Irshadat-e-Noor Volume 1

Irshadat-e-Noor Volume 1

ارشادات نور (جلد اوّل۔ قبل از خلافت)

Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب ؓ کے ارشادات، متفرق تحریرات، مکتوبات، سوالوں کے جوابات جو جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے، کو نظارت اشاعت ، صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے تین جلدوں میں یکجائی صورت میں شائع کیا ہے۔ جلد اول قبل از خلافت ارشادات و فرمودات مشتمل ہے جبکہ  جلد دوم اور سوم زمانہ خلافت کے دور کے متعلق ہے ۔اس مجموعہ میں الحکم ، البدر وغیرہ سے ماخوذ مواد کی  ترتیب تاریخ اشاعت کے اعتبار سےرکھی گئی ہے۔ حضورؓ کی تحریرات سے پہلے بسا اوقات ان اخبارات و رسائل کے ایڈیٹر صاحبان نے بعض نوٹ دیئے تھے، اس مجموعہ میں تحریر کا پس منظر واضح کرنے اور افادیت کی خاطر وہ نوٹ شامل رکھے گئے ہیں، تاہم فرق کی خاطر ان کا فونٹ سائز حضورؓ کی تحریرات سے چھوٹا رکھا گیا ہے۔ ایک ہزار صفحات سے زیادہ ضخیم اس مجموعہ کی ہر جلد کے آخر پرتفصیلی انڈیکس درج کیا گیا ہے لیکن جلد کے آغاز پر فہرست مضامین موجود نہ ہے۔


Book Content

Page 1

Page 2

بِسْـمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْــــمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ارشاداتِ نور (قبل از خلافت) بسم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحِیم الحمد للّٰہ ربّ العالمین والصلٰوۃ والسلام علٰی رسولہ محمّد الامین خاتم النبییّن اہل اسلام کی فریاد مشائخ وبزرگان و عارفان و زاہدان ملت الاسلام بعد السلام علیکم آپ صاحبوں کی خدمت میں محض ہمدردی اسلام کے لئے یہ عریضہ بھیجا جاتا ہے اُمید کہ ان راست راست باتوں کے بیان کرنے میں اگر کچھ تلخی ہو تو آپ صاحبان ہمیں معاف رکھیں گے کیونکہ اس وقت ہم اپنے پیارے دین کے ایک عظیم الشان حادثہ کی وجہ سے سوختہ جان ہیں اور سوختہ جانوں سے رعایت آداب کی جیسا کہ چاہئے نہیں ہوا کرتی.موسیا آداب دانان دیگر اند سوختہ جان در دانان دیگر اند صاحبو! وہ حادثہ یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دین اسلام پر سو برس سے برابر ایک ایسا تیز اَرّہ چل رہا ہے کہ ہر ایک طرف اس باغ کی شاخوں کو کاٹتا چلا جاتا ہے اگر کروڑہا نہیں تو لاکھوں تو ضرور ہیں جو دین سے دست بردار ہو چکے ہیں کسی نے صاف طور پر اصطباغ پا لیا اور کوئی مسلمانوں کے گرو ہوں میں رہ کر کفر کے کلمات بول رہا ہے.حال کے فلسفہ اور طبعی نے اسلامی عقائد پر جس سے موجودہ خیالات کا مجموعہ مراد ہے وہ کام کیا ہے جو خشک لکڑیوں پر آگ

Page 3

کام کیا کرتی ہے.ہمیں اس بات کے بیان کرنے سے مورد عتاب نہ ٹھہراویں درحقیقت ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کا یہی حال ہو رہا ہے بہت سے نئے اعتراض ایسے پیدا ہوئے ہیں کہ ہمارے علماء اور فقرا کو اُن کے وجود کی خبربھی نہیں چہ جائیکہ اُن کا جواب دیں ہاں ایسے خوارق کا حوالہ دیا جاتا ہے جوا ب مخالفوں کو محض بطور قصہ کے دکھائی دیتے ہیں اس سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے سو اُن سے کچھ بھی فائدہ مترتب نہیں ہوتا بلکہ اور ہنسی ہوتی ہے.وہ لوگ تو تازہ بتازہ معجزہ مانگتے ہیں ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن شریف معجزہ ہے اور ہم مانتے ہیں کہ یہ بڑا معجزہ ہے اور یہی کافی ہے مگر کون ہے کہ اس کے وجوہ اعجاز کو مخالفوں کے سامنے ثابت کر کے دکھلاوے.اس کی خارق عادت کمالات منکروں کے سامنے کہہ دیوے.اس کی چمکتی ہوئی روشنی سے آنکھوں کو خیرہ کر ے.اس کے بیمثال حقائق و معارف جو چمکتے ہوئے جواہرات کی طرح ہیں خوبصورت رسالوں کی طشتریوں میں پیش کرے.شاید آپ لوگ نہایت سادگی سے یہ کہیں گے کہ قرآن کے معجزات پیش کرنے کی کچھ بھی ضرورت نہیں ہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ہم اپنے مریدوں کو توجہ دیتے ہیں ان کے قلب جاری کرتے ہیں ان کے دلوں میں ذوق شوق پیدا کر دیتے ہیں مگر صاحبو ہمیں اس وقت اس سچی بات کے کہنے سے معذور سمجھیں کہ یہ اعمال آپ کے اسلام کے لئے کچھ بھی مدد نہیں دے سکتے ہندو بھی اپنے طریق پر یہ سب باتیں کرتے ہیں اور ان کو بھی ذوق شوق حاصل ہو جاتا ہے قلب جاری ہوتے بھی ہم نے دیکھتے ہیں.توجہ بھی آپ جیسی بلکہ بعض آپ سے بڑھ کر کرتے ہیں ان باتوں میں یورپ کے بعض عیسائیوں کو تووہ کمال ہے کہ اگر اُس کی آپ کو اطلاع ہو تو آپ بہت ہی نادم ہوں بڑی مشکل یہ ہے کہ آپ کو زمانہ کی خبر نہیں.صاحبو! قصور معاف زمانہ بہت بدل گیا اور یہ نہایت قوی بات ہے کہ پہلے ہی قرآن نے ہی اسلام کی طرف لوگوں کو کھینچا تھا اور اب بھی قرآن ہی کھینچے گا مگر ہمیں ایسے لبوں کی حاجت ہے جن سے قرآن کے انوار قرآن کے خوارق قرآن کے معارف نکلیں تیرہویں صدی کے دکھ محض اس سہارے سے ہم نے برداشت کئے کہ چودھویں صدی کے سر پر ان دکھوں کا علاج پیدا ہو جائے گا مگر اب چودھویں صدی میں سے بھی

Page 4

ایک دس برس گزر گئے اور ہمارے علما کچھ پتہ نہیں دیتے کہ کوئی مجدد اس پُر فتنہ وقت میں کیوں ظاہر نہیں ہوا اب ہمارے ہاتھ میں نہ کوئی کرامت ہے کہ دکھلا سکیں اور نہ وہ علم جو یورپ کے اُس فلسفہ کا مقابلہ کر سکے جو بجلی کی طرح ہم پر گرا ہے اور نہ قرآن کریم کے معجزہ کی حقیقت سے ہم واقف کہ تا وہی اعلیٰ معجزہ پیش کر دیں اور اس آگ پر کلام الٰہی کے آبدار معارف کا پانی ڈالیں اب کیا کریں اور کہاں جاویں اور کس کے آگے رو ویں ہماری روح بول رہی ہے ہمارا ذرّہ ذرّہ گواہی دے رہا ہے کہ ہم باوجود سچے ہونے کے جھوٹوں کی طرح بے عزت ہو رہے ہیں اگر ہم یہ کہیں کہ کسی وقت کرامت تھی تو یہ کیا جواب ہو گا اور اگر ہم یہ عذر پیش کریں کہ قرآ ن کریم کا معجزہ ہونا پہلے تو تھا مگر اب نہیں یا ہم اُس کا اعجاز ثابت کرنے سے قاصر ہیں تو ہم مخالفوں سے اللہ رسول اور قرآن کریم پر ہنسی کرائیں گے.صاحبو! ایماناً کہو یہ سب باتیں سچی ہیں یا نہیں.اے شیخو !اے پیرز ادو! اے سجادہ نشینو! ہمیں سب سبق دو ہمیں بتلائو کہ ہم اُن لوگوں کو کیا جواب دیں جبکہ وہ اپنی طبعی اور اپنے فلسفہ کو ید بیضا کی طرح دکھلا کر ہمارے مذہب ہماری کتاب ہمارے رسول پر اعتراض کرتے ہیں کیا یہ جواب کافی ہوگا کہ ہم جواب دینے سے عاجز ہیں یا ہماری کرامات ہمارے نشان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں کیا تم اس بات سے انکار کر سکتے ہو کہ فتنوں نے زمانہ تہ و بالا کر دیا کروڑہا کتابیں رد اسلام میں تالیف ہو چکی ہیں اور نئی ذرّیت کو یہ آگ لگتی جاتی ہے اور علم مذہب کا تعاقب کر رہا ہے اور مذہب بھاگتا چلا جاتا ہے کیا اسلام کے لئے اب ہمدردی کا وقت نہیں کیا یہ وقت نہیں چاہتا تھا کہ ع مردی از غیب برون آید و کارے بکند ایک شخص نے اس صدی کے سرپر مجدد ہونے کا دعویٰ کیا جس کا نام غلام احمد قادیانی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہ تھکا اور نہ ماندہ ہوا اورنہ کسی سے ڈرا اور بڑے زور سے ہر روز آگے قدم رکھ رہا ہے ہمیں خوشی تھی ہمیں ذرہ بدن میں جان پڑی تھی کہ ایک شخص وقت پر تو آیا اتنے میں اس کی نسبت دجال دجال اور کافر کافر کا شور اٹھا ہم نے بہت جانچا کہ اس میں کو نسا کفر ہے مگر شخص نے اس صدی کے سرپر مجدد ہونے کا دعویٰ کیا جس کا نام غلام احمد قادیانی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہ تھکا اور نہ ماندہ ہوا اورنہ کسی سے ڈرا اور بڑے زور سے ہر روز آگے قدم رکھ رہا ہے ہمیں خوشی تھی ہمیں ذرہ بدن میں جان پڑی تھی کہ ایک شخص وقت پر تو آیا اتنے میں اس کی نسبت دجال دجال اور کافر کافر کا شور اٹھا ہم نے بہت جانچا کہ اس میں کو نسا کفر ہے مگر کچھ معلوم نہ ہوا صاحبو ہم سخت دردمند ہیں ہمارے دل سے نعرے نکل رہے ہیں ہمارا دم درست نہیں

Page 5

ہوش باختہ ہو رہے ہیں ہم اسلام کی یہ حالت دیکھ نہیں سکتے چلو یہ شخص کافر ہی سہی آپ مسلمان بنیںمسلمانوں کی برکات کافروں کو دکھلا دیں تا یہ ڈوبتی ہوئی کشتی تھم جائے ہمارے سید ہمارے ہادی کی آخری وصیت یہی وصیت تھی کہ قرآن کو ہاتھ سے مت چھوڑنا وہی معجزہ کا کام دے گا وہی تم میں قبولیت پیدا کرے گا سو آئو ایک آسان فیصلہ ہے اس وقت امت محمد ﷺ پر احسان کرو اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی ایک سورۃ مثلاً سورۃ یٰسین اور مقطعات قرآنیہ کی ایک تفسیر لکھو مگر ایسی کہ جس میں وہ حقائق اور معارف قرآن کے مندرج ہوں کہ معجزہ کی حد تک پہنچ جائیں اس پر اگر اس معجزہ کو تعصب سے مخالف قبول نہ کریں گے تو ہماری قوم کے نو تعلیم یافتہ تو اپنے پیارے دین کی پاک صداقتیں دیکھ کر شُبہات سے رُک جائیں گے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر ایسی کتاب جو درحقیقت قرآن کریم کے اعجاز کو ثابت کرتی ہو آپ تالیف کر کے شائع کریں تو پھر جو صاحب آپ لوگوں میں سے یہ خدمت بڑھ کر انجام دے دے تو وہی ہمارا امام اور وہی مجدد وقت تسلیم کیا جائے گا اور اس مبارک کام سے اندرونی فساد بھی دور ہو جائیں گے اور ایک شخص جو کذاب سمجھا گیا ہے وہ ایسا رد ہو جائے گا جیسے کوئی بوسیدہ کاغذ کو پھاڑ دے اور اگر یہ نہیں تو ہم ا س پر بھی راضی ہیں کہ آپ صاحبوں میں سے کوئی بزرگ مر دمیدان بن کر کوئی ایسی پیشگوئی شائع کریں جس کی قبولیت دعا پر بنا ہو اور نیز خارق عادت کی حد تک پہنچ گئی ہو اور یہ شخص جو مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کی خدمت میں بھی ہم نے یہی تحریر لکھ دی ہے کہ جس وقت اِن بزرگوں میں سے کوئی صاحب سورہ یاسین اور مقطعات کی اعجازی تفسیر بنانے کا وعدہ کریں یا خارق عادت استجابت دعا کے مدعی ہوں جو کسی پیشگوئی پر مبنی ہو تو اس کا تم بھی مقابلہ کرو اگر مقابلہ نہ کر سکو تو ہمارے لئے تمہارے کاذب ہونے پر یہی دلیل کافی ہے ہم جانتے ہیں کہ اس وقت اسی شخص کو خدا تعالیٰ مدد دے گا جو درحقیقت سچا ہی ہو گا بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ سچے تو عاجز رہ جائیں اور یہ سب توفیقیں کسی جھوٹے کو دی جائیں کہ کثرت سے دعائیں بھی اُسی کی قبول ہوں اور غیب کے امور بھی اُسی پر ظاہر ہوں اور قرآن کریم کے عجائبات بھی اسی پر کھلیں اور اسلام کا ہمدرد بہادر اور جان فشاں

Page 6

بھی وہی ہو اگر جھوٹوں کی یہی علامات ہوا کرتی ہیں تو ہمارے جان و مال ایسے جھوٹوں پر قربان اور اُن نالائق سچوں کو ہم دور سے سلام کریں گے.ہم یہ عریضہ بھیج کر ایک ماہ تک انتظار کئے جائیں گے اگر کوئی جواب نہ آیا تو یقینا ہم سمجھ لیں گے کہ آپ لوگ اسلام کے ہمدرد نہیں.بالآخر آپ کو اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی قسم دی جاتی ہے کہ اگر آپ سچے ہیں تو اس وقت خاموش نہ رہیں.اندرونی اور بیرونی طور پر فساد حد سے بڑھ گیا ہے اگر آپ سے کچھ نہیں ہو سکتا تو اسی قدر لکھ دو کہ اگر مرزا غلام احمد صاحب اس میدان میں کام دے سکتے ہیں تو تم انہیں کو مجدد وقت مان لو اور آپ یہ بھی لکھ دیں کہ ایسے ثبوت ملنے کے بعد ہم بھی ان کو مان لیں گے.اور اگر آپ کا کچھ جواب نہ آیا تو صریح آپ کی کجی ثابت ہو گی اور قیامت کو ہمارا ہاتھ اور تمہارا دامن ہو گا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی دادخواھان نورالدین بھیروی، مرزا خدابخش جھنگ ، فضل الدین بھیروی وعبدالکریم سیالکوٹی و برادران.(جواب بمقام بھیرہ ) ضلع شاہپور (مطبوعہ ریاض ہند ماخذ خلافت لائبریری ربوہ) مکتوب کا پس منظر ۱۸؍نومبر۱۸۹۷ء کو اتفاقی طور پر حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب بھیروی تشریف فرما امرتسر ہوئے اور اپنی عادت مستمرہ کے موافق جسمانی اور روحانی معالجات سے لوگوں کو نفع پہنچاتے رہے.اس دو دن کے مختصر قیام میں انجمن فرقانیہ امرتسر ( یعنی جماعت حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام ) نے حسب اجازت مولانا صاحب ممدوح ۱۹؍نومبر ۱۸۹۹ء بعد نماز جمعہ آپ کے وعظ کا اشتہار چھاپ کر تقسیم کر دیا.اس جلسہ کا انتظام جناب شیخ فیروز الدین صاحب میونسپل کمشنر کے مکان میں ہوا.کوئی تین بجے

Page 7

کے قریب لوگ آنے شروع ہوئے ابھی لوگ اچھی طرح نہ آئے تھے کہ ایک شخص میاں محمد دین صاحب معہ ایک دو آدمیوں کے ایک رقعہ (مرقومہ میاں ثناء اللہ ) لے کر آموجود ہوئے.رقعہ کی ظاہری حالت اپنے بھیجنے والے کی شکستہ دلی اور اندرو نی حالت کا چربہ اتارے دیتی تھی.جناب مولانا صاحب نے رقعہ پڑھ کر عوام حاضرین کو سنایا اور پھینک دیا اور فرما یا کہ ’’ ان کو کس نے کہاہے کہ تم ہمارا وعظ آ کر سنو.اب یہ جھگڑے ایک آدمی کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں یا اُس کے فیصلہ کرنے پر فیصل ہو جائیں گے.جائو تم بھی کتابیں لکھ کر پھیلائو پبلک خود فیصلہ کر لے گی.‘‘ جب محمد دین صاحب زیادہ زور مباحثہ پر دینے لگے تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ ’’ میں بوڑھا ہو گیا مجھے زیادہ تجربہ ہے یہ بحثیں ایک گھنٹہ میں ختم نہیں ہو اکرتیں.‘‘ الغرض مولانا صاحب نے مندرجہ ذیل جواب لکھ کر حوالے کیا.زاں بعد یہ لوگ چلے گئے اور جناب مولانا صاحب نے احمد اور محمد آنحضرت ﷺ کے مبارک ناموں کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے ضمناً بہت سے معارف اور نکات کا دریا بہا کر آخر میں روحانی خلافت کے سلسلہ پر پُر زور تقریر کر کے وعظ ختم کر دیا.(تلخیص ازایڈیٹر نوٹ ) مکتوب بسم اللّٰہ الرحمٰن الرَّحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم واٰلہ التسلیم ا ما بعد فالسلام علیکم.خاکسار عرض پرداز ہے کہ امور متنازعہ فیہا مابین ہمارے اور ہمارے مخالفین کے اتنے طویل الذیل ہو گئے ہیں جن کا تصفیہ ایک گھنٹہ کا کام نہیں رہا اور خاکسار کو شام تک واپس جانا ہے.علاوہ بریں ہمارے خیالات مخفی نہیں رہے.جس طرح ہم نے تحریراً خیالات شائع کئے ہیں آپ ان کی تردید تحریراً شائع فرما دیں.یہ جھگڑا ایک شہر کا نہیں اور نہ دو تین آدمیوں میں کہ ان کے روبرو طے ہونے سے طے

Page 8

(۳) السلام علیکم.کیسے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے فعل پر ہر طرح راضی ہیں.کیونکہ ا

Page 9

للہ تعالیٰ کے تمام افعال میں حکمت، رحمت ،فضل اور انسان کی اصلاح مدنظر رہتی ہے.قبولیت کا تذکرہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تکبر ہو گا تو جہنم ٹھکانا ہے اور صبر کے موقع پر(البقرۃ : ۱۵۶،۱۵۷) اضطراب مت کرو.دعا کی جاتی ہے اور پیارا مولیٰ رحیم کریم و مالک ہے.والسلام دستخط نور الدین ازقادیان ۶؍جون ۱۸۹۷ء (الحکم جلد ۲ نمبر ۵،۶ مورخہ ۲۷؍مارچ و ۶؍اپریل ۱۸۹۸ء صفحہ۶ ) مکتوب بنام مولوی ریاض احمد صاحب ذیل میں ہم ایک خط درج کرتے ہیں جو عرصہ ہوا ہمارے مخدوم حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے مولوی ریاض احمد صاحب ساکن رائے بریلی کے نام لکھا تھا.بظاہر یہ ایک خط ایک خاص شخص کے نام ہے.مگر نفس الامرمیں بعض لغات القرآن کا لب لباب ہے اور قرآن کریم کے بعض مشکل مقامات کا حل ہے.اس لئے ہم نہایت فخر اور عزت سے اس کو درج کرتے ہیں تاکہ ہمارے ناظر ین قرآن کا ترجمہ کرنے یا پڑھتے وقت ان امور کا لحاظ رکھیں اور آئندہ ہم مولوی صاحب کی یادداشتیں ترجمہ قرآن کے متعلق انشاء اللہ سلسلہ وار درج کرتے رہیں گے.( ایڈیٹر الحکم ) نور الدین ۱۳؍ستمبر ۱۸۹۵ء از دارالاما ن قادیان میرے عریضہ کو ایک بار آپ ضرور پورا پڑھ لیں گر فرصت ملے.میں اسے دوسری بار نہیں دیکھ سکا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ قرآن مجید کے ترجمہ کی جو ضرورت آج کل ہے وہ مخفی نہیں اور اس پر اب کچھ مجھے لکھنا فضول ہے کیونکہ بات صاف ہے.میں اس عریضہ میں مختصراً عرض کروں گا کیونکہ مجھے آپ کے حالات اور عادات اور آپ کے اندرونی جوشوں کی اطلاع نہیں.میں نے آپ کا ارادہ

Page 10

پیسہ اخبار میں دیکھا اور یہ تعمیل ارشاد خاتم الانبیاء صلعم کا رڈ لکھ دئیے جو بحمد اللہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو پہنچ گئے.وہ حکم تھا.اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (صحیح البخاری ، کتاب الایمان ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الدین النصیحۃ) دین اسلام خیر خواہی کا نام ہے.وَ الرَّاحِمُوْنَ یَرْحَمُھُمُ الرَّحْمٰنُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی وَ ارْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمُکُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ ا ور میرا خیال تھا اور ہے کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِامْرِئٍ مَانَوٰی.میں کوئی ترتیب اس مضمون کے متعلق نہیں رکھ سکتا کیونکہ یہ خط ہے رسالہ نہیں ہے جو کچھ لکھتے لکھتے مجھے خیال آتا جائے گا لکھوں گا.اوّل.تراجم موجودہ نے قرآن کریم کے پاک اور نہایت ہی بے عیب الفاظ کو اپنے اپنے ناپاک اور گندہ محاورات میں ظاہر کیا ہے.مثلاً بطور نمونہ ازہزارے کے سنو.(۱) خدعہ کا لفظ ہے.سورہ بقرہ کے دوسرے رکوع میں موجود ہے.…(البقرۃ : ۱۰) اور سورہ نساء رکوع ۲۱ میں (النساء :۱۴۳) اس کا ترجمہ مترجموں نے دھوکہ دیتے ہیں اللہ کو.اور دھوکہ نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور اللہ تعالیٰ دھوکہ دیتا ہے ان کو یا بجائے دھوکہ فریب دیتا ہے، دغا دیتا ہے.وغیرہ وغیرہ.اللہ تعالیٰ ان ناپاک معنی کی تصدیق قرآن مجید میں نہیں فرماتا.اس ترجمہ کے معائب یقینا یا غالباً آپ پر ظاہر ہوں گے.اس لئے مجھے شاید ضرورت نہیں.اب میں اس کے ایسے معنے عرض کرتا ہوں کہ جن کی تصدیق قرآن کریم میں ہے اور لغت عرب اس کی تصدیق کرتی ہے. یَتْرُکُوْنَ اللّٰہَ.قاموس میں ہے.خَادِعُہٗ.یَتْرُکُہٗ.ترجمہ اس کا، چھوڑتے ہیں ترک کرتے ہیں اللہ کو. اور وہ چھوڑنے والا ترک کرنے والا ہے ان کو.قرآن کریم میں دوسرے موقعوں پر منافقوں کے حق میں فرمایا ہے.(البقرۃ : ۱۸) (الاعراف : ۱۸۷) وغیرہ.

Page 11

 کے معنے یُمْسِکُوْنَ یَبْخُلُوْنَ.کیا معنے؟ خادع.مزید کے معنے ہیں.ترک اور مجرد کے معنے ہیں.امسک.بخل اور بہ معنے صراح و صحاح و قاموس میں موجود ہیں.قرآن کریم ان معنوں کی تصدیق فرماتا ہے کہ منافق کہتے ہیں.(المنٰفقون : ۸) اور فرماتا ہے  (آل عمران :۱۸۱) اور فرماتا ہے. ( آل عمران :۱۸۱) (۲)  (الحشر : ۲۰) اس کا ترجمہ کرتے ہیں.بھلایا انہوں نے اللہ کو پس بھلایا اللہ نے تم کو.حالانکہ ماثور تفسیر صحابہ کرام کی تَرَکُوا اللّٰہَ فَتَرَکَھُمْ موجود تھی.(۳) کید کے معنے جیسے سیرۃ ابن ہشام بخاری محمد بن اسحاق میں موجود ہے.جنگ کرنے کے ہیں.بار بار مغازی میں آتا ہے خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہُ وَلَمْ یَلْقَ کَیْدًا اَیْ حَرْبًا.پس  (الطارق :۱۶،۱۷) کے معنے ہوئے.وہ خطرناک جنگ کی تیاریاں کرتے ہیں یا خطرناک جنگ کرنے کو ہیں اور میں بھی ان سے خطرناک جنگ کروں گا.(۴) مکرکے معنے تدابیر، دقیقہ اور ارادات مستحکمہ کے ہیں.پس  (آل عمران : ۵۵) کے معنے ہوئے کہ مسیح علیہ السلام کے مخالفوں نے تدابیر دقیقہ اورارادات محکمہ کئے کہ مسیح علیہ السلام کو قتل کریں.اور اللہ تعالیٰ نے بھی تدابیر دقیقہ اور محکمہ سے کام لیا اور اللہ تعالیٰ کی تدابیر بڑی بھلائی پر مبنی ہیں.خیر کا صیغہ اسم تفضیل یا افعل التفضیل کا ہے جس کے معنے بڑے کے لئے گئے.ان معنے کا بیان قرآن کے اس مقام پرصاف ہوا ہے جہاں ارشاد ہو ا (الانفال :۳۱) اور تفصیل فرما دی کہ مکردو قسم کا ہوتا ہے.ایک سیئ اور دوسرا خیر جیسے فرمایا  (فاطر :۴۴).(۵) روح کا لفظ ہے قرآن کریم میں آیا ہے اور اس لفظ کے معنے صریح موجود ہیں.جیسے

Page 12

فرمایا اللہ کریم نے(الشوریٰ : ۵۳) اور جبرئیل کو یا مسیح کو اس لئے روح فرمایا کہ ایک کلام الٰہی کے لانے والا اور دوسرا کلام الٰہی کے پہنچانے والا ہے.اور اگر پندرھویں سیپارہ میں(بنی اسرائیل :۸۶) پر گہری نگاہ کرو اور غور سے کام لو تو صاف نظر آوے گاکہ روح وہاں کلام ہی کے معنے ہیںکیونکہ کے ما قبل دعویٰ ہوا ہے.  (بنی اسرائیل: ۸۳) پھر بیان ہوا ہے کہ یہود دریافت کرتے ہیں کہ یہ روح کیا معنے، قرآن کہا ں سے آیا ہے.تو جواب دیا  ہے.اب ہر دو دعوے بلکہ دعوے اخیر کی ( کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے.موضوع ،مفتری اور مصنوع نہیں) دلیل یہ دی کہ قدرتی اور مصنوعی اشیاء میںیہی تو فرق ہوتا ہے کہ مصنوع قدرتی نہیں ہوتی اور نہ قدرتی مصنوعی ہوتی ہے.غور کرواس دلیل پر جو بعد  کے واقع ہوئی ہے.(بنی اسرائیل :۸۹) پس ترجمہ الفاظ میں مترجم کو عرف موجودہ کا لحاظ ضروری ہے تو کہ عرفی معائب سے بچے.دوسرا امر جس پر توجہ ضرور ہے وہ قصص ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے.ان قصص کی تفصیل ضروری تو نہیں مگر بعض مقامات بدوں کسی تفصیل کے اس زمانہ میں سمجھنی مشکل ہیں.مثلاً ذوالقرنین کا قصہ ،بعض ہمارے بھولے بھالے مفسروں نے یونانی سکندر کو جو ایک بت پرست شراب خور پٹرا مون کا بیٹا بننے والا تھا ذوالقرنین بنا دیا اور اگر سکندر نامہ کو دیکھیں تو شرم آجاتی ہے کہ کیا قرآن کریم اس نابکار کا اس طرح تذکرہ کرتا ہے.اور پھر پتہ نہیں لگتا کہ یہود نے یہ سوال عن ذوالقرنین کس بنا پر کیا.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاک تعلیم ہے اس کا کیا دخل تھا اور خارج از بحث تذکرہ کرنے سے جناب ہادی کامل

Page 13

فداہ ابی وامیﷺ کو کیا غرض پڑی تھی کہ اس کا ذکر فرماتے، یا اللہ کریم اپنی جلیل القدر ، کافی، پاک، نور، ہدی، رحمت کی کتاب میں اس کا ذکر فرماتے حالانکہ بات صاف تھی.دانیال کی کتاب میں حضرت دانیال نے جناب فخر عالم خاتم الانبیاء کی بابت پیشگوئی کرتے اور حضور علیہ السلام کا زمانہ بتانے کے لئے ذوالقرنین کا قصہ بتایا ہے.د یکھو دانیال ۸ باب ۴ اور یہ ذوالقرنین کا ۸باب ۴ دانیال کا سکندر رومی سے جس کو دانیال نبی نے ذو مقرن کر کے بیان فرمایا ہے پہلے ہے.دیکھو دانیال .میں یہ بیان اس وقت نہیں کرتا کہ دانیا ل کی کتاب سے کس طرح اس پاک زمانہ خیر القرون کا پتہ لگتا ہے بلکہ ذوالقرنین کے قصہ پر میرا روئے سُخن ہے.پھر عیسائیوں نے اس امر کے مخفی کرنے کے لئے ذوالقرنین کے معنے میں بڑی بڑی شرارت کی ہے جیسے اُن تفاسیر سے ظاہر ہے.آپ انگریزی میں دیکھ سکتے ہیں.حالانکہ کیقباد یا مثلاً دائود علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کے متعلق اسرائیلی لوگوں نے اُوْریا کا ناپاک ، گندہ بہتان جوبیان کیا.ہمارے بعض بھولے مفسروں نے یہ تفسیر کبیر سے لے لیا اور جناب علیـؓ کا وہ پاک اثرجس میں انہوں نے فرمایا کہ اگر کوئی قَصّاص اُوْریا والا قصہ جناب دائود علیہ السلام کے متعلق بیان کرے گا تم میں سے تو میں اُسے رجم کروں گا.جیسے تفسیر کبیر کے رحمہ اللہ مفسر نے بیان فرمایا ہے.اس کو ان تمام مفسروں نے چھوڑ دیا.اور لوط علیہ السلام کے متعلق آج کل کے ایک مفسر عام نے صاف لکھ دیا ہے کہ معاذ اللہ انہوں نے اپنی لڑکیوں سے شراب پی کر زنا کیا.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.وَ نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ہٰذِہِ الْخُرَافَاتِ وَا لْمَصَائِبِ.حالانکہ ہمیں اپنی مہیمنکتاب میں جس میں صاف اللہ کریم فرماتے ہیں پتہ لگا ہے کہ شیطان لعین کا اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں پر جن میں انبیاء علہیم السلام سرتاج اور مخلصوں میں نائس رئیس ہیں ہرگز کچھ دخل و تصرف نہیں.ایسی ہی اللہ تعالیٰ نے طالوت کی مدح سرائی فرمائی ہے اور ہمیں آگاہ فرمایا ہے کہ (البقرۃ :۲۴۸) اور یہ بھی فرمایا کہ(فاطر : ۲۹) پس کیا خشیت والے

Page 14

ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جیسے معالم التنزیل میں طالوت کے ناپاک ارادوں کا ذکر ہے کہ اس نے جناب دائود علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا.افسوس.پھر جب تاریخ قدیمہ سے بالکل ظاہر ہے کہ جالوت دو تھے.ایک طالوت کے مقابل اور دوسرا دائود کے مقابل.اسی واسطے قرآن کریم کے آخر دوسرے سیپارہ میں (البقرۃ : ۲۵۲) پر وقف دے کر  کا تذکرہ الگ کر دیا ہے اور سائو ل کا کوئی قصہ قرآن کریم نے نہ فرمایا.ایسا ہی صدہاقصص بنی اسرائیل کے بے جوڑمحشیوں اور مفسروں نے بدوں حجت نیرہ کتاب و سنت تفاسیر اور تراجم میں بھر دی ہیں.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.یہ تو بیرونی قصص کا نمونہ تھا اب اندرونی قصص پر گزارش کرتا ہوں.ہمارے ہادی کامل کے قصص احادیث صحیحہ میں موجود ہیں مگر ہمارے مترجموں پر اللہ تعالیٰ رحم فرما دے کہ انہوں نے ان صحیح قصص کو چھوڑ کر کہاں کہاں موضوعات سے کام لیا ہے.نمونہ کے طور پر زینب صدیقہ ام المومنین کا قصہ ہے جس کے متعلق افسوس ہزار افسوس نابکار لوگوں نے لکھ دیا کہ حضور علیہ السلام زینب کو دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے.حالانکہ عشق کا لفظ ہی قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں موجود نہیں چہ جائے کہ عشق رسول اللہ زینب پر ہو اور پھر بالکل ظاہر ہے کہ ام المومنین زینب آپ کی پھوپھی زاد تھیں اور آپ کے آزاد کرد ہ غلام جناب زید رضی اللہ عنہ سے بیاہی گئیں اور نکاح ہمارے ہادی کامل کے فرمان سے ہوا اور اس زمانہ میں حجاب کی رسم نہ تھی.یہ عشق کیسا.کیا آپ نے زینب کو دیکھا ہوا نہ تھا یا ماریہ قبطیہ کا ناپاک قصہ کہ حضور نے اپنی بی بی کی لونڈی سے بدوں اجازت جماع کیا.جس پر  (التحریم : ۲) نازل ہوئی.حالانکہ اصل قصہ صحیح طور پر بخاری میں موجود ہے.حضرت شاہ ولی اللہ مجدد اور حکیم الامت نے بھی زینب کے قصہ میں لغزش کھائی ہے اور حجۃ اللہ البالغہ میں ایک لفظ لکھ دیا ہے جس سے ایک مومن رنج اٹھاتا ہے.غَفَرَہُ اللّٰہُ بِفَضْلِہٖ وَ مَنَّـہٗ وَ کَرَّمَہٗ آمین.فَاِنَّہٗ کَانَ نِعْمَۃً لِاَ ھْلِ

Page 15

الْہِنْدِ وَ اَنَا اُحِبُّہٗ لِلّٰہِ وَ فِی اللّٰہِ وَ بِاللّٰہِ.تیسرا امر جس پر مترجم کو توجہ کرنا لازمی اور ضروری ہے متشابہ اور محکم کا لحاظ ہے.شیعہ سنیوں کے دلائل میں جو آیات مذکور ہوتی ہیں اُ ن کو متشابہ کہتے ہیں اور سنی شیعہ کے دلائل پر بھی اعتراض کرتے ہیں.ابن تیمیہ ، ابن قیم اور شو کانی نے جن آیات کو محکم کہا ہے اُن کو ان کے مخالفوں نے متشابہ کہا.غرض یہ بحث اس زمانہ میں قابل غورہے.رحمت کرے اللہ امام المحدثین امام بخاری پر جس نے ان تمام قصوں کو پاک کر دیا ہے کہ متشابہ کے معنے کئے ہیں.یُصَدِّقُ بَعْضُہَا بَعْضَ.سبحان اللہ کیسی پاک اور صاف بات ہے جس نے صدہا جھگڑے ختم کر دئیے اور تمام نزاعوں کو جڑ سے کاٹ ڈالا.چوتھا امر جس پر توجہ چاہئے وہ مقطعات قرآنی پر غو رکرنا ہے.نواب صدیق حسن نے جیسے لوگوں کو ان کے معانی کرنے سے ڈرایا ہے اور آپ نے امام شو کانی سے اس امر میں حصہ لیا ہے قابل مضحکہ ہے کیونکہ مقطعات پر صحابہ کرام اور تابعین اور تبع تابعین اور ائمہ تصوف نے غور فرمائی اور یوں نہیں کہہ دیا کہ ان کے معنے کوئی نہیں جانتا.ہاں بات بہت باریک ہے اور کسی قدر فارسی ترجمہ میں جو سعدی کی طرف منسوب ہے کہیں کہیں ا س امر کو خوب نباہا ہے.میں بھی ان پر آجکل کچھ لکھ رہا ہوںاور میرے مقتدیٰ ان معانی میں صحابہ و تابعین ہیں.سو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اور ان معانی کا ثبوت انشاء اللہ قرآن کریم اور اقوال سلف سے دیا ہے.پانچواں مسئلہ جس پر بڑی غور ضرور ہے نسخ کا مسئلہ ہے.میں اپنا ایک قصہ سنا کر اس بحث کو ختم کر دیتا ہوں.آپ اس قصہ پر غور فرما لیں.جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء.میں ایام طالب علمی میں مدینہ طبیہ پہنچا اور مجھے اتباع نبوی اور اطاعت قرآن کریم کا جوش تھا.اس لئے ضروری سمجھا کہ آیات منسوخہ کو یاد کر لوں.اس لئے میں مدینہ کے کتب خانہ میں گیا.وہاں مجھے ایک کتاب ملی جس میں پانچ چھ سو آیت منسوخ کا ذکر تھا.وہاں سے وہ کتاب لایا اور ارادہ کیا کہ یہ کتاب یاد کر لوں.مگر بعض آیات کو جو اس نے منسوخ کہا میں اس رسالہ والے کی

Page 16

رائے سے اتفاق نہ کر سکا.پھر مجھے جرأت ہوئی تو میں نے اتقان پر نظر کی ( یہ کتاب میرے نزدیک اسلامیوں کا فخر ہے اور اس رنگ کی کتاب سنی شیعہ خوارج میں میں نے نہ سنی دیکھی اور نہ مجھے امید ہے کہ ہو.)تو اس میں بیس کے قریب آیات میری نگاہ میں پڑی.پھر کیا تھا گویا مجھے بادشاہی مل گئی.مگر ان آیات پر بھی جب میں نے غور کیا تو مجھے حسرت ہوئی اور مجھے اللہ کریم نے محض اپنے فضل وکرم سے مجھ پر رحم فرمایا کہ مجھے ایک عجیب و غریب کتاب فو ز الکبیر فی اصول التفسیر مل گئی.سبحان اللہ کیا نورانی کتاب ہے.اس میں پانچ ہی آیت کو منسوخ قرار دیا.اللہ اللہ وہ دن دنیا میں مجھ پر عجیب تھا.مارے خوشی کے میں جامے میں نہیں سماتا تھا.اور اصل خوشی کا باعث یہ تھا کہ میرے دل نے مجھے پکار کر کہہ دیا کہ نور الدین! قرآن میں آیت منسوخ کوئی نہیں اور ہرگز قرآن میں آیت منسوخہ موجود نہیں کیونکہ اگر آیات منسوخہ قرآن میں موجود ہوتیں تو کم سے کم کچھ ایماجناب باری سے یاجناب صادق ، مصدوق، حبیبی و خلیلی سَیَّدُنَا وَ مَوْلَانَا وَ رَسُوْلُـنَا وَ نَبِیُّنَا اَصْفَی الْاَصْفِیَائِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَ اَزْوَاجِہٖ وَ ذُرِّیَّاتِہٖ وَ اَہْلِ بَیْتِہٖ سے یا حضرات خلفاء راشدین سے یا ابوبکر ـؓ وعمرؓسے جو ر اس رئیس علماء وقت ہیں ا ن سے کچھ ثابت ہوتا.یہ امر نسخ کا دعویٰ علماء نے اپنے خیال سے کیا ہے.جب دوآیات کی تطبیق نہیں آئی تو دعویٰ کر دیا ایک آیت منسوخ ہے.پس میں ایسی آیت منسوخہ کا جو موجودہ فی القرآن ہوں قائل نہ رہا.شاید میرے الفاظ عمدہ طور پر مقصد کو ادا نہیں کر سکے.منشاء یہ ہے کہ میں اس بات کا قائل ہی نہ رہاکہ قرآن مجید میں کوئی منسوخ آیت موجود ہے.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.اور میں نے پانچ مقامات کو تفاسیر میں دیکھنا شروع کیا تو بحمد اللہ پانچوں ایسے مقام تھے کہ تفسیر کبیر جیسی عام تفسیر سے وہ معنے صاف حل ہو گئے.صرف دو مقام پر میری تسلی نہ ہوئی جو پھر اور تفاسیر سے وہ بھی حل ہو گئے.میں مدینہ سے لاہور پہنچا.وہاں ایک شخص فرقہ اہل حدیث کا مجھے ملا.اس نے کہا ہم قرآن پر کیسے عمل کریں جبکہ ہمیں معلوم نہیں کہ ناسخ کیا ہے اور منسوخ کہاں ہے.میں نے اس شخص کو کہا کہ قرآن مجید میں منسوخ آیت کوئی نہیں.وہ تو آگ ہو گیا اور مجھے پکڑ کر ایک شخص محمد حسین بٹالوی

Page 17

کے پاس پہنچایا.مجھ سے انہوں نے طیش میں آکر کہا.کیا آپ نسخ کے قائل نہیں.میں نے کہا کہ نسخ کا دعویٰ غلط ہے.اگر آپ کو کوئی آیت منسوخ معلوم ہوتی ہے تو مجھے فرمائیے اور بحث جانے دیجئے.میری اس عرض پر وہ کہنے لگے کہ شوکانی نے کہا ہے جو نسخ کا منکر ہے و ہ جاہل ہے.میں نے عرض کیا کہ میں شو کانی کو نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور مجھے اس کی اتباع سے کام نہیں.آپ کوئی آیت پڑھیں.آخر وہ کہنے لگے کہ تم سید احمد خاں کو جانتے ہو.میں اس وقت سید احمد کو نہیں جانتا تھا.پس میں نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون ہے.غرض یہ قصہ قابل غور ہے اور آپ میرے اس قصہ کو قصہ تصور نہ فرماویں.یہ ایک نفس الامری حالات کا بیان ہے جس نے مجھے قرآن کریم کی شاہراہ پر چلنے کے لئے بڑی راہ کھول دی ہے.اگر جناب کو کسی آیت میں تامل ہے تو مجھے ارقام فرماویں.مگر میں ٹھنڈے دل کا آدمی ہوں اور آپ کی طبع میں مجھے ایسی حدت معلوم ہوتی ہے جو محتاط مومن کی شان سے ذرا فاصلہ رکھتی ہے جیسے آپ کے کارڈ سے میں ثابت کروں گا.انشاء اللہ تعالیٰ.چھٹا امر جس پر مترجم کو غور ضروری ہے و ہ مسئلہ ہے ترتیب آیات قرآنیہ کا.میرے نزدیک ثابت ہو چکا ہے کہ قرآن کریم الحمد شریف سے لے کر سورۂ ناس تک ایک ایسی ترتیب رکھتا ہے کہ اگر ایک آیت کہیں سے نکال ڈالیں تو قرآن قرآن نہیں رہتا.ایک شخص صدیق حسن خاں نام نواب بھوپال میں گزرا ہے.انہوں نے اپنی تفاسیر میںجیسے جامع البیان کے ابتداء میں حاشیہ پر لکھا ہے.بڑی طول اور فضول تقریر سے ثابت کیا ہے کہ کوئی آیت مکہ میں اُتری کوئی مدینہ میں کوئی سفر میں کوئی حضرمیں کوئی صلح میں کوئی جنگ میں پھر کیسا احمق ہے وہ جو قرآنی آیات کو مرتب مانتا ہے.یہ ہے خلاصہ اس کے کلمات کا.میں کہتا ہوں کہ اگر یہ ترتیب قرآنی مدنظر حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کی نہ ہوتی تو ضرور تھاکہ قائم رہتی وہ ترتیب جس پر نزول ہوا تھا.جب ترتیب نزولی کو بدل دیا گیا ہے اور جب یہ معاملہ حضرت خاتم الانبیاء کے حضور خود حضور کے حکم معلی سے بلکہ جناب باری کے فرمان سے ہوا ہے تو کیوں نہیں نواب

Page 18

خیال فرماتے کہ ترتیب نزولی کو بدل کر دوسری تربیت پر قرآن کریم بڑی اور اول دلیل ہے کہ قرآن میں موجودہ حالت پر کوئی ترتیب خاص مدنظر ہے.میں نے اس معاملہ پر بہت غور کیا ہے.بے ریب یور پ والوں کا اعتراض کہ قرآن کریم بلند پروازی سے ایک مضمون کو چھیڑتا ہے پھر ختم نہیں کرتا اور دوسری بات کو شروع کر دیتا ہے.قابل غور مضمون ہے.اس خط میں نہیں دوسرے خط میں اس کا نمونہ ضرور دوں گا.غرض مترجم کو ضرور ہے کہ نوٹوں سے ترتیب قرآنی کو مدنظر رکھ کر بتاتا جاوے.تفسیر کبیر ، تفسیر عزیزی ، تفسیرحسنی مسمّٰی بہ حیات سرمدی اس امر کو نصب العین رکھتے ہیں گو پورے کامیاب نہیں ہوئے.ساتواں امر جس کو ضرور ہے کہ مترجم مدنظر رکھے، حال کا فلسفہ ہے.جس کی بناء گو اکثر مشاہدہ پر ہے مگر ہمارے ہندوستانی طالب علم اس میں تھیوری قیاس قیاسی اور خیالی اور امر محقق شدہ میں تمیز نہیں کر سکتے.ایک طرف تو سید احمد خاں کی جماعت نے یورپ کے فلسفہ اور سائنس سے دب کر صلح کر لی ہے.ڈریپر اور اس کے بھائیوں کا ایسا ڈر پڑا ہے کہ قرآن کریم کو ان کے خیالات کے پیچھے پیچھے لگا دیا ہے.تمام مذاہب کی جان اور تمام خلق کے لئے اعلیٰ جُزامید قبولیت دعا سے ہی منکرہو گئے.تا آیات نبوت اور مسئلہ الہام و وحی و ملائکہ و آخرت اور جنت و نار کے وجود سے گویا انکار کر لیا.میٹیریالسٹ لوگوں کے حملات کو دیکھ کر وحدت وجودیوں کی طرح اسی مخلوق کو بعد حذف تشخصات خدا مان لیا.جیسے ان کے خطبات سے ظاہر ہے.بقیہ مشکلات سے یوں پیچھا چھوڑایا کہ جہاں فلسفہ کو موید نہ دیکھا وہاں کہہ دیا کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ نے حسب خیال یہوداور نصاریٰ کے یا حسب خیال مشرکان عرب کے فرمائی ہے.رہا بقیہ قرآن اس میں یہاں تک کامیاب ہو ئے کہ لکھ دیا.اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.یہی ژندوستا سے گویا لئے گئے.سُبْحَانَ اللّٰہِ یہ ہے دین کی نصرت اور حمایت.اب اُن کے مقابلہ میں مولوی صاحبان کا حال بھی قابل غور ہے.زمین کی کرویت سے

Page 19

منکر ہیں.اس امر کے بھی منکر ہیں کہ کوئی آدمی اسکندریہ سے سوار ہو کر امریکہ پہنچ کر جاپان کی طرف سے آ نکلے اور کلکتہ سے بمبئی اور وہاں سے اسکندریہ پہنچے.کیونکہ راستہ میں کوہ قاف جو زمرد کا پہاڑ ہے جس کی رگوں سے زلزلہ آتا ہے اور جس کے اردگرد سانپ لپٹا ہے اور جس کے اوپر آسمان رکھا ہے اس سے کیسے گزرا.یہ مثالیں غالباً ایسی مخفی نہیں ہوں گی.میرے دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں بچہ تھا اور میں نے بمقام لدھیانہ وعظ سنا کہ نیل دریاکی بڑی فضیلت ہے کیونکہ یہ چاند سے نکلتا ہے.کسی نے وعظ میں عرض کیا کہ حضرت اگر نیل کا چاند سے نکلنا خلاف مشاہدہ نہیں تو گنگا کا مہان دیو کی جٹا سے نکلنا کیوں منع ہے.اب واعظ صاحب کے پاس کیا تھا.فتویٰ دے دیا کہ یہ شخص کافر ہے اس کو مار کر نکال دو.وہ تو نکالا گیا اور یہ شخص جو اب ہمارے دوست ہیں وہاں مرتد ہو گئے کہ اسلام حقیقتاً جبر سے پھیلا یاگیا ہے اور اس میں ایسے ہی مسائل ہیں.پھر کیا تھا آزاد ی کا زمانہ پکے کافر بن گئے اور مشن کی ملازمت کر لی.آخر سالہا سال کے بعد جب بوڑھے ہو گئے.ایک انگریز نے ان کو کہا کہ مسٹر فلا نے دیکھو یورپ والے کیسے محنتی ہیں نیل کا منبع انہوں نے دریافت کر لیا ہے.جبال القمر ہے.اب یہ صاحب اس انگریز سے جبال القمر کا نام سن کر بے تاب ہو گئے اور رو پڑے.لوگ حیران کہ یہ کیا تماشا ہے.اُس نے کہا آج اس جبل القمر نے مجھے مسلمان بنا دیا.جیسے میں نے اس انگریز سے سنا جس طرح اس لفظ نے مجھے کافر بنایا جبکہ میں نے اس لفظ کو ایک واعظ سے سنا.مولانا یہ ہے مشکل ترجمہ کرنے میں.ایک طرف نیچری ہیںاور ایک ہمارے ملّا نے کرویت ارضی کے منکر ، حرکت ارضی کے منکر، علم کیمیا کے منکر ، جیالوجی کے منکر، ان کے درمیان ایک راہ ہے.آٹھواں امر جس پر مترجم کو غور ضروری ہے ا صول ترجمہ کا قائم کرنا ہے.ہمارے مفسر خواہ روایت والے ہوں جیسے ابن جریر، ابن کثیر، امام سیوطی صاحب در منثور، خواہ روایت والے جیسے امام رازی ، اما م غزالی قاضی بیضا ،خواہ صوف ہوں جیسے شیخ محی الدین بن عربی اور مصنف بحر الحقائق اور بخاری عبدالوہاب صوفی.خواہ لغوی ہوں جیسے مجد الدین فیروز آبادی.خواہ

Page 20

علم اشتقاق والے جیسے امام راغب.ان سب لوگوں کی تفاسیر کو دیکھومقدمہ میں اصول کو ہر گز قائم نہیں کرتے.اور یہ بڑا گڑ بڑ کر دیا ہے.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فو زالکبیر میں اور سیداحمدخاں تحریر فی اصول التفسیر میں بہت کوشش کی ہے مگر وہ ایسی کوشش ہے کہ یورپ کے واسطے… کافی نہیں اور اس میں بہت کچھ اصلاح کی ضرورت ہے.نواں امر مفسرین کے طبقات کو تو لوگ قائم کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اول درجہ تفسیر القرآن بالقرآن کا ہے اور دوم درجہ تفسیر میں حضرت حق سبحانہ کے اس نائب صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جس کے حق میں فرمایا (النساء :۸۱) تیسرا مرتبہ خلفائے راشدین وغیرہ وغیرہ مگر عمل درآمد اس کو نہیں دکھاتے مثلاً  (البقرۃ :۳) کی تفسیر میں بیسیوں معنے متقی کے بیان کریں گے اور قرآن کریم نے مثلاً  (البقرۃ :۱۷۸) میں جو معنے متقی کے بیان کئے ہیں اس کا ذکر تک نہ کریں گے. (البقرۃ :۴) میں اقامت پر بحث ہو گی اور کوئی نہیں لکھے گا کہ وہ نماز جس کا ٹھیک رکھنا ضروری ہے اس کی تفسیر رسول کریم نے یہ فرما دی ہے.آپ اس میرے عریضہ کو پہلے پورا دیکھ لیں اگر نا پسند آوے تو کالائے بد بہ ریش خاوند واپس بھیج دیں.اس کی نقل میں نے نہیں لی اور نہ مجھے فرصت ہے کہ اس کی نقل کروں بلکہ دوبارہ دیکھنا بھی مشکل ہے.اگر پسند ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے.میں اور بھی لکھنا چاہتا ہوں مگر دوسرے وقت پر چھوڑتا ہوں اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی.آمین.آپ ایک کوچہ سے بے خبر ہیں اس پر عرض ہے.حضرت پیر ومرشد مجدد الوقت مہدی آوان مسیح الزمان کا تذکرہ کرتے وقت آپ نے نعوذباللہ کا لفظ شریعت اسلام سے نا واقفی کے باعث استعمال فرمایا.احادیث صحیحہ میں جناب خلیفہ اول ابوبکرؓ کو ابراہیم ؑاور مسیحؑ اور جناب خلیفہ ثانی کو نوح ؑاور ابوذر کو مسیح عیسیٰ بن مریم ؑ اور جناب سرور عالم فخر بنی آدم ﷺکو ابن ابی کبشہ اور قرآن میں

Page 21

بعض مومنوں کو اِمرأۃ فرعون اور بعض اہل ایمان کو مریم بنت عمران او ربعض مومنات کو اِمرأۃ نوحؑ اور اِمرأۃ لوطؑ فرمایا گیا ہے اور حضرت یعقوب چرخی کو الہام الٰہی میں زید بن حارثہ جو محبوب رسول اکرم ﷺ تھے.ان کا نام دیا گیا ہے.پھر ؎ کاش کانانکہ عیب من جوئند روے آں دلستاں بدیدندے ترسم آں قوم کہ بر درد کشاں می خندند در سرکار خرابات کنند ایماں را آپ کا سلام علیکم بہ بحضور مرزا صاحب اس لئے نہیں پہنچایا گیا کہ آپ کے نعوذباللہ کے بے موقع استعمال نے اجازت نہ دی.آپ کو ابتدا سے خط میں ایک صادق ملہم کے متعلق ایک محب اسلام کا دل دکھانا مناسب نہ تھا.اَللّٰہُمَّ تُبْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَتُوْبُ.یا ر باقی صحبت باقی.والسلام (الحکم جلد ۲ نمبر ۵،۶ مورخہ ۲۷؍مارچ و ۶؍اپریل ۱۸۹۸ء صفحہ ۸تا۱۱) مکتوب بنام ہدایت اللہ حضر ت مسیح موعودؑ کو آمدہ خط کا جواب از طرف حضرت خلیفہ اوّل نمبر اوّل لاہور ۱۰؍مئی ۱۸۹۸ء یوم سہ شنبہ بعالی خدمت جناب مرزا صاحب دام ظلکم و عنایتکم السلام علیکم و علیٰ من لد یکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعداز ادا ے آداب و سلام سنت سید الانام و اضحرا ے عالی ہو کہ میں نے اگرچہ آپ کی زیارت نہیں کی تو پھر بھی آپ کی تعریف سنی اور آپ کی بعض بعض کتابوں کو دیکھا ہے ایک دو

Page 22

باتیں نہایت ادب کے ساتھ پوچھتا ہوں امید ہے کہ جواب سے سر فراز فرمائیے گا.(۱) اوّل یہ کہ کوئی ایسی کتاب سے مجھے آگاہ کیا جائے جس میں ہندوئوں کی آسمانی کتابوں کو ثابت کیا ہو کہ آسمانی نہیں اور ہندو مذہب مذہب الٰہی نہیں.(۲) دوئم یہ کہ کیا باعث ہے کہ اسلام سارے دنیا کا مذہب مانا جائے.(۳) سوم یہ کہ جولوگ خدا کو ایک مانتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں مگر آنحضرت صلعم فِدَاہُ اَبِیْ وَاُمِّیْکو رسول خدا نہیں مانتے ان کی آخرت میں کیا حالت ہو گی؟ (۴)چہارم یہ کہ دو لڑکے پیدا ہوئے ہیں.ایک امیرکے گھر ایک غریب کے گھر.ایک کی دونوں آنکھیں درست ہیں اور ایک کی دونوں یا ایک خراب.اگر ان میں سے ایک جس کی آنکھیں خراب ہیں یہ کہے کہ بار خدا یا مجھ سے کیا قصور ہوا کہ تو نے میری آنکھ کو بغیر کسی گناہ کے خراب کر دیا.تو اس کا جواب کیاہے اور یہ لوگ اس کو جون بدلنے کے اصول سے جواب دیتے ہیں مگر ان کے اصول ہی درحقیقت ٹھیک ہیں.اگر ان سوالوں کا جواب مجھے عنایت کیجئے گا تو کمال مشکور ہوں گا.نیاز مند ہدایت اللہ انار کلی لاہور فَاَمَّا الْجَواب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ.آپ کا خط بحضور امام صادق پہنچا.چونکہ مرزا صاحب آجکل بڑے ضروری کاموں میں مشغول ہیں اس لئے جواب کے لئے مجھے ایما فرمایا.جواب سوال اوّل ہندوئوں کے متعلق مباحثہ کی خاص کتابیں سوط اللہ ، الجبار اور ظفر مبین ہیں.جن کو مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے طبع کرایا ہے.ایک اور ان کی کتاب ہے.کیفر ، کفر یہ کتابیں مراد آباد میں ملیں گی.ہم لوگوں کا یہ یقین ہے کہ یہ مذہب بھی اپنے بعض اصول و فروع میں منجانب اللہ ہے مگر

Page 23

خلف کی نادانی سے اس میں غلط در غلط زوائد مل گئے ہیں اور اس قدر مسخ ہو گیا ہے اب اس کی اصلی صورت کا پتہ بدوںوساطت قرآ ن کریم کے بالکل محال ہے.وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مَنْ جَائَ بِالْقُرْاٰنِ.مرزاجی نے بھی ان کے اس مذہب کے متعلق براہین احمدیہ میں بہت کچھ لکھا ہے.و ہ قابل دید بحث ہے.آپ کسی سے براہین لے کر دیکھ لیں.جواب سوال دوم اسلام میں وہ تمام تعلیمیں موجود ہیں جو انسانی جماعت کے لئے مشترکاً ضروری ہیں.قوانین مختص الزمان اور مختص المقام کو اگر ہم چھوڑ دیں تو جو کچھ اشتراک تمام انسانوں کے لئے ضروری ہے.اس کے لئے روحانی اور جسمانی دونوں تعلیموں کا مجموعہ قرآن کریم ہے.جواب سوال سوئم جو لوگ اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں اور سرور عالم فخرنبی آدم ﷺ کو نہیں مانتے و ہ بڑے بدمعاش اور سخت قابل سزا ہیں اور ایسے لوگ فی الواقع تو دنیا میں موجود نہیں صرف فرض اور خیال میں ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں اور نیک ہیں تو اُن کو رسول کریم سے کیا عداوت ہے کہ ان کو نہیں مانتے.رسول کریم نے اللہ تعالیٰ کی وحدت اور یکتا ہونے پر زور دیا ہے اور کامیاب کوشش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں ایک، اسماء میں ایک ، صفات میں ایک ، افعال میں ایک ہے.( الاخلاص :۵)تمام اقوال و اقسام نیکیوں کو دنیا میں پہنچا یااور لوگوںکے لئے ایسی کوشش کہ کروڑ در کروڑ نیک بن گئے اور بلند مقاموں پر چڑھ کر بلند آواز سے اللہ اکبر پکارتے ہیں.سکھ بڑے خدا پرست کہلاتے ہیں مگر اس اللہ اکبر سے جل جاتے ہیں.پس ایسا آدمی کیوں کر خدا پرست اور نیک بن سکتا ہے جو محمد رسول اللہ کا منکر ہے.اگر وہ نیک خدا پرست ہوتا تو قطعاً محمد رسول اللہ کا انکار نہ کرتا.غور کرو دن نکلا ہے سور ج موجود ہے ایک شخص کہتا ہے کہ سورج موجود ہے اور ایک دوسرا شخص اسی کا مؤید دکھائی دے.تو کہنے لگا کہ میں اس کو نہیں مانتا.پس معلوم ہوا کہ اس خبث باطن کو اس راست باز سے ذاتی عداوت ہے.

Page 24

الٰہی صفات کا مسئلہ سو اے محمد رسول اللہ ﷺ کے اور کون آدمی ہے جس نے کھول کر ہمیں سنایا اور سنانے میں کامیاب ہوا.اسی طرح نیکی کے اصول اس نادان نے کیونکر مان لئے یا اُن پر عمل درآمد کیسے کیا جبکہ ایک نیک اور کامل نیک اور اعلیٰ درجہ کے راستباز کا انکار کرتا ہے.جواب سوال چہارم سوال چہارم کا جواب کہ ہر ایک لڑکا بیمار کیوں ہوتا ہے.غریب کے گھر کیوں پیدا ہوتا ہے یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے قانون دو حصوں میں منقسم ہیں.ایک شریعت کا قانون اور دوسرا قانون قدرت.شریعت کے قانون کی پابندی اس وقت ہوتی ہے جب انسان عاقل، بالغ، استطاعت والا ہو جاتا ہے اور باوجود فہم و فراست و عقل وا ستطاعت قانون شریعت کی خلاف ورزی کرتا ہے.لڑکے، مجنون، فترت کے زمانہ کے لوگ، بہت بوڑھے، بہرے اس میں مستثنیٰ ہیں.دوسرے کیا معنی؟ قانون قدرت کی پابندی میں ذرہ ذرہ جکڑا ہوا ہے اس کی خلاف ورزی میں ہر ایک ماخوذ ہے.پتھروں میں غور کروکوئی ناقص کوئی کامل، عناصر دیکھو کوئی اعلیٰ درجہ کاہے اور کوئی ادنیٰ درجہ کا.پھر بعض عناصر مصفّٰی اور بعض خطرناک زہروں میں مبتلا.پھر نباتات پر نظر کرو.بعض کیسے مفید اور بعض کیسے مضر اور خبیث ایسے جانوروں میں غور کرو ان میں کس قدر فرق ہیں.انسان کے درمیان فرق بھی ان فروق پر مبنی ہے.ہاں تکالیف کے بارہ میں گفتگو پیش آجاتی ہے.مگر ہم صاف دیکھتے ہیں کہ اگر ایک شخص لڑکے کا ہاتھ کاٹ ڈالے یا کسی لڑکے کو مار ڈالے تو لڑکا عیب دار ہو گا یا مر جاوے گا.مگر لڑکے کا گناہ نہیں.اس لئے قدرت اس لڑکے کو بدلہ دے گی اور اس دکھ دینے والے کو سزا دے گی.ایسے ہی جس نے اپنی غذائوں یا امراض کا حصہ کسی لڑکے کو دیئے اُس کے بدلہ اس لڑکے کو عمدہ بدلہ دیا جاوے گا اور باعث تکالیف کو سزا ملے گی.ہاں اگر اس کے اور اسباب تلافی کر دیں تو یہ امر دوسری طرف قانون قدرت کا نظارہ ہو گا.صرف تفرقہ کے باعث تناسخ کا قائل ہونا سخت غلطی ہے کیونکہ خود تناسخ والے بھی مانتے ہیںکہ ایک خدا ابدی حکمران ہے اور ارواح ہمیشہ سے اُس کے ماتحت ہیں.اور ذرات دونوں (خدا اور ارواح) کے ماتحت ہیں.یہ فرق جو تینوں میں ہے اس فرق سے بہت زیادہ ہے جو

Page 25

غریب اور امیر میں ہے یا بیمار اور تندرست میں کیونکہ غریبی اور بیماری کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے اور ان تین اشیا ء میں تبادلہ بھی محال ہے.تناسخ والے انصاف سے غور کریںکہ کیونکر اور کس وجہ سے یہ تفرقہ ہوا.خدا تعالیٰ کیوں ابدی حکمران ہے اور ارواح کیوں ہمیشہ محکوم ہیں.اگر اعمال کے لحاظ سے ہیں تو خدا اور ارواح میں بھی جنم ماننا پڑے گا اور اگر انہیں جنم نہیں تو ثابت ہوا کہ بدوں جنم کے اور اور اسباب بھی تفرقہ کا باعث ہیں.یہ بحث بہت طویل ہے.چاہتی ہے اس پر کتاب لکھی جاوے.اس لئے خط میں اس پر بس کرتا ہوں.نور الدین.۶؍مئی ۱۸۹۸ء (الحکم جلد ۲ نمبر ۱۲،۱۳مورخہ ۲۰.۲۷ ؍مئی ۱۸۹۸ء صفحہ ۳،۴ ) میر حسین علی کا خط اور اس کا جواب کوئٹہ.۱۰؍مئی ۱۸۹۸ء حضور اقدس السلام علیکم.میرے ایک مسلمان دوست کے دل میں سوال پیدا ہوا ہے کہ جب کوئی حاکم یا استاد اپنی رعایا یا شاگرد کو کسی قصور کے واسطے سزا دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آئندہ کے واسطے اس کو ہدایت ہو اور اسے معلوم رہے کہ اگر میں نے اس فعل کا اعادہ کیا تو پھر بھی ا سی طرح مستوجب سزا ٹھہروں گا.لیکن جس صورت میں کہ ہم جانتے ہیں کہ قیامت کے بعد پھر ہمیں ایسی دنیا میں نہیں بھیجا جائے گا جہاں رہ کر ہم رو ز قیامت کی اس سزا سے جو ہمیں اس دنیا کے گناہوں کے واسطے دی جائے گی فائدہ اٹھاویں.اس واسطے ظاہر ہے کہ قیامت میں جو سزا ہم کو موجودہ گناہوں کے واسطے ملے گی آئندہ کی زندگی کے واسطے باعث عبرت نہیں ہو سکتی لہٰذا معلوم ہونا چاہئے کہ پھر اُس سزا سے کیا مفاد نکلتا ہے؟

Page 26

اس واسطے خدمت والا میں التماس ہے کہ ازراہ ذرہ نوازی مندرجہ ذیل پتے پر مندرجہ بالا سوال کا جواب لکھ کر مشکور و ممنون فرمائیے.پتہ یہ ہے میر حسین علی دفتر کمشنر صاحب بہادر کوئٹہ بلوچستان جواب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اللہ تعالیٰ ربّ رحمن رحیم مالک اور احکم الحاکمین ہے.اُس کے سارے کام حکمت ورحمت کے بھر ے ہوئے ہیں.بعض نادان چاہتے ہیں کہ ان تمام حکمتوں کو جو غیر محدود ہیں اپنی محدود عقل میں پھنسا دیں.یہ دنیا تمام آئندہ آنے والے امور کے لئے نمونہ موجود ہے.یہاں ایک بہشت اور ایک دوزخ موجود ہے اس پر غور کرو موجود چیز سے انکار ہو سکتا ہے؟ ایک شخص نے زنا کیا اور ایسی آتشک میں گرفتار ہوا جو اُس کے ساتھ مرتے دم تک موجود ہے یا ایک نادانی سے اپنی آنکھ پھوڑ لی یا اپنے ہاتھ سکھا دئیے.تو اب دیکھو تمام عمر اس دوزخ سے نجات نہیں پاتا.اس طرح الٰہی نعمتوں سے بعض ایسے آسودہ ہیں کہ مرتے دم تک یونہی خورم و خورسند ہیں یہ واقعات ہیں ان کا انکار محال ہے.پس معلوم ہوا کہ آئندہ کی ہدایت کا ہونا ہی ضروری نہیں کیونکہ جب اس سزایاب کا خاتمہ ہی سزا میں ہو گیا تو اب ہدایت یاب ہوناکیا معنے رکھتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہے کہ ’’سزا کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آئندہ ہدایت یاب ہو ‘‘چنانچہ ہر بدی اپنی ذات میں خاصیت رکھتی ہے کہ بدی کرنے والے کو دکھ دے اور نیکی میں خاصہ ہوتا ہے کہ وہ سکھ دے.عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں سے نیکیاں بھی ہر روز ہوتی ہیں اور بدیاں بھی اس لئے لوگ سکھوں اور دکھوں میں مبتلا ہیں.جن لوگوں کے لئے جہنم بنا ہے اُن کے اعمال کے خواص ایسے ہیں کہ جہنم جاویں.یہ نظارہ قدرت پتھر اور درختوں میں دیکھو اُن کا بعض حصہ جلانے اور کاٹ دینے کے قابل ہے بعض حصہ حفاظت کے لائق ہے.

Page 27

چونکہ بہشت طیب اور ہر طرح سے آرام کی جگہ ہے اس لئے ایسے بدکار جن میں بے آرامی کے زہریلے مادہ ہیں بہشت کے قابل نہیں.اُن میں سے جو جہنم جاویں گے بعض ایسے ہوں گے جن کو جہنم کی آگ پاک و صاف کر دے گی اور اُن مواد کو جلا دے گی جو بے آرامی کے باعث ہیں اور وہ بہشت میں چلے جائیں گے.اس کی مثال بعینہٖ ایسی ہے کہ ایک شخص نے ایسی زہریں کھا لیں یا ایسے برے کام کئے جن کے باعث وہ کوہڑا ہو گیا یعنی جذام میں مبتلا ہو گیا اب اس کوہڑے کو اس وقت تک تندرست اور صحیح لوگوں سے الگ کیا جاوے گا جب جب تک وہ اُس میں جذام کا مادہ موجود ہے.جب وہ مادہ کسی تدبیر جلابوں سے مصفیات سے دور ہو گیا تو تندرستوں میں شامل کیا جاوے گا اور اگر بالکل سڑ گیا اورنکمّا ہو گیا تو ہمیشہ کے لئے اچھے تندرستوں سے علیحدہ رہے گا.آپ اسی مثال پر غور کر کے پھر مجھے اطلاع دیں دوزخ اصلاح کا سامان ہے جیسے جذام خانہ مثلاً.والسلام نور الدین ۲۰؍مئی ۱۸۹۸ء (الحکم جلد ۲ نمبر ۱۴، ۱۵مورخہ ۶.۱۳؍جون ۱۸۹۸ء صفحہ ۳ ) مکتوب السلام علیکم آپ کا خط ایک بڑی کتاب کو لکھانا چاہتا ہے.انشاء اللہ کسی موقع پر تیار ہو جائے گی آپ صبر سے انتظار کریں.قرآن کریم قصوں کے بیان کرنے کو نہیں.ا صل مطلب اور ضرورت پر کوئی بیان آ جاتا ہے.یہود ، عیسائی اور مجوسی قومیں جب مسلمان ہوئیں تو یہ لمبے قصے ان سے اور ان کی کتابوں سے تفاسیر میں درج ہوئے ہیں.ان کی اصل نہیں اور نہ ان پر کوئی شرع کا مسئلہ موقوف ہے ہمارے خیال میں اکثر مضر ہیں اور لغو ہیں.ہرگز ہرگز شیطان کا تسلط کسی نبی پر نہیں.نبی تو عظیم الشان لوگ ہیں.کسی پر بھی شیطان کا

Page 28

تسلط نہیں. (الحجر :۴۳)کا طلب بہت صاف ہے.دیکھو دیکھو اس کا ترجمہ ہم لکھتے ہیں اور نہیں بھیجا تجھ سے پہلے کوئی رسول اور نبی مگر جب وہ خواہش کرتا ہے تو ہلاک ہونے والا خدا سے دور ( شیطان) اس کی خواہش میں روک ڈالتا ہے.اللہ تعالیٰ شیطان کی روک کو دور کر دیتا ہے اور اپنے آیتوں کو مستحکم کر دیتا ہے دیکھ لو موسیٰ کو جب اس نے خواہش کی کہ بنی اسرائیل کو مصر سے چھوڑا کر کنعان لاوے تو فرعون شیطان نے روک ڈال دی مگر آخر وہ غرق ہوا اور خدا کی بات پوری ہوئی.مسیح کی خواہش میں یافہ کا ہن اور یہودی شیاطین نے روک ڈالی تو آخر اللہ تعالیٰ نے مسیح کو کامیاب کر ہی دیا اور یہود ذلیل ہو گئے.محمد رسول اللہ ﷺ کی خواہش میں ابوجہل ابو لہب جیسے شیاطین روکیں ڈالتے رہے.آخر خدا کی باتیں پوری ہوئیں.رسول خدا مسجد میں جنابت کے وقت نہیں جا سکتے تھے اور ایسے قصص معتبر کتابوں میں نہیں ہیں.طلاق وغیرہ کے وہ بھی پابند تھے.انبیاء سب معصوم ہوتے ہیں اور استغفار عجیب و غریب دُعا ہے.استغفار کے معنے محفوظ رکھنے کی طلب کرنا.اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ.میں اللہ تعالیٰ سے حفاظت طلب کرتا ہوں.شفاعت کی بحث فصل الخطاب میں آپ دیکھیں.گناہوں کے اقسام ہیں.ہر ایک کی معرفت جدا اقسام معاصی کو دور کر دیتے ہیں اور حوروں کے متعلق بحث بسط چاہتی ہے کسی موقعہ پر انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے خط کا جواب مفصل تحریر ہو گا.والسلام نور الدین (الحکم جلد ۲ نمبر ۱۶،۱۷ مورخہ ۲۰.۲۷ جون ۱۸۹۸ء صفحہ ۴ )

Page 29

ایک طالب علم کو دینیات کا سبق یاد نہ کرنے پر سرزنش مدرسے سے ایک طالب علم کی دینیات کا سبق یاد نہ کرنے کی وجہ سے مولانا ممدوح کے پاس شکایت ہوئی.آپ نے اس کو بلا کر فرمایا ’’مجھے شکایت پہنچی ہے کہ تم نے دینیات کے پڑھنے سے انکار کیا ہے ایک شخص یہاں موجود ہے (ایڈیٹر الحکم کی طرف اشارہ )اور وہ گواہ ہے.اس نے کسی طبیب کاپیغام مجھے دیا کہ اولاد ہونے کے لئے میں اس کا علاج کروں.میں نے اس کو یہی جواب دیا کہ مجھے دیندار اولاد کی ضرورت ہے محض اولاد مطلوب نہیں.پس میں دین کے سوا کسی چیز کو پسند نہیں کر سکتا.مدرسہ کے اجرا سے اگر کوئی غرض ہے تو دینی تعلیم.اس لئے اگر تم دینیات پڑھنا نہیں چاہتے تو فی الفور یہاں سے چلے جاؤ.میں نے امام کے ہاتھ پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے.اس لئے کوئی شخص جو میرے ساتھ کوئی تعلق رکھتا ہے لیکن دین کو دنیا پر مقدم نہیں کرنا چاہتا میرا اس سے کچھ تعلق نہیں رہ سکتا.تم کو یہ خوب معلوم ہے کہ میں یہاں کسی دنیا طلبی کے لئے نہیں بیٹھا.دین کے لئے آیا ہوں اور صرف دین کے لئے.پھر تم دیکھو کہ باوجودیکہ کوئی نہیں جانتا میرے مولا کریم کے سوا کہ وہ مجھے کہاں سے دیتا ہے.پھر میں نے تمہارے اخراجات باوجود ایسی حالت کے مساکین فنڈ سے نہیں دلائے میں نے خود برداشت کئے پھر ایسی حالت میں بھی اگر تم دین کو حاصل کرنا نہیں چاہتے تو میں تم کو اپنے پاس قطعاًنہیں رکھ سکتا.یاد رکھو دنیا میں میں کسی ایسے شخص کو جو دین سیکھنا نہیں چاہتا ہر گز اپنے پاس اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتاکیونکہ میرا ارادہ ، میرا خیال کچھ نہیں رہا میں اسے دوسرے کے ہاتھ پر بیچ چکا ہوں.پس میں پھر کہتا ہوں کہ بیوی ہو ، لڑکی ہو ، کوئی ہو اگر اسے دینیات کی خواہش نہیں تو مجھے اس سے کوئی غرض رہ نہیں سکتی.‘‘ (الحکم جلد۳ نمبر۵ مورخہ ۱۰؍فروری ۱۸۹۹ء صفحہ۹) مکتوب ایک شخص مسئلہ قربانی پر سوا ل کرتا ہے کہ یہ خلاف رحم ہے؟ اُس کا جواب دیا گیا ہے.السلام علیکم.آپ کا خط بنام حضرت امام پہنچا اور جواب کے لئے مجھے مرحمت ہوا.قربانی

Page 30

کے متعلق چند امور آپ یاد رکھیں اور ان پر خوب غور کریں.دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک اللہ تعالیٰ کے منکر دوسرے قائل.منکر وں کے نزدیک تو رحم کیا ہے.اعتراض ہی نہیں اور نہ آپ کی طرف ان کے متعلق کچھ لکھنا مفید ہے.اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے قائل ہیں اور آپ بھی ان میں سے معلوم ہوتے ہیں وہ ذرا غورکریں.ہوا میں نظر کریں باز شاہین شکرہ کس قدر شکا رکرنے والے جانور موجود ہیں اور کس طرح پرندوں کو پکڑ کر کھا جاتے ہیں.ذرہ بھی رحم نہیں کرتے کیا بازوں کو اللہ تعالیٰ نے نہیں بنایا.اسی طرح جنگلوں میں شیروں چیتوں شکار کر نے والے جانوروں کو کس نے بنایا.بلی کس طرح چوہوں کو پکڑ کر ہلاک کرتی ہے.پس ایسے بے رحم جانور کس کے بنائے ہوئے ہیں غور کر و پانیوں میں بھی شکار کرنے والے جانور موجود ہیں.بلکہ بہت غور کرو تو حضرت ملک الموت کو دیکھو کیسے کیسے انبیاء و رسل بادشاہ بچے ، غریب، امیر ،سوداگر سب کو مارکر ہلاک کرتے ہیں اور دنیا سے نکال دیتے ہیں.پھر غور کرو اگر ہم جانوروں کو عیدالاضحی پر ذبح نہ کریں اور ہمارا ذبح کرنا رحم کے خلاف ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا اور اُن پر یہ رحم ہو گا کہ وہ نہ مریں.پس اس تمہید کے بعد گزارش ہے کہ اگر جانور وں کو ذبح کرنا رحم نہیں ہے تو شکاری اور گوشت خور اللہ کریم پیدا نہ کرتا.نیز اگر ذبح نہ کیا جاوے تو خود بیمار ہو کر مریں گے.پس غور کرو ان کے مرنے میں کیسی تکالیف ان کو لاحق ہوں گی.پھر اگر ایسا ہی رحم ہے تو اپنے مطلب کو جانوروں سے ہل چلوانا ،ان کو لادنا، ان کے بچے باندھ کر ان کا دودھ لینا کیسی بے رحمی ہو گی.ہمیںتعجب آتا ہے کہ وہ لوگ ایسے صوفی کون ہیں جو لوگ قربانی کے مخالف ہیں خود سرور عالم فخر نبی آدم ﷺ نے ہمیشہ قربانی کی اور حجۃ الوداع میں سو اونٹ قربان فرمایا.

Page 31

میری نصیحت ہے کہ آپ ایک بار یہاں تشریف لاویں تو پھر آپ کو ایسے مسائل پر مفصل سنایا جائے خطوط بہت آتے ہیں زیادہ مفصل نہیں لکھ سکتے.ضرور ایک بار تشریف لاویں.نورالدین ۲۶؍اپریل ۱۸۹۹ء از قادیان (الحکم جلد ۳ نمبر ۱۶مورخہ ۵؍مئی ۱۸۹۹ء صفحہ ۶) راست باز کی شناخت کا معیار راستباز کی شناخت کا ایک معیار یہ بھی ہے.(۱)پہلے بھلوں اورر استبازوں سے اس کا مقابلہ کرو.(۲) بروں بھلوں میں جنگ رہی ہے نتیجہ بھلوں کے حق میں ہوتا ہے.(۳) عام نشان اس کی جماعت ہے یعنی وہ بنتی ہے اور دشمن تباہ ہو جاتے ہیں.(۹۸.۲.۲۴) حنفی کس کو کہتے ہیں ؟ ابھی امام صاحب بیعت نہ لیتے تھے ان دنوں میں ایک بار مجھ سے کہا کہ تم اشتہار دو کہ میں حنفی ہوں میںنے اشتہار لکھ کر بھیج دیا جس کا عنوان یہ تھا کہ ’’ بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید ‘‘ لیکن پھر جب میں قادیان آیا تو آپ نے وہ اشتہار نکال کر دیا اور کہا کہ اس کو پھاڑ ڈالو.میں نے پھاڑ دیا.پھر فرمایا کہ حنفی کس کو کہتے ہیں.میں نے کہا کہ میں تو نہیں جانتا.امام صاحب نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ کیا کرتے تھے.میں نے کہا جہاں نص پاتے تھے عمل کرتے تھے اور جہاں نص نہ پاتے تھے اجتہاد کرتے تھے.فرمایا کہ یہی مومن کاکام ہے اور یہی حنفی ہوتا ہے.(۹۸.۱۱.۱۴) وسوسہ مجھے کسی شرعی مسئلہ میں نیز جزئیات میں کبھی وسوسہ نہیں آیا.(۹۹.۲.۲۵) (الحکم جلد ۳ نمبر ۲۰ مورخہ ۹؍جون ۱۸۹۹ء صفحہ ۱ )

Page 32

صحبت صالحین کی نسبت لطیف مثال حضرت مولوی نور الدین صاحب اپنے طالب علمی کے زمانہ کی بات سنایا کرتے ہیں کہ ہندوستان میں جب کہ ہم تعلیم پاتے تھے تو ہمارے ایک مہربان تھے بڑے پرہیزگار اور صالح آدمی.ان کا اسم شریف تھا شاہ جی عبدالرزاق.میں ان کی ملاقات کے لئے جایا کرتا تھا.ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ بہت دنوں تک ان کے پاس نہ گیا اور پھر جب میں ان کی ملاقات کے لئے گیا تو انہوں نے فرمایا تم اتنی دیر تک کیوں نہ آئے؟ میں نے عرض کی کہ ایسے ہی آنا نہ ہوسکا.فرمایا کہ کیا تم کبھی قصاب کی دوکان پر نہیں گئے؟ کیا تم کبھی قصاب کی دوکان پر بھی نہیں گئے؟ اس فقرہ کو دو تین دفعہ دہرایا.میں نہ سمجھ سکا کہ اس سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ پھر آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے مجھ کو سمجھایا کہ قصاب کس طرح اپنی دونوں چھریوں کو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک دوسری سے ملالیتا اور رگڑ لیتا ہے.اس سے عارف کو سبق لینا چاہیے کہ دنیا کے دھندوں اور تعلقات کے درمیان انسان کے قلب پر بہت جلد ایک زنگ چڑھ جاتا ہے اور معرفت کی تیزی جلد کند ہونے لگ جاتی ہے جس کے واسطے ضروری ہے کہ انسان وقتاً فوقتاً نیک صحبت کے ساتھ قوت پکڑتا رہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے. (التوبۃ :۱۱۹) تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ رہو.ان کی معیت سے قوت پکڑو.مبارک ہیں وہ جو صادق کو پہچانتے ہیں اور اس کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کے منور چہرہ کے دیدار سے نور حاصل کرتے ہیں اور اس کی جاری کی ہوئی نہروں سے ایسا پانی پیتے ہیں کہ پھر کبھی پیاسے نہیں ہوتے.محمد صادق (ا لحکم جلد۳ نمبر۲۶ مورخہ ۲۴؍ جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ ۷)

Page 33

مکتوب بنام منشی تاج الدین صاحب برادرم منشی تاج الدین صاحب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.پرسوں شام کے وقت ایک میرے مکرم معظم دوست نے برسر مجلس ذکر فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا.منشی تاج الدین صاحب نے ارقام فرمایا ہے ڈپٹی فتح علی شاہ صاحب سے میں نے دریافت کیا ہے کہ کیوں اب تک منشی الٰہی بخش صاحب نے اپنے الہامات درباب حضرت مرزا صاحب شائع نہیں فرمائے.ڈپٹی صاحب نے فرمایا کہ نور الدین نے کہا یعنی اس راقم خاکسار نے منشی جی کو بمنت وسماجت خط لکھا ہے کہ منشی صاحب ایسے الہامات کے شائع کرنے سے باز رہیں اس لئے منشی صاحب نے اشاعت الہامات مخالفہ مرزا صاحب سے اعراض کیا.برادرم ! اس کلام کے سننے سے مجھے تعجب اور حیرت ہوئی اور میں عام اہل اسلام کی حالت پر دیر تک افسوس کرتا رہا.تعجب اس لئے کہ ایک ملہم من اللہ جس کو الہام الٰہی سے ثابت ہو گیا کہ فلاں شخص اللہ ورسول کا مخالف ہے تو اس مخالف اللہ و رسول کا پردہ فاش کرنے کے لئے ہمہ تن متوجہ ہونا چاہئے تھا کسی کے روکنے سے وہ کیونکر رُک سکتا تھا.۲.جب منشی الٰہی بخش صاحب کو ثابت ہو چکا ہے کہ مرزا صاحب کے الہامات نعوذ باللہ شیطانی ہیں اور غلط ہوتے ہیں اور ان کو پختہ طور پر معلوم ہے کہ نور الدین مرزا جی کا دل سے جان سے مال سے اور عزت و آبرو سے فدائی ہے اور پورا معتقد ہے تو مرزا کے ایسے معتقد کے خط بخلاف الہامات الٰہیہ کیوں متبع ہوئے.۳.نص صریح ہے کہ مامور من اللہ مداہن لوگوں کے کہنے پر نہیں چلا کرتے تو اگر نور الدین نے مداہنت چاہی تھی تو منشی الٰہی بخش صاحب پر واجب تھا کہ نور الدین کا وہ خط جس میں اس نے منشی جی کو روکا ہے الہامات کے ساتھ شائع کر دیتے تو کہ حسب منشاء منشی صاحب مرزا جی کے ساتھ مرزا کے ایک مرید کی بھی پردہ دری ہو جاتی اور اس سے عام لوگ نتیجہ نکالتے کہ یہ جماعت کیسی مکار ہے!

Page 34

۴.اگر وہ الہامات منشی جی کے منجانب اللہ ہوتے تو وہ کسی کے کہنے سے ان کی اشاعت سے کیوں رُکتے کیا ان کو خبر نہیں.(المائدۃ : ۶۸) کس کتاب کا حکم ہے کیا ان کو خبر نہیں کہ(القلم :۱۰) کون کہتا ہے.۵.مرزا صاحب نے منشی جی کو براہ راست خطوط لکھ کر تحریک کی ہے پس اس تحریک کے مقابل نورالدین کا پرائیویٹ خط کیوں زیادہ مؤثر ہوا.۶.مرزا صاحب اپنے الہامات اپنی تحقیقات کی اشاعت میں کیسے دلیر ہیں ان کے مخالفوں کو چاہئے تھا کہ مرزا صاحب سے زیادہ دلیر ہوتے کیوں؟وہ لوگ اپنے گمان کیا یقین میں راستباز اور مرزا صاحب نعوذ باللہ مفتری ہیں.۷.منشی صاحب نے وعدہ کیا ایفاء نہ کیااور نور الدین کے کہنے سے  (بنی اسرائیل : ۳۵) سے کیوںبے پروائی کی.۸.ڈپٹی صاحب اوّل سید اہل بیت دوم دنیا میں معزز عہدہ پر ممتاز میرا دل نہیں پسند کرتا کہ میں مان لوں ایسا بڑا آدمی جھوٹ بولتا ہو.جھوٹ بولنا بڑے ہی کمینوں کا کام ہے جھوٹا ذلیل ہوتا ہے.پس مجھے حیرت ہے کہ یہ غیر واقعہ کلمات کہا ں سے نکلے.۹.میرے نزدیک مامور من اللہ اور دوسروں میں یہ بھی ایک فرق ہے کہ مامور من اللہ ہمت نہیں ہارتے ، تھکتے نہیں ، ڈرتے نہیں ، گھبراتے نہیں ، مشکلات کے وقت دلیر ہوتے ہیں آخر کامیاب ہوتے ہیں.دیکھ لو مرزا صاحب نے مخالفوں کے مقابلہ میں کیسے کیسے کام کئے ہیں.کیا ہمت ہاری ہے نہیں! تھکا ! نہیں ! ڈرا ہے؟ نہیں کیا دلیر نہیں ہوا؟ کیا کامیاب نہیں ہوا ؟ سوچو!!! ۱۰.وَتِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ اگر منشی صاحب اپنے الہامات اور پیش از وقت اپنی پیشگوئیاں شائع کرتے تو ان کو پتہ لگ جاتا کہ ان پیشگویوں کی اشاعت میں کیا کیا مشکلات آتی ہیں اور پھر ان کو یہ بھی پتہ لگ جاتا کہ جوجو اعتراض انہوں نے مرزا جی پر کئے ہیں کیا وقعت رکھتے

Page 35

میں مثلاً مرزا جی کے وعدہ پر براہین احمدیہ کی اشاعت پر (کیوں التوامیںہے حالانکہ مخالفوں کے لئے بار بار اشتہار دئیے گئے کہ وہ براہین کا روپیہ واپس لے لیں اور روپیہ دیا بھی گیا )مثلاً آتھم کی پیشگوئی کہ آیا شرط پوری ہوئی جیسے الہام میں مشروط تھی یا نہ ہوئی.مثلاً بشیر احمد کے متعلق کہ وہ موعود فرزند ہے حالانکہ وہ موعود حسب الہامات بحمد اللہ موجود ہیں.مثلاً ان کا خیال کہ مسجد کا روپیہ مسجد پر خرچ ہوا یا نہیں یا معرض التوا میں ہے و غیرہ وغیرہ.اب تک تو منشی صاحب اپنے گھرمیں خاص خاص احباب کے سامنے بیان فرماتے ہیں اور ان کے احباب بھی فرماتے ہیں کہ ان کی پیشگوئیاں بہ نسبت مرزا جی کے بہت مصفّٰی اور صحیح ہیں مگر جب معاملہ پبلک میں عام طور پر مرزا جی کی طرح پیش ہو تب ظاہر جاوے گا کہ مامورمن اللہ کون ہے؟ عِنْدَ الْاِمْتِحَانِ یُکْرَمُ الرَّجُلُ اَوْ یُھَانُ.برادرم یادرکھو جو باتیں الہامی طور پر ثابت ہوں.ان میں اعلیٰ وہی ہیں جو لکھی ہوئی ہم دیکھیں.قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے.(الطور : ۴۲) نبی کریم کے مخالفوں پر بھی الزام قائم ہوا ہے کہ اگر ان کے پاس غیب ہے تو اُسے لکھا ہوا پیش کریں.میرے بھائی! آخر میں آپ کو بڑے زوراور جوش سے نصیحت کرتا ہوں کہ آپ کامل استقلال، کامل بردباری، کامل حوصلہ، اعلیٰ ہمت سے کام لے کر اس وقت ڈپٹی صاحب سے دریافت فرماتے کہ لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ الاعراف حدیث نمبر ۳۲۵۰).ہمیں وہ خط نور الدین کا دکھادیں.آپ ڈپٹی صاحب اگرچہ راست باز ہیں مگر راستی کا ثبوت دینا راست بازی کے مخالف نہیں.مولیٰ کریم بھی سچا مولیٰ کا رسول بھی سچا مگر پھر بھی دونوں نے اپنی صداقت کے ثبوت دئیے ہیں.پس آپ راست باز سہی ہمیں راست بازی کے ثبوت سے محروم نہ فرماویں.بہرحال اب پھر کوشش کریں شاید اسی ذرہ سی بات میں حق ظاہر ہو جاوے کہ ڈپٹی صاحب اور ان کے منشی صاحب کو یہ خبر دینے والا کیسا راست باز ہے.ہمیں تو ایسی خبریں ترقیات کا موجب ہیں اور انشاء اللہ بہتوں کے لئے ترقیات کا باعث ہوں گی.اب آپ ہمت بلند سے کام لیں اور اس خط کو

Page 36

نکلوائیں جس میں نورالدین نے خوشامد کر کے منشی جی کو روکا ہے.میرے بھائی میں دلیری سے عرض کرتا ہوں کہ میر ی تحریریں بچہ پن سے لے کر آج تک کبھی بھی ایسی نہیں جن کی اشاعت سے مجھے کسی نوع کا خطرہ ہو.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَھٰذِہٖ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ عَلَیَّ وَلٰکِنْ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.۶؍اگست ۱۸۹۹ء (الحکم جلد ۳ نمبر ۲۸مورخہ ۱۰؍اگست ۱۸۹۹ء صفحہ ۱۰) مکتوب بنام حافظ محمد یوسف صاحب خاکسار نور الدین اَللّٰھُمَّ کَاسْمِہٖ آمین بخدمت حافظ محمد یوسف صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.گزارش پرداز.جناب کو معلوم ہے کہ جناب واحد احد کی یکتا ذات پاک وحدت کو کیسے پسند فرماتے ہیں.ہمارے سردار و مولیٰ افضل الرسل خاتم النبییّن پر احسانات کا اظہار فرماتے فرماتے ارشاد کرتا ہے.(الانفال :۶۴) اور اس کے بالمقابل اختلاف پر اپنا سُخطیوں ظاہر فرمایا(الانفال : ۴۷) جناب حافظ صاحب! صرف مطاعن سے کام لینا کوئی پسندیدہ امر اور مقصود تک پہنچانے والی بات نہیں.پہلے خلیفہ فی الارض حضرت ابوالبشر آدم صفی اللہ صلوات و سلامہ پر خود ملائکہ نے مطاعن سے کام لیا مگر کیا فائدہ اُٹھایا یہ قصہ سورہ بقرہ میں جو فاتحہ کی اعظم ترین تفسیر ہے بڑی عبرت کے لئے درج ہوا ہے غور کرو.مامور من اللہ پر دو قسم کے معترض اعتراض کرتے ہیںایک طر ف ملائکہ اور دوسری طرف ابلیس.پس ہم کسی اچھے یا برے معترض کے باعث ایک ما مور امام کو کیوں چھوڑ سکتے ہیں.حضرت موسیٰ صاحب الشریعہ پر بھی ایک فلسفی بادشاہ اعتراض کرتا ہے جیسے بیان ہوا.

Page 37

(الزخرف : ۵۳،۵۴) تمام شیعہ اور خوارج صرف مطاعن سے کام لے کر شیخین ابو بکر و عمر رضوان اللہ علیہما اور ختنین علی و عثمان رضی اللہ عنہما کی خلافتوں سے انکار کر گئے ہمارے لئے کچھ بھی مشکل نہیں اگر ہم تواضع و انکسار و توبہ و استغفار کے بعد تھوڑی سی غور کریں کیونکہ اوّل.تو پہلے انبیاء و رسل اور تمام راستبازوں کی تعلیمیں ہمارے پاس ہیں.ان کے ساتھ نئے مامور من اللہ کی تعلیم ملا لیں.دوم.عقل کا معیار پاس ہے.عقل سے تول لیں کیونکہ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعمت بیکار نہیں.سوم.وجدان وفطرت صحیحہ اگر وہم اور غضب سے اسے نہ دبایا جائے اور اسے بیکار نہ چھوڑا جائے تو بھی دین قیم کو ظاہر کرنے کا عمدہ سامان ہے.چہارم.تائیدات سماویہ پر نظر کریں کہ آیا اس مدعی کے شامل حال ہیں یا نہیں.پنجم.نقل کو دیکھیں اور مسلَّم الثبوت نقل کو دیکھیں کہ آیا وہ اس مامور من اللہ کی مؤیّد ہے یا نہیں.ششم.ہمیں دیکھنا چاہئے کہ جس مامور من اللہ نے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے آیا اس کے دعویٰ کا وقت بھی ہے یا نہیں.ہفتم.ہمیں مامور کی گزشتہ زندگی کو دیکھنا چاہئے کہ کیسے گزری.ہشتم.جس کام کے لئے مامور مقرر ہوا ہے آیا اس میں لیاقت بھی اس کام کرنے کی ہے یا نہیں.نہم.مامور کی قوت نظریہ علمیہ اور قوت عملیہ کیسی قوی ہے.دہم.آیا کوئی ممتاز قوم تیار کر سکتا ہے یا نہیں.وَتِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ

Page 38

اب میں پوچھتا ہوں کہ جس کو میں نے امام مانا ہے اس میں یہ دانہ از خروار اور قطرہ از انبار علامات موجود ہیں یا نہیں.۱.پہلی نشانی کے لئے مرزا جی کی تعلیم موجود ہے غور کر لو کوئی امر تعظیم الٰہی یا شفقت علیٰ کافہ انام کے خلاف ہے.میں دلیری سے کہوں گا اور کہتا ہوں کہ نہیں.۲.نشانی دعویٰ ہے کہ عیسیٰ بن مریم فوت ہو چکے.دعویٰ ہے کہ مُردے واپس نہیں آتے.کیسی صاف باتیں ہیں جن کو عقل بلا تامل قبول کرتی ہے.۳.نشانی اُ نیس سو برس سے ایک مفقو د الخبر انسان کیا زندہ رہ سکتا ہے.۴.اجتماع کسوف و خسوف ایسی رنگ میں ہوا کہ عقل حیران ہو جاتی ہے.عطاء ِاولاد حسب وعدہ ایسی عطا ہوئی کہ باید و شاید.۵.امر کو غور کرو سورۂ نور میں مولیٰ کریم وعدہ فرماتا ہے. (النور : ۵۶) کہ تم لوگوں میں مومنو!نیک اعمال والے ایسے خلفاء ہوں گے جیسے پہلے ہوئے اور باجماع اہل حدیث و کتب احادیث عیسیٰ بن مریم کا نزول ثابت ہے.جیسے سرور عالم فخر بنی آدم ﷺ مثل موسیٰ تشریف لائے تھے آپ کی صدی چہاردہم میں مثل عیسیٰ ضروری تھے اور یہ عیسیٰ بن مریم کے نزول کے لئے نقل مفید ہے نہ کسی موسیٰ کے واسطے.۶.کسر صلیب کا وقت بھی ہے.پس جس کی کامل توجہ کسر صلیب پر مبذول ہے وہی مامور من اللہ ہو سکتا ہے.۷.ہمارے مامور اور امام کی گزشتہ زندگی کے واسطے اس کا ہم درس محمد حسین گواہ ،حافظ محمد یوسف منشی الٰہی بخش تمام قادیان کے عمائد گواہ ہیں.یَسْتَحِقُّ اَنْ یَّقُوْلَ (یونس : ۱۷) ۸.لیاقت کا حال لکھوں تو کیا لکھوں مخالف و موافق نے سلطان القلم مانا ہوا ہے اور

Page 39

اس پر آشوب زمانہ میں جس میں لوگ مادر پدر آزاد ہو رہے.ایک عظیم الشان کثیر التعداد سپاہ کا سپہ سالار ہے.۹.علم و عمل کا کوئی تجربہ کر کے دیکھے بایں امراض کیسے نکات اور کس قدر تصنیف کر سکتا ہے قابل غور ہے.۱۰.ممتاز قوم کا تیار کرنا اس کی ممتاز جماعت سے ظاہر ہے.آریہ ، برہمو ، سناتن ، سکھ، پادری، یہودی صفت ملاّں، سجادہ نشین ، عوام، خواص اس کی دشمنی میں کیسی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں.مقدمات کئے، فتوے لگائے ، جھوٹے اتہامات کے لئے ایمان فروشی کی مگر (المومن : ۵۲) کا سچا وعدہ کیسے زور سے جلوہ گر رہا.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَ بِّ الْعَالَمِیْنَ.مولوی لوگوں ، فلسفہ ، دہریہ وغیرہ وغیرہ کا مباحثہ تو ذرہ بھی مشکل نہیں بالکل سہل ہے اور ان کا ضرر بھی کوئی معتدبہ ضرر نہیں کیونکہ اس کے باعث جناب الٰہی کی شان میں واقعی کوئی بٹّہ نہیں لگ سکتا.اِلاَّ سردست آپ کی جماعت کچھ ایسا فکر کر رہی ہے کہ اسلام کے نازک سر پر ایک پہاڑ گرا دے اور اس کا سر پھوڑ کر چو ر کر دے اگرچہ انشاء اللہ اسلام کا حافظ و ناصر السلام نام ذات ہے.بُرا ماننے کی بات نہیں.حافظ صاحب! غور کرو کہ ایک طرف مرزا دعویٰ کرتا ہے کہ میں مامور من اللہ ہوں.آپ بھی آج تک اس کی تصدیق کرتے رہے.کم سے کم اگر مفتی و کذاب ہوتا تو آپ لوگ اس سے تعلق نہ رکھتے.پھر وہ کہتا ہے کہ میرے متبع ہمیشہ تک ہاں قیامت تک میرے منکروں پر بڑھے چڑھے رہیں گے.مرزا کا دعویٰ ہے کہ میں امام برحق ہوں جو مجھ امام برحق کو نہ مانے گا جاہلیت کی موت مرے گا.دوسری طرف منشی الٰہی بخش صاحب کو الہام ہوتے ہیں کہ مرزا مسرف کذّاب ہے اور کم سے کم مرزا کی بیعت کو تو آپ بھی ایک لغو امر یقین کرتے ہیں جیسے آپ کے فعل سے ظاہر ہے.پس کیا دونوں الہام مرزا جی کے اور منشی جی کے ایک چشمہ سے نکل سکتے ہیں.ہرگز نہیں

Page 40

 (النساء : ۸۳) آزاد خیال، مخالفان اسلام ، بل عامہ موافقان اسلام کو بھی کیسا موقع ہے کہ کہہ دیں کہ الہام بھی لغو اور بیہودہ چیز ہے کہ ملہم باہم ایسے متخالف ہیں حالانکہ الہام الٰہی ہی اختلاف مٹا دینے کاایک عمدہ ذریعہ ہو سکتا ہے.حیرت ہے کہ ایک طرف تو خد ا کہے کہ تو عیسیٰ بن مریم ، مہدی، مجدد الوقت ہے اور دوسری طرف کہے کہ نہ فلاں شخص تو موسیٰ و عیسیٰ برگزیدہ وہ دوسرا عیسیٰ مفتری و کذاب ہے.اب بتائیے کہ کس معیار سے ہم دونوں میں تفرقہ کریں.حافظ صاحب! غور کرو اور سوچو اور تأمل سے کام لو! آپ کی بعض تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ مرزا خاموش ہو جائے حتیٰ کہ محمدحسین سے صلح کر لے دعاوی ترک کر دے.مگر فرمائیے کہ جس کو الہام ہوتے ہوں کہ تو مہدی ہے.مجدد ہے، عیسیٰ بن مریم ہے تو دعویٰ کر.دعوت میں ہوشیار ہو جا.تو کامیاب ہو گا.وہ آپ کے کہنے پر کیونکر خاموشی اختیار کرے اور امام ہو کر آپ کا کیونکر ماتحت ہو.(الاعراف:۱۲۹)کاپاک جملہ اور تائیدات الٰہیہ کا مقدس سلسلہ یقین دلاتا ہے کہ فیصلہ ہو کر رہے گا مگر انسان کو سعی کرنا لابُد ہے اور سنت اللہ کی مطابق ہے.اس لئے عرض ہے کہ جناب کوئی موقع دیں جس میں اور آپ میں ملیں تو اس معاملہ پر روبرو کچھ گفتگو کی جاوے.یہ ایک خطرناک مصیبت ہے کہ دو آدمیوں کو متخالف الہام ہوتے ہیں اور دونوں منجانب اللہ ہوں.اگر منشی الٰہی بخش صاحب کچھ ارقام فرماتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ مرزا جی لکھتے ہیں بے نظیر شجاع ہیںبلکہ وہ تحریر کو اپنے لئے ایک تائید الٰہی اور کرامت و معجزہ یقین کرتے ہیں وَالْاَ مْرُحَقٌّ.حافظ صاحب! ہماری جماعت میں بھی بہت سارے ملہم ہیں.اگر صرف الٰہی الہام عام اشخاص کا خلفاء اللہ کو خلافت امامت مہدویت سے بیکار کر سکتا ہے تو تمام انبیاء و رسل اور ائمہ مہدیّین

Page 41

کی خلافت باطل ہو سکتی ہے.مجھے آپ کی حق پسند طبیعت او رمصالحت کی خواہش کرنے والی آپ کی ارادت نے یہ خط لکھوایا ہے.آپ اس معاملہ میں بہت غور کر کے کوئی جگہ اور کوئی وقت مقرر فرما دیں جہاں میں اور آپ مل سکیں.شاید حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کوئی عمدہ سبیل نکال دے.صرف آدمی کو اسی واسطے روانہ کیا ہے.آپ ازراہ کرم بہت تامل کے بعد جواب دیں اور بعد از ملاقات کم سے کم آپ انتظاری کر لیں کہ اوّل کہ تائیدا ت الٰہیہ کھلے طور سے اور کامل زور سے کس کے لئے ساتھ ہیں.دوم برس چھ مہینے مخالفت چھوڑ کر آپ لوگ خاموش ہو رہیں اور دیکھیں کیا جلوہ گری ہوتی ہے.سوم انتظار فرماویں کہ(الرعد:۱۸) کا نشان دیکھنے والے کے لئے کس طور پر ظہور فرماتا ہے یا گزشتہ نشانوں سے مقابلہ کریں کہ کھلے طور پر اور زور سے کس کی تائید ہوئی اور دوسری بات میں انتظار کیا جاوے کہ آئندہ برس یا چھ ماہ تک تائیدات الٰہیہ کس کے شامل حال رہتے ہیں؟ چہارم بات یہ ہے کہ دیکھا جاوے کہ کس کا وجود اپنی بقا سے مفید ہے اور کس کا وجود نکما اور بیکار ہو کر دنیا کے لئے برکت کا موجب نہیں ہوتا ہے.(الحکم جلد ۳ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷ ؍ اگست ۱۸۹۹ء صفحہ ۶ ، ۷ ) اسلام پر ایک نظر اسلام نے کوئی عمدہ تعلیم اور پسندیدہ بات نہیں جس کا حکم اور کوئی بُری اور ناپسند بات نہیں جس کی ممانعت نہ کی ہو.بارہا سوال ہوا ہے اسلام کو ہماری معاشرت اور دنیوی امور میں دخل ہے یا نہیں؟ مجھے یقین ہے اسلام ہمارے ان امور میں جن کا تعلق ہماری عام حالت صحت اور مرض سے ہے راحت بخش مقنن ہے یہ صحت یا مرض روحانی ہو یا جسمانی.ہاں ایسے امور میں جو خاص ملک یا خاص آب وہوا یا خاص اسباب مختص الزمان یا مختص المکان کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں.اسلام آزادی بخش مذہب ہے.

Page 42

توحید کا بیان توحید کا وہ بیان کہ ہادی علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی عبودیت کا اقرار ایمان کا لازمی جزو قرار دے.کوئی انکار کر سکتا ہے کہ کتب سابقہ کے ان الفاظ نے’’ اسرائیل میرا پہلو ٹھا‘‘ ہے.’’میرا اکلوتا بیٹا‘‘ ’’ موسیٰ خدا سا‘‘ وغیرہ وغیرہ اور سجدہ کی عام رسم نے توحید الوہیت میں نقصان نہیں پہنچایا؟ ویدوں میں اگر صاف صاف حکم ہوتا کہ سورج اور چاند اور عنصری آگ اور دیووں کو سجدہ اور عبادت نہ کرو تو یہ جھگڑا جو از یا عدم جواز بت پرستی کا آریہ ورت میں کیوں پڑتا.اخلاق کا بیان اخلاق وہ کسی نبی پر کوئی اعتراض نہیں سب کا ماننا سب کا ادب اسلام میں ضرور ہوا.(البقرۃ :۸۴) (لوگوں سے بھلی باتیں کہو.) (الأَنعام :۱۰۹) (اور تم لوگ ان کو بُرا نہ کہو جو ماسوی اللہ کو پکارتے ہیں).اس سے بڑھ کر کون حکم ہے جو مصدر اخلاق ہو سکے؟ تعجب آتا ہے الزامی طور پر بھی قرآن عیوب کا اشارہ نہیں کرتا.اوامر و نواہی آپ نے کوئی حکم ایسا نہیں فرمایا جس میں آج ہمیں کہنا پڑے کہ کاش اسلام میں یہ حکم نہ ہوتا.کسی ایسی چیز سے منع نہیں فرمایا جس میں آج ہم کو یہ کہنے کی ضرورت ہو کہ کاش اسلامیوں کو منع نہ فرماتے.تمام عمدہ اور ستھری چیزوں کی اجازت ہے کل بُری اور خبیث اشیاء سے ممانعت ہے.نہایت پسندیدہ صفات میں عدل تھا.(النحل :۹۱) (تحقیق اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے) فرما کر اُس کی تاکید کی اور ظلم سے(ھود :۱۹) (خبردار ہو خدا کی لعنت ظالموں پر ہے) کہہ کر سخت ممانعت کی( شرک بڑا ظلم اور عدل کی ضد ہے).صدق میں (التوبۃ:۱۱۹) (مومنو!تقوی اللہ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ)کہا اور کذب کے حق میں (اٰل عمران :۶۲) (جھوٹے پر خدا کی لعنت ہے)فرمایا.منشاء صفات کاملہ علم

Page 43

ہے اس کے لئے(طٰہٰ :۱۱۵) (کہ اے رب میرا علم بڑھا).آیا منشاء شرور جہل ہے اسے (ھود :۴۷) (میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے نہ ہو)کہہ کر ہٹایا.احسان کی ترغیب  (الاعراف :۵۷) (اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے)سے ظاہر ہے اور مدمقابل کی برائی  (البقرۃ :۲۰۶) (اور جب پیٹھ پھیرے دوڑتا پھرے ملک میں کہ اس میں ویرانی کرے اور ہلاک کرے کھیتیاں اور جانیں اور اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا)سے عیاںہے.معاد اور قیامت کا اعتقاد معاد اور قیامت کا اعتقاد جو ہر خوبی اور نیکی اور دلی محبت وسلوک کا سرچشمہ اور تمام خوشیوں اور امیدوں کی غایت ہے ایسے دلائل قویہ قانون قدرت سے مستحکم کیا ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں.جادو ٹونے سے ممانعت اور تاکیدی امر ہاں علوم میں جادو ٹونے نجوم کا عملی حِصّہ وغیرہ روایات سے  (ا لبقرۃ : ۱۰۳) (اور پیچھے لگے ہیں اس علم کے جو پڑھتے تھے شیطان سلطنت میں سلیمان کی)فرما کر منع فرمایا.تمام امت کو کس امر کی تاکید کی؟ امت کو کیا کام سپرد کیا ؟   (اٰل عمران :۱۱۱) (یعنی تم سب امتوں سے جو پیدا ہوئیں بہتر ہو لوگوں میں پسندیدہ باتوں کا حکم کرتے ہو اور بُری اور ناپسندیدہ باتوں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو).اسلام کی خوبی اسلام کی خوبی کیا بتائی مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہ مَالَا یَعْنِیْہِ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنۃ حدیث ۳۹۷۶)یعنی اسلام کے معترف مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے فائدہ غیر مقصود چیز کو چھوڑ دے اور پھر ایمان کا مدار اس پر رکھا لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی

Page 44

یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہٖ) یعنی تم میں سے کوئی مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے اس چیز کو دوست نہ رکھے جو وہ اپنے نفس کے لئے دوست رکھتا ہے.یہ ہے اسلام اور اس کی تعلیم اب بتلاؤ کہ ایسے ملک میں جو سراسر جہالت ہو اور کوئی کتاب اس ملک میں نہ ہو ایسی سیرت اور تعلیم کا آدمی جس کی تمام تعلیم قویٰ فطری اور قانون قدرت کے موافق ہو جس میں تمام روحانی ضرورتیں موجود ہوں اگر معجزہ اور خرق عادت نہیں تو نظیر دو.(الحکم جلد۳ نمبر۳۰ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۸۹۹ء صفحہ۲ ،۳) مکتوب بنام مولوی عبدالجبار غزنوی ثم امرتسری ذیل میں ہم اپنے محسن و مخدوم حضرت مولانا مولوی حکیم نور الدین صاحب سلمہ ربہ کا ایک اور گرانقدر گرامی نامہ درج کرتے ہیں جو مولوی عبدالجبار غزنوی ثم امرتسری کے نام آپ نے مسلمانوں کو اس حالت پر رحم کھا درد دل سے لکھا تھا جوآج کل روحانی طور پر خصوصاً بگڑ رہی ہے.ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ یہ بتلایا جاوے کہ یہ خط کیوں لکھا گیا اور اس کا کیا نتیجہ ہوا.ہمارے ناظرین سے یہ امر اب پوشیدہ نہیں رہا کہ لاہور میں منشی الٰہی بخش اکائونٹنٹ نے کچھ دنوں سے الہامی رنگ میں حضرت اقدس کی مخالفت کا اظہار کیا ہے اور اپنی دو چار پرانے رفقاء کی دوست نوازی کی بنا پر کچھ ہاتھ پیر نکالے ہیںچونکہ اس سے ایک عظیم الشان اور خطرناک حربہ اسلا م پر ہوتا ہے کہ جب کہ ایک ہی مقدس ذات سے الہامات کا سلسلہ جاری ہے پھر کیا وجہ ہے کہ متضاد الہام ہوں؟ ایک کو اوّل المومنین اور مسیح موعود ہونے کا الہام ہو اور دوسرے کو اس کے خلاف.اس لئے حضرت اقدس نے عامۃ المسلمین کی بھی خواہی کے لئے چاہا کہ ان مخالف الہاموں کو جمع کر کے توجہ کی جاوے تاکہ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ او ر یقین کی راہ نکال دے.اس پر ہمارے محسن و مخدوم حضرت مولانا نے غزنوی گروہ کے امام کے نام ذیل کا خط لکھا تاکہ ان کے پاس جو الہام حضرت اقدس کے خلاف موجود ہوں وہ لکھ کر بھیج دیں.ان خطوط سے جو مختلف اوقات میں کبھی حافظ محمد یوسف کبھی منشی الٰہی بخش

Page 45

کبھی مولوی عبدالجبار وغیرہ کے نام لکھے گئے کوئی غرض اور غایت بجز اس کے نہ تھی کہ تامسلمانوں پر رحم کر کے ان کو اس ٹھوکر سے بچایا جاتا اور اُس صدمہ سے محفوظ رکھا جاتا جو ان کو اس ابتلا سے پہنچ سکتا تھا.مگر افسوس اور صد افسوس کہ ان لوگوں کو رحم نہ آیا اور حوصلہ نہ پڑا کہ ان الہامات کو شائع کرتے یا ان کی ایک نقل ہی جیسا کہ مانگی گئی تھی دیتے.مولانا صاحب کے اس خط پر یہی جواب دیا گیا کہ ہمارے پاس کوئی نقل نہیں اور بجائے اس کے کہ مولانا صاحب کی اس درد دل کی جو ان کو مسلمانوں کی ایسی حالت پر ہمیشہ پہنچتا ہے کچھ قدر کی جاتی اور ان کے سچے اخلاص سے فائدہ اٹھایا جاتا یہ مشہور کیا گیا کہ حضرت مولانا صاحب نے معاذ اللہ حضرت اقدس سے قطع تعلق کر لیا ہے.غرض جھوٹی اور ناپاک افواہیں اُڑائی گئیں جن کی تردید الحکم کے ذریعہ ہم خود اور حضرت مولانا کے خطوط سے کر چکے ہیں اور اس خط کے اندراج کا وعدہ بھی کیا تھا علاوہ اس کے ملہم پارٹی کے نام خطوط کے سلسلہ میں سے یہ ایک خط ہے اس لئے اس کو درج کرنا ضروری سمجھا.اُمید ہے کہ ہمارے ناظرین اور عام پڑھنے والوں کے لئے فائدہ سے خالی نہ ہو گا اور وہ گرامی نامہ یہ ہے.( ایڈیٹر الحکم ) بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم.خاتم الانبیاء واٰ.لہ مع التسلیم من نور الدین الی الفاضل عبدالجبار اما بعد.السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ فقیر خاکسار نے آپ کی کتاب تلبیس ابلیس بھیج دی ہے انشاء اللہ تعالیٰ پہنچی ہو گی اس وقت اپنا رضاعی برادر حافظ محی الدین ایک دینی غرض کے لئے روانہ کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اِنَّ الدُّنْیَا قَدْ فَسَدَتْ بِلَادُھَا عَامِرَۃً وَہِیَ خَرَابُ الْاَمْنِ کَانَ اللّٰہُ وَفِی عَوْنِ اللّٰہِ فَلَہُ الْفَوْزُ وَ حُسْنَ مَاٰبٍ.جناب من! ایک درد مند دل جس کو الٰہی رضامندی مقصود ہے وہ بھی بعض وقت اپنی بعض غفلتوں اور نادانیوں سے ابتلا میں پھنس کر ہلاکت تک پہنچ سکتا ہے.وَلَا عِصْمَۃَ اِلَّالِمَنْ

Page 46

عَصِمَہُ اللّٰہُ اس واسطے مجھے ایمان بَیْنَ الْخَوْف وَ الرِّجَآئِ مل جاو ے تواُمید واثق ہے کہ میرا انجام اچھا ہو.ہاں میں جہاں تک اپنے آپ کو دیکھتا ہوں میرے لئے ایک بات بحمد اللہ موجود ہے کہ میں الٰہی رضا کا طالب اور اس کا امیدوار ہوں اور غضب الٰہی سے خائف اور خائف فی اللیل والنہار ہوں.میں نے بایں اعتقاد اوّل کتاب اللہ او رپھرسنت رسول اللہ کو ایام فتن میں اپنے دائیں بائیں ہمیشہ رکھا ہے اور آئمۃ الاسلام، آئمہ اربعہ فقہا اور آئمۃ التفقہ و الحدیث بل ائمۃ اہل التصوف کی محبت کو بھی بحمد اللہ لمحہ کے لئے نہیں چھوڑا.اگر آپ سوچو تو عبدالواحد کو اپنی لڑکی امامہ رحمہا اللّٰہ کا نکاح تمہارے والد ماجد کی محبت کا ہی ثمرہ تھا.ابتدا سے میرے کانوں میں شیخ الاسلام الشیخ ابن تیمیہ و تلمیذ الشیخ ابن قیم کی مذمت پہنچی مگر میرا دل ان کی محبت سے پُر ہے.میں موافق اور مخالف کی باتیں سن لیتا ہوں مگر مجھے بحمد اللہ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی محبت میں ترقی ہوتی ہے میں نے دنیا کے بڑے بڑے تعلقات اور آمدنی کو جو بظاہر مفید عام ہوتی ہے یا راحت رساں ترک کر کے قادیان کی اقامت چند ایسے ہی امور پر نظر کر کے اختیار کر لی ہے.میری عمر کا بڑا حصہ گزر گیا ہے اور کم باقی معلوم ہوتا ہے قسم قسم کے امراض آئے دن لاحق ہوتے ہیں اس لئے میں کون سی دنیوی امید پر مولی کریم کو ناراض کرنے کی جرأت کر سکتا ہوں.میں نے تجربۃً الہامات الٰہیہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کو صادق یقین کیا ہے اور ہر طرح کامل ارادہ اور استقلال سے اس کا ساتھ دیا ہے.دنیا کے لعن و طعن کی پروانہ کی.وَھٰذَا اَمْرٌ ظَاہِرٌ اَجِدُ الْاِخْفَائَ فِیْہِ آفتاب آمد دلیل آفتاب.لا کن آجکل ایک عظیم الشان امر پیش آ گیا ہے جس میں آپ سے اعانت چاہتا ہوں.وَاَعْتَقِدُ اَنَّ الْمُعِیْنَ ھُوَ اللّٰہُ یَارَبَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی اعانت بمصداق مَاکَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِیْہِ الْمُسْلِمِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ عَوْنِہٖباعث برکات ہو گی اور وہ امر عظیم یہ ہے کہ مجھے میاں الٰہی بخش اکائونٹنٹ اور عبدالحق الغزنوی اور مولوی محی الدین لکھو کے والے اور آپ کے حدَّاد کی نسبت بھی

Page 47

کامل یقین ہے کہ ہر ایک ان میں سے مفتری علی اللہ نہیں اور ہرگز نہیں اور میں نے پختہ طور پر سنا ہے کہ ان لوگوں کو مرزا جی کے خلاف الہامات ہوتے ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ ان مخالف الہامات کو سنوں.آپ سعی فرماویں کہ ایک مجموعہ ایسے الہامات کا جو مرزا جی کے خلاف ہوں جمع کر لوں پھر اُس پر کامل توجہ اور غور سے کام لوں آپ ضرور کوشش سے کام لیں.اس میں ہر طرح انشاء اللہ فائدہ ہے ضرر کا واہمہ نہیں وَ مَا رَئَیْتَ مِنِّیْ خُبْثًا قَطُّ.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.(الحکم جلد ۳ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱؍ اگست ۱۸۹۹ء صفحہ ۶) نور دین یہ ایک قابل قدر خط کا عنوان ہے جو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں اور جس کو ہمارے محسن و مخدوم حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب ایدہ اللہ بروح القدس نے مولوی … صاحب کے نام لکھا ہے.اس خط کی اشاعت سے لاہور کی مخالف ملہم پارٹی کو بھی اپنے اس اعتراض کی حقیقت معلوم ہو جاوے گی جو اس نے قاضی سلیمان پٹیالوی کی کا سہ لیسی کر کے حضرت حجۃ اللہ فی الارض جناب مسیح موعود علیہ السلام پر کیا تھا.چونکہ یہ گرامی نامہ بہت سے شکو ک کو رفع کرنے والا اور تاریکی کے فرزندوں کو نور ہدیٰ دکھانے والا ہے اس لئے ہم اس کا نام نور دین ہی رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس خط کے ذریعہ وہ غرض پوری کرے جس کو ملحوظ رکھ کر ہمارے مخدوم نے اس کو لکھا ہے.(ایڈیٹر الحکم ) راز ہا را می کند حق آشکار چون بخواہد رست تخم بدکار مولوی صاحب مکرم معظم مولوی کرم دین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جناب کو معلوم ہوگا کہ راقم بھی ابتداء سن تمیز سے لے کر اپنی عمر کے بہت بڑے حصہ تک ان ملاّنوں کو دیکھتا رہا ہے بل ان کو اب تک دیکھتا ہے جن کا سرمایہ فخر و امتیاز نہایت ہی محدود

Page 48

کتابیں اور تھوڑا سااپنا محدود علم ہے بل اگر آیت کریمہ(فاطر : ۲۹) کے لحاظ پر اُن کا امتحان لیا جاوے تو ان کو عالم کہنا اور ان کے چند طر ہات کو علم سمجھنا صحیح نہیں.ان کی شامتِ اعمال سے ان کو ابتدا ہی میں ضَرَبَ یَضْرِبُ ضَرْبًا پڑھایا گیا اور یہ خود بھی پڑھاتے ہیں.ضارب کامبتد ابننے کی لیاقت اور سکت ان میںکہاں تھی کہ کہتے اَنَا ضَارِبٌ آخر نامردی سے بول اٹھے فَھُوَ ضَارِبٌ.آپ کو مجھے محبت ہے اور مجھے آپ سے اخلاص.پس اگر میں یہاں یہ فقرہ لکھ دوں کہ آخر آپ نے بھی مرزا صاحب پر اور آپ کے صادق کلام پر ٹھوکر کھائی تو سلیمان کی قضا پر.اَیْ فَھُوَ ضَارِبٌ لَا اَنَا ضَارِبٌ.تعجب ہے کہ آپ ذہین ہوشیار نوجوان اور سمجھدار ہو کر دھوکے میں آ گئے اور ذر ہ بھی خیال نہ کیا کہ ایک طرف ایک عظیم الشان دعویٰ کا مدعی اپنی تحریر میں بائبل کے حوالہ سے کچھ لکھتا ہے اور دوسری طرف ایک ملاّ صاحب اس کی تکذیب کرتے ہیں.پس ہمیں کم سے کم مناسب ہے کہ نقل کی تصحیح تو کرلیں.علم مناظرہ کے ابواب میں آپ صاف پائیں گے کہ نقل کے لئے تصحیح کافی ہے.آپ تصحیح نقل کر لیتے توآپ کو’’ سخت کھٹکا ‘‘ کا صدمہ نہ پہنچتا.جناب من ! جس باب سے علوم کی ابتدا ہوئی ہے اس میں ضرباً کا لفظ لفظ فعلاً کے قریباً مساوی ہے اور غالباً پہلوں نے اس عموم کو خیال کیا ہو مگر ان خلف نے تو اَلضَّرْبُ زدن وَالْقَتْلُ کشتن ہی سیکھا.پس جن کے لئے الف یہ ہے انہوں نے یا تک کیا کیا سیکھا ہو گا.مجھے یاد ہے کہ میں جب کم عمر تھا ایک میرے پنڈداد ن خانی دوست نے بڑے فخر اور طمطراق میں آکر اور بقدر عقل خود عمدہ بات خیال کر کے مجھے کہا کہ میں نے ایک صرف ہوائی کی یا بہائی کی ایک شرح پیدا کی ہے.اس کا نام ( مچئی ) ہے اور مچئی پشتو میں بَرْ کو کہتے ہیں جسے عام

Page 49

پنجابی لوگ تنبوڑی اور مہذب لوگ زنبور کہتے ہیں یہ نہایت عمدہ حاشیہ ہے بات بات پر اعتراض کرتا ہے واہ کیا خوبی ہے.جناب من! وہ شرح یا اس کی اور اخوات ان کی معراج کا پہلا زینہ ہے جس کی سدرۃ المنتہیٰ کا نتیجہ سلیمان کی غایت المرام بھی ہے.غایۃ کے بعد سنا ہے کہ اس کا اور مکالمہ بھی شائع ہواہے غالباً وہ ان کا نزول ہو گا.وَاِلَّا فَلَیْسَ لِلْغَایَۃِ غَایَۃٌ.ہاں میری اس تحریر پر وہ اعتراض کر سکتے ہیں مگر جناب فہم والے انشاء اللہ تعالیٰ سمجھ بھی لیں گے کہ ہیچ نیست و اعتراض ہیچ نیست.ایام طالب علمی میں بمقام رامپور ( رو ہیلکھنڈ) طلبہ موجودہ سے سوال کیا گیا کہ میرزاہدرسالہ اور میر زاہد امور عامہ بل ملّا جلال جو تعلیم میں ہے کس علم کی کتابیں ہیں تو ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے.یہ صرف خیالی باتوں میں جھگڑنے والے کیا کہتے.اَلضَّرْبُ زدن پر پہنچانے کی سکت نہ تھی.مولانا ان کی بد قسمتی سے یا ان کے ابتلا کے لئے ان کے مختار اور پسندیدہ اُن کتابوں میں جن کو یہ قرآن کریم کی طرح یاد کرتے ہیں بلکہ میرے ایک بوڑھے اور آپ کے قریب رہنے والے دوست نے ذکر کیا کہ ان کے ہم مکتب نے اسی ایک متن کی شرح پر چالیس حواشی کو سبقاًسبقاً پڑھ کر اَنَا وَلَا غَیْرِیْ کا عہدہ حاصل کیا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ لَااِلٰـہَ غَیْرُکَ.قرآن کریم کے مخالف لفظ کلمہ کی تعریف کی گو لِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ کا عذر اس کے لئے گھڑا جاوے گا مگر اِذَا جَائَ نَھْرُاللّٰہِ بَطَلَ نَھْرُ مَعْفَلِ اور وہ تعریف قرآن مجید کے مخالف، احادیث صحیحہ کے مخالف، عام اہل اسلام کے مخالف.کلمہ کو لفظ مفرد کہا ہے جو صدق کا متحمل نہیں ہو سکتااو رقرآن کریم فرماتا ہے   (الانعام : ۱۱۶)اور رسول رئوف رحیم کا ارشاد ہے اَصْدَقُ کَلِمَۃٍ قَالَہَا …لَبِیْدٌ اَلَا کُلُّ شَیْئٍ مَاخَلَا اللّٰہُ بَاطِلٌ(صحیح البخاری ،کتاب مناقب الانصار باب ایام الجاھلیۃ).

