Language: UR
کے والدین کی رہنمائی کے لئے)
پیش لفظ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی نے وقف نو کی مبارک تحریک 3 اپریل 1987ء کو فرمائی.اس پر جماعت نے قریبا آٹھ ہزار بچے اس تحریک میں پیش کیئے.یہ تحریک نئی صدی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے اللہ تعالٰی اور اس کے برگزیدہ رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار تربیت یافتہ اولاد کا خدا کے حضور تحفہ پیش کرتا ہے.اس ضمن میں جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے حضور انور فرماتے ہیں.دوست یاد رکھیں اگلی صدی ایک بہت بڑی صدی ہے جو ہمارا انتظار کر رہی ہے اس میں بہت بڑے کام ہونے والے ہیں.اس صدی کے لوگوں نے ہم سے رنگ پکڑنے ہیں اور وہ رنگ لیکر انہوں نے اس سے اگلی صدی کی طرف آگے بڑھنا ہے." فرمایا " اس لئے میں نے گذشتہ سال یہ تحریک کی تھی کہ ہم غلبہ اسلام کی صدی میں داخل ہونے کیلئے اپنی منزل سے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں.......اگلی صدی میں اللہ اور رسول کے عاشقوں کا ایک قافلہ داخل ہو گا.......یہ ایسے لوگ ہوں جن کے دل عشق الہی اور عشق مصطفی سے بھرے ہوئے ہوں جن کے خون میں یہ عشق و محبت جاری ہو چکی ہو " اس صدی کی آمد پر خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے جو تحفہ ہم نے پیش کرتا ہے وہ ایسے بچوں کی کھیپ ہے جن کے دل اللہ اور رسول کے عشق میں سرشار ہوں جو مہذب اور بہتر بچے ہوں.حضور فرماتے ہیں: یہ تحریک میں اس لیے کر رہا ہوں تاکہ آئندہ صدی میں واقفین بچوں کی ایک عظیم الشان نوج ساری دنیا سے آزاد ہو رہی ہو اور محمد رسول اللہ کے خدا کی غلام بن کر اگلی صدی میں داخل ہو رہی ہو.اور ہم چھوٹے بڑے بچے خدا کے حضور تحفہ کے طور پر پیش کر رہے ہوں." خطبہ جمعہ فرموده ۳ اپریل ۱۹۸۷ء ) مزید فرمایا " بچوں کی یہ جو تازہ کھیپ آنے والی ہے اس میں ہمارے پاس خدا کے فضل سے بہت سا وقت ہے اور اگر اب ہم ان کی پرورش اور تربیت سے غافل رہیں تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے اور پھر ہر گز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اتفاقا یہ واقعات ہو گئے اسلے والدین کو چاہیے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خودگری نظر رکھیں اور بعض تربیتی امور کی طرف خصوصیت سے توجہ دیں اگر خدانخواستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنی افتاده و طبع کے لحاظ سے وقف کا اہل نہیں ہے تو ان کو دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جماعت کو مطلع کرنا چاہیے." خطبه جمعه فرموده ۱۰ فروری ۱۹۸۹ء) والدین سے میری پر زور اپیل ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے حضور پیش کرنے والے اس تحفہ کو مزین کر کے اس طرح پیش کریں کہ جس طرح خدا کی محبت کیلئے محبوب ترین چیز پیش کرنے کا حکم ہے.ایسا
تحفہ جس کی زنیت تربیت اور اصلاح میں ہم نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ہو اس غرض کیلئے حضور پر نور ایدہ اللہ تعالی نے جو ہدایت وقام فوقانہ جماعت کو عطا فرمائی ہیں وہ درج ذیل ہیں.را تضمین تو بیچوں میں -1 -2 -3 -4 -5 -6 +7 -8 -10 -11 خدا تعالی کی محبت پیدا کریں.اس کے محبوب اور برگزیدہ رسول کے وہ عاشق صادق ہوں.قرآنی تعلیمات سے وہ محبت کرنے والے ہوں.نماز کا التزام کرنے والے ہوں.قرآن مجید کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے ہوں.نظام جماعت کی اطاعت اور خلافت سے محبت کرنے والے ہوں.اعلیٰ اخلاق کے حامل ہوں وفا دیانت ، امانت، تقومی ، قامت تحمل، صبر برداشت محنت " بلند عزم نیز تمام بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنے والے ہوں.ان کو تقویٰ کے زیور سے آراستہ کریں.ان باتوں سے بچنے کی انہیں تلقین کی جائے.جھوٹ حصہ ہے ہورہ مذاق ' دوسروں کو حقیر علم کو وسیع کرنے کیلئے اچھے رسائل مکتب کے مطالعہ کی ان میں عادت پیدا کی جائے.اردو عربی زبان کے علاوہ چینی، روسی، بینش، فرانسیسی ، اور انگریزی زبان میں سے کوئی ایک زبان انہیں سکھائیں.میں ممنون ہوں کہ اس ضمن میں واقفین نو بچوں کی تربیت کیلئے نے ایک کوشش کی ہے.اللہ تعالی انہیں جزائے خیر عطا فرمائے میں امید کرتا ہوں کہ وقف نو کی تحریک میں بچے پیش کرنے والے والدین اس سے استفادہ کرتے ہوئے اور خدا سے عاجزانہ دعائیں کرتے ہوئے ان بچوں کی احسن رنگ میں تربیت فرمائیں گے.اللہ تعالی آپکی کوششوں کو بار آور فرمائے.جزاکم اللہ تعالی
