Irshadat-e-Noor Volume 2

Irshadat-e-Noor Volume 2

ارشادات نور (جلد دوم۔ بعد از خلافت)

Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب ؓ کے ارشادات، متفرق تحریرات، مکتوبات، سوالوں کے جوابات جو جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے، کو نظارت اشاعت ، صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے تین جلدوں میں یکجائی صورت میں شائع کیا ہے۔ جلد اول قبل از خلافت ارشادات و فرمودات مشتمل ہے جبکہ  جلد دوم اور سوم زمانہ خلافت کے دور کے متعلق ہے ۔اس مجموعہ میں الحکم ، البدر وغیرہ سے ماخوذ مواد کی  ترتیب تاریخ اشاعت کے اعتبار سےرکھی گئی ہے۔ حضورؓ کی تحریرات سے پہلے بسا اوقات ان اخبارات و رسائل کے ایڈیٹر صاحبان نے بعض نوٹ دیئے تھے، اس مجموعہ میں تحریر کا پس منظر واضح کرنے اور افادیت کی خاطر وہ نوٹ شامل رکھے گئے ہیں، تاہم فرق کی خاطر ان کا فونٹ سائز حضورؓ کی تحریرات سے چھوٹا رکھا گیا ہے۔ ایک ہزار صفحات سے زیادہ ضخیم اس مجموعہ کی ہر جلد کے آخر پرتفصیلی انڈیکس درج کیا گیا ہے لیکن جلد کے آغاز پر فہرست مضامین موجود نہ ہے۔


Book Content

Page 1

Page 2

بِسْـمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْــــمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ارشادات نور (بعد از خلافت) احباب جماعت کو زیارت قادیان کی تحریک حضرت خلیفۃ المسیح کا حکم ہے کہ تمام بیعت کنندوں کے واسطے ضروری ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے کچھ نہ کچھ فرصت نکال کر ملاقات کے واسطے سب قادیان آویں.کیونکہ اس سے روحانی ترقی ہوتی ہے اور ایمان میں تقویت پیدا ہوتی ہے.(البدرجلد ۷ نمبر ۲۳مورخہ ۱۱؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۹) خلیفہ اور مامور میں فرق (۲؍جون۱۹۰۸ ء قبل عصر) آپ کی خدمت میں سوال کیا گیا کہ خلیفہ اور مامور میں فرق کیا ہے؟جس طرح مامور کی اقتدا اور اتباع کا حکم ہے اسی طرح خلیفہ کی بھی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم ہے ان دونوں میں فرق کس بات کا ہے؟ فرمایا.مامور کو اس کے کل امور میں خاص طور پر مکالمہ، مخاطبہ اور کشوف اور رؤیائے صالح ہوتے ہیں اور کثرت سے ہوتے ہیں.اور اصل امور میں ذاتی اجتہاد کا بہت تھوڑا موقع دیا جاتا

Page 3

ہے حتی کہ اس کا نطق بھی وحی خفی کے حکم میں ہوتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.(النّجم:۴ ،۵).خلیفہ کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے کیونکہ خلیفہ کو بہت حِصّہ اپنے جزوی امور میں ذاتی اجتہاد سے کام کرنا پڑتا ہے اور جس مامور یا مرسل کا وہ خلیفہ ہوتا ہے اس کی اقتدا اور اتباع کی پابندی اس کے پیش نظر ہوتی ہے.اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ رئویا صالح یا کشوف اور الہامات اس کو نہ ہوں.بلکہ بات یہ ہوتی ہے کہ وہاں اجتہاد قلیل اور تائید بذریعہ وحی الٰہی کثرت سے ہوتی ہے اور یہاں وحی قلیل اور اجتہاد کثیر ہوتا ہے.ہاں خلیفہ کو کسی زمانہ میں رئویا وکشوف ووحی ہوتی ہے مگر پھر بھی خلیفہ اصل مامور کا متبع اور اس کی ہدایات کا پابند ہوتا ہے.مامور کی بعض پیشگوئیاں باقی ہوتی ہیں ان کے پورا ہونے کے واسطے خلیفہ کا بھی ظہور ضروری ہوتا ہے اور یہ خلفاء کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ تمام پیشگوئیاں پوری ہوجاتی ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس اصول کو قرآن شریف میں یوں فرمایا ہے.(یونس :۴۷).اللہ تعالیٰ کی یہ ہمیشہ سے سنّت ہے کہ انبیاء کی بعض پیشگوئیاں ان کی زندگی میں پوری ہوتی ہیں اور بعض ان کے بعد ان کے خلفاء کے وقت میں پوری ہوتی ہیں یا نئے مامور پر پوری ہوتی ہیں.انبیاء ہمیشہ پاک تعلیمات اور پاک اور روحانی تبدیلی کے واسطے بعض روحوں کو مستعد کر کے اپنی تعلیمات کی تخم ریزی کر جاتے ہیں.پھر ان کی حفاظت اور آبپاشی ان کے خلفاء کے زمانہ میں ہوتی ہے تابہت سی سعید روحوں کو خدمت دین کااجر اور ثواب ملے.فقط عبدالرحمن قادیانی سب ایڈیٹر (الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۹ مورخہ ۱۸؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۲) خلیفۃ المسیح کا تازہ خط ہر ایک کامل انسان ہمیشہ اعتراضوں کا نشانہ بنا ہے.آدم علیہ السلام کو شیطان ہی نے نہیں بلکہ الملائکہ نے بھی مفسد اور سفاک کہا.موسیٰ علیہ السلام کے موذیوں کا تذکرہ توریت ہی میں نہیں بلکہ

Page 4

قرآن کریم میں بھی ارشاد ہوا.(الاحزاب: ۷۰).اور ایذاء، تبریہ ، قول الاعدا اور ان کے عنداللہ وجیہہ ہونے کا ذکر فرمایا.مسیح علیہ السلام کو جو کہا گیا وہ(النساء:۱۵۷)کے بیان کو سن کر زیادہ کیا لکھوں.ہماری سرکار حضرت خاتم النبیین رسول ربّ العالمین کی نسبت جو کچھ یورپ وامریکہ و ایشیاء افریقہ اور ہندوستان نے ……اور اس کے بھائیوں نے کہا اگر اس ناپاک کاغذ کا انبار بن جاتا تو کنچن چنگا سے کیا کم اونچا ہوتا.فَلَیْسَتْ ھٰذِہٖ بِاَوَّلِ قَارُوْرَۃٍ کَسُرَتْ فِیْ اَیَّامِنَا.مرز اصاحب ۱۳۲۶مغفور کے مقابلے آپ کی زندگی میں مخالفوں نے ناخنوں تک زور لگایا اور آپ کامیاب ہو گئے اور ہم لوگوں کے سامنے ہزاروں ربانی پیشگوئیاں پوری ہوئیں اور ہم نے مشاہدہ کیں.پس جن پیشگوئیوں پر ان کا اعتراض ہے اگر وہ پوری ہو جاتیں تو کیا مخالف مان لیتے.وَالتَّجْرِبَۃُ تَشْہَدُ عَلٰی مَا تَشْہَدُ.بہرحال کچھ لکھو.میں اپنے دلی خیال کے ایک حصہ کو ان سوالات کے متعلق ظاہر کرتا ہوں جو آپ نے لکھے ہیں کہ لوگ بتاتے ہیں.اوّل یہ کہ توسیع مدت حیات پر لوگ اعتراض کرتے ہیں.جناب من! سنہ تو لد کا پتہ لگانا اس ملک خاص کر ہمارے جیسے گائوں میں آیا مشکل امر تھا یا کہ نہیں.کسی وقت بے ریب مسلمانوں کو بھی یہ فخر حاصل تھا کہ ان کی تاریخوں اور بائیو گرافیوں میں ہمارے اسلاف کا سنہ تولد اور سنہ وفات کیسا مفصل درج ہوتا رہا ہے مگر پنجاب پر تو سکھوں کے عہد میں وہ افرا تفری گزری ہے.یَوْمًا بِجُزْوٰی وَیَوْمًا بِالْعَرَاق یہاں سے وہاں، وہاں سے وہاں بھاگتے پھرتے رہے.حضرت امام نے اس نظارہ کو جو آپ کے خاندان پر گزرا ہے بہت ہی دردناک پیرایہ میں بیان فرمایا ہے.دیکھو..........مگر پھر بھی ہم کو پتہ لگا ہے.جیسے مرزا سلطان احمد افسر مال فرزند اکبر حضرت مرزا نے بھی بیان

Page 5

کیا ہے کہ مرزا جی ۱۸۳۶ء و ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوئے.پس اس صورت میں شمسی حساب سے ۷۲.۷۳ اور قمری حساب سے ۷۴.۷۵ برس حضرت امام کی عمر ہوتی ہے.اب میں نصرت الحق ضمیمہ براہین احمدیہ ( یہ کتاب حضرت امام کی تصنیف ہے) کے صفحہ ۹۷سطر ۱۶ کو ’’اور جوظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چوہتر۷۴ اور چھیاسی۸۶ کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں.‘‘ (روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۲۵۹) پیش کرتا ہوں اور اس واقعی بیان کے بعد میرے نزدیک کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا اصل وحی الٰہی کا اس میں ذکر ہے باقی صرف خیال ہے.ہاں یہ امر بھی عرض کر دینے کے قابل ہے کہ کچہریوں اور عام تمسکات میں تحریروں میں علی العموم عمر کے متعلق تخمینے سے کام لیا جاتا ہے موقعہ پر جو یقین یا تخمینے یا ظن غالب ہوتا ہے وہی لکھوایا جاتا ہے.میرا خیال ہے اس واسطے عمر کے متعلق دروغ حلفی کے مقدمات سننے میں نہیں آتے.پھر اگر حضرت نے کہیں اس رنگ میں عمر کے متعلق مختلف الفاظ بیان کئے ہوں تو صریح وحی کا لفظ وہاں استعمال نہیں فرمایا.نکاح والی پیشگوئی پر حقیقۃ الوحی میں ۳۸۷و ۳۸۸ (روحانی خزائن جلد۲ ۲ صفحہ ۴۰۲ حاشیہ) میں حضرت امام خود ارقام فرماتے ہیں کہ اس پیشگوئی میں.......اَیَّتُھَا الْمَرْأَۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَـلَائَ عَلٰی عَقَبِکِ (حاشیہ)موجود ہے.پس احمدبیگ جب میعاد کے اندر مر گیا تو پس ماندے گھبرائے اور بعض کے خط عجز و نیاز کے بھرے ہوئے آئے جو اب تک موجود ہیں تو خدا تعالیٰ نے اپنی شرط پوری کرنے کے لئے اس پیشگوئی میں تاخیر ڈال دی.پھر لکھا ہے کہ یہ مخالف احمد بیگ کے داماد کا ذکر کرتے ہیں مگر احمد بیگ کے وقت پر مرنے کا ذکر نہیں کرتے.۳۸۸.’’ وعیدکی پیشگوئیوں کا پورا ہونا بموجب نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے ضروری نہیں کیونکہ وہ کسی بلا کے نازل ہونے کی خبر دیتی ہیں اور باتفاق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرکے ہر ایک بلا صدقہ اور خیرات اور دعا اور تضرع و زاری سے رد ہو سکتی ہے.‘‘ ۳۸۹ حقیقۃ الوحی(روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۳،۴۰۴ ).پھر اس کا بسط سے ذکر کرتے لکھا ہے کہ’’ وعید کی پیشگوئیاں بھی ایک بلا ہوتی ہیں اور جس طرح بلاء کا واقع ہونا ممکن، اس کا دور ہونا بھی ممکن ہے.تتمہ حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۱۳۳ میں فرمایا ہے کہ پس جب ان لوگوں نے اس شرط (تُوْبِیْ

Page 6

تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَـلَائَ عَلٰی عَقَبِکِ ) کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا.کیا آپ کو خبر نہیں کہ یَمْحُوا اللّٰہُ مَایَشَائُ وَ یُثَبِّتُ اِلٰی تتمہ حقیقۃ الوحی.۱۳۴.(روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۷۰تا۵۷۲) اس کے علاوہ ڈاکٹر عبدالحکیم اور مولوی ثناء اللہ کے اعتراضات ہیں.میں نے ان پر ایک قاعدے کے رنگ پر مضمون لکھا ہے جو طبع ہو گیا ہے.ریویو اور علیحدہ بھی شائع ہوا ہے.میں مفصل لکھتا مگر کثرت ڈاک کے باعث اسی قدر اکتفا کرتا ہوں.(یارزندہ صحبت باقی ) (البدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵ ؍ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۲) نئے مذاہب و فرق کے قیام کے فوائد و مقاصد (۱۰؍جون ۱۹۰۸ء قبل ظہر) سید عبد المحی صاحب عرب نے حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح کی خدمت میں ذیل کا سوال پیش کیا کہ ابتداء سے ہم یہ دیکھتے چلے آتے ہیں کہ ہر نئے مذہب کے پیدا ہونے پر پچھلا مذہب تو بد ستور باقی رہ جاتا ہے اور ایک نیا مذہب قائم ہو جاتا ہے.حضرت مسیح کی بعثت پر یہودی یہودی ہی رہ گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر بھی بدستور یہودی یہودی اور نصرانی نصرانی ہی رہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام میں نئے نئے فرقے پیدا ہوگئے تھے وہ بھی باقی رہ گئے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد پر ایک نئی جماعت قائم ہو گئی.غرضیکہ نئے مذاہب اور فرقوں سے فائدہ کیا؟ اور ان پہلے پرانے مذاہب اور فرق کے……سے نتیجہ کیا حاصل ہوتا ہے؟ جواب فرمایا کہ یہ تو ایک سیدھی اور صاف بات ہے اللہ جلّ شانہ کا نام ربّ العالمین ہے اس کی ربوبیت کا اثر عناصر کو نباتات اور نباتات کو حیوانات اور حیوانات کو انسان بناتا اورپھر اپنی ربوبیت سے ہی انسان کو باخدا انسان اور پھر مقرب بارگاہِ الٰہی بناتا ہے اورپھر اس کی یہ ربوبیت صرف ایک ہی زمانہ تک محدود نہیں بلکہ ہر زمانہ اور ہر آن میں اس کی شان ربوبیت اپنی مخلوق کے شامل حال رہتی ہے چنانچہ ہم ہرزمانہ میں اللہ تعالیٰ کے عجائبات قدرت، اس کے رحم، اس کے کرم اور اس کی شان کبریائی کا نئے نئے رنگ میں نظارہ کرتے ہیں.

Page 7

ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ میں ……حضرت موسیٰ ؑکو اللہ تعالیٰ نے باخدا انسان بنا کر کامل اور مکمل بنایا کہ اس نے لوگوں کو ایک باخدا انسان بنایا اور اپنا قرب ان کو عطا کر کے اپنی ربوبیت کی شان کا نمونہ دنیا میں ظاہر کیا.وہ ایک ایسا وقت تھا کہ یہودی فرعون کے ظلم و ستم اور طرح طرح کے دکھوں کے نیچے آنے کی وجہ سے انسانیت کے درجے سے بھی بہت نیچے گر گئے تھے.جیسا کہ آیت الخ(البقرۃ:۵۰) سے استنباط ہوتا ہے سو ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ الصلوٰۃ السلام کے ذریعہ اس قوم کو انسان اور پھر باخدا انسان اور پھر مقربانِ بارگاہ الٰہی بنا کر اپنی ربوبیت کا اظہار کیا.پھر ایک زمانہ کے بعد جب کہ یہودی وہ موسوی یہودی نہ رہے بلکہ ان کا صرف یہودیت کا دعویٰ ہی دعویٰ رہ گیا وہ ممتاز نہ رہے بلکہ اپنے اعمال بد کی وجہ سے انسانیت سے بھی گرگئے.وہ موحد نہیں بلکہ مشرک، وہ خدا پرست نہیں بلکہ دنیا پرست رہ گئے اور ایسے گرے کہ وہ خدا سے بالکل دور جاپڑے تو پھر خدا کی شان ربوبیت نے مسیح علیہ السلام کو پیدا کر کے اپنی شان کا جلوہ ظاہر کیا اس وقت نام کے یہود نے کیسی مخالفت کی مگر بہت نے مسیح کی تعلیم کی وجہ سے اعلیٰ ترقیاں پائیں اور وہ باخدا اور مقرب بارگاہِ الٰہی بنے.مگر پھر جب ایک زمانہ گزرنے پر ان میں بھی سستی اور کاہلی پھیل گئی اور وہ خدا کے احکام کو ترک کر کے شرک میں گرفتار ہوگئے اور ان کا اصل فرقہ باقی نہ رہا بلکہ گندے اور بت پرست لوگوں کا ایک فرقہ باقی رہ گیا.پیٹرا مون کو چھوڑا تو مسیح علیہ السلام کو پکارنا شروع کر دیا.غرض جب یہ حالت ہو گئی تو پھر خدا کی ربوبیت نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اپنی ربوبیت عامہ کا جلوہ دکھایا اور قدیم بت پرستانِ عرب کو جو مسلّمہ طور پر انسانی حالت سے بھی گرے ہوئے تھے پہلے انسان پھر باخدا انسان اور پھر مقربانِ بارگاہِ الٰہی بنا کر دکھادیا اور ہزاروں ہزار یہودی اور ہزاروں ہزار عیسائی قوموں کی قومیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی تعلیم کے نیچے آکر توحید کی قائل ہوئیں حتی کہ حضرت امام حسن بصری جیسے عظیم الشان لوگ جو کہ عیسائی خاندان سے تھے.ان لوگوں کو توحید سکھائی اور یہ خدا کی ربوبیت عامہ کا ایک خاص جلوہ تھا.اسی طرح سلمان فارسی عیسائی تھے جو آخر اہل بیت نبوی میں شامل

Page 8

ہونے کا فخر پاگئے.آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طفیل یہودیوں میں بھی اسلام آیا اور صرف اڑھائی قومیں رہ گئیں جو اسلام سے باہر ہیں.جس کا نمونہ کچھ لاہور میں یہودی کنجریوں کے رنگ میں موجود ہے.اس طرح سے مسلمانوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک انفاس کے ذریعہ سے بڑی مخلوق باخدا اور مقرب الٰہی بنی اور برابر تین سو برس تک اسی طرح ہوتی رہی.پھر ہر صدی کے مجدد کے زمانہ میں سچائی کے قبول کرنے کے ذریعہ سے نئی نئی نسل مقرب الٰہی بنتی رہی.دیکھو حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام باقر جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ذریعہ ابوبکرؓ وعمرؓ تو مقرب نہیں بنے تھے بلکہ ان کے زمانہ میں ان کے زمانہ کی موجودہ نسل ان کی پاک تعلیمات کے نیچے آکر باخدا اور مقرب بنی.پھر خواجہ معین الدین چشتی ؒ، شیخ شہاب الدین سہروردی، خواجہ نقشبند اور امام ربّانی الف ثانی کے ہاتھ بڑی بڑی مخلوق اور ایسی مخلوق جو کہ اپنی انسانی حالت سے بھی گر چکی تھی ان میں سے ہزاروں ہزار انسان باخدا اور مقرب بارگاہ بنے.پھر ان کے انتقال ہوجانے پر اور کئی اولیاء دنیا میں پیدا ہوئے جن کے ذریعہ سے خدا کی شان ربوبیت نے پھر ہزاروں لوگوں کو ادنیٰ اور گری ہوئی سفلی زندگی سے نکال کر اعلیٰ پایہ کا انسان بنا دیا.اس زمانہ موجودہ میں ہمارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں لوگ کس قدر بدعات، شرک اور کفر میں مبتلا تھے.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اس پُر آشوب زمانہ میں لوگوں کا صرف اس امر کا اقرار کرنا کہ میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں یہ بھی زمانہ کی حالت کے لحاظ سے بڑی بھاری اور پاک تبدیلی ہے.یہ خدا کی ربوبیت ہے کہ ایک ایسی جماعت باخدا انسانوں کی پیدا ہوگئی جو کم از کم اللہ کے حضور اتنا تواقرار کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.دین کو دنیا پر مقدم کرانے والے ہی حضرت آدمؑ تھے، حضرت نوحؑ تھے، حضرت ابراہیمؑ تھے، حضرت موسیٰ ؑتھے، حضرت عیسی ؑ تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تمام خلفاء تابعین اور تبع تابعین تمام پاک نفس اور خدا کی طرف ہدایت لانے والوں کا یہی ایک اصول تھا.یہ ایک بیج تھا سب زمانوں میں یہی بویا گیا تھا.غرض اگر یہ لوگ دنیا میں نہ آئے ہوتے تو یاد رکھو کہ انسان انسان ہی نہ ہوتا بلکہ حیوان اور حیوان سے بھی بد تر ہوجاتا.

Page 9

ان سب کا الگ الگ زمانوں میں ظاہر ہونا اس واسطے ہوتا ہے کہ اگر تمام دنیا ایک ہی وقت میں باخدا اور مقرب بن جاوے تو پھر آئندہ خدا کی صفات اور ربوبیت معطل اور بے کار ہو جاتی ہیں.نیز ایک خاص وقت کی پاکیزگی ہمیشہ تک کے واسطے کافی نہیں ہو سکتی بلکہ جس طرح ہر زمانہ میں جسمانی ضروریات کے واسطے نئے نئے اور تازہ بتازہ سامان قدرت نے مہیا کئے ہیں اسی طرح سے روحانی سلسلہ کے واسطے بھی روحانی زندگی اور پاکیزگی کے سامانوں کی ہمیشہ تازہ بتازہ ضرورت ہوتی ہے.سو اس طرح سے اگر ایک ہی وقت میں تمام کچھ جو ہونا تھا ہو چکا ہوتا تو اس میں بہت نقص لازم آتا تھا دوسری بات یہ ہے کہ بنے ہوئے ہی کو نہیں بنایا جاتا بلکہ دوسروں کو بنایا جاتا اور جو مردہ ہوتے ہیں اور روحانی ترقیات کے محتاج ہوتے ہیں ان کو زندہ کر کے ترقیات بخشی جاتی ہیں.حضرت اقدس ؑ کے پیش نظر بھی ایک وفات کا مسئلہ ہی تھا یعنی وفات مسیح کا ثابت کرنا.اب ہمارے آگے بھی وہی وفات ہی کا جھگڑا ہے اور ہے بھی وفات مسیح ہی کا.فرق ہے تو صر ف اتنا کہ وہاں تو نفس موت سے ہی انکار تھا مگر یہاں وقت اور بے وقت کا جھگڑا ہے مگر اس اختلافی امر پر ایک عقل مند سمجھ دار انسان کے واسطے حق کے پانے اور اس امر کے جانچنے کی کہ آیا کوئی صادق اور حق پر ہے ایک راہ کھلی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپؑ کی وفات پر ہم لوگوں نے بھی ایک نمونہ دکھایا ہے اور ہمارے مخالفوں نے بھی اپنی کرتوت بتا دی ہے.دشمن نے کیا کیا؟ سوانگ نکالے خود مردہ بنے اور اپنے ہی منہ کالے کئے.ایک ایسے شخص کو جو ملاں ڈپھل کے مجہول نام سے مشہور ہے اور جس نے خود اپنے نام کے ساتھ زٹلّی کا لفظ لگایا ہوا ہے قومی پیشوائی کے اعزاز کا تمغہ دیا وغیرہ وغیرہ.مگر اس کے مقابل پر ہماری جماعت نے کیسا پاک نمونہ دکھایا کہ ایسے نازک وقت میں صبر، استقلال اور نر می سے کام لیا.کسی نے جزع فزع نہیں کی، کسی نے بے صبری اور گھبراہٹ کاکوئی نمونہ نہیں دکھایا بلکہ سب نے بڑے ثبات ہمت سے خدائی امتحان کو قبول کیا اور کوئی کمزوری قولاً فعلاً نہیں دکھائی.

Page 10

اب ایک سمجھ دار عقلمند انسان اندازہ لگا سکتا ہے کہ انسانیت کے اعلیٰ پایہ کا ثبوت کس قوم نے دیا اور کس نے انسانی حالت سے گھٹیل کام دکھایا.یہ ایک نقطہ معرفت ہے.اگر انسان کو سچائی کسی طرح سے بھی نہ سمجھ میں آوے اور حق اور باطل میں وہ تمیز نہ کر سکے تو اس کو چاہیے طرفین کے حالات ، عمل و اعتقادات پر نظر ڈال کر دیکھے کہ آیا ان دونوں میں سے پاکیزگی اور طہارت کا پہلو کس قوم نے اختیار کیا ہے اور کون اسوئہ حسنہ ہے جو موجود ہے.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.یہ دیکھ لے کہ وہ حالات خدا کے برگزیدوں میں آنحضرتؐ کی زندگی میں یا صحابہ کرام کے حالات میں یا تابعین تبع تابعین کی زندگی میں اس کا اسوہ ملتا ہے یا کہ نہیں.اگر وہ علامات نہیں پائے جاتے تو بات صاف ہے یہاں دلائل کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی تو صرف اتنا دیکھنا اور مقابلہ کرنا رہ جاتا ہے کہ آیا خدا کی ربوبیت کے نیچے رہ کر کام کرنے والی قوم کیا کام کرتی ہے اور ان کے اعمال کیسے ہیں اور اس کے بالمقابل خدائی ربوبیت سے باہر رہ کر چلنے والی قوم کے اعمال کیا ہیں اور اس کی زندگی کس انداز پر چلتی ہے؟ خدا کی ربوبیت سارے کام کرتی ہے ہر آن اور ہر زمان میں وہ کام کرتی ہے اور وہ کبھی معطل و بیکار نہیں رہتی.فرمایا.یہی وجہ ہے کہ ہمارا تو ایمان ہے اگر ایک وقت میں بعض انسان بعض تکالیف میں ہیں نہیں تو اس سے یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا جاسکتا کہ واقعی وہ خدا کے غضب کے نیچے ہیں بلکہ روح انسانی ہمیشہ کی ترقیات کے واسطے بنائی گئی ہے اگر آج کمزوری ہے تو وہ کل دور ہوسکتی اس دنیا کی تنگیوں و تکالیف کی.........تلافی کے واسطے دوسرا جہاں بھی موجود ہے.فرمایا.ہمیں تو اللہ کے اس فضل کی یاد سے بڑا سرور اور راحت ہوتی کہ اس نے قوم میں کیسی وحدت بخشی ہے اس کا نمونہ دنیا میں کسی جگہ نہیں ملتا ایک طرف تو دشمن حضرت مرزا صاحبؑکی وفات کو بے وقت بے وقت کہتے ہیں دوسری طرف قوم پھر بھی ایک ہی رسی میں اور ایک ہی جھنڈے کے نیچے جمع ہو رہی ہے.یہ خدا کا خاص فضل ہے اور حضرت مرزا صاحبؑ کی صداقت کے واسطے ایک زندہ

Page 11

ثبوت اور بین دلیل.اور آپ کی سچی دعاؤں اور دلی آرزؤوں اور تڑپ کا یہ نتیجہ ہے کہ آپ کی قائم کردہ جماعت میں تفرقہ نہیں ہوا بلکہ بیش از پیش جوش خدمت دین اور تائید حق کے واسطے ان کے دلوں میں ولولے پیدا ہوتے ہیں.ایک قدرت کا نمونہ قوم نے پہلے دیکھا ہے اب دوسری قدرت بھی خدا دکھانے کو قادر ہے.مگر چاہیے کہ ہم سب کمر بستہ ہوکر مل مل کر خدا کے حضور دعائیں کریں اور خدا سے خدا کے فیضان طلب کریں اور قدرت ثانی کے ظہور کے واسطے جوراہ خدا کے برگزیدہ مسیح نے الوصیت میں لکھی ہے اس پر کاربند ہوجاویں.خدا قادر ہے اور وہ اپنے وعدے کا سچا ہے.خلاصہ کلام یہ ہوا کہ تعظیم الٰہی اور شفقت علیٰ خلق اللہ کے لئے تعلیمات الٰہیہ دنیا میں قائم ہوا کرتی ہیں.جب ایک جماعت اس اصل صحیح کے لئے پیدا ہوجاتی ہے تو نئے مصلح کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اس کی جماعت اس کام کو کرتی ہے کہ تعظیم بھی قائم ہو جاوے اور شفقت علیٰ خلق اللہ کا عمل شروع ہو جاوے.ہاں جب ان میں سستی پیدا ہوجاتی ہے تو اس کے لئے پھر اللہ تعالیٰ ایک مصلح پیدا کردیتا ہے.تمام ان مصلحوں کا ایک ہی مذہب ہوتا ہے اور وہ سب ایک ہوتے ہیں.ہمارے سیّد مولیٰ کواسی واسطے (الانعام: ۹۱)کا ارشاد ہوا.عبد الرحمن قادیانی (الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ۱۳،۱۴) ایک دردِ دل کا اظہار ۱۶؍جولائی ۱۹۰۸ء کے درس قرآن شریف میں سورۃ الشوریٰ کا پہلا رکوع تھا.آپؓ نے ابتداء درس میں فرمایا کہ اس سورۃ شریف کا ابتدا نہایت ہی عجیب رنگ میں ہوا ہے اور اس میں بڑے بڑے باریک اسرار اور پُر معارف نکات بھرے ہوئے ہیں مگر آج میری طبیعت پر ایسا کچھ غیر معمولی صدمہ ہے کہ طبیعت میں ان معارف اور باریک علوم کے بیان کرنے کی برداشت نہیں.خدا کا فضل اور

Page 12

توفیق شامل حال رہی اور زندگی ہوئی تو انشاء اللہ کسی دوسرے وقت بیان کروں گا.(الحکم جلد۱۲ نمبر۴۲ مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ۱) القول الفصیح فی تائید المسیحؑ ۱۶؍جولائی ۱۹۰۸ء کے درس قرآن شریف کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ آج مجھے ایک نہایت ہی لطیف سوال اور اس کا نہایت ہی لطیف جواب پہنچا ہے چونکہ وہ ایک علم اور معرفت کا نکتہ ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میں تم لوگوں کو بھی اس سے آگاہ کروں.وھو ھٰذا حضرت ام المؤمنین نے حضرت اقدسؑ سے آپؑ کی زندگی میں یہ سوال کیا کہ ہم لوگ آپؑ کے واسطے آپ کی زندگی میں اور بعد الموت کس رنگ میں دعا کریں؟ نفس سوال ہی کس شان کا ہے؟ صاحب ذوق لوگ اس کو خوب سمجھتے ہیں مگر اس کے جواب سے جس ایمان اور صداقت کا ثبوت ملتا ہے وہ نہایت ہی پُر ذوق اور وجد انگیز ہے.اس سوال کے جواب میں حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ میرے واسطے جب جب بھی کوئی دعا کرے تو ان الفاظ میں کرے کہ جب نبی کریم کے واسطے دعا کرے اور آپؐ پر درود بھیجے تو ہمارے واسطے بھی ان الفاظ میں اللہ جلّ شانہ کے حضور التجا کرے کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی خُلَفَآئِ مُحَمَّدٍ اب ظاہر ہے کہ اس میں حضرت اقدسؑ نے اپنا نام یا کوئی اور خصوصیت نہیں کی بلکہ صرف خلفائے محمد کے واسطے دعا کا ارشاد فرمایا.غور کرنے والے دل اور ایک پاک دل اور خدا ترس متقی انسان کے واسطے صرف یہی ایک امر آپؑ کی صداقت اور منجانب اللہ ہونے کاکافی ثبوت ہے.ظاہر ہے کہ اگر (نعوذ باللہ)آپؑ کے یہ تمام دعاوی از خود ساختہ اور افتراہی ہوتے تو آپؑ ان الفاظ میں دعا کرنے کے واسطے ہر گز ہر گز نہ فرماتے بلکہ نام وغیرہ کی خصوصیت کی ضرور قید لگاتے.پس موجودہ صورت جواب اس امر کی ایک روشن دلیل ہے کہ حضرت اقدسؑ کو اپنے مامور من اللہ اور خلیفۃ اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جانشین ہونے کا یقین کامل تھا اور آپؑ کو پورا وثوق

Page 13

اور بصیرت حاصل تھی کہ آپ کا نام آسمان پر خدائی دفتر میں خلیفۃ اللہ اور خلیفۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم درج ہے اور ضروری ہے کہ جب کوئی مومن صدقِ دل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاء کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرے گا تو آپؑ کو ان دعاؤں کا اثر ضرور پہنچے گا.حضرت خلیفۃ اللہ حضرت مسیح موعود مہدی مسعودؑ کے دشمنوں اور ان لوگوں کے واسطے جو لوگ آپؑ کو نعوذباللہ مفتری اور کذّاب وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں یہ امر قابل غور ہے کہ اگر آپؑ واقع میں ویسے ہی ہوتے جیسا کہ ان لوگوں کو شیطان نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے اور دل میں آپ کو اپنی ماموریت اور منجانب اللہ ہونے کا یقین نہ ہوتا تو آپ کم از کم اپنے واسطے اس رنگ میں تو دعا کرنے کی تعلیم نہ فرماتے بلکہ اپنے واسطے کوئی خاص خصوصیت پیدا کر جاتے.ایک غور کرنے والا دل ودماغ اگر صدق نیت اور خلوص طویّت سے حق کی پیاس اور سچی تڑپ لے کر انہی باتوں میں غور کرے کہ اس پاک باز انسان نے اپنے نفس کے واسطے کیا بنایا؟ پھر اپنے نفس کے بعد انسان کو اپنی اولاد اور اقارب کا خیال ہوتا ہے تو ان کے واسطے آپ نے کیا کیا؟ یہ دو سوال اور ان کے جواب ہی اس کے واسطے حق پا جانے کے واسطے کافی ہو سکتے ہیں بشرطیکہ پاک دل اور طالب حق ہو.اپنے نفس کے واسطے تو آپؑ نے یہ کیا کہ تم ہمارے واسطے دعا کرو اور وہ بھی نام لے کر نہیں، کسی خصوصیت سے نہیں بلکہ یوں کہو کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی خُلَفَآء ِ مُحَمَّدٍ باقی رہی اولاد اور اقارب سو ان کو بھی آپؑ نے اللہ کے سپرد کیا ہے اور آپ کی وصایا میں کبھی نہ پاؤ گے کہ میری اولاد کی خدمت کرنا یا میرے اقارب کو نذر نیاز دینا.بلکہ آپ کی وفات پر باوجود آپ کی اولاد اور اقارب میں سے لائق اور قابل انسانوں کے ہوتے ہوئے ایک غیر کا خلیفہ مقرر ہونا اور پھر تمام خاندان نبوت کا اس کوصدق دل اور شرح صدر سے خلیفہ مان کر اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینا یہ بھی آپؑ کی صداقت کی ایک روشن دلیل ہے.

Page 14

اب بھلا تم ہی اے دشمنانِ مسیح اور مکذّبان مرسل خدا ! ذرا انصاف سے بتاؤ کہ کیا یہی علامات ہیں جن سے تم نے ایک فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول پاکباز کے حق میں حبّ دنیا اور جاہ طلبی کے فتوے دیئے ہیں ( یٰسٓ : ۲۷) پس یقین جانو کہ جس رنگ میں اس صادق انسان کے حالات میں اور طرز زندگی میں غور کرو گے اور آپ کی لائف کا جوورق بھی الٹو گے اسی میں لکھا ہوگا کہ آپؑ ضرورت حقہ کے وقت آئے اور صادق تھے مصدوق ہوئے اور عین وقت پر اپنا تمام کام پورا کر کے رفیق اعلیٰ میں جا ملے.پس ہم دل سے دعا کرتے ہیں.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی خُلَفَآئِ مُحَمَّدٍ.)عبدالرحمٰن قادیانی).(الحکم جلد۱۲ نمبر ۴۵ مورخہ ۲؍اگست۱۹۰۸ء صفحہ۴) ایک بزرگ کا امراء سے پیسے لے کر غرباء کو دینے والی حکایت حضرت خلیفۃ المسیح اکثر اپنے درس اور وعظ میں ایک مفید نتیجہ خیز اور پُر مغز حکایت بیان فرمایا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایک بزرگ جو کہ بڑے باخدا اور کامل انسان تھے.ان کا یہ دستور تھا کہ وہ اکثر اپنے شہر کے امرا کے ہاں چلے جاتے اور ان سے چند پیسوں کا سوال کرتے مثلاً آج ہمیں کی یا کی سخت ضرورت ہے آپ دے ہی دیں.ان کی وجاہت اور ایسی خفیف سی رقم لوگ عموماً ان کو دے ہی دیا کرتے تھے.ان کا یہ کام تھا کہ ان سے لے کر باہر نکلے اور کوئی محتاج سائل فقیر سامنے آیا تو جو کچھ ملا اس کو دے دیا.ان کے کسی مرید یا شاگرد کو ان کے اس طرز عمل کی خبر ہو گئی کہ پیر صاحب لوگوں سے سوال کیا کرتے ہیں اور وہ بھی نہایت ایک حقیر سی رقموں کا.وہ اس ٹوہ میں لگ گیا.خدا کی شان ایک دن وہ شاگرد اس مطلب کے واسطے ان کے پیچھے ہو لیا مگر ان کو خبر نہ تھی.چنانچہ انہوں نے ایک شخص سے سوال کیا اس دن اس نے ان کو جھڑک دیا اور نہایت ترش روئی کی مگر آخر ان کے اصرار اور الحاح سے اس نے کچھ پیسے ان بزرگ کو دے ہی دئیے.شاگرد یا مرید جو کچھ بھی کہ وہ تھا اس کو یہ امر نہایت شاق گزرا اور پھر یہ معلوم کر کے کہ وہ پیسے انہوں نے باہر نکلتے ہی ایک سائل کو دے دئیے ہیں جو کہ

Page 15

ایسی لجاجت اور ایک طرح کی بے شرمی سے انہوں نے حاصل کئے تھے.اس کی حیرت اور بھی بڑھ گئی اور اس راز اور حقیقت کے معلوم کرنے کے لئے اور بھی خواہش مندہوا.وہ بزرگ جو کہ اس کے پیرو مرشد یا اُستاد تھے.ا پنے مکان پر پہنچے تو اُس نے اس راز کی عقدہ کشائی چاہی اور سارا ماجرا بیان کر دیا کہ میں بھی اس کے ساتھ ساتھ ہی تھا.آپ میرے واسطے اس عقدہ کو حل فرما دیں کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ ایسے بزرگ پاک نفس، خدا رسیدہ انسان اس طرح کی ذلت گوارا کریں اور پھر اس کے نتیجہ سے کوئی ذاتی فائدہ بھی نہ اٹھائیں اور ایسا ایک عبث فعل کریں.یہ آپ کی شان کے شایان نہیں.آپ مہربانی فرما کر مجھ پر یہ عقدہ کھول دیں اور اس راز سے مجھے آگاہ فرما دیں.وہ بزرگ اس کی اس کارروائی پر بہت متعجب ہوئے اور اپنے افشائے راز ہو جانے سے بہت گھبرائے ……… آخر اس کے اصرار کی وجہ سے اس سے یوں مخاطب ہوئے.’’دیکھو میں اس شہر میں رہتا ہوں اور یہ لوگ میرے اہل شہر ہونے کی وجہ سے میرے ہمسائے ہونے کا حق رکھتے ہیں.شریعت الٰہیہ میں جہاں جہاں حق اللہ کی ادائیگی کے واسطے تاکیدی احکام نافذ فرمائے ہیں وہاں حق العبادکا ادا کرنا ایک بہت بڑا بھاری جزو ایمان قرار دیا ہے اور پھر حق ہمسائیگی کی اور بھی خصوصیت بیان ہوئی ہے.لہٰذ ااُن لوگوں کے بوجہ میرے ہمسایہ ہونے کے مجھ پر بہت سے حقوق واجب الادا ہیں.سو ان حقوق کی ادائیگی اور بجاآوری کے لئے میں نے یہ راہ اختیار کی ہے.تم جانتے ہو کہ انسان ایک کمزور اور ضعیف الخلقت ہستی ہے اور اس سے کمزوریاں ، سُستیاں کوتاہیاں اور غفلتیں ہو ہی جاتی ہیں.خصوصاً یہ لوگ جو بڑے بڑے امراء اور رئوسا ہیں یہ تو ایسی غفلتوں میں اکثر مبتلا رہتے ہیں اور ہر کمزوری یا غفلت کا لازمی نتیجہ کچھ دکھ ، درد، بیماری یا مصیبت وغیرہ ہوتا ہے.پس میں نے ان کی حالت پر رحم کھایا اور ان کی ہمدردی نے مجھے اُکسایا کہ میں ان سے کچھ لے کر غرباء، فقراء اور مساکین کو دوں.تا وہ صدقہ ان کی بعض غفلتوں کی تلافی کرتا رہے اور ان پر آنے والے مشکلات کے لئے وہ صدقہ سپر ہو جایا کرے.میں ان سے کچھ نہ کچھ گاہ گاہ وصول کر کے

Page 16

محتاجوں کو دے دیا کرتا ہوں اور خدا سے ان کے واسطے التجا اور دعا کیا کرتا ہوں کہ تو ان کی حالت پر رحم فرما اور یہ صدقہ ان کی طرف سے تو خود قبول فرما کیونکہ تو بڑا ہی رحیم کریم ہے.‘‘ (ماخوذ از مضمون ’’ایک مٹھی آٹا‘‘الحکم جلد۱۲ نمبر۴۹،۵۰مورخہ ۲۶.۳۰؍اگست۱۹۰۸ء صفحہ ۵) مسیح موعود ؑ کے عقائد و دعاوی کی حلفاً تصدیق میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اعلان کرتا ہوں کہ میں مرزا صاحب کے تمام دعاوی کو دل سے مانتا اور یقین کرتا ہوں اور ان کے معتقدات کو نجات کا مدار ماننا میرا ایمان ہے.(تشحیذ الاذہان جلد ۳ نمبر ۸ ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۳۳۸ حاشیہ) آپ کے انتخاب خلافت میں سِرّ علامہ نور الدین کو اللہ نے اپنے مسیح کی خلافت کے لئے چن لیا اس میں سرّ کیا ہے وہی جو ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں مولوی صاحب نے خود بیان کیا تھاکہ خدا تعالیٰ نے  (النور: ۵۶) فرمایا ہے.عمل صالح کئی قسم ہے.بعض کا تعلق خود اس کی ذات سے ہے اس کا نفع و نقصان بھی اسی تک محدود ہے.بعض کا تعلق اپنی اہلِ بیت سے ہے سو اس کا اثر بھی چند اشخاص تک محدود رہتا ہے.بعض کا تعلق اپنی قوم سے ہے اور بعض کا غیر اقوام سے بھی.اور تو مجھ میں کچھ نہیں مگر یہ ضرور تھا کہ میں نے بلا کسی بخل کے تمام جہان کے لوگوں سے ہمدردی کی ہے اور ان کی نفع رسانی اور بہتری و بہبودی میں کبھی کسی قسم کاکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.سو اس کا اجر مجھے یہ ملا.میں نے قرآن مجید کی اشاعت کے لئے کئی لوگوں کو بڑے بڑے خرچ دے کر پڑھایا مگروہ پڑھ کر میرے مطلب کے ثابت نہ ہوئے.آخر خدا نے میری محنت کو ضائع نہ کیا اور کئی انگریزی و عربی و سنسکرت و عبرانی دانوں کو میرے تابع کردیا.اکیلے خانہ کعبہ کا طواف مولوی نور الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے خانہ کعبہ کا طواف ایک دفعہ ایسے وقت میں کیا جبکہ کوئی اور طواف نہیں کررہا تھا.

Page 17

خفیہ کمیٹیوں والے کامیاب نہیں ہوتے خلیفۃ الامام نے(المجادلۃ:۹) پر تقریر فرماتے ہوئے بیان کیاکہ خفیہ کمیٹیوں والے کبھی کامیاب نہیں ہوئے.پھر اسی ضمن میںفرمایا کہ میں اتنے سال حضرت کی صحبت میں رہا ہوں مگر آپ سے میں نے کبھی ایک سیکنڈ کے لئے بھی تخلیہ نہیں کیا.ان کے بیٹے اور دوسرے گھر والے مرد اور تم سب بیٹھے ہو کوئی تم میں نہیں کہہ سکتا کہ کبھی ایسا اتفاق ہوا ہو.بلکہ آپ کی عادت تھی کہ اگر کوئی الگ بات کہتا تو آپ اس کے ساتھ باتیںکرتے کرتے اتنی بلند آواز سے بولنے لگتے کہ کوچہ میں چلنے والے بھی سن لیتے.یہ ان کے کامل مومن اور من جانب اللہ ہونے کا ثبوت ہے.(ماخوذ از مضمون ’’ذوق کی باتیں‘‘ البدر جلد نمبر ۷ نمبر ۳۴ مورخہ ۳؍ ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۱) قرآن مجید سننے کی تحریک حضرت امیر المومنین نے ہر جمعہ کو رکوع یا رکوع کا حصہ ابتدا سے سنانا شروع کیا ہے آپ نے ایک دفعہ لاہور میں فرمایا تھا کہ اگر مسلمان ہر جمعہ کو بھی ایک رکوع سنیں تو تھوڑی مدت میں تمام قرآن مجید سن سکتے ہیں.(البدر جلد۷ نمبر ۳۴ مورخہ ۳؍ ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۲) بوقت بیعت دہرائے جانے والے الفاظ وہ الفاظ جن میں حضرت اقد س مسیح موعود ؑ بیعت لیتے تھے ہاتھ میں ہاتھ دے کر آپ فرماتے جاتے ہیںاور طالب تکرار کرتا جاتا ہے.اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ.آج میں احمد ؑ کے ہاتھ پر اُن تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں میں گرفتار تھا اور میں سچے دل سے اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے ان تمام گناہوں سے بچتا

Page 18

رہوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ.۳ بار.رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَا عْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ.اے میرے ربّ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں کہ میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں.آمین.اس کے بعد آپ معہ حاضرین مجلس بیعت کنندہ اور اس کے متعلقین کے لئے دعا کرتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح والمہدی مذکورہ بالاالفاظ کے ساتھ یہ الفاظ بڑھاتے ہیں.آج میں نور الدین کے ہاتھ پر تمام اُن شرائط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں جن شرائط سے مسیح موعود و مہدی معہود بیعت لیا کرتے تھے اور نیز اقرار کرتا ہوں کہ خصوصیت سے قرآن وسنت و احادیث صحیحہ کے پڑھنے سننے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا اور اشاعت اسلام میں جان و مال سے بقدر وسعت و طاقت کمربستہ رہوں گا اور انتظام زکوٰۃ بہت احتیاط سے کروں گااور باہمی اخوان میں رشتہ اور محبت کو قائم رکھنے اور قائم کرنے میں سعی کرو ں گا.(البدر جلد ۷ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۷ ؍ ستمبر ۱۹۰۸ صفحہ ۱) ایڈیٹر صاحب ’’البیان ‘‘کے نام ایک خط رسالہ البیا ن کے ایڈیٹر نے ماہ جمادی الاول ۱۳۲۶ھ کے رسالہ میں پیغمبروں کی موت کی سرخی کی ذیل میں حضرت اقدس کی وفات کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارا یہ زمانہ نبوت کا زمانہ نہیں.اس پر حضرت خلیفۃ المسیح نے ان کو ایک خط لکھا ہے جو فائدہ عام کے واسطے درج ذیل کیا جاتا ہے.(ایڈیٹر بدر) جناب من ! ہمارا مذہب کیا ہے؟ مختصر اً عرض ہے.اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ.۱.اللہ تعالیٰ تمام صفات کاملہ سے موصوف اور ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے.اپنی ذات میں یکتا اور صفات میں بے ہمتا اپنے افعال میں لَیْسَ کَمِثْل اور اپنے تمام عبادات میں وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ.

Page 19

۲.ملائکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ان پر ایمان لانا لا بد ہے.۳.تمام کتب الٰہیہ ۴.تمام رسولوں اور نبیوں.۵.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ المکی و المدنی محمد بن عبداللہ ابن آمنہ خاتم النبیین رسول ربّ العالمین ہیں.اور آپ پر جو کتاب نازل ہوئی کیا معنے؟ اس پر اور ان تمام چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے.قرآن کریم بلا تحریف و تبدیل و کمی و زیادتی کے اسی ترتیب موجودہ پر ہم کو حضرت نبی کریم ؐ سے پہنچا.۶.تقدیر کا مسئلہ حق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام اشیاء جو ہیں اور جو ہوں گی اور جو ہو چکیں سب کا اللہ تعالیٰ کو اتم و اکمل طور پر علم ہے.جزئیات کا بھی وہ عالم ہے اور نیکی کا ثمرہ نیک اور بدی کا نتیجہ بد ہوتا ہے.جیسے کوئی کرتا ہے ویسا ہی پاتا ہے (المائدۃ: ۱۶).۷.بعد الموت نفس کو بقا ہے.قبر سے لے کر حشر ونشر، صراط، جہنم و بہشت کے واقعات جو کچھ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں سب صحیح ہیں.۸.صحابہ کرام کو ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہ سے معاویہ و مغیرہ رضی اللہ عنہ تک کسی کو برا نہیں کہتے اور نہ دل میں اُن کی نسبت بد اعتقاد ہیں.اہل بیت کو بدل اپنا محبوب و پیارا یقین کرتے ہیں.تمام بیبیاں حضرت نبی کریم ؐ کی حضرت خدیجہ وعائشہ سے لے کر اور تمام خاندان نبوت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام حسن سبط اکبر اور امام حسین سبط اصغر شہید کربلا اور ان کی والدہ بتول زہرا سیدۃ نساء اہل الجنۃ سب کو اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ گروہ بدل یقین کرتے ہیں.صَلٰوۃُ اللّٰہِ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ.اولاد امجاد مولیٰ مرتضیٰ علیہ السلام کو علی بن حسین زین العابدین اور محمد۱ باقر العلوم اور جعفر۲ الصادق سے لے کر زید بن علی اور اولاد صادق علیہ السلام میں … حسن عسکری تک سب کو علمائے باعمل اور ائمہ دین مانتے ہیں.امام ابو حنیفہ ؔ، مالک ؔ، شافعی ؔاور احمدؔ کو ائمہ فقہا سے، بخاری و مسلم ، ابودائود اور نسائی کوائمہ محدثین سے خواجہ معین الدین چشتی اور شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ نقشبند و شیخ احمد سرہندی ، شیخ شہاب الدین سہروردی ،

Page 20

ابو الحسن الشاذلی کو ائمہ تصوف.اس لئے ان کو مکرم معظم واجب التعظیم اعتقاد کرتے ہیں کتاب و سنت پر ان کا عمل ہے.اگر بتصریح وہاں مسئلہ نہ ملے تو فقہ حنفیہ پر اس ملک میں عمل کر لیتے ہیں.اور اس لئے ہی سفر میں گیارہ رکعت فرض اور حضر میں سترہ رکعت فرض اور تین رکعت وتر کے علاوہ بیس رکعت رواتب اور بعض چالیس رکعت تک پڑھتے ہیں.ہر رکعت میں الحمد اور کچھ حصہ قرآن کریم کا اور رکوع و سجود میں تسبیح و تحمید اور تشہد میں التحیات و صلوٰۃ وسلام و دعا پڑھتے ہیں.تمام رمضان شریف کے روزے رکھتے ہیں.چاندی میں ۵۲ تولہ چاندی پر چالیسواں حصہ اور ۷.تولہ سونے پر ۲ماشہ زکوٰۃ اور بارانی زمین پر عشر اور نہری و چاہی زمین پر بیسواں حصہ زکوٰۃ دیتے ہیں اور حج بیت اللہ کرتے ہیں.فضائل میں ترقی اور رذائل سے بچنے میں لگے رہتے ہیں.مرزا ؎ درین رہ گر کُشندم و دَر بسوزند نتابم رُوز ایوانِ محمدؐ پر ہر ایک کا عمل ہے بایں ہمہ.لوگ اور آپ ہم پر کیوں خفا ہیں ؟ ۱.اس لئے کہ مرزا نے دعویٰ مکالمہ الٰہیہ کا کیا مگراس دعویٰ کی بنا اس پر تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے صفات میں اَلاٰن کَمَا کَان ہے.پس اگر وہ پہلے کسی سے بولتا اور کلام کرتا تھا تو اب وہ کیوں نہیں بولتا.اور(الفاتحہ:۶،۷) میں دعا ہے کہ الٰہی انبیاء، صدیقوں، شہداء اور صلحاء کی راہ عطا فرما.اور ان راہوں میں ایک راہ مکالمہ کی بھی ہے.پس اگر ہم مکالمہ کے مدعی ہیں تو کیا کفر کیا ؟ بنی اسرائیل کو اس لئے عبادت عِجَل.....پر ملامت ہوئی(الاعراف:۱۴۹)کہ ان کا معبود ان سے بات نہیں کرتا اور ان کو ہدایت نہیں فرماتا.پس اس وقت مسلمان کیوں مکالمات الٰہیہ سے انکار کرتے ہیں.۲.دعویٰ امامت و تجدید دین.اس کی بناء مکالمات اور حدیث عَلٰی رَأْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ

Page 21

یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا(سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکرفی قرن المائۃ) اور سورۂ نور کی آیت استخلاف پر تھی اور ہمیشہ مجدد گزرتے رہے.پس اس صدی کو کیوں خالی چھوڑتے ہیں.۳.دعویٰ مہدویت جس کا مدار وہی مکالمات تھے اور حدیث لَا مَھْدِیُ اِلَّا عِیْسٰی(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ) صحیح حدیث اسفار حدیث میں موجود ہے.منجملہ ان کے ابن ماجہ میں بھی ہے.مگر جناب نے بہت حقارت و بری نگاہ سے اس کا نام روایت اور مرزا صاحب کی توہین کے لئے فرما دیاکہ حدیث کر کے مرزا نے اس روایت کو پیش کیا ہے.حالانکہ یہ حدیث ہے اور پھر کیا مجدد مہدی نہیں ہوتا.انصاف ! انصاف !! ۴.دعویٰ عیسیٰ ابن مریم ہونے کا.اس کا مدار بھی مکالمہ الٰہیہ تھا اور قرآن کریم کی آیت(التحریم:۱۳) پر تھی.اس آیت کریمہ سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مومن جس سے خطا ہو جائے وہ امرأۃ فرعون کی مثل ہے کہ شیطان کے ماتحت ہے وہ تو دعائیں کرے. (التحریم:۱۲) اور اس آیت میں ذکر ہے دوسری قسم کے مومن کا.دوسرا مومن وہ ہے جو محصن ہے وہ مریم ہوتا ہے اور جب اس پر کلام الٰہی کا نفخ ہوتا ہے تو مریم سے ابن مریم ہو جاتا ہے.اور تیسری وجہ ؎ چون مرا نورے پئے قومے مسیحی دادہ اند مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند چوتھی وجہ حدیث صحیح یَنْزِلُ فِیْکُمْ اِبْنَ مَرْیَمَ (صحیح بخاری کتاب البیوع باب قتل الخنزیر) ۵.آپ کا دعویٰ کہ ابن مریم مر گئے.اس کے دلائل کے لئے آپ نے اسی۸۰ رسالہ لکھے.۶.جو طبعی موت سے مر گئے وہ دنیا میں بایں جسم عنصری واپس نہیںآتے.(المؤمنون: ۱۰۱).

Page 22

۷.آپ نے ہزاروں پیشگوئیاں کیں جو صحیح ہوئیں.جو بظاہر کسی کو نظر آتا ہے کہ صحیح نہیں ان پر مرزا صاحب نے بہت کچھ لکھا ہے.آپ نے بااینکہ محمد رسول اللہ کو خاتم النبیین مانا اور ان کے عشق و محبت میں ہزاروں صفحہ نکلا ہے بے ریب لکھا ہے کہ میں نبی بمعنے پیشگوئی کرنے والا ہوں مجھے احادیث اور کلام الٰہی میں نبی کہا گیا.مگر نہ نبی تشریع.اور یہی مذہب تمام صوفیاء کرام کا ہے.فتوحات مکیہ باب الثالث و السبعون پر آپ غور کریں.آپ کی سرخی اور آپ کا مضمون کم سے کم چار لاکھ مسلمان احمدیوں کو دکھ دینے والا ہے.اگرچہ آپ کے ساتھ بھی بہت سے اخبار اور رسائل ہیں.مولوی صاحب آپ کا زمانہ نبوت کا زمانہ نہیں اس پر دریافت طلب امر ہے کہ آ پ کو اس بارے میں وحی نبوت ہوئی ہے کہ آپ کا زمانہ نبوت کا زمانہ نہیں یا آپ کی دہریت کا فتویٰ ہے.نور الدین...........................سماع ایک شخص نے ایک دفعہ بذریعہ خط حضرت صاحب سے پوچھاتھا کہ بعض صوفی جو سماع کے قائل ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا.خَیْرُہٗ خَیْرٌ وَ شَرُّہٗ شَرٌّ اور فرمایا کہ گانا مزا میر کے ساتھ حرام ہے.حضرت مسیح موعود ؑ پر درود ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح سے پوچھا کہ نماز میں حضرت مسیح موعود پر درود پڑھنا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا.لفظ آل محمد میں امام کا خیا ل کرلو اور نماز میں کچھ تغیر و تبدل ہرگز مت کرو.تاکید ہے.ہاں آخر نماز میں سلام سے پہلے جس قدر چاہو دعائیں مانگ لو جس زبان میں چاہو مانگو مگر نماز میں قطع و برید ہرگز نہ کرنا.نورالدین ۹؍اگست ۱۹۰۸ء (البدر جلد ۷ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۷ ؍ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ ، ۶)

Page 23

تمام جماعت احمدیہ کے نام فرمان ۱؎(النساء :۶۰) اس وقت میں اپنی تمام جماعت کو ایک نہایت ضروری امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس سلسلہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کا ایک ضروری جزو گورنمنٹ کی وفاداری تھی یہاں تک کہ کوئی کتاب آپ کی ایسی نہیں جس میں اس بات پر زور نہیں دیا گیا.آپ نے نہ صرف اپنی جماعت کو عام طور پر گورنمنٹ کے احسان اور اس کے برکات یاد دلاکر ہی یہ نصیحت کی تھی کہ وہ اس گورنمنٹ کے دل و جان سے وفادار اور ہر حال میں خدمات کے لئے تیار ہیں.جیسا کہ تعلیم قرآنی(الرحمٰن :۶۱)کا منشاء ہے بلکہ اپنی اس تعلیم سے کہ جہاد اور غازی مہدی کے آنے کا عقیدہ جو ایک دوسرے کے مؤید ہیں دونوں سراسر تعلیم الاسلام کے خلاف ہیں.اس سلسلہ میں شامل ہونے والوں کے دلوں کو ہر ایک قسم کی بغاوت اور فساد اور شر کے خیالات سے پاک کردیا تھا.ایسا ہی سال گذشتہ میں جب اس ملک ہندکے بعض اطراف میں بعض لوگوں نے فساد اور بغاوت کے خیالات پھیلانے شروع کئے تو اس وقت بھی ہمارے امام نے پُرزور الفاظ میں ساری جماعت کو یہ نصیحت کی کہ وہ گورنمنٹ کی وفاداری پر ثابت قدم رہیں اور نہ صرف ایسے لوگوں کے ساتھ جو گورنمنٹ کے خلاف لوگوں کو اکساتے ہیں شامل نہ ہوں بلکہ حتی الوسع اپنے دوسرے وطنی بھائیوں کے ان غلط اور مفسدانہ خیالات کی اصلاح کی کوشش کریں.چنانچہ ۷؍مئی ۱۹۰۷ء کے اشتہار میں جو بعنوان ’’اپنی تمام جماعت کے لئے ضروری نصیحت‘‘ شائع فرمایا تھا.آپ نے یہ تحریر فرمایا تھا کہ ’’ چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان دنوں میں بعض جاہل اور شریر لوگ اکثر ہندوؤں میں سے اور کچھ مسلمانوں میں سے گورنمنٹ کے مقابل پر ایسی ایسی حرکتیں ظاہر کرتے ہیں جن سے ۱؎ ترجمہ.اللہ اور اس کے رسول اور حکام وقت کی اطاعت کرو.

Page 24

بغاوت کی بُو آتی ہے بلکہ مجھے شک ہوتا ہے کہ کسی وقت باغیانہ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہوجائے گا.اس لئے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو جو مختلف مقامات پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہیں جو بفضلہ تعالیٰ کئی لاکھ تک ان کا شمار پہنچ گیا ہے نہایت تاکید سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ میری اس تعلیم کو خوب یاد رکھیں جو قریباً چھبیس ۲۶برس سے تقریری اور تحریری طور پر ان کے ذہن نشین کرتا آیا ہوں.یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ انگریزی کی پوری اطاعت کریں کیونکہ وہ ہماری محسن گورنمنٹ ہے.‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷۰۸) اور پھر اسی اشتہار میں آگے چل کر یوں تحریر فرمایا تھا.’’ سو یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ ایسا شخص میری جماعت میں داخل نہیں رہ سکتا جو اس گورنمنٹ کے مقابلہ پر کوئی باغیانہ خیال دل میں رکھے اور میرے نزدیک یہ سخت بد ذاتی ہے کہ جس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہم ظالموں کے پنجے سے بچائے جاتے ہیں اور اس کے زیر سایہ ہماری جماعت ترقی کررہی ہے.اس کے احسان کے ہم شکر گذار نہ ہوں.‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷۰۹) اس تعلیم کے ہوتے ہوئے مجھے ضرورت نہ تھی کہ میں کچھ لکھتا مگر اس وقت بعض اور واقعات ایسے پیش آگئے ہیں کہ حضرت امام کی ہی تعلیم کی یاددہانی میں ضروری سمجھتا ہوں.اس وقت بنگال میں اس بغاوت نے جس کے متعلق حضرت امامؑ نے فکر ظاہر کیا تھا بمب سازی کا خطرناک رنگ اختیار کیا ہے اور بعض شریر اور مفسد لوگوں نے بعض جوشیلے مگر کم عقل نوجوانوں کو ساتھ ملا کر ملک میں بدامنی اور بدعملی پھیلانی چاہی ہے.مگر خوش قسمتی سے اس باخبر گورنمنٹ نے وقت پر اطلاع پاکر مفسدوں کو گرفتار کرلیا ہے.ان مفسد لوگوں کی کارروائیوں کو ہم سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ جماعت جس کے امامؑ نے گورنمنٹ کے مقابلہ پر کسی باغیانہ رنگ اورخیال کے دل میں جگہ دینے کو سخت ترین بدذاتی قرار دیا ہے بلکہ ایسے شخص کو جماعت سے خارج کیا ہے تمام مفسدین کی کارروائیوں کو اسی طرح نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.پھر بھی میں اپنی تمام جماعت کو جس نے میرے ہاتھ پر

Page 25

بیعت کی ہے یہ تاکید اور نصیحت کرتا ہوں اور خصوصاً جماعت کے اس حِصّہ کو جو بنگال میں رہتے ہیں کہ وہ ایسے تمام مفسد لوگوں کی صحبت سے اجتناب کریں.بلکہ جس شخص کے خیالات میں کچھ بھی بغاوت اور فساد کی بُو آتی ہو اس سے قطع تعلق کریں اور حتی الوسع ایسے مفسد لوگوں کے حالات کو گورنمنٹ کے نوٹس میں لانے کی کوشش کریں اور جہاں تک ہو اس گورنمنٹ کی خدمت کو اپنی عین سعادت سمجھیں.ایک اور امر بھی اس جگہ ذکر کرنے کے قابل ہے.آج کل بہت سے اخبارات نے یہ رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ باغیانہ یا مفسدانہ خیالات کو پھیلاتے اور پبلک کو گورنمنٹ یا اس کے یوروپین افسروں کے خلاف اکساتے رہتے ہیں.میں اپنی جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ایسے اخباروں کو ہرگز نہ خریدیں اور نہ پڑھیں.اور نہ ہی ایسے لوگوں کے ساتھ جو اس قسم کے جرائم کے بدلے سزایاب ہوتے ہیں کسی قسم کی ہمدردی کا کوئی اظہار کرنا چاہیے کیونکہ ایسی ہمدردی دراصل ایک قسم کا ظلم ہے.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مفسدانہ خیالات کے پھیلانے کا جرم کوئی بڑا جرم نہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں.گورنمنٹ کے خلاف لوگوں کو اکسانے اور مفسدانہ خیالات کی اشاعت کرنا نہ صرف گورنمنٹ کے خلاف ہی کارروائی ہے بلکہ اس کا بُرا اثر عام طور پر ملک کے امن پر پڑتا ہے اور جو لوگ ایسے مفسدانہ خیالات کو پھیلاتے ہیں وہ ملک کے ساتھ بھلائی نہیں کرتے بلکہ وہ دراصل اپنے ہم وطنوں سے دشمنی کرتے ہیں.پھر یاد رکھو کہ بعض سوسائٹیاں قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہیں.قرآن میں ہے.۱؎ (المجادلۃ :۱۱) اور فرمایا ہے.۲؎ (المجادلۃ :۱۰).۱؎ ترجمہ.بات یہ ہے کہ بعض مشورے شیطانی ہوتے ہیں.۲؎ ترجمہ.اے مومنو مشورہ کرو بھی تو کسی گناہ، بغاوت ، رسول کی نافرمانی پر نہ کروبلکہ حقیقی نیکی اور تقویٰ پر کرو.

Page 26

یہ صریح احکامِ قرآن کریم ہیں.پس ہر ایک مسلمان کو ان صریح احکام کا پابند ہونا چاہیے.نیز یاد رکھو کہ ہمارے نبی کریمؐ جو ہمارے حقیقی مطاع و مقتدا ہیں صلی اللہ علیہ وسلم.آپ نے عملی طور پر مختلف گورنمنٹوں میں رہ کر اورصحابہ کرامؓ نے مکہ معظمہ کے بے قانون شہر و ملک میں کیسے تیرہ برس بسر کئے کہ عقل حیران ہوتی ہے.اور جب دیکھا کہ صحابہ کرامؓ پر طاقت سے زیادہ تکالیف پڑتی اور بڑھتی جاتی ہیں اور ایذائیں ناقابل برداشت ہیں تو آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو ارشاد فرمایا کہ ملک حبشہ میں جہاں کا بادشاہ مسیحی تھا ہجرت کردو.اس میں ایک مخفی راز یہ بھی تھا کہ میری قوم کو کسی نہ کسی وقت عیسائی سلاطین کے ماتحت رہنا پڑے گا.اس وقت مسیحی سلطنت کے ماتحت رہیں جس طرح صحابہ کرام حبش کے مسیحی بادشاہ کے ماتحت رہے.پس ہمارے اس سلطنت کے ماتحت رہنے کا نمونہ صحابہ کرام موجود ہیں جس طرح وہ حبشہ میں رہے اسی طرح تم ہندوستان میں رہو.یہ بات ہمیشہ یاد رکھوکہ ہمارے امامؑ صاحب کس طرح بلا طمع اور غرض کے اپنی اسّی کتابوں میں ہمیں تعلیم کرگئے ہیں.اس کی خلاف ورزی ہرگز مت کرو.اتباع قرآن و اتباع نبی کریم و اتباع صحابہ کرامؓ کو نہ چھوڑو.نور الدین (البدر جلد ۷ نمبر۳۵ مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۸ء صفحہ۱۰،۱۱) عورتوں کی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے ایک صاحب کا اپنی زوجہ کی نسبت شکوہ تھا.فرمایا.یہ ایک تجربہ شدہ بات ہے کہ جب کسی عورت کے واسطے بہت استغفار اللہ کے حضور میں کی جاوے تو اس کی اصلاح ہو جاتی ہے.عورتوں کی کمزوریوں میں رحم کرنا چاہیے کیونکہ ان کو حصول علم اور وعظ کے سننے اور تعلیم پانے کے وا سطے وہ موقع نہیں جو مردوں کے واسطے ہو سکتا ہے.پس وہ کس طرح اپنے علم و عقل میں مردوں کے برابر ہو جاویں.مردوں کو پہلے ہی سے یہ امید نہیں باندھ لینی چاہیے کہ

Page 27

عورت ہر امر میں اس کی ہم خیال اور مرضی کے موافق ضرور ہو گی.قابل قدر دلی ایمان ہے ملک عادل شاہ صاحب نے ترنگ زئی سے مجھے خط لکھا کہ حضرت خلیفہ صاحب اپنے نام کے ساتھ لفظ احمد لکھا کریں تو خوب ہو.( یعنی نو رالدین احمد ).فرمایا.آجکل یہ رواج ہے کہ لوگ اس طرح کے ناموں کے ساتھ لفظ احمد بڑھا دیتے ہیں یعنی سراج الدین احمد وغیرہ اور کوئی لکھ دے تو میں اس کو برا نہیں مناتا.لیکن میرے نزدیک یہ صرف ظاہری باتیں ہیں ان کی ضرورت نہیں.میرے لئے وہ ایمان کافی ہے جو میرے دل میں ہے اور خود لفظ نورالدین اپنے معنوں میں بہت بڑا لفظ ہے.دھوکے سے نکاح ناجائز ہے ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں خط لکھا کہ میری ایک جگہ نسبت ہو چکی ہے مگر میں اُسے پسند نہیں کرتا.ہاں چاہتا ہوں کہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اس لڑکی کی شادی کر ادوں.کیا یہ جائزہوگا کہ نکاح تو میں کر لائوں اور پھر طلاق دے کر اپنے بھائی کے ساتھ اس کا نکاح کر ادوں؟ فرمایا.اس کو لکھا جائے کہ یہ دھوکا ہے اور ہرگز جائز نہیں مومن کو چاہیے کہ صاف بات کرے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے.دنیا میں عورتوں کی کمی نہیں.متقی کے واسطے خدا تعالیٰ سارے سامان خود مہیا کردیتا ہے.لڑکی والوں کو صاف کہہ دینا چاہیے کہ ہم اس لڑکے کے واسطے نہیں بلکہ چھوٹے کے واسطے درخواست کرتے ہیں اور دعا کرنی چاہیے کہ خد اتعالیٰ وہ کام ہونے دے جو احسن ہو.مولوی فضل دین صاحب مرحوم خوشاب مولوی صاحب موصوف کی وفات کی خبر حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پہنچی.فرمایا کہ ان کا جنازہ جمعہ کے دن پڑھا جاوے.بڑے مخلص آدمی تھے اور دلیر مخلص تھے اللہ تعالیٰ مغفرت کرے.

Page 28

اتفاق اور اختلاف (۱۴؍ستمبر رات)بورڈنگ کے بعض طلباء کو مخاطب فرما کر فرمایا کہ دنیا میں اختلاف ہے ہر ایک کا مذاق جدا جدا ہے.مگر باوجود اس قدر اختلاف کے پھر بھی ان میں ایک وحدت ہے.خدا تعالیٰ واحد ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ وحدت پیدا ہو.فرماتا ہے (اٰل عمران:۱۰۴) یعنی تم سب کے سب مل کر اللہ کے رسے کو مضبوط پکڑ لو.تمہاری کھیل جو رسہ کھینچنے کی ہے اس سے مجھے یہ نکتہ سوجھا ہے کہ جیسے وہاں فریق مقابل کو زک دینے کے لئے ضروری ہے کہ سب کے سب یک دل ہو کر باوجود اختلاف قومی و خیالات زور لگاتے رہیں.اسی طرح اللہ کے رسے کو جس سے مراد قرآن مجید ہے دوسری قوموں کی زد سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ تم مل کر کام کرو.قرآن مجید پر تمام قومیں تمدنی ، تاریخی ،طبعی ، علمی ، عقلی غرض کہ ہر طرح کے اعتراض کر رہی ہیں اور چاہتے ہیں کہ قرآن مجید کی تعلیم کو نہ پھیلنے دیں.پس تمہیں چاہیے کہ ان کا زور توڑنے کے لئے اپنے میں علمی قوت پیدا کرو اور اتفاق سے رہو.وحد ت کے لئے ایک اختلاف کی بھی ضرورت ہے.دیکھو اگر رسے کے کھیل میں دوسری طرف مخالف زور لگانے والا کوئی نہ ہو تو یہ کھیل ہو ہی نہیں سکتا.اسی طرح ( حبل اللہ ) قرآن مجید کے مقابل میں زور لگانے والے لوگ بھی ضرور ہونے چاہئیں تھے.پر اب ضرور ہے کہ تم اتفاق سے یک دل اور یک جان ہو کر زور لگائو تا ایسا نہ ہو کہ فریق مخالف فتح پائے.(البدر جلد ۷ نمبر ۳۶ مورخہ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۵) قیام رمضان امیر المومنین مولوی نور الدین صاحب سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس بارے میں عبدالرحمن بن عبد القاری کے اثر سے کوئی صحیح نہیں.یہ وہی روایت ہے جس میں حضرت عمرؓ نے فرمایا.وَالَّتِیْ تَنَا مُوْنَ عَنْہَا اَفْضَلُ مِنَ الَّتِیْ تَقُوْمُوْنَ.یعنی اس نماز کا پچھلی رات پڑھنا افضل ہے.(ماخوذ از مضمون ’’ماہ صیام‘‘ البدر جلد ۷ نمبر ۳۶ مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۸)

Page 29

رسول کے واسطے استغفار ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ حضرت مرزا صاحب تو رسول خدا تھے آیاآپ کے جنازہ میں مغفرت والی دعائیں پڑھی جاویںیا نہ کیونکہ استغفار کے معنے ہیں گزشتہ غلطیوں کے بدنتائج سے حفاظت اور آئندہ ان کے وقوع و ارتکاب سے حفاظت اور یہاں دونوں مفقود.اس کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح مولوی حکیم نور الدین صاحب نے فرمایا کہ جنازہ میں مغفرت کی دعائیں پڑھنی چاہئیں کیونکہ کسی کا استغفار بہت سے پہلوئوں سے ہوتاہے کچھ اس کی ذات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور کچھ اہل وعیال اور متعلقین اور متبعین کے متعلق ہوتا ہے علاوہ اس کے ہر حصہ میںکامل ہونا تو عبودّیت کی شان کے بر خلاف ہے کامل طور پر سبوح و قدوس تو اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے باقی سب کو استغفار کی ضرورت ہے.(البدر جلد۷ نمبر۳۶مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۱۱) طلباء مدرسہ کو زرّیں نصائح ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۸ء کو بعد نماز مغرب حضرت خلیفۃ المسیح نے طلباء مدرسہ کو مخاطب کر کے فرمایا.ہر ایک لچکدار اور نرم شے کے لئے بہت سے عجائبات ہوتے ہیں نرم چیز کو جس طرف چاہو پھیرو وہ پھر جاتی ہے اور جس شکل میں اُسے بنانا چاہو اسی شکل کو بہ آسانی اختیار کر لیتی ہے لیکن اس خوبی کے ساتھ اس میں ایک دقت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کو جلد کِرم کھا جاتا ہے اور اس طرح وہ ایک خطرہ میں ہے.بچپن کے عالم کی مشابہت اسی نرم لکڑی کے ساتھ ہے.بچہ کیسا ہی با اخلاق نیک لائق معلوم دے پھر بھی اس کی عمر ایک ناواقف، نا تجربہ کار، نا سمجھ اور ناعاقبت اندیش کی عمر ہے.جب بڑا ہوگا تب ہی اس کو پورا تجربہ حاصل ہو گا.مدرسہ کے چھوٹے بچوں میں بعض دفعہ ایک خفیف سی چوری کی عادت ہوجاتی ہے.کسی کا نِب اٹھا لیا کسی کا قلم لے لیا.یہ اگر چہ بہت چھوٹی سی بات ہے مگر اس کا نتیجہ دور تک

Page 30

پہنچتا ہے کیونکہ انسان جبکہ ایک چھوٹی سی بدکاری کو اختیار کر تا ہے تو پھر اس میں بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بڑے بڑے مصائب میں گرفتار ہوتا ہے.ایسا ہی ایک عیب تکبر کا ہے.پہلے بچہ دوسرے بچوں سے اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر تکبر کرتا ہے رفتہ رفتہ یہ تکبر کی عادت اُس کے اندر راسخ ہو جاتی ہے اور بڑا ہو کر بھی وہ متکبر ہی رہتا ہے یہاں تک کہ کسی کو سلام ہی نہیں کر سکتا جس کی سزا میں اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بھی لوگوں سے ایسا معاملہ کر ادیتا ہے کہ پھر اس کوبھی کوئی سلام کرنا پسند نہیں کر سکتا.اسی طرح ایک عیب کاہلی اور سستی کا ہے.چھوٹے بچے ادنیٰ کاموں میں سستی کرتے ہیں تو رفتہ رفتہ سستی ان کی عادت میں داخل ہو جاتی ہے اور اگر دینی کاموں سے بے پرواہی کرتے ہیں تو آہستہ آہستہ دین سے بے تعلق ہوتے جاتے ہیں.دیکھو ایک ہندو بچہ اگرچہ اُس کو ہندو دھرم کے عقائد سے ہزار اختلاف ہو جب کوئی کتاب یا مضمون وغیرہ لکھتا ہے تو سرے پر لفظ اومؔ ضرور لکھ دیتا ہے مگر دین کی طرف سے بے توجہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان بچوں نے اپنے مضامین کے سرے پر بسم اللہ لکھنا ترک کر دیا ہے.بعض بچے آسودہ حال ہوتے ہیں اُن کی طرف دیکھ کر دوسرے فضول خرچ بننا چاہتے ہیں.یہ بھی ایک نقص ہے.قدرت نے سب کو یکساں نہیں بنایا.کوئی گورا ہے کوئی کالا ہے کوئی لمبا ہے کوئی چھوٹا ہے کوئی موٹا ہے کوئی دُبلا ہے.غرض سب باتوں میں اختلاف اور فرق ہے ایسا ہی مال ودولت کے لحاظ سے بھی لوگ یکساں نہیں ہیں بلکہ ان میں بہت فرق ہے.اس کے متعلق قرآن شریف میں ہے کہ …الخ (الحجر:۸۹)قسما قسم کے کفار کو جو کچھ دیا گیا تو ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھ یعنی ان کی کچھ پرواہ نہ کر.مجھ پرا للہ تعالیٰ کے بڑے احسان ہیں.میں طالب علمی کے زمانہ میں بڑے بڑ ے وسیع الخیال لوگوں کی مجلس میں رہا.ایک دفعہ مجھے خیال ہوا کہ بادشاہ بننا چاہیے.پس میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ میں بادشاہ کس طرح بن سکتا ہوں.لمبے منصوبوں کا ایک بڑا سلسلہ میرے دل میں سے گزرا.لڑائیوں کے مصائب ،دریائوں میں گرنا، قلعوں سے کودنا،جنگلوں میں سے گزرنا غرض تمام منازل طے ہو کر میں نے جاپان سے امریکہ تک

Page 31

فتوحات کیں اور تخت پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کرنا چاہیے.تب میں نے دیکھا کہ بادشاہ کے واسطے چاروں طر ف سے خطرات اور تفکرات ہیں اس کے واسطے کوئی آرام کی زندگی نہیں.اس قدر مصائب جس چیز کے واسطے اٹھائے گئے وہ اتنی قیمت نہیں رکھتی.تب میں نے اپنے شاہ بننے پر افسوس کیا اور شاہی کو چھوڑ دیا.۱؎اور ایسے خیالات کو ہمیشہ کے واسطے ترک کر دیا.یہ جنون نہ تھا بلکہ خدا تعالیٰ کا ایک فضل تھا.ا س کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں آج تک کبھی کسی پولیٹیکل سوسائٹی میں شامل نہیں ہوا.جس سے حکومت کے خیالات پیدا ہوں اور دنیوی عیش و آرام اور شا ن و شوکت کی اشیاء کبھی میری نگاہ میں کوئی عزت نہیں پاتیں.طالب علمی کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے میرے واسطے بڑے بڑے سامان مہیا کر دئیے تھے.میں شاہی ہاتھیوں اور گھوڑوں پر سوار ہوتا تھا مگر انہیں راستوں میں پاپیادہ بھی چلتا تھا.ہر دو امور میر ے واسطے یکساں تھے.خدا کے فضل نے میری دستگیری کی.بچپن کے عالم میں انسان کے واسطے بڑے بڑے مشکلات ہیں.ان کے دو علاج ہیں ایک دعا دوسرے صحبت صالحین.بچپن میں جو لوگ اپنے آپ کی حفاظت کرتے ہیں وہ بڑے ہو کر آرام میں رہتے ہیں.دیکھو ہم اس بڑھاپے میں ایسے عمدہ قویٰ رکھتے ہیں یہ اسی بچپن کی حفاظت کا نتیجہ ہے.بچوں کے واسطے تنہائی اچھی نہیں.تنہائی میں بہت سے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں اس سے بچناچاہیے.اب میں تمہیں ایک چھوٹی سی سورۃ سناتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (العصر:۲،۳) قسم ہے زمانہ کی انسان گھاٹے میں ہے.بہت لوگ زمانہ کو کوستے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں مگر یہ ان کی غلطی ہے خدا تعالیٰ زمانہ کی قسم کھاتا ہے.دیکھو! رسول اللہ ﷺ کا زمانہ کیسا مبارک زمانہ تھا کیسی تعلیم دنیا کے واسطے لایا.مگر انسان کی عمر اس زمانہ میں گھٹ رہی ہے لوگ کہتے ہیں عمر بڑھتی ہے مگر دراصل گھٹتی ہے برف کے پگھلنے کی طرح انسان کی عمر گھٹ رہی ہے ہمارا خدا ۱؎ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے آپ کوروحانی شاہ بنادیا جہاں چار لاکھ انسان کے دل آپ کے واسطے سچی ارادت کے ساتھ ّ مسخر ہیں.(ایڈیٹر)

Page 32

خوبیوں والا ہے اس کو پانے کے واسطے انسان کو چاہیے اپنے میں خوبیاں پیدا کرے.پنجابی میں ایک مثل ہے جس کو حضرت امام مسیح موعود بھی فرمایا کرتے تھے.بے مثل پاناچاہیں خود بے مثل ہو مومن کو خیال کرنا چاہیے کہ میرا مولا بدیوں سے پاک ہے وہ بدکا رکے ساتھ کس طرح تعلق رکھے گا.ایمان کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان نیک عملوں کی طرف جھکتا ہے.جب انسان خود نیک بنتا عمل صالح کرتا تو پھر دوسرے کو نیک بناتا حق سکھاتا اور صبر کی تعلیم دیتا ہے.آجکل لوگوں میں صبر نہیں ایک گالی سن کر پچاس دیتے ہیں ایسا نہیں چاہیے.غضب، شہوات اور حرص کے وقت صبر سے کام لینا چاہیے.اللہ تعالیٰ تم سب کو ایمان عطا کرے عمل صالح کی توفیق دے، حق پر چلائے اور دوسروں کو حق دکھلانے والا اور صبر سکھانے والا بنائے.(البدر جلد۷نمبر۳۷ مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۵) مقتولین جنگ کا معاملہ خدا پر چھوڑو ایک صاحب کا خط پیش ہوا کہ اس وقت جو مسلمان جنگ میں مرتے ہیں ان کا کیا حال ہے آیا وہ شہید ہیں یا حرام موت؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.جب حضرت امیر تیمور حلب میں گئے تھے تو آپ نے علماء سے سوال کیا کہ حضرت علی و معاویہ کے مابین جو جنگ ہوئی تھی اس میں طرفین کے مقتولین کے متعلق کیا فتویٰ ہے.علماء خوف زدہ تھے خاموش رہے کسی کو جواب دینے کی جرأت نہ ہوئی.آخر ایک محدث آیا اور اس نے کہا کہ مجھے امیرصاحب کے پیش کرو میں ان کے سوال کا جواب دوں گا.چنانچہ وہ پیش ہوئے اور انہوں نے امیرصاحب کی خدمت میں کہا کہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص جنگ ریا کے واسطے کرتا ہے اور کوئی اپنی شجاعت کے اظہار کے لئے ایسا کرتا ہے، کوئی شخص قومی محبت کے لئے لڑائی میں جاتا ہے اور کوئی صرف تعصب کے سبب اس میں شامل ہوتا ہے، کسی کو سوائے اس کے غرض نہیں ہوتی کہ

Page 33

مخالفت کے ساتھ اس کو کوئی ذاتی عداوت ہوتی ہے لیکن کوئی ایسا ہوتا ہے کہ صرف اعلائے کلمۃ اللہ کے واسطے جنگ میں جاتا ہے.غرض اَ لْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ ہے.جناب امیران لوگوں کے دل کی حالت اور نیت کو ہمارے سامنے پیش کردیںپھر ہم اس پر فتویٰ لگا دیں گے.یہی جواب اب بھی ہمارا ہے.بے وضو اذان وقرآن ایک شخص کا خط حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش ہوا کہ بے وضو قرآن شریف پڑھنا یا اذان دینا جائز ہے؟ فرمایا.جائز ہے.(البدر جلد ۷ نمبر ۳۷ مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۸) بیعت لینے سے قبل خطاب (مرتبہ جناب عربی صاحب) آج میں نے اور سید طفیل حسین وبابو غلام محمد اسسٹنٹ سرجن کلاس میڈیکل کالج لاہور نے حضرت خلیفۃ المسیح کے ہاتھ پر بیعت کی.بیعت کے پہلے آپ نے یوں خطاب کیا کہ بیعت اور اس کے فوائد بیعت کے معنے ہیں غلام ہوجانے کے اور یورپ والے کہتے ہیں کہ غلامی بُری چیز ہے اور انسان آزاد پیدا ہوا ہے.میرے ایک پیر عبدالغنی صاحب مدینہ طیبہ میں رہتے ہیں.دور دور کے لوگ آپ کے مرید ہوتے ہیں مصر کے، شام کے، مغرب کے، روس کے، میں بھی ان کے ہاں جایا کرتا تھا مگر میں خیال کرتا تھا کہ بیعت سے کیا فائدہ نیکی، بدی سب کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں اور میں فارغ التحصیل ہوچکا تھا.اس لئے مبائعین کی کثرت دیکھ کر تعجب کیا کرتا تھا.آخر ایک دفعہ میرے دل میں خیال آیا کہ چلو بیعت کر لو اگر فائدہ نہ دیکھا تو انکار کر دیں گے.میںان کے مکان پر گیا مگر میری شرافت نے اجازت نہ دی کہ میں اقرار کرکے پھر جاؤں آخر میں یوں ہی واپس آگیا.

Page 34

کچھ عرصہ کے بعد میرے دل نے فتویٰ دیا کہ بیعت کر لو.جب میں شاہ صاحب کے مکان پر گیا تو میں نے کہا کہ اگر میں نے آپ کی بیعت کر لی تو مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا.شنید بہ دید مبدل شود وسمعی کشفی گردد.اور آپ نے فرمایا کہ بیعت کے وقت کوئی شرط بھی کرنی جائز ہے.جیسا کہ حدیث شریف میں اَسْئَلُکَ مَرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ.فَأََعِنِّیْ عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب فضل السجود و الحث علیہ)بھی آیا ہے اور آپ نے فرمایا کہ اگر اصول اسلام سیکھنے ہوں تو چھ مہینہ رہنا ہوگا اگر فروعات سیکھنے ہوں تو ایک سال.آخر میں رہا.خدا تعالیٰ نے مجھ پر بڑے انعامات کئے.چار مجرب وظائف میں نے چار وظیفے تجربہ کئے ہیں.استغفار جس کے معنے ہیں پچھلی غلطیوں کے بد نتائج سے اور آئندہ غلطیوں سے لاحول (خدا کی پناہ میں آنا).الحمد شریف پڑھنا.رَبُّ الْعَالَمِیْنَ بتدریج ترقی دینے والا، رحمان کہتے ہیں بلا مبادلہ فضلکرنے والے کو.رحیم بالمبادلہ رحم کرنے والے کو ،جزا سزا بھی بعض وقت دیتا ہے مگر ( المائدۃ : ۱۶) بھی آیا.تم ڈاکٹری میں پڑھتے ہو دیکھو سفلس گنور یا اکثر بدکاری سے ہوجاتا ہے.فرمانبرداری بڑی عمدہ چیز ہے یہی راہ انبیاء، شہداء، صالحین کی ہے.علم پڑھ کر عمل نہ کرنے اور بے وجہ حسد، بغض رکھنے سے انسان مغضوب ہوجاتا ہے.جیسے یہود.ضالین، بے جا محبت سے انسان ضالین میں سے ہو جاتا ہے.جیسا کہ ایک بزرگ نے لکھا دَعْ مَااِدَّعَتْ نَصَارٰی نَبِیَّہُمْ ضالین سے مراد عیسائی ہیں انہوں نے بے جا محبت سے مسیح علیہ السلام کو خدا بنادیا اور تراجم کرنے والوں کے خیالات کو کلام خدا.اس لئے سچے علوم ان کے پاس نہیں رہے ( الکہف: ۱۰۵).ایک عیسائی مسلمان کے کالج میں مدتوں تک رہا.ایک شخص نے اس سے دریافت کیا کہ آپ تو بڑے عالم ہیں بھلا یہ بتائیں کہ تین خدا ایک کیسے ہوسکتے ہیں اور ایک تین کیسے؟ اس نے کہا کہ ایشیائی دماغ تثلیث کو سمجھ ہی نہیں سکتے.اس نے کہا مسیح

Page 35

یورپین تو نہ تھا بلکہ وہ تو ایشیائی تھا.لاجواب ہو کر ہنس کے ٹال دیا (الکہف : ۵،۶).الحمد کثرت سے پڑھنی چاہیے اس سے مذاہب باطلہ کا ابطال ہوتا ہے.چوتھا وظیفہ درود شریف ہے.دیکھو نبی کریم نے ہمارے لئے کیسی مشکلات اٹھائیں ان کے کس قدر احسانات ہیں (الرحمٰن : ۶۱)ان کے احسانوں کو یاد کر کے درود شریف پڑھا کرو.درود درد سے نکلا ہے.وظائف کے لئے وقت کا تعین بدعت ہے ان وظائف کے لئے وقت کا معین کرنا میرے نزدیک بدعت ہے جب موقع ملے پڑھے.ایک دفعہ مجھے بھانڈوں کا تماشہ دیکھنے کا اتفاق ہوا.میں نے دیکھا کہ بیٹا باپ کو جوتے مارتا ہے.میں نے اسی وقت نبی کریم پر درود پڑھنا شروع کردیا کہ اگر آپ کی تعلیم پاک کا اثر ہم پر نہ ہوتا تو ہماری بھی ایسی کیفیت ہوتی.مسلمان کبھی شرمندہ نہیں ہوتا میں نے عیسائیوں وغیرہ سے مباحثات کئے ہیں کفارہ کے مسئلہ میں ان کا دل ملامت کرتا ہے.خدا کا فضل ہے مسلمان کبھی شرمندہ نہیں ہوتا.ایک پادری گارڈن نام میرے مکان پر آیا کرتا تھا ایک دن انجیل کی تعلیم کی خوبیاں بیان کرنے لگا.میں نے کہا تمہارا مذہب ایسا نہیں ہے کہ بلند میناروں پر چڑھ کر اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر کہے جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں.تمہارے ہاں تو صرف گھنٹہ بجتا ہے.کیا تم بآواز بلند کہہ سکتے ہو کہ خدا تین ہیں اور تین ایک ہوتا ہے اور خدا پھانسی پر لٹکایاگیا؟ یا اور کوئی مذہب اپنے اصولوں کو بآواز بلند دنیا کو سنا سکتا ہے؟ کیا آریہ کہہ سکتے ہیں نیوگ بڑی عمدہ چیز ہے؟ ایک راجہ نے مجھے کہا مولوی صاحب مذہب کا بڑا جھگڑا ہے.میں نے کہا کہ حضور بڑے بڑے مقدمات کے فیصلے کرتے ہیں مذہب کا بھی فیصلہ کرلیں.اس نے کہا کہ مولوی صاحب مذہب وہ سچا جو پرانا ہو مذہب اسلام تو تیرہ سو ۱۳۰۰برس سے ہے.میں نے کہا ہمارے نبی کا حکم ہے کہ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ.میں نے کہا رام چندر جی کس کی پوجا کرتے تھے؟ اس نے کہا ردّر کی.میں کہا ردّر کس کی پوجا کرتے تھے؟ اس نے کہا کہ برہما کی.میں نے کہا کہ برہما کس کی پوجا

Page 36

کرتے تھے؟ اس نے کہا کہ ایشور کی.میں نے کہا کہ بس حضور توحید ہی ہوئی نہ اور توحید ہی مذہب اسلام… سکھاتا ہے.جو جوانی میں خدا کی عبادت کرتا ہے خدا اس کو عرش عظیم کے نیچے جگہ دے گا.مسئلہ دعا فرمایا کہ قرآن کریم کی ابتداء بھی دعا سے ہوئی اور انتہا بھی دعا پر.تمام انبیاء کا مسئلہ دعا پراتفاق ہے.اوّل آدم نے بھی دعا کی تھی (الاعراف : ۲۴)اور آخر آدم حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے بھی … اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ… ہی کی دعا کی.نماز میں ایک بزرگ کے نزدیک اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعِجْزِوَالْکَسَلِکی دعا بھی واجب ہے اور بعض کے نزدیک مستحب.عجز کے معنی ہیں سامان کا بہم نہ پہنچانا او رکسل کے معنی ہیں مہیا شدہ اسباب سے فائدہ نہ لیں.ایک علی گڑھ کالج کا طالب علم بیٹھا ہوا تھا اس کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ آپ کی طرف غفلت کی بہت تیز ہوا چل رہی ہے.اس کے بعد ہم نے بیعت کی جس میں پچھلے گناہوں سے توبہ اور آئندہ بہتان،بدنظری سے بچنے اور آپس میں محبت، ہمدردی پھیلانے اور شرع کے مطابق چلنے کا عہد لیا.(البدر جلد ۷ نمبر ۳۹ مورخہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۵) شاعری پر خط و کتابت بحضور فیض گنجور حضرت امیر المومنین و خلیفۃ المسلمین السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.ماہ مئی گزشتہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے لاہور تشریف لے جانے کے بعد جب آپ بھی لاہور تشریف لے گئے تھے تو میں نے ایک دن مولوی سید سرور شاہ صاحب سے سنا کہ ’’ شاعر ہمیشہ بزدل ہوا کرتے ہیں.‘‘ میں نے اسی دن سے عہد کیا کہ اب کبھی شعر نہ کہوں گا.اس کے بعد پھر ایک مرتبہ حضور کی زبان فیض ترجمان سے سنا کہ ’’شاعری پیشہ لوگ بزدل ہوتے ہیں.‘‘پس پھر تو میرا خیال اور بھی پختہ ہو گیا.میں چونکہ بزدلی کے عیب کو کسی طرح گوارا نہیں کر سکتا اس لئے شاعری سے ہاتھ اٹھا لیا.اس وقت تک چونکہ یہ احتمال تھا کہ کہیں باسی کڑھی میں پھر اُبال نہ آ جائے اس لئے برابر طبیعت کو نفرت دلاتا رہا.اب بفضلہ تعالیٰ مجھ کو

Page 37

اطمینا ن حاصل ہو گیا ہے اور میرے دل میں شاعری سے اس قدر نفرت پیدا ہو گئی ہے کہ شاعر بننے اور ہاتھوں میں چوڑیاں پہن لینے کو برابر سمجھتا ہوں.لہٰذا بذریعہ عریضہ ہٰذا حضور کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ آئندہ کے لئے میں شاعری سے بالکل بے تعلق ہوں.اس عریضہ کے پیش کرنے کامدعا یہ ہے کہ آئندہ مجھ کو اپنا یہ عہد اور آپ کا گواہ بنانا یا دآ کر شاعری سے بچے رہنے کا موقع ملے.حد ادب.عریضہ نگار حضور کا ناچیز خادم اکبر شاہ خان نجیب آبادی ۸؍اکتوبر ۱۹۰۸ء خط کا جواب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.شاعری کا پیشہ منع ہے.وَاِ لاَّ شعر تو خود ہمارے امام نے اس قدر کہے ہیں کہ دو تین دیوان بنتے ہیں عربی ، فارسی اور اردو.اور حضرت حسانؓ کے لئے منبر مسجد میں رکھا گیا اور کعب کو اپنی چادر عطا فرمائی.پس آپ کی اتنی نفرت حد سے متجاوز ہے.ابن الاکوع نے شعر اور رجز کہے ا ور بڑا بہادر تھا.نور الدین (الحکم جلد ۱۲ نمبر ۵۷ مورخہ ۱۰؍ نومبر ۱۹۰۸صفحہ۷) مفید معلومات ذیل کا خط جو حضرت امیر المومنین نے ایک شخص کے بعض سوالات کے جواب میں لکھا تھا.فائدہ عام کے واسطے درج کیا جاتا ہے.(ا یڈیٹر) ذرہ ذرہ باتوں میں ایمان کو مذبذب کرنا مناسب نہیں.یہ کیا مسائل ہیں کہ جن پر آپ گھبراگئے.کوئی ان میں توحید اسلام کا مسئلہ ہے.توحید ، نبوت اور عدل کا ذکر ہے.ا لحمد شریف نماز میں ضروری ہے اور میں خود الحمد پڑھتا ہوں اور سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ فرض و واجب یا ضروری نہیں.ہاں بعد اَللّٰہ اَکْبَرقبل الحمد شریف حضرت نبی کریم ﷺکچھ دعائیں یا تسبیحیں پڑھ لیتے تھے.ان میں بعض صحابہ نے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ پڑھا ہے.سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ خود نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں.رمضان شریف میں تہجد ، قیام رمضان کی تاکید ہے اور خود نبی کریم نے تین روز جماعت سے

Page 38

پڑھے اسی کا نام تراویح ہے.صحابہ کرام نے لوگوں کو سست ہوتے دیکھا تو ابی بن کعب نے جماعت کے ساتھ اوّل وقت جماعت کر ائی.مگر صحابہ کرام آخر وقت کو پسند کرتے تھے.میں خود آخری وقت میں سحر کی روٹی سے پہلے گیارہ رکعت پڑھتا ہوں اور اُس میں قرآن مجید سنایا جاتا ہے اور ہماری جامع مسجد میں بعد العشاء گیارہ رکعت پڑھ لیتے ہیں.یہ قیام رمضان ہے جس کا دوسرا نام تراویح پڑ گیا.پیشاب سے بچنا اور اُس سے حفاظت ضرور ہے ڈھیلا لینا کوئی فرض واجب اور سنت نہیں.ہم لوگ تو پانی بہا لیتے ہیں.مگر جن کو تھوڑی دیر تقطیر البول ہو وہ غریب کیا کرے.ہاں ہم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ہاتھ میں شرمگاہ کو پکڑ کر انسان گلیوں میں کھڑا ہو.یہ امر ناپسند ہے.کئی ایک لوگ صحابہ ، بعد آپ کے مرتد ہوئے جن سے حضرت ابوبکر نے حسب وعدہ قرآن کریم جنگ کی.بے ریب وہ حوض کوثر کیا ایمان سے بھی ہٹائے گئے اوراسی طرح آخر میں بھی ہٹائے جاویں گے.انہوں نے خلافت کے خلاف ہتھیار اٹھائے.ہاں یہ مسئلہ آپ کا بڑا سچا اور ضروری اور قابل قدر ہے کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ کے بعد کوئی شخص نیا طریقہ اور نئی شریعت قائم کرے تو وہ مردود ہے اور کذاب اور مفتری ہے.ہرگز اس قابل نہیں کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں.وہ مسلمان ہی نہیں ہو سکتا.ہجرت کے وقت مولیٰ علی مرتضیٰ کو اپنے بسترہ پر سلایایا نہیں سلایا.اس کا ذکر صحیح احادیث میں تو نہیںالبتہ تواریخ میں ہے.سو یہ مولیٰ علی مرتضیٰ کی بڑائی ہے اگر آپ نے سلایا یا آپ سوئے.صحابہ کرام ایسی جانبازیاں بہت کرتے تھے اور مولیٰ مرتضیٰ تو خاص آپ کے پیارے بھائی اور داماد تھے کیوںنہ کرتے.حضرت عمرؓ تو مدینہ منورہ میں حسب الارشاد پہلے ہجرت کر کے چلے گئے تھے اور حضرت عثمان ؓ حسب الحکم حبشہ کو ہجرت کر کے گئے ہوئے تھے.اگر تقیہ کا حکم ہوتا تو تمام انبیاء و رسول کیوں دکھوں میں مبتلا ہوتے.حضرت سبط اصغر مظلوم شہید کربلا کیوں کربلا میں مبتلا ہوتے.یہ روافض کی کمزوری کا عقیدہ ہے.

Page 39

یہ مختصر جواب ہیں جو ایسے خط کے مناسب ہیں اگر تم یہاں آ جائو تو ہم اور عام فہم جواب آپ کو بتا دیں.والسلام نور الدین ۲۹ستمبر ۱۹۰۸ء شاہراہ کون سی ہے حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک شخص کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.ایک راہ ہے مجاہدات و ریاضات کی اور اس کے ماتحت ہے مطالعہ ملفوظات کامل کی اور سماع کلمات موزونہ کی.ایک راہ ہے ذکر جہر اور ترک لذائذ کی اور اس کے ساتھ ذکرخفی و اخفی و یاد کی.سمجھ لو ان سب کے اصول گو تعلیم انبیا ء میں کسی نہ کسی (طور ) موجود ہیں.مگر ایک شاہراہ ہے اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی.یہاں اَصُوْمُ وَ اُفْطِرُ وَ اُصَلِّیْ وَ اَنَامُ وَ اَتَزَوَّجُ النِّسَائَ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المکثرین من الصحابۃ مسند انس بن مالک ؓ حدیث نمبر ۱۳۵۳۴) اور(النحل:۱۲۶) موجود ہے.شیخ المشائخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ کی عوارف جس کو حضرت فرید الحق و الملۃ و الدین اپنے درس میں رکھتے تھے اور سلطان جی نے اس کو سبقاً پڑھا اور اس سے بھی اعلیٰ رنگ میں حضرت السید الجیلی کی فتوح الغیب ہے اور ادنیٰ رنگ میں تعرف اور رسالہ قشیریہ.ہاں مفید احیاء العلوم یاقوت القلوب ابو طالب المکی ہے رحمۃ اللہ علیہم.اور جامع کتاب حجۃ اللہ البالغہ جس کو شاہ ولی اللہ دہلوی نے لکھا.یہ راہ ہے جس کو خاتم الانبیاء لایا.(صلی اللہ علیہ وسلم).آج قرآن کریم اور سنت متواترہ اس کی متکفل ہے وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن.اور جن شرائط کا وعظ آپ نے کہا ہے وہ واعظ ہرگز ہرگز مستقل اثر نہیں رکھتا…… گویا آپ نے دیکھا ہو گا اس کے اخلاق و عادات، اس کی دنیا سے سرد مہری، اس کا نماز کو سنوار کر پڑھنا کیا جناب نے ملاحظہ

Page 40

فرمایا ؟ کیا کافیوں اور غزلوں کی ادامیں اس کا کمال کیا، اس کو انبیاء کے راہ پر لایا؟ دعا کبیر کے حفاظ نے کیا اتباع سنت اور منہاج نبوت پر چلنے کی راہ پالی؟ آپ خود ماہرہیں ایسے واعظ بھی آنی اثر رکھتے ہیں.وَ ہٰذَا مَاجَرَّبْتُ.فَاِنِّیْ من بہر جمعیتے نالاں شدم جفت خوش حالاں و بد حالاں شدم نوجوان سر گرم اللہ تعالیٰ کرے مستقیم الحال ترقی کرنے والے موافق قرآن وسنت کا خادم  چیز ہو کر(الرعد:۱۸)ہو.آمین نور الدین ۱۷ ؍رمضان المبارک ۱۳۲۶ھ ( البدر جلد ۸ نمبر ۲ مورخہ ۱۹؍نومبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۴ ،۵) عیسائیوں کے ہاں کھانا ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح سے پوچھا کہ کیا موجودہ عیسائیوں کا ذبیحہ کھانا جائز ہے؟ فرمایا.عیسائی کیا اگر مسلمان بھی بلا تکبیر ذبح کرے یا ایسی طرح جانور کو مارے جو ذبح کا طریق نہیں جیسا کہ آجکل یورپ میں بعض جگہ کرتے ہیںتو وہ کھانا مسلمان کے واسطے جائز نہیں.ہاں عیسائیوں کی طیّب چیز جو پکی ہو وہ جائز ہے کہ مسلمان کھا لے.عیسائی عورت سے شادی اُسی شخص نے سوال کیا کہ کیا موجودہ عیسائیوں کے ہاں شادی جائز ہے؟ فرمایا.مسلمان کے واسطے عیسائی عورت کے ساتھ نکاح کر لینا جائز ہے.عیسائی مرد سے نکاح لیکن مسلمان عورت کے واسطے جائز نہیں کہ عیسائی مرد کے ساتھ شادی کرے.(البدر جلد ۸ نمبر ۳ مورخہ ۲۶؍نومبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۶)

Page 41

تجارت اور زراعت ۱۵؍اکتوبر ۱۹۰۸ء.فرمایا.میں نے قرآن شریف میں تدبر کیا ہے اور ایسی آیات کو جمع کیا ہے جن میں زراعت یا تجارت کا ذکر ہو.ہر دو کو بالمقابل دیکھنے سے مجھ پر ثابت ہوا ہے کہ قرآن شریف نے تجارت کے پیشہ کو زراعت پر ترجیح دی ہے.تکالیف کا باعث کیا ہوتا ہے ایک عورت نے اپنے خاوندسے تکالیف کی شکایت لکھی.حضر ت نے اُس کو جواب میں لکھا.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمد ہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ......اب میں تم کو قرآن شریف کی بات سناتا ہوں اور وہ یہ ہے.(الانعام:۱۳۰).اس کا ترجمہ یہ ہے.اسی طرح ہم ظالموں کے والی ظالموں کو بنا دیتے ہیں.پس جو شخص اپنی اصلاح کرلے اس پر ظالم حکومت اور تصرف نہیں کر سکتا.مگر آدمی دوسرے کو ملامت کرنے میں دلیری کرتا ہے اور اپنے آپ میں انصاف نہیں کرتا کہ اس کے اندر کیا کیا نقص ہے؟ یاد رکھو قطعاً تم آرام نہ پا سکو گی جب تک اللہ تعالیٰ تمہارا اصل مطلوب و محبوب اور مقصود نہ ہو.اس کو یاد رکھو پھر یاد رکھو پھر یاد رکھو!!! اللہ تعالیٰ مدد دے.یہ تمہارے خط کا اصل جواب ہے، اس پر غور کرو.دنیا گزشتنی گذاشتنی چھوڑ دینے کی جگہ ہے اور الٰہی احکامات امانت ہیں.اگران پر عمل درآمد کر لیا تو اِس جہان اور اُس جہان میں سرخروئی ہو گی وَاِلاَّ غضب الٰہی سامنے ہے.اے اللہ تو ہی رحم فرما اور ہدایت کر.آمین یا ربّ العالمین … میں تاکید کرتا ہوں اور تمام انبیاء نے تاکید کی ہے کہ استغفار اور حالت کی تبدیلی کرو جس کو تو بہ کہتے ہیں.بس استغفار، توبہ، صدقہ اور خیرات سے کام لو.نور الدین ۲۲؍اگست ۱۹۰۸ء نفوس انسانی وملائکہ ایک شخص کے سوال کے جواب میں حضرت امیر المومنین نے لکھا.نفس انسانی اور نفوس ملائکہ کو وَاللّٰہ العَظِیْم میں مخلوق یقین کرتا ہوں اور مخلوق بھی ایسا کہ

Page 42

فلاسفروں کی طرح نہیں بلکہ جیسے آپ اور میں خود مخلوق ہیں.آنی فنا بقا کے خلاف نہیں.بعدالموت بعدالموت نفس کو بقا ہے.کیاآپ نفس انسانی یا نفوس ملائکہ کو حادث نہیں جانتے اور قدیم مانتے ہیں اور ان کے واسطے آنی فنا کے بھی قائل نہیں.اور عوام  (الرحمٰن:۲۷) کو ظاہر پر محمول و غیر مخصوص نہیں جانتے.جواب مختصر دیں.ڈاکٹر عبدالحکیم خان اسسٹنٹ سرجن ڈیرہ دون الحال طالب علم مدرسہ ایس اے کا ایک خط حضرت امیر المومنین کی خدمت میں آیا تھا جس کا جواب آپ نے مفصلہ ذیل لکھا.جو خواب آپ نے ۱۰؍اکتوبر کو دیکھا ہے وہ یقینا جھوٹا ہے.میں نے ہر گز ہرگز تمہارے لئے کوئی بددعا نہیں کی اور پھر وہ شائع ہوئی ہو قطعاً غلط ہے.اور میں مردم پرست بحمد اللہ نہیں یہ بھی غلط ہے.پھر کیا تو خدا پرست ہے؟ اگر ہے تو کیوں نجات کی راہیں تیرے لئے بے انت ہیں.خدا پرستی کی تجھے کیا ضرورت ؟ میں اب تک حیرا ن ہوں کہ تجھے دنیا میں سوائے مرزا کے اور میرے کوئی کافر نظر نہ آیا.نور الدین ۱۹؍ رمضان طب کی عمدہ کتابیں ایک انگریز نے پشاور سے دریافت کر بھیجا کہ طب یونانی و ہندی کی عمدہ کتابیں کونسی ہیں حضرت نے مفصلہ ذیل کتب لکھوائیں.اکسیر اعظم، رموز اعظم ، نیّر اعظم ، رکن اعظم ، قرابا دین اعظم ،قرابا دین اعظم وا کمل ، ترجمہ قانون بو علی سینا، قانون بو علی سینا ،کامل الصناعۃ ، تذکرہ دائود انطاکی، مجموعہ بقائے جمع الجوامع، مخزن الادویہ.یہ کتابیں یونانی طب میں عمدہ ہیں.طب ہندی میں، جرک، سسرت، بھاگ بھٹ مہاہنکٹو عمدہ کتابیں ہیں.

Page 43

ایک عزیز کے نام خط عزیز من ! دعوات.دنیا میں مصائب کا سلسلہ بڑھا ہوا ہے.لوگ سخت غافل ہو گئے ہیں.گویا عملی طور پر دنیا خدا سے بے خبر ہے.حید رآباد کا حال آپ نے سنا ہو گا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس آتش خیز پہاڑ اور اس سمندر سے نجات دے.آپ ضرور کامیاب ہوں گے.آپ شرک کو چھوڑ کر خدا سے جو وحدہٗ لا شریک ہے دعائیں کریں اور مخلوق سے کسی قسم کی بدی کا ارتکاب نہ کریں اور مجھے گاہے گاہے خط لکھیں.نور الدین ۴؍نومبر ۱۹۰۸ء ( البدر جلد ۸ نمبر۴ مورخہ ۳؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۳) طریق طلاق ایک صاحب کے سوال کے جواب میں امیر المومنین نے تحریر فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ زمانہ نبوی میں لوگ تین طلاق یک دم نہیں دیا کرتے تھے کیونکہ قرآن کریم میں یک دم طلاق دینا ثابت نہیں اور اگر کوئی تین طلاق یک دم دے دیتا تو ایک طلاق سمجھی جاتی تھی.پس اگر وہ آدمی آبادی چاہتا ہے تو یہ اس کی ایک طلاق سمجھی جاتی ہے کوئی کفارہ نہیں.اکیلا آدمی جمعہ عید کس طرح پڑھے ایک شخص نے عرض کی.میں اکیلا ہوں باقی سب مخالف.نماز جمعہ اور عیدمیں کیا کروں ؟ مومن کو ضرور ہے کہ اپنے ساتھ کسی کو ملا لے تنہا رہنا اچھا نہیں اور نماز ظہر بدلہ جمعہ کے پڑھ لیں.عید اکیلے پڑھ لیں.جو ہمیشہ سفر میں ہے وہ مقیم ہے.مردہ کو ثواب مردہ کو ثواب دعا اورنقد و کپڑے کا پہنچتا ہے.تاریخ کا مقرر کرنا ضروری نہیں ہے.ہندو کے گھر کا کھانا ہندوئوں کے گھر کی مٹھائی ، دودھ کھانا جائز ہے.نماز کے بعد دعا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے.

Page 44

نوافل نوافل بعد سنت کے پڑھنا موجب ثواب ہے.بیٹھ کے یا کھڑے ہو کر پڑھیں.ہاں جو دو نفل بعد وتر کے ہیں وہ مسنون بھی ہے کہ بیٹھ کر پڑھے.حضرت نبی کریم ﷺبیٹھ کر پڑھا کرتے تھے.عشاء سے قبل سنّت عشاء کے پہلے چار رکعت سنت کسی صحیح حدیث میں نہیں آئی.لطیفہ ایک شخص شیعہ جو کہا کرتا تھا کہ سوائے حضرت علی اور دو تین اور آدمیوں کے باقی سب اصحاب رسول منافق تھے اور اس امر پر بحث کیا کرتا تھا.ایک دفعہ کسی شخص کو نصیحت کر رہا تھا.حضرت مولوی نور الدین صاحب سنتے تھے آپ نے اس کو فرمایا کہ تُو کیوں نصیحت کرتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے رسول نے ۲۳ سال تک ہزاروں کی نصیحت کرنے میں لگائے اور نتیجہ یہ ہوا کہ چار پانچ کم ایک لاکھ چوبیس ہزار منافق آپ کے گرد جمع ہو گیا.تو اب آپ نصیحت کر کے کیا فائدہ اٹھائیں گے؟ شیعہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا.( البدر جلد ۸ نمبر۴ مورخہ ۳؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۴) ایک خط اور اس کا جواب بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمد ہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم وارث اخلاق احمدی واقف اسرار سرمدی جناب حضرت خلیفۃ المسیح صاحب مد ظلہ آداب نیاز مسنونہ کے بعد گذارش حال یہ ہے کہ موضع … کی قضا میرا بھائی کیا کرتا تھا.اب عرصہ ایک سال کا ہوا کہ میرا بھائی بقضائے الٰہی فوت ہو گیا.اب گائوں کے لوگوں نے مجھے واسطے قضا کے مقرر کر لیا کہ نکاح، جنازہ تم ہی کر دیا کرو.بندہ نے اس کام کو اس واسطے منظور کر لیا کہ اگر کوئی مخالف قاضی آ گیا تو ہماری بات ان کو سننے نہ دے گا.اب ان کے نکاح میں اور ان کی میت میں اور بروز جمعہ خطبہ میں حضرت اقدس کے مامور من اللہ ہونے کا ذکرکر نے کا موقعہ مل جاتا ہے.مخالف و موافق کل میرے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور توکُل بدعات موقوف کر دیں مگر ایک دسواں،

Page 45

بیسواں، چہلم یا کہیں گیارہویں کی روٹی آگے رکھ کر کچھ سورتیں پڑھ کر ختم دینا پڑتا ہے.ہر وقت اس کے بدعت ہونے کا ذکر تو کیا جاتا ہے مگر بہت مدت کی عادت چھوڑنا مشکل ہے.مگر مجھے اس کام سے بہت کراہت آتی ہے دل میں بہت جوش آتا ہے کہ ان کو کہا جاوے کہ اگر مجھ سے قضا کرانی ہے تو روٹی پر ختم کرانا اور جو جو کچھ بدعات ہیں چھو ڑ دو تو میں قضا کرتا ہوں ورنہ تم جس کو چاہو مقرر کر لو مجھ سے یہ کام نہیں ہوتا.پھر سوچتا ہوں کہ کہیں یہ بات گناہ بھی نہ ہو کہ تم نے بآ ہستگی ان کو سمجھانا تھا شاید وہ مان جاتے.اب اس بات کو حضور کے حکم پر چھوڑتا ہوں جس طرح حضور حکم فرما ویں گے اسی طرح عمل میں لاؤں گا اور بندہ کو کچھ پیداواری کا خیال نہیں کیونکہ فصل پر دو تین من دانے ہوتے ہیں.اللہ صاحب روزی دینے والا ہے.فقط حضور کے حکم آنے تک یہ کام کرتا ہوں پھر جیسا حکم ہو عمل میں لائوں گا.دوسرے حضرت رسول کریم ﷺ تہجد کے نفل پڑھ کر سو جایا کرتے تھے پھر اٹھ کر نفل پڑھا کرتے تھے.جب میں اپنی حالت دیکھتا ہوں کہ سردی کے موسم میں فرض نماز کو صبح کے وقت وضو کرنا مشکل پڑتا ہے آپ کئی کئی دفعہ اٹھ کر وضو کیا کرتے تھے یا تیمم کیا کرتے تھے.مجھے نفلوں کو وضو کرنا بہت ہی مشکل ہے اگر حکم ہو تو تیمم کرلیا کروں؟ فر ض نماز کو وضو کیا جاوے.اگر یہ بات درست ہو تو اس طرح کر لیا کروں یا نہ کیاکروں.مفصل حکم تحریر فرما ویں.جواب اس خط کے جواب میں حضرت امیر المومنین نے ارقام فرمایا.سب سے مقدم ہے کہ آپ لوگوں کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْل اللّٰہ سکھاویں کہ مسلمان ہو جاویں.پھر نماز کی تعلیم دو.پھر زکوٰۃ کی.پھر روزہ وحج کی.اسی طرح آہستہ آہستہ سکھانے کا حکم ہے.آپ ضرور قضاکریں.سردی اور بڑھاپا، پھر تہجد میں آپ تیمم کر لیا کریں.میت کو ثواب پہنچتا ہے.باقی غلطیاں بتدریج نکل جاویں گی.

Page 46

ایک صاحب کے چند سوالوں کے جواب سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ حضرت اکثر کتب تفاسیر کی سیر کی ہیں اور چاہا کہ قصہ آدم علیہ السلام کو مفسرین کے اقوال سے باہمی نقائص کو دور کر کے خوبی و حقیقت کو دل نشین کر لوں.مگر سادہ لوح مفسرین صاحبان نے اپنی اپنی تفاسیر میں وہ وہ قصص رطب و یابس بھردئیے ہیں کہ جن کی سیر کے بعد ایک ذی ہوش آدمی اچھا خاصا خبط الحواس ہو کر معترضان کے جواب میں لاٹھی اور گندے فتوئوں سے اسلام کو اسلام قبول کروانا چاہتا ہے.اور یہ ساری تاریکیاں الہامی روشنی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئیں.اس لئے آپ کی خدمت میں عریضہ ہٰذا پیش کرکے ملتجی ہوں کہ برائے خدا و رسول و بحق میرے مولا و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ نکات میری خاطر نشان فرمائے.سوال نمبر۱.احادیث صحیحہ اور آثار قویہ سے حضرت آدم علیہ السلام کا پیکر جسمانی خاکی تھا اور جمہور کے نزدیک جنت لطف رحمانی کا مظہر ہے اور عالَم سے الگ ہے.پس قاعدہ یہ چاہتا ہے کہ جنت میں جسم عنصری تو درکنار بلکہ جرم فلکی بھی نہ ہو.ایسی حجت پر حضرت عائشہ جسمی معراج سے منحرف و مانع ہوئیں.پر نص قرآنی سے آدم کا معہ اپنی زوجہ کے جنت میں سکونت پذیر ہونا ثابت ہے.سوال نمبر۲.جبکہ آدم کا جسم مٹیلا تھا اور مٹی ہی پر بنایا بھی گیا تھا.تو(البقرۃ:۳۹)سے کیامراد ہے؟ سوال نمبر ۳.حدیث شریف میں وارد ہے کہ لَا تَسْجُدُ ْوالِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ (معرفۃ السنن والآثار کتاب صلوٰۃ الخوف حدیث نمبر ۷۰۳۲).اور اسی طرح انجیل متی باب ۴ میں ہے (شیطان نے مسیح سے کہا کہ تو مجھے سجدہ کرے تو تجھے سب کچھ دوں.تب مسیح نے کہا کہ اے شیطان دور ہو.کیونکہ لکھا ہے کہ تو خدا وند اپنے خدا کو سجدہ کر اور اس اکیلے کے لئے بندگی کر) لیکن قرآن پاک کی کیفیت ان سب سے جدا ہے.وہ آدم کو سجدہ جائز رکھتا ہے اور

Page 47

اگر وَ(البقرۃ:۳۵) میں لام بمعنے الٰی ہے تو اس تقدیر پر معنے یہ ہوئے کہ آدم کو جہت قرار دے کر سجدہ اللہ نے اپنے ہی کو کروایا.تو ایسی تعلیم دساتیر ساسان پنجم کی تعلیم کے مطابق ہے.دیکھو نامہ د خشور کلکشاہ.پھر وہ لوگ کیوں گنہگار ہیں جو آفتاب یا قبر وغیرہ کو سجدہ کرتے ہیں.جواب سوالات مذکورہ بالا بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم صید نزدیک است.دور انداختہ.۱.حضرت زمین پر پید اہوئے زمین پر خلیفہ ہوئے زمین پر ہی مر گئے.ثبوت.نمبر۱.(طٰہٰ:۵۶) نمبر۲.(البقرۃ:۳۷) نمبر۳.(البقرۃ:۳۱) ۲.(البقرۃ:۳۹) ایسا ہے جیسے (البقرۃ:۶۲)اس ملک سے حکم ہوا کہ اتر جائو وہ ملک شمالی اونچا ہے.حسب الحکم آدم ہندوستان سرند یپ پہنچے.۳.آدم جیسے انسان کی پیدائش پر شکر الٰہی کا سجدہ کرو.(البقرۃ:۳۹).سجدہ کرو آدم کے باعث.جنت آدم وہ تھا جس میں دجلہ، فرات ، سیحون جیحون ندیاں بہتی ہیں.توریت کے ابتداء میں اور صحیح مسلم کے ابتدا ء میں ایسا لکھا ہے.اپنے حق میں بددعا نہ کرو ایک شخص نے کمزوریوں سے تنگ آ کر حضرت امیر کی خدمت میں خط لکھا اور موت کی خواہش کا اظہار کیا.حضرت نے جواب میں فرمایا.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ ہمیشہ ہر مجلس میں اکثر اوقات استغفار، لاحول، درود، اَلْحَمْد پڑھا کرو.یہ مجرب علاج ہے.آپ جب تک ملا نہ کریں گے یہ کمزوری دور نہ ہو گی.اِلَّا اَنْ یَّشَائَ اللّٰہُ.کبھی اپنے حق میں

Page 48

بددعا نہ کرو تاکید ہے.اللہ تعالیٰ پر کسی کا احسان نہیں جب دعا کرو نیک کرو.اگر وہ سنتا ہے تو کیا بددعا ہی سنتا ہے اور نیک دعا نہیں سنتا؟ ( البدر جلد۸ نمبر۵ مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۳) زکوٰۃ دو ماہ بعد حساب کر کے سال کی زکوٰۃ دی جائے جائز ہے اور ان دو ماہ کا حساب پھر اگلے سال میں کر دے.اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے واسطے خاص کر کے کوئی مہینہ مقرر نہیں فرمایا.تصویر ایک شخص نے حضرت امیر المومنین سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر مانگی.فرمایا.ہم لوگ تصویر کا رکھنا ہرگز پسند نہیں کرتے.آپ دعا مانگتے رہیں اللہ تعالیٰ ضرور قبول کرے گا.صدقہ فطر صدقہ فطر کن لوگوں پر دینا واجب ہے اور کیا مساکین گروہ پر بھی صدقہ فطر واجب الادا ہے اور مساکین میں کون کون لوگ شامل ہیں ؟ جواب میں حضرت امیر المومنین نے فرمایا.صدقہ فطر بموجب حدیث کے سب پر ہے.غنی ہو یا فقیر ،بالغ ہو یا نابالغ.جو ایسا نادار ہے کہ اس کو ممکن نہیں تو (البقرۃ:۲۸۷)کے ماتحت ہے.مسکین وہ ہے جو کام نہیں کر سکتا.قضا شدہ روزے ساتھ ہی رکھنے ضروری ہیں یا بعد میں رکھے جا سکتے ہیں مریض اور مسافرکے لئے قضائِ رمضان علی الاتصال ضروری نہیں جب چاہے بتدریج عدت کو پوری کرے.جولائی کے روزے دسمبر میں رکھ سکتا ہے یہی شرع اسلام کا حکم ہے.یہی معمول امام کا تھا.حضرت مسیح موعود پر کس طرح درود پڑھنا چاہیے فرمایا.علیٰ آل محمد ؐ میں خلفاء محمد ؐ کا دھیان کر لیں اور مسیح و مہدی خلفاء میں تھے.

Page 49

بچہ کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ دینا ایک شخص کا خط آیا کہ کیا یہ جائز ہے کہ بچے کے بال اُتروانے کے وقت اس کے بالوں کے برابر چاندی تول کر صدقہ دی جاوے؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا ہے کہ یہ جائز ہے اور سنّت نبوی سے ثابت ہے.(البدر جلد۸ نمبر۵مورخہ ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۹) عورتوں کے ساتھ حسن سلوک ایک شخص نے حضرت امیر المومنین مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میںلکھا کہ میں اپنی بیوی سے نفرت کر کے اس کو اپنے پاس نہ رکھتا تھا اب ڈرتا ہوں کہ میں نے گناہ کیا مجھے کیا کرنا چاہیے؟ حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا.تمہارا خط پڑھ کر مجھ کو سخت رنج وتکلیف پہنچی.معلوم ہوا کہ مسلمان کیوں دکھوں اور دردوں اور رنجوں میں مبتلا ہیں.آہ ! آہ !!آہ!!! تم نے بہت بڑا گناہ اور ظلم کیا کہ پندرہ سالہ ایک عورت کو بے وجہ محض ظلماً قید کیا اور اس کی جوانی کو تباہ کر دیا.اگر اللہ کا خوف ہے کہ آخرمرنا ہے تو اس کو ساتھ رکھو.جہاں رہو وہاں ساتھ رکھو جو آپ کھائو اُسے کھلائو.اگر نہ کر سکو تو اُسے قید سے رہا کردو.اللہ سے ڈر کر اس کو دکھ سے نجات دو.ایسا نہ ہو کہ تم پھر اس وبال میں پکڑے جائو.میں نے بہت غور کیا اور پھر جواب لکھا ہے.عہد وصیت ایک شخص نے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں لکھا کہ ایک عورت نے اپنے خاوند کی رضامندی سے مولا کریم سے سچے دل سے عہد کر لیا ہے کہ میں انشاء اللہ مرتے وقت یہ وصیت کر جائوں گی کہ میرے پہننے کا جس قدر زیور ہو اور جس قدر آئندہ حسب توفیق بنوا سکوں گی دارالامان بھیج دیا جاوے.اس معاملہ کا جب ذکر تذکرہ ہوا تو ایک بزرگ نے فرمایا کہ اس طرح کا عہد کرنا ناجائزہے

Page 50

کیونکہ وارثوں کی حق تلفی ہوتی ہے.پس حضور والا سے دست بستہ عرض ہے کہ شرعاً اس کے لئے کیا حکم ہے (۲)اُس زیور پر جو خدا کے نام پر وقف کر دیا مگر تا عمر اپنے استعمال میں لاوے زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟ حضرت امیر المومنین نے جواب میں تحریر فرمایا کہ یہ عہد جائز ہے اگر کسی سخت بیماری میں جس کا نتیجہ موت ہے نہ کیا جاوے.خود نبی کریم نے ایسا کیا ہے.زکوٰۃ ایسے زیور پر ضرور ہے مگر یاد رہے کہ علماء کا زیور کی زکوٰۃ پر اختلاف ہے.بعض زیور پر زکوٰۃ فرض فرماتے ہیں بعض کے نزدیک بالکل زیورپر زکوٰۃنہیں.بعض کہتے ہیں مستعمل زیور پر زکوٰۃ نہیں باقی پر زکوٰۃ ہے.اس اختلاف پر مومن کو اختیار ہے کہ عمل کرے.میں خود زکوٰۃ دلاتا ہوں.کتاب انساب سادات ایک صاحب نے حضرت امیر المومنین سے دریافت کیا کہ موجودہ سادات کے انساب کی کتاب کون سی ہے؟ حسب الحکم امیر ایدہ اللہ جواب لکھا گیا.حضر ت فرماتے ہیں کہ موجودہ زمانہ کے سادات کے انساب کی کتاب کس طرح ہو سکتی ہے کون ہے جو اتنی محنت کرے کہ تمام جہان میں پھر کر اس کی تحقیقا ت کرے.جب تک سیدوں کو خمس ملتا تھا اُن کے متعلق رجسٹر رکھے جاتے تھے.خاندان عباسیہ تک کی کتاب اسنی المطالب فی انساب ابی طالب موجود ہے.بعد میں ممکن ہے کہ ترکوں اور ایرانیوں کے دفاتر میں ایسے رجسٹر ہوں.دو سوال اور ان کے جواب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.امّا بعد معروض آنکہ.خاکسار کی اہلیہ کے پاس قریباً ایک ہزار کا زیور ہے اور شادی ہوئے قریباً دو سال ہو گئے ہیں مگر تا حال زیور کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی بایں وجہ کہ نہ تو میں ہی زکوٰۃ ادا کر سکتا ہوں اور نہ ہی میری اہلیہ کے پاس نقد مالیت ہے.اب بذریعہ عریضہ ہٰذا حضور سے دریافت کیا جاتا ہے کہ اس حالت میں آیا زکوٰۃ دینی فرض ہے یا نہیں.اگر فرض ہو تو آیا زیور فروخت کر کے زکوٰۃ دی جاوے یا کوئی اور صورت کی جاوے.کچھ زیور تو ہر وقت کے استعمال میں آتا

Page 51

ہے اور کچھ گاہے بگاہے.بحالت فرض زکٰوۃآیا ہر وقت کے مستعمل زیور کی بھی زکوٰۃ دینی ہو گی یا نہیں؟ ۲.آیا غیر محرم مردوں کا بچا ہوا کھانا یا پانی مستورات پی سکتی ہے یا شرعاً ممنوع ہے؟ جواب میں حضرت امیر نے فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مستعمل زیو رپر جو اکثر اوقات پہنا جاوے اس پر زکوٰۃ نہ دو.اور جو زیور استعمال میں نہیں اُس کے لئے زیور سے زکوٰۃدے دو.سات تولہ سونا میں سے ۲ماشہ اور ۵۲تولہ میں سواتولہ کے قریب چاندی.غیر محرم کا بچا ہوا کھانا پاک اور جائزاور شرع اسلام میں غیر محرم عورتوں کو اس کا کھانا بلا کسی تردّد کے درست ہے.ہمیشہ استغفار ، لاحول ، درود شریف اور کثرتِ الحمد سے کام لو.سید کسے کہتے ہیں ؟ سوال.حضرت خلیفہ پیر صاحب خلیفۃ المسیح صاحب دام اقبالہ بعدالسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کے یہ عرض ہے کہ ایک شخص کا بیان ہے کہ سید نسبی ہے یعنی مائی صاحبہ فاطمہ کی اولاد سے جو شخص ہے وہ سید ہے اور بس.ایک اور شخص کا بیان ہے کہ عام لوگ سید ہو سکتے ہیں یعنی جو عمل نیک کرے وہ سید ہے.برائے مہربانی کر کے اس کا فیصلہ فرما دیں.اور ایک دوائی کا نام ہے وہ سمجھ میں نہیں آتا اس کی تشریح ضرور فرما دیں اس کا نام بجورا ہے.اس کی تشریح کر کے تحریر فرماویں کہ کیا شے ہے.جواب.سید کے معنے عربی زبان میں سردار کے ہیں عرب لوگ ہر ایک بڑے آدمی کو سردار کی بجائے سید کہتے ہیں.ایسا ہی مصر شام و استنبول میں.اس ملک میں اولاد جناب بتول زہرا کو سیدکہتے ہیں یہ صرف رواج کا معاملہ ہے.عرب میں اولاد جناب سیدہ فاطمہؓ الزہرا کو اشراف کہتے ہیں اور ایک ایک کو شریف بولتے ہیں.یہ صرف ملکی رواج ہے کوئی شرعی احکام نہیں.

Page 52

بجورا ایک پھل ہے اس کو ہمارے ملک میں چکوترہ کہتے ہیں.کھٹے کی شکل میں بہت بڑا ہوتا ہے.چاولوں کی طرح اس کے اندر گودا ہوتا ہے.غیر مطلقہ مگر متروکہ کیا کرے ؟ ایک شخص نے دریافت کیا کہ جو مرد اپنی عورتوں کو نہ بساتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں.وہ بیچاری عورتیں کیا کریں ؟ حضرت امیر نے جواب دیا.قرآن شریف میں فرمایا ہے.زانی زانیہ کو نکاح کرتاہے.سورئہ نور میں ہے (النور: ۴).جو لوگ عورتوں کو دکھ دیتے ہیں اور دکھ کے اغراض پر طلاق نہیں دیتے اُن کے نکاح میرے نزدیک بحکم  (الطلاق:۷)اور (البقرۃ:۲۳۲) وَ لَا ضَرَرَوَلَا ضِرَارَ فِی الْاِسْلَامِ(سنن النسائی کتاب الاستسقا).باقی نہیں رہتے.ایسے شریر اگر فی الواقع موذی اور شریر ہیں تو اُن کی بیبیاں اور جگہ نکاح کر سکتی ہیں.بے تردّد نکاح اور جگہ کر لیں.کیا وجہ کہ نکاح نہ کر لیں.و ہ شخص بلا تکلف نکاح کر لے.(البدر جلد ۸ نمبر۶ مورخہ ۱۷ ؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۳) روز ہ کس عمر میں فرض ہے ؟ ایک شخص نے سوال کیا کہ کس عمر میں روزہ لڑکے کے واسطے فرض ہو جاتا ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ بالغ ہو جانے پر روزہ فرض ہو جاتا ہے اور بلوغ کا نشان یہ ہے کہ زیر ناف بال پیدا ہو جاویں یا نیند میں جماع کرے.فرمایا.صحابہ بچوں کو کبھی روزہ رکھوا لیتے تھے.فرمایا.غالباً پندرہ برس کے لڑکے بالغ ہوتے ہیں.

Page 53

غیر ذبیحہ ہرن کی کھال ایک صاحب نے لکھا ایک امر دریافت طلب ہے کہ غیر ذبیحہ ہر ن کی کھال بعد لگانے مصالحہ کے قابل جا نماز بنانے کے ہو سکتی ہے یا نہیں؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ جائز ہے.باجا یا دف ایک صاحب نے حضرت امیر المومنین سے مسئلہ دریافت کیا کہ بیاہ شادی میں باجا بجانا جائز ہے یا نہیں اور یہ بھی لکھا کہ بازی گروں کا تماشہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ کو دکھایا تھا اس واسطے وہ بھی جائز ہونا چاہیے.حضرت نے جواب میں فرمایا.با جا یا دف اعلان کے لئے جائز ہے.بے ریب حضرت نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں دف بجی.مگر بات کو لوگوں نے حد سے بڑھا دیا ہے اور حد سے بڑھنا بھی گناہ ہے.یہ بالکل سیاہ جھوٹ ہے اور روافض کا افتراء ہے کہ عائشہ صدیقہ ؓ کو اپنے کندھے پر چڑھایا اور بازی گروں کا تماشہ دکھایا.یہ بالکل غلط ہے.دف کا حرج نہیں.(البدر جلد۸ نمبر۶ مورخہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۹) سوالات اور ان کے جوابات ایک صاحب نے حضر ت امیر المومنین کی خدمت میں چند سوالات پیش کئے.حضرت نے مختصر مگر شافی جواب تحریر فرمائے.سوال وجواب درج ذیل ہیں.سوال.تعویذات ودم درست ہیں یا نہیں ؟ جواب.جن میں شرک نہ ہو وہ درست ہیں.حضرت نبی کریم خود اور آپ کی امت اب تک. (الفلق:۲)اور(الناس:۲)تعویذ ہے اور الحمد کادم کرنا احادیث سے ثابت ہے اور گلے میں تعویذ لٹکانا عبداللہ بن عمرو سے ثابت ہے.

Page 54

سوال.(الاعراف:۱۷۳)اگر پہلے سب روحوں کو پیدا کر کے کہا تو پھر تناسخ تو نہیں ؟ سیپارہ ۹ رکوع ۲۲ ( سورہ اعراف ).جواب.یہ عہد تو بنی آدم سے لیا گیا ہے لیا جاتا ہے لیا جائے گا نہ خود آدم سے.اور جو حدیث میں مذکور ہے وہ بھی آدمیوں کے ذرّات سے.تناسخ میں تو بکری آدمی اور آدمی بکری بن جاتا ہے.سوال.میں نے چاہا کہ زمین و آسمان بنائوں یہ کلمہ کسی بزرگ نے آگے بھی کہا؟ جواب.یہ معاملہ خواب کا ہو سکتا ہے یا کشف کا اور اس میں صاحب رؤیا کا کیا دخل ہے.سوال.اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ.قرآن کریم یا حدیث یا کسی بزرگ کے قول سے جو سنیوں میں مسلّم ہوں.ایسا ثابت ہے؟ جواب.قرآن کریم میں ہے (البقرۃ: ۲۰۱).اور قرآن مجید میں ہے (المائدۃ:۱۹).سوال.جناب رسالت مآب کو فرشتہ ہر مسلمان کی قبر میں لے جاتا ہے اور پوچھتا ہے اس کو مانا یا نہیں.تب تو مجسم کو حاضر ناظر کیوں تصور نہ کیا جاوے؟ جواب.یہ کہیں نہیں لکھا اور پھر قبر کا معاملہ اس جہان کا نہیں.سوال.؎تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد ؑ ،غیراللہ کی قسم منع ہے.جواب.پارہ نمبر۱۴.سور ہ الحجر دیکھو.ایک خط کا جواب ایک صاحب نے قوالی اور مجاہدات کے متعلق اور بعض دیگر باتوں کے متعلق خط لکھا حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ قوّال ہی نہ ہوں بلکہ فعّال ہوں اور یہی ہوں.ریاضات

Page 55

اور مجاہدات میں شدید کوفت ہو جاتی ہے اس لئے اس میں سماع اور وحدت کا مسئلہ آرام دہ ہے.مگر آپ ہی انصاف سے فرماویں اب سجادہ نشینوں میں وہ ریاضت شاقہ کہاں.حضرت عثمان ہارونی سے لگاتار سلطان جی تک جو وحدت چشتیہ ہے اس کا خاتم حضرت چراغ رضی اللہ عنہ ہی نظر آتا ہے.پھر آرام و راحت کا وقت آ گیا اور قبولیت عامہ کا تاج جب نسبتاً چشتیہ پر رکھا گیا تو رفتار و کردار میں گفتار زیادہ ہوتی گئی.پھر یہی شاہ تونسہ کے مجاہدات اور اسفار شاقہ کو دیکھ کر گو نہ تسلی ہوتی ہے اور خواجہ سلطان الہند کے ریاضات کا ذرہ سانقشہ نظر آجاتا ہے.یہ سرّ سماع و وحدت کا مجھے معلوم ہوتا ہے.عام طور پر دنیا پرستی، ہوا و ہوس اور بنائو ریا ء و سمعہ تک مجالس سماع کی نوبت پہنچ رہی ہے.اِلَّا مَنْ عَصِمَہٗ اللّٰہٗ وَ ھُوَ عَلٰی مَا یَشَائُ قَدِیْرٌسخن موزوں سے بھلا انکار ہو سکتا ہے.قرآن کریم خود موزوں ہے.آپ کا استنباط مسئلہ سماع پر میرے کلام سے صحیح ہے.مجھے مدینہ طیبہ عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَالْبَرَکَاتُ وَالرَّحْمَۃ ہو.اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُـہٗ عَلَیْکَ وَعَلٰی اٰ لِکَ اُلُوْفٌ اُلُوْفٌ مِنَ الصَّلٰواتِ وَ الْبَرَکَاتِ.ایک رؤیا ہوئی.مجھے شاہ غلام علی فرماتے ہیں مجدد صاحب وحدت وجود کے قائل نہ تھے.میں نے اپنے مکرم شیخ سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا.کیا تو قائل ہے؟ میں نے عرض کیا کہ بعض نظاروں کے باعث قائل ہوں.تو ہنس کر فرمایا.کچھ دنوں کے بعد قائل نہ رہو گے.آپ ہر روز ایک رکوع دو رکوع بتدبر قرآن کریم بہ نیت عمل پڑھا کریں اور یوں یقین کریں کہ آپ پر ہی نازل ہو رہاہے اور گھر میں چند سطریں سنا دیں اور یقین کریں کہ دوپر نازل ہو رہا ہے.پھر میاں بی بی مل کر دعا کریں کہ توفیق عمل عطا ہو.پھر کچھ حصہ خاص احباب کو سناویں اگر کوئی فہم سے بالا رہ جاوے تو اسے یادداشت میں اچھے خط سے درج کر دیں.سنت متوارثہ مشترکہ بین المسلمین صلوٰۃ و زکوٰۃ و حج و صوم عمل میں رکھیں.وَاللّٰہ الموفق.سنی و شیعہ مقلد و غیر مقلد میں فرائض مشترکہ ہیں صرف فاتحہ الکتاب کا ایک مسئلہ ہے جو جھگڑے

Page 56

میں آ گیا سو آپ پڑھ لیا کریں.بیعت کنندہ جماعت کے لئے میری دعائوں میں ہے کہ مومن مسلمان اور محسن ہو کرترقی کریں، استقامت و باہمی محبت میں مضبوط ہو کر روح القدس سے مؤید، آفات ارضیہ و سماویہ، امراض روحانیہ و جسمانیہ سے محفوظ رہ کر خادم دین اسلام اور مظفر و منصور ہوں.آمین استغفار کی کثرت ، لاحول کا شغل، غافلوں کی مجالس میں ضرور ہے.درو د شریف، سبحان اللہ عام طور پر اور الحمد میں تدبر کرتے رہیں.مولانا! عام لوگ مخالف نہیں ا صل مخالفت چنددنیا طلب علماء کو ہے یا جاہ طلب سجادہ نشینوں کو.امرا تو الّا ماشاء اللہ غفلت میں مخمور ہیں اِلّا قلیل.میںاشرار کے جنازہ کا مخالف ہوں ورنہ حوالہ بخدا.عزیز بقا محمد سلمہ اللہ کا خط پہنچ گیا ہے یہ لوگ دعا سے بہت کام لیں او رنیک نمونہ بنیں.واللّٰہ الموفق.نور الدین رسول کون ہے ؟ ایک چکڑالوی کا سوال پیش ہوا کہ انسان کی اطاعت شرک ہے اس واسطے رسول کی اطاعت ضروری نہیں.قرآن میں رسول کے لفظ سے مراد قرآن ہے کوئی انسان نہیں؟ جواب میں فرمایا.حضرت نوح ؑ نے وَاَطِیْعُوْنِ فرمایا ہے اگر اطاعت انسان رسول شرک ہے تو وہ کیا لکھتا ہے اور محمد رسول اللہ کیا قرآن مجید میں نہیں ؟ فرشتے ایک صاحب نے فرشتوں کے متعلق حضرت امیر المومنین سے دریافت کیا.حضرت نے مفصلہ ذیل جواب ارقام فرمایا.فرشتوں کی نسبت قرآن کریم میں ایک آیت کریمہ ایسی ہے کہ اس پر غور کرنے سے فرشتوں کے متعلق زیادہ بولنے سے دل کانپ جاتا ہے وہ آیت یہ ہے.

Page 57

(الزخرف:۲۰) اس پر آپ بار بار غور فرماویں.اللہ تعالیٰ قادر الکلام اور اس کا رسول … قادر الکلام، دونوں نے فرشتوں کو دیکھا ہے.اب جو کچھ وہ کہیں اگر عقل خدا داد کے خلاف نہیں تو وہ صحیح ہے.میں نے ایک بار مَلَک کو دیکھا ہے وہ انسان کی شکل میں متشکل تھا.قرآن مجید میں ہاروت ماروت کا نام بھی ہے جس کو میں نے دیکھا ہے اس کا نام محی الدین تھا.یہ سچ ہے.قویٰ کا نام مَلَک ہو.شرعی استعمال یا کتب سابقہ کا محاور ہ نہیں.مثنیٰ و ثلاث و رباع ملائکہ سے حال ہے یا جناح سے.اس میں علماء کا اختلاف ہے.جبرائیل جاور ایل سے بنا ہے جس کے معنے ہیںخدا کا مقرب.قوت اللہ قدرت اللہ.اس کے معنے نہ عبری میں ہیں نہ عربی میں.آپ نے کہاں دیکھا ہے.کتب الٰہیہ میں یہ نام ہیں.یہود کے نام ہرگز نہیں یہ آپ کو غلطی لگی ہے.مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کو ملازمت میں قرآن شریف کا تدبر رہتا ہے.تہجد.ا لحمد.قَسم ایک شخص کے سوالات متعلق تراویح، فاتحہ خلف الامام اور قَسم کے جواب میںحضرت امیرالمومنین نے فرمایا.جو شخص تہجد ہمیشہ بارہ رکعت پڑھتا ہے وہ ماہ رمضان مبارک میں آخر حصہ رات میں بدستور بارہ رکعت تہجد پڑھے اُس کو تراویح کی ضرورت نہیں.تہجد کا ثواب زیادہ ہے.تہجد کی فضیلت زیادہ ہے.جماعت کا ثواب فرضی نمازوں کا ہے یا واجب نمازوں کا.جو پانچ وقت نماز باجماعت پڑھتا ہے وہ تارک جماعت نہیں.الحمد شریف نماز میں بہت ضروری ہے.امام بھی پڑھے مقتدی بھی پڑھے.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ قرآن کریم مومنوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے.تم لوگ بھی قرآن چپ کر کے سُنو شاید تم پر بھی رحمت ہو جاوے قرآن میں خود یہی لکھا ہے.پس اس دوسرے حکم کے واسطے کفار مخاطب ہیں.قرآن شریف و حدیث سے بھی ثابت ہے کہ الحمد ضرور پڑھی جاوے.

