Language: UR
سب جانتے ہیں کہ انسان بالطبع نمونہ کا محتاج ہے اور بغیر نمونہ کے کام کرنے میں مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے، بولی، لباس اور طرز بودوباش میں نمونہ کی احتیاج سے زمانہ آگاہ و قائل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے نوع انسان کو نجات کا باعث بننے والی تعلیم بخشی تو ساتھ ہی بطور احسان اپنے محبوب وجود حضرت محمد ﷺ کو پیش کیا کہ یہ انسان کامل ہے اس کے نمونے کی نقل کر کے فلاح پاؤ۔ حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں،شعبوں، تعلقات او رحالتوں کے لئے نبی کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی سے واقعات جمع کرکے یہ گلدستہ سجایا ہے جس سے آپ ﷺ کا انسان کامل ہونا کھل کر ظاہر ہوتا ہے۔ اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ موجودہ ایڈیشن جماعت احمدیہ کینیڈا کا شائع کردہ ہے۔
انسَانِ كَامِلُ مُؤلّفه فاضل ہے بدن منا میرمحمد اسحاق صاحب " جسے جماعت احمدیہ کینیڈا نے شائع کیا
پہلا اندیشین شه 1901 یرا پرشین 100 تند و - میرا اندیشین ۱۹۸۹ 1919 تعداد ۱۰۰۰ شر شهر نشر و اشاعت جماعت احمد یہ کنڈا.با حد احمد والا پر Printed at the Fazl-i-Umar Press.P.O.Box 338, ATHENS.OH 45701
77 3> > > ۲۱ Pl ۲۲ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۴ ۲۵ Ya ры ۲۷ انسان نمونہ کا محتاج ہے کامل نمونہ دنیا میں صرف ایک شخص ہے کامل نمونہ کی شناخت کا عقلی معیار انسانوں کے تمام عمالات کا نقشہ کابل مون پر تمام حالات کا ورو د مروری ہے عقام معیار پر رشیوں کی عدم مطابقت عقلی معیار پر صبح کی عدم مطابقت عتقال معیار پر آنحضرت صمصام کی کمی مطابقت یتیموں کیلئے کابل نمونہ آنحضرت والدین والے پنجوں کیلئے کامل نموند آنحضرت نخروں کیلئے کامل نمونہ آنحضرت دولتمندوں کیلئے کامل نمونہ آنحضرت میانو مون کے لئے کامل نمونہ آنحضرت حاکموں اور بادشاہوں کیلئے کامل نمونہ ہیں حضور کے روزمرہ کا پروگرام آنحضرت مساہل لوگوں کیلئے کامل نمونہ بیت المال کے متعلق حضور کی احتیاط حضور کا قومی کاموں میں بطور مزدور حصہ لینا انڈیکس مضامین ་ A A ۱۳ ۱۴ 14 14 | Lin بدر کا واقعہ آنحضرت مجردوں کیلئے کامل نمونہ آنحضرت شادی شدہ کیلئے نمونہ آنحضرت عورتوں کیلئے کامل نمونہ صاحب اولاد کیلئے کامل خونه اولاد فوت ہونے پر صبر کا کامل نمونہ آنحضرت کے اکلوتے بیٹے کی وفات بنور بی تیل اور فاتح کے کامل نمونہ بطور کتبہ والے کے کامل نمونہ بنور دوست کے کامل نمونہ انکسار کا کامل نمونہ بطور قیدی آپ کامل نمونہ زندگی کی تمام مزاوں میں کالا نمونہ غال اموان سے سلوک آپ کی مظلومیت آپ کے عقد کا کامل نمونہ آنحضرت اور حضرت یوسف کے عضو کا مقابلہ
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكرنيم محَمدُهُ ع دنیا کیلئے کامل نمونہ انسان نمونہ کا محتاج ہے انسان بالطبع نمونہ کا محتاج ہے اور بغیر نمونہ کے کوئی کام بھی انسان نہیں کر سکتا.اس کی ہوئی نمونہ چاہتی ہے اس کا لباس نمونہ چاہتا ہے.اس کی طرز و بود باش نمونہ کی مقتضی ہے.غرض انسان اپنی ہر حرکت و سکون میں کسی کو نمونہ بنانے کے بغیر کبھی کچھ نہیں کر سکتا.اور میں طرح ہر فرد ایک نمونہ کا محتاج ہے اسی طرح جب تک دنیا کی قومیں آپس میں ملی نہ تھیں تو ہر قوم کو اپنے لئے ایک نمونہ کی ضرورت تھی.اور آج جب کہ مغربی ایجادات کی وجہ سے ساری دنیا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک برادری کے حکم میں ہو گئی ہے تو ساری دنیا ایک نمونہ اور اسوہ کی شدید ترین محتاج ہے اور نمونہ وہی ہو سکتا ہے جو تمام امور میں کامل ہو.ورنہ اگر وہ کسی بات میں ناقص ہو گا تو لوگ اس کے نقص پر چل کر بجائے کامل ہونے کے ناقص اور بجائے اچھا بنے کے بڑے بن جائیں گے.اس لئے نہایت ضروری ہے کہ نمونہ اس کو بنایا جائے جو تمام اوصاف میں کامل اور تمام باتوں میں احسن اور تمام امور میں افضل ہو.جس کی ہر بات اچھی ہو.جس کا ہر فعل قابل تقلید ہو.اور ایسا شخص وہی ہو سکتا ہے جس کی زندگی ہر طرح کے دانوں سے پاک اور ہر قسم کے دھبوں سے صاف ہو.کیوں کہ اگر خود اس کی زندگی پاک وصاف نہ ہوئی تو لوگ کس طرح اس پر اعتماد کر سکیں گے.غرض کامل نمونہ کے لئے دو امر ضروری ٹھہرے.ایک یہ کہ اس کی زندگی معصیت کے داغ سے مبرا ہو.دوم یہ کہ اس کی زندگی کمالات اور
انسان کامل پسندیدہ امور سے بھری ہوئی ہو اور زندگی کے ہرشعبہیں اس کے افعال قاب تقلید مثال پیش کرتے ہوں..کامل نمونہ دنیا میں صرف ایک شخص ہے རྐུ اس قطعی اور یقینی تمہید کے بعد ہم تمام دنیا میں یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے بہت غور و فکر اور تلاش و جستجو کے بعد ایک ایسا شخص تلاش کر لیا ہے.جسے بغیر کسی شک وشبہ کے اور بغیر کسی اد نے تامل و تشویش کے تمام دنیا کے لئے کامل نمونہ اور مکمل اسوہ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں اور وہ شخص وہ ہے جس کے متعلق ہم نہیں بلکہ ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمُ في رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةُ - یعنی اب دنیا کے لوگوں کے لئے اگر کوئی کام نمونہ ہوسکتا ہے تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود اور آپ کی ذات بابرکات ہے.اور چونکہ کاس نمونہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام معائب سے پاک ہو.اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فَقَد لبنت فيكم عمرًا مِنْ قَبْلِهِ اَفَلَا تَعْقِلُونَ.یعنی اسے نبی تو تمام دنیا میں اعلان کر دے.کہ نبوت و رسالت سے قبل کی زندگی بھی تمام معائب اور معاصی سے پاک ومترا ہے.کوئی ہے جو میری زندگی میں کوئی نقطه چینی کر سکے ؟ اور چونکہ کامل نمونہ کے لئے علاوہ معائب سے پاک ہونے کے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تمام اوصاف کاملہ کا جامع ہو.اس لئے فرمایا.انكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ یعنی تمام تعلقات انسانی جو دوستوں دشمنوں دور و نزدیک کے رشتہ داروں بیوی بچوں اپنوں بے گانوں اور نا واقعوں پرمشتمل ہیں.اور تمام وہ فرائض ہو ایک انسان کے ذمہ ہوتے ہیں ان سب میں حضور علیہ اسلام کی ذات ستو وہ صفات کابل نمونہ اور بے نظیر اسوہ ہے : کامل نمونہ کی شناخت کا عقلی معیار قرآن مجید کے اس دعوی کو غیر ظاہب والے بغیر دلیل کے کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں ؟ کیوں کہ عیسائی سی کو.آریہ چار رشیوں کو دنیا کے لئے کامل نموز سمجھتے ہیں.اس لئے ایک مسلمان کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ واقعہ میں رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم زندگی کے ہر شعبہ میں شخص ہر قوم اور ہر ملک کے لئے نمونہ ہیں.اور میں نے چونکہ یہی ثابت کرنے کے لئے اس مضمون کو شروع کیا ہے اس لئے میں کامل نمونہ کی پہچان کا ایک عقلی معیار پیش کرتاہوں جس پر جو شخص بھی پرکھا جا کر پورا اترے گا.