م اللهِ الأَرْضِ الرم با نعنى فى امواله الريم وعلى عبده المسيح الموعود چند نکات جو ہر واقف نو کی والدہ کو مدنظر رکھنے چاہئیں تعارف یہ ہدایات بچے کے سکول جانے کی عمر سے پہلے کے لئے ہیں.رہا، ان میں وہ سادہ باتیں نہیں دہرائی گئی ہیں جو پہلے ہی اکثر بائیں جانتی ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات کو سامنے رکھ کر کچھ باتوں پر بحث کی گئی ہے.پر (۴) یہ خیال رکھا گیا ہے کہ ماں کی ایسی رہنمائی کی جائے جو چار سال تک بچے کی تربیت اور دیکھ بھال کے لئے ماں کے لئے مفید ہو.(۵) تربیت کو آسان.قابل عمل اور قابل قبول حصہ تک پیش کیا گیا ہے یہ ہدایات سب بچوں کے لئے یکساں نہیں.بچے کا ترسی لچکدار ہوتا ہے.اپنی ذات میں ہر بچہ منفرد ہوتا ہے.ہر نظریہ ہر بچہ کے لئے نہیں ہوتا.اس لئے DIVIDUAL DIFFERENCES/(انفرادی اختلافات) کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سے نظریہ کا کسی سچھ پر اطلاق ہو گا.اس بابرکت تحریک سے نہ صرف واقفی نو کی تربیت ہوگی بلکہ دیگر بہن بھائیوں ( SIBLES) والدین و دیگر افراد خانہ بھی کچھ نہ کچھ سیکھ سکیں گے اس طرح مثالی
احمدی گھرانوں کی تشکیل سے مثالی معاشرہ پیدا ہو گا.(1) یہ پیش کی ابتدائی سالوں کے لئے ہے یعنی سکول جانے کی عمر سے -SCHOOL) AGA قبل کے لئے.اس لئے اس میں ودیگر مسائل کا حل شامل نہیں.بچے کے ابتدائی چار سالوں کو اس طرح تقسیم کیا گیا ہے.پہلا دور.پیدائش سے قبل در سرادور.پیدائش سے کم پیشیں ایک سال کی عمر نک تیسرا دور.ایک سال سے دو سال کی عمر تک چونها دور.دو سال سے کم وبیش چار سال تک اس کے بعد بچہ سکول جانا شروع کر دیتا ہے.وہاں سے تعلیمی ماہرین کی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے.سکول سے قبل ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے.اس لئے ان کی مدد کے لئے یہ چند سطور کھی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ جب اولاد دیتا ہے تو پرورش و تربیت کا شعور بھی دیتا ہے.ہم کچھ مشورے پیش کر رہے ہیں جن سے عمومی طور پر ماؤں کو کسی قدر فائدہ ہو گا.اللہ تعالیٰ کی ایک سفت رب ہے یعنی تربیت کرنے والا.مرتی.یہی صفت وہ ماں باپ میں دیکھنا پسند کرتا ہے.والدین بچے کی جسمانی اور روحانی تربیت میں خدا تعالی سے دعا کر کے اس کی طرز پہ پیار محبت سے کام لیں.
پہلا دور PRE-NATAL PERIOD 1 وقف کرنے سے قبل جملہ مسنون دعاؤں کے علاوہ میاں بیوی کو آپس کے تعلقات غیر معمولی خوشگوار بنانے ہوں گئے.باہمی تعاون اور محبت کی فضا قائم رکھنی ہوگی.جذباتی تناؤ یا دباؤ بچے کے مزاج پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں.باہمی اعتماد محبت اور خلوص کے بغیر سیچھ کی شخصیت ادھوری رہ جائے گی.-۲ نہ صرف میاں بیوی بلکہ خاندان کے دیگر افراد کو بھی اس کار خیر میں حصہ لینا ہوگا.ماں کو غیر ضروری انگیخت اور جند باقی تناؤ سے بچانا ہو گا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا ہو گا.- شہروں کے علاوہ گاؤں اور قصبوں میں بھی واقفین نو کی ماؤں کا میڈیکل چیک آپ کرنے کا باقاعدہ انتظام ہو.متوازن غذا - آرام، ہلکی پھلکی ورزشی وغیرہ کے سلسد میں انہیں ہدایات بھجوائی جائیں اور ان پر عمل کو چیک کیا جائے.اگر میڈیکل مدد کی ضرورت ہوا اور کوئی اس کی استطاعت نہ رکھتی ہو تو اس کو مہیا کرنے کا انتظام کیا جائے.غذا تازہ پکی ہوئی ہو.فرج میں زیادہ دیر تک رکھی ہوئی غذائیں نہ استعمال کی جائیں.ہونے والی ماؤں کو ایسا لٹریچر یا کیسز مہیا کی جائیں جس میں خاص طور پر ایسا مواد ہے جس سے ان کی تربیت بھی ہو.خدا تعالیٰ سے محبت.قرآن کریم سے عشق ملل سے گہری وابستگی پیدا ہو.قرآن کریم کی تلاوت جہر آگرہیں کیونکہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ ایک ذہین جنین اپنی صلاحیت کے مطابق پیدائش سے قبل ہی بیرونی ماحول سے بہت کچھ اکتساب کر کے دنیا میں آتا ہے.اور بعد میں تعلیمی وتربیتی ماحول کو سازگار بنانے میں مدد دیتا ہے د تحریک وقت نو کے سلسہ میں جو خصوصیات حضور نے ان بچوں میں پیدا کرنے کی
