوع کے متعلق دوسرے لوگوں کا قول نہیں لینا چاہیے کہ متی یا مرقس نے اس کے متعلق کیا کہا بلکہ مناسب ہوگا کہ انجیل سے یسوع مسیح کی معصومیت ثابت کرنے کے واسطے خود یسوع مسیح کا اپنا قول لینا چاہیے اور وہ اس طرح سے ہے کہ ایک شخص نے یسوع کو کہا کہ اے نیک استاد.تو یسوع مسیح نے نیک ہونے سے بھی انکار کیا اور صاف کہا تُو مجھے نیک کیوں کہتا ہے؟ نیک تو خدا کے سوائے اور کوئی نہیں ہے.ایسا ہی ایک جگہ انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یسوع کا سلوک اپنے بھائیوں کے ساتھ اور اپنی ماں کے ساتھ برا تھا.اور اگر انجیل ہی کو دیکھا جاوے تو یسوع معصوم چھوڑ اس قابل نہیں کہ اس کو ایک نبی مانا جائے.یہ تو قرآن شریف کا احسان ہے کہ اس کو کوئی نبی مان سکتا ہے.فقط یہاں پر میری تقریر ختم ہوگئی اور مسلمان جو بشپ صاحب کی تقریر بہت آزردہ خاطر تھے.ایسا معقول جواب سن کر نہایت ہی خوش ہوئے اور خوشی کے نعرے مارے اور چیرز پر چیرز دئیے.اور جب میں بیٹھا تو بشپ صاحب اٹھے مگر انہوں نے میرے جواب کے دوسرے حصے کے متعلق مطلق خاموشی اختیار کی اور پہلے حصے کے متعلق اتنا کہا کہ عربی عجب زبان ہے کہ گناہ کے واسطے اس قدر الفاظ ہیں.تب میں اٹھا اور کہا کہ بشپ صاحب نے میری بات کا جواب نہیں دیا اور عصمت کے متعلق دوبارہ اس آیت کو پیش کیا اور بشپ صاحب سے جواب طلب کیا.اتنے میں ایک دیسی پادری نے بشپ صاحب کو قرآن شریف میں سے وہ آیت نکال کر

Page 462

دینی چاہی مگر قدرت خدا اس مقام کے بدلے قرآن شریف کا ایک اور مقام نکال کر دیا اور بشپ صاحب کو سمجھایا کہ  (المائدۃ :۶۸) کا جو ترجمہ اس مولوی نے کیا ہے وہ غلط ہے.جب بشپ صاحب اٹھے اور انہوں نے یہ کہہ کر کہ عصمت کے متعلق جو آیت شریف اس … نے پیش کی ہے اس کا ترجمہ صحیح نہیں.وہ آیت پڑھی تو آیت کوئی اور ہی تھی.میں نے اٹھ کر کہہ دیا کہ یہ وہ آیت نہیں.تب بشپ صاحب حیران ہوئے اور سب لوگوں نے قہقہہ لگایااور بشپ صاحب اپنی کرسی کے پیچھے دیسی پادری کی طرف اشارہ کیا کہ مجھے اس بھائی نے یہ آیت نکال کر دی تھی مگر خیر ہم ہارجیت کے واسطے نہیں آئے اور ہم نے اس آیت پر غور نہیں کیا.اچھا ہم محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے متعلق مان لیتے ہیں مگر باقی نبی تو گنہگار ثابت ہوئے.اس کے بعد ایک دو اور آدمیوں نے چند کلمات کہے.تب بشپ صاحب نے جلسہ ختم کردیا اور ہماری فتح ہوئی.آنحضرتؐ کے متعلق آخر بشپ صاحب کو مجبور ہوکر یہ ماننا پڑا کہ قرآن شریف سے ان کا گنہگار ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا اور انجیل کے متعلق جو کلمات میںنے کہے تھے ان کا تو وہ ہرگز جواب دے ہی نہ سکے.اس کے بعد بشپ صاحب کا اور لیکچر ہوا جس کا مضمون زندہ رسول تھا.اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایک عظیم الشان فتح عطاء فرمائی اور ہم نے ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اب تک زندہ موجود ہیں مگر چونکہ اس جگہ اس ذکر کا موقع نہیں اس واسطے اسی پر یہ درس ختم کیا جاتا ہے.باب۱۷ یہ بات صرف اسلام ہی میں ہے اور اہل اسلام نے ہی اس کا نمونہ دکھایا ہے کہ عین جنگ کے وقت بھی کسی نے توبہ کی اور نماز و زکوٰۃ کا پابند ہوا تو اس پر اعتبار کرکے فوراً اسے اپنے ساتھ ملا لیا.اِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ.اگر کوئی مسلمان ہوکر قتل کرے ، ڈاکہ مارے، زنا کرے تو وہ شریعت کی سزا پائے گا.

Page 463

نکتہ امام بخاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ برخلاف اور لوگوں کے صحابہ کے مذہب کو بھی بیان کرتے ہیں.تابعین ، تبع تابعین کے آثار کو بھی لیتے ہیں.اس زمانہ کے محدثین ان باتوں سے محروم ہیں لیکن مجھ پر اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ فضل رہا ہے کہ میں بچپن سے ان باتوں کو لئے ہوئے ہوں.دلیل اس کی یہ ہے کہ قرآن شریف میں آیا ہے.  (التوبۃ : ۱۰۰).سابق اوّل مہاجر اور انصار اور وہ لوگ جو ان کے تابعین میں داخل ہیں اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ ان کے پیرو تھے ان کا عمل درآمد بھی قابل اتباع ہے.باب۱۹ عَلَی الْحَقِیْقَۃِ.ایک لفظ جب تنہاء آتا ہے تو اس کے معنے عام ہوتے ہیں اور جب دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر آتا ہے تو اس کے معنے خاص ہوجاتے ہیں.مثلاً مومن کا لفظ جب علیحدہ ہو تو اس کے معنے عام ہوتے ہیں اور جب عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے ساتھ ہو تو وہاں معنے خاص اور محدود ہوجاتے ہیں.کبھی خلاف معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا اعراب کو کہا کہ تم اپنے آپ کو مومن نہ کہو ہاں یہ کہو کہ مسلمان ہیں.پھر فرمایا. (اٰل عمران : ۲۰).یہاں اسلام کا لفظ عام ہے.ایمان اسلام پر حاوی ہے.مجاز مجاز اور حقیقت ، فصاحت و بلاغت والوں کی اصطلاحات ہیں.تیسری صدی اسلام تک مجاز کا لفظ اسلامی لٹریچر میں استعمال نہیں ہوا.تیسری صدی کے آخر پر یہ لفظ خاص اصطلاح میں آیا.باب۲۰ اِفْشَائُ السَّلَامِ.ہندوستان میں سلام کا رواج بالکل نہیں.بالخصوص امراء کو السلام علیکم کہا جاوے تو وہ برا مناتے ہیں.اڈیٹر.مجھے یاد ہے ایک دفعہ مکرم میاں معراج الدین نے کسی بات کے دریافت کے واسطے ایک چھوٹا سا ایک دو سطر کا رقعہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھا.حضرت نے چند لفظوں میں اس کا جواب دیا مگر پہلے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لکھا اور پھر لکھا

Page 464

کہ ہر رقعہ پر مضمون سے قبل السلام علیکم لکھا کریں.میاں صاحب کے رقعہ میں السلام نہ تھا.صاحب قاموس مجد الدین فیروز آبادی آٹھویں صدی میں ہندوستان میں آئے وہ بھی اس امر کے شاکی تھے.اَ لْاِنْصَافُ مِنْ نَّفْسِکَ.یہ بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے.انسان اپنے جی میں آپ ہی انصاف کرے.ایک دفعہ حضرت (مرزا صاحب) کے قریب کے مکان میںکسی شادی کی تقریب پر ایک رقاصہ منگوائی جو رات بھر ناچتی رہی.حضرت کو خبر ہوئی.آپ نے دریافت کیا کہ اس کو رات بھر کا کیا ملا ہے؟ معلوم ہوا صرف پانچ روپے.صبح فرمایا کہ میں تو رات بھر شرمندہ ہی رہا کہ یہ پانچ روپے کے واسطے کتنی محنت کررہی ہے.ہم اپنے اللہ تعالیٰ محسن مربی سے ہزار در ہزار لا تعداد و لا انتہا تحفے اور انعام پاکر اتنی محنت نہیں کرتے.اسی طرح جب رات کو چوکیدار کی آواز سنتا ہوں تو شرمندہ ہوجاتا ہوں کہ چار پانچ روپے ماہانہ پا کر یہ رات بھر پہرہ دیتا ہے.چھوٹی راتوں میںآرام نہیں کرتا.سردی بارش کی پروا نہیں کرتا.ہم اس کے بالمقابل کس قدر غافل سوتے ہیں.انسان خود ہی اپنے دل میں انصاف کرے.کیا کوئی اس کا مال ناجائز لے لے اس کی اولاد کو بد اخلاق بنائے اس کے ننگ و ناموس پر حملہ کرے اس کا نوکر عمدہ سے فرائض منصبی ادا نہ کرے کیا کوئی گوارا کرتا ہے.تو یہ کس انصاف پر دوسرے میں بالباطل لیتا ہے کسی کی اولاد کو بد اخلاق بناتا ہے کسی کے ننگ و ناموس پر حملہ کرتا ہے اور اپنے فرائض منصبی کے ادا کرنے میں کمزور.طبیب تو سب سے زیادہ ذمہ دار ہے.تُطْعِمُ الطَّعَامَ.معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص مہمان نواز نہ تھا اس واسطے اسے یہ تاکید کی گئی کہ کھانا کھلائو.باب۲۱ کُفْرَانُ الْعَشِیْرِ.جس طرح ایمان کے بہت سے شعبے ہیں اسی طرح کفر کے بھی بہت سے شعبے ہیں.خاوند اپنی بی بی کی نا شکری کرے یا بی بی اپنے خاوند کی ناشکری کرے تو

Page 465

اس کا نام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کفر رکھا ہے.میں نے ایک دفعہ اپنی بی بی کو دیکھا کہ تین بچوں کو لئے ہوئے ایک چارپائی پر اس نے رات گزاری.میں حیران ہوا کہ اس میں تو کروٹ بدلنا بھی مشکل ہے.کس قدر عورتوں کو محنت اٹھانی پڑتی ہے.میں دیر تک متعجب رہا اور اپنا حال دیکھا روتا بچہ ایک منٹ کیا ایک سیکنڈ میں نہیں رکھتا.عورتوں کی قدر کرنی چاہیے.باب۲۲ اِخْوَانُکُمْ خَوَلُکُمْ.تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے کاموںکی اصلاح کرتے ہیں.خَوَلَ.کاموں کی اصلاح کرنے والا.ماتحت.باب اَلْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ.دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر تلوار اٹھائیں تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دو فی النار ہیں.جس وقت معاویہ اور حضرت علیؓ میں جنگ چھڑی تو اس وقت صحابہ کے چار گروہ تھے.ایک وہ جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مانتے تھے اور اس کے مخالف کو باغی سمجھتے تھے.دوسرے وہ جو معاویہ کے جانبدار تھے اور حضرت عثمان کے قاتلوں کو سزا دلوانا چاہتے تھے.تیسرے وہ جو دونوں کو برا سمجھتے تھے کہ آپس میں لڑتے ہیں.کفار کا مقابلہ چھوڑ بیٹھے ہیں.چوتھے وہ جو دونوں کو معذور سمجھ کر خود جنگل میں چلے گئے نہ کسی کے طرف دارہوئے اور نہ کسی کے مخالف بنے.باب۲۳ ظُلْمٌ دُوْنَ ظُلْمٍ.ظلم کے بھی مراتب ہیں.باب۲۹ سَدِّدُوْا.مضبوط راہ اختیار کرو اعتدال پسند بنو.باب۳۷ سَاعَۃٌ کے معنے صرف قیامت کے نہیں بلکہ مختلف اوقات میں مختلف باتوں پر یہ لفظاستعمال کیا گیا ہے.کسی بڑے تغیر کے وقت کو بھی ساعت کہتے ہیں.باب۳۹ اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ.حلال کا حکم صاف ہے.اَلْحَرَامُ بَیِّنٌ.حرام کا حکم بھی صاف ہے.

Page 466

باب۴۱  (بنی اسرائیل : ۸۵).بخاری صاحب نے کے معنی بنت کے کئے ہیں اور خط و خال و شکل کے معنے بھی ہیں نیز فطرت پر بولا گیا ہے اور فطرت پر اعمال ہوتے ہیں جیسے قویٰ ہوں ویسے ہی کام ہوتے ہیں.باب ۴۲ (التوبۃ :۹۱).جب کہ انسان خالص خدا کا ہی بن جائے.ــــــــــــــــــــــــــــ

Page 467

کتاب العلم باب۱ علم کے بڑے درجات ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی حکم ہوا ہے کہ دعا کرو.(طٰہٰ : ۱۱۵).اے رب میرے علم کو زیادہ کر.باب۲ سَاعَۃُ.کسی قوم کے تباہ ہونے کی ساعت، ساعت ہے.کسی کی ترقی کی گھڑی ساعت ہے.ادب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک بات کررہے تھے درمیان میں ایک شخص نے ایک سوالپیش کردیا.آنحضرتؐ نے اس کے سوال پر اس وقت توجہ نہ کی.طریق ادب یہ ہے کہ بات ختم ہولے تب کچھ دریافت کیا جاوے.اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلٰی غَیْرِ اَھْلِہٖ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گھڑی کی نشانیوں میں سے یہ فرمائی ہے کہ وہ گھڑی اس وقت آئے گی جبکہ کام نااہل لوگوں کے سپرد کیا جائے گا۳؎.اس حدیث کے سمجھنے میں بعض لوگوں نے غلطی کھائی ہے.قرآن شریف میں بھی آیا ہے (النساء : ۵۹) اللہ تعالیٰ تمہیں حکم کرتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو.یہاں امانت سے مراد رعیت ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوںکو حاکم بنائو جو حکومت کرنے کی لیاقت اپنے اندر رکھتے ہوں.رعیت کے آرام ، مال، ننگ و ناموس و جانوں ان کی عقل کا لحاظ رکھیں.رعیت کو حکم ہے کہ  (النساء : ۶۰) اور حاکم کو حکم ہے کہ  (النساء : ۵۹).وہ حکام کی اطاعت کریں یہ عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کریں.باب۳ رَفَعَ صَوْتَہُ بِالْعِلْمِ.علم کی بات کھول کر بیان کردے.خوب اچھی آواز سے جس کو