Page 50

پھرعامہ مومنین کا سچا اور پکا قول ہے جب ان کو کہا جاوے پڑھو کلمہ تو لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہتے اور پڑھتے.بہرحال قرآن مجید کو ترک کر کے کہاں سے کہاں جا پہنچے.قرآن کی تفسیر بیضاوی سوا پائویا سوا سیپارہ عمل کے لئے نہیں بل اس لئے کہ اس میں علم ادب کے نکات ہیں پڑھ لیتے ہیں.جناب من! میں نے جب سے حضرت مسیح موعود اور مہدی مسعود، مرسل یزدانی، ملہم ربانی مرزا غلام احمد قادیانی سلمہ اللہ کا دامن پکڑا ہے مجھے ان لوگوں کے مقابلہ پر لکھنے کے لئے میرے دوست اور احباب نے بارہا مجھے ایماء ً اور بالآخر صریحاً کہا کہ تو بھی کوئی کتاب لکھ بلکہ بعض ہمارے آشنائوں نے سخت الفاظ سے بھی کہا.کل کی بات ہے جب آپ کا خط مجھے مولانا الامام علیہ السلام نے دیا ، تو میرے قابل قدر دوست نے بلند آواز سے فرمایا نور الدین کب لکھے اور کب صاحب خط کو جواب ملے اس وقت میرے دل پر جو گزرا اس کا انداز ہ بشر کا کام نہیں وہ میرے مولیٰ کریم کو معلوم ہے.کچھ اپنے پر کچھ اپنے ملائوں پر غم کر کے خاموش ہو گیا لِکُلِّ امْرِئٍ مَانَوٰی.میری خاموشی کا باعث کچھ تو میری کم مائیگی کچھ جوش شدید کا عطا نہ ہونا کہ مجھے مجبول ہو کر کام کرنا پڑے اور بڑا سبب یہ ہے کہ ان کا جواب وہی ( مچئی) کیسی بہت کتا بیں لکھوانا ہے یہ لوگ ہمیشہ بہادری میں پھنسنا پسند کرتے ہیں اور اسی میں خوش ہیں.غور کر لو.گو صرف و نحو ضروری ہیں مگر مبادی.پھر نہایت خطرناک غلط منطق میں کہ جو کچھ ہے سو ہے مگر مبادی میں سے.اگر میںنے کہا بھی تو یہ مبادی کو غایت پر ناپسند کر کے وقت کو تباہ کریں گے.مامور من اللہ تو معذور ہے اس کی باتیں نرالی وہ تواس جماعت کا انسان ہے جو یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمََرُوْنَ آخر جناب نے بھی مبادی سے ’’ سخت کھٹکا ‘‘ کی دقت اٹھائی.آپ سوچتے کہ لَوْ فَرَضْنَا بِفَرْضِ مُحَالٍ اَوْ فَرْضِ غَیْرِ صَحِیْحٍحوالہ غلط ہے تو اصل بات کیا ہے آیا تاویل ا

Page 51

الہام میں ملہم کو غلطی ہوتی ہے یا نہیں جس کا پتہ ذَھَبَ وَھْلِیْ اور سفر حدیبیہ سے لگ سکتا ہے.مولوی صاحب ! آج کل تو فتن دجال کے باعث بائبل ہر ضلع میں مل سکتی تھی آپ نے تاریخ کی دوسری کتاب کا اٹھاراں باب دیکھ لیا ہوتا تو جناب کو کمثل الصبح معلوم ہو جاتا کہ یہ سلیمان کا اعتراض من سلیمان ہے یا نہیں.کیا خوب ہے جو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فوزالکبیر میں یہود کے حالات لکھتے ہوئے ان علماء پر متوجہ ہو کر فرماتے ہیں.اگر نمونہ یہود خواہی کہ بینی علمائے سوء......تماشا کن کانھم ھُم۱؎ اور مجدد الف ثانی رحمۃاللہ تو ان کو اور ان کے طلبہ کو نصوص دین لقب سے ملقب فرماتے ہیں.جناب نے گوامام الوقت مسیح الزمان لکھ کر السلام علیکم ورحمۃ اللہ لکھا مگر مرزا صاحب کے الفاظ مرسل یزدانی اور ان کے مرید وں کے واقعی نہ بطور استعارہ و مجاز بل حقیقت کے طور پرمرسل یزدانی کو جناب نے خود ہی استعارہ و مجاز کے نیچے لانا پسند فرما کر کہا ہے کہ کیوں ایسے دھوکے کے الفاظ استعمال میں لائے جاویں.جناب من! یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا تو اس کتاب کی بھی صفت ہے جو اختلاف مٹانے کو نازل ہوئی اور جس کا نام نور، ہدایت، رحمت، فضل، شفاء ہے.پس اگرنا فہم ابتلاء میں پڑے تو کیا جرح ہے.کیا حتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ ضروری نہیں.عبودیت کا قرار جو ہمارے سید و مولیٰ خاتم النبیین رسول ربّ العٰلمین صلی اللہ علیہ وآلہٖ الیٰ یوم الدین نے فرمایا وہ واقعی اور سچا اور بجا تھا جیسے ایک مامور من اللہ کا مجدد مرسل یزدانی ہونا سراسر حق اور حقیقت پر مبنی ہے مرسل یزدانی کا کہنا خود توحید کا قرار ہے.اس طعن کے بعد کہ مرسل یزدانی کہنا دھوکا دہی ہے حالانکہ خود حضرت مرزا صاحب اپنے آپ کو مرسل من اللہ یقین کرتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ آپ کی تصنیف کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں یہ ہے العجب.۱؎ الفوز الکبیر فی اصول التفسیر صفحہ ۹

Page 52

آپ کی رؤیا بین اوّل ظَالِمُوْا اَنْفُسِہِمْ ہے جو آپ اب اسی لفظ کو قرآن میں ایک جگہ ملاحظہ فرمائے.(فاطر : ۳۳) اِلّا آپ کا رئویا اور خواب پورا صاف بھی نہیں کیونکہ اس کا بہت حصہ آپ کے فہم میں نہیں آیا اور اس کی مبین وہ رئویا صالحہ بکثرت اور ملہمین کی موجود ہیں جن کو بطور مشتے از خر وارے بسبیل ڈاک روانہ کرتا ہوں.آپ اپنی رئویا کو اس سے مقابلہ دو.پھر آپ نے سیاہ رنگ بھیڑیں دیکھی ہیں وہ قادیان کی طرف جاتی ہیں اور وہ عذاب ہے جو قادیان کی طرف چلا جاتا ہے.مولانا اوّل تو بھیڑیں سیاہ گوہ ( قذر) کھانے والی اور پھر وہ قادیان میں نہیں.قادیان کی طرف انشاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھ لیں گے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.مگر مولانا قادیان کی طرف تو راستہ میں بہت سارے اعداء بھی موجود ہیں.ہم نے مانا کہ وہ عذاب ہے مگر قادیان میں نہیں بلکہ قادیان کی طرف غالباً لاہور اور بٹالہ راستہ میں ہے وہاں کسی پر گرے.اگر جناب پسند فرماویں تو میرا منشا ہے کہ آپ اس رئویا کو بذریعہ اشتہار شائع فرماویں اس اشاعت کا نتیجہ انشاء اللہ بہت عمدہ ہو گا اور غیب تو وہی عمدہ ہوتا ہے جو لکھ کر عام طور پر سامنے کیا جاوے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (الطور : ۴۲).آپ کی رئویا شائع کی جاوے تو آپ کو پتہ لگے کہ پیشگویوں کا پھیلنا کیسا امر ہے.اب میں پھر آپ کے سخت کھٹکے کے باعث پر توجہ کرتا ہوں.جناب کو شاید بائبل نہ ملے اس لئے باب نقل کر کے خدمت میں روانہ کرتا ہوں ذرا غور کرو کہ وہ بعل کے نبی تھے یا خداوند کے اور وہ روح خدا تعالیٰ کی حضور سے پروانگی لے کر ان انبیاء ؑ کے پاس آئے تھے یا بعل سے.پھر اس راستباز نبی نے بھی پہلے انبیاء کی ہاں سے ہاں ملائی تھی یا نہیں.پھر اگر آپ کی تسلی نہ ہوتو جناب مجھے براہ راست اطلاع بخشیں تاکہ میں جناب کو اس کی تفسیر معتبرین مفسرین کے حوالہ سے مفصل لکھ سکوں وَالْاَ مْرُ سَہْلٌ.

Page 53

میں پھر جناب کو عرض کرتا ہوں کہ جناب کثرت دعا اور کثرت استغفار کے بعد بہت تدبر اور غور سے کام لیں.فَاُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَقَدْ فَازَ الْمُتَّقُوْنَ.وَاِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ہُمْ مُحْسِنُوْنَ.۵؍نومبر ۱۸۹۹ء.( الحکم جلد۳ نمبر۴۲ مورخہ ۲۴؍ نومبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۱ تا ۳) مولا کریم کی ہستی پر چند باتیں ہمیں جس قدر قویٰ عطا ہوئے وہ سب کے سب مفید اور مثمر ہی ثابت ہوئے خود ہمارے تمام علوم ہمارے حواس خمسہ اور ہمارے قویٰ طبعیہ سے شروع ہوئے ہیں.بصر، اذن، لامسہ، شامہ، ذائقہ، اعضاء تنفس، قوت جذب شیر، مصورہ سب کے سب مفید ثابت ہوئے.سمع ہی سے پہلے میں نے اپنے اللہ ربّ العالمین ، رحمن، رحیم، مالک یوم الدین کا نام سنا.اور آج بعد ترقیات جوغور کیا تو تمام علوم کے آلات اور دنیوی انتظامات میں سمع ہی کو یا سمع کو بھی ایک عظیم الشان آلہ پایا.ماں باپ کو سمع سے ماں باپ یقین کیا.اور ان کے اموال، عزت قوم سے اس یقین پر نفع اٹھایا.اساتذہ کے پاس سمع کے بعد پہنچے، سیروسیاحت، تجارت و زراعت، ملازمت کی جڑیں سمع سے شروع ہوئیں.زبان سمع سے سیکھی ہاں امّاں، ابّا پانی سمع سے پایا.یہ ضرور ہے کہ سمع میں غلط جڑیں اور غیر واقعی امور بھی پہنچتے ہیں.مگر ایسے مشکلات علوم صحیحہ سے مانع نہیں ہو سکتے ایک کی غلط بیانی دوسرے سے دریافت پر معلوم ہو سکتی ہے والّا تیسرے سے وَہَلُمَّ جَرًّا … مولیٰ تیرانام سنا امّاں سے ابّا سے اخوان سے احباب سے اساتذہ سے اور تجھے عین حسب الفطرت مانا اور تجھ پر یقین کیا کہ تو ہے اور ضرور ہے پھر بڑے ہوئے اور آزاد ہوئے تو تیرا ہونا ان سے سنا جنہوں نے تجھ سے یا جن سے تو نے مکالمہ کیا اور ان کی سامعہ کو اپنے کلام سے معزز و مسعود فرمایا.پھر بڑھے تو اسلام، نصرانیت، یہودیت، مجوسیت (یعنی مجوس الایران والہند) آریہ، براہمہ سے آخر اسلام کے امام الوقت راستباز سے پھر آخر تو جانتا ہے کہ تجھ سے ہاں تجھ سے

Page 54

ناتجربہ کار نیچری نے غلط کہا ہاں تجھی سے کہ مَنْ جَمَعَ الْقُرْآنَ فَقَدْ تَسَنّ وَ تَصَانَ.بَطْنُ الْاَنْبِیَائِ صَامِتٌ ۱؎ اس پاک عنایت کا مکالمہ تیرا ہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان کو مجاز بولنے پر مجبور کردیا ہے اور اس کہد پر ۲؎ (کھ.دھ ر) کے کنارے پر کہ ہم کیاکریں.اور تو نے اس اپنے بندے کو جو میرے لئے دعا کررہا تھا کہا  ( العنکبوت: ۴۴) کیا دنیا میں سمعی یقینات کی شہادت اس سے زیادہ ملنا ممکن ہے؟ نہیں اور ہر گز نہیں.یہی امر ملائکہ اور کتب اور یوم آخرۃ کے عجائبات پر بھی بس نہیں بلکہ نبوت و قدر کے مسئلہ پر بھی گو دونوں اور ذرائع سے بھی ثابت ہوچکے ہیں.احادیث۳؎ پر اعتراض بھی اسی کے لگ بھگ ۱؎ حاشیہ.یہ حضرت مولانا المکرم کا الہام ہے آپ نے بارہا ذکر کیا ہے کہ ایک بار میں معمول سے کسی قدر زیادہ کھانا کھا گیا.پیٹ میں ریح ہوئی اس پر مولا کریم نے مجھے فرمایا بَطَنُ الْاَنْبِیَائِ صَامِتٌ.یہ الہام آپ کے وارث علوم الانبیاء اور معلم القرآن ہونے پر ایک زبردست شہادت ہے اور خود حضرت اقدس امام الزمان سلمہ الرحمن نے آپ کی نسبت فرمایا ہے کہ مولوی صاحب کی تفسیر آسمانی تفسیر ہوتی ہے.(ایڈیٹر) ۲؎ حاشیہ.یہ بھی مولانا کے الہام ہیں یہاں ان کو صرف اس وجہ سے حضرت مولانا نے درج فرمایا ہے چونکہ آپ خدا تعالیٰ کی ہستی پر وجوہ ایمان سے ایک وجہ یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ تجھ سے بھی سنا اس لئے اس کے ثبوت میں یہ چند الہام لکھے ہیں یہاں ان کی تشریح کی ہم کو کوئی ضرورت نہیں.خود مولانا صاحب نے نہیں لکھی اور عندالدریافت یہ اپنے خاص اسرار بتلائے.(ایڈیٹر) ۳؎ حاشیہ.ہم ذرا تفصیل کے ساتھ اس امر کو بیان کردینا ضروری سمجھتے ہیں.بعض ناعاقبت اندیش احادیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ یہ سمعی باتیں ہیں اور بعد ازوقت لکھی گئی ہیں لہٰذا قابل یقین نہیں؟ اس کے جواب میں حضرت مولانا صاحب نے لکھا ہے کہ اگر تمام سمعیات قابل اعتبار نہیں ہوتیں تو پھر دنیا میں کسی چیز پر بھی اعتبار نہیں رہے گا اور سب سے انکار کرنا پڑے گا.والدین کے والدین ہونے سورج کے سورج ہونے غرض ہر ایک بات کے وجود میںشک کرنا پڑے گا یہاں تک خدا تعالیٰ کے وجود میں بھی اور تمام حقائق الاشیاء سے منکر ہونا پڑے گا جو ببداہت باطل ہے.پس معلوم ہوا کہ یہ اعتراض احادیث کی عدم صحت پر صحیح نہیں ہے.(ایڈیٹر)

Page 55

ہے.کیا سمعیات میں اگر غلطی موجب عام عدم اعتبار ہے تو تمام سمعیات کا انکار کرنا پڑے گا اور یہ ببداہت غلط ہے.تعجب تو ان پر ہے جوپر یقین لاتے اور اس کے آگے (البقرۃ : ۲۸۳) پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر احادیث کے اس لئے منکر ہیں کہ بعض احادیث پر جرح ہوسکتی ہے.حالانکہ لغت، صرف و نحو اس کے بھی ما بعد ہے اور اس کے راوی بہ نسبت عظیم الشان تابعین کے بالکل ہیچ میرز ہیں.پس جو لوگ حواس سے کام نہیں لیتے وہ مصداق  ( البقرۃ : ۱۹)اور ( البقرۃ : ۱۷۲) (الحکم جلد ۴نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ ؍مارچ ۱۹۰۰ء صفحہ ۴) الاعلام مسیح موعود ؑ کے آستانہ مبارک کی چند ضرورتیں میں عرصہ دراز سے بحضور حضرت امام حجۃ الاسلام سلمہ اللہ تعالیٰ سعادت اندوزرہا اور اب بھی ہوں ہمیشہ حضرت ممدوح کی محنتوں اور مشقتوںکو دیکھتا تو مجھے جوش اٹھتے تھے کہ الٰہی کوئی دینی خدمت مجھ سے بھی ہوتی اور خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے توفیق عطا ہو.بحمداللہ یہ مراد اس طرح پوری ہوئی کہ عید الاضحیٰ کے بعد چند احباب کے حضور فقیرنے یہ امر پیش کیا کہ یہاں مقام قادیان حضور امام حجۃ الاسلام کے آستانہ مبارک میں چند ضرورتیں ہیں.اول:.چند نو مسلم نوجوان موجود ہیں جن کے لباس اور تعلیم اور دوسری ضروریات کا کوئی انتظام نہیں.دوم:.مولفۃ القلوب لوگ آتے ہیں اور ان کی آمد ورفت اور دوسری ضرورتوں کا سامان نہیں.سوم:.بعض نوجوان نیک چلن ہماری جماعت کے لڑکے اپنے سلسلہ کی تعلیم کو با اینکہ وہ ہر طرح تعلیم کے قابل ہیں صرف قلت مال و افلاس کے باعث قائم نہیں رکھ سکتے.

Page 56

چہارم:.بعض شرفا اپنی روحانی تعلیم کے واسطے یہاں مقیم ہیں اور وہ ایسے ہیں کہ کوئی عمدہ ہنر اور حرفہ نہیں جانتے جس سے اپنی اور اپنے کنبے کی خبرگیری کر سکیں.پنجم:.بعض مسافر ایسے آجاتے ہیں جن کے پاس جانے کے لئے کرایہ نہیں ہوتا اور وہ اپنے شوق سے کسی طرح یہاں پہنچ جاتے ہیں یا کسی صدمہ سے ہی خرچ ہو جاتے ہیں.پھر واپسی کے وقت ان کو سوال کرنا پڑتا ہے یا حضرت امام حجۃ الاسلام کو رقعہ لکھتے ہیں اور تنگ کرتے ہیں.ششم:.بعض نو مسلم اور غربا جماعت کی شادی کا سامان یہاں کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے وقتاً فوقتاً چندہ کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں اور اس طرح بعض کو امراض میں ایسی ضرورتیں پیش آجاتی ہیں جن کے پورا کرنے کے لئے مالی امداد کی ضرورت پڑتی ہے.ہفتم:.بعض ہمارے نوجوان ہیں جن کو کتابوں کی ضرورت پڑتی ہے اور میرے کتب خانہ میں حد سے حد دو دو تین تین نسخے ہوئے اور وہ ان کو کافی نہیں ہوتے.ہشتم:.بعض یتیم لڑکے اور لڑکیاں حضور کے دولت سرائے میں ہیں ان کی تعلیم اور شادی اور ضرورتوں کا خیال ہے.نہم:.جن نو مسلموں اور شرفا کا ارادہ ہے کہ یہاں حضور امام صادق کے قدموں میں زندگی بسر کریں ان کے لئے رہنے کو مکان نہیں اور ہمارے مکان اور حضرت جی کے تمام مکانات پر ہیں توسیع مکانات کی ضرورت ہے.دہم:.ہماری جماعت کے واعظ بالکل قلیل ہیں اور بااینکہ ہماری جماعت کو ضرورتیں ہیں قلت کے باعث اور اس لئے بھی کہ واعظ جو اپنی جماعت کے متعلق وعظ کرسکیں بہت کم ہیں.ایسے واعظ بنانا ضروری امر ہے جو بحث طلب مسائل اور امور متنازع فیہا پر بحث کر سکیں.ان ضرورتوں کے متعلق میں نے اپنے احباب کوجب کچھ سنایا تو حکیم فضل الدین ، نورالدین خلیفہ، میر ناصر نواب، منشی رستم علی، راجہ عبداللہ خان، برادر عبدالرحیم، حافظ احمد اللہ خان، وزیر خان نے پسند فرمایا.اس لئے گزارش ہے کہ جو احباب اس خیال کو پسند فرماویں وہ اپنی

Page 57

پسندیدگی کا اظہار فرماویں اور بحکم( المائدۃ : ۳) ہمارا ساتھ دیں.حضرت امام حجۃ الاسلام نے بھی اجازت دے دی ہے اور آمد و خرچ کے رجسٹر مجلس شوریٰ میں دکھائے جائیں گے اور قرآن شریف، کتاب، نقد، کرتا، پاجامہ، عمامہ، ٹوپی وغیرہ جو کچھ کسی سے میسر ہو ہر ایک فریسندہ کو بھیجنے کا اختیار ہے.والسلام المعلن مولوی نورالدین بھیروی از قادیان (الحکم جلد ۴نمبر۱۱ مورخہ ۲۴ ؍مارچ ۱۹۰۰ء صفحہ۷) ایک قابل غور گرامی نامہ (مکتوب بنام مولانا شبلی نعمانی صاحب) ذیل میں ہم حضرت مولاناو مخدو منا مولوی نور الدین صاحب سلّمہ ربّہ ایک خط درج کرتے ہیں جو مولانا شبلی نعمانی کے نام لکھا گیا ہے اس خط کے پڑھنے سے جس قدر مفید نتائج ہماری قوم کو مل سکتے ہیں اس وقت ان کی ہم تفصیل نہ کریں گے صرف ناظرین کو اتنا بتلانا چا ہتے ہیں کہ اس خط کے لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟کچھ تھوڑا عرصہ گزرتا ہے کہ مولوی شبلی صاحب نے دائرۃ التالیف کے عنوان سے ایک لمبا چوڑا اشتہار شائع کیا تھا جس میں اخوان الصفا کے طرز پر فلسفیانہ مضامین لکھنے اور شائع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور اس کو قوم کی بہت بڑی ضرورت اور غایت بتلایا تھا.منجملہ اور مقاصد کے آخر میں قرآن کریم کی فصاحت اور بلاغت پر بھی مضامین لکھنے کا ارادہ دکھایا تھا.کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت پر بھی مضامین لکھنے کا وعدہ یا ارادہ اسی جہت کا ہو گا جیسا علی گڑھ کالج کی دینی تعلیم.اور تمام مقاصد کے اخیر میں اس کا رکھنا شاید اس وجہ سے ہو کہ عام مسلمانوں کو تنفرنہ ہو.بہر حال شبلی صاحب کی غرض اس سے کچھ ہی ہو ہم کو اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں لیکن یہ ایک عام بات ہے کہ اگر شبلی صاحب نے اپنے زور قلم سے ایک ثابت شدہ صداقت کو کہ قرآن شریف افصح وابلغ کتاب ہے ، مکرر ثابت کرنے کی کوشش بھی کی تو سمجھ میں نہیں آتا کہ فائدہ کیا ہو گا ؟

Page 58

مولانا مولوی نور الدین صاحب کا گرامی نامہ قرآن کریم کی عظمت کو قائم کرنے کی ایک نظیر ہے.ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر شبلی صاحب نے اس کا جواب حق و حکمت کی راہ سے دیا اور اس پر توجہ کرنی ضروری سمجھی تو مسلمانوں کی خوش قسمتی سے ایک بہت بڑی فائدہ کی بات نکل آوے گی اور ان کو وہ روشنی کا مینار نظر آ جاوے گا جو آج مسلمانوں کو ہلاکت کے بھنور سے نکلنے کے لئے رہنما ہو سکتا ہے.خدا کرے کہ ہمارے مخدوم مولاناکی کوشش کار گر ہو.اٰمین.ایڈیٹرالحکم.(وہ خط یہ ہے ) مولانا المکرم المعظم ! (ا)بعض موانع کے باعث آپ کے اشتہار کی نسبت رائے اور کر م نامہ کے متعلق جواب دینے سے قاصر رہا ہوں اس لئے عفو کا طالب بھی ہوں.(۲)مجوزہ مسوّدہ پہنچا اور پورا غور سے پڑھا.حسب الارشاد رائے اور ارادہ دونوں عرض خدمت ہیں جناب نے رائے پو چھی اگر خلاف طبع بھی ہو تو ملامت کاموجب نہ رہے. (البقرۃ:۲۸۷).وَالْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمِنٌ.مورخ اور ادیب کو گو رائے دینا آسان نہیں.مگر قال اللہ اور قال الرسول نے کچھ آسان ہی دکھایا.(۳)مولانا جس راہ پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں چلایا ہے اور اس پر علیٰ وجہ البصیرت ہمیں آگاہی اور استقامت بخشی ہے اس میں اور اس دوسری راہ بل راہوں میں جن کو اس وقت کے مدبّران اصلاح اور فلاح قوم تجویز کرتے اور قدم مارتے.آہ! بون بائن ہے.(۴)خاکسار نے سید کی تحریروں مولوی چراغ علی کے عجائبات، نواب صدیق حسن خان کے صد ہا رسائل، السید مہدی علی کے لکچرز اور مضامین، مولوی عبد الحی کے مباحث، السید امیر علی کی لائف آف محمد،احکام فقہ، مولانا محمد شبلی کے قابل قدر رسائل اور اس کی بے نظیر سوانح عمریاں پڑھیں اور بہت غور سے پڑھیں.(۵)میں ان پر نہ اس وقت کوئی ریویو کرتا ہوںاور نہ اس عریضہ میں حضور کے مجوزہ نوٹس پر ریمارک ہے نہ اس راہ پر کوئی بحث ہے جس کو زمانہ کے اقتضا کے موافق ہمارے امام و مقتداء

Page 59

قادیانی نے اصلاح و فلاح قوم کے لئے مولیٰ کریم جَلَّتْ عَظْمَتُہ سے الہام پا کر (سید مرحوم والا الہام نہیں بل مکالمہ الٰہیہ)ہمیں اس پر چلانا چاہا ہے.صرف ایک رائے آپ کے نوٹس پر.ایک سوال کے پیرایہ میں بحضور ملازمان والا پیش کرتا ہوں.از راہ فتوّت و مروت اس پر توجہ مبذول ہو اور پھر جواب بھی چاہتا ہو ں.قرآن کریم کی غایت اور اس نور ،فضل، ہدایت ، شفا اور رحمت کا اپنی تعلیم میں اعلیٰ مقصد کیا ہے ؟ اس الکتاب اور لاریب فیہ مِنْ ربّ العالمین کی ہدایات پر پوری طرح آگاہی حاصل کر کے اور اس کے انوار اور افادات سے کامل طور پر مستنیر و مستفید ہو کر ایک شخص اپنے اندر اور اپنے اعمال میں وہ کونسا امر پیدا کرلیتا ہے جو اس میں اور دیگر مذاہب یا کتب الہامیہ کے پیرومیں فارق اور ما بہ الامتیاز ہو جاوے ؟ (۶)میری غرض یہ ہے کہ وہ کمال مطلوب الانسان کا کیا ہے جس تک قرآن مجید پہنچا دیتا ہے اگر اس کو دستور العمل بنایا جاوے اور دیگر مذاہب و ادیان اور کتب سماویہ اس حد تک پہنچا نے سے قاصر ہیں اگرچہ ان پر اس وقت عمل کیا جاوے؟ اولڈ ٹسٹمنٹ اور عہد جدید.ژند وستا.گاہنہ اور دساتیر، رگوید، یجر، سام اور اتھر بن بدھ کی تعلیمات آج محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے سامنے موجود ہیں ذرہ بھی مشکل نہیں اگر ہم توجہ کریں اور ان کتب کے سچے پیرو بھی موجود ہیں.مولانا! خوش کن دعوے تو تمام ادیان میں موجود ہیں.مر کر ہمیں کیا ملے گا ؟برہمو بھی جس کے پاس کوئی کتاب نہیں ہم کو بتلاتا ہے.میرا منشاء اس سے مواعید سے نہیں.ممکن ہے مواعید عرقوب ہو ں یا مواعید صادقہ.میرا مطلب یہ ہے کہ ا س عالم دنیا میں جہاں ہم اس وقت موجود ہیں بقائمی ہوش و حواس وہ عملی آثارو علامات کیا ہیں جو قرآن کریم کو دستور العمل بنانے کے لئے مختص ہیں؟ کامل نہ سہی بطور نمونہ ہی حاصل ہو جاویں.یہ کیوں عرض کرتا ہوں ؟ اس عالم میں وہ عملی آثار و آیات کون سے ہیں جن سے قرآن مجید کی باہر ہ حجت اور واضح سلطان کو ہم دوسروں پر

Page 60

ثابت کر سکیںیا وہ حجج اور دن پر ثابت ہو جاویں.رازی کا مایہ فخر تفسیرکبیر ہے اور غزالی کے واسطے احیاء.ولا شک انھما عدیمی النظیر.مگر ان دونوں سے کیا میرے سوال کا جواب ہو جاتا ہے مجھے امید ہے کہ آپ اپنے گرامی اوقات میں سے تھوڑا سا حصّہ نکال کرجواب سے مسرور فرمائیں گے.ارادہ.رسائل معارف کی خریداری اور مالی امداد میں ضرور شریک ہوں.کر م نامہ کے پہلے حصّہ کا جواب.میری کتابیں اکثر عاریت کی مد میں رہتی ہیں اس وقت پشاور سے لے کر حیدر آباد تک احباب نے مانگی ہوئی ہیں.عمدہ جلدیں تباہ ہو جاتی ہیں.میرا تجربہ ہے کہ عمدہ جلد والی کتاب اور نفیس شیشی میں جب دوائی ڈالیں تو چور ائی گئیں اور بہت صدمہ پہنچا اس واسطے عمدہ دوائی اور کتاب خراب شیشی اور بودی جلدوں میں رکھتا ہوں.نور الدین ۲۹؍مارچ ۱۹۰۰ء.دس سوالوں کا جواب دس سوالوں کا جواب جو حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب سلّمہ ربّہ نے ماسٹر غلام حیدر ہیڈ ماسٹر چکوال کے سوالات پرلکھاہے اور جس کو عام فائدہ کے لئے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.(ایڈیٹرالحکم) سوال۱:.کیا امت محمدی کا اجتماع ضلالت پر بھی ہو سکتا ہے ؟ جواب:.ہر گز نہیں ہوسکتا.(اٰل عمران : ۱۱۱) سوال ۲:.کیا ابن عباس اور دیگر اماموں کی رائے  اپنے مطلب کے موافق قبول کر کے اس کو اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش کرنا اور  حصہ رائے سے پہلو تہی کرنا خواہ وہ رائے کا ایسی پیش کردہ ثبوت کا نقیض ہو ایک مسلمان شخص کی صداقت اور علمیت کو تقویت دے سکتا ہے؟ جواب:.یہاور  تو کوئی گول بات ہے.اصل بات میرے نزدیک یہ ہے کہ حقیقی امام

Page 61

قرآن مجید اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے پاک نمونہ حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں پس ان دونوں کی تائید میں جو کوئی آجاوے اس کا کہنا بسروچشم قبول ہے ہر حکمت کی بات مومن کی متاع ہے جہاں ملے لے لے.ہو یا تعجب ہے کہ احادیث و اقوال فقہا و مفسرین تم لوگوں کی خود بھی عادت ہے اور تمام امت محمدیہ کا یہی چال.اور آپ مجھ سے دریافت فرماتے ہیں.سوال ۳:.کیا آپ نے بعد بیعت مرزا صاحب ان کے مسیح موعود ہونے میں کبھی شک کیا یا دن بدن آپ کے اعتقاد کو ترقی ہے؟ جواب:.یاد رکھو اور خوب اور کہو مجھے ہرگز شک نہیں ہوا.میں اعتقاد میں ہر روز ترقی کرتا ہوں میں مرزا کو یقینا مہدی مسعود اور عیسیٰ بن مریم مسیح موعود جانتا ہوں اگر شک ہوتا تو اس علیحدگی کو کون مانع تھا؟ سوال ۴:.کیا آپ نے پیر مہر علی شاہ صاحب ساکن گولڑہ تحصیل راولپنڈی کا فارسی رسالہ ہدیۃ الرسول اور اردو رسالہ شمس الہدایۃ فی اثبات حیات مسیح ونیز غایۃ المرام اور تائید اسلام مؤلفہ قاضی محمد سلیمان وکیل ریاست پٹیالہ کا بغور ملاحظہ کیا اور ان کا جواب دینے کی کوشش آپ کی جماعت سے کی گئی؟ جواب:.شمس الہدایۃ تو میں نے خوب پڑھی ہے اور غایۃ وتائید کو غور سے دیکھا ہے ہدیۃ الرسول نے غالباً اب تک مطبع سے جنم نہیں لیا ان رسائل کے جواب کی چنداں ضرورت نہیں ایسے رسائل کے جواب میں غالب بھی مغلوب ہی ہوتا ہے مگر پھر بھی مجھے امید ہے کہ کوئی آدمی ہماری جماعت کا جواب لکھ دے گا.بات یہ ہے کہ ہمیں بڑے عظیم الشان کام درپیش ہیں اور یہ رسائل ہماری شاہراہ میں کچھ روک نہیں ان سنگریزوں سے حرج کیا ہے؟ سوال ۵:.ازالہ اوہام میں جن الفاظ سے مرزا صاحب نے خداوند کریم کے (یَا عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ تا آخر) نعماء موہوبہ کو عمل الترب، مسمریزم، مکروہ، قابل نفرت کا لقب دیا ہے اس کی نسبت آپ کی ایمانی رائے کیا ہے؟

Page 62

جواب:.سخن شناس نئے مسٹر! خطا ایںجا است انگریزی دانی، موسیقی دانی ، تعلیم مدارس انگریزی اور ہے اسلام دانی ، قرآن دانی، اہل اللہ شناسی اور ہے.ایک محمدی کو کَہَیْئَۃِ الطَّیْرِ تصویر کا خلق کیا تیرے نزدیک حرام نہیں اور کیا حرام مکروہ سے زیادہ مکروہ لفظ نہیں.سوچ اور اور فکر کر اور کیا شریعت کا ہر ایک حکم نعمت اللہ نہیں اور پھر کس طرح اسلام نے بعض تعلیمات انبیاء میں حلت کے مقام پر حرمت کا لفظ استعمال فرمایا.سوال۶:.معجزہ کے بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ظاہری بدیہی اسباب اس کے واسطے لازم ہیں یا بغیر واسطہ بدیہی کے بھی جس کو عقل نہیں سمجھ سکتی ہو سکتے ہیں ؟ (الف) حضرت موسیٰ کے عصا سے قلزم کا پھٹ جانا.(ب) اور عصا سے بارہ چشموں کا پتھر سے جاری ہونا.(ج) اور عصا کا سانپ اژدھا بن جانا.(د) شق القمر.(ہ) حضرت عیسیٰ کا بن باپ ہونا.(و) حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ کے اثر سے محفوظ رہنا.(ز) چار جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد زندہ دیکھنا.کیا ان مذکورہ بالا نشانات کا بھی آپ ایسا مکروہ اور قابل نفرت خیال کرتے ہیں یا کچھ اور ہی تاویل مثل سید احمد صاحب کرتے ہیں؟ جواب:.معجزہ کا لفظ قرآن کریم اور حدیث شریف میں ان معنی پر نہیں بولا جن معنی میں آپ لیتے ہیں.آیات الٰہیہ کو نہ ماننے والے بے ایمان ہوتے ہیں.میرے نزدیک تو قرآن کریم امام اور السید الکامل محمدؐ رسول اللہ مطاع اور مقتدا جو کچھ ان دونوں میں پایا گیا اس پر میرا ایمان ہے میں سید احمد خان کا مقلد نہیں اس کی تعلیمات کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا.یہ نمبر ۱، نمبر ۲، نمبر ۳ تیرے دل کی کوئی صدا ہے اس پر یہ نصیحت یاد رکھ اِیَّاکَ وَالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ.(صحیح المسلم کتاب البر و الصلۃ باب تحریم الظن)

Page 63

سوال۷ :.ازالہ صفحہ ۶۲۸ دخل شیطانی کلمہ کا کبھی انبیاء اور رسولوں کی وحی میں ہوجاتا ہے.اس مرزا صاحب کے عقیدہ اور مذہب کو آپ نے مرزا صاحب کے بارہ میں تسلیم کرلیا ہے یا اس دخل شیطانی سے مرزا صاحب مامون اور معصوم ہیں؟ جواب :.تمام مرسل اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام بلکہ تمام مامور من اللہ بَل وہ اہل اللہ بھی جو انبیاء ورسل علیہم السلام کے اتباع ہیں ایک ہی رنگ میں رنگین ہوتے ہیں اور شیطانی تسلط سے محفوظ. (الحجر : ۴۳) اور(الحج : ۵۳) کی بشارت سے مسرور ہیں.مرزا بھی خاتم الرسل ﷺ بَل ان سے علیحدہ نہیں.سوال ۸:.آج کل جو مرزا صاحب نے اپنے فوٹو کرنے اور کرانے کا جواز بتلایا ہے.گویا تصویرکشی کی اباحت کو ثابت کیا ہے.کیا اس سے آج کل ہی یابعد چندے بعد وفات مرزا صاحب رومن کتھولک کی طرح بت پرستی کی بنیاد کا زہر یلا اثر نہفتہ معلوم نہیں ہوتا.جواب :.فوٹو گرافی کے جواز کا فتویٰ آپ نے کہاں دیکھا اور مرزا پر کیوں اعتراض کیا.ایک مسیح نے تو کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ تصویریں تمہارے نزدیک کَخَلْقِ اللّٰہِ بنائیں اور اس کے اتباع میں رومن کتھولک بھی ہوئے اب تم نے دوسرے مسیح پر اعتراض کیسے کردیا کیا اب تصویر کشی کا مسئلہ یاد آگیا اور نمبر ۵ میں بھول گئے ہم پر یا ہمارے مابعد پر سوء ظن کیوں کرتے ہو.اِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ اور کیا عکسی تصویر کو بُرا مان کر آپ نے آئینہ کا دیکھنا ترک کردیا ہے؟ سوال ۹:.جو شخص خدا کو وحدہ لاشریک اور محمدؐ کو رسول برحق اور قرآن کریم کو برحق اور قیامت کو برحق مانتا ہے اور جنت و دوزخ کا قائل ہے اور حتی الوسع عمل صالح کرتا ہے جیسا کہ اس کو آپ دین نے بتلایا یا کسی اور نیک بخت مسلمان نے سکھایا ہے تو ایسے شخص کے واسطے قرآن کریم میں (البقرۃ : ۶۳)کی آیت واردہوئی ہے اب کیا ایسا شخص بلاشفاعت مرزا صاحب یا بیعت مرزا صاحب قابل نجات ومغفرت ہو سکتا ہے؟ جواب:.جو قرآن کریم کو برحق مانتا ہے وہ مسیح کا مرنا اور پھر نہ آنا بھی برحق مانے گا اور جو

Page 64

محمد رسول اللہ کو برحق مانتا ہے اسے لازم ہے کہ نازل شدہ عیسیٰ کو مانے، امام الوقت کا منکر عمل صالح کرتا ہے؟ لَا خَوْف اور لَایَحْزَن کے مصداق تمہیںیہ مسلمان نظر آتے ہیں ؟ سچ بتاؤ یہ تو ایک مرتبہ ہے جس میں عامہ اہل اسلام ہر وقت داخل نہیں.سوال ۱۰:.اگر کوئی مسلمان اپنے نیک ارادہ سے مرزا صاحب کے دعویٰ کو محض باطل قرار دے تو اس کا ایمان درست رہتا ہے یا نہیں؟ جواب :.کیا الٰہی فضل لغو ہوسکتے ہیں کیا آپ نے نہیں پڑھا اس کتاب کو جس میں سورہ نور ہے اور جس میں خلفاء کے منکروں پر اَلْفَاسِقُوْن کا فتویٰ ہے کیا لَیَسْتَخْلِفَنَّہم کا فعل کوئی باطل مانے اور اس کا ایمان درست رہے؟  ( البقرۃ : ۸۶) السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہٗ.آپ نے بہ نظر تحقیق مرزا کے رسائل نہیں پڑھے یا دعاؤںسے بہت کام نہیں لیا یا استغفار ساتھ نہ تھا آپ نے بعض مقام پر اپنی تحریر میں اپنی ان عادات سے کام نہیں لیا جو مدت ہوئی مجھے معلوم تھیں میں نے ایمانی طور پر مختصر جواب دیئے ہیں.اگر پسند ہو بہتر.واِلّا کالائے بد بریش خاوند.نور الدین ۲۹مارچ ۱۹۰۰ء.(الحکم جلد ۴ نمبر ۱۲ مورخہ۳۱؍مارچ ۱۹۰۰ء صفحہ ۳ تا ۶) حضرت مولوی نورالدین صاحب کا خط مولانا السید المکرم المعظم السلام علیکم ورحمۃ اللہ اوّل فتح محمد نام آپ کے مرید سے پھر مولوی غلام محی الدین ساکن دُہن.مولوی محمد علی ساکن ردا ل.حکیم اللہ دین شیخوپور.حکیم شاہ سوار کے باعث مجھے جناب سے بہت ہی بڑا حسن ظن حاصل ہوا اور میں بدیں خیال کہ جناب کو اشغال و ارشاد میں فرصت کہاں کہ میرے جیسے آدمیوں کے خطوط کا جواب ملے گا ارسال عرائض سے متأمل رہا.جناب کے دو کارڈ مجھے ملے اور ان میں مرزا جی کے حسن ظن کا تذکرہ تھا اور بھی فرحت و سرور ملا.قریب تھا کہ میں حاضر حضور ہو تا اسی اثناء

Page 65

میں ایک کتاب شمس الہدایہ نام مجھے آج رات دیکھنے کا اتفاق ہوا.صفحہ نمبر ۴۰ تک رات کو پڑھی.جناب نے اس میں بڑا تنزّلاختیارکیا کہ بالکل مولویوں اور منطقیوں کے رنگ میں جلوہ افروز ہوئے اور صوفیوں کے مشرب سے ذرہ جھلک نہ دی.سبحان اللہ میں نے بار ہا سنا کہ جناب فتوحات مکیہ کے غواص ہیں اور کتاب صفحہ نمبر۴۰تک صرف ایک جگہ شیخ اکبر کا ذکر وہ بھی لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی تو جیہ ناپسندیدہ پر ایما.کتاب کو دیکھ کر مجھے اس تحریر کی جرأت ہوئی کہ جب جناب تصنیف کا وقت نکال سکتے ہیں تو جواب خط کوئی بڑی بات نہیں فَاَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ میری مختصر گزارشوں کا بالکل مختصرسا جواب کا فی ہو گا.اوّل جناب نے صفحہ نمبر۸ میں فرمایا ہے(۱)تفاسیر معتبرہ سے مثل ابن جریر و ابن کثیر.آہ! اس پر.(۱)عرض ہے جناب نے تفسیر ابن جریر کو دیکھا ہے یا نہیں.جناب کے پاس ہے یا نہیں.کہاں سے یہ تفسیر صرف دیکھنے کے لئے مل سکتی ہے.(۲)مثل ابن جریر سے کم سے کم پانچ چھ تفسیروں کے نام ارشاد ہوں.(۳)کلی طبعی جناب کے نزدیک موجود فی الخارج ہے یا نہیں اور تشخص متشخص کا عین ہے یاغیر.(۴)تجدد امثال کا مسئلہ جناب کے نزدیک صحیح ہے یا غلط.(۵)زید و عمر و یا نور الدین راقم خاکسارغرض یہ جزئیات انسانیہ صرف اسی محسوس مبصر جسم عنصری خاکی مائی کا محدود نام ہے یا وہ کوئی اور چیز ہے جس کے لئے یہ موجودۃ الان جسم بطور لباس کے ہے یا اسی معنی پر.(۶)انبیاء و رسل صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ وَسَلَامُہٗ آئمہ و عترت.اولیاء کرام، صحابہ عظام انواع و اقسام ذنوب و خطایا سے محفوظ و معصوم نہیں یا ہیں.بصورت اولیٰ ان پر اعتماد کا معیار کیا ہوگا اور بصورت ثانیہ کوئی قوی دلیل مطلوب ہے مگر ہو مختصر.کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ سے.(۷)الہام و کشف رویا صالحہ کیا چیز ہیںاور ان سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں ؟

Page 66

(۸)ایک جگہ جناب نے تاریخ کبیر بخاری کا حوالہ دیا ہے کیا وہ جناب کے کتب خانہ میں ہے یا نہیں ؟ (۹)بعض احادیث کی تخریج نہیں فرمائی اس کو کس جگہ دیکھا جاوے.میرا مطلب یہ ہے کہ جناب نے ان احادیث کو کہاں کہاں سے لیا ہے جس کا ذکر کتاب میں فرمایا ہے؟ (۱۰)عقل ، قانون قدرت ،فطرت کس حد تک مفید ہیںیا یہ چیزیں شریعت کے سامنے اس قابل نہیں کہ ان کا نام لیا جاوے.تعارض عقل و نقل.تعارض اقوال شریعت و سنت اللہ مقابلہ فطرت و شرع کے وقت کو نسی راہ اختیار کی جاوے.مختصر جواب بدوںدلائل کافی ہو گا.(۱۱) تفسیر بالرائے اور متشابہات کے کیا معنی ہیں ؟ کوئی ایسی تفسیر جناب کے خیال میں ہے کہ وہ تفسیر بالرائے سے پاک ہو اور متشابہات کو ہم کس طرح پہچان سکتے ہیں ؟ مورخہ ۱۸؍فروری۱۹۰۰ء از قادیان ( الحکم جلد۴، نمبر۱۵، مورخہ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۰ ء صفحہ۶،۷) قرآن کریم کیونکر آسکتا ہے ؟ حضرت مولانامولوی نورالدین صاحب سلّمہ ربّہ سے اکثر دفعہ لوگوں نے سوال کیا ہے کہ قرآن کریم کیوں کر آسکتا ہے؟ حکیم الامت نے اس سوال کا جواب یوں دیا ہے.قرآن کریم سے بڑھ کر سہل اور آسان کتاب دنیا میں نہیں مگر اس کے لئے جو پڑھنے والا ہو.سب سے پہلے اور ضروری شرط قرآن کریم کے پڑھنے کے واسطے تقویٰ ہے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ متقی کو قرآن پڑھادے گا.طالب علم کو معاش کی طرف سے فراغت اور فرصت چاہئے.تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچتا ہے کہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ خود متکفّل ہوجاتا ہے.پھر دوسری شرط قرآن کریم کے سمجھنے کے واسطے مجاہدہ ہے یہ مجاہدہ خدا میں ہوکر ہونا چاہئے.پھر مشکلات کا آسان ہوجانا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.

Page 67

پھر قرآن کریم کے پڑھنے کا ڈھنگ یہ ہے کہ ایک بار شروع سے لے کر اخیر تک خود پڑھے اور ہر آیت کواپنے ہی لئے نازل ہوتا ہوا سمجھے.آدم و ابلیس کا ذکر آئے تو اپنے دل سے سوال کرے کہ میں آدم ہوں یا شیطان.اس طرح پر اپنی کل حالت کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے گا اور اصلاح کی راہ نکل آئے گی.اس طرح پر قرآن کریم پڑھتے وقت جو مشکل مقام آویں ان کو نوٹ کرتے جاؤ.جب قرآن شریف ایک بار ختم ہوجاوے پھر اپنی بیوی کو اور گھر والوں کو اپنے درس میں شامل کرو اور ان کو سناؤ.اس مرتبہ میں جو مشکل مقام آئے تھے انشاء اللہ تعالیٰ ان کا ایک بڑا حصّہ حل ہوجاوے گا اور جو اب کے بھی رہ جاویں ان کو پھر نوٹ کرو.اور تیسری مرتبہ اپنے دوستوں کو بھی شامل کرو اور پھر چوتھی مرتبہ غیروں کے سامنے سناؤ.اس مرتبہ انشاء اللہ سب مشکلات حل ہوجاویں گی.مشکل مقامات کے حل کرنے کے واسطے دعا سے کام لو.(الحکم جلد۴ نمبر۲۵ مورخہ ۹؍جولائی ۱۹۰۰ء صفحہ۵) ایمان بالر سالت کی حقیقت ایمان بالرسالت کی حقیقت سے لوگ آشنا نہیں ہوتے.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ جو آدمی رسول اللہ کی باتیں نہیں مانتا تو پھر اس آدمی اور اس کے دل کے درمیان ایک روک ڈال دیتا ہے  (الانفال : ۲۵) جو انسان خود غفلت کرتا ہے اس سے توفیق چھین لی جاتی ہے.زندگی پر مت اتراؤ دیکھو سبز شاخیں بھی بعض اوقات کٹ جاتی ہیں یہی قانون الٰہی ہے جس کی تہہ میں باریک درباریک اسباب ہوتے ہیں پس غفلت اختیار نہ کرو.نیک نمونہ بنو.ایسا نہ ہو کہ ظالموں میں پکڑے جاؤ.مامور من اللہ امام کی اطاعت ضروری چیز ہے (الانفال : ۲۵) (اللہ اور اس کے رسول کی مان لو) پر عمل کرو.تاکہ تم اس لعنت سے بچ جاؤ جو مرد اور اس کے دل کے درمیان روک پیدا ہونے سے ہوتی

Page 68

اموال و اولاد کندن بنانے کا ذریعہ  (الانفال : ۲۹) تمہارے اموال اور اولاد کندن بنانے کا ایک ذریعہ ہیں.بہت تھوڑے لوگ ہیں جو مال اور اولاد سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ اخلاق فاضلہ حاصل کرتے ہیں جو ان کے ذریعہ حاصل ہو سکتے ہیں.خیالی ایمان صرف ایک خیالی پلاؤ ہے جب تک کہ وہ عمل کی کسوٹی پر پرکھا نہ جاوے.مال اور اولاد اللہ تعالیٰ کے بے بہا فضل ہیں جو اور ہزاروں نیکیوں کا موجب ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور مخلوق کی بہتری کے علاوہ خود انسان میں سخاوت اور شجاعت اور پھر انشراح صدر کی قوت پیدا ہوتی ہے.اولاد کی وجہ سے انسان میں چھوٹوں سے محبت وپیار، برداشت، استقلال، محنت ایک دوسرے کی مدد ہمدردی کا مادہ پیدا ہوتا ہے.پس وہ لوگ جن کو خدا نے یہ نعمتیں دیں ہیں اور وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے سخت بدقسمت اور محروم ہیں.خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے.خوش قسمت ا نسان کیسا خوش قسمت وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے انعام یاد ہیں اور وہ اس کے فضل کو یاد کرتا رہتا ہے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے.بدیوں سے بچنے کے مجرب نسخے انسان اگر اپنے دل میں خیال رکھے کہ خدا میرے ساتھ ہے چلتے پھرتے پورا خیال رکھے کہ خدا مجھے دیکھتاہے.تو چونکہ یہ امر انسان کی فطرت میں ہے کہ بڑے کے سامنے بدی نہیں کرتا.پھر محسن مقتدر خدا کے سامنے کیونکر کر سکتا ہے؟ پس اللہ پر ایمان لانا بدی سے بچاتا ہے.اللہ حاکم ہے مربی ہے نیکیوں اور نیکو ں کو پیار کرتا ہے بدی اور بدوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا یہ ساری باتیں ایمان میں داخل ہوں تو بدیوں سے بچ جاوے.بدیوں کے بچنے کے واسطے ایمان بالآخرۃ بھی ایک مجرب نسخہ ہے اگر انسان یہ کہ میرے ہر فعل کا نتیجہ ضرور ہے نیکی کا بدلے نیک ملے گا اور بدی کا بدلا بد تو ضرور بدیوں سے بچتا رہے گا.(الحکم جلد ۴ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۶ ؍جولائی ۱۹۰۰ء صفحہ ۴،۵)

Page 69

اَلنُّصْحُ لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اَلنُّصْحُ لِلّٰہ سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو ہر قسم کے شرک سے بیزار ہو.اللہ تعالیٰ کے اسماء گرامی میں کسی قسم کا الحاد اور ان کی بے حرمتی نہ کرے بلکہ حیا کرے اللہ تعالیٰ کو تمام نقائص سے منزہ یقین کرے اور تمام صفات کاملہ سے موصوف مانے.ان کی فرمان برداری میں فرضی ہویا نفلی، اعتقادی ہو یا عملی، قولی یا فعلی سب میں چست وچالاک ہو اور اس کی نافرمانیوں سے بچتا رہے.اپنی جان، مال، اولاد، دوستوں کے ساتھ اگر محبت ہو تو خدا ہی کے لئے ہو اور اگر بغض ہو تو اللہ ہی کے لئے ہو.جناب الٰہی کے فرمان برداروں سے محبت اور نافرمانوں سے عداوت ہو.منکروں کے ساتھ جہاد جو ضرورت وقت کے لحاظ سے مناسب ہو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار اور ان کی قدر کرے اور تمام نیکیوں کو اخلاص سے بجالاوے.تمام بھلی باتوں کی طرف لوگوں کو بلاوے، ترغیب دے اور باریک سے باریک تر اس معاملہ میں کوشش کرے.اور اَلنُّصْحُ لِلرَّسولِ سے یہ مراد ہے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کرے جو کچھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام لائے ہیں ان سب پر ایمان لاوے آپ کے احکام کی فرمانبرداری جن باتوں سے آپ نے منع فرمایا ہے ان سے رک جاوے آپ کی زندگی کے وقت اور موت کے بعد نصرت اور حمایت کرنا.آپ کے دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا دشمن ہو، آپ کی تعلیم اور مطالب کو زندہ کر کے ان کی اشاعت کرنا، آپ کی محنت فی اللہ کی داد دینا یعنی آپ کی کامیابیوں کے لئے درود شریف پڑھنا، آپ سے اتہام کو دور کرنا، اپنے کاموں میںان کے علوم سے مشورہ لینا آپ کے علوم کے معانی میں توجہ رکھنا ان کا پڑھنا پڑھانا ان کی بزرگی سمجھنا.آپ کے آداب سے متأدب ہونا، آپ کے اہل بیت سے محبت رکھنا ،آپ کے صحابہ سے تعلق رکھنا، آپ کے ساتھیوں ناصروں اور آپ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرنا.الہام الٰہی کی ضرورت پر ایک بات بارہا نیچر کے قدر نہ کرنے والے برہمو مزاج لوگوںکو کہتے سنا ہے کہ جب کہ قانون قدرت عقل اور وجدان موجود ہے اور ان سے انسان راستی

Page 70

اور صداقت کو پالیتا ہے تو الہام الٰہی کی کیا ضرورت ہے مگر میںان لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ وہ آنکھ بند کر کے نظارہ قدرت کو کیوں دیکھتے ہیں.دیکھو دنیا میں گھاس پھوس سب کچھ موجود ہے مگر جب تک آسمان سے بارش نہ برسے تو وہ گھاس پھوس ہر گز نشوونما نہیں پاسکتے.بلکہ زمینی کنووں کا پانی تک خشک ہونے لگتا ہے.اسی طرح پر اگر الہام الٰہی کی بارش نہ ہو تو عقل اور وجدان اسی گھاس کی طرح سوکھ جاوے جب کہ جسمانی نشوونما آسمانی بارش کے بدوں نہیں ہوسکتا تو روحانی نشوونما کلام الٰہی کے بغیر کیونکر ہوسکتا ہے؟ پس یہ کیسی آسان دلیل ضرورت الہام اور ضرورت نبوت پر ہے.(الحکم جلد۴ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۳؍ جولائی ۱۹۰۰ء صفحہ ۶) دو آسمانی امان حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول مجھے بہت ہی پیارا معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے دو امان نازل ہوئے تھے ایک تو ان میں سے اٹھ گیا یعنی رسول اللہ ﷺ کا وجود باجود مگر دوسری امان قیامت تک باقی ہے اور وہ استغفار ہے.(الانفال : ۳۴) پس استغفار کرتے رہاکرو کہ پچھلی برائیوں کے بد نتائج سے بچے رہو اور آئندہ بدیوں کے ارتکاب سے.خدا باپ اور ربّ خداباپ.یہ لفظ اب تین قومیں استعمال کرتی ہیں.عیسائی، یہودی، آریہ،برہمو اللہ تعالیٰ کو ماں کہتے ہیں مگر مسلمان ہیں کہ وہ ربّ کہہ کر پکارتے ہیں.ربّ اس کو کہتے ہیں جو ہر وقت اور ہر حال میں ہر قسم کی مخلوق کی پرورش کرتا اور تکمیل تک پہنچاتا ہے اور اس کا فیضان بہت وسیع ہے.برخلاف اس کے ابّ(باپ) کا تعلق اپنے ہی ابن سے اور وہ بھی خاص وقت اور خاص حد تک.پس بندہ ہر آن ربّ العٰلمین ہی کا محتاج ہے کوئی کام نہیں آتا مگر ربّ.جو خدا کو باپ یا ماں پکارتے ہیں نہ انہوں نے خدا کی ہستی کو سمجھا ہے اور نہ اپنے آپ کو پہچانا ہے.

Page 71

اسلام کی ایک خصوصیت اسلام میں یہ ایک خصوصیت ہے کہ انسان کو غمگین ہونے نہیں دیتا.مسلمان مسلمان اگر بنیں تو انہیں کیا غم مگر وہ بنیں بھی.انبیاء کی تعلیم کی امتیازی شان انبیاء علیہم السلام کی تعلیم ایسی صاف اور سادی ہوتی ہے جو ہر طبقہ کے لوگ ادنیٰ، اوسط، اعلیٰ سب سمجھ سکتے ہیں.عیسائیوں کی طرح راز کی باتیں اور گورکھ دھندے نہیں ہوتے جو کسی کی سمجھ میں ہی نہ آویں.میں نے ایک عیسائی سے پوچھا کہ کیا ہر مذہب میں کوئی سِر بھی ہوتا ہے.اس نے جواب دیا ہاں.پھر میں نے کہا سب مذہب سچے ہیں تمہارے اعتراض فضول اور لغوہیں اس لئے کہ تم جو اعتراض کرتے ہو اس مذہب کا ماننے والا اسے سِر ہی مانتا ہے اس کا جواب کچھ نہ دیا.مسلمان کے معنے مسلمان کے معنے ہیں مہذب، آراستہ و پیراستہ، نیک نمونہ ہر عیب سے بچا ہوا، ہر عیب سے دوسرے کو بچانے والا، صلح و آشتی سے زندگی بسر کرنے والا، آپ خوبصورت دوسرے کے لئے خوبصورتی کا موجب، جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ ہوں، خدا تعالیٰ کا فرمانبردار.پاک تبدیلی پیدا کئے بغیر انسان دھوکہ کھا سکتا ہے انسان دھوکے کھا سکتا ہے جب تک اپنے اندر پاک تبدیلی نہیں کرتا اور ایک نئے دل اور نئی روح کو محسوس نہیں کرتا.جب اس کے اندر نئی زندگی آجاتی ہے تو وہ شیطانی تسلط سے نکل جاتا ہے.ایک صوفی کہتا ہے کہ شیطان کو دیکھا کہ بہت بڑی داڑھی تھی اس کو زور سے پکڑ کر کھینچا تو معلوم ہوا کہ اپنی ہی داڑھی تھی.اس سے معلوم ہوا کہ جب تک انسان بری خواہشوں کا اسیر اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت کے حلقہ سے باہر رہتا ہے شیطانیت اس میں اپنا گھر بناتی ہے لیکن جب وہ خدا کا تابع فرمان ہوجاتا ہے تو شیطان کی تحت حکومت سے نکل جاتا ہے.

Page 72

قصص قرآنی کے بار بار بیان کرنے میں حکمت لوگ حیرت اور تعجب ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن باربار قصص کیوں بیان کرتا ہے؟ مگر مجھے ان کے اس اعتراض پر تعجب آتا ہے دنیا میں کوئی مصقلہ ایسا نہیں ہے جو ایک ہی بار صیقل کردے.جسمانی غذا بھی ایک بار کھا کر مستغنی نہیں کردیتی.جب یہ نظارہ اپنے جسم میں دیکھتے ہیں پھر روح کے لئے ایسا قانون پا کر ہم کو تعجب کیوں ہو؟ قصص قرآنی میں بہت سے اسرار ہیں منجملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ انبیاء علیہم السلام کی تمام صفات کے جامع تھے گویا قصص قرآنی آپ کے ہی آنے والے واقعات کا ایک رنگ میں ذکر ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان تمام نبیوں کے ملک فتح کئے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے.الٰہی شریعت اور نادان عیسائیوں کا ظلم ہماری شریعت، اعتقادات صحیحہ، اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ کا مجموعہ ہے اور پھر ایسی آسان کہ  (البقرۃ : ۲۸۷) مگر نادان اور ناواقف عیسائیوں نے محض ظلم وزور کی راہ سے الٰہی شریعت کو جو خدا کے راستباز موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ تورات کی صورت میں آئی لعنت قرار دیا اور بتلایاکہ نزول تورات سے صرف یہ غرض تھی کہ دنیا پر ظاہر کیا جاوے کہ شریعت کوئی بجا ہی نہیں لاسکتا آہ! ان نااہلوں نے خدائے قدوس کی ذات پاک پر کیسا اعتراض تراش لیا!!! خیالی اور عملی ایمان خیالی ایمان انسان کاصرف خیالات سے ہی وابستہ ہے مگر جب تک عملی ایمان نہ ہو خیالی ایمان کچھ معنی نہیں رکھتا.بات تب ہی بنتی ہے کہ انسان کر کے دکھلاوے.(الحکم جلد ۴نمبر۲۸ مورخہ ۹؍اگست ۱۹۰۰ء صفحہ۵،۶) صحبت صالحین انسان کے پاک ارادے ملائکہ میں جلوہ گری کرتے ہیں اور ملائکہ کے پاک ارادے پاک لوگوں میں جلوہ گری کرتے ہیں اس لئے پاک لوگوں کے ارادے ملائکہ

Page 73

کی تحریک ہوتے ہیں.پس جو لوگ پاک لوگوں کے فیض صحبت سے حصہ لیتے ہیں وہ ملائکہ کی پاک تحریکوں سے حصہ لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے (التوبۃ : ۱۱۹) کا حکم دیا ہے.صادقوں کی محبت انسان کے دلی زنگ اور باطنی سیاہی کو دور کرنے میں مددگار ہوتی ہے کیونکہ انسان صحبت کے اثروں سے اثر پذیر ہوتا ہے.پس صادق کی صحبت صدق و اخلاص کے رنگ سے اس کو رنگین کرے گی.شیطانی تحریک کی جلوہ گری شیطان کی تحریک گندے آدمیوں میں جلوہ گری کرتی ہے.آگ کا اندرونی حصہ جیسے ظلمت ہے ایسا ہی شیطان کا مظہر بھی باہر سے روشن ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ تمام شیطانی کرتوتیں بظاہر خوبصورت اور محظوظ کرنے والی معلوم دیتی ہیں مگر یہ دھوکا سے اس کے اندر تاریکی کا جِنّ ہے.نور اور ظلمت یاد رکھو نور اورظلمت اللہ تعالیٰ کی دو جداگانہ مخلوق ہیں نور سے ملائکہ اور ظلمت سے شیاطین پیدا ہوتے ہیں اور ان کا ظہور بروزی طور پر ہوتا ہے.کھجور کے درخت کی خصوصیتیں میں نے مخالف لوگوں کی کتابوں میں ایک حدیث پڑھی ہے جس نے مجھے بڑے غور کا موقع دیا اور وہ حدیث مجھے بڑی ہی دلچسپ معلوم ہوئی (اگر ہے) اس کا مضمون یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ کھجور کا درخت اس بقیہ مٹی سے بنایا گیا جس سے حضرت آدم علیہ السلام بنائے گئے تھے اور اس لئے وہ مسلمان کی پھوپھی ہے.بڑے غور اور فکر کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ فقرہ نبوت کے چشمہ سے ضرور نکلا ہے اور ساتھ ہی مجھے رنج بھی ہوا.ایک اور حدیث کا مضمون ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پاک مجلس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا کہ ایک درخت ہے کہ وہ مومن کی مثال ہے اور پھر آپ ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے.اس میں سر کیاتھا؟کھجور کے درخت میں چند خصوصیتیں ہوتی ہیں.(۱) کھجورکا پھل روٹی کا قائمقام ہوتا ہے.(۲) روٹی کے ساتھ سالن کا بھی کام دیتا

Page 74

ہے.(۳) پھل کا پھل بھی ہے.(۴) شربت کا کام بھی دیتا ہے.(۵) اس کے پتے ہوا کے شدید سے شدید جھوکوں سے بھی نہیں گرتے ہیں.(۶) پھر پتوں کے پنکھے چٹائیاںبنتی ہیں.(۷) تنے کی رسیاں بنتی ہیں.(۸) ریشوں سے تکیے بنتے ہیں.(۹) لکڑی کام آتی ہے.(۱۰) کھجور کی گٹھلی سے جانوروں کے لئے عمدہ غذا بنتی ہے.(۱۱)شاخوں کے سرے کے درمیان کی گری مقوی ہوتی ہے.غرض کھجور ایک ایسا درخت ہے کہ اس کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو مفید اور نفع رساں نہ ہو.رسول اللہ ﷺ نے کھجور کے درخت کی مثال سے یہ بتلایا ہے کہ مسلمان کو بڑا ہی نفع رساں ہونا چاہئے اور ایسا ثابت قدم اور مستقل مزاج ہو کہ کوئی ابتلا اس پر اثر نہ کرسکے مگر مجھے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا کہ آج مسلمانوں کی یہ حالت نہیں رہی.قتل اولاد کی وضاحت خشیت املاق کی وجہ سے اولاد کو قتل کرنا منع ہے.لوگ کہتے ہیں کہ جان سے مار ڈالنا منع ہے مگر میرے نزدیک جو لوگ اپنی اولاد کو علوم دینیہ سے اس لئے محروم رکھتے ہیں کہ ان کے پاس روپیہ نہیں ہے وہ بھی قتل اولاد کرتے ہیں.دنیا کے کام پر اس لئے لگا دیتے ہیں کہ کما کر ہمیں آرام پہنچا وے.ناعاقبت اندیش اتنا نہیں سمجھتے کہ علوم دینیہ سے بے خبر رکھ کر ان کو ابدی جہنم کے لائق بنادیا اور ان کی نیکی کی قوتوں کو کچل ڈالا.دوزخ ذریعہ اصلاح ہے دوزخ انسان کے لئے وارم باتھ ہے یہ انسان کی اصلاح کرتا ہے.جیسے گرم حمام بعض بیماروں کے علاج اور اصلاح کا موجب ہوتے ہیں اور ایسا ہی بعض گرم دوائیں ایسا ہی دوزخ بھی ذریعہ اصلاح ہے.میں نے قرآن کریم سے آتشک کے مریض کا علاج تجویز کیا ہے اور پھر مجھے اس میں کامیابی ہوئی.ایسے مریض کے لئے میں شجر زقوم دودھ کی کابلی جو کے ساتھ گولیاں بنوا کردیں.اور پھر جب پیاس لگتی تھی تو گرم گرم پانی پلاتا تھا.آخر اس مریض کو بفضلہ تعالیٰ آرام ہوگیا اور تصدیق ہوگئی کہ دوزخ اصلاح ہی کا ذریعہ ہے.

Page 75

اولاد پر والدین کے اثرات انسان کے نطفہ میں عادات، اخلاق ، کمالات کا اصل ہوتا ہے.والدین کے ایک ایک برس کے خیالات کا اثر ان کی اولاد پر پڑتا ہے.جتنی بداخلاقیاں بچوں میں ہوتی ہیںوہ والدین کا اثر ہوتا ہے.پس خود نیک نبو.اخلاق فاضلہ حاصل کرو تا تمہاری اولاد نیک ہو.اَلْوَلَدُ سِرُّ لِّاَبِیْہِ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب الایمان بالقدر الفصل الثالث) میں یہی بھید ہے.اولاد، والدین کے اخلاق ، اعمال، عقائد کا آئینہ ہوتی ہے.(الحکم جلد۴ نمبر۳۰ مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۹۰۰ء صفحہ۴، ۵) معراج النبی ﷺ ذیل میںہم ایک نوٹ درج کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے معراج کی حقیقت سمجھنے کے واسطے بطور کلید ہے.ہمارا ایمان اس پر ہے کہ یہ معراج شریف کی اصل حقیقت اور وہ صورت ہے جس پر بڑے سے بڑے مخالف کو بھی اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں ہوسکتی.اور معراج کیا ہے؟ درحقیقت رسول اللہ ﷺ کی پاک زندگی کی ایک تصویر ہے.ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے ناظرین جس قدر وسیع غور کریں گے اسی قدر حظ اور ذوق ایمانی اٹھائیں گے.(ایڈیٹر) یہ امر یاد رہنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی ساری ترقیوں کی ابتدا آپ کی ہجرت تھی اور معراج کے تمام واقعات آپ کی آنے والی زندگی کے حالات کی پیشگوئی ہے.لوگ سوال کرتے ہیں کہ معراج جسم سے ہوئی یا روح سے؟ کوئی راحت کوئی علم انسان کو بدوں جسم کے ہوتا ہی نہیں جسم اور روح آپس میں لازم ملزوم ہیں یہاں تک جسم کا روح کے ساتھ تعلق ہے کہ بعض نادان فلسفیوں کو دھوکا لگا ہے کہ وہ روح کا انکار ہی کر بیٹھے ہیں.اور کہتے ہیں کہ روح کوئی چیز نہیں جسم ہی جسم ہے مگر سن رکھو ہمارا ایمان یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معراج کا نظارہ روح معہ جسم تھا ہاں اسی جسم کے ساتھ تھا.جو لوگ کہتے ہیںکہ مرزائی معراج جسمانی کے قائل نہیں وہ جھوٹ کہتے ہیں.آپ کے معراج کا ثبوت مشاہدہ صحیحہ ہے.میں توکُل دنیا کو منوا سکتا ہوں کہ آپ کا معراج ایک صحیح واقعہ ہے.کیا معنے کہ ہر ایک اعتراض کرنے والے کو بند کرسکتا ہوں.اِنْشَائَ اللّٰہ

Page 76

واقعات معراج کی حقیقت معراج میں جو واقعات پیش آئے تھے ان کے معانی اور مطالب کے سمجھنے کے واسطے ہم کو ضرور ہے کہ اس زبان کی لغات کو دیکھیں اس لئے ان تمام واقعات کے معانی اگر اس لغت کی رو سے معلوم ہوجائیں تو پھر معراج کی حقیقت کا سمجھ لینا کچھ بھی مشکل نہیں تھا.(۱) سینہ چاک کر کے دھونا.جس شخص کے ساتھ یہ واقعہ پیش آوے وہ شخص یقینا یقینا عملی طور پر ایماندار ہوگا.رسول اللہ ﷺ کی عملی ایمانی حالت پر غور کرو.(۲) قلب کا دھویاجانا.جس کا قلب دھویا جاوے اس کی عقل بڑھ جاوے گی اور بڑی سالم اور سلیم ہوگی.رسول اللہ ﷺ کی عاقبت اندیشی او رکمال عقل کو دیکھو.(۳) براق پر سوار ہونا.اس کو ایک سفر پیش آوے گا.مرتبہ بلند ہوگا.عافیت، عزت، کامیابی شامل ہوگی آپ کی زندگی پر نظر کرو.(۴) بیت المقدس کو جانا.علوم انبیاء کا وارث ہو.رسول اللہ ﷺ کو وہ علوم عطا ہوئے کہ کمالات نبوت کا خاتمہ ہوگیا.(۵) آسمان اول پر جانا.بہت بوڑھا نہیںہوگا.متوسط عمر کا ہو رسول اللہ ﷺ معراج کے بعد بارہ برس ہی زندہ رہے.(۶) دوسرے آسمان پر جانا.علم اور حکمت کی ترقی حاصل ہوتی ہے.(۷) تیسرے آسمان پرجانا.عزت اقبال کی ترقی ہوتی ہے.(۸) چوتھے آسمان پر جانا.سلطنت کا مالک ہوجاتا ہے.(۹) پانچویں آسمان پرجانا.اس کو کچھ مشکلات جزع فزع ضرور پیش آتے ہیں.(۱۰) چھٹے آسمان پرجانا.سعادت وجاہ اس کو حاصل ہوگی.(۱۱) ساتویں آسمان پرجانا.اس کے مراتب اور پایہ کا کوئی آدمی نہیں ہوتا.مگر آسمان کی طرف جانے والے کے ساتھ جھگڑے بہت ہوتے ہیں.

Page 77

(۱۲) جبرئیل کو دیکھے.دشمنوں پر فتح پاوے امربالمعروف ونہی عن المنکر کا بہت بڑا پابند ہو.(۱۳) میکائیل کو دیکھے.مال اور شرف پاتا ہے.(۱۴) سدرۃ المنتہیٰ.وہ اپنے سارے مطالب میں کامیاب ہوتا ہے.(۱۵) آسمان کے دروازوں کا کھلنا.اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.(۱۶) لوح محفوظ.مقبول الکلام ہوتا ہے.(۱۷) اللہ کو دیکھے.اس کی حاجات پوری ہوتی ہیں اور معزز قویٰ ہوتا ہے.واقعات معراج کی یہ لغت ہے اب ان لغت کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں معائنہ کرو اور دیکھو کہ یہ واقعہ معراج کیسا سچا اور صحیح واقعہ ہے.صبر کی دو اقسام صبر دو قسم کا ہوتا ہے صبر علی الطاعت اور صبر عن المعاصی.صبر علی الطاعت تو یہ ہے کہ نیکیوں پر ہمیشگی اور دوام کرے اور نیکیوں پر صبر یہ ہے کہ خوب سنوار سنوار کر کرے نماز پڑھے تو اس کو سمجھ سمجھ کر پڑھے او رعین وقت مقررہ پر پڑھے اور باجماعت پڑھے.صبر عن المعاصی یہ ہے کہ بدیوں سے بچتا رہے.مثلاً غضب آجاوے تو حلم کو برتے.شہوت آئے تو عفت سے کام لے.مشکلات میںبلند حوصلگی اختیار کرے حرص کے وقت قناعت اور کسی مشکل وقت میں شجاعت تہوّر سے کام لے.نیکی کے رنگ میں انسانی ہلاکت کا شیطانی انداز شیطان کبھی کبھی نیکی کے رنگ میں بھی انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے ایسے او راد اور وظائف بتلائے جاتے ہیں کہ انسان باجماعت نماز سے رہ جاتا ہے.پس انسان کو اپنی خود تراشیدہ نیکیوں کا گمان اور غرور نہیں کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قویٰ دیئے ہیں اس لئے جو بات اس کو نہیں دی گئی اس کو دوسرے سے کیا فائدہ اٹھاوے؟

Page 78

نفس کچھ چاہتا ہے دوستی اور دیگر تعلقات کچھ چاہتے ہیں.پس ایسے مقامات پر اللہ اور رسول کی اطاعت کرو.( الحکم جلد ۴ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۰۰ء صفحہ ۴،۵) مسلمانوں کے کسل کے اسباب لوگوں نے مسلمانوں کے کسل کے اسباب پر بڑی بڑی بحثیں کی ہیں میں نے بھی اپنی جگہ اس مضمون پر بہت غور کی ہے اور بڑے غور وفکر کے بعد جو اسباب مسلمانوں کی سستی کے مجھے معلوم ہوئے ہیں وہ یہ ہیں.اوّل:.علماء اور مشائخ جو گویا دینی امام اور رہبر تھے اعمال میں سست ہیں اور وہ قرآنی احکام کے موافق نمونہ نہیں ان کے بدنمونہ کا برا اثر قوم پر پڑا.دوم:.دوسرے درجہ پر جن لوگوں کا اثر قوم پر پڑتا ہے وہ امراء ہیں ان کی حالت بجائے خود ناگفتہ بہ ہے.وہ یورپ کے فیشن کے دلدادہ اور مغربی نمائشی تہذیب کے گرویدہ ہیں ان کی عملی ، اخلاقی ، مجلسی حالت کا اثر جو مسلمانوں پر پڑا اس نے بھی قوم کو نقصان پہنچایا.سوم:.عام اختلاف جو مسلمانوں میں پڑرہا ہے اس نے لوگوں کو حیران اور بالکل نکما کردیا ہے.امر حق پہنچنے کے لئے مشکلات کا سامنا ہے.چہارم:.ہر شخص کے دماغ میں یہ بات سما گئی ہے کہ جو کچھ اس نے سمجھا اور سوچا ہے وہی کافی ہے اس کی تحقیقات کے سامنے کسی دوسرے کی تحقیقات ہیچ اور ناقص ہے اس خیال نے قومی ترقی کی راہ میں جو استفادہ اور استفاضہ سے ہو سکتی ہے ایک بڑی روک پیدا کردی ہے.پنجم:.ان ساری آفتوں پر ایک یہ بڑی آفت پیدا ہوئی ہے کہ مذہب کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی.ششم:.اگر کوئی ضرورت مذہب کی سمجھی بھی جاتی ہے تو عوام کے لئے اور پھر مذہب کو چند مصالح قومی کا نام دیا جاتا ہے.ہفتم:.مذہب پر یقین تام ہی نہیں.

Page 79

ہشتم:.اولڈ فیشن ایام جاہلیت کا نمونہ نئی روشنی سے محروم ہیں.ایک لیکچرار نے اپنے لیکچر میں کہا کہ تعدد ازدواج اس اختلاف کا موجب ہے.اور دوسرے نے کہا کہ قبیح اور بدرسم ہے اور نہ سوچا کہ اس کا اثر کیا ہوگا اور کہاں ہوگا.نہم :.سزا کی پروا نہیں کہتے ہیں نجات ضرور ہوگی غیر منقطع سزا نہیں ہوگی.دہم :.مزاج وعادت میں شرارت ہے.وَتِلْکَ عَشْرَۃٌ کَامِلَۃٌ.شہوت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے گناہ شہوت کے مقابلہ میں اگر انسان عفت سے کام نہ لے تو مندرجہ ذیل گناہوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے.(۱) بدنظری (۲) خیانۃ العین (۳) زناالبصر (۴) زنا اللسان (۵) زناالاذن (۶) زنا الاعضاء.جس میں جلق، لواطت، زنا شامل ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا شہوت پرست انسان جریان، ضعف قوت نفسانیہ، حیوانیہ وطبعیہ کا شکار ہوجاتا ہے.پھر رنج، غم، کم ہمتی، کم حوصلگی پھر سوزاک، آتشک، موت اولاد ،جذام اور پھر قتل اس کے نتائج ہیں اور (ھود : ۸۳) کا بڑا بھاری موجب یہی ہوتا ہے.ہاں اسی بدنظری کے سوشل بدنتائج نکاح بلاولی، اسراف، بدنامی اولاد پر بد اثر اسقاط بھی ہوتے ہیں جب یہ حال ہے تو پھر میری سنو. (بنی اسرائیل : ۳۳) مسیح موعودؑ کا کسی کی بیعت نہ کرنے کے اعتراض کا جواب اکثر لوگ جو متعارف سلسلوں کی زنجیر میں پابند ہیں یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ حضرت اقدس جناب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چونکہ کسی سلسلہ ہائے اربعہ چشتیہ قادریہ نقشبندیہ سہروردیہ میں سے کسی کے بیعت نہیں کی ہوئی ہے اس لئے وہ واصل باللہ اور سالک کامل نہیں ہوسکتے.ان کا اس قسم کا سوال کنوئیں کے مینڈک سے بڑھ کر نہیں جو اپنی پانچ چار فیٹ کی وسیع دنیا سے اور کسی دنیا کو خیال میں بھی نہیں لاتا یہی حال ان کا ہے جو ہر قسم کے کمالات اپنے ہی چند خیالی

Page 80

وظائف و اوراد کے اندر ختم کر بیٹھے ہیں اور ان کی بیعت کے بدوں اور کوئی طریق ختم سلوک کا نہیں ہے.یہ سوال عام ہے اور حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب سے اس کا جواب ہمارے ایک دوست نے عرصہ ہوا طلب کیا تھا عام فائدہ کے لئے ہم اس کو یہاں درج کرتے ہیں جس میں بتلایا گیا ہے کہ کس قدر بزرگ دنیا میں گزرے ہیں جو ان چار خاندانوں میں یا کسی اور سلسلہ میں بیعت نہیں تھے اور انہوں نے کمال حاصل کیا اور وہ عارف باللہ ہوئے اور تمام وکمال سلوک کی راہوں کو طے کیا.وہ خط یہ ہے.(ایڈیٹر) السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ جن لوگوں نے ظاہری بیعت کسی سے نہیں کی وہ ہزاروں ہیں.ان میں سرتاج اولیاء حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور خاتم الانبیاء حضرت سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ ﷺ.عام اولیاء میں (۱) حضرت اویس قرنی سید التابعین اور رئیس اولیاء معاصرین ہیں.(۲) عامر بن عبداللہ بن تیمی.جن کا حال طبقات کبریٰ امام شعرانی میں بصفحہ نمبر ۲۷ مندرج ہے.(۳) مسروق بن عبدالرحیم (۴) علقمہ بن قیس ان سب کا حال طبقات میں ہے.بلکہ امام ابو حنیفہ امام احمد حنبل امام بخاری امام شافعی بھی ایسے ہی ہیں.جامع اصول الاولیاء مطبوعہ مصر صفحہ ۷ سطر ۳ و ۴ میں لکھا ہے کہ الشیخ السید عبدالقادر الجیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اب میں نبوۃ اور فتوۃ کے دریاؤں سے پانی پیتا ہوں کیا معنی کہ سیدنا و مولانا محمد ﷺ مرتضیٰ سے فیض ملتا ہے.اور امام ابوالحسن الشاذلی صاحب حزب البحر نے فرمایا ہے میں دس سمندروں سے پانی پیتا ہوں ان میں سے پانچ سمند ر آسمانی ہیں اور پانچ زمینی ہیں.آسمانی پانچ یہ ہیں.جبرئیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل، روح.زمینی پانچ یہ ہیں.ابوبکر ، عمر، عثمان ، علی اور محمد رسول اللہ ﷺ اور پھر بصفحہ نمبر ۲۴ جامع اصول الاولیاء مطبوعہ مصر سطر نمبر ۲۷ میں ہے.سالک کے لئے ضرور ہے کہ اس کا کوئی مرشد ہو

Page 81

ظاہری مرشد ہو یا باطنی.باطنی مرشد الہام ہے اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ.اجماع امت جس کو خوب غور سمجھ سے حاصل کیا ہو.پھر صفحہ ۲۹ میں لکھا ہے کہ یا اللہ تعالیٰ سالک کو ان سب باتوں سے بے پروا کردیتا ہے اور محض اپنے فضل سے اپنے جذب سے بغیر مشقت کے واصل بنادیتا ہے.والسلام نورالدین از قادیان (الحکم جلد ۴ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۶ ؍ستمبر ۱۹۰۰ ء صفحہ ۷،۸) بکریاں چَرانے میں سِر الٰہی رسول اللہ ﷺ کی بکریاں چرانے پر بعض نادان اعتراض کرتے ہیں وہ اس سر الٰہی سے ناواقف ہیں جو بکریاں چرانے میں رکھا گیا ہے یاد رکھو بکریاں چرانے والا بڑا محتاط اور ہوشیار ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ ذرا سی غفلت بھی کرے تو اس کی بکریوں کو درندوں سے نقصان پہنچے.پھر بکریاں چرانے والے کو درندوں کے مقابلہ کے واسطے ایک بڑا لٹھ ہاتھ میں رکھنا ضروری ہے اسی لٹھ کے ساتھ وہ درندوں کا مقابلہ کرتا ہے اور اسی کے ساتھ بکریوں کو مارتا ہے مگر وہ دونوں حالتوں میں ایک صریح امتیاز رکھتا ہے.اس طرح پر اس کو حلم اور غضب کوفی محلہ خرچ کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے.قوم کا واعظ مومن جب اپنے گھر میں یا کنبے میں کوئی غلطی دیکھے.وہ بلا خوف لومۃ لائم ان کو ڈراوے.ہر ایک قوم کا واعظ اپنی قوم کے لئے ٹھیک ہوسکتا ہے.اپنے دوست احباب، گھر والوں اور جن کے حالات سے تم خوب واقف ہواور اپنے تمام رشتہ داروں کو ان کی غلطیوں سے آگاہ کرو اور ان کو امر بالمعروف کرو اور نہی عن المنکر.یہ اللہ تعالیٰ کا منشا ہے اور یہی طریق ہے حضرت ابوالملۃ ابراہیم علیہ السلام کا.اس سے ایمان قوی ہوتا ہے اور شجاعت پیدا ہوتی ہے.اعمال صالحہ اپنے اعمال کو سیدھا کرو.یادرکھو کہ کوئی تمہارا علم، آبرو، دولت، طاقت کام نہ آوے گی.مگر کام آنے والی ایک اور صرف ایک ہی چیز ہے جس کو اعمال صالحہ کہتے ہیں.

Page 82

اعمال صالحہ اپنی ہی تجویز اور خیال پر اعمال صالحہ نہیں ہوسکتے جن میں اخلاص ہو اور صواب ہو کیا معنے خدا ہی کے لئے ہوں اور خدا ہی میں ہو کر ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمودہ اور نبی کریم ﷺ کے عمل کے موافق ہوں.پس حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا اس سے پہلے اپنا حساب کرلو جبکہ تمہارا حساب کیا جاوے اور وَازِنُوْا قَبْلَ اَنْ تُوَازَنُوْا اس سے پیشتر کہ تم تولے جاؤ خود اپنے آپ کو تولو.ہر روز سستی اور گناہوں کے دور کرنے کی کوشش کرو.باریک در باریک اعمال پر خوب غور کرو.میں سچ کہتا ہوں وہ شخص بڑے ہی گھاٹے میں ہے جس کے دو دن برابر گزرے.تین زبانیں سیکھنے کی تاکید ساری خوبیاں، آرام اور سکھ انسان کو حاصل ہوجاتے ہیں جبکہ وہ خدا کا بن جاتا ہے بڑے بدبخت ہیں وہ لوگ جو قرآن شریف سے لذت نہیں اٹھاتے.یاد رکھو انسان کو تین زبانیں ضرور سیکھنی چاہئیں.اوّل مذہب کی زبان ، دوم بادشاہ کی زبان ، سوم ملک کی زبان.اور اب موجودہ حالت میں گویا عربی، انگریزی، اردو یہ زبانیں اعلیٰ درجہ کی حاصل کرو.قرآن کی زبان شرافت ، عزت بڑھانے کا موجب ہے.عرب پہلے کیاتھے؟ کچھ بھی نہ تھے قرآن کے بعد تمام دنیا کے فاتح اور امام کہلائے.اب عرب نے قرآن چھوڑدیا دیکھو بھیک مانگتے پھرتے ہیں.قرآن شریف انسان کو شریف اور تاریخی انسان بنادیتا ہے پس اگر شریف اور تاریخی انسان بننا چاہتے ہو تو قرآن کو پکڑو.دکھ اور تکلیف پہنچنے سے ملنے والی خوشیاں حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہے کہ جب مجھے کوئی دکھ آتا ہے تو مجھے تین خوشیاں ہوتی ہیں اول بڑے دکھ سے بچنا.دوم گناہوں کا کفارہ.سوم دنیا کی مصیبت ہے نہ دین کی.مگر جب مجھے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مجھے ایک چوتھی راحت بھی ہوتی ہے.اور وہ یہ کہ دعاؤں کا موقع ملتا ہے اور یہ ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تکلیف کے بعد بہترین راحت دے گا.

Page 83

روحانی بیماریوں کے علاج کا طریق قرآن شریف میں دو قسم کے گروہوں کا ذکر ہوا ہے فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ اور فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ.پس قرآن پڑھو تو یہ ضرور سوچو کہ تم کس فریق میں ہو.آدم ہو یا ابلیس، نوح ہو یا قوم نوح، عادی ہو یا ہود، ثمودی ہو یا صالح، موسیٰ ہو یا فرعون، محمد ﷺ ہو یا ابوجہل اور مشرکان مکہ.یہ ایک طریق ہے اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کا اور میں نے اس طرز پر اپنا علاج کر کے فائدہ اٹھایا ہے.قرآن شریف پڑھو مگر دستور العمل بنانے کے لئے.کامل مومن ہونے کے لئے تین امتحان مومن وہ ہوتا ہے جو اپنی جان کو ظلم …اور رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْکہہ اٹھے.یاد رکھو جب تک تین قسم کے امتحان میں پاس نہ ہووے مومن کامل نہیں ہوسکتے.اوّل آدمی کے اندر کچھ نہ کچھ بیماریاں ضرور ہوتی ہیں.ازانجملہ ظلمت العادات بہت بڑی تاریکی ہے کوئی نہ کوئی بُرائی یا عیب جو انسان میں ہوتا ہے جب اس کو چھوڑنا چاہتا ہے تو پہلے اس کے تکالیف اور ظلم ضرور سہنے پڑتے ہیں.پھر اقتصاد کی حالت ہوتی کسی وقت نیکی کا خیال کرتا ہے اور بدی کا خیال بھی کر بیٹھتا ہے.اس کے بعد آخری حالت فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ کی ہوتی ہے جس میں گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے.پس اپنی بدعادتوں کو چھوڑو.ہر قسم کی ظلمت سے نکلنے کے لئے مجاہدہ کرو اور استغفار پڑھو تا کہ گناہوں سے محفوظ ہوجاؤ.(الحکم جلد ۴ نمبر۳۴ مورخہ ۲۴ ؍ستمبر ۱۹۰۰ ء صفحہ ۵،۶) شراب اور اُس کی حرمت کی تین وجوہ رسول اللہ ﷺ کے سوا دنیا پر کسی نے یہ احسان نہیں کیا کہ شراب کو جو جما ع الاثم یعنی ساری بدیوں کی جامع ہے حرام فرمایا.ہر بد اخلاقی شراب سے پیدا ہوتی ہے.بعض لوگوں نے اس بات پر سوال کیا ہے کہ قرآن شریف سے صراحتاً شراب کی حرمت کہاں سے ثابت ہے؟ میرے نزدیک تین زبردست وجوہ حرمت شراب کے ہیں.

Page 84

اوّل:.یادرکھنا چاہئے کہ قرآ ن کریم استدلال بالاولیٰ سے زیادہ کام لیتا ہے.قرآن کریم نے ہر اثم کو حرام فرمایا ہے اور شراب کو اثم کبیر قرار دیا ہے پس شراب بطریق اولیٰ حرام ہوئی.دوم:.عام دربار سلطانی میںجہاں سب کو جانے کی اجازت ہوتی ہے اگر کسی شخص کو روکا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص بہت ہی زیر عتاب ہے.جب کہ عام دربار میں جانے سے روکا گیا وہ انسان بہت ہی ذلیل ہوتا ہے پھر شرابی کو دیکھو حکم ہے کہ  (النساء : ۴۴) مسجد کے قریب نہ جانے پائے جو چیز اس قدر ذلیل کردیتی ہے اس کا جواز کہاں سے ثابت ہوا.سوم :.شراب تمام قویٰ انسانی کو ایک زبردست تحریک کرتی ہے اور اپنا مطلوب چاہتی ہے ہر ایک قوت کا مطلوب بہم پہنچنا محال ہے اس لئے شراب کی حرمت صاف ہے.بیمار دل جو دل ایمان، نماز اور نیک کاموں سے حظ نہیں اٹھاتا وہ اپنا علاج کرے کیونکہ وہ بیمار ہے جیسے بیمار کو عمدہ سے عمدہ اشیاء بھی اچھی نہیں لگتی ہیں اسی طرح پر وہ دل روحانی بیماریوں میں مبتلا ہے.چار کی صلاح اور اجازت جب کوئی کام کرنے لگو تو چار کی ضرور صلاح لینی چاہئے.اللہ تعالیٰ کی اجازت ، رسول اللہ ﷺ کی اجازت، اولوالامر کی اجازت اپنے وجدان، فطرت اور عقل کی اجازت.شرک اور مشرک مشرک آدمی سچے اسباب تلاش نہیں کرتا اور نہ سچے نتائج حاصل کرسکتا ہے مشرک جہالت ہی میں پھنسا رہتا ہے.شرک سے اختلافات اور متفرقات اور نفاق پیدا ہوتے ہیں.وضو کی حقیقت نماز ایک قسم کا معاہدہ اور حضور الٰہی میںدعا کرنے کا موقع ہے وضو کی حقیقت یہ ہے کہ جب انسان پہلے ہاتھ دھوتا ہے تو اس سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں تمام گناہوں سے ہاتھ دھوتا ہوں خصوصاً ان گناہوں سے جو ہاتھ سے سرزد ہوتے ہیں.پھر منہ میں پانی ڈال

Page 85

کر کُرلی کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میں ان تمام فضول اور واہیات باتوں سے جو منہ سے کی ہیں توبہ کرتا ہوں اور جب ناک میں پانی ڈالتاہے تو ان جھوٹی مشیختوںاور عزتوں کو جو ظاہرداری اور تصنع کے لئے کرتا ہے چھوڑتا ہے.اور جب منہ کو دھوتا ہے تو جو بدفعلیاں اور بدنظریاں کی تھیں ان سے اپنی آنکھوں اور چہرہ کو جن پر ایک خاص اثر دیکھنے سے پڑتا ہے پاک کرتا ہے اور جب اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھوتا ہے تو جتنے ظلم ہاتھوں سے کئے تھے اور جس قدر بدکاریاں ہاتھوں سے ظہور پذیر ہوئی تھیں ان سب سے دستبردار ہوتا ہے.اور جب کانوں اور سر پر مسح کرتا ہے تو جتنی بدعملی یا بدکاری کی باتیں سنی تھیں اور ان کو اپنے سر میں جگہ دی تھی ان سب کو چھوڑ کر رجوع الیٰ اللہ کرتا ہے اور جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں کے گناہوں سے توبہ کرتا ہے.(الحکم جلد ۴ نمبر ۳۵ مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۶ ) اپنی لڑکی کو نکاح کے بعد کیا فرمایا بچہ! اپنے مالک رازق اللہ کریم سے ہر وقت ڈرتے رہنا اور اس کی رضا مندی کا ہر دم طالب رہنا اور دعا کی عادت رکھنا.نماز اپنے وقت پراور منزل قرآن کریم کی بقدر امکان بدوں امام وممانعت شریعہ ہمیشہ پڑھنا، زکوٰۃ، روزہ، حج کا ہمیشہ دھیان رکھنا اور اپنے موقع پر اس کا عملدرآمد کرتے رہنا.گلہ، جھوٹ، بہتان، بیہودہ قصہ کہانیاں یہاں کی عورتوں کی عادت ہے اور بے وجہ باتیں شروع کردیتی ہیں ایسی عورتوں کی مجلس زہر قاتل ہے ہوشیار خبردار رہنا.ہم کو ہمیشہ خط لکھنا، علم دولت ہے بے زوال، ہمیشہ پڑھنا، چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو قرآن پڑھانا، زبان کو نرم، اخلاق کو نیک رکھنا، پردہ بڑی ضروری چیز ہے، قرآن شریف کے بعد ریاحین العابدین کو ہمیشہ پڑھتے رہنا، مرأۃ العروس اور دوسری کتابیں پڑھو.اور ان پر عمل کرو.اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو اور تم کو نیک کاموں میں مدد دیوے.والسلام نورالدین (الحکم جلد ۴ نمبر۴۶ مورخہ ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۵)

Page 86

حضرت حکیم الامت کے خط میں سے چند فقرے اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں.زمان فطرت میں ایک وحدت فی الکثرت ہو تی ہے اور ایک کثرت فی الوحدت والکثرت.پھر مرسل من اللہ کے زمانہ میں پہلے کچھ وحدتیں معاً تفرقہ اور کثرت میں بدل جاتی ہیں اور پہلے تفرقہ اکثر وحدت کی طرف سُبْحَانَکَ مَا اَعْظَمَ شَاْنُکَ.دعا ٭ کے بارے میں اگر سید احمد خان والی استجابت کے لئے ہے تو وہ اضطراب فطری کہاںسے آئے اور اس کا ثمرہ کیا؟ اور اگر مرزا احمد والی استجابت کے واسطے تو توقع کہا ں ؟ قَدْ کُنَّا فِیْ زُعْمِہٖ مِنْ الْمُشْرِکِیْنَ پھر میری اپنی خواہش کی دعا ہے کہ آپ لوگ امام الوقت کو پہچانیں جس کو ہم نے علیٰ وجہ البصیرت ماننا پسند کیا ہے.ولَا یُؤْمِنْ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبُّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ.( صحیح البخاری ، کتاب الایمان ، باب من الایمان ان یحب لاخیہ… حدیث نمبر۱۳) (الحکم جلد۵ ،نمبر ۵ ،مورخہ۱۰؍ فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۶) ایک خط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰن الرَّحَیْم نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم واٰلہ مع التسلیم ثمّ السلام علیکم مع التکریم کل میری طبیعت نہایت بے چین تھی.غم غلط کرنے کو میں اپنی الماری کی طرف جھکا جس میں مختصر رسائل تھے اور ان میں سے سرخ پشتہ کا رسالہ ’’جو ش مذہبی‘‘ نام نکال لایا تھا.مختصر جلدی میں تمام ہو گیا اور نیند نہ آئی آخر یہ خط لکھنے بیٹھ گیا.میرا ابتدا میں خیال تھا کہ قوم۱کا دل یہ بزرگ اور ولی ہیں ان سے قوم کا بیڑا پار ہو گا اِذَا اَصْلَحَ اَصْلَحَ الْجَسَدُ کُلَّہُ.قوم۲کا دماغ یہ علماء ہیں مولوی لوگ ان سے نفع پہنچ سکتا ہے. (المجادلۃ : ۱۲) قوم۳ کے مصلح اور معزز کرنے والے قوم پر حکمران نواب و رئیس ہیں اُوْلُوالْاَمْرِ مِنْکُمْ.حج کے قومی منافع ٭مولوی صاحب کی خدمت میں ایک شخص نے کسی ایسے شخص کے لئے دعا کے واسطے لکھا تھا جو حضرت اقدس امام علیہ السلام اورآپ کی جماعت کو معاذ اللہ مشرک سمجھتا تھا.(ایڈیٹرالحکم)

Page 87

میں اور شخصی اسباب راحت میں انہی پر حج کا حکم ہے(اٰل عمران : ۹۸) مگر ساتھ ہی قرآن شریف میں پڑھا اورایک گدی نشین کی خبر ملی.نمبر۱ (الاعراف : ۱۷۷) بِئْسَ مَثَلُ السُّوْئِ. (الاعراف : ۱۷۷) اور عالموں کی نسبت کہا گیا نمبر۲ (الجاثیۃ : ۱۸) اور اصحاب دُوَل و غنا کے متعلق خبر ملی.نمبر ۳  (الشورٰی : ۲۸) اور (الانعام : ۱۲۴) یہ تو علمی اور صرف خیالی میری حالت تھی.پھر میں نے یقین کیا ہوا تھا کہ علم بدون عمل ایک نکما وہم ہے اس لئے بہت لوگوں کا مرید بن کر دیکھا.خود طلب علم میں ہندو یمن، حرمین کا سفر کیا.طِبّ کا علم پڑھ کر غنٰی بھی ایک درجہ کا حاصل کیا اور اگر اسے غنٰی نہ سمجھیں تو اس طب کے سلسلہ میںمجھے امراء و اغنیاء سے بلکہ سلاطین کے پاس پہنچنے کا بھی موقع ملا.گو وہ سلطنت والے پرانی اصطلاح کے سلطان ہوں مگر آہ!میں قوم کے واسطے کوئی بابرکت وجود ثابت نہیں ہو سکا.پھر مجھے یہ سوجھا کہ میں اپنے، صرف اپنے خرچ سے ایسے باراں آدمی تیار کروں جن کو ضرویات کے لئے پچاس روپے ماہانہ دیا جائے اور وہ زمانہ کی رفتار پر مصلح بنیں.عربی کے عالم دو، عبری کے ماہر دو، یونانی جاننے والے دو،سنسکرت جاننے والے دو، انگریزی دان دو ، عربی انگریزی دو.پھر اس خیال پر دو مولوی بڑے عربی دان اور میرے نزدیک بہت ٹھیک.عبری پڑھنے کے لئے پہلے چریا کوٹ، پھر کلکتہ کو بھیجے اور وہ دو برس میں بڑے کامل عبری دان بن کر واپس آئے اور دو علی گڑھ کے کالج میں بھیجے اور سید احمد خاں کے کہنے پر ان کو ماہانہ تیس روپے کے قریب دیتے رہے.غرض قصہ مختصر جب یہ صاحبان میرے پاس تشریف لائے تو میں نے ایک جلسہ کیا اور اپنے خیال میں اہل ا لرائے احباب کو جمع کیا اور پو چھا سر دست کس طرح کام شروع کیا جائے تو سب

Page 88

ساکت ہوئے.آخر میرے اصرار پر وہ عبری دان بولے.آپ کو جنون ہے ہم تو طب پڑھ کر روپیہ جمع کریں گے اوربس کہاں کا بکھیڑا.مذہب مذہب یا قوم!یاقوم !.علی گڑھ والے بولے ہم نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اب پلیڈری کریں گے تو روپیہ جمع کر کے بیرسٹری کے لئے ولایت جائیں گے.اب مجھے گھبرا کر کچھ کہنے کا ارادہ تھا کہ ایک پیر صاحب بولے.اٹھیے ہمارے مرید بہت ہیں ہم تمہارے منشا کے مطابق قرآن کریم ان کو سنایا کریں گے.آخر جلسہ مابین نا کامی و کامیابی (پیر صاحب کے بھولے پن کی مہربانی )برخواست.ایک اور صاحب علی گڑھ میں انگریزی و سنسکرت پڑھتے تھے اور برہمن کا خون بھی ان میں تھا مجھے فرمایا کہ یہ مردہ زبان ہے اور اس کے پڑھانے والے احمق پنڈت ہیں، میں اب نہیں پڑھ سکتا.آخر پلیڈر بن گئے.اب ان کی یہ حالت ہے کہ ایک آشنا کو پرا ئیویٹ خط میں کہتے ہیں کہ قادیانی لوگ لائق تھے مگرکود کر اسلام سے نکل گئے.اور خود نہ نماز، نہ روزہ، نہ زکوٰۃ، نہ حج اور نہ قرآن کریم کا فہم.یہ تہذیب اور شائستگی وہاں سیکھی.سید احمد خاںمجھے جانتے تھے اور میں ان کو اچھی طرح جانتا تھا.ان کی ’’الدعا و الاستجابت‘‘ پر میری تحریک سے ’’برکات الدعا‘‘ رسالہ نکالا تھا.جس کے بعد انہوں نے خط و کتابت کا سلسلہ مجھ سے زیادہ کر لیا اورقریب ایام مرگ مجھے لکھا کہ بدون نصرت الٰہیہ اور دعا کہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا.آخر جناب میرے دل پر یہ خیال پیدا ہوا.تاریخ کو الٹ پلٹ کر دیکھ.مصلحین کے آثار دیکھ.یہ طریق جو تم نے نکالے کب کامیابی اور اصلاح قوم کا باعث ہوئے؟ کیا یورپ میں پوپوں، پادریوں، شہزادوں سے اصلاح ہوئی.الاسلام اللہ سے جس کا نام السلام۱ ہے.جبرائیل کی معرفت جس کا نام مطا۲ع ہے.محمد رسول۳ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جس کو  (المائدۃ : ۶۸) قرآ۴ن میں جس کو  (حٰمٓ السجدۃ :۴۳) کہا گیا.حر۵مین میں جس کے حق میں اَمْنًا آگیا ہے آیا اور اس کا ثمرہ دارالسلا۶م ہے تو کیوں یہ معدوم ہو نے لگا؟

Page 89

ہاں بعض گھروں سے اگر نکل گیا تو بعض دوسرے گھروں میں ضرورجلوہ گری کرے گا.یہود ذلیل قوم ہو گئے تو عیسائیوں میں آیا انہوں نے غلطیاں شروع کر دیں تو عرب نے اختیار کرلیا.بنی امیہ کے تساہل پر عباسی جانشین ہوئے.عباسیوں کی عیاشیوں پر ترک آئے تومعاً اسلام میں داخل ہو گئے.مگر بات یہ ہے کہ ارضی دنیا تو عالم اسباب ہے کسی کے ذریعہ اور کسی کے سبب سے الاسلام جدید رنگ میں ظاہر ہو تا ہے.مثلاً آدم کے ذریعہ جس کی تحقیر میں ملائکہ بھی نا فہمی سے شریک ہوئے تھے.نوح کے واسطے سے جن کا امراء و شرفا نے تمسخر کیا.آخرموسیٰ سے جس کو اس زمانہ کے بادشاہ نے(الزخرف : ۵۳) کہا.پھر نوبت آئی ہمارے سید و مولیٰ متمم مکارم اخلاق جامع کمالات دنیا و دین اس یتیم بیکس بے بس کے حالات سے معلوم ہوا.راتوں رات شہر سے غار ثور میں اور وہاں سے مدینہ کو بھاگا.دیکھ یہ سب منصوبوں سے نہیں ہمارے یدقدرت سے منصور و مؤید ہوئے.کسی کے انتخاب سے نہیں صرف ہمارے انتخاب سے منتخب ہوئے.اگر یہ صرف دنیوی لوگوں کی اعلیٰ تعلیم کا ثمرہ ہو تا تو سید احمد خاں کی اولاد سید احمد خاںسے زیادہ بڑھ چڑھ کر مصلح ہو تی.اس لئے میں اس وقت کی سخت ضرورتوں کو محسوس کر کے اور اپنے آپ کو مامور نہ پا کے مامور کی جستجو میں لگا اور آخر قادیان میں اسے پایا اور دس سال کا عرصہ ہو تا ہے کہ اس مختصر گاؤں میں ڈیرہ جما دیا.مجھے اس کی پہچا ن میں دقّت نہیں ہوئی.ہزاروں ماموروں کے واقعات میرے پاس تاریخوں میں موجود تھے.ان کی تعلیمات کا عظیم الشا ن ذخیرہ یہود، ہنود اور مسلمانوںمیں موجود تھے.کس طرح یہ لوگ پیدا ہو تے ؟کس طرح کا نشو ونما پاتے؟ لوگوںمیں ان کے حسب و نسب کا کیا حال ہو تا ہے؟ ان کے دماغ کیسے؟ ان کے خیالات کیسے؟ ان کے احباب کیسے؟ ان کی کامیابی کیسی؟ ان کے اعداء کی ناکامی کیسی؟ ان کی تعلیمات بتدریج کس طرح پھیلتی ہیں؟ غرض اس شخص کی پہلی صدا پر میں اس کے پاس پہنچا.کچھ دنوںمیں بیسیوں ایم اے، بی اے، پلیڈر، ڈاکٹر اور

Page 90

رئیس بنے بنائے بدوں کسی خرچ و خوراک دینے کے اور بلا رضاعت مال موجود عراق و شام، عرب وروم وہاں نظر آنے لگے.یورپ و امریکہ میں بات جا پہنچی تو مجھے اپنے گزشتہ مال کا رنج ہوا اور اس دس برس میں دیکھ لیا کہ تیس ہزار کے قریب لوگ بتدریج اس کے ساتھ ہو گئے اور ہم نے ہزاروں خرچ کئے اور ایک جاںنثار نہ مل سکا(الانفال : ۶۴) ہی صادق ٹھہرا.غرض اپنی طرح کا آرزو مندجوش مذہبی کے بزرگ کو پایا تو بڑے عزم سے یہ خط لکھ دیا لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبُّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسَہٖ( صحیح البخاری ، کتاب الایمان ، باب من الایمان ان یحب لاخیہ… حدیث نمبر۱۳) میںنے اپنے شفا خانے کا نسخہ مفید پایا آپ کو اس سے مجملاً آگاہی دی اب اس شخص کے متعلق اس کی تصنیف کے متعلق گہری نگاہ سے کام لیں اس کا نام ہے مرزا غلام احمد قادیانی.اب میں خط کو ختم کرتا ہوں وَ اِنَّمَا لِامْرِئٍ مَّا نَوٰی.ہاں آپ کے رسالہ، جوش مذہبی سے مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ کو قسطنطنیہ کے حالات پر بھی گو نہ آگاہی ہے اس لئے عرض ہے کہ جس طرح مصر کے بے پایاں سمندریا نیل کے فیضان سے ہر ہفتہ پنجاب فیض پاتا ہے اور ہزاروں عمدہ عمدہ کتابیں ہمیں ملتی ہیں کیا قسطنطنیہ ایسی داد و دہش میں بے پروائی میں ہے؟ روح البیان، عینی شرح بخاری، مجموعہ شرح مواقف کوئی عمدہ کتاب ہمیں نہیں ملی.تفسیر ، حدیث ،تاریخ، کلام جدید ،ادب فلسفہ، طبیعات ، سیرت محمدیہ مدراس کے کورس اگر آپ کو حرج و تکلیف نہ ہو تو آپ ایسے پتہ بتا دیں جس کے ذریعہ ہم کتابو ں پر اطلاع پا سکیں اور پھر منگوا سکیں اور روپیہ با احتیاط پہنچ سکے بھیجا ہوا ضائع نہ ہو جاوے.نوردین (الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱، مورخہ ۲۴؍مارچ ا۱۹۰ء صفحہ۵،۶ )

Page 91

طمع (۳؍مئی ۱۸۹۹ء کو یہ چند تفہیمات ہوئیں) طمع اور طامع طمع سے سرقہ پیدا ہوتا ہے.طامع کا پہلے تو اشیاء صغیرہ پر ہاتھ پڑتا ہے پھر قطع ید تک اس کی نوبت پہنچتی ہے.قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَعَنَ اللّٰہُ السَّارِقَ یَسْرِقُ الْبَیْضَۃَ یُقْطَعُ یَدُہٗ ( صحیح البخاری کتاب الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم) محسنوں پر تعدی کرتا ہے پھر اقرب الاقارب‘ اخوان پر پھر قابل اساتذہ واحباب پر.طمع کی اولاد میں طولِ امل ہے اور اس کے احفاد میں ہے.تَوَلَّی عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ تَوَلّٰی عَنْ کِتَابِ اللّٰہِ اُنْظُرُوْا.  (البقرۃ : ۱۰۳) اشغال باللعب اسی طمع کی نسل ہے.طمع کا نتیجہ ناکامی ، سوء ظن علی اللہ ، حسن ظن علی النفس ، بد اخلاقی طامع اخوان واحباب سے کیونکہ جس عزت، فتح ونصرت ،فضل کا امید وار ہوتاہے وہ کامل طورپرنصیب نہیں ہوتے.تو کبھی مولیٰ کریم ربّ العالمین، رحمان رحیم اور اس کی تقدیر پر نعوذ باللہ تبر ّے بول اٹھتا ہے اور کبھی احباب و انصار کوہدف ملامت بنا کر اپنا دشمن بنا لیتا ہے.فعل ما قدر کو جانتا ہی نہیں کہ کس مامور کا ارشاد ہے صلی اللہ علیہ وسلم    (آل عمران :۱۵۳) اور   (التوبۃ :۲۵) واقعات صحیحہ ہیں کہ نہیں.اسی واسطے اعلیٰ طبقہ مہاجر وانصار نے کبھی نہ چاہا کہ مجھے فلاں حکومت میں حصہ ملے اور فلاں تحصیل اموال میں مجھے بھیجا جاوے.فضل اور عبد المطلب بن حارثہ کے والدین نے ارادہ کیا اور ابوالامۃ بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوالحسن علیہ السلام کی مخالفت اس امر میں ابو موسیٰ کے ساتھیوں کا مال طلب کرنا سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کو محروم کرنا ابو موسیٰ اشعری کا عذر شواہد عدل ہیں.

Page 92

بل اس پر اگر زیادہ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی ادنیٰ معاملات کے لئے دعا بھی نہ منگوائی کہ میرے اولاد ہو میرا مال بڑھے تجارت میں نفع ہو جیسے آج کل امتحانات کی کامیابی ، ترقی تنخواہ ، اولاد ، دفائن خزائن پر اطلاع ، واقعات کے قبل از وقت اطلاع کی خواہشیں نظر آرہی ہیں.ہاں اوامر الٰہیہ میں فطرت کے نیچے رہ کر تقاضات فطرت کو پورا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ ہوا خواہان تجربہ کار سے مستورہ نظر بر تال اور دور بینی کی جاوے.(الشوری :۳۹)  (آل عمران :۱۶۰) پھر عزم تام ، پھر تدابیر کاملہ ، پھر شجاعت اور ہمت بلند اور استقلال وصبر آخر میں حزم واحتیاط تام سے کام لے.اعوان وانصار بل اعدا ء کے ساتھ بھی لطف ، نرمی ، تجاہل ، اغماض سے کام لے.تعدّدِ ازواج کی ضرورت التقوٰی وحفظ القوٰی (۱) عدم موافقت ہے اور طلاق کا موقع نہیں (۲)عقم (۳)حمل اور اس پر ارضاع کی مدت درازاور علاوہ براں مرد تناسلی مزاج ہے (۴)کثرت تولد بنات بعض بلاد و خاندانوں میں (۵)پولیٹیکل مصالح اور سیاست کی ضرورت (۶)عورتیں غالباً پچاس برس کے بعد قابل نسل نہیں رہتیں بخلاف مردوں کے کہ وہ نوے برس تک ہمارے ملک میں قابل ہیں (۷) قدرتاً عورت مرد انسانی نسل میں جوڑا پیدا نہیں ہوتے.(۸)مشاہدہ کثرت زنا جن بلاد میں تعدد ازدواج جائز نہیں (۹)وقوع قتل ازدواج ایسے بلاد میں بضرورت محبت کسی اور سے (۱۰)عورتوں کو ممکن نہیں کہ ایک سال میں مرد کے لئے کئی لڑکے جن دیں اور مردوں کو ممکن.(۱۱) قدرت نے توالد تناسل میں عورت کو بہ نسبت مرد کے بہت بوجھ رکھا ہے اور اولاد کے منافع میں قریباًدونوں شریک ہیں.مندرجہ بالا اسباب ہیں جو تعدد ازواج کی ضرورت کو بیان کرتے ہیں.غور طلب عالم کا ہر ایک واقعہ نصیحتوں کی کتاب اور خود انسان کا نفس عبرتوں کا دفتر ہے.قرآن مجید ان تمام نصیحتوں اور عبرتوں کی یاد دہانی سے بھرا ہوا ہے پھر لوگ کچھ نہیں سمجھتے

Page 93

چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے.  (الذّٰریٰت : ۲۱،۲۲) زمین میں اہل حق کے واسطے نشانات ہیں اور تمہارے نفسوں میں بھی کیاتم نہیں دیکھتے ؟ پس کیا عالم کے واقعات اور اپنے نفس سے تم کو کچھ … نہیں ہوئی کہ احکام خداوندی کی نافرمانی سے ظاہر میں کیا حال ہوگا اور نفس کیسے خراب ہوگئے تو پھر ابھی اذکار قرآنی سے متنفر ہی رہو گے.(الحکم جلد۵ نمبر۱۸ مورخہ ۱۷؍ مئی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۱،۱۲) چار سوالوں کے جواب کسی شخص نے منشی کرم علی صاحب خوشنویس قادیان کے ذریعہ مندرجہ ذیل چارسوالوں کا جواب طلب کیا تھا.حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب حکیم الامت نے ان سوالوں کا مختصر مگر کافی جواب لکھ دیا ہے جس کو عام فائدہ کے لئے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.(ایڈیٹر الحکم) چار سوال ا.مسیلمہ کذّاب کی عمر بعد دعویٰ نبوت.۲.(اٰل عمران : ۱۱۳) کا مطلب.۳.(النساء: ۱۶۰) کا ترجمہ.۴.(البقرۃ : ۱۰۷) کا صحیح اور خلاصہ مطلب.جواب ۱.مسیلمہ نے ۱۱ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخیر وفات پر دعویٰ نبوت کیا اور اسی ۱۱ ہجری میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فوجی افسروں نے اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت سے مسیلمہ کو ہلاک کر دیا.بس اس کافساد ایک ہی سال کے اندر اندر ہے اور یہ بات تاریخ طبری کبیر سے بالکل ظاہر ہے.دیکھو صفحہ۱۹۱۶.

Page 94

(اٰل عمران : ۱۱۳)ٍّ.مفردات القرآن میں لفظ قتل کے نیچے لکھا ہے قَتَلْتَہ ذَلَلْتَہ.تو اس معنی کر کے تم لوگ ذلیل کرنا چا ہتے ہوانبیاء کو ناحق اور قتل کے معنی سخت مارنا یامار ڈالنا بھی آیا ہے تو اس لئے معنی ہوئے سخت مارنا یا مار ڈالنا چا ہتے ہو.یَقْتُلُوْنَ مضارع کا صیغہ ہے مطلب یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذلیل کرنے یا سخت مارنے یا قتل کرنے میں تمام انبیاء کا قتل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (المائدۃ: ۳۳) ۳.(النساء: ۱۶۰) کا ترجمہ یہ ہے اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر ضرو ر ایمان لائے گا ساتھ اس قتل کے قبل موت اپنی کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے قتل نہیں کیامسیح کو یقیناً بلکہ اللہ نے اسے بلند کیا اپنی طرف.اللہ تعالیٰ ان کاردّ فرماتا ہے کہ مشتبہ غیر یقینی بات پر ایمان کیسی حماقت ہے.۴.… الخ (البقرۃ: ۱۰۷) اگر مٹا دیں ہم کوئی بھی نشان یا اسے دنیا سے بھلا ہی دیں تو لاتے ہیں ہم بہتر اس سے یا اس کی برابر.کیا معنی؟ اگر ہم کوئی نشان کسی طرح کا ہو اگر ہم مٹا دیں اور مٹا کر ایسا کر دیں کہ وہ بھول ہی جاو ے تو ہم اس سے بہتر لاتے ہیں.دیکھو ہزاروں اشیاء دنیا سے مٹیں اور بُھلائی گئیںمگر موجودہ وقت میں اللہ نے اس سے بہترموجود کردیں.یہی حال شرائع سابقہ کا بھی ہوا.فقط ( الحکم جلد ۵ نمبر ۳۳ ، مورخہ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحہ۱۱) حکیم الامت کے مکتوبات ذیل میں ہم حضرت حکیم الامت کے مکتوبات کا ایک سلسلہ درج کرتے ہیں اس سلسلہ میں تاریخ اور سن کا لحاظ ہم نہ رکھیں گے اور نہ مضامین کا خیال بلکہ ہر قسم کے خطوط جو ہمیں دستیاب ہو ں گے درج کریں گے.اس لئے ہم الحکم کے پڑھنے والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ جس کسی کے

Page 95

پاس حکیم الامت کے خطوط ہیں وہ خواہ کیسے ہی ہوں براہ کرم عام فائدہ کی خاطر ہمیں سردست اصل بھیج دیں بعد نقل وہ اصل ان کو بھیج دی جاوے گی.(ایڈیٹرالحکم) مکتوب ارشد ارجمند حفظک اللّٰہ وسلّم میں تم سے ملا.پر کیا ملا! بات کرنے کا موقع بھی نہ ملا.دل کی باتیں دل میں رہیں.جدا ہوا تو کیسا جدا ہوا ! شیخ صاحب سے اسٹیشن پر صرف السلام علیکم ہوئی.ریل میں ایک پادری صاحب سے بحث تھی.کچھ ادھر کا خیال کچھ ریل کے چلے جانے کا.وزیر آباد پہنچ کر خود سخت بیمار ہو گیا.بخار، درد سر، گھبراؤ دامن گیر ہوا.رات کو سیالکوٹ پہنچا.وہی بے آرامی.بدقت جمّوں پہنچا.کل سے ذرہ آرام ہے.میاں احمد یار صاحب بیمار تھے ان کی بھی آپ نے خبرنہ دی.اللہ رکھے کی اصلاح کا حال نہ لکھا.آپ نے دعا گو کی خبر بھی نہ لی کہ اس نے جمّوں پہنچ کر خط نہیں لکھا خیر ہو.خدا وند کریم کا رحم ہو.غرض یہ سب شکایت محبانہ ہے اور مجھ پر شکایت نہیں کیونکہ اول بیمار پھرمہجور، دور پھر غریب الوطن وغیرہ وغیرہ وغیرہ.شیخ فضل الٰہی صاحب بھی بخار میں تھے.شافی نے شفا بخشی ہو.جناب موصوف کو میرا بہت بہت السلام علیکم کہنا اور میری طرف سے عیادت کرنی تاکید ہے.گردہاری چوپڑے کا حال دریافت کر کے لکھنا اور اس کے بھائی اور والد کا.حافظ غلام محی الدین سنا ہے راولپنڈی سے واپس آکر بیمار ہو گئے ان کا حال بھی ارقام فرمانا.شہر میں بیماری کی کیا حالت ہے؟ میرا بھانجا بیمار تھا اس کی بھی خبر نہیں.حافظ غلام محمد صاحب کیسے ہیں؟ ان کا بچہ کیسا ہے؟ پیارے عزیز! سنو سنو سنو کان رکھو.نماز میں ہر روز محبوب حقیقی جامع جمیع کمالات رحمن رحیم حضرت ربّ العالمین، مالک یوم الدین کی تعریف کر کے آپ پڑھا کرتے ہو  (الفاتحۃ: ۵،۶) ُ کے معنی ہیں تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور کریں گے.یہ دعویٰ سب مسلمان را ت دن کئی بار خدا وند

Page 96

عالم سے کرتے ہیں.پیارے! دیکھ اس دعوے میں ہم کس قدر سچے ہیں ؟رات کو سو رہے چار پہر تین پہر سوتے رہے.صبح کو اٹھے پاخانے گئے.وہاں سے آئے باتیں کیں پھر کھانے کی فکر میں لگے.روٹی کھائی پھر کچہری میں دنیا کمانے کو گئے پھر جو جو کام وہاں ہم کرتے ہیں اس کو ہم ہی خوب جانتے ہیں.پھر آئے ہوا خواری، کوچہ گردی، سیر بازار گھر آئے.بال بچہ میں لگ گئے.لیاقت و استعداد پر الف لیلہ، فسانہ آزاد ،کفار سیان وغیرہ وغیرہ وغیرہ پڑھنے بیٹھ گئے.بتاؤ یہی  کا مطلب ہے.پھر اگر کوئی بہت بڑا نیک ہوا تو پنجگانہ نماز بھی دربان میں پڑھ لی پھر اس میں اَیَا سَمِعْتُـہٗ سستی، کاہلی، تاخیر وقت، نقصان سجود رکوع، قومہ، جلسہ وقراء ت ہوتا ہے.جو منصف ہے اسے خوب جانتا ہے.بھلا پیارے! یہی معنی کے ہو ںگے؟ نہیں نہیں.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو ہر ایک کام میں اور بات میں رضا مندی جناب باری تعالیٰ کی رکھنی چاہیے.نوکری کریں مگر اس نیت پر کہ روپیہ حاصل کر کے صلہ رحمی کریں گے.ماں کو، بہن کو، بھائی، بھانجا، بھتیجا وغیرہ کو دیں گے.صلہ رحمی سے ربّ تعالیٰ راضی ہوگا.جہاں تک ہو سکا لوگوں کی بہتری میں کوشش کریں گے.سو تے ہیں مگر اس نیت سے کہ خواب سے طاقت کمانے کی حاصل ہو گی.بدن کو صحت میں عبادت پر لگائیں گے.وہ روزی جس سے صلہ رحمی ہو اور آپ سوال، چوری، فریب،دغا، قمار وغیرہ وغیرہ سے آدمی بچے.کمانے کی طاقت اسے نیند سے حاصل ہو تی ہے اس واسطے سوتے ہیں.لوگوںسے باتیں کرتے ہیں اس خیال سے کہ باہم محبت بڑھے اتفاق پیدا ہو جو خدا وند کریم کا حکم ہے.اسی طرح ہر ایک کام میں رضامندی مولا مقصود ہو اور وہی مد نظر رہے تو  کے معنی صحیح ہم پر صادق آویں اور دعویٰ درست ہو.اب چلو  اس کے معنی ہیں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں یہ بھی دعویٰ ہے سچا تب ہو جب ہر کام میں ہم کو یہی خیال رہے اور اس کا انجام اوراِ تمام بدون رضامندی حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ اور اس کی عنایت کے نہیں ہو سکتا.اے خدا! تو ہی ممد اور معاون رہ.دیکھو! کبھی زمیندار کاشتکار ی کرتا ہے.خرمن بناتا ہے.امیدوار ہے کہ دانہ گھر لے جاؤں.