ہدایات دی ہیں وہ ماں باپ کو بار بار ذہن نشین کرنی ہوں گی تا کہ وہ خود بھی اس معیار پرا جائیں جس پر پیج کو لانا ہے اگر وہ خود ہی اس معیار پر قائم نہ ہوں گے تو بچہ کو کس طرح اس معیار پر لا سکیں گے.4.ہونے والی ماں کے کمرے میں ٹی وی سیٹ نہ رکھا جائے تاکہ تابکاری کے اثر سے بو محفوظ ہے ، اور ماں بھی ٹی وی کم سے کم دیکھے اور فاصلے پر بیٹھ کر دیکھے.، کمرے میں خوبصورت بچوں کی تصاویر عموماً لگائی جاتی ہیں.ان کے علاوہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) اور خلفا کے سلسلہ و دیگر اکابرین سلسلہ کی تصاویر بھی لگائیں.۸.ماں اور باپ دونوں تربیت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ راہنمائی مانگیں.اور یہ دعا بھی مانگیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ نذر قبول فرمائے.دوسرا دور.پیدائش کے بعد.ایک سال کی عمر تک INFANTILE PERIOD تھے بچے کے متعلق یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ ابھی بچہ ہے اُسے کچھے علم نہیں بیجہ کی حیات بڑوں سے زیادہ تیز ہوتی ہیں.وہ غیر محسوس طور پر.بغیر کسی گوشش کے قرتی انداز میں ماحول سے بہت تیزی کے ساتھ اکتساب کرتا ہے اس لئے مندرجہ ذیل سے خصوصیات بڑی آسانی سے ان میں پیدا کی جاسکتی ہیں.پابندی وقت -: ہر بچہ قدرتی طور پر پیچ خیر ہوتا ہے.وقت پر اُسے بھوک لگتی ہے اور حوائج ضروری سے بھی کم وبیش وقت پر ہی فارغ ہوتا ہے سوائے بیماری کے.اس لئے اس مقررہ اوقات میں ہی اس کی ضروریات پوری کریں.آپ وقت کی پابندی کریں گی وقت پر سلا ئیں گی اور وقت پر نہلائیں گی.وقت پر دودھ دیں گی تو وہ اہم
خصوصیت اس عمر سے ہی اپنا لے گا.پاکیزگی : پاکیزگی کا احساس قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ بچے میں وقت پیشاب یا پاخانہ کرے اُسے فوری طور پر ڈھلایا جائے.گاؤں وغیرہ میں مائیں اکثر کپڑے سے پونچھ ڈالنے پر ہی اکتفا کرتی ہیں.اس سے جہاں پاکیزگی کا لحاظ متاثر ہو گا وہاں خارش اور بدبو پیدا ہوگی.خارش کی وجہ سے بچہ یا تو جھنجھلائے گا روئے گا اگر کچھ بڑا ہے تو خارش کرنے کی کوشش کرے گا.کھجانا بعض اوقات بُرے نتائج پیدا کر سکتا ہے.مثلاً ٹیڑے ہونے کے بعد جنسی بے راہروی.نیز ڈائپر اور PAMPERS پلاسک کے جانگیے صرف اشد ضرورت کے وقت ہی استعمال کریں.اس کی عادت بچہ میں پاکیزگی کا احساس پیدا نہیں ہونے دے گی.نیز PAMPERS کے استعمال سے چلنا سیکھنے والے بچوں کی چال بگڑ جاتی ہے بلخ کی سی چال ہو جاتی ہے.بچے پاؤں چوڑے کر کے چلنے لگتے ہیں.ضد سے محفوظ رکھنے کے لئے :.دودھ کے مقررہ اوقات ہر بچہ میں مختلف ہو سکتے ہیں.انفرادی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیشہ کو رونے سے قبل ہی خوراک دے دینی چاہیے.ورنہ اس کو رد کر ہی دودھ مانگنے کی عادت پیدا ہو جائے گی درونا خققہ کی علامت بھی ہوتا ہے.غصہ میں دودھ پینا نظام انہضام میں خلل ڈال سکتا ہے) رو کر مانگنے سے ضد کی عادت پیدا ہونے کا احتمال ہے.خود اعتمادی : بچہ پہلا قدم اٹھائے تو گھبراہٹ کا اظہار نہ کریں.اُسے گوشش کرنے دیں.گرنے پر بھی تشویش کا اظہار نہ کریں.ہائے کہ کہ اُسے خوفزدہ نہ کریں.بہادری در خوف سے محفوظ بچے بھی بہادر بن سکتے ہیں (بہادر لوگوں کی کہانیاں تو بعد میں پڑھ سکیں گے ) خوف سے محفوظ رکھنے کے لئے والدین کو علم ہونا چاہیئے کہ بچے کن چیزوں سے
خوف کھاتا ہے.تاکہ اس سے حفاظت کر سکیں.خوف کی ابتدائین باتوں سے ہوتی ہے.را تیز آواز : ہو اچانک پیدا ہو.مثلاً پیچھے کے پاس زور سے تالی بجانا کہ وہ چونک اٹھے.کوئی کسی SNPILLING آواز.تو در سے دروازہ بند ہو جاتا وغیرہ.بچے کو چونکا دیا اُسے خوفزدہ کر دینے کے مترادف ہے.اب گرنے کا احساس : کرنے کا احساس بچوں میں SENSE OF INSECURITY عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیتا ہے اور یہ چیز بھی خوف کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے.اس لئے بچے کو ایک ہاتھ سے اُٹھا نا مناسب نہیں.دیکھا گیا ہے کہ بچہ رو رہا ہے ماں نے پھیلا کر ایک بازو سے پکڑ کر اٹھایا تو بچہ اور زور سے رونا شروع کر دیتا ہے.