Page 58

قَسم کے بدلہ میں قَسم کھانے والادس آدمیوں کو روٹی کھلاوے اور اس پر کچھ حرج نہیں.اپنی بی بی کے معاملہ میں خواہ مخواہ شبہ نہ کرے.اگر فرض کرو کہ طلاق دے دی تو ایک طلاق میں صرف رجوع کرنا اس کا کافی ہے اور اس نے رجوع کر لیا ہے.شبہ کی کوئی بات نہیں کوئی پکڑنہیں.استغفار بہت پڑھ لے.نوافل میں قرآن شریف دیکھ کر ایک شخص نے عرض کی کہ کیا یہ جائز ہے کہ میں نوافل میں قرآن شریف سامنے رکھ کر پڑھ لیا کروں اور اس طرح ختم کروں؟ حضرت امیرلمومنین نے فرمایا کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ وہ اپنے غلام سے اس طرح نماز میں قرآن شریف سن لیتی تھیں.نماز میں الفاظ کا تکرار ایک صاحب نے حضرت سے دریافت کیا کہ نماز میںکئی کئی دفعہ پڑھنے کوجی چاہتا ہے.یہ تکرار کلمہ ناجائز تونہ ہو گا اور سجدہ سہو نہ آوے گا؟ حضرت امیر المومنین نے جواب میں تحریر فرمایا.کا تکرار نماز میں جائز ہے.مگر آپ امام ہوں تو رعایت مقتدیوں کی ضرور ہے.اُس وقت وقتِ امامت زائد تکرا ر مناسب نہیں اور اپنے طور تنہائی میں جس قدر آپ چاہیں تکرار کر سکتے ہیں.جائز اور نبی کریم ؐ سے ثابت ہے.سجدہ سہو ہرگز نہیں پڑتا.سوتیلی ماں کے پہلے خاوند کی اولاد سے نکاح ایک صاحب نے دریافت کیا کہ زید نے ایک عورت سے شادی کی ہے زید کے ہاں پہلی بیوی سے ایک لڑکا ہے اور عورت کے ہاں پہلے خاوند سے ایک لڑکی ہے.کیا ا س لڑکے اور لڑکی کا نکاح آپس میں ہوسکتا ہے؟

Page 59

حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ نکاح جائز ہے.عورت کو خرچ کس طرح دیا جاوے ایک شخص نے حضرت امیر سے دریافت کیا کہ عورت کوخرچ اکٹھا دینا چاہیے یا روز کے روز؟ فرمایا.چاہے ایک دم ایک ماہ کا خرچ دے دیں.چاہے ہر روز کھانا دو وقت کا دیں.دونوں امر جائز ہیں.کیا قرآن شریف راگ میں پڑھنا جائز ہے ایک صاحب نے دریافت کیا کہ قرآن شریفکو راگ میں پڑھنا جائز ہے ؟ فرمایا.راگ میں پڑھنا تکلف اور غیر مفید ہے کوئی قوم راگ سے خدا رسیدہ ہوئی ہے؟ مجھے علم نہیں.ہم لوگ(صٓ:۸۷)سے ہیں.( البدر جلد۸ نمبر ۷،۸،۹مورخہ ۲۴.۳۱؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ تا ۵)

Page 60

قوم میں وحدت اور اتحاد ۱۰؍جنوری ۱۹۰۹ء کو حضر ت امیر المؤمنین مدّ ظلہ العالی نے خاکسار ایڈیٹرالحکم کو بلا کر مندرجہ ذیل مضمون اشاعت کے لئے لکھوایا اور فرمایا میں چاہتا ہوں کہ یہ کثرت سے شائع ہو.اس لئے احباب عام طور پر اس کو شائع کریں.(ایڈیٹر الحکم) آزادی قرآن کریم کو جہاں تک میں نے پڑھا ہے اور غور کیا ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کوقرآن میں حریت اور آزادی دیتا ہے جیسے وہ فرماتا ہے. (البقرۃ :۲۵۷) ٍ (الغاشیۃ:۲۳)(یونس: ۱۰۰) اور فرماتا ہے.(الحج :۴۱)اور اسی قسم کی بہت سی آیات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اختلاف آراء کادنیا میں بہت ہی ضروری ہے.جب جناب الٰہی کا خود منشاء نہ ہو تو دنیا کے مصلحین اس کو کیونکر مٹاسکتے ہیں.حفظ امن لیکن جیسے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک شخص کو اپنے اعتقاد اور قول اور فعل میں پوری حریت عطا کی ہے.اسی طرح قرآن کریم سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی ذات یا مال یا عزت یا کسی دوسرے کی ذات و مال اور عزت کا خلاف کرنا چاہے تو ایک حد تک ناصح اور قوم اور اگر کسی کی سلطنت ہو تو وہ سلطنت ہر ایک شخص کو ایسے فعل کے ارتکاب سے روک سکتی ہے اور روکنا ضروری ہے.قرآن کی آیتیں  (النساء :۶)مال پر اور (البقرۃ :۱۹۶) ذات پر اور (المائدۃ :۳۴) سے معلوم ہوتا ہے کہ ناصح اور قوم اور سلطنت ہر ایک بقدر امکان

Page 61

خود اس فرد یا امکان کو جو اپنے یا دوسرے کے لئے مضر ثابت ہوں ضرر سے روکیں یہی جڑ اسلام کی صلح اور جنگ کی مجھے معلوم ہوئی ہے.مالی یا جانی ضرر کے لئے نماز جیسی چیز کے لئے تیمم اور لیٹ کے نماز پڑھنا اور روزہ بعض حالتوں میں ترک کردینا اور حج کے عذر اور زکوٰۃ کے لئے نصاب اور فقہ کے تمام ابواب کو دیکھا جاوے تو ایسے ہی اصولوں پر مبنی ہیں.خلاصہ یہ ہوا کہ ہر ایک شخص اپنے اعتقاد اور قول اور اعمال میں بشرطیکہ کسی کے لئے حتی کہ اس کے اپنے لئے بھی مضر نہ ہوں، آزاد ہے.وَاِلّا آزاد نہیں.ترقی کا حق دوسری بات جو قبل از مطلب بیان کرنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس آزادی میں جس کا ذکر اوپر ہوا ہے.ہر ایک شخص بے انتہا ترقی کا حقدار ہے اور اس کے لئے صرف اتنی ہی روک ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی ترقیات میں اپنے یا دوسرے کے لئے مضر ثابت نہ ہو.ہاں بعض حالتوں میں اس کی ترقی کی حدبندی اس قادر و مقتدر کے ماتحت ہوجاتی ہے جس کے عجائبات اور حکمتوں سے یہ ترقی کن خود بھی ناواقف ہے.وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ مُّحِیْطٌ.مشکلات تیسری بات ہر ایک ترقی کے ساتھ کچھ مشکلات اور کوئی تنزّل، وقفہ بہت ضروری ہے.اسی واسطے تمام عالم میں ترقیات کے نظاروں میں روک اور تنزّلات کا نظارہ ہم دیکھتے ہیں اور غالباً اسی لحاظ سے جانور ترقی سے رکے ہوئے ہیں اور انسان کی ترقیات حیرت انگیز ہیں.مثلاً تمام کارخانہ دنیا کا اس وقت یا پہلے زمانوں میں پیشگوئیوں پر چلتا ہے.ریل پر جانے والا تار کے ذریعہ یا خط کے ذریعہ پیشگوئی کرتا ہے اور اپنے دوست کو اطلاع دیتا ہے کہ میں فلاں بجے اسٹیشن پر پہنچوں گا یا تمہارے گھر پہنچوں گا اور اس کی پیشگوئیوں پر اس دوست کو موقع لگتا ہے کہ اپنے نوکروں، چاکروں اور گھر والوں کو پیشگوئی کرے کہ فلاں دوست فلاں وقت آج آئے گا.یہ پیشگوئیاں صحیح ہوتی ہیں مگر بعض وقت کولیژن (collision)یا اور اسباب سے غلطی بھی ہوجاتی ہے.تمام ملازمت پیشہ اس لئے کام کرتے ہیں کہ ہمیں فلاں تاریخ تنخواہ ملے گی اور غالباً ملتی ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی ہوجاتا ہے.تاجر کی خط و کتابت اور ہُنڈیاں اور زمیندار کے کاروبار بھی ایسے ہی ہیں اور خلاف بھی ہوجاتا ہے لیکن

Page 62

دنیادار لوگ ان پیشگوئیوں کے کبھی کبھار غلط ہونے سے اپنی پیشگوئیوں کو نہ ترک کرتے ہیں نہ ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور یہی ان کے لئے ترقیات کا موجب ہے.پیشگوئیاں ایسے ہی اہل اللہ بھی خدا تعالیٰ سے اطلاع پاکر پیشگوئیاں کرتے ہیں اور اگر وہ راستباز ہوں اور اگر فی الواقع اہل اللہ ہوں تو ان کی پیشگوئیاں غالباً صحیح ہوتی ہیں مگر ان کی ترقی کے لئے کبھی کبھی ان کی پیشگوئیاں خود ان کی نظر میں یا لوگوں کی نظر میں غلط ہوجاتی ہیں اور یہ ان کی ترقیات کا موجب ہے.یہ عجائبات ہیں کہ ایک طرف کی پیشگوئیوں کی غلطی دنیاداروں کو اپنے کاموں میں سست نہیں کرتی مگر دوسری طرف کی پیشگوئیوں سے ٹھوکر کھاتے ہیں اور اس ترقی کی حکمت کو نہیں سمجھتے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی اُسوہ اس حریت اور ترقی اور تنزّل اور مشکلات اور روکوں کا نظر نہیں آتا.اس لئے ہم کو وہاں ہی سے مثالیں لینی پڑتی ہیں.آپ کے عہد میں اُحد کا واقعہ اور غزوہ احزاب کا معاملہ اگرچہ ناعاقبت اندیشوں کے لئے آپ کی ترقیات کی روک تھی مگر اُحد کا ظاہری فاتح خالد بن ولید اُحد کے بعد ہی معاً مسلمان ہوگیا اور غزوہ احزاب میں تو خود حضرت نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اب ہم مکّہ والوں اور مخالفوں پر چڑھائی کریں گے اور وہ ہم پر چڑھ کر کبھی نہیں آئیں گے.آپ نے جب فتح مکّہ کے بعد اپنے فتوحات کو تقسیم فرمایا تو اس میں سے بہت بڑا حِصّہ مؤلّفۃ القلوب کو عطا کیا مگر انصار کے جلدباز نوجوانوں نے جب کہا کہ ہماری تلواریں دشمن کے خون کو ٹپکاتی ہیں اور فتوحات کا مال غیروں کو دیا جاتا ہے.جس پر آپ نے انصار کو بہت بڑا وعظ کیا اور اس بات کا خمیازہ انصار کو کچھ ایسا اٹھانا پڑا کہ وہ ہمیشہ فتوحات کے حِصّہ لینے میں اس دنیا میں پیچھے ہی رہے اور واقعہ مجھے یاد آیا ہے کہ کسی موقع پر آپ نے کچھ اموال کو تقسیم فرمایا تو ایک شخص نے جس کی ظاہری شکل کا بھی تذکرہ احادیث میں ہے یہ کہا کہ ھٰذِہِ الْقِسْمَۃُ مَا اُرِیْدَ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ (بخاری کتاب خمس باب ماکان نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوتی المؤلفۃ القلوبھم وغیرھم) کیا معنی؟ آپ کی اس تقسیم میں عدل و انصاف اور خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہی کو مدِّنظر نہیں رکھا گیا.گویا اس کے یہ معنی ہیں کہ (معاذ اللّٰہ)نبی کریم خائن ہیں (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ)بعض پُرجوش طبائع نے اس شخص کو قتل بھی

Page 63

کرنا چاہا مگر آپ کی رحیم کریم طبیعت نے اس جوشیلے کو بھی یہ کہا کہ ایسے لوگ ابھی بہت سے آنے والے ہیں.گویا اس کو سبق دیا گیا کہ تُو اور تیرے جانشین ہمیشہ مدِّنظر رکھیں کہ ایسی مشکلات کا ہونا بھی مالی تقاسیم کے وقت ضروری ہے.میری پرورش خدا کرتا ہے میں اس بیان کے بعد یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ میری عمر اس وقت اُمتِ محمدیہ کی معمولی عمروں سے جوساٹھ اور ستّر کے درمیان فرمائی گئی ہیں زیادہ ہے اور مجھ کو جہاں تک مجھے علم ہے ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے بے منتِ خلق محض اپنے فضل سے ہزاروں ہزار نعمتوں سے متمتع فرمایا ہے.حضرت امام شعرانی نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں الٰہی نعمتوں کے متعلق اس نے بیان کیا ہے مگر مجھ پر اس قدر نعمتیں ہیں کہ میں ان کے بیان میں بھی شرمسار سا رہ جاتا ہوں اور مجھے کامل یقین ہے کہ جس نے میری ہمیشہ ایسی پرورشیں کی ہیں اب میں اس کی جناب میں ان تھوڑے دنوں کے لئے دو بھر نہیں میرے کھانے پینے، پہننے اور مکانوں میں رہنے کا انتظام.جیسا میں ہمیشہ بیان کرتا رہتا ہوں بے شک ایک اچنبھا راز الٰہی ہے اور اب تو اور بھی اچنبھا ہوگیا ہے.حضرت صاحب کے وقت بھی مالی معاملات کے متعلق ایک ہمارے دوست نے کسی قسم کا اعتراض کیا تھا اور حضرت صاحب نے اسے اور باقی احباب کو بھی قسم دی تھی کہ آپ لوگ مجھے کچھ نہ دیں.میں تمہارے اموال کا کوئی محتاج نہیں مگر اس مخلص دوست کی یہ غلطی آخر عفو کے نیچے آگئی.حضرت صاحب کی زندگی کے بعد ایک سہارنپوری نوجوان نے مجھے لکھا تھا کہ لنگر کی آمدنی بہت زیادہ ہے اور خرچ بہت کم ہے.مجھے اس کی تحریر پر اس لئے تعجب ہوا تھا کہ نہ اس نے کبھی خود کمایا نہ کبھی اپنی کمائی سے کسی کی خبرگیری کی.اس سے کیونکر اندازہ لگ سکتا ہے کہ خرچ کیا ہوتے ہیں اور آمدنی کے کیا اصول ہیں.حضرت صاحب کی زندگی میں اگر وہ ایسا اعتراض کرتا اور مجھ سے پوچھتا تو میں شاید اس وقت جواب نہ دے سکتا.حالت لنگر کیونکہ لنگر کی آمدنی حضرت صاحب کی ذات سے وابستہ تھی اور اس کا کسی کو علم نہ تھا لیکن جس وقت اس نوجوان نے اعتراض کیا اس وقت لنگر کی آمدنی اور خرچ کامجھے پورا علم تھا اور میں یقین کرتا ہوں کہ لنگر بجائے اس کے کہ اس سے کچھ بچے مقروض ہوجاتا ہے.لنگر کی آمدنی میں

Page 64

میرا یہ یقین تھا کہ حضرت صاحب کے کنبہ اور متعلقین کو اس میں سے کافی امداد دی جاوے لیکن آج تک جو ۱۷؍ذی الحجہ ہے کوئی راہ ایسی نہیں نکلی کہ سوا معمولی کھانے پینے کے کوئی مالی نقد یا کپڑے یا ضروری مکان بنادینے کی امداد میں یا صدرانجمن احمدیہ قادیان کرسکی ہو.خود میں اپنی ذات سے اپنے کھانے کے لئے لنگر سے لینا طبعاً مکروہ سمجھتا ہوں ہاں میرے ساتھ جو لوگ وابستہ ہیں ان میں سے ایک لڑکا میرے دوست کا اور دوسرا لڑکا ہماری ایک بھتیجی کا، لنگر سے وہ کھانا کھاتے ہیں جو بہت ہی ادنیٰ درجہ کا ہوتا ہے.حضرت صاحب کے وقت میں عمدہ سے عمدہ کھانا لنگر سے آیا ہوا اپنے سامنے دیکھتا تھا اور وہ سب کچھ حضرت صاحب کے صبح و شام کی تاکیدات کا نتیجہ تھا.حضرت بیوی صاحبہ نے جو میرے ایسے حالات سے زیادہ تر واقف ہیں.ایک بار کچھ نقد روپیہ بہت ہی الحاح کے ساتھ مجھے دیا اور یہ کہا کہ یہ صرف تیرے کھانے کے لئے ہے اور ساتھ ہی کچھ روپیہ دیا کہ اس کو لنگر میں آپ داخل کریں مگر دوسرے حِصّہ میں سے نہ دیں نیز سخت ضرورت پر اور وہ ضرورت یہ ہے کہ میاں شریف احمد کی شادی جہاں ہوئی ہے اس لڑکی کے لئے ایک مکان کی ضرورت تھی.سو اس کو انہوں نے جن مشکلات سے بنایا ہے ان کو وہ سمجھتے ہیں.جن کو باہر سے کوئی روپیہ نہ دیا گیا ہو اور پھر مکان بھی بنانا پڑے مگر میں یا صدرانجمن یا لنگر اس امداد میں شریک نہیں ہوسکے.حضرت صاحب کے وقت کس قدر روپیہ بچتا تھا.اس کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ آپ کے بعد آپ کے ذمہ پانچ سو روپیہ کا قرضہ تھا جس کو کسی چندہ اور آمدنی نے ادا نہیں کیا.وہ ادا تو ہوا مگر ایسے راہ سے ادا ہوا کہ اس میں کسی چندہ دہ یا عام مرید یا کسی یک مشت مخفی طور پر دینے والے نے اس میں شرکت نہیں کی بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ حضرت صاحب کی اپنی کسی محنت اور تکلیف سے وہ ادا ہوا ہے.یہ باتیں درد مند دل سے نکلی ہوئی ہیں.اس جلسہ پر جو کچھ مختلف تقریروں میں ہمارے مخلص احباب نے کہا وہ سب کچھ اخلاص اور درد اور سچی محبت کا نتیجہ تھا.میں جب تقریر کے لئے کھڑا ہوا تو بجائے اس کے کہ میں تمہیں کسی قسم کی مالی تحریک کرتا میں نے یاوعظ پر اکتفا کیا یا اس راہ کے اظہار پر اکتفا کیا جس پر قدم مارنے سے مجھے آرام ملا.اِشْفَعُوْا تُوْجَرُوْا(مشارق الانوار علٰی صحار الا ثارجزو ۲ صفحہ۵۱۲)کے رنگ پر بعض کتب فروشوں اور

Page 65

ر کتابوں کی خرید کی سفارش بھی کی جن میں نہایت پسندیدہ کتاب ’’تائید حق‘‘ تھی مگر اس تحریک پر صدہا جلدیں تائیدوں میں سے ایک کم اَسّی ۸۰ کتاب غالباً لوگوں نے لیں.۱۵ اور ۱۶؍ذی الحجہ کو چند لڑکے یتیم اور مساکین اور چند طالب علم یہاں آئے اور نیز وہ طالب علم عربی کے جن میں سے کچھ میرے پاس حدیث و طب پڑھتے تھے اور کچھ وہ جو آگے ان سے پڑھتے تھے.ان کے خرچ کا مجھے فکر پڑا اور میں نے یہ خیال کرکے کہ جس قدر چندے یا خرچ حضرت صاحب کے عہد میں تھے ان میں کوئی جدید شاخ اب تک نہیں نکلی بلکہ تصنیفوں اور اشتہاروں کے لحاظ سے خرچ میں گونہ تخفیف ہے مگر لنگر پرا ن طلباء کا بوجھ مجھے ناگوار اور ناپسند نظر آیا کیونکہ حضرت صاحب کے وقت ان طلبہ کا کھانا لنگر سے نہیں دیا جاتا تھا.اس خرچ کو یتامیٰ سابق(۱۴)، جدید(۳)، کل(۱۷)، مساکین سابق(۳۰)، جدید(۹)، کل(۳۹) اور طالب علم کل(۱۷) ان سب کا کھانا لنگر سے علیحدہ کرنے کا جو خیال ہوا تو میں نے مولوی محمد علی صاحب کو چندہ لنگر جو اس وقت میرے ایک دست اور بازو اور جن کے اخلاص پر مجھے تعجب آتا ہے اور رشک بھی آتا ہے یہ کہا کہ پانچ ہزار روپیہ ان لوگوں کے لئے خصوصیت سے الگ چندہ کیا جاوے توکہ لنگر اس بوجھ سے محفوظ رہے.تو میں نے با اینکہ میں صاحب نصاب کسی زکوٰۃ کا نہیں ہوں سو روپیہ اپنی گرہ سے دینا کیا ہے.اور ان کو تاکید کی کہ میری طرف سے اس چندہ کے بارہ میں آپ ایک چٹھی شائع کریں.یہ تو ۱۵اور۱۶؍ ذی الحجہ کا قصہ تھا کہ چند ایک غرباء کے بیمار ہوجانے سے میر صاحب ناصر وارڈ میر ناصر نواب کو جو آج کل انجمن ضعفاء کے سرگرم ممبر ہیں ایک جوش پیدا ہوا کہ ان بیماروں کے لئے ایک وسیع مکان بنانا ضروری ہے تاکہ ڈاکٹر اور طبیب ایک ہی جگہ ان کو دیکھ لیا کریں اور ان کی تیمارداری میں کافی سہولت ہو.ان کی اس جوش بھری خواہش کو میں نے محسوس کرکے ایک سوروپیہ کا وعدہ ان سے بھی کرلیا ہے اور تیس روپے نقد بھی دئیے.ایک پرانی رقم ساٹھ روپیہ کی جو اس کام کے لئے جو میں نے جمع کی اس کے بھی نکلوادینے کا وعدہ کیا.اس جوش بھرے مخلص نے قادیان کے بستی مخالفوں اور موافقوں ہندو اور مسلمان، دشمن و دوست سب کو چندہ کے لئے تحریک کی.جہاں تک

Page 66

مجھے علم ہے اس کا اثر تھا کہ رات کے وقت میری بیوی نے مجھ سے بیان کیا کہ آج جو میر صاحب نے تحریک کی ہے اس میں میں نے سچے دل اور کامل جوش اور پورے اخلاص سے چندہ دیا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اگر ایسے مکان کے لئے ہمارے کوئی مکان کسی طرح بھی مفید ہوسکیں تو میں اپنی خام حویلی دینے کو دل سے تیار ہوں.یہ سب کچھ میر صاحب کے اخلاص اور دلی جوش کا نتیجہ تھا.میں نے اس سچے عقدہمت اور جوش کو دیکھ کر ایک ایسے آدمی سے جو میرے خیال میں کبھی چندہ میں شریک نہیں ہوا اور غالباً وہ چندوں سے مستفیض بھی ہے یہ کہا کہ ایسے جوش سے اگر آپ لوگ عربی میں دینیات میں تعلیم کے واسطے پُرجوش کوشش کرتے تو آپ بھی یقیناً بہت بڑے کامیاب ہوجاتے مگر اس نے مجھے یہ کہا ایک معترض کہ جس قدر یہاں چندے وصول کئے گئے اور بیان کیا گیا وہ سب کچھ ایک بے ایمانی اور دھوکہ اور فریب اور دغابازی کا کام تھا جو شریر النفس لوگوں نے عربی تعلیم کے بہانے سے وصول کیا اور لوگوں کو دھوکا دیا اور وہ روپیہ اپنی اغراض میں صرف کیا یا کرتے ہیں.مجھ کو اس فقرہ سے جو تکلیف ہوئی ہے اس کا بیان کسی لفظ میں میں نہیں کرسکتا. (البقرۃ:۱۵۷) (یوسف:۸۷ ) اور لَقَدْ اُوْذِیَ مُوْسٰی وَ مُحَمَّدٌ اَکْثَرُ مِنْ ذَالِکَ کے سوا کوئی تسلی کا موجب نہیں ہوسکتا مگر میں دنیا میں زیادہ دیر رہنے کے لئے نہیں جیسا کہ اس شخص کا خیال ہے.اگر اور بھی کوئی ایسا ہو.اس نے تو کبھی بھی مالی شرکت نہیں کی اور واقع میں جو مالی شرکت رکھتا ہے صاف لفظوں میں سنانا چاہتا ہوں اور تمام ان لوگوں کو جو قادیان میں چندہ دیتے ہیںبلند آواز سے میں کھول کر کہتا ہوں کہ ہندوستان میں کانگریسوں، انارکسٹوں، کانفرنسوں، انجمنوں، ندووں، کالجوں، سکولوں، عربی مدارس اور سنسکرت کے مدارس کے لئے لاکھوں روپیہ بلکہ کروڑوں تک خرچ ہوتا ہے.جن جن موقعوں پر وہ لوگ اس روپیہ کو خرچ کرتے ہیں ان کاموں میں قوم کے محسن، ملک کے محبّ اور منجّیوہ یقین کئے گئے ہیں لیکن ہماری چھوٹی سی جماعت جس کا روپیہ لاکھوں کے ابھی نزدیک بھی نہیں اس میں اگر دھوکادہ اور فریبی لوگ کہلاتے

Page 67

ہیں تو ہم سے بدتر کوئی بدنصیب نہیں ہوسکتا.جو چندے یہاں دئیے جاتے ہیں وہ میرے خیال میں حسب ذیل ہیں.مدات چندہ اوّل لنگر، اور یہ بہت پرانا چندہ ہے جس کی حقیقت ہمیں اب معلوم ہوئی ہے کہ اس میں بچت کی کوئی گنجائش نہیں.باایں کہ میرا ذاتی خرچ اس میں نہیں.دوسرا میگزین، جس کی نسبت حضرت صاحب کا یہ ارشاد تھا کہ دس ہزار میگزین، انگریزی کا پرچہ شائع ہونا چاہیے.اگر اس کے خرچ کو کوئی دھوکہ باز اور بے ایمانی سمجھتا ہے تو وہ شخص ہوسکتا ہے جو حضرت صاحب کو جو اس پرچہ کے اصل بانی ہیں دھوکاباز اور بے ایمان قرار دے لے.تیسرا یہاں کا ہائی سکول ، مڈل اور پرائمری ہے.اس کا محرک نور الدین اور مرزا خدا بخش تھے اور اس میں ہماری نیک نیتی یہ تھی کہ جو لوگ یہاں رہتے ہیں اور جو احباب قادیان سے باہر ہیں انہیں اپنی اولاد کو آخر وقتی ضروریات کے باعث تو سکولوں میں بھیجنا ہی پڑتا ہے اور خرچ کے متحمّل ہوتے ہی ہیں اور سکولوں اور بورڈنگوں کی ناگوار برائیوں میں پھنسنے کا احتمال ہے.اس لئے اگر وہ لوگ اس سکول میں اپنے بچوں کو بھیج دیں اور وہی خرچ جو ان کو ان سکولوں میں دینا پڑتا ہے یہاں دے دیں تو ان کے بچے بورڈنگوں میں جو امور مضر اخلاق و صحت پیدا ہوتے ہیں ان سے نسبتاً محفوظ رہیں.حضرت صاحب نے بھی اس کو جائز رکھا.سکول کا چندہ صرف اسی طرح پر خرچ ہوتا ہے جس طرح سرکاری ہائی سکولوں میں خرچ ہوتا ہے.سرکاری عہدہ دار اس کے نگران ہیں.سرکاری رنگ میں مجوزہ کو ڈ یونیورسٹی کے موافق اس کی تعلیم ہے.اگر کوئی امر زائد ہے تو صرف یہ ہے کہ ان لڑکوں کے ماسٹرخصوصیت سے وہ ہیں جن کو حضرت صاحب بہت ہی پسند کرتے تھے اور میں تو ان کے کاموں کو رشک کا موجب یقین کرتا ہوں.اس میں شک نہیں کہ یہ انگریزی پڑھاتے ہیں عربی کے مدرس نہیں اور لڑکے نمازوں کے پابند کرائے بھی جاتے ہیں اور وہ میرے درس میں بھی حتی الامکان شامل ہوتے ہیں اور سعادت مند اس سے متمتع بھی ہیں.کتنے لڑکے ہیں جن کی نسبت میرا یقین ہے کہ انہوں نے پاک تبدیلی اس سکول میں رہ کر کی ہے.مجھے کوئی حرج نہ ہوگا اگر ان میں سے چند کے نام بھی لے دوں.مثلاً ماسٹر غلام محمد، فتح محمد

Page 68

ضیاء الدین، محمد علی ہیں جو سکول سے نکل کر کالجوں میں پڑھتے ہیں.ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ بعض شریر النفس جن کو پہلے ہی کسی ایسی راہ پر چلنے کا اتفاق ہوا جس سے ان کی طبیعتیں روبہ اصلاح نہ ہوسکیں.پر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے ایسے افراد کا ہونا ضروری ہے.پس مدرسہ کا چندہ یقیناً دھوکا کے طور پر نہیں بلکہ یقیناً ایک ہائی سکول کا چندہ ہے.تیسرے مد زکوٰۃ ہے.باایں کہ زکوٰۃ کا مصرف قرآن میں بہت ہی مفصل موجود ہے مگر پھر بھی قاضی امیر حسین ،مولوی سرور شاہ اور سید محمد احسن سے باوجود عدم ضرورت مشورہ کرلیتا ہوں.صرف مؤلفۃ القلوب کی مد جس کو ہمارے فقہا نے غیر ضروری سمجھا تھا.میں اس کو حضرت صاحب کے عہد میں بھی، اس کو ضروری سمجھتا تھا اور اب بھی اس کو ضروری سمجھتا ہوں اور اس میں بھی زکوٰۃ کو لگا لیتا ہوں.اور چونکہ ہماری جماعت ضعفاء کی ہے اس واسطے اوّل تو زکوٰۃ کے دینے والے ہی کم ہیں.پھر جو دینے والے ہیں ان کو اپنے اقارب بھی مدِّنظر ہیں.پھر اس قحط سالی اور بیماریوں نے اور بھی اس مدکو مشکلات میں ڈال دیا ہے.چوتھا چندہ وہ ہے جو بطور نذر کے لوگ میرے ہاتھ میں دیتے ہیں.چونکہ اس وقت جب یہ لوگ دیتے ہیں ایسا موقع ہوتا ہے کہ تفصیل سے پوچھا نہیں جاتا.اس لئے تمام ایسے نذرانہ کے چندوں کو اپنے علم صحیح اور مضبوط تجربہ سے مولوی محمد علی کو امین سمجھ کر اور محتاط یقین کرکے ایک پیسہ سے روپیوں، نوٹوں، پونڈوں تک ان کے سپرد کردیتا ہوں.ہاں ایسی نذریں جن میں بطور نظیر کے میں دو چیزوں کا ذکر کرتا ہوں کہ شیخ رحمت اللہ نے مجھے کچھ گرم اور لٹھے کے کپڑے ایک بار نہیں دو بار بھیج دئیے اور ایک میرے پنجابی بہت ہی پرانے مخلص دوست نے مدراس سے ایک گرم کوٹ بھیج دیا یا ایک میرے سکھ دوست نے کشمیر سے گرم پٹی روانہ کردی.اس کو میں خدا تعالیٰ کا فضل اور رحم یقین کرکے آپ لے لیتا ہوں.نقدی میں ایسااتفاق بہت ہی کم واقعہ ہوتا ہے اور وہ بھی ایسے لوگوں سے کہ مرزا یعقوب بیگ نے مجھے اور جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے بیوی صاحب نے الحاح سے کہہ دیا کہ یہ

Page 69

تیرے ذاتی اخراجات کے لئے ہم دیتے ہیں یا ایک میرے نہایت ہی پرانے مخلص مولوی یحيٰنے ضلع ہزارہ سے مجھے ایک دفعہ یہ کہہ کر کچھ دیا کہ یہ بڑا ہی حلال طیب مال ہے جس کو آپ کھائیں اور ہمارے لئے دُعا کریں کیونکہ حرام کھانے والے کی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں اور یہ مال بلا اشتباہ حلال طیّب ہے تو میں نے اس مال کو بہت پسند کیا اور گھر میں تاکید کردی کہ اسے احتیاط سے ہمارے کھانے پینے میں لگائیں.اس کے سوا کچھ ایسی رقومات ہیں جن میں مثلاً جماعت سیالکوٹ نے مجھے خصوصیت سے درخواست دی کہ آپ کا نذرانہ جماعت سیالکوٹ علیحدہ حاضر ہوکر پیش کرنا چاہتی ہے کوئی وقت مقرر کیا جاوے.مگر ان کو کوئی ایسا موقع نہ ملا اور وہ روپیہ جو ان کے خیال میں ہوگا ہم نے عام اغراض بیت المال اور صدرانجمن احمدیہ کے نیچے رہنے دیا اور ان سے نہ لیا.پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس شخص نے کس طرح چندہ لینے والوں کو فریبی دھوکہ باز اور دغا دہندہ یقین کرلیا.تمام ایسے لوگ جو ہماری جماعت میں ہوں ہم ان سے بہتری کرتے ہیں.بلکہ میری ایک لڑکی جس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے تھے وہ مرگئی تو اس کا وہ روپیہ اس کی ماں کی درخواست پر ہم نے کسی تجارت پر کسی تاجر کو دے دیا اور پھر امۃ الحئی کے پیدا ہونے پر ہمیں خیال تھا کہ وہ روپیہ اسی کو دے دیا جاوے گا.مگر ان بدمعاملہ لوگوں نے ہمارا اصل روپیہ بھی پورا نہ دیا.باایں کہ وہ دعوے کرتے ہیں کہ ہماری جماعت اور ہمارے مریدوں میں داخل ہیں.مگر چونکہ ہم نے ہی دلایا تھا ہم ذمہ وار تھے کہ وہ روپیہ بیوی کو دلادیں.امۃ الحئی کو ہم نے کہا کہ اگر تم سورہ بقر ہمارے منشاء کے موافق ہم کو سنادو تو ہم تم کو سردست دو سو روپیہ بطور انعام کے دیں گے لیکن ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ ایسا نہ ہو یہ دو سو روپیہ کسی کے ابتلاء کا موجب ہو میں نے اس روپیہ کے دینے میں تامل کیا.مگر آج رات مجھے انشراح صدر سے یہ ثابت ہوا کہ ایسے ابتلاء آتے ہی ہیں اور آئیں گے پس ہم اس پاک انعام کے دینے میں کیوں تامل کریں.ہم نے

Page 70

یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ انعام عنقریب اسے دے ہی دیں گے اور ادھر خدا تعالیٰ نے یہ سامان کردیا کہ حکیم فضل دین نے مجھے کہا کہ آپ کے دو سو دس روپیہ میرے ذمہ ہیں عنقریب دے دوں گا.پس جو لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کہ ان کا روپیہ میر زاہد اور ملاں جلال اور امور عامہ اور حمد اللہ قاضی اور شمس بازغہ کے پڑھنے میں دھوکہ سے لیا گیا ہے یا دھوکا سے لیا جاتا ہے تو وہ یاد رکھیں کہ یہاں کوئی آدمی سردست ان کتابوں کو نہیں پڑھتا اور نہ ان کتابوں کے پڑھنے کے لئے ہم نے آج تک کسی مخلص سے کوئی چندہ لیا ہے.ایسے لوگ جیسے خواجہ کمال الدین ہیں اور ڈاکٹر یعقوب بیگ ہیں یا سید محمد حسین یا سید حامد شاہ، مولوی غلام حسن، مولوی محمد علی، مولوی شیر علی، مفتی محمد صادق، خلیفہ رشید الدین، حکیم فضل الدین، شیخ یعقوب علی، سید محمد احسن ہیں اور صدرانجمن کے ممبر جن کاموں کے لئے روپیہ کو لیتے ہیں.میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ کو یاد کرکے غلیظ قَسم کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ اپنے اغراض کے لئے یا فریب اور دھوکہ سے روپیہ نہیں لیتے نہ کسی ایسی عربی تعلیم کے لئے جس میں کتب بالا یا دیوان.......متنبّی پڑھایا جاتا ہو.ابھی تک نہ کوئی روپیہ لیا ہے اور نہ کسی نے ہم کو دیا ہے.ہمارا بے شک یہ منشاء تھا کہ جس طرح سید محمد احسن صاحب نے اپنے خطبہ میں جلال کے ساتھ صدرانجمن کے کورم اور ان کے علوم پر حملہ فرمایا تھا.اس جوش کو عربی مدرسہ کے چندہ کے لئے خرچ کرتے اور پاک پُرجوش لفظوں میں حاضرین جلسہ کو یوں فرماتے کہ جس طرح ان وکلاء و ڈاکٹروں نے آپ لوگوں سے چندے لئے ہیں اور اپنے اغراض کا ذکر کیا ہے.اسی طرح مجھے بھی چندہ دو اور میری یہ غرض ہے.وہ حقیقی جوش دکھاتے تو میں ناامید نہ تھا کہ وہ جوش بیکار جاتا اور عربی مدرسہ کے لئے ایک موقع نہ نکال دیتا.یا یہ معترض بجائے اس کے کہ ہم سب کو بے ایمان، خود غرض، شرارتی، دھوکہ باز کہتا خود کوئی کام کرکے دکھاتا تو ہمیں بہت خوشی ہوتی.عربی مدرسہ کے لئے جیسی ہم کو خود تڑپ ہے ہر ایک کو کہاں ہوسکتی ہے مگر اس وقت تو ہر کام کے لئے روپیہ کی ضرورت پڑتی

Page 71

ہے اور روپیہ ان ضروری کاموں کے لئے بھی کافی نہیں ہے جو حضرت صاحب کے وقت اس کے مصارف تھے.مثلاً میگزین، لنگر، ہائی سکول اور واعظ، بڑی مسجد اور ہائی سکول یا کالج کی عمارت اور واعظوں کا خرچ، جب یہی پورے نہیں ہوتے جن کو حضرت صاحب نے قائم کیا تھا تو ہم عربی کا ایک بڑا مدرسہ جو اپنی ذات میں بڑے خرچ چاہتا ہے اور دیکھ لو کہ ندوۃ العلماء اور دیوبند، الٰہیات کا مدرسہ کانپور اور انجمن نعمانیہ جو ان کاموں کے لئے وقف ہیں.ان کے مہتمموں کو کیسی کیسی مشکلات کا آئے دن سامنا کرنا پڑتا ہے.اب قبل اس کے کہ اس مضمون کو ختم کروں.ایک سوال کا حل کرنا کسی قدر ضروری ہے کہ اگر تمہارے ہاں کوئی سکول عربی کا جس میں یہ زواہد ثلاثہ اور حمداللہ قاضی نہیں پڑھائے جاتے تو تم کیا کرتے اور ان چندوں سے تم کیا کام لیتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قوم میں وحدت اور اتحاد اور ان سے کلمہ شہادت کا اقرار، توبہ اور استغفار کراتے ہیں اور ان کو تاکید کرتے ہیں کہ تم استغفار، توحید، لاحول، الحمد، درود شریف اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی پابندی کرو اور بتدریج اخلاق فاضلہ کی طرف قدم مارو اور بدیوں کو ترک کرو.ہمارا خطبہ جو اس جلسہ میں ہوا ہے وہ ہماری ایک روزانہ کارروائی کا نمونہ تھا اور ہم اپنی جماعت کے لئے خصوصیت سے تڑپ تڑپ کر دُعائیں مانگتے ہیں کہ ان میں ترقی واستقامت ہو اور آفات ارضیہ و سماویہ سے محفوظ رہ کر دین کے خادم بنیں.کوئی مخفی وظیفہ کوئی مخفی ہدایت کوئی مخفی تعلیم اس سادہ تعلیم کے سوا نہیں کرتے اور نہ قادیان کا مدرسہ سردست کسی اور تعلیم کا دعویٰ کرتا ہے.یہاں لوگ آئیں اور باہم محبت پیدا کریں.ہم سے ملیں.ہماری سادہ تعلیم جو تمام انبیاء کا مشترکہ خزانہ ہے اس کو لے جاویں، کوئی چندہ ہم یونیورسٹی کو اس کے پورا کرانے کے لئے نہ سردست مانگتے ہیں نہ اس کے مدعی ہیں.ہمارے میاں محمد لودہانوی اور بھی ایسے گواہ ہیں کہ انہوں نے حضرت صاحب کے زمانہ میں یہ کہا تھا کہ آپ کو روپیہ کی ضرورت ہو تو آپ مجھ سے مانگ لیا کریں مگر ہم نے ان کو بھی یہی جواب دیا

Page 72

کہ تم ہمارے لئے دُعا کرو کہ ہم کو آپ سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے.اگر ہم چندہ کی کوئی تحریک کرتے ہیں تو پھر دوبارہ ہم قسم کرتے ہیں کہ ہم یا ہماری صدرانجمن اور اس کے ممبر جن کا ذکر کیا گیا ہے دھوکا سے کوئی نہیں لیتے نہ دھوکا دیتے ہیں نہ ضرورت ہے.نورالدین تتمہ مضمون مضمون بالا کے متعلق بعض دوسرے اعتراضات کا جواب بھی حضرت خلیفۃ المسیح نے دینا مناسب سمجھا ہے جو کسی نہ کسی ذریعہ سے آپ کے پاس پہنچائے گئے.اوّل.تعلیم الاسلام نام سکول کا غلط ہے ہائی سکول چاہیے؟ الجواب.یہ نام تو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا تھا اور اس پہلے اشتہار میں جو مدرسہ کے لئے شائع ہوا یہی نام لکھا ہوا ہے اور انگریزی تعلیم کے لئے یہ مدرسہ کھولا گیا تھا.پھر اعتراض کیوں ہے؟ علاوہ بریں کل دنیا کے ہائی سکولوں میں پانچ وقت نماز کے لئے بچوں کو کوئی آفیسر نماز باجماعت کے لئے نہیں لے جاتا.مگر یہاں بالالتزام لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہُ کی تعمیل اور تعلیم اسلام کی تکمیل کے لئے ایسا کیا جاتا ہے.روزوں کے ایام میں حتی الوسع روزہ رکھنے کی ہدایت اور عمل کیا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر یہ کہ آج ایسی ایک بی بی میرے سامنے آئی جس کی بابت میرا خیال تھا کہ وہ عربی کا ایک لفظ نہیں جانتی مگر دوسری نے کہا کہ اس کے خاوند نے تین پارہ تک قرآن مجید کا ترجمہ اس کو پڑھا دیا ہے.جب پوچھا اس نے کہاں سے پڑھا.تو جواب ملا کہ ہائی سکول کی جماعت میں.اب بتاؤ یہ تعلیم الاسلام نہیں تو کیا ہے؟ دوم.اب تک چندہ سے کیا فائدہ ہوا؟ الجواب.یہ اعتراض تو حضرت مرزا صاحب پر پڑتا ہے جنہوں نے چندہ کی طرف توجہ دلائی.اس لئے کسی احمدی کی طرف سے نہیں ہوسکتا ہمارا مخالف یا مرتد کر سکتا ہے.مخالف کو جواب دیتے ہیں اگر کوئی مرتد ہو تو اس کے لئے دوسرا وقت رکھتے ہیں.چندہ سے قوم بنی ہے اور قوم بنانے کے بھید کو وہ

Page 73

لوگ جانتے ہیں جنہوں نے قومیت سے فائدہ اٹھائے ہیں.ہندوستان کی کروڑہا مخلوق پر انگریزوں کی حکومت قومیت کا تھوڑا سا ثبوت ہے.سوم.انگریزی کیوں پڑھائی جاتی ہے؟ الجواب.اسی طرح جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو عبرانی پڑھائی تھی.انگریزی سے مسلمانوں کی غفلت کا نتیجہ ان لوگوں سے پوچھو جو مسلمانوں کی عام حالت پر غور کررہے ہیں.پھر اسی غفلت کا نتیجہ تھا کہ اوّلاًاس ملک میں تمام مدرس مسلمان تھے.اب ان کی جگہ ہند وہیں جو ان مسلمانوں کو آگے بڑھنے بھی نہیں دیتے اور جن کی مسلمان کڑاڑ کے لقب سے تذلیل کرتے تھے.اب ہاتھ باندھ کر لالہ صاحب اور رائے صاحب کہنا پڑتا ہے اور پھر اسی غفلت کا نتیجہ تھاکہ ایک کذّاب کا لفظ امام کے منہ سے کسی کی نسبت نکلا تو جنہوں نے انگریزی پڑھی تھی اڑھائی سال تک دل کھول کر تکلیف دی.مسلمان اگر انگریزی خوان ہوتے خواہ ہمارے مخالف ہوتے یا موافق تو انہیں غیرت ہوتی کہ اس خمیازہ کو دور کرنے کے لئے تھوڑی سی توجہ اس کام کے لئے کرتے جس کام کے لئے انجمن حمایت اسلام اور محمڈن کالج نے انگریزی پر زور دیا.چہارم.عربی پر روپیہ کیوں نہیں لگایا جاتا؟ الجواب.یہ بالکل غلط ہے کہ عربی پر روپیہ نہیں لگایا جاتا.ہائی سکول میں عربی برابر پڑھائی جاتی ہے.یہ سکیم مدرسہ کے مطالعہ سے معلوم ہوگا.پھر دینیات کی ایک شاخ قائم ہے اور اس کو بہتر اور زیادہ مفید بنانے کا سوال قوم اور کارکنوں کے سامنے ہے.علاوہ ازیں چھوٹا سا مدرسہ انجمن نعمانیہ، حمیدیہ فیض عام کانپور، ندوۃ العلماء اور دیوبند ہے.کیا یہاں کی ضعفاء کی جماعت نے کوئی ایسا چندہ دیا ہے جس سے ہم اتنا مدرسہ بھی قائم کرسکیں.پنجم.مسکین فنڈ یہاں کوئی نہیں؟ الجواب.یہ معترض کا صریح جھوٹ ہے کیونکہ مثلاً ضلع ہزارہ اور کاغان وغیرہ کے لوگ مسکین فنڈ سے کھانا اور کپڑا پاتے ہیں اورپھر نمک حرامی کے رنگ میں ان میں سے کسی نے

Page 74

اعتراض کیا ہے اگر کیا ہے.کیا یہ معلوم نہیں کہ مدرسہ کے طلباء اور بعض نابینا یہاں ہیں اور ان پر معقول خرچ ہوتا ہے جن میں ممکن ہے معترض بھی ہو.وہ سترہ کے قریب ہیں.یہاں سے روٹی اور معقول کپڑا لے کر بھی اعتراض کرتے ہیں.ششم.غلام محمد اور فتح محمد یہاں نہیں پڑھے؟ الجواب.یہ مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ ہے.معترض نہیں بتاسکتا کہ پھر انہوں نے اس قدر تعلیم کہاں پائی؟ اگر کالجی تعلیم یہاں نہیں پاسکتے تو کالج کی تعلیم کے لئے روپیہ کہاں سے لیا؟ ہفتم.دینیات کی تعلیم پانے والوں کے صابون اور حجام ندارد ہے؟ الجواب.معترضین خود ہی بتائیں کہ وہ کہاں سے لاتے ہیں؟ ہشتم.تین برس میں اعلیٰ عربی دان تیار ہونے چاہئیں؟ الجواب.ہم تو چاہتے ہیں کہ اس سے بھی کم میں ہو مگر کوئی نمونہ دکھائے کہ الف، با،تاشروع کرکے تین سال میں کوئی فاضل ہوگیا ہو.معترضین نے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا آخر میں پھر نصیحت کی جاتی ہے کہ نکتہ چین اور نرے اعتراض کرنے والے نے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا.اوّل عیسائیوں کی قوم ہے جس نے آدمؑ سے لے کر نبی کریم تک کو بُرا بنایا.یہودی پہلے سے اور مسلمان تیرہ سو برس سے جواب دیتے آئے مگر بتاؤ عیسائیوں کو کچھ فائدہ ہوا؟ پھر شیعہ صحابہ کرام پر، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ دین پر اعتراض کرتے رہے اور خاموش نہیں ہوئے حتیٰ کہ بخاری میں ہے کہ ابن عمر کے سامنے حضرت عثمان پر اعتراض کئے.ان دو کے بعد آریہ نے اسی عیب چینی کے لئے کمر باندھی مگر کسی مسلمان نے ان کو بند کردیا کہ ان کو سخن چینی سے روک دیا ہو؟ پس ایسے معترض عیسائیوں، آریوں اور شیعوں کی اتباع نہ کریں.یہ راہ بہت خطرناک ہے اور نہایت کٹھن اور غالباً غیر مفید ہے.تعلیم اسلام جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہم اسی طرح کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ موفق ہے.۱۲؍ جنوری ۱۹۰۹ء (الحکم جلد ۱۳ نمبر ۲ مورخہ ۱۴؍جنوری۱۹۰۹ء صفحہ ۲تا۷)

Page 75

دینیات اور دینی مدرسہ کی تعلیم حضرت خلیفۃ المسیح نے اُسی روز جبکہ قوم کے لوگوں نے یہ لکھ کر حضور کے سامنے پیش کیا کہ ’’آپ کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو گا جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کا تھا.‘‘ آپ نے اپنی پہلی تقریر میں ہی فرمایا تھا کہ تعلیم دینیات اور دینی مدرسہ کی تعلیم میری مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا ہو گی.منہ.( الحکم جلد ۱۳ نمبر۴ مورخہ ۲۸؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۱۰) سوالات اور ان کے جوابات (ا)سوال.بدعت کی جامع مانع تعریف؟ جواب.میرے نزدیک و میری تحقیق میں بدعت حقیقہ کے یہ معنے ہیں جو عقیدہ و عبادت و عادت و معاملہ عہد مبارک نبوی اور صحابہ و تابعین میں خود آپ یا اس کی نظیر با وجود ضرورت و وقت بلاانکار مروج نہیں ہوا اور ایسے امر کا مرتکب اس کام کو معادمیں مفید سمجھے اور اس کے فعل یا ترک کو شرط و لازمہ عقیدہ و عبادت و عادت و معاملہ کرے یا کالشرط اللوازم اسے ضرور سمجھے تو وہ عقیدہ و عبادت وعادت ومعاملہ بدعت حقیقیہ ہے.(۲)سوال.امام الصلوٰۃ کو بعد از اذان جماعت کرانے کے لئے بلانے جانا سنت سے ثابت ہے یا یہ صرف مامور من اللہ کا حق ہے اور کیا جب تک کوئی اطلاع نہ جائے امام نہ آئے؟ جواب.اس کا جواب اس میں آ گیا حضرت نبی کریم ﷺ کو بخلاف آیت کریمہ(الحجرات: ۵) بلایا جاتا تھا اس میں مامور من اللہ کی قید کا کوئی باعث نہیں.(۳)سوال.نماز میں پہلی رکعت میں سورہ النصر پڑھیں تو کیا دوسری میں ایک سورۃ چھوڑ کر اگلی سورۃ قل ھواللّٰہ پڑھ سکتے ہیں ؟

Page 76

جواب.بخاری نے اس کے جواز پر ایک باب باندھا ہے، میں اس لئے جائز جانتا ہوں.عامہ حنفیہ مخالف ہیں اس لئے مسئلہ سہل ہے.(۴)سوال.نماز جنازہ میں بعد از سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ کے سوا اور سورۃ بھی پڑھ لیں ؟ جواب.الحمد شریف کا جنازہ میں پڑھنا سنّت سے ثابت ہے.ابن عباس نے تاکید کی اور مالابد کے مصنف مؤکد ہیں.(۵)سوال.چوتھی تکبیر کے بعد معاً سلام پھیر دیں یا دعا بھی کر لیں ؟ جواب.بعد تکبیر رابع مختصر سی دُعا تعامل میں ہے.( البدر جلد۸ نمبر۱۶ مورخہ ۱۱ ؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) رقیمۃ الصدیق الیٰ طالب التحقیق جناب من! یہ تمام لوگ جو اللہ تعالیٰ ، پرمیشر ، خدا ، گاڈ کو ماننے والے ہیں بالا تفاق مانتے ہیں کہ دعا، پر ارتھنا ایک مفید او ربابرکت چیز ہے تمام مقدس کتب ا س سے بھری پڑی ہیں.دہریہ بھی ہاتھ پائوں دل سے دعا کرتا ہے اور خواہش رکھتا ہے جب مصائب میں گھرتا ہے.میں نے اس دعا کا بڑا تجربہ کیا ہے میری عمر ستر سے متجاوز ہے بڑے بڑے کام صرف دعا سے حل ہوئے.صدقہ خیرات کسی کا بھلا کرنا ، پُن، دان بھی مسلّم بات ہے.آپ جناب الٰہی میں اضطراب و جوش سے کچھ صدقہ کر کے دعا مانگیئے کہ الٰہی! تجھے راضی رکھنا چاہتا ہوں اور راضی کرنا چاہتا ہوں راہ راست دکھا دے اور ایسا ہو کہ تو پھر ناراض نہ ہو یہی دعا قرآن کریم میں موجود ہے کسی ترجمہ میں دیکھ لیں.پھر آپ صدقہ و دُعا پورے استقلال و ہمت سے شرو ع کر دو.صدقہ میں حد کوئی نہیںایک کوڑی بھی صدقہ ہے اگر عمدہ موقعہ پر دی جاوے.ہر ایک زبان کو ہمارا مالک جانتا ہے شوخی اور گستاخی اس کو ناپسند ہے.یہ سیوا و خدمت میں آپ سے چاہتا ہوں پھر خدا کو بڑا مان کر اس کی پیدائش کا بھلا چاہو اور

Page 77

بس.پرمیشر بڑی اتم وستو ہیں.وہ انوپیم ہیں.کتاب آپ کو پہنچی ہو گی یا پہنچے گی.میں نے بہت دن ہوئے کہہ دیا ہے اسے آپ دیکھ لیں اور اضطراب و پیا س عمدہ چیز ہے میں اس کی قدر کرتا ہوں.جیو اور مادہ کا مسئلہ ذرا مشکل نہیں مگر اس پر بسط سے سیر کن بحث اس وقت مناسب ہے جب میں ان تمام مشکلات سے اطلاع پا جائوں جو روحوں اور مادہ کے انادی ماننے والوں کو پیش آئیں.ستیارتھ پرکاش اورکلیات آریہ مسافر میں ایسے فلسفیانہ دلائل نہیں جس پر گھرائو ہو.میں نے وید بھاش ، رگوید اور یجر کا سنا ہے اس میں بھی اور شام وید میں بھی ایسے دلائل نہیں دیکھے.اگر کسی نے ارواح ومادہ کے قدامت پر بسط سے لکھا ہو تو آپ مجھے اس کتاب کے نام سے آگاہ فرماویں میں اس کو راستی پسند نظر سے دیکھوں گا.میں خود اس دنیا اور اس کے مادہ کو ہر وقت فنا پذیر دیکھتا ہوں اس مشاہدہ کو کون باطل کر سکتا ہے.پیارے! یہ عارضی مشکلات ہیں جو ادنیٰ توجہ سے دور ہو سکتے ہیں.میں آپ کا غمگسار اور ہمدرد ہوں.کتابوں کے مطالعہ پر ملاقات گو ایک ساعت کی ہوضروری ہے.نور الدین ۱۷؍جنوری ۱۹۰۹ء چند سوالوں کے جواب (۱)مرزا صاحب کے کیا کیا خیالات تھے جو جمہور مسلمانوں سے وہ منفرد تھے؟ جواب :مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا ہے اور یہ اس کا فضل ہے جو مجھ پر ہے اور اس نے مجھے اس صدی کاامام و مجدد بنایا ہے اور مجھے مہدی فرمایا ہے.لوگ ناراض تھے اور کہتے تھے اور کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ افتراء ہے اور جھوٹ ہے.(۲) کیا مرزا صاحب سچ مچ دنیا دار تھے اور اسی تحصیل دنیا اور تحصیل حظّ نفسانی کے لئے انہوں نے ایسا کیا تھا جیسا کہ علیٰ العموم اخبارا ت میں لکھا کرتے ہیں؟ جواب.مرزا صاحب نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے عیسیٰ مسیح فرمایا ہے.مرزا صاحب کہتے

Page 78

ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے اور یہ بات لوگوں کو ناگوار تھی اور اس پر ناراض ہو گئے.مرزا صاحب کو دنیا سے اور دنیا داروں سے بیزاری تھی اور کسی دنیا دار کو آپ سے تعلق نہ تھا اور آخر تک بیزار رہے اور حظّ نفسانی سے پاک تھے.(۳) کیا مرزا صاحب مسمریزم سے اپنا اثر ڈالتے تھے؟ جواب.مرزا صاحب مسمریزم نہیں جانتے تھے اور نہ پسند کرتے تھے کہ کوئی مسمریزم کرے اور اس کو مکروہ جانتے تھے.(۴)کیا مرزا صاحب کی صرف موت ہی کی پیشگوئی صحیح ہوا کرتی تھی ؟ جواب.مرزا صاحب نے میرے لئے پیشگوئی کی کہ تم کو اللہ تعالیٰ لڑکا دے گا اور وہ ہوا.بہتوں کے لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت دے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے برکت دی.پھر یہ کہنا کہ صرف موت ہی کی پیشگوئی کرتے تھے غلط ہے.(۵) کیا مرزا صاحب دہریہ تھے؟ جواب.اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُـہٗ.بلا خوف لحاظ آپ لوگوں کے یہ میری اور مرزا کی شہادت ہے چاہے کوئی مانے یا نہ مانے ہم دہریہ کو ملعون یقین کرتے ہیں اور کافر مانتے ہیں.(۶) کیا آپ بھی مرزا صاحب کے خیالات کے موافق ہیں ؟ جواب.میں بقدر طاقت و فہم مرزا صاحب کا ہم خیال ہوں.مجھے بے ریب قرآن وحدیث سے محبت ہے اور مجھے بحمد اللہ بخاری و مسلم و موطا و ابودائود اور ترمذی کا فہم عطا ہوا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.امام بخاری رحمۃ اللہ کی کوئی سوانح عمری خاص میں نے نہیں دیکھی اور نہ میرے پاس ہے.عون المعبود شرح ابودائود کے مصنف نے خطرناک غلطی مرزا کے معاملہ میں کھائی.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.ایک دو رسائل مرزا کے مرسل خدمت ہیں.نور الدین

Page 79

گوشت قربانی سارا آپ کھا لو یا تمام کسی کو دے دو.لینے والا دولت مند ہو یا غریب ؟ سب جائز ہے.مجھے مولوی چکڑالوی کی ذبح کا علم نہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.میں بے سمجھے کیا فتویٰ دوں.نور الدین ( البدر جلد ۸ نمبر۱۷ مورخہ ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۳) مکتوبات امیر المومنین ۱.شہادت کی تعریف اور شہید کون ہو سکتا ہے؟ جواب :شہید وہ ہے جو اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جان دے.جو اپنے مال ،عزت آبرو بچانے پر مارا جاوے وہ بھی شہید ہے.مبطون، مطعون، غرق جو ہدم کے نیچے آوے وہ بھی شہید ہے.۲.امام حسین علیہ السلام نے شہادت پائی ہے یا نہیں.جواب.امام حسین علیہ السلام مظلوم شہید ہیں جن سے دھوکہ کیا گیا تھا اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے.اعلاء کلمۃ اللہ اور عزت آبرو کے لئے بھی شہید ہوئے.۳.امام حسین کی شہادت کا ثبوت.امام حسین اور یزید کے درمیان جنگ ہونے کی وجہ.محرم کے دنوں میں خوشی کرے یا غمی کرے؟ جواب.امام حسین کی شہادت.اَنْتُمْ شُہَدَائُ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ کے باعث ہزارہا اولیاء اللہ اور علماء ربّانی کی تحریر و تقریر سے ثابت ہے.یزید پلید کی بالمقابل تباہی اور گمنامی اور اس سے کہ اس کا نام اُمۃ خیر الامم نے مقدس لوگوں میں پھر نہ لیا ثابت ہے.یہ امر بڑا تفصیل طلب ہے.محرم کے ایام میں یہ طرز اظہار جوش و حزن کا بدعت ہے.صحابہ و تابعین و تبع تابعین و ائمہ دین سے اس کا ثبوت ہرگز نہیں.اہل کوفہ نے نصرت و امداد کا وعدہ دے کر امام کو بُلایا جب یہ کوفہ پہنچے تو اہل شام کے ڈر میں آ کر

Page 80

کوفیوں نے معاہدہ کو بالائے طاق رکھ کر غداری کی.والسلام نور الدین (۲) ہدایت کے لئے پانچ چیزیں مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملی ہیں آپ کے پیش کرتا ہوں.اوّل استغفار.دوم لاحول.سوم درود شریف.چہارم الحمد شریف.پنجم قرآن کریم اور یہ سب بلحاظ معنے پڑھنا اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں جو ہے یہی ہے.عمل درآمد کے غنیۃ الطالبین، فتوح الغیب ہر دو السید عبد القادر الجیلانی کی ہی ہیں یہ ہے جو ہم چاہتے ہیں.؎ بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم ( نور الدین ) (۳).بنے ہوئے روزگار کو ترک نہ کرنا چاہیے ہاں بنا ہوا روزگار نہ ہو تو اور تلاش کرو.آپ دعا و استغفار سے کام لیں.نور الدین (۴).دودھ پلانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اوریہ لوگ باوجود اس کے گھاٹے میں رہتے ہیں کیونکہ سب خریدار قیمت نہیں دیتے.نور الدین سوالات کے جوابات سوال.ایک آدمی فوت ہو گیا ہے اس کی جائیداد کے دو آدمی وارث ہیں اور ایک وارث کی زوجہ کو وقت زندگی میں خفیہ طور سے کچھ مبلغات دے گیا ہے کیا وہ مبلغات کا لینا عورت پر جائز ہے یا نہیں ؟ جواب.وہ مبلغات اس عورت کو جائز ہیں ان مبلغات کی تحقیق کرنا لغو ہے کسی وارث کا اس روپیہ سے تعلق نہیں وہ علیحدہ ہے.

Page 81

سوال.غیر احمدی کے پیچھے نماز کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں.مجدد الف ثانی صاحب بھی اپنے وقت کے امام تھے ان کی بھی مخالفت ہوئی کفر کے فتوے بھی جاری ہوئے انہوں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو نماز کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ جواب.حضرت مجدد نے علماء کو نصوص دین اور سخت برے لفظوں سے مکتوبات میںیاد کیا ہے.میں تو قطعاً نمازوں کو لوگوں کے پیچھے پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا آپ کو مجدد کے حالات سے آگاہی نہیں اور پھر ہم ان کے مقلد نہیں.نور الدین (البدر جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخہ ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) مکتوبات حضرت امیر المومنین ؓ سوال.مرزا صاحب کو آنجناب نے کس معیار سے صادق دریافت کیا.اور میں کس ذریعہ سے دریافت کر سکتا ہوں اور وہ معیار یا ذریعہ سلف کے اعتقاد کے موافق ہے یا کوئی نیا اصول ہے اور مرزا صاحب نبی ہیں یا مجدد اور مثیل کس طرح پر اور مرزا صاحب نے دین اسلام کی کس قسم کی خدمت کی اور کامیاب ہوئے یا نہیں اور حج کی نسبت آنجناب کا کیا عقیدہ ہے وغیرہ وغیرہ.جواب.مرزا کو میں نے ان تمام ذرائع سے صادق مانا جن ذرائع سے میں نے تمام راستبازوں کو بحمد اللہ راستباز مانا ہے.آپ جس ذریعہ سے کسی کو صادق مانتے ہیں اُسی ذریعے سے تحقیق کر لو.نیز استغفار ؔ، لاحول ؔ، درودؔ اور الحمد ؔ شریف کی کثرت کرو اور خیرات کر کے دعائیں مانگو کہ الٰہی اس حق کو ظاہر فرمائے.آمین یاربّ العالمین.تمام عقائد سلف میں جن کا بخاری میں ذکر ہے اورابانہ و حضرت التجلی میں میں نے پڑھا ہے.یا عقیدہ طحاویہ یا نونیہ ابن قیم میں مجھے پتہ لگا ہے اس کے مطابق پایا.کوئی نیا اصل اسلام میں مرزا نے اضافہ نہیں کیا.خدمت اسلام یہ کی ہے کہ مخالفان اسلام آریہ، برہمو،نصاریٰ ، نیچریوں اور سکھ قوم کو قطعاً ساکت کر دیا.اور کوئی شخص اگر اس کے

Page 82

اسلحہ سے کام لے تو ان لوگوں کے آگے یقینا کامیاب ہو.مسلمانوں میں ایک جماعت بنائی جو لڑکیوں کے ورثے اپنے حق اللہ اور حق العباد کے خیال میں گو نہ ممتاز ہے اور ترقی کر رہی ہے.حج کو ہم لوگ ضروری فرض بشرط استطاعت یقین کرتے ہیں.وغیرہ وغیرہ کا مطلب میں نہیں سمجھا.والسلام.نورالدین (۲) مومن کو دنیا و دین دونوں کی ضرورت ہے. (البقرۃ: ۲۰۲)کی پاک دعا قرآن مجید میں ہے.ہاں زیادہ ایک طرف جھکنا یا جہل ہے یا فریب نفس یا جنون ہے.آپ بہت استغفار ، لاحول ، درود، سورۃ فاتحہ پڑھیں اور اچھے نیک لڑکوں کے ساتھ رہیں اور صحبت صلحا ء ہاتھ سے نہ دیں.(۳) سچے مومن کو نہ اللہ تعالیٰ ذلیل کرتا ہے اور نہ اس کی امداد سے دریغ ہوتی ہے.ان دو آیتوں پر غور کرو(المنافقون:۹).(المؤمن:۵۲).مرزا کا معاملہ خطرناک ہے.مرزا الہام کا مدعی اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جھوٹے مدعی الہام سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں.قرآن کریم میں ہے.(الانعام:۲۲) پھرکیونکر ہو سکتا ہے کہ کوئی کہے کہ میں مرزا کو برا نہیں کہتا اور پھر دعویٰ کو نہیں مانتا.بہرحال میں ایسے نکاح کا مجوز نہیں ۱؎.( البدر جلد ۸ نمبر ۱۹و۲۰ مورخہ ۱۱؍ مارچ ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) مکتوبات امیر المؤمنین ایک مدعی مہدویّت ایک شخص اللہ بخش نام نے علاقہ ڈیرہ غازیخان میں مہدویت کا دعویٰ کیا ہے اور ایک کتاب لکھی ہے جس میں حضرت اقدس امامنا و مرشدنا کے حق میں سخت گالیاں استعمال کی ۱؎ سوال یہ تھا کہ غیر احمدی جو حضرت اقدس کو برا نہ کہے.

Page 83

ہیں اور وہابیوں کی بھی مخالفت کی ہے اور کتاب بخدمت حضرت امیر المومنین بھی بھیجی ہے حضرت نے اس کو مفصلہ ذیل جواب لکھا ہے.’’کتاب پہنچی اور پڑھی.حضرت نے وہابیہ کا ردّبھی فرمایا اور ثناء اللہ امرتسری وہابی کا اشتہار بھی کتاب کے آخر دیا ہے تعجب آیا.کتاب کا اصل منشاء ہی مرزا صاحب کا ردّ ہے اور اپنی مہدویت.سو اگر جناب کو کبھی جنون کا عارضہ نہیں ہوا تو ببرکت خاندان چشتی خواجگان علیہم الرضوان آپ کا انجام بخیر ہو گا واِلاَّ خطرہ ہے کیونکہ آپ نے بڑے راستباز کو تبرا کیا اور گالی دی ہے.‘‘ بددعا نہیں چاہیے ایک شخص نے لکھا کہ میں نے بددُعا کی تھی کہ میری اولاد مر جائے تاکہ فارغ ہو کر دینی خدمت میں لگوں.حضرت امیر المومنین نے اُسے لکھا.’’یہ دُعا جیسی آپ نے مانگی بہت بری ہے تم دعا مانگتے کہ الٰہی میری اولاد نیک ہو وہ زندہ رہے میں مسیح موعود کے ساتھ رہوں.بد دُعا کی کیا ضرورت تھی کہ اولاد مر جاوے یہ غلطی ہے اور اللہ بخشنے والا ہے.آپ کثرت سے استغفار اور خیرات کریںاور مجھے لکھتے رہیں میں دعا کروں گا.‘‘ …………… توّام میں سے بڑا کون ہے؟ ایک شخص نے سوال کیا کہ دو لڑکے جب توام پیدا ہوں تو ان میں سے بڑا کون سمجھا جائے گا اور چھوٹا کون؟ حضرت امیر المومنین نور الدین ایدہ اللہ نے فرمایا کہ جو پہلے پیدا ہوا وہ بڑا ہے.(البدر جلد ۸ نمبر ۲۱ مورخہ ۱۸؍مارچ ۱۹۰۹ء صفحہ ۵) مکتوب امیر المومنین ۱.ہمارا اصل دین لَا اِلٰـہَ اِلاَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ یہ ہے ہمارا اصل دین.پھر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ پھر آخر فقہ حنفیہ پر عملدرآمد ہے.

Page 84

۲.دین احمدی اور کتب دینیات ہماری کتب دینیات.قرآن کریم، بخاری، مسلم اور مؤطا اور فتوح الغیب سید عبدالقادر جیلانی.فقہ حنفیہ جو مخالف کسی صحیح حدیث کے نہ ہو.دین احمدی کسی جدید دین کا نام نہیں اور ہرگز نہیں لوگ جو چاہیں کہیں......................گھراٹ کا پانی ایک صاحب نے ضلع جہلم سے دریافت کیا ہے کہ ہمارے علاقہ میں ایک چشمہ ہے لوگ دور دور سے آتے ہیں اس کا پانی استعمال کرتے ہیں جس سے اسہال آتے ہیں اور مرض کو آرام ہوتا ہے کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا.یہ ایک قدرتی علاج ہے.گھراٹ کا پانی مفید ہوتا ہے بیشک استعمال کیا جائے.دکھ دینے کی نیت سے نہ بسائی جانے والی عورتوں کا نکاح سوال.جن عورتوں کو ان کے خاوند دکھ دینے کی نیت سے نہ بساتے ہیں اور نہ ہی طلاق دیتے ہیں کیا ان کے نکاح دوسری جگہ کر دینے چاہئیں ؟ جواب.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(البقرۃ: ۲۳۲) عورتوں کو ضرر دینے کے لئے مت روکو.(الطلاق:۷) عورتوں کو ضرر مت دو.(البقرۃ: ۲۳۲) اللہ تعالیٰ کی آیات کو خفت میں مت ڈالو.پھر آپ ہمت سے کام لو.صلح کی کوشش کرو اگر نہ ہو سکے تو چند شرفاء کے سامنے عذر پیش کر کے تَوَکُّلاً عَلَی اللّٰہ اور جگہ نکاح کر دو.نور الدین (البدر جلد ۸ نمبر۲۲ مورخہ ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء صفحہ ۳)

Page 85

مکتوبات امیر المومنین ایک طالب حق کے نام جہاں تک میں نے غور کیا ہے جناب کا دل حق کا طالب ہے اور حق کی پیا س رکھتا ہے مگر عادات و رسومات، مدت کے خیالات، ذاتی اغراض اور نادانوں کی مجالست اور تند وتیز طبیعت والے انسانوں کی تصنیف ایک شریف الطبع انسان کو مشکلات میں ڈال دیتی ہے ورنہ حق کا پانا سہل ہے.میرے نزدیک حضرت نبی کریم ؐمحمد رسول اللہ کی سوانح عمری قرآن کریم ہی ہے.قرآن آپ کے دل اور کلام اور افعال کا نقشہ ہے.مجھے یہ کامل یقین ہے کہ ہر ایک انسان کا ایک لمبا کلام جو رنج و راحت اور عسر یسر ،سفر و حضر، صلح و جنگ میں ہو گا اس شخص کے دلی حالات کو کیونکر مخفی رہنے دیتا ہے ہم نے سماج کی دعوت لاہور میں قبول کی اور سنا جو سنا.اس پر مرزا نے ایک چشمہ معرفت کتاب لکھی ہے جو مرسل خدمت ہے.نیز میرے دل کا نقشہ آپ کو نور الدین و تصدیق براہین احمدیہ سے مل سکے گا.آپ ان تینوں کتابوں کو ایک نظر دیکھ لیں.پھر انشاء اللہ ایک آسان راہ پر کرتی اور تناسخ پر نکل آئے گی اور اگر تھوڑا وقت ملاقات کے لئے نکال لیں تو غالباً مفید ہو گا.والسلام آپ کا شائق نور الدین ۸؍جنوری ۱۹۰۹ء (۱).آپ استغفار ، لاحول، درود شریف، الحمد کی کثرت رکھو مگر سب کچھ بلحاظ معنی ہو.اور میں بھی دعا کروں گا.(۲)کشائش روزی کے لئے سورہ نوح میں (نوح:۱۱) کا ترجمہ غور سے پڑھو کیا نتیجہ وہاں درج ہے وہ سچ ہے.(۳)یہ جواب میں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اور میرے دل کا نقشہ ہے.

Page 86

(۴) جماعت احمدیہ کا پابند سنت جماعت کے عقائد کا پابند ہو.الف.کسی صحابی کو شیعہ کی طرح برا نہ کہے کسی اہل بیت کی خوارج کی طرح بدگوئی نہ کرے.ب.جو شخص مسیح و مہدی کو نہیں مانتا وہ مسلمان مسیح و مہدی کا منکر ہے.آخرت میں اس کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا اوّل اس کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور کون جانے.ہم اس کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جو پہلے مسیح موسوی کے منکر وں سے او ر ابوبکر و عمر کے منکروں کے ساتھ ہمارے معاملات ہیں.پہلے مسیح و مہدی کے منکروں کے پیچھے بھی میں تو نماز نہیں پڑھتا اور نہ کوئی احمدی ایسے کی اقتداء کرتاہے.ج.اس جماعت کے اغراض عملاً مسلمان بننا، قرآن کریم اور سنت ثابتہ کااقتداء کرنا.(۵).بعض ضروری رسائل آپ کو مرسل ہیں.(۶).وظائف کا ذکر نمبر ۱ میں کر دیا ہے اس سے زیادہ سُبْحَانَ اللّٰہ وَ بِحَمْدِ ہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم اور قرآن مجید ہے.(البدر جلد۸ نمبر۲۳ مورخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) کلمات طیّبات کلمات طیبات جو حضور امیر المومنین و خلیفۃ المسلمین کی زبان مبارک سے وقتاً فوقتاً سُن کر اُن کے ایک غلام نجیب آبادی نے قلمبند کئے.نیک اور بد آدمی کا طریق عمل بد آدمی ہمیشہ بدیوں کو دیکھتا اور نکتہ چینیاں کرتا ہے.نیک ہمیشہ بھلائیوں کی طرف نظر کرتا ہے.عیسائیوں نے اپنی کسی غرض کے لئے تمام انبیاء کے مصائب بیان کرنے میں اپنے آپ کو آلودہ کیا.تیرہ سو برس سے ہمارے سرکار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت بھی بد زبانی کر کے اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کر رہے ہیں.بد قسمتی سے دُنیوی اغراض کے لئے مسلمانوں میں بھی بعض گروہ مثلاً شیعہ پیدا ہوئے جو صحابہ کرام، ازواج مطہرات، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ دین کو فاسق و فاجر اور ظالم و غاصب قرار دیتے ہیں.آریوں کی قوم کے پاس بھی خود تو کچھ خوبی

Page 87

نہیں لیکن نیک آدمیوں کو برا کہنے میں بہت زبان دراز ہیں.اب انہیں مذکورہ بالا تینوں قوموں کی حالت میں غور کر لواور دیکھو کہ عیسائیوں میں فسق و فجور کی کس قدر کثرت ہے حتیٰ کہ ان کے یہاں کوئی قانون ہی نہیں جس میں زنا کا کوئی انسداد ہو.پھر شیعوں کو دیکھو.اُن میں فسق و فجور کی کس قدر کثرت ہے.اسی طرح آریوں کے یہاں نیوگ کے مسئلہ نے فسق و فجور کی بہت راہیں پیدا کر رکھی ہیں.ان تینوں قوموں نے اپنی بد زبانی اور بدگوئی کا کوئی نیک نتیجہ نہیں پایا.افسوس ہے کہ اب بھی بعض لوگ عیب شماری میں مصروف رہتے ہیں.میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ جو شخص دوسروں کو ناحق عیب لگاتا ہے وہ نہیں مرتا جب تک کہ خود وہی یا اُسی قسم کا عیب نہیںدیکھ لیتا.ہاں اگر سچے دل سے توبہ کر لے تو خدا بخشنے والا ہے.مختلف ممالک میں الفاظ کے متضاد معانی بعض ملکوں میں جب بعض الفاظ جاتے ہیں تو اُن کے غلط معانی ہو جاتے ہیں.مثلاً ہمارے ملک میں لفظ حرام کبھی اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا حالانکہ حرام عربی زبان میں بڑی عزت کے لئے استعمال ہوتا ہے.ملت کا مفہوم کسی خاص قسم کی تعلیم جو کسی نبی کے ذریعہ سے دنیا میں شائع ہو اُس کو ملت کہتے ہیں.ملت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کبھی نہیں ہوتی.مثلاً ملت اللہ کبھی نہیں بولا جاتا.جیسے ملت ابراہیم بولا گیا ہے.دنیا کی مذمت حضرت رابعہ بصری کی مجلس میں ایک شخص نے دنیا کی بہت مذمت کی اور اسی طرح متواتر تین دن دُنیا کی مذمت بیان کی.حضرت رابعہ نے فرمایا کہ اس شخص کو ہماری مجلس سے نکال دو کیونکہ اس کو دُنیا کا بہت خیال رہتا ہے.تب ہی تو اُس کا بار بار ذکر کرتا ہے.شیعوں کے نزدیک ائمہ کی وفات کے دو مسئلے عجیب بات ہے کہ شیعوں کے یہاں تما م ائمہ کی وفات کے لئے صرف دو ہی مسئلے ہیںکہ یا تو قتل ہوئے یا زہر دئیے گئے.جن لوگوں کی شہادت ثابت کر سکے اُن کو تو شہید ٹھہرایا اور جن لوگوں کا شہید ہونا ثابت نہ کر سکے اُن کی نسبت

Page 88

کہہ دیا کہ ان کو زہر دیا گیا.چنانچہ ہم نے تو تاریخوں کی بھی بہت ہی کتابیں پڑھیں اور امام حسن علیہ السلام کے زہر کی نسبت بہت ہی تحقیق کیا مگر کہیں کوئی وجہ زہر خورائی کی ثابت نہیں ہوتی.اور کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں زہر دیا گیا.غرض کہ حضرت امام حسن ؑ کوزہر دینا ہم کو تو ثابت نہیں ہوتا.انبیاء کا اجماعی مسئلہ استغفار تمام انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے.استغفار کی بہت کثرت کرو.انسان کو شکار کرنے کا زبردست شیطانی ہتھیار لوگ تو ابن حزم کی کتابوں کو معمولی ہی سمجھتے ہیں لیکن ہم تو ابن حزم کی کتابوں کی بڑی قدر کرتے ہیں.حقیقتاً ابن حزم بڑا آدمی ہے.ا بن حزم چار سو کتابوں کا مصنف ہے.ابن حزم نے اپنی ایک کتاب مداواۃ النفوس میں لکھا ہے کہ شیطان نے جن ہتھیاروں کے ذریعہ سے انسان کا شکار کیا ہے ان میں سے ایک زبردست ہتھیار یہ بھی ہے کہ آدمی ناصح کی نصیحت پر اُس کو یہ جواب دے کہ فلاں شخص بھی تو یہ کام کرتا ہے میں بھی اگر کرتا ہوں تو کیا ہرج ہے.یہ جواب سن کر ناصح کو پھر آگے کہنے کی گنجائش نہیں رہتی.احکام خدا وندی کی بجا آوری اگر کوئی کام کسی شخص کے سپرد کیا جاتا ہے اور وہ اُس کو نہیں کر سکتا تو کہا کرتے ہیں کہ یہ کام اگر فلاں شخص کے سپرد کرتے تو وہ خوب انجام دیتا.دیکھو خدا تعالیٰ نے درختوں کو جو حکم کیا وہ اُس کی برابر تعمیل کرتے ہیں.مثلاً پیپل کے درخت کو حکم دیاکہ توپیپل کے پتے لگایا کر اور کیکر کو حکم دیا کہ کانٹے پیدا کیا کر.اب کیکر یہ نہیں کرتا کہ وہ پیپل یا کسی دوسرے درخت کے پتے پیدا کرے.اور پیپل یہ نہیں کرتا کہ اُس میں کیکر کے کانٹے پیدا ہوں.غرض کہ بجا آوری احکام میں سر مو تفاوت نہیں کرتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کی چیزوں کو ہم نے جو حکم دیاوہ برابر فرمانبرداری کرتے ہیں.اگر اور کوئی حکم اُن کو دیتے تو وہ اس کی بھی تعمیل کرتے.اب غور کرو ا ور سمجھو اس آیت کے معنی.الخ(الحشر: ۲۲).

Page 89

انشاء اللہ کہنے کی نصیحت برادرم عبدالحی کے اُستاد سید محمد شفیع صاحب نے کہیں سبق پڑھاتے ہوئے عبدالحی صاحب سے کہہ دیا کہ میں ایک مہینہ میں …سورۂ بقر تم کو ضرور حفظ یاد کر ادوں گا.یہ الفاظ جب حضورامیر علیہ السلام نے سنے تو فرمایا.جو لوگ دعوے سے کہا کرتے ہیں کہ ہم فلاں کام ضرور کر لیں گے اور پھر انشاء اللہ تعالیٰ بھی نہیں کہتے ہم نے دیکھا ہے کہ وہ ناکام ہی رہتے ہیں.ہم نے بھی عبدالحی سے کہا ہے کہ اگر تم سورئہ بقر ہم کو حفظ سنا دو گے تو ہم انشاء اللہ تعالیٰ ایک بہت بڑی ضیافت کریں گے.لیکن دیکھو ہم نے لفظ اگر بھی ساتھ لگا دیا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ بھی کہہ دیا ہے( اسی جلسہ میں سید محمد شفیع صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ) سید صاحب یہاں دین سیکھنے کے لئے آئے ہیں عبدالحی کو قرآن شریف پڑھاتے ہوئے ان کو بھی انشاء اللہ تعالیٰ بہت کچھ دینی فائدہ حاصل ہو جائے گا.تعلق باللہ کے لئے لوگوں کی مساعی اور انبیاء کا طریق ۱۷؍نومبر ۱۹۰۸ء بوقت صبح بعد نماز فجرقائم گنج سے آئے ہوئے ایک سفید ریش پٹھان مہمان کو مخاطب کر کے فرمایا.خدا تعالیٰ تک پہنچنے اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے لوگوں نے بڑی بڑی اور قسم قسم کی کوششیں کی ہیں.بعض ہندوئوں نے اپنے جسموں کو برف میں گلا دیا.بعض صبح سے شام تک سورج ہی کو تکتے رہتے ہیں.بعض دن رات برابر کھڑے ہی رہتے ہیں.بعض اپنے ہاتھ یا پائوں وغیرہ اعضاء خشک کر لیتے ہیں.بعض اپنے عضو تناسل کو کاٹ ڈالتے ہیں.سب کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور اُس سے تعلق.پھر ایک دوسری قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ بعض اولیاء کے ملفوظات پڑھتے ہیں.ان کے پڑھنے سے قلب میں ایک رقت پیدا ہوتی ہے اور انہیں میں سے اس بزرگ کا کوئی وظیفہ یا مجاہدہ بھی کبھی کبھی انسان اپنے لئے منتخب کر لیتا ہے.بعض ایسے ہوتے ہیں کہ کسی

Page 90

موزوں کلام مثلاً شعر غزل ٹھمری وغیرہ سے رقت پیدا کرتے ہیں اور ایک وقت تک اُس کے اثر سے متاثر بھی ہوتے ہیں.بعض حزب البحر اور درود مغنی اور درود تاج وغیرہ وظائف بڑے اہتمام سے پڑھتے ہیں اور وظائف ہی کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.اب ان سب گروہوں کے حالات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس کی مخالفت کا اصل اصول قریباً سب میں پایا جاتا ہے.ا ن سب کے سوا اور ان سب کے خلاف ایک انبیاء علیہم السلام کا گروہ ہے.وہ صرف احکام خداوندی کی پابندی اور فرمانبرداری کرتے ہیں.اُن کو اس کی مطلق بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ نفس کی مخالفت ہے یا موافقت.جو خدا کا حکم ہوتا ہے اُس پر عمل کرتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا حکم آ گیا کہ جس میں نفس کی مخالفت ہوتی ہو تو اُس پر بھی بڑی خوشی سے عمل کرتے ہیں.اور اگر کوئی ایسا حکم آ گیا کہ اس میں نفس کی موافقت ہے تو اُس پر بھی عمل کرتے ہیں.جب تک شراب کی ممانعت کا حکم نہیں آیا تو شراب کو منع نہیں کیا.جب حکم آ گیا تو منع کیا.جب تک جوئے کی ممانعت کا حکم نہیں آیا تو منع نہیں کیا جب ممانعت کا حکم آ گیا تو منع کیا.وغیرہ و غیرہ.(الحکم جلد ۱۳ نمبر ۱۴ مورخہ۱۴؍اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۳،۱۴) مکتوبات امیر المومنین ۱.کیا ہندوؤں سے چھوت چھات کا سلوک کیا جائے؟ ایک شخص نے سوال کیا کہ جب ہندو ہم سے چھوت چھات کرتے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی ان سے ایسا ہی سلوک کریں؟ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا.خود نبی کریم ؐ اور صحابہ کرام اور آج تک اسلام کا معمول ہے کہ کفار کے کھانے اور پانی سے انہوں نے تنفر نہیں کیا.حلت و حرمت کا فتویٰ آسان نہیں.اللہ تعالیٰ (النحل:۱۱۷) فرماتا ہے اس لئے میں تو خلاف تعامل اسلام ہرگز رائے نہیں دیتا.مسلمان ہمت و استقلال و اتحادمیں تجربہ سے پیچھے ہیں.پس یہ کوشش چند اں بابرکت نہیں.پھر ہم نے یہ بھی دیکھنا

Page 91

ہے کہ اسلام صلح و آشتی و محبت کا پیغام تمام جہان کے لوگوں کے واسطے لایا ہے ہم محبت سے جو قلعہ فتح کر سکے ہیں اور جس سر زمین پر اپنا تسلط بٹھا سکتے ہیں و ہ کسی بارود سے قبضہ میں نہیں لا سکتے.اگر ہم کمیٹیاں بنا کر اس خلیج کو جو ہمارے اور ان کے درمیان ہے اور بھی وسیع کر دیں گے تو اس کا پاٹنا مشکل ہو جاوے گا.پھر طرفین کے واسطے مشکلات ہو ں گی.اس وقت ہمارے پاس نہ اتنی دولت ہے نہ ہم میں اتنا اتفاق ہے نہ ہمت نہ استقلال.اس بات پر عز م کر لیںتو اس کا نتیجہ سوائے جگ ہنسائی کے اور کچھ نہیں کیونکہ ہماری سب زبانی کارروائی ہو گی.پس نظر بر حالات موجود ہ آپ ہمت کریں اور مسلمانوں کی دکانیں کھلوائیں اپنے احباب و متعلقین کو ترغیب دیویں کہ وہ انہی سے سودا خرید کریں پھر انشاء اللہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے کمیٹیاں بنانے اور ان کے قواعد چھپوانے اور یہ اشتہار دینے سے کیا فائدہ ہے.خدا مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے تجارت کی طرف مطلق توجہ نہیں.تجارت کی ادنیٰ قسم ددکانداری بھی استقلال سے اور شراکت سے نہیں چلا سکتے.بھلا اتنا بڑا کام جو آپ نے ارادہ کیا ہے کس طرح سے کریں گے.۲.مصیبت پہنچنے پر صبر کی تلقین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس کو مصیبت پہنچے وہ اگر اللہ تعالیٰ پر پوری امید رکھ کر صبر کر کے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ دل سے کہے اس کو بہتر سے بہتر بدلہ ملتا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بالکل سچا اور صحیح ہے.میرے پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں مرگئے.اسامہ ، عبداللہ ، حفیظ الرحمن ، محمد احمد ، عبدالقیوم ، امۃ اللہ، رابعہ ، عائشہ ،ا مامہ.میں نے بحمد اللہ صبر سے کام لیا.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.دل سے کہا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی بہتر اولاد دی.۳.تنخواہ پر بھروسہ شرک ہے آپ ہمیں بہت ہی عزیز ہیں اور مجھے آپ سے للہ و فی اللہ محبت ہے.آنچہ بر خود مپسند بر دیگر ان مپسندی سچا حکم ہے.آپ ہرگز کمی تنخواہ کا فکر نہ کریں.تنخواہ پر بھروسہ ہی شرک ہے اللہ تعالیٰ آپ کو مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِب رز ق دے گا.یہ مجھے امید ہے اور یقین ہے.سوال.عیسیٰ علیہ السلام کا کام مردہ زندہ کرنے کا تھا تو یہ فرمائیے کہ مرزا صاحب نے کتنے مردے ا

Page 92

ور کہاں کہاں زندہ کئے.دوسرے یہ کہ کرشن تھے تو ان میں صفت کرشن بھی ضرور ہو گی.کرشن کا کام ناچنے گانے کا تھا.تیسرے اگر ہاتھ باندھ کر آپ نماز پڑھتے ہیں تو آپ کس حکم سے نماز پڑھتے ہیں؟ جواب.آپ بالکل ان پڑھ جاہل نہیں.اگر ایسا ہو تا تو آپ مرزا کی کتابیں کس طرح پڑھ سکتے.مرزا صاحب نے بہت مردہ زندہ کئے.آپ موت کے معنے نہیں جانتے جو حیات انبیاء اوراولیاء سے جاہلوں کو حاصل ہوتی ہے.مجمع البحار لغت قرآن و حدیث اور لغات عربی میں ملاحظہ فرماویںاور خود قرآن کریم میں غور فرماویں.(الانعام: ۱۲۳)اور تیسرے پارہ رکوع ۲ کی آیت کریم (البقرۃ:۲۵۹) پر بھی غور فرماویں.سر ی کرشن کے متعلق کیا آپ کو الہام ہوا ہے کہ وہ ناچتے تھے.ہاں بائبل میں حضرت دائود کی نسبت بھی ناچنا لکھا ہے تو کیا ہمارے نبی کریم ؐ جو بحکم(الانعام:۹۱) ان کے تابع تھے.آپ کے نزدیک کیا ناچنے کے محکوم تھے.مہدی کے فرائض اور احکام آپ مجھے ارقام فرماویں جو ثابت ہوں گے ہم آپ کو دکھا ئیں گے.میں تو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہوں اور اس کے متعلق حدیثیں مسند احمدبن حنبل اور ابو دائود میں ہیں.اگر آپ فرماویں گے تو انشاء اللہ نقل کر کے بھیجوں گا.مجھ سے جو وعدہ مرزا جی نے فرمایا سب پورا کر کے دکھادیا...............................غیر احمدی کے پیچھے نماز سوال.ایک شخص غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی بابت مشکوٰۃ باب الامامت کی اس حدیث کو اپنی تائید میں پیش کرتا ہے.اَلصَّلٰوۃُ وَاجِبَۃٌ عَلَیْکُمْ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ اَوْ فَاجِرًا وَ اِنْ عَمَلَ الْکَبَائِرَ.جواب.ملّاصاحب سے کہہ دو کہ وہ مکحول نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کسی دنیا کی کتاب میں مکحول

Page 93

کی روایت …سماع ابوہریرہ سے جب تک ثابت نہ ہو.یہ حدیث قابل استدلال نہیں.سوچ کر جواب دو.نابالغ لڑکی کا نکاح سوال.شرع محمدی کی کتابوں میں ایک مسئلہ ہے کہ اگر کسی نابالغ لڑکی کا نکاح اس کی ایام نابالغی میں اس کا والد یا دادا کر دے تو وہ نکاح ہمیشہ کے لئے مستحکم رہتا ہے اور اگر کسی دوسرے شخص نے نابالغہ کا نکاح کر دیا ہو تو لڑکی کو بالغ ہو کر اپنے نکاح کی تنسیخ کا اختیار رہتا ہے.مجھ کو دریافت صرف یہ کرنا ہے کہ یہ اصول علماء نے کہاں سے لیا ہے؟ جواب.اس مسئلہ کی بنا کسی حدیث یا آیت پر ہرگز نہیں.صرف ایک عقلی دلیل پر ہے اور وہ عقلی نہیں بلکہ خیالی ہے کہ باپ بہرحال بھلائی چاہتا ہے اس پر بدگمانی نہیں ہو سکتی.صحیح بات میری تحقیق کی یہ ہے کہ عورت کی رضامندی اور والیوں کی رضامندی اور شرعی اجازت سے نکاح ہو سکتا ہے.والد بجائے والیوں کے بادشاہ وقت کر دے.( البدر جلد ۸ نمبر ۲۴،۲۵ مورخہ ۸.۱۵؍اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) مکتوبات امیر المومنین (۱) بحضور امیر المومنین و خلیفۃ المسلمین السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ و مغفرتہ و طیب صلاتہ مجھ کو ایک صاحب لکھتے ہیں کہ بموجب آیت الخ(البقرۃ:۱۸۵) فدیہ کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا.پھر جب سے یہ آیت نازل ہوئی کہ الخ(البقرۃ:۱۸۶) اُس وقت سے اس آیت کا حکم صرف شیخ فانی وحاملہ و مرضع کے لئے باقی رہ گیا.مریض ومسافر اور حیض و نفاس والی کو قضا لازم ہو گئی فدیہ نہ رہا.آپ لوگ اسی کو مانتے ہیں یا کیا ؟ شیخ فانی کے لئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عملدرآمد اور ضعیفہ و حاملہ

Page 94

کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ بابت فدیہ جس طرح ثابت ہے اسی طرح اگر مریض و مسافر کے متعلق کوئی بات لکھیں تو صحابہ کرام کے عملدرآمد کا بھی پتہ دیں.حضور اپنے دست مبارک سے اس کے جواب میں کچھ لکھ دیں.حدّ ادب.حضور کا نا چیز غلام اکبر شاہ خان یکم مارچ ۱۹۰۹ء جواب آپ کے صاحب نے جو لکھا ہے وہ بالکل صحیح ہے.یہی ہمارا عملدرآمد ہے.مریض ، مسافر، حیض اور نفاس والی قضا کریں.یہی سچ ہے.اس کے خلاف ہرگز صحیح نہیں.والسلام نور الدین (۲) ایک شیعہ مجھ سے دریافت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ کی قبر کا ٹھیک ٹھیک پتہ بتائو.احقر اکبر ۲۵؍جنوری ۱۹۰۷ء جواب پرانی قبروں کا قطعاً کوئی پتہ سوائے قبر نبی کریم ؐکے نہیں ہے.امام حسین ؓ کی قبر مصر میں اور کربلا میں ہے.مولیٰ مرتضیٰ کی قبر کابل اور نجف میں بتاتے ہیں.کون صحیح ہے.ا صل یہ ہے کہ قبر پرستی کا زمانہ پیچھے ہوا ہے پہلے لوگ اس سے بے خبر تھے.نور الدین

Page 95

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.دنیوی اضطراب اور کرب مومن کی شان نہیں اور ہرگز نہیں.ہاں ! احتیاط کرنا اور چوکس رہنا قبیح نہیں.آپ اپنے فرائض کے پابند رہیں.ڈرنا صرف اللہ تعالیٰ سے چاہیے.آپ یہاں رہنے کا ارادہ رکھیں جس رنگ میں اللہ تعالیٰ پسند کرے آپ پسند کریں.میں بھی یہاں رہتا ہوں.اصل غرض قربِ امام ہے جانفشانی اور محنت صرف اللہ کے لئے کریں.ا للہ ہی قدر دان ہے اور ضرور ہے.یہ ابتلاء ہوتے ہیں اور ان کا ہونا ضرور ہے.والسلام نور الدین کلام الامام امام الکلام مباحثۂ امرتسر کا نتیجہ اور فائدہ ریل میں مجھ سے ایک پادری نے سوال کیا کہ مرزا صاحب امرتسر میں پندرہ دن تک مباحثہ کرتے رہے اُس سے نتیجہ کیا نکلا اور تم کو فائدہ کیا ہوا؟ میں نے جواب دیا کہ ہم کو دو باتیں خاص طور سے معلوم ہوئیں.ایک تو یہ کہ مرزا صاحب بہت بڑے عالی حوصلہ ہیں اور انتہا سے زیادہ درگزر کو کام فرماتے ہیں.دوسرے یہ کہ عیسائیوں کی دنائت اور بے شرمی بھی اعلیٰ درجہ کی ہے.دیکھو تم کو مرزا صاحب ایک منٹ میں خموش کر سکتے تھے لیکن پندرہ دن تک برابر تمہارے ساتھ مشغول رہے.اور تم باوجود اپنی بے بضاعتی اور نالائقی کے پندرہ دن تک فضول اور لایعنی باتیں کرتے رہے.اور تم کو اپنی خفیف الحرکاتی سے ذرا بھی شرم نہ آئی.مجھ سے یہ سن کر پادر ی نے کہا کہ بھلا ایک منٹ میں کیسے خاموش کر سکتے تھے؟ میں نے کہا کہ مرزا صاحب نے شروع ہی میں فرما دیا تھا کہ کوئی مذہب اپنے کامل ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کی دلیل بھی خود ہی دے.کہا کہ ہاں یہ تو اُنہوں نے

Page 96

بے شک شروع ہی میں فرمایا تھا.میں نے کہا کہ اچھا بتائو اب تم کیا اعتراض کرتے ہو.سوچ سوچ کر کہا کہ قرآن شریف میں جہاد کا حکم ہے.میں نے کہا کہ بتائو انجیل میں کہاں جہاد کو برا لکھا ہے.اور برا لکھا ہے تو دلیل کیا دی ہے؟ یہ سن کر حیران اور دم بخود رہ گیا.خدمت قرآن کے علوم علم تفسیر ۱ ، علم حد۲یث ، علم اصو۳ل ، علم۴ فقہ ، علم۵ تاریخ ، علم تصو۶ف ، علم۷ معانی ، علم قرا۸ ت ، علم صر۹ف ، علم نحو۱۰ ،علم لغت۱۱ ، علم بیان۱۲ ، علم بلاغت ۱۳، علم بد۱۴یع وغیرہ علوم صرف قرآن شریف کے لئے نکلے.یہ بھی کوثر ہے.(الکوثر:۲).خدا تعالیٰ کا انعام جب کسی شخص پر ہو تو نماز بہت پڑھے اور قربانیاں بہت کرے.حکیم شاہ نواز کو دو نصیحتیں ۱۴؍اپریل کو جب حکیم شاہ نواز صاحب رخصت ہونے لگے اور آخری مصافحہ کرنا چاہا تو اُن سے مخاطب ہو کر بہت دیر تک تقریر فرمائی.وہ ایسا موقع تھا کہ اس وقت کاغذ، قلم، دوات بھی میسر نہ تھا اور لکھنا قریباً محال.اس لئے اس تقریر کا خلاصہ جو حافظہ میں اب تک باقی رہ گیا ہے درج ذیل ہے.آپ طبیب ہیں.طب کے متعلق دو نصیحتیں یاد رکھیئے طلباء کو سبق پڑھانے میں بے قاعدگی اور غفلت کو ہر گز راہ نہ دینی چاہیے.میں نے ایسے بہت نظارے دیکھے ہیں کہ ان بیچارے طلباء کو اُستادوں کی بے پروائی اور باقاعدہ سبق نہ ہونے سے کس قدر تکالیف اور پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں.دوسرے یہ کہ مداواۃ و معالجہ میں غرباء کی طرف خصوصیت سے توجہ رکھنی چاہیے.یہ بڑی غلطی کی بات ہے کہ کوئی طبیب یہ سمجھے کہ امیروں کا علاج کرنے سے مجھ کو زیادہ آمدنی ہو گی اور غرباء کے علاج سے کم.ہم نے اپنی عمر میں اس کے خلاف بہت سے نظارے دیکھے ہیں.اسلام کے لئے کیسا نازک وقت ہے کہ مسلمانوں کے امراء اور علماء کو اپنے دین کی غیرت و محبت بہت ہی کم ہے.میں نے بہت سے سفر نامے مسلمانوں کے دیکھے اور ہر طبقہ کے لوگوں کے سفر نامے دیکھے.اخباروں کے مسلمان ایڈیٹر ، مسلمان نواب ، مسلمان تعلیم یافتہ لوگ مثلاً پیسہ اخبار ، نواب رام پور ، مولوی شبلی وغیرہ وغیرہ مختلف

Page 97

سفرناموں کو دیکھنے سے معلوم ہوا عدن کے بعد پورٹ سعید ہی کا ذکرکرتے ہیں.راستہ میں جدہ اور مکہ کی طرف تو گویا کوئی نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا.دعائوں سے بہت کام لو.ارشادات امیر المومنین ؓ متعلق بہ طب (منقول از بیاض اکبر نجیب آبادی) وَرم کا علاج اُن اَورام میں جن میں اجتماع خون ہو اور جلد چھونے سے گرم معلوم ہو.سرکہ میں کپڑا تر کر کے رکھنا نہایت مفید ہے.عبدالحی کے ہاتھ پر ( پہونچے سے انگلیوں تک ) کسی زخم کے سبب سے ورم ہوگیا اور سوزش بھی اجتماع خون کے سبب سخت تھی.ڈاکٹر صاحب نے علاج کیا فائدہ نہ ہوا.ہم نے تیز سرکہ میں کپڑا تر کر کے ورم پر اس طرح رکھا کہ زخم کو سر کہ نہ لگے.چنانچہ اب اُس کو اس علاج سے بہت ہی جلد آرام ہو گیا اور اس کی تمام تکالیف دور ہو گئیں.(یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء) بے ہوشی معلوم کرنے کی ترکیب بیہوشی کے معلوم کرنے کی ترکیب یہ ہے کہ پنڈلی یا بازو کی ہڈی کے دونوں …… طرف کے گوشت کو خوب دبانا چاہیے.اگر بیہوشی نہیں ہے تو مریض ضرور حرکت کرے گا اور بولے گا.خناریز کی نسبت تجربہ اکثر اقسام کے خناریز کی نسبت ہمارا تجربہ ہے کہ چیر کر نکلوا دینا ہی زیادہ مناسب ہے.بدوں نکلوائے فائدہ نہیں ہو تا.( ۱۲؍ستمبر ۱۹۰۸ء) بچہ کا پاخانہ ۳؍نومبر ۱۹۰۸ء کو نماز فجر کے بعد میاں نجم الدین صاحب سے فرمایا کہ بچے کو زرد رنگ کا پاخانہ آنا نہایت صحت کی علامت ہے.سوائے زرد رنگ کے اور کسی رنگ کا پاخانہ آنا بچے کے لئے مناسب نہیں.جلی ہوئی جگہ کا داغ ختم کرنے کا علاج اگر گدھے کے کان کا خون فوراً جلی ہوئی جگہ پر لگا دیا جاوے تو قطعی داغ کا نام و نشان نہیں ہوتا.( ۵؍نومبر ۱۹۰۸ء)

Page 98

اسہال کا نسخہ ایک شخص نے بذریعہ خط اپنے ستر سالہ بوڑھے باپ کے لئے اسہال کا نسخہ دریافت کیا اور لکھا کہ مریض کو پہلے بخار وغیرہ آتا تھا اب اسہال بکثرت آتے ہیں.جواب میں تحریر فرمایا.ہلیلہ سیاہ (تولہ )روغن گائو میں نیم بریان کر کے اُس میں دانہ الائچی کلاں (۳ ماشہ).زیرہ سفید (۴ ماشہ) کشینز خشک (۵ ماشہ) زنجبیل(۶ رتی) تخم خشخاش (۳ ماشہ) ملاکر ۳ ماشہ صبح و شام کھلائو.اللہ تعالیٰ شفادے.نور الدین ۲۵ ؍ستمبر۱۹۰۸ء ( مذکورہ بالا نسخہ حضرت امیر المومنین کا زمانہ طفولیت سے مجرب ہے اور اُن کی والدہ ماجدہ کا بتایا ہوا ہے.) صرع سوداوی کا نسخہ ایک شخص نے صرع سودا وی کا نسخہ دریافت کیا.اُس کو مندرجہ ذیل خط لکھا.گل آک کے لونگ ( پھول کے بیج میں مثل لونگ کے ایک چیز ہوتی ہے) ۵ سے شرو ع کر کے ۱۱ تک پھر گھٹا کر ۵ تک پھر ایک ایک بڑھا کر ۱۱ عدد کھلاویں اور مجھ کو اطلاع دیں.نور الدین ۲۵؍ ستمبر ۱۹۰۸ء (الحکم جلد ۱۳نمبر۱۵مورخہ ۲۱؍اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ۲، ۳) حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت مسیح موعود ؑ کی فضیلت کی بحث حضرت امیر المومنین کی خدمت میں ایک خط پیش ہوا جس میں حضرت ابوبکر اور سیدنا المسیح الموعود کی فضیلت کی بحث تھی اسے پڑھ کر فرمایا :.فضیلت کی نسبت بحث فضول ہے میں نے ایک دفعہ خواب میں حضرت علی کو دیکھا ان سے عرض کیا کہ فضیلت کے جھگڑے نے اسلام کو جو صدمے پہنچائے ہیں وہ کم نہیں.اصل معاملہ کیاہے؟فرمانے لگے ہر شخص کا جناب الٰہی سے دلی تعلق ہوتا ہے اسی کے لحاظ سے فضیلت ہوتی ہے

Page 99

مگر یہ تعلق ایسا مخفی راز ہے کہ سوا اس ذات باری تعالیٰ کے اور کسی کو معلوم نہیں.پس اس امر کی نسبت بحث ہی فضول ہے.نبی اور رسول حضرت صاحب مامور تھے اور ان کو تو حکم الٰہی سے بولنا پڑتا تھا.نبی یا رسول عربی معنے کے لحاظ سے بہت ہی آسان لفظ تھا مگر ہمارے ملک کے لوگوں نے اس کے کچھ ایسے پیچیدہ معنے سمجھے ہیں کہ بہت سی مشکلات میں پڑ گئے ہیں کوئی کسی چوہڑے کو کام کے لئے بھیجتا ہے تو اس وقت بھی کہتے ہیں یہ اس کا رسول ہے.پس اس لفظی نزاع کا فائدہ کیا ہے؟ دیکھو ایک تنکا بھی شئے ہے اور خدا بھی شئے.تو کیا تنکا اور خدا برابر ہو گئے.یا کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ کا حکم اس پر بھی وارد ہو گیا ہرگز نہیں.پس اسی طرح کوئی نبی یا رسول کہلانے سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے برابر نہیں ہو سکتا.میرا اعتقاد حضرت نبی کریم کی نسبت وہی ہے جو درس میں بعض وقت بے اختیار کہہ دیا کرتا ہوں کہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی کامل انسان آپ کی مثل پیدا ہو.مسیح ؑ اور موسیٰ بھی رسول تھے مگر محمد رسول اللہ کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتے ہیں.تمام مذہبوں کا مشترک مسئلہ دعا ہے.تیرہ سو برس سے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کی دعا ہو رہی ہے جو کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی.پس ان کے مدارج میں کس قدر ترقی ہوئی ہو گی.میں ایک دفعہ لاہور بیٹھا تھا.ایک صاحب نے مجھے کہا ہم تم پر ناراض ہیں.میں نے کہا کہ خدا ناراض نہ ہو آدمی کی ناراضی کیا نقصان پہنچا سکتی ہے.کہا تم نے اپنے پیر کی بے ادبی کی کہ اسے عیسیٰ بنایا.عیسیٰ کیا ہے جسے یہودیوں نے پکڑ کر سولی دے دیا.دیکھو ہم اپنے پیر کا کس قدر ادب کرتے ہیں کہ اسے خدا سمجھتے ہیں.یہ بات لاہوریوں نے سنی اور کچھ چون و چرا نہ کی.اس پر اس نے کہا کہ دیکھا پیروں کے ادب کرنے کی برکت اور اس کا فائدہ تم نے مرزا کی تحقیر کی کہ اسے عیسیٰ کہا تو لوگ ناراض ہوئے.ہم نے اپنے پیر کا ادب کیا خد اتک کہا اور لوگ ناراض نہ ہوئے.دعوت الی اللہ کا ڈھنگ اصل بات یہ ہے کہ بات کرنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے ہمارے بعض دوست بات کو ایسی ترکیب سے بیان کرتے ہیں کہ خوامخواہ جہال کو جوش آتا ہے اور لڑائی ہو جاتی ہے

Page 100

میں نے بارہا غیراحمدیوں سے اثناء گفتگو میں کہا ہے مرزا بھی ربّ کی طرف سے بھیجا ہوا تھا.مرزا بھی اپنے ربّ سے غیب کی خبر پا کر لوگوں پر ظاہر کرتا تھا تو سب نے تسلیم کیا اور کچھ جوش ظاہر نہیں کیا حالانکہ رسول اور نبی کے بھی یہی معنے ہیں.پس بات کرنے کا بھی ایک سلیقہ ہوتا ہے. (النحل: ۱۲۶) بہت سے لوگ بے وجہ ابتلاء میں ڈال دئیے جاتے ہیں وہ قابل رحم ہوتے ہیں اور ان پر رحم نہیں کیا جاتا.سنی و شیعہ میں باعث تفرقہ بحث فضیلت کی بات بہت جلد حل ہو سکتی ہے مگر یہی وہ بحث ہے جس نے سنی و شیعہ میں کشت و خون تک نوبت پہنچائی بارہویں صدی تک سنی و شیعہ کی مسجد الگ نظر نہیں آتی مگر پھر آخر اسی بحث نے تفرقہ ڈالا اور یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہو گئے.ایک شیعہ کا مرزا صاحب کے شعر پر جوش ایک شیعہ حضرت صاحب کے اس شعر پر بڑا جوش میں آ رہا تھا.کربلائے سْت سَیرِ ہر آنم صد حسین است در گریبانم میں نے اسے کہا اس کے یہ معنے ہیں کہ امام حسین کی کربلا اور تکالیف کا صبح سے ظہر تک فیصلہ ہو گیا مگر ( مرزا صاحب فرماتے ہیں ) میں ایسا مظلوم ہوں کہ ہر وقت میرے لئے کربلا کا میدان ہے.وہاں تو ایک دو گھنٹہ میں فیصلہ ہو گیا تھا اور یہاں سینکڑوں دن گزر گئے ہیں رو ز مجھے ذبح کرتے ہیں کیا کوئی سو حسین میرے گربیان میں پنہاں تھا.بے اختیار اس نے کہا یہ توسچ کہا آپ نے.مرزا صا حب کا ذکر بولنے میں عقلمندی کی بہت ضرورت ہے.میں سیالکوٹ گیا میری عادت ہے کہ جو قرآن کی آیت میں مضمون ہو اسی کو بیان کیا کرتا ہوں.اب اگر اس میں مرزا کا ذکر نہ آیا تو میں خواہ مخواہ کھینچ تان کے کہاں سے لاتا.اس پر بعض لوگوں کو برا معلوم ہوا کہ اتنی دیر وعظ کیا اور مرزا کا ذکر

Page 101

تک نہیں کیا گویا وہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا کو راضی کر لے.یہ بات صرف انہی سے مخصوص نہ تھی بلکہ صوفیاء، فقہاء، اہلحدیث سب کو میں نے دیکھا کہ جب ان کے ذوق کا ذکر نہ آئے تو وہ کبیدہ خاطر ہوجاتے ہیں.ادھر کشمیر کی طرف قاعدہ ہے کہ اگر خطبہ میں سید عبدالقادر جیلانی کا ذکر نہ آئے تو اس خطیب کو بے ایمان سمجھ کرسب چلے جاتے ہیں.وہ پیر گیلانی کے یہاں تک معتقد ہیں کہ چائے کی پیالیاں بھی بارہ نہیں گیار ہ رکھتے ہیں کشمیر میں بارہ دری کوئی نہیں.قرآن مجید میں ایسے لوگوں کا ذکر آیا ہے کہ(الزمر:۴۶) جن میں آخرت کا ایمان نہیں ہوتا وہ لوگ صرف توحید کے ذکر پر بھڑک اٹھتے ہیں.غرض ایسی بحثوں کو لچر سمجھتا ہوں.اسے چاہیے کہ بہت بہت دعا کرے تا خدا کوئی ایسی راہ سمجھادے جس سے اپنے مخالف کو نرمی کے رنگ میں سمجھا سکے.(البدر جلد ۸نمبر۲۶مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۵) مکتوب الامام ایک شخص نے لکھا کہ میرے ایک دوست بابو صاحب حضرت مسیح موعود کے حق میں اپنا یہ اعتقاد ظاہر کرتے ہیں کہ’’ ہم ان کو بزرگ اور ولی اللہ سمجھتے ہیں لیکن اُن کے دعاوی کے متعلق ابھی پورے طور پر ہمارے دل نے کھول کر گواہی نہیں دی.‘‘اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم تم کو برا نہیں جانتے اور تمہارے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو تم ہمارے پیچھے کیوں نماز نہیں پڑھتے.بابو صاحب اُن تمام مولویوں کو جو مسیح موعود کو کافر خیال کرتے ہیں غلطی پر سمجھتے ہیں.حضور کا نماز کے لئے کیا حکم ہے.حضور امیر علیہ السلام نے اس کا مندرجہ ذیل جواب تحریر فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ(العنکبوت:۶۹) اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللہ تعالیٰ پر افترا باندھے.زانی، شراب خور، بدکار ، ڈاکو سب اس

Page 102

سے کم ہیں.مرزا صاحب نے پینتیس برس سے زیادہ یہ کہا کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کی باتیں ہوتی ہیں اور ان باتوں میں یہ باتیں بھی ہیں کہ تو مسیح ، عیسیٰ ابن مریم ، مہدی ،امام، مجدد ہے.ان باتوں میں اگر میرزا نے افترا کیا ہے تو اس سے زیادہ کوئی برا نہ تھا اور اس کی جماعت سے زیادہ کوئی برا نہیں.یہ کہنا کہ اُن کو غلطی لگی پینتیس برس ہر روز دعویٰ کرنا اور اس کو شائع کرنا اور ہزاروں ہزار کو اس میں معتقد بنانا بہت بڑا کام تھا.پھر اگر افترا ہے تو بہت ہی بڑا ظلم کیا.اور وہ اچھے بزرگ ولی تھے تو اُنہوں نے ایسا گندہ کام نہیں کیا بلکہ جو کیا سو راستبازی سے کیا.تو پھر بڑا ظالم وہ ہے جس کی نسبت ارشاد ہے.(العنکبوت:۶۹) یا وہ بڑا ظالم ہے جس نے راستباز کو مانا.یہ مسیح کا معاملہ میری سمجھ سے باہر ہے جو آپ کے دوست فرماتے ہیں.نور الدین ۱۸؍اپریل ۱۹۰۹ء (الحکم جلد ۱۳نمبر ۱۶مورخہ ۲۸؍اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۸) عقل اور مذہب یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ عقل و نقل باہم متخالف ہوں تو کس کو مقدم کریں.اگر کہو عقل تو پھر حکماء کے مذہب کی فتح ہے اور اگر کہو کہ نقل تو پھر نقل کے ذمہ دار ہم اس وقت ہو سکتے ہیں جب عقلمند ہوں.اب جب عقل ہی بیکار سمجھی گئی تو نقل کا کیا اعتبار؟ سید احمد ،امام رازی، غزالی اس طرف گئے ہیں کہ عقل مقدّم ہے.جہاں عقل کے خلاف ہو وہاں نقل کی تاویل کریں گے چنانچہ یہ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں.شیخ ابن تیمیہ نے ۴جلد کتاب اس مضمون پر لکھی ہے.وہ کہتے ہیں یہ سوال سرے سے ہی غلط ہے عقل صحیح اور نقل صریح کبھی آپس میں متعارض نہیں ہو سکتے.ایک چشمہ سے دوچیزیں نکلیں اور پھر آپس میں ایک دوسرے کا نقیض ہوں یہ غلط بات ہے.مکتوبات امیر المومنین ۱.جناب حکیم مکرم معظم مکرمت نامہ کو پڑھ کر مجھے دیر تک تعجب رہا کہ ایک حکیم ہو، محمد ہو، صدیق ہو پھر ایسا بے جا

Page 103

تعصب کا بھرا ہوا سوال کرے.سوال کے متعلق مجھے جو تعجب ہوا وہ بے جا نہیں تعجب کے اسباب ہیں.ایک.دائیں سے بائیں کو لکھنا مسلمانوں کا ایجاد ہی نہیں مسلمانوں سے پہلے عبری زبان اور توریت دائیں سے بائیںکو لکھی جاتی ہے.دوم.کاٹوی بھی دائیں سے بائیں کو لکھی جاتی ہے.سوم.فطرتاً اگر دیکھا جاوے تو دھکا دیتے وقت ہاتھ کو آگے کیا جاتا ہے نہ کہ پیچھے ہٹایا جاتا ہے اگر ہندی طرز قدرتی ہوتا تو بائیں ہاتھ سے شروع ہوتا.خاکسار اس وقت جس عہدے پر ہے وہ گدابادشاہ است کا معاملہ ہے.اس سے آپ میری حضوری کا اندازہ لگا سکتے ہیں.۲.بحضور مکرم حضرت نواب صاحب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے حکم سے خان.............صاحب سوداگر امرتسر نے مجھے آپ کی تصنیف کے تمام رسائل نصف قیمت پر جیسے وہ لکھتے ہیں بھیج دئیے ہیں.میں نے ان کو پڑھا ہے اور بہت ہی غنیمت یقین کیا ہے اور بہت کا لفظ اس لئے کہ ایک امیر کی قلم سے ان کا نکلنا ملک کی خوش قسمتی کا نشان ہے.والحمد للہ ربّ العالمین.ان رسائل میں جناب نے بہی خواہانِ قوم میں جن لوگوں کا نام لیا ہے ان کی فہرست حضور نے لیکچر ششم ربیع الثانی ۱۳۱۴ ھ میں کی ہے فضلائے فیض رسان زمانہ حال کا عنوان دیا ہے اسے دیکھ کر میرے دل پر عجب اثر ہوا کہ ان لوگوں نے مخالفان اسلام کے سامنے کیا کام کیا.پھر خدام والا مقام نے گلدستہ منافع میں صفحہ ۴۹ علماء اسلام کے عنوان سے جو کچھ ارقام فرمایا ہے اس کا فقرہ مرقومہ صفحہ ۶۰ پیرا دو ہمار ے علما ء و پیر زادہ اور ہمارے رئوسا بتا ویں.آہ درد دل سے آپ نے ملامت کی ہے مگر بے ادبی معاف ! علماء نے جو کام کیا ہے اسے یا تو جناب کو ملازمان نے اطلاع نہیں دی کہ مولوی رحمت۱ اللہ ، مولوی آل ۲حسن کی اظہار حق.اعجاز عیسوی.استفسار پھر پیغام محمدی.دفع التلبیسات.مولوی محمد علی کانپوری کی اور تنزیہ القرآن سہسوانی کی عیسائیوں کے مقابل اور آخر اس خاکسار نورالدین

Page 104

کی کتاب فصل الخطاب دو جلد ابطال الوہیت مسیح.مسیحی لوگوں کے مقابل اور مولوی محمد قاسم نانوتوی کی کتاب اور آپ کے رسائل تمام دنیا کے مذاہب باطلہ کے مقابل اور خاکسار کی کتاب نورالدین آریہ کے مقابل اور تصدیق براہین احمدیہ …… اور سب کے خاتمہ پر اسّی کتابیں عربی فارسی اردو تصنیف مرزا غلام احمد صاحب قادیان تمام مذاہب کے سامنے اور بہت سی لطیف جن کے خیال پر میں نے آپ کے رسائل طلب کئے آپ نے ان کا ذکرحقارت کے رنگ میں بھی نہ فرمایا.پھر اسلام کا جہاز کس...........کے ذریعہ ساحل پر پہنچے جب آپ جیسے امیر ابن امیر کو فضلائِ زمانہ حال میں انتخاب کے وقت ایک محدود علیگڑھ کی جماعت سے اونچی جگہ توجہ کرنے کا کام نہیں کرنا پڑا.آہ! آہ!! آہ !!! پھر گلدستہ علوم کے صفحہ ۳۸ میں ایک نظم حضور نے لکھی ہے وہ غالباً تحفہ نصائح سے لی ہے گو نام نہیں آیا.آخری مصرعہ مرقومہ جناب یہ ہے ذیقعدہ بینی کود کے ذی الحجہ دختر خوب تر.قابل غور ہے جس اسلام میں (النور:۳۱) ہو وہاں نظر کود کے و نظر بد خترے خصوصاً دختر خوب بلکہ دختر خوب تر.کیا ممکن ہے اور کیا کوئی ایسی تعلیم کو قرآن کریم اور حدیث صحیح یا اقوال ائمہ اربعہ یا ائمہ تصوف سے دکھا سکتا ہے.حَاشا وَ کَلَّا.بہرحال یہ سب کتابیں خاکسار کے پاس ہیں آپ اگر چاہیں تو عاریتاً یا قیمتاً میسر ہولے سکتے ہیں.مخلص نور الدین ( البدر جلد۸ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) مکتوبات امیر المومنین ہَنِیًّا لِاَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُہَا وَلِلْعَاشِقِ الْمِسْکِیْنِ مَا یَتَجَرَّعُ مولٰنا النواب ا لمعظم المکرم بالقابہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بجواب مکرمت نامہ بادب گزارش ہے.ایسے علماء کا ذکر جنہوں نے ردّ نصاریٰ و آریہ پر قلم اُٹھایا.صرف اس لئے تھا کہ حضور نے اس مقام پر یہ لکھا تھا کہ مسیحی مشنری ہندوستان میں آئے ان کے مقابل

Page 105

مسلمانوں نے کیا کیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(ابراہیم:۸) یہاں کا لام اور نون مشدّد قابل غور ہیں.مگر عالیجاہ! حضو رنے صاف لکھا ہے ’’ یہی ایک خدمت علماء سے اگر ہوئی تو کیا ہوئی! ‘‘ حضرت نواب یہ کلمہ شکر گزاری کا نہیں.اس ملک میں ہزاروں ہزار آدمی صرف ان مناظروں کے باعث مسیحی ہونے سے بچ گئے وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.برے چلن اور اخلاق ذمیمہ ، خصائل رذیلہ کا استیصال علوم حقّہ سے قابل قدر اور سرسید کی محنتیں ہمارے سامنے ہیں مگر ان کے دارالاقامۃ میں ابھی تک ایمان باللہ و رسلہٖ، اقامۃ الصلوٰۃ ، ایتاء الزکوٰۃ، پابندی صوم و حج کا جو حال ہے وہ جناب عالی اور ہم لوگوں سے مخفی نہیں.بھلائی بھلائی ہے اور ضرور ہے مگر ایمانی جوش اور حضرت نبی کریم ﷺ کی اتباع وہاں ہنوز دہلی دور است.کسی محسن کی احسان فراموشی کفران نعمت ہے.مجھ خاکسار کی سید سے خط وکتابت رہی ہے.میں نے ان کو ایک بار کسی تقریب پر عرض کیا تھا.جاہل علم پڑھ کر عالم بنتا ہے اور عالم ترقی کر کے حکیم ہو جاتا ہے.حکیم ترقی کرتے کرتے صوفی بن جاتا ہے.مگر جب صوفی ترقی کرتا ہے تو کیا بنتا ہے قابل غور ہے.جس کے جواب میں سر سید نے لکھا کہ وہ نور الدین بنتا ہے.غرض اس کہانی سے صرف یہ ہے کہ ہم اُن سے اور وہ ہم سے بے خبر نہ تھے جناب نے تکلیف فرما کر ان کا ذکر کیا اور ان کے ذکر پر زور دیا ہے اس لئے تعارف کا تذکرہ کر دیا ہے.جناب عالی ! مولوی بارہ لاکھ روپیہ جمع کرے گا تو افسوس ہے کہ وہ مولوی آپ کی نگاہ میں مولوی نہ رہے گا.مہدی علی مولوی تھے.چراغ علی مولوی تھے.عمائد علماء لکھنو مولوی تھے.مگر جب روپیہ آیا تو نواب محسن الملک.ممتاز جنگ.قبلہ و کعبہ.سرکاردولت مدارمجتہد العصر ہو گئے.آخر میں مولوی صدیق حسن گزرے ہیں.روپیہ آیا تو نواب کہلائے.صدیق تخلص اڑا دیااور نواب اس کے قائم مقام ہو گیا.بھلا یہ خاکسار لاکھوں والے لوگوں کو مولوی کہہ سکتا ہے.ہرگز ہرگز نہیں.( مولوی تحقیر کا کلمہ ہے اور آپ کے نزدیک بھی )بلکہ مجھے تو تعجب ہو اہے کہ ملازمان والا نے صاحب عصر جدید اور مہتمم ندوۃ العلماء دونوں کے نام پر مولوی کا لفظ لکھ دیا ہے.شبلی صاحب کا سفر نامہ حضور نے غور سے نہیں پڑھا واِلاّ اس

Page 106

میں مولوی لفظ کی جو مٹی پلید کی ہے اسے پڑھ کر آپ ضرور ہنستے.اور یہ امرا کا مشغلہ ہے اگر یہی تدبیریں قومی ترقی کی ہیں جو حضور نے لکھی ہیں تو بے ادبی معاف ہو.آپ کا محمڈن کالج، آکسفورڈ ، کیمبرج کا مقابلہ نہ کر سکے گا.امریکہ، جرمن کی یونیورسٹیاں فراموش ہوں.پس اسلام در گو ر ہے بلکہ ہندوستان سے اسلام کا مقابلہ سوال ہے.جس قدر آپ ترقی کریں کر لیں.یورپ و امریکہ کو چھوڑ ہندوؤں سے مقابلہ بھی خواب وخیال ہو گا.اسلام مال سے نہیں اخلاص سے ترقی کر چکا اور کرے گا.ایمان ، اعمال صالح سے وابستہ ہے.مجھے حضور نے دو لاکھ جمع کرنے کی ترغیب فرمائی ہے.آپ نواب، رئیس اعظم ، ہونہار ، نوجوان، لاکھوں جمع کرنے والوں کے فدائی ذرا مجھ غریب کی سنئے.قرآن کریم فرماتا ہے. (الانعام: ۱۲۴).اور فرماتا ہے.(ھود: ۲۸)‘‘ اور فرماتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں.(الزخرف:۳۲).آپ کو اللہ تعالیٰ نے علم و فضل بخشا ہے اور مال کو اللہ تعالیٰ نے خیر و فضل فرمایا ہے اور(البقرۃ:۲۰۲) ابوالحنفاء نے دعا سکھائی ہے اور ہم مانگتے ہیں.گو سر سید دعا کا نتیجہ حصول مراد نہیں مانتے تھے مگر میں بخلاف اُن کے دعا کو سبب حصول مراد ات مانتا ہوں.ایک پیسہ جمع کرنا بھی ناپسند کرتا ہوں اور یہ واقع ہے کہ پھر باایں آپ کے سر سید بھی میری عزت کرتے تھے اور بہت کرتے تھے.محسن الملک اور ان کے بازو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.حضور کسی امام و مصنف کا نام اسلام میں بتا سکتے ہیں جس نے ان روپیوں کے ذریعہ اسلام کو دنیا میں پھیلا یا.لائبریری کا عالیجاہ! آپ کو شوق ہے مگر صرف ہندوستان میں صرف میری لائبریری ہے جسے سر سید احمد خان اور مولانا شبلی نے بحمد اللہ ضرور فائدہ اٹھایا ہو گا یا ہے.ایک تو دنیا سے چل بسے دوسرے موجود ہیں آپ ان سے دریافت فرما سکتے ہیں.

Page 107

آہ! آپ کو کون بتا وے کہ پراگندہ روزی پراگندہ دل اور شب چو عقدے نمازمے بندم چہ خورد بامداد فرزندم بالعموم صحیح نہیں.غالباً میں نے جناب کا عزیز وقت بہت لیا اگر آپ میرا عریضہ پڑھ لیں گے (اور اگر سیکرٹری صاحب نے ردّیات میں ڈال دیا یا خلاصہ سنا دیا) تو میرا اظہار انشاء اللہ ضائع نہ ہوگا.نور الدین ۲۲؍مارچ ۱۹۰۹ء ( البدر جلد۸ نمبر ۲۸ مورخہ ۶؍مئی ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) مکتوبات امیر المومنین (اشاعت اسلام ) بابو محمد صاحب نے مفصلہ ذیل خط لودھیانہ سے لکھا ہے.بخدمت خلیفۃ المسیح صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ براہ عنایت صفحہ ۷۶۷ سے صفحہ ۷۷۷ تک رسالہ ازالہ اوہام کو غور سے پڑھیں اور اسلام کو یورپ و امریکہ میں پھیلانے کے کام کو ترقی دینے کی طرف توجہ کریں یہ کام بہت ہی ضروری تھا اور بڑے ثواب کا.مگر بہت پیچھے رہ گیا.جو کاپی میگزین کی یورپ و امریکہ میں جاتی ہے وہ کروڑہا آدمی کی تبلیغ کے واسطے ہرگز کافی نہیں.ماہ جون ۱۹۰۸ء میں میں نے ایک تجویز کی تھی کہ میگزین میں سے چند خاص خاص مضمون ٹریکٹ کی صورت میں چھاپے جاویں اور کئی کئی ہزار چھاپ کر یورپ و امریکہ میں مفت تقسیم ہوں اس تجویز کو صدر انجمن احمدیہ نے شکریہ کے ساتھ منظورکر لیا تھا اور امید تھی کہ بڑے جلسہ کے دن پر اس

Page 108

ایسے بڑے ضروری اور ثواب کے کام کے واسطے بہت چندہ ہو گا.مگر جو رقم ہوئی اس سے ظاہر ہے کہ جماعت کے لوگ اس کام کو ضروری خیال نہیں کرتے.اب یہ معاملہ خاص طور سے آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے تا آپ جماعت کو اس کی ضرورت کی طرف ایک اشتہار میں توجہ دلوا دیں اور ہر شہر جہاں انجمن قائم ہے چندہ برابر وصول ہو.وصیت کی مد کا روپیہ وغیرہ خاص تبلیغ و اشاعت اسلام میں خرچ ہونا چاہیے اگر کافی سرمایہ ہوجاوے تو علاوہ ہزارہا کاپی ٹریکٹ کے دو چار آدمی یہاں سے امریکہ وغیرہ جاویں جو ان ٹریکٹوں کو تقسیم کریں اور زبانی تبلیغ بھی کریں کیونکہ ناخواندہ لوگ ہر ملک میں کثرت سے ہوتے ہیں ان کو زبانی سمجھانا پڑے گا.مرحوم مرزا صاحب نے اپنی تقریر میں جو الحکم مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۲ء کے صفحہ ۳ میں شائع ہوئی ہے فرمایا تھا کہ ہمیں تو اشاعت اور تبلیغ کا اس قدر جوش اللہ نے دیا ہے کہ خواہ ہماری ساری جائیداد بھی بک جاوے مگر اشاعت عمدہ طور پر ہو جاوے.فقط جواب از امیر المؤمنین اس کے جواب میں مولانا حضرت امیر المومنین نے یہ مضمون رقم فرمایا.اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے.(اٰل عمران:۱۰۵).پس داعی الی الخیر لوگوں کی ضرورت ہے حضرت نبی کریم ﷺ نے جہاں ابتدا ہی سے صدیق کو اس کام میں لگایا رکھا اور حضرت عثمان و طلحہ و زبیر و بلال جیسے عمائدان کی تحریکوں کے پاک ثمرات تھے.وہاں یہ تمام حضرات صوفیہ مثلاً حضر ت گنج بخش، حضرت ولی الہند شاہ اجمیر معین الحق والدین اور آپ کے جانشین.سہر وردیوں میں شیخ شہاب الدین شیخ الشیوخ اور حضرت بہاء الحق والدین زکریا ملتانی اور حضرت شیخ باقی اللہ دہلوی اور آپ کے خلفاء حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی سرہندی اور حضرت السید الجیلانی جیسے روحانی بادشاہ قادریوں کے اور آپ کے بزرگ خلفاء اور حضرت شاہ ولی اللہ کے خلفاء جیسے حضرت سید بریلوی اور ان کے خلفاء.یہ سب داعیان الی الخیر اس ہندوستان میں

Page 109

حماۃ الاسلام گزرے ہیں اور دور دراز اوطان سے مصائب سفر و غربت اٹھا کر اس ملک کی ہدایت کے باعث ہوئے.رَحِمَہُمُ اللّٰہُ وَجَزَاھُمْ عَنَّا اَحْسَنَ الْجَزَائِ.ان کی مقدس تصنیف جان بخش موجود ہے.ہمارے امام نے خصوصیت تحریر و تقریر و توجہ سے اس مقد س کام کو جس خوبی سے کیا عقل حیران رہ جاتی ہے اپنی زندگی میں لاکھوں میں اسرافیلی کام کیا اور ایک گراں بہا خزانہ تحریر کا پیچھے چھوڑا وہ بے سود نہیں جیسے ایک ……سے کہتا ہے اور ڈرا نہیں کہ ایسے بے باکو ں کو اللہ تعالیٰ… (البقرۃ:۱۱۴) فرماتا ہے.اس خزانہ سے لوگوں کو متمتع کرنے کے لئے ضرورت ہے ایسے ٹریکٹوں کی جنہیں میگزین کے اعلیٰ اعلیٰ مضامین اور تصانیف حضرت اعلیٰ مقامات کا ترجمہ کر کے بلا د دور دست میں شائع کیا جاوے.سر دست ایک سو روپیہ اس کام کے لئے علاوہ اس چند سو روپیہ کی رقم کے جو میں نے تقریر جلسہ اعظم اور انتخابات گورو صاحب کے لئے دئیے ہیں اس لئے دیتا ہوں کہ (البقرۃ:۴۵)کا مصداق نہ بن جائو ں.وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ وَ مَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ اُنِیْبُ ہاں مقبرہ کی آمدنی بھی ایسے ہی کاموں کے لئے ہے اس میں سے دیا جاوے.نور الدین ( البدر جلد ۸ نمبر۲۹ مورخہ ۱۳؍مئی ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) حضرت خلیفۃ المسیح کا ارشاد عالی مکرم معظم حضرت میر صاحب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے کاموں اور خواہشوں کو دیکھ کر میری خواہش ہوتی اور دل میں بڑی تڑپ

Page 110

پیداہوتی ہے کہ جس طرح آپ کے دل میں جوش ہے کہ شفا خانہ زنانہ مردانہ ، مسجد اور دارالضعفا کے لئے چندہ ہو.اور آپ ان میں سچے دل سے سعی و کوشش فرما رہے ہیں اور بحمد للہ آپ کے اخلاص ، صدق و سچائی کا نتیجہ نیک ظاہر ہو رہا ہے.اور ان کا موں میں آپ کے ساتھ والے قابل شکر گزاری سے پُرجوش ہیں.ہمارے اور تمام کاموں میں سعی کرنے والے ایسے ہی پیدا ہوں.(ابراہیم:۲۱) نور الدین ۳۰؍اپریل ۱۹۰۹ء اشاعت۱ اسلام.لنگر۲.تعلیم ۳دینیات.مدرسہ۴ ہائی سکول.مدّ زکوٰۃ۵ کی ترقی.یتا۶میٰ.مساکین۷ کی پرورش.مقبرہ.یہ کام اصل اصول کے طور پر اور ان پر چندوں کی طرف توجہ ایسے ایسے امور میں سے ہے کہ ایک شخص نے دعوت کی اور ان سات ضروری اصحاب کو بُلا کر پُر جوش دعوت دی اور اس دعوت میں کچھ غربا اور ضعفا بھی آ گئے تو ان کے لئے بھی موقعہ نکل آیا.پھر آپ کا چندہ مجلس ضعفا کا حصہ ہے.آپ کو اجازت ہے کہ اس میری ساری تحریر کو چھپوا دیں.اللہ تعالیٰ ہی بابرکت کرنے والا ہے.والسلام نورالدین ۳۰؍اپریل ۱۹۰۹ء مکتوب الامام بحضور فیض گنجور حضرت امیر المومنین و خلیفۃ المسلمین السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.سور ج گڑھ ضلع مونگیر سے سید منظور عالم صاحب احمدی مندرجہ ذیل استفسار اپنے خط میں لکھتے اور جلد جواب مانگتے ہیں.وَ ہُوَ ہٰذَا.’’ مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں آپ کا کیا عقیدہ ہے کیا

Page 111

وہ خلفاء راشدین سے افضل ہیں ؟ اگر افضل ہیں تو کس بات میں اور امیر المومنین اس کی نسبت کیا فرماتے ہیں.‘‘ حضور کی دعائوں کا محتاج اکبر شاہ خان نجیب آبادی.۱۷؍اپریل ۱۹۰۹ء السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حقیقی فضیلت کا علم جس پر قرب الٰہی اور رضائے حضرت حق کا مدار ہے.بدوں صاف کلام الٰہی کے کیونکر حاصل ہو سکتا ہے.(البقرۃ:۲۵۴)سے معلوم ہوتا کہ رسولوں کی فضیلت کے لحاظ سے تفریق ضرور ہے مگر ہمیں جوارشاد ہے اُس میں(البقرۃ:۲۸۶) کا حکم ہے.ہم اپنے سید الاولین و الآخرین سید ولد آدم کو افضل الرسل کہتے ہیں.مگر ایک صحابی نے ایک یہودی کو اس لئے پیٹا تھا کہ یہودی نے کہا تھا.وَالَّذِیْ فَضَّلَ مُوْسٰی عَلَی الْبَشَرِ.وہ مقدمہ حضور کے درباردُربار میں آیا تو صحابی کو ملامت فرمائی.نیز اس فضیلت کے بے وجہ اور بے جا مباحثات نے اسلام کو وہ صدمہ پہنچایا کہ شیعہ خوراج، سنی تین بڑے بڑے گروہ نظر آتے ہیں اس تفرقہ کی بلا سے ہم سبکدوش نہیں ہوئے آپ ایک اور بلا ہمارے سر پر لانا چاہتے ہیں.میرا عقیدہ یہ ہے کہ مرزا صاحب مسیح ، مہدی، امام، مجدد تھے اور سچے تھے.ا ن کی فضیلت کا قصہ مجھے معلوم نہیں اور نہ میں نے اس پر بحمداللہ غور کیا ہے اور نہ مجھے کبھی ضرورت پڑی.اللہ تعالیٰ نسبتوں کو جانے.مجھے کوئی الہام اس بارے میں نہیں ہوا.والسلام نور الدین ۲۴؍اپریل ۱۹۰۹ء

Page 112

کلام الامام امام الکلام (منقول از بیاض اکبر نجیب آبادی) امام داؤدی ظاہری کا لڑکے پر عاشق ہونے کا واقعہ چوتھی صدی کے مشاہیر میں سے ایک امام دائود ظاہری ہیں.وہ ایک لڑکے پر عاشق تھے اور ان کے اکثر اشعار اس پر دال ہیں.ایک طرف تو یہ حالت اور دوسری اُن کے زہد اور علمیت اور تصوف وغیرہ کمالات.مَیں اکثر حیران رہتا تھا کہ یہ بات کیا ہے؟ اتنا بڑا عظیم الشان انسان اور اس فعل شنیع میں مبتلا چنانچہ میں نے اسی ٹوہ اور تلاش میں سینکڑوں کتابیں ایسی پڑھ ڈالیں جن میں امام دائود ظاہری کا تذکرہ ہو.انجام کار خدا کے فضل سے ایک نہایت مستند کتاب میں ان کی نسبت مجھ کو یہ دیکھ کر نہایت خوشی ہوئی اور میری حیرت مبدل بہ مسرت ہو گئی کہ کسی نے اس لڑکے کو اُن کے سامنے لا کر عرض کیا کہ حضرت جس کے عشق اور جدائی میں آپ بیتاب ہیں اور اشعار لکھا کرتے ہیں یہ دیکھئے وہ موجود ہے.آپ نے فرمایا کہ صرف پہلی نگاہ جو شرعاً جائز بھی تھی اس کی پاداش میں تو مجھ کو اس قدر سزا بھگتنی پڑی.اب دوسری نگاہ اُس پر بھلا کیسے ڈال سکتا ہوں ؟ (۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء) یہ احادیث نہیں ۱۲؍ستمبر ۱۹۰۸ء کو صحیح بخاری کا سبق پڑھاتے ہوئے فرمایا.لَا عَفْوٌ فِی الْکَبَائِرِ کوئی حدیث نہیں ہے کسی حدیث کی کتاب میں اس کا ذکر نہیں.محض غلطی سے لوگ اس کو حدیث سمجھتے ہیں.لَا تَتَحَرَّکُ ذَرَّۃٌ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ یہ بھی نہ کوئی آیت ہے نہ حدیث ہے.اکثر لوگ غلطی سے آیت یا حدیث سمجھ کر اس کو پیش کیا کرتے ہیں.محدثین کے مذہب نیلؔ الاوطار.محلی ؔبن حزم.فتوحاؔت مکیہ ان کتابوں کے دیکھنے سے محدثین کے مذہب کا حال معلوم ہو سکتا ہے.یہ اعلیٰ درجہ کی کتابیں ہیں جو محدثین کے مذہب کو ظاہر کرتی ہیں.کتاب نیلؔ الاوطار میں محدثین کے اور کتاب مدوؔنہ میں مالکیوں کے مذہب کا جامع و مانع فقہ ہے.

Page 113

چشتیہ اور قادریہ چشتیہ کے یہاں کوئی قابل تذکرہ کتاب تصوف کی نہیں یہ دوسروں ہی کی کتابیں پڑھتے ہیں.البتہ قادریوں کے یہاں کتابیں ہیں.احادیث ابوہریرہ اور حنفی ابوہریرہ ؓ کی احادیث کو اکثر حنفیوں نے رد کیا ہے.ابوہریرہؓ کی ایسی احادیث کو جو ان کے مطلب کے خلاف ہوں حنفی لوگ نہیں مانتے اور ردّ کردیتے ہیں.( ۱۲؍ ستمبر۱۹۰۸ء درس بخاری شریف ) (الحکم جلد۱۳ نمبر ۱۷و ۱۸ مورخہ ۷،۱۴؍مئی ۱۹۰۹ء صفحہ ۲،۳) خمر کے معنے اور حرمت ۱.سوال.حدیث میں کُلُّ مُسْکَرٍ حَرَامٌ.وَ کُلُّ مُسْکَرٍ خَمْرٌ.وَ مَا اَسْکَرکَثِیْرَہٗ فَقَلِیْلَہٗ حَرَامٌ وار د ہے اور ہدایہ میں لکھا ہے.یُکْرَہُ اَکْلُ خُبْزٍ.عُجِنَ عَجِیْنُـہٗ بِالْخَمْرِ لِقِیَامِ اَجْزَائِ الْخَمْرِ فِیْہِ (العنایۃ شرح الھدایۃ کتاب الاشربۃ فصل فی طبخ العصیر).اور اس کے شارح نے کہا کہ فھٰذ الخبز نجس کما لو عجن بالبول.پس نان پائو ( ڈبل روٹی) جس کو ہمارے اس ملک میں سینڈھے اور تاڑی سے تیار کرتے ہیں اور شراب کی ایسا ان دونوں میں سکر بھی ہے.اَلْخَمْرُ مَا یُخَامِرُ الْعَقْلَ ان دونوں پر صادق آتا ہے.پس بلحاظ مدلّل صدر اس کا کھانا ناجائز معلوم ہوتا ہے اس باب میں حکم عدل کے خلیفہ برحق کا کیا قول فیصل ہے مدلّل ارشاد ہو؟ جواب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ نے اہل حدیث کے مذہب او رمذہب حنفی کو ملا یا ہے.دونوں مذہب خمر کے معنے میں متخالف ہیں اور سخت مخالف ہیں.حنفیہ خمر کے معنے میں فرماتے ہیں کہ کھجور یا انگور کا رس جو خود بخود بلاکشید شراب مسکر بنے اس کا نام خمر ہے اور بس.باقی عرق یا رس سکر کی حد پر جا کر حرام ہوتے ہیں.علی العموم نہیں.پس تاڑ بھی بحد سکر حنفیہ کے نزدیک حرام ہے نیچے نہیں اور نان پائو اس کا استعمال بہت نیچے ہے اس پر آپ غور کریں اور اہلحدیث کے نزدیک استحالہ مزیل احکام ہے اور نان پائو میں تاڑی

Page 114

کی اجزاء میں تو سخت استحالہ ہو جاتا ہے.کیا آپ نے نہیں پڑھا کہ سرکہ شراب کا اسلام کے کسی فرقہ میں ممنوع نہیں بلکہ وہ نعم ا لاِدام ہے.گو اہل حدیث اس کا بنانا جائز نہیں مگر بنے کو نعم الاِدام میں ضرور داخل فرماتے ہیں.یہ ہے میری فہم …وہ نان پائو حرام نہیں.نور الدین ۵؍جون ۱۹۰۹ء درود شریف میں مانگی جانے والی رحمتِ الٰہی ۲.منبع علوم و فنون حکم الحکماء جناب مولانا صاحب دام الطافہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بندہ مدت سے تشویش اور تردد میں ہے اپنی عقدہ کشائی کے واسطے جناب سے برتر کسی کو نہیں سمجھتا ہے اُمید ہے کہ جناب کاشف عقدہ ضرور ہوں گے.عقدہ یہ ہے کہ آں رسول کریم ﷺ جبکہ جمیع اوصاف اور خاتم النبیین آخر الزمان اورسید المرسلین تھے تو درود شریف میں جو کہ آخر نماز پڑھا جاتا ہے کیوں ایسا لکھا ہے کہ اے اللہ تو رحمت نازل فرمااُوپر محمد ؐ کے اور اوپر آل محمد ؐ کے جیسی کہ تو نے اوپر ابراہیم ؑ اور آل ابراہیم کے بھیجی ہے.معلوم نہیں ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم پر کو ن سی رحمت تھی جس کے لئے عبد آنحضرت ؐ بھی ہر ایک شخص داعی رہتا ہے اور کیا آنحضرت ﷺ اس رحمت سے محروم تھے.جواب.حضرت ابراہیم علیہ السلام والبرکاۃ.آمین پر ایسی رحمت الٰہی تھی جس کی حدو نہایت نہیں کیونکہ آپ کے آل میں محمد رسول اللہ ﷺ....خاتم النبیین رسول ربّ العالمین جیسے بادشاہ دو جہان ﷺ اور موسیٰ علیہ السلام جیسے اولو العزم رسول پیدا ہوئے.پس جو کچھ ابراہیم اور ان کی آل پر فضل نازل ہوا درود پر درود پڑھنے والا چاہتا ہے کہ وہ مجموعہ نعماء الٰہیہ کا جو ابراہیم اور ان کی تمام اولاد پر جن میں خود ہمارے سیدومولیٰ نبی کریم ؐ اور دیگر انبیاء داخل ہیں وہ مجموعہ ہمارے سردار اور اس کی اولاد پر نازل فرما.اگر آپ کی سمجھ میں بات آ گئی تو بہتر.وَاِلَّا آپ یہاں تشریف لاویں.آمدورفت کا خرچ میں دے دوں گا.نور الدین ( البدر جلد ۸ نمبر۳۵ مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۹ء صفحہ ۲)

Page 115

مکتوب الامام (منقول از بیاض اکبر نجیب آبادی) استفتاء کیا فرماتے ہیں علماء دین اسلام مسائل ذیل کے باب میں ؟بَیَّنُوْا وَ تُوْجِرُوْا.راقم خاکسار دوست محمدحجانہ (بلوچ) (۱)جو علم کہ بحکم طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ (تفسیر البغوی سورۃ التوبۃ آیت ۱۲۲) ہر مسلمان ذکور و اناث پر فرض کیا گیا ہے اس کی کیا تعریف ہے؟ جہاں تک میں جانتا ہوں پیغمبر خدا صلعم کی ذیل کی حدیث سے اس کی کسی قدر تصریح ہوتی ہے.اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْاَ دْیَانِ وَ عِلْمُ الْاَبْدَانِ (کشف الغطاء حرف العینالمھملۃ.۱۷۶۵)تو کیا اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالنادرست ہو سکتا ہے کہ بحالیکہ مطلق علم فرض کیا گیا ہے تو دونوں علوم ابدان و ادیان کا حاصل کرنا بغیر کسی کمی بیشی کے یکساں فرض ٹھہرا.اور یہ کہ ان دونوں علوم میں سے کسی ایک کی تحصیل کر لینے سے ادائے فرض کی تکمیل نہیں ہو سکتی.اور علم اور اہل علم کی بے شمار فضیلتیں جو احیاء العلوم وغیرہ کتب معتبرہ میں منقو ل ہیں ان فضیلتوں کا کماحقہ مستحق وہی ہو سکتا ہے جو علم کی دونوں قسموں کو حاصل کرے علم الابدان کی تعریف کیا ہے؟ شاہ عبدالعزیز صاحب شرح تفسیر عزیزی میں ایک مقام پر علم الابدان کی جو تعریف کہ ذیل کے لفظوں سے فرماتے ہیں.واجب التسلیم ہے یا نہ ؟ ’’علم الابدان عبارتے است از قواعد یکہ برائی حفظ ہیئت اجتماعیہ بکار آید و حفظ ممالک و نظم امور دنیوی و آبادی بلاد و رفاہ رعایا بدان میسرمی شود‘‘ بعض مولویوں سے علم الابدان کے معنی علم طب سنے جاتے ہیں.اگر شاہ صاحب کی مذکورہ بالا تفسیر واجب التسلیم سمجھی جائے تو علم الابدان کا اطلاق بموجب اس کے معنوں کے کون کون سے

Page 116

مضامین اور علوم پر ہو سکتا ہے.کیا علوم جدیدہ اُنہیں معنوں کے ذیل میں آ سکتے ہیں ؟اگر آسکتے ہیں تو کیا مسلمانان ہند کو اس فرض کی تعمیل کے لئے بنظر حالات موجودہ انگریزی پڑھنا فرض ہے.اگر چہ علمائے اکابر نے مسلمانان ہند کے لئے انگریزی نہایت ضروری مصلحت قرار دی ہے.لیکن کیا یہ اعتقاد رکھنا صحیح ہو سکتا ہے کہ علوم جدید ہ مسلمانوں کے لئے ویسے ہی ضرور ی ہیں جیسے کہ علم الادیان.میرے خیال میں پرانے فیشن کے بزرگان دین اور نئے فیشن کے سترگان قوم کی باہمی منافرت و بیگانگی کی ایک بڑی وجہ انگریزی تعلیم کا مسئلہ بھی ہے اس لئے توقع کرتا ہوں کہ اس مسئلہ پر مذہبی طور پر بخوبی روشنی ڈالی جائے.جواب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ علم فرض سب سے مقدم.علم ایمان باللہ اور اس کے صفات اور اس کے افعال پر کہ وہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَـہٗ ہے.پھر علم ایمان بالملائکہ و الکتب و الرسل و علم القدر و علم المعاد و حشر و نشر و جنت و نار مگر یہ علم بالاجمال کافی ہے.پھر علم ادائے نماز پھر اگر مالدار ہو تو علم زکوٰۃ پھر رمضان سے پہلے علم روزہ پھر استطاعت کے بعد علم حج اور علم اخلاق فاضلہ اور علم رذائل مثلاً یہ کہ عفت عمدہ چیز ہے اور زنا برا ہے.علم ابدان میں طب اور مسائل سیاست و تمدن و علم طبیعات سب داخل ہیں جو آجکل انگریزی علوم اس وقت موجود ہیں مسلمانوں کے لئے اس کی بھی ضرورت ہے اور بہت ضرورت ہے مگر سترگانِ قوم ( نیو فیشن) نے اس کو علم الایمان سے بھی مقدم کر رکھا ہے اور اولڈ فیشن دونوں سے گئے گزرے.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.اور اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ والی حدیث صحیح نہیں.نورالدین ۱۰ ؍ جون ۱۹۰۹ء (الحکم جلد۱۳ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۸؍جون ۱۹۰۹ء صفحہ ۳،۴)

Page 117

(الحکم جلد۱۳ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۸؍جون ۱۹۰۹ء صفحہ ۳،۴) ایک خط کا جواب سوال (۱)مشرک و مومن باللہ پہلو بہ پہلو کامیاب و بامراد ہیں.جواب.ہرگز ہرگز ہرگز نہیں.۱.اوّل المومنین رسل میں نوح علیہ السلام ہیں.(نوح:۲۷) کی دعا مشرک گروہ کے لئے کی.کیا دونوں برابر کامیاب ہو گئے.۲.ابو الانبیاء ابراہیم علیہ البرکات ہیں.(البقرۃ:۲۵۹) کہنے والے … ایک مشرک کے لئے کھڑا ہوا.کیا آپ اس نمرود اور اس کے عقائد اور اس کے اتباع کا پتہ لگا سکتے ہیں.۳.موسیٰ علیہ الصلوٰۃ اَنَا رَبُّکُمْ کہنے والے اور (الاعراف:۱۲۸)کے فکرمندوں کے لئے (البقرۃ:۵۱) ذرا پر توجہ کرو.غرق ہونے کو پہلو بہ پہلو مان سکتا ہے.سامری … عبدالعجل بچھڑ و جلا یا گیا اور اس کی راکھ بھی دریامیں بہا دی گئی.موسیٰ کے پہلو بہ پہلو رہے.ہمارے سردار رحمۃ العالمین تھے.سید الانبیاء و المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم و بارک.آمین.مشرکان مکہ کے مقابل کھڑے ہوئے کیا دونوں پہلو بہ پہلو کامیاب و بامراد ہوئے.(الاعراف:۱۹۶تا ۱۹۸).ہر دو نمبر قابل غور ہیں بلکہ ہندوستان میں کرشن واعظ لا الہ کو غور کرو.اس کے سامنے کنور وں کا کیا حال گزرا.ہندا تنا بت پرست یورپ کے مقابل جہاں اتنے بت ہیں کیسا پہلو بہ پہلو ہے کہ الامان ! بت کے پجاری مہنت اور قبروں کے مجاور مسیح کے خاص پجاری رومن اور پادریوں کے مقابل دنیوی بادشاہ جو قریباً دہریہ ہیں بلکہ راجہ و نواب جو عملاً

Page 118

دہریہ سے بھی گرے ہوئے ہیں.کیا دونوں پہلو بہ پہلو ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دنیوی کاروبار کو ہی معیار کامیابی سمجھا ہے حالانکہ ان امور میں دہریہ بھی مشرک ہیں.اصل لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہنے والے اور بت پرست کا مقابلہ کرو.نوح کی عمر پر یورپ و امریکہ نے بہت کچھ لکھا ہے کیونکہ اس کا ذکر توریت میں تھا.ورنہ قرآن کریم میں تو عمر نوح کا تذکرہ ہی نہیں.صرف لبث نوح کا اس قوم مشرک میںذکر ہے.قبل رسالت و بعد طوفان کا ذکر ہی نہیں.یورپ کے فلاسفروں نے کہا ہے حضرت نوح کی بقا کو مع ان کے خلفاء و جانشینوں اور بقا تعلیم کے ۹۵۰ لکھا ہے بلکہ زیادہ.اور ابتدائی زمانہ میں بعض جانور اور درختوں کے قد و قامت و عمر میں بڑا تفاوت ہوا ہے.خط میں گنجائش نہیں وَاِلاَّ تفصیل کرتا.کثرت خطوط اور میری عدیم الفرصتی مجھے اس وقت تفصیل سے روکتی ہے.۳.معاصی میں بڑا ہی اختلاف ہے اور ان کے مدارج بے ریب مختلف ہیں.ایک جانور کا زانی، مشت زن، بازاری عورت کا زانی، گھر میں حیض و نفاس کے دنوں کا زانی ، پڑوسی کی بی بی کا زانی، زانی بالجبر اور ماں بہن سے زانی، پھر معاصی میں شوخ، مرسلوں کے مقابل شوخ.جناب من! ضرورہی سزا دہندہ جرائم کی تقسیم کرے اوران کے حدود و مراتب قائم کرے مثلاً گورنمنٹ بھی معاصی کے سزا کی ذمہ دار ہے اس نے تعزیرات اور سیاست اور فوجی سزائوں کے قواعد تجویز کر دئیے اور ان کی تقسیم کر دی.گھر میں انسان اپنے متعلقین کی سزائیں اور جرائم تجویز کرتا ہے تو اسے تقسیم بھی کرنا پڑتا ہے.مولیٰ کریم سزا دہندہ اس نے مدارج سزائوں اور معاصی کی بنا رکھی.ہمیں اور آپ کو نہ خدائی ملی اور نہ حکومت ہم اس کا فکر کریں بیہودہ کام ہے.(المؤمنون:۴) کامیاب مومن کا کام ہے.(المائدۃ :۵۵)کے مصداق پر یہ گزارش ہے کہ لومۃ لائم میں آیا مرتدین کے متعلق حکم ہے یا عام؟ اگر مرتدین کے جنگ پر ارشاد ہے تو مالک بن نویرہ کے معاملہ میں اور خود ابوبکر کو ایسے جنگ کرنے میں شیعہ نے مالک کی مذمت اور تمام اہل الرائے نے ابوبکر کو ملامت کی

Page 119

بلکہ شیعہ اب تک مانعین زکوٰۃ سے جنگ کو برا مانتے ہیں ماننا چاہیے کیونکہ ان کے نزدیک ابو بکر مستحق نہیں تھے کہ زکوٰۃ لیتے اور تو جانے دو بھلا یہ بتائو کہ ناجائز خلیفہ اور غیر خلیفہ کو بدوں خلیفہ و امام کے کسی مرتد سے جنگ کرنا منع نہیں یا منع ہے اگر منع ہے تو تمام شیعہ کے نزدیک صدیق قابل ملامت ہے.اور کیا تقیہ باز انسان (المائدۃ :۵۵) کا مصداق بن سکتاہے؟ کیا ابوبکر اور معاویہ و مارقین میں کوئی فرق ہے اور کیا صفین میں یمکّنن اور مظفر و منصور تشریف لائے.کیا مارقین نے آپ کو شہید نہ کر دیا.کیا حروراء و نہروان کی جنگ کافی ہو گئی کیا معاویہ مارقین سے نہ تھے اور کیا ان پر (النور:۵۶) صادق آ گیا اور (المائدۃ:۵۶) کے آگے  (المائدۃ:۵۷) نہیں.جس کے معنے مظفر و منصور کے ہیں پھر کیا عمر اور معاویہ کے سامنے مُفْلِحُون کا تمغہ آپ نے پہنا اور فاتح ہوئے.الظالمین کے معنے ہوئے بت پرست، فاسق.گو وہ مسلمان ہوں اور ہر ظالم کے لئے فتویٰ ہے (البقرۃ:۱۲۵) اس کا نتیجہ تو صاف ہے کہ ظالم خلیفہ نہیں ہو سکتا.اب اس پر چند مشکلات عرض ہیں.اوّل ابوبکر و عمر و عثمان کا بت پرست وفاسق ہونا تو قرآن سے ثابت نہیں اور نہ ان کی زبان سے ثابت مگر حضرت آدم صاف بذات خودا قرار فرماتے ہیں اور مع خاندان مُقِرہیں.(الاعراف:۲۴).اور قرآن کا بھیجنے والا یہ فرماتا ہے.(البقرۃ:۳۱) اور وہ وہی ظالم ہیں.دو حضرت یونس رسول علیہ السلام ہیں جن کی رسالت (الصّٰفّٰت:۱۴۸) سے ثابت ہے اور وہ بھی بزبان خود اقراری ہیں.(الانبیاء:۸۸).کوئی منصف مجھے ابو بکر و عمر و عثمان کا شرک ایسے پاک مقدس و متواتر کلام میں اور کلام الٰہی میں دکھاوے اس پر غورفرما کر مجھے آگاہ فرماویں.تیسرا اشکال.اگر ظالم و فاسق باوجود اسلام ایسے لقب سے ملقب رہتا ہے تو پھر اسلام کا فائدہ

Page 120

تو بتائے وہی لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ بھی ساتھ رہے گی اور(النور:۵۶) میں سے فائدہ ہی کیا ہوا پھر آپ کو اور بات یاددلاتا ہوں.موسیٰ علیہ السلام بعد زمانہ ابراہیم صاف اقرار کرتے ہیں(القصص:۱۷) تو وہ بھی ظالمین سے ہوئے تو وہ رسول کیسے بن گئے جب کہ ظالم خلافت کا بھی مستحق نہیں.تشیع اور قرآن ،تشیع و عقل ہرگز جمع نہیں ہو سکتی.نور اللہ جیسا قاضی ہو یا مصنف گوہر مراد.ہم نے بہت بہت غور کیا ہے آپ کے سوالات پر بقدر فرصت و وقت توجہ کی ہے اس پر اگر آپ تو جہ کریں گے تو آپ کو وہ بات بھی لکھوں گا جس سے مجھے ثابت ہوا کہ آپ کو ہم سے کوئی تعلق نہیں.اور قادیان سے الگ ہو کر آپ کوئی مشہور و متمول و آسودہ حال بھی نہیں ہوئے اور ہم سے قطع خط و کتابت سے آپ کے دین و دنیا میں کوئی مفید اور بیّن تفاوت نہیں ہوا.نور الدین ۲؍جولائی ۱۹۰۹ء (البدرجلد ۸ نمبر۳۸ مورخہ ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) کلام امیر ۶؍جولائی ۱۹۰۹ء السلام علیکم کا رواج امیر المومنین نے فرمایا.آٹھویں صدی ہجری میں ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں ہند میں آیا تو مسلمانوں میں السلام علیکم کا رواج نہیں تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ اب بالکل تباہ ہو جائیں گے کیونکہ ان میں سلامتی کی دعا نہیں رہی.ہند میں یہ رواج بہت ہی کم ہے.رامپور کی طرف میں نے دیکھا ہے یوں ہوتا ہے کہ ایک کہتا ہے خان صاحب دوسرا کہتا ہے میاں.بس سلام

Page 121

ہوگیا.گھر وں میں تو بالکل ہی سلام علیکم نہیں کہتے.حتی کہ میاں بی بی کو اور بی بی میاں کو نہیں کہتی حالانکہ سورہ نور میں صریحاً لکھا ہے.(النور:۶۲).یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اکثر گھر دکھ اور مصیبت کے گھر بن گئے ہیں.تشخیص مرض ایک مولوی صاحب نے جو اچھے طبیب بھی ہیں عرض کیا کہ مجھے ضعف مثانہ ہے بول بار بار آتا ہے مگر قلیل مقدار میں.فرمایا کہ یہ ضعف ہے یا مثانہ کی ذکاو ت کہ وہ ایک قطرہ بول کو بھی محسوس کرتا ہے آپ مقوی دوائیں استعمال کرتے ہوں گے جس سے وہ اور بھی ذکی ہو تا ہو گا اور یہ مرض بڑھتا ہو گا.تشخیص صحیح نہ ہو تو مرض کا علاج کیا ہو؟ایسی دوائیں استعمال کیجئے کہ مثانہ میں بلادت پیدا ہو.کتاب سے مصنف کے حالات کا علم فرمایا.نظم سے تو نہیں مگر میں کسی مصنف کی نثر کا ایک ورق پڑھ کر اس کے حالات معلوم کر جاتا ہوں کہ اس کا مذہب کیا ہے؟ بیوی، بچوں، دوستوں، دشمنوں سے اس کے تعلقات کیا ہیں ؟ایک مصنف سے میں نے کہا تم سنّی ہو.اُس نے کہا آج تک نہ شیعہ نے مجھے سنّی سمجھا اور نہ سنّیوں نے.آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ میں نے کہا کہ یہ بھی ایک علم ہے.خاص مسئلہ کے ساتھ نصیحت کی عام بات فرمایا.قرآ ن کریم میں خاص مسئلہ کے ساتھ ایک عام بات نصیحت کی بھی ضرور ہوتی ہے.یہ اس لئے کہ جسے اس خاص مسئلہ کی ضرورت نہیں وہ بھی قرآن سننے میں دلچسپی لے سکے.مثلاً طلاق کے مسئلہ میں(الطلاق:۳،۴).فقہاء کے باب کی طرح نہیں کہ جو ایک ہی مسئلہ چلا جائے اور کسی مسافر یا غیر مسلم وغیرہ کو کسی قسم کی نصیحت حاصل نہ ہو.آنحضرتؐ کی اطاعت قرآن (الطلاق:۲) پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم ؐ جب اپنی ازواج پر ناراض ہوئے تو خود گھر سے نکل گئے مگر ان کو نہیں نکالا.قرآن کریم کی اس درجہ کی اطاعت دیکھ کر نبی کریم ؐ پر درود پڑھنے کو جی چاہتا ہے.

Page 122

قرآنی قسمیں قرآن میں بار بار قسمیں دیکھ کر بعض معترض کہتے ہیں سولیزیشن کے خلاف ہے مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ بادشاہ بھی قسم کھاتا ہے وائسرائے بھی.مرزا صاحب کے مجنون ہونے کے اعتراض کا جواب حضرت صاحب کی نسبت ایک شخص کہنے لگا کہ پاگل ہیں.اوّل تو میں اسے پاگل خانے میں لے گیا اور اس کے مہتمم سے پوچھا کہ پاگل اور دانا میں فرق کیا ہے؟ اُس نے کہا میں تو نہیں بتا سکتا گو کئی سالوں سے مختلف پاگلوں میں رہتا ہوں.پھر اس نے باتوں ہی میں کہا کہ مرزا گورنمنٹ سے خوب بچتا ہے.میں نے کہا سنو ! جو شخص بیوی، بچوں، علماء ، سجادہ نشینوں و دیگر مخالفوں اور گورنمنٹ اور عوام سے ایسے تعلقات رکھ سکتا ہے کہ سب میں اپنا بچائو کئے جاتا ہے کیا وہ مجنون ہو سکتا ہے.آنحضرت ؐ کے خاتم النبیین ہونے کا ثبوت نبی کریم ﷺ خاتم النبیین ہیں اس کے ثبوت میں سنو ! جس قدر دعانبی کریم کے لئے ہوتی ہے کیا اور کسی نبی یا مصلح یا کسی قوم کے لیڈر کے لئے آج تک ہوئی ہے.دو ہی مذہب ہیں ایرانی جس میں ہند، چین ، جاپان کے مذاہب شامل ہیں.عبرانی ، شام ، یورپ، امریکہ میں انہی کا مذہب ہے دونوں کے مرکز پر نبی کریم ؐ کے اتباع غالب ہیں.مشرکوں کا مرکز بھی نبی کریم ؐ نے فتح کیا.بس اب کیا باقی ہے جس کے لئے نئی شریعت والا نبی آوے.( البدر جلد۸ نمبر۳۹ مورخہ ۲۲ ؍جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) مسئلہ تقدیر (نوشتہ نائب مدیر) ۱۰؍جولائی ۱۹۰۹ء ایک امیر کے جوتیاں چرانے کا واقعہ ا میر المومنین ایک قصہ سنا رہے تھے کہ ایک امیر کو جوتیاں چھپانے کی دھت تھی ایک شخص نے اپنی جوتی سامنے رکھ کر نماز پڑھنی شروع کی.اس نے جو تی دیکھ لی تو منہ میں پانی بھر آیا ساتھ ہی نماز شروع کر دی اور عین سجدہ میں جوتی چرالی اور چلتا بنا.اس شخص کو بھی معلوم ہو گیا زبان سے بولنے کی جرأت نہ ہوئی ساتھ ساتھ چل پڑا.امیر بھی تاڑ گیا اُسے

Page 123

ایک کمرہ میں لے گیا اور دکھایا کہ صدہا جوتیاں پڑی ہیں اور اسے ان سے کچھ فائدہ نہیں.کیا لوگ گناہ کرنے پر مجبور ہیں؟ اس پر امیر المومنین کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ لوگ باوجود خدا کی ہستی پر ایمان رکھنے کے پھر بھی گناہ کرتے ہیں کیا اس سے یہ نہیں پایا جاتا کہ وہ کسی قدر مجبور ہیں بالخصوص اس امیر کے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معذور تھا اور شائد اسے سزا نہ ہو کیونکہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھا.فرمایا.مختصر جواب تو یہ ہے کہ اس امیر میں طاقت اپنی قوت دُزدی کو دبانے کی تھی اگر نہ ہوتی تو وہ چوری کیوں کرتا سامنے کیوں نہ لے لیتا اور تفصیلی جواب سنو! کہ ایک حصہ قویٰ کا تو وہ ہے جس پر انسان کو کچھ قدرت نہیں اس کے متعلق اُسے کچھ باز پرس نہ ہو گی اگر کچھ دخل ہوگا تو اسی دخل کے مطابق سزا بھی ہو جاتی ہے.مثلاً خواب میں کوئی کسی سے زناکرے احتلام ہو جائے تو حکم ہے غسل کرو.اب یہ غسل بمنزلہ تلافی کے ہے.دوم.مجنون ہے.اسے مارنے کی اجازت نہیں لیکن وہ کسی کے مال کو تلف کرے اور اس کے پاس مال ہے تو اس سے جبر نقصان کا اختیار ہے.سوم.معتوہ جس میںبدی پر غالب آنے کی قوت ہے مگر کمزورہے اسے تادیباً مارنا پیٹنا جائز ہے اور سرزنش کرنے کی اجازت ہے کہ بھڑکنے والی قوت دب جائے.نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک شخص پیش ہوا جو ہمیشہ سودے میں گھاٹا کھاتا آپ نے اسے منع نہیں فرمایا مگر ارشاد کیا کہ جب کوئی خرید و فروخت کرو تو لا خلابہکہہ لیا کرو تاکہ اقالہ بیع ہو سکے.دیکھو کمی کی تجویز کر دی.چہارم.ہو تو عقلمند مگر پھر بھی کسی وجہ سے گناہ کرے مثلاً ایک بی بی نے رسول کریم ؐ کے آگے شکایت کی کہ میرا خاوند نماز صبح وقت پر نہیں پڑھتا.اسے بلایا گیا اس نے عرض کیا حضور ہماری قوم کے تمام لوگ دھوپ چڑھے اُٹھتے ہیں اور نیند مجھ پر غالب ہے.فرمایا جب اٹھو نماز پڑھ لیا کرو.دیکھو کیا عمدہ حکم دیا.جو ہادی تنگ گیریاں کرتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوتے.غرض جتنا کسی کا اختیار و مقدرت ہے اسی کے مطابق سزا دی ہے.چو رکا ہاتھ اس لئے کا ٹا جاتا ہے کہ اس میں شہوت کی قوت تیز ہو گئی ہے اور ہاتھ اس کا آلہ ہے پس اس کو کاٹ دیا.تاآئندہ قادر نہ ہو بغیر اس کے دبا نہیں رہ سکتا اور یہ

Page 124

قطع یدبطور اصلاح و خیر خواہی ہے.ڈاکہ کا جرم اس سے زیادہ ہے کہ ذرا بھی نہیں جھینپتا علانیہ بدی کرتا ہے اس لئے اس کی سزا اس سے زیادہ ہے کہ قتل و صلب تک فرما دیا ہاں اگر کسی بدی کا اثر اس کی ذات تک رہتا تو اس میں معذور سمجھ لیا جاتا.اَلْحُدُوْدُ تَنْدَرِئُ بِالشُّبْہَاتِ میں بھی یہی نکتہ ہے کہ شبہ سے پتہ لگتا ہے کہ کسی قدر یہ شخص معذور بھی ہے اس لئے حد ساقط ہو جاتی ہے.پانچویں قسم یہ کہ بدی کو دبانے والی اور بدی کرانے والی قوت برابر ہو اس لئے دبانے والی قوت کو تیز کرنے کے لئے استغفار فرمایا اور نیک صحبت کا حکم دیا.منکوحہ سے جماع پر غسل میں حکمت بات کو صاف کرنے کے لئے عرض کیا گیا کہ اپنی منکوحہ سے جماع پر بھی غسل ہے کیا وہ بھی سزا ہے.فرمایا.سزا تو ہم نے پہلے بھی نہیں کہا.جماع میں تلذّذ ہوتا ہے اور اس سے لہو عن ذکر اللّٰہ ضرور ہوتا ہے اس کی تلافی کے لئے غسل کیا جاتا ہے.پا خانہ، بول ، پادکی وجہ سے وضو کا حکم ہے اس میں یہ حکمت ہے کہ بُوجو ہوتی ہو اس سے لطیف پٹھوں کو سخت نقصان پہنچ جاتا ہے اس نقصان کی تلافی اور صدمہ کے ازالہ کے لئے غسل کیا جاتا ہے کیونکہ پانی بے ہوش کو ہوش میں لانے، سوئے ہوئے کو جگانے، غافل کو ہشیار بنانے کے لئے مسلّمہ علاج ہے یہی وجہ ہے کہ منہ دھویا جاتا ہے حالانکہ بول کو … منہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ بُو وغیرہ سے بول کے پٹھوں کو کیا نقصان پہنچنا ہے نقصان پہنچتا ہے لطیف پٹھوں کو جن کی پانی سے اصلاح کی جاتی ہے.ڈاکوؤں کو مار دینے میں کیا اصلاح ہے؟ دوسری گزارش یہ کی گئی ڈاکوؤں کو جان سے مار دینا یہ کیا اصلاح ہوئی؟ فرمایا.قتل اس کی عاقبت کے لئے جہاں دنیا سے زیادہ رہنا ہے بہت مفید ہے اور لوگوں کے لئے بھی مفید کہ اس کے ضرر سے محفوظ رہے دوم ڈاکو کے احکام متفاوت ہیں ایک ڈاکو میں جن کے لئے صرف قطع ید ورجل من خلاف ہے اور ایک جن کے لئے صلیب ایک جن کے لئے قتل.(البدر جلد۸ نمبر ۴۰ مورخہ ۲۹؍جولائی۱۹۰۹ء صفحہ ۱)

Page 125

مکتوبات ِامیر سوال ۱.جناب مرزا صاحب مرحوم یااس وقت جناب کے ہاتھ پر بیعت کرنی کیوں ضروری ہے اور اس سے کیا فائدہ ملتا ہے ؟ ہر ایک مجدد اور امام کی بیعت ضروری ہوا کرتی ہے یا کہ مرزا صاحب کو اس امر میں خصوصیت ہے ؟ اس کے لئے قرآنی دلیل کہاں ہے اگر یہ کہا جاوے کہ یہ ایک معاہدہ ہوتا ہے جو ایک شریف آدمی کسی بزرگ سے کرتا ہے کہ اوامر کی پابندی اور منکرات سے اجتناب کروں گا توکیا خدا اور اس کے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ معاہدہ کرناکافی نہیں ؟ سوال ۲.یہ عام طور پر مشہور ہے کہ احمدیوں کو غیر احمدی کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے اس کے وجوہات اکثر میں نے سنے بھی ہیں اور رسالہ تعلیم القرآن میں دیکھے بھی ہیں.مگر میں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ ایسے غیر احمدی کے پیچھے کیوں ایک احمدی نماز نہیں پڑھ سکتا جو نہ صرف سلسلہ احمدیہ سے مخالفت نہ رکھتا ہو بلکہ حسن ظن رکھے اور خود احمدی امام کے پیچھے نما زبھی پڑھ لیتا ہو.جواب (۱) السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اما بعد مرزا صاحب کی خصوصیت نہیں ہر مامور کے احکام کی پابندی ضروری ہے (النساء:۸۱).جب ہمیں یقین ہوجاوے کہ فلاں راستباز ہے اور صادق ہے پھر وہ صادق کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تم لوگ یہ کام کرو.مثلاً یہی کہ میرے ہاتھ پر بیعت کرو.جیسے قرآن کریم میں ہے.(الفتح:۱۱).یہاں محمد رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَ بَارِکْ کی بیعت کو جناب الٰہی نے اپنی بیعت فرمائی ہے.پھر آپ غور فرماویں کہ یہودی علماء ،عباد ، زہاد اور نصرانی راہب بعینہ آپ کا ایسا سوال کہ یہود نصارٰی و مجوس کو اپنے اپنے مقام پر اللہ تعالیٰ سے اور اپنے رسولوں کی اتباع کے بعد اتباع

Page 126

محمدرسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی کیا ضرورت تھی؟ اس پر آپ غور فرماویں.پھر آریہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے ملہم تو تم لوگوں کے مواعظ سے پہلے کے ہیں ہمیں تمہارے مقتدائوں کی کیا ضرورت ہے کیا پہلے مُر سل کا معاہدہ کافی نہیں ؟ عزیز من! بیعت صرف معاہدہ ہی نہیں ہوتا جیسا آپ کا خیال ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کی وجاہت، سیادت، بڑائی چاہتا ہے جیسے دنیوی بادشاہت یا کسی انجمن کے صدر کی عزت ہوا کرتی ہے.پھر جو شخص اس اعزاز کی خلاف ورزی کرے وہ اللہ کا مقابلہ کرے.ماموروں کے خلفاء سب ایک حیثیت رکھتے ہیں اگر مامور صادق را ستباز ہے تو اس کا جانشین اُسی اصل کا حکم رکھتا ہے سورۃ نور میں صاف آیت خلافت کے بعد اللہ تعالیٰ منکرانِ خلافت کو فاسق فرماتا ہے.اقتدا ء نماز کے متعلق آپ کے سوالات کو پڑھ کر مجھے بہت تعجب آیا اور یقین ہوا کہ آپ دنیا سے، دنیا کے معاملہ سے ، انتظام سے ، حالات سے بالکل علیحدہ کسی مرنج و مرنجان کوٹھڑی میں رہتے ہیں.اپنا کوئی فرض منصبی ادا کیا کوئی منشاء کے مطابق رسالہ پڑھا اور سو رہے.عزیز من ! ایک شخص قریباً چالیس برس مدعی رہا کہ مجھے مکالمہ الٰہیہ ہوتا ہے اور آج مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے ایک بار نہیں ہزاروں بار اور بہتوں کو یقین کرا دیا کہ مجھے وحی اور الہام ہوتا ہے.پھر اگر یہ شخص مفتری و کذاب ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور اس سے زیادہ کوئی شریر اور بدکار نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (العنکبوت:۶۹) مفتری سے زیادہ کون ظالم ہے.اور اگر وہ شخص فی الواقعہ صداقت پر ہے صادق ہے راستباز ہے تو پھر اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو اس کے الہامات کا منکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(العنکبوت:۶۹).پھر اس خطرناک فوجداری مقدمہ میں حسن ظن کیا؟ مسجد میں غالباً پر جوش مسلمان جاتے ہیں آپ کو تجربہ نہیں.ہمارے دوست ایسے مقامات میں قتل ہو چکے ہیں ان کے اموال چھینے گئے ان کی بیبیاں علماء کے فتویٰ سے لی گئیں پھر ایک تجربہ کار کس طرح قوم کو ہلاکت کے منہ میں بھیج دے.

Page 127

علی گڑھ میں یہ اعتراض احمدی لڑکوں پر ہوا جب میں نے یہ جواب دیا تو ناظمان مدرسہ نے پسند فرمایا.عزیز من ! میرے بزرگوں کی مسجد بمقام بھیرہ ضلع شاہ پور تھی وہاں احمدی غیر احمدی محلہ میں رہتے تھے.ہم نے بہت کوشش کی کہ صلح سے رہیں مگر صلح نہ ہو سکی آخر ایک تھانیدار صاحب تشریف لائے جو احمدیوں کے مخالف تھے انہوں نے لوگوں کو اُکسایا نوبت پہنچی کہ مچلکہ ہوئے مگر فساد کم ہوا.مجھے جب یقین ہو گیا کہ فساد رفع نہیں ہوتا تو میں نے اپنی ایک حویلی جو مسجد کے متصل تھی اس کو گرا کر مسجد بنوا دی اور اس طرح فساد کو مٹایا مگر اب ایک احمدی ڈاکٹر جو وہاں گئے تو ان پر یہ حسن ظن والے انگریزی میں عرضیا ں دیا کرتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر ایسا ہے ایسا ہے.عزیز من !مسلمانوں میں شائد اتفاق ان کے ملک میں ہو گا ان کے بہادر مولوی اور درویش تو اتفاق کے غالباً بَدِل دشمن ہیں.رہے امراء اور گریجوایٹ الا ماشاء اللہ ان کے لئے سب کچھ مباح ہے جو ان کے دماغ میں آجاوے وہی صحیح اور مرضی الٰہی ہے نیچر کے مطابق ہے آزادی کی اس پر مُہر ہے قوم کے مناسب حال ہے.یہ مختصر الفاظ اگر آپ کے مفید ہوں تو بہتر وَ اِلاَّ پھر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو عرض کروں گا.ہاں میرے عزیز اکمل۱؎ نے بھی اس پر لکھا ہے آپ پڑھ لیں.نور الدین ۱۹؍جولائی ۱۹۰۹ء.......................(۲)جناب شاہ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ابن عساکر کیا چیز ہے کہ اس کے کہنے پر قرآن کریم کو ناقص مانا جاوے.قرآن کریم بنو امیہ کے پاس ملک ہسپانیہ میں ، قرآن کریم بنو عباس کے پاس بغداد میں، قرآن کریم خوارج کے پاس زنجبار اور مسقط میں، قرآن کریم سنّیوں ، وہابیوں ، صوفیوں غرض مسلم و کافر کے پاس ایک ہی ہے.پس ۱؎ اکمل صاحب کا جواب کسی آئندہ اخبار میں شائع ہو گا.