Page 468

سب لوگ سن لیں.کوئی شک و شبہ نہ رہے.باب۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا.ایک درخت ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمانوں کی مثال اس درخت سے ہے بتائو وہ کون سادرخت ہے.پھر فرمایا.وہ نخلہ ہے کھجور.مسلمانوں کو کجھور کے درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے.علم نباتات میں لکھا ہے کہ تمام درختوں میں کامل کھجور کا درخت ہے.اس کا کوئی جزو بے کار نہیں ہوتا.مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسا ہی مفید اور بابرکت بنیں جیسا کہ کھجور کا درخت.اور اس کا فیض ایسا ہی اعم ہو جیسا کہ کھجور کا کہ اہل عرب کی تمام حوائج صرف اس درخت سے پوری ہوجاتی ہیں.باب۶ باہر سے ایک آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آیا.لوگوں سے پوچھا.اَیُّکُمْ مُحَمَّدٌ.محمد کون ہے(صلی اللہ علیہ وسلم).لوگوںنے اشارے سے بتایا وہ سفید رنگ کا شخص جو تکیہ لگائے بیٹھا ہے.پس وہ آگے بڑھا اور کہا.اے عبدالمطلب کے بیٹے.آپ نے فرمایا.اَجَبْتُکَ.میں نے تیری بات سن لی ہے.باب۷ مُنَاوَلَۃُ.ایک صحیح حدیث کی کتاب استاد اپنے شاگرد کو دے دیوے اور اس سے روایت کرنے کی اجازت دے دے اسے مناولت کہتے ہیں.امام بخاری اسے جائز سمجھتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ علم کی بات لوگوں کو سمجھائو.ممکن ہے کہ جو تم اس کی تہ کو نہ پہنچے وہ تم سے بڑھ کر …… اور سمجھیں اور فائدہ اٹھاویں اور تم کو بھی ثواب ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ کو ایک تبلیغی خط لکھا.جب اس نے پڑھا تو پھاڑ ڈالا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا.یُمَزِّقُوْا کُلَّ مُمَزَّقٍ.وہ بھی بالکل پھاڑ ڈالے جائیں گے.یہ ایک معجزانہ پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی ایک بڑی دلیل ہے.کون ہے جو اپنے

Page 469

خیال یا قیاس سے ایسی بات بول سکتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں تین آدمی آئے.ایک نے تو حلقہ میں خالی جگہ دیکھی وہاں بیٹھ گیا.دوسرا حیاء کے سبب پیچھے ہی بیٹھ گیا.تیسرے نے سوچا کہ جگہ تو ہے نہیں اور پیچھے بیٹھنے سے کچھ سنائی نہیںدیتا وہ چلا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب وعظ سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا.تین آدمی آئے.ایک نے اللہ سے جگہ چاہی اسے جگہ مل گئی.دوسرے نے حیاء کیا اللہ بھی اس سے حیاء کرے گا اس کے گناہوں کا مؤاخذہ نہ ہوگا.تیسرے نے منہ پھیر لیا اللہ تعالیٰ نے اس سے منہ پھیر لیا.فائدہ نیک لوگوں کی مجلس میں چلے جانا بہرحال فائدہ مند ہے.کوئی بات سننے یا کرنے کا موقع ملے یا نہ ملے ان کی مجلس میں جا بیٹھنا بھی فوائد کا موجب ہوتا ہے.ایڈیٹر.میرا اور کئی ایک دوستوں کا تجربہ ہے جنہوں نے میرے سامنے ذکر کیا کہ کیسا ہی دل پر انقباض ہو یا کوئی غم و ہم وارد ہو.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا حضرت خلیفۃ المسیح کی مجلس میں جابیٹھیںتو فوراً ایک انبساط اور فرحت اور تسکین حاصل ہوتی ہے.نکتہ علم حدیث کے پڑھنے کے فوائد میں سے.ایک یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے کا بہت موقع ملتا ہے.دوم.انسان کلمات طیبات سنتا ہے.سوم.خیالات میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے.چہارم.پاک لوگوں کا ذکر پڑھ کر تحریص پیدا ہوتی ہے.پنجم.بے جا تنقید اور کورانہ حالت سے انسان نکل جاتا ہے.جب دیکھتا ہے کہ کیسے کیسے علماء دوسروں سے آزاد ہوئے تھے.اَلْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ.کسی بات کے کہنے یا کسی کام کے کرنے سے پہلے اس کا علم حاصل کرنا چاہیے.

Page 470

باب ۱۰ اَلْعُلَمَآئُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآئِ.علم والے انبیاء کے وارث ہوتے ہیں.انبیاء نے ورثہ میں علم عطا کیا ہے اور یہی سب سے بڑی نعمت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (فاطر : ۲۹).علم والے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں.مگر بڑے دکھ کی بات ہے کہ آجکل جو لوگ علم والے کہلاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے نہیں.ایک مولوی نے خود مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے جب تک علم نہ پڑھا تھا خدا تعالیٰ سے بہت ڈرتا تھا مگر جب سے علم پڑھا ہے خدا تعالیٰ کا خوف بالکل دل سے اٹھ گیا ہے.ایک شخص حج کر کے آیا تھا.اسے ایک گواہی پر جانا پڑا جہاں جھوٹ بولنا چاہتا تھا مگر کہا کہ میں ابھی حج کرکے آیا ہوں.گواہی دلانے والوں نے کہا کچھ ہرج کی بات نہیں پھر حج کر لینا.اَلْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے.بعض لوگ ایسا گمان کرتے ہیںکہ ہم کسی ولی اللہ کے پاس چلے جاویں اور اس کی چُھو کرنے سے سارا علم حاصل ہوجائے گا.حُلَمَآئُ.حلم والے.تحمل والے.فُقَہَآئُ.سمجھ والے.رَبَّانِیٌّ.وہ لوگ جو چھوٹے علم پہلے پڑھاتے ہیں اور بڑے بعد میں.باب ۱۱ یَتَخَوَّلُھُمْ بِالْمَوْعِظَۃِ.نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہت ہی احتیاط کرتے.موقع محل دیکھتے تب وعظ کرتے.ایسا نہ ہو کہ لوگ ملال کریں اور ان کو نفرت حاصل ہو.ٹیچر توجہ کریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچوں کو نرمی سے پڑھائو اگر تنگ ہوں تو ان کو خوشخبری دو.باب ۱۳ مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ.جس کو خدا تعالیٰ چاہے دین کی سمجھ دے دے.یہ ضروری نہیںکہ سارے مسلمان سمجھ دار ہی ہوں.

Page 471

باب ۱۴ جُمَّار.کھجور کا درخت جب چھوٹا سا بڑھتا ہے تو اس کی چوٹی کو کاٹ کر کھاتے ہیں اس کا نام جُمَّارہے.باب ۱۵ قَبْلَ اَنْ تُسَوَّدُوْا.سردار بننے سے قبل.جب سردار اور امیر بن جائو گے تو پھر علم پڑھنا مشکل ہوجائے گا باب ۱۸ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ پاخانے کو تشریف لے گئے اس وقت ابن عباس دس سال کی عمر کے تھے انہوںنے جھٹ پانی لے کر حضرت کے پاس رکھ دیا.جب آپ (علیہ الصلوٰۃ و السلام )حاجت سے فارغ ہوئے اور استنجا کیا تو آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ پانی کس نے رکھا تھا.عرض کیا گیا ابن عباس نے.فرمایا.اسے بلائو.ابن عباس بلائے گئے.آپ نے انہیں گلے لگایا اور دعا کی.اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ وَ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ.الٰہی اس کو کتاب کا علم سکھلادے اور دین کی سمجھ اس کو عطا فرما.معلوم ہوا دعا بھی محل ، موقع اور تحریک خاص کو چاہتی ہے.آجکل لوگوں نے دعا کو ایک معمول اور لغویات سمجھ رکھا ہے.کسی کام آئے تو یہ بھی کہتے گئے کہ ہمارے لئے دعا کرو.باب۲۰ قَیْعَان.خشک مَیرا.باب۲۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا.قیامت کی نشانیاں یہ ہیں کہ علم اٹھ جائے گاجہالت قائم ہوجائے گی، شراب پیا جائے گا اور زنا علانیہ ہوگا.علم سے مراد قرآن شریف اور اسلام ہے پانچ کروڑ روپے کی شراب ایک ہفتہ میں ہندوستان میں آتی ہے.عالم بے عمل.چھپڑ کی مانند ہے.عالم با عمل.زَیْن جَاذِبُ الْمَآء کی مانند ہے.

Page 472

باب ۲۲ خواب میں دودھ پیا جائے تو اس کی تعبیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمائیہے کہ علم دودھ ہے.تعبیر رؤیا میں ریاست جموں میں تھا.میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس ایک دودھ کا پیالہ ہے.آدھا میں کسی کو پلا چکا ہوں باقی آدھا میرے پاس ہے.اتنے میں نورالدین (تاجر کتب جموں) میرے پاس آیاوہ آدھا میںنے اس کو دیا اور اس نے پی لیا.یہ خواب میں نے نورالدین کو سنائی تو میں نے کہا تم مجھ سے عمدہ علم پڑھو گے.وہ ان دنوں کچھ ناراض تھے.کہنے لگے میں تو آپ سے کچھ پڑھنا نہیں چاہتا.کچھ عرصے کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب (غَفَرَہُ اللّٰہ) نے کشمیر میں مجھ سے بخاری پڑھنی شروع کی.جب وہ نصف ختم کرچکے تو اتفاقاً وہاں نور الدین بھی آگئے اور باقی نصف کے درس میں وہ بھی شامل ہوئے.وہ تو خواب کے واقعہ کو بھول چکے تھے.جب بخاری کو ختم کرچکے تو میں نے انہیں یاد دلایا کہ دیکھو خواب کیسی سچی نکلی اور بخاری کی کیسی عظمت ثابت ہوتی ہے.کیا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ میں تم کو وہ دودھ پلائوں ؟ میری بیماری اور کمزوری چاہتی ہے کہ مجھے ناامید کردے مگر ہمت بلند ہے.اللہ نصرت فرمائے.بعض نے کہا ہے کہ ہم کیوں اس کے لئے دعا مانگیں.کبھی اس نے ہم کو کہا ہے ہم تو ملائکہ کی طرح تمہارے لئے دعا کریں گے.باب ۲۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بعض باتوںکا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیا اور بعض باتوں کا جواب سر کے اشارے سے دیا مگر انبیاء آنکھوں کے اشارے نہیں کیا کرتے.نکتہ کسی صحابی نے کوئی چھوٹی بات بیان نہ کی.چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہم بنانے سے فساد پیدا ہوتا ہے.مثلاً داڑھی منڈانا، ٹخنوں پر پاجامہ وغیرہ.ایسی باتیں ایمان کے مقابلہ میں چھوٹی ہیں مگر لوگ ضروریات ایمانیہ پر اتنا زور نہیں دیتے جتنا ان امور پر.باب ۲۹ بَرَکَ.صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بات کرنے کو بیٹھتے تو

Page 473

گھٹنوں اور پائوں کی انگلیوں کے بل بیٹھتے تھے.باب ۳۰ کوئی بات سمجھ میں نہ آوے تو اسے بار بار پوچھ لینا جائز ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے گھر جائو تو السلام علیکم کہو.جواب نہ آوے تو پھر کہو.پھر بھی جواب نہ آوے تو پھر کہو.باب ۳۲ اَلْقُرْطُ.بالی.عرب میں ایک دو بالیاں پہننے کا رواج تھا زیادہ کا نہ تھا.وہی ان عورتوں نے چندے میں دے دیں.باب ۳۶ حِسَابٌ یَسِیْرٌ.صرف اعمال سامنے کئے جائیں گے.۴؎ باب ۳۹.نکتہ ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ ایک نوٹ بک اپنے پاس ضرور رکھا کریں.بخاری صاحب فرماتے ہیں کہ علم پڑھو اور کوئی حکمت کی بات کان میں پڑے تو اسے لکھ لیا کرو.ابن عباس سے روایت ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہت بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا.اِیْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ اَکْتُبُ لَکُمْ کِتَابًا لَّا تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ.کتاب میرے پاس لائو میں تمہارے لئے کچھ لکھ دوں کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جائو.عمرؓ نے اور اہل بیت نے عرض کیا (اہل بیت کا لفظ بخاری میں دوسری جگہ آیا) کہا.نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیماری کی تکلیف میں ہیں اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے.اس پر اصحاب میںاختلاف ہوا اور باتیں بہت ہونے لگیں.تب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جائو.نبی کے سامنے تنازع مناسب نہیں.تب لوگ چلے گئے.یہ حدیث سنی شیعہ کے درمیان معرکۃ الآراء ہے اور اس پر بہت جھگڑا ہوا ہے.میں نے اس حدیث پر بہت غور کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے جو اس کی حقیقت سمجھائی ہے مفصلہ ذیل باتیں اس میں قابل توجہ ہیں.۱.جو بات رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لکھنا چاہتے تھے آیا وہ تئیس سال کی تعلیم کے

Page 474

مطابق ہونی تھی یا مخالف.اگر خلاف ہے تو قابل وقعت نہیں.اگر مطابق ہے تو وہ یہی ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرما دی کہ حَسْبُنَا کِتَابَ اللّٰہِ.اللہ تعالیٰ کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سمجھ لیا کہ عمرؓ نے میرا مطلب پا لیا ہے اب کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں اور فرمایا کہ اب یہاں سے چلے جائو.۲.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے بعد کچھ لکھوانا ضروری اور مناسب سمجھتے تو آپ لکھوا سکتے تھے.آپ میں قوت تھی اور سب آپ کی بات مانتے تھے لیکن آپ نے کچھ نہ لکھوایا.۳.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور لَنْ تَضِلُّوْا کا مطلب حل کردیا ہے.(النساء : ۱۷۷).یہی لفظ  کے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے متعلق تاکید کردیں.۴.حضرت عمرؓ کا قول قرآن شریف کی اس آیت کے مطابق بھی ہے.(العنکبوت : ۵۲ ).باب ۴۰ ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جاگے اور فرمایا.کیا کیا فتنے اترے اور کیا کیاخزانے کھلے.حجرے والیوں کو جگائو.بہت عورتیں دنیا میں کپڑے پہنے ہوئی ہیں مگر آخرت میں ننگی ہوں گی.آپ پر آئندہ کے حالات منکشف ہوئے.دیکھا کہ دولت تو بہت ہوگی مگر دولت کے ساتھ بدیاں آتی ہیں اور تکبر پھیلتا ہے اور فتنے بڑھتے ہیں اس لئے تاکید کی کہ ابھی سے راتوں کو اٹھ کر دعائیں کرو تا کہ آنے والے فتنوں سے اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری اولاد کو بچائے رکھے.