اس لئے اس طرح اٹھایا جائے کہ وہ محسوس کرے کہ وہ محفوظ ہے.رج، تنہائی اور تاریکی یہ جب بچہ خود کو اکیلا محسوس کرے گا تو اُس میں خوف کی کیفیت پیدا ہو جائے گی.اسی طرح تاریکی میں بھی وہ اس لیے خوف زدہ ہو گا کہ اسے ماں یا کوئی بھی نظر نہیں آئے گا.اس لئے ماڈرن طریقے پر بچے کو اکیلے کمرے میں نہیں سلانا چاہیئے تا کہ جاگنے پر ماں کو نہ پا کر خوفزدہ نہ ہو جائے.دن کو بھی کام کرتے وقت ماں بچے کی نظروں کے سامنے رہے تاکہ اُسے احساس تحفظ ہے.اس طرح بچہ ماں کی نظروں کے سامنے بھی رہے.گہرا مشاہدہ : بچوں کی یادداشت حیرت انگیز ہوتی ہے.بقول ارسطو بچه کا ذہن صاف سلیٹ کی طرح ہوتا ہے.جو لکھ دیا گیا انمٹ ہو گیا.لیکن میں طرح ملیٹ کو علم نہیں کہ اس پر کیا لکھ گیا.مگر کھا گیا.اسی طرح سختہ نہیں جانتا کہ اس کے ذہین پر کیا کیا لکھا جا چکا ہے.کون کون سے نقوش قائم ہو چکے ہیں.جوں جوں وہ مجھدار ہوتا
جاتا ہے.وہ نقوش تجریہ اور INTU اور تصورات کی شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں بچے کے مشاہدات اور معصوم تجربات اس طرح اس کے ذہن میں قائم ہو جاتے میں جس طرح کمپیوٹر میں FEED کر دیا گیا ہو.حتی کہ نفسیاتی تجزیہ - Psyeme ANALYSES کے دوران بچہ کو پیدائش کا عمل بھی یاد آ جاتا ہے تکلیف کے 7 احساس کے طور پر فر TRAMATIC EXPERIENCE) چند ماہ کا بچہ دوسروں کی نظری پہچاننے لگتا ہے کہ کون اُسے خوش ہو کر دیکھ رہا ہے.جس کے جواب میں وہ مسکراتا ہے اس کے پاس آنے کی کوشش کرتا ہے جو اُسے غصہ سے دیکھے یا اُسے توجہ نہ دے وہ اس کی طرف سے منہ موڑ لیتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچہ سب کچھ دیکھا سمجھتا اور رد عمل کا اظہار کرتا ہے.اس لئے اس کے سامنے ہر کام ہر بات سوچ سمجھ کر اور احتب ط سے کرنی چاہیئے.عرض انفرادی اختلافات کے لحاظ سے بچہ اپنی صلاحیت کے مطابق اس عمر سے ہی مندرجہ ذیل باتیں سیکھ لیتا ہے یا سکھ سکتا ہے.ا.وقت کی پابندی.پاکیزگی و طہارت انفاست پسند بچھ گیلا ہوتے ہی رونے لگتا ہے) ضد نہ کرنا ۴ خود اعتمادی بہادری زبان سیکھنا دو عمل کا اظہار د - نقل کرنے سے سیکھنے کا رحجان اس عمر سے اس کا تعلیمی سلسلہ بھی شروع ہو جانا چاہیئے.
تعلیمی سلسلہ ، چھوٹے چھوٹے جملے مذہبی اور اخلاقی قسم کے اس کے سامنے اکثر و بیشتر دوہرا نے شروع کر دینے چاہئیں.مثلاً اللہ ایک ہے "."ہم احمدی ہیں وغیرہ ترینی سلسلہ : دودھ پلاتے، کپڑے پہناتے وقت بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنا.پہلے دایاں ہاتھ دھلانا.پہلے دائیں پاؤں میں جراب یا جوتا پہنانا.پہلے دائیں استین پہنانا اس کی فطرت ثانیہ بن چکی ہوگی.ہوش آنے پر سکھانے میں زیادہ محنت اور وقت درکار ہوگا.شریعی اور اخلاقی کردار عملی تربیت سے راسخ ہوگا.مشہور ماہر نفسیات PAVLOVE کی زبان میں یہ چیز CONDITIONING کہلاتی ہے سلا در وجہ پی چکنے کے بعد الحمد اللہ کہے گی تو بچے کی یہ فطرت بن چکی ہوگی.بعد میں سکھانے کی ضرورت ہی نہ ہوگی.روحانی تربیت رسوتے وقت باآواز بلند سورۃ فاتحہ ، تینوں قتل اور درود شریف تین بار پڑھ کرا در سنت کے طور پر بچے پر پھونک مار دی جائے.انشاء اللہ تعالی خود اللہ تعالیٰ بچے کی تربیت کا ضامن بن جائے گا.یا د ہے کہ انسان خود بچے کی تربیت نہیں کر سکتا جب تک اللہ تعالی مدد نہ کرے.ایک احمدی خاتون نے بنا یا کہان کے ہاں شادی کے سات سال بعد دعاؤں کے نتیجے میں بیٹا پیدا ہوا.ماں باپ نے اس پر بڑی محنت کی اور تہیہ کر لیا کہ ایسی تربیت کریں گے کہ چاند میں واقع ہے اس میں نہ ہو گا.وہ فرماتی ہیں کہ میں نے تربیت کے معاملہ میں خدا کی ہستی کو بھلا دیا اور اپنی تربیت پر بھروسہ کر لیا.چنانچہ ساری محنت رائیگاں گئی.ان لله وانا اليه راجعون اخلاقی تربیت ، بچے کے ہاتھ میں کھلونا یا چیز دے کر اس سے دوسروں کو لڑانے