Page 97

خرمن کو آگ لگ جاتی ہے اور گناہ کی شامت وہ خرمن خاکسترکا انبار ہو جاتا ہے.اسی کا رحم ہو کہ معاصی عفو ہو جاویں اور اس خرمن سے ہم نفع اٹھاویں.پس ضرور ہوا کہ میں ذات باری پر اعتماد رہے.اب دیکھو اس کا یہ مطلب ہے کہ کوئی کام اس دنیا میں بدوں کسی سبب کے نہیں ہوتا.ظاہری اندھیرے کے لئے سورج، چاند، چراغ، برق وغیرہ کی روشنی چاہیے.سینے کو سوئی، سرما کے واسطے گرم کپڑا ،آگ چاہیے.دوسرے دوست کے مطالب سمجھنے کو خط وکتابت پیغام چاہئے.دریا سے پار اترنے کو کشتی چا ہئے، شنائی تلہ وغیرہ چاہئے.پیاس کے دور کرنے کو پانی، بھوک کے لئے غذا،جلد پہنچنے کو ریل ،جلد خط بھیجنے کو تار کی خبر.اسی طرح دیکھتے جائوکوئی کام بدوں سبب نہیں.جن کاموں کو آپ بدوں سبب جانتے ہو وہ بھی حقیقت میں سبب کے ساتھ پیوستہ ہیں.سے یہ مطلب ہے کہ الٰہی کوئی کام بدون سبب واقعی نہیں ہوا کرتا اور ہم کو کاموں کے اسباب ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں.اس لئے ہمارے کام نہیں ہو تے.اگر بیماری کی صحت کا ٹھیک سبب معلوم ہوتو ہمارے بیمار کیوںبیمار رہیں؟ اور اگر دفع افلاس کے واقعی اسباب معلوم ہوں تو ہم کیوں مفلس رہیں؟عزت کے اسباب دریافت ہو جاویں تو جلد تر ذی عزت ہورہیں.ذلت کے اسباب معلوم ہوں تو ان سے بچیں اور ذلیل نہ ہوں.پادشاہ ہو جانے کے اسباب دریافت ہوں تو پادشاہ بنیں.غرض ہروقت ہر آن میں ہم کو ضرورہے کہ خدا وند کریم کی درگاہ میں سوال کرتے رہیںکہ الٰہی فلانے کام میں سبب حقیقی کی رہنمائی فرما، فلانے میں رہنمائی کر ، فلانے میں رہنمائی عطاکر.اگر ہر وقت کاموں کی ضرورت ہے تو ہر وقت کی ضرورت بھی لگی ہوئی ہے.ہر صبح نماز کے بعد کئی بار اسی طرح کیا.

Page 98

ساری الحمد فکروں کے ساتھ پڑھنی چاہئے.باقی الحمد کے بارہ میں پھر لکھوں گا اس میں ذرا غور کر کے مجھے اطلاع بخشو.والسلام نور الدین ۲۶؍ مگھر ازجموں ( ا لحکم جلد۶نمبر۸، مورخہ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۲) مکتوبات حکیم الامت ذیل میں جوخط درج کیاجاتا ہے اس سے مولانا ممدوح کی اس محبت کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک کلام سے آپ کو ہے پتہ لگتا ہے.ان خطوط پر ہم بعد میں انشاء اللہ ایک ریویو کریں گے.(ایڈیٹر الحکم) قربانت شوم و بلا گردانت میرے پیارے پھر نہایت ہی پیارے محب صمیم و با وفا حَفِظَکَ اللّٰہُ وَسَلَّمَ.موجب سرور فرحت نامہ مورخہ ۲۹؍جون ۴؍جولائی کو پہنچا.جَزَاکَ اللّٰہُ اے وقت تو خوش کہ وقت ما خوش کردی.پیارے میں تمہارے ان ہاتھوں کو چوم لوں جن ہاتھوں سے تم نے حدیث کی کتاب کے واسطے تاکید کی یا اس قلم کو جس قلم سے لکھا.راقم تمہارا دلی دوست آپ کی پیاری اور نہایت عمدہ فرمایش کو بھولنے والا نہیں تھا اِلاّ اس قسم کی کتابیں میرے لختِ جگر ثلج کبدبجز بھوپال کے نہیں مل سکتیں اور میں اس وقت سری نگر ملک کشمیر میں ہوں جہاں نام و نشان ان کتابوں کا نہیں.آپ تسلی فرماویں.انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو جلد تر پہنچا دوں گا.قلمدان یا پٹو جس قسم کا مطلوب ہو اس سے اطلاع بخشیں.زیادہ شوق دیدار فرحت آثار.خاکسار نور الدین از سرینگر ملک کشمیر ۲۶؍ہاڑ گزارش.نماز باجماعت اور مخلوقات باری سے محبت و پیار اور لوگوں کی خیر خواہی، اسباب زنا سے کلّی اجتناب، صحت و عافیت اور زندگی کی قدر میں اللہ اور اس کے رسول کی کتاب.تاکید ہے ہر دم یاد رہے.( الحکم جلد۶ نمبر۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۲ء صفحہ۲)

Page 99

مکتوب حکیم الامت پیارے، پھر کیسے پیارے، دل کے لئے سرور آنکھوں کے نور، اللہ تعالیٰ دین سلامت رکھے اور تمہاری ترقی میں مجھے خور سند اور لوگوں کو نفع مند کرے.اے خدا !ایسا ہی کر.دین !تمہارے للّہی فقروں اور دین کی باتوں پر مجھے جس قدر خوشی ہوئی اور ہو تی ہے ایشیاء اور مشرقی خیالات سے قطع نظر کر کے کہتا ہوں.کوئی کلمہ نہیں ملتا جس میں میرے دلی ولولے کا بیان ہو سکے.امتثالاً لحکم جناب الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جَزَاکَ اللّٰہُ تَعَالٰی اَحْسَنَ الْجَزَائِ پر اکتفا کرتا ہوں.اَللّٰھُمَّ عَلِّمْ حِبِّیَ الْکِتَابَ وَفَقِّہُ فِی الدِّیْنَ، اَللّٰھُمَّ زِدْ(حِبّیْ) عِلْمًا وَ عَمَلًا.او خدا ایسا ہی ہو.پیارو!راقم کا استحقاق نہ بھولیے.غفلت اور لا پروائی کے سمندر میں ڈوبا جاتا ہوں.دعا کرو نجات پاؤں.کبھی میں نے بھی آپ کے لئے تمام اماکن اجابت حرمین شریفین میں بہت بہت دعائیں کیں.جن کا ثمرہ ایک تو یہی دینوی معاملات ہیں اور دوسرا ثمرہ جنت میں انشاء اللہ تعالیٰ دیکھو گے.پیارے! مذہب اسلام بے ریب ایک الٰہی مذہب ہے.میں نے یہودیت اور عیسائیت ، مجوسیت اور آریہ دَھرم کو بہت کچھ سنا اور بدھ آریہ قوم کی شاخ ہے.سب پر اسلام کو بڑی دلیری سے بے تعصب ترجیح دیتا ہوں اور اسلام میں شراب کی حرمت اوّل تو اس رسول پاک کی زبانی جس کے کہنے سے قرآن شریف کو ہم نے کلام لٰہی مانا.ثابت.کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ.کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ.مَا اَسْکَرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ وَ یُحَرِّمُ تَخْلِیْلَ الْخَمْرِقرآن شریف میں تو اس امّ الخبائث کی حرمت ایسی بیان ہوئی ہے جس کی حد ہی نہیں.سنیے   

Page 100

 (المائدۃ: ۹۱ تا ۹۳) ایمان والو!شراب اور جوا، بت و استہان پانسے پلید ہیںگندے شیطانی کام.بچو تو نجات پائو.شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تم میں بیر دشمنی ڈال دے شراب اور جوئے سے اور روکے اللہ کی یاد سے اور نماز سے اب کیا تم باز آئو گے.مانو اللہ کو اور مانو رسول کو اور ڈرو.اگر نہ مانو تو جان لو ہمارے رسول کا کام کہہ دینا.(اِنّمَا تاکید اور حصر کا کلمہ ،شراب کو بت پرستی کی مانند رجس فرمایا ہے.شرک سے بڑھ کر کون گناہ ہے.)  (البقرۃ: ۲۲۰)کہ اس میں اثم بڑا اور نفع.خمر اثم ٹھہرا اور اثم کا حکم ہے (الاعراف: ۳۴) کہہ کہ کھلی اور چھپی بے حیائی اور اثم اور بغاوت اور اللہ سے شر ک کرنا.(آیت شریف کے ایک ایک فقرے اور کلمہ کو دیکھو) خمر اثم کبیر اور اثم چھوٹا بڑا سب حرام.دوسرا امر وتر ایک اور تین بدون التحیات وسط اور پانچ ایک تشہد سے اور سات ایک تشہد سے اور نو رکعت جس میں آٹھویںاور نویں میں التحیات ہو.سب سنّت ہے.تراویح ، تہجد، وتر ایک ہی چیز ہے اسلام اتباعِ قرآن شریف اور حدیث صحیح ہے.اسلام ہی سچا خدا کا فرمان اور فطرتی مذہب ہے.پیارے! میں نے ان دنوں توریت اور صحف انبیاء اور انجیل کو بہت دیکھا وَاللّٰہُ الْعَظِیْمُ بے اختیار میرے منہ سے نکلتا تھا فِدَاکَ اَبِیْ وَ اُمِّیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنْتَ خَاتَمُ الْاَنْبِیَائِ وَ اَصْفَی الْاَصْفِیَائِ وَاَنْتَ مُتَمِّمُ مَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ.پیارے دین!افسوس ہم نا شکروں نے قرآن شریف اور حدیث کی قدر نہ کی.مولویوں کے

Page 101

خیالات پر اڑ گئے.کہاں مشت خاک اور کہاں احکم الحاکمین کا کلام پاک.آپ کی سچی اور دلی محبت پر مجھے یقین ہے کہ آپ ہر روز ایک حصّہ ترجمہ قرآن شریف کا پڑھتے ہو ں گے اور خوب حظ پاتے ہو ںگے.پیارے دین! تذکر کے لئے قرآن شریف نہایت ہی سہل.یسرنا القرآن کے سامنے کسی زید و بکر کی بات پر کب دھیان ہو سکتا ہے ؟ مسجد میں تواضع مشروع ہے.آئے کو جگہ دینا،اس کی طرف رخ کر کے بیٹھنا، خندہ پیشانی سے پیش آنا،عجز ،اٰمین، با اخلاق کلام کرنا بشرطیکہ اس میں تصنع نہ ہو اور استقبال کے لئے اٹھنا نہایت عمدہ اور پسندیدہ ہے اور اعجام کیسے اوٹھا بیٹھی لغو.تراویح تہجد ایک ہی چیز ہے.رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ، گیارہ رکعت سے کبھی زیادہ نہیں پڑھی.خاکسار نور دین ( الحکم جلد۶نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۲ء صفحہ۲ ) فضیلت اسلام حضرت حکیم الامت مولانا مولوی نورالدین صاحب سلّمہ ربّہ ایک مجلس میں ایک نوجوان سے فضیلت اسلام پر ذکر فرمارہے تھے کہ فضل زیادت کو کہتے ہیں.اب یہ امر صاف ہے کہ اگر کوئی مذہبی صداقت ایسی ہو کہ دوسرے مذہب میں موجود ہو اور اسلام میں نہ ہو تو وہ مذہب بلحاظ اس صداقت کے اسلام پر فضیلت رکھ سکتا ہے مگر بحمد اللہ اسلام میں ایک فضیلت خاص ہے جو دوسرے مذاہب میں نہیں اور وہ یہ ہے کہ دوسرے مذاہب نے بعض صداقتوں کا اپنے اندر موجود ہونے کا صرف دعویٰ کیا ہے لیکن کوئی دلیل بیان صداقت میں اس کے ساتھ نہیں دی اور یہ کیسی سچی اور صاف بات ہے کہ نرا دعویٰ بدوں دلیل کبھی بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا اس لئے وہ صداقتیں جو دوسرے مذہب پیش کرتے ہیں دعویٰ ہی کے رنگ ہونے کی وجہ سے صداقت (ٹروتھ) نہیں کہلا سکتی ہیں.لیکن اسلام نے کوئی صداقت ایسی پیش نہیں کی اور کوئی دعویٰ نہیں کیا جس کے دلائل ساتھ نہ دیئے ہوں یہ کس قدر عظیم الشان فضیلت اسلام کی ہے.دنیا کے تمام مذاہب میں جس قدر صداقتیں واقعی طور پر ہیں وہ سب بہ ہیئت مجموعی اسلام میں موجود ہیں.ہاں دوسرے مذاہب نے ان کا کوئی ثبوت نہیں دیا اور اسلام نے ان کو ثابت کر کے دکھایا ہے اس لئے صاف ظاہر ہے کہ نہ تو اسلام نے اقتباس کیا بلکہ خدا تعالیٰ نے وہ صداقتیں براہ راست عطا کی ہیں اور نہ اس میں کمی ہے پس جو صداقت اور مذاہب میں فرداً فرداً موجود

Page 102

ہیں.ہاں دوسرے مذاہب نے ان کا کوئی ثبوت نہیں دیا اور اسلام نے ان کو ثابت کر کے دکھایا ہے اس لئے صاف ظاہر ہے کہ نہ تو اسلام نے اقتباس کیا بلکہ خدا تعالیٰ نے وہ صداقتیں براہ راست عطا کی ہیں اور نہ اس میں کمی ہے پس جو صداقت اور مذاہب میں فرداً فرداً موجود ہے وہ اسلام میں باجتماع موجود ہے.پس بلحاظ ہر ایک مذہب کے علیحدہ علیحدہ اسلام میں اجتماع کی بھی فضیلت ہے.اخلاق فاضلہ کے امتحان کا موقع یہ بات بالکل سچ کہ سچے اخلاق فاضلہ کا امتحان غصہ اور بیماری کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت سب حجاب اٹھ جاتے ہیں اور اصل حقیقت کھل جاتی ہے.(الحکم جلد۶نمبر۱۷.۱۰؍مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۴) اسلام کی تلقین شام کے وقت ایک ہندو مسلمان ہوا.حضرت اقدس نے فرمایاکہ مولوی صاحب (حکیم الامت) اسے مشرف باسلام کریں چنانچہ مولوی صاحب نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اسلام کی تلقین کی.اسلام کیا چیز ہے تین باتوں کا نام ہے اول جس نے پیدا کیا اور جس کے قبضہ قدر ت میں سب کچھ ہے اس کو ایک مانا جاوے اس کے سوا نہ کسی کو سجدہ کیا جاوے نہ اس کے نام کے سوا کسی کا روزہ ر کھا جاوے اور نہ اس کے نام کے سوا کسی جانور کوذبح کیا جاوے کیونکہ جانوں کا مالک وہی ہے اور نہ اس کے سوا کسی کا روزہ رکھا جاوے اور نہ اس کے سوا کسی کا طواف کیا جاوے اور کوئی خوف اور امید اس کے سوا کسی کا نہ کیا جاوے یہ تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکے معنی ہیں.سارے دکھ سارے سکھ سارے آرام اور ضرورتوں کا پورا کرنا اسی کے اختیار میں ہے اسی کے حضور عرض کرنا چاہئے.ان باتوں کو جب سچے دل سے مان لیں تو اس کا نام اسلام ہے.اس کے لئے کسی ظاہری رسم اصطباغ (پوہل)کی ضرورت نہیں.دوسرا زینہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا نبی مانا جاوے وہ اس لئے دنیا

Page 103

اس لئے دوسرا جز اسلام کا مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے.رسول کے معنی ہیں اللہ کا بھیجا ہوا.تیسری بات اسلام کی یہ ہے سب مخلوق کو سکھ پہنچانے کی کوشش کریں یہ تو منہ سے کہنے اور ماننے کی باتیں ہیں اور پھر یہ بھی ماننا چا ہئے کہ خدا کے فرشتے حق ہیں.نبیوں اور کتابوں پر ایمان لائے اور اس بات پر بھی جو کریں گے اس کا بدلہ پائیں گے اس کو جزا سزا کہتے ہیں.ان باتوں کے ماننے کے بعد ضروری ہے کہ مسلمان نماز پڑھے اور روزہ کے دن ہوں تو روزہ رکھے.جب ۵۲روپے ہوں تو چالیسواں حصہ زکوٰۃکے طور پر غریبوں اور مسکینوں کی مدد کے لئے دے.پھر اور طاقت ہو تو مکہ معظمہ جا کر خدا کی بندگی کرے.اصل اسلام دل سے مان لینے کا نام ہے.جو سچے دل سے مان لے گا اور عمل بھی اس کے مطابق کرے گا.پس تم دل سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کو مان لو اس کے لئے نہ کسی رسم کی ضرورت ہے اور نہ کچھ اور.البتہ نہا لینا چاہئے اس لئے کہ دعا مانگوکہ اللہ! اوپر سے تو ہم جسم کو دھوتے ہیں اندر سے تُودھو دے، اور کپڑے بدل لے اس لئے کہ اب سستی نہیں کروں گا.اس کے بعد اس کا نام حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تجویز کے موافق عبد اللہ رکھا گیا.( الحکم جلد ۶ نمبر۲۱،مورخہ۱۰؍جون ۱۹۰۲ء صفحہ۱،۲) ضرورت بیعت پر ایک لطیف مثال حضرت حکیم الامت نے ضرورت بیعت پر ایک لطیف مثال پیش کی جو ناظرین الحکم کی وسعت معلومات کے لئے ہم درج کرتے ہیں فرمایا.ایک درخت کے ساتھ بہت سی شاخیں ہو تی ہیں اور ہر ایک شاخ کو بحصہ رسد خوراک ملتی ہے لیکن اگر ایک سبز شاخ کو کاٹ کر الگ پھینک دیا جائے اور پانی کے تالاب میں رکھا جائے تو کیا امید ہو سکتی ہے کہ وہ سبز رہ سکے؟ کبھی نہیں حالانکہ اسے پہلے سے زیادہ پانی میں رکھا گیا لیکن یہ پانی اس کے لئے مایہء حیات نہیں ہوسکتا.اسی طرح پر جب تک ایک شخص امام کے ساتھ تعلق پیدا

Page 104

نہیں کرتا اس وقت تک وہ ان فیو ض و برکات سے حصہ نہیںلے سکتا جو امام کے ذریعہ ملتے ہیں.جب تک سچا پیوند اختیار نہیں کیا جاوے گا کوئی فائدہ مترتب نہیں ہو سکتا حقیقت میں یہ مثال بڑی ہی قابل قدر ہے اور اس سے بیعت کی ضرورت کا مسئلہ بخوبی سمجھ میں آتاہے.فقط.( الحکم جلد ۶ نمبر۳۰،مورخہ۲۴؍ اگست ۱۹۰۲، صفحہ۴) حکیم الامت اور لندنی خط حضرت مولانا مولوی حکیم نور الدین صاحب نے پھرذکر کیا کہ لندن سے ایک شخص نے مجھے خط لکھاکہ لندن آکر دیکھو کہ جنت عیسائیوں کو حاصل ہے یامسلمانوں کو.میں نے اس کو جواب لکھاکہ سچی عیسائیت مسیح اور اس کے حواریوں میں تھی اور سچا اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ میں تھا پس ان دونوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو.( الحکم جلد ۶ نمبر۳۰،مورخہ۲۴؍ اگست ۱۹۰۲ء صفحہ۵) فونوگراف اور حکیم الامت کاوعظ حضرت حکیم الامت کا ایک مختصر وعظ سورہ والعصر پر فونوگراف میں بند کیا گیا تھا ناظرین کے فائدہ کے لئے لکھا جاتا ہے.اَعُوْذُ بِاللّٰہ ِ مِن الشَّیْطَان الرَّجَیْم. (العصر: ۱ تا ۴) اس مختصرسی سورئہ شریف میں اللہ تعالیٰ ربّ العالمین الرحمٰن الرحیم مالک یوم الدین نے محض اپنی رحمانیت سے کس قدر قرب کی راہیں اور آرام و عزت و ترقی کی سچی تدابیر بتائی ہیں.اوّل یہ بتایا کہ کسی مرسل من اللہ کا زمانہ اور انسان کے کامل فہم اورتجارب صحیحہ کا وقت لوگوں کے لئے عصر تیسرا حصہ دن کا آخری وقت ہو تا ہے.جس طرح عصر کے بعد پہروں کا وقت ان نمازوں کے لئے نہیں رہتا جو ایمان والوں کے معراج دعا اور قرب کا ذریعہ اور ہر ایک بے حیائی اور بغاوت سے روکنے کا سبب ہیں اسی طرح مرسل من اللہ کا زمانہ اور انسان کے فہم اور تجارب صحیحہ کے بعد اور

Page 105

کوئی وقت نہیں رہتا جس میں انسان اپنے گھاٹے کو پورا کر سکے اس لئے ہر ایک مرسل من اللہ کے زمانہ اور صحت عقل کے وقت کو لوگ غنیمت جان کر یہ کام کرلیں.اوّل.سچے اور صحیح علوم کو حاصل کریں.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ہستی، یکتائی ،بے ہمتائی.غرض وحدہٗ لاشریک ذات کو مانیں.اللہ تعالیٰ کے اسماء میں، اس کی تعظیمات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کریں.ملائکہ کی پاک تحریکات کو مان لیں.ا للہ تعالیٰ کی کتابوں اور رسولوں اور جزا سزا اور قیامت اور دیگر سچے علوم پر یقین کریں.دوم.ان سچے صحیح واقعی علوم کے مطابق سنوار کے کام کریں اور کرتے رہیں.کوئی کام اس کا نہ ہو جو سنوار اور اصلاح کے خلاف ہو.سوم.دوسروں کو آخری دم تک بتاکید حق بتاتے رہیں اور ہر دم کو نفس واپسیں یقین کرکے بطور وصیت حق پہنچا دیں.چہارم.ان سچائیوں صداقتوں پر عمل درآمد کرانے میں کوشش کریں کہ وہ دوسرے لوگ بھی بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر مضبوط رہنے میں استقلال کریں.( الحکم جلد ۶ نمبر۳۴،مورخہ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۲، صفحہ۴) طاعون کے خوفناک نتائج فرمایا.طاعون کے خوفناک نتائج یہی ہیں کہ آخر کو جنگل بنا دیتی ہے.اس پر جناب مولوی نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور میں نے پڑھا ہے یہ جو نئی آبادی بارمیں ہوئی ہے اس میں پرانی آبادیوں کے نشانات ملے ہیں اور یہ لکھا ہے کہ یہ قطعات آباد تھے اور طاعون سے ہلاک ہوئے تھے.(الحکم جلد ۶ نمبر۴۰،مورخہ۱۰؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۲) ایشیائی دماغ اورتثلیث حکیم نورالدین صاحب نے اپنے مطب میں ایک دفعہ ذکر سنایا کہ ایک دفعہ آپ علیگڑھ میں تھے اور ایک وہاں کے کالجیئر سے آپ کاتعارف تھا.حکیم صاحب نے ان سے کہا کہ آپ کے کالج میں بڑے بڑے مشہور عیسائی فلاسفرہیں کیا آپ ان سے

Page 106

تثلیث کی فلاسفی دریافت کر کے ہمیں بتلا سکتے ہیں.کالجیئرصاحب نے اقرار کیا اور دوسرے دن پھرانہوں نے حکیم صاحب سے آکر کہا کہ میں نے فلاسفرصاحب سے تثلیث کی فلاسفی دریافت کی تھی مگرانہوں نے جواب دیا کہ ایشیائی دماغ اس قابل ہرگز نہیں ہیں اورنہ ان میں یہ مادہ ہے کہ وہ اس کی فلاسفی کوسمجھ سکیں.آجکل کے گریجویٹ اورکالجیئرجومغربی تعلیم اورتہذیب کے دلدادہ ہیں اہل یورپ کے فلاسفروں اورہیئت دانوں کا کچھ ان پر ایسا رعب پڑا ہوا ہے کہ حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کا یہ شعر بالکل صادق آتا ہے اگر شہ روز را گوید شب است این بباید گفت اینک ماہ و پروین اسی طرح اہل یورپ کی زبان سے جو مسئلہ نکلے یا جو فلسفہ وہ بیان کریں اس کی تردید پر اپنے دماغوں کوزور دینا یہ لوگ حرام مطلق خیال کرتے ہیں.اور میاں مٹھو کی طرح جووہ پڑھائیں اس کی رٹ رکھناان کافرض منصبی ہو گیا ہے اور اس نقش قدم چلنے نے ان لوگوں کے دلوں پر سے حقیقی روحانی کی آب وتاب کو بالکل زائل کر دیا ہے اور اب ہمارے نزدیک ان کی مثال ایک فونوگراف کی ہے کہ جوکچھ اس میں بند کیا جاوے وہ وہی بولتا ہے اوراپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتا.اسی طرح ان کالجیئر صاحب نے آکر فلاسفر کے وہ الفاظ حکیم صاحب کے روبرو نقل کر دئیے کہ انہوں نے تثلیث کی فلاسفی پر یہ جواب دیا ہے.حکیم صاحب نعوذباللہ اس لچر جواب کو کب وقعت دے سکتے تھے اوروہ اس غلط بات کے کہ روشنی مغرب سے آئی ہے کب قائل ہو سکتے تھے جس کو خود قانون قدرت (یعنی نیچر)ہی دھکے دے دے کر حقیقی فلسفہ کے میدان سے باہرنکال رہا ہے.تجربہ روزانہ شہادت دے رہا ہے کہ روشنی کا مطلع اورمنبع مشرق ہی ہے چنانچہ حکیم صاحب نے پھر یہ سوال کیا کہ اب ان سے یہ پوچھا جاوے کہ اگرایشیائی دماغ تثلیث کی فلاسفی کے سمجھنے کے قابل نہیں ہیں توپھرخود حضرت مسیح اورآپ کے برگزیدہ حواریوں نے کب اس کی فلاسفی کو سمجھا ہو گا اورکب ان کو ایمان حاصل ہوا ہو گا.کالجیئرصاحب نے جب یہ سوال فلاسفر صاحب کے روبرو

Page 107

پیش کیا توپھر ان سے کوئی جواب بن نہ آیا اورصرف ہنس کر ٹال دیا.خیر یہ قصہ تودرکنار گذشتہ ایام میں ایک امریکہ سے آئے ہوئے پادری صاحب نے عیسائیت کے تجارب پر کئی لیکچر لاہور میں دیئے ہیں اور سنا گیا ہے کہ بہت سے ہندوستانی کالجیئروں اورگریجوایٹوں نے ان کے لیکچروں کی داد دی ہے.بلکہ اٹھ کر اٹھ کر ان کے شکریے ادا کیے ہیں.ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.ہمیں تعجب ہے کہ انہوں نے کس امر پر شکریہ ادا کئے اور کس بات کی داد دی.کیا اب ان کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ خداباوجود ایک ہونے کے پھر ۳ ہیں اورزید کے سر میں درد ہو توبکر کے اپنے سر پر پتھر مارنے سے زید کے سر کا درد جاتا رہے گا.یااب عیسویت کی یہ تعلیم کہ اگر تیرے گال پر کوئی ایک طمانچہ مارے تو تو دوسری آگے کر دے.ان کو انسانی فطرت کے مطابق ثابت ہو گئی ہے؟ اور اب ان کے دل اس پر عمل کرنے کے لیے بالکل کاربند ہو گئے ہیں؟ اور اب وہ اپنی تحریروں تقریروں خانگی اور قومی اورسوشل موقعوں پراس کی نظیر خود بن جاویں گے؟ یا ان کی سمجھ میں یہ آگیا ہے کہ خدا باوجود ایک غیرمحدود ہونے کے ایک عورت کے پیٹ میںداخل ہوا اور ایک خون کی بوٹی بنا.پھر ہڈی پھر لوتھ پھر بچہ اورخون حیض سے پرورش پاتا رہا اورطفولیت میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتا رہا اورپھر اس کی قدرت وغیرہ سلب ہو گئی اور چند ایک اس کے اپنے بنائے ہوئے سپاہیوں نے اسے پکڑ کر سولی پرچڑھا دیا اور اس کی کچھ پیش نہ گئی؟ یا انہوں نے اپنے تحصیل کردہ علوم سائنس فلسفہ طبیعات وغیرہ کے برخلاف اب اس امر کو سمجھ لیا ہے کہ مسیح اس جسم کے ساتھ آسمان پر جا بیٹھا ہے اوراتنے ہزاربرسوں سے وہیں ہے اورابھی تک اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ نیچے قدم اتار سکے.باوجود اس کے کہ ایک شخص میرزا غلام احمد صاحب قادیانی اس کی گدی پر آ کر جم گئے ہیں مگر اس کو اس کی غیرت نہیں.اگران سب باتوں میں سے کچھ بھی نہیں ہوا تو کیا وہ ہمیں کھول کر بتلا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس امر کی داد دی ہے اور کس بات کاشکریہ ادا کیا ہے؟ وہ کون سے باریک درباریک علوم اور اسرار ان پر پادری صاحب کے ذریعہ عیسوی مذہب کے کھل گئے ہیں جس سے پادری صاحب کا لیکچر شکریہ اور داد کا مستحق ہو گیا ہے؟ اگر وہ کھول کر

Page 108

بیان کر دیں توپھر ہم دیکھیں گے کہ یہ قدردانی کہاں تک قابل وقعت اور قابل قدر ہے.(البدر جلد ۱ نمبر ۸مورخہ۱۹؍ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ۵۹، ۶۰) عقائد صحیحہ سے نیکی کا حصول جب تک انسان عقائد صحیحہ رکھنے والا نہیں ہوتا وہ کوئی نیکی نہیںکر سکتا اور عقائد صحیحہ کی اصل اول اللہ تعالیٰ کو جمیع صفات کاملہ سے موصوف ماننا ہے.شرک سے جہالت پیدا ہوتی ہے اور انسان علوم حقہ سے محروم رہ جاتا ہے جب تم نے مانا کہ دیوی کی پوجا سے سیتلا اچھی ہو جائے گی تو اسباب علاج ضائع ہو جائیں گے.اس طرح پر شرک سے جہالت اور جھوٹے قصے بڑھتے ہیں اور علوم حقہ گھٹ جاتے ہیں اور جب جہالت پیدا ہونے لگتی ہے اور وہم پرستی بڑھتی ہے تو وحدت کی روح اُٹھ جاتی ہے جو ساری ترقیوں کے لئے ایک جڑ ہے.اعتراض، سوال اور مشکل آیت کے حل کا طریق ایک بار میں نے حضرت اقدس مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا کہ بعض اوقات عیسائی یا اور قوم سوال کرتی ہے اور وہ سوال خطرناک ہوتا ہے اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ ایسے اعتراضوں کو یا تو نظر انداز کر دیا جاوے یا اس کا الزامی جواب دیا جاوے.فرمایا یہ راہ ٹھیک نہیں ہے جو راہ خود نہیں آتی ہے دوسرے کو مت سمجھاؤ.پھراس کا علاج پوچھا تو فرمایا کہ اس سوال کو حل کرنے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ اس سوال کو جلی قلم سے لکھ کر اپنی آمد ورفت کی جگہ پر لٹکا دے چند روز نہیں گذریں گے کہ وہ سوال حل ہو جاوے گا.ایک اور قاعدہ انہوں نے مجھے بتایا جس سے مشکل سے مشکل آیتیں حل ہو جاتی ہیں اس آیت کو کاغذ پر لکھ کر ہتھیلی پر رکھ کر سو جاوے اللہ تعالیٰ اس کو واضح کر دے گا.طینی بنو شیطان کا مظہر نہ بنو حضرت مسیح کے اس قول پر  (آل عمران : ۵۰) مجھے یہ سمجھ آئی ہے کہ مسیح علیہ السلام ایک بات کہتے ہیں کہ ہو.شیطان اور آدم کے

Page 109

قصہ سے معلوم ہوتا کہ طینی بنو پھر عرش الٰہی تک اڑ سکو گے گویا وہ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ شیطان کا مظہر نہ بنو.شہید بھی طیر ہوتے ہیں گویا اس درجہ تک پہنچ جاؤ کہ شہید ہو سکو.آستانہ الوہیت پر نرگدا ہوجائو ایک مرتبہ حضرت حکیم الامت سے ایک دوست رخصت ہونے کو آیا آپ نے اس کو رخصت کرتے وقت فرمایا.انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر نر گدا ہو جاوے یعنی وہ مانگتا ہی رہتا ہے اور ٹلتا نہیں.اسی طرح پر جب انسان آستانہ الوہیت پر صبر اور استقلال کے ساتھ بیٹھ جاوے تو میرا اعتقاد ہے کہ وہ جو چاہے لے سکتاہے.یہاں تک کہ قلم دوات بھی سونے کی بنا سکتا ہے.نماز میں سات موقع دعا کے ہیں ان میں دعائیں کرے.سکھ دکھ آنے کے اسباب سکھ اور دکھ دونوں یوں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں مگر دکھ اپنی کرتوتوں ہی کے بدلے میں آتا ہے اور سکھ فضل سے ہی آتا ہے.مصلح کی آمد پر عادت اللہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی ماموریامصلح آتا ہے تو اس کے ساتھ ایک جماعت شامل ہو جاتی ہے مگر ان میں کچے پکے ملے جلے ہوتے ہیں اس لئے امتیاز کے لئے مصائب اور مشکلات بھیج دیتا ہے.(الحکم جلد ۷ نمبر۱۳ مورخہ ۰ا؍پریل ۱۹۰۳ء صفحہ۳) قرآن کریم کی نسبت چند امور ٭ قرآن شریف عمل کے لئے ہے اور عمل کے لئے ضروری ہے کہ اس کا علم ہو اور قرآن کا علم حاصل ہوتا ہے تقویٰ سے.پس تقویٰ اختیار کرو.اپنے گناہوں کی معافی کے لئے جب خدا تعالیٰ سے دعا مانگو تو چھپ کر اور آہستہ مانگا کرو.

Page 110

٭ زبرالاولین کی ساری صداقتیں قرآن مجید میں موجود ہیں.ان میں ان صداقتوں کے دلائل نہیں مگر قرآن شریف ان کو مدلل بیان کرتا ہے اور اسرار شریعت سے آگاہی بخشتا ہے.٭ جھوٹا آدمی قرآن شریف سے استدلال نہیں کرتا بلکہ وہ تو اس کے سننے سے بھی عاری ہوتے ہیں (الشعراء : ۲۱۳) ان کے لئے ہی ہے.پھر ان کا اس پر عملدرآمد کیونکر ہو اور قرآن ان کے لئے راحت جان نہیں ہو سکتا.قرآن ایسی چیز ہے کہ اس سے ہم تمام دنیا کے صادق اور کاذب میں فرق کر سکتے ہیں.سعادت یا شقاوت ذاتی معلوم کرنے کا طریق قرآن شریف کو پڑھو اور آیات اللہ میں غور کرو کہ کیا تم کو قرآن شریف سے لذت آتی ہے یا کسی اور کے کلام سے پھر تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ تم کون ہو؟ قرآن شریف سعید اور شقی دو ہی قسم کے آدمیوں کا ذکر کرتا ہے اس طریق پر تم اپنی سعادت اور نجات یا شقاوت اور سزا کا پتہ لگا سکتے ہو.ایمان اور کفر ایمان تمام خوبیوں کا جامع ہے اور کفر تمام بدیوں کا.اصل قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے اور اس کو سمجھا جائے اور اوروں کو سمجھایا جائے.مامور من اللہ کے وقت واقع ہونے والی تین چیزیں جب مامور من اللہ دنیا میں آتے ہیں تو تین چیزیں ان کے زمانہ میں واقع ہوتی ہیں.ا.دنیا میں قحط پڑتے ہیں.۲.لڑائیاں ہوتی ہیں.۳.وبائیں آتی ہیں.احسان الٰہی یاد کرنے کے فوائد اللہ تعالیٰ کے احسان یاد کرنے سے بغض، حسد ، کینہ وغیرہ بیماریاں رفع ہو جاتی ہیں.فساد کے معنے فساد کے معنے یہ ہیں کہ اللہ کی سی اطاعت اور محبت کسی اور سے کی جاوے اور شفقت علیٰ خلق اللہ نہ ہو یہی امور فساد کی اصل ہیں.

Page 111

امام کے لئے تین شرائط امام کے لئے تین شرطیں ہیں.اول.احکام الٰہی مخلوق کو پہنچاتا ہے.۲.مستقل مزاج ہوتا ہے کوئی امر اس کی دعوت اور تبلیغ کی راہ میں روک نہیں ہوسکتا.۳.خود اس کو احکام الٰہی پر پورا یقین ہوتا ہے.حصول رزق کے گُر اول.جناب الٰہی میں دعا مانگنا.دوم.ان قوانین پر کاربند ہونا جو رزق کے متعلق خداوند تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان فرمائے ہیں.سوم.خدا تعالیٰ کے عطیات و انعامات کا شکر کرنا.چہارم.متقی بننا.پکا مسلمان ہونے کے لئے ضروری کام مسلمان کو پکا مسلمان ہونے کے واسطے کم از کم دو کام ضرور کرنے چاہییں.اوّل کم از کم پانچ یا زیادہ سے زیادہ دس آیتیں ہر روز فکر سے پڑھنی چاہییں اور نماز سنوار سنوار کر پڑھنی.عبادات کی تین اقسام التحیات زبانی عبادتیں.الصلوات بدنی عبادتیں.الطیبات.مالی عبادتیں.(الحکم جلد۷ نمبر۱۴ مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۱۲) توضیح بغرض تصحیح الحکم کی کسی گذشتہ اشاعت میں حضرت حکیم الامت کے ارشادات کے عنوان کے تحت میں آپ کا یہ ارشاد قرآن کریم کی بعض مشکل آیات کے حل کے متعلق شائع ہوا ہے کہ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت حکیم الامت کے ایک استفسار پر قرآن شریف کی بعض آیات مشکلہ کے حل کے لئے فرمایا کہ اگر اس آیت کو لکھ کر مٹھی میں رکھ کر سو جاوے تو اللہ تعالیٰ اسے حل کر دیتا ہے.اس پر بعض احباب کو تعجب ہوا اور انہوں نے حضرت حکیم الامت سے سوال کیا ہے کہ پھر کیا قرآن کریم کے سمجھنے اور حل کرنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت نہیں   (الواقعۃ : ۸۰) صحیح نہیں وغیرہ وغیرہ.یہ شبہ ہے جو اس تحریر سے فاش ہوا

Page 112

ہے.اس لئے ہم اس امر کی توضیح بغرض تصحیح کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.الحکم میں حضرت حکیم الامت کے ارشادات کے تحت میں کئی مرتبہ قرآن شریف کے حل مطالب کے بہت سے قاعدے جو انہوں نے تجربہ کئے ہیں درج کئے ہیں جن سب کے اعادہ اور تکرار کی یہاں ضرورت نہیں.ہم کو صرف اس جگہ اسی شبہ کے متعلق کچھ لکھنا ہے.قرآن شریف کے مطالب و مقاصد پر اطلاع پانا تقویٰ کو چاہتا ہے.(البقرۃ : ۲۸۳) قرآن شریف نے خود فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے اغراض میں جو (الجمعۃ :۳) فرمایا ہے تو یہ بھی تزکیہ کے بعد یعنی اول آپ کا کام(الجمعۃ :۳)دوسرا کام (الجمعۃ :۳) تیسرا .اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ اور تزکیہ نفس پہلی شرط ہے پھر قرآن شریف کے حل معانی کے لئے شرط ہے مجاہدہ.(العنکبوت :۷۰) جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھو ل دیتے ہیں.غرض قرآن شریف کے سیکھنے کے لئے تزکیہ، تقوی اللہ اور مجاہدہ ضروری ہے.اب یہ بات کہ قرآن شریف کی آیت لکھ کر مٹھی میں رکھ کر سو رہنے سے اس کا مطلب حل ہو جاتا ہے کیا ان امور سے منافی اور متناقض ہے اور کوئی ایسا آدمی جو متقی نہ ہو محض اسی صورت سے قرآن شریف سیکھ سکتا ہے؟ ایسا سوال کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ کیا کوئی فاسق ، فاجر قرآن شریف کے مطالب کے سمجھنے کے لئے کوشش کرے گا؟ قرآن شریف کے سمجھنے کا شوق اور محبت تو اسی کے دل میں پیدا ہوگی جو متقی ہو اور مجاہدہ کرنے والا ہو.سگ را بہ مسجد چہ کار.فاسق کو قرآن شریف سے کیا تعلق اور محبت؟ پس جوشخص متقی اور پاکباز ہوگا وہی سعی کرے گا کہ اس پر قرآن شریف کے اہم امور کھل جائیں اور یہ طریق کہ کاغذ پر آیت لکھ کر مٹھی میں لے کر سو جائیں یہ کوئی شعبدہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطرتی اصل ہے جو انسان کے اندر موجود ہے اس سے صرف توجہ کا اس طرف مبذول کرنا مقصود ہے جو

Page 113

شخص سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے قرآن شریف کا دھیان رکھے گاوہ  کے نیچے کام کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس پر کشف حقائق کر دیتا ہے.مختصر یہ کہ یہ ترکیب یا عمل مجاہدہ اور سعی فی الدین کے ماتحت ہے اور یہ مجاہدہ بجائے خود منحصر ہے تقویٰ پر.پس اس سے ہر گز دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ فاسق فاجر بھی فائز المرام ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں اسے کبھی راہ نہیں مل سکتی.(ایڈیٹر الحکم) مکتوباتِ حکیم الامت ذیل میں جو خط آپ کا درج کیا جاتا ہے اس خط میں مسئلہ ولایت کی تحقیقات کی گئی ہے اور اس کے آخری حصہ میں آپ کی قرآن شریف سے محبت اور عشق کا ثبوت ملتا ہے اور حفظ قرآن کے زمانہ کا پتہ لگتا ہے.بالفعل ہم کو ان خطوط اور ارشادات کے اندراج سے ان منتشر امور کو یکجا جمع کرنا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی تو ہم ان امور کو سوانح کی صورت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.اس وقت ان کی ترتیب پڑھنے والوں کے لئے امید کی جاتی ہے انشاء اللہ العزیز بہت دلچسپ ہوگی.ہم اپنے ناظرین سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی خط حضرت حکیم الامت کا ہو وہ ہمارے پاس بھیج دیں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ پہونچے.(ایڈیٹر الحکم) مکتوب نمبر۱ پیارے.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ ولایت دو قسم ہے ایک ولایت تربیت حضانت( دودھ پلانا لڑکپن میں رکھنا) دوسرے ولایت مال اور نکاح کی تربیت اور پالنے میں عورت ولی ہے.تزویج اور نکاح میں عورت کو ولایت نہیں باپ ہی ولی ہے اگر موجود ہو اگر نہ ہو تو دادا چچے لڑکی کے اور بھائی غرض لڑکی کے باپ والی.عورت کسی طرح ولایت نکاح نہیں رکھتی.عورت نے اگر نکاح کر دیا تو باپ اعتراض کر سکتا ہے.ہاں خود لڑکی اگر بالغ ہو اعتراض کر سکتی ہے.محدثین کے مذہب میں باپ کا نکاح کیا ہوا لڑکی کی عدم رضا میں ٹوٹ سکتا ہے الَّا لڑکی بھی بدون مرضی باپ کے نکاح نہیں کر سکتی

Page 114

غرض عورت کسی صورت میں ولی نہیں.مہر کے بدلے لڑکی کبھی نہیںہو سکتی.یہ ہبہ ناجائز ہے.پیارے عزیز ! خدا خدا ہے اور رسول رسول.مدینہ طیبہ رَزَقَنَا اللّٰہُ اِقَامَتَھَا وَ جَوَارَہَا بڑی پاک جگہ ہے.الَّا مدینہ کا جانا رکن حج نہیں کسی مذہب والے نے نہیں لکھا.حنفی ، شافعی، مالکی، حنبلی.ظاہر ہے محدث لوگوں کی کتابیں موجود ہیں.شیخ صاحب عنایت فرما کا فرمانا خلاف تحقیق ہے صرف خیالی امر ہے اور خیال بھی صرف شیخ صاحب کا.حج کے احکام ضروری قرآن شریف میں موجود ہیں وہاں مدینہ جانے کا ذکر بھی نہیں.بلکہ سچ پوچھو تو کوئی دلیل نہیں جس سے کسی حالت میں بھی مدینہ طیبہ کا جانا فرض نکلتا ہو.ہاں ہجرت کے واسطے اس وقت جب دین صرف حجازمیں رہ جاوے گا ایک وقت مدینہ طیبہ جانے کا ضروری معلوم ہوتا ہے.الّا وہ صرف حجاز کا لفظ ہے جس میں مکہ معظمہ مدینہ طیبہ دونوں میں سے جس میں چاہیں رہ سکتے ہیں.فرضیت مدینہ طیبہ جانے کی دلیل قرآن شریف سے، حدیث صحیح سے، عقل سے، اجماع سے شیخ صاحب کو لانی چاہیے اگر نکلے ہم ان کے ممنون ہو کر ایک دفعہ ضرور بغرض فرض اور اس رکن کے بہ نیت فرض سفر کریں گے اور ثواب شیخ صاحب کو حاصل ہو گا.خاکسار نورالدین عفا اللہ عنہ رفع الزام ایک مرتبہ مخالفین نے حضرت حکیم الامت کے متعلق مشہور کیا کہ آپ نے معاذ اللہ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قطع تعلق کر لیا ہے.اس پر ہمارے ایک محترم بھائی سید سرور شاہ صاحب نے حضرت حکیم الامت سے اس کے متعلق استفسار کیا.اس کے جواب میں آپ نے جو کچھ لکھا اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.(ایڈیٹر الحکم) مکتوب نمبر۲ یہ خط سید سرور شاہ صاحب کے اس خط کا جواب جبکہ سید صاحب نے مخالفین سے یہ سنا تھا کہ مولوی نور الدین مرزا سے منکر ہوگیا ہے.استفسار کیا تھا.

Page 115

.(الانعام : ۲۲) نورالدین نے تو میرزا کی آیات دیکھ لئے کہ وہ منجانب اللہ ہے.پس اگر وہ ان آیات اللہ کا مکذب ہے تو اس سے ظالم ترکون ہے مگر وہ بحمد اللہ ظالم نہیں اور اسی اعتقاد پر ہے.(نورالدین) مکتوب نمبر۳ السلام علیکم ۱.اِذَا قَاتَلَ اَحَدُکُمْ فَلْیَجْتَنِبِ الْوَجْہَ.اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ.’’ الھاء‘‘ ضمیر صُوْرَتِہٖ کے اس اَحَداً کی طرف جاتی ہے جو قَاتَلَ کا مفعول ہے.۲.نفخ فی الشراب کی ممانعت تو مجھے وہی معلوم ہوتی ہے کہ پینے والا پیتے وقت پانی کے اندر سانس نکالے.یہ منع ہے نہ دم کرنا.۳.یہ تعظیمیں جو ہمارے ملک میں مروج ہیں بالکل عجم کا دستور ہے.عرب خصوصاً زمانہ صحابہ میں ان کا رواج نہ تھا.گاہے ماہے جس کو ملیں اسے معانقہ کے لئے یا اور ضرورت کے لئے اٹھنا ثابت ہے اور بس.۴.علماء مقتدمین کو برا کہنا بہت ہی برا ہے.سَبَابُ الْمُؤْمِنِ فِسْقٌ صَرِیْحٌ … ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الحشر: ۱۱) اور گالی تو بتوں کو اور ان کو بھی جائز نہیں جن کی لوگ پرستش کرتے ہیں.۵.فاتحہ خلف الامام اور رفع سبابہ سنت صحیحہ سے ثابت ہے.اس پر اگر کوئی نعوذ باللہ کفریا اضلال کا فتوے دے تو احمق ہے اور ایسے لوگوں پر کیا حکم کیا جاوے.یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب اس ملک میں اسلام کا حکم ہو.۶.تخالف اسلامیوں میں جائز نہیں مگر کیا کیا جاوے جب اسلام کی حکومت نہیں اور کوئی

Page 116

اختلاف کو مٹانے والا نہیں.خود بیت اللہ میں چار مصلّے موجود ہیں اورجگہ کون مٹا سکتا ہے.۷.لوطی اور لواطت کرنے والا قتل کا مستحق ہے.اگر حکومت اسلام ہو اور مرتکب لواطت ضرور کافر ہے.۸.ابلیس قوم جنّ سے ہے  (الکہف : ۵۱)قرآن میں موجود ہے.۹.ملائکہ کس چیز سے بنے مجھے معلوم نہیں اور نہ اس کی بہت ضرورت ہے.۱۰.سماع موتیٰ احادیث سے ثابت ہے.۱۱.قبرستان کی تعظیم رسول اکرم نبی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجر و انصار سے ثابت نہیں.۱۲.اہل دہ اگر کچھ لوگوں کو نکال دیں تو ان کو جمعہ پڑھنا تو ضرور ہے.اگر مسجد میں کوئی نہ جانے دے تو کیا کریں. (البقرۃ : ۲۸۷) ممکن ہو جمعہ پڑھ لیں.۱۳.اَلْمُؤْمِنُوْنَ لَا یَمُوْتُوْنَ مجھے یاد نہیں کہ کوئی حدیث ہو.یہ تو موضوع معلوم ہوتی ہے.۱۴.مَنْ فِی الْقُبُوْرِ سے کفار مراد نہیں.۱۵.مومن جب مر جاتا ہے اس کی روح کو جسم سے ضرور تعلق رہتا ہے.۱۶.قرآن مجید کو زیر زانو رکھ کر بیٹھنا جائز نہیں.یہ نور ، ہدیٰ ، رحمت، کلام الٰہی ہے بڑے شعائر اللہ سے ہے.(الحج :۳۳) قر آن سے ثابت ہے.فصل الخطاب فی مسئلۃ فاتحۃالکتاب اب میرے پاس نہیں رہی.مسائل کا مختصر جواب میں نے عرض کر دیا ہے اگر مفصل معہ دلائل مطلوب ہوگا تو پھر مگر میں جانتا ہوں کہ مسائل صاف ہیں اور یہ جواب ایک متقی کو بس ہے.والسلام نور الدین۲۳؍ مئی ۱۹۰۶ء از قادیان (الحکم جلد۷ نمبر ۱۵ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۴ تا ۶)

Page 117

مکتوبات حکیم الامت السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے پاس جواب طلب خطوط بکثرت آتے ہیں اور ہر ایک یہی لکھتا ہے کہ جواب میں دیر نہ فرماویں.مثلاً ایک شخص نے لکھا ہے کہ میرا مباحثہ آریہ اور عیسائیوں سے ہے.تاریخ مقرر ہے ہفتہ کے اندر جواب دواور سوالات ذیل لکھ دئیے.تناسخ کی تردید مفصل لکھو.وجوہ تحریف توریت و انجیل بہ تفصیل لکھو.قصہ نکاح زینب کا بہ تفصیل جواب دو.وغیرہ وغیرہ.ایک کاٹکڑہ بطور نمونہ ذیل ہے.۱.اِذَا قَاتَلَ اَحَدُکُمْ فَلْیَجْتَنِبِ الْوَجْہَ(صحیح البخاری ، کتاب العتق، باب اذا ضرب العبد فلیجتنب الوجہ حدیث نمبر ۲۵۵۹)قاتل فعل متعدی ہے اس کا مفعول محذوف ہے.اصل عبارت یوں ہے اِذَا قَاتَلَ اَحَدُکُمْ اَحَدًا.مفعول چونکہ معلوم غیر ملتبس تھا اور اَحَدُکُمْ قرینہ ہے اس کوحذف کردیااور منہ کی تخصیص اس لیے ہے کہ منہ (وجہ) ہی تمام قوائے ضروریہ کا مجمع.آنکھ،ناک،زبان بلکہ کان اور ماتھاجس میں تمام اخلاقی قویٰ موجود ہیں سب منہ میں ہیں.ماتھے کے ہر ایک طرف صُدغین کے اوپر وہ مقام ہے کہ اگر اسے صدمہ پہنچ جاوے تو زبان بند ہو سکتی ہے.بدن میں علی العموم ایسے مقامات نہیں.مشابہ میں ہمیشہ امور مختصہ مراد ہوا کرتے ہیں مثلاً زَیْدٌ کَالْاَسَدِ میں شجاعت مراد ہوا کرتے ہیں اس کا دُم ضرور نہیں.انسان اخلاق فاضلہ اور قویٰ ملکیہ میں اشرف المخلوقات اور مشابہ آدم ہے.اور ان قویٰ کا بڑا مجموعہ منہ میں ہے اس لیے منہ پر مارنا درست نہیں.۲.سماع موتیٰ کے ثبوت میں احادیث بکثرت ہیں.میں چند حوالے دیتا ہوں.آپ رجوع الی الکتاب کر کے نقل کر لیں.پرچہ علیٰ حدہ ملفوف ہے.شرح الصدور فی احوال الموتٰی والقبور میں مفصل مرقوم ہیں.اور یہ عجیب وغریب کتاب بمقام لاہور بازار کشمیری میاں فقیر اللہ سوداگر کتب سے مل سکتی ہے اورحدیث بِسَمْعِ قَرْعِ نِعَالِھِمْ مسلم میں ہے اور حدیث ابوسعید خدری

Page 118

مسند احمد بن حنبل اور طبرانی کی اوسط میں ہے اور کچھ احادیث علیٰ پرچہ پر لکھوا دی ہیںملاحظہ فرماویں.۳.مدرک رکوع حسب فرمان عالیشان سرور عالم فخروسید آدمﷺ مدرک رکعت ہے.اس کے خلاف کوئی ذی علم فتویٰ نہیں دے سکتا.مگرجناب من! غور کرو.رکوع میں تووہی شخص جاوے گا جس نے رکوع کے پہلے فرائض کوپورا کر لیا.کیا ایک شخص اگرامام کورکوع میں پاوے توبدون وضو یابدون تکبیرتحریمہ یا قیام کے وہ رکوع میں شریک ہو سکتا ہے.ہرگزنہیں.اسی طرح میرے فہم و علم میں ہے الحمدشریف پڑھ کر امام کاساتھ دینا چاہیے.پس قرأت الحمدشریف کے اگرمقتدی نے امام کو رکوع میں پا لیاتووہ رکعت ہو گئی اور اگر امام کوسجدہ میں پایا تورکعت نہ ہوئی.یہ ہے میرے نزدیک امرمحقق اور میں بحمداللہ کسی کے جواب کے لیے کذب اورتقوّل علیٰ اللہ ہرگز نہیں کرتا.اورنہ مجھے ضرورت تھی کہ مولوی فضل الدین صاحب کے ردّ کے لیے کچھ ایسا لکھتا جو خلاف اللہ ورسول کے ہوتا.۴.نمازفرض کے بعدسنت کا پڑھنا احادیث سے ثابت ہے اوربعد طلوع آفتاب کے بھی جائز ہے.غور کرو.حدیث علیٰ حدہ مرقوم اورملفوف ہیں دیکھ لیجیئے.۵.اَسْفِرُوْابِالْفَجْرِ(سنن النسائی ،کتاب المواقیت ، باب الاسفار.حدیث نمبر ۵۴۸) کے بدلہ دوسری جگہ اَصْبَحُوْا بھی ہے.اور اس کی بابت اَسْفِرُوْا کے معنی خود حدیث بلال میں موجود ہیں.اس کو علیٰ حدّہ پرچہ پر لکھ دیا ہے ملاحظہ فرمائیے.اگر پھر کچھ کلام ہو تو اطلاع دیجیئے مگرجواب میں آپ کومعلوم رہے کہ مجھے کام بہت رہتے ہیں.والسلام آپ کے سوال نمبر ۶و۷ مفصل مرقوم ہے.آپ نے (البقرۃ :۶۶) میں دو اعتراض فرمائے ہیں.اوّل.یہ کہ قرآن میں مجازممکن نہیں پھراگر حکایات میں مجاز ہوا تو سب حکایات قرآنی مجازہوں گی اور اسی کلام ہی میں کذب ثابت ہوتا ہے.

Page 119

دوم.جب حکم الٰہی اور ارادہ ہو گیاکہ بندر ہو جاؤ توحکم الٰہی کو کیا وجہ مانع ہوئی کہ وہ بندر نہ ہوئے؟ عزیز من! یہ دونوں امر ایسے منہ سے آپ نے نکالے ہیں کہ ان کے سننے کے بعد عالمانہ جواب دینا مجھے پسند نہیں رہا.مگرآپ کے حالات سے مجھے اطلاع نہیں اس لیے بپاس خاطر لکھتا ہوں.ذرہ غور سے سنو! امام سیوطی عقودالجمان میں فرماتے ہیں دیکھو بحث مَجَازُ اَقْسَامِہٖ حَقِیْقَتَانِ الطَّرْفَانِ.اَوْحِجَازَانِ کَذَا مُخْتَلِفَانِ.کَاَ نْبُتِ الْبَقْلِ شَبَابِ الْعَصْرِ.وَالْاَرْضُ اَحْیَاھَا رَبِیْعُ الدَّھْرِ.وَشَاعَ فِی الْاِنْشَا وَالْقُرْاٰنِ.اور اس کی شرح میں فرماتے ہیں.وَقَعَ الْمَجَازُ الْعَقَلِیُّ فِی الْقُرْاٰنِ کَثِیْرًا.پھر شرح میں امام سیوطی نے تین اور مثالیں دی ہیں.اوّل.(المزمل : ۱۸) حالانکہ دن بوڑھا نہیں.بوڑھا کر دینا اللہ کا کام ہے.دوم.(القصص : ۵) حالانکہ ثابت نہیں فرعون اپنے ہاتھ سے کرتا تھا.اگر کہا جاوے کہ اس کے حکم سے ذبح ہوئے تو مجاز ہو گیا.سوم.(الانفال :۳).اوّل تو ایمان کا زیادہ ہونا مجاز ہے پھر ایمان کوزیادہ کرنے والا اللہ ہے نہ آیات.اور چار مثالیں میں اور سنا تا ہوں.اوّل.(القارعۃ : ۱۰) اللہ تعالیٰ سورۃ القارعہ میں فرماتا ہے جس کے نامہ اعمال خفیف ہوئے اس کی ماں ہاویہ ہے.آپ غور کرویہ کیسی حقیقت ہے.دوم.(البلد: ۱۲ تا ۱۴) یہاں غلاموں کا آزاد کرنا،مساکین کا کھانا کھلانا،ڈھکی اور پہاڑ فرمایا.سوم.(النور: ۴۴) اللہ تعالیٰ آسمان سے بادل سے پھاڑتا آتا

Page 120

چہارم. (النور:۳۶)اللہ تعالیٰ آسمانوں زمینوں کا نور ہے.اور اس کا نور ایسا ہے جیسے چمنی میں چراغ اور وہ رکھا ہے طاق میں اور روشن ستارہ کی طرح چمکتا ہے.کیوں مولو ی صاحب! اللہ تعالیٰ چراغ کی مثال ہے؟ تمام قرآن شریف ایسی مثالوں سے بھرا ہوا ہے.بلکہ غور کرو تو آپ کو معلوم ہوگا صلوٰۃ، صوم ،زکوۃ، حج، اسلام،ایمان ،فسق،نفاق تما م الفاظ مجاز ہیںکیونکہ عام مولوی صلوٰۃ کے معنے تحریک صلوین، چوتڑ ہلانا کرتے ہیں اور لغت میں لکڑی کو سیدھا کرنے کے لیے گرم کر کے سیدھا کرنا، اس کے معنے ہیں.صوم کے معنے کسی چیز سے رکنا، زکوٰۃ کے معنے بڑھنا اور حج کے معنے ہیں قصد کرنا.اب بتائو کیا یہا ں حقیقی معنے اگر لئے جاویں تو شرع شریف اجازت دے گی؟ ہرگز نہیں.کیا چوتڑ ہلا دیئے اور نماز ہو گئی؟ یا لکڑی کو۱؎ سیدھا کردیا تو نما زہو گئی؟ یا ہم کسی چیز سے ر ک گئے تو صائم ہو گئے؟ علیٰ ہذا القیاس.اسی واسطے علماء میں اختلاف ہوا ہے بعض کہتے ہیںقرآن میں حقیقی لغوی معنے ہیں ہی نہیں اور بعض نے کہاقرآن میں مجاز نہیں اوربعض نے کہا ہے کہ حقیقت ومجاز دونوں قرآن میں ہیں.غرض یہ بحث بہت طویل ہے.غور کرو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  (البقرۃ:۶) اور اس کے معنے ہیں فلاح پانے والا.کیا یہاں لغوی معنے مراد ہیں.عزیز من! مجاز میں کذب نہیں ہوا کرتا.اس میں اور کذب میں فرق ہے معلوم ہوتا ہے آپ نے مختصر معانی بھی نہیں دیکھے بلکہ مجاز اور کذب میں تو ضد ہے.یہ تمام میرا کلام آپ کے مذاق پر ہے وَاِلَّا میں خود وہی مذہب پسند کرتا ہوں جو منکر مجاز ہیں.قرآن مجید تمام حقائق نفس الامریہ ضروریہ پرمشتمل ہے اور چونکہ یہ کلام ہے اس قدوس کا جوربّ العالمین ہے ارحم الراحمین اس لیے تمام کمال صدق پر مبنی ہے.(النساء :۱۲۲)(النساء: ۸۸).

Page 121

.(الانعام:۱۱۶) اور آپ کا دوسرا سوال کہ جب حکم الٰہی اورارادہ الٰہی ہو گیا کہ بندر ہو جاؤ کیا وجہ مانع ہوئی کہ بندر نہ ہوئے.عزیز من! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ(التوبۃ :۱۱۹) توکیا سب راستبازوں کے ساتھ ہو گئے اور فرماتا ہے(البقرۃ:۱۸۶) … (المائدۃ:۷) توکیا سب لوگ یسر میں آگئے ہیںاورمطہر ہوگئے؟ کیا وجہ ہوئی کہ ارادہ الٰہی پورا نہ ہوا؟ بات یہ ہے جعل،کون،ارادہ،امر اوربہت سے اس قسم کے الفاظ دوطرح پرآئے ہیں اور یہ بحث بہت طویل ہے اصل مطلب تواتقان میں لکھا ہے.مفسرین میں طبقہ تابعین اورتلامذہ ابن عباس سے مجاہد اعلیٰ درجہ پر ہے اورتفسیر کے طبقات یہ بھی لکھا ہے.اِذَا جَائَ التَّفْسِیْرُ مِنْ مُّجَاہِدٍ فَحَسْبُکَ.۱.اب سنئے مجاہد فرماتا ہے.قَالَ مُجَاہِدٌ مُسِخَتْ قُلُوبُہُمْ، وَلَمْ یُمْسَخُوْا قِرَدَۃً، وَإِنَّمَا ہُوَ مَثَلٌ ضَرَبَہُ اللّٰہُ لَہُمْ کَقَوْلِہٖ کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا.(فتح البیان فی مقاصد القراٰن تفسیر سورۃ البقرۃ :۶۶) الْمَرْوِیُّ عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی مَسَخَ قُلُوبَہُمْ بِمَعْنَی الطَّبْعِ وَالْخَتْمِ لَا أَنَّہُ مَسَخَ صُوَرَہُمْ وَہُوَ مِثْلُ قَوْلِہِ تَعَالَی: کَمَثَلِ الْحِمارِ یَحْمِلُ أَسْفاراً وَنَظِیرُہُ أَنْ یَقُولَ الْأُسْتَاذُ لِلْمُتَعَلِّمِ الْبَلِیْدِ الَّذِیْ لَا یَنْجَحُ فِیْ تَعْلِیمِہٖ: کُنْ حِمَارًا..تفسیر کبیر.المسالہ الثالثہ.(تفسیر الرازی، سورۃ البقرۃ :۶۶) وَقَالَ مُجَاھِدٌ مَا مُسِخَتْ صُوَرُہُمْ وَلٰـکِنْ قُلُوبُہُمْ، فَمُثِّلُوْا بِالْقِرَدَۃِ کَمَا مُثِّلُوْا بِالْحِمَارِ.(تفسیر ابو مسعود،سورۃ البقرۃ:۶۶) دوم.خَاسِئِیْنَ جمع ہے ساتھ یا اور نون کے اور یہ جمع ذوی العقول کے لیے آتی ہے.پس

Page 122

معلوم ہوا کہ ان کی ظاہر ی شکل ذوی العقول کی طرح تھی.وَاِلَّا اللہ تعالیٰ کُوْنُوا قِرَدَۃً خَاسِئَۃً فرماتا.سوم.اللہ فرماتا ہے (البقرۃ: ۶۷) کیا معنے یہود عبرت کا باعث ہوئے اور ان کا قردہ ہونا باعث نکالموجودہ لوگوں اور ما بعد والوں کے واسطے ہو سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ اگر ان کی صورت ظاہریہ مسخ ہوئی تھی تواس امر میں مخالف لوگ انکا ر کرتے ہیںان کے واسطے نکالکیسے ہو سکتا ہے؟ البتہ یہود کاذلیل ہونا بڑی عبرت کی بات ہے.چہارم.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  (المائدۃ : ۶۱).اب آپ مجاز وغیرہ تو لیں نہیں توثابت ہوتا ہے کہ   (الاعراف: ۱۶۷) سب کے سب بندر بن گئے.کیونکہ مِنْھُمْ کے مرجع کو کُوْنُوْا فرمایا گیا ہے.جب سب بندر بن گئے تو وہ خنزیر کس طرح بن گئے.اورپھر بندر اورخنزیر بن کر عَبَدَالطَّاغُوْت کیوں کر ہوئے؟ کیا بندر اورخنزیر بھی بت پرستی کیا کرتے ہیں؟ اس پر آپ خوب غور کرو.پنجم.عرب لوگ ذلیل انسان کو قردہ کہتے ہیں غور کرو.حماسہ کے اس شعر پر ؎ اَتَخْطِرُ لِلْاَشْرَافِ یَا قِرْدَ حِذْیَمٍ وَہَلْ یَسْتَعِدُّ الْقِرْدُ لِلْخَطَرَانِ أَبٰی قِصَرُ الْاَذْنَابِ اَنْ تَخْطِرُوْا بِھَا وَلُؤْمُ بَنِیْ قِرْدٍ بِکُلِّ مَکَانٍ (شرح دیوان الحماسۃ للتبریزی) ششم. (البقرۃ : ۶۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر یہود میں اور مخاطبان رسول رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم میں مشہور ومعروف تھا.پھر اگر فی الواقع بندر نہ ہوئے اور صرف ان کی ظاہری صورت ہی بدلی تھی تو ہم کو ان یہود سے ثابت کر ادیجیے.میں اول المسلمین ہوں.انشاء اللہ میں اپنی رائے کو ترک کر دوں

Page 123

گا.مجھے عَلِمْتُمْ کا ثبوت چاہیے.یہ قصہ بہت طول اور تفصیل چاہتا ہے اورمجھے فرصت بہت کم ہے.اگرآپ ملو تو تفصیل سنو.والسلام.۲؎ ( ۱؎ الحکم جلد ۷نمبر۱۶ مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۴.۲؎ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۷.مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۴) ایمان کے حصول کے ذرائع اوّل.صبر کرے.صبر کے معنے ہیں مصائب کے اوقات میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے، شہوت کے مقابلہ میں حلم ، مصائب کے مقابلہ میں شجاعت غرض ہر بدی کو ترک کرنا اور ہرنیکی کو لے کر اس پر جمے رہنا حرص اور طمع کے مقابلہ میں شجاعت سے کام لے.جلد بازی کے مقابلہ میں دور اندیشی سے کام لے.دوم.اگر کسی بدی کا کوئی موقع آیا ہے تو اس بدی کو کسی احسن تدبیر سے ہٹا دینا اور اس بدی اور اس کے شر سے بچ جانا.سوم.جو کچھ خدا تعالیٰ نے دیا ہوا ہے اس میں سے خواہ جسمانی طاقت ہو خواہ مال کی طاقت ہو آنکھ سے ہو سکے زبان سے ہو سکے قلم سے ہو.غرض جس طرح بن پڑے اور جس چیز کی ضرورت ہو اس کو خرچ کرے مگر محض اللہ کی رضا کے واسطے.چہارم.وہ افعال واقوال جن سے حق اللہ اور حق العباد کا کوئی حصہ نہیں نکلتا ان کو ترک کردیں یعنی دینی یا دنیوی فوائد سے بے بہرہ امور سے الگ رہنا یعنی اعراض عن اللغو کرناچاہیے.پنجم.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور خود بھی عامل ہونا.بحث مباحثہ میں دشمن پر غلبہ پانے کی راہ اوّل.بحث کی خواہش اور ابتدا نہ کرو.دوم.اگر کوئی مباحثہ کے لئے مجبور کرے تو پھر اللہ سے دعا کرو اور استغفار پڑھو.

Page 124

سوم.قرآن شریف ہی سے تمسک کرو اور اسی سے جواب ڈھونڈو.چہارم.یہ دعائیں پڑھو.(۱) (الانبیاء :۸۸).(۲)    (البقرۃ:۳۳) (۳)  (طٰـــہٰ : ۱۱۵).(۴) (طٰـــہٰ ٰ : ۲۶).(الحکم جلد۷ نمبر۱۶ مورخہ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۳ ء صفحہ۵) شرح صدر فرمایا.(۱)شرح صدر والے کو اللہ پر ایمان ہوتا ہے.(۲)وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے.(۳)ذکر کرتا ہے.(۴)بہادر ہو جاتا ہے.(۵)آنکھ فضول کی طرف (۶)کان (۷) اورزبان لغو کی طرف نہیں جاتی.(۸)اس کی دوستی اور دشمنی اللہ کے واسطے ہوتی ہے.(۹) اسے اپنے واسطے کوئی فکر نہیں ہوتا.(۱۰)وہ مخلوق پر احسان کرتا ہے.(۱۱)دانا ہوتا ہے کثرت غذا اور کثرت نیند سے مبرّا ہوتا ہے.حضرت موسٰیؑ اور آنحضرت ؐاور شرح صدر حضرت موسیٰ علیہ السلام تو  (طٰہٰ : ۲۶) کی دعا خود کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شرح صدر چاہتے ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ارشاد ہوتا (الم نشرح :۲) غور کرو اس سے آپ کی کیسی فضیلت اور بزرگی ثابت ہوتی ہے.ایمان کامل کے نتائج انسان کا جب ایمان کامل ہو جاتا ہے تو اس کے اعضا میں بھی طاقت آجاتی ہے جو غیر مشروع چیزیں ہوتی ہیں ان کو دل سے برُا جان لیتا ہے اس کی فطرت میں بدیوں سے مقابلہ کرنے کی قوت آجاتی ہے.قرآن میںانبیاء کے ذکر کا مقصد اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں بڑے بڑے لوگوں کا حال اس واسطے درج فرماتا ہے کہ تا انسان ان کے حالات پڑھ سن کر خود بھی ان کے نمونے پر

Page 125

چلنے کی خواہش کرے اور ان میں سے کسی ایک جیسا بننے کی کوشش کرے.یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی نبی یا مرسل کا ذکر کرتا ہے تو عموماً فرماتا ہے فَاعْتَبِرُوْا یَا أُولِی الْأَبْصَارِ.قرآن شریف کی اصل غرض قرآن شریف کی اصل غرض عمل ہے اور عمل کے واسطے تدبر ہے.تد ّبر کے واسطے ضروری ہے کہ پانچ آیت سے کم نہ ہوں اور دس آیت سے زیادہ نہ ہو.تدبر کے وقت جب کسی نبی یا ولی یا فرشتہ کا ذکر آوے تو انسان دعا کرے اور خود کوشش کرے کہ ویسا بن جاوے اگر کسی بد انسان یا شیطان کا ذکر آوے تو اس راہ سے بچنے کی کوشش کرو اور دعا اور استغفار وغیرہ کرتے رہو.اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور علم تام اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور علم کامل کے مطالعہ سے ایمان ترقی کرتا ہے اور انعامات الٰہیہ کے مطالعہ سے محبت پیدا ہوتی ہے اور یہ باتیں انسانی فطرت میں ہیں کہ اپنے سے زیادہ طاقت وقدرت والے اور زیادہ علم والے سے خوف کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار بنتا اور پھرا س کو فخر جانتا ہے اور اپنے محسن سے پیار بھی کرتا ہے اسی واسطے خدا تعالیٰ کبھی اپنی قدرتِ کاملہ اور علم تام کا بیان کرتا ہے تاکہ انسان اور سلیم الفطرت انسان ان کے مطالعہ سے ایمان ومحبت میں ترقی کرے.گناہ کی معافی کے ذرائع ۱.توبۃ النصوح ۲.سچائی لانا ۳.سچائی کی تصدیق کرنا.۴.نقصان ہو جانا ۵.مصائب کا آنا ۶.موت کا کرب ۷.قبر کاکرب۸.حشر کا کرب ۹.صراط کا کرب ۱۰.جہنم کاعذاب ۱۱.کسی دوسرے درد مند دل کا اس کے واسطے صدقہ ۱۲.زندگی میں یا بعد الموت ہو ۱۳.شفاعت خواہ انبیاء کی ہو خواہ والدین کی ہو خواہ اولاد کی ہو خواہ ملائکہ کی ہو خواہ مسلمانوں کی ہو ۱۴.ہجرت.(الحکم جلد۷ نمبر۱۷ مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۲)

Page 126

موسیٰ علیہ السلام کے مدین میں رہنے سے سبق ۱.خلق اللہ پر رحم اور شفقت کرے اور محض اللہ تعالیٰ کے واسطے کرے نہ کسی اجر کے واسطے جیسا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بکریوں کو پانی پلانے میں کیا.۲.اپنے آرام کی تجاویزسوچے اور طبیعت کو خراب نہ کرے.موسیٰ علیہ السلام نے جیسے سایہ میں بیٹھ کر دعائیں شروع کر دیں دعاؤں سے کام لے.۳.بجائے اس کے کہ انسان خود سوال کرے چاہیے کہ محنت ومزدوری سے کام لے اور والدین کی آخری عمر میں ان کی خدمت کرے جیسا کہ ان دو لڑکیوں نے کیا.۴.اگر کوئی تم سے نیکی کرے تو تم اس کا ضرور خیال رکھو اس احسان کا بدلہ دینے کی کوشش کرو اگر نہ دے سکو تو دعا کرو.دعا کرو حتی کہ تمہیں یقین ہو جاوے کہ حق ادا ہوگیا چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  (النساء :۸۷) ۵.اگر بے مانگے کوئی چیز آجاوے تو اس کے لینے سے مضائقہ نہ کرے ہاں اگر ہو سکے تو اس کا بدلہ دے دو یا دعا ہی کر دو.۶.لڑکی دینے والا اگر خدمت کرا وے تو داماد کو کرنی چاہیے اور اگر وہ کچھ اس امر کے بدلہ میں لڑکی کا ولی کچھ مانگے تو حرام نہیں.حضرت یونس علیہ السلام کی دعا کے مختصر اسرار حضرت یونس علیہ السلام کی دعا جو قرآن شریف میں درج ہے وہ یہ ہے.(الأنبیاء : ۸۸) یہ ایک بڑی عظیم الشان دعا ہے.اس میں انہوں نے اپنا حال بھی عرض کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے صفات کو بھی بیان کیا اور یقین کر لیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور گناہ معاف نہیں کر سکتا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ گناہ انسان کی غلطی کا موجب ہوتا ہے اور اس کا علاج استغفار ہے.اللہ تعالیٰ کی توحید کا جو انسان پر ساری نیکیوں کے دروازے کھولتی ہے اس کا اقرار کیا اور استغفار جو شر کے دروازے بند کرتا ہے اس پر ایمان لائے تکلیف کا سبب بیان کیا

Page 127

کہ انسان کا اپنا ہی ظلم ہے.غضب الٰہی کے نیچے کون آتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کا جب غضب نازل ہوتا ہے تو اس میں دو قسم کے لوگ گرفتار ہوتے ہیں اول وہ جو خود اس عذاب کے نزول کا باعث ہوتے ہیں.دوم جو ان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اس کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب دی ہے کہ اگر جہاز کے نیچے طبقہ والے اوپر جانا پسند نہ کریں اور نیچے ہی سے سوراخ کر کے پانی لینا چاہیں اور اوپر والے ان کی بے وقوفی سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی ان کی حفاظت نہ کریں اور وہ سوراخ کر کے پانی لینے لگیں تو دونوں ہلاک ہوں گے اسی طرح پر عام دنیا کی حالت ہے.قرآن شریف کے معانی کرنے کے واسطے ضروری امور ۱.تقویٰ کی غرض سے قرآن شریف کو پڑھے نہ کسی اور غرض کے واسطے.پس ترجمہ کرنے میں تقویٰ کا خیال رکھے.۲.اسماء اللہ کے معنے قرآن کریم کے رو ہی سے کرو کسی لفظ کے ایسے معنے ہر گز نہ کئے جائیں جو اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کے خلاف ہوں.۳.ایک جگہ کی بات اگر دوسری جگہ بھی ہو تو اس کو دیکھا جاوے اور دونوں کی مطابقت سے معنے کئے جاویں.۴.سنت اللہ کے خلاف معنی نہ کرو.۵.مشاہدہ اور عقل کے خلاف بھی نہ ہوں تجربہ کے خلاف نہ ہوں.۶.تعامل کے خلاف نہ ہوں.۷.کتب سابقہ اور احادیث صحیحہ سے فائدہ اٹھاوے.۸.اللہ تعالیٰ کسی کو براہِ راست اپنے مکالمہ سے یا کسی اور طرح سے بتادیوے.۹.بعض چیزوں کے آثار موجود ہیں ان کے خلاف نہ ہو.

Page 128

لغت عرب سے باہر نہ ہوں.۱۱.پسندیدگی معانی کی مد نظر ہووے یعنی عرف.(الحکم جلد۷ نمبر ۱۸ مورخہ ۱۷؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۳ ، ۴) غم سے بچنے کے ذرائع غم سے بچنے کے تین بڑے اسباب ہیں.اول.اس امر کا یقین کر لے کہ جو دکھ اور تکلیف آتی ہے وہ شامت اعمال سے آتی ہے اور اس میں الٰہی حکمت ہوتی ہے.دوم.کسی دکھ کے آنے سے پہلے یعنی ہمیشہ ہی ذکر الٰہی کرتا رہے اور اپنے گناہوں کے برے نتائج سے حفاظت طلب کرتا رہے.سوم.صادقین اورخدا تعالیٰ کے پیاروں کی صحبت میں رہے.ثبوت قیامت کی راہ قرآن شریف میں جو لوگ چاہتے ہیں کہ قرآن شریف سے قیامت کا ثبوت معلوم کریں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ قیامت کے ذکر کے ساتھ قرآن شریف دنیا کا ایک واقعہ ضرور پیش کرتا ہے اور وہ واقعہ بطور پیشگوئی ہوتا ہے کیونکہ جب وہ پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے تو اربعہ متناسبہ کے قاعدہ کے موافق قیامت کا ثبوت اس سے ہوتا ہے.پس غور سے مطالعہ کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عالمگیر ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہر پہلو اور ہر حیثیت سے عالم گیر ہے.دنیا کے تین بڑے مرکز تھے وہ سب کے سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فتح کرلئے.جس سے یہ ثابت کیا کہ بلحاظ مکان کے آپ کی نبوت عالمگیر ہے کیونکہ تیرہ سو برس گزر گئے ہیں اور کوئی ایسی ضرورت پیش نہیں آئی جس کے لئے قرآن شریف مکتفی نہ ہوا ہو.لباس کی دو اقسام لباس دو قسم کا ہوتا ہے ایک ظاہری دوسرا باطنی.ظاہری لباس زیب زینت اور ستر اور دوسرے مفاد کے لئے ہوتا ہے.باطنی لباس عمدہ اخلاق ہیں اور اخلاق کے یہ اصول ہیں استقلال، ہمت بلند، جود و سخا، عفّت، حلم و بردباری، قناعت وغیرہ.لباس التقویٰ اعلیٰ درجہ کے عقائدہوتے ہیں.اموال کو عمدہ موقعوں پر خرچ کرے.عسر ویسر میں قدم آگے بڑھائے.

Page 129

انذاری پیشگوئیوں پر نظر یاد رکھو انذاری پیشگوئیوں میں لازم نہیں ہوتا کہ بالکل بعینہٖ پوری کی جاوے کیونکہ خدا کا رحم اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے اور اس کا غصہ دھیما ہوتا ہے.ْ (یونس :۴۷) اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یعنی پیشگوئیوں کے بعض حصے ضروری پورے دکھائے جائیں گے.وہ لوگ سخت غلطی کرتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انذاری پیشگوئیاں مشروط نہیں ہوتی ہیں.(الحکم جلد۷ نمبر۱۹ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۸) اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے متعلق فرمایا ہے.پس رسول اکرم کا فرمان کیسا سچا تھا ! وہ وزارت ہی کے قابل اور مناسب تھے چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی وزیر تھے حضرت ابو بکرؓ کے بھی وزیر اور حضرت عمرؓ کے بھی وزیر تھے اور حضرت عثمانؓ کے بھی وزیر بنے رہے اور چونکہ وزارت ہی کے لائق تھے اس واسطے جب تک وزیر رہے کام اچھی طرح چلتا رہا اور جب خلیفہ بنائے گئے تو کام بگڑ گیا جس طرح ہارون علیہ السلام کی تھوڑی دیر کی خلافت میں بھی قوم بگڑ گئی تھی.پس جب خدا نے فیصلہ کر دیا تو شیعہ کیوں گلہ کرتے ہیں.رکوع جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف نماز میں پڑھتے پڑھتے رکوع کر دیتے تو اسی جگہ نشان رکوع کا کیا جاتا تھا اور طبیعت کی روانی پر موقوف تھا.اشیاء عالم کی عمر دنیا میں اشیاء اسی وقت تک رہتی ہیں جب تک وہ کسی نہ کسی پہلو سے دنیا کے واسطے مفید ہوتی ہیں.جب کوئی ایسا وقت آجاتا ہے کہ وہ کسی طرح بھی مفید نہیں رہتی تو دنیا سے اٹھائی جاتی ہے.یہی حال ہے انسان کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے بھی دنیا کا اکثر یہی حال ہو گیا تھا.قرآن شریف فرماتا ہے. (الرعد : ۱۸).

Page 130

گنہگاروں کی اقسام اوّل قسم گنہگاروں کی وہ ہے کہ وہ غافل ہوتے ہیں ان کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ گناہ کرتے ہیں.دوم گناہ کرتے ہیں مگر بعد میں اضطراب، تضرع، زاری، خوف الٰہی رونا اور چلّانا ہوتاہے.ایسے گنہگار تائب ہوتے ہیں.سوم.گناہ گاروں کی وہ قسم ہے کہ وہ غافل بھی نہیں ہوتے گناہ بھی کرتے ہیں کوئی اضطراب اور گھبراہٹ بھی نہیں ہوتی بلکہ وہ حیلے بناتے ہیں اور بہانہ کرتے ہیں ایسے لوگ محروم ہوتے ہیں.پس اپنا مطالعہ کرو.اعمال کی کسوٹی اعمال میں اخلاص اور صواب ہو ورنہ وہ اعمال اکارت جائیں گے.اخلاص وہ ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی رضا کے لئے ہو کوئی اور خواہش نہ ہو.کسی کو دکھانا یا کسی سے کوئی قسم کا طمع یا خوف اس عمل کا محرک نہ ہوا ہو.صواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل اور سنت کے موافق ہو.ان کے نقش قدم پر چلے اگر ان میں سے ایک خیر بھی نہ ہو گی تو اعمال حبط ہو جائیں گے.(الحکم جلد۷ نمبر۲۰ مورخہ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۳) خشیۃ اللّٰہکا آلہ علم خشیۃُ اللّٰہ کے پیدا ہونے کا ایک آلہ ہے چنانچہ فرمایا. (فاطر : ۲۹) صلَوٰۃ عَلَی النَّبی اوّل.اوقات الصلوٰۃ علی النبی.(۱)مسجد میں آتے اور جاتے وقت (۲) جہاں اور جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نا م یا تذکرہ آوے (۳)ہر دعا کے اوّل اور آخر میں (۴)نمازوں میں (۵) جمعرات اور جمعہ کو اکثر وقت.دوم.معنی الصلوٰۃ.صفت کرنا.تعظیم کرنا.دعا کرنا.رحمت کرنا.کامیابی.شاباش شفاعت.معظم ومکرم ہونا.

Page 131

سوم.درود شریف پڑھتے وقت ان باتوں کا لحاظ رکھنا چاہیے.(الف)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان احسانات کو یاد کرو کہ آپ نے ہماری بہتری کے واسطے کیا کیا تکالیف اٹھائیں اور پھر کس طرح پر دنیا کے اغلال سے ہم کو چھڑایا.(ب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج کی ترقیوں اور کامیابیوں کو مدِّ نظر رکھو.صلوٰۃ اللّٰہ وصلوٰۃ الملا ئکۃ علی النبی.یہ ایک مسلّم امر ہے کہ نیکی کے بتانے والا اس شخص کے ثواب کا بھی وارث ہوتا ہے جس کی تعلیم کی وجہ سے وہ شخص نیکی کرتا ہے.الدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہ(سنن ترمذی کتاب العلم باب الدال علی الخیر کفاعلہ) تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسا ثواب ہر وقت ملتا ہے کیونکہ کروڑوں انسان ہر وقت آپ کے بتانے کی وجہ سے نماز، روزہ، زکوٰۃوغیرہ نیکی کے کام کرتے رہتے ہیں ان تمام نیک اعمال کاثواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال میں بھی بڑھتا جاوے گا جو آپ کے مدارج عالیہ میں ترقی کا باعث ہے.(ج) دعا کا مسئلہ بھی مسلّم ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے کروڑوں انسان ترقی مدارج کے واسطے دعا کرتے رہتے ہیں پھر کیا ان دعاؤں کا کچھ نتیجہ نہیں؟ ہے اور ضرور ہے.آپ پر صلوٰۃ کا ثبوت ازروئے کامیابی بھی آپ پر ہر وقت صلوٰۃ ہونے کا ثبوت ملتا ہے علاوہ بریں کوئی مذہب ایسا نہیں جس کے اصول بھی قائم رہے ہوں برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی رنگ کے واسطے قرآن شریف مکہ معظمہ پھر ہر صدی پر مجدد موجود رہتے ہیں.قرآن شریف جیسی پاک کتاب کے ابتدا اور انتہا میں بھی اَعُوْذُ پڑھنے کا حکم ہے تو باقی لوگوں کی بنائی ہوئی کتابوں کو تو بطریق اولیٰ پہلے استخارہ کرکے پڑھناچاہیے.کبرکا پتہ کیونکر لگتا ہے اوّل.لڑکیوں کے لینے یا دینے میں.دوم.بحث مباحثہ کے وقت یا اگر مخالفت میں کوئی شخص اسے سخت یا سست کہے.

Page 132

سوم.غیر قوموں کے تعلقات سے.قسم کی فلاسفی دنیا میں قسم تین طرح کے لوگوں کے کام آتی ہے ادنیٰ یا اوسط یا اعلیٰ.ان تینوں ہی قسم کے آدمیوں کے کام قسم آتی ہے.ادنیٰ قسم کے لوگ جو دلائل سے ناواقف ہوتے ہیں ان کو قسم پر اعتبار ہوتا ہے اور وہ یقین کرتے ہیں کہ جھوٹی قسم کھانے والا ذلیل ہوجاتا ہے.چنانچہ ان میں ایک ضرب المثل ہے.اِنَّ الْاَیْمَانَ تَضَعُ الْاَرْضَ بَلٰقِعَ.اب عوام کے مذاق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ اس قدر قسمیں آپ نے کھائیں مگر ذلیل نہیں ہوئے بلکہ آپ نے کامیابی اور ترقی حاصل کی.دوم.اوسط درجہ کے واسطے بھی قسمیں مفید ہیں درباروں اور کچہریوں میں قسم بطور شاہد سمجھی جاتی ہے اور.سوم.اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے واسطے بھی قسم مفید ہوتی ہے اعلیٰ درجہ کے لوگوں میں فلاسفروں کو بھی سمجھتے ہیں ان پر بھی قسم کے ذریعے اتمام حجت کی گئی ہے کیونکہ قرآن شریف میں جس چیز کی قسم کھائی ہے اس کو بطور شاہد ٹھہرایا ہے اور اس کے حقائق اور خواص کی طرف توجہ دلائی ہے.قبولیت دعا کی دو اقسام دعا کی قبولیت کے دو قسم ہوتے ہیں ایک قبولیت بطور اجتبا ہوتی ہے دوسری بطور ابتلا.اس واسطے ضروری ہے کہ دعا مانگنے سے پہلے بڑا بڑا استغفار کر لیا جاوے ایسا نہ ہو کہ دعا کی قبولیت ابتلائی رنگ میں ہو جاوے.تین زبانیں انسان کو تین زبانیں سیکھنی لازم ہیں.اول.دین کی زبان.ملک کے شرفا کی زبان اور حاکم وقت کی زبان.( الحکم جلد۷ نمبر۲۱ مورخہ ۱۰؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۳،۴) ایمان اور حبّ الٰہی بڑھانے کے اسباب ایمان کے سوا نجات نہیں اور حب الٰہی کے سوا اس کی ترقی نہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قوتوں کے بڑھانے کے واسطے اسباب

Page 133

جبروت کا اظہار کیا ہے تاکہ اس سے ایمان بڑھے اور پھر انعامات جتاتا ہے تاکہ ان کے مطالعہ سے محبت ترقی کرے.خلاصہ یہ ہے کہ علم کامل اور قدرتِ کاملہ کے مطالعہ سے ایمان اور انعامات و احسانات کے مطالعہ سے الٰہی محبت ترقی کرتی ہے.پرانی باتوں پر بلا ثبوت رائے زنی مت کرو پرانی باتوں پر سوائے کافی ثبوت کے اپنی رائے زنی نہ کرو کیونکہ اس کے متعلق سوال ہوگا.اور جب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے کوئی بات قاطع دلائل کے ساتھ ثابت ہو جاوے تو اس کے سامنے سر جھکا دینا چاہیے.رخصت اور اس کی اغراض نوٹ.یہ مختصر نصائح حضرت حکیم الامت نے مدرسہ تعلیم الاسلام کے طلبہ کو سالانہ موسمی تعطیلات کی تقریب پر کی تھیں ہم نے اس مضمون کے اشارات رکھے ہوئے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ اگر خدا نے توفیق دی تو رخصت پر ایک مضمون لکھنے کا ارادہ ہے.(ایڈیٹر) رخصت قانون قدرت میں لازمی ہے مثلاً دن کے بعد رات ہی آجاتی ہے جو آرام کرنے کا وقت ہے.رخصت میں استاد لڑکوں کو کام دے کر تمیز کر لیتا ہے کہ کون بڑا محنتی اور شوقین ہے اور کون بے شوق.رخصت میں طالب علم کو خود اپنے آپ کے امتحان کا موقع ملتا ہے کہ جب اس پر کوئی نگران نہیں اس وقت وہ اپنے نفس پر حکومت کر سکتا ہے یا نہیں.یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جس چیز سے تعلق رہے اس سے پیار اور جس سے بے تعلقی ہو اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی اسی طرح جب طالب علم والدین سے مدت تک الگ رہتا ہے تو ان کے تعلق میں فتور آنے لگتا ہے.رخصتوں میں ان تعلقات کے زیادہ تازہ کرنے کا موقع ملتا ہے اور پھر ایک نیا تعلق شروع ہوتا ہے اور والدین کو معلوم ہو جاتا ہے کہ سکول کا اثر ان کے بچوں پر کیا ہوا؟ مدرسہ کی پابندیوں کی وجہ سے تم انسانوں کی نماز پڑھتے ہو یا محض خدا کی یہ پتہ بھی ان

Page 134

رخصتوں میں ملتا ہے.والدین اگر بے نماز ہوں یا سست ہوں تو ان کو اپنی نماز کی پابندی کا نمونہ دکھا کر ہوشیار کرنے کا موقع ملتا ہے اور اگر ہوشیار ہیں تو ان کو خوش کرنے کا اور ان سے بڑھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے.متقی کے ہر حال جنت قریب ہوتی ہے   (قٓ : ۳۲)یعنی متقی کے ہر حال اورہر وقت میں جنت قریب ہوتی ہے اس کے واسطے دنیا میں جنت ہوتی ہے قبر میں، حشر میں، نشرمیں، صراط میں ہر جگہ جنت ہوتی ہے یہاں تک کہ اس کے واسطے جہنم بھی جنت ہوتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک داروغہء ِجیل جیل میں جاکر چوروں کو نکالتا ہے وہ خود زندانی نہیں ہوتا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوزخ میں سے بعض کو نکالیں گے تو آپ کے واسطے وہ بھی جنت ہی ہوگا جنت کے مستحق اوّاب اور حفیظ ہوتے ہیں.اوّاب وہ ہوتے ہیں جو رجوع الی اللہ کرنے والے ہوتے ہیں اور حفیظ وہ ہوتے ہیں جو اس رجوع پر مستقل مزاج ہوتے ہیں.انبیاء پر اوّلین غرباء کے ایمان لانے میں سِرّ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور ماموران الٰہی کے ساتھ شروع میں بڑے لوگ شامل نہیں ہوتے بلکہ ان کی طرف غریب اور کمزور لوگوں کا رجوع ہوتا ہے.اس میں ایک عظیم الشان سرّ ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کے مامور کامیاب اور بامراد ہونے والے ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کے ساتھ بڑے آدمی اوّل اوّل شریک ہوجائیں تو ان کے ایمان کمزور ہوں اور ان کا تکبر بڑھ جاوے وہ یہ کہیں کہ اس کی کامیابیاں ہمارے ہی سبب اور ہمارے ہی رسوخ سے ہوئی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو اوّلاً شریک نہیں کرتا تا وہ اس کے مامور پر اپنا احسان نہ جتانا شروع کردیں.پس چھوٹے درجہ کے لوگ اوّل اوّل توجہ کرتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ ان کو کامیاب اور بامراد کرتا ہے جس سے ان کا ایمان بڑھتا ہے اور وہ احساناتِ الٰہی کا اقرار کرتے ہیں اور یہ کامیابیاں دنیا کے واسطے عظیم الشان معجزہ ٹھہرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ جو کمزور اور زبردست نظر آتے تھے وہ

Page 135

طاقتور اور بڑے آدمی بن جاتے ہیں اور متکبر کافر تباہ ہو جاتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ نظر آتا ہے.پیری مریدی کے تعلق کا نتیجہ پیری اور مریدی کے تعلق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شنید بدید مبدل گردد وسمعی کشفی گردد.کشفی امور اور شنیدہ باتیں دید میں آجاتی ہیں (یہ ایک لطیف نکتہ ہے ناظرین اس پر غور کریں.ایڈیٹر) شفاعت کا مدار شفاعت کا مدار ایمان پر ہے اسی وقت سے اس کے واسطے شفاعت شروع ہو جاتی ہے اور رسول تو جب سے رسالت لے کر آتا ہے اس وقت سے ہی شفاعت کی اجازت ہو جاتی ہے جو ان کی دعاؤں کا رنگ اختیار کرتی ہے.یہ سچ ہے کہ وہ شفاعت اسی وقت کرتے ہیں جب ان کو اذن ہوتا ہے.اذن کے بغیر ان کی روح میں شفاعت کا جوش ہی نہیں پیدا ہوتا.نیکی کسی حال میں ضائع نہیں ہوتی نیکی کر دریا میں ڈال.اس کے معنی یہ ہیں کہ نیکی کسی حال میں ضائع نہیں ہوتی.پس مت خیال کرو کہ فلاں نیک کام اگر ہم کریں گے تو وہ اکارت جائے گا یا اس کا کوئی نتیجہ ظاہر نہ ہوگا.بے جا بحثوں سے اجتناب کرو میں ان لوگوں کو جومیرے درس قرآن میں آتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مسائل سوچنے چاہئیں جن سے دینی یا کم از کم دنیوی فائدہ ہی متصور ہو.بے جا بحثوں سے اجتناب کرو.اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا.اخلاقی طاقتیں اور روحانی قوتیں جو حقائق اور معارف کے لینے والی خدا تعالیٰ نے رکھی ہیں وہ کمزور ہو جاتی ہیں.مخالف الرائے مسلمانوں کی بدقسمتی ہمارے مخالف الرائے مسلمانوں کی کیسی بد قسمتی ہے کہ اپنی قوم کو یہودیوں کا وارث تو مان لیتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ مسیح، صدیق، شہید، ان میں سے نہیں ہو سکتے وہ مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کے موافق ہماری قوم

Page 136

یہود تو ہو گئی مگر ان کی اصلاح کے لئے جو مسیح آئے گا وہ اس امت میں سے نہ ہوگا.وہ دوسری قوم یہود سے ہوگا؟ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا.مخلوق کی دو اقسام مخلوق دو قسم کی ہوتی ہے ایک وہ جو دوسروں پر طعن اور اعتراض کرتی ہے مگر اپنے منصب، قوم اور ذات کے فضائل کچھ بھی بیان نہیں کر سکتے.اس قسم کی مخلوق کے ماتحت وہ مذہب ہیں جو اسلام کی مخالفت کرتے ہیں مثلاً کُل عیسائی کُل انبیاء علیہم السلام اور کُل راست بازوں اور صدیقوں کے متعلق اعتراض کرتے ہیں لیکن اپنی کوئی خوبی اور فضیلت بیان نہیں کر سکتے.ایسا ہی آریہ سماج والے بھی کرتے ہیں یہ لوگ چھینتے ہیں مگر دیتے کچھ بھی نہیں.اس لئے ان کا علاج ہے استغفار کرنا، دعا کرنااور خدا تعالیٰ کا فضل مانگنا (القارعۃ : ۷) ایسے ہی لوگوں کے واسطے ہے.دوسری وہ مخلوق ہے جو اپنے فضائل کو پیش کرتی ہے اور دوسروں کے رزائل کو دور کر کے ان کو ان کا وارث بناتی ہے.یہ اسلام کا خاصہ ہے کہ اول نعم البدل، خوبی اور عمدگی پیش کرتا ہے اور پھر اپنے مخاطبوں سے چھوڑنے والی چیز کی بدی نقص اور قبح کو ظاہر کرتا ہے اور یہ فضیلت صرف اسلام ہی کو حاصل ہے.(الحکم جلد۷ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ۲۰) زبرالاوّلیناور کتاب اللہ میں فرق تمام صداقتیں جو پہلی کتابوں میں پائی جاتی ہیں وہ قرآن شریف میں موجود ہیں مگر زبرالاولین اور کتاب اللہ میں اتنا فرق ہے کہ پہلی کتابوں میں وہ صداقتیں مدلل اور مبرہن نہیں ہیں اور قرآن شریف ان کو مدلل اور مبرہن… کر کے بیان کرتا ہے.تلاوت قرآن کی اصل غرض قرآن شریف کی تلاوت کرو مگر عمل کے لئے اور اگر قرآن شریف میں کوئی آیت ایسی پاؤ جو دوبھر معلوم ہو اور ایسا نظر آوے کہ اس پر عمل نہیں ہو سکتا

Page 137

تو یاد رکھو ایسا خیال سخت خطرناک ہے.اسی وقت استغفار کرو کیونکہ یہ حالت شیطان کی ہوتی ہے جو قرآن شریف اس کے لئے باعث راحت نہیں ہے.پس تم ایک ڈائری بناؤ اور اس میں وہ تمام باتیں جو تم سنو، پڑھو درج کرو اور ان میں غور کرو کہ کیا تمہیں قرآن کریم سے لذّت آتی ہے یا کسی اور کے کلام سے پھر تمہیں پتہ لگ جاوے گا کہ تم کون ہو.قیامت کی بیّن دلیل قرآن شریف نے دلائل قیامت بیان کرتے ہوئے ایک لطیف دلیل دی اور وہ یہ ہے.کہہ دو کہ ان ملکوں کی سیر کرو جہاں انبیاء علیہم السلام جو مصدق قیامت تھے آئے تھے.(النمل :۷۰)پس تم دیکھو کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسولوں سے قطع کرنے والوں کا انجام کیا ہوا یعنی جو لوگ مکذب و منکر قیامت تھے ان کے انجام پر نظر کرو.قیامت کا منکر جب قیامت کے قائل کے سامنے بشکل مخالف کھڑا ہوتا ہے اور مقابلہ کرتا ہے تو منکر ہلاک ہوجاتا ہے جس سے مصدق قیامت کے ساتھ تائید الٰہی ثابت ہوتی ہے اور یہی قیامت کی بین دلیل ہے.المودۃ فی القربیٰ اس کے معنے کرتے ہوئے حضرت حکیم الامت نے فرمایا.قربیٰ (۱) وہ باتیں جن سے تم مقرب باللہ بن جاؤ.( میں چاہتا ہوں کہ یہ معنی سب سے مقدم ہوں.نورالدین).(۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام قریش قریبی رشتہ دار تھے اور ان تمام میں باہم ہمیشہ جنگ وجدال رہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے کچھ نہیں چاہتا سوائے اس کے تم باہم کی لڑائیاں چھوڑ دو اور آپس میں محبت کرو.(۳) تمام مقربان خدا کے ساتھ محبت کرو  (الواقعۃ : ۱۲) (التوبۃ : ۱۰۰) (۴) القربٰی جمع الاقارب.(آل عمران:۱۰۴

Page 138

اطاعت کی تین اقسام اطاعت تین طرح سے ہوتی ہے.اوّل.محبت اطاعت کا ذریعہ ہے محبوب کے حکموں کی فرمانبرداری کی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر محبوب خدا ہی ہے.دوم.خوف بھی ذریعہ اطاعت ہے سب سے زیادہ احکم الحاکمین کا خوف رکھنا چاہیے اور وہ اللہ جلّ شانہٗ ہے.سوم.اپنا حاجت روا جو ہو.ہر حاجت کو پورا کرنے والا، حاجتوں پر پوری خبر رکھنے والا اور حاجتوں کے پورا کرنے پر قادر وہ صرف خدا ہی ہے.گناہ سے بچنے کے گُر گناہ سے بچنے کے دو بڑے گُر ہمیشہ یاد رکھو.اوّل.ہر وقت دل میں یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال دیکھتا اور جانتا ہے.دوم.اللہ تعالیٰ کی اس صفت پر ایمان لاؤ.(البقرۃ : ۷۳) یعنی جو گناہ ہم پوشیدہ ہو کر کریں گے اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کر دے گا.شیطانی بہکاوے کا ایک انداز شیطان کبھی کبھی نیکی کے رنگ میں بھی انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے ایسے اوراد اور وظائف بتائے جاتے ہیں کہ انسان باجماعت نماز سے رہ جاتا ہے.پس انسان کو اپنی نیکیوں کاگمان اور غرور نہیں کرنا چاہیے اور چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف قویٰ دئیے ہیں اس لئے جو بات اس کو نہیں دی گئی اس کو چاہیے کہ دوسروں سے لے کر اس کا فائدہ اٹھاوے اور اس میں اپنی کسرِ شان نہ سمجھے.اس لئے فرمایا ہے  (النحل : ۴۴).اولاد و اموال انسان کو کندن بنا دیتے ہیں  (التغابن : ۱۶) فتنہ کے میں یہ معنے کیا کرتا ہوں کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں کندن بنا دیتی ہے خدا تعالیٰ کا کوئی فعل عبث اور بے ہودہ نہیں ہوتا بلکہ انسان ہی کی بہتری اور بہبودی کے واسطے ہوتاہے اس لئے اولاد اور مال بھی انسان کو کندن بنا دیتا ہے ان کی خبر گیری، احتیاط، سلوک وغیرہ سے اس کی اخلاقی قوتوں کا نشوونما ہوتا ہے لیکن جس شخص کو ایسا موقع حاصل نہیں وہ ان اخلاق فاضلہ کو کیسے سیکھ سکتا ہے.( الحکم جلد۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ۵)

Page 139

قرآن کے ہوتے ہوئے کسی اور کتاب کی ضرورت ۲۳؍اپریل ۱۹۰۳ء کو ایک صاحبنے حضرت حکیم الامت حکیم نورالدین صاحب پر چند ایک سوال کئے تھے چونکہ وہ سوال اور ان کے جواب ہر ایک دیندار کے لئے زیادتی ایمان کا موجب ہیں اس لئے ہم ان کو درج کرتے ہیں.سوال:.اگر قرآن کے سوا اور کوئی کتاب نہ مانی جاوے تو کیا قیامت لازم آتی ہے اور اصولِ دین؟ کون سی ضرورت باقی ہے؟ جواب:.اگر انسان میں ضد نہ ہو اور غور وفکر کرے تو قرآن کافی کتاب ہے.قرآن نور ہے، ہدایت ہے، رحمت ہے، شفا ہے اور ہر ایک قسم کے اختلاف مٹانے کے واسطے آیا ہے. (العنکبوت : ۵۲) اور یہی راہ ایمان کی ہے مگر سوال کے یہ معنی کہ اب دین کے واسطے ہمیں کسی اور کتاب کی ضرورت نہیں ہے یہ ایک نفس کا دھوکہ ہے انسان کے منہ سے بعض وقت ایسا لفظ نکلتا ہے جو خود ہی اس کے لئے مشکلات کا موجب ہوتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ میں عربی زبان میں ہوں تو اب عربی زبان کے سمجھنے کے واسطے دوسری کتاب کی ضرورت پڑی ورنہ کوئی بتلائے کہ بسم اللّٰہ.الرحمٰن.الرحیم.اب ان سب کے معنے قرآن شریف میں کہاں لکھے ہیں.آخر جواب یہ ہوگا کہ عربی سمجھنے کے واسطے اور کتاب کی ضرورت ہے تو پھر نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کافی نہ رہا.اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سائل نے غور اور فکر ہر گز نہیں کی اور جس دعویٰ کو خود ثابت نہیں کرسکتا اسے دوسرے کے آگے پیش کیا جاتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف تو اپنی ذات میں کافی ہے مگر یہ ہماری اپنی کمزوری ہے کہ سوائے عربی زبان دانی کے ہم دینی ضرورت کو انجام نہیں دے سکتے شاید اس پر یہ سوال ہو کہ اس جواب کا تعلق عجم سے ہے.عرب لوگوں کو یہ ضرورت نہیں ہے تو یہ بھی غلط ہے خود مکہ اور مدینہ میں اب وہ بولی نہیں ہے جو کہ قرآن شریف کی زبان ہے انجام کار یہ بات ماننی پڑتی ہے

Page 140

کہ خاص قرآن کی بولی جاننے کے واسطے ایک اور کتاب کی ضرورت پڑی.اب یہ اعتراض رہا کہ جس کو قرآن کے معانی بدوں کسی کتاب کے آتے ہیں اسے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں ہے.ہم کہتے ہیں آنحضرت ﷺ کی ذات پاک ایسی تھی کہ ان کو قرآن کے فہم کے واسطے تو کسی کتاب کی ضرورت نہ تھی مگر تاہم قرآن کو کلام الٰہی اور جو کچھ قرآن کریم پیش کرتا ہے اس کی تصدیق کے واسطے پھر بھی اور کتاب کی تو ضرورت تھی اور خود قرآن بتلاتا ہے کہ اور کتاب کی ضرورت ہے. ( اٰل عمران : ۹۴) آنحضرت ﷺ کو اپنی صداقت ثابت کرنے کے واسطے قرآن میں فرماتا ہے کہ ایک اور کتاب میں دیکھو پھر لکھاہے (الاعراف : ۱۵۸)  آنحضرت ﷺ کو اپنی صداقت ثابت کرنے کے واسطے قرآن میں فرماتا ہے کہ اور کتاب میں دیکھو پھر لکھاہے گویا دو کتابوں کی ضرورت پڑی اس تقریر سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کو بھی پیشگوئیوں وغیرہ اور اپنے دعاوی اور نیز قرآن کی تصدیق کے واسطے دوسری کتابوں کی ضرورت پڑتی رہی اور ادھر ہم کو بھی پڑی کیونکہ ہماری زبان عربی نہیں ہے.اس لئے خوب یاد رکھوکہ قرآن تو اپنی ذات میںایک کامل کتاب ہے مگر اس کے کمال کو جاننے کے لئے ہم اور کتابوں کے محتاج ہیں کبھی لغت کے کبھی دوسرے علوم کی کتب کے اگر کہو کہ اصول دین کو اس سے کیا تعلق ہے.تو ہم کہتے ہیںقرآن شریف کی تصدیق کرنی بھی تو اصول دین ہے.کامل ذات خود کسی کی محتاج نہیں ہوا کرتی مگر دوسرے اس کو کامل جاننے کے واسطے محتاج ہوتے ہیں دیکھو خدا اپنی ذات میں کامل ہے اور اس کو دلائل کی ضرورت نہیں مگر چونکہ ہم دلائل کے محتاج ہیں اس لئے مصنوعات وغیرہ کے دلائل ہم کو دینے پڑے.

Page 141

آنحضرتؐ کو نہ مان کر انسان مسلمان ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ سوال:.محمد ﷺ کو نہ مان کر کیا انسان مسلمان ہو سکتا ہے یا نہیں.جواب:.آنحضرت ﷺ کے نہ ماننے میں وہ تمام انبیاء اور امتیں بھی داخل ہیں جو کہ آپ کی بعثت سے پیشتر گزر چکیں.مثلاً آدم نے آنحضرت ﷺ کو کب ویسے مانا ہے جیسے کہ ہم مان رہے ہیں مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اگر آدم کو ماننے کی ضرورت پیش نہ آئی تو ہم بھی نہ مانیں غلط ہے.دیکھو آدم نے تو آپ کو نہ مانا مگر وہ مسلمان تھا اور ادھر ابو جہل نے نہ مانا تو وہ کافر ہوا کیا اب دونوں کا نہ ماننا ایک جیسا ہے اصل میں اسلام نام ہے فرمانبرداری کا کہ جبفرمان نازل ہو اسے اسی وقت مان لے.سکھوں کے وقت جب گورنمنٹ انگلشیہ آئی تو اس وقت یہ قوانین نہ تھے جو کہ اب ہیں.مگر اس وقت جس قسم کے قوانین تھے ان کو اس وقت کے ماننے والے فرمانبردار کہلاتے تھے اور ان کے منکر باغی.پھر اس کے بعد جب قانون کی صورت بدلی تو پھر اس متبدل شدہ صورت کو ماننے والے فرمانبردار ہوئے او ر دوسرے باغی.اسی طرح اب جو قانون ہے یہ اور ہی ہے اب اسی کو ماننے والے فرمانبردار کہلاتے ہیں.غرضیکہ جب فرمان کے وقت نافرمانی کی جاوے تو پھر اسلام کا مفہوم نہیں رہتا.قرآن بھی یہی کہتا ہے. …(النور : ۵۶) یہاں بھی ان خلفاء کے منکروں پر لفظ کفر کا ہی آیا ہے کیونکہ وہ تو حکم الٰہی ہے جس رنگ میں ہو جو اس سے نافرمانی کرے گا وہ نافرمان ہوگا میں اس چھت کے نیچے بیٹھا ہوں اگر مجھے اللہ تعالیٰ ابھی حکم دے کہ اٹھ جاؤ اور میں نہ اٹھوں تو میں نافرمان ہوں گا.اگر یہ چھت گرے اور میں مرجاؤں تو اس نافرمانی کی سزا ہوئی آنحضرت ﷺ تو کیا میں تو کہتا ہوں کہ خدا کے کسی ایک حکم اور آپ کے جانشینوں کی کسی ایک نافرمانی سے انسان کافر ہوجاتا ہے.

Page 142

الہامات میں اختلافات سوال:.الہامات میں اختلاف ہوتا ہے کہ نہیں.جواب :.الہامات میں اختلاف نہیں ہوتا ہاں بعض مشکلات ہوتی ہیں لوگ ان کے فہم میں غلطی کرتے ہیں.قرآن میں بھی لوگوں نے اختلاف مانا ہے اور سخت غلطی کھائی ہے جب ہی تو ناسخ منسوخ مان بیٹھے اصل بات یہ ہے کہ فہم انسان میں اختلاف ہوتا ہے.نفس الہام میں اختلاف نہیں ہوتا.اوپر میں نے چھت کی مثال دی ہے کہ خدا حکم دیوے کہ اٹھ جاؤ یہ چھت گرنے والی ہے مگر میری دعا اور تضرع سے اگر خدا اسے نہ گرنے دیوے اور پھر حکم دیوے کہ اب نہ اٹھو اور نہ نکلو تو کیا اسے اختلاف فی الاحکام کہو گے.ہر گز نہیں تو بات یہی ہے کہ الہامات میں اختلاف نہیں ہوا کرتے.(الحکم جلد ۷نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰ ؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۴) حروف مقطعات حم اور عسق کے معانی حم، عسق کے معنی حکیم الامت نے یوں فرمائے ہیں.ح.اللہ کے وہ اسماء جو ’’ح‘‘ سے شروع ہوتے ہیں.م.اللہ کے وہ اسماء جو ’’م‘‘ سے شروع ہوتے ہیں.ع.اللہ کے وہ اسماء جو عین سے شروع ہوتے ہیں.س.اللہ کے وہ اسماء جو ’’سین‘‘ سے شروع ہوتے ہیں.ق.اللہ کے وہ اسماء جو ’’قاف‘‘ سے شروع ہوتے ہیں.ح.جیسے حکیم، حمید، حلیم، حفیظ م.الملک، المؤمن، المہیمن، متکبر، مذل، معز، مجید، محی، ممیت، مقیت، ماجد،مجیب

Page 143

ع.علیم، عالم الغیب، العلی، عظیم، عزیز.س.سلام.ق.قاہر، قہار، قابض، قادر، قدیر،قیوم.کافروں کی دو اقسام دو قسم کے کافر ہوتے ہیں.ایک معمولی کافر دوسرے دہریہ.موخر الذکر بڑے سخت کافر ہوتے ہیں جہاں دہریہ کافروں کا ذکر قرآن کریم کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے ختم قلوب کے متعلق سمع کو مقدم کیا ہے کیونکہ دہریہ کا قلب نہیں ہوتا بلکہ وہ سماعی امور پر زیادہ زور دیتے ہیں اور کہتے سماعی باتوں کو نہیں مانتے اس لئے فرمایا ہے.(الجا ثیۃ:۲۴) لیکن جہاں عام کفار کا ذکر ہے وہاں فرمایا (البقرۃ : ۸) آج کل کے خطرات مسلمان آج کل جن خطرات میں مبتلا ہیں اور جو ان کے زوال کا باعث ہوئے ہیں وہ یہ ہیں.1.قرآن شریف کا ترک 2.نفاق 3.مسلمانوں میں کبر بہت ہوگیا ہے.4.جھوٹ بڑھ گیا ہے.5.فضول خرچی کی عادت ہوگئی ہے.6.دینی معاملات میں کسل آ گیاہے.لا الٰہ الا اللّٰہ محمّدٌ رّسول اللّٰہ کے معنے ہر عمل صالح کی تکمیل کے دو پہلو ہیں جب تک وہ دونوں پہلو پورے نہ ہوں کچھ نہیں ہوتا بلکہ اگر کوئی ایک پہلو رہ جاوے تو وہ عمل فاسد ہو جاتا ہے.ایک ان میں سے اخلاص ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو.دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ

Page 144

کے طرز عمل کے موافق ہو جو صواب کہلاتا ہے یہی معنے ہیں لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کے.لا الہ الا اللّٰہ اخلاص کی تعلیم دیتا ہے اور محمد رسول اللّٰہ صواب کے.عبرت ہر ایک شخص کے لئے ایک زندہ مثال عبرت کی ہر جا موجود ہوتی ہے.ہر نئے آباد شدہ شہر کے ساتھ اجڑا ہوا شہر ہوتا ہے.ہر نئے امیر کے پاس اجڑے ہوئے امیر کا گھر ہوتا ہے.پس وہ برباد شدہ شے اس کے لئے واعظ ہوتی ہے.بڑا ہی بد بخت کون ہے؟ تین قسم کے لوگ بڑے ہی بد قسمت اور بدبخت ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ سے پناہ اور دعا مانگنی چاہیے کہ ان میں داخل ہونے سے بچاوے.اوّل.وہ شخص بڑا ہی بد بخت ہے جس کو علم ہو اور عمل نہ ہو یہ قرآن شریف کی اصطلاح میں ضال کہلاتا ہے.دوم.وہ شخص بڑا ہی بد قسمت ہے جو اپنے گناہوں اور بد کاریوں کو اچھا سمجھتا ہے.(محمد : ۱۵) سوم.جو گری ہوئی خواہشوں کا متبع ہو.(محمد : ۱۵) پس مومن کو کیا چاہیے؟ مومن کو چاہئے کہ بڑا بلند پرواز ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو کیونکہ ساری بلند پرواز گیوں کی انتہاء اللہ کی رضا ہے.بلند پروازگی کے بالمقابل مومن کا ایک نزول بھی ہوتا ہے اور یہ نزول قرآن شریف میں شفقت علی خلق اللہ کہلاتا ہے.اس نزول میں بھی ایک بلند پروازگی ہوتی ہے اور مومن بڑا ہی مستقل مزاج ہوتا ہے.تمام بد کاریوں کی جڑ تمام مذاہب باطلہ اور آثام اور بد کاریوں کی جڑ قرآن شریفنے یہ بتائی ہے (الفتح : ۷) میں تمام بدیوں اور بدکاریوں کی جڑ اللہ تعالیٰ پر بد ظنی ہے مثلاً سارق اللہ تعالیٰ پر بد ظن رہتا ہے کہ اس کو بجز چوری کے رزق نہیں مل سکتا.اس طرح پر تمام مذاہب باطلہ اور بدیوں کا حال ہے.(الحکم جلد۷ نمبر۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ۳ ،۴)

Page 145

ایمان کا روزانہ معیار میرے مخدوم ومہربان حضرت حکیم نورالدین صاحب نے ایک درس میں ایک نکتہ بیان کیا جسے میں اپنے الفاظ میں تزکیہ نفس کی غرض سے پیش کرتا ہوں.ایک زرگر یا کوئی اورپیشہ ور اپنے پیشہ کی دھن میں مصروف ہوتاہے یاایک میاں اپنی بیوی کے ساتھ اختلاط کرتا ہے یا ایک ماں اپنے من موہنے اور مسکراتے بچہ سے کھیل رہی ہوتی ہے یاایک ایڈیٹر اخبار کی نامہ نگاری میں قلم فرسائی کررہا ہوتاہے یا اور کوئی ماتحت اپنے آقا کی خوشنودی کے لئے سرگرمی سے ایک کا م کر رہا ہوتا ہے وغیر ہ وغیرہ کہ خدا کا ایک منادی اسے خدا کی طرف بلانے کا پیغا م اس کی حضوری میں حاضر ہونے کے لئے لے کر ان الفاظ میں آتا ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِحَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ.مگر وہ بندہ جو کہ اس امر کا مدعی ہوتا ہے کہ میرا خدا پر ایما ن ہے اور میں سب سے زیادہ عظمت، بزرگی، جلال، قدرت صرف اللہ تعالیٰ کی ہی مانتا ہوں وہ اس حکم کو سن کر سستی کرتاہے نفس اسے کہتا ہے کہ جس کام میں تو مصروف ہے اب یہ قریب الاختتا م ہے اسے ادھورا نہ چھوڑ.تیرے خیالات منتشر ہوجاویں گے.ابھی نماز میں کچھ دیر ہے تب تک ختم کر لے.یہ نادان نفس کی آواز کو سنتا ہے اور اس کی مخالفت نہیں بلکہ اتباع کرتا ہے حتی کہ جماعت یا نماز کا اوّل وقت گزر جاتا ہے اور اس امتحان میں جو کہ خدا تعالیٰ نے اس کا لینا چاہاہے ناکام رہتا ہے.اور اس فرشتہ کی تحریک پر عمل نہیں کرتا جو کہ اسے نیکی کی ترغیب دیتا ہے.پھر جب وہ اٹھ کر اپنی فرصت نکال کر نماز کو آتا ہے او روضو وغیرہ کر کے نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور کانو ں تک ہاتھ اٹھا کر اَللّٰہ اَکْبَرُ یعنی اللہ سب سے بڑا ہے کہتا ہے تو اسے شرم کرنی چاہیے اور غیرت میں ڈوبنا چاہیے کہ وہ اس شہادت اور اس اقرار میں سراسر جھوٹا ہوتا ہے اگر وہ اللہ کو سب سے بڑا مانتا ہے تو جس وقت حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ کی آواز اس کے کان میںاوّل دفعہ ہی آئی تھی اس وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حضور الٰہی میں حاضر ہونے کی تیاری کرتامگر اب تو اس نے عمل سے بتلا دیا کہ جسے وہ سب سے بڑا ماننے کا اقرار کرتا ہے اس کی آواز کی اس نے پرواہ نہیں کی.پس اس نے اپنے اس

Page 146

فعل کو یا پیشہ کو یا بیوی کی محبت کو یا بچہ کے پیار کو سب سے بڑا مانا کہ جس کی اتباع کی.غرضیکہ نماز کے پانچ اوقات اور اس کی ہر ایک رکعت اور قیام اور سجود اور رکوع ہرایک رکن انسان کی ہدایت کے لئے کافی ہے اور اگر وہ غور کرے تو دن میں پانچ دفعہ وہ اپنے نفس کا امتحان لے سکتا ہے؟خدا پر اپنے ایمان کا انداز ہ لگا سکتا ہے.اسباب پرستی کے مرض نے کہاں تک اس کے قلب سلیم کو مائوف کیا ہوا ہے اسے دیکھ سکتا ہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں یہ فکر، یہ دھن، یہ ایمان، یہ غیرت اور اس پر عمل کی توفیق عطا کرے.(البدرجلد ۲ نمبر ۲۹مورخہ۷؍اگست۱۹۰۳ء صفحہ۲۳۰) اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والے امور اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والے امور کا نام قرآن شریف میں لَہْو ہے.پس مومن کا کام یہ ہے کہ جس کام سے، جن مکانات میں، جس لباس سے، جس خوراک سے، جس مجلس میں بیٹھنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ سے غفلت پیدا ہو اس سے ہجرت کرے اور یہی اس کا علاج ہے.مختلف اقسام کے دوزخ اور ان سے بچائو کے طریق ایک دوزخ رذائل اخلاق سے پیدا ہوتا ہے اس سے بچنے کی تدبیر اخلاق فاضلہ کا اختیار کرنا ہے اوررذائل کا ترک.ایک دوزخ امور معاشرت میں بے اعتدالی اور قصور سے پیدا ہوتا ہے اصلاح معاشرت اس سے بچا لیتی ہے.ایک دوزخ انسان کی تمدنی حالت کے نقائص اور کمزوریوں سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی اصلاح اس دوزخ سے بچا لیتی ہے.خویش و اقارب سے بد سلوکی کا دوزخ صلہ رحمی سے دور ہو جاتا ہے.حکام وقت کے احکام کی نافرمانی ایک دوزخ پیدا کرتی ہے جو اصول سیاست کی ماتحتی سے ہٹ جاتا ہے.اور سب سے بڑھ کر وہ دوزخ ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت نہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا علاج اوامر و نواہی الٰہی کی پابندی ہے.پس جس جس قسم کی دوزخ میں انسان ہے اس کی اصلاح اسے اس دوزخ سے بچالیتی ہے.