Page 475

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں ایک رات فرمایا کہ آج سے ایک سو سال تک اس وقت کا کوئی انسان روئے زمین پر زندہ نہ رہے گا.آنحضرتؐ کے اصحاب میں سے سب سے آخر جو فوت ہوئے عمرو بن طفیل، عامر بن واثلہ صحابی تھے جو ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ خضر علیہ السلام یا تو … اصحاب کہف اب تک زندہ نہیں سب فوت ہوگئے ہیں.باب ۴۲ بعض لوگوں نے کہا کہ ابوہریرہؓ بڑی حدیثیں سناتا رہتا ہے.ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ ہمارے بھائی مہاجر بازاروں میں اپنی خرید و فروخت میں لگے رہتے ہیں اور انصار اپنے زمین کے کاروبار میں مصروف رہتے ہیں.پھر ابوہریرہؓ روٹی کھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹا رہتا ہے تا کہ پیٹ بھر کر باتیں سنے اور ایسی جگہ پہنچتا ہے جہاں لوگ نہیں پہنچتے اور وہ باتیں یاد رکھتا ہے جن کو لوگ یاد نہیں رکھتے.نکتہ ایک دفعہ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ ایک دوکان ہے اور آپ اس کے مہتمم ہیں.مجھے فرمایا کہ تم بھی آٹا لے لو.تب آ پ نے آٹا تول کر مجھے دیا اور ڈنڈی کے سرے سے ترازو کے پلڑے کو جھاڑا.میں نے عرض کی.یا رسول اللہ ! آپ نے ابوہریرہ کو کوئی بات بتائی تھی جس سے اسے حدیثیںبہت یاد رہتی ہیں.فرمایا.ہاں بتلائی تھی.میں نے عرض کی کہ مجھے بھی بتائیں.فرمایا.کان میں بتائیں گے.میں نے کان آگے کیا اور آپ نے اپنا منہ قریب کیاہی تھا کہ مجھے ایک شخص نے نماز کے واسطے جگا دیا.میں نے یہ خواب حضرت مرزا صاحب کو سنائی.حضور نے فرمایا کہ جو جگانے والا تھا اس کے نام میں اس خواب کی تعبیر ہے.جگانے والے کا نام نور الدین تھا.مطلب یہ کہ دین کے نور بن جائو.احادیث پر عمل کرو تو خود بخود یاد رہیں گی.سو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ مجھے اب حدیثوں کا اکثر حصہ یاد ہے.

Page 476

ابوہریرہ نے کہا کہ حدیثوں کا ایک حصہ ایسا ہے کہ میں اسے کسی کے سامنے بیان نہیں کرسکتا.اگر کروں تو خوف ہے کہ لوگ میرا گلا کاٹ دیں.معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بعض پیشگوئیوں میں ان لوگوں کے حالات بیان کئے ہیں جنہوں نے آپ کے بعد شرارتیں کیں یا ان کے نام لئے (جیسا کہ یزید).ابوہریرہ نے ایسی باتیں بیان نہ کیں یہ دعا کی تھی کہ ۶۰ھ سے پہلے مجھے موت ملے.باب ۴۴ اگر کوئی کسی سے پوچھے کہ آپ سے علم میں بڑا کون ہے تو کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے.نکتہ بڑے بڑے مفسر چار ہیں.۱.حضرت علی مرتضیٰ ۲.ابن عباس ۳.ابن مسعود ۴.ابن ابی بن کعب خضر خضر میرے نزدیک یہ ایک فرشتہ کا نام ہے اور یہ واقعہ حضرت موسیٰ کا معراج ہے اور جو واقعات دکھائے گئے وہ سب حضرت موسیٰ کی اپنی زندگی کے واقعات ہیں جیسے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام واقعات معراج میں بتائے گئے مگر حضرت موسیٰ اور خضر کا آگے نہ چلا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.خضر نے ایک ہزار معاملہ تجویز کیا تھا اور فرمایا.پست موسیٰ است اور آپ کو بھی جبرائیل علیہ السلام اِنْطَلَقَ، اِنْطَلَقَ اسی واسطے فرماتے رہے.باب ۴۷ اَلرُّوْحُ سے مراد کلام الٰہی ہے.قرآن شریف میں اس آیت کے پہلے اور پیچھے کلام الٰہی کا ذکر ہے.باب۴۸.تیری قوم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ اگر تیری قوم

Page 477

نو مسلمنہ ہوتی تو میں کعبہ کو توڑ کر اس میں دو دروازے بناتا.ایک جانے کا ایک آنے کا.اس پر شیعہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ عائشہ کی قوم سے فتنہ کا خوف تھا، اس کی قوم اس کا باپ بھائی وغیرہ ہیں حالانکہ یہاں مراد قوم قریش ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازروئے محبت عائشہ کی طرف نسبت کی.غور کرو.اللہ تعالیٰ آنحضرتؐ کو خطاب کرکے قرآن شریف میں فرماتا ہے.(الزخرف : ۵۸).اے نبی تیری ہی قوم اس سے رکتی اور روکتی ہے.پھر کیا حضرت عبداللہ اور ابوطالب اور مولیٰ مرتضیٰ ایسے تھے جیسے وہ حضرت ابوبکر کو خیال کرتے ہیں.باب ۴۹ لَبَّیْکَ.بار بار حاضر ہوں ہر وقت حاضر دربار ہوں.سَعْدَیْکَ.ہر وقت فرمانبرداری میں تیار ہوں.ــــــــــــــــــــــــــــ

Page 478

کتاب الوضوء باب ۱ (المائدۃ :۷).رات کو سونے کے بعد جب اٹھو تو وضو کرلو.تمام اعضاء کو ایک ایک دفعہ دھونا فرض ہے یا دو بار اور تین بار.اس سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ دھویا.بعض لوگ توہمات میں پڑ جاتے ہیں یہ جائز نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار سے زیادہ نہیں دھویا.تین سے کم بار دھونا بالاجتماع برا نہیں.باب ۲ بے وضو نماز نہیں.فُسَائٌ.بغیر آواز ہوا کا خارج ہونا.ظاہر کا باطن سے بڑا تعلق ہے.جب ظاہری اعضاء کو انسان پاک رکھے گا تو باطن کی گندگی کو کہاں برداشت کرسکے گا.اس میں ایک اشارہ ہے کہ مؤمن کا ظاہر اور باطن پاک رہنا چاہیے.باب ۳ اچھا وضوء.چاہیے کہ اچھی طرح وضوء کیا جاوے.ایسا نہ ہو کچھ تر ہو کچھ خشک رہ جاوے.نُعَیْمُ الْمَجْرِ.ایک صحابی تھے.ان کا نام نعیم تھا.عبداللہ کے بیٹے تھے.مجر ان کو اس واسطے کہتے تھے کہ مسجد میں دھونی دینے کا کام ان کے سپرد تھا.افسوس ہے کہ یہ سنت اب بالکل اٹھ گئی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ چیزیں لے کر اپنے کپڑوں میں دھونی دیتے تھے.کیا خوشی کی بات ہو اگر نوجوان سگریٹوں کو چھوڑ کر دھونی دینے کا رواج ڈالیں.دھونی اِن اشیاء سے تیار ہوتی ہے.گوگل، لوبان، چرائتہ، گندھک، صندل.دھونی کا نسخہ ایک نسخہ دھونی کا درج ذیل ہے.عود، تگر، صندل سفید، چرائتہ.برابروزن گوگل اور گندھک کو الگ باریک کرکے دھونی دینا بعد اس کے مذکورہ بالا ادویہ کی دھونی کرنا.باب ۴ شک میں نہ پڑو.بعض لوگ توہمات میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید وضو ٹوٹ گیا.بار بار

Page 479

نماز توڑ کر وضو کرتے ہیں.اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے.جب تک کہ آواز نہ آوے یا بدبو نہ محسوس ہو وضو کو ٹوٹا ہوا نہیں خیال کرنا چاہیے.باب ۶ پورا وضوء کرنا.انگلیوں سے لے کر کہنی تک کوئی جگہ خشک نہ رہے.ماتھے کے بالوں سے لے کر ٹھنڈی (ٹھوڑی) تک کوئی جگہ خالی نہ رہے.پائوں کی انگلیوں سے لے کر ٹخنوں تک کوئی جگہ خشک نہ رہے.قرآن شریف میں سَابِغَات کا لفظ اس جنگی لباس کے واسطے ہے جو سارے بدن کو ڈھانپ دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کے متعلق بھی یہ لفظ آیا ہے.لَمْ یُسْبِغِ الْوُضُوْئِ.پورا وضوء نہ کیا.معلوم ہوتا ہے کہ راستہ کا غبار وغیرہ بدن سے اچھی طرح نہ اترا تھا.لَمْ یُصَلِّ.مغرب کے بعد عشاء سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کوئی نماز نہ پڑھی اور ایک اور صحابی کہتا ہے کہ پڑھی تھی تو یہاں ان دونوں روایتوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا لیکن دراصل جھگڑا کوئی نہیں.ایک نے دیکھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حج میں عرفات سے واپس آئے تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی.دوسرے کو یہ موقع نہیں ملا کہ وہ آپ کو پڑھتے ہوئے دیکھتا.دونوں سچے ہیں مگر جس نے دیکھا اس کی بات کو مضبوط سمجھ کر ہم مان لیتے ہیں.۵؎ باب ۷.غَسْلُ الْوَجْہِ بِالْیَدَیْنِ مِنْ غَرْفَۃٍ وَّاحِدَۃٍ اسلام کیا ہے؟ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدْ رَّسُوْلُ اللّٰہ.پھر اسلام کیا ہے ؟ وہ جو بلند آواز سے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر پکارا جاتا ہے.اذان ہے.اذان ایک صحابی کو وحی ہوئی تھی.امام بخاری صاحب کے وقت سنی، شیعہ، خارجی، مالکی وغیرہ سب تھے.سب کی روایت انہوںنے لی ہے.اگر صرف کسی ایک فرقے کی لیتے تو اسی فرقے کی کتاب سمجھی جاتی.لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ شیعہ اور خارجی کی کیوں روایت لی ہے حالانکہ یہ خوبی ہے نہ کہ محل اعتراض.

Page 480

بنوامیہ، بنو فاطمہ،بنو عباس میں باوجود اتنا اختلاف ہونے کے سب کا قرآن اور تعامل ایک ہے.اگر اتنا اختلاف نہ ہوتا تو تعلیم کی حفاظت کا اتنا یقینی علم نہ ہوتا.آپ میں مخالف لوگ جب کسی ایک ہی کو سب صحیح سمجھیں تو وہ بات ضرور صحیح ہوتی ہے کیونکہ باوجود اپنے اختلافات کے انہوں نے اس پر اتفاق کیا.شیعہ لوگ جب منہ دھوتے ہیں تو ایک ہاتھ سے دھوتے ہیں.بخاری صاحب نے اس واسطے یہ باب باندھا کہ دونوں ہاتھوں سے دھونا چاہیے.بہت سی کتابیں امام بخاری صاحب سے پہلے ہوئی ہیں اور بہت سی کتابیں بعد میں اور بعض امام بخاری صاحب کے زمانہ میں ہوئی ہیں.مسلم ، ابودائود، ترمذی امام بخاری کے زمانہ میں ہوئی ہیں.ان کتابوں سے بخاری صاحب کا پتہ لگتا ہے کہ بخاری صاحب کے نزدیک کل بیبیاں اہل بیت تھیں.حضرت عائشہ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے شروع کیا ہے.پھر ابن عباس کو بھی اہل بیت سے شمار کرتے ہیں.پھر ابوسفیان کو بھی لیا ہے اس سے بھی روایت کی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ نیک لوگ کسی کی پرواہ نہیں کرتے.مرزا جمیل بیگ مالیر کوٹلہ کا ایک شیعہ تھا.ایک دفعہ میں وہاں گیا تو مجھے کہنے لگا کہ حضور آپ وضوء کس طرح کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ آپ کا اعتراض کیا ہے ؟ کہا کہ ہم آپ کی طرح وضوء نہیں کرتے.آپ لوگ قرآن کے خلاف کرتے ہیں.میں نے کہا کہ تم وضوء کرو ہم دیکھتے ہیں.جب وہ وضو کرنے لگا تو پہلے پائوں کو دھویا.میں نے کہا کہ یہ تو میں نے نہیں پڑھا.قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ پہلے پائوں دھو لو.تم قرآن کریم کے خلاف کرتے ہو.آخر بے جواب ہو کر اس نے کہا کہ اچھا یہ تو مجھے کر لینے دو.میں نے کہا کہ یہ لکھ دو کہ ایک آیت کے تم خلاف کرتے ہو.پھر ایک اور بات قرآن کے خلاف کی تب … میں نے کہا کہ دو آیتوں کے خلاف تم کرتے ہو.جب اس نے ہاتھ دھوئے تو میں نے رومال رکھا ہوا تھا.رومال سے اس کے ہاتھوں کو پونچھ دیا.میں نے کہا کہ اب مسیح کرو تو کہنے لگا کہ کیا آپ مجھ سے مذہب کو چھڑاتے ہیں.خشک

Page 481

ہاتھوں سے مسح کیوں کروں.باب ۸ ہر ایک حدیث پڑھنے کے وقت اللہ کا نام لو.یہ حدیث بہت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ بی بی کے پاس جانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لو.کہا جاتا ہے کہ حضرت مریم کے بیٹے کے سوائے جتنے لوگ ہیں وہ شیطان کے مس سے ہیں کیونکہ حضرت مریم نے پناہ مانگی تھی اس لئے وہ مس سے باہر ہیں.اس سے تمام نبیوں پر حملہ ہوتا ہے مگر یہاں اس کا ردّ فرمایا ہے کہ اِذَا أَتَی اَھْلَہٗ قَالَ بِسْمِ اللّٰہ.اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا.فَقُضِیَ بَیْنَہُمَا وَلَدٌ لَمْ یَضُرُّہٗ ہر ایک مومن کی اولاد شیطان کے مس سے پاک رہے گی اگر یہ دعا کرے.یہ خدا کا وعدہ ہے.مریم کی خصوصیت نہیں کہ وہی پاک رہے.تمام اولاد مومن پاک پیدا ہوتے ہیں.شیطان کی مس سے بچے ہوتے ہیں.وضو کے شروع میں بِسْمِ اللّٰہ کہنا اہل حدیث کے نزدیک فرض ہے.امام بخاری نے باب کی حدیث سے یہ ثابت کیا کہ جماع کے شروع میں بسم اللّٰہ کہنا مشروع ہے تو وضوء میںکیونکر مشروع نہ ہوگا.وہ تو ایک عبادت ہے.امام بخاری اس حدیث کو نہ لاسکے جس میں یہ ہے کہ جس نے بِسْمِ اللّٰہ نہ کہی اس کا وضوء نہ ہوا کیونکہ وہ ان کی شرط کے موافق نہ تھی.(ایڈیٹر) باب ۹ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَ الْخَبَائِثِ.پا خانہ کی جگہ میں بہت خبیث اجرام ہوتے ہیں اس لئے ان کے ضرر سے پناہ مانگے.باب ۱۰ اَللّٰہُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْن.دعا کا طریق بتایا کہ دعا کرانے والا دعا کنندہ کا دل خوش کرا کر دعا کرائے.جس طرح حضرت ابن عباس نے دعا کرائی ہے.حضرت ابن عباس اسی خیال میں رہتے تھے کہ آپ کسی طرح راضی ہوں اور میرے لئے دعا کریں.چنانچہ ایک دفعہ آپ قضائے حاجت کو داخل ہوئے تو اس نے آہستہ سے پانی آپ کے پاس رکھ دیا.جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کس نے پانی رکھا ہے؟ تو عرض کی کہ عباس نے.تو آپ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ اس کو دین کی سمجھ دے.