Page 128

بیچارے ابن عساکر کے کہنے یا روایت پر اگر ناقص قرار دیا جاوے تو پھر اسلام کے پاس رہا کیا.احادیث کا یہ حال ہے کہ شیعہ کے نزدیک وہ لوگ جو ابوبکر و عمر کو ماننے والے ہیں کافر، غاصب، ظالم، مرتد اور دنیا پرست تھے.پھر ان کی احادیث کا کیا اعتبار.رہے مولیٰ مرتضیٰ اور ان کے ساتھ والے ان کو تقیہ ضرور تھا.تقیہ والے کا پتہ کیا کہ اس کے اندر کیا ہے اور منہ سے کیا کہتا ہے.قرآن و حدیث جب دونوں باطل تو اسلام کیا.علاوہ بریں اس ابن عساکر کو دیکھا کس نے کہ کون ہے اور اس کی کتاب کیسی ہے.ایسی واہیات روایت سے مومن کو کیا تعلق ؟ والسلام نور الدین ۳۱؍مئی ۱۹۰۹ء.............................(۳)السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا مینار بن جاتاتو یہ لوگ مان لیتے.ایک مینار کیا صدہا پیشگوئیوں کو نہیں مانا.مینار کے لئے ایک وقت مقرر و مقدر ہے خدا کے کاموں سے ہر ایک کو اطلاع پانا ضروری نہیں.نور الدین ۲۰؍اپریل ۱۹۰۹ء.............................(۴)عزیز من ! پہلے تم خود اسلام کے واقف ہوتے پھر اسلام کی طرف بلاتے تو دعوت الی الحق ہوتی.ایک پٹھان نے ایک ہندو سے کہا.کاپر، مسلمان ہو جا.جب اس ہندو نے کہا کہ کس طرح مسلمان ہو جائوں.

Page 129

تو خان صاحب فرماتے ہیں جا کاپر ہم بھی نہیں جانتے مسلمان کس طرح ہوتا ہے.نور الدین (البدر جلد۸نمبر۴۰مورخہ ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) مسجد احمدیہ بھیرہ حضرت خلیفۃ المسیح نے جو اپنا بھیرہ والا مکان مسجد بنانے کے واسطے ہبہ کر دیا ہے اس کے متعلق ایک شخص غیر احمدی نے بدظنی کا خط لکھا.جس پر حضرت نے مفصلہ ذیل جواب دیا.حضرت مولوی صاحب ! یہ خاکسار ہمیشہ بدِل شرارت سے بہت متنفر ہے اور شرارت کا خیال دل میں نہیں آتا.میرا باپ اور دادا بھی شرارت کو بہت برا جانتے تھے.یہ میراعلم ہے جس کو عرض کیا ہے.اللہ تعالیٰ رحیم کریم اصل حال سے واقف ہے اور کون جانے آپ کو میری صحبت اور بھائیوں کی صحبت نہیں رہی وہ لوگ شرارت پسند نہ تھے.میری ماں میری دادی میری بہنیں بس جہاں تک مجھے علم ہے سب شرارت سے متنفر تھے.وَالْحَمْدُ لِلّٰہ میں بدِل لَااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا قائل ہوں.نماز پڑھتا ہوں روزہ رکھتا ہوں زکوٰۃ دیتا ہوں حج دوبار کیا ہے ہزاروں کو قرآن شریف سنایا اور قرآن کریم کی طرف بلایا.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.اس وقت میرے لاکھوں مرید ہیں.سب قریشی، مغل، پٹھان، شیخ کسی کو شرارت کی تعلیم نہیں کرتا.ہماری جماعت نسبتاً شر سے بچتی ہے اپنا نقصان کر لیتے ہیں مگر شر سے پرہیز رکھتے ہیں.ہاں سب ایک جیسے نہیں مگر نسبتاً پابند صلوٰۃ، زکوٰۃ و صوم وغیرہ ہیں.میرے ساتھ جب بھیرہ والوں نے شرارت کی میں اکثر نماز یں مکان پر پڑھتا تھا اور مسجد کو شرارت گاہ نہ بنایا.(البقرۃ:۱۱۵) ہر وقت سامنے رہتا ہے.ہماری جماعت کے لوگ زنا کرنے مسجد میں نہیں جاتے تھے.لڑنے کو نہ جاتے تھے

Page 130

بار بار ان کو لوگوں نے مار ا چوری کے الزام لگائے.ہم ہمیشہ صبر سکھاتے رہے جب شرارت حد سے بڑھنے لگی شرارت کے خوف سے اپنی مسجد بنا لی اور لکھ دیا کہ کسی کو مت روکو.آپ نے اس کا نام آخر شرارت رکھا.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.آپ کی لڑکیاں ہماری لڑکیاں ہیں ہمیں پردہ کا خود خیال ہے آپ ہرگز فکر نہ فرماویں یہ مسجد ضرارو تفریق کے لئے ……نہیں بلکہ ضرر سے بچنے صلح کے رکھنے کے واسطے آخرالحیل تجویز کی ہے.آپ نے ہمارا ایک مشترکہ مکان بدوں ہماری اطلاع کے بااینکہ ہم بحمد اللہ مفلس نہیں تھے خرید فرمایا.کیا یہ صلح ہے اور شرارت سے پُر نہیں.لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہآپ خوب غور کریں ہم نے مسجد کا راستہ ایسا نہیں رکھا کہ … بے پردگی ہو.ہاں ہمیں آپ بتا دیں کہ ہم کیا کریں.مسجد تو آپ لوگوں اور آپ کے فتوئوں نے ہم سے لی اب ہم اپنا مکان مسجد بنا دیں تو ہم شریر.آہ ! یہ اسلام ہے.سو چو اور کسی بھلے مانس مسلمان سے مشورہ فرما کر جواب دو.باقی رہی برادری سو آپ خود اس کا انصاف فرماویں.اتنا کہوں گا کہ آپ قریشی مانے ہوئے ہیں اور ہم جو ہیں سو ہیں اس پر بھی انصاف آپ پر ہے.مولوی صاحب اتنا بڑا سہ منزلہ عظیم الشان باپ دادا کا مکان کوئی ضائع کرتا ہے… شرارت سے بچنے کے لئے جب کوئی راہ امن اور ضرر اور تفریق سے بچنے کے لئے نظر نہیں آئی تویہ تجویز سمجھ میں آئی.آپ چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت متفرق ہو جاوے.گویا اس محلہ میں ہم لوگ اللہ کا نام بھی نہ لیں.اللہ اللہ ثم اللہ اللہ ثم اللہ اللہ کچھ خوف بھی ہے اور پھر ہم شریر (یوسف:۶۵) میں کیا عرض کروں آپ کی عمر میرے سے زیادہ ہے آپ کے بھائی آپ سے چھوٹے تھے وہ فوت ہو گئے.میں نے مرنا ہے یہ مکان اور مکانات ہمارے ساتھ کوئی نہ جاوے گا.( البدر جلد۸ نمبر۴۱ مورخہ ۵؍اگست ۱۹۰۹ء صفحہ ۲)

Page 131

خلیفۃ المسیح کیا چاہتے ہیں جماعت کے لئے پیغام مجھے(ایڈیٹر) ایک مختصر سے سفر کے لئے آج حضرت خلیفۃ المسیح کے حضوراجازت کے لئے جانے کی ضرورت پیش آئی اور میں آپ کے حضور حاضر ہوا.میں نے اپنی منزل مقصود کی جماعت کے لئے کوئی پیغام پوچھا.فرمایا.میرا پیغام تو ایک ہی ہے.خدا سے ڈر اور پھر کچھ کر.کلمہ طیبہ فرمایا.ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ نے کوئی نیا کلمہ بنایا ہے میں نے کہا ہاں.اس نے کہا ایسی عجیب بات تو میں سننی چاہتا ہوں.میں نے اس کو کہا آنحضرت ﷺنے بھی کوئی کلمہ ایجاد کیا تھا اس نے جواب دیا ہاں.پھر میں نے پوچھا کہ اس وقت سب سے بڑی بلا کیا تھی؟ اُس پر اُس نے کہا کہ شرک.میں نے کہا یہی وجہ تھی کہ آپ نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کلمہ تجویز کیا.اور دوسری آفت نبوت کی پرستش تھی جیسا کہ حضرت مسیح کو خدا بنایا گیا اس لئے دوسرا جز و محمد رَسُوْلُ اللّٰہ تجویز ہوا.زمانہ کی خطرناک آفت کے لئے امام وقت کی تجویز اس زمانہ میں ایک خطرناک آفت ہے.اس آفت کے لئے اس وقت ایک کلمہ کی ضرورت ہے بس اس کے حسب حال ہمارے امام نے ایک کلمہ رکھا.اس کو جو تمہارا جی چاہے کہو.وہ آفت دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی ہے اس لئے حضرت امام نے یہ تجویز کیا کہ وہ اپنی جماعت سے عہد لے کہ ’’ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا ‘‘ پھر اسی سلسلہ میں فرمایا کہ مجھے تو عملی حالت کی اصلاح کی ضرورت ہے.پس یہی پیغام ہے جس کو چاہو دے دو.مطلوب احباب پھر آپ نے اور بھی بہت کچھ فرمایا جن پر توفیق ملنے پر لکھوں گا بالآخر آپ نے مجھے لکھ کر دیا.۱.قوم میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے مطلوب ہیں جن کو دنیا کی پروا بھی نہ ہو جب مقابلہ

Page 132

دین و دنیا کا آ کر پڑے.۲.باہمت واعظ مطلوب ہیں جو اخلاص و صواب سے وعظ کریں.۳.عاقبت اندیش صرف اللہ پر بھروسہ کرنے والے دعائوں کے قائل اور علم پر نہ گھمنڈ کرنے والے علماء مطلوب ہیں جن کو فکر لگی ہو کہ کیا جاوے.کہ کیا کیا جاوے کہ اللہ راضی ہو جائے اور ایسے اکسیر لوگ کم نظر آتے ہیں.فَمَا اَشْکُوْا اِلَّا اِلَی اللّٰہِ.(الحکم جلد ۱۳ نمبر۲۸ مورخہ ۷؍اگست ۱۹۰۹ء صفحہ ۱، ۲) کلام امیر المومنین دو سوالوں کے جواب سوال نمبر۱.لفظ سیئہ عربی میں کس قسم کی بدی پر بولا جاتا ہے اور (الشورٰی: ۴۱) سے کیا اس قسم کی بدی کر لینے کی اجازت ثابت ہے جس قسم کی بدی کوئی پہلے ہم سے کرے.سوال نمبر۲.آیت  الخ(بنی اسرائیل:۱۱۱) سے کیا یہ بھی ثابت ہو سکتا ہے کہ تمام نماز کو بآواز بلند نہ پڑھو اور نہ ہی تمام کو بالکل خاموشی کی حالت میں پڑھو بلکہ کچھ نماز کا جہری اور کچھ آہستہ جیسے کہ تعامل اسلام سے ثابت ہے.جواب بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ نمبر ۱.تمام وہ چیزیں جو انسان کو غمگین کر دیں سیئہ ہیں.امور دنیویہ ہوں تو، نفسانیہ خیالات ہوں تو، خارجیہ امور ہوں تو.مثلاً مال ضائع ہو یا جاہ و جلال جاتا رہے کوئی یارو مددگار نہ رہے.نمبر۲.ہر ایک آفت اور قبیح امر سیئہ ہے پھر قباحت عقلیہ ہو یا شرعیہ یا جس کو انسانی بناوٹ

Page 133

بوجھل سمجھے اور اسے طبیعیہ کہتے ہیں.غموم کے آثار، شرم گاہ، گند ، مکروہ افعال، ناپسند اقوال،شکست پانا، جنگ ، ہلاکت ، فساد ، ضرر ، آگ،خطا اور ضعف بصر کو سوء کہتے ہیں.سیئہ کی جزا کو سیئہ اس لئے کہتے ہیں کہ اگر وہ جزائً نہ ہوتی تو سیئہ تھی.سیئہ کی جزاء… کبھی حکام و سلاطین دے سکتے ہیں مثلاًچور، زانی ، ڈاکو وغیرہ کی سزائیں.ہر ایک کو اجازت نہیں.بعض سزائیں تاجر دے سکتے ہیں مثلاً لین دین میں جو شرارت کرے اس کو آئندہ دیتے نہیں یا اس سے لیتے نہیں.مؤدب اساتذہ لڑکوں کو تنبیہ کرتے ہیں.بعض سیئات کی سزا اللہ تعالیٰ دیتا ہے مخلوق کا کام نہیں کہ جزا دے.غرض یہ باب بہت بڑا وسیع ہے ہر ایک کو بدی کی جزا دینا شرعاً جائز نہیں.(بنی اسرائیل:۱۱۱)کے معنے آپ نے جو کئے ہیں وہ بجائے خود صحیح ہیں اور بالکل صحیح ہیں مگر نماز تہجد کے ساتھ علماء نے چسپاں کئے ہیں اور تفاسیر میں لکھا ہے.والسلام نور الدین ۲۶؍جون ۱۹۰۹ء...............................کنچنی کی بنوائی ہوئی مسجد ایک شخص نے دریافت کیا کہ کنچنی کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے یا کہ نہیں؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ جو جگہ نماز پڑھنے کے واسطے الگ کی گئی ہے یابنائی گئی ہے اس میں نماز پڑھنا جائز ہے کوئی ممانعت نہیں.باقی رہا یہ امر کہ بانیہ مسجد کو اس کے اس فعل کا ثواب ملے گا یانہیں اس امر کو خدا تعالیٰ پر چھوڑنا چاہیے.ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس امر پر رائے زنی کریں.قبر پر پھول چڑھانا ایک شخص نے دریافت کیا.کیا میت کی روح کو خوش کرنے کی نیت سے قبر پر پھول چڑھانا جائز ہے ؟

Page 134

حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ اس سے میت کی روح کو کوئی خوشی نہیں ہو سکتی اور یہ ناجائز ہے.اس کا کوئی اثر قرآن و احادیث سے ثابت نہیں اس کے بدعت و لغو ہونے میںکوئی شک نہیں.مردہ مچھلی ایک شخص نے علاقہ ڈیرہ غازی خان سے دریافت کیا کہ سیلاب کے اُتر جانے کے بعد تھوڑے پانی یا خشکی پر جو مچھلی مری ہوئی پائی جائے اور سڑ نہ گئی ہو یعنی متعفن نہ ہوئی ہو وہ حلال ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ اس کا کھانا حلال ہے.چند سوالوں کے جواب ٭ہم لوگ تو ایسے آدمی کا جنازہ نہیں پڑھا کرتے جو مخالفت میں جوش دکھاتا ہو.٭ شرم گاہ کو ہاتھ چھو جائے تو اس کے باعث وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں.احادیث میں اختلاف ہے اور مختلف علماء نے دونوں میں سے ایک کو ترجیح دی ہے.ہم لوگ وضو کو احتیاط اور عدم وضو کو رخصت یقین کرتے ہیں.٭ سفر کی حد سات آٹھ کوس ہے.٭ جو غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے اس کو ہم لوگ امام نہیں بنایا کرتے.( البدر جلد۸ نمبر۴۲ مورخہ ۱۲؍اگست ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) وحدت کی ضرورت گورنمنٹ ، عیسائیت اور ہندو مذہب میں وحدت ایک انگریزی خوان گریجوایٹ مسافر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.گورنمنٹ کے نظام کی طرف دیکھئے کہ کیوں کر اس میں وحدت پائی جاتی ہے پٹواری سے لے کر گرداور، نائب تحصیلدار، تحصیلدار، افسر مال، ڈپٹی کمشنر، کمشنر، لیفٹیننٹ وائسرائے یہ تمام اگر دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس انتظام میں ایک وحدت ہے.آپ ان کے مذہب میں دیکھیں سب

Page 135

پادری لارڈ بشپ کے ماتحت ہیں ایک پادری دوسرے کے علاقہ میں وعظ تک نہیں کرسکتا.ادھر ہندو علاقہ دیکھو وہ خواہ کس قدر آزادی آزادی پکاریں مگر تلک بینرجی کے خلاف نہیں کرتے حالانکہ ہندو کوئی مذہب نہیں پھر بھی اتنا اتفاق ہے.یہ جو میں نے کہا ہندو کوئی مذہب نہیں یہ صحیح ہے اب تک کوئی جامع مانع تعریف اس کی مجھے کسی نے نہیں سنائی.ایک دفعہ مجھے ایک عظیم الشان شخص نے کہا کہ ہندو وہ ہے جو تناسخ کا قائل ہو.میں نے کہاغلط.آغا خانی فرقہ تناسخ کاقائل اور پھر مسلمان کہلاتا ہے اور برہمو سماج تناسخ کا سخت منکر پھر بھی ہندو.جب کوئی نظام قومی بغیر وحدت کے چل نہیں سکتا تو ضرورت ہے مسلمانوں میں بھی وحدت کی.چنانچہ ان کو ارشاد باری تعالیٰ ہے ( اٰل عمران : ۱۰۴).دیکھئے کس قدر اطناب پھر ایجاز فرمایا.پھر امرو نہی کو اکٹھا کردیا مگر مسلمانوں نے اس حکم کی کچھ پروا نہ کی.مسلمانوں میں وحدت کے مفقود ہونے کی وجوہ آ پس میں لڑتے جھگڑتے ہیں ان میں حددرجہ تفرقہ ہے یہ کیوں؟ اس کی وجہ قرآن نے ہمیں بتائیہے  (المائدۃ : ۱۵) مسلمانوں میں تفرقہ اسی لئے ہے کہ انہوں نے قرآن شریف کی تعلیم کو چھوڑدیا.ان کا کوئی لیڈر نہیں جس کے ماتحت وہ چلیں.وحدت کے لئے امام کی ضرورت کیا یہ وحدت پیدا ہوسکتی ہے جب تک وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے نہ ہوں گے.اس ملک میں چشتیوں کا بہت زور رہا ہے مگر کب تک؟ جب تک نظام الدین، معین الدین، قطب الدین، بختیار کاکی اکیلے بادشاہ تھے کوئی ایک کے مقابلہ میں دوسرا نہ تھا.جب بہت سے خلیفے ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو اس خاندان کو زوال آیا.لکھا ہے کہ قطب الدین جب حالت نزع میں تھے تو ان کے دو خلیفے پاس بیٹھ گئے ایک سرہانے ایک پائنتی.مطلب یہ کہ جاتی دفعہ ہمیں جانشین کر جائیں لیکن آپ نے ہوش آتے ہی کہا.فریدالدین آیا.عرض کیا گیانہیں.فرمایا ہمارا مصلّٰی، ٹوپی وغیرہ وغیرہ اسے دیں اور سب اس کی بیعت کریں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.فریدالدین دہلی آئے یہاں امیری کارخانہ تھا.ایک جاٹ نے کہا فریدالدین اب تو تم

Page 136

ملنے سے بھی رہے.فوراً آپ پاکپتن چلے گئے.فرمایا.اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے تو دہلی والے بھی چل کروہیں آ جاویں گے چنانچہ پاکپتن مرکز چشتیاں ہوگیا.صرف اس لئے کہ وحدت تھی، ایک امام کے تابع تھے.اس تقریر سے کم از کم یہ نتیجہ تو نکلتا ہے کہ ایک امام کی ضرورت ہے جو وحدت پیدا کرے.بنگالی مسلمانوں میں وحدت نہیں دیکھو بنگالی کہنے کے ساتھ ہی یہ خیال آجاتا ہے کہ کوئی ہندو ہے حالانکہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے.بات یہ ہے کہ ہندوؤں کا کوئی لیڈر ہے اور وہ وحدت کی لذتوں سے آشناہیں.سارے بنگال میں مسلمانوں کے کتنے کالج ہیں؟ کیوں نہیں؟ اسی لئے کہ وحدت نہیں.مسیح موعودؑ کی آمد کا مقصد مسلمانوں میں وحدت پیدا کرنا ہے ہمارے حضرت صاحب کا مقصد مسلمانوں میں وحدت پیدا کرنا ہے لوگ کہتے ہیں کہ تم شیرازہ قومی بکھیر رہے ہو.یہ غلط ہے بلکہ بکھر گیا تھا اس کو جمع کر رہے ہیں.ایک شخص مجھے ریل میں ملا اور اس نے کہا آخر تم بھی تفرقہ اندازی ہی کر رہے ہو.میں نے کہا آپ کی کیا غرض ہے؟ کہا ہم چاہتے ہیں سب مسلمان متحد ہو جاویں.میں نے کہا بڑا مبارک مقصد ہے مگر آپ کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟ کہا یہ مولوی کچھ نہیں کرنے دیتے.پھر میں نے جو چھیڑا تو فقراء اور امراء کو ایک ایک کر کے گالیاں دینی شروع کیں.جب سارا جوش نکال چکا تو میںنے کہا.بندہء خدا! دو آدمی بھی تمہارے ساتھ ہیں؟ کہا نہیں.میںنے کہا سوچو! کیا تم شیرازہ قومی اکٹھا کرنے والے ہو؟دیکھو! تم نے کتنے لوگوں کو اپنے سے جدا کیا اور ہم نے تو پھر اتنی جماعت جمع کرلی ہے.اسلام کو پالیٹکس سے کوئی تعلق نہیں یہ جو آپ پوچھتے ہیں کہ مسلمانوں کو پالیٹکس کی ضرورت ہے یا نہیں.میں آپ کو پالیٹکس کے کئی معنے بتا چکا ہوں جس سے آپ پر واضح ہوگیا کہ میں پالیٹکس کے مفہوم کو خوب سمجھتا ہوں.ازاںجملہ ایک یہ ہے کہ ایک مذہب یا ایک سلطنت یا ایک شخص

Page 137

کی خاطر داری کے لئے جو کچھ بن پڑے کرنا.اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اسلام کو پالیٹکس سے کوئی تعلق نہیں اور موجودہ صورت میں تو پہلے مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی ضرورت ہے جب مسلمان ہوجاویں تو پھر پالیٹکس کی طرف توجہ کریں.جب مسلمان نہیں تو ان کی جدوجہد اسلام کے لئے مفید نہیں کیونکہ جدوجہد کرنے والے جب مسلمان نہیں توپھر اسلام کو کیا فائدہ.وحدت کیسے آئے گی ؟ یاد رکھو مسلمان ہونا موقوف ہے وحدت پر اور وحدت آتی ہے تعلیم سے اور تعلیم قرآن سے.پہلے قرآن کو قائم کرلو مسلمان بن جاؤ.جب مسلمان بن گئے تو وحدت کا ہونا لازمی ہے جب وحدت آگئی تو پالیٹکس خودبخود تم میں پیدا ہوجائے گا.ہنوز اس قسم کی کوشش قبل از وقت ہے.مسلمانوںکے لئے فی الحال تو دین ضروری ہے اسلام میں سلطنت ضروری نہیں.کیا مکہ میں مسلمان نہ تھے حبشہ میں مسلمان نہ تھے اور یہ جو کہتے ہیںکہ ہندو ہمارے حقوق لئے جاتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ کیا عر ب تمام کفار کا نہ تھا.لیکن جب مسلمانوں نے قرآن کو قائم کیا ان میں وحدت آگئی تو کفار کا کچھ بھی زور نہ رہا بلکہ ان کی حاصل کردہ چیزیںان مسلمانوں کو مل گئیں.............................زمین میں عشر (الانعام : ۱۴۲) جب کاٹو جو کچھ زمین پر سرکاری اور کسی مالک کے حقوق ہیں ادا کرو.اس ملک میں اکثر زمینیں خراجی ہیں جن پر انگریزوں کا خراج کوئی نہیں.ان کا … ساڑھے بائیس من نصاب اہل حدیث کے نزدیک اور حنفی نصاب کے قائل نہیں.معاملہ سرکاری جہاں ہے وہ زمین خراجی ہے.خراج اور عشر دونوں جمع نہیں ہوتے.بھاولی کیا معنے؟ پانچویں حصہ پر زمین لینے والا تو زمین کا مالک ہی نہیں وہ صرف مزدور ہے اگر ان مسائل میں ترددد ہو تو دلائل لکھوں گا.نمبر۲:.شرع اسلام میں اور فقہاء حنفیہ کے کتب میں جو امر مجھے معلوم ہے وہ یہ ہے کہ ایک

Page 138

زمین عشری اور خراجی دونوں محاصل کی جامع نہیں ہوسکتی.چند اوقافی اور جاگیروں کی زمینیں چھوڑ کر باقی علی العموم پنجاب کی زمینیں خراجی ہیں اور انگریزوں نے جو چاہا ہے ان پر خراج لگایا ہے.ان پر اب عشر کس طرح لگ سکتا ہے.یہ جواب آپ کے تمام سوال کا جامع ہے.اگر کافی نہ ہو تو پھر لکھو.والسلام نورالدین ۲۰ ؍مئی ۱۹۰۹ء (البدر جلد ۸ نمبر ۴۶ و ۴۷ مورخہ ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) خاتم النبیین ؐ ایک شخص کو خط کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح نے تحریر فرمایا.مکرم معظم …… صاحب.السلام مکرمت نامہ باعث سو د و سرور ہوا.جَزَاکَ اللّٰہ.اگر اس طرح ٹھنڈے دل سے کوئی بات کرے تو مجھے خوشی ہوتی ہے مگر یہ فتوے، گر کفر فروش آرام سے بات نہیں کرتے آپ نے احمدیوں سے پوچھا ہے کہ نمازیں کتنی پڑھتے ہیں ؟ کیا پانچ نہیں پڑھتے کیا زکوٰۃ نہیں دیتے اور وہ بھی چالیسواں حصہ مال کا.اور کیا روزے نہیں رکھتے اور وہ بھی رمضان کے تیس یا اُنتیس حسبِ رویت چاند کے اور کیا حج نہیں کرتے اور وہ بھی بیت اللہ کا.کیا قرآن مجید جس کی ابتداء میں الحمد اور انتہاء میں سورۃ الناس ہے اس کو کامل کتاب یقین نہیں کرتے.یہ مقام غورہے.کیا مرزا جی نے ان کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کے سوا اور کلمہ کا معتقد بنایا ہے؟ کیا ایمان با للہ اور ایمان بالملائکہ والکتب وا لرسل والقدر کے یہ لوگ قائل نہیں اور قیامت کے معتقد نہیں.لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ مَلَائِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخَرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ وَ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.مکرم من ! کیا آپ نے قرآن شریف کا منکر یا کسی آیت کریمہ کا منکر کسی احمدی کو پایا ہے.

Page 139

سچ بتانا.پس نیا دین نہیں رکھتے.ہم لوگ نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین خاتم الرسل یقین کرتے ہیں کسی احمدی کو تامل نہیں ہمارے لاکھوں مرید اس بات پر مستحکم ہیں وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن.ہم لوگ لڑائی سے سخت متنفر ہیں.آپ بھیرہ میں دیکھیں مسجد میں فساد ہونے لگا تو ہم نے اپنے جدی مکان کو مسجد بنا دیا اور لڑائی سے روک دیا…… ان دنوں میں بھی مجھے لوگ اللہ رسول کا مخالف سمجھتے تھے مگر بحمد اللہ تھے غلطی پر.میاں غلام محی الدین صاحب کپور اور متولی صاحب خصوصیت سے نمبردار تھے.دونوں گھروں میں وہ نظارہ نظر آتا ہے جو ہم سے بہرحال آگے ہے.یہ ہیں سچائی کے نشان وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن.جس( آیہ) کریمہ پر آپ نے توجہ دلائی ہے.اس پر میرا، مرزا کا اور مرزا کی جماعت کا کامل ایمان ہے.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن.وَ مَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ.بلکہ میں خاکسار تو رسول اللہ ﷺ پر مال وجان وغیرہ کو فدا کرنے والا ہوں.میں تو محمد رسولؐ اللہ کو خاتم لانبیاء خاتم الرسل کے علاوہ خاتم کمالات انسانی بھی یقین کرتا ہوں.بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم ہٰذَا عَلَیْہِ اِعْتِقَادِیْ وَ عَلَیْہِ اُرِیْدُ وَاَرْ جُوْ اَنْ اَمُوْتَ رَبِّ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَ اَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ.آمین مکرم حکیم صاحب ! بتائیے قرآن شریف کے ہم مخالف ہیں یا موافق ہیں.ہاں اب ایک ا ور بات سنئے آپ حافظ ہیں قرآن کریم میں خاتم تاء کی زبر سے ہے یا تاء کی زیر سے اور دونوں میں کچھ فرق نظر آتا ہے یا نہیں.قابل غور ہے اور ضرور لِلّٰہ غور کا مقام ہے.میں نے تو خاتم الرسل بھی آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم یقین کیا ہے مگر ( ختم رسالت ) ایسی آیت کریمہ مشکل سے آپ کو ملے گی.بلکہ غالباً نہ ملے تو تعجب نہیں نیز عرض ہے النبیینسے آپ بہر حال کل انبیاء ہی مراد لیں گے اور اگر آپ کل نہ لیں تو بعض کے لینے سے آپ کا مطلب خراب ہو گا.لا کن اگر کل نبی مراد لئے تو آپ کو ایک مشکل کا سامنا ہو گا.کیونکہ یقتلون النبیین میں بھی وہی النبیینکا لفظ ہے تو اسی سے ثابت ہو گا کہ یہود نے کل

Page 140

انبیاء کے قتل کا ٹھیکہ ہی نہیں لیا بلکہ کل نبیوں کو وہ قتل ہی قتل کر دیتے ہیں.ذرہ دونوں پر آپ غور فرمائیں پھر مجھے لِلّٰہ اطلاع دیں.میں تو دونوں پر ایمان رکھتا ہوں.پھر آپ نے ارقام فرمایا ہے کہ تیرہ سو برس میں کسی شخص نے کبھی کسی کو رسول یا نبی نہیں کہا.اس پر عرض ہے مثنوی مولانا روم تو ہمیشہ آپ نے وعظوں میں سنی ہو گی.اس کے اس وقت دو تین شعر پڑھتا ہوں بلکہ لکھتا ہوں جو آپ کے دعوے نے یاد دلائے ہیں.؎ چون بدادی دست خود در دست پیر پیر حکمت کہ علیم است و خطیر کو نبی وقت خویش است اے مرید تا از و نور نبی آید پدید دست تو از اہل آن بیعت شود کہ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِم بود پھر ایک جگہ فرماتے ہیں.؎ اے مرا تو مصطفی من چوں عمر از برائے خدمت بندم کمر پھر کہتے ہیں.؎ ہر دمے او را یکے معراج خاص برسر تاجش نھد صد تاج خاص پھر فرماتے ہیں اور ان کی وحی کا دعویٰ فرماتے ہیں.؎ آنکہ از حق یابد او وحی و جواب ہر چہ فرماید بود عین صواب

Page 141

نہ نجوم است و نہ رمل است و نہ خواب وحی حق وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب از پئے روپوش عامہ در بیان وحی دل گویند آن را صوفیان یہاں سب کچھ کہہ لیا ہے اور مولوی لوگوں کے ڈر کا ذکر بھی فرما دیا.اگر آپ سن سکیں تو میں ۱۲مسلّم الثبوت اولیاء کے کلام سے یہ لفظ صاف صاف آپ کو دکھاسکتا ہوں.یہ آپ نے کس طرح ارشاد فرمایا کہ تیرا سوبرس سے کسی نے ایسا لفظ نہیں بولا.مکر م من ! میں اس آیت کریمہ کا و خاتم النبیین کے معنے لکھنے کو تیار ہوں مگر آپ کا حوصلہ دیکھ لوں کہ میرا یہ عریضہ کیا اثر کرتا ہے کیونکہ بات بہت سید ھی اور صاف ہے.میں اب قبل اس کے کہ اس عریضہ کو ختم کروں اور آپ کو یقین دلائوں کہ آیت کریمہ خاتم النبیین کے صاف اور سیدھے معنی عرض کروں گا.مگر اس خط کے جواب کا انتظار کروں گا.اتنا عرض کر دینا شائد نامناسب نہ ہو گا.ایک مشہور کلام کُنْتُ نَبِیًّا وَ آدَمُ بَیْنَ الْمَائِ وَالطِّیْن (تفسیر الرازی الجزء السادس تتمہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر۲۵۳)سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے نبی کریمؐ آدم سے پہلے نبی تھے اور نبی تھے تو خاتم الانبیاء ہی نبی تھے اور یہی حق ہے وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.نیز احادیث صحیحہ بلکہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ دیوانہ پاگل جن کو جنگلوں بیابانوں جزائر میں نبیوں کی خبریں نہیں پہنچیں اور بہرہ جو پیدائشی ہیں سو عذر کریں گے.الٰہی ہم نے تو تیرا حکم سنا نہیں تھا اس میں لڑکے بھی عذر کریں گے کہ تیرا ارشاد ہے(بنی اسرائیل:۱۶).تو اس وقت کیا ہوگا.ایک دلچسپ بیان ہے جو انشاء اللہ و خاتم النبیین کے پاک اور سچی اور حق کلام کے مطابق ہے.والسلام نور الدین

Page 142

ہمارے ایک بزرگ سید دوست نے فرمایا کہ یہ مرید کا کلام ہے پیر کا نہیں.میں نے عرض کیا صاحب مثنوی کا قول ایک طرف احمدی لوگوں کے کلام کو ایک طرف رکھ کر دیکھ لو.احمدی مولوی روم کے برابر تو ان کو مان لو.مگر ایک شعر خواجہ معین الدین چشتی کا ان کو سنا دیا.آپ کو بھی سنا دیتا ہوں.حضرت خواجہ فرماتے ہیں.دم بدم روح القدس اندر معینے مے دمد من نمے دانم مگر عیسیٰ ثانی شدم والسلام نور الدین ۳۱؍جولائی ۱۹۰۹ء (البدر جلد ۸ نمبر۴۸مورخہ ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) مکتوب مکرم حکیم صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ انسان تمام عناصر کا مجموعہ ہے اس کے متضاد اجزاء میں رُوح و قلب کے ساتھ نفس امّارہ اور اس کے وساوس بھی ساتھ رہتے ہیں اور ان کے معین و مددگار شیاطین بھی تیار رہتے ہیں اگر موقعہ پاویں.ہر ایک ملک کے متعلق ایک خاص تحریک نیکی کی ہوتی ہے ہر ایک نیکی کا محرک خاص ملک ہوتا ہے اور اس سلسلہ ملائکہ کا اعلیٰ افسر جبرائیل ہے علیہ السلام.اسی واسطے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں.اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلَمِ (صحیح مسلم کتاب المساجد مواضع الصلٰوۃ)اور قرآن مجید میں ہے کہ وہ مہیمن ہے.جب بادشاہ کسی جگہ نزول فرما وے تو اس کے متعلق جاہ و چشم ساتھ ہونا لازم اور ضروری ہے اور جامع وحی کے دشمن بھی بہت ہوتے ہیں اس لئے ان کے دفع کے لئے عالم اسباب میں وہی روحانی قانون الٰہی ہے جو عالم اجسام میں ہے.عالم اجسام میں امر جامع سلطان جبرائیل کا.جس

Page 143

کی تعریف میں آیا ہے(التکویر:۲۰ تا ۲۲)یہ صرف اس کے جامع ہونے کا بیان ہے. اور  کا لفظ قابل غور ہے بادشاہ کہیں عظیم الشان کام میں اکیلا نہیں جاتا. (الجن:۹)والی آیت کریمہ اس کی حفاظت کو ظاہر فرماتی ہے اس مقام پر جب انشاء اللہ پہنچوں گا تو اس کا جدید علم بالخصوص نوٹ کے ذریعہ انشاء اللہ آپ کو پہنچے گا.نور الدین.........................میت کو ثواب صوم ، صلوٰۃ، قرأت قرآن اور ذکر کا ثواب میت کو پہنچتا ہے.ا مام احمد اور جمہور سلف او ربعض اصحاب امام ابو حنیفہ کا یہی فتویٰ ہے.مجتہدین، یحي ٰ بھی کہتے ہیں کہ امام احمد سے کسی نے پوچھا صلوٰۃ و صدقہ وغیرہ کا ثواب نصف باپ کو اور نصف ماں کو پہنچائوں؟ تو کیا حکم فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اسی طرح پہنچایا جاتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بحصہ رسدی ثواب پہنچتا ہے صدقہ دینے میں صدقہ دینے والے کو ثواب دینے کا پہنچتا ہے.رہا جو ثواب کہ جو ہبہ کیا ہے اس کا حصہ دار بھی ہے یا نہیں اس کے متعلق مجھے کوئی روایت یا قول ائمہ کا اس وقت یاد نہیں.امامت نماز میں جو لوگ کوئی لفظ بُرایا بھلا نہیں نکالتے مجھے ان کے حال پر تعجب آتا ہے کیونکہ مرزا صاحب نے قریباً چالیس برس دعویٰ کیا اور پر زور لفظوں میں شائع کیا کہ مجھے مکالمات الٰہیہ کا شرف حاصل ہے.پھر اگر وہ سراسر افتراء تھا تو مرزا کے برابر دنیا میں کوئی ظالم نہ ہو گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(العنکبوت:۶۹).اور اگر وہ راستباز اور صادق تھے تو جن کو خبر پہنچی اور اس کے منکر رہے ان کے برابر کون ظالم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(العنکبوت:۶۹).مومن کے لئے ہرگز مناسب نہیں کہ تنہا رہے.دعا، نیک نمونہ، بامروت انسان پھر با خدا انسان بنے تو اس کے ساتھ ضرور لوگ ملیں گے.پھر وہ اس جماعت سے کام لے اسی واسطے جماعت وجمعہ بعد کو فرض یا واجب ہوئیں.اس وقت اسلام پر بہت مشکل وقت ہے ہاں جس کو تبلیغ نہیں پہنچی و ہ معذور ہے.

Page 144

روزہ کی فرضیت کی عمر روزہ بالغ عقلمند پر ہے.یہ اجماع اسلام کا ہے مگر صحابہ کرام دس گیارہ برس کے بچوں کو عادت ڈالنے کے لئے روزے رکھواتے تھے.لڑکوں اور لڑکیوں کا باہم کھیلنا لڑکوں اور لڑکیوں کا باہم کھیلنا معروف کے خلاف ہے جب سن تمیز تک پہنچ جاویں.ہمارے ملک میں سات برس کے بعد مناسب نہیں.(اٰل عمران:۱۱۱) پر غور کرو.عمدہ شعر عمدہ شعر تو ہر زمانہ میں جائز ہیں.ہم نے دیکھا ہے کہ پاک نظم، اہل اللہ کی سادہ نظمیں جن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ، قرآن کریم اور اسلام کی عظمت ہو بہت ہی مفید ہیں.اور گانا ایک تو کسب ہے اور ایک موزوں کلام کا عمدہ آواز سے بدوں تلمذ کلانتون کے ادا کرنا ہے؟ یہ دوسری قسم بھی ممنوع نہیں وہ بدر او ربعاث کی لڑائی کے متعلق گیت تھے جو لڑکیوں نے گائے.مختلف عمر کی تھیں.تعیین عمر کا علم مجھے نہیں اور نہ میں نے کسی کتاب میں دیکھا ہے.مرہون اشیاء کااستعمال معمولی شکست و ریخت جو عرفاً ہو وہ مرتہن کرے تو اس کو ( مرتہن کو ) مکان مرہون میں رہنا جائز ہے.یہ میری فہم کی بات ہے میں نے بعض حدیثوں سے ایسا ہی سمجھا ہے گو علماء کااس میں اختلاف ہے.راہن مکان میں خود رہے اور کرایہ مرتہن کو دے.یہ تو صاف سود ہے جس میں ذر ہ مجھے شبہ نہیں کہ یہ حرام ہے.پہلی صورت اس حدیث سے جائز معلوم ہوتی ہے.اَلظَّھْرُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہٖ وَلَبَنُ الدَّرِّ یُشْرَبُ بِنَفَقَتِہٖ ۱؎.کیا معنے؟ کسی کے پاس سواری کا جانور رہن ہو تو اسے گھاس کھلادے اور سواری بھی کرلے اور اگر دودھ والا جانور رہن ہو تو اس کو گھاس کھلادیں اور دودھ لے لیں.یہ میری سمجھ ہے اس کے خلاف مسند عبدالرزاق کی حدیث کوئی چیز نہیں.والسلام نور الدین ( البدر جلد ۸نمبر۵۰ مورخہ ۷؍اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) ۱؎ اَلظَّھْرُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہٖ اِذَاکَانَ مَرْھُوْنًا وَ یُشْرَبُ لَبَنُ الدَّرِّ اِذَا کَانَ مَرْھُوْنًا.وَ عَلَی الَّذِیْ یَشْرَبُ وَ یَرْکَبُ نَفَقَتُہٗ(مسند احمد بن حنبل.مسند المکثرین من الصحابۃ.مسند ابی ہریرہ ؓ حدیث ۱۰۱۱۰)

Page 145

امیر المومنین کی خواہشیں جماعت کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح والمہدی اپنی جماعت کے متعلق کیا خواہشیں رکھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب معلوم کر کے جماعت کے ہر متنفس کو جو خوشی ہو سکتی ہے اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا ہے جو وقتاً فوقتاً اپنی جماعت کے لئے بے قرار دل سے کرتے ہیں.اس کا ان نصائح سے ہوسکتا ہے جو آپ وقتاًفوقتاً اپنی جماعت کو عموماً اور بعض افراد کو خصوصاً کرتے ہیں.مجھے یکم نومبر کو کچھ عرصہ آپ کی صحبت میں بیٹھنے کی سعادت حاصل تھی.آپ نے مختلف باتوں کے دوران میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت مظہر جان جاناں صاحب اور کالے صاحب رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعض واقعات بیان فرمائے اور فرمایا کہ ایسے قسم کے واقعات نے میری ایمانی ترقی میں بہت مدد کی ہے.یہ تینوں بزرگ ایک ہی وقت میں تھے اور باوجودیکہ ہر ایک اپنی جگہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پاک تعلقات رکھتے تھے اور لوگوں کو ارادت تھی.حضرت کالے صاحب تو بادشاہ کے پیر تھے.ان کی صفائی قلب اور عالم ربّانی ہونے کا یہ زبردست ثبوت ہے کہ ان تینوں میں باہم نہایت محبت اور اخلاص تھا.ایک دوسرے کا ادب کرتے اور ایک دوسرے پر پورا حسن ظن رکھتے تھے.جو واقعات آپ نے بتائے ان سے ان کا حسن ظن، اخلاص اور تعلق باللہ ظاہر کرنا مقصود تھا.اور یہ تعلیم دینی مطلوب تھی کہ انسان حسن ظن سے بہت کام لے اپنے کسی بھائی کو حقیر نہ سمجھے اور شریعت کے آگے اپنا سر جھکادے اورفیض رسان اور اثر انداز طبیعت پیدا کرے.نفع رساں ہو.دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ آپ جماعت میں حضرت مظہر جان جاناں صاحب، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور کالے صاحب رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے انسان دیکھنے کے خواہش مند ہیں جو اپنی علمی معلومات کے ساتھ قرآن کریم سے تعشق رکھتے ہوں ایسے سمجھتے ہوں اور پھر تزکیہ نفس کر کے دوسروں کو فیض پہنچانے والے ہوں.جیسے حضرت مغفور نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ پیر بنو پیرپرست نہ بنو.حضرت خلیفۃ المسیح بھی ہمیں اسی مقام پر لے جانا چاہتے ہیں.پھر ایک موقعہ پر ایک نوجوان کو خطاب کر کے فرمایا کہ قرآن کریم کے پڑھنے اور سمجھنے اور عمل میں ترقی کرو.بالواسطہ اسلام کو سچا مذہب قرار نہ دوبلکہ

Page 146

بلاواسطہ خود سمجھ کر یقین کرو.اسلام کی تجلی دیکھ لو.پھر دو احمدیوں کے باہمی مقدمہ پر ذکر کر کے فرمایا کہ میرے یا کسی احمدی کے فیصلہ کو تو منظور نہ کیا غیروں کا فیصلہ مان کر مجھے مبارکباد دیتے ہیں.(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخہ ۷؍ نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۹) حضرت خلیفۃ المسیح کا ارشاد جب یہاں کا تا ر پہنچ گیا تو صبح حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ نے اپنے خدام کو روانگی کا حکم نافذ فرماتے ہوئے حضرت مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو ہمارا امیر قافلہ بنایا اور ہمیں ان کی اطاعت کی تاکید کی اور ارشاد کیا کہ خدا تعالیٰ پر توکل کرو.لوگوں کے ساتھ ان کی سمجھ کے مطابق بات کرو.اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی نگہداشت رکھو.(الانفال:۴۶)پر عمل کرو.ثابت قدمی اختیار کرو.اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرو اور دعائوں میں مصروف رہو اور تمہارے دل کے کسی گوشہ میں سوائے عظمت الٰہی کے اور کچھ نہ ہو.چونکہ منصوری سے تار دیا گیا تھا کہ ہم کتابیں اور ایک زود نویس اپنے ساتھ لے آئیں اس واسطے حضرت نے اجازت فرمائی کہ شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی مختار عام صدر انجمن ہمارے ساتھ اس کا م کے واسطے روانہ ہوں.چنانچہ قادیان سے ہم چار آدمی حضرت مولوی محمد علی صاحب ایم.اے حضرت حافظ روشن علی صاحب ، شیخ صاحب موصوف اور یہ عاجز صبح گیارہ بجے روانہ ہوئے.روانگی سے پہلے ملاقات کے واسطے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت موصوف نے چند قدم مشایعت فرمائی اور دُعائے مسنون کے ساتھ ہمیں رخصت کیا.(البدر جلد ۹نمبر ۴و۵ مورخہ ۲۵؍نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) خواجہ کمال الدین صاحب کو لیکچر دینے کا حکم حضرت خلیفۃ المسیح نے خواجہ صاحب کو حکم دیا ہے کہ

Page 147

بعض شہروں میں تو علی الخصوص اور ویسے دوسرے بڑے بڑے شہروں میں علی العموم وہ سلسلہ لیکچروں کا جاری رکھیں.ہمارے احمدی احباب اس معاملہ میں انہیں مدد کریں اور ان سے خط و کتابت کریں.چند سوالات کے جوابات ایک شخص کے چند سوالات کے جواب میں حضرت امیر المومنین نے فرمایا.بیمہ زندگی زندگی کا بیمہ کرانا ہر گز مناسب نہیں.ا صل اس کی جؤا ہے.تنخواہ پر سود گورنمنٹ اپنے قواعد میں ہمارے ماتحت نہیں وہ اپنے قواعد میں مجاز ہے.جب وہ تنخواہ کا سود دے تو آپ لے لیں اور اللہ کے راہ میں دے دیں.تماشے کی کمائی تماشا سے زر کمانامختلف رنگ رکھتا ہے اصل تماشا کے حالات پر موقوف ہے.ملازم تاجر ملازم کو تجارت دھوکے سے نہ کرنا چاہیے.جلسہ پر آنا ضروری ہے ایک صاحب جو جلسہ سالا نہ پر نہ آئے تھے اس کو حضرت نے لکھا.جلسوں پر مختلف باتیں سننے میں آتی ہیں.ممکن ہوتا ہے کوئی عمدہ بات دل پر اثر کرے اور مفیدوبابرکت ہو.آپ اس کے بدلہ بہت استغفار ، لاحول ، درود، الحمد کے پڑھنے سے کام لیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.(البدر جلد ۹نمبر۷ مورخہ ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) متعہ کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح کی تقریر ایک شیعہ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح سے متعہ کے متعلق استفسار کیا تھا جس کا جواب حضرت خلیفۃ المسیح نے مفصلہ ذیل تحریر فرمایا ہے.آج کل کسی کو خصوصیت سے مخاطب بنانا مناسب نہیں بلکہ عام خطاب میں بھی لوگ خصوصیت کا خیال پیدا کر کے شفیق ناصح کی نصیحت سے مستفید نہیں مگر کچھ آپ کی خاطر ومدارات کچھ یہ خیال کہ

Page 148

اخبارات میں یہ مضمون دے دیا تو کوئی نہ کوئی نفع اٹھائے گا.عزیز من!امراء کے لئے آج کل کوئی شریعت نہیں رہی اور نیز ان پر کوئی شرع کا حاکم نہیں رہا.عام علماء گویا ان کے قبضہء قدرت میں ہیں جو روایت چاہیں ان سے لے لیں.ہاں جن سے ان کی دنیوی امید و بیم وابستہ ہے وہ ان کی حکومت کے حاکم ہیں.عزیز من! میرا اعتقاد ہے کہ اور میرا پختہ یقین ہے کہ عقل صریح جس کے ساتھ وہم نہ ہو اور نقل صحیح بشرطیکہ وہ نقل اسلامی نقل ہو اور شارع اسلام سے ہو.ان میں باہم تعارض اور تضاد ہرگز نہیں ہوتا بلکہ نہیں ہو سکتا.عزیز من!انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ و السلام والبرکات کے حالات پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی طرف سے کوئی امر اور نہی پسند نہیں فرماتے.لوگ کفر کرتے، شرک کرتے، شراب پیتے، لوٹتے، کسی کو تازمانہ بعثت اوامر و نواہی کے رنگ میں مکلف نہیں فرماتے جب تک کہ کوئی حکم تبلیغ ان کے نام بخصوصیت ثابت و ماعبث نہ ہو.مکہ میں شرک ہوتا تھا مگر جب تک(المدّثر :۲، ۳) نازل نہ ہوا آپ نے کسی کو نہ روکا.پھر وہ لوگ شراب پیتے تھے جب مدینہ طیّبہ میں تشریف لائے اور جنابِ الٰہی سے حکم آیا منع فرمایا.حجاب ازواج کے لئے بعض اصحاب نے بار بار عرض کیا مگر تاصدور حکم الٰہی حجاب کا حکم نہ دیا بلکہ یہ مقدس جماعت بلا اجازت دُعا بھی کرے تو ان کو مشکلات پیش آجاتے ہیں.حضرت نوح علیہ السلام کی دُعا پر جو ارشاد الٰہی ہوا اس کلام پاک سے ظاہر ہے (ہود :۴۷) یہ مقام غور ہے.پھر ان کے زمانہ میں کسی نے متعہ کیا تو کیا اگر کسی نے عرض کیا کہ کیا مجھے اجازت ہے تو جب تک حکم الٰہی نہ آیا اجازت و رخصت فرما دی تو کیا.مرد آخر میں مبارک بندہ ایست اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ٍ (الحشر :۱۹) جب کوئی چیز ثابت و موجود ہوتی ہے تو اس کے لوازم بھی ساتھ ساتھ ہی ہوتے ہیں سورج طلوع ہوا تو نہار کا وجود ضروری ہوا.کوئی عقلمند آدمی غور کرے یہ کنچنیاں محب اہل بیت اور ان

Page 149

کے کنجر دنیا میں کس طرح پیدا ہوئے.متعہ کی مثبت جب بولتے لکھتے ہیں غلطی اور ناعاقبت اندیشی کا ارتکاب ضرور کرتے ہیں.مثلاً آپ کی تحریر میں بھی غلطی ہے کہ بدر غزوہ میں اس کی اجازت ہوئی حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.متعۃ النساء کی تردید قرآن کریم سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(المؤمنون :۶تا۸).اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ازواج اور ماملکت ایمان کے سوا جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت نہیں کرتے وہ حد سے آگے بڑھنے والے ہیں اور جو اس حد بندی کے اندر رہتے ہیں وہی مظفر و منصور ہو چکے.دیکھوسورۃ المومنون پارہ اٹھارہ کا ابتدا اور سورہ معارج میں اسی بات کو مکرر بیان کر کے کہ شرم گاہوں کو محفوظ رکھنے والے وہی جنّتیوں میں معزز ومکرم ہوں گے.جناب الٰہی کے حضور مظفر و منصور ہونے اور معزز و مکرم کے قواعد میں ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ زوجہ اور ملک یمین کے سوا اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھنا ضروری ہے اور اس کی حد بندی سے جو بڑھا اس نے خلاف ورزی کی اور الٰہی حد توڑدی.اب متعہ والی عورت کو دیکھنا چاہیے کہ زوجہ ہے بی بی ہے یا ملک یمین سے ہے.اگر یہ متعہ کی عورت زوجہ ہے تو چاہیے کہ زوجیت کے لوازم اس کے ساتھ ہوں دیکھو فقرہ نمبر۱.متعہ والی اگر زوجہ ہے تو …ورثہ و طلاق و عدت، نفقہ و لباس وغیرہ لوازم زوجیت اس کے لئے ثابت ہوتے اور اگر ملک یمین کے نیچے ہو تو …چاہیے کہ اس متعہ والی کو لوازم ملکیت بیع، ہبہ، عشق کتابت اور تدبر ثابت ہوں.اور فرماتا ہے کہ(النّسآء :۴)کیا معنے؟ اگر منکوحہ بیبیوں میں عدل و انصاف نہ کر سکو تو ایک ہی

Page 150

بی بی نکاح میں رکھو یا مملوکہ پر کفایت کرو.یہاں حق سبحانہ تعالیٰ نے بی بی اور ملک یمین دو چیزوں کو رکھا ہے اور ممنوعہ کا ذکر ترک فرمایا اور فرماتا ہے.....(النّسآء :۲۶).دیکھو کیسے صاف صاف ارشاد ہیں اگر تم کو منکوحہ بی بی کا موقع نہ ملے اور تم کو استطاعت نکاح نہیں تو مملوکہ کو اس کے اہل کے اذن سے لو.اگر تمتع بالنساء جائز ہوتا تو ارشاد فرماتا کہ متعۃ النساء سے کام لو.دیکھ لو ان تمام آیات کریمہ میں دو ہی طریق کا بیان فرمایا ہے ایک منکوحہ بی بی زوجہ اور دوسری مملوکہ.احادیث سے متعۃ النساء حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا أَبِیْ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنِی الرَّبِیْعُ بْنُ سَبْرَۃَ الْجُھَنِیُّ أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہُ أَنَّہُ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یٰأَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ قَدْکُنْتُ أَذِنْتُ لَکُمْ فِی الْاِسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَائِ وَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ ذٰلِکَ اِلٰی یَوْمِ الْقَیَامَۃِ فَمَنْ کَانَ عِنْدَہُ مِنْھُنَّ شَیْئٌ فَلْیُخَلِّ سَبِیْلَہُ وَلَا تَأْ خُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَیْئًا ( صحیح مسلم کتاب النکاح باب نکاح المتعۃو بیان انہ أبیح) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَنَیْۃَ اَنّہٗ سَمِعَ الزُّھْرِيَّ یَقُوْلُ اَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ وَ اَخُوْہُ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ اَبِیْھِمَا اَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ لِاِبْنِ عَبَاسٍ اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَھَی عَنِ الْمُتْعَۃِ وَعَنْ لُحُوْمِ الْحُمُرِ الْأَھْلِیَّۃِ زَمَنَ خَیْبَرَ.(صحیح البخاری کتاب النکاح، باب نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن نکاح المتعۃ.آخراً) عَنْ سُفْیَانَ نَھَی عَنْ نِکَاحِ الْمُتْعَۃِ(فتح الباری جزء ۹ قولہ باب نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن نکاح المتعۃ)

Page 151

تردید متعۃ النساء کے لئے وجدانی دلیل ہر ایک شریف الطبع بھلا مانس شریف قوم کا امیر آدمی اپنی جگہ سوچے کہ متعۃ النساء آخر عورتوں کے ساتھ ہوگا اگر شرعاً متعۃالنساء جائز بلکہ کار ثواب ہے تو آخر بدوں عورت کے نہ ہوگا.پھر ایک آدمی کسی کی بہو، بیٹی، بہن سے نکاح میعادی کر سکتا ہے اور کرتا ہے تو اس کی اپنی بہن، بیٹی، بہو، امّاں بھی کر سکتی ہے اور کرتی ہے اور نکاح میں تو اظہار ہوتا ہے اخفا نہیں ہوتا.پھر یہ بڑے شریف کیا مجالس میں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری اماں اور بیٹیوں اور بہنوں نے اپنے متعے کئے ہیں.میں اپنے وجدان پر اس کو لاجواب دلیل مانتا ہوں اور مجھے یقین ہے مجالس میں جیسے ازدواج تزویج صریح مبارک یقین کی گئی ہے ایسے متعہ کے متعلق عورتیں اس مبارکباد کو برداشت نہ کر سکیں.احادیث صحیحہ اور آیات کریمہ کے سمجھنے میں جو قائلین متعہ کو غلطیاں لگی ہیں اوّل بعض احادیث میں متعۃ الحج کا ذکر آیا ہے اورجو صحابہ کرام عمرہ اور حج کرتے دونوں مناسک کی جمع متعہ کہتے تھے جیسے جابر بن عبد اللہ اپنے حالات میں لکھتاہے کہ جب میں عمرہ کرنے لگا تو کسی نے مجھے روکا تو میں نے اسے اِسْتَمْتَعْنَاعَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ(صحیح مسلم کتاب النکاح باب نکاح المتعۃ و بیان انہ أبیح)سنایا.لفظ اِسْتَمْتَعْنَا کو سن کر خوش پر ستوں کو غور کا موقع نہ ملا جھٹ متعۃ النساء اس کے معنی کر دئیے.شہوت پرستی میں حُبَّکَ الشَّیْئَ یَعْمٰی وَ یَصُمّ(سنن ابی داؤد ابواب النوم باب فی الھوٰی).دوم عبد اللّٰہ بن مسعوداور سلمہ بن الاکوع سے احادیث میں چند روایات ہیں جن کے الفاظ ذیل میں درج ہیں.أَنْ نَّنْکِحَ الْمَرْأَۃُ بِالثَّوْبِ اِلٰی أَجَلٍ (نیل الاوطار کتاب النکاح باب ما جاء فی الزوجین یوکلان واحد فی العقد)ہم ایک کپڑا دے کر میعادی نکاح یا جماع کر لیتے.اس میں صحابی اپنے ایک فعل کا ذکر کرتا ہے جیسے وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم شراب پی لیا کرتے تھے یا بت پرستی کر لیا کرتے تھے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا مقابلہ ہم نے کیا.پھر یہ فعل بمقابلہ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ ذٰلِکَ کے کیا ہستی رکھتا ہے.

Page 152

نمبر۲.سلمۃ بن الاکوع کہتا ہے ایک منادی نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ سلم کی طرف سے آیا.اس نے کہا اُذِنَ لَکُمْ اَنْ تَسْتَمْتِعُوْا (صحیح بخاری کتاب النکاح باب نھی رسول اللہ عن نکاح المتعۃ آخراً) اس روایت میں رَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ اَوْطَاسٍ فِی الْمُتْعَۃِ ثَـلَاثًا ثُمَّ نَھَی عَنْھَا(صحیح مسلم کتاب النکاح باب نکاح المتعۃ و بیان انہ أبیح).ہم کہتے ہیں کہ عام اوطاس مکہ معظمہ میں بھی آپ نے اجازت دی اور یہ فتح مکہ بعد غزوہ اوطاس کے ہے مگر انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ والسلام جب تک کوئی حکم الٰہی نہ آوے کسی کو کسی فعل سے نہیں روکتے یہ سب رخصتیں اور اذن اور خاموشیاں اِنِّی قَدْکُنْتُ اٰذَنْتُ لَکُمْ فِی الْاِسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَائِ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ ذٰلِکَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (صحیح مسلم کتاب النکاح باب نکاح المتعۃ و بیان انہ أبیح)سے ہباء منثور دھول کے ذرات کی طرح اڑ گئیں اِذَا جَائَ نَھْرُ اللّٰہِ لِبَطَلَ نَھْرُ مُعْقَل (مجمع الامثال الباب الاوّل فیما اولہٗ ہمزء آنس من اللطیف و من الحمیٰ)کسی معقل آدمی نے ایک نہر بنائی اس پر ایک قدرتی نہر آگئی.عرب میں مثل بن گئی معقل کی نہر الٰہی نہر کے آنے سے تباہ ہوگئی.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.اللہ تعالیٰ کا بیان اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان میں کیسی صفائی ہوتی ہے اور کسی طرح قطعاًاختلاف نہیں ہوتا.کیا دنیا کے پردہ پر کوئی مرفوع متصل حدیث ہے جس میں کہا ہو قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ اَذَنَ اللّٰہُ لَکُمْ فِیْ مُتْعَۃِ النِّسَائِنہیں اور ہر گز نہیں اور ہر گز نہیں وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.قرآن کریم کے فہم میں متعۃالنساء تجویز کرنے والوں کی غلطی.کہتے ہیں.الخ(النّسآء :۲۵) سے صاف متعۃالنساء ثابت ہوتا ہے.سو عرض ہے کہ بیان(النّسآء :۲۴) میں محرمات جن سے نکاح منع ہے ان کا بیان پھر(النّسآء :۲۵)سے جو حلال نکاح ہے اس کا بیان ہے.پھر یہاں فرمایا ہے کہ اگر ان سے تم نے فائدہ اٹھا لیا تو پورا مہر ان کا دینا لازم ہے.یہاں دنیا کے کسی قرآن میں میعادی نکاح کا ذکر نہیں نیز منکوحات پر اس کلام کا کلمہ فا کے ذریعہ ربط لگا دیا ہے.

Page 153

سابق نے متعۃالنساء کا خیال دفع فرمایا اور لاحق نے(النّسآء :۲۶) متعۃ النساء میعادی نکاح کا قلع قمع کر دیا.علاوہ بریں قرآن کریم اور ہمارے نبی رؤوف رحیم نے متعۃالنساء کے احکام سے کلیۃً سکوت فرما دیا.متعۃ النساء کے مجوز ذرا بتائیں تو سہی کہ اس متعہ کے باعث ایک سیاح اپنی لڑکی اور بہن بلکہ اپنی ماں سے متعہ کر سکتا ہے اور اختلاط نسب کا یہ متعہ موجب ہے اور متعی اولاد کی پرورش کا کوئی انتظام ہو سکتا ہے؟ ذرا آپ سوچیں چین بلکہ ایران گئے وہاں ایک نطفہ چھوڑ آئے.سولہ برس کے بعد صاحبزادہ صاحب ایران گئے وہاں بہن صاحبہ متعہ کے لئے تیار پائی یاوہ عورت ہندوستان آئی اور اس نے آتے ہی اپنے بھائی یا باوا سے متعہ کر لیا.فرمائیے وہ انتظام محرمات خاک میں مل گیا یا نہیں.ایک بار مجھے ایک شیعہ قائل بالمتعہ سے گفتگو کا اتفاق ہوا تو اس نے مجھے کہا کہ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ کے صاف اور صریح الفاظ کو آپ کیوں چھوڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ قرآن میں آپ کے معنے والا متعہ نہیں آیا اس لئے میں معذور ہوں کہ آپ کے معنے لوں وَاِلَّا آپ قرآنی استمتاع کے الفاظ پر غورکریں (الأَنعام :۱۲۹) میں آپ کیا فرماویں گے؟ اس پر آپ خاموش ہو رہے.بات آگے نہ بڑھی پھر میں نے کہا(البقرۃ :۱۹۷)میں آپ کیا کہیں گے؟ آپ بھی قرآنی استمتاع پر غور کریں.(الحکم جلد ۱۳ نمبر ۳۶،۳۷ مورخہ ۱۴؍دسمبر۱۹۰۹ء صفحہ۲،۳) ایڈیٹر الحکم یہ خبر نہایت مسرت کے ساتھ سننی چاہیے کہ شیخ یعقوب علی صاحب ایک دینی خدمت کے لئے چند یوم سے بحکم حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح لاہور گئے ہوئے تھے.جہاں پر آجکل ایک گھمسان مذہبی جلسوں کا پڑا ہوا ہے.۲۹،۳۰؍نومبر و یکم دسمبر کو لاہور میں آریہ سماجوں کا جلسہ تھا.۲؍دسمبر سے مسیحی صاحبان نے لیکچر شروع کر رکھے ہیں جو ۷؍ دسمبر تک جاری رہیں گے.شیخ صاحب اسی غرض کے واسطے لاہور ٹھہرے ہوئے ہیں کہ عیسائی لیکچروں کو سنیں اور پوری نقل اُن کی کرتے رہیں.شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی کو بھی

Page 154

کہ جن کو تقریروں کے لکھنے کا بڑا ملکہ خدا کے فضل سے ہے ا میر المومنین ؓنے لاہور اسی غرض کے واسطے لکھا ہے کہ وہ حرف بہ حرف تمام لیکچروں کو جو کہ اسلام کے خلاف ہوں نقل کر کے لاویں.ان لیکچروں کے جواب میں خلیفۃ المسیح کا آب زر سے لکھنے کے قابل حکم یہ صادر ہوا ہے کہ اِتَّقُوا اللّٰہ یعنی لاہوری احباب کی درخواست پر حضور نے حکم صادر فرمایا ہے کہ جو مضمون عیسائی بیان کریں ان کو خوب غور سے سنو اور حرف بحرف نقل کرنے کی کوشش کرو اس میں سے جو امور حق ہوں ان کی تصدیق کرو اور جو ناحق ہوں ان کی تردید محض خدا تعالیٰ کے لئے کرو نہ کہ کسی ہٹ دھرمی سے بغرض مقابلہ ومجادلہ.مومن کا کام ہے کہ وہ ہر ایک سچائی کی تصدیق کرے اگر چہ دشمن سے دشمن کی زبان سے سنے اور ہر ایک باطل کی تردید کرے اگرچہ دوست سے دوست کی زبان سے نکلے.پس ہماری جماعت کو قرآن مجید کے آگے سر تسلیم خم کرکے زبان اور قلم سے وہی کام لینا چاہیے جو کہ عین حق اور صدق ہو مومن کو کسی کی دشمنی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.پس یادر کھو کہ ہر ایک سچی بات کو خواہ تم اس کو آریہ کی زبان سے سنو یا عیسائی و موسائی وغیرہ کی، کبھی اس لئے ردّ مت کرو کہ ہمارا یا حق کا دشمن ہے.اس کی زبان سے حق کا نکلنا یہ بھی حق کی صداقت کی ایک دلیل ہے.سبحان اللہ ! کیا تعلیم ہے جو اپنی قوم کو اس کا امام جس کا نام نور الدین ہے خدا کی اس پر رحمتیں ہوں دیتا ہے.ذرا ان مختصر الفاظ کو سوچو جو یہ ہیں کہ ’’ عیسائیوں کے لیکچر سنو جو حق ہو اس کو قبول کرو اورجو باطل ہو اس کی تردید کرو.‘‘ پھر علمائے حال کے نظارے پیش نظر رکھو جن کا قول یہ ہے کہ جھوٹ کے متعلق مجھے اس قدر یقین ہے کہ اگر وہ دن دوپہر کو دن کہہ دیں تو میں رات ہی کا شبہ کرتا ہوں ‘‘ بہ دل مصداق ہیں اس آیت کریمہ کے کہ (البقرۃ: ۱۱)اور یہ قول ہے ایک بڑے متکبر زبان دراز امرتسری کا جو اس نے مرقع میں لکھا ہے.مختصر یہ کہ شیخ صاحب انشاء اللہ تعالیٰ ۸؍ دسمبر کو قادیان واپس تشریف لاویں گے اور اپنے مفید اور مبارک سفر کے حالات سے ناظرین الحکم کو مستفید فرماویں گے ان کی عدم موجودگی الحکم کی وقتی اشاعت میں تاخیر کا موجب ہوئی ہے اور یہ پرچہ حسب الارشاد شیخ صاحب ناچیز قاسم علی احمدی جو اپنے امام کے حضور میں آیا ہوا ہے شائع کرتا ہے.والسلام (الحکم جلد ۱۳ نمبر ۳۶و ۳۷.مورخہ۱۴؍دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۴)

Page 155

جلسہ عیسائی صاحبان میں تقسیم کیا گیا اشتہار یہ اشتہارحضرت امیر ا لمؤمنین خلیفۃ المسیح سلمہ اللہ تعالیٰ نے لاہور میں تقسیم کرنے کے واسطے قادیان سے چھپوا کر اخویم خواجہ کمال الدین صاحب کے پاس بھیج دیا ہے جو ۶؍ دسمبر کو عین جلسہ عیسائی صاحبان میں تقسیم ہوا.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم اسلامی لیکچر بجواب مسیحی لیکچر جو سلسلہ لیکچروں کا آج کل مسیحی صاحبان کی طرف سے لاہور فورمن کالج میں جاری ہے اس میں مسیحی صاحبان کی طرف سے ہر لیکچر کے خاتمہ پر چند منٹ مباحثہ کی استدعا بھی کی جاتی ہے.ان لیکچروں کے جواب میں بعض مسلمانوں کا منشاء ہے کہ مسلمان اوّل تو ان لیکچروں کو نہ سنیں دوم یہ بھی سنا ہے کہ خود وہ بالمقابل لیکچردیں گے.یہ دونوں امور ہمیں پسند نہیں نیز فوری جوش سے چند منٹ کے مباحثات میں ان اصولوں کی تحقیق کرانا جن پر مذاہب کی بنیادیں ہوں ایک سہل امر نہیں.حق کا ثابت کرنا اور باطل کو مٹانا ہنسی کا کام نہیں.مخالف کی بات کو غور سے سننا اس میں جس قدر حق شناس ہو اس کو لینا اور اس میں اگر باطل ہے تو صرف اس کا مٹانا ضروری ہے.اس لئے ہم نے تجویز کیا ہے کہ پہلے مسیحی لوگوں کے لیکچروں کو صبر اور غور کے ساتھ سن کر ان باتوں کو دیکھ لیا جائے جو انہوں نے اسلام کے برخلاف لیکچروں میں کہی ہیں اور پھر ان کا جواب سلسلہ وار دیا جاوے.(النحل:۱۲۶) ایک قرآنی ارشاد واجب الانقیاد ہے اس لئے ہم انشاء اللہ عنقریب بذریعہ اشتہار ثانی پبلک کو اطلاع دیں گے کہ مسیحی لیکچروں کے جواب میں جہاں تک ان کا تعلق اسلام سے ہے کب اور کس مقام پر اسلامی لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا جاوے گا.وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ.المشـــــتھــــــــر نورالدین از قادیان ۵؍دسمبر۱۹۰۹ء

Page 156

جماعت احمدیہ کے اصول ایک سائل کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح نے تحریر فرمایاکہ جماعت احمدیہ کے اصول مفصلہ ذیل ہیں.۱.اللہ تعالیٰ ایک ہے اپنی ذات میں یکتا اپنی صفات میں بے ہمتا اپنی عبادت میں وحدہ لاشریک.۲.اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو مختلف کاموں پر مقرر ہیں وہ آدمیوں کو نیک ترغیبیں دیتے رہتے ہیں.۳.اللہ تعالیٰ کی سب کتابیں بر حق ہیں جن کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی نہیں جانتا.۴.اللہ تعالیٰ کے سب رسول ہیں جو اس نے بھیجے سب سچے تھے ہم کسی کا ان میں سے انکار نہیں کر سکتے.۵.محمد رسول اللہ جو مکہ میں پیدا ہوئے اور جن کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا وہ خاتم النبیین اور ان کی کتاب قرآن کریم جامع کتب الٰہیہ ہے.۶.تقدیر کا مسئلہ سچ ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کو قبل اس کے پیدا کرنے کے جانتا.نیکی وبدی دو چیزیں الگ الگ ہیں ہر ایک کو انسان علیحدہ علیحدہ دیکھ لے گا.۷.بعد الموت قبر وحشر، پل صراط ،دوزخ اور بہشت کے حالات جو اللہ تعالیٰ نے الکتاب المجید میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے سب سچ ہیں اور مومن کے لئے ضروری ہے نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، نیک اخلاق کے ادا کرنے اور بدیوں سے بچنے کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہے، مومن کے ہر ایک کام میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم نظر آوے اور طرح طرح سے مخلوق الٰہی کو نفع پہنچاوے.ہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی خلاف ورزی ہر گز ہرگز نہ کرے کسی مذہب کے کسی بزرگ کو برا نہ کہے صحابہ کرام اور تابعین کا زمانہ بابرکت تھاان میں جو ائمہ اور بزرگ مشہور ہیں ان کو خصوصیت سے برا نہ کہے.استغفار، لاحول، درود شریف اور الحمد وظیفہ رکھو.والسلام (الحکم جلد ۱۳ نمبر ۳۶،۳۷ مورخہ ۱۴؍ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ۷ ،۸ )

Page 157

مدرسہ کے طلبہ کو نصیحت (۱۴؍جولائی ۱۹۰۹ء.عصر) تم جانتے ہو نہ ہمیں اپنی زندگی کا علم ہے نہ تمہیں اپنی واپسی کا.پس میں تمہیں مختصر نصیحت کرتا ہوں جو یہ ہے کہ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ جو کام کرو اس میں دیکھ لوکہ تمہارے نفس ، خواہش، دنیا طلبی کا کتنا دخل ہے اور خدا کی رضا اور مخلوق کی شفقت کے خیال کا کتنا دخل ہے.پس تم اپنی خواہشوں کو خدا کی رضا کے مقابلہ میں کچھ نہ سمجھو.خدا کی رضا کا علم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ہوا ہے اس لئے قرآن شریف و احادیث پر اپنا عمل رکھو.تمہارے ماں باپ بھائیوں نے تمہاری تعلیم کے لئے بہت کچھ خرچ کیا ہے اگر تم تعلیم اسلام میں پختہ رہو گے تو یہ خرچ ٹھکانے لگے گا.ورنہ اگر تم انگریزی کے تمام حروف تہجی کے القاب حاصل کرلو گے.پھر اگر تمہارے ساتھ کلمہ کا اعتقاد نہیں تو پھر تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں.پس ہماری آخری وصیت یہی ہے کہ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہَمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر پکے رہو.جس ایقان کا عملی رنگ میں ظہور نمازوں کے ذریعے ہوتا ہے، پھر ماں باپ کے ادب سے، پھر بڑے بھائیوں کے ادب سے، پھر گھر کی بڑی بوڑھی عورتوں کے ادب سے.فضولیوں کی عادت مت ڈالو، جھوٹ نہ بولو، دغا، فریب ، برائی، تکبّر، بدظنی نہ کرو.کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے.اِیَّا کُمْ وَ الظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْث (صحیح بخاری کتاب الوصایا باب قول اللّٰہ تعالٰی من بعد و صیۃ یوحی بھا اودین).نیک نمونہ بن کر دکھائو.خود پسندی اور خود رائی کے پاس تک نہ پھٹکو.گھر میں جائو تو تمہارے ماسٹروں کی تاکید ہے کہ چندہ جمع کر کے لائو.گو میںچندے کے معاملہ میں کسی اور رنگ کا آدمی ہوں.کیونکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ خدا مجھے روٹی دیتا کپڑا پہناتا اور خدا میرے خرچوں کا کفیل ہے اور پھر یہ آخری تاکید ہے کہ کسی کو لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ

Page 158

سکھائو.لَئِنْ یَھْدِ ی اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَّاحِدًا خَیْرُ لَّکَ مِنْ حَرِّا لنَّعَمِ (حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء.النساء الصحابیات).اگر ایک جان بھی تجھ سے ہدایت پا گئی تو یہ تیرے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے.ایک خط کا جواب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۱.دو رکعت سنت فجر کی تاکید تمام روایت سے زیادہ معلوم ہوتی ہے.بخاری کی کتاب الحج میں ایک حدیث حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے مزدلفہ میں باوجود جمع صلوٰتین کے مغرب کی سنتیں پڑھیں.یہ سنن ہیں.سفر میں موقع ملے توپڑھ لیں وَاِلّا نہ پڑھیں کوئی مشکل معاملہ نہیں.۲.مسافر مقیم کے پیچھے فرض کی اقتداء کرے تو سنن میں اس کو ایسا ہی اختیار ہے جیسے تنہائی میں اختیار ہے.۳.دو وقت کا کھانا ایک روزہ کا فدیہ ہے.۴.ضرورت اور مصلحت ہو تو دواذانیں اب بھی آ پ دے سکتے ہیں.مگر ایسا نہ ہو کہ لوگ دھوکہ میں پڑیں.۵.(النساء: ۸۶) سوء ایک خطرناک گناہ ہے اس میں سپارش سے بچو.نماز میں مزہ ایک شخص نے حضرت کو لکھا کہ نمازمیں مزہ نہیں آتا اور آنکھ بند کر کے نماز پڑھوں یا نہ.فرمایا مزہ کوئی چیز نہیں جس کے لئے ہم مامور ہوں.قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ مزہ اُڑائو.آنکھ کھول کر نماز پڑھنا مسنون ہے.انگریز حکام ہیں بعض انسان پر نہ اٹھنے سے ابتلا آتا ہے اور نہ اٹھنے سے ریا پیدا ہو سکتا ہے ہر مومن کو ضرور ہے کہ ہر ایک امر کا لحاظ رکھے.یعنی انگریزوں کی تعظیم کے واسطے اٹھنا کیسا ہے؟

Page 159

سب کو ساتھ ملائو ایک صاحب نے شکایت کی کہ وہاں کے لوگ مخالف ہیں.حضرت نے جواب میں فرمایا.(البقرۃ:۲۵۰) ایک مومن دس کے مقابلہ میں ہو سکتا ہے.پس ۱۵.۱۵۰ کے لئے کافی ہیں.تم کوشش کرو کہ سب تمہارے ساتھ ہو جاویں.یہ بڑی آسان عمدہ بات ہے.فَاُ وْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ.فَقَدْ فَازَ الْمُتَّقُوْنَ.وَاِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ہُمْ مُحْسِنُوْنَ.بدی کو کس طرح دو رکرنا چاہیے ایک شخص کے خط کے جواب میں حضرت نے فرمایا.(المؤمنون:۹۷)ہٹاوے ایسی ترکیب سے کہ وہ خوبیاں رکھتی ہو ہر ایک بدی کو.بدی کو دور کرنے کے لئے عمدہ تدابیر کرتے رہو.مثلاً بدکار کے لئے دعا کرو جیسے انبیاء کرتے تھے.قول موجہ اور دلائل قویہ سے ہر بدکار کو سمجھائو.اگر مناسب مفید ہو تو اس سے اعراض کرو.ترک سلام کرو حتّٰی کہ مفید ہو تدابیر مناسبہ کے ساتھ.پیٹنا سزا دینا جیسے حدود سرقہ و زنا میں وارد ہے مقابلہ ہی دفاع بالحسنہ ہے.یہ عجیب در عجیب تدابیر سوچنا اور بدی کو دنیا سے یا کسی شخص سے یا قوم سے دو رکرنا بڑے صابر و متقی …… کا کام ہے.کم ملنے والے لوگ ایک شخص نے ایک احمدی کی کسی مالی معاملہ میں شکایت کی.حضرت نے جواب میں فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دولت مند آدمی پھر جو ملے بھی کم ( بہت کم ملاقات کرے) اس کی میری مریدی پر مجھے تو کم اطمینان ہوتا ہے.اکثر یہ لوگ اپنا خیال مقدم رکھ لیتے ہیں.فرشتے ایک شخص کے خط کا جواب حضرت نے لکھا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ سکھاتا ہے اور وہ بحکم رحمن بندوں کو سکھاتے ہیں.بندہ فرشتوں سے بڑھ

Page 160

جاتا ہے اور فرشتہ بندے کا خادم ہو جاتا ہے.عائشہ کی مجامعت کا کہیں ذکر نہیں صرف آپ کے گھر میں نوبرس کی تھیں کہ آئیں.(البدر جلد۹ نمبر۸ مورخہ ۱۶ ؍دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) لڑکیوں کووراثت سوال.جو شخص لا ولد بلا رضا مندی جدیان وصیت جائیدادمنقولہ وغیر منقولہ بنام دختر زندہ بااولاد جو اپنے گھر میں آباد ہو و دیگر دختر و داماد فوت شدہ کے پسران کے نام یعنی نواسگان کے نام کرے قرآن شریف میں خداوند کریم کا کیا حکم ہے؟ جواب از حضرت امیر المومنین.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس زمانہ میں ورثہ کے متعلق مسئلہ پوچھنا میرے جیسے انسان کو تعجب میں ڈالتا ہے کیونکہ جس ضلع میں پہلے رہتا تھا وہ ضلع بنام شاہ پور مشہور ہے.وہاں لڑکیوں کو علی العموم خاندانی علماء تک کوئی حصہ وراثت کا نہیں دیتا.پھر جہاں لڑکیاں وارث ہی نہیں قرا ردی جاویں وہاں لڑکیوں کاباپ زندگی میں بھی کچھ نہ دے تو ان لڑکیوں پر کس قدر ظلم ہوا.آپ کی اگر لڑکیاں ہیں تو آپ سوچ لیں.وارث کے حق میں شریعت اسلام وصیت کو ناجائز قرار دیتی ہے.مگر باپ بلا وصیت ان کو دے دے تو وہ جائز ہے.آپ اس معاملہ میں سوچ کر قدم رکھیں یہ زمین اور مال ساتھ نہ دے گا تم اکیلے معہ اپنے اعمال کے جواب دہ ہو گے.ہمیں تو یہ لوگ فتویٰ دیتے ہیں اور خود لڑکیوں کو وراثت دینے میں قرآن کریم کے مخالف ہیں.اللہ تعالیٰ رحم فرماوے.آمین والسلام نور الدین مورخہ ۴ا؍اگست ۱۹۰۹ء آنہ فنڈ ایک صاحب نے دریافت کیا کہ آجکل گورنمنٹ نے یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ ملازمین سے ایک آنہ فی روپیہ تنخواہ سے ماہ بماہ کاٹا جاوے پھر سود ساتھ ملا کر اکٹھا دیا جاوے تو کہ لوگ مالی مشکلات

Page 161

سے بچے رہیں.کیا اس کا لینا دینا جائز ہے؟ حضرت امیر المومنین نے فرمایا.گورنمنٹ اپنے قواعد میں تمہارے ماتحت نہیں.جو کاٹے کٹوائو.پھر جو دیوے لے لو.کیا پائوں کا دھونا ضروری ہے حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.قرآ ن کریم ارشاد فرماتا ہے.(المائدۃ:۷).ارجلکم یقرہ بالنصب کیونکہ یہ معطوف علی الوجوہ وال یدی الی فاغسلوا وجوھکم و ایدیکم ارجلکم اس طور کا عطف عربی میں بلا کسی خلاف کے جائز رکھا ہے اور سنت نبوی نے اس کی توضیح کر دی ہے کہ وضو کے ساتھ پائوں کا دھونا فرض ہے.اور بعض روایات میں ارجلکممیں لام پر ضمہ بھی پڑا ہے اور مبتدا بنا کر اس کی خبر محذوف نکالی ہے.مغسولہ مگر یہ قرا ء ت شاذ ہے.اور جر کے ساتھ بھی اکثر قرا ء ت ہیں.اس میں دو وجہیں ہیں.ارجلکم کو معطوف علی الرئوس بنایا ہے اعراب میں اور حکم مختلف ہے.رؤس ممسوحہ ہیں اور رجل مغسولہ ہیں ایسے اعراب کو اعراب الجوار کہتے ہیں.یہ عربی کثرت سے ہے کوئی منع نہیں اور قرآن کریم میں بھی کثرت سے واقع ہے.عدت کے اندر نکا ح کا ولیمہ ایک صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح سے دریافت کیا کہ ایک شخص نے ایک بیوہ سیدانی کے ساتھ جس کا کوئی بچہ بچی نہیں ہے عدت کے اندر ہی نکاح کر لیا ہے.

Page 162

پھر اُس نے کہا کہ حضرت سے دریافت کر لیا جاوے.اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عدت کے اندر نکاح کرنازنا ہے.آپ لوگ ہرگز ہرگز ایسے گندے ولیمہ میں شریک نہ ہوں.اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرماوے.آمین نور الدین غیر احمدیوں سے چندہ لینا اور ان کو دینا ایک صاحب نے دریافت کیا کہ غیر احمدی لوگ اگر کسی دینی دنیوی عام خیر خواہی کے کام میں چندہ مانگیں تو ان کو دیا جاوے یا نہ دیا جاوے ؟ حضرت نے جواب میں لکھا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں آپ سے بدل کہتا ہوں کہ ایسے چندے پسند کرتا ہوں بشرطیکہ چندے لینے والے اپنا منصبی فرض ادا کریں.(الممتحنۃ: ۹).ممتحنہ پارہ ۲۸ صریح ارشاد ہے اس پر غور کرلو اور غور کرو یہاں میرناصر نواب شفا خانہ مسجد وغیرہ کے لئے کفار سے بھی چندہ لیتے ہیں.پس کوئی بھی چندہ دے تو لے لو انکار مت کرو.ہاں ابتلا سے بچو.نور الدین ۲۳؍جولائی ۱۹۰۹ء ( البدر جلد۹نمبر۸ مورخہ۱۶ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۶)

Page 163

ایک قانون دان فلاسفر کے چند سوالات کے جوابات سوالات ۱.کیا کوئی غیر مسلم فرمانروا اپنی مسلمان رعایا کے لیے وضع قانون کر سکتا ہے؟ ۲.کیا کوئی غیر مسلم جج ازروئے قانون اسلامی مسلمانوں کے مقدمات فیصل کر سکتا ہے؟ کیا تاریخ اسلامی میں کسی ایسے غیر مسلم جج کی نظیر موجود ہے جو بحیثیت عہدہ مسلمانوں کے مقدمات فیصل کرتا ہو.۳.کیا مسلمان ہونے کے لئے شرع محمدی کی پابندی لازمی ہے؟ اگر ہے تو ان مسلمان قوموں کی نسبت کیا حکم ہے جن کے معاملات زیادہ تر رواج سے فیصل پاتے ہیں اورجو خود اپنے آپ کو رواج کا پابند ظاہر کرتی ہیں.۴.مسلمانوں کا ضابطہ تعزیری قریباً قریباً بالکل معطل ہے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی.کیاا س ضابطہ کی پابندی ضروری ہے؟ اگر ہے تو جو مسلمان اس کے پابند نہیں خود اس وجہ سے کہ وہ کسی غیر مسلم بادشاہ کے محکوم ہیں جو اس ضابطہ کا پابند نہیں ہے؟ یا کسی اور وجہ سے ان کے اسلام کی نسبت کیاحکم ہے؟ جواب مکرم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خاکسار مختصرنویس ہے پس میری کمزوری کو مدّنظر رکھیں اور قبل اس کے کہ میں اصل سوالوں کا جواب دوں چند مختصر سے اصول عرض کرتا ہوں جو غالباً کسی اور ثبوت کے علاوہ مذکور ثبوت کے محتاج نہیں اگر ان میں کوئی قابل ہو تو بلاتردد آپ مجھے آگاہ کریں.۱.قرآن کریم ایک کافی کتاب ہے اس کا ثبوت  (العنْکبوت :۵۲).

Page 164

۲.قرآن مجید مشاہدہ و تجارب صحیحہ و عقل صریح غیرمشوب بوہم و نقل و صحیح اور فطرت سلیمہ کے خلاف ہرگز نہیں فرماتا.(ثبوت(حٰمٓ السجدۃ :۴۳) اور بار بار (یٰسٓ :۶۹) اور باربار(القصص :۷۳)).۳.قرآن شریف فرماتا ہے کہ ایمان بڑھتا ہے اور بتدریج ترقی کرتا ہے.ثبوت(الرّوم :۳۱)  (الأَنْفال :۳).۴.قرآن کریم مذاہب مختلفہ کو باہمہ اختلاف تباہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ قائم رکھنا چاہتا ہے ثبوت (۱)(البقرۃ :۲۵۷).(۲)(یونس :۱۰۰).(۳) (الأَنعام :۳۶) ِ(الحج :۴۱)(المآئدۃ :۴۸). (البقرۃ :۱۱۴)یہاں   قابل غور ہے.۵.قرآن فساد فی الارض کو بہت ناپسند کرتا ہے.(البقرۃ :۲۰۶).ثبوت (البقرۃ :۶۱)(الأَعراف :۵۷) (البقرۃ :۱۹۱) (الأَنْفال :۴۰) جیسا کسی کا ظاہر ہو ایسا ہی باطن ہو دیندار پورا دیندار ہو سکے.ان قوانین کے لئے بطور اصل الاصول مختصر سامان قرآن کریم میں ہے.تفصیل کو اطاعت اولی الامر کے نیچے رکھا ہوا ہے اور اسی پر صحابہ سے لے کر آج تک عمل در آمد اسلامیوں کا ہے.ہر ایک

Page 165

مسلمان کے لئے اطاعت اللہ اوراطاعت الرسول و اطاعت اولی الامر ضروری.اگر اولی الامر صریح مخالفت فرمان الٰہی اور فرمانِ نبوی کی کرے تو بقدر برداشت مسلمان اپنی شخصی و ذاتی معاملات میں اولی الامر کا حکم نہ مانے یا اس کا ملک چھوڑ دے.(النِّسآء :۶۰) صاف نص ہے.اولی الامر میں حکام و سلطان اوّل ہیں اور علماء و حکماء دوم درجہ پر ہیں.میں نے سابق ذکر کیا ہے کہ ایمان کا ادنیٰ مرتبہ اور اس کے اوپر ایمان قسم قسم کی ترقی کرتا ہے اس لئے جو لوگ صرف لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کہتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں وہ ایک حد کے مسلمان ہیں اور جو لوگ نماز کے پابند ہیں وہ ان سے بڑھے.اور جو زکوٰۃ و روزہ وحج کے بھی پابند ہوئے وہ اور بڑھے علیٰ ھذا.اللہ تعالیٰ بھی علی المومن ہے کیونکہ المومن المھیمن نص قرآنی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وبارک بھی جبرائیل اور خلفائے راشدین اور تابعین اور آپ بھی کیا سب مساوی الایمان نہیں اور ہرگز نہیں ہاں (البقرۃ :۸۶) والوں کے لئے یہ سزا ہے جیسے فرمایا.(البقرۃ :۸۶)آپ مسلمانوں کو دیکھ لو.لڑکیوں کے حِصّے نہ دئیے وہاں خلاف ورزی پر عذاباً مُّھِیْنًا موجود ہے اور یہاں ہم مشاہدہ کرتے ہیں مسلمانوں کے لئے بھی وہی ضرورتیں ہیں جو سارے جہاں کے لئے قدرت نے رکھی ہیں.مسلمانوں کے لئے وہی سامان انجاح مرام کے لئے لابد ہیں جو تمام مخلوق کے لئے لا بد ہیں.الٰہی فضل کو کوئی اگر ایک شخص اکیلا رہ کر حاصل کرنا چاہے تو صرف وہی فضل لے سکتا ہے جو اکیلے انسان کے لئے ہیں مثلاً ایک شخص حسد، طمع اور کسل کو اگر ترک کر دے تو تارک طمع و تارک حسد و تارک کسل کے لئے وہ صرف انعامات مل سکیں گے جو ان رذائل کے تر ک کے لئے وابستہ ہیں.اگر تہجد گزار پابند صوم و صلوٰۃ تارک رذائل مذکورہ شادی نہ کر کے تندرست بی بی حاصل نہ کر کے اولاد کا طالب ہو تو اسے اولاد ہرگز نہ ملے گی.پھر اگر تندرست آدمی تندرست بی بی سے تعلق پیدا

Page 166

کر لے تو گو وہ صلوٰۃ و صوم و تہجد کا تارک ہو ہر ایک قسم کے طمع، حسد، کسل کا مرتکب ہو اولاد سے متمتع ہوگا.اسی طرح برادری میں عزت واکرام اور ملک کے اقوام میں اعزاز و احترام اور حکام کے حضور قابلِ انعام وہی ہے جو ان قواعد واحکام کی پیروی کرے جن سے یہ مرادیں حاصل ہو سکتی ہیں.مکرم من ! ہزاروں امور قومی سلطنت، قومی حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں جب تک وہ نہ ہو ہرگز ہرگز صوم و صلوٰۃ سے پورے نہیں ہو سکتے.مثلاً …چوری کی سزا، زانی کی سزا، ڈاکہ مارنے والے، مرتد کی سزا وغیرہ یہ امور سلطنت کے ساتھ وابستہ ہیں مثلاً ایک نمازی کا ہاتھ کہنی تک کٹ گیا تو اب کیا وضو کے وقت اس کا ہاتھ جو کٹ گیا ہے دھونا ضروری ہے؟ ہرگز نہیں.(البقرۃ :۲۸۷).تعزیری احکام کے ہم ذمہ وار نہیں ہو سکتے قرآن شریف میں اس کی نظیر آپ دیکھیں.حضرت یوسفؑ نبی ہیں ان کی اقتدا بھی ہمیں کرنا ہے.ان کے بیان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(یوسف :۷۷) یہاں صرف ذکر ہے کہ یوسف علیہ السلام قانون سلطنت فراعنہ مصر کے ماتحت تھے جناب یوسف علیہ السلام اس قانون کی خلاف ورزی نہ کر سکتے تھے اور نہ کرتے تھےکا فقرہ قابلِ توجہ ہے.پس کیسا ظاہر ہے کہ ایک مسلمان پولیس مین کو کس طرح پابندی قوانین گورنمنٹ کی ضروری ہے.عام اہل اسلام عدم سلطنت کے وقت احکام سلطنت اسلام کے ہرگز ذمہ وار نہیں یہ تکلیف مالا یطاق ہے.ہاں سلطنت اسلام کے ہوتے وقت اگر حکومت قرآن شریف واحادیث صحیحہ یا فتویٔ ائمہ کے خلاف کرے تو اس کے لئے وہی احکام ہیں جو سلطان ترک اور خلیفہ عباسیہ اور امیر ہسپانیہ کے لئے ترک حج اور ایک مولوی صاحب کے ترک زکوٰۃ اور عامۃ اہل اسلام خصوصاًفقر اہل تکیہ کے لئے ترک صوم صلوٰۃ یا عام نوجوانانِ گورنمنٹ گریجوایٹ کی بیباکی کے احکام ہیں بلکہ یوں کہیے کہ(النِّسآء :۹۴) اور قَتْلُ الْمُؤْمِنِیْنَ کُفْرٌ کی نص کے بعد

Page 167

دلاورانِ علی مرتضیٰ اور بہادرانِ امیر معاویہ کے لئے فتویٰ ہو سکتا ہے.۷.قرآن کریم کے رو سے تعامل اہل اسلام جیسے مشیت احکام ہے اس کے تواتر سے ہم نے مشترکہ حصہ صوم وصلوٰۃ اور حج کو ضروری اور لابدی سمجھا ایسا ہی اس کے خلاف کو ہم بُرا یقین کرتے ہیں.اب ان چند مختصر عرائض کے بعد گزارش ہے کہ غیر مسلم فرمانروائے مسلمان نہیں اور نہ قواعداسلام کا پابند ہے.پس ا س کو اپنی رعایا کے لئے قوانین بنانے سے کون روک سکتا ہے.۱.ایسے فرمانروائے قانون بنا سکتے کیا بناتے ہیں.یہ واقع و مشاہدہ اس کو کون باطل کر سکتا ہے.پھر صحابہ کرام حبشہ کو ہجرت کر کے عیسائی بل مسیحی سلطنت کے ماتحت رہے.کبھی نہ کہا کہ ہمارے لئے آپ کے قواعد کی پابندی ضروری نہیں.وہ صحابہ کرام اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں تیرہ برس رہے.قوانین شہر کے رو سے صدہا بُت مسجد مکہ میں تھے اور آپ وہاں وحدہ لاشریک کی عبادت باہمہ موجودگی اصنام فرمایا کرتے مگر خلاف ورزی کسی ایسے قانون کی نہ کی جو آپ کے بالکل خلاف تھا.آخر ان کے قوانین سے جب تنگ آگئے تو اس شہر کو چھوڑ دیا بلکہ حبشہ کے مہاجروں سے ایک نے شراب خوری کی اور آخر مسیحی ہو گیا مگر ان مسلمانوں نے اس کو اپنے قوانین کے نیچے نہ کیا.اصل سرّ ہجرت کا یہی ہے کہ حبشہ کی ہجرت کو ہم مذہبی طور پر مسیحی سلاطین کی ماتحتی کا ایما جانتے ہیں اور کس طرح اس سلطنت کے ماتحت اس میں مسلمانوں کو رہنا چاہیے اس کے لئے سبق اعتقاد کرتے ہیں کہ ہاں اگر مسلمان ایسے تنگ کئے جاویں جیسے کہ مکہ میں کئے گئے تو ان کے لئے یہاں زیادہ امن کی جگہ یقین کر کے ہجرت کرنا ہوگا.یہی طریق انبیاء کا ہے جن کی اقتداء کا پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد ہوا (الأَنعام:۹۱).موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے حضور درخواست دی (طٰہٰ :۴۸)یہی آخری علاج تکالیف کا ہے نہ عذر بلکہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو مکہ معظمہ کی حکومت قریباًسکھوں کی سی حکومت تھی اور ابتداء ً مدینہ طیّبہ کی حکومت جمہوری تھی.۲.غیر مسلم جج جب فرمانروا کی طرف سے ہے تو حقیقۃً فرمانروا ہی جج ہے اور اگر فرمانروا کی

Page 168

طرف سے نہیں بلکہ پنچائتی طور پر ہے تو یہی جائز ہے.اگر ضرورت پڑے آپ غور فرماویں.حضرت یوسفؑ حبس سجن نے بضرورت، بادشاہ کو خود منصف اپنے اس معاملہ کا فرمایا جس کے ماتحت بھیجنے والے تھے اور صاف فرمایا.َّ (یوسف :۵۱).۳.شرع محمدی نام ہے قرآنیu احکام، نبوی vفیصلہ،خلفائےw راشدین، صحابہxکے عملدر آمد بلکہ ائمہ دین مثلاً ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد، زفر، حسن وغیرہ کے فیصلہ ہا کا.آپ غور کریں فتاویٰ عالمگیری، قاضی خان بلکہ ہدایہ کے مقدمات دیوانی و فوجداری اور کل قوانین مناسب وہاں یکے از ہزار بھی قرآن و حدیث کا ذکر نہیں آتا.میونسپلٹی اور سیاست مدینہ کے قواعد کو چھانا جاوے تو غالباًسارا کا سارا عرف پر مبنی ہے اور فوجی قوانین پر تو خاص کتاب مسلمانوں کی میں نے نہیں دیکھی ممکن ہے کہ ہو مگر مجھے یقین ہے کہ اس میں قرآن و حدیث کا ذکر بطور تبرک ہو تو ہو ائمہ دین مثلاً ابو حنیفہ، شافعی، مالک، احمد حنبل، بخاری کا ذکر بھی انشاء اللہ تعالیٰ نہ ہو گا ان سے صاف پتہ لگتا ہے کہ ان امور میں آزادی وقتی ضرورت عرف سے کام لیا گیا ہے.(الحکم جلد ۱۳ نمبر ۳۸ مورخہ۲۱؍ دسمبر۱۹۰۹ ء صفحہ۲ تا۴)

Page 169

مکتوبات خلیفۃ المسیح (ا)السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کسی عورت کا اپنے شوہر سے پہلی عورت کا طلاق شرط کرنا عام طور پر شرع اسلام میں ناپسند ہے خاص طور پر فطرتاً جب ایک عورت دوسری بی بی کو پسند نہ کر سکے تو اس عورت کو اختیار ہے خود طلاق لے لے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ خدا کے بندے ہو کے رسول کی اُمت ہو کر لوگ زنا، جھوٹ، شراب خوری، فریب اور دغا سے باز نہیں آتے.احمدی کیونکر ان کو روک سکتا ہے.میرے نزدیک تو ایسے معاہدات سرے سے برے ہیں احمدی کرے یا غیر احمدی کرے.نام سے کیا بنتا ہے جب کام اچھے نہ ہوں.والسلام نور الدین ۱۳؍اپریل ۱۹۰۹ء (۲) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وضو کی آیت کریمہ(المائدۃ:۷)پرعملدرآمد کرنا فرض الٰہیہ سے ہے اور حدیث شریف پر عمل درآمد کرنا اس سے کم پایہ پر سنت اور مستحب ہے.حدیث کے حکم کے مطابق ابتداء وضو میں ہاتھ دھونا اور آیت کے رو سے پہلے منہ کا دھونا اور ہاتھوں کا کہنیوں تک دھونا اور پائوں کا ٹخنوں تک ملنا اور دھونا اور حدیث کے رو سے پائوں پر پانی تین بار ڈالنا ثابت ہے.شیعہ لوگ بھی الفاظ قرآنی پر زیادتی کرتے ہیں جیسے کہ ابتدائے وضو میں ہاتھ دھوتے ہیں اور سر کے مسح کے واسطے پانی لیتے ہیں اور بعض وضو سے پہلے پائوں دھو لیتے ہیں حالانکہ یہ سب قرآن شریف کے الفاظ پر زیادتی ہے.آپ ان سے پوچھیں کہ پہلے پہل ہاتھ آیت میں کہاں ہیں

Page 170

اور سر کے مسح کے لئے پانی سے ہاتھ تر کرنا اور مسح پائوں کے لئے ہاتھ تر کرنا کہاں ہے.آپ میری بات پر غور فرماویں.نور الدین ۲۰؍اپریل (۳) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حکم حاکم کے تابع ہوتا ہے اور علم معلوم کے تابع.جناب الٰہی کا علم بتاتا ہے کہ فرعون اور ابوجہل باوجود طاقت اور استطاعت کے جناب موسیٰؑ اور خاتم النبیین کا انکار کریں گے.پس وہ سزا کے قابل ہیں.آپ اگر تکلیف فرما کر ایک بار مجھ سے مل سکیں تو آپ کو بہ تفصیل عرض کروں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منکر بھی ایسے بہت ہیں جو جان و مال کو صرف الٰہی رضامندی کے لئے خرچ کرتے ہیں.ہزاروں عیسائی ، یہودی اور ہندو ایسے موجود ہیں آپ ان کے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں.تو کار زمین را نکو ساختی کہ با آسمان نیز پرداختی کا معاملہ نہ فرماویں.والسلام ۲۶؍جون ۱۹۰۹ء.....................(۱)توبہ اگر توبہ کریں تو توبہ ہمیشہ قبول ہے.(۲) نماز میں ہاتھ باندھنا چھاتی سینہ پر ہاتھ باندھنا صرف مسنون یا مستحب ہے اور یہ حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم ؐ سینہ پر ہاتھ باندھتے تھے اور آثار میں یہ بھی آیا ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے.

Page 171

(۳)بوجہ ملازمت سفر نماز نماز آپ پوری پڑھا کریں.( سوال یہ تھا کہ مجھے ہمیشہ ریل میں بوجہ ملازمت سفر رہتا ہے) (۴)جرابوں پر مسح جرابوں پر مسح جائز ہے.(البدر جلد ۹ نمبر ۱۱.مورخہ ۶؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۳) سوالات کے جوابات السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۱.سنتیں اور نفل روزانہ شرع اسلام میں موجود ہیں.دو سنتیں فجر کی نماز سے پہلے، چار سنتیں ظہر سے پہلے ، دو سنت دو نفل ظہر کے بعد، چار سنت عصر سے پہلے ،دوسنت مغرب کے بعد، دو سنت دو نفل عشاء کے بعد، آٹھ رکعت تہجد ، تین وتر ہر روز ثابت ہیں.یہی میری تحقیق ہے.اس کے سوائے تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضو … اشراق ہے.۲.وتر وں کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھنا سنت صحیحہ سے ثابت ہے.۳.زبان سے نیت نماز کی اسلام میں ثابت نہیں ہاں حج میں آئی ہے.۴.جو شخص سو جاوے یا بھول جاوے وہ جب جاگے یا جب اس کو یاد آ جاوے اس وقت نماز پڑھ لے اس کے لئے وہی وقت ہے.۵.عشاء کے بعد سو کر اٹھنے سے تہجد کا وقت شروع ہوتا ہے.۶.قبل نماز مغرب بعض صحابہ نے دو رکعت پڑھی ہیں.۷.ممانی کے ساتھ نکاح جائز ہے.۸.مردوں کو بال لمبے بڑھانے کے متعلق کوئی ممانعت شرعاً نہیں.ہاں نبی کریم ﷺ نے شانہ تک گاہے بال بڑھائے ہیں.۹.پیلو کی جڑھ (کا مسواک )عرصہ تک کرنا ممنوع نہیں.

Page 172

۱۰.سر کو ہمیشہ منڈوانا شرعاً ثابت نہیں.۱۱.میت کو ثواب و دعا ضرور پہنچتا ہے.۱۲.قرآن کا ثواب بھی پہنچتا ہے.۱۳.عصر و مغرب کے درمیان خود رسول اللہ ﷺ نے کھانا کھایا ہے.۱۴.قرآن کو ہاتھ بلا وضو جائز ہے.۱۵.طلوع اور غروب کے وقت نماز پڑھنا شرعاً ممنوع ہے.اگر نماز پڑھتے ہوئے سورج طلوع کرے یا غروب ہو جاوے تو اگر نمازی نے ایک رکعت پڑھ لی ہو تو اس کی نماز ہو جاتی ہے.۱۶.بعد فراغ، دعا ہاتھ اٹھا کر مانگنا منع نہیں.۱۷.جو شخص تیسری رکعت میں مغرب کے وقت ملے وہ دورکعت پڑھ کر التحیات کو بیٹھے.۱۸.ایک کپڑے میں نماز جائز ہے.مگر بہتر ہے کہ زینت کو ساتھ رکھے.۱۹.حمائل پہننے سے ریح خارج ہو تو گناہ نہیں.۲۰.تحیۃ الوضو ضروری نہیں.۲۱.ہاتھ سینہ پر اور ناف کے نیچے دونوں طرح جائز ہیں.۲۲.شب رات کی عید، گیارہویں ، بارہ وفات، محرم کے معاملات موجود شرع اسلام میں ثابت نہیں.۲۳.رسول کریم ؐ ہمیشہ سحری کھاتے تھے.۲۴.نماز میں روحانی، جسمانی ،دنیوی ، دینی سب دعائیں جائز ہیں.۲۵.بٹن لگانا ہی بہتر ہے.۲۶.لوگوں کا مسجد میںبیٹھ کر پھر اٹھ کر نماز پڑھنا، دائیں بائیں نماز کے بعد ہونا کوئی امر نہیں.۲۷.دھوتی سے نماز فاسد نہیں ہوتی.۲۸.ہاتھ سے قرآن کریم گر جاوے تو کوئی گناہ نہیں.۲۹.بے جا اپنی جان پر کوئی تشدد کرنا جس کا ثبوت شرع میں نہیں رہبانیت ہے.

Page 173

۳۰.فرضوں میں بعد فاتحہ کے سورۃ کا پڑھنا ممنوع نہیں.جواب ۱.نابالغ کی طلاق ہرگز نہیں ہو سکتی.۲.جو خاوند بی بی کو نان و نفقہ نہ دے میری تحقیق میں اس کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے.۳.کوئی نکاح بدوں رضامندی لڑکی اور اس کے وارث کے میرے نزدیک شرعاً اسلام میں جائز نہیں.میری تحقیق میں عورت ’’ ولی ‘‘ نہیں ہو سکتی.............................حضرت ابو بکر افضل ہیں یا حضرت مرزا صاحب کسی شخص نے حضرت امیر المومنین سے دریافت کیا کہ حضرت ابوبکر افضل ہیں یا ہمارے حضرت مرزا صاحب.آپ نے ایسے سوالات پر ایک پر جوش تقریر فرمائی جس کا خلاصہ میرے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ ایسے سوالات سے جو نہ انسان کو دنیا میں مفید ہوں نہ عاقبت میں پرہیز چاہیے.مسلمانوں میں بہت سی بیہودہ بحثیں ہوتی رہتی ہیں.مثلاً حضرت موسیٰ کا عصا، حضرت نوح کی کشتی کس لکڑی کی تھی.اصحاب کہف کے کتے کاکیا رنگ تھا.حضرت نوح کے بیٹے، حضر ت موسیٰ کی والدہ کا کیا نام تھا.خاتون جنت کا درجہ بڑا ہے یا حضرت مریم کا.اس طرح امّ المومنین خدیجہ و عائشہ اور خاتون جنت میں سے کس کا درجہ بڑا ہے.اس فضیلت کی بحث میں سے ایک بحث ہے حضرت ابوبکرؓ کے مدارج کی جس پر تیرہ سوبرس سے کتابیں لکھی جا رہی ہیں بلکہ کشت و خون تک نوبت پہنچی ہے اور کچھ فیصلہ نہیں ہوا.میں نے ایک خواب دیکھا جو یقینا سچا ہے.وہ یہ کہ حضرت علی ؓ سے میں نے مسئلہ فضیلت دریافت کیا.تو انہوں نے فرمایا کہ فضیلت انسان کی ان باتوں پر موقوف ہے جو دل کو جناب الٰہی سے تعلق ہے.اب اس تعلق کی خبر سوائے حضرت حق سبحانہ کے اور کس کو ہو سکتی ہے.ہمیں کیا ضرورت ہے اور کون سی مجبوری پیش آئی ہے کہ ان سوالات پر بحث کریں.

Page 174

یہ خلاصہ ہے اس لئے شائع کرتا ہوں کہ تا بیرون جات کے احمدی بھی ایسے سوالات پر بحث کرنے سے پرہیز کریں..........................رضا بقضا فرمایا.لقمان حکیم جس کے ملازم تھے وہ آقا جب کوئی چیز کھانے لگتا تو وہ حضرت لقمان کو بھی اپنے ساتھ شریک کر لیتا.ایک دفعہ چند خربوزے تھے جو آقا کو بہت خوشنما معلوم ہوئے.اس نے لقمان کو بلایااور خود خربوزہ چیر کر لقمان کو کھانے کے لئے دیا.لقمان نے بہت ہی شوق اور محبت سے کھایا حالانکہ وہ سخت ہی کڑوا تھا.آقا نے یہ دیکھ کر کہ لقمان بہت شوق سے کھا رہا ہے دوسرا خربوزہ بھی چیر دیا.مگر جب خو د چکھا تو تعجب سے پوچھا کہ لقمان ! یہ تو بڑا کڑوا ہے.حضرت لقمان نے کہا.حضور اتنی مدت میں آپ کے ہاتھ سے شیرینی کھاتا رہا ہوں اگر ایک دفعہ کی تلخی پر شکایت کروں تو بہت ہی بری بات ہے.انسان پر جب کوئی مصیبت آئے توگھبرائے نہیں اور بے صبر ی کے کلمات منہ سے نہ نکالے اور یہ خیال کر ے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کیا کیا احسانات و انعامات کئے ہیں کیا ہوا اگر ہماری اصلاح کے لئے کبھی کوئی تلخی بھی بھیج دے.( البدر جلد۹ نمبر۱۲ مورخہ ۱۳؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ۳) مکتوبات امیر المومنین عزیز من! ذر ا آپ ایک طرف (المؤمن:۵۲) اور اس قسم کی آیات کو مطالعہ فرماویں اور دوسری طرف نبی کریم ﷺکی محنتیں، دعائیں، وعظ ملاحظہ کریں اور تیسری طرف شیعہ سے دریافت کریں کہ نبی کریم ؐ سے فائدہ کی بجائے نقصان ہی نقصان ہوا ابوجہل وغیرہ تو کافر ہی تھے.ابوبکرؓ، عمرؓ ،عثمان ؓاور کل صحابہ و ازواج بھی کافر مرتد

Page 175

ہی رہے اور ان کے اتباع بھی کافر ہی ہیں.رہے حضرت مرتضیٰ وہ تو ازل سے ماں کے پیٹ میں ہی کامل پیدا ہوئے.سلمان، ابو ذر، مقداد صرف آپ کی صحبت سے کسی قدر اسلام میں آئے.تو اب شیعہ مصنف و واعظ و ذاکر، سوز خوان کیا نبی کریم ؐ سے زیادہ موثر ثابت ہو سکتے ہیں.میں نے بعض وقت پوچھا ہے کہ نبی کریم کے وجود سے ۲۳ برس میں کوئی متاثرنہ ہوا تو کیا تم آپ سے زیادہ مفید بن سکتے ہو.وہ رحمت للعالمین کیونکر ہوئے.اصول شیعہ کے خلاف کیا کہ ذی النور ین کو بدکار کہا.معلوم ہوتا ہے کہ خدا اورسول جان بوجھ کر مکاری بد ی کراتے ہیں.نَعُوْذُبِا للّٰہِ مِنْ ہٰذِہٖ الْخَرَافَات.شیعہ مترجم و مفسر تو (البقرۃ:۱۶)کا ترجمہ یوں کرتے ہیں.اللہ ڈھیل اور مدد دیتا ہے حالانکہ وہ طغیان میں اندھے رہتے ہیں.مطلب یہ کہ ہم تو فضل سے مہلت دیتے ہیں اور یہ طغیان کرتے ہیں.مد طغیان کے حدود کو اللہ تعالیٰ ہی جانے بندے اس کی حدبندی نہیں کر سکتے.ائمہ اثنا عشر من قریش حضر ت ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، مرتضیٰؓ،حسنؓ، معاویہؓ، عبدالملک ، عبدالملک کے چار بیٹے ، عمر بن عبدالعزیزؓ ہیں.نبی کریم ؐ کی بشارت کا منشاء تھا کہ بارہ خلفاء کے زمانہ میں شوکت اسلام قائم رہے گی.سلطنت میں تفرقہ نہ ہو گا.قرآن کریم اور اس کے بعد حکماء کے اقوال سے ثابت ہوا ہے کہ ہر ایک سوال کا جواب دینا مناسب نہیں.مگر آپ کی خاطر بھی عجیب ہے کہ تمام سوالوں کا جواب دینے لگ گیا.اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم فرما وے.نقباء اسعدبن۱ زرارہ.عوف بن۲ الحارث.معاذ بن۳ عفراء ، ذکوان بن۴ عبدالقیس ، رافع بن۵ مالک ، عبادہ بن۶ الصامت ، عباس بن ۷عبادہ ، یزید بن۸ ثعلبہ، عقبہ بن۹ عامر ، قطبہ بن۱۰ عامر یہ دس قوم خزرج میں سے تھے.ابو الہیثم ۱۱بن تیہان.عویم بن۱۲ ساعدہ یہ دو اوس سے ہیں.اور یہ نقباء وہ ہیں جنہوں نے لیلۃ العقبہ میں مدینہ سے مکہ میں آ کر آپ سے بیعت کی.شیعہ کی مسلّم تاریخ ناسخ التواریخ اور اَور تواریخ میں لکھا ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کی اولاد

Page 176

بہت تھی منجملہ ان کے میں چند نام اسی ناسخ التواریخ سے لکھتا ہوں.ساموع۱.ساخوب۲.ناثان۳.سلیمان۴.یوحنا۵.بار۶.الیشع۷.بغاح۸.بقع۹.ا لیسع۱۰.الیدع۱۱.ایفسلط۱۲ وغیرہ وغیرہ.پھر عجب بات ہے کہ تمام اولاد میں صرف سلیمان وارث دائود ہوئے.یہ امر تو ثابت کرتا ہے کہ انبیاء کا ورثہ دنیوی رنگ کا نہیں تھا.اب ہم وارث سلیمان دائود جو قابل غور ہے اس پر غور کرتے ہیں.پھر ہم دیکھتے ہیں وَاِلٰی رکوع والے ورثہ کو دل میںنگاہ رکھ کر ابتداء سورۃ کے غور کریں تو ان تمام یا اکثر احکام میں نبی کریم ﷺ کو آپ شریک نہ پائیں گے.علاوہ بریں سورہ حشر میں فدک وغیرہ کا ذکر موجود ہے.وہاں ممانعت کر دی ہے کہ (الحشر:۷)کا کوئی وارث نہیں.بلکہ اس کے اس مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ اس مال سے متمتع بھی نہیں ہو سکتے ہاں سنی نفع اٹھا سکتے ہیں.آپ غور کریں(الحشر:۱۱).یہ شیعہ تو اکثر ائمہ کے اولاد کو اور ان کے بھائیوں کو بھی مثلاً زین بن علی بن حسین اور اسماعیل بن جعفر اور ایک جعفر کو اور اولاد امام حسن کو کیا یقین کرتے ہیں.بلکہ ان کے متاخرین نے تو حد کر دی ہے کہ حسن مثنے کو لا ولد قرار دے دیا.اس طرح تمام مدعیان حسنی سیادت کو کاذب قرار دے دیا.اور ادھر حسینی سادات مغرب ومکہ نے کہہ دیا کہ جناب حسین علیہ السلام طالب سلطنت ہوئے اس لئے کربلا میں ان کا خاتمہ ہو گیا.اور ہمارے مورث حسن نے چونکہ خود سلطنت چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ نے بجائے اس کے مکہ و مغرب کی سلطنت ہم کو ہمیشہ کے لئے عطا کر دی.ذرا اس مقابلہ پر غور کرو.لَا نَرِ ُث وَ لَا نُوْ رَ ُث (لسان العرب حرف السین فصل النون) پر عرض ہے کہ اگر اس حدیث پر اعتبار نہ کیا جاوے تو تمام احادیث پر اعتبار نہ کیا جاوے.تو اس ضمن میں یہ تاریخی حدیث کہ جناب بتول نے دعویٰ کیا اور عاصیوں نے نہ سنا.آخر حدیث ہے.اس کو اسی مرویات میں ڈالا

Page 177

جاوے.اور اگر احادیث کو معتبر جاننا ہے تو اس کی کوئی راہ بتاویں کہ کس طرح احادیث کو صحیح وغیر صحیح مانا جاوے.جو قاعدہ حکیم محمد علی خان صاحب تجویز فرماویںاس قاعدہ پرسنی و شیعہ کے احادیث کو رکھ کر منجملہ ان کے اس حدیث کو پر کھا جاوے.میرے نزدیک بات بہت آسان ہے.نمبر ۱ شیعہ کی حدیث تو سنی مانتے نہیں اور سنیوں کی حدیثیں شیعہ نہ مانیں.چلو یہ اختلاف ہی ختم ہوا کہ یہ حدیثیں اور یہ جھگڑے ہی باطل ہیں.نمبر ۲ پہلے تحقیق کیا جائے کہ آیا نبی کریم کا کوئی مال ورثہ تھا یا نہ تھا.اگر قرآن کریم سے ورثہ یا مال متروک ثابت ہو جائے تو پھر لَا نَرِ ُث وَ لَا نُوْ رَ ُث والی حدیث قابل بحث ہو سکتی ہے.اگر مال نہ ہو اور ورثہ احادیث سے ثابت کیا جاوے تو جن احادیث صحیحہ سے وہ ورثہ ثابت ہوتا ہے ان کے مقابلہ میں لَا نَرِ ُث والی حدیث کا موازنہ کیا جاوے جو وزن میں بھاری ہے وہ صحیح ہے یا رائج ہے.نمبر۳ سورۃ حشر کے آیات (الحشر:۷)سے ثابت ہوتا ہے کہ مَا تَرَ کْنَا صدقہ ہے.اور یہ وَ لَا نَرِ ُث کی تائید ہے.آیت استخلاف میں مشابہت کی تفصیل اس جگہ تو اللہ تعالیٰ نے بھی فرمائی.مگر خلفاء گزشتہ دو قسم کے قرآن کریم میں بیان ہوئے.بعض بادشاہ و سلطان ہیں صاحبِ ملک ہیں جاہ وحشم رکھتے ہیں اور بعض غریب مسکین ہیں.دائود وسلیمان علیہما السلام بادشاہ ہیں تو یحییٰ اور الیسع و لقمان یا نوح ؑ غربابھی ہیں.پھر صاف ظاہر ہے کہ خلفاء کے دونوں رنگ ہوتے ہیں.( البدر جلد۹ نمبر۱۳ مورخہ ۲۰؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۳) (۱) پرانی مسجد کااسباب پرانی مسجد کااسباب جس قدر نئی پر لگ سکے لگاؤ باقی بیج کر اس کے بدلے اور لے لو.(۲)مسجد پر بضرورت دوسرا مکان پہلی مسجد پربضرورت دوسرا مکان بشرطیکہ زمین کی قیمت دوسرے پر لگائی جاوے.جائز ہے.منافقوں کی مسجد مسجد الٰہی نہ تھی بلکہ شرار ت تھی.اس جگہ کو پاخانہ بنایا گیا.(نور الدین )

Page 178

چند سوالات کے جواب (۱)جنّ اور شیطان جنّ اور شیطان کا لفظ قرآن شریف میں بہت معانی پر بولا گیا ہے.بعض قوموں کو بھی جنّ اور شیطان کہا گیا ہے بعض جَرم ( باریک کیڑے)کے لئے بھی جنّ کا لفظ بولا گیا ہے.مثلاً طاعون، ہیضہ وغیرہ کے جَرم جو خوردبین سے دیکھے جاتے ہیں.بھوت اور چڑیل گو ہمارے ملک کے لفظ ہیں مگر میں ان کے معانی کو نہیں جانتا.البتہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ بعض بیمار بیماری کے ظہور سے پیشتر بھیانک اور دہشت ناک شکلیں خواب میں دیکھتے ہیں پھر بیمار ہوتے ہیں.گویا اُن ڈراؤنی شکلوں کا نقشہ ایسا ہوتا ہے جیسے ہندوستان کے پرانے مذہب میں بھوت چڑیل کی شکلیں دکھائی گئی ہیں.مثال کے لئے کابوس کے مریض پر غور کرو.(۲) سحر اور اس کے معانی جادو نام ہے سحر کا.سحر کے اقسام بہت ہیں.دلربا تقریر اور طب کے علم کو بھی سحر کہا گیا ہے.خوش تقریر خطیبوں کو بھی ساحر کہا گیا ہے.حضور نبی کریم ﷺ کو بھی مکہ والوں نے ساحر کہا ہے.خدا ئے تعالیٰ کے اکثر پیارے بندوں کو دنیا والوں نے ساحر کہا ہے.چنانچہ ہمارے مرزا صاحب ؑ کو بھی لوگوںنے ساحر کہا.دقیق النظر آدمی کو بھی ساحر کہا گیا ہے.اور ان علوم سے لوگوں کو نقصان بھی پہنچ سکتاہے.(۳) شیطان سے بچنے کا طریق شیخوں کے بیٹے شیخ اورراجپوتوں کے بیٹے راجپوت، سیدوں کے سید ہوتے ہیں.اس کو تو شاید آپ مانتے ہی ہوں گے.بس آدم کا بیٹا آدم ہوا.چونکہ میں بھی آدم کا بیٹا ہوں اس لئے میں بھی آدم ہوں مجھ کو تو اپنے شیطان کا فکر رہتا ہے.بعض ابلیس کی شراروں کو میںنے طبی دوکانوں میں دیکھا ہے کہ لوگوں کو آتشک کا مرض ہوتا ہے جو آتش سے مشتق ہے.سوزاک ہوتا ہے جس میں سوز اور سوزش اورسوختگی موجود ہے غضبی بخار بھی لوگوں کو چڑھتا ہے.میں نے اپنے شیطان کو دیکھا بھی ہے.مجھ کو تو وہ آتش کا شرارا ہی نظر آیا ہے ممکن ہے کہ آپ کا شیطان بھی کوئی آتش کا پرکالہ ہو.آپ لاحول اور استغفار سے کام لیں اور اپنے آپ کو شیطان کا جلوہ گاہ بنانے سے بچائیں.

Page 179

(۴)شفاعت رسول نبی کریم ؐ شفیع ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ(النساء:۶۵) اس میں صاف بیان فرمایا گیا ہے کہ گنہگاروں کے لئے اگر رسول بھی استغفار کرے تومعافی مل سکتی ہے اور سورہ زخرف میں ہے. (الزخرف:۸۷)یہاں صاف ظاہر ہے کہ شفیع وہ شخص ہے جس نے حق کی گواہی دی اور مکہ والے اس کو جانتے ہیں یعنی حضور نبی کریم ﷺ.(۵) آدم اور اس سے متعلقہ امور میں نے اوپر لکھا ہے کہ آدم کا بیٹا آدم ہوتا ہے.آدم کو خدا تعالیٰ نے کچھ حکم کئے تھے اور کچھ مناہی.مثلاً (البقرۃ:۳۶) اور ساتھ ہی فرما دیا تھا.اس طرح مجھ کوبھی کچھ اوامر اورنواہی فرمائے ہیں.جب میں نواہی کا ارتکاب کرتا ہوں تو میری روح مقام آرام سے نکل جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ جو شخص بادشاہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اس بادشاہ کے آرام کے مقام میں نہیں رکھا جاتا.آدم کا جنت اسی دنیا میں تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (البقرۃ:۳۱).قرآن شریف میں کہیں گناہ (جناح) کا لفظ آدم کی نسبت نہیں آیا.جناح اور جرم کے لفظ قرآن شریف میں آدم کی نسبت آج تک مجھ کو کہیں نظر نہیں آئے.آپ لکھتے ہیں کہ وہ پیغمبر تھے.مجھ کو ایسی بھی کوئی آیت معلوم نہیں جس میں بیان فرمایا ہو کہ آدم پیغمبر تھے.( اکبر شاہ خاں بحکم امیر المومنین ).....................بیوہ کی عدت متوفی عنہا زوجہا ( بیوہ ) کی دو عدتیں قرآن میں علیحدہ علیحدہ ہیں.  (النساء:۷۹).(۱)متوفی عنہا زوجہا غیر حاملہ اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے اور اس کے لئے وصیت ہو کہ سال تک خود نہ نکالنا سورۃ بقرہ.

Page 180

(۲)بیوہ حاملہ اس کی عدت وضع حمل ہے.گواسی دن بچہ جن دے جس دن خاوند مرا یا چند روز چارماہ دس روز کے اندر یا فرض کرو خاوند مرنے سے نو ماہ دس ماہ کے بعد بچہ پیدا ہو جب پیدا ہو تب ہی عدت پوری ہو گی یہ سورۃ طلاق کا حکم ہے. (النساء:۷۹).مطلقہ کی عدت مطلق مطلقہ کی تین عدت ہیں.(۱)اوّل جن کو حیض آتا ہے ان کے لئے ثلٰثۃ قروء کا حکم ہے.(۲) جن کو حیض نہیں آتی، آتی ہی نہیں یا بوڑھی ہو گئیں حیض آنا موقوف ہو گیا ان کے لئے تین ماہ.سورۃ بقرہ.(۳)حاملہ مطلقہ، اس کی عدت وضع حمل سورۃ طلاق.وَ اَقُوْلُ  (النساء:۷۹).ان آیات کریمہ کا بیان تعامل اور احادیث صحیحہ میں بہت ہی بسیط آ چکا ہے مگر آپ کے لئے یہ مفید ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ قرآن کریم کا شغل بغرض عمل ضرور رکھو بڑی مقدس کتاب ہے.( نور الدین ) (البدر جلد۹ نمبر۱۴ مورخہ ۲۷ ؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۳) کیا حضرت مرزا صاحب نے کسر صلیب کی؟ ضلع گجرات سے ایک صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں ایک سوال لکھا ہے جو اصل بمعہ جواب فائدہ عام کے واسطے درج کیا جاتا ہے.سوال حضرت خلیفۃ المسیح الموعود ؑ! بعد ادائے آداب عرض خدمت ہے کہ مسیح موعود کی نسبت حدیث میں آ چکا ہے کہ وہ صلیب کو توڑے گا اور حضرت مرزا صاحب کا کسر صلیب کرنا دلیل وحجت سے ثابت نہیں ہوتا اس لئے کہ مرزا صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہودیوں کے اعتقادی مکر کی تردید و تضلیل

Page 181

کی اور یہودیوں کا اعتقاد یہ تھا کہ مصلوب کی روح ملعون ہوتی ہے اور جن امور کے لحاظ سے مصلوب کی روح ملعون ہوتی ہے وہ تمام امور تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نعوذ باللہ واقع ہو ئے صرف جان ہی سلامت لے کر گئے.جو ان امور میں جن کے لحاظ سے مصلوب کی موت لعنتیوں کی موت ہے شامل ہی نہیں.کیونکہ اگر ایسا ہوتو نعوذبا للہ تمام موتیں ایسی ہوں.یہ ایسی فاسد تفسیر ہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کی ذات مقدس اور اس کے معصوم نبی کی ذات پر بڑا بھاری داغ آتا ہے.اگر یہ کہا جاوے کہ ان کے اعتقادی مکر کی تردید نہیں کی بلکہ صرف ان کے اعتقاد کی تردید کی.تو(اٰل عمران:۵۵)(اٰل عمران:۵۶) کے کیا معنے ؟ جواب از پیش گاہ حضرت خلیفۃ المسیح والمہدی قادیان بسم اللّٰہ الرحمٰن الرَّحِیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم جناب …… صاحب بعدما وجب آپ کا کارڈ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پہنچا.جس میں آپ نے دریافت فرمایا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کس طرح کاسر صلیب ہوئے اور حضرت مسیح کے متعلق آیات کی تفسیر جو حضرت مرزا صاحب نے کی ہے اس کو آپ نے فاسد قرار دیا ہے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس معاملہ میں غور اور توجہ سے کام نہیں لیا.آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے خیال میں کسی شخص کا ملعون ہونا اس کے گرفتار کیا جانے، صلیب کا فتویٰ پانے اور صلیب پر باندھا جانے سے ثابت ہو جاتا ہے خواہ بعد میں وہ شخص زندہ ہی رہے.ہم اس امر پر بحث کرنا نہیں چاہتے کہ آیا آپ کا خیال صحیح ہے یاغلط.کیونکہ واقعہ صلیب کے موقعہ پر نہ آپ موجود تھے اور نہ آپ کا کوئی ہم خیال فریق مقدمہ تھا.لیکن ہم یہ دیکھیں گے کہ آیا وہ دو قومیں جن کے درمیان یسوع کے نبی یا ملعون ہونے کے متعلق جھگڑا پیدا ہوا اور اب تک ہے ان کا عقیدہ اس معاملہ میں کیا ہے کہ ملعون کسے کہتے ہیں.کیونکہ کسر صلیب

Page 182

اس لحاظ سے ہوگی کہ اہل صلیب کا عقیدہ کیا ہے نہ اس لحاظ سے کہ آپ کا عقیدہ کیا ہے.سو یہودیوں کے نزدیک ملعون ہونے کے واسطے صلیب پر موت ضروری تھی اور جیسا کہ انجیلوں سے ظاہر ہے وہ یسوع کی صلیبی موت کے خواہاں تھے چنانچہ واقعہ صلیب کے بعد بھی ان کو یہ فکر رہی کہ اس کی موت کا امر مشتبہ نہ ہو.اور اسی واسطے حاکم کے پاس آئے اور کہا کہ ایسا نہ ہو کہ اس کے شاگرد اسے قبر میں سے چر ا لے جاویں اور لوگوں سے کہیں کہ وہ جی اٹھا اس سے بھی ظاہر ہے کہ اس کی موت میں اس کا ملعون ہونا مانتے تھے نہ کہ صرف تکالیف اٹھا کر بچ رہنے میں.ایسا ہی یسوعی صاحبان کا مسئلہ کفارہ مکمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ یسوع مرکر ملعون اور جہنمی نہ بنے.پس ظاہر ہے کہ یہودیوں اور یسوعیوں ہر دو کے عقائد کے مطابق حضرت مسیح کے صلیب پر مر جانے کے فعل سے اس کا ملعون ہونا پورا ہوتا ہے نہ کہ اس کے صلیب پر سے بچ رہنے میں اور چونکہ حضرت مرزا صاحب نے یہ امر ثابت کر دیا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرا بلکہ بچ گیا.اپنی اس دعا کے مطابق جو اس نے ساری رات رو رو کر خدا تعالیٰ کے حضور میں کی تھی اور جس کا ذکر کتاب عبرانیوں کے پا نچویں باب میں بھی آیا ہے کہ اس کے تقویٰ کے سبب اس کی دعا سنی گئی.پس جب کہ وہ صلیبی موت سے بچ گیا تو وہ ملعون نہ ہوا اور جیسا کہ لارڈ بشپ صاحب نے لاہور میں اپنے ایک لیکچر میں ہزاروں آدمیوں کے جلسہ میں فرمایا تھا کہ اگر یسوع صلیب پر مر نہیں گیا اور پھر تیسرے دن جی نہیں اٹھا تو دین عیسوی ہیچ ہے.یسوع کے صلیبی موت کے ابطال کے ساتھ ہی دین یسوعی ہیچ اورباطل ثابت ہو گیا.سو جس بات کو خصم نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ اس کے ثبوت سے دین یسوعی کی بیخ وبن اُ کھڑ جاتی ہے اس کو آپ کس طرح کہتے ہیں کہ اس سے کسر صلیب نہیں ہوئی.دین یسوعی کا بڑا مسئلہ کفارہ ہے اور کفارے کی چھت اس ایک ہی ستون پر کھڑی ہے جس کا نام ہے صلیبی موت.جب یہ ستون ٹوٹ گیا اور چھت خاک میں مل گئی تو پھر تعجب ہے کہ آپ کس طرح کہتے ہیں کہ حضرت مرز ا صاحب نے کسر صلیب نہیں کی.اور اگر کسی کے دل میں یہ وسوسہ ہو کہ یہودیوں کی کتاب میں یہ لکھا تھا کہ جو کاٹھ پر لٹکایا گیا سو لعنتی ہے اور حضرت مسیح کاٹھ پر لٹکائے تو گئے خواہ مرے نہ ہوں وہ مصلوب ہو گئے تو یہ وسوسہ یہودیوں

Page 183

کی شریعت سے ناواقفیت پر مبنی ہے.توریت کتاب استثناء باب ۲۲ آیت ۲۲ جہاں یہ حکم ہے وہاں قتل اور موت کے الفاظ کاٹھ پر لٹکایا جانے کے ساتھ صاف درج ہیں.اور اسی آیت کے مطابق یسوع کو صلیب سے جلد اتارنے کے واسطے کہا گیا تھا.کیونکہ اس آیت میں لکھا ہے کہ ایسے مقتول کی لاش رات بھر کاٹھ پر لٹکی نہ رہے ورنہ زمین ناپاک ہو جاتی ہے.لاش کا لفظ خود بتلا رہا ہے کہ مرنا لازمی رکھا گیا ہے اور یہودیوں نے بھی سمجھ لیا تھا کہ یسوع مر گیا ہے.آجکل بھی اس محاورہ کی تصدیق ہوتی ہے اخباروں میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے پھانسی پائی.اس کے معنے یہی کئے جاتے ہیں کہ گلے میں رسی ڈالنے کے ذریعہ سے قتل کیا گیا اور مر گیا.رسی یا لکڑی صرف ذرائع اور ہتھیار ہیں جن کے ذریعہ سے موت وارد کی جاتی ہے جب تک کہ کوئی شخص مر نہیں جاتا اس کو نہیں کہہ سکتے کہ وہ مصلوب ہو گیا.صرف تذلیل سے اگر کوئی شخص ملعون ہو سکتا ہے تو پھر مثلاً حضرت یوسفؑ کے قتل کا منصوبہ کیا گیا اس کے کپڑے اُتارے گئے اُسے ننگاکیا گیا ، اُسے تاریک کنویں میں ڈالا گیا.گویا وہ اپنی طرف سے تو قتل کر چکے تھے جیساکہ یہود حضرت مسیح کوکر چکے تھے.مگر یوسف ؑ بعینہٖ یسوع کی طرح موت کے منہ سے بچا.یہودی عقائد کے مطابق حضرت یو سف کو کہیں ( نعوذ باللہ ) ملعون نہیں کہا گیا.حالانکہ یسوع سے بڑھ کر ایک ظلم حضرت یوسف ؑ پر یہ ہوا کہ اُسے غلام بنایا گیا اور بنی اسماعیل اہل عرب کے ہاتھ بیچا گیا اور اس لحاظ سے بنی یوسف اہل عرب اسماعیلیوں کے غلام ہیں اور نسب نامہ متی کے مطابق یسوع بھی اسی یوسف کی اولاد میں سے تھا.یہی راز ہے کہ حضرت مسیح موعود کا نام بھی اسی مماثلت کے سبب غلام احمد ہوا.پہلا مسیح بذریعہ اپنے نسب نامہ کے آنحضرت ﷺ کا غلام زادہ تھا.پھر یہ تو آنحضرت ؐ کا خود غلام ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.؎ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے یہی سبب ہے کہ حضرت عیسیٰ کا نام ابن مریم ہوا کیونکہ انہوں نے روحانیات میں ابنیت کا مرتبہ طے کیا تھا اور خودمریمی درجے کو حاصل نہ کیا تھا.

Page 184

الغرض وہ تمام تکالیف جو آپ کے خیال کے مطابق لعنت کے مفہوم کے واسطے کافی ہیں حضرت یوسف ؑ پر وارد ہو گئیں لیکن اُسے کوئی ملعون نہیں کہتا.ملعون صرف اسے کہا جاتا ہے جس پر کاٹھ پر لٹکنا اور وہیں مر جانا ہر دو باتیں وارد ہوں.پس سچی بات یہی ہے کہ جس طرح حضرت مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کے ثبوت سے کسر صلیب ہوتی ہے اس طرح کسی اور بات سے نہیں ہوتی.اور میں آپ کو ایک خوشخبری سناتا ہوں کہ حال میں ایک پورانی انجیل ظاہر ہوئی ہے جس کو بڑے بڑے پادری آج تک دباتے چلے آتے تھے.اس کا انگریزی ترجمہ اب امریکہ میں چھپ گیا ہے اس میں صاف لکھا ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر مرے نہ تھے بیہوش ہو گئے تھے مگر اس وقت سب نے یہ خیال کیا کہ مر گئے ہیں.جب صلیب سے اُتارا تو کسی ایک آدھ نے محسوس کیا کہ جان باقی ہے اس واسطے پہرہ داروں کی منت خوشامد کر کے ہڈیوں کے توڑنے سے بچا لیا.یہودی کوئی موجود نہ تھا سب عید فسح کی تیاری کے سبب چلے گئے اس واسطے جان بچ جانے کے اسباب پیدا ہو گئے اور جان بچا کر وہ کسی اور ملک کو چلے گئے.اُمید ہے کہ آپ کی تشفی کے واسطے یہ کافی ہو گا.ہاں اتنی بات آپ کی اطلاع کے لئے اور لکھ دیتا ہوں چونکہ آپ مشن اسکول میں کام کرتے ہیں اس لئے آپ کے لئے مفید ہو گی اور وہ یہ ہے کہ آپ نے جو اپنے خط میں یسوع کے نبی معصوم ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور یسوعی لوگ اکثر اس بات کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں سو اس کے جواب میں ایک مختصر بات ہے.انجیل میں تو صاف لکھا ہے کہ اس نے نیک ہونے سے بھی انکار کیا اور ظاہر ہے جو نیک نہیں وہ معصوم کیونکر ہے اور قرآن شریف میں کہیں عصمت کا لفظ حضرت عیسیٰ کے متعلق نہیں بولاگیا.ہاں قرآن شریف میں حضرت نبی کریم ﷺ کو معصوم کہا ہے.پس حضرت عیسیٰ کی عصمت کے متعلق قرآن شریف خاموش اور انجیل منکر ہے.پس کس طرح یسوعی لوگ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں.والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ خادم محمد صادق عفی اللہ عنہ قادیان ۲۵ ؍جنوری ۱۹۱۰ء (البدر جلد۹ نمبر۱۵ مورخہ ۳ ؍فروری ۱۹۱۰ء صفحہ ۴،۵)

Page 185

مباحثات اور تبلیغ و وعظ فرمایا.مومن کبھی مباحثات کی ابتدائً خواہش نہ کرے.اپنے علم پر اپنی زبان پر کسی قسم کا گھمنڈ دل میں نہ لائے اور خدا کے حضور گر پڑے اور نفسانی جوش کا مطلق دخل نہ ہو بلکہ جو کچھ کہے یا کرے للہ ہو تو وہ شخص ابراہیم بن جاتا ہے اور خدا اپنے فضل خاص سے اس کا بن جاتا ہے اور اسے وقت پر وہ باتیں سمجھاتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ گزری ہوں.دوسراموقع تبلیغ ووعظ کا ہے.اس میں پہلے بقدر اپنی طاقت کے مضمون سوچے پھر سارا بھروسہ اللہ پر رکھے کیونکہ اس تقریر کے لئے اثر پیدا کرنا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے پھر خدا تعالیٰ اس شخص کی بات کو ضائع نہیں جانے دیتا.بڑی عمر میں حفظ قرآن ایک شخص یہاں آیاجو میری محبت سے معمور نظر آتا تھا میں نے اسے پوچھا تو اس نے کہا.آپ نے ایک دفعہ درس میں فرمایا تھا اگر کوئی شخص قُلْ ھُوَ اللّٰہُ جتنا قرآن ہر روز یاد کرے تو ۷سال میں حافظ ہوجائے.میں نے اس پر عمل شروع کیا.اب ستائیسواں پارہ حفظ کرتا ہوں.دیکھو ہماری بات ضائع نہ گئی.مقطعات قرآنی ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی عبدالقدوس صاحب کی گود میں پانچ خوبصورت لڑکے ہیں جو میں نے اچک لئے ہیں.ان سے میں نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے تو وہ بولے .دوران نماز مقطعات قرآنی کی تفہیم فرمایا.ایک مرتد نے ترک اسلام میں مقطعات قرآنی پر اعتراض کیا نمازمیں غالباًبین السجدتین دعا کرنے پر ایک پَل میں ان کا راز مجھ پر کھل گیا.اولاد کی ضرورت فرمایا. (الشوریٰ:۵۰) کو پہلے رکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی بڑا فضل ہے.فرمایا.ہماری بہت سی اولاد مری بھی ہے لیکن ہم نے ہرحالت میں اللہ کا شکر کیا یہاں بھی اولاد کی ضرورت ہے اور آگے بھی.جو یہاں کے لائق نہ تھاخدا نے اسے آگے بطورفرط رخصت فرما دیا.

Page 186

بدصورت یا بری بیویوں سے حسن معاشرت کا حکم فرمایا.محسن بن جاؤ تاتم پر بھی حضرت ابراہیم ؑ کے انعام ہوں اور تم کو ایسی اولاد ملے جو ان کو ملی.حسین بی بی سے تو خود بخود محبت کی جاتی ہے حکم یہ ہے کہ بیوی بد صورت یا بُری ہو تو بھی اس کے ساتھ نیک معاشرت کرو کیونکہ فرمایا.(النساء : ۲۰).کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃِ ایک گروہ صوفیا کا کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر کوئی چیز فرض و لازم نہیں چاہے تو انبیاء کو دوزخ میں ڈال دے اور کفار کو بہشت میں.یہ کلمہ بے ادبی کا ہے اور یہ راہ افراط کی ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا ہے(الروم: ۴۸).(۲) حضرت نبی کریم نے معاذ کو اونٹ پر اپنے پیچھے بٹھایا اور اثنائے کلام میں فرمایا مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ (صحیح بخاری کتاب اللباس باب ارداف الرجل خلف الرجل).بندوں کے حقوق اللہ پر کیا ہیں.(۳) اذان کے ساتھ اذان کے کلمات پڑھنے کا حکم ہے صرف حَیَّ عَلَی الْفَلَاح میں اختلاف ہے.بعض کہتے ہیں کہ صرف لاحول پڑھے بعض یہ کہ یہ کلمات بھی دہرائے اور اذان کے بعد درود پڑھے اور پھر دعا مانگے.اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَ الصَّلٰوۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَ انِ الْوَسِیْلَۃَ وَ الْفَضِیْلَۃَ وَ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَنِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ.(صحیح بخاری کتاب الاذان باب الدعا عند النداء) اس دعا کے نتیجہ میں لکھا ہے وَجَبَتْ لَـہٗ الشَّفَاعَۃَ یہاں وجوب کا لفظ ہے.قادیان میںپہلی آمد میں جب پہلے پہل قادیان میں آیا تو یکّہ بان نے مجھے مرزا امام دین کی رہنمائی کی کہ یہی مرزا صاحب ہیں.اس کو دیکھتے ہی میرے قلب پر کچھ ایسا انقباض طاری ہوا کہ میں نے کہا کہ اگر یہ مرزا ہے تو تم ٹھہرو میں ابھی واپس جائوں گا.وہاں میں بیٹھ گیا مگر بادل نخواستہ.اس نے خود ہی کہا کہ آپ مرزا صاحب کو ملنا چاہتے ہیں.اس وقت میری جان میں جان آئی اور میں نے خدا

Page 187

کا شکر کیا.ایک آدمی میرے ساتھ کیا اور میں آپ کے مکان پر پہنچا.معلوم ہوا کہ آپ عصر کے وقت مل سکیں گے چنانچہ آپ اس وقت سیڑھیوں سے اترے تو میں نے دیکھتے ہی دل میں کہا کہ بس یہی مرزا ہے اور اس پر میں سارا ہی قربان ہو جائوں.آپ دور تک میرے ساتھ چلے گئے اور مجھے یہ بھی فرمایا کہ امید ہے کہ آپ جلد واپس آجاویں گے حالانکہ میں ملازم تھا اور بیعت وغیرہ کا سلسلہ بھی نہیں تھا چنانچہ پھر میں آگیا اور ایسا آیا کہ یہیں کا ہو رہا.مومن میں ایک فراست ہوتی ہے.فوت شدگان کے حالات سے آگاہی حضرت امیرالمومنین نے(الانعام:۱۱۲) کے بارے میں فرمایا.کوئی چالیس پچاس برس کی بات ہے.میں نے خواب میں ایک شخص کو موتٰیمیں دیکھا جو بیمار معلوم ہوتا تھا.میں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا فلاں محبوبہ (جس کی شکل میرے سامنے کی گئی) کے عشق میں یہ حالت ہے.میں فاصلہ پر رہتا تھا کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ واقعی اسی دن وہ مرا.پھر میں نے اس کے عشق کے بارے میں اس کے ایک خاص دوست سے دریافت کیا تو اس نے بڑا تعجب کیا وہ کہنے لگا اس بات کا علم سوائے میرے اور عاشق معشوق کے اور کسی کو ہرگز نہیں.کچھ دنوں بعد میں نے لڑکیوں میں اس لڑکی کو بھی پہچان لیا اور تصدیق بھی کر لی.دوم.ایک شرابی فاسق فاجر شخص کو میں نے بہشت اور غرفات آمنون میں دیکھا.میں نے ازراہِ تعجب پوچھا تم بہشت میں کیسے آگئے.تو اس نے کہا کہ خدا نے میری غریب الوطنی پر رحم کر دیا.ان کے گھر سے دریافت کیا تو انہیں اس کی موت کا علم بھی نہ تھا یہی کہتے کہ کچہری گیا ہے اور واپس نہیں آیا.آخر ایک واقف کار سیاح آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ بمبئی سے پرے مر گیا ہے اور حج کو جارہا تھا.اس وقت ان کے گھر والوں کو علم ہوا اور مجھ سے مردے نے پہلے بات کی.اللہ تعالیٰ مردوں سے بھی نصیحت اور صداقت کا اظہار کرتا رہتا ہے.(بدر) (الحکم جلد ۱۴نمبر ۴ مورخہ۷؍ فروری ۱۹۱۰ء صفحہ ۷)

Page 188

مدرسہ الہیات کے سیکرٹری کے نام بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم مکرم معظم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ ہندوستان میں جہاں تک مجھے علم ہے یہ چند لوگ الہیات کے مختلف شاخوں پر بحث کرنے والے گزرے ہیں اور ہیں.پہلے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی جنہوں نے ازالۃ الخلفاء اور قرۃ العین شیعوں کے مقابلہ میں اور حجۃ اللّٰہ البالغہ اور خیر کثیر جیسی کتابیں لکھی ہیں ان کے بعد شاہ عبدالعزیز صاحب نے تحفہ اثنا عشریہ اور رجوم للشیاطین جیسی کتابیں شیعوں کے مقابلہ میں تصنیف کیں ان کے آخر مولوی حیدر علی مرحوم تھے لکھنؤ کے مجتہدوں اور علماء میں میر حامد حسین اور ان کے بھائی اور ان کے والد گزرے ہیں جنہوں نے تشئید المطاعن استقضاء الفہام اور عبقات الانوار جیسی وسیع کتابیں لکھیں مگر یہ مباحثہ اسلامی فرقوں میں محدود تھا.عیسائیوں کے مقابلہ میں استفسار اور اظہار الحق سید آل حسن اور مولوی رحمت اللہ کی مبارک تصنیف اپنے وقت میں اپنا نظیر آپ ہی تھی استفسار اور اظہار الحق کی محنت کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے مگر مسلمانوں نے ان دونوں کتابوں سے بہت کم فائدہ اٹھایا.اب ان کے بعد مولوی محمد علی کانپوری صاحب پیغام محمدی و دفع التلبیسات اور مراسلاتچودھری مولا بخش اور سید احمدخان بہادر اورمولوی مہدی علی صاحب کی تصنیف بھی کچھ کم قابل قدر نہ تھیں.آریہ کا جدید مذہب ان کے مقابلہ میں حضرت مولوی محمد قاسم ناناتوی کے چھوٹے چھوٹے رسائل بہت ہی مفید اور بابرکت تھے مگر ہمارے علماء نے ایسے مسلم الثبوت عالم کی تصنیف سے بھی کم ہی فائدہ اٹھایا آخر حضر ت مرزا صاحب نے جنگ مقدس، سرمہ چشم آریہ، ست بچن، چشمہ معرفت۱؎ ۱؎ الخلافۃ.جلسہ اعظم مذاہب کی تقریر.

Page 189

میں ان مباحثات کو قلع قمع کر نے کے لئے جو کام کیا اس سے فائدہ اٹھانے والے بھی ہمارے علماء میں تھوڑے ہیں اگر میں اس لئے کہ تحدیث نعمت اللہ بھی ضروری ہے اس تحدیث کو مدنظر رکھ کر یہ کہہ دوں کہ تیرہ سو برس میں جو مناظر ے مخالفین سے ہوئے ہیں ان میں اپنے دشمنوں کے مقابل اور قرآن کریم کے منکروں کے سامنے قرآن کریم ہی کے ذریعہ دشمن کو جواب دینے کے لئے جو توفیق مجھے ملی ہے اور وہ فصل الخطاب، نو ر الدین، ابطال الوہیت مسیح، تصدیق براہین احمدیہ کے ذریعہ سے کسی قدر ظاہر ہو سکتی ہے مگر ہمارے اکثر علماء نے ان تمام چیزوں سے کم فائدہ اٹھایا ہے تو اتنا ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان کے نزدیک ایک پکے بے ایمان اور اسلام کے دشمن ہیں اور ہماری کتابوں کا دیکھنا بھی جائز نہیں کہ وہ لاشے محض ہیں بلکہ مضر اور سخت مضر ہے تفسیر کبیر نے (البقرۃ:۱۱۴) کے نیچے ایک بڑا قابل قدر نکتہ لکھا ہے.ا مام رازی کو امام یقین کرنے والے لوگ اگر چاہیں تو اس سے بہت بڑا فائدہ اٹھا ئیں.ہند سے باہر جو کچھ کہ مجھے معلوم ہے.شیخ ابن تیمیہ نے عیسائی مذہب کے مقابل الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح اور شیعوں کے مقابل منہاج السنّت اور اس سوال کے جواب میں کہ نقل صحیح اور عقل صحیح دونوں کی مخالفت نہیں ہو سکتی.کتاب درء تعا رض العقل والنقل چار چار مجلد میں لکھیں جو خدا کے فضل سے ان دنوں چھپی ہوئی بھی ہمارے سامنے ہیں اور یہ بہت بڑا فضل جناب الٰہی کا ہے اور ان کے تلمیذ شیخ ابن قیم نے ہدایۃ الحیارۃ فی رد علی الیہود والنصاریٰ اور نونیہ جیسی کتابیں لکھ کر اسلامیوں پر بہت احسان کیا ہے۱؎ ہمارے ملک میں جس علم کلام کی اس وقت ضرورت ہے وہ صرف پانچ قوموں کے ساتھ بیرونی جنگ ہے.اوّل.عیسائی مسیحی لوگ ان کا ایک مسئلہ الوہیت مسیح اور کفارہ اور پھر ان کی یہ آزادی کہ ان پر کوئی شریعت حکمرانی نہ کرے بس تین مسئلے ہیں جن پر ہمیں مباحثہ کی ضرورت ہے.اور اسلامیوں پر جو یہ الزام دیتے ہیں کہ ہم ان کے اس مجموعہ کے مصدق ہیں.اس کا جواب دیں.۱؎ مگر مولوی صاحبان نے ان کو کافر بے دین اور نکما قرار دیا اس زمانہ میں شبلی صاحب بھی فرمائیں...

Page 190

دوم.آریہ ہیں جو قدم ارواح، قدم مادہ، قدم زمانہ، قدم فضا اور تناسخ کے متوالے ہیں۱؎.سوم.برہمو جو نبوتوں اور ملائکہ اور بہشت و دوزخ کے انکار کرنے والوں میں ہیں.چہارم.جین جو ہستی باری کے منکر ہیں۲؎.پانچویں.کالجوں سے نکلے ہوئے بعض آزاد طبیعت جو بہت ہی جلد صداقت کے ماننے کے لئے تیار ہیں.صرف ان کو یہ دھوکا ہے اور شاید حق بجانب بھی ہیں کہ پرانی طرز کے علماء ان کو کچھ نہیں سمجھا سکتے مگر ان نوجوانوں میں ہٹ نہیں.میں نے آپ کے مدرسہ الہیات کو جب سے سنا مجھے یہ فکر لگی ہوئی ہے کہ اس میں کون کون سی کتاب اور کس کس کتاب کا انتخاب درس دیا جاتا ہے.مجھے یہ ڈر تھا اور ہے کہ بعض اس زمانہ کے مسلم الثبوت لوگ مسلمانوں میں فارابی یا ابن سینا اور شہاب الدین مقتول کو ہی فلسفہ دان یقین کرتے ہیں اور اگران سے اُتریں تو ابن رشد اور پھر غزالی کو دبی زبان سے فلسفی کہتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ ان پانچوں کی تربیت یافتہ جماعت اسلام میں کون سی ہے جو کم سے کم ان کے ہی زمانہ میں فلسفہ کے سامنے مسلمانوں کی سپر تھی.میں نے جو تکلیف جناب کو دی ہے آپ نے نصاب کے نمبر ج میں مفتی محمد عبدہ کی تصنیف کا ذکر فرمایا ہے لیکن جہاں تک میں نے اس شخص کی تصنیف کو پڑھا ہے اس میں وہ ملائکہ کے وجود پر بہت ہی گونگا نظر آتا ہے.شیطان اور جن یا بہشت اور دوزخ کے وجود پر اس کا قلم ٹوٹا ہوا مجھے نظر آتا ہے.ممکن ہے آپ کے علماء کو اس کی ایسی تحریریں نظر آئی ہوں جن میں وہ ایمان با لملائکہ پر زور دیتا ہو.علّامہ فرید وجدی کی ایک تفسیر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ کچھ بھی نہیں بولتے ممکن ہے کہ ان کی کوئی اور کتاب بہت ہی لطیف ہو اگر آپ اس کا نام اور جہاں سے مل سکتی ہو پتہ بتا دیں تو آپ کا مجھ پر بڑا احسان ہو گا.تطبیق الدیا نت اسلامیہ اور الکلام کیا کتابیں ہیں اور کس کی تصنیف ہیں اور کہاں سے مل سکتی ہیں.میں ان دونوں کتابوں کے دیکھنے کا مشتاق ہوں.ہاں ایک الکلام حصہ اوّل اور دوم شبلی صاحب کا ہے و ہ میرے پاس ہے.اور میں نے اسے دیکھا ہے اس کے پتہ دینے کی حاجت نہیں اگر کوئی اور الکلام ہے تو اس سے ضرور آگاہ فرماویں.انتخابات تفسیر کبیر اور کشاف اور انتخاب سیَر کیا کسی بزرگ نے علیحدہ لکھے ہیں.۱؎ اور تمام دنیا کابادشاہ بننا چاہتے ہیں.۲؎ اور تمام انبیاء کو کاذب مان کر بااخلاق کہلانا چاہتے ہیں.

Page 191

میں اب اس خط کو ختم کرتا ہوں اور اس بات کو ظاہر کرنا ضروری سمجھتا ہوں.میرے ایک دوست تھے کتابوں کی تجارت کرتے تھے.مکہ معظمہ کے رہنے والے تھے.کبھی کبھی بعد الحج وہ بمبئی میں آجاتے تھے ایک دفعہ انہوں نے مجھے ایسے خط پر جو میں نے کتابوں کی طلب پر انہیں لکھا تھا اور سوائے طلب کتب کچھ بھی اس میں ذکر نہ تھا بڑی ملامت کی تھی.اور یہ لکھا تھا کہ الدین النصیحۃ اس عنوان کے نیچے پھر مجھے لکھا کہ تیرے سارے خط میں کوئی نصیحت نہ تھی.اس واسطے مجھے بہت ہی رنج ہوا.پھر وہ مجھے لکھتے ہیں.اُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَقَدْ فَازَ الْمُتَّقُوْنَ وَاَنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ.میں بھی آپ کو انہیں دونوں باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور بتاکید عرض کرتا ہوں کہ معلم جہاں تک ممکن ہو مخلص، دعائوں کے مانگنے والا، تکبر اور دنیا طلبی سے پاک، دعائوں کے قائل، تقویٰ اور دعا کو ہتھیار بنانے والے جب تک آپ مہیا نہ کریں گے آپ یقینا یاد رکھیں کامیابی بالکل محال ہو گی.میری عمر ستر سے تجاوز کرتی ہے اور مجھے نوجوانوں اور علماء سے بہت ہی معاملہ پڑا ہے.اس لئے آخر میں اس عرض کو ضروری سمجھا جو لوگ دعائوں کے قائل نہیں اور متقی نہیں اور اخلاص اور صواب ان کے مدنظر نہیں وہ کیا مفید ہو سکتے ہیں. (الانفال:۳۰) باتیں بنانا بہت آسان ہے پر ان کا موثر کرنا تقویٰ پر موقوف ہے.حضرت ابراہیم کی دعاقرآن میں مکرّر آتی ہے جہاں وہ جناب الٰہی سے (البقرۃ:۱۳۰) کی دعا مانگتے ہیں وہاں (البقرۃ:۱۳۰) کے پیچھے یُزَکِّی کو ضرور لگاتے ہیں.آپ جو کتاب میری یا حضرت صاحب کی تصنیف طلب فرما ویں گے ہمیں ان کے بھیجنے میں کوئی تامّل مانع نہیں ہے.نو رالدین (الحکم جلد۱۴ نمبر۴ مورخہ ۷؍ فروری ۱۹۱۰ء صفحہ۹)

Page 192

روحانی و جسمانی ورزشیں اور ان کی افادیت و اہمیت چند روز کا ذکرہے مدرسہ تعلیم الاسلام کے طلباء کھیل کر آرہے تھے اور حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کسی مریض کو دیکھ کر تشریف لارہے تھے اپنی معمولی ذرہ نوازی کے اصول پر ایڈیٹر الحکم کے دفتر کے سامنے ٹھہر کر بعض اخباری تازہ امور کے متعلق استفسار فرما رہے تھے کہ اتنے میں وہ طالب علم بھی وہیں آپہنچے.حضرت نے بچوں کو دیکھ کر سلام علیکم کہنے میں ابتدا فرمائی اور یہ آپ کا علی العموم معمول ہے کہ حضرت امام مغفور کی طرح خود سلام میں ابتدا فرماتے ہیں.بچے کھڑے ہو گئے.فرمایا.میں تمہیں کھیلتے ہوئے دیکھ کر بھی بہت خوش ہوتا ہوں تعلیمی اور دماغی محنت کے بعد کھیلنا اور ورزش کرنا ضروری ہے اس سے قویٰ تازہ دم ہو جاتے ہیں اور اعضا میں چستی اور پھرتی پیدا ہوتی ہے صحت اچھی رہتی ہے.لیکن میں یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ تم کھیل کو د کو اپنی تعلیم پر مقدّم کر لو اور وقت جیسی قیمتی شیٔ کا بہت بڑا حصہ کھیل کود میں صرف کر دو.جسمانی صحت بڑی ضروری چیز ہے.قرآن مجید نے اسی اصل پر کھانے پینے پہننے اور دوسرے امور صفائی وغیرہ کے متعلق خاص ہدایات دی ہیں.پھر جس طرح پر جسمانی ورزش اور کسرت تمہارے جسم کے نشوونما اور صحت کے لئے ضروری چیز ہے اسی طرح روح کو صحت اور درستی کی حالت میں رکھنے کے لئے بھی ایک قسم کی ورزش کی ضرورت ہے.جب تک اس ورزش سے انسان کام نہیں لیتا روحانی بیماریاں حملہ کرتی ہیں اور روح کو نکما کر دیتی ہیں وہ ورزش روحانی اصطلاح میں مجاہدہ کہلاتی ہے اور وہ عام بات ہے.منجملہ اس کے ایک نماز ہے.نمازوں کی پابندی انسان کے اندر بہت سی خوبیاں پیدا کر دیتی ہے.صفائی اور پاکیزگی کا خیال رہتا ہے، حفظ اوقات کی عادت پیدا ہوتی ہے، باہم اتفاق اور وحدت کا سبق ملتا ہے، سب سے بڑھ کر دعاؤں کا موقع ملتا ہے جس سے انسان کے اخلاق عادات سنور سکتے ہیں.اور نیک عادتیں اور خصلتیں بھی ایسی عمدہ چیز ہیں جو انسان کی صحت کو دراصل قائم رکھتی ہیں اگر انسان بڑا ہی طاقت ور ہو اور جسمانی صحت اچھی بھی ہو مگر بد چلن ہو جاوے تو اس کی طاقتیں زائل اور صحت خراب ہو جاتی ہے.پس تندرستی کے قائم رکھنے کے لئے جس چیز کی دراصل ضرورت ہے وہ نیک عادات اور

Page 193

عمدہ اخلاق ہیں جو روحانی ورزش سے حاصل ہوتے ہیں اس لئے اب ورزش جسمانی پر بھی ان کو مقدّم کرو جو میری عین خوشی کا موجب ہے.اخبارات کے جدید قانون پاس ہونے کی خبر پر تبصرہ اس مختصر سی باموقع نصیحت سے حضرت کی خواہشوں کا پتہ لگتا ہے کہ آپ قوم کے اندر کیا روح پیدا کرنا چاہتے ہیں.مندرجہ بالا تقریر سے پہلے ایڈیٹر الحکم سے دریافت کیا کہ اخبارات میں تازہ ترین خبر کیا ہے.میں نے عرض کیا اخبارات کا جدید قانون پاس ہوگیا ہے.فرمایا.مصالحہ الٰہیہ اپنا کام کر رہے ہیں.بد اندیش لوگوں کی تیز تحریروں نے یہاں تک نوبت پہنچائی.اچھا ہے اسلام کے حقائق ظاہر ہوںگے اور اس طرح پر بھی لوگوں کی اصلاح ہوگی.تیز زبانی اور بدگوئی بھی ایک بیماری ہے اس کے لئے قانونی بندشیں اصلاح کا کام کریں گی.انجمن حمایت اسلام کا ذکر خیر انجمن حمایت اسلام کا ذکر تھا.فرمایا.انجمن نے بہت بابرکت کام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے مثمر کیا ہے.انجمن کی تالیفات نے مسلمان بچوں کو ایک حد تک دین سے آگاہ کیا ہے اور یہ کتابیں بہت مقبول ہوئی ہیں ملک کے ہر حصوں سے ان کی مانگ آتی ہے اور وہ انجمن کی مستقل آمدنی کا بہت بڑا جزو ہیں.اتنے بڑے کام میں اگر کوئی غفلت بھی ہوئی تو وہ اس قابل نہیں کہ اس پر بہت بڑھ کر شور مچایا جاوے اور بنے ہوئے کام کو بگاڑنے کی کوشش کی جاوے.یہ اصلاح کا طریق نہیں ہے.(الحکم جلد ۱۴ نمبر ۵ مورخہ ۱۴ ؍فروری ۱۹۱۰ء صفحہ۹) ۱.استویٰ علی العرش استویٰ اور عرش وہ لفظ ہیں جن کے متعلق لغت عرب میں کوئی دقّت نہیں صحابہ کرام میں ان کے متعلق کوئی غیر معمولی جھگڑا نہیں ہوا مگر متاخرین میں اس پر بڑی بحثیں ہوئی ہیں.استویٰ کے معنے علیٰ ظہر استقر الفاظ محدود ہوتے ہیں اور واقعات غیر محدود اس کے لئے ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنے لئے جاتے ہیں.دیکھو’’ شئے‘‘ ہے چیونٹی کے ایک سرے پر بھی شے کا لفظ بولا جاتا ہے اور زمین و آسمان پر بھی اور اللہ تعالیٰ پر بھی.اسی طرح دیکھو بیٹھنا، ہاتھی بھی بیٹھتا ہے انسان

Page 194

بھی بیٹھتا ہے ساہو کار بیٹھ گیا بھی بولتے ہیں حلق بیٹھ گیا دیوار بیٹھ گئی مگر ہر بیٹھنے کے جدا جدا معنے ہیں.پس اللہ (الشوریٰ:۱۲)اس کا قرار اور بیٹھنا بھی ہی ہے.غرض موصوف کے لحاظ سے معنے ہوتے رہتے ہیں.امام مالک سے کسی نے استویٰ کے معنے پوچھے تو فرمایا المعنی معلوم والکیف مجہول.عرش مخلوق نہیں قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت نہیں جس سے اس کا مخلوق ہونا ثابت ہو.بخاری و مسلم مؤطا طبقہ اوّل اور ترمذی، نسائی ،ابو دائود و طبقہ ثانی کی کتابوں میں بھی کوئی ایسی حدیث نہیں جس سے اس کی مخلوقیت ثابت ہو سکے.میں نے ایک دفعہ حضرت امام ؑ سے پوچھا کہ ربّ العرش سے عرش کا مخلوق ہونا معلوم ہوتا ہے یا نہیں.فرمایا ربّ العزت بھی آیا ہے تو کیاخدا اپنی صفت ازلی عزت کا بھی خالق ہے ؟ پس استویٰ علیٰ العرش کے معنے ہوئے خدا کی تجلیات کاملہ میں کوئی عیب نہیں کیونکہ عرش مظہر ہے اس مقام کا جہاں اوّلاً تمام احکام و صفات کاملہ کا اتم طور پر ظہور ہوتا ہے.در بارشاہی میں سب سے پہلے احکام صادر ہوتے ہیں.(یوسف:۱۰۱)کے بھی میرے نزدیک یہی معنے ہیں کہ یوسف ؑ اپنے والدین کو دربار شاہی میں لے گئے.۲.اعتداء فی الدعا کی تین اقسام اعتدا ء فی الدعا ء تین قسم ہے.ایک چلا کر دعا مانگنا اس لئے فرمایا.(الاعراف:۵۶).دوم.ایسی طرز کی دعا جو قرآن مجید و سنت نبوی کے خلاف ہو مثلاً ایک شخص جو عہد نبوی میں دعا کر رہا تھا.اے خدا مجھے بہشت نصیب کر اور اس میں ایسے مکان ہوں.نبی کریم ﷺ نے اسے منع فرمایا کہ تو جنت الفردوس مانگ لے.ایسا ہی اس قسم کی دعائیں کہ مجھے خدا بنا دے یا عورت بنا دے وغیرہ.سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدود کی پرواہ نہ کرنا اور دعا ہی کئے جانا.۳.سب سے بڑا گناہ فرمایا کہ گناہ تو ہر وقت کا بُرا ہے.مگر وہ گناہ سب سے بُرا ہے کہ جب کوئی مامور اصلاح کے لئے آیا ہو تو اس کی اصلاحوں کی مخالفت کی جاوے.وہ وقت خاص طور پر توجہ الٰہی کا ہوتا ہے.(الاعراف:۵۷).