Page 147

امر حق نکلوانے کا طریق فریق مخالف کے منہ سے امر حق نکلوانے کا یہ طریق یاد رکھو کہ اس کے دعوے کو بار بار اس کی زبان سے دہرائو آخر کبھی اس کے منہ سے امر حق نکل آئے گا.دلائل کی تین اقسام دلائل کے اقسام تین قسم ہیں استقرا، مثال ، برہان.قرآن شریف اگرچہ ان اقسام دلائل سے کام لیتا ہے لیکن زیادہ تر قرآن کریم استدلال بالادنیٰ سے کام لیتا ہے جو سب سے بڑھ کر اور روشن طریق دلائل کا ہے مثلاً شرک کے ردّ میں فرماتا ہے(الأَعراف : ۱۴۱).اب صاف ظاہر ہے کہ خادم تو مخدوم بھی نہیں ہو سکتا معبود کس طرح ہو سکتا ہے.کسی کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھو کسی کی حالت بد کو دیکھ کر اس کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھو بلکہ دعا کرو کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا إبْتَلَاکَ بِہٖ وَ فَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا (شعب الایمان بیھقی الثالث و الثلا ثون من شعب الإیمان و ہو باب فی تعدید نعم اللّٰہ عز و جل) ورنہ یاد رکھو کہ انسان نہیں مرتا جب تک اس مصیبت میں خود مبتلا نہ ہو لے.علاج اور تعلیم کی دو اقسام علاج اور تعلیم دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو ایجاد ہوتی ہے اس کے مجرب ہونے پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہوتی کبھی مفید اور اکثر مضر ثابت ہوتی ہے لیکن جو مجرب ہو وہ یقینا مفید ہوتی ہے.اسی طرح پر بعض لوگوں نے خود ساختہ تعلیمات مقرر کر لی ہیں اور وہ مضر ہیں.سچی تعلیم وہی ہے جو مجرب اور آزمودہ ہو اور اسے قرآن شریف نے پیش کیا ہے.رضائے الٰہی کے حصول کانسخہ رضائے الٰہی حاصل کرنے کا ایک نسخہ میں بتاتا ہوں اوّل.زبان عرب سے آگاہی پیدا کرو تاکہ قرآن شریف کی سمجھ حاصل ہو پھر قرآن شریف کے احکام کے سمجھنے کے واسطے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے آگاہی حاصل کرنا.بعد ازاں کسی مزکّی کے پاس رہنا (التوبۃ : ۱۱۹) پر عمل کرنا.

Page 148

ذاکرین عام طور پر مشاہدہ سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ ذاکرین ہمیشہ فضول گو لوگوں کی نسبت مضبوط ہوتے ہیں.قربانیوں کی فلاسفی قربانیاں کیوں ہوتی ہیں؟ تاکہ اللہ تعالیٰ کی وحدت پر انسان کو یقین ہوجائے اور ہر طرح سے عزیز سے عزیز چیزوں کی قربانی کر کے ثابت ہو جائے کہ ان سب سے پیار ا اور مقصود بالذات خدا ہی ہے اس پر اپنا سب کچھ قربان کر کے دکھا دینا ہی سچی بہادری اور صداقت ہے.امرِ باطل باطل وہ امر ہوتا ہے جس پر نہ کچھ عذاب ہو اور نہ ثواب ، نہ وہ امر مفید ہونہ مضر،نہ اس سے آرام ہو نہ تکلیف.پس ہر ایک کام میں اس کو بطور میزان بناؤ.گناہ گناہ سے مراد ہر وہ امر ہے جو عام مجالس میں کرتے ہوئے مضائقہ کیا جاوے جو کام لوگوں کی نظر سے پوشیدہ کر کے کیا جاوے اور پھر ان کے سامنے کرنے سے کنارہ کشی کرنی پڑے.(الحکم جلد ۷ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰؍ اگست۱۹۰۳ ء صفحہ۱۴) غیبت اور غیبت کنندہ  (الحجرات : ۱۳) غیبت کرنے والے کو قرآن شریف نے اپنے بھائی کا گوشت کھانے والا قرار دیا ہے اور یہ امر واقعات سے ظاہر ہے کیونکہ جس شخص کی غیبت کی جاوے جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے اس کی غیبت کی اور اس کی برائی بیان کی تو اسے رنج ہوتا ہے اور سخت صدمہ پہنچتا ہے.اس رنج اور صدمہ سے انسان کا خون اور گوشت کم ہو جاتا ہے اس طرح پر وہ کمی اس غیبت کنندہ کی وجہ سے ہوئی.پس وہ گوشت جو کم ہوا وہ گویا اس غیبت کرنے والے نے کھایا ہے.اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ تم کسی کی غیبت نہ کرو.غیبت کے معنے ہیں ایسی بات جو اگر کسی کے سامنے کی جاوے تو کہنے والا رکے اور شرم کرے.

Page 149

اللہ تعالیٰ کا اپنی کبریائی و احسانات یاد دلانے کا مقصد انسانی بناوٹ میں ہے کہ اپنے سے بڑھ کر طاقت والے کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اپنے محسن سے محبت کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بارباراپنی کبریائی اور عظمت اور اپنے احسانات اور انعامات کو بیان کرتا ہے اور یاد دلاتا ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ ہی کا سچا فرمانبردار رہے اور اس سے ہی سچی محبت کرے.کونی اور شرعی اوامر خدا تعالیٰ کے کام اور اوامر دو قسم کے ہوتے ہیں ایکu کونی دوسرvے شرعی.کونی اوامر کا کبھی خلاف نہیں ہو سکتا.اس میں انسانی تصرف اور دخل کچھ نہیں ہوتا مگر اوامر شرعی میں انسانی دخل اور تصرف ہوتا ہے وہ چاہے کرے چاہے نہ کرے مثلاً ایک زبان ہی ہے اس میں جو قوتِ ذائقہ رکھی گئی ہے وہ امر کونی کے ماتحت ہے اگر اسے ہم کہہ دیں کہ تو اس قوت کو بدل دے اور نمکین کو شیریں اور شیریں کو نمکین بنا دے تو کبھی نہیں کر سکتی لیکن اس میں جو قوت گویائی ہے وہ امر شرعی کے ماتحت ہے.اس سے اچھی اور نیک باتیں بھی بول سکتے ہیں اور بری اور ناپاک بھی.یہاں تک کہ انبیاء رسل اور راستباز ان الٰہی کو گالیاں دینے والے بھی اسی زبان سے کام لیتے ہیں.جو انسان شرعی امر کے ماتحت امر ونہی کا لحاظ رکھتا ہے اور اپنی عادت کو اس کا ماتحت بناتا ہے.آخری اور انتہائی حالت اس پربھی پھر اسی قسم کی آجاتی ہے کہ وہ ایک رنگ میں کونی اوامر کے ماتحت ہو جاتا ہے یعنی صدور افعال حسنہ میں اس کو تکلف سے کام نہیں لینا پڑتا بلکہ بے اختیار وہ نیکی کے کام اس سے ہوتے رہتے ہیں.( الحکم جلد۷ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۷؍ اگست۱۹۰۳ ء صفحہ۵) غلاموں کے متعلق اسلامی تعلیم نادان اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں مسئلہ غلامی ہے حالانکہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے غلاموں کے آزاد کرنے کے لئے مال خرچ کرنے کی ہدایت کی ہے.

Page 150

مومن کا ہوشیار ہونا ضروری ہے مومن کے کئی کان ہونے چاہییں یعنی اس کو بڑا ہوشیار اور چوکنا ہونا ضرور ی ہے غفلت مومن کا کام نہیں.تم اندازہ کرو کہ کس قدر مستعدی اور ہوشیاری سے کام لیتے ہو.تلاوت قرآن کا خاص منشا قرآن شریف کی تلاوت کا خاص منشایہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے اور عمل کیا جائے اس کو سمجھا جائے اوروں کو سمجھایا جائے اور عمل کرنے کی کوشش کی جائے.نماز اور تلاوت قرآن نماز اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرتی ہے نماز میں نظافت اور طہارت ہوتی ہے نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی جاتی ہے.اس میں(الفاتحۃ : ۵) کا شریف انسان کو اقرار کرنا پڑتا ہے.مسلمان کو مسلمان ہونے کے لئے دو کام کرنے چاہییں.قرآن کی کم از کم پانچ آیات اور زیادہ سے زیادہ دس آیتیں فکر سے پڑھنی چاہییں اور اس مطلب کے لئے پڑھنی چاہییں جو قرآن شریف کی تلاوت کا اصل منشا ہے دوسرے نماز کو درستی سے پڑھنا چاہیے.سب سے بہتر شخص کے تین اوصاف سب سے بہتر وہ شخص ہے جس میں تین باتیںہوں اوّل.دعوت الی اللہ.اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کرنا.دوم.عمل صالح.دین ودنیا میں سنوار کے کام کرنا.سوم.َ (حمٓ السجدۃ : ۳۴) اور بلند آواز سے کہہ دے اور اپنے عمل سے دکھادے کہ میں بڑا سچا فرمانبردار ہوں.آسمانی اور زمینی امور کی ملاوٹ کے عظیم الشان روحانی و جسمانی نتائج نیچے کی کوئی چیز کامل نہیں ہو سکتی جب تک اوپر سے اس کی تائید نہ ہو جیسا کہ ہماری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں جب تک آسمانی روشنی نہ ملے.آسمان اور زمین جب مل جاتے ہیں تو بڑے بڑے نشانات

Page 151

اور نتیجے پیدا ہوتے ہیں آسمان اور زمین کے ملنے کے بغیر جب جسمانی کام نہیں ہوتے تو روحانی کام بھی ان دونوں کے ملنے کے بغیر درست نہیں ہو سکتے.آسمان اور زمین کی ملاوٹ مومن کے لئے بڑے بڑے کام کرتی ہے اور یہ وہ صورت ہے جو الہام اور عقل کے باہم ملنے سے پیدا ہوتی ہے اگر آسمانی الہام عقل کے ساتھ نہ ملیں تو زمینی عقل باقی نہیں رہتی اور اگر انسان کی قوتیں ہوں اور الٰہی طاقتوں سے نہ ملیں تو انسانی قوتیں معطل ہو جاتی ہیں اور اگر الہام الٰہی ایسے لوگوں پر اتریں جن کو ان کے لینے کی عقل نہ ہو تب بھی الہام الٰہی ان کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.(الحکم جلد۷ نمبر۳۲ مورخہ ۳۱؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵) مکتوب حضرت مخدومنا حکیم نور دین صاحب میرے مہربان دوست بھائی الٰہ داد خان صاحب کلرک نے کچھ مکتوبات اس غرض سے نقل کر کے ارسال کئے ہیں کہ ان کو فائدہ عام کی خاطر درج اخبار کیا جاوے.اس میں سے بعض تو وہ ہیں جو کہ خود مولانا موصوف کے قلمی تحریر شدہ ہیں اور بعض وہ ہیں جو کہ غالباً آپ کی ایما سے حکیم فضل دین صاحب کی طرف سے لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں چونکہ ان کا درج اخبار ہونا موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے واقعی مفید ہے اس لئے ہدیہ ناظرین ہیں.گرامی نامہ حضرت حکیم الامت بنام حاجی الٰہ دین صاحب عرائض نویس صدر شاہ پور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تم مجھے بے ریب عزیز تھے اور ہو.میں نے تم سے محبت کی اور بہت کی.میں نے تمہارے لئے دعائیں کیں اور اکثر قبول ہوئیں.الحمد للہ اور انشاء اللہ تعالیٰ یقین ہے کہ قیامت میں بھی قبولیت ظاہر ہو گی.میری محبت ایسے وقت سے شروع ہوئی جب تم میں شعور و تمیز کا مادہ نہ تھا اور وہ میری علم و شعور کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی میرا تمہارا بچپن تھا مگر اللہ تعالیٰ کا محض فضل اور اس کی خاص رحمت تھی اور تعجب انگیز کرم تھا کہ میرے اور تمہارے درمیان بایں جوش محبت اور شدتِ پیار کے بچپن سے کوئی ایسی حرکت واقع نہ ہوئی جس کو تم یا میں یا ہمارے پرانے دوست حقارت کی نگاہ

Page 152

سے دیکھیں.تم خوب یاد کرو کوئی لفظ ،کوئی حرکت بد، کوئی نا شائستہ ارادہ اور نالائق خواہش میری تم پر کبھی بھی ظاہر ہوئی؟ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جو ابتداء سے میرے شامل حال ہیں.میں ذکر کروں گا کیونکہ یہ نعمت الٰہی کا بیان ہے.میں نے جب دعا کی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے اور تعجب آتا ہے کہ کس طرح اللہ کریم میرے ساتھ تھا کہ مجھ کو ہمیشہ محفوظ رکھا والّا نادان کیا نہیں کر گزرتا.پھر میں نے ہمیشہ ترقی کی یہاں تک کہ حضرت امام صادق کی بیعت نصیب ہوئی اور تم میرے ساتھ مرید ہوئے.اب مجھے امید ہو گئی کہ الٰہ دین جو میرا پیارا دوست ہے میرا بھائی ہو گیا.اب انشا ء اللہ تعالیٰ ترقی کرے گا.لاکن تم نے ٹھوکر کھائی اور قادیان کا آنا تو ترک کر دیا تھا مگر جو چندہ بغر ض خدمت وعدہ کیا تھا اس سے بھی بخل کیا.افسوس! افسوس!! افسوس!!! کیا تم پر یہ فضل کچھ کم تھا کہ میرا کوئی دنیوی احسان تم پر نہیں ہوا؟ میں نے اب تک ایک کوڑی کا تم سے سلوک نہ کیا.بااینکہ مجھ میں دولت کے لحاظ سے بڑی و سعت تھی تم اس بھید کو نہیں سمجھے اس میں الٰہی حکمت تھی اور ہے اگر سوچو وَ اِ لاَّہم بتا ئیں گے.بہرحال جس خرچ کا تم کوڈر تھا شاید اتنا خرچ ان مشکلات میں ہو جاوے.اللہ رحم کرے.الٰہ دین !میں راستباز ہوں اور میرا امام بے ریب بالکل راستباز ہے ہم دنیا پرست نہیں، دنیا کے طالب نہیں، دنیا کے لئے ہم کوشش نہیں کرتے.راستبازی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں.اسی واسطے کامیاب ہیں اور رہیںگے آہ کوئی سمجھے اور تم سمجھو.اب میری صلاح یہ ہے کہ تم سچی توبہ کرو.کھانے پینے لبا س خوراک گھر کے اسباب میں ایسی تدبیر کرو جس میں مال حرام کا کوئی حصّہ نہ رہے اور استغفار و دعا اپنا شعار بنا لو.اور متواتر بحضور حضرت امام معذرت کے خطوط لکھو مگر براہ راست ہوں.میرے ذریعہ سے نہ ہوں.میں دعا کروں گا مگر تم نے مجھے بہت ناراض کر دیا ہوا ہے میں نے ایک خط میں صاف لکھ دیا تھا.مدت ہوئی کہ تم ضرور یہاں آجائو.مگر کون سنتا ہے؟ اللہ تعالیٰ تم پر فضل کرے گا اور تمہاری مدد کرے گا اور میری دعاسنے گاجب میں کروں گا.غور کرو ہمارا کنبہ کس طرح محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے پلتا

Page 153

ہے.کیا ہم کسی سے روپیہ لیتے ہیں؟ نہیں.مرزا جی کے مریدوں میں منشی الٰہ داد وہاں موجود ہے اور حکیم فضل دین بھیرہ میں… کسی سے پوچھو.کیا میں یہاں مرزا جی کے مریدوں سے کچھ لیتا ہوں؟نہیں نہیں نہیں اور ہر گز نہیں.کیا محمد یوسف٭ تمہاری طرح خوبصورت ہے.اس کے، ہاں محمدیوسف کے سر پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھ دینا.اَللّٰھُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ وَ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ سات بار.(ترجمہ) (اے اللہ اس کو قرآن سکھا دے اور دین کا سمجھ دا ربنادے.) منشی الٰہ داد کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پہنچا دینا.نور الدین ازقادیان ۲؍مارچ ۱۸۹۸ء (البدر جلد۲نمبر ۳۳ مورخہ ۴؍ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۶۱.الحکم جلد ۶ نمبر۱۳،مورخہ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ۱۴،۱۵) ایمان باللہ کے شیریں ثمرات ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے واسطے کوئی شغل ہو اس کو فائدہ پہنچے اور راحت حاصل ہو.اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کے حصول کے لئے ایک گر بتایا ہے (آل عمران : ۱۱۱) ایمان باللہ ہو ایسا مومن کبھی بیکار نہیں ہو سکتا کھانے میں، پینے میں، چلنے میں،پھرنے میں، معاشرت کرنے میں، دوستی دشمنی کرنے میں غرض ہر امر میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے نیچے کام کرے گا اور یا شفقت علٰی خلق اللّٰہ میں لگا رہے گا یا تعظیم لامر اللہ میں مصروف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی فکر اور کوشش کرتا رہے گا.اس کے نتائج حقیقی راحت اور سچی کامیابی ہیں.غضب الٰہی کا نقصان اور اعمال صالحہ کے فوائد  (إِبراہیم : ۱۱) پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا غضب انسان کو اس کی اجل مسمی سے پہلے ہلاک کر دیتا ہے یعنی قبل از وقت موت آجاتی ہے لیکن اعمال صالحہ سے بلائیں اور وبائیں ٹل جاتی ہیں.٭حکیم صاحب کے لڑکے کا نام ہے جو ان ایام میں پیدا ہوا تھا.

Page 154

ذکر الٰہی کے فوائد ذکر الٰہی سے قویٰ مضبوط ہو جاتے ہیں حتی کہ بوڑھے جوان ہوجاتے ہیں اور اس امر کا ثبوت قرآن شریف ہی سے ملتا ہے حضرت زکریاؑ نے اپنی کمزوری کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج یہی بتایا ہے کہ تم ذکر الٰہی کرو اور تین روز تک کسی سے کلام نہ کرو چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور خدا نے جیتی جاگتی اولاد عطافرمائی.حدیث شریف میں ذکر ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادمہ مانگی.آپؐ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد ۳۳مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور اَللّٰہُ اَکْبَر پڑھ لیا کرو اور سوتی دفعہ بھی.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اوروہ ضرورت محسوس نہ ہوئی.اللہ کے علم اور افعال کی اقسام اللہ تعالیٰ کا علم دو قسم کا ہوتا ہے ایک ازلی ابدی دوسرا بعدالوجود اشیاء.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے افعال بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک افعال اللہ تعالیٰ کے بلا وساطت غیرے ہوتے ہیں اور ایک بالواسطہ، جو بلا واسطہ ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ واحد کا صیغہ استعمال فرماتا ہے اور بالواسطہ میں جمع کا صیغہ یہ قرآن شریف کا عام طرز اور … ہے.اسماء الٰہیہ کی تنزیہ کے تین طریق (الأَعلٰی : ۲) سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا کام ہے کہ وہ اپنے رب کے اسماء کی تنزیہ کرتا رہے اور وہ تین طرح سے ہوتی ہے.اوّل.اللہ تعالیٰ پر بعض لوگ بد ظنی کرتے ہیں اور اپنے اوپر نیک ظن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے کوشش تو بہت کی مگر ہماری محنت کا ثمرہ نہ ملا یہ بد ظنی چھوڑ دو.دوم.اپنے چال چلن سے خدا تعالیٰ کی صفات کی عزت اور حرمت کرو.سوم.اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنٰی پر کوئی اعتراض کرے تو اس کا جواب دو.( الحکم جلد۷ نمبر۳۶ مورخہ ۳۰؍ستمبر۱۹۰۳ ء صفحہ۴)

Page 155

حج کی فلاسفی ایک دفعہ درس قرآن شریف میں جناب محمد عجب خان صاحب تحصیلدار ایبٹ آباد کے اس سوال پر کہ حج کی فلاسفی اور فائدہ کیا ہے ہمارے مخدوم مولانا حکیم نورالدین صاحب نے جو تقریر حج کی فلاسفی پر کی وہ ذیل میں درج کی جاتی ہے تا کہ ہر ایک مومن حسب استطاعت اس سے مستفید ہو سکے.فہم و فراست کے اسباب فہم اور فراست کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اسباب دئیے ہیں وہ تین قسم کے ہیں.(۱)وہ جن کو عام نگاہ سمجھ سکتی ہے.(۲) وہ جو فلاسفروں بادشاہوں اور مدبّروں کی سمجھ میں آتے ہیں.(۳) دوسری قسم کی مخلوق سے جو بالاتر مخلوق انبیاء اولیاء و رسل وغیرہ کی سمجھ میں آتے ہیں لیکن پھر آگے ان کے مدارج بھی مختلف ہیں.میراا بھی ابتدائی سن اور طالب علمی کا زمانہ تھا کہ حج مجھ پر فرض ہوا اور میں نے اس وقت دو حج کئے.میری طبیعت اُس وقت بھی بہت آزاد، حریت پسند اور دلائل کی محتاج تھی.اس عمر اور طالب علمی کے زمانہ میں کچھ محرکات میرے حج کرنے کے تھے پھر وسط عمر میں وہ اور بڑھ گئے اور اب اس وقت میری معرفت ضرورتِ حج کے بارے میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت زیادہ کر دی ہے.میں اس وقت اپنے اوّل محرکات کا ذکر کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس وقت بھی میری طبیعت نے یہ امر میرے دل میں جما دیا تھا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو تمام خوبیوں کا جامع مذہب ہے اور تمام غیر مذاہب کا مہیمن ہے.اس وقت جو میری سوسائٹی ہم عمروں اور طالب علموں کی تھی جب کبھی قرآن یا اسلام کی بات اس میں چلتی تو میں خدا کے فضل سے قرآن کے ذریعہ ہی ان سب پر غالب آتا.میرے اس وقت کا قرآن اب تک میرے پاس موجود ہے اور اس وقت جو جو میری تحقیقات اور خیالات تھے ان کے مطابق تمام حواشی چڑھے ہوئے ہیں

Page 156

اس کے مطالعہ سے میرے خیالات کے تدریجاً عروج کا پتہ مل سکتا ہے.اس وقت …بھی یہ بات بخوبی میرے دل میں بیٹھ گئی ہوئی تھی کہ ایسا کوئی بھی مذہب نہیں ہے کہ اگر اس میں کوئی خوبی ہو تو وہ خوبی اسلام میں نہ ہو اور اسلام کی کوئی ایسی خوبی نہیں ہے جو کہ اس کے فرقہ اہل سنّت و الجماعت میں نہ ہو اور فرقہ اہل سنّت والجماعت کی کوئی ایسی خوبی نہیں ہے جو کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور شیخ ابن تیمیّہ اور ان کے تلمیذ ابن قیّم کے طریق میں نہ ہو.گویا میں ایک طرح سے اس وقت شاہ ولی اللہ صاحب کا مقلّد تھا یا شیخ ابن تیمیّہ وابن قیّم کا.اس وقت کے حنفیوں یا یوں کہو کہ اسلام کے فلاسفروں سے مجھے محبت تھی اور کتاب حجۃ اللہ البالغہ شاہ صاحب کی تصنیف جو کہ اس وقت ملتی نہ تھی میرے ساتھ رہتی تھی.اس کے مطالعہ سے میرا مذکورہ بالا یقین خوب پختہ ہو گیا ہوا تھا اور میرا مذہب وہ مذہب تھا جو کہ تصوّف، فقہ، حدیث اور فلسفیت کو جمع کرتا ہے.اس وقت ہر مذہب اور ملّت کے طالب علم کے ساتھ میرا تعارف تھا جبکہ مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ نیاز مندی کی کتنی اقسام ہیں.غو رکے بعد اس کی دو قسمیں میری سمجھ میں آئیں.نیاز مندی کی دو اقسام اور ان کی وضاحت ایک.خادمانہ نیاز مندی.دوسری.عاشقانہ نیاز مندی.خادمانہ نیاز مندی کا یہ رنگ ہے جو کہ ہم ہر روز سرکاری درباروں اور حکّام کی پیشیوں میں دیکھتے ہیں کہ اپنے آقا کے کہنے کے مطابق خادموں کی ایک خاص وردی ہوتی ہے وہ پہن کر وقت مقررہ پر حاضر ہوتے ہیں اور ہمیشہ صاف اور ستھرے رہتے ہیں کہ آقا ناراض نہ ہو اور مجرا، سلام، نشست برخاست دربار کے … وقت کے خاص آداب ہوتے ہیں جو کہ وہ بجا لاتے ہیں اور خاص خاص خدام کو نذر بھی گذرانی جاتی ہے.یہ حالت اپنے بندوں کی خادمانہ نیاز مندی کی خدا تعالیٰ نے زکوٰۃ اور نماز میں رکھی ہے کہ اس میں روپیہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے اور وقت کی

Page 157

پابندی کے لحاظ سے آدابِ الٰہی کو مدِّنظر رکھ کر تمام ارکان بجا لائے جاتے ہیں.لیکن عاشقانہ نیاز مندی کا طریق اور ہے کہ کسی محبوب کی دھت میں نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی.ہونٹ خشک ہو رہے ہیں.کسی سج دھج بناؤ سنگار کا خیال نہیں ہے.شہوانی قویٰ پروہ موت ہے کہ بیوی کا خیال تک نہیں آتا.کبھی جو پتہ لگ جاتا ہے کہ محبوب وہاں فلاں کوچہ میں ہے تو یہ بھی دوڑ کر وہاں پہنچتا ہے.نہ سر کی خبر ہے کہ پگڑی ہے کہ نہیں اور نہ پاؤں کی کہ جوتا ہے کہ نہیں اور اس کوچہ میں چکر پر چکر دیتا ہے کہ کسی طرح اس کی جھلک نظر آجاوے.اگر سارا چہرہ نہیں تو کوئی حصہ ہی سہی.کلام ہی سہی اور اگر اس میں کوئی حارج ہو تو کچھ پتھر اسے بھی رسید کر دیتا ہے اور اگر اس کے وہم میں بھی یہ بات آجاوے کہ محبوب نے بلایا ہے تو حاضر ہوں! حاضر ہوں !کہتا ہوا دوڑتا ہے جو لوگ عاشق مزاج رہ چکے ہیں یا اگر نہیں تو محباّنہ مضامین کی کتب تو دیکھی ہوں گی جن میں عاشقوں کی اس حالت کا بیان ہوتا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ عاشقوں پر ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے اور اسی محباّنہ نیاز مندی کی ادا کو اللہ نے اپنے بندوں کے واسطے روزہ اور حج میں رکھا ہے.دیکھو مکہ میں خدا کا مکالمہ ہوا.دیدار ہوا اور یقیناً ہوا وہاں اللہ تعالیٰ نے بچوں، عورتوں اور بڈھوں پر فضل کئے.اس لئے یہ انسانی خاصہ ہے کہ جب دیکھتا ہے کہ فلاں مقام پر فلاں فلاں فضل ہوا تو اس کے اندر خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہاں کچھ نہ کچھ ضرور ہے.وہ کون سا بچہ اور کون سی عورت اور کون سا بوڑھا تھا جسے خدا مکہ معظمہ میں نظر آیا وہ بوڑھا تو ابراہیم علیہ السلام تھا اور عورت بی بی ہاجرہ تھیں اور وہ بچہ اسماعیلؑ تھا اور وہ حقیقی جوان محمد رسول اللہ سید الاوّلین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو خدا ملا ہے اور ان سب کے ساتھ کلام بھی کی ہے جس کثرت اور جمعیت سے خدانمائی مکّہ میں ہوئی ہے کوئی اور مقام صفحہ ہستی پر نہیں کہ اس جمعیت کے ساتھ خدا نمائی کا دعوٰی کرے.مکّہ میں رؤیتِ الٰہی خوب ثابت ہے اس لئے ایک سلیم الفطرت انسان جب امید باندھ کر نیاز مندی اور خواہش سے وہاں جاتا ہے تو رحیم اور کریم خدا کب چاہتا ہے کہ اسے محروم رکھے.

Page 158

حج کے موقع پر پردہ کا حکم نہ ہونے کی وجہ عاشقانہ نیاز مندی کے آداب کے برخلاف یہ بات ہے کہ پردہ کیا جاوے کیونکہ اس سے عشق پر حرف آتا ہے اس لئے وہاں عورتوں کو پردہ کا حکم نہیں ہے.ان دنوں میں، میں نے ہیر اور رانجھا کا قصہ پڑھاتو وہاں اسی عاشقانہ نیاز مندی کی ایک عجیب بات لکھی ہے کہ ہیر جب رانجھا کے واسطے روٹیاں لے کر جا رہی تھی تو قاضی صاحب نماز پڑھ رہے تھے اس نے نہ دیکھا سامنے سے گذر گئی.جب قاضی نماز سے فارغ ہو کر اس پر ناراض ہوا تو اس نے جواب دیا کہ اے قاضی میں تو رانجھے کی طرف جا رہی تھی اور اس کے عشق میں مجھے نظر تک نہ آیا کہ تو نماز پڑھ رہا ہے کہ نہیں مگر تعجب ہے کہ تیری کیسی نماز تھی کہ تو نے مجھے دیکھ لیا.غرض یہ کہ حج کی صورت ایسی ہی ہے جیسی کہ اوپر بیان ہوئی اس میں انسان اسی کوچہ میں چکر کھاتا ہے جہاں ابراہیمؑ نے چکر کھائے اور اللہ تعالیٰ سے کلام کی.غور کرو اس آیت پر الخ(البقرۃ :۱۲۸) پھر میں نے اندازہ کیا ہے کہ اگر پتھروں کی عمارت ہو تو انسان زیادہ سے زیادہ سات … تک کھڑے ہو کر آسانی سے بنا سکتا ہے اور اسے گو وغیرہ باندھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور چونکہ کوئی اس پتھر اور مقام کی تخصیص اور تعین نہیں کرتا جس پر اور جس جگہ کھڑے ہو کر ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑ نے دُعائیں مانگیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں باپ بیٹے اسی چکر میں دُعا مانگتے رہے ہیں جب تک کہ سات ردّے عمارت کے پورے نہیں ہوئے اور ردّوں کی تعداد سے پتہ لگتا ہے کہ سات ہی چکر تھے اور اسی تعداد پر اب بھی چکر کھائے جاتے ہیں.یہ ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑ کی عاشقانہ نیاز مندی کی طرز تھی جس کی تعلیم دی گئی اور یہ بڑے قوی مومن تھے کہ ایک نے تو باپ ہو کر بیٹے کو ذبح کرنا چاہا دوسرے بیٹے نے جان دینے میں دریغ نہ کیا تا کہ خدا راضی ہو جاوے مگر چونکہ بعض مومن کمزور ہوتے ہیں.

Page 159

حضرت ہاجرہؑ کی نیاز مندی کا طریق اس لئے آگے ایک عورت کی نیاز مندی کی طرز بیان کی کہ جب ہاجرہ علیہا السلام کو حضرت ابراہیمؑ نے صفا اور مروہ کے درمیان چھوڑا توہاجرہ علیہا السلام نے ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ ہمیں کس کے سپرد کرتا ہے تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کے سپرد کرتا ہوں اور اسی کے حکم سے کرتا ہوں تب ہاجرہؑ نے کہا کہ جاؤ اللہ تعالیٰ ہم کو ضائع نہ کرے گا.ایک مشکیزہ پانی کا پاس تھا جب وہ ختم ہو چکا اور دھوپ کی شدت اور بچہ کو تڑپتے اور جان بلب دیکھ کر وہ بے قرار ہوئیں تو ان پہاڑیوں پر کبھی چڑھتی اور کبھی اترتی تھیں اور ہر طرف نگاہ مارتی تھیں کہ کوئی قافلہ پانی لاتا ہو.آخر خدا تعالیٰ نے ایک چشمہ پانی کا وہاں جاری کیا جو کہ زمزم کہلاتا ہے.اس مقام پر ہاجرہ علیہا السلام نے خدا پر کیسا توکل کیا اور عاشقانہ نیاز مندی کا کیا ثبوت دیا، یہ نظارہ صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کا طواف کر کے دیکھ لو وہ بھی سات ہی دفعہ چڑھیں اور اتری تھیں.ابراہیمؑ کی خلوت نشینی اور ردّ بلا کے لئے قربانی چونکہ آبادی میں رہنے سے اکثر دل پر غفلت طاری ہوتی ہے اس لئے ہر ولی اللہ کو لوگوں سے الگ میدانوں میں بھی جانا پڑتا ہے.ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب یہ خیال کیا اور طبیعت میں جوش تو تھا ہی کہ دعا قبول ہو اس لئے ہجر میں گذرتے ہوئے بھاگے بھاگے عرفات کے جنگل میں گئے کہ وہاں تنہائی میں دعا کروں یہ نو میل کا فاصلہ تھا مگرپھر آپ نے دیکھا کہ اس بیرونی جگہ سے تو حرم ہی امن کی جگہ ہے اس لئے لوٹے اور مزدلفہ کے مقام پر جو عرفات سے واپس ہوتے ہوئے تین میل پر ہے ٹھہر گئے اور وہیں آپ کو یہ الہام ہوا.الخ ( الصّٰفّٰت: ۱۰۳) اس وقت کا ایک بڑا سرِّ الٰہی ہے جسے اس وقت ہم بیان نہیں کر سکتے.تاہم اشارتاً اسے سمجھ لو کہ عوام الناس میں بھی ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ جب بیماری یا کوئی اور دکھ وغیرہ تکلیف ہو تو اکثر قربانی کیا کرتے ہیں کہ وہ بلا ٹل جاوے اس کا راز یہ ہوتا ہے کہ جب موت کا نزول ہوتا ہے تو وہ بلا کھائے کے واپس نہیں جاتی تو جو

Page 160

جو کچھ ابراہیم پر وارد ہوا وہ بھی بلا قربانی ٹل نہیں سکتا تھا اگرچہ ہزاروں مویشی ساتھ تھے مگر لڑکے کی قربانی کوئی تھوڑی سی بات نہ تھی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بات بہت ہی عظیم الشان ہو گی جس کے لئے بیٹے کی قربانی تجویز ہوئی.اس منٰی میں یہ ابراہیمی نمونہ تھا کہ قربانی کرے اور بچہ کا نمونہ یہ ہے کہ اس نے کہا کہ جو حکم ربی ہوا ہے وہ جلدی کر اور گردن آگے رکھ دی.شیطان کو کنکر مارنے میں حکمت عوام الناس جو کہ الٰہی رموز سے واقف نہیں ہوتے وہ ایسے وقت اعتراض کرتے ہیں.اسی طرح اس وقت کسی نے اعتراض کیا کہ ابراہیم کی عقل ماری گئی ہے یہ آخری عمر اور بڑھاپا ایک اولاد.آگے اب امید نہیں.ایک خواب کی بنا پر لڑکے کو ذبح کرنے کو تیار ہے لیکن ابراہیمی فراست اور ایمان کے آگے اس اعتراض کی کیا وقعت تھی اور یہ لوگ اپنی توجہ اور ارادہ کے بڑے پکّے ہوتے ہیں اور جو مخالفت کرے وہ سخت دشمن ہوتا ہے اس لئے آپ نے اٹھا کر اسے پتھر مارا کہ تو ہمارے ارادے کو روکنے والا کون ہوتا ہے یہ اس قسم کی رکاوٹیں ہیں کہ جب مومن کو خدا سے تعلق ہوتا ہے تو ضرور ہی پیدا ہوا کرتی ہیں تو وہ کنکر ہیں جو اس مقام پر عاشقانہ نیاز مندی میں مارے جاتے ہیں مگر چونکہ مومن کی توجہ جب ایک کام کی طرف رہے تو وہ اسے بار بار کرتا ہے اور روک بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں اس لئے ہربار ابراہیم علیہ السلام اسے دھتکارتے رہے.ایک اور نیازمندی یعنی ایمان اسلام کے پانچ ارکان ہیں جن میں سے نماز ، زکوٰۃ، روزہ اور حج جس نیاز مندی میں داخل ہیں ان کا بیان کر دیا.ایک نیاز مندی یعنی ایمان کا ذکر نہیں ہوا وہ بھی اسی میں داخل ہے.اللہ پر ایمان لانے کے یہی معنے ہیں کہ جب انسان دل لگاتا ہے تو اسے کہنا ہی پڑتا ہے کہ ہم بھی کسی کے ہیں پھر اس دعویٰ کو نبھانے اور اس کے تقاضا کو پورا کرنے کے واسطے باقی نیاز مندیاں ہیں.

Page 161

تبادلہ خیالات کی اہمیت اور اسلام میں اس کے مواقع اہل فلسفہ نے مانا ہے کہ تبادلہ خیالات کے واسطے سیاحت اور سفر بہت ضروری ہے اور جب تک انسان مختلف ممالک کے اخلاق عادات کو نہ دیکھے تو وہ اصلاح نہیں کر سکتا.شریعت اسلام نے اوّل تو تبادلہ خیالات کا اس طرح کیا کہ ہر محلہ کی مسجد میں وہاں کے لوگ پانچ وقت جمع ہوں پھر ہر جمعہ کے دن دیہات کے سب لوگ اور عیدین وغیرہ پر شہر اور دیہات کے سب لوگوں کا اجتماع کیا ہے اور کل ممالک کے اجتماع کے واسطے حج رکھا ہے مگر یہ دنیا کا خیال ہے اور چونکہ غریب لوگ ایسے فوائد قوم کو نہیں پہنچا سکتے اس لئے صرف امراء کی تخصیص کی.اجتماع میں چونکہ حفظ صحت کا خیال ضروری ہے اس لئے ر یتلے میدان میں یہ اجتماع رکھا.پھر سٹیچو وغیرہ یاد گاریں لوگ بناتے ہیں تو بتوں کے دشمن کو واجب تھا کہ ایک یادگار مواحدانہ بنایا جاتا.(البدر جلد۲ نمبر ۳۷ مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۹۴‘۳۹۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش ذنب کے دو معنی   (الفتح : ۳) کے متعلق دو معنی مجھے سمجھ میں آئے ہیں.ایک معنے تو امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئے ہیں اور وہ اس طرح پر ہیں کہ انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو لوگ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے ہیں لیکن جب وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو اعتراض کرنے والے خود بخود شرمندہ ہو جاتے ہیں.ایسا ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کرتے تھے لیکن جب آپ فاتح ہو گئے تو ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ اعتراض ان کی اپنی غلطی تھی.دوسرے معنی جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائے ہیں وہ یہ ہیں.ذنبک یعنی تیرے قصور، کیا مطلب کہ جو بدیاں اہل مکہ نے تجھ سے کی ہیں اور ہجرت سے پہلے جو ایذائیں اور تکلیفیں دی ہیں وہ

Page 162

ان کا قصور تھا مگر اللہ نے تیرے سبب سے اہل مکہ کے گناہ بھی بخش دئیے کیونکہ وہ مسلمان ہو گئے.بودی کے متعلق عرب دستور اور اسلامی تعلیم عرب میں دستور ہے کہ غلاموں کی بودی رکھا کرتے تھے اور جب ان کو آزاد کیا جاتا تھا تو اسے کاٹ دیتے تھے اور بودی کو اطاعت اور فرمانبرداری کا نشان سمجھا جاتا تھا مگر اسلام نے بودی کو قطعاً اڑا دیا کیونکہ وہ حریت کی قدر کرتا ہے اور حریت ہی کو پھیلانا چاہتا ہے.موسٰی ؑ کے مدین میں قیام سے سبق موسیٰ علیہ السلام جب مدین میں آئے ان کے وہاں کے قیام اور سفر سے مندرجہ ذیل سبق ملتے ہیں:.اوّل.موسیٰ علیہ السلام نے دعا بھی کی اور دوسری طرف اپنے بچاؤ کی ضروری تدابیر بھی کیں یعنی اسباب کو بھی ضائع نہیں کیا اور توکل علی اللہ کے پہلو کو بھی نہیں چھوڑا.دوئم.حضرت موسیٰ نے ان لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلا کر خلق اللہ پر رحم اور شفقت کا نمونہ دکھایا اور محض اللہ تعالیٰ کے لئے نہ کسی مراد کے واسطے.سوئم.انسان کو چاہیے کہ اپنے آرام کی تجاویز سوچے اور طبیعت کو خراب نہ کرے موسیٰ علیہ السلام کی طرح جو سایہ میں بیٹھ کر دعا کرتے ہیں اسی طرح ہر مومن کا فرض ہے کہ اپنی بہتری کے لئے دعائیں کرے.چہارم.بجائے اس کے کہ انسان خود سوال کرے خود محنت مزدوری کر کے اپنے کام چلائے اور والدین کی آخری عمر میں ان کی خدمت کرے جیسا کہ ان دو لڑکیوں نے کی.پنجم.اگر کوئی تم سے نیکی کرے تو تم اس کا ضرور خیال رکھو.اس کے احسان کا بدلہ دینے کی کوشش کرو.اگرنہ دے سکو تو دعا کرو یہاں تک کہ تم کو یقین ہو جاوے کہ حق ادا ہوگیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الرحمن : ۶۱) ششم.اگر بے مانگے کوئی چیز آجاوے تو اس کے لینے سے مضائقہ نہ کرے ہاں اگر ہو

Page 163

سکے تو اس کا بدلہ دے دو یا دعا ہی کر دو.ہفتم.لڑکی دینے والا اگر خدمت کراوے تو داماد کو کرنی چاہیے اور اگر لڑکی کا ولی کچھ مانگے تو کوئی حرام نہیں.قوائے انسانیہ کی دو اقسام انسانی قویٰ کی تقسیم دو طرح پر ہے اوّل وہ قویٰ جو انسانی دخل و تصرف کے نیچے ہیں اور ان سے کام لینا یا نہ لینا انسان کی وسعت میں ہے اور یہی قویٰ ہیں جن کے متعلق انسان حضور الٰہی میں جواب دہ ہے.دوئم جن قویٰ میں انسانی دخل و تصرف بالکل نہیں … ان کے متعلق انسان سے باز پُرس بھی نہیں ہوگی.بدیوں سے بچنے کے دو سامان بدیوں سے بچنے کے دو سامان ہیں.اوّل.اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اس سے دعا.دوئم.جزا سزا پر پورا ایمان.اللہ پر ایمان سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ سبوح، قدوس، حمید ، مجید ہے.غرض الاسماء الحسنیٰ کا مالک ہے اس کا قرب ان لوگوں کو حاصل نہیں ہو سکتا جو بد کار ہیں پاک صاف نہیں باکمال نہیں.اس کے مقرب وہی ہیں جو اس کے صفات کے رنگ میں رنگین ہیں.جزاسزا پر ایمان سے یہ مراد ہے کہ انسان ایک آدمی کے سامنے اپنی بے عزتی نہیں چاہتا تو جس جگہ ہزاروں اوّلین اور آخرین جمع ہوں گے وہاں کیوں سزا یابی کے افعال لے کر جاوے.اسی وجہ سے اہل مکہ ان دونوں امروں پر بحث کیا کرتے تھے اور ان کو ان امور کا جواب دیا گیا.(الحکم جلد۷ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۰؍اکتوبر۱۹۰۳ ء صفحہ۳) دو آسمانی امان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول مجھے بہت ہی پیارا معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے دو امان نازل ہوئے تھے ایک تو ان میں سے اٹھ گیایعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود مگر دوسری امان قیامت تک باقی ہے اور وہ استغفار ہے.پس استغفار کرتے رہا کرو

Page 164

پچھلی برائیوں کے بد نتائج سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے اور آئندہ بدیوں کی زہر کو دور کرے اور گناہوں سے بچائے.قرآن میں قصص کے تکرار کا سبب لوگ حیرت اور تعجب ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن شریف باربارقصص کیوں بیان کرتاہے؟ مگر مجھ کو ہمیشہ ایسے اعتراض پر تعجب ہوا ہے یعنی اس سوال کو بہت سوچا ہے دنیا میں کوئی ایسا مصقلہ نہیں ہے جو ایک ہی بار صیقل کر دے.جسمانی غذا بھی ایک ہی بار مستغنی نہیں کر دیتی ایک بار کھا کر پھر بھوک لگتی پیاس محسوس ہوتی ہے جب یہ نظارہ ہم اپنے جسم میں روز مرہ دیکھتے ہیں پھر روح کے لئے ایسا قانون پا کر ہم کو تعجب کیوں ہو؟ قصص قرآنی میں بہت سے اسرار ہیں منجملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام کی صفات کے جامع تھے.اس طرح پر قصص قرآنی ایک رنگ میں آپ کی پاک زندگی کے آنے والے واقعات کی پیشگوئیاں ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان تمام نبیوں کے ملک فتح کئے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے.خیالی اور عملی ایمان خیالی ایمان انسان کا صرف خیالات ہی سے وابستہ ہے مگر جب تک عملی ایمان نہ ہو خیالی ایمان کچھ معنے نہیں رکھتا.بات تب ہی بنتی ہے کہ انسان کر کے دکھلا دے.اسلام کی عظیم الشان خصوصیت اسلام میں ایک یہ عظیم الشان خصوصیت ہے کہ وہ انسان کو غمگین ہونے نہیں دیتا.مسلمان اگر مسلمان بنیں تو انہیں کیا غم مگر وہ بنیں بھی.خشیت املاق اور قتل اولاد خشیت املاق کی وجہ سے اولاد کو قتل کرنا منع ہے.لوگ کہتے ہیںکہ جان سے مار ڈالنا منع ہے مگر میرے نزدیک جو لوگ اپنی اولاد کو علوم دینیہ سے اس لئے محروم رکھتے ہیں کہ ان کے پاس روپیہ نہیں ہے وہ بھی قتل اولاد کرتے ہیں.دنیا کے علوم کی تحصیل پر ہزاروں روپیہ لگاتے ہیں اس لئے کہ تم کو کما کر کھلائیں مگر علوم دینیہ کے لئے روپیہ نہیں ملتا

Page 165

ناعاقبت اندیش اتنا نہیں سمجھتے کہ علوم دینیہ سے بے خبرر کھ کر ان کو ابدی جہنم کے لائق بنا دیا اور ان کی نیکی کی قوتوں کو کچل ڈالا.اولاد والدین کے اخلاق و اعمال کا آئینہ ہوتی ہے انسان کے نطفہ میں عادات، اخلاق ، کمالات کا اثر ہوتا ہے.والدین کے ایک ایک برس کے خیالات کا اثر ان کی اولاد پر ہوتا ہے.جتنی بد اخلاقیاں بچوں میں ہوتی ہیں وہ والدین کے اخلاق کا عکس اور اثر ہوتا ہے.کبھی ہم نشینوں اور ملنے والوں کے خیالات کا اثر بھی والدین کے واسطہ سے پڑتا ہے.پس خود نیک بنو اخلاق فاضلہ حاصل کرو تا تمہاری اولاد نیک ہو اَلْوَلَدُ سِرُّ لِّاَبِیْہِ (مشکٰوۃ المصابیح کتاب الإیمان باب الإیمان بالقدر الفصل الثالث) میں یہی تمہید ہے اولاد والدین کے اخلاق، اعمال، عقائد کا آئینہ ہوتی ہے.(الحکم جلد ۷ نمبر ۳۸ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر۱۹۰۳ ء صفحہ۳) مکتوب بنام حاجی الٰہ دین صاحب عرائض نویس صدرشاہ پور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ماہ مارچ ۱۸۹۷ء میں ہمارے عزیز بھائی حاجی الٰہ دین صاحب عرائض نویس صدر شاہ پور نے عالم خواب میں دیکھا تھا.خواب کہ ایک وسیع صاف ہموار میدان میں ایک بہت ہی بڑا درخت ہے جس کا تنا بڑا موٹا اور اس کی شاخیں جو وہ بھی شاخ در شاخ ہیں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں وہ درخت بلحاظ پھیلاوٹ وسعت عظمت کے درخت بوہڑ سے بھی کئی گنا بڑا ہے اس کا نظارہ فرحت انگیز اور اس کا سایہ راحت افزا ہے اس کے نیچے کھڑا ہوں اور اس درخت کی سب سے بڑی شاخ میرے سر کے بالوں سے چمٹی ہوئی ہے وہاں ایک بہت مرتفع عالی شان جگہ سے قرآن مجید سننے کی آواز آرہی ہے کلام مجید ایسی خوش الحانی سے

Page 166

سے سنایا جارہا ہے کہ اس کی سماع سے کمال روحانی ذوق و سرور پیدا ہوتاہے اور طبیعت اس کی لذت سے مست و سرشار ہوجاتی ہے اور اس حالت ربودگی میں از خود رفتہ ہوکر زمین پر گرنے لگتا ہوں مگر وہ شاخ کلاں جس کے ساتھ سر کے بال جکڑ ے ہوئے ہیں وہ نیچے گرنے نہیں دیتی کیونکہ جب نیچے گرنے لگتا ہوں تو وہ شاخ سر کے بالوں کو اوپر کشش دیتی ہے جس سے ہوش آجاتی ہے باربار یہی واقعہ پیش آتا ہے بالآخر خواب سے بیداری ہوگئی.یہ واقعہ خواب بغرض دریافت تعبیر بخدمت جناب حضرت حکیم الامت صاحب دام برکاتہ بذریعہ عریضہ نیاز عرض ہوا تھا جواب میں جو تعبیر جناب ممدوح الشان نے بصورت فیض شمامہ تحریر فرمائی.چونکہ وہ ایک خاص معرفت کا پہلو رکھتی ہے لہٰذا اس کی نقل بغرض اندراج اخبار گوہر بار ارسال خدمت ہے.امید ہے کہ اس کا باخوض و باتدبر مطالعہ انشاء اللہ تعالیٰ بہت سے سعید فطرت ناظرین کی انشراح صدر و تنویر قلب کا باعث ہوگا اور ترقی عرفان و ازدیاد ایمان میں ان کو مدد دے گا.والسلام یکم نومبر۱۹۰۳ء امام صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کہترین کفش بردار خادم.احقر العباد الٰہ داد عفی عنہ احمدی کلرک.صدر شاہ پور ضلع شاہ پور.نقل فیض شمامہ جناب حضرت حکیم الامت صاحب موصوف جو انہوں نے خواب مندرجۃ الصدر کی تعبیر میں بھائی حاجی الٰہ دین صاحب عرائض نویس صدر شاہ پور کو لکھا.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دنیا میں مرزا جی ایک طوبیٰ کادرخت ہے.اور الحمدللہ یہ خاکسارنورالدین اس کی ایک شاخ.اورمیرا پیارا بھی الحمدللہ اس شاخ میں پھنسا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ابھی وہ زمین پرگرا نہیں اورخداکرے کہ نہ گرے.مرزا جی کا کام کیا ہے؟صرف قرآن کریم سنانا.اگران کے قرآن سے کسی کا دل صاف نہ ہوتو وہ پھر قرآن ہی سنائے گا کہ قرآن کا اثر پاجاوے.میرے پیارے! تو یاد کر اپنے لڑکپن اوربچپن کو.کیاتیراسچا اورمخلص دوست بدعقیدہ، بدچلن، نافہم یا کمزور ہے.کیا تونے کوئی بدنمونہ اس میں پایاکہ تو اس سے جدا ہونا چاہتا ہے.یاد رکھ میری دعائیں

Page 167

تیرے حق میں، تیرے خاندان کے حق میں، تیری بہنوں کے حق میں کیسی مؤثر ہوئیں.مجھ پربڑا ہی سخت گذرا ہے کہ تجھے مرزا جی کے متعلق اب تک توہمات ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ تو نے اپنے دوست اور دلی دوست نورالدین کوبھی نہیں پہچانا.کیا تیرے لیے یہ کافی نہ تھا کہ نورالدین مرزا جی کا مرید ہے اور بس؟اصل یہ ہے کہ تو دنیا پرست ہے اوراپنی نافہمی کاگرفتار.خبردارہو جا اوریہاں چلا آ.کہاں تیری عقل اورمرزا جی پرتوہمات! توبہ کر لے.اوربواپسی ڈاک قادیان چلا آ.وَاِلَّا میں توافسوس کروں گا مگرتجھے افسوس کے ساتھ ملامت اٹھانی ہو گی.۳۱ مارچ ۱۸۹۷ء دستخط نور الدین از قادیان.( البدرجلد ۲ نمبر ۴۱،۴۲مورخہ۲۹ ؍اکتوبر و۸ نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۲۹)

Page 168

مکتوبات جان من.السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ تمہارے فرحت بخش خط میں اب تک تکدر معلوم ہوتا ہے.میں تمہارا دعا گو آگے عذر کر چکا ہوں.مگر میری بدقسمتی سے پذیرا نہ ہوا.اچھا اب سہی.فصل الخطاب کو ایک بار اچھی طرح پڑھ لو اورقرآن کریم بہت پڑھو اور نمازباجماعت ادا کیا کرو.تاکید ہے.میں انشاء اللہ تعالیٰ دو مہینے تک قادیان میں بیعت کے واسطے جاؤں گا.تیرا سچا دعا گو.نورالدین۲۱ ماگھ یکم فروری ۱۸۸۹ء ……………… عزیز من.السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ تمہارے دوست ومحب نے لودھیانہ میں دوسری شادی کر لی مبارک ہو.حضرت مرزا صاحب قادیان سے برات میں لودھیانہ رونق افروز ہوئے.اور ۲۰ ؍مارچ کے جلسہ بیعت میں انشاء اللہ تعالیٰ یہ خاکسار بھی شریک ہو گا.کل حضرت امام الوقت مرزا صاحب کو عرضی لکھ دی ہے جواب پر مفصل عرض ہو گا.۷؍مارچ ۱۸۸۹ء ……………… ارشد ارجمند حَفِظَکَ اللّٰہُ وَ سَلَّمَ.السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ.بھلا خفگی کی کوئی وجہ بھی.بھلا اس قدر فراموشی آپ کے اور میرے للہی محبت کے درمیان جائز ہے.پیارے عزیز.میرا اور آپ کا تعلق روحانی ہے قابل انقطاع نہیں.آگے تم جانو.سناؤ اشاعت قرآن شریف اور حدیث میںاب آپ کس قدر ساعی ہیں.والسلام ……………… ارشد ارجمندحَفِظَکَ اللّٰہُ وَ سَلَّمَ.السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ.مدت کے بعد تمہارا فرحت نامہ مہجور دور کو پہنچا.پیارے! سفر بھی کوئی عذر ہے.کیاڈاک

Page 169

سفر میں بند ہو سکتی ہے.ایسا نہ کرو.گاہے گاہے اپنے حالات سے خوش وقت رکھا کرو.پیارے صدیق حَفِظَہُ اللّٰہُ وَ سَلَّمَاور عزیزہ خدیجہ کا صدمہ شیخ صاحب کو نصیحت تھی.ان کو واجب ہے کہ فہمایش الٰہی پر دھیان کریں.آئندہ معاصی سے اجتنا ب رہے کبھی کبھی مسائل کی چھیڑچھاڑ خطوں میں ضرور ہوا کرے اس میں دینی مسائل محفوظ رہتے ہیں.والسلام ۲۲؍اپریل از جموں ……………… خار ترم کہ تازہ ز باغم بریدہ اند مطرود باغبانم و مردود آتشم عزیز ارشدا رجمند حَفِظَکَ اللّٰہُ وَ سَلَّمَ گویم.یا راحت جان وآرام روح وروان بنویسیم بہتر است کہ برائے آئندہ اخی فی اللہ وحبی فی اللہ نوشتہ باشم.الحمدللہ کہ صدیق کی ہمشیرہ نے صحت پائی.اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیْھَا آمین.شیطان کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ (صحیح البخاری ،کتاب الاعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی الاعتکاف)یعنی جیسے خون بدن میں چلتا ہے ویسا ہی شیطان بھی.اور شیطان کو باری تعالیٰ نے فرمایا ہے  (الکھف : ۵۱) پس جنّ کا جسم انسانی میں حلول کرنا ثابت ہو گیا.اب رہی یہ بات کہ جنّ کیا چیز ہے.یہ علیحدہ مسئلہ ہے اگرپوچھو گے تولکھوں گا.اعمال سے جنّ قبضہ میں آتے ہیں یا نہیں.جس چیز کا نام جنّ شرع میں ہے وہ قابو میں آ سکتے ہیں.سلیمان علیہ السلام کا قصہ قرآن شریف میں دیکھو (الانبیاء : ۸۳).وطن کے واسطے دل تڑپتا ہے.اِ لَّا شامت اعمال بیماری سرکار نے لاچار کر دیا حیران ہوں.کشمیرکا سفر معلوم نہیں ہوتا محمد صدیق محمد ظہورالدین کو السلام علیکم.حافظ کے واسطے عنقریب تدبیر کرتا ہوں.بخدمت میاں غلام حسین صاحب وحافظ احمد یار صاحب السلام علیکم.۷؍جون ازجموں ………………

Page 170

بنام حافظ احمد یار صاحب احمد اندر جان احمد شد پدید اسم من گردید آں اسم وحید السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.(الصّفّ : ۷) سے مراد ہمارے سیدومولی ہادی کامل خاتم النبیین رسول رب العالمین محمد مصطفی احمدمجتبیٰ ﷺ ہیں اور یہی امر سچ ہے.حکیم فضل الدین صاحب نے اگر اس کے خلاف کہا ہے تو غلط اور بالکل غلط کہا ہے.ہاں اگر ایک احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خادم اپنی خدمت کے لحاظ سے اورغلامی کی راہ سے فرماوے کہ میں بلحاظ کامل محبت اور سچی خدمت کے وہی احمد ہوں بلکہ اس کا مولیٰ.اور خالق جل شانہ ارشاد فرماوے کہ توتو احمد ہے تویہ امر دیگر ہے.اسی کارڈ کے اوپر جو شعر لکھا ہے اس پر غور کرو حضرت مرزا جی کا فرمایا ہوا ہے.نوٹ: حافظ صاحب کے اس سوال کے جواب میں کہ اس آیت میں احمد سے مراد جناب رسول اکرم ﷺ یا اس سے صرف جناب امام صادق مہدی زمان علیہ الصلوٰۃ والسلام مراد ہیںیہ جواب حضرت حکیم الامت سَلَّمَہٗ رَبُّہٗ کی جانب سے دیا گیا تھا.عاجز اللہ داد.کلرک شاہ پور ……………… برادرم حَفِظَکَ اللّٰہُ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.قبلہ کی طرف پاؤں پھیلا کر سونا تعظیم کے خلاف ہے اور قرآن شریف میں وارد ہے (الحج :۳۳) اور بیت اللہ سے بڑھ کر کونسی چیز ہو گی جو شعائر اللہ میں داخل ہو.پس خوردہ عورت اجنبیہ کا مرد اجنبی کو اور مرد اجنبی کا عورت اجنبیہ کو کھانا جائز ہے.اس میں جب تک کوئی دلیل نہیں ہے تو اباحت اصلیہ اس کے جواز کی دلیل ہے.الحمد شریف بدستور سابق غورسے بہت پڑھا کرو.ان شاء اللہ تعالیٰ بہت فائدہ ہو گا اور جو

Page 171

وصیت تم نے لکھی ہے بہت ٹھیک ہے.اس میں کوئی بات خلاف شرع معلوم نہیں ہوتی.ایسی وصیت لکھ کر ہمیشہ اپنے پاس رکھنی چاہئے حدیث شریف میں بھی وارد ہے.اور میرے صدمہ کی بابت آپ نے سنا ہو گا.دعا کیجیے آئندہ کے واسطے خداوند تعالیٰ رحم فرمائے.آمین.اور میرے بھائیوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے.آمین.( الحکم جلد۸ نمبر ۱.مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳،۱۴) سخن گفتی ودرسفتی ۹؍جنوری ۱۹۰۴ ء کو قادیان سے دو معزز مہمان رخصت ہونے والے تھے وہ حضرت حکیم الامت کی خدمت میں بھی بغرض حصول ملاقات حاضر ہوئے اور ایک صاحب نے فرمایا کہ’’ آپ باتیں بھی بہت ہی دلچسپ اور مزہ دار کرتے ہیں‘‘.یہ ایک جملہ کا حاصل مطلب تھا.اس پر حکیم الامت نے جو کچھ فرمایا وہ اس قابل نہیں کہ آبِ زر سے اسے لکھا جاوے بلکہ اس قابل ہے کہ اس پر عمل کیا جاوے.آپ نے فرمایا.’’میں قوّال کی نسبت فعّال کو پسند کرتا ہوں‘‘ یعنی بہت کہنے والے کے مقابلہ میں کرنے والے کو ترجیح دیتا ہوں.حقیقت میں حکیم الامت کا یہ جملہ خوش گفتی ودرسفتی کا مصداق ہے خدا کرے ہم اس پر نرے غور کرنے والے نہ ہوں بلکہ اس پر عمل کرنے والے ہوں.آمین.(الحکم جلد۸ نمبر۲ مورخہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۴) حضرت حکیم الامت کامکتوب السلام علیکم.قیدیان جنگ چار قسم کے ہوتے ہیں اوراب بھی چار قسم ہیں.اوّل وہ جو شرارت کے سبب سے اس قابل ہی نہیں رہتے کہ امن عام کے ـسخت دشمن نہ ہوں ایسے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے.چنانچہ اب بھی کورٹ مارشل میں ایسا ہی ہوتا ہے.ایسے موذیوں کا زندہ رکھنا ایک ایسے دانت کی مثال ہے جس کے ضرر سے دوسرے دانتوں کوتکلیف پہنچتی ہے.اگر نکالا نہ جاوے تو سارے دانتوں پر اس کا برا اثر پڑ کر سب کو تباہ کر دیتا ہے.دوسرے وہ قیدی جن کے بدلے روپیہ دے کر یا دوسرے قیدی کو چھڑانے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے ان دونوں کا ذکر قرآن میں یوں

Page 172

آیا ہے ۱.(البقرۃ :۱۹۲) ۲.(محمد : ۵) میں ہے.سوم وہ جن کا مفت چھڑانا ہی قرین مصلحت ہوتا ہے جن کا ذکر میں آگیا ہے.چہارم وہ جن کا واپس کرنا یا ان کا بدلہ لینا یا قتل کرنا مناسب نہیں ہوتاایسے قیدی اب بھی مہذب گورنمنٹوں میں موجود ہیں اور پورٹ بلیر وغیرہ انہی سے آباد ہیں.ایسے قیدیوں کے اگر شادیاں بیاہ روک دئیے جاویں تو ان کے فطری قویٰ پر کیسا برااثر پڑتا ہے.میرے ایک انگریزی خواں دوست نے ایسا اعتراض کیا تو میں نے اس کو قیدیوں کی چار وں مثالوں سے سمجھایا تھا.اوّل بیمار دانت کو باندھا جاتا ہے.اس کی منجنوں سے مالش کی جاتی، پھر کاٹا جاتا، پھراکھاڑ کر باہر پھینک دیا جاتاہے.یہی حال ہے قیدیان جنگ کا.پس جو قیدی دائم الحبس ہوں کو بیاہ سے روکنا تو جائز نہیں.پس مرد ہوں یا عورتیں سب کو نکاح کی اجازت ہے.ہاں لونڈیوں کی تعلیم وتربیت چونکہ بڑی ضروری ہے اس واسطہ شریعت اسلام نے یہ تجویز کیا کہ گھر میں بچوں کی طرح ان کی تربیت کرو.اگر مسلمان اس کے خلاف کرتے ہیں تو شرع کے خلاف کرتے ہیں.حکم تو یہی ہے مَنْ… اَدَّبَھَا فَاَحْسَنَ تَادِیْبَھَا(مسند احمد ،مسند الکوفیین،حدیث ابی موسی الاشعری،حدیث نمبر۱۹۵۳۲) اور عَبِیْدُکُمْ خَوَلُکُمْ وغیرہ وغیرہ بلکہ لونڈیوں کے نکاحوں میںتو ایسی رعایتیں رکھی ہیں(النور:۳۳).ہاں جس شخص کو لونڈی سے بیاہ کرنا ہو اس کے لیے قرآن مجید نے کچھ شرطیں لگائی ہیںجیسے (النساء : ۲۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لونڈیوں کے بیاہ خود کرنا علی العموم شریعت کو پسند نہیں اورتجربہ سے بھی ثابت ہوا کہ شاہان اسلام کے گھر میں لونڈیوں کی اولاد سے ہی سلطنت تباہ ہوئی.ہاں آپ کے ہاں جو لونڈیاں ہیں ہم ان کوخود جانتے ہیں وہ تو لونڈیوں میں داخل معلوم نہیں ہوتیں.والسلام ۲۳؍جنوری ۱۹۰۴ء.( الحکم جلد ۸ نمبر ۴مورخہ۳۱؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۴)

Page 173

مسیح موعودعلیہ السلام کی سچائی کی ایک دلیل حضرت حکیم الامت کی یہ بات کیسی لطیف اورنکتہ معرفت ہے کہ میں انبیاء علیہم السلام کے استقلال پر بھی قربان ہوتا ہوں.ہمارے امام کی سچائی کی ایک یہ بھی دلیل ہے کہ کوئی بات ہو کوئی مضمون ہو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا تذکرہ ضرور کریں گے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسر صلیب کے لیے مامور ہو کر آئے ہیں.(الحکم جلد ۸ نمبر ۴مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۹) مکتوبات بنام حاجی الٰہ دین عرائض نویس صدرشاہ پور اوآرام دل و جان ثلج روح ورواں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت آپ کی بیماری کاحال لاہور سے اور بھیرہ میں پہنچ کر دوسرے روز مسہل لینا اور مسہل سے دوسرے روز آرام پانا اورحکیم شیخ احمد صاحب کی توجہ علاج میں اورآپ کی ضعف ونقاہت کاحال میرے واسطے ایک عجیب بہار وخزاں کا موجب ہے.میرا مالک جلد تر صحت وقوت مرحمت فرما کرراقم الحروف کو طمانیت بخشے.میرے دوست پیارے! کونین کا کھانا، دودھ کا پینا بہت ہی مناسب ہے.جناب حکیم صاحب ’’ بندہ ام تا زندہ ام ‘‘ اب کہاں گئے.شایدمنسوخ الحکم آیات میں معدود ہوئی.راقم تو قرآن شریف میںبھی نسخ کا قائل نہیں تھا.یہاں کیوں جلد ترقائل ہو گیا بخدمت ہمہ اخلاق جناب شیخ فضل الٰہی صاحب السلام علیکم.سفر کشمیر جلدی جلدی آتا جاتا ہے.خدا نے میرے واسطے آرام کی تدبیر بنا دی.اب آپ فرمائیے کیا ارادہ ہے ؟آپ کی ہمراہی یاد ہے بخدمت جمیع حال پرسان سلام ما وجب.(نور دین) (ازجموں ۷؍کاتک) ……………… السلام علیکم.خاکسار بشنید خبر انتقال مہاراجہ جموں، پونچھ سے جموں پہنچا.کوہستان کے راستہ سے آنا ہوا.اگر آپ فرماویں آپ کے لیے بہت دعائیں کروں.اِلَّا پیارے باری تعالیٰ کی

Page 174

جناب میں آپ خود کیوں نہیں گڑگڑاتے.اے میرے محسن! میں نے گناہ پر گناہ کیااور تونے ہمیشہ عفو فرمایااورپردہ پوشی کی.اے ارحم الراحمین !میرے فلاں فلاں غموم میں تو محض اپنے کرم سے دستگیری کر.میں تیری بارگاہ میں تیرا ہی نام تیرا ہی کرم شفیع کرتا ہوں.شادی کے معاملہ میں ()(بنی اسرائیل :۲۸) یاد رہے اورمیں ہرطرح حاضر ہوں جس وقت کہو.(۱) موذی کاجلانا ممنوع ہے.دلیل لَا یُعَذِّبُ بِالنَّارِ اِلَّا رَبُّ النَّارِ (تفسیر القرطبی، سورۃ البقرۃ :۱۹۵) حدیث میں وارد ہے.(۲) بکرا کُل حلال ہے یعنی اس کا جزو حرام نہیں مگر دم مسفوح.دلیل (البقرۃ : ۳۰) سے کل اشیاء کی حلت ثابت ہے.پھر میتۃ اور مااھل لغیر اللّٰہ،دم،موقوذہ، متردیۃ،النطیحۃ،وما اکل السبع کی حرمت قرآن سے اور سباع وغیرہ محرمات کی تخصیص حدیث سے ثابت ہے.باقی کل اشیاء اباحت اصلی پر ہیں.(۳)سری بریان کرنے سے مکروہ نہیں ہوتی.دلیل بالا دیکھیں،جواب لفافہ اوّل.ضیاء اور قاموس میں ہے.پس سوتی جراب اور چمڑے کے موزہ کو عام ہے چمڑے کی تخصیص نہیں.صاحب مجمع البحار نے تخصیص کی اور دلیل نہیں دی.۲۷؍ دسمبر ۱۸۸۵ء.( البدر جلد ۳ نمبر ۵ مورخہ یکم فروری ۱۹۰۴ ء صفحہ ۸.الحکم جلد ۸ نمبر۵ مورخہ ۱۰ ؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰) حل مسائل کوئٹہ سے کچھ مسائل ایک احمدی دوست نے دریافت کئے ہیں مولانا حکیم نورالدین صاحب سے استفسار کر کے ان کا جواب درج کیا جاتا ہے.اہل ہنود کی تیارکردہ اشیاء کا کھانا سوال۱.کیا جماعت احمدیہ کو اہل ہنود کے ہاتھ کی مٹھا ئی وغیرہ اشیاء کھانی جائزہیں؟ جواب (۱) قادیان میں حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عمل درآمد یہ رہا ہے اور ہے کہ ہنود کے ہاتھ کی مٹھائی وغیرہ برابر آپ لے کر استعمال کرتے ہیں.شربت اور چاء اور دیگر ضرورتوں کے لئے مصری ہندو حلوائیوں کے ہاں سے جاتی ہے اور دوسری اشیاء بھی.

Page 175

(۲) اہل ہنود اہل کتاب میں شمارہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک آسمانی کتاب کے مدعی ہیںاور ان کا وجود قبل از بعثت رسالت مآب چلا آرہا ہے.بعض ہنود آریہ سناتن دھرم جو وید کو کلام الٰہی مانتے ہیں وہ اہل کتاب معلوم ہوتے ہیں.اسی طرح پارسی بھی اہل کتاب ہیںہاں سکھ نہیںہوسکتے.جین بدھ بھی اکثرکتاب کے قائل ہیں.ثواب موتیٰ سوال۲: کیا فوت شدہ شخص کو قرآن مجید پڑھ کر پہنچانا جائز ہے اور ثواب موتیٰ کو ہوتا ہے؟ کیا موتیٰ کے لئے کھانا پکا کر کھلانا جائز ہے؟ جواب: دونوں صورتوں میں ثواب میت کو پہنچتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو’’یا‘‘سے یادکرنا سوال۳: یا رسول اللہ کہنے پر وہابی اعتراض کرتے ہیںکیونکہ یا حاضر اشخاص کے لئے ہوتا ہے؟ جواب.(۱) کیا جب اللہ تعالیٰ کو یا کہہ کر پکارا جاتا ہے تو وہ سامنے حاضر ہوتا ہے حِسّی طور پر تو اس کا ثبوت نہیں.اب رہی صفات کی بات کہ وہ صفات سے حاضر ہوتا ہے تو اپنی صفات کے رو سے جو مطالعہ کے طور پر صاحب صفات ذہن میں سامنے آجاتا ہے.اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سامنے آ جاتے ہیںاور ہر زمانہ میں موجود ہیں.حضرت میرزا صاحب بھی ان کی موجودگی کا ثبوت ہیں پھر قرآن شریف میں ہے (یٰس: ۳۱) کیا حسرت سامنے موجود ہوتی ہے یا وہ علم وحواس رکھتی ہے یا وہ سب عباد ہوتے ہیں جو مخاطب ہوتے ہیں.(۲)فرط محبت یا فرط غم نیزنظم میں غائب کو نداء کی جاتی ہے اور اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ بجسد عنصری موجود ہو بلکہ اظہار محبت کا یہ ایک طریق ہے.

Page 176

حضرت عیسیٰ ؑ کے صاحب شریعت نہ ہونے کا ثبوت گولیکی ضلع گجرات سے ذیل کا سوال آیا ہے.سوال ۴: عیسیٰ علیہ السلام کے موسوی خلیفہ ہونے اور صاحب شر ع رسول نہ ہونے کا کیا ثبوت ہے اور (الشوریٰ: ۱۴) کا کیا جواب ہے.جواب(۱) سورہ مزمل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  (المزمل: ۱۶) یعنی ہم نے تمہاری طرف ایسا ہی ایک رسول بھیجا ہے جیسے کہ فرعون کی طرف بھیجا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صاحب شریعت بذات خود ایک نبی تھے ویسے ہی موسیٰ علیہ السلام بھی تھے جن سے آپ کوتشبیہ دی گئی.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورموسٰی ؑ کے درمیانی زمانہ میں کوئی اور بھی صاحب شریعت نبی ہوتاتو اس کا حوالہ دیا جاتا اور کیوں نہ فر ما یا کَمَثَلِ عِیْسٰی.(۲) قرآن شریف میں ہے (الاحقاف:۱۳) یعنی اس قرآن سے پہلے صرف موسیٰ علیہ السلام ہی کی کتاب ہے جو کہ امام اور رحمت ہے یعنی شریعت ہے جس پر کما حقہ عمل کر کے انسان قرب اللہ کے عالی مراتب حاصل کر سکتا ہے.پس اگر قرآن شریف اور توریت کے درمیان کوئی اور کتاب بھی شریعت ہوتی یا نبی صاحب شریعت ہوتا تو اس کی کتاب کو امام اور رحمت کہا جاتا.اس سے بھی ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑصاحب شریعت نہ تھے.(۳) انجیل کے معنے خود بشارت یا خوشخبری کے ہیںاور اس قسم کی بشارتیں عموماًخداکے برگزیدوں پر نازل ہوا کرتی ہیںاس میں کوئی خصوصیت مسیح علیہ السلام کی نہیں ہے اورنہ اس میں کوئی شریعت ہے اور نہ انجیل کا خود دعویٰ صاحب شریعت ہونے کا ہے.خود مسیح کا قول نقل ہے کہ میں توریت میںسے کوئی نکتہ اوپر تلے کر نے نہیں آیا یعنی کہ اسے برقرار رکھتا ہوں اس سے بھی ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام صاحب شریعت نہ تھے.(۴) اس وقت عیسائی اقوام کا عملدرآمد بھی ایک بڑا ثبوت ہے کہ انجیل شریعت نہیں ہے

Page 177

اور نہ مسیح صاحب شریعت کیونکہ ان کو تمدنی اور سیاسی زندگی کے لئے خود قوانین وضع کرنے پڑتے ہیں.(۵) سورہ احقاف آخری رکوع میں ہے کہ  (الاحقاف: ۳۰) نے اپنی قوم سے جا کر کہا(الاحقاف:۳۱) کہ ہم ایک کتاب سن آئے ہیں جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی.پس اگر درمیانی زمانہ میں انجیل شریعت اور مسیح صاحب شریعت ہوتے تو وہ کہتا کہ جو عیسٰی علیہ السلام کے بعد نازل ہوئی.(۶) آل عمران رکوع۵ میں مسیح کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (اٰل عمران: ۴۹) جس سے ظاہر ہے کہ کتاب توریت کی تعلیم مسیح علیہ السلام کودی گئی تھی اور انجیل صرف حکمت اور دانائی کی باتیں تھیں نہ کہ شریعت.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اس سے ثابت ہے کہ مسیح سے کہیں بڑھ چڑھ کرہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی سابقہ کتاب کی تعلیم نہیں دی گئی.خدا تعالیٰ نے خود آپ کو بلاواسطہ تعلیم اور شریعت دی.افسوس ان مولویوں پر جو کہ حضرت مسیح کا درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ چڑھ کر مانتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں.نشوں کو چھوڑنے کی ترکیب حضرت حکیم نورالدین صاحب فرماتے ہیں کہ افیون کی عادت ترک کرنے میں صرف تین دن تک مریض کو سخت تکلیف ہوتی ہے اور لوگوںکو اس کی حالت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زندگی محال ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ ترک افیون سے انسان مرتا نہیں ہے اکثر لوگوں نے اس عادت کو میرے زیر علاج رہ کر ترک کیا.میں نے ان ۳ دن میں ان کو بیش جدوار ایسٹن سائرپ اور اسافیٹڈا(ایک ہینگ کا مرکب) کا کثرت سے ان کو استعمال کرایا خدا کے فضل سے چوتھے دن مریض بالکل شفایاب ہو گیا.(البدرجلد۳ نمبر۵ مورخہ یکم فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۹،۱۰) مکتوبات حضرت حکیم الامت

Page 178

مکتوبات حضرت حکیم الامت عاجز ہمہ عجز.نورالدین عفا اللہ عنہ اپنے نہایت پیارے دوست الہ دین کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ عرض کرتا ہے.شافی اپنے رحم سے محمد صدیق کوجلدتر شفا بخشے.یہاں سرکار کی طبیعت علیل ہے.اگرنوکری چھوڑتا ہوں تو یہ حرج کہ نمک حرام کہلاتا ہوں.سب لوگ یہی کہتے ہیں کہ دیکھو آرام کے وقت حرام خوری کرتا رہا.اب علالت کے وقت ترک تعلق کر کے چلا گیا.وَاِلَّاآپ کی تار پرمیرا یہ بھی ارداہ تھا کہ اگر رخصت نہ ملی استعفٰی دے دوں گا.یہاں کے احباب صلاح نہیں دیتے.حیران ہوں اورایسا نازک موقعہ ہے کہ رخصت مانگنا بھی آدمیت اورنمک خواری کے خلاف ہے.محمدصدیق سے جو آپ کا تعلق ہے وہی یا اس سے زیادہ میرا ہو گااور کیوں نہ ہو.آپ کا اور میرا تعلق کچھ ایسا ہے جس کا بیان لا حاصل ہے.آپ کو معلوم مجھے معلوم اورحکیم صاحب کو معلوم.افسوس کچھ ایسے شش وپنج میں ہوں کہ الٰہی توبہ.خداوند کریم اس سب تکلیف کے بدلے صدیق کو شفا بخشے.آمین یارب العالمین.میں نہیں کہتا مجھے اپنی لڑکی پیدا ہونے کی خوشی نہیں.وہ خوشی قدرتی یا فطرتی ہے.الّا صدیق کی بیماری ایسی حالت میں ’’سیروارحلوا‘‘ سے کچھ کم نہیں.آپ کی رنج و آرام کو میں بالکل اپنا رنج و آرام جانتا ہوں.تقدیری معاملات کے آگے انسانی چارہ گری محض لاشیٔ ہوا کرتی ہے.پیارے! میرے جیسا آزاداس مصیبت تعلق میں جس طرح خوش وخرم ہو گا آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں؟ آپ کی سردردی کہاں تک کروں؟اصل مطلب پر مشرقی وایشیائی عادات ورسومات کا داغ نہ لگے.جواب کرم نامہ تحریر کرتا ہوں… میں بھی مکرر رخصت کی تدبیر کرتا ہوں… شیخ صاحب جی سب رنج وآرام ومصائب وتکالیف کا باعث ہمارے گناہ ہیں اور استغفار سب سے عمدہ علاج ہے.آپ معاصی سے توبہ پھر سچی توبہ فرمائیے.انشاء اللہ تعالیٰ خداوند کریم رحم کرے گا.خط پر تاریخ ضرور لکھا کرو.والسلام ۶؍ اسوج ۲۱؍ نومبر.از جموں

Page 179

پیارے عزیز.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لوگ مجھے برا کہیں.کہیںکافر کہیں.کہیں زانی وفاسق وفاجر کہیں.کہیں… مجھے یقین ہے تم میرے لڑکپن کے دوست.اگرچہ میں ایسا ہی ہوںتب بھی ہرگز ہرگز ایسا یقین کیا گمان بھی نہ کرو گے وہم بھی نہ کرو گے.تم نے کیوں خط وکتابت کو ترک کیا.سبب تو کہو.کیا تمہارے تعلقات اس امر کے ساتھ منحصر تھے جس کے ایفا کو قدرت نے، نہ تمہاری کوشش نے روک دیا.نہیں.نہیں.نہیں.لو میں ہی ابتداء کرتا ہوں تم کو اپنی محبت کی قسم دیتا.اِلَّاکیا کروں شرک ہے.بھلایہ تو لکھو اب جواب لکھو گے.نورالدین ازپونچھ ریاست ڈاکخانہ کہوٹہ ضلع راولپنڈی.۷؍ستمبر ۱۸۸۵ء ……………… لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الکَاذِبِینَ.منافق کے تین نشان ہیں.ایک یہ کہ بات کہے اور جھوٹ بولے.میں اس وقت ان دو بالا فقروں پراکتفاء کرتا ہوں.السلام علیکم بھی نہیں لکھسکتا.میری ہوش سے پہلے کے تم میرے پیارے اور عزیز اورسچ کہتا ہوں دلدار ہو.میں نے آج تک تمہاری طرح کا عزیز دنیا میں نہ کیا اور اب تک تم سے وہی محبت ہے.خدا گوا ہ ہے اور اس سے زیادہ کون گوا ہ ہو گا.اگر تم جانو.تم از یاد رفتہ نہیں.تم کسی زمانہ کے دوست ہو.اور اب بھی دوست ہو.پیارے میں کیا پھنسا.سنو بدگمانی شرع میں ممنوع ہے میں نے بھیرہ سے پیارے راحت جان کوخط لکھا.راولپنڈی میں حکیم شیخ احمد نے کہا کہ تمہارا دوست تم پر سخت ناراض ہے کیونکہ تم نے اس سے کوئی وعدہ کیااور ایفاء چوراگئے.میں نے کہا سچ ہے.مگر میرا دوست شکوہ نہ کرے گا.تب میں شرمندگی سے خاموش رہا.ان دنوں ایک سخت نقصان سے جس کا بیان اس وقت مناسب نہیں زیر بار تھا.میں نے چاہا زیر باری سے اللہ تعالیٰ نجات دے.اِلَّا ابھی مبتلا تھا.آپ کا کارڈ پہنچا اورحکیم کا قول سچ یقین کیا.شیخ امام الدین رخصت پر ہے.امروز فردا آنے والا ہے.جس وقت آتا ہے ارشاد کی تعمیل ہو گی.

Page 180

میں کون ہوں نام نہیں لکھتا.از کشمیر ۲۳؍ساون.۸؍اگست ۱۸۸۸ء ……………… تمہاری شکایت سچ اور بالکل سچ ہے.اور میں یا میرا عذر عزیز من بالکل لغو اور پوچ ہے.عزیز اگر تم مجھے تھوڑی دیر کے لیے سچا جانو تو میرے اس فقرہ پر یقین کرو.من بدتر از کافر ہستم من بدترازکافر فرنگ ہستم.میری حالت رحم کے قابل ہے اور ملامت کے قابل نہیں.میں بہت جلدی بھیرہ میں آنے والا ہوں.دیکھوگے توحیران ہو گے.تمہارا سچا عاشق زار بالکل زارونزار ہے.اچھا ملاقات پرشکوہ کر لینا… پھر عرض ہے اس تباہ کار پر رحم ہو.والسلام از جموں ۶؍ اسوج.۲۴ ستمبر ۱۸۸۸ء ……………… السلام علیکم.کیوں صاحب کوئی خفگی ہے کوئی ناراضی.مجھے وجہ رنج معلوم نہیں.بھلا وہی لکھ دیجئے.بھلا کیا کہ نہ سلام نہ خیر خیریت.اچھا آپ کی مرضی ہو چکی.اب خاکسار کی مرضی پر خط لکھ دیجئے.خاکسار نورالدین ۸؍کاتک ازجموں ۲۱؍اکتوبر ۱۸۸۴ء ……………… پیارے عزیز.السلام علیکم.تم کہتے ہو گے ایک ناآشنا، بے وفا سے سابقہ پڑا.اِنَّا لِلّٰہِ.پیارے اورسچے پیارے! مجھے وہ محبت ایسی نہ تھی جومحو کے قابل ہوتی.میں کشمیر سے آکر بیمار ہو گیا.پانچ مہینہ کاعرصہ گذرتا ہے.تپ وکھانسی درد عارض رہا.بچنے کی امید مفقود تھی اب آرام ہے.بغرض تبدیلی آب و ہوا کشمیر جاتا ہوں.آپ کو اللہ کا نام یادلاتا ہوں مجھ پر عفو کر کے جواب ضرور دیجیئے.پتہ ہمراہ کیمپ مہاراجہ جموں کشمیر نورالدین کو پہنچے یا جموں.نورالدین ۲۳؍ مارچ ۱۸۸۸ء

Page 181

عزیز من!راحت من! السلام علیکم.آپ کا مہجور دوست مدت کا بھولا ہواآپ کے بھیرہ میں موجود ہے.کیا ممکن ہے آپ کی ملاقات سے مشرف ہو سکے.ہمارے مولانا استاد مولوی عبدالکریم صاحب اگرتشریف لاویں ان کو بھی…… ۱۷؍ اپریل ۱۸۸۷ء از مقام بھیرہ ……………… اُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَقَدْ فَازَالْمُتَّقُوْنَ برادر عزیز حَفِظَکَ اللّٰہُ وَسَلَّمَ.ثُمَّ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج اتفاقاً مجھے جموں جانے کا اتفاق پڑگیا.کونسل نومبر میں جموں جائے گی کیونکہ ویسرائے نے ۲۶ ؍اکتوبرسری نگر ملک کشمیر میں آنا ہے.اب تک ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ خاکسار پھر کشمیر میں آئے گا یا نہیں.آپ کی دونوں فرمائشیں انشاء اللہ تعالیٰ پہنچ جاویںگی.والسلام نورالدین اا؍ستمبر ۱۸۹۱ء ……………… عزیز من!جان من! السلام علیکم.خاکسار عنقریب بھیرہ میں آنے والا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ جلد تر پہنچتا ہوں.جس معاملہ پر آپ نے مجھے تاکیدارقام فرمائی اس میں بالمواجہ جس قدر مجھ سے ہو سکتا ہے (اور کوئی بڑی بات نہیں) میں ہرطرح حاضر ہوںاور دستانہ اور مہربخش خان کے واسطے کشمیر لکھا ہوا ہے.جس وقت دونوں چیزیں آتی ہیں ہمراہ لاتا ہوں.ولوال کا معاملہ طے ہو جاوے اچھا ہے.زیادہ کشش نہ کیجیے اور اس کی انجام کا فکر فرمائیے.والسلام.تمہارا دعا گو.نورالدین عفا اللہ عنہ ۱۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء ( الحکم جلد ۸ نمبر ۵مورخہ۱۰؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰) مذاہبِ عالم پر ریویو

Page 182

مذاہبِ عالم پر ریویو عام پر مذہب صحیح وہ ہے.(۱) جس کی صحت عملاً ثابت ہو.(۲) پھر وہ جس کی حقیت اور نفس الامر یہ دلائل واضحہ اور حجج نیرہ سے ثابت ہو.(۳) پھر وہ جو آخر مقابلہ میں مظفر ہو.میں نے بارہا سو فسطائیہ اور وجودیہ کو اس پہلی دلیل سے جیتا ہے.بارہا سوفسطائیہ کو کہا کہ عمل میں تم اپنے مذہب کو لا کر دیکھو.جو کوئی تم میں سے بھوکا ہوتا ہے روٹی کھاتا ہے، پیاسا ہو پانی پیتا ہے، کچہری میں ملازم ہو وقت پر کچہری میں جاتا، اپنے اپنے فرض منصبی احتیاط سے ادا کرتا ہے پھر ان ظنون کا ثمرہ کیا ہوا جن کو تم بحث میں لاتے ہو.ایسا ہی قائل وحدت الوجود عام بندوں کی طرح اعمال عبودیت سے کامیاب ہے پھر اس دعویٰ الوہیت کا نتیجہ کیا؟کفارہ کے اعتقاد کا عملی فائدہ بجز بیباکی کے کیا ہے؟ تثلیث سے کیا جدید عملی مقاصد حاصل ہوتے ہیں؟ ابو بکر کے ابطال خلافت سے اب کیا حاصل؟ کیا اب خلافت اس کو مل سکتی ہے جس سے تمہارے زعم میں لی گئی؟ غرض تمام بطلان پر یہ تلوار چلتی ہے.(۲)کامل کتاب وہ ہے جو اپنے دعاوی کے صحیحہ دلائل پر اور اپنے مخالف کی تکذیب اور تکذیب کے دلائل نیرہ پر حاوی ہو.یہ بات توریت موجودہ اور ہماری مطالعہ کردہ بائبل میں نہیں اور نہ اناجیل وگرنتھ میں اور نہ اس وید میں جو ہم نے سنا ہے نہ ژنداوستا میں اور نہ ساکتوں اور بدھوں کی مقدسہ کتب میں.اور نیچریوں برہمووں کے یہاں جو کتاب صحیفہ فطرت ہے اس میں وہ اسرار مشکلہ ہیں کہ تریاق از عراق نمی آید ومار گزیدہ میمیرد.

Page 183

مسیحی (۱).عملاً توریت کے حلال وحرام اور احکام سے سروکار ہی نہیں رہا اور اشاعت بیبلی پر وہ زور لگاتے ہیں کہ اربوں روپیہ پانی کی طرح اس کام میں لگا دیا تعجب اور بہت تعجب.(۲).تحقیق در تحقیق کی فکر اور انجیل مسیح کی کھو بیٹھے ہیں اس کا نام ونشان نہیں مگر ایک فقرہ (ایلی ایلی لماسبقتانی) (۳).نیچر کے دلدادہ ہیں اور غور نہیں کرتے کہ شیر کا بچہ شیر اور اس کے لوازمات اپنے ساتھ رکھتا ہے ان لوازمات سے محروم نہیں مگر مسیح میں الٰہی لوازمات کہاں؟ (۴).زانی کو آتشک خاص اور خاص سوزاک ہوتا ہے اور پھر بھی اعتقاد کہ مسیح کفارہ ہے.کیا گناہ کا اثر جسم پر نہیں پڑتا؟ پڑتا ہے اسی واسطے آدمی ماتھے کے پسینہ سے روٹی کماتا ہے اور حوّا دردِزہ سے جنتی ہے پھر اس لئے آدم کا فرزند انسان معاً بپتسمہ سے شفا یاب کیوں نہیں ہوتا.(۵).تثلیث و کفارہ میں دعویٰ ہے کہ اس میں عقل کو دخل مت دو اور نہیں سمجھتے کہ اگر عقل کو دخل نہ دیا جائے تو کسی غلط مذہب پر بھی کوئی اعتراض نہیں آسکتا.(۶).ایک مسیحی اور اس کا چیلہ کہتا ہے کہ تثلیث کاباریک مسئلہ اب تک مسلمان سمجھے ہی نہیں.پروفیسر کہتا ہے کہ ایشیائی دماغ اس دقیق بات تک پہنچتا ہی نہیں.اس پر کہا گیا کہ مسیح خود ایشیائی اور اس کے نادان چیلے سب ایشیائی تھے کیوں سمجھے یا یہ مسئلہ یورپ کا ایجاد ہے؟ جس قدر اعتراضات ان لوگوں نے اسلام پر کئے بڑھ چڑھ کر ان لوگوں پر عائد ہوتے ہیں اور اپنے دعویٰ کو مدلّل نہیں کر سکتے اور نہ اپنے اعتراضات کو مبرہن.مثلاًجہاد اور غلامی، کثرت ازدواج اور طلاق ان کے معرکۃ الآراء اعتراضات ہیں.لاکن قومی جہادوں میں دنیا میں بے نظیر اور مجرموں مخالفوں کے غلام بنانے میں یہاں تک مبتلا کہ غلاموں کے لئے جو مکان ہے اس کو جہل خانہ نام رکھتے ہیں اور ہم وہاں رکھتے ہیں جہاں ہمارا ہی باپ بھائی فرزند.کثرت ازدواجی کے منکر مگر عملی طور پر جو تقویٰ ہے وہ ظاہر کہ کنچنیاں

Page 184

کیمپوں میں ضرور ہیں.باتوں میں وہ حالت کہ الامان الامان.ظاہر ہے کہ ایک مرد اپنا بیج بہت جگہ رکھ سکتا ہے مگر ایک عورت بہتوں کابیج پرورش نہیں کر سکتی.طلاق کی مشکلات اور جن پر وہ مبنی ہے اس کو دیکھتے ہیں کہ فطری خواہش اولاد کی ہوتی ہے اور بعض عورتیں بانجھ ہیں عورتیں اپنے بعض عوارض سے مرد کو لباس نہیں بنا سکتیں یا ان کا رکھنا مالی اور جانی نقصانات کا باعث ہوتا ہے اور عملی رنگ میں ناجائز طور قضائے شہوات کرتی ہیں جسے امید پڑتی کہ طلاق کو جائز کر دیں.علی الشیعہ (۱).قرآن کریم کے متعلق جیسے تفسیر میں لکھا ہے ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی ترتیب کو عمداً بگاڑا گیا اور اس میں کمی کی گئی.پھر ایسی کتاب کیونکر قابل تمسک ہو سکتی ہے.(پھر حدیث ثقلین میں یہ پہلی بات ہی غیر مفید ہوئی)اسی واسطے صاحب مجمع البیان طبرسی افسوس کرتا ہے کہ تفسیر خاصہ(شیعہ)میں نہیں یا کم ہے.(۲).حدیث کے پہلے مبلغ ان کے نزدیک (اَعَاذَ نَاللّٰہ) منافق، غاصب، مرتد اور بے دین تھے یا تقیہ باز.پس وہ کیونکر مثبت کسی امر ونہی ہو سکتے ہیں.(۳).فقہ و اصول فقہ قرآن وحدیث پر مبنی ہے جب اصل ہی نہیں تو فرع کہاں.(۴).تاریخ میں چاہے واقعات صحیحہ کا بیان ہو یہ لوگ صحابہ کے بیان میں کوئی خوبی ابو بکر و عمر کی اور کوئی نقص اہل بیت کا بیان نہیں کر سکتے ہیں.کاش (البقرۃ : ۱۱۴) پر تدبر کرتے.(۵).تبّر ے کی ضرورت نے اخلاق وتصوف کو پاس بھی نہیں آنے دیا.(۶).علم کلام تو امور بالا پر موقوف ہے اور تقیہ کے باعث ذہنی قویٰ مردہ یا پژمردہ ہو جاتے ہیں.(۷).بڑے بڑے الفاظ میں کسی معصوم کی ضرورت کو ثابت کرتے ہیں مگر عملی فائدہ نہیں دکھا سکتے کہ وہ معصوم کہاں اور اس کے نواب و عمال کب معصوم ہیں.

Page 185

کیمپوں میں ضرور ہیں.باتوں میں وہ حالت کہ الامان الامان.ظاہر ہے کہ ایک مرد اپنا بیج بہت جگہ رکھ سکتا ہے مگر ایک عورت بہتوں کابیج پرورش نہیں کر سکتی.طلاق کی مشکلات اور جن پر وہ مبنی ہے اس کو دیکھتے ہیں کہ فطری خواہش اولاد کی ہوتی ہے اور بعض عورتیں بانجھ ہیں عورتیں اپنے بعض عوارض سے مرد کو لباس نہیں بنا سکتیں یا ان کا رکھنا مالی اور جانی نقصانات کا باعث ہوتا ہے اور عملی رنگ میں ناجائز طور قضائے شہوات کرتی ہیں جسے امید پڑتی کہ طلاق کو جائز کر دیں.علی الشیعہ (۱).قرآن کریم کے متعلق جیسے تفسیر میں لکھا ہے ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی ترتیب کو عمداً بگاڑا گیا اور اس میں کمی کی گئی.پھر ایسی کتاب کیونکر قابل تمسک ہو سکتی ہے.(پھر حدیث ثقلین میں یہ پہلی بات ہی غیر مفید ہوئی)اسی واسطے صاحب مجمع البیان طبرسی افسوس کرتا ہے کہ تفسیر خاصہ(شیعہ)میں نہیں یا کم ہے.(۲).حدیث کے پہلے مبلغ ان کے نزدیک (اَعَاذَ نَاللّٰہ) منافق، غاصب، مرتد اور بے دین تھے یا تقیہ باز.پس وہ کیونکر مثبت کسی امر ونہی ہو سکتے ہیں.(۳).فقہ و اصول فقہ قرآن وحدیث پر مبنی ہے جب اصل ہی نہیں تو فرع کہاں.(۴).تاریخ میں چاہے واقعات صحیحہ کا بیان ہو یہ لوگ صحابہ کے بیان میں کوئی خوبی ابو بکر و عمر کی اور کوئی نقص اہل بیت کا بیان نہیں کر سکتے ہیں.کاش (البقرۃ : ۱۱۴) پر تدبر کرتے.(۵).تبّر ے کی ضرورت نے اخلاق وتصوف کو پاس بھی نہیں آنے دیا.(۶).علم کلام تو امور بالا پر موقوف ہے اور تقیہ کے باعث ذہنی قویٰ مردہ یا پژمردہ ہو جاتے ہیں.(۷).بڑے بڑے الفاظ میں کسی معصوم کی ضرورت کو ثابت کرتے ہیں مگر عملی فائدہ نہیں دکھا سکتے کہ وہ معصوم کہاں اور اس کے نواب و عمال کب معصوم ہیں.

Page 186

دکھا سکتے کہ وہ معصوم کہاں اور اس کے نواب و عمال کب معصوم ہیں.…………… (۱).میں نے ایک بار بمقام مالیر کوٹلہ مولوی شیخ احمد صاحب مجتہد سے عرض کیا تھاکہ( النصر : ۲،۳ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ افواج در افواج لوگ دین الٰہی میں داخل ہوتے رسول اللہ علیہ وسلم نے دیکھے.مجھے ایک فوج کے دس پندرہ نام سنا دو.آپ نے اس کا جواب دیا کہ پہلے اِذَا کی تحقیق نقلی طور پر کلام الٰہی سے ہونی چاہیے کہ آیا زمانہ حادث ہے یا قدیم.پاک ہے یا نجس، متصل ہے یا منفصل وغیرہ وغیرہ.میں نے عرض کیا کہ اسے لکھ دیجیے.پھر یہ قصہ میں نے ایک بار بحضور امام علیہ السلام پیش کیا تو فرمایا آپ تو دور چلے گئے الحمد للہ کا لفظ کفایت کرتا ہے کیونکہ اگر اپنے اندر باہر دائیں بائیں سب منافق ہی منافق تھے توبجائے الحمد کے قرآن اور آپ کا کلام لا حول ولا قوۃ سے شروع ہوتا الحمد للہ کا مقام نہ تھا؟ (۲).یہ لوگ(المومن:۵۲) پر غور کرتے تو حاشا یہ کہہ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تئیس۲۳ برس کی محنت اور دعاؤ ں کا نتیجہ خاتم الکمالات کو یہ دیا کہ کوئی ان کے ہاتھ پر مزکی، مطہر نہ ہوا یُزَکِّیْھِمْ کہاں گیا؟ (النور : ۵۶) کیا ہوا؟ منافق کے بارے میں تو ارشاد ہے (التوبۃ :۷۴) پس صحابہ کرام کیوں کامیاب ہوئے؟ (۳).واقعات صحیحہ.نفس الامریہ سے ان کو تعلق نہیں.نص اگر امام صاحب امام حسین کی ہے تو قبل از شہادت کیوں؟پھر اس کا بروز شہادت توڑنا کیوں؟ اگر ان کے ہاتھ نہیں تو یہ تعظیم کس بنا پر؟ (۴).امام حسین شہادت پا چکے اور شہید کے لئے نص ہے.(آل عمران:۱۷۰، ۱۷۱)

Page 187

پھر جس کو فرح عطا ہوئی اس پر گریہ یعنی چہ؟ (۵).سوز خواں محرم کی آمد پر خوش، اجتماع پر خوش، داد پر خوش، صدر نشینی پر خوش و خورم اور اظہار کرتا ہے رنج کا، غم والم کا! دنیا طلبی اصل غرض ہے اور تھی اس کو جفر کی آڑ میں ہزاروں ہزار مطاعن اور تعب امور کے ذریعہ کام لیا گیا اور امارت بنو امیہ کے ہاتھ آگئی.پھر دوسری کوشش میں عباسی بازی لے گئے.آخری سعی علقمی اور طوسی کی ہوئی اور سلطنت کو مغل لے گئے.نیز اگر فرض کر لیں کہ مولیٰ مرتضیٰ خلیفہ بلافصل بن جاتے تو خلفائِ راشد کے علاوہ کیا تعلیم فرماتے.نکاح نکاح کا شخصی فائدہ حفظ صحت بعض بیماریوں میں، دفع مزاحمت.جو ایک بے تمیزی ہے.بے حیائی بے مروتی ہے.نوعی فائدہ، حفظ نوع، تربیت اولاد، بے تحقیق نطفہ کی کون فکر کرے.اس لئے جسمی طاقت، مالی وسعت پر ارشادہے (النور : ۳۴) فَإِنَّہٗ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب الصوم لمن خاف علی نفسہ العزوبۃ) (الرّوم : ۲۲).اولاد صالح.(البقرۃ : ۲۲۴) تَزَوِّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ (سنن ابو داؤد کتاب النکاح باب النھٰی عن تزویج من لم یلد من النساء حدیث نمبر ۲۰۵۰) جب ہے تو عورت طلاق لے مرد طلاق دے.خلع یا فسخ ہوا گر فوائد باطل ہوں.عورت مرد نفسانی ضرورتیں پوری نہ ہوں.؍؍ قابل ولادت نہ ہو.؍؍ معاشرت کے نقص ہوں.؍؍

Page 188

عورت مرد جائز شرائط کو پورا نہ کرے.نان نفقہ نہ دے سکے.طلاق کے مواقع اور وجوب (۱) بد چلنی پر.جو اغراض نکاح کے منافی ہے.(۲) عورت موذیہ اور خاوند غیر صابر ہو.(۳)جذام.(۴) عورت کے حقوق ادا نہ ہوں اور وہ عفیفہ نہ ہو.وجوب طلاق جب حَکَم تجویز کرے.ایلا پر بعد چار ماہ کے.عدم اتفاق اور صبر نہ ہو سکے اور طلاق بتدریج ، فہمائش، تساہل حسب حکم حکام، شروط طلاق کے فوت میں، فوری، لعان، ہم بستری سے پہلے.خلع میں.کامل مذہب کی خوبی بت پرستی اور اوہام پرستی پر گفتگو ہوئی تو ایک سکھ نے کہا ہمارا مذہب جس میں صرف حمد وثنا الٰہی ہے تمام مذاہب میں شبہات سے بے عیب اور دور ہے.میں نے کہا اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں.کہا مذہب سکھ کا کمال.میں نے کہا کیا آپ اپنی ماں سے یا بیٹی سے شادی کر سکتے ہیں.کہا نہیں.میں نے کہا کیوں؟ کیاآپ کی کامل کتاب میں یہ تعلق ممنوع ہے.بولا یہ مسئلہ ہندو یا مسلمان مذہب سے لیں گے.میں نے کہا افسوس اس کامل کتاب پر جو دوسرے کا محتاج کرے.دہریہ سمع مفید ہے یا غیر مفید اور سمع کب سے افادہ کر رہی ہے.ایک دہریہ نے ہستی باری تعالیٰ پر مجھ سے پوچھا اور کہا کہ میں سمعی دلیل نہیں مانتا.میں نے دعا کی اور اس کے بعد یوں کلام شروع کیا کہ آپ کس طرح یہاں تشریف لائے.تو کہا کہ میں نے سنا تھا آپ بڑے ذہین اور فلسفی ہیں.میں نے کہا کہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ میں اب یہاں ہوں.بولا کہ میں نے سنا تھا کہ آپ اب قادیان میں رہتے ہیں.اس پر میں نے کہا کہ آپ کس سٹیشن پر اترے تھے تو اس کو معاً خیال آ گیا کہ اس نے سنا ہے (بٹالہ اسٹیشن ہے اترنے والو اترو) تو حیران ہو کر خاموش ہوگیا کیونکہ ان تمام امور میں اس نے سمعی دلائل سے کام لیا بلکہ باپ کے بیٹا ہونے میں بھی.

Page 189

میں جب بچہ تھا میری بڑی بھاوج مجھے رکھتی اور کھلاتی تھی رَحِمَہَا اللّٰہُ اور اَنْتَ الْھَادِیْ اَنْتَ الْحَقّ کہتی جاتی تھی.جب مجھے ذرا ہوش آیا تو ماں کے حضور قرآن کریم سنتا تھا اور اَنْتَ الْھَادِیْ اَنْتَ الْحَقّ کی تصحیح کرتا تھا.چند روز والد صاحب کے حضور بیٹھا تو وہی صدا آئی اور سنا اَنْتَ الْھَادِیْ اَنْتَ الْحَقّ صحیح ہے.مدرسہ میں بیٹھا تو اس کی تصدیق پائی.اب سکھ، ہندو، مسلمان، یہود اور عیسائیوں سے بھی اس کی تصدیق ہوئی اور یقین ہوا پھر مجھے جبال و اودیہ و برو بحار کے سفروں کا اتفاق ہوا مگر بھاوج مرحومہ کا قول ہر جگہ صحیح پایا.سفر میں ایک بادشاہ کی مجلس میں بڑے طویل و عریض مقام پر سفید چاندنی بچھی تھی اور نرم نرم ہوا کے باعث اس میں خوشنما تموج ہوتا تھا مجھے وہ تموج بھلا معلوم ہوتا تھا اور اس کی طرف متوجہ ہوا اور اسی حال میں وہ بادشاہ اپنے وزیر سے جو دہریہ مزاج تھا ہستی باری پر شوقیہ بحث کررہا تھا.بادشاہ نے مجھ سے فرمایا کہ ہستی باری کی کوئی دلیل بیان کرو.میں نے عرض کیا کہ یہ دلربا تموج چاندنی کا، بادشاہ نے جب اس دلربا تموج کو دیکھا تو اسے نہایت ہی مرغوب آیا اور مجھے فرمایا کہ کیونکر؟ میں نے عرض کیا کہ اس تموج کا باعث چاندنی کا ارادہ ہے یا اس میں طبعی خواہش ہے.تو وزیر نے کہا کہ یہ تموج ہوا کی خاص رفتار کے باعث ہے اور یہ متاثر چاندنی بے ارادہ ہے.میں نے عرض کیا اس طرح کی رفتار اس وقت ہوا کی طبعی خاصیت سے ہے.تو اس نے کہا کہ ایک خاص انقباض کے باعث ہوا میں یہ خاص رفتار ہے.میں نے کہا کہ یہ انقباض بالارادہ ہے اور مجھے یقین تھا کہ یہ فلسفی ہے دو تین قدم سے زیادہ نہیں چلے گا.تو اتنے میں معاً اس نے کہا کہ غیر معلوم سبب اس انقباض خاص کا ہے.میں نے عرض کیا کہ وہ غیرمعلوم سبب ارادہ رکھتا ہے کہ نہیں.اس پر بولا کہ ایک گریٹ پاور اس انتظام کا موجب ہے.اس پر میں نے اور بادشاہ نے معاً کہا کہ یہ اصطلاحی لفظ ہے اس کواللہ ،پرمیشر ،گاڈجو چاہو کہو.تب اس نے کہا کہ میں منکر نہیں بلکہ طالب دلیل ہوں.اور ایک عظیم الشان شاہزادہ کے حضور ایسا اتفاق ہوا کہ ہم لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے

Page 190

ور نیچے دری تھی منکر ہستی باری تھا.اثنائے گفتگو میں اس نے ایک ڈاکٹر کو اپنا معلم بتایا.میں نے کہا کہ اسے طلب فرما دیں.وہ بلایا گیا.میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ یہ سیاہ تاگا دری میں ہے اس میں فطری خواہش ہے کہ وہ سیدھا اس مقام تک رہے اور پھر یہاں وہاں جاوے.ڈاکٹر بولا.مولوی صاحب ! ایک دری باف کے ارادہ نے اس کو سیدھا یا ٹیڑھا کیا مگر ہم نے اس دری باف کو دیکھا ہے اور تمہارے صانع کو ہم نے نہیں دیکھا.میں نے کہا ڈاکٹر سوچ کر کہو.سوچ کر کہو کیا تم نے اس دری کے دری باف کو دیکھا ہے کیا یہ سچ ہے.تو کہا کہ اس کے مثل کو دیکھا ہے.میں نے کہا کہ کیا اس کے اور مثل ہے.مثل.تو بولا اصل بات یہ ہے کہ میں بچہ تھا جب میں نے مولوی صاحب کو دیکھااس لئے میں اس وقت بحث میں دب گیا ہوں.(الحکم جلد۸ نمبر۷ مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۶،۷) مسائل سر کے بال کتروانا (مستفسر قاضی فتح حسین صاحب کوئٹہ) حضرت اقدس کے موئے مبارک تو کانوں تک ہیں اور قریب ۱۰ سال میں میں نے آپ کے بال کبھی کترے ہوئے نہیں دیکھے.حضرت مولوی نور الدین، حضرت مولوی عبدالکریم صاحبان اور نیز صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب کے بال کترے ہوئے دیکھے جاتے ہیں.حکیم نورالدین صاحب فرماتے ہیں کہ سنن ابوداؤد میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بال کترواتے تھے اور کسی نے آپ پراعتراض نہیں کیا اورنہ قرآن وحدیث میں اس کی ممانعت ہے.کتے کا کپڑوں سے لگنا یا سونگھنا اگرکتا کپڑوں سے لگ جاوے یا کپڑوں کو سونگھ لیوے تو کپڑا ناپاک ہوتا ہے یا نہیں؟ ( مستفسر بابو محمد حسین…) جواب: اگر کتا پانی میں تر نہ ہو اور اس کا جسم خشک ہو تو کپڑے کے ساتھ لگ جانے سے یا اسے سونگھ لینے سے کپڑا پلید نہیں ہوتا.(البدر جلد ۳ نمبر ۳۱،۳۲مورخہ۲۴ ؍اپریل ،یکم مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۷)

Page 191

متقی کون ہے گوجرانوالہ سے آئے ہوئے ایک مولوی صاحب حضرت مولوی نورالدین صاحب سے کلام کرتے رہے جس میں نووارد مولوی صاحب نے یہ کہا کہ ہمارے نزدیک بہت سے متقی ہیں کہ جنہوں نے مرزا صاحب کو نہیں مانا اور چونکہ ہم ان کو متقی اور راستباز تسلیم کرتے ہیں اس لیے ہم بھی نہیں مانتے.حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے اس کا جواب یہ دیا کہ ’’ اگر کوئی ایسا شخص ہے کہ جو ضداورتعصب وغیرہ سے تو پا ک ہے اور سچی ارادت سے حق کا طالب ہے اور اس لیے کسی شخص کو متقی مان کر اس کی تقلید سے وہ حضرت امام علیہ السلام کا منکر ہے تو میرے نزدیک وہ اس وقت تک معذور ہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر حقیقت کوواضح نہ کر دے کیونکہ مؤاخذہ کے لیے ضروری ہے کہ (البقرۃ : ۲۵۷) ہو.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے(الانفال : ۴۳) جو ہلاک ہو وہ بھی بیّن آیات دیکھ کر ہلاک ہوا.اور جو زندہ ہو وہ بھی بیّن آیات دیکھ کر زندہ ہو‘‘.( البدر جلد ۳ نمبر ۲۲،۲۳مورخہ ۲۴؍مئی ویکم جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۲) طاعون کا اصل مقصد اس زمانہ میں جبکہ طاعون نے اپنے خوفناک نظا روں سے اہل عالم کے دل کو ہلا دیا ہے اور اس کی سختی اور تندی ہر موسم میں بڑھتی جاتی ہے.طبعاً یہ سوال ہر ایک کی فطرت میں پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر طاعون سے اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا کیا ہے؟ طاعون کو صرف ایک مرض وبائی قرار دینا اور منجملہ دیگر امراض وبائی کے ایک عام مرض سمجھ لینا تو غلطی ہے.کیونکہ اس کے تواتر دوروں اور تیز رفتار سے اور ایک ترتیبی کارروائی نے اس کو تو ضرور پایہ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ یہ ضرور قہر الٰہی ہے اور ایک بالارادہ قادر مطلق ہستی یعنی خدا تعالیٰ کے امر سے اپنی کارروائی کر رہی ہے.اس مقام پر ہمیں طاعون زدہ علاقوں میں اس کی ترتیبی کارروائی کی نظیر پیش کرنے کی ضرورت مطلق نہیں ہے کیونکہ جن جن مقاموں میں یہ پڑ چکی ہے وہاں کے لوگوں نے خود مشاہدہ کر لیا ہوگا اور جہاں آج تک نہیں پڑی وہاں کے لوگ عنقریب دیکھ

Page 192

لیں گے کہ اس کے حملہ کس طرح ترتیب سے ہر ایک محلہ میں اور ہر طبقہ انسانی پر ہوتے ہیں اور جس طرح سے ایک سرکاری افسر مدارج اور ترتیب کو مد نظر رکھ کر حکام بالا کے احکام کی تعمیل کرتا ہے ویسے ہی بڑے امتیاز اور حفظ مراتب کے ساتھ یہ بھی لوگوں اورمحلّوں کو انتخاب کرتی ہے.عنوان مذکورہ بالا سے ہماری صرف یہ غرض ہے کہ ہم دکھلاویں کہ جب کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے تومنشاء ایزدی کیا ہے کہ اگر وہ پورا کر دیا جاوے تو خدا تعالیٰ اس سے دنیا کو محفوظ رکھ لیوے.مذکورہ بالا سوال کا جواب حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب نے اپنی ایک تقریر میں دیا ہے جسے ہم اپنے الفاظ میں ذیل میں درج کرتے ہیں.نزول عذاب پرارادہ ایزدی قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اس قسم کے عذاب دنیا پر ناز ل ہوتے ہیں تو سرکاری منشا (ارادہ ایزدی) یہ ہوتا ہے کہ لوگ تضرع کریں.اس منشا ء سرکاری کا علم ہونے کے لئے یہ امر ضروری نہیں ہے کہ کوئی مامور بھی اس وقت دنیا میں موجود ہو لیکن اگر کوئی مامور بھی موجود ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ خدا تعالیٰ ایک سخت پکڑ پکڑنا چاہتا ہے.تکالیف اور مصائب اور شدائد میں مبتلاہوکرخود انسان کا دل تضرع کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ فطرت انسانی بھی بذات خود خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مامور ہے جو کہ منشاء سرکاری سے ایسے اوقات میں اسے آگاہ کرتی ہے.آتشک اور سوزاک میں مبتلا انسان کو فطرت بتلاتی ہے کہ تو نے بد عمل کیا اور اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آئندہ تو اس سے بازآ.وہ دل میں ملامت کرتا ہے.نادم ہوتا ہے.حالت بیماری میں اقرار کرتا ہے کہ اب آرام ہو جاوے تو پھر زنا نہ کروں گا،(صحت پا کر وہ پھر کیوں کرتا ہے یہ امر ہماری بحث سے سر دست خارج ہے.)گویا ایک طرف سے فطرت انسانی بھی خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی راہوں کا علم دینے کے لیے ایسا بشیر اور نذیر ہے جو کہ ہر وقت انسان کے اندر موجود ہے لیکن چونکہ یہ کامل رہبر نہیں ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے کتب سماوی اور انبیاء اور رسل کے ارسال کرنے کا سلسلہ بھی دنیا میں قائم کررکھا ہے تاکہ ہدایت اور نجات کی راہ میں کسی قسم کا سقم باقی نہ رہے.کتب سماوی اور انبیاء کے نزول سے بھی منشاء سرکاری یہی ہوتا ہے کہ ہلاکت اور نجات کی راہوں کا علم کامل طور پر حاصل ہو

Page 193

جاوے.بارگاہ الٰہی کایہ منشاء ہرگز نہیں ہو تا کہ ان کتابوں یا مامورین کی پرستش کی جاوے.صرف یہی مقصد ہوتاہے کہ حسب تقاضائے فطرت جس تضرع کی ضرورت دنیا کو ہوتی ہے اس کا علم اور طریق عمل ان کو بتلا کر خدا کی رضا حاصل کرنے کا راستہ کھول دیا جاوے.طاعون کے اصل مقصدتضرع کے لحاظ سے تین گروہ انسانی پس اس وقت طاعون سے اصل مقصد جو تضرع ہے اس کے لحاظ سے انسانوں کے تین گروہ ہیں.اوّل وہ لوگ جن کے پاس کوئی کتاب آسمانی نہیں.ان میں طاعون اس لئے پڑتی ہے کہ امن اور چین کی حالت میں اگر انہوں نے الٰہی مامور فطرت انسانی کی آواز کو نہیں سنا تو اب اس طرح سے سن لیںاور منشاء سرکاری سے آگاہ ہو کر دائمی ہلاکت سے نجات پاویں اور تضرع میں لگ جاویں.دوم وہ لوگ جن کے پاس کتب ربانی اموال قدیمہ اور اخبار و آثار موجود ہیں لیکن مامورموجود نہیں اس قسم کے لوگو ں کی خدا تعالیٰ نے دوہری مدد کی ہے کہ علاوہ ایک رہبر فطرت انسانی کے ایک اور مددگار ان کودے دیا ہے جس کے ذریعہ سے وہ اس طاعون کے زمانہ میں منشاء سرکاری سے آگاہ ہوسکتے ہیں.اگراب تک وہ طاعون میں مبتلا نہیں ہوئے تو تضرع میں مصروف ہو جاویں.سوم وہ لوگ جن میں علاوہ کتابوں کے کوئی مامور بھی ہو تو خدا کی راہوں کا پتہ لگ جانا بہت ہی آسان کا م ہے.فطرت انسانی کی آوازکے سننے میں امکان ہے کہ مغالطہ ہو جاوے.کتابوں کے ذریعہ منشاء ایزدی کے سمجھنے میں ممکن ہے کہ انسان غلطی کر بیٹھے مگر ایک مامور کے ہوتے ہوئے غلطی میں رہنا بہت محال بات ہے.وہ اس لئے نہیں بھیجا جاتا کہ اس کی پوجا ہو بلکہ صرف اس لئے آتا ہے کہ اصل مقصود یعنی تضرع کا علم مخلوق کو دے وے کہ خدا کی رضا ان ایام میں اسی سے وابستہ ہے تم اس میں لگ جاؤ.عام اصلاح کاذریعہ خدا تعالیٰ کو چونکہ عام اصلاح منظور ہے اور اس کا ذریعہ تضرع ہے.اس لئے ہر ایک قوم، ہر ایک ملت خواہ کہیں آباد ہو وہ مواخذہ کے نیچے ہے.پس اے احمدی لوگو! تم مامور کے مرید اور متعلقین میں سے ہو کر اگر تضرع نہ کرو گے تو تم بھی مجرم ہو گے اور دوسروں

Page 194

کی نسبت زیادہ قابل اخذہو گے کیونکہ جو تم کو دیا گیا ہے وہ اوروں کو نہیں دیا گیاہے.مامور تضرع کا قائم مقام نہیں ہے بعض نادان لوگ مامور کو ولی یا بزرگ جان کر اسے خدا کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور صرف اس کے تعلق بیعت کو تضرع کا قائم مقام بنا بیٹھتے ہیں یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ مامور تو اپنی تعلیم دے کر ہر ایک قسم کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے اور وہ تو بار بار یہی کہتا ہے کہ عمل درآمد منظور ہے جس کی نظیر اس وقت کشتی نوح کی تعلیم موجود ہے.پس جو لوگ تضرع کو چھوڑتے ہیں اور حالتوں میں تغیر نہیں کرتے وہ خداکے غضب کے نیچے آئے ہیں.پس چاہیے کہ تقویٰ کے حقیقی مغز کو حاصل کریںاور اپنی ہرایک حرکت اور سکون، معاملات، تعلقات اور لین دین، میل ملاپ، عبادات سب کچھ خدا کی مرضی کے موافق بجا لاویں تاکہ وہ اس سے محفوظ رکھے اور اس بات پر نازاں نہ ہوں کہ ہم نے بیعت کی ہوئی ہے.اصل منشاء مامور کے آنے کا یہی ہے کہ تم تضرع کرو.پس اگر تم تضرع میں مصروف نہیںہو تو تمہارا مامور سے کیا تعلق ہے؟ تضرع کیا ہے جبکہ خدا تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ تم تضرع کرو اس لئے اس امر کا سمجھنا بھی ضروری ہے کہ خود تضرع کیا شے ہے؟ اس کے معنے یہ ہیں آہ و زاری اور نالہ و بکا کر کے کسی کو اپنے پر مہربان بنا لینا یا اسے راضی کر کے مورد انعام بن جانایا اس کے عذاب سے محفوظ رہنا.جب انسان کسی کے آگے زاری کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ میری گزشتہ خطائیں معاف کی جاویں وہ آئندہ ایسا نہ کرے گا بلکہ حا لت میں تغیر کرکے آقا کی رضا مندی کا طالب ہوگا.پس خدا تعالیٰ جو تم سے زاری چاہتا ہے اس کے بھی یہی معنے ہیں کہ تم اپنی حالتوں کو بدلو اور وہ بات اختیار کرو جس سے وہ راضی ہو تا ہے گویا دوسرے الفاظ میں سچی توبہ کے مفہوم کا نام تضرع ہے.بڑے بڑے شریر کیوں نہیں طاعون سے ہلاک ہوئے بعض نادانوں نے یہ بھی غلطی کھائی ہے کہ وہ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑے بڑے شریر کیوں نہیں ہلاک ہوئے وہ کیوں محفوظ ہیں؟ میرا یقین ہے کہ اس قسم کے معترض خدا تعالیٰ کی تعلیم اور اس کی سنت سے محض ناواقف اور غافل ہیں.