Page 482

باب۱۱ لَا یَسْتَقْبِلُ الْقِبْلَۃَ بِغَائِطٍ الخ.بڑا مسئلہ ہے.امام بخاری صاحب کا یہ مذہب ہے کہ قبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ نہ کرو کیونکہ مکہ وہاں جنوب شمال کی طرف ہے.اس پر چار مذاہب نے اختلاف کیا ہے.۱.حنفی کہتے ہیں کہ نہ گھر نہ باہر نہ دیوار نہ سایہ میں.مکہ کی طرف منہ کرو اور یہ امام بخاری نے خلاف کیا ہے.۲.مالکی کہتے ہیں کہ یونہی باتیں بنائی ہیں.کیا سارے جہان میں مکہ موجود ہے.۳.شافعی کہتے ہیں کہ میدان میں منع ہے گھر میں نہیں.۴.احمد حنبل کہتے ہیں کہ پیٹھ ہر جگہ جائز ہے.امام بخاری صاحب نے شافعی کو ترجیح دی ہے.اَلْغَائِطُ.لغت کے لحاظ سے میدان کو کہتے ہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو فرماتے ہیں تو غائط سے مراد میدان ہے.أَتَی الْغَائِطَ کے یہ معنے ہیں کہ جنگل میں جائے رفع حاجت کے لئے.غائط اگر مطلق رفع حاجت کے معنوں میں لیا جائے تو بولنا چاہیے کہ أَتَی الْغَائِطَ.باب۱۲ لَبِنَتَیْنِ.دو اینٹیں.باب۱۳ اَلْمَنَاصِعُ.جگہ کا نام ہے.میدان پاخانہ کا.اَلْحِجَابُ.پردہ.مطلب یہ تھا کہ گھر میں جا کر ذکر کریں.نبیوںمیں اور حضرت عمرؓ میں یہ فرق ہے کہ نبی سوچتے ہیں کہ انسان پر مشکل نہ پڑے.حضرتؓ اس بات کو کب پہنچ سکتے تھے.لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ حجاب کا حکم اترنے سے قبل ہی یہ چاہتے کہ آپ کی بیبیاں مطلق گھروں سے باہر نہ نکلیں.گو وہ اپنا بدن ڈھانپ کر نکلتی تھیں مگر جُثَّہ کی شناخت کپڑوں کے اوپر سے بھی ہوجاتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیبیوں کے لئے یہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مناسب نہ سمجھا.حجاب کا حکم بھی ان گیارہ باتوں میں سے کیا جاتا ہے جن میں نزول وحی اسی

Page 483

طرح سے ہوئی جس طرح حضرت عمرؓ پہلے کیا کرتے تھے.(ایڈیٹر) باب۱۵ اِسْتِنْجَاء.نجوہ.پاخانہ.اِسْتِنْجَاء باب افعال سلب کے معنے بھی دیتا ہے تو اس ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ازالۃ النجوہ.گندگی کو دور کرنا.پلیدی کو دوطرح دور کرنا ہوتا ہے.(۱) پانی سے یا (۲) مٹی سے.باب۱۷ عَنَزَۃٌ.لکڑی ہو اور اس کے نیچے پھل لگا ہو تو اس کو عَنَزَۃٌ کہتے ہیں.ہمارے ملک میں برچھیکہتے ہیں.باب۱۸ استنجاء دائیں ہاتھ سے نہیں کرنا چاہیے.باب۲۱ رَوْثٌ.اس میں عموماً ترجمہ کرنے والوں نے غلطی کی ہے.رَوْث ٌ کے معنے گوبر کے کئے ہیں حالانکہ رَوْثٌکے معنی گدھے کی لید کے ہیں.رِکْسٌ.نجس.باب۲۶ اِسْتَجْمَرَ.علماء نے شور مچایا ہے کہ استنجاء کرنے کے معنے ہیں مگر اس کے معنے یہی ہیں کہ آدمی دھونی لیوے جس طرح نعیم کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر مقرر کیا تھا تو اس کے معنے دھونی کے ہیں مگر اس سنت کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہے اور اب مسجدوں میں دھونی نہیں دی جاتی اور نہ گھروں میں دی جاتی ہے.وَ اِذَااسْتَیْقَظَ اَحَدُکُمْ مِنْ نَّوْمِہٖ فَلْیَغْسِلْ یَدَہٗ.مترجم کہتا ہے کہ پھوڑا پھنسی وغیرہ ہوتی ہے اس واسطے دھونا چاہیے.میں کہتا ہوں کہ عالم رؤیا میں جہاں اللہ تعالیٰ انسان کو لے جاتا ہے اس کا اثر بدن پر ضرور پڑتا ہے غم کا ہو یا خوشی کا.۲.احتلام میں دیکھو کہ اس کے نشان بدن پر کپڑے پر ہوتے ہیں تو جب اثر ہوتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کا اثر … اخلاق پر بھی ہو.باب ۲۷ غَسْلُ الرِّجْلَیْنِ.یہاں بھی شیعوں کا ردّ ہے کہ پائوں کو دھونا چاہیے مسح نہیں.

Page 484

(جب پائوں میں موزے یا جوتے یا پاتابے نہ ہوں تو پائوں دھونا ضرور ہے ان کا مسح کرنا کافی نہیں.اکثر علماء کا یہی قول ہے اور جو بعضوں نے سر کی طرح پائوں کا مسح وضوء میںکافی رکھا ہے امام بخاری صاحب نے یہ باب لا کر ان کا ردّ کیا ہے.ایڈیٹر) باب ۲۹ اَلْمِطْہَرَۃُ.پانی کا برتن.باب ۳۰ اَلسِّبْتِیَّۃُ.وہ چمڑا جس کے بال اتارے جائیں.باب ۳۱ یُعْجِبُہُ التَّیَمُّنُ.ہمارے ملک میں دائیں ہاتھ کو راست سیدھا کہتے ہیں اور بائیں کو الٹا، چپ، یسار کہتے ہیں.عربی میں یمین حق کو کہتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ راستی سے لو اور راستی سے دو … کیا عجیب بات فرمائی.بخاری صاحب اور آج کل کے مولویوں میں بہت فرق ہے.بخاری صاحب قرآن مجید کو مقدم کرتے ہیں.صحابہ کرام کو لیتے ہیں، تابعین کو لیتے ہیں، تبع تابعین کو لیتے ہیں.یہ خود بھی تبع تابعین میں سے ہیں اور اپنے زمانہ کے لوگوںکو لیتے ہیں، ائمہ کو لیتے ہیں، سب کی روایت کو لیتے ہیں.ہمارے لوگوں کو ہم جب کہتے ہیں کہ لوگوں نے یہ اختلاف کیا ہے تو ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہاں جی آپ کا کیا فتویٰ ہے.یہ بے ادبی ہے.پھر ایسا فتویٰ نہ پوچھو.باب۳۲ سو برس تک پانی کے مسائل میں بحث نہیں ہوئی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کل دو دفعہ معمولی طور سے سوال ہوا ہے.امام بخاری صاحب نے بھی بہت حصہ پانی کے متعلق نہیں لکھا.میری سمجھ میں یہ ہے کہ ملک کے لحاظ سے پانی کئی قسم کا ہوتا ہے کشمیر میں ہر گھر چشمہ جاری ہے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکلیف نہیں دی.باب ۳۳ لَمَّا حَلَقَ رَْأسَہٗ کَانَ اَ بُوْطَلْحَۃَ اَوَّلُ مَنْ اَخَذَ مِنْ شَعْرِہٖ.اس سے معلوم ہو کہ تبرک بھی ایک خاصیت رکھتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ یہ شرک ہے.

Page 485

باب ۳۴ اَلْکَلْبُ.کتا.اس جانور میں یہ اخلاقی نقص ہے کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ پیار نہیں کرتا.پھر شہوت بڑی تیز ہوتی ہے.شریعت اسلام نے کتوں کو گھروں میں اس لئے رکھنا پسند نہیں کیا کہ کتے اکثر باولے ہوتے ہیں اور گھر میںکتا برتنوں میں منہ لگانے سے رہ نہیںسکتا اور اس کے منہ میں خطرناک زہر ہوتی ہے جس سے انسان بیمار ہوجاتا ہے اور خطرناک بیماری ہوتی ہے.اس لئے فرمایا کہ کتا اگر کسی برتن کو منہ لگا ئے تو اس کو ایک دفعہ مٹی سے اور سات دفعہ پانی سے دھونا چاہیے.لطیفہ جرمن کا ایک پروفیسر کہتا ہے کہ میں نے جب سنا کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ کتا جب برتن سے پانی پی جائے تو سات دفعہ پانی کے ساتھ دھونا اور ایک دفعہ مٹی کے ساتھ، تو میں نے سوچا کہ اتنا عظیم الشان شخص جو بات کہتا ہے ضرور ٹھیک ہوگی.میں نے تمام اقسام کی مٹیوں کو لیا اور ان کی خاصیت کو دیکھا تو سب مٹیوں میں نوشادر کو پایا اور اس سے یہ نسخہ نکالا کہ اگر کسی کو بائولا کتا کاٹ جاوے تو یہ اس کے لئے خوب علاج ہے.میںنے جب یہ سنا تو میرا دل کانپ گیا کہ لوگ انبیاء کی باتوں کی کیسی تحقیر کرتے ہیں مگر اس شخص نے کیسی قدر کی.اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ.جن قوموں میںکتے رکھتے ہیں وہ اکثر اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں.شکار کے لئے اور مویشی، زراعت کی حفاظت کے لئے کتا رکھنے کی اجازت ہے.باب ۳۴ پاد اور پُھسکی سے وضو کیوںٹوٹتا ہے؟ بدبو انسان کے دماغ کو صدمہ پہنچانے والی چیز ہوتی ہے.الٰہیات کے سیکھنے کے لئے بدبودار چیزیں مخل ہوتی ہیں.بے ہوش کے منہ پر پانی ڈالنے سے ہوش آجاتی ہے.اس لئے بدبو وغیرہ کے اثر کو دور کرنے کے لئے وضو کروایا.مَذَّآء.صرف قریب قریب جگہ دھوئے.شیخ بن حزم کا مذہب ہے کہ سارا ذَکَر اور

Page 486

خصیوں کی جگہ دھو ڈالے.جو اثر ہوتا ہے وہ ٹھنڈے پانی سے رفع ہوجاتا ہے.امام بخاری صاحب کا مذہب ہے کہ جو کوئی جماع کرے انزال نہ ہو تو غسل کرے.صحابہ کا اختلاف ہے.بعض کہتے ہیں غسل نہیں بعض کہتے ہیں کہ غسل ہے.باب ۳۵ دوسرا وضو کرائے تو کوئی عیب نہیں.باب ۳۶ بے وضو قرآن پڑھنا درست ہے.استدلال نکالا کہ آیتیں پہلے پڑھیںوضو بعد میں کیا.باب ۳۷ بہت غشی سے وضو ٹوٹتا ہے تھوڑی سے نہیں.استدلال نکالا کہ حضرت عائشہ کو غشی ہوئی اوپر پانی ڈال دیا وضو نہ کیا.وضو نہ ٹوٹا.باب ۳۸ امام بخاری کا مذہب ہے کہ سارے سر کا مسح کرنا چاہیے.باب ۴۰ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وُضُوْئِ ہٖ.بڑا غل مچایا.ایک دوسرے سے پانی کو جھپٹا مار کرچھینتے تھے.یہ محاورہ ہے.وضو کا بچا ہوا کس کو کہتے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے تھے اور آپ کا پانی جو ٹپکتا تھا وہ ہے.بعض کہتے ہیں کہ وضو کرنے کے بعد جو پانی ہو.میرا بھی یہی خیال ہے.(یہ ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے جس کو امام بخاری صاحبؒ نے کتاب الشروط میں نکالا اور یہ واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے.جب مشرکوں کی طرف سے عروہ بن مسعودؓ ثقفی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گفتگو کرنے کے لئے آیا تھا.اس نے لوٹ کر مشرکوں سے جاکر بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ آپ کے ایسے جان نثار ہیں کہ آپ کے وضو سے جو پانی بچ رہتا ہے اس کے لینے کو ایسے گرتے ہیں گویا قریب ہے کہ لڑ مریں گے.ایڈیٹر) باب ۴۲ فقہاء اور محدثین میں اختلاف ہے کہ آدمی چُلُّو میںپانی لے اور اسی میں سے منہ میں پانی لے پھر اس سے ناک میں لے آیا اس طرح جائز ہے یا اس طرح کہ الگ الگ پانی لے.