انسان کامل د ہی ساری دنیا کے لئے کامل نمونہ ہوگا اور وہ معیار یہ ہے کہ چونکہ کاس نمونہ وہی شخص ہو سکتا ہے جو دنیا کے ہر شخص کے لئے نمونہ ہو.اس لئے ضروری ہے کہ اس پر تمام وہ حالت بھی آئیں تو دنیامیں لوگوں پر آتے ہیں.اور کوئی حالت جو دنیامیں کسی شخص پر آتی ہے اسے وہ شخص خالی نہ ہو ، کیوں کہ اگر وہ دنیا کے لوگوں کی کسی ایک حالت سے بھی خالی ہوگا تو وہ کم سے کم ان حالات والے شخص کے لئے نمونہ نہ ہوگا.اور اس طرح وہ کامل نمونہ نہ ہو سکے گا.انسانوں کے تمام عالات کا نقشہ ذیل میں ہم ایک نقشہ بناتے ہیں کہ دنیا میں موماً لوگوں پر کیا حالات آتے ہیں اور پھر دیکھیں گے کہ دنیا کے کس پیشوا اور امام اور نبی پر وہ تمام حالات آتے ہیں.تاکہ ہم معلوم کر سکیں کہ وہ تمہارے لئے ہمارے تمام حالات میں نمونہ بن سکتا ہے یا نہیں ؟ ۱۴ بیمار ہونا ۲.والدین چار را را ، یعنی بزرگوں ۱۵ - تندرست ہونا در یتیمی کی خدمت کا موقع.۱۶ صاحب اولاد ہونا ٣- غربي ۱۷ اولاز کا فوت ہونا امیری ۱۸.دوستوں والا ہونا ه محکومیت 14 -4 حکومت ۱۹ - دشمنوں والا ہونا ۲۰ ملازمت کرنا.۲۱ - تجارت یا کوئی اور کاروبارہ کرنا -A جنگ کرنا فتح یانا و شکست کھانا و ۲۲ - بیع وشراء قرض درین و غیره معاملات کرنا معاہدات کرنا ا.لاکھوں کا ساتھ ہونا ۲۴ - کس مپرس و گمنام ہونا.11 ۱۲ اکیلا ہونا غیر شادی شدہ ہونا ۱۳ شادی کرنا ۲۵ مشہور ہونا ۲۹ - بچپن ۲۷ جوانی
ادھیڑ ہونا ۲۹ بڑھاپا ۷.نوکروں چاکروں ، لونڈی غلاموں والا ہونا ۳۸ - کنید والا ہونا ۲ قید ہونا اور شمن کے پنجے میں گرفتار ہونا ۳۹.کسی کا مہمسایہ ہونا -r.۳۱ - آزاد ہونا مظلوم ہونا ۴۰.وطن سے بے وطن ہونا ۲۳ ظلم کرنے کا موقع پانا - زخمی ہونا ۴۱ - کسی یتیم یا بیوہ کا سر پرست ہونا ۴۲ متعدد شادیاں کرنا ۴۲.ایک بیوی کرنا ۲۵.قتل ہونا یا قتل ہونے لگنا ۳۶ - فوت ہونا کامل نمونہ پر تمام حالات کا ورود ضروری ہے ہم نے جہاں تک غور کیا ہے.ایک انسان پر اس کی زندگی میں جس قدر بھی مختلف اور متضاد حالات آسکتے ہیں وہ کم و بیش چالیں ہیں.اب یہ معلوم کرنے کے لئے کہ تمام دنیا کے لئے ان تمام حالات میں کون نمونہ ہو سکتا ہے.نہایت ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ دنیا کے پیش کردہ پیشواؤں میں سے کسی پر یہ حالات آئے ہیں.یہ بعد میں دیکھا جائے گا کہ وہ ان حالات میں ہمارے لئے اچھا نمونہ بن بھی سکتا ہے یا نہیں.پہلے صرف یہ دیکھنا ہے کہ آیا منہ ہی لیڈروں ، قوموں کے اماموں اور پیشواؤں پر یہ حالات کثیرہ مختلفہ وارد بھی ہوئے یا نہیں.مثلاً اگر عیسائیوں کے مذہب کے بانی پر یہ حالات ہی نہیں آئے تو وہ ان حالات میں ہمارے لئے کس طرح نمونہ بن سکتا ہے ؟ یا مسلمانوں کا پیشوا ان حالات ہی میں سے نہیں گزرا تو مسلمان کسی نفسہ سے دنیا کو کہ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی اور رسول کے جھنڈے کے نیچے آؤ.وہ تمہارے لئے کامل نمونہ ہے.اس لئے سب سے اول ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ دنیا یہ کی قوموں اور مشہور ندیوں کے پیشواؤں پر یہ حالات سب کے سب آئے ہیں یا نہیں.پھر جس پیشوا کے متعلق ثابت ہوگا کہ وہ ان تمام حالات میں سے نہیں گزرا اور بہت سے انسانی احوال اس پر وارد ہی نہیں ہوئے تو ہم اسے امتحان مقابلہ میں سے نکال دیں گے.اور جس کے متعلق یہ ثابت ہوگا
کہ اس پر یہ تمام حالات وارد ہوئے ہیں.اس کے متعلق ہم اسکانی طور پر یہ فتوی لگا سکیں گے کہ اگر کوئی شخص کامل نمونہ بن سکتا ہے تو یہ شخص ہے کیونکہ کا نمونہ وہی بن سکتا ہے جس پر تمام انسانی حالات آئیں اور پھر وہ ب میں قابل تقلید مثال پیش کر سکے.اس امکانی فتونی کے بعد ہم اس شخص کے حالات پر غور کر کے معلوم کریں گے کہ آیا جب اس پر یہ حالات مختلفہ اور احوال کثیرہ آئے تھے تو وہ ان سب میں کما حقہ اپنے فرائض بجا لاسکا تھا یا نہیں.اور ہر حالت میں اس نے وہی کچھ کیا تھایا نہیں جو اسوقت کرنا مناسب اور عقلاً درست اور ضروری تھا.عقلی معیار پر رشیوں کی عدم مطابقت اس معیار کے مطابق پہلے ہم وید کے چار رشیوں کو لیتے ہیں لیکن افسوس کہ سوائے اس کے کہ آریوں کا زبانی دعوی ہے کہ ابتداء عالم میں چار رشی.اگنی والیو - ادتیہ اور انگرہ نامی آج سے ایک ارب بہتیں کروڑ برس پہلے گذرے ہیں اور کوئی امر بھی وہ ان کے متعلق نہیں کہہ سکتے.سوائے اس کے کہ وہ بے ماں باپ تھے اور بس.نہ ان کی تاریخ محفوظ ہے.نہ ان کا شادی کرنا ، صاحب اولاد ہونا ، حاکم و محکوم ہونا ، دوست دشمن رکھنا.جنگ کرنا.فتح و شکست پانا و غیره و غیره.یعنی ان چالیسں حالات میں سے کسی ایک حالت کا بھی وارد ہونا آریوں کے نزدیک بھی ثابت نہیں.اور اس امر کے وہ خود مقر میں کہ ان رشیوں کے حالات کا قطعاً کوئی علم نہیں.اس لئے ہم بڑے ادب سے ان چار رشیوں کو کہیں گے کہ آپ مقابلہ کے امتحان کے کمرہ سے باہر تشریف لے جائیں.کیوں کہ ہم اس کو اپنے لئے نمونہ بنا سکتے ہیں جس پر ہم انسانوں کے تمام حالات وارد ہوں.لیکن آپ کے متعلق قطعا معلوم نہیں کہ آپ کون ہیں.کہاں سے آتے ہیں.کیسے ہیں.کن اخلاق کے مالک ہیں.وغیره وغیره.عقلی معیار پر بیج کی عدم مطابقت اس کے بعد ہم عیسائیوں سے عرض کرتے ہیں کہ براہ مہربانی اپنے پیشوا اور خداوند کے حالات کی لسٹ پیش کریں مگر افسوس کہ ہم اس لسٹ کو اکثر جگہ سے خالی پاتے ہیں اور جس نمبر کو دیکھتے ہیں.وہاں ہا تھو صفر لکھا ہوتا ہے یا عدم علم کا نذر کیا ہوتا ہے کیونکہ جب ہم نے اس لسٹ کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ مسیح غریب تو تھے مگر امیری کی حالت ان پر نہیں آئی.اس لئے ایک امیر اپنی زندگی میں اپنی امارت کے لئے مسیح کے حالات کو کس طرح نمونہ بنا سکتا ہے ؟ اسی طرح مسیح رومیوں کے محکوم تو تھے مگر خود کبھی حاکم اور بادشاہ