Page 195

دیکھو طاعون کی ابتدا حشرات الارض یعنی زمینی کیڑوں سے ہوتی ہے اور اوّل اوّل چوہے اس سے مرے ہیں.پھر ترقی کر کے یہ انسانوں میں آئی ہے.کیا یہ اس امرکاثبوت نہیں ہے کہ طبقہ انسان میں بھی جو لوگ حشرات الارض کے درجہ میںہیں.اوّل طاعون انہی پرپڑنی چاہئے.یعنی اوّل عام اورادنیٰ لوگ اس کا شکار ہوںاورپھرآہستہ آہستہ ترقی کر کے یہ بڑے بڑے اشرار پر حملہ کرے.تم نہیں دیکھتے کہ جب آگ لگتی ہے تو کیا اوّل اوّل بڑے بڑے شہتیر جلتے ہیں یا خس وخاشاک اورچھوٹی چھوٹی لکڑیاں؟ پس یاد رکھو کہ یہی وطیرہ خدا تعالیٰ کے پاس مکر میں ہے اورعنقریب یہ بات کھل جاوے گی کہ بڑے بڑے لوگ بھی ہرگز مستثنیٰ نہیں ہیں.طاعون کا اوّل دیہات وغیرہ میں پڑنے اوربڑے بڑے بلادوامصار کوچھوڑ دینے میںبھی یہی سِرّ ہے کہ اوّل چھوٹے چھوٹے گاؤں جوشہروں کے مقابلہ میں حشرات الارض کے حکم میں ہیں وہ مبتلا ہو لیں تو پھر بڑے شہروں میں آوے.اس مضمون کی طرف ذیل کی آیت اشارہ کرتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے..(الانعام: ۴۳،۴۴).(البدر جلد ۳ نمبر ۲۵مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) تین سوالات کے جوابات (۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء بوقت ۱۰ بجے صبح ) ۱.کیا الہام اور مامورین کا سلسلہ بند ہو گیا ہے؟  الآخر (الانعام:۱۱۶) پھر سوال ہوا کہ اس کے ماقبل و مابعد پر غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ الہام اور مامور ین کا سلسلہ بند ہو گیا ہے.فرمایا کیا کلمہ کے یہ معنے ہیں کہ اب الہام اور مامورین کا سلسلہ بند ہو گیا اور کیا اس کے ما قبل و ما بعد پر غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے.ہر گز نہیں اس کے معنے تو یہ ہیں کہ اللہ

Page 196

کے سوائے کوئی حاکم نہیں اس نے تفصیل کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور جن کو یہ کتا ب نازل فرمائی اور جن کو یہ کتاب دی ہے وہ بھی اس کو جانتے ہیں کہ ضرور یہ ربّ کی طرف سے ہے.تیرے ربّ کی باتیں پوری ہوچکی ہیں ان کو کوئی بدلا نہیں سکتا.کیسی سیدھی بات ہے کلمہ بات کو کہتے ہیں پھر کیا (الانعام:۳۵) کے یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ قرآن کو کوئی شخص غلط نہیں لکھ سکتا یا کیا حافظ لوگ بعض وقت اس کو غلط نہیں پڑھتے.پھر کیا اس کے یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ کوئی شخص اس کو بدلا نہیں سکتا یا کیا آئندہ کوئی کلمہ نازل نہیں ہو گا بلکہ اس کے معنے تو یہ ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے.تیرے ربّ کی بات صدق اور انصاف سے ٹھیک پوری ہوئی اور کبھی کوئی اللہ کی باتیں بدلانے والا نہیں.جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا پورا ہو کر رہتا ہے مثلاً فرمایا (المؤمن:۵۲) تو ہمیشہ پورا ہوا.نبی کریم کو تسلی دی کہ تیرے ساتھ بھی وعدے ہوئے کہ تو مظفر ومنصور ہوگا اور تیرے دشمن ناکام ہوں گے یہ باتیں پوری ہو کرہی رہیں گی.پس تیرے ربّ کی باتیں سچی ہیں یعنی جو کچھ پیشگوئیاں خدا نے رسول کی نسبت بتلائی ہیں یہ اٹل ہو کر رہیں گی اور ضرور پوری ہوں گی مثلاً کفار مکہ کو کہا (التحریم:۸) یہ اٹل ہے اور ضرور بدلہ مل کر رہے گا پھر کیسی پوری ہوئی.پھر کیا یہ لوگ مال خرچ کریں گے تیری مخالفت پر،مگر ان کواس کے خرچ پر سوائے افسوس کے کچھ نہ ملے گا اور مغلوب کئے جاویں گے.کیا یہ بات اٹل پوری ہوئی کہ نہیں.کیونکہ وہ توصدقاً ہیں یعنی سچ ہو کر رہنے والی ہیں.ایک دفعہ عروہ نے آنحضرت سے آکر کہا کہ یہ تمہارے ساتھ مختلف قوموں کے لوگ ہیں ایک جتھانہیں.یہ تمہارے آڑے وقت پر کام نہیں آویں گے اور میں اس کا تجربہ کار ہوں.تمہیں اس میں ندامت ہو گی.مگر یہ اس کا ظن تھا اور یہ ظن غلط نکلا.اب بھی لوگ اسلام کی بربادی کے سامان تلاش کر رہے ہیں.مگر دیکھو کہ انہیں کے گھرمیں اسلام گھستا جاتا ہے اور ایک دن ان کا یہ ظن کہ اسلام برباد ہو جائے گا غلط نکلے گا.یہ کیسی سیدھی

Page 197

ت ہے کسی احمق نے اسی آیت پر یہ بھی کہا ہے کہ انجیل مبدّل نہیں ہوئی ، ہم کہتے ہیں کہ یہ تو صاف بات ہے کہ وہ انجیل جو مسیح کی زبان میں تھی یہ نہیں.کیا مسیح اردو یا انگریزی بولتا تھا سوائے اس کے لَامُبَدِّلَ کے معنے اور کوئی بن سکتے ہی نہیں.پھر فرمایا ہے.  (الانعام:۳۵)یعنی گذشتہ انبیاء کی باتیں تیرے پاس پہنچی ہیں.یعنی جس طرح ان کے مخالف ہمیشہ ہلاک ہوتے رہے اسی طرح اب تیرے مخالفوں کی بات بھی اٹل ہے.پھر فرمایا ہے. .کیا یہ پوری ہوئی کہ نہیں.مثلاًمرزا صاحب کی مخالفت پر لوگوں نے کتنا زور لگایا ہے.مگر وہی ِ کیسا پورا ہو رہا ہے.اندر ہی اندر کشش ہو رہی ہے.کوئی ہے جو اس کو ٹلا دیوے.۲.عربی کی اقسام اور سیکھنے کا طریق عربی سیکھنے میں ہماری یہ رائے ہے کہ عربی پانچ قسم کی ہوتی ہے.پہلے سوچے کہ اس کو کونسی قسم کی ضرورت ہے.اوّل قرآن کریم کی عربی.یہ تو قرآن ہی پڑھنے سے آوے گی.دوئم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عربی.یہ آنحضرت کے کلمات یعنی احادیث کے پڑھنے سے آوے گی.سوئم صحابہ و تابعین و ائمہ دین کی عربی.یہ صحابہ و تابعین و آئمہ دین کے اقوال پڑھنے سے آوے گی.چہارم ان بد معاشوں اور شہدوں یا ایام جاہلیت کے شعراء و خطباء کی عربی جو زمانہ جاہلیت میں گذرے ہیں.یہ ان کے اشعار و خطب پڑھنے سے آوے گی.قرآن کریم سیکھنے کے اصول اب قرآن کے سیکھنے کے اصول یہ ہیں اوّل تقویٰ.تقویٰ کے متعلق ابتدائی حالت اتنی تو ہوکہ ایک شخص اپنے طور پر گو خدا کی ہستی کو نہیں جانتامگر جتنے علوم دنیا میں شروع ہوئے ہیں پہلے فرضی طور پر شروع ہوئے ہیں جیسے یو کلڈ.پھر بات فرض سے شروع ہوئی اور انجینیئرنگ اور اسٹرانومی تک جا پہنچے مگر بشرطیکہ فرض سچا اور مفید ہو.پھر خدا کی ہستی

Page 198

کو غیب الغیب رنگ میں فرض کرے جیسے قرآن نے فرمایا  (البقرۃ:۴) اور اس کو اسی طرح اپنے رنگ میں پکارے اور کچھ غرباء اور مساکین کی مدارات اور دستگیری کرے اور فرضی طور پر ہی یہ بھی مان لے کہ خدا کسی کو کچھ عطا بھی کرتا ہے اور اس کا مکالمہ بھی ہوتا ہے پھر فرضی دعا اور فرضی امداد سے کام لے.اس کے سوائے کبھی سچی راہ مل سکتی ہی نہیں.دیکھو ایک پولیس انسپکٹر کو ایک چور کہتا ہے کہ فلاں شریف آدمی کے گھر میں میں نے اپنا مال مسروقہ رکھا ہوا ہے اور وہ جھٹ وہاں پہنچ کر تلاشی لے لیتا ہے.یہ کبھی خیال نہیں کرتا کہ یہ تو چور اور بد معاش ہے اس کی بات کا کیا اعتبار ہے پس اس کو ایمان بالغیب کہتے ہیں.پھر دعائوں میں اعلیٰ درجہ کی دعا سورہ فاتحہ ہے.یہ سیدھی اور صاف دعا ہے اور چاہیے کہ بدُوں نماز کے بھی ہر وقت اس دعا کو مانگے.یہ ایک ایسی دعا ہے کہ اگر انسان متعصب نہ ہو تو کوئی مذہب اس سے انکار نہیں کر سکتا اور نہ اس کی مثل لا سکتا ہے.میں نے ایک برہمو سے پوچھا کہ تمہارا اصل اصول کیا ہے اس نے کہا دعا.میں نے کہا تم غلط کہتے ہو.کہا کس طرح.میں نے کہا مشاہدہ.کہا وہ کیوں کر.میں نے کہا تم اپنی کوئی اعلیٰ درجہ کی دعا سناؤ تو سہی.پھر اس کو شرم آگئی اور کچھ دیر چپ ہو کر کہا کہ آپ ہی سنائیں.میں نے کہا دعویٰ تمہارا اور سناؤں میں.خیراس کے اصرارکرنے پر میں نے سورہء فاتحہ میں بہت ساری باتیں مد نظر رکھ کر سنانا شروع کیا تو اس نے جھٹ نوٹ بک نکال کر نوٹ کرنے شروع کر دئیے اور کہا کہ اصل دعا یہی ہے.پھر قرآن سمجھنے کا خاص قاعدہ جو میرا اپنا مجرب ہے پہلا تو یہ ہے جو میں نے بیان کیا ہے.دوسرا.تقویٰ کے بعد جب قرآن پڑھے تو اپنا خیال و اعتقاد ،اپنا ارادہ، اپنی خواہش مقدم نہ رکھے بلکہ یہ خیال رکھے کہ جو قرآن کا حکم ہو گا وہی میرا ایمان ہوگا.پھر دُعا کر کے شروع کرے اور یوں یقین کرے کہ یہ قرآن اس وقت مجھ پر نازل ہو رہا ہے.میں آدم ہوں یا فرشتہ یا ابلیس و شیطان.میں فرعون ہوں یا موسیٰ.وغیرہ وغیرہ.کُل قرآن کو اپنے اوپر چسپاں کرتا جاوے.

Page 199

پھر ایک نوٹ بک پاس ہو جو بات سمجھ میں نہ آوے اس کو اس میں درج کرتا جاوے ، پھر جب اس طرح ایک دور قرآن کا ختم کرے تو پھر بیوی کو بلائے کہ آؤ اب دو شخصو ں پر قرآن نازل ہو رہا ہے.پھر اس میں بھی ایک نوٹ بک رکھے.پھر تیسری دفعہ خاص خاص دوستوں، احباب اور خادموں کو اور بچوں کو بلاکر سناوے کہ اب ان سب پر قرآن نازل ہو رہا ہے.پھر چوتھی دفعہ عوام مسلمانوں کو سنا وے اور پانچویں دفعہ غیر مذاہب کو سناوے.اس طرح پر خدا تعالیٰ رفتہ رفتہ کل مشکلات کو حل کر دے گا.مجھے ایک دفعہ الہام ہوا کہ قرآن کے متعلق کوئی مخالف تم پر اگر کسی قسم کا اعتراض کرے گا تو ہم تمہیں فوراًحل بتا دیویں گے.پھر میں نے توان متذکرہ بالا طریق سے قرآن سیکھاہے.۳.مسیح کی پیدائش کے متعلق سوال و جواب بچہ بننے کے مختلف مراحل لڑکے چار قسم کے ہوتے ہیں.اوّل وہ جو بالکل باپ کے خط و خال اور عادات و اطوار بلکہ امراض بھی لے کر آتے ہیں.دوئم وہ جو باپ سے نرالے اور ماں اور اس کے رشتہ داروں کے رنگ پر ہوتے ہیں.سوئم وہ جو نہ ماں اور نہ باپ اور نہ ان کے رشتہ داروں کے طرز پر ہوتے بلکہ بالکل نرالے ہوتے ہیں.چہارم وہ جو طرز انسانیت سے باہر ہوتے ہیں بلکہ صرف چار پایوں کی طرح پر ہوتے ہیں.اس میں سر یہ ہے کہ جس وقت نطفہ رحم میں جا تا ہے.تو ہزار ہا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اس کُل پانی کو باہر نکال دیتی ہیں.انسان گن نہیں سکتا کہ کتنی دفعہ جماع کیا اور صرف ایک بچہ پیدا ہوا.پھر جن کی اولاد ہوتی ہے ان کی کثرت سے تو منی خارج ہو جاتی ہے اور ایک تھوڑا سا خاص حصہ اندر رہ جاتا ہے باقی سب باہرچلا آتا ہے اور چھٹانک بھر میں سے صرف ایک کیڑی کے برابراندر رہتا ہے اس میں بھی سینکڑوں جانور ہوتے مگر وہ بھی سب ضائع ہو جاتے.مثلاًدیکھو آم کے پھول.پہلے ان کو آندھیاں ضائع کرتیں.پھر کیری کو کچھ تو جانور کھاتے

Page 200

ور کچھ انسان اور بہت سارے حصہ کو اس میں سے بھی ہواگرا دیتی.پھر جو باقی رہتے اس میں سے چٹنی، اچار اور مربہ کے واسطے توڑے جاتے.پھر جوان سب صدموں کے بعد باقی رہ جاتے وہ بھی سارے کے سارے ایک دم نہیں پکتے.پھر مصلحت الٰہی ایسی ہوتی کہ کروڑ در کروڑپھول میں سے سو پچاس پھل پکتا ہے.اسی طرح عورت کو بھی ایک شہوت کا جوش ہوتا ہے.پس علم والے لوگ جانتے کہ جس طرح مرد کے اندر سے رطوبت نکلتی اور اسی قدر عورت کے اندر سے بھی نکلتی ہے اور وہ بھی اسی طرح ضائع ہوتی جس طرح مردکی.پھر لکھا ہے کہ کوئی خاص حصہ ماں کا اور کوئی خاص حصہ باپ کا آپس میں پیوست ہو جاتا ہے اور اس کی یہ شکل بنتی ہے..پھر اس کے درمیان والا ٹکڑا اس میں سے نکل کر الگ جا کھڑا ہوتا پھر اس کی یہی شکل بن جاتی ہے اور اس کا درمیانی ٹکڑا الگ جاکھڑا ہوتااور اس کی پھر یہی شکل بنتی.علیٰ ہذا القیاس.ایک عرصہ کے بعد ایک مدوّر شکل میں ایک اس طرح کی صورت بنتی. پھر ان کل شکلوں میں سے جو ہزار در ہزار ہوتی ہیں صرف ایک کا بچہ بنتا باقی سب ضائع ہو جاتی ہیں.چنانچہ جب بچہ پیدا ہوتا تو اس کے ساتھ کتنا بڑا گند کا لوتھڑا نکلتا جو وہ ضائع شدہ اجزا ہوتے ہیں.اس میں سِر یہ ہے کہ جو حصص کچھ قابلیت رکھتے ہیں وہ چن کر الگ کر لئے جاتے ہیں پھر ان کے اخلاق اور عادات اس بچہ میں آجاتے ہیں.اس میں غذاؤں اور ملکوں کی آب وہوا کا بھی کچھ حصہ ہوتا ہے.اب معلوم نہیں کہ جس جز وکا بچہ بنا ہے وہ ماں کا ہے یاباپ کا.ہاں باپ کا ہونا نہ ہونا وہاں بھی مرزا صاحب نے مانا ہے کہ مریم کا خاوند کوئی شخص یوسف نامی تھا.رہی یہ بات کہ مسیح کس کے نطفہ سے تھا.پھر اب ہمیں تو ویسے بھی یہ پتہ نہیں مل سکتا کہ وہ بچہ باپ کے اجزا سے ہوتا …… یا ماں کے اجزاء سے پیدا ہوا ہے.

Page 201

اعتراض کرتے ہیں اور افسوس سے کہا جاتا ہے کہ اکثر مسلمان بھی ان اصولوں سے ناواقف ہیں ورنہ ہم جو کچھ حضرت اقدس مسیح موعود کے متعلق استشہاد قرآنی پیش کرتے ہیں ان کے سمجھنے میں انہیں دقت نہ ہوتی.مثال کے طور پر آپ اسی آیت کو لیجئے جس پر اعتراض کیا جاتا ہے.جو معنی ہمارے مخالف اس آیت کے کرتے ہیں کہ ہر ایک اہل کتاب مسیح پر ایمان لے آئے گا.یہ معنے اگر کئے جاویں تو اس سے ایسی قباحت لازم آتی ہے جس کا کوئی مسلمان قائل نہیں ہو سکتا اور قرآن مجید میں عظیم الشان اختلاف پیدا ہوجاوے گا.حالانکہ قرآن کریم کی صداقت اور اس کے منجانب اللہ ہونے کی یہ زبردست دلیل ہے کہ اس میں اختلاف نہیں جیسا کہ فرمایا ہے  (النساء : ۸۳) کیونکہ اس صورت میں معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ مسیح کے آنے پر سب اہل کتاب اس پر ایمان لے آئیں گے.اب جائے غور ہے کہ کیا مسیح کی آمد ثانی پروہ سب اہل کتاب جو اس وقت سے پہلے مرچکے ہوں گے.پھر زندہ ہوجائیں گے؟ جو صریحاً باطل ہے.اور کوئی مسلمان ایسا عقیدہ نہیں رکھ سکتا اور اگر یہ ہو کہ صرف اس زمانہ کے اہل کتاب ایمان لائیں گے تو پھر کُل کُل نہ رہا.پھر دوسری خرابی ایسے معنے کرنے میں یہ ہوگی کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح کو بطور وعدہ بشارت دیتا ہے  (اٰل عمران : ۵۶) یعنی اللہ تعالیٰ تیرے متبعین کو تیرے منکرین پر قیامت تک غالب رکھے گا.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ قیامت تک مسیح کے منکروں کا وجود بھی رہے.پھر اس آیت کے یہ معنے کس طرح صحیح ہوں گے؟ اس کے سوا دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (المائدۃ : ۱۵) یعنی ہم نے قیامت تک عیسائیوں اور یہودیوں

Page 202

میں عداوت اور بغض ڈال دیا ہے.اس آیت سے بھی صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں قیامت تک بغض اور عداوت کا رہنا لازمی ہے لیکن اگر آیت  کے وہی معنے تسلیم کئے جاویں تو اس آیت کا مضمون صادق کس طرح ٹھہرے گا؟ پھر ایک اور آیت ہے  (المائدۃ : ۶۵) یہ آیت بھی اس مضمون کی ہے اور پھر ایک اور آیت  (ھود : ۱۱۹) بھی یہی ظاہر کرتی ہے.ان تمام آیات پر یکجائی نظر کرنے سے یہ امر نہایت صفائی کے ساتھ کھل جاتا ہے کہ یہود اور عیسائیوں میں قیامت تک مخالفت اور عداوت باقی رہے گی لیکن اگر سب کے سب ایمان لے آئیں تو پھر ان آیات کی معاذاللہ تکذیب کرنی پڑے گی.بلکہ قرآن مجید پر اعتراض کرنے کا موقع دینا ہوگا.اور ہماری تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ یہودی اور عیسائی باہم مل کس طرح سکتے ہیں کیونکہ یہودی مسیح کی نبوت تک کے بھی قائل نہیں بلکہ ان کو معاذاللہ ملعون ٹھہراتے ہیں اور عیسائی ان کو خدا بناتے ہیں اور تورات میں کسی خدا کے آنے کی کوئی بشارت دی نہیں گئی.اگر بفرض محال مان بھی لیا جاوے کہ وہ تورات کو چھوڑ کر مسیح کو مان لیں گے تو وجہ اختلاف باقی نہ رہے گی.اس کے علاوہ ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ یہودیوں نے اول مسیح کا انکار کیوں کیا؟ اس کی وجہ تو وہی ملاکی نبی کا صحیفہ تھا جس میں مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا کا آنا لکھا تھا اور یہی سوال علماء یہود نے مسیح سے کیا تھا.جنہوں نے ایلیا کاآنا برنگ یوحنا بتایا.اب ان کی دوبارہ آمد پر خواہ وہ بفرض محال آسمان سے بھی اترتے کیوں نہ نظر آجائیں یہودی جب تک ایلیا کو اترتا نہ دیکھ لیں گے کبھی مسیح کو مان ہی نہیں سکتے.پس ایسا خیال نہ صرف قرآن کریم کی ان آیات کے متعارض اور مخالف ہے بلکہ عقلی دلائل اور مشاہدہ بھی اس کے خلاف ہے اور علاوہ بریں مسیح پر ایمان لانے سے مسلمانوں کو کیا فائدہ اور خوشی؟ اس میں یہ تو کوئی ذکر نہیں کہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لاویں گے.غرض یہ معنے جس رنگ اور پہلو سے دیکھو غلط ہیں.اس لئے ضروری ہوا کہ اس آیت کے وہ معنے کئے جاویں جو قرآن کریم کی کسی آیت کے متعارض واقع نہ ہوں بلکہ مصدق اور موید ہوں.چنانچہ وہ معنے ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں ان معانی میں کسی

Page 203

تاویل رکیکہ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور قرآن کریم کی عظمت کو ظاہر کرنے والے ہیں اس آیت سے اوپر قتل مسیح یاان کے مصلوب ہونے کی بحث اللہ تعالیٰ نے شروع فرمائی ہے.جیسا کہ فرمایا   (النساء : ۱۵۸ تا ۱۶۰) اور یہودیوں کے اس قول پر نظر کرو کہ ہم نے یقینا مسیح عیسیٰ ابن مریم کو جو اللہ کا رسول ہے قتل کر ڈالا بحالیکہ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا اور نہ ان کو صلیب دی ہاں یہ تو ہوا کہ وہ مشابہبالمصلوب ہوگیا اور بے شک جو لوگ قتل مسیح میں اختلاف کرتے ہیں وہ اس بارہ میں شک میں ہیں ان کو اس قتل کا یقینی علم نہیں وہ صرف ظن کی اتباع کرتے ہیں یہودیوں نے یقینا یقینا اس کو قتل نہیں کیا.بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو طبعی موت سے وفات دے کر ان کا رفع کیا (جو مقتول یا مصلوب کا نہیں ہوتا) اور اللہ تعالیٰ عزیز و حکیم ہے.اور کوئی بھی اہل کتاب میں سے نہیں جو قتل مسیح پر اپنی موت سے پہلے ایمان نہ لارہا ہو اور قیامت کے روز مسیح ان پر گواہ ہوگا.ان آیات پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مختلف طرز اور رنگ میں نفی قتل کی ہے.اور یہی مضمون زیر بحث چلا آتا ہے اور یہ واقعات اور مشاہدہ صحیحہ کے موافق ہے.کیونکہ ہر ایک یہودی اور عیسائی نے مسیح کے اس قتل بالصلیب کو اپنا ایمان مانا ہے عیسائی تو اس پھانسی کو کفارہ کے رنگ گناہوں میں ایمان مانتے ہیں اور یہودی ان کے ادعائے نبوت کے ابطال کے لئے.ایسی صورت میں لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ کے معنے کیسے کھلے اور صاف ہیں.ہر ایک یہودی اور عیسائی اس پر ایمان لایا ہے اور لا رہا ہے اور لائے گا.امید ہے کہ اس قدر تصریح اس آیت کی کافی سمجھی جاوے گی.اگر اس پر کوئی اور کلام ہو تو اس پر پھر نظر کی جاسکتی ہے.

Page 204

سود کے جواز یا عدم جواز کے متعلق ارشاد سوال دوم.سود کے جواز یا عدم جواز پر جو آج کل بحثیں ہورہی ہیں جناب مرزا صاحب کا اس بارہ میں کیا ارشاد ہے؟ الجواب.حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور متعدد مرتبہ سود کے متعلق مختلف پیرایوں میں پوچھا گیا ہے آنحضرت جیسا کہ قرآن شریف اور نبی کریم ﷺ کے کلمات طیبات اور تعامل اسلام سے پایا جاتا ہے ہر قسم کے سود کو حرام بتاتے ہیں اور کسی صورت میں اس کے جواز کے قائل نہیں اور ہوں بھی کس طرح جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  (البقرۃ : ۲۷۷) اللہ تعالیٰ نے ربا کے محق کرنے کا ارادہ کیا ہے اور دوسری جگہ فرمایا  (البقرۃ : ۲۷۶) یعنی وہ لوگ جو سود لیتے ہیں نہیں اٹھیں گے قیامت کے دن مگر اس طرح جیسے شیطان نے مس کر کے انہیں دیوانہ بنادیا ہو.اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا لَعَنَ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہٗ وَکَاتِبَہٗ وَشَاہِدَیْہِ(السنّۃ للمروزی ذِکر سنن النبی حدیث نمبر۱۸۹) یعنی آنحضرت ﷺ نے سود کھانے والے کھلانے والے اور اس کے گواہوں اور وثیقہ لکھنے والوں پر لعنت کی ہے.اس سے بڑھ کر اور تہدید کیا ہو اللہ تعالیٰ سود کو حرب من اللہ ٹھہراتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ اس کو حرام ٹھہراتا ہے رسول کریم ﷺ لعنت بھیجتے ہیں تعامل اسلام میں کوئی اس کا مجوز نہیں.پھر اس کے جواز کی کون سی دلیل شرعی ہوسکتی ہے یہاں تک مشاہدہ صحیحہ میں بھی اس کے خلاف ہے.بڑے بڑے بنکوں کے دیوالے نکلتے آپ نے دیکھے نہیں تو اخبارات میں ضرور پڑھے ہوںگے.یہ آفت اسی سود کی وجہ سے آتی ہے اور ایسے باریک در باریک اسباب کے ذریعہ سے آتی ہے کہ دوسرے اس کو نہیں سمجھ سکتے.جن لوگوں نے سلطنت لکھنو کے زوال کے اسباب پر غور کی ہے وہ منجملہ اسباب کے ایک وجہ سود بھی ٹھہراتے ہیں جو پرامیسری نوٹوں کے رنگ میں لکھنو کے اعیان سلطنت میں مروج

Page 205

ہواتھا اور آخر ان کو اپنے روپیہ کے ضائع ہونے سے بچانے کے لئے وہ رنگ اختیار کرنا پڑا جو سلطنت کی تباہی کا موجب ہوا.غرض سود ہر حال میں قطعاً منع ہے.موتیٰ کی سماعت اور کلام و طعام کے ثواب کے متعلق ارشاد سوال سوم.موتٰی کی سماعت یا کلام و طعام کے ثواب کے متعلق مرزا صاحب کیا فرماتے ہیں؟ الجواب.سماع موتٰی حدیثوں سے ثابت ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حاجت روا بھی ہیں مجھے ان لوگوں پر افسوس آتا ہے جو برخلاف حدیث سماع موتیٰ کے تو قائل نہیں لیکن مردوں سے حوائج طلب کرنے میں تامل نہیں کرتے.ثواب کے متعلق یاد رہے کہ موتٰی کو نقدی کا دعا کا ثواب ضرور پہنچتا ہے روزہ اور حج کے ثواب کے لئے بھی احادیث موجود ہیں.کلام کے ثواب کے لئے علماء ربّانی کی شہادت موجود ہے کہ انہوں نے کشف میں دیکھاکچھ احادیث اور آثار بھی اسی باب میں ہیں گو ان میں ضعف ہے البتہ حضرت صاحب کی زبانی نہیں سنا کہ کلام کا ثواب کس طرح پہنچتا ہے.دعا اور جنازہ کی نماز کا ثواب پہنچنا آپ نے فرمایا ہے.(الحکم جلد ۸نمبر ۲۳و ۲۴ مورخہ ۱۷ و ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳،۱۴) لکنت کا علاج ایک شخص نے اپنے حالات بذریعہ خط کے حکیم نور الدین صاحب کو اس طرح سے لکھے.وہ ایک لکنت والے استاد سے عربی پڑھا کرتا تھا اورا سے لکنت کرتے ہوئے دیکھ کر زبان بھی لکنت کرنے لگی حتیٰ کہ اسے یہ مرض ہوگیا اور یہاں تک ترقی کی کہ اس نے بولنا ترک کردیا.بہت علاج کئے مگر فائدہ نہ ہوا.حکیم صاحب نے اسے جو علاج لکھا.وہ یہ ہے.علاج.خدا تعالیٰ کی ذات سے مایوس نہ ہونا چاہئے وہ لکنت کو بھی دور کر سکتا ہے.مغز بادام مقشر اور مصری کو صبح کھایا کریں اور ایک رتی نوشادر زبان پر ملا کریں.رات کو کلونجی ایک ماشہ پانی سے کھا لیا کریں.بولنے سے کبھی نہ رکیں ہر وقت بولنے کی کوشش کریں.(ا لبدر جلد ۳ نمبر ۳۰ مورخہ ۸؍ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ۸)

Page 206

ہر ایک چیز کو موت کیوں لگائی گئی؟ ہر ایک چیز چاہتی ہے کہ چونکہ میراخالق لا انتہا ہے اسی طرح میں بھی لا انتہا بن جاؤں پھر جب وہ بڑھنا چاہتی اور اپنی حد سے بڑھنے لگتی تو اس کو نابود کیا جاتا ہے اور اس کے صرف وہی اجزاء باقی رکھے جاتے ہیں جو اس کی تخم ریزی کے لئے باقی رہ سکیں تاکہ اس کا نام ونشان دنیا سے نابود نہ ہو جاوے مثلاً اگر ایک گائے ہو اور وہ نو۹ ماہ کے بعد ایک بچہ دیوے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد ان کے پھر بچہ پیدا ہوں اور رفتہ رفتہ ان کے بچہ پیدا ہوتے جاویں اور وہ سب محفوظ رہیں تو ایک ہزار برس کے بعد دنیا میں کل جگہ صرف گائیوں سے ہی پُر ہو جاوے اور انسان اور دوسری مخلوقات کے واسطہ جگہ باقی نہ رہے.یا مثلاًاگر بڑھ کے درخت کے تمام بیجوں کو محفوظ رکھ لیا جاوے اور ان سب سے بڑھ پیدا ہوں اور سب محفوظ رہیں تو کچھ عرصہ کے بعد دنیا میں سوائے بڑھ کے اور کچھ نظر نہ آوے علٰی ھٰذا القیاس.ہم جب بچہ تھے تو ہمارا قد کتنا تھا اور آہستہ آہستہ بڑھتا گیا مگر کچھ عرصہ کے بعد اس حد تک پہنچا تو پھر آئندہ اس کی ترقی بند ہو گئی.پس اسی طرح ہر ایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے جب وہ اس حد تک پہنچ جاتی تو پھر اس کو روک دیا جاتا ہے.ضرورت قرآن ایک شخص پادری نے کتاب لکھی ہے عدم ضرورت قرآن اور اس کی دلیل یہ لکھی ہے کہ چونکہ یہ ساری صداقتیں پہلی کتابوں میں موجود ہیں اس لئے اس کی ضرورت نہیں.فامّا الجواب.انجیل کی ساری تعلیم توریت میں موجود ہے پھر انجیل کی ضرورت نہ تھی.توریت کی تعلیم قانون بابلیوں میں موجود تھی پس توریت کی ضرورت نہ تھی.قانون بابلیوں کی تعلیم وید میں موجود تھی پس قانون کی ضرورت نہ تھی اور وید کی تعلیم ژند وست میں موجود تھی پس وید کی ضرورت نہ تھی اور برہمو کہتا ہے کہ یہ سب احکام نیچر میں موجود ہیں پس کسی کتاب کی بھی ضرورت نہ تھی

Page 207

یسرنا القرآن کے معنے پھر ایک شخص نے مجھ پر سوال کیا کہ یسرنا القرآن کے کیا معنے ہیں جبکہ قرآن کے معانی بڑے ادق اور مشکل ہیں.جواب (۱).نیچر یا عقل یا کتب سے متفرق طور پر مضامین اگر تلاش کرنے پڑتے تو کتنا مشکل ہوتا یہ ہم پر قرآن کا احسان ہے کہ جہان بھر کے متفرق اقوال سچائی اور توحید کے بھرے ہوئے ہمارے لئے یکجا کر دیئے.پھر ہمیں یہ دقّت ہوتی کہ جہان بھر کی کتابیں جو بعض مل سکتیں اور بعض کا ملنا ناممکن ہوتا، تلاش کر کے ان کو پڑھتے اور پھر ان میں سے سچ اورجھوٹ کو الگ کرتے اور نیک وبد کی تمیز کرتے پھر اس سب کو کسی خاص زبان میں ایک جگہ جمع کرتے اس قدر تضیع اوقات اور ان تمام دقتوں سے قرآن کریم نے ہم کو بچا لیا.(۲).پھر برہمو کہتا ہے کہ یہ سب احکام کانشنس میں جمع ہے.ان کی اطلاع کی ہمیں ضرورت نہ تھی.پر پہلے کوئی شخص ماں سے نکاح کرتا اور اس سے جماع کر کے بچہ پیدا کرتا اور پھر اس کے بدنتائج معلوم کرتا تو پھر وہ کہہ سکتا کہ ماں سے جماع کرنے سے یہ نقصان ہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے.پھر کوئی دوسرا شخص کہتا کہ تمہاری تحقیقات اور تجربہ غلط ہے ہم تجربہ کرتے ہیں اور قرآن کریم نے ہم کو ان ساری دقتوں سے بچا لیا.(۳).پھر قرآن کریم نے تمام دعاوی کو دلائل سے ثابت کر دکھایا ہے.(۴).پھر قرآن جامع ہے تمام مختلف چیزوں کا.جیسے فرمایا. (النحل : ۶۵) یعنی قرآن کریم اختلافات کو بیان کرنے کے واسطے آیا ہے مثلاً کہیں آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ وغیرہ انبیاء کی موت کا کہیں ذکر نہیں کیا اگر کیا ہے تو صرف مسیح کا ہی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ فیصلہ آنحضرت کے تیرہ سو برس بعد ہی ہوگا.پھر اس کی مثال دی ہے(البقرۃ :۲۳) یعنی یہ غلہ اناج وغیرہ

Page 208

میٹر (Matter) ہَوا اور زمین میں موجود ہوتا ہے پھر جب تک آسمان سے پانی نازل نہ ہو اور اس سے ان میں نشوونما پیدا نہ ہوں تب تک وہ غذا تمہارے کھانے کے قابل کب ہو سکتی ہے.ادھر سے ہمارا مینہ آوے نیچے سے وہ دانہ نشوونما پاوے تب تم اس کو حاصل کرسکتے ہو.پس تعلیم تو دنیا میں ضرور ہوتی ہے پھر جب تک آسمانی بارش یعنی الہام نازل نہ ہو وہ تعلیم نشوونما نہیں پاسکتی.پھر فرمایا.(النحل: ۶۷) دودھ اسی چارہ وغیرہ میں موجود ہوتا ہے پھر کیا تم ان میں سے اس کو الگ کر سکتے ہو.ہرگز نہیں.پس دین کی حقیقت کے واسطہ بھی ایک کَل ہونی چاہیے کہ وہ تمہیں الگ کر کے دیوے اور یہ کَل انبیاء ہوتے ہیں.پھر فرمایا.(النحل : ۶۸) تیسرا نشوونما عمدہ میوے اور پھول وغیرہ یہ بھی سب میٹر میں موجود تھے.پر جودرخت ہم نے اس کام پر لگائے ہیں کہ کھجور کو کھجور اور انگور کو انگور لگے ان کے سوائے تم ان کو حاصل نہیں کر سکتے اور نہ کھا سکتے ہو.پھر فرمایا.(النحل : ۶۹) یہ چوتھا نشوونما جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو اس کو ادویات کی ضرورت پیش آتی ہے اور لاکھوں بوٹیوں کا خلاصہ شہد ہوتا ہے اور یہ نعمت تمھیں مکھی کی وحی سے حاصل ہوئی پھر جب انسان کو وحی ہوتی ہے تو کیا وہ مکھی کی وحی سے بھی اعلیٰ نہ ہوگی اور کیا مکھی کوتو وحی کی ضرورت ہے اور انسان کو اس کی کوئی ضرورت نہیں؟ (الحکم جلد۸ نمبر۴۰ مورخہ ۲۴؍ نومبر۱۹۰۴ء صفحہ۲) روس وجاپان کی جنگ پر لطیفہ اس جنگ کے ذکر پر حضرت حکیم نور الدین صاحب نے بیان کیا کہ اس قدر خونخوار جنگ ہے کہ ہزاروں آدمی ہلاک ہو رہے ہیں حالانکہ دونوں

Page 209

سلطنتوں کا مذہب ایسا ہے جس کی رو سے اس جنگ کی مطلق نوبت ہی نہ آنی چاہئے.جاپان کا بدھ مذہب ہے اور اس کی رو سے ایک چیونٹی کا مارنا بھی گناہ ہے.روس عیسائی ہے اور ان کو چاہئے کہ مسیح کی تعلیم کے بموجب اگرجاپان ایک مقام پر قبضہ کرے تودوسرا مقام خود اس کے حوالہ کر دیں.(البدر) (الحکم جلد ۸ نمبر۰ ۴مورخہ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۴ ء صفحہ ۱۱) حضرت مولوی عبد الکریمؓ کا ذکر خیر ہم نے حضر ت حکیم الامت سے بلا واسطہ بغور سنا ہے انہوں نے فرمایا.’’ سچ تو یہ ہے کہ یہ شخص بڑی ترقی کررہا ہے اور مجھ سے بڑھ گیا ہے‘‘.(البدر جلد ۳ نمبر ۴۴،۴۵مورخہ ۲۴؍نومبر یکم دسمبر۱۹۰۴ء صفحہ ۵) مخالفوں کی اقسام ایک بار ایک نوجوان مولوی صاحب جن کے والد ماجد تو احمدی تھے مگر یہ نوجوان بعض مخالف مولویوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے اس نعمت سے محروم تھے بعض احمدی دوستوں کی تحریک سے قادیان میں آئے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب سے کچھ عرصہ تک گفتگو کرنے کے بعد انہوں نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص صحت نیت سے حضرت مرزا صاحب کے معاملہ میں تحقیق اور غور و فکر کرتا ہے یا بعض مخالف علماء کو متقی جان کر اور ان پر حسن ظن رکھنے کی وجہ سے بیعت نہیں کرتااور اس کی نیت میں فساد اور شر نہیں ہے اور ایسی ہی حالت میں بلا قبولیت مرزا صاحب کے مر جاوے تو یہ امر اس کی نجات کا مخل ہے کہ نہیں.اس کا جواب جو حضرت حکیم نور الدین صاحب نے مولوی صاحب کے اصرار پر تحریر کر کے دیا وہ ہدیہ نا ظرین ہے.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلّی علٰی رسولہ الکریم ہمارے مخالف لوگ تین قسم کے ہیں.اول وہ جو ہم کو خوب جانتے بوجھتے اور سمجھتے ہیں اور پھر بھی مخالفت کرتے ہیں یہ لوگ میرے نزدیک بہت برے ہیں.دوسرے وہ لوگ ہیں جو کہ اس اختلاف کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے جو ہمارے اور ہمارے

Page 210

مخالفوں کے درمیان ہے اور اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے.یہ لوگ بھی اچھے نہیں کیونکہ ایک عظیم الشان شور و غل میں اچھے اور جھوٹے میں تمیز کرنا نہیں جانتے.تیسرے وہ لوگ ہیں جو ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے معاملہ میں خوب غور کرتے ہیں اور اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ حق ظاہر ہو اور اس کے متبع بن جاویں.اور بعض ایسے لوگ جن کو یہ غور کرنے والا اچھا سمجھتا ہے ان کو متقی جانتا ہے وہ مخالفت کرتے ہیں تو یہ امر اور بھی اس شخص کے لئے موجب ابتلاء ہے.تو ایسے شخص کا معاملہ حوالہ بخدا کرتا ہوں.وَھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ ا تَّقٰی وَعَلَّمَہٗ عِنْدَ رَبِّیْ وَ ھُوَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ.نورالدین ۲۰؍ جون ۱۹۰۴ء (البدر جلد ۳ نمبر ۴۴،۴۵.۲۴نومبر ویکم دسمبر۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳) حواس خمسہ ، عقل اور شریعت خدا تعالیٰ کی سب چیزیں یعنی دی ہوئی طاقتیں الگ الگ رنگ رکھتی ہیں پر وہ آپس میں ہرگز متخالف نہیں مثلاً کان سے ہم بات سنتے ہیں پر آنکھ کو اس سے کوئی سروکار نہیں، کان کہتا ہے کہ یہ آواز عمدہ اور سریلی ہے یا بُری اور ٹھہرائی ہوئی ہے پر آنکھ اس میں کوئی فیصلہ نہیں کرتی آنکھ کسی چیز کو خوبصورت یا بد صورت دیکھتی ہے پر کان کا اس میں کچھ دخل نہیں.علیٰ ھٰذا القیاس ناک خوشبو یا بدبو کو محسوس کرتا پر نہ اس سے آنکھ اور کان کا کوئی واسطہ ہے اور نہ اس کو آنکھ اور کان سے کوئی تعلق ہے، اسی طرح قوت ذائقہ اور قوت لامسہ.پس یہ آپس میں ضد ہر گز واقع نہیں ہوئیں پھر عقل بھی اسی طرح کی ایک طاقت ہے وہ ان کے خلاف کیونکرہو سکتی ہے وہ بھی دید شنید، ذوق، شم، مساس وغیرہ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی.اسی طرح فطرت، سنن الٰہیہ یہ سب قویٰ از عطایاتِ ربّ العالمین ہیں اور کسی طرح یہ آپس میں متخالف نہیں ہو سکتے.پس عقل بھی خدا کی بنائی ہوئی اور دی ہوئی طاقت ہے اور سنن الٰہیہ بھی اسی خدا کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں.پس ان کا آپس میں کوئی جھگڑا یا تناقض ہر گز

Page 211

نہیں ہو سکتا.پھر یہ کہنا کہ قرآن کریم کے بعض مسائل عقل کے خلاف ہیں.محض غلطی اور نادانی ہے جس کو ہم ہر گز مان نہیں سکتے.مثلاً آنکھ نے دیکھا کہ یہ دیوار ہے مساس نے مس کیا کہ یہ مضبوط ہے کھٹکھٹانے سے کان نے سن لیا کہ یہ ٹھوس ہے.سونگھنے سے معلوم ہواکہ مٹی کی بو آتی ہے.پس یہ مٹی کی ہے اور قوتِ ذائقہ نے چکھ کر معلوم کر لیا کہ یہ ضرورمٹی کی بنی ہوئی ہے.پس ان کے بعد عقل کہتا ہے کہ کسی غرض کے واسطے بنائی گئی ہے اور کوئی اس کا بنانے والا بھی ضرور ہے.اب بتلاؤ کہ اس نے جو رائے لگائی ہے اس میں ان حواس کے خلاف کیا بیان کیا ہے؟ گو اس نے ایک بات حواس کی رائے کے بعد نئی نکالی ہے یعنی اس کا کوئی بنانے والا ضرور ہے مگر عقل کا کام علیحدہ ہے اور وہ نتیجہ نکالنا ہے اور وہ متناقض ہرگز نہیں ہو سکتا.ہاں ہم یہ مانتے ہیں کہ سب سے بالا تر قوت ہے پر یہ ہمیں غلطیوں سے روکتی ہے.سنن الٰہیہ کیا ہے واقعات میں کوئی چیز ہوتی ہے اور اس کی آواز سنی جاتی ہے.مثلاً جب ہم ریل پر سوار ہوتے ہیں تو ہمیں درخت چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.پس اس کی تصدیق اور سچی بات کو دریافت کرنے کے واسطے ہم اسی وقت ریل سے اتر پڑتے ہیں اور آنکھ سے، کان سے، مساس سے تصدیق کرتے ہیں کہ ہاں ہماری آنکھ نے غلطی کھائی تھی.یہ نہیں چلتے تھے بلکہ ریل چلتی تھی.پس اگر حواس میں کسی قسم کی غلطی آجاتی ہے تو عقل اس کی تصحیح کرتی ہے.پھر بعض لوگ نادانی سے سوال کر دیتے ہیں کہ اگر عقل اور شریعت میں باہم مخالفت نظر آوے تو کیا طریق اختیار کرنا چاہیے.اگر کہو کہ عقل مقدم کی جاوے تو اگر عقل کو مقدم کرنا ہے تو شریعت کی ضرورت ہی کیا تھی اور کیا ہے؟ اگر کہو کہ شریعت مقدم کی جاوے تو شریعت کے ہم اس وقت پابند ہیں جب ہم عاقل ہو جاویں.پس عقل تو جڑھ ہے شریعت کی.اگر جڑھ غلط ہے تو فرع بھی غلط ہی ہوگی نہ کہ صحیح.پس یہ سوال ہی غلط ٹھہرا.

Page 212

استفسار اور ان کے جواب (۱).دعا کس وقت کی نماز میں کرنی چاہیے.(۲).سنتوں میں یا فرضوں میں مانگنی چاہیے.(۳).دعا رکوع میں یا رکوع کے بعد یا سجود میں یا التحیات سے بعد مانگنی چاہیے.(۴).نماز تہجد کس وقت سے کس وقت ہوتی ہے.(۵).سحری سے بعد وقت ہوتا ہے یا کہ نہیں، نماز تہجد کا.(۶).دعا تہجد میں کس طرح کرنی چاہیے بعد میں یا پہلے یا درمیان میں اور استخارہ کس طرح کرناچاہیے.جواب (۱).دعا کے لئے نماز میں التحیات کے اخیر درود کے اور سلام سے پہلے عام موقع ہے اور تکبیر تحریمہ کے بعد اور خود الحمد ساری دعا ہے رکوع اور سجدے بھی دعاؤں کی جگہیں ہیں.سخت ضرورت کے وقت رکوع سے پہلے اور بعد بھی انسان دعا کر سکتا ہے.(۲).دعا سنتوں اور فرضوں دونوں میں مانگنی چاہیے.(۳).کا جواب نمبر ایک میں ہی بیان کردیا ہے.(۴).عشاء کی نماز کے بعد جب انسان سویا ہوا اٹھے تو اس کو صبح صادق سے پہلے کُل وقت تہجد کے واسطے ہے.(۵).سحری کا کھانا صبح صادق تک جائز ہے اور ایسا ہی تہجدوں کا پڑھنا بھی اس وقت تک جائز ہے.سحری کو دیر کر کے کھانا چاہیے پھر صبح صادق کے وقت نہیں اور تہجد صبح صادق تک جائز ہے.جیسا سحری صبح کاذب میں کھانا جائز ہے ایسا ہی تہجد بھی صبح کاذب میں پڑھنا جائز ہے.(۶).تہجد کی نماز دو رکعت کر کے پڑھے اور دو رکعت کے بعد سلام پھیر تا رہے.

Page 213

(۷).استخارہ میں بھی دو رکعت نفل ہی ہوتے ہیں.پھر دعا ہوتی ہے.والسلام سوالات زید بدکار ہے اور جو کچھ اس کے پاس جائیداد گھر روپیہ مال وہ جائز نہیں‘ مال حرام ہے.رشوت دغا بازی سے حاصل ہوا ہے.پوچھتا ہے کہ میں حضور اقدس مسیح زمان سے بیعت کروں اور توبہ نصوح اور زکوٰۃ دوں اور نماز کا پابند ہو جاؤں لیکن میری گذران کیسے ہوگی آئندہ میں جائیداد مذکورہ بالا سے بسر اوقات کر سکتا ہوں اور اس سے متمتع ہو سکتا ہوں یا نہیں.میں بیکار سن رسیدہ ضعیف ہوں اور بار گناہ کا بوجھ سر پر بھاری ہے اور سد رمق کے لئے میرے پاس کوئی وسیلہ اور سہارا نہیں اس حالت میں میں کیا کروں جواب سے اطلاع ہو.دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک صوفی مشرب چشتی مجلس سماع اور نغمہ میں اس شعرپر جان دے دے اور حالت وجد میں سجدہ میں گرا اور معاً مر گیا وہ شعر یہ ہے ؎ گفت قدوسی فقیرے در فناء و دربقا خود بخود آزاد بودی خود گرفتار آمدی خود بخود آزاد بودی کو اس نے کئی بار تکرار کیا اور اپنی طرف اشارہ کیا اور سجدہ میں گرا اور مر گیا.طریقت اور شریعت کے رو سے یہ موت کیسی ہے اور علیٰ ھذا قوالوں کا نغمہ کے ساتھ گانا اور گانا ؎ چو آن بیچون درین چون کرد آرام پئے روپوش کردہ یوسفش نام یہ شعر حضرت جامی علیہ الرحمۃ کا ہے اور علیٰ ھٰذا نہ کفر است ایں و بے فہم است مشکل کہ حق در پردۂ انسان نہاں است بعد اسی طور پر فدا ہوں میں تیری نظروں کے یار کہ بندہ سے مولیٰ بنایا مجھے اس کا لکھنا اور پڑھنا کیسا ہے؟ پس صوفی کے پہلے شعر مذکورہ بالا پر انتقال ہوا حالت وجد میں کسی نے اس کے معنی پوچھے انہوں نے اس طور پر بیان فرمایا کہ قدوس رحمۃ اللہ علیہ نے جو

Page 214

اپنے فنا اور بقا دونوں حالتوں میں محتاج نہیں.نہ فنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ بقا.اس صورت میں فقیرے در فنا و در بقا صفت ہوگی اور قدوس موصوف اور مقولہ شیخ خود بخود آزاد بودی خود گرفتار آمدی یعنی ذات حق مرتبہ غیب الغیب میں سارے جہاں سے بے نیاز ہے.(العنکبوت : ۷) اور تنزل و اظہار کمال کے مرتبہ میں خود مقید ہو گئے جیسا کہ وارد ہے ؎ از تقاضاء حب جلوہ گری آمد اندر حصار شیشہ پری پھر اسی وجد میں فرمایا کہ دوسرا علم آیا اور مقطع کو اپنی زبان سے اعادہ فرمایا گفت قدوسی فقیرے الخ یعنی فرمایا قدوس رحمۃ اللہ علیہ نے جو ہمہ تن فقیر تھے کہ ذات مرتبہ فنا میں عالم سے آزاد تھے مرتبہء بقا میں خود گرفتار ہوگئے ہیں صورت میں فقیری صفت ہوگئے اور مقولہ در فنا و در بقا الیٰ آخرہ ہوگا اور خود بخود آزاد بودی خود گرفتار آمدی بطور لف ونشر مرتب کے ہوگا یہ صاحب ہمارے الہ آباد خاص کے رہنے والے تھے اور بہت نامی اور گرامی مولوی بھی تھے.اجمیر میں ۱۸؍ رجب کو مجلس سماع میں اچانک ان کا انتقال ہوا.نام نامی ان کا مولوی محمد حسین تھا.پہلے بہت پابند شریعت تھے.کعبۃ اللہ میں مولوی امداد اللہ صاحب مرحوم سے بیعت کی اور سماع اور قوالی کی طرف طبیعت ان کی راغب ہوگئی اور انجام یہ ہوا.خاکسار رکن الدین احمدعفا عنہ بجواب سوال نمبر۱ یہ عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے. (الفرقان : ۷۲) پس اللہ تعالیٰ کے حضور، ایمان، اخلاص اور سچی توبہ نئی راہ دکھاتی ہے.ہاں گذارہ کا خیال کرنا ایمانی کمزوری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو مومن کے واسطے ہزاروں راہ کھول دیتا ہے جیسے فرمایا.(الطَّلاق :۳،۴ ) پس جو شخص اللہ تعالیٰ پر تقویٰ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے واسطے ہر تنگی اور دکھ سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو رزق اس قدر دیتا ہے کہ وہ حساب بھی نہیں کر سکتا.

Page 215

پھر ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے.(البقرۃ : ۲۷۶) یعنی جب کوئی شخص قسم قسم کی بد اعمالیوں اور بد ذاتیوں اور خد اکی نافرمانیوں میں مصروف ہو اور اس وقت اس کو خدا کا حکم پہنچے اور وہ خدا کی طرف سے وعظ و نصیحت کو سنے اور اس جگہ توبہ کرے اور سچی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ قصوروں اور گذشتہ بد ذاتیوں کو معاف کر دے گا اور جو کچھ اس نے گذشتہ زمانہ میں کیا وہ سب اس کو معاف ہوگا.بجواب سوال نمبر۲ یہ عرض ہے کہ انسان کا دل خد اتعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہ الفاظ صحیح معنی بھی رکھتے ہیں.پھرمخبر صادق نے فرمایا اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ کتاب النکاح باب عشرۃ النساء ومالکل واحدۃ من الحقوق) اوران لفظوں کے معنے وحدت نظری کے بھی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان لوگوں کے سابقہ حالات اچھے تھے یا کیا.پس بعض لوگ ان اشعار کے معنی فنا نظری کی طرف لے جاتے ہیں اوروہ اس کی لذت اور ذوق و شوق میں معذور اور بے اختیار ہوتے ہیں.ہاں بعض شریر النفس شوخی سے کہتے ہیں اور ایسے لوگ بے ایمان ہوتے ہیں.باقی دلوں کے حالات کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ہم کیا جانتے ہیں.غرض ایسے فقرات جذبات اور فنا میں معمولی ہوتے ہیں ہاں شوخ لوگ ایسا کہنے والے احمق ہوتے ہیں.والسلام.( الحکم جلد۸ نمبر۴۱، ۴۲ مورخہ ۳۰؍نومبر، ۱۰؍دسمبر۱۹۰۴ ء صفحہ۱۷) کتاب سلاسل الفضائل خریدنے کی تحریک شیخ عبدالمحي صاحب عرب نے ایک کتاب مسمّٰی بہ سلاسل الفضائل، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل میں لکھی ہے.عمدہ کتاب ہے اس کی قیمت مصنف نے چھ آنے مقرر کی تھی مگر چونکہ شیخ صاحب بہت مقروض ہوگئے ہیں اس لئے اب وہ اس کتاب کو اصل قیمت پر میری معرفت فروخت کرنا چاہتے ہیں

Page 216

اصل لاگت اس کی ہے.پس احمدی احباب اگر ہر ایک شہر میں بیس پچیس کاپیاں اس کی اصل قیمت پر خرید فرمالیں تو بہتر ہوگا کہ ایک مسافر کی دستگیری ہے اور میرے نزدیک احباب کے لئے عمدہ موقع اعانت کا ہے اور کتاب بھی غنیمت ہے.والسلام.نورالدین.(الحکم جلد۸ نمبر ۴۳، ۴۴ مورخہ۱۷،۲۴؍دسمبر۴ـ۱۹۰ ء صفحہ۱۸) استفسار اور ان کے جواب مندرجہ ذیل سوالات ایک دہریہ نے بذریعہ خط بھیجے تھے جن کا جواب اصولی طور پر حکیم الامت نے دیا ہے.(ایڈیٹر) سوالات ۱.انسان کا طرز زندگی دو باتوں پر منحصر ہے.(۱لف).آبا و اجداد کا اثر.(ب).ملک و قوم کا اثر.یہ دو امور انسان کے اختیار سے باہر ہیں.پھر اسے کیوں نیکی پر انعام اور بدی پر سزا ہو.۲.انسان محدود ہے.پھر غیر محدود زمانہ اس کے واسطے کیوں منسوب کیا جاتا ہے.۳.اگر انسان کو زندگی پھر دی جاوے گی تو حیوانات کو کیوں نہ دی جاوے گی.خصوصًا جب کہ وحشی انسان اور بندر میں بہت تھوڑا فرق باقی رہ جاتا ہے.۴.انسان کس شکل میں قیامت کے دن اٹھے گا.اگر سب کی ایک ہی شکل ہوئی تو نیکی کی خواہش جاتی رہے گی.۵.انسانوں کے سے صفات خدا کی طرف کیوں منسوب کئے جاتے ہیں.یہ ایک گستاخی ہے.۶.بچے کیوں مر جاتے ہیں.یہ دانائی کی بات نہیں کہ بچے مارے جائیں.

Page 217

جوابات سوال نمبر ا.(الف) آباو اجداد کا اثر.(ب).ملک اور قوم کا اثر.یہ ہر دو امور انسان کے اختیار سے باہر ہیں.پھر اس کو کیوں نیکی پر انعام اور بدی پر سزا ہو.جواب.(الف)آباو اجداد کا اثر اگر ایسا ہے کہ اس اثرکے بالمقابل کو ئی دبا نے والی طاقت اس انسان کو نہیں دی گئی تو وہ انسان پاگل ہے اور شرعًا اس پر کوئی سزا نہیں لگ سکتی کیونکہ شریعت طاقت اور وسعت سے باہر کی باتوں پر حکومت نہیں کر تی.(ب).اسی طرح ملک اور قوم کے آثار بھی اگر اس درجہ تک کسی انسان میں اثر کر گئے ہیں کہ اس تاثیر کے بالمقابل دبانے والی طاقت کام نہیں کر سکتی تو وہ انسان بھی مجنون ہے.اور مجنون کسی انعام یا سزا کا مستحق نہیں ہو تا اورنہ وہ شریعت کا پابند ہے کیونکہ یہ معاملہ اس کی طاقت اور وسعت سے باہر ہے اور شریعت طاقتوں پر حکمرانی کرتی ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ چوروں کا ایک جتھہ مل کر کسی شخص کے گھر میں نقب لگاتا اور اس کا مال و اسباب نکال کر ایک ایسے شخص کے سپرد کرتاہے جو اسی جتھہ کا ہے اور اگر وہ شخص جس کے سپرد مال کیا گیا ہے اس میں سے ذرا بھی نقصان کرے تو فورًا اس کو چور لوگ اپنے جتھہ میں سے نکال دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ کمینہ اور چور ہے.اسی طرح ٹھگ بھی چند آدمی مل کر ٹھگی کرتے اور مال ان میں سے ایک ہی آدمی کے قبضہ میں آتا ہے لاکن اگر وہ شخص جس کے قبضہ میں مال آیا ہے کچھ مال اس میں سے دھوکہ سے لے لے تو اس کو اپنی شراکت سے الگ کر دیتے ہیں.اسی طرح کنجر لوگ اپنی بہو سے زنا نہیں کرواتے اس لئے کہ غیر کی لڑکی کو خراب نہیں کر نا چاہیے پر جو شخص ان کے گھرمیں ان کی اپنی لڑکی سے بدکاری کرنے کے واسطے آیا ہے وہ عورت اس کی کیا لگتی ہے.اسی طرح ہر ایک بدکا ر کے اندر ایک طاقت موجود ہے جو اس کو بدکاری سے ملزم کر رہی ہے اور بدی سے روکتی ہے.پس ہر بدکار اپنے اندر بدی کے دبانے کی طاقت رکھتاہے.ہمارے مورث اعلیٰ لوگ بھی قویٰ کے مرکب تھے جو ایک دوسرے کے مقابل حد بندی قائم کر سکیں.پس جب انسان اس بدی کے دبانے والی طاقت سے کام نہیں لیتا جو اس کو ملی ہے یا اس میں ہے تو وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے اوراگر بدی کے مقابل دبانے والی طاقت سے کام لیتا ہے تو انعام کا مستحق ہوتا ہے.

Page 218

سوال نمبر ۲.انسان محدود ہے پھرغیر محدود زمانہ اس کے واسطے کیوں منسوب کیا جاتا ہے.جواب.انسان زمانہ ماضی کی طرف تو ضرور محدود ہے مگر زمانہ مستقبل کی طرف محدود ہے یا نہیں یہ ایک مسئلہ ہے جو بحث طلب ہے.ہم اس کو مستقبل کی طرف محدود نہیں مانتے اس لئے ہم اس کے لئے غیر محدود زمانہ تجویز کرتے ہیں.سوال نمبر۳.اگر انسان کو زندگی پھر دی جاوے تو حیوانات کو کیوں نہ دی جائے گی خصوصًا جیسا کہ وحشی انسان اور بندر میں بہت تھوڑا فرق باقی رہ جاتاہے.جواب.یہ سوال تعجب انگیز ہے اسلام سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کو بھی زندگی دی جاوے گی اور بعض صورتوں میں حیوانات کو بھی.وحشی انسان اور بندر میں تو زمین وآسمان کا فرق ہے.ایک قابل ترقی اور اس لائق ہے کہ فائدہ جدیدہ حاصل کرے اور اس جدید فائدہ کی تعلیم اپنے بنی نوع کو کر سکے اور بندر میں یہ طاقت و قوت نہیں کہ جدید باتیں بنی نوع کو سکھاوے.سوال نمبر ۴.انسان کس شکل میں قیامت کے دن اٹھے گا اگراس کی ایک ہی شکل ہوئی تو نیکی کی خواہش جاتی رہے گی.جواب.ہر ایک انسان قیامت کے دن اپنی اس شکل میں اٹھایا جائے گا جس میں کہ وہ مرنے کے وقت تھا.سو ا ل نمبر ۵.انسانوں کی سی صفات خدا کی طرف کیوں منسوب کئے جاتے ہیں یہ ایک گستاخی ہے.جواب.بے ریب گستاخی ہے اور کوئی انسانی صفت خدا کی طرف ہرگز منسوب نہیں ہوتی اور ایسا کرنا گستاخی ہے اسلام میں کوئی صفت انسانی خدا کو نہیں دی گئی.سوال نمبر ۶.بچے کیوں مر جاتے ہیں یہ دانائی کی بات نہیں کہ بچے مارے جائیں.جواب.بچہ جب مر جاتاہے تو اس جسمانی مادہ کی کمی سے مرتا ہے جس سے وہ تیار کیا گیا تھا پھر اس کے واسطے بھی ترقی کا موقع ضرور ہے.نور الدین بقلم فضل الرحمن (الحکم جلد ۹ نمبر ۲ مورخہ ۷ ۱ ؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۶)

Page 219

مرزا خدا بخش کی حکمت و طب کی تصدیق میں تصدیق کرتاہوں کہ مرزا خدا بخش صاحب کو طب کا بڑا شوق ہے.باینکہ بی.اے تک انگریزی خواں ہے مگر بلا تعصب تجارب کا دھیان رکھتے ہیں.جہاں تک مجھے موقع ملا ہے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ دوائیں بنانے میں محتاط ہیںاور خود بھی اپنے ہاتھ سے اس کام کو کرتے ہیں.میرے تجارب بھی ان کے پاس ہیںاور ایک قلمی کتاب ضخیم عمدہ نسخہ جات کی ان کے پاس ہے.نور الدین ( البدر جلد ۴نمبر۳ مورخہ ۲۰؍ جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۹) درخواست دعا حضرت مولانا نور الدین صاحب نے چند یوم ہوئے کہ درس قرآن میں خصوصیت سے اپنے لئے دعا کی توجہ دلائی.فرمایا کہ مجھے سخت تکلیف ہے دوسرااسے معلوم نہیں کر سکتا.( البدر جلد ۴ نمبر۵ مورخہ ۸؍ فروری۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۱.لوگوں کی چار اقسام انسان دنیا میں چار قسم ہیں.بعض۱ اپنی قومیت یا ملک یا تربیت وغیرہ کے باعث نیک اصول سادہ طور سے حاصل کرتے اور جوسکھائے جاتے وہ سچے اصول ہی ہوتے ہیں.مثلاً آج تک ہم نے جس قدر ترقی کی ہے انہیں اصول تک پہنچے ہیں جو ہماری ماں نے ہمیں بتلائے تھے.بالمقابل دوسری قوم ۲ہے کہ بدبختی سے گند ،شرارت، بے ایمان وغیرہ ان کو بتائے گئے ہیں مثلاً فواحشات کی لڑکیاں ،مشرکوں اور بت پرستوں کی اولاد، ڈاکہ زن، چوٹے، دغا باز اپنی اولاد کو کیا سکھاتے ہیں.پس ایک قوم نے سادگی سے سچائی اختیار کر لی اور دوسرے نے سادگی سے بدی اختیار کرلی.دونوں۳ کے اخیر میں ایک اور قوم ہے وہ وہ لوگ ہیں جو نیکی یا بدی کو ابتداء میں سیکھنے پر ان کی طبیعت میں چلبلاپن ہوتاہے اور دن بدن اعتراضات کو سننے پر اس طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اپنے

Page 220

اصولوں پر قائم رہتے مثلاً ایک شخص پادری کے وعظ میں بول اٹھا کہ کیا تم کوئی شیخ سعدی سے بڑے آدمی ہو،دیکھو تو اس نے صاف کہا ہے کہ تورات و انجیل منسوخ کرد.پس تورات اور انجیل منسوخ ہو چکی ہے.پس بعض وہ ہیں جو دوسروں کے اعتراضات کو اور سوال و جواب کو سنتے ہی نہیں اورنہ انہیں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے.چوتھی۴ قسم کے وہ لوگ ہیں جو سوال کو سنتے اور اس پر غور کرتے اور بعض وقت ان اعتراضات پر مائل ہو جاتے اور کہہ اٹھتے کہ یہ بات قابل قدر ہے.ان لوگوں پر جب سوال کی زد آن کر پڑتی ہے تو گھبراجاتے اور کبھی تو خود جواب سوچتے اور کبھی کسی دوسرے سے جاکر دریافت کرتے ہیں.پس چوتھی قسم کے لوگوں کے واسطے ہی علم کلام کی کتابیں ہوتی ہیں مگر یہ بھی چوتھے قسم میں سے وہ لوگ ہیں جو خود غور و خوض نہیں کر سکتے.پھر دوسروں سے جاکر دریافت کرتے ہیں.پس مرزا صاحب نے بھی ایسے لوگوں کوہی مخاطب فرمایا ہے.باقی اقسام کے لوگ تو بالکل محتاج نہیں ہوتے.۲.قرآن کریم کی راست بازی کی ایک باریک اصل جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں کامل ہوں یا میری کتاب کامل ہے تو چونکہ کامل چیز دوسرے کی محتاج نہیں ہوتی اس لئے ضرور ہے کہ وہ اپنے کمال کی آپ ہی دلیل بھی پیش کرے.اور اگر اس کے کمال کی دلیل کوئی اور شخص دیتاہے خود مدعی دلیل نہیںدے سکتا تو معلوم ہوا کہ وہ خو د کامل نہیں.پس جو کلام خود اپنے کمال کا دعویٰ کرے اور اپنی خوبی کے دلائل بھی خود پیش کرے اور جس عقیدہ باطلہ کو وہ دفع کرنا چاہتی ہے اس عقیدے اور اس کی برائی کوبھی بیان کر دے تو وہ کلام کامل کلام کہلائے گی.مثلاً قرآن نے دعویٰ کیا ہے کہ شرک بری چیز ہے.اگرچہ اس کی نسبت قرآن میں یہ ذکر کثرت سے آیا ہے مگر میںایک ذکر بطورمثال بیان کر تا ہوں.(الاعراف: ۱۴۱) احمقو! تم کہتے ہو کہ کوئی بت بنا دو خدا کے سوائے.خدا نے تو بندے کو بڑی بزرگی اور طاقت دی

Page 221

اور بت تو تم سے کمزور ہیں.مثلاً آگ کی لوگ پرستش کرتے پھر آگ ہماری خادم ہے ضرورت کے وقت اس کو جلا تے اس سے کام لیتے اور جب چاہتے اس کو بجھا دیتے ہیں.علیٰ ھٰذا القیاس.پانی، مٹی، ہوا، سورج، چاند، لوہا ،پتھر یہ تو سب خادم ہیں.پس شرک بتایا اس کے برے ہونے کی دلیل بتائی.اسی طرح نبوت کا ثبوت دیا ہے.شہد کی مکھی اور دودھ اور پھلوں وغیرہ کی دلیلیں ملاحظہ کرو.پس قرآن میں ہر دعویٰ کی دلیل دی گئی ہے اور یہ ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا اصل ہے کہ ہم نے کبھی ۱۳سو برس کی کتاب میں نہیں دیکھا.۳.کیا مرزا صاحب کے دعویٰ الہام سے اتفاق ہے؟ مرزا سلطان احمد صاحب سے ایک کمشنر صاحب نے دریافت کیا کہ مرزا صاحب کے الہام کے دعوے میں تمہیں بھی اتفاق ہے؟ جواب دیا کہ یہ سوال میرے نزدیک ایسا مشکل ہے کہ میںکیا جواب دوں.آپ کمشنر اور میں تحصیلدار.پھر میں بیٹا اور مرزا صاحب میرے باپ.بہرحال میں یہ کہہ دیتاہوں کہ کیا خدا رازق تھا.اس کا جواب یہ ہوگا کہ ہاں تھا.کس طرح ؟اس لئے کہ وہ اب بھی رازق ہے.کیا خدا خالق تھا؟ہاں تھا اس لئے کہ آج بھی خالق ہے.پس کیا خدا کسی کے ساتھ ہمکلام ہوتا تھا؟ ہاں ہوتا تھا.پس آج بھی کسی سے ہم کلام ہو تاہے.۴.خدا نے پہلی کتاب ہی کیوں کامل نہ کی ؟ آریہ لوگ بعض اوقات سوال کر بیٹھتے ہیں کہ دنیا میں خدا نے پہلی کتاب ہی کیوں کامل نہ کر دی بار بار کتابوںکے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی.جواب.خدا کا کلام خدا کا قول ہے اور دنیا خدا کا فعل ہے اور خدا کے فعل میں ضرورتوں پر اشیاء کا ظہور ہو تا ہے یا نہیں.مثلاً ریل آج کیوں بنی پہلے کیوں نہ ایجاد ہوئی.پس پہلے بادشاہ ایسے ظالم تھے کہ مخلوقات کو ایک گاؤں سے نکل کر دوسرے گاؤں تک جانے کی اجازت نہ ہوتی تھی.تو اگر اس وقت ریل ایجاد ہوتی تو لوگ سوار ہو کر کہاں جاتے یا محاصل و اسباب تاجروں کا لوٹ لیا جاتا تھا.تو لندن سے کوئی شخص اسباب تجارت سٹیمرپرلاد کر بمبئی لایا اور بمبئی کے بادشاہ نے اسے

Page 222

لوٹ لیا تووہ ایسی تجارت سے کیا فائدہ اٹھاتا.یا مثلاً ایک بچہ کو تولد ہوتے ہی عمدہ سے عمدہ اور لذیذ سے لذیذکھانا تم لا کر کھلا دو تو یہ تمہاری غلطی ہو گی کیونکہ اس وقت اس کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہے نہ کہ تمہارے لذیذ کھانوں کی.پس قبل ازضرورت مدلل کتاب کا آنا غیر ضروری تھا.پس جس طرح بچہ سکھایا اور تربیت دیا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خلقت کوسکھایا ہے.اسی طرح خدا کی وحی بدون محرک کے نہیں ہوئی.میں نے خود تجربہ کیا ہے کہ جب تک قلق اضطراب اور گھبراہٹ طلب کی نہ ہو اس وقت تک خدا تعالیٰ کے نکات معرفت حاصل نہیں ہوتے.پس یہ نکتہ معرفت کا ہے خدا کے حضور میں تو سب کچھ موجود ہوتاہے.پر خدا کے نزدیک (الحجر: ۲۲) کا اندازہ ہوتا ہے.اسی لئے میرا خیال ہے کہ لیکچروں اور وعظوںکے واسطے بھی قبل از وقت تیاری نہیں کرنی چاہیے.یا ایک کتاب کا مسودہ تحریر کر کے بہت مدت رکھ دینا اور بہت دیرکے بعد اس کو چھاپنا غلطی ہے کیونکہ اگر وقت پر خدا کی توجہ ہو تو وہ خود حسب ضرورت مضامین سمجھا دیتا ہے.پس اس زمانہ میں مخلوقات انسانی دنیا میں تھوڑی تھی دوسرے بلاد میں ان کا کوئی تعلق نہ تھا.نہ بیماریاں اس کثرت سے تھیں اور نہ ایسی تحریکیں تھیں.تو پھر کیوں اللہ تعالیٰ کسی چیزکوبلا ضرورت اور بدون طلب نازل کر دیتا.مثلاً لوہا ،سکہ، کوئلہ وغیرہ اشیاء پر نظر کرو.ان کو ظاہر نہیں کیا جب تک کہ ان کی ضرورت دنیا کو محسوس نہیں ہوئی.پس اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حرمت ہو گی اور دنیا کی قومیں آپس میں مل جاویں گی.پس ایسی کتاب نازل کر نی چاہیے جو کل دنیا کے واسطے جامع ہو.فقط ( الحکم جلد ۹نمبر۵ مورخہ ۱۰؍ فروری۱۹۰۵ء صفحہ ۳)

Page 223

استفسار اور ان کے جواب ۱.عید کی نماز کی ہر دو رکعت میں تکبیریں سات اور پانچ قبل از قرأت کہنی چاہییں یا چار پہلی رکعت میں قبل از رکعت اور دوسری رکعت میں چار قبل از رکوع خود آپ کا عمل کس پر ہے اور کیوں؟ یعنی دوسرے طریقہ کے چھوڑنے کی کیا وجہ ہے؟ ۲.قربانی کس پر واجب۱ ہے؟کیا صاحب نصاب۲ پر؟ نصاب کتنا آج کل کے سکہ کے موافق۳،نصاب نامی۴ یا غیر نامی۵ ؟ بیل زمین وغیرہ ۶ بھی نصاب میںآسکتی ہیں یا صرف زرو سیم؟ ۳.قربانی اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے بھی (جیسا کہ صدقہ فطر )علیحدہ دینی چاہیے یا ایک ہی قربانی کافی ہے؟ ۴.قربانی کرنے والا شروع چاند سے حجامت نہ کرائے.یہ مستحبات سے ہے یا سنت واجب؟ ۵.بکری بھیڑ اہل حدیث کے نزدیک دوبرس کی جائز ہے فقہاء کے نزدیک ایک برس کی؟ آپ کا فیصلہ؟ ۶.قربانی کی کھال فروخت کرنے کی حدیث میں ممانعت ہے بلکہ یہ کہ گویا اس نے قربانی نہیں کی ہم چاہتے ہیں کہ کھال فروخت کرکے قیمت دارالامان بھیج دیں.فرمائیے؟اگر اجازت ہے تو دلیل؟ ۷.قربانی عید کے بعد کتنے دن تک جائز ہے اہل حدیث کے نزدیک ۱۳تاریخ تک اور فقہاء کے نزدیک ۱۲تاریخ تک کس پر عمل کرنا چاہیے.۸.نماز خسوف با جماعت قرأت جہر سے ہو یا علیحدہ علیحدہ پڑھیں اور بعد ازاں خطبہ بھی جائز ہے یا نہیں.میں خیال کر تاہوں دارالامان میں نماز کسوف بھی باجماعت قرأت جہر سے کبھی ادا نہیں کی گئی حالانکہ سنت رسول صلعم سے ثابت ہے؟

Page 224

جوابات ۱.عید کی نماز میں جو تکبیریں آئی ہیں ان میں علماء کا اختلاف ہے جیسا آپ نے ذکر کیا مگر میں اس روایت کو ترجیح دیتاہوں جس میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں آئی ہیں.حنفیہ کا مذہب کہ پہلی رکعت میں قبل قرأت اور دوسری میں بعد قرأت کہتے.یہ بھی تابعین سے ثابت ہے.مگر ہم پہلی روایت کو ترجیح دیتے اور اس پر میرا عمل درآمد ہے.کیوں کا جواب یہ ہے کہ فقہاء محدثین اور مدینہ طیبہ کا عملدرآمد یہ ہے جس کو ہم ترجیح دیتے ہیں.۲.قربانی کی نسبت وجوب اور نصاب اور پھر نصاب میں تفرقہ نامی اور غیر نامی کا کوئی نہیں اس واسطے میں آپ قربانی کو ایک امر مسنون یقین کرتا ہوں اور تمام گھرانے کی طرف سے ایک ہی قربانی دو مینڈو ںکی قربانی مسنون ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی کیا کرتے تھے ہاں آپ نے حجۃ الوداع میں بیبیوں کی طرف سے بھی علیحدہ قربانی فرمائی ہے مگر جب کہ امر مسنون ہے تو اس پر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں.نصاب آج کل کے سکہ کے مطابقروپیہ ہوتے مگر قربانی کو اس میں دخل نہیں کیونکہ نبی کریم قربانی کرتے اور صاحب زکوٰۃنہ تھے اور حضرت ابراہیم بے ریب بہت عظیم الشان دولتمند تھے جن کے وقت اس قربانی کا زیادہ رواج ہوا.۳.قربانی بچوں کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے ابو داود اور موطا میں بہت سی حدیثیں ہیں جن میں بیان ہے کہ تمام گھر کی طرف سے قربانی ہو سکتی ہے.۴.قربانی کرنے والا شروع چاند سے حجامت نہ کرائے اور ناخن نہ کٹائے اس کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے پر یہ کہ آیا وہ حجامت نہ کرنا فرض یا واجب یا سنت ہے.یہ سلف سے بہت بعید ہے کہ اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا.۵.میں آپ بکری اور دنبہ کی نسبت یہ تحقیق رکھتا ہوں کہ بکری دو برس سے کم کی نہ ہو اور دنبہ ایک برس سے کم نہ ہو.یہ آپ تعجب کریں گے کہ ہمار ے ملک میں بھیڑ کا نام عرب میں نہیں اور نہ شریعت میں اس کانام ملا ہے.عربی میں ضان اس کو کہتے ہیں جو چکی والا ہو.پس عرب میں میں

Page 225

نے تحقیقات کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس بھیڑ کو ہم نہیں جانتے اور زیادہ سے زیادہ اس کوایک قسم کی غنم کہتے ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے مولوی ضان کا ترجمہ دنبی کرتے ہیں یا بھیڑ.پس ہمارے ملک کی بھیڑ بکری میں داخل کر کے دو برس میعاد مقرر کرتا ہوں اور دنبی کو ایک برس میں اور یہی شریعت سے ثابت ہے.۶.قربانی کی کھال فروخت کرنے کی ممانعت ہم نے حدیث میں نہیں دیکھی آپ نے لکھی ہے اگر آپ کوئی حدیث بتلاویں تو پھر ہم توجہ کریں گے کیونکہ قربانی کی کھال گھر میں بھی رکھنا جائز ہے کیونکہ قربانی تو ذبح کا نام ہے خود تمام بکرا بھیڑ اپنے گھر میں رکھ لیوے.اراقت الدم کا نام قربانی ہے اس کے بعد جو کچھ رہتاہے خواہ دے دے خواہ سارارکھ لے.۷.قربانی ہمارے نزدیک ۱۲ تک جائز ہے.ہاں فقہاء نے ۱۳ تاریخ بھی رکھی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تامّلمیں ضرور اس امر میں کچھ فرق ہوا ہے.۸.نماز خسوف باجماعت جہری قرأت سے پڑھنا مسنون ہے اور اس کے بعد خطبہ بھی ہے.یہ تو عام کتب احادیث میں مندرج ہے.چھوٹی سے چھوٹی بلوغ المرام ہے اس میں کافی بحث ہے.دارالامان میں خسوف اور کسوف دونوں جماعت سے پڑھی جاتی اور یہاں بھی رواج ہے.ہاں یہ جماعت مسنون ہے فرض نہیں.نور الدین (الحکم جلد۹ نمبر۵ مورخہ ۱۰؍ فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۱) استفسار اور ان کے جواب ۱.مرزا صاحب حج بیت اللہ شریف کیوں نہیں کرتے؟اور جناب پیران پیر کا درجہ اور ادب کہاں تک ہے.۲.فرضوں میں اور باقی نمازوں میں عین بیچ یعنی درمیان میں دعا مانگنا کس حدیث یا آیت کی رو سے ہے.

Page 226

۳.حدیث صحیحہ سے ثابت کریں کہ حضرت مسیح علیہ السلام سفر کر کے محلہ خان یار شہر سری نگر میں آئے سوائے اس کے کہ احمدیوں کے پاس کیا ثبوت ہے کہ ایک تو مسیح کے نام سے سیاحت ٹپکتی ہے ایک کچھ قبر اس نام کی بتلائی جاتی ہے.ما سوائے اس کے کوئی معتبر حدیث.۴.حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق کیا خیا ل ہے آیا وہ مصلوب ہوئے ہیں اگر ہوئے ہیں توآیا صرف صلیب پر لٹکائے گئے اور رہے وہ زندہ یا مصلوب ہونے کے معنے صلیب پر لٹکانے کے بعد موت بھی لاز می نتیجہ ہوتی ہے او ر آیت قرآن (النساء : ۱۵۸) کو کس طرح مطابق کیا جا تا ہے اور کیا معنے لئے جاتے ہیں؟ ۵.خاتم النبیین رسول اللہ تھے تو پھر نبی ہونے کا دعویٰ کس طرح درست رہتا ہے؟ ۶.ایک کا اعتراض یہ ہے کہ حدیث علم ظنی ہے کسی حدیث کا کوئی راوی معتبر یعنی تبع تابعین تک پہنچتا معلوم نہیں ہوتا.گویا حدیث کو نا معتبر خیال کرتا ہے.پھر کہتا ہے کہ اس ظنّی حدیث کو چھوڑ کرقرآن کریم سے مہدی دوراں وآمد مسیح موعود ثابت کرو.گویا بمقابل اس کے مہدی اور مسیح کی نہ کوئی پیشنگوئی قرآن کریم میں ہے اورنہ حدیث معتبر (میں) ہے تو کس طرح آمد ہو سکتی ہے؟ جوابات ۱.جناب سید عبد القادر صاحب اچھے لوگ تھے اور حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص کو اچھے لوگ اچھا کہیں وہ خدا کے حضور بھی اچھا ہوتا ہے اور یہ حدیث بخاری میں ہے.رہی یہ بات کہ ان کی فضیلت کہاں تک ہے یہ موقوف ہے دلی تعلق پر جو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اوروں کے حالات سے سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی واقف نہیں.پس حد مقرر کرنا انسان کا کام نہیں.حج بیت اللہ میں امن شرط ہے.آج کل تو عام حاجیوں کے لئے بھی امن نہیں اور امن میں مال اور جان دونوں داخل ہیں.آپ نے شاید سنا ہوگا کہ اس سال کتنے لاکھ روپیہ لے کر حاجیوں کو کس قدر دکھ دیا گیاہے اور صد ہا قتل بھی ہو گئے اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ عیسائیوں کی ایک جماعت( مسلمان ہو کر) بیت اللہ کا طواف کرے گی اور مسیح بھی ان کے ساتھ طواف کرے گا.کیونکہ

Page 227

طواف بدون اسلام لانے کے عیسائیوں سے ناممکن ہے.۲.تم جانتے ہو کہ جب انسان نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو  آیت پڑھتا ہے یہ بھی ایک دعا ہے.پھر رکوع میں اور سجود میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخر عمر میں سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ پڑھتے تھے اور یہ بھی دعا ہے.پھر التحیات میں اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْن اور دونوں درود رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وغیرہ یہ سب دعائیں ہیں اور نماز کے اندر ہیں.اگر تم غور کرو تو معلوم ہوگا کہ نماز ساری دعا ہے اور رکوع سے بعد یا پہلے آخری رکعت میں دعا مانگنا بلوغ المرام میں موجود ہیںدیکھ لو.۳.ہر ایک امر حدیث سے ثابت نہیں ہوا کرتا.مثلاً تم سے کوئی دریافت کرے کہ حدیث سے ثابت کرو کہ تمہاری کیا قوم ہے.پس یہ عقلمندوں کا کام نہیں.عقلمند کا یہ کام ہوتا ہے کہ خدا کے مختلف قسم کے دئیے ہوئے دلائل سے سچے اور صحیح دلائل کو لے لے خواہ وہ قرآن میں ہوں خواہ حدیث میںخواہ تواتر سے ملیں خواہ قانون قدرت سے.۴.حضرت مسیح مصلوب نہیں ہوئے.مصلوب کے معنے عربی زبان میں ہے وہ دکھ جس سے انسان کی چربی پگھل کر نیچے گر جاوے.صرف لکڑی پر چڑھنے کا نام مصلوب نہیں بلکہ یہ لکھا ہے کہ مصلوب وہ ہوتا ہے کہ جس کی پیٹھ کی چربی پگھل کر گر جاوے.۵.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور ضرور ہیں اور قرآن کریم میں لکھا ہے پر تم جانتے ہو کہ نبی کریم صاحب شریعت تھے اس لئے ضرور ہوا کہ کوئی شریعت جدیدہ قرآن یا نبی کریم کے احکام کے سوائے ممکن نہیں.اورنبی کا لفظ عربی زبان میں خبر دینے والے کے معنے رکھتا ہے یا بڑے آدمی کے.اس معنے کی نفی شرعًا جائز نہیں اور نیز خاتمہ تو مہر کو کہتے ہیں.جب نبی کریم مہر ہوئے تواگر ان کی امت میںکسی قسم کا نبی نہیں ہوگا تو وہ مہر کس طرح ہوئے یا مہر کس پر لگے گی.۶.حدیث کو علم ظنی کہنا لا علمی ہے اگر مطلق حدیث ظنی ہے تو تم اپنے باپ کے بیٹے کس طرح

Page 228

ثابت ہوتے ہو حالانکہ یہ خبر ظنی ہے.پنجابی مثل ہے کہ ماں جانے باپ کو.پس ایک عورت کی خبر ہی بعض اوقات یقینی ماننی پڑتی ہے اور اس کا راوی نہ نبی نہ صحابی نہ تابعین سے ہے.والسلام نور الدین ( الحکم جلد ۹ نمبر۶ مورخہ ۱۷؍ فروری۱۹۰۵ء صفحہ ۱۱) قال اور کلام سورہ اعراف میں جو ابلیس کا قصہ درج ہے اور عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ اور ابلیس کے درمیان گفتگو ہوتی رہی اس پر میں نے سوال کیا کہ یہ کلام کس طرح ہوئی تھی؟ جناب مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں سے اکثر لوگوں کویہ علم نہیں کہ جب کوئی سوال کرے تو اس پر غور کرے اور دیکھے کہ آیا خوداس کا سوال درست بھی ہے کہ نہیں.جھٹ سائل کے رعب میں آکر اس کا جواب د ینے کی کوشش کی جاتی ہے مثلاً یہی سوال ہے کہ اس میں ابلیس اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کلام کا ذکر ہے.حالانکہ سارے قرآن شریف میں کلام کا لفظ آیا ہی نہیں تھوڑی سی بحث کے بعد یہ امر قرار پایا کہ اردو زبان اصل میں ناقص ہے جو کہ عربی کلام کے مفہوم کو پورے طور پر ادا نہیں کر سکتی اور پھر آپ نے سوال کا مفہوم سمجھ کر جواب کی طرف توجہ کی.قَالَایک ایسا لفظ ہے جو کہ عربی زبان میں صرف کلام اور مخاطبہ پر ہی نہیں بولا جاتا بلکہ اظہار حالت پر بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً ایک ضرب المثل ہے قَالَ الْجِدَارُ لِلْوَتَدِ لِمَ تَشُقُّنِیْ قَالَ سَلْ مَنْ یَّدُقُّنِیْ دیوار نے میخ کو کہاتُومجھے پھاڑتی ہے تومیخ نے کہا کہ آپ اس سے سوال کریں جومجھے کوٹتا ہے.اسی طرح کلام کے لفظ کے ساتھ بھی جب تک تکلیمًا وغیرہ کا لفظ نہ ہو یا قرائن نہ ہوں تب تک اس کے معنے بھی زبان سے کلام کرنے کے نہیں ہوتے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے (النساء :۱۶۵) تکلیمًا کے لفظ نے یہاں اس امر کو صاف کیا ہے کہ ضرور مکالمہ ہی تھا.اس امر کے سمجھنے کے لئے کہ کون سا ایسا مقام ہوتا ہے کہ وہاں قال کا لفظ ہو اور اس کے معنے کلام الٰہی کے ہوں.یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ کا مخاطب کوئی اس کا برگزیدہ اور

Page 229

صاحب فضل شخص ہے کہ نہیں؟کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ برگزیدوں سے ہی کلام کرتا ہے شریر اور بدکار اس کے خطاب کے مستحق نہیں ہوتے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے (البقرۃ :۲۵۴) یہاں اس امر کی تخصیص ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ رسولوں یا رسول صفت انسانوں سے ہی کلام کرتا ہے.مسئلہ تقدیر پر نوٹ (الاعراف: ۲۹،۳۰) جب یہ لوگ کچھ برا کام کرتے ہیں اور اس پر کوئی ملامت کنندہ ملامت کرتا ہے تو جواب میں کہا کرتے ہیں کہ ہمارے آباواجداد بھی اسی طرح کرتے آئے ہیں.اس لئے یہ بات فحش نہیں اور بعضے یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا نے ہی ان باتوں کاا مرکیا ہے اور اپنے دعوے کے اثبات میں بعض آیات شرارت سے پیش کرتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کا ردّ فرماتا ہے کہ خدا کی شان کے یہ بات شایان ہی نہیں کہ وہ فحش کا امرکرے تم کو تو صفات الوہیت کا علم ہی نہیں جو خدا کی طرف ان باتوں کو منسوب کرتے ہو.خدا کا امر تو ہمیشہ عدل اور انصاف پر مبنی ہوتا ہے جس میں کسی قسم کے جبر و اکراہ کو دخل نہیں. (الاعراف: ۳۵) اس آیت کے معنے سمجھنے میں لوگوں نے غلطی کھائی ہے عام طور پر اس کے معنے یہ لکھے ہوئے ہوتے ہیں کہ ہر ایک امت کا ایک وعدہ ہے جب وہ وعدہ آگیا تو اس میں نہ دیر کریں گے ایک گھڑی اور نہ جلدی.اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ جب عذاب آہی گیا تو اب جلدی کیا.بلکہ اس کے معنے یہ ہے کہ ہر ایک امت کے لئے ایک میعاد یا وقت تنزل کا ہوتا ہے جب وہ وقت آجاتا ہے تو آنے والے عذاب کو ایک گھنٹہ بھی پیچھے نہیں کر سکتے.اور اس وقت کیا یعنی قبل از وقت نزول آگے بھی نہیں کرسکتے کا عطف۱ِ کے اوپر ہے.

Page 230

(الاعراف:۳۸) نَصِیْبٌ مِّنَ الْکِتَابِ کے معنے کتاب کا وہ حصہ جس میں لکھا ہے کہ مفتری کو سزا دی جاتی ہے اور وہ ہلاک ہوتا ہے اسی لئے یہاں بھی اس کے آگے ساتھ ہی حالت موت کا بیان ہے.( البدر جلد۴نمبر۶مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۷) مکتوب بنام سید جماعت علی شاہ سیالکوٹ میں جب اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام تشریف لے گئے تو سید جماعت علی شاہ اینڈ کو نے جس قدر مخالفت میں شور و شر اٹھایا وہ ناظرین الحکم معلوم کر چکے ہیں حضرت حکیم الامت جو ہمیشہ واقعات کو غائر نظر سے دیکھا کرتے ہیں سید جماعت علی شاہ کی کارروائی کو تعجب سے دیکھتے تھے.چنانچہ آپ نے دارالامان سے سید صاحب کو یکم جنوری ۱۹۰۵کو مندرجہ ذیل خط لکھا جس کی ایک نقل حسن اتفاق سے مجھے بھی مل گئی ہے.میں اسے فائدہ عام کے لئے شائع کردیتا ہوں.یاد رہے یہ خط سید جماعت علی شاہ صاحب کو ان کے مرید منشی احمد دین کی معرفت بذریعہ ڈاک پہنچ گیا ہوا ہے.(ایڈیٹر) از قادیان یکم جنوری ۱۹۰۵ء مکرم معظم سید صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے مشائخ میں حضرت شاہ عبد الغنی مجددی نقشبندی مہاجر مدینہ علیہ الرحمۃ تھے.میں ان کے اخلاق عادات اور اطوار کو بڑی عظمت اور وقعت سے اب تک دیکھتا ہوں اور میں اس کو جب معیار بنا تاہوں تو بہت سے کاملین کو کامل یقین کرنے کا مجھے موقعہ مل جاتا ہے.جناب نقشبندی سلسلہ کے ایک بزرگ ہیں اور چونکہ میںبھی اس سلسلہ کا مستفیض انسان ہوں اس لئے مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں اپنے سلسلہ کے لوگوں کی نسبت کوئی عیب دیکھوں تو ظاہر کر دوں.میں نے سیالکوٹ میں دیکھا ہے کہ وہ لوگ جو عورتوں کے سامنے بڑے فحش کاا ظہار کرسکتے ہیں اور پھر زٹلی جیسے جو اپنے

Page 231

آپ کو خودزٹلی کہتے ہیں آپ کے مقرب بنے ہوئے تھے.اور مرزا کا مقابلہ ایسی طرح سے کیا جاتا تھا کہ جو آپ کے قومی فضل اور آپ کے شیخ نقشبندیہ اور روحانی تربیت کی طرف متوجہ ہونے والے کے بالکل خلاف نظر آتے تھے.میں مانتا ہوں کہ مرزا کا کوئی دعویٰ آپ کو ناگوار ہویا نا گوار ہواہے مگر اہل اللہ کا مقابلہ اس طرح پرنہیں چاہیے تھا جس طرح آپ نے کیا ہے.سب دل اللہ تعالیٰ کے فضل کے نیچے ہوتے ہیں.والسلام نور الدین (الحکم جلد۹ نمبر ۷ مورخہ۲۴ ؍فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۴) ایک لطیف استفتاء اور اس کا جواب چند روز سے ایک نووارد نوجوان مولوی شمس الدین احمدسید مقبول حسین صاحب وصلؔ حنفی قادری رزاقی بلگرامی دارالامان میں وارد ہیں وہ اپنے وطن بلگرام (جو ایک مشہور اور مردم خیز قصبہ ہے) سے کسی تقریب پر دہلی تشریف لائے تھے.وہاں سے آگرہ پہنچے اور میرے مخدوم و مکرم ڈاکٹر حافظ خلیفہ رشید الدین صاحب پروفیسر میڈیکل کالج آگرہ سے ان کی ملاقات ہوئی.ڈاکٹر صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک رخشندہ گوہر ہیں.انہوں نے آپ کو قادیان آنے کی تحریک کی چنانچہ سید صاحب امرتسر ہوتے ہوئے اور وہاں کے علماء سے ملتے ملاتے آخر قادیان پہنچے.آپ نے چند اختلافی مسائل جزیہ حضرت حکیم الامت کے حضور لکھ کر بغرض جواب پیش کئے.حضرت ممدوح نے ان مسائل کا جو جواب دیا وہ فائدہ عام کی خاطر ذیل میں مع اصل سوالات کے چھاپ دیتا ہوں.سید صاحب کی یہ محنت الدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ (الادب المفرد باب الدال علی الخیر) کی مصداق ہے.ایسے اجنبی اور سلسلہ سے الگ بہت کم لوگ یہاں آتے ہیں جو یہاں آکر حضرت اقدس ؑ یا بزرگان ملت سے استفادہ کرنے کی سعی کریں اور اپنے سفر کو وسعت معلومات اور تبادلہ خیالات کا صحیح ذریعہ قرار دیں بہرحال وہ دلچسپ خط و کتابت یہ ہے.(ایڈیٹر الحکم)

Page 232

ھو الرزاق الواحد بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علٰی حبیبہ الکریم ماقولکم رحمہم اللّٰہ تعالٰی اندریں مسائل ذیل ۱.رفع یدین کرنا جائز ہے یا نہیں.اگر صحیح ہے تو اس کے لئے حوالہ کتب احادیث و عبارت درکار ہے.۲.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم بالجہر قبل الحمد و دیگر سورۃ کے پڑھنا اور آمین بالجہر کہنا کس حدیث سے ثابت ہے.۳.مقتدیوں کو پنج وقتہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا چاہیے یا صرف عصر اور ظہر کے وقت اور ہر ایک کے جواز کی صورت میں دلیل درکار ہے.اسی طرح سوائے سورہ فاتحہ کے اور سورۃبھی بعد سورۃ فاتحہ کے مثل امام کے پنج وقتہ یا صرف ظہر اور عصر کے وقت پڑھنا جائز ہے یا نہیں.۴.نماز میں ہاتھ کہاں پر باندھنا چاہیے.۵.دعا کو امام کا بالجہرنماز کے اندر مانگنا درست ہے یا نہیں اگر ہے تو کیونکر.۶.تکبیر جو نماز کے وقت کہی جاتی ہے اس میں کیا کیا کہنا چاہیے اور کَے کَے مرتبہ.اور اس کے لئے بھی حوالہ درکار ہے.۷.خطبہ جمعہ یا عیدین محض عربی میں ہونا چاہیے یا جس زبان میں چاہے پڑھے اور اس میں اشعار عربی ، فارسی یا اردو وغیرہ کے پڑھنادرست ہیں یا نہیں اور خطبہ میں کیا کیا شرائط ہیں.۸.اذان پنج وقتہ مسجد کے اندر دینا چاہیے یا باہر مسجد کے اور بالخصوص وہ اذان جو خطیب کے خطبہ پڑھنے کے وقت دی جاتی ہے کہاں پر دینا چاہیے.ہر حالت میں حوالہ و دلیل درکار ہے.۹.اذان ہونے کے بعد جو دعا مانگی جاتی ہے وہ ہاتھ اٹھا کر مانگنا چاہیے یا بغیر ہاتھ اٹھائے.

Page 233

.امام کو مسجد میں محراب کے اندر یا کھڑکی کے اندر نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں.اگر ہے تو کس دلیل سے.۱۱.نماز جمعہ کیا جہاں چار پانچ یا اس سے کچھ کم زائد مسلمان ہوں جائز ہے اور اس کے واسطے مصر اورغیر مصر کی شرط مَا ثَبَتَ بِالْکِتَابِ وَا لسُّنَّۃِ ہے یا نہیں اور مصر کی کیا تعریف ہے.۱۲.لباس میں مسلمانوں کوکیا استعمال کرنا چاہیے یا جو لباس چاہے استعمال کرے خواہ وہ کوٹ پتلون ہی کیوں نہ ہو.یا کیا؟ ۱۳.اب کسی خاندان میں مثل قادریہ چشتیہ نقشبندیہ سہروردیہ کے کسی کا مرید ہونا درست ہے یا نہیں (یعنی سوائے سلسلہ احمدیہ قادیانیہ کے).۱۴.اب ہندوستان میں کن کن علماء کو عالم سمجھنا چاہیے اور ان کے فتاویٰ پر پابند ہونا چاہیے منجملہ ان کے چند کے نام تحریر فرمائیے (یعنی سوائے ان عالموں کے جو سلسلہ احمدیہ قادیانیہ میں داخل ہو گئے ہیں اور دیگر علماء کو ماننا چاہیے یا نہیں خواہ وہ کسی خاندان کے ہوں).۱۵.سماع کسی طرح پرجائز ہے یا نہیں اور اس کا مزامیر کے ساتھ سننا کیسا ہے اور مزامیر کے ساتھ سننے والے کے واسطے کیا حکم ہے اور اس کے واسطے حوالہ ودلیل درکار ہے.۱۶.کسی وظیفہ کا مثل حزب البحر ،حزب الاعظم ،دلائل الخیرات، قصیدہ بردہ، دعا سیفی وغیرہ کا پڑھنا کیسا ہے.۱۷.تعویذات جو آیت قرآنی وغیرہ کے ہوں ان کا کچھ اثرہوتا ہے یا نہیں.۱۸.کسی بزرگ ولی اللہ کے مزار پر جانا کیسا ہے.۱۹.موزوں پر مسح کرنا جائز ہے یا نہیں اور بالخصوص بالکل سوتی موزوں پر خواہ مہین ہوں یا موٹے ڈبل.اس کے واسطے بھی حوالہ کی ضرورت ہے.۲۰.مثنوی شریف حضرت مولانا روم علیہ الرحمۃ و دیوان حضرت حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ یہ کیسی کتابیں ہیں

Page 234

۲۱.کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قدم مبارک سب اولیاء اللہ کے گردنوں پر تھا اور ہے.۲۲.فاتحہ تیجاوغیرہ اور مولود شریف یا گیارھویں یا عرس کرنا کیسا ہے.۲۳.کتاب تذکرۃ الاولیاء حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کی اور اخبار الاخیار حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ القوی کی اور احیاء العلوم مستند کتب ہیں یا نہیں.۲۴.مدینہ طیبہزَادَ ہَااللّٰہُ شَرْفًا وَّ تَعْظِیْمًا وَّ تَکْرِیْمًا کو یثرب کے لقب سے استعمال کرنا کیسا ہے.۲۵.دلائل الخیرات کے پڑھنے کے واسطے اجازت وغیرہ کی ضرورت ہے یا نہیں.۲۶.سوائے مسلمانوں کے اور غیر مذہب کے لوگوں کو سلام کرنا کیسا ہے اور اگر وہ خود سلام کریں تو ان کو کن الفاظ میں جواب دینا چاہیے.۲۷.ابہام کو بوسہ دینا اس وقت جب حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اذان یا اور کسی وقت لیا جاوے اور مولود شریف میں قیام کرنا کیسا ہے.امید ہے کہ ان سوالوں کا جواب مفصل و مدلل بحوالہ قرآن و حدیث و کتب فقہ و اقوال فقہاء تحریر فرمائیں کہ تسکین ہو.فقط بَیِّنُوا وَ تُوْجَرُوْا.ملتمسہ آوارہ دشت گمنامی عبدہ شمس الدین احمدسید مقبول حسین وصل حنفی قادری رزاقی بلگرامی عاملہ اللہ تعالیٰ بلطفہ السامی و غفرلہ ا للہ تعالیٰ ذنوبہ بجاہ نبیہ التہامی مقام قادیان ضلع گورداسپور

Page 235

نور الدین ۵ ؍مارچ ۱۹۰۵ء السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ بجواب گرامی نامہ عرض ہے ان مسائل جزئیہ میں میری اپنی تحقیق یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کا جو مجموعہ عمل و درآمد میں ضرور ہے مثلاً موطا بخاری اور زیادہ سے زیادہ صحیح مسلم اور ابو داؤد.ایک مومن متقی کے لئے جیسی اس کی استعداد ہو سہل الحصول ہے.اس سے زیادہ ایک ہوس ہے.عملی حصہ میں اس کی ضرورت نہیں.ہاں عقائد و اصول کی باتوں پر اور طریقہ سے توجہ کرنی چاہیے جو غالبًا بلکہ یقینا اسی قرآن کریم اور صحیحین بلکہ صحیح بخاری سے حاصل ہو سکتا ہے.مکرم بندہ! ان مسائل جزئیہ میں علماء کا اختلاف ہے جن کو آپ نے دریافت فرمایا.پس جو امر میرے نزدیک ان مسائل میں محقق ہے اس کو میں نے بیان کر دیا ہے.اور ایسے مسائل میں زیادہ کدو کاوش کی ایک متقی عامل کو ضرورت نہیں.ان مسائل میں سے مثلاً رفع یدین ہے روایۃً رفع یدین کرنا قوی ہے اس کے مقابل کے دلائل میرے نزدیک وہ قوت نہیں رکھتے جو رفع یدین کے دلائل بالمقابل شوکت رکھتے ہیں مگر مخالف دلائل ہیں ضرور ان کا انکار نہیں ہوسکتا.ہاں الحمد شریف خلف الامام میں جیسے خصوصیت سے پڑھنا ثابت ہے نہ پڑھنا فاتحہ کا خصوصیت سے ثابت نہیں.پس پڑھنا بڑی ترجیح رکھتا ہے اور نماز میں ہاتھ سینہ پر کی روایت صحیح ہے اور تحت سینہ کی ضعیف اور بعض مسائل تو ایسے ہیں کہ مخالفہ پر دلیل ہی نہیں.مثلاً اذان عند الخطبہ امام کے سامنے چاہیے.جمعہ کی شرائط.بیعت خاندان ہائے خاصہ (چشتیہ ،سہروردیہ وغیرہ وغیرہ)اور بعض مسائل پر سوائے فطرت سلیمہ کون تمیز کر اوے.مثلاً علماء میں قابل فتویٰ کون کون ہے.بعض مسائل اس قسم کے ہیں کہ جب قوم میں تنزل و ادبار شروع ہوتا ہے اور ہر ایک فرد اپنی اپنی ابتلاؤں میں حیران و پریشان ہو جاتا ہے تو اَلْغَرِیْقُ یَتَشَبَّثُ بِکُلِّ حَشِیْشٍ.کبھی بت پرستوں کے مزاروں کو حاجت روائی کا ذریعہ بناتا ہے اور کبھی حزبوں سیفیوںکو.کہیں مریدوں کو

Page 236

تعویذ گنڈے بتا دیتا ہے کہ آخر کچھ تو ملے.اسی طرح فاتحہ، تیجا روٹی کے ذرائع ہیں اس قوم کے لئے جو تباہ ہو گئی ہے اور ہو رہی ہے اور اس میں سے وحدت کی روح نکل گئی.بوسے بزرگوں کے ہاتھ پر دینے کی ضرورت اس وقت ایجادہوئی جب پیروں میں حقیقی قوت نہ رہی.جناب من !یاد رکھیں کہ اختلاف کی دو قسمیں ہیں.ایک اختلاف تضاد اور دوسرا اختلاف انواع.احادیث صحیحہ میں اور دلائل قویہ میںاختلاف انواع تو ہوتا ہے مگر اختلاف تضاد نہیں ہوا کرتا مثلاً کوئی نہیں دکھا سکتا کہ قرآن کریم میں ایک دفعہ تو حکم ہوا ہو کہ فلاں خاص کام ضرور کرو پھر دوسرے وقت کہا گیا ہو کہ فلاں کام ہرگز نہ کرنا.عام طور پرا حادیث میں حکم ہو کہ فلاں کام ہر شخص ضرور کرے اور پھر کہا گیا ہو کہ کوئی بھی یہ کام نہ کرے.اور یہ کیا اختلاف ہے کہ عشاء میں حضرت نبی کریم نے وَالشَّمْس اور وَالتِّیْنپڑھی اور ایک شخص روایت کرتا ہے کہ اِنَّا اَنْزَلْنَا اور وَالَّیْل پڑھی کیونکہ مسنون بار بار عشاء کی نماز پڑھی اور اس میں کبھی کبھی کوئی سورۃ پڑھی اور کبھی کوئی سورۃ.جناب من! یہ طریق ہزاروں مسائل کو حل کر دیتا ہے.اور بعض مسائل تو خواہ مخواہ لوگوں نے مسائل شرعیہ بنا لیے ہیں حالانکہ وہ ہرگز شرعی مسائل نہیں بلکہ یوں ہی غیر ضروری امور ہیں جن کو شَرْعًا نَفْیًا وَّ اِثْبَاتًا کوئی تعلق نہیں.الجواب ۱.عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یَکُوْنَا بِحَذْوَ مَنْکَبَیْہِ ثُمَّ یُکَبِّرُ فَاِذَا اَرَادَ اَنْ یَّرْکَعَ رَفَعَہُمَا مِثْلَ ذٰلِکَ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرَّکُوْعِ رَفَعَھُمَا کَذٰلِکَ.وَقَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ.متفق علیہ(بخاری و مسلم )فَمَازَالَتْ تِلْکَ صَلٰوتُہٗ حَتّٰی لَقِیَ اللّٰہُ.اخرجہ البیہقی(معرفۃ السنن والاٰ ثار للبیھقی ، کتاب الصلٰوۃ باب تکبیرللرکوع وغیرہ).پس جواز رفع یدین میں کوئی کلام نہیں گو ابن مسعود سے عدم رفع بھی منقول ہے.

Page 237

۲.الحمد شریف کے پہلے بسم اللہ کے متعلق اور اور سور کے متعلق عرض ہے.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْہُمْ یَقْرَأُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.رواہ احمد و مسلم (مسند احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ ،مسند انس بن مالک رضی اللہ عنہ.مسلم کتاب الصلٰوۃ باب من قال لا یجھر بالبسملۃ ).عَنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ …إِذَا أَنْتَ قَرَأْتَ فَقُلْ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ(مسند احمد، مسند المدنیین حدیث عبداللہ بن مغفل.حدیث نمبر۱۶۷۸۷ ) رواہ الخمسۃ الا ابا داود.وَ عَنْ اَنس … قَالَ نَزَلَتْ عَلَیَّ اٰنِفًا سُوْرَۃٌ فَقَرَاَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ (سنن النسائی کتاب الافتتاح باب قراء ۃ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم)رَوَاہُ احمد و مسلم النسائی فَکَانُوْا لَا یَجْہَرُوْنَ رَوَاہُ ابْنُ حَبَانٍ وَ کَانُوْا یُسِرُّوْنَ رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃَ وَ ذَکَرَ الْبَیْھَقِیْ فِی الْخَلَافِیَاتِ اَنَّہُ اجْتَمَعَ اٰلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْجَہْرِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.۳.عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ(صحیح البخاری ، باب کتاب الاذان باب وجوب القراء ۃ للامام… حدیث نمبر ۷۵۶)رَوَاہُ الْجَمَاعَۃِ.وَ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ إِنِّی أَرَاکُمْ تَقْرَئُ وْنَ وَرَآء َ إِمَامِکُمْ، قَالَ قُلْنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ، إِیْ وَاللّٰہِ، قَالَ لَا تَفْعَلُوْا إِلَّا بِأُمِّ القُرْآنِ، فَإِنَّہُ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِہَا(سنن الترمذی، ابواب الصلٰوۃ ، باب ماجاء فی القراء ۃ خلف الامام حدیث نمبر ۳۱۱) رَوَاہُ اَبُوْدَاوٗدُ وَالتِّرْمَذِیُّ.۴.عَنْ وَائِلِ بْنِ حَجْرٍ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِہٖ رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃَ وَ صَحَّحَہٗ.

Page 238

وَعَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ اِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَ الْاَکُفَّ عَلَی الْاَکُفِّ تَحْتَ السُّرَّۃِ (مسند احمد، مسند الخلفاء الراشدین، مسند علی بن ابی طالبؓحدیث نمبر ۸۷۵ ) رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْ دَاوٗدَ وَ فِیْ اَسْنَادِہٖ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ اسْحٰقَ الْکُوْفِیِّ قَالَ اَبُوْدَاوٗدُ سَمِعْتُ اَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلَ یُضْعِقُہٗ وَ فِی الْکَبِیْرِیْ شَرَحَ مُنْیَۃَ الْمُصَلّٰی اَنَّہٗ مُجْمَعٌ عَلٰی ضَعْفِہٖ.۵.عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوعِ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ مِنَ الْفَجْرِ یَقُوْلُ اَللَّہُمَّ الْعَنْ فُـلَانًا وَفُـلَانًا وَفُلاَنًا بَعْدَ مَا یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْء ٌ)أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ مِنَ الرَّکْعَۃِ الآخِرَۃِ مِنَ الفَجْرِ یَقُولُ: اللَّہُمَّ العَنْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا بَعْدَ مَا یَقُولُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ فَأَنْزَلَ اللَّہُ لَیْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْئٌ (آل عمران:۱۲۸) إِلٰی قَوْلِہٖ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ(صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب لیس لک من الامر شی ء حدیث نمبر ۴۰۶۹) رواہ البخاری وَعَنْ أَنَسٍ … قَالَ کَانَ القُنُوْتُ فِی الْمَغْرِبِ وَالْفَجْرِ(صحیح البخاری ، ابواب الوتر، باب القنوت ، قبل الرکوع و بعدہ.حدیث نمبر ۱۰۰۴) رواہ البخاری.۶.عَنْ أَنَسٍ قَالَ أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوْتِرَ الْإِقَامَۃَ …إِلَّا الْإِقَامَۃَ (صحیح مسلم، کتاب الصلٰوۃ ، باب الامر بشفع الاذان…حدیث نمبر ۳۷۸) رَوَاہُ الْجَمَاعَۃُ.۷.خطبہ وعظ جس طرح مخاطب لوگ سمجھیں خطبہ نثر پر بولا جاتا ہے نہ اشعار پر.۸.اَذَّنَ بِلَالُ فِی الصُّبْحِمتفق علیہ ہے.وَعَنْ اَبِیْ سَعَیْدٍ اِذَا کُنْتَ فِیْ غَنَمِکَ اَوْ بَادِ یَتِکَ فَارْفَعْ صَوْتَکَ بِالنِّدَائِ.(صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الصوت بالنداء حدیث نمبر ۶۰۹)رَوَاہُ الْبُخَارِیْ.خطبہ کی اذان اصل اذان ہے جہاں ہمیشہ موذن

Page 239

اذان دیتا ہے وہاںدے.جمعہ کی اذان خطبہ سے پہلے کوئی خصوصیت مکانی نہیں رکھتی.۹.دعا بعد الاذان میں خصوصیت کے ساتھ ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں اور نہ محمول ہے اسلام میں.۱۰.امام کے لئے ممانعت شرعًا ثابت نہیں کہ فلاں جگہ نہ کھڑا ہو.۱۱.نماز جمعہ کے لئے تعداد مقتدیوں کے متعلق اور مصر وغیرہ کی شرط احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں پس ایجاب شرائط شرع.۱۲.لباس میں رجال کو تشبیہ بالنساء اور نساء کو تشبیہ بالرجال جائز نہیں اور رجال میں حریر ممنوع ہے اسی طرح معصفر اور عورتوں کے لئے بہت باریک لباس ممنوع ہے.عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَعَنَ الرَّجُلَ یَلْبِسُ لَبْسَ الْمَرْأَۃِ وَالْمَرْأَۃَ تَلْبِسُ لَبْسَ الرَّجُلِ رَوَاہُ اَحْمَد.عَنْ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا تَلْبِسِ الْحَرِیْرَ.متفق علیہ عَنْ عَلِیِّ قَالَ نَھَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ....عَنْ لِبَاسِ الْمُعَصْفَرِ (صحیح مسلم باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر حدیث نمبر۲۰۷۸)رَوَاہُ مُسْلِم عَنْ اُسَامَۃَ کَسَوْتُ الْقُبْطِیَّۃَ امْرَأَتِیْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرْھَا أَنْ تَجْعَلَ تَحْتَھَا غِلَالَۃً فَاِنِّیْ اَخَافُ اَنْ تَصِفُ حَجْمَ عِظَامَھَا رَوَاہُ اَحْمَد.ہاں ثوب شہرت ممنوع ہے.عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُہْرَۃٍ فِی الدُّنْیَا اَلْبَسَہُ اللّٰہُ ثَوْبَ ذِلَّۃٍ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ.رَوَاہُ اَحْمَد وَ اَبُوْ دَاؤُد.۱۳.اَفَلَتْ شُمُوْسُ الْاَوَّلِیْنَ.۱۴.فَاسْئَلْ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتَ لَا تَعْلَمُ وَھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی.۱۵.مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ وَلَا بُدَّ اَنْ یَّکُوْنَ الرَّجُلَ فَعَّالًا لَّا قَولاً.۱۶.فِی الْاِسْتِغْفَارِ وَلَاحَوْلَ.وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الْحَمْدُ وَ الْقُرْآن

Page 240

وَاَدْعِیَۃُ الْحَدِیْثِ کِفَایَۃٌ.۱۷.وَمِنَ التَّعَاوِیْذِ فِی الْمُعَوَّذَتَیْنِ کِفَایَۃٌ.۱۸.اَ لَا تَزُوْرُوْھَا عَامَ فِیْ جَمِیْعِ الْقُبُوْرِ.۱۹.عَنْ جَرِیْر اَنَّہُ بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَ مَسَحَ عَلٰی خُفَّیْہِ ثُمَّ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَ مَسَحَ عَلٰی خُفَّیْہِ متفق علیہ.عَنِ الْمُغِیْرَۃِ ابْنِ شُعْبَۃَ اَنّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تَوَضَّأَ وَ مَسَحَ عَلٰی جَوْرَبَیْنِ وَ النَّعْلَیْنِ.صَحَّحَہُ الْتِرْمَذِیْ.۲۰.مثنوی اوردیوان حافظ عمدہ نظم ہے.صاحب مثنوی صوفی اور فلسفی ہیں.۲۱.سید عبد القادر الجیلی عمائد اولیاء اللہ سے ہیں.قَدَ مِیْ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیٍّ شاید ان کا قول ہو اور اپنے زمانے کے اولیاء پر ان کوفضیلت ہو.۲۲.مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ.(ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللّسان فی الفتنۃ حدیث نمبر ۳۹۷۶) وَا تِّبَاعُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھُوَ الدِّیْنُ.۲۳.تاریخی کتابیں میں نے آج تک ایسی نہیں دیکھیں کہ ان میں قوی و ضعیف صحیح و غلط سب کچھ ہی نہ ہو.۲۴.مدینہ کو یثرب کہنا شرعًا جائز نہیں.۲۵.دلائل الخیرات سے بہتر وہ صلوٰۃ و سلام ہے جو نماز میں ہے اور اجازت الٰہی صلوۃ وسلا م کے لئے ہو چکی ہے دلائل الخیرات اجازت کی محتاج نہیں اور نہ یہ اجازت کوئی چیز ہے.۲۶.مسلمانوں اور حضرت ابو الملت ابراہیم علیہ السلام نے کفار کو ابتداء ً سلام فرمایا ہے.(القصص : ۵۶) اور فرمایا ہے (مریم:۴۸).

Page 241

۲۷.بوسہ ابہام اور مولود میں قیام احادیث صحیحہ سے ہرگز ثابت نہیں.فقط.نور الدین المجیب اجاب عندی بالصواب فقد اجاد واصاب برہان الدین عفی اللہ عنہ جہلمی مقام قادیان (الحکم جلد۹ نمبر۸ مورخہ۱۰ ؍مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۹ تا ۱۱) مشک خالص کی شناخت مولانا مولوی حکیم نور الدین صاحب حکیم الامت نے ایک صاحب کو مشک خالص کی جو شناخت بتلائی تھی وہ پبلک کے فائدہ کی غرض سے درج اخبار کی جاتی ہے.۱.مشک میں ایک لوہے کی پتلی سیخ کو رکھ کر اسے آگ پر رکھو.تو اس کا دھواں سفید ہوگا اور غیر خالص کا سفید نہ ہوگا.۲.اول ایک سوئی کو ہینگ میں چبھو کر سونگھو.پھر اسی کو مشک میںچبھو کر سونگھو اگر ہینگ کی بو مطلق نہ رہی تو مشک خالص ہے.۳.خالص مشک کا مزا زبان پر قدرے تُرشی لئے ہوئے ہوتاہے اور اس کے کھاتے ہی نازک اور فہیم آدمی کی پیشانی گرم ہو جاتی ہے غیرخالص میں یہ باتیں نہیں ہوتیںاور غیر خالص کا چھیچڑا زبان پر رہتاہے اور خالص بالکل گھل جاتا ہے.