کی کوشش کریں دے دینے پر پیار کریں.شاباش دیں.آہستہ آہستہ وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنار SHARE) کرنا سیکھ لے گا.درنز بچه خیلی طور پر POSSESIYE ہوتا ہے.وہ کوئی چیز دینا پسند نہیں کرتا.بلکہ دوکر بچوں کے ہاتھ سے چھینے کی کوشش کرتا ہے.بچے کے ہاتھ سے آپ خود بھی چیز چھینے کی کوشش نہ کریں.اگر کوئی چھری قینچی وغیرہ قسم کی چیز بھی پکڑے تو حکمت عملی سے حاصل کریں.تیسرا دور ایک سال کی عمر سے دو سال کی عمر تک سیکھانے کی عمر کا تعین حتمی نہیں ہوتا.اصل میں بچہ کی 0 تو پر ہوتا ہے یا دوسر منظوں میں فطری رحجانات پر ہوتا ہے.کچھ بچے آسانی سے سیکھ لیتے ہیں.کچھ مشکل سے سیکھتے ہیں.اور کچھ نسبتا دیر سے سیکھ لیتے ہیں.یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ہر سچہ ایک عمر کا یکساں طور پر نہیں سکھے گا.اس فرق سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں.ہر بچہ کی فطرت اور صلاحیت ایک دوسر سے مختلف ہوتی ہے جو اندازے پیش کئے گئے ہیں یہ اوسط درجہ کے بچے کے.ے لئے ہیں.اس میں کمی بیشی عمر کا فرق - اکتاب کی مقدار مختلف ہوگی نیز ایک سال کی عمر ایک حتمی حد نہیں.کوئی بچہ 1 ماد چلنے لگتا ہے کوئی ڈیڑھ سال کا ہو کر چلنے لگتا ہے.جب بچہ چلنا شروع کرے تو اسے واکر میں بالکل قید نہ کر دیا جائے.بعض مائیں بچوں کو میلا ہونے سے بچانے کے لئے اُسے پہلے ہی واکر میں بٹھا دیتی ہیں.یہ قدرتی اور فطری طریقہ نہیں.کمرے قالین پر ، فرش پر گھاس پر تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ دیں تاکہ وہ اپنی مرضی سے حرکت (MOYE) کر سکے.ہاں خیال ضرور رکھیں کہ وہ کوئی چیز اٹھا کر منہ میں نہ ڈال لے رینگ کر چلنے کا ارتقائی دور ضرور آنے دینا چاہئیے.ژاں شراک روسو کا کہنا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر بندھنوں میں قید
کر دیا جاتا ہے.اُسے فطری تعلیم ملنی چاہئیے.کم وبیشیں فطری ماحول نہیں کرنا چاہیئے تمدنی تکلفات میں نہیں جکڑنا چاہیئے.ڈا پر ز اور PAMPERS کسی دیئے جاتے ہیں.تنگ اور نیٹ کپڑے پہنا دیئے جاتے ہیں.بچہ اظہار تو نہیں کر سکتا مگر اس کے چہے.سے بے اطمینانی جھلکتی ہے.موسم کا خیال کئے بغیر سوٹے یا واش اینڈ ویر کپڑے چڑھائیے جاتے ہیں تاکہ بچہ سمارٹ نظر آئے.بچہ ان پابندیوں میں بے چینی محسوس کرتا ہے تو وہ چڑ چڑا.بد مزاج اور رونے والا بچہ بن جاتا ہے بچہ کو چڑ چڑے پن اور ضدی پن سے محفوظ رکھنے کے لئے اسے بار بار لو گنا.منع کرنا.مضر اشیاء ہاتھ سے چھیننا نہیں چاہیے.یہ عمر اس لحاظ سے سخت آزادانش کا دور ہوتا ہے.بچہ کچھ کرنا چاہتا ہے.مگر ہر وقت ماں باپ اس کو روکتے تو کتے ہیں کہ یہ نہ کرو.یہ نہ پکڑو.ادھر مت جاؤ.اوپر مت چڑھو گر جاؤ گے.رینگنے اور قدم قدم چلنے کا دور ماں باپ کے لئے بہت مسائل پیدا کرتا ہے.اس کے چلنے سے نوش بھی ہوتے ہیں اور بیزار بھی.یہ بات سچ نوٹ کرتا ہے لیکن تضاد کو سمجھ نہیں پاتا.ہو ہشیار بچے کے لئے خطر ناک ہوں یا چیزوں کے نقصان کا اندیشہ ہو ان کو محفوظ مقام پر رکھ دیا جائے تاکہ نہ تو بار بار منع کرنے اور روکنے سے بچہ کی طبیعت میں چڑ چڑا پن آئے گا.اور نہ ہی ماں کے اعصاب پر تناؤ کی کیفیت طاری ہوگی.اس دور میں بچہ بولنا بھی شروع کر دیتا ہے.اب آپ جو چاہے بولنا سکھائیے اس کی VOCABULARY ذخیرہ الفاظ میں ایسے الفاظ ) FEED) ڈالے جن کی ہمارے واقفین کو کو ضرورت ہے.اخلاقی.مذہبی شرعی اصطلائیں.مثلاً اللہ تعالی رسول الله ، نماز، قرآن کی اصطلاحیں.یوں تو اس عمر میں سمجھ گالی بھی دے تو بہت پیارا لگتا ہے.سب بار بار گالی سننے اور خوش ہوتے.یا ایسی باتیں جو تا زیبا ہوتی ہیں لیکن بچے کے منہ سے بڑی نہیں لگتیں.کچھ عرصہ بعد انہیں باتوں اور گالیوں پر ڈانٹ پڑنے
لگتی ہے تو کچھ حیران ہو جاتا ہے اور ایک المین کا شکار ہو جاتا ہے کہ پہلے اسے اسی بات پر داد ملتی تھی اب ڈائٹ کیوں ملتی ہے پہلے دن ہی سے نازیبا بات با حرکت کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے.اس کے لئے بہتر ہے کہ بچہ کی منفی بات یا حرکت کا نوٹس ہی نہ لیا جائے.بچہ خود بخود اس کو ترک کردے.داد سے دہرائے گا پھر چھڑوانا قدرے مشکل ہوگا.تقلیدی جبلت کے تحت اس دور میں سمجھ ماحول سے بہت زیادہ اکتساب اور اثر قبول کرتا ہے ، اسی دور میں قوت حافظ بے حد تیز ہوتی ہے.عمر کے مقابلے میں قوت بھی زیادہ ہوتی ہے.البتہ ذہنی بصیرت نہایت کم ہوتی ہے اس لئے اس کی صلاحیت قوت کو تقلیدی جبلت سے ہم آہنگ کر کے اس کے سامنے ہمیں مثالی کردار پیش کرنا ہوگا.بڑے بہن بھائیوں اور دیگر اہل خانہ سب کو محتاط ہو کر عملی نموز پیش کرنا ہو ا.ایک واقف تو کی برکت سے باقی اہل خانہ بھی تربیت کا عملی نمونہ پیش کرتے کرتے خود ہی تربیت یافتہ ہو جائیں گے.درس کر معنوں میں سچہ ہماری تربیت کر ڈالے گا انشا اللہ ہوتے ہوتے اسلامی معاشرہ تشکیل پا جائے گا.جھوٹ سے بچانے کے لئے یہ نکتہ ذہن میں رہے.بچہ جھوٹ بلکہ ہر برائی سے نا آشنا ہوتا ہے.بعض برائیاں جیلی تقاضوں کی تربیت ( TAME ) نہ کرنے کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں.لیکن بچوں کو جھوٹ بڑے سکھاتے ہیں اس کی تہہ میں براہ راست کوئی جبلت ملوث نہیں ہوتی.اول تو یہ ہے کہ سزا کے خوف سے جھوٹ بولے گا.دوم لالچ دینے سے وہ جھوٹ سیکھ جائے گا.مثلاً بچھو سے کہا جائے کہ اگر تم نے یہ حرکت کی تو پانی ہوگی.یا بابا آجائے گا.کوئی مثبت کام کرمانے کے لئے ٹافی کھلونے یا اس کی من پسند چیز دینے کا لالچ دیا جائے تو وہ سزا سے بچنے کے لئے یا انعام حاصل کرنے کے لئے اپنی ذہانت کی بنا پر
جھوٹ بولے گا جھوٹ کا فی الحال تعارف ہی نہ کروائیں اسے نا آشنا ہی رہنے دیں.یاد رہے کہ جب بچہ بولنا سیکھتا ہے تو بہت سی باتیں آپ کو ایسی بنائے گا جو فرضی ہوں گی.بے ربط اور حقیقت سے دور.یہ جھوٹ نہیں.یہ اس کا تصور جو نا پختہ ) ہوتا ہے.وہ با آواز بلند سوچتا ہے جتنی فرضی اور بے سروپا باتیں سنائے گا اتنا ہی اس کا تصور وسیع اور زرخیز ہو گا.ایسا بچہ بڑا ہو کر تخلیقی کام کرنے کا اہل ہوگا.اس لے جھوٹ اور تصور میں فرق سمجھ لیں.بچوں کو ایسی کہانیاں سنائی جائیں جن میں نیکی بدی پر فتح پاتی ہو.برائی کا انجام برا ہو.اس ضمن میں ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ بچہ کو دوزخ کے تصور سے اس قدر نہ ڈرایا جائے کہ بڑے ہو کر بالکل تعمیر کا مجرم بن جائے.بعض مائیں بات بات پر جہنم کی آگ اور دیگر تفصیلات سے اس کی چھوٹے بچوں کو ڈراتی رہتی ہیں.ایسے بچوں میں مکنت پیدا ہو جاتی ہے.خود اعتمادی کم ہو جاتی ہے.نیکی بدی میں اتنا زیادہ امتیاز کرنے کی وجہ سے انہیں ڈرتا ہے کہ کہیں یہ بات بھی تو نہیں.یہ انتہائی حالت سخت مضر اثرات شخصیت پر چھوڑتی ہے.دوزخ کا تعارف اعتدال کی حد تک کر دیا جائے.صیر کی عادت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ فوری طور پر پستہ کی خواہش یا ضرورت پوری نہ کریں بلکہ اسے اُمید دلائیں کہ ابھی تھوڑی دیر کے بعد ثانی بسکٹ دیا جو بھی وہ مانگ رہا ہو) دیں گے ابھی ٹھہرو “ وقت میر کا اہم جز ہے.چوتھا دور ۲ سال سے ۴۲ سال کی عمر تک جیب کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ بچہ تقلیدی جبلت کے تحت ہر وہ چیز سکھے گا جو دہ دیکھتا ہے.نیز یہ کہ اس کی قوت حافظہ بہت تیز ہوتی.اس میں غیر معمولی طاقت (وہ دعا
ہوتی ہے جس کو وہ ہر وقت حرکت کی حالت میں رہ کر مسلسل بول کر خارج DISCHARGE کرتا رہتا ہے.وہ دیکھتا ہے سیکھتا ہے اور ان تجربات کھو زندگی بھر کے لئے محفوظ کر لیتا ہے.دوسرے الفاظ میں اس کی مکمل تربیت کا آغاز گھر کے ماحول اور افراد خانہ کے عملی نمونہ اور کردار سے ہو جاتا ہے.اس کی شخصیت پر براہ راست گہرا اثر ثبت ہو جاتا ہے.اگر مندرجہ ذیل نکات بھی مد نظر رکھے جائیں اور ذراسی احتیاط برتی جائے تو مثبت نتائج برآمد ہوں گے.انشاء اللہ.مثلاً.حسد سے بچانے کے لئے سب بچوں سے یکساں سلوک کریں.واقف نو کو غیر ضروری ترجیح نہ دیں تاکہ وہ نہ تو احساس برتری کا شکار ہوا اور نہ ہی دو کے بہن بھائی احساس کمتری کا شکار ہوں.اور نہ ہی واقف کو کمتری کا شکار ہوں.اور نہ ہی واقف نوکستری کا شکار ہو کہ دو کر بچوں سے حسد کرنے لگے.اور زیادہ شدید حالات میں نفرت کرنے گے.زیادہ ہے کہ غیر معمولی روتیہ ABNORMALITY صرف نفرت اور محبت کے ر در میان کشمکش کی حالت میں پیدا ہوتی ہے ) اس عمر میں ذہنی بصیرت کا فقدان ہوتے کی وجہ سے بعض اوقات وہ معاملہ کی اصل نوعیت کو سمجھے بغیر احساس محرومی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے اثرات ساری عمر باقی رہتے ہیں.ضد سے بچانے کے لئے اسے مناسب توجہ دیں.اکثر بچت NEGLECT ر ہے تو جنگی) کی وجہ منہ کرتا ہے.صد کی نویت ہی نہ آنے دیں.اگر جائز یا بے ضرر خواہش ہو تو جلد پوری کر دیں.دوسری صورت میں اس کی تشفی کسی اور صورت میں کی جائے اگر بفرض محال بچہ ضد پر اتر ہی آئے تو اس کی ضد پوری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ بات اسی انداز میں منوانے کا عادی ہو جائے گا.ایک ماہر نفسیات PAR Lor۴ کی زبان میں صد کی یعنی فطرت ثانیہ بن جانے کا خطرہ لاحق رہے گا.CONDITIONING