Page 195

۴.نبی کے آنے سے پہلے متعلقہ اصلاح کی تحریک فرمایا کہ جس طرح بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آتا ہے اسی طرح جب کسی راستباز نبی کا نزول ہونا ہوتا ہے تو اس سے پہلے جس اصلاح کے لئے وہ آتا ہے اس کی نسبت کچھ نہ کچھ تحریک اس قوم میں پیدا ہوہی جاتی ہے.مثلاً ہمارے نبی کریم ﷺ نے لَا اِلٰـہَ اِلَّااللّٰہ کی تبلیغ کے لئے مبعوث ہونا تھا تو امیہ بن صلت، زید بن عمر جیسے بت پرستی سے متنفر ہو گئے.ہمارے امام ؑ نے وفات مسیح پر زور دینا تھا آپ ؑ سے پہلے سرسید اور آجکل کی تعلیم نے اس مسئلہ کو چھیڑ رکھا تھا.صرف اتنا فرق تھا کہ اگر آپ نہ آتے تو لوگ اسلام کی تعلیم پر عیب لگاتے گو اس مسئلہ کو مان لیتے.آپ آئے اور بڑے زور سے فرمایا کہ وفات مسیح قرآن مجید سے ثابت ہے (الاعراف:۵۸).۵.جماعت احمدیہ کی خصوصیت فرمایا.اس وقت روئے زمین پر کوئی اہل سنت والجماعت نہیں مگر احمدی.جماعت تو وہی ہو گی جس کا اما م ہو.کیا ہمارے مخالف مسلمان ایک صف میں کھڑے کئے جاویں تو ان کا کوئی امام ہے؟ ہرگز نہیں.ہاں احمدی جماعت کا خصوصیت سے امام ہے.پس اس وقت احمدیوں کے سوائے کوئی اہلسنت والجماعت میں سے نہیں.۶.قرآن مجید کے فوائد فرمایا کہ قرآن مجید کے مدبرین کے لئے عجیب عجیب فوائد ہیں.ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ طاعون کے دنوں میں باہر ڈیرا لگا نے کا کیا حکم ہے.میں نے کہا کہ باہر ڈیرہ لگا لے اور یہ خروج میں داخل نہیں کیونکہ (الاعراف:۵۸)سے ظاہر ہے کہ اس شہر کی اردگرد کی زمینیں شہر کے حکم میں ہیں.ورنہ کوئی بتاوے کہ بارش صرف شہر کے کوٹھوں پر ہوتی ہے اور انہیں سے الثمرات نکلتے ہیں.۷.اسلام کی ایک خوبی فرمایا.اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے کسی چیز کو مطلق بے فائدہ نہیں ٹھہرایا.دیکھو (الاعراف:۵۹) میں بتادیا کہ خبث میں بھی کچھ نہ کچھ مادہ نبت ضرور ہے ورنہ خدا کا فعل عبث ٹھہرتا ہے.دنیا کی کسی چیز کو کبھی لَیْسَتْ عَلٰی شَیْئٍ بالکل ناکارہ نہ کہو.(بدر) (الحکم جلد۱۴ نمبر۶ مورخہ ۲۱؍ فروری ۱۹۱۰ء صفحہ ۳)

Page 196

میں ہمیشہ خوش رہتا ہوں ۲۳؍فروری ۱۹۱۰ء کو مجھے حضرت کی صحبت میں بیٹھنے کی سعادت حاصل تھی آپ کو مطالعہ کتب کا جو شوق ہے وہ ظاہر امر ہے.کسی تاجر کتب کو ایک کتاب کے متعلق لکھا تھا کہ بھیج دو، بعد دیکھنے کے اگر میں نے اسے پسند کیا تو قیمت بھیج دوں گا وَاِلاَّ واپس اور ہر دو طرف کا محصول میں دوں گا.اس نے جواب دیا کہ ایسا نہیں کر سکتے.فرمایا.ہم اس جواب سے خوش ہوئے کیونکہ یہ معاملہ کی بات ہے.وہ ہم سے ناواقف ہے ہمار ے حالات سے بے خبر ! اور اصل تو یہ ہے کہ میں تو سدا ہی خوش رہتا ہوں کیونکہ مومن لَا یَحْزَنُوْنَ کے نیچے ہے.کوئی مریض میری تشخیص کو تسلیم نہیں کرتا تو مجھے خوشی ہوتی ہے اس لئے کہ میں اس کی ذمہ داری سے بچ جاتا ہوں.کوئی بیرونی مریض رخصت چاہتا ہے تو فوراً اسے رخصت کر دیتا ہوں اور خدا کا فضل سمجھتا ہوں کہ اس نے ذمہ داری سے نجات دی.غرض ہر حال میں مجھے خوشی ہی رہتی ہے اور یہ اس کا فضل ہے.اپنی سچائی کی بصیرت میں نے ایک رقعہ آپ کو دکھایا جوالحکم میںطبع تھا اس میں راقم نے ہمارے سکول کی مثال عیسائیوں کے مدرسے سے دی.اس پرآپ کی مذہبی حمیت اور حرارت نے خاص رنگ دکھایا.بڑے جوش سے فرمایا کہ کیا ہم اپنے سکول کے متعلق یہ سن سکتے ہیں ؟ ہم خدا کے فضل سے بے ایمان نہیں لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتے یہی حق ہے جو ہم نے قبول کیا ہے ایک آن کے لئے بھی کفر یقین کر کے کوئی اسے اختیار نہیں کرسکتا.ہم نے دنیا کی ملامتیں، کفر نامے اور قتل کے فتوے اپنے حق میں سنے اور ان کی پرواہ نہیں کی.کیا دنیا کی ان ساری تکلیفوں کو سامنے رکھ کر اور برداشت کرتے ہو ئے بھی ہم اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہرگز نہیں.پھر ہم (التوبۃ:۱۷)کیونکر بن سکتے ہیں؟ خدا نے ہمیں حق دکھایا جو ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جو چاہے

Page 197

اسے قبول کرے جو چاہے رد کرے اس کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے.ہم کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے اور نہ دنیا سے ڈرتے ہیں.جب یہ باتیں ہی ہمارے سامنے ہیچ ہیں تو پھر ہم کسی کی پرواہ کیا کریں.خدا ہمارے ساتھ ہے.خدا کے فضل کا ذکر حضرت امیر المومنین کے واقعات زندگی عجیب قسم کے خوارق کا مجموعہ ہیںدوسرے لوگ جو بدظنی سے ہر ایک بات دیکھتے ہیں وہ ایسے امور کو اعتقادی نظر سے دیکھتے ہیں اور بے حقیقت کہتے ہیں مگر جن لوگوں نے ان واقعات کو دیکھا ہے وہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کر سکتے ہیں.فرمایا.ایک مرتبہ ایک شخص کے چودہ روپیہ مجھے دینے تھے.اس نے آ کر مطالبہ کیا اور میں نے گھر میں دریافت کیا تو جواب ملا موجود نہیں.میرے پاس ایک قیمتی چادر تھی میں نے وہ کسی کو دی کہ بازار میں فروخت کر دو.اس نے آ کر کہا کہ اس کی قیمت چودہ روپیہ ملتی ہے.مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک بصیرت اور مناسبت دی ہے میں نے سمجھ لیا کہ ہاں ٹھیک ہے دے دو حالانکہ وہ بہت قیمتی چیزتھی.اس کے بعد میں نے دعا کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے کبھی ایسی ضرورت نہیں آنے دی کہ اس کا سامان ساتھ ہی نہ ہو گیا ہو.میرے شاگرد جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح پر میری ضرورتوں کو رفع کرتا ہے بعض وقت سولہ روپیہ کی ضرورت آنے والی ہے اور مجھے علم نہیں مگر اس سے پہلے کسی نے آ کر ایک پونڈ اور ایک روپیہ دے دیاہے.اسی طرح پر وہ میرے ساتھ معاملہ فرماتا ہے یہ اس کی نکتہ نوازی ہے.روحانی امراض کے علاج کا نسخہ مجھے میرے روحانی امراض کے علاج کے لئے ایک نسخہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ میر ایقین ہے تجربہ ہے مشاہدہ ہے اگر انسان اپنے مذہبی فرض اور دنیوی فرض کو عمدگی سے ادا کر کے گو نہ سبکدوشی حاصل کرے تو اللہ تعالیٰ ہر گز ہرگزہرگز ایسے انسان کو ضائع نہیں کرتا.‘‘ شفقت علیٰ خلق اللہ کا نمونہ ایک عہدہ دار نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت میں مخلوق کی ہمدردی کا اتنا جوش ہے کہ شفقت علیٰ الاولاد بھی بعض وقت اس پر قربان کرتے ہیں.اس نے اسی سلسلہ میں کہا کہ ایک دن آپ مریض کے لئے نسخہ لکھ

Page 198

رہے تھے کہ بچہ نے کلاہ لا کر رکھ دیا کہ اس کو لے دو.متوجہ نہ ہوئے.پھر توجہ دلائی تو ایک شخص کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ وقت ایسے کاموں کے لئے نہیں تم جانتے ہو کہ یہ وقت ان مریضوں کے لئے ہے اگر میں ذاتی کاموں میں اسے صرف کر دوں تو پھر ان کے لئے اور وقت کہاں سے نکالوں.خریدو فروخت کے کام میں نہیں کر سکتا.اس بے توجہی سے بچہ نے گورونی سی صورت بنائی مگر حضرت نے اس وقت ذرا بھی توجہ نہ کی اور پھر مریضوں ہی کی طرف متوجہ رہے.یہ عملی نمونہ ہے وقت کی قدر و قیمت کا ،یہ فعلی سبق ہے ایثار نفس کا اور شفقت علی الخلق کا.حضرت امیر المومنین کا مکتوب حسن نظامی کے نام گزشتہ سال ۲۷؍فروری ۱۹۰۹ء کو حسن نظامی دہلوی نے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا تھا جس میں انہوں نے حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کوئی تحریر چاہی تھی اور گورو کل کے جلسہ کے متعلق لکھا تھا کہ کوئی آدمی وہاں جا کر اسے دیکھے.اس کا جواب حضرت نے اس وقت جو دیا وہ خوش قسمتی سے مجھے بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا اور آج پورے ایک سال کے بعد میں اسے دوستوں کے لئے بطور تحفہ پیش کرتا ہوں اس سے حضرت کے ایمان باللہ اور توکل علی اللہ کا عجیب ثبوت ملتا ہے.( ایڈیٹر ) مکرم معظم جناب مولانا مکرمت نامہ پہنچا.اس پر عرض ہے کہ کتاب اللہ کے بعد صحیح بخاری کو میں اور ہماری جماعت اصح الکتب یقین کرتے ہیں.اس میں لکھا ہے کہ ایک بار سرور عالم فخر بنی آدم خاتم المرسلین سید الاولین والآخرین کے حضور ﷺ حضرات صحابہ کرام شرف اندوز تھے اور ایک جنازہ گزرا اور اس مطہر و مزکی جماعت نے اس کی تعریف کی عربی عبارت میں ہے.اَ ثْنَوْا عَلَیْہِ خَیْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ(السنن الکبرٰی للبیھقی جلد ۴ صفحہ ۵۷).پھر ایک اور جنازہ گزرا تو اس کی مذمت ہوئی.پھر ارشاد ہوا وَجَبَتْ.وَجَبَتْ کے معنے ہیں کہ اس کے لئے واجب ہو چکی.حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا مَا وَجَبَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہَ

Page 199

.کیا واجب ہوا.فرمایا اَلَّذِیْ اَثْـنَـیْتُمْ عَلَیْہِ خَیْرًا فَوَجَبَتْ لَہٗ الْجَنَّۃُ وَ اَمَّاالَّذِیْ اَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَہُ النَّارُ.اَنْتُمْ شُھَدَآئُ فِیْ الْاَرْضِ۱؎ جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہوئی اور جس کی تم نے مذمت کی اس کے لئے دوزخ واجب ہوئی.اب جو میں قرآن کریم کو پڑھتا ہوں تو اس میں ارشاد ہے(البقرۃ:۱۴۴) تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حقیقت ہر زمانہ کے انبیاء میں طاری و ساری ہے اور ہمیشہ اس کے مطابق ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور اس معیار پر میں نے حضرت نظام الحق والدین سلطان الدنیا والعقبٰی کو دیکھا تو سات سو برس کے قریب قریب ہوتا ہے کہ ہزاروں ہزار اخیار آپ کے مدح میں رطب اللسان ہیں اگر یہ مشت خاک ان ابرار و اخیار کے ساتھ ہم آواز نہ ہو تو حسب الارشاد(النساء:۱۱۶)مجھ سے زیادہ کون بد قسمت ہو سکتا ہے.پس میرا دلی یقین یہ ہے کہ وہ محبوب الٰہی حسب تزکیہ شہداء اللہ واقعی محبوب الٰہی تھے یہی میرا دلی اعتقاد ہے.عام لوگوں کی اجنبیت انشاء اللہ میرے نزدیک جوئے نمی ارزد کا رنگ رکھتی ہے.کاش آنانکہ عیب من گیرند روئے آن دلستاں بدیدندی اب دوسرے ارشاد اور اس کی اہمیت پر گزارش کرتا ہوں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے(المؤمن:۵۲) اور فرماتا ہے(المنافقون:۹) پس مولانا! اگر ہم فی الواقعہ جناب الٰہی کی نظر میں مومن ہیں تو ہم یقینا یقینا معزز و منصور ہیں ہمیں کفار کے جلسہ کا قطعاً جوش و رنج نہیں اور نہ ہم ان کے نظاروں کو اہم یقین کر سکتے ہیں.جناب کو معلوم ہو گا حضرت فرید الحق ۱؎ ھٰذَا ْ اَثْـنَـیْتُمْ عَلَیْہِ خَیْرًا فَوَجَبَتْ لَہٗ الْجَنَّۃُ وَ ھٰذَا اَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَہُ النَّار اَنْتُمْ شُھَدَآئُ اللّٰہِ فِیْ الْاَرْضِ(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس علی المیت)

Page 200

والدین جب قطب ا لحق کے جانشین ہوئے تو ہفتہ کے اند ر اندر قریب دہلی سے دوری اختیار فرمائی تو کیا ان کے لئے اجو دھن کا جنگل مضرہولَا وَاللّٰہ.(الحکم جلد۱۴ نمبر۷ مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۱۰ء صفحہ۲، ۳) الانذار اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو تاکہ تم پر رحم کیا جاوے حضرت خلیفۃ المسیح کا تاکیدی فرمان درس میں اور دوسرے وقتوں میں ان ایام میں اللہ تعالیٰ کے قہری نشانات کس زور سے ظاہر ہو کر مخلوق کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے اور اپنے اعمال کو سنوارنے کے لئے بار بار بیدار کر رہے ہیں.ایران، یونان، وسط ایشیاء ، اٹلی ، سسلی اور امریکہ کے پے در پے زلازل حیدر آباد اور پیرس کے تباہ کن سیلاب، متفرق مقامات کے طوفان اور جہازوں کی غرقابیاں کس قدر عبرت گاہوں کا نقشہ انسانوں کے سامنے پیش کر رہی ہیں غیرقومیں ان باتوں کو سمجھیں یا نہ سمجھیں پر مسلمانوں کی مقدس کتاب تو ان واقعات کو آیات اور نشانات کے نام سے پکارتی ہے.یہ مت خیال کرو کہ یہ معمولی باتیں ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرعون کے متعلق فرمایا ہے(الاعراف:۱۳۴) پس ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور چچڑیاں اور مینڈک اور لہو.یہ سب نشانات جدا جدا آئے.پس انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عذاب اس واسطے آتا ہے کہ لوگ تضرع اختیار کریں.طاعون پچھلے سالوں میں کچھ کم تھی مگر اب پھر اس کا زور ہوتا جاتا ہے.چاہیے کہ لوگ ان باتوں کو سمجھیں، تکبر اور شیخی سے باز آ جاویں، نیکی کی طرف قدم بڑھا ویں اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کو بخشوائیں اور خدا کے مقدس بندوں کے حق میں بے باکی سے منہ نہ کھولیں.یہ ایک نصیحت ہے جو سننے والوں کو سنائی جاتی ہے.چاہیے کہ اخبار پڑھنے والے حتی الوسع آگے دوسروں کو پہنچا دیں.والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ.(البدر جلد۹ نمبر ۱۹ مورخہ ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۲)

Page 201

طاعون سے حفاظت کی دعا حضرت امیرالمومنین نے فرمایا کہ یہ دعائیں نماز فجر و شام کے بعد بالالتزام پڑھی جاویں.بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَایَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَاخَلَقَ.تین بار.انشاء اللہ طاعون سے محفوظ رہیں گے.علاج طاعون فرمایا.میری طرف مختلف علاقوں سے خط آرہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے طاعون بڑی سرعت و شدت کے ساتھ ترقی کر رہا ہے اس لئے تم (۱) بہت استغفار کرو.بہت استغفار کرو.(۲) گھروں میں دعا کرنے کی عادت ڈالو اور اپنے گھروں کے لوگوں کو بھی دعا و استغفار کی تاکید کرو.(۳)حسب استطاعت مالی خیرات کرو.(۴) باطنی صفائی کے ساتھ ظاہری صفائی کی طرف کامل توجہ کرو.مکانوں کو اور گھروں کے اسباب کو بہت صاف رکھو.(۵) چوہوں کے دفعیہ کی تدابیریں عمل میں لاؤ.غالباً اسی کی راہ سے یہ مرض پھیلتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ بڑا فاسق ہے.(الحکم جلد ۱۴ نمبر ۸ مورخہ ۷ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۴) کلام الامام میں قرآنی نکات تاثیر قرآنی اور محبت الٰہی کے حصول کی دو صفات فرمایا.اللہ تعالیٰ نے جو قرآن شریف کی تعریف میں فرمایا ہے کہ(الحشر:۲۲) ایک تو اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اترتا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا.جب جمادات پر اس کی یہ تاثیر ہے توبڑے ہی بیو قوف وہ لو گ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دوسرے اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الٰہی اور رضائے الٰہی کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں.اوّل تکبر کو توڑنا جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اونچا کیا ہوا ہوتا ہے گِرکر زمین سے

Page 202

ہو جاوے.اسی طرح انسان کو چاہیے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالا ت کو دور کر کے عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرے.اور دوسرا یہ ہے کہ پہلے تما م تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گِر کر مُتَصَدِّعًا ہو جاتا ہے اینٹ اینٹ جدا ہو جاتی ہے.ایسا ہی اس کے پہلے تعلقات جو گندگی اور الٰہی ناراض مندی کا موجب تھے سب ٹوٹ جائیں اور اب اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور محبتیں اللہ تعالیٰ کے لئے رہ جاویں.آنحضرتؐ کا مقام اور ایک عظیم الشان پیشگوئی فرمایا.سورۃ اَلَمْ تَرَ کَیْفَمیں آنحضرت ﷺ کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے.یہ سورۃ اس حالت کی ہے جب سرور کائنات ﷺمصائب اور دکھ اٹھا رہے تھے.اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپ کو تسلی دیتا ہے کہ میں تیرا مؤید وناصر ہوں.اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا یعنی ان کو اپنے منصوبہ اور تجویز میں نامراد رکھا اور ان کا مکر اٹھا کر ان پر ہی دے مارا.اور چھوٹے چھوٹے جانور ان کے مارنے کے لئے بھیج دئیے ان جانوروں کے ہاتھوں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی.سجیل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں.اس سورۃ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے.اور بتا یا ہے کہ جس طرح پر اصحاب الفیل کے حملہ سے بیت اللہ محفوظ رہا اسی طرح پر تو ان مشرکین اور مخالفین سے محفوظ رہے گا اور تیری کامیابی یقینی ہے تو منصور اور مؤید ہو گا.یعنی آپ کی ساری کارروائیوں کو برباد کرنے کے لئے جو سامان آپ کے مخالفین کر رہے ہیں اور جو تدابیر عمل میں لاتے ہیں ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں اور کوششوں کو اٹھا کر انہیں ہلاک کر دے گا اور تیری ضعیف اور کمزور جماعت ان پر غالب رہے گی.جیسے ہاتھی والوں کو ابابیلوں نے تباہ کر دیا.زندگی وموت اور کامیابی و ناکامی (الملک:۳) یعنی موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ ہم تمہیں آزمائیں.کامیابی اور ناکامیابی بھی زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے کامیابی ایک قسم کی زندگی ہوتی ہے.جب کسی کو اپنے کامیاب ہونے کی خبر پہنچتی ہے تو

Page 203

اس میں جان پڑجاتی ہے اور گویا نئی زندگی ملتی ہے اور اگر ناکامی کی خبر آ جاوے تو زندہ ہی مر جاتا ہے اور بعض اوقات بہت سے کمزور دل آدمی ہلاک بھی ہو جاتے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عام زندگی اور موت تو ایک آسان امر ہے لیکن جہنمی زندگی اور موت دشوار ترین چیز ہے.سعید آدمی ناکامی کے بعد کامیاب ہو کر اور بھی سعید ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایمان بڑھ جاتا ہے.اس کو ایک مزہ آتا ہے جب وہ غور کرتا ہے کہ میرا خدا کیسا ہے؟ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْن قرآن مجید کی اصل غرض اور غایت تقویٰ کی تعلیم دینا ہے.اتقا تین قسم کا ہوتاہے پہلی قسم ا تقا کی علمی رنگ رکھتی ہے.یہ حالت ایمان کی صورت میں ہوتی ہے.اس کو (البقرۃ:۴)کے الفاظ میں ادا کیا ہے.دوسری قسم عملی رنگ رکھتی ہے.جیسا کہ (البقرۃ:۴)میں فرمایا ہے.انسان کی وہ نماز یں جو شبہات اور وساوس میں مبتلا ہیں کھڑی نہیں ہوتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے یَقْرَؤُنَ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا یعنی جو حق ہے اس کے ادا کرنے کا.ہر ایک چیز کی ایک علت غائی ہوتی ہے اگر اس سے رہ جاوے تو وہ بے فائدہ ہو جاتی ہے.سے لوازم الصلوٰۃ معراج ہے.اور یہ وہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق شروع ہو تا ہے… مکاشفات اور رؤیا صالحہ آتے ہیں.لوگوں سے انقطاع ہو جاتا ہے اور خدا کی طرف ایک تعلق پیدا ہو نے لگتا ہے یہاں تک کہ تبتّل تام ہو کر خدا سے کامل تعلق پیدا کر لیتا ہے.اعلیٰ درجہ کے مومن اعلیٰ درجہ کے مومن مریم صفت ہوتے ہیں جن کے لئے قرآن مجید میں آیا ہے.(التحریم:۱۳) ہر ایک مومن جو تقویٰ و عبادت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریم ہوتا ہے اور خدا اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے جو کہ ابن مریم بن جاتی ہے.زمخشری نے بھی اس کے یہی معنے کئے ہیں کہ یہ آیت عام ہے اور اگر یہ معنے نہ کئے جاویں تو بہت سے مشکلات پیش آتے ہیں.اور اس کے علاوہ اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے کہ اس امت میں ابن مریم پیدا ہو گا.( الحکم جلد ۱۴نمبر۱۰ مورخہ ۲۱؍مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۳)

Page 204

کفارہ کے مضمون کے متعلق رائے حضرت خلیفۃ المسیح والمہدی نے اس مضمون کو پڑھ کر فرمایا.جو مضمون محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی پر مبنی ہو اس کی قبولیت کے لئے الٰہی رضامندی سے بڑھ کر کیا تدبیر ہوسکتی ہے.شریعت سے واضح ہے کہ جس کام کے لئے ریاء و سمعت اور طلب دنیا اصل غرض نہیں ہوتی اور وہ کام اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کوبرو مند فرماتا ہے.ہاں  (الصف : ۱۵) کے امتثال پر اتنا کہہ دینا موجب ثواب سمجھتا ہوں کہ یہ کفارہ کا مضمون انشاء اللہ تعالیٰ بہتوں کے لئے ایمانی ترقی کا موجب ہوگا.نورالدین ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۰ء (البدر جلد۹ نمبر۲۳ مورخہ ۳۱ ؍مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۵ ) نبی کریم ﷺ کی تعریف میں حضرت مرزا صاحب کیا فرماتے ہیں ایک سائل کے خط کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح والمہدی نصرہ اللہ العزیز نے لکھا.لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالرَّحْمَۃُ وَالسَّلَامُ وَالْـبَرَکَاتُ عَلٰی مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْن.آمِیْن.اَمَّا بَعْد ہر ایک کلام کے لئے ضرور ہے کہ مصنف کی کلام کو ملاحظہ کیا جاوے اگر اعتراض یا فہم مقصود ہواسلام پر اعتراض کرنے ہوں تمام مسلمانوں کی کتابیں لے کر اعتراض مناسب ہیں بلکہ اس معاملہ میں قرآن کریم اور احادیث صحیح پر نظر رہے.جس کلام پر اعتراض ہے وہ ایک معمولی مضمون نگار ہے وہ مضمون بسبب اپنے کمزور ہونے کے روک دیا گیا.صرف نمبر ۱ طبع ہو کر بند ہو گیا.مگر حضرت مرزا صاحب کے کرامات اسی۸۰ کتب میں آپ کی تصنیف میں موجود ہیں.ان میں اگر کوئی مشابہ کلمہ ہے تو اپنے محکم کلمات بحمد اللہ موجود ہیں.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن.

Page 205

حضرت مرزا صاحب اپنے آئینہ کمالات میں فرماتے ہیں.؎ یا نبی اللہ فدائے ہرسرِموئے توام وقفِ راہِ تو کنم گر جان دہندم صد ہزار راغب اندر رحمتت یا رحمۃ اللہ آمدیم ایکہ چون ما بردر تو صد ہزار امیدوار یا نبی اللہ نثار روئے محبوب توام وقف راہت کردہ ام این سرکہ بردوش ست بار برسرِ وجداست دل تادید روئے او بخواب اے بران روئے و سرش جان و سرور روئم نثار صد ہزاران یوسفے بینم درین چاہِ ذقن و آن مسیح ناصری شُد ازدمِ او بے شمار (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۶، ۲۷) ایک اور جگہ فرماتے ہیں.دگر اُستاد را نامے ندانم کہ خواندم در دبستانِ محمدؐ دریغا گر دہم صدجان درین راہ نہ باشد نیز شایان محمدؐ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۹) ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں.بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم

Page 206

جانم فدا شود برہِ دینِ مصطفیٰ این است کام دل اگر آید مُیَسَّرم (ازالہء اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ۱۸۵) ایک اور جگہ فرماتے ہیں.کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبیؐ کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑدو تم اس خبیث کو (درثمین صفحہ ۶۷) پھر فرماتے ہیں.وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمدؐ دلبر میرا یہی ہے (درثمین صفحہ ۹۳) سراج المنیر میں ہے.ما مسلمانیم از فضل خدا مصطفی ما را امام و مقتدا آن کتاب حق کہ قرآن نام اوست بادئہ عرفان ما از جام اوست آں رسولے کش محمدؐ ہست نام دامن پاکش بدست ما مدام ہست او خیرالرسل خیرالانام ہر نبوت را بروشد اختتام آنچہ مارا وحی و ایمائے بود آن نہ از خود از ہمان جائے بود

Page 207

ما ازو یابیم ہر نور و کمال وصل دلدار ازل بے او محال (سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۹۵) اور فرماتے ہیں.آں گروہ حق کہ از خود فانی اند آب نوش از چشمۂ فرقانی اند (درثمین فارسی صفحہ ۱۵۳) سید شاں آنکہ نامش مصطفیٰؐ است رہبر ہر زمرۂ صدق و صفا است (درثمین فارسی صفحہ ۱۵۴) اور دیکھئے ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسلؐ تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے (درثمین صفحہ ۱۷) دوسری جگہ فرماتے ہیں.محمدؐ عربی بادشاہ ہر دو سرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اُسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی اور فرماتے ہیں.مصطفی مہر درخشاں خدا ست بر عدوش لعنت ارض و سما ست

Page 208

از طفیل اوست نور ہر نبی نام ہر مرسل بنام او جلی (درثمین فارسی صفحہ۸۶) پھر فرماتے ہیں.ختم شد بر نفس پاکش ہر کمال لاجرم شد ختم ہر پیغمبرے (درثمین فارسی صفحہ ۷) ان مختصر سے بیانات کے بعد پھر اگر کسی کو خلش ہو تو اس کو اللہ ہی سمجھائے دوسرا کون سمجھائے.جو لوگ اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر کسی واقعہ کی قبل از وقت خبر دیتے ہیں ان کو عربی میں نبی کہتے ہیں.عوام اپنی بے علمی سے ایسے لفظوں پر اڑ جاتے ہیں اور ان کی صریح کلام کی طرف توجہ نہیں کرتے.( مثنوی میں ہے) شعر.؎ آں کہ از حق یابد او وحی و جواب ہر چہ فرماید بود عین صواب نے نجوم است و نہ رمل است نہ خواب وحی حق واللّٰہ اعلم بالصواب از پے روپوش عامہ دربیان وحی دل گویند آں را صوفیان پھر آگے چل کر فرماتے ہیں.اے مرا تو مصطفیٰ من چوں عمر از برائے خدمت بندم کمر فوائد الفواد میں حضرت سلطان المشائخ محبوب الٰہی محمد نظام الدین صاحب چشتی نے فرمایا ہے.دیکھئے صفحہ ۲۳ قصہ حضرت شبلی جنہوں نے اپنے مرید کو ارشاد کیا کہ لَا اِلٰـہَ اِلَّااللّٰہَ شِبْلِیْ

Page 209

رَسُوْلُ اللّٰہ.حالانکہ شبلی رحمہ اللہ کونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رسول نہیں فرمایا تھااور امت میں جس نے مسیح ہونا تھا اس کو بخاری میں نبی فرمایا ہے.نور الدین ۱۸؍مارچ ۱۹۱۰ء زکوٰۃ کا روپیہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ زکوٰۃ کا روپیہ اشاعت اسلام یا تعمیر مدرسہ یا تعمیرمسجد میں خرچ کرنا جائز ہے یا کہ نہیں ؟ حضرت نے فرمایا کہ تعمیر مدرسہ ومسجد میں زکوٰۃ مناسب نہیں.اشاعت اسلام میں جائز ہے.(البدر جلد۹ نمبر۲۷ و۲۸ مورخہ ۲۸؍اپریل و ۵؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۵) حضرت امیرا لمومنین کی صحبت میں پندرہ منٹ (۲۵؍اپریل ۱۹۱۰ء) تَشَبُّہ بِالْقَوْمِ کے پانچ معانی فرمایا.مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْہُمْ (سنن ابی داؤد کتاب اللباس باب فی لبس الشہرۃ)کے پانچ معنے ہیں.(۱)یہ حکم جنگ کے موقعہ کا ہے کہ جو دشمنوں کی وردی پہنے ہوئے ہے اسے دشمن باور کرکے کوئی مسلمان قتل کر دے تو وہ قاتل مجرم نہیں خواہ وہ شخص مقتول مسلمان ہو کیونکہ میدان جنگ میں وردی سے امتیاز ہوتاہے.(۲)ہر قوم میں کچھ امور تو وہ ہوتے ہیں جو مشترک فی الاقوام ہیں اور کچھ اس قوم کی خصوصیات.اب ان خصوصیات کو جو اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہو گا.مثلاً جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ زبان و دل سے کہے نماز پڑھے ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے وہ مسلمان ہے.جس شخص میں یہ باتیں ہوں ہم اسے مسلمان کہیں گے.مسیحی مذہب کی خصوصیات سے نہ ہے.مسیح کو ابن اللہ ماننا ، کفارہ جو یہ مانے گا وہ مسیحی کہلائے گا.(۳)جب انسان کسی قوم کی ادنیٰ باتوں میںشریک ہوتا ہے تو چونکہ انسان میں ترقی کا مادہ ہے اس لئے اس ادنیٰ سے بڑھتے بڑھتے پھر اسی قوم کی خصوصیات بھی اختیار کرلیتا ہے اور پھر انہی میں

Page 210

سے ہو جاتا ہے.مثلاً پہلے بال کٹائے پھر البرٹ فیشن کی سوجھی پھر جوتا اُتارا.بوٹ پہنے.پائوں دھونے سے رہے.قمیص کے کف اور کالر کے بگڑنے کے اندیشہ سے وضو بھی چھوڑ دیا پتلون پہنی اس کی وجہ سے نماز رہ گئی.ہیٹ پہننا شروع کیا لوگوں نے طعن کیا جھنجھلا کر بپتسمہ لے لیا کہ اور نہیں تو سوسائٹی تو اچھی ہے غرض جو تشبّہ شروع کرتا ہے منھم ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ اس سے غیرت دینی اٹھ جاتی ہے یہ مشاہدہ کی بات ہے.(۴)قوم کے ابتدائی زمانہ میں یہ بڑی ضروری بات ہے کہ پُر جوش نو مسلموں کا کسی قسم کا گہرا تعلق دوسری قوم سے نہ رہے سوا اس کے قوم بن ہی نہیں سکتی.پس اس علیحدگی کے لئے ضروری ہے کہ کسی بات میں ان کا تشبّہ اختیار نہ کرے تا یہ صاف ظاہر ہو کہ اب ہم ان میں سے نہیں بلکہ ان سے بالکل الگ ہو چکے ہیں.(۵) پھر ایک زمانہ قوم پر آتا ہے جب شیرازہ ٹوٹ جاتا ہے اور قوم میں تنزل آتا ہے اس حالت میں بھی قومیت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دوسروں سے تشبّہ نہ ہو بلکہ آپس میں ایک دوسرے کو سہارا دیں جو غیروں کو سہارا دے گا تو وہ قومی ٹریٹر سمجھا جاوے گا.مومن کو خوف و حزن نہیں ہوتا ایک دوست کو مخاطب کر کے فرمایاکہ تیرہ چودہ برس سے تم یہاں رہتے ہو کبھی کسی وقت تم نے مجھے غمگین اور پریشان گھبراہٹ میں دیکھا.اس نے عرض کیا.ہر گز نہیں.فرمایا.مومن لَا خَوْف وَ لَا یَحْزَن ہوتا ہے.ہم ایک دفعہ گوالیار کی طرف گئے وہاں ایک گروہ کے پاس بیٹھے وہ کچھ دعا کرنے لگے کسی نے ان میں سے پڑھا.نہ کر عوض میرے عصیان و جرم بیحد کا کہ تیری ذات غفور رحیم کہتے ہیں کہیں نہ کہہ دے عدو دیکھ کر مجھے غمگین یہ اس کا بندہ ہے جس کو کریم کہتے ہیں

Page 211

اس آخری شعر نے ہمیں بہت ہی فائدہ پہنچایا.بہشت کے نام نہاد ٹھیکیدار سے سوال فرمایا.ان مولویوں میں سے جو بہشت کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں ایک مولوی سے میں نے پوچھاغیر مسلم توخیر دوزخی ہوئے مگر اسلام میں بھی سوائے غیرمقلدوں کے آ پ کے نزدیک سب جہنمی ہوئے لیکن یہ تو بتائے کہ غیر مقلدوں میں بھی کس کا گروہ بہشتی ہے نام بنام پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں حاضر ہو جائوں گا.میں نے کہا کہ آٹھ بہشت ہیں وہاں اکیلے آپ ہوں گے آپ خیال کر سکتے ہیں آپ کو کیا لطف آئے گا.بھائی کی گمشدگی میں بہن کی دعا فرمایا.بھائی کی گمشدگی میں اس کی بہن سے دعا کرانی چاہیے اور ایک خاص دعا سے میرا تجربہ ہے کہ چالیس دن میں انشاء اللہ خبر مل جاتی ہے.تبلیغ حقِ کا ایک انداز ایک دوست نے ایک نوجوان کوپیش کیا کہ یہ خوش الحان حافظ ہیں.( آپ ریش ستردہ تھے)آپ نے بطور موعظہ حسنہ و قول موجہ ایک نہایت بلیغ فقرہ ہنس کر فرمایا کہ ہمیں سائن بورڈ سے معلوم نہیں ہو سکا دکان میں کیا مال بھرا ہے ( یہ بھی ایک طرز ہے تبلیغ حق کا).واقف و تجربہ کا ر کی اہمیت ایک لڑکے کو مخاطب کر کے فرمایا کہ بٹالہ کا راہ ا س سے پوچھنے کا فائدہ نہیں جو تمہاری طرح اس سے ناواقف ہو بلکہ اس سے پوچھنا چاہیے جو وہاں جا چکا ہو.تم بچے ہو اپنے سے بزرگ و بوڑھے کی رائے ہر امرِ اہم میں لے لیا کرو.ایسے بزرگ کی جس کو تم نے دیکھا ہو کہ وہ ہر وقت خوش رہتا ہے.(البدر جلد ۹ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۲؍ مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۳) کتاب ’’سنت احمدیہ‘‘ کی نسبت رائے قاضی اکمل صاحب کی نئی تالیف جس میں نماز و روزہ زکوٰۃ، طلاق اور نکاح کے مسائل بالدلائل مرقوم ہیں یعنی قرآن و حدیث سے ہر مسئلہ کو جس پر ہمارا عمل ہے ثابت کیا ہے اور جن کا عمل اس کے خلاف ہے ان کی

Page 212

کمزوری دکھائی ہے.صفحہ ۸۸ حجم قیمت ۴؍پسندیدہ امیر المومنین.آپ نے مندرجہ ذیل تفریظ کی ہے.میں نے اس کتاب کو پڑھا کتاب ہر ایک پہلو میں مجھے پسند ہے.جَزَی اللّٰہُ الْمُصَنِّفَ نور الدین (البدر جلد ۹ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۲؍ مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۷) البلاغُ مِنَ الشَّاہدِ اِلَی الغائبِ ذیل میں حضرت خلیفۃ المسیح سلمہ اللہ تعالیٰ کے چند وصایا اور نصائح کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے جو میرے محترم بھائی منشی فرزند علی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح مد ظلہ تعالیٰ کے ایک ارشاد ہی کی تعمیل میں بغرض اندراج بھیجا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ حضرت کے ان وصایا کو بہتوں نے سنا اور یہ جوش مکرمی منشی فرزند علی صاحب ہی کو خدا نے دیا کہ وہ اس ارشاد کی تعمیل کریں.میں منشی صاحب کا ازبس شکرگزارہوں اور ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک ایسے فرض کو ادا کردیا ہے جو اس جلسہ میں سننے والوں میں ان میں سب کے ذمہ تھا.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.آمین (ایڈیٹر) بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم ۲۷ ؍مارچ ۱۹۱۰ء کی صبح کو جو سالانہ جلسہ دارالامان کا آخری روز تھا حضرت خلیفۃ المسیح نے مسجدمبارک میں نماز کے بعد جماعت کو چند نصائح کیں اور حکم دیا کہ شاہد غائب کو اطلاع دے.اس حکم کی تعمیل میں میں آپ کی تقریرکا خلاصہ بھیجتا ہوں تا کہ آپ اسے اخبار میں شائع کر کے جماعت تک پہنچائیں.حضرت نے فرمایا :.جماعت کو چند وصایا اور نصائح عمر کا اعتبار نہیں.اگلے سالانہ جلسے تک معلوم نہیں ہم میں سے کون رہے کون نہ رہے.اور تم میں سے جو زندہ رہے وہ آئندہ جلسے پر آئیں یا نہ آئیں.اس لئے میں تمہیں چند باتیں بطور وصیت کے کہنا چاہتا ہوں جو لوگ موجود ہیں توجہ سے سنیں اور دوسروں کو پہنچائیں.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْل اللّٰہ کو مضبوطی سے پکڑو.اللہ تعالیٰ کو ذات میں،اسماء میں، صفات میں یکتا جانو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 213

(فاطر:۱۶) یعنی اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو.دعا،استغفار کثرت سے کرو.استغفار سے ہر ایک قسم کی حاجت براری ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ نوح میں نوح علیہ السلام کے زبانی فرماتا ہے.(نوح : ۱۱ تا ۱۳) یعنی استغفار کرنے سے اللہ تعالیٰ بارش برسائے گا اور تمہیں مال اولاد دے گا.باغ اگائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا.جماعت کو چاہیے کہ درود شریف، استغفار اور الحمد شریف کا کثرت سے وظیفہ رکھیں.فرمایا کہ میںنے سنا ہے کہ باہر مہمانوں کے کیمپ میں ایک وقت کئی کئی جماعتیں ہوتی رہیں.مجھے اس کا بہت رنج ہوا.اگر منتظمین مجھے پوچھتے تو میں انہیں اس کے متعلق نہایت عمدہ مشورہ دیتا.حضرت نبی کریم ﷺ مقتدیوں کو صفوں کی درستی کی خاص تاکید فرمایا کرتے تھے.میں خوف کرتا ہوں کہ جہاں تمہارے پاؤں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہوجاتے ہیں دلوں میں بھی ایسا اختلاف پیدا نہ ہوجائے.قرآن کو پڑھو.تقویٰ پر غور کرو.حتی الوسع جہاں جہاں جماعت ہے وہاں مسجد ہونی چاہیے اگر مسجد نہیں تو چبوترہ ہی سہی.بہرحال نماز باجماعت ادا کرنے کا التزام ہونا چاہیے.جو شخص جماعت سے الگ رہتا ہے اس کی مثال اس بکری کی سی ہے جو ریوڑ سے الگ ہوجائے وہ زیادہ خطرے میں ہوتی ہے.بعض لوگ میرے پاس شکایت کرتے ہیں کہ میں فلاں جگہ تنہا ہوں جماعت نہیں.فرمایا.مومن اپنے اندر ایک جذب رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ تنہا نہیں رہ سکتا.دنیا کماؤ مگر حلال طریقوں سے.نمازوں کو ہلاک نہ کرو.عورتوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرو.والدین اور اعزاء و اقارب سے نیک سلوک کرو.نیک نمونوں کی تقلید کرو برے نمونوں کو چھوڑ دو.قادیان والوں کو چاہیے کہ مہمانوں کو نیک نمونہ دکھائیں.فرمایا.امام اعظم … ایک روز بارش اور کیچڑ میں جا رہے تھے ایک لڑکے کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر فرمایا.میاں لڑکے کیچڑ میں سنبھل کر چلو کہیں گر نہ پڑنا.اس نے جواب دیا میں گروں گا تو

Page 214

چوٹ صرف مجھے ہی لگے گی.مگر ابوحنیفہ ؒ تم سنبھل کر چلنا تمہارے گرنے سے لاکھوں مخلوقات خدا تمہارے ساتھ گرے گی.فرمایا.میں تمہارے لئے دعا کیا کرتا ہوں تم میرے لئے دعا کیا کرو.آخر میں پھر لَااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ پر قائم رہنے کی تاکید فرمائی اور کہا دیکھو میں نے یہ وصیت کر کے انبیاء علیہم السلام کی سنت وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِیَّاہُ والی پوری کردی ہے.فرزند علی عفی عنہ سیکرٹری انجمن احمدیہ فیروزپور (الحکم جلد ۱۴ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۸ ؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۹ ، ۱۰) ڈائری یکم جون ۱۹۱۰ء ۱.حکمت کی تعریف قرآن مجید کو محکم پکڑو تم اس کے ذریعے ہر میدان میں ہر مقابلہ میں فتح پائوگے.ایک شخص نے چند علوم کی تعریفیں اور ان کے متعلق تمام اعتراضات یاد کر رکھے تھے اور وہ اکثر علماء کو عام مجلسوں میں دق کیا کرتا تھا.ایک دفعہ مجھے پوچھا کہ پیرو مرشد حکمت کی تعریف کرو.میں نے کہا چند اخلاق فاضلہ جن میں خدا کی تعظیم اور شفقت علیٰ خلق اللہ ہو وہ حکمت ہے.سن کر حیران رہ گیا.کہا ثبوت ؟ میں نے کہا خدا تعالیٰ بنی اسرائیل میں چند ایسے اُمور کا ذکر فرما کر اخیر میں فرماتا ہے.(بنی اسرائیل:۴۰).چپ ہی رہ گیا.۲.مجاہدات ، الزامی جواب، محکم و متشابہ میں نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ آپ کے مشرب میں وصول الی اللہ کا جو طریق ہے اس میں کوئی مجاہدہ ہے تو میں اسے کرنا چاہتا ہوں.فرمایا.عیسائیوں کے مقابل میں کتاب لکھو.اس کے بعد خدا کے فضل نے اسباب بہم پہنچائے.ایک پادری نے مجھے کئی سوالات لکھ کر دئیے اورد وسری جانب مجھے رئیس پونچھ کا علاج کرنے کے لئے جانا پڑا جہاں بہت فرصت تھی.میں نے فصل الخطاب لکھی اور اس کی طبع کا سامان بھی ہو گیا.میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور بعض اعتراض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے لئے بغیر اس

Page 215

کے چارہ نہیں، یا تو اس اعتراض کا ذکر ہی نہ کیا جاوے یا الزامی جواب دیا جاوے کیونکہ تحقیقی جواب مشکل ہے.فرمایا.جو بات آپ نہیں مانتے یا اس کے ماننے میں شرح صدر نہیں وہ دوسروں کو ماننے پر مجبور کرنا ایک قسم کا ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ( یہ بات منجملہ ان باتوں کے ہے جن سے حضرت صاحب پر میرا عقیدہ بڑھتا گیا) میں نے کہا اللہ! قربان جائوں مرزاکے.یہ شخص وہی بات کہتا ہے جس کا دل میں پورا یقین رکھتا ہے.پھر مجھے فرمایا کہ جو ایسی باتیں ہوں اس کو خوشخط لکھ کر دیوار پر لٹکا دیں اور پیش نظر رکھیں اور دعا میں لگے رہیں انشاء اللہ وہ مشکل مسئلہ (حل) ہو جاوے گا.میں نے دل پر ہی ایسی باتوں کو لکھ لیا پھر خدا کے فضل سے حل ہو گئیں.چنانچہ محکم ومتشابہ کے معنے بھی مجھ پر خوب کھلے کہ متکلم کی کلام کا کچھ نہ کچھ حصہ ہر طبقہ کے لوگوں کی سمجھ میں آ جاتا ہے اور کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جن کے معنے نہیں کھلتے یا اس کی کئی وجوہ ہوتی ہیں.پس محکم وہ ہے جو سمجھ لیا اور متشابہ وہ جو ابھی سمجھ میں نہیں آیا ( ہر انسان کا محکم و متشابہ الگ الگ ہی ہے) متشابہ کے معنے کے لئے یہ طریق ہے کہ محکم کے مطابق معنے کرو.دعا کرتے رہو خشیت الٰہی اختیار کرو.حضرت صاحب نے دوسرا مجاہدہ مجھے یہ بتایا کہ آریوں کے مقابلہ میں کتاب لکھو.میں نے ان مجاہدات سے بہت نفع اُٹھایا او ران برکات سے حصہ لیا جو مامور من اللہ سے مخصوص ہیں.مجھے ایک جماعت دی گئی........................جوتا کیسا ہو؟ اہلیہ صاحبہ دانش کے دریافت کرنے پر کہ عورتوں کے لئے کھڑے جوتے کا پہننا جائز ہے یا نہیں حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ اسلام نے عورتوں یا مردوں کے واسطے کوئی جوتا مقرر نہیں کیا کہ کس قسم کا ہو.یہ امر ملکی رواج اور ضرورت پر منحصر ہے.(البدر جلد ۹ نمبر ۳۲و ۳۳ مورخہ ۹ ؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱، ۲)

Page 216

راجپوتوں کی انجمن کا نام تجویز فرمانا مورخہ ۲۷ ؍ مارچ ۱۹۱۰ء بعد نماز ظہر حضرت اقدس خلیفۃ المسیح نے چوہدری غلام احمد خان صاحب پریذیڈنٹ و سیکرٹری کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم آپ کی اس انجمن کا نام انجمن راجپوتاں تجویز کرتے ہیں.چنانچہ یہی مبارک نام اس انجمن کا رکھا گیا اور حضرت اقدس نے اس انجمن کی سرپرستی قبول فرمائی اور ہرایک طرح سے مدد کرنے کا وعدہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ چندہ جمع کرنے میں کوشش کریں باقی انتظام ہم کریں گے.اللہ تعالیٰ اس شفیق او ر ہمدرد مرشد کو دیر تک ہمارے سروں پر قائم رکھے.آمین (البدر جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخہ ۲۳ ؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۸) دو حاجی حضرت امیر المومنین کا ارشاد ہے کہ ہم د و احمدیوں کو اپنے خرچ پر حج کے لئے بھیجنا چاہتے ہیں جو زاد راہ سے معذور اور حج کی تڑپ رکھنے والے صالح الاعمال متقی ہیں وہ درخواست کریں.ایک ان میں سے ایسا ہو جو پہلے حج کر چکا ہو.(البدر جلد ۹ نمبر۳۸ مورخہ ۱۴ ؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱) اسلا م میں غلامی غلامی کا ذکر تھا.فرمایا.توریت میں غلامی کے بر خلاف کوئی حکم نہیں.انجیل نے غلامی کے دنیا سے ہٹانے کے واسطے کوشش نہیں کی.صرف اسلام ہی ایک مذہب ہے جس نے غلاموں کو آزاد کرنے کے واسطے احکام نازل فرمائے ہیں.حج میں، کفارہ یمین میں دیگر ہر ایک صدقہ کے موقعہ پر غلاموں کی آزادی کی ترغیب دی ہے.زکوٰۃ فنڈ کا اٹھواں حصہ غلاموں کی آزادی کے واسطے الگ کر دیا ہے اس طرح تدریجاً دنیا سے غلامی کے اٹھادینے کے قوانین باندھے ہیں.ا نبیاء کا یہی طریق ہے کہ احکام کا اجراء ایسے طریق سے کرتے ہیں کہ خلقت اس کو برداشت کر سکے.انسانوں کی تیاری کے مطابق حکم دیا جاتا ہے.اسلام کے ابتدائی ۱۳ سال میں شراب کے برخلاف کوئی حکم نازل نہ ہوا.جب ایک جماعت تیار ہو گئی جو ایسے حکم کو برداشت کر سکے تو پھر یہ حکم نازل ہوا.یہ بات غلط ہے کہ غلامی کو

Page 217

عیسائی دنیا نے بند کر دیا ہے.کیا امریکہ میں کالے لوگوں اور گورے لوگوں کے حقوق یکساں ہیں ؟ کیا ہندوستا ن کے جیل خانوں میں قیدی غلام بلکہ غلاموں سے بدتر حالت میں نہیں ہیں؟ کیا گورنمنٹ کے ہاں پولیٹیکل قیدی نہیں ہوتے؟ برخلاف اس کے اسلام نے غلاموں کے واسطے یہ قانون بنایا ہے کہ ان کومالک اپنے کھانے میں سے کھانا دے اور اپنے کپڑے میں سے کپڑا دے.ایسی محنت نہ کرائے جو اس کی برداشت سے باہر ہو.آج غلام چھوڑ نو کروں کے ساتھ بھی کوئی ایسا حسن سلوک نہیں کرتا.فرمایا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کا ایک نشان ہے کہ جب مسلمانوں میں ایسا زوال آیا کہ وہ جابجا محکوم ہونے لگے تو خدا تعالیٰ نے ان کی حاکم قوموں کے دلوں میں غلامی کے متعلق نفرت ڈال دی تاکہ اسلامی مرد اور عورتیں ذلت میں نہ پڑیں.یہ خدا تعالیٰ کا خاص رحم ہے جس کے واسطے سجدہ شکر کرنا چاہیے.ورنہ یورپین اقوام میں غلام اور لونڈی رکھنے کا رواج ہوتا تو آج اسلامی دنیا پر کیا مصیبت وارد ہوتی.خاندان حضرت شاہ ولی اللہ فرمایا.بچپن سے میرے کان میں خدا کا نام ڈالاگیا ہے.میری بھاوج نے جو مجھے اپنی گودی میں لے کر لوری دی تو یہ آواز میرے کان میں پڑی.اَنْتَ الْھَادِیْ اَنْتَ الْحَقَّ.اس آواز نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا.سب سے پہلے میں نے اردو زبان ایک دیوبند کے سپاہی سے سنی اور اُسے بہت پسند کیا.پھر احسان الٰہی ہے کہ شاہ ولی اللہ کے خاندان کی کتابیں میں نے پڑھیں.اس خاندان کے طفیل مجھے بہت فائدہ ہے.سب سے پہلے ایک تاجر کلکتہ سے مجھے ایک پنجسو رہ مترجم بزبان اُردو ملا.جو مطبع مصطفائی کا چھپا ہوا تھا.حضرت شاہ ولی اللہ کتاب فو زالکبیر میں قرآن شریف کی تعریف دوسری کتابوں کے مقابلہ میں کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں.’’اگر او کتاب حکیم است این کتاب احکم الحاکمین است اگر او کتاب عزیز است این کتاب ربّ العزۃ است ‘‘ فرمایا.اس زمانہ میں بہت سی خوش کن کتابیں بنی ہیں اور ان میں سے بعض میں دین کا حصہ بھی ہوتا ہے مگر قرآن کریم جیسی کوئی کتاب نہیں.

Page 218

سید کون ہے؟ ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح کو لکھا کہ شیعہ کہتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی سید نہ تھے.حضرت نے جواب میںتحریر فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ شیعوں کی آپ نے خوب سنائی یہ قوم تو تمام صحابہ کو ابوبکر ؓہو یا عمر ؓ اور تمام ازواج مطہرات کو سوائے ام سلمہؓ کے عائشہ ؓ ہو یا حفصہؓ ہو.بُرا کہتے ہیں.تبرّا ان کا عجیب و غریب عمل ہے.امام حسن ؓکو خود بُرا مانتے ہیں.کسی شیعہ کا نام آپ نے عبدالحسن سنا ہے حالانکہ عبدالحسین بہت ہیں.یا حسین تو کہتے ہیں کبھی یا حسن بھی سنا ہے؟ ہر ایک امام کی اس دوسری اولاد کو جو ائمہ اثنا عشرہ میں نہیں برا کہتے ہیں.کیا زید بن علی بن حسین کو یا اسماعیل بن جعفر الصادق یا ابوبکر و عمر ابناء علی وحسین رضوان اللہ کو یہ اچھا کہتے ہیں.پھر کیا سید عبدالقاد ران سب سے بڑے ہیںجن کو یہ برا کہتے ہیں.مکہ معظمہ کے سادات جو وہاں حاکم ہیں سب حسنی سید ہیں اور وہ لگاتار تیسری چوتھی صدی سے وہاں کے حاکم ہیں.وہ لکھتے ہیں.یز یدظالم نے امام حسین کی نسل کو قطع کر دیا.اور کہیں دیکھ لو ہر جگہ سیدوں کا ایک گروہ دوسرے سادات کو سید نہیں مانتا.فقیہہ عالم ابو المالی احمد بن شیخ محقق ابو الحسن علی بن احمد بن عبدالرزاق بن عیسیٰ الہلائی البغدادی نے کہا کہ مجھے خبردی ہے قاضی القضاۃ ابو نصر نے کہا خبر دی ہے مجھے میرے والد عبدالرزاق نے کہا کہ میں نے سوال کیا اپنے والد سے ان کے نسب کے بارے توفرمایا.عبدالقادر بن ابو صالح موسیٰ بن ابی عبداللہ بن یحییٰ بن محمد بن دائود بن موسیٰ بن عبداللہ بن الجواہ بن عبداللہ المض بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی بن طالب رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علی بن احمد بڑا راستباز تھا.بعض لوگ کہتے ہیں ابو صالح کا نام جنگی دوست تھا اور یہ نام عربی نہیںیہ لوگ اتنی عقل نہیں رکھتے.اگر کسی کا نتھے شاہ اور نجف شاہ، کڑک علی شاہ نام ہو تو وہ سید نہیں ہو گا.اگر کسی شیعہ نے انکار کیا تو کیا عجب ہے.میں نے یہاں قادیان کے سادات دیکھے.ایک سید جو دوسرے کا داماد ہے.خسر نے کہا کہ

Page 219

افسوس ہمارا داماد موچی یا میراثی ہے.مگر بڑوں سے غلطی ہوئی کہ لڑکی دے دی.یہ ان کا حال ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرماوے.تکبر بڑائی نے یہ کام کرائے.نور الدین ۱۲؍جولائی ناجائز کمائی کا مال ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ناجائز کمائی کا مال مسجد اور کنوئیں پر لگایا جا سکتا ہے.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ طیب ہے طیب مال کو پسند فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ غنی بے نیاز ہے خبیث اور خبیث مال کی اس کو کیا پرواہ ہے.یہ چندے میرے خیال میں لوگوں کی بھلائی کے لئے ہوا کرتے ہیں وَاِلَّا اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز محتاج نہیں.کوئی شخص کسی غلطی میں گرفتار ہو یا گرفتار ہوا.اور ہو چکا.اور اب وہ سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو وہ شخص اپنے مشتبہ مال کو للہ فی اللہ دل سے نیک کام میں لگادے تو امید ہے کہ ضرور ہی اللہ تعالیٰ اس کی توبہ اور اس مال کو توبہ کی بناء پر قبول کرے.مگر جو لوگ توبہ میں نہیں لگے خوف الٰہی نے غلبہ نہیں پایا تو آپ ان کے اس مال کی طرف کیوں متوجہ ہیں.آپ خود توبہ کریں.دنیا کے کام نہیں رکتے تو دین کے کام کیونکر رک سکتے ہیں.دنیا میں مومن کافر نیک گنہگار سب موجود ہیں پورے فیصلہ کا دن آگے ہے.اور ہے ضرور.میں نے جو کچھ لکھا ہے بالکل دل سے لکھا ہے آپ اس پر غور کریں.مشتبہ مال والا اگر اپنے کاموں سے سچا تائب ہے تووہ شخص اپنے مشتبہ مال کو اللہ کے سپرد کرے، الٰہی کاموں میں لگاوے اور اگر سچاتائب نہیں اور اس کا مال اسے محبوب ہے تو وہ چند روز عیش و عشرت میں لگا ہوا.آپ اس کے حال پر اسے رہنے دیں اور اس کا معاملہ حوالہ بخدا کریں اور وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، آپ اس کے مال کا خیال بھی نہ کریں.نور الدین ۱۲؍جولائی ۱۹۱۰ء (البدر جلد۹نمبر ۳۹و ۴۰ مورخہ ۲۱،۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۳)

Page 220

مکتوب حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ تحریر کردہ عبارت ذیل میں عبارت حضرت مولوی نور الدین صاحب کی ہے جو حضرت صاحب کے حکم سے مراسلہ موصوف (مذکورہ مکتوب مکتوبات احمد جلد اول مکتوب نمبر ۲۶ بنام مولوی سلطان محمود صاحب صفحہ ۴۸۳ و ۴۸۴ پر ملاحظہ کریں)کے نیچے لکھی گئی کیونکہ معلوم ہوا تھا کہ صاحب مکتوب الیہ کی مولوی صاحب سے سابقہ معرفت ہے.اس لئے حضرت صاحب نے مناسب خیال فرما کر مولوی صاحب کی طرف سے تھوڑا سا مضمون لکھوا دیا.وہ یہ ہے.خاکسار نور الدین بگرامی خدمت قاضی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گزارش پرداز سرور عالم فخربنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَایُؤْمِنُ اَحَدُ کُمْ حَتّٰی یُحِبُّ لِاَ خِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ (بخاری کتاب الایمان باب من الایمان أن یحب لأخیہ ما یحب لنفسہٖ) پس بامتثال امر خاتم النبیین رسول ربّ العالمین علیہ الصلوٰۃ والسلام الی یوم الدین.دردِدل سے عرض ہے کہ جناب امام الزمان علیہ الرضوان کے ارشاد کودنیا کی بے ثباتی پر نظر کر کے غور سے پڑھیں اور بجائے اس کے کہ آپ گزشتہ بزرگان کی قبور پر توجہ فرما دیں زندہ امام کے انصاراللہ میں اپنے آپ کو منسلک کر دیں سارے کمالات اور الٰہی رضامندی اطاعت میںہے اور بس.نور الدین ۷؍ شعبان ۱۳۱۷ھ (الحکم جلد ۱۴ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۷) لاہور میں پہنچنا ۲۵؍جولائی ۱۰ ۱۹ء کی صبح بٹالہ سے روانہ ہو کر ہم(مفتی محمد صادق ایڈیٹر البدر ، حکیم محمد عمر) ایک بجے کے قریب لاہور میں پہنچے.اسٹیشن پر حکیم محمد حسین صاحب قریشی ملے جنہوں نے یہ خوشخبری سنائی کہ حضرت صاحب تا حال لاہور میں ہیں اور اس وقت شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان پر کھانا کھانے کے

Page 221

واسطے گئے ہوئے ہیں چنانچہ ہم خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر اسباب رکھ کر شیخ صاحب موصوف کی کوٹھی پر پہنچے اور حضرت امام کی زیارت سے مشرف ہوئے.حکیم محمد عمر صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ دیکھو آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ضرور پہنچ جائیں گے پھر کیا نتیجہ ہوا.حکیم صاحب نے عرض کی.پرانی عادتیں ہیں.کوشش تو کر رہا ہوں کہ ایسے کلمات منہ سے نہ نکلیں اور بہت رکا رہتا ہوں مگر پھر بھی کسی وقت کوئی لفظ نکل جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ تنبیہہ بھی ہو جاتی ہے.مومن کسی کا محتاج نہیں شیخ صاحب موصوف کے مکان پر ہی نماز ظہر پڑھی گئی اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح والمہدی شیخ صاحب کی درخواست پر ان کی دوکان میں تشریف لے گئے اور سب کمروں میں اپنا قدم مبارک ڈالا جو کہ دوکان کے واسطے موجب افتخار و برکات ہو گا.انشاء اللہ تعالیٰ.فرمایا.مومن کسی کا محتاج نہیں ہوتا.فرمایا.حضرت سید احمد صاحب جب حج کے واسطے بیت اللہ کو جاتے ہوئے جہاز میں سوار تھے تو ایک دفعہ جہاز میں نہایت سخت طوفان آیا اور خوفناک تلاطم ہوا.شیخ عبدالقیوم صاحب اس وقت چھوٹے تھے اور آپ کی گودی میں بیٹھے تھے.وہ ذکر کرتے ہیں کہ سید صاحب موصوف نے اس طوفان شدید کے وقت ایک اونگھ کے بعد فرمایا.’’ نہیں ‘‘ دریافت کیا گیا کہ کس بات پر آپ نے ایسا لفظ بولا.فرمانے لگے کہ سمندر اس وقت میرے سامنے آیا اور اس نے کہا کہ میں اس وقت سخت تلاطم میں ہوں اور یہ طوفان نہایت ہی خوفناک ہے اگر آپ کچھ حکم کریںتو میں بجا لائوں.میں نے اُسے جواب دیا کہ مجھے تمہاری طرف کوئی حاجت نہیں.تھوڑی دیر کے بعد آپ نے پھر فرمایا.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سمندر پھر آپ کے سامنے آیا اور اس نے خبر دی کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ سید صاحب کے کسی رفیق کی قبر تجھ میں نہیں ہے اور اس رعب میں میں دب گیا ہوں.چنانچہ

Page 222

اسی وقت طوفان تھمنا شروع ہو گیا اور تھوڑی دیر میں بالکل امن ہو گیا.نادان لوگ ان باتوں پر ہنسی کرتے ہیں مگر یہ واقعات ہیں.؎ فلسفی کو منکر حنانہ است از حواس انبیاء بیگانہ است صدقہ و خیرات سے علاج ایک شخص نے عرض کی کہ میری اولاد کچھ پاگل ہے اور کچھ نالائق ہے.فرمایا.کچھ خیرات کرو اور دعا کرو اور استغفارکرتے رہا کرو اور ہرگز نہ تھکو.اللہ تعالیٰ سے ناامید نہ ہو.خدا اپنے فضل سے سب کام ٹھیک کردے گا.فرمایا.ہمت ہارنا اور ناامید ہونا توکفر ہے.مومن کا کام نہیں کہ کبھی ناامید ہوجاوے.بلکہ کوشش کرتا جائے اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھے.اہل لاہور کو نصیحت لاہور میں جن لوگوں نے بیعت کی ان سب کو یہ نصیحت فرمائی کہ غفلت کی صحبت سے بچتے رہو.اور اگر کوئی مجبوری پیش آوے تو استغفار بہت کرتے رہو.غالباً اس واسطے فرمایا کہ بڑے شہروں میں غفلت کے سامان بہت مہیا ہو جاتے ہیں.ایک شیعہ کا خط اور اس کا جواب لاہور میں کوئی ایرانی شیعہ مولوی واعظ آئے ہوئے ہیں.ایک شیعہ نے برادرم ملک غلام محمد صاحب احمدی کو کہا کہ ہمارے ایرانی مولوی صاحب قادیان جائیں اگر تمہارے خلیفہ صاحب ان کے ساتھ بات کرنا چاہیں.ملک صاحب نے حضرت کی خدمت میں یہ بات پیش کی اور حضرت نے اجازت دی.جس پر اس نے پھر ایک خط لکھا جو کہ ملک صاحب نے حضرت خلیفہ صاحب کی خدمت میں لاہور میں پیش کیا.حضرت صاحب نے اسی وقت اس کا جواب لکھ دیا چنانچہ وہ خط اور جواب ہر دو درج ذیل کئے جاتے ہیں.

Page 223

شیعہ صاحب کا خط جناب مرزا غلام احمد صاحب کا ابتدائی دعویٰ محد ثیت اور پھر مجددیت اور بعدازاں مثیل مسیح اور آخر الامر مسیح ابن مریم اور مہدویت و نبوت کا تھا جو ان کے رسالہ جات وغیرہ اشتہارات سے پایا جاتا ہے.جناب مولوی نور الدین صاحب اس کے معتقد ہیں اور اسی بناء پر آپ قائم مقام اور خلیفۃ ا لمسیح ہیں.و نیز اس امر کا بھی اظہار فرماو یں کہ یہ خلافت منصوصی ہے تو کس کی طرف سے.بعد تصفیہ مابہ النزاع صدر مقام لاہور میں واسطے مناظرہ تقریری عام جلسہ میں جس میں علمائے ہر فرقہ شامل ہوں اور حکم مقرر ہوں ایک تاریخ مقرر کی جاوے.جس کا انتظام سرکاری بھی ہونا چاہیے اور اگر جناب مولوی صاحب چاہیں تو دہلی میں بھی ایسا جلسہ قائم ہو سکتا ہے.احقر فتح علی شاہ جواب از جانب حضرت خلیفۃ المسیح و المہدی ’’ہم کو تحقیق ہمیشہ مد نظر ہے اور اب میری عمر ستر ۷۰ سے متجاوز ہے بہرحال مرنا قریب ہے اگر ہمیں کوئی حق کی راہ مل جائے تو ہم غلطی پر ہٹ نہ کریں گے.ان شاء اللہ تعالیٰ.مگر حَکم کس مذہب کا ہوگا اور اس پر کس طرح اعتماد ہوگا.‘‘ نور الدین (ماخوذ از سفر ملتان نمبر ۱.البدر جلد ۹ نمبر۴۰ مورخہ ۴؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۶،۷) خنزیر کو چھونا ایک ویٹرنری اسسٹنٹ نے دریافت کیا کہ خنزیر ہینڈل کرنا، اس کا خون نکال کر اناکیولیٹ کرنا یا اس کا پوسٹ مارٹم ایک مسلمان کے واسطے جائز ہے یا نہیں؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ جائز ہے.فرمایا.اللہ تعالیٰ نے لحم خنزیر میں لحم کا لفظ بے فائدہ نہیں رکھا.بلکہ خدائے علیم و خبیر جانتا تھا کہ آئندہ کیا کیا ضرورتیں پیش آئیں گی.(البدر جلد ۹ نمبر۴۲ مورخہ ۱۱؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ۲)

Page 224

ملتان آنے کا سبب حضرت خلیفۃ المسیح ایک شہادت جو جناب رائے کیشو داس صاحب مجسٹریٹ کی عدالت میں ہوئی کے سبب ملتان تشریف لائے.ایک سپاہی بنام محمد تراب خان کوئی چھ ماہ سے زائد عرصہ گزرتا ہے کہ جب اس کی فوج لاہور سے گزری تو ایک ساتھی کے ہمراہ علاج کے واسطے قادیان آیا تھا.بعد میں وہ الزام اقدام قتل میں گرفتار ہوا.اس مقدمہ میں صفائی کی شہادت میں اس کے ساتھیوں نے حضرت کا نام لکھایا.حضرت صاحب نے ملزم کے قریب ہو کر اس کو شناخت کیا اور وکلاء کے سوالات کے جواب میں جو شہادت آپ نے ادا کی اس کے الفاظ اختصار اً یہ تھے.الفاظ شہادت میں اس شخص کو پہچانتا ہوں میرے پاس علاج کے واسطے گیا تھا.ٹھیک نہیں کہہ سکتا کہ کتنی مدت ہوئی چھ ماہ سے زائد عرصہ گزرا ہے ایک آدمی اور اس کے ساتھ تھا.میری تشخیص کے مطابق اسے مانیا تھا جسے انگریزی میں مینیا کہتے ہیں.جنون کا ایک قسم ہے.اس کی علامات ہیں مبہوت رہنا، طبیب کے سامنے اچھی طرح اپنا حال بیان نہ کرنا، آنکھوں کی سفیدی میں تکدر، طبیعت میں جوش کا ہونا.ہفتہ عشرہ یہ وہاں رہا.فائدہ نہیں ہوا میں نے کہا تھا کہ زیادہ عرصہ ٹھہرو مگر نہیں ٹھہر سکا.میں دن میں ایک وقت اسے دیکھتا تھا چند منٹ لگتے تھے پھر اپنے پاس نہیں بٹھاتا تھا.میں حضرت مرزا صاحب کا خلیفہ اوّل ہوں جماعت احمدیہ کا لیڈر ہوں.قریباً۴۵سال سے حکمت کرتا ہوں.ریاست کشمیر میں میں شاہی طبیب تھا وہاں قریباً پندرہ سال رہا.میں نے نہیں سنا کہ اس شخص نے کسی پر حملہ کیا ہو.مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اس کو نسخہ لکھ دیا تھا.میرے ہاں بیماروں کے لئے کوئی رجسٹر اندراج نہیں.میں بیمار کو پوری تحقیق سے دیکھتا ہوں سرسری طور پر کسی کو نہیں دیکھتا.

Page 225

شیطانی خواب سے حفاظت شہادت کے بعد حضور مکان پر تشریف لائے پہلے تو ارادہ تھا کہ اسی روز واپس آ جاتے مگر بعض معززین ملتان کے اصرار سے ایک روز اور قیا م کرنا منظور فرمایا.بہت سے بیمار حاضر ہوئے اور شام تک یہی سلسلہ جاری رہا.دوسرے دن بھی پھر شام تک یہی سلسلہ جاری رہا.درمیان میں بعض لوگ کچھ مسائل بھی دریافت کر لیتے.ایک شخص نے عرض کی کہ مجھے بہت خوابیں آتی ہیں.میں نہیں جانتا کہ ان میں کچھ شیطانی بھی ہو ں.فرمایا کہ تم سونے سے قبل قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ہر دو سورتیں پڑھ کر ہاتھ پر پھونک کر سارے بدن پر ہاتھ پھیر لیا کرو اور لاحول پڑھا کرو.اس سے تم محفوظ رہو گے.بُرا خواب آوے تو اعوذ پڑھو اور لاحول پڑھو اور بائیں طرف تھوک دو.اللہ تعالیٰ اس کے شر سے تم کو محفوظ رکھے گا.تکلیف امر خیالی ہے ایک شخص نے عرض کی کہ حضور کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی.فرمایا.تکلیف بھی ایک خیالی بات ہے ایک نان پز ایک روٹی کے واسطے دو بار تنور میں سر ڈالتا ہے مجھے اگر کوئی دو لاکھ روپیہ دے تو میں ایک دفعہ بھی تنور میں سر ڈالنا نہیں چاہتا.میں تو یہی کہہ دوں کہ مجھے روپیہ کی ضرورت نہیں.فرقہ چکڑالوی پر ایک سوال فرمایا.میں نے چکڑالویوں پر دو سوال کئے تھے جن کے وہ کچھ جواب نہ دے سکے.ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ جب تم کلمہ شریف لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ اس واسطے نہیں پڑھتے کہ یہ الفاظ اس طرح قرآن شریف میں ایک جگہ نہیں آئے تو پھر نماز جو تم نے بنائی ہے وہ کیوں پڑھتے ہو اس کے الفاظ بھی تو قرآن شریف میں ایک جگہ جمع ہوکر نہیں آئے.نماز کی تاکید فرمایا.نماز سنوار کر پڑھو.وہ شخص غافل ہے جو نماز کو چھوڑتا ہے.زمین و آسمان کے بادشاہ کے حضور کھڑے ہوکر بات کرنے کاموقعہ انسان کو نماز میں ملتا ہے اس کی طرف پوری توجہ کرنی

Page 226

چاہیے اور اس میں غفلت اور سستی ہرگز مناسب نہیں.ہندئووں کا خدا کس طرح خوش فرمایا.ایک ہندو ڈاکٹر تھا اس سے ہم نے دریافت کیا کہ ڈاکٹر صاحب کیا آپ بھی مذہب ہندو کے قائل ہیں؟ اس نے کہا میں اس مذہب کا بہت بڑا مداح ہوں کیونکہ اس مذہب میں ایک ایسی خوبی ہے جو کسی مذہب میں نہیں اور وہ یہ ہے کہ ہندو رہنے کے واسطے صرف اتنی بات کافی ہے کہ کھانا کسی دوسرے کے ساتھ مل کر نہ کھائیں.صرف اتنی پر ہیز سے ہمارا مذہب قائم رہ سکتا ہے اور بس.کیا احمدی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں ایک شخص نے سوال کیا کہ ہم ہمیشہ دیکھتے چلے آئے ہیں کہ سب مسلمان نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگا کرتے ہیں.مگر آپ کی جماعت نہیں کرتی.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہم ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کے منکر نہیں بلکہ قائل ہیں اور ہم وقتاً فوقتاً اس طرح دعا مانگتے ہیں.چنانچہ جب بیعت کر چکتا ہے تو اس وقت بھی ساری جماعت موجودہ ہاتھ اٹھاکر دعا کرتی ہے.اکثر درس قرآن مجید کے بعد بھی لوگوں کی درخواست پر اس طرح دعا کی جاتی ہے لیکن نماز کے بعد اس طرح دعا مانگنا مسنون نہیں.آنحضرت ﷺ پہلی سنتیں گھر سے پڑھ کر باہر تشریف لایا کرتے تھے اور پچھلی سنتیں پھر گھر میں جا کر پڑھتے تھے.فرضوں کے بعد فوراً چلے جاتے تھے.یہی طریق حضرت مرزا صاحب کا بھی تھا.اور اکثر اولیاء اللہ ایسا ہی کرتے تھے مگر بعض بزرگوں نے دیکھا کہ لوگ اس طرح سنتوں کے اداکرنے میں غفلت کرتے ہیں اور فرضوں کے بعد فوراً گھر چلے جاتے ہیں تو پھر سنتوں کی ادائیگی میں سستی کرتے ہیں اس واسطے انہوں نے یہ عادت ڈالی کہ نماز مسجد میں ہی پوری ادا کی جائے.نمازساری دُعا ہے لوگوں نے نماز کو ایک اور شے سمجھا ہے اس کو جلدی جلدی پورا کر لیتے ہیں اور پھر دعامیں ہاتھ اُٹھا کر لمبی دعائیں مانگتے ہیں.نماز کے اندر جو اصل قبولیت کا وقت ہوتا ہے ان کے دل خشک ہوتے ہیں اور پھر دعا میں کچھ رقت ظاہر کرتے ہیں.حالانکہ اصل دعا کا وقت تو نماز کے اندر ہے.کھڑے ہوئے رکوع میں سجدہ میں بیٹھے ہوئے نماز کے اندر دعا مانگنی چاہیے.اب ایک رسم پڑ گئی ہے کہ نما زپڑھ کر امام مقید ہو کر بیٹھتا ہے کہ لوگ فارغ ہوں تو دُعا کرے

Page 227

تب اس کی بند خلاص ہو.پھر لوگ ہیں کہ دعا پر دعا کی تحریک کرتے چلے جاتے ہیں کوئی کہتا ہے دعا کرو کہ بندی والوں کی بند خلاص ہو.کوئی کہتا ہے دعا کرو کہ بیماروں کو شفاء.دُعا کے واسطے شرط اضطراب اور جوش ہے وہ ان کو حاصل نہیں پھر دعا کیسی چاہیے کہ نماز کے اندر دعا کی جاوے.استقامت فرمایا.بچپن سے جن سچائیوں پر قائم ہوں آج تک میں ان کو راست پاتا ہوں اور انہیں پر قائم ہوںیہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.وساوس کس طرح دور ہوں ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور مجھے نماز میں وساوس بہت آتے ہیں ان کا کیا علاج کروں؟ فرمایا.نماز کے معنے سیکھ لو اور معنوں کی طرف توجہ کر کے نماز پڑھو انشاء اللہ حضوری حاصل ہو گی.وساوس کی پرواہ نہ کرو جہاں مال ہوتا ہے وہاں چور بھی آتا ہے تم اپنی طرف سے کوشش کرتے رہو آگے خدا تعالیٰ حفاظت کرنے والا ہے.موجودہ حالت حضر ت خلیفۃ المسیح کے حضور میں بہت سے مریض حاضر ہوئے جن میں اکثر ضعف قلب اور کمزوری میں مبتلا ء تھے.فرمایا.یہ بے کاری ، سستی اور افلاس کا نتیجہ ہے دوکانیں عموماً میلی اور خراب سی ہیں.ہر طرف غربت اور کمزوری کے آثار نمودار ہیں.شہر کے ارد گرد زمینیں چنداں آباد نہیں.کوئی شاندار مکان نہیں.جا بجا عربوں کے فتوحات کا نمونہ کھجور کا درخت موجود ہے اور سب درختوں سے سر اونچا نکال کر اس جڑ ھ کے لگانے والے عالی ہمت لوگوں کے یہاں تک پہنچنے کی شہادت دے رہا ہے.یہاں کے رسومات میں ایک عجیب بات یہ معلوم ہوئی کہ ہندو لوگ جن کو کراڑ کہتے ہیں شادیوں کے موقعہ پر ہاتھ میں لکڑی لے کر ناچتے ہیں.چلتی کل اچھی ایک بیمار کو جو چل پھر نہ سکتا تھا فرمایا.یہ کل بھی چلتی ہی اچھی لگتی ہے انسان کے واسطے لازم ہے کہ ہر وقت خدا کا شکر کرتا رہے.

Page 228

میں نر و مادہ کی شناخت کو سب سے اوّل اہل عرب نے دریافت کیا تھا.اہل عرب اب تک اس سے بہت فائدہ اُٹھاتے ہیں نر کھجور کا مادہ کھجور کے ساتھ پیوند کرتے ہیں تو پھل دس گناہو جاتا ہے.خواب میں بیڑیاں ایک شخص نے اپنی کچھ خوابیں سنائیں.اس تحریک پر فرمایا کہ ایک شخص جو موحد تھا.اس بات پر کسی سے جھگڑا کرتا تھا کہ یَا شَیْخَ عَبْدَالْقَادِرِ جِیْلَانِیْ شَیْئاً لِلّٰہِ کا وظیفہ جائز نہیں.اس نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ اس کے پائوں میں بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں اور اسے حضرت شیخ عبدالقادر علیہ الرحمۃ کے پاس لے گئے ہیں.وہ گھبرایا ہوا صبح ہمارے پاس آیا.ہم نے اسے تعبیر کی کتاب میں دکھایا کہ پائوں میں بیڑیاں استقامت دینی کی نشانی ہے اور بہت مبارک اور مبشر خواب ہے.اس میں کوئی گھبرانے کی بات نہیں.اپنے اخلاق درست کرو فرمایا.انسان کے اپنے ہی اخلاق موجب بہشت یا موجب دوزخ ہوتے ہیں.جو شخص اپنے اخلاق کو درست کر لیتا ہے وہ بہت ہی سکھی رہتا ہے.روحانی و شیطانی جوش فرمایا.جو روحانی جوش ہوتا ہے اس کے ساتھ سرور، قوت اورامداد الٰہی ہوتی ہے جو شیطانی جوش ہوتا ہے اس کے ساتھ یہ باتیں نہیں ہوتیں.یہی ایک امتیازی نشان ہے.رُوح کا علاج ایک شخص نے عرض کی کہ یا حضرت میری رُوح بیمار ہے اس کے واسطے کوئی علاج آپ بتلائیں.فرمایا.میں وہ علاج بتلاتا ہوں جس کے بتلانے والا اللہ تعالیٰاور لانے والامحمد رسول ا للہ ہے.اللہ تعالیٰ کے بندے جو دنیا میں آئے اور اپنے تجارب کی باتیں بتلا گئے.وہ باتیں سب سے عمدہ اور سب سے آسان ہیں جس نے فطرت بنائی اسی کا کلام ہے.البتہ ضروریات اور حالات ہر شخص کے واسطے الگ ہیں.آپ آنحضرت ﷺ کے احسانات کو یاد کر کے درود شریف پڑھا کریں اور الحمد شریف پڑھا کریں اور یہ دعا پڑھا کریں(الانبیاء:۸۸) خواہش اور ذوق اس کا وقت ہے.چلتے اُٹھتے بیٹھتے جب میسر آوے اس کو پڑھو.

Page 229

کلمہ ٔشریف فرمایا.جونبی دنیا میں آیا اس نے توحید سکھلائی توحید ہی سب کا اصل ہے.مگر پچھلوں نے بجائے توحید کے خود توحید بتلانے والے کو خدا کا شریک بنا دیا.یہی حال رامچندر اور کرشن کے ساتھ ہوا اور یہی حال حضرت عیسیٰ ؑکا ہوا.اس واسطے آنحضرت ﷺ نے لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ بھی لگا دیا کہ خدا ہمیشہ ایک ہی ہے محمد اس کا رسول ہے اس کو کبھی خدا نہ بنا بیٹھنا.آنحضرت ﷺ جانتے تھے کہ یہ قوم مشرک رہ چکی ہے کہیں پھر شرک کی طرف نہ جھک جائے اور یہ بھی خیال تھا کہ قوم میں بڑے بڑے آدمی پیدا ہوں گے.اَنَا الْحَقُّ کہنے والے بھی پیدا ہوں گے.جب محمد ؐ صرف رسول ہے تو اس کی امت میں سے کوئی کیوں کر خدا بن بیٹھے گا.آنحضرت ﷺ کا یہ منشاء تھا کہ دنیا سے شرک کو مٹا دیں.شرک مٹانے کی کوشش ایک ڈاکٹر صاحب نے عرض کی کہ حضرت باوجود ان کوششوں کے بھی پھر شرک مٹا تو نہیں.فرمایا.ڈاکٹر کا کا م ہے کہ علاج کے واسطے کوشش کرتا جائے.باوجود علاج کے لوگ مرتے ہیں مگر پھر بھی ڈاکٹر اور اطباء ہیں کہ اپنی طرف سے برابر کوشش میں مصروف ہیں.یہی حال روحانی اطباء کا بھی ہے.وہ اپنی طرف سے برابر کوشش کر رہے ہیں اور بہت کچھ کامیاب بھی ہورہے ہیں.آئندہ زندگی ایک شخص نے سوال کیا کہ عالم آخر میں جو فرق اور درجات لوگوں میں ہوں گے وہ کس بات میں ہوں گے، نفس حیات میں یا انعام الٰہی میں.فرمایا.حیاتی بھی انعام الٰہی سے وابستہ ہے.اس جہان میں دیکھو کہ ایک شخص آتشک اور جذام میں گرفتار ہے دوسرا صحیح سلامت ہے.ہردوبرابر نہیں ہو سکتے.ہر دو کی حیات بھی یکساں نہیں.حیاتی بھی اعضاء کے ساتھ وابستہ ہے.جس کی آنکھ نہیں اس کا یہ حصہ حیات سے خالی ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک گروہ کے متعلق فرمایا ہے کہ (النحل:۹۸) اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہ مرتے ہیں نہ جیتے ہیں.سب یکساں نہیں ہیں.اور یہ کہنا کہ وہ کونسا جسم ہو گا ایک بے وقوفی ہے.خدا تعالیٰ کے معاملات میں گستاخی کرنا اچھا نہیں.کیا میرا جو جسم ماں کے پیٹ سے نکلا تھا وہی یہ جسم نہیں؟ بالکل نہیں.یہ جسم تو ہر

Page 230

وقت بدلتا رہتا ہے.مِنْ حُسْنِ اِسْـلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ(کنز العمال جلد ۳ صفحہ۶۴۰).انسان کے اسلام کی عمدگی میں یہ بات ہے کہ بے فائدہ بات کو چھوڑ ے.بعض احادیث میں ہے کہ انسان کا ہاتھ ۶۰ ہاتھ لمبا ہو گا.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس کی کیفیت کیا ہو گی.بہرحال یہ ہاتھ تو اتنا لمبا نہیں ہے جس بات کا علم نہیں اس کے متعلق گفتگو کرنا مناسب نہیں.قناعت ایک شخص نے عرض کی کہ حضور بہت گرمی ہے.فرمایا.گرما منجملہ تحائف ملتان بیان کیا جاتا ہے ہم بھی باہر سے آئے ہیں.ضرور ہے کہ گرمی برداشت کریں.فرمایا.جہاں ندیاں زیادہ ہوں وہاں برسات کم ہوتی ہے اگر یہاں برسات زیادہ ہوتی تو یہ کچے مکان آباد نہ رہ سکتے.خدا پنے بندوں کی پرورش کرتا ہے فرمایا.حضرت شاہ غلام علی صاحب جب حضرت مظہر جانِ جاناںکے خلیفہ ہوئے تو کسی کو لنگر میں خیال نہ آیا کہ ان کے واسطے کھانا لے جائے اور وہ کھانا مانگنے نہ جا سکتے تھے.سات وقت یا سات روز گزر گئے کہ بھوکے رہے اور بہت ضعف ہو گیا.وقت عشاء کا تھا چلنے کے لئے تاب و توان نہ تھا کسی سے ظاہر نہ کیا کہ میری کیا حالت ہے.جب سب سو گئے تو کوئی شخص آیا اور ایک کلاں با قر خانی لایا اور آواز دی کوئی ہے تو یہ لے لے.اور تو سب سوتے ہی تھے شاہ صاحب نے اٹھ کر لے لی.نصف روٹی کھائی تو سیر ہو گئے خیال آیا کہ باقی نصف رکھ چھوڑیں دوسرے وقت کام آئے گی لیکن سوچا کہ یہ امر توکل کے خلاف ہے اس واسطے باقی نصف کسی کوجگا کر دے دیا.الہام ہوا کہ اگر تو اس نصف کو رکھ لیتا تو ساری عمر اسی طرح روٹی ملتی.یہ ایک امتحان تھا جس میں تو کامیاب ہو گیا ہے.صبح سویرے لوگوں کو خیال آیا کہ حضرت صاحب کو کس نے کھانا کھلایا ہے ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے.شہر میں اس کا چرچا ہوا بڑے بڑے لوگ معذرت کرنے کو آئے.فرمایا.تمہارا قصور نہیں یہ ایک حکمت الٰہی تھی.(ماخوذ از سفر ملتان نمبر۲.البدر جلد ۹ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۱؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۳تا۶) خدا پر بھروسہ فرمایا.میرے بہت سے بچے فوت ہوئے.جو فوت ہوا اسی یقین کے ساتھ ہم

Page 231

نے اُسے دفن کیا کہ اب اللہ تعالیٰ اس سے بہتر عطا کرے گا.خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا.عالم جوانی کے لڑکے فوت ہوتے رہے بڑھاپے کے خدا نے اپنے فضل سے عطا کئے.تمدن میں نقص فرمایا.ہمارے ملک کے تمدن میں ایک بڑا نقص ہے کہ ایک ہی مکان میں باپ بیٹا ، بلکہ پوتا بمعہ اپنی عورتوں، بہنوں اور بھائیوں کے اکٹھے رہتے ہیں اور میاں بیوی کو بے تکلفی کے واسطے خلوت میسر نہیں ہوتی اور عزیز و اقربا کا ایک حجاب ہر وقت دل پر رہتا ہے.اس کا اثر آئندہ اولاد پر بہت برا ہوتا ہے.اولاد کمزور اور ضعیف القلب پیدا ہوتی ہے.چاہیے کہ شریعت کے حکم کے مطابق ہر ایک کا گھر جدا ہو.تکلیف سے خدا ہی بچاتا ہے تجویز ہوئی کہ واپسی پر شام کی گاڑی میں جائیںاور رات بٹالہ ٹھہریں.ایک دوست نے عرض کی.رات بٹالہ میں تکلیف ہو گی.فرمایا.اگر تکلیف مقدر ہے تو یہاں بھی ہو سکتی ہے.آرام تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہوسکتا ہے.ذریعہ وحدت ذکر ہوا کہ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ نماز اُردو زبان میں پڑھی جائے.فرمایا کہ پھر پنجابی کہیں گے کہ پنجابی زبان میں نماز ہو.اور پھر سیالکوٹی کہیں گے کہ سیالکوٹ کی پنجابی میں نماز پڑھی جائے اور اس طرح شہر شہر کی زبان جدا ہونے کے سبب یہ جو ایک بڑا ذریعہ وحدت اسلامی قوم میں ہے یہ بالکل اُٹھ جائے گا.تجارت جب حضرت اقدس بمعہ خدام مستری موسیٰ صاحب کے ہاں کھانا کھا کر انار کلی میں سے واپس تشریف لائے.تو راستہ میں حسب درخواست میاں چراغ دین صاحب ان کی دوکان عزیزہاؤس میں تشریف لے گئے.جہاں برادران میاں عبدالعزیز میاں محمد سعید کام کرتے ہیں.صاحبان دوکان کو مخاطب کر کے فرمایا.

Page 232

دوکان چلانے کے واسطے ہمت، استقلال، دیانت، ہوشیاری، عاقبت اندیشی اور امانت کی ضرورت ہے.فرمایا.لکھا ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار حرفہ سکھلایا ہے.یورپ نے بہت ترقی ہے مگر ہنوز ہزار تک نوبت نہیں پہنچی.فرمایا.حدیث شریف میں آیا ہے کہ تجارت میں ۱۹ حصہ منافع ہے.باقی ایک حصہ دیگر حرفوں میں ہے.فرمایا.حدیث شریف میں آیا ہے تجارت کے واسطے مغربی ممالک میںجائو.فرقہ ملامتی صوفیوں کے فرقہ ملامتی کا ذکر تھا.فرمایا.اس فرقہ کے لوگ ایسے افعال اور حرکات بظاہر کرتے ہیں جن سے بدنامی حاصل ہو.اس سے مراد ان کی یہ ہوتی ہے کہ نفس لوگوںکی تعریف سے خوش ہو کر متکبر نہ ہو بلکہ اس کو ایسی سزا ملے کہ وہ نیچے کو گرے اور ذلت کو اختیار کرے.فرمایا.میں نے ایسے لوگ بہت دیکھے ہیں.بڑ ا بڑا مجاہدہ بھی کرتے ہیں لیکن بعض وقت سخت ابتلائوں میں گر جاتے ہیں.فرمایا.اس فرقہ کا ایک آدمی احمد نام ہم نے دیکھا تھاجو کہ ضلع شاہ پور میں رہتا تھا.اُس نے بہت سے مجاہدات کئے ہوئے تھے.ا یک دفعہ ہم نے اس کی دعوت کی تو کہنے لگا کہ کسی رنڈی کے ہاں سے کھانا پکوایئے اور اپنے پاس بیٹھ کر کھلائے.یہ شخص آخر ایک بڑے ابتلا میں گرفتار ہوا.ایک ڈاکٹر نیل مادھو نام شاہ پور میں تھا.اس کے ساتھ جو کچھ مذہبی گفتگو ہوئی تو اس نے احمد کو کہا کہ ہمیں کچھ کرامت دکھائو تب مان لیتے ہیں.احمد نے ایسا کمال دکھایا کہ رات کے وقت بابو کو ایسا خوفناک نظارہ دکھائی دیا کہ وہ چیخ اٹھا اور توبہ کر کے مسلمان ہونے کو تیار تھا.مگر احمداس کے سامنے آیا تو اسے کہا شاید آپ ہماری بات بھول گئے.آپ نے ہمیں کچھ نہ دکھا یا یہ بات اس نے شرارت سے کی.احمد حیران ہوا اور دوسری شب اس نے بہت ہی زور لگایا.بابو نے بعض آدمیوں کے سامنے اس کا ذکر بھی کیا مگر احمد کے سامنے پھر انکار کر دیا.ایسا ہی تیسری شب بھی ہوا.جس پر احمد بہت گھبرایا اور اس کے خیال میں آیا کہ شاید اس کے پاس کوئی ایسا کمال ہے جو میرے تصرف سے بڑھ کر ہے.اس واسطے اُس نے بابو کو کہا کہ آپ اپنا کمال دکھائیں.بابو نے اُسے شراب پلا کر ناک میں نکیل ڈال کر بازار میں نچایا.

Page 233

جب اُسے ہوش آیا اور اپنا حال معلوم ہواتو بہت شرمندہ ہو کر کہیں روپوش ہو گیا.ایک دفعہ میں نے (حضرت خلیفۃ المسیح نے )حضرت مرزا صاحب( مسیح موعود ) سے دریافت کیا تھا کہ ملامتی فرقہ کے متعلق حضور کا خیال کیا ہے؟ فرمایا.ہمارے فرقہ احمدیہ سے بڑھ کر ملامتی کون ہے جہاں بیعت کی سب اپنے بیگانے ہو گئے اور سب ملامت کرنے لگے.ا صل ملامتی فرقہ یہی ہے جو خد اتعالیٰ کی خاطر دکھ اٹھاتا ہے.تکلف کے ساتھ ملامتی بننے کے کیا معنے.جو سچے دل سے خدا کی طرف جھکتا ہے وہ تو خود ہی ملامتی بن جاتا ہے.یہ طریق جو ان ملامتیوں نے اختیار کیا ہے یہ غلطی ہے.آریائوں کا شکریہ فرمایا.آریہ بھی اسلام کا کام کر رہے ہیں.جس قدر بت شکنی انہوں نے اس زمانہ میں کی ہے ہمارے مولوی لوگ کہاں کر سکتے تھے.ان میں اتنی ہمت کہاں ہے.آریوں نے استیصال بت پرستی کاکیا.الہام الٰہی کے قائل ہیں.کتاب الٰہی کے وجود کے قائل ہیں.(ماخوذ از سفر ملتان نمبر ۳.البدر جلد ۹ نمبر۴۳ مورخہ ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۴) آنحضرت ؐ کے طفیل عرب میں دور ہونے والی برائیاں فرمایا.جب اس بات کا خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا میں خصوصاً عرب میں نبی کریمﷺ کی طفیل کس قدر سلامتیاں پھیلیں تو بے اختیار اُن کے لئے سلامتی کی دعا کرنے کو اُبال اٹھتا ہے اور منہ سے نکلتا ہے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُـہٗ.آٹھ دفعہ شراب پی جاتی تھی اس کی بجائے آٹھ نمازیں ہو گئیں.پتھرمعبود تھے ان کی بجائے حیّ و قیّوم، قادر و توانا، علیم و حکیم خدا سے رشتہ ٔ عبودیت جو ڑدیا گیا.ان بتوں کی نسبت عجیب عجیب حکایات ہیں.منجملہ ان کے یہ کہ :.ایک دفعہ بت پرست سفر پر تھے.پتھر کے بت تو اُٹھا نہ سکتے تھے آٹے کے بت بنالئے تا اُٹھانے میں سہولت ہو.مگر اتفاقاً ایسا ہوا کہ کھانے کے لئے آٹا نہ رہا سخت بھوک لگی تو یہ تجویز کی کہ فی الحال ان بتوں کو توڑ کر کھا لیتے ہیں.چنانچہ ایسا ہی کیا.گویا یہ تو ان کے خدا تھے.

Page 234

شراب نوشی کا یہ عالم تھا کہ گھر گھر میں شراب کھینچی جاتی.اور یہ ایسی ام الخبائث ہے کہ آدمی متوالا ہو کر ماں اور بہن اور لڑکی کو نہیں پہچانتا.پھر شرک جو تفرقہ قومی اور بزدلی کی جڑ ہے.نبی کریم ﷺ کی طفیل یہ سب برائیاں دور ہو گئیں اور ان کی بجائے کئی خوبیاں اس قوم میں آگئیں.جزا وسزا کے مسئلے پر ایمان لائے، ماں باپ کی تعظیم سکھائی، لین دین کے معاملات میں راستبازی پیدا کی، پردیسیوں کے حقوق بتائے، غلاموں پر رحم کرنا سکھایا، عورتوں کے حقوق قائم کئے کہ (البقرۃ:۲۲۹)کی تعلیم دی.ان تمام مہربانیوں کا تصو رکر کے مومن یہ دعا کرتا ہے کہ الٰہی تو میرے پیارے نبی کی عزت و درجہ کو ترقی دے.اپنی خاص رحمتوں کا نزول فرمایو.اپنی برکات نازل کیجیو.بِر کہ کہتے ہیں حوض کو جس میں اردگر دکا پانی جمع ہو جائے، گویا دعا کی کہ تمام سعیدروحیں اس دین اسلام میں شامل ہوں.رسول اکرم ؐ کے جھنڈے کے نیچے آ جائیں.پھر ہم بھی دین کے لئے سلامت رہیں.اس کے نواب و خلفاء پر خاص سلامتی ہو.فرمایا اَلتَّحَیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَ الطَّیِّبَاتُ کو خلاصۃً اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ میں دُہرایا اور خود نبی کریم کی سلامتی اور اس کی رسالت کی گواہی دی.ملائکہ کے نزول کے نشان فرمایا.جو لوگ توجہ سے قرآن پڑھتے ہیں ان کو بعض اوقات ایک بادل نظر آتا ہے.شریعت کی زبان میں اسے سکینہ کہتے ہیں.ملائکہ کے نزول کا نشان ایک بادل ہے پھر اس سے بڑھ کر بارش(البقرۃ:۲۱۱) اور (الانفال:۱۲) میں بتادیا ہے کہ وہی ابروباراں مومنوں کی فتح اور کفارکے عذاب کا موجب ہوا.میدان جنگ میں سپاہیوں کو اُونگھ آنا کامیابی کی علامت ہے.اوربارش کے ساتھ ملائکہ کا نزول ہوا جس سے اُن کے قدم بظاہر ریت میں

Page 235

جم گئے.باطن میں استقلال حاصل ہو گیا.جنگ کا عذاب اور عذاب نار (۲) فرمایا. کے ساتھ(الانفال:۱۵) اس میں یہ نکتہ ہے کہ جنگ کا عذاب تو سب کو سہنا پڑے گا.مگر چونکہ کچھ مسلمان بھی ہو جائیں گے اس لئے فرمایا جو کفر کرنے والے ہیں ان کو عذاب نار بھی ملے گا.کامیابی کا گُر ایک رخصت ہو کر باہر جانے والے نوجوان کو فرمایا.کامیابی کا گُریہ ہے کہ (۱) اللہ پر ہر حال میں بھروسہ رکھو.(۲)جن کو اللہ تعالیٰ نے تم پر حاکم کیا ہے اس کی خلوص کے ساتھ پوری پوری فرمانبرداری کرو.(۳) اپنا کام دیانت ، امانت ، ہوشیاری سے کرو.(۴) بہت دعائیں کرو.مومن کا ہتھیار دعا ہی ہے.(۵)دل چاہے تو ہماری طرف خط بھی لکھتے رہو.(۶) فرمایا.نماز میں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ بھی آتا ہے.صَلِّ کے معنے ہیں خاص الخاص رحمتیں ہوں، ذکر جمیل ہمیشہ ہوتا رہے، آپ کا شرف، فضلیت، خیر وبرکت اور کامیابی کے نتائج دنیا میں قائم رہیں.لعنت کا لفظ اس صلوٰۃ کے مقابل پر ہے.اسلام میں پچاس جگہ درود شریف پڑھنے کا حکم دیا ہے.بعض مواقع عوام کو میسر نہیں ہوتے ہیں.جیسے صفا مروہ و استلام حجر اور بعض ہو سکتے ہیں.(۱) مثلاً نماز کے آخری التحیات میں (۲)دعا قنوت کے اخیر میں وَصَلَّی اللّٰہِ عَلَی النَّبِیِّ (۳)پہلے التحیات میں بھی بعض محدثین نے مستحب قرار دیا ہے (۴)صلوٰۃ جنازہ میں (۵)خطبہ عید،

Page 236

خطبہ جمعہ، خطبہ نکاح میں (۶)اذان سن چکنے کے بعد (۷)جب نماز کی تکبیر پڑھی جاوے (۸)دعائوں کے ابتداء، آخر ، وسط میں (۹)مسجد میں داخل ہونے کے وقت بِسْمِ اللّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ (۱۰) جب نبی کا ذکر آئے (۱۱)جب نیند سے اُٹھے (۱۲)جب اکٹھے بیٹھے ہوں.اس وقت بھی کسی نہ کسی طرح نبی کریم ﷺ کا ذکر کے درود بھیجنا چاہیے.(۱۳)جب کوئی تفرقہ مٹے اس وقت بھی (۱۴) تبلیغ ووعظ کے وقت(۱۵)محتاج انسان حاجت کے وقت (۱۶) وضو سے فارغ ہو کر.میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ درود کی بہت ہی عادت ڈالو.اس کا ادنیٰ فائدہ تو یہ ہے مَنْ صَلّٰی عَلَیْہِ وَاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشَرۃً جب ایک بار اخلاص کے ساتھ تم نبی کریم کے شرف وکامیابی و رحمت کاملہ کے نزول کی دعا کرو گے تو خدا تعالیٰ دس بار تم پر ایسی رحمتیں بھیجے گا.(الحکم جلد ۱۴ نمبر ۳۰ مورخہ۲۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۸،۹) طالبان حق کا خط السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ التماس مؤدبانہ ہے کہ فدویان نے سلسلہ احمدیہ پر ہر طرح سے غور و خوض کیا ہے لیکن بعض وجوہات سے ہمیشہ یہ شک پڑا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کو آپ بذات خود وہ مہدی موعود نہیں مانتے جس نے کہ آخری زمانہ میں ہونا تھا اور جس کے بارے میں جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ دجال کے مقابلہ میں ہماری امت سے مہدی آخر الزمان ہو گا.چونکہ آپ کی تقویٰ وطہارت پر ہم کو پورا یقین ہو گیا ہے اور آپ کا علم قرآن شریف اور احادیث بدرجہ کمال ہے اس لئے آپ اگر حلفیہ اپنے دستخطی یہ تحریر کرکے بھیج دیویں کہ مرزا صاحب موصوف وہی مہدی معہود و مسیح موعود ہیں جن کی بابت ہمارے نبی آخر الزمان جناب رسول مقبول ﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہے اور بے شمار احادیث میں جن کا ذکر ہے.تو ہم محض اسی بناء پر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو جاویں گے.صرف آپ کے جواب کا انتظارہے ور نہ قیامت کے دن آپ ذمہ دار ہوں گے کہ سچائی آپ نے ظاہر نہیں کی.طالبان حق خدا بخش بقلم خود.غلام رسول پٹواری بندو بست بقلم خود

Page 237

جواب از خلیفۃ المسیح اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَـہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُـہٗ.میں اللہ تعالیٰ کی قسم کر کے یہ چند حروف لکھتا ہوں کہ میرزا غلام احمد پسر مرزا غلام مرتضیٰ ساکن قادیان ضلع گورداسپور اپنے دعویٰ مسیح و مہدی و مجددیت میں میرے نزدیک سچا تھا اس کے دعاوی کی تکذیب میں کوئی آیت قرآنیہ اور کوئی صحیح حدیث کسی کتاب میں میں نے نہیں دیکھی.( نقل دستخط ) نور الدین ۲۱؍اپریل ۱۹۱۰ء................................تصویر بدعت ہے ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح کو لکھا کہ حضرت مرزا صاحب کی تصویر کہیں سے قیمتاً لے کر مجھے ارسال کر دو.حضرت نے جواب میں لکھا.السلام علیکم.یہاں تو کوئی نہیں چھپی.سنا ہے لاہور میں طبع ہوئی ہے.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.خاکسار ناپسند کرتا ہے اور میں نے مرزا جی سے سنا ہے فرمایا کرتے تھے یہ بدعت ہے.نور الدین (البدر جلد ۹نمبر ۴۴ مورخہ ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۳) مردہ بچہ کا جنازہ ایک شخص کے خط کے جواب میں حضرت خلیفۃ المہدی نے فرمایا کہ جو بچہ مردہ پیدا ہو اس کے واسطے نماز جنازہ نہیں ہوتی.زانی کا نکاح ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا ایک زانی اپنی زانیہ کی نواسی سے نکاح کر سکتا ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ قرآن شریف کے حکم کے مطابق زانی مرد کسی پاک دامن لڑکی سے نکاح نہیں کرسکتا.ہرن کی قربانی ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا عید اضحی پر ہرن کی قربانی دی جاسکتی ہے؟ فرمایا کہ نہیں.

Page 238

بیوہ کی پہلی اولاد کی کفالت ایک دوست نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا بیوہ کے ناکح پر بیوہ کی پہلی اولاد کی کفالت لازم ہے؟ فرمایا کہ لازم ہے.اگر وہ شخص اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا کہ ان کی کفالت کر سکے تو اسے چاہیے کہ ایسی بیوہ سے نکاح نہ کرے کیونکہ بیوہ کے بچے یتیم ہیں ان کی حق تلفی ظلم ہے.وہ ہر طرح سے قابل رحم ہیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جس سے ان کی تربیت میں کوئی نقص واقع ہونے کا اندیشہ ہو.(البدر جلد ۹ نمبر۴۴ مورخہ ۲۵ ؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ۷) ایک خط اور اس کا جواب سوا ل تسلیم.بندہ کو بموجب ناجائز تعلیم والدین کے علم توحید سے لا علمی ہے جس سے اسلام مشرف ہے.چنانچہ ہم اپنے اوتار (یعنی شہدا، صالحین، صدیقین ونبیین ) کو زندہ، قائم، پاک، بزرگ، رحیم اور کریم جانتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.اے حی وقیوم جو موت اور فنا سے پاک ہے.دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ خدا کی ذات اور صفات کے ساتھ کسی مخلوقات کو سانجھ کرنا یہ بھی شرک عظیم ہے.میرے خیال میں جب کہ موت اور فنا ہر چیز کے لئے ضروری ہے تو پھر سب مخلوقات کی ذات وصفات بعد موت اور فنا کے جو خالق کی طرف سے عطا کی گئی ہے یہ سب نیست و نابود ہو جاوے گی.موت اور فنا میں کیا فرق ہے؟ حضرت محمد صاحب کیا خدا کے نور سے ہیں اور کل اوتارانہیں کا ظہور ہے.اشرف المخلوقات ، اشرف انبیاء اور سردار حضرت آدم کی اولاد کے ہیں.یہ سب باتیں جو زیر قلم ہیں حضرت خلیفۃ المسیح خود دست مبارک سے تسلی فرماویں تاکہ بندہ اپنے آپ کو دائرہ اسلام میں لاکر حضرت صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرے گا اور حضرت صاحب کے مال وجان کو دعا دیتا رہے گا اور ہم نے پر میشر کی طاقتوں کو حصہ رسدی منقسم کر چھوڑا ہے اس واسطے میرا دل اب لغیر اللہ پرستش سے بیزار ہے اور حق کا خواستگار ہوں.اور میں اس وقت اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا امید آپ معاف فرما دیں گے.( آپ کا نیاز مند.گمراہ اور طالب حق )

Page 239

جواب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ الاسلام نام ہے اللہ تعالیٰ کی سچی فرمانبرداری کا جو دل سے ہو، زبان سے ہو، اعضاء سے ہو.اس مضمون کو اس کلمہ میں ادا کیا گیا ہے.اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہمیں بدل گواہی دیتا ہوںکہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے سوا ایسا نہیں جو ذاتی کمالات رکھتا ہے سب کے سب اپنے تمام کمالات میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں.پھر جو وقت ان پر گزرتا ہے.اس وقت تک اپنے کمالات محدود ہیں.اس وقت سے آگے سب کے سب اپنے جدید ترقیات میں اس ذات پاک کے محتاج ہیں جس کا نام اللہ ہے اور کوئی موجدات میں اس پاک ذات کے سوا عبادت کے لائق نہیں.اوتار ہندی لفظ ہے میں اس کے حقیقی معنے نہیں جانتا.اللہ تعالیٰ کے تمام بندے جو ہدایت کے لئے دنیا میں تشریف لائے وہ سب قابل قدر اور قابل ادب ہیں مگر وہ اپنی کسی بڑائی میں ایسے نہ تھے کہ خدا کے شریک ہو سکیں نہ کسی الٰہی صفت میں اور نہ الٰہی عبادت میں.دنیا میں کوئی نہیں آیا جس کو ہم سجدہ کریں یا اس سے ہم دعائیں مانگیں یا اس کے نام قربانی کریں.موت کیا ہے؟ روح کا جسم سے جدا ہونا موت ہے.ایک جسم ہمارا تھا جب ہم بچہ تھے وہ گیا تو او رجوانی کا جسم ملا وہ فنا ہوا تو بڑھاپے کا جسم ملا وہ فنا ہو گا تو اور ذرائع ترقی کے عطا ہوں گے.اس لئے اللہ تعالیٰ کے ماسوا سب کو موت کا سامنا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک حیّ و قیوم او ر غیر فانی ہے.کیونکہ اس کے کمالات اصلی اور ذاتی ہیں اور خانہ زاد ہیں.باقی کاملین کے کمالات اس کی عطا اور داد ہے.موت اور فنا قریباًمترادف ہیں.اگر آپ پوری غورکریں تو ہر آن میں ہر ایک چیز پر فنا ہے.کیا ہمارے وہ اجزاء جو ماں کے پیٹ میں تھے اب ہیں ؟ ہرگز نہیں.حضرت نبی کریم ﷺ کی نسبت اس کلمہ کے اخیر یہ جملہ کیسا دلربا ہے.اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُـہٗ حضرت نبی کریم اللہ تعالیٰ کے جزو نہیں بلکہ آپ بندے ہیں اس کے.لوگوں نے اپنے اپنے ہادیوں کو آخر معبود بنایا اس لئے اللہ تعالیٰ نے الاسلام میں یہ جملہ بڑھایا کہ مسلمان کبھی شرک نہ کریں.کیونکہ ان کا رسول عبودیت سے آگے نہیں بڑھا ہمیشہ اپنے کمالات و ترقیات

Page 240

میں اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور محتاج رہے گا.جناب الٰہی جو ارشاد اس کو دے اس کا پہنچانے والا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا رسول ہے.اس کو سجدہ حرام و کفر و شرک ہے اس سے دعا مانگنا شرک ہے.اور اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ جس طرح حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوم اور اپنے ملک سے شرک و بت پرستی کا نام و نشان اڑا دیااور تمام مخلوق میں بلند مکانوں پر چڑھ چڑھ کر اس کی امت اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے ہیں.کسی نبی اور کسی اوتار نے ایسی خدمت توحید الٰہی کی نہیں کی.اس لئے آپ کو اگر سید اولاد آدم اور فخر بنی آدم کہا جاوے تو بالکل حق اور بجا ہے.آپ غور کریں ہر نماز کے وقت گویا پانچ بار ہر روز اَللّٰہُ اَکْبَرُ.اَللّٰہُ اَکْبَرُکس قدر زور و شور سے مسلمان پکار پکار کر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرتے ہیں.سُبْحَانَ اللّٰہِ.سُبْحَانَ اللّٰہِ.سُبْحَانَ اللّٰہِ.اکبر کے آگے کیا لفظ ہے جس کو انسان جناب الٰہی کے لئے کہے.یہ قرآن کریم میں نہیں لکھا کہ حضرت نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات کے جزو ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نور سے ایک ٹکڑا محمد ﷺ بن گیا.ایسا خیال شرک ہے.قرآن کریم میں اس کو رد کیا گیا ہے جہاں فرمایا کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے عباد اور بندوں کو اللہ تعالیٰ کا جزو بنایا ہے.یہ بڑا کفر ہے اور کھلا کفر ہے.(الزخرف:۱۶).ہاں کل نورانی بندے اس کے نور سے ہوتے ہیں.کیا معنے؟ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں.مگر یہ لفظ قرآن کریم میں نہیں.غالباً میں نے خط کا جواب دے دیا ہے.(نور الدین ) ( البدر جلد۹ نمبر۴۵،۴۶ مورخہ ۲،۹؍ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۳) زیور پر زکوٰۃ میری بی بی اپنے زیو رپر زکوٰۃ دیتی ہے اور مرزا صاحب کی بی بی بھی زیور پر ضرور زکوٰۃدیتی ہیں.ترمذی ،ابو دائود، نسائی، حاکم، احمد میں ایسی روایتیں ہیں جن میں زیور پہ زکوٰۃکا حکم ہے.مگر محدثین کہتے ہیں ترمذی نے کہا ہے.اِنَّہٗ لَمْ یَصَحُّ فِی الْبَابِ شَیْء ۱؎اور علماء کا … اس مسئلہ میں اختلاف ہے.حنفیہ مہدویہ اور بہت سلف زیور پر زکوٰۃ فرض فرماتے ہیں.اور امام مالک ، ۱؎ لَا یَصِحُّ عَنِ النَّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی ھٰذ البابِ شي(ترمذی ابواب الطھارۃ باب المندئل بعد الوضوء)

Page 241

امام شافعی، امام احمد زیور پر زکوٰۃ کو فرض نہیں لکھتے.ان کے اقوال کا مدار آثار صحابہ و تابعین ہیں.اور انس و اسماء کا مذہب تھا کہ زیور کی زکوٰۃ یہ ہے کہ اس کو عاریت کے طور پر کبھی دے دیا.دار قطنی نے اس مذہب کا ذکر کیا ہے.اور بیہقی نے انس وغیرہ کا مذہب یہ بیان کیا ہے کہ اس میں ایک بار زکوٰۃ دے دیں.ہم اس لئے کہ اس ملک کا تعامل ہے نیز کثرت سے احادیث کا رجحان زکوٰۃ کی طرف ہے بلکہ حاکم والی سند پر عام طور پر جرح نہیں ہوئی اور حاکم نے صحیح وقوی کہا ہے.ہم زکوٰۃ دیتے ہیں.ہاں تشدد نہیں کرتے کہ آخر اس میں گو نہ اختلاف ہے.والسلام ۲۸؍اگست ۱۹۱۰ء نور الدین بقلم خود (البدر جلد ۹ نمبر ۴۵، ۴۶ مورخہ۲، ۹؍ ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۸) ہمارے امام علیہ السلام کی عید سوال.جناب میرزا صاحب عید کے روز نماز کیونکر پڑھتے تھے.بعد نماز گلے ملنے کی رسم اُن کے ہاں تھی یا نہیں ؟ اظہار مسرت کے لئے اور کیا طریقے استعمال فرماتے تھے.احباب و اقارب سے اس دن کیونکر کر ملتے تھے.سیر و تفریح میں اس روز کوئی جداگانہ خصوصیت ہوتی تھی ؟ عید کے دن کچھ خاص اعمال یا اشغال بھی کرتے تھے؟ خود آپ کا کیا معمول ہے؟ جواب.جناب کا استفسار پڑھ کر دیر تک میں متعجب رہا اور دنیوی عجائبات کا مطالعہ کرتے کرتے قریب تھا کہ میری حالت وجد میں آ جاوے بلکہ ایک قسم کا وجد رہا.اس وقت مجھے افاقہ ہے.مولانا فقہائے کرام نے جس قدر قیاس اور استحسان سے مسائل اور حوادث پر باریک بینوں سے کام لیا ہے.اس کو اگر ایک کتاب میں لکھا جاوے اور صوفیائے کرام کی تحقیقات اور مکاشفات اور حالات وجد کو ساتھ ملا دیں اور ایک پلڑے میں رکھیں.اور ڈیڑھ سو آیت قرآن جو اصل اور سرمایہ احکام فقیہہ ہے اور ڈیڑھ سو صحیح حدیث جو کہ مدار احکام فقیہہ علاوہ قرآن کریم کے ہے کو ایک

Page 242

طرف رکھا جاوے تو ان لوگوں کے انصاف پر جو مرزا صاحب کے دعاوی کی نسبت فتاویٰ تیار کر رہے ہیں کیا وجد آسکتا ہے کہ نہیں.مرزا صاحب کے متعلق میں جناب کو ایک شعر سناتا ہوں جو میں نے ان کی زبان سے علیٰ روس الاشہاد سنا ہے.بزہد و ورع کوش و صدق و صفا ولاکن میفزائے بر مصطفیٰ اس شعر کے بعد جناب کا جواب کافی سے زیادہ ہو سکتا ہے مگر پاس خاطر سے عرض ہے.عید کے دن مرزا صاحب غسل فرماتے اور تجدید لباس کرتے اور خوشبو لگا کر مع احباب کے عیدگاہ میں تشریف لے جاتے تھے اور گاہے اس جامع مسجد میں جہاں ہم لوگ جمعہ پڑھتے ہیں وہاں بھی عید پڑھ لیتے تھے.عید کا خطبہ ہمیشہ یہ خاکسار پڑھ دیتا تھا یا مولوی عبدالکریم.واپسی میں دوسرے رستے سے گھر میں تشریف لاتے تھے.صدقۃ الفطر پہلے جمع کیا جاتا تھا اور قربانی کی عید میں بعد نماز کے معاً قربانی کرتے تھے.میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ آپ کسی کے گلے لگے ہوں یا کسی کو پان دیا ہو.عید گاہ میں ہی نئے آئے ہوئے دوست مصافحہ کر لیتے تھے.سیرو تفریح کے لئے کہیں نہیں جاتے تھے کوئی خصوصیت نہ تھی.اقارب سے بھی کوئی خصوصیت کی ملاقات اس دن نہیں کرتے تھے.راستہ میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ پڑھنے کی عادت تھی.مگر آہستہ پڑھتے اور بعض لوگ بلند آواز سے پڑھتے تو روکتے نہ تھے ………… مکرر عرض ہے کہ معانقہ عام طور پر قطعاً ان کی عادات میں نہ تھا.والسلام نور الدین........................

Page 243

تار خبر پر عید سوال آیا تار خبر پر عید ہو سکتی ہے یا نہیں؟ جواب از امیر المؤمنین ، تار خبر معتبر ہے.(عید کر لی جاوے) (البدر جلد۹ نمبر۴۸و ۴۹ مورخہ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۱) دلائل ہستی باری تعالیٰ (ماخوذ از کلام امیر) راستبازوں کی شہادت تمام راستبازوں کا اس بات پر’’ کامل اتفاق‘‘ سے ایمان کہ’’ اللہ‘‘ ہے.جتنے راستباز مختلف ملکوں میں ہوئے ہیںان کے حالات سے ظاہر ہے کہ وہ راستی کے بڑے ہی بھوکے پیاسے تھے اور وہ حق بات کے اظہار میں سارے جہان کی مجموعی مخالفت سے بھی نہیں ڈرتے تھے اور صرف یہی ایک قوم ہے جن کو(الاحزاب :۴۰) کا سرٹیفیکیٹ ملا ہے.(۲) پھر یہ لوگ رسم و مجارٹی کی رائے ( جو کثرت سے پیدا ہو) کے بھی قائل نہیں ہوتے.اگر ایسا ہوتا تو یہ بت پرستی کی تردید نہ کرتے حالانکہ بت پرست دنیا پر زیادہ ہیں.باوجودیکہ یہ لوگ آپس میں ملے بھی نہیں پھر بھی ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک اللہ ہے.پس جیسا کہ ہم لنڈن کا وجود بہت سے سچ بولنے والوں کی شہادت سے تسلیم کرتے ہیں ایسا ہی خدا تعالیٰ بھی ضرور ہے.ا لٰہی پیش خبریوں کا پورا ہونا دوسری دلیل یہ ہے کہ جو بات یہ لوگ خدا سے اطلاع پا کر کہتے ہیں وہ ضرور اٹل ہوتی ہے.حالانکہ آئندہ کے واقعات معلوم کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی ذرائع نہیں ہوتے.دنیاوی تدابیر سے کام لینے میں نپولین و سکندر سے بڑھ کر کوئی نہیں مگر یہ دونوں ناکام مرے ہیں.حتی کہ نپولین کی قوم فرانسیسی کا باوجود بہت خرچ کرنے کے مشرق میں کچھ بھی نہیں.

Page 244

صانع نظام عالم تیسری دلیل یہ ہے کہ خدا کے چشمے سے نکلی ہوئی مخلوق ایک دوسرے کی مکذب نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سرچشمہ ایک ہے اور وہ ایک ہی ہستی کے ارادے کے تحت میں ہے.آنکھ جو رنگ مشرق میں دیکھتی ہے وہی مغرب میں یقین کرتی ہے اور پھر کان اس کی تکذیب نہیں کرتے.غرض نظام عالم ایک حد کے اندر باقاعدہ چلتا ہے.ایک کتاب کو دیکھ کر یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کا مؤلف کوئی ضرور ہے.مگر اتنے بڑے شیرازہ عالم کے مؤلف کا یقین نہ کرنا کیسی بے وقوفی کی بات ہے.باجرے کا ایک خوشہ لے کر اس میں سے ایک دانہ نکال کر پھر اس جگہ لگا کر تو دکھاؤ.تربوز ریتے میں ہوتا ہے مگر کیامجال ہے کہ اس کے اندر ایک ذرہ بھی جائے.پھر کیسا شیریں ہوتا ہے.توت (بیدانہ) کو دیکھو آندھیوں کے موسم میں ہوتا ہے مگر اس پر گرد نہیں.گولر کے اندر کس قدر کیڑے ہوتے ہیں.غرض نظام عالم کی ہر ایک چیز باوجود کمال بے تعلقی تعلق کمال رکھتی ہے.اور ہر چیز کاایک حد کے اندر ایک ضابطہ کے ساتھ کام دینا ایک مرتب و منتظم کا یقین دلاتا ہے.خدا کی آواز چوتھی دلیل جو ہے سب سے زبردست اور میرے اپنے ذوق کی ہے کہ خدا کی آواز پہنچ جائے کہ میں ہوں.چنانچہ میں نے بھی سنی.اس نے فرمایا کہ قرآن کی آیت کا منکر کوئی ہو.اور وہ مشکل سے مشکل آیت کے متعلق کوئی سوال کرے اور مجھے نہ آتا ہو تو معاً اس کا علم تجھے سکھادیں گے.یہ خدا کا وعدہ ہے اور میں بڑے زور کے ساتھ پیش کرتا ہوں کہ تمام جہاں بھی اگر مل کر کسی آیت قرآنی کے معنے پوچھے اور اعتراض کرے تو اگر وہ منکر آیات قرآنی ہوگا تو مجھے ضرور جواب سمجھادیا جاوے گا.میں ایک عاجز انسان ہوں میرا علم اتنا بڑا نہیں.پس میں اتنا دعویٰ جو کرتا ہوں یہ اس باری تعالیٰ سے ہے جس کی ہستی کی دلیل طلب کی جاتی ہے...............................اسلام کی اعلیٰ تعلیم فرمایا.تمام مذاہب عالم میں سے یہ مابہ الامتیاز اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس کے اصول کی منادی پانچ بار بآواز بلند کوٹھوں کی چھت پر چڑھ کر کی جاتی ہے.

Page 245

اَللّٰہُ اَکْبَرُسے بڑھ کر اللہ کے لئے تعظیم کا لفظ کون سا ہوسکتا ہے.اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ میں اگر توحید از روئے افعال و ذات و صفات کے مسئلے کو لیا ہے تو ساتھ ہی اس کی حقیقی معبودیت کا اعلان کیا ہے.پھر اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْل اللّٰہِ میں مسئلہ رسالت و نبوت کا اعلان کرتے ہوئے تمام انبیاء کے کمالات کے جامع کا نمونہ بطور شہادت پیش کیا ہے.حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِمیں عبادات کی جامع نماز کی طرف بلایا ہے اور حَیَّ عَلٰی الْفَلَاحِ میں تمام ایسے فضائل کی طرف آنے کی ترغیب دی ہے جو انسان کی کامیابی کا مدار ہیں.پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُ اور لَااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کو دہرا کر بتایا ہے کہ اصل مدار نجات توحید ہی ہے.ایمان باللہ، ایمان ملائکہ، ایمان کتب، ایمان رسل، ایمان یوم آخر، ایمان قدر خیرو شر، فضائل کو لینا، رذائل سے بچنا.یہ سات اصل الاصول ایمان ہیں.علم الرؤیا فرمایا.علم الرؤیابھی ایک بڑا عجیب علم ہے اللہ تعالیٰ ہی جسے اس کی سمجھ دے.قرآن مجید میں نبی کی خواب کا بھی ذکر ہے، کافر کی خواب کا بھی، فاسق وفاجر کی خواب کا بھی.غرض ہر قسم کے آدمیوں کی خواب کا ذکر ہے تامعلوم ہوتا رہے کہ یہ علم بہت ہی باریک اور عجیب در عجیب ہے.آج کل کے پڑھے ہوئے اسے محض خیال قرار دیتے ہیں.مگر وہ غلطی پر ہیں.افسوس کہ مسلمانوں نے اب اس کی طرف توجہ کم کردی ہے.بہت کم لوگ ہیں جو اپنے خوابوں کے متعلق یادداشت رکھیں اور جو رؤیا ان کے سچے نکلیں وہ جمع کرتے جائیں تا کہ عجائبات قدرت کا علم ہو.(۱) رؤیا کبھی تو بعینہ ویسے ہی پوری ہوتی ہے.جیسے  ( یوسف : ۳۷) چنانچہ وہ اسی خدمت پر مامور ہوا.(۲) یا آدھی ویسے ہی اور آدھی دوسرے رنگ میں جیسے اس نے دیکھا کہ میرے سر سے روٹیاں پرندے کھاتے ہیں.اس کا سر ہی روٹیاں بن گیا.

Page 246

(۳) کبھی صرف نمونہ کے طور پر ایک چیز دکھائی جاتی ہے جیسے کئی سال کے قحط کا نظارہ خشک بالیوں میں دکھایا گیا ہے.جو لوگ کہتے ہیں کہ ایک ہی دجال کا ذکر ہے اور تم نے اس سے قوم کی قوم کس طرح سمجھ لی وہ اس پر غور کریں کہ رؤیا کے معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں.ابن سیرین کے آگے کسی نے بیان کیا میں نے رؤیا میں اذان سنی ہے.آپ نے اسے کہا تُو چور قرار دیا جا کر پکڑا جائے گا.دوسرے نے یہی خواب بیان کیا توکہا تم حج کرو گے.تیسرے نے بیان کیا تو فرمایا تیرا دشمن خائب و خاسر ہوگا.لوگوں نے تعجب کیا کہ ایک ہی خواب اور تعبیریں مختلف.کہا تینوں قسم کا ذکر قرآن میں بھی ہے.میں نے ہر ایک چہرے کی فراست سے بتلادیاہے.(۱) ( یوسف : ۷۱) (۲)  (الحج : ۲۸) (۳) (التوبۃ : ۳).نبی جتھے کا منتظر نہیں ہوتا فرمایا.جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں نبی جتھے کا منتظر رہتا ہے اور پھر لڑائی کرتا ہے.جب صحابہ میں سے اکثر بھاگ گئے تو اس وقت بنی اکرم نے پکار کر کہا.اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِب اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِب کہ دعویٰ کرنے والا تو میں ہوں کوئی اگر بھاگتا ہے تو بھاگے.احسن القصص سے کیا مراد ہے فرمایا.لوگوں نے غلطی سے احسن القصص کے معنی بہتر سے بہتر قصہ کئے ہیں.قرآن مجید میں ہر گز قصے نہیں.اساطیر الاولین تو کفار کا قول ہے.یہ بھی غلط ہے کہ یوسف کا قصہ ہی سب سے اچھا قصہ ہے.خلاصہ سورہ تو یہی ہے (۱) بھائیوں نے آپ سے دشمنی کی.(۲) اس کی وجہ والد کی محبت تھی.(۳) آخر اپنے بھائیوں پر غالب آئے معاف کردیا.(۴) ایک عورت کی ناجائز درخواست کی پروا نہ کی.حضرت ابراہیم و حضرت موسیٰ ونبی کریم ﷺ کے حالات اس سے بھی زیادہ عجیب ہیں.(۱)بجائے چند گنتی کے بھائیوں کے سارا جہان دشمن.(۲) اس کی وجہ کسی کی محبت نہ سمجھیں.اللہ تعالیٰ

Page 247

کی توحید کا جوش.نبی کریم ﷺ کے آگے قوم نے خود کئی حسین عورتیں پیش کیں.مگر آپ نے خدا کے مقابلہ میں ان کی پروانہ کی.پھر صرف بھائیوں پر نہیں بلکہ سارے عرب پر غالب آئے اور ان کو معاف کردیا.شاعر ونقاش فرمایا.جو کام مصور ونقاش قلم سے لیتا ہے شاعر الفاظ میں اس کی تصویر کھینچتا ہے.باپ بیٹے میں فرق فرمایا.یوسف اور یعقوب میں اس بات سے ظاہر ہے کہ یوسف نے ( یوسف : ۹۳)کہہ دیا.مگر باپ کہتا ہے( یوسف : ۹۹) یہ خدا کے حکم کے بغیر دعا بھی نہیں کرتے.نبی کریم ﷺ کو ہرگز حکومت کی خواہش نہ تھی.فرماتے ہیں اے ابوذر میں تیرے لئے وہی چاہتا ہوں جو اپنے لئے.میرے دل میں کبھی دو آدمیوں پر بھی حکومت کرنے کی خواہش ہرگز پیدا نہیں ہوئی.امر بالمعروف فرمایا.مسلمانوں پر ادبار اسی وقت سے آیا ہے جب سے انہوں نے امر بالمعروف نہی عن المنکر چھوڑ دیا ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ملانوں کا کام ہے اور ہم کسی کو امر بالمعروف کریں تو ہماری پوزیشن میں فرق آتا ہے.حالانکہ یہ ایک عظیم الشان کا م ہے کہ سب سے پہلے خدا تعالیٰ نے اسے کیا.قرآن مجید پڑھ کے دیکھ لو امر بالمعروف نہی عن المنکر ہی ہے.اور امت محمدیہ کا تو فرض منصبی ہی یہی ہے چنانچہ فرماتا ہے (اٰل عمران: ۱۱۱).(۲) پھر جو آمر بالمعروف ہو وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتا ہے جب دوسروں کو نصیحت کرے گا اسے شرم آئے گی کہ میں دوسروں کو کہتا ہوں خود نہیں کرتا.(۳) اَلدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ (ترمذی کتاب العلم.باب الدال علی الخیر کفاعلہٖ) اس کے کہنے سے جو کوئی نیک کام کرے گا اس کام کا ثواب اسے بھی ملے گا.(۱۰؍اکتوبر) (البدر جلد ۹ نمبر ۴۸و ۴۹ مورخہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۰، ۱۱)

Page 248

سوالات کے جوابات سوال (۱) انسان مر جانے کے بعد بہشت یا دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے یا نہیں.(۲) اگر داخل ہو جاتا ہے تو حساب کتاب کر کے یا بلا حساب کتاب کے.(۳)ایک خاص دن قیامت کا، واسطے حساب کتاب کُل لوگوں کے لئے مقرر ہے یا نہیں.(۴) اگر ایک مرتبہ مرنے کے بعد روح انسانی جنت یا دوزخ میں داخل ہو گئی تو پھر دوبارہ حساب کتاب کی ضرورت ہو گی یا نہیں او رکیوں؟ جواب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ (کنزالعمال جلد ۳ صفحہ ۶۴۰) تو کارِ زمین را نکو ساختی کہ با آسماں نیز پرداختی (۱)بعد الموت انسان کے لئے قبر رَوْضَۃٌ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ اَوْ حُفْرَۃٌ مِّنْ حُفَرٍ النِّیْرَانِ (مرقاۃ المفاتیح کتاب الجہاد باب قسمۃ الغنائم و الغلول فیھا)ہے.(۲)بعض کا حساب ہوتا ہے بعض کا نہیں.(۳)قیامت کبریٰ کے لئے ایک وقت ہے.مفصل جواب مطلوب کے لئے.مجھے اس وقت فرصت نہیں نیز علیل ہوں.کتاب الروح ابن قیم حیدر آباد طبع ہوئی ہے اس میں سب جواب ہیں.نور الدین ۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۰ء (البدر جلد ۹نمبر ۵۰ مورخہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۱)

Page 249

بسم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحِیْم مصارف زکوٰۃ .محتاج جس کے پاس ضرورت صحیحہ کے لئے کچھ نہ ہو.مثلاً کسی نے ریل کا ٹکٹ لینا ہے مگر اتفاق سے اس کے پاس چند پیسے کم ہیں اور وہ اس کے بغیر جہاں جانا ہے جا نہیں سکتا..جو کما تو سکتا ہے مگر اس کے پاس سامان نہیں مثلاً کوئی جلد ساز ہے اور وہ سب اسباب نہیں رکھتا جس سے اپنی دکان کھول سکے..صدقات کے انتظام ووصولی کے لئے جو محکمہ ہو اس کے ملا زموں کی تنخواہ..اس مدّ کو بعض علماء نے غلطی سے اُڑا دیا ہے حالانکہ یہ بہت ضروری ہے مثلاً کوئی آریہ یا عیسائی تحقیق دین کے لئے آتا ہے اب اس کے لئے مکان خوراک و غیرہ کی ضرورت ہے.( یا کوئی نو مسلم ہے ابھی وجہ معاش کے لئے کچھ مشکلات ہیں ) اسی مد سے خرچ کیا جاوے گا..غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے کوئی مذہب سو ائے اسلام کے نہیں جس نے غلاموں کی آزادی کے لئے باضابطہ طور پر ایک حصہ رکھا ہو.میں نے اب روپیہ اس مدّ کے لئے بھیجا ہے اور اس آیت پر عمل کیا ہے..اس کا ترجمہ قرض دار غلط ہے ان لوگوں سے مراد ہے جن پر کوئی تاوان پڑ گیا ہو مثلاً کسی نیک و شریف کی ضمانت دی تھی وہ بھرنی پڑ گئی یا کسی پر جرمانہ عدالت میں ہو گیا اور وہ اس کی ادا کے بغیر قید ہو جاوے گا..اور دینی کاموں میں جو امام کی مصلحت کے مطابق ہوں.میر ے ذوق میں تو قرآن۱ نہایت صحیح و خوشخط اعلیٰ عمدہ کاغذ پر چھپوائے جائیں.قرآن شریف کا ایک مدرسہ ہو جس میں نابینا بالخصوص آکرقرآن مجید یاد کریں.

Page 250

حدیث ۲ کی کتابیں صحیح صحیح چھپوائی جاویں.ان کی اشاعت ہو اس کی تعلیم پر خرچ ہو.ائمہ۳ مساجد نیک بہم پہنچائے جاویں.موذن۴ بہت صالح ہوں اور باعمل۵ واعظ ہوں اور متکلم ہوں..جہاد میں جو خرچ ہو وہ اس مدّ سے ہو.حاجی بنا کر روانہ کریں.بعض علماء کے نزدیک راہ کی عمارتیں بھی اس میں شامل ہیں.اگر کسی کو توفیق ہو تو ریلوے سٹیشن پر مسجد یں بنوائے تاکہ مسافروں کو نماز پڑھنے میں دقت نہ ہو.ایک اور بحث اس کے متعلق ہے کہ ان آٹھوں میں سے کسی ایک کو زکوٰۃدے دی جاوے تو بھی جائز ہے یا نہیں یا ہر ایک کو ضرور دی جاوے اور پھر ہر ایک مدّ کے کم ازکم تین آدمی ہوں کیونکہ جمع کا صیغہ ہے یا خواہ ایک ہی ہو پھرسب کو ایک وقت میں دی جاوے.یہ بات اختلافی مسائل میں سے ہے اور ہم اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں دیکھتے.مسلمانوں نے تو زکوٰۃ کو اد ا کرنا چھوڑ رکھا ہے اور بحث مصارف کے متعلق چھیڑ رکھی ہے.حضرت ابن عباس سے کسی نے پوچھا کہ اگر مکھی بلاوجہ ماری جاوے تو اس کا کیا کفارہ ہے.آپ نے سوچ سوچ کر کہا تم کوفہ کے رہنے والے ہو.اس نے کہا ہاں.کسی نے عرض کیا.یہ سوال جناب نے کیوں فرمایا اور کس طرح سے معلوم کر لیا.فرمایا.ایسے سوال انہی لوگوں سے اُمید ہو سکتی ہے.جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا تب مجھ سے یہ مسئلہ نہ پوچھا اور اب مکھی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں.اللہ رحم کرے......................................

Page 251

ماخوذ ازدرس امیر المؤمنین (نوشتہء فخرالدین ) حضرت موسیٰؑ کے نو نشان (۱)ٹڈی (۲)مینڈک (۳)طاعون (۴)طوفان (۵)سانپ (۶)نقصان میوہ (۷)جوں (۸)سفید ہاتھ (۹) خون.حضرت موسیٰؑ کے دس احکام (۱)غیر معبودوں کو نہ ماننا (۲)سبت کی مخالفت نہ کر (۳) والدین کی عزت کر (۴)خون نہ کر (۵)زنا مت کر (۶)چوری نہ کر (۷)ہمسائے پر جھوٹی گواہی مت دے (۸)ہمسائے کا گھر مت چاہو (۹)ہمسائے کی عورت مت چاہو (۱۰)ہمسائے کی زمین اور مال و دولت اور بیل اور گدھے کا لالچ مت چاہ یا نہ کر.مجنون کی پہچان ذاتی افعال میں خوش نہیں ہوتا.اس واسطے کبھی روتا ہے اور کبھی ہنستا ہے بے اختیار ہے.ذاتی نفع حاصل کر نے یا ضرر کے دفعیّہ کی کوئی تدبیر نہیں کر سکتا.اپنی خانگی معاشرت کے مہیا اسباب میں بہت سست ہوتا ہے.اپنی برادری کے تعلقات اپنی قوم اپنے بادشاہ اپنے خدا کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہوتے.اس کی پیشگوئیاں خائب و خاسر رہتی ہیں صرف بکواس ہوتی ہیں.حسنۃ الدنیا اخلاق فاضلہ.معاشرت.اخوت.تمدن.سیاست.علمی ترقی.خدا تعالیٰ سے معاملہ صاف ہو.حسن دین.تندرستی.نیک اولاد.علم نافع.عمل صالح.مکان اچھا.رزق طیب.نیک بیوی.پڑوس اچھا.سواری اچھی.دوست اچھا.حسنۃ الآخرۃ ظل العرش.لقاء حضرت رحمان.مکالمہ حضرت سبحانہ تعالیٰ رَوْضَۃٌ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ.ثبات صراط.جنت الفردوس.عام طور پر لقاء حضرت(الانبیاء:۱۰۳) (الانبیاء:۱۰۲).

Page 252

عبادت کے نشان ہاتھ باندھنا.رکوع.سجود.روزہ.زکوٰۃ.طواف.طواف کے لئے خاص لباس.اپنی حاجتیں مانگنا.حج.منافق کے دس نشان (۱)جب نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو سست کھڑا ہوتا ہے. (النساء:۱۴۳).(۲)بھلے کام کرنے والے کو طعنے دیتا ہے.(التوبۃ:۷۹).(۳)اللہ کی راہ میں دینے سے ان کا دل انقباض کرتا ہے (التوبۃ:۶۷).(۴)مسلمانوں کے رنج میں ان کو رنج نہیں ہوتا.الخ (اٰل عمران:۱۲۱) (۵)امام کے حضور میں حاضر ہونے میںبڑا ہیچ ہیچ کرتا ہے اور کسی نیک کام میں جب شریک نہیں ہوتا تو عذر تراشتا ہے.(۶)جب بولتا ہے تو جھوٹ.اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب علامۃ المنافق) (۷)وعدہ پورا نہیں کرتا.وَاِذَا وَعَدَ خَلَفَ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب علامۃ المنافق) (۸)جب امانتی بنتا ہے تو خیانت کرتا ہے.وَ اِذ أ تُمِنَ خَانَ(صحیح بخاری کتاب الایمان باب علامۃ المنافق) (۹) جب کسی کے ساتھ لڑتا ہے تو گالی دیتا ہے وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ(صحیح بخاری کتاب المظالم باب اذا خصم فجر) (۱۰) جب عہد کرتا ہے تو توڑتا ہے وَ اِذَا عَاہَدَ غَدَرَ.(صحیح بخاری کتاب المظالم باب اذا خصم فجر) تسعۃ رہط بنی عدی، بنی مخزوم، بنی تیم ( بنی اسد )،بنی امیہ ، بنی سہم، بنی جُمع، بنی نوفل ، بنی ہاشم ، بنی عبدالدار.(البدرجلد۹ نمبر۵۰ مورخہ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲) نبوت مسیح موعود نبوت مسیح موعود ؑ کے متعلق میں حضرت خلیفۃ المسیح کا ایک تازہ خط درج اخبار کردوں جو کہ حضور نے سردار محمد عجب خان صاحب کے خط کے جواب میں لکھا ہے اور اسے موکد بحلف کیا ہے.سردار صاحب

Page 253

موصوف کی گفتگو ایک شخص کے ساتھ اس معاملہ میں ہوئی تھی تو انہوں نے جو جواب دیا وہ انہوں نے حضرت کی خدمت میں لکھ کر دریافت کیا کہ آیا میرا جواب اس میں درست ہے یا نہیں.حضرت صاحب نے ان کے جواب کے ساتھ اتفاق کیا ہے اور اسی کو زیادہ وضاحت کے ساتھ اپنی قلم مبارک سے لکھ کر روانہ کیا ہے جودرج ذیل ہے.حضرت خلیفۃ المسیح کا جواب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَآلِہٖ مَعَ التَّسْلِیْمِ امّا بعد فالسّلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ.دل چیر کر دیکھنا یاد کھانا انسانی طاقت سے باہر ہے.قسم پر کوئی اعتبار کرے تو وَاللّٰہِ الْعَظِیْمکے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی.نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہوں گے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہو گا.پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے والا ہے.وَاللّٰہُ الْعَظِیْم.وَاللّٰہُ الَّذِیْ بِـاِذْنِہٖ تَقُوْمُ السَّمَآئُ وَالْاَ رْضُ.میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں میں ان کو راستباز مانتا ہوں.حضرت محمدرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین ؐ کا غلام اور اس کی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپ کو جان نثارِ غلام نبی عربی محمد ؐ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کا مانتے تھے.نبی کے معنے لغوی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا.مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمد رسول اللہ ﷺ کا نہ مانے اُسے کافر اورلعنتی اعتقاد کرتا ہوں.یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد

Page 254

تھا.کوئی ردکرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا.نور الدین بقلم خود ۲۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء (البدر جلد۹ نمبر ۵۱،۵۲ مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ۱۰) ایک مسئلہ کا حل عید سے پہلے دوکان جائز سوال.جناب حکمت پناہ خدا بین نور الدین خلیفۃ المسیح دام برکاتہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ احقر نے دن عید کے قریب ۶ بجے صبح کے قبل از نماز عیدالفطر ایک شریف مسکین مفلس سید امیر علی نامی کو دن عید کی خوشی میں آٹے دال کی دکان کھلوا دی.اس فعل پر برادر مرزا حسام الدین احمد نے جو بفضل الٰہی احمدی ہیں اعتراض کیا اور کہا کہ قبل از نماز ایسا کرنا حرام یا حرام سے کم درجہ کا ہے اور کہا کہ کیاخوب ہوتا جو بعد نماز کے اس دکان مذکور العنوان کی بنیاد قائم کی جاتی.احقر نے ان کو جواب دیا کہ قبل از نماز ایسا فعل کرنا حرام نہیں.البتہ وہ بیع اور وہ دکان کہ جو نماز کے ادا کرنے سے روک دے حرام ہو گی.غرض آں برادر نے میرے خیال کو تسلیم کیا اور فتویٰ چاہا ہے.لہٰذا حضور پُرنور سے امید وار ہوں کہ ہمارے نبی سید المرسلین محمد مصطفی ﷺ نے کیا حکم نافذ فرمایا ہے اوریہ جو فعل اس احقر نے کیا شرعاً جائز ہے یا نہیں.والسلام آپ کا خادم گنہگار کبیر الدین احمد (احمدی) سیکرٹری انجمن احمدیہ لکھنؤ

Page 255

جواب از حضرت خلیفۃ المسیح عزیز من ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ نے بہت ہی اچھا کام کیا کہ عید کے روز ایک مفلس کی دستگیری فرمائی.عید سے پہلے ہی توفطرانہ بھی دیا جاتا ہے.اگر دکان نکلوا دی تو اور بھی زیادہ ثواب کا کام کیا.شرعاً ایسا فعل ہر گز ممنوع نہیں.نور الدین ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۸ء قادیا ن (البدر جلد ۹ نمبر ۵۱،۵۲ مورخہ ۲۷ ؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ۱۲) قادیان سے محبت حضرت مسیح موعود ؑ مرحوم و مغفور کی زندگی میں آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی مجھے ایک دن کے واسطے ایک لاکھ روپیہ دے اور قادیان سے باہر بلائے تو میں نہیں جاسکتا.(البدر جلد ۹ نمبر ۵۱و۵۲ مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۴) ایک شخص کے چند سوالوں کا جواب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ (۱)تجدید بیعت کیا ہر وقت ایمان کی بھی تجدید کرنی چاہیے.اُجَدِّدُ اِیْمَانِیْ بِقَوْلِیْ.لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ).(۲)خط میں تساہل کرنا مناسب نہیں اور ہرگز مناسب نہیں.(۳)ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہو سکتے.اس کے متعلق احادیث آخر مشکوٰۃ میں موجود ہیں.(۴) سوائے اس نماز کے جو مسلمانوں میں مشترک ہے کوئی نماز اسلامی نماز نہیں کہلاتی.(۵)کسی نقش اور تصویر کا دل میں جمانا شرعاً جائز نہیں ہے یہ بھی ایک قسم کی بت پرستی ہے.(۶)ذات الٰہی کا نظر آنا اس دنیا میں یہ ایک جنون کا شعبہ ہے.(۸)نماز میں کسی نقش کا خیال خود جمانا شرعاً ثابت نہیں.(۹)ایک معمولی انسان کا کفر نبیوں کا

Page 256

کفر نہیں ہو سکتا.(۱۰)یہ تو خیال بڑا ہی احمقانہ اور مجنونانہ ہے کہ ولی نبی سے افضل ہوتا ہے اور جو دلیل ہے وہ پاگلوں کی سی دلیل ہے ہم ایسے آدمی کو مفتری نہ کہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض آدمی افتراء نہیں کرتے مگر بعض حرکات جنون کے باعث کر تے ہیں.(۱۱)ڈاکٹر کی رائے بیماری میں صحیح معلوم ہوتی ہے.(۱۲)فساد کرنا اچھا نہیں ہوتا.(۱۳) آپ لوگ بہت استغفار کریں اللہ تعالیٰ انجام بخیر کرے.پھر آپ بہت استغفار کریں تاکہ نتیجہ نیک ہو.فساد اور شور ہرگز نہ ڈالیں.والسلام حسب الارشاد (حضرت خلیفۃ المسیح) (البدر جلد ۹ نمبر ۵۱ و ۵۲ مورخہ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵) اعلان عام از جانب حضرت خلیفۃ المسیح سلمہ اللہ تعالیٰ حضرت سلّمہ ربّہ نے عاجز کو ارشاد فرمایا ہے کہ چونکہ آپ کی طبیعت اکثر علیل رہتی ہے اور بعض دفعہ بیماری بہت بڑھ جاتی ہے اور انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس واسطے حضور کی طرف سے اخبار میں اعلان کیا جاوے کہ اگر کسی کا کوئی کچھ روپیہ حضور کے پاس امانت ہو یا قرضہ ہو یا کسی اور وجہ سے دیا ہو یا کسی مریض نے آپ کو کچھ معالجہ کے واسطے دیا ہو اور اس کے خیال میں اس کا حق اسے نہ ملا ہو.غرض ہر ایک ایسا شخص جو آپ سے کچھ واجب الا دا یقین کرتا ہے اُسے چاہیے کہ مطالبہ کرلے اور اپنا حق وصول کرلے.فرمایا.ایسے مطالبات کا ادا کرنا اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے واسطے بہت آسان ہے خدا نے ہمارے لئے سب سامان مہیا کر دئیے ہیں.مکرر آنکہ حضرت صاحب سلّمہ الکریم کسی خطرناک مرض میں مبتلا نہیں ہیں گاہے گاہے اسہال وغیرہ کی تکلیف ہوتی ہے.ہر وقت صبح و شام درس قرآن شریف دیتے ہیں اور دن بھر بیماروں کے دیکھنے میں اور طلباء کو سبق دینے میں اور امور خلافت کے طے کرنے میں گزارتے ہیں آپ نے احتیاطاً یہ اعلان دیا ہے.جو صاحب یہ اعلان پڑھیں وہ دوسروں کو بھی سنا دیں.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۱و۲ مورخہ۳، ۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲)

Page 257

جو نہ مانے اس کا کیا علاج مکرم بندہ جناب مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مفصلہ ذیل سوالوں کا جواب حضر ت مولانا جناب مولوی صاحب سے لے کر بواپسی روانہ فرما دیں تو مشکور ہوں گا.(۱) جماعت میں اگر دو آدمیوں کی باہم عداوت ہو تو جماعت کو یاجماعت کے مسلم سرگروہ کو کیاکرنا چاہیے.(۲)اگر جماعت یا امام کا کوئی مسلم سر گروہ دونوں کو صلح کرنے کا حکم دے اور ایک شخص صلح سے باوجود بار بار کہنے کے انکار کرے.تو جماعت کو یا اس مسلم سر گروہ کو اس شخص کے متعلق کیا کرنا چاہیے.(۳) کیا اس زمانہ میں جماعت کے باہمی اندرونی سیاست کے واسطے بھی کوئی قانون قاعدہ ہے یا نہیں.یا یہ کہ ممبر جو چاہے کرے اور جماعت اس سے محبت اور برادری کا تعلق برابر قائم رکھے.جوابات میں اگر کوئی قرآن شریف کی آیت یا حدیث کا حوالہ ہو تو بہتر ہو گا.مندرجہ بالا خط کا جواب حضرت خلیفۃ المسیح نے مفصلہ ذیل دیا.(۱)ان کو نصیحت کریں.اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (بخاری کتاب الایمان باب قول النبیؐ الدین النصیحۃ) اور نہ تھکیں اور پھر دعا کریں.(المؤمن:۸).(۲)بعد نصیحت اور دعا کے پھر اس کے لئے بالا دست لوگوں کو اطلاع دی جاوے اور اگر پھر نہ مانے تو اس کو جماعت سے الگ یقین کر یں.آیت(التوبۃ:۱۱۸) کافی ہے.(۳)قواعد کا نفاد حکومت پر موقوف ہے یا رُعب پر.

Page 258

(الحجرات:۱۰).کیا ہم پھر وچھووالی میں جا سکتے ہیں ؟ وچھو والی کی آریہ سماج کے پرنسپل صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں ایک خط لکھا تھا کہ خواجہ صاحب ان کے جلسہ پر ایک لیکچر دیں جس کے جواب میں حضرت نے تحریر فرمایا.مکرم معظم پرنسپل صاحب بالقابہ و ادا بہ و خاکسا ر پورے طور پر بحمدا للہ مذہب اسلام سے آگاہ اور اسلام کے اصول بآوازِ بلند پانچ وقت سنائے جاتے ہیں.(الانعام:۱۰۹) قرآن کریم کا کلمہ ہے اس کا ترجمہ ہے.مت گالی دو ان کو جن کو پکارتے ہیں اللہ کے سوا.اس حکم کے مطابق ہم کسی کے معبود کو برا کہنے کے مجاز نہیں.پھر صرف دنیا میں ہماری جماعت ہے جس نے پیغام صلح لاہور میں دیا.مگر میرے معزز اور شریف انسان ! ہمیں و چھووالی کا ہال ایک بار پورا سبق دے چکا ہے.میں خود اس لیکچر میں تھا جس میں مہمانوں کا ذرا لحاظ نہ ہوا.پھرا س وقت ہماری جماعت ایک شخص کے ماتحت ہے اور ممبران آریہ سماج آزادی میں پوری ڈگری لے چکے ہیں.وہ جماعت کسی خاص مقتدا کے ماتحت نہیں.خاکسار نور الدین ۲۹؍اکتوبر ۱۹۱۰ء چکڑالوی ایک شخص کے خط کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح نے تحریر فرمایا.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم.نحمد ہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چکڑالہ کے مولوی سے تو ملنے کا موقع نہیں ہوا کہ اس سے دریافت کروں مگر میں نے اس کے مقرب لوگوں سے پوچھا ہے کہ تم لوگ کلمہ پور ا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہتو اس لئے اکٹھا نہیں پڑھتے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ موجود نہیں.یہ نماز کہاں کہاں سے اکٹھی کر کے جوڑی ہے

Page 259

.پھر ان میں تین رسالہ نکلے ہیں سب کی نماز الگ الگ ہے.دوم.نماز کے وقت منہ کو قبلہ کی طرف کرنے کا حکم قرآن کریم میں کہاں ہے.مگر اب تک تو کسی نے کچھ نہیں بتلایا.اسلام اور ایمان کہیں تو ایک معنے میں آتے ہیں اور کہیں اسلام وسیع معنے میں آتا ہے.ہمارے حضرت نبی کریم ﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام دونوں صلی اللہ علیہما و بارک وسلم (ا ٰمین).عظیم الشان رسول ہیںاور حضرت نبی کریم ﷺ کو حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا مثیل فرمایا ہے.مگر وسعت کا فرق دونوں میں ہے.اس لئے وسیع معنے والا لفظ بڑے کے لئے اور دوسرے کے لئے دوسرا تجویز ہوا ہے.وَ لَعَلَّ اللّٰہُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ.نور الدین ۲۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء ہمارا کام فتویٰ لگانا نہیں ایک شخص نے دریافت کیا کہ حضرت مرزا صاحب کونہ ماننے والے کے حق میں کیا فتویٰ دیا جاوے.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہمیں یا آپ کو یا کسی مفتی کو کیا ضرورت ہے.آپ اس معاملہ کوحوالہ بخدا کریں.اللہ تعالیٰ کے مامور کو جو نہیں مانتا اللہ تعالیٰ خود اس معاملہ کا انتظام کر سکتا ہے.خاکسار نور الدین ۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۰ء چند سوالوں کے جواب ایک شخص کے سوالات کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح نے تحریر فرمایا.سوال (۱)کیا آپ اپنے مریدوں کو اچھا جانتے ہیں یا کہ کسی دیگر عاجز مسکین کو بھی.جواب.میں اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کو اچھا سمجھتا ہوں.

Page 260

سوال (۲)کیا آپ اپنے مریدوں کی التجاء منظور کرتے ہیں یا کہ کسی دیگر عاجز کی بھی.جواب.بقدر طاقت میں التجاء کسی کی ہو پورا کرنا چاہتا ہوں.سوال (۳) کیا آپ اپنے مریدوں کا چندہ منظور کرتے ہیں یا کسی دیگر عاجز کا بھی.جواب.سب کا چندہ لیتا ہوں منظور کرنا اللہ کا کام ہے.سوال (۴) کیا آپ اپنے مریدوں کو زیر نظر رکھ کر گناہوں سے بچانا چاہتے ہیں یا کسی دیگر عاجز کو بھی.جواب.گناہوں سے اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے میرا کام نہیں.سوا ل (۵) کیا آپ اپنے مریدوں کی درخواست منظور کرتے ہیں یا کسی دیگر عاجز کی بھی.جواب.بقدر امکان درخواست ہر شخص پر توجہ ہے.سوال (۶) کیا آپ اپنے مریدوں کے عریضہ کا جواب دیتے ہیں یا کسی دیگر عاجز کو بھی.جواب.جوا ب بقدر طاقت دیتا ہوں.نور الدین ۲۱؍اکتوبر ۱۹۱۰ء دوائی میں حل شدہ شراب سوال.کسی دوا کو شراب میں حل کر کے اس کو آگ دے کر بعدہٗ اس کو کسی مرض میں کھلانے کا کیا حکم ہے؟ جواب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.شراب جب آگ میں جل گیا تو اس کا حکم حرمت باطل ہو گیا.بلکہ جب شراب کا سرکہ بن جاوے تو پھر جائز ہو جاتا ہے.والسلام نور الدین ۲۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء (البدر جلد ۱۰ نمبر۱، ۲ مورخہ ۳ ،۱۰؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۴)

Page 261

کلام امیر فرمایا.اسلام میں ہزاروں تصانیف ہوئی ہیں.اکسیر فی اصول التفسیر میں لکھا ہے کہ تیرہ سو تفسیر قرآن مجید ہے.یہ تو اس کے علم کی بات ہے.ممکن بلکہ اغلب ہے کہ اس سے زیادہ بھی لکھی گئی ہوں.جب تفاسیر کا یہ حال ہے تواو ر علوم کی کتب کا کیا حساب کیا جاوے.مگر مسلمانوں نے ان سے کہاں تک فائدہ اٹھایا جو مجھے بار بار کہتے ہیں کہ تم تصنیف کیوں نہیں کرتے.وہ اس پر غور کریں.مجھ سے جو سوال کئے جاتے ہیں ۹۵ فیصدی ان میں سے ایسے ہوتے ہیں جن کے جواب میں اپنی کتابوں میں دے چکا ہوں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ لوگ کتابیں کم دیکھتے ہیں.مجھے جہاں تک خدا نے توفیق دی ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ساری دنیا میں ایک مذہب نہیں ہو سکتا.اللہ کی اس بے نظیر کتاب ( قرآن مجید) کے پہچانے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کافی نمونہ ہے.آپ کے کمالات کا احاطہ اس قدر وسیع ہے کہ اگر میں ساری عمر بھی آپ کے کمالات کے بیان کرنے کی راہ پائوں تو ایک شمہ نہ ادا ہو سکے.ایک ایک بات آپ کی، ایک ایک حرکت آپ کی، ختم نبوت کی دلیل ہے.دعائوں میں، کاموں میں، تعلقات میں، اقوال میں، افعال میں سو سو اعجازی نشان پائے جاتے ہیں.یہ شعر جو کہا گیا ہے.؎ کرشمہ دامن دل مے کشد کہ جا اینجا است میرے ہی محبوب کے لئے ہے.اسلام جیسا کوئی مذہب ، قرآن جیسی کوئی کتاب اور نبی کریم محمد ﷺ جیسا کوئی رسول نہیں.آپ کی کامیابی کی نظیر نہیں ملتی.کوئی تاریخ کسی ولی کی، کسی نبی کی، کسی فلسفی کی، کسی حاکم کی، کسی شہنشاہ کی ایسی کامیابی نہیں دکھاتی.پھر آپ پر کتاب وہ اُتری کہ لوگ کہتے ہیں حوض کوثر کا پانی پی کر کوئی پیا سا نہیں ہو گا.مگر میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس کتاب کو دیکھ کر مجھے کسی

Page 262

کتاب کی ضرورت نہیں.رافضی کہتا ہے یہ قول عمر کا ہے کہ حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہ.مگر کیا قرآن مجید میں نہیں. (العنکبوت:۵۲).غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ سلم جیسا کوئی کامیاب انسان نظر نہیں آتا.مگر ساری دنیا کو آپ نے بھی مسلمان نہ بنایا.پھر ہم کیوں پریشان ہوں کہ فلاں مسئلہ کی پوری تحقیق نہیں.سوالوں کو سن کر گھبرا جانا اور ایسی پریشانی دکھانا مومن کو جائز نہیں.صحابہ کے پاس کتنی کتابیں تھیں جن کی مدد سے وہ مباحثہ کیا کرتے.میں نے( ستر ۷۰برس سے میری عمر متجاوز ہے )کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے علم پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ دعا سے کام لیا.اور خدا کے فضل سے جیتا ہوں.ایک دفعہ ایک امیر کی محفل میں مجھے بلایا گیا اور وہاں چند حکماء بیٹھے تھے.اور انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ اذان کے بعد کیا دعا مانگنی چاہیے.جب میں نے دعا سنائی تو چونکہ حدیث میں وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہٗ نہیں ہے اس لئے میں نے وہ لفظ نہ پڑھے.تو انہوں نے از راہ شرارت کہا کہ یہ شفاعت کا منکر ہے اور ان علماء نے دلائل الخیرات اپنے پاس رکھی تھی جس میں وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہٗ لکھا تھا.وہ موقعہ ایسا بھی نہیں تھا کہ دلائل الخیرات کا انکار کر دیا جاوے.آخر میں میں نے دعا کی اور اس کتاب کو اس عالم کے ہاتھ سے لے کر کھولا تو خدا کی قدرت سے وہ صفحہ نکلا جس پر دعا......بعد اذان لکھی تھی مگر اس میں وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہٗ بالکل نہیں تھا اور میں اسے نشان سمجھتا ہوں جیسا کہ روایت میں ہے کہ ایک یہودی لڑکے کو پڑھاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام کاٹ دیتا تھا اور وہ پھر اُبھر آتا.پس میں اُٹھا اور خوب زور سے کہا کہ دیکھو تمہار ی دلائل الخیرات میں بھی یہ فقرہ نہیں.جس پر وہ سب نادم ہوئے.پھر مجھ سے سوال ہوا کہ یَا شَیْخ عَبْدَالْقَادِرِ شَیْئًا لِلّٰہ کے متعلق آپ کا ارشاد ہے؟ یہ ان کی دوسری شرارت تھی.میں نے کہا پہلے تم یہ بتائو کہ آپ یقین کے ساتھ عبدالقادر جیلانی کو جنتی سمجھتے ہو.وہ بولے نہیں.کیونکہ عشرہ مبشرہ کے سوا ہم کسی کے جنت میں ہونے کا حکم نہیں دے سکتے.تب میں نے کہا کہ دیکھو یہ تو عبدالقادر جیلانی کو جنتی بھی نہیں سمجھتے اور آپ مجھ سے یا شیخ کے جواز کا مسئلہ پوچھتے ہو.