Page 242

تربیت اولاد پر طریق عمل ۲۹؍اپریل ۱۹۰۵ء کو قریب شام مجھے حضرت حکیم الامت کے حضور شرف ملازمت حاصل تھا باتوں ہی باتوں میں اس بات پر ذکر آ گیا کہ آپ عبدالحي کو بہت آزاد کیوں رکھتے ہیں اور اس کو کبھی تنبیہ نہیں کرتے.فرمایا.میں اس کو مناسب تنبیہ تو کرتا ہوں اور ایسے طریق پر کہ اسے ذرا بھی ناگوار نہیں ہوتا اور وہ اصلاح کر لیتا ہے لیکن بچوں کو مارنا پیٹنا یہ میں بالکل نامناسب سمجھتا ہوں اور مندرجہ ذیل وجوہ ہیں جو میں اس کو کھلا چھوڑ دیتا ہوں.(۱) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے.اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ (سنن ابن ماجہ باب بر الولد والاحسان الی البنات حدیث نمبر ۳۶۷۱)یعنی اپنی اولاد کی تکریم کرو اس لئے اس حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے.(۲)صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت میں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے بچوں کو زدوکوب سے پرورش نہیں کیا.(۳) پھر میں یہاں تک بھی پاتا ہوں کہ عہد رسالت میں بچوں کو ہر گز نہیںماراجاتاتھا.(۴) جبکہ شریعت اور خدا تعالیٰ نے ان کو ابھی مکلف نہیںکیا تو ہم کون ہیں جومکلف کرسکیں.(۵) عبدالحيا للہ تعالیٰ کی ایک آیت ہے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ایک پیشگوئی کے موافق پیدا ہے.آیت اللہ کی بے حرمتی اچھی نہیں.(۶) خود حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو میں دیکھتا ہوں کہ وہ بچوں کو زجر و توبیخ نہیں کرتے.میں نے خود سنا ہے کہ جب کبھی ام المومنین نے کسی بچہ کی کوئی شکایت کی ہے تو فرمایا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ اس کی فطرت اس سے کیا کراتی ہے.میں دعا کروں گا.(۷) اولاد کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ نیک ہو تا کہ ہمارے لئے دعائیں کرنے

Page 243

والی ہوں لیکن اگر شروع ہی سے ہم ان کے دل میں اپنے لئے بغض پیدا کرلیں گے تو وہ دعائیں کرنے والی ہوں گی یا بددعا کرنے والی.(۸) میری اور میرے بھائی بہنوں کی تربیت کبھی اس رنگ سے نہیں ہوئی.میرے والدین ہم سب پر اور مجھ پر بہت ہی بڑی عنایت اور شفقت کیا کرتے تھے.ہماری تعلیم کے لئے وہ کبھی بڑے سے بڑے خرچ کے لئے بھی آزردہ خاطر نہ ہوتے تھے بلکہ بڑی خوشی سے ادا کرتے تھے.میں نے کبھی اپنے والد یا والدہ ماجدہ سے کوئی گالی بچوں کو نہیں سنی بلکہ والدہ صاحبہ جن سے ہزاروں لڑکیوں اور لڑکوں نے قرآن شریف پڑھا ہے وہ اگر کسی کو گالی دیتی تھیں تو وہ یہ گالی دیتی تھیں محروم نہ جاویں.(۹) جب ہم خود (باوجودیکہ اس قدر عمر ہوگئی ہے اور بہت کچھ پڑھا اور پڑھایا ہے) بھی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو جن کو کچھ بھی واقفیت اور علم نہیں اگر غلطی کر بیٹھیں تو اس پر اس قدر غصہ اور غضب کیوں ہو.(۱۰) غلطیوں اور فروگزاشتوں پر دعا کرنی چاہئے.حضرت اقدس علیہ السلام گھر میں ایک دفعہ فرمارہے تھے کہ لوگ جو کسی پر ناراض ہوتے ہیں مجھے حیرت ہے کیوں ناراض ہوتے ہیں کیا انہوں نے اس کے واسطے چالیس دن رو کر دعا بھی کی ہے اگر چالیس دن رو کر دعا کرے اورپھر بھی اس کی اصلاح نہ ہو تو البتہ اسے ناراض ہونے کا موقعہ ہے.استفسار اور ان کے جواب (۱) قبرستان کے لئے جو زمین وقف کی جاوے اس میں اگر کوئی شخص مسجد بناوے اور پھر اس مسجد کو پیچھے کی جانب محراب ومنبر وغیرہ توڑ کر مال زکوٰۃسے بنا سکتا ہے یا نہیں ؟ الجواب.مسجد کو پیچھے کی جانب یعنی قبلہ رخ بڑھانے کی ممانعت شرع اسلام سے ثابت نہیں بلکہ مسجد مکہ اور مسجد نبوی بھی ہر طرف سے بڑھائی گئی ہے.منبر محراب توڑنے کی ممانعت بھی

Page 244

ہمیں ثابت نہیں قبرستان کو مسجد بنانا یا وقف کے خلاف ورزی کرنا تو ممنوع ہے مگر اس میں بھی غور طلب یہ امر ہے کہ مسجد نبوی بھی جس مقام پر بنائی گئی ہے وہ بھی قبرستان تھا.مصرف زکوٰۃ میں مسجد کا بنانا ہرگز نہیںہو سکتا.لَا تَصْرِفِ الزَّکٰوۃَ اِلٰی بِنَائِ الْمَسْجِدِ وَ قَنْطَرَۃِ وَاِصْلَاحِ طُرُقِ وَ نَحْوَ ھَا ( عینی شرح کنز ).قرآن کریم ، احادیث صحیحہ اور آثار سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ زکوٰۃ سے مسجدیں بنائی گئی ہوں.(۲) سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں جو یہود پر دو وعدے کے وقت آئے وہ کب آئے تھے اور مسلمانوں پر کب ؟ الجواب.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بیشک بنی اسرائیل کی طرح مسلمانوں پر بھی یہ دو خطرناک وقت آئیں گے بنی اسرائیل پر پہلی آفت حضرت دائود و سلیمان کے عہد سلطنت کے بعد میں پڑی جبکہ بابل کے بادشاہ اور مشرق کے لوگ ان کو قید کر کے لے گئے.مسلمانوں پر یہ تباہی کا وقت عباسیوں کی سلطنت میں آیا جبکہ ہلاکو اور اس کی قوم نے ان کی سلطنت کو بیخ سے کاٹ ڈالا.یہ تو (بنی اسرائیل : ۶) کی تفسیر ہوئی دوسری دفعہ بنی اسرائیل پر مسیح کے وقت میں بڑی تباہی آئی جو مسیح کی مخالفت کا نتیجہ تھا اور آپ کی مخالفت ہی اس کا باعث ہوئی.مسلمانوںکے لئے بھی یہ دونوں وقت سخت خطرہ کے ہیں ایک وقت تو ان پر عباسیوں کے عہد میں آ چکا ہے اب دوسرا وقت جو مسیح موعود کی مخالفت کا نتیجہ ہو گا وہ اس کی پوری مخالفت پر موقوف تھاجس کا زمانہ مسیح موسوی کی طرح اس کے بعد اپنی مخالفت کا مزہ چکھاوے گا یہ وہ زمانے جو مسلمانوں پر آنے تھے ایک زمانہ ہم پر پہلے دیکھ چکے ہیں اور دوسرا آ رہا ہے پھر جس طرح بنی اسرائیل پر مختلف تباہیاں آئی ہیں ایسے ہی مسلمانوں کو مختلف تباہیاں ان الفاظ میں بتائی گئی ہیں خسف بالمشرق خسف بالمغرب و خسف فی جزیرۃ العرب اسی وعدہ کے مطابق مشرق میں

Page 245

مسلمانوں پر یہ تباہی آئی کہ سلطنت ، بغداد ، غزنی ، خوارزم ، بخار ا، ہند، سندھ مسلمانوں کے قبضہ سے نکل گئے.مغرب میں ہسپانیہ، مراکش ‘ الجزائر ‘ زنجبار اور مصر ہاتھ سے نکل گئے.(الحکم جلد۹ نمبر۱۱ مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰) ایڈیٹر البدر کے انتخاب پر اظہار خوشنودی میرا دل گوارا نہیںکر سکتا تھا کہ قادیان سے کوئی مفید سلسلہ جار ی ہو اور وہ رک جاوے.البدر کا چند روزہ و قفہ رنج تھا.سردست اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تدبیر نکالی ہے کہ میاںمعراج الدین عمر جن کو دینی امور میں اللہ تعالیٰ نے خاص جوش بخشا ہے.اس طرف متوجہ ہوئے اور نصرت اللہ یوں جلوہ گرہوئی کہ اس کی ایڈیٹری کے لئے میرے نہایت عزیز مفتی محمد صادق ہیڈماسٹر ہائی سکول قادیان کو منتخب کیا گیا.اور اس تجویز کو حضر ت امام نے بھی پسند فرمایا.میں یقین کرتاہوں کہ ہمارے احباب اس نعم البدل پر بہت خوش ہوں گے.نور الدین (البدر جلد ۱ نمبر۱ مورخہ ۶ ا؍پریل۱۹۰۵ء صفحہ ۱) استفسار اور ان کے جواب استفسارات ۱.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جناب کا طریق عمل دربارہ سورۃ فاتحہ خلف الامام آمین بالجہر رفع یدین کیا ہے.۲.نماز شام میں اکثر لوگ تیسری رکعت کے رکوع کے بعد دعائے رفع طاعون پڑھا کرتے ہیں اس طرح پر کہ امام بآواز بلند پڑھتا رہتاہے اور مقتدی بآواز بلند آمین پکارتے ہیں کیا یہ امر بموجب حدیث شریف درست ہے.۳.وبائِ طاعون میںمسلمان کی موت شہادت ہے یا کیا؟

Page 246

۴.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مریدوں کو غیرمسلمانوں کے ساتھ مل کر با جماعت نماز ادا کرنی چاہیے یا نہیں.راقم مہر الدین مدرس مدرسہ میانونڈ ڈاکخانہ خاص میانونڈ ضلع امرت سر جوابات ۱.سورۃ فاتحہ خلف الامام کو ہم فرض سمجھتے ہیں ضروری پڑھنی چاہیے.میں بھی پڑھتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی پڑھتے ہیں.آمین بالجہر کو ہم پسند کرتے ہیں لیکن یہ موقوف ہے انسان کی دلی جوش پر.اللہ تعالیٰ کے ساتھ جب تعلقات شدید ہوں دل میں دعا کے لئے جوش اضطراب اور کرب ہو تو بے اختیار انسان چلّا اٹھتا ہے.اگرچہ خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل ایسی اضطراری حرکات سے مستثنیٰ ہوتے ہیں ان کے دل میں جوش ،اضطراب، تذلل، انکسار سب کچھ ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حضور روتے چلّاتے ہیں لیکن پاس والا معلوم نہیں کرسکتا.ہم کبھی بالجہر کرتے ہیں کبھی نہیںبھی، نماز دونوں طرح ہوجاتی ہے مگر سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر نماز نہیں ہوتی.رفع یدین کو روایتًا قوی جانتے ہیں عملًا ترک بھی ثابت ہے.حضرت اقد س علیہ السلام نے کی بھی ہے اور عام طور پر نہیں کرتے ہیں.اور دونوں حالتو ں میں نماز کا ہو جانا مانتے ہیں.۲.اس طریق پر دعا مانگنا درست ہے اور نزول حوادث کے وقت ثابت ہے.۳.حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی موت شہادت ہے لیکن ایمان ایک ایسی شے ہے کہ اس کا پورا اور اصل حال خدا تعالیٰ ہی کو معلوم ہے.یعنی اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتاہے کہ کون مومن ہے کون نہیں.۴.غیرمسلمان کے ساتھ تو کسی کو بھی نماز پڑھنا جائز نہیں.اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ ایک احمدی کو غیر احمدی کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں تو یاد رکھو کہ اگر احمدی امام ہو تو اس کے مقتدی خواہ غیر احمدی ہوںیا احمدی ایک احمدی ان میں شامل ہو کر نماز پڑھ سکتاہے لیکن اگر امام غیر احمدی ہو تو ایک احمدی کو اس کے پیچھے نماز پڑھنی نہیں چاہیے اس کے متعلق خود حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام

Page 247

نے تحفہ گولڑویہ میں یہ عبارت لکھی ہے.’’اِس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یادرکھو کہ جیسا خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفّر اور مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہواسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ یعنی جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا پس تم ایسا ہی کرو.کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیںاور تمہیں کچھ خبر نہ ہو.جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر ایک حال میں مجھے حَکَم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازع کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پائو گے.پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں.‘‘ (تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۴ حاشیہ) (الحکم جلد ۹ نمبر۱۳ مورخہ ۱۷؍ اپریل۱۹۰۵ء صفحہ ۱) اشتہار’’الدعوت‘‘سننے پر تأثرات و سجدات ۵؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو جو اشتہار الدعوت نام شائع ہوا اس کا مسودہ مولانا مولوی عبد الکریم صاحب پڑھ رہے تھے.جب اس مقام پر پہنچے کہ تم نے ان تمام علامتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو حضرت حکیم الامت بے اختیار ہو کر سجدے میں گر پڑے.خاکسار ایڈیٹر ان کے بالکل قریب تھا اور وہ ان باتوں کو باریک نظر سے دیکھنے کا عادی ہے اس نے دیکھا کہ حکیم الامت دیر

Page 248

تک سجدے میں پڑے رہے اور جب سر اٹھایا چہرہ زرد ہو گیا تھا.جس سے معلوم ہوا کہ ہیبت اور جبروت الٰہی اس پر غالب تھی اس کی بے نیازی پر ایمان تھا اور اس کے فضل پر سجدہ شکر.پھر جب مولوی عبد الکریم صاحب اس مقام پر پہنچے کہ ہاں یہ سچ ہے کہ نہ میں جسمانی طور پر آسمان سے اترا ہوں اور نہ میں دنیا میں جنگ اور خون ریزی کرنے کے لئے آیا ہوں بلکہ صلح کے لئے آیا ہوں مگر میں خدا کی طرف سے ہوں تو جلی الفاظ پر آپ نے پھرایک لمبا سجدہ کیا.جو معلوم ہوتا تھا کہ اس توفیق کا شکریہ تھی جو خدا تعالیٰ نے حضرت امام علیہ السلام کی شناخت عطا کی اور اسے ہمارے زمانہ میں بھیجا.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.اشتہار پڑھ کر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بھی ایک لمبے سجدہ میں گر پڑے.جس سے میں نے اندازہ کیا کہ کیسے پاک قلوب ہیں جو متأثرات میں یک رنگی رکھتے ہیں.اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنَا مِنْہُمْ.آمین جوالامکھی کی تباہی پر تأثرات جوالا مکھی کے تباہ ہونے کا ایک خط آیا.اس پر مجھ سے فرمایا کہ مجھے آج بہت بڑی خوشی ہوئی ہے اور میں دیر تک خدا کی حمد کرتا رہا اور سجدات شکر بجا لایا.میرا دل عجیب خوشی سے بھرا ہوا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی توحید کے قائم ہونے کے واسطے یہ مبارک فال ہے یہ بت ایسا بت تھا جس کے لئے دلائل بیان کئے جاتے تھے مجھے کامل یقین ہو گیا ہے عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مَقَامُھَا(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۴۳۲)میں اَلدِّیَارُ سے مراد یہی کانگڑہ کی ویلی ہے.یہ بڑا بھاری شرک کا مندر تھا.خدا تعالیٰ نے اسے تباہ کر دیا ہے تم اس پر ایک لیڈنگ آرٹیکل لکھو.میں نے عرض کی کہ جناب ہی لکھیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو خاص ذوق عطا فرمایا ہے.فرمایا.نہیں تم لکھو.اس پر پھر میں نے عرض کی کہ میں چاہتاہوں کہ خواہ جناب چند سطرہی لکھ دیں ان میں برکت ہوگی اس پر میں اضافہ کر لوں گا.چنانچہ آج دوسری جگہ جو لیڈر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے.کے عنوان سے میں نے لکھا ہے وہ حضرت حکیم الامت کی اسی پاک تحریک کا نتیجہ ہے آپ نے چند سطور مجھے لکھ دیں اور

Page 249

حضر ت امام کے حضور بھی سنا کر یہی کہا کہ تم اسے مکمل کرلو.اور حضرت امام علیہ الصلوٰۃو السلام نے بھی ایسا ہی فرمایا.میں نے تعمیلاً ارشاد اس لیڈر کو لکھا ہے اس میں قبولیت اور برکت رکھ دینا خدا تعالیٰ کا فضل اور فعل ہوگا.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم یا حی یا قیوم لا الہ الا انت.نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم و آلہ مع التسلیم امّا بعد غور کرو.شرک ہی ایک ایسی بری بلا ہے جس کی نسبت الٰہی ارشاد ہے (النساء : ۱۱۷) اور شرک ہی ہے جس کو کہا گیا ہے کہ لا علمی اور جہالت پر اس کی بناء ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(لقمان : ۱۶) اور فرمایا (بنی اسرائیل: ۳۷) اور شرک ہی ہے جو ظلم عظیم ہے جیسے فرمایا (لقمان:۱۴) اور یہ بھی یاد رکھو کہ دنیا عبرت حاصل کرنے کا مقام ہے یوم الفصل نہیں.اس مختصر تمہید کے بعد سوچوکہ شرک کے دلائل گو ہمیشہ نسج العنکبوت ہوا کرتے ہیں مگرعوام مظاہر قدرت میںاُعجوبہ کے ایسے گرویدہ ہو جاتے کہ کوئی عمدہ دلیل ان کے لئے کار گر نہیں ہو سکتی.دیکھو!جو الامکھی کا پہاڑ پنجاب بلکہ ہند اور کشمیر میں اپنے اعجوبہ کے باعث ایک عظیم الشان معبد تھا اور طاعون کے دنوں میں لوگ اس ملک کو امن یقین کر رہے تھے اور صلیب پرست گو اس خیال سے نہیں اِلَّا عمدہ آب و ہوا کے لئے وہاں بہت ہی جمع تھے اور یہودی مخلوق کے لئے مادیا ت ہی معبود ہیں.وہاں زلزلہ آیا اور اسی اعجوبہ کی وجہ سے آیا اور کب آیا جب ایک مامور من اللہ نے انبیاء کے قدم بقدم تبلیغ کاکام ایک کمال تک پہنچایا.پھر اسی پنجاب میں اتمام حجت کے لئے سینکڑوں تدبیر وںسے کام لیا مگر بے پروائی کی گئی.آخر راستبازی مصدق راستبازوں کا ہو سکتا تھا کیونکہ اسی کی شان ہے مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ.اس راستباز نے عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مَقَامُھَا کی پاک وحی گیارہ مہینے پیشتر شائع کی ہے اور بتا دیا

Page 250

کہ بیرونی عارضی طور پر ایک خاص دار کے رہنے والے اور وہاں کے اصلی باشندے تباہ ہوجائیں گے.آخر ۴؍ اپریل کو اس کا ظہور ہوا اب دیکھیں جو دیکھنے کی آنکھیں رکھتے ہیں اور سنیں جو سننے کے کان رکھتے ہیں.فقط.نور الدین (الحکم جلد ۹ نمبر۱۳ مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) شیرازہ قوم مضمون کی نسبت رائے حضرت حکیم الامت کے حضور میں نے اس مضمون کا مسودہ پیش کیا تھا آپ نے اسے نہایت غور سے پڑھا اور اپنے قلم سے اس پر مندرجہ ذیل رائے لکھ دی.میں اس آگہی کو بہت ہی ضروری یقین کرتا ہو ں گو میرا دل ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ ہماری قوم محدود ہو.ہم ابراہیم کی اولاد ہوں جو گنی نہیں جاسکتی.مگر سردست اس آگہی کی ضرورت ہے اور وہ ضرورت ان شاء اللہ تعالیٰ بعد کو ظاہر کی جاوے گی.نور الدین (الحکم جلد ۹ نمبر۱۹ مورخہ ۳۱؍ مئی۱۹۰۵ء صفحہ ۶) حکیم فضل الرحمنؓ کی حکمت و طب کی نسبت رائے میںتصدیق کرتا ہوں کہ فضل الرحمن میرے تجارب سے واقف ہے اور خوب واقف ہے.بعض خطرناک بیماریوں نفث الدم اور دق میں اس نے بڑی جان فشانی سے علاج کیا اور کامیاب ہوا.میں امید کرتا ہوں کہ اگر وہ تقویٰ سے کام لے گا تو اس کو خود بھی اور اس کے باعث بہت لوگوں کو نفع پہنچے گا.الٰہی میرا گمان سچ ہو.آمین.نور الدین (الحکم جلد ۹ نمبر۱۹ مورخہ ۳۱؍ مئی۱۹۰۵ء صفحہ ۱۳) بیٹے کے ختم قرآن کی خوشی کے اظہار کا مبارک طریق حضرت حکیم الامت سلمہ اللہ تعالیٰ کے بچے عبد الحئی سلمہ اللہ نے ۲۷؍ جون ۱۹۰۵ء کو قرآن شریف ختم کیا.یہ تقریب حضرت حکیم الامت کے لئے ایک خوشی کی تقریب ہے… حضرت حکیم الامت کے کئی بچے فوت ہو چکے تھے اس پر مجھے ایک طبیب نے کہا کہ میں حکیم الامت کو

Page 251

ان کے علاج کی طرف متوجہ کراؤں.میں حضرت حکیم الامت کی پاک زندگی پر غور کرنے کا کافی موقع نہیں پا سکا تھا میں اتنا ہی جانتا تھا کہ ایک جلیل القدر انسان ہے اولادکی خواہش فطری خواہش ہے یہ رجوع کرے گا.میں نے جب اس معاملے کو پیش کیا تو جو جواب مجھے دیا اس نے میرے ایمان کو بہت بڑھا دیا.اصل جواب حضرت حکیم الامت کے ہاتھ کا لکھا ہوا میرے پاس موجود ہے اس کا مفہوم اور مطلب یہ ہے کہ مجھے محض اولاد کی کوئی بھی خواہش نہیں ہے کئی اولادیں ہوئیں اور مر گئیں.ہاں مجھے اولاد صالح کی بے شک خواہش اور ضرورت ہے اگر کسی کے پاس ایسی اولاد کا نسخہ ہو تو میں ہزاروں ہزار روپیہ دینے کو طیار ہوںلاؤ.حضرت حکیم الامت کو قرآن شریف سے جو محبت اور مناسبت ہے وہ ان کی آشنا دنیا سے چھپی ہوئی نہیں.قرآن شریف آپ کی غذا ہے بیماریوں کے حملہ سے اٹھ کر پہلا علاج آپ درس کے اجراء سے کیا کرتے ہیںجو گویا بیماری کی گئی ہوئی قوت کے اعادہ کے لیے یاقوتی ہے.پس حکیم الامت کی ایسی پیاری اور محبوب کتاب کو ان کا بچہ پڑھ لے تو ان کی خوشی کس حد تک پہنچ سکتی ہے یہ خوشی محض اس لیے نہیں کہ بچہ ہوشیار ہو گیا ہے یا تعلیم کی طرف توجہ کرنے لگا ہے بلکہ محض اس لیے کہ اس نے خدا کی کتاب پڑھی ہے.عبد الحی جب قرآن شریف ختم کر کے آیا تو اسے کیا فرمایا میںاپنے الفاظ میں درج کرتاہوں.بیٹا! ہم تم سے دس باتیں چاہتے ہیں ان میں سے۱۰ /۱ آج تم نے کر لی ہیں.قرآن شریف پڑھو اور پھرا س کو یاد کرو.پھر اس کا ترجمہ پڑھو.پھر اس پر عمل کرو.پھر اسی عمل میں تمہیں موت آجائے.قرآن شریف پڑھاؤ پھر یاد کراؤ.پھر ترجمہ سناؤپھر عمل کراؤ پھر اسی حالت میں تم کو موت آجاوے.یہ دس نصیحتیں اور خواہشیں بتا سکتی ہیں کہ حکیم الامت اپنی اولاد کے لیے کیا چاہتا ہے اس میں نہیں ہے کہ تم فلاں عہدہ حاصل کرو یا دنیا کے فلان صیغہ میں ترقی کرو بلکہ قرآن شریف اس پر عمل اس کی خدمت ساری زندگی کی غرض بتائی کیا مبارک ہے وہ باپ جس کی یہ خواہش ہے اور کیسا مبارک ہے وہ بچہ جس کے باپ کے یہ ارادے ہوں.(اے اللہ ہم کو بھی ایسی ہی پاک خواہشیں عطا کر.آمین)

Page 252

اس نصیحت کو سن کر چھ سالہ بچہ کیا کہتا ہے ’’ابا جی میں نے یہ قرآن شریف تو پڑھ لیا ہے پہلے یہ تو کسی مسکین کو دے دو.‘‘ حکیم الامت کا دل ان کلمات کو سن کر اور بھی خوش ہوا.غرض یہ تقریب تھی خوشی کی اب اس کے اظہار کے لیے حکیم الامت نے کیا سوچا اور کیا کیا.اس کے اظہار کے لیے مختلف طریقے احباب نے پیش کیے.کسی نے کہا کہ یسرنا القرآن قاعدہ کی طرز پر قرآن شریف چھپوایا جاوے.کسی نے کہا تفسیر لکھی جاوے.حکیم الامت نے فرمایا کہ جو حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماویں وہ مبارک ہوگا.اس میں بتایا کہ آپ نے کس طرح پر رضائے امام کو اپنی خواہشوں پر مقدم کرلیا اور کامل طور پر اس عہد کو نباہا ہے جو اس کے ہاتھ پر کیا ہے.(اے اللہ ہمیں بھی توفیق دے.آمین)حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ چونکہ مولوی صاحب کی طبیعت کمزور ہے کوئی دماغی محنت کا کام مناسب نہیں ہے سردست مساکین کو کھانا کھلا دیں اور احباب کی دعوت کر دیں.چنانچہ ۲۸ اور ۲۹ ؍جون ۱۹۰۵ء کو ایسی دعوت دی گئی یہاں تک تو جو کچھ ہوا ہوا.میںنے حضرت حکیم الامت کی خدمت میں عرض کی کہ میں چاہتا ہوں کہ اس تقریب پر مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایک حافظ قرآن جو عمدہ پڑھنے والا ہو مقرر کیا جاوے جو قرآن شریف یاد کرائے.فرمایا میرا بھی دل چاہتاہے اللہ تعالیٰ جو چاہے گا کرے گا.چونکہ کالج کے بند کرنے کا آپ کو بہت بڑا صدمہ ہے.اس لئے میری تحریک پر آپ نے نہایت انشراح صدر اور خوشی کے ساتھ پسند فرمایا کہ کالج فنڈ میں ایک سو روپیہ نقد عطا فرمائیں جو دیا گیا.یہ ایک فقرہ ہے جس پر میں قوم کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں بھی آئے دن خوشی کی تقریبیں ہوتی رہتی ہیں جن پر ہم صد ہا روپیہ صرف کر دیتے ہیں.لیکن نہیں سوچتے کہ اس روپیہ کے مصرف کیا اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی نصرت اور تائید کے لیے ہیں؟ (الحکم جلد۹ نمبر ۲۳مورخہ ۳۰؍ جون۱۹۰۵ء صفحہ ۵)

Page 253

وصیت نور دین ناظرین الحکم کو معلوم ہوگا کہ پچھلے دنوں جب حضرت حکیم الامت (نصیب اعداء ) بیمار ہوگئے تھے اس وقت آپ نے خاکسار ایڈیٹر سے فرمایا تھا کہ اس حالت کرب و اضطراب میں میں نے ایک مضمون لکھا ہے.وہ مضمون ایڈیٹر الحکم کو مل گیا ہے جسے وہ ناظرین الحکم کے فائدہ کے لئے ذیل میں چھاپتا ہے.اصل مضمون چونکہ عربی میں ہے اس لئے پہلے اصل چھاپتا ہوں اور اگلی اشاعت میں انشاء اللہ اس کا ترجمہ مع بعض ضروری حواشی کے میں درج کروں گا.وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ.(ایڈیٹر الحکم ) ھٰذَا شَھَادَتِیْ اَمَانَۃٌ عِنْدَ کُلِّ مَنْ سَمِعَ اَوْنَظَرَ فَفَھِمَ بَعْدَ اَنْ اَشْھَدْتُّ اللّٰہَ تَعَالٰی وَمَلٰئِکَتَہ عَلِیْمًا.وَاَنَا الْفَقِیْرُ اِلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.نُوْرُ الدِّیْنِ.اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ کَاسْمِہٖ.اٰمِّیْن.اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی رَبِّیْ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ.الرَّحْمٰنَ الرَّحِیْمَ مَالِکَ یَوْمِ الدِّیْنِ.وَاِنَّ اللّٰہَ الْاَحَدُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ کُفُوًا اَحَدًا.وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ.الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ.وَاِنَّہ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ یُدَبِّرُ ا لْاَمْرَ مِنَ السَّمَآء اِلَی الْاَرْضِ، الْقَادِرُ الْفَعَّالُ لِمَا یُرِیْدُ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ.کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا وَلَہُ الْاَسْمَآء ُ الْحُسْنٰی وَھُوَ الْغَنِیُّ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ.اِسْتَوٰی عَلٰی عَرْشِہٖ وَلَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْء ٌ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍعِلْمًا وَخَلْقًا وَوَسِعَ کُلَّ شَیئٍ عِلْمًا وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْئٍعَدَدًا یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی اَلَایَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَا للَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ.عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَتَعَالیٰ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ.ھُوَ الْاَ وَّلُ لَیْسَ قَبْلَہ شَیْء ٌ ھُوَ الْاٰخِرُ لَیْسَ بَعْدَہ شَیْء ٌ ھُوَ الظَّاھِرُ لَیْسَ فَوْقَہ شَیْء ٌ ھُوَا لْبَاطِنُ لَیْسَ دُوْنَہ شَیْء ٌ لَّا رَآدَّ لِقَضَآئِہٖ وَلَا مُعَقِّبٌ لِحُکْمِہٖ بِیَدِہِ الْخَیْرُ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ.وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا.لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَلَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا وَّلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ وَلَوْ شَآء َ لَھَدی النَّاسَ جَمِیْعًا.یَغْضِبُ

Page 254

وَیَرْضٰی وَیَفْرَحُ بِتَوْبَۃِ الْعَبْدِ.لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَ بْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ وَمَعَ ھٰذَا وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ.وَالْقُرْاٰنُ کَلَامُ اللّٰہِ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی مَوْلٰنا وَ رَسُوْلِنَا خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ وَسَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ رَحْمَۃٍ لِّلْعٰلَمِیْنَ اُرْسِلَ اِلَی النَّاسِ نَعَمْ اِلَی النَّاسِکَافَّۃً قَالَ تَعَالٰی (الاعراف:۱۵۹) وَنَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ وَوَعَدَ اَنَّہ حَافِظُہ کَمَا قَالَ تَعَالٰی (الحجر: ۱۰) وَھُوَ ھُدًی وَّرَحْمَۃٌ وَّشِفَاء ٌ وَّرَوْحٌ وَّفَضْلٌ.وَکِفَایَۃٌ وَقَدْ کَفٰی.وَالْمَلٰئِکَۃُ حَقٌّ وَالرُّسُلُ حَقٌّ وَکَتَبَ اللّٰہُ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ حَقٌّ وَلَمْ یَزَلِ اللّٰہُ رَبًّا رَحِیْمًا مُّتَکَلِّماً وَلَا یَزَالُ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہ تَقْدِیْرًا وَالْقَبْرُ وَالسُّؤَالُ فِیْہِ وَالنَّشْرُ وَ الْحَشْرُ حَشْرُ الْاَ جْسَادِ وَالْحِسَابُ وَفَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ وَالصَّرَاطُ وَالشَّفَاعَۃُ لِاَ ھْلِ الْکَبَائِرِ فَضْلًا عَنِ الصَّغَائِرِ وَلِرَفْعِ الدَّرَجَاتِ حَقٌّ، نَعْمَآء ُ الْجَنَّۃِ حَقٌّ فَھِیَ عَطَاء ٌ غَیْرُ مَجْذُوْذٍ وَالْأُمُّ النَّارُ وَاِنَّ عَلَیْھَا تِسْعَۃُ عَشْرٍ حَقٌّ وَاِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَایُرِیْدُ وَقَدْ سَبَقَتْ رَحْمَتُہ غَضَبَہ وَاِنَّہ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ وَاَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ وَاَکْرَمُ الْاَکْرَمِیْنَ.ثُمَّ الْاِ سْلَامُ بُنِیَ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃٌ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالزَّکٰوۃُ وَالصَّوْمُ وَالْحَجُّ.وَاِنَّ الصَّلوٰۃَ وَسِوَا ھَا کَمَا ثَبُتَ فِی التَّعَامُلِ وَالسُّنَّۃِ وَکَمَابُنِیَتْ مُشَرَّھًا فِی الْمُؤَطَّا وَالْبُخَارِیِّ وَرَاَیْنَاھَا فِی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَیْقَنَّا اَنَّھَا سَبِیْلُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَقَالَ تَعَالٰی  (النساء :۱۱۶).وَاِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہ، تَعَالٰی کَمَا اَمَرَنَا بِاتِّبَاعِ مَا اَنْزَلَ اِلَیْنَا اَمَرَنَا بِاتِّبَاعِ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلُہ، کَمَا قَالَ (اٰل عمران:۲۳) وَکَمَا

Page 255

َمَرَبِاِطَاعَتِہٖ اَمَرَنَا طَاعَۃَ رَسُوْلِہٖ وَاِطَاعَۃِ اُولِی الْاَمْرِ فَقَالَ(النساء :۶۰).بَلْ وَقَالَ فِی اِطَاعَۃِ الْوَالِدَیْنِ (لقمٰن :۱۶) وَلَا بُدَّ اَنْ نُّقَدِّمَ اِطَاعَۃَ اللّٰہِ وَاِطَاعَۃَ کِتَابِہٖ عَلٰی اِطَاعَۃِ الْخَلْقِ وَاِطَاعَۃِ رَسُوْلِہٖ اِطَاعَتُہٗ تَعَالٰی عَزَّ سُلْطَانُہٗ کَمَا قَالَ (النساء :۸۱) وَاَحَبَّ اتِّبَاعَ السَّابِقِیْنَ الْاَوَّلِیْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ کَمَا قَالَ تَعَالٰی (التوبۃ : ۱۰۰).فَاِنَّھُمْ اَوَّلُ مَنْ تَزَکّٰی بِتَزْکِیَۃِ حَبِیْبِنَا وَسَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.وَالْخُلَفَآء ُ الرَّاشِدُوْنَ مِنْھُمْ اَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ مَاکَانُوْا وَلَا وَاحِدٌ مِّنْھُمْ مُنَافِقًا اَبَدًا فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی وَصَفَ الْمُنَافِقِیْنَ بِاَنَّھُمْ (التوبۃ:۷۴) وھٰؤُلٓاء ِ نَالُوْا مَا ھَمُّوْا.وَھُمْ مِصْدَاقُ (النور:۵۶).وَھُمُ الْغَالِبُوْنَ کَمَا ذَکَرَ فِی الْمَائِدَۃِ.وَعَلِیٌّ مِّنْھُمْ صِھْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَخَتَنُہ وَزَوْجُ بِنْتِ الرَّسُوْلِ فَاطِمَۃَ الْبَتُوْلِ وَحُبُّہ اَیْمَانٌ وَبُغْضُہ نِفَاقٌ وَھُوَاَخُ رَسُوْلِنَا مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی وَمِنْھُمْ سَیِّدٌ وَھُوَ حَسَنُ الْمُجْتَبَی اللّٰھُمَّ تَرٰی فِیْ قَلْبِیْ حُبَّہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَاِنَّہ مِصْدَاقٌ یُصْلِحُ اللّٰہُ بِہٖ بَیْنَ الْفِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاَحَبَّ اَخَاہُ الْحُسَیْنَ سَیِّدُ شُبَّابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ قُتِلَ غِرًّا مَّظْلُوْمًا شَھِیْدًا وَاُبْغِضُ فِیْ مُقَابَلَتِہِ الْعَنِیْدَ ذَالْخَیْبَۃِ فَاِنَّہ مَااَثْنٰی عَلَیْہِ اَحَدًا خَیْرًا بَلْ اَثْنَوْا عَلَیْہِ شَرًّا.وَاُحِبُّ الْعَشَرَۃَ الْمُبَشَّرَۃَ وَاَصْحَابَ الْبَدْرِ وَبَیْعَۃَ الرِّضْوَانِ وَمَنْ قُتِلَ فِیْ ا

Page 256

اُحُدٍ وَّجَمِیْعَ مَنْ بَشَّرَہ، سَیِّدُنَا وَقَرَأْنَا فِی الصِّحَاحِ بَل وَمَنْ اَسْلَمَ عَلٰی یَدِہِ الْکَرِیْمَۃِ وَمَاتَ عَلَی الْاِسْلَامِ کَمُعَاوِیَۃَ وَمُغِـیْـرَۃَ ابْنِ شُعْبَۃَ مَا کَذَبَ مِنْھُمْ اَحَدٌ فِی اَمْرِ الدِّیْنِ عَنِ الرَّسُوِلِ الْاَکْرَمِ وَمَا کَانَ اَحَدٌ مِّنْہُمْ اَطْرَشُ وَتَرَکْتُ مِنْ بَدْوِالشُّعُوْرِ الرَّوَافِضَ وَالشِّیْعَۃَ وَالْخَوَارِجَ وَالْمُعْتَزِلَۃَ وَالْمُقَلَّدَۃَ الْجَامِدَۃَ التَّارِکِیْنَ لِنُصُوْصِ الْقُرْاٰنِ وَالسُّنَّۃِ وَالْاَحَادِیْثِ الصَّحِیْحِ الثَّابِتَۃِ لِقَوْلِ اَحَدٍ وَّالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.وَمَعَ ھٰذَا اُحِبُّ اَبَا حَنِیْفَۃَ وَمَالِکاً وَالشَّافِعِیَّ وَاَحْمَدَ وَمُحَمَّدَ بْنَ اسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیّ وَاَصْحَابَ السُّنَنِ وَالْفُقَھَائِ وَالْمُحَدَّثِیْنَ رَحِمَھُمُ اللّٰہُ وَاُعَظِّمُ مَا عَلَیْہِمْ وَ اُحِبُّ اتِّبَاعَھُمْ فَاِنَّھُمْ ھُمُ الْقُدْوَۃُ وَاُثْنِیْ عَلَیْھِمْ خَیْرًا وَاَحْتَاجُ اِلٰی تَـحْقِیْقَاتِھِمْ وَمَـعَ ھٰذَا اُقَـدِّمُ مَـنْ قَـدَّمَـہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ،.وَاَعْتَقِدُ اَنَّ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ قَبْلَ رَفْعِہٖ اِلَیْہِ کَمَا وَعَدَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیْ َّ (اٰل عمران:۵۶) وَمَا قُتِلَ وَمَا صُلِبَ وَثَبَتَ رَفْعُہ لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی (النساء :۱۵۹) وَقَدَّمَ سُبْحَانَہ، فِی الْوَعْدِ تَوَفِّیْہِ وَمَا قَدَّمَہُ اللّٰہُ قَدَّمْنَا وَمَا اَخَّرَہ اَخَّرْنَا ثُمَّ اللّٰہُ جَعَلَ الْاَرْضَ کِفَاتًا اَحْیَآئً وَّاَمْوَاتًا.وَقَالَ تَعَالٰی (اٰل عمران:۱۴۵) فَخَلٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ کَمَا خَلَتِ الرُّسُلُ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَاِنَّ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الَّذِیْ نَازِلٌ نَزَلَ صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ وَعَدَ لَنَا فِی الْقُرْاٰنِ فِی النُّوْرِ بِاَنَّ اللّٰہَ یَسْتَخْلِفُ مَنْ یَّسْتَخْلِفُ مِنَّا.وَصَرَّحَ رَسُوْلُنَا سَیِّدُ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاَنَّ النَّازِلَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ وَشَھِدَ اللّٰہُ وَمَلٰئِکَتُہٗ وَاُولُوالْعِلْمِ بِاَنَّہٗ ھُوَ وَشَھِدَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِاَنَّہُ الْمَھْدِیُّ وَالطَّاعُوْنُ وَالْجَدْبُ وَالْقِتَالُ بِاَنَّہُ الْمُرْسَلُ کَمَا قَالَ (الانعام:۴۳)

Page 257

وَفَوْزُہ وَفَلَاحُہ مَعَ مُخَالِفِیْہِ الْاٰرِیَۃ وَالْبَرَاھِمَہ وَالنَّصَارٰی وَالسِّکہ وَالْعُلَمَآئِ وَالْمُتَصَوِّفِیْنَ وَالْحُکَّامُ وَاَقَارِبَہ بَنِیْ عَمِّہٖ بِبُکْرَۃِ اَبِیْھِمْ بِاَنَّہ ھُوَ الْمُطَاعُ.وَتَحَدِّیْہِ وَنُصْرَتِہٖ بِاَنَّہ ھُوَ عَلَی الْحَقِّ.(الحکم جلد ۹ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۷) یہ میری شہادت ہے ہر ایک جو اس کو سنے یا دیکھے اور سمجھے اس کے پاس یہ میری امانت ہے سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کو جوعلیم ہے اور اس کے فرشتوں کو اپنی اس وصیت پر گواہ کرتا ہوں میں رب العالمین کا ایک فقیر ہوں اور میرا نام نورالدین ہے اے اللہ تو اس نام والے کو اسم بامسمّٰی فرما.آمین.میرا ربّ اللہ تعالیٰ ہے جو تمام عالموں کا ربّ ہے جس کی بخششیں بغیر ہماری کسی محنت کے ہمیں عطا ہوئیں اور جو ہماری محنتوں کو بارآور کرتا ہے.جزاء وسزا کے وقت کا وہ مالک ہے وہ اللہ ایک ہے بے احتیاج ہے نہ اس کو کسی نے جنا تھا اور نہ آگے اس نے کسی کو جنا اور نہ اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں سب بادشاہی اس کی ہے سب حمد اس کے لئے ہے وہ زندہ ہے دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے.آسمان سے زمین کے لئے تمام امور کی تدابیر کرتا ہے وہ قدرت والا ہے جو ارادہ کرتا ہے وہی کر لیتا ہے سنتا ہے دیکھتا ہے اسی نے موسیٰ سے کلام کیا اور اس کے خوبصورت نام ہیں اور وہ سب سے بے پروا ہے.وہ اپنے عرش پر ٹھیک ٹھاک حکمران ہے اور کوئی اس کی مانند نہیں اس کے علم اور خلق کا احاطہ سب پر ہے اور اس کا علم سب پر وسیع ہے اور ہر ایک شے کو اس نے گن رکھا ہے وہ چھپے رازوں کو جانتا ہے اور مخفی باتوں سے آگاہ ہے.کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟ وہ باریک سے باریک باتوں سے باخبر ہے.وہ غیب کو جانتا ہے ظاہر سے آگاہ ہے.اس کی ذات برتر ہے اس سے جو وہ شریک کرتے ہیں.وہ اوّل ہے اس کے قبل کوئی نہیں وہ آخر ہے اس کے بعد کوئی نہیں وہ ظاہر ہے اس کے اوپر

Page 258

کوئی نہیں وہ باطن ہے اس کے سوا کوئی نہیں.اس کی قضا کو کوئی رد نہیں کر سکتا اور اس کے حکم کو کوئی موڑ نہیں سکتا.اسی کے ہاتھ میں خیر ہے اور وہ سب چیزوں پر قادر ہے اور تیرے ربّ کی باتیں صدق وعدل سے پوری ہوئیں.اس کے کلمات کو کوئی بدل نہیں سکتا اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا اور تیرا ربّ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اللہ کی حجت سب پر غالب ہے اگر وہ چاہتا سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا.وہ غضبناک ہوتا ہے اور راضی بھی ہوتا ہے اور بندہ کی توبہ پر خوش ہوتا ہے اور آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب بصارتوں پر احاطہ کرتا ہے.وہ باریک باتوں سے خبردار ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ کئی منہ اس دن خوش ہوں گے اور اپنے ربّ کی طرف نظر کرنا ان کو نصیب ہو گا.اور قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے روح الامین نے یہ کلام ہمارے مولیٰ خاتم النبیین اور سردار بنی آدم رحمۃً للعالمین پر نازل فرمایا.یہ رسول لوگوں کی طرف ہاں تمام جہان کے لوگوں کی طرف بھیجا گیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہہ دے اے لوگو! خدا کی طرف سے تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں.خدا نے جو سب باتوں سے عمدہ بات نازل فرمائی ہے وہ قرآن ہے اور خود اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے ہم نے ہی یہ نصیحت نامہ نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں یہ کلام ہدایت ہے، رحمت ہے، شفا ہے، روح ہے اور فضل ہے اور کفایت کرنے والی ہے اور بیشک اس نے کفایت کی.اور فرشتے حق ہیں اور رسول حق ہیں اور اللہ کی کتاب حق ہے اور جو کچھ اس سے پہلے نازل ہوا وہ سب حق ہے.اور ہمیشہ سے اللہ رب رحیم کلام کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا ہر شے کو اس نے پیدا کیا اور ہر شے کا ایک اندازہ مقرر کیا.اور قبر میں سوال اور مردوں کا جی اٹھنا اور جسموں کا پھر نکلنا اور حساب کا ہونا اور ایک گروہ کا بہشت کو جانا اور ایک گروہ کا دوزخ میں جانا اور صراط سے گزرنا اور بڑوں کی شفاعت چھوٹوں کے حق میں اور درجات کی بلندی یہ سب باتیں حق ہیں اور ضرور ہونے والی ہیں.جنت کی نعمتیں حق ہیں اور وہ ایک نعمت ہے جو کبھی منقطع نہ ہو گی اور آگ کا

Page 259

عذاب اس پر انیس داروغوں کا ہونا یہ سب حق ہے.اور تیرا رب جو چاہے سو کر لیتا ہے وہاں اللہ کی رحمت اس کے غضب سے بڑھ گئی ہے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اور سب حاکموں کا حاکم ہے اور سب کرم کرنے والوں سے بڑھ کر کرم کرنے والا ہے.اسلام کی پانچ بنا ہیں.اوّل گواہی دینا کہ اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد اس کا رسول ہے دوم نماز سوم زکوٰۃ چہارم روزہ پنجم حج اور نماز وغیرہ اس طرح ہیں جس طرح تعامل اور سنّت سے ثابت ہے اور جس طرح اس کی تشریح مؤطا اور بخاری میں آچکی ہے اور ہم نے مومنوں کو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور یقین کیا ہے کہ یہی مومنوں کی راہ ہے.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص مومنوں کی راہ کے سوا کسی اور راہ کی تلاش کرے ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھرا اور اس کو جہنم تک پہنچا دیں گے جو بہت بُری جگہ ہے.اور اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ ہمیں حکم فرمایا ہے کہ نازل کردہ کتاب پر ایمان لائیں ایسا ہی یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ محمدؐ اس کے رسول کی اتباع کریں جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے اے رسول ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا تم سے پیار کرے گا.اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی اطاعت کا حکم فرمایا ہے ایسا ہی اپنے رسول کی اور حاکم وقت کی اطاعت کا بھی حکم فرمایا ہے.چنانچہ قرآن مجید میں آیا ہے اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسول کی اور جو تم پر حاکم ہو اس کی بھی اطاعت کرو بلکہ والدین کی اطاعت کا بھی حکم فرمایا ہے.اور فرمایا ہے کہ اگر تیرے والدین یہ کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے حالانکہ تجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں دیا گیا تو اس معاملہ میں ان کا کہنا نہ ماننا باقی دنیا میں ان کا اچھی طرح سے ساتھ دو.ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو خلقت کی اطاعت پر مقدم کیا جاوے اور اس کے رسول کی اطاعت خود اس کی اطاعت ہے جو سب پر غالب ہے.جیساکہ فرمایا ہے اور جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی.میں اس بات سے محبت رکھتا ہوں کہ مہاجرین میں سے سابقین اوّلین کا اتباع کروں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سبقت لے جانے

Page 260

والے پہلے مہاجر اور انصار اور جن لوگوں نے اخلاص سے ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سب سے پہلے پاک کئے گئے تھے.اور ان میں سے خلفاء جو راہ راست پر چلنے والے ابوبکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ ان میں سے کوئی بھی منافق نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ نے منافقین کی صفت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ جس امر کا قصد کرتے ہیں اس کو حاصل نہیں کر سکتے لیکن ان بزرگوں نے جس امر کا قصد کیا اس میں کامیاب ہوئے اور وہ اس کے مصداق ٹھہرے کہ جو تم میں سے ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا ہم ان کو زمین میں خلیفہ بنا دیں گے اور وہی غالب رہیں گے جیسا کہ سورۃ مائدہ میں ذکر ہوا ہے اور انہی میں سے حضرت علیؓ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اور آنحضرتؐ کی بیٹی فاطمہؓ بتول ان کے گھرمیں تھی ان کے ساتھ محبت رکھنا ایمان ہے اور ان کے ساتھ بغض رکھنا نفاق ہے وہ تو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی تھے اور ان کا مرتبہ ایسا تھا جیسا کہ ہارونؑ کا موسیٰ ؑکے پاس تھا اور انہی میں سے سید حسن المجتبٰی تھے.اے اللہ تو میرے دل میں ان کی محبت دیکھتا ہے.خدا ان سے راضی ہو وہ اس امر کے مصداق ہوئے کہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دو مسلمان گروہ کے درمیان صلح کرائے گا.اور میں اس کے بھائی حسینؓ سے بھی محبت رکھتا ہوں جو اہل جنت کے نوجوانوں کا سردار تھا جو دھوکہ سے مظلوم شہید ہو کر مارا گیا اور اس کے مقابلہ کے دشمن نامراد کے ساتھ بغض رکھتا ہوں کسی نے اس کی نیک تعریف نہ کی بلکہ انہوں نے ان کی برائی بیان کی.اور میں ان دس سے بھی محبت رکھتا ہوں جن کو بہشت کی بشارت دی گئی تھی اور ان سے بھی جو جنگ بدر میں شامل تھے اور ان سے جو بیعت الرضوان میں شامل تھے اور ان سے جو جنگ احد میں قتل کئے گئے تھے اور ہر ایک سے جس کو آنحضرتؐ نے بشارت دی اور ان کا ذکر ہم نے صحاح میں پڑھا ہے بلکہ ہر ایک سے میں محبت رکھتا ہوں جو اس کے دست مبارک پر اسلام لایا اور اسلام پر فوت ہوا جیسا کہ معاویہ اور مغیرہ ابن شعبہ.ان میں سے کسی نے رسول اکرمؐ سے

Page 261

دین کے معاملہ میں جھوٹ نہیں بولا اور نہ ان میں سے کوئی بہرہ تھا.جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ان مذاہب کو میں نے ترک کر دیا ہے، روافض اور شیعہ کو خوارج اور معتزلہ کو اور ایسے مقلّدین کو جو کسی ایک کے قول کی خاطر قرآن وسنّت اور احادیث صحیحہ کے نصوص کو چھوڑ دیتے ہیں.وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن اور ساتھ اس کے میں ابوحنیفہ اور مالک اور شافعی اور احمد سے محبت رکھتا ہوں اور محمد اسماعیل بخاری اور اصحاب السنن اور فقہا اور محدثین سے محبت رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.میں ان کی اور ان کے اقوال کی تعظیم کرتا ہوں اور ان کے متبعین سے محبت رکھتا ہوں.وہ مقتدا لوگ ہیں ان کی اچھی تعریف کرتا ہوں اور ان کی تحقیقات کا محتاج ہوں اور باوجود اس کے اسی کو مقدم سمجھتا ہوں جس کو اللہ اور اس کے رسول نے مقدم کیا اور میں اعتقاد رکھتا ہوں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پہلے وفات دی پھر اپنی طرف ان کا رفع کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ دیا تھا کہ میں تجھے مارنے والا ہوں اور پھر اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور نہ قتل کیا گیا اور نہ صلیب دیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے اس کا رفع ثابت ہے بلکہ اللہ نے اس کا اپنی طرف رفع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں موت کا ذکر پہلے فرمایا ہے.جس چیز کو پہلے خدا نے رکھا اس کو ہم بھی پہلے رکھتے ہیں اور جس کو پیچھے رکھا اس کو ہم بھی پیچھے رکھتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہی زندہ اور مردوں کے ٹھہرنے کی جگہ بنائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ محمدؐ ایک رسول ہے اور اس سے پہلے رسول گزر چکے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح گزر گئے جس طرح پہلے رسول گزر گئے تھے ان پر صلوٰۃ وسلام اور عیسیٰ بن مریم جو نازل ہونے والا تھا وہ نازل ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی صلوات اور سلام اس پر ہو.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدہ فرمایا تھا کہ خلیفہ جو ہو گا تم میں سے ہو گا اور رسول کریم سید الاوّلین والآخرین سید ولدآدم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصریح فرمائی تھی کہ نازل ہونے والا تم میں سے ہی ایک امام ہو گا اور اللہ نے اور اس کے فرشتوں نے اور صاحبان علم نے گواہی دی ہے کہ یہی وہ ہے جو آنے والا تھا اور سورج اور چاند نے شہادت دی ہے کہ یہی مہدی ہے.اور

Page 262

طاعون نے اور قحط نے اور جنگوں نے ثابت کر دیا کہ یہی مرسل ہے.جیسا کہ قرآن میں آیا ہے اور تجھ سے پہلے امتوں کی طرف ہم نے رسول بھیجے پھر ہم نے وہاں کے باشندوں کو قحط اور بیماری میں مبتلا کیا.اور خدا نے اس کو بامراد کیا ہے باوجود یکہ آریہ اور برہمو اور عیسائی اور سکھ اور علماء اور صوفی اور بعض حکام اور چچا زاد بھائی اور اقارب اور سب نے سارا زور لگا کر اس کی مخالفت کی باوجود اس کے اس کی کامیابی ثابت کرتی ہے کہ وہ امام ہے اور اس کا تحدی کرنا اور پھر خدا سے نصرت پانا ظاہر کرتا ہے کہ وہ حق پر ہے.(البدر جلد ۱ نمبر ۲۳ مورخہ ۷؍ ستمبر ۱۹۰۵ ء صفحہ۴ تا۶) وفات عبد القیوم حضرت ابی المکرم مولوی نورالدین صاحب کا چھوٹا لڑکا عبدالقیوم نام ۱۲؍اگست ۱۹۰۵ء کو قبل دوپہر وفات پاگیا. (البقرۃ: ۱۵۷) یہ عزیز بچہ پہلے بھی اکثر بیمار رہتا تھا لیکن کوئی دوہفتہ ہوئے مرض خسرہ میں گرفتار ہو کر پھر اس کی حالت درست نہیں ہوئی.اس کی عمر ایک سال گیارہ ماہ تھی نماز جنازہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام شامل ہوئے مگر آپ نے مولوی صاحب کو ہی پیش امام بنایا.مولوی صاحب نے اس بچہ کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے ایک رقعہ اخبار میں چھاپنے کے واسطے ارسال فرمایا تھا جس کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ احباب و برادران و عزیزان ! آپ لوگوں میں سے بہت ہیں جنہوں نے مجھے تعزیت کے خطوط لکھے اور میں سچ کہتا ہوں کہ ان کی تحریر نے مجھ پر خصوصیت سے محبت بڑھانے کا اثر کیاہے.فَجَزَاھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآء ِ.اب میں سب کا جواب دوں اور ان کا شکریہ کرتے ہوئے فَجَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآئِ لکھوں تو کم سے کم نصف آنہ خرچ ہوتا ہے اور آپ لوگوں پر ضروری اخراجات کے اور بہت

Page 263

بوجھ ہیں.دینی ضروریات کا ایک سلسلہ ہے جو روز افزوں ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض کے لئے ابتلا کا باعث ہو.ہاں اگر ان اخراجات کے نتائج کا واقعی علم ہو تو پھر سچ یہ ہے کہ بوجھ ہی معلوم نہ ہوگا اور بہت ایسے بھی ہیں جن کو بوجھ معلوم نہیں ہوتا.یہی خرچ اگر ایک جگہ جمع ہوجاتا تو کوئی بڑا دینی کام نکلتا.اب آج میرا چھوٹا بچہ بہت بیمار ہے مجھے ڈر لگتا ہے کہ اس کی صحت کی خوشی اور دوسرے پہلو میں غم کے خطوط پھر پہنچیں.اس لئے میری درخواست ہے کہ بجائے اس کے کہ مجھ ے ایسے خطوط لکھے جاویں آپ صاحبان ان خرچوں کو جمع کرکے دینی کاموں میں لگا ویں.یہ میرا دلی جوش ہے اور مجھے ڈر ہے کہ ایسے اخراجات کہیں اسراف میں داخل نہ ہوں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو فراست عطافرماوے. (ھود:۸۹)دعائیں کرو اللہ کریم ابتلاؤں سے بچائے اور آویں تو صراط المستقیم پر ثابت قدمی عطا فرماوے.نورالدین یہ رقعہ اس امر کا سبق دیتا ہے کہ متقی غم کی حالت میں بھی کیسا خشیت اللہ کی راہ پر قدم مارتا ہے اور دنیا داروں کی طرح بے ہودہ جزع وفزع اور بے صبری میں نہیں پڑتا.دفن سے پہلے مولوی صاحب نے عبدالقیوم کا منہ کفن میں سے کھولا اور بوسہ دیا اور آپ کی آنکھیں پُر آب ہوگئیں.اس پر دفن کے بعد فرمایا.’’میں نے بچہ کا منہ اس واسطے نہیں کھولا تھا کہ مجھے کچھ گھبراہٹ تھی بلکہ اسی واسطے کہ سنت پوری ہو.آنحضرتؐ کا بیٹا ابراہیم جب فوت ہوا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا منہ چوما تھا اور آپ کی آنسو بہ نکلیں.اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی مدح کی اور فرمایا کہ جدائی تو تھوڑی دیر کے لئے بھی پسند نہیں ہوتی.پر ہم خدا کے فعلوں پر راضی ہیں اسی سنت کو پورا کرنے کے واسطے میں نے بھی اس کا منہ کھولا اور چوما.یہ خدا کا فضل ہے اور خوشی کا مقام ہے کہ کسی سنت کے پورا کرنے کا موقع عطاہو.‘‘ پھر فرمایا.خدا نے ہم کو کیسا رسول عطا کیا کہ وہ ہر حالت میں ہمارا غمگسار ہے اور ہر حال میں ہم کو

Page 264

خوشی دینے والا ہے.نماز جنازہ کے بعد دفن سے پہلے ایک شخص نے مولوی صاحب سے سوال کیا کہ معصوم بچے جو مرجاتے ہیں ان کی نسبت کیا حکم آیا ہے.آیا ان سے مواخذہ ہوگا یا نہیں ہوگا.مولوی صاحب نے فرمایا.حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیامت کو جب خدا تعالیٰ اپنی مخلوق سے سوال کرے گا کہ تم نے میرے رسولوں کو کیا جواب دیا تو پانچ قسم کے لوگ ہوں گے جو اپنے آپ کو خدا کے سامنے معذور پیش کریں گے.(۱) بچے.(۲) بہت بوڑھے.(۳) بہرے.(۴) دیوانے.(۵) وہ لوگ جن کے کانوں میں خدا کے رسول کی آواز نہیں پہنچی.خد اتعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا تم کو موقع دیا جاتا ہے اور تمہیں تبلیغ کی جاتی ہے.اس لئے اس وقت ان کی طرف رسول بھیجے جائیں گے.وہ جانتا ہے کہ کون لوگ ماننے والے ہیں اور کون نہیں لیکن خدا کی طرف سے رسول کا مبعوث ہونا اور تبلیغ کا ہونا ضروری ہے.(بنی إسرَآئیل : ۱۶) اس مقام پر بعض لوگ نادانی سے اعتراض کرتے ہیں کہ وہ تبلیغ اور آزمائش کا موقع نہیں بلکہ جزا اور سزا کا وقت ہے.یہ ان کی غلطی ہے جزا اور سزا کا مقام جنت اور دوزخ اس کا نام ہے ان میں داخل ہونے سے پہلے سب آزمائش کا وقت ہے.فرمایا.مصیبت انسان پر دو طرح آتی ہیں یا تو خدا کی رضا یا اس کے غضب سے.انسان کی خوش قسمتی ہے کہ خدا کی رضا ہو لیکن اس کا علم انسان کو ہونا مشکل ہے ہاں کسی وقت خدا علم دے بھی دے تو یہ اس کا فضل ہے.فرمایا.یہ جو دعا کی جاتی ہے کہ اے اللہ اس بچہ کو ہمارے واسطے فرط اور شفیع بنا تو آخر وہ فرط اور شفیع بننے کے قابل ہوں گے تب ہی بن سکیں گے ہم تو کئی بچے آگے بھیج چکے ہیں.(البدر جلد۱ نمبر ۱۹ مورخہ ۱۰؍ اگست۱۹۰۵ ء صفحہ۷)

Page 265

عیسائیوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق بغض و عناد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ عیسائیوں کی مختلف ملکوں میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف فتنہ پردازیوں اور شرارتوں کا ذکر فرمارہے تھے.اس مقام پر حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ حضور! فقہ اللغۃ ثعلبی کی ایک کتاب ہے اسے عیسائیوں نے چھاپا ہے اس میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ لِاِلٰہِلکھ دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا نام ہی نکال دیا ہے.یہاں تک دشمنی مد نظر ہے.(الحکم جلد۹ نمبر ۳۳ مورخہ۲۴؍ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۰ ۱) استفسارات کے جواب بخدمت امام الدین ولد مولوی خیر الدین مرحوم مقام سید والہ تحصیل گو گیرہ ضلع منٹگمری (کارڈ) السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.1.قرآن شریف میں لکھا ہے (الجن: ۱۹) مسجد کی چیز کسی خاص شخص کا مال نہیں.خدا تعالیٰ کی چیزیں خدا ہی کی راہ میں لگائی جائیں.2.جو خدا تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے امام کو امام نہیں مانتا وہ اس کے مرید کو بلا و جہ کس طرح امام بنانا منظور کرتے ہیں اور پھر امام ؑ کا وہ مرید بھی کیسا ہے کہ جو اس کے امام مامور من اللہ کو نہیں مانتے ان کا وہ جا کر امام بنتا ہے.جو جس کے پیچھے چلتا ہے وہ اس کا امام اور وہ اس کا مقتدی.3.حمل میں نکاح کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے. (الطلاق : ۵).

Page 266

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم جناب حضرت اقدس امام آخرالزمان دام اقبالہ السلام علیکم کے بعد غلامان وفدویان سے گذارش ہے آنحضرت کی صحت خداوند سے نیک خواستگار.ایک شخص نے اپنی زو جہ کو تین طلاق مسجد میں بیٹھ کر رو برو دو گواہوں کے کہہ دیں.لڑکے کا ارادہ تو نہیں تھا مگر قاضی کی شرارت تھی.قاضی کے کہنے سے اس لڑکے نے تین طلاق کہہ دیں.گواہ ایک تو مسجد کا درویش تھا اور ایک زمیندار تھا اور لڑکی کو بالکل خبر اس بات کی نہ تھی جب طلاقیں ہو چکیں تو پھر لڑکی کو خبر ہوئی تو لڑکی بہت روئی اور چلانے لگی پھر کیا ہوتا تھا بعد ہونے طلاق کے دس یا بارہ روز کے بعد پھر نکاح کیا گیا اور لڑکی پیدا ہوئی اور پھر اس لڑکی کو گھر سے نکال دیا اور پھر جھگڑا پڑ گیا.اس لڑکے نے تو لڑکی کو گھر سے جدا کر دیا مگر لڑکی بہت نیک تھی.اب لڑکی کہتی ہے میں اس گھر کے سوا اور کسی گھر میں نہیں جاتی اور دوسرا خاوند اختیار نہیں کرتی جب طلاق ہوچکی تو اس وقت مہر کا ذکر تک نہیں ہوا اور ایک سو روپیہ مہر کا ہے اب وہ لڑکی اپنے والد اور والدہ کے پاس ہے اور بہت فساد مچ رہا ہے.اب اس مسئلہ کا کس طرح پر حکم ہے.نکاح ہوسکتا ہے یا کہ نہیںہوسکتا.اگر ہو سکتا ہے تو کس طرح ہو سکتا ہے آیت اور حدیث کے ساتھ لکھ کر روانہ کریں تاکہ یقین کامل ہووے جو آنحضرت کی طرف سے فتویٰ ہو گا اس پر عمل کیا جاوے گا اور نکاح کا اور مہر کا کس طرح حکم ہے.لڑکی والوں نے لاہور خط لکھا تھا وہاں سے فتویٰ آیا اس پر کچھ اعتبار نہیں اور مولوی غلام احمد صاحب مدرس مدرسہ نعمانیہ لاہور فتویٰ لکھتے ہیں کہ نکاح ہر گز نہیں ہوسکتا.فتاویٰ عالمگیری جلد ۲ صفحہ ۵۹ کا حوالہ دیتے ہیں اور مولوی عبد الواحد بن مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم امام مسجد چینیاں والی لاہور فرماتے ہیں کہ نکاح فاسد نہیں ہوتااور پھر ہو سکتا ہے اور کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیتے.حضرت عمر ؓ کا کچھ کسی طرح کا جھگڑا بتاتے ہیں اور جو شخص حلالہ کرے اور پھر طلاق دے دیوے تو اس پر مہر کا کیا حکم ہے اور حلالہ کس و جہ سے ہوسکتا ہے اور لڑکی پیدا ہوئی کو

Page 267

یا ۱۰ ماہ کا عرصہ گذرا ہے.پس اس سے زیادہ کیا لکھوں.زیادہ حد ادب.جواب طلب ضروری.سب احباب کی خدمت میں سلام مسنون الراقم کمترین محمد الدین از چینیاں ریاست فرید کوٹ امام مسجد.الجواب نسائی کی کتاب الطلاق میں یہ ایک واقعہ لکھا ہے بَابُ الثَّلاَثِ الْمَجْمُوْعَۃِ وَمَا فِیْہِ اَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَأَتَہُ ثَلَاثَ تَطْلِیْقَاتٍ جَمِیْعًا مِنَ التَّغْلِیْظِ فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ اَ یُلْعَبُ بِکَتَابِ اللّٰہِ وَ اَنَا بَیْنَ اَظْھُرِکُمْ حَتّٰی قَامَ رَجُلٌ وَ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلَا اَقْتُلُہٗ.۲.پھر قرآن کریم میں (البقرۃ : ۲۳۰) ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ طلاق یک دفعہ نہیں دینی چاہئے.احادیث اور آثار جو اس باب میں ہیں ان کے پڑھنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک بار تین طلاق دینے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے.پس جب اس کوتین طلاق شرعی ابھی تک نہیں دی گئیں پھر اس لمبے حاشیہ چڑھانے کی کیا ضرورت ہے حلالہ کے متعلق اس باب میں نسائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کیا.لَعَنَ اللّٰہُ الْمُحِلَّ وَ الْمُحَلَّلَ لَہٗ.نسائی باب احلال المطلقۃ ثلا ثا صفحہ ۹۸ اور نسائی بَابُ طَلَاقِ الثَّلَاثِ الْمُتَفَرِّدِ قَبْلَ الدُّخُوْلِ بِالزَّوْجَۃِ صفحہ۹۶ جلد اوّل میں ہے اَنَّ الثَّـلَاثَ کَانَتْ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلْعَمْ وَ اَبِیْ بَکْرٍ وَ صَدَرًا مِنْ...عُمَرَ تُرَدُّ اِلَی الْوَاحِدَۃِ.نور الدین ۲ ؍ستمبر ۱۹۰۵ء

Page 268

میاں سراج الدین صاحب احمدی تحصیل علی پور ضلع مظفر نگر السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۱.جنازہ قبل از ادائے فرض مغرب جائز ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین وقت میں جن میں نماز جنازہ پڑھنا منع فرمایا ہے اور ان میں اس کو داخل نہیں کیا.دیکھو نسائی شریف کتاب المواقیت باب النھی عن الصلوٰ ۃ نصف النہار.اس میں یہ حدیث لکھی ہے ثَلَاثُ اَوْقَاتٍ کَانَ یَنْھَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَنْ نُصَلِّیَ فِیْھِنَّ اَوْ نَقْبُرَ فِیْھِنَّ مَوْتَانَا حِیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَۃً حَتّٰی تَرْتَفِعَ حِیْنَ یَقُوْمُ قَائِمُ الظَّھِیْرَۃِ حَتّٰی تَمِیْلَ وَ حِیْنَ تَضَیَّفُ لِلْغُرُوْبِ حَتّٰی تَغْرُبَ جلد اوّل صفحہ ۹۵ مطبوعہ مصر.۲.کتنے صحابہ کا عمل ہے کہ دو رکعت.فرضِ مغرب سے پہلے پڑھ لیتے تھے بلکہ تا خیر مغرب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے نسائی جلد اوّل صفحہ۹۷ بَابُ الرُّخْصَۃِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ.ھٰذَہٖ صَلٰوۃٌ کُنَّا نُصَلِّیْھَا عَلٰی (عَھْدِ) رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلْعَمْ اور اسی کتاب کے باب آخر وقت مغرب صفحہ۹۰ میں تاخیر مغرب لکھا ہے.۳.میت کے ہاتھ میں کچھ لکھ کر دینا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں.۴.الصلٰوۃ سنۃ رسول اللہ اذان کے بعد کہنا محدثات سے ہے صحابہ تابعین اور تبع تابعین سے ہرگز ثابت نہیں.۵.حضرت عثمانؓ کی اذان وہ ہے جو خطبہ کے وقت نہیں کہی جاتی بلکہ اعلان کے لئے اب پہلے دی جاتی ہے.نسائی جلد اوّل ص۲۰۷میں لکھا ہے باب الاذان للجمعۃ.۶.بَابُ مَقَامِ الْاِمَامِ فِی الْخُطْبَۃِ میں منبر کے متعلق لکھا ہے جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اِذَا خَطَبَ یَسْتَنِدُ اِلٰی جِذْعٍ نَخْلَۃٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ فَلَمَّا وُضِعَ الْمِنْبَرُ وَاسْتَوَیٰ عَلَیْہِ اور آپ ہمیشہ خطبہ پڑھا کرتے تھے.خطبہ میں بیٹھنا نسائی بَابُ کَمْ یَخْطَبُ النَّبِیُّ میں لکھا ہے عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمْرَۃَ قَالَ

Page 269

َالَسْتُ النَّبِیَّ فَمَا رَأَیْتُہٗ یَخْطَبُ اِلَّا قَائِمًا وَ یَجْلِسُ ثُمَّ یَقُوْمُ فَیَخْطَبُ الْخُطْبَۃَ الْاٰخِرَۃَ.(سنن النسائی کتاب الجمعۃ حدیث ۱۴۱۴) ۷.خطبہ میں بیٹھ کر دعا مانگنا ثابت نہیں بلکہ نسائی میں اَلْفَصْلُ بَیْنَ الْخُطْبَتَیْنِ الْجُلُوْسِ کا باب باندھا ہے اور بَابُ السُّکُوْتِ فِی الْقَعْدَۃِ بَیْنَ الْخُطْبَتَیْنِ میں یہ لکھا ہے کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلْعَمْ یَخْطَبُ یَوْمَ الْجُمَُعَۃِ قَائِمًا یَقْعُدُ قَعْدَۃً لَا یَتَکَلَّمُ.۸.تراویح میں جلسہ.کوئی فرض واجب سنت موکدہ مسنون شرع سے ثابت نہیں.نور الدین ۲؍ ستمبر ۱۹۰۵ء ……………………… السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مولوی جندوڈا صاحب کے جوابات میں نمبر ۱.الصلوٰۃ الصلوٰۃ کا قول جناب عثمان سے اور رسم اہل مدینہ سے تعجب انگیز ہے.کیونکہ بلا ثبوت ہے اور مولوی غلام حسین صاحب کا استدلال بھی عجب ہے کہ اگر ایسی بلامرجح ممنوع ہے تو کسی فرض کے پہلے سنن و نوافل کا پڑھنا جائز ہو.نمبر ۲.مولوی غلام حسین صاحب حق پر ہیں.ایسا ہی نمبر ۳ میں مولوی غلام حسین صاحب حق پر ہیں.اسی طرح نمبر ۴ و نمبر ۵ کا حال ہے.چوہڑے پنجاب میں قسم قسم کے ہیں ہندو جہاں بکثرت ہیں اور زور پر ہیں چوہڑے ہندو ہیں نام میں رسومات میں اور جہاں مسلمان ہیں وہاں رسومات اہل اسلام کے ساتھ ملتے ہیں مگر جو لوگ ان میں سے حرام کھانا مردار کھانا جائز سمجھتے ہیں وہ صریح قرآنی نص کے منکر ہیں پھر اپنے آپ کو گنہگار نہیں جانتے تو مسلمان کیسے ہوسکتے ہیں.ہاں شوہر مسلمان ہوجاوے یا بی بی مسلمان ہو تو یہ امر حکومت کے متعلق ہے تمہارے ہمارے متعلق نہیں.والسلام نور الدین ۲ ؍ستمبر ۱۹۰۵ء

Page 270

بسم اللہ الرحمن الرحیم.نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم بحضور فیض گنجور مسیح موعود و مہدی مسعود امام آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ و السلام.دَامَ ظِلُّکُمْ.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.گذارش ہے کہ زید کا بو جہ دوسری شادی کرنے کے مسماۃ اندان زو جہ خود کے ساتھ تنازعہ رہا کرتا تھا زید کے برادران و مسماۃ اندان کے رشتہ داران کے رفع فساد کے لئے زید کو مجبور کیا کہ زو جہ خود یعنی مسماۃ اندان کو طلاق دے دے.چنانچہ نامبردہ نے طلاق نامہ تحریرکردیا جس کی نقل حضور والا کی خدمت میں پیش ہے بعد طلاق دینے مسمیٰ زید اپنی والدہ اور اپنے برادران وغیرہ سے بہت دفعہ یہی کہتا رہا کہ مجھ کو تنگ کیا گیا جو طلاق دے دیا گیا.اب زید کی زو جہ کا انتقال ہوچکا اس لئے زید چاہتا ہے کہ میں اپنی زو جہ مسماۃ اندان کو پھر اپنے گھر آباد کر لوں.طلاق سے بعد آج تک جس کو عرصہ چار سال دس ماہ گیارہ یوم کا ہوا.زید نے اپنی عورت مطلقہ کے ساتھ کچھ تعلق نہیں رکھا.اب حضور کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کر کے التماس ہے کہ ایسی حالت میں کیا زید اپنی عورت مسماۃ اندان کو اپنے گھر میں آباد کر سکتا ہے زید کا دلی منشاء طلاق دینے کا نہیں تھا رفع فساد کے لئے اس کے برادران نے اس کو مجبور کیا تھا.زید کے برادران و ہمشیر گان اس امر کے گواہ ہیں کہ واقعی زید نے برادران کے مجبور کرنے سے ہی طلاق دیا تھا.مسماۃ اندان بھی اپنے خاوند زید کے گھر جانے میں رضا مند ہے.اصل سوال مع جواب نیازمند کے پاس ارسال فرماویں.الراقم عبد الغنی خان افسر فراشخانہ پٹیالہ سیکرٹری انجمن احمدیہ قصبہ سنور منکہ زید ابن بکر ساکن افضل نگر کاہوں جو کہ مسماۃ اندان بنت عمر سکنہ افضل نگر زو جہ ام نے خواہش کی کہ مجھ کو طلاق دے چنانچہ حسب خواہش اس کے میں نے مہر اس کا مبلغ روپیہ (بتیس روپے دو آنے) دے کر طلاق حسب طریق شرعی دے دیا.اب اس کا حق و دعویٰ مجھ پر کچھ نہیں اور نہ اس پر کچھ ہے.زیور و پارچات ہر قسم میں نے اس کے لے لئے ہیں.ایک

Page 271

حبّہ باقی نہیں رہا.اس نے مجھ سے مہر شرعی روپیہ (بتیس روپے دو آنے)لے لیا رسید لکھ دی لہٰذا چند کلمہ بطریق طلاق نامہ کے لکھ دیئے کہ سند ہوں اور وقت حاجت کام آویں.المرقوم.۲۵؍ مارچ ۱۹۰۵ء گواہ شد العبد گواہ شد زید الجواب آج کل کچھ پوشیدہ اعتراض کے لئے اکثر مسائل علماء کے پاس بھیجے جاتے ہیں اصل نامعلوم کیا ہوتا ہے بظاہر جو کچھ معلوم ہوتا ہے اس کے مطابق حضرت صلعم کے زمانے کا ایک واقعہ لکھتا ہوں.نسائی کی کتاب الطلاق میں ہے اَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَأَتَہٗ ثَلَاثَ تَطْلِیْقَاتٍ جَمِیْعًا مِنَ التَّغْلِیْظِ فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ اَ یُلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَ اَنَا بَیْنَ اَظْھُرِکُمْ حَتّٰی قَامَ رَجُلٌ وَ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَ لَا اَقْتُلُہٗ اور ذیل کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص تین طلاق یکبارگی دے دے تو شرع میں ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے اس کے متعلق صفائی سے اسی کتاب کے بین لکھا ہے اَنَّ الثَّـلَاثَ کَانَتْ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ اَبِیْ بَکْرٍ وَ صَدْرًا مِنْ خِلَا فَۃِ عُمَرَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا تُرَدُّ اِلَی الْوَاحِدَۃِ(سنن نسائی کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث المتفرقۃ قبل الدخول بالزوجۃ حدیث نمبر ۳۴۰۶) نور الدین ۲؍ ستمبر ۱۹۰۵ء.........................بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم کیا حکم فرماتے ہیں علماء دین مسئلہ سماع موتیٰ میں جب انسان فوت ہوجاوے تو مردہ سنتا ہے یا نہیں یا قبروں میں جاکرسلام علیکم کہا جاتا ہے وہ اس کا جواب سن کر دیتے ہیں یا نہیں اس مسئلہ میں جو صحیح مسئلہ ہے قرآن و حدیث سے مرقوم فرما کرمرحمت فرماویں.السائل محمد ولایت شاہ عفی عنہ از مقام راہوں ضلع جالندھر تحصیل نواں شہر

Page 272

الجواب نسائی مطبوعہ مطبع مصر کی جلد اول باب ارواح المؤمنین صفحہ ۲۹۳ کی شرح میں امام جلال سیوطی نے ایک لمبی بحث اس کے متعلق لکھی ہے اس میں لکھا ہے قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلّٰی عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہٗ وَ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیًا بُلِّغْتُہٗ اور اسی کے باب التسھیل فی غیر السبتیۃ میں ہے قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَتَوَلّٰی عَنْہُ اَصْحَابُہٗ اِنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ صفحہ ۲۸۸.اور اسی مضمون کو شرح بلوغ المرام سبل السلام جلد اول ص۳۰۲ میں مفصل لکھا ہے اور سبل السلام جلد اول ص۲۰۶میں ہے کہ جب کوئی قبرستان میں سے گزرتا ہے اور وہ سلام کہتا ہے تو وہ اس کے سلام کو سنتے ہیں اور ان کو دعاؤں سے نفع بھی ہوتا ہے جس کو سبل السلام کے ص۳۰۶ اور ص ۳۰۳ میں مفصل بیان کیا ہے.وَاقْرَؤُوْا عَلٰی مَوْتَاکُمْ یٰسِیْن کا ارشاد بھی کیا ہے جس کی تفصیل انہیں صفحوں میں لکھی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ایک قسم کا ادراک اور سماع ہے.مگر قبور پر بیٹھ کر قرآن کریم پڑھنا شریعت میں ثابت نہیں.نبی کریم تمام صحابہ کرام کو احب الناس تھے مگر آپ کی قبر پر کسی صحابہ کا قرآن کریم بیٹھ کر پڑھنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ نسائی جلد اوّل ص۲۸۷میں ہے.قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاَنْ یَّجْلِسَ اَحَدُکُمْ عَلٰی جَمْرَۃٍ حَتّٰی تَحْرُقَ (ثِیَابَہٗ) خَیْرٌ لَّہٗ مِنْ اَنْ یَّجْلِسَ عَلٰی قَبْرٍ سے ایک قسم کی نہی مطلق کا استنباط ہوتا ہے.نور الدین ۲ ؍ستمبر ۱۹۰۵ء.( الحکم جلد۹ نمبر ۳۷.مورخہ۲۴؍ اکتوبر۱۹۰۵ء صفحہ۷،۸) وعظ بعد از نماز جمعہ (۳؍ نومبر ۱۹۰۵ء بروز جمعہ) آج حضرت مولوی نورالدین صاحب کا وعظ بعد از نماز جمعہ ہوا.حضرت مولوی صاحب نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح باوجود اختلافات کے جو دنیا میں پائے جاتے ہیں وحدت بھی پائی جاتی ہے اور قرآن شریف اور احادیث سے ثابت کیاتھا کہ انسان کے راہ حق سے محروم رہنے کے کیا کیا اسباب ہیںاور وفات مسیح کے کیا کیا دلائل ہیں.(البدر جلد۱ نمبر۳۴ مورخہ۸؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳)

Page 273

استفسار اور ان کے جواب (۱)ٹسرکی پگڑی مرد کو باندھنی جائز ہے؟ ٹسر سے میری مراد سوت اور ریشم ملا ہوا نہیں ہے بلکہ ٹسر کی پگڑی بالکل ریشم کی مانند ہوتی ہے خدا جانے ریشم سے علیٰحدہ ہے ریشم ہی کی ایک قسم ہے.ایسی پگڑیاں عام ملتی ہیں.(۲) نکسیر یا حقے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ کبھی کبھی وضو کرتے وقت دانتوں پر انگلی پھیرنے سے خفیف سا خون نکل آتا ہے اس سے تو وضو نہیں ٹوٹتا.کبھی اتنا خفیف ہوتا ہے کہ تھوک میں صرف تھوڑی سی سرخی کی جھلک ہوتی ہے.قہقہہ مار کر ہنسنے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ (۳) (ا) نکسیر یا قے سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا؟ (ب) روزہ میں اپریشن یا عمل جراحی کرایا جائے تو کیا روزہ ٹوٹ جائے گا.(ج) روزہ میں بدن پر کسی قسم کا تیل دوا کے طور پر مالش کرنا روزہ کو توڑتا تو نہیں؟ (د) روزہ میں کلوروفارم سونگھنے سے روزہ میں تو کوئی ہرج نہیں واقع ہوتا؟ (ہ) روزہ میں خوشبو سونگھنا سر میں تیل ڈالنا سرمہ ڈالنا روزہ کو مکروہ تو نہیں کرتا؟ (۴) اگر عورت حاملہ ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہو تو کیا اس کو روزہ رکھنا چاہئے یا صرف ایک مسکین کو روز کھانا کھلا دینا چاہئے.اور اگر رکھنا چاہے تو کسی کو اگر روزہ سے دودھ میں کمی کا خیال ہو یا حمل میں نقصان کا اندیشہ ہو تو کیا کرنا چاہیے.(۵)یہاں چاند رمضان کا دکھلائی نہیں دیاکیونکہ اس دن ابر تھا.صبح کو دس بجے دوسرے دن روایت آئی کہ چاند دیکھا گیا اور آج روزہ ہے چنانچہ اسی وقت سے روزہ رکھا گیا مگر صبح کو ناشتہ کرچکے تھے.اب گذارش یہ ہے کہ آیا یہ روزہ ہوگیا یا نہیں ہوا.اور کیا اس کے بدلے دوسرا روزہ رکھنا چاہئے.(۶) سر پر پگڑی ہو تو محض پگڑی پر مسح کرنا جائز ہے؟

Page 274

(۷) اگر کسی فرش کی نسبت اشتباہ ناپاکی کا ہو.اور اس فرش پر پانی گر جاوے اور اس پانی میں کپڑا بھیگ جاوے تو کیا کپڑا دھونا چاہئے یا اگر بھیگے ہوئے پاؤں اس فرش پر پڑیں تو کیا پاؤں نا پاک ہوگئے؟ (۸)اگر باجماعت نماز ہوتی ہو اور آدمی پیچھے سے آکر ملے اگر امام رکوع میں ہو تو کیا کرے کیا نیت باندھتے ہی رکوع میں چلا جاوے.اور اس کی وہ رکعت ہوگئی یا نہیں ؟ یا ضروری ہے کہ حمدو ثناء اور سورۂ فاتحہ پڑھ کے شامل ہو.تو اس صورت میں امام شاید سجدہ میں بھی پہنچ جائے گا.اور اگر رکوع میں شامل ہونے سے اس کی وہ رکعت ہوجاتی تو اب گویا وہ رکعت ضائع ہوگئی.یا اگر سورۂ فاتحہ پڑھی اور رکوع میں گیا اور امام سجدہ سے اٹھ کر دوسری رکعت شروع کردے تو پھر کیا کرے.وہ امام کے ساتھ تو شامل نہیں ہو سکا اورآ یا اس کی رکعت ہوگئی یا نہیں؟ (۹ )تیمم کے لئے ایک ضرب کافی ہے یا دو؟ اور کیا ضرب کے بعد صرف ہاتھوں پر کلائی تک ہاتھ پھیرے یا کہنی تک؟ (۱۰) بلی کو مارنا کیا گناہ ہے؟ بعض دفعہ جنگلی بلیاں بہت دق کرتی ہیں.(۱۱) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ حَلَفَ بِطَلَاقٍ اَوْ.....قَالَ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی مُتَصِلًا...عَلَیْہِ میںیہ مطلب تو جناب کے ارشاد کے مطابق سمجھ گیا کہ انشاء اللہ کہنے سے طلاق نہیں پڑتی.مگر یہ کس موقع پر ہوا کرتا ہے؟ کیونکہ جو طلاق دے گا وہ مجبور ہو کر دے گا اور عورت کو چھوڑنا چاہے گا اور اگر وہ چھوڑنا نہیں چاہتا تو طلاق کیوں دیتا ہے؟ غرض اس حدیث شریف کا موقع اور محل دریافت کرنا چاہتا ہوں.(۱۲) تسبیح کے متعلق جس شخص نے مجھے حدیث لکھ کر دی ہے اس کی نقل کئے دیتا ہوں.ھُوَ الْعَالِمُ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ لَیْلٍ مِّنَ اللَّیَالِیْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ذِکْرًا کَثِیْرًاوَ فِیْ یَدِہِ الْیُمْنٰی شَیْئً فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیُّ شَیْئٍ ھٰذَا فِیْ یَدِکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا عَائِشَۃَ ھَذَا تَسْبِیْحَۃٌ عُدْتُ عَلٰی

Page 275

ھٰذَا السَّمَائِ الْاَنْبِیَائِ رِضْوَانَ اللّٰہَ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْنَ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تِلْکَ التَّسْبِیْحَۃُ مِنْ خُطْبِ اَوْ رَمْلٍ اَوْ حَدِیْدٍ اَوْ تُرَابٍ فَقَالَ مِنْ رَاْفَۃٍ تِلْکَ مِنْ حُطَبِ بَغْضَاہُ ۱۲.فتح الباری شرح صحیح البخاری فی باب شمائل النبی ۱۲.عرض ہے آیا یہ حدیث صحیح ہے یا موضوع اور اس کا کیا مطلب ہے؟ جواب (۱)ٹسر ریشم نہیں ہوتا.ٹسر درخت کی چھال ہے وہ سن کی قسم ہے.ریشم جلانے سے اکٹھا ہو جاتا ہے اور سن وغیرہ سیدھا رہتا ہے.(۲)نکسیر اور قے سے وضو کے ٹوٹنے میں علماء کا اختلاف ہے.میری تحقیق میںوضو نہیں ٹوٹتا.اورنہ قہقہہ سے.ہاں احتیاط اور بات ہے.(۳) نکسیر یا قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا+اپریشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا+نہ مالش روغن سے اور نہ سونگھنے سے اور نہ خوشبو سے نہ سر میں تیل ڈالنے سے نہ سرمہ سے نہ کلوروفارم سے.(۴)حاملہ اور دودھ پلانے والی روزہ نہ رکھے.(۵)روزہ ناشتہ کے ساتھ نہیں ہوتا.اس واسطے آپ ایک روز رکھ دیں.(۶)پگڑی پر مسح میں اختلاف ہے میری سمجھ میں جائز ہے اور احتیاط ہے کہ سر پر مسح کرے.(۷)فرش پر بظاہر پلیدی نہ ہو تو پاک ہے.(۸)جو رکوع میں شریک ہوا تو وہ رکعت پانے والا ہوگیا.یہ بات حدیث سے ثابت ہے.(۹)تیمم ایک ضرب ہے اور ہاتھ کامسح کلائی تک کافی ہے.(۱۰)بلی کیا کسی کو دکھ دینا جائز نہیں.بلی کی خصوصیت نہیں.(۱۱)انشاء اللہ کہنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر اللہ چاہے اور اللہ کی مشیت سے انسان بے خبر ہے.اس لئے انشاء اللہ کے ساتھ طلاق نہیں ہوتی.موقع اس کا یہ ہے کہ انسان کسی کے لحاظ سے

Page 276

ڈر سے خاطر سے طلاق تو دیتا ہے مگر اس کا دل نہیں چاہتا تو انشاء اللہ کو بڑھا دیتا ہے.(۱۲)تسبیح کی حدیث محض لغوہے نہ سند نہ مخرج کا نام اور نہ اس کی سند پھر کیسی بیہودہ بات ہے کہ نعوذ باللہ انبیاء کے نام جپے جاتے ہیں.نور الدین (الحکم جلد۹نمبر ۴۱.مورخہ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ۶) فضل دین (تحریر فرمودہ ۰ ۳؍ نومبر ۱۹۰۵ء ) حضرت مولوی نور الدین صاحب کے ایک شاگرد نے رخصت کے وقت آپ سے بعض علوم کی کتب اور نصیحت کے متعلق سوال کیا.مولوی صاحب نے اس کو جو کاغذ لکھ کر دیا اگر چہ وہ اس کی استعداد کے متعلق خاص ہو، تاہم اس کا شائع کرنا عام فائدہ سے خالی نہ ہوگا.سائل کا نام ہی اس مضمون کے واسطے مبارک سرخی ہے.السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ۱.ادعیہ میں.الحمد، معوذتین، استغفار، لاحول، ربنا اٰتنا فی الدنیااور درود شریف ہیں.۲.ترجمہ قرآن.شاہ ولی اللہ شاہ رفیع الدین.۳.تصوّف.فتوح الغیب، عوارف.۴.زمانہ نبوی کے لئے زاد المعاد.۵.خلافت کے لئے اشہر المشاہیر الفاروق شبلی.۶.بزرگان امت کے علماء.امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام بخاری، شیخ ابن تیمیّہ، شیخ ابنِ قیّم ولی اللہ ہیں اور اولیاء میں فضیل عیاض، ابوالحسن، جنید، سید عبدالقادر.مؤرخ.ابن خلدون، ابن جریر طبری، ذہبی، ابن ہشام ہیں.

Page 277

۷.خیر القرون کے لئے تذکرہ حافظ ذہبی اور تصنیف امام محمد شبانی ہیں.۸.ایّام العرب.موعظۃ مودّع ۱.استغفار، لاحول، الحمد، درود اور دُعائیں بہت کیا کرو.اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے اور توحید اس کا منشاء ہے.صواب توحید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے صحابہ میں (التوبۃ : ۱۰۰) کی اتباع ہے اور بس.۲.اطاعت و اتباع امام لا بد ہے اور اس کی تعلیم سر دست کشتی نوح میں موجود ہے.اصل ذریعہ دُعا اور اگر کسی سے محبت کرو تو لِلّٰہِ کرو اور اگر کسی سے بغض کرو تو صرف محدود اور لِلّٰہِ ہو.دوام تعلق کے لئے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ والی دُعا ہے.والدہ، بی بی، اخو ان اور اقارب سے اعلیٰ اور اعرف معاشرت کرتے رہو.صدقہ و خیرات میں چندہ نوائب الحق میں ہوشیار رہو اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر میں چست رہو.نورالدین ۳۰؍نومبر ۱۹۰۵ء قادیان (البدر جلد۱ نمبر۳۹ مورخہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۵ ء صفحہ۳)

Page 278

خلافتِ راشدہ (ایک شیعہ کی حضرت حکیم الامت سے خط وکتابت) ذیل میں مَیں ایک خط وکتابت شائع کرتا ہوں جو ایک فرقہ آزاد نار اور حضرت حکیم الامت کے مابین ہوئی ہے.مجھے راقم کا نام ایک از فرقہ آزاد نار پڑھ کر قرآن شریف کی یہ آیت بے اختیار زبان پر جاری ہوگئی.(البقرۃ :۸۱) قرآن شریف نے جن لوگوں کا ذکر اس آیت میں کیا ہے اور جو جواب ان کو دیا گیا وہ آزادنار فرقہ کا ممبر امید ہے غور سے پڑھے گا.شاید عام ناظرین اس معمّاکو پورے طور پر سمجھ نہ سکیں.اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک شیعہ کا خط ہے جو اس نے در اصل حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود مہدی مسعود کے نام لکھا ہے حضرت حکیم الامت نے سر سری طور پر اپنے کسی دوست کو اس خط کا جواب زبانی بتا دیا جس نے اپنے الفاظ میں اس جواب کو قلمبند کر دیا اس خط میں شیعہ صاحب نے علامات خلافت وغیرہ پر خود ہی خامہ فرسائی کی تھی اور اصل غرض اس کی یہ تھی … کہ اپنے خیال کے موافق خلافت راشدہ حقہّ پر اعتراض کرے مگر حکیم الامت نے وہ باطل ُکش حربہ اختیار کیا ہے جو تیرہ سو برس کی شکستہ اور دریدہ نیابت کو قیامت تک پھر سر اٹھانے نہ دے گا اور یقینا سُرَّ مَنْ رَّاٰی کا خوف زدہ مہدی آئندہ کبھی باہر نکلنے کا نام تک نہ لے گا.ممکن ہے اس آزاد نار کو اللہ تعالیٰ سمجھ اور ہدایت عطا کرے مگر بظاہر نظر جیسا کہ اس فرقہ کا عام معمول ہے بہت کم امید ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں لیکن یہ خط وکتابت بہت سی سعید اور رشید روحوں کے لئے انشاء اللہ مفید اور بابرکت ہوگی اسی لئے میں نے اس کو اخبار میں چھاپ دینا پسند کیا میں ان لوگوں کو جو اپنے دل میں تلاش حق کی گدگدی رکھتے ہیں خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اسی خط کو کئی مرتبہ پڑھیں اس لئے کہ اس میں ان کے لئے نور اور حق اور ہدایت ہے چونکہ یہ مضمون خلافت راشدہ حقہ کے متعلق ہے میں نے پسندکیا کہ اس کا عنوان خلافت راشدہ ہی رکھوں.(ایڈیٹر الحکم)

Page 279

آزاد نار کا خط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ جناب مرزا صاحب خدا آپ کو نیک ہدایت نصیب کرے.جناب رسول خدا صلعم کی وفات کے بعد ہر طالب حق کے لئے وہ پیچیدہ اور گمراہ کرنے والی راہیں بنائی گئی ہیں کہ طالبِ حق کو بڑی دشواری ہوتی ہے کہ وہ نائب حق کو کس ذریعہ سے تشخیص کرے.علماء فریقین تو اپنے اپنے اقوال کی تائید کرتے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسی مقیاس ہونی چاہیے کہ نائب رسول ایسی صفات سے متصف ہو کہ دوسرے میں بجز منجانب اللہ ہونے کے ممکن نہ ہوں.جب ایسے صفات علامات کی مقیاس ہمارے ہاتھ آجاوے اس وقت کتابوں سے ہر مدعی نیابت کے حالات کی انصافانہ تصدیق و تطبیق کی جاوے اور تشخیص کر لیا جاوے کہ جملہ صفات نیابت کس شخص میں ہیں اور کچھ خیال نہ کیا جاوے کہ امت نے اس طرف رجوع کیا ہے یا نہیں کیونکہ صفات نائب رسول بالکل ہم پلّہ رسولؐ ہوں گے اور یہ ممکن نہ ہوگا کہ صفات مذکورہ عوام الناس میں پائے جائیں بلکہ جس شخص کو قصداًصفات مذکورہ منجانب اللہ عطا ہوئے ہوں گے اس میں پائے جاویں گے.نہ تو ایسے صفات اتفاقیہ کسی شخص میں پیدا ہو سکتے ہیں اور نہ خود کوئی از روئے تصنع ایسے صفات سے متّصف ہو سکتا ہے.پس یہ طریقۂ تشخیص ایسا بے نظیر اور لاثانی ہے کہ ہر طالب حق منزل مقصود پر پہنچ جائے گا اور پہنچ گیا ہے.وھو ھٰذا صفتِ اوّل نائب رسول اللہ کی یہ ہے کہ جس طرح مرسلین کی رسالت اور انبیاء کی نبوت کی تصدیق کے لئے صدور معجزات و خوارق عادات دلیل کافی اور شہادت میں سمجھے جاتے ہیں ویسے ہی نیابت رسول اللہ اور امامت کی تصدیق کے لئے اعجاز و خوارقِ عادات کا ظاہر ہونا ضروری ہے کیونکہ انبیاء تابعین رسالت سلف سے بھی اصدار معجزات ہوا ہے.پس جس شخص میں

Page 280

یہ صفت پائی جاوے وہ نائب برحق سمجھا جاوے اور جس میں یہ صفت نہ ہوگی اس کو مدعی باطل تصور کیا جاوے.صفتِ دوم نائب رسول اللہ کی یہ ہے کہ جس طرح انبیاء مرسلین معصوم ہیں.ویسے ہی نائب رسول بھی معصوم ہونا چاہئے کیونکہ کام نائب منیب دونوں کا یکساں ہے.گنہگار کی ہدایت مؤثر نہیں ہوا کرتی اور یہ صفت ضرور محتاج بہ نص ہے کیونکہ معجزہ اور خرق عادت تو ہر شخص بچشم معائنہ کر سکتا ہے اور یہ صفت بغیر شہادت خدا و رسول کے ثابت نہیں ہو سکتی.صفتِ سوم نائب نبی کی یہ ہے کہ جس طرح انبیاء مرسلین روز پیدائش سے شرک وکفر سے مبّرا ہیں ایسے ہی ان کا نائب بھی آلائش شرک کفر سے پاک ہونا چاہئے.کبھی سجدہ اصنام کو سر نہ جھکایا ہووے بلکہ ان کے نائب کا بھی ایسا ہی حال ہونا چاہئے کیونکہ علماء شیعہ تو اس صفت کو ضرور صفات انبیاء میں داخل کرتے ہیں.صفتِ چہارم نائب برحق کی یہ ہے کہ باتفاق علماء ، مجتہدین اہل سنت یہ امر ثابت ہے کہ رسالت جناب سرور کائنات صلعم کی مخصوص بطبقہ انسان ہی نہیں ہے بلکہ آپ جمیع طبقات موجودات و مخلوقات پر مبعوث ہوئے ہیں جن میں ملائک، بنی جان، حیوانات، نباتات، جمادات، آسمان، ستارے، عناصروغیرہ سب شامل ہیں.پس جس طرح پر کہ ان جملہ طبقات موجودات نے جناب رسول خدا کی اطاعت وفرمانبرداری کی ہے ویسے ہی ان کے نائب کی کرنا ثابت ہووے اگر کسی مدعی خلافت کی صرف طبقہ انسان نے اطاعت کی ہو اور دیگر طبقات ملائکہ اور جنّ اور حیوانات وغیرہ نے مطلق تعلق اور سروکار نہ رکھا ہو تو ہم اس کو ہر گز نائب برحق نہ کہیں گے کیونکہ یہ امر ممکن نہیں کہ جس نے اطاعت رسول اللہ کی ہو اس نے ان کے نائب کی نہ کی ہو.پس ہم کو تحقیق کرنا چاہئے کہ سوائے انسان کے اور طبقات نے کس کس دعویدار نیابت وامامت کی اطاعت کی ہے.

Page 281

صفتِ پنجم نائب نبی کی یہ ہے کہ علم لدنی جیسا کہ انبیاء و مرسلین کو حاصل ہوتا ہے ویسا ہی مرسل نائب کو حاصل ہونا چاہئے اور جن جن طریقوں سے پہلے انبیاء تابعین رسالت کو یہ علم حاصل ہوا انہیں طریقوں سے اس رسالت کے نائبان کو حاصل ہوا ہو.صفتِ ششم یہ ہے کہ علم قرآن وسنت اور حل مسائل وقضایا میں بدرجہ اتم کمال رکھتا ہو.کبھی کسی سوال کے جواب میں قاصر نہ ہو.صفتِ ہفتم یہ کہ نائب رسول وہ شخص ہے جو خداوند کریم اور رسول خدا کے نزدیک جمیع امت سے برگزیدہ اور افضل ہو اور سب سے زیادہ محبوب خدا او رسول ہو اور سب سے زیادہ خدا رسول کو وہ دوست رکھتا ہو اور بنظرضمیمہ سلطنت وہ شخص اشجع النّاس اور اعدل الناس ہو اور قربت قریبہ بھی نبی سے اوروں کی نسبت زیادہ رکھتا ہو.صفتِ ہشتم یہ ہے کہ کوئی حکم خدا اورسول کا نسبت امامت اور خلافت کے اس کے صادر ہوا ہو یابحین حیات نبی کوئی معاملہ استخلاف اس کا وقوع میں آیا ہو یا بعض اختیارات رسالت میں مشارکت ہو یا نبی نے اس کے بارہ میں مشعر اطاعت وغیرہ امت کو حکم دیا ہو.صفتِ نہم یہ ہے کہ ازروئے حدیث صحیح اثنا عشر خلیفہ کلّھم قریش سے ہوں.یہ حدیث فریقین کی مسلّم ہے.اہل سنت جماعت کہ جس قدر خلفاء ہیں قریش سے ہیں ان اوصاف متذکرہ بالا میں پانچ علامات اوّل الذکر ایسے ہیں کہ جو انبیاء مرسلین کے لئے مخصوص اور بنظر تعہد کار تبلیغ رسالت یہ اوصاف نائب نبی سے بھی متعلق ہیں اور مابقٰی صفات خاص نائب نبی کے متعلق ہیں ان صفات سے وہی فرقہ اور گروہ انکار کرے گا جو اپنے خلفاء اور ائمہ میں ایسے صفات کا ہونا تعجب سمجھے ورنہ غور کا مقام ہے کہ جب ایسے صفات کے لوگوں کا وجود ثابت ہو جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ نائب برحق رسول اللہ کے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ان کو یہ اوصاف بے وجہ فضول نہیں عطا فرماتا.ہاں اگر بعد رسول خدا ایسے صفات سے کوئی متصف نہ ہو سکے تو

Page 282

کہہ سکتے ہیں کہ یہ صفات نائب نبی کے نہیں ہیں اور جبکہ ایک شخص میں انبیاء کی صفات پائے جائیں اور پھر نائب نبی تک بھی اس کو نہ کہا جائے تو بڑے ظلم کی بات ہے ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ جس شخص پر ہمارا گمان نبی ہونے کا ہے اس میں یہ اوصاف موجود نہ ہوں تو ہم کہنے لگیں کہ ان اوصاف کا نائب نبی کے لئے ہونالازمی نہیں.پس اب غور سے ملاحظہ فرما کر خدا او رسول کو حاضر و ناظر جان کر ہر ایک صفات اور علامات میں مطابقت کی جاوے پھر جس میں یہ صفات ثابت ہو جاویں اور پھر بمقابلہ اس کے کوئی شخص ایسے لوگوں کو نائب رسول مانیں کہ جس میں یہ اوصاف نہیں تو صاف پایا جائے گا کہ وہ بجائے خدا وند تعالیٰ کے شیطان کی پرستش کرتا ہے اور صاف طور پر بے دین ہے.منفعت کے لئے یہ ڈھچر بنا رکھا ہے.ایک از فرقہ آزادِ نار جواب از حکیم الامت سنو! میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر جواب لکھتا ہوں اور آپ بھی رسم وعادت اور تقلید جامد کے سیاہ ترین پردوں سے باہر ہو کر انصاف اور خدا ترسی کی آنکھ اور کتاب اللہ الاکمل کے ضیائِ اَتم سے پڑھیں اوربغور پڑھیں اور خدا وند کریم سے مدد چاہیں.میں نہایت افسوس سے لکھتا ہوں کہ ہمارے مدعیانِ اسلام کے بڑے مسلّم دو دعوے ہیں لیکن عمل درآمد ان کے ایسا برعکس ہے گویا ہاتھی کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور.اسی کے واسطے کہا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کتاب اللہ القرآن کامل بلکہ اکمل کتاب ہے اور یہ ایک ہی کتاب ہے جو ڈنکے کی چوٹ سے پکار رہی ہے(الأَنعام : ۶۰) اور (المائدۃ : ۴) اور (البقرۃ : ۱۸۶) اور دوم یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ کی شریعت کے بعد کوئی اور شریعت نہیں آئے گی لیکن جہاں کہیں بات چلے گی اس کتاب کو نَسْیًا مَنْسِیًّا کر کے

Page 283

(الفرقان : ۳۱) کی تیز و تند بجلی کے نیچے آجاتے ہیں اور دوسرے دعوے کو پس پشت ڈال کر از خود ایک نئی شریعت ایجاد کر دیتے ہیں اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی یہ وعید بھی سنا دیتے ہیں کہ جو اس کو نہ مانے وہ بے دین اور ملحد و زندیق اور خارج از دائرہِ اسلام ہے.میں بڑے افسوس سے لکھتا ہوں کہ آپ نے بھی اس خط میں ایسا ہی کیا بلکہ یہاں تک حد سے بڑھے کہ اگر کوئی بات قرآن مجید میں موجود بھی تھی تو نقل میں اس کا عنوان بدل دیا ہے.اب میں اس کے مطابق آپ کے قائم کردہ صفات پر نمبر وار بحث کرتا ہوں اور آپ کے فتویٰ اور وعید کی کچھ پرواہ نہیں کرتا اور پھراخیرمیں بتاؤں گا کہ کتاب اللہ نے خلفاء کے لئے کیا صفات بیان فرمائے ہیں.آپ نے یہ صفات نائب حق اور نائب نبی اور نائب رسول کے لئے قائم کئے ہیں لیکن جہاں تک میں نے قرآن مجید کو پڑھا ہے میں نے ان تینوں ناموں سے ایک بھی نہیں پڑھا.پس جب یہ نام ہی نہیں تو ان کے صفات یا ان کی معرفت یا بعثت کا کیا ذکر ہوگا.پس کیا عمدہ بات ہوتی اگر آپ ذرا فرقان حمید پر غور کر لیتے.پھر صفت نمبر ایک میں آپ نے لکھا ہے کہ نیابت رسول اللہ اور امامت کی تصدیق کے لئے اعجاز و خوارق عادات کا ظاہر ہونا ضروری ہے.آپ قرآن مجید کو اوّل سے آخر تک غور سے پڑھو نہ خوارق عادات اور نہ اعجازو معجزات پاؤ گے اور نہ یہ عبارت کہیں پاؤ گے کہ المعجزات و خوارق العادات ضروریۃ لرسالۃ المرسلین ولنیابۃ نوابھم ہاں قرآن مجید میں (یونس : ۵۴) آیا ہے.لاکن اس کے معنی آپ کے معجزہ کے ہرگز نہیں ہیں.صفت نمبر ۲ میں آپ نے لکھا ہے کہ صفت دوم نائب رسول اللہ کی یہ ہے کہ جس طرح انبیاء مرسلین معصوم ہیں ویسے ہی نائب رسول بھی معصوم ہونا چاہئے کیونکہ کام نائب منیب دونوں کا یکساں

Page 284

ہے گنہگار کی ہدایت مؤثر نہیں ہوا کرتی.یہاں پر بھی آپ نے ایسا ہی کیا قرآن مجید میں معصوم کا لفظ بے گناہ کے معنوں میں کہیں نہیں آیا البتہ  (المائدۃ : ۶۸) آیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا گناہ کا یہاں پر ذکر تک نہیں.لیکن اس غلطی کی جڑ یہ ہے کہ نامراد شیعہ علی علیہ السلام یا نامراد شیعہ حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اس آیت کریمہ کے رو سے جو عصمت آنحضرت کی ہوئی ہے اس کا ہمارے اماموں میں تو نام و نشان بھی نہیں اور یہ ایسی زد تھی جو کہ شیعہ مذہب کے سب بخیے ادھیڑ دیتی تھی تو انہوں نے اہل اسلام کو دھوکا دینے کے واسطے معصوم بمعنے بے گناہ کہنا شروع کر دیا.نمبر۳ میں آپ نے لکھا ہے کہ کبھی سجدہ اصنام کو سر نہ جھکایا ہو.یہاں پر میں اس واسطے کچھ زیادہ نہیں لکھتا کہ اول یہ نمبر۲ میں داخل ہیں اور دوم یہ کہ آپ کے اصل قائم کردہ کے خلاف ہے کیونکہ آپ نے لکھا ہے کہ وہ صفات عوام الناس میں بھی پائی جاتی ہے.نمبر۴ آپ نے لکھا ہے باتفاق علماء و مجتہدین اہل سنت یہ امر ثابت ہے کہ رسالت جناب سرور کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم مخصوص بطبقہ انسان ہی نہیں ہے بلکہ آپ جمیع طبقات موجودات ومخلوقات پر مبعوث ہوئے ہیں جن میں ملائک، بنی جان، حیوانات ،نباتات،جمادات ، آسمان، ستارے عناصر وغیرہ سب شامل ہیں اور جس نائب کی یہ سب طبقات اطاعت نہ کریں وہ ہرگز نائب برحق نہیں ہے.میں علماء اور مجتہدین پر بہتان لگانا بد ترین گناہ جانتا ہوں.آپ اگر سچے ہیں تو حضرت امام مالک، حضرت امام ابو حنیفہ ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام قاضی یوسف کی تصریح ان کی کتابوں سے پیش کریں.ورنہ اس گندی شیعانہ عادت سے توبہ کریں علاوہ بریں یہ کیسی نئی شریعت آپ نے بنائی ہے.اللہ تعالیٰ نے تو اپنی کامل کتاب میں اِنس کی طرف آنحضرت کو ارسال فرمایا ہے.البتہ یہ بھی آیا ہے کہ بعض جنّوں نے قرآن کو سنا اور ایمان لائے اور بس.ہاں اگر آپ اس تیس پارہ والے قرآن مجید سے کہ جس کا جامع اور حافظ خود

Page 285

اللہ علیم و قدیر ہے اپنے دعوے کے مطابق نکال دیں تو ہم ماننے کے واسطے تیار ہیں مگر ایسا ہر گز نہیں اسی وجہ سے آپ نے قرآن مجید کا نام تک نہیں لیا.یاد رکھو علماء اور مجتہدین نئے شارع نہیں ہوتے.نمبر ۵ میں آپ نے لکھا ہے کہ علمِ لدُنّی حاصل ہونا چاہئے میں نے قرآن مجید کو بھی پڑھا ہے اور اس لفظ پر بھی بہت دفعہ غور کیا ہے نہ یہ قرآن مجید میں ہے اور نہ اس کے کوئی صحیح معنے ہیں کیونکہ علمِ لدُنّی کی ’’یا ‘‘ا گر متکلم کی ہے تو اس کے معنے ہوئے میرے پاس کا علم تو کیا آپ کے پاس کا علم سب رسولوں اور نائبوں کے لئے ضروری ہے وہی بس ہے اور اگر یاء ِ نسبت ہے تو معنے ہوئے لدن والا علم اور لدن کے معنے ہیں کسی کے پاس والا علم تو کیا کسی پاس والا علم ہر ایک انسان کے پاس نہیں ہوا کرتا ہاں قرآن مجید میں ایک بندہ کی نسبت آیا ہے جس کو حضرت موسیٰ ملے تھے (الکھف:۶۶).پس اگر حضرت موسیٰ کو وہ علم حاصل تھا تو ملاقات بے فائدہ اور ان کے سوال جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اس کی تکذیب کرتے ہیں اور اگر نہ تھا تو پھر بقول آپ کے حضرت موسیٰ رسول کیا نائب رسول بھی نہ ہوئے.نمبر۶ آپ نے لکھا ہے کہ علم قرآن وسنت اور حل مسائل و قضا یا میں بدرجہء اتم کمال رکھتا ہو کبھی کسی سوال کے جواب میں قاصر نہ ہو.اس نمبر میں گاہ باشد کہ کود کے نادان بغلط بر ہدف زند تیرے.صادق آنے لگا تھا لیکن اس قدر کو بھی آپ نے ہاتھ سے ضائع کر دیا.اس کی تفصیل یہ ہے کہ بے شک علم قرآن و سنت امام کو سب سے زیادہ ہونا چاہئے لاکن رہا یہ کہ کسی سوال کے جواب میں قاصر نہ ہو یہ نہ رسول کا کام ہے اور نہ اس کے (بقول آپ کے) نائب کا.ہاں البتہ اس زمانہ کے ملاؤں کی تعریف میں کسی خوش مذاق نے فرمایا ہے کہ ملا آن باشد کہ بند نہ شود.ورنہ اور سب کو بعض وقت اَللّٰہُ اَعْلَمکہنا پڑتا ہے.ہاں اگر وہ امر ایسا ہو کہ ان کی راہ میں آ گیا ہے تو پھر ضرور اس کا انکشاف ہو جاتا ہے.

Page 286

نمبر۷ میں آپ نے لکھا ہے کہ نائب رسول خداوند کریم اور رسول خدا کے نزدیک جمیع امت سے برگزیدہ اور افضل اور محبوب ہو اور سب سے زیادہ خدا اور رسول کو وہ دوست رکھتا ہو اور بنظر ضمیمہ سلطنت وہ اشجع الناس ، اعدل الناس ہو اور قربت قریبہ بھی نبی سے اوروں کی نسبت زیادہ رکھتا ہو.یہاں پر بھی آپ نے حق و باطل میں خلط کیا ہے بے شک وہ مجتبیٰ اور افضل اور محبوب ترین اور محبّ ترین اور اشجع النّاس اور اعدل النّاس ہو نا چاہئے لاکن قربت قریبہ کا ذکر کیا آپ قرآن میں بتا سکتے ہیں.دیکھو یہ شیعہ نامراد کے خیالی پلاؤ ہیں وہ ایسی نادان قوم ہے جس نے ایسے اصول قائم کئے ہیں جن سے انبیاء رسل اور کتاب اللہ اور دین اسلام پر حرف آتا ہے مثلاً ان کا یہ اصل ہے کہ سب انبیاء اور ائمہ کے لئے مارا جانا ضروری ہے حالانکہ اللہ علیم فرماتا ہے. (المائدۃ : ۶۸) اور فرماتا ہے  (المجادلۃ : ۲۲) پھر دیکھو مسیح کو مقتول کہنے والوں کی کیا خبر لی ہے.کیا شیعہ نے اپنی عقل کو بھی جواب دے دیا ہے جیسا کہ قرآن مجید کو بیاض عثمانی کہہ کر بالائے طاق رکھ دیا تھا.کیا وہ غور نہیں کرتے جو بادشاہ مارا جائے اور اس کے جانشین اور لوگ ہو جائیں تو کیا اس جیسا مردود مخذول کوئی اور ہے مثلاً بقول ان نادان دشمنانِ اسلام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تو زہر سے شہید ہو گئے جو کہ یہودی عورت نے دی تھی اور (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِک) ابو بکر ،عمر ،عثمان رؤساء منافقین آپ کی خلافت پر بیٹھ گئے اور قربت قریبہ والے حضرات آہیں مارتے حسرتیں بھرتے رہ گئے اور پھر یہ سلسلہ دین ممتد ہوا کہ چودھویں صدی جاتی ہے.پراب تک قربت قریبہ والے مخذول چلے آتے ہیں اور سُرَّ مَنْ رَأ یٰ کے ایک مفقود الخبر شیرخوار کی امید پر عجل فرجا جپ رہے ہیں.کیا اگر یہی حقیقت ہے تو پھر نعوذ باللہ آنحضرت سے جو کہ سیدالانبیاء اور خاتم الانبیاء ہیں کون مردود اور مخذول زیادہ ٹھہرے گا کہ جن کے آگے اور

Page 287

پیچھے اور دائیں بائیں عمر بھر میں رؤسا منافقین ہوں اور پھر وہ ان پر اس قدر غالب ہوں کہ کوئی امر آنحضرت کو اپنے منشاء کے مطابق نہ ہونے دیں حتی کہ وصی برحق کے حق میں وصیت بھی نہ لکھنے دیں اور پھر قبر میں بھی پیچھا نہ چھوڑیں اور قربت قریبہ والوں کو چودہویں صدی تک پابجا نہ ہونے دیں کیا اگر اس سے بھی کوئی زیادہ مخذول و مردود متصور ہو سکتا ہے تو آپ مجھے ضرور بتائیں.پھر دیکھو ان کا یہ اعتقاد ہے کہ قرآن مجید کو عثمان منافق(نعوذ باللہ)نے جمع کیا ہے اور اپنی طرف سے اس نے بہت کچھ کمی بیشی کر دی ہے جس کی وجہ سے یہ اب قابل اعتبار نہیں رہا.اب آپ غور فرمائیں خدا وند کریم تو فرماتا ہے کہ (الحجر: ۱۰) اور پھر فرماتا ہے (القیامۃ : ۱۸) پر یہ دشمنانِ اسلام کہتے ہیں عثمان نے جمع کیا اور بہت کچھ تغیر تبدل کیا اور پھر یہ بھی نہیں کرتے کہ اپنے پاس سے کوئی اور قرآن نکالیں بلکہ اس محفوظ مکتوب کو چھوڑ کر انسانی بنائے ہوئے مجموعہ پر اتر آئے جو کہ(یونس : ۳۷) ہے اور یہی وجہ ہے کہ آریہ کی طرح انسانیت کو خیرباد کہہ کر انعام کی طرح شہوت روائی میں ایک نے نیوگ جیسا غیرت کش طریق نکالا اور دوسرے نے متعہ جیسے انسانیت کے غارت کن طریقہ کے ایجاد سے محبات حسین سے شہروں کے چکلوں کو پُر کر دیا اور پھر بہت سی انسانی نسل کو زندہ در گور کر دیا.اب آپ سنیں اور غور و انصاف سے سنیں کہ قربت قریبہ کا اصل بھی اسی دشمن اسلام فرقہ نے ایجاد کیا ہے اور یہ بھی ایسا ہی گندہ اصل ہے جس نے اسلام کی بیخ کنی کی بلکہ یہود کے حق میں آنحضرت اور قرآن کے برخلاف ڈگری دی جاتی ہے کیونکہ موسوی سلسلہ کے ساتھ قربت قریبہ رکھنے والے یہود ہیں یا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ بنی اسحاق سے نہیں بلکہ بنی اسماعیل سے ہیں اور یہود کا اعتراض بھی یہی تھا کہ وہ نبی بموجب حکم توریت ہم سے ہونا چاہئے جوکہ سلسلہ موسوی سے قربت قریبہ رکھنے والے ہیں نہ بنی اسماعیل سے.پس اگر

Page 288

ر قربت قریبہ شرط ہے تو یقیناً ڈگری یہود کے حق میں ہے.ہاں یہاں پر آپ ایک کہہ سکتے ہیں کہ رسالت کے واسطے قربت قریبہ شرط نہیں البتہ نیابت کے واسطے شرط ہے.جیسا کہ آپ نے لکھا ہے لیکن یہ غلط ہے کیونکہ جب غیر قربت قریبہ والے کو اکمل چیز مل سکتی ہے تو ادنیٰ چیز کیوں نہیں مل سکتی حالانکہ نہ رسالت موروثی چیز ہے اور نہ نیابت موروثی ہے.رسالت کے واسطے یہی  (البقرۃ : ۹۱)ا ور نائب کے واسطے بھی فرمایا ہے  (النور : ۵۶) اور یہ کن کو کہا ہے عام مومنوں کو نہ کہ خاص قربت قریبہ والوں کو.پس یہ شرط قرآن کے مخالف ہے اور خدا کے فعل کے بھی برخلاف ہے کیونکہ فرمایا تو یہ کہ میں خلیفہ بناؤں گا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت کے بعد کس کو بنایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پھر حضرت عثمانؓ کو.پس جس امر کو خدا کی کتاب اور فعل ردّ کردیں وہ ہر گز قابلِ اعتبار نہیں ٹھہر سکتا.نمبر۸ میں آپ نے لکھا ہے کہ کوئی حکم خدا و رسول کا نسبت امامت اور خلافت اس کے صادر ہوا ہو یا بحین حیات نبی معاملہ استخلاف اس کا وقوع میں آیا ہو بعض اختیارات رسالت میں مشارکت ہو یا نبی نے اس کے بارہ مُشعر اطاعت وغیرہ امت کو حکم دیا ہو.سنیئے اگر اس کے معنے یہ ہیںدین شخصی کر کے حکم خدا یا حکم رسول اس کی نسبت پہلے صادر ہو چکا ہو.تب تو یہ غلط ہے کیونکہ کسی رسول کے واسطے ایسا نہیں ہوا ور نہ اس کے موقع پر کبھی نزاع نہ ہوتا مثلاً اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت لکھا ہوا ہوتا کہ ان کا نام فلاں ہوگا اور فلاں قوم سے اور فلاں بستی اور فلاں محلہ اورفلاں مکان میں فلاں وقت میں فلاں مرد سے فلاں عورت کے پیٹ سے پیدا ہوں گے وغیرہ وغیرہ تو پھر کب نزاع واقع ہو سکتا تھا مگر ہر گز ایسا نہیں ہوا بلکہ کبھی کسی کے واسطے ایسا نہیں ہوا کیونکہ ایمان کی حد سے عیاں کے حیز میں آجاتا ہے اور وہ محل ثواب نہیں رہتا ہے.اور اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ بعض صفات بیان کر کے مجمل رنگ میں اس کی بعثت کی خبر دی

Page 289

جائے اور پھر خدا وند کریم خود اپنے فعل سے اور تائید سے اس کی شہادت دے دے تو یہ امر مسلم ہے لاکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے شیعہ کے ائمہ اثنا عشر میں جیسا یہ امر معدوم یا کالعدم ہے اور ایسا کسی امام میں نہیں ہوا اور غالباً اس کی یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح عیسائیوں نے مسیح کو خدا بنانا تھا تو خدا وند کریم نے اس قدر کمزور ییں اس میں رکھ دیں جو کہ اس کی خدائی کو پاش پاش کر دیتی ہیں.اسی طرح چونکہ شیعہ نے اپنے ائمہ اثنا عشر کو بڑا بنانا تھا اس وجہ سے عدم تائید کا سیاہ داغ ان کی پیشانی پر لگا دیا تاکہ یہ بت اپنا پول خود ظاہر کر دے.باقی رہا بحین حیات استخلاف ہونا یا بعض اختیارات رسالت میں شریک ہونا مشعر اطاعت وغیرہ یہ سب ایسے امور ہیں جو کہ قرآن مجید میں ہر گز نہیں ہیں.نمبر۹ میں آپ نے لکھا ہے کہ ازروئے حدیث صحیح اثنا عشر خلیفہ کلّہم قریش سے ہوں یہ حدیث فریقین کی مسلّم ہے سنّت جماعت کے جس قدر خلیفہ ہیں قریش سے ہیں.سنیئے قرآن مجید نے ہر گز یہ نہیں فرمایا کہ وہ قریش سے ہوں گے اور نہ یہ فرمایا کہ وہ اثنا عشر ہوں گے ہاں اس میں شک نہیں کہ حدیث میں آیا ہے لاکن حدیث میں قریش آیا ہے.سادات یاعلوی یا حسنی ہر گز نہیں آیا.پس اگر یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مانی جاتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ائمہ اثنا عشر سادات سے تسلیم کئے جاتے ہیں اور باقی قریش اور خصوصاً بنی عباس کو نہ ان میں شمار کیا جائے.حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو ائمہ اثنا عشر کی قریش سے ہونے کی خبر دی ہے اور ایک طرف فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر اللہ تعالیٰ ایک مجدد مبعوث فرمائے گا جو کہ دین کی تجدید کرے گا.پس اگر انسان تھوڑی سی غور کرے تو وہ ائمہ اثنا عشر کا پتہ ان دو حدیث سے لگا سکتا ہے کیونکہ اب چودھویں صدی ہے.پہلی صدی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہوئی اور بموجب تشابہ سلسلہ محمدیہ اور سلسلہ موسویہ چودھویں مسیح موعود کی ہوئی اور باراں صدیوں کے بارہ امام

Page 290

مجدد ہوئے اور وہ عموماً قریش ہی تھے نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد کل امام اثنا عشر ہوں گے اور وہ قریش ہوں گے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ قریش سے اثنا عشر ہوں گے اور ان کی نفی یہاں سے ہر گز نہیں مفہوم ہوتی اور یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے کہ یُسْلَبُ الْمُلْکُ مِنْ قُرَیْشٍ بلکہ تشابہ سلسلہ موسویہ سے چاہتا ہے کہ آخری خلیفہ امہات کی طرف اگرچہ قریش یا خصوصاً سادات سے ہو لاکن آباء کی طر ف سے قریش اور سادات سے ہرگز نہ ہو جیسا کہ سلسلہ موسویہ کا آخری خلیفہ اگرچہ والدہ کی طرف سے وہ کچھ ہو لیکن باپ کی طرف سے جو کہ منشاء نسب ہوتا ہے ہر گز اسرائیلی نہ تھا اور اگر ان سب امور کو ہم پس پشت ڈال دیں تو پھر یہ بھی تو حدیث ہے کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ (المستدرک للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم، ذکر سلمان الفارسی رضی اللّٰہ عنہ) اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ نبوت اور خلافت راشدہ کے واسطے قرآن مجید نے کیا کچھ لکھا ہے.رسول اور امام کہو یا خلیفہ کہو وہ ہوتا ہے کہ جس کی قبل از بعثت زندگی لوگوں کے نزدیک ازکیٰ و اطہرا ور یا یوں کہو کہ بے عیب زندگی ہوتی ہے تا کہ بعثت کے بعد ان کے لئے وہ حجت ٹھہرے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے(یونس : ۱۷) اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش وغیرہ کو بلا کر دریافت کیا تھا کہ اگر میں کہوں کہ دشمن تمہاری گھات میں ہے اور صبح کے وقت تم پر شب خون کرے گا تو کیا تم تسلیم کرو گے.تو سب نے بالاتفاق کہا کہ مَاجَرَّبْنَا عَلَیْکَ الْکَذِبَ.دوم.یہ کہ اس پر خدا کی وحی نازل ہو اللہ کریم نے فرمایا ہے (النساء : ۱۶۴) اور پھر فرمایا (الکہف : ۱۱۱) سوم.یہ کہ بعض غیبوں پر اس کو اطلاع دی جائے تاکہ ثابت ہو جاوے کہ بیشک یہ

Page 291

عالم الغیب سے اور راز رکھتا ہے.اللہ علیم نے فرمایا ہے (الجن : ۲۷، ۲۸) لیکن سب غیبوں کا جاننا اللہ تعالیٰ سے خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ارشاد ہوتا ہے. (الأَعراف : ۱۸۹).چہارم.یہ کہ نصرت الٰہی اور تائید الٰہی اس کے اور اس کے اتباع کے شامل حال رہے تاکہ ثابت ہو جاوے کہ بیشک اللہ قدیر اس کی مدد پر ہے خدا وند کریم نے فرمایا ہے (المؤمن : ۵۲) وغیرہ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور تائید کی پھر ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کی کی.پنجم.یہ کہ اس نصرت کی پیشگوئی قبل از وقت بلکہ ضعف کی حالت میں کی جاتی ہے تاکہ اللہ کا علم اور فعل اس کی صداقت کے دو شاہد ہوں  (النّسآء : ۸۰) جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پہلے سے فرما دیا تھا  (المجادلۃ :۲۲) اور  (القمر : ۴۶) اور(الأنبیآء : ۴۵).ششم.یہ کہ اس کے مکذّبین پر عذابِ الٰہی نازل ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا  (صٓ : ۱۵).ہفتم.یہ کہ وہ ضرورتِ حقہ کے وقت مبعوث ہوتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت حقہ کا نقشہ قرآن مجید نے (الرّوم :۴۲) کے ساتھ فرمایا ہے.ہشتم.یہ کہ اس وقت کے مطابق ان کو آیات دئیے جائیں جیسا حضرت موسیٰ کے لئے (بنی اسرائیل : ۱۰۲) فرمایا.

Page 292

نہم.ان کو فرقان دیاجاتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے آیا ہے. الخ (الأَنْفال : ۴۲) دھم.یہ کہ جس غرض کے لئے وہ مبعوث ہوتے ہیں خدا وند کریم اس کے لئے پہلے سے ایک ہوا چلا دیتا ہے جیسا کہ (الأَعراف : ۵۸) میں اشارہ کیا گیا اور حضرت کے وقت میں ایسا ہوا تھا کہ آپ کی بعثت سے پہلے عرب میں ایک کمیٹی قائم ہوئی تھی کہ شرک بُری چیز ہے اور توحید عمدہ چیز ہے اور اس کمیٹی کے اعلیٰ افسر کا نام ابی کبشہ تھا چنانچہ اسی وجہ سے مشرک لوگ آنحضرت فداہ ابی و امی و روحی کو ابن ابی کبشہ کہا کرتے تھے.چنانچہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ قبل از شرف باسلام ہرقل کو آنحضرت سے لرزاں ترساں دیکھ کر کہا تھا.لَقَدْ اَمِرَ اَمْرُ ابْنِ اَبِیْ کَبْشَۃ (صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی حدیث نمبر۷) یاز دہم.یہ کہ اس میں اللہ علیم حکیم قدیر اپنے خاص فضل سے قوت تطہیر اور قوت تزکیہ رکھ دیتا ہے تا کہ اس کے متبعین اوروں سے مطہر اور مزکی ہو جائیں جیسا کہ فرمایا ہے. (آل عمران : ۱۶۵) اور (التوبۃ : ۱۰۳).دوازدہم.اس کو علم کتاب اللہ سب سے زیادہ دیا جاتا ہے فرمایا ہے. (آل عمران : ۱۶۵) اور (الواقعۃ : ۸۰) سیز دہم.یہ کہ وہ پہلے انبیاء کی طرح ہوتا ہے.فرمایا (بنی اسرآئیل : ۱۶).چہار دہم.وہ جس سے مباہلہ کرے یا تو فریق ثانی ڈر جاتا ہے یا تباہ ہو جاتا ہے یا ذلیل و خوار ہوتا ہے اور اس کو عزت اور ترقی نصیب ہوتی ہے.فرمایا.(آل عمران :۶۲)

Page 293

پانزدہم.یہ کہ خدا وند باوجود اس کی ضعف اور کثرت اور قوت مخالفین کے اس کی عصمت کی پیشینگوئی کر دیتا ہے اور پھر ثابت کر دکھاتا ہے کہ وہ لوگوں کی تباہ کن تدابیر اور حملوں سے معصوم اور محفوظ رہتا ہے.جیسا فرمایا.(المائدۃ : ۶۸).شانز دہم.یہ کہ ان کے اور ان کے خلفاء کے لئے تمکین دین عنایت فرماتا ہے.ہفتدہم.یہ کہ بعداز خوف امن عنایت فرماتا ہے.ہشتدہم.یہ کہ بعد از امن وہ لذّات میں مستغرق نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی عبادت کرتے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے.نوزدہم.یہ کہ ان کے مقابلہ پر ضرور کوئی نہ کوئی کھڑا ہوتا ہے لیکن اگر سعادت مند ہوا تو وہ بچ جاتا ہے ورنہ ہلاک اور تباہ ہو جاتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے. (النور : ۵۶) بستم: یہ کہ وہ حکم بین الناس ہوتے ہیں کسی ایک فرقہ کی طرف وہ نہیں جھکتے جیسا فرمایا.(البقرۃ : ۲۱۴) اس کے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں لیکن میں اس پر اکتفا کر کے اب آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ یہ سب صفات ہمارے آقا اور مطاع حضرت مہدی اور مسیح موعود میں موجود ہیں فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِک.نمبرا.ثبوت یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک شہر کے چند لوگوں کو بلا کر حجت پوری فرمائی پر ان کے آخری خلیفہ مہدی نے اشتہار دیا کہ اگر میرا کوئی چھوٹا سا گناہ بھی بعثت سے پہلے عمر کا بیان کرے تو میں جھوٹا ہوں.پر اللہ کے فضل سے اب تک کسی نے نہیں ثابت کیا

Page 294

حالانکہ آپ کے مخالفین قادیان میں بکثرت موجود ہیں.نمبر۲.ہمارے آقا اور مطاع پر اللہ کی تازہ وحی نازل ہوتی اور ہزاروں لوگ ہزاروں دفعہ اس کی صداقت کو مشاہدہ کر چکے ہیں.لاکن ؎ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہء آفتاب را چہ گناہ نمبر۳.ہمارے آقااور مطاع کو بہت سے غیبوں پر قبل از وقت اطلاع دی گئی اور پھر ایسا ہی ظہور میں آیا مثلاً براہین احمدیہ میں اس وقت آپ نے لکھا ہے جبکہ آپ بالکل عالم گمنامی میں تھے.یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ.یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ.لَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاس (تذکرہ صفحہ۳۹،۴۰ ایڈیشن ۲۰۰۴ء)یعنی دور دراز راستوں سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور تحفے بھی آئیں گے اور چونکہ لوگ بہت کثرت سے آئیں گے اس واسطے ان سے منہ نہ پھیرنا اور نہ تھکنا.پس کوئی قادیان آئے اور مشاہدہ کرے کہ کس کثرت سے لوگ دور دراز ملکوں سے آتے اور تحفے لاتے اور بھیجتے ہیں.پھر آپ کو دشمن خدا اور دشمن رسول لیکھرام کی خبر دی کہ وہ قتل کیا جائے گا اور فلاں وقت قتل ہوگا اور اس کا قاتل نہ پکڑا جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.پس اگر آپ کو ان پیشگوئیوں کی تفصیل دیکھنے کا شوق ہے تو تریاق القلوب کو پڑھیں.نمبر۴.نصرت الٰہیہ کا پتا اس طور پر لگ سکتا ہے کہ ہمارے آقا و مطاع نے جب مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ شائع کیا تو سوائے چند اشخاص کے جو کہ انگلیوں پر گنے جاتے تھے اور کوئی بھی ساتھ نہ تھا اور ہندوستان و پنجاب وغیرہ کے سب طبقات الناس اور خصوصاًان مولویوں نے جو کہ اَشَرُّ النَّاسِ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَائِ تھے اور پھر ان گدی نشینوں نے جو کہ بد قسمتی سے مدعیان اسلام کے بت تھے آپ کی سخت مخالفت شروع کی اور اپنی سب تدابیر اور اسلحہ کو لے کر بڑے زور شور سے مقابلہ پر نکلے، ڈھیروں کے ڈھیر کتابیں اور رسالجات آپ کی مخالفت پر شائع کر دئیے، جابجا واعظ پھرے، قتل کے منصوبے گاٹھے گئے، خون کے مقدمات

Page 295

قائم کئے گئے، گورنمنٹ کی بغاوت کی مخبریاں ان کے لیڈروں نے کیں پر ان سب کا نتیجہ کیا ہوا کہ ہمارا آقا ومطاع میرے جدّ امجد حسین علیہ السلام کی طرح کبھی ان یزیدیوں کے تیروں اور خنجروں کا نشانہ نہ بنا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہر ایک میدان میں مظفر ومنصور ہوا اور باوجود ان روکوں کے اب حضور کی جماعت تین لاکھ سے متجاوز ہے.نمبر۵.ہمارے آقا و مطاع علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دعویٰ سے پہلے براہین احمدیہ میں خدا کی وحی شائع کی تھی جو اس نصرت کی پیشگوئی تھی اور وہ یہ ہے.’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.‘‘(تذکرہ صفحہ۸۱، ایڈیشن ۲۰۰۴ء) اور فرمایا یَنْصُرُ کَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ (تذکرہ صفحہ۳۹، ایڈیشن ۲۰۰۴ء)وغیرھا.پس کیا آپ اس کی نظیر میں کوئی کاذب شخص پیش کر سکتے ہیں کہ جس نے گمنامی اور کسمپرسی کی حالت میں شائع کیا ہو کہ اللہ علیم قدیر نے اپنی تازہ وحی مجھ پر نازل کی ہے کہ میں تیری نصرت کروں گا اور پھر اسی طرح اس کی نصرت کی ہو.مفتری اور تقوّل علی اللہ کرنے والے کو اللہ ناکام اور ہلاک کرتا ہے جیسا کہ اس نے فرمایا  (طٰہٰ : ۶۲) اورفرمایا.(الحاقۃ : ۴۵تا۴۸) اور اگر یہ کہے کہ ابھی پورا غلبہ نہیں ہوا تو اس کا جواب میں وہی دوں گا جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی و امی و روحی) کی نصرت اور غلبہ پر اعتراض کرنے والوں کو خداوند علیم و حکیم نے دیا تھا اور وہ یہ ہے (الأنبیآء : ۴۵) یعنی جب اس ضعف اور بیکسی اور بے بسی کی حالت میں کفر کی زمین کم ہوتی جاتی ہے اور اسلام کی زمین بڑھتی جاتی ہے تو کیا معترضین پھر بھی خیال کرتے ہیں کہ وہ غالب آجائیں گے.