نہ ہوئے.اس لئے ایک بادشاہ جو یہ چاہتا ہے کہ میں اپنی بادشاہت میں کسی کامل بادشاہ کو نمونہ بناؤں وہ کس طرح حضرت مسیح کو نمونہ بنا سکتا ہے.اسی طرح میں نے نہ کسی قوم سے جنگ کی.نہ فتح ہوئی.نہ شکست کا موقعہ ملا کہ ایک جنگ جو ایک فاتح یا ایک شکست خوردہ آپ کو نمونہ بنا سکے.پھر مسیح کنوارے رہے اور بیشک آپ تمام دنیا کے کنواروں کے لئے نمونہ ہیں.کیونکہ میں باوجود کنورا ہونے کے ساری عمر نہایت عفیف اور پاک دامن رہے.اس لئے کنوارے آپ کو نمونہ پکڑ سکتے ہیں.اور کنوارہ رہ کر آپ کی پاکدامنی کانمونہ اختیار کر سکتے ہیں.مگر افسوس کہ میسج نے شادی نہیں کی.اس لئے شادی شدہ لوگوں کیلئے آپ نمونہ نہیں بن سکتے.پھر چونکہ مسیح نے شادی نہیں کی.اس لئے آپ صاحب اولاد بھی نہیں تھے.اس لئے صاحب اولاد لوگ اپنی اولاد کی تربیت میں آپکو نمونہ نہیں بنا سکتے.پھر جب آپ صاحب اولاد نہ تھے تو آپ کی اولاد فوت بھی نہیں ہوئی اس لئے کس طرح وہ شخص جس کی اولاد فوت ہو جس کا جگر کا ٹکڑا اس سے جدا کیا جائے ، موت جس کے لعل کو اس سے چھین کرنے جائے.میج کو صبر جمیل کا نمونہ بنا سکتا ہے ؟ دیکھو ایک شخص بوڑھا ہے اس کی اولاد فوت ہو رہی ہے.لڑکیاں اور لڑکے پے در پے مرتے جاتے ہیں.اس کی آنکھوں کے سامنے دنیا اندھیر ہو رہی ہے.وہ طبعاً چاہتا ہے کہ مجھے اس وقت کوئی رہبر ملے جو مجھے بتائے کہ اس پل صراط سے کس طرح گزرنا چاہیے.وہ آواز دے کر کہتا ہے خداوند می میرا ہاتھ پکڑیئے اور مجھے فرمائیے کہ اب میں کیا کروں.میری یہ تلخ زندگی کی طرح بسر ہو.مجھے کیا طریق اختیار کرنا چاہیے.مگر افسوس کہ میسج اس کا ہاتھ نہیں پکڑتے.مگر دور ہی سے اتنا فرما دیتے ہیں.کہ بھائی صبر کرو.وہ کہتا ہے کہ کس طرح صبر کروں ؟ موت نے تو ہاتھ ڈال کر میرے جگر کے ٹکڑے تگڑے کر دیئے ہیں.میرے نور چشم میری آنکھوں کے سامنے پیوند زمین ہو گئے ہیں.چلتے پھرتے جوان بیٹے بیٹیاں ہوگے ملک الموت مجھ سے چھین کرلے گیا ہے.میرا روشن کر اندھیرا ہوگیا ہے.مجھے کسی وقت چین نہیں.کیا تجھے اے خداوند ایسی مصیبت آئی کہ میں تیرے حالات پر غور کر کے تسلی پاسکوں ؟ تو مسیح صاف کہتے ہیں کہ بھائی بیشک مجھے یہ مصیبت دنیا میں نہیں پہنچی.مجھے معلوم ہی نہیں کہ اولاد کیا ہوتی ہے اور اس کی محبت کیا ہوتی ہے ، اور پھر جدائی کا صدمہ کیا ہوتا ہے ؟ میں تو اس مصیبت سے نا آشنا ہوں.وہ مصیبت زدہ کہے گا کہ حضور پھر میں آپ کو دیکھ کر کس طرح تستی پاسکتا ہوں ؟ اسی طرح مسیح نے کوئی کاروبار نہیں کیا نہ تجارت کی نہ ملازمت کی نہ بیع و شراء اور زمین وغیرہ معاملات میں پڑے.تو کس طرح آپ تاجروں ملازموں، کاروباری لوگوں یا خرید و فروخت کرنے والوں کے لئے نمونہ بن سکتے ہیں ؟ پس مسیح دنیا کے کروڑوں تاجروں ، لاکھوں کاروباری لوگوں ، لاکھوں ملازموں اور اربوں روزانہ خرید و فروخت
L کرنے والوں کے لئے کیا نمونہ پیش کر سکتے ہیں؟ وہ تو ایک درویش تھے.ہاں درویشوں اور خانقاہوں کے متوکلوں کے لئے بیشک آپ نمونہ ہیں.اسی طرح آپ مظلوم تھے ، آپ قید ہوئے.آپ قتل کئے گئے یا قتل کے قریب ہوئے اور ان تمام امور میں آپ نے اچھا نمونہ دکھایا ، صبر کیا ، جوانمردی اختیار کی، سب کچھ کیا اور مظلوموں، قیدیوں کے لئے بیشک آپ نمونہ ہیں.مگر اس کے برعکس آپ کو موقعہ نہیں ملا کہ آپ کے دشمن آپ کے قابو میں ہوتے تاکہ ہم ان لوگوں کے لئے آپ کو نمو نہ کہ سکیں جن کو دشمن پر غلبہ پانے کا موقع ملتا ہے.مگر وہ عضو سے کام لیتے ہیں.انتقام کی گنجائش ہے مگر وہ در گذر کرتے ہیں.وہ ظلم کر سکتے ہیں مگر وہ رحم اختیار کرتے ہیں.اسی طرح مسیح ان لوگوں کے لئے بھی نمونہ نہیں.جن کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں کہ عدل کس طرح کیا جا سکتا ہے ؟ اور باوجود ایک بیوی سے زیادہ محبت ہونے کے پھیر کمال عدل کیوں کر ممکن ہے ؟ اسی طرح حضرت مسیح نے کوئی نوکر نہیں رکھا.نہ آپ کا کوئی سلام تھا نہ آپ کی کوئی لونڈی تھی کہ وہ لوگ آپ کو نمونہ پکڑ سکیں.جنہیں خدا نے ہزاروں نوکر دیئے.آگے پیچھے پھرنے کیلئے لونڈی اور غلام دیئے اور خدمت کے لئے ہزاروں ملازم ان کے سپرد کر دیئے.اسی طرح میسج پر بقول عیسائیوں کے بڑھاپا نہیں آیا ، کہ بوڑھے لوگ کمزور لوگ س کا نمونہ اختیار کریں.پھر نبی میں سی ٹی کی باری کا تاں نہیں لکھا کہ یار لوگ پنے اخلاق میں سچے کو نمونہ بنا سکیں.پھر نہ مسیح ہما بیہ رکھتے تھے.نہ کوئی یتیم یا ہوں ان کی سرپرستی میں تھی - 1 میسج کی زندگی کا مطالعہ کر کے ایک شخص کسی طرح معلوم کر سکتا ہے کہ مجھے ہمسائیوں سے کسی طرح سلوک سے پیش آنا چاہیے اور یتیم اور بیوہ کی کسی طرح سر پرستی کرنا چاہیئے.غرض ان چالیس امور میں سے صرف پانچ چھے باتوں میں حضرت مسیح نمونہ بن سکتے ہیں.باقی تمام حالات میں تمارے لئے میسج قطعاً نمونہ نہیں.اس لئے ہم بڑے ادب سے عیسائی صاحبان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ بشیک کسی زمانہ میں یہودیوں کی ایک محدود قوم میں مبعوث ہو کر ایک عظیم الشان ساری دنیا کی طرف آنے والے پیغمبر کی شہادت دینے کیلئے تو مسیح آنے ہوں گے.لیکن اس زمانہ میں جبکہ ساری دنیا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو چکی ہے اور انسانی زندگی میں چالیس کے قریب مختلف اور متضاد حالات گذرتے ہیں.چونکہ مسیح ان تمام حالات میں دنیا کیلئے نمونہ نہیں بن سکتے.اس لئے براہ مہربانی آج سے میسیج کو تمام دنیا کے لئے کامل رہبر اور کامل نمونہ کے طور پر پیش نہ کیا کریں :