Page 263

پھر میں نے کہا ہماری بخاری میں لکھا ہے کہ آپ یقینا جنتی تھے کیونکہ اس میں ہے کہ ایک میّت گزری سب نے اس کی صفت کی.تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وَجَبَتْ (السنن الکبرٰی للبیھقی جلد ۴ صفحہ ۵۷).گویا مومنوں کے ایک گروہ کثیر کی گواہی کسی کے جنتی ہونے کا ثبوت ہے.اور سید عبدالقادر وہ انسان ہے کہ کئی صدیوں سے مومنوں کا ایک کثیر گروہ ان کی ولایت و اتقاء کی شہادت دیتا آیا ہے.اس پر وہ سب دم بخود ہوئے اور خدا نے مجھے مظفر و منصور کیا.مکتوب امیر بسم اللہ الرحمن الرحیم اما بعد.فالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ معلوم ہوتا ہے کہ تم بالکل دنیا سے بے خبر ہو اور تم کو کوئی خبر نہیں ایسے بے دین دنیا میں پھرتے ہیں اور غریبوں کا خون پیتے ہیں.نماز کا حکم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں پہلے صفحہ پر موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (البقرۃ:۴)اور فرماتا ہے.(البقرۃ:۴۴).اور روزہ کا حکم قرآن کریم میں صاف صاف موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(البقرۃ:۱۸۴) فرض کیا گیا ہے تم پر روزہ...........................ولایت، نابالغ کی طلاق، نماز جمعہ، صدقہ فطر فَالسُّلْطِانُ وَلِیٌّ مَنْ لَّاوَلِیَّ لَہٗ (ترمذی کتاب النکاح باب لا نِکاحَ الَّا بِوَلی).جہاں تک مجھے علم ہے نابالغ طلاق نہیں د ے سکتا جہاں اندیشۂ زنا ہو امر مستثنیٰ ہے.ہاں جیسے مجھے اوپر حدیث کا ایک فقرہ ملا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کے اختیار میں یہ بات ہے پھر بھی جستجو کروں گا.جمعہ میں ایک امام اور ایک مقتدی کافی ہے.صدقہ فطر گیہوں ڈیڑھ سیر اور جَو تین سیر.

Page 264

ایک تاریخی غلطی عام طور سے یہ مشہور ہے کہ جب سلطان محمود غزنوی سو منات میں گئے تو وہاں بت کے پجاریوں نے بہت سے جواہرات پیش کئے کہ یہ لے لیجئے اور بت نہ توڑئیے مگر سلطان محمود نے ان کی بات نہ مانی اور جب بت توڑے تو اس کے پیٹ سے اتنے جواہرات نکلے جو اس پیش کردہ مال سے دگنے چوگنے تھے.سوم کہتے ہیں چاند کو.ناتھ مالک کو.اور یہ شو جی ہیں ہندوستان میں شوجی کے لنگ کی پوجا ہوتی ہے.لنگ ایک مضبوط و ٹھوس جسم ہے اس میں خول کہاں جہاں جواہرات بھرے ہوتے.پس یہ قصہ ہی غلط ہے.ایسا ہی شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کا مصرع ہے کہ دیدم بت عاج در سو منات.حالانکہ ہاتھی دانت مذہبی طور سے ان ہندوئوں میں ممنوع ہے.اس کا بت کب بنانے لگے تھے...................................ہمارا فرض فرمایا.ہماری جماعت کو چاہیے کہ بہت دعائیں کریں بہت دعا کریں.نمازوں میں بھی، تنہا اپنے گھروں کے دروازے بند کر کے اور باہر جنگل میں جا کر.(۲)ہر ایک فرد اپنی اپنی ہمت کے مطابق امن و راستی سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی تبلیغ کرے اور جو اعتراضا ت مخالفین سے اللہ کے کلام پر، اللہ کے رسولوں پر ہوتے ہیں ان کی تردید میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھے یا تقریر کرے.اور جو اَن پڑھ ہے وہ اپنا نمونہ ہی نیک بنائے اور اس طرح مجسم و عظ بنے.(البدر جلد۱۰نمبر۵ مورخہ یکم دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۳) علالت میں عظیم الشان منشاء سرکاری حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک روز فرمایا کہ میری اس علالت میں کوئی عظیم الشان منشاء سرکاری معلوم ہوتا ہے جو اتنے سال پہلے مرزا کو یہ واقعہ دکھایا ( یاد رہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح شدت پیار کی وجہ سے عموماً حضرت اقدس کو مرزا کے نام سے پکارا کرتے ہیں اور اہل زبان اس کا لطف اُٹھاسکتے ہیں.ایڈیٹر ) اور پھر اس واقعہ کو اسی رنگ میں پورا کر کے دکھایا اور مجھے چارپائی پر ڈال دیا.

Page 265

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح اس پیشگوئی کو کس عظمت کی نظر سے دیکھتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ پر آپ کو کیسا ایمان ہے.اسی ضمن میں فرمایا کہ وہ منشاء سرکاری اس وقت ظاہر ہو گا جب وہ شفادے گا.پانی میں شفا اسی سلسلہ میں ایک روز حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ مجھے پانی دو.اور میرے لئے تو پانی ہی میں شفا ہے.میں جب پانی پیتا ہوں تو میرے قلب کو تسکین ہوتی ہے.پانی کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (الانبیاء:۳۱)پانی ہر شے کے لئے زندگی بخش ہے.اور قرآن مجید میں وحی الٰہی کی مثال پانی سے دی ہے اور وحی الٰہی کے متعلق بھی فرمایا فیہ شفاء و نور پس پانی میرے لئے بہت مفید ہے.آپ یہ فرما چکے اور پانی مانگا.شیخ تیمور صاحب جو حضرت کی اس علالت میں کھانے پینے اور ادویات کا ذخیرہ رکھنے والے تھے.حضرت کے لئے میٹھوں کا پانی نکال کر لائے کیونکہ ڈاکٹروں نے یہ تجویز کیا ہوا تھا.حضرت نے دو مرتبہ اشارۃً اسے رد کیا اور آخر کو پیا تو فرمایا کہ ’’یہ پانی نہ تھا‘‘ اور شیخ تیمور صاحب کو فرمایا کہ’’ ہم چاہتے ہیں تم ہمارے مزاج شنا س بنو‘‘ اس کے بعد پھر آپ کو پانی پلایا گیا.تو آپ نے نہایت سکینت کے ساتھ پیااور الحمد للّٰہ کہا.بلاوجہ بیٹھنے پر اظہار ناپسندیدگی دوران علالت طبی احتیاط کی غرض سے دروازہ پر پہرہ مقرر کیا گیا اور کثرت کے ڈر سے احباب کو اندر جانے سے روکا گیا تو بعض آدمیوں نے حضرت کے کانوں تک اس بات کو پہنچایا.حضرت نے فرمایا کہ ’’ ہم نے کسی کو نہیں کہا کہ پہر ہ بٹھائو.اور نہ مجھے علم ہے کہ کوئی پہرہ بٹھایا گیا ہے.اور پھر یہ بھی فرمایا کہ میں یہ بھی مناسب نہیں سمجھتا کہ ہر وقت یہاں ہی بیٹھے رہیں.اپنا کام کاج بھی کرنا چاہیے.جب جوش آتا ہے تو آ کر دیکھ لینے سے وہ جوش دب جاتا ہے.بہر حال ہم نے کسی کو روکنے کے لئے نہیں کہا.‘‘

Page 266

حضرت کی عجیب احتیاط مومن بڑا ہی با خبر اور محتاط ہوتا ہے.میں نے حضرت کی بعض باتوں کو نہایت عجیب احتیاط کا نمونہ پایا ہے.ا یک دن آپ نے اوائل ایام علالت میں فرمایا کہ میرے حواس اِس وقت درست ہیں اور موت کا کوئی وقت معلوم نہیں.میں چاہتا ہوں تمہارے لئے ایک وصیت لکھ دوں.تم آپس میں مشورہ کر لو.ڈاکٹر صاحبان او رنواب صاحب اور پھر حضرت صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود صاحب کو بلا کر کہا کہ آپ اپنے بھائیوں کو بلا کر مشورہ کر لیں.حضرت کی امانت کی درخشاں مثال حضرت نے فرمایا.ہماری امانتوں کا انتظام خدا کے فضل سے بہت محفوظ ہے اور ہر شخص اپنی امانت جس وقت چاہے لے سکتا ہے.ہم امانت کو اسی طرح رکھتے ہیں جس حالت میں کوئی دیتا ہے.ہمارے گھر والے بھی اسے خوب جانتے ہیں.کسی امانت پر جو ہمارے پاس ہو ہماری زندگی یا موت سے کوئی اثر نہیں پڑتا.اس پر عرض کیا گیا کہ حضور عبدالرحمن کہتا ہے کہ میرے پاس رسید نہیں.فرمایا.’’کچھ پرواہ نہیں.اس کی امانت کے ساتھ رسید ہو گی اُسے دیکھو اور ابھی دے دو ‘‘ چنانچہ جب اس کی امانت کو دیکھا گیا تو اس کے ساتھ حضرت کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی رسید موجود تھی اور اس کے ساتھ ہی امانت کا روپیہ تھا جو فوراً ادا کر دیا گیا.وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ.قرآن کریم کی آیات پر تدبر ایک دن مغرب کی نماز کی نیت باندھی اور نیت باندھنے کے ساتھ قرآن مجید کی ایک آیت پر غور شروع ہو گیا.قریباً دو گھنٹہ اسی حالت میں گزر گئے اور نماز پوری نہ ہو سکی تو فرمایا.کیا کروں نماز نہیں پڑھی گئی.صوفیوں والی حالت ہو گئی اور ایسی نماز شروع ہو ئی جس کا سلام

Page 267

نہیں.نماز میں ایک آیت پر غور کرتے کرتے بہت دور نکل گیا اور بڑے بڑے مضامین سر میں آئے اور آ رہے ہیں.قرآن میری غذا ہے حضرت بار ہا فرمایا کرتے ہیں کہ میری غذا قرآن ہے اور میں جب تک اسے روز کئی مرتبہ پڑھ نہ لوں مجھے چین نہیں آتا.محمد بن قاسم کے خطوط پھر انہیں ایام میں آپ نے بعض خدام کو حکم دیا کہ محمد بن قاسم کے خطوط تلاش کرو جو انہوں نے حملہ ہند کے ایام میں لکھے تھے.پھر آپ ہی ان کتابوں کے نام بتائے جن میں تلاش کرنا چاہیے تھا.میں نے ایک دن پوچھا بھی کہ اس سے آپ کی کیا غرض ہے؟ مگر ابھی تک اس راز کے انکشاف میں قادر نہیں ہوا.فیضی مرحوم سے اظہار محبت دوسرا شخص جس کی تصنیف کی طرف ان ایام علالت میں آپ کو توجہ رہی وہ فیضی مرحوم ہے.آپ نے فرمایا کہ مثنوی نل د من میں واقعہ معراج نکال کر مجھے سنائو.خواجہ صاحب سے بھی کہا.اس خواہش سے مقصود دراصل نبی کریم ﷺ کے ساتھ اظہار محبت ہے.واقعہ معرا ج نبی کریم ﷺ کی کامیابیوں اور لا انتہا ترقیوں کا آئینہ تھا.اس لئے آپ نے اُسے دیکھنے کی خواہش فرمائی.ایسا ہی ایک روز میرے مکرم بھائی محمد اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی سے فرمایا.تم نے فیضی کی نل دمن پڑھی ہے.جب انہوں نے کہا کہ ہاں تو کہا.فیضی نے جو معراج کا حال لکھا ہے وہ سنائو.اس پر اکبر شاہ خان صاحب نے عرض کیا کہ یاد نہیں.تب دریافت کیا کہ دیوان فیضی دیکھا ہے

Page 268

نہوں نے کہا کہ ہاں میں نے پڑھا ہے.اس پر فرمایا.اس کا کوئی شعر یاد ہو تو سنائو.جس پر انہوں نے یہ مقطع پڑھا ؎ چشمے کہ تو فیضی بہ رخ دوست کشورے بائد کہ بآں چشم نہ بینی دگراں را اس شعر کو بہت ہی پسند کیا اور دوبارہ پڑھوایا اور تعریف کی.ایک ضمنی لطیفہ خان صاحب نے اپنے ذوق کے موافق دیوان فیضی میں سے ایک غزل احباب کو سنائی جسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ گویا فیضی نے تین سو برس بیشتر حضرت خلیفۃ المسیح کے اس واقعہ کو دیکھ کر اسی موقعہ کے لئے لکھی ہے اور وہ یہ ہے.زخم بالائے دیدہ است او را چشم زخمے رسیدہ است او را میچکد خون ز تیغ مزگانش کس باین رنگ دیدہ است او را گلشن جان بود کہ ز صد گل تر پیش نرگس رسیدہ است او را دل خون گشتہ شہیدان است خون کہ بہ رود دیدہ امت او را حال فیضی بہ بین گز ابر دیت تیغ در دل خلیدہ است او را اب اس کو فیضی کی پیشگوئی کہو یا اس کی روح کا نیاز مندانہ تعلق سمجھو جو حضرت کے ساتھ اسے ہو گا.معرفت نہ رکھنے والے ایسی باتوں کو مبالغہ اور خیال آفرینی پر حمل کرنے کے عادی ہوتے ہیں.مگر واقعات کے سلسلہ کو اگر ملایا جاوے تو یہ امور حقائق کے تحت میں آتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح کا فیضی مرحوم کے

Page 269

کلام کا علالت کے ایام میں سننے کا شوق ظاہر کرنا اور اس کے دیوان اور مثنوی کو منگوانا خاص تعلق کو ظاہر کرتا ہے.اور اسی سلسلہ میں اس پیشگوئی کا نکل آنا میں تو فیضی کی روح کی نیازمندانہ تعلق ہی کو دیکھتا ہوں.بہرحال یہ عجیب بات ہے کہ اس قدر عرصہ پہلے فیضی مرحوم کے دیوان میں ایک غزل موجود ہے.جو اس واقعہ کا صحیح اور سچا نقشہ ہے.اور شاعرانہ مذاق کے لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ رنگ غزل کا نہیں ہوتا.مفتی صاحب نے اس غزل کو حضرت کے حضور بھی پیش کر دیا.آپ نے دیوان فیضی لے کر اس غزل کو دیکھا اور خصوصیت سے حضرت صاحبزادہ صاحب کو اس کی جلد کی طرف توجہ دلائی.پھر فرمایا کہ اکبر شاہ خان کو بلائو.وہ سنائے.خان صاحب کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ ان کو عشق ہے اپنے جوش محبت میں انہوں نے اس کو نکال لیا.پھر دیر تک خود بھی تعجب فرماتے رہے کہ فیضی نے یہ کیوں لکھا.میں نے ان تعلقات کا ذکر کیا جو اوپر لکھ آیا ہوں تو خاموش رہے.اور پھر اس غزل کو خان صاحب سے سنا اور بھی چند اشعار دیوان فیضی سے سنے ا ور اظہار مسرت فرماتے رہے اور بالآخر اس کا پہلا شعر سنا.پھر اسی غزل کا مضمون شروع ہو گیا اور بالآخر فیضی کی سوانح منگوائی اور ساری سنی.فقر و غنا کا تماشا ایک روز بعد مغرب میں آپ کی خدمت میں حاضر تھا چند اور احباب بھی موجود تھے.فرمایا.بیماری کا ابتلا بھی عجیب ہوتا ہے.اخراجات بڑھ جاتے ہیں ا ور آمدنی کم ہو جاتی ہے اور دوسرے لوگوں کی خوشامد کرنی پڑتی ہے.میری آمدنی کا ذریعہ بظاہر طب تھا.اب اس رشتہ کو بھی اس بیماری نے کاٹ دیا ہے جو لوگ میرے حالات سے واقف نہیں وہ جانتے تھے کہ اس کو طب ہی کے ذریعہ ملتا ہے مگر اب اللہ تعالیٰ نے اس تعلق کو بھی درمیان سے نکال دیا.میری بیوی نے آج مجھے کہا کہ ضروریات کے لئے روپیہ نہیں اور مجھے یہ بھی کہا کہ مولوی صاحب آپ نے کبھی بیماری کے وقت کا خیال نہیں کیا کہ بیماری ہو تو گھر میں دوسرے وقت ہی کھانے کونہ ہوگا.میں نے اسے کہا کہ میرا خدا ایسا نہیں کرتا.میں روپیہ تب رکھتا جو خدا تعالیٰ پر ایمان نہ رکھتا.اس پر میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کی بیماری کے ابتلاء کو اس قسم کا ابتلاء تو پھر نہیں کہہ سکتے.آپ

Page 270

کو کسی خوشامد کی ضرورت نہیں.ڈاکٹر اور دوسرے لوگ اپنی سعادت مندی سمجھتے ہیں کہ آپ کی کوئی خدمت اس موقعہ پر کر سکیں.فرمایا.مجھ پر تو خدا کا فضل ہے اور یہ بھی فضل ہے میں نے تو عام طور پر ذکر کیا ہے.حضرت یہ بیان کر ہی رہے تھے کہ شیخ تیمور صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت کی ڈاک میں ایک خط آیا ہے کہ ایک شخص نے ایک سو ۱۲۵ پچیس ذات خاص کے لئے ارسال کئے ہیں.میں نے پوچھا حضرت کو علم ہے.میں نے تو ابھی ڈاک نہیں سنائی کل سے آیا ہوا ہے.میں نہیں بتا سکتا کہ مجھ پر اس خبر نے کیا اثر کیا وجد کی سی حالت ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت کا تماشا نظر آیا.حیدر آباد سندھ میں شیخ محمد اسماعیل ولد حاجی امیر الدین صاحب تاجر چرم ہیں.وہ بیمار ہوئے انہوں نے فوراً ایک سو روپیہ حضرت کی خدمت میں بطور نذر خاص بھیجا.اس پر اچھے ہو گئے.پھر دوسرے دن ایسا ہی اتفاق ہوا تو انہوں نے پچیس اور بھیجے.اور ایک شخص نے پنڈداد نخان سے خط لکھا کہ جن ایام میں میں آپ پنڈدادنخان میں مدرس تھے اس وقت کی چار روپیہ کی چونّیاں آپ کی میرے ذمہ ہیں اب وہ بھیجنا چاہتا ہوں.یہ دونوں خط حضرت کو سنائے گئے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایسا غلبہ ان کے قلب پر ہوا کہ بے اختیار رو پڑے.میں نے حضرت کو ایک دو مرتبہ اس حالت میں دیکھا ہے.غمگین ہوتے تو دیکھا ہی نہیں.یہ رونا خدا تعالیٰ کی خاص مہربانیوں کی یاد اور جوش کا تھااور بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے لگے.فرمایا.اللہ!میرا مولیٰ ایسا ہی قادر خداہے اس نے دکھا دیا ہے کہ وہ طب کے تعلق کو توڑ کر بھی مجھے رزق دیتا ہے اور ایسے طور پر دیتا ہے کہ وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا.میری بیوی اس قدرت کوسمجھ نہیں سکتی.ناتواں ہے.میراا یمان بڑا قوی ہے میرا مولیٰ میرے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے.حضرت کو جب اس طرح پر میں نے حمد الٰہی میں رطب اللسان پایا تو میرے دل میں جو ش اٹھا کہ اسی وقت وہ منی آرڈر تقسیم کیا جاوے.چنانچہ میں خود ڈاکخانہ میں گیا اور ان منی آرڈروں کو تقسیم کیا.اس طرح پر میں نے دیکھا کہ چند منٹ پہلے بظاہر اگر فقر تھا تو اسی ساعت غنا کانظارہ نظر آ گیا.حضرت نے اسی جوش میں شیخ محمد اسماعیل صاحب کے لئے تو خصوصاً بڑی دعا کی اور دیر تک دعا کرتے رہے.یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس جوش میں کس کس کے لئے دعا ئیں کی ہو ں گی اور کیا کیا کی ہوں گی.میرا یقین ہے کہ اس

Page 271

وقت حضرت کی دعائوں کی قبولیت کی گھڑی تھی.اور خد اکا شکر ہے کہ اس وقت دعا کرنے والوں میں ہم بھی شامل تھے.غرض اسی وقت وہ منی آرڈر ز آپ کو تقسیم کئے گئے.جس شخص نے پنڈ دادنخاں سے چونّیوں کا خط لکھا تھا فرمایا.اس کو لکھ دو.معاف، مجھے تو معلوم بھی نہیں.۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء کا معاملہ ہے.ہمیں تو کچھ خبر نہیں.بہرحال میں اس کی دیانت پر ایمان لایا.اس ذکر میںپھر دیر تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے رہے.اس واقعہ نے بتا دیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ آپ کی دستگیری فرماتا ہے.خلیفۃ المسیح کی عالی خیالی ایک دن صبح کے وقت آپ نے شیخ تیمور کو پاس بلایا اور نہایت آہستگی سے ایک بات کہی.میرا کان بھی اسی طرف تھا کہ کیا فرماتے ہیں.فرمایا.تم ایک فہرست حساب کی بنائو کسی تفصیل کی ضرورت نہیں صرف ٹوٹل ہو.جس قدر میری ادویات پر خرچ ہواجس قدر میری بیٹیوں پر کپڑے کے لئے خرچ ہوا ہے اس کل رقم کی میزان حاصل کرو.اور پھر میری بیوی کو کہو کہ جو روپیہ کپڑے میں باندھ کر دیا گیا ہے اس میں سے وہ کُل حساب ادا کرو.فرمایا.میرا مولیٰ مجھے دیتا ہے میں کسی انسان کا احسان مند نہیں ہو سکتا.اس نے میری ضروریات کی کفالت کا آپ مجھ سے وعدہ کیا ہے.یہ بات کسی معمولی آدمی کے منہ سے نہیں نکل سکتی.بیماری پر خرچ ہوا.اور ایسے شخص کی علالت پر خرچ ہوا جس کی وجہ سے قوم روپیہ دیتی ہے.اور اس کی ضروریات ذاتی کا انصرام اس روپیہ سے اگر ہو تو عین رضائے الٰہی کا موجب ہے.مگر نہیں اپنے اخراجات وہ انجمن سے لینا نہیں چاہتا.میں اس واقعہ کی تائید میں ایک اور واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں.جب حضرت خلیفۃ المسیح خدا تعالیٰ کے فضل اور محض اسی کی

Page 272

تائید سے قدرت ثانیہ کے مظہر اوّل ٹھہرے اور اللہ تعالیٰ نے قوم کو آپ کے ہاتھ پر جمع کر دیا تو صدرانجمن میں حضرت مسیح موعود مغفور کے اہل بیت کے وظیفہ کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح کے گزارہ یا وظیفہ کا سوال بھی غور کے لئے ایک مجلس شوریٰ کے سپرد ہوا.بڑی بحث کے بعد جدا جدا دو رقوم وظیفہ کی اہل بیت حضرت موعود مغفور اور خلیفۃ المسیح کے لئے تجویز کی گئیں.مگر جب یہ تجویز حضرت کے پاس پہنچی تو آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا.جو خدا مجھے اس وقت تک روٹی کپڑا اور مکان دیتا رہا ہے اور میری تمام ضرورتوں کا جس نے آپ اہتمام کیا ہے.اب عمر کے اس آخری حصہ میں مجھے غیروں کے سپرد کر دے گا؟ ہرگز نہیں.اپنے مولیٰ پر ایسا گمان میرے وہم میں بھی نہیں آسکتا.اس نے میرے رزق کا ظاہری ذریعہ طب بنایا ہے.پس میں تو نبض پر ہاتھ رکھ کر ہی کھائوں گا.حضرت نے اپنی علالت کے ایام کے تمام اخراجات کو ادا کر دیا.اس ضمن میں شیخ تیمور صاحب نے پوچھا کہ نواب صاحب کے ہاں سے کچھ چوزے آئے تھے کیا ان کی قیمت بھی دے دوں؟ فرمایا.نواب صاحب کی بات خاص ہے اسے رہنے دو.اظہار شکر گزاری کی روح عبدالسلام آپ کا چھوٹا سا بچہ ہے جو چار پانچ سال سے زیادہ عمر کا نہیں.ایک روز حضرت کے ہاتھ کو دبانے لگا.حضرت نے وفور جوش سے فرمایا.میں بہت خوش ہوں تمہارے لئے بڑی دعا کی ہے.( وباللہ التو فیق ) ایڈیٹر (ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد ۱۴ نمبر۴۱ مورخہ ۷؍ دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۳تا۶)

Page 273

ایک خاص ارشاد حضور باوجود ضعف و نحافت کے اپنی جماعت کو کچھ نہ کچھ بطور نصیحت فرماتے رہتے ہیں.چنانچہ آج ۲۹؍ نومبر ۱۹۱۰ء تیسرے پہر جب فاضل جلیل عالم نبیل مولانا مولوی محمد احسن صاحب امروہہ سے اور ڈاکٹر خلیفہ رشیدا لدین صاحب پرتاب گڑھ سے تشریف لائے اور حضرت کی خدمت میں عیادت کے واسطے حاضر ہوئے تو فرمایا ’’مفتی محمد صادق کو بلاؤ.‘‘عاجزقدموں میں حاضر تھا.عرض کی گئی کہ بندہ حاضر ہے.ارشاد کیا کہ’’ کاغذ قلم لو‘‘ اور مفصلہ ذیل الفاظ لکھائے جو ناظرین کو جلد پہنچانے کی خاطر خصوصیت کے ساتھ اخبار میں شامل کئے جاتے ہیں.ایڈیٹر فرمایا.ابتلاء دنیا میں تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ قسم ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے( البقرۃ : ۱۲۵) (اور جب ابراہیم پر اس کے ربّ نے بعض باتوں سے ابتلاء ۱؎ ڈالا تو اس نے ان کو پورا کیا).دوسری قسم وہ ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (الاعراف : ۱۶۹) (اور ہم نے ان کو دکھوں اورسکھوں کے ابتلا میں ڈالا تا کہ وہ رجوع کریں).اور تیسری قسم وہ ہے جس کی نسبت فرمایا ہے ( الاعراف : ۱۶۴) (ہم ان کو ابتلا میں ڈالتے ہیں بسبب اس کے کہ انہوں نے فسق اختیار کیا) اللہ تعالیٰ نے اسلام میں حسن ظن کا حکم دیا ہے.قرآن شریف میں آیا ہے ( الحجرات : ۱۳) اور حدیث شریف نے تو مطلقاً سوء ظن سے منع ہی کیا ہے چنانچہ فرمایا ہے اِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ(بخاری کتاب الوصایا باب قول اللہ تعالٰی من بعد وصیۃ یوصی بھا او دین).مجھ پر جو ابتلاء اس وقت آیا ہے یہ میرے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی غریب نوازیوں، رحمتوں اور فضلوں کا نمونہ ہے اللہ تعالیٰ نے بہت سے دلوں کی حالت کو جن کے ساتھ محبت ۱؎ نوٹ : کسی شخص کے اندر جو جوہر رکھا گیا ہے اسے ظاہر کر دینے کو ابتلاء کہتے ہیں.

Page 274

میرے لئے ضروری تھی مجھ پر ظاہر فرما دیا.بعض ایسے نفوس ہیں جن کی مجھے خبر نہ تھی کہ وہ میرے ساتھ اور جماعت کے ساتھ محبت کا کیا تعلق رکھتے ہیں.لیکن اس بیماری میں جو خدمت رات دن انہوں نے کی ہے اس سے ان کے اخلاص کا اظہار ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان نفوس کے صفات کو ظاہر کردیا.یہ خدا تعالیٰ کی غریب نوازی ہے کہ وہ لوگ دل سے ایسی خدمت کررہے ہیں.میں ان تمام لوگوں کا جنہوں نے اس وقت میری ہمدردی کی ہے شکر گزار ہوں.ہمارے دوست ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ، ڈاکٹر مرزایعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب، ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب اور ڈاکٹر کرم الٰہی صاحب ان سب نے اس وقت جو ہمدردی کی ہے میں امید کرتا ہوں کہ اس کے عوض اس جہان میں بھی ضرور اور مجھے کامل امید ہے کہ عاقبت میں بھی خدا تعالیٰ ان کو نعم البدل عطا کرے گا.وہ تمام لوگ جو کہ ہمدردی میں شامل ہوئے ہیں وہ یقین رکھیں کہ یہ خدا داد موقع تھا اور ایسا موقع ہمیشہ نہیں ملا کرتا.لاہور کے لوگوں میںسے میاں چراغ دین صاحب بمعہ اپنے کنبے کے خاص شکریہ کا مستحق ہے.اس بڑھاپے اور بیماری کی حالت میں آ کر وہ بہت ہمدردی کرتے رہے.آخر میں عجائبات الٰہی کی بات ہے کہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب صرف ہمدردی کے لئے بہت دور سے آئے ہیں اور اس سے زیادہ یہ کہ سید محمداحسن صاحب (امروہوی) بایں پیری و بیماری وبایں ضرورت خانہ داری ۱؎ عیادت کے لئے تشریف لائے ہیں.یہ عیادت انشاء اللہ معمولی نہ ہوگی.ہر ایک چیز خدا تعالیٰ کے حضور مراتب رکھتی ہے ایمان کے بھی مراتب ہیں اور کفر کے بھی مراتب ہیں شرک کے بھی مراتب ہیں اخلاص کے بھی مراتب ہیں.اسی طرح عیادت کے بھی مراتب ہیں.میں انشاء اللہ سب کے واسطے دعا کروں گا.اور خدا کے حضور ان سب باتوں کے واسطے شکریہ کرتا ہوں.فرمایا.بعض لوگوں کو ظاہری خدمت کی توفیق نہیں دی گئی وہ دعا کریں اور میں امید کرتا ہوں کہ دعا کرتے ہوں گے یہ بھی ہمدردی ہے اور عیادت میںداخل ہے.اللہ تعالیٰ کا رحم میرے حال پر ہے میں اچھا ہوں.۱؎ ان کے گھر میں وضع حمل کے ایام بہت قریب ہیں.

Page 275

ڈاکٹررشید الدین کو مخاطب کر کے فرمایا.میں اچھا ہوں بہت شکر ہے اگر یہ ابتلا نہ ہوتا تو آپ کو عیادت کا ثواب کیونکر ہوتا.فرمایا.میرا دل مطمئن ہے اس ذات کے برابر مجھے کوئی محبوب اورپیار انہیں نہ کوئی اس جیسا میرا حامی و مددگار ہے اس کا کرم اور فضل حدسے زیادہ میرے ساتھ شامل ہے.ایسے وقت میں مجھ کو اس نے ایسی ایسی جگہ سے رزق پہنچایا ہے انسان کا وہم وگمان نہیں پہنچ سکتا.گویا طب کے پیشے میں جو ستاری تھی ان دنوں میں اس کو بھی دور کردیا ہے اور مخفی طریقوں سے رزق دیا ہے.میرے گھر میں جو کچھ رزق پہنچا ہے اس میں کسی کا کوئی احسان جلوہ گر نہیں صرف اسی اللہ کا احسان ہے اور یہ امر دیکھنے والوں کی نظروں میں بہت عجیب ہے.(الحکم جلد ۱۴ نمبر۴۱ مورخہ ۷؍دسمبر ۱۹۱۰صفحہ ۱۰) ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے حضرت خلیفۃ المسیح باوجود اس قدر ضعف اور علالت کے وقتاً فوقتاً خدام کو وعظ فرماتے رہتے ہیں اور اپنی پُر اثر کلام سے مستفید کرتے رہتے ہیں.آج ( ۲۹؍نومبر) کی صبح جب زخم پر ڈ رسنگ ہو چکا تو فرمایا.مجھے اٹھا کر بٹھائو.جب بٹھایا گیا تو فرمایا.(العنکبوت:۳) میرا ربّ میرا پرورد گار، تمام عالم کا ربّ فرماتا ہے کہ کیا لوگوں نے گمان کیا ہے کہ اتنے پر چھوڑ دئیے جاویں گے کہ صرف منہ سے کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان پر کوئی فتنہ نہ پڑے.یہ غلط خیال ہے.ابتلائوں کا آنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کا رحم ہے، کرم ہے، غریب نوازی ہے جو بہت سی غلطیوں پر پردہ پوشی کی جاتی ہے اور کسی کے ماتھے پر نہیں لکھا جاتا کہ اس نے یہ گناہ کیا ہے.خوش قسمت وہ جو کہ ابتلاء کے وقت شکایت نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے ہیں.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتے ہیں خدا کی رحمت ان پر نازل ہوتی ہے.بد قسمت ہے وہ جو ابتلاء کے وقت پیچھے ہٹتا ہے او رشکایت کرتا ہے.میرے پیارو ! قرآن بڑی نعمت ہے اس تکلیف میں وہی میرا سہارا ہوا ہے.یہ زخم اور چوٹیں

Page 276

مجھے کوئی دکھ نہیں دیتیں.میں تو سارا دن قرآن شریف کے عجائبات پر ہی غور کرتے کرتے بسر کر دیتا ہوں.میری تو زندگی ہی یہی ہے.اگر قرآن شریف جیسی نعمت میرے پاس نہ ہوتی تو میں سخت دکھ میں ہوتا.خدا تم پر رحم کرے تم پر کرم کرے تم پر اپنی غریب نوازی دکھائے.تمہیں قرآن کا فہم عطا فرماوے اور اس کی سمجھ دے.قرآن کو اپنے دلوں میں لگائو اس کو پڑھو اس پر عمل کرو.یہ ایک جنت ہے اگر معنے نہیں جانتے تو اس کے لفظ ہی پڑھو.( البدر جلد ۱۰نمبر۶ مورخہ ۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ۳) ایک نو مسلم کو نصائح حضرت خلیفۃ المسیح سلمہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے روبصحت ہے.بہ نسبت سابق بہت آرام ہے اب بخار نہیں ہوتا کھانسی بھی نہیں ہے.ضعف بہت ہے مگر پہلے سے کم.زخم تدریجاً اچھا ہو رہا ہے کسی قدر بے خوابی کی گاہے تکلیف ہوجاتی ہے.لب پر جو زخم تھا وہ قریباً اچھا ہو گیا ہے اس واسطے بولنے اور کھانے پینے میں پہلے کی طرح تکلیف نہیں ہوتی.باوجود اس حالت کے صبح شام قرآن شریف سنا کرتے ہیں بعض آیات پر کچھ فرماتے بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی قیمتی نصائح سے متمتع کرتے رہتے ہیں.چنانچہ مسٹر مارکوئس ( نومسلم ) عیادت کے واسطے حاضر ہوئے تو انہیں مخاطب کر کے فرمایا.خدا تعالیٰ کی بڑائی اصل اصولِ اسلام ہے اسلام کیا ہے خدا تعالیٰ کی بڑائی بہت بڑائی.وہ وراء الوریٰ ہے اس کی ذات میں کوئی بھی شریک نہیں، افعال میں کوئی شریک نہیں، صفات میں کوئی شریک نہیں، اسماء میں کوئی شریک نہیں، عبادت میں کوئی شریک نہیں.خدا تعالیٰ کی بڑائی اصل اصولِ اسلام ہے.اللہ کا لفظ کسی بت پر نہیں بولاجاتا.اللہ تعالیٰ کے سوائے کسی سے دعامانگی نہیں جاتی.جزا و سزاء پر اعتقاد.اللہ تعالیٰ کی کتابیں آئیں.قرآن شریف ان کا جامع ہے.قرآن شریف کا اصل منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی ہو اور محمد ؐ کا رسول اللہ ہونا ثابت کیا جاوے.نماز اللہ کے نام سے شروع ہوتی ہے اور اللہ کے نام پر ختم ہو تی ہے.ایسا ہی اذان اللہ کے نام پر شروع ہوتی ہے اور اللہ کے نام پر ختم ہوتی ہے.دنیوی کاموں سے اسلام نہیں روکتا.شراب، زناو غیرہ اشیاء جو مضر ہیں ان سے روکتا ہے.مجھے الہام ہوا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ.کیا معنے؟ـ کوئی شخص اپنی ذات میں کوئی کمال نہیں

Page 277

رکھتا خدا کا دیا ہوا سب کچھ ہے یہ خود مجھے الہا م ہوا ہے.اور یاد رکھو کہ دنیا کی کسی ترقی کو اسلام نہیں روکتا.نوکری کرو.تجارت کرو.مزدوری کرو.میں تمام مذاہب پر ریویو کر کے دکھلا سکتا ہوں کہ اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے.انسان کے روح اور جسم ہر دو کی تربیت کرتا ہے.جو مذہب کہتا ہے کھانے پینے کی فکر نہ کروہ جھوٹا ہے.اسلام نے یہ دعا سکھلائی ہے. (البقرۃ:۲۰۲).مولویوں نے اسلام کو مشکل بنایا ہے مگر اسلام در اصل مشکل نہیں.مومن کی تین خوشیاں فرمایا.فتوحات مکیہ میں لکھا ہے کہ مومن کو تین خوشیاں ہیں جب اُسے کوئی مصیبت پہنچے.(۱)ایک تو یہ کہ عذاب دنیا ہی میں ملے گااور آخرت کا عذاب تو بہت ہی شدید ہے.(۲)عذاب تبدیلی بھی ہوتا ہے یعنی آدمی مرتد ہو جاوے.شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا.(۳)پھر عذاب کے کئی مراتب ہیں.شکر ہے کہ ادنیٰ پر کفایت ہوئی.آپ کی سات خوشیاں فرمایا.مجھے تو سات خوشیاں ہیں.تین یہ.تین کا ذکر قرآن مجیدمیں ہے جہاں فرمایا ہے.(البقرۃ:۱۵۸).اور ساتویں یہ کہ ہر مصیبت میں صبر و شکر سے ایک نعم البدل ملتا ہے جیسے ام سلمہ نے صبر و شکر کیا تو خدا نے اسے ابو سلمہ سے بہتر بدلہ دیا یعنی حضرت خاتم النبیین سا خاوند.اور پھر یہ بھی خوشی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی سواری سے گر پڑے تھے تو ان کے دائیں طرف تکلیف پہنچی تھی.چنانچہ حدیث میں ہے.فَجُحِشَ شقہ الایمن (بخاری ابواب تقصیر الصلٰوۃ باب صلٰوۃ القاعد).میرا بھی دایاں طرف ہی ہے.اَلْحَمْدُ لِلّٰہ.( البدر جلد ۱۰ نمبر۷ مورخہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ۵) ضرورت رفیق عاجز (مفتی محمد صادق )اور مولوی سید سرور شاہ صاحب حسب الحکم حضرت خلیفۃ المسیح منگھیر علاقہ بنگال کو جاتے ہیں.اس کے مطابق ہم منگل کے دن ۸؍نومبر۱۹۰۱ء کی صبح کو قادیان سے روانہ ہوکر امرتسر

Page 278

سے شام کے تین بجے کی ڈاک گاڑی میں سوار ہوئے.بدیں خیال کہ منگھیر بہت دور ہے اور واعظین کے سفر کا بہت سا بوجھ انجمن منگھیرپر پڑے گا.حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی خدمت بابرکت میں تحریک کی گئی کہ یہاں سے صرف ایک ہی آدمی بھیجا جاوے.حضرت نے اس پر تحریر فرمایا.مکرم مولوی محمد علی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک کا سفر مجھے مکروہ معلوم ہوا اس لئے کم سے کم دو کو یہاں سے روانہ کرنا پسند آیا.والسلام نور الدین ۷؍نومبر ۱۹۱۰ء ( البدر جلد ۱۰نمبر۸ مورخہ ۲۲؍دسمبر ۱۰ ۱۹ء صفحہ ۲)

Page 279

آپ کی ایک خواب گزشتہ یوم الاحد کی رات کو حضرت نے خواب میں دیکھا کہ مکان میں دو سانپ ہیں.پہلے ایک مارا گیا اور پھر دوسرا بھی مارا گیا.تکلیف کے عوض آرام فرمایا.دانت نکلے تو ٹھنڈا پانی پینے کو مل گیا.ایک تکلیف ہوتی ہے تو اس کے عوض میں ایک آرام بھی مل جاتا ہے.(ماخوذ از کالم ’’اخبار قادیان‘‘البدر جلد ۱۰ نمبر ۹و۱۰ مؤرخہ ۵؍ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱) غیر احمدی کے پیچھے نماز ناجائز حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ جموں کے بعض مولوی صاحبان وہاں کی جماعت احمدیہ کو کہتے ہیں کہ ہم آپ احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھنے کے واسطے تیار ہیں.آپ ہمارے امام کے پیچھے پڑھ لیا کریں ہم آپ کے امام کے پیچھے پڑھ لیا کریں گے.ان صاحبان کو کیا جواب دیا جاوے؟ فرمایا کہ ان کو کہہ دو کہ(اٰل عمران:۱۱۹) جب تم ہمارے امام کو مفتری جانتے ہو اور مفتری ، ڈاکو، کنجر، دہریہ سے بدتر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الانعام:۲۲) تو پھر ہم تمہارے پیچھے کس طرح نماز پڑھ سکتے ہیں.فرمایا.کیا اتنی ترقی جو جماعت کو اب تک ہوئی ہے وہ منافقت کے میل ملاپ سے ہوئی ہے.ہرگز نہیں ایسے میل ملاپ سے کوئی فائدہ نہیں جس میں منافقت پائی جاوے.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۹و۱۰ مؤرخہ ۵ ؍جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۲) حمیّتِ دینی اور شعائراللہ کی عظمت کا جوش ۱۴؍ دسمبر ۱۹۱۰ء کو سالانہ کھیلوں کے مقابلہ کے لئے مدرسہ تعلیم الاسلام کے طلباء کی پارٹی کو مولوی صدر دین صاحب بی اے ہیڈ ماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام گورداسپور ۱۳؍ دسمبر ۱۹۱۰ء کو ایسے وقت لے جانا

Page 280

چاہتے تھے کہ وہ ۱۰ بجے کی گاڑی میں سوار ہو سکیں.۱۲ کی شام کو قبل مغرب سیکرٹری صاحب سے وہ اس کے متعلق گفتگو کر رہے تھے.اتفاق سے میں بھی پہنچا.میں نے اس کو سخت حقارت کی نظر سے دیکھا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کے طالب علم عید کے دن جو یوم النحر ہے قادیان سے کھیلوں کے مقابلہ پر جائیں.اور وہ قوم جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا اظہار کرتی ہے اپنے سکول میں ایسا نمونہ قائم کرے.جناب مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری صدر انجمن بھی اس کو کراہت ہی کی نظر سے دیکھتے تھے اور پسند نہیں کرتے تھے کہ لڑکے عید پر ٹور نامنٹ کو ترجیح دیں مگر مولوی صدر الدین کا منشا معلوم ہوتا تھا کہ لڑکے چلے جاویں اور وہ راہ میں نماز پڑھ لیں.یا اگر نماز یہاں ہی پڑھیں تو خطیب اور امام جلدی ختم کر دے.مجھے تو یہ طریق سخت ہی مکروہ معلوم ہوا کہ خطیب اور امام کو نماز یا خطبہ کے جلد ختم کرنے کے لئے کہا جاوے اور مدرسہ تعلیم الاسلام کے لئے یہ سخت ہتک دلانے والی بات تھی.بالآخر یہ طے ہوا کہ وہ حضرت کی خدمت میں آپ عرض کریں.چنانچہ مولوی صدر دین صاحب نے پوچھا تو حضرت کو سخت ناگوار گزرا اور فرمایا.میں تو ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتا اور جائز نہیں سمجھتا کہ عید کے دن سفر کیا جاوے.اور پھر سفر بھی کھیلوں کے لئے ہرگز نہیں جانا چاہئے.اور اگر تمہیں کوئی خوف ہے تو لکھ دو کہ نور الدین نے اجازت نہیں دی.یہ مفہوم تھا حضرت کے کلام کا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ دن سنت ابراہیمی کا ایک ایسا دن ہے جو شعائر اللہ میں داخل ہے اس کی عظمت مومن کا فرض ہے.غرض حضرت نے ایک لحظہ کے لئے بھی گوارا نہ کیا کہ کھیلوں کے مقابلہ کو یوم النحراور شعائر اللہ پر ترجیح دیں.میں اس امر کو افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ کھیلوں کو ایسی ترجیح دی جاتی ہے جو نہایت ناپسند امر ہے.اسی سلسلہ میں میں حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی کے اور واقعات جو اسی سے متعلق ہیں بیان کرتا ہوں.ایک مرتبہ آپ مدرسہ میں سے گزرے.اتفاق سے ساتھ لڑکے مورچال چل رہے تھے.آپ نے سخت ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا.یہ قرآن کریم کے صریح خلاف ہے.اور مجھے افسوس ہے تعلیم الاسلام کے مدرّس اتنا بھی نہیں جانتے.اور آپ نے اس وقت یہ آیت پڑھی.

Page 281

(الملک:۲۳) پھر اسی سلسلہ واقعات میں آپ نے عبد الحی اپنے بچے کو بھی فرمایا کہ ہم تم کو منع کرتے ہیں کہ اگر تمہیں کوئی اس قسم کی کھیل کھیلنے کی ہدایت کرے تو مت کرنا.پھر انہیں کھیلوں کے سلسلہ میں ایک مرتبہ آپ نے جب کمیٹی کے متعدد اجلاسوں میں سامان ورزش کی درخواستیں پیش ہونے لگیں تو فرمایا کہ دینیات کے لئے تو کوئی درخواست نہیں آتی.سامان ورزش کی بڑی درخواستیں آتی ہیں.اور مجھے یاد ہے کہ یہ بھی کہا تھا کہ مدرسہ کی لائبریری میں اور نہیں تو دینی کتب ہی کا اضافہ کرو.دعاؤں کا شغل بیماری کی حالت میں آپ نے یوم الحج کے دن معمول کے علاوہ ایک نیا وقت دعاؤں کے لئے نکالا.فرمایا.اس وقت مجھے سخت رقت قلب اور گدازش پیدا ہوئی اور میں نے بڑی بڑی دعائیں کیں اس اثنا میں میرے پاس کوئی نہیں آنے پایا.ایک مرتبہ میری بیوی صرف اس لئے آئی کہ وہ میٹھے کا پانی جو ڈاکٹروں نے بتایا تھا مجھے پلائے.میں نے اس سے تفاول لیا کہ میٹھے کا پانی ہے میری ان دعاؤں میں بھی اللہ تعالیٰ قبولیت کی حلاوت پیدا کرے گا.اور مجھے یقین ہے کہ اس نے میری دعاؤں کو قبول کیا.میں نے ان دعاؤں میں یوں بھی دعا کی کہ اے میرے مولا! میں ان لوگوں کے ساتھ مل کر دعا کرتا ہوں جو آج عرفات میں ہیں.مجھے معلوم تھا کہ حضرت کا معمول ہے کہ یوم العرفہ میں بڑی دعائیں کیا کرتے ہیں.اس وقت کے قریب میں نے حضرت کی خدمت میں ایک کارڈ بھیجا کہ ’’ میرے اور میرے اہل کے خاتمہ بالخیر اور رضاالٰہی کے حاصل کرنے کی توفیق کے ملنے کی دعا کریں.‘‘ وہ کارڈ اور دوسرے احباب خواستگاران دعا کی

Page 282

فہرست حضرت کے سرہانے تھی.۴ بجے صبح کے قریب برادرم شیخ تیمور کو موقعہ ملا کہ وہ اس دعا کی فہرست کو سنائیں.فرمایا.خوب کیا.میں اس وقت دعا ہی میں مصروف تھا.یوم العید کی صبح کو میں مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب کے ہمراہ حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا کہ کل دعاؤں کے لئے بڑا وقت ملا.اور فرمایا.رات کو بہت ہی کم سو سکا اور تین رؤیا دیکھے.جن میں سے ایک میں کسی شخص جعفر نام نے آپ کو کہا کہ آپ ہمارے امام ہیں نماز پڑھادیں اور پاؤ سپارہ سنادیں.میں نے سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرپڑھی.پھر کسی رؤیا میں آپ نے سورۃ اور سورۃ  تلاوت کیں.چنانچہ ان مبشر رؤیا کی تعبیر آپ نے تعطیر الانام سے سنی.آپ کی محنت و مذاق کا ادنیٰ نمونہ اور زبان عربی سے محبت کا ثبوت آپ نے تعطیر الانام کا جو ذکر کیا تو سید صاحب نے عرض کیا کہ آپ نے ایک فہرست تعبیر الانام کی بنائی تھی اور وہ میرے پاس بھی رہی ہے جس سے بڑی آسانی ہوتی تھی.فرمایا.ایسے کام میں نے بہت کئے ہیں اور مختلف فہرستیں لکھی ہیں.ایک فہرست ان اشعار کی لکھی ہے جو تفاسیر میں آئے ہیں اور پھر ایک فہرست ان اشعار کی لکھی جو رضی شافیہ، رضی کافیہ، مطول اور سیبویہ کی الکتٰب میں آئے ہیں.شوم کی بحث حضرت بعض اوقات عجیب عجیب نکات معرفت بیان کرتے ہیں.میں نے ایک دن عرض کیا کہ میاں رحمت اللہ ساکن بنگہ نے مجھے کہا تھا کہ وہ ایک مکان کرایہ پر لینا چاہتے ہیں.حضور اجازت دیں تو لے لیں.فرمایا.اتنا دیکھ لیں کہ اس مکان کے مالک اجڑ نہ گئے ہوں تو لے لیں.پھر فرمایا.شوم تین باتوں میں آیا ہے.عورت، مکان، گھوڑا.

Page 283

ان تینوں میں جو شوم مانا جاتا ہے اس کی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ گھوڑا مثلاً بدلگام ہو، سرکش اور شوخ ہو.ایسا ہی مکان کے متعلق ایک شوم یہ ہوتا ہے کہ وہ تنگ و تار ہو، حفظ صحت کے خلاف ہو.اور عورت کے متعلق یہ کہ وہ بدزبان ہو، پھوہڑ ہو.لیکن مجھے اللہ تعالیٰ نے اس سے بڑھ کر اس کے متعلق اس کی حقیقت بتائی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مکانات ایسے ہوتے ہیں جہاں غفلت پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ سے دوری پیدا ہوتی ہے.اس کی بہت سی مثالیں ہیں اور واقعات نے اس کی تصدیق کی ہے.اس کا علاج ایسے مکان کو چھوڑ دینا اور اس نشست کو بدل دینا ہوتا ہے.اس قسم کی غفلت پیدا کرنے والے مکانات میں جب بدیاں ترقی کر جاتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور آباد مکان ویران ہو جاتے ہیں.یہی و جہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو فرمایا کہ جب عادیوں کی زمین سے گزرو تو بھاگتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے نکل جاؤ.یہ مکانوں کا شوم ہوتا ہے.اور عورتوں کے متعلق ان کے بانجھ یا بدزبان وغیرہ ہونے کے سوا بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ وہ ذریت طیبہ نہ ہونے کے باعث اس میں شیطانی آمیزش ہوتی ہے.اس کے تعلق سے انسان کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ مختلف راہوں سے خدا سے دور لے جاتی ہے اور نیکیوں کو چھوڑا دیتی ہے.اور مومن خدا کے فضل سے شوم کو دور بھی کر سکتا ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے مدینہ طیبہ کا شوم جو وبائی تپ کے رنگ میں تھا، جاتارہا.اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرنے میں بڑی احتیاط چاہئے! ۲۶؍ نومبر ۱۹۱۰ء کو خوا جہ کمال الدین صاحب اور دوسرے احباب حاضر تھے.میں بھی سعادت اندوز تھا.خوا جہ صاحب سے برادرم خوا جہ جمال الدین صاحب کے متعلق استفسار کیا.خوا جہ صاحب نے عرض کیا کہ انہوں نے ایک سال کی رخصت کا انتظام کیا ہے.اور یہ رخصت وہ صرف اس لئے لیتے ہیں کہ انہوں نے عہد کر لیا ہے کہ آپ سے قرآن پڑھیں.فرمایا.اللہ تعالیٰ سے عہد کرنے میں بڑی احتیاط چاہئے! میں اس کو تو دل سے چاہتا ہوں کہ

Page 284

لوگ قرآن پڑھیں.اور قرآن پڑھانا میرے لئے بڑی ہی خوشی کا ذریعہ اور میرے لئے جنت ہے.لیکن جب کوئی ایسا عہد کرتا ہے تو میں ڈر جاتا ہوں.ان کو لکھو کہ وہاں نبی بخش نام ایک نوجوان تھا وہ اسے جانتے ہیں.ایک مرتبہ وہ تپ دق میں بیمار ہوا.میں نے اسے کہا کہ تم اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی نذر مان لو تم اچھے ہو جاؤ گے.اس نے کہا میں نے نذر مانی ہے کہ قرآن کریم کی خدمت کروں گا.آخر وہ اچھا تو ہو گیا اور اس نے قرآن کریم پڑھا بھی مگر خدمت کی توفیق نہ ملی بلکہ ہمارا مخالف ہو گیا.ایسے عہود میں خدا تعالیٰ سے پہلے بہت استغفار کرنا چاہئے کہ وہ اخلاص عطا کرے اور پھر اس سے دعائیں کی جائیں کہ وہ توفیق دے.خدا تعالیٰ سے عہد کر کے اگر پورا نہ کیا جاوے تو انجام نفاق پر ہو جاتا ہے.اس لئے ایسا ارادہ مبارک ہے اور میرے جیسا آدمی تو اس کی بڑی قدر کرتا ہے مگر اس کو لکھو کہ وہ بہت استغفار کریں اور دعاؤں سے کام لیں.انسان اپنی طاقت سے کچھ نہیں کر سکتا.ساری توفیقیں اور طاقتیں اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے اور وہ دعاؤں سے ملتی ہیں.تبلیغ اسلام کا جوش پھر خواجہ کمال الدین صاحب جب پہلی مرتبہ عیادت کے لئے آئے تو انہوں نے ذکر کیا کہ علی گڑھ میں جو لیکچروں کا انتظام ہوا ہے اس میں پہلا لیکچر میرا ہے.صاحبزادہ آفتاب احمد خان صاحب کا تار آیا تھا مگر حضور کی ناسازی طبع کے باعث میں نے انہیں اطلاع دی کہ میں نہیں آ سکتا.اس پر انہوں نے بذریعہ تار حضور کی عیادت کی ہے اور مجھے روک دیا کہ جب تک حضرت کی طبیعت درست نہ ہو نہ آؤ.فرمایا.نہیں میری علالت اس تبلیغ کے کام میں روک نہ ہو.وہاں ضرور جانا چاہئے.انہیں لکھ دو.میں اپنے وجود کو کسی طرح پر بھی اسلام کے کام میں روک نہیں بنانا چاہتا اور خدا کی پناہ چاہتا ہوں.میری آرزو تو یہ ہے کہ میں اسلام ہی کی خدمت میں زندگی پوری کروں.تم ضرور جاؤ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تیمور بھی تیاری کرے اور مضمون لکھ کر مجھے سنائے.اگرچہ میرا دل چاہتا ہے کہ وہ بدوں تیاری لیکچر دے.اس طرح پر خدا تعالیٰ کے خاص فضل کی مدد ملتی ہوئی معلوم ہوتی ہے.اور اس کے لئے ضرورت

Page 285

اس امر کی ہے کہ قرآن مجید کی طرف توجہ ہو.مجھے تو خدا تعالیٰ نے آپ قرآن پڑھایا ہے اور میں نے بعض آیتوں کو خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے پڑھا ہے.دوسروں کو اس کی سمجھ نہیں آ سکتی کہ کس طرح پر پڑھا مگر میں نے تو پڑھا ہے.آپ کو بھی چاہئے کہ قرآن مجید کے تلفظ کو صحت کے لئے ادا کرنے کی طرف توجہ کریں اور تیمور بھی توجہ کرے اور تیاری کرے.تبلیغ اسلام ایام علالت میں بھی جس طرح پر آپ کو موقعہ ملتا ہے اور کوئی تقریب پیدا ہو جاتی ہے تو تبلیغ اسلام و تعلیم قرآن کریم کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہیں.۱۲؍ دسمبر ۱۹۱۰ء کو پنڈت بہو رام صاحب صریح ضلع جالندھر سے حضرت کی زیارت اور عیادت کو بتوسط منشی فرزند علی صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ فیروز پور حاضر آئے.پنڈت صاحب موصوف چونکہ منشی فرزند علی صاحب کے استاد زادہ ہیں اس لئے انہوں نے ہی حضرت سے آپ کو ملایا.اس تقریب پر حضرت اقدس نے نہایت قیمتی تقریر فرمائی جس نے پنڈت صاحب کو بہت ہی متاثر کیا.اور وقتًا فوقتًا آپ کے ارشادات کی تصدیق کرتے رہے جس سے ان کی سعادت مند فطرت کا پتہ لگتا ہے.حضرت نے انہیں خطاب کر کے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے تمام موجودات کو انسان کی خدمت کے لئے مسخر کر دیا ہے اور وہ تمام چیزیں انسانی خدمت میں مصروف ہیں ارضی اشیاء اور اجرام سماوی جس قدربھی ہیں وہ کسی نہ کسی رنگ میں انسان ہی کی خدمت گزار ہیں اور یہ بات تھوڑے سے غور سے معلوم ہو سکتی ہے.پس وہ لوگ جو ان چیزوں کو اپنا معبود بتاتے ہیں نہایت غلط راہ پر پڑے ہوئے ہیں … حالانکہ وہ تو انسان کی خادم ہیں مخدوم بھی نہیں پھر معبود کیوں کر ہو سکتی ہیں.اسی نظارہ سے ثابت ہے کہ جس قدر حقیقی خدا کی عبادت سے منہ موڑتے ہیں اسی قدر خادموں کو معبود بنا لیتے ہیں.فرمایا.جو کام انسان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بُعد کا موجب ہوں ان سے بچنا چاہئے.ایسے کاموں کا نتیجہ کبھی نیک نہیں ہو سکتا بلکہ نہایت ہی برا ہوتا ہے.دیکھو عیسائیوں نے جب حقیقی خدا کو چھوڑ

Page 286

دیا تو اس سے ایسا بُعد ہوا کہ وہ اس کی نافرمانی کرنے لگے اور ایک ضعیف اور ناتوان انسان کو خدا بنانا پڑا.ہم نے ایک مرتبہ ایک پادری سے پوچھا کہ اگر ایک شخص سر سے برہنہ ہو اور وہ صلیب ہاتھ میں لے کر کسی کے کوٹھے میں آ گھسے اور کہے آئی ایم گاڈ.آئی ایم گاڈ (میں خدا ہوں).تو کیا تم اسے خدا مان لو گے؟ اس کی نسبت تم کیا رائے قائم کرو گے ؟ اس پر وہ چپ ہو گیا اور اس نے کہا آپ مباحثہ میں تیز لفظ بولتے ہیں.فرمایا.جس غرض کے لئے انسان ایک بدی کو اختیار کرتا ہے وہی اس کے ارتکاب سے مفقود ہو جاتی ہے.بعض لوگ افیون کا استعمال اس لئے کرتے ہیں کہ امساک پیدا ہو.مگر افیون کھاتے کھاتے انجام یہ ہوتا ہے کہ قوت باہ ہی بالکل مفقود ہو جاتی ہے.ایسا ہی بعض لوگ شراب اس لئے پینے لگتے ہیں کہ سرور حاصل ہو مگر شراب خور عمومًا ہر قسم کے ہموم و غموم میں مبتلا ہو جاتا ہے.ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ برے ہم نشینوں کی صحبت کے اثر سے شراب کا عادی ہو گیا.ایک رات کو بدقسمتی سے اتنی شراب پی کہ بدمستی کی حالت میں ایک بد رَو میں گر گیا اور رات بھر وہیں پڑا رہا.اس کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے کسی نے اتار لئے.صبح کو جب دیکھا وہ غائب تھے.اس نقصان کو وہ برداشت نہ کر سکا اور آخر خونی اسہال شروع ہو گئے جو اس کی موت کا باعث ہوئے.اب دیکھو کہ جس سرور کو وہ شراب کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا تھا وہی شراب اس کے لئے وبال جان ہوئی.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اس میں نہ تھی.وہ ایک بدی تھی.چور چوری کرتا ہے کہ وہ یکدم مالدار ہو جاوے مگر وہ چوری کا مال اپنے گھر نہیں رکھ سکتا اور مفلس کا مفلس ہی رہتا ہے.امرتسر کا واقعہ ہے کہ ایک چور نے ایک گھر کو لوٹا.نکلتے وقت گھر کے مالک نے بھی دیکھ لیا.مگر جب ایک عرصہ اس بات پر گزر گیا تو وہی چور نہایت پھٹے پرانے کپڑوں میں اس طرف سے گزرا.اس گھر کی مالکہ عورت اپنے گھر کے سامنے زیورات پہنے ہوئے چرخہ کات رہی تھی.اس نے اس کو پہچان لیا اور ادھر ادھر کوئی آدمی تو تھا نہیں اسے ٹھہرا کر کہا کہ تو نے ہمارے گھر کا سب اسباب لوٹ لیا مگر تو ویسا ہی بدحال ہے.تیرے جسم پر سالم کپڑے بھی نہیں ہیں اور مجھے دیکھ کہ خدا نے پھر سب کچھ

Page 287

دے دیا.یہ دیکھ میرے ہاتھوں میں سونے کا ُچوڑا پڑا ہوا ہے.وہ چور بہت ہی نادم ہوا.میری غرض اس واقعہ سے یہ ہے کہ انسان جس رنگ میں ناجائز طور سے کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اسی رنگ میں اسے ناکامی ہوتی ہے.فرمایا.ہر ایک انسان کے اندر ایک قوت ہے جو اسے برائی کے ارتکاب پر ملامت کرتی ہے.جو برا فعل انسان کرتا ہے اگر کسی دوسرے شخص کو اسی فعل کا ارتکاب کرتے دیکھے تو اسے بہت برا سمجھتا ہے.مثلاً ایک زانی یا چور خود ایک فعل کرتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اس کے یا اس کے متعلقین کے ساتھ ایسا سلوک کرے تو اسے سخت ناپسند ہو گا.یہی کراہت اور ناپسندیدگی اس پر حجت ملزمہ ہے کہ وہ بدی کرتا ہے.ہم نے ایک بڑے چور کو پوچھا کہ تم جو بڑی چوریاں کرتے ہو کتنے آدمی ہوتے ہو؟ اس نے بتایا کہ ایک نقب لگاتا ہے ایک اس پر پہرہ دیتا ہے اور باقی شرکاء فلاں فلاں کام کرتے ہیں.غرض ساری تفصیل اس نے بتائی اور آخر کہا کہ ایک سنار بھی راز دار ہوتا ہے جو مال کو فوراً گلا دیتا ہے اس کا حصہ ۲۵ فیصدی ہوتا ہے.مجھے چونکہ اس پر اتمام حجت مقصود تھا.میں نے کہا اگر وہ زیادہ رکھ لے.تو اس نے ایک گندی گالی دے کر کہا کہ ایسے بے ایمان سے ہم خوب سمجھیں اور اسے علیحدہ کر دیں.میں نے کہا کہ کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ وہ ہماری محنت کی کمائی میں سے چوری کرتا ہے.میں نے کہا کہ پھر تم جو کسی کا محنت سے کمایا ہوا مال لاتے ہو اس پر تمہارا کیا حق ہوتا ہے؟ جس پر اسے چپ ہونا پڑا.غرض اگر اس طرح پر انسان اپنے افعال کے ارتکاب کے وقت غور کرے تو وہ بدیوں سے ایک حد تک بچ جاوے.فرمایا.اسلام ہی ہے جو اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کے صحیح طریقے بتاتا ہے.میں ایک مرتبہ ایک رئیس کے پاس ملازم تھا.رئیس نے ایک روز کہا کہ مولوی صاحب یہ مذاہب کے جھگڑے ہمیشہ سے چل رہے ہیں مگر ان کا فیصلہ نہیں ہوتا.ایک ایسا معیار ہونا چاہئے جس پر تمام مذاہب کو پر کھ لیا جاوے اور دیکھا جاوے کہ کون سا مذہب اس معیار پر صحیح اترتا ہے؟ میں نے کہا بہت بہتر ہے آپ ہی کوئی معیار کریں.اس نے کہا کہ میرے نزدیک جو مذہب سب سے زیادہ قدیم ہو وہ صحیح ہو سکتا ہے.

Page 288

میں نے کہا کہ میں اس اصول کو درست تسلیم کرتا ہوں.اس پر رئیس صاحب نے کہا کہ پھر اسلام صحیح مذہب نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا آغاز صرف تیرہ سو سال سے ہے.میں نے کہا نہیں یہ تو درست نہیں.اسلام سب سے پرانا مذہب ہے کیونکہ قرآن مجید میں تو لکھا ہے (الانعام:۹۱) اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اہل اسلام کو حکم ہے کہ تمام انبیاء کی اقتدا کریں.پھر اسلام تیرہ سو سال سے کیوں ہوا؟ پھر میں نے پوچھا کہ آپ یہ تو فرمائیں کہ رام چندر جی کس کی پرستش کرتے تھے.اس نے کہا ویشنو کی.ویشنو کس کی؟ کہا شو جی کی.میں نے کہا شو جی کس کی کرتے تھے؟ کہا ردّر کی.میں نے کہا وہ کس کی پرستش کرتے تھے؟ کہا برہما جی کی.میں نے پوچھا وہ کس کی؟ تو رئیس مذکور کے منہ سے بے اختیار یہی جواب نکلا کہ کیول ایشر کی.میں نے کہا بس یہی تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکے معنے ہیں کہ کیول ایشر ہی کی عبادت کی جاوے اور یہی حقیقی اسلام ہے.اس پر رئیس مذکور نے گھبرا کر کہا کہ پھر برہما جی کسی اور کی عبادت کرتے ہوں گے.میں نے کہا کہ سلسلہ سوالات بالآخر پھر کیول ایشر پر جا کر ختم ہو جائے گا اور یہی اسلام ہے.پھر آپ نے تاکیدًا فرمایا کہ انسان کو ایسے کاموں سے بچنا چاہئے جن کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ خدا سے دور کر دیں.اصلاح کا عجب طریق عید کے دوسرے دن شام کے کھانے کے وقت میں بھی حاضر تھا کھانا آپ کے سامنے رکھا گیا.شوربے(یہ شوربہ باہر تیار ہوا تھا)میں مرچ کسی قدر زیادہ تھی.آپ کے منہ میں چونکہ زخم ہے وہ اور بھی تیز اثر دکھاتی تھی.آپ بجائے اس کے کہ آپ ہدایت کرتے یا ناراض ہو کر یہ کہتے کہ کیوں اتنی تیز مرچ ڈالی گئی.آپ نے مہتمم صاحب کو فرمایا کہ اس کو چکھو.اور پھر فرمایا کہ میری بیوی کو چکھاؤ.اس حکم کے دوسرے الفاظ میں یہ معنے تھے کہ وہ اپنی غلطی کو سمجھ لیں اور آئندہ اصلاح ہو.پھر آپ کے سامنے وہ سالن پیش کیا گیا جو آپ کی بیوی صاحبہ نے تیار کیا تھا.اس میں نمک بہت زیادہ تھا.آپ نے

Page 289

اس میں سے کچھ کھایا تو سہی مگر اسے بھی پھر اسی طرح ان کو چکھایا اور محسوس کرا دیا کہ اس قدر نمک نہ ہوناچاہئے.بات بات میں سبق عبد الحی آپ کے بڑے بچہ نے (جو اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کا نشان ہے) قربانی کی اور اس بکرے کا مغز آپ کے لئے تیار کرایا.حضرت کے پاس وہ مغز آیا.آپ نے چکھا تو اس میں بھی نمک زیادہ تھا اور علاوہ اس کے وہ جھلی جس میں مغز ہوتا ہے اتری ہوئی نہ تھی آپ نے چکھ کر چھوڑ دیا.عبد الحی پھر لے آیا اور اصرار سے اور پیار سے پیش کیا حضرت نے اس میں سے کھانا شروع کیا تو پوچھا کہ کیوں ہم نے اس حصہ کو (جو آگے کا تھا) لیا اور اس کو نہیں لیا (جو آگے نہ تھا).عبد الحی نے جواب دیا کہ قرآن کا حکم ہے اپنے آگے سے کھانا چاہئے.آپ نے فرمایا.حدیث میں ایسا آیا ہے قرآن میں نہیں.یہ بات بھی آپ نے بچوں کی تربیت کے اصول کے رنگ میں بتائی ہے کہ کیونکر ہم باتوں ہی باتوں میں بچوں کو دینیات کی تعلیم اور تربیت کر سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ذکر کھانا کھاتے ہوئے نہایت جوش کے ساتھ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانا کھانے کے بعد کی دعا کا ذکر فرمایا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں آپ کے پاک ارادوں، آرزؤں کا آئینہ ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسے عظیم الشان انسان تھے.نبی کریم کی سیرت کا پتہ آپ کی دعاؤں سے خوب لگتا ہے.آپ نے کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جس میں اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے کی تعلیم نہ دی ہو.چنانچہ کھانا کھانے کے بعد کیسی لطیف دعا سکھائی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو دیکھو اس پر قربان ہونے کو جی چاہتا ہے اور کہنا پڑتا ہے.کرشمہ دامن دل مے کشد کہ جا اینجاست

Page 290

پھر آپ نے اس دعا کی تشریح شروع کی فرمایا.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا یعنی اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں جو ہمیں کھلاتا ہے.فرمایا.بات بالکل درست ہے اگر اللہ تعالیٰ ہی کا فضل نہ ہو تو انسان کیونکر کھا سکتا ہے.قسم قسم کے کھانے تیار ہوں مگر صحت اجازت نہ دے اور ایسے عوارض لاحق ہوں کہ منہ میں لقمہ بھی نہ جا سکے تو کیا ہو سکتا ہے؟ پس اللہ ہی کھلاتا ہے اور مجھے بھی وہی کھلاتا ہے، وہی پلاتا ہے.پینے کے لئے بھی اس کی توفیق ہی کی ضرورت ہے.بعض وقت دانت میں شدید درد ہو تو کیسا ہی لذید شربت ہو انسان نہیں پی سکتا.یا کسی وجہ سے حلق بند ہو تو ایک قطرہ اندر نہیں جا سکتا.پس وہی کھلاتا ہے وہی پلاتا ہے اس لئے جب انسان کھائے اورپیئے تو کیوں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نہ کہے؟ پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح میں بہت بڑا جوش معلوم ہوتا ہے کہ وہ اتنی ہی بات پر نہیں ٹھہرے اور دعا کا سلسلہ لمبا کر دیا اور فرمایا ھُوَ اَشْبَعَنَااسی نے ہم کو سیر کیا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہی فضل پر موقوف ہے.بعض انسان میں نے دیکھے ہیں کہ ان کو جوع البقر کا عارضہ ہوتا ہے وہ کھاتے ہی جاتے ہیں مگر ان کا پیٹ نہیں بھرتا.اور ایسے ہی بعض لوگ ذیابیطس کے مریض ہوتے ہیں اور وہ پانی پینے سے سیرآب نہیں ہو سکتے.اس لئے دعا کی وَاَرْوَانَااور اس نے ہم کو سیراب کیا.پھر اس پر بھی بس نہیں.فرمایا وَاٰوٰنَا اور اس نے ہم کو پناہ دی.ٹھہرنے اور رہنے کو جگہ نہ ہو تو انسان کی جو حالت ہوتی ہے وہ ظاہر ہے.پس اس فضل پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی حمد میں رطب اللسان ہیں اور اس پر بھی سلسلہ دعا کو بہت لمبا کیا.وَکَفَانَا پھر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ غَیْرُ مَکْفِیٍّ وَلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنِیً عَنْہُ.(سنن ابی داؤد کتاب الاطعمۃ باب مایقول الرجل اذا طعم) اس میں بتایا ہے کہ یہ کھانا پینا جو دیا گیا ہے وہ اتنا ہی نہ ہو کہ اس کے بعد پھر محتاج اور دست نگر ہونا پڑے.اپنے فضل سے ایسا سلسلہ جاری رکھ کہ اس میں گویا دوام ہو.

Page 291

غرض نبی کریم کی دعائیں نہایت عجیب اور ایمان کے بڑھانے والی ہیں.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ.مشکلات کا حل دعا سے چاہو ایک معزز بھائی نے عرض کی کہ رام پور میں میری حالت خراب ہو رہی ہے.مجھے شہر کی حالت کا تو اب فکر نہیں اب تو اپنا فکر ہو رہا ہے.یہ سن کر حضرت کی طبیعت میں دعا کے لئے ایک جوش پیدا ہوا.اور فوراً دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، ساتھ ہی حاضرین نے ہاتھ اٹھائے، اس کے بعد فرمایا.دعاؤں سے کام لو.دعاؤں سے بڑے بڑے مشکلات حل ہو جاتے ہیں اور میں نے خود دیکھا ہے کہ جن امور کو لاینحل سمجھا ہے دعاؤں نے انہیں کھول دیا ہے.آپ دعا کریں کہ مولا کریم اس شہر میں جو سعادت مند روحیں ہیں یا جو بچے سعادت مند پیدا ہونے والے ہیں ان کو میرے ساتھ کر دے.بعض اوقات انسان اپنی وجاہت اپنی تقریر، اپنی تحریر پر ناز کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس ذریعہ سے کو ئی اثر پیدا کر سکتا ہے مگر یہ شرک ہوتا ہے یہ کچھ بھی چیز نہیں.جب تک اللہ تعالیٰ کی توفیق نہ ملے کچھ نہیں ہو سکتا.دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور وہی ہے جو کسی کلام میں تاثیر پیدا کرے.پس آپ دعاؤں سے کام لیں.ہم پر بھی اس شہر کے حقوق ہیں.ہم نے وہاں بہت آرام پایا ہے اور طالب علمی کا زمانہ خدا کے فضل سے عزت اور آسائش سے گزارا ہے.بہرحال آپ بہت دعائیں کریں.صلہ رحمی کی تاکید ایڈیٹر الحکم نے اپنی اہلیہ کی درخواست پیش کی کہ وہ مجھ سے چاہتی ہے کہ میں اس کی ہمشیرہ کی شادی پر جاؤں.اس پر آپ نے فرمایا کہ تمہاری بیوی تمہاری غمگسار ہو، ایسی تقریب میں دنیوی اصول پر اخراجات چاہتی ہیں میں سوچ کر بتاؤں گا.میں نے یہ واقعہ اپنے گھر میں بیان کیا اور کہا کہ میں اب اس کے متعلق حضرت سے عرض نہیں کروں گا.ادھر یوم النکاح میں صرف ایک ہی دن باقی تھا.اس پر اس نے خود حضرت کی خدمت میں درخواست کی

Page 292

س پر جو جواب دیا اس کا مفہوم میں اپنے الفاظ میں لکھتا ہوں کیونکہ میرے پاس یہ بیان دوسرے واسطہ سے پہنچا ہے.فرمایا.ہم تو رشتہ داروں سے ملنے اور سلوک کرنے کی بڑی تاکید کرتے ہیں.اور اگر کوئی شخص ہماری جماعت میں سے ایسا کرے تو ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے کیونکہ صلہ رحمی بڑی نیکی ہے اور اس کی بڑی تاکید آئی ہے.ہم نے اگر اجازت میں تامل کیا تو اس کی و جہ خاص مالی حالات کا لحاظ ہے ورنہ ہم تو بہت خوشی سے تمہیں بھی اجازت دیتے ہیں اگر تم بیمار نہ ہوتیں تو آپ بھی چلی جاتیں.آپ کے ننہال سے ایک مراسی بیمار ہو کر علاج کے لئے آیا.آپ علاج میں تو سب کے لئے ہی توجہ فرماتے ہیں اس کی طرف خصوصیت سے متوجہ رہے اور اس کے ہر قسم کے آرام و آسائش کا خود خیال رکھتے.اس نے آپ کی نذر پیش کی تو فرمایا.او! تُوتو ننہال سے آیا ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی جماعت کو تاکید کی تھی کہ تم مصر فتح کرو تو اہل مصر کا لحاظ رکھنا کیونکہ وہ ہمارے ننہال ہیں.میں بھی اپنے ننہال کا بڑا لحاظ کرتا ہوں اور وہاں سے کوئی آوے میں اس کی عزت کرتا ہوں اور ہر طرح پر اس کا خیال رکھنا چاہتا ہوں.پس تم یہ ہماری طرف سے لے لو اور جو ضرورت تمہیں ہو مجھے بتاؤ.موجودہ جدوجہد کا اثر مسلمانوں پر میں نے ایک روز عرض کیا کہ حضرت اس وقت مسلمانوں اور ہندوؤں میں جو جدوجہد ہو رہی ہے آپ نے بھی اس پر غور کیا ہو گا؟ آپ اس کا اثر مسلمانوں کے لیے کیا سمجھتے ہیں؟ فرمایا.میں نے اس پر بہت غور کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمانوں میں بھی قومیت کی روح پیدا ہو جائے گی.کیونکہ فریق ثانی کی طرف سے جو حملے ہو رہے ہیں ان کے دفاع کے لئے کوشش کریں گے اور سستی اور غفلت چھوڑ دیں گے.میں اس کو مسلمانوں کے لئے مفید سمجھتا ہوں.اور جو اللہ تعالیٰ چاہے گا وہی ہو گا.

Page 293

اشاعت اسلام اور دوسرے مسلمان ایک خادم امرتسر سے عیادت کے لئے آیا.اس نے عرض کیا کہ اشاعت اسلام کے نام سے لوگ ہم سے چندہ مانگتے ہیں.کیا کیا جاوے؟ فرمایا.اشاعت اسلام تو ایک مبارک اور مفید کام ہے اور اس کے لئے ہمیں بہت تڑپ ہے اور ہم یہی چاہتے ہیں کہ اسلام دنیا میں پھیلے.مگر جو لوگ ہمارے سلسلہ کے دشمن ہیں اور اشاعت اسلام کرنا چاہتے ہیں ان کے متعلق قابل غور یہ امر ہے کہ کیا وہ مویّد من اللہ اور منصور ہیں یا نہیں؟ اس کے لئے تم اپنے ہی شہر میں دیکھو جہاں ہمارے پانچ دشمن ہیں اور وہ اشاعت اسلام کے مدعی ہیں.اوّل غزنوی گروہ، دوم ثناء اللہ، سوم احمدیہ، چہارم اہل فقہ، پنجم مولوی محمد حسین کے ساتھ والے لوگ.اب غور کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید اور نصرت کہاں تک کی.حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت میں انہوں نے فرداً فرداً ناخنوں تک زور لگایا مگر نتیجہ کیا ہوا؟ کیا کوئی جماعت مستقل طور پر ان کو ملی.اوّل تو باہم ان پانچوں میں بغض اور عداوت ہے اور ایک کے دوسرے کو مٹا دینے اور ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش اٹھا نہیں رکھی.ایک دوسرے کے خلاف اشتہاروں کے ذریعہ وہ باتیں مشتہر کیں جن میں سے بعض کو شرفاء پڑھ بھی نہیں سکتے.پھر موجودہ حالت میں غزنویوں کی جماعت جو ایک امام کے ماتحت تھی ان کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ خود ان کی اپنی ہی نسل کے لوگ اپنی مسلمہ امامت سے الگ ہو رہے ہیں اور اس گروہ کا ثناء اللہ اور احمد اللہ سے جو بغض ہے وہ ظاہر بات ہے.ثناء اللہ اشاعت اسلام کا مدعی ہے اس کی جو حالت امرتسر میں ہوئی وہ ظاہر ہے اسے بھی کوئی جماعت نہ ملی جو اس کو اپنا امام یقین کر لیتی.پھر اہل فقہ تھا اس نے بھی حضرت صاحب کی بڑی مخالفت کی لیکن اس کا انجام یہ ہوا کہ اب اہل فقہ کا نام بھی نہیں؟! مولوی محمد حسین کے ماننے والے بھی کچھ لوگ امرتسر میں تھے مگر اس کی حالت بھی اب ظاہر ہے کہ خود ثناء اللہ نے اس کی مخالفت میں بڑے بڑے مضمون لکھے.اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید اور نصرت نہیں کی اور کوئی جماعت انہیں عطا نہیں کی بلکہ خود ان میں پھوٹ ڈال دی.

Page 294

ان واقعات نے جو تجارب صحیحہ ہیں بتا دیا ہے کہ یہ لوگ کامیاب نہیں ہو سکتے.پھر جب خدا تعالیٰ کی نصرت ان کے ساتھ نہیں تو ہم اپنے مال ان کے سپرد کیوں کریں.جناب الٰہی کا منشاء یہ نہیں کہ ان کو مؤید کرے بر خلاف اس کے اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے اشاعت اسلام کا ذریعہ بنایا ہے.تم جانتے ہو کہ شروع سے لے کر اب تک کس قدر مخالفت اس کی کی گئی.شہر والوں نے دشمنی کی، برادری نے مخالفت کی، ہندؤں نے، آریوں نے، عیسائیوں، سکھوں نے اور بالآخر خود مسلمانوں نے ایسی دشمنی کی کہ وہ چاہتے تھے کہ اس سلسلہ کا نام و نشان مٹا دیں مگر اللہ تعالیٰ نے کیسی نصرت فرمائی اور کس طرح پر اس کو نشوو نما دیا ہر مخالفت اور ہر حملہ اس کی ترقی کا موجب ہوا.اور ایک جماعت کثیر کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا اور ہر قسم کے لوگ اس کی خدمت کے لئے جمع ہو گئے.یہ تائید الٰہی کا ایک ایسا ثبوت ہے کہ اس کا انکار نہیں ہو سکتا.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو پیدا کیا ہے اور اسی کے ذریعہ یہ کام ہو گا.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد ۱۵نمبر ۱مؤرخہ ۷؍ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۴ تا ۸) بیعت کے بعد مختصر نصیحت حالتِ علالت میں بھی آپ کو کلیۃً آرام کرنے کا موقعہ نہ مل سکا.احباب بدستور آتے جاتے رہے اور بیعت کا سلسلہ جاری رہا.آپ بیعت کے بعد مختصر سی نصیحت بھی فرماتے رہے اور وہ یہ ہے.برُی صحبتوں سے بچو.اور اگر کسی وجہ سے گرفتار بھی ہو جاؤ تو بہت استغفار کرو.الحمد شریف اور درود شریف کثرت سے پڑھو.استغفار اور لاحول کرو.(الحکم جلد۱۵نمبر۱ مؤرخہ ۷؍ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ۹) عہد دوستی کی قدر چوہدری ولایت خاں ایک غریب آدمی ہے اور اب کچھ دنوں سے قادیان میں وارد ہے.حضرت نے قادیان ہی میں اس کی ملازمت کے لئے تحریک کی.لیکن سردست کوئی موقعہ غالبًا نہ تھا.اس لئے چوہدری ولایت خاں نے ایڈیٹر الحکم کو کہا کہ وہ حضرت سے اس کے لئے جانے کی اجازت حاصل کر دے.کیونکہ وہ زیادہ یہاں ٹھہر نہیں سکتا اور سردی سے بچنے کے لئے کافی سامان بھی اس کے پاس نہیں.میں نے

Page 295

۹؍ جنوری ۱۹۱۱ء کو حضرت کی خدمت میں عرض کیا.آپ کو اسے رخصت کرنے میں تأمل ہوا.فرمایا.سردی سے بچاؤ کا انتظام تو انشاء اللہ ہو جاتا ہے.جانے کی ضرورت نہیں.اوراس کے ساتھ مولوی غلام محمد صاحب مہاجر امرتسری کو حکم دیا کہ وہ گرم کپڑے جو خرید کر رکھے ہوئے ہیں لاؤ.چنانچہ فوراً تعمیل کی گئی.آپ لیٹے ہوئے تھے اور درد کی تکلیف بھی تھی مگر آپ ایک جوش کے ساتھ اٹھے اور ایک عمدہ اور قیمتی کشمیرہ چوہدری ولایت خاں کے سپرد اپنے ہاتھ سے کیا.حق کی طرفداری حق کی رعایت اور طرفداری کے لئے آپ کے دل میں ایک عجیب جوش ہے.ایک شخص ایک ابتلا میں آگیا اور اس ابتلا سے نکلنے کے لئے سرکاری مدد کی ضرورت تھی.میں اس معاملہ میں کسی حد تک اس کی رہنمائی کر سکتا تھا.لیکن جو واقعات میرے کان تک پہنچائے گئے اس رنگ میں اس کو ناقابل امداد یقین کرتا تھا.دوسری طرف اس نے حضرت سے میرے نام حکم حاصل کیا کہ میں اس کی جو مدد کر سکتا ہوں کروں.اس اطلاع پر جو مجھے ملی تھی میں نے حضرت سے بے تکلف جا کر عرض کیا کہ واقعات کا یہ سلسلہ اس کی تائید نہیں کرتا.فرمایا.تم حق کی تائید کرو.ناحق کسی کا ساتھ مت دو خواہ وہ اپنا کیسا ہی عزیز اور رشتہ دار کیوں نہ ہو.حق کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے.سدا خوش رہنے کا نتیجہ سدا خوش رہنے کا ذکر آ گیا ہے.اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کے تجربہ کردہ اسباب خوشی کا ایک نسخہ یہاں درج کر دوں.حضرت خلیفہ المسیح مدظلہ العالی نے بار ہا فرمایا کہ میرے ایک پیر تھے.ایک مرتبہ انہوں نے آپ کو ہدایت کی کہ اگر سدا خوش رہنا چاہتے ہو تو خدا اور رسول نہ بننا.حضرت خلیفۃ المسیح فرماتے ہیں کہ میں حیران سا ہو گیا کہ یہ کیا بات ہوئی.آپ کے مرشد نے پھر اس کی تشریح آپ ہی سے کرائی.

Page 296

مرشد.کیا تم جانتے ہو کہ خدا کیا ہے؟ خلیفۃ المسیح.ہاں خدا جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے.مرشد.بس خدا نہ بننے سے یہ مطلب ہے کہ اگر تمہارا چاہا ہوا کبھی نہ ہو تو اس سے افسوس نہ کرنا اور رنج نہ اٹھاؤ.کیونکہ یہ تو ذات باری ہی کا خاصہ ہے کہ  بندے کی شان نہیں ہو سکتی.پس جب تم ہر ایسے موقعہ پر یہ یقین کر لو گے کہ تم خدا نہیں جو تمہارا ہر چاہا ہوا ہو تو اس سے جہاں ایک طرف خوش رہو گے اور تمہیں اس موقعہ پر رنج نہیں ہو گا وہاں دوسری طرف اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے گا اور عبودیت کا مقام متحقق ہو جائے گا.پھر رسول نہ بننے کے متعلق فرمایا کہ رسول کی اطاعت فرض ہے.پس اگر تمہاری اطاعت نہ کرے تو تم اپنے دل کو یوں تسلی دے سکتے ہو کہ میں رسول تو ہوں نہیں.اس طرح پر تم خوش رہو گے.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد۱۵ نمبر ۲مؤرخہ ۱۴؍جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۶) دوران کرب و تکلیف دعا ۱۷؍ جنوری ۱۹۱۱ء کو آپ کو سخت کرب رہا.اس کرب میں جب کہ زخم کو صاف کیا گیا آپ کثرت کے ساتھ  پڑھتے تھے اور یا سبحان اللّٰہ سبحان اللّٰہ کہتے تھے.اس وقت بے حد تکلیف تھی یہاں تک کہ ایک دو مرتبہ یہ بھی کہا کہ کلورا فارم ہی سنگھا لو.دیرینہ خادم کو ناصحانہ ارشاد ۱۹ اور ۲۰؍ جنوری ۱۹۱۱ء کی درمیانی شب کو ساڑھے تین بجے قریب مولوی غلام محمد صاحب مہاجر امرتسری جو ایک نہایت کم گو اور قابل قدر مخلص نوجوان ہے (حضرت خلیفۃ المسیح مدظلہ العالی سے خصوصًا اسے محبت ہے اور وہ آپ ہی کے قدموں میں عرصہ سے رہتے ہیں.حضرت ہی ان کے متکفل ہیں) نے عرض کیا کہ حضور میں آپ کا پرانا خادم ہوں میرے لئے کیا ارشاد ہے؟ فرمایا.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کو مضبوط پکڑو اور اپنے بس میں کر لو.

Page 297

لاہوری دوستوں کو ارشاد یہ کاپی پتھر پر جم چکی تھی اور کسی و جہ سے ۲۲ کی صبح کو چھپنے کو تھی کہ ۲۲ کو ایک بجے کے قریب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیحؑ نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے اس سوال پر کہ آپ کو کوئی خواہش ہے کچھ ارشاد فرمایا ہے.میں جس وقت حضرت کے پاس پہنچا ہوں تو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مندرجہ ذیل مضمون البدر کے لئے لکھوا رہے تھے.میں نے اس کی اشاعت کو مقدم سمجھ کر آج اخبار کو روک کر اس مضمون کو پتھر پر سابقہ مضمون کو کاٹ کر لکھوا دیا ہے.ڈاکٹر صاحب نے حضرت کے جن الفاظ کو قلم بند کیا وہ آگے آتے ہیں یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ سلسلہ کلام جیسا کہ احباب موجود نے بتایا ۱؎ ایسے طور پر شروع ہوا جس سے حضرت کی صاف گوئی اور للہیت کی بھی عجیب مثال اس وقت پیش آئی.ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ میں خوا جہ صاحب اور شاہ صاحب آج جاویں گے.حضرت نے فرمایا کہ خواجہ صاحب نے جو ایک مضمون لکھا ہے میں اس کے خلاف کچھ کہنا چاہتا ہوں.اس کے خلاف میرے دل میں کئی دن سے مضامین آ رہے ہیں اس وقت طاقت ہوتی تو لکھوا دیتا.افاقہ ہونے پر کسی کو لکھا دوں گا، سنا دوں گا.بہرحال حضرت نے اپنے ان کلمات کو ڈاکٹر صاحب کے استفسار پر مناسب موقعہ دیکھ کر جو فرمایا ہے امید ہے قوم اس پر عمل کرے گی اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے.آمین.حضرت کی یہ نصیحت ساعات عسر میں انشاء اللہ کام آئے گی.اس پر مفصل پھر لکھوں گا.وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْق.(ایڈیٹر) خدا کا فضل ہے کہ دورہ ماشرہ (……) جو کہ دوبارہ چیرا دینے کے بعد چہرہ پر ہو گیا تھا اب قریبًا سب اتر گیا ہے اور بخار بھی اتر گیا ہے.طاقت پہلے کی نسبت بہت اچھی ہے.غذا بھی خوب کھا لیتے ہیں.ہوش و حواس بالکل درست ہیں اور ہر طرح سے بیماری رو بصحت ہے.آج قریب ساڑھے بارہ بجے دن کے جب میں رخصت ہونے لگا تو میں نے پوچھا کہ حضور کا دل کس چیز کو چاہتا ہے؟ آپ نے بجواب فرمایا کہ میرا دل یہی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے.۱؎ جن میں خصوصیت سے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کے علاوہ شخ تیمور صاحب ایم.اے مولوی فضل دین، میاں غلام حسین وغیرہ سے دوست جمع تھے.

Page 298

پھر اس کے بعد فرمایا کہ میرا دل یہی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے.پھر فرمایا کہ میرا اللہ راضی ہو.پھر یہ فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم فرمانبردار رہو.اختلاف نہ کریو، جھگڑا نہ کرنا.پھر فرمایا.میں دنیا سے بہت سیر ہو چکا ہوں کوئی دنیا کی خواہش نہیں.مر جاؤں تو میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو.فرمایا کہ سب کو سنا دو.پھر فرمایا.میں دنیا کی پرواہ نہیں رکھتا.میں نے بہت کمایا بہت کھایا بہت خرچ کیا دنیا کی کوئی حرص باقی نہیں.پھر فرمایا.میں نے بہت کمایا، بہت کھایا، بہت لیا، بہت دیا کوئی خواہش باقی نہیں کبھی کبھی صحت میں اس لئے چاہتا ہوں کہ گھبرا میں ایمان نہ جاتا رہے.پھر بہت دفعہ درد انگیز لہجہ میں فرمایا کہ اللہ ۱؎ تو راضی ہو جاوے.پھر کئی بار فرمایا.اَللّٰھُمَّ ارْضِ عَنِّیْ، اَللّٰھُمَّ ارْضِ عَنِّیْ، اَللّٰھُمَّ ارْضِ عَنِّیْ.اس کے بعد میں نے عرض کی کہ میں حضور کے الفاظ سنا دیتا ہوں.جب دوبارہ یہاں تک سنا چکا تو فرمایا.مجھے شوق یہ ہے کہ میری جماعت میں تفرقہ نہ ہو.دنیا کوئی چیز نہیں میں بہت راضی ہوں گا اگر تم میں اتفاق ہو.میں سجدہ نہیں کر سکتا پھر بھی سجدہ میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.میں نے تمہاری بھلائی کے لئے بہت دعائیں کیں.مجھے طمع نہیں.پھر فرمایا.مجھے تم سے دنیا کا طمع نہیں.مجھے میرا مولیٰ بہت رازوں سے دیتا ہے اور ضرورت سے زیادہ دیتا ہے.خبردار! جھگڑا نہ کرنا، تفرقہ نہ کرنا، اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا، اس میں تمہاری عزت باقی رہے گی.نہیں تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.۱؎ نوٹ از ایڈیٹر : اس موقع پر حضرت کے دل میں ایسا جوش تھا کہ آپ بے اختیار رو پڑے.

Page 299

پھر فرمایاکہ میں نے کبھی کسی کو حکم دیا ہے تو اپنے دلی طمع سے حکم نہیں دیا خدا کا حکم سمجھ کر دیا ہے.نمازیں پڑھو، دعائیں مانگو، دعا بڑا ہتھیار ہے.تقویٰ کرو بس.پھر فرمایا.دعائیں مانگو، نمازیں پڑھو، بہت مسئلوں میں جھگڑے نہ کرو.جھگڑوں میں بہت نقصان ہوتا ہے بہت جھگڑا ہو تو خاموشی اختیار کرو.اور اپنے لئے اور دشمنوں کے لئے دعا کرو.پھر فرمایا.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اکثر پڑھا کرو.قرآن کو مضبوط پکڑو.قرآن بہت پڑھو اور اس پر عمل کرو.پھر فرمایا.رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا.(سنن ابی داؤد باب تفریع ابواب الوتر باب فی الاستغفار ) اس کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا یہ لکھ دیا جاوے کہ یہی حضور کی وصیت ۱؎ ہے؟فرمایا.۱؎ نوٹ:.حضرت نے جیسا کہ ان نصائح کا طرز بیان بتاتا ہے عام طور پر یہ فرمایا.اور محض ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے خود ہی لکھا ہے کہہ دیا کہ یہ وصیت ہے.یہ ایسی ہی وصیت ہے جیسی ایام.....میں آپ نے فرمائی.والّا یہ امر صفائی سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ ایک جانے والے آدمی کو خطاب کر کے وصیت نہیں ہوتی.حضرت صاحب کا عام معمول ہے کہ جب کوئی دوست ان سے رخصت ہوا کرتاہے کہ اوصیک بتقوی اللّٰہ کہا کرتے ہیں.اس طرح اب بھی انہیں خطاب ہے.پس یہ صرف عام نصیحت کے رنگ میں ہے.وصیت کے لئے آپ نے ایک اور مرتبہ پہلے فرمایا تھا.پس لفظ وصیت سے کوئی شخص دھوکہ نہ کھاوے.یہ سلسلہ کلام محض ایک خاص امر سے شروع ہوا اور یہ محض حضرت کی لاہوری دوستوں کو رخصتی نصیحت ہے.احباب وصیت کے لفظ سے گھبرائیں نہیں، گو بظاہر یہ ڈاکٹر صاحب کو خطاب اور وصیت ہے تاہم ہم سب کے لئے یہ اسوئہ حسنہ اور واجب العمل ہے ہاں اس میں ہمارے لئے ہدایت اور نور ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے.آمین(ایڈیٹر)

Page 300

ہاں.فرمایا.جاؤ حوالہ بخدا.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد۱۵ نمبر ۳مؤرخہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۷،۸) تازہ ترین واقعات بوقت شام مؤرخہ ۲۲ ؍جنوری ۱۹۱۱ء جب کہ حضور کی طبیعت اچھی تھی (نوشتہ مولوی فضل دین صاحب) میں نے عرض کیا کہ حضور پٹیالہ سے غلام مرتضیٰ کا خط آیا ہے کہ مرزا …بیگ (غیر احمدی) جو فوج میں کپتان ہیں.ان کو ہم نے ڈاکٹر عبد الحکیم کے پاس بھیجا تھا کہ اس سے وہ دریافت کریں کہ ۱۱؍ جنوری والی پیشگوئی کیا ہوئی.ان کو عبد الحکیم نے کہا ہے کہ اصل میں مرزائیوں نے اس بات کو چھپا رکھا ہے.فرمایا.پھر اس کا جو خط آیا ہے اس کو کیوں نہیں چھاپا.عرض کیا کہ حضور کا اس پر کچھ ارشاد ہو تو شائع کر دیا جاوے.فرمایا.اس کو لکھنا چاہئے کہ اگر تمہاری پیشگوئی پوری ہو گئی تو تم سچے ہو.تو خود ہی آ کر دیکھ جاؤ.پھر فرمایا.اچھا ہے اگر اس کی پیشگوئی ۱۱؍ جنوری کو پوری ہو چکی ہے تو بھی دیکھ جاوے کہ مرزائیوں نے ایک مردہ کو زندہ کر دیا ہے اور وہ مسیح ہیں.اور فرمایا کہ اور نہیں تو ڈاکٹر ہرڈ صاحب جو یہاں سے ہو گئے ہیں لاہور میں آ کر انہیں سے دریافت کر لے.پھر فرمایا.اصل میں اس کو جنون ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور ایک طرف یہ بھی وہ کہتا ہے اصل تو یہی ہے کہ میری پیشگوئی کے مطابق مولوی نور الدین صاحب فوت ہو چکے ہیں.اور اگر نہیں مرے تو اس کی و جہ یہ ہے کہ میں نے بھی دعا کی تھی کہ اے خدا اس مسکین کو بچالے.مگر دوسری طرف پٹیالہ میں بابو عبد الحمید صاحب سے کہہ رکھا تھا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ اس سادہ لوح کو خدا دنیا سے اٹھا لے.فرمایا.معلوم ہوتا ہے کہ وہ بددعائیں ہی میرے لئے کرتا ہے اس نے دعائیں کیا کرنی ہیں.میں نے کہا حضور ہم کو وہ کہتا ہے کہ مرزائیوں کی ہر بات میں افتراء ہی ہوتا ہے.ایسا ہی یہ بھی افتراء

Page 301

ہے کہ مولوی صاحب زندہ ہیں.ان کا کوئی اعتبار نہیں اور خود یہ افتراء کرتا ہے کہ ۱۱؍ جنوری کو بتانا ہے کہ حضور کو طاعون کی گلٹی نکلی ہوئی تھی اور یہ کہ دراصل اس کی پیشگوئی پوری ہو چکی ہے اور اس بات کو ہم نے چھپا رکھا ہے.شیخ یعقوب علی صاحب کو فرمایا کہ کل کا پرچہ اخبار جو نکلنا ہے اس میں اس کے متعلق کچھ مضمون لکھ دو.شیخ صاحب نے عرض کیا حضور بہتر لکھ دوں گا.(فضل دین) ۲۳؍ جنوری ۱۹۱۱ء ۹ بجے رات، شیخ تیمور صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے جو چند کلمات ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو رخصت کرتے وقت فرمائے تھے ان کی نسبت کچھ شور ہوا ہے.اور ڈاکٹر صاحب نے جو یہ کہا تھا کہ حضور کی یہی وصیت ہے.اس کا بھی چرچا ہے فرمایا کہ لوگ تو بے سمجھ ہیں یہ تو چند ضروری باتیں تھیں جو ڈاکٹر صاحب کو میں نے کہی تھیں.مصیبت کے وقت انسان کے اندرونی حالات کا پتہ لگ جاتاہے اور میں تو وہی کہتا ہوں جو میرے دل میں ہوتا ہے.فرمایا.میری باتوں میں اختلاف نہیں ہوتا.یہ جو اس وقت کہی ہے یا جو کسی اور وقت کہی ہے کوئی باہم متخالف نہیں.شیخ تیمور نے اپنی … حضرت کی اس تقریر کی تصدیق کی کہ میں نے دیکھا ہے کہ جو بات حضور تندرستی میں فرماتے ہیں وہی شدت کرب میں نکلتی ہے.پھر آپ اپنی بیماری کے متعلق کچھ باتیں کرتے رہے اور فرمایا کہ دوائی جو ہونٹوں پر لگانی تھی وہ زبان پر بھی لگ گئی جس سے زبان پر خراش ہوتی ہے.مولوی قطب الدین صاحب نے ایک دوائی بنائی تھی وہ منگواؤ.اسی اثناء میں آ کر شیخ تیمور نے ذکر کیا کہ اگرچہ حضور کی بیماری کے ایام میں مَیں تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکا.مگر پھر بھی حضور کی حالت دیکھ کر اور حضور کی باتیں جو بعض وقت فرماتے ہیں سن کر مجھے ایمانی اور عملی بہت ترقی ہوئی ہے.اور مجھے اتنا ہی فائدہ ہوا ہے جتنا حضور کی تندرستی کے ایام میں مجھے ہوتا تھا.فرمایا.شکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مخلوق کی نفع رسانی کے لئے کیسا جوش اور شوق رکھتے ہیں.پھر شیخ تیمور نے عرض کیا کہ حضور کی بیماری سے بہت لوگوں کو یہ فائدہ پہنچا ہے کہ غفلت سے بیدار

Page 302

ہوگئے ہیں اور دعاؤں میں لگ گئے ہیں اور ایک تقرب الی اللہ کا موقعہ مل گیا ہے.پھر عرض کیا کہ بہت سی باتیں جو دلائل سے سمجھ میں نہیں آتی تھیں وہ حضور کے عمل کو دیکھ کر سمجھ آ گئیں.فرمایا.دلائل کیا ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے جو کچھ ہوتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کی طبیعت پر توحید کا کس قدر غلبہ ہے.۲۳؍ جنوری کی صبح حضرت کی طبیعت اور بھی اچھی ہے اور صحت خدا کے فضل سے عود کر رہی ہے.لِلّٰہ الْحَمد.ڈاکٹر عبد الحکیم کے اس ذکر کے متعلق یہی امور خاکسار ایڈیٹر الحکم سے بھی فرمائے.میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کی بیماری اور اس تکلیف کو دیکھ کر دل میں بڑا رنج اور کوفت پیدا ہوتی ہے.مگر ساتھ ہی یہ امر بڑا ہی خوش کن ہے کہ اس کے ذریعہ عظیم الشان نشان ظاہر ہو رہے ہیں.اور جس جس قدر آپ کی تکلیف کا اندازہ کیا جاتا ہے اسی قدر اس نشان کی عظمت بڑھ جاتی ہے.فرمایا.اگر یہ بڑا نشان نہ تھا تو حضرت صاحب کو اتنا عرصہ پہلے کیوں دکھایا گیا.یہ اس ایمان کا ثبوت ہے جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہے اور آپ کے نشانات کی کس قدر عظمت آپ کے دل میں ہے.فرمایا.عجیب عجیب مضامین اس بیماری میں سوجھائے گئے ہیں موقعہ ملے گا اور خدا چاہے گا تو بیان کریں گے.میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر بڑی امیدیں ہیں.فرمایا.فضل ہی تو ہے.پھر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب تشریف لے آئے اور ان سے بیماری کا کچھ ذکر کرتے رہے.اسی اثناء میں میاں دین محمد المعروف بگا نے آ کر سلام علیکم کہا بڑی خوشی سے جواب دیا.اور اسی وقت شیخ تیمور کو حکم دیا کہ ان کو ایک روپیہ دے دو.میاں دین محمد حضرت مسیح موعودؑ کے ایک مخلص خادم جان محمد مرحوم کا بیٹا ہے اور حضرت ہمیشہ اس کی مدد کرتے رہتے ہیں.حضرت کی عادت ہے کہ بدوں سوال ایسے لوگوں کی مدد کرتے رہتے ہیں.غرض حضرت نے فوراً اس کی مدد کی.اس کے بعد اس نے ایڈیٹر الحکم کے ذریعہ اپنے نکاح کے لئے ایک رشتہ کی تلاش کے لئے جانے کی اجازت چاہی.حضرت نے فرمایا.

Page 303

ضرور جاؤ ہم کچھ روپیہ دے دیں گے اور مدد کریں گے.میں نے ذکر کیا کہ شیخ ہاشم علی صاحب نے مرتد ڈاکٹر کے جھوٹے ہونے پر صدقہ اور خیرات کی ہے.فرمایا.جزاہ اللّٰہ احسن الجزاء اور دعائیہ کلمات فرماتے رہے.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد ۱۵ نمبر ۳مؤرخہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۰) وصیت پچھلی رات کو حضرت صاحب نے فرمایا کہ دل پر کچھ بوجھ سا معلوم ہوتا ہے.طبیعت بظاہر اچھی تھی تاہم احتیاطاً رات کو درمیان شب جمعرات و جمعہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ قلم دوات کاغذ لاؤ.میں کچھ لکھ دوں.پچھلی رات کا وقت تھا سوائے شیخ تیمور صاحب ایم.اے کے جو دیگر رات کو وہاں رہنے والے خادم موجود تھے ان کو بھی … ایک کاغذ پر اپنے ہاتھ سے کچھ لکھا اور اسے ایک لفافہ میں بند کرا کر اپنا انگوٹھا لگایا....دوسرے کاغذ پر بھی کچھ لکھ کر وہ بھی ایک لفافہ میں بند کرا دیا.اس دوسرے کاغذ میں ایک سطر شیخ تیمور صاحب سے بھی لکھوائی اور نیچے اپنے دستخط کر دیئے اور ان کی اشاعت سے منع کیا.اس واسطے ہر دو کا مضمون شائع نہیں کیا گیا اور امید ہے کہ حضرت صاحب کی زندگی میں ان کی اشاعت کی ضرورت بھی نہ ہوگی.اللہ تعالیٰ حضرت صاحب کو مدت تک خدام کے سر پر قائم رکھے.لیکن جب قوم پر مصیبت کا دن آئے گا کہ حضرت خلیفۃ المسیح سلّمہ الرحمن ان سے بظاہر جدا ہوں اس وقت اپنے مرشد کی علیحدگی کے غم سے جو افسردگی قوم پر چھائے گی اس کو دور کر کے ملت احمدیہ میں دوبارہ زندگی پیدا کرنے والی امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ انہیں الفاظ کی متابعت ہو گی جو ان بند لفافوں میں درج ہیں.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۳ مؤرخہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱) ایمانی قوت حضرت خلیفۃ المسیح مدظلہ العالی کی ایمانی قوت کے متعلق پہلے بھی کئی بار ذکر کر چکا ہوں مگر یہاں بعض جدید واقعات اس کی تائید میں پیش کرنے خالی از فائدہ نہ ہوں گے.

Page 304

۲۳؍ جنوری کی صبح کو جب کہ ابھی ماشرہ کا ورم موجود تھا اور آپ کو تکلیف تھی گو بمقابلہ سابق بہت آرام تھا.قرآن کریم اورآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.مجھے اپنی اولاد کا کچھ بھی فکر نہیں.مخلوق کی نفع رسانی کا خیال حضرت خلیفۃ المسیح کا وجود تو مسلّم طور پر نافع الناس ہے.ہر شخص قطع نظر وہ مومن، دوست، دشمن کے آپ کے فیوض سے بلا تکلّف فائدہ اٹھا سکتا ہے.علالت کے اس سخت حملہ کے دنوں میں یہی یہ سلسلہ بدستور جاری رہا ایک شخص نے آ کر اپنی ضروریات کا ذکر کیا اور کسی شخص کی شکایت کی کہ اس کا کفاف معین اسے نہیں دیا گیا.فرمایا.اس کو ہمارے گھر سے دے دو.ایک دن شام کو میاں دین محمد (المعروف بگا میاں) آپ کے پاس آیا اور کہا میری والدہ سلام علیکم کہتی ہے.جواب کے ساتھ ہی حکم دیا ابھی اس کو ایک روپیہ دے دو.پھر اس نے اپنی شادی کے لئے ذکر کیا کہ میری والدہ ایک جگہ تلاش رشتہ میں جانا چاہتی ہے.فرمایا.ضرور جائے ہم روپیہ دیں گے.پھر میاں دین محمد نے ایک دوائی بھی بیان کر دی کہ یہ استعمال کریں.فرمایا.بہت اچھا.نیکی کے کاموں کے لئے ادنیٰ تحریک پر بھی طیار رہتے ہیں اس بیماری کی حالت میں میں نے دیکھا ہے کہ کسی نیک کام کی ادنیٰ تحریک بھی کی جاوے تو آپ اس کی تعمیل کے لئے فوری جوش رکھتے ہیں مولوی عبد القادر صاحب لودہانوی نے رؤیا میں دیکھا کہ مولانا مولوی محمد قاسم مرحوم حضرت خلیفۃ المسیح کی عیادت کو آئے ہیں اور انہوں نے ایک سو روپیہ صدقہ کرنے کے لئے فرمایا ہے.حضرت کو یہ خواب سنائی گئی تو آپ نے فوراً حکم دیا کہ ایک سو روپیہ نقد صدقہ کر دو.غیر معمولی صفات کا اظہار حضرت خلیفۃ المسیح کی خصوصیات میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ آپ کبھی روتے نہیں.میں نے اس بیماری سے پہلے صرف … آپ کو دو مرتبہ آنسو بہاتے دیکھا ہے ایک مرتبہ اپنے ایک بچے کی وفات پر.اس وقت میرے دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا تھا کہ

Page 305

بیماری سے پہلے صرف … آپ کو دو مرتبہ آنسو بہاتے دیکھا ہے ایک مرتبہ اپنے ایک بچے کی وفات پر.اس وقت میرے دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا تھا کہ یہ آنسو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کے لئے نکالے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بچے کی جب وفات ہوئی تو آپ کی آنکھ سے آنسو نکلے تھے اور آپ نے فرمایا.اِنَّا بِفِرَاقِکَ لَمَحْزُنُوْن.(بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی ان بک لمحزنون) اسی طرح میں بھی کہتا ہوں.اور ایک مرتبہ حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ کی وفات کے دن میں حضرت کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا.آسمان سے تقاطیر ہو رہا تھا.اس وقت حضرت کی آنکھ سے آنسو نکلے اور فرمایا کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ آسمان ان کے لئے نہیں روتا.مگر عبدالکریم کے لئے آسمان بھی روتا ہے.ان الفاظ کے بیان کرنے میں آپ کے لہجہ میں خاص درد اور رقت تھی.اس کے سوا میں نے حضرت کو کبھی روتے نہیں دیکھا.اس بیماری میں دو مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ آپ رو پڑے.اور جب ناظرین کو ان واقعات کا علم ہو گا جو آپ کے رونے کا موجب ہوئے تو اس سے آپ کی بعض غیر معمولی صفات کا اظہار ہوتا ہے.ایک روز حافظ روشن علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشہور و معروف عربی نعتیہ قصیدہ نونیہ آپ کو سنا رہے تھے.حضرت کی محبت اور عشق نے آپ پر کچھ ایسا غلبہ کیا کہ بے اختیار آپ رو پڑے اور پھوٹ کر روئے.قریب تھا کہ اسی جوش محبت میں آپ جان دے دیں.آپ نے سب کو اٹھا دیا اور تنہائی حاصل کر لی.ایسا ہی ایک دن آپ رو پڑے اور فرمایا کہ کیا قادیان میں کوئی حافظ نہیں ہے.کوئی مجھ سے قرآن نہیں سنتا اور نہ سناتا ہے.حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان مرتد ڈاکٹر نے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ کے نام ایک خط لکھا جو آج کے اخبار میں کسی دوسری جگہ طبع ہے.اس خط کو سنتے ہی آپ نے فرمایا.مرزا فی الواقعہ سچا تھا.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد۱۵ نمبر۴ مؤرخہ ۲۸ ؍جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ تا ۵)

Page 306

گناہ کی حقیقت حضرت صاحب نے خواجہ کمال الدین صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جس مضمون کے متعلق میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ گناہ کا مضمون ہے جس پر آپ کچھ لکھ چکے ہیں.سردار کو تبلیغ کرنے کے لئے استخارہ ایک سرحدی افغان احمدی مولوی نے عرض کی کہ میں اپنے علاقہ کے ایک سردار کو تبلیغ کرنا چاہتا ہوں کیا حضور کی اجازت ہے فرمایا.میں رات کو استخارہ کر کے جواب دوں گا.احباب کی بیمار پرسی اور دعاؤں کی اطلاع پر اظہار مسرت احباب کے خطوط بیمار پرسی کے لئے سب طرف سے برابر آ رہے ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت برابر دعاؤں میں مصروف ہے.حضرت نے فرمایا کہ.یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری بیماری کے ایام میں جماعت اللہ کی طرف متوجہ ہے.فرمایا.مجھے آرام یہ ہے کہ مجھے اللہ سے ویسی ہی محبت ہے اور قرآن و رسول اللہ سے ویسی ہی محبت ہے اور مجھے دنیا کا کوئی غم نہیں اور اولاد کا کوئی فکر نہیں.(ماخوذ از کالم ’’اخبار قادیان‘‘ البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۴ مؤرخہ ۲؍ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ۲) ایوان خلافت حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ کی صحت خدا کے فضل سے عود کر رہی ہے.زخم کا بہت سا حصہ بھر گیا ہے.پچھلے دو دنوں میں آپ کو خواب اور دوائی کے دینے کی وجہ سے ضعف رہا.کھانے پینے کی طرف کم توجہ ہے.آج صبح ۵؍ فروری ۱۹۱۱ء کو میں حضرت کی خدمت میں حاضر تھا.اور دو تین دوست اور تھے.فرمایا.خدا کی قدرت ہے کھانے پینے کی طرف طبیعت متوجہ نہیں.پانی تک سے نفرت ہے.اور

Page 307

عجیب بات ہے کہ پیشاب خوب آتا ہے.اس پر میں نے عرض کیا کہ حضرت! عملی طور پر اس حدیث کی سچائی سمجھ میں آ گئی ہے جس میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بیمار کو کھلاتا پلاتا ہے.پھر فرمایا.عجیب بات ہے سوڈا واٹر پینے کو طبیعت چاہے.وہ تین دن سے یہاں نہیں اور جو پانی جنجر وغیرہ یہاں ہے اس سے نفرت ہے.ایک کشف اسی طرح پر کچھ باتیں ہو رہی تھیں کہ چند منٹ خاموش ہوئے اور پھر یکایک بولے.ابھی میں نے دیکھا ہے کہ اسی مقام پر کسی پرند کا مزیدار شوربا کھایا ہے اور اس کی باریک باریک ہڈیاں پھینک دی ہیں.یونہی آپ نے یہ کشف سنایا.میں نے عرض کی کہ اس کو پورا کرنے کے لئے کسی پرند کے گوشت کا انتظام کیا جاوے.یہ کہہ کر میں اٹھا تا کہ صاحبزادہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب جو کبھی کبھی ہوائی بندوق سے شکار کھیلا کرتے ہیں انہیں عرض کروں کہ کوئی پرند شکار کریں.میں جب ان کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ ٹھیک اسی وقت انہوں نے کچھ پرند شکار کئے ہیں.وہ حضرت کی خدمت میں پیش کئے گئے اور حضرت بہت خوش ہوئے.بیعت کے بعد فرمان ۳؍ فروری ۱۹۱۱ء کو بعض افغانوں نے جو یہاں کچھ عرصہ سے آئے ہوئے ہیں رخصت چاہی اور بیعت کی.حضرت نے بعد بیعت فرمایا.بری صحبتوں میں نہ بیٹھو، نماز سنوار کر پڑھو، درود شریف اور استغفار بہت پڑھا کرو.نصیحت نامہ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ہم ایک نصیحت نامہ لکھ دیں گے.تب رخصت کریں گے.چنانچہ ۴؍ فروری ۱۹۱۱ء قبل دوپہر حضرت نے مندرجہ ذیل نصائح آپ نے ایڈیٹر الحکم کے قلم سے لکھوا

Page 308

دیں جن کا اردو ترجمہ یہاں درج کیا جاتا ہے.(اوّل) تمام آدمی نماز کو اوّل وقت پوری توجہ سے ادا کریں.(دوم) دعاؤں میں بکثرت مشغول رہیں.(سوم) لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ کا وظیفہ کریں.(چہارم) درود شریف، لا حول اور استغفار سے غافل نہ ہوں.(پنجم) امرا سے مباحثہ نہ کریں اس باب میں سخت تاکید ہے کیونکہ امرا عموماً حق سے دور ہوتے ہیں اور تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں.ہاں ان کے حق میں دعا کرو خواہ یہ امرا گاؤں کے ہوں یا امرائے سلطنت ہوں.(ششم) غربا میں کوشش کرو کہ وہ کسی پر ظلم نہ کریں اور نمازیں پڑھیں.(ہفتم) لڑائی فساد اچھی چیز نہیں اس سے ہمیشہ پرہیز رکھو.اور اپنے بادشاہ کی فرمانبرداری کرو.(ہشتم) اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو قرآن مجید کو پڑھو.ہاں تدبر اور تفکر سے پڑھو اور غرض قرآن پڑھنے سے عمل ہو.خدا تعالیٰ توفیق دے.(آمین) ایڈیٹر الحکم کو نصیحت ۳؍ فروری ۱۹۱۱ء کی شام کو بعد مغرب حضرت نے مجھے (یعقوب علی عرفانی) بلایا.میں حاضر ہوا تو چند اور احباب بھی موجود تھے.آپ مجھے تخلیہ میں کچھ فرمانا چاہتے تھے مگر احباب نا سمجھی سے بیٹھے رہے.آپ نے مفصلہ ذیل تقریر فرمائی.تین قوتیں فرمایا.انسان کے اندر تین قوتیں ہیں.ایک تخیلی، دوسری علمی، تیسری عملی.تخیلی قوت شاعروں کی بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے بڑے بڑے نازک خیال انہیں سوجھتے ہیں اور وہ سوچتے رہتے ہیں.مرزا غالب بڑے نازک خیال تھے.ان کی یہ حالت تھی کہ بعض وقت ایک

Page 309

ایسا شعر کہہ گزرتے تھے کہ دوسرے وقت خود بھی اس کی سمجھ نہ آتی تھی.مولوی فضل حق خیر آبادی نے ان کا دیوان ترتیب دیا.مرزا غالب نے انہیں کہہ دیا تھا کہ جو تمہیں سمجھ آتا ہے اسی طرز پر ترتیب دے لو.ایک مرتبہ یہ قوت تخیلی ان کی ایسی بڑھی کہ شاہزادہ جوان بخت کی شادی پر سہرا کہا اور اس میں بڑا دعویٰ کیا.آخر ذوق نے مقابلہ کیا اور مرزا غالب کو مجبوراً عذر کرنا پڑا اور شرمندہ ہونا پڑا.انشاء اللہ خان بھی بڑے پایہ کا شاعر تھا اور بڑا نازک خیال مگر آخر گمنامی کی زندگی میں جان دے دی.یہ نتیجہ تھا قوت تخیلی کی ترقی کا.فارسی میں حضرت امیر خسرو بڑے پایہ کے شاعر گزرے ہیں اور ان کی قوت تخیلی بھی بہت بڑھی ہوئی تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت خواجہ نظام الدین علیہ الرحمۃ کی خلافت سے محروم رہے.ایڈیٹروں کی بھی قوت تخیلی بڑھی ہوئی ہوتی ہے.جب قوت تخیلی کا زور ہو تو اسے علمی اور عملی قوتوں کے رنگ میں لانے کی کوشش اور دعا کرنی چاہئے.عملی قوت انبیاء علیہم السلام کی بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے.حضرت نوح علیہ السلام کی عملی قوت ہی تو تھی جس نے اپنے مخالفین کو غرق کر دیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عملی قوت کا تماشا دیکھو کہ فرعون اور اس کی جماعت کو غرق کر دیا.اعلیٰ درجہ کی چیز یہی ہے اور پھر اگر یہ نہ ہو تو علمی قوت کو بڑھانا چاہئے.صرف تخیلی قوت کو بڑھنے نہیں دینا چاہئے.جو لوگ قلم سے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور عملی رنگ پیدا نہیں کرتے وہ ناکام رہ جاتے ہیں.تمام کامیابیاں عملی قوت سے پیدا ہوتی ہیں.بیماری، افلاس اور مشکلات میں تخیلی قوت بڑھ جاتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ بعض بعض وقت میری تخیلی قوت بڑی بڑھتی ہے مگر خدا کا فضل ہے کہ میں فوراً اس سے نکل جاتا ہوں.تخیلی قوت کا ایک پولیٹیکل نظارہ یزید کے وقت میں نظر آتا ہے.آج کوئی اپنا نام بھی یزید نہیں رکھتا اور اس کا ذکر کوئی خیر سے نہیں کرتا.پس یاد رکھو کہ اس قوت کو بڑھنے نہیں دینا چاہئے.اگر چاہو تو تم تخیلی قوت کے نہ بڑھانے پر میرے ہاتھ پر بیعت کر لو (عرض کیا کہ ابھی خدا کے فضل سے حاضر ہوں) تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے.اس کو مت بڑھاؤ اور اس سے توبہ کرو.

Page 310

اس پر میں نے عرض کیا کہ حضرت طبیب ہیں میری یہ قوت تخیلی اخبار ہی سے بڑھتی ہے.اس سے پہلے ایک مرتبہ اوائل خلافت میں حضور نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ میں اخبار کو کبھی نہ چھوڑوں گا.اب اگر یہی میری قوت تخیلی کوبڑھانے والا ہے تو پھر اجازت دیں کہ میں اسے بند کر دوں.فرمایا.ہر گز نہیں تم اس فن کو خوب سمجھتے ہو اور یہاں جو لوگ اس کام کو کرتے ہیں ان سے بہتر ہو.میں یہ اجازت نہیں دیتا یہی کام کرو بس قوت تخیلی کو بڑھنے نہ دو.میں نے علاج اور اسباب سب کچھ بتا دیا ہے تم سمجھ سکتے ہو.صدقات کی طرف توجہ میں نے قریبًا ہر اخبار میں لکھا ہے کہ ان ایام میں حضرت کو صدقات کی طرف بڑی توجہ ہے.موضع ننگل قادیان کے قریب جو اسی کا دراصل ایک پرانا حصہ ہے وہاں طاعون کی کوئی واردات ہو گئی.اس کی اطلاع ملی تو فرمایا.جماعت کو تاکید کر دو کہ دعاؤں میں لگ جاوے اور استغفار کریں اور صدقات دیں.ہر شخص کچھ نہ کچھ صدقہ ضرور دے.چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں حضرت میر ناصر نواب صاحب نے احباب کو صدقات کی طرف متوجہ کیا اور قریبًا کل دوستوں سے جو یہاں رہتے ہیں صدقہ کی ایک رقم جمع کر کے قربانی کی اور غربا اور مساکین کو کھانا کھلایا.تعلیمِ سلوک تعلیمِ سلوک جو میں نیچے درج کرتا ہوں جو ۳۰؍ جنوری ۱۹۱۱ء کی شام کو ایک مخلص دوست کو حضرت نے لکھائی ہے.بہت سے لوگ وظائف اور اوراد کے مشاغل میں مصروف اور منہمک ہوتے ہیں امید کی جاتی ہے کہ یہ سطور انشاء اللہ تعالیٰ ان کے لئے سلوک کی بہترین راہ بتانے والی ہوں گی.بوقت شام ۳۰؍ جنوری ۱۹۱۱ء حضرت خلیفۃ المسیح نے مخدوم میاں محمد صدیق صاحب کو بلوایا اور فرمایا.قلم دوات لاؤ میں تم کو ایک بات بتاتا ہوں.اس کو معمولی نہ سمجھیؤ یہ بہت بڑی بات بتاتا ہوں.

Page 311

اس پر میں نے عرض کیا کہ حضرت طبیب ہیں میری یہ قوت تخیلی اخبار ہی سے بڑھتی ہے.اس سے پہلے ایک مرتبہ اوائل خلافت میں حضور نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ میں اخبار کو کبھی نہ چھوڑوں گا.اب اگر یہی میری قوت تخیلی کوبڑھانے والا ہے تو پھر اجازت دیں کہ میں اسے بند کر دوں.فرمایا.ہر گز نہیں تم اس فن کو خوب سمجھتے ہو اور یہاں جو لوگ اس کام کو کرتے ہیں ان سے بہتر ہو.میں یہ اجازت نہیں دیتا یہی کام کرو بس قوت تخیلی کو بڑھنے نہ دو.میں نے علاج اور اسباب سب کچھ بتا دیا ہے تم سمجھ سکتے ہو.صدقات کی طرف توجہ میں نے قریبًا ہر اخبار میں لکھا ہے کہ ان ایام میں حضرت کو صدقات کی طرف بڑی توجہ ہے.موضع ننگل قادیان کے قریب جو اسی کا دراصل ایک پرانا حصہ ہے وہاں طاعون کی کوئی واردات ہو گئی.اس کی اطلاع ملی تو فرمایا.جماعت کو تاکید کر دو کہ دعاؤں میں لگ جاوے اور استغفار کریں اور صدقات دیں.ہر شخص کچھ نہ کچھ صدقہ ضرور دے.چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں حضرت میر ناصر نواب صاحب نے احباب کو صدقات کی طرف متوجہ کیا اور قریبًا کل دوستوں سے جو یہاں رہتے ہیں صدقہ کی ایک رقم جمع کر کے قربانی کی اور غربا اور مساکین کو کھانا کھلایا.تعلیمِ سلوک تعلیمِ سلوک جو میں نیچے درج کرتا ہوں جو ۳۰؍ جنوری ۱۹۱۱ء کی شام کو ایک مخلص دوست کو حضرت نے لکھائی ہے.بہت سے لوگ وظائف اور اوراد کے مشاغل میں مصروف اور منہمک ہوتے ہیں امید کی جاتی ہے کہ یہ سطور انشاء اللہ تعالیٰ ان کے لئے سلوک کی بہترین راہ بتانے والی ہوں گی.بوقت شام ۳۰؍ جنوری ۱۹۱۱ء حضرت خلیفۃ المسیح نے مخدوم میاں محمد صدیق صاحب کو بلوایا اور فرمایا.قلم دوات لاؤ میں تم کو ایک بات بتاتا ہوں.اس کو معمولی نہ سمجھیؤ یہ بہت بڑی بات بتاتا ہوں.مگر جب

Page 312

اور نازل ہوئیں تو آپ نے معوذتین کے سوا سب چھوڑ دیئے.پھر فرمایا.اس وقت اتنی ہی برداشت ہے زندہ رہا تو کل کچھ اور کہوں گا.اور صبح فرمایا.سورۃ اعراف کے اخیر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الاعراف:۲۰۴،۲۰۵)اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) تو کہہ میں اس وحی قرآن کے سوائے اور کسی چیز کی پیروی نہیں کرتا.یہی لوگوں کے واسطے بصیرت تھی.مومنوں کے واسطے تو ہدایت اور رحمت یہ ہے ہی، اگر کافر بھی مان لیں تو ان پر بھی رحمت ہو گی.معیار صادق حضرت خلیفۃ المسیح (ایدہ اللہ بنصرہ) اپنی جگہ بعض عجیب عجیب گُر قائم کرتے ہیں.اور ایسے گُر ہمیشہ قرآن مجید سے استنباط فرمایا کرتے ہیں کیونکہ قرآن مجید سے آپ کو عہد طفلی سے محبت ہے.بلکہ یوں کہنا چاہئے عہد تو دارم ازاں روزے کہ بودم شیر خوار کیونکہ قرآن مجید آپ نے اپنی والدہ کی گودی میں پڑھا ہے.۲۸؍ دسمبر ۱۹۱۰ء کو میں آپ کی صحبت میں سعادت اندوز تھا آپ نے فرمایا.ایک شخص مولوی ریاض الدین احمد میرے پاس آئے.وہ بڑے ہوشیار اور مدبر ہیں.انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ مرزا صاحب، کشیب چندر سین، سر سید اور پنڈت دیانند یہ بڑے آدمی اس وقت ہیں اور سب نے اپنے ساتھ ایک جماعت بنائی ہے.پھر کیونکر سمجھا جائے کہ مرزا صاحب راستباز تھے اور خدا کی طرف سے تھے اور باقی نہ تھے.میںنے اس کو کہا کہ میں ایک گُر بتاتا ہوں جو بہت صاف ہے قرآن میں لکھا ہے.(الانعام:۱۲۴) یعنی جو لوگ بڑے ہوتے ہیں وہ مامورین سے قطع تعلق کر لیتے ہیں اور الگ رہتے ہیں.اب تم بتاؤ کہ ان میں سے ہر ایک کے

Page 313

ساتھ کس قسم کے لوگ شامل ہیں.امرا کس کے ساتھ ہیں اور کس سے الگ رہتے ہیں.اس پر اسے سخت حیرت ہوئی اور خاموش ہو گیا.کہنے کو یہ ایک فقرہ ہے مگر اس کے اندر ایک لطیف اصول صادقوں کی شناخت کے لئے بتایا گیا ہے کہ جب کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو اوّلاً اس کو قبول کرنے والے غربا اور ضعفاء ہوتے ہیں.اور جو رؤسا اور امرا ہوتے ہیں وہ ان سے الگ رہتے ہیں.اس میں بھی ایک لطیف سِرّ ہے.اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت نمائی کا کرشمہ نظر آتا ہے.اس حالت بے کسی اور بے سرو سامانی میں وہ بندہ خدا اپنی کامیابی اور مخالفین حق کی نامرادی کی عجیب پُرشوکت پیشگوئیاں کرتا ہے اور تمام طاقتیں اس کی ہستی کو مٹانے کے لئے جدوجہد کرتی ہیں.اس وقت کوئی شخص بھی یہ یقین نہیں کر سکتا کہ یہ کامیاب ہو سکتا ہے.لیکن آخر اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتیں اس کے شامل حال ہوتی ہیں اور وہ بے کس، بے زر، بے زور انسان جس کے ساتھ بالکل غریب اور کس مپرس ہوتے ہیں کامیاب ہو جاتا ہے.تب صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کسی انسانی ہستی کا کام نہیں بلکہ صاف تائید ایزدی ہے.علاوہ بریں اگر اوّلاً بڑے بڑے آدمی شامل ہو جائیں تو اس راستباز کی شاندار کامیابی کا زمانہ آوے تو اس کی صداقت مشتبہ ہو سکتی ہے.لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ان مدبروں اور مالداروں کی کوشش اور تائید سے وہ کامگار ہوا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سنّت رکھی ہے کہ جب کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو اوّلاً اس کے ساتھ نہایت غریب اور ضعیف لوگ شامل ہوتے ہیں تا کہ قدرت ربّانی صاف صاف نظر آوے.اس طرح پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابتداً غربا ہی نے قبول کیا.کلام کو سمجھنے کا ملکہ حضرت خلیفۃ المسیح کو اللہ تعالیٰ نے ایک غور کن دل و دماغ عطا فرمایا ہے اور آپ ہر معاملہ کے باریک در باریک حصص پر غور کرنے کے عادی ہیں اور اسی لئے بعض وقت جب حضرت کسی شخص کی تحریر سے کوئی نتیجہ نکال کر پیش کرتے ہیں اور وہ کہا کرتا ہے کہ حضور میرا مطلب یہ نہیں تو تحدیث بالنعمت کے طور پر فرمایا کرتے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کی کلام کو تو اس کے فضل سے سمجھ لیتا ہوں تو کیا انسانی کلام نہیں سمجھ سکتا؟

Page 314

اس سے مجھے صرف یہی دکھانا ہے کہ حضرت کائنات کے تمام واقعات کو نہایت غور سے دیکھنے کے عادی ہیں.صحابہؓ کی ایک خصوصیت ۶ جنوری ۱۹۱۱ء کو بعد نماز جمعہ مجھے حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا.آپ نے فرمایا.میں نے صحابہؓ کی تاریخ کو بڑے غور سے پڑھا ہے اور بہت پڑھا ہے بہت سی خصوصیتیں ان کی مجھے نظر آتی ہیں مگر ایک خصوصیت بیان کرتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ صحابہؓ میں کوئی بہرہ نہ تھا.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا ایک نشان تھا وہ لوگ دین کے مبلغ ہونے والے تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سن کر انہوں نے محفوظ رکھنا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی کو بہرہ نہیں رکھا.فرمایا.مجھے صحابہؓ کی بعض عجیب عجیب باتیں معلوم ہوتی ہیں.عظیم الشان صحابہؓ میں میں دیکھتا ہوں کہ کسی نے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا کی کسی چیز کے لئے دعا کی درخواست نہیں کی.خدا کا احسان ہے کہ میں نے بھی حضرت صاحب سے کبھی کوئی ایسی درخواست نہیں کی.انعامات الٰہیہ کا مطالعہ قادیان میں ایک عورت ان دنوں دماغی بیماری سے بیمار ہے.یہ عورت ایک ذہین اور قابل استانی ہے، فارسی زبان بڑی بے تکلفی سے بولتی ہے، قرآن مجید کا بھی فہم رکھتی ہے.خدا کی شان ہے کہ وہ عارضہ دماغ سے بیمار ہے.اس کی حالت کے ذکر پر فرمایا.اللہ تعالیٰ کے انعامات ہوتے ہیں مومن کو چاہئے کہ ان انعامات کا مطالعہ کرتا رہے.اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے اور اس محبت کی و جہ سے وہ خدا کی طرف جھکتا ہے اور توجہ الی اللہ میں ترقی کرتا ہے اور پھر شکر کی توفیق ملتی ہے.اگر ایسا نہ کرے تو بعض وقت پر عذاب الٰہی کسی رنگ میں نازل

Page 315

ہو جاتا ہے.یہ عورت کیسی قابل استانی ہے مگر دماغ کی کنجی تو خدا ہی کے ہاتھ میں ہے.اللہ تعالیٰ نے ادھر سے ادھر پھیر دی.وہی دماغ اب دوسرے رنگ پر کام کرنے لگا ہے.جہاں پہلے حیا اور سوچ اور فکر تھا اب آزادی اور بے حد آزادی ہے.میں جانتا ہوں اسی طرح ایمان اور کفر کی بھی کنجی ہوتی ہے.خدا ہی کے فضل سے انسان مومن باللہ ہو جاتا ہے وہی ہدایتوں کی راہوں کو کھولتا ہے.بہشت اور دوزخ کی کنجی بھی ہے.اسی کا فضل ہو تو انسان بہشت کو حاصل کرے اور دوزخ سے بچے.بہرحال اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا مطالعہ عجیب چیز ہے اور جن سے اس کی کوئی نعمت چھن جاتی ہے اس کا مطالعہ بھی عجیب تاثیر رکھتا ہے.اگر خوف اور عبرت سے انسان دیکھے تو خدا کی طرف اس سے توجہ بڑھ جاتی ہے اور یہ خوف مبارک خوف ہوتا ہے اس لئے کہا ہے ایمان امید و بیم کے درمیان ہے.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد۱۵ نمبر۵ مؤرخہ ۷؍ فروری۱۹۱۱ء صفحہ ۳ تا ۶) کتابوں کا شوق (۶؍فروری بعد عصر) باوجود اس حالت تکلیف کے مفید دینی کتب کے منگوانے کا سلسلہ برابر جاری ہے.کتابوں کی جو فہرستیں کتب فروشوں سے آتی ہیں ان کو سنتے اور کتابیں منگوانے کے واسطے نشان کراتے ہیں.چند کتابیں اخویم محمد ذوالفقار علی خان صاحب نے رامپور سے نقل کرا کر بھیجی ہیں.ان کا ذکر تھا.فرمایا.بڑی بڑی نایاب کتابیں خدا نے مجھے دی ہیں ان میں ایک محلٰی ابن حزم ہے.تخفیف ہے فرمایا.میں بیٹھنا چاہتا ہوں.تھوڑی دیر بغیر سہارے کے اور پھر تکیوں کے سہارے سے بیٹھے رہے.میر ناصر نواب صاحب حاضر ہوئے ان کو مخاطب کر کے فرمایا.اب بہت تخفیف ہے.جی بیٹھنے کو چاہتا ہے یہ بھی تخفیف کا نشان ہے.

Page 316

ایک مبشر خواب عاجز راقم نے محبی اخویم چودھری غلام حسین اسٹیشن ماسٹر بہاولپور کا خط پیش کیا جس میں وہ اپنا ایک خواب لکھتے ہیں کہ حضور چھوٹی مسجد میں حسب دستور درس قرآن کریم دے رہے ہیں اور سفید لباس حضور نے پہنا ہوا ہے اور تازہ عمدہ حنا کا رنگ ریش مبارک پر چڑھا ہوا ہے.اس خواب سے بندہ کے دل میں راحت ہوئی.فرمایا.بڑی مبارک خواب ہے بہت مبارک ہے بہت خوشی ہوئی.تعبیر خواب ایک شخص کا خواب پیش ہوا کہ اگر کوئی کسی سے لحاف اور توشک مانگے تو اس کی کیا تعبیر ہے؟ فرمایا.مانگنے والے کو آرام دنیا کی خواہش ہے.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۵ مؤرخہ ۹؍ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۲) ایوان خلافت طویل عرصہ علالت حضرت خلیفۃ المسیح کی علالت پر تین مہینے کے قریب گزرتے ہیں.اور یہ اتنا لمبا عرصہ ہے کہ میں نے ایک روز دریافت کیا کہ حضور کی تمام زندگی میں بیماری کا اتنا لمبا زمانہ نہیں گزرا ہو گا؟ فرمایا.کبھی نہیں.خوشی کی بات علالت سے ایک فائدہ بھی پہنچا ہے اور وہ یہ ہے کہ دعاؤں کی تحریک ہو گئی.قوم میں توجہ الی اللہ کا ایک جوش پیدا ہو گیا.حضرت خلیفۃ المسیح نے اس جوش کو دیکھ کر تو یہی فرمایا کہ بڑی خوشی کی بات ہے.جنّ کیا ہوتے ہیں؟ ایک روز سورۃ جنّ اس (حافظ روشن علی صاحبؓ) نے پڑھی اور سوال کیا کہ جنّ کیا ہوتے ہیں؟ اس کے جواب میںحضرت نے جو کچھ فرمایا میں اسے اپنے حافظہ کی بنا پر بطور خود ترتیب دے کر لکھتا ہوں.فرمایا.جنّ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے.اللہ تعالیٰ نور اور ظلمت دونوں کا خالق ہے.پھر نوری

Page 317

مخلوق کے مظاہر ہیں.ملائکہ اور انبیاء و رسل، اولیاء اللہ اور دوسرے صلحاء اور راستباز یہ نوری مخلوق ہے اور نور کے مظاہر ہیں.اسی طرح پر ظلمت کی بھی ایک مخلوق ہوتی ہے اور اس کے مظاہر بھی ہوتے ہیں.ظلمت کے فرزندوں میں سب سے بڑا وجود ابلیس کا ہے.پھر اس کے مظاہر میں شریر اور بدچلن لوگ ہر قسم کی اذیت دینے والے.ان مظاہر کو وہ نور کے ہوں یا ظلمت کے علیٰ قدر مراتب دیکھتے بھی ہیں.ملائکہ بھی بعض کو نظر آتے ہیں.ہاں یہ ضروری نہیں کہ سب کے سب ان کو دیکھیں.میں نے ملائکہ کو بھی دیکھا ہے اور شیطان کو بھی دیکھا ہے ان ایام میں جب کہ میں نور دین کتاب لکھ رہا تھا جو آخر لاحول کے حربہ سے بھاگ گیا.غرض جنّ بھی ایک مخلوق ہے.حدیث میں سانپ، کالا کتا، مکھی، بھوری چیونٹی اور وبائی جرمز وغیرہ پر بھی جنّ کا لفظ بولا گیا ہے.یہ کیڑے تاریکی میں پرورش پاتے ہیں.طاعون کے کیڑے کے متعلق لکھا ہے کہ وہ تاریکی میں پرورش پاتے ہیں اس لئے کہ وہ ظلمت کی مخلوق ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا ہے کہ جب شام ہو جاوے تو اپنے دروازوں کو بند کر لو اور بچوں کو باہر نہ جانے دو.کیونکہ تاریکی میں کیڑے نقصان پہنچاتے ہیں دروازے بند ہوں تو وہ ٹکر کھا کر ہلاک ہو جاتے ہیں.یہ کیسا سچا فلسفہ ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت دی تھی.اب صوبہ کے لفٹنٹ گورنر نے طاعون کے متعلق جب ہدایات دیں تو انہوں نے بھی یہی لکھا.پھر طاعون کے کیڑوں کا تعلق چوہوں سے ہے اور چوہے بھی دیواروں و زمین کے نیچے بلوں میں اندھیرے میں رہتے ہیں.پس جنّ ایک مخلوق ہے اور یہاں جنّ ایک قوم کا ذکر ہے جو بنی عقیش کہلاتے تھے اور قوموں کے نام اس قسم کے ہوتے ہیں جیسے بعض اقوام کو ملک کہہ دیتے ہیں.درس قرآن مجید کا اجرا میں درس قرآن مجید کے بند رہنے کے متعلق کچھ لکھ چکا ہوں.ابھی یہ مضمون میں نے ختم نہیں کیا تھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ حضرت نے اس ضرورت کو محسوس کر کے صاحبزادہ صاحب مرزا بشیر الدین محمود احمد

Page 318

صاحب کو حکم دیا ہے کہ وہ بعد عصر قرآن مجید کا درس دیا کریں اور اگر وہ کسی وجہ سے نہ دے سکیں (کیونکہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی طبیعت بھی قدرے ناساز رہتی ہے) تو پھر مولوی سید سرور شاہ صاحب اور اگر وہ بھی نہ دے سکیں تو قاضی مولوی سید امیر حسین صاحب درس دیں.آج ۱۳؍ فروری ۱۹۱۱ء سے بعد عصر مولوی سید سرور شاہ صاحب قرآن مجید کا درس شروع کریں گے.وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ.تقرب الی اللہ کی راہ ڈھونڈو جنّ کے متعلق مندرجہ بالا تقریر بیان کر کے فرمایا کہ قرآن مجید میں جو احکام ہیں ان پر بھی فقہ کی کتابیں لکھی گئی ہیں.اور ایسے سوالات لوگ کرتے ہیں جن کا کوئی تعلق قرب الٰہی کی راہوں سے نہیں ہوتا.مثلاً آدم پہلے کیونکر پیدا ہوا؟ پھر اس کی بیوی کیسے پیدا ہوئی؟ نکاح کیسے ہوئے تھے؟ وغیرہ.ایک لمبا سلسلہ ایسے سوالات کا ہوتا ہے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ان راہوں کو تلاش کیا جاوے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں ہیں.بہت ہی تھوڑے آدمی ہوتے ہیں جو ان باتوں پر توجہ کرتے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ان باتوں پر غور کریں.قرآن مجید کی خاص عظمت حضرت کے دل میں قرآن مجید کی عظمت جس درجہ پر ہے، اس کا اظہار کسی قدر اس امر سے ہو سکتا ہے کہ آپ جب قرآن مجید سنتے ہیں علی العموم حافظ قرآن کو کرسی پر یا اپنے برابر چارپائی پر بٹھا لیتے ہیں.ایک روز اللہ تعالیٰ نے رؤیا میں آپ کو مدرسہ دینی کے بعض حالات سے اطلاع دی.آپ نے اسی وقت توجہ کرنے کا حکم دیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عظمت قرآن کو کس طرح پر قائم کرنا چاہتے ہیں.لنگر خانہ کی طرف توجہ حضرت خلیفۃ المسیح کے دل میں اللہ تعالیٰ نے لنگر خانہ اور مہمان خانہ کی طرف توجہ کو مبذول فرمایا ہے.آپ نے جدید مہمان خانہ تیار کرنے کے لئے حکم دیا ہے اور بعض ضروری اصلاحوں کے لئے ہدایات آپ

Page 319

نے جاری کی ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت جلد مہمان خانہ کی اصلاح اور مدرسہ احمدیہ میں طالب علموں کی نشست وغیرہ کے لئے ضروری سامان کی بہم رسانی عمل میں آئے گی.آپ نے مہمان خانہ کی جدید تعمیر کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کو فرمایا ہے کہ ہماری زندگی میں تعمیر کرا دو تا کہ ہم دیکھ لیں.شرح بسط ناظرین کو معلوم ہو گا کہ حضرت نے فرمایا تھا کہ میرا نام آسمان پر عبد الباسط ہے.آپ کے حالات میں ہر چیز کے بسط کے نظارے تو بارہا دیکھے گئے ہیں مگر چونکہ یہاں صرف واقعات ایام علالت کا ذکر ہے اس لئے ان کا ہی ذکر کرنا چاہئے.کچھ دن گزرے کہ آپ کی طبیعت اچار کی طرف متوجہ ہوئی اور زمین قند کے اچار کو آپ نے چاہا اس خواہش کے اظہار پر کثرت سے نہ صرف اچار بلکہ مختلف قسم کے اچار آنے لگے.اس پر آپ نے فرمایا.میرے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا بسط کیا ہے.جس چیز کی خواہش میرے دل میں آتی ہے وہی کثرت سے مہیا ہو جاتی ہے.یہ اس کا رحم اور غریب نوازی ہے.لَا یَخَافُ عُقْبَھَا ایک مخالف کے لڑکے کا ذکر تھا وہ اپنی تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھنے کی خاطر اعانت چاہتا تھا.ایڈیٹر الحکم کو مخاطب کر کے فرمایا.اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے.خدا کے ماموروں پر نکتہ چینی کا نتیجہ کبھی مبارک نہیں ہوتا.حضرت مرزا صاحب کی ذریّت پر اعتراض کا یہ وبال ہے اور اگر غور کیا جاوے تو اسی دن سے یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جب اس نے اعتراض کیا.قرآن مجید میں مرد صالح کی اولاد کے متعلق ایک واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو راستبازوں کو جن میں ایک عظیم الشان نبی تھا ان کی دیوار کو درست کرنے کے لئے بھیج دیا اور فرمایا (الکھف:۸۳) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بچوں میں کوئی کمزوریاں ہوں گی.مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ کی صلاحیت اور نیکو کاری کے باعث ان بچوں کی پردہ پوشی بھی کی

Page 320

اور نقصان سے بچایا.اور دوسری طرف فرمایا (الشمس:۱۶) اللہ تعالیٰ کا جب غضب بھڑکتا ہے اور اس کا عذاب شریروں پر آتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ ان کی اولاد کی بھی پرواہ نہیں کرتا.کے ایک یہ معنے بھی ہیں عقبیٰ میں اولاد کو داخل کیا ہے خدا کے عذاب سے ڈرنا چاہئے.انسان اگر اپنی اولاد سے نیکی کرنا چاہے تو اس کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ خود صالح بنے، متقی ہو.پھر اللہ تعالیٰ اس کو اولاد کی بھی ضائع نہیں کرتا.سابق بالخیرات حضرت خلیفۃ المسیح کی عام عادت ہے کہ کوئی نیک تحریک اور کوئی کرے آپ اس میں ضرور سب سے پہلے حصہ لیتے ہیں.حضرت صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب ناظم مدرسہ احمدیہ کو خیال ہے کہ کوئی آدمی مصر بھیجا جاوے جو وہاں تعلیم حاصل کرے اور پھر وہ مدرسہ احمدیہ میں کام کرے.ایسا ہی اس کے ذریعہ اور ضروری کام بھی لئے جاویں.یہ تجویز حضرت کی خدمت میں پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ دو تین آدمی بھیجنے چاہئیں نصف خرچ ہم دیں گے.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد ۱۵نمبر۶ مؤرخہ ۱۴؍ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۳،۴) گناہوں سے کس طرح بچ سکتے ہیں فرمایا.استغفار سے، اگر گناہ سے نہ بچ سکے تو لا حول بہت پڑھے جائے تھکے نہیں.لَا مَلْجَائَ وَلَا مَنْجَائَ عَنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ.خدا سے پناہ خدا ہی دیوے تو بات بنتی ہے.طاعون کا کیڑا اتنا باریک ہوتا ہے پھر کس قدر بڑھتا ہے.وہی بچائے تو بچائے.استغفار اور لا حول سے بھی گناہوں سے نہ بچ سکے تو ہمت نہ ہارے.استغفار اور لا حول اور دعا کہے جاوے.استقامت کرے، گھبراوے نہیں.شیخ محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ ایک شخص پر مجھے بہت حسن ظن تھا.لوگوں نے کہا شراب پیتا ہے.میں نے نہ مانا، ایک دن وہ شراب پی رہا تھا کسی نے آ کر خبر کی.میں نے کہا ہمیں دکھاؤ.میں اس

Page 321

کے مکان پر گیا.نوکر نے اندر خبر کی.کہا کہ عرض کر دو کہ اس وقت میں مل نہیں سکتا.میں نے کہا ہم نے ملنا ہے.کہا کہہ دو کہ شراب پی رہا ہے.میں نے کہا کچھ بھی ہو ہم نے ملنا ہے.غرض اندر گیا تو دیکھا کہ جامِ شراب منہ سے لگا ہے مگر دیکھا کہ ہر گھونٹ کے بعد سچی توبہ دل سے نکلتی ہے اور اس توبہ کے ساتھ ایک نور اترتا معلوم ہوتا ہے.غرض صاحبِ ہمت گھبراتا نہیں وہ توبہ کئے جاتا ہے کوشش کئے جاتا ہے.لفظ عشق اور قرآن و حدیث عشق کا لفظ قرآن اور حدیث میں نہیں.ایک حدیث صوفیوں نے لکھی ہے مگر وہ کسی صوفی کا اپنا لفظ ہے.عشق کا لفظ اچھے معنی نہیں رکھتا.غیر اللہ سے حبّ کو کہتے ہیں.یہ کسی اعمال کی سزا ہوتی ہے.شرک ہوتا ہے.بھیرہ میں ایک لڑکا کسی عورت پر عاشق ہو گیا.اخیر میں جنون ہو گیا.لوگوں نے کہا کہ خدا کے لئے اس لڑکی کو اسے دکھا دو.دیکھ کر کہنے لگا میں نہیں جانتا یہ کون چڑیل ہے.لوگوں نے کہا یہ فلانی ہے.کہنے لگا ہرگز نہیں.اس کی ناک ایسی، آنکھ ایسی وغیرہ وغیرہ.نہ مانا، خیر میں نے علاج کیا اچھا ہو گیا.میں نے پوچھا تو نے اس وقت نہ پہچانا.کہنے لگا خیال میں تصور باندھتے باندھتے کچھ اور کی اور ہی بن گئی تھی.یہ کسی بد اعمالی کی شامت کا نتیجہ ہوتا ہے اور شرک ہوتا ہے.انسان مختار ہے یا مجبور ہے اس بحث میں پڑنا احمق پن ہے.قرآن اور حدیث میں یہ لفظ آیا ہی نہیں.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۶ مؤرخہ ۱۶؍ فروری۱۹۱۱ء صفحہ ۲) دورانِ علالت ہونے والے افضال الٰہیہ کا تذکرہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بڑا فضل ہے اس بیماری میں خدا تعالیٰ نے اپنی قدرتوں اور بندہ نوازیوں کے عجیب عجیب جلوے دکھائے ہیں.میں اس بیماری میں دعاؤں کا بڑا قائل ہو گیا ہوں.دعائیں مجھ پر بڑا بڑا فضل کرتی ہیں.میرے خدا نے مجھ پر بڑے بڑے احسان کئے ہیں میرا جی چاہتا ہے خدا تعالیٰ مجھ کو طاقت دے تو میں تم پر وہ انعامات بیان کروں جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر فرمائے ہیں.آج بھی مجھ کو الہام ہوا ہے کہ ’’اَغْنِیْ بِفَضْلِکَ عَنْ مَنْ سِوَاکَ‘‘ نیند کے لئے ڈاکٹر مجھے دوائی پلاتے تھے کہ

Page 322

کسی طرح نیند آ جائے اور نیند نہیں آتی تھی.آج میں نے دوا جو چھوڑ دی تو ۵ گھنٹے نیند آئی.خدا تعالیٰ بڑا بادشاہ ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.یہ میری نصیحت یاد رکھو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھو اللہ تعالیٰ سے بڑی بڑی امیدیں رکھو.یہ جو مشکلات آتے ہیں درجہ بلند کرنے کے لئے آتے ہیں ان مشکلات سے ہرگز مت گھبراؤ اور خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرو.یہ مختصر نصیحت ہے مگر ضروری ہے اور یاد رکھنے والی ہے معمولی نہ سمجھو.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تمہارا حافظ و ناصر ہو.(آمین) (البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۶ مؤرخہ ۱۶؍ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ۱۲) درس قرآن کے اجراء کے لئے اضطرار اور دعا کی تحریک حضرت مولانا امیر المومنین کی طبیعت میں افاقہ ہوا تو درس قرآن کے اجراء کے لئے عرض کیا گیا.آپ نے فرمایا.رتّڑ چھتّر میں ایک بزرگ تھے قحط سالی اور بارش کی کمی تھی.لوگوں نے ان سے عرض کی حضور بارش کے لئے دعا فرمائیں.بزرگ موصوف نے اپنے ایک خاص الخاص مرید کو حکم دیا کہ میرے سامنے سے چلے جاؤ اور کبھی مت آؤ جب تک بارش نہ ہو جائے.وہ خادم چلا گیا اور دعا کرتا رہا کہ اے مولا بارش کر دے میں تو اپنے پیر کے ملنے سے بھی رہ گیا.اس کے اضطرار کے باعث دعا قبول ہوئی اور بارش ہو گئی.میں بھی چاہتا ہوں کہ اضطرار پیدا ہو اور دعائیں کی جائیں.ارشاد الامیر (مرتبہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب) بیوی سے حسن معاشرت فرمایا.بیوی کی غلطیوں کو بھول جانا چاہئے.اگر غلطیاں یاد رکھی جائیں تو دل میں رنجش آجاتی ہے اور یہ حسن معاشرت کے خلاف ہے.روح کے جسم خاکی سے علیحدگی پر نئے جسم کا مشاہدہ فرمایا کہ جب روح جسم خاکی سے علیحدہ ہوتی ہے تو وہ اپنے ساتھ ایک نیا جسم لے کر نکلتی ہے جو ہر ہر عضو سے نکلتا ہے.میں نے ایسے جسم

Page 323

خود دیکھے ہیں ایک شخص کو جو اس وقت زندہ موجود ہے اس کو میں نے دیکھا اس کا جسم خنزیر کا ہے.ایک ہی وقت میں اس کا ظاہری جسم اور خنزیر والا جسم اپنے چار پیروں پر چلتا دیکھا ہے.پہلے میں اس کو نیک آدمی سمجھا کرتا تھا یہ حالت دیکھ کر خیال بدل گیا.بیماری کی حالت میں کلورو فارم سونگھانے سے جو بیہوشی ہوتی ہے اس میں اعصاب پر اثر پڑتا ہے اور احساس کا مادہ زائل ہو جاتا ہے اس لئے ان باطنی اجسام کو دیکھ نہیں سکتا.مگر موت کی حالت جدا ہوتی ہے.اہل کشف لوگوں نے کسی شخص کی موت کے وقت ایسا جسم نکلتا مشاہدہ کیا ہے.مگر جب یہ نظارے خدا دکھاتا ہے تو ایسے لوگوں میں ستاری کی شان بھی رکھ دیتا ہے پھر وہ میت کا پردہ فاش نہیں کرتے.ہر ایک کے جسم کی حالت جدا ہی دیکھی ہے اگر سناؤں تو بڑا وقت چاہتا ہے.خدا کی غریب نوازی اور رحمت بہت وسیع ہے وہ جس کو چاہے معاف کر دے.اس لئے ان باتوں کو بتانے میں احتیاط لازم ہونی چاہئے.طاقت کی دعا کی تحریک فرمایا.صحت کی دعائیں تو بہت ہوئی ہیں اور صحت الحمد للہ حاصل ہوئی.صحت کی دعا کے ساتھ طاقت کی دعا بھی ہونی چاہئے.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۷ مؤرخہ ۲۳؍ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱) بیماری سے منشاء الٰہی اور فوائد ۲۵؍ فروری ۱۹۱۱ء کو قبل عصر خاکسار ایڈیٹر الحکم نے عرض کی کہ آپ نے او ائل علالت کے ایام میں فرمایا تھا کہ اس بیماری سے جو منشاء الٰہی ہے اور جو فوائد ہیں وہ توفیق ملی تو بیان کروں گا.اب تو خدا کے فضل سے حضور کی طبیعت اچھی ہے تھوڑا تھوڑا اگر آپ لکھا دیں تو بہت اچھا ہو.فرمایا.ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل پر ہی سب کچھ موقوف ہے جب وہ توفیق دے گا تو لکھے جائیں گے.بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ جماعت میں دعا کے لئے توجہ پیدا ہو گئی اور دعا ہی بڑی ضروری چیز ہے.عجیب بات یہ ہے کہ عبد الحکیم ایک طرف تو پیشگوئی موت کرتا ہے اور دوسری طرف اسی رات کو جو میری موت کے لئے مقرر کرتا ہے خدا تعالیٰ سے میرے لئے دعا کی طرف پھیر دیتا ہے.یہ تعجب کی بات ہے.