Page 296

نمبر۶.اس نمبر میں زیادہ نہیں لکھتا عیان راچہ بیان.ہاں اگر مخالفین دہلی کے ناصح کے اس مصرعہ پر عمل کرتے ع چشم عبرت بر کشا قدرت حق رابہ بین تو یقینا یقینا وہ ضرور یہ مصرعہ دہراتے ع شامت اعمال ماایں صور ت درگرفت مگر کیا پہلوں کو کبھی یہ عبرت نصیب ہوئی ہے کہ ان کو بھی ہو.نمبر۷.اس نمبر میں آپ لیکچراروں کے ان لیکچروں پر ذرہ نظر غور کریں کہ جن میں انہوں نے اسلام اور اہل اسلام کی حالتِ زار اور اپنے علماء و سجادہ نشین و امراء کی نازک حالت پر خون کے آنسوؤں سے رویا ہے.الغرض کہ اگر کوئی اہل اسلام کی اندرونی حالت پر بھی نظر کرے اور بیرونی حملوں پر بھی غور کرے تو وہ یقین کر سکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی ضرورت حقہ ہو سکتی ہے.نمبر۸.یہ نمبر ایسا وسیع ہے کہ اگر سب آیات مسیح موعود علیہ السلام درج کروں تو ایک ضخیم کتاب چاہئے اور حضرت اقدس اور ان کے خدام کی تصانیف میں بہت کچھ درج ہیں البتہ یہاں پر خصوصیت کے ساتھ تین آیتیں درج کرتا ہوں کہ ان میں سے ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (روحی فداہ) کے سوا نہ کسی نبی کو ملی تھی اور نہ کسی رسول کو اور بقول آپ کے کسی نائب برحق کو دی گئی تھی اور دوسری دو ایسی ہیں کہ حضرت آدمؑ سے لے کر قیامت تک سوائے حضور مسیح موعود علیہ السلام کے کسی کو نہیں ملی ہے اور نہ ملے گی.اوّل تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ علیم حکیم نے افصح العرب والعجم بنایا تھا اور پھر ایسا کلام ان کو دیا کہ جس نے علیٰ رؤوس الاشہاد یہ کہہ کر  الخ (البقرۃ : ۲۴) مخالفین کی ناک کو خاک پر رگڑ دیا.

Page 297

اسی طرح اس نے اپنے پنجاب کے ایک گاؤں کے رہنے والے آنحضرت کے خلیفہ کو افصح العرب والعجم بنایا اور بہت سی کتابوں میں تحدی کر کے عرب وعجم کو ان کی مثل بنانے پر بلایا اور علیٰ رؤوس الاشہاد یہ شائع کر کے مخالفین کی قیامت تک ناک کاٹ دی آپ خدا کے لئے ذرا غور تو کریں بھلا یہ کسی انسان کا کام ہے.اور باقی دو کی تفصیل یہ ہے کہ میرے جدّ امجد حضرت محمد باقر سے ایک حدیث مروی ہے جو کہ کتاب دار قطنی میں صدیوں سے درج چلی آتی ہے اور اس کی عبارت یہ ہے.اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا آیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ تَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَّمَضَانَ وَ تَنْکَسِفُ الشَّمْسَ فِیْ نِصْفِ مِنْہُ.(سنن الدارقطنی کتاب العیدین باب صفت صلاۃ الخسوف والکسوف و ھیئتھما حدیث نمبر۱۷۷۷) اور اس کو خدا وند کریم نے پرانی اور نئی دنیا دونوں میں پورا کر دکھا یا جس کو سب دنیا نے دیکھا اور سنا ہے پس جس طرح کسی نے ثابت نہیں کیا اور نہ کر سکتا ہے کہ پہلے زمانہ میں کبھی ایسا ہوا.اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ آئندہ بھی کبھی نہ ہوگا.یہاں پر ایک بات کی طرف تو میں آپ کو توجہ دلاؤں گا اور پھر عام طور پر سب مدعیان محبت اہل بیت اور ائمہ اثنا عشر اور خصوصاً ان کی اولاد کو نصیحت کروں گا شاید کوئی سعیدالفطرت فائدہ اٹھائے.آپ کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جس قدر دنیا میں سادات ہیں بجز اس کے ان کی سیادت کی کوئی سند نہیں ہوتی کہ ایک شجرہ نسب لکھا ہوا رکھا ہوتا ہے یا قبروں اور مریدوں پر حوالہ کیا جاتا ہے اور میں نے بچشم خود سادات بنتے دیکھے ہیں اور شیعہ کے خمس نے تو اور بھی غضب مچا دیا ہے.پر ہمارے امام مہدی اور مسیح موعود کی قربت قریبہ کو سیّدنا زین العابدین علیہ السلام کی حدیث کیا ثابت کرتی ہے دیکھو وہ یہ نہیں فرماتے اِنَّ لِمَھْدِیْ آیَتَیْنِ بلکہ وہ فرماتے ہیں اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا آیَتَیْنِ اور سورج چاند کے ایک رمضان میں گرہن لگنے نے جوکہ خدائی فعل ہے

Page 298

ثابت کر دیا کہ اہل بیت کا مہدی کون ہے.وہ ہمارا آقا اور مطاع حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام جس کے مہدی اہل بیت ہونے کی شہادت خدا کے علم اور فعل نے پرانی اور نئی دنیا میں دی ہے (النّسآء : ۸۰).اب میں دوسرے گروہ کو نصیحت کرتاہوں کہ اے محبان اثنا عشریہ اور ان کے اتباع کا دم بھرنے والو اور اے آلِ فاطمۃ الزہرا و آلِ حسن و الحسین اور اے آلِ زین العابدین علیہم السلام ھَلْ فِیْکُمْ رَجُلٌ رَشِیْد.کیا تم کبھی خواب غفلت سے بیدار ہوگے کیا کوئی تم میں سے ایسا بہادر اور سچا محب اہل بیت ہے جو کہ اپنے امام زین العابدین کی اس بات کو مانے اور اہل بیت کے مہدی کی اتباع سے مشرف ہو.خدا کے لئے ذرا غور تو کرو کہ حضرت امام زین العابدین نے کیسے دو یکتا نشان اپنے مہدی کے بتائے ہیں جو کہ اور کسی میں نہ کبھی ہوئے اور نہ ہوں گے اور پھر تمہاری آنکھوں کے سامنے یہ دونوں نشان ہمارے آقا اور مطاع کے لئے علیٰ رؤوس الاشہاد پورے ہوئے.کیا اب بھی کوئی کسر باقی رہی ہے.نمبر۹.ہمارے آقا اور مطاع کو قریباً ہر ایک قوم کے مقابل پر ایک بین فرقان دیا گیا ہے مثلاً دیکھو کہ مسئلہ وفات مسیح اور تائیدات میں ان سے زائد ہونے کی اثبات اور آتھم کے ہاویہ میں گرنے نے عیسائیوں کو کیسا دم بخود کیا اور ان پر کیسی حجت پوری ہوئی یہاں تک کہ مسیح موعود کے خدام سے آگے بھاگتے ہیں.جیسا کہ کمان سے کوّا یا لاحول سے شیطان.پھر دیکھو لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی کے سچا ہونے اور مسئلہ نیوگ کے نقائص طشت ازبام کرنے سے آریہ مذہب پر کیسی ہلاکت آئی.پھر دیکھو بابا نانک کے اثبات اسلام سے سکھوں کو کیسا لاجواب کیا پھر حسین پر اپنی فضیلت ثابت کر کے شیعہ کو کن آنسوؤں سے رلایا.یہاں تک کہ اپنے مخذول اور خائب آبا واجدادکی طرح تبرا بازی سے اپنے لاجوابی اور ضعف کا انہوں نے ثبوت دیا.پھر سب عرب وعجم کو دعا کے

Page 299

مقابلہ میں اور معارف قرآن مجید بیان کرنے میں اور عربی کتابوں کے مثل لانے میں کیسا نیچا دکھایا وغیر ذالک.نمبر۱۰.حضرت مسیح موعود کسر صلیب یا یوں کہو قتل خنازیر کے واسطے اور وضع حرب کے لئے مبعوث ہوئے ہیں.پس دیکھو کہ وفات مسیح کا مسئلہ جو کہ کسر صلیب کا حربہ ہے کس طرح اس کے پہلے سے پھیل گیا اور عیسائی کس طرح بائیبل اور کفارہ کو خیر باد کہنے لگے.نمبر۱۱.قوتِ تطہیر کا پتہ آپ کی جماعت کے صحبت یافتہ بااخلاص افراد کے مشاہدہ سے لگ سکتا ہے کہ ان میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی جس سے ابدال بنے.نمبر۱۲.علم قرآن کے مقابلہ کے واسطے سب علماء و صوفیا اور عرب وعجم کو بلایا پر کوئی بھی اس مقابلہ کے لئے نہ نکلا.نمبر۱۳.جیسا کہ پہلے انبیاء کے لئے آیا ہے. (یوسف : ۱۱۰) اور فرمایا.(الأَنعام : ۴۹) اور (البقرۃ : ۱۳۰) یہ سب باتیں ہمارے آقا نامدار میں موجود ہیں نہ یہ سُرَّمَنْ رَاٰی کے گم گشتہ طفل کی طرح کئی صدیوں کے بعد کسی غار سے نکلا اور نہ مسیح کے پوجاریوں کے فرضی مسیح کی طرح آسمان پر زندہ بجسد عنصری رہ کرصیہون یا بیت المقدس یا کسی پہاڑ یا مسجد پر اتر کر کسی سیڑھی اور زینہ کا محتاج ہو کر  (الأَحقاف : ۱۰) ٹھہرا ہے اور نہ کسی اسرائیلی شریعت کی اتباع سے نبی بن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا توڑنے والا قرار پایا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی اتباع سے اس نے حاصل کیا جو کیا فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ.نمبر۱۴.بہت سے مولویوں کو مثل مولوی محمد حسین وغیرہ کو مباہلہ کے واسطے بلایا پر مقابل پر نہ آئے اور غلام دستگیر قصوری نے کیا.ہلاک ہوا اور عبد الحق نے کیا وہ ذلیل ہوا اور ہمارے آقائے نامدار کو اس کے بعد وہ عزت اور ترقی ملی جو کہ مباہلہ کے بعد کسی کاذب کو ہرگز نہیں

Page 300

مل سکتی بلکہ وہ خواص کا خاصہ ہے.نمبر۱۵.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ وَلَوْ لَمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ اور باوجود اس قدر ممتد زمانہ گزرنے اور کثرت اور قوت مخالفین کے ان کی سب تدابیر ناکام گئیں اور آپ کو اللہ قدیر نے ان کی شرارتوں سے معصوم اور محفوظ رکھا ہے اور آئندہ بھی ضرور رکھے گا.نمبر۱۶، نمبر۱۷، نمبر۱۸، نمبر۱۹.دیکھو خدا وند کریم نے ایک با امن گورنمنٹ قائم کر کے کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کے لئے تمکین دین کی اور جو ابتدا میں خوف پیدا ہوئے وہ رفتہ رفتہ کس طرح دور ہوتے جاتے ہیں اور آپ اللہ کی عبادت کرتے اور شرک نہیں کرتے.اور جس قدر بڑے بڑے مکفرین تھے قریباً سب تباہ ہوگئے جو چند باقی ہیں ان کا انجام بھی دیکھنے والے دیکھ لیں گے.نمبر۲۰.جو شخص آپ کے مشن سے واقف ہوگا وہ یقین کرے گا کہ آپ کسی پہلے ایک فرقہ کی طرف نہیں جھکے بلکہ ہر ایک فرقہ میں جو حق تھا لے لیا اور جو باطل تھا وہ پھینک دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک فرقہ آپ سے مل بھی سکتا ہے اور نیز ہر ایک آپ سے راضی بھی نہیں ہے.اب میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں ہاں اس قدر کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کو قربت قریبہ والے مہدی کا بہت خیال ہے تو پھر ابن خلدون کو ذرا غور سے پڑھیں یا سنیں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ یہ روایت اور درایت کس قدر کمزور بلکہ مردودہے.(الحکم جلد۱۰ نمبر۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ۷ تا۱۱)

Page 301

سوالات اور ان کے جوابات ماسٹر احمد حسین صاحب نے امرتسر سے چند سوال بھیجے جن کے جواب حضرت مولوی صاحب نے تحریر فرمائے ہیں.مکرمی و معظمی حضرت حکیم الامت ادام اللہ برکاتہ.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.ذیل کے چند سوالات دریافت طلب ہیں.ان کے جواب اگر مناسب تصور فرمائیں تو بذریعہ الحکم یا بدر شائع فرما دیں.ورنہ بذریعہ پرائیویٹ چٹھی ہی مرحمت ہوں.عین کرم بزرگانہ ہوگا.سوال.حالت جنب، حالت مباشرت اور جائے ضرور میں اگر کسی امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر دل میں پیدا ہوتو آیا زبان سے اس کا اظہار بالفاظ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وغیرہ (جو اکثر بے ساختہ ہو جاتا ہے)جائز ہے یا نہیں؟ جواب.جنبی حالت جنابت میں اور جماع کنندہ حالت جماع میں الحمد للہ کہے.حدیث میں ہے کَانَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمْ یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحْیَانِہٖ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب ھل یتبع المؤذن....).البتہ بول و براز میں تصریح سے ثابت نہیں کہ حضور علیہ السلام نے منہ سے فرمایا ہو.مگر پہلی حدیث سے پتہ لگ سکتاہے.سوال.ظہر کے وقت فرض سے بعد کی دو رکعت سنت غیر مؤکدہ کہلاتی ہیں.تو آیا بوقت عجلت و عدم فرصت ان کے ترک سے معصیت لازمی آتی ہے یا نہیں.جواب.سنتیں تکمیل فرائض کرتی ہیں ضرورت پر عفو ہوسکتی ہے واِلَّا فرائض ناقص رہیں گے.سوال.غیر احمدی لوگ جو اپنی جگہ پر عقیدۃ میں ہم سے صریح سخت مخالفت رکھتے ہیں.اگروہ بڑے اخلاق سے سلام میں پیش قدمی کریں تو ان کے جواب میں وعلیکم السلام کہنے کے علاوہ ہمیں بھی ان پر سلام کہنے میں پیش قدمی کرنا جائز ہے یا نہیں؟

Page 302

جواب.میں نے تو ایسے اخلاق والے نہیں دیکھے کہ ہمارے امام سے ان کو بغض ہو اور ہم سے محبت.یا ہم میں عیب یا ان میں.بہرحال اخلاق والے سے اخلاقی معاملہ کرو.سوال.اگر کسی عذر شرعی سے غسل جنابت کی بجائے تیمم کر کے نماز پڑھ لی جائے تو پھر اس کے بعد کی نمازوں سے پہلے غسل کرنا ضروری ہے.یا وہ تیمم بالاستقلال غسل کا کام دے گیا ہو.جواب.عذر شرعی کے باعث تیمم عذرشرعی تک محدود ہے.جب وہ عذر جاتا رہا تو تیمم باطل ہوگیا پھر غسل کرے.سوال.ایک احمدی کتب فروش کے لئے کیا ان کتب کی خرید و فروخت جائز ہے جن کے مضامین کے حسن و قبح کا کچھ علم نہیں.مثلاً بعض ناول اخلاقی یا سراغ رسانی کے کہلاتے ہیں.اور نہیں معلوم کہ ان کے بیچ میں حسن و عشق یا فسق کا، مخرب الاخلاق کا دکھڑا بھی رقوم ہے یا نہیں.یا عامیانہ قصے فسانے یا مذہبی رنگ کے رطب و یابس قصے وغیرہ یا کتب نحو.جفر و عملیات.جواب.صریح بری کتاب اور خلاف قانون کتاب کا بیچنا جائز نہیںواِلَّا علی العموم جائز ہے.سوال.ایک احمدی نے ایک ہندو دوکاندار کا کچھ دینا تھا (اندازًا … روپے) وہ دوکاندار مرگیا اور اس کے ورثاء کا کچھ پتہ نہیں ملا تو اس قرض کے بوجھ سے کیسے سبکدوشی ہوسکتی ہے؟ جواب.جس کا دینا ہو اور وہ مر جاوے یا اس کا وارث نہ ہو تو وہ مال صدقہ کر دے.سوال.تلاوت قرآن بنا فہم معانی بھی کسی حد تک موجب ثواب ہوتی ہے یا نہیں.یہ ظاہر ہے کہ ہر شخص کو تمام و کمال کلام مجید کا علم معانی نہیں ہوتا.پس یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جہاں سے اس کی سمجھ میں نہ آئے وہ مقامات بیچ میں چھوڑتا جاوے.جواب.صرف تلاوت قرآن کریم کا بھی حکم فرمایا ہے.  (العنکبوت: ۴۶)ہے.اس میں حفاظت قرآن کریم ہے اور حفاظت کا ثواب.نور الدین (البدر جلد۲ نمبر ۶ مورخہ۹؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۰ ۱)

Page 303

استفسار اور ان کے جواب بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدمت شریف حکیم الامت مولانا مولوی نور الدین صاحب.ایک دو مسائل خدمت شریف میں تحریر کئے جاتے ہیں.ان کا جواب الحکم میں شائع کرکے سرفراز فرماویں تاکہ عام لوگوںمیں بھی مفید ہوں.(۱) استعمال دانہ کھانڈ کی بابت کیا حکم ہے.مشہور ہے کہ اس کی سازش ناجائز اشیاء سے ہوتی ہے.(۲) زمین کا رہن لے کر اس کی آمدنی سے فائدہ اٹھانا اس پر مفصل بحث ہونی چاہئے اور اقوال ائمہ سابقہ بھی اس کی بابت درج ہونے چاہئیں.(۳) بیاہ شادیوں میں جو زیور وغیرہ سسرال اور والدین لڑکیوں کو دیتے ہیں وہ ملکیت کس کی ہوتا ہے.رواج تو یہ ہے کہ لڑکی کے پرچانے سے سب کا سب اس کے سسرال رکھ لیتے ہیں.اس پر بھی مفصل بحث ہو.فقط میں امید کرتا ہوں کہ ہفتہ آئندہ الحکم میں ان کا جواب آپ شائع کردیںگے.راقم اسمٰعیل پٹواری کلاس والا تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ الجواب اللہ نے حرام چیزوں کی تفصیل کردی ہے اور احادیث میں اور بھی واضح کیا گیا ہے.(ا) دانہ کھانڈ کی حرمت شرع اسلام میں بالکل ثابت نہیں.یہ ہنود کی سودیشی تحریک کی بات معلوم ہوتی ہے.جو ان کے اپنے اغراض کے متعلق ہے.ہم اہل اسلام کو ایسے خیالی وساوس میں پڑنا مناسب نہیں.عیسائیوں کے پانی اور کھانے کو خدا تعالیٰ نے حرام نہیں کہا اور کھانا جائز رکھا ہے.ہاں شراب سؤر اور مردارجو موجودہ عیسائی استعمال کرتے ہیں قرآن کریم نے اس کو جائز نہیں رکھا اور قرآن میں صاف ہے (الانعام :۱۲۰)

Page 304

(۲) زمین یا جانور کا رہن رکھنا جائز ہے.اگر اس پر مرتہن کا کچھ خرچ ہوتا ہے تو نفع یا نقصان برداشت کر سکتا ہے اور اس پر کئی دفعہ الحکم میں بحث ہوچکی ہے.(۳)جو زیور اور مال شادی میں بیوی کے گھر لانے سے پہلے دیا گیا ہے وہ سب بی بی کا مال ہے.اور جو گھر لانے کے بعد دیوے تو وہ جس کو دیوے اس کا مال ہے.کیا معنے کہ بیوی کے بھائی یا باپ یا ماں یا رشتہ داروں کو کچھ دیا جاتا ہے وہ ان کا مال ہے اور ان سے سلوک ہے.(الحکم جلد۱۰ نمبر۱۵.مورخہ۳۰؍اپریل۱۹۰۶ء صفحہ ۲) مکتوب بنام ڈاکٹر عبد الحکیم خان صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ یہ ایک ایسی عبارت ہے جو صریحاً ایک جگہ قرآن کریم میں موجود نہیں.اور سلاماً اچھے لوگوں کے خطاب میں نہیں آیا.اس لئے عرض ہے.جناب من ! آپ کا خط دس صفحہ کا مجھے پہنچا.میں نے جواب دینے میں جلدی چاہی تھی مگر میں نے اپنے دل میں بہت سوچا تو جوش کو بھی ساتھ پایا اس لئے متأمل ہوا.اب بہت دن گذر گئے اور یقین ہوگیا کہ اس وقت کوئی جوش میرے قلب پر نہیں.تو خط لکھنے بیٹھا.ہاں اس وقت مجھے تھوڑا سا زکام ہے مگر مجھے یقین ہے کہ آپ اسے رائے العلیل علیل پر محمول نہ کریں گے.آپ کے سارے خط کا مضمون میں نے تین حصہ پر تقسیم کر دیا ہے.پہلا حصہ وہ ہے جس پر آپ نے ایک عقیدہ بیان فرمایا ہے اور اس کی بنیاد عقل، فطرت اور قرآن پر رکھی ہے.دوسرا حصہ وہ ہے جس میں آپ نے مرزا پر اعتراض کئے.تیسرا حصہ.مرزائیوں پر مطاعن کا ہے.میں نے آپ کی وہ خط و کتابت نہیں پڑھی جو آپ نے مرزا جی سے کی ہے.ہاں ایک آپ کا آخری خط مسجد میں ملا.جسے میں نے سرسری نظر سے

Page 305

دیکھا.چونکہ اس اصل پر بحث مقدم ہے جس کے باعث آپ نے مرزا اور مرزائیوں پر مطاعن شروع کئے ہیں اس لئے میں اسی پہلے حصہ کی طرف توجہ کرتا ہوں.آپ نے مجھ سے فرزندی کا دعویٰ کیا ہے اور حسن ظن کو کام میں لائے ہیں.اگر یہ حسن ظن اب تک کچھ قائم ہے تو یہ خط بے ریب ایک مخلص انسان کا خط ہے.جس کو فطرتاً اللہ تعالیٰ پر ایمان اور شرک سے نفرت ہے اور قدرت نے اس کو ایسے سامان دئے کہ جوں جوں وہ ترقی کرتا گیا ساتھ ہی اس کو جناب الٰہی سے محبت اور شرک سے پوری نفرت ہوئی.گو مجھے ڈر ہے کہ آپ نے جس جو ش سے اخباری دنیا میں پیسہ اخبار سے تعلق پیدا کیا ہے وہ اس میرے مضمون کی طرف متوجہ ہونے سے سد راہ نہ ہو.کیونکہ ایک قانون الٰہی (ھود: ۱۱۴) ہمیں قرآن میں نظر آتاہے پھر اس کی تصدیق نیچر سے ان بیماریوں میں نظر آتی ہے جن میں ایک آپ کے ساتھ امتحان دینے والا مبتلا ہوا.اور اس کے لئے اس کی محنت و مشقت نے اپنے نتائج سے اسے محروم کر دیا اور اس طرح کے ہزارہا مصدقات نظر آتے ہیں.اب میں اصل بات عرض کرتا ہوں.آپ نے جو قاعدہ نجات کا تجویز کیا ہے وہ آپ کے ان لفظوں سے مجھے معلوم ہوا ہے.تمام انبیاء ہادیٔ خلائق ہیں نہ مدار نجات.پھر آپ کہتے ہیںالی آخرہ(الفاتحۃ :۲،۳).اس کے علوم پر کون محیط ہو سکتا ہے پھر اس کی رحمت و مغفرت کے لاانتہاء قوانین کسی ایک انسان کے ماتحت کیسے ہوسکتے ہیں اور اس سے بڑھ کر کونسا شرک ہوسکتا ہے.اگرچہ آپ کے اس کلام میں مدار نجات کا لفظ گول مول ہے مگر لا انتہا قوانین رحمت و مغفرت کا فقرہ اس کو حل کر دیتا ہے.ان آپ کے فقرات سے نجات کا دائرہ بہت بڑا وسیع ہے اور تمام الٰہی کتابیں اور تمام رسولوں کی تعلیمات آپ کی اس تحریر سے رد ہو سکتی ہیں کیونکہ خدا کی رحمت مغفرت کی لاانتہاء قوانین ان محدود کتابوں اور محدو د انسانوں کے ماتحت نہیں ہو سکتے.پس ان کی کارروائی بھی آپ کے نزدیک بہت بڑا شرک ہوا.پھر آپ نے مرزا اور مرزائیوں کو   

Page 306

کی آیت سے مجرم اور مجرم کے ساتھ محل انتقام تجویز فرمایا اور اپنے اس اصول کو غیظ و غضب کے باعث بھول گئے کہ اور اس کی رحمت و مغفرت کے لاانتہاء قوانین مرزا اور مرزائیوں کونجات نہیں دے سکتے.اس سے بڑھ کر ڈاکٹر عبد الحکیم خان کا کیا شرک ہو سکتا ہے کہ اس کے کہنے کی خلاف ورزی سے مرزا اور مرزائیوں سے انتقام لیا جائے اور تمام انبیاء کی خلاف ورزی سے انتقام نہ ہو اور وہ مدار نجات نہ ہوں.پھر آپ نے اس وسیع دائرہ نجات کو تنگ کر دیا اور یہ کہاہے کہ توحید،ایمان بالیوم الآخر اور اعمال صالحہ مدار نجات آخرت ہیں.رب العالمین کے لاانتہاء قوانین مغفرت کو ہم ایک طرف رکھیں تو کیسا تعجب آتاہے پر معلوم ایسا ہوتا ہے کہ شاید مسلمانوں کو ملزم کرنے کے لئے آپ نے یہ لکھ دیا ہے.پھر آپ نے آگے چل کر دائرہ نجات کو وسیع بھی کیا ہے اور تنگ بھی کر دیا ہے جہاں یہ لکھا ہے کہ(النساء : ۱۱۷).حکیم اور خان اور پھر ڈاکٹر صاحب شرک معاف نہ ہو یہ کیا بات ہے کیا اس کے لا انتہاء قوانین نجات میں مشرک کی نجات کا کوئی قانون نہ ہو بلکہ ضرور ہونا چاہئے کیونکہ وہ (الفاتحۃ:۲،۳) ہے.ایک انسان نے اگر ایسا کہا ہے تو آپ کے نزدیک اس کا کہنا چیز ہی کیا ہے اور وہ مدار نجات کب ہے جیسا کہ تم نے کہا.پھر خدا کا منکر تو مشرک بھی نہیں اس کے لئے تو نجات کا دروازہ آپ کے نزدیک بند ہو ہی نہیں سکتا.پھر آپ نے تیرہ کروڑ مسلمان پر رحم فرمایا ہے اور ذکر کیا ہے کہ تیرہ سو سال میں یہ تیرہ کروڑ مسلمان تیار ہوئے ہیں سب کو نجات حاصل کر نا چاہئے.حکیم و ڈاکٹر صاحب دوا رب اللہ کے بندے اس وقت موجود ہیں.تیرہ کروڑ اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے باعث تیار ہوئے ہیں تو دو ارب اللہ کی مخلوق اور ڈارون کے طریق سے لاکھوں برس اور معلوم نہیں کہ کب سے وہ تیار ہوئے ہیں ان سب نے اگر نجات نہ پائی تو تیرہ کروڑ چیز ہی کیا ہے اور ایک آیت

Page 307

ایسی عجیب آیت ہے کہ قرآن میں موجود ہے اور سردست بظاہر آپ کو مسلم بھی ہوگی.تیرہ کروڑ مسلمانوں میں سے اس آیت کے بموجب اکثر مشرک ہوںگے اور مشرک نجات نہیں پا سکتا.پھر یہ تیرہ سو سال میں تیار ہوئے اور ان میں سے اکثر مشرک نکلے اور مشرک کو نجات نہیں.پھر ان انبیاء کی خلاف ورزی کے متعلق ہم آپ کو ایک آیت سناتے ہیں. (الانعام: ۴۳ تا ۴۵).اس آیت پر غور کرو رسولوں کے ارسال کے وقت جہان پکڑا جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ اورجزائر کے زلازل اور طاعون اور آتشزدگیاں اور لڑائیاں مرزا کی طرف منسوب کرنے شرک ہیں.حکیم و ڈاکٹرو خان مرسل تو اس وقت مامور ہوتے ہیں جب دنیا علی العموم غفلت کے نیچے دب جاتی ہے اور خدا تعالیٰ سے اعراض کر کے بکلی دنیا کی طر ف لوگ جھک جاتے ہیں.خدا کا رحم اور فضل ان مجرموں میں سے بعض کو بچانے کے لئے مرسل مقرر فرماتا ہے.کیا نوح اور موسیٰ کے آئے بغیر فرعون اور قوم نوح ہلاک ہوگئی تھی.کیا مکہ والوں کویہ کہنا کہ(الانفال: ۳۴) کوئی مجنون کی بڑتھی؟ نہیں.سورہ نوح کا ابتدا ء پڑھو جہاں لکھا ہے.(نوح:۴) اگر وہ کوئی مدار نجات نہ تھا تو اس کی اطاعت چیز ہی کیا تھی.پھر آپ نے ایمان بالآخرت کو نجات کا مدار تجویز فرمایا ہے اور یہ نہ خیال کیا کہ آپ کا دائرہ نجات تنگ ہوا جاتا ہے.

Page 308

سنیے! قرآن شریف نے ایمان بالآخرت کے لوازمات بیان کئے ہیں اور ان لوازمات نے مدار نجات کو اور بھی بہت تنگ کردیا ہے اور وہ آیت یہ ہے(الانعام :۹۳).یہاں ایمان بالآخرت کو ملزوم بنایا ہے اور ایمان بالقرآن اور محافظت علی الصلوٰۃ کو لازم قرار دیا … اور یہ تو آپ کی فطرت کہتی ہو گی کہ لازم و ملزوم جدا نہیں ہو تے ہوںگے.آپ نے قتل عمد کی سزا کہیں قرآن شریف میں دیکھی ہوگی اگر یاد نہ ہو تو میں اسی خط میں یاد دلا دیتا ہوں.(النساء :۹۴) پھر ایک اور آیت ہے جو چھٹے سپارہ کے ابتداء میں ہے. (النساء:۱۵۱،۱۵۲) اس کو آپ ملاحظہ فرماویں.آپ تو ابھی میرے روحانی فرزند ہیں اور مسیح کو مسیح و مہدی بھی مانتے ہیں.اگر (البقرۃ :۳۵) کا کوئی مادہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ میں نہ ہو تو جو قاعدہ نجات کا آپ نے لکھا ہے.اس کی غلطی اتنے میرے بیان سے بھی ظاہر ہوسکتی ہے اور اگر ہٹ کے اسباب بہت ہیں اور اب آپ مخالفت کا اظہار کرچکے ہیں اور  … الخ (ھود:۱۱۴) کی بھی پرواہ نہ کی.تو زیادہ مباحثات سے بھی کام نہیں نکلتا.نجات فضل سے ہے اور وہی مدار نجات ہے اور اس فضل کا جاذب تقویٰ ہے اور اس تقویٰ کا بیان(البقرۃ :۱۷۸) میں ہے.آپ اس پر غور کریں کیونکہ تقویٰ سے نجات کا ہونا تو آیت کریمہ (الزمر: ۶۲) اور (مریم:۷۳)سے

Page 309

ظاہر ہے اور اس یقین کے بعد کہ نجات تقویٰ سے ہے.حکم ہے کہ تقویٰ ان امور کی پابندی کا نام.تو آپ کا وہ قاعدہ ٹوٹ جاتا ہے.(البقرۃ:۱۷۸) اس آیت کریمہ کے درمیان تقویٰ کے چند اصول بیان ہوئے ہیں جن میں شاید مرزا کا بھی کہیں ذکر آیا ہو اور دوسری آیت (مریم:۷۳) ظاہر کرتی کہ مدارِ نجات تقویٰ ہے.لاانتہاء قوانین نجات کے لئے نہیں.پھر مر کر نجات کا مسئلہ تو ہمیں صر ف انبیاء کے ذریعہ ہی معلوم ہو سکتا تھا اوراس کا دوسرا کوئی راستہ نہیں اور دنیا میں نجات بخلاف آپ کے منشاء کے بہت ہی کم لوگوں میں نظر آتی ہے.آپ اپنا ہی حال دیکھیں.بڑی محنتوں کے بعد تو آپ ڈاکٹر اور مصنف کتب اور صاحب اولاد ہوئے مگر بیوی بچوں اور ریاست والوں سے نجات ملی یا نہ ملی.آپ کا دل ہی جانتا ہوگا.میں اس پہلے حصہ سے ایک حد تک جواب دینے سے سبکدوش ہوا ہوں اگر یہ حصہ آپ کے لئے کچھ بھی مفید ہوا تو اس تفصیل کو بھی تیار ہوں اور باقی حصوں کے جواب دینے کو تیار ہوںگا.اور اگر اس حصہ کے متعلق بھی مجھے یہی سنانا ہو کہ میں دودھ مانگتا ہوں اور مجھے زہر پلایا جاتا ہے میں قریب ہوتا ہوں اور مجھے دور کیا جاتا ہے اور اپنا بنتا ہوں اور مجھے اجنبی کہا جاتا ہے تو میں مصلحت نہیں سمجھتا کہ باقی حصوں کا جواب دوں یا اس کو اور زیادہ کروں.اگر امام صاحب کے حضور شوخی کرنے سے پہلے مجھے براہ راست آپ خط و کتابت کرتے تو

Page 310

مجھے بہت پیارے الفاظ بولنے کا موقع ملتا مگر محبوب پر سخت کلامی کو ایک محب فطرتاً پسند نہیں کر سکتا اور وہ معذور بھی ہے.پھر خداکے لا انتہاء قوانین مغفرت بھی موجود ہیں.اس لئے میں یقین کرتا ہوں کہ میرا کوئی لفظ بھی ایسا نہ ہو گا جو میرے لئے نجات سے محروم کرنے والا ہو.قرآن کریم سے الگ ہو کر آپ بہت قوانین ایجاد کر سکتے ہیں مگر قرآن کے ما تحت ہو کر ایسا کرنا آپ کے لئے محال ہے.قرآن ایک مفصل کتاب ہے.اگر ایک شخص کو ایک مقام پر کوئی آیت متشابہ معلوم ہو تو اس کے لئے اور بہت سے محکمات موجود ہیں جو ام الکتاب کا کام دے سکتے ہیںمگر کبریائی سخت مرض ہے.(الحکم جلد۱۰ نمبر ۱۹.مورخہ۳۱؍مئی۱۹۰۶ء صفحہ۹،۰ ۱) مرزا صاحب کی تصویر کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ عموماً مجھ سے سوال کیا جاتا ہے کہ ہر احمدی مرزا صاحب کی تصویر رکھتا ہے اور اس سے غرض اس کی پرستش کی ہوتی ہے.میں بآواز بلند پکار کر کہتا ہوں کہ جو کوئی شخص مرزا صاحب کی تصویر پوجتا ہے وہ یقیناً مشرک ہے اور شرک کرتا ہے اور تصویروں کے بنانے کو مرزا صاحب سخت اور گندی بدعت سمجھتے ہیں.چنانچہ یہاں کچھ ایسے کارڈ آئے تھے جن پر آپ کی تصویر تھی تو آپ نے فرمایا کہ ان سب کو جلا دو نیز یہ بات بھی بالکل جھوٹ ہے کہ ہر ایک مرزائی کے پاس مرزا صاحب کی تصویر ہوتی ہے میرے پاس ہی کوئی نہیںجواحمدی تصویر رکھتا ہے وہ مرزا صاحب کے بالکل خلاف کرتا ہے.مرزا تصویر کی پرستش کرانے کو دنیا میں نہیں آیا.فقط.نورالدین (الحکم جلد۱۰ نمبر ۲۴.مورخہ۱۰؍جولائی۱۹۰۶ء صفحہ۹) مفرح یاقوتی کی نسبت تصدیق میں تصدیق کرتا ہوں کہ مفرح یاقوتی تیار کردہ مرہم عیسیٰ صاحب بے ریب مفید ہے.میں نے اپنے ایک شریف مریض پر اس کا تجربہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے کارخانہ میں برکت دے.

Page 311

مرہم عیسیٰ کی طرح ان کے کارخانہ میں بعض ادویہ بہت عمدہ ہیں.نورالدین.قادیان ۷؍ جولائی ۱۹۰۶ء (البدر جلد۲ نمبر ۳۰.مورخہ۲۶ ؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ۱۶) ضروری اطلاع یہ اطلاع ایک اشد ضرورت کے موقع پر دی جاتی ہے اور وہ یہ کہ زکوٰۃ کا کچھ روپیہ کچھ مدت سے الگ جمع کیا جاتا ہے جس میں سے اس سلسلہ کے بعض غریب طلبہ کی جو کالجوں میں اور اس سکول میں تعلیم پاتے ہیں امداد کی جاتی ہے اور جس میں سے بعض ابن السبیل کے راہ کا خرچ اور غرباء بیکس کا کفن دفن کیا جاتا ہے.یہ تمام اخراجات اس فنڈ سے کئے جاتے تھے لیکن فنڈ میںاس وقت روپیہ ختم ہو گیا ہے جس سے ان غریب طلبہ اور متذکرہ بالا ضروری اخراجات کے لئے سخت مشکل پڑگئی ہے جو صرف اسی طرح دور ہو سکتی ہے کہ ہر ایک صاحب ذی ثروت اس کام کو اہم سمجھ کر اس کی طرف خاص توجہ کرے اور جو زکوٰ ۃ اس کے ذمہ ہے وہ امین زکوٰۃ فنڈ کے نام جلد ارسال کردے.کیونکہ دیر سے بہت اخراجات بند پڑے ہیں ان کا تدارک کیا جاوے.ہم امید کرتے ہیں کہ اگر ہر ایک صاحب ذی ثروت نے کچھ بھی توجہ اس طرف کی تو ان اخراجات کے لئے اتنا کافی سٹاک جمع ہو جائے گا جو کئی مہینوں تک کافی ہوگا.نور الدین.امین زکوٰۃ.( الحکم جلد۱۰ نمبر۳۱.مورخہ۱۰ ؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ۹) زکوٰۃ کا نصاب ، شرح اور مصرف سوال ہے صاحب نصاب ہونے کی مقدار کیا ہے.مقروض بھی ہو اور صاحب جائیداد بھی تو زکوٰۃ کا کیا حکم ہے ؟ جواب.مقروض پہلے قرض ادا کرے.نصاب کے لئے چاندی ۵۲ تولہ اور سونا ساڑھے سات تولہ گائیں تیس یا تیس سے زیادہ اونٹوں میں پانچ ہوں تو اور غلہ جو باہر سے آوے اس کی ۳/۱ یا ۴/۱ کاٹ کر باقی۲۲ من غلہ انگریزی ہو.

Page 312

سوال.زکوٰۃ کی شرح کیا ہے ؟ نقد پر.زیورات پر جو نقری یا طلائی ہوں.زیورات زیراستعمال اور زیورات داشتہ بغیر استعمال پر.پارچات داشتہ یا زیر استعمال پر.اراضی کی آمدنی پر جو چاہی ہو.نہری ہو بارانی ہو اور سیلاب ہو.پیدا وار ارضی پر جو معافی ہو یا جس کا سرکاری لگان ادا کرنا ہو.جواب.نقد پر ۲ فیصدی.چاندی میں ۴۰/۱ حصہ.عام استعمال کے زیورات پر زکوٰۃ نہیں.جو زیورات داشتنی نہیں ان پر زکوٰۃ ہے.ساڑھے سات تولہ سونے میں ۲ ماشہ سونازکوٰۃ ہے.پارچات پر کوئی زکوٰۃ نہیں.اراضی آمدنی پر چاہی تو ۲۰/۱ نہری میں آبیانہ دینا ہو تو ۲۰/۱ بارانی میں ۱۰/۱ سیلاب میں ۱۰/۱ جو معافی ہے اس کی زکوٰۃ چاہئے.پیدا وار اراضی جس کا لگان دیا جاوے.اگر لگان زیادہ ہے تو نہیں اگر شرحمقررہ سے کم ہے تو جس قدر کم ہے اتنی زکوٰۃ دے.سوال.اس مال پر جو کسی شخص کو تو جائز وسیلہ وارث سے حاصل ہوا ہو مگر جانتا ہو کہ مورث نے ناجائز طور حاصل کیا ہے زکوٰۃ کا کیا حکم ہے ؟ جواب.مورث کا ذمہ وار نہیں خود زکوٰۃ دے.سوال.اس مال پر جو مثلاً بازاری عورت کو بدکاری سے راشی کو رشوت سے بد دیانت کو فریب سے چور کو چوری سے خائن کو خیانت سے حاصل ہو اہو زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟ جواب.ایسے اموال کا رکھنا مومن کا کام نہیں کسی دینی کام میں لگاوے.سوال.مصرف زکوٰۃ کیا ہیں اور ان کے درجہ کس طرح ؟ جواب.قرآن کریم کہتا ہے.محتاج ہو.پیشہ جانتا ہو بے سامان ہو.محصل زکوٰۃ.مؤلفۃ قلوب.دینی جہادوں میں.غلام کے آزاد کرنے میں.جس پر چٹی پڑگئی ہو.(نوٹ ازایڈیٹر.زکوٰۃ ہمیشہ امام کے حضور جمع ہونی چاہئے.اس لئے احمدیوں کو امین زکوٰۃ فنڈ کے نام بھیجنی چاہئے)

Page 313

سوال.مصرف زکوٰۃ میں ذو القربیٰ میں کون لوگ داخل نہیں.اور ان میں سے مستحق زکوٰۃ کیسے آدمی ہونے چاہئیں.جواب.جو محتاج ہیں.استفتاء سوال.ایک بالغہ عورت کا جس کے والدین مرچکے ہیں ایک نابالغ لڑکے کے ساتھ نکاح ہوگیا.بر وقت نکاح عورت نے کوئی عذر یا انکار لفظاً یا معناً نہیں کیا.چند ماہ کے بعد وہ عورت اپنے نابالغ خاوند کے بڑے بھائی سے نکاح کر سکتی ہے ؟ خواہ اس میں اس کے والدین کی رضامندی شامل ہو.جواب بموجب حکم کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے ہو.جواب.نمبر۱.نابالغ کی منکوحہ بلکہ بالغ منکوحہ بھی کسی دوسرے سے بدون قطع تعلق خاوند کے ہرگز نکاح نہیں کرسکتی.صرف ملک یمین مستثنیٰ ہے قرآن کریم  (النساء: ۲۵) کو حرام فرماتا ہے.نور الدین الجواب موافق للکتاب والسنۃ.محمد احسن عفی عنہ (الحکم جلد۱۰ نمبر ۳۸.مورخہ۱۰؍نومبر۱۹۰۶ء صفحہ۲) علم الابدان یہ مضمون لکھ کر میں(محمد صادق ) مشورہ کے واسطے حضرت استاذی المعظم مولوی نورالدین صاحب کے پاس لے گیا تھا جس پر انہوں نے مفصلہ ذیل الفاظ تحریر فرمائے ہیں.میں امید کرتا ہوں.محمد صادق صداقت سے اس کو نبھائیں گے.کیونکہ وہ طبی درس کے وقت اکثر آ بھی جاتے ہیں اور میری بعض باتوں کو میرے سامنے لکھ لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ روحانی اور جسمانی امراض کے مشورہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرلیں.نورالدین (البدر جلد ۶ نمبر ۱، ۲ مورخہ ۱۰؍ جنوری۱۹۰۷ء صفحہ ۲۱)

Page 314

لطیف نکتہ ۱۷؍جنوری کو آپ نے سورۃ الفجر پر وعظ فرمایا اور منجملہ نکات یہ لطیف نکتہ بھی بیان کیا کہ الفجر رسول کریمﷺ کا زمانہ ہے.خیر القرون تک تین سو برس ہوئے اور دس راتوں سے مراد دس صدیاں لیں تو کل ۱۳۰۰ ہوئے.اس کے بعد خدا تعالیٰ (الفجر:۴) میں تیرھویں اور چودھویں صدی کی طرف اشارہ فرماتا ہوا (الفجر:۵) کی خبر دیتا ہے یعنی پھر چودھویں میں آفتاب نبوت طلوع کرے گا اگر اس نبی کی اطاعت نہ کریں گے تو وہی ہوگا جو عادیوں اور فرعونیوں کے ساتھ ہوا.یہاں ایک شخص علاقہ ہزارہ سے آیا.بیعت کی.بعد از اں بیمار ہوگیا اور اسی بیعت مبرور کی حالت میں راہی ملک بقا ہوا.اِنّا لِلّٰہ وَ اِنَّـآ اِلَیْہ رَاجِعُوْن.مقبرہ بہشتی کی نسبت پہلے مخالفوں اور بدظنی سے کام لینے والوں نے یہی سمجھا تھا کہ یہاں وہی دفن ہوں گے جن کے پاس دولت ہوگی یا جو قادیان اور اس کے قریب ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فعل سے ثابت کردیا کہ ایسے لوگوں کا خیال بالکل غلط اور یہ تجویز وحی الٰہی سے تھی.اب تک جتنے اس میں داخل ہوئے ہیں تقریباً سب ہی غریب و مخلص لوگ تھے اور پھر دور کے رہنے والوں کے لیے کیسا عمدہ سبب بن جاتاہے.( البدر جلد۷نمبر۳ مورخہ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ ) نماز کسوف اور خطبہ (نوشتہ محمد ظہور الدین اکمل آف گولیکی ضلع گجرات پنجاب) بسم اللہ الرحمن الرحیم ۱۴ ؍جنوری ۱۹۰۷ ء کو مدینۃ المسیح میں نماز کسوف پڑھی گئی.یہ وہ نماز ہے جس کی نسبت دیہات میں تو کسی کو بھی معلوم نہیں کہ پڑھنی سنت ہے یا نہیں بلکہ پڑھنے والے کو کہتے ہیں ہمارے دین سے نکل گیا.یہ بھی ہمارے بعض حنفی بھائیوں کی خاص مہربانیوں سے ہے جو وہ بعض سنن رسول مقبول کی نسبت کرتے رہتے ہیں.خیر یہ سلسلہ احمدیہ تو جاری ہی اسی لئے ہوا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو جاری کرے.

Page 315

ادائیگی نماز کسوف اس لئے یہاں دارالامان میں کسوف شروع ہوتے ہی نماز کی تیاری شروع ہوگئی اور ساڑھے دس کے قریب حکیم الامت سلمہ ربہ نے نماز باجماعت جہری قرأت سے پڑھائی.پہلی رکعت میں سورہ الم السجدہ پڑھ کر رکوع کیا اور رکوع سے سر اٹھا کر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہہ کر سورہ احقاف پڑھی اور پھر رکوع کیا.دوسری رکعت میں پہلے سورہ محمد کو پڑھ کر رکوع کیا اور پھر رکوع سے سر اٹھا کر اِنَّا فَتَحْنَا پڑھی اور پھر رکوع کیا.غرض ہر رکعت میں دو دو رکوع کئے.اسی طرح زیادہ بھی رکوع کر سکتے ہیں.یہ نماز ایک گھنٹہ میں ختم ہوئی.حدیث شریف میں آیا ہے کہ بعض صحابہ کو اس نماز میں طوالت قراء ت کے سبب غشی ہو جاتی تھی.جسمانی اور روحانی دو سلسلے اور ان کی باہمی مطابقت نماز ختم ہونے کے بعد مولوی صاحب مکرم نے خطبہ پڑھا جو نہایت ہی لطیف تھا.آپ نے فرمایا کہ دو کارخانے ہیں جسمانی اور روحانی.پہلے اپنی حالت کو دیکھو کہ دل سے بات اٹھتی ہے تو ہاتھ اس پر عمل کرتے ہیں جس سے روح و جسم کا تعلق معلوم ہوتا ہے.غمی و خوشی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے مگر اس کا اثر چہرہ پر بھی ظاہر ہوتا ہے کسی سے محبت ہو تو حرکات و سکنات سے اس کا اثر معلوم ہو جاتا ہے.انبیاء علیہم السلام نے بھی اس نکتہ کو کئی پیرایوں میں بیان کیا.مثلاً حدیبیہ کے مقام پر جب سہیل آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سَھْلُ الْاَمْرِ (اب یہ معاملہ آسانی سے فیصل ہو جائے گا)دیکھئے بات جسمانی تھی نتیجہ روحانی نکالا.اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف خیال کرو کہ پاخانے جاتے وقت ایک دعا سکھائی اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخْبْثِ وَ الْخَبَائِث (صحیح البخاری کتاب الوضو ما یقول عند الخلاء حدیث نمبر ۱۴۲)یعنی جیسے پلیدی ظاہری نکالی اسی طرح باطنی نجاست کو بھی نکالنے کی توفیق دے.پھر جب مومن فارغ ہوجائے تو پڑھے غُفْرَانَکَ(سنن ابن ماجہ کتاب الطھارۃ و سنتھا باب مایقول اذا خرج من الخلاء حدیث نمبر ۳۰۰)

Page 316

اس میں بھی یہ اشارہ تھا کہ گناہ کی خباثت سے جب انسان بچتا ہے تو اسی طرح کا روحانی چین پاتا ہے.نماز ،روزہ ، حج ، زکوٰۃ سب ارکان اسلام میں جسمانیت کے ساتھ ساتھ روحانیت کا خیال رکھا ہے اور نادان اس پر اعتراض کرتے ہیں.مثلاً وضو ظاہری اعضاء کے دھونے کا نام ہے مگر ساتھ ہی دعا سکھلائی ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَہِّرِیْنَ (سنن الترمذی ابواب الطھارۃ باب مایقال بعد الوضوء حدیث نمبر ۵۵) کہ جیسے میں نے ظاہری طہارت کی ہے … مجھے باطنی طہارت بھی عطا کر پھر قبلہ کی طرف منہ کرنے میں یہ تعلیم ہے کہ میں اللہ کے لئے سارے جہان کو پشت دیتا ہوں.یہی تعلیم رکوع و سجود میں ہے.وہ تعظیم جو دل میں اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسمانی اعضاء سے ظاہر کی جارہی ہے.زکوٰۃ روحانی بادشاہ کے حضور ایک نذر ہے اور جان و مال کو فدا کرنے کا ایک ثبوت ہے جیسا کہ ظاہری بادشاہ کے لئے کیا جاتا ہے اور حج کے افعال کو سمجھنے کے لئے اس مثال کو پیش نظر رکھیئے کہ جیسے کوئی مجازی عاشق سن لیتا ہے کہ میرے محبوب کو فلاں مقام پر کسی نے دیکھا تو وہ مجنونانہ وار اپنے لباس وغیرہ سے بے خبر اٹھ کر دوڑتا ہے ایسا ہی یہ اس محبوب لم یزل کے حضور حاضر ہونے کی ایک تعلیم ہے غرض جسمانی سلسلہ کے مقابل ایک روحانی سلسلہ بھی ضرور ہے اور اس کو نہ جاننے کے لئے بعض نادانوں نے اس سوال پر بڑی بحث کی ہے کہ مرکز قویٰ قلب ہے یا دماغ اصل بات فیصلہ کن یہ ہے کہ جسمانی رنگ میں مرکز دماغ ہے کیونکہ تمام حواس کا تعلق دماغ سے ہے اور روحانی رنگ میں مرکز قلب ہے.انبیاء علیہم لسلام چونکہ روحانیت کی طرف توجہ رکھتے ہیں اس لئے وہ ظاہری نظارہ سے روحانی نظارہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سراجاً منیراً فرمایا ہے اور آپ سراج منیر کیوں نہ ہوتے جبکہ آپ نے دعا فرمائی اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فَوْقِیْ نُوْرًا وَ شَمَالِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا(یہ بڑی لمبی دعا ہے)خیر جب اس حقیقی سورج نے دیکھا کہ سورج کو گرہن لگ گیا یعنی کچھ ایسے اسباب پیش آگئے جن سے سورج کی روشنی سے اہل زمین مستفید نہیں ہوسکتے تو اس نظارہ سے آپ کا دل بھڑک اٹھا کہ کہیں میرا

Page 317

فیضان پہنچنے میں بھی کوئی ایسی ہی آسمانی روک نہ پیش آجائے.اس لئے آپ نے اس وقت تک صدقہ دعا استغفار نماز کو نہ چھوڑا جب تک سورج کی روشنی باقاعدہ طور سے زمین پر پہنچنی شروع نہ ہوگئی.اب چونکہ ہر ایک مومن شخص بھی بقدر اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نور رکھتا ہے جیسے باپ بیٹے کا اثر چنانچہ اس لئے فرمایا  (الاحزاب :۴۱) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی بیٹا نہیں تو روحانی بیٹے بے شمار ہیں اس لئے ہر مومن بھی ایسے نظارہ پر گھبراتا ہے اور گھبرانا چاہئے کہ کہیں ایسے اسباب پیش نہ آجائیں جس سے ہمارا نور دوسروں تک پہنچنے میں روک ہوجائے.اس لئے وہ ان ذرائع سے کام لیتا ہے جو مصیبت کے انکشاف کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں یعنی صدقہ خیرات کرتا ہے استغفار پڑھتا ہے اور نماز میں کھڑا ہوجاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کسی مشکل کے وقت نماز میں کھڑا ہوجاتے … آخر اللہ تعالیٰ کا دریائے رحمت جوش میں آتا ہے اور جیسے وہاں حرکت و دور سے وہ اسباب ہٹ جاتے ہیں جن سے سورج کی روشنی باقاعدہ زمین پر پہنچنی شروع ہو جاتی ہے اسی طرح دعا و استغفار سے مومن کے فیضان پہنچنے میں جو روکیں پیش آجاتی ہیں دور ہو جاتی ہیں شیشے پر سیاہی لگا کر یا برہنہ آنکھ سے اپنی آنکھوں کو نقصان پہنچانے کے لئے تماشے کے طور پر اس نظارہ کو دیکھنا مومن کی شان سے بعید ہے.تم سراج منیر کے بیٹے ہو پس اپنے انوار کو دوسروں تک پہنچانے میںتمام مناسب ذرائع استعمال کرو چونکہ آپ نے ان آیات پر وعظ شروع کیا تھا جن میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو سراج منیر کہا گیا ہے اس لئے ضمن میں بعض اور باتیں بھی بعض الفاظ کی تشریح میں آگئی تھیں ایک بات خصوصیت سے قابل ذکر ہے جو سَبِّحُوْا کی تفسیر میں فرمائی کہ مشرک لوگوں نے ظاہری سلسلہ پر نظر کر کے کہ بادشاہ کے پاس سوائے وسیلہ کے نہیں جاسکتے.اللہ تعالیٰ تک اپنی عرض لے جانے کے لئے پیر پرستی شروع کردی اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ گو مرچکے ہیں مگر ہماری غرضیں انہیں کی راہ سے اوپر پہنچتی ہیں.یہ خطرناک غلطی ہے خدائے پاک کے حضور

Page 318

عرض کرنے کا وہی طریق ہے جو کتاب اللہ میں ہے اسی پر کاربند رہو.بدر.( الحکم جلد۱۱ نمبر۴.مورخہ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ۶،۷) استفسار اوران کے جواب بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم بخدمت حضرت حکیم الامت مولانا! السلام علیکم ورحمہ اللہ و برکاتہ ذیل کے چند سوالات کا جواب درکار ہے.سوالات یہ ہیں.س۱.کیا یہ خیال درست ہے کہ بعض گائے یا بھینسیں وغیرہ پر نظر کا اثر پڑتا ہے جسے لوگ نظرائی ہوئی کہتے ہیں پھر کچھ پانی وغیرہ پڑھ کر اس کے چہرے پر مارتے ہیں وہ بھینس دودھ دینے لگ جاتی ہے.ج۱.بعض نظر کا یقینا اثر پڑتا ہے اور اس کی تدبیر بھی مفید ہوتی ہے.احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے.س۲.بعض ایسے رشتہ دار (بہن یا ماموں وغیرہ جو بہت قریبی تعلق سے ہیں )وہ شرک وغیرہ کرتے ہیں.ان کے ہاں شادی وغیرہ کے موقع پر ہر قسم کی رسومات عمل میں لائی جاتی ہیں.شادی وغیرہ کے وقت کیا ان سے میل ملاقات رکھے یا نہ.اور ان کے ہاں شادی وقت ان کے ساتھ شامل ہو یا نہ.ج۲.برائی میں شریک نہ ہو اور مناسب سلوک ان سے کیا جاوے.قرآن شریف کی سورہ لقمان کے دوسرے رکوع میں اللہ فرماتا ہے اگر شرک کی کہیں تو نہ مانو اور دنیوی مناسب سلوک کرو.س۳.اگر کوئی شخص امانت میں خیانت کرے اور وہ خیانت معلوم ہو جاوے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی چاہئے یا نہ.

Page 319

ج۳.نماز کے لئے متقی کو امام بناؤ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (السجدۃ:۲۵) س۴.جمعہ کے دن امام خطبہ پڑھا رہا ہو اگر کوئی شخص اس وقت آوے وہ اس وقت دو سنتیں پڑھے یا نہ.ج ۴.مختصر دو سنتیں پڑھ لے.س۵.نماز مغرب اور عشاء جمع ہو تو عشاء کی دو سنتیں پڑھے یا نہ.ج۵.پڑھ لے.س۶.اگر پہلی جماعت مسجد میں ہوجاوے تو پھر کچھ عر صہ کے بعد اور آدمی پانچ، سات یا کم ازکم دو جمع ہوجاویںتو کیا وہ آدمی دوبارہ جماعت اس مسجد میں کرسکتے ہیں یا نہیں؟ ج۶.دو تین آدمیوں کے ساتھ دوسری جماعت منع نہیں.( الحکم جلد۱۱ نمبر۴.مورخہ۳۱ ؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ۹) سید زادی سے نکاح ایک شخص نے حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ السلام)کی خدمت میں سوال پیش کیا کہ غیر سید کو سیدانی سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں.فرمایا.اللہ تعالیٰ نے نکاح کے واسطے جو محرمات بیان کیے ہیں ان میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ مومن کے واسطے سید زادی حرام ہے.علاوہ ازیںنکاح کے واسطے طیبات کو تلاش کرنا چاہیے اور اس لحاظ سے سید زادی کا ہونا بشرطیکہ تقویٰ و طہارت کے لوازمات اس میں ہوں افضل ہے.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ سید کا لفظ اولاد حسین کے واسطے ہمارے ملک میں ہی خاص ہے.ورنہ عرب میں سب بزرگوں کو سید کہتے ہیں.حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ سب سید ہی تھے اور حضرت علیؓ کی ایک لڑکی حضرت عمرؓ کے گھر میں تھی.اور

Page 320

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک لڑکی حضرت عثمان ؓ سے بیاہی گئی تھی اور اس کی وفات کے بعد پھر دوسری لڑکی بھی حضرت عثمانؓ سے بیاہی گئی تھی.پس اس امر سے یہ مسئلہ بآسانی حل ہو سکتا ہے.جاہلوں کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ امتی سیدانی کے ساتھ نکاح نہ کرے حالانکہ امتی میں تو ہر ایک مومن شامل ہے.خواہ وہ سید ہو یا غیر سید.( البدر جلد۱ نمبر۷.مورخہ۱۴؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۴) مفقود الخبر کے متعلق فتویٰ ۱۱ ؍فروری ۱۹۰۷ء.ایک خط سے حضرت حکیم الامت کے آگے سوال پیش ہوا کہ مفقود الخبر زوج یعنی جس عورت کا شوہر بہت مدت سے گم ہو گیا ہو وہ عورت کتنی مدت کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے؟ فرمایا.چار سال تک اگر مفقود الخبررہے تو اس کو فوت شدہ تصور کیا جاوے اور چار سال کے بعد وہ عورت جس کا خاوند چار سال سے گم ہو چار مہینے دس دن عدت میں رہے بعد ازاں دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے پھر پہلا اگر آجاوے تو پہلے کا کوئی حق نہیں.نمازیں جمع ہونے پر ادائیگی سنت آج مغرب و عشاء کی نماز بسبب بارش جمع کی گئی.ادائے فرض مغرب و عشاء کے بعد راقم حروف نے حضرت حکیم الامت سے دریافت کیا کہ اب سنتیں پڑھی جاویں یا نہیں.فرمایا.سنتیں اور وتر بھی پڑھنے چاہئیں.پھٹی جرابوں پر مسح ۱۲؍فروری۱۹۰۷ء.راقم حروف نے مولوی صاحب سے سوتی جرابوں کے متعلق عرض کی کہ نیچے سے تین انگل پھٹی ہوئی ہیں ان پر مسح ہو سکتا ہے یا نہیں؟ مولوی صاحب نے فرمایا.قرآن و حدیث میں اس امر کے متعلق اتنی موشگافی نہیں پائی جاتی.مسح جائز ہے.(الحکم جلد۱۱ نمبر۷.مورخہ۲۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۱۲)

Page 321

ایک خط اور اس کا جواب مقاصد نکاح سوال.جناب مولوی صاحب.تسلیم! اسلام میں نکاح کے مقاصد کیا کیا ہیں.غالباً صرف اولادپیدا کرنا تو نہیں.انسان کی فطرت کا بھی لحاظ رکھا ہے.یہی مجھ کو بمعہ حوالہ جات مطلوب ہے.امید ہے آپ اس کا جواب بواپسی ڈاک برائے مہربانی عنایت کر کے مشکور کریں.ٹھاکردت شرما وید لاہور جواب بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم جناب من! قرآن کریم پارہ ۲۱ میں لکھا ہے(الروم: ۲۲) ایک اور پارہ میں فرمایا ہے کہ(النمل:۵۶) اور فرمایا ہے کہ(البقرۃ:۲۲۴) اور فرمایا ہے کہ(النساء:۳۵).پہلے نمبر سے معلوم ہوتا ہے کہ بی بی آرام اور سکون کے لئے بنائی ہیں.غمگسار ہزاروں افکار میں آرام کا موجب ہے.دوسرے نمبر سے ظاہر ہے کہ انسان میں طبعی طور پر دوستی اور محبت کرنا ایک فطرتی امر ہے اور دوستی اور محبت کے لئے یہ بی بی عجیب و غریب چیز ہے.تیسرے نمبر میں بتایا گیا ہے کہ عورت نازک البدن اور ضعیف الخلقت ہے اور بچوں کوجننے اور گھر کے انتظام رکھنے میں ذمہ دار اور ایک عظیم الشان بازو ہے.پس اس کے متعلق رحم سے کام لو.خدا نے اس کو رحم کے لئے بنایا ہے.اس کی غفلتوں اور فطرتی کمزوریوں پر چشم پوشی کرو.اور آدمیوں میں قدرتی طور پر شہوت کا مادہ ہے اس کا قدرت میں محل بی بی اور عورت ہی کو بنایا ہے.یہ چوتھی بات ہے.بعد اس کے فرمایا کہ

Page 322

عورت کھیتی ہے اور بیج بونے کے قابل ہے.جس طرح کھیت کا علاج اور معالجہ ضرور ہوا کرتا ہے اور اس میں خاص غرض ہوا کرتی ہے بنا بریں عورت میں بھی بعض خاص خاص اغراض ہیں جن سے ہمیں متمتع ہونا چاہئے.یہ پانچویں بات ہے.پھر عورت ننگ و ناموس اور مال اور اولاد کی محافظ اور مہتمم ہے.یہ چھٹی بات ہے.سردست ڈاک کا وقت ہے اور خطوط کی کثرت ہے.اس لئے مختصراً عرض ہے اگر زیادہ تفصیل مطلوب ہو تو پھر اطلاع بخشیں.نور الدین (البدر جلد۶ نمبر۹.مورخہ۲۸؍ فروری۱۹۰۷ء صفحہ۵) قرآن کریم نے بے فائدہ مسائل پوچھنے سے روکا ہے درس قرآن میں حکیم الامت نے فرمایا.بعض لوگ ایسی باتوں و قصوں کے خوض میں رہتے ہیںجو لایعنی اور بے فائدہ ہیں مثلاً پوچھتے ہیں کہ آدم و حوا علیہما السلام کی پیدائش کس طرح ہوئی.ان مسائل کے پوچھنے سے انسان کے عادات و اخلاق پر کوئی مفید اثر نہیں پڑتا.اس لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے مسائل پوچھنے سے روکا ہے.بدی کی سزا فرمایا.ہر ایک بدی کی سزا بدی ہوتی ہے انسان کو ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرفجھکنا چاہئے اور استغفار پڑھتا رہے تاکہ بدیاں کرانے والے شیاطین سے خدا تعالیٰ اس کو محفوظ رکھے.وعدہ کی خلاف ورزی کا نتیجہ فرمایا.جو شخص خدا تعالیٰ سے وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اس میں نفاق پیدا ہو جاتا ہے.(الحکم جلد۱۱ نمبر۸.مورخہ۱۰ ؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ۴)

Page 323

استفسارو جوابات ذیل کے سوالات کا جواب حضرت حکیم الامت کے ایما سے لکھا جاتا ہے.برادرم.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.(۱) قبل از وحی و نبوت رسول کریم ﷺ کسی دین کے مقلد تھے یا نہیں.(۲) آپ عبادات و توحید پر خود ہی قائم ہو گئے تھے یا کسی کی تقلید پر.(۳) آپ نماز نوافل کے طور پر ادا کرتے تھے یا کہ فرض کر کر جیسا کہ قسّیسین و رھبان ادا کرتے تھے.(۴) قبل از نبوت نبی علیہ السلام وضو کرتے تھے یا نہ.اگر کرتے تھے تو کس طرح کرتے تھے.(۵) شفاعت گناہ گاروں کی قیامت میں ہو گی یا نہ.(۶) بچہ کے کان میں اذان دینے کی کیا وجہ ہے.کیا حدیث سے کہیں یہ امر ثابت ہوتا ہے.(۷) (الاعراف :۱۷۳) اس آیت کے معنے مع تشریح لکھیں.روز میثاق ہو اتھا یا نہیں.(۸) سورہ اَلَمْ نَشْرَحْ کی تشریح فرماویں کہ کس صورت پر صدر مبارک نبوی شق ہوا تھا.کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک چاک کیا گیا تھا یا کہ شرح صدر سے مراد حوصلہ و روحانی قوت زیادہ کی گئی تھی.(راقم خاکسار شاہ ولی خان احمدی.از مقام چنگا) جوابات (۱) قبل از وحی کوئی دین صحیح عرب اور شام میں موجود نہ تھا.(۲)(۳) قبل از نبوت عبادات نبوی کا کوئی تذکرہ صحیح ہمیں نہیں پہنچا اور نہ بزرگ آئمہ کو

Page 324

اس کی کبھی فکر پڑی.۱؎ (۴) قبل از نبوت وضو یا نہ وضو کرنے کے متعلق کوئی صحیح اور واقعی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہمیں اس کی ضرورت پڑی تھی.(۵) شفاعت کا دنیا، قبر اور قیامت میں ہونا برحق ہے.شفاعت کا ثبوت قرآن کریم میں سے یہ آیت ملاحظہ کرو.(النّساء: ۶۵) (۶) جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میںاذان دینے کی وجہ یہ ہے کہ جو آواز بچہ کے کان میں پہلے پڑتی ہے اس کا اثر دماغ میں مستقل ہوجاتا ہے چنانچہ موجودہ زمانہ کی سائینس اور طب کی رو سے مرض یقظہ نومی سے ایسا ہی ثابت ہورہا ہے.۲؎ جرمنی زبان کے لیکچرز(خطبات )بعض ایسے آدمیوں نے پورے پڑھ کر ادا کئے ہیں جن کو اس زبان کی کوئی واقفیت نہ تھی جب وہ اپنی ماں کی گود میں تھے تو انہوںنے اپنی ماں کی زبان سے سنے اور ویسا ہی جوانی کے زمانہ میں ادا کر دیے.بچہ کے کان میں اذان دینے کے متعلق احادیث نبوی میں ارشاد موجود ہے.۱؎ حاشیہ.یہ امر تو بتواتر ثابت ہو چکا ہے کہ نبی علیہ السلام کی فطرت ابتدا سے ہی شر سے مجتنب و مستر خصال حسنہ و اخلاق فاضلہ پر واقع ہوئی تھی اور کبھی آپ پر کوئی کسی قسم کی تہمت کا الزام نہ لگا تھا چنانچہ خدا تعالیٰ نے آپ کے وجود مصدر فیوض کی ابتدائی زندگی کی طہارت و پاکیزہ روش کے متعلق اہل عرب کے آگے یہ آیت پیش کی (یونس: ۱۷) یعنی اے نبی ان کو کہہ دے کہ سنیے تمہارے درمیان چالیس برس اس دعویٰ نبوت سے پہلے زندگی بسر کی ہے مجھ پر کوئی الزام و تہمت نہیں لگی اب خدا پر کیوں جھوٹ بولوں گا.۲؎ حاشیہ.پس اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ بچہ کے کان میں اذان دینا بانی اسلام نے اس لیے ٹھہرایا ہے کہ بچہ کے کان میں جو پہلی آواز جاوے اور اس کی فطرت میں قائم ہو وہ توحید الٰہی و رسالت نبوی کی آواز ہو.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ وَ اَصْحَابِہِ الْعُرَفِ الصَّلَوَات.

Page 325

(۷) .الخ (الاعراف: ۱۷۳) اس آیت کی تشریح ہماری کتاب فصل الخطاب میں ملاحظہ کرو.میثاق برحق ہے قرآن کریم و احادیث نبوی اس کے شاہد ہیں لیکن ارواح کا جسم سے پہلے موجود ہونے کا ثبوت کوئی نہیں.(۸) اس میں شک نہیں کہ آپ کا شق صدر ہوا.قرآن کریم اس پر صریح’’ ‘‘(الم نشرح :۲) میں ارشاد فرماتا ہے.بھلا آپ غور کریں اگر شرح صدر نہ ہو تو وہ کام جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روز مرہ کرتے تھے کسی غیر مشرح الصدر کاکام ہے آپ کی نو یا گیارہ بیویاں تھیں اور سب کی سب آپ پر فدا تھیں ان کے ساتھ اگر آپ کامل معاشرت نہ فرماتے تو کیا وہ رہ سکتی تھیں.پھر پانچ وقت آپ ہی جماعت کرانا اور بڑی بڑی سورتیں پڑھنا پھر تہجد کو بطور فرض اتنی لمبی قرأت سے پڑھنا کہ سورہ بقر، سورہ اٰل عمران ، سورہ نساء ، سورہ مائدہ کبھی کبھی ایک ایک رکعت میں پڑھ جاتے تھے.پھر عرب کے وحشیوں سے مناظرہ، یہو دسے مناظرہ ،عیسائیوں سے مناظرہ ،غرض علماء جہلاء دونوں سے مقابلہ اور پھر اپنا ایک ہی طرز واحد رکھنا.پھر یہی نہیں کہ صرف زبانی جمع خرچ ہو بلکہ اپنی تاثیر سے ہزاروں کو عملی طور پر اپنے ساتھ ملا لیتے تھے.سائل نے کوئی ایسا لیڈر دیکھا ہو تو ذرہ اس کا نام ہی بتائیں کہ اس کی تقریر سے لوگ اپنے جان و مال اور ہر ایک چیز کو استقلال و دوام کے ساتھ قربان کردیں.پھر تمام بادشاہان وقت سے خط و کتابت کرنا اور پھر باوجود اس کے سورہ حجرات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی صحابی کو بولنے کی اجازت نہ تھی.پھر رات دن کی مہمان نوازی کے لیے نہ کوئی خزانہ ہے نہ کوئی مہمان خانہ تھا نہ کوئی باورچی خانہ ہے نہ کوئی لنگر کا مہتمم ہے نہ کوئی چارپائی ہے اور پھر کوئی مہمان ناراض نہیں جاتا.پھر قوانین جن میں عبادات و معاملات و روحانی اخلاق کی اصلاح ہوسکے ان کا وقتاً فوقتاً ایجاد کرنا اور ان کو کر کے دکھادینا اور عمل کروادینا پھر سارے معاملات کا فیصلہ بھی آپ ہی کرنا.پھر فوجی افسروں کو مقرر کرنا اور کمان اپنے ہاتھ میں رکھنا اور ساری سکرٹری شپ (یعنی منشی کا کام)آپ کی زبان ہی تھی پھر عرب جیسے جنگجو طبائع کو مسخر کرنا اور ان کے عمائد کو ان کے غربا کے ساتھ کھڑا کر دینا اور سب کے

Page 326

سر زمین پر جھکا دینا اور پچھلے خواہ کتنے ہی بڑے شریف ہوں اور اگلے خواہ کتنے ہی وقیع ہوں ان کے پاؤں کے ساتھ ان کے سروں کو لگا دینا.تمام ملک کی خبر رکھنا اور فوجوںکی روانگی کے لیے ایسا سخت انتظام رکھنا کہ کسی کے مال کو راستہ میں چور نہ لوٹیں اور فتح کے وقت ایک سوئی یا ایک سوئی کا دھاگا کسی سپاہی کو کسی سے لینے کی اجازت نہ دینا.پھر قرآن شریف کو ایسا یاد رکھنا کہ ایک نقطہ اور زیر و زبر کی غلطی نہ ہو نے دینا بعض دنوں آپ نے صبح کی نماز سے لے کر عشاء کی نماز تک لیکچر خطبہ پڑھا ہے.نہ زبان کو وقفہ نہ بیان میں اختلاف ہوا اور پھر تئیس برس کے سارے بیانات میں یہ کہنا کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں اور پھر تئیس برس اس عہدہ کی خدمت کرنا کیا کوئی ایسا گورنر جنرل آپ نے دیکھا ہے جو تئیس برس کی ملازمت میں یہ لفظ بول سکے.پھر کھانا.پینا.مکان میں رہنا.بیوی سے تعلق رکھنا.سفر کرنا.صلح کرنا.جنگ کرنا.معاملات بیع و شرا.تجارت.نکاح.طلاق.عتاق.قضاء.شہود.شہادات.معاہدات.مرنے کے بعد کے قوانین.یتامیٰ اور کم عقلوں کی خبر گیریاں اور ان کے اموال وغیرہ کی حفاظتیں اس کے سوا قرب الٰہی کے ہزاروں ہزار شغل و اذکار اور قسم قسم کے مراقبات اور قسم قسم کی خلوتیں اٹھتے بیٹھتے سوتے.چلتے پھرتے.جماع.ولادت.موت اور قسم قسم کی آیات اللہ جیسے خسوف کسوف اور ان کے متعلق الٰہی یادگاریں اور دعائیں اور قوانین تجویز کرنا پھر ایسے آرام سے بیٹھنا کہ بیویوں کو کہنا کہ آؤ میں تمہیں جاہلیت کے زمانہ کی کہانیاں سناؤں.اگر آپ کو شرح صدر کے متعلق کوئی دقت ہے تو اس آیت پر توجہ کرو جس میں لکھا ہے (الانعام: ۱۲۶) وہی صدر کا لفظ اس میں موجود ہے.اس شرح صدر کے لیے ضرور ہے کہ صاحب شرح صدر کو ایک نظارہ دکھایا جاوے جس میں اس کا سینہ چیر کر اس میں حکمت و نور و ایمان بھر دیا جاوے.طوائف الملوکی کے زمانہ میں کس طرح آنحضرت ﷺ نے گزارہ کیا.نصرانیوں کی سلطنت حبش اور یہودیوں کے

Page 327

ماتحت کس طرح گزارہ کیا.پھر جب آپ نے جمہوری حکومت وہاں قائم کی ہے تو کس طرح گذارہ کیا ہے.پھر عرب جیسے بے قانون ملک کو کس طرح قانون کے نیچے جکڑ دیا ہے یہ وہی جانتا ہے جو سرحدی مشکلات سے واقف ہو.(الحکم جلد۱۱ نمبر۱۰مورخہ۲۴ مارچ۱۹۰۷ ء صفحہ۶،۷) بائیس سوالوں کا جواب حضرت حکیم الامت کے حضور شاہ جہانپور سے ایک انجمن نے ۲۲سوال بغرض جواب بھیجے تھے آپ نے ان سوالات کا جواب وقتاً فوقتاً انجمن مذکور کو اس نہج پر دیا کہ پہلے ایک سوال کا جواب لکھا اور ساتھ ہی تحریر فرمایا کہ اگر یہ جواب مفید اور تسلی بخش ہو تو میں آئندہ لکھوں جب اس نے اپنا اطمینان ظاہر فرمایا تو آپ نے یکے بعد دیگرے ان سوالات کے جواب قلمبند کردیئے.یہ سوالات زیادہ تر وہی ہیں یا اسی قسم کے ہیں جو مرتد ڈاکٹر نے کیے ہیں اس لیے یہ سلسلہ بہت مفید اور قابل قدر ہوگا.انشاء اللہ.آج میں پہلے سوال کا جواب درج کرتا ہوں.(ایڈیٹرالحکم) آپ کے خط میں سوال نمبر ۱ کا خلاصہ ہے.اقرار توحیداور تزکیہ نفس مدار نجات ہے.اس پر آپ کی دلیل.نمبر۱.(المائدۃ : ۷۰) نمبر۲.(البقرۃ: ۱۱۳) نمبر ۳.… (اٰل عمران: ۶۵) نمبر ۴.(النساء: ۱۱۷) نمبر۵.(النّٰزعٰت : ۴۱) نمبر۶.(الشمس : ۱۰) مجھ کو اس دعویٰ اور ان دلائل پر دیر تک افسوس اور تعجب آتا رہا.آہ الٰہی تیرا رحم ہو اس وقت

Page 328

کے مسلمان کیوں قرآن سے غافل اور پھر نجات سے ایسے بے خبر کیوں ہو گئے. (الروم : ۴۲) مولیٰ!مسلمان ظاہری سلطنتیں برباد کرکے متأسف نہ تھے روحانی خوبی کے برباد کرنے میں بے پرواہی سے کام لیتے ہیں.اس لیے کہ اقرار توحید میں تو منافق بھی شریک تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(البقرۃ : ۹۰) ان کے متعلق ارشاد ہے (النور : ۲۴) اور ارشاد ہے(الاحزاب : ۹۲).توحید کیا چیز ہے اس میں اوّل تو بڑا اختلاف ہے کہ توحید کس کو کہتے ہیں.منطقی اور فلسفی توحید کہتے ہیں ایک علت العلل کو ماننا جو ذات بحت لا بشرط شئے ہے.وحدت وجود والے اعتقاد کرتے ہیں خالق کو عین مخلوق اور مخلوق کو عین خالق سمجھنا توحید ہے.کلمۃ الحق ایک لکھنوی وجودی کی کتاب ہے اس میں کہتا ہے تمام مفسر، محدث، متکلم، فقیہ د وئی کو مان کر شرک میں گرفتار ہیں.عیسائی زور سے کہتے ہیں جب تک توحید تثلیث کے ساتھ نہ ہو توحید نہیں.کیونکہ توحید ہے واحد بنانا اور اعتقاد کرنا سو ہم لوگ تین کو ایک مانتے ہیں اس لیے موحد ہیں ایک کو ایک ماننا توحید ہی نہیں.کل شیعہ ومعتزلہ اور جو صفات باری تعالیٰ کو عین ذات مانتے ہیں وہ سب کے سب صفات باری کو عین باری تعالیٰ نہ ماننے والوں کو مشرک اور مخالف توحید یقین کرتے ہیں.علامہ علی رافضی منہاج الکرامہ میں سنیوں پر شرک کا الزام لگاتا ہے.کیونکہ یہ لوگ تعدد قدما کے قائل ہیں.آریہ توحید کے مدعی ہیں ان کے یہاں ایک قادر متصرف علی المادہ کا ماننا توحید ہے.برہمو کتب الٰہیہ اور رسل کی اطاعت کو شرک بتاتے ہیں.مدعی اشاعت قرآن نبی کریمﷺکی اطاعت کو شرک یقین کرتا ہے (کیونکہ یہ لوگ کلام اللہ کے ساتھ کلام الرسول کو واجب الاطاعت مان کر شرک میں گرفتار ہیں)سنی معتزلہ کو مشرک یقین کرتے ہیں کہ وہ بندوں کو اپنے اعمال کا

Page 329

خالق مان کر تعدد خالقین کے ملزم ہیں.آپ وہابی ہیں یا مقلد یا غیر مقلد اہل حدیث یا صوفی وہابیہ یا اہل حدیث.کے نزدیک تمام ان کے مخالف مشرک ہیں.میرے ایک نجدی آشنا عبد الرحمٰن نام تھے اہل مکہ کے بارے میں انہوں نے کہا اَھْلُ مَکَّۃ کُلُّھُمْ مُشْرِکُوْنَ.میں نے کہا قُلْ اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہُ.تو بولا وَاللّٰہِ کُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ.اِکْتَعُوْنَ اِبْصَعُوْنَ مُشْرِکُوْنَ.پھر میں نے کہا قُلْ اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہُ تو بولا یَقْتُلُوْنَ یَنْھَبُوْنَ.اب فرمائیے وہ توحید کیا چیز ہے جس کو مدار نجات کہا گیا.سید صاحبان و خان صاحبان! عبد الکریم الجیلی نے کہا ہے سوا مثنویہ کے سب نجات یافتہ اور قائل توحید ہیں.پھر عرض ہے.قرآن کریم میں لفظ توحید کا کہاں ہے اور کہاں اس کو مدار نجات کہا گیا.اب آپ کی آیات پر توجہ کرتا ہوں سو آپ نے بسم اللہ غلط کی ہے کیونکہ پہلی آیت میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالیوم الآخر اور عمل صالح دو چیزیں ایمان باللہ کے ساتھ لگی ہوئی ہیں تو آپ نے اقرار توحید کے ساتھ نجات کو وابستہ کیا ہے اور اس آیۃ کریمہ میں ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر اور عمل صالح تین اور بڑھے تو اقرار توحید اور یہ تین کل چار مدار نجات ہوئے پھر ایمان بالیوم الآخر کے ساتھ ایمان بالقرآن اور محافظت علی الصلوٰۃ لازم پڑا ہے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں (الانعام : ۹۳) پھر آپ غور کریں جو مومن بالآخر ہوگا وہ مومن ہوگا وہ مومن بالقرآن اور نماز وں پر محافظت کرنے والا بھی ہوگا کیونکہ لازم اپنے ملزوم سے جدا نہیں ہوسکتا تو پھر صرف توحید کیا چیز ہوئی.اب آپ عمل صالح کی طرف توجہ فرماویں آیا کل عمل نیک مراد ہیں یا بعض اگر بعض مراد ہیں تو وہ بعض کون سے؟ تعیین ضرور ہے اگر کل مراد ہیں تو انبیاء اور رسل اور انبیاء کے خلفاء کا ماننا کیوں داخل اعمال صالحہ نہیں.آیت استخلاف جو سورۃ نور میں ہے اس میں لکھا ہے.خلفاء کے ذکر

Page 330

کے بعد فرمایا (النور:۵۶) اور فاسقون کے متعلق فتویٰ قرآن کریم یہ ہے  (السجدۃ:۲۱) فاسق کا ٹھکانہ النار ہے.دوسری آیۃ کریمہ میں اسلام اور احسان کو مدار نجات ٹھہرایا ہے اگر آپ کے طور پر مانا جاوے تو پہلے پانچ کے مدار نجات کے ساتھ یہ چھٹا ساتواں اور آٹھواں مدار نجات ہوا اسلام کے ساتھ احسان کے ساتھ مل کر نواںلیکن صاحبان!غور کرو جس نے  (البقرۃ:۱۱۳) کیا ہے تو وہ ایمان بالرسل کا پابند ہوگا یا نہ.ایمان بالملائکۃ.ایمان بالکتب ایمان بالقدر ایمان بختم النبوت کا پابند ہوگا یا نہ ہوگا اگر ہوا تو توحید کے لوازم تمام احکام کا پابند ہوگا وَاِلَّا (البقرۃ: ۸۶) کا ملزم ٹھہر کر  (البقرۃ: ۸۶) کے حکم سے نجات سے محروم ہوگا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو کوئی حضرت نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرتا ہے اس کی نسبت (النور: ۶۴) اور فرمایا ہے (الاحزاب: ۳۷).یہ یہاں غور کا مقام ہے زینب کا زید سے رشتہ کرنا نبی کریم کا منشاء ہوا.زینب کے بھائیوںنے خلاف ورزی چاہی تو ان کو حکم ہوتا ہے کہ تم کو ضلالت کا فتویٰ ملے گا اگر خلاف کیا اور فرمایا (المجادلۃ : ۲۱) اور فرمایا (محمد : ۳۴) اور فرمایا (الاحزاب : ۵۸) اور فرمایا  (الٰی)(الحجرات:۳) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع الصوت علی الصوت النبی سے توحید کیا سارے عمل حبط ہو سکتے

Page 331

ہیں کیونکہ اعمال میں توحید بھی داخل ہو سکتی ہے.پھر سورہ نور میں عائشہ ؓ پر تہمت کنندوں کی نسبت فیصلہ ہے.(النور: ۱۵) پھر جہاں سود کی ممانعت ہے وہاں سود خوروں کو کہا گیا (البقرۃ : ۲۸۰) اب ان کے خیالی توحید کا پابند صرف سود خوری کے باعث اللہ سے لڑنے والا قرار پایا.ان کی تیسری آیت کریمہ میں عبادت اللہ کرنے کا ارشاد اور حکم ہے کہ اللہ کے سوا اور کو رب نہ بنائیو اور چوتھی میں ہے اللہ شرک کو نہیں بخشتا.صاحبان عبادت کرنا توحید کے بہرحال علاوہ ہے اور شرک نہیں بخشتا اگر ترجمہ صحیح ہے تو کیا اللہ کی ہستی کا انکار اور اس کی ہستی کو برا کہنا کیا ملائکہ کو برا کہنا انبیاء و رسل کو برا کہنا عفو ہو سکتا ہے؟ یہ مختصر باتیں ذرہ یاد رکھیں.اس کے بعد عرض ہے آپ کے پہلے اعتراض کا دوسرا حصہ ہے تزکیہ نفس.پیارے صاحبان! تزکیہ کو بھی آپ نے مدار نجات ارقام فرمایا ہے اور قرآن کریم سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزکی حضرت نبی کریم ہیں غور کرو (الجمعۃ :۳) اس آیۃ کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یُزَکِّیْ صفت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے اور تاکید ہے (التوبۃ : ۱۱۹) تو بتائیے کیا یہ سب لغو تعلیم ہے.لَا وَاللّٰہِ.لَا وَاللّٰہِ.لَا وَاللّٰہِ.اَلَّذِیْ بِاِذْنِہٖ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَآء ُ وَ الْاَرْضُ صاحبان!اگر آپ انصاف کریں اور ضد و عداوت آپ کے اندر نہیں اور مومن میں نہ ہونا چاہیے تو آپ سنئے قرآن مجید میں نجات اور مدار نجات کا ذکر بھی بالفاظ ظاہر موجود ہے (مریم : ۷۳).غور فرمائیے نجات کا موجب تقویٰ ہے اور تقویٰ کا مختصر بیان (البقرۃ : ۱۷۸) میں موجود ہے.دیکھیے نجات اور مدار نجات صریح میں نے دکھائی ہے امام صاحب نے خود جواب ڈاکٹر کا لکھا ہے باقی آپ کے سوالات مرزا

Page 332

اور مرزائیوں پر حملہ ہے.پہلے اصل مضمون سیدھا ہو جائے تو مطاعن کا جواب آپ کو لکھوں گا.کیونکہ تمام انبیاء عیسائیوں کے نزدیک مطعون ہیں.نجات کا مسئلہ طے ہو تو آگے چلوں گا.نور الدین ۲۷؍جولائی۱۹۰۶ء (الحکم جلد۱۱ نمبر۱۴مورخہ۲۴ ؍اپریل۱۹۰۷ء صفحہ۱ ،۲ ) ایک خط اور اس کا جواب بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم بحضور مولوی نور الدین صاحب.بعد السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.عرض ہے کہ حسب ذیل سوالات کے جواب موافق قرآن و حدیث تحریر فرما دیں.وَہُوَ ہٰذَا (۱)امداد اللہ تعالیٰ نے مخصوص نہیں کی.مخصوص کرا کر تحریر کرا لینی کیا ہے.یعنی چندہ.(۲)قواعد انجمن احمدیہ سیالکوٹ مطبوعہ۱۹۰۵ء میں درج ہے کہ تولد پر اتنا شادی پر اتنا ختنہ پر اتنا منگنی پر اتنا دو کیا یہ شرعاً جائز ہے.ثبوت ساتھ ہو.آیا نفل ہے یا فرض.(۳)امداد لنگر.مدرسہ.میگزین فرض ہے یا نفل.(۴)باقی رسالجات تعلیم الاسلام و تشحیذ الاذہان خریدنا فرض یا نفل.(۵)اخبارات الحکم و بدر خریدنا فرض ہے یا نفل.(۶)زکوٰۃ کے علاوہ دیگر صدقات کی وصولی کے واسطے عامل ہونا ضروری ہے.یعنی صدقات مذکور کی وصولی کے واسطے کوئی خاص شخص مقرر ہونا شرعاً جائز ہے.ان سوالات مذکورہ بالا کے جوابات اخبار الحکم یا بدر میں شائع فرما دیں.العبد.امام الدین بقلم خود ساکن میانوالی ڈاکخانہ گلہ مہاراں تحصیل رعیہ ضلع سیالکوٹ جواب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس امت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ خلفاء پیدا کرتا ہی رہے گا.جیسے آیت سورہ نور میں فرماتا ہے.

Page 333

(النور: ۵۶) اور فرمایا ہے کہ جو کوئی ان خلفاء کا حکم نہ مانے گا وہ کافر و فاسق ہے.(النور: ۵۶).اور ہم لوگ امام الوقت کو خلیفہ من الخلفاء یقین کرتے ہیں ہاں بہت بڑا خلیفہ.پس اس کے احکام بعض تو فرض ہوں گے اور بعض نفل بھی.پھر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے  (المائدۃ:۳) پس ظاہر ہوا کہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں امداد کرنا شارع کا حکم ہے اقسام امداد میں فرض بھی ہو گی اور نفل بھی.عام حکم میں جب عمل کرنا ہوگا تو خصوصیت ضرور ہو گی.اولو الامر اور ابو بکرؓ نے مثلاً جب کوئی خاص حکم دیا ہے تو وہ مخصوص حکم ہوگا نہ عام.اگر ہم کو کوئی کہے کہ نور الدین! تجھ پر نماز ظہر کی فرض ہے تونور الدین کا یہ جواب کہ عام حکم ہے مجھے خاص حکم دکھا کہ نور الدین کو بالخصوص کہا گیا ہو کہ نورالدین تو نماز ظہر پڑھ.تو اس طرز پر تمام شریعت باطل ہوجاتی ہے بلکہ یہ اعتراض تو حضرت نبی کریم پر ہوسکتا ہے.آپ غور کریں اور بہت غور کریں!! یہ سوال اوّل کا جواب ہے.۲.قواعد انجمن سیالکوٹ میں نے نہیں دیکھے بدوں ملاحظہ اس پر کوئی رائے نہیں دی جاسکتی.البتہ تعاون کے ماتحت آپ پتہ لگا سکتے ہیں.۳.امداد لنگر، مدرسہ، میگزین وغیرہ کو جو لوگ  (المائدۃ: ۳) یقین کرتے ہیں ان پر بعض قسم ضروری اور بعض قسم اچھا اور غیر ضروری ہوگا.امداد لنگر ان لوگوں کے لیے ہے جو یہاں ہم لوگوں کے نزدیک دین سیکھنے کو آتے ہیں اور ایسے لوگوں کے واسطے قرآنی خاص حکم ہے. (البقرۃ: ۲۷۴) پر غور کرو.مدرسہ و میگزین کی غرض بھی فی سبیل اللہ ہے.۴.رسائل کا مسئلہ بعینہ وہی ہے جو پہلے عرض ہوا.عزیز من! ہم لوگ ان رسائل کو نصرت دین الٰہی یقین کرتے ہیں اور (الصف: ۱۵) کا صریح حکم قرآن مجید میں ہے.

Page 334

۵.اخبار الحکم اور البدر میں دو قسم کے مضامین ہوتے ہیں ایک حصہ ان میں نصرت دین کا ہوتاہے اورایک حصہ وہ ہے جس سے اخبار فائدہ اٹھاتے ہیں.پس حصہ اولیٰ اوامر الٰہیہ کے نیچے ہوگا.اور حصہ ثانیہ کسب وتجارت کے ماتحت اور کسب و تجارت مستحب بھی ہے اور ضروری بھی.۶.عام صدقات پر عامل کا ارشاد قرآن کریم میں.غور کرو ٭(التوبۃ:۶۰) آپ ان جوابات پر توجہ فرماویں.میں نے بطور اصول مختصراً ذکر کیے ہیں.نور الدین فرقہ احمدیہ ایک صاحب نے حضرت مولوی نور الدین صاحب سے ایک سوال دریافت کیا.جس کا یہ مطلب ہے کہ کیا وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک علیحدہ فرقہ بنایا حالانکہ عام مسلمانوں میں اخوت اور محبت کو فروغ دینا چاہیے.حضرت مولوی صاحب موصوف نے مفصلہ ذیل جواب تحریر فرمایا.مکرم معظم.جناب جج صاحب بالقابہ بادب گزارش ہے کہ اس وقت قوم اسلام کا شیرازہ ٹوٹ گیا ہے.شیعہ اور خارجی، حنفی اور وہابی، ظاہری علماء اور صوفی.نقشبندی اورچشتی.وجودی اور شہودی اور ہزاروں فرقہ اسلا م میں ہیں اور ان کا نقار اب حد سے بڑھ گیاہے.اس وقت منافقانہ رنگ اتحاد قوم کو ایک نہیں کر سکتا.ایک شخص ابو بکرؓ کو کافر کہتا ہے عائشہؓ کو بری عورت ثابت کرتا ہے.دوسراکہتاہے علیؓ کا کیا ایمان تھا جس نے پندرہ ہزار مسلمان.......قتل کردیئے.قتل مومن متعمّد کا مرتکب تھا.وجودی کہتا ہے ہر ذرہ خدا ہے جس کو سنتا ہے کہ وہ مخلوق کو خالق سے الگ کہتا ہے اسے مشرک یقین کرتاہے.اب قوم کاشیراہ کیونکر باندھا جاوے اس کی ایک یہی ترکیب ہے کہ کوئی نیا انسان خدا سے قوت پا کر ایک زبردست طاقتور جماعت بناوے سو اس میں فکر کا ٹھیکیدار انسان مرزا غلام احمد ہے.

Page 335

نیز صدقہ فطر کے لئے آپ نے عامل مقرر کیا.۱۲ جناب جج صاحب منت فرماویں بدوں اس کے کوئی اور تدبیر ممکن ہے.با مسلمان اللہ للہ با برہمن رام رام سے وحدت حقیقت نہیں ہوسکتی.نیچریوں نے وحدت چاہی مگر خود اعمال اسلام میں ایسے سست نکلے کہ کفر بھلا ہے.نور الدین اب ٹوٹے ہوئے شیرازہ کا از سر نو باندھنے والا چاہیے.۵؍جولائی۱۹۰۷ء (البدرجلد ۶ نمبر ۲۸مورخہ۱۱؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) سوالات کے جواب نمبر۱ سوال نمبر۱.نبی اور رسول میں کیافرق ہے؟ جواب.نبی کا لفظ نبوت سے نکلا ہے اور نبوت کے معنے رفعت اور بلندی کے ہیں یا لفظ نبا سے نکلا ہے نبا کے معنے خبر دینا.پس نبی کے معنے ہوئے بڑا یا خبر دینے والا.رسول کے معنے بھیجا ہوا.دونوں کا فرق بالکل ظاہر اور صاف ہے.سوال نمبر۲.لفظ آریہ کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ جواب.آریہ لفظ کی تشریح کرنا آریہ سماج کا کام ہے میرا کام نہیں.سوال نمبر۳.زمانہ سابق میں کسی پیغمبر نے ملک الموت کو طمانچہ مارا اور آنکھ نکل گئی؟ جواب.تمام بیماریاں اور ہلاک کرنے کے اسباب ملک الموت ہیں!ملک کے ماتحت.پس جس قدر علاج اور ازالہ امراض کی تدابیر ہیں اول تو یہ طمانچہ نہیں دوم ملائکہ ہمیشہ اپنے مقام معلوم میں رہتے ہیں جو کچھ ان کے نزول کا تمثل ہوتا ہے اس پر طمانچہ بھی لگ سکتا ہے.آثار و روایات میں ایسا قصہ آیا ہے اس کے معنے میرے نزدیک یا میرے فہم میں یہ ہیں کہ اس متمثل کو مارا اور اس کا مقابلہ کیا.سوال نمبر۴.لفظ مہتر کے کیا معنے؟ مہتر خاکروب کو کیوں بولا جاتاہے؟

Page 336

جواب.بڑا مہتر بہت بڑا.اور یہ لفظ ایسا ہے.جیسے چیچک جو آگ ہے اس کو سیتلا.ٹھنڈی کہا جاتا ہے اور زنگی کو کافور چلنے والی چیز کو گاڑی.خاکشی کو جو باریک ہوتی ہے خوب کلاں وغیرہ وغیرہ.سوال نمبر۵.فرشتہ کسی انسان یا دیگر جانور وغیرہ کی ہیئت بدل کر زمین پر آتے ہیں؟ جواب.فرشتہ تو اپنے مقام پر رہتا ہے اس کا تمثل زمین پر نظر آتا ہے.قرآن کریم میں ایک فرشتہ کا ذکر ہے.وہاں (مریم: ۱۸)اور بخاری کے پہلے صفحہ میں ہے اَحْیَانًا یَتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلَکُ رَجُـلًا(صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی...حدیث نمبر ۲).پس فرشتہ کا تمثل ہوتا ہے جیسے میرے خیالات کا تمثل آپ کے سامنے اردو حروف میں ہو رہا ہے.سوال نمبر۶.کیا کلام اللہ یا حدیث صحیحہ میں یہ آیا ہے کہ کسی زمانہ میں دوزخ یا بہشت بالکل خالی ہو جائے گا؟ جواب.کلام اللہ یا احادیث میں ہر گز نہیں آیا کہ بہشت کبھی خالی ہوگا.جہنم کے متعلق بعض احادیث میں ذکر ہے مگر جہنم تو طاعون کو اور جنگوںکو بھی کہا گیا ہے.پھر بھی یہ حدیثیں اعلیٰ طبقہ میں نہیں.ہاں میرا اپنا اعتقاد ہے کہ جنت کا خلود اور دوزخ کا خلود و ابد مساوی نہیں.سوال نمبر۷.تمام سمندر کا پانی زمانہ سابق میں کسی جانور نے پی لیا تھا؟ جواب.سمندر کا پانی کسی جانور نے پیا ہو یہ امر اسلام میں ہر گزنہیں آیا.والسلام نورالدین.۷ ؍جولائی۱۹۰۷ء نمبر۲ خلاصہ سوالات.کیا مسیح موعود اور آنحضرتﷺ کے منکر برابر ہیں.لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل حدیث نمبر ۳۴۵۵)کے معنے کیا ہیں.اگر نبی آسکتا ہے تو ابو بکر وغیرہ نبی کیوں نہ ہوئے.

Page 337

میاں صاحب.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.آپ کے سوالات پر خاکسار کو تعجب آتا رہا.مجھے معلوم نہیں کہ آپ مقلد ہیں یا غیر مقلد ہیں.پھر آپ کی استعداد کس قدر ہے جوابات کے لیے مخاطب کی حالت اگر معلوم ہو تو مجیب کو بہت آرام ملتا ہے.بہرحال گزارش ہے آپ کفر دون کفر کے قائل معلوم ہوتے ہیںکیونکہ آپ نے کفر کے مساوات کا تذکرہ خط میں بہت فرمایا ہے.میاں صاحب! رسولوں میں تفاضل تو ضرور ہے اللہتعالیٰ فرماتا ہے.(البقرۃ: ۲۵۴) ابتدا پارہ تیسرا.جب رسل میں مساوات نہ رہی تو ان کے انکار کی مساوات بھی آپ کے طرز پر نہ ہوگی.تو آپ ایسا خیال فرمالیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے مسیح کا منکر جس فتویٰ کا مستحق ہے اس سے بڑھ کر خاتم الانبیاء کے مسیح کا منکر ہے صَلٰوۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ.میاں صاحب! اللہ تعالیٰ مومنوں کی طرف سے ارشاد فرماتا ہے کہ ان کا قول ہوتا ہے (البقرۃ: ۲۸۶) اور آپ نے بلا وجہ یہ تفرقہ نکالا کہ صاحب شریعت کا منکر کافر ہو سکتا ہے اور غیر صاحب شرع کا کافر نہیں.مجھے اس تفرقہ کی وجہ معلوم نہیں ہوئی.نیز عرض ہے کہ خلفاء کے منکر پر بھی کفر کا فتویٰ قرآن مجید میں موجود ہے.آیت خلافت جو سورہ نور میں ہے اس میںارشادالٰہی ہے.(النور: ۵۶) اور فاسق کو اللہ تعالیٰ نے مومن کے بالمقابل رکھا ہے.ارشاد ہے (السجدۃ: ۱۹) بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں میں تفرقہ کنندہ کو قرآن کریم میں کافر فرمایا ہے.پارہ چھ میں ہے. (النساء:۱۵۱) پھر فرمایا ہے(النساء:۱۵۲) یہاں تفرقہ بین اللہ و بین الرسل سچ مچ کفر کا باعث قرار دیا ہے جن دلائل و وجوہ سے ہم لوگ قرآن کریم کو مانتے ہیں انہیں دلائل و وجوہ سے ہمیں مسیح کو ماننا پڑا ہے اگر دلائل کا انکار کریں تو اسلام ہی جاتا ہے.

Page 338

آپ اس آیت پر غور فرماویں. (البقرۃ:۹۲) دلائل کی مساوات پر مدلول کی مساوات کیوں نہیں مانی جاتی.کیا آپ کے نزدیک مسلم رسل جو صاحب شریعت نہیں ان کا انکار بھی کفر نہیں میرے خیال میں مَیں اور اکثر عقلمند مرزائی یہ نہیں مانتے کہ تمام مساوی ہیں.کفر دون کفر کے قائل ہیں.دوسرے سوال کا جواب عرض ہے.نازل ہونے والے عیسیٰ بن مریم کوحضرت نبی کریم ﷺ نے نبی اللہ فرمایا ہے.نیز ان الہامات و وحیوں نے جو مرزا صاحب کو منجانب اللہ ہوئیں اگر آپ احادیث کو مانتے ہیں تو آپ لَااِیْمَانَ لِمَن لَّا اَمَانَۃَ لَہٗ وَلَادِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَلَہٗ(مسند احمد بن حنبل مسند حسن بن مالک حدیث نمبر ۱۲۳۸۳) لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِفَا.تِحَۃِ الْکِتَابِ(سنن الترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء انہ لا صلوۃ.....) لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ(صحیح البخاری کتاب النکاح باب ماقال لانکاح الا بولی) لاحَسَدَ اِلَّا فِی ا ثْـنَیْنِ (مسند احمد بن حنبل مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبد اللہ بن مسعودؓ حدیث نمبر۳۶۵۱ ) میں غور فرماؤ.کیا یہ نفی آپ کے نزدیک عموم رکھتی ہے.پھر غور کرو اور قرآن کریم میں تو خاتم النبیین بفتح تاء ہے.خاتم بکسرہ تاء نہیں.بھلا میاں صاحب! یَقْتُلُوْنَ النَّبِیِّیْنَ میں آپ عموم کے قائل ہیں یا تخصیص کے.کسی شخص کو نبی کہنا خدا کے اختیار میں ہے انسان کے اختیار میں نہیں.ابو بکر کو نبی نہیں کہا گیا اور مسیح موعود کو کہا گیا.اس عرض پر بس کرتا ہوں.یار باقی صحبت باقی.نورالدین.۵؍جولائی۱۹۰۷ء نمبر ۳ سوال.دجال کی کیا حقیقت ہے؟ جواب.دجال کے متعلق احادیث میں خطرناک مشکلات تھے اور آج تک ان مشکلات کو کوئی حل نہیں کر سکتا.او ل تو اس لیے کہ محدثین اور فقہا نے احادیث متعلقہ اعمال پر بہت توجہ

Page 339

مبذول فرمائی.آمین بالجہر اور رفع یدین وغیرہ احادیث کی تحقیق کے لیے دیکھ لو کس قدر رسالے اور کتابیں موجود.مگر پیش گوئیوں کی احادیث کی تحقیق ایسی نہیں کی گئی ان دجال کے متعلق احادیث پر غور کرو اور صرف مشکوٰۃ کو دیکھو کیسا مشکل امر ان احادیث کا ہے.میں بطور نمونہ عرض کرتا ہوں ذرا آپ سوچو بلا تاویل صرف ظاہر اور صاف لفظوں میں کیا تطبیق ہو سکتی ہے.اوّل.دجال نبی کریم کے زمانہ مبارک میں تھا اور وہ ابن صیاد تھا.حضرت عمر نے قسم کھائی کہ یہی دجال ہے.پھر ایک حدیث کہ تمیم داری نے اس کو کسی جزیرہ میں دیکھا کہ وہاں قید ہے.جب یہ دودجال ہوئے تو اب تیسری حدیث میں ہے کہ سو برس تک جو لوگ اس وقت زمین پر موجود ہیں مر جائیں گے.تو اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں سو برس تک مرگئے.دوم.ایک حدیث میں ہے کہ دجال چالیس روز دنیا میں رہے گا اور ایک حدیث میں ہے.کہ چالیس برس دنیا میں رہے گا.سوم.ایک حدیث میں ہے کہ ایک دن سال کے اور ایک دن مہینہ کے اور ایک دن ہفتہ کے برابر اور ۳۷ روز معمولی ہوں گے.اور دوسری حدیث میں ہے کہ وہ ایام ایسے ہوں گے کہ ایک سوکھی لکڑی کو آگ لگی اور جھٹ پٹ جل گئی.چوتھے.دجال جوان ہوگا.دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم کے زمانہ سے موجود ہے گویا اب تیرہ سو برس کا بڈھا ہے.پانچویں.ایک حدیث میں ہے کہ اس کے ساتھ جنت اور نار ہوں گے.اور دوسری حدیث میں ہے کہ روٹی اور پانی سے بھی ذلیل ہو گا.چھٹے.ایک حدیث میں ہے کہ وہ مکہ مدینہ سے روکا جائے گا.دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم کو دجال نے مکہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا.ساتویں.پھر ایک حدیث میں ہے کہ دجال کی دائیں آنکھ عیب دار ہو گی.اور ایک حدیث

Page 340

میں ہے کہ دجال کی بائیں آنکھ عیب دار ہوگی.آٹھویں.دجال کی آنکھ انگور کی طرح ہوگی جو ابھرا ہوا ہو دجال کی آنکھ بالکل مٹی ہوئی ہو گی ابھری نہ ہو گی.نویں.ایک حدیث میں ہے کہ وہ بین الشام اور عراق نکلے گا.دوسری حدیث میں ہے کہ وہ مشرق سے نکلے گا.تمیم داری نے مغرب میں دیکھا.دسویں.اس کے زمانہ میں قحط شدید تین سال رہے گا کہ آخر کچھ بھی نہ رہے گا.لیکن دوسری حدیث میں ہے کہ اتباع دجال عیش و آرام میں ہوں گے ان کے مویشی آسودہ حال ہوں گے.جب پیداوار ہی نہیں ہوئی تو مویشی کا آرام کیسا؟ گیارہویں.ایک حدیث میں ہے کہ مارے گا اور زندہ کرے گامگر ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں(البقرۃ:۲۵۹).بارھویں.ایک حدیث میں آیا ہے کہ دجال اس کے ماننے والے کے لیے باپ اور ماں اور بھائی بنادے گااور شیاطین کو متمثل کر دے گا.مگر قرآن میں فرمایا ہے. (الزمر:۶۳) اور قرآن کریم میں ہے کہ ابلیس اور شیاطین کو تم نہیں دیکھ سکتے.غرض بڑے بڑے مشکلات ان احادیث میں تھے اور یہ بارہ امور میں نے صرف مشکوٰۃ سے دکھائے ہیں.آپ مشکوٰۃ سے دیکھ سکتے ہیں.پھر کہیں تو احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ دجال بہت ہیں کہیں پتہ لگتا ہے کہ ایک ہی دجال ہے اور اس کے اتباع بہت ہوں گے.غرض ان مشکلات پر نظر کرنے سے حیرت ہوتی تھی اس لیے امام صاحب نے فیصلہ کر دیا کہ اصل دجال شیطان ہے اور وہ ایک ہے اور اس کا ایک مظہر ابن صیاد تھاجو مدینہ میں تھا اور وہ شیطان آخر مسلمان ہو گیا.پھر ایک گرجا والا دجال ہے جو ایک بڑی قوم مظہر شیطان ہے.اور دجال کے پیادہ و سوار ہیں.تمام دنیا میں پھیل گئے.شراب اور زنا کو جرم ہی نہیں رکھا ایک آدمی

Page 341

کے خدا بنانے میں اربوں روپیہ خرچ کردیا.اور رویہ ان کا عملاًسب کچھ شریعت کا بنا بنایا ترک کردیا.قوم یہود کا دجال ابن صیاد تھا جو مدینہ میں گزر گیا اور جس دجال سے پناہ مانگی جاتی ہے وہ شیطان اور اس کے سوار پیادہ یہ کفار ہیں.موجودہ دجال کی موت مسیح عیسیٰ بن مریم کے ہاتھ پر مقدر ہے مگر یہ بھی احادیث میں ہے کہ مسیح اپنی قوم کو طور میں لے جائے گا اگر اس تحریر نے کچھ بھی ان کو فائدہ دیا تو آئندہ آپ پھر پوچھیں وَاِلاَّ خاموشی اچھی ہے.مجھے حکیم الامت کا خطاب یا لقب کس نے دیا ہے؟ نور الدین.۱۰جولائی۱۹۰۷ء (البدرجلد۶ نمبر ۲۹ مورخہ۱۸؍ جولائی۱۹۰۷ء صفحہ۹،۱۰) مکتوب بنام عبد الحکیم خان یہ بات افواہاً سنی گئی تھی کہ ڈاکٹر عبد الحکیم نے حضرت اقدس مسیح موعود کے متعلق کوئی پیش گوئی شائع کی ہے اس پر حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب کو ایک خط لکھا تھا.اصل خط درج ذیل ہے.ڈاکٹر صاحب مجھے کسی نے اطلاع دی ہے کہ جناب کومنجانب اللہ آگہی ملی ہے کہ یکم جولائی ۱۹۰۷ء ۱۴ ماہ تک مرزا ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور یہ بھی کہ آپ یقینا طاعون سے محفوظ رہیں گے.خاکسار آپ سے ان دونوں امور کی تصدیق چاہتا ہے آپ مختصراً آگاہ فرماویں.آپ گالیوں پر بہت جلد اتر آتے ہیںوہ تو مجھے پسند نہیں.مگر دینی ہوں تو آپ تصنیف میں دیئے جائیں خط میں اصل مطلب کافی ہوگا.نور الدین (البدرجلد۶ نمبر۳۰ مورخہ۲۵ ؍جولائی۱۹۰۷ء صفحہ۳ )

Page 342

حکیم الامت کی کرامت میرے والد ماجد جناب مولوی نادر شاہ خان صاحب سخت قسم کے بخار میں مبتلا ہوئے.نجیب آباد سے آئے ہوئے خطوط روزانہ ان کی اندیشہ ناک علالت کے حالات بتاتے رہتے تھے شدت بخار سے بیہوشی یہاں تک تھی کہ کوئی شخص آواز دیتا تھا تو جواب نہیں پاتا تھا.اس بیماری کا حال ظاہر کرنے والا پہلا خط میرے سخت قلق کا باعث ہوا لیکن جبکہ اگلے روز دوسرے خط سے معلوم ہوا کہ والد صاحب کے مرض میں ترقی ہے اور آج والدہ بھی بیمار ہوگئیں.تب میرا اضطراب اضطرار کے درجہ پر پہنچ گیا اور میں نے حضرت حکیم الامت کی خدمت میں بذریعہ عریضہ دعا کے لئے التجا کی آپ نے لکھ بھیجا کہ انشاء اللہ دعا کریں گے.پھر اگلے روز تیسرے خط سے دونوں کی بیماری میں ترقی کا حال معلوم ہوا.اور میں بے تابانہ وہی خط لئے ہوئے خود حکیم الامت کی خدمت میں حاضر ہوا.(۱۵؍جولائی۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے) میں نے دیکھاکہ آپ کچھ لکھنے میں مصروف ہیں.میرے سلام کا جواب دے کر جب میری طرف دیکھا تو میں نے والدین کی بیماری کے متعلق کچھ کہنا چاہا.میں شاید ایک یا دو ہی لفظ زبان سے نکالنے پایاتھا کہ آپ نے بڑی بے التفاتی کے ساتھ فرمایا.’’وہ اچھے ہوگئے‘‘ یا ’’وہ اچھے ہوجائیں گے‘‘ یہ فرمانا کچھ اس طرح غیر معمولی سا تھا کہ بظاہر بڑی ہی کم توجہی پائی جاتی تھی.اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ نے بے رخائی اور تحقیر کے ساتھ ٹال دیا ہے لیکن میرے دل میں اسی وقت بجلی کی طرح یک لخت رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَ لَوْاَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ کا خیال گزرا اور مجھ کو حکیم الامت کے ان الفاظ سے کہ وہ اچھے ہوجائیں گے یہ یقین ہوگیا کہ میرے والدین ضرور تندرست ہوجائیں گے.میں فوراً وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرہ میں چلا آیا اور پھر میرے دل میں کوئی اضطراب اور ملال پیدا نہیں ہوا.پرسوں والد صاحب کا خط آیا کہ ۱۵؍جولائی کو گیارہ بجے کے قریب سے (ٹھیک یہی وقت حکیم الامت کی خدمت میں میرے حاضر ہونے کا تھا) ہم یک لخت اچھے ہوگئے اور مرض کی تمام علامات یک لخت جاتی رہیں.پھر کل ان کا خط آیا اس میں بھی یہی استعجاب ظاہر کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ ہمارا اس طرح اچھا ہونا کسی دوا سے نہیں بلکہ محض تمہاری یا مولوی نورالدین صاحب کی دعا سے معلوم ہوتا ہے.پھر آج تیسرا خط والدماجد کا آیا اس میں بھی انہوں نے بڑی مسرت آمیز

Page 343

حیرت کے ساتھ لکھا ہے کہ مرض رفتہ رفتہ نہیں بلکہ یکایک جاتا رہا اور خاندان کے تمام آدمی بڑی خوشیاں کررہے ہیں ہزاروں لاکھوں بلکہ لاتعداد رحمتیں ہوں اے مسیح موعود تجھ پر کہ تیری تعلیم کا میں نے یہ اثر دیکھا کہ تیرے ایک مرید مولوی نورالدینؓ کی دعا سے بھی مردے زندہ ہوجاتے ہیں.خاکسار اکبر شاہ خان اکبر نجیب آبادی ۲۰؍جولائی ۱۹۰۷ء (البدر جلد۶ نمبر۳۰ مورخہ ۲۵ ؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ۱۱) نوٹ بک کا ایک ورق وقتاً فوقتاً سعی کی جائے گی کہ حضرت حکیم الامت کی اپنی بیاض میں سے کچھ باتیں نذر ناظرین کی جاویں اس سے پہلے ایک عرصہ تک حضرت حکیم الامت کے ارشادات کا کالم الحکم میں کھلا رہاہے اور اب انشاء اللہ العزیز مندرجہ بالا عنوان کے ماتحت آپ کے ارشادات درج ہوا کریںگے.(ایڈیٹرالحکم) معراج نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق جہاں تک میرا علم تجربہ اور ایمان یقین دلاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت روح اور جسم دونوں کا اس میں دخل تھا کیونکہ صرف روح بدوں جسم کے کوئی علم حاصل نہیں کرسکتا.اور جسم بدوں روح کے کوئی عمل نہیں کرسکتا.اہل اللہ قیامت ہوتے ہیں بعض اہل اللہ بھی قیامت ہوتے ہیں جن سے فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر اور اظہار ما فی الضمیرہوجاتا ہے.حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے میں نے کیا حاصل کیا ایک شخص نے حضرت حکیم الامت سے سوال کیا کہ آپ نے حضرت مرزا صاحب کی بیعت کر کے کیا فائدہ حاصل کیا؟ جواب میں فرمایا.دنیا سے سرد۱ مہری، رضا بالقضا۲ء کا ابتداء ، اخلاص۳ ،فہم قرآن۴ میں بین ترقی، طول۵ امل سے تنفر اور المنکر سے۶ بحمد اللہ حفاظت، فتن دجال۷ سے بحمد اللہ حفاظت تامہ، کبر۸، کسل۹، کذب۱۰، عجز۱۱، کفر۱۲، جبن سے۱۳ امن تامہ.

Page 344

قرب الٰہی کے لیے نہایت ضرورت ہے ۱.اتباع نبی کریم کی جاوے (اٰل عمران: ۳۲) ۲.کبر اور کسل سے کلی اجتناب. (الاعراف : ۲۰۷) ۳.استغفار و استقلال کے ساتھ درود شریف (الف) (ہود:۴)(ایڈیٹر) (ب) (حٰمٓ السجدۃ:۳۱) (ج) (الاحزاب:۵۷)(ایڈیٹر) ماہ رمضان کی شب کو کیا کرے؟ ۱.بار بار تہجد پڑھے تاکہ بار بار عرض کا موقع ملے.۲.ایسے اضطراب سے کہ گویا آخری فیصلہ ہے.۳.پورے اُبال اور جوش سے.۴.خلوت.رمضان میں گریہ، خشیت، دعا، غذا میں تغیر کرو تاکہ آسمان سے تمہارے لیے برکات کا نزول ہو میرے نزدیک (الرعد: ۱۲) دلیل ہے.بڑا بدنصیب ہے جس نے رمضان پایا اور تغیر نہ پایا.رمضان کے دن میں کیا کرے سبّ و شتم، غیبت، لغو، بد نظری اور کثرت کام سے بچے وَ تَوَاصَوْ بِالْحَقِّ پر رہے.منزل قرآن اور مجاہدہ اور قرآن پڑھتے وقت ہر ایک آیت کو اپنے اوپر چسپاں کر کے دیکھے، جوئندہ یا بندہ، دعا، توبہ نصوح کرے.خدا تعالیٰ پر حکیم الامت کا ایمان اور بھروسہ ا للہ تعالیٰ پر میرا بھروسہ اتنا ہے کہ الہام کشف اور رؤیا اور ان کا تواترجو یقین تام کا موجب ہے نہ ہو اور میں قسم کھالوں تو اللہ تعالیٰ کو اگر زمین کاتختہ الٹنا پڑے تو الٹ دے.

Page 345

طب اور طبیب طب میں اضطراب ،دعا، توجہ الی اللہ، اخلاص، تضرع اور اپنی کم علمی، کم فہمی سمجھنے کا خوب موقع ملتا ہے اس لیے علاج کی جستجو میں الہام الٰہی بھی ہو جاتا ہے اگر تقویٰ، رحم، فکر، اسباب و علامات کی جستجوجو ضروری ہے ساتھ مل جاویں تو موجب نجات ہے اور ایک ہی علاج دین میں اور ایک ہی دنیا کے لیے کفایت کر جاتا ہے.قرآن کریم نے اس علم کے اصول پر علماً اور خاتم الانبیاءﷺ نے عملاً توجہ دلائی بڑے بڑے ڈاکٹروں میں معالج بننا معیوب نہیں وہ خود پسندی کے باعث پیچھے اور منکسر متوجہ الی اللہ آگے نکل جاتاہے.طبیب اگر کامیابی تک نہ پہنچے تو مت گھبراوے کیونکہ طبیب کا کام تقدیر کا مقابلہ کرنا نہیں بلکہ ہمدردی اور غم خواری.انسان جمادات ،نباتات اور حیوانات کی طرح بے فکر اور کھانے والا نہیں بنایا گیا.فکر ،فکر، فکر، تردد، تردد،تردد کرو.مٹی کا برتن ٹوٹنے سے جتنا رنج ہوتاہے اس کا عشر عشیر ارتکا ب معاصی سے نہیں ہوتا.اسلامیوں نے تشریح کی طرف کم توجہ کی ہے لیکن فکر سے اتنا کام لیا ہے کہ ان کے لاعلاج اب تک لاعلاج ہیں.فلاسفر اور ملہم میں فرق عقل کو کافی سمجھنے والا اور نیچر کا محقق اللہ پر اس کی دریافت کا احسان کرتا ہے بخلاف اس کے ملہم اللہ تعالیٰ کا احسان مانتا ہے.لوگ دنیوی ترقی کو مقصود بالذات بناتے مگر ضروری غیر محدود ترقی سے بے پروا ہیں.لوگ دنیوی آرام کے لیے جان دینے کو طیار مگر آخرت کے لیے کاہل و سست ہیں.لوگ اگر ان کے والدین کو کوئی گالی دیوے ان کی حقارت کرے تو آگ بگولہ ہو کر کیا نہیں کرتے مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق گالیاں سن کر کہتے ہیںبکنے دو، احمق ہے.