٨ عقلی معیار پر آنحضرت صاحہ کی کئی مطابقت اس کے بعد ہم مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ اپنے پیشوا اور نبی کے حالات اور کارناموں کی فہرست پیش کرو.وہ ایک ضخیم جلد ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں جب ہم اس کو کھول کر دیکھتے ہیں تو خدا کی قسم بغیر مبالغہ کے کہتا ہوں کہ اس کا ہر صفحہ سنہری حروف میں لکھا ہوا پاتا ہوں.اس کی فہرست میں کسی جگہ صفر نہیں.اور اس کے کسی نمبر میں عدم علم کا عذر نہیں.بلکہ اس میں ! ایسی ایسی عجیب باتیں اور ایسے ایسے عظیم الشان کارنامے لکھے ہوئے ہیں کہ جن کی فہرست ہی نہیں بن سکتی اور جو کسی شمار کی حد میں نہیں آسکتے.اور پھر پوچھو تو تمام کارنامے ۶۳ سال میں نہیں بلکہ ۲۳ سال میں نہیں بلکہ صرف مدنی زندگی کے دس سال میں دیکھائے گئے تھے.کتاب کو دیکھتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ ایک شخص وہ بھی اتی وہ بھی غریب وہ بھی تیتیم پھر وہ بھی کہ ساری قوم اس کو چھوڑ چکی ہے اور خود اس کے گھر سے بھاگ کر ناروں میں چھپنا پڑتا ہے وہ یہ کارنامے دکھاتا ہے.دل چاہتا ہے کہ کتاب پھینک کر انکار کر تروں اور کہ دوں کہ یہ تو ایک ناول ہے.مگر کیا کروں واقعات کو کون رد کر سکتا ہے.دوست بھی مانتے ہیں دشمن بھی اقرار کرتے ہیں، تاریخ بھی تسلیم کرتی ہے، دنیا کا جغرافیہ اور براعظموں کی پولیٹیکل تبدیلی سلطنتوں کا عروج و زوال یورپ کے پادری ، ہندوستان کے آریہ حتی کہ سوامی دیانند تک اقرار کرتے ہیں.تو میں آنکھوں پرسی کیسے باندھ سکتا ہوں ؟ آخر مجبور ہو کر مانتا ہوں اور ماننا پڑتا ہے اور بغیر ماننے کے چارہ ہی نہیں.میں تو بینا ہوں سورج تو اندھے کو بھی اپنا وجود منوا لیتا ہے.یتیموں کیلئے کامل نمونہ اس لئے اب میں کتاب کو کھول ہوں.وہاں سب سے پہلے لکھا ہوا ہے کہ حمل کے چھٹے مہینے والد فوت ہو گیا.پڑھتے ہی محبیب کیفیت طاری ہوتی ہے اور خوشی میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور کہتا ہوں آؤ ! اے ایشیا و افراطقہ و یورپ اور نئے براعظموں کے کروڑوں یتیم بچو ! آؤ تمہارے سب غم دور ہو گئے.سب مشکلات حل ہو گئیں.تمہاری کٹھن منزل نزدیک آئی.آئے دنیا کے یتیمیو ! تم نے تو کم پیش اپنے باپ کی شکل دیکھی ہوگی اور پھر محروم ہوئے ہوگئے.کوئی ایک سال کے بعد کوئی دو سال کے بعد کوئی کسی وقت کوئی کسی وقت انگر دنیا کا سب سے بڑا یتیم ہم مسلمانوں کا یتیم اعظم تو جب دنیا میں آیا.
9 تو باپ کئی ماہ پہلے ہی روانہ ہو چکا تھا.اس نے تو ایک دن بھی بھی اپنے باپ کی محبت نہ پائی.اس تمر نے تو ایک منٹ کے لئے بھی اپنا شجر نہ دیکھا.مگر کیا وہ والد سے محروم ہو کر یہ اخلاق ہو گیا ؟ یا کیا آوارہ ہو گیا ؟ یا قوم کی نظروں میں گر گیا.نہیں اور ہرگز نہیں.وہ تو ایسا شریف نکلا اور ایسا تربیت یافتہ ہوا کہ دادا اپنے حقیقی بیٹوں سے بڑھ کر پوتے ہے ، اور چا اپنے حقیقی نورچشموں سےبڑھ کر اپنے بھتیجے سے محبت کرتا تھا.بلکہ تمام جوان بیٹے کنارہ پر بیٹھتے تھے انگر وہ یتیم پوتا، ایسا شائستہ ایسا خو بیوں والا ، ایسی دل غریب عادات رکھنے والا نکلا کہ دادا کے پہلو بہ پہلو بیٹھتا پھر بچا کو دیکھو.شام کا سفر کرتا ہے کون بیٹا ہے جو باپ کے ساتھ غیر مالک کی سیر کرنا نہیں چاہتا.مگر چا اگر کسی کو ساتھ لیتا ہے تو بھتیجے کو.یہ تھے اخلاق اس میتیم کے ، یہ تھیں عادات اس نے باپ کے بچے کی.پس اسے میمو ! اگر تمہارا باپ فوت ہو چکا ہے تو تم اس میتیم اعظم کے حالات پڑھو.پھر اس کی روش اختیار کرو.اور اس کے طریقہ پر چلو اور ویسی سعادتمندی پیدا کرو اور پھر دیکھو سب تم سے باپ کی طرح محبت کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں.اور خدا نے تم سے ایک جسمانی باپ لیا تھا اس کے عوض ساری دنیا کے شریف آدمی تمہارے روحانی باپ بننے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں اور وہی لوگ جو تمہیں پوچھتے نہیں، تمہیں اپنی مجلسوں میں بیٹھنے نہیں دیتے ، تمہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.تمہاری سدھری ہوئی عادتیں دیکھ کر ، تمہاری شرافت دیکھ کر تم ، کو سر آنکھوں پر بٹھانے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور پیچ می تیم اس کے مصداق ہو جاؤ گے کہ الم يجذكَ يَتِيماً فادی یعنی کیا تم یتیم نہ تھے.کیا تم کو لوگ اپنی مجلسوں سے نکال نہ دیتے تھے.کیا تم کو حقارت سے نہ دیکھتے تھے پھر کیا تمہاری خوبیوں کی وجہ سے تمہاری شرافتوں کو دیکھکر ،تمہارے اوصاف کا مشاہدہ کر کے یہ نقشہ پلٹ نہیں گیا ؟ کیا تم لوگوں میں معزز نہیں ہوگئے.کیا اب دنیا تمہاری قدر نہیں کرنے لگی؟ کیا تم باپ والوں سے بڑھ کر صاحب عظمت نہیں ہوئے ؟ ہو گئے اور ضرور ہو گئے اور یہ سب اس لئے ہوا کہ تم نے اپنی عادات کو درست رکھا.خوبیوں میں ترقی کی ، لوگوں سے ادب سے پیش آئے.تو دنیا کہنے لگی کہ کیہ سا شریف اور کیسا اچھا بچہ ہے.پس دنیا کے یتیم بچوں کو چاہیے کہ اگر وہ قعر مذلت سے نکلنا چاہتے ہیں اور یتیمی کے نقصان کو دور کرنا چاہتے ہیں تو یتیم اعظم کے نمونہ کو اختیار کریں.احادیث سے ثابت ہے اور تواریخ بھری پڑی میں ان واقعات ہے، کہ حضور یتیمی کے زمانے میں اور بچپن کے زمانے میں نہایت شہر میلے ، پورے راست باز انہایت کم گو کامل مناقب ، ماں، چچا اور