وقت صبر کا اہم جز ہے.یہ وقت جتنا طویل ہو گا اتنا ہی صبر کا مادہ پیدا ہو گا.مثلا پھل خریدا گیا ہے.بچہ فوراً مانگے گا.اسے سمجھائیں کہ یہ دھوئے جائیں گے پھر کھانے کے بعد کھائے جائیں گے.اسی طرح باقی مطالبات بھی کبھی جلد پورے کریں کبھی دیر سے اور بعض مطالبات نہ بھی پورے کریں مثلاً چاند کا مطالبہ جو کبھی پورا مومی نہیں سکتا.دوسرا طریق یہ ہے کچھ مقدار چیز کی بچہ کو دے دی جائے اور باقی کے لئے اسے سمجھائیں کہ اب وہ کل ملے گی یا شام کو ملے گی.اس انتظار میں صبر کرنا سیکھ جائے کبھی اسے کہا جائے کہ دوسے بہن بھائی اسکول سے واپس آئیں گے تو اس وقت چیز ملے گی.اس طریق سے اسے صبر کرنے کے ساتھ دوسروں کے ساتھ SHARE (حصہ بانٹنے) کرنے کی عادت بھی پڑے گی.مل جل کر بانٹ کر کھانے کی تربیت بھی ملے گی.سیرا نا زیادہ نہ کر وایا جائے کہ بچہ ضد پر آ جائے.اس موقع پر انفرادی اختلافات " کے نظریہ کو مد نظر رکھا جائے.کوئی بچہ زیادہ دیر تک صبر کر سکے گا.کوئی تھوڑی دیر اور کوئی بے صبر بچہ ہند پر آجائے گا.غصہ برداشت کرنے کی عادت ڈالنے کے لئے بچے کو غصہ کی نوبت ہی نہ آنے دیں.ضد میں رونا در اصل غصہ کی علامت ہے.ہند سے محفوظ رکھنے کا ذکر پہلے آچکا ہے.اس لئے غصہ سے بچانا در حقیقت اس کیفیت کا موقع ہی نہ آنے دیتا ہے اسی طرح دیگر منفی جذبات پر قابو پانے کا ایک طریقہ یہ ہی ہے کہ بچہ اس AGITATED STATE (بھٹ کی ہوئی حالت) سے نا آشنا ہی ہے.بھڑ کے ہوئے جدیوں کو کنٹرول کر ناشکل ہے.اس لئے بہتر ہے کہ ان کو مشتعل نہ ہونے دیا جائے منفی جذبوں کے لئے ارتقائی CHAWWALS (راستے) ڈھونڈنے ہوں گے.بعد میں سیلاب پر بند باندھنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا.عزم و ہمت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کی بے ضرور سر گر میوں میں روک
لوک نہ کی جائے.بلکہ انہیں آسانی بہم پہنچائی جائے اور رہنمائی کی جائے.مثلاً ہر بچہ کو سیڑھیاں چڑھنے کا بہت شوق ہوتا ہے.اور سر ماں اس موقع پر خوفزدہ ہو جاتی ہے.جونہی بچہ رینگنا شروع کرتا ہے وہ سیڑھیاں چڑھنا چاہتا ہے.بعض دفعہ چوٹ بھی لگ جاتی ہے.ایسے موقع پر چیخ و پکار اور وحشت کا اظہار نہ کریں بلکہ حوصلہ اترائی کریں.خود حفاظت کے لئے تیار رہیں.گرتے پر واویلا کرتا.پریشانی کا اظہار اس کو پست ہمت بنادے گا.بے ضرر سر گرمیوں پر خوانخواہ ٹوکنے سے خوف دلانے اور ڈرانے سے بچہ بزدل ہو جائے گا.ساری عمرکش مکش کا شکار رہے گا.کوئی بھی نیا قدم اٹھانے اور کوئی کام شروع کرنے سے قبل تذبذب کا شکار ہو جائے گا.خوف کا احساس اس پر غالب رہے گا.عنا پیدا کرتا اور میر کا جذبہ پیدا کرنا تقریباً ہم معنی چیزیں ہیں.بعض مائیں بچوں کاندید اپن دور کرنے کے لئے انہیں سیر کرنا چاہتے ہیں.لیکن اس سے لانچ اور ہوس پیدا ہوتی ہے.لالچ اور ہوس سے محفوظ کرنے کے لئے صبر کی تربیت ہی کافی ہے.موجودہ دور میں بچہ کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اس کے نتائج بالکل منفی پیدا ہوتے ہیں.بچہ کی ہر خواہش پوری کرنے کے نتیجہ میں لالچ ، سوس، بے تیسری بعد میں ضد غصہ نفرت سب اسی وجہ سے ہے بچے کی ہر خواہش پوری کرنے کے نتیجہ میں بچہ عملی دنیا میں ناکام انسان بھی ثابت ہو سکتا ہے اور احساس محرومی کا شکار بھی.کیونکہ حقیقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ جو خواہش پیدا ہو وہ پوری بھی ہو.بلکہ ہر جگہ رکاوٹ میں نا موافق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.جدو جہد کے بعد بھی ضروری نہیں کہ نیز ۱۰۰ کامیابی حاصل ہو.اس لئے بچہ کو تربیت دینی ہوگی کہ اس دنیا میں تمام خواہشات پوری نہیں ہوتیں.کوئی خواہش پوری ہوتی ہے اور کوئی نہیں ہوتی.اس لئے بڑی حکمت عملی کی ضرورت ہے کہ بچہ مند بھی کرے اور مثبت انداز میں اس بات کو قبول کرلے کہ کبھی کبھی کوئی چیز نہیں بھی ملتی.