Page 346

لوگ ایک انجمن کا نام فرضی رکھتے ہیںاور اس کے کاموں میں عزت، فخر، خوشی وغیرہ وغیرہ یقین کرتے ہیں مگر تعجب کہ قرآن مجید جیسی نور، رحمت، فضل، روح، ہدایت کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو آگ ہو جاتے ہیں.بدی اور اعتقاد فاسدہ بدی کو انسان بدی مانتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ کبھی نجات پاوے مگر اعتقاد فاسدہ کو برا نہیں جانتا اس لیے اس سے امید نجات کیونکر ہو؟ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱ ؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ۳ ) نماز تراویح کی نسبت فرمان مورخہ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۷ء کو درس قرآن شریف کے بعد ایک نووارد صاحب نے حضرت حکیم الامت سلّمہ ربّہٗ سے استفسار کیا کہ نماز تراویح کی نسبت آپ کیا فرماتے ہیں.حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ میرے خیال میں ماہ رمضان میں ایک تو روزوں کا حکم ہے دوسرے حسب طاقت دوسروں کو کھانا کھلانے کا، تیسرے تدارس قرآن کا، چوتھے قیام رمضان کا، کیا معنی نماز میں معمول سے زیادہ کوشش.صحابہؓ میں تین طریقے قیامِ رمضان کے رائج تھے بعضے تو بیس رکعتیں باجماعت پڑھتے تھے بعضے آٹھ رکعتیں اور بعض صرف تہجد ہی گھر میں پڑھ لیتے.اس پر نووارد صاحب نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو نماز تراویح کا پڑھنا تین چار دن سے زیادہ ثابت نہیں ہوتا اس لئے بعض لوگ اسے بدعت عمریؓ کہتے ہیں.حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ خواہ آنحضرت نے صرف ایک دن ہی نماز تراویح پڑھی ہو سنت تو ہوگئی.دوام نہ کرنے سے سنت تو نہیں ٹوٹتی.ہاں فرضیت ثابت نہیں ہوتی مگر سنّت پر عمل کرنا بھی تو چاہیے اور یہ جو آپ نے بدعتِ عمری کہی ہے اس میں ہرج کیا ہے چلو بدعتِ عمریؓ ہی سہی خدا تعالیٰ فرماتا ہے.(التوبۃ : ۱۰۱) اس آیت سے عمرؓ کی اتباع کا بھی تو حکم ہے ان کے سینکڑوں احکام کی اتباع جو صحابہ رضی اللہ عنہم کرتے تھے تو

Page 347

صرف اسی واسطے کہ اللہ کریم کا حکم ہے.اس پر صاحب موصوف بولے کہ آپ کا اپناعمل کس طرح سے ہے؟ حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ اپنے فتویٰ کے برخلاف عمل میں کس طرح کر سکتا ہوں.تراویح کے متعلق میرا فتویٰ تو یہی ہے جو میں نے بتا دیا.اگر کوئی عمدہ قرآن پڑھنے والا ہو تو اس کے پیچھے بیس رکعت بھی پڑھ لیتا ہوں اور کبھی آٹھ رکعت بھی پڑھ لیتا ہوں اور کبھی صرف تہجد ہی پڑھتا ہوں.یہاں تو کل سنّت صحابہ کی پوری کی جاتی ہے اور شاید آپ کو تو معلوم نہیں.میں کوئی تین برس سے بیمار رہتا ہوں اس لئے آج کل بڑی مسجد میں جا نہیں سکتا.اس پر نو وارد صاحب بولے کہ اب مجھے اچھی طرح سے یہ بات سمجھ میں آگئی ہے.(ظہیر) (الحکم جلد۱۱ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ۱۰) رسالہ ردّ چکڑالوی کے متعلق رائے یہ رسالہ حضرت حکیم الامت نے دیکھا اور اس پر آپ نے یہ رائے دی ہے.’’میں نے اس رسالہ کو دیکھا ہے اور جہاں تک مجھے بحمد اللہ فہم ہے.عزیز محمد ظہیر الدین نے اس کے لکھنے میں بہت کوشش کی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اخلاص سے زور لگایا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی محنت کو مثمر بثمرات نیک کرے.‘‘ نور الدین ۷؍ جون ۱۹۰۷ء ( الحکم جلد۱۱نمبر ۴۶ مورخہ ۲۴؍ دسمبر۱۹۰۷ء صفحہ۱۰ ) تکمیل دین اور فضل خداوندی آریہ سماج وچھووالی کے سالانہ جلسہ پرحضرت حکیم الامت جب لاہور میں تشریف لے گئے تھے تو وہاں ایک شخص نے ان پر ایک سوال کیا تھا جس کو فائدہ عام کے لئے بمعہ جواب ذیل میں درج کیا جاتا ہے.سوال.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.(المآئدۃ : ۴) تو اس کے بعد تم لوگ درود شریف پڑھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیا مانگتے ہو

Page 348

اور جو مانگتے ہو وہ حضرت ابراہیم سے کم درجہ پر کیوں مانگتے ہو جیسا کہ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ سے ظاہر ہوتا ہے.جواب.یاد رکھو ایک خدا کا فضل ہوتا ہے اور ایک تکمیل دین ہوتی ہے خدا کے فضل محدود نہیں ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود محدود نہیں ویسے اس کے فضل بھی محدود نہیں.اس کے گھر کادوالہ کبھی نہیں نکلتا.وہ جو کچھ کسی کو عنایت کرتا ہے اس سے بھی بدرجہا بڑھ کر دے سکتا ہے اسی واسطے مسلمانوں نے بہشت اور بہشت کی نعماء کو ابدی اور لاانقطاع ابدی مانا ہے جیسے کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے  (ہود : ۱۰۹) اور فرمایا(الواقعۃ : ۳۴) غرض جب کہ خدا کے فضل بے انت ٹھہرے اور ہم جناب الٰہی سے اپنے محسن کے لئے دردِ دل سے خاص رحمتوں کا نزول طلب کریں گے تو خدا تعالیٰ ہماری عرضداشت پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص رحمتوں کا بھیجنا منظور فرمائے گا اور چونکہ اس دعا کے لئے اس نے خود ہمیں حکم دیا ہے اس واسطے یقیناً صلوٰۃ اور سلام کی دعا قبول ہوگی.اور اس ذریعہ سے جب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص انعامات حاصل ہوں گے تو وہ خوش ہو کر ملاء ِ اعلیٰ میں ہمارے لئے توجہ کریں گے.درود شریف پڑھنے کے فوائد پس درود شریف کے پڑھنے سے مومن کو چار فائدے حاصل ہو سکتے ہیں.۱.خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجائے گا کیونکہ وہ ایک ایسی بلند شان والی قادر اور توانا ہستی ہے کہ سب کے سب انبیاء رسول اور دیگر اولوالعزم ہر وقت اس کے محتاج ہیں.۲.خدا تعالیٰ کا کمال غناء ظاہر ہوگا کہ سارا جہان اس سے سوال کرتا رہے مگر اس کے خزانے ختم نہیں ہو سکتے اور جتنا دیتا ہے اس سے بھی بدرجہا بڑھ کر دینے کے لئے اس کے پاس موجود ہے.

Page 349

۳.اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ اعتقاد پختہ ہو جائے گا کہ وہ خدا کا محتاج ہے اور ہر آن میں محتاج ہے.خدائی کے مرتبہ پر نہیں پہنچا اور نہ پہنچے گا بلکہ عبد کا عبد ہی ہے اور عبد ہی رہے گا اور رہے گا اور خدا تعالیٰ کا فیضان ان پر ہمیشہ ہوتا رہتا ہے اور ہوتا رہے گا.۴.درود شریف کے پڑھنے والا اس ذریعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس ترقی میں شریک رہے گا.آنحضرتؐ کے تمام انبیاء سے بڑھ کر ہونے کا ثبوت باقی رہا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ تو اس کا یہ جواب ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم کی آل میں بھی داخل ہیں اور صلوٰۃ بھیجنے والا چاہتا ہے کہ جس قدر برکات اور انعاماتِ الٰہیہ حضرت ابراہیم اور اس کی اولاد پر ہوئے ہیں ان سب کا مجموعہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہو.اس سے یہ توثابت نہیں ہو سکتا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم سے کمتر درجہ پر ہیں بلکہ اس سے تو ان کے اعلیٰ مدارج کا پتہ لگتا ہے چونکہ درود شریف پڑھنا ایک نیک کام ہے اور یہ ایک حکم ہے کہ جو کوئی نیکی سکھاتا ہے تو اس کو بھی اسی قدر ثواب پہنچتا ہے جس قدر کہ سیکھ کر عمل کرنے والے کو.اس لئے دنیا میں جس قدر لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور عبادتیں کرتے ہیں ان سب کا ثواب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہنچتا رہتا ہے اور ہر وقت پہنچتا رہتا ہے کیونکہ زمین گول ہے.اگر ایک جگہ فجر ہے تو دوسری جگہ عشاء ہے.ایک جگہ اگر عشاء ہے تو دوسری جگہ شام ہے.ایسے ہی اگر ایک جگہ ظہر کا وقت ہے تو دوسری جگہ عصر کا ہوگا.غرض ہر گھڑی اور ہر وقت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ثواب پہنچتا رہتا ہے.دنیا میں کروڑدر کروڑ رکوع اور سجدہ کرتے اور درود پڑھتے اور دوسری دعائیں مانگتے ہیں اور پھر اس کے علاوہ دوسرے احکام پر چلتے روزے رکھتے زکوٰتیں ادا کرتے ہیں.اس لئے ماننا پڑے گا کہ ہر آن میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان عبادات کا ثواب پہنچتا رہتا ہے کیونکہ اسی نے تو یہ باتیں سکھائی ہیں کہ تم لوگ نمازیں پڑھو زکوٰتیں دو اور مجھ پر درود بھیجو اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 350

کی اپنی روح جو دعائیں مانگتی ہوگی وہ ان کے علاوہ ہیں.اب تم سوچ سکتے ہو کہ جب سے مسلمان شروع ہوئے اور جب تک رہیں گے ان سب کی عبادتیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ اعمال میں بھی ہونی چاہئیں.اس لئے ماننا پڑے گا کہ وہ دنیا کی کل مخلوقات کا سردار ہے کیونکہ اس کے اعمال تمام دنیا سے بڑھے ہوئے ہیں کیونکہ جو کوئی مسلمان نیکی کرے گا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہء اعمال میں ضرور لکھی جائے گی اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمام رسولوں نبیوں اور اولیاؤں کا بھی سردار ہے کیونکہ دنیا میں جس قدر رسول گذرے ہیں ان کی امتیں ان کے لئے دعائیں نہیں کرتی مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان کی امت دن رات دعائیں مانگتی رہتی ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام نبیوں اور تمام مخلوق سے بڑھ کر ہونے کا یہ ایک ثبوت ہے.(الحکم جلد۱۲ نمبر۴ مورخہ ۱۴؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۵) مجموعہ فتاویٰ احمدیہ کے متعلق رائے میں نے مجموعہ فتاویٰ کی تینوں جلدوں کو پڑھا ہے اس میں اختلاف تو نہیں مگر کتب فقہا کے دیکھنے والے کتب احادیث کے مطالعہ والے جانتے ہیں کہ خفیف جزوی اختلاف کیا وجود رکھتا ہے.بہرحال کتاب قابل ملاحظہ ہے.نور الدین ( البدر جلد۷ نمبر۲ مورخہ ۱۶ ؍ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۱۰) سود کی ممانعت حکیم فضل دین صاحب نے سنایا کہ علامہ نور الدین بھیرہ میں حدیث پڑھا رہے تھے.باب الربٰو تھا.ایک سود خوار ساہو کار آکر پاس بیٹھ گیا.جب سود کی ممانعت سنی تو کہااچھا مولوی صاحب آپ کو نکاح کی ضرورت ہو تو پھر کیا کریں.انہوں نے کہا.بس ایجاب قبول کر لیا جائے.پوچھا اگررات کو گھر میں کھانا نہ ہو تو پھر کیا

Page 351

کرو.کہا.لکڑیوں کا گٹھا باہر سے لاؤں.روز بیچ کر کھاؤں.اس پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ کہنے لگا آپ کو دس ہزار تک اگر ضرورت ہو تو مجھ سے بلا سود لے لیں.(البدر جلد۷ نمبر ۵ مورخہ۶ ؍فروری۱۹۰۸ء صفحہ ۶) دوخطوں کے جواب حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں دو خط آئے تھے جن میں کچھ استفسار تھے.حضرت مولوی صاحب نے ان کے جواب لکھے ہیں جو فائدہ عام کے واسطے درج اخبارکئے جاتے ہیں.چونکہ خط لکھنے والے صاحبان کے ایڈریس محفوظ نہیں رہے اس واسطے گزارش ہے کہ وہ صاحبان بھی اخبار میں ہی جواب پڑھ لیویں.( ایڈیٹر البدر) پہلا خط آج آپ کا کرم نامہ لے کر بیٹھا ہوں (رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا) ۱.(الاحزاب: ۳۴) کی آیت کریمہ میں ماقبل اور ما بعد سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کریمہ میں بیبیاں مراد ہیں.سو بعض بیبیاں تو پہلے یہود تھیں جیسے حضرت صفیہؓ اور بعض مسیحی تھیں جیسے حضرت ماریہؓ اور بعض مشرکہ تھیں جیسے جویریہ ؓ.اس پر ظاہری کفر کی نجاست دور ہو گئی اور وہ اللہ کے فضل سے امہات المومنین بن گئیں.اور روایات صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب علی مرتضیٰ اور بتول زہراء اور حسنین بھی داخل ہیں سو ان کا ازالہ رجس اور تطہیر مع اور حضرات امہات المومنین کے اس طرح ہوا جو تہمتیں اور برائیاں ان کی نسبت روافض اور خوارج نے اور جو کچھ مورخوں اور قصہ خوانوں نے تہمتیں لگائیں.مثلاً شیعہ نے تہمت لگائی کہ مولیٰ علی خلافت چاہتے تھے اور امام حسین خلافت کے لیے لڑے.عائشہ و حفصہ بری عورتیں (مَعَاذَ اللّٰہ وَ حَاشَ لِلّٰہ) سو اللہ تعالیٰ نے سب کے الزام قرآن و نبی کریم کی زبان سے دور کرادیے اور ہمیشہ مجددوں اور ائمہ اور اولیاء کے ذرائع سے

Page 352

وہ برائیاں دور کردیں.اس آیت کریمہ کو حضرت مسیح علیہ السلام کے قصہ نے کھول دیا ہے.جہاں فرمایا.(اٰل عمران:۵۶) حضرت مسیح کو شریروں سیہ کاروں نے ولد الزنا کہا.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ اور مریم صدیقہ کو بہتان لگائے.اللہ تعالیٰ نے وہ الزام حضرت نبی کریم کے ذریعہ اور خود مسیح علیہ السلام کے اعجازوں سے دور کر دئیے چونکہ بیبیوں کے باعث ان کے رشتہ دار بھی اکثر اسلام کے گرویدہ ہو گئے اور اہل کا لفظ عموم کو شامل ہے.اس لیے کنّ کا لفظ استعمال نہیں فرمایا ہے.۲.میرے علم میں یہی ہے کہ جس جنت میں آدم ؑ تھے وہ جنت دنیا میں ہی تھا.۳.اونٹ کی گردن مشکل سے ذبح کی جاتی ہے اور کھڑے کھڑے اس کے نحر میں گھوپ دیں تو جلدی اور آسانی سے جانور کی جان نکل جاتی ہے.تیز سیدھی تلوار یا برچھی نحر میں چبھو دیتے ہیں.۴.پاؤں قبلہ کی طرف کر کے سونا تعظیم قبلہ کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الحج: ۳۳) اور تعامل اسلام میں ہم کسی کو نہیں پاتے کہ قبلہ کی طرف پاؤں کرے.۵.میرا اپنا اعتقاد یہ ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا بتول نے یہ دعویٰ صرف امتحان ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے کیا تھا کہ میرے والد کے قائمقام ہو کر لحاظ داری کرتا ہے یا نہیں.جب آپ نے لحاظ نہ کیا تو غضب کر کے ڈرایا.جب اس پر پکے رہے تو دعویٰ کا ذکر ہی ترک کر دیا.۶.مذاہب اربعہ عقائد میں قریباً سب کے سب ایک ہی ہیں.سب اللہ پر، اللہ کے صفات پر، اللہ کے افعال پر، ایمان میں متحد ہیں.اللہ کے عبادات اور صفات میں شریک نہ کرنے پر متفق ہیں.۷.نمازیں پانچ ان کے رکعات اور سنن میں اتفاق.روزوں، زکوٰۃ اور حج کے ضروری امور میں ان کا اتحاد ہے.بہت تھوڑا اختلاف آئمہ میں ہے.سو وہ بھی دو قسم کا ہے.یا تو ایسے مسائل کہ اس میں نص نہیں.اس واسطے ہر مجتہد مصیب اور اجر پانے والا ہے یا نص کے معانی میں

Page 353

دو پہلو ہیں اور دونوں صحیح معلوم ہوتے ہیں اس واسطے ہر مجتہد ماجور ہے.البتہ ایسے مسائل بھی ہیں.جن میں نص بعض آئمہ کے پاس ہوتی ہے.اور دوسرا صرف ضرورت پر قیاس کرتا ہے کیوںکہ اس کو نص نہیں ملی.ایسی صورت میں ہم کو اگر نص صحیح مل جاوے تو نص پر عمل کر لیں اور اس مجتہد کا قول چھوڑ دیں.اور اس مجتہد کو معذور یقین کریں کہ یا اسے نص نہیں پہنچی یا صحیح طریق سے نہیں پہنچی.پھر جس ملک میں صلحاء کی کتب صحیحہ آسانی سے مل جاویں اس کو غنیمت سمجھیں.۸.امام ابو حنیفہ، امام مالک ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام شافعی، امام احمد،یہ بڑے عظیم الشان لوگ ہیں ان کو کسی بادشاہ نے امام نہیں بنایا اور نہ کسی وقت کسی نے کہا کہ ان کے مذاہب پر چلو.قدرت اللہ تعالیٰ نے خو د ایسے اسباب مہیا کردیئے کہ ان کے مذاہب مشہور ہوگئے.اسحٰق بن راہویہ، داؤد الظاہری، ابن جریراور اوزاعی وغیرہ ائمہ بھی ہوئے مگر ان کے مذہب آہستہ آہستہ گم ہو گئے.پھر بعض مسائل میں حق دائر ہے اور بعض میں سب حق پر ہیں.چار صدی ہجرت کے بعد کچھ ایسے مقدمات ہوئے جن سے چار مصلّوں کی بناء پڑی.۹.لَااَرَاکُمْ فَاعِلِیْنَ (مسند احمد بن حنبل مسند الخلفاء الراشدین حدیث نمبر ۸۵۹).اس لیے فرمایا کہ آپ کو معلوم تھا کہ علیؓ کی خلافت ظاہراً بلا فصل نہ ہوگی.اَلذَّبْحُ بَیْنَ الْخَلْقِ وَاللعبتکی حدیث مجھے ہر گز نہیں ملی.آپ نے کہاں دیکھی ہے.ہاں قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَمَا تَکُوْنُ الزَّکٰوۃُ اِلَّا فِی الْخَلْقِ وَاللَّبَّۃِ.قَالَ لَوْ طَعَنْتُ فِیْ فَخَذِھَا لَاَجْزَاَ عَنْکَ.قَالَ یَزِیْدٌ بْنُ ہَارُوْنَ ھٰذَا فِی الضَّرُوْرَۃِ قَالَ اَبُوْعِیْسٰی ہٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ الا دھر.اِلَّا مِنْ حَدِیْثِ ضِحَاد بن سلمہ.وَلَا تَفرف لابی العشراء عن ابیہ غیر ہذا الحدیث صفحہ ۲۸۰ ترمذی طبع مصر.نور الدین دوسرا خط جناب من! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.بجواب استفتاء عرض ہے.(یہ کسی شیعہ کا ہے)

Page 354

اَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنِ الْحُسَیْنِ عَنْ فُضَالَۃَ عَنِ الْعَلَائً عَنْ مُحَمَّدٍ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالَ کَانَ اَبِیْ یُنَادِیْ فِیْ بَیْتِہٖ بِالصَّلٰوۃِ خَیْرٌ مَّنَ النَّوْمِ.(تہذیب الاحکام) اور ابو بکر الخضرمی و کلیب الاسدی عن ابی عبداللہ علیہ السلام حَیَّ عَلٰی خَیْرِ الْعَمَلِ کی روایت کے بعد لکھا ہے.اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مَّنَ النَّوْمِکو تقیہ پر محمول کیا ہے (مَنْ لَّا یَحْضُرُہُ الْفَقِیْہ) کلینی میں کوئی تفصیل نہیں.بہرحال اگر امام حسین یاعلی بن حسین علیہما السلام اور عبداللہ بن عمر سے حَیَّ عَلٰی خَیْرِ الْعَمَلِ ثابت ہے تو آپ اس روایت کا ہمیں پتہ دیں.اگر اسناد نہ ملے یا اسناد صحیح نہ ہو تو کیوں کر عمل کیا جاوے؟ ہم نے کتب اربعہ شیعہ کلینی، استبصار، تہذیب، مَنْ لَّا یَحْضُرُہُ الْفَقِیْہ میں دیکھا ہے.ہمیں کوئی روایت مرفوع متصل صحیح حضرت نبی کریم ﷺ سے نہیں ملی اور جب تک ایسی روایت نہ ملے حَیَّ عَلٰی خَیْرِ الْعَمَلِ کے جواز کا فتویٰ کیوں کردیں؟ کتب اربعہ میں ایسی روایات موجود ہیں.اِنَّ عَلِیًّا وَلِیُّ اللّٰہِ اِنَّ عَلِیًّا اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ حَقًّا اور اَنَّ مُحَمَّدًا وَاٰ ٰلَہٖ صَلَوَاتُ اللّٰہِ خَیْرِ الْبَرِیَّۃِ بھی مفوضہ اذان میں بڑھا دیاہے اوروہ لوگ ملعون ہیں لِاَنَّھُمْ زَادُوْا وَ نَقَصُوْا فِی الْاٰذَانِ.پس ہم ایسے خطرات میں کیوںپڑیں.عبد اللہ بن عمر اور علی بن الحسین رضوان اللہ علیہما بے ریب ثقہ ہیں مگر ان سے کس نے روایت کیا اور انہوں نے حضرت نبی کریم سے کس طرح روایت کیاکیونکہ یہ خود تو شارع نہیںہیں.ایک تعجب انگیزامر شیعہ میں ہے کہ پوری روایات پر اوّل تو توجہ نہیںکرتے اور ان کے

Page 355

یہاں روایت کاعجب حال ہے.ان کی یہاںوہ گروہ عظیم تو ظالموں، غاصبوں، کافروں، مرتدوں اور منافقوں کا ہے.ان کی روایت کیوں معتبر ہو نے لگی؟ اور دوسرا گروہ ایسا ہے کہ اگر ان کی روایت موافق مل گئی بہتر.وَ اِ لاَّ کہہ دیا یہ تقیہ کے باعث فرمایا ہے.غور کرو اب روایت سے کیا فائدہ ہوا.قرآن کریم خود امام غائب کے پاس ہے.اب دوسرے مسألہ پر عرض ہے قیام رمضان کا چونکہ تاکیدی حکم ہے اور تہجد ہمیشہ پڑھی جاتی ہے اس لیے بعض صحابہ کرام کا اجتہاد ہوا کہ اکتالیس رکعت تراویح ہواور بعض کااجتہاد بیس کا.ہم لوگ گیارہ ہی پڑھتے ہیں خطبہ کے وقت دو رکعت نماز پڑھنا ہم لوگوں میں مروج ہے اور اس کو مسنون یقین کرتے ہیں.نورالدین (البدرجلد ۷ نمبر ۸ مورخہ۲۷ ؍فروری۱۹۰۸ء صفحہ۳ ،۴) کامیابی کاراز مخدومنا حضرت حکیم الامت فرمایاکرتے ہیںکہ کسی امر کے حصول کی کوشش کے وقت خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی، امور ذیل کاخیال رکھنا کامیابی کی کلید ہے.(۱) اور خیالات سے خالی الذہن ہوکر اسی خاص کام میں مستغرق ہوجانا.(۲) خاص نشاط اور خوشی سے اس کام کو دلی شوق سے کرنا.(۳) اس کام کے کرنے میں کسی قسم کی کوئی روک باقی نہ رہنے دینا رکاوٹوں کادور کر لینا گویا تیرتا ہوا جارہا ہے.(۴) دل میں اپنے ساتھیوں سے سبقت لے جانے کے خیال بھی موجزن ہونا.(۵) پھر ایسی سعی بلیغ ہوکہ خود موجد بن جاوے اور ایسا غور و خوض ہو اور ایسی تدابیر سوچتا رہے کہ اس کام میں نئی نئی ایجادیں کرلے.ان پانچوں اصول کو قرآن کریم نے عبارت ذیل میں بیان فرمایا ہے. (النّٰزعٰت:۲تا۶)

Page 356

فرمایا کہ اس طرز ادا میں ایک عجیب نقطہ یہ بھی ہے کہ اول تین طرزوں پر لفظ واؤ آیاہے اور بعد کی دو طرزوںپر لفظ فا آیا ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ پہلی تین طرزوں پر انسان جب خود کوشش اور سچی سعی کر کے کاربند ہو جاتا ہے تو آخری دونوں باتیں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور انعام جو نتیجہ ہوتا ہے پہلی کوشش کا عطاء کر دی جاتی ہیں اور یہ دونو ں بطور انعام انسان کو خود بخود حاصل ہوجاتی ہیں.(الحکم جلد۱۲ نمبر ۱۷مورخہ ۶؍ مارچ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ ) بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم احباب و اخوان احمدیہ کی خدمت میں ایک عرض السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں ایک رات اپنی عمر اور بہت بڑی عمر جو عمر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری حد پر پہنچنے کو ہے.سوچتے سوچتے بہت گھبرایا کہ کیا کیا؟ بعد الموت نتائج پر غور کرتا ہوا التحیات کے اسرار کی طرف جھکتا جھکتا مثنوی کے طوطے والی کہانی کی طرف جا پہنچا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طوطے نے اپنے تاجر کو کہا کہ ہند کے طوطیوں کو میرا سلام پہنچا دینا.منشاء یہ تھا کہ کس طرح میں اس قید سے نجات پاؤں.تو ان طوطوں نے کہا کہ جب تک وہ ایک قسم کی موت اپنے اوپر نہ لاوے تو نجات محال ہے ….میں طوطیان الٰہی ارواح شہداء اللہ کی طرف جو جوف طیر خضر میں عرش سے متعلق ہیں انتقال کر گیا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اور اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ پر تدبّر کرتے کرتے جوش کے ساتھ جناب الٰہی کو تاجر بنایا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(التوبۃ : ۱۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور اموال خرید لئے ہیں اور اس کے بدلہ میں ان کو جنت دینے کا وعدہ دیا.پس اسی لئے ہر ایک مومن کو چاہئے کہ وہ اپنی جان اور

Page 357

مال کو بجز پر وانگی الٰہی کے خرچ نہ کیا کرے کیونکہ اس نے تو اپنی جان اور مال کو خدا کے ہاتھ بیچ دیا ہے.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا نام مشتری تاجر رکھا ہے.اس سلسلہ میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و برکات و سلام پڑھنے شروع کئے.آخر اس شغل کے بعد مجھے خیال پیدا ہوا کہ میں اپنے اصحاب بناؤں کَیْ نُسَبِّحُ اللّٰہَ کَثِیْراً وَّ نَذْکُرُہ کَثِیْراً اور ان کے لئے کوئی امتیازی نشان قائم کروں.وَالْحَمْدُلِلّٰہِ کہ شرک و بدعت سے متنفر اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر ایمان لانے والوں میں سچے اور پکّے سنّت جماعت فرقہ احمدیہ جو سنّت ِ متوارثہ پر عمل کرکے سنّی اور امام کے ماتحت ہوکر جماعت ہیں.ان میں سے میں نے حسن ظن، استقلال مرنج و مرنجان حالت والے دُعاؤں کے قائل لوگوں کو بقدر اپنے فہم و محدود معاملہ کے دوست بنایا اس میں چند اغراض تھے.اوّل.کم سے کم یہ میرے لئے میرے ایمان کے شہداء اللہ فی الارض ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ صالحین جس کی نسبت اچھی گواہی دے دیں وہ جنتی ہوتا ہے اور جس کی نسبت بُری گواہی دیں وہ ناری اور دوزخی ہوتا ہے.ان شہداء اللہ فی الارض کی شہادت سے میں انشاء اللہ اِرثُ مَااُرث من اللّٰہ.دوم.اس میل جول سے باہم تعاون علی البرّ والتقوٰی کے مصداق بن جاویں اور بارآور انصار ہوں.سوم.بعض ایسے خاص فضل الٰہی ہوتے ہیں جو بغیر اتفاق اور اتحاد اور جماعت کے نہیں ملتے.اس بات کو میں نے مدنظر رکھ کر ایک مجمع احباب بنایا ہے تاکہ باہمی دوستانہ تعلقات سے کوئی فیضان الٰہی خاص طور پر نازل ہو جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاوے اور ہمیں خادم اسلام و مسلمین کردے.چہارم.حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیامت کے دن سبعۃ یظلھم اللّٰہ یوم … لاظل الا ظلہ (بخاری کتاب المحاربین من اھل الکفر والردۃ باب فضل من ترک الفواحش).سات قسم کے

Page 358

لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے.منجملہ ان کے دو ایسے آدمی بھی ہوں گے جو اللہ ہی کے لئے محبت کا رشتہ باندھتے ہیں.جب وہ ملتے ہیں تو اسی پر ملتے ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں تو اسی محبت الٰہیہ پر الگ ہوتے ہیں.سو میں نے چاہا کہ تحابا فی اللّٰہ والے لوگوں میں شامل ہوکر ہم سایہ عرش عظیم کے نیچے آسودگی حاصل کریں.عرش کا سایہ اِس جہان اور اُس جہان، دنیا و آخرت ہر دو جگہ میں ظہور پاسکتا ہے.پنجم.کوئی تدبیر ایسی نکل آوے کہ عربی زبان باہم خصوصاً احمدیوں میں اور عام طور سے تمام مسلمانوں میں رائج ہوجاوے کیونکہ صرف یہی ذریعہ ہے جس سے تمام دنیا کے مسلمان خواہ وہ کسی ملک کے باشندے ہوں باہم سلسلہ اتحاد اور اتفاق کو ترقی دے سکتے ہیں.دوسرے صرف عربی پر ہی فہم قرآنی اور احادیث رسول ربّانی منحصر ہے.اس پر کسی خاص صورت میں ملکہ پیدا ہو جاوے جس طرح جسمانی لوگوں نے سکۃ الحدید کے ذریعہ طی الارض کیا ہے اور وہ (الحجر : ۲۲) سے صاف واضح ہوتا ہے.ششم.جہاں احباب احمدیہ میں باہمی رنج و کدورت ہو یہ احباب صلح کا موجب ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الانفال : ۲) اور (الحجرات :۱۱) (النساء : ۱۲۹).ہفتم.ہر عسر و یسر میں باہمی مشوروں اور دعاؤں سے کام لیں مگر مسلمانوں کی کاہلی ہے کہ اب تک قادیان کے احباب نے بھی ان امور میں کسی قدر کسل سے کام لیا ہے اور دور والوں پر کیا شکایت ہوسکتی ہے جو اعتراض مجمع پر ہوتے ہیں، ان کے جوابات کی نقل جہاں جہاں بھیجی گئی تھی ان میں سے صرف سیالکوٹ اور پشاور نے ہی اپنے مفید مشورہ سے امداد دی ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لاہور سے کوئی جواب نہیں آیا.اس کے علاوہ میں نے دور دور کے اہل الرائے کو خطوط لکھے ہیں کہ کس طرح عربی تعلیم اور ارشاد کیا معنے ،وعظ کرنے اور تقریر و تحریر کرنے میں ترقی حاصل کرسکتے ہیں؟ اسکندریہ اور مصر تک

Page 359

خط بھیجے ہیں کہ ایسے پاک مشوروں سے کوئی کام نکل آوے.نیز کوشش کی جاوے کہ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ جن میں تائید اسلام کی جاوے اور ان اعتراضوں کا جواب دیا جاوے جو جماعت پر غیرمذاہب کی طرف سے کئے جاتے ہیں اور جس سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض سے کسی قدر سبکدوش ہوں اور سو ء ظن کے آفات سے احباب کو آگاہ کیا جاوے اور یہ تحریک سردست الحکم، بدر اور تشحیذ الاذہان میں شائع کی جاتی ہے.احباب اور اخوان احمدی اپنے پاک مشوروں سے ہماری نصرت کے لئے کوشش کریں.(الحکم جلد۱۲ نمبر ۱۸ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ۱۰) الحمد للہ کے متعلق نکات علامہ نورالدین صاحب نے اپنے وعظ میںاذان کی فلاسفی بتائی کہ دوسری قوموں کے بے معنی گھڑیالوں کے شور سے اس میں کیا کیاحکمتیں ہیں.پھر الحمدللہ کے متعلق کئی نکات بیان فرمائے کہ مصائب میں بھی بوجہ کفارہ ذنوب و اجر آخرت و نزول صلوات اور رحمت الٰہی مومن الحمدللہ ہی کہتاہے.(البدر جلد۷نمبر ۱۰ مورخہ۱۲ ؍مارچ۱۹۰۸ء صفحہ۲ ) ایک خط کا جواب ایک خط حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں مضمون ذیل کا آیا جس کا جواب حضرت حکیم الامت رضی اللہ عنہ کی طرف سے دیا گیا فائدہ عام کی غرض سے درج ذیل کیا جاتا ہے.سوال.شرع محمدی صلعم کے رو سے لڑکے یا لڑکیوں کا سن بلوغ کیا ہے؟ جواب.قرآن شریف نے لڑکے یا لڑکیوں کے سن بلوغ کے متعلق کوئی خاص حد مقرر نہیں فرمائی.بلکہ یوں فرمایا ہے کہ (النساء: ۷).اس میں سر یہ ہے کہ اس

Page 360

امر کا قرآن شریف کے نازل کرنے والے کو ہی اس وقت علم تھا کہ مختلف ممالک میں بوجہ شدت گرمی مختلف حد بلوغ ہیں.چنانچہ بعض ممالک میں بعض وقت ۲۶ یا ۲۷ برس تک پہنچ کر لڑکے یا لڑکیاں بالغ ہوتے ہیں اور بعض ممالک میں دس بارہ چودہ برس ہی میں بالغ ہو جاتے ہیں.غرض اگر قرآن کریم کوئی حد مقرر کردیتا تو اس وقت جبکہ ساری دنیا نفس واحد کا حکم رکھتی ہے قابل اعتراض ٹھہرتا ہے.سبحان اللہ کیا پاک تعلیم ہے.لڑکیاں عموماً حیض کے بعد اور لڑکے موئے ظہار پیدا ہونے کے بعد بالغ سمجھے جاتے ہیں.سوال.اگر کوئی لڑکا ۱۶ برس کا اپنا نکاح کر کے خود ہی حق مہر لکھ دیوے تو کیا وہ قابل ادا ہوگا.جواب.فرمایا کہ میری تحقیق میں لڑکی کا بدوں اجازت ولی کے نکاح درست ہی نہیں ہوتا تو پھر ہم سے ایسا مسئلہ کیوں پوچھا جاتا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ قرآن شریف میں صاف طور سے حکم ہے کہ (النساء : ۷).لڑکوں کے واسطے ایسے امور میں رشد کی شرط رکھی ہے اور پندرہ سولہ برس کے لڑکے ہمارے ایسا رشد کہاں رکھتے ہیں اور پھر بات یہ ہے کہ اب تو یہ مسائل حکام وقت کے اختیار میں ہیں حکام وقت ان کاموں کا فیصلہ کرتے ہیں.(الحکم جلد ۱۲نمبر ۱۹ مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۴ ) اطلاع ضروری عبد المحی عرب صاحب کو آج کل دو ضرورتیں درپیش ہیں ایک مکان بنوایا ہے اس کی چھت کے لئے روپیہ کی ضرورت اور دوسری ایک کتاب عربی بول چال تصنیف کی ہے اس کے لیے چھپوائی کے واسطے روپیہ چاہیے اور اشتہار بھی دیا.مگر صرف تیس درخواستیں آئی ہیں اس کی زبانی معلوم ہوا اور میرے سامنے ایک تجویز کی ہے اور وہ تجویز مجھے پسند ہے اور کار خیر ہے اور تجویز یہ ہے کہ مذکورہ ذیل کتابیں وہ احباب جو ذی وسعت ہیں دس دس روپیہ کی کتابیں پانچ پانچ روپیہ میں دے گا اور محصول ڈاک عرب صاحب کے

Page 361

ذمہ ہوگا اگر ایسے دوست جو تعداد میں بیس پچیس ہوں اور میری آواز کو سنیں تو عرب صاحب کا کام ہوجائے گا کتب یہ ہیں.نام تعداد اصل قیمت نصف قیمت استخلاف ردّ شیعہ ۱۶ فی نسخہ ۳؍ ۱؍ مبادی الصرف ۱۶ فی نسخہ ۲؍ ۱؍ قرآن کریم کی دعائیں ۱۶ فی نسخہ ۲؍ ۱؍ سلاسل الفضائل ۸ فی نسخہ ۶؍ ۳؍ اس تجویز کو دل سے پسند کرنے والا اور میں خود خریدار ہوں.والسلام نور الدین ( الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۹ مورخہ ۱۴ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۸) قرآن شریف سیکھنے کی ایک مجرب اور آسان راہ قرآنی علوم کے حصول کے ذرائع قرآن شریف کے علوم کے حصول کے ذرائع اللہ تعالیٰ نے خود قرآن شریف میں بیان کر دئیے ہیں.(الرحمٰن :۲،۳) قرآن شریف کا سکھانا اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا تقاضا ہے.اس کے واسطے ضرورت کن چیزوں کی ہے.وہ بھی خود خدا تعالیٰ نے بیان فرما دی ہیں.(البقرۃ : ۲۸۳) متقی کو خدا تعالیٰ معارف اور علوم قرآنی سے خبردار کردیتا ہے اور تقویٰ ایک ذریعہ ہے قرآن دانی کے واسطے.دوسری جگہ فرمایا ہے  (العنکبوت :۷۰) تقویٰ کے ساتھ جہاد اور کوشش کی بھی شرط ہے.پس علوم قرآنی کا معلم خود اللہ تعالیٰ ہے اور اس فیض اور فضل رحمانی کا جاذب تقویٰ اور جہاد.

Page 362

قرآن کریم سیکھنے کے پانچ ادوار فرمایا کہ ہمارے نزدیک ہم نے ایک راہ کا تجربہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان دل میں سچی تڑپ اور پیاس علوم قرآ نی کے حصول کے واسطے پیدا کرکے تقویٰ تام سے دعائیں کرے اور اس طرح سے قرآن شریف شروع کرے.دورِ اوّل.خود تنہا ایک مترجم قرآن شریف لے کر جس کا ترجمہ لفظی ہو انسان کی اس میں اپنی ملاوٹ کچھ نہ ہو اور اس کے واسطے میں شاہ رفیع الدین صاحب علیہ الرحمۃکا ترجمہ پسند کرتا ہوں.لے کر ہر روز بقدر طاقت بلا ناغہ کچھ حِصّہ قرآن کا پڑھا کرے اور لفظوں کے معنوں میں غور کرے.پھر جہاں آدم اور شیطان کا حال مذکور ہو اپنے نفس میں غور کرے کہ آیا میں آدم ہوں یا کہ ابلیس.موسیٰ ہوں کہ فرعون.مجھ میں یہودیوں کے خصائل ہیں یا کہ مسلمانوں کے اور اسی طرح سے عذاب کی آیات سے ڈرے اور پناہ مانگے اور رحمت کی آیات سے خوش ہو اور اپنے کو رحمت کا مورد بننے کے واسطے دعائیں کرے.ہر روز درود، دعا، استغفار اور لاحول پڑھ کر شروع کرے اور اسی طرح ختم کرے.اسی طرح سے دور اوّل ختم کردیوے اور اس دور میں ایک نوٹ بک پاس رکھے مشکل مقامات اس میں نوٹ کرتا جاوے.دورِ دوئم.پھر دورِ دوئم شروع کرے اور اس میں اپنی بیوی کو سامنے بٹھا کر سناوے اور یہ جانے کہ قرآن شریف ہم دونوں کے واسطے نازل ہوا ہے.بیوی خواہ توجہ کرے یا نہ کرے یہ سنائے جاوے اور پہلے دور کی نسبت کسی قدر بسط کرتا جاوے اور پہلے طریق کی طرح اس دور کو بھی ختم کرے اور وہ پہلی نوٹ بک ساتھ رکھے اور اسے دیکھتا رہے.پھر اس دور میں یہ دیکھے گا کہ بہت سے وہ مشکل مقامات جو دورِ اوّل میں نہیں سمجھا تھا اس دور میں حل ہوجاویں گے.اس دور ثانی کی بھی ایک الگ نوٹ بک تیار کرے.دورِ ثالث.پھر اس طرح سے دورِ ثالث شروع کرے اور گھر کے بچوں عورتوں اور پڑوسیوں کو بھی اس دور میں شامل کرلے مگر وہ لوگ ایسے ہوں کہ کوئی اعتراض نہ کریں اور پہلی اور دوسری دونوں نوٹ بکیں اپنے سامنے رکھے.اس طرح اس دور میں دیکھے گا بہت سے مشکلات جو

Page 363

پہلے دونوں دوروں میں حل نہ ہوئے تھے اس دفعہ حل ہوجاویں گے.اس دور کی الگ ایک نوٹبک تیار کرے.چوتھا دور.دور ثالث کے بعد چوتھا دور عام مجمع کے سامنے شروع کرے مگر سامعین مسلمان ہوں.ان کے اعتراضات وغیرہ کے اگر جواب آتے ہوں تو دیتا جاوے ورنہ نوٹ بک میں نوٹ کرتا جاوے اور ان کے حل کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور درد دل سے دُعائیں کرتا رہے.پانچواں دور.اور پانچواں دور شروع کردے اور بلاامتیاز مسلمان و مشرک کافر و مومن سنانا شروع کردے.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور فیضان اس کے شامل حال ہوگا اور ایک بہت بڑا حِصّہ قرآن شریف کا اسے سکھا دیا جاوے گا اور باریک در باریک حقائق و معارف اور اسرار کلام ربّانی اس پر کھولے جاویں گے.غرض یہ ہمارا مجرب اور آزمودہ طریقہ ہے.پس جس کو قرآن سے محبت اور علوم قرآن سیکھنے کی پیاس اور سچی تڑپ ہو وہ اس پر کاربند ہوکر دیکھ لے.فقط.( الحکم جلد۱۲ نمبر۳۳ مورخہ ۳۰؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ۱) جن اور شہاب ثاقب (فرمودہ ۲۱؍مارچ ۱۹۰۸ء بعد نماز فجر) فرمایا.میں اس وقت کسی وعظ کے واسطے نہیں کھڑا ہوابلکہ ایک شخص کا سوال تھا جس کے جواب میں میں بیٹھا بیٹھا ہی گفتگو کررہا تھا مگر بعض دوستوں کے ارشاد کی تعمیل کے واسطے کھڑا ہوگیا ہوں.قاعدہ کی بات ہے کہ جب کسی کو کسی سے محبت ہوتی ہے اور سچی محبت ہوتی ہے تو انسان اپنے محبوب کی بات سننے کا بہت ہی شوق رکھتا ہے اور دل میں ہوتا ہے کہ خدا جانے اس کے منہ سے کیا اچھا مضمون یا دلآویز نصیحت یا کوئی مفید کلام نکلے گا.لہٰذا یہ اپنے محبوب کی باتوں کو سننے کے واسطے بہت کوشش کرتا ہے.یہی وجہ اب اس وقت ہمارے کھڑے ہوکر تقریر کرنے کی

Page 364

ہے.بیٹھ کر جس پہلو سے تقریر کررہا تھا.اب اس پہلو کو بدلنا پڑا اور اس بات کو عام فائدہ کے رنگ میں لانا پڑا ہے.یاد رکھو کہ وعظ کرنا تین شخصوں کا کام ہے.اوّل تو مامورین کا جن کو براہِ راست کسی امر کے پہنچانے کا ارشاد الٰہی ہوتا ہے.دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو مامورین کی طرف سے کسی وعظ و نصیحت کرنے کا ارشاد ہوتا ہے.تیسرے متکبّر.یاد رکھو مجھے وعظ کا شوق نہیں ہے اور نہ میں کسی دنیوی بڑائی اور بزرگی کا طالب ہوں بلکہ وعظ کرنے میں تو مجھے بعض اوقات سخت سے سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے.میں جب وعظ کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو مجھے اپنے نفس کی فکر دامنگیرہوجاتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کی طرف سے دنیا کی اصلاح کے و اسطے مامور ہوکر آتے ہیں.ان کے دل میں یہ بات میخ فولاد کی طرح مضبوطی اور استحکام سے گڑی ہوتی ہے کہ کسی طرح سے انسان کا ظاہروباطن یکساں ہوجاوے اور ان کی ساری توجہ اور کوشش اسی بات میں ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ بندے خدا کے بن جاویں.وہ لوگ اگر ان کو کوئی موقع ہاتھ آجاوے تو ظاہری اور دنیوی امور سے بات کو پھیر پھار کر روحانیت اور باطن کی طرف لے جاتے ہیں اور توحید اور رسالت حقوق اللہ اور حقوق المخلوق کا وعظ کرنے لگ جاتے ہیں.ان کی ہر ایک ظاہر بات کا ایک باطن ہوتا ہے اور ظاہر کی تہ میں ایک وعظ مدِّنظر ہوتا ہے جو توحید اور رسالت کے اثبات میں ہوتا ہے.دنیا میں مختلف قسم کے طبائع ہوتے ہیں.بعض پیسے اور دنیا کے بندے اور بعض جسمانی صفائی اور ضروریات کے خواہاں اور ایک گروہ ایسا بھی ہوتا ہے جن کو روح کی فکر ہوتی ہے.دیکھو حضرت یوسفؑ قید خانے میں ہیں ادھر تین آدمیوں نے خواب دیکھا.دو تو ان کے صاحب قید ہیں اور ایک بادشاہ وقت.خواب بین قیدیوں نے ان کے سامنے اپنے خواب بیان کئے اور تعبیر پوچھی.حضرت یوسفؑ نے بجائے اس کے کہ ان کو تعبیر بتاویں.وعظ شروع کردیا اور

Page 365

موقع کو غنیمت جان کر تبلیغ کرنے لگ گئے ہیں.ارے بھائی میں تمہیں اس کی تعبیر تمہارا کھانا آنے سے پہلے ہی بتا دوں گا.بھلا تمہیں خبر بھی ہے کہ مجھے علم تعبیر کیسے آیا.اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں نے کفرو شرک اور بے دینی کا مذہب چھوڑ کر توحید کا مذہب اختیار کرلیا ہے جو کہ ابراہیمؑ، اسحٰق اور یعقوب جیسے پاک بزرگوں کا مذہب ہے.غور کا مقام ہے کہ شرک تو ہمیں کسی حالت میں بھی کرنا جائز و روا نہیں.خدا کا یہ فضل ہے کہ اس نے مجھے شرک سے بچنے کی توفیق دی اور پھر مجھ پر انعام و اکرام کئے.اے میرے صاحبو! بھلا غور کرو کہ ایک خدا کی فرمانبرداری اور عبادت اچھی ہے یا کہ کئی مختلف ارباب بنا لینے اچھے ہیں.شرک تو ایک ایسی بے دلیل نیرہ ہے کہ خدائی تائید اس کے شامل حال ہی نہیں اور کوئی محبت نیرہ اور دلیل قاطعہ اس کے ماننے والوں کے پاس نہیں ہے.پس تم بھی خدائی فیصلہ کو مانو اور اس کے حکم کی فرمانبرداری کرو اور شرک سے توبہ کرکے ایک خدا کی پرستش کرو.توحید کی راہ ہی ایک مضبوط اور سیدھی راہ ہے.غرض اس طرح سے ایک لمبا اور باریک در باریک رنگ کا ان کو وعظ کیا.اوّل خدا پر ایمان لانے اور شرک سے اجتناب کرنے کی تاکید فرمائی اور پھر رسالت اور نبوت کی طرف دعوت کی کیونکہ توحید پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتی بجز نبوت کے اور کوئی ایمان قوی اور زندہ نہیں رہ سکتا بجز ایمان نبوت کے اور کوئی نجات حاصل نہیں ہوسکتی سوا نبوت کو ماننے کے.اس طرح سے توحید اور رسالت کا وعظ کرچکنے کے بعد ان کو تعبیر رؤیا بتادی.وہ بیچارے قیدی حیران ہوتے ہوں گے کہ پوچھی ہم نے خواب کی تعبیر اور اس نے وعظ شروع کردیا مگر اصل بات یہی ہے کہ ان لوگوں کو جب کوئی موقع مل جاوے یہ روح کی نجات کی کوشش کرتے ہیں.اس زمانے میں یہ بہت بڑی بھاری غلطی ہے کہ کسی کے دل میں روح کی نجات کے واسطے اور ایمان کی مضبوطی اور عقائد صحیحہ کے حصول کے واسطے کبھی تڑپ ہی نہیں پیدا ہوتی بلکہ جس طرح انبیاء کا گروہ ادھر ادھر سے پھیر پھار کر نجات روح اور ایمان باللہ کی طرف بات کو لے آتے ہیں.آج کل کے لوگ اپنی ہر بات میں دنیا کو اور روپیہ کے کمانے کے وسائل کو مقدمات میں، کامیابی

Page 366

کے وسائل تلاش کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں.میری عمر اس وقت قریباً ستّر برس کی ہے.میرے پاس سینکڑوں خط آتے ہیں.ان کو میں خوب پڑھتا ہوں.بعض اوقات جواب دینے سے ہی حیران ہوجاتا ہوں مگر جواب دیتا ہوں.ان میں جب کوئی سوال ہوتا ہے تو یہی ہوتا ہے کہ آدم کیسے پیدا ہوا.حوّا کیسے پیدا ہوئی.وہ کیا چیز تھی جس سے ان کو روکا گیا تھا.نوح کے وقت میں طوفان کیا ساری دنیا پر آگیا تھا کیا ساری دنیا پر طوفان آنا ممکن ہے یا کہ نہیں.ان کی کشتی میں کیا شیر ببر بھی تھے.ابراہیمؑ کو کیا سچ مچ آگ میں ڈال دیا تھا اور وہ کس طرح آگ میں سے زندہ بچ نکلے.پھر حضرت یوسف کے قصے کو تو لوگوں نے زلیخا کا قصہ رنگارنگ میں لکھ کر اور بھی پیچیدہ کردیا ہے.غرض اس طرح کے ہزاروں سوال ہوتے ہیں.نہیں ہوتا تو یہی سوال نہیں ہوتا کہ روح کی اصلاح اور نجات کس طرح سے ہوسکتی ہے.عقائد ِصحیحہ کس طرح مل سکتے ہیں.ایمان کامل کیسے ہوسکتا ہے فکر نہیں تو کس کی، آخرت کی، اور خدا کے سامنے جاکر حساب کتاب دینے کی.جس کو دیکھو ادھر کی باتوں میں مبتلا ہے آخرت کی فکر ہی نہیں.کبھی کوئی سوال نہیں کرتا کہ نماز کی حقیقت کیا ہے.اس کے معانی و مطالب کیا ہیں.غرض ان سب باتوں سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہم بھی یوسفؑ کی طرح خواب پوچھنے والوں کو ایک اور اصلی اور ضروری امر کی طرف لے جاویں.یاد رکھو کہ قرآن شریف اور کل انبیاء کا اصل منشاء اللہ کو منوانا اور اس کی فرمانبرداری کرانا ہے اور دوسرا حصہ ان کی پاک تعلیمات شفقت علی خلق اللہ ہے.ان کی ساری کوشش حق اللہ اور حق العباد کی بجاآوری میں ہے.دیکھو ہر عبادت کا بھی یہی خلاصہ ہے.نماز ہے سو اللہ کے نام سے شروع ہوکر اللہ ہی کے نام پر ختم ہوتی ہے اور حق اللہ کی ادائیگی کے سبق اس میں کوٹ کوٹ کر بھرے گئے ہیں.پھر اپنے محسنوں کے لئے دُعائیں ہیں السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَکہہ کر حق العباد ادا کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے.ایک طرف اگر دنیا کے واسطے ہے تو ساتھ ہی (البقرۃ :۲ ۲۰)

Page 367

مانگتا ہے اور(ابراہیم : ۴۱) کی دعائیں مانگتا ہے.غرض نماز میں دونوں پہلو حق اللہ اور حق العباد، دین اور دنیا رکھے گئے ہیں.پس اس اصل غرض و غایت کی طرف جس کی انبیاء اور قرآن شریف تعلیم کرتے ہیں خاص توجہ کرنی چاہئے اور آخرت کے واسطے اس دنیا ہی سے سامان ساتھ لینے کی کوشش کرنی چاہئے.اب ہم اصل سوال کے جواب کی طرف توجہ کرتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال ہو اور صحیح اور درست جواب آجاوے ممکن ہے کہ کسی روح کو اس سے بھی فائدہ پہنچ جاوے.جنّ کے معنے جِنّ کے معنے ہیں چھپے ہوئے کے.جَنَّ کے معنے ہیں رات نے اندھیرا کیا.آیا ہیجَنَّ عَلَیْہِ اللَّیْل.جُنّۃ کہتے ہیں ڈھال کو کیونکہ اس سے بھی انسان دشمن کے وار سے چھپ جاتا ہے.پہلے زمانہ میں ڈھال بھی منجملہ ایک عمدہ لباس کے ہوا کرتی تھی کیونکہ اس کا ہر وقت ساتھ رکھنا ضروری تھابوجہ آزادی ہتھیاروں کے، دشمن ایک دوسرے پر وار کرتے تھے تو اس کے ذریعہ سے بچاؤ کیا جاتا تھا.جنون پاگل پنے کو کہتے ہیں کیونکہ پاگل بھی ایک طرح کی ظلمت اور اندھیرے میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کو تمیز نہیں رہتی.اندھیرے میں بھی دوست، دشمن، محبوب اور عدوّ میں تمیز نہیں ہوسکتی اور اسی طرح پاگل کو بھی امتیاز نہیں رہتا.اس واسطے پاگل کو مجنون کہتے ہیں.جَنَّۃٌ باغ کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی دور سے بوجہ گنجان درختوں کے کالی گھٹا اور اندھیرے سے مشابہت رکھتا ہے.جنان دل کو کہتے ہیں کیونکہ دل کے حالات بھی کسی کو معلوم نہیں ہوتے اور پوشیدہ ہوتے ہیں.جنین.اس بچے کو کہتے ہیں جو کہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہو.وہ بھی چونکہ پوشیدہ اور ظلمت میں ہوتا ہے اس واسطے جنین کہلاتا ہے.غرض ہر پوشیدہ اور چھپی چیز اور بات کو عربی میں جیم اور دو نون سے تعبیر کیا جاتا ہے.وہ باریک کیڑے جن سے طاعون پیدا ہوتا ہے ان کو بھی الجِنّ کہتے ہیں کیونکہ وہ بہت باریک

Page 368

ہوتے ہیں اور عام نظر سے پوشیدہ اور غائب ہوتے ہیں.اس واسطے طاعون وخذ الجِنّ ہے.اس آزادی کے زمانے میں جبکہ خدا تعالیٰ کو خوب علم تھا کہ شریعت الٰہی اور کلام نبوت پر اعتراض کئے جاویں گے.اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان بھی مہیا کردئیے کہ جن سے وہ اعتراض خود بخود حل ہوگئے.اس وخذ الجِنّپر بھی اس آزادی کے زمانہ میں اعتراض کیا گیا تھا.آزادی خود خدا نے بخشی تاکہ اس کی کلام کا سچا ہونا اچھی طرح سے روزِروشن کی طرح بپا یہء ِ ثبوت پہنچ جاوے اس نے اپنی کامل حکمت اور وسیع علم سے ایک آلہ جس کا نام خوردبین ہے پیدا کرادیا.جس سے وہ باریک در باریک مخلوق اور عناصر جو انسانی نظر سے پوشیدہ رہ کر باعث اعتراض ہوئے تھے.اس طرح نظر آگئے اور شریعتِ الٰہی اور کلام نبوت کا سچا ہونا ثابت ہوگیا.ممکن تھا کہ بلکہ اغلب تھا کہ وخذ الجِنّ سے انکار کردیا جاتا اور شریعت الٰہی اور کلام نبوت کی تغلیط اور استہزاء کیا جاتا مگر خوردبین کے نکل آنے سے صداقت ظاہر ہوگئی.اسی طرح ہیضہ کے کیڑوں، مرگی کے کیڑوں اوراور باریک در باریک مخلوق کا نام بھی جنّ ہے.حالت جنون میں جن خبیث روحوں کا تعلق انسان کے دل و دماغ سے ہوتا ہے.اس کا بھی انکار تھا مگر سپریچیول ازم (Spiritualism) سے اس امر کا صاف ثبوت مل گیا.غرض تمام کتب میں جنّ کے وجود کے متعلق اتفاق ہے.مسلمان، یہود، عیسائی، مجوسی، ہندو سب اس بات کے قائل ہیں.انبیاء نے اولیاء نے بھی جنّ کے وجود کو مانا ہے اور فلاسفروں نے بھی تسلیم کیا ہے کیونکہ ان کی مساعی جمیلہ سے جنّ کے وجود کا ثبوت گویا ہر ایک انسان کے واسطے مہیا ہوگیا ہے.میں اگر اپنی تحقیق کا سلسلہ شروع کردوں تو بات بہت لمبی ہوجاوے گی مگر اللہ کے فضل سے میرے سب مخاطب اس وقت مسلمان ہیں.لہٰذا مجھے سلسلہ کلام کو بہت وسیع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں.یاد رکھو دکھ پہنچانا اس جنّ کا کام ہے اور مخفی در مخفی خبیث روح کا نام ہے.جتنے

Page 369

کبوتر باز، مرغ لڑانے والے، پتنگ اڑانے والے، بٹیر باز، غافل، کاہل، چور، لڑکوں سے زنا کرنے والے بدمعاش ہیں ان سب میں جنّ اور شیطان کی ایک صفت کام کرتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو جو کہ ایک کبوتری کے پیچھے بھاگا جاتا تھا فرمایا کہ شَیْطَانُ یَتَّبِعُ شَیْطَانًا (سنن ابن ماجہ باب اللعب بالحمام جزء۲ صفحہ۱۲۳۸).شیطان وہ روح ہے جو خدا سے دور ہلاک شدہ اور خدا سے غافل ہو.غرض باریک در باریک موذی روح کا نام شیطان ہے.کالا کتا … یہ بھی شیطان ہے کیونکہ جس کو کاٹتا ہے بہت تکلیف دہ اور ضرر رساں ہوتا ہے.اسی طرح جو امور انسان کو غافل کرنے والے اور ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں ان کو بھی شیطان اور جنّ سے تشبیہ دی ہے مثلاً وہ عورت جو کسی گلی کوچے یا تنہا بازار میں پھرتی ہو اس کے متعلق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلنِّسَائُ حَبَائِلُ الشَّیْطَان (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری باب ما یتقی من شؤم المرأۃ جزء ۲۹ صفحہ۲۲۹).عورتیں شیطان کی رسیاں ہوتی ہیں.جس طرح کسی کے گلے میں رسہ ڈال کر کسی کو کھینچ لیا جاتا ہے اسی طرح اس طرح کی عورتیں بھی چونکہ انسان کو غفلت اور گناہ کی طرف راغب کرتی ہیں.ان کو بھی حبائل الشیطان کرکے فرمایا ہے.چنانچہ انبیاء کی اصطلاح بن گئی کہ عورت حبل الشیطان ہے.غرض جنّ باریک در باریک ضرر رساں روح کا نام ہے.اس کو ظلمت سے پیار اور نور سے نفرت و عار ہوتی ہے.ظلمت اور اندھیرے میں وہ جانور اور روحیں خوش ہوتی ہیں اور کھلے پھرتے ہیں مگر نور میں پوشیدہ ہوجاتے ہیں اور نور سے کوسوں بھاگتے ہیں.موٹی سی بات ہے کہ شیر، چیتے وغیرہ موذی جانور دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کے وقت اپنی کمین گاہوں سے نکل کر شکار کرتے ہیں.مچھر، پسّو، چڑیں سب موذی جانور ہیں ان کا زور شام کے بعد اندھیرے کی سلطنت میں ہوتا ہے.نور سے ان کو کوئی تعلق نہیں.دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو خلق خدا کے واسطے رحمت اور ابر بہار تھے اور خیرخواہی اور بہی خواہی کے بہترین نمونے تھے آپ نے فرمایا ہے کہ شام کے وقت بچوں کو گھر سے

Page 370

باہر نہ جانے دو.اس وقت بوجہ ظلمت شیاطین کا زور اور غلبہ ہوتا ہے.گھروں کے دروازے بند کردو.کھانے پینے کی چیزوں کے برتن ڈھانک دو.ڈھکنا نہ ملے تو اللہ کا نام لے کر ایک لکڑی ہی رکھ دیا کرو.اس حکم کا بھی یہی منشاء ہے کہ ظلمت اور اندھیرے کے وقت چونکہ جنّ اور شیاطین کا غلبہ ہوتا ہے وہ ان چیزوں پر حملہ کرتے ہیں.اگر دروازے بند اور برتن ڈھکے ہوں تو وہ ٹکر کھا کر واپس ہوجاتے ہیں اور اہل خانہ اور خوردونوش کی چیزیں ان کے دخل و تصرف سے محفوظ رہتی ہیں.ایسے گھر جن میں احکام شریعت کی پابندی ہوتی ہے وہاں ان باتوں پر عمل درآمد ہوتا ہے اور وہ ان کے ضرر سے محفوظ بھی رہتے ہیں.غفلت بھی ظلمت اور اندھیرے کا ایک شعبہ ہے.دیکھو انسان، حیوان، پرند، چرند، سب غافل ہوجاتے ہیں.یہ سب اندھیرے ہی کا اثر ہوتا ہے.پھر جب پو پھٹنے لگتی ہے اور ذرا اجالا ہوتا ہے تو سب جانور پرندے پھڑپھڑاتے ہیں اور ہوش سنبھالتے ہیں.غفلت دور ہوتی ہے اور پھر جوں جوں نور ترقی کرتا ہے غفلت دور ہوتی جاتی ہے اور نور تمیز بڑھتی جاتی ہے.شراب خوار عیسائی قوم بہت دن چڑھے تک غفلت کے لحافوں میں پڑے سوتے ہیں.آخر جب روشنی بہت زور پکڑ جاتی ہے تو وہ بھی چونک اٹھتے ہیں.شراب کو چونکہ ظلمت اور شیطان سے ایک تعلق ہے اس واسطے وہ اپنا دباؤ ان پر ڈالے رکھتی ہے اور ایک حِصّہ دن میں بھی ان پر غفلت طاری رہتی ہے.مگر آخرکار جب نور اپنے کمال پر پہنچ جاتا ہے تو ظلمت غفلت کو پاش پاش کردیتا ہے.روشنی کو چونکہ غفلت سے ایک ضد ہے.اس واسطے غفلت اور روشنی جمع نہیں ہوسکتیں.روشنی کو تمیز سے اور اندھیرے کو بے تمیزی سے تعلق ہے.جتنے بھی باریک کام کرنے والے ہیں.مثلاً گھڑی ساز یا بہت باریک قسم کی کتابت کرنے والے، ڈوری باف وغیرہ یہ سب لوگ روشنی میں کام کرتے ہیں اور پھر اپنی طاقت تمیز کو اور بھی بڑھانے کے واسطے ایک قسم کے شیشے سے کام لیتے ہیں جسے وہ اپنی آنکھ کے آگے لگا لیتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے قوت امتیاز میں ترقی ہوجاتی ہے.اب ان باتوں کے بعد رات جو کہ اندھیرے اور ظلمت کا گھر ہوتی ہے اس میں جو بعض

Page 371

اوقات ہوا میں آگ سی لگ جاتی ہے اور اس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں.کبھی سفید، کبھی سرخ اور سبز اور زرد وغیرہ اور جس کو قرآن شریف نے شہاب ثاقب کے نام سے تعبیر کیا ہے وہ روشنی ظاہر ہو کر کچھ حصہ ظلمت کو تباہ و برباد کرتی ہے اور ساتھ ہی ان مضرمادوں کو ضائع کرتی ہے جن کو اس ظلمت سے تعلق ہوتا ہے.اندھیرے کو دور کرکے روشنی اور تمیز پیدا کرتی ہے کیونکہ ہر اندھیرا تمیز کو اٹھا دیتا ہے.انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام چونکہ ظاہر سے باطن کی طرف لے جاتے ہیں.لہٰذا اس مثال میں بھی ایک حقیقت پوشیدہ ہے اور ایک سبق سکھانا مد نظر ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طرح رات کی گھٹا ٹوپ ظلمت میں شہاب ثاقب روشن ہوکر کسی حصہ ظلمت کو تباہ کرتا اور ان جرائم کو جن کا اس ظلمت سے تعلق تھا ہلاک کرتا ہے تو تم بھی اپنے واسطے دعائیں کرو اور ہر ظلمت سے نکلنے کی کوشش کرو.ظلمت خواہ کسی ہی قسم کی کیوں نہ ہو ہمیشہ مضر ہے اور بدی کی یہی جڑھ ہے.دیکھو بادل کا گرجنا، بجلی کا چمکنا، تیز ہواؤں کا چلنا، تیز گرمی کا ہونا، بادوباراں کے طوفان یہ سب اصل میں ظلمت اور موذی کیڑوں کے دفعیہ کے بواعث ہیں جن سے وبائیں پھیلتی ہیں.انبیاء ظلمت کے بڑے سخت دشمن ہوتے ہیں اور ان کو ہر قسم کی ظلمت سے نفرت تام ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حصول نور کی دعا دیکھو میں تم کو اپنے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں آپ ہر روز صبح کی دو سنّتوں کے بعد یہ دعا مانگاکرتے تھے.اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّ فِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَّ فِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَّ عَنْ یَّمِیْنِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَّسَارِیْ نُوْرًا وَّفَوْقِیْ نُوْرًا وَّ تَحْتِیْ نُوْرًا وَّ اَمَامِیْ نُوْرًا وَّخَلْفِیْ نُوْرًا وَّ اجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا وَّ فِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا وَّ عَصْبِیْ نُوْرًا وَّ لَحْمِیْ نُوْرًا وَّ دَمِیْ نُوْرًا وَّ شَعْرِیْ نُوْرًا وَّ بَشْرِیْ نُوْرًا وَّ اجْعَلْ فِیْ نَفْسِیْ نُوْرًا وَّ اعْظَمْ لِیْ نُوْرًا اللّٰھُمَّ اعْطِنِیْ نُوْرًا.(صحیح مسلم باب الدعا فی صلوٰۃ اللیل جزء۲ حدیث نمبر۱۸۲۴ صفحہ۱۲۸)

Page 372

اے اللہ میرے دل کو نور سے بھردے.میری آنکھوں میں، میرے کانوں میں، میرے دائیں، میرے بائیں، میرے اوپر، میرے نیچے، میرے آگے، میرے پیچھے،نور ہی نور کردے اور میرے واسطے نور ہی نور کردے.میری زبان، میں میرے پٹھوں میں، میرے گوشت میں، میرے خون میں، میرے بال بال میں اور میرے سارے ہی بدن میں اور میری جان میں نور ہی نور کردے اور میرے واسطے نور کو بہت بڑا کردے اور اے اللہ مجھے نور ہی نور عطا کردے ظلمت کا نام و نشان نزدیک تک نہ آوے.(منقول از کتاب حزب القبول) دنیوی جاہ و جلال اور مال خطرناک مرض ہے اب غور کا مقام ہے کہ انبیاء ظلمت کے کیسے دشمن ہوتے ہیں.دنیوی جاہ و جلال اور مال و منال کی محبت جو کہ ایک خطرناک مرض ہے.یہ بھی ایک ظلمت کی وجہ سے ہوتی ہے.خدا سے دور پھینک دیتی ہے.جتنا زیادہ مال و دولت ہوگا اتنا ہی حرص بڑھتی جاوے گی.اچھے ا چھے مرغن کھانے اور پُرتکلّف سامان خور و نوش معدوں کو خراب کرکے انسان کو محتاج کرکے حکیموں اور ڈاکٹروں کے محتاج کردیتے ہیں اور اس طرح سے ان کا مال و دولت ان کے کام نہیں آتا بلکہ وہ اوروں کے لئے ہوجاتا ہے.مزدوری نہ دینے والے ایک امیر شخص کا واقعہ مجھے ایک شخص کا حال معلوم ہے کہ وہ بہت ہی بڑا آدمی تھا، کروڑوں کا مالک تھا.ایک شخص اونٹوں والا میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہماری سپارش کردیں کہ ہمیں ہماری مزدوری مل جاوے.پانچ سو اونٹ کی مزدوری باقی ہے.میں نے کہا کہ سپارش کی کیا ضرورت آخر بات کیا ہے تو اس نے کہا کہ وہ شخص کہتا ہے کہ پانسو اونٹ چونہ کا بوجھ میرے مکان پر لے جاؤ جب مزدوری دوں گا.ورنہ نہیں.میں نے اس سے کہا کہ تمہارا ہرج ہی کیا ہے لے جاؤ.آخر تم نے وہیں جانا ہے خالی بھی تو جاؤ گے.اس کا کام ہی کردو.اس شخص نے کہا کہ آپ بجائے اس کے کہ ہماری سپارش کرتے آپ نے الٹا ہمیں اس طرح سے کہا.اس سے آپ کا کیا مطلب ہے.میں نے کہا کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آیا وہ شخص

Page 373

اس طرح سے رشوت لے لے کر مکان بنواکر اس میں رہتا بھی ہے یا کہ نہیں.پھر اس شخص نے مجھے بتایا کہ اینٹ میں سے اینٹ اور پتھر میں سے پتھر اور لکڑی میں سے لکڑی سب کچھ اس شخص نے چورایا ہے اور مکان کا مصالح جمع کیا ہے.خدا کی قدرت وہ اونٹ والے بوجھ تو لے گئے مگر شان ایز دی کہ اس شخص کو وہ مکان دیکھنا تک بھی نصیب نہ ہوا اور جان نکل گئی شنید نہیں بلکہ دید ہے.خیرات اور صدقہ کا رواج ہوتا ہے مگر اس کو مرتے دم وہ بھی نصیب نہیں ہوا.نوکر سے چائے منگائی ہے وہ چائے کی پیالی لے کر آیا دیکھتا کیا ہے کہ وہ مرا پڑا ہے.یہ کوئی قصہ کہانی اور ناولوں کی بات نہیں بلکہ واقعہ ہے اور دید کا نہ کہ شنید کا.پس عبرت پکڑنی چاہئے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ہر قسم کی ظلمت کو دور کرکے سچا نور اور ملکہء تمیز عطا کرے.ظلمتوں میں گرفتار انسان کے لئے امر بشارت رات کے گھٹا ٹوپ اورگھپ اندھیرے میں اللہ تعالیٰ انسان کو ایک نظارہ دکھاتا ہے اور وہ کیسا خوش منظر ہوتا ہے.باریک بین طبیعت اور انتقال کرجانے والی طبیعتیں اس سے عبرت پکڑتی ہیں اور ایک دوسری بات جس کا روح سے تعلق ہوتا ہے حاصل کرلیتی ہیں.حسب لیاقت اور حسب استطاعت اپنی اپنی جگہ پر کوئی اپنی عقل کے مطابق فائدہ اٹھاتا ہے.انبیاء کی عقل چونکہ سب سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور وہ بڑے ہی باریک بین ہوتے ہیں وہ اور بھی آگے نکل جاتے ہیں اور ان کو دور کی سوجھتی ہے.انسان خواہ کیسا ہی ظلمتوں میں گرفتار ہو اور کیسی ہی ضلالت میں مبتلا ہو کیسے ہی مشکلات دینی یا دنیوی میں پھنسا ہوا ہو.اس کے واسطے یہ امر ایک بشارت ہے کہ اگر ذرا سا بھی مادہ سعادت اور رشد اور نورقلب اس میں باقی ہے تو ہدایت پاجانا ممکن ہے اس لئے نا امید نہیں ہونا چاہئے بلکہ دُعاؤں میں لگ جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ اس ذرا سی قوت تمیز اور نور کو بڑھاکر اس سے ہر ظلمت، جہل، رسم و رواج، عقائد، مشکلات، غرض ہر قسم کی ظلمت کو پاش پاش کرسکتا ہے کیونکہ خود اس نے فرمایا ہے کہ(ابراھیم : ۸)

Page 374

مامور من اللہ کی بعثت کے وقت شہاب ثاقب کے ٹوٹنے میں سِر دیکھو جب دنیا میں کوئی بڑا عظیم الشان تغیر واقع ہونے والا ہوتا ہے اور کسی انسان کو خلعت نبوت ماموریت ملنے والا ہوتا ہے تو آسمان پر کثرت سے شہاب ثاقب ٹوٹا کرتے ہیں.اس میں بھی سرّ اور راز حقیقت ہوتا ہے.باریک بین اور عقلمند انسان اس نشان سے سمجھ جاتے ہیں کہ اب دنیا میں ضرور کوئی نہ کوئی بڑا پاک باز انسان ظلمت کا دشمن بے تمیزی کی روحوں کو ہلاک کرکے نور اور تمیز اس کی جگہ قائم کرنے کے واسطے آنے والا ہے.آسمان پر اس تغیر اور کثرت سے شہاب ثاقب ٹوٹنے اس امر کی صریح اور بیّن دلیل ہوتی ہے کہ زمین پر بھی ضرور کوئی نہ کوئی عظیم الشان تغیر واقع ہونے والا ہے اور کوئی بڑا عظیم الشان مصلح اور مجدد آنے والا ہے جو ظلمت کا دشمن اور نور کا حامی ہوتا ہے.ظلمت سے بچنے کی دعاہر روز کرنے کا حکم پس چاہئے کہ دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تمیز عطا کرے اور ہر ظلمت سے بچاوے.باربار اس قدر لمبے مضامین نہ سنائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی آپ لوگوں کو سننے کا موقع ملتا ہے.میں آپ لوگوں کو ایک سہل راہ بتاتا ہوں.دیکھو ہمارے تمہارے اندر بھی جنّ ہیں.اب بڑا حِصّہ عمر کا گزر چکا ہے اور تھوڑا باقی ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ پھر بھی غفلت سراٹھانے نہیں دیتی.پس ان ظلمتوں کے جلانے کے واسطے بڑا پکا اور سچا مواتا (شہابثاقب) استغفار، توجہ، لاحول اور الحمد کی دردمندانہ دُعائیں اور گداز ہو ہو کر درود پڑھنا ہے اور دُعائیں کرنا اور رحمت الٰہی کے نزول کی راہیں تلاش کرتے رہنا چاہئے.جو تڑپ اور سچے دل سے دُعائیں کرتا ہے خدا اس کے اندر ایک نور پیدا کردیتا ہے جو اس کے کل کاروبار میں اس کا راہبر ہوتا ہے.خواہشات نفسانی کی پیروی سے ظلمت آتی ہے اور وہ تباہ کردیتی ہے.ایک آنکھ کے اندھے کے سامنے عمدہ سے عمدہ ایرانی قالین رکھ دو مگر اس کے خوشنما رنگ اور خوبصورت بیل بوٹے اس کے واسطے کسی کام نہیں.اس کے دل کو آنکھ کو ان سے کوئی مسرت نہیں پہنچ سکتی.اس طرح جو انسان ظلمت میں گھرا ہوا ہو خواہ کتنی ہی نصیحت کرو، کیسے ہی عمدہ عمدہ پیرایوں میں وعظ کرو مگر اس کے

Page 375

کان پر جوں بھی نہیں چلتی اور کوئی اثر نہیں ہوتا.پس خدا سے ہر روز دعا کرو کہ وہ ہر ظلمت سے بچاوے اور نور عطا فرماوے.(الحکم جلد۱۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۳۰؍ مارچ ۱۹۰۸ ء صفحہ۵ تا۷) مسیح موعود ؑ کے ایک مضمون کی نسبت سپارش اور نصائح کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۸ء قبل ظہر پیر عبداللہ شاہ صاحب ساکن پنڈ صاحب خاں ضلع اٹک جو کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے معزز خلیفہ ہیں کے اطمینان قلب اور ترقی ایمان کے لئے نشان طلب کرنے پر ایک پُر معارف مضمون ارشاد فرمایا.اور نماز ظہر کے بعد کچھ نصائح فرمائیں(یہ مضمون اور نصائح ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۵۰۶ تا ۵۱۲ مطبوعہ ۲۰۰۳ء پرہیں) نصائح ارشاد فرمانے کے بعد حضرت اقدس ؑ تشریف لے گئے اورجناب پیر صاحب موصوف حضرت حکیم الامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس درس گاہ میں گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مذکورہ بالا مضمون کی نسبت حضرت حکیم الامت کی سپارش اور نصائح کی بیان فرمودہ تشریح حسب ذیل ہے مضمون کی نسبت سپارش ہمارے بھائی جو اخبار الحکم پڑھتے ہیں ان کی خدمت میں التماس ہے کہ اس مضمون کو ذرا غور سے پڑھیں اور توجہ کریں اور جونہیں پڑھتے ان کو چونکہ ہماری اس بات سے بھی اطلاع نہ ہوگی لہٰذا پڑھنے والے بھائی ان کو اس سپارش کی اطلاع کردیں.حضرت مسیح موعود ؑ کی ارشاد فرمودہ نصائح کی تشریح پیر صاحب سے حضرت حکیم الامت رضی اللہ عنہ یوں مخاطب ہوئے کہ حضرت اقدسؑ نے نماز کے بعد آپ کو جو نصیحت کی ہے آپ اس کا مطلب بھی سمجھے ہیں؟ اور پھر اس کی یوں تفسیربیان فرمائی.حضرت مرزا صاحب کا مطلب یہ تھا کہ انسان میں اضطراب پیدا ہوجاوے اور ایک خاص

Page 376

جوش اور تڑپ سے خدا کے حضور التجا کرے کہ اے خدا وند! تجھ سے بڑھ کر کوئی بھی عالم نہیں.تو ہر ایک انسان کے دل کی حالت اور اس کی تسلی کے باریک در باریک ذریعہ سے بھی واقف ہے اور تجھ سے لطیف در لطیف دلائل اور براہین جو حق اور باطل میں تمیز کرنے کا باعث ہوں اور کون جان سکتا ہے.پس تو ہی مجھ کو اپنے رحم سے حق کی ہدایت فرما اور دل کو صراط مستقیم کے قبول کرنے کی توفیق و طاقت عنایت فرما.فرمایا.مسائل مختلف فیہ میرا اپنا یہی طریق عمل ہے اور میں ہمیشہ سے اسی راہ پر قائم ہوں.اَللّٰھُمَّ اعْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ.خدا سے بڑھ کر اس مطلب کے لیے اور کون موزوں اور مناسب ہے اور بجز خدا کے اور کون ہے جو دل کی تسلی و تشفی کر سکے.دل اسی کے ہاتھ میں ہیں اور وہی دلوں کا مالک اور متصرف ہے.خدا سچے اضطراب کو قبول فرماتا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں وارد ہے.(النمل: ۶۳) اور پھر فرمایا ہے  (المومن:۶۱)اور پھر فرماتا ہے کہ(البقرۃ : ۱۸۷) قرآن شریف کا ابتداء بھی دعا سے ہے اور پھر انتہا بھی دعا پر ہوا ہے.پس ان سب باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص دعا کرتا ہے اور اس دعا کے واسطے سچی تڑپ، اضطراب اور حق کی تلاش کا جوش ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرورا س کے واسطے حق کی راہیں کھول دیتا ہے.دعا ایک ایسی چیز ہے کہ جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے وہ قبولیت دعا کو بھی مانتا ہے.لیکن بعض اوقات دعا کی قبولیت میں انسان کے اپنے گناہ روک ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات دعا کی قبولیت بجائے ہدایت کے ضلالت اور ابتلا کا باعث ہو جاتی ہے.جیسا کہ قرآن شریف کی آیت ذیل سے معلوم ہوتا ہے.(البقرۃ: ۲۷) پس اس کا علاج استغفار مقرر کیا گیا ہے کہ دعا کرنے سے پہلے انسان بہت بہت استغفار کرے.انسان غلطی سے پاک نہیں لہٰذا خدا کے حضور التجا کرے کہ یا الٰہی

Page 377

میرے اعمال بد کے نتائج بدسے تو مجھے محفوظ رکھ اور آئندہ غلطیوں سے میری حفاظت کر.یعنی جو غلطیاں مجھ سے پہلے سرزد ہو چکی ہیں ان کے نتائج بد اور سزا سے بچا اور حفاظت میں لے لے.اور آئندہ تیری ایسی حفاظت میرے شامل حال ہو کہ گناہ مجھ سے سرزد ہی نہ ہوں.ہر گناہ کا نتیجہ سزا ہوتا ہے اور ابتلا.توممکن ہے کہ انسان کی دعا یا تو بوجہ اس کے گناہوں کے قبول ہی نہ ہو.اور اگر قبول ہوبھی تو ابتلا کے رنگ میں ہو.اصطفٰی اور اجتبٰی کے رنگ میں نہ ہو.اسی واسطے استغفار کا پڑھنا درد دل اور سوز سے ضروری ہے.تیسرا ضروری امر یہ ہے کہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کا ورد بھی درد دل سے کرے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نیکی، سکھ اور فضل و فیض کے جذب کی توفیق مجھ کو نہیں.میرا کوئی علم، طاقت اور عمل کافی نہیں.غرض یہ کہ میں کسی فضل اور رحمت کے پانے کا اقتدار نہیں رکھتا اور نہ ہی مجھ میں کوئی ایسی قوت اور طاقت ہے کہ جس کے ذریعہ سے میں کسی دکھ، مصیبت، کم علمی، جہل و نادانی یا بدعادت و گناہ کو ترک کرسکوں یا مقابلہ کر سکوں.اِلّا باللہ مگر اللہ کے فضل اور توفیق سے.مختصر یہ کہ ایصال خیر اور دفع شرکی مجھ میں طاقت اور قوت نہیں بجز اس کے کہ اللہ کی خاص توفیق شامل ہو.غرض استغفار تو اس لیے کہ ہماری دعائیں … کسی ابتلا کا باعث نہ ہو جاویں اور لاحول اس واسطے کہ ہمارا علم کافی نہیں اور اظہار عجز کے واسطے سچا اضطراب، لا حول، استغفار پڑھ کر دعائیں کرنے کے بعد بھی اگر کچھ دیر قبولیت دعا میں ہو تو کچھ صدقہ خیرات کر دے.صدقہ بھی قبولیت دعا کا ایک راز ہے.حدیث میں آیا ہے اِنَّ الصَّدَقَۃَ تُطْفِیئُ غَضَبَ الرَّبِّ (المعجم الاوسط جزء۷ حدیث نمبر ۷۷۶۱) بعض مصائب شدائد صدقہ سے ٹل جاتے ہیں.صدقہ ردّ بلا.عام طور سے مثل کے طور پر مشہور ہے.ممکن ہے کہ کوئی گناہ یا خدا کی ناراضگی قبولیت دعا کے واسطے روک ہورہی ہو اور ہمیں اس کا علم نہ ہو وہ صدقہ سے ٹل جاوے اور پھر قبولیت دعا کا دروازہ کھل جاوے.پھر درود پڑھے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں درد دل سے آنحضرت ﷺ کے لیے خاص

Page 378

رحمت اور خاص فیضان اور خاص خاص مدارج علویہ کے حصول کی دعامانگتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ پر درود ایک بار بھیجتا ہے، خدا اس پر کئی بار رحمت نازل کرتا ہے.خدا کی رحمت کیا ہے؟ وہی ہدایت ہے.ہر مشکل سے نکل جانا بھی ہدایت ہے.خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی.غرض یہ خدا کا وعدہ ہے جو کبھی نہیں ٹلتا.مثنوی میں ایک طوطے کا قصہ یوں درج ہے کہ ایک طوطا ایک تاجر کے پاس تھا.تاجر تجارت کی غرض سے ہندوستان جانے لگا تو اس طوطے نے تاجر سے عرض کیا کہ آپ میرا سلام ہند کے طوطوں کو پہنچا دینا.چنانچہ وہ تاجر جب ہندوستان میں آیا اور اس نے طوطے کا سلام طوطوں کو پہنچایا.تو ان میں سے ایک طوطا تڑپ تڑپ کر زمین پر گر گیااور ایسا دکھائی دیا کہ گویا مر گیا ہے.تاجر جب سفر سے واپس آیا تو طوطے نے اس سے اپنے سلا م کا حال دریافت کیا.تاجر نے اپنا سارا ماجرابیان کیا.تو وہ طوطا بھی ایسا تڑپا اور گردن ڈال دی کہ گویا مر گیا.مالک کو رنج ہوا.اس نے مردہ جان کرپنجرے میں سے نکال کر باہر پھینک دیا، طوطا اڑکر درخت پر جابیٹھا.مالک نے حیران ہو کر پوچھا یہ کیا؟ تو پھر طوطے نے جواب دیا کہ اصل میں میرا سلام یہی معنے رکھتا تھا کہ مجھے کوئی ترکیب بتاؤ جس سے میں اس قید سے رہائی پاسکوں.تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ بجز موت وارد کرنے کے رہائی ممکن نہیں.اس طرح ہم بھی جو انبیاء اور عباد اللہ الصالحین پر سلام اور درود بھیجتے ہیں، اس کا بھی یہی منشاء اور ماحصل ہے کہ اے نجات یافتہ روحو!اور خدا کے مقدس مجتبیٰ اور مصطفی لوگو! تم تو نجات یافتہ اور (المائدۃ: ۱۲۰) کے مصداق ہو کر بارگاہ الٰہی میں مقرب بنے ہو.ہمیں بھی اپنی جانوں کے صدقے کوئی ایسی راہ بتاؤ کہ ہم بھی دنیا کی ان تلخیوں اور گناہوں سے نجات یاب ہو سکیں اور ہمیں اجتبٰی اور اصطفٰی کے مدارج نصیب ہو کر ہم بھی خدائی رضوان کے عرش کے سایہ میں آجاویں.غرض دعا ہی ایک اعلیٰ ہتھیار ہے جو ہر مشکل سے نجات کی راہ ہے.جہاں کوئی ہتھیار کارگر

Page 379

نہیں ہوسکتا وہاں دعا کے ذریعہ کامیابی ممکن اور یقینی ہوتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کے تمام شرائط اور لوازم مہیا و میسر ہوں.عمدہ دعا (الفاتحۃ:۶)ہے جس میں نہ کسی خاص مذہب کا نام ہے اور نہ کوئی خاص پہلو اختیار کیا گیاہے.میرا دل چاہتا ہے کہ حضرت اقدس ؑ کے ان الفاظ کا جو آپ نے بعد نماز فرمائے مطلب سب لوگ سمجھیں اور اس پر کاربند ہوں.(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۲؍ اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱،۴ ) حضرت مسیح موعود ؑ کو کن دلائل سے مانا؟ حضرت حکیم الامت ؓ سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ آپ نے حضرت مرزا صاحب کو کن دلائل سے مانا؟ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.ہر ایک شخص کے ذوق اور فہم کے مطابق الگ الگ دلائل ہوتے ہیں جس دلیل سے ایک شخص کسی کی سچائی پر ایمان لاتا ہے ممکن ہے کہ دوسرے کے نزدیک وہ دلیل ہی نہ ہو یا ایک ضعیف دلیل ہو.غالباًیہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرامؓ نے اپنے ایمان کے وجوہ کا اظہار لوگوں کے سامنے نہیں کیا اور اسی طرح تمام ائمہ دین نے جن جن وجوہ سے اسلام اختیار کیا یا کسی کو بزرگ مانا ان کے وہ ذوقی دلائل ہیں.کہیں تاریخوں میں نظر نہیں آتے جو ان کے لئے باعث اعتقادات ہوئے.ان کا خصوصیت سے ان بڑے لوگوں نے تذکرہ نہیں کیا بلکہ ہم اگر اس سے آگے بڑھیں تو انبیاء رسل اور ملائکہ نے بھی بیان نہیں کیا کہ کن کن وجوہ سے انہوں نے وحی کے فرشتے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کیا.کیونکہ یہ ان کے اپنے ذاتی ذوق ہوتے ہیں اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ ایک دلیل جس سے کوئی خاص شخص کسی امر کی سچائی پر یقین کرتا ہے وہی تمام دنیا کے واسطے اس سچائی پر ایمان لانے کے واسطے حجت

Page 380

نہیں ہو سکتی.مخلوق جس طرح اپنے رنگ، شکل وشباہت اور آرزؤں کے لحاظ سے مختلف واقع ہوئی ہے اسی طرح بلحاظ ذوق بھی اس میں عظیم اختلاف پایا جاتا ہے اور اس کی ہزار مثالیں دنیا میں موجود ہیں.یہی وجوہ ہیں کہ میں بھی اس معاملہ میں اپنے ذوق کے اظہار کی ضرورت نہیں سمجھتا تھا.قبولیت دعا اصل بات یہ ہے کہ میں بہت سے وجوہ سے قبولیتِ دُعا کا بڑا قائل ہوں اور میں نے جب سے ہوش سنبھالی ہے ہزاروں قسم کے مشکلات میں تجربۃً دعاؤں کو بہت ہی مفید پایا ہے اور یہ بجائے خود ایک بڑا بھاری سلسلہ ہے اگر خدا نے توفیق دی تو میں اپنی دعاؤں کے اس بڑے حصے کو بھی بیان کروں گا اس وقت میری عمر ستّر برس کے قریب ہے اور دعاؤں کا خیال مجھے سن بلوغ سے بھی پہلے کا پیدا ہواہے اور میں نے ہمیشہ بڑے بڑے خطرناک اورہلا دینے والے وقتوں میں دعاؤں کا تجربہ کیا ہے اور ایک مسلمان انسان کے واسطے یہ مسئلہ کافی ہے کہ مضطر انسان کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے کیونکہ قرآن شریف میں وارد ہے (النمل : ۶۳) لہٰذا ایک مسلمان عقیدہ کے انسان کے واسطے قبولیت دعا کی فلاسفی پر کوئی لمبی چوڑی بحث کرنے کی حاجت بھی نہیں معلوم ہوتی.شہر میں داخل ہونے کی دعا اس کے بعد ایک اور امر جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ ہمیشہ سے میرا یہ قاعدہ ہے کہ میں جب کسی شہر میں جاتا ہوں یا کسی گاؤں کی طرف رخ کرتا ہوں اور اس شہر یا گاؤں کے قریب پہنچ کر اس کی بیرونی حالت کو دیکھ لیتا ہوں تو وہیں سے نہایت اضطراب اور دردِ دل سے وہ دعائے مسنونہ ہمیشہ پڑھا کرتا ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے وقت مانگنے کا ارشاد فرمایا ہے اور میرے دوست جو میری صحبت میں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ میں نے اپنے وعظوں، لیکچروں اور درس قرآن میں اس کا بار ہا ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.اَللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَ مَا أَظْلَلْنَ وَ رَبَّ الْأَرْضِیْنَ السَّبْعِ

Page 381

أَقْلَلْنَ وَ رَبَّ الشَّیَاطِیْنَ وَ مَا أَضْلَلْنَ وَ رَبَّ الرِّیَاحِ وَ مَا ذَرَیْنَ فَإِنَّا نَسْأَلُکَ خَیْرَ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَ خَیْرَ أَہْلِہَا وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہَا وَ شَرِّ أَہْلِہَا وَ شَرِّ مَا فِیْہَا (المستدرک،کتاب المناسک، اوّل کتاب المناسک).اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہَا (تین بار) اللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا جَنَاہَا، وَحَبِّبْنَا إِلٰی أَہْلِہَا وَحَبِّبْ صَالِحِیْ أَہْلِہَا إِلَیْنَا(فقہ السنۃ،الصلاۃ، الجمعۃ) اب میں بڈھا ہوگیا ہوں مگر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بچپن سے لے کر اب تک جن لوگوں کو میں نے اپنا دوست بنایا ہے وہ آج تک باوجود میری بہت عظیم الشان ترقیات یاوسیع علوم اور تجارب کے آج بھی مجھے وہ لوگ نیک ہی نظر آتے ہیں اور نہ ہی کسی بُرے انسان کو میرے ساتھ کبھی تعلق پیدا ہوا اور یہ خاص خدا کا فضل ہے.میں نے بہت بزرگوں سے بیعت بھی کی ہے منجملہ ان مشہور لوگوں کے حضرت شاہ عبد الغنی صاحب مہاجر مدنی مجددی بھی ہیں اور ملک بخارا کی طرف کے مشہور لوگوں میں سے حضرت محمد جی نامی میرے پیر ومرشد تھے اور علماء میں سے مولوی عبد القیوم صاحب مرحوم، مولوی عبدالحی صاحب مرحوم کے صاحبزادے تھے اور ان کے سوا اور بزرگ بھی ہیں.میں نے بڑے بڑے شہروں مثلاً.لکھنؤ، رام پور، بھوپال، مکہ معظمہ ، یمن، مدینہ طیبہ اور آخرکشمیر وغیرہ میں اس دعا کے بعد جن جن لوگوں سے تعلق محبت یا نیاز پیدا کیا ہے وہ سب کے سب بحمد اللہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی میری سچی اور دردِ دل کی دعاؤں کو ضائع نہیں کیا اور نہ ہی کبھی مجھے کسی دھوکہ میں مبتلا کیا.مباحثہ حضرت مرزا صاحب کا خیال مجھے پہلے پہلے اس بات سے پیدا ہوا کہ ایک بڑا انگریزی تعلیم یافتہ اور بہت بڑا عہدیدار شخص جو کہ مسلمان کہلاتا تھا میرا اس سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے معاملہ میں مباحثہ ہوا کیونکہ وہ ایسے دعاوی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا.آخر کار دوران گفتگو میں اس نے تسلیم کیا کہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کرتا ہوں لہٰذا اس معاملہ میں مَیں اب بحث نہیں کرتا.اس پر میں نے اس

Page 382

سے پوچھا کہ بھلا ختم نبوت کی کوئی دلیل تو بیان کرو کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس شخص نے اس وقت یہ اقرار صرف پیچھا چھڑانے کی غرض سے کر لیا ہے.چنانچہ میرا وہ خیال درست نکلا اور اس نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت کی کمال دانائی اور عاقبت اندیشی اس امر سے مجھے معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم نبوت کا دعویٰ کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم زمانہ کی حالت سے یہ یقین کر چکے تھے کہ لوگوں کی عقلیں اب بہت بڑھ گئی ہیں اور کہ آئندہ ایسا زمانہ اب نہیں آوے گا کہ لوگ آئندہ کسی کو مرسل یا مہبط وحی مان سکیں.اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (نعوذ باللہ) دعویٰ کردیا کہ میں ہی خاتم النبیین ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بڑے اعلیٰ درجہ کا دانا اور عاقبت اندیش انسان مانتا ہوں.میں نے اس دلیل کو سن کر بہت ہی رنج کیا اور میرے دل کو سخت صدمہ اور دکھ پہنچا کہ یہ شخص بڑا ہی محجوب ہے اور بے باک ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ اولیائے کرامؓ کے حالات سے بھی نابلد محض ہے.اب چونکہ ایک طرف تو اس سے مباحثہ ہوا تھا اور اس کا صدمہ دل پر ابھی باقی تھا.دوسری طرف وہیں کے پرائم منسٹرنے مجھے حضرت اقدسؑ کا پہلا اشتہار دیا جس میں اس سوفسطائی کا ظاہر اور بیّن جواب تھا.جونہی کہ پرائم منسٹر نے مجھے وہ اشتہار دیا میں فوراً اسے لے کر اسی عہدہ دار کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دیکھو تمہاری وہ دلیل کیسی غلط اور ظنی ہے اس وقت بھی ایک شخص نبوت کا مدعی موجود ہے اور وہ کہتا ہے کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے یہ سن کر وہ نہایت گھبرایا اور متحیر ہو کر بولا کہ اچھا دیکھا جاوے گا.آپ کاقادیان آنا میں تو چونکہ مجھے ایک تازہ چوٹ اسی وقت لگی تھی فوراً اس اشتہار کے مطابق اس امر کی تحقیقات کے واسطے قادیان کی طرف چل پڑا اور روانگی سے پہلے اور دورانِ سفر میں اور پھر قادیان کے قریب پہنچ کر قادیان کو دیکھتے ہی نہایت اضطراب اور کپکپادینے والے دل سے دعائیں کیں.جب میں قادیان پہنچا تو جہاں میرا یکّہ ٹھہرا وہاں ایک بڑا محراب دار دروازہ نظر آیا جس کے اندر چارپائی پر ایک بڑا ذی وجاہت آدمی بیٹھا نظر

Page 383

آیا.میں نے یکّہ بان سے پوچھا کہ مرزا صاحب کا مکان کونسا ہے جس کے جواب میں اس نے اسی ریشائل مشبہ داڑھی والے کی طرف جو اس چارپائی پر بیٹھا تھا اشارہ کیا کہ یہی مرزا صاحب ہیں مگر خدا کی شان اس کی شکل دیکھتے ہی میرے دل میں ایسا انقباض پیدا ہوا کہ میں نے یکّے والے سے کہاکہ ذرا ٹھہر جاؤ میں بھی تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا اور وہاں تھوڑی دیر کے واسطے بھی ٹھہرنا گوارا نہ کیا.اس شخص کی شکل ہی میرے واسطے ایسی صدمہ دہ تھی کہ جس کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں.آخر طوعاً وکرہاً میں اس مرزا کے پاس پہنچا.میرا دل ایسا منقبض اور اس کی شکل سے متنفر تھا کہ میں نے السلام علیکم تک بھی نہ کہی کیونکہ میرا دل برداشت ہی نہیں کرتا تھا.الگ ایک خالی چارپائی پڑی تھی اس پر میں بیٹھ گیا اور دل میں ایسا اضطراب اور تکلیف تھی کہ جس کے بیان کرنے میں وہم ہوتا ہے کہ لوگ مبالغہ نہ سمجھ لیں.بہرحال میں وہاں بیٹھ گیا دل میں سخت متحیر تھا کہ میں یہاں آیا کیوں؟ ایسے اضطراب اور تشویش کی حالت میں اس مرزا نے خود ہی مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں.میں نے نہایت روکھے الفاظ اور کبیدہ کبیدہ دل سے کہا کہ پہاڑ کی طرف سے آیا ہوں.تب اس نے جواب میں کہا کہ آپ کا نام نورالدین ہے؟ اور آپ جموں سے آئے ہیں؟ اور غالباً آپ مرزا صاحب کو ملنے آئے ہوں گے.بس یہ لفظ تھا جس نے میرے دل کو کسی قدر ٹھنڈا کیا اور مجھے یقین ہوا کہ یہ شخص جو مجھے بتایا گیا ہے مرزا صاحب نہیں ہیں.میرے دل نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ میں اس سے پوچھتا کہ آپ کون ہیں؟میں نے کہا ہاں اگر آپ مجھے مرزا صاحب کے مکانات کا پتا دیں تو بہت ہی اچھا ہوگا.اس پر اس نے ایک آدمی مرزا صاحب کی خدمت میں بھیجا اور مجھے بتایا کہ ان کا مکان اس مکان سے باہر ہے.اتنے میں حضرت اقدسؑ نے اس آدمی کے ہاتھ لکھ بھیجا کہ نماز عصر کے وقت آپ ملاقات کریں.یہ بات معلوم کر کے میں معاً اُٹھ کھڑا ہوا اور اس جگہ نہ ٹھہرا.آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایک شریف انسان کسی شریف انسان کے مکان پرجاتا ہے اور سلام علیک تک کاروا دار نہیں ہوتا باوجودیکہ صاحب مکان اس کی ہر طرح کی مدارات بھی کرتا ہے؟ آپ غور کریں کہ یہ کس

Page 384

قسم کے قلب ہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا کئے ہیں.آپ کا ایک رؤیا غرض عصر کے بعد حضرت اقدسؑ تشریف لائے اور مجھے فرمایا کہ میں ہواخوری کے واسطے جاتا ہوں کیا آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں گے.میں نے عرض کیا کہ ہاں.چنانچہ رستے میں میں نے اپنا ایک رویا بیان کیا جس میں مَیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا اور عرض کیا تھا کہ کیا حضرت ابوہریرۃؓ کو آپ کی احادیث بہت کثرت سے یاد تھیں؟ اور کیا وہ آپ کی باتوں کو ایک زمانہ بعید تک بھی نہیں بھولا کرتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا.ہاں.میں نے عرض کیا کہ کیا کوئی تدبیر ہو سکتی ہے کہ جس سے آپ کی حدیث نہ بھولے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ قرآن شریف کی ایک آیت ہے جو میں تمہیں کان میں بتا دیتا ہوں.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا منہ مبارک میرے کان کی طرف جھکایا اور دوسری طرف معاًایک شخص نورالدین نام میرے شاگردنے مجھے بیدار کر دیا اور کہا کہ ظہر کا وقت ہے آپ اٹھیں.یہ ایک ذوقی بات تھی کہ میں نے مرزا صاحب کے سامنے اسے پیش کیا کہ کیوں وہ معاملہ پورا نہ ہوا.اس پر آ پ کھڑے ہوگئے اور میری طرف منہ کر کے ذیل کا شعر پڑھا ؎ من ذرہ ز آفتابم ہم از آفتاب گویم نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم پھر فرمایا جس شخص نے آپ کو جگایا تھا اسی کے ہم معنی کوئی آیت قرآن کریم کی ہے اور وہ یہ ہے(الواقعۃ : ۸۰) الغرض یہ تو ایک پہلا بیج تھا جو میرے دل میں بویا گیا اور حضرت مرزا صاحب کی سادگیء ِ جواب اور وسعت اخلاق اور طرزِ ادا نے میرے دل پر ایک خاص اثرکیا.مجاہدہ میں اس وقت تو واپس چلا گیا اور پھر جلد ہی آیا اور عرض کیا کہ آپؑ کی راہ میں مجاہدہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں آپؑ نے فرمایا کہ مجاہدہ یہی ہے کہ عیسائیوں کے مقابل پر ایک کتاب لکھو.میں نے عرض کیا کہ بعض سوال اس قسم کے ہوتے ہیں جن میں الزامی جواب ہی دشمن کو

Page 385

خاموش کرتا ہے لہٰذا اگر ان کے بعض اعتراضات میں صرف الزامی جواب دیا جاوے تو کیا آپ اس طریق کو پسند فرماویں گے؟ کیونکہ بعض اعتراض بہت ہی لاجواب ہوتے ہیں.تو فرمایابڑی ہی بے انصافی ہوگی اگر ایک بات جس کو انسان خود نہیں مانتا دوسرے کو منوانے کے واسطے تیار ہو.حل مشکلات ہاں اگر کوئی ایسا ہی مشکل سوال اگر آپ کے راہ میں آجاوے جس کا جواب ہرگز آپ کی سمجھ میں نہ آسکتا ہو تو اس کے واسطے یہ راہ مناسب ہے کہ اس کے جواب کے لئے آپ اس سوال کو نہایت ہی خوشخط اور جلی قلم سے لکھ کر اپنی اکثر اوقات نشست گاہ کے سامنے جہاں ہمیشہ نظر پڑتی رہے لٹکا دیا کریں.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنے خاص فضل سے وہ فیضان نازل فرمائے جس سے کسی بھی اسلامی صداقت کے متعلق آپ کو کوئی مشکل پیش آئی ہو.غرض اس طریق دعا کا میں کم وبیش پہلے ہی سے قائل تھا آج مجھے اس کی مضبوط چٹان پر حضرت اقدسؑ نے کھڑا کر دیا.یہ بہت پرانی بات ہے.پھر آپ کو میں کیا سناؤں کہ مجھے کس طرح سے اس مجاہدہ کرنے کے سامان میسر آگئے.جس کی تفصیل یہ ہے کہ میرا ایک ہم مکتب حافظ عیسائی ہو چلا اور اس نے عیسائیت کے متعلق مجھ سے مباحثہ کیا اور پھر مجھے باوجود کثرت کاروبار کس طرح فرصت مل گئی اور اس کتاب کے چھپنے کے لئے کس قدر مال مجھے ایسی جگہ سے مل گیا جہاں میرا وہم وگماں بھی نہ تھا.اس کتاب کے چار جلد تھے نام اس کا فصل الخطاب تھا.خدا کی شان کہ صرف دو ہی جلد کے شائع ہونے پر میرے اس ہم مکتب حافظ دوست اور اور بھی جو اس کے ساتھ شریک تھے اور بعض ججوں نے مجھے میری کامیابی پر مبارکباد دی اور خدا تعالیٰ نے میری اس محنت کو محض اپنے فضل سے قبول فرمایا.یہ میری پہلی ہی تصنیف تھی جس کے لکھنے کے لئے مرزا صاحب نے مجاہدہ کا حکم دیا تھا.اس بیج کا جو درخت بن سکتا ہے اب آپ اس کو سمجھ سکیں گے اور اگر نہ سمجھ سکیں تو پھر کبھی اگر چاہیں تو مجھے اطلاع دیں.(الحکم جلد۱۲ نمبر۲۹ مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۲،۳)

Page 386

مسائل عرصہ گذرتا ہے کہ جناب مولانا سے کچھ سوال پوچھے گئے تھے جن کا یہ جواب آپ نے لکھوایا.فائدہ عام کے لئے شائع کیا جاتا ہے.(۱).تیمم صرف مٹی سے یا آلودہ بخاک سے ہی جائز ہے.  (النساء:۴۴).(۲).جمع بین الصلوٰتین ہر ایسے عذر سے جو واقعی ہو.سستی نہ ہو مجبوری ہو.جائز ہے.ترمذی میں لفظ عذر موجود ہے.(۳).سفر وہی جسے لغۃً عرفاً سفر کہیں سفر کی تفسیر لغت ہی کرتی ہے.احادیث میں سفر کے حدود تفسیر کے طور پر نہیں.سفر مجمل نہیں ہے.(۴).چار دن کا ارادہ اقامت ہو تو مسافر مقیم ہو جاتا ہے.(موطا اور بخاری) (۵).آیات میثاق سے واقعی عہد لینا مراد ہے جس کی کیفیت مفصلہ فی علم اللہ ہے مگر فی آن واحد نہیں بلکہ زمانہ ممتد میں اپنے اپنے اوقات میں اور یوم بمعنے مطلق زمانہ اور خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ اور اَلْفَ سَنَہ اور ۸پہر اور آن واحد (کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَانٍ) ایک برس (لَکُمْ مِیْعَادُ یَوْمٍ بدر کی جنگ کا وعدہ) حدیث میں ہے.۵دن ہماری سلطنت رہے گی.یہ پیشگوئی خلفائے عباسیہ کے انجام تک رہی.ایسے ہی میثاق کا یوم.یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ میں ۱۰۰ سال ہے.(۶).پانی کی طہارت کی بابت شریعت نے فطرت پر چھوڑدیا ہے جو کہ اپنی اپنی عرف وعادت اور طبائع سے مفہوم ہوتی ہے.گنوار لوگ اپنے طبائع کے موافق پانی کو گندہ یا پاک جانتے ہیں اور نفیس متنفس اپنی فطرتوں سے سمجھ لیتے ہیں.احادیث میں مقادیر مختلفہ اسی لئے ہیں.احمدیوں کا عمل عرف و عادت فطرت پر ہونا چاہیے.(۷).نواقض وضو اجماعی مِنَ السَّبِیْلَیْن بول و براز ہواہیں.اختلافی میں یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ پر عمل کرنا چاہیے.لحم الابل کے مقابل مخالف حدیث نہیں آئی اس لئے شاہ ولی اللہ

Page 387

بھی، مولانا کریم الامت مرحوم ہر دو میں جہراً.کئی سب جگہ خفا کرتے ہیں.وَلِکُلِّ وِّجْہَۃٌ.(۹).ظہر پہلی مثل میں نہ پڑھے تو دوسرے میں مع سنن پڑھ لے اتنی بڑی تدقیق شریعت میں نہیں ہے کہ گھڑی سے یا ظل سے ادنیٰ ادنیٰ باریکیوں میں اوقات ضائع کرے.قضا کے ساتھ بھی سنتیں حضرت علیہ الصلوٰۃ نے فجر میں پڑھ لیں.قسّ علٰی ہٰذا.(۱۰).امام کے ساتھ بعد از رکعت اولیٰ ملے یا تیسری رکعت میں تو قعدہ میں عبدہ و رسولہ سے آگے پڑھتے جانا کوئی منع نہیں ہے.منع کی کوئی سند نہیں ہے اور سلام پھیرنے تک ٹھہرے.(۱۱).مسئلہ ترتیب قضا و ادا کی کوئی سند نہیں.میں اس کا قائل نہیں.(۱۲).وَاذْکُرُوا اللّٰہَ وَ اذْکُرَاسْمَ رَبِّکَ ان سے وہی ذکر مراد ہے جو بیان رسول اللہ اور احادیث سے قرآن سے ثابت ہے.مفرد ذکر اللہ کسی نبی نے یا کامل ولی نے بطور استمرار نہیں کیا اور نہ یہ ماثور ہے.(۱۳).عذابِ قبر عالم برزخ میں ہوتا ہے.(عبس:۲۲) نبی کریم نے قبر ظاہری پر جا کر اس لئے یوں فرمایا کہ ظاہر کا نشان تحریک تھی جسم ایک جامہ ہے اتر جاتا ہے اس میں تجدید ہوتی ہے.(۱۴).قیامت کے دن یہی جسم ہوں گے جو عند الموت ان سے الگ ہوتے ہیں.مَنْ فِی الْقُبُوْرِ وَہِیَ اَقْبَرَہٗ کے قبر میں سارے اجزا یا بعض اجزا کا سوال احاطہ علیٰ علم اللہ ہے.(۱۵).سات ہزار سال کو قیامت آئے گی.قیامت صغریٰ یا کبریٰ اور کبریٰ قیامت آئے گی.ضرور حشر اجساد جنت و نار سب ہوں گے.احاطہ علیٰ ما یعلمہ اللہ کا سوال بے ہودہ ہے.(۱۶).فوری کرامات کا اصل توجہ تصرف بالمشاہد فی المشاہدات اسپرو چولیزم تصرف بالروح

Page 388

فی الارواح و المشاہد و المحسوسات ہے مگر اکثر کہانیاں.مامور من اللہ گو درجہ لقا کو پہنچ جائے باذن اللہ کام کرتا ہے.اس میں اور صاحب توجہ میں ایک یہ بھی فرق ہے کہ صاحب توجہ اپنی نسبت کامیابی کا یقین نہیں کرسکتا.اکثر ناکام مرتا ہے.حضرت سے نقل ہے کہ فلاں آدمی گو ایسے ایسے کام کرتا ہے مگر ناکام نا مراد مرجائے گا.ایسا ہی ہوا.سید جمال الدین صاحب عروۃ الوثقیٰ (اخبار مصر)جس کا شاگرد شیخ عبدہ ہے بڑا صاحب قوت روحانی تھا یعنی قدرت اس کی روح میں کمال تھی.ہر ایک سلطان کو ماتحت کرلیتا اور دنیا ادھر سے ادھر کردیتا تھا آخر ناکام ہی جوانی میں مرگیا.کفر و اسلام سے اسے کچھ تعلق نہیں ہے ہاں خدا سے ان لوگوں کا پیار ہے گو رضا کی راہ سے ناواقف ہیں.(۱۷).عمل، تعویذ، دم جو واقعی موثر ہیں ان کا گُرو ہی توجہ ہے.ایسے لوگ اپنی نفرت کے متعلق کچھ نہیں کرسکتے.دعا والے عجیب طور سے کامیابی پہ کامیابی دیکھتے ہیں.(۱۸).قرآن میں دوبارہ آیتیں آنے کی فلاسفی یہ ہے کہ ہر جلسہ میں اپنے اپنے مذاق اور نصرت اور حالت کے موافق ہر ایک سامع فیضان پائے صرف ایک بھی مضمون سے یہ مطلب حاصل نہیں ہوتا.بعینہ لفظ بار بار لانا شعراء کا بھی دستور ہے جو فصاحت کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین فصاحت! گو وجوہ اور مواقع الگ الگ ہیں اور بعض الفاظ میں ایک خاصیت اور تاثیر ہوتی ہے جو اس موقع کے موافق اور محل کے مناسب ہوتی ہے دوسرے الفاظ میں نہیں ہوتی مضمون گو ایک ہی ہو تاکید کرنی بھی مطلوب ہوتی ہے جو اسی لفظ سے پیدا ہوتی ہے.(۱۹).حضرت مسیح پر وہی آیات نازل ہوں تو معانی اَور مراد ہوتے ہیں.زیارت النبی تمثل ہے اور یہ تمثل معانی اور اعیان بلکہ ذات اللہ سبحانہ کا بھی ہوتا ہے.شاہ ولی اللہ نے حضرت ختم الرسالت کوپھر   (حالت اولیٰ) پھر انسانی صورت پر دیکھ کر حضور سے تعبیر پوچھی تو آپ نے اوپر کا تعلق الٰہی زیادہ نیچے کا تعلق بخلق تھوڑا اور پہر حالت ثانیہ عکس اولیٰ اور حالت ثانیہ ہر دو برابر تاویل فرمائی.ممکن ہے کہ رؤیامیں جس کو دیکھیں وہ بعینہ نہ ملے بلکہ اس کا تمثل ہو چنانچہ پوچھیں تو مرئی انکار کرتا ہے.اَلشَّیْطَانُ لَایَتَمَثَّلُ بِیْ بعینہ صورت کے متعلق ہے.اگر

Page 389

فرضاً بعینہ حضرت کا روح ہے تو بحسب (البقرۃ: ۱۷۴) اس سے گمراہی پیدا ہوگئی ہے یعنی مرئی تو وہی روح پاک ہے مگر کلام کا تمثل رائی کے خیال کے مطابق ہوا.(۲۰).اگر منت مانے اور غیر اللہ کا ذکر بطور تعبد کرے یعنی سمجھے کہ اگر نہ دوں تو فقیر ولی مجھے سخت ضرر پہنچائے گا.دے دوں تو میری مشکل حل ہو جائے گی تو وہ نذر غیر اللہ ہوئی اور ایسی اشیاء (البقرۃ: ۱۷۴) میں داخل ہو کر حرام ہیں یعنی میت و خنزیر کے برابر ہے روٹی ہو یا بکرا خواہ بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کریں مردار کی طرح حرام ہے.تفسیر عزیزی میں اس کی تفصیل ہے پہلا سیپارہ.(۲۱).بابی اور اہل بہا دائرہ اسلام سے خارج ہیں کافر ہیں.سود لینا، شراب پینا، تولّٰی کفار کو حلال جانتے ہیں.بسم اللہ سے ان کی ضد ہے.صفات الٰہیہ کے منکر.غیب الغیب خدا کا نام کوئی نہیں ہے.خود خدائی کا دعویٰ بہاء اللہ کے الفاظ میں موجود ہے.وحی کیا پس وہ فرعون تھا.الوہیت کے مدعی کو مفتری والی سزا نہیں ملتی.محمد علی مدعی ہوا تو جلدی ہی ناکام مرا.بہاء اللہ کا دعویٰ ۴۰ سالہ ثابت نہیں ہے.صداقت کا یہ نشان ہر ایک باطل پرست میں موجود ہے.ایسا شخص جو حضرت اقدس کے دعویٰ مسیح یا مہدی وغیرہ کا منکر ہے گو بزرگ ہے منافق ہے.(۲۳).غیر اللہ سے استمداد.سماع پر موقوف ہے جو موتیٰ کو پہلے پہلے تو بوجہ تعلق بقیہ بدنیا ہوتا ہے اور پھر بعد از مدت بند ہوجاتا ہے.اِ (الروم: ۵۳) احادیث میں سماع موتیٰ پہلی حالت والا ہے.(۲۴).نماز عصر میں نوافل پڑھنے میں اختیار ہے.(۲۵).عدت میں نکاح باطل ہے.(۲۶).لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ وَ لَاسِیَّمَا فِی الصَّغِیْرَۃِ.

Page 390

(۲۷).ملائکہ کا جنگوں وغیرہ مقاموں میں نظر آنا تمثل ہے.(۲۸).قربانی جس کا مسیح نے حکم دیا وہ صدقہ تھا اس کے صدقے والے احکام ہیں.(۲۹).اگر ارذل عمر کی حد نہیں تو حنفی فقہ مفقود کے معاملہ میں غلط ہے.(۳۰).اصحاب کہف کو زندہ کہنا غلط ہے(الکھف:۲۷) جواب ہے.کا (الکھف : ۲۷).(۳۱).(البقرۃ:۷۳) کی تفسیر میں مجھے تامل ہے.(۳۲).انجیل کی نسبت کتاب کا لفظ قرآن کریم میں نہیں ہے انجیل کے معنی بشریٰ اس میں صرف بشریٰ ہے اگر کوئی شریعت تھی تو اس کا کوئی نشان باقی رہتا.(۳۳).دوبارہ آیات قرآنی کا الہام کیوں ہوا؟ جواب.غلام احمد ہے اس غلامی کے باعث وہ خاص مکالمہ ایک فضل ہے.الہام میں شعرا سابقین اور حکما کے اقوال سب آسکتے ہیں.(۳۴).قیامت کے حشر اجساد میں عند الموت کے ہی ذرات ہوں گے.(۳۵).مَنْ نَامَ اَوْ نَسِیَ فَلْیُصَلِّہَا اِذَا ذَکَرَھَا تذکرہ کے بعد پھر سستی نہ کرے.(البدر جلد ۷نمبر ۱۸ مورخہ ۷ ؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۹، ۱۰) پرانی یادداشت مئی ۱۹۰۸ء میں لاہور میں نوجوانوں کو مخاطب کر کے حضرت مولوی نورالدین صاحب نے ایک تقریر فرمائی تھی.اس میں سے کچھ اقتباس اس جگہ درج کیا جاتا ہے.ایڈیٹر ہماری کتاب اس وقت نوجوانوں کے خیالات طرز بیان اور دیگر رسوم و اطوار ایسے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں کسی کو ان باتوں کی خبر نہ تھی.ہمارے مربی اور محسن اس زمانہ کی ہوا اور ان کی ضروریات سے بالکل ناواقف تھے ورنہ اس طرز کے مطابق وہ ہماری تربیت اور تعلیم کرتے.لیکن خوش قسمتی سے ہم کو ایک ایسی کتاب ملی ہے جس کا بنانے والا زمانہ حال اور زمانہ آئندہ اور

Page 391

زمانہ گزشتہ کے حال سے آگاہ ہے.سارے کا سارا اس کے حضور میںسامنے ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.حضرت موسیٰ سے فرعون نے پوچھا تھا کہ  ( طٰہٰ : ۵۲) پہلے لوگ جو گزر گئے ان کا کیا حال ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ..... (طٰہٰ : ۵۳)اس کا علم میرے رب کے پاس ہے.وہ ازلی ابدی خدا سب باتوں سے آگاہ ہے کوئی شے اس سے چھپی ہوئی نہیں.اس کو سچے علوم سے آگاہی ہے کوئی شے اس کو بھولی ہوئی نہیں.سرّ واخفٰی اللہ تعالیٰ کی وہ ذات پاک ہے جس کو تمام سچے علوم سے آگاہی حاصل ہے.(طٰہٰ : ۵۳) وہ خدا سرّاوراخفٰی کو جانتا ہے.سرّوہ ہے جس کو اگرچہ ہم بظاہر نہیں جانتے تا ہم اس وقت کسی انسان کے دل میں موجود ہے.مثلاً ایک انسان اپنے دل میں ایک خیال رکھتا ہے جس کو وہ کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتا اور پوشیدہ رکھتا ہے اس کو عربی زبان میں سرّکہتے ہیں.سو خدا تعالیٰ سرّ کو بھی جانتا ہے.لیکن اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ اخفٰیکو بھی جانتا ہے.اخفٰیوہ خیالات ہیں جو آج سے مثلاً دس برس یا بیس برس بعد انسان کے دل میں پیدا ہوں گے جن کی اس انسان کو بھی خبر نہیں کہ وہ کیا ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ اس اخفٰیکو بھی جانتا ہے.پس کیا ہی خوش قسمتی انسان کی ہے کہ اس سرّ اور اخفٰیسے آگاہ اور واقف کار ذات نے اس کے واسطے ایک کتاب عطا فرمائی.جب یہ لوگ پیدا بھی نہ ہوئے تھے اس وقت سے خدائے علیم نے ان کی ضروریات روحانی کے پورا کرنے کے واسطے یہ کتاب نازل فرمائی.پہلوں کو حقیر نہ جانو! اس زمانہ کے نو تعلیم یافتہ لوگ بدقسمتی سے اگلے آدمیوں کو دقیانوسی، کھڑکنا اور اولڈفیشن اور دیگر اس قسم کے مذموم ناموں سے یاد کرتے ہیں.لیکن وہ نہیں جانتے کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے اور محفوظ حالت میں ہے جو کہ خالق فطرت کا کلام ہے.ایسی کتاب کے ہوتے ہوئے ہم کیوں کر کسی سے پیچھے رہ سکتے ہیں.یہی وہ کتاب ہے کہ 

Page 392

( حٰم ٓ سجدہ : ۴۳)یہ حکیم حمید خدا کی کتاب ہے اس میں کسی راہ سے جھوٹ کا کوئی دخل نہیں.یہ کتاب باوجود ان خوبیوں کے جو اس میں ہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کس ملک میں اتری ہے.وہ ایسے ملک میں اتری جہاں نہ کوئی کالج تھا اور نہ کوئی یونیورسٹی.اس ملک میں اس زمانہ کی تصنیف شدہ کسی علم کی کوئی کتاب نہیں ملتی نہ کوئی یادداشت دکھائی دیتی ہے.زیادہ سے زیادہ دو علم ان میں رائج تھے.ایک تو بسبب تجارت پیشہ ہونے کے ان کو علم حساب کی ضرورت رہتی تھی اس واسطے یہ علم ان میں پایا جاتا تھا.دوسرا ان کو اپنی زبان کا فخر تھا اور ان میں سے کا ہرایک شخص اپنی زبان کے کچھ نہ کچھ اشعار یاد رکھتا تھا.یہی ان سب کا مایہء فخر اور یہی ان سب کاما یہء علم تھا.اس بات پر بہت بحث ہوئی ہے کہ علم حساب سب سے اوّل کہاں سے نکلا ہے مگر مجھے اس وقت اس بحث میں پڑنے کی کچھ ضرورت نہیں.غرض یہ ہے کہ ہماری کتاب اس خدا کی طرف سے ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور اس کتاب کی تعریف میں فرماتا ہے کہ کوئی نیا علم ، کوئی نئی سائنس، کوئی نئی تحقیقات ایسی نہیں ہوسکتی جو اس کتاب کو باطل کرسکے.کوئی مشاہدہ کوئی تجربہ صحیحہ ، کسی زمانہ کی ترقی علوم ایسی نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے جو اس کتاب کی مبطل ہوسکے.نہ اس وقت اور نہ اس زمانہ کے بعد کوئی ایسا امر پیدا ہو سکتا ہے جو اس کو باطل کرسکے.آنحضرت ﷺ کا دامن قیامت تک وسیع ہے.یہ ایک بہت بڑادعویٰ ہے کہ قیامت تک کوئی ایسا امر پیدا نہ ہوگا جو کہ اس کتاب کا مبطل ہوسکے.قرآن ہمیشہ سچا پایا تیرہ سو۱۳۰۰ برس کی ترقیات کو میں نے دیکھا اور پڑھا ہے.یہ ترقی سائنس میںہو یا صوفیائے کرام میں ہو ہر ایک کے واسطے مسلمانوں میں بہت سامان موجود ہے.کیونکہ یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ تمام علوم جدیدہ کا ترجمہ عربی میں ہوجاتا ہے.غرض تمام موجودہ علوم کو میں نے دیکھا ہے ان سب کو پڑھ کر میں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان کو سچا پایا ہے.جو شخص قرآن کو ہاتھ میں رکھے اس کے واسطے کوئی مشکل نہیں.(البدر جلد ۷ نمبر ۳۱مورخہ ۱۳؍ اگست ۱۹۰۸ء صفحہ ۹)

Page 393

Page 394

Page 395

Page 396

Page 397

Page 398

Page 399

Page 400

Page 401

Page 402

Page 403

Page 404

Page 405

Page 406

Page 407

Page 408

Page 409

Page 410

Page 411

Page 412

Page 413

Page 414

Page 415

Page 416

Page 417

Page 418

Page 419

Page 420

Page 421

Page 422

Page 423

Page 424

Page 425

Page 426

Page 427

Page 428

Page 429

Page 430

Page 430