Page 324

Page 325

غرض فرمایاکہ یہ کیا کم فائدہ ہے.پھر میرا اپنا ایمان خدا تعالیٰ پر بہت بڑھ گیا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ وہ بدوں اسباب کس طرح پر میری پرورش کرتا ہے.اس کی غریب نوازیوں کے عجیب عجیب مشاہدات میں نے اس بیماری میں کئے ہیں جن کو میں گن بھی نہیں سکتا.قرآن مجید پر میرا ایمان بہت بڑھا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بہت بڑھ گئی ہے.بیماری میں بعض بعض وقت سخت گھبرا اور اضطراب ہوتا ہے اور مجھے بھی ہوا.ایسے وقتوں میں ایمان کا قائم رہنا صرف خدا تعالیٰ ہی کے فضل پر موقوف ہے.میں نے ان اضطراب کی گھڑیوں میں بھی خوب غور کی اور دیکھا تو میں نے اپنے آپ کو خدا کے فضل سے خوش پا یا اس لئے کہ میں دیکھتا تھا.میرا دل اپنے مولیٰ سے خوش ہے! اور وہ ان تکالیف میں بھی اس کے فضل کو محسوس کرتا ہے.ایمان کا دینا اور اس کا بڑھانا اور پھر اسے قائم رکھنا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے فضل پر موقوف ہے.اسی نے مجھے ایمان دیا اور اسی نے اس ذریعہ سے بڑھایا اسی کے فضل سے میں یقین کرتا ہوں کہ وہ قائم رکھے گا.فرمایا.اس بیماری میں اللہ تعالیٰ نے میرے رزق کو بہت بسط کیا اور جینی لوگ جن کو کوئی تعلق نہیں انہوں نے بھی بدوں کسی تحریک اور تعلق کے روپیہ بھیجا.یہ سب خدا تعالیٰ کے فضل کے عجائبات ہیں اور اس قدر ہیں کہ کوئی گن نہیں سکتا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عجیب عجیب کمالات میں نے مشاہدہ کئے ہیں اور ان کو دیکھ دیکھ کر بے اختیار زبان سے نکلتا ہے.زفرق تا بقدم ہر کجا کہ مے نگرم کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجاست حسن معاشرت کا عجیب پہلو اس سے پہلے بھی اسی سلسلہ مضامین میں میں نے حضرت خلیفۃ المسیح کے حسن معاشرت کے بعض

Page 326

نمونے پیش کئے تھے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جس قدر زیادہ ہوں وہ کم ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح کے دل میں عورتوں کی ہمدردی اور اصلاح کے لئے ایک خاص جوش ہے اور یہ امر آپ کے ان خطبوں سے جو نکاح کے موقعہ پر آپ پڑھتے ہیں بخوبی ظاہر ہے.کبھی غذا کے متعلق کوئی امر پیش آیا تو آپ نے والدہ عبد الحی کی تجویز کو مقدم رکھا.آج ۲۴؍ فروری۱۹۱۱ء کو آپ نے قبل عصر پینے کے لئے جنجر طلب کیا.مگر اندر سے کہلا بھیجا کہ قہوہ اور کچھ کھانے کو دیں گے.حضرت نے فرمایا کہ اگر اس وقت کچھ کھایا تو رات کو نہیں کھایا جائے گا.میں صرف تھوڑا سا پانی پیتا ہوں.مگر والدہ عبد الحی نے جو تیار کیا تھا اسے پلانا چاہا اور پھر کہا کہ نہیں کچھ قہوہ اور تھوڑا سا کیک کھا لو.اس پر فرمایا.اچھا.یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے اور بعض دل وماغ اس کو غیر ضروری اور فضول سمجھیں.مگر نہیں اس میں کتنا بڑا قیمتی سبق اپنی بیوی کی دلداری کا ہے جس کے ذریعہ گھر جنت کا نمونہ ہو جاتا ہے.اسی ضمن میں مجھے یاد آیا کہ ایک موقعہ پر حضرت نے مجھے فرمایا کہ میں عورتوں کو درس دے رہا تھا اور میرے درس میں یہ آیت آئی.الآیۃ.(البقرۃ:۳۶) فرمایا.میرے دل میں اس وقت کے حسب حال اس کا یہ مفہوم ڈالا گیا کہ میاں بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ تم دونوں مل کر جنت میں رہو اور یہ جنت اس وقت جنت رہ سکتا ہے جب تک تم آپس میں جھگڑا نہ کرو.جہاں میاں بیوی میں تنازعات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے پھر وہ گھر جنت نہیں بلکہ دوزخ کا نمونہ ہو جاتا ہے.اس لئے چاہئے کہ میاں بیوی باہم نہایت خوشی اور آرام سے مل کر رہیں جھگڑا نہ کریں ایک دوسرے کی دل شکنی نہ کریں.اور مرد خصوصیت سے عورتوں کی بعض کمزوریوں پر برداشت اور حوصلہ سے کام لیں.اخلاص کی قدر فرمایا.میں شروع سے دیکھتا رہا ہوں کہ انگریزی ادویات نے مجھے کوئی فائدہ نہیں دیا اور نہ انگریزی غذائیں مفید ہوئیں ہر چند خدا تعالیٰ ہی کے فضل سے ہی مفید اور بابرکت ہو سکتی

Page 327

ہیں.مگر میں نے انگریزی ادویات کو ترک نہیں کیا اس واسطے کہ ڈاکٹر لوگ اخلاص اور ہمدردی سے دیتے تھے اور فائدہ ہونا تو ان کے اختیار میں نہ تھا.ہم اور ہمارے مخالفوں میں فرق ۲۷؍فروری ۱۹۱۱ء کو قبل دوپہر آپ کی خدمت میں یہ سوال پیش کیا گیا کہ کیا احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کوئی فروعی اختلاف ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے جو کچھ اس کا جواب دیا میں اس کے مفہوم کو اپنے حافظہ سے اپنے الفاظ میں لکھتا ہوں.فرمایا.یہ بات تو بالکل غلط ہے کہ ہمارے اور غیر احمدیوں کے درمیان کوئی فروعی اختلاف ہے.کیونکہ جس طرح پر وہ نماز پڑھتے ہیں ہم بھی اسی طرح پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ، حج اور روزوں کے متعلق ہمارے اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے.میری سمجھ میں ہمارے اور ان کے درمیان اصولی فرق ہے.اور وہ یہ ہے کہ ایمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو اس کے ملائکہ پر، کتب سماویہ پر اور رسل پر، خیر و شر کے اندازوں پر اور بعث بعد الموت پر.اب غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارے مخالف بھی یہی مانتے ہیں اور اس کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یہاں سے ہی ہمارا اور ان کا اختلاف شروع ہو جاتا ہے.ایمان بالرسل اگر نہ ہو تو کوئی شخص مومن مسلمان نہیں ہو سکتا.اور اس ایمان بالرسل میں کوئی تخصیص عام ہے خواہ وہ نبی پہلے آئے یا بعد میں آئے.ہندوستان میں ہوں یا کسی اور ملک میں.کسی مامور من اللہ کا انکار کفر ہو جاتا ہے.ہمارے مخالف حضرت مرزا صاحب کی ماموریت کے منکر ہیں.اب بتاؤ کہ یہ اختلاف فروعی کیونکر ہوا.قرآن مجید میں تو لکھا ہے (البقرۃ:۲۸۶) لیکن حضرت مسیح موعودؑ کے انکار میں تو تفرقہ ہوتا ہے.رہی یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں خاتم النبیین فرمایا.ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہمارا یہ مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین نہ کرے تو بالاتفاق کافر ہے.یہ جدا امر ہے کہ ہم اس کے کیا معنی کرتے ہیں اور ہمارے مخالف کیا.اس خاتم النبیین کی بحث

Page 328

کو سے تعلق نہیں وہ ایک الگ امر ہے.اس لئے میں تو اپنے اور غیر احمدیوں کے درمیان اصولی فرق سمجھتا ہوں.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد۱۵ نمبر۷،۸ مؤرخہ ۲۱، ۲۸؍ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۳،۴) اسلامی اصولوں کی اشاعت حضرت خلیفۃ المومنین بار بار فرما چکے ہیں کہ میں چاہتا ہوں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ شائع کئے جائیں جن میں اسلامی اصولوں کی اشاعت ہو.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۸ مؤرخہ ۲؍ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۵) ارشاد امیر المؤمنین (مرتبہ جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب) خدا کی وسیع رحمت اور سخت عذاب خدا کی غریب نوازی اور رحمت بہت وسیع ہے وہ جس کو چاہے معاف کر دے.اس لئے ان باتوں کو بتانے میں احتیاط لازم ہونی چاہئے.چنانچہ ایک دفعہ میں نے ایک سررشتہ دار کو جو بڑا فاسق و فاجر تھا جنت میں دیکھا.میں نے تعجب سے حال پوچھا تو کہا میری غریب الوطنی پر اللہ کریم کو رحم آ گیا، بخش دیا.اس حالت کے بعد میں نے لوگوں سے پوچھا کہ فلاں سررشتہ دار کا کیا حال ہے؟ کہا کہ وہ کچہری سے واپس آتے ہوئے غائب ہو گیا ہے.سال ڈیڑھ سال کے بعد ایک شخص حج کر کے واپس آیا تو اس نے مجھ سے ذکر کیا کہ فلاں سررشتہ دار پا پیادہ مکہ کو جا رہا تھا بمبئی کے قریب فوت ہو گیا.ایک گاؤں میں اس کو دفن کر دیا گیا.غرض خدا کی رحمت بھی بڑی وسیع ہے مگر عذاب بھی بہت سخت ہے.چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص کو عالم ارواح میں دیکھا کہ بہت بیمار ہے.میں نے پوچھا کیا مر گیا ہے؟ اس نے کہا ہاں.پوچھا کہ مرنے کے بعد تو بیمار نہیں ہوا کرتے.اس نے پکڑ کر ایک لڑکی کوپیش کیا.کہا اس لڑکی پر میں عاشق تھا اس

Page 329

کا ہمیں پتہ بتا دو.وہ کہنے لگا اس شخص کا دم میرے زانو پر نکلا ہے.اس کے اور میرے سوا کوئی تیسرا شخص واقف نہیں آپ کو کہاں سے پتہ لگا کہ وہ ایک لڑکی پر عاشق تھا.جب تک مجھے نہ بتاؤ گے کہ آپ کو کہاں سے پتہ لگا میں نہ بتلاؤں گا.میں نے اس کو کچھ نہ بتلایا.ایک دفعہ ایک قوم میں جو بہت حسین قوم ہے شادی تھی بہت سی عورتیں جا رہی تھیں.میں نے کہا مائیو بہنو کھڑی ہو جاؤ.ان میں اس لڑکی کو میں نے پہچان لیا اس کا نام میں نے دریافت کر لیا.بعد میں پتہ بھی معلوم ہو گیا.پھر متوفیٰ کے دوست سے ملے اور اس لڑکی کا نام و پتہ بھی بتلا دیا.حیران ہو گیا.دعا سے قبل ستر بار استغفار ایک شخص نے عرض کی کہ حضور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ اگر تو ستر بار بھی ان کے لئے استغفار کرے گا تب بھی ان کو نہ بخشوں گا.اس سے میں نے یہ قیاس کیا کہ کسی امر کے متعلق ستر بار استغفار کرنا ایک عظیم الشان چیز ہے کیونکہ یہاں عظمت کے رنگ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے.اس لئے میں نے جب حضور کی شفا کے لئے دعا کی تو پہلے اپنے گناہوں کے متعلق ستر بار استغفار کی کہ میرے گناہوں کی شامت کی وجہ سے حضور جیسی نعمت ہم سے چھنتی ہے تو ہم ستر بار معافی مانگتے ہیں.حضرت نے فرمایا کہ قرآن کریم سے بڑا لطیف استنباط کیا.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۸ مؤرخہ ۲؍ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۷) حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر اجمالی نظر آپ قریش کے خاندان (جو قبائل عرب میں مکرم و معظم ہے اور جس کی عظمت کے سامنے تمام وحشی قومیں عرب کی ممکن نہ تھا کہ مکّہ کی سرزمین میں کبھی کشت و خون کرسکیں بلکہ مکّہ کو امن کی جگہ اور حرم کہتے تھے)بنو ہاشم کے گھرانے عبدالمطلب کے بیٹے عبداللہ کے گھر میں آمنہ کے شکم سے پیدا ہوئے.مشرکین عرب میں آپ کے والد کا نام عبداللہ اور آپ کی والدہ کا آمنہ نام بھی کچھ کم معجزہ

Page 330

نہیں.غور تو کرو یہ نام کیسے لطیف اور آپ کی تعلیم سے کیسے مناسب ہیں.آپ کے نجیب الطرفین ہونے میں کسی کو کلام نہیں.آپ کی پیدائش کی پہلی برکت یہ ہے کہ ابی سینیا کے حبشی بادشاہ ہمیشہ حجاز پر چڑھائیاں کرتے تھے اور ان کے دانت مکّہ پر لگے رہتے تھے.منجی قوم، منجی ملک ایسے پیدا ہوئے کہ جس سال وجود باجود نے ظہور پایا خارجی دشمنوں کا نام و نشان بھی نہ رہا.ہمارے بادشاہ ماجوج جزائر کے رہنے والے.حزقیل ۳۹ باب ۶ آیت، جن کا تسلّط ہزار سال ہجرت کے بعد موافق مکاشفات یوحنّا ضرور تھا.۲۰باب ۷،۸آیت، جزائر برطانیہ سے یہاں پہنچے پر الٰہی چھاؤنی ان سے محفوظ رہی.عزیز شہر کا گھیرنا بھی دور ہی رہا.کیا یہ امراوریہ نصرتِ الٰہی بُت پرستی کی حفاظت کے لئے تھی.رسالت مآب کا پیدا ہونا عرب کے لئے کیسی خوش قسمتی ہوئی.کوئی بادشاہ ان پر مسلّط ہونے والا نہ رہا.آزاد ہوگئے.تعجب ہے ترکی سلطان جو برائے نام ان کے بادشاہ ہیں وہ بھی خادم الحرمین ہونا فخر سمجھے.دیکھو آپ کا وجود باجود عرب کے لئے کیسا نشان نبوت ہے.دنیا میں کوئی شخص قوم کا آزادی بخش اگر ایسا ہوا ہے تو اس کی نظیر پیش کرو.اگر تمام مخلوق میں ایسے وجود باجود کے پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہادی کا فعل یقیناً معجزہ اور خرق عادت سمجھوجس نے اپنے سامنے پوری کامیابی کو دیکھ لیا.آپ کا تمام ملک آپ کی تمام قوم آزاد ہوکر آپ کی فرمانبردار اور مکرم اور دنیا پر ممتاز بن گئی.مسیؑح کی کامیابی جیسی ہوئی اس پر اناجیل کی شہادت دیکھ لو.وید کے ملہم (اگر ملہم ہیں)دشمنوں کی تباہی اور اپنے فتوحات ہی مانگتے رہے.ان کی الہامی دُعاؤں کی برکت آریہ ورت پر الٹی ہی پڑی.غور کرو ایسا ناکامی کا الہام کدھر سے ہوا.موسٰی ؑ کا خیال مت کرو.اوّل تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل ہیں.دوم موسٰی ؑ نے اپنی قوم کو بیابان میں ہی چھوڑا منزل مقصود تک نہ پہنچایا بلکہ موسیٰ آپ بھی ملک موعود میں نہ پہنچے محروم ہی رہے.تورات استثناء ۳۲باب ۵۲آیت.

Page 331

میرے اس مضمون کو قرآن سے تصدیق کرنا ہو تو پڑھو ابتدائے نعمت پر قرآن فرماتا ہے.۱؎(الفیل:۲،۳) اور آخری نعمت پوری کامیابی پر جو سچائی کا معیار ہے فرمایا.۲؎ (المائدۃ:۴).اے قوم کے حامیو ! قوموں کے مصلحین کے قدر کرنے والو ! اے قوم کو عروج کی طرف بلانے والوں کے قدر دانو !اس منجّی قوم ، حامی قوم، فخر ملک کے خرق عادت پر قربان ہوجاؤ.آؤ اسی کااتباع کریں، اسی کا طرز اختیار کریں.صلی اللہ علیہ وسلم.آپ نے یتیمی میں پرورش پائی.ابتدائً عبدالمطلب کے پاس جو آپ کے دادا تھے.پھر اپنے چچا ابوطالب کے گھر.تمام مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ حضور کے اعلیٰ درجہ کے چال چلن سے چچا اور بھتیجے میں پرلے درجے کی محبت ہوگئی تھی اور آپ تمام شہر میں ہر دلعزیز بن گئے تھے.ابوطالب سیریا کے سفر میں آپ کو علیحدہ نہ کرسکے بلکہ ساتھ ہی لے گئے حالانکہ آپ کا سن اس وقت نو برس کا تھا.دیکھو یہ بات فراموشی کے قابل نہیں کیونکہ عیسائی کہتے ہیں آپ نے یہود سے تعلیم پائی.کیا نو برس میں ایسی تعلیم اور یہود میں یا عیسائیوں میں اب تک الٰہی علم ہی کیسا ہے.ایسا ہے کہ اب تک یہود نے مسیح کو بھی نہ جانا اور عیسائیوں نے کبھی اللہ کو اللہ مجسم یقین کیا.کبھی مریم کی تصویر پر گوٹے کناری کے کپڑے چڑھائے.یہی معلّم ہیں.اس سفر میں بحیرہ نام راہب نے اپنی فراست سے ابوطالب کو کہا.یہ لڑکا ایک نہایت ہی درجہ کا عظیم الشان ہونے والا ہے اور پرلے درجے کا روشن دماغ ہے، حسن اخلاق اور فیاضی میں بے نظیر ہونے کے علاوہ یہ بے ریب قوم کو نجات دینے والا ہوگا.اس کی سخت حفاظت کیجیو.(ابنِ ہشام صفحہ۱۱۴ ، ابنِ اثیر ۲۶،طبری صفحہ۲۴۵) ۱؎ تو نے دیکھا کیسا کیا تیرے ربّ نے ہاتھی والوں سے.کیا نہ کردیا ان کا داؤ غلط.۲ ؎ آج ناامید ہوئے کافر تمہارے دین سے سو ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو.آج میں پورا دے چکا تم کو دین تمہارا.اور پورا کیا تم پر میں نے احسان.

Page 332

ہوازن کی خطرناک لڑائی میں جو نو برس تک رہی آپ نے اپنے آپ کو چودہ پندرہ برس کی عمر میں بڑا ہی لائق اور قوم کا محافظ ثابت کیا(ا بنِ ہشام صفحہ۱۱۷).آپ کی لیاقت اور راستی اور سچی شرافت اور سادہ چال چلن کے باعث آپ کو قوم کی طرف سے امین کا خطاب ملا.(طبری جلددوم صفحہ۳۸۰) پچیس برس کی عمر میں خدیجہ نام ایک قریشہ اور دولتمند بی بی کی جانب سے آپ تجارت کے طور پر شام کو تشریف لے گئے.یہ سفر بھی چند روز اور تجارت میں گزرا.یاد رہے کل دو ہی سفر حضور نے کئے ہیں.سفر میں ایسی وفاداری اور لیاقت اور دیانت اور امانت کو عمل میں لائے کہ ان بی بی نے اس کے شکریہ میں آخر آپ کے ساتھ بڑی دھوم دھام سے شادی کی.تمام نامی اورگرامی رؤساء حجاز طرفین سے اس شادی میں جمع ہوئے اور بڑے لطیف اور پُر زور فصاحت و بلاغت کے کئی خطبے پڑھے گئے.یہ خطب ابن ہشام اور زرقانی اور ابن اثیر نے بیان کئے ہیں.پھر آپ نے پچاس برس سے زیادہ عمر تک اسی ایک بی بی خدیجہ کے ساتھ زندگی بسر کی جس کے ساتھ آپ کا پچیس برس کی عمر میں نکاح ہوا اور وہ بی بی نکاح کے وقت چالیس برس کی تھیں اور اس خوبی سے اس تعلق کو پورا کیا کہ وہ بلا تامّل حضور کی دعوت اسلام پر پہلے ہی روز ایمان لائیں.میں خدیجہ کی شہادت سے چشم پوشی نہیں کرسکتا جو انہوں نے آپ کے ابتدائی دعویٰ نبوت میں دی ہے.حضور علیہ السلام نے جب ندائے الٰہی سنی اور دیکھا کہ تمام دنیا اس وعظ کی مخالفت کرے گی.جب آپ نے فرمایا: خدیجہ مجھے اپنی جان پر خوف بن گیا تو وہ کہتی ہیں.اَبْشِرْ فَوَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدِقُ الْحَدِیْثَ وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ.۱؎ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ العلق) غور کرو پچپن سالہ بی بی آپ کی ہم شہر، ہم قوم جو پندرہ سال سے آپ کے بیاہ میں ہے کیا ۱؎ خوش ہو پس خدا کی قسم کبھی تجھے اللہ ذلیل نہ کرے گاتو بیشک صلہ رحمی کرتا اور سچ بولتا ہے اور دکھ والے کا دکھ برداشت کرتا اور مفلس کو دیتا اور مہمان نوازی کرتا اور بھلے کاموں میں وقتاً فوقتاً مدد دیتا ہے.

Page 333

گواہی دیتی ہے.خدیجہ کی گواہی ایسے وقت میں جبکہ آپ غمگین اور مضطرب تھے غور کے قابل ہے.اگر آپ میں یہ صفات نہ ہوتے تو خدیجہ کا بیان اس وقت ہرگز تسلی کا موجب نہ ہوتا.حضور کی قوم میں کوئی دینی کتاب، کوئی قانون نہ تھا، کوئی سلطنت نہ تھی.حضور نے نبوت سے پہلے ایک عجیب تحریک کی جس کو دیکھ کر اور سن کر انسانیت والے انسان عش عش کرجاویں.بنوہاشم اور بنو مطلب ، بنو اسد، بنو زہرہ، تَیم بن مرّہ کے درمیان ایک معاہدے کی تحریک فرمائی اور معاہدہ یہ تھا کہ کمزور اور مظلوم پر ظلم نہ ہو اور ان کی حفاظت کی جاوے.(ابن اثیر جلد ۲صفحہ۲۹ ) کعبے کی مرمت میں کونے کے پتھر حجر اسود کے رکھنے پر تمام قبائل حجاز میں اس بات پر نفاق شروع ہوا کہ اس کونے کے پتھر کو کون شخص اٹھا کر رکھے.قریب تھا تمام قوم کٹ کر ہلاک ہو.اس حقیقی کونے کے پتھر نے جس کی پیشینگوئی کے لئے تصویری زبان میں دانیال ۲باب ۳۴ ، متی۲۱ باب ۴۲، یسعیاہ ۲۸باب ۱۶ میں مذکور ہے.(وہ پتھر قدیم سے عرب کے مقام مکّہ معظمہ کے کونیمیںدھراتھا)اس کا ایسا فیصلہ کیا کہ قوم پر ثابت کردیا میرے ہاتھ کے چھونے سے تم کو آرام و نجات ہے.مجمل قصہ یوں ہے جب قوموں میں اس پتھر کے رکھنے میں اختلاف ہوا کہ اس پتھر کو کون رکھے تو ان لوگوں نے یوں ٹھانی جو پہلے دروازے سے اندر آوے وہی اس کا رکھنے والا ٹھہرے.اتنے میں حضور آنکلے.آپ نے اپنی چادر بچھادی اور پتھر اس میں رکھ کرحکم دیا کہ تمام قومیں باتفاق اس چادر کو اٹھالیں.اس سچے سبت اور سچے کونے کے پتھر نے اس آفت قتل و قتال سے قوم کو آرام بخشا.یہ واقعہ آپ کی ۳۵سال کی عمر میں ہوا.ایک نہایت عجیب واقعہ سنائے بغیر ابتدائے ایّام نبوت کے حال سے میں خاموش نہیں رہ سکتا.عثمان بن ہویرہ ایک عرب عیسائی ہوگیا.اس دشمن قوم نے قسطنطنیہ کے دربار میں قیصر روم سے جاکر وعدہ کیا کہ حجاز کا ملک میں آپ کے قبضہ میں کرائے دیتا ہوں.پھر اس شیطان نے یہاں مکّہ معظمہ میں اپنا منشا پورا کرنے کے لئے کارروائی شروع کی مگر اس دشمن ملک کا راز صرف

Page 334

حضور کی عاقبت اندیشی سے کھل گیا اور اس شیطان، دشمنِ قوم کو اس خسران کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا کہ خائب و خاسر ہلاک ہوا.(میور جلد۲ صفحہ۴۴) سوالات ہرقل قیصر روم جوابات ابوسفیان جبکہ ابوسفیان آپ کا سخت منکر تھا

Page 335

ان جوابات کے بعد ہرقل نے کہا.مجھے یقین ہوگیا وہ سچا نبی ہے.یہی باتیں انبیاء کے نشان ہیں.جب مکّہ کے رؤسا نے جمع ہوکر آپ کے مربی چچا ابوطالب سے کہا کہ وہ محمد صاحب کو نئے دین کی وعظ سے روکے یا اس کی حفاظت سے دست کش ہو.ابو طالب نے بھی قومی غیظ و غضب کو پسند نہ کیا اور چاہا کہ محمد صاحب توحید کے وعظ سے رک جاویں تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ اے چچا ! اگر یہ لوگ آفتاب کو میرے داہنے اور ماہتاب کو بائیں لائیں اور مجھے اس کام کے ترک کرنے کو کہیں تو یقیناً یقیناً میں باز نہ رہوں گا جب تک دین الٰہی ظاہر نہ ہو یا میں ہلاک نہ ہوجاؤں.ایک بار اہل مکّہ نے جمع ہوکر کہا کہ اگر تجھے دولت کی خواہش ہو تو ہم مال جمع کردیتے ہیں، اگر ریاست کا خیال ہے تو ہم تجھے رئیس بنانے کو تیار ہیںوغیرہ وغیرہ تو آپ نے سورۂ حٰمٓ تنزیل سنائی جس میں لکھا تھا. (حٰم السجدۃ:۷).اور یہ بھی فرمایا.مَا……… اَطْلُبُ اَمْوَالَکُمْ وَ لَا الشَّرْفَ فِیْکُمْ وَلَا الْمَلْکُ عَلَیْکُمْ.(سیرۃ ابن ھشام، ذکر سرد النسب الزکی،حدیث رؤساء قریش مع رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وس

Page 336

اور اپنی تعظیم اور تکریم کی نسبت فرماتے ہیں.لَا تَقُوْمُوْا کَمَا یَقُوْمُ الْاَعَاجِمُ۱؎(کنزالعمال الجزء نمبر۹ حدیث نمبر۲۵۷۵۹).ایک دفعہ کا ذکر ہے آپ بیمار تھے.کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکے بیٹھ گئے.صحابہ جو پیچھے نماز کو کھڑے تھے انہیں اشارہ کیا تم سب بیٹھ جاؤ ایسا نہ ہو یہ بات میری خاص تعظیم خیال کی جاوے.شرک کی گرفتار قومیں نئی نئی توحید میں داخل ہوئیں ایک نے آکر کہا شاہان فارس اور روم کو ان کی رعایا سجدہ کرتی ہے کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا.سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کوکرو کسی دوسرے کو سجدہ نہ کرو.وہی قومیں جن کے رگ و ریشہ میں شرک رچا ہوا تھا اور جو مافوق الفطرت طاقتیں مقربان بارگاہ حق کی ذات میں یقین کرتی تھیں ان کو بار بار سنایا. ۲؎(الانعام:۵۱).۳؎ (الانعام:۵۹،۶۰).ایک شخص نے صرف اتنا ہی کہا.مَا شَائَ اللّٰہُ وَ شِئْتَ تو آپ گھبرائے اور فرمایا.جَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّاکیا تو نے مجھے خدا کا شریک ٹھہرایا؟ شرک کے گرفتار توحید میں آتے ہیں.خدائی بپتسما پاتے ہیں. (البقرۃ:۱۳۹) (ترجمہ:رنگ اللہ کا اور کون اچھا ہے اللہ سے رنگ ؎میں)میں رنگین ہوتے ہیں ایسا نہ ہو اپنے ہادی کو نافع و ضار سمجھ بیٹھیں.ان کو حکم ہوتا ہے. ۱؎ ایسے مت کھڑے رہو جیسے اور قوموں میں رواج ہے.۲؎ تو کہہ میں نہیں کہتا تم سے کہ مجھ پاس ہیں خزانے اللہ کے نہ میں جانوں غیب کی بات اور نہ میں کہوں تم سے کہ میں فرشتہ ہوں.۳؎ تو کہہ اگر میرے پاس ہو جس کی شتابی کرتے ہو تو فیصل ہوچکے کام میرے تمہارے بیچ اور اللہ کو خوب معلوم ہیں بے انصاف.اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی نہیں جانتا ان کو کوئی اس کے سوا.۴؎ اور حدیث میں آیا ہے جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا.(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب قول النبی ؐ جعلتلی الارض مسجدًا) میرے لیے زمین مسجد بنائی گئی.پس مساجد کے معنی زمینیں ہیں.

Page 337

.ْ ۱؎(الجن:۱۹تا۲۳)جس نے آکر نَسْتَشْفِعُ بِاللّٰہِ اِلَیْکَ۲؎ (سنن ابی داؤدکتاب السنۃ باب فی الجھمیۃ) کہا اس پر غضب طاری ہوا.موجودہ زمانہ یوں گزرا، حالت مرض ، موت میں آگے کی تیاری ہوتی ہے.اس میں دیکھو توحید کی طرف کیا توجہ ہے.لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰی اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ ۳؎ (صحیح بخاری ،کتاب الجنائزباب ماجاء فی قبر النبی ﷺ)لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصٰریٰ(عیسیٰ) ابْنَ مَرْیَمَ۴؎ ( صحیح بخاری ،کتاب احادیث الا نبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم).صحابہ نے توحید کا ایسا خیال رکھا کہ آپ کی قبر کو بالکل بند کردیا تا کہ نظر بھی نہ آوے اور سجدہ گاہ نہ بنے.ذاتی منافع کا حال سنو.اپنے اور اپنی تمام قوم بنو ہاشم پر صدقات کو حرام کردیا.مرنے کے ایام میں اتنا پاس نہیں کہ آخر عمر میں بقدر ایام مرض آرام سے کھاتے پیتے.ان دنوں کے لحاظ سے ضروری اور نہایت ضروری سامانِ حرب زرہ ہوتی ہے وہ بھی چند اثار جو کے دانے کے عوض میں ایک یہودی کے پاس رہن تھی.ایک صاع غلہ (آٹھ سیر کے قریب)گھر میں رات کو نہ رہتا حالانکہ آپ کی نوبیبیاں تھیں.کھلی اور سادہ چٹائی پر بسترا تھا.کھجور اور پانی پر بسر اوقات تھی.باہمہ کثرت عیال اور ۱؎ اور یہ کہ مسجد کے ہاتھ پانوں حق اللہ کا ہے سو مت پکارو اللہ کے ساتھ کسی کو اور یہ کہ جب کھڑا ہو اللہ کا بندہ اس کو پکار تا لوگ کرنے لگتے ہیںاس پر ٹھٹھا تو کہہ میں تو یہی پکارتا ہوں اپنے رب کو اور شریک نہیں کرتا اس کا کسی کو.توکہہ میرے ہاتھ میں نہیں تمہارا برا نہ راہ پر لانا تو کہہ مجھ کو نہ بچاوے گا اللہ کے ہاتھ سے کوئی اور نہ پاؤں گا اس کے سوا کہیں سرک رہنے کی جگہ.۲؎ سپارشی لاتے ہیں اللہ کو تیری طرف.۳؎ یہود اور نصاریٰ پر لعنت ہو انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنایا.۴؎ میری بڑائی ایسی نہ کیجیو جیسے نصاریٰ نے مسیح ابن مریم سے کی.

Page 338

کنبے کے باوجود اتنی فتوحات کے باوجود اس قدر شاگرد پیشہ کے.بیبیوں کے واسطے قرآن میں حکم ہوتاہے.۱؎(الاحزاب :۲۹).اگر تعظیم کا خیال ہو تو نظر کرو.عباس آپ کے چچا فرماتے ہیں.مَاکَانَ اَحَدٌاَحَبَّ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ وَکَانُوْا اِذَا رَئَ وْہُ لَمْ یُقِیْمُوْا.۲؎ (الحکم جلد ۱۵ نمبر ۹ مورخہ۷؍مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ۳ تا۶) کالمعلقہ کا نکاح ان ایام میں آپ (خلیفۃ المسیح )نے میری حاضری میں ضعیف اور ناقص الخلق بچوں کی پیدائش پر آریوں کے اعتراضات کے جواب کے سلسلہ میں بہت ہی عجیب تقریر فرمائی جو انشاء اللہ العزیز درج اخبار ہو گی.ایسا ہی ان عورتوں کے متعلق جن کو لوگ کالمعلقہ رکھتے ہیں فرمایا کہ ’’ایسی عورتیں دوسرا نکاح کر سکتی ہیں.‘‘ کیا ہم صلح کُل ہو سکتے ہیں؟ گزشتہ اتوار کو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور بعض دوسرے دوست لاہور سے آئے ہوئے تھے.شاہ صاحب کے ایک سوال پر محمڈن یونیورسٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے اس مضمون پر چند اصولی باتیں بتائیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم ان معنوں میں جو عام لوگ سمجھتے ہیں صلح کُل نہیں ہو سکتے اور دوسروں کے ساتھ مشترک امور میں مل کر کام تو کر سکتے مگر امتیاز ضروری ہے.میں اس تقریر کے بعد پہنچا آپ نے از راہ کرم مجھے خطاب کر کے فرمایا کہ آپ نے بھی سن لیا.میں نے عرض کیا کہ حضور نے یونیورسٹی کے متعلق کوئی رائے دی ہے.اس پر ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے وہ نوٹ مجھے سنایا جو درج ذیل ہے.اس تقریر کو پڑھ کر معلوم ہو گا کہ آپ اپنی جماعت ۱؎ اے نبی کہہ دے اپنی بیبیوں کو اگر ہو تم چاہتی دنیا کا جینا اور یہاں کی رونق تو آؤ کچھ فائدہ دوں تم کو اور رخصت کردوں تم کو بھلی طرح سے.۲؎ کوئی بھی صحابہ کرام کو محمدؐ رسول اللہ سے بڑھ کر پیارا نہ تھا اور صحابہ کا طرز یہ تھا کہ جب آپ کو دیکھتے تو کھڑے نہ ہوتے.

Page 339

کے اندر کیا روح پیدا کرنا چاہتے ہیں.آپ کی غرض یہ ہے کہ جماعت سعی فی الدین کرے وہ دعاؤں سے کام لے اور اس کے لئے تحریک اسی وقت ہوتی ہے جب امتیاز ہو.غرض فرمایا.اشتراک کا ہم نے فیصلہ کر دیا ہے.(اس فیصلہ کا اظہار عنقریب ہو گا) مشترک امور میں مل کر کام کرنا ضرور ہے لیکن امتیاز قائم رکھنا بھی ضرور ہے.اس کے لئے چار وجوہ ہیں.(۱) امتیاز ترقی کا موجب ہوتا ہے.امتیاز نہ رہے تو قوم گھل مل کر تباہ ہو جاتی ہے.(۲) اگر کسی کے ماں باپ یا زمین کا مقدمہ کسی امام مسجد کے ساتھ ہو تو لوگوں کا دستور ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.پس جب ہمارے مامور من اللہ کو یہ لوگ جھوٹا سمجھتے ہیں تو ہماری غیرت کس طرح برداشت کر سکتی ہے کہ ان کو اپنا امام صلوٰۃ بنا لیں.(۳) جب تک تمیز نہ ہو نہ امر بالمعروف ہی رہتا ہے نہ نہی عن المنکر.تمہارے لیکچروں کی عزت بھی احمدی نام سے ہی ہوئی ہے.(۴) خود نام رکھنا ہی ترقی کا موجب ہوتا ہے.(۵) جب کوئی قوم ممتاز ہوتی ہے تو قوم اس کی مخالفت کرتی ہے.پھر جوں جوں مخالفت ہوتی ہے اس ممتاز بننے والے کو سعی اور دعا کا موقعہ ملتا ہے.یاد رکھو جب تک مشکلات پیش نہ آویں، دعا اور کوشش کا موقعہ نہ ملے ترقی نہیں ہو سکتی.سعی، کوشش، جہاد، دعا کے لئے مشکلات ضرور ہیں.صلح کُل میں نہیں ہو سکتا.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد ۱۵ نمبر ۹ مؤرخہ ۷؍ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ۲ ۱) (البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۸ مورخہ ۱۸ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۱) اعلان ضروری بہ تعلق تکمیل تجویز محمڈن یونیورسٹی چونکہ اس وقت ایک عام تحریک ایک اسلامی یونیورسٹی کے ہندوستان میں قائم کرنے کے لئے ہو رہی ہے اور بعض احباب نے یہ دریافت کیا ہے کہ اس چندہ میں ہمیں بھی شامل ہونا چاہیئے یا نہیں.اس لئے ان سب احباب کی اطلاع کے لئے جو اس سلسلہ میں شامل ہیں یہ اعلان کیاجاتا ہے کہ اگرچہ

Page 340

ہمارے اپنے سلسلہ کے ضروریات بہت ہیں اور ہماری قوم پربہت بوجھ چندوں کا ہے تاہم چونکہ یونیورسٹی کی تحریک ایک مفید اور نیک تحریک ہے اس لئے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے احباب بھی اس میں شامل ہوں اور قلمے قدمے سخنے درمے مدد دیں.نورالدین (الحکم جلد ۱۵ نمبر ۹ مورخہ ۷؍مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۳) حلال و حرام اور طیّب ایک صاحب نے دریافت کیا کہ طوطا حلال ہے یا حرام؟ فرمایا.قرآن میں آیا ہے.(النحل: ۱۱۷) یہ خدا پر افترا باندھنا ہے کہ یہ حلال ہے یا حرام.خدا نے تو فرمایا ہے الخ (البقرۃ: ۱۷۴) حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو جانور شکاری ہیں وہ حرام ہیں اس میں درندے، شکاری پرند وغیرہ سب داخل ہیں.اب اس سے زیادہ کوئی مجاز نہیں کہ کسی کو حلال اور حرام کہے.مگر دنیا میں چونکہ ہزار ہا جانور ہیں پھر دقت یہ ہوئی کہ اب کسے کھاویں اور کسے نہ کھاویں.اس مشکل کو اللہ تعالیٰ نے نہایت آسانی سے حل کر دیا ہے.فرمایا (النحل: ۱۱۵) یعنی حلال طیب کھاؤ.اب گویا یہ بتلا دیاکہ جو چیز طیب ہو وہ کھاؤ.چنانچہ ہر جگہ ہر قوم میں جو چیزیں عمدہ اور پاک ہوں اور شرفا اور مہذب لوگ کھاتے ہوں وہ کھالو.اس میں وہ استثناء جو پہلے بیان ہو چکے ان کا ملحوظ رکھنا نہایت ضرور ہے.طوطا کھا لینے میں تو کوئی ہرج نہیں معلوم ہوتا مگر میں نہیں کھایا کرتا کیونکہ ہمارے ملک کے شرفا نہیں کھاتے.ایک دفعہ ایک صاحب میرے سامنے گوہ (ضب) پکا کر لائے کہ کھایئے.میں نے کہا کہ آپ بڑی خوشی سے میرے دستر خوان پر کھایئے مگر میں نہ کھاؤں گا کیونکہ شرفا اسے نہیں کھاتے.

Page 341

غیر احمدی مسلمان سوال پیش ہوا کہ جو غیر احمدی مسلمان ہم سے پوچھے کہ ہماری بابت تمہارا کیا خیال ہے اسے کیا جواب دیا جاوے؟ فرمایا.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ماننے کے نیچے خدا کے سارے ماموروں کے ماننے کا حکم آ جاتا ہے.اللہ کو ماننے کا یہی مطلب ہے کہ اس کے سارے حکموں کو مانا جاوے گا اب سارے ماموروں کا ماننا لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معنوں میں داخل ہے.حضرت آدم، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت مسیح علیہم السلام، ان سب کا ماننا اسی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی ماتحت ہے حالانکہ ان کا ذکر اس کلمہ میں نہیں.قرآن مجید کا ماننا، سیدنا حضرت محمد خاتم النبیینؐ پر ایمان لانا، قیامت کا ماننا سب مسلمان جانتے ہیں کہ اس کلمہ کے مفہوم میں داخل ہے.اور یہ جو کہتے ہیں کہ ہم مرزا صاحب کو نیک مانتے ہیں لیکن وہ اپنے دعوے میں جھوٹے تھے، یہ لوگ بڑے جھوٹے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے  (العنکبوت:۶۹) دنیا میں سب سے بڑھ کر ظالم دو ہی ہیں ایک جو اللہ پر افتراء کرے.دوم جو حق کی تکذیب کرے.پس یہ کہنا مرزا نیک ہے اور دعاوی میں جھوٹا گویا نور و ظلمت کو جمع کرنا ہے جو ناممکن ہے.طاعون کا علاج ایک خط پیش ہوا جس میں کسی مخلص نے عرض کیا تھا کہ یہاں طاعون کا زور ہے.فرمایا.اوّل.استغفار کثرت سے کریں.دوم.خیرات، کھانے کی چیزوں کے متعلق خصوصیت سے کریں.یعنی کھانا پکا کر مساکین و غرباء کو کھلائیں.سوم.نماز میں الحمد شریف پڑھنے کے وقت کہتے ہوئے مغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد لیں جن کو طاعون ہوتا ہے اور بارگاہ ربی میں عرض کریں کہ الٰہی اس غضبی گروہ میں شامل نہ کیجئیو.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۹ مؤرخہ ۹ ؍مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ

Page 342

مختلف مواقع پر کی جانے والی دعائیں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ کے چند نہایت قیمتی ارشادات کو اس نیت سے شائع کرتا ہوں کہ اگر احباب اس کو وقتاً فوقتاً پڑھ لیا کریں اور اس پر عمل کریں تو انشاء اللہ اس سے بہت فائدہ اٹھائیں.۱.گذشتہ سالانہ جلسہ کی پبلک تقریروں میں اور نیز ان خاص ہدایات میں جو حضرت نے انجمنوں کے پریزیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو فرمائیں حضور نے بہت زور اس بات پر دیا تھا کہ تمام احمدی احباب دنیا میں صلح اور آشتی کے ساتھ رہیں باہمی تفرقہ سے بالخصوص بچیں اور اپنے دلوں کو ہر قسم کے تباغض اور کدورتوں سے صاف کریں اور اگر کسی سے زیادتی بھی ہو جاوے تو دوسرا فریق صبر کرے.صبر کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا اجر ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.(البقرۃ: ۱۵۴).۲.ہر فرض نماز کے بعد کم از کم تین بار اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ بآواز بلند پڑھو.۳.ہر فرض نماز کے بعد ۳۳ دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہ، ۳۳دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، ۳۳ دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَر اور اس کے بعد لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَـہٗ لَـہٗ الْمُلْکُ وَلَـہٗ الْحَمْدُ وَھُوَ یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر.۴.وقتاًفوقتاً سُبْحَانَ اللّٰہ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پڑھ لیا کرو.۵.چونکہ ہماری جماعت کے لوگ تعداد میں قلیل اور طاقت میں کمزور ہیں اور مخالفین ہماری جماعت کی ایذا رسانی میں کوشاں رہتے ہیں.اس لئے تمام جماعت کے لئے دعاکیا کرو (الممتحنۃ :۶) ترجمہ:.اے ربّ ہمارے ہم کو نہ بنا تختہ مشق واسطے منکر لوگوں کے اور بخش ہم کو اے ہمارے ربّ تحقیق تو غالب اور حکمت والا ہے.نوٹ:.یہ قرآنی دعا ہے قرآنی دعاؤں کا رکوع اور سجدہ کی حالت میں پڑھنا ممنوع ہے.

Page 343

شر دشمناں کے دفع کے لئے مندرجہ ذیل دعا کا حکم فرمایا کرتے ہیں.اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ.۶.سوتے وقت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مندرجہ ذیل وظائف پڑھ لیا کرتے تھے تسبیح و مندرجہ ذیل فقرہ نمبر ۳ اور آیت الکرسی، سورہ کافرون، سورۃ اخلاص، معوذتین یعنی سورۃ الفلق اور الناس نیز مندرجہ ذیل دعا ئیں کروٹ پر لیٹ کر پڑھ لیا کرتے تھے.اَللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ اِلَیْکَ....وَاَلْجَأَتْ ظَھْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَۃً وَ رَھْبَۃً اِلَیْکَ لَامَلْجَأَ وَ لَا مَنْجَأَ مِنْکَ اِلاَّ اِلَیْکَ اَللّٰھُمَّ اٰمَنْتُ بِکِتٰبِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَ نَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ (صحیح بخاری کتاب الوضوء باب فضل من بات علی الوضوء)(یہ دعا صحیح بخاری سے ماخوذہے) ۷.اپنے مکان اور شہر کے لئے دعا کرنا سنت ابراہیمی ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے لئے دعا فرمائی تھی (البقرۃ:۱۲۷).ہماری جماعت بھی اپنے مکانوں اور شہروں کے لئے( پڑھ لیا کرے).۸.مندرجہ ذیل دعا تین دفعہ صبح کو اور تین دفعہ شام کو پڑھ لی جاوے.بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(سنن ابی ماجہ کتاب الدعا باب مایدعوبہ الرجل ازاصبح و اذا أمسی) أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ.(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعا والتوبۃ والاستغفار باب فی التعوذ من سوء القضاء...) ۹.باہم محبت اور اخوت قائم رکھنے کے لئے مندرجہ ذیل دعا  (الحشر:۱۱)یہ بھی قرآنی دعا ہے.۱۰.تمام غیر معمولی کاموں کے لئے حضرت نے استخاروں کے کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے (اہم کاموں میں مثلاًکسی کو دوکان یا کاروبار میں شریک بنانے میں، رشتے ناطے قائم کرنے میں ، دوستی لگانے میں، کسی کو ہمسفر یا طالب علم بنانے میںسات دفعہ استخارہ کر لیا کریں) اس کے لئے

Page 344

ہدایات درج ہیں.حضرت نے فرمایا شیخ محی الدین ابن عربی ایک استخارہ ہر روز آئندہ آٹھ پہر کے کاموں کے لئے کر لیا کرتے تھے.سوائے ان اوقات کے جن میں نوافل کا پڑھنا ممنوع ہے.مثلاً صبح صادق کے پھٹنے سے طلوع آفتاب تک یا نماز عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک غرض معلومہ کو مد نظر رکھ کر کسی وقت دو رکعت نماز نفل پڑھی جاوے.اس کے بعد دعا مندرجہ ذیل بعد فراغت از نماز ہاتھ اٹھا کر پڑھ لی جاوے یا نماز میں ہی تشہد کے بعد پڑھ لی جاوے.اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَ اسْتَقْدِرُکَ بِقَدْرَتِکَ وَاسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ.فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ.اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَاالْاَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ امْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَ یَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ ارْضِنِیْ بِہٖ.(صحیح بخاری کتاب التھجد باب ما جاء فی التطوع مثنی مثنی) ترجمہ:.یاالٰہی میں تیرے علم سے خیر مانگتا ہوں.تیری قدرت میں سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل عظیم میں سے فضل مانگتا ہوں کیونکہ تو سب طاقتوں والا ہے.میں بیکس ہوں تو علیم ہے.میں جاہل ہوں تو غیب کا جاننے والا ہے.اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین دنیا اور عاقبت کے لئے اچھا ہو تو میرے لئے اسے مقدر کر دے اور میرے لئے آسان کر دے.پھر اس میں مجھے برکت عطا فرما اور اگرتیرے علم میں یہ کام میرے دین و دنیا کے لئے برا ہو تو اس کام سے مجھے روک دے اور مجھے اس سے پھیر دے.اور جیسے بھی یہ کام ہو مجھے اس میں خیر دے اور مجھے اس سے راضی کر دے.استخارہ کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کو اپنا مشیر بنا لیتا ہے.استخارہ کے معنے ہیں خیر و برکت طلب کرنا.اس کا نتیجہ یہ ضروری نہیں ہوتا جیسا عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کام کے متعلق ضرورہی کوئی اشارہ فرمائے بلکہ یہ کہ اگر مجوزہ کام مفید ہو تو اس کے کرنے کی توفیق دے اور اس میں سہولت وبرکت رکھ دے اور اگر کام مفید نہ ہو تو اس سے روک دے اگر عربی دعا یاد نہ ہو تو اپنی زبان

Page 345

میں اس کا مفہوم ادا کر دے.۱۱.علاوہ استغفار درود شریف لاحول اور سورۃ فاتحہ کے کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا کثرت کے ساتھ ورد کرو.۱۲.صحبت نیک کے حصول کے لئے اَللّٰھُمَّ یَسِّرْ لِیْ جَلِیْسًا صَالِحًا (صحیح بخاری کتاب اصحاب النبیؐ باب مناقب عمار وحذیفہ)اور ترقی جماعت کے لئے(الصافات :۱۰۱)پڑھا کرو.۱۳.حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ کی شفایابی اور درازیٔ عمر کے لئے دعا کرنے کی ضرورت کو اس وقت بالخصوص خاکسار اپنی طرف سے تمام جماعت میں پیش کرتا ہے اور خود دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سر چشمہ ہدایت کو عرصہ دراز تک قائم رکھے اور ہمیں اس چشمہ سے فیض حاصل کرنے کی توفیق دے آمین.اس کے علاوہ قدرت ثانیہ کے ظہور کے لئے دعائیں کرنا بھی جماعت کے لئے از بس ضروری ہے.چاہیے کہ اس معاملہ میں تغافل نہ کیا جاوے.اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا حَیَاتَھَاوَ اَعِذْنَا مِنْ وَبَائِھَا اَللّٰھُمَّ حَبِّبْنَا اِلٰی اَھْلِھَا وَ حَبِّبْ صَالِحِیْ اَھَلَھَااِلَیْنَا.۱۴.نماز میں تشہد کے بعد مندرجہ ذیل دعا کے پڑھنے کو حضرت خلیفۃ المسیح بہت ہی پسند فرماتے ہیں.فرمایا کرتے ہیں کہ بعض ائمہ کرام نے اس دعا کے پڑھنے کو واجب قرار دیا ہے.اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعِجْزِ وَ الْکَسْلِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَ الْبُخْلِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ضِلْعِ الدَّیْنِ وَ غَلَبَۃِ الرِّجَالِ.۱۵.ہر ایک نئے شہر یا بستی میں داخل ہونے سے پہلے جس وقت وہاں کے مکانات پر نظر پڑے تو دعائے ذیل پڑھ لینا بہت فائدہ اور برکت دیتا ہے.اَللّٰھُمَّ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَمَا اَظْلَلْنَ وَرَبِّ الْاَرْضِیْنَ السَّبْعِ وَمَا اَقْلَلْنَ وَرَبِّ الرِّیَاحِ وَمَاذَرَیْنَ وَ رَبِّ الشَّیَاطِیْنَ وَمَا اَضْلَلْنَ اَللّٰھُمَّ اَسْئَلُکَ خَیْرَ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَ خَیْرَاَھْلِھَا وَ خَیْرَ مَا فِیْھَا وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ ھٰذَہِ الْقَرْیَۃِ وَ شَرِّ اَھْلِھَا وَ شَرِّمَا فِیْھَا اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْھَا اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْھَا ا

Page 346

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْھَا.خاکسارفرزند علی عفی عنہ ہیڈ کلرک قلعہ میگزین فیروز پور شہر (الحکم جلد ۱۵ نمبر۱۰ مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ۳) میلاد ۱۲؍ ربیع الاول ۱۳۲۹ھ لاہور کے پیسہ اخبار نے جو تحریک عید میلاد کے بارے میں کی تھی کہ اس روز تمام مسلمان نہائیں دھوئیں عید منائیں اس کا ذکر حضرت امیر المومنین کی خدمت میں کیا گیا تو آپ نے فرمایا.اسلام میں تو صرف دو ہی عیدیں شارع اسلام علیہ السلام نے مقرر فرمائی ہیں یا جمعہ کا دن ہے.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۲۰ مؤرخہ ۱۶ ؍مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۱) عورت کی دلداری حضرت خلیفۃ المسیح سلمہ اللہ تعالیٰ تو رات دن کی تقریروں میں احکام فرقان حمید سے عورتوں کے حقوق کی طرف خاص طور پر متوجہ ہیں یہاں تک کہ ایک دن فرمایا.عورت کی دلداری کرنی چاہئے.فرمایا.اس کے برخلاف کیا جاوے تو اسے بے حد صدمہ ہوتا ہے.اگرچہ اپنی دینداری کے باعث اپنے آپ کو ضبط کرے مگر تاہم نہیں ضبط کر سکتی اس لئے عورت کے برخلاف کیا جاوے تو نرمی سے اسے ذہن نشین کیا جاوے کہ فلاں بات میں یہ نقصان ہیں اور اس میں یہ نفع.(ماخوذ از مضمون’’کچھ عورتوں کی نسبت‘‘ البدر جلد ۱۰ نمبر ۲۰ مؤرخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۵) ہجرت امر مشکل (۱۶؍ مارچ ۱۹۱۱ء) دو شخصوں کی درخواست پیش ہوئی کہ اپنے وطن سے ہجرت کر کے قادیان آنا چاہتے ہیں.فرمایا.اِنَّ شَانَ الْھِجْرَۃِ لَشَدِیْدٌ(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب المبایعۃ بعد فتح مکۃ علی الاسلام ).ہجرت میں مشکلات کا سامنا ہے کسی وقت سوکھا ٹکڑا کھانا پڑ جاتا ہے، زمین پر سونا ہوتا ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر قدم اٹھاتا ہے خدا اسے ضائع نہیں کرتا.میں بعض دفعہ سادہ روٹی اچار

Page 347

کے ساتھ کھا کر گزارہ کر لیتا ہوں.ایک دفعہ میں نے کئی ماہ نون مرچ کے ساتھ روٹی کھا کر بھی گزارہ کیا ہے.مہاجر فی سبیل اللہ بھوکا نہیں مرتا خدا اس کا حافظ ہوتا ہے.(ماخوذ از کالم ’’اخبار قادیان‘‘ البدر جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مؤرخہ ۲۳؍ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۱) پیسہ اخبار پیسہ اخبار کے چند مخالفانہ مضمون حضرت خلیفۃ المسیحؑ کی خدمت میں پیش ہوئے.فرمایا.یہ ہمارا پکا اور سچا دشمن ہے ہمیشہ سلسلہ کے خلاف لکھتا رہتا ہے ہم تو پھر بھی اسے کچھ نہیں کہتے حوالہ بخدا کرتے ہیں.بدی ہے تو اس کے پیش خود آ جائے گی.غیر احمدی حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.ہم غیر احمدیوں کو غیر احمدی کہتے ہیں اور جو ہم پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں ان کا کفر بموجب حدیث ان پر لگتا ہے ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں لگاتے.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مؤرخہ ۲۳ ؍مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۵) جوہر قابل کی تلاش حضرت خلیفۃ المسیح فرمایا کرتے ہیں کہ اہل کمال ہمیشہ ایسے قابل جوہروں کی تلاش میں رہتے ہیں جنہیں وہ امانت کمال سپرد کریں.اطمینانِ قلب آج صبح کو میں نے پوچھا کہ آپ کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا موقعہ آیا ہے کہ کسی شخصیت نے آپ کے قلب کو مرعوب کر دیا ہو؟ فرمایا.بچپن سے لے کر اب تک مجھے کوئی ایسا موقعہ یاد نہیں کہ کسی شخص کی وجاہت یا علمیت یا کسی اور وجہ امتیاز نے میرے دل پر غلبہ کیا ہو اور میں اس کو ہمیشہ شرک سمجھتا رہا.اور یہ فی الواقعہ ہے بھی شرک.اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کون ہے جو کسی کو نفع پہنچا سکے یا کسی کو یہ طاقت ہے کہ نقصان دے سکے.پس

Page 348

دو ہی باتیں غلبہ اور رعب کی ہو سکتی ہیں خوف یا امید.اور ان دونوں کے متعلق مجھے اللہ کے سوا کسی پر بھروسہ ہی نہیں تو میرے دل پر رعب کیوں آتا؟ میں خدا تعالیٰ ہی کو اپنا حاجت روا یقین کرتا ہوں.ہاں ایک بات ہے اولو الامر کے حکم اطاعت کے نیچے ہیں.ایک چپراسی جو سرکاری حکم لے کر آئے اس کی فرمانبرداری بھی ضروری سمجھتا رہا ہوں اور وہ بھی اس لئے کہ خدا نے حکم دیا ہے.میرے لئے ایسے موقعہ پیش آئے جہاں مجھ پر کسی کا رعب پڑتا مگر خدا کے فضل سے نہیں.ایک مرتبہ بھیرہ کے عماید ہماری مسجد میں جمع ہوئے اور وہاں ایک اچھا مجمع تھا.میں اس طرف سے گزرا تو اس اجتماع کو دیکھ کر اندر چلا گیا.وہاں میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب بھی ہیں اور وہ چشم پُر آب ہیں.میں نے بڑی جرأت سے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے تمہارے کفر پر فتویٰ لیتے ہیں.میں نے کہا کہ اگر میرے عقائد آپ کے خیال میں ایسے ہیں تو فتویٰ دے دو.انہوں نے جواب دیا کہ میں تو کفر کی بات نہیں پاتا.پھر میں نے کہا کہ نہ دو.انہوں نے کہا یہ سب عماید اور اہل اثر لوگ ہیں.میں نے کہا کہ پھر میں آپ کا شاگرد ہوں آپ کی طرف سے میں لکھ دیتا ہوں اور جو ان کا جی چاہے کریں.میں نے کاغذ لیا اور لے کر لکھ دیا کہ جس شخص کے ایسے عقائد ہوں وہ کافر ہے.سب کے سب منہ دیکھتے رہ گئے.ان عماید کا میرے قلب پر کچھ بھی اثر نہ ہوا.اور میں دیکھتا تھا کہ اس حالت میں مجھے ذرا بھی وہم نہ تھا کہ یہ مجھے کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں.پھر ایک مرتبہ ایک رئیس کے سامنے جس سے مجھے تعلق طبابت بھی تھا بت پرستی پر گفتگو ہوئی.وہ بت پرستی کا گرویدہ تھا.میں نے بڑے زور سے بت پرستی کی تردید کی اور اسے بھی کہا کہ تم بت پرستی کی حکومت سے ایک کلمہ کے کہنے سے آزاد ہو سکتے ہو اور ایک ہی منٹ کے اندر نکل سکتے ہو.مگر چونکہ بت پرست صحیح علوم سے ناواقف ہوتا ہے اسے توفیق نہ ملی.مجھے کبھی ایسے درباروں میں حق کے کہنے سے شرمندہ ہونا نہیں پڑا.فرمایا.مجھے کبھی یاد نہیں کہ خدا نے مجھے شرمندہ کیا ہو.

Page 349

حق گوئی کونٹ ٹولسٹائی کا ذکر تھا کہ اس نے میرے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے کچھ انتخاب کیا تھا.اسی انتخاب کا انتخاب ولایت کے مشہور رسالے ریویو آف ریویوز میں چھاپتا.فرمایا.اس میں سے کچھ سناؤ.مولوی شیر علی صاحب نے چند ایک کا ترجمہ سنایا.مثلاً.(۱) میں ایک مخفی خزانہ تھا میں نے ارادہ کیا کہ شناخت کیا جاؤں تو میں نے آدم کو پیدا کیا (۲) مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو.اس قسم کے چند فقرے سنائے گئے تو آپ نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے اس کی طبیعت میں حق جوئی تھی.ریویو کے بھی کچھ پرچے اس نے پڑھے تھے اور حضرت صاحب کی تحریروں کو پسند کیا تھا.اس پر میں نے عرض کیا کہ اس نے پنڈت دیانند صاحب کی بھی تعریف کی ہے.فرمایا.پنڈت دیانند صاحب نے اسلام کے لئے راستہ صاف کیا ہے جو بت شکنی اس نے کی ہے مسلمانوں کے کام کو ہلکا کر دیا ہے.میں نے عرض کیا کہ میں تو ان تمام ریفارمروں کو جو چودہویں صدی میں ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے لئے بطور ارہاص سمجھتا ہوں.فرمایا.درست ہے.اسی ضمن میں بعض مشنریوں کا ذکر کیا کہ وہ جو جوش تبلیغ عیسویت کے لئے رکھتے ہیں وہ محض اخلاص سے ہوتا ہے ریاکاری ان میں نہیں ہوتی.میں نے ایسے مشنری دیکھے ہیں جن سے مجھے گفتگو کرنے کا موقعہ کثرت سے ملتا رہا.پادری گارڈن صاحب وہ ہمیشہ جب بھیرہ میں آتا تھا اسے خیال ہوتا تھا کہ اس مرتبہ نور الدین کو بپتسمہ دے دوں گا حالانکہ میں ان سے بڑے بڑے مباحثے کرتا تھا.مگر چونکہ میں بائیبل کے بڑے حوالے دیتا وہ سمجھتا کہ یہ اثر پذیر ہوئے بغیر نہ رہے گا.مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے تو اس باطل سے ایسا بچایا کہ اس کے کچلنے کی توفیق دی.یہ فضل کی بات ہے.میرے لئے تو حضرت صاحب نے بھی یہی مجاہدہ تجویز کیا تھا

Page 350

کہ عیسائیوں کے خلاف ایک کتاب لکھوں جس پر فصل الخطاب لکھی گئی.صدقہ جاریہ ۲۲؍ مارچ ۱۹۱۱ء کا واقعہ ہے کہ مجھے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا.آپ نے ایک سلسلہ کلام میں فرمایا کہ صدقہ چار ہیں.اوّل اولاد صالح جو دعا کرے.دوم علم جو نفع رساں ہو.سوم پانی کا اجرا.یعنی کنوئیں وغیرہ کی تعمیر.یہ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے.چہارم عمدہ پل یا سٹرک.جب لوگ گزرتے ہیں تو آرام پا کر جوش سے بنانے والے کے لئے دعا کرتے ہیں.امتحان کے لئے دعا کرنے والے غور کریں حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور علی العموم ہمارے وہ نوجوان جو عنقریب امتحانوں میں شامل ہونے والے ہیں دعاؤں کے لئے خط لکھتے ہیں اور بڑے بڑے الحاح سے لکھتے ہیں.ایک نوجوان نے خط لکھا جو سال گزشتہ ایک امتحان میں فیل ہو گیا تھا.اس کا باپ اتفاق سے موجود تھا.فرمایا.تمہارے لڑکے نے بڑے درد سے خط لکھا ہے اور بڑا اضطراب ظاہر کیا ہے تم اس کو ہماری طرف سے نصیحت کرو کہ اس قدر گھبراہٹ کیوں ہے؟ امتحان کو کیا سمجھ رکھا ہے؟ اس کے پاس ہونے پر ساری امیدوں کا انحصار کرنا شرک ہے.کوشش جدا امر ہے مگر اس قدر اسباب پرستی جائز نہیں.اگر پاس بھی ہو جاوے پھر اس کے فوائد سے متمتع کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے فضل پر ہے.اس لئے ایسی باتیں جو شرک کے درجہ تک پہنچ جاویںچھوڑ دینی چاہئیں.خدا پر بھروسہ کرو وہی فضل کرے تو کچھ بنتاہے.بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے کوئی امتحان پاس نہیںکیا مگر وہ بڑے آسودہ ہیں.اور بعض ہیں جو امتحان پاس کر کے بھی مارے مارے پھرتے ہیں.یہاں نثار احمد ایک لڑکا تھا.اس کے پاس کی خبر اور موت کا پیغام ایک ہی وقت میں آیا.تو کیا فائدہ اس کے پاس ہونے نے دیا.پس ایسی باتوں سے توبہ کر لو اور استغفار کرو.میں سمجھتا ہوں یہ نصیحت تمام نوجوانوں کے لئے مفید ہو گی.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد ۱۵نمبر۱۲ مؤرخہ ۲۸ ؍مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۳)

Page 351

معاشرتی رسوم اور ان کے بد نتائج ایک دوست کا خط آیا کہ میں اپنے بچہ کا ختنہ کرانا چاہتا ہوں.ہماری قوم میں اس کے متعلق بعض بہت بڑی بڑی رسمیں ہیں.حضور کوئی ایسی ہدایت فرماویں کہ جس سے ان رسوم کی پابندی ٹوٹ جاوے.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.میں اَور کوئی دستور العمل قائم کرنا نہیں چاہتا.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو حکم ہے وہ تو اس سے زیادہ نہیں کہ ختنہ میں جو چمڑا کاٹنے کے لائق ہے وہ کاٹ دیا جاوے اور کوئی بات اس موقع پر ثابت نہیں جس کا میں حکم دوں.فرمایا.ختنہ کی رسوم کا ایک نتیجہ میں نے خود دیکھا ہے کہ ایک وقت مالیر کوٹلہ میں ایک قوم نے اخراجات رسوم کے میسّر نہ ہونے کی وجہ سے ختنہ کرنا ترک کر دیا تھا.پہلے ایک شخص نے اخراجات کے نہ ہونے کی وجہ سے ختنہ نہ کرایا اور پھر آہستہ آہستہ قوم کے اور لوگوں نے بھی اسی کی تقلید کی.آخر ان کے ایک مجتہد کو ان سب کا ختنہ کرنا پڑا.درمیان میں ایک اور دوست نے ذکر کیا کہ ایک قوم کے بعض آدمیوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ہماری برادری کے ہمیشہ دو حصے رہتے ہیں اور ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ ساری برادری کا اتفاق نہ ہو جائے بلکہ اگر کوئی موقع شادی غمی کا آ جاوے تو کثیر اخراجات کے خوف سے عمدًا (اتفاق ہو تو) ایک حصہ برادری سے پھوٹ کر لینی پڑتی ہے.حضور نے فرمایا کہ ایک دفعہ میرے نہایت قریبی رشتہ کے گھر میں ایک موقع شادی کا تھا.انہوں نے ادائے رسوم کا خیال کیا تو میں نے کہہ دیا اگر ایسا کرو گے تو میں کبھی شریک نہ ہوں گا.انہوں نے جب نہ مانا تو میں نے اتنے روز ان کا کھانا بھی چھوڑ دیا اور گھر میں میری بیوی الگ کھانا پکاتی تھی.اس موقع پر میری مخالفت ہوئی مگر بعد میں میں نے دیکھا کہ وہ تمام برادریاں جن کی خاطر رسمیں ادا ہوئی تھیں سب کی سب ٹوٹ پھوٹ گئیں اور ان رسموں نے کچھ بھی نہ سنوارا.فرمایا.ایک بہت بڑا آدمی تھا اس کی لڑکی کے ناطہ کے لئے بیسیوں پیغام ہوئے وہ سب کی

Page 352

حقارت کر دیتا تھا کسی کو رشتہ نہ دیا.آخر دونوں بہن بھائی جب تنگ آ گئے تو انہوں نے عیسائی ہونے کی تجویز کی.لڑکی کے بپتسمہ کے موقع پر ایک نہایت ادنیٰ قوم کے چمار نے بھی بپتسمہ پایا.پادری نے اسی وقت گرجا میں دونوں کی دینی اخوت بنا کر نکاح کر دیا اور اس سے اس شخص کی ساری عزت برباد ہو گئی.دیکھو رسوم کی پابندی کے بہت برے نتائج ہیں.ہندو کنچنیاں ایک اور دوست نے ذکر کیا کہ فلاں شخص نے ایک موقع پر کہا ہے کہ فلاں فلاں قوم میں سے کنچنیاں بنی ہیں.فرمایا.کیا ہنود میںکنچنیاں نہیں اس کو خبر نہیں.ہندوؤں میں پانچ قسم کی کنچنیاں موجود ہیں.ایک قسم طلباء کے لئے، دوسری قسم علماء کے لئے، تیسری قسم فقراء سجادہ نشینوں کے لئے، چوتھی قسم عوام ہندوؤں کے لئے.پانچویں قسم تمام دنیا کے لئے.بنارس میں یہ پانچوں قسم کی کنچنیاں موجود ہیں اور ویسے ہمارے پنجاب میں اس مذہب کے لوگ ہندوؤں میں بکثرت ہیں.امرتسر، لاہور، گجرات، سیالکوٹ، بھیرہ، راولپنڈی میں ۳/۲ حصہ اس مذہب کے پیرو ہیں میرے پاس ان کی کتابیں موجود ہیں اور میں ان لوگوں کو جانتا ہوں.ایک مبشر رؤیا زوجۂ محترمہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن سیتاپور کا ایک خواب حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش ہوا جو انہیں کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے ایک بشارت پیدا ہوتی ہے کہ جو سٹرک قرب الٰہی کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تیار کر رہے تھے وہ اب بہت کچھ صاف ہو چلی ہے اور وقت آ گیا ہے کہ تمام درمیانی دقتیں رفع ہو کر مخلوقات کے واسطے ہدایت کا پانا آسان ہو جاوے.دیکھا کہ کسی دو منزلہ مکان کی درمیانی یا اوپر کی منزل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں حضور کا چہرہ نورانی، لباس عمدہ اور قبلہ رخ چل رہے ہیں.مجھے مخاطب کر کے فرمایا.’’آؤ تمہیں دکھلائیں کہ پہلے

Page 353

ہمارے گھر میں چیزیں کیسی راستہ میں بکھری پڑی ہوتی تھیں.اب پہلے سے کچھ راستہ صاف رہتا ہے.‘‘ آپ کے ایسا فرمانے پر چند چیزیں جو راہ میں پڑی تھیں ان کو میں نے اٹھا کر ایک طرف کر دیا.پھر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا.’’مولوی صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح سے مراد ہے) سے خدا بہت خوش ہے.پانچوں وقت ننگے پاؤں وضو کیا.پاؤں دھوئے، نمازیں پڑھیں اور دنیا میں آکر بہت محنت کی ہے.کبھی تکلف نہیں کیا جیسا جہاں کھانا مل گیا کھا کر بے تکلف بیٹھ کر پھر کام میں لگ گئے یا گھر سے باہر چلے گئے اس لئے خدا ان سے بہت خوش ہے.‘‘ پھر فرمایا.’’خدا تم سے (مراد حاضرین خلیفہ رشید الدین و ان کی زوجہ) بھی خوش ہے لیکن اتنا نہیں جتنا مولوی صاحب سے.کوشش کرو اور راستہ میں کوئی چیز ہو تو اس کو اٹھا کر راستہ صاف کر دو.‘‘ فقط حضرت خلیفۃ المسیحؑ نے فرمایا کہ یہ ایک بے نظیر خواب ہے.اس میں راستہ تو وہی صراط مستقیم ہے اس کو صاف کرنا چاہئے اپنی کمزوریوں اور غفلتوں کو دور کرنا چاہئے.فرمایا.اس خواب سے اہل تشیع کا بھی ردّ ہوتا ہے کیونکہ وہ پاؤں نہیں دھوتے اور اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ پاؤں دھونے سے خوش ہوتا ہے.عید میلاد بدعت ہے جماعت شملہ کا خط پیش ہوا کہ پیسہ اخبار میں یہ خبر پڑھ کر کہ عید میلاد کے دن لاہور میں احمدیہ جماعت کے ایک جلسہ میں خواجہ صاحب لیکچر دیں گے ہم نے بھی عید میلاد کا جلسہ منعقد کیا.اس کے متعلق حضور کا کیا حکم ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح ؑ نے فرمایا.عید میلاد بدعت ہے.عیدین دو ہی ہیں.اس طرح تو لوگ نئی نئی عیدیں بناتے جائیں گے اور احمدی کہیں گے کہ مرزا صاحب پر الہام اوّل کے دن ایک عید ہو اور یوم وصال پر عید ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سب سے بڑے محب تو صحابہ تھے انہوں نے کوئی تیسری عید نہیں

Page 354

بنائی بلکہ ان کا یہی مسلک رہا کہ بزہد و ورع کوش و صدق و صفا ولیکن میفزائے بر مصطفیٰ اگر عید میلاد جائز ہوتی تو حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے محب تھے وہ مناتے.ایسی عید نکالنا جہالت کی بات ہے اور نکالنے والے صرف عوام کو خوش کرنا چاہتے ہیں ورنہ ان میں کوئی دینی جوش نہیں.شیعہ سنی کا جھگڑا کیوں کر طے ہوا ہمارے محب مرزا کبیر الدین صاحب ریلوے گارڈ جو آج کل لکھنؤ میں رہتے ہیں بمعیت برادر مرزاحسام الدین صاحب حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور میں حاضر تھے.ان کے ساتھ لکھنؤ کے متعلق کچھ باتیں ہو رہی تھیں.فرمایا.جب میں لکھنؤ میں پڑھتا تھا تو میرے استاد حکیم صاحب کے پاس مرزا رجب علی بیگ صاحب فسانہ عجائب کے مصنف بھی آیا کرتے تھے.ایک دن میں نے مرزا صاحب کو کہا کہ آپ تو اب بوڑھے ہو گئے ہیں آیئے اپنا فسانہ عجائب ہی مجھے پڑھا دیجئے.اس کو انہوں نے منظور فرمایا.ہنوز دو ہی صفحے پڑھے تھے کہ اس میں ایک ایسی عبارت آئی جس سے میں تاڑ گیا کہ مرزا رجب علی بیگ صاحب شیعہ نہیں ہیں بلکہ سنی ہیں.میں نے انہیں کہا کہ ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ آپ تو سنی ہیں.حیران ہو کر پوچھنے لگے کہ کس طرح؟ میں نے کہا دیکھئے آپ نے اپنی کتاب میں جہاں سنی علماء کا ذکر کیا ہے ان کے لئے لفظ ’’اِدھر‘‘ کا استعمال کیا ہے اور جہاں شیعہ علماء کا ذکر کیا ہے ان کے لئے لفظ ’’اُدھر‘‘ کا استعمال کیا ہے.اس اِدھر اور اُدھر سے ظاہر ہو گیا ہے کہ آپ سنی ہیں شیعہ نہیں ہیں.حیران ہو کر کہنے لگے اچھا جانے دو اس بات کو.پھر ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ فرمایئے کہ آپ نے کس طرح سے فیصلہ کیا تو فرمایا.یہ ایک عجیب واقعہ ہے.میں لکھنؤ میں نواب سعادت علی خان صاحب کے ہاں ملازم تھا.ایک دفعہ کسی ضرورت کے سبب دہلی جانا ہوا تو نواب صاحب نے فرمایا کہ دہلی جاتے ہو.شاہ عبدالعزیز

Page 355

صاحب کو بھی دیکھتے آنا کیسے آدمی ہیں.میں جب دہلی گیا تو شاہ صاحب کی خدمت میں ایک دن حاضر ہوا مگر کچھ بات کرنے کی جرأت نہ ہوئی.دوسرے دن بھی حاضر ہوا مگر اسی طرح چپ چاپ بیٹھ کر چلا آیا میں ڈرتا تھا کہ ریختہ اردو بولنے میں غلطی کھاؤں گا اور شرمندہ ہوں گا.جب تیسرے دن گیا تو پھر شاہ صاحب نے خود ہی پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا کہ لکھنؤ سے.فرمایا.وہاں آپ کس جگہ رہتے ہیں.میں نے اس محلہ کا پتہ دیا جہاں پل کے پاس میں رہتا تھا تو فرمایا.ہاں آپ چاند پور سے آئے ہیں.میں نے عرض کی کہ نہیں میں چاند پور سے نہیں آیا لکھنؤ سے آیا ہوں.پھر فرمایا کس جگہ؟ میں نے پھر وہی پل والا پتہ دیا تو فرمایا.ہاں میں سمجھ گیا ہوں آپ چاند پور سے آئے ہیں.ایسا ہی میں نے تین دفعہ بتلایا اور تینوں دفعہ انہوں نے کہا کہ چاند پور.میں حیران ہی رہا کہ یہ عجیب آدمی ہیں میں لکھنؤ کہتا ہوں اور یہ چاند پور ہی کہتے چلے جاتے ہیں.اس کے بعد میں نے ان سے سوال کیا کہ یہ سنی شیعہ کا جو جھگڑا ہے اس کا فیصلہ کیوں کر ہے؟ فرمایا کہ تم قرآن شریف پڑھو اسی سے سب فیصلہ ہو جاتا ہے.میں نے عرض کی کہ میں عربی نہیں جانتا.فرمایا.ہمارے شاہ رفیع الدین صاحب نے قرآن شریف کا ترجمہ لفظی کر دیا ہے ہر لفظ کا ترجمہ اس کے نیچے لکھ دیا ہے اس کو پڑھو اور سمجھو سب فیصلہ معلوم ہو جائے گا.جب میں واپس لکھنؤ آیا تو نواب صاحب سے ذکر آیا.وہ نواب عالی دماغ تھے انہوں نے جھٹ تحقیقات شروع کی.آخر ثابت ہوا کہ جہاں میں رہتا تھا وہاں پہلے ایک گاؤں چاند پور نام تھا.نواب نے مجھے بہت ہی نادم کیا کہ تم لکھنؤ کی ناک کاٹ آئے تمہیں اپنے گھر کی بھی خبر نہیں اور شاہ صاحب پر اعتراض کرنے لگے.میں بہت شرمندہ ہوا.تب مجھے خیال آیا کہ ان کی ایک بات تو سچی نکلی، آؤ دوسری کو بھی آزمائیں.قرآن شریف لے کر پڑھنے لگا اسی سے مجھے سمجھ آ گیا کہ حق کس طرف ہے.چپ نہ ہونے والے ابن خزر جو مولوی ثناء اللہ صاحب کا کچھ ذکر تھا.فرمایا.بعض قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ ان کو کسی طرح چپ نہیں کرا سکتے.ایسوں کو کچھ سمجھانا بے سود

Page 356

ہے.وہ کچھ نہ کچھ باتیں بناتے ہی چلے جاتے ہیں.سب سے پہلے کس چیز کی ضرورت ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ نجات سب سے مقدم ہے.فرمایا.نجات تو فضل سے ہے اور فضل کا جاذب ایمان ہے.پس سب سے مقدم ایمان ہے.ایمان اچھے پھلوں کا بیج ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ سب سے اعلیٰ ایمان کس مذہب نے تعلیم کیا ہے.بہت سی باتیں ہیں مثال کے طور پر ایک عبادت گاہ کو بلاوا ہی لے لو.عیسائی گھنٹہ بجاتے ہیں اور ہندو سنکھ، پر مسلمان کہتا ہے اَللّٰہُ اَکْبَر.جس نے اللہ کو اکبر مان لیا وہ بدی کے نزدیک کب جائے گا.ایمان کے لئے سب سے اعلیٰ تعلیم ہر امر میں اسلام ہی کی ثابت ہوتی ہے.(البدر جلد ۱۰ نمبر۲۲،۲۳ مؤرخہ ۶؍ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ۸،۹) مخالفین سے نیکی کرو مکفّر اور مکذّب مولویوں کے ہاتھوں سے تنگ آ کر ہمارے ایک دوست نے جو خود بھی مولوی ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں خط لکھا ہے کہ یہ مکذبین بھی تو کافر ہیں کیوں نہ ایسا کیا جاوے کہ ہماری جماعت کے مولوی صاحبان ان کے حق میں ایک کفر کا فتویٰ مسجل بمواہیر تیار کر کے شائع فرما دیں.حضرت نے فرمایا.ان کو لکھ دو کہ آپ ان مخالفین کے ساتھ بھی نیک سلوک کرتے رہیں اور ان کے حق میں دعا کرتے رہیں اور ان کے ساتھ حتی الوسع نیکی کرتے رہیں وہ برا کہیں تو آپ خاموش رہیں اللہ تعالیٰ آپ کو فتح مند کرے گا.نکتہ معرفت ایک شخص کا خط حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں مقروض ہو گیا ہوں آپ کے بڑے بڑے مرید ہیں مجھے بہت سارا روپیہ ان سے دلا دیویں.فرمایا.

Page 357

اس کو لکھو کہ میرا تو بڑا پیر بھی اللہ ہے اور بڑا مرید بھی اللہ ہے.وہ پیر ہے کیونکہ وہ میرا ہادی ہے.وہ مرید ہے کیوں کہ جو وہ ارادہ کرتا ہے وہ ہو جاتا ہے.مرید خدا تعالیٰ کا ایک نام ہے.وہی سب میرے کام کرتا ہے میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سے سوال نہیں کیانہ اپنے مریدوں سے کرتا ہوں.آپ کو جس طرح کا اضطراب ہے اگر اس میں دعا کی توفیق مل جائے تو انشاء اللہ بیڑا پار ہو جاوے گا.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۲۴ مؤرخہ ۱۳؍ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ۱) عبرت فرمایا.عبرت کا مقام ہے ننگل ۱؎ مدت سے مصیبت میں گرفتار ہے.پہلے ہیضہ تھا پھر اب طاعون کا زور ہے.دوسروں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے.خدا رازق ایک ہندو کا خط پیش ہوا کہ میں نے اپنے مقصد کے پورا ہونے پر کچھ نذر مانی ہوئی تھی جو ارسال خدمت ہے.فرمایا.اللہ تعالیٰ مجھے عجیب طریقوں سے رزق عطا کرتا ہے.اس کی پرورش کی راہیں الگ ہیں دنیا کے لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے.(الطلاق:۴) کا یہ ایک نمونہ ہے جہاں سے خیال اور وہم بھی نہ ہو وہاں سے رزق آ جاوے.آپ مرزا صاحب کو کیا کہتے ہیں؟ ایک دوست کا خط حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ بعض غیر احمدی یہ لکھ دینے کو تیار ہیں کہ ہم مرزا صاحب کو مسلمان مانتے ہیں.فرمایا.پھر وہ مرزا صاحب کے دعوے اور الہام کے متعلق کیا کہیں گے.مدعی وحی و الہام کے معاملہ میں دو ہی گروہ ہو سکتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  (العنکبوت:۶۹) اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو خدا تعالیٰ پر افترا کرے اسے خدا کی طرف سے الہام نہ ہوا ہو اور کہے کہ ۱؎ ننگل ایک چھوٹا سا گاؤں قادیان کے قریب ہے.ایڈیٹر

Page 358

مجھے ہوا ہے.ایسا ہی اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اس حق کی تکذیب کرے یا تو مرزا صاحب اپنے دعوی میں سچے تھے ان کو ماننا چاہئے یا جھوٹے تھے ان کا انکار کرنا چاہئے.اگر مرزا صاحب مسلمان تھے تو انہوں نے سچ بولا اور وہ فی الواقع مامور تھے اور اگر ان کا دعویٰ جھوٹا ہے تو پھر مسلمانی کیسی؟ مخالفین کو سلام ۶؍ اپریل ۱۹۱۱ء کو حضرت خلیفۃ المسیح ؓ بعض خطوط کا جواب لکھوا رہے تھے ڈاک میں ایک مخالف کا خط بھی تھا آپ نے محرر ڈاک کو فرمایا کہ اس کا سرنامہ لکھو جناب من! دوبارہ فرمایا صرف جناب رہنے دو اور سلام نہ لکھو کیوں کہ یہ لوگ خدا کے فضل سے دور ہیں اور ہم سے ایک طرف ہیں.اور اس موقع پر اپنے ایک استاد کا واقعہ سنایا کہ انہوں نے ایک مرتبہ ایک شخص کو جو اسلام سے منکر تھا سرنامہ لکھا مرکز محیط علماء و محیط مرکز فضلاء.اور فرمایا کہ یہ سرنامہ اس لئے منتخب کیا کہ ہمارا اور ان کا اختلاف اسی قسم کا ہے.پھر حضور نے فرمایا کہ ہمارے پاس ایک ہندو نے اپنے لڑکے کے واسطے دعا کو کہا.ہم نے اس کے سامنے جب دعا کی کہ اللہ تعالیٰ دونوں جہان میں اس کا بھلا کرے.تب اس نے کہا کہ آپ ایسی دعا نہ کریں کیونکہ آپ جو دونوں جہان کی بھلائی چاہتے ہیں اس کے تو یہ معنے ہیں کہ وہ مسلمان ہو جائے.ایسا اعتراض ناجائز ایک دوست نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں عرض کیا کہ اگلے روز حضور نے فرمایا تھا مرزا صاحب کا انکار ہمارے اور مخالفوں کے درمیان بغاوت کا مقدمہ ہے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی.نیز جن کا انکار جان بوجھ کر نہیں ان کو کس طرح ملزم کہا جاوے؟ فرمایا.گورنمنٹ کے قانون کا نہ جاننا کوئی عذر نہیں ہے.اس دوست نے عرض کیا گورنمنٹ کو چونکہ دلوں کا پورا علم نہیں ہوتا اس لئے وہ سزا دینے میں معذور ہے اور اللہ تعالیٰ تو ہے.فرمایا.

Page 359

اگر یہی بات ہے تو پھر تلوار مظلوم کو کیوں کاٹتی ہے.مومن متشدد ہوتا ہے ایک شخص نے ذکر کیا کہ حضرت اقدس نے غیر احمدیوں کے حق میں بعض مقامات پر ایسی تحریریں لکھی ہیں جن کو ان کی نسبت بولنے سے دل ڈرتا ہے.مثلاً ایک مقام پر فرمایا ہے تمام سعید لوگ خدا کی اس آواز کو سن کر قبول کریں گے سوائے ان کے جو دوزخ کے بھرنے کے واسطے ہیں.فرمایا.ہمارے مخالف ان عیسائیوں کو جو بلاد یورپ و امریکہ میں رہتے ہیں کیا سمجھتے ہیں.دہریہ کہتے ہیں اگر خدا میں رحم ہوتا تو چھوٹے بچے نہ مرتے اور نہ اس قدر ان کو مصیبتیں ہوتیں جن میں چھوٹی عمر میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پس اس قسم کے ترس کے لفظوں کا نتیجہ دہریت ہے یا مرزا کا انکار کر دیا جاوے.تناسخ کا مسئلہ بھی ایسے ہی خیالات سے پیدا ہوا ہے.فیثا غورث کو انہی مشکلات نے تناسخ کا قائل کر دیا تھا.ہمیں ان فتووں کی پرواہ نہیں ذکر تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے لکھا ہے کہ اگر احمدی مرزا صاحب کو نبی کہنا چھوڑ دیں تو ہم کفر کا فتویٰ واپس لے لیں گے.فرمایا.ہمیں ان کے فتوؤں کی کیا پرواہ ہے اور وہ حقیقت ہی کیا رکھتے ہیں.جب سے مولوی محمد حسین نے فتویٰ دیا وہ دیکھے کہ اس کے بعد آج تک اس کی عزت کہاں تک پہنچ گئی ہے اور مرزا صاحب کی عزت نے کس قدر ترقی کی ہے.مرزا صاحب کی تعلیم عالم ارواح میں برادرم منشی محبوب عالم صاحب احمدی گوجرانوالہ کا ایک خط حضرت میاں خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش ہوا جس میں برادر موصوف نے اپنا ایک خواب لکھا ہے.دیکھا کہ ’’دار الامان میں حضور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مرحوم و مغفور تقریر فرما کر اور تھک کر ایک چارپائی پر تشریف فرما ہیں.چارپائی پر حضور کے راست

Page 360

جانب نیاز محمد حضور کے پاؤں دبانے لگ گیا.فرمایا.جَزَاکَ اللّٰہُ.دوسرے جانب اخویم منشی احمد الدین صاحب بیٹھے ہوئے پاؤں دباتے ہیں.میں نے طاعون زدہ لاشوں کا نظارہ جو پہلے دیکھا تھا عرض کیا.فرمایا.اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ.اس خواب کی تعمیل میں حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ استغفار بہت کرنا چاہئے.یہ طاعون کا علاج ہے خدا تعالیٰ سے اپنے گناہ بخشوانے چاہئیں اور صدقہ دینا چاہئے.فرمایا کہ ہمارا مرزا تو عالم ارواح میں بھی استغفار سکھاتا ہے.وہ جاہل لوگ ہیں جو ہمیں بے ایمان کہتے ہیں انہیں چاہئے کہ اپنی ایمان کی فکر کریں.(البدر جلد ۱۰ نمبر ۲۴ مؤرخہ ۱۳؍ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ۲) ایک شخص کے چند سوالات اور ان کے جوابات سوالات (۱) مردہ کو غسل دینا فرض ہے یا مستحب یا سنت ہے؟ (۲) کس حالت میں مردہ کو غسل دینا چاہئے؟ (۳) کیا تمام ناگہانی اموات شہادت کا درجہ رکھتی ہیں یا کہ شہادت ہی ہونے میں؟ (۴) کون سی اموات شہادت کا درجہ رکھتی ہیں اور ان سب میں مردہ کو غسل دینا چاہئے یا نہیں؟ (۵) نماز جنازہ میں سجدہ کیوں نہیں کرتے ہیں؟ (۶) جنازہ کے وقت میت کو آگے کیوں رکھتے ہیں؟ (۷) بغیر غسل کے جنازہ ہے یا نہیں؟ (۸) جنازہ روح کا پڑھا جاتا ہے یا کہ خالی جسم کا؟ جوابات (۱) غسل میت مسنون ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں غسل دیا جاتا تھا.اور اس کو فرض واجب مستحب نہیں فرمایا.

Page 361

(۲) شہداء کو غسل نہیں دیا جاتا تھا.(۳) تصریح سے غرق شدہ اور جو دیوار کے نیچے دب کر مرے یا اسہال سے مرنے والے، اور درد زہ سے مرنے والی اور جو خود حفاظتی اور مال کی حفاظت کے باعث مرے اس کو شہید فرمایا.تمام ناگہانی اموات کا حکم میں نے نہیں پڑھا.یا مجھے یاد نہیں.(۴) کا جواب نمبر ۳ میں آ گیا.(۵) شرع نے جنازہ میں سجدہ کا حکم نہیں دیا.(۶) یہی جواب نمبر ۵ مسلمان مومن کو بس ہے.(۷) بغیر غسل جنازہ جائز ہے.کیونکہ غسل فرض اور شرط جنازہ نہیں.جنازہ اس انسان کا ہوتا ہے جو مرا ہے.(۸) روح اور جسم خاکی کا ذکر شریعت میں نہیں آیا.والسلام (نور الدین) یار کو کیونکر منائیں ایک صاحب کی درخواست بدیں الفاظ پیش ہوئی مینوں رٹھڑا یار مناد یہو! فرمایا.لکھ دو کہ قرآن شریف پڑھو اور اس پر عمل کرو تو رٹھڑا یار منی جائے گا.یہی تدبیر حق ہے.فرمایا ہے یہ جناب حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کی سہ حرفی کا ایک شعر ہے.کوئی تدبیر تھیوے آہ جے رٹھڑا یار منیوے آہ (البدر جلد ۱۰ نمبر ۲۵ مؤرخہ ۲۰؍ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ۶)

Page 362

ایوان خلافت ایام علالت میں آپ تبلیغ حق کے لئے بہت حریص رہے اور تمام ایسے اوقات میں جبکہ آپ کی حالت نازک سمجھی جاتی رہی آپ نے بارہا فرمایا کہ مجھے اپنے مولیٰ پر بڑی امیدیں ہیں.خضر کی تحقیقات ۶؍اپریل ۱۹۱۱ء کو جس دن کہ میں قادیان سے باہر جاتا ہوں بٹالہ کے ایک منصف صاحب اور ایک مختار عدالت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.مختار صاحب نے آپ سے دریافت کیا کہ خضر کیا ہے؟ فرمایا.جب کوئی قوم حق سے دور جا پڑتی ہے اور اس طرح پر وہ گرجاتی ہے تو اس کے عقائد میں فرق آتا ہے.پھر اس کا اثر اعمال پر پڑتا ہے اور رفتہ رفتہ حوصلے پست اور ہمتیں کمزور ہوجاتی ہیں وہ روحانی ترقیوں سے ہی نہیں رکتی بلکہ دنیوی رنگ میں بھی پستی کی طرف چلی جاتی ہے.چونکہ میں اس بات پر سچے دل سے یقین رکھتا ہوں اور یہ میرا ہی نہیں تمام راستبازوں کا تجربہ ہے کہ تمام ترقیوں کی جڑ سچے عقائد اور اعمال صالحہ ہیں.اس حالت تنزل میں اس کی علمی اور عملی کمزوریاں عجیب عجیب ایجادیں کرتی ہیں.آج کل مسلمانوں کی حالت بہت گر گئی ہے.اس لئے کہ ان میں خدا تعالیٰ کی کتاب کی عظمت اور اس پر عمل کرنے کا جوش نہیں رہا.اور وہ خدا کی کتاب کو ترک کر کے خود ہر طرف سے گررہی ہے.اس واسطے اس پستی کے دور میں ایسی تحقیقات کی طرف متوجہ ہو چلی ہے جو اس کے اعمال پر مؤثر نہیں.مثلاً کہتے ہیں کہ آدم کو پیدا ہوئے کتنا عرصہ گزرا.اس کے ہاں دن کے پہلے حصہ میں لڑکی اور دوسرے میں لڑکا پیدا ہوتاتھا تو ان کے نکاح کیونکر ہوتے تھے.لیکن اگر غور کیا جاوے اور آپ بھی فکر کریں کہ کیا ان تحقیقاتوں سے کوئی روحانی ترقی یا اصلاح نفس وابستہ ہے یایہ کوئی علمی ترقی کا ذریعہ ہے.عملی رنگ میں اگر دیکھیں تو شریعت ہی اور ہورہی ہے ایسے وظائف اور اوراد لوگوں نے تجویز کرلئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کتاب ہی چھوٹ گئی ہے.اس قسم کی بحثوں اور تحقیقاتوں میں سے خضر کی بحث ہے.

Page 363

میں آپ کو اس کے متعلق اپنی تحقیقات ابھی بتاؤں گا جس پر خدا کے فضل سے میں ایمان رکھتا ہوں.مگر میرا کام چونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اس لئے میںنے اس درد دل کا اظہار آپ سے کیا ہے جو مسلمانوں کی حالت کو دیکھ کر دل میں پیدا ہوتا ہے اور آپ کو اس واسطے سنادیا ہے کہ شاید کسی کو نفع پہنچے.تین بزرگوں کا زندہ سمجھاجانا اور دیگر لغو بحثیں صرف خضر ہی کی بحث نہیں بلکہ ہمارے ہاں تو تین بزرگ ایسے ہیں.ایک خضردریاؤں کے اور الیاس جنگلوں کے اور جھنڈا پاتنی مشہور ہے.اور ان تینوں کو زندہ سمجھا جاتا ہے.جن بحثوں کا میں نے ابھی ذکرکیا ہے اسی سلسلہ میں اصحاب کہف کے کتے کی بھی ایک بحث ہے کہ وہ نر تھایا مادہ اس کا رنگ کیا تھا.اور ایسا ہی بنی اسرائیل کی گائے کی بحث ہے.غرض اس قسم کی بحثیں قوم کی پست ہمتی اور حقائق سے دوری کا ثبوت ہیں.قوم کے ادبار کے وقت ایسی ہی حالت ہوتی ہے ہر کام میں سست بات کریں گے.دولت ہوگی تو شراب خواری اور عیاشی کریں گے.حکومت ملے گی تو ظلم اور سختی کے علاوہ رشوت لیں گے اور اتلاف حقوق کریں گے.یہ امراض ہیں جو قوم میں اس وقت بھی پیدا ہورہی ہیں.اب میں آپ کے سوال کا جواب دیتا ہوں.لفظ خضر اور قرآن و احادیث خضر لفظ قرآن مجید میں نہیں ہے اور نہ یہ نام آیا ہے.نہ احادیث صحیحہ میں ذکر ہے.ہاں بطورکہانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر کے ساتھ خضر کا نام لے لیتے ہیں.اب خضر کی وسعت دیکھوکہ فضل شاہ ہیر والا بھی کہتا ہے کہ خضر نے میرے منہ میں اپنا لب ڈالا ہے.نور احمد کاتب کے خط کا نام خضری خط ہے.خضر کیا چیز ہے؟ اولیاء کرام کی کتابوں میں خضر کی ملاقات کا ذکر آیا ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ خضر کیا چیزہے؟ بعض کہتے ہیں کہ ایک نبی کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ایک ولی کا نام ہے.صوفی کہتے ہیں کہ جس کے ذریعہ ہدایت ملی وہ خضر ہے.چنانچہ ایک شعر آپ نے بھی سنا ہوگا کہ

Page 364

تہیدستان قسمت را چہ سود از رہبر کامل کہ خضر از آب حیوان تشنہ مے آرد سکندر را یہاں ہر ہادی کا نام خضر رکھا ہے.تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ کہا گیا ہے کہ خضر فرشتہ کا نام ہے جیسے جبرائیل آنحضرت ﷺ کے پاس آیا خضر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا.کتب سابقہ میں معراج نامہ موسیٰ ایک کتاب ہے اس میں فرشتہ کا نام حضر لکھا ہے اور میری تحقیقات میں حضر ہی صحیح ہے اور اسی کو خضر بنالیا.بعض علاقوں میں ح کو خ سے تلفظ کرلیتے ہیں.جیسے راولپنڈی کے ضلع میں حضر کے معنے جبرائیل کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور رہے.وہ ایک فرشتہ ہے خواہ وہ متمثل ہو کر نظر آوے یا کسی آدمی کے ذریعہ تحریک کردے.میری تحقیقات میں ایسی تحریک فرشتہ ہی کا کام ہے.چونکہ ہر ہادی اور رہبر اس کی تحریک سے کام کرتا ہے اس لئے وہ خضر کہلاتا ہے اور وہ تین طرح ملتا ہے یا تو متمثل ہوجاتا ہے آنحضرت ﷺ نے دحیہ کلبی کی شکل میں دیکھا.بعض کہتے ہیں کہ کوئی بزرگ جو ہدایت کا موجب ہوا تو اس نے کہہ دیا کہ خضر ہوں.میرا ایک دوست تھا وہ کسی زمانہ میں فسق میں مبتلا تھا.ایک مرتبہ ضلع ہوشیار پور میں کسی ندی کے کنارے جارہا تھا کہ ایک شخص ملا.اور اس نے یہ آیت پڑھیالاٰیۃ(الحدید : ۱۷) ایسی چوٹ دل پر لگی کہ فوراً توبہ کرلی.اس کا یقین تھا کہ وہ خضر ہے.غرض میرا یقین ہے کہ وہ فرشتہ ہے یا اس کا متمثل اور رہبرکامل.ریاکا علاج اور ملامتی فرقہ کی حقیقت ۲۸؍ اپریل ۱۹۱۱ء کو حضرت کی خدمت میں میرے ایک مخلص اور مکرم بھائی نے ایک عریضہ پیش کیا جس میں انہوں نے ایک روحانی مرض کا علاج چاہاتھا.حضرت نے اس کے متعلق ایک مختصر سی تقریرفرمائی.آپ کی طبیعت میں بے حد جوش تھا.حضرت اس میرے مخلص بھائی سے خصوصاً محبت کرتے ہیں اور اس کی قدر آپ کے دل میں ہے بوجہ اس اخلاص کے جو اس کو حضرت سے ہے.حضرت کے سر میں ضعف تھا مگر

Page 365

کچھ ایسا جوش تھا کہ بہت کچھ اس مضمون پر کہنا چاہتے تھے اور اس جوش کو روک نہ سکتے تھے.اس لئے نہایت محبت سے فرمایا کہ آپ اب تشریف لے جائیں آپ کو دیکھ کر بہت تحریک بولنے کی ہوتی ہے اور وہ میرے لئے اس وقت مضر ہے.یہ آپ کے جوش اصلاح کا ایک نمونہ تھا جو دیکھنے والے ہی دیکھ سکتے تھے.میرے مخدوم بھائی نے فائدہ عام کے لئے اجازت دی ہے کہ میں ان کے سوال اور آپ کے جواب کو شائع کردوں.خدا کرے اپنی اصلاح کے لئے ایسا جوش ہمارے اندر بھی پیدا ہو اور ہم اپنی کمزوریاں حضرت امام کے حضور عرض کرنے میں کبھی شرم نہ کریں.میں تو اسے اعلیٰ درجہ کی خوبی سمجھتا ہوں.(ایڈیٹر) نامۂ مریض تو دستگیر شو اے خضر پے خجستہ کہ من پیادہ می روم و ہمرہان سوارانند السلام علیک یا امیر المومنین ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ وطیب صلا تہ وتائیداتہ وعونہ و صونہ.رات دن صبح شام ہر وقت کی جلوت ہے کوئی موقعہ خلوت کا مجھ کو میسّر نہیں ہے.اونچی جماعتوں کے سمجھدار بچوں میں رہتا ہوں جن کے لئے میرا نیک نمونہ اور میری عملی زندگی ہی زیادہ مفید اور اثر انداز ہوسکتی ہے.اب کئی روز سے میں اپنی ایک کمزوری سے مطلع ہو کر سخت خلجان میں گرفتار ہوں.وہ کمزوری یہ ہے کہ میرے اعمال نیک کی کسی کو اطلاع ہوتی ہے تو اس سے میرے دل میں سرور پیدا ہوتا ہے.یعنی میرا قلب در اصل ریا کے پلید مرض سے ماؤف ہے.اپنے اس مرض کی اطلاع پا کر مجھ کو سخت کرب اور تکلیف ہے.کبھی جی چاہتا ہے کہ ملامتیہ فرقہ کے اعمال بجالاؤں لیکن اس میں دوسروں کے ابتلا کا اندیشہ ہے.احیاء العلوم میں بھی ریا کاباب مطالعہ کیا.لیکن میں تو اس قدر کمزور ہوں کہ اس کے علاج پر بھی کاربند نہیں ہوسکتا.میری روح تحلیل ہوئی جاتی ہے.حضور کوئی علاج بھی بتائیں اور دعا بھی بہت فرمائیں.حضور سے یہ عرض کرنا بھی درحقیقت ریا سے خالی نہیں لیکن امید ہے کہ اس طرح میرے درد کی دوا ہوجائے

Page 366

گی.انشاء اللہ تعالیٰ ؎ مرا شیشہ بر دوش و باران سنگ نہ یارائے رفتن نہ جائے درنگ حضرت کا جواب فرمایا.بعض غلطیاں مسلمانوں میں ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے دور ہوسکتی ہیں.نادان فلاسفروں نے معیار صداقت پر کتابیں لکھی ہیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے.اگر وہ کوئی ایسا معیار صداقت قائم کردیتے یا قائم ہوجاتا تو پھر اختلاف اٹھ جاتا.دو بھائی ہوتے ہیں ایک ریاضی سے دلچسپی رکھتا ہے دوسرا لٹریچر سے.میں نے ایک مرتبہ مولوی محمد علی سے کہا کہ فلسفہ کا ایک مسئلہ بتاؤ.اس نے کہا کہ مجھے دلچسپی نہیں.حالانکہ وہ ایم.اے ہیں.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے معاملہ میں ایک شخص خود ایک پتھر کو تراشتا ہے اور باوجود اس کا خالق ہونے کے اس کے آگے سجدہ کرتا ہے دوسرا درخت کے سامنے سجدہ کرتا ہے اور تیسرا قبر کو معبود بنا لیتا ہے.میں نے ایک رئیس کو دیکھا کہ اپنے ہاتھ سے مٹی کا عضو تناسل بنا کر آپ ہی اس کی پوجا کرتا تھا.کیا یہ عقل وفکر کی بات ہوسکتی ہے.غرض معیار صداقت قائم نہیں ہوسکتا وہ معیار صرف خدا کا فضل ہے اس پر ہی کام چلتا ہے.ملامتی فرقہ کے اعمال اختیار کرنے سے اصلاح کا خیال غلطی ہے.یہ فرقہ کم عقلی سے پیدا ہوا اور شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہے.سب سے زیادہ ملامتی انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں ان سے بڑھ کر ملامت کیا کسی کو ہوئی؟ کبھی نہیں.نہ کسی امیر کو نہ فقیر کو.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ ملامت ہوئی کہ ملک چھوڑنا پڑا.حضرت لوط اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کو بھی ملک چھوڑنا پڑا اور اسی طرح پر آنحضرت ﷺ اور آپ کے اتباع کو کس قدر ملامت ہوئی.اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت صاحب کو جس قدر گالیاں دی گئی ہیں کیا کسی ننگے فقیر کو بھی دی گئی ہیں.ایسے فقیر جو ملامتی بنتے ہیں انہیں تو مجذوب کہہ دیتے ہیں اور

Page 367

ر وہ پھر اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ شراب پیتے ہیں اور زنا کرتے ہیں.اور لوگ کہہ دیتے ہیں کہ خلقت اندھی ہے.اصل فرقہ مُلامتی انبیاء علیہم السلام اور ان کے اتباع کا ہے جس قدر انسان نیک ہوگا اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرے گا اسی قدر ملامت بڑھ جائے گی اور خلقت دشمن ہوجائے گی.اپنی تبلیغ میں جب تم کھول کر سلسلہ کا ذکر کرو گے یاعیسیٰ کی خدائی اور بتوں کو خدا بنانے اور گورونانک کو اوتار قرار دیئے جانے کی مخالفت کرو گے خوانخواہ ملامت ہوگی اور لوگ دشمنی کریں گے.حق گو سے بڑھ کر ملامتی کون ہوسکتا ہے.اس لئے انبیاء علیہم السلام کی مخالفت ہوئی اور ان کے خلاف خطرناک منصوبے ہوئے اور انہیں ایذائیں دی گئیں یہاںتک کہ ترک وطن کرنا پڑا.یہ ملامت ہی کا نتیجہ تھا اور یہ ملامت خلاف شریعت افعال سے پیدا نہیں ہوئی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے سے اندھی دنیا نے ان کی مخالفت کی.مجھے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے محبت ہے.ایک مرتبہ میں سیالکوٹ حضرت صاحب کے ساتھ گیا.لوگوں نے کہا کہ کچھ سناؤ.میں نے ( الحشر : ۱۹) پر وعظ کہا.شام ہوگئی لوگ چلے گئے.ایک آدمی نے ایک شخص سے پوچھا کہ آج نورالدین نے کیا وعظ کیا.اس نے کہا کہ پر تقریر کی ہے.وہ بولا کہ نورالدین منافق ہے اس نے مرزا صاحب کا ذکر نہیں کیا.لوگوں نے یہ بات مجھے پہنچائی.میں نے کہا کہ میں تو ملامتی ہوں.اس نے ایسا کہا تو کیا ہوا ؟ممکن ہے اس کے دوستوں نے ملامت کی ہوگی.وہاں تو سب احمدی تھے پھر اگر میں نے مرزا صاحب کا ذکر نہیں کیا تھا تو کس کے خوف سے.مگر نہیں انبیاء علیہم السلام کے سچے اتباع ملامتی ہوتے ہیں.ان کی غرض لوگوں کو خوش کرنا اور اپنی تعریف سننا نہیں ہوتی.میںنے انہیں یہ بھی کہا کہ اسے یہ آیت سنادو.…  الاٰیۃ(الزمر : ۴۶).کیا مطلب کہ اگر جناب الٰہی کا ذکرکیا جاوے تو بعض بے ایمان دل برا مناتے ہیں.کشمیر میں اگر واعظ شیخ ہمدانی اور سید عبدالقادر جیلانی ـؒ کا ذکر نہ کریں تو لوگ دشمن ہوجاتے

Page 368

ہیں.وہاں خطبہ میں بھی یہ ذکر لازمی ہے.چشتی ہوں تو خواجہ معین الدین چشتی کا اور نقشبندیوں میں خواجہ نقشبند کا اور قادریوں میں عبدالقادر اور شیعہ میں امام حسین ؓ کا ذکر ہوتو یہ لوگ خوش ہوتے.مگر یہ خوشی تو اللہ کے سوا مخلوق کے ذکر سے ہوئی ایسے کو کہیں گے کہ یہ بڑا مومن ہے.ان کی عظمت اس کے دل میں ہے.مگر مومن حقیقی امر بالمعروف کرناچاہتا ہے اس کے دل میں محض خدا تعالیٰ کی عظمت ہوتی ہے.غرض ملامتی اس کو نہیںکہتے جو ننگ دھڑنگ پھرے.نبیوں کی اتباع کئے جاؤ اسی کی ضرورت ہے اور نبی کی اتباع ہی کا حکم ہے.رہی ریا اس کے متعلق میں تمہیں دو فقیروں کا واقعہ سناتا ہوں جن کو میری آنکھوں نے دیکھاہے.ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو بھی ریا آتی ہے.انہوں نے جواب دیا کہ کیا ان جانوروں، بیلوں اور گھوڑوں کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے تمہیں ریا آتی ہے.اس نے کہا نہیں.اس پر انہوں نے کہا کہ ہماری نماز کے وقت لوگوں کی حقیقت بیلوں سے زیادہ نہیں تو ہمیں ریا کیوں آئے؟ ایک سرکاری حکم ہے مثلاً یہ کہ نماز پڑھو.پس تمہارا کام یہ ہے کہ اس کی تعمیل کرو نفس کہتا ہے لوگ دیکھتے ہیں.بہت اچھا دیکھیں ہمیں اس سے کیا ہم نے صرف تعمیل ارشاد ربانی کرنی ہے.شیخ غزالی صاحب بڑا تشدد کرتے ہیں ان کی کتابوں کو دیکھا جاوے تو وہ بہت ڈراتے ہیں.شیخ محی الدین ابن عربی ایسی امید دلاتے ہیں کہ بہشت میں ہی چلے جانا ہے.قرآن مجید کو آپ پڑھیں اور اس پر عمل کریں اور تدبر کریں.اوّل وقت نماز پڑھنی چاہیے اور کبھی اس کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے کہ کوئی دیکھتا ہے یا کیا کہتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ سب سے بڑھ کر ملامتی انبیاء ہوتے ہیں آنحضرت ﷺ کو کیا کچھ کہا گیا کاہن، شاعر، مجنون، ساحر ، (المومنون : ۲۵)پھر اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا.حضرت صاحب کے حق میں لوگوں کے فتوے دیکھے اور سامنے ان کو کہتے سنا.پھر اپنے حق میں گالیاں سنیں اور فتوے دیکھے.مگر میں اس راہ کو مبارک سمجھتا ہوں کیونکہ یہ انبیاء کی اطاعت کی راہ ہے اور نبی کی اتباع میں سب سے بڑی ملامت ہے.برخلاف اس کے جو ملامتی آپ بنے ہیں.میں

Page 369

نے دیکھا ہے کہ وہ پوجے گئے ہیں.میرے سامنے جب کوئی شخص نذر رکھتا ہے تومیرا دل کانپ جاتا ہے کہ خدا جانے یہ مجھے کیا سمجھتا ہے.اس کو یہ خیال ہوگا کہ خدا کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں اور یہاں یہ حال ہے کہ چھ ماہ سے پڑے ہیں بوجہ بیماری.نذور کے مصرف نہیں دیکھ سکا.میر اخدا کھانے کے لئے تو عجیب طور پر بھجواتا ہے یاغستان سے دو روپیہ کچھ آنے جو نہایت اطیب تھے اس نے بھجوا دیئے.مجھے سکھوں اور چینیوں نے بھی دیا جن کو مجھ سے کچھ تعلق نہ تھا.ہمارے ایک بزرگ ہوئے ہیں ان کے ایک بھائی شیخ محمد تھے ان کی بی بی کا نام ام حبیبہ تھا.وہ اس قدر ذکر شغل میں بڑھیں کہ انہوں نے ذکر الٰہی کے لئے نوافل کو چھوڑدیا.پھر اور اور ترقی کی تو سنت غیر موکدہ کو چھوڑا.پھر جو او رلذت بڑھی تو سنن موکدہ میں فرق آنے لگا.خاوند کو فکر ہوئی کہ بیوی ترقی کررہی ہے.انہوں جو دریافت کیا تو کہا کہ ذکر الٰہی میں اس قدر ذوق شوق ہے کہ سنن اور نوافل نہیں پڑھتی.میاں نے کہا کہ آپ لاحول کا بھی ذکر کریں.وہ لاحول پڑھنے لگی.دیکھا کہ مصلے پر ہنومان آگیا ہے.تو بی بی صاحبہ نے اسے دھتکار دیا اور کہا کہ یہ کیوں؟ ہنومان نے کہا کہ یہاں تو ہمارا ہی دخل تھا یہ اب کیا کرتوت شروع کردی.تم تو ہمارے قابو میں آگئی تھیں.اتنے میں میا ں بھی آگئے اور انہوں نے پوچھا کیا حال ہے؟ تو کہا کہ اب تو نوافل اور سنن پڑھا کریں گے.غرض یہ خوب یاد رکھو.بزہد و ورع کوش و صدق و صفا و لیکن میفزائے بر مصطفی ہمیں کافی دین مل گیا ہے نفس ریا کرے کرنے دو.ہم فرمانبرداری کرتے ہیں اسے کہہ دو کہ تو خود سزا پائے گا.ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ ہر شیطانی وسوسہ کا علاج لاحول ہے.ہم نے شیطان کو دیکھاہے اور اس کے بھاگنے کا بھی تجربہ کیا ہے.نورالدین کے پہلے صفحہ پر اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ تین مرتبہ لکھا ہے اور لاحول تین مرتبہ.جب میں اللہ تعالیٰ ہی کے فضل سے نورالدین لکھتاتھا تو میںنے دیکھا کہ ہندؤوں کے گھر میں میری شادی ہوئی ہے.وہ ساس کہتی ہے کہ آخری پوجا ایک مندر میں کر آؤ تو پھر لڑکی کو لے جاؤ.وہ مجھے

Page 370

ایک مندر میں لے گئے.وہاں دو بڑے بڑے بت تھے.ان کے منہ جنوب کو ہیں میرا منہ شمال کی طرف ہے.مجھے ان کو سجدہ کرنے کو کہا.مگر مجھے یاد آگیا کہ اسلام اور بت کو سجدہ.میں نے بڑے زور سے استغفار شروع کیا.جب تیسری مرتبہ پڑھا تو وہ بت دھڑم سے گر گیا.پھر دوسرے کی طرف توجہ کی تو وہ استغفار سے نہیں گرا.میں نے سمجھا کہ یہ انسانی فعل ہے اس کے لئے زبردست ہتھیار چاہیے اور وہ لاحول ہے.تیسری مرتبہ جب لاحول پڑھا تووہ بھی گر گیا اور بائیں طرف سے شیطان آیا.اس کے ہاتھ میں لوہے کا بڑا چمٹاتھا.دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر میرے سر پر مارنا چاہا تو میں نے لاحول پڑھا اور وہ بھی بھاگ گیا.تو میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ شیطانی وساوس کے لئے لاحول زبردست ہتھیار ہے.محمد رسول اللہ ﷺکی اتباع بڑی بہادری ہے باقی سب نفس کے دھوکے ہیں.میں چاہوں تو اس مضمون پر کئی گھنٹے لیکچر دوں اور مشاہدات سنا ؤں.یہ سب کچھ اس کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے.زیادہ لاحول پڑھو.شریعت کی پابندی کرو.محمد رسول اللہ نے بڑی تلوار ماری ہے.میں بڑے نبیوں کے علم جانتا ہوں.بائبل تو نوک زبان ہورہی ہے.ویدوں کو بھی بڑے عالموں سے سنا ہے.اور ژندوستا، گاتھ ، دساتیر ہمارے گھر میں ہیںان کو پڑھا ہے اور خوب پڑھا ہے جو کچھ بھی ہے وہ آنحضرت ﷺ کی اتباع میں ہے باقی سب اوٹ پٹانگ ہے اسے حوالہ بخدا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی دستگیریاں کی ہیں میرے لئے تو آنحضرت ﷺ کی باتیں ہی دلربا ہیں.اور کسی کی عظمت ہی نبی کریم ﷺ کے مقابلہ میں سمجھ میں نہیں آتی.(الحکم جلد ۱۵نمبر ۱۳ و ۱۴ مورخہ ۲۸؍اپریل و ۷؍مئی ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ تا ۵) احباب کی خبر گیری (۳؍ مئی ۱۹۱۱ء) شیخ عبد الرحمن نو مسلم سابق کتھا سنگھ بیمار تھا.شیخ غلام احمد صاحب واعظ کو فرمایا کہ جاؤ اور عبد الرحمن کی خبر لاؤ.سنا گیا ہے کہ وہ بیمار ہو گیا ہے.۶؍ مئی ۱۹۱۱ء کی شام کو بعد نماز مغرب بندہ پھر حاضر ہوا ایک کو فرمایا کہ عبد الرحمن کاغانی کو کہو کہ غلام دین ایک شخص ہے اس کا لڑکا بیمار ہو گیا.مہربانی کر کے اس کو دیکھو اس کو تپ ہے.

Page 371

عورتوں کی مناسبِ حال وعظ کی ہدایت پھر حکم دیا کھانے کے واسطے کھانا حاضر کیا گیا.ادھر سے شیخ غلام احمد واعظ تشریف لائے.عورتوں کو وعظ کے واسطے انہوں نے وعظ کو شروع کیا.فرمایا کہ شیخ صاحب کو کہو کہ جھوٹ، چغلی، طمع اور ایک اور فرمایا جو میں بھول گیا کہ یہ عورتوں میں بہت ہے اس کے بارے میں کچھ کہو.آنحضرتؐ کی سادگی کھانے سے پہلے قاضی امیر حسین صاحب بھی تشریف رکھتے تھے.فرمایا کہ قاضی صاحب! آپ نے کبھی کسی حدیث میں نبی کریمؐ کی گرم پانی کے لئے فرمائش کرنا پڑھا ہے.قاضی صاحب نے فرمایا کہ نہیں.پھر فرمایا کہ میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ آپؐ (نے) کھانے کے لئے یا پہننے کے لئے یا نہانے کے لئے کہا ہو کہ یہ ہمارے لئے تیار کرو.آنحضرتؐ کا کدو پسند فرمانا پھر کدو کا ذکر ہوا بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ کو کدو سے محبت تھی آپؐنے گوشت نہیں کھایا.فرمایاکہ میرا خیال ہے کہ نبی کریمؐ کی دعوت کی گئی جس میں کچا گوشت تھا آپؐ نے وہ چھوڑ دیا.پھر شیخ اسمٰعیل صاحب نے پوچھا کہ حضرت ہماری طرف کہتے ہیں کہ اس کو کندھے سے اوپر اٹھا کر لایا کرو کیونکہ نبی کریم کو اس سے محبت ہے.تو آپؓ نے پھر اپنے پہلے جواب کو دہرایا.پھر کھانا کھا کے فرمایا کہ عشاء کو ضائع مت کرو.جاؤ مجھ پر بوجھ مت ڈالو.پھر نہ کہنا کہ تمہارے پاس بیٹھے ہوئے وقت چلا گیا تھا.کہا گیا کہ اذان نہیں ہوئی.کہا.پہلے جانا سنت ہے اس کو پورا کرو.

Page 372

ہمیشہ خوش رہتا ہوں بعض خدام نے مزاج کا حال دریافت کیا.فرمایا کہ میں اپنے آپ میں ہمیشہ خوش رہتا ہوں.بخار ہو، قے ہو، زخم ہو، درد ہو، کوئی حالت ہو میں اپنے خدا تعالیٰ کو ہر وقت اور ہر حالت میں اپنے اوپر فضل کی بارش کرنے والا پاتا ہوں.میرے دل میں بڑی خوشی اور بڑا سرور ہر حالت میں رہتا ہے.پہلے میںبیس روپے (بیس)ماہوار کا ملازم ہوا.پھر ڈیڑھ سو روپے ماہوار کا ملازم ہوا.بعد ایک سو ساٹھ کا اور اس کے بعد دو سو کا.پھر سات سو کا ملازم ہوا.ہر حالت میں یہی ایک سا لباس رہا ہے جو اب ہے ایسی ہی روٹی کھاتا ہوں جیسی اب.عبد الحی کے لیکچر پر اظہار مسرت اسی حالت میں اکبر شاہ خان صاحب نے موقع پا کر عرض کیا کہ حضور آج برادرم عبد الحی نے تقویٰ پر لیکچر دیا اور بہت اچھا لیکچر دیا.یہ سن کر یکلخت بشاشت کے آثار نمایاں ہوئے یا تو لیٹے ہوئے تھے فوراً بیٹھ گئے اور شکر کا سجدہ کیا اور سجدہ میں دیر تک دعائیں کرتے رہے اور کئی گھنٹے تک مختلف قسم کی باتیں کرتے رہے.خود ہی فرمایا کہ مجھ کو اس قدر ضعف ہے کہ میں بیٹھ نہیں سکتا.لیکن اکبر شاہ خان نے مجھ کو ایسی بات سنائی کہ میں خوشی کے سبب بیٹھا ہوں.اردو زبان کی خوبی اکبر شاہ خان صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اردو زبان میں یہ خوبی ہے کہ فارسی عربی الفاظ بکثرت اس زبان میں ہی استعمال ہوتے ہیں وہ یاد ہو جاتے ہیں اور ان کا صحیح تلفظ آ جاتا ہے.ورنہ ایک مولوی صاحب جو خوب عربی کتابیں پڑھے ہوئے ہیں عربی پڑھتے ہیں اور بہت ہی غلط الفاظ ان کی زبان سے نکلتے ہیں.اکبر شاہ خان صاحب سے فرمایا کہ تم عبد الحی کو اردو بولنا سکھاؤ اور اُس کے تلفظ کو ٹھیک کراؤ.اردو کا تلفظ صحیح تو بڑی نعمت ہے.

Page 373

اردو گرائمر پھر فرمایا کہ ہم اردو گرائمر کو بالکل بیہودہ کام سمجھتے ہیں.یہ جو بچوں کو اردو قواعد پڑھاتے ہیں سخت بیہودگی اور غلطی کرتے ہیں.اردو تو بولنے سے آتی ہے.اردو بولنے یا لکھنے میں کبھی بھی اردو گرائمر کی ضرورت نہیں پڑتی.اکبر شاہ خان صاحب کو فرمایا کہ تم ہی بتاؤ کہ تم نے اردو کی گرائمر سے بولنے میں مدد لی ہے؟ خان صاحب نے کہا کہ نہیں.پھر فرمایا کہ آپ عبد الحی کی اردو کا خیال رکھیں اور مولوی محمد علی صاحب اور ماسٹر صدر الدین صاحب انگریزی کا.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد ۱۵ نمبر ۱۵ مؤرخہ۱۴؍ مئی ۱۹۱۱ء صفحہ ۹) برات کے ساتھ مولود خوانی بزہد و ورع کوش و صدق و صفا ولیکن میفزائے بر مصطفیٰؐ صحابہؓ نے بھی شادیاں کیں اہل بیت کی بھی شادیاں ہوئیں ان کو رسول اللہ سے بڑی محبت تھی یہاں تک کہ جانیں بھی قربان کیں.لیکن وہ شادیوں کے ساتھ مدح و نعت نہیں پڑھتے تھے حالانکہ یہ ایک عمدہ بات تھی.پس میرے نزدیک یہ ایک لغو بدعت ہے.قرآن مجید کس کو پڑھایا جاوے اگر اس شخص میں ایمان بالغیب ہو یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو، قیامت کا قائل ہو، دعاؤں کا قائل ہو اور سخاوت کا مادہ رکھتا ہو.یعنی صدقہ و خیرات بقدر طاقت دیتا ہو تو اسے قرآن پڑھانا جائز ہے.مشرکوں کی اولاد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے پوچھا گیا کہ مشرکوں کے نابالغ بچوں کا قیامت کے دن کیا حال ہوگا؟ فرمایا.اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا عَامِلِیْنَ.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان

Page 374

میں انبیاء مبعوث ہوں گے اور پھر دیکھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کرتے ہیں.یہ مطلب نہیں کہ خدا کو معلوم ہے کہ وہ بڑی عمر پاکر کیسے اعمال کرتے کیوں کہ خدا تعالیٰ اپنے اس علم ازلی کی بناء پر سزا نہیں دیتا.(البدر جلد۱۰ نمبر۲۹ مؤرخہ ۱۸؍ مئی ۱۹۱۱ء صفحہ ۱) توکل علی اللہ آپ کے توکل علی اللہ کے بہت سے واقعات لکھے ہیں.مگر جس قدر بھی ملتے جاویں وہ ایما ن ہی بڑھانے والے ہیں.ایک دوست مالی ابتلا میں تھا اس کے متعلق میں نے آپ کو توجہ دلائی.فرمایا.میں تو روپیہ رکھتا ہی نہیں اور مجھے رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے.میرا مولیٰ میری ضرورتوں کا آپ کفیل ہے.مجھے ضرورت پیچھے پیدا ہوتی ہے پہلے وہ روپیہ بھیج دیتا ہے کسی اور کو کہنے کی مجھے ضرورت ہی نہیں.نہیں تو مولیٰ کریم ہی پُرچَک کردیتا ہوں اور کسی کو میں نہیں کہتا.ہاں دعا کرسکتا ہوں.آپ کی زندگی کے چند عجائبات میری عادت میں داخل ہے کہ میں جب کوئی موقعہ پاتا ہوں تو بعض باتیں ایسی پوچھ لیتا ہوں جو دوسروں کے نزدیک شاید خلاف ادب ہوں مگر میں اپنے مذاق پر پوچھ ہی لیتا ہوں.ایک دن مجھے موقعہ ملا اور میں نے چند سوال کیے.ایڈیٹر الحکم.’’کیا حضور نے کبھی حضرت صاحب سے کوئی دعا کرائی ہے یا دعا کے لیے کہا؟‘‘ حضرت امیرالمومنین.فرمایا.میں نے کبھی بھی حضرت کی خدمت میں دعا کے لیے عرض نہیں کیا.صرف ایک مرتبہ میں نے ایک خط حضرت کو لکھا تھا اس میں میری ایک درخواست دعا کی ہے وہ دیکھ لو معلوم ہوجائے گا.ناظرین! میں اس معمے کو حل کرنے کے لیے اس دعاکو یہاں ضروری لکھنا چاہتا ہوں.اس کو پڑھ کر آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ حضرت امیرالمومنین کی غرض و غایت اور محبوب ترین شے دنیا میں کیا ہے؟ کسی انسان کی زندگی کے حالات کاپتہ لگانے کے لیے اس کی دعائیں نہایت عمدہ ذریعہ ہیں اور

Page 375

اسی بنا پر میں نے اپنی بعض ان تقریروں میں جو مخالفین اسلام سے بطریق تبادلہ خیالات ہوئیں.اس امر کو بڑے زور سے پیش کیا ہے اور اس کو ایک عظیم الشان حربہ فتح اسلام کا سمجھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل زندگی اور پاکیزہ فطرت کے ثبوت میں آپؐ کی دعائیں نہایت قیمتی ماخذ ہیں.دعاؤں کا تعلق انسان کے قلب سے ہے اور اس کے مخفی در مخفی ارادوں اور جذبات کی وہ کلید ہیں.پس اگر ہمارے دوست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں پر غور کریں تو انہیںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص محبت اورانس پیدا ہوجائے گا اور آپؐ کی شان بلند اور بھی بڑھی ہوئی نظر آئے گی.غرض کسی شخص کی دعائیں اس کی زندگی کے حالات اور سیرت کا راز سربستہ ہیں.اسی خیال سے میں نے یہ سوال کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود سے آپ نے کیا دعا کرائی؟ اور آپ کیا دعا کرتے رہے ہیں.وہ خط جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ نے لکھا یہ ہے:.حضرت امیرالمومنین کا مکتوب مولانا، مرشدنا، امامنا السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ عالی جناب! میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا ہے وہ مطالب حاصل کروں! اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفا دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیر و مرشد میںکمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجاوے تو میں مراد کو پہنچ گیا.اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمایئے کہ میں یہ ادنیٰ خدمت بجالاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کردوں.حضرت پیرو مرشد نابکار شرمسار عرض کرتا ہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ

Page 376

میرے پر ڈال دیا جاوے پھر جو قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو.مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میںفدا کرنے کے لیے طیار ہوں.دعا فرماویں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو.اس مکتوب پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ریمارک فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ مولوی صاحب ممدوح کا صدق اور ہمت اور ان کی غمخواری اور جانثاری جیسے ان کے قال سے ظاہر ہے اس سے بڑھ کر ان کے حال سے ان کی مخلصانہ خدمتوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ محبت اور اخلاص کے جذبہ کاملہ سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ یہاں تک کہ اپنے عیال کی زندگی بسر کرنے کی ضروری چیزیںبھی اس راہ میںفدا کردیں.ان کی روح محبت کے جوش اور مستی سے ان کی طاقت سے زیادہ قدم بڑھانے کی تعلیم دے رہی ہے اور ہردم اور ہر آن خدمت میںلگے ہوئے ہیں.(ماخوذ از کالم ’’ایوان خلافت‘‘ الحکم جلد۱۵ نمبر۲۱و۲۲ مؤرخہ ۷ و ۱۴؍ جون ۱۹۱۱ء صفحہ ۴،۵) ۷؍جون ۱۹۱۱ء (بدھ) صبرکی دو اقسام (الرعد:۲۵).فرمایا صبر دو قسم ہے.(۱) صَبْرٌ عَلٰی الْاِطَاعَۃِیعنی اطاعت الٰہی پر استقلال سے مداومت.حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں اَحَبُّ الْاَعْمَالُ اِلَی اللّٰہِ اَدُوْمُھَا.بہت پسندیدہ عمل بارگاہ ایزدی میں وہی ہے جس میں مداومت ہے.(۲) صَبْرٌ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ.بدی سے باوجود بدی کے اسباب بہم پہنچانے کے رکے رہنا.اقامت صلوٰۃ اَقَامُوا الصَّلٰوۃ.وقت پر، ٹھہر کر، خشوع و خضوع سے، جماعت کے ساتھ پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے.عمدہ تدبیر سے بدیوں کو دفع کرنا مومن کا فرض ہے (الرعد:۲۳).بدیاںانسان کے اندر ہوں یا بیوی بچوں میں یا محلہ میں یا شہر میں یا ملک میں سب کو کسی عمدہ تدبیر سے دفع کرنے کی کوشش کرنا مومن کا فرض ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اخلاق کو

Page 377

کہاں تک سنوارا کہ (القلم:۵) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.پھر انسان کے اندر جھوٹ، فریب، دغا، کینہ، بغض، طمع، سستی، تکبر بڑائی یہ سب بیماریاں ہیں.ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.مردوں کی ذمہ داریاں عورتوں کے بارے میں مردوںکو فرمایا. (النساء: ۳۵).پس مردوں کا فرض ہے کہ ان کی تادیب و اصلاح کریں نیک معاشرت رکھیںرفق و مدارات سے پیش آئیں.بچوں میں بدعادتیں نہ پڑنے دیں.اگر ہوں تو دور کرنے کی سعی کریں.محلہ میں شہر میں جو بدعادات اور رسومات رواج پذیر ہوں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں اور ان سب کے لئے عمدہ عمدہ تدابیر سوچتے رہیں.ہر مومن اپنے نفس سے سوال کرے کہ اس نے کسی بدی کا اپنے نفس یا اپنے گھر میں یا اپنے محلہ یا اپنے شہر یا اپنے ملک سے قلع و قمع کیا ہے؟ بدیاں انسان زیادہ تر حصول رزق کے لئے کرتا ہے.فرمایا بسط رزق تو اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے.زرّیں نصائح فرمایا.میں جوان سے بوڑھا ہوا.سرد و گرم زمانے کا دیکھا کبھی نیکی کا نتیجہ برا نہیں دیکھا.بلکہ خدا تعالیٰ تو نیک کی اولاد کو بھی ضائع نہیں کرتا.تم جھوٹ نہ بولو.بدظنیاں چھوڑ دو.بری صحبتوں سے کنارہ کش ہو جائو.ادنیٰ سے ادنیٰ نعمت خدا کی شکریہ کے ساتھ قبول کرو.بدیوں سے بچتے رہو.نیکیوں پر دوام کرو.نمازیں سنوار کر پڑھو.ہم توچند روز کے مہمان ہیں.روز بروز مرنے کی تیاری ہے.ممکن ہے اگر تم کوشش کرو تو خدا کے فضل سے ہماری روح تمہاری طرف سے خوش جائے.حوالۂ بخدا.۸؍جون ۱۹۱۱ء (جمعرات) خوش قسمت اور بد قسمت انسان فرمایا.خوش قسمت اور سعید انسان کے واسطے تو ایک کلمہ حکمت ہی موجب ہدایت ہو جاتا ہے.ایک قوم کی طرف سے ایک شخص دریافت حال و تحقیق کے لئے

Page 378

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مجلس میں آیا.اس وقت آپؐ فرما رہے تھے(اٰل عمران:۱۱۱).یہ سنتے ہی اپنی قوم کی طرف لوٹ گیا اور کہا کہ سب ایمان لائو.انہوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا.پسندیدہ سے پسندیدہ باتوں کا حکم کرتا اوربدیوں سے روکتا ہے.بس تمہیں اور کیا چاہیے.بدقسمت اور شقی انسان کے لئے سارا قرآن مجید بھی موجب ضلالت ہو جاتا ہے.تعجب آتا ہے کہ بعض لوگ مسلمان ، مومن احمدی کہلاتے ہیں.پھر فریب ،دغا، چوری، جھوٹ، کینہ، بغض، بدظنی، ناجائز کمائی نہیں چھوڑتے.اللہ ہدایت بخشے.صادق کی نشانی فرمایا.سچے کی نشانی یہ ہے کہ جو بات سچی اور بھلی ہو اس کے کرنے کے لئے تاکید کرے اور اللہ کی نصرت شامل حال ہو.اور دشمنوں کی تباہی ہوتی جائے.ذکر اللہ فرمایا.مومن ذکر اللہ میں اطمینان پاتا ہے.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ، الحمد شریف، استغفار یہ سب ذکر اللہ ہے.مجدّد کا کام فرمایا.قرآن کا پڑھنا، پڑھانا، سمجھانا.پھر قوم میں ایسی روح پیدا کر دینا کہ وہ عمل کرکے مزکیّ و مطہرّ بن جاوے.یہ مجدد کا کام ہے.توکل الی اللہ فرمایا.(التوبۃ:۱۲۹).اگر مسلمان صرف اسی آیت کے ٹکڑے پر عمل شروع کر دیں تو سب بدیاں ان سے دور ہو جائیں.جسے اپنے مولیٰ پر توکل ہو اسے کیا ضرورت ہے کہ فریب کرے، دغا دے، تکبر کرے، لڑائی کرے، دین میں سست ہو، چوری سے مال لے.سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ سے مراد فرمایا.  (الرعد:۳۲)کے معنے بالکل صاف ہیں.جملہ شرط ہے.اور لفعل بھٰذا القرآن جزا محذوف ہے.اور  کے معنے ہیں سیرت القرآن بالجبال.جیسے مفاتحہ لتنوء بالعصبۃ کے معنے ہیں

Page 379

ے ہیں کہ اس کے مفاتح سے ایک جماعت تھک جاتی نہ یہ کہ مفاتح تھک جاتیں.جیسا کہ ظاہری ترکیب سے معنے معلوم ہوتے ہیں.اسی طرح ایک شعر ہے.فَلَمَّا اَجَزْنَا سَاحَۃَ الْحَیِّ وَ انْتَحَی بِنَا بَطْنُ خَبْتٍ ذِیْ حِقَافٍ عَقَنْقَلِ وَ انْتَحٰی بِنَا کے معنے ہیں ایک طرف کر دیا ہم کو ریت کے ٹیلے نے.حالانکہ ریت کے ٹیلہ نے برطرف نہیں کیا بلکہ و ہ لوگ ریت کے ٹیلہ سے الگ ہو گئے.پس قرآن سے پہاڑ چلائے گئے اور زمین کاٹی گئی مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ قرآن پہاڑوں میں چلایا جاوے.یعنی پہاڑی لوگوں اور بڑے بڑے امراء تک پہنچ جاوے اور زمین کے دور دراز علاقوں میں پہنچ جائے اور روحانی مردے کلام کرنے لگیں بلکہ اللہ کی حکومت ہو جاوے (حصول سلطنت).لَوْ فعلَ ھٰذِہِ الْاُمُوْرُ بِقُرْآنِ لِفعل بِھٰذَا الْقُرْآنِ.یعنی مندرجہ بالا امور اگر کسی قرآن سے ہوتے ہیں تو وہی یہی قرآن ہے.چنانچہ قرآن تمام روئے زمین پر پھیل گیا.روحانی مردے زندہ ہوئے.عرب میں بلکہ دور دور تک اسلامی سلطنت ہو گئی.تمام عرب مسلمان ہونے کی بشارت فرمایا.(الرعد:۳۲) فرماکر ایک طرف مومنوں کو بشارت دی کہ تمام عرب مسلمان ہو جائے گا اور دوسری طرف  (الرعد:۳۲)سے بتایا کہ کفار مصیبتوں میں گرفتار رہیںگے یہاں تک کہ تو اے نبی! ان کے گھروں کے قریب نازل ہو گا.چنانچہ فتح مکہ کے دن ایسا ہی ہوا.کسب حلال کی برکات فرمایا.جھوٹ نہ بولو.ناجائز کمائی چھوڑ دو.برکت والی غذا حلال کی کمائی سے حاصل ہو گی.اس کے کھانے سے برکت ملے گی.خدا کی کتاب کا فہم آئے گا.نیکیوں کی توفیق ملے گی.حرام خوری سے نیکیوں کی توفیق چھینی جاتی ہے.انبیاء کا مذہب اختیار کرو. (الشعراء:۸۰،۸۱) وہی کھلاتا ہے وہی پلاتا ہے.جب اپنی غلطی سے مریض ہوں.تو شفا بھی وہی دیتا ہے.

Page 380

Page 381

حضرت حق سبحانہ تعالیٰ کے ایسے پوجاری جواب سے محروم نہیں رہتے.انبیاء و رسل ہوںیا ان سے اتر کر محبان جناب الٰہی ہوں.یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہ بچھڑا سب سے ہم کلام نہیں ہوا بلکہ فرمایا..(طٰہٰ:۹۰)کا مرجع وہ لوگ ہیں جو اس کی محبت میں غرق تھے.سوال دوم.قرآن مجید میں ہے. (طٰہٰ:۱۲۵) مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کفار کے پاس مسلمانوں سے بڑھ کر مال و دولت ہے؟ جواب از حضرت امیرالمؤمنینؓ.اللہ تعالیٰ ہر ایک شخص کو جو صحیح محنت کرتا بدلہ دیتا ہے.قرآن مجید میں فرمایا ہے.(بنی اسرائیل:۱۹) اور فرمایا.(بنی اسرائیل:۲۱) اور فرمایا.(الشورٰی:۲۱) پارہ ۲۵ رکوع۴.یہ دنیا عاقبت کے مقابلہ میں پھر اس میں سے ہر شخص کی زندگی اس کی عاقبت کے مقابلہ میں، پھر اس کے عیش و آرام کے دن عاقبت کی تکلیف کے مقابلہ میں، ضنک فرمائے ہیں.اس کا ثبوت دوسری جگہ فرمایا ہے کہ (النساء:۷۸) اور قلیل ضنک کے معنے رکھتا ہے.میرے ایک دوست کے جواب بھی ان سوالوں پر ہیں آپ ان کو بھی دیکھ لیں.اگر انشراح صدر نہ ہو تو پھر لکھیں.نورالدین (البدر جلد۱۰ نمبر۳۵ مؤرخہ ۲۹؍ جون ۱۹۱۱ء صفحہ ۱) ۱۲؍جون۱۹۱۱ ء بدیاں کھلی کھلی ہوتی ہیں فرمایا.بدیاں کھلی کھلی ہوتی ہیں میں نے بعض ڈاکوؤں سے پوچھا ہے کہ جو مال تم ڈاکے کے ذریعہ سے حاصل کرتے ہو اگر تمہارا کوئی آدمی اس میں سے چرا لے تو تم اسے

Page 382

کیسا سمجھتے ہو؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم اسے بہت برا سمجھیں بلکہ جان سے مار دیں کیونکہ اس نے مال میں خیانت کی.اس پر جب یہ پوچھا کہ پھر تم کیوں محنت سے کمائے ہوئے مال میں ناجائز تصرف کرتے ہو تو چپ رہ گئے.ٹھٹھا کرنے والے کا انجام فرمایا.جو کسی کو حق بات اللہ کے لئے سمجھائے اور وہ اس پر ٹھٹھا کرے تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا.الٰہی انعام فرمایا.خدا کے ہر آن میں ہم پر لاکھوں کروڑوں انعام ہیں اگر وہ ہر آن ہر لحظہ ہماری دستگیری نہ کرے تو دم لینا مشکل ہو جاوے.ظاھر من القولکے معنے فرمایا.قرآن مجید سورہ رعد میں(الرعد:۳۴) کے دونوں معنے ہیں مضبوط بات.باطل بات جس کی تہ میں کوئی حقیقت نہ ہو.مسلمانوں کابد حال فرمایا.مسلمانوں کے حال پر افسوس آتا ہے اگر دریافت کیا جائے کہ جیلخانوں میں زیادہ کس قوم کے آدمی ہیں تو یہی نکلیں گے.ہمارے دیکھتے دیکھتے دس سلطنتیں ان کی ہلاک ہوئی ہیں ذلت و ادبار ان پرسوار ہے جیسا کہ یہود پر ہوا.ایک وقت تھا کہ اسلامیوں کے مقابل پر جو کھڑا ہوتا، وہ ہلاک ہوتا یا یہ وقت ہے کہ یہ خود ذلیل ہیں اپنی ہی شامت اعمال کی وجہ سے.قرآن میں نعماء جنت کا ذکر بطور مثال ہے فرمایا.قرآن مجید میں جنت کی نعماء کا جو ذکر ہے یہ بطور مثال ہے.مثال حقیقت کے مقابل میں کیا چیز ہے.دیکھو اگر ایک ستارہ بھی زمین پر گرپڑے تو ہلاکت یقینی ہے لیکن اس کا تمثل مصفا پانی میں کیا بھلا معلوم ہوتا ہے.آنحضرت ؐ اور مسیح موعود ؑ کے زمانوں کے دو بڑے امراض فرمایا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں شرک کا بڑا زور تھا آپؐکی ہمت عالیہ و توجہ موجہ کا اکثر حصہ اسی کے ردّ میں خرچ ہوا.حضرت مرزا نے اس زمانے میں مخلوقِ خدا میں سب سے بڑا مرض یہ پایا کہ دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہیں بلکہ دین کی پرواہ ہی نہیں اس لئے آپ نے بیعت میں یہ اقرار لازم رکھا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.

Page 383

عربی کی فصاحت کاثبوت فرمایا.قرآن مجید کا نام حکم عربی بھی ہے یعنی فیصلہ کرنے والا کھول کھول کر سنانے والا.عربیکے بھی یہی معنے ہیں.ایک شخص نے معنوں پر تعجب کیا تو میں نے اسے کہا کہ انبیاء کرام کے نزدیک اور کتب الٰہیہ میں اصل الاصول تمام نیکیوں کا کیا ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ پر ایمان لانا.میں نے کہا دنیا کی کسی زبان میں اس ربّ العالمین، الرحمٰن، الرحیم، مالک یوم الدین ہستی کے لئے ایسا لفظ بتا دو جو غیر پر استعمال نہ ہوتا ہو.برخلاف عربی میں ایک اللہ ہے جو کبھی غیر اللہ پر نہیں بولا جاتا.یہاں تک کہ تمام دواوین اور لغت عرب کو دیکھو کسی فاسق سے فاسق، ملحد، دہریہ کے کلام میں بھی یہ لفظ کسی غیر پر نہیں بولا جاوے گا.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ عربی ہی ایک فصیح اور کھول کھول کر بیان کرنے والی زبان ہے.فرمایا.میں دعا کرتا ہوں اللہ تمہیں قرآن پڑھنے پڑھانے اس پر عمل کرنے پھر آپس میں محبت بڑھانے کی توفیق دے.یاد رکھو کہ سب باتیں بغیر عمل کے ہیچ ہیں.۱۳؍جون ۱۹۱۱ء مخلوق کی مختلف طبائع دنیا میں مخلوق کی مختلف طبائع ہیں.بعض لوگ افیون، گانجا، بھنگ، شراب شروع کر دیتے ہیں تاکہ وقت آرام سے کٹ جاوے.(۲) بعض اپنے آرام اور دل بہلانے کے لئے رنڈیوں کی چلمیں بھرنا اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں اور اس ہنسی مخول سے اپنا دل خوش کر لیتے ہیں جو وہاں اکثر ہوتا رہتا ہے.(۳) بعض لوگ وظیفوں میں سارا دن رات گذار دیتے ہیں اور سخت سے سخت مجاہدے اس راہ میں کرتے ہیں کم خفتن،کم گفتن ، کم خوردن ان کا اصول ہوتا ہے اور بڑی مشکلات کے بعد وہ اپنی حالت ایسی بنا لیتے ہیں کہ جس سے دل آرام میں رہتا ہے.(۴) بعض لوگ تعلیم و تعلّم اپنا پیشہ رکھتے ہیں.صبح سے شام تک درس و تدریس میں لگے رہتے

Page 384

ہیں.ایک استاد تھے ان کے شاگرد بڑے آسودہ حال ان میں کمپیٹیشن رہتا.ہم استاد جی کو حلوا کھلائیں گے.دوسرا کہتا ہم پلاؤ کھلائیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ رحم کرے ایسی طبیعت کے تھے کہ تنہائی میں خوب کھاتے اور پھر قے کر کے جو باقی ہوتا وہ بھی چٹ کر جاتے.پوچھنے پر فرماتے کیا کہوں پلاؤ بڑا مزیدار تھا چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا.(۵) بعض لوگ ایسے ہیں کہ دل بہلانے کے لئے عمر بھر سیر وسیاحت میں گذار دیتے ہیں آج امرتسر کے ہوٹل میں ہیں تو کل پشاور کی سرائے میں.غرض لوگ کچھ نہ کچھ اپنا شغل ضرور رکھتے ہیں جن لوگوں کو فقیری کا شوق ہے وہ بھی عجیب عجیب کام کرتے ہیں.میں نے ایک شخص کو دیکھا ہے کہ پاؤں میں اڑھائی تین من کی زنجیر ہے اور وہ کھڑے سورج کو دیکھ رہے ہیں ان لوگوں کی کتابوں کو بھی پڑھا ہے ان میں ایسی ایسی حکائتیں بھی دیکھیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم جب معراج کو گئے تو رستے میں ایک پہاڑ آگیا رستہ مسدود تھا جبرائیل کے مشورے سے بھنگڑ فقیروں کی امداد کی ضرورت پڑی انہوں نے بھنگ گھوٹ کر پہاڑ کو جو اس کا لُگدا مارا اور دم شاہ مدار کہا تو رستہ کھل گیا.ایک بڑے امیر کبیر کو میں نے دیکھا کہ وہ ایک دھات کے سانپ کے آگے ناچا کرتا تھا ایک دفعہ میں اس کمرے میں چلا گیا اس سانپ کو جو ٹھکرایا.بڑی آواز نکلی وہ دوڑا دوڑا آیا اور رام رام کرنے لگا اس کی حماقت پرمجھے بڑا تعجب آیا.(۶)کئی دوکانداروں کو دیکھتا ہوں کہ دن بھر بیٹھنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا دروازے کے ساتھ ایک زنجیر باندھ رکھی ہے اور اسے پکڑ کر کھڑے ہیں اور خوش ہیں کہ گاہک بہت آتے ہیں.(۷)کاپی نویس سارا دن اس طرح بیٹھا رہتا ہے جیسے مرغی انڈوں پر.اور اسی میں خوش ہے.مجھے بھی امام ویردی کی شاگردی کا موقع ملا.مگر میرے ہاتھوں میں صنعت کم ہے.صرف ا ب ج د ر یہ چاروںحروف سیکھے.جب انبیاء آتے ہیں تو لوگوں کو ایسے شغلوں میں پاتے ہیں ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ

Page 385

ان شغلوں میں ایک شغل اپنی توجہ الی اللہ و ذکر اللہ کا بتا دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں دنیا کے کام بے شک کرو بیوی بچے رکھو جیسا کہ انبیاء کے لئے بھی تھے اور سورہ رعد کے آخری رکوع سے معلوم ہوتا ہے لیکن خدا سے غافل نہ ہو جاؤ.یہی روحانی تعلیم ہے یہی روحانیت ہے جو انبیاء کرام اور ان کے جانشین سکھانے آتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آئے دنیا کے مختلف اشغال تھے آپؐنے فرمایا.پانچ وقت نماز بھی پڑھ لیا کرو.پاخانہ جانا سب کو ضرور ہے وہاں اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ(صحیح بخاری کتاب الوضوء باب مایقول عند الخلاء)بھی پڑھ لو.ایسا ہی بیویوں کے پاس سب کوئی جاتا ہے آپؐ نے ایک دعا سکھا دی کہ یہ بھی پڑھ لیا کرو.غرض روحانیت اور روحانی تعلیم یہ ہے کہ انسان فطری کام کرے پاخانہ جائے ، کھائے پیئے، احباب کو ملے جلے، بیوی نکاح کرے، جماع کرے، کمائے مگر اللہ سے غافل نہ ہو.یہ نہیں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ رہے.یہ طریق انبیاء کی سنت کے خلاف ہے.خلیفۃ المسیح کی روحانی تعلیم جائز کام کرنے سے منع نہیں فرمایا.ہاں یہ ضرور ارشاد ہے کہ (الأَعراف :۱۵۸) یعنی مضر چیزوں سے رکا رہے مفید کاموں میں لگے.مجھ سے بھی لوگوں نے پوچھا ہے کہ تم کیا روحانی تعلیم دیتے ہو.اور اس جماعت میں کیا روحانیت ہے؟ سو میں کھول کر سناتا ہوںکہ روحانیت یہی ہے تمہارا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا،پھرنا، سونا،جاگنا، پڑھنا، تجارت کرنا، کوئی اور محنت، ملناجلنا، سب کچھ اللہ کے لئے ہو.سب میں خدا یاد رہے، اپنے سارے کاموں میں اللہ کی رضا مدِّنظر رکھو.پس یہی تصوف، یہی فقیری،یہی روحانیت،یہی روحانی تعلیم ہے.قرآن مجید کورحل پر رکھنا اور اوپر ایک کپڑا یہ ظاہری ادب بمنزلہ جسم کے ہے اگر دل کے اندر اس کے احکام کی ایسی ہی عزت ہو تویہ اس کی روح ہے.زبان ذکر الٰہی کرے یہ جسم ہے اگر اس کے ساتھ اخلاص اور تعظیم اوامر حضرت احدیت ہے تو یہ اس کی روح ہے.قرآن مجید پڑھنا اور اس کے معنے سیکھنا یہ بمنزلہ جسم ہے اور اس پر عملد رآمد یہ اس کی روح ہے.وعظ سننا جسم ہے اور اس پر عمل روح ہے.

Page 386

اگر میں اپنی روحانی تعلیم سمجھا سکا ہوں تو اپنے تئیں مبارکباد دیتا ہوں.اگر تم نہیں سمجھے تو انشاء اللہ پھر خدا توفیق دے گا.فرمایا.محض تمہاری بھلائی کے لئے کہتا ہوں اللہ نے مجھے تم میں سے ایک کا بھی محتاج نہیں کیا.میں کسی سے مفت کام لینا پسند نہیں کرتا.سات ماہ سے بیمار ہوں.تنہائی کا موقع بھی نہیں ملتا مگر پھر بھی تم میں سے کوئی میرے رزق کا پتہ نہیں لگا سکا کہ میرا مولیٰ کہاں سے بیش از پیش دیتا ہے.یہ اس کی غریب نوازی ہے.۱۵؍جون ۱۹۱۱ء شکر گزاری فرمایا.جو اللہ تعالیٰ دے وہ بندہ شکر گذاری سے لے تو ضرور زیادہ انعام ملتا ہے.ایک عورت نے مجھے ایک دفعہ ۱ دھیلہ دیاجو میں نے بڑی شکر گذاری سے لیا کہ اس کے تیل کی روشنی میں نسخے لکھا کروں گا تو مخلوق کو کس قدر نفع پہنچ سکتا ہے.اگر میں فن طبابت سے اسی ادھیلہ کی ایک دوائی بنا لوں تو وہ کس قدر مخلوق الٰہی کے لئے نافع ہو سکتی ہے.شفاء اللہ کے ہاتھ میں ہے فرمایا.شفاء اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے میرے اس زخم پر دس ڈاکٹروں نے اپنا زور لگایا ہے مگر یہ بات بھی حل نہ کر سکے کہ یہ ہے کیا.خدا کی صفت خلق کی ازلیّت فرمایا.بعض لوگ دنیا کو ۶،۷ ہزار سال سے جانتے ہیں، بعض دو ارب سے، بعض سنکھ پر بھی کئی صفریں ایزاد کرتے ہیں لیکن خدا کی خدائی اور اس کی صفت خلق کی ازلیّت کے مقابل پر یہ ہندسے کیا چیز ہیں.تجربہ کار سے مشورہ فرمایا.لوگ تجارت کرتے ہیں مگر نہ کسی تجربہ کار سے مشورہ لیتے ہیں نہ حساب صاف رکھتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پھر نقصان اٹھاتے ہیں.قرضہ حسنہ فرمایا.قرضۂ حسنہ بہت اچھی چیز ہے لیکن آج کل وعدہ پر کم ادا کیا جاتا ہے جس سے

Page 387

ایسے لوگ بھی جو دل سے اپنے بھائی کو نفع پہنچانا چاہتے ہیں وہ بھی دینے میں تأمل کرتے ہیں.فراغت میں ذکر الٰہی کرنے کی تلقین فرمایا.جب تم اپنے کار منصبی سے فارغ ہو تو بے ہودہ بحثیں جن سے نہ دنیا کا فائدہ ہو نہ دین کا نہ لے بیٹھو.بلکہ خدا کی طرف راغب ہو جاؤ اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا ذکر کرو، درود پڑھو، استغفار باربار کرو.الحمد شریف پڑھو اور قرآن مجید کی تلاوت کرو.عام رائے اور انبیاء کا اجماعی مسئلہ فرمایا.فلسفیوں کا کسی مسئلہ پر اتفاق نہیں.رسم و عادت کے کسی مسئلے میں لوگوں کا اتفاق نہیں حتی کہ خوراک اور پوشاک میں ایک ملک کے لوگوں کا اتفاق نہیںپھر بھی لوگ عام رائے کی پیروی کرتے ہیں.تعجب کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اجماعی مسئلے کے ماننے میں تأمل ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں.نبی کی بشریّت فرمایا.نبی کے مقابل جو لوگ (إِبراہیم :۱۱)کہتے ہیں ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ بادشاہ جسے وہ حاکم اعلیٰ مانتے ہیں آخر وہ بھی تو انسان ہی ہوتا ہے.توکل علی اللہ فرمایا.اللہ پر بھروسہ کے یہ معنے نہیں کہ سامان الٰہی کو ترک کردے بلکہ سامان سے کام لے کر پھر نتیجہ کے لئے اللہ پر توکل کرے.کفرانِ نعمت فرمایا.یہ بھی ایک قسم کا کفر اور کفران نعمت ہے کہ آدمی بھلی بات سن لے اور اس پر عمل نہ کرے.۱۷؍جون۱۹۱۱ء.ہفتہ اللہ تعالیٰ سے بُعد کا نتیجہ فرمایا.جب انسان اللہ سے دور ہو جاتا ہے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے ایسے شخص کو اللہ جلّشانہٗ کی طاقت کی پرواہ نہیں ہوتی اپنے ہی منصوبوں پر بھروسہ کرتا ہے.اس بلامیں بہت سی خلقت مبتلا ہے یہ بلا اللہ کی غفلت اور اس سے بُعد اختیار کرنے سے پیدا ہوتی ہے.جن کو غفلت نہیں وہ ہر آن میں اپنے تئیں زیر تصرف الٰہی مانتے ہیں جن لوگوں نے الٰہی عظمت و جبروت کا انکار کیا ہے انہوں نے رسولوں کو اپنے جیسے بشر سمجھ کر کہہ دیا کہ جتھا ہمارا زور ہمارا ہمیں ان کی کیا پرواہ.

Page 388

ایک عجیب نکتہ فرمایا.ایک عجیب نکتہ ہے کفار نے  (إِبراہیم: ۱۴) کہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابل پر(إِبراہیم:۱۴) فرماکر اس ہلاکت کی وجہ بھی بتا دی اور (إِبراہیم:۱۵)کے انعام کا سبب بھی بتا دیا. (إِبراہیم :۱۵).مائِ صدید پلائے جانے کا نظارہ فرمایا. (إِبراہیم :۱۷) کا نظارہ آتشک کے بیماروں میں دیکھا ہے.جن کے گلوں میں زخم ہو جاتے ہیں انہیں کھاتے پیتے وقت پیپ اور زخموں کا پانی ساتھ ہی نگلنا پڑتا ہے.خوفِ الٰہی فرمایا.انسان جو کام کرے خدا سے ڈر کر کرے.مخلوق کے واسطے گناہ کرنا عاقبت اندیشی نہیں کیونکہ یہ سب جدا ہو جائیں گے اور قبر میں تو اکیلا رہ جاوے گاکسی پنجابی نے کہا ہے.جنہاں واسطے پاپ کماؤ نا کتھے نی اوہ گھر دے عاقبت کی فکر کرو فرمایا.ایک وقت آتا ہے کہ ہم تم میں سے ایک بھی نہ ہوگا اور ہماری جگہ اور قوم ہوگی اور نہ یہ مکان نہ یہ حالات.اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے پس عاقبت کی فکر کرلو.مخلوق کی بہتری فرمایا.ہر کام میں دیکھ لو کہ خدا کی پروانگی ہے یا نہیں.پھر یہ کہ اس میں مخلوق کی بہتری ہے یا نہیں.پھر کرو.عاقبت اندیشی کی دعا فرمایا.میں دعا کرتا ہوں اللہ تمہیں عاقبت اندیش بنادے، دین کے معاملہ میں بھی اور دنیا کے معاملہ میں بھی.۱۸؍جون۱۹۱۱ء.اتوار شیطان ہر ایک شریر جو خدا تعالیٰ سے دور ڈالے ، وہ شیطان ہے.غافلوں کی صحبت میں نے ایک ڈاکو سے پوچھا تم جو اس قدر خونریزی کرتے ہو.کیا تمہارا دل ملامت نہیں کرتا.کہا تنہائی میں تو ملامت کرتا ہے مگر جب ہم تین چار مل جاویں تو پھر کچھ یاد نہیں رہتا.اس

Page 389

سے مجھے یہ نکتہء معرفت ملا کہ غافلوں کی صحبت میں غفلت بڑھ جاتی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں مجلس میں بیٹھتا ہوں تو ۷۰ سے ۱۰۰ دفعہ تک استغفار کرتا ہوں تاکہ وہ میل جو اس صحبت کا نتیجہ ہو سکتا ہے دور ہو جاوے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ غفلت پیدا کرنے والی صحبتوں سے بچنا چاہیے اور اگر کہیں اتفاق سے بیٹھنا ہو جائے تو پھر استغفار کی کثرت چاہیے تا کہ دل زنگ آلود نہ ہوں.بُرے کام فرمایا.میں نے بڑے بڑے بدکاروں سے دریافت کیا ہے کبھی کسی نے نہیں کہا کہ ہمیں شیطان پکڑ کر برُے کام کی طرف لے گیا آدمی خود ہی جاتا ہے.ظالم فرمایا.ظالم وہ ہے جو کام کرنے کے ہوں انہیں نہ کرے اور جو نہ کرنے کے ہوں انہیں کرے.ایمان اور عمل فرمایا.لوگ سمجھتے ہیں کہ ایمان الگ اور عمل الگ ہے.ایسا ہر گز نہیں ایمان کا مقتضا عمل صالحہ ہے جیسا کسی کا ایمان ہوگا ویسا ہی عمل ہوگا.اللہ کی نافرمانی سے لاپرواہی فرمایا.لوگ اگر سالن میں نمک زیادہ یا کم ہو جائے تو شور محشر برپا کر دیتے ہیں لیکن بیوی یا بچہ اگر نماز نہ پڑھے تو کچھ فکر نہیں.خیالی سکھوں کے لئے ہزاروں انتظام کرتے ہیں مگر اللہ کی نافرمانی سے بے پرواہ ہیں جو بڑے افسوس کی بات ہے.(البدر جلد۱۰ نمبر ۳۵ مورخہ ۲۹؍ جون۱۹۱۱ء صفحہ ۳ ،۴) ۱۹؍ جون ۱۹۱۱ء قابل افسوس لوگ فرمایا.افسوس ہے ان پرجو ہلاکت کے گڑھے میں خود ہی نہیں گر پڑتے بلکہ اوروں کو بھی لے ڈوبتے ہیں.آنکھوں اور زبان کا استعمال فرمایا.اللہ تعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں تاکہ قرآن شریف پڑھیں، نیک لوگوں کی زیارت کریں.زبان دی تا اس کا ذکر کریں.مگر لوگ ایسے فضلوں کا انکار کرکے جہنم میں چلے جاتے ہیں.

Page 390

مال و اولاد فرمایا.اللہ ہی مال دیتا ہے اسی کا احسان جانو. (الزخرف:۳۳) دیکھو میں نے اپنے باپ کا روپیہ ترکہ میں نہیں لیا.باپ کے مکانات میں بھی نہیں رہتا.اللہ کا احسان ہے.پس انسان اولاد کی فکر میں ایسا منہمک کیوں ہو؟ مال کی کیا ہستی ہے؟ اللہ کی شان میں کی گئی بے ادبیاں فرمایا.اللہ کی شان میں لوگوں نے کئی قسم کی بے ادبیاں کی ہیں.(۱) مخلوق کی بھی ویسی ہی تعظیم مثل سجدہ کرنا، جیسی کہ خدا کی کرنی چاہیئے.جو تصرف ذات الٰہی کو ہے وہی مخلوق کا خیال کرنا.قرآن مجید میں آیا ہے.(یوسف:۱۰۷) (۲)ایک بدبخت گروہ ہے وہ شرک سے بھی آگے قدم رکھتا ہے.وہ جناب الٰہی کے لیے ندّ قرار دیتا ہے.ندّ کہتے ہیں مدّمقابل کو.مثلاً ایک طرف اللہ کا حکم ہے.حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ.دوسری طرف ایک دوست آشنا بلاتا ہے تو اس طرف دوڑ پڑے.(۳) ایک گروہ جو غافل ہے اللہ تعالیٰ کے احکام کی نہ خبر ہے نہ پروا.مومن کی معراج فرمایا.نماز مومن کے لیے عجیب معراج ہے.عین اس وقت جب نیند کی و جہ سے سستی کا زور ہو یا کام سے تھک گئے ہوں جیسے عصر و شام تو نماز پڑھنے کا حکم ہے.اقامت صلوٰۃ کے تین طریق فرمایا.اقامت الصلوٰۃ تین طریقوں سے ہے.(۱)سستی، کاہلی، نادانی، بے خبری نماز کو گراتی ہے.تم پڑھتے چلے جاؤ.(۲) اطمینان کے ساتھ فرائض، واجبات، سنن، مستحباب کا لحاظ کرو.(۳)جناب الٰہی کے حضور خشوع و خضوع سے ایسے کھڑے ہو جیسے کوئی محسن مربی کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے.مقصودِ نماز فرمایا.نماز کی ابتداء اللہ سے ہے اور انتہاء بھی اللہ.مقصود بھی اللہ ہی ہے.لوگوں کا بخل فرمایا.لوگوں کے اندر بخل کا مادہ بہت ہے.اتنا نہیں سوچتے کہ ایک وقت تھا جبکہ موجودہ آمدنی سے بہت کم آمدنی تھی.