Page 487

امام بخاری صاحبؓ کا مذہب ہے کہ دونوں طرح جائز ہے.وضو میں ایک ایک دفعہ بھی، دو دو دفعہ بھی، تین تین دفعہ بھی.اعضاء کا دھونا جائز ہے.ہر سہ حالتوں میں وضو ہوجاتا ہے.باب ۴۳ میاں بی بی ایک ہی برتن سے پانی لے لے کر وضو کریں تو یہ ایک محبت کا نشان ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس طرح مل کر وضو کرلیا کرتے تھے.باب ۴۷ مُدٌّ.ایک مُدّ یعنی بک سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا وضو کر لیا تھا اور غسل پانچ بک ہے.(بک دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ کر اس کے اندر جو پانی آجائے.) باب ۴۸ شیعہ اور خوارج موزے پر مسح نہیں کرتے اس واسطے امام بخاری صاحب نے یہ باب باندھا ہے.مسئلہ سر پر عمامہ (پگڑی) ہو تو عمامہ اتار کر مسح کرے یا تھوڑا سا عمامہ پیچھے کرکے مسح کرے یا عمامہ کے اوپر سے ہی مسح کرے.تینوں طرح جائز ہے اور یہ امر حدیثوں سے خوب ثابت ہے.باب ۵۲ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دودھ پیا اور خوب کلی کی اور پھر فرمایا کہ یہ چکنی چیز ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ہر چکنی چیز کھانے کے بعد کلی کرنی چاہیے.دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات کیڑے منہ میں آجاتے ہیں.باب ۵۳ کوئی نماز پڑھتا ہو اور اس کو اونگھ آتی ہو تو اس کو سو جانا چاہیے.اس کا مطلب ہے کہ نماز کو خوب سوچ سوچ کر پڑھو.میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم نماز کے معنے ضرور ضرور ضرور پڑھو.نماز بے ہوشی میں انسان نہ پڑھے کیونکہ ایسا نہ ہو مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ کی جگہ کہہ بیٹھے کہ مَا اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.فائدہ (نیند سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں ٹوٹتا ؟ اس میںعلماء کا اختلاف ہے.امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ جو کوئی نماز میں کھڑے کھڑے یا سجدے میں سوجائے تو اس کا وضو نہ ٹوٹے گا.البتہ اگر لیٹ کر سوجائے یا ٹیکا دے کر تو وضو ٹوٹ جائے گا.اہل حدیث نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے کہ

Page 488

لیٹ کر سو جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور شکلوں پر سوجانے سے وضو نہیں ٹوٹتا.امام بخاریؒ کا مذہب یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے مگر ایک دوبار اونگھنے سے یا جھونکا لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا.اونگھ یہی ہے کہ آدمی اپنے پاس والے کی بات سنے لیکن مطلب نہ سمجھے اور جب اس سے زیادہ غفلت ہو تو وہ نیند ہے.ایڈیٹر) باب ۵۵ یہ گناہ ہے کہ ۱.لوگوں کے سامنے ننگے ہو کر پیشاب کرنا.۲.پیشاب کی چھینٹوں سے پرہیز نہ کرے.بَوْلِہٖ.بخاری صاحب استدلال نکالتے ہیں کہ بَوْلِہٖ کے لفظ سے پایا جاتا ہے کہ انسان ہی کے پیشاب کے متعلق ہے.جانوروں کے پیشاب کا ذکر نہیں.باب ۶۰ سوال.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے سے منع فرمایا اور آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا ؟ جواب.علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بخاری میں تو یہ لکھا ہے کہ آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا لیکن کھڑے ہوکر پیشاب کرنے سے ممانعت بخاری میں نہیں.اس سے معلوم ہوا کہ وہ حدیث ممانعت کی جو دوسری کتاب میں ہے ضعیف ہے لیکن یہ بھی لکھا ہے کہ جب کھڑے ہو کر پیشاب کیا اس روز آپ کے گھٹنے میں درد تھا نیز حالات اور ضروریات احکام کو بدل دیتے ہیں.باب ۶۶ اونٹ کا پیشاب امام بخاری صاحب کے نزدیک پلید نہیں پاک ہوتا ہے.میرابھی یہی اعتقاد ہے.اسی طرح بھیڑ بکری وغیرہ کا.یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کسی کو سزا دی جاتی ہے تو خواہ مخواہ دیکھنے والوں کو رحم آتا ہے اور گناہ کے ارتکاب کے وقت وہ موجود نہیں ہوتے.مثلاً ایک شخص نے ساری عمر میں محنت کر کے سو روپیہ کمائے اور ایک بدمعاش تھوڑی سی

Page 489

دیر میں وہ سب چُرا لے.اب جب اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا تو دیکھنے والے کہیں گے کہ رحم کرنا تھا ہاتھ کاٹنا نہ چاہیے تھا اس کو کیا معلوم کہ ساری عمر کی کمائی تھی.اسی طرح اگر نبی کریمؐ ان اونٹوں کو چھوڑ دیتے اور صحابہ کے قتل کرنے والوں کو قتل نہ کرتے تو اور عرب لوگ آکر آپ کے صحابہ کو اسی طرح قتل کرتے.سُمِرَتْ اَعْیُنُہُمْ.ان کی آنکھیں پھوڑی گئیں کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کی آنکھیں پھوڑی تھیں اور اسی طرح بے رحمی سے مارا تھا.دوسرے احسان کا بدلہ یہ کیا کہ اونٹ ہی لے بھاگے.جس رکابی میں کھائیں اسی میں چھید کریں.ایسے بدمعاشوں کو سخت سزا دینا یہی حکمت اور دانائی اور دوسرے بندگان خدا پر رحم ہے۶؎.

Page 490

افادات بخاری (حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے درس کی روشنی میں ) میںجب حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ سے بخاری پڑھتا تھاتو میرا معمول تھا کہ میں ان کے درس کے نوٹ لکھا کرتا اور میں نے ہی خدا کے محض فضل سے سب سے اوّل قرآن مجید کے درس کے نوٹوں کی اشاعت کا انتظام کیا.پھر حضرت حکیم الامت رضی اللہ عنہ کی خواہش کے ماتحت قرآن مجید کی تفسیر کا پہلا پارہ شائع کیا.اس وقت حضرت حکیم الامت فرماتے تھے کہ اگر سورہ فاتحہ بھی شائع ہوجائے تو یہ بڑا کام ہے مگر خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ پہلا پارہ تفسیر القرآن کے طور پر اور پھر متعدد پارے ترجمۃ القرآن اور حواشی کے ساتھ شائع کرسکا.اسی طرح جب میں بخاری کے درس میں شریک ہوتا تو میں نوٹ لکھتا تھا.ایک مرتبہ حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ اگر اس کے نوٹ بھی شائع ہوجائیں تو بہت اچھا ہے.میں نے آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں بخاری پر نوٹ درست کرنے شروع کردئیے اور اپنے رنگ میں ان کو مرتب کیا اور حضرت حکیم الامت نے ان کو دیکھا اور اپنے قلم سے اس کے مسودہ کو درست کیا.اسی طرح بعض دوسری کتابوں پر بھی مجھ سے نوٹ لکھوائے اور ان کے مسودے درست کئے.ان میں سے ایک فوز الکبیر کا اردو ترجمہ مع نوٹوں کے ہے.اس قسم کے مسودات کے لئے میرا خیال تھا کہ ان کو کسی وقت کتابی شکل میں شائع کیا جائے لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت نے اب تک مجھے موقع نہ دیا اور اب جبکہ عمر کا آخری حصہ ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ ایسا ہو گایا نہیں.اس لئے میں نے پسند کیا ہے کہ وقتاً فوقتاً انہیں الحکم کے ذریعے شائع کرتا رہوں تا کہ بجائے بستوں میں بند رہنے کے لوگوں کو نفع پہنچے.میں ان نوٹوں کے متعلق یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا اور جہاں مناسب سمجھا اصلاح کی باایں مجھے اپنی کمزوری اور بے بضاعتی کا اعتراف ہے.میں غالباً ان نوٹوں کے سلسلہ میں کوئی خاص ترتیب زیر نظر نہیں رکھوں گا.یہ ممکن ہے کہ بعد میں کوئی سلسلہ ترتیب کا بھی پیدا ہوجائے.حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے ایام ادارت بدر میں بخاری شریف پر نوٹوں کا بھی ایک سلسلہ شروع کیا تھا وہ بہت مختصر تھا لیکن میں نے جس رنگ میں یہ نوٹ لکھے تھے وہ کسی قدر بسط کو لئے ہوئے تھے.

Page 491

اصل نوٹوں کے شروع کرنے سے پیشتر میں نے اس وقت ہی ایک مقدمہ بھی لکھا تھا.اگرچہ اب اس میں بہت سی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں مگر میں اس خیال سے کہ وہ حضرت خلیفۃ اوّل رضی اللہ عنہ کی نظر سے گزر چکا ہے.اسے ہی دے دیتا ہوں.اس طرح پر ایک ہفتہ قرآن مجید کے حقائق و معارف اور ایک ہفتہ بخاری شریف پر نوٹ درج ہوتے رہیں گے.وَ بِاللّٰہِ التَّوْفِیْق.(عرفانی) بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم بخاری شریف پر نوٹ انٹروڈکشن اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی خُلَفَآئِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَ سَلِّمْ قرآن مجید میں ایک عجیب اور عظیم الشان دعویٰ کیا گیا ہے جو اس سے پہلے کسی قوم کے ہادی یا نذیر و مامور نے نہیں کیا اور وہ یہ ہے(الاعراف :۱۵۹) یعنی اے نبی کریم ! کہہ دو کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں.اس دعویٰ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولوالعزمی، آپ کی دعوت کی بے نظیری اور عالمگیری عیاں ہے.آپ کی نبوت و دعوت کا دائرہ نوع انسان پر کھینچا گیا ہے.جہاں کہیں بھی کوئی انسان آباد ہے وہاں کوئی نبوت کوئی شریعت کوئی تمدن اگر حکومت و ہدایت کا موجب ہوسکتا ہے تو وہ وہی ہے جس کو اسلام کہتے ہیں.اس لیے اسلام ایک عالمگیر مذہب کہلاتا ہے اور یہی وہ سر ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کی طرح نیشنلٹے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس نے ہمیشہ ہیومینٹی کی تعلیم دی ہے.جبکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور نوع انسان کے لئے بہترین رہنما اور ہادی ہے تو یہ ضروری امر تھا کہ اس کے لانے والا اپنی زندگی میں ان تمام مراحل و شعبہ ہائے زندگی کا نمونہ رکھتا جن میں سے انسان کو گزرنا پڑتا ہے.اسی لئے دوسرا دعویٰ قرآن کریم نے یہ کیا  (الاحزاب :۲۲)

Page 492

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لئے ایک نمونہ ہے.اب اسی سے اسلامی تمدن کی بنیاد شروع ہوتی ہے.اسلامی تمدن پر مغربی محققوں نے بڑی بڑی دلچسپ بحثیں اور عجیب عجیب موشگافیاں کی ہیں اور فی الحقیقت یہ ایک ایسا مضمون ہے کہ دنیا کے محقق اس پر غور کریں اور اسے اپنے لئے خضر راہ بنائیں.اسلامی تمدن نے اپنا حیرت انگیز اثر دنیا پر ڈالا ہے.دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں کی تہذیب و شائستگی کو اپنی روشنی کے آگے ماند کردیا.یہ تاریخ نہایت دلچسپ اورحیرت انگیز ہے مگر افسوس ہے کہ میں اس انٹروڈکشن میں اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرنے کا موقع نہیں پاتا اگر چہ میرے دل میں جوش ہے.تمدن اسلام کی پہلی اینٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود سے دنیا میں رکھی گئی اور آپ کی زندگی میں اس کا دائرہ عرب سے باہر پورے طور پر نہیں کھینچا گیا مگر خلافت راشدہ اور زمانہ ما بعد میں وہ ریگزار عربستان سے نکل کر اکناف عالم میں پھیل گیا اور اپنے اثر سے ان تمام قطعات عالم کو مؤثر کردیا.یہ ایک حیرت افزا امر ہے کہ وہ قومیں جو اس وقت دنیا میں تہذیب و شائستگی کی ٹھیکیدار اور وہ ملک جو تمدن کے سر چشمہ بنے بیٹھے تھے اس تمدن کے سامنے سجدہ کرنے سے نہ رک سکے.اس راز کا پتہ اور اس موج کا چشمہ جو مکہ سے اٹھی اور گنگا اور … تک پہنچی آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور صحابہ کرام کے آثار میں ملے گا اور ان کلمات طیبات کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اور آپ کا ہر فعل و قول اپنے اندر ایک صداقت اور ہدایت پر رکھتا تھا اور فی الحقیقت ایسا ہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ جو وجود دنیا میں بطور نمونہ اور آئیڈیل کے بھیجا گیا ہو جو سچی تہذیب اور حقیقی تمدن کی بنیاد رکھنے والا ہو.اس کے افعال و اقوال میں کبھی کوئی بات ایسی نہیں ہوسکتی جو نوع انسان کی بہتری، بھلائی اور تربیت پر مشتمل نہ ہو.ہم بڑی جرأت کے ساتھ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہیں کہ ہر چند ایک خاص وقت تک آپ کے حالات آپ کے کلمات طیبات کے انضباط کا اہتمام نہیں کیا گیا یعنی زمانہ بعثت سے پہلے کے حالات کا لیکن یہ بھی ہم اس سے زیادہ دلیری کے ساتھ کہتے ہیں کہ آپؐ کی آئندہ زندگی جبکہ

Page 493

آپ بحیثیت ایک مامور ، مرسل ، ہادی اور مزکی کے ظاہر ہوئے اسی پہلی زندگی کا ایک ارتقائی نقشہ تھا اور وہ بیج جو آپ کی سرشت اور فطرت میں پہلے سے بویا گیا تھا وہی بارآور ہوا تھا.اس لئے آپ کے تمام حالات کو ہم محفوظ اور منضبط لکھنے کا ناقابل شکست دعویٰ کرتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایک لا نظیر فخر حاصل ہے کہ دیگر ہادیان مذاہب کے مقابلہ میں آپ کی زندگی کے ادنیٰ سے ادنیٰ واقعات اور حالات محفوظ ملتے ہیں اور آپ کی پرائیویٹ (اندرون خانہ) اور پبلک لائف کا کوئی واقعہ نہیں جو محفوظ موجود نہ ہو یہ کیوں ہوا؟ اس کا جواب صاف اور لاجواب الفاظ میں یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوع انسان کے لئے بطور ایک نمونہ و آئیڈیل کے بھیجا تھا.آپ کی زندگی ایک اسوہ حسنہ تھی اس لئے یہ لازمی اور ضروری امر تھا کہ آپ کے وقائع زندگی محفوظ اور مصئون ہوتے.قبل نبوت کے حالات زندگی کی حفاظت اور عصمت پر ایک اور بھی دلیل قاطع ہمارے ہاتھ میں ہے جوخود قرآن مجید نے بیان کی ہے اور وہ یہ ہے  (یونس :۱۷) میں نے تمہارے اندر چالیس سال کا ایک لمبا زمانہ گزارا ہے.میری عفت و دیانت و امانت وصداقت پر تم سب کے سب گواہ ہو اور ایک بھی نہیں جو میری پاکیزہ اور معصوم زندگی پر حرف رکھ سکے.یہ دعویٰ عرب جیسی اکھڑ ، دلیر اور معائب کو علیٰ رؤس الاشہاد بیان کردینے میں نہ جھجکنے والی قوم کے سامنے اس حالت میں کیا گیا جبکہ ان کی مالوف ترین چیز مذہب کو ان کے دل سے چھیننے کا اعلان کیا تھا لیکن اس تحدی اور علی الاعلان چیلنج کی تردید کے لئے کسی زبان ، ہاتھ اور قلم کو جنبش نہیں ہوتی اور آج تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی عرب جاہلیت کی پرانی تاریخوں، ان کے واقعات اور اشعار میں ایک بھی جملہ نہیں ملتا جو اس عدیم النظیر تحدی کو توڑ سکے.آپ کی خطرناک مخالفت کے حالات ہمارے سامنے ہیں اور وہ تاریخ دنیا سے نابود نہیں ہوگئی مگر ان تاریخوں کو پڑھ جائو تمہیں ایک بھی جملہ اور ایک بھی کلمہ نہیں ملے گا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائف پر