دادا اور بزرگوں کے کامل فرمانبردار تھے.آوارہ نہ پھرتے تھے.گالی گلوچ کی عادت نہ تھی.پس آپ دنیا کے ہر یتیم کے لئے نمونہ ہیں : آنحضرت والدین والے بچوں کیلئے کامل نمونہ یہاں پر ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ دے کہ حضور یتیم تھے اس لئے دنیا کے تمام مقیمیوں کے لئے تو بے شک حضور نمونزین سکتے ہیں.لیکن جو لڑکے یتیم نہیں بلکہ ان کے باپ زندہ ہیں اور وہ اپنے باپ کی خدمت اور فرمانبرداری اختیار کرنا چاہتے ہیں.ان کے لئے حضور کسی طرح نمونہ بن سکتے ہیں.کیوں کہ حضور نے تو باپ کا زمانہ پایا ہی نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضوران بچوں کے لئے بھی ویسا ہی نمونہ ہیں جیسا کہ حضور تیمیوں کے لئے.کیونکہ گو حضور کے والد فوت ہو چکے تھے مگر باپ کی بجائے دادا اور چچا موجود تھے اور آپ آنے ان کی ایسی فرمانبرداری اختیار کی تھی کہ کوئی شخص باپ کی بھی نہیں کر سکتا.پس ان بچوں کے لئے بھی آپکا نمونہ ہیں جو یتیم نہیں.کیونکہ وہ حضور کے ان حالات کو پڑھ کر حین میں حضور نے اپنے جدہ امجد اور عم معظم کی کامل اور پوری اور قریباً ساری عمر خدمت کی ہے.آپ کو اپنے لئے نمونہ بنا سکتے ہیں.پس کیا عجیب اتفاق ہے کہ آپ کے والد فوت ہو جاتے ہیں تاکہ آپ یتیموں کے لئے نمونہ ہوں اور زاوا زندہ رہتے ہیں تاکہ آپ " باپ والے بچوں کے لئے خدمت اور فرمانبرداری کا نمونہ بن سکیں : آنحضرت غریبوں کیلئے کامل نمونہ یہاں پر دل چاہتا ہے کہ حضور کی قیمی کے زمانہ کے حالات اور دادا اور چاکی فرمانبرداری کے واقعات تفصیل سے لکھوں.مگر افسوس کہ گنجائش نہیں.مضمون حد سے بڑھ رہا ہے اس لئے مجبوراً اسے چھوڑ کر آگے بڑھتا ہوں.اور بجائے تفصیل اور کسی ترتیب کے کسی کسی جگہ سے حضورہ کی کتاب حیات کے ورق گردانی کرتا ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ لکھا ہوا ہے کہ آپ غریب تھے.اور غریب بھی ایسے کہ جس کا کوئی گزارہ نہ ہو.دادا فوت ہو چکے ہیں.چچا کو نہایت معزز ہے.مگر جتنا معزز ہے.اتنا ہی غریب اور کثیر العیال بھی ہے.اپنا گزارہ بھی نہیں کر سکتا.یہ پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ الحمدللہ ہم غریبوں کی مشکل آسان ہوئی.اب ہم آپ کی زندگی کا مطالعہ کر کے معلوم کریں گے ، کہ غرباء کو کیا طریق اختیار کرنا چاہیے.اور کسی طرح غربت کی جلن سوزش اور تکالیف کو برداشت یا مقابلہ کر کے
دور کرنا چاہیے.سو بے شک ہم آپ کی زندگی کا دور غربت سنہرے حروف میں اور حالی قلم سے لکھا ہوا دیکھتے ہیں اور ہر غریب کیلئے اس میں کاس نمونہ اور بے نظیر اسوہ پاتے ہیں.سنو ! دنیا میں بہت غریب بالخصوص خاندانی لوگ اس لئے غربت کا شکار ہیں کہ وہ محنت نہیں کرتے.انہیں اگر کوئی کام بھی ملتا ہے تو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں.مر جائیں گے.مگر مزدوری نہ کریں گے.قومیں ترقی کر رہی ہیں، غریب امیر ہو رہے ہیں.صنل اور لیبر دنیا میں بادشاہ بن رہے ہیں لیکن یہ اپنی کسر شان سمجھتے ہیں.مگر کروڑوں کروڑ درود و سلام اس غریب پر کہ سب سے معزز اور خاندانی اور عبد المطلب کا بیٹا ہو کر اس وقت جبکہ بادشاہ ہو گیا ہے.فخر محسوس کرتا ہے اور کہتا ہے.وَلَقَدْ رَعَيْتُ لِاَهْلِ مَكَة عَلى قَرَارِيسک.کہ میں چند پیسوں کے عوض مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا.سبحان اللہ العظیم اور اپنی امت کو صاف اور معین الفاظ میں بار بار کہتا ہے کہ سب سے افضل کھانا وہ ہے جو اپنے ہاتھ کی ثالی کا ہو اور فرماتا ہے کہ داؤد نبی بھی اپنے ہاتھ کی صنعت کی کمائی سے کھاتے تھے.پھر امت کو ڈرانے کے لئے کہتا ہے.اللّهُمَّ اِنّي اَعُوذُبِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَانكَسل - الى مُجھے سُستی سے نکما رہے ہے اور بیکار رہنے سے بچا.پھر اپنی امت کے ایک شخص کو بلا کر کہتا ہے کہ یہ کلہاڑی لے اور جنگل میں جا اور لکڑیاں کاٹ کر پیٹھ پر لاد کر شہر میں لا اور بیچ.اور دیکھ خبردار کسی سے کچھ نہ مانگنا.پھر بالا بچپن میں بکریاں چرانے کے بعد حضور ایک مالدار بیگم کے پاس جاتے ہیں، اور مرد ہو کر عورت کی اور معزز ہو کر اپنے سے کم درجہ کے خاندان کی عورت کی ملازمت اختیار کرتے ہیں اور دوسرے ممالک میں جاکر تجارت کرتے ہیں ، اور اس طرح بکریاں چرانا.ملازم ہونا ، تجارت کرنا.تینوں پیشے اختیار کر کے دنیا کے غریبوں پر یہ ظاہر کرتے ہیں.کہ دیکھو انسان کے لئے سوائے خدا کی نافرمانی کے اور کسی کام میں عیب نہیں.کاسش ! مسلمان غرباء اس نصیحت پر عمل کرتے.مگر افسوس کہ یورپ والوں نے عمل کیا ، اور آج یورپ کے موچی جلا ہے ، نہار دوکاندار یہ چاروں گروہ تمام دنیا پر حکومت کر رہے ہیں.لیکن مسلمان بھوکے مر رہے ہیں.اور اپنے نبی کے حکم پر عمل نہیں کرتے.پھر یاد رکھنا چاہئیے کہ غربت کے نتیجہ میں کچھ عیب پیدا ہو جاتے ہیں مثلاً سوال کرنا.چوری کرنا حرص کرنا.خیانت کرنا.قرض لے کر ادا نہ کرنا وغیرہ وغیرہ.مگر ہمارا پیشوا با وجود غنر کے ان تمام نقائص سے پاک تھا.صاف لکھا ہے کہ رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا.بلکہ آپ نے سوال سے اپنے دوستوں کو اتنا منع کیا.کہ کسی صحابی کا کوڑا گر جاتا.تو وہ خود گھوڑے سے اتر کر اٹھاتا.پاس والے سے نہ مانگتا.چوری اور خیانت اور حرص کا کیا کہنا.آپ تو بچپن سے