قناعت بھی مندرجہ بالا نکتہ سمجھنے سے ہی پیدا کی جاسکتی ہے.بچہ کو جو دینا ہے وہ دے کر سمجھا دیں کہ میں تمہارا حقہ اتنا ہی ہے.اس سے زیادہ نہیں ملے گا جب وہ اپنے حقہ پر اکتفا کرنا سیکھ لے گا اس میں آہستہ آہستہ قناعت کرنے کی عادت بھی پیدا ہو جائے گی.امانت و دیانت کی صنعت بچہ کی صفتنہ سے فی الحال با ہر ہے.مگر وہ سیکھ سکتا ہے کہ جب کوئی کھلونا یا کوئی چیز جب اسے دی جائے کہ اس سے کھیلو.کھیلنے کے بعد اس سے مانگ میں اس یقین دہانی پر اسے جب چاہے گا مل جائے گی.دوبارہ دیں پھر واپس ہیں....اس طریقہ سے وہ رکھی ہوئی چیز یالی ہوئی چیز واپس دینا سیکھ لے گا.اطاعت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بات بھی حکمت عملی سے منوائی جائے.ورنہ اس دور میں اطاعت گزار والدین پائے جاتے ہیں بچے نہیں.ادھر بچے نے کوئی مطالبہ کیا ادھر اسے پورا کر دیا گیا.اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے بیچ سے چھوٹے چھوٹے کام کروائیں چاہیے بلا ضرورت ہی ہوں.مثلاً یہ چیز وہاں رکھ دو.دو چیز لے آؤ.اس چیز کو نہ چھیڑو.اس قسم کی پریکٹس سے اسے کہنا ماننے کی عادت ہوگی.مانٹی سوری طریقہ تعلیم کی خوبیوں کو اپنا نا ہوگا اور اس کی خامیوں کو دور کرنا ہو گا.مندرجہ بالا تعلیمی وتربیتی و اخلاقی اور دینی امور پر مینی خصوصیات کو مثبت مانٹی سوری طریقہ تعلیم سے ہم آہنگ کر کے ایک نیا تعلیمی طریقہ یا نصاب بنانا ہوگا.مانٹی سوری طریقہ تعلیم کی ایک بڑی خامی جو اس کا بنیادی طریقہ تدریس ہے.وہ یہ ہے کہ بچوں کو بالکل کھلی فضا بغیر کسی دباؤ اور تحکم ( DIRECTION ) کے مہیا کی جاتی ہے تاکہ بچوں کے جوہرکھیں اور خود اعتمادی پیدا ہو لیکن اس طریقہ تدریس کی اور خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان میں اطاعت کرنے کا مادہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے.وہ اپنی جیلی تقاضوں کے مطابق سکول میں وقت گزارتے ہیں ان کے جیلی تقاضوں کو TAME
(تربیت سبھانا نہیں کیا جاتا.اگر پہلے جیلی تقاضوں کو نشو و نما ( ALOUP / S4) پانے کا موقع دیا جائے اور کوئی روک ٹوک نہ ہو تو بعد میں ان کو قابو کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ اس طرح کی فضا میں ایک درکہ پر برتری حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے.مگر یہ معاملہ میں کی لاٹھی اس کی بھینس کا سا ہو جاتا ہے.پھر یہ بھی خیال کیا جاتا ہے.اس فضا میں لیڈر بنتے ہیں.سارے تو یہ نہیں بن سکتے جس میں فطری رحجان ہوگا اس کو منا سبب ماحول ملے گا تو وہی بن سکے گا.اور اگر سارے لیڈر بن بھی جائیں تو سب پاکستانی لیڈر نہیں گے.افہام و تفہیم، در گذر ، وقت کا تقاضا ان کی سمجھ سے بالا تر ہو گا.ہمیں جیلی تقاضوں کے سیلاب بننے سے قبل ہی بند باندھنے ہوں گے.یہی تربیت کا زمانہ ہے.کیونکہ بچوں کو آزاد چھوڑنے سے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ منفی پہلو بھی پہنیں گے اور زور پکڑیں گے.مثبت پہلوؤں کو ( TPACE) تلاش کر کے ان کو ابھارتا ہوگا اور منفی پہلوؤں کی حوصلہ سکتی کرنی ہوگی.استاد کو بڑی ہوشیاری سے یہ دیکھنا ہو گا کہ کون سا بچہ غصے سے بے قابو ( AGRESSIVE ) ہو رہا ہے.اسے تھوڑا (UNDER PRESSURE) دربار میں رکھتا ہو گا.کون سا چہ دباؤ کا شکار ہو رہا ہے اُسے حوصلہ دلانا ہوگا اور ENCOURAGE کرنا ہوگا.ہر بچہ کو انفرادی توجہ دے کر اس کی ذہنی صلاحیت و جسمانی قوت کو اس کی استطاعت کے مطابق استعمال کرنا ہوگا.جو ٹیسٹ کے بغیر بھی گہرے مشاہدے سے معلوم ہو جاتا ہے جب بچے کلاس میں ہوں یا کھیل رہے ہوں کہ کون سے سمجھ میں کون سی صلاحیتیں نظر آ رہی ہیں.
ہر کچھ کے بارے میں ریکارڈ رکھا جائے اور پھر ساتھ ساتھ اس کے میلان اس کی تحقیات اور ان میں کمی بیشی اور ان کی وجوہات بھی معلوم کر کے ریکارڈ رکھی جائیں.ٹیچرز ترجیعی طور پہ ماں نہیں ہونی چاہیئے.تاکہ 08TECTIVELY مشاہدہ کرسکے حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ماں اپنے بچوں کے لئے جتنی شفیق ہوتی ہے.دو کہ بچوں کے لئے اتنی ہی نقاد ہوتی ہے.سب سے ضروری بات دعا ہے.ماں باپ ہر لحہ بچوں کی دین و دنیا میں بھلائی کے لئے دعا کرتے رہے.دعا سے دلوں میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے.خدا تعالیٰ اس خدا کی راہ میں وقف فوج سے اُن منصوبوں سے بڑھ چڑھ کر ترقی دے جو اس وقت محترم امام جماعت کے ذہن میں ہیں.آمین ہے اظہم آمین