Page 494

نکتہ چینی کا موقع مل سکے.یہ فخر اور بجا فخر بے نظیر فخر صرف سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے کہ آپؐ کی زندگی کے تمام واقعات محفوظ ہیں.آپ کے کیریکٹر کی قوت اور شوکت کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے اپنی پرائیویٹ زندگی کے واقعات کو بھی پبلک کرنے میں کبھی مضائقہ نہیں فرمایا.حدیث دلآویز اور ذکر محبوب درازی سخن کی طرف لے جانا چاہتا ہے لیکن اس انٹروڈکشن کی حالت اس طوالت کی متحمل نہیں ہوسکتی.اللہ تعالیٰ نے چاہا اور توفیق دی تو ارادہ ہے کہ سیرت نبوی میں ان پہلوؤں پر بحث کروں اور اگر زندگی نے وفا نہ کی اور قدرت نے اس کو کسی دوسرے کے لئے رکھا تو بھی میں اس پاک خواہش کے لئے خدا کے فضل سے ثواب سے محروم نہ ہوں گا.الغرض وہ تمدن اسلامی جو اپنی خوبی اور خوشنمائی کے لحاظ سے ہر زمانہ میں دلچسپی کا موجب رہا ہے.اس کا حقیقی چشمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے اور آپ کا ایک ایک فعل ایک ایک لفظ انسانی زندگی کے لئے زبردست قانون اور ناقابل خطا رہنما ہے.اسی قانون اور ہدایت نامہ کی اس کتاب کی ایک معمولی شرح کا یہ مقدمہ ہے.اس اسلامی تمدن اور اسلامی ضابطہ کا پورا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات یا احادیث میں ملتا ہے.کیوں کر ایک انسان حیوان سے انسان اور انسان سے بااخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بن سکتا ہے اور کس طرح پر قوم بنتی اور بگڑتی ہے.ان اسباب اور ذرائع کا پتہ تمہیں اسی پاک دفتر میں ملے گا.بقائے نفس اور حفظ نوع انسان کے لئے کن امور کی ضرورت ہے.اس کے لئے تمہیں احادیث ہی کے پڑھنے کی حاجت ہے.اخلاقی اور روحانی قوتیں کیونکر نشو و نما پاتی ہیں؟ ان اسباب کی حقیقت کا راز بھی اسی دفتر میں مدفون ہے.غرض انسان کے پیدا ہونے سے لے کر اس دنیا سے رخصت ہونے تک کے لئے جن امور کی ضرورت اسے ہے اور ما بعد دنیا کے لئے جو اسے مطلوب ہے ان تمام امور کو اس صحیفہ میں رکھ دیا ہے اور مختصر اور جامع الفاظ میں یہ کہہ دینا درست ہے کہ اسلامی تمدن و تہذیب کی تاریخ احادیث میں مرکوز ہے.

Page 495

اس لئے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ احادیث کے متعلق چند ضروری امور اور اصول بتا دئیے جائیں مگر اس پر لکھنے سے پہلے بعض ان امور کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جو اس سلسلہ کی ایک زنجیر ہیںا ور گویا حدیث اور جمع حدیث کے ان قدرتی اسباب میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مہیا کر دئیے تھے.فن روایت اور اہل عرب یہ ایک مسلّم بات ہے کہ فن روایت دنیا کی تمام قوموں میں ترقی و تنزل کا ایک زبردست ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے اور کم و بیش ہر قوم میں خصائص قومی کو یاد رکھنا لازمی سمجھا جاتا ہے اور آج تو یہ نہایت ہی ضروری چیز ہے.علامہ ابن خلدون نے کیا ہی سچ کہا ہے ’’فن تاریخ ان فنون میں سے ہے جس کو قدیم الایام سے تمام قومیں ہاتھوں ہاتھ لیتی آئی ہیں اور جس کے لئے دور دراز سے بڑی بڑی مسافتیں طے کی جاتی ہیں اور جس کے حاصل کرنے کے لئے بازاری اور کم عقل تک کی گردنیں اٹھتی ہیں.جس کی طرف امراء و سلاطین حد سے زیادہ راغب ہیں.‘‘ چونکہ مشیت ایزدی نے اس پاک وجود کی بعثت کے لئے عرب کو مقدر کر رکھا تھا جو دنیا میں آکر حقیقی تہذیب و تمدن کا بانی ہونے والا تھا اور اسے نو ع انسان اور نسل آدم کا رہنما اور اس کی زندگی کو اس کے لئے ایک اسوہ حسنہ قرار دیا تھا.اس لئے اس کے کلمات طیبات کی حفاظت کے لئے پہلے ہی عرب کی طبیعتوں میں خصائص قومی کی حفاظت کا مادہ رکھ دیا تھا.ان کو قدرت نے اعجازی حافظہ اور حفاظت روایت کا بے حد جذبہ دے رکھا تھا.وہ نہ صرف تاریخی واقعات اور انساب انسانی کے سلسلوں کو یاد رکھنا اپنا فرض سمجھتے تھے بلکہ انسانوں سے گزر کر ایک ایک معمولی آدمی اپنے اونٹ اور گھوڑوں کے انساب یاد رکھتا تھا اور بلا تکلف و بے تکان سو سو نسل تک گن جاتا تھا.ایک طرف انہیں اس قدر زبردست قوت حافظہ عنایت کی تھی دوسری طرف ان کی خصائص قومی میں یہ بات رکھ دی تھی کہ وہ اخلاقی جرأت سے کام لے کر فوراً دوسرے کی غلطی سے اسے

Page 496

آگاہ کردینے میں دلیر تھے بلکہ اپنی کمزوریوں اور اخلاقی پستیوں کا فخریہ ذکر کرنا ان میں اسی مقصد کے لئے پیدا ہوگیا تھا تا آئندہ چل کر یہ جرأت اور دلیری ایک گراں مایہ گوہر کی حفاظت کا ذریعہ ہوسکے.ان دونوں عطیوں نے تمدن کے سر چشمہ کی حفاظت میں بڑی مدد دی.غرض فن روایت کی ہی شاخ اور ضروری شاخ فن حدیث ہے.حدیث اور اب اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ اقوال افعال اور احوال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں.جب سے آپ اصلاح عالم کے لئے مبعوث ہوئے اس کے بعد جو کچھ آپ کے منہ سے نکلا یا آپ نے کرکے دکھایا یا آپ نے کسی سے کرایا وہ حدیث کی ذیل میں آجاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں گے کہ علم حدیث اس علم کا نام ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال ،حالات صحابہ کے آثار اور ان افعال سے بحث کی جاتی ہو جو حضور کے سامنے کئے گئے ہوں اور آپ نے ان سے روکا نہ ہو.قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں امتیاز اللہ تعالیٰ کا کلام جو سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہورہا تھا وہ قرآن کریم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اقوال و افعال حدیث ہیں.ان دونوں کے درمیان ایک تیسری چیز اور بھی ہے جس کو سنت کہتے ہیں وہ اعمال اور افعال جو سرور کائنات نے کرکے دکھادئیے اور جو آج تک متواتر ہم تک پہنچے ہیں وہ سنت کہلاتے ہیں یا یوں کہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کا نام سنت ہے وہ عملی رنگ میں ہی ہم تک پہنچی ہے.اگر دنیا میں آپ کے کلمات طیبات کی کوئی کتاب مدون نہ ہوتی اور احادیث کا کوئی ذخیرہ ہمارے ہاتھ میں نہ ہوتا تو بھی آپ کی عملی سیرت بلاتغیر ہمارے ہاتھ میں ہوتی.غرض اللہ تعالیٰ کا کلام جو آپ پر نازل ہوتا اور فوراً ہی لکھ لیا جاتا.آپ بنفس نفیس اس کی کتابت کا اہتمام فرماتے اور اپنے سامنے لکھوا لیتے تھے.برخلاف اس کے احادیث کی کتابت کی آپ نے ممانعت فرما دی تھی اور یہ حکم دے دیا تھا کہ قرآن مجید کے سوا میری طرف سے کچھ نہ لکھو.۱؎ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ آپ نے احادیث کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کیا یا

Page 497

آپ اس کی حفاظت نہ چاہتے تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آپ پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی ایسا امر ہو جو التباس کا ذرا بھی ذریعہ ہوسکے اور کلام ربّانی کی حفاظت اور عظمت اس امر کی مقتضی تھی کہ کوئی اور بات نہ لکھی جاوے تا کہ کسی وقت کسی کم عقل کو یہ شبہ نہ ہو سکے کہ شاید یہ بھی قرآن مجید کا کوئی حصہ ہو.علاوہ بریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی اور عملی کتاب جس کو سنت کہتے ہیں ہر وقت کھلی ہوئی تھی.اس لئے آپ نے اپنی قوم کی توجہ کو سرا سر قرآن مجید کے حفظ کی طرف لگا دیا.اس اہتمام اور شوق نے مسلمانوں کی قوت حافظہ میں ایک بے نظیر ترقی پیدا کردی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن مجید کا نزول اس کا انضباط اور تحفظ مسلمانوں کی احتیاط اور اسلامی دلدادگی کی ایک ایسی نظیر ٹھہر گیا کہ دوسری قومیں اس کی مثال سے عاجز ہیں اور اس شوق نے مسلمانوں میں ایک جوش پیدا کردیا کہ وہ محبوب و مولیٰ کے ان کلمات طیبات کو بھی جو آپ وقتاً فوقتاً اصلاح مسلمین کے لئے فرماتے تھے شوق سے یاد کرلیتے تھے اور یاد رہنے دیتے تھے.گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک ایک روحانی مشین تھی جس سے صحابہؓ کے قلوب پر نقوش کندہ ہوتے تھے.آپ کے منہ سے کسی کلمہ کا نکلنا اس شیدائے حق قوم کے لئے ایک قانون اور ضابطہ ہوتا تھا.اس لئے اس پاک جماعت کا ہر فرد اس شوق میں مست رہتا تھا کہ آپ کے منہ سے کچھ سنے اور اسے یاد رکھے.احادیث کے پُر غور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے کاروبار کی وجہ سے اگر ہر نماز میں بعض صحابہ شامل نہ ہوسکتے تھے تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر باری مقرر کرلیتے اور نوبت بہ نوبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور رہتے اور آپ کے ارشادات کو یاد رکھتے.جس طرح پر قرآن مجید کا نزول تئیس سال میں ہوا اور اس عرصہ میں اس کا نزول اس کے یاد کرنے کا نہایت ہی آسان ذریعہ ہوگیا.اسی طرح پر آپ کے کلمات طیبات کے یاد کرنے کے لئے بھی اتنا بڑا زمانہ کافی تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے انضباط کا جو اہتمام خود فرمایا تھا اور جس

Page 498

طرح پر صحابہؓ ایک خاص شوق سے اس کو حفظ کرتے تھے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی قرآن مجید کی ترتیب میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور روئے زمین کے مسلمان اس پر متفق ہیں.غرض اس بے نظیر قوت حافظہ، اس بے نظیر شوق تحفظ اقوال نبی، ان بے نظیر خصائص قومی نے مل ملا کر حضور انورؐ کے اقوال کے مجموعہ کو محفوظ رکھا اور ہم تک پہنچادیا.اس میں شک نہیں کہ بعض ناعاقبت اندیش اور بے باک لوگوں نے اسلامی حکومت کی بعض پولیٹیکل پیچیدگیوں اور خانہ جنگیوں کے زمانہ میں کوشش کی کہ موضوعات کے ذریعہ اس پاک ذخیرہ کو مشکوک کردیں مگر جس طرح پر جواہرات میں ٹھیکریاں الگ پہچانی جاتی ہیں حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور کلمات طیبات صاف نمایاں نظر آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے علم حدیث کی حفاظت اور شناخت کے لئے ایسے علوم پیدا کردئیے کہ اس حریم قدس میں کسی نااہل کا گزر نہیں ہوسکتا.رفع اعتراض بعض لوگ اپنی نادانی اور جہالت سے کہہ دیتے ہیں کہ جبکہ قرآن مجید ایک مکمل اور جامع قانون ہے پھر احادیث کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے لوگ حقائق سے ناواقف اور سطحی خیالات رکھتے ہیں.انہیں معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت محض ایک آلہء وحی کے رنگ میں نہیں ہوئی بلکہ قرآن مجید خود بتاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے اغراض کیا تھے؟ (الجمعۃ :۳) کتاب اللہ کی تلاوت اور تزکیہ قوم اور تعلیم الکتاب و الحکمۃ آپ کی زندگی اور بعثت کے اغراض تھے جن سے پایا جاتا ہے کہ آپ کی ذات مبارک کو ایک مقنّن قانون اور قرآن مجید کے عملی معلم کا منصب دیا گیا تھا.جیسے دنیا میں کوئی قانون بدوں ضابطہ کے نہیں ہوسکتا اسی طرح قرآن کریم اگر ایک قانون ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی زندگی اس کا ضابطہ ہے.

Page 499

دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم اسلام کا قانون اساسی ہے اور اس کی مقدس تعلیمات کسی دوسرے مجموعہ کی محتاج نہیں ہیں لیکن جس طرح پر قانون اساسی کے ساتھ ثانوی (بائی لاز) ہوتے ہیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ملفوظات و ہدایات وہی بائی لاز ہیں.اس لئے اس کی سخت ضرورت ہے.اس سے قرآن مجید کی شان بلند نظر آتی ہے نہ کچھ اور.اگر صرف اتنا ہی مان لیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں محض وحی الٰہی کے پہنچانے کا ایک آلہ تھے تو پھر قرآن مجید نے یہ کیوں کہا؟ (الاحزاب :۲۲) اور (ال عمران :۳۲) اور آپ کو ایک جدید شریعت کی بنیاد رکھنے اور اسلامی تمدن کے اجراء کی کیا ضرورت تھی؟ آپ کی عملی زندگی بتاتی ہے کہ آپ قرآن مجید کی تلاوت، تزکیہ اور تعلیم الکتاب و الحکمۃ کے فرائض لے کر آئے تھے.اس لئے ضروری تھا کہ آپ کی تعلیمات اور آپ کی عملی زندگی ایک مسلمان کی زندگی کا علمی اور عملی ضابطہ ہوتا اور اس کے فہم کے لئے علم الحدیث کی ضرورت ہے.فلسفہ حدیث اور فلسفہ تاریخ اس زمانہ میں تاریخ ایک عظیم الشان علم ہے اور یورپ اور متمدن قومیں فلسفہ تاریخ کو اپنے لئے خضر راہ سمجھتی ہیں مگر تعجب کی بات ہے کہ نو تعلیم یافتہ لوگ باوجود فلسفہ تاریخ کے شیدا ہونے کے علم حدیث سے متنفر پائے جاتے ہیں اور خود یورپ کے پادری احادیث پر اعتراض کرتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے.مدبرین یورپ کے ملفوظات و تعلیمات کو جوان کی سیرتوں میںملتے ہیں وہ قطعاً نہیں جھٹلاتے لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ملفوظات و عملیات پر آتے ہیں تو خبر کے جھوٹ اور سچ کے احتمال کا قضیہ نکال بیٹھتے ہیں.انصاف اور شرافت ہو تو محدثین کے فلسفہ کے سامنے سر جھکا دیں.علم اسماء الرجال اور علم الدرایت کے ماہرین نے کچھ ایسے تنقیدی اصول قائم کئے ہیں کہ یورپ اس فن میں ابھی ابجد خواں کہا جاتا ہے.