۱۲ امین مشہور تھے.قرض لے کر دا نہ کرنا تو کسطرح ممکن ہے؟ آپ تو قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے زیادہ اودا فرمایا کرتے تھے.پس میرا مدورح تمام دنیا کے غرباء کیلئے نمونہ ہے.اگر کوئی شخص ان کے نموز پر چلے تو علاوہ اس کے کہ وہ غربت کے تمام عیبوں سے بچ جائیگا.وہ خدا کے فضل سے غریب بھی نہ رہے گا.اور سچ سچ خدا اسے مخاطب کر کے فرمائے گا.وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَاغنی - یعنی ہم نے تجھے غریب پایا.پھر غنی کر دیا.سبحان الله و بحمده سبحان الله العظيم.آنحضرت دولتمندوں کیلئے کامل نمونہ اسی طرح حضور ایک زمانہ میں دولتمند ہو گئے.جیسا کہ خود قرآن مجید کہتا ہے.فاغنی یعنی تجھے ہم نے غنی کر دیا.پس آپ فورڈ اور امریکہ کے کروڑ پتی تاجروں اور دنیا کے تمام دولتمندوں کیلئے نمونہ ہیں.آپ فتح مکہ کے بعد اتنے امیر ہو جاتے ہیں کہ ایک ایک دن میں ہزاروں غلام لونڈی آزاد کر دیتے ہیں کہ شہر کی گلیاں ان سے بھر جاتی ہیں.اونٹ اور سولیسٹی دینے پر آتے ہیں تو ایک ایک شخص کو سو سوارنٹ بخش دیتے ہیں اور اتنا خرچ کرتے ہیں کہ مکہ کے تجربہ کار اور بوڑھے بوڑھے جہاندیدہ نہیں کہتے ہیں کہ محمد تو اس طرح خرچ کرتا ہے کہ اسے خزانہ میں کمی کا ڈرہی نہ ہو.پس تمام دولتمندوں کو چاہیے کہ آپ کی زندگی کا مطالعہ کریں اور آپ کے قدم بہ قدم چل کر دولت سے حقیقی فائدہ حاصل کریں.سنیئے ! آپ بے شک دولتمند ہوگئے.مگر اپنی ذات پر اسے بے جا خرچ نہیں کیا.سادہ کپڑے سادہ خوراک بی ساده زندگی جو غربت میں تھی وہی اب بھی ہے.بیویوں کو خیال ہوتا ہے کہ اب زیورات بننے شروع ہو جائیں گے.اور بجائے غرباء کو روپیہ دینے کے ہمارے مصرف میں آوے گا.اس لئے انہیں فرمایا جاتا ب ان كنتَنَ تُرِدْنَ الحَيَواة الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَينَ أَمَتَعْلَنَ واسر حكنَ سَرَا حَاجَمِيلاً - یعنی زیورات پر روپیہ خرچ کرنا ہے تو پھر میری مصاحبت کی توقع نہ رکھنا.میرا تو یہ رنگ ہے کہ دولت خدا کی امانت ہے جیسے ملے وہ خود بھی بے شک کھائے مگر اپنی قوم کے غریبوں پر بھی خرچ کرے.یتیموں کو دے.بیواؤں کی خبر گیری کرے.مساکین اور مقروضوں اور ڈگریوں کے نیچے دبے ہوؤں کی مدد کرے.بخاری میں لکھا ہے کہ جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے فراخی دی تو آپ اپنی ہر بیوی کو سال بھر کا خرچ پیشگی دے دیتے.پھر اپنے تمام مال کو غرباء اور باقی رشتہ داروں اور قومی ضروریات پر خرچ کرتے.وفات کے وقت فرمایا.مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةٍ نِسَالَى
۱۳ وَمُونَةٍ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقة یعنی میری جائداد وارثوں میں تقسیم نہ ہوئی بلکہ وقف ہوگی.میرے خلفاء کو چاہیے کہ میری ہیولوں کو سال بھر کا فریج دے کر اور میری جائداد کے منتظموں کی تنخواہ ادا کر کے بقیہ روپیہ مغرباء میں صدقہ دیدیا کرس، غرض ہمارا ممدوح کیسا عجیب عملی نمونہ دنیا کے دولتمندوں کے لئے چھوڑ گیا ہے کہ بیشک دولت سے فائدہ اٹھاؤ.خود کھائے بیوی بچوں کو دو مگر اپنی جائز ضروریات سے زائد خزانوں اور دفینوں کی صورت میں نہ رکھو.بلکہ اللہ کا مال اللہ کے غریب بندوں کو دید و قبر میں یہ مال ساتھ نہ جائے گا.کھاؤ اور کھلاؤ پہنو اور بناؤ.فائدہ اٹھاؤ اور فائدہ پہنچاؤ اور علاوہ اس کے غرباء کی حقارت مت کرو - اسراف نہ کرو.اور امیر ہوکر فرمیوں سے محبت و شفقت سے پیش آؤ.آج اگر دنیا کے سرمایہ پرست اس عملی نمونہ کو اسوہ بنالیں.تو پھر کسی بالشویزم کی ضرورت رہتی ہے ؟ نہیں اور مرگز نہیں.پھر آپ نے دنیا کے سامنے صرف اپنا نمونہ ہی پیش نہیں کیا.بلکہ اپنی امت کے لئے قانون بنا دیا کہ ہر امیر اور دولتمن رآدمی اپنی آمدنی کا چالیسواں یا بیسواں حققہ اپنی قوم کے غرباء کیلئے لازما ا وا کرے.اور اگر نہ دے.تو حکومت جبراً اس سے لے سکتی ہے.آنحضرت محکوموں کے لئے کامل نمونہ اس کے بعد ہم آپ کی کتاب حیات کو سرسری طور پر دیکھتے ہوئے معلوم کرتے ہیں کہ آپ ۱۳ سال کا عرصہ محکوم رہے.اور محکوم بھی ظالموں بلکہ خونخوار درندوں کے ماتحت.مگر کبھی آپ نے بغاوت نہ کی زیادہ ظلم دیکھا تو ساتھیوں کو کہا کہ یہاں سے خاموشی سے چلے جاؤ اور جاؤ تم کو خدا کے سپرد کیا.جاؤ سمندروں کے پار عادل بادشاہوں کے سایہ کے نیچے رہو.اگر کسی نے تنگ آکر کہا کہ حضور ہمیں اپنے حاکموں سے لڑنے کی اجازت دی جائے تو فرمایا.اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كفوا ايدكم - یعنی نہیں نہیں اپنے ہاتھ روک لو.خبردار اپنے حاکموں سے مت لڑنا.پھر جب حاکموں کی سختی حد سے بڑھ گئی اور آپ کی جان کے لالے پڑ گئے.تو آپ خاموشی سے اس حکومت کو چھوڑ کر چلے گئے.مگر علم بغاوت بلند نہ کیا.کیا یہ صبر اور استقلال اور اس قدر بردباری اور اتنی امن پسندی دنیا مں کوئی اور نظر بھی رکھتی ہے ؟ نہیں اور مرگز نہیں.پس آپ تمام محکوموں اور رعایا کے لئے نمونہ ہیں :