Page 391

فرمایا.قرآن مجید میں (ابراھیم:۳۳) آیا ہے.سر سے پیر تک اپنے کپڑوں کو دیکھو.استعمال میں آنے والی چیزیں اکثر ولایت سے بذریعہ جہاز کے آئی ہیں.اللہ کو راضی کرلو فرمایا.اللہ تمہیں محض اپنے فضل سے اپنی غریب نوازی سے توفیق دے.اپنے مولا کو ایسا راضی کرلو کہ وہ پھر کبھی ناراض نہ ہو.۲۰؍ جون ۱۹۱۱ء انبیاء کی محبتِ الٰہی اور جوشِ تبلیغ انبیاء کو جو اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کی توحید کی اشاعت کا جوش ہوتا ہے وہ اور اس کا نتیجہ قرآن مجید پڑھنے والوں سے مخفی نہیں رہنا چاہیئے.فرمایا.یہ قوم عجیب و غریب ہے ہر طرح سے برکت ہی مانگتی ہے.دیکھئے حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک شہر میں ہیں تو اس شہر کے لیے امن کی دعائیں مانگتے ہیں کہ وہ مصائب دنیا اور غضب الٰہی سے مامون رہے.بھلی باتوں کے متّبع فرمایا.میں بھی حضرت ابراہیم کے اتباع میں کہتا ہوں جو بھلی باتوں میں میرے متبع ہیں وہی درحقیقت میری جماعت سے ہیں باقی کہا کریں کہ ہم مرید ہیں.گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ فرمایا.مومن کوئی مکان بنائے تو سب سے پہلے اس میں مسجد، نماز پڑھنے کی جگہ بنائے.میری ماں نے گھر میں ایک سردی کے موسم کے لیے اور ایک گرمی کے موسم کے لیے جگہ بنا رکھی تھی.بدیوں سے بچنے کا گُر فرمایا.بدیوں سے بچنے کا گُر ہے موت کو یاد رکھنا.اور یہ کہ میرا مولیٰ دیکھتا ہے.یعنی (ابراھیم:۳۹) کا مطالعہ.خدا کی بات فرمانبرداری سے قبول کرو فرمایا.میری باتوں کی قدر کرو یا نہ کرو مگر خدا کی بات شکر گزاری اور فرمانبرداری سے قبول کرو.اپنے مکانوں کو خدا کے مکان بناؤ.ان میں ایک مسجد بناؤ اور اپنی اولاد کے صالح ہونے کے لیے دعا کرتے رہو جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے دعائیں کیں.فرمایا.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے جہاں تمہاری چارپائیاں ہوں جہاں تمہارے مکان ہوں

Page 392

خدا کی برکات نازل ہوں.مکانوں کے بنانے میں خدا کی فرمانبرداری مدّنظر ہو صالح اولاد عطا ہو.(البدر جلد۱۰ نمبر۳۶ مؤرخہ ۶؍ جوالائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲) ایوان خلافت حضرت خلیفۃ المسیح مدّ ظلہ العالی کے زخم کی حالت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ نہ پورا تندرست ہے اور نہ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی باقی ہے.کبھی کچھ اس میں سے نکل آتا ہے اور بعض اوقات کچھ برآمد نہیںہوتا.بہرحال اس کا بقیہ ہے ضرور.اور اس کی و جہ سے طبیعت میں عام ضعف محسوس ہوتا رہتا ہے.اگرچہ آپؓ صبح سے شام تک برابر اپنے ان تمام مشاغل میں مصروف رہتے ہیں جو اس سے پہلے آپ رکھتے تھے لیکن پھر بھی یہی فرماتے ہیںکہ ضعف بہت ہے! نماز بیٹھ کر پڑھتے ہیں اور سجدہ نہیں کرسکتے.احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان تمام شکایات کو دور کردے.(آمین) قرآن مجید کے حل کا گُر ناظرین پچھلی اشاعت میں پڑھ چکے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب سے بعض امور دریافت کیے تھے.ان میں سے ایک کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں دوسرا سوال میرا یہ تھا کہ ’’کیا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی آیت کبھی پوچھی ہے اور اگر پوچھی ہے تو کونسی؟‘‘آپ نے اس کے جواب میں فرمایاکہ میں نے قرآن مجید کی کوئی خاص آیت حضرت صاحب سے نہیں پوچھی بلکہ ایک ایسا گُر پوچھا ہے جس سے قرآن مجید کی کوئی آیت بھی مشکل نہ رہے.میں ایک مرتبہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.میں ان ایام میں فصل الخطاب لکھ رہا تھا.میں نے عرض کیاکہ بعض اوقات مخالفین اسلام ایسا اعتراض کرتے ہیں کہ اس کا تحقیقی جواب سمجھ میں نہیں آتا.میرا خیال ہے کہ یا تو ایسے اعتراضات کو چھوڑ دیا جاوے اور یا ان کا الزامی جواب دے دیا جاوے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں تو اس کو سخت ناپسند کرتا ہوں.جس چیز کو انسان کا ایمان خود نہیں مانتا پھر وہ دوسروں سے منوانے کا کیا حق رکھتا ہے؟

Page 393

فرمایا.حضرت صاحب کی اس بات نے مجھے یقین دلادیا اور میرا ایمان بہت بڑھ گیا کہ یہ شخص فی الواقعہ خدا تعالیٰ کا مامور اور مرسل ہے.کیونکہ اس کی فطرت اور اس کا ایمان ہی ایسا ہے کہ جس کو یہ خود نہیں مانتا دوسروں سے اس کو منوانا نہیں چاہتا.پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ اتنا بڑا دعویٰ یونہی کردے.غرض مجھے حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں آپ کو ایک ایسا گُر بتادیتا ہوں کہ کوئی آیت آپ کے لیے مشکل ہی نہ رہے.اور وہ یہ ہے کہ جو اعتراض آپ کے خیال میں نہایت مشکل ہو یا جس آیت پر شرح صدر نہ ہو اس کو موٹی قلم سے لکھ کر ایسی جگہ لٹکالو جہاں آتے جاتے تمہاری نظر ہر وقت اس پر پڑ سکے.چند روز کے اندر اندر اللہ تعالیٰ اسی اعتراض کی حقیقت اور اس کا جواب سمجھا دے گا.حضرت اقدس کے اس گُر کو میں صوفیانہ رنگ میں لے گیا اور میں نے یہ قرار دیا کہ سب سے بہتر جگہ جہاں انسان کی ہر وقت نظر پڑ سکے وہ دل ہے.پس میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اگر کوئی ایسا موقعہ ہو تو اسے ہر وقت دل میں زیر توجہ رکھنا چاہیئے.اور میں نے دیکھا ہے کہ ایسا کرنے سے بڑا مشکل سے مشکل مسئلہ حل ہوجاتا ہے.اور ظاہری طور پر اگر اپنی آمد و رفت کے عام منظر میں لکھ کر لٹکا لیا جاوے تو بھی ضرور مفید ہوتا ہے.پس اس ایک نکتہ سے مجھے بہت فائدہ پہنچا.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی کہ اگر کوئی دشمن اسلام قرآن کریم یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر کوئی اعتراض کرے اور تم کو اس کا جواب نہ آتا ہو تو ہم فوراً سکھا دیں گے.اللہ تعالیٰ کی اس بشارت نے بہت سے موقعوں پر میری تائید فرمائی ہے.غرض میں نے حضرت صاحب سے یہ گُر سیکھ لیا تھا اور اس کو سب کے واسطے مفید سمجھتا ہوں.قرآن کریم کے سمجھنے کا ایک اور میرا تجربہ کردہ نسخہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اوّل قرآن مجید کو عمل کے لیے پڑھو.دوم جو آیات قرآن کریم میں مشکل معلوم ہوں ان کو ایک کاپی پر لکھتے جاؤ.جب سارا قرآن ایک بار ختم ہوجاوے پھر گھر والوں کو سناؤ.اس دوسرے دور میں قرآن مجید کے ان مشکل مقامات میں سے جو تم نے نوٹ کیے ہوں بہت سے حل ہوجائیں گے.پھر تیسرے دور میں بیرونی

Page 394

لوگوں کو شامل کرلو.اس مرتبہ اور بھی کم مقامات ہوں گے جو مشکل رہ جائیں گے.پھر عام طور پر سناؤ.تب خدا تعالیٰ ایسی مدد فرمائے گا کہ مشکلات آسان ہوں گی.اعجازی نشانات میرا تیسرا سوال یہ تھا کہ کیا کبھی آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ آپ حضرت صاحب سے کوئی اعجازی نشان دیکھیں.یہ جدا امر ہے کہ آپ نے ایسی درخواست کی ہو یا نہ کی ہو، مگر محض خواہش پیدا ہوئی ہو؟ اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ مجھے کبھی یاد نہیں کہ میرے دل میں کبھی اس امر کا خیال پیدا بھی ہوا ہو کہ حضرت صاحب اپنی صداقت میں کوئی نشان دکھائیں.اگرچہ یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات ظاہر کیں اور ہم نے بہت سے خوارق مشاہدہ کیے.مگر وہ میری کسی ایسی خواہش کا نتیجہ نہیں.عبدالحی کے متعلق جو واقعہ ہے اس میں بھی میری کسی خواہش یا آرزو کو دخل نہیں.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس کو ایک آیت اللہ کے رنگ میں پیدا کیا.آپ کو یاد رہے (ایڈیٹر الحکم کو خطاباً فرمایا) کہ آپ ایک امرتسری طبیب کا پیام لائے تھے کہ وہ اولاد نرینہ کے لیے مجھے طبی مشورہ دے.میں طبیب ہونے کی و جہ سے جانتا ہوں کہ ایسے امراض کا علاج ہوسکتا ہے.لیکن آپ کو یاد رہے کہ میں نے آپ کو یہی جواب دیا تھا کہ میں صرف اولاد نہیں چاہتا ہوں.سعادت مند اور صالحہ اولاد کا کوئی نسخہ ہو تو جس قدر روپیہ بھی مانگو دینے کو تیار ہوں.پس اولاد جیسے امر کے لیے میں نے حضرت صاحب سے کبھی نہیںکہا.خدا تعالیٰ نے اپنی غریب نوازی سے میرے بچہ کو ایک نشان بنادیا.تو میں نے کبھی خواہش نہیں کی کہ حضرت صاحب سے کوئی نشان دیکھوں.ہاں میں اس پر ہمیشہ ایمان رکھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحب سے جو وعدے کیے ہیں وہ سچے ہیں.وہ اپنے دشمنوں کے مقابلہ کے وقت خوارق کے دکھانے کے لیے مویّد اور منصور ہوں گے.اسی ایمان کی بنا پر ڈاکٹر جگن ناتھ کی دعوت کو قبول کرلیا تھا.میرے لیے نشانات کی اس واسطے ضرورت نہ تھی کہ میں آپ کی سچائی کے لیے اسی قدر کافی سمجھتا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں.

Page 395

اللہ تعالیٰ پر افترا کرنا آسان نہیں اور پھر یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص افتریٰ کرے اور اس افتریٰ کو لکھ کر شائع کرے.قرآن مجید میرے لیے رہنما تھا.پہلے مامورین و مرسلین کے واقعات میرے سامنے تھے پس خدا نے محض اپنے فضل سے مجھے مرزا صاحب کو ماننے کے لیے نشانات سے مستغنی کردیا تھا.سب سے بڑی خواہش پھر میں نے سوال کیا کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ فرمایا.مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ قرآن مجید عملی طور پر کل دنیا کا دستورالعمل ہو.بلند ہمتی حضرت خلیفۃ المسیح ؓ کی اولوالعزمی اور بلندہمتی کے بہت سے نظائر ہیں اور وہ آپ کی سیرت لکھنے والے کو تصریح سے لکھنے کی توفیق ملے گی.مجھے یہاں ایک مختصر واقعہ دینا ہے.آپ کے چھوٹے بچے عبدالسلام نے (جو بورڈنگ ہاؤس میں اپنے بھائی عبدالحی کے ساتھ رہتا ہے.) ایک دن اپنے دو استادوں کے لیے دعا کی تحریک کی.آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے.ایک بچہ جو دعا کی فلاسفی اور حقیقت سے محض ناآشنا ہے اس میں یہ ایمان پیدا ہونا کہ دعا بڑی عمدہ چیز ہے معمولی امر نہیں.تھوڑی دیر تک اس دعا کے بعد وہ اِدھر اُدھر پھرتا رہا اور پھر یک دفعہ آیا اور کہا.’’ابا جی! دعا کرو میں چوتھی میں ہوجاؤں.‘‘اس پر فرمایا کہ چوتھی کیا بلا ہوتی ہے.بڑی سے بڑی کامیابی جو دنیا میں ممکن ہے وہ حاصل کرنے کی کوشش کرو.اور میں اس کے لیے دعا کرتا ہوں.چنانچہ آپ نے دعا کی! بیان میں اختلاف نہیں ہوتا ایک موقعہ پر انہی ایام علالت میں شدت مرض میں آپ نے کوئی کاغذ لکھا.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو اور دوسرے احباب کو آپ نے اس کے بعد کچھ نصائح کیں.ان کے متعلق وصیت کا سوال پیدا

Page 396

ہوگیا اور بعض کو خیال پیدا ہوا کہ شاید اس تحریر میں اور اس تقریر میں کوئی اختلاف ہو.واقعات آپ کی خدمت میں عرض ہوئے تو جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ میرے بیان میں اختلاف نہیں ہوتا جو اب کہا ہو یا پہلے کہا ہو.اس واقعہ کو میں نے یہاں صرف اس لیے دوہرایا ہے کہ آج سے ۶ سال پہلے کی بات جو آپ کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے آج ظاہر کی ہوئی خواہش سے کیسی مطابق ہے.میرے استفسار پر فرمایا کہ سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ قرآن مجید عملی طور پر کل دنیا کا دستورالعمل ہو اور اپنی اولاد کے لیے جو خواہش ہے وہ اس سے باہر نہیں جاتی کہ قرآن شریف کا فہم، اس پر عمل، اس کی خدمت ہو.کیسا مبارک ہے وہ باپ جس کی یہ خواہش ہو اور خوش قسمت ہے وہ بچہ جس کے باپ کے یہ ارادے ہوں.آج ہماری خواہشوں کا مرکز اعلیٰ عہدے اور اعلیٰ ڈگریاں ہیں.(ماخوذ از کالم ’’ایوانِ خلافت‘‘ الحکم جلد۱۵ نمبر۲۳و۲۴ مؤرخہ ۷ و ۱۴؍ جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲،۳) ۲۲؍ جون ۱۹۱۱ء اہل اللہ کی برکت فرمایا.یہاں کی نہ تو زبان پسندیدہ ہے، نہ لباس عمدہ، نہ خوراک اعلیٰ، نہ باشندوں کی وضع قطع.مگر پھر بھی تم لوگ مختلف ممالک سے یہاں جمع ہو.یہ کس کی برکت ہے؟ ایک شخص اللہ کا نام لینے والے کی.دنیوی اعزاز کوئی چیز نہیں فرمایا.محض دنیوی اعزاز کوئی چیز نہیں.دیکھو جہانگیر، اکبر، شاہجہان بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں ان کے سادہ نام لیے جاتے ہیں.مگر انہی کے زمانہ میں جو خدا کے پیارے بندے گزرے ہیں ان کے نام کے ساتھ حضرت اور علیہ الرحمۃ لگایا جاتا ہے.یہ کس لیے ہے؟ اس لیے کہ وہ خدا کے

Page 397

؍ جون ۱۹۱۱ء اللہ تعالیٰ کی تخلیق فرمایا.اللہ تعالیٰ کا واٹر ورکس ایسا وسیع ہے کہ سارے جہان کو وقت پر پانی دیتا ہے.فرمایا.آدمی مٹی سے بنا ہے مگر ناک کی بجائے اگر مٹی کا ٹکڑا رکھ دیں تو کیا وہ کام دے گا.(الحجر:۲۷).فرمایا.یعنی خلاصہ در خلاصہ درست کیے ہوئے کیچڑ سے.ابلیس کا گروہ فرمایا.ابلیس کا گروہ وہ ہے جسے حق و باطل میں التباس واقع ہو.حکمِ خدا فرمایا.اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابل میں دلائل گھڑنے والے ہمیشہ ناکام رہتے ہیں.آدم و ابلیس کے بیان سے نصیحت فرمایا.آدم اور ابلیس کے بیان سے یہ نصیحت لینی چاہیئے کہ جن کے پاس خدا کا کلام ہو ان کی فرمانبرداری کی جائے اور جو فرمانبرداری نہیں کرتے ان سے دور رہیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے دور ہیں.خدا کی ستاری فرمایا.ایک دفعہ حضرت صاحب نے کسی آدمی کے بارے میں سنا کہ اسے کسی نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو تو وہ بہت ہی غضب میںآیا.فرمایا.کیا اس نے عمر بھر میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا؟ اسے چاہیے تھا خدا کا شکر ادا کرتا کہ اتنی مدت ستاری کی.عنادی فرمایا.عنادی وہ ہے جو اپنی خواہشات کا تابع ہوجاوے.ناجائز کمائی کی بے برکتی فرمایا.لوگ روپیہ کے معاملے میں احتیاط نہیں کرتے.بس کہیں سے مال مل جائے اسے شوق سے بلاخدشہ استعمال کرتے ہیں.ناجائز کمائی سے برکت نہیں رہتی.بعض کھانے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے کھانے سے غفلت پیدا ہوتی ہے نماز کی لذت نہیںرہتی.بعض لباس ایسے ہیں کہ ان کے پہننے سے غفلت و سستی گھیر لیتی ہے.مومن کو ایسی خوراک ایسی پوشاک سے بچنا چاہیئے.انبیاء نہایت سادہ خوراک بہت سادہ پوشاک رکھتے تھے.

Page 398

دوزخ کے سات دروازے فرمایا.دوزخ کے سات دروازے خدا نے فرمائے ہیں.میرا مذہب اس بارے میں یہی ہے کہ اَللّٰہُ اَعْلَم.بعض صوفیاء نے لکھا ہے کہ انسان دو آنکھوں سے گناہ کرتا ہے.دو کانوں سے منہ سے اور دو پاؤں اور ایک شرمگاہ.بس یہی دروازے ہیں جن کے ذریعہ انسان جہنم میں داخل ہوتا ہے.فضل الٰہی کا اظہار فرمایا.میرے چار لڑکے ہیں دو لڑکیاں دو ہم ہیں.آٹھ سے زیادہ گھر کے آدمی ہیں مگر مجھے اس بات کا وہم بھی نہیں اٹھا کہ میرے بعد یہ کیا کھائیں گے.اللہ تعالیٰ رزاق ہے اسی کی ذات پر بھروسہ ہے.یہ بات میں نے بڑائی کے لیے نہیں کی بلکہ اس کے فضل کا اظہار ہے.۲۷؍ جون ۱۹۱۱ء دکھ آنے کی و جہ فرمایا.متقی سکھ میں رہتا ہے اور دکھ ہمیشہ کسی گناہ کے باعث آتا ہے.متقین کے لیے ضروری امر فرمایا.متقیوں کے واسطے ضروری ہے کہ کسی دوسرے بھائی کے لیے کینہ، رنج، غضب نہ ہو (الاعراف:۴۴) سورۃ فاتحہ کی عظمت فرمایا.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے تمام بادشاہتوں، دولتوں اور ملکوں اور دنیاوی سازوسامان کو ایک طرف رکھا ہے اور سورہ فاتحہ و قرآن عظیم کو ایک طرف.اور ارشاد کیا ہے کہ الحمد کے مقابلہ میں سارے جہان کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ.غور کرنے کا مقام ہے.الحمد ایک طرف ہے اور کل دنیا کا جاہ و جلال ایک طرف.پس تم اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرو.فرمایا.یہ بات اس آیت سے ظاہر ہے.(الحجر:۸۸،۸۹) ہمارے حضرت صاحب نے الحمد کی کئی تفسیریں لکھی ہیں.شیخ ابن عربی لکھتے ہیں کہ جتنی بار الحمد

Page 399

پڑھتا ہوں نئے ہی علوم کھلے ہیں.میں نے ایک دفعہ نابھہ میں وعظ کرتے ہوئے معلوم کیا کہ صرف الحمد سے تمام مذاہب باطلہ کا رد ہوسکتا ہے.جامع لفظ فرمایا.فصحاء کے کلام میں ایک ایسا جامع لفظ لایا جاتا ہے جو کئی پہلوؤں کو شامل ہوتا ہے.مثلاً قرآن میں دابر آیا ہے.دابر کہتے ہیں مدبر اور اوّل اور آخر کو.یہاں سب معنے مراد ہیں.مقتسمین کے مختلف معانی فرمایا.(الحجر:۹۱)میں مُقْتَسِمِیْنَ کے کئی معنے ہیں.(۱) بعض مسلمان ایسے ہیں کہ بعض حصہ قرآن پر ایمان لاتے ہیں بعض سے انکار.مثلاً نماز پڑھیں گے مگر عورتوں کو حصہ دینے کے متعلق اگر کہا جائے تو کہتے ہیں ہمارا رواج نہیں.ایسا ہی بعض کفار ہیں وہ بھی قرآن کا کچھ حصہ مانتے ہیں.مثلاً سچ بولنا، جھوٹ کو براجاننا، چوری نہ کرنا، زنا نہ کرنا.(۲)وہ لوگ جنہوں نے قتل النبی کی قسمیں کھائیں.(۳) جنہوں نے رستے بانٹ رکھے ہیں کہ آنے جانے والے کو جناب نبوی سے منع کریں گے.(۴) وہ لوگ جو سیدھی سادی بات میں چھیڑ کی راہ نکال لیتے ہیں تاکہ قوم کے دو فریق ہوجائیں.ایسے لوگ بہت فتنہ انگیز ہوتے ہیں.مخالفین کی شرارتوں پر صبر، تسبیح و تحمید اور دعا کی تلقین فرمایا.بعض احمدی مخالفین کی شرارتوں سے گھبرا جاتے ہیں.انہیں چاہئے کہ صبر سے کام لیں اور تسبیح و تحمید اور عبادت الٰہی بالخصوص سجدوں میں پڑ پڑ کے دعائیں کرنے میں لگے رہیں.یہ بات اس سے استنباط کی ہے.(الحجر:۹۸،۹۹) فرمایا.نافرمانی نہ کرو.تفرقہ نہ ڈالو.گلہ اور گستاخیاں چھوڑ دو.استغفار، لاحول، تسبیح، تمجید اپنا ورد بناؤ.

Page 400

؍ جون ۱۹۱۱ء قرآنی محاورہ میں روح سے مراد فرمایا.قرآن مجید کے محاورے میں روح سے مراد کلام الٰہی ہے.زندہ وہی ہے جو کلام الٰہی سے زندہ ہے باقی سب لوگ مردے ہیں.معبود کے لیے تین ضروری باتیں فرمایا.معبود کے لیے تین باتوں کا ہونا ضروری ہے.(۱)اس کا حکم مانا جائے.کامل محبت اس سے ہو.ایسی محبت اور کسی سے نہ ہو.کامل تعظیم.ایسی تعظیم اور کسی کی نہ ہو.کامل تذلل اس کے حضور میں کیا جائے.خدا کے علم و قدرت کا مطالعہ فرمایا.مومن کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے علم و قدرت، دو جہانوں کا مطالعہ بہت کرے تا فرمانبرداری اور ایمان میں ترقی ہو.خدا کی امتیازی شان فرمایا.تمام معبودان باطل میں دیکھو خدا کے پایہ کی کوئی چیز نہیں.بلکہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اسے بھی اسی معبود حق نے پیدا کیا ہے.نئی سواریوں کی قرآنی پیشگوئی فرمایا.(النحل:۹) میں ۱۳۰۰ سو برس پہلے بعض نئی سواریوں کی پیشگوئی موجود ہے.اور آج ہم بگھیاں، موٹرکار، ہوائی جہاز، ریل دیکھ رہے ہیں.میانہ روی اختیار کرو فرمایا.(النحل:۱۰) کے معنے ہیں خدا تک پہنچنے کے لیے وہ راہ کام آئے گی جو میانہ روی کی ہے.بہت کھانا بھی منع اور بالکل نہ کھانا بھی ٹھیک نہیں.ہر وقت خوراک، پوشاک، مکان کی فکر منع ہے اور ننگے رہنا، مکان کا بالکل فکر نہ کرنا یہ بھی درست نہیں.ہر چیز میں میانہ روی اختیار کرو.مال کی محبت میں، اولاد کی محبت میں، کھانے کی محبت میں، بغض و عداوت میں لوگ بڑھ جاتے ہیں.میانہ روی چاہئے.(البدر جلد۱۰ نمبر۳۷،۳۸ مؤرخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۳)

Page 401

؍ جون ۱۹۱۱ء مسلمانوں میں پائے جانے والے دو مرض فرمایا.مسلمان جب سے اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں ذلیل ہیں.وہ خدا کے فضل کو بھول گئے ہیںاور ’’تسخیر‘‘ کے پیچھے پڑگئے.ہماری طرف جب رجوع خلائق دیکھتے ہیں تو گمان کرتے ہیں ہمیں کوئی وظیفہ یاد ہے جس سے تسخیر کرلیا ہے.خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے. (الجاثیۃ:۱۴) (۲)(النحل:۱۳) جب یہ نعمت قرآن مجید میں پہلے ہی موجود ہے تو اس قدر گھبراہٹ کی کیا ضرورت ہے.دوسرا مرض مسلمانوں میں ناشکری ہے اور وہ حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے.حلال رزق سے اولاد نیک صالح پیدا ہوتی ہے اور عبادت میں لذت ملتی ہے.پہاڑوں کے فوائد فرمایا.پہاڑوں کے فائدے ہیں.از آنجملہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (النحل:۱۶) جس کے چار معنے ہیں.(۱) تاکہ تم ہلاک نہ ہوجاؤ.(۲)پہاڑ تمہارے ساتھ چکر کرتے ہیں.(۳)کھانا دیتے ہیں تمہیں.(۴)زمین ایک طرف جھک نہ جائے.ایک بال بھی نعمت ہے فرمایا.انسان کا ایک ایک بال بھی نعمت ہے.دیکھو ایک بانکے جوان پر ایک بال بھی سفید آجائے جب تک مونچنے سے نوچ نہ لے اسے قرار نہیں آتا.بدیوں سے بچنے کے لیے ضروری امر فرمایا.بدیوں سے بچنے کے لیے اسی بات کا مطالعہ سخت ضروری ہے کہ اللہ چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہے.۳؍ جولائی ۱۹۱۱ء ہجرت اور اس کا اجر فرمایا.ہجرت یہ ہے کہ ایک چیز سے تعلق ہے اور اللہ اسے پسند نہیں کرتا.بس اس تعلق کو محض اللہ کی رضا مندی کے لیے چھوڑ دیا.چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

Page 402

اَلْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ مَا نَہَی اللّٰہُ عَنْہُ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون بلسانہ و یدہ).فرمایا.اللہ کی رضا کے لیے کوئی چیز چھوڑ دی جائے تو اللہ اس سے بہتر بدلہ دیتا ہے.حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم نے جو کچھ چھوڑا اس کا بہتر سے بہتر بدلہ پایا.اسی ہجرت کا اجر ہے کہ اب تک ان کی قوم معزز سمجھی جاتی ہے.قرآنی نام ذکر فرمایا.قرآن نے جو کچھ بتایا ہے غور کریں تو انسان کا دل، اس کا فہم، اس کی روح اس کو مانتی ہے صرف بھولی ہوئی بات یاد کرائی جاتی ہے.اسی لیے قرآن کا نام ذکر ہے.(النحل:۴۴)کے نعوذ باللہ یہ معنے کہ عیسائیوں اور یہودیوں سے پوچھو بالکل غلط ہیں.ان کو کیا معلوم.پیمانہ لبریز ہونے پر الٰہی پکڑ فرمایا.انسان حرام خوری کرتا ہے اللہ کی نافرمانی کرتا ہے.اسے مگر بد نتیجہ نظر نہیں آتا تو وہ دلیر ہوجاتا ہے مگر جب پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو فوراً پکڑا جاتا ہے.ظاہر و باطن فرمایا.ظاہر سے باطن کی طرف جانا مسلمانوں کا معمول نہیں رہا.بلکہ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ دل صاف چاہئیں اعمال خواہ کیسے ہوں.یہ ان کی غلطی ہے.انگریزوں پر تعجب فرمایا.انگریزوں کی صناعیاں (ریل، ہوائی جہاز، تار) دیکھ دیکھ کر حیرت آتیہے.مگر مجھے اس سے بڑھ کر تعجب آتا ہے ان کے اس عقیدہ پر کہ وہ عاجز و غریب انسان کو خدا یا خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں.اختلاف کم ہونے کی وجوہ فرمایا.اللہ کی کتاب اور نبی کریم کے ارشادات پر جو قوم متمسک ہے اس میں اختلاف کم ہے.پھر جن میں خشیۃ اللّٰہ ہے ان میں اور بھی اختلاف کم ہے.مشتبہ مال فرمایا.ہر روز اپنے کھانے کا مطالعہ کرو.کپڑے کا مطالعہ کرو.آمدنی کا مطالعہ کرو کہ حرام تو نہیں.مشتبہ مال ہرگز استعمال نہ کرو کیونکہ اس سے دل سیاہ ہوجاتا ہے.دعا فرمایا.ہم سے سوا دعا کے کیا ہوسکتا ہے.حکومت قہری نہیں کہ زبردستی منوایا جائے.

Page 403

؍جولائی ۱۹۱۱ء انبیاء کرام کا ذات الٰہی کا ادب فرمایا.انبیاء کرام ذات الٰہی کا بہت ادب کرتے ہیں.ابوالانبیاء خلیل الرحمن حضرت ابراہیم فرماتے ہیں.(الشعراء:۸۰،۸۱).کھانا کھلانے اور پانی پلانے کو تو خدا کی طرف منسوب کیا ہے اور مرض کو اپنی طرف.ایسا ہی سورہ کہف میں ایک ولی اللہ نے کشتی کا عیب ناک کرنا اپنی طرف منسوب کیا ہے.(الکھف:۸۰) غرض انبیاء کا مذہب یہ ہے کہ وَالشَّرُّ لَیْسَ اِلَیْکَ.محبتِ قرآن فرمایا.مجھے قرآن مجید سے محبت ہے اور بہت محبت ہے.قرآن مجید میری غذا ہے.میں سخت کمزور ہوتا ہوں قرآن مجید پڑھتے پڑھتے مجھے طاقت آجاتی ہے.فرمایا.بچپن سے خدا نے مجھے اس دین پر چلایا ہے جس پر میں اب ہوں.اور میں چاہتا ہوں کہ اسی پر میرا خاتمہ ہو.عقلی دلائل فرمایا.مجھے خدا ہمیشہ قرآن سے عقلی دلائل سمجھاتا ہے.یہ اس کا فضل ہے.قرآن اور اختلاف فرمایا.قرآن مجید دنیا میں سے اختلاف دور کرنے کے لیے آیا.افسوس ہے کہ بعض بدبخت سمجھتے ہیں قرآن میں اختلاف ہے.حالانکہ قرآن مجید اختلافی مسائل میں ایک فیصلہ بتاتا ہے.پھر اختلاف مٹا کر اس راہ پر چلاتا ہے جس پر چلنے سے خدا راضی ہو.پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے خدا کی رحمتوں سے انسان مالا مال ہوجاتا ہے.شہد کے نام فرمایا.عربی میں چار سو نام شہد کا ہے.وحی الٰہی فرمایا.جیسے بارش ہو تو زمین سے روئیدگی نکلتی ہے اسی طرح جب وحی آسمانی کا نزول دل پر ہو تو عجیب عجیب معارف و حقائق کھلتے ہیں.فرمایا کہ جب مکھی کے پیٹ سے وحی الٰہی کے سبب شہد جیسی نافع چیز نکلتی ہے تو پھر انبیاء کے

Page 404

ذریعے وحی کے نزول سے کیا کیا فوائد مخلوق الٰہی کو پہنچ سکتے ہیں.فرمایا.جیسے بھوسہ اور خون میں دودھ موجود ہے مگر اسے سوا الٰہی مشین کے کوئی نکال نہیں سکتا.اسی طرح دنیا میں صداقتیں تو موجود ہیں مگر وہ صرف وحی کے ذریعے الگ ہوسکتی ہیں.۵؍جولائی ۱۹۱۱ء فضیلت فرمایا.فضیلت اگر کھانے سے ہو تو پھر ہاتھی اور ویل مچھلی کی زیادہ قدر ہو.خدا کی خاطر کام فرمایا.کام کرنے والا اور نہ کرنے والا ہرگز برابر نہیں ہوسکتے.عرب میں امرا، فصحا، شعرا موجود تھے لیکن غور کرو کوئی ان میں سے خدا کے لیے بھی کام کرتا تھا؟ ہرگز نہیں.برخلاف اس کے حضرت نبی کریم دن رات خدا کے کام میں مصروف رہتے.اس کا نمونہ ہم نے اس زمانہ میں بھی دیکھا.حضرت صاحب کا حال یہ تھا کہ سر میں چکر اور اسہال.مگر پھر بھی بڑا کام کرتے اور اکثر میں نے آپ کی زبان سے سنا کہ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں اور کام (دین کی تسلی) ابھی ادھورے پڑے ہیں.الٰہی نعماء اور مخلوقِ خدا کی بہتری کے لیے کام فرمایا.تم میں سے کوئی سعادت مند ہو جو سوچے کہ خدا نے کیا کیا نعمتیں دی ہیں اور پھر اس نے مخلوق کی بہتری اور خدا کی رضا مندی کے لیے کیا کام کیا ہے.میں نے پاگلوں کو دیکھا ہے کبھی کسی نے کھانا کھاتے وقت بجائے منہ کے کان میں نہیں ڈالا بلکہ اپنے مطلب کے لیے خوب دانائی سے کام لیتے ہیں.پس انسان کی اس میں کوئی خوبی نہیں کہ وہ اپنے نفس کی خواہشوں کے پورا کرنے میں ہوشیار ہو.بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ دوسروں کی بہتری اور اللہ کے دین کی اشاعت میںکیا کام کرتا ہے.سفر میں بیوی کی مصاحبت فرمایا.(النحل:۸۱)میں اشارہ ہے کہ انسان سفر میں بھی اکثر بی بی کو ساتھ رکھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک التزام فرمایا کہ احد کی جنگ میں عائشہ صدیقہ اور بتول آپ کے ہمراہ تھیں.خود ہمارے حضرت صاحب جب سفر پر جاتے اپنی بی بی کو ہمراہ لے جاتے.(البدر جلد۱۰ نمبر۳۹ مؤرخہ ۲۷؍ جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ۳)

Page 405

ایک تازہ ارشاد نامہ کسی حکم قرآنی یا حدیثِ نبوی کے مطابق غیراحمدی کے پیچھے نماز جائز نہیں سوال.غیر احمدی خواہ کوئی کیوں نہ ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں.میں نہایت ادب سے دریافت کرنا چاہتاہوں کہ یہ صحیح ہے یا نہیں.اگر صحیح تو کس حکم قرآنی یا حدیث نبوی کے مطابق یہ حکم دیا گیا ہے؟ جواب السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.مکرمت نامہ ۳؍جون ۱۹۱۱ء کا لکھا ہوا آج ۱۵؍جولائی۱۹۱۱ء میرے سامنے ہے.اس سے آپ قیاس کرسکتے ہیں کہ کس قدر علیل ہوں.۱۸؍ نومبر۱۹۱۰ء کو گھوڑی سے گرا.اور بیماری کا سلسلہ برابر چلتا ہے ایک زخم ناسور کا رنگ پکڑ گیا ہے.غالباً نماز بیٹھ کر پڑھتا ہوں.ایک وزیر اور وزیر اعظم کے آپ فرزند ہو، عقلمند ہو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(البقرۃ:۱۱۵) اس آیت کریمہ پر آپ توجہ کریں.اس میں ارشاد ہے کہ مساجد میں خائف ہوکر حاضر ہونا چاہیئے.مگر ان علماء کا ایسا حال ہے کہ مسجد کو ان لوگوں نے جنگ گاہ بنایا اور وہاں فتاویٰ کفر کے سوا ان کے پاس کیا رکھا ہے.مسلمان کو کافر بناتے ہیں اور بس یہ انکار ہمارے ساتھ نہیں علی العموم ان کے آپس میں ایسے ہی سلوک ہیں.جن دنوں میں پونچھ میںتھا ان دنوں…شہر میں نہیں آسکتے تھے.مجھے بھی رات کو باہر کوٹھی پر ملے.اور ایک مولوی صاحب تھے جن کو پونچھ میں تین بھائیوں……اور ایک کا نام… یاد نہیں ان تینوں نے تنگ کیا اس کی کتابیں لیں.آخر ایک بزرگ نے……ان کو ہرکاروں میں ملازم کرکے ایک پہاڑی چوکی پر بھیج دیا.ایک نو مسلم غلام احمد بیچارہ پونچھ میں چلا گیا.اس کو کیسی تکلیف دی.ایک لڑکا…وہاںسے بھاگ کرآیا تو پولیس میں احمدیوں کو ذلیل کیا.(……) نے ہم سے بدلہ لیا.کیونکہ میں نے ہی ان کی آمد رفت شہر میں کرادی تھی.اپنا کفر

Page 406

بھول گئے ہمیں زہر دینا، ہماری عورتوں کو چھین لینا تو ان کے فتاویٰ ہیں.مگر ہمارے دو مخلص ان کی مہربانی سے قتل ہوچکے ہیں.علی گڈھ کے سیکرٹری نواب صاحب نے اس امر کو خوب سمجھا اور احمدی لڑکوں کے لیے ایک کمرہ نماز کے واسطے الگ کرایا.آپ ذرہ عاقبت اندیش دل سے مشورہ لیں کہ ہم نے کیسا امن کا راہ اختیار کیا ہے.گورنمنٹ انگریزی کثرت کا لحاظ کرتی ہے اور ہم ہیں کم آپ (المائدۃ:۱۵) پر بھی توجہ فرماویں کہ یہود و نصاریٰ کے باہم تباغض کی جڑھ اس آیت کریمہ میں کیا ارشاد فرمائی ہے.آپ مجھ سے وہ آیت و حدیث دریافت فرماتے ہیں جن کی بنا پر ہم لوگ ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.مجھے اس دریافت پر خوشی ہوئی (السجدۃ:۲۵) امام بننے کے لیے اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے کہ ائمہ وہ ہیں جو ہمارے حکم کے مطابق ہدایت فرماتے ہیں جب کہ وہ صبر کرتے ہیں اور ہماری آیات پر یقین کرتے ہیں.آپ غورفرماویں کہ ایک آیت کے اندر تین شرطیں ہیں.کیا آپ فرماسکتے ہیں کہ یہ فتویٰ گر قاتل کہنے والے، زہر دینے والے، عورتیں چھیننے والے ان شرائط کے جامع ہیں.یہ انصاف آپ پر ہے اور حدیث شریف میں آیا ہے مَنْ قَالَ لِاَخِیْہِ الْمُسْلِمِ یَا کَافِرُ فَقَدْ بَائَ بِہٖ اَحَدُھُمَا.(التبصیر فی الدین و تمییز الفرقۃ الناجیۃ عن الفرق الھالکین.الکاملیۃ) ہم یقینا اللہ تعالیٰ کو وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ مانتے ہیں.ملائکہ، انبیاء، رسل، کتب اللہ پر ایمان ہے.نمازیں پڑھتے، زکوٰتیں دیتے ، حج کرتے، روزہ رکھتے ہیں اور یہ ہمارا ایمان ہے.پھر جو ہمیںکافر کہتا ہے اور کافر سے بدتر ہم سے معاملہ کرتا ہے وہ اس حدیث کے مطابق اپنے آپ کو کیا فتویٰ دیتا ہے.ہم فتوے نہیں دیتے.قرآن کریم نے دو شخصوں کو بڑا ظالم ٹھہرایا ہے.ایک وہ جو اللہ تعالیٰ پرافترا باندھے.دوسرا وہ جو را ستباز کو اور اس کی حق تعلیم کا انکار کرے.قرآن مجید میں ہے(العنکبوت:۶۹) اب ظالم تو یا مرزا ہے یا یہ مکفرین.مرزا کو تو ہم مفتری نہیں مان سکتے.ان کو کیا کہی

Page 407

قدر مفصل لکھنے کے قابل ہے اور بیماری اجازت نہیں دیتی.اگر مفید نہ ہوا تو انشاء اللہ تعالیٰ مکرر عرض کروں گا.(نورالدین) ۱۷؍ جولائی ۱۹۱۱ء (البدر جلد۱۰ نمبر۳۹مؤرخہ ۲۷؍ جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۸،۹) نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے میموریل تعطیل جمعہ کے متعلق الحکم کی گذشتہ اشاعتوں میں لکھا گیا ہے.میں نے اس میں ایک میموریل کی تجویز پیش کی تھی خدا کا شکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح مد ظلہ العالی کے دل میں بھی اس تحریک کو اللہ تعالیٰ نے ڈال دیا اور آپؓ نے مندرجہ ذیل اعلان اس غرض سے لکھا ہے.حضرت خلیفۃ المسیحؓ نے صرف دو گھنٹہ کی رخصت کی درخواست کی ہے.میں اس پر کچھ اضافہ کرنا تقدم علی الامام سمجھتا ہوں.یہ ایسی سہل تجویز ہے کہ اس پر بدوں کسی ہرج کے عملدرآمد ہو سکتا ہے دوسرے اسلامی جرائد سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس پر بالاتفاق تائیدی مضامین لکھیں گے اور ایسا ہی انجمنیں اپنے ریزولیوشن اس تحریک کی تائید میں پاس کر کے اس کو مضبوط بنائیں گے.ایڈیٹر الحکم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم شہنشاہ جارج پنجم شاہ برطانیہ و قیصر ہند کے دربار تاجپوشی کا عظیم الشان دربار جو ۱۲؍دسمبر کو ہندوستان کے شاہان اسلامی کے قدیم دارالخلافہ میں منعقد ہونے والا ہے وہ تاریخ ہندوستان میں ایک ایسا اہم واقعہ ہے کہ اس کے متعلق طبائع میں عجیب ولولے پیدا ہورہے ہیں.ہندوستان کو صدیوں کے بعد یہ عزت نصیب ہوگی کہ اس کا شہنشاہ اس کے قدیم دارالخلافہ میں تخت نشین ہوگا اور شہنشاہ بھی ایسا کہ اپنی وسعتِ مملکت کے لحاظ سے نہ اس زمانہ میں اور نہ کسی پرانے زمانہ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا.پس یہ لازمی امر تھا کہ ایسے عظیم الشان اور مبارک موقع پر طرح طرح کی امنگیں طبائع میں پیدا ہوتیں اور خصوصاً

Page 408

رعایا کے اس حصہ کے دلوں میں جو اپنے بادشاہ کی وفاداری کو اپنے مذہب کا ایک جزو سمجھتے ہیں.اس مبارک موقع پرمیں سلسلہ احمدیہ کا امام ہونے کی حیثیت سے ایک اہم امر کی طرف تمام مسلمانانِ ہند کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.سلطنت انگریزی نے جب سے ہندوستان میں قدم رکھا ہے یہ زرّیں اصول ہمیشہ اپنے مد نظر رکھا ہے کہ ہر قوم کو پوری مذہبی آزادی حاصل رہے اور اپنے فرائض مذہبی کی ادائیگی میں اسے کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو.چنانچہ سب قومیں جو اس وسیع ملک میں آباد ہیں اپنے اپنے مذہبی فرائض اور مذہبی رسوم کی ادائیگی میں ایسی ہی آزاد ہیں جیسے کہ وہ اپنے اپنے ہم مذہبوں کی حکومت کے نیچے ہوتیں.گورنمنٹ انگریزی کا نہ کبھی یہ منشا ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے کہ کسی قوم کو بلاوجہ اس کے کسی مذہبی فرض کی ادائیگی سے روکا جاوے یا ایسے اسباب پیدا کئے جاویں جن سے ایسی ادائیگی میں کسی قسم کی رکاوٹ واقع ہو.ہاں اگر کسی قوم کو کوئی تکلیف ایسی محسوس ہو تو گورنمنٹ کو اس کی اطلاع دینا یا اس کی طرف متوجہ کرنا یہ خود اس قوم کا فرض ہے.اہل اسلام سلطنت انگریزی کی ان برکات سے ہر طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن ایک امر ابھی تک ایسا ہے کہ اس کی طرف گورنمنٹ کو پورے زور سے توجہ نہیں دلائی گئی اور مسلمانوں کو قیصر ہند کے ہندوستان میں تاجپوشی کے مبارک موقع سے بڑھ کر بہتر موقع اس غرض کے لئے پھر میسر آنا مشکل ہوگا.جمعہ کا دن اسلام میں ایک نہایت مبارک دن ہے اور یہ مسلمانوں کی ایک عید ہے بلکہ اس عید کی فرضیت پر جس قدر زور اسلام میں دیا گیا ہے.ان دو بڑی عیدوں پر بھی زور نہیں دیا گیا جن کو سب خاص و عام جانتے ہیں.کیونکہ یہ عید نہ صرف عید ہے بلکہ اس دن کے لئے قرآن کریم میں یہ خاص طور پر حکم دیا گیا ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو جائے تو ہر قسم کے کاروبار کو چھوڑ کر مسجدوں میں جمع ہوجاؤ.جیسا کہ فرمایا. (الجمعۃ :۱۰)یہی وجہ ہے کہ جب سے اسلام ظاہر ہوا اسلامی ممالک میں جمعہ کی تعطیل منائی جاتی رہی ہے اور خود اس ملک ہندوستان میں برابر کئی سو سال تک جمعہ تعطیل کا دن رہا ہے.کیونکہ آیت مذکورہ بالا کی رو سے یہ گنجائش نہیں دی گئی کہ جمعہ کی نماز کو معمولی نمازوں کی طرح

Page 409

علیحدہ علیحدہ بھی ادا کیا جاسکتا ہے بلکہ جماعت میں حاضر ہونا اور خطبہ سننا اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اس کے لئے ضروری قرار دیئے گئے ہیں.بلکہ عید کی نماز کے لئے بھی اس قدر تاکید اسلام میں نہیں جس قدر کہ جمعہ کی نماز کے لئے ہے.اور مذہب اسلام کے رو سے جو شخص جمعہ کو چھوڑتا ہے وہ سخت گنہگار ہے ہندوستان کی تین بڑی قوموں یعنی ہندوؤں عیسائیوں اور مسلمانوں میں سے ایک خاص دن میں عبادت الٰہی کے لئے جس شدّومد سے قرآن شریف میں جمعہ کے متعلق حکم ہے باقی دوقوموں کے سبت کے متعلق اس زور سے قطعاً ان کی مقدس کتابوں میں ذکر نہیں.ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ ایک عظیم الشان اسلامی تہوار ہے اور نماز جمعہ کے تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنے کی ہر ایک مسلمان کو ایسی سخت تاکید کی گئی ہے کہ اسے صاف الفاظ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس وقت کسی دوسرے کام کو قطعاً نہ کرے.اب یہ امر ظاہر ہے کہ جس قدر کسی بڑی قوم کے بڑے بڑے تہوار ہیں ان کے منانے کے لئے گورنمنٹ نے اپنی سب رعایا کو یکساں آسانی دے رکھی ہے.سب سے زیادہ مشکلات ایسے تہواروں کے منانے میں ان لوگوں کو ہوسکتی ہیں جو بوجہ ملازمت گورنمنٹ اپنے وقت کے آپ مالک نہیں مگر ہماری مہربان گورنمنٹ نے صرف مذہبی آزادی کو مدنظر رکھ کر یہ ضروری قرار دیا ہے کہ سب قوموں کے بڑے بڑے تہواروں کے دنوں میں تمام سرکاری دفاتر اور سب عدالتیں وغیرہ بند رہیں تاکہ وہ حصہ رعایا جو ملازم گورنمنٹ ہیںاپنے دوسرے بھائیوںکے ساتھ ان تہواروںکے منانے میں شریک ہو سکیں.درحقیقت اگر گورنمنٹ اپنے ملازمین کو اس قدر آزادی نہ دیتی تو پھر مذہبی آزادی برائے نام ہوتی.پس گورنمنٹ کے اس طریق عمل سے کہ اپنے ملازمین کی خاطر وہ بڑے بڑے قومی تہواروںکے دنوں میں اپنے سب دفاتر کو بند رکھتی ہے یہ امر تو ظاہر ہوگیا کہ گورنمنٹ کا دلی منشاء یہ ہے کہ کسی قوم کو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میںکسی قسم کی روک محسوس نہ ہو لیکن جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے جہاں تک دیکھا گیا ہے اس قسم کی آزادی ابھی تک حاصل نہیں اور شہنشاہ ہند کی تاجپوشی کے مبارک موقع پر اس آزادی کے حصول کے لئے جس قدر زور دیا جائے کم ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ نظام گورنمنٹ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہر ہفتہ میں دو دن کی تعطیل ہو

Page 410

ور یہ بھی ظاہر ہے کہ اتوار شاہ وقت کے مذہب کے لحاظ سے تعطیل کا ضروری دن ہے.پس کوئی ایسی تجویز گورنمنٹ کے سامنے پیش کرنی چاہیئے جس سے نظام گورنمنٹ میں بھی کوئی مشکلات پیش نہ آویں اور اہل اسلام کو یہ مذہبی آزادی بھی مل جائے.اس کی آسان راہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے وقت یا تو سب دفاتر اور عدالتیں سکول کالج وغیرہ دو گھنٹے کے لئے بند ہو جاویں یا کم ازکم اتنی دیر کے لئے مسلمان ملازمین اور مسلمان طلباء کو اجازت ہو کہ وہ نماز جمعہ ادا کر لیں اور اس کے متعلق جملہ دفاتر و جملہ محکموں میں گورنمنٹ کی طرف سے سر کلر ہو جائے.گو اس وقت بعض افسر اس قسم کی اجازت اپنے ماتحتوں کو دیتے ہیں مگر ایسی مثالیں کم ہیں اور خصوصاً سکولوں اور کالجوں میں تو بالکل نہیں.ایسی اجازت نہ صرف مسلمانوں کی راہ سے ایک بڑی روک اٹھائے گی بلکہ آخر کار گورنمنٹ کے لئے بھی یہ فائدہ مند ثابت ہوگی کیونکہ نماز جمعہ میں ایک لازمی جزو خطبہ کا سننا ہے.اور خطبہ کیا ہے؟ اس میں یا تو اخلاقی وعظ ہوتا ہے یا پیش آمدہ امور میں مسلمانوں کو جو راہ اختیار کرنی چاہیے اس کا ذکر ہوتا ہے.گورنمنٹ خود اس ضرورت کو محسوس کرتی ہے کہ طلباء کی مذہبی تعلیم کا کوئی انتظام ہو تاکہ جو بد نتائج خالی نتائج خالی دنیوی تعلیم سے پیدا ہورہے ہیں جس کے ساتھ اخلاقی اور دینی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ان کا کوئی انتظام نہیں ان کا انسداد ہو سکے.میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر گورنمنٹ اور علمائے اہل اسلام توجہ کریں تو جمعہ کے خطبہ سے بڑھ کر کوئی بہتر صورت اخلاقی اور دینی وعظ اور تعلیم کی نہیں کیونکہ اس سے سب خاص و عام فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اور یہ امر کہ جمعہ کے دن دو گھنٹوں کے لئے مسلمان ملازمین اور مسلمان طلباء کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے اجازت دے دی جائے کوئی ایسا امر نہیں جس سے گورنمنٹ کی راہ میں کوئی مشکلات پیدا ہوتی ہوں کیونکہ سکولوں اور کالجوں میں تو یہ ضرورت صرف سردیوں کے موسم میں پیش آئے گی گویا سال میں صرف چھ ماہ کے لئے اس انتظام کی ضرورت ہوگی.باقی چھ ماہ اس وجہ سے کہ سکول اور کالج گرمیوں میں گیارہ یا بارہ بجے بند ہوجاتے ہیں ایسی ضرورت نہ ہوگی اور ملازمین گورنمنٹ کی اس قدر دیر کے لئے غیر حاضری سے جس قدر نقصان ہوگا اس کی تلافی وہ خود بعد از وقت کام کر کے کر سکتے

Page 411

ہیں.کیونکہ جو کام ان کے ذمہ ڈالا گیا ہے وہ انہیں بہر حال پورا کرنا ہوگا.برٹش گورنمنٹ کے نظام میں اس قسم کی مثالیں پہلے موجود ہیں کیونکہ اس گورنمنٹ کو مختلف قوموں پر حکمرانی کا موقع خدا نے دیا ہے اس لئے وہ حتی الوسع ان مختلف اقوام کے مذہبی اصولوں کو مد نظر رکھ کر کام کرتی ہے.چنانچہ مصر میں جہاں بڑا عنصر آبادی کا مسلمان ہے اور خدیو مصر برٹش نگرانی کے نیچے حکمرانی کرتے ہیں وہاں تعطیل کا دن بجائے اتوار کے جمعہ ہی ہے چنانچہ سکول، کالج، دفاتر، عدالتیں وہاں جمعہ کو بند ہوتی ہیں اور اس طرح پر اہل اسلام کو اس حکم کے بجالانے میں جو نماز جمعہ کے متعلق تاکیدی طور پر قرآن کریم میں دیا گیا ہے کوئی دقت نہیں.مگر وہاں چونکہ ایک کثیر حصہ اعلیٰ عہدہ دار ان کا انگریزوں کا ہے جو عیسائی مذہب رکھتے ہیں اس لئے گورنمنٹ نے ان کو یہ سہولت دے رکھی ہے کہ وہ اتوار کے دن چاہیں تو کام پر حاضر نہ ہوں اور اپنے کام کو باقی دنوں میں پورا کر دیں.پس جہاں اعلیٰ عہدہ داران کو محض ان کی مذہبی آزادی قائم رکھنے کے لئے برٹش گورنمنٹ نے اس قدر اجازت دے دی ہے ہندوستان میں مسلمان ملازمین کو جن کی نسبت بھی کل عملہ سے بہت تھوڑی ہے صرف دو گھنٹہ کے لئے اجازت کا مل جانا ایک یقینی امر ہے کیونکہ صرف ساتویں دن دو گھنٹے کے لئے چند ملازمین کی غیر حاضری سے جو وہ بھی اکثر غیر ذمہ واری کے عہدوں پر ہوں گے.کام کا کوئی بڑا حرج متصور نہیں اور اگر کوئی حرج ہوبھی تو وہی ملازم خود اپنے کام کو پورا کرنے کے ذمہ وار ہوں گے.غرض کہ ایک طرف جب ہم نماز جمعہ کے لئے سخت تاکیدی حکم قرآن شریف میں پاتے ہیں جس میں اس قدر تاکید ہے کہ صاف الفاظ میں یہ کہا گیا ہے کہ جب نماز جمعہ کا وقت آجائے تو تم دنیا کے ہر ایک قسم کے کاروبار چھوڑکر نماز جمعہ کی ادائیگی میں مصروف ہو جاؤ اور جب تک نماز جمعہ ادا نہ کر لو کسی کام کی طرف متوجہ نہ ہو ورنہ اللہ تعالیٰ کی سخت گرفت کے نیچے آؤ گے.اور اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ نماز جمعہ میں خطبہ میں جو اخلاقی تعلیم مسلمانوں کو دی جاتی ہے وہ ملک اور گورنمنٹ کے لئے کس قدر مفید ہے اور پھر دوسری طرف ہم ایسی نظیر بھی پاتے ہیں جس میں اسی قسم کی دقت ایک دوسرے ملک میں پیش آنے پر انگریزی گورنمنٹ نے اپنے ملازمین کے مذہبی حقوق کی ادائیگی کو ان

Page 412

کے سرکاری کام میں حاضری پر ترجیح دے کر علاوہ تعطیل کے دن کے ایک دن اور بھی انہیں غیر حاضر رہنے کی اجازت دی ہے.اور جو امر ہم پیش کرتے ہیں اس کی دقت اس دقت سے بدرجہا کم بھی ہے کیونکہ صرف دو گھنٹے کی رخصت نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے نہ آرام کے لئے ہم چاہتے ہیں.تو ہمیں یقین کامل ہوتا ہے کہ شہنشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی کے موقع پر اگر کل ہندوستان کے مسلمان متفق ہو کر اس مذہبی رکاوٹ کے دور کیا جانے کی درخواست کریں تو گورنمنٹ انگریزی ضرور ان کی اس دقت پر غور فرما کر اس کی اصلاح اس مبارک موقع پر کر کے چھ سات کروڑ نہیں بلکہ کل دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کو مسخر کر لے گی کیونکہ مسلمان قوم سب سے بڑھ کر مذہبی آزادی کی دل سے قدر کرنے والی ہے.ان وجوہات مذکورہ بالا کی بنا پر ہم نے ایک میموریل تیار کیا ہے جو حضور وائسرائے ہندکی خدمت میں بھیجا جاوے گا.لیکن چونکہ جس امر کی اس میموریل میں درخواست کی گئی ہے وہ جملہ اہل اسلام کا مشترک کام ہے اس لئے قبل اس کے کہ یہ میموریل حضور وائسرائے کی خدمت میں بھیجا جاوے ہم نے یہ ضروری سمجھا ہے کہ اس کا خلاصہ مسلمان پبلک اور مسلمان اخبارات اور انجمنوں کے سامنے پیش کیا جاوے تا کہ وہ سب اس پر اپنی اتفاق رائے کا اظہار بذریعہ ریزولیوشنوں وتحریرات وغیرہ کے کر کے گورنمنٹ پر اس سخت ضرورت کو ظاہر کریں تاکہ اس مبارک موقع پر یہ آزادی اہل اسلام کو حاصل ہوجاوے.ہمیں غرض صرف اس امر سے ہے کہ جملہ اہل اسلام کے اتفاق سے جیسی کہ یہ ضرورت متفقہ ہے یہ درخواست حضور وائسرائے ہند کی خدمت میں پیش ہو.اور یہ غرض نہیں کہ ضرور ہم ہی اس کو پیش کرنے والے ہوںچونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے ہم نے اسے پیش کر دیا ہے.اگر کوئی تحریک یا جماعت ایسی ہوجو صرف اس وجہ سے اس کے ساتھ اتفاق نہ کرے کہ یہ میموریل ہماری طرف سے کیوں پیش ہوتا ہے توہم بڑی خوشی سے اپنے میموریل کو گورنمنٹ کی خدمت میں نہیں بھیجیں گے.بشرطیکہ اس کے بھیجنے کا اور کوئی مناسب انتظام کر لیا جاوے.پس یہ اشتہارجملہ ایڈیٹران اخبارات اسلامی و سیکٹریان انجمنہائے وشاخہائے لیگ و معزز اہل اسلام کی خدمت میں اس غرض کے لئے بھیجا جاتا ہے کہ بہت جلد بذریعہ ریزولیوشنوں کے اور بذریعہ تحریرات

Page 413

کے اس پر اظہار رائے کریں تاکہ عام مسلمانوں کی طبائع کا میلان دیکھ کر اس درخواست کو پیش کیا جاوے.المعــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلن نورالدین (خلیفۃ المسیح الموعودؑ) قادیان ضلع گورداسپور یکم جولائی ۱۹۱۱ء (الحکم جلد ۱۵ نمبر۲۵،۲۶ مورخہ۲۱،۲۸؍جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲ تا۴) چند سوالوں کے جواب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ.آپ کا خط میں نے حضرت امیر المؤمنینؓ کے پیش کیا.سوال اوّل کے بارہ میں فرمایا.میں جو ایمان لایا ہوں تو اللہ کی کتاب پر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر، اجماع امت پر.باقی جو عجائبات قدرت ہیں وہ جس کو سمجھاتا ہے وہی بیان کرنے کا اہل ہے.مجھ کو تجلّٰی عرش و کعبہ کی حقیقت نہیں بتائی گئی.وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ.اور نہ یہ عجائبات ضروریات دین میں داخل ہیں وَ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ(کنز العمال جلد ۳ صفحہ۶۴۰).سوال دوم:.علمِ حق در علم صوفی گم شود کے معنے آپ دریافت کرتے ہیں.جواب.یہ نہ تو قرآن ہے نہ حدیث.یعنی خدا کا کلام ہے نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا.ایک صوفیانہ خیال ہے.آپ ایسا نہ سمجھیں کہ ہر بات ٹالتا ہے.اس لیے سنئے خدا کا علم اس کی اپنی ذات پاک کے متعلق ہے اور صوفی کا علم صوفی کی ذات سے وابستہ ہے.ایک دوسرے میں یہ علم حلول نہیں کرتے.صوفی کو وہی علم ہوسکتا ہے جو صوفی کے تعلق ہو.اور علم الٰہی اللہ کی ذات میں ہے وہ صوفی کے علم میں گُم ہے یعنی نہیں.یعنی صوفی کے علم سے جناب الٰہی کا علم نہیں مل جاتا.دوم یہ معنے ہیں کہ علم حق یعنی سچا علم صوفیوں کے علم میں گم رہتا ہے.یعنی تمام سچے علوم صوفیوں کے علم میں آجاتے ہیں.سوال سوم:.طالب مطلوب میں فانی ہوتا ہے یا برعکس اور فنا و بقا وجودی ہے یا شہودی؟

Page 414

جواب.اس کے جواب میں عرض ہے کہ جو مطلوب ہے وہ طالب بھی ہے.آپ نے سنا ہوگا:.؎ عشق در معشوق از عاشق فزوں دارد اثر پس طالب و مطلوب ایک نقطہ پر آکر متحد ہوجاتے ہیں.پس طالب و مطلوب میں یہ امتیاز من و تو نہیں رہتا.اور فنا بقا شہودی ہے وجودی نہیں.سوال چہارم:.صفات سمع و بصر ،علم راز یا ربگیر وگرنہ اے دل ناداں پایٔ آسان نیست کسی چیز کے قیام کے لیے ترپائی کی ضرورت ہوتی ہے.پس معرفت حقہ کے لیے بھی سمع، بصر، علم کی صفات کے حصول کی ضرورت ہے.قرآن مجید میں بھی(بنی اسرائیل:۳۷) آیا ہے.سوال پنجم:.(الف)سورہ واقعہ میں ایک جگہ (الواقعۃ:۴۰،۴۱).اور پھر اسی سورۃ میں (الواقعۃ:۱۵)بھی فرمایا.جواب.آپ غور سے دیکھیں مقربوں کے بارے میں (الواقعۃ:۱۴،۱۵) فرمایا ہے.اور اصحب الیمین کے لیے (الواقعۃ:۴۰،۴۱)فرمایا.یعنی (الواقعۃ:۴۱)(الواقعۃ:۱۵)دو الگ الگ گروہوں کے لیے فرمایا.(ب) کسی آیت سے سبقت خلق سمٰوٰت اور کسی سے سبقت خلقت ارض ثابت ہوتی ہے.جواب.یہ بھی صحیح نہیں (النٰزعٰت:۳۱) آیا ہے جس سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ دَحْوِارض بعد میں ہوئی.

Page 415

(ج) (المرسلات:۴۲) اور ظل شی بمقابل ضوء قمروشمس ہوتا ہے.اور قرآن مجید میں ہے(الدھر:۱۴) جواب.سایہ تو عرش کا بھی حدیث میں آیا ہے.خدا کے فضل کا سایہ بھی ہے.صرف سورج سے ہی سایہ کا تعلق نہیں اور دنیا میں یہ پیشگوئی تو جس طرح پوری ہوئی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.سوال ششم:.صنما رہِ قلندری زِ دار بہ من نمائی کہ ازو دور دیدم رہ و رسم پارسائی جواب.ایک اور بزرگ نے کہا ہے ؎ روح پدرم شاد کہ مے گفت بہ استاد فرزند مرا عشق بیاموز دگر ہیچ انسان کو جب جناب الٰہی کا فضل جذب کرلیتا ہے تو پھر ضرورت مجاہدات نہیں رہتی.اسے رہ قلندر سے صوفیاء نے تعبیر کیا ہے.مجاہدات سے پہنچنا ایک مشکل راہ ہے اور عشق الٰہی کا جذبہ دم کے دم میںکہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے.سوال ہفتم:.واہ گورو نے خوب سمجھائی سرسوں پھولی آنکھوں میں نگل گئی پربت کو رائی سرسوں پھولی آنکھوں میں جواب.گورو کی کلام سے حیرت بڑھ جاتی ہے اور وہ باتیں جو بہت سے کتابیں پڑھنے سے سمجھ میں نہیں آتیں ایک دم کی صحبت سے حل ہوجاتی ہیں.اس وقت پہاڑوں کے پہاڑ تل میں سما جاتے ہیں.ایک شخص نے پچھلے دنوں رؤیا میں دیکھا کہ پہاڑ اس کی آنکھ میں جذب ہوگیا ہے.جس کی تعبیر یہی ہے کہ قرآن کے علوم اسے آگئے.پس جس پر خدا کا فضل ہو اور مرشد برحق مل جائے اس کا دل

Page 416

وسیع ہوجاتا ہے اور جو باتیں پہاڑوں سے زیادہ سخت اور عظیم ہوتی ہیں وہ اس کے اندر آجاتی ہیں.سوال ہشتم:.نزد بعض فقیر دو قدم.و نزد بعض سہ قدم.و نزد حضرت مجدد ہفت قدم.جواب.دو قدم وصول الی اللہ تو یوں ہے کہ فناء نفس ہوگیا.پھر فناء عن المخلوق اور اللہ کو مقدم کرلیا.سہ قدم یوں کہ پھر عبادت اتباع کے رنگ میںنہ رہے بلکہ لذت کا خیال بھی نہ ہو.ہفت قدم یہ کہ پانچ لطائف، سلطان الاذکار،مراقبہ معیت کے بعد جذب الٰہی پیدا ہوجاتا ہے.اخیر میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ (العنکبوت:۵۲) پس آپ ایسی باتوں میں نہ پڑیں جو انسان میں کوئی روحانی ترقی پیدا نہیں کرسکتیں.بات وہی حق اور پختہ ہے جو یا خدا کا کلام ہے یا خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا.باقی سب ہیچ.والسلام (البدر جلد۱۰ نمبر۴۰ و ۴۱ مؤرخہ ۳ و ۱۰؍ اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۶،۷) مہاجرین و انصار کے فتاویٰ جمع کرنے کی خواہش حضرت امیر المؤمنین ماشاء اللہ بخیر و عافیت ہیں.آپ نے ایک دن فرمایا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.(التوبۃ:۱۰۰) اس لیے میں چاہتا ہوں (التوبۃ:۱۰۰) کے فتاویٰ جمع کیے جائیں.اگر خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے.(ماخوذ از کالم ’’مدینۃ المسیح‘‘البدر جلد۱۰ نمبر۴۰ و ۴۱ مؤرخہ ۳ و ۱۰؍ اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۸) حضرت خلیفۃ المسیح کی رائے رسالہ تاریخ اسلام پر تاریخ اسلام محنت کے ساتھ لکھی گئی ہے اور مصنّف نے عمدگی کے ساتھ کوشش کی ہے کہ صحابہؓ کے اندرونی تعلقات کی خوبی اور پختگی پر روشنی ڈالیں.اور آپ نے ثابت کیا ہے کہ خلفاء و دیگر صحابہؓ

Page 417

کی نسبت اختلاف رائے صرف نقطہ خیال کے اختلاف کی و جہ سے پیدا ہوا ہے.باوجود دلچسپ ہونے کے کتاب کا نفس مضمون تاریخ کی حد سے باہر نہیں نکلا.چونکہ صحابہؓ کی زندگی ہر زمانہ کے مسلمانوں کے لیے رہنما ہے اس لیے امید ہے کہ تاریخ اسلام کا سلسلہ بہت مفید ہوگا.(نورالدین) (البدر جلد۱۰ نمبر۴۲ مؤرخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۲) ۲۲؍جولائی ۱۹۱۱ء نصیحت اخلاص سے کی جائے فرمایا.میں نے حضرت صاحب کے سامنے ایک دفعہ واقعہ عرض کیا کہ ایک شخص نے ایک رئیس کو نصیحت کی کہ شراب نہ پیا کرے.رئیس نے کہا جو شراب پیتا ہے اسی کے دروازے پر شراب نہ پینے والے بھیک مانگنے آتے ہیں.جس سے وہ نادم ہوا.اس وقت حضرت صاحب نے فرمایا.کہنے والے نے اخلاص سے نہ کہا ہوگا ورنہ ایسا جواب نہ سنتا.اتفاق سے ایک دفعہ مجھے اس شہر میں جانا پڑا.مجھے حضرت صاحب کی بات یاد تھی میں نے چاہا کہ محض لِلّٰہ کے لیے اس رئیس کو کچھ کہوں.چنانچہ میں گیا اور بڑی جرأت سے درشتی کے ساتھ میں نے حق کہا اور وہ مجھے کچھ بھی نہ کہہ سکا بلکہ بڑی عزت کی.دوزخیوں کے کان، آنکھ، زبان کام دیں گے فرمایا.قرآن مجید میں آیا ہے  (بنی اسرائیل:۹۸)اور دوسرے مقام پر یوں بھی فرمایا کہ (۱) (الکھف:۵۴) مجرم لوگ آگ کو دیکھیں گے.(۲) (الملک:۸) اس کا شور سنیں گے.(۳) (الفرقان:۱۴) موت کو پکاریں گے.ان تین آیات سے ثابت ہے کہ دوزخیوں کے کان، آنکھ، زبان کام دیں گے.پس ان میں توفیق یہ ہے کہ اس پہلی آیت میں جو فرمایا کہ وہ بہرے، گونگے، اندھے ہوں گے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کوئی حجت قویہ اپنی نجات کے لیے پیش نہ کرسکیں گے اور وہ ایسا نظارا نہ دیکھیں گے جو خوش کن

Page 418

ہو اور ایسی بات نہ سنیں گے جو خوشی پہنچائے.۲۳؍ جولائی۱۹۱۱ء مثیل موسیٰ کی تسع آیات فرمایا.اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف بھی ایک موسیٰ (حضرت سیدنا محمدؐ علیہ الصلوٰۃ والسلام) تسع آیات کے ساتھ بھیجا.پس جو ان کے خلاف کرتا ہے وہ بھی فرعون کی طرح مثبور یعنی رسومات اور عادات میں محبوس ہے شرک مت کر.ناجائز روپیہ نہ کماؤ نہ ناجائز طور پر خرچ کرو، زنا نہ کرو، جھوٹ نہ بولو، کسی کو دکھ نہ دو، قتل نہ کرو، اکڑ بازی سے نہ چلو، کسی کو بجا گالی مت دو، مقابلہ کے وقت مت بھاگو، بیاج نہ کھاؤ.نصائح فرمایا.غضب،رسوم، عادات کی پابندی چھوڑ دو.حرص میں نہ بڑھو.غفلت نہ کرو.علم حاصل کرو تو اس پر عمل بھی کرو.اپنی جانوں پر رحم کرو.آئندہ آنے والی قومیں تمہارا نمونہ پکڑیں گی.پس تمہارا فرض نازک ہے.۲۴؍ جولائی ۱۹۱۱ء حصول نجات کے تین اسباب فرمایا.جس چیز کا ایمان ہوتا ہے اس کے مطابق عمل بھی ہوتا ہے.کسی کا عقیدہ صحیح ہو اور اعمال صالحہ نہ ہوں یہ غیر ممکن بات ہے.خدا نے نجات ایمان، اعمال صالحہ اور فضل سے فرمائی ہے.(۱)(الزخرف:۷۳) (۲)(البقرۃ:۲۶) (۳)(فاطر:۳۶) عیسائی علم دین سے جاہل فرمایا.اللہ تعالیٰ نے  (الکھف:۶) فرماکر عیسائیوں کا جو رعب دنیوی ساز و سامان کے اعتبار سے پڑ جاتا ہے اتار دیا ہے کیونکہ وہ علم دین سے بالکل جاہل ہیں.

Page 419

؍ جولائی ۱۹۱۱ء ہجرت کی اصل غرض فرمایا.مومن کا کام یہ ہے کہ جس مکان ، جس لباس، جس غذا، جس صحبت سے غفلت پید اہو اُسے چھوڑ دے.ہجرت کی اصل بھی یہی ہے.بدترین شرک اور مشرک اقوام فرمایا.ثنوی قوم دو خدا مانتے ہیں.ایک یزدان ایک اہرمن.مگر ان سے بڑھ کر آریہ مشرک ہیں جو مادہ، روح، فضا، زمانہ، خدا کو غیر مخلوق مانتے ہیں.عیسائیوں نے تین خدا کہے ہیں.ایک اور قوم ہے جو کسی اور کو بھی ویسا ہی علیم و خبیر ، متصرف مانتے ہیں جیسے خدا کو.اوروں کے لیے بھی سجدے اور قربانیاں اور دعائیں کرتے ہیں.پھر بدترین شرک ہے اللہ کا نّد بنانا.ایک طرف سے آواز آرہی ہے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ.دوسری طرف وہ اپنے کاروبار میں منہمک ہیں اپنے احباب کی مجلس میں سرگرم ہے.اصحاب کہف فرمایا.اصحاب کہف جس قوم کا نام ہے ایک تو ان کا نشان ہے کہ ہر چیز پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوتا ہے.دوم وہ پہلے ایسے ملک میں ہجرت کرکے گئے جو ایک کنارہ پر ہے اور سورج اس سے ہمیشہ دکن کی طرف رہتا ہے.معاملات لکھو فرمایا.میرا دل چاہتا ہے تمہارے معاملات دنیوی بالکل صاف ہوں اور تم خدا کے حکم کی تعمیل میں چھوٹے سے چھوٹا معاملہ بھی ہو تو اسے لکھ لو.(البقرۃ:۲۸۳) ایک سفر میں چند بھائی میرے ساتھ تھے.وہ خرچ کرتے تھے.میں نے کہا لکھ لو.تو انہوں نے میری تحقیر کی اور کہا ہم بھائی بھائی ہیں تم ہم میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہو.آخر ایک موقعہ پر جا کر وہ سخت لڑے.تب میری بات کی قدر معلوم ہوئی.دوسروں کے لیے نمونہ فرمایا.جو تم لوگ یہاں رہتے ہو وہ دوسرے کے لیے نمونہ ہو.پس تمہارا یہاں رہنا بڑا خطرناک ہے سنبھل کر رہو اور اپنے تئیں قرآن مجیدکے سچے متبع بناؤ.اللہ تم کو قرآن پر عمل کرنے کی توفیق دے.

Page 420

؍ جولائی ۱۹۱۱ء مصائب کے وقت تین علاج فرمایا.دکھوں اور مصیبتوں کے وقت تین علاج حضرت حق سبحانہٗ نے فرمائے ہیں.(۱) اللہ کا ذکر کرتے رہنا.(۲)(الکھف:۲۸)قرآن شریف اکثر پڑھتے رہنا.(۳)پاک لوگوں کی صحبت میں رہنا جو مستفاد ہے.(طٰہٰ:۲۹)سے اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ غافلوں کی صحبت و تعلق سے کنارہ کشی رہے.غافل وہ ہے جو یادالٰہی نہ کرے اور گری ہوئی خواہشوں کے پیچھے پڑا رہے.۲۹؍ جولائی ۱۹۱۱ء بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل فرمایا.سورۃ الکہف رکوع۵ میں   (الکھف:۳۳) میں بنی اسرائیل و بنی اسمٰعیل کا ذکر ہے.بنی اسرائیل نبوت، سلطنت دونوں باغوں کے مالک تھے.(بائبل میں بھی اس کی تمثیل ہے) بنی اسمٰعیل کو حقارت سے دیکھتے.خدا نے نبوت بھی چھین لی اور سلطنت بھی.عبرت کا مقام ہے.یہود دنیا میںبالشت بھر زمین کے مالک نہیں اور نہ کوئی ان کا ناصر.(الکھف:۴۴).(البدر جلد۱۰ نمبر۴۲ مؤرخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۳) ۳۰ جولائی ۱۹۱۱ء فرمایا.(الکھف:۴۶) یہ نصاریٰ کا ذکر ہے.ایک بزرگ نے کسی کے ہاتھ میں خلاف شرع کوئی چیز دیکھی.اس بزرگ نے اس سے وہ چیز لے کر توڑ دی.وہ کسی رئیس کا مصاحب تھا، اس کے آگے ذکر کیا.اس نے اس بزرگ کو بلایا اور ویسی

Page 421

چیز اپنے ہاتھ میں رکھ کر پوچھا کہ ایسی ہی چیز آپ نے کسی اور کے ہاتھ میں دیکھی تھی؟ کہا.ہاں.پوچھا پھر؟ کہا.اس سے میں قوی تھا لے کر توڑ دی.اب آپ کے مقابلہ کی مجھ میں طاقت نہیں اس لیے دل سے برا مناتا ہوں.رئیس نے کہا پھر ہمارا کیا علاج؟ اس پر کہا کہ آپ کے متعلق ایک آیت قرآن مجید میں ہے.(طٰہٰ :۱۰۶) غرض یہ ساز و سامان دنیوی یہ شان و شوکت ایک دن فنا ہونے والا ہے اس پر گھمنڈ نہیں چاہئے.فرمایا.مشفق کے معنے ہیں ڈرنے والا اور ڈرانے والا.ہمارے ہندوستان میں اور معنے لیے جاتے ہیں.۲؍اگست ۱۹۱۱ء مخلوقِ خدا کی ابتداء کا زمانہ فرمایا.غیر مذاہب کے مقابل میں تم بڑی جرأت و صفائی سے کہہ دو کہ اسلام نے خدا کی مخلوق کے ابتداء کا کوئی زمانہ مقررنہیں کیا.کوئی حد بندی نہیں فرمائی.وہ ازل سے خالق ہے.آگ اور لڑائی فرمایا.آگ کو لڑائی سے عجیب تعلق ہے.پہلے جب لڑائی کے مشورہ کے لیے دعوت ہوتی تھی تو بھی آگ ہی جلائی جاتی تھی.پھر پہاڑ پر الاؤ یہ بھی آگ ہی ہے.تیرو تلوار کو درست کرنے کے لیے بھی آگ ہی چاہیئے.پھر بندوق، توپ یہ آگ ہی ہیں.مسلمانوں میں پائی جانے والی خرابیاں فرمایا.خود رائی، خودپسندی مسلمانوں میں بہت بڑھ گئی ہے.وہ کسی سے مشورہ ہی نہیں کرتے اور اپنے مخالف رائے سننے کی تاب ہی نہیں رکھتے.سستی، کاہلی، باہمی رنجشیں، اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.یاجوج ماجوج فرمایا.جیسا مجھے ایک اور ایک دو پر یقین ہے.اسی طرح مجھے اس بات پر یقین ہے کہ یاجوج ماجوج وہ قومیں ہیں جو کشمیر، ایران، بخارا کے شمال میں ہیں.چین کی دیوار یورال کی آرمینا اور آذربائیجان کے درمیان کی دیوار ان قوموں کے حملوں کو روکنے کے لیے بنائی گئی.

Page 422

سبب کے تین معانی فرمایا.(الکھف:۹۰)میں سبب کے تین معنے ہیں.(۱)علم (۲)پہاڑ کے رستے (۳)مناظرہ ۳؍گست ۱۹۱۱ء کھیعص کے معانی فرمایا.کھیعصمیں اسماء الٰہی کی طرف اشارہ ہے.کبیر المتعال، کافی، ہادی، (المؤمنون:۸۹) عالم، عزیز، صادق.اگر صحابہؓ و تابعین ان کے معنے نہ کرتے تو میں کبھی نہ کرتا.وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ.اولاد کی خواہش کی وجوہ فرمایا.اولاد کی خواہش بھی کئی وجوہ سے ہوتی ہے.(۱)بعض عورتیں بانجھ کہلانا پسند نہیںکرتیں.(۲)شریکوں کا مال قبضے میں آجائے.(۳) ہمارے مال و اسباب کا کوئی وارث ہو.(۴)ہمارا نام رکھنے والا کوئی ہو.انبیاء کو بھی اس بارہ میں خواہش ہوتی ہے مگر اس لیے کہ کوئی سچے علوم اور نیکیوں کا وارث ہو.فرمایا.مجھ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی عمر میں اولاد دی ہے کہ جب کہ (مریم:۵)کا زمانہ ہے اور میں خدا کے فضل پر امید رکھتا ہوںکہ میری اولاد اچھی ہوگی! حصولِ اولاد کا مجرب نسخہ فرمایا.یہ نسخہ بہت مجرب ہے اور اب بھی نشان ہے کلام نہ کرے اور ذکرالٰہی میں شاغل رہنے سے قوت بڑھ جاتی ہے.تسبیحِ فاطمہؓ شیعوں میں تسبیح فاطمہ مشہور ہے اور سنّی بھی اسے مسنون سمجھتے ہیں.خاتون جنت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عرض کیا کہ مجھے دو تکلیفیں ہیں.ایک چکی پیسنی پڑتی ہے.دوم پانی کا مشکیزہ بھی خود ہی لانا پڑتا ہے.اور اپنے ہاتھ دکھائے اور لونڈی کی التجا کی.آپ نے فرمایا کہ

Page 423

میں تجھے اس سے بہتر شے بتلاتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد سبحان اللہ ۳۳ بار، الحمدللہ ۳۳ بار، اللہ اکبر ۳۳بار اور اس کے بعد لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھ لیا جاوے.اور سونے کے وقت بھی.جن لوگوں کا میں معتقد ہوں ان میں سے ایک نے لکھا ہے کہ اس میں سرّ یہ تھا کہ ذکراللہ سے ضعف گھٹ جائے گا اور پھر یہ شکایت پیدا نہ ہوگی.محراب فرمایا.مومن کی خلوت گاہ شیطان سے لڑائی کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے اسے محراب کہتے ہیں.۵؍اگست ۱۹۱۱ء مشکلات کے بعد آسانیاں سورہ مریم رکوع۲ کا درس دیتے ہوئے فرمایا.پہلے حضرت زکریا کی دعاؤں کا ذکر کیا.پھر مریم کا کہ کس طرح مشکلات کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں آسانیاں دیں.اسی طرح رسول کریم کو تسلی دیتا ہے کہ دین اسلام ان مشکلات سے نکل جائے گا.مومنوں کو چاہیئے کہ اللہ پر بڑی بڑی امیدیں رکھیں.فرمایا.(مریم:۱۷) کے معنے ہیں فراخ مکان جس میں دھوپ ہوا خوب لگے.کوئی نام تجویز کرنا غلط بات ہے.موت کی دعا فرمایا.(مریم:۲۴)موت کی دعا منع ہے.اس کے معنے ہیں میں بے ہوش ہوگئی ہوتی.فرمایا.(مریم:۲۵) یعنی تیرے نیچے ایک سردار ہے.قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں فرمایا.قرآن مجید کوئی تاریخ کی کتاب نہیں کہ مسلسل واقعات کا ذکر کرے جیسے پیچھے (مریم:۸) کے بعد  (مریم:۱۳) فرما دیا اور درمیانی واقعات کا ذکر نہیں فرمایا.ایسا ہی یہاں (مریم:۲۸) فرما دیا.اور یہاں مصر سے واپس آنے کا ذکر ہے.(مریم:۲۸) کے یہ معنے نہیں کہ گود میں اٹھائے لائی بلکہ سوار کرکے لائی.دوسرے مقام پر یہ محاورہ قرآن مجید میں موجود ہے.

Page 424

(التوبۃ:۹۲) اب اس کے یہ معنے تو نہیں کہ ان لوگوں نے درخواست کی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیں اپنی گود میں اٹھا لیں بلکہ سواری مہیا کرنے کے معنے ہیں.مریمؑ کو اختِ ہارون کہنے سے مراد فرمایا.(مریم:۲۸) سے مراد عجیب امر لائی ہو.اور کیوں ایسا نہ ہو (وہ کہتے ہیں) تیری ماں بھی نیک پارسا تھی، تیرا باپ بھی اچھا آدمی تھا.اچھوں کے اچھے ہوتے ہیں.اختِ ہارون اس لیے فرمایا کہ وہ ہارون کی قوم میں سے تھیں.جیسے قریش.راجپوت.حضرت عیسیٰؑ کا ذکر خیر فرمایا.(مریم:۳۰) حقارت سے ان لوگوں نے کہا کہ یہ تو کل کا لونڈا ہے اس سے کیا بات کریں.اس کے دودھ کے دانت ہیں.(مریم:۳۱) اس بات پر قرینہ ہے کہ آپ اس وقت بچے نہ تھے.اختلاف سے بچو (الزخرف:۶۶) پر فرمایا کہ تم میں اگر اس قسم کی بحثیں ہوں کہ خلیفہ اور فلاں کے کیا تعلقات ہیں اور پھر اس پر فیصلہ کرنے لگ جاؤ تو مجھے سخت رنج پہنچتا ہے.تم مجھے خلیفۃ المسیح کہتے ہو.میں تو اس خطاب پر کبھی پھولا نہیں بلکہ اپنی قلم سے کبھی لکھا بھی نہیں.میں تو اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس بیہودہ بحثیں کرنے والے لوگوں کو اپنی جماعت میں نہیں سمجھتا.میں تمام جماعت کے لیے دعا کرتا ہوں مگر ایسے لوگوں کے لیے دعا بھی پسند نہیں کرتا.ان کو کیا حق ہے کہ تفرقہ اندازی کی باتیں کریں.آگ پہلے دیا سلائی سے پیدا ہوتی ہے مگر آخرکار گھر پھر محلہ پھر شہر کے شہر جلادیتی ہے.خلیفہ خدا بناتا ہے ایسے لوگ اگر میری مدد کے خیال سے ایسا کرتے ہیں تو سن رکھیں کہ میں ان کی مدد پر تھوکتا بھی نہیں.اگر مخالفت میں کرتے ہیں تو وہ خدا سے جاکر کہیں جس نے مجھے خلیفہ بنایا.سنو!

Page 425

میرا صدیق اکبر کی نسبت یہی عقیدہ ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ نے خلیفہ نہیں بنایا.نہ اس وقت جب منبر پر لوگوں نے بیعت کی نہ اجماع نے ان کو خلیفہ بنایا بلکہ خدا نے ان کو خلیفہ بنایا.خدا نے چار جگہ قرآن میں خلافت کا ذکر کیا ہے اور چار بار اپنی طرف اس کی نسبت کی ہے.حضرت آدم کے بارہ میں فرمایا.(البقرۃ:۳۱)پھر حضرت داؤد کی نسبت ارشاد کیا (:۲۷) پھر صحابہ کرام کے لیے فرمایا(النور:۵۶) اور پھر سب کے لیے فرمایا.(یونس:۱۵) پس میں بھی خلیفہ ہو اتو مجھے خدا نے بنایا اور اللہ کے فضل سے ہی ہوا جو کچھ ہوا.اور اس کی طاقت کے بغیر انسان کچھ بھی نہیںکرسکتا.دیکھو! میرا یہ زخم ناسور کی صورت اختیار کرگیا ہے.دس ڈاکٹروں نے اس پر زور مارا مگر کچھ بھی نہ کرسکے.میں نے خود خطرناک سے خطرناک ناسوروں کا علاج صرف دوائی کھلا کر کیا ہے اور مجھے پورا یقین تھا کہ ناسور اچھا ہوسکتا ہے.ہاں وہ ناسور دقت طلب ہے جو مقعد کے قریب ہو.یہ سب کچھ اس لیے ہوا تا تم جانو! کہ اللہ کے اختیار میں ہے.تمہیں چاہیئے دنیا کماتے آپ کھاتے بیوی بچوں کو کھلاتے.اس سے بچتا تو دوسرے کے نفع اور مخلوق کی شفقت پر خرچ کرتے.پھر اس سے وقت بچے تو الحمد پڑھو.لاحول پڑھو.استغفار پڑھو.درود پڑھو.لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا ذکر کرو.تمہارے پاس ان لغو کاموں اور باتوں کے لیے وقت کہاں سے آگیا.اپنے اخلاق کی کمزوریوں کی اصلاح کرو.گندی گالیاں تمہارے منہ سے نہ نکلیں.تم میں طمع و حرص نہ ہو.تجارت میں حساب و کتاب رکھو.ملازمت میں فرض منصبی کو ایمانداری سے ادا کرو.مسیح بے باپ تھا یا نہیں؟ ایک اور بحث بھی ہے کہ مسیح بے باپ تھا یا نہیں! میں کہتا ہوں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کا باپ تھا یا نہیں.شریعت نے ہمیں اس بات پر مامور نہیں کیا کہ ہم پیغمبروں کے ماں باپوں اور بہن بھائیوں کی تحقیق کرتے پھریں.یہ باتیں تمہاری روحانیت میں داخل نہیں.ہم نے آج جو کچھ سمجھایا وہ درد دل سے سمجھایا ہے.اللہ تعالیٰ ہی سمجھ دے اسی کے قبضہ میں سب کے دل ہیں.

Page 426

شیرازۂ وحدت قائم رکھنے والا وجود تم شکر کرو کہ ایک شخص کے ذریعہ تمہاری جماعت کا شیرازہ قائم ہے.اتفاق بڑی نعمت ہے اور یہ مشکل سے حاصل ہوتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ تم کو ایسا شخص دے دیا جو شیرازہ وحدت قائم رکھے جاتا ہے.وہ نہ تو جوان ہے اور نہ اس کے علوم میں اتنی وسعت جتنی اس زمانہ میں چاہیئے.لیکن خدا نے تو موسیٰ کے عصا سے جو بے جان لکڑی تھی اتنا بڑا کام لے لیا تھا کہ فرعونیت کا قلع قمع ہوگیا.اور میں تو اللہ کے فضل سے انسان ہوں.پس کیا عجیب ہے کہ خدا مجھ سے یہ کام لے لے.تم اختلافات اور تفرقہ اندازی سے بچو.نکتہ چینی میں حد سے بڑھ جانا بڑا خطرناک ہے.اللہ سے ڈرو.اللہ کی توفیق سے سب کچھ ہوگا.۶ ؍اگست ۱۹۱۱ء حضرت ابراہیم ؑ کی مقبولیت فرمایا.حضرت ابراہیم خدا کے بڑے پیارے بندوں میں تھے اور اپنی ذات میں کمالات کے جامع تھے.ہمیں تو ان کے والد کا نام بھی کسی صحیح روایت سے معلوم نہیں.پھر بھی ان کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ تمام یورپ، تمام امریکہ، تمام مسلمان، تمام عرب، یہود، مجوسی ان کی عظمت کے قائل ہیں.کوئی بڑا ہی بدبخت ہو جو منکر ہو.بعض اولیاء و انبیاء کو عجیب مقبولیت ہے.یہ بھی خدا کی ایک شان ہے.سید عبدالقادر جیلانی ؒ کو برا کہنے والے بہت کم ہیں.ہاں رافضی ہوں تو ہوں.سچ بولنا بڑا وصف ہے فرمایا.سچ بولنا بڑا وصف ہے.یہ بڑا ہی کٹھن راستہ ہے.آٹھ پہر میں اس بات کی طرف بھی غور کرو کہ تم نے کہاں تک سچ بولا ہے.میں ایمان رکھتا ہوں کہ جس نے زبان پر قابو پایا اس نے بہت سے عیوب پر قابو پالیا.نبی کے معنے فرمایا.نبی کے معنے خدا سے خبر پاکر اطلاع دینے والا اور بہت ہی بڑائی والا ہے.فرمایا.جس قدر لوگ اپنے آرام کی فکرکرتے ہیں اگر کچھ دیر اس بات میں بھی لگائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے.

Page 427

حضرت ابراہیم ؑ پر الٰہی افضال فرمایا.حضرت ابراہیم کے اب نے دو باتیں فرمائیں.(۱)(مریم:۴۷) (۲)(مریم:۴۷) میں تجھے سخت سست کہوں گا.اور مجھ سے الگ ہوجا.چونکہ آپ نے خدا کے لیے ایسا کیا اس لیے اللہ نے اس کے عوض (مریم:۵۰) فرمایا.یعنے حضرت اسحق و حضرت یعقوب ایسے برگزیدہ دیئے.اور سخت زبانی کے مقابل پر(مریم:۵۱) فرمایا.یعنے ان کا ذکر جمیل دنیا میں کردیا.مومن کے تین وصف فرمایا.مومن میں یہ تین وصف تو ضرور ہوں.امر بالمعروف ہو.نہی عن المنکر.راستباز ہو.دائیں ہاتھ کے تین نام اور ان کے مطالب فرمایا.دائیں ہاتھ سے نیک کام کرنے کا حکم ہے.اس کے تین نام ہیں.سیدھا ہاتھ، راست.یمین.اس کا مطلب یہ ہے کہ راستی سے لو اور راستی سے دو.سیدھے طور پر کام کرو.سیدھے طریق پر لو.یمن و برکت کے طریق پر لو.اور یمن و برکت کے طریق سے دو.تنہائی فرمایا.انسان کے لیے تنہائی کبھی یمن و برکت کا موجب نہیں ہوتی.خَلْف خَلَف فرمایا.خَلْف برے معنوں میں آتا ہے اور خَلَف کا اطلاق اچھے پر ہوتا ہے.مفسرین کا غلط طریق تفسیر فرمایا.حضرت جبرائیل سے ایک دفعہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا تم ہر روز کیوں نہیں آتے تو انہوں نے حسب حال یہ آیت پڑھ دی.(مریم:۶۵) اب بعض مفسرین نے اس سے یہ سمجھ کر کہ یہ خاص جبرائیل کے لیے ہی ہے مشکلات میں پڑے ہیں.یہ طریق تفسیر ٹھیک نہیں.اس رکوع میں تو جنتیوں کا ذکر ہے.وہی کہتے ہیں کہ ہم جنت میں اللہ کے حکم سے ہی پہنچے ہیں.

Page 428

؍اگست ۱۹۱۱ء خدا سے بے پرواہی کے اسباب فرمایا.جب انسان کو صحت ہو، اس کے پاس مال ہو، جتھا ہو، حسن ہو، کامیابی ہو تو وہ خدا اور آخرت سے بے پرواہ ہوجاتا ہے.تعلیمات حقہ اور ان کے دلائل فرمایا.تمام تعلیمات حقہ کا مجموعہ قرآن مجید ہے اور ان تمام کی دلائل بھی اس میں موجود ہیں.اتباع قرآن مجید فرمایا.صحابہؓ ،تابعین، تبع تابعین نے جو مراتب پائے وہ سب قرآن مجید کے اتباع سے پائے.۸؍اگست ۱۹۱۱ء طٰہٰسے مراد فرمایا.طٓہٰ عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جس کو کسی بات کی دھت لگ رہی ہو.کتاب اللہ اور عربی لٹریچر فرمایا.عربی لٹریچر محبوبوں کے حسن و جمال، اپنے اظہار کمال، جتھے کی طاقت، دشمن کی ہلاکت کی نسبت بہت کچھ پایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اللہ کی عظمت، اللہ کی جبروت، اللہ کے عجائبات قدرت کا بیان ہوتا ہے.علمِ الٰہی فرمایا.اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے اور پھر مثلاً ایک سال بعد میرے دل میں جو خیال آنے والا ہے اسے بھی جانتا ہے.(طٰہٰ:۸) فرمایا.قرآن میں اللہ کے لیے صفات کا لفظ کہیں نہیں آیا.اسماء ہی فرمایا.موسیٰؑ کے معنے فرمایا.موسیٰ ؑکے معنے جس سے ہمدردی کی جائے.اسی واسطے اس کے ساتھ ہمدردی کرنے والے کو آسیہ کہا گیا.مخالفت و مقابلہ اور جنگ فرمایا.امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو مخالفت و مقابلہ کا پیش آنا ضروری ہے اور تمام دنیا میں ایک جنگ ہے.مچھلیوں کے حالات پڑھو، پرندوں پر نظر کرو، کس طرح ایک

Page 429

دوسرے کو شکار کرتے ہیں.فرمایا.انسان کے پیٹ میں روٹی نہیں پہنچتی جب تک کئی جنگیں نہ ہولیں.حضرت موسیٰ کو آگ دکھائی گئی جس میں یہ اشارہ تھا کہ جنگوں کے بغیر کامیابی نہ ہوگی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃ للعالمین تھے، جنہوں نے تیرہ برس تک بڑے ضبط اور استقلال کے ساتھ صبر کیا، ان کو بھی ستایا گیا کہ آپ کو جنگ کرنے پڑیں گے.۹؍اگست ۱۹۱۱ء انبیاء کو بہت مجاہدات کرنے پڑتے ہیں فرمایا.اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کے حق میں فرمایا ہم تجھے کندن بناتے رہے.فرمایا.انبیاء کو بہت مجاہدات کرنے پڑتے ہیں.پہلے شاہزادگی کی حالت میں پرورش پائی.پھر بیابان میں ایک بزرگ کی بکریاں چرانے لگے.میرے ایک استاد تھے عبدالقیوم.وہ فرمایا کرتے کہ پہاڑوں میں بکریاں چرانا بڑا مشکل کام ہے.مضبوط لٹھ رکھنا پڑتا ہے جو شیر اور ریچھ کا مقابلہ بھی کرے.پھر بکریوں کو بھی ہانکنا پڑتا ہے.گویا ایساآدمی چاہیئے جو گرم بھی ہو اور نرم بھی.صحبت صالحین فرمایا.نیک صحبت میں رہو.نیکوں کے پاس ضرور جایا کرو.رامپور میں جب میں پڑھتا تھا تو ایک بزرگ شاہ جی عبدالرزاق تھے.اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ وَارْحَمْہٗ.میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا.ایک دفعہ کچھ ایسا اتفاق ہوا (کوئی خاص سبب تو یاد نہیں) کہ میں کئی دن تک ان کے پاس نہ گیا.آپ نے فرمایا! نورالدین کبھی قصاب کی دکان پر گئے ہو.عرض کیا کئی دفعہ دکان پر سے گزرا ہوں گا مگر صوفیانہ باریک در باریک علوم آپ کے حصے میں ہیں.فرمایا.دو چھریاں کام لینے سے کند ہوجاتی ہیں تو قصاب تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کو آپس میں رگڑ لیتا ہے تاکہ تیز ہوجائیں.اسی طرح محبت نیک اپنا اثر رکھتی ہے.کوئی ان لوگوں کی صحبت میں سچی نیاز مندی کے ساتھ رہے تو اللہ کے ساتھ تعلق بڑھ جاتا ہے.حفظِ مراتب کی تلقین فرمایا.اللہ تعالیٰ نے (طٰہٰ:۴۵)ارشاد کرکے

Page 430

حضرت موسیٰ و ہارون علیہماالسلام کو ہدایت فرمائی کہ فرعون کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرنا.یہ امر قابل غور ہے جن لوگوں کو خدا کی باریک در باریک مصلحتوں نے امیر بنایا ہوتا ہے ان کے مراتب کا لحاظ کرنا چاہیئے.بعض نادان کہتے ہیں ہم کیوں کسی کی خوشامد کریں.مگر جب خدا نے کسی کو خوشامد کرنے کے لیے بنایا تو بندے کی کیا ہستی کہ اس کی مخالفت کرے.ہمارے ضلع میں ایک صوفی چشتی تھے حضرت شمس الدین.کسی نے ان کی نسبت کہا کہ فقیر نہیں.میں نے و جہ پوچھی تو فرمایا کہ وہاں ڈپٹی یا تحصیلدار آتے ہیں تو مرغ پکتا ہے اور ہمارے لیے دال.میں نے اسے کہا کہ خدا تعالیٰ آپ کو گھر میں کیا دیتا ہے.کہا روکھی سوکھی روٹی.اور ان تحصیلداروں اور ڈپٹیوں کو کیا دیتا ہے.کہا گوشت و پلاؤ.تب میں نے اسے کہا کہ پھر حضرت خوا جہ صاحب پر اعتراض کرنے سے پہلے خدا پر اعتراض کرو گے کہ اس جناب میں لحاظ داری ہے.ایک دفعہ ایک بڑا معزز قوم و عہدے کے اعتبار سے یہاں آیا اور اس نے مجھے کہا کہ یہاں بڑی لحاظ داریاں چلتی ہیں.میں نے کہا کیونکر؟ کہا دیکھئے کل مولوی عبدالکریم صاحب کے لیے حضرت صاحب نے کھانے کے متعلق کس قدر تاکید فرمائی ہے.میں نے کہا پھر لحاظ داری کیا ہوئی؟ لحاظ داری ہوتی تو آپ جو اُن سے باعتبار قوم و عہدہ معزز ہیں آپ کے لیے کوئی خاص اہتمام ہوتا.اس طرح اسے سمجھا کر میں نے پھر دکھایا کہ دیکھو گھاس پر ہم دونوں کا پاؤں پڑتا ہے مگر اس بڑ کی چوٹی پر نہیں.خدا نے ایک کو بڑا بنادیا ایک کو چھوٹا.معیّت متشابہ ہے فرمایا.معیت متشابہ ہے محکم نہیں.کیونکہ....ذات کے تو اللہ تعالیٰ فرعون، ہامان کے ساتھ بھی ہے.پھر ایک اور مقام ہے جب حضرت موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم پکڑے گئے تو حضرت بولے (الشعراء:۶۳) دیکھئے یہاں بنی اسرائیل کے ساتھ بھی معیت نہ رکھی.سلسلہ گفتگو میں ٹھیک نہ چلنے والے فرمایا.جو لوگ اچھے نہیںہوتے وہ سلسلہ گفتگو میں ٹھیک

Page 431

نہیں چلتے.بات کرتے کرتے دوسری بات شروع کردیتے ہیں تاکہ اصل مطلب خبط ہوجائے.حضرت عیسیٰؑ کا مستقر فرمایا.انیس سو سال سے حضرت عیسیٰ ان لوگوں کے زعم میں آسمان پر رہتے ہیں اور چند سالوں کے لیے یہاں آئے تو ان کا مستقر تو آسمان ہی ٹھہرا.حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتے ہیں.(البقرۃ:۳۷).لوگوں سے گفتگو کا طریق فرمایا.خدا تمہیں نیک مجلس عطا کرے اور عاقبت اندیشی سے گفتگو کرنے کا طرز آوے.لوگوں سے ان کے قدر کے مطابق بات کرو.حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ َوسَلَّمَ اَنْ نُّنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَھُمْ(صحیح مسلم مقدمۃ الامام مسلم ؒ).جب کوئی بات کرنے والا بیہودگی کی راہ اختیار کرے تو تم ایسی تدبیر کرو کہ وہ بیہودگی چھوڑ دے.۱۰؍اگست ۱۹۱۱ء بوقتِ دعویٰ خدا کا نام لیا جائے فرمایا.کئی لوگ ایسے ہیں کہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر خدا کا نام نہیں لیتے.حضرت یوسف کے بھائیوں نے (یوسف:۶۲) (یوسف:۶۴) کہا اور آخر اتنی مصیبتوںمیں پڑے.فرعون کی بدظنی کا بد نتیجہ فرمایا.بدظنی انسان کو ہلاک کردیتی ہے.اس بات کی تمیز کہ جو ظن میں نے کیا ہے بد ہے یا نیک، یہ بھی خدا کے فضل پر موقوف ہے.اللہ تعالیٰ مومن کو ایک فراست بخشتا ہے.فرعون کو بدظنی نے ہلاک کیا.اس نے بدظنی کی کہ حضرت موسیٰ حکومت کے خواہشمند ہیں.حالانکہ مجھے، جیسا ایک اور ایک دو پر یقین ہے ایسا ہی اس بات پر کہ انبیاء، خلفاء، ائمہ کے دل میں قطعاً ریاست، دولت، حکومت کا خیال نہیں ہوتا.اور یہ بات چونکہ مجھ پر گزری ہے اس لیے اسے خوب سمجھتا ہوں.حضرت موسیٰ کو جناب الٰہی میں سے ارشاد ہوتا ہے کہ تم کو رسالت دی گئی فرعون کی طرف جاؤ.

Page 432

مگر آپ ہیں کہ عرض کیے جاتے ہیں کہ میرا بھائی ہارون (القصص:۳۵) اگر قلب کے کسی گوشہ میں ذرا بھی نبی بننے کی خواہش ہوتی تو ایسا کبھی نہ فرماتے.(البدر جلد۱۰ نمبر۴۳ مؤرخہ ۲۴ ؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۲تا۴) ملفوظات امیر المؤمنین ۶؍جولائی۱۹۱۱ء مومن کا فرض فرمایا.مومن کا فرض ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکرتا رہے.اپنی اپنی قبر میں پڑنا ہے یاعیسیٰ بدین خود موسیٰ بدین خود صحیح نہیں.لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ کا مطلب فرمایا.بعض لوگوں کو دھوکہ ہوا ہے.وہ(الصف :۳)سے یہ سمجھتے ہیں کہ جس بات پر خود عمل نہ ہو اسے کہنا ہی نہیں چاہیے.اس آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ جو قول و قرار پورا نہ کرنا ہو وہ کہنا ہی نہیں چاہیے.عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ کی آیت سے غلط استدلال دوسری آیت یہ(المائدۃ:۱۰۶)سے استدلال غلط کرتے ہیں.حضرت ابوبکرؓ سے کسی نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا اِذَا رَأَیْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَ ھَوًی مُتَّبَعًااَوْ اِعْجَابَ کُلِّ ذِیْ رَأْیٍ بِرَأْیِہِ فَعَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ جب تو دیکھے ایک شخص دنیا کا حریص ومتبع ہے اور گری ہوئی خواہشوں کا پیرو ہے اور خود پسندی کا یہ حال کہ اپنی ہی رائے پسند ہے تو اس وقت عَلَیْکُمْ اَنْفُسُکُمْ کا موقعہ ہوتا ہے.فرمایا.میرا یہی دستور ہے کہ ایک حد تک کہتا ہوں پھر میں حضرت ابوبکرؓ کے قول پر عمل کرتا ہو

Page 433

؍جولائی۱۹۱۱ ء مسجد حرام میں مشرکین کے جانے کی ممانعت کی وجوہ اس سوال کے جواب میں کہ مسجد حرام میں مشرکین کا آنا کیوں منع کیا گیا.فرمایا.اس سوال کے پوچھنے والا یہودی یا عیسائی ہے تو اس کے لئے یہ جواب کافی ہے کہ سات گاؤں تھے جو حضرت موسیٰ نے ایسے ٹھہرائے کہ ان میں کسی قوم کے آدمی کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی.دوسرا جواب اللہ تعالیٰ اسی رنگ میں سزا دیتا ہے جس میں نافرمانی ہو.مثلاً ایک شخص کے پاس ایک گھوڑی ہے.پڑوسی چور ہے وہ اسے چرا لیتا ہے مگر اسے چرا کر وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا بلکہ دیکھ بھی نہیں سکتا کیونکہ سو کوس کے اندر تو رکھ ہی نہیں سکتا.گویا جس مطلب کے لئے اس نے چوری کی اس سے محروم رہ گیا.ایسا ہی زنا سے رونگٹا رونگٹا فائدہ اٹھاتا ہے تو آتشک سے بال بال دکھ اُٹھا تا ہے.مشرکین عرب کا جرم تھا کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام میں آنے سے روکا (البقرۃ :۱۱۵) تو اب سزا بھی اسی رنگ میں دی گئی یعنی مشرکـون مسجد حرام کے نزدیک پھٹکنے بھی نہ پائیں.تیسرا جواب یہ ہے کہ جب کوئی مذہب پیدا ہوتا ہے تو اس کی ابتدائی حالت میں بڑے بڑے مخلص لوگ ہی شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ وقت بڑی مصیبتوں کا ہوتا ہے مومن کے جان و مال پر ابتلا آتا ہے اور بعض اوقات تو اس بستی میں رہنا بھی دشوار ہو جاتا ہے.پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ مخلص لوگ اس صبر کے اجر میں بادشاہ بنائے جاتے ہیں.اس وقت منافق اور گندے لوگ بھی طرح طرح کے حیلوں سے بیچ میں آگھستے ہیں اور دین کی اکثر باتوں کو کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں مثال کے طور پر نصاریٰ کو دیکھو کہ اب اصل انجیل تک ان کے پاس نہیں.ایک طرف تو علم طبقات الارض وغیرہ میں یہاں تک ترقی کی ہے کہ سب زمین کو چھان ڈالا.دوسری طرف دینی امور کا یہ حال کہ اپنے مذہب کی کتاب کا پتہ نہیں.ہندو یہ بتا سکتے کہ رام چندرجی اور کرشن مہاراج کا طرز عبادت کیا تھا.

Page 434

غرض ایک وقت مذہب پر آتا ہے کہ اس کے پیروؤں میں دنیا پرستی بڑھ جاتی ہے اور اصل مذہب کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے تو قوم خدا کے احکام کو بھول جاتی ہے اور غیر قوموں کے اثر سے متأثر ہو کر انہیں کا رسم و رواج اختیار کر کے بعض اوقات ان میں مل جاتی ہے.اس خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے ضرور تھا کہ مکہ معظمہ غیر قوموں کے دخل سے بالکل پاک رہے تا دین بھی محفوظ رہے.اور اگرچہ بعض قسم کی تبدیلیاں پیدا ہونی ایک قدرتی بات ہے مگر پھر بھی دوسری قوموں سے مسلمان نسبتاً بہت محفوظ رہے.عیسائیوں کے دو فرقوں کا طریق عبادت بھی نہیں ملتا.مسلمانوں میں امر مشترک تو ہے خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں.والسلام ۹؍جولائی۱۹۱۱ء کمانے کے لئے تین اہم امور فرمایا.کمانے میں تین باتیں نہ ہوں تو وہ کمانا غفلت کا موجب ہوگا.حلال ہو.یہ نہ سمجھ لو کہ چوہڑے ہی حرام خور ہوتے ہیں بلکہ جو چوری کا مال کھاتا ہے وہ بھی حرام خور ہے.جو جعلسازی اور دھوکے سے مال جمع کرتا ہے وہ بھی حرام خور ہے.جو کسی دوکان میں مال شراکت رکھتا ہے اور اس کا کوئی حساب وکتاب نہیں وہ بھی حرام خور ہے.جو اپنے منصبی فرض کو عمدگی سے ادا نہیں کرتا اور ترقی تنخواہ کے لئے ہوشیار ہے وہ بھی حرام خور ہے.غرض جو بالباطل مال کھانے والے ہیں وہ سب حرام خور ہیں.دوم.یہ کہ کھانا طیب ہو.یعنی وہ کھائے جو موجب ضرر نہ ہو مثلاً کھانسی والا اگر تُرش چیز کھاتا ہے تو وہ طیب نہیں کھاتا.فالج والا اگر سردائیاں پیتا ہے تو طیب کا استعمال نہیںکرتا.غرض جو کھاؤ پہلے دیکھ لو کہ بدن کے لئے مفید و پسندیدہ ہے یا نہیں.سوم.لقمہ اٹھاتے وقت اللہ کا نام لے اور شکر ادا کرے.روٹی پکانا اور تنور سے نکالنا میری جیسی طبیعت کے انسان کے لئے تو ایک قسم کا معجزہ ہے.تین دفعہ آنا پڑتا ہے اور میں آگ سے ایسا نفور کہ سردی میں بھی تاپ نہیں سکتا.لوگ حلال و حرام کا خیال نہیں کرتے.ایک عورت نے میرے سامنے ذکر کیا کہ ہم شادی

Page 435

کے موقع پر گائے کا( گوشت) کھلائیں گے میں نے پوچھا کہاں سے حاصل ہوں گی.کہا ہمارے نوجوان بہت ہیں جو ادھر اُدھر سے پکڑ لاتے ہیں.پھر کہا کہ اپنے علماء کے لئے تو بکریاں ذبح کرتے ہیں.میں نے کہا وہ تو چوری کی نہیں ہوں گی.کہانہیں وہ تو گڈریوں سے لیتے ہیں اور وہ کیوں نہ دیں اگر ذرا بھی انکار کریں تو ہم ان کا ریوڑ کا ریوڑ نہ غارت کردیں.اور پیر صاحب کی زیادہ خاطر ہے ان کے لئے مرغے کا گوشت ہوگا.میں نے پوچھا وہ کہاں سے لو گے.کہا جولاہوں سے.پوچھا قیمتاً.کہا نہیں جوتے کے زور سے.غرض آج کل مسلمانوں کی قابل رحم حالت ہے.خوب سن لو!کہ مُردار خور الٰہیات کے علم سے بالکل ناواقف رہتے ہیں.یورپ کی قوموں کو بھی دیکھ لو کہ الٰہیات کے باریک مسائل میں کچھ فہم نہیں.ایک انسان کو خدا کا بیٹا سمجھ لیا ہے.فرمایا کہ خون سے تشنج و استرخا پیدا ہوتا ہے اور لحم الخنزیر اخلاق و عادات پر بُرا اثر ڈالتا ہے اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کانام لیاجائے وہ پاک عقائد کے لئے بد اثر ڈالتا ہے.فرمایا کہ بعض بد اعمالیوں کی وجہ سے یہود سے رزق حلال چھین لیا گیا.مسلمانوں کو بھی یہی سزا ملی ہے.حلال طیب رزق تو مال غنیمت ہے.۱۰؍جولائی۱۹۱۱ء پانچ نعمتوں کا حصول فرمایا.سورہ نحل کے آخری رکوع سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ نعمتیں پانچ چیزوں سے حاصل ہوتی ہیں.جو چاہتا ہے کہ دنیا uمیں سُکھ یا آرام پائے.آخرتv میں بزمرۂ صالحین مبعوث ہو.خداwتعالیٰ اسے اپنا برگزیدہ بندہ بنائے.اپنیx جناب سے دین و دنیا کے امورکی ہدایت کرے.صراط مستقیمy حصول مقصد کی اقرب راہ پر چلائے تو اسے چاہیئے کہ حضرت ابراہیمؑ کی مانند سارے جہان کی خوبیاں اپنے اندر جمع کرے، اللہ کے تمام اسماء کا فرمانبردار ہو، راستباز ہو، شرک نہ کرے اور خدا کی دی ہوئی نعمتوںپر شکر کرے.غفلت کااثر فرمایا.ایک بزرگ نے لکھا ہے اگر میں رات غفلت میں گذارتا ہوں تو صبح میرا

Page 436

گدھا بھیمیرے کام سے غافل و سست ہوتا ہے.جنت کی حوروں سے طرز عمل فرمایا.مولوی فضل الرحمٰن صاحب گنج مراد آبادی کا ذکر ہے.کسی نے ان سے پوچھا کہ جنت میں حوریں ہو ں گی تو آپ کا کیا طرز عمل ہوگا.فرمایا.میں کہوں گا کہ جاؤ بیبیو قرآن پڑھو.یہ اپنا اپنا ذوق ہے.احسن طریق کے حصول کے لئے ضروری امور فرمایا.جب انسان اپنی اصلاح کرے تو ضروری ہے کہ دوسروں تک تمام حق پہنچائے.وہ بھی لٹھ ماروں کی طرح نہیں بلکہ حکمت اور احسن طریق سے.(حٰمٓ السجدۃ :۳۵)کا حصول موقوف ہے اس امر پر کہ انسان مناظرات کی خود خواہش نہ کرے دعا سے بہت کام لے اور خدا کے حضور نہایت منکسر اور متواضع ہو.مناظرہ سے کسی انسان پر برتری وبڑائی مقصود نہ ہو بلکہ محض للہ احقاق حق مطلوب ہو.اللہ کی معیّت فرمایا.مقدمات میں لوگوں کو کئی سہارے ہوتے ہیں.کوئی کہتا ہے ہمارا مجسٹریٹ ہے.کوئی کہتا ہے ہمارا وکیل ہے.مگر اللہ کی معیت ان کے ساتھ ہے جو متقی اور محسن ہوں.۱۱؍جولائی ۱۹۱۱ء مسلمانوں کا زوال اور اس کے اسباب فرمایا.عباسیہ سلطنت ایک وقت بڑے زور پر تھی.محمود غزنوی جو بڑا فاتح اور عظیم الشان بادشاہ تھا ان کی سلطنت کے خلیفہ سے یمین الدولہ کا خطاب موجب عزّت و افتخار سمجھا.ایک دفعہ خلیفہ بغداد اس پر ناراض ہوا.محمود نے لکھ بھیجا کہ میرے پاس اتنے ہزار ہاتھی ہے ہم فوج کشی کر سکتے ہیں.جواب میں خلیفہ نے ایک کاغذ پر الم الم لکھ بھیجا.محمود کو اللہ نے عقل وفراست بخشی تھی وہ سمجھ گیاکہ اشارہ ہے (الفیل :۲،۳) کی طرف.پھر جب مسلمانوں میں نافرمانی، کاہلی، سستی بڑھی دنیا میں منہمک ہوگئے تو باوجودیکہ پانچ لاکھ فوج بغداد کے اندر موجود تھی ہلاکو نے ان کا نام و نشان مٹا دیا اور ہزار کے قریب ایسے لوگ جن پر مدعی سلطنت ہونے کا گمان ہو سکتا تھا

Page 437

زندہ دیوار میں چنوا دیئے گئے.پھر ہسپانیہ میں کتنی بڑی زبردست سلطنت تھی مگرجب سستی،تکبر، بڑائی اور حرص آئی تو نام و نشان نہ رہا.مسلمانوں کی درخواست تھی کہ ہمیں کتابیں تو لے جانے دو.انتخاب کی اجازت ہوئی جب تین لاکھ کتابوں کا انتخاب کر کے جہاز میں لاد چکے تو وہ جہاز ڈبو دیا گیا.اب مسلمانوں کے سامنے ان باتوں کا ذکر تقریباً ایسا ہے جیسے کسی اندھے کے آگے کسی خوشنما پھول کی تعریف کی جائے.ہاں یوں سمجھ میں آسکتا ہے کہ کوئی تمہیں اپنے گھر سے نکال دے پھر دل پر کیا گذرتی ہے.یہ مصیبت کا زمانہ مسلمانوں پر کیوں آیا.محض اپنی ہی غفلت وکاہلی اور خدا کے احکام کی نافرمانی سے.خدا تمہیں قرآن شریف کا سچا متبع بنائے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا متبع بنائے.دنیا کی ہواو ہوس تمہیں خدا سے غافل نہ کردے.تمہارے دل نرم ہوں اور اس غیظ و غضب سے بچو جو انسان کو اندھا کر کے جہنم میں لے جاتا ہے.تمہارے دل گندے نہ ہوں تمہاری زبان پر گندے کلمات نہ آویں.تم ایسے نہ بنو کہ تجارت کی شراکت میں حساب کتاب کی پرواہ نہ رکھو یا سود لو.اللہ سے ڈرو.۲۰؍جولائی۱۹۱۱ ء قرآن مجید پر عمل کا نتیجہ فرمایا.حیاۃ طیبہ قرآن مجیدسے حاصل ہوتی ہے اس لئے اسے خدا نے روح فرمایا ہے.اگر تم قرآن مجید پر عمل کرو گے تو ایک زندہ قوم بن جاؤ گے.ورنہ مردہ ہو.قرآن مجید کی مثل فرمایا.ایک شخص عالم فاضل کو کہا گیا کہ قرآن مجید کی مثل ایک سورۃ بنائے اس نے چھ ماہ کی مہلت مانگی اور معارضہ کے لئے سورۃ (الکوثر:۲)کو انتخاب کیا.چھ ماہ کے بعد دیکھا گیا کہ اپنے ارد گرد کاغذوں کے ڈھیر لگائے بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ صرف ایک آیت کا جواب بھی نہیں دے سکا.اخلا ق سیئہ او ر ان سے بچنے کا طریق فرمایا.میں دیکھتا ہوں آپس میں کینے، بغض، خود پسندی، ناجائز طور سے روپیہ کمانا، سستی، کاہلی، حرص، دو شخصوں کو آپس میں لڑوا دینا ، تجارت میں

Page 438

حساب و کتاب نہ رکھنا اکثر پایا جاتا ہے.تم سب لوگ ایسی بد اخلاقیوں سے بچو.جن کے گھروں میں ایسی عظیم الشان کتاب موجود ہے.ان کے اعمال ایسے خراب ہوں تو افسوس کی بات ہے.استغفار، لاحول بہت پڑھو اور دعاؤں میں لگے رہو کہ ان فتن سے اس طرح بچ سکو گے.۲۱؍جولائی۱۹۱۱ ء مسلمانوں میں مذہب سے نا واقفیت اور اس کا اثر عصر کے بعد ایک دوست کو مخاطب کر کے فرمایا.اس وقت مسلمانوں میں مذہب سے ناواقفیت بہت ہے اور اس کا بڑا اثر یہ ہے کہ ہندو جن کا کوئی مذہب نہیں وہ بھی ان پر اعتراض کرتے ہیں.میں ایک دفعہ ایک رئیس کا علاج کر رہا تھا.دربار میں بیٹھے تھے اس نے دوائی پینی تھی.میں تاڑ گیا کہ اور تو سب یہیں بیٹھے رہیں گے مگر مجھے اٹھنا پڑے گا اس میں ایک مسلمان کی ہتک ہے.اس لئے میں نے سوال کیا کہ ہندو کسے کہتے ہیں؟ کہا جو گائے کا گوشت نہ کھا ئے.میں نے کہا کہ اتفاق ہی ایسا ہوا ہے کہ میں گائے کا گوشت نہیں کھاتا تو کیا میں آپ کے خیال میں ہندو ہوں؟ سوچ کر کہنے لگا جو بودی رکھے.میں نے ایک سنیاسی کو پیش کر دیا.نادم ہو کر کہا.جو جنیو پہنتے ہیں.ایک سکھ بیٹھا تھا اس سے میں نے پوچھا کیوں صاحب آپ جنیو پہنتے ہیں.اس نے کہا نہیں.تب وہ رئیس بو لا جو وید مانے.ایک جینی بیٹھا تھا میں نے پوچھا یہ ہندو ہے یا نہیں اور یہ دوائی پینے کے وقت بیٹھا رہے گا یا نہیں.پھر تناسخ کا فرق بتلایا.تو میں نے ایک برہمو کو پیش کر دیا اس پر وہ رئیس کہنے لگامیں خود ہی اٹھ کر دوسری جگہ دوائی پی لوں گا.آپ تکلیف نہ کریں.اب غور کرنے کی بات ہے کہ جن لوگوں کا اپنا مذہب ہی کوئی نہیں وہ اسلام پر اعتراض کریں.یہ مسلمانوں کے لئے بڑی ہوشیاری کا وقت ہے چاہیئے کہ اپنے دین کو مضبوط پکڑیں اور اس سے آگاہی حاصل کریں.

Page 439

.پانچ وقت نماز باجماعت ادا کریں.۲.قرآن کو ترجمہ کے ساتھ ضرور پڑھو.۳.تکبر، بڑائی چھوڑ دو.۴.بُری صُحبتوں سے لازمی طور پر کنارہ کش رہو.۵.لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا ذکر بہت کرتے رہو.(الحکم جلد ۱۵ نمبر ۲۹،۳۰،۳۱ مورخہ ۲۱،۲۸؍اگست و ۷؍ ستمبر۱۹۱۱ ء صفحہ ۳ تا ۵ ) واعظین کے فرائض (از زمیندار) واعظین کے متعلق ایڈیٹر تہذیب الاخلاق کی خواہش تہذیب الاخلاق شمارہ( ۷) جلد(۱) بابت رجب ۱۳۲۹ہجریہ رقمطراز ہے.’’قسطنطنیہ کے شیخ الاسلام حضرت موسیٰ کاظم آفندی آج کل مذہبی معاملات کو روبراہ لانے میں بڑی سرگرمی سے مصروف ہیں.ترکی سلطنت کا پرانا دستور ہے کہ رمضان کے مہینہ میں واعظوں کی جماعتیں سرکاری خرچ پر ممالک محروسہ میں روانہ کی جاتی ہیں.یہ ہر ایک شہر، ہر ایک ضلع، ہر ایک قصبہ اور ہر ایک چھوٹے بڑے گاؤں میں دورہ کرکے وعظ و ہدایت کیا کرتی ہیں.لیکن چونکہ علمیت محدود ہوگئی ہے اور حقیقی اسلامی تعلیمات عام نظروں سے پوشیدہ ہیں.لہٰذا ہندوستان کی طرح سلطنت روم کے واعظوں کا بھی یہی حال ہے کہ وعظ میں دنیا کے دوراز کار افسانے قصے کہانیاں عجائب و غرائب اور بے نتیجہ باتیں تو بیان کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے (اور سچ تو یہ ہے کہ بتاسکتے بھی نہیں)کہ اسلام کا منشاء کیا ہے اور وہ اپنے پیرؤوں سے کیا چاہتا ہے.حضرت شیخ الاسلام نے اس جانب خصوصیت کے ساتھ توجہ کی ہے اور عملی اصلاح کے لئے ’’مدرسۃ الواعظین‘‘ کے نام سے قسطنطنیہ میں ایک بڑا مدرسہ کھولا ہے جس میں موجودہ

Page 440

مذہبی ضرورتوں کے مطابق واعظوں کو وعظ کہنے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے اصول و فروع کی تلقین کی جاتی ہے.یہ مدرسہ کئی مہینے سے قائم ہوچکا ہے اور جو لوگ اس کے امتحان میں کامیاب ہوں گے وعظ کی خدمت انہیں کو مفوض ہوگی.کاش! ہندوستان میں بھی ایسا ہی کوئی انتظام ہوتا.وعظ اگر ضرورت زمانہ کے معیار پر ہوا کرے تو مسلمان بہت جلد فرض شناس بن سکتے ہیں.مگر اس کا کیا علاج ہے کہ ہم نے کوئی معیار ہی نہیں رکھا ہے اور کسی قسم کی اصلاح کا بندوبست ہی نہیں کرتے.‘‘ واعظین کی اقسام واعظوں کے فرائض پر اگر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ بہت کم ایسے واعظ ہیں جو اپنے فرائض منصبی سمجھنے کی اہلیت و استعداد رکھتے ہوں.ایک کومیٹریکولیشن امتحان کی ناکامی یا ناقابلیت حصول ملازمت وعظ و نصیحت کے منبر کو مزین کرنے کے قابل بناتی ہے.دوسرا ارہ کشی سے تنگ آکر آخیر ربع (النبا: ۲)کا نوک زبان حفظ کرتا ہے اور مشرکوں کے توہمات،مجوسیوں کی عجائب پرستی اور یہودیوں کے افسانے جو آباء و اجداد سے سینہ بسینہ سنتا چلا آیا ہے انہیں سے اپنی مجالس وعظ کو گرماتا ہے.تیسرے کو قدرت نے حنجرہداؤ دی عطا فرمایا ہے.وہ روشن دل، نجات المومنین اور احوال الآخرت کے چند اشعار یاد کرکے دستار فضیلت سر پر باندھ لیتا ہے اور دربدر، مسجد بمسجد اور قریہ بقریہ وعظ کہتا پھرتا ہے.غور کرو اس قسم کے لوگ اسلامی علوم قرآن وتفسیر، حدیث وفقہ سے خود نابلد ہیں.مذہبی ضرورتوں سے نا آشنائے محض ہیں.ضروریات زمانہ سے کچھ خبر نہیں رکھتے.ان سے قومی اصلاح کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ اسلامی علوم میں دسترس رکھنے والے واعظین کا حال اب ان لوگوں کا حال سنئے جو اسلامی علوم میں خاصی پائے گاہ رکھتے ہیں.ان میں سے بھی بہت کم ایسے ہوں گے جو اپنے فرائض منصبی کو خشیۃ اللّٰہ سے بجا لاتے ہوں.اکثر حِصّہ ان کا ایسا ہے جو صرف مسلّم باتیں لوگوں کے آگے بیان کرکے ان کو خوش کردیتے ہیں حالانکہ ان باتوں سے نہ تو لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے اور نہ ان کے بیان

Page 441

کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.بعض واعظین کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے علم و فضل کے اظہار کے لئے زمانہ قدیم کے حکماء مثلاًارسطو و افلاطون وغیرہ کے قصے لے بیٹھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو بالکل غیرضروری مسائل بیان کیا کرتے ہیں.مثلاً لا تبل المسجد قائما وغیرہ.اس قسم کے واعظ وعظ ونصیحت کی ضرورت اور علّتِ غائی سے بالکل نا واقف ہوتے ہیں.واعظین کا اصل فرض منصبی واعظ کا اصل فرض منصبی یہ ہے کہ وہ اوّل مشاہدہ کرے کہ سامعین میں کس بات کی کمی ہے.کون کون سے امراض روحانی انہیں لاحق ہیں اور کون کون سے پہلو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ایسے ہیں جن کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے.اور پھر ان کے مطابق وعظ کرکے لوگوں کو ان کی غفلت اور غلطی پر آگاہ کرے.جو واعظ موقع اور محل کے لحاظ سے وعظ نہیں کرتا اس میں شک نہیں کہ وہ عند اللہ قابل مواخذہ ہے.سامعین کے جاہلانہ خیالات جس طرح واعظین میں غلطی ہوتی ہے اسی طرح سامعین میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں کہ وہ سچے اور حقیقی واعظوں پر اس لئے ناراض ہوتے ہیں کہ وہ ان کے حسنات کے ذکر کو ترک کرکے سیئات کا ذکر کیوں کرتے ہیں؟ اور ایک ہی عیب پر کیوں زور دئیے جاتے ہیں.سامعین کے اس قسم کے خیالات جہالت پر مبنی ہوتے ہیں کیونکہ انہیں سوچنا چاہیے کہ اگر ایک انسان کا سارا جسم تندرست ہو لیکن ایک حِصّہ میں بیماری ہو تو طبیب صرف اسی کا علاج کرے گا اور باربار اسی کو دیکھے گا.یہی حال واعظ کا ہے جو اصل میں روحانی طبیب ہوتا ہے.جس قسم کے روحانی امراض میں وہ اپنے سامعین کو مبتلا پاتا ہے اسی قسم کے وعظ سے ازالہ امراض کا نسخہ تجویز کرتا ہے.آنحضرتؐ کا ایک ہی سوال کے مختلف جواب دینے میں حکمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف لوگ آکر مختلف قسم کے سوال کیا کرتے تھے کہ یاحضرت سب سے بڑی نیکی کیا ہے تو آپ ہر ایک کو الگ الگ جواب دیا کرتے تھے.کسی کو کہا کہ

Page 442

ماںباپ کی خدمت کرو.کسی کو مال خرچ کرنے کو کہا.ایک کو آپؐنے اپنی زبان پکڑ کر کہا کہ اس کو قابو میں رکھ.ایک کو مغلوب الغضب ہونے سے منع کیا.اس پر بعض نے اعتراض کیا ہے کہ سوال تو ایک تھا مختلف جواب کیوں دئیے گئے؟ اصل یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اُمت کے حکیم ہوتے ہیں.وہ جس شخص میں جس خلق کی کمزوری دیکھتے ہیں اسی کی تکمیل و نگہداشت کی تاکید کرتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کے نیکی کرنے کے اسباب معیار مختلف ہوتے ہیں.کوئی تو قوم اور برادری کے دباؤ سے، کوئی آبائی تقلید اور رسم و رواج کی پابندی سے، کوئی کسی حاکم وغیرہ کی خوشنودی کے لئے نیک کام کیا کرتا ہے جو خوب یاد رکھنا چاہیے کہ دراصل کوئی خوبی کی بات نہیں ہوتی.اس بناء پر انبیاء علیہم السلام وہ بات بتایا کرتے ہیں جس سے طبیعت تو مضائقہ کرے مگر شریعت حکم کرے کہ یہ کام کراؤ.پھر نفس پر زور دے کر اسے وہ کام کرنا پڑے جو عنداللہ موجب ثواب و برکت ہو.قرآن میں مذکور انبیاء کے وعظ قرآن شریف میں انبیاء علیہم السلام کے بیان میں جا بجا ان کے وعظ بھی مذکور ہیں.اگر ان کو بنظر غور و تعمّق پڑھا جائے تو واعظین کو صاف معلوم ہوجائے کہ اسلام نے ان کے کیا فرائض مقرر کئے ہیں.مگر مسلمانوں نے افسوس قرآن شریف کو پس پشت ڈال دیا ہے.وہ قرآن مجید کو پڑھتے نہیں.جو پڑھتے ہیں وہ سمجھتے نہیں، اور جو سمجھتے ہیں وہ اسے اساطیرالاوّلین یعنی قصے کہانیوں سے زیادہ وقعت نہیں دیتے.شعیبؑ کاقوم کو وعظ ہم اس مقام پر حضرت شعیب علیہ السلام کا وعظ جو انہوں نے اپنی قوم کو سنایا تھا لکھتے ہیں تاکہ ناظرین کو معلوم ہو کہ وعظ کی غرض و غایت اور علت غائی کیا ہے.قرآن شریف فرماتا ہے.َ 

Page 443

.(ھود: ۸۵تا۸۷)اور ہم نے مدین کی طرف ان کے ہم قوم بھائی شعیب کو پیغمبر بناکر بھیجا.انہوں نے ان سے کہا.بھائیو!خدا ہی کی عبادت کرو.اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو.میں تم کو خوشحال دیکھتا ہوں (تو تم کو ماپ تول میں کمی کرنے کی کیا ضرورت ہے)اور (اس پر بھی اس حرکت سے باز نہ آؤ گے تو) مجھ کو تمہاری نسبت عذاب عام کے دن کا اندیشہ ہے جو تم سب کو آگھیرے گا.اور بھائیو! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد نہ پھیلاتے پھرو.اگر تم ایمان رکھتے ہو تو اللہ دیا جو کچھ تجارت میں بچ رہے وہی تمہارے لئے اچھا ہے اور میں تمہارا نگہبان تو ہوں نہیں (کہ ہر ایک کی ماپ تول کو دیکھتا پھرا کروں).مدینہ منورہ کے شمال و مغرب کی طرف ایک شہر واقع تھا جس کا نام مدین تھا.وہاں کے نبی شعیب علیہ السلام تھے.انہوں نے اپنی قوم کو پہلے توحید اور خدا کی عبادت کا وعظ فرمایا.قوموں میں ایک مرض ہوتا ہے کہ خدا کی عبادت اور طاعت سے نفرت کرتے ہیں.اس بنا پر ہر نبی کی اوّل دعوت یہی ہوتی ہے کہ اُعْبُدُوا اللّٰہَ.بعد توحید اور عبادت و طاعت الٰہی کا وعظ کہنے کے شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو خاص مرض کی طرف متوجہ کیا جو ان میں پھیل گیا تھا کہ وہ ماپ اور تول میں خیانت کرتے تھے اور انہیں تاکید کی کہ وفاداری اور فرمانبرداری سے جو نفع تم کو بچے وہ تمہارے لئے خیر و برکت کا موجب ہوگا.حقیقی اور اصلی واعظ سچا خیر خواہ، حقیقی ناصح اور اصلی واعظ وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کو ان کے عیوب پر مطلع کرے جس طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ان کے نقص بتائے.برتن وہاں سے ٹکرایا جاتا ہے جہاں کمزوری کا شبہ ہو.اسی طرح مومن کو ابتلاء اس بات میں آتا ہے جس میں وہ کمزور ہو.غور کرو.حضرت شعیب ؑ کی تعلیم حضرت شعیب علیہ السلام کی تعلیم اپنی قوم کو یہ تھی کہ ۱.خدا کی عبادت کریں.

Page 444

.اس کے سوا کسی اور کو معبود نہ جانیں.۳.ماپ تول میں خیانت نہ کریں.۴.دیانت داری سے ماپ تول پورا کریں.۵.لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیں.۶.ملک میں فساد نہ پھیلاتے پھریں.۷.جو نفع تجارت میں بچے اُسی کو اپنے حق میں اچھا سمجھیں.یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کو ایک معقول پسند آدمی بے دلیل تسلیم کرتا ہے.بقول یہ کہ آفتاب آمد دلیل آفتاب.واعظین تیار کرنے کا طریق اب ہم تہذیب الاخلاق کے فاضل ایڈیٹر صاحب کے الفاظ ذیل کی طرف دوبارہ ناظرین کی توجہ مبذول کرتے ہیں.’’ کاش! ہندوستان میں بھی ایسا ہی کوئی انتظام ہوتا.وعظ اگر ضرورت زمانہ کے معیارپر ہوا کرے تو مسلمان بہت جلد فرض شناس بن سکتے ہیں مگر اس کا کیا علاج ہے کہ کوئی معیار ہی ہم نے نہیں رکھا ہے اور کسی قسم کی اصلاح کا بند و بست ہی نہیں کرتے.‘‘ صاحب ممدوح بالکل بجا اور درست فرماتے ہیں.اس بارہ میں مدرسہ عالیہ دیو بند، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنوء، مدرسہ نعمانیہ لاہور وغیرہ اسلامی مدارس کے منتظمین کی توجہ مطلوب ہے اگر ہر ایک اسلامی مدرسہ کے متعلق ایک جماعت بنام جماعت الواعظین کھولی جائے جس کے طلباء باری باری ایک مقررہ مضمون و موضوع پر مدرس کی زیر صدارت وعظ کے پیرایہ میں ضرورت زمانہ کے معیار پر لیکچر دیا کریں جن کا ماخذ قرآن، تفسیر، حدیث و فقہ ہو.اور مدرس اعظم ان لیکچروں کے حسن و قبح پر اپنے متعلّمین کو مطلع کیا کریں تو بہت بڑے فائدہ کی توقع کی جاسکتی ہے.اگر اس طرح اسلامی مدارس میں طلباء کو وعظ کہنے کی تعلیم دی جائے اور اس کے اصول و فروع کی تلقین کی جائے تو یقین واثق ہے کہ طلباء وعظ میں

Page 445

مہارت تامّہ حاصل کریں اور قوم کو ان کے وعظ کی خدمات سے مستفید ہونے کا موقع ملے.وَمَا ذَالِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ.نور الدین (الحکم جلد۱۵ نمبر ۳۲،۳۳ مورخہ ۱۴.۲۱؍ستمبر۱۹۱۱ ء صفحہ۵ ،۶) حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور برادرم ظہیر ناظرین الحکم منشی ظہیرالدین صاحب کے نام سے واقف ہیں کیونکہ وہ ایک وقت الحکم کے اسسٹنٹ ایڈیٹر رہ چکے ہیں اور علاوہ بریں’’ وید کے ظہور میں فتور‘‘ اور ’’ نبی اللہ کا ظہور‘‘ اور رد چکڑالوی وغیرہ رسالہ جات کے مشہور مصنف ہیں.اس لئے مجھے ان کے انٹروڈیوس کرانے کی چنداں حاجت نہیں.وہ چند روز سے دارالامان میں ہیں اور انہیںحضرت خلافت مآب کے حضور کچھ وقت گزارنے کا شرف حاصل ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح ؓ نے مختلف اوقات میں جو کچھ انہیں بطریق نصیحت فرمایا اس کا خلاصہ انہوں نے مجھے سنایا ہے اور میںنے ان کے ایماء سے مناسب سمجھا کہ اسے الحکم میں چھاپ دوں تاکہ دوسروں کو فائدہ پہنچے اور بہت سی غلط فہمیاں رفع ہوں.بعض موجودہ اختلافات متعلقہ احمدی اور غیر احمدی کے سوال پر جو کچھ مخالف اخباروں میں لکھا جا رہا ہے اور المنیروغیرہ زور دے رہے ہیں کہ اب خلیفۃ المسیح ؓ اپنی پوزیشن صاف کریں.اس کے متعلق فرمایا کہ ان کو لکھ دو کہ خلیفہ کے پاس اس قدر وقت نہیں کہ وہ پوزیشن صاف کرتا رہے.میں کوئی مامور نہیں ہوں.نیز فرمایا کہ ہم اس کو پسند نہیں کرتے جو پیسہ اخبار وغیرہ میں ہماری جماعت کے لوگ مضامین چھپواتے ہیں وہ سلسلہ کا دشمن ہے نیز یہ کہ کیوں مجھ سے فیصلہ نہیں کرایا جاتا ہر شخص کیوں خود ہی فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے جو مجھے خلیفۃ المسیح سمجھتا ہے اس کا یہ حق نہیں.اور میں نے اگر کسی تحریر پر اپنی پسندیدگی کا ذکر کیا ہے تو کسی کو کیا معلوم ہے کہ کس امر میں پسند کرتا ہوں.جبکہ میری رائے پہلے شائع ہو چکی ہے اور میں ظاہر کر چکا ہوں کہ اصولی اختلاف ہے.

Page 446

ہاں میں اگر حضرت صاحب کی کسی تقریر یا تحریر کا صریح اختلاف کروں تو حق پہنچتا ہے کہ اسے نہ مانا جاوے.ورنہ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ ماننا چاہیے.خلیفہ ماننے کے یہ معنے نہیں کہ جو بات اس کی اپنی سمجھ اور عقل میں آجاوے وہ مان لی جاوے اور دوسری سے انکار ہو.اس طرح پر تو ایک بے عقل اور معمولی انسان کو بھی خلیفہ مانا جاسکتا ہے.علاوہ بریں حضرت خلیفۃ المسیح ؓ نے مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے یہ ظاہر فرمایا ہے کہ وہ قوم میں نظام وحدت قائم رکھنا چاہتے ہیں اور ہر گز پسند نہیں کرتے کہ کسی قسم کا تفرقہ ہو.ایسے لوگ جو تفرقہ پیدا کرنے والے اسباب کو پیدا کرتے ہیں وہ خواہ کوئی ہو اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایسا ہی وہ ان لوگوں کو کبھی پسند نہیں کرتے جو دوسروں کے پاس اپنے کسی بھائی کے متعلق غلط فہمی پھیلاتے اور ان کی نکتہ چینیاں اور بدگوئیاں کرتے ہیں اور دوسروں کو اس کے خلاف اکساتے ہیں.اس طریق کو آپ سخت ناپسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ وحدت جو حضرت مسیح موعود ؑ نے پیدا کی ہے قائم رہے.حضرت خلیفۃ المسیح ؓنے کھلے کھلے الفاظ میں فرمایا کہ میں ( الصف : ۷)کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مانتا ہوں کہ یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے متعلق ہے اور وہی احمد رسول ہیں.غرض آپ کے اندر زور دار خواہش ہے کہ نظام وحدت کو قائم رکھا جاوے اور حقوق اخوت کی قدر کی جاوے.ایسی باتیں جو جماعت میں اختلاف پیدا کرتی ہیں انہیں ہر گز نہ پیدا کیا جاوے.اگر اس قسم کی باتیں ہوں تو پھر ہزاروں اختلاف ہوسکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو خواہش تھی اور جس غرض کے لئے وہ دنیا میں آئے تھے اس کو مدنظر رکھا جاوے.الغرض حضرت کو یہ سخت ناپسند ہے کہ وحدت کو توڑا جاوے اور باہم عداوتیں اور رنجشیں پیدا ہوں.امید ہے کہ احباب اس پر توجہ کریں گے.(الحکم جلد ۱۵ نمبر ۳۲،۳۳ مورخہ ۱۴و۲۱ ؍ستمبر۱۹۱۱ء صفحہ ۱۰)

Page 447

؍اگست ۱۹۱۱ء دو راہیں، صدق یا افتراء ایک غیر احمدی کا خط پیش ہوا کہ ’’مجھے آپ کے میموریل جمعہ کے ساتھ اتفاق ہے.میں اپنے خیال کے مطابق کسی مسیح کی آمد کا منتظر نہیں ہوں اور نہ کسی کی ضرورت ہے اور نہ خلیفۃ المسیح کی ضرورت ہے البتہ نیکوکار خدا پرست رہبروں کی ہر زمانے میں ضرورت ہے اور مرزا صاحب مرحوم اور جناب کی مثال جتنے بزرگ دنیا میں پیدا ہوں کم ہے.‘‘ فرمایا.یہ مسئلہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے فقرات بولنے والے لوگ کیا مطلب اپنے الفاظ کا رکھتے ہیں.مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں مسیح ہوں مہدی ہوں.خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے.وہ برابر اپنے الہام سناتے رہے.اب یا تو ایسا شخص اپنے دعوے میں سچا ہے اور اس قابل ہے کہ اسے مان لیا جائے اور یا وہ خدا پر افتراء کرتا ہے.اور قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مفتری سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں.راہیں تو دو ہی ہیں.معلوم نہیں یہ تیسری راہ کہاں سے لوگوں نے فرض کرلی ہے.۶؍اگست ۱۹۱۱ء روپے کی حرص کو چھوڑو فرمایا.انسان میں روپیہ کی خواہش کم نہیں ہوتی ہر وقت روپیہ چاہتا ہے.میں نے ایک رئیس کو دیکھا کہ اسے کیمیاگری کا شوق تھا.چاہتا تھا کہ سونا چاندی بنالے.جب میں نے اسے بہت سمجھایا کہ یہ لغو بات ہے اور بدلائل اسے قائل کرکے اس نامعقول حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی اور اسے کوئی جواب نہ آیا تو کہنے لگا.اچھا مولوی صاحب میں اس خیال پر پچانوے ہزار روپیہ خرچ کرچکا ہوں اب تو میں بہت تجربہ کار ہوگیا ہوں اور نسخوں کی حقیقت سمجھنے لگا ہوں.آپ مجھے پانچ ہزار روپیہ اور خرچ کرلینے دیں لاکھ تو پورا ہوجائے پھر دیکھا جائے گا.جن لوگوں کے دلوں میں روپے کی حرص ہے وہ حرص کبھی کم نہیںہوتی.مسلمان محنتی نہیں فرمایا.آج کل کے مسلمان تو یہ چاہتے ہیں کہ کام کاج کچھ نہ کریں، محنت مشقت کوئی نہ اٹھائیں اور پھر کھانا پینا بھی اچھا ہو اور کپڑا بھی عمدہ پہننے کو مل جائے.یہ کیونکر ہوسکتا

Page 448

ہے.بغیر دقت اور تکلیف کے دنیا میں کچھ میسر نہیں آتا.بالمقابل ہندو قوم محنت کرتی ہے ہر ایک مشکل میں سے جس طرح بن پڑتا ہے گزر جاتی ہے.اس واسطے مسلمانوں کے بالمقابل کامیاب ہوتی ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ سستی کو چھوڑ دیں.ہر بات کو مشکل اور تکلیف دہ کہہ کر گھر میں نہ بیٹھ رہیں بلکہ کام کریں.مباحثہ تحریری ہونا چاہئے میرٹھ میں کسی مولوی صاحب نے احمدی برادران سے مباحثہ کرنا چاہا تھا.برادران میرٹھ نے یہاں خط لکھا اور یہاں سے شرائط مباحثہ لکھ کر روانہ کردی گئیں.جن میں سے ایک شرط یہ تھی کہ مباحثہ تحریری ہوگا.اس شرط کو مولوی صاحب غیراحمدی نے منظور نہ کیا اور جواب میں لکھا کہ تم احمدی لوگ خائف ہو اس واسطے ایسی شرائط لگاتے ہو.حضرت صاحب نے فرمایا کہ مومن بہادر ہوتا ہے وہ کسی کی بات سے خائف نہیں ہوتا.یہ عجیب بات ہے کہ وہ ہمیں خائف بتلاتا ہے.کیا وہ شخص خائف ہے جو اپنے ہاتھ کی تحریر دشمن کے قبضہ میں دینا چاہتا ہے یا وہ شخص خائف ہے جو اپنی تحریر فریق مخالف کو دینا پسند نہیں کرتا.ہم تو کہتے ہیں کہ ہماری تحریر لے لو اور اپنی بھی تحریر دو.فرمایا.زبانی بحث میں آوازیں ہوا میں اڑ جاتی ہیں.ہر فریق پیچھے سے کہہ سکتا ہے کہ میں نے یہ بات کہی تھی یا نہیں کہی تھی.ہوا کے پرندوں کو کون پکڑے جو اس امر کا ثبوت ہوسکتے ہیں کہ آیا فی الواقعہ اس نے کیا کہا تھا.تحریر میں جو بات آجاتی ہے وہ مضبوط ہوجاتی ہے اس سے کوئی انکار نہیںکرسکتا.اس واسطے ہم ہمیشہ تحریری مباحثات کو پسند کرتے ہیں.علاوہ ازیں تحریر کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے علاوہ جو حاضر ہوں دوسرے لوگ بھی بعد میں ان تحریروں کو پڑھ کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی تعلیم کو کتاب کے رنگ میںپیش کیا ہے اور فرمایا ہے (البقرۃ:۳).

Page 449

ہے.بغیر دقت اور تکلیف کے دنیا میں کچھ میسر نہیں آتا.بالمقابل ہندو قوم محنت کرتی ہے ہر ایک مشکل میں سے جس طرح بن پڑتا ہے گزر جاتی ہے.اس واسطے مسلمانوں کے بالمقابل کامیاب ہوتی ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ سستی کو چھوڑ دیں.ہر بات کو مشکل اور تکلیف دہ کہہ کر گھر میں نہ بیٹھ رہیں بلکہ کام کریں.مباحثہ تحریری ہونا چاہئے میرٹھ میں کسی مولوی صاحب نے احمدی برادران سے مباحثہ کرنا چاہا تھا.برادران میرٹھ نے یہاں خط لکھا اور یہاں سے شرائط مباحثہ لکھ کر روانہ کردی گئیں.جن میں سے ایک شرط یہ تھی کہ مباحثہ تحریری ہوگا.اس شرط کو مولوی صاحب غیراحمدی نے منظور نہ کیا اور جواب میں لکھا کہ تم احمدی لوگ خائف ہو اس واسطے ایسی شرائط لگاتے ہو.حضرت صاحب نے فرمایا کہ مومن بہادر ہوتا ہے وہ کسی کی بات سے خائف نہیں ہوتا.یہ عجیب بات ہے کہ وہ ہمیں خائف بتلاتا ہے.کیا وہ شخص خائف ہے جو اپنے ہاتھ کی تحریر دشمن کے قبضہ میں دینا چاہتا ہے یا وہ شخص خائف ہے جو اپنی تحریر فریق مخالف کو دینا پسند نہیں کرتا.ہم تو کہتے ہیں کہ ہماری تحریر لے لو اور اپنی بھی تحریر دو.فرمایا.زبانی بحث میں آوازیں ہوا میں اڑ جاتی ہیں.ہر فریق پیچھے سے کہہ سکتا ہے کہ میں نے یہ بات کہی تھی یا نہیں کہی تھی.ہوا کے پرندوں کو کون پکڑے جو اس امر کا ثبوت ہوسکتے ہیں کہ آیا فی الواقعہ اس نے کیا کہا تھا.تحریر میں جو بات آجاتی ہے وہ مضبوط ہوجاتی ہے اس سے کوئی انکار نہیںکرسکتا.اس واسطے ہم ہمیشہ تحریری مباحثات کو پسند کرتے ہیں.علاوہ ازیں تحریر کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے علاوہ جو حاضر ہوں دوسرے لوگ بھی بعد میں ان تحریروں کو پڑھ کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی تعلیم کو کتاب کے رنگ میںپیش کیا ہے اور فرمایا ہے (البقرۃ:۳).۲۶؍ستمبر۱۹۱۱ء نو قسم کے مفسد فرمایا.جب اللہ تعالیٰ ایک جماعت بنانے کا ارادہ کرتا ہے اور کوئی مصلح دنیا میں بھیجتا ہے تو انہیں لوگوں میں سے جن کی وہ اصلاح کرنا چاہتا ہے ایک مفسد گروہ پیدا ہوجاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وبارک وسلم جیسے شاندار نبی کے زمانہ میں بھی ایسے مفسد کھڑے ہوئے اور وہ نو طرز کے آدمی تھے.اور مفسد عموماً نو قسم کے ہی ہوتے ہیں.سورہ شعراء میں ان کی تفصیل ہے.یہ لوگ آپ کے کاموں میں بڑے ہارج اور مفسد ہوئے.وہ کوئی معمولی آدمی نہ تھے بلکہ بڑے درجہ کے لوگ تھے.اس واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرارتوں کے سبب اور ان کے ہدایت کی طرف رجوع نہ کرنے کے سبب بہت غم اور حزن تھا کہ یہ لوگ ہمارے کام میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں.ایسے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کو تشفی دیتا ہے.اور اگر خدا کی طرف سے تشفی نہ ہوتی تو وہ غم ناقابل برداشت ہوجاتا.واعظ اور قاضی میں فرق فرمایا.ناصح اور قاضی و مفتی میں بڑا فرق ہے.قاضی و مفتی کے سامنے اگر ایک شخص پیش ہو کہ اس نے شراب پی ہے تو وہ گواہ طلب کریں گے، ملزم سے جواب طلب کریں گے.ممکن ہے وہ انکار کرے یا بیماری کا عذر کرے کہ ڈاکٹر نے پلادی.یا کہے کسی نے جبراً پلادی.سب باتوں کو سن کر قاضی فیصلہ دے گا اور اسے بری کرے گا یا سزا دے گا.لیکن یہ اس کا کام نہیں کہ وہ نصیحت شروع کرے.برخلاف اس کے ناصح کا یہ کام نہیں کہ وہ تحقیقات کرے کہ آیا جو شخص اس کے سامنے ہے اس نے فی الحقیقت کوئی برا کام کیا ہے یا نہیں.بلکہ اس کا کام نصیحت کرنا ہے.وہ نیکی کی خوبیاں ظاہر کرتا ہے اور برائی کی بدیاں بتلا دیتا ہے.فرمایا.مجھے قاضی و مفتی بننے کا شوق نہیں.میں جو کچھ کہتا ہوں یہ ناصحانہ باتیں ہیں.بعض لوگوں کو غلطی لگتی ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے میرے معاملہ میں کوئی تحقیقات نہیں کی اور نصیحت کرتے ہیں لیکن نصیحت کے لیے تحقیقات کی ضرورت نہیں.

Page 450

خدا کے ملنے کی راہ فرمایا.میں بہت سے بزرگوں سے جو بزرگ اور عالم اور صوفی مشہور ہیں ہمیشہ دریافت کرتا رہاہوں کہ خدا کے ملنے کی راہ کون سی ہے.ایک صاحب نے فرمایا کہ عشق مجازی سے عشق حقیقی حاصل ہوتا ہے.پہلے کسی خوبصورت عورت کے عاشق بنو پھر اس عشق سے خدا کا عشق پیدا ہوگا.کس قدر لوگ اس طریق سے زنا اور بدنظری میں گرفتار ہوئے ہیں.اور اسی طرح چرس، گانجا، افیون، بھنگ کی عادتیں ایسی بدصحبتوں میں پڑکر لوگوں کے شامل حال ہوگئی ہیں.بعض لوگ اس گند میں اور بھی آگے بڑھے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ خوبصورت لڑکوں کا عشق کماؤ.ایک اور سے ہم نے پوچھا تو وہ فرمانے لگے کہ راگ سے بڑھ کر کوئی شے خدا سے ملانے والی نہیں.میں نے کہا اچھا ہمیں بھی وہ راگ سنوائیے جس سے انسان خدا سے مل جاتا ہے.تو فرمایا کہ پانچ سال سے کوئی راگی نظر نہیں آتا.ایک صاحب نے کہا کہ حزب البحر کے وظیفہ سے خدا ملتا ہے بشرطیکہ چلتے ہوئے دریا میں شیخ سے سننا چاہئے اور خود بھی پڑھیں.میں نے یہ بھی تجربہ کیا.دریا میں حزب البحر کو سنا.خدا تعالیٰ نے مجھے جس طرح اس دریا میںغرق ہونے سے بچایا اسی طرح غلط راہ پر چلنے سے بھی بچایا اور اپنے ملنے کی حقیقی راہ دکھائی.ایک صاحب نے فرمایا.قصیدہ غوثیہ کے پڑھنے سے خدا ملتا ہے.ایک اور کہنے لگے کہ درود مستغاث پڑھو.زمانہ طالب علمی میں ایک صاحب مجھے ملے توانہوںنے فرمایا.گناہوں سے بچنے کا علاج موت کا یاد رکھنا ہے.یہ بات البتہ معقول ہے.حدیث میں بھی آیا ہے کہ موت لذتوں کو دور کرتی ہے اور انسان کو خدا کی طرف متوجہ کرنا ہے.بعض لوگ اپنے مریدوں سے غیر شرع کام کراتے ہیں.ایک پیر کے پاس ایک مولوی مرید

Page 451

ہونے کو گیا.انہوں نے اسے کہا کہ مولوی تیرے سر میں علم کا کیڑا ہے.وہ اس طرح نکل سکتا ہے کہ جس مسجد میں تم نماز پڑھاتے تھے اس کے محراب میں کتیا پالو وہیں بچے دے.غرض بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے خلقت کو جناب الٰہی کی راہ سے روک دیا ہے.میں نے بہت دنیا دیکھی ہے اور بہت کتابیں پڑھی ہیں مگر کوئی کتاب میں نے دنیا میںایسی نہ دیکھی نہ پڑھی نہ سنی ہے جو قرآن شریف کے برابر ہدایت نامہ ہو.محکمہ پولیس کی بدظنّی فرمایا.پولیس کا محکمہ ایسا ہے جس کی بدظنی ایک حد تک سود مند ہوسکتی ہے.دو قسم کے لوگ فرمایا.دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک مذہبی، ایک دنیا دار.(طٰہٰ:۶۴) کہہ کر دونوں کو بھڑکایا ہے.مسجدوں میں نماز پڑھنے سے منع نہ کرو فرمایا.میں تمہیںنصیحت کرتا ہوں کہ کسی کو اپنی مسجدوں میںنماز پڑھنے، روٹی، پانی سے منع نہ کرو.بہت ظالم ہے جو خدا کی مسجد میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکے اور پھر یہ فعل لغو ہے کیونکہ جُعِلَتْ ِلیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا(صحیح بخاری کتاب التیمم) کا حکم ہے تو پھر تمام زمین سے کوئی کسی کو نکال بھی نہیں سکتا.مسجد او شد ہمہ روئے زمین.ادب کی برکت فرمایا.(طٰہٰ:۶۶) یہ ایک ادب تھا جو ساحران موسیٰ کے کام میں آیا.اور اس برکت میں ان کو ہدایت نصیب ہوئی.حضرت موسیٰ ؑکا خوف فرمایا.(طٰہٰ:۶۸) سے یہ نہ سمجھو کہ موسیٰ ساحروں سے ڈر گئے.کیونکہ پیغمبران الٰہی کی شان میں آیا ہے.(الاحزاب:۴۰) پس ان کو خوف تھا کہ لوگ مرتد نہ ہوجاویں.عصائے موسیٰ ؑفرمایا.سرپ فرعون اس دوائی کو کہتے ہیں جس کو آگ پر رکھنے سے سانپ بن جاتا ہے.مفسرین نے لکھا کہ رسیوں میں پارہ تھا آگ پر رکھنے سے ہلنے لگے.دونوں کا علاج عصا ہے جو

Page 452

حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں تھا.علماء کے لیے سبق فرمایا.اس زمانے کے علماء (طٰہٰ:۷۱) سے سبق لیں کہ جب حق ظاہر ہوجائے تو مان لیں.مگر میں نے تو ناقص العلم طالب علموں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں اور نہیں مانتے.مولوی کہلانے کی خوشی جب میں رامپور تحصیل علم کے لیے گیا تو میرے دل پر ہندوستانیوں کے علم کا بہت رعب تھا.ایک دفعہ شرح جامی کے ایک فقرہ پر بحث ہورہی تھی.میری سمجھ میں ایک جواب آیا تو میں نے پہلے سوال کی تقریر کی پھر اس کا جواب دیا.اس پر سب لوگ کھل کھلا کر ہنس پڑے.مجھے اس بات کی تلاش تھی کہ کسی سبب سے بڑے عالم کا پتہ لگ جائے.اس واسطے میں نے کہا جو آپ کا بڑا عالم ہے اس کے پاس محاکمہ کرالو.چنانچہ وہ ایک عالم کے پاس گئے.وہاں جاکر میں نے تمام معاملہ عرض کیا تو انہوں نے میری تصدیق کی اور کہا کہ مولوی صاحب آپ کا جواب بالکل صحیح ہے.بس اس دن صرف مجھے مولوی کہلانے کی خوشی ہوئی کہ پچھلا پڑھا ہوا صحیح ہوگیا.حق بات پر مباحثہ مت کرو فرمایا.مسلمانوں کے علماء کا مذاق ایسا خراب ہورہا ہے کہ وہ کسی کی بات کو ماننا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں.ان کی کتابیں دیکھ جاؤ.اِنْ قُلْتَ فَاَقُوْلُ.اِعْتَرَضَ عَلَیْہِ.رَدَّ عَلَیْہِ.فِیْہِ سے پُر ہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب حق بات ہو تو اسے فوراً مان لو اور اس پر مباحثہ مت کرو.نصائح اور دعا فرمایا.اللہ تعالیٰ تم کو پاک کرے.تم گالیاں زبان پر مت لاؤ.غضب میں نہ آؤ.نہ حرص کرو.ناعاقبت اندیشی سے ڈرو.میں دعا کرتا ہوں تمہیں ایمان نصیب ہو.عمل صالح کرو.جنت عدن میں داخل اور خدا کے حضور مومن بن کے جاؤ.۱۱؍اگست ۱۹۱۱ء ظالم کی پکڑ فرمایا.جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو خدا تعالیٰ پکڑلیتا ہے.اس میں کسی فرعون کی

Page 453

خصوصیت نہیں بلکہ مرزائی بھی ایسا ہوگا تو وہ بھی پکڑا جائے گا.جھوٹ کی سزا ابن ابی لیلیٰ کے پاس ایک مجرم پکڑا آیا.آپ نے اسے سزا دی مگر نرم.اس نے عرض کیا کہ پہلی دفعہ کا جرم ہے تخفیف فرمائیے.آپ نے دگنی سزا دی اور فرمایا کہ تم نے جھوٹ بول کر عدالت کی توہین کی.ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت وہ تو رحم کے قابل تھا آپ نے سزا بڑھادی.فرمایا.خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے (المائدۃ:۱۶) جس سے معلوم ہوا کہ وہ پہلی دفعہ نہیں پکڑتا.پس اس کی گرفتاری اس کو ثابت کرتی ہے کہ یہ جرم کئی دفعہ اس سے ہوچکا ہے.آخر دوستوں نے اس مجرم سے منوالیا کہ واقعہ میں یہ جرم کئی دفعہ کرچکا ہوں اور اللہ تعالیٰ ستاری فرماتا رہا.علم توجہ کا مسئلہ فرمایا.علم توجہ کا یہ مسئلہ ہے جب انسان کسی امر پر بھروسہ کرلیتا ہے تو پھر خطرہ نہیں رہتا.اصلاح اعمال کرو فرمایا.جب کسی حاکم سے تکلیف پہنچے تو بجائے اس کے کہ اس حاکم کا مقابلہ ہو اپنے اعمال کی اصلاح کرلو.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.(الانعام:۱۳۰).پس جب تک تم خود ظالم نہیں تم پر ظالم حکمرانی نہیں کرے گا.امام ابوحنیفہ ؒ کو لڑکے کی مؤثر نصیحت فرمایا.امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں لکھا ہے آپ نے بارش میں ایک لڑکے کو دوڑتے دیکھا.فرمایا.علی رسلک یا صبی مزلۃ و مذلقۃ.لڑکے نے کہا میں گروں گا تو میرا ہی پاؤں ٹوٹے گا آپ سنبھل کر چلئے کہ آپ کے پھسلنے سے جہان پھسلے گا.امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں اس سے بڑھ کر کوئی نصیحت مجھے مؤثر نہیں.فرمایا.میں بھی قرآن مجید بڑی احتیاط، بڑے اخلاص کے ساتھ سناتا ہوں.بہت سے عجائبات جو میرے اپنے ذوق کے ہیں ان کو علی العموم ظاہر نہیں کرتا.پھر بھی دعا چاہیئے کیونکہ اگر میں غلطی کروں تو اس کا اثر بہت وسیع ہے.

Page 454

حدود سے تجاوز فرمایا.لوگ کہتے ہیں فلاں زبان محدود ہے.محدود کیا ہونی ہے عقلا وفصحاء قوم خود ہی زبان کو وسعت دے لیتے ہیں.طغیان کہتے ہیں مذہبی حد سے باہر نکل جانے کو.انبیاء بھی جب آتے ہیں تو حدوداللہ مقرر کرتے ہیں.جو قوم ان سے گزرے اسے طاغیہ کہتے ہیں.نماز میں اوّل وقت جانے کا استنباط فرمایا.(طٰہٰ:۸۵) سے استنباط ہوا کہ نماز میں اوّل وقت میں جانا چاہئے.حاکم قوم کا اثر فرمایا.اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ حاکم قوم کا اثر محکوم پر ضرور ہوتا ہے.مثال کے طور پر بال ہی لو.سکھوں کے عہد میں لوگ بڑے بڑے بال رکھتے تھے مگر اب قینچی سے ایسے کتراتے ہیںکہ گویا ہیں ہی نہیں.پھر بھی بعض برداشت نہیں کرسکتے.اسی طرح فرعون اور اس کی قوم گائے پرست تھے اسی لیے اس کا تاج گئومکھی تھا.بنی اسرائیل پر بھی اس کا اثر ہوا.اور اس کی عظمت کو نکالنے کے لیے حضرت موسیٰؑ کی معرفت حکم الٰہی ہوا کہ وہ درشنی گائے ذبح کرو. (البقرۃ:۶۸)اور اللہ حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو.رسم و رواج کی اتباع لوگ رسوم کے بہت تابع ہیں.جتنی دولت مند قوم ہے ان کے نزدیک گئوہتیا حرام ہے.ہزاروں لاکھوں بکرے ذبح ہوتے ہیں اور شور نہیں مچاتے.برخلاف اس کے گائے پر شور پڑتا ہے.اس کی و جہ یہ ہے کہ گائے ذبح کرنے کارواج عام نہیں کیا گیا.حصولِ معارف کے لیے چار باتیں فرمایا.چار باتیں ہوں تو اللہ معارف دیتا ہے.(۱) آدمی اپنی اصلاح کرلے.(۲)ایمان لائے.(۳)عمل صالح کرے.(۴)جو بری بات چھوڑ دی ہے اس کے بالمقابل اچھی بات اختیار کرے.زرّیں نصائح فرمایا.وہ راہ چلو جو سہولت کی راہ ہو تا خدا کے شکر گزار بندے بنو.موت کو یاد

Page 455

کرتے رہو.بعض آدمی ایک چھوٹا سا ٹوٹکا چھوڑ دیتے ہیں پھر تمام کی تمام قوم اس میں مبتلا ہوجاتی ہے اس سے بچو.رزق کی قدر کرو.مشکلات میں خدا کا سہارا پکڑو.(البدر جلد۱۰ نمبر۴۴و۴۵ مؤرخہ ۵؍اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۹تا۱۲) زخم کی نسبت ڈاکٹروں کی رائے حضرت خلیفۃ المسیح بفضلہ تعالیٰ بخیریت ہیں.زخم کے متعلق فرمایا.بعض ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ ہنوز اس کے اندر کوئی ٹکڑا ہڈی کا باقی ہے.میرا بھی یہی خیال ہے.زخمِ ناسور کی طرح نہایت باریک سوراخ ہے.تقویٰ کی تاکید خطبہ جمعہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح نے تقویٰ کی تاکید پر ایک مختصر تقریر کی.فرمایا.زخم میںدرد کے خوف سے میںسجدہ بھی نہیں کرسکتا.لیکن ایک دوست کی خواہش کو پورا کرنے کے واسطے میں کھڑا ہوا ہوں کہ کچھ وعظ کروں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الحشر:۱۹) اس آیت شریف میں دو بار تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے اور پہلی دفعہ متقی کو اس کی حالت کی درستگی کے واسطے یہ چابی دی گئی ہے کہ وہ دیکھے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں کل اس کا نتیجہ کیا ہوگا.اور دوسری چابی یہ بتائی ہے کہ تم جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر حال سے خبردار ہے.جو لوگ باہمی لوگوں میں جنگ کراتے ہیں میرا دل ان سے دکھتا ہے اور کباب ہوتا ہے.ایسے لوگ سوچیں کہ انہیں کیا نتیجہ ملے گا.میں تو اپنے دل کو ٹٹولتا ہوں تو لڑانے والوں کے لیے بددعا ہی نکلتی ہے.معلوم نہیں کہ ان کو کیا نفع ہوگا.اللہ تعالیٰ کا فضل، کرم، رحم اور غریب نوازی ہو تو یہ باتیں تمہیں فائدہ دے سکتی ہیں ورنہ بڑا دفتر بھی بیکار ہے.ایک شاعر کہتا ہے ؎ مجلس وعظ رفتنت ہوس است مرگ ہمسایہ وعظ تو بس است (ماخوذ از ’’اخبار قادیان‘‘ البدر جلد۱۰ نمبر۴۶،۴۷ مورخہ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۲)

Page 456

؍ اگست ۱۹۱۱ء پرانی رسوم فرمایا.ہمارے ملک میں پرانی رسوم کو خوب مضبوط رکھا گیا ہے.سامری کو یہ ذلت کی سزا دی گئی تھی کہ وہ جب بازاروں میں چلے تو(طٰہٰ:۹۸)کہتا پھرے مجھے کوئی نہ چھوئے.اس ملک میں چوہڑے، مینگھ، بٹوال، دکن کے ملک میں اڈھیڑ بھنگی جب کسی گھمسان یا بازار میں چلتے ہیں تو پوش پوش کہتے جاتے ہیں.گویا اپنی ذلت کا خود اقرار کرتے ہیں.ان کے کسی بڑے کو یہ سزا دی گئی ہے تو اب قوم میںچلی آتی ہے.پھر رفتہ رفتہ دورِ زمانہ سے یہ ذلت کی بات عزت کی بھی سمجھنے لگے.ہندو مسلمانوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور لا مساس کہتے ہوئے چلتے ہیں حالانکہ ذلت ان کی ہے.کسی کو اللہ کہنے کے معنے فرمایا.قبر پر طواف، سجدہ، کسی بزرگ سے التجا، کسی کو اللہ کہنے کے یہی معنے ہیں.اعمال بد کی اصلاح فرمایا.خدا تمہیں حسن ظن دے.اعمال بد کی اصلاح کرکے خدا کے ہوجاؤ.۱۵؍ اگست ۱۹۱۱ء حکومت پر غرور فرمایا.چوبیس ہزار میل زمین کا محیط ہے.کوئی ایسا بادشاہ نہیں گزرا جس کا قبضہ سب پر ہوا ہو.پس تھوڑی سی حکومت پر انسان اتنا غرہ کیا کریں.مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ فرمایا.قرآن مجید ایسی پاک کتاب مسلمانوں کے گھروں میں ہو اور پھر جرائم پیشہ بھی انہی میں سے زیادہ ہوں تو کیسے افسوس اور قلق کی بات ہے.۱۶؍ اگست ۱۹۱۱ء حساب کے لیے چوکس رہو فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الانبیاء:۲) جس شخص یا قوم یا جماعت کا حساب ہونا ہوتا ہے وہ چوکس رہتی ہے.پس آدمیوں کو اس حساب کے

Page 457

لیے کس قدر سنبھل کر دینا چاہئے.لوگ نیک تبدیلی نہیں کرتے فرمایا.تفسیروں میں جہاں طاعون کا ذکر ہے ستر ہزار موتیں بڑی سمجھی جاتی ہیں.لیکن اب تو ہرسال لاکھوں آدمی اس سے مرتے ہیں.مگر جب ذرا افاقہ ہوتا ہے لوگ اپنے میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے.جو مشرک ہیں وہ شرک پر جمے ہیں.جو چور ہیں وہ چوری سے نہیں ڈرتے.جو دغاباز ہیں وہ دغابازی پر قائم.جو تجارت جھوٹ پر چلاتے ہیں وہ اسی اصل پر مستحکم ہیں.جو ملازم ہیں وہ بدستور ملازمتوں میں سست.ذکر محدث کے معنے فرمایا.ذکر محدث کے معنے ہیں نئے نئے پیرایوں میں کلام بھیجتے رہے.یہی معنے صحیح ہیں کیونکہ کلام کو میں اللہ تعالیٰ کی صفت مانتا ہوں.اور متکلم خدا کی ذات ہے اور میں قرآن مجید کو مخلوق نہیں مانتا.فرمایا.میں نے کوئی منصوبہ باز ایسا نہیں دیکھا کہ اسے خدا کا خوف ہو اور موت یاد ہو.قرآن مجید کا بڑا مقصد فرمایا.قرآن مجید تمہیں مومن بنانا چاہتا ہے.تمہارے دلوں کی غفلت دور کرنے کے لیے تمہیں اخلاق فاضلہ سکھانے کے لیے، تم میں خشیۃ اللہ پیدا کرنے کے لیے زیادہ آیا ہے.دیکھ لو حج، زکوٰۃ، روزہ وغیرہ کے ایک سو پچاس حکموں سے زیادہ نہیں.رکوع بہ رکوع اخلاق کی سنوار چاہتا ہے.پس یہ کہنا غلطی ہے کہ پنجگانہ نماز پڑھتے ہیں اور کیا چاہیئے.افسوس مسلمانوں نے قرآن کے اس حصہ کو جو اخلاق کے متعلق ہے چھوڑ رکھا ہے.بڑا بننے کا طریق فرمایا.میری یہ حالت ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں.سجدہ کرنا مشکل.ایک دن خطبہ لمبا پڑھا تو اب تک پٹھے میں درد سے آرام نہیں آیا.اور یوں بھی اب عمر کا تقاضا ہے.موت کا وقت قریب ہے.قریب کیا فتویٰ لگ چکا ہے.میں تمہیں کھول کھول کر احکام الٰہی سناتا رہتا ہوں.اب بھی یہ کہہ کر سبکدوش ہوتا ہوں کہ تم چالاکیوں سے، سستیوں سے، جھوٹوں سے، فریبوں سے، بدکاریوں سے، جھوٹی ترکیبوں سے بڑے آدمی نہیں بن سکتے بلکہ بڑا بننے کا ایک ہی طریق ہے اور وہ ہے.قرآن مجید پر عمل!

Page 458

خدا تعالیٰ فرماتا ہے (الزخرف:۴۵)یہ قرآن مجید تیرے اور تیری قوم کے شرف کا موجب ہے.پس بناوٹی چیزوں سے بڑائی ڈھونڈ کر اپنا نقصان نہ کرو.رمضان شریف کی غرض فرمایا.رمضان شریف تو اس واسطے ہوتا ہے کہ لوگ بھوک پیاس کی برداشت کریں اور صابر بننے کی مشق کریں.مگر ہمارے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ رمضان میں الٹے ان کے خرچ پہلے سے دگنے چوگنے بڑھ جاتے ہیں.(البدر جلد۱۰ نمبر۴۶و ۴۷ مؤرخہ ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۳) ناموں سے تعبیر فرمایا.ناموں سے بھی تعبیر ہوتی ہے.جبکہ بوئر اور انگریزوں کی لڑائی ہوا کرتی تھی تو مجھے بوئر لفظ سے خیال آتا تھا کہ یہ شکست کھائیں گے.خدا ہی رازق ہے فرمایا کہ میرا خدا ہمیشہ میرا خزانچی رہا ہے مجھے کبھی تکلیف نہیںہوئی.چونکہ میرا توکل ہمیشہ خدا پر رہا اور وہی قادر ہر وقت میری مدد کرتا رہا ہے.چنانچہ ایک وقت مدینہ میں میرے پاس کچھ نہ تھا.حتی کہ رات کے کھانے کے لیے بھی کچھ نہ تھا.جب نماز عشاء کے لیے وضو کرکے مسجد کو چلا تو راستہ میں ایک سپاہی نے مجھ سے کہا کہ ہمارا افسر آپ کو بلاتا ہے.میں نے نماز کا عذر کیا پر اس نے کہا میں نہیں جانتا میں تو سپاہی ہوں حکم پر کام کرتا ہوں آپ چلیں ورنہ مجھے مجبوراً لے جانا ہوگا.ناچار میں ہمراہ ہوگیا.وہ ایک مکان پر مجھے لے گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک امیر افسر سامنے جلیبیوں کی بھری ہوئی رکاب رکھا ہوا بیٹھا ہے.اس نے مجھ سے پوچھا کہ اسے کیا کہتے ہیں.میں نے کہا ہمارے ملک میں اسے جلیبی کہتے ہیں.کہا کہ ایک ہندوستانی سے سن کر میں نے بنوائی ہیں.خیال کیا کہ اس کو پہلے کسی ہندوستانی کو ہی کھلاؤں.چنانچہ مجھے آپ کا خیال آگیا اس لیے میں نے آپ کو بلوایا.اب آپ آگے بڑھیں اور کھائیں.میں نے کہا نماز کے لیے اذان ہوگئی ہے.فرصت سے نماز کے بعد کھالوں گا.کہا مضائقہ نہیں.ہم ایک آدمی کو مسجد میں بھیج دیں گے کہ تکبیر ہوتے ہی آکر کہہ دے.خیر میں کھا کر جب شکم سیر ہوگیا تو ملازم نے اطلاع دی کہ نماز تیار ہے تکبیر ہوچکی ہے.پھر دوسری صبح میںجب کہ اپنا بسترا صاف کر رہا تھا اور اپنی کتابیں الٹ پلٹ رہا تھا تو ناگہاں ایک پونڈ مل گیا.چونکہ

Page 459

میں نے کبھی کسی کا کوئی مال نہیںاٹھایا اور نہ کبھی مجھے کسی کا روپیہ ہی دکھلائی دیا اور میںیہ خوب جانتا تھا کہ اس مقام پر مدت سے میرے سوائے کوئی آدمی نہیں رہا اور نہ کوئی آیا.لہٰذا میں نے اسے خدائی عطیہ سمجھ کر لے لیا اور شکر کیا کہ بہت دنوں کے لیے یہ کام دے گا.محبت قرآن فرمایا.قرآن شریف کے ساتھ مجھ کو اس قدر محبت ہے کہ بعض وقت تو حروف کے گول گول دوائر مجھے انف محبوب نظر آتے ہیں اور میرے منہ سے قرآن کا ایک دریا رواں ہوتا ہے اور میرے سینہ میں قرآن کا ایک باغ لگا ہوا ہے.بعض وقت تو میں حیران ہوجاتاہوں کہ کس طرح اس کے معارف بیان کروں.مطالعۂ قدرت فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مطالعہ سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے.اور انعامات الٰہی کے مطالعہ سے محبت میں ترقی ہوتی ہے.یقین کی علامت فرمایا.کوئی عقلمند جان بوجھ کر اپنے آپ کو کنوئیں میں نہیں گراتا، آگ میں نہیں پھینکتا، انسان کیا بلکہ حیوان بھی اپنے آپ کو کسی گڑھے میں نہیں گراتا.اس کا کیا سبب ہے؟ سبب یہی ہے کہ اسے یقین ہے کہ میں اگر اس میںپڑوں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا، تباہ ہوجاؤں گا.یقین ہی ہے جو انسان کو اس مقام میں پڑنے سے بچاتا ہے.قبضِ روح فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الزمر:۴۳).روح کلام الٰہی کو کہتے ہیں مگر لوگوں نے غلطی سے نفس کا نام روح رکھ لیا ہے.اللہ تعالیٰ جانوں کو قبض کرتا ہے کب؟ جب کہ مرجاتی ہیں اور جب سوجاتی ہیں.اس طرح تمہاری جانیں قبضۂ قدرت الٰہیہ میں ہیں.بیعت کا ظاہری فائدہ ذکر ہوا کہ ایک شخص آپ کو مانتا ہے مگر بیعت نہیں کرتا.فرمایا.بیعت کا فائدہ ایسا ہے جیسے کسی درخت میں شاخ لگا دی.جو فضل اس درخت پر ہوتے ہیں اس سے پھر شاخ بھی حصہ لیتی ہے.جب خدا کسی کو مامور کرتا ہے تو اس کی اطاعت اور بیعت نہ کرنے والا خدا سے بغاوت

Page 460

کرنے والا ٹھہرتا ہے.جب تک تعلق نہ ہو دعا نہیں نکلتی.اضطراری دعا نہیں نکلتی.خط سے بھی تعلق پیدا ہوتا ہے.تعلق کے سوا اضطراب نہیں پیدا ہوتا.کتابوں کی شرحیں فرمایا.میں بہت غور سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ شروع میں بہت شرحیں نہیں پڑھنی چاہئیں.کیونکہ شارح اپنا خیال ہی ظاہر کرتا ہے.ایک شخص نے گلستان کی شرح میں وحدت وجود بھردی حالانکہ سعدی کا گمان بھی کبھی وحدت وجود کی طرف نہیں گیا ہوگا.کتابیں سمجھنے کے لیے چار امور کسی کتاب کے سمجھنے کے لیے چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.(۱)لغت.اس میں عام بات ہوتی ہے کوئی خاص خیال نہیں ہوتا.(۲)مصنف کبھی ایک جگہ پوری بات نہیں کرتا تو دوسری جگہ پوری کردیتا ہے.خود اس مصنف کی تصنیف پر غور کرنا چاہیئے کہ مصنف کا منشاء کیا ہے.(۳)وہ اصول جن پر وہ کتاب لکھی گئی ہے وہ کیا کہتے ہیں.کیونکہ اصول کے خلاف کتاب نہیں ہوسکتی.(۴)جس مذہب کی کتاب ہے اس کی جڑ تو نہیں کاٹنے لگی.جب وہ اس مذہب کو ثابت کرنے کے لیے کتاب بنی ہے تو اس کو کاٹ تو نہیں سکتی.کہانیوں کی ضرورت نہیں فرمایا.قرآن شریف سمجھنے کے لئے کہانیوں کی ضرورت نہیں تفسیر والوں نے کہانیاں بھردی ہیں.اساطیرالاوّلین تو کافر کہا کرتے تھے مومنوں کو اس سے کیا واسطہ.قرآن مجید میں ایمان، اخلاق، صفات الٰہیہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشینگوئیاں، حالات اور فقہ کے مسائل ہیں.تکبر نہ کرو فرمایا.تکبر خداوند تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (القصص:۵) فرعون نے علو کیا، تکبر کیا، بنی اسرائیل کو ذلیل سمجھا.مسلمانوں میں بھی

Page 461

جب سلطنت آئی تو ان میں علو پیدا ہوگیا اور یہی موجب ان کے زوال کا ہوا.دیکھو مسلمانوں کے سب گھروں میں چوہڑوں کی آمد و رفت ہے وہ ان کے گھروں کی صفائی کرتے ہیں مگر ان کو کبھی ان پر رحم نہیں آتا، ان کی اصلاح کا کوئی خیال ان کے دلوں میں نہیں آتا، ان کو حقیر جانتے ہیں اور اسی حال میں ان کو چھوڑ رکھا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ملک کے بعض حصوں میں یہ قوم اب ترقی کر رہی ہے بعض ان میں سے بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ چکے ہیں.کسی کی حقارت نہیں کرنی چاہیئے.مجھے ایک سیدصاحب کا حال معلوم ہے کہ وہ اپنی ذات کو اتنا بڑا جانتے تھے کہ اپنے شہر کے کسی سید کو اپنی لڑکی دینا پسند نہ کرتے تھے اور چونکہ وہ کسی کو لڑکی نہ دیتے تھے ان کے لڑکے کو بھی کوئی لڑکی دینا پسند نہ کرتا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا بیٹا اور بیٹی ہردو عیسائی ہوگئے اور ان کی لڑکی نے ایک چمار نوعیسائی کے ساتھ شادی کرلی.یہ بیان عبرت کے لیے ہے.غرض اور کی حقارت کرنا بہت بری بات ہے.اپنی بات ایک صاحب کا عریضہ پیش ہوا جنہوں نے حضرت صاحب کو مخاطب کرکے یہ شعر لکھا تھا ؎ جلادے اپنے مردے کو بتادے کوئی بات اپنی دکھادے روئے تاباں میں بھی ہوں تیرے مریدوں میں فرمایا.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ بہت پڑھا کریں اور نماز کو سنوار کر پڑھا کریں.حالت زمانہ فرمایا.قرآن شریف میں تو آیا ہے کہ (النساء:۳۵) مگر آج کل تو یہ حال ہے کہ اَلنِّسَائُ قَوَّامَاتٌ عَلَی الرِّجَالِ.ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کہیں تمہاری بیوی بھی تم پر غالب آکر تمہاری ہجرت کو واپس نہ لوٹادیوے.

Page 462

ہندوؤں کے ہاتھ سے کھانا ایک شخص نے مفصلہ ذیل چار سوال کیے.(۱) یہ کہ مشرک کی کیا تعریف ہے؟ (۲)یہ کہ اس مشرکانہ تعریف میں ہندو شامل ہیں یا نہیں؟ (۳)یہ کہ ہندو کے ہاتھ کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ (۴)یہ کہ اگر جائز ہے تو پھر اس آیت کی جو ذیل میں درج ہے کیا تفسیر ہے؟(التوبۃ:۲۸) ان سوالات کے جواب حضرت امیرالمومنین نے یہ لکھوائے.۱.کوئی شخص جب اللہ کی ذات، اسماء، افعال، عبادات میں کسی مخلوق کو سانجھی بنائے اور بلااجازت حق سبحانہٗ اس کی تعظیم کرے جو معبود حقیقی کے سزاوار ہے تو وہ شخص مشرک ہے چاہے مسلمانی کا دعویٰ کرے.(یوسف:۱۰۷) ۲.آریہ مشرک ہیں کیونکہ وہ اللہ کی ذات کے ساتھ روح، مادہ، فضاء، زمانہ کو بھی ازلی و ابدی سمجھتے ہیں.سناتنی ہندو بھی مشرک ہیں وہ بتوں کی پرستش کرتے ہیں.۳.ہندو کے ہاتھ کا (حلال) کھانا جائز ہے.(التوبۃ:۲۸) نجس اعتقادی مراد ہے.دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الحج:۳۱) یعنے تمام بت پلید ہیں ان سے بچو.اب پرستش تو سورج چاند کی بھی ہوتی ہے تو کیا وہ ناپاک ہیں؟ ایسا ہی بت پتھر، لکڑی کے ہوتے ہیں.پھر مشرکوں کو جو نجس فرمایا تو یہ روحانی پلیدی مراد ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں جب کہ آپ کی اپنی حکومت تھی ایک مشرک کے مشکیزہ سے پانی پیا.صحابہ کو پلایا.پس جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے حلال کیا اپنے پر حرام نہیں کرنا چاہئے.

Page 463

مریض کا روزہ مریض کو یا جس کو روزہ رکھنے سے کوئی مرض ہوجاتا ہے روزہ نہ رکھے.وہ شخص روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلاوے.یہ حکم اسلام کا ہے.نورالدین.۱۹؍اکتوبر۱۹۱۱ء روزے میں تھوک سوال.جب کبھی میں روزہ رکھتا ہوں تو مجھے بہت تھوک آتی ہے اور بعض دفعہ تو نماز پڑھتے ہوئے منہ میں تھوک جمع ہوجاتی ہے اور کسی وقت نگلی جاتی ہے.تو کیا تھوک نگلنے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ فرمایا.تھوک نگلا جاوے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا.(البدر جلد۱۰ نمبر۴۸و۴۹ مؤرخہ ۱۹؍ اکتوبر۱۹۱۱ء صفحہ ۳،۴) آنحضرتؐ کی شان فرمایا.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز تک ایک علیحدہ کمرہ میںقیام کیا تھا.حضرت عمرؓ وہاں تشریف لے گئے اور آنحضرتؐ سے اجازت حاصل کرکے حجرہ کے اندر گئے.دیکھا کہ آپ کے کمرے میں صرف ایک بوریا بچھا ہے جس پر آپ لیٹے ہوئے ہیں اور بوریا کے نشان آپ کے بدن مبارک پر لگ گئے.حضرت عمرؓ نے عرض کی یا رسول اللہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کی یہ حالت ہے.حالانکہ کفار، قیصر و کسریٰ کیسے شاندار مکانوں میں رہتے ہیں اور ان کے مکانات میں کیسا اسباب ہوتا ہے.آپ اٹھ بیٹھے اور فرمایا.عمر تُو قیصر و کسریٰ کا ذکر کرتا ہے وہی قیصر و کسریٰ جن کو تُو فتح کرے گا اور ان کے ملک پر حکومت کرے گا.فرمایا.ظاہری بڑائی اور دولت کچھ شے نہیں.دیکھو آنحضرت کی وہ شان تھی کہ ا ن کا ایک خلیفہ عمر قیصر و کسریٰ پر حکمران ہوا پھر قیصر و کسریٰ کی آپ کے سامنے کیا حقیقت تھی.مگر ظاہری عیش و آرام کے آپ خواہش مند نہ تھے اور نہ اس طرف کبھی متوجہ ہوتے.صحیح تاریخ کہاں ہے ؟ حضرت خلیفۃ المسیح نے مولوی ابوسعید عربی صاحب کے ایک خط کے جواب میں تحریر فرمایا

Page 464

پیارے! کیا کیا القاب والے! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ.مکرمت نامہ تاریخوں، یونیورسٹی اور تفسیر کے متعلق پہنچا.بہت علیل ہوں.تاریخ صحیح کون لکھے؟ خارجی لکھے تو اہل بیت میں کوئی خوبی بتا سکے گا؟ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں کوئی کمزوری ظاہر کرسکے گا.شیعہ لکھے تو وہ جناب ابوبکر و عمر اور ان کی جماعت کی کوئی بھلائی ظاہر کرے گا اورظلموں کے لکھنے میں دریغ کرے گا اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی کوئی کمزوری ظاہر کرسکے گا.مسیحی لوگ لکھ سکیں گے؟ وہ اپنے خدا صاحب کی سی سالہ زندگی پر کوئی یقینی روشنی نہیں ڈال سکے.ہمارے نبی کریم کے حالات میں جو جو ظلم کیے ہیں وہ ہم سے مخفی.سرولیم میور آپ کو ابراہیم کی نسل نہیں مان سکا.نیچری لکھیں گے تو نبی کریم کی ان آیات کو جو تیرہ سو برس سے مؤرخ لکھتے آتے ہیں ان تمام پر پانی نہ پھیریں گے.آپ کے وکیل نے قرآن کریم کی وہ تاریخ لکھی ہے کہ الامان الامان دجال کے کان کاٹ دیئے ہیں.آج کل ہندو لکھیں.ایک ہندو لکھتا ہے راجپوت وہ قوم ہے جس نے عمر و عثمان کو عبدالملک کو اپنی تلواروں سے قتل کیا.ایک شیعہ مؤرخ لکھتے ہیں.(در جمل چوں معاویہ بگریخت) سنّی لکھے جو نہ ابوبکرؓ و عمرؓ کی کمزوری لکھ سکے نہ علی و حسین کی.رضی اللہ تعالیٰ عنہم.مسٹر امیر علی صاحب بالقابہ نے حضرت نبی کریم کی سوانح عمری لکھی ہے ایک عالم بھلے مانس سے زیادہ نبی کو دکھا نہیں سکے اور ایک مولد خوان لکھتے ہیں جو زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں اب معتبر و غیرمعتبر فیصلہ کون کرے.مولوی حافظ آنریری سیکرٹری کون کون بالقابہ و آدابہ اس کے آگے مولویوں (جن میں نورالدین بھی ہے) مساجدومدارس کے چندہ مانگنے والوںکے نام رکھو اور عرض کرو حضور ان کی تاریخ

Page 465

لکھ دیں تو آپ کو اشتہار کے الفاظ تو یاد ہوں گے جو اس گروہ کے متعلق ارشاد فرمائے گئے تھے پھر کیا لکھیں گے.اللہ.اللہ.اللہ.مرکر جواب ضرور دینا ہے.چاہے کوئی مانے یا نہ مانے شبلی صاحب کو معلوم ہوگا کہ قرطبہ و بغداد کی یونیورسٹی میں کیا تھا اور لوگ کیسے بن کر اس سے نکلے.میں نے جس قوم سے دین سیکھا ہے ان کے چند نام عرض ہیں.اوّل محمد رسول اللہ فِدَاہُ نَفْسِیْ وَ اَبِیْ وَ اُمِّیْ دوم امام مالک و امام اعظم.سوم امام بخاری و مسلم.چہارم السید عبدالقادر، شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی، خوا جہ سلیمان تونسوی.پنجم محمد اسمٰعیل، محمد اسحق، عبدالعزیز، ولی اللہ، یہ سب دہلوی ہیں.ششم ابن تیمیہ، ابن قیم، مجدد فیروزآبادی سیبویہ.ہفتم ابن عربی.ہشتم قادیانی صاحب.ان میں سے ایک بھی بغداد و قرطبہ کی یونیورسٹی کا ڈگری یافتہ نہیں.میں خود آپ کی یونیورسٹی کا حامی ہوں مگر مجھے پہلے دو کا علم نہیں.ہاں یہ یقین ہے کہ میرے معلموں میں وہاں کا کوئی نہیں.جناب کے معلم بھی اگر میں غلطی نہیں کرتا اس یونیورسٹی کا کوئی نہیں.ہاں مجھے دو یونیورسٹیوں کا علم نہیں صرف نیچریوں سے سنا ہے.تاریخ کی جو قدر میرے دل میں ہے وہ سابق عرض کرچکا ہوں.کوئی شخص تاریخ کے معنے وسیع کرلے تو اس کی اصطلاح سے مجھے انکار نہیں.شوکانی یمنی کا نام اور مولوی روم صاحب کا نام میں بھول گیا.ان سے بھی مستفید ہوں.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الْکَرِیْمِ.آپ کو دعوتی خطوط بہت آئیں گے اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ان خطوط کو مبارک کرے.آمین مبارک.مبارک.مبارک.لاکھ لاکھ مبارک...جہاں آپ کو عربی پڑھنے کی بار بار ترغیب دی گئی.ہاں سنّی مسلمان کہتے ہیں کہ مغازی موسیٰ میں عقبہ اور واقدی عمدہ ہیں اور طبقات میں طبقات

Page 466

کاتب واقدی عام تاریخ میں البدائۃ والنہایۃ ابن کثیر اور دول الاسلام ذہبی، مقدمہ تاریخ ابن خلدون.شیعہ کا اعتقاد ہے ناسخ التواریخ عمدہ ہے.مجھے تو میرے ائمہ نے سکھایا ہے کہ تاریخی کتابوں پر اپنے عقائد اور فروعات فقہ کی بنا مت رکھو.مجھے تو اب تک واقعات جمل و صفین اور آیۃ کریم (الفتح:۳۰) کی تطبیق عمدہ طور پر معلوم نہیں ہوئی.آہ.کیسا ناقص علم ہے.کاش یونیورسٹی کا کوئی مل جاتا.مجھے آبِ حیات محمد حسین آزاد اردو میں پسند تھی مگر شبلی صاحب نے اپنی ایک کتاب میں لکھ دیا ہے یہ رافضی علامہ شوستری کا بدلہ لیتا ہے.خاکسار بچپن میں سنتا چلا آیا کہ امیر تیمور نادر بڑے ظالم تھے اور جہانگیر نور جہاں کا عاشق زار وسکیر و خمیر تھا.حجاج نے کعبہ جلایا.اور اب میں امیر تیمور کونادر شاہ کو جہانگیر کو بڑی محبت سے دیکھتا ہوں.رحمہم اللہ کہتا ہوں، یقین کرتا ہوں کہ حجاج کے ہاتھوں بیت اللہ نہیں جلا.ابوالفضل فیضی مجھے پیارے ہیں گو آپ کہہ دیں گے کہ آخر آپ کو تاریخوں سے پتہ لگا اور ان سے فائدہ پہنچا.نہیں پیارے ہرگز نہیں اور ذرائع محبت کے ہوئے اَور، حرق کعبہ کے اور ہوئے.طبیعت علیل ہے آپ کو کاموں سے فرصت کہاں.خط اپنے ہاتھ سے لکھا ہے.والسلام نورالدین ۲؍اگست۱۹۱۱ء قرآن شریف میں قصے نہیں فرمایا.اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کہانیاں نہیں ہیں کہ لوگوں کے دل بہلانے کے واسطے قصے لکھ دیئے گئے ہوں.بلکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور نیک لوگوں کے حالات اس واسطے بیان کردیئے ہیں کہ سننے والے ویسے ہی نیک اعمال کرکے بڑے بڑے درجات پاویں.اللہ تعالیٰ اسی واسطے ایسے بیانات کے اخیر میں فرماتا ہے.(الانعام:۸۵) اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی اجر دیتا ہے اور بروں کے حالات عبرت کے واسطے بیان کیے جاتے ہیں.

Page 467

رات کو دیر تک جاگنا فرمایا.یہ انگریزی خوانی سے مرض طلباء میں پیدا ہوتا ہے کہ رات کو دیر تک جاگتے رہتے ہیں.مٹی کا بدبودار تیل استعمال کرتے ہیں.باریک ٹائپ پڑھتے ہیں.آنکھیں خراب ہوجاتی ہیں.لڑکپن میں عینکیں لگانی پڑ جاتی ہیں.دل ضعیف ہوجاتے ہیں.معدہ کمزور ہوجاتا ہے.تمام اعضاء میں سستی آجاتی ہے.قسم قسم کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں.انبیاء ایسا نہ کرتے تھے بلکہ وہ رات کو وقت پر سوتے تھے.عشاء کی نماز کے بعد بہت بولنا خلاف سنّت ہے.صبح سویرے اٹھنا چاہیئے اس سے صحت اچھی رہتی ہے.مولویوں کے جواب فرمایا.عام مولوی تو اپنے بالمقابل کو یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ اسے آتا ہی کیا ہے جو ہم اس کا جواب دیں.اور اس کے ساتھ شیعہ مولوی ایک اور بات بڑھا دیتے ہیں کہ یہ صحیح النسب سید نہیں ہے.جس نے تمہیں لڑکی دی اس کی عزت کرو فرمایا.بڑے غضب کی بات ہے اور گرے ہوئے اخلاق کا نمونہ ہے کہ ہمارے ملک میں خسر اور ساس کے لفظ کو لوگ گالی کے موقعہ پر استعمال کرتے ہیں.یہ بہت بڑی بے انصافی ہے.جس نے تمہیں لڑکی دی وہ تمہارا باپ ہے اس کی عزت کرو.لوگ چاہتے ہیں کہ جس کی لڑکی لیں اس کا گھر بھی لوٹ لائیں.یہ بات انبیاء کے طریق کے خلاف ہے.دیکھو حضرت موسیٰ نے آٹھ سال خدمت کرکے بیوی حاصل کی.حضرت یعقوب نے چودہ سال خدمت کی تھی.عورتوں پر رحم کرو اور ان کے حقوق کی حفاظت کرو.اس ملک میں عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا ہے.بعض لوگ نہ طلاق دیتے ہیں نہ آباد کرتے ہیں.ایسے شریر لوگوں کی کچھ پرواہ نہیں کرنی چاہئے اور جہاں طاقت ہو لڑکی کا نکاح اور جگہ کردینا چاہیئے.گورنمنٹ میں درخواست دی جائے تو منصف مزاج حاکم بھی اجازت دے دے گا.رمضان میں قرآن شریف کس وقت سنایا جائے؟ سوال.مفتی صاحب کے خط سے معلوم ہوا تھا کہ مسجد اقصیٰ میں سحری کے وقت قرآن شریف

Page 468

سنایا جاتا ہے.قرآن پاک جس وقت سنایا جائے بہتر ہے اور بالخصوص صبح کا وقت پچھلا حصہ شب کا بہت ہی مناسب ہے.لیکن یہاں ایک صاحب نے یہ دریافت کیا کہ کیا تراویح کے قائم مقام یہ نماز ہے.اگر ایسا ہے تو معمول کے یہ خلاف کیوں ہے؟ جواب.فرمایا.تین روز میں نبی کریم نے تہجد میں قرآن سنایا ہے اور ابی ابن کعب نے مسجد نبوی میں عشاء کے بعد قرآن سنایا ہے.میں حیران ہوا ہوں کہ یہ دونوں تعامل کے کس طرح خلاف ہوئے.ہر دو وقت جائز ہے.۸ رکعت یا ۲۰ رکعت ہر دو جائز ہے.(البدر جلد۱۰ نمبر۵۰ مؤرخہ ۲۶ ؍اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۳،۴) سنّتِ رسولؐ فرمایا.لوگ جو کہتے ہیں کہ سنّت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ضرورت نہیں ہے صرف قرآن کریم کافی ہے وہ غلط ہے.مثلاً صرف نماز کو ہی لے لو تو اگر سنّت رسول کے لحاظ سے اس کی خاص نوعیت نہ سمجھی جائے تو عربوں کی نماز تو (الانفال:۳۶) صرف تالیاں لگانی اور سیٹیاں بجانی ہی تھی جس کا ذکر خود قرآن کریم میں ہے.پس عربی لغت کی رو سے تو وہی سیٹیاں بجانی اور تالیاں لگانی ہی نماز ہوگی.اللہ کا کوئی خلیفہ نہیں فرمایا کہ آدم خلیفۃ اللہ یہ غلط ہے.قرآن کریم میں کہیں ایسا نہیںآیا.اللہ تعالیٰ کا کوئی خلیفہ (جانشین) نہیں ہوسکتا.ریا کی جائز صورت فرمایا.ریا بھی ایک رنگ میں جائز ہوتا ہے.مثلاً حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر نماز پڑھ کر دکھلائی کہ یوں نماز پڑھی جاتی ہے تا کہ سب دیکھ لیں مطلب یہ کہ بہت نیک ہو.انسان دو چیزوں سے مرکب ہے فرمایا.انسان دو چیزوں سے مرکب ہے.ایک وہ جن میں دخل انسانی کچھ بھی نہیں.دوسرے وہ چیز انسان کا تصرف ہے.شریعت اسی حصہ کے لیے ہے جس پر انسانی تصرف ہے.مثلاً ایک زبان ہی کو لو کہ اس میں دو قوتیں ہیں.ایک تو ذائقہ دریافت کرنے کی دوسرے بولنے کی.شریعت میں یہ نہ ہوگا کہ زبان سے نمک کو میٹھا ثابت کرو.بلکہ یہ ہوگا کہ جھوٹ مت بولو.گالی مت دو.

Page 469

ھوالاوّل وھوالاخرکے معنی فرمایا.(الحدید:۴) کے معنے یہ ہیں کہ جیسا کہ ایک مخلوق اپنی ابتدا میں اس کا (یعنی اللہ کا) محتاج ہے.ویسا ہی بقا و انتہا میں بھی اس کا محتاج ہے.یہ معنے غلط ہیں کہ وہ (یعنی اللہ) مخلوق کے پہلے تھا اور جب کل مخلوق فنا ہوجائے گی تب وہی ہوگا.اسی سے تو جنت کی نعماء کی حقیقت فانی ہی رہ جاتی ہے.اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا فرمایا.ہمارے مقابلہ میں مخالفوں نے ناخنوں تک زور لگائے.پھر دیکھتے ہو اس بستی میں جہاں کوئی دلچسپی نہیں کہاں کہاں کے لوگ جمع کردیئے ہیں اور جمع کررہا ہے.ابلیس اور شیطان فرمایا.ابلیس اس کو کہتے ہیں جس کی ذات میں بدی ہو.پھر جب وہ اپنی بدی دوسروں تک پہنچاتا ہے تو اس کا نام شیطان ہوتا ہے.قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ دونوں لفظ آئے ہیں انہیں دو خصوصیتوں کے لحاظ سے آئے ہیں.مصیبت بڑے بڑے فضلوں کا باعث ہوجاتی ہے فرمایا کہ حضرت صاحب سے میں نے مجاہدہ کے لیے پوچھا تو کہا کہ فصل الخطاب لکھو.پھر پوچھا تو فرمایا کہ تصدیق براہین احمدیہ لکھو.پھر پوچھا تو فرمایا کہ ایک کوڑھی کو اپنے مکان میں رکھ کر علاج کرو.وہ مریض بھی بڑا ہی نیک انسان تھا.اس نے کہا کہ میرا علاج نہ کرو کیونکہ جب تک مجھ کو مرض ہے اس وقت تک تنہائی میسر ہے اور خدا سے دعا کرنے کے لیے جوش پیدا ہوتا ہے.مگر میں نے کہا میں بھی مجبور ہوں کیونکہ میرے امام کا حکم ہے.حقیقت حال یہ ہے کہ مصیبت بھی بڑے بڑے فضلوں کا باعث ہوجاتی ہے.دعا میں پورا بھروسہ اللہ پر ہونا چاہیئے فرمایا.میری خالہ کے دوترے کا مقدمہ تھا.اس نے مجھے دعا کے لیے کہا کہ دعا فرمائیے کہ مقدمہ کسی انگریز کے اجلاس میں پیش ہو.ہندوستانی حاکم اکثر رشوت خوار ہوتے ہیں.میں نے بہت کہا کہ ایسی دعا نہ کراؤ بلکہ یہ دعا کراؤ کہ خدا مدد کرے.مگر اس نے نہ مانا.خدا کی شان کہ انگریز ہی کے اجلاس میں مقدمہ پیش ہوگیا.فریق ثانی نے کسی رئیس سے

Page 470

سفارش کرادی اور مقدمہ اس کو حسب خواہ فیصل ہوگیا.پھر اپیل میں بھی اسی و جہ سے کہ اوّل فیصلہ ایک انگریز حاکم کا تھا اسی کو کامیابی ہوئی.اسی سے سبق ملتا ہے کہ خدا کے یہاں ایسی دعا ہرگز نہ کرنی چاہیئے جس میں پورا بھروسہ اللہ پر نہ ہو.کثرت پر تکبر نہ کرو فرمایا.اپنی کثرت پر تکبر نہ کرو.حنین کے واقعہ سے سبق لو کہ انبیاء کی جماعت پر بھی ابتلا آتے ہیں.عمدہ تعلیم فرمایا.ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب رات کو سونے لگو تو بسترے کو خوب جھاڑو.کیسی عمدہ تعلیم ہے.بڑی بڑی خرابیوں کا سبب فرمایا.خوش خوراک ہونا اور خوش پوشاک ہونا اور پھر آپ محنت نہ کرنا بڑی بڑی خرابیوں کا باعث ہوجاتا ہے.اس سے بچنا چاہیئے اور برابر محنت سے کام کرنا چاہیئے.مسلمانوں میں قرآن کریم پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا فقدان فرمایا.مجھے درد ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا ہے اور جو پڑھتے ہیں وہ بھی سمجھتے نہیں.کیسے افسوس کی بات ہے کہ اپنے کسی دوست کا خط ہو تو بلاسمجھے ہوئے چین نہیں پکڑتے.مگر قرآن کریم جو اللہ کا فرمان ہے اور نبیوں کے سردارؐ کے ذریعہ سے آتا ہے اس کو سمجھ کر نہیں پڑھتے.اور بھی زیادہ افسوس ہے کہ ہر زبان میں قرآن کریم کے ترجمے کئی کئی موجود ہیں مگر نہیں پڑھتے اور سمجھ کر نہیں عمل کرتے.دنیوی معاملات میں اکثر بڑے چالاک ہیں مگر نہیں چالاک ہیں تو قرآن کریم کے سمجھنے میں.اعلیٰ درجہ کی دعا فرمایا.قرآن کریم کے سامنے کسی مذہب والے کو بولنے کی طاقت نہیں.میں نے قرآن کریم کو لے کر کل مذاہب والوں سے بحث کی ہے مگر کوئی مقابلہ میں بول نہیں سکا ہے.ایک برہمو سے میں نے پوچھا کہ تمہارے مذہب کی کیا خوبی ہے؟ اس نے کہا کہ خوبی یہ ہے کہ ہم ہر مذہب سے عمدہ بات لے لیتے ہیں.میں نے کہا کہ سب سے عمدہ بات تمہارے مذہب میں کیا ہے؟ اس نے

Page 471

کہا کہ دعا ہے.میں نے کہا کہ کل مذاہب میں جو کوئی ایک اعلیٰ درجہ کی دعا ہوگی وہ تم نے لے لی ہوگی وہ ہمیں بتاؤ.مگر اس نے نہ بتایا اور ڈرگیا کہ جو کوئی دعا بھی میں بتاؤں گا اس میں کوئی اعتراض کوئی کمزوری نکل آئے گی.میں نے بہت زور لگایا مگر وہ کسی طرح اپنے مذہب کی دعا کے بیان کرنے پر راضی نہ ہوا.پھر میں نے کہا کہ آپ تو ڈر گئے کہ جو دعا ہم سنائیں اس میں شاید کوئی نقص ہو مگر میں ایک دعا سناتا ہوں پھر میں نے الحمد سنائی اور اس کا ترجمہ اس کی ہی زبان میں کرکے بتایا اور پوچھا کہ اب تم کوئی دعا سناؤ جو اس سے بڑھ کر ہو.وہ مبہوت رہ گیا اور نوٹ بک نکال کر کہنے لگا کہ یہی دعا لکھ دو.بس.بس میں یہی دعا مانگا کرو ں گا.یہ کامیابی ہے قرآن کریم کی.میں نے کہا کہ پھر تمہارے مذہب نے کیا بتایا ؟(سید وزارت حسین ) (البدر جلد۱۱ نمبر۱ مؤرخہ ۲؍ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۳) لطیفہ ایک پادری نے حضرت خلیفۃ المسیح سے ایک دفعہ پوچھا کہ تم جو کہتے ہو کہ بہشت میں کھانے کی چیزیں ہوں گی.جب کھائیں گے تو بتلاؤ کہ پاخانہ کہاں پھریں گے؟ حضرت نے اسے جواب دیا کہ تم نو مہینے ماں کے پیٹ میں رہے اور کھاتے بھی رہے.بتلاؤ کہ پاخانہ کہاں پھرتے تھے.اس پر پادری صاحب خاموش ہوگئے....................صحابہ کس سادگی میں زندگی بسر کرتے تھے فرمایا.وہ کیا عجیب نظارہ ہوگا کہ ایک دن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی بیٹی کے گھر میں گئے.آپ کے ساتھ بارہ صحابی تھے.ان میں سے ہر ایک سر سے ننگا تھا کسی کے گلے میں کڑتہ نہ تھا کسی کے مونڈھے پر چادرنہ تھی اور کسی کے پاؤںمیں جوتا نہ تھا سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آپ کے ساتھ چلے جاتے تھے.دیکھو صحابہ کس حالت میں اپنی زندگی بسر کرتے تھے اور اس وقت یہ پیشگوئیاں ہوتی تھیں کہ ہم قیصر و کسریٰ کے فاتح ہوں گے.ایک شخص نے کہا کہ اس وقت عام طور پر غربت تھی اور سب لوگوں کا یہی حال ہوگا؟ فرمایا.نہیں سب تو ایسے نہ تھے.ابوجہل کے اونٹ کی نکیل سونے کی تھی.

Page 472

قرض سے بچنے کا علاج ایک شخص نے عرض کیا کہ میں مبلغ پچیس ہزار روپے کا مقروض ہوں.فرمایا.اس کے تین علاج ہیں.(۱) استغفار کرو.(۲) فضولی چھوڑ دو.(۳) ایک پیسہ بھی ملے تو قرض خواہ کو دے دو.یقین فرمایا.کوئی عقلمند جان بوجھ کر کنوئیں میں نہیں گرتا، آگ میں نہیں گھستا بلکہ کوئی جانور بھی اپنے آپ کو پہاڑ سے نہیں گراتا.کیوں؟ اس واسطے کہ اسے یقین ہے کہ اگر میں ایسا کروں گا تو تباہ ہوجاؤں گا، ہلاک ہوجاؤں گا.یہ یقین ہے جو اسے موت سے بچاتا ہے اور دینی معاملات میں اسی یقین کی کمی ہے جو لوگوں سے گناہوں کا ارتکاب کراتی ہے.دعویٰ تو ہے کہ ہم خدا، نبی، قرآن اور جزاء و سزا پر ایمان رکھتے ہیں.لیکن یہ یقین اور ایمان اگر فی الواقع ہے تو پھر کیوں دغا اور فریب عام ہے.یقین تو بدی سے روکتا ہے.کوئی بچہ اپنی ماں کے سوائے دوسری عورت کے پاس نہیں جاتا.پھر لوگ کیوں اپنے خدا کو چھوڑ کر دوسرے کے پاس جاتے ہیں.اگر جزاء اور سزا پر ایمان اور یقین ہے تو پھر احکام الٰہی کی خلاف ورزی کیوں ہے؟ یاد رکھو جتنی یقین میں کمی ہے اتنا ہی انسان بدی کا مرتکب ہوتا ہے.بہانے بنانے سے کچھ فائدہ نہیں سیدھا ہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم نہیں مانتے.ستاری سے فائدہ اٹھاؤ فرمایا.انسان بدی اور بدکاری کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس پر ستاری کرتا ہے، پردہ پوشی کرتا ہے، رحم کرتا ہے.انسان رات کو بدی کرتا ہے صبح اس کے ماتھے پر لکھی ہوئی نہیں ہوتی.کیوں؟ اس واسطے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے رحم سے فائدہ اٹھائے اور توبہ کرے اور آئندہ بدی سے پرہیز رکھے.بدی سے بچنے کا نسخہ فرمایا.بدی سے بچنے کا یہ گُر ہے کہ انسان علم الٰہی کا مراقبہ کرے.سوچے اور فکر کرے اور بار بار اس بات کو دل میں لائے اور اس پر اپنا یقین جمائے کہ خدا علیم ہے، خبیر ہے.وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے.میرے ہر فعل کی اس کو خبر ہے.اس طرح ریاضت کرنے سے انسان بدی سے بچ جاتا ہے.

Page 473

بے فائدہ بحث فرمایا.بعض لوگ بے فائدہ بحثوں میں پڑتے ہیں.مثلاً یہ کہ آنحضرتﷺ کے والدین مومن تھے یا کافر تھے؟ یہ بیہودہ بحث ہے.آنحضرت کا زمانہ دن کا زمانہ تھا جبکہ سورج روشن تھا.آنحضرت سے قبل کا زمانہ رات کا زمانہ تھا.رات کے وقت میں جو لوگ ہوتے ہیں ان پر کفر و اسلام کا فتویٰ کیا.وہ تو اندھیرے میں چلے گئے.وہ لوگ بڑے گناہ گار ہوتے ہیں جو مصلح کا زمانہ پاتے ہیں اور پھر اس کا انکار کرتے ہیں.رات کو غفلت کا وقت ہوتا ہے.مگر جب جگانے والا آگیا تو اس کا نہ ماننے والا ملزم ہوتا ہے.قرآن کی قدر کرو ایک روز درس قرآن کریم ختم کرتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھ دے! اللہ چاہے تو اپنے فضل سے تمہارے دل میں کوئی ایک بات بٹھا دے.اللہ کی کتاب کی قدر کرو.پھر سمجھو اور عمل کرو.بخل کے دور کرنے کا علاج فرمایا.بخل کے دور کرنے کا علاج یہ ہے کہ جب ایک پیسے کا بخل ہو تو دو پیسے دے دینے چاہئیں.اور دو پیسے کا بخل ہو تو چار دے دینے چاہئیں.اس کا میں نے جوانی میں خوب تجربہ کیا ہے اور بہت فائدہ اٹھایا ہے.عزت میسر ہو تو مغرور ہوکر ہلاک نہ ہوجاؤ سورۃ القصص کے آٹھویں رکوع کے درس کے بعدفرمایا کہ اس رکوع کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی کو کسی قسم کی عزت میسر ہو تو اس پر مغرور ہوکر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالے.خدا تعالیٰ بڑا قادر ہے اسے دیر نہیں لگتی.اللہ سے ڈرو.اس سے خوف رکھا کرو.بدی کا نتیجہ کبھی نیک نہیں ہوسکتا اور نیکی کا نتیجہ کبھی بُرا نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ تمہیں نیکی کی توفیق دے.آمین.جبر کے قائل لوگ فرمایا.جو لوگ اپنے کو جبریہ کہتے ہیں وہ دل سے اس عقیدہ کو نہیں مانتے.کیونکہ

Page 474

وہ اپنے دنیاوی کاموں میں خوب خوب زور لگاتے ہیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جاتے.پھر دینی احکام کی بجاآوری میں جبر کے قائل ہیں.حضرت مولانا روم نے کیا خوب فرمایا ہے.؎ اشقیا در کارِ عقبے جبری اند اولیاء در کار دنیا جبری اند قیامِ نماز فرمایا.ایک شخص نماز پڑھتا ہے اور اسے لذت نہیں ملتی تو اس کو سو چنا چاہیئے کہ یہ بھی خدا کا فضل ہے کہ میں نے نماز تو پڑھ لی.دوسرا اس سے اعلیٰ ہے وہ نماز سمجھ کر پڑھتا ہے مگر دنیوی خیالات نماز میں بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے تو اس کو بھی خوش ہونا چاہیئے کہ سمجھ کر تو نماز پڑھنی نصیب ہوئی.تیسرا لذت وہی پاتا ہے.اس کو بھی خوش ہونا چاہیئے.اسی طرح انسان ترقی کرسکتا ہے.شکر کرنے سے بھی ترقی ہوتی ہے.اگر پہلے ہی نماز کو اس خیال سے کہ لذت نہیںملتی کوئی چھوڑ دے تو وہ کیا ترقی کرے گا.ایک مبشر کشف فرمایا.ایک دفعہ مجھے رؤیا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنی کمر پر اس طرح اٹھا رکھا ہے جس طرح چھوٹے بچوں کا مشک بناتے ہوئے اٹھاتے ہیں.پھر میرے کان میں کہا.تُو ہم کو محبوب ہے.کھجور فرمایا.حدیث میں آیا ہے کہ کھجور مومن کی پھوپھی ہے.اس پر بعض آریاؤں نے مذاق اڑایا ہے لیکن ان کو اس کی و جہ معلوم نہیں.ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ کھجور کا درخت آدم کی بقیہ مٹی سے بنا ہے.ہر چیز جب بنائی جاتی ہے تو اس کا کچھ بقیہ رہ جاتا ہے جو زیادہ ضروری اور کارآمد نہیں ہوتا لیکن اسی کا جزو ضرور ہوتا ہے.کھجور ہی ایک ایسا درخت ہے جس کا کوئی جزو بھی خراب اور بے مطلب نہیں ہوتا.اس پر حوادث بھی کم اثر کرتے ہیں.مومن کو بھی ایسا ہی بننا چاہیئے.حمد و ثنا فرمایا.حمد کا لفظ قرآن شریف میں بھی آیا ہے اور حدیث میں بھی.لیکن ثناء کا لفظ قرآن شریف میں نہیں آیا البتہ حدیث میں آیا ہے.اور یہ غلط ہے کہ حمد کا لفظ صرف خدا کے لیے مخصوص ہے اور اوروں کے لیے جائز نہیں.دیکھو

Page 475

خود نام محمدؐ ہی اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ محمدؐ کا لفظ اوروں کے واسطے آسکتا ہے.محمد کے معنے ہیں حمد کیا گیا.ایسا ہی مقام محمود، جگہ حمد کی گئی.غرض کہ قرآن شریف میں محمد رسول اللہ اور مقام محمود، دو جگہ اس بات کے ثبوت میں کافی ہیں کہ حمد کا لفظ غیرخدا پر بھی استعمال ہواہے.احادیث بخاری فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک سے لے کر پانچ سو برس تک مدینہ منورہ میں کوئی داعیٔ بدعت نہیں ہوا.اسی لیے امام بخاری علیہ الرحمۃ کی عادت ہے کہ مدینہ والوں کی روایات کو مقدم سمجھتے ہیں.امام بخاری بدعتیوں میں سے خارجیوں کی روایت کو تو لے لیتے ہیں لیکن رافضیوں کی روایت کو شاذ ہی لیتے ہیں.اس کی و جہ یہ ہے کہ خارجیوں کے ہاں جھوٹ کفر ہے اور شیعوں کے ہاں تقیہ کے رنگ میں جھوٹ بولنا جائز ہے.اسی طرح امام بخاری ان روایات کو شیعوں اور خارجیوں سے ہرگز نہیں لیتے جو ان کے مذہب سے مخصوص ہوں.غربااچھے رہے فرمایا.دین جس قدر اولیاء اللہ کے ذریعہ پھیلا ہے اس قدر بادشاہوں کے ذریعہ سے نہیں پھیلا.اگر کوئی کہے کہ عالمگیر بادشاہ نے دین کی خدمت کی تو اس سے پوچھا جائے کہ گولکنڈہ میں کون تھا جس کے ساتھ عالمگیر کے جنگ ہوتے تھے.وہ ایک سید تھا.تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا کہ ایک آدمی بھی عالمگیر کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہو.جب کبھی دینی کام ہوئے غربا سے ہی ہوئے.عربی لٹریچر فرمایا.ہم نے جرمن کے پروفیسروں سے دریافت کیا کہ وہ کون کون سی کتابیں ہیں جن کے پڑھنے سے عربی زبان بہت اعلیٰ درجہ کی آجائے.انہوں نے بالاتفاق مفصلہ ذیل کتابوں کا نام لکھا:.قرآن شریف، بخاری ، مسلم، آثار کی کتابیں، امام شافعی کی کتاب اُم، احیاء العلوم، جاحظ کی کل کتابیں،مبرو کی کتاب کامل، عقدالفرید، سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری، فتوح البلدان، تقویم البلدان، مقدمہ ابن خلدون، شفاء، رحلہ ابن بطوطہ، الف لیلیٰ، کلیلہ دمنہ، سبع معلقہ، حماسہ، اغانی، دیوان حریر، ابن ربیعہ، سقط الذنب، قانون بوعلی سینا، سیرۃ المختار.

Page 476

فرمایا.ان پر ہم نے یہ کتابیں بڑھائی ہیں.مدونہ، مبسوط، مغنی، محلی، شیخ ابن تیمیہ، ابن قیم، تفسیر کبیر، امام غزالی کی کل تصانیف.بخاری فرمایا.نوّے ہزار آدمیوں نے بخاری صاحب سے کتاب بخاری سنی ہے.استاد ہوں تو ایسے فرمایا.قبولیت دعا کے بھی عجیب در عجیب رنگ ہیں.میرے ایک استاد تھے جن کا نام تھا حکیم علی حسین صاحب.میں ایک دفعہ انہیںملنے گیا اس وقت میری ماہوار آمدنی ایک ہزار روپے تھی مگر جیسے میری عادت ہے میرا لباس سادہ تھا بلکہ کچھ میلا بھی تھا.مجھے دیکھ کر وہ گھبرائے اور کہنے لگے کہ میں جو خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگا کرتا ہوں ان کی قبولیت کے نشان میں ایک یہ دعا بھی مانگا کرتا ہوں کہ میرا کوئی شاگرد ذلیل نہ ہو اور اس کی آمدنی ایک ہزار روپے ماہوار سے کم نہ ہو.تمہاری کیا حالت ہے.جب میں نے اپنی اصلی حالت کا اظہار کیا تب ان کی تشفی ہوئی.موقع سے یوں فائدہ اٹھاتے ہیں فرمایا.جب ہم حج پر گئے تو ہم نے ایک روایت سنی ہوئی تھی کہ مکہ میں جو شخص دعائیں مانگے اس کی ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے.یہ روایت تو کوئی چنداں قوی نہیں تاہم جب وہ دعا مانگنے لگے تو ہم نے یہ مانگا ’’یا الٰہی میں جب مضطرب ہو کر کوئی دعا تجھ سے مانگوں تو اس کو قبول کرلینا.‘‘ ایسا سوال ناجائز فرمایا.ایک شخص نے ہم سے سوال کیا کہ بتلاؤ خدا کی کیا شکل ہے اور اس کی رنگت کیا ہے؟ میں نے کہا اچھا پہلے تم یہ بتلاؤ کہ تمہاری آواز کی کیا شکل ہے اور تمہاری قوت ذائقہ کی کیا صورت ہے اور تمہاری بینائی کی کیا رنگت ہے اس نے کہا یہ تو ہم نہیں بتا سکتے لیکن ان چیزوں کا کم از کم مقام تو معین ہے.میں نے کہا اچھا بتلاؤ تمہاری قوت واہمہ جو ذرا سی دیر میں سارا جہاں گھوم آتی ہے اس کی کون سی جگہ مقرر ہے اور زمانہ کی کون سی جگہ مقرر ہے.پس جبکہ ہم ایسی بہت سی مخلوق کو جانتے ہیں جس کی کوئی جگہ مقرر نہیں کرسکتے پھر جب مخلوق میں ایسی مثالیں موجود ہیں تو خدا تو پھر خدا ہے.ایک سیکنڈ کا لاکھواں حصہ بھی سارے جہان کو اپنی بغل میںلیے بیٹھا ہے.زمانہ موجود ہے مگر اس کی کوئی

Page 477

شکل نہیں اور نہ اس کا کوئی مکان مقرر ہے تو خدا تعالیٰ کے متعلق ایسا سوال کیونکر جائز ہوسکتا ہے.مومن فرمایا.مومن وہ ہوتا ہے جو دوسرے مومن کے لیے موجب راحت ہو.نیاز مندی فرمایا.نیاز مندی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک خادمانہ ہوتی ہے.دوسری عاشقانہ ہوتی ہے.خادمانہ نیازمندی یہ ہے کہ جیسے بادشاہ کے دربار میں انسان عمدہ لباس پہن کر قواعد کے مطابق وضعداری کے ساتھ حاضر ہوتا ہے.اس کی مثال مومن کی نماز اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہے.دوسری نیاز مندی قواعد سے آزاد عاشقانہ رنگ میں ہوتی ہے.اس کی مثال اللہ تعالیٰ کی عبادت میں روزے اور حج کے ساتھ ہے.عمل تسخیر فرمایا.جموں میں ایک مولوی صاحب میرے پاس آیا کرتے تھے.ایک دن کہنے لگے کہ آپ کو تسخیر کا علم ضرور آتا ہے مجھے بھی سکھلا دو.میں نے کہا وہ عمل یہ ہے کہ جب گھر سے نکلا کرو تو یہ پڑھا کرو.بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ.کہنے لگا یہ تو میں جانتا ہی ہوں کوئی نئی بات بتلاؤ.یار کا خیال ہو تو پھر اوروں پر نظر کہاں فرمایا.ہمارے ملک میں ہیر اور رانجھا کا قصہ مشہور ہے، دو عاشق معشوق تھے.کہتے ہیں کہ ایک مولوی صاحب نماز پڑھ رہے تھے کہ ہیر ان کے آگے سے گزر گئی.نماز سے فراغت کے بعد جب ہیر انہیں ملی تو انہوں نے شکوہ کیا کہ دیکھ میں نماز پڑھتا تھا تو میرے آگے سے گزری یہ گناہ ہے.اس نے کہا میں اس وقت اپنے یار کے خیال میں بے خبر جارہی تھی میں نے نہ آپ کو دیکھا ہے نہ آپ کی نماز کو اور تعجب ہے کہ آپ تو نماز میں تھے چاہیئے تھا کہ آپ کو اپنے خدا کا دھیان رہتا میں کس طرح آپ کو نظر آگئی.مولوی صاحب بہت شرمندہ ہوئے.الہامات رحمانی اور شیطانی فرمایا.خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی الہامات ہوتے ہیں اور شیطان اور نفس امارہ کی طرف سے بھی الہامات ہوتے ہیں.رحمانی اور شیطانی الہاموں میں فرق یہ ہے.(۱)خدا کے الہام کے ساتھ ایک سرور ہوتا ہے اور شوکت ہوتی ہے جو شیطانی الہامات میں نہیںہوتی.

Page 478

(۲) خدا تعالیٰ کے الہامات کی عظیم الشان تائید ہوتی ہے.(۳)رحمانی الہام کے ساتھ اس کی سچائی کا کوئی نشان بھی ہوتا ہے.(۴) رحمانی الہامات کے ساتھ فرشتوں کی حفاظت ہوتی ہے اور وہ فرشتے رسولوں کو نظر بھی آتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں سورۃ آئی تو ستّر ہزار فرشتے اس کے ساتھ تھے.مگر یہ حالت بڑے عظیم الشان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے.یارسول اللہ فرمایا.یارسول اللہ کرکے پکارنا جائز نہیں ہے.شاعر حالت شعر ، اور حالت وجد میں کہا جائے تو اور بات ہے.اَیُّھَا النَّبِیُّ منصوص ہے اور عبادت میں ہے.لکھا ہے کہ عبادت میں قیاس جائز نہیں لہٰذا اس پر قیاس کرکے یارسول اللہ نہیں کہا جاسکتا.خلیفہ خدا بناتا ہے فرمایا.خدا جسے چاہتا ہے خلیفہ بناتا ہے.خدا کی مرضی سے خلافت ہوئی.خدا خود بناتا ہے.سورۃ نور میں لکھا ہے کہ خدا خود خلیفہ بناتا ہے.حضرت ابوبکر نے منبر پر خطبہ پڑھا تو بعد میں خلیفہ ہوئے.خلافتیں قرآن شریف میں چار آئی ہیں.(۱) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.(البقرۃ:۳۱) (۲) حضرت داؤد کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کہا.(۳) سورۂ نور میں خلفائے راشدین کا وعدہ ہے.(۴) سارے جہان کو خلیفہ کہا.(یونس:۱۵) مریض دل فرمایا.جس آدمی میں قوت فیصلہ اور تاب مقابلہ نہ ہو سمجھو کہ اس کا دل مریض ہے.صحابہ کس طرح فتح پاتے تھے فرمایا.صحابہ کرام نے مفصلہ ذیل قواعد پر عمل کرکے فتوحات حاصل کیں.(۱) خشوع فی الصلوٰۃ.مومن خاشع وہ ہے جسے اپنی قوت، اپنے علم، اپنے جتھے کسی کا گھمنڈ نہ ہو.اس زمین کی طرح ہو جو پانی کی محتاج اور اس کے اثرات قبول کرنے کے لیے بالکل تیار ہو.

Page 479

(المؤمنون:۳).(۲) اعراض عن اللغو.(المؤمنون:۴).(۳)زکوٰۃ.اپنے مال، قویٰ کا حصہ اللہ کے نام پر دینا. (المؤمنون:۵).(۴)حفظ فروج.اپنے سوراخوں کی حفاظت. (المؤمنون:۶).(۵) امانت و عہد کا لحاظ کرتے رہنا. (المؤمنون:۹).(۶) محافظت صلوٰۃ.(المؤمنون:۱۰) وعدہ و وعید دونوں ٹل سکتے ہیں؟ سورۂ مومنون میں جب ہم یہ آیات پڑھتے ہیں.  (المؤمنون:۹۴تا ۹۶) تو یہ دو باتیں کھلتی ہیں.ایک تو یہ کہ اللہ کی ذات کس قدر غنا میں پڑی ہوئی ہے کہ وہ انبیاء جن کے مبارک وجود کی خاطر بعض اوقات تمام ملک کو بھی غرق کردیتا ہے اس کے حضور گڑگڑانے کے محتاج ہیں اور دعا کی احتیاج سے خالی نہیں.اب دیکھئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر عذاب آتا ہے مگر دوسری جانب آپ ہی کے منہ سے کہلواتا ہے.(المؤمنون:۹۵) یعنی اے میرے ربّ مجھے ظالموں کی قوم میں نہ گردانیو.اس آفت میں مبتلا نہ ہوجاؤں.دوم یہ کہ وعدہ ہو یا وعید ہو وہ ضرور ٹل سکتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.(المؤمنون:۹۶) یعنی ہم جو ان کو وعدہ دیتے ہیں اس کے دکھانے پر قادر ہیں.یہ نہیں فرمایا کہ ضرور وہ وعدہ اسی رنگ میںپورا کریں گے بلکہ یہ فرمایا کہ قادر ہیں چاہیں تو اسے بدل کر کسی اور رنگ میں پورا کردیں.یہ نکتہ معرفت اگر خوب سمجھ لیا جائے تو پھر بروز محمدؐ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر کوئی اعتراض نہیں رہتا.

Page 480

آج کل کی تہذیب غلط ہے آج کل مہذب جو جنٹلمین کہلاتے ہیں جب اپنی کسی کمزوری کو چھپانا چاہتے ہیں تو عذر کردیتے ہیں یہ پرائیویٹ بات ہے.مگر یہ طرز اسلام کا نہیں مومن جو کچھ کرتا ہے اپنے مولیٰ کی اطاعت میں کرتا ہے اس لیے وہ بزدل نہیں ہوتا.قرآن کریم میں کئی جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خانگی امور کا ذکر ہے.کیونکہ آپ کی ذات ستو دہ صفات تمام جہانوں کے لیے اسوہ حسنہ تھی.آپ کا تھوکنا، آپ کا پیشاپ کرنا، آپ کا اٹھنا بیٹھنا، آپ کا اپنی بیویوں سے طرزِ معاشرت سب ہی کچھ محفوظ ہے.نبی کریم کا تعلق بارگاہِ ایزدی سے عرب لوگوں میں یا تو لڑائی نیزوں وغیرہ کا ذکر ہوتا رہتا ہے یا صحرائے بے آب و گیاہ یا شراب شہوت کے محلوں کا، اونٹنیوں کا، کھجوروں کا.مگر اللہ تعالیٰ کے صفات، افعال، نعم، نقم کا کوئی ذکر نہیں تھا.قرآن مجید کا ایک ایک رکوع غور سے دیکھو، اللہ کی عظمت اور جلال سے خالی نہیں.جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنا بڑا تعلق بارگاہ ایزدی سے تھا.صحابہ کرام کی خصوصیات جیسے کوئی نبی بہرہ نہیں ہوا.ایسا ہی کوئی صحابی بہرہ نہیں تھا تاکہ کلام نبوی سے محروم نہ رہے.پھر اتنی بڑی قوم میں روایت کے اعتبار سے کسی کا جھوٹ ثابت نہیں ہوگا.سبحان اللہ نبی کا صدق اس قدر پر تو انداز تھا کہ کسی روایت کے صدق کے لیے صرف اسی قدر ثبوت کافی ہے کہ ایک صحابی کہتا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.منکر فضیلت ابوبکرؓ منکر قرآن ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو اولوالفضل (صاحب فضیلت) فرمایا ہے.(پڑھو یہ آیت (النور:۲۳) ) بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ فضل سے مراد مال ہے مگر ان کی تردید کے لیے ساتھ ہی فرمایا.اگر فضل سے مراد مال ہوتا تو سعۃ کو علیحدہ نہ فرماتا.

Page 481

اپنے مردے آپ نہلاؤ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا کہ مسلمانوں میںہمدردی یہاں تک کم ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے مردوں کو آپ نہلانا بھی چھوڑ دیا ہے.جب کوئی مرتا ہے تو اس کی جائیداد کو مقفل کرنے کی فکر میںلگ جاتے ہیں اور اس کے نہلانے دھلانے کا کام کسی ملّاں کے سپرد آٹھ دس آنہ کے پیسے دے کر کر دیتے ہیں، اسلام کا یہ دستور نہ تھا.حضرت نبی کریم کو بھی اہل بیت حضرت علیؓ فضل، اسامہ نے غسل دیا.(میں چاہتا ہوں کہ کم از کم احمدی احباب اس سنت کو جاری رکھیں اور وہ اپنے مردوں کو خود غسل دیا کریں.(تشحیذ)....................بیوی کو ماں کہنا ایک شخص کا خط پیش ہوا کہ میرا ایک دوست اپنی بیوی کو حالت غصہ میں ماں کہہ بیٹھا ہے اب کیا کرے.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا.ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے.فرمایا.اکٹھا نہ کھلا سکتا ہو تو چند روز کے وقفہ میں کھلاتا رہے.مگر جب تک کہ ساٹھ مسکین کھا نہ لیں تب تک بیوی کے پاس نہ جائے.زکوٰۃ فرمایا.نقدی کی زکوٰۃ ہے.مبلغ ایک سو روپیہ پر اور ساڑھے سات تولہ سونا پر ۲ماشہ.زیور پر زکوٰۃ کے متعلق اختلاف ہے.کوئی صحیح بات جس پر اعتراض نہ ہوسکے مجھے نہیں ملی.ابوداؤد میں حدیث ہے مگر اس پر بھی جرح ہے.بعض نے کہا ہے زیور پر زکوٰۃ نہیں.بعض نے کہا مستعمل پر نہیں.میرے گھر میں اور حضرت صاحب کے گھر میں زیور کی زکوٰۃ سونے چاندی کے حساب سے ادا کی جاتی ہے.مویشی کی زکوٰۃ.۴۰ بکریوںمیں ایک.سو بکریوں تک.۳۰ گائے میں ایک سال کی ایک بچھیا.

Page 482

زمین میں  من انگریزی غلہ سے زائد ہو تو کل کامنہائی کرنے کے بعد باقی کا اگر بارانی ہو تو اور اگر محنت سے پانی دیا گیا ہو تو .زمین کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں آمد پر ہے.گھوڑے پر زکوٰۃ نہیں.فروخت آبِ زمزم ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا آب چاہ زم زم کا فروخت کرنا جائز ہے؟ فرمایا.جائز ہے.(البدر جلد۱۱ نمبر۲و۳ مؤرخہ ۹؍نومبر۱۹۱۱ء صفحہ۲تا۶) ایک ضروری اعلان (تحریر فرمودہ ۷؍اکتوبر۱۹۱۱ ء ) میرے دوستو! میں درد دل سے یہ اعلان شائع کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تمہاری بھلائی کے لئے کرتا ہوں.میرے دل کو بہت دکھ پہنچتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ تم میں بہت سے ایسے ہیں جو اپنے اصل فرض سے غافل ہوکر نکمی بحثوں اور لغو جھگڑوں میں اپنے اوقات کو ضائع کرتے ہیں.کیا تم اس بات سے واقف نہیں ہو کہ کس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو دنیا میں قائم کیا ہے.یاد رکھو کہ جن بحثوں اور جھگڑوں کو تم تازہ کرنا چاہتے ہو انہیں کے لئے یہ سلسلہ قائم ہوا ہے.پس اگر تم اس سچی راہ پر قدم نہ مارو گے جو تمہیں دکھائی گئی ہے اور جس کی حجت بھی تم پر پوری ہوچکی ہے تو خدا کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں. (الفرقان :۷۸) تم وہ لوگ ہو جو ایک دفعہ نہیں دو دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور اقرار کر چکے ہو کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے اور خوب سمجھ لو کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے عہد کرکے توڑتا ہے وہ سخت قابلِ مواخذہ ہے.یہ بھی یاد رکھو کہ ایمان بغیر اعمال صالحہ کے کچھ چیز نہیں.بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو دعویٰ کرنے میں تو سب سے آگے قدم رکھتے ہیں مگر عمل کے وقت کچھ بھی نہیں.اگر تم کو یہ دعویٰ ہے کہ تم میرزا صاحب پر ایمان لائے ہو تو یہ دعویٰ کسی وقعت کے قابل نہیں جب تک تم اپنے عمل سے اس دعویٰ

Page 483

کی سچائی کو ثابت کرکے نہ دکھاؤ.جب تک ان کاموں میں دلی جوش اورسچی ہمدردی سے حِصّہ نہ لو جو تمہیں کرنے کے لئے کہا گیا ہے اور صدق دل سے ان احکام کے بجالانے میں ساعی نہ رہو جو تم کو دئیے گئے ہیں.میں اپنے نفس کے لئے تم سے کچھ نہیں مانگتا (یونس :۷۳).بلکہ تمہاری بھلائی کے لئے تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ تم چندوں میں سستی کو چھوڑ دو.میں تمہیں اس اشتہار کی طرف متوجہ کرتا ہوں جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کے ساتھ جو مرید کہلاتے ہیں آخری فیصلہ قرار دیا ہے.جس میں آپ نے یہ تحریر فرمایا ہے.’’یہ اشتہار کوئی معمولی تحریر نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ جو مرید کہلاتے ہیں یہ آخری فیصلہ کرتاہوں.مجھے خدا نے بتلایا ہے کہ میرا انہیں سے پیوند ہے یعنی وہی خدا کے دفتر میں مرید ہیں جو اعانت اور نصرت میں مشغول ہیں.مگر بہتیرے ایسے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں.سو ہر ایک شخص کو چاہیے کہ اس نئے انتظام کے بعدنئے سرے عہد کرکے اپنی خاص تحریر سے اطلاع دے کہ وہ ایک فرض حتمی کے طور پر اس قدر چندہ ماہواری بھیج سکتا ہے.مگر چاہیے کہ اس میں لاف گزاف نہ ہو جیسا کہ پہلے بعض سے ظہور میں آیا کہ اپنی زبان پر وہ قائم نہ رہ سکے.سو انہوں نے خدا کا گناہ کیا جو عہد کو توڑا..........اس اشتہار کے شائع ہونے سے تین ماہ تک ہر ایک بیعت کرنے والے کے جواب کا انتظار کیا جائے گا کہ وہ کیا کچھ ماہواری چندہ اس سلسلہ کی مدد کے لئے قبول کرتا ہے.اور اگر تین ماہ تک کسی کا جواب نہ آیا تو سلسلہ بیعت سے اس کا نام کاٹ دیا جائے گا اور مشتہر کردیا جائے گا.اگر کسی نے ماہواری چندہ کا عہد کرکے تین ماہ تک چندہ کے بھیجنے سے لاپرواہی کی اس کا نام بھی کاٹ دیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی مغرور اور لاپرواہ جو انصار میں داخل نہیں اس سلسلہ میں ہرگز نہیں رہے گا.‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۵۵۵،۵۵۶) اب اس سے بڑھ کر میں تمہیں کیا کہہ سکتا ہوں جو لوگ چندہ نہیں دیتے یا چندہ دینے میں سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں وہ خود ہی سوچ لیں کہ کہاں تک وہ احمدی ہیں.کس قدر افسوس کی بات ہے

Page 484

کہ دوسروں کا فتویٰ پوچھتے ہیں اور اپنی حالتوں پر کچھ غور نہیں کرتے.بہت سے آدمی ہماری نگاہ میں ہیں جنہیں بہت کچھ دعویٰ ہے کہ ہم یہ ہیں اور یہ ہیں.مگر وہ دیتے کچھ نہیں.وہ خدا کے لئے سوچیں کہ آیا وہ حقیقی طور پر اس سلسلہ میں شامل بھی ہیں؟ خدا کو وہی لوگ پیارے ہیں جو اپنے ایمان کو اپنے اعمال سے پختہ کرتے ہیں.بعض ایسے مخلص بھی ہیں جو بہت غریب ہیں اور اپنے لئے کوئی سبیل معاش بھی نہیں رکھتے مگر باایں جب ان کو کچھ مل جاتا ہے تو وہ چندہ میں دیتے ہیں.جیسے یہاں حافظ معین الدین حضرت صاحب کے پرانے خادم ہیں.کوئی شخص یہ نہ خیال کرے کہ میں بہت نہیں دے سکتا.جس حد تک کوئی شخص استطاعت رکھتا ہے اسی حد تک ادا کرے مگر یہ ضروری ہے کہ مقرر چندہ کی ادائیگی کو اپنے اوپر فرض کرلے اور وقت مقرر پر اس کی ادائیگی میں غفلت نہ کرے.تمہارے مالوں کے اللہ کی راہ میں خرچ ہونے سے تم ہی کو فائدہ ہوگا.بہت سے ہیں جو دعوے تو یہ کرتے ہیں کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے مگر دین کے لئے کچھ مانگا جائے تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں.حالانکہ دنیا کے لئے اگر خرچ کرنے کی ضرورت ہو یا محض نمو کے لئے بھی.تو اس بات سے بھی پرہیز نہیں کرتے کہ قرض لے کر خرچ کردیں بلکہ سُو دپر قرض لے کر بھی خرچ کرلیتے ہیں.وہ غور کریں کہ خدا کی راہ میں دینے کے لئے کیوں وہ ویسا جوش نہیں دکھا سکتے جو دنیا کے لئے خرچ کرنے میں دکھاتے ہیں.کیا اس سے ان کا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا دعویٰ سچا ثابت ہوتا ہے یا جھوٹا.دیکھو میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم روپے کو اپنا معبود مت بناؤ.یہ تمہارے کسی کام نہیں آئے گا.جس نفس کی حظّ کے لئے، جس اہل و عیال کے لئے، جن دوستوں کے لئے تم ناجائز کماؤ گے یا خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے رکو گے وہ تمہیں کبھی کوئی فائدہ نہ دیں گے اور اس طرح سے تمہارے دل کو کبھی اطمینان اور خوشی نصیب نہیں ہوسکتی.بلکہ حرص کی جلن دن بدن ترقی کرتی چلی جاوے گی اور تمہارے ایمان کو بھی برباد کرکے چھوڑے گی.یہاں ایک لنگرخانہ ہے جو ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنے دنیوی کاروبار سے فراغت کا وقت نکال کر یہاں علم دین سیکھنے کے لئے آتے ہیں.یہ اس سلسلہ کی سب سے پہلی شاخ ہے.وہ بھی اس

Page 485

وقت قریباً دو ہزار روپے کا مقروض ہے.اگر سب احمدی اپنے اوپر حسبِ استطاعت ایک رقم مقرر کرکے اسے باقاعدہ ادا کریں تو اس کے اخراجات بآسانی چل سکتے ہیں.مگر بہت ہیں جن کو باوجود باربار کی تاکید کے اس طرف توجہ نہیں ہوئی.یا کوئی رقم مقرر کرکے وعدہ کرلیتے ہیں تو پھر ادا نہیں کرتے.پھر ایک مدرسہ ہے جس میں تمہارے بچوں کی دنیوی و دینی تعلیم کا سامان کیا گیا ہے اور اس زہریلی ہوا سے بچانے کی فکر اس میں کی جاتی ہے جس نے بہت سی روحوں کو ہلاک کردیا ہے.ایک دوسرا مدرسہ ہے جس میں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے.اس کے استحکام کے لئے ابھی بہت سے روپے کی ضرورت ہے.اشاعت اسلام کا سلسلہ ہے.یتامیٰ اور مساکین کے لئے علیحدہ ضرورت ہے.ایسے ہی اور کئی قسم کے ضروری کاروبار ہیں جن میں تم سب کو حِصّہ لینا ضروری ہے.پھر ان کے ساتھ ہر ایک کام کے لئے عمارت کی ضرورت ہے.تمہیں ان اخراجات کا فکر کم ازکم اتنا تو ہونا چاہیے جتنا اپنی ضروریات کا فکر رکھتے ہو.میں آخر میں تمہیں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ ہر قسم کی لغو بحثوں کو چھوڑ دو.ان سے نہ تمہارے دین کو فائدہ پہنچ سکتا ہے نہ دنیا کو.آپس میں تنازعات اور جھگڑوں کو چھوڑ دو اور محبت اور رحم کا برتاؤ کرو.بڑے چھوٹوں کو اپنا بھائی سمجھیں اور ان کی تحقیر نہ کریں.چھوٹے بڑوں کا ادب کریں.چاہیے کہ کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے.اور اگر ایک شخص زیادتی کرتا ہے تو دوسرا بجائے بالمقابل جواب دینے کے صبر سے کام لے.ان اغراض کے لئے جو اس سلسلہ کے اہم اغراض ہیں چندہ دینے کو اپنے اوپر فرض کرلو.دنیا کی حرص کو کم کرو اور ہر ایک قسم کے ناجائز طریق حصول روپیہ کو سخت آگ سمجھو.میں نے محض تمہاری خیرخواہی کے لئے اور تمہارے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے یہ باتیں تم کو کہی ہیں.اگر تم ان باتوں کو مان لو گے تو دنیا اور آخرت میں سکھ پاؤ گے.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.نور الدین ۷؍اکتوبر ۱۹۱۱ء (البدر جلد ۱۱ نمبر ۲، ۳ مورخہ ۹؍نومبر۱۹۱۱ء صفحہ ۸،۹)

Page 486

مسلمان مومن ایک شخص نے عرض کی کہ مسلمان اور مومن میں کیا فرق ہے.؟ فرمایا.قرآن شریف میں اسلام کو ایمان بھی کہا گیا ہے.انشورنس ایک شخص نے عرض کیا کہ کیا یہ جائز ہے کہ میں اپنی زندگی کو انشیور کرا لوں تا کہ میرے بال بچے کے واسطے بعد میں روپیہ جمع ہو؟ فرمایا.کیا تم اپنے بچوں کے رازق ہو.خدا کے پاس ان کے لیے چندہ جمع کراؤ.نعمت کی قدر کرو فرمایا.انسان تندرستی کی حالت میں بیمار کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اسی طرح حسین، جمیل، بدشکل کو حقارت سے دیکھتا ہے.امراء غرباء کو حقارت سے دیکھتے ہیں.بعض آسودہ حال لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو خشیت اللہ بہت ہوتی ہے اور اس غرض سے کہ ہماری راحت قائم رہے ضرورت مندوں کی دستگیری کرتے ہیں.جس طرح دنیا کے مفلس ہوتے ہیں اسی طرح دین کے بھی مفلس ہوتے ہیں ان کی بھی دستگیری ضروری ہے.حد سے بڑھنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا فرمایا.آدمی جب مصیبت میں پڑتا ہے تو پھر سوچنے لگتا ہے لیکن مبارک ہیں وہ لوگ جو پہلے ہی سے سمجھ سوچ کر کام کرتے ہیں اور مخلوق کی ہمدردی میں مصروف رہتے ہیں.تاریخ پر لوگ غور نہیں کرتے اور صحابہ کرام کے حالات پر تدبر نہیں کرتے.یہود کے حالات کو دیکھو اور اپنے ہندوستان کے بادشاہوں کے حالات کی طرف توجہ کرو.انسان جب حدّ سے بڑھ جاتا ہے اور طغیانی کرنے لگتا ہے تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.عمل کرو فرمایا.مرزائی بننے یا احمدی کہلانے سے نجات نہیں حاصل ہوتی ہے.کام کرنا چاہیئے.تکبر نہ کرو فرمایا.انسان منی سے بنا ہے.منی کے بھی ایک کیڑے سے.کیڑے کو پھر چوسنے اور حرکت کرنے کی طاقت ہے اور آگے چلو تو انسان صرف مٹی سے بنایا گیا ہے جس میں حرکت بھی

Page 487

نہیں.وہ ترابی حالت بھی اس پر آچکی ہے.پھر جب یہ جوان ہوتا ہے کیسی کیسی چستیاں دکھلاتا ہے.کبھی قطب جنوبی کو جاتا ہے کبھی قطب شمالی کو.پھر جوانی کے دن بھی گزر جاتے ہیں.انسان کہتا ہے چٹاپٹ گزر گئے حالانکہ چٹاپٹ کہاں گزرے.سالہاسال لگتے ہیں تب جوانی کے دن گزرتے ہیں.صحت اور طاقت کے دنوں کی قدر نہیں کی جاتی.کھیل کے وقت لڑکے خیال کرتے ہیں کہ دین دنیا کیا چیز ہے.وہی کھیل کا میدا ن اور ہاہو ان کا مقصد ہوتا ہے.سلطان محمود کی غلطی فرمایا.سلطان محمود پر اللہ تعالیٰ رحم کرے اس نے عربی کی بجائے فارسی دفتر جاری کیے.اس لیے مسلمانوں کا عربی کے ساتھ تعلق کم ہوگیا.فارسی کے لیے بہت کوششیں کی گئی تھیں اب اس نے بھی ہندوستان سے ڈیرہ ڈنڈا اٹھالیا ہے.عرب کی زبان سے تعلق گیا تو اہل عرب اور قرآن شریف سے دلچسپی گئی.دین میں ضعف آگیا.قرآن شریف کا شغل دن بدن گھٹتا چلا گیا.سادگی اختیار کرو فرمایا.آج کل مسلمان سادگی کو نہیں جانتے خواہ مخواہ اپنے اخراجات بڑھا لیتے ہیں.جس مسلمان کو دیکھو ہزاروں کا مقروض ہے.محنت کے وقت عذر کردیتے ہیں کہ ہم سے محنت نہیں ہوسکتی اور چاہتے ہیں کہ کھانا پینا اچھا مل جائے.دیکھو میں باوجود اس پیرانہ سالی اور ضعف کے اپنی دوکان چلاتا ہوں بہت سے بیماروں کو روز دیکھتا ہوں گو یہ رزق کے لیے ایک پردہ ہی ہے.یہ آیت، حدیث نہیں ہے فرمایا.بعض فقرات اس طرح مشہور ہوجاتے ہیں کہ ناواقف انہیں قرآن شریف کی آیت یا کوئی حدیث خیال کرنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ وہ کلمہ نہ قرآن شریف میںہوتا ہے نہ کسی حدیث میں.اسی قسم کے کلمات میں سے ایک ہے لَا عَفْوَ فِی الْکَبَائِرِ.اور ایسا ہی ایک اور کلمہ کسی کا بنایا ہوا ہے لَا َتتَحَرَّکُ ذَرَّۃً اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ.مذہبِ محدّثین فرمایا.نیل الاوطار، محلی بن حزم، فتوحات مکیہ ان کتابوں کے دیکھنے سے محدثین کے مذہب کا حال معلوم ہوسکتا ہے.یہی اعلیٰ درجہ کی کتابیں ہیں جو محدثین کے مذہب کو ظاہر کرتی ہیں.

Page 488

حادث فرمایا.کل موجودات، محسوسات جن کا ہم کو علم ہے وہ تو سب حادث ہیں.باقی وہ چیزیں جو ہمارے مشاہدہ سے باہر ہیں ان کی نسبت بحث کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں.جو اعیان و عوارض ہم نے دیکھے ہیں وہ سب حادث ہیں.خدا تعالیٰ کی ذات غنی ہے فرمایا.مولوی محمد اسمٰعیل شہید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا لکھنؤ میں ایک فلسفی سے مباحثہ ہوا.مولوی صاحب نے اسے کہا کہ ہم تمہارے فلسفہ کے اصول کے مطابق بحث نہیں کرتے.ہم تو اس طرح سے فیصلہ کرنے کو طیار ہیں کہ تو اور ہم ایک کوٹھری میںبند ہوکر بیٹھ جائیں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ خود ہی اصل بات کو کس طرح ظاہر کردیتا ہے.اس بات کو سن کر حضرت (مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے فرمایا کہ اگرچہ اس طریق سے فیصلہ کرنے کے لیے کوئی شخص مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کے مقابلہ پر نہیں آیا تاہم یہ ایک خطرناک بات ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ذات تو غنی ہے.کربلا کیوں متبرک؟ فرمایا.تعجب ہے کہ اہل شیعہ کربلا کومتبرک سمجھتے ہیں اور وہاں اپنے مُردوں کی لاشیں لے جاتے ہیں اور اسی جگہ دفن کرتے ہیں.حالانکہ کربلا تو وہ مقام ہے جہاں حضرت امام حسین پر ایسی سخت مصیبت اور تکلیف وارد ہوئی تھی.عناصر میں تمیز فرمایا.مثنوی میںلکھا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ عناصر میں تمیز اور ادراک نہیں ہوتا.مگر دیکھو پانی نے نوح کو اور ان کے دشمنوں کو پہچان لیا.اور اسی طرح پانی نے موسیٰ اور فرعون کو پہچان لیا اور ہر ایک کے ساتھ اس کے مناسب حال سلوک کیا.اور آگ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو پہچان لیا.صوفیاء نے لکھا ہے کہ کلّر زمین میں گناہ بہت ہوتے ہیں اور باغ والی زمین میں نیکیاں بہت ہوتی ہیں کیونکہ سبزہ زار کے درخت بھی تسبیح کرتے ہیں.بیڑا غرق کرنے والے وظیفے ایک شخص نے عرض کی کہ مجھے ایک صاحب نے یہ وظیفہ بتایا ہے کہ تم ہر روز یاخضر یاخضر پڑھتے رہا

Page 489

کرو.روزانہ تین روپے تم کو مل جایا کریں گے.فرمایا.جب سے کہ مسلمانوں نے یہ وظیفے شروع کیے ہیں تب ہی سے ان کا بیڑا غرق ہونے لگا ہے.اذان پر کیوں ناراض ہوتے ہیں؟ فرمایا.تعجب ہے کہ ہندو اور سکھ آپس میں ایک دوسرے کو گندی گالیاں بلند آواز سے دیتے ہوئے سنتے ہیں اور برا نہیں مناتے لیکن جب اذان سنتے ہیں تو سخت ناراض ہوتے ہیں.حالانکہ اذان میں خدا تعالیٰ کی تعریف اور اچھی باتیں ہیں اور کیا ہی پیارے کلمات ہیں.(المائدۃ:۵۹).شہید فرمایا.شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں.(۱) مطعون.جو طاعون سے مرے.(۲)مبطون.جو دستوں کی بیماری سے مرے.(۳) جس پر دیوار گرے اور وہ مرجائے.(۴) جو پانی میں ڈوب کر مرجائے.(۵) شہید فی سبیل اللہ.جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑکر مرجائے.شہادت کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایمان بھی ہو.ورنہ ابوجہل بھی تلوار سے مارا گیا تھا.قیامت میں سایہ کس کو ملے گا فرمایا.حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کے سوائے کسی چیز کا سایہ نہ ہوگا اور وہ سایہ سات شخصوں کو ملے گا.(۱) امام عادل.منصف بادشاہ (۲)جو اپنی جوانی میں خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگا رہا ہے.(۳)وہ آدمی جس کا دل مسجد میں ہی لگا رہتا ہے.ہر وقت اس خیال اور انتظار میں ہے کہ کب نماز کا وقت ہوتا ہے کہ مسجد کو جائے.(۴)وہ آدمی جو اللہ تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے سے دوستی کرتے ہیں.(۵) وہ شخص جسے کوئی بڑے رتبہ والی خوبصورت عورت بلائے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر کے سبب نہ جائے.(۶)وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس طرح خرچ کرے کہ ایک ہاتھ سے دے تو دوسرے کو خبر نہ ہو.(۷)وہ جو اللہ تعالیٰ کی شاہنشاہی کے خوف سے ڈر کر علیحدگی میں بیٹھ کر روئے.بدعت فرمایا.باوجود حاجت کے جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں نہ ہوا ہو اس کو بدعت کہتے ہیں.

Page 490

خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی ایک علامت فرمایا.جب خدا تعالیٰ کسی پر ناراض ہوتا ہے تو اسے جھوٹ بولنے کی عادت بہت ہوجاتی ہے.یہ تفریق کیوں؟ فرمایا.اس ملک میں عورتیں نماز کے وقت سینے پر ہاتھ باندھتی ہیں اور مرد نیچے، معلوم نہیں یہ فرق کس طرح پیدا ہوا.قرآن شریف اور حدیث میں اس کا کوئی پتہ نہیں چلتا.قرض سے بچو فرمایا.قرضدار آدمی جھوٹا ہوجاتا ہے.وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا اور بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے.عبودیت فرمایا.ہرحال میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو عبودیت سکھاتا ہے.مثلاً زبان کو حکم ہے کہ جھوٹ نہ بولے یہ بھی عبودیت ہے.پھر سچ بولنے کے متعلق فرمایا کہ غیبت نہ کرو گو بات سچی ہی ہو.پھر فرمایا کہ لنگڑے کو لنگڑا نہ کہو گو وہ ہے اور سچ ہے مگر ایسا کہنے سے بھی منع فرمایا.ایسا ہی بعض مجاز کے بولنے سے بھی منع فرمایا ہے.تراویح فرمایا.رمضان شریف میں تراویح کا پڑھنا ضروری ہے اور باجماعت پڑھنی چاہئیں کیونکہ اب فرضیت کا ڈر نہیں رہا.تراویح میں محدّثین اور فقہاء کا بڑا اختلاف ہے.مالکیوں کے ہاں ۳۶رکعت ہیں اور حنفیوں میں بیس (۲۰) رکعت ہیں.محدّثین میں گیارہ رکعت سے زیادہ ثابت نہیں.میں خود بھی گیارہ رکعت کو پسند کرتا ہوں لیکن مخالف کسی کا نہیں ہوں.تجارت سے بہتر فرمایا.میں نے ایک دفعہ سورۂ جمعہ پر خطبہ پڑھا اور ارادہ یہ کیا کہ اس کو (سورۂ جمعہ کی تفسیر کو) طبع کراکر ایک آنہ فی کاپی کے حساب سے فروخت کریں گے.اس زمانہ میںکالج بنانے کا خیال تھا اور چندہ کی ضرورت تھی.خیال ہوا کہ اس کا روپیہ اس چندہ میںلگائیں گے.جس وقت نماز میں سجدہ میں گیا تو الہام ہوا کہ قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ وَاللّٰہُ خَیْرُالرَّازِقِیْنَ.پہلے ہی میدان صاف ہوا فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پیشتر عرب میں ایک عظیم الشان جنگ ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے سرداران قوم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بظاہر

Page 491

ہرگز ماننے والے نہ تھے آپس میں لڑکر قتل ہوگئے تھے.بڑے بڑے سردار اس میں مارے گئے تھے.(البدر جلد۱۱ نمبر۴و۵ مؤرخہ ۱۶؍نومبر۱۹۱۱ء صفحہ ۳،۴) ناجائز تجارت ایک شخص کا سوال پیش ہوا ’’بعض آدمی ایسا کرتے ہیں کہ کوئی سرمہ یا دوائی یا کوئی اور ایسی کارآمد چیز مثلاً جرابوں کے جوڑے یا گھڑیوں کے زنجیر وغیرہ غرض کوئی ایسی چیز لے کر فرضاً جرابوں کے ۵۰۰ جوڑہ لے کر ہر ایک جوڑہ کو ایک ایک کاغذ میں باندھ کر ۵۰۰ پیکٹیں تیار کرتے ہیں.اور ان پانچسو پیکٹوں میں سے ایک پیکٹ میں دس روپیہ کا نوٹ اور دو پیکٹوں میں پانچ پانچ روپیہ کے دو نوٹ ڈال دیتے ہیں اور سب پیکٹوں کو خوب ملا دیتے ہیں یعنی اپنے آپ کو بھی یہ خبر نہیںرہتی کہ نوٹ کس کس پیکٹ میں ہیں.پھر ہر ایک پیکٹ کی کچھ قیمت رکھ دیتے ہیں.مثلاً ہرایک پیکٹ کی قیمترکھ دی.اب جو جو آدمی ان کو خریدنا چاہتے وہ آنے مالک کو دے دے تو اس کا نام رجسٹر میں درج کرلیا جاتا ہے.پھر ایک تاریخ مقررہ کو (جو کہ پہلے سے مقرر کر لی جاتی ہے) سب پیکٹیں خریداروں کو تقسیم کردی جاتی ہیں اور انہی میں وہ نوٹ والی پیکٹیں بھی تقسیم ہوجاتی ہیں.یہ ایک مال کو جلدی فروخت کرنے کا ڈھنگ ہے.وہ جراب جس کی قیمت  رکھی گئی ہے وہ قریباً بازار سے بھی پرچون اتنے ہی کو ملتی ہے.کوئی دو چار پیسے کا فرق ہو تو ہوسکتا ہے.اب یہ خاکسار بڑے ادب سے آپ سے دریافت کرتا ہے کہ یہ ڈھنگ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.یہ جؤا بازی ہے جو شرعاً جائز نہیں.قرأت نماز میں سورتوں کی ترتیب فرمایا.یہ جائز ہے کہ نماز کے اندر کی پہلی رکعت میں کوئی آخری سورۃ پڑھی جائے اور دوسری رکعت میں اس سے قبل کی سورۃ پڑھی جائے.دونوں رکعتوں میں ایک سورۃ فرمایا.جائز ہے کہ دونوںرکعتوں میں ایک سورۃ پڑھی جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ صبح کی نماز میںہر دو رکعت میں سورۂ اِذَا زُلْزِلَتْ پڑھی تھی.(البدر جلد۱۱ نمبر۴و۵ مؤرخہ ۱۶؍ نومبر۱۹۱۱ء صفحہ ۶)

Page 492

محبی مکرمی سید بشارت احمد صاحب جو چند روز قادیان میں رہے.تو وہ ایک عاشق صادق کی طرح حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں ہر وقت حاضر رہتے اور حضور کی باتوں کو اکثر قلمبند کرتے رہتے.انہوں نے ازراہ عنایت ایک ڈائری بھیجی ہے.اس اخبار میں سب سے اوّل اسی کو ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم علیحدہ مکان میں رہنے کی ہدایت فرمایا کہ ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ مکان میں رہنا چاہیے ورنہ بڑے بڑے نقصانات ہوتے ہیں.اور ہم نے خود دیکھا ہے کہ انسانی شرم حیا جاتی رہتی ہے.لَنْ اور لَا کے معانی کا فرق فرمایا. (مریم : ۲۷)لفظ لَنْ مدت دراز کے لئے نہیں کہا جاتا ہے اور لفظ لا چونکہ اونچا جاتا ہے یہ دوام کے لئے آسکتا ہے.جو لوگ کہ شرارتاً رویت کے قائل نہیں ان کا اس سے رد ہوسکتا ہے کہ وہاں لن فرمایا ہے نہ کہ لا.علم اور بے باکی میں اضافہ فرمایا.میں ابتداء سے غور کرتا آیا اور اب بھی غورکرتا ہوں.اگرچہ کہ بوڑھاہوگیا ہوںمگر اب بھی فرصت کے اوقات میں سوچتا رہتا ہوں.لیکن پھر بھی اب تک میری سمجھ میں نہیںآیا کہ یہ کیا بات ہوجاتی ہے کہ جس قدر علم زیادہ ہوتا جاتا ہے اسی قدر لوگوں کی بیباکی بڑھتی جاتی ہے.السلام علیکم کو رواج دیں فرمایا کہ السلام علیکم کو رواج دیں.اس کی یہاں تک تاکید ہے کہ اگر خالی مکان میںبھی کبھی جانا ہوتو اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ کہیں.امراء کا فرقہ فرمایا.امراء کا فرقہ اباحی ہوتا ہے الَّاماشاء اللہ.ایرانی مذہب فرمایا.ہندو، چینی ، جاپانی یہ ایرانی مذہب کی ہی گویا شاخ ہیں.گرو صاحب کا معجزہ فرمایا.عیسائیوں کی دیکھا دیکھی سکھوں نے بھی گرو صاحب کی نسبت یہ معجزہ مشہور کررکھا ہے کہ انہوں نے مرا ہوا ہاتھی زندہ کیا تھا.غالباً انہوں نے یہ خیال کیا کہ انسان تو

Page 493

چھوٹی چیز ہے البتہ ہاتھی عظیم الشان چیز ہے اس میں معجزہ کی اور بھی شان ہے.مسیح کے دو کاندھوں والے فرشتے مسیح کے دو کاندھوں والے فرشتوں کے جواب میں فرمایا کہ ہر ایک شخص کے دونوں بازؤوں پر یہی کراماً کاتبین رہتے ہیں.اور اس بات کو سب جانتے ہیں اور پھر یہ بھی حدیث میں آیا ہے کہ جمعہ کی نماز میں جو لوگ آتے ہیں تو مسجد کے دروازہ پر بھی دو فرشتے ہر ایک کا نام لکھنے کھڑے ہوتے ہیں.لیکن آج تک ان ہر دو کو بھی کسی نے نہ دیکھا تو پھر مسیح کے کاندھوں والے فرشتے کیوں دکھلائی دیں.حقیقت و مجاز فرمایا.حقیقت و مجاز کا تفرقہ تیسری صدی میں ہوا ہے ورنہ اس کے پہلے حقیقت و مجاز تھا ہی نہیں.وحی فرمایا.وُحیٌ قبر کے کتبہ کو کہتے ہیں اور وحی بھی اس ہی لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی انسان کے دل میں مثل پتھر کے کندہ کے گڑ جاتی ہے.الٰہی مہمان نوازی فرمایا.ایک بزرگ محی الدین ابن عربی کے شیخ تھے.وہ اپنا گزارہ اس قسم سے کیا کرتے اور کچھ ایسے تکلف سے رہتے جیسے کوئی بادشاہ کا مہمان ہو تو تکلف کرتا ہے.ایک مولوی نے پوچھا کہ حضرت نہ تو آپ پکاتے ہیں اور نہ کوئی کاروبار معیشت مہیا کرتے ہیں.پھر آپ کیونکر اس طرح گزارہ کرتے ہیں.تو فرمایا.خبردار! خاموش رہیو.کیا تم کو خبر نہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر مہمان ہو تو وہ خود ہی اپنی ضروریات کے لئے کوشش نہیں کرتا بلکہ میزبان تمام ضروریات کا کفیل ہوتا ہے تو پھر میں جبکہ خدا کا مہمان ہوں کہ جس کا گھر تمام جہان ہے تو پھر مجھ کو اپنے ضروریات کے لئے کیسے اپنی فکر کرنی چاہیے.چونکہ مولوی ہوتے ہیں ہشیار.وہ ایک کتاب اٹھالائے اور سامنے پیش کردی کہ دیکھئے حضرت حدیث میں تو لکھا ہے کہ انسان کسی کے گھر جاوے تو تین دن سے زائد مہمان نہ رہے.محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ یہاں تو میں بھی حیران ہوگیا اور سمجھ گیا کہ اس سوال سے تو شیخ بھی لاجواب ہوں گے.لیکن تھوڑی دیر کے سکوت کے بعد شیخ نے مجھے فرمایا کہ دیکھو جی ان کی حدیث کی

Page 494

قرآن سے مطابقت کر کر جواب دے دو.قرآن میں چونکہ لکھا ہے کہ (الحج: ۴۸) تو پس اس لحاظ سے ہم تین ہزار سال تک بھی مہمان رہ سکتے ہیں.فرمایا کہ یہ ایمانی حالت ہے اور بسا اوقات ہم نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے.کُن کا مخاطب فرمایا.کُن پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ خطاب کس کی جانب ہے.اگر کہوکہ مخلوقات و اشیاء کے جانب تو یہ اعتراض ہوگا کہ پھرکُن کے کہنے کے پہلے جب یہ موجود تھے تو کُن کے بعد کیا پیدا ہوا.فرمایا.جواب یہ ہے کہ کُن کا اطلاق علم الٰہی پر ہے.چونکہ اس کا مخاطب علم الٰہی ہی ہے.نو مسلم انگریزوں کی خواہش یورپ کے بعض نو مسلم انگریزوں کی یہ خواہش پیش کی گئی کہ نماز کا ترجمہ انگریزی زبان میں کروا کر بھیج دیا جائے.فرمایا کہ الحمد اور قل ہواللّٰہ تو عربی زبان میں پڑھنا ضرور ہے.باقی دعائیں اپنی زبان میں پڑھ لیا کریں اگر اس قدر عربی بھی نہیں آسکتی تو پھر ہمیں ایسوں کی ضرورت بھی نہیں.احادیث کاترجمہ فرمایا.حضرت صاحبؑ تو ترجمہ کے بہت مخالف تھے فرمایا کرتے تھے کہ یہ جو حدیثوں کا ترجمہ ہوا ہے تو اصل الفاظ سے روک دیتا ہے.سفر حج میں نعلین کے تسمے ملنا فرمایا.ایک بزرگ حج کو جارہے تھے اور ایک دنیادار مرید بھی ساتھ تھا.اس نے ایک وقت کہا کہ شیخ ریت میں نعلین کے تسمہ ٹوٹ جایا کرتے ہیں چند تسمہ ہمراہ رکھ لینا چاہیے.انہوں نے تو انکار کردیا.لیکن ہشیار مرید نے ساتھ رکھ لیا.جب دونوں چلے تو اتفاقاً راستہ میں شیخ کی نعلین کا تسمہ ٹوٹ گیا.مرید سے کہا کہ ہمارا تسمہ ٹوٹ گیا ہے.ذرادیکھنا کہ یہاں کہیں تسمہ تو نہیں چونکہ حج کے لئے بہت سے قافلہ جاتے ہیں ممکن ہے کہ کسی کا تسمہ گر گیا ہو.جب مرید نے تلاش کیا تو ایک تسمہ مل ہی گیا اور پھر آگے بڑھے.اتفاقاً دوسرے وقت پھر تسمہ ٹوٹ گیا پھر بھی مرید کو تلاش کرنے کو کہا.چونکہ کوشش انبیاء کی سنت ہے پس پھر تلاش پر اور ایک تسمہ مل گیا.مرید نے عرض کیا شیخ میں تو ناحق بوجھ اٹھا کر اپنے ساتھ تسمہ لایا.یہاں تو ضرورت پر خود ہی تسمے ملتے ہیں.

Page 495

نہر زبیدہ خاتون مکہ معظمہ کا ذکر تھا.فرمایا کہ نہر زبیدہ خاتون فرات و دجلہ سے نہیں لائی گئی بلکہ بہت سے چشموں کو جمع کر کر نکالی گئی ہے.اور جبکہ اس کا حساب انجینئروں نے پیش کیا تو اس وقت وہ دجلہ کے محل پر بیٹھی ہوئی تھی.اس وقت کئی کروڑ کی بر آورد بھی پیش کی گئی تو وہ کاغذات دریا میں پھینک کر کہا کہ جو کام خدا کے لئے ہو اس کا حساب کیا.فرمایا.پہلے مسلمان بڑے اولوالعزم تھے اب وہ بات نہیں رہی.بدؤوں کی مسافر نوازی و صلہ رحمی بدؤوں کی مسافر نوازی و صلہ رحمی پر فرمایا.چند ہندوستانی راستہ بھٹک کر جنگل میںیکایک ایک قزاق بدوی کے مکان پر چلے گئے.اس نے دریافت کیاکہ کیسے یہاں پر پہنچ گئے تو سبھوں نے کہا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں.پھر اس نے پوچھا کہ سچ سچ کہو کہ تمہارے ہاں کچھ پیسے بھی ہیں یا نہیں.چونکہ وہ سب قلاش ہوگئے تھے سبھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ٹکا بھی پاس نہیں.جب ان کے کہنے پر اسے یقین آگیا تو تب اس نے کہا کہ اچھا یہ جو تربوز کا کھیت ہے اس کو لوٹ لو.وہ لوگ خوشی خوشی تمام کھیت صاف کرنے لگے اور خوب خوب کھایا.……… جب وہ اچھی طرح سستا لئے تو دوسرے روز بدوی نے کہا کہ اب چلو میں تم لوگوں کو راستہ پر چھوڑ دیتا ہوں.چنانچہ اس نے اپنے نئے مہمانوں کو لے کر بڑی بڑی پیچدار گھاٹیاں طے کراتے ہوئے راستہ پر لا کھڑا کردیا.اور پھر پوچھا کہ سچ کہو تمہارے ہاں کوئی پیسہ وغیرہ تو نہیں.لہٰذا اس نے اپنے مزید اطمینان کے لئے جامہ تلاشی لی اور کہا کہ اگر تمہارے نزدیک سے کچھ نکلتا تو میں تم سب کو مار ڈالتا.اور پھر کہنے لگا کہ دیکھو یہ کھیت جو تم نے لوٹ لیا اور اجاڑدیا.یہ میرے تمام سال کا آذوقہ اور کمائی تھی لیکن تم کو مفلس دیکھ کر میں نے اسے لٹادیا.اب کہو کہ تم لوگ رکھ کر بھی ہم کو نہیں دیا کرتے تو پھر ہمارا لے لینا ظلم کیسے ہوا.ہم کبھی ظلم نہیں کرتے مجھے یہی بتلانا مقصود تھا.سید بشارت احمد......................خدا تعالیٰ کی معیّت فرمایا.ہمارا خیال ہمارے دماغ میں بھی ہوتا ہے اور دوسری جگہ بھی چلاجاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے نزول کو سمجھو.اس سے نہ تو (الاعراف:۵۵)

Page 496

میں فرق آتا ہے اور نہ تبدیل مکانی کی ضرورت ہے.پھر خواب کے عجائبات پر نگاہ کرو.ظاہر ہے کہ نزول کے واسطے جسم کی ضرورت نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ(الشعراء:۶۳).حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا.(التوبۃ:۴۰).پس معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کا ساتھ ہونا اور ہر جگہ موجود ہونا یکساں نہیں ہوتا کسی نہ کسی رنگ کا فرق ضرور ہوتا ہے.ورنہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا اسی قسم سے فرعون کے ساتھ بھی تھا.معراج النبی ؐ فرمایا.ہم مانتے ہیں کہ معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کو ہوا.بیداری بھی تھی اور جسم بھی تھا مگر اس کی کیفیت کیا تھی.یہ جدا بات ہے.معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے بلال کو جنت میں اپنے آگے آگے چلتے پایا.بلال کے پاؤں کی جوتوں کی آہٹ سنی.یہ قابل غور بات ہے.بیٹھنے کے مختلف معانی فرمایا.دیکھو ایک لفظ ہے بیٹھنا.پھر اس کے کس قدر معانی ہیں.دیوار بیٹھ گئی.تخت پر بادشاہ بیٹھا.کسی کی محبت دل میں بیٹھ گئی.ساہو کار بیٹھ گیا.(دیوالہ نکل گیا) کسی کی بات ہمارے دل میں بیٹھ گئی.ظاہر ہے کہ سب بیٹھنے ایک طرح کے نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی ذات چونکہ وراء الوراء اور لَیْسَ کَمِثْل ہے اس لئے اس کا بیٹھنا بھی اور اس کی معیت بھی جدا کیفیت کی ہے.اللہ تعالیٰ کو کسی پر قیاس نہیں کرنا چاہیے.خدا تعالیٰ کی ذات پر جس قدر شبہات پیدا ہوتے ہیں وہ اسی وجہ سے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات کو لوگ قیاس کر لیتے ہیں اور کسی نہ کسی چیز سے اس کی تشبیہ دے لیتے ہیں.اقرار کو پورا کرو فرمایا.جو سنتے ہیں وہ سنیں اور جن تک آواز نہیں پہنچتی ان کو سنادیں کہ تم کو بیعت کرنے پر کوئی مجبور نہیں کرتا.کوئی مارتا نہیں کہ ضرور بیعت کرو.ہم کسی کو بلاتے نہیں کسی پر زور نہیں دیتے.یہاں بعض عورتیں ہیں جو بیعت میں داخل نہیں حالانکہ ان کے مرد ہیں.ان عورتوں پر

Page 497

کوئی زور نہیں ڈالا جاتا.پس جب بیعت اپنے ارادے اور خوشی سے ہے تو اس پر پکّے رہو.اپنے عہد کو پورا کرو.بعض آدمی بڑے مضبوط اور راستباز ہوتے ہیں.جب اقرار کرتے ہیں اس پر قائم رہتے ہیں اور اسے پورا کرتے ہیں.لیکن بعض لوگ اس خیال میں رہتے ہیں کہ اگر بیعت کرنے کے بعد کوئی نفع دنیوی حاصل ہوگیا تب تو پیر صاحب بڑے اچھے اور سلسلہ عمدہ.اور اگر ذراابتلاء آگیا تو پھر کچھ بھی نہیں.واقعات انبیاء سے سبق فرمایا.انبیاء کا جو بیان قرآن شریف میں ہے اس میں ہمارا حصہ یہ ہے کہ ہم غور کریں کہ مومن پر کیسے ہی مصائب آجاویں اور بظاہر ہلاکت نظر آوے اور بڑے مشکلات دکھلائی دیں اور نفس کمزوری دکھلائے کہ تو تباہ ہوجائے گا.تو نفس کو جواب دینا چاہیے کہ تو جھوٹ کہتا ہے.اس سے بڑھ کر سخت ابتلاء انبیاء پر آئے مگر وہ تباہ نہ ہوئے.بسبب اپنے ایمان کے اور راستبازی کے وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے رہے.اس طرح ہم بھی انشاء اللہ کامیاب ہوں گے.خدا تعالیٰ ہماری نصرت کرے گا.فرمایا.تکالیف ، مصائب کا آنا ضروری ہے مقدمات ہوتے ہیں عداوتیں کی جاتی ہیں لیکن یہ سب تھوڑے وقت کے واسطے ہے.آخر فتح مومن کی ہے.قرآن نعمت الٰہی ہے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو کتاب دی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کتاب دی.ہاں مجھے بھی کتاب دی.یہ اللہ تعالیٰ کا انعام سب مومنین پر ہے.بہادر سپاہی فرمایا.اللہ تعالیٰ کے بہادر سپاہی بنو.بنی اسرائیل کے معنے ہیں بہادر سپاہی کے بیٹے.بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے جو احکام ہیں وہ تمہارے لئے بھی ہیں.لفظ ام المومنین کا غلط استعمال فرمایا.کسی شخص نے میری بیوی کو ام المومنین لکھا ہے مجھے یہ ناگوار ہے.ہمارے دوستوں کو سوچ سمجھ کر لفظ بولنا چاہیے.میری بیوی تمہاری ماں نہیں.ہاں پیغمبر خدا ﷺ کی بیوی کو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ماں فرمایا ہے دوسروں کو ماں نہیں کہا.ہاں ان معنوں میں ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے بچوں کو ایماندار بنائے اور ان کی ماں ان مومنین کی اُم ہے.

Page 498

ہاتھ دھو کر سُکھانا ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ مجالس طعام میں دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ کھانے سے پہلے ہاتھ دھو کر تولیہ یا رومال سے صاف نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ شریعت کا حکم ہے.آپ براہ بندہ نوازی اطلاع فرماویں کہ کوئی صحیح حکم اس بارہ میں موجود ہے یا نہیں.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا.السلام علیکم.ہر گز قرآن کریم اور حدیث نبی رؤف رحیم میں ہاتھ دھو کر سُکھانے کی مخالفت نہیں.ہاں ایک بار سرور کائنات فخر موجودات خاتم النبیین والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غسل فرمایا تو کسی نے رومال دیا تو آپ نے اس وقت رومال لیا نہیںجس سے معلوم ہوتا کہ رومال حسب عادت دیا گیا اور اس وقت نہیں لیامگر مخالفت نکالنا غلط ہے.عید میں نوافل فرمایا.عید گاہ میں اس وقت نماز عید کے سوائے کوئی نماز نفل وغیرہ پڑھنی جائز نہیں.نورالدین.....................جنگ بدر سے لے کر یرموک تک ۲۸ دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات تاریخ اسلام کے ۶ رسالوں میں شائع ہوئے ہیں ان کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح کی رائے ہے کہ یہ سلسلہ اہل اسلام کے لئے نہایت مفید ہے.المشتہر غلام قادر فصیح ایڈیٹر تاریخ اسلام شہر سیالکوٹ (البدر جلد ۱۱ نمبر ۶،۷ مورخہ ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ تا ۵) ہر حال میں خدا کو یاد رکھو فرمایا.نوکری پر جاؤ، بازار جاؤ، اٹھتے بیٹھتے، کروٹ لیتے، سفر میں، حضر میں، صحت میں، بیماری میں.غرض ہر حال میں اپنے ربّ کویاد رکھو.قرب کی علامت دکھاؤ ذکر ہوا کہ ایک جگہ بعض مخالفین نے احمدیوں کا پانی کنوئیں سے بند کردیا ہے.فرمایا.اس پانی کو کون بند کر سکتا ہے ایک جگہ نہ پیا دوسری جگہ چلے گئے.اگر ان مخالفین کو

Page 499

خدا تعالیٰ کے حضور میں احمدیوں سے بڑھ کر اپنے قرب کا فخر ہے تو خدا سے دعا کر کے احمدیوں کے گلے بند کرا دیں کہ کوئی پانی بھی ان کے اندر نہ جاسکے.خدا پر توکل ایک شخص کی تجویز پیش ہوئی کہ آئے دن کے مشکلات کورفع کرنے کے واسطے حضور تمام جماعت پرآٹھ آنہ فی کس چندہ لگا دیں.فرمایا.میں خدا پر بھروسہ کرتا ہوں اس طرح چندہ مقرر کرنا میرا کام نہیں.یہ مامور کی شان ہے.ایک حدیث ایک بچے کے منہ سے فرمایا.مجھے وہ لذت اب تک نہیں بھولتی جبکہ بہت مدت کی بات ہے ایک دفعہ دہلی گیا.میں نے ایک دوست کے پاس جانا تھا.اس کا مکان تلاش کرتے ہوئے میں ایک محلہ میں گیا.وہاں ایک چھوٹا سا بچہ سات آٹھ سال کی عمر کا میں نے دیکھا.مجھے اس کے ساتھ انس محسوس ہوا.قلب قلب کو پہچانتا ہے.میں نے اسے اس مکان کے متعلق پوچھا.اس نے بتلایا.پھر میں نے اس سے دریافت کیا کہ کچھ پڑھے ہوئے ہو.اس نے کہا ہاں.قرآن پڑھے ہیں، حدیث پڑھے.میں نے کہا اچھا کوئی حدیث سناؤ.اس نے نہایت سنجیدگی اور فصاحت سے کہا.قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمُ مِرْأَۃُ الْمُسْلِمِ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے آئینہ ہوتا ہے.سامنے تو اس کا عیب بتادے پھر پیچھے دل صاف رکھے.اس بچے کے منہ سے اس حدیث کو سن کر مجھے وجد آ گیا.غیب اور ایمان بالغیب کے معنی فرمایا.جو بندے کو معلوم نہ ہو وہ غیب ہے.جو موجود نہیں وہ بھی غیب ہے.جو معدوم ہوچکا ہے وہ بھی غیب ہے.فرمایا.اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھی غیب کہتے ہیں.فرمایا.ایمان بالغیب کے یہ معنی بھی ہیں کہ انسان جب بالکل علیحدہ ہو کوئی اس کو نہ دیکھتا ہو.اس وقت بھی خدا تعالیٰ سے ڈرے.

Page 500

سورج گرہن سے سبق فرمایا.سورج گرہن کو دیکھ کر یہ فائدہ اٹھانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو سورج بھی کہا ہے اور قمر بھی کہا ہے.آدمی کو چاہیے کہ ظاہر سے باطن کی طرف جائے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دیکھا کہ سورج کی روشنی جو دنیا کوپہنچتی ہے وہ رک گئی تو آپ گھبرا اٹھے کہ کہیں ہماری روشنی اور ہمارا فیضان اس طرح کم نہ ہوجائے اور رک نہ جائے.گھبراہٹ کے وقت دعا اور تضرع اور خیرات و صدقہ سے کام لینا چاہیے.لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا، تضرع ،خیرات اور صدقہ سب سے کام لیا اور دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور آپؐ کی روشنی بلا انقطاع قیامت تک دنیا میں رہنے والی ہے.اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے اس کی تجدید ہمیشہ ہوتی رہتی ہے.فرمایا.کسوف خسوف خدا تعالیٰ کے نشانات میں سے ہے جو بندوں کو دکھایا جاتا ہے اور سمجھایا جاتا ہے کہ بڑی بڑی روشن چیزیں جو ہیں ان کو بھی خدا تعالیٰ تاریک کر سکتاہے.علم حدیث کے پڑھنے کے فوائد فرمایا.احادیث کے پڑھنے کے بہت سے فوائد ہیں.منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ درود شریف پڑھنے کا بہت موقعہ ملتا ہے.اور یہ کہ انسان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذہب کس قدر پھیلا تھا.اور یہ کہ اس سے انسان کی عقل بڑی تیز ہوجاتی ہے کیونکہ مختلف اقوال سنتا ہے کسی کو ترجیح دیتا ہے کسی کو ضعیف ٹھہراتا ہے.اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کر لے اور آدمی اللہ تعالیٰ کو رضا مند کر ہی لیتا ہے.ابن عباس کی طرح ایک رکعت صلوٰۃ الخوف پڑھنے والے بھی خدا رسیدہ ہوگئے اور دو ردکعت پڑھنے والے بھی خدا رسیدہ ہوگئے.ایسا ہی اور بھی فوائد ہیں.خدا معطل نہیں فرمایا.مسلمانوںکا یہ مذہب نہیں ہے کہ کوئی ایسا زمانہ بھی آئے گا جبکہ سب چیزیں بالکل نیست نابود ہو جائیں گی.اور خدا تعالیٰ اپنی صفات سے معطل ہوجائے گا.کھانے کے متعلق آداب فرمایا.اسلام نے کھانے کے متعلق جو آداب سکھائے ہیں ان میں سے ایک یہ بات ہے کہ کھانے کے پکنے کے انتظار میں میزبان کے گھر نہیں جانا چاہیے.وہاں

Page 501

بیٹھ کر کھانے کا انتظار کرنا ٹھیک نہیں.اس میں میزبان کے واسطے تکلیف ہے وہ کھانے کا انتظام کرے یا میزبان کی خاطر کے لئے اس کے پاس بیٹھے.دوسری بات یہ ہے کہ کھانا کھا کر باتیں کرنے کے لئے بیٹھ نہیں رہنا چاہیے.تیسری بات یہ ہے کہ اپنے آگے سے کھانا کھائے ادھر ادھر ہاتھ نہیں مارنا چاہیے.چوتھی یہ بات ہے کہ جو کھانا پسند نہ ہو اس کی مذمت نہیں کرنی چاہیے ہاں اسے چپ چاپ الگ رہنے دیں.افسوس ہے کہ بعض لوگ اپنے گھر میں اسی واسطے لڑائی لگائے رکھتے ہیں کہ کھانا ان کو پسند نہیں آیا.بورڈنگ میں بچے اس پر لڑ پڑتے ہیں.یہ ٹھیک نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت تھی کہ جو کچھ میسر آئے اسے کھا لیتے.اعلیٰ درجہ کی چیز ملتی وہ بھی کھا لیتے ادنیٰ درجہ کی شئے ملتی وہ بھی کھا لیتے کسی خاص شئے کی پابندی نہ کرتے.یہ سادگی اور بے تکلفی کی عادت آپ کی لباس کے معاملہ میں بھی تھی جیسا مل گیا ویسا ہی پہن لیا کوئی تکلف نہ تھا.دعوتوں کے عجائبات میں سے ایک واقعہ ہے.ایک دفعہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی کہ پانچ آدمی آویں اور پانچویں آپ ہوں.آپ نے اس کی دعوت قبول فرمائی.اس کے مکان پر جاتے ہوئے راستہ میں ایک چھٹا آدمی ساتھ ہولیا جیسا کہ لوگوں کی عادت ہے کہ بزرگوں کے ساتھ ہوجاتے ہیں.جب حضورعلیہ السلام میزبان کے دروازے پر پہنچے تو آپ کھڑے ہوگئے اور میزبان کو کہا کہ یہ آدمی زائد آیا ہے اس کو ہم نے ساتھ نہیں لیا ہے.تمہارا اختیار ہے کہ اسے اندر جانے کی اجازت دو یا واپس کردو.کیسی سادگی اور صفائی ہے.آج کل کوئی مہمان سے پوچھے کہ کتنے آدمی ہوں گے تو ہتک سمجھی جاتی ہے.غرض دعوت کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی کے گھر بلا اجازت نہ جاؤ.سوراخ میں سے نہ جھانکو فرمایا.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ دوسروں کے گھروں میں سوراخ میں سے جھانکتے ہیں.یہ منع ہے اور اس کے دو نقصان ظاہر ہیں ایک گناہ اور دوسرا جریان کا مرض.ایک ضروری مسئلہ فرمایا.حضرت نبی کریم ﷺ اور آپ کی بیبیوں کے سوانح میں انسان کو بے دھڑک کوئی بات نہیں کرنی چاہیے اس سے گناہ گار ہوجانے کا اندیشہ ہے.مؤرخ کو چاہیے کہ اس

Page 502

معاملہ میں بہت احتیاط کرے اور سوچ لے کہ ایسے معاملات میں بات کرنے کی شریعت نے کہاں تک اسے اجازت دی ہے.خدا سے کچھ مخفی نہیں فرمایا.کوئی کام کرو ظاہر یا چھپ کر خداوند تعالیٰ سے کوئی مخفی نہیں ہے.ہر عورت کو گھر میں نہ آنے دو فرمایا.شریعت نے اجازت نہیں دی کہ ہر قسم کی عورت ہمارے گھروں میں اس واسطے چلی آیا کرے کہ وہ عورت ہے بلکہ صرف اپنے طرز کی عورتوں کے واسطے گھر میں آنے کی اجازت ہے.آنحضرتؐ کے احسان فرمایا.ہم نے طب کی کتابوں میں پڑھا ہے ایک مرض یا حالت ہوتی ہے جس کا نام یقضٰیٔ نومی.جس میں انسان ماں کے پیٹ میں سنی ہوئی یا اس کی گودی میں سنی ہوئی بچپن کی باتیں بڑاہو کر دہراتا ہے.اس کے متعلق ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک عورت جرمن زبان میں ایک فصیح لیکچر کسی وقت بولتی تھی حالانکہ جب وہ حالت اس سے دور ہوتی تو وہ جرمن زبان کا ایک لفظ نہ جانتی تھی.ایک ڈاکٹر اس تحقیقات میں لگا کہ اس کا سبب کیا ہے.تو بہت تلاش کے بعد اسے ثابت ہوا کہ جب یہ لڑکی بہت چھوٹی، ماں کی گود میں تھی تو جس گھر میں وہ رہتی تھی وہاں ایک جرمن پادری تھا جو اپنی سرمن طیار کر کے گرجے میں جانے سے قبل بطور مشق کے اپنے گھر میں علیحدہ کھڑے ہو کر وہ سرمن دیا کرتا تھا.اس سرمن کی آواز اس بچے کے کان میں پڑی ہوئی تھی اور اس کا اثر تھا.دیکھو یہ انسان پر ایک حالت آتی ہے اور چونکہ معلوم نہیں کہ روز قیامت ہم پر کیا کیا حالات وارد ہوں گے اس واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری پیدائش کے وقت ہمارے کان میں سب سے اوّل اذان کی آواز پہنچانے کا حکم دیا ہے جس میں توحید نماز اور نجات انسانی سب کچھ آجاتا ہے.معلوم نہیں کہ قیامت میں کیا تغیرات ہوں اور اس وقت کا سنا ہوا کام آجائے.کسی قوم کے لیڈر نے اپنی امت کے واسطے ایسی نیکیوں کا سامان نہیںکیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیاہے.میرے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا بڑا بڑا

Page 503

جوش آتا ہے کہ آپ کے ہم پر کس قدر احسانات ہیں.ہر کام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو استخارہ کرنا سکھایا ہے.یہ کتنا بڑا کرم اور غریب نوازی ہے.مصیبت کے وقت اِنَّالِلّٰہِ سکھلایا ہے جس سے تمام مصیبتوں کے پہاڑ اُڑ جاتے ہیں.ہر نصیحت کے وقت شکر کرنا سکھلایا ہے.کتاب وہ دی ہے کہ کسی کی طاقت نہیں کہ ایسی کتاب پیش کر سکے.کتنے بڑے احسان ہیں.مسلمانوں کو چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا کریں.اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.قبر کا معاملہ فرمایا.یہ کیا فقرہ مشہور ہوگیا ہے کہ قبر کا عذاب برحق ہے.کیا قبر میں عذاب ہی عذاب ہے اور راحت کچھ نہیں.یوں کہنا چاہیے کہ قبر کا معاملہ برحق ہے صرف عذاب کی تخصیص کرنا درست نہیں.فجر کی سنتیں خفیف کرو فرمایا.صبح کی دو سنتیں بہت خفیف پڑھنی چاہئیں.بعض لوگ غلطی سے فجر کی سنتیں بہت لمبی پڑھتے ہیں حالانکہ حدیث شریف میں تو مذکور ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھتے تھے تو لوگوں کو شبہ ہوتا تھا کہ الحمد شریف بھی پڑھی یا نہیں..........................داماد سے کچھ لینا جائز ہے ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ بعض لوگ ناطہ کے وقت داماد سے کچھ روپیہ لیتے ہیں کیا یہ شرعاً جائز ہے؟ فرمایا.جائز ہے.گمشدہ خاوند ایک شخص کے سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ خاوند کے نامعلوم الخبرہونے کی صورت میں اگر عورت کے واسطے گزارے کی صورت موجود ہو تو چار سال تک انتظار کرے ورنہ ایک سال کے بعد دوسری جگہ نکاح جائز ہے.

Page 504

غیر احمدی کا جنازہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا ہم غیر احمدی کے ورثا ء کی خواہش پر اپنے امام کے پیچھے اس غیراحمدی کا جنازہ پڑھ لیا کریں ؟ فرمایا.یہ خطرناک بات ہے ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اس کے لئے کیا دعا کریں گے کہ اے خدا اس شخص نے تیرے مامور کو نہیں مانا اس واسطے اس کو جنت نصیب کر.(البدر جلد ۱۱ نمبر ۸،۹ مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ تا ۵) روپیہ بت ہے فرمایا.اس زمانہ میں سب سے بڑا بت لوگوں کے لیے جس کے لیے خدا تعالیٰ کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے اور آخرت کی مطلق پرواہ نہیں روپیہ ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھانے کے لیے کہ اس زمانہ کی بت پرستی یہی ہے جس سے مؤحد مومن کو بچنا چاہیئے اس پر بت کا نشان ہونے کا سامان کردیا تاکہ تصویری زبان میں ہر وقت ان کو متنبہ کرتا رہے کہ میں بت ہوں ایسا نہ ہو کہ میرے لیے اپنے حقیقی مالک و محسن و معبود کو بھول جاؤ.پائی سے لے کر اکنی، دونی، چونی، اٹھنی، روپے اور پھر پونڈ تک بت ہے تاکہ بت پرست مشعر ہواور اس کے حصول کے لیے لوگ خدا کی نافرمانی کرنے کی جرأت نہ کریں اور اس میں ایسے منہمک نہ ہوں کہ و ہی بھول جائے.نئی شریعت نہ بناؤ ایک صاحب کی طرف سے ایک تحریک پیش ہوئی کہ تمام احمدی نوجوان ایک ماہ میں دو وقت کا کھانا چھوڑ قادیان کی مختلف مدات میں بھیج دیں.فرمایا.میری حیاتی کے تھوڑے دن رہ گئے ہیں میں پسند نہیں کرتا کہ کوئی نئی شریعت پیدا کی جاوے.۲۹؍ نومبر ۱۹۱۱ء.منطق الطیر فرمایا.یہ علم سنسکرت میں بسنت راج، عبرانی میں دبرہاعرف اور یونانی میں ارنی سو بوجیا کہلاتا ہے.جولوگ مرغیاں پالتے ہیں وہ بھی ذرا غور کریں تو ان کو معلوم ہوسکتا ہے کہ جب مرغی نے

Page 505

انڈا دینا ہو تو اس کی آواز کیا ہوتی ہے، جب دے چکے تو کیا.جب بچوں کے ساتھ چلے تو کیا.جب کوئی خطرہ پیش آئے تو کیا.جب بھوک لگے تو کیا.وغیرذالک.سچا علم کون سا علم ہے؟ فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  (فاطر:۲۹) اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھنے والے ہیں تو اس کے بندوں سے عالم لوگ.گویا سچے علم کی پہچان یہ ہے کہ اس کے صاحب کا قلب خشیۃ اللہ سے لبریز رہتا ہے.بڑا تعجب ہے کہ اس زمانہ میں لوگ جوں جوں زیادہ پڑھتے ہیں تو ان کے دل سے خشیت الٰہی نکل جاتی ہے.یہاں تک کہ جو سب سے بڑا عالم ہونے کا مدعی ہو وہ سب سے بڑا اللہ سے نڈر ہوگا.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے.انہیں اپنی جناب سے وہ علوم دے جن کے پڑھنے سے خشیت الٰہی ان میں آئے.ابلیس اور شیطان میں کیا فرق ہے؟ ابلیس اور شیطان کی اصل جنّ ہے.اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جو چیز اپنی ذات میں بری اور پُر ضرر ہو وہ تو ابلیس ہے.اورجس چیز کا ضرر متعدی ہو دوسروں کو بھی دکھ پہنچائے تو وہ شیطان ہے.چنانچہ پارہ اوّل رکوع ۴ میں فرماتا ہے.(البقرۃ:۳۵) جب تک اس میں انکار و استکبار تھا وہ ابلیس تھا لیکن جب اس کا ضررر متعدی ہوا اور(البقرۃ:۳۷) اس کی شان ہوئی، دوسروں کو بہکانے لگا تو پھر اسے شیطان فرمایا.سارے قرآن مجید میں خوب غور کرکے دیکھ لو جہاں جہاں ابلیس آیا ہے وہاں اس کا ضرر اپنی ذات میں ہے اور جہاں اس کا ضرر دوسروں تک پہنچا تو نام شیطان ہے.احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا لفظ بہت وسیع ہے.آپ نے ایک کبوتر باز کو کبوتری کے پیچھے جاتا دیکھ کر فرمایا.شَیْطَاُن یَتَّبِعُ شَیْطَانَۃً(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب اللعب بالحمام) النِّسَائُ حَبَائِلُ الشَّیْطَانِ(اعتلال القلوب للخرائطی باب ذکر من فتنۃ النساء عن طاعۃ اللّٰہ جلد ۱ صفحہ۱۰۳ طبع الثانیہ.ریاض).غرض ظلمت کے مظاہر شیاطین ہیں اور نور کے مظاہر ملائکہ.(البدر جلد۱۱ نمبر۱۰ مؤرخہ ۷؍ دسمبر۱۹۱۱ء صفحہ ۲)

Page 506

(درس خواتین میں سے چند نوٹ) ہمارا بفضل خدا ستائیسواں پارہ ختم ہونے والا ہے.اس عرصہ میں حضرت خلیفۃ المسیح نے بہت نادر نادر نکتے بیان فرمائے جو میں نے کبھی کبھی لکھے.مگر پھر خیال آتا کہ حضرت جو کچھ اندر مستورات میں فرماتے ہیں وہی باہر فرماتے ہوں گے جس کے نوٹ لکھ لئے جاتے ہیں.پھر معلوم ہوا کہ مردوں میں غالباً بائیسواں تئیسواں پارہ ہے اس لیے وہ چند ضروری نوٹ جن کو حضرت نے بہت جوش سے فرمایا ذیل میں درج کرتی ہوں.اگر میری بہنیں اور بھائی پسند فرماویں گے تو دعا فرماویں کہ آئندہ مجھے توفیق ملے کہ کچھ نہ کچھ اپنی بہنوں کی خدمت کرتی رہوں.والسلام.عاجز سکینہ بیگم (اہلیہ اکمل) از قادیان دارالامان دین داری کی تاکید فرمایا.نمازوں میں بہت سستی ہے.خاوندوں سے جھگڑے ہیں.آپس میں جھگڑے ہیں.قادیان کی آبادی پانچ ہزار ہے پھر غور کرو تم میں کتنی قرآن شریف سنتی ہیں پھر پڑھتی کم ہیں.اگر کچھ پڑھتی ہیں تو سمجھتی نہیں.اگر سمجھتی ہیں تو عمل کرنے والی بہت کم ہیں.فرمایا.دیکھو کسی پیارے عزیز کی چٹھی آجاوے تو کیسے اہتمام سے سنتی ہو مگر اپنے پیاروں سے بھی پیارے مولا کریم کی چٹھی نہیں سن سکتیں.قرآن شریف کو صبح شام اٹھتے بیٹھتے اپنا شعار بناؤ.فرقان حمید پڑھنے والاکبھی مجنون نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بلکہ میں حفاظت کرتا ہوں.بچوں کی سردی اپنی سردی کا فکر، پھر گرم کپڑوں کی فکر ہے اور اپنے نفس کی اصلاح کی فکر نہیں.اپنے دین کا خیال کرو.نمازوں میں سستی مت کرو.عورتیں نمازوں میں ضرور سست ہوتی ہیں.عصر کو کام کاج، کھانے پکانے کا بہانہ، شام عشاء کو بچہ کے سلانے کا بہانہ، صبح سردی کا بہانہ، رات بچے کے پیشاب سے بدن کو پلید کرلینے کا عذر کرلیتی ہیں.یہ سب بہانے ہیں.دین کو دنیا پر مقدم کرنا اسی کا نام ہے کہ یک دم تمام دنیاوی کام چھوڑ کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہوجاوے.کیسی ہی مشکل بنے کچھ پرواہ نہ کرے.دیکھو عید کی آمد سے مہینہ پندرہ دن پہلے تم عمدہ عمدہ کپڑے بنوانے، عمدہ کپڑے رنگنے، سینے سلانے میں بہت سا وقت خرچ کردیتی ہو اور خاوندوں کو فرمائشوں پر فرمائشیں ہوتی ہیں کہ صاحب چوری کرو، کچھ

Page 507

کرو ہمیں یہ چیز لاکر دو.تو کیا اللہ کے اپنے محسن کریم مولا کے حضور پانچ وقت سجدہ کرنے میں اس کا کلام پاک پڑھنے میں یہ بہانہ کہ ابھی بہت کام پڑا ہے فارغ ہوں تو نماز پڑھوں.فراغت ملے تو قرآن کریم پڑھوں یا سنوں.دیکھو میری ماں اللہ تعالیٰ اسے جنت میں بڑے بڑے درجات عطاء کرے بہت سارے بچوں کی ماں تھیں مگر وہ کبھی نماز قضا نہ کرتیں.ایک چادر پاک صاف صرف اس لیے رکھی ہوئی تھی کہ نماز کے وقت اسے اوڑھ لیتیں.نماز پڑھ کر معاً اوپر کھونٹی پر لٹکا دیتیں.فرقان حمید کا پڑھنا کبھی قضاء نہ کیا.بلکہ میں نے اپنی ماں کے پیٹ میں قرآن مجید سنا.پھر گود میں سنا اور پھر ان سے ہی پڑھا.سو تم بھی اپنی اولاد کو خود قرآن شریف پڑھاؤ.اس پر سمجھنے کی دعا مانگو اور عمل کی توفیق مانگو اور تڑپ تڑپ کر دعائیں مانگو کہ اللہ پاک ہم کو اور ہماری اولاد کو قرآن پر عمل کی توفیق دے.آمین تبلیغ اسلام یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور بہت بڑا احسان ہے کہ تم کو انسان پیدا کیا.سو تم انسان بننے کی کوشش کرو.انسان کے معنے ہیں دو ۲ انس اس کے اندر ہوں.یعنی ایسا پیار اللہ سے ہو کہ خدا کے سامنے کسی چیز کی پرواہ نہ کرے.دوم اللہ کی مخلوق سے بھی پیار رکھے، نیکی کرے انسان تب انسان بنتا ہے.سو تم کو خداوند کریم نے پاکیزہ شکلیں عطا کیں.ستھرے لباس دیئے.کیا اس کے شکریے میں یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ کی مخلوق کو اس کریم رحیم مولا کا نام ہی بتاؤ.دیکھو تمہارے گھروں میں سویرے ہی بھنگنیں آتی ہیں.ان کے گندے لباس ہیں.ہروقت گندگی میں رہنا ان کا کام ہے.تمہارے گھر گندگیوں سے پاک صاف کرتی ہیں تو کیا اس کے شکریے میں اتنا بھی نہیں ہوسکتا کہ تم ان کو پیدا کرنے والے واحد لاشریک کا نام ہی بتا دو.آہ! کاش تم ان کو کبھی ایک پاک بات سکھلا دیتیں.میں ایک دفعہ گلی میں جارہا تھا کہ ایک خوش پوشاک شخص نے مجھے سلام کیا اور کچھ روپیہ پیش کیا.میں نے غور سے دیکھا مگر سمجھ نہیں آیا کہ کون ہے.تو وہ کہنے لگاحضور نے مجھے پہچانا نہیں میں آپ کے ڈیرے کا خاکروب تھا.میںنے کہا یہ وضع کب سے بنائی.تو کہا حضور میں عیسائی ہوگیا تو مشن سکول میں عیسائیوں نے مجھے پڑھانا شروع کیا حتیٰ کہ ترقی کرتے کرتے میں اب ہیڈ ماسٹر ہوں.میں نے دل میں ندامت سے کہا کہ ہمارے ڈیرے میں بھی تو یہ رہا مگر کسی کو توفیق نہ ملی کہ اسلام کا رستہ اسے

Page 508

بتاتا اور کیسی چستی سے دوسروں نے ترقی کی.سو میں تم کو نصیحت کرتا ہوں اور قرآن کریم کا حکم سناتا ہوں کہ حق نہ چھپاؤ.ضرور کہہ دو.کوئی تمہیں برا کہے کچھ پرواہ نہ کرو.خدا تعالیٰ کی راہ میں سختیاں سہنا ہی جہاد ہے.فرمایا.مجھے رونا آتا ہے میرا دل روتا ہے مسلمانوں میں کیسی سستی آگئی ہے.اللہ کا رحم و فضل کرم ہو.ہمیشہ خوش رہنا فرمایا.بہت ہمارے مرد اور عورتیں چاہتی ہیں کہ جو چیز ہم چاہیں وہ دنیا میں مل جائے.مگر یہ تو جنت کا نشان ہے کہ جو دل چاہے وہ مل جاوے.کام کرنا دوزخیوں کے اور چاہنا جنت.میرے ایک بزرگ استاد تھے (رحمہ اللہ تعالیٰ) میں ان سے رخصت ہونے لگا تو عرض کی حضرت کوئی ایسا نکتہ معرفت فرماویں جس سے میں ہمیشہ خوش رہوں.تو وہ ایسی دلربا وضع سے بیٹھے کہ ہم نے سمجھ لیا کہ کوئی لطیف بات کہنے لگے ہیں.(کیونکہ کوئی لطیف بات کہنے لگتے تو اسی طرح بیٹھا کرتے) فرمانے لگے کہ ہمیشہ خوش رہنا تو بہت آسان بات ہے.’’خدا نہ بنا کرو‘‘.عرض کی حضور کوئی انسان بھی خدا بنا کرتا ہے؟ فرمایا.تم خد اکسے کہتے ہو؟ عرض کی کہ خدا جو چاہے وہ ہوجاتا ہے مگر بندہ نہیںکرسکتا.فرمایا.بس جو خدا بنے وہ دکھی ہوتا ہے انسان جو چاہے نہیں ہوسکتا.اپنے نفس کو سمجھاؤ کہ تُو جو چاہے ہو جائے یہ نہیں ہوگا کیونکہ تُو خدا نہیں.سو یہ بڑا یاد رکھنے والا اور سمجھنے والا نکتہ ہے.پیر کا نشان پیر میں تین صفتیں ہونی چاہئیں.کہ پیر جاہل نہ ہو، کسی سے بے جا محبت رکھنے والا نہ ہو، بے عمل نہ ہو.(البدر جلد۱۱ نمبر۱۱ مؤرخہ ۱۴؍ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۳) نور کی کرنیں (حضرت اقدس کے درس سے ) انسان محتاج ہے فرمایا.انسان ان گنت چیزوں کا محتاج ہے کھانے کا، پینے کا، پہننے کا.پھر اس کے آگے چل کر موچی ، بڑھئی، درزی وغیرہ کا.مگر ان سب احتیاجوں کا پورا کرنے والا ایک اللہ ہی

Page 509

ہے.فرض کرو عمدہ سے عمدہ لذیذ کھانے دسترخوان پر چنے ہوئے ہیں مگر ہاضمہ درست نہیں.وہ کھانے زہر معلوم ہوں گے.لطیف سے لطیف اور شیریں شربت گلاس میں سامنے رکھا ہے مگر انسان کا گلا دکھتا ہے.وہ شیریں شربت اس کے کس کام کا.درزی اچھے سے اچھے کپڑے سی کر لاتا ہے مگر بیماری نے بسترے پر ڈال رکھا ہے بھلا وہ عمدہ سوٹ کس کام.اس لئے ہر ایک چیز کے لئے انسان خدا تعالیٰ کا محتاج ہے اور غنی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے.احتیاج کا طرز فرمایا.یہ اللہ تعالیٰ کا ہم مسلمانوں پر بڑا فضل ہے کہ اس نے ہمیں احتیاج کا طرز بتلایا کہ کس طرح ہم ہر ایک ضرورت یا احتیاج کو اپنے لئے نعمت اللہ بنا سکتے ہیں.وہ ہے استخارہ، شادی کے لئے استخارہ بتلایا.ہر ایک کام کے شروع کرنے سے پہلے استخارہ بتلایا کیونکہ ہر ایک کام اس کے فضل سے ہی ہوتا ہے.گناہ سے بچو فرمایا کہ بعض لوگ عذر کرتے ہیں ہمیں خرچ کی ضرورت ہے بال بچہ زیادہ، آمدنی کم اس لئے ہم نے فلاں معاملہ میں رشوت یا شراکت اختیار کی.سو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے  ( فاطر : ۱۹)تم گناہ کرتے ہو مگر قیامت کے روز کوئی بھی تمہارے گناہ کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے.سو ایسے لوگوں کو قرآن شریف کی مذکورہ بالا آیت ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے.قرآن شریف کا منشاء فرمایا.اللہ تعالیٰ کے انعام، احسان، جبروت ، عظمت، قدرت وغیرہ کا جس قدر ذکر قرآن شریف میں ہے اور کسی کتاب میں نہیں.انجیل میں نہ زردشت کی کتاب میں نہ ویدوںمیں.قرآن شریف اللہ تعالیٰ کی بڑائی، ربوبیت، رحمانیت ، مالک یوم الدین ، حی وقیوم ہونے پر بڑا زور دیتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ دراصل گناہوں کی جڑ عدم ایمان صفات الٰہیہ ہے.دنیا خداوندتعالیٰ کی عظمت کو نظر انداز کرچکی ہے.جعلساز چور ڈاکو وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر ایمان نہیں ہوتا ورنہ وہ کبھی ایسے رذیل فعل کے لئے جرأت نہ کرتے.سو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ربوبیت

Page 510

رحمانیت، حی، قیوم، مالک ہونے پر بڑا زور دیتا ہے.فرشتے فرمایا.فرشتے خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں بعض ناعاقبت اندیش اس پر اعتراض کرتے ہیں بھلا ان سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا تم اس وقت موجود تھے.جو اعتراض کرتا ہے وہ احمق ہے کیونکہ جس نے بنائے وہ کہتا ہے( الزخرف : ۲۰) کیا یہ لوگ اس وقت موجود تھے جبکہ فرشتے پیدا کئے گئے.ان کا بیان لکھا جائے گا اور (قیامت کے دن ) ان سے پوچھا جائے گا.نصیحت جو چیز تمہیں نہیں آتی اس خدا کے حوالہ کرو.ہندؤوں نے سہسر بھجوں والا دیوتا یعنی سو بازؤوں والا دیوتا بنایا ہے ممکن ہے کسی پر انکشاف ہوا ہو ہم ایک آدمی کی خیالی تصویر بناتے.مگر وہ مشاہدہ کے وقت غلط نکلتی ہے.شاہان سلف اور قرآن شریف فرمایا کہ محمود غزنوی اور خلیفہ بغداد کے درمیان کچھ ناچاقی ہونے پر محمود غزنوی نے خلیفہ بغداد کو لکھا کہ تمہیں معلوم نہیں میرے پاس اس قدرہاتھی اور لاؤ لشکر وغیرہ ہے کہ میں بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا.خلیفہ نے ایک خوبصورت کاغذ لے کر اس پردو دفعہ الم الم لکھ کر قاصد کے ہاتھ محمود غزنوی کے پاس بھیج دیا.دربار کے اہلکاروں نے وہ کاغذ دیکھا اور حیران ہوگئے.الم الم پڑھتے مگر مطلب کو نہ سمجھ سکتے.محمود غزنوی فوراً تاڑ گیا.جب درباری اہلکاروں کو زیادہ حیران اور استعجاب میں پایا تو محمود غزنوی نے کاغذ لے کر فرمایا کہ کیا تم نے سمجھا دو دفعہ الم الم لکھنے سے خلیفہ کا کیا مطلب ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اس کا کیا مطلب ہے.محمود نے کہا میں اس کا مطلب سمجھ گیا ہوں اس میں سورۃ الفیل کی طرف اشارہ ہے جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.(الفیل:۲،۳).نکتہ.محمود غزنوی نے ہاتھیوں کی دھمکی دی تھی.خلیفہ بغداد نے جسے قرآن شریف کے ساتھ محبت

Page 511

تھی قرآن شریف کی آیت سے بتلایا کہ دیکھو ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا جو تم مجھے ہاتھی کی دھمکی دیتے ہو.محمود جسے قرآن شریف کے ساتھ محبت تھی فوراً سمجھ گیا اور اس پر ایسا اثر ہوا کہ خلیفہ بغداد کو عذر کا خط لکھا.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے بادشاہوں کو قرآن شریف سے محبت تھی.اور یہی وجہ تھی کہ تمام مادی طاقتیں ان کے سامنے ادنیٰ لونڈی کی طرح ہاتھ باندھے کھڑی تھیں.جس طرف جاتے تھے فتح و نصرت کے شادیانے بجتے جاتے تھے.جب آدمی دین کو مقدم کرتا ہے تو دنیا خود بخود ہی درست ہوجاتی ہے.بے انصاف مسلمان بادشاہ زیادہ دیر بادشاہت نہیں کرسکتا فرمایاکہ بے انصاف کفار بادشاہوں کی سلطنتیں بہت دیر چلی جاتی ہیں مگر بے انصاف مسلمان بادشاہ کی سلطنت زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی.اس کی وجہ یہ کہ اس بے انصاف مسلمان بادشاہ کے اعمال اور افعال کو اسلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ اسلام کو بدنام کرنا نہیں چاہتا.تاریخوں کے اوراق پلٹا کر دیکھ لو مذہبی کتابوں کو ٹٹولو کبھی بے انصاف مسلمان بادشاہ کو زیادہ دیرتک تخت پر نہیں پاؤ گے.سبحان اللہ کیا عجیب اور معرفت کا نکتہ ہے.کیا اب بھی اسلام کی صداقت میں کچھ شک و شبہ رہ سکتا ہے.شوخ آدمی جلد تباہ ہوجاتا ہے فرمایا کہ کفر سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے مگر ایک شوخ آدمی کی شوخی اور شرارت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی.شوخ آدمی جلد ہی تباہ ہوجاتا ہے.اس لئے شوخی سے بچنا چاہیے کیونکہ شوخی سے بڑھ کر اور کوئی برائی نہیں.عرب کیوں کمزور ہوگئے فرمایا کہ جب اوّل اوّل عربوں نے یونان کو فتح کیا تو یونان کی عورتوں سے شادی کر لی.تو یونان کی عورتیں جو نزاکت پسند تھیں ان کے بچے بھی بجائے بہادر اور دلاور ہونے کے آرام پسند پیدا ہوئے اور ان کے تعلقات بھی ننہیال کے ساتھ ہی زیادہ رہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کی آئندہ نسل بہادری اور دلاور انہ صفت کو کھو کر کمزور اور آرام طلب ہوتی گئی.(اخبار نور جلد ۳ نمبر۶ مورخہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۴،۱۵)

Page 512

کلام امیر المؤمنینؓ فرمایا.اللہ تعالیٰ بادلوں سے پانی نازل فرماتا ہے تو خوشبو کے پھول میوے اور مختلف عمدہ قسم کی روئیدگی پیدا ہوتی ہے تو کہیں کُھمب اور گھاس پھونس بھی پیدا ہوتا ہے.انار کا پوست سخت اور قابض ہوتا ہے مگر اس کا دانہ کیسا خوش رنگ اور خوشگوار ہوتا ہے.سنگ مرمر سفید، سنگ سرخ، سنگ موسیٰ اور کالے بھجنگ پتھر پیدا ہوتے ہیں.بس اسی طرح انسانوں کا بھی حال ہے کہ ہر رنگ و طبیعت کی مخلوق خدا نے پیدا کی ہے.جانوروں میں طوطی سبز، سرخ، سفید ہر رنگ کی ہوتی ہے.گھوڑے ابلق اور نقرے ہیں.اسی طرح ہر ایک مخلوق میں مختلف قسم کے فرق ہیں.ہمارے لیے روحانی بارش یہ ہے کہ خدا کے کلام سنانے والے مامورین آتے ہیں اس کلام کو ابوبکرؓ نے بھی سنا اور ابوجہل نے بھی سنا.حضرت عمرؓ نے سنا اور ابوالہب نے بھی سنا.ہر ایک کا سننا جدا جدا تھا.خدا کے کلام کو موسیٰ کی ماں نے بھی سنا اور فرعون نے بھی سنا.قارون اور ہامان نے بھی سنا.مگر نتیجہ ہر ایک کے سننے کا مختلف تھا.میں بھی تم کو قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہر روز سناتا ہوں.اللہ تعالیٰ تم کو گلاب کا پھول بناوے کھمب نہ بناوے.سنگ مرمر بناوے سیاہ بھجنگ نہ بناوے.صبغۃ اللہ سے رنگین کرے.فرعون، قارون، ہامان نہ بناوے.بعض علم پڑھ لیتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں مگر عمل میں بڑے کچے ہوتے ہیں.تم سے اگر غلطی ہوجاوے تو استغفار کرو.اللہ تعالیٰ بڑا غفور رحیم ہے.تم یہاں کیوں اکٹھے ہوئے؟ اس لیے کہ اللہ جلشانہٗ کا نام لینے والے بنو.بڑے بڑے بادشاہ ہندوستان میں ہو گزرے ہیں.محمود غزنوی ہو گزرا ہے، محمد تغلق آیا، تیمور آیا، اکبر، ہمایوں، جہانگیر آیا، بابر، عالمگیر وغیرہ وغیرہ آئے.تم نے سنا کہ میں نے کس عزت سے ان کے نام لیے.اس ملک میں حضرت فریدالدین شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ بھی ہو گزرے، حضرت خوا جہ معین الدین چشتی ؒ بھی ہوگزرے ہیں، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت احمد سرہند بھی ہوگزرے ہیں.تم نے سنا کہ ان بزرگوں کے نام میں نے کس عزت سے لیے ہیں.تجارت تم لوگ کیا کرتے ہو مگر تجارت شراکت کا علم نہیں سیکھتے.ابھی اس وقت میں نے ایک

Page 513

حدیث پڑھائی ہے.عبداللہ بن عمرؓ سے ایک شخص نے غلام خریدا.آٹھ سو درم قیمت دی.پھر واپس لایا کہ یہ غلام عیب دار ہے.غلام کو لوٹانا چاہا.یہ قصہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حضور میں بھی پیش ہوا.حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس غلام کو واپس لے لیا.اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا خریدار بھیج دیا جس نے اس غلام کی پندرہ سو قیمت دی.نماز ایک معراج ہے مومن کی.ایک بادشاہ آتا ہے تو کس قدر اس کے لیے تیاریاں ہوتیں اور کیسی کیسی صفائیاں ہوتی ہیں.مومن نماز میں اپنے ربّ سے سرگوشی کرتا ہے اس کے لیے بادشاہ کی ملاقات سے کہیں زیادہ تیاری کرنی چاہئے.اگر کوئی سفید پوش ہو تو اس کو خفیہ طور پر کچھ دے دیا کرو اور اگر کوئی غریب مسکین ہو تو اس کو علانیہ دینے میں کوئی ہرج نہیں.بقیہ کلام امیر المؤمنین نوشتہ سکینۃ النساء از درس برائے خواتین مسلمانوں کو کس نے تباہ کیا؟ فرمایا.مجھے رونا آتا ہے میرا دل روتا ہے مسلمانوں میں کیسی سستی آگئی ہے.اللہ کا رحم و فضل و کرم ہو.فرمایا.اصل میں مسلمانوں کو تین چار گروہوں نے تباہ کردیا ہے.ملاں لوگ، سجادہ نشین، امیر، طبیب.ملّاں لوگوں نے قرآن حدیث کی پرواہ نہیں کی.اگلے مسلمان بادشاہوں نے ہر گاؤں کے محلہ میں ایک ایک دینی پیشوا یعنی مولوی بٹھا دیا تھا اور اس کے گزارے کے واسطے شادی غمی میں کچھ مقرر کروادیا اور ہر روز کی پکی پکائی روٹی مقرر کروادی تاکہ اس کا گزارہ چلتا رہے اور لوگوں کو دین اسلام کی باتیں سکھلایا کرے.مگر یہ خدا سے دور جاپڑے اور ایسی گمراہی میں جاپڑے کہ خدا کا خوف ہی دل سے بھلا دیا.ایک دفعہ میں گلی میں جارہا تھا کہ ایک ملاں جو مجھے جانتا تھا سامنے سے آرہا تھا.جمعرات کا دن تھا.اس کے ہاتھ میں بہت ساری روٹیاں اور حلوا تھا.مجھے دیکھ کر ان کے گرد کپڑا دے لیا اور ہنسنے لگا اور مجھے اشارہ کیا کہ دیکھا تم نے مولوی بن کر کیا لیا.میں نے کہا تمہیں خدا کا خوف

Page 514

نہیں تو وہ بڑے جوش سے کہنے لگا خدا کا خوف کرنے لگیں تو یہ اتنی روٹیاں مفت کہاں سے ملیں.سجادہ نشینوں نے تو بت پرستی میں مبتلا کردیا.قبر پرستی اور مردہ پرستی شروع کروا کر خطرناک شرک میںمشغول ہوگئے.اصل میں مقبروں کی طرف جانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مقصد بتائے.ایک تو یہ کہ موت یاد آجاوے.دوم دعائے مغفرت اپنے لیے.سوم مردہ کے لیے مغفرت مانگنا.سب سے زیادہ کبیرہ گناہ ہے کہ صاحب قبر سے کچھ مانگا جاوے.دیکھو حضرت صاحب سے میرا بے حد پیار تھا اور میں ان پر مال و جان سب کچھ اپنا قربان کرنا چاہتا مگر میں نے ان کی قبر پر کبھی کسی مطلب کی دعا نہیں کی نہ کرنی جائز ہے.یہ سب سخت گناہ اور شرک ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے بچاوے.اب امیروں کی سنو.امیروں نے دین کی طرف توجہ چھوڑ دی یہاں تک کہ مسجد میں آنا ہی ہتک سمجھا.کیونکہ جس فرقہ کی جانب توجہ کرتے رعیت کے دوسرے فرقہ کے لوگ ناراض ہوجاتے.رعیت کے مولوی تو ایک دوسرے کو کافر جان کر دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تو یہ کس کس کی دلداری کرتے.جس کے پیچھے نماز پڑھتے وہ راضی دوسرا ناراض، تو مسجدوں میں جانا ہی چھوڑ دیا.طبیب اس سے بھی زیادہ بڑھ گئے کہ خدا ہی بن بیٹھے.شبانہ روز مخلوق اللہ کو لگے لوٹنے.بعض رگوں میں سیاہ خون ہوتا ہے، بعض میں سرخ.تو سیاہ رنگ کا خون چھڑا دیا اور مریض کو کہا کہ اوہو تیرا تو خون سیاہ ہوگیا ہے اور اپنی طبابت چلانے کا وسیلہ بنالیا.اک میرے دوست تھے جو بہت محبت بھی کرتے.مال سے بھی امداد کرتے.اکثر روپیہ سے مدد کرتے.وہ فوت ہوگئے.ان کی ایک لڑکی ایک دفعہ میرے پاس آئی کہ حضور میںبیمار ہوں نسخہ لکھ دیں.میں نے مرض تشخیص کرکے کہا ڈیرہ سے دوائی بھجواتے ہیں تو جھٹ کہتی ہے نہیں حضور آپ نسخہ لکھ دیں خود بنوالوں گی.میں نے نسخہ لکھ دیا.دوسرے دن پھر آئی.کہا حضور دوائی بھجوادیں مجھے شاید دوائیں خالص نہ مل سکیں.تو میں نے کہا کہ لڑکی کل میں نے خود ہی تمہیں کہا تھا کہ دوائی بھجوادوں گا اور بڑی خوشی سے بھجوادوں گا.کیونکہ اوّل تو تیرا باپ ہمارا دوست تھا.دوسرے ہمیں کبھی ایسی باتوں کا خیال تک نہیں آیا کہ دوائی میں یا نسخہ میں بخل کرنا ہے.تو سچ بتاؤ کہ یہ بات کیا ہے

Page 515

کل دوائی دینے لگے تو تم نے نسخہ ہی طلب کیا اور آج دوائی ہی لینا چاہتی ہو.تو ہنس کر کہتی ہے حضور اصل بات یہ ہے کہ میرا میاں حکیم ہے.مگر اس طرح کہ جب ہم شام کو روٹی پکاتے ہیں تو وہیںچولہے کے آگے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں تو ساتھ ہی راکھ کی چھوٹی چھوٹی پڑیاں باندھتے جاتے ہیں.صبح جو مریض آتا ہے خواہ کوئی مرض ہو ایک ایک پڑیا دے کر ساتھ کسی کو عرق سونف کسی کو گاؤ زبان وغیرہ بتاتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں اصل دوائی جو بہت قیمتی.......................(البدر جلد۱۱ نمبر۱۲ مؤرخہ ۲۱؍ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحہ۳)

Page 516

Page 517

Page 518

Page 519

Page 520

Page 521

Page 522

Page 523

Page 524

Page 525

Page 526

Page 527

Page 528

Page 529

Page 530

Page 531

Page 532

Page 533

Page 534

Page 535

Page 536

Page 537

Page 538

Page 539

Page 540

Page 541

Page 542

Page 543

Page 544

Page 545

Page 546

Page 547

Page 548

Page 549

Page 550

Page 551

Page 552

Page 553

Page 554

Page 555

Page 556

Page 557

Page 558

Page 559

Page 560

Page 561

Page 562

Page 563

Page 564

Page 565

Page 566

Page 566