Page 500

علم الحدیث علم الحدیث پر میں اس مقدمہ میں تفصیلی بحث نہیں کرسکتا.تاہم میرا خیال ہے کہ مجھے جسۃ جسۃ ایسے امور بیان کردینے چاہییں جو اس علم کے مبتدی کے لئے بہت بڑی کتابیں پڑھنے کے بغیر آسکیں.علم الحدیث کے متعلق میں یہاں ایک مختصر سی بحث کردیتا ہوں.علم الحدیث کی دو بڑی قسمیں ہیں.اوّل علم الروایت.دوم علم الدرایت.اوّل الذکر میں سلسلہ روایت اور ضبط حدیث سے بحث ہوگی اور دوسری میں حدیث کے مطلب اور منشاء سے.پھر یہ دونوں قسمیں بارہ مختلف شاخوں پر منقسم ہیں.۱.تدوین علم الحدیث.۲.علم الناسخ و المنسوخ.۳.علم النظر فی الاسناد.۴.علم کیفیت الروایت.۵.علم الفاظ الحدیث.اسی علم کے نیچے روایت بالمعنی بھی آتی ہے.۶.علم المؤتلف والمختلف.۷.علم طبقات حدیث.۸.علم غریب الحدیث.۹.علم اسماء الرجال.۱۰.علم الجرح والتعدیل.۱۱.علم طرق الاحادیث.۱۲.علم الموضوعات.ان علوم پر محدثین نے مستقل کتابیں لکھی ہیں اور علم الحدیث کے وہ کار ہائے نمایاں کئے ہیں کہ یورپ کے فلسفہ تاریخ اور فلسفہ روایت کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی.اس تقسیم علم الحدیث کے بعد مجھے تدوین احادیث پر کچھ کہنا ضروری ہے.تدوین احادیث میں اوپر لکھ آیا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نہ میں احادیث کی کتابت کی ممانعت تھی اور صرف قرآن مجید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامنے لکھواتے تھے چونکہ آپ نے قرآن مجید کے سوا احادیث کی کتابت کی مخالفت کردی تھی اس لئے یہ سچی بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں احادیث کی تدوین اور کتابت نہیں ہوئی لیکن اس سے میری مراد یہ ہے کہ احادیث کی کتابت ایک مرتب اور مدون کتاب کی صورت میں نہیں ہوئی.وَ اِلاَّ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط شاہان وقت کے نام

Page 501

لکھوائے تھے اور ایسا ہی ایک صحابی کو بھی کچھ ہدایات لکھوا دی تھیں جیسا کہ خود صحیح بخاری میں موجود ہے.چونکہ تدوین اور ترتیب کے رنگ میں کتابت احادیث نہیں ہوئی اس لئے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہجرت کی پہلی صدی میں کوئی کتاب نہیں لکھی گئی.میں اپنی سمجھ اور فہم کے موافق یہ کہنے کی جرأت کرتا ہوں کہ اس پر زیادہ تدبر نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے لکھ دیا کہ احادیث نبوی کی تدوین و تالیف دوسری صدی میں ہوئی.اس لئے وہ اعتراضات کے نیچے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے جس میں بعض بڑے بڑے بزرگ بھی شامل ہوگئے.حقیقت یہ ہے کہ جبکہ ہم مانتے ہیں اور یہ امر واقعہ ہے کہ اسلام نے اپنی اشاعت کے ساتھ ہی حقیقی تمدن کی بنیاد رکھ دی تھی اور تالیف و تصنیف بھی تمدن کا ایک شعبہ ہے تو ہم تسلیم نہیں کرسکتے کہ اس کی بنیاد بھی قرن اولیٰ ہی میں نہ پڑگئی ہو.ہاں اس کی تکمیل دوسری صدی میں ہوئی.اسی سے مؤرخین نے قیاس کرلیا کہ دوسری صدی میں احادیث مدون ہوئیں.۲؎ بخاری شریف کا ترجمہ اور تفسیر حضرت عرفانی کبیر نے مد ت ہوئی کہ بخاری شریف کے ایک بڑے حصہ کا ترجمہ اور تفسیر حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح اوّل کے درس بخاری کے نوٹوں اور اپنی خدداد قابلیت کی مدد سے تیار کی تھی جو مالی تنگی کی وجہ سے آج تک معرض ظہور میں نہ آئی.حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح اوّل نے کئی جگہ اپنے دست مبارک سے اس کی درستگی اور اصلاح بھی فرمائی تھی.ہم الحکم کی آج کی اشاعت میں اس ترجمہ اور تفسیر کا ایک باب پیش کرتے ہیں.(ایڈیٹر)

Page 502

کتاب الایمان باب (۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ امور پر ہے اور ایمان قول اور فعل کا نام ہے اور وہ بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.۱.تاکہ ان کے ایمان پر ایمان بڑھ جاوے اور ہم نے ان کی ہدایت کو بڑھا دیا.۲.وَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی اور اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت کو بڑھاتا ہے اور فرمایا.۳.اور جن لوگوں نے ہدایت پائی ان کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے بڑھا دی اور ان کو تقویٰ عنایت فرمایا اور مومنوں کا ایمان بڑھادیا اور فرمایا.۴.اس نے تم میں سے کس کے ایمان کو بڑھا دیا.پس جو لوگ مومن ہیں ان کا ایمان بڑھادیا اور فرمایا.۵.انہوں نے خشیت الٰہی اختیار کی.پس ان کا ایمان بڑھا دیا اور فرمایا.۶.ان کو سوا ایمان اور تسلیم کے زیادہ نہیں کیا.اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے محبتؔ اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے بغضؔ یہ دونوں امر بھی ایمان میں داخل ہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے عدی بن عدی کو یہ لکھ بھیجا کہ ایمان کے لئے کچھ فرائض ہیں اور کچھ شرائع ہیں اور کچھ حدود ہیں اور کچھ سنتیں ہیں.جس نے ان کی تعمیل کی اس نے ایمان کو کامل کرلیا اور جس نے ان کی تکمیل نہ کی اس نے ایمان کو پورا نہ کیا اور اگر میں زندہ رہا تو میں ان امور کو تم سے بیان کروں گا تا کہ تم ان پر عمل کرو اور اگر میں مرگیا تو تم میں تمہارے پاس رہنے کے لئے حریص نہیں ہوں.اور ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا کہ ’’میرا دل مطمئن ہو جاوے.‘‘ اور معاذ بن جبل نے کہا کہ کچھ دیر ہمارے پاس بیٹھو تا کہ ہم مؤمن ہوجاویں اور ابن مسعود نے فرمایا.یقین ایمان تام

Page 503

ہے.اور ابن عمرؓ نے کہا کہ بندہ تقویٰ کی حقیقت کو نہیں پاسکتا جب تک اس چیز کو چھوڑ دے جو سینہ میں کھٹکے.اور مجاہد نے کہا.شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا کا یہ مطلب ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اور نوحؑ کو ایک ہی دین کی تعلیم دی ہے.اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ شِرْعَۃٌ اور مِنْہَاجٌ کے معنے راہ اور طریقہ کے ہیں اور تمہارا دعا کرنا ایمان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.کہہ دو کہ میرا ربّ تمہاری پرواہ ہی کیا رکھتا ہے اگر تم اس کو نہ پکارو.اور دعا کے معنے لغت میں ایمان کے ہیں.…………………… نوٹ:.کتاب الایمان کا پہلا باب ایک معرکۃ الآرا باب ہے.ایمان کی کمی بیشی کے متعلق علماء اسلام میں بڑے بڑے مباحثے ہوئے.امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کریم کی اَ لْاِیْمَانُ یَزِیْدُ وَ یَنْقُصُ متعدد آیات اپنے دعویٰ میں پیش کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کا بڑھنا یقینی امر ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کی نظر قرآن مجید کے مطالب پر کیسی وسیع ہے.وہ اپنے طریق استدلال میں قرآن کریم سے کس طرح پر استشہاد کرتے ہیں.بہرحال قرآن مجید کی آیات بینات کے مقابلہ میں دوسرے اقوال حجت نہیں ہوسکتے.رہی یہ بات کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان کی کمی بیشی کے متعلق بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف ظاہر کیا.اس کی تطبیق حضرت امیر المؤمنین نور الدین مد ظلہ العالی نے جو بتائی ہے وہ اپنے موقع پر اسی نوٹ میں آتی ہے.انسان کے علم و معرفت میں ترقی کا ہونا ایک بیّن امر ہے جو ہمارے مشاہدہ میں آتا ہے اور وہ لوگ جو مذہب اور ایمان کے نام سے چڑتے ہیں وہ بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں.پھر قرآن مجید ہی میں علم کے جو تین مراتب علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین بیان کئے گئے ہیں وہ ایمان ہی کی ترقی یافتہ شانیں ہیں اور ان کو مراتب معرفت بھی کہتے ہیں اور اسی طرح پر ایمان ، ایقان، عرفان یہ بھی مدارج ایمان کہلاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک پہلی سے ترقی یافتہ حالت کا نام ہے.

Page 504

اس مسئلہ پر کسی قدر تفصیل سے ابھی بحث کرتے ہیں.پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایمان ہے کیا چیز ؟ ایمان کی تعریف اس زمانہ کے امام حجۃ الاسلام نے یوں فرمائی ہے.(دیکھو ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ۲۶۱) ایمان کیا ہے؟ ایمان کی تعریف کے متعلق بھی مباحثہ ہوا ہے.بعض کا خیال ہے کہ ایمان صرف دل کی بات ہے.منہ سے کچھ کہنا یا اعضاء سے اس کے موافق کچھ کرنا ضروری نہیں مگر جب اس پر ان سے مؤاخذہ کیا گیا تو اتنا اور بڑھا دیا کہ تَصْدِیْقُ مَا جَآئَ بِہِ الرَّسُوْلُ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق بھی ضروری ہے.بعض نے کہا کہ ایمان معرفت القلب کا نام ہے.بعض نے کہا کہ ہم دل کی بات کیا جانیں زبان سے اقرار ہو اور اس پر ھَلْ شَقَقْتَ قَلْبَہٗ کی دلیل بھی پیش کی.بعض نے کہا کہ دل میں معرفت ہو اور زبان سے اقرار ہو.کسی نے کہا کہ ایمان تو اعمال کا نام ہے.ترک مناہی اور تعمیل اوامر کو ایمان کہتے ہیں.امیر المومنین نور الدین کا مذہب مگر میرا مذہب (امیر المومنین نور الدین) جو قرآن کریم سے پایاجاتا ہے اور بخاری صاحب نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم سے ظاہر کیا ہے یہ ہے ایمان نام ہے دل کے اندر ارادے سے یقین کرنا اور زبان سے اقرار کرنا اور اعمال کے ذریعے کرکے دکھا دینا.اس لئے کہ ایمان کی اصطلاحیں یہ ہیں.اوّل.احکام دینا اس پر مترتب ہوں.یہ صرف اقرار زبان سے ہوسکتا ہے.کسی نے لَااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھ دیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں.ہم نے اس کو مسلمان سمجھ لیا.دوم.جن پر عاقبت کا مدار ہو.یہ تصدیق و یقین قلب پر موقوف ہے اور اس کے ساتھ لسانی اقرار.سوم.اس معرفت اور اقرار کا عملی اثر پیدا ہو.اس سے اعمال صالحہ کی ضرورت لازم آتی

Page 505

ہے.اس لئے ایمان سچے عقائد اور اقرار زبان اور پاک اعمال کے مجموعہ کا نام ہوا.پھر ایمان ایک آرام دل ہے (اورخدا کا فضل ہے کہ مجھے بھی حاصل ہے.نور الدین) جو مقربین کو حاصل ہوتا ہے.اس کے مقابل میں نفاق ہوتا ہے جبکہ تصدیق نہ رہے اور جب اعمال صالحہ فوت ہوجاویں تو پھر فاسق ہوجاتا ہے.یہ حالتیں غلبۃ السیف یا حجاب رسم عادت سے پیدا ہوتی ہیں اور یا محبت الدینا اور بال بچے کے فکر سے جب کہ انسان اس میں منہمک ہوجاوے اور کبھی کبھی سختیاں دیکھتا ہے.غرض ایمان کے لئے یہ تین چیزیں ضروری ہیں.معرفت قلب، اقرار لسان اور اعمال جوارح اور ان میں سے تسکین قلب اور احکام دنیا کی تربیت جیسے اخوۃ مع المؤمنین اور انصرام امور دنیا اور اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ پیدا ہوتے ہیں.ایمان کی تفصیل ایمان کی تعریف کے بعد میں اس کی کسی قدر تصریح کرتا ہوں.اللہu تعالیٰ پر ایمان ، فرشتوvںپر ، اللہ تعالیٰ کی کتابوwں پر ، اللہ تعالیٰ کے نبیوxں پر ، تقدyیر اور حشرz نشر ، جنت {و نار حق ہیں.اللہ uتعالیٰ کے متعلق یہ کہ وہ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ ہے اور اس کے ماسوا اس کی مخلوق ہے.وہ اپنی ذات ، اسماء، افعال اور محامد میں لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌہے.پھر حجۃv اللہ ، الحبw للہ، البغضx للہ اور آنحضرyت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، اخلاzص ، توبہ {.پھر خوuف و رvجاء (اللہ ہی سے ڈرنا.اللہ ہی سے امیدوار ہونا) نا امید نہ ہونا، شکر ، وفا ، صبر ، تواضع.پھر شفقت ، رضا بالقضاء ، توکّلw ، دل میں کھوxٹ نہ ہو، غضب yنہ کرنا، دغاz اور کپٹ نہ ہو، حب {الدنیا نہ ہو.مندرجہ بالا امور قلب سے تعلق رکھتے ہیں.ان کے مقابل بذریعہ اظہار لسان ایمان کی تفصیل یوں ہے.زبانu سے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا اقرار ، قرآنv مجید کی تلاوت و تحصیلw علم،