آنحضرت حاکموں اور بادشاہوں کیلئے کامل نمونہ ہیں پھر آپ محکوم ہی نہ رہے ، بلکہ ایک زمانہ وہ آیا کہ آپ خود بادشاہ ہو گئے اور خدا کے فضل سے ایسی بادشاہت کی کہ ساری دنیا کے بادشاہ آپ کے نمونہ پر چل کر دین و دنیا کی برکات حاصل کر سکتے ہیں.آپ بادشاہ ہیں.جس کو چاہیں پکڑی جس کو چاہیں چھوڑیں.مگر نمازوں اتنے کہ ایک مجرم کو چھڑانے کیلئے آپ کے درباری ، آپ کے مقرب ، حتی کہ آپ کا سب سے پیارا اسامہ سفارش کرتا ہے مگر آپ کہتے ہیں.کہ اسامه اَشْفَعْ فِي حَدِ مِن حُدُودِ الله " یعنی کیا جس مجرم کے متعلق خدا کا قانون مزا تجویز کرتا ہے.تو اس کے چھوڑنے کی سفارش کرتا ہے.پھر فرمایا " لَو سَرَقَتْ فَاطِمَة لَقَطَعْتُ يَدَهَا : کہ یہ مجرم تو دور سے میری برادری کا ہے.اگر میری لخت جگر فاطمہ چوری کرتی تو میں اس پر بھی حد جاری کرتا.سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم - پھر بادشاہ سمجھتے ہیں.کہ ہم لوگوں کی خدمت کے لئے نہیں بلکہ لوگ ہماری خدمت کیلئے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں.سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِ مُهُمْ " یعنی جسے خدا بادشاہ یا سردار بنادے وہ سمجھے کہ آج " سے مجھے تمام قوم کا جنازہ م بنا دیا گیا ہے.حضور خود اس قانون کا عملی نمونہ تھے.کبھی نہیں چاہا کہ لوگ آپ کی بڑائی کریں.ایک شخص رعب کی وجہ سے کانپتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میں تو عرب کی ایک غریب ہوں عورت کا بیٹا ہوں جو غربت کی وجہ سے سوکھا ہوا باسی گوشت بھی استعمال کر لیا کرتی تھی آپ نا پسند فرماتے تھے کہ کسری و قمیصر کی طرح آپ کے دربار میں کوئی شخص آپ کے سامنے کھڑا ہو.حضور کے روزمرہ کا پروگرام پھر اکثر بادشاہ اپنے کام وزراء اور دوسرے امراء کے سپرد کر کے آپ عیش و عشرت میں مشغول ہو جاتے ہیں.مگر ہمارے بادشاہ سارے کام خود کرتے ہیں.پانچوں نمازیں خود پڑھاتے ہیں.عیدین اور جمعے خود کرواتے ہیں.تمام لشکر خود روانہ کرتے ہیں.خود ہی افسر مقرر کرتے ہیں.پھر خود ہی ان کے جھنڈے اور علم اپنے ہاتھ سے باندھتے ہیں.سپاہیوں کا انتخاب پھر ان کے لئے زاور اہ اور ہتھیاروں کا انتظام خود کرتے ہیں.روانگی کے وقت دور تک ساتھ بھاتے ہیں.افسروں اور ماتحتوں کو ہرقسم کی ہدایات خود دیتے ہیں.اکثر لڑائیوں میں خود شریک ہوتے ہیں اور فوج کو خود لڑواتے ہیں.اه
۱۵ یہاں تک کہ اِذْ تُبوَی الْمُؤْمِنِینَ مَقَاعِد القابل کے مطابق ایک ایک سپاہی کی ڈیوٹی اور پہرہ خود مقرر کرتے ہیں.تمام مقدمات دیوانی اور فوجداری خود فیصلے کرتے ہیں.اگر رات کو شور سنتے ہیں.تو سب سے پہلے بھاگ کر وہاں پہنچتے ہیں.عرسوں لونڈیوں اور غلاموں کے کام خود کرتے ہیں.تمام معاہدات خود مرتب کرتے ہیں حج ، عمرے نفروے ان سب تقریباب میں خود شریک ہوتے ہیں.مرنے والوں کے جنازے خود پڑھاتے ہیں.قبرستان تک ساتھ جاتے ہیں.رعایا میں سے ایک غریب درزی کرد و گوشت پکا کر گھر پر بلاتا ہے تو اس کی دلجوئی کے لئے دعوت قبول کرتے ہیں.تیر اندازی کی مشق میں خود شریک ہوتے ہیں.خود اپنے سامنے فوجی گھڑ دوڑ کرواتے ہیں.گھنگے اور نیزہ بازی کے مردانہ اور فوجی کرتب خود دیکھتے ہیں.بلکہ ڈر دور کرنے کے لئے بیویوں کو دکھاتے ہیں.رعایا میں سے کسی کو بیمار سنتے ہیں تو اس کے گھر بیمار پرسی کے لئے جاتے ہیں.کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کے گھر جا کر کان میں اذان اور تکبیر کہتے ہیں.لوگ اپنے بیمار لاتے ہیں تو دعا کرتے ہیں اور خود دوا تجویز کرتے ہیں.اپنی خولی خود گانٹھ لیتے ہیں.گھر میں جاتے ہیں تو کھانا تیار کرنے اور گھر کا تمام کاج کرنے میں ہیولوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں.غرض ہر وقت کام میں مصروف رہتے ہیں.پھر کام بقایا سی نہیں رہتا.بلکہ روز کا روز صاف ہوتا رہتا ہے.کام میں اتنی مستعدی ہے کہ عصر کی نماز میں خیال آتا ہے کہ گھر میںسرکاری خزانہ کا کچھ سونا پڑا ہے جو ابھی غرباء میں تقسیم نہیں ہوا.تو سلام پھیر کر اتنی جلدی گھر واپس جاتے ہیں کہ حاضرین گھبرا جاتے ہیں.واپس اگر انہیں کہتے ہیں کہ خزانہ کا کچھ سونا غرباء میںتقسیم کیلئے تھا اورمیں ڈرا کہ کہیں شام ہو جائے اور غرباء و میں تقسیم نہ ہو سکے.پھر گھر پر کوئی دربان نہیں رکھا.بوڑھے، بچے ، عورتیں مرد ہر وقت آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے.اور سب سے ملتے ہیں اور سب کے کام سے فارغ ہو کر ان کو رخصت کرتے ہیں.جب کوئی ملتا ہے تو کبھی نہیں کہتے کہ جاؤ بلکہ آنے والا خود اپنی مرضی سے چلا جاتا ہے.پھر غرباء کی اپنے گھر ہمیشہ دعوتیں کرتے ہیں.اپنے خادم انس بنہ اور اپنے ساتھی ابو ہریرہ کو اکثر کہتے ہیں کہ جاؤ غرباء کو بلا لا آج انہیں دُودھ ہلا دیں.آج حریرہ کھلا دیں.آج کھجوریں تحفہ میں آئی ہیں.ان کی دعوت کریں.پھر روزانہ اپنے گھر میں مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے دس پانچ نو وارد مہمان ضیافت کیلئے لاتے ہیں اور انہیں اپنے ساتھ کھانا کھلاتے ہیں.