Page 506

دعائیںx کرنا، استغفارy کرنا، ذکر کرzنا اور لغو کو ترک{ کرنا.اعمال میں اس کا ظہور یوں ہوتا ہے.وضو کرuنا اور بدن کو پاک رکھنا، نماز vپڑھنا، صدقہw دینا، روزہ xرکھنا.حجy اور اعتکافz کرنا اور ہجرت{ کرنا.پھر وفاu بالنذر ، ستر عورتv (شرمگاہ کو ڈھانپنا)، کفارہw کا ادا کرنا، قرباxنی کرنا، جنازyہ کی نماز ، ادا قرضz.پھر صدق uمعاملات، سود چھوڑvدینا، ادائےw شہادت، کتمان xشہادت کو چھوڑنا، بدکارyیوں سے بچنا، اہل وz عیال اور خدام کے حقوق کی نگہداشت، والدین {سے حسن سلوک، اولاد|کی تربیت اور صلہ رحمی} کرنا اور احکام کیt uاطاعت، اصلا uuح کے کاموں میں شریک ہونا، خواہ لڑائی کے ذریعہ اصلاح ہو، اس ضمن کے ماتحت قیام uحکومت، (اولو الامرv) حکومت کی فرمانبرداری، جماعت wکی اتباع، تعاون xعلی البر، امر معرyوف، نہی عنz المنکر، حدود{ کا قائم کرنا، جہاد |(سعی فی الدین)، امانتوں} کا ادا کرنا، پڑوسیوںt u کا اکرام، حسن uuمعاملہ، نیک کاموuvں میں چندہ دینا، فضولیوuwں کو چھوڑدینا، السلاx uمعلیکم اور چھینک کا جواب دینا، بے ہودہy uباتوں کو چھوڑنا اور راستوں کو صاف کرنا.یہ ایمان کی تصریح ہے.پھر فرمایا کہ ایمان کے لئے کچھ فرائض ہیں، کچھ حدود ہیں، کچھ شرائع ہیں اور کچھ سنن ہیں.ان امور کی تفصیل بھی اوپر گزر چکی ہے کیونکہ کچھ ابتدائی باتیں ہوتی ہیں جن کو شرائع کہتے ہیں اور حدود سیاسی امور اور تعزیرات سے تعلق رکھتے ہیں.فرائض نماز وغیرہ امور کی تفصیل بھی آچکی ہے.غرض ایمان ارادہ قلب اور افعال جوارح پر اطلاق پاتا ہے.یہ بالکل سچ ہے کہ تکمیل ایمان اعمال صالحہ کے بدوں نہیں ہوسکتی اور ایمان کامل بالطبع اعمال صالحہ کے صدور کو چاہتا ہے.قرآن مجید میںجہاں اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فرمایا وہاں عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ کی قید بھی ساتھ ہی ہے

Page 507

اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ ابتدائے قرآن کریم میں یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے ساتھ اعمال یا ارکان اسلام کی تعلیم ہے.یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وغیرہ الآخر اس سے صاف ثابت ہے کہ جود ایمان بدوں اعمال اور اقرار لسان کامل نہیں ہے.اَ لْاِیْمَانُ یَزِیْدُ وَ یَنْقُصُ ان امور کے بیان کے بعد اب پھر اَ لْاِیْمَانُ یَزِیْدُ وَ یَنْقُصُ کے مسئلہ پر کچھ بحث کی جاتی ہے.بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید کی آیات کو پیش کیا ہے.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول (البقرۃ :۲۶۱) سے ظاہر کیا ہے کہ ایمان ترقی کرتا ہے کیونکہ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا تو ایمان نہیں رکھتا.فرمایا کہ ایمان تو رکھتا ہوں مگر میں اطمینان کے درجہ پر ترقی کرنا چاہتا ہوں.پھر معاذ کا قول بھی اس کا مؤید ہے کیونکہ اس نے جو کہا کہ تھوڑی دیر ہمارے پاس بیٹھو تا کہ مومن ہوجائیں.مومن تو پہلے ہی وہ تھے.مراد یہی ہے کہ ایمان بڑھائیں.عدی ابن عدی کا مکتوب بھی ایمان کے مراتب بتاتا ہے.کوئی شخص گویا مومن کامل نہیں ہوتا جب تک ایمان کے حدود، فرائض، شرائع اور سنن کی تکمیل نہ کرے.یہاں ہی اس امر کا ذکر بھی کردینا ضروری ہے کہ شِرْعَۃٌ اور مِنْہَاجٌ کے معنے بتادئیے گئے ہیں.شِرْعَۃٌسے قواعد و حدود شریعت اور منہاج سے مراد سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے.ایمان کی کمی بیشی کا مسئلہ بہت صاف ہوچکا ہے تاہم مزید تصریح کے لئے میں چند دلائل اور پیش کرتا ہوں.اوّل.ایمان علم اور تصدیق کا مجموعہ ہے اور علم اور تصدیق کے مدارج مختلف ہوتے ہیں.بعض میں یہ بات زیادہ قوی، زیادہ پختہ اور شک و ریب سے بالکل دور ہوتی ہے اور یہ ایک ایسا امر ہے کہ ہم اپنے ذاتی تجربہ سے مشہودات میں محسوس کرتے ہیں.ایک ہی چیز کو مختلف آدمی دیکھتے ہیں یا ایک آواز کو سنتے ہیں یا ایک خوشبو کو سونگھتے ہیں یا ایک ہی طعام کو چکھتے ہیں مگر ان میں فرق ہوتا ہے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ قلبی معرفت اور قلبی تصدیق میں مدارج نہ ہوں.خود کلام اللہ

Page 508

کے معانی کے فہم میں کتنا فرق ہوتا ہے.اسی اعتبار سے ایمان میں بھی فرق ہوتا ہے اور یہ اس کی کمی بیشی پر ایک بیّن دلیل ہے.دوم.اعمال القلوب مثلاً اللہ کی محبت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، خشیۃ اللہ ، رجاء وغیرہ سب ایمان ہیں جیسا کہ اوپر تفصیل کی ہے.اور یہ ظاہر بات ہے کہ لوگ ان میں ایک دوسرے سے متفاضل ہوتے ہیں اور یہ ثبوت ہے ایمان کی کمی بیشی کا.سوم.اعمال ظاہری میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے.چہارم.انسان جو مَا لِرَبِّہٖ کو یاد رکھے اور ہر وقت انہیں زیر نظر رکھے وہ اس سے کامل ہے جو تصدیق تو کردے مگر پھر ان سے غافل ہوجاوے کیونکہ غفلت ایمان کو گھٹا دیتی ہے اور ایمان، تصدیق، ذکر اور استحضار کا کمال علم و یقین کے کمال کا موجب ہے.پنجم.جو تصدیق جو عمل کی تحریک کرے اس سے ضرور افضل ہے جس سے عمل کی قوت پیدا نہ ہو یا یوں کہو کہ ایسا ایمان جس کا ثمرہ اعمال صالحہ ہوں اس ایمان سے ضرور افضل ہے جس کا ثمرہ اعمال صالحہ نہ ہوں.تو کیا اس سے ظاہر نہیں کہ ایمان کے مدارج ہیں.ان بدیہی باتوں پر اگر نظر نہ بھی کی جاوے تو بھی قرآن مجید نے اس مسئلہ کو خوب کھول کر بیان کردیا ہے اور بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید سے متعدد آیات پیش کی ہیں.ان کے علاوہ ذیل کی آیات بھی اس کی موید بحق ہیں.۱.(الانفال :۳).یہ ایک ایسی بات ہے جس کو ہر شخص مومن جبکہ اس پر قرآن مجید کی آیات تلاوت کی جاویں محسوس کرتا ہے یعنی قرآن مجید کے فہم اور اس کے معانی کی معرفت سے ایک خاص قسم کا ایمان ( جو پہلے نہ تھا) اس کے قلب میں پیدا ہوتا ہے اور بڑھتا ہے.امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ڈیفنس حنفی لوگوں کا مذہب ہے کہ ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں.

Page 509

حضرت امیر المؤمنین نور الدین فرماتے ہیں کہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت کبھی وہم نہیں کرسکتا کہ انہوں نے نعوذ باللہ ان آیات کو نہ سمجھا ہو.اتنا بڑا فقیہہ اور امام اگر قرآن کریم کو نہیں سمجھتا تو پھر دوسرے مسائل پر کہاں بھروسہ کیا جاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس حسن ظن کی وجہ سے جو اس نے مجھے عطا کیا ہے میں نے اس نکتہ معرفت کو سمجھا اور وہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ججمنٹ کرتے تھے.وہ فقیہہ تھے ان کے دربار میں مقدمات آتے تھے جن کا فیصلہ انہیںکرنا پڑتا تھا.اب یہ ظاہر امر ہے کہ وہ مقدمات میں اس قسم کا لحاظ نہیں کرسکتے تھے کہ فلاں بڑا مومن ہے اور تہجد گزار ہے اور فلاں نہیں.اس لئے انہوں نے ان قضایا کے فیصلہ کے لئے کہا ہوگا کہ تصفیہ قضایا میں ایمان کی کمی بیشی کوئی نہیں.قضا اور قانون کے محکمہ کو اس سے تعلق نہیں لیکن پیچھے آنے والوں نے غلطی سے اس نکتہ کو نہیں سمجھا اور یہ قرار دیا کہ گویا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے امر سے انکار کرتے تھے جس کی صراحت قرآن کریم میں موجود ہے اور یہ ان لوگوں کی غلطی ہے.اصل بات یہی ہے جو میں خدا کے فضل سے سمجھا ہوں.الغرض ایمان بڑھتا ہے.………………… حیاتِ نور کے متعلق ایک حنفی پر اتمام حجت جموں میں ایک طالب علم مجھ سے پڑھتا تھا اس نے مسئلہ اَ لْاِیْمَانُ یَزِیْدُ وَ یَنْقُصُ کے ضمن میں کہا کہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے اس مسئلہ کا فیصلہ کردیا ہے کہ (نعوذ باللہ ) امام بخاری بے وقوف تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن مجید نازل ہوتا تھا اور نزول آیات سے ایمان بڑھتا تھا لیکن اب جبکہ قرآن مجید کا نزول نہیں ہوتا پھر اَ لْاِیْمَانُ یَزِیْدُ وَ یَنْقُصُ کیسے درست ہوسکتا ہے؟

Page 510

حضرت امیر المؤمنین نے اس کے جواب میں ایسے کہا کہ تمہارا مذہب تباہ ہوگیا کیونکہ تم اور رشید احمد دونوں تقلید کو ضروری جانتے ہو.اگر مجتہد کے اجتہادات بڑھتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ ایمان بڑھتا ہے اور اگر نہیں تو پھر تم بتائو کیا یہ صحیح ہے.اس پر وہ خاموش ہوگیا.بخاری پر اعتراض اور ان کا جواب میں نے بخاری کو بہت پڑھا ہے اور لوگوں نے اس پر جو جرح کی ہے جہاں تک میری عقل و فکر ہے تمہیں سمجھاتا ہوں کہ وہ محض بے اصل ہیں.میرے علم میں بخاری پر جرح کی ۱۴ وجہیں ہیں.۱.کسی کو کہا قدری ہے.۲.کسی کو کہا شیعہ ہے.۳.کسی کو کہہ دیا جہمی ہے.۴.بنو امیہ کی سلطنت کو اچھا سمجھتا تھا.۵.شامی تھا.۶.کسی کا حافظہ گھٹ گیا.۷.فلاں کی حدیث جائز نہیں.اس نے کسی سے تحفہ لے لیا یا امراء کے ہدایا لیتا تھا.۸.خارجی ہے.۹.اس کے گھر حدیث پڑھنے گئے تو اندر سے قرآن شریف برنگ راگ پڑھنے کی آواز آئی.۱۰.ایسے لوگوں سے روایت کی جو ان کے پاس بیٹھے.۱۱.کسی سے رنج ہے.۱۲.کبھی ناموں میں شبہ ہوگیا.۱۳.فلاں آدمی کسی امیر کے گھر گیا تھا.۱۴.ایک کی نسبت طعنہ کیا کہ وہ تمسخر اور مخول کرتا تھا.غرض اس قسم کے امور پیش کرکے ان لوگوں نے کہا ہے کہ بخاری نے ان سے روایت کی.میں نے ان امور پر خوب غور کی تو مجھے معلوم ہوا کہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا دل بہت وسیع تھا اور خدا نے میرے دل میں بھی اپنے فضل سے وسعت دی ہے.انہوںنے اسی وسعت حوصلہ کی بنا پر ہر قسم کے لوگوں سے حق کو لیا ہے.شیعہ ، خارجی، جہمی، ایاضہ، سنی ، صوفی ، قدری وغیرہ ہر قسم کے لوگ موجود تھے.اس لئے بخاری نے صداقت اور راستبازی کو مقدم کرکے ۱۸۰۰ شیخ سے حدیث لی ہے اور ان کے استادوں نے فخر سے کہا ہے کہ ہم نے بخاری سے بخاری پڑھی ہے.میری سمجھ میں مومن کو جہاں سے صداقت ملے اسے لینی چاہیے.مندرجہ بالا امور میں صرف آخری امر کے متعلق میری طبیعت میں بھی غور کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ سنجیدگی اور متانت بڑی ضروری چیز ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 511

علیہ وسلم کی حدیث کا راوی بڑا متین ہونا چاہیے.اس خیال پر میں نے بہت کتابیں پڑھیں تو آخر یہ راز مجھ پر کھل گیا.ایک شخص ایسا تھا جس نے ایک حرکت کی تھی.اس کو سمجھنے کے لئے میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہولیوں میںجیسے لوگ ایک روپیہ زمین میں گاڑ دیتے ہیں اور کوئی اجنبی اسے اٹھاتا ہے تو لوگ ہنستے ہیں.اسی طرح پر بصرہ میں چند بدمعاش ایک تھیلی رکھ دیتے تھے.انہوں نے اس کے انسداد کے لئے گویا ایک شخص کو کہا کہ اس قسم کی تھیلی بنائو اور اس کو کانچ سے بھر لو اور جب اس کو اٹھانے لگو تو اس ہتھیلی کی بجائے یہ کانچ والی تھیلی رکھ دینا.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بصرہ والے سخت شرمندہ ہوئے.اس طرح پر اس نے اپنے مذہب کے موافق ان کو مالی سزا دے دی تو کیا ہرج ہوا.اس کو پڑھ کر میرا خیال تو جاتا رہا.غرض صداقت اور راستبازی کو مقدم کرکے جہاں سے ملے لے لو.۳؎

Page 512

Page 513

Page 514

Page 515

Page 516

Page 517

Page 518

Page 519

Page 520

Page 521

Page 522

Page 523

Page 524

Page 525

Page 526

Page 527

Page 528

Page 529

Page 530

Page 531

Page 532

Page 533

Page 534

Page 535

Page 536

Page 537

Page 538

Page 539

Page 540

Page 541

Page 542

Page 543

Page 544

Page 545

Page 546

Page 547

Page 548

Page 549

Page 550

Page 551

Page 552

Page 553

Page 554

Page 555

Page 556

Page 557

Page 558

Page 559

Page 560

Page 561

Page 562

Page 563

Page 564

Page 565

Page 566

Page 567

Page 568

Page 569

Page 569