14 آنحضرت مقابل لوگوں کیلئے کامل نمونہ پھر سلطنت کے کاموں کی وجہ سے اپنے خانگی فرائض کو ضائع نہیں کرتے.ایک وقت میں تو بیویاں ہیں.ہر گھر میں باری باری شب باش ہوتے ، دن کو عصر کے بعد ہر گھر س جا کر سلام کرتے ، سودا سلف منگوانے کا انتظام کرتے.عزیز بیٹی فاطمہ کے گھر میں جاتے.اس سے ملتے.اس کے بچوں کو گلے سے لگاتے پیار کرتے.رعایا میں سے ہر شخص سے اس طرح ملتے کہ وہ سمجھتا کہ شاید میں ہی سب سے افضل اور آپ کا محبوب ہوں.صبح سے عشاء کی نماز تک انفرادی اور قومی معاملات میں اس طرح مصروف رہتے کہ خود خدا نے فرمایا.إن لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْعًا طوياً - یعنی سارا دن تو کاموں میں مشغول رہتا ہے.عشاء کی نماز کے بعد گھرس واپس آتے.تو چاہیے تھا کہ تھکے ہارے آئے ہیں.ساری رات آرام کرتے.مگر ہائے.نہیں.وہ بستر پر جا کر تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں اور جب ذرا تھکاوٹ دور ہوتی ہے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مصلے پر کھڑے اپنے خدا کے حضور رو رہے ہیں.بخاری میں لکھا ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام اتنی اتنی دیر تہجد کی نماز میں کھڑے رہتے کہ آپ کے پاؤں سُوج جاتے.دوست احباب ، بیوی بچے سب روکتے ، مگر آپ فرماتے.اَفَلَا أَكونُ عَبْدًا شَكُورًا.یعنی کیا میں اپنے مولی ، اپنے آقا کا شکر گذار بندہ نہ بنوں سبحان الله وبحمده سبحان الله اله پھر لکھا ہے تہجد کی نماز میں آپ ایسی بے قراری سے روتے اور آپ کے سینے سے ایسی آواز آتی.جیسے منڈ یا جوش مارتی ہے.لکھا ہے کہ بعض دفعہ آپ نے تہجد کی نماز شروع کی اور فجر تک یہی آیت پڑھتے رہے اور روتے رہے.اِن تُعد بهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ إِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.العظم بیت المال کے متعلق حضور کی احتیاط پھر بادشاہوں میں یہ نقص ہوتا ہے کہ سرکاری خزانہ کو اپنا ذاتی سال سمجھتے ہیں.مگر حضور کے متعلق لکھا ہے.کہ مال غنیمت کے ایک اونٹ کی پیٹھ پر ہاتھ مار کر آپ نے کچھ بال اکھیڑے اور لوگوں کو دکھا کر فرمایا.کہ میرے مقررہ حق کے علاوہ سرکاری خزانہ میں سے یہ بال لینے بھی مجھے جائز نہیں بلکہ مجھ پر حرام ہیں.
IL حضور کا قومی کاموں میں بطور مزدور حصہ لینا پھر قومی کاموں کی ترغیب کے لئے آپ ہر مشکل کام میں سب سے پہلے نمونہ بنتے.مسجد نبوی بننے لگی تو سب سے پہلے آپ نے اکیلے ہی پھر ڈھونے شروع کر دیئے اور یہ دیکھ کر ایک انصاری شاعر چلایا.لو قعدنَا وَ النَّبِيُّ يَعْمَلْ لَذَاكَ مِنَا الْعَمَلُ الْمُضَلَّلُ یعنی نبی اکیلا کام کرے اور ہم بھی ہیں.یہ تو نہایت ہی بری کاروائی ہوگی.اٹھو اور کام کرو.غزوہ احزاب کے موقعہ پر سخت سردیوں کے دنوں میں حضور خندق کھودنے میں شریک تھے.اور آپ کا سینہ مبارک مٹی سے بھرا ہوا تھا کہ ایک صحابی آیا.اس نے حضور کو دکھا یا کہ بھوک کی وجہ سے خالی پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے.آپ نے اس کی تسلی کے لئے اپنا پیٹ دکھایا.اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے.کھودتے کھودتے سورج غروب ہو گیا کہ حضرت عمر آئے اور کہنے لگے حضور جس جگہ ہم کام کر رہے تھے.وہاں کافروں نے ایسا زور کیا ہوا تھا کہ ہم مشکل عصر کی نماز پڑھ سکے.آپ نے فرمایا.اور یہاں تو اتنا زور تھا کہ ہم عصر کی نماز ابھی تک بھی نہیں پڑھ سکے.پھر انتظام ایسا کہ یا تو عرب میں ڈا کے پڑتے تھے یا مکہ سے کویت تک اور خیبر سے ہمیں تک ایک کمز ور عورت مستقیلی پر سونا سیکر چلتی تو کوئی پوچھنے والا تک نہ تھا.رعب ایسا کہ خود فرمایا - نصوتُ بِالرُّعْبِ مُسِيرَةُ شَهْرٍ یعنی عمدا نے مجھے ایسا رعب دیا ہے کہ عرب سے ایک ایک ماہ کے فاصلہ پر رہنے والی حکومتیں عرب کی طرف آنکھ اٹھا نیکی جرأت نہیں کر سکتیں.اسی طرح اس زمانہ کے بادشاہوں کا یہ حال ہے کہ نمود کیلئے کبھی خود جاتے ہیں اور کبھی اپنے شہزادوں کو میدان جنگ میں بھیجدیتے ہیں.جو محفوظ مقامات پر رہتے ہیں.صرف لوگوں تھا.جو صرف دل بڑھانے کیلئے میدان جنگ میں جاتے ہیں.مگر ہمارا با دشان سر جنگ میں پیش پیش رہتا تھا.حضرت علی با بیا اور کہتا ہے کہ ہم جنگوں کی شدت سے بچنے کے لئے حضور کے پیچھے ہو جایا کرتے تھے جنگ خیلین میں سب سے آگے بڑھے کہ ایک شخص نے سواری کی نچھر کو روکا.فرمایا اسے چھوڑ دو پھر آگے بڑھ کر فرمایا.انا التي لاكذب - أنا ابْنُ عَبْدِ المُطلب
۱۸ بدر کا واقعہ جنگ بدر کا واقعہ ہے.دشمن کے تین بہادر میدان میں آئے.اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ قرش میں سے تین مسلمان مقابلہ کے لئے بھیجے جاویں.ابو بکر عثمان طلحہ زبیر اور بیسیوں قریشی مسلمان موجود تھے مگر آپ نے فرمایا.قد یا علی قمْ يَا حَمْزَه - قُمْ يَا أَبَا عَبَيْدَه یعنی آپ نے اپنے تین قریبی رشتہ داروں کو لڑنے مرنے کیلئے خونخوار درندوں میں بھیجدیار سبحان اللہ وبحمده سبحان الله العظيم - آنحضرت مجردوں کیلئے کامل نمونہ پھر اور آگے بڑھو.تو کتاب حیات میں لکھا پاتے ہیں کہ آپ پچیس سال یعنی جوانی بھر اور عرب کی آب و ہوا کے لحاظ سے ادھیڑ عمر تنگ بالکل کنوارے اور متجرد رہے.مگر نہایت عفیف نہایت پا کد امن کہ کسی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا حرام ، جوانی ہے مگر دیوانی نہیں.قومی ہیں مگر ان کا غلط استعمال نہیں.جاذبات ہیں مگر بے طریقہ نہیں.غرض ہمارا ممدوح تمام کنواروں اور غیر شادی شدہ لوگوں کیلئے کامل نمونہ ہیں.آنحضرت شادی شدہ کیلئے نمونہ پھر آپ شادی کرتے ہیں.اور ایک نہیں متعدد.صرف بیوہ سے نہیں بلکہ کنواری اور بیوہ دونوں سے کسی ایک عمر والی سے نہیں بلکہ نوجوان جوان، ادھیڑ اور بوڑھی ہر قسم کی عورتوں سے شادی کرتے ہیں.اور شادی شدہ لوگوں کیلئے ایسے ایسے نمونے دکھاتے ہیں کہ معقل حیران رہ جاتی ہے.لکھا ہے.کہ آپ اپنی ہیولوں سے نہایت محبت رکھتے تھے.سب سے شفقت سے پیش آتے تھے.کبھی آپ نے کسی بیوی کو تھپڑ تک نہیں مارا کبھی کسی کو جھڑ کا تک نہیں.سب آپ سے خوش تھیں بلکہ ان کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ شوق سے پوچھتی تھیں کہ حضور کی وفات کے بعد اگلے جہان میں حضور سے سب سے پہلے کون ملے گی.
19 آنحضرت عورتوں کیلئے کامل نمونہ آپ فرمایا کرتے تھے.خیر کم خَيْرُكُم لِأَهْلِهِ - یعنی سب سے اچھا وہ شخص ہے جو بیوی کے حق میں سب سے اچھا ہو.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے حضور کی کسی بیوی پر کبھی اتنا رشک نہیں آیا.جتنا حضرت خدیجہ پر.حالانکہ میری شادی سے تین سال قبل وہ فوت ہو چکی تھیں.اور میں نے ان کو کبھی دیکھا بھی نہ تھا.صرف اس لئے کہ حضور ان کی وفات کے بعد اکثر ان کی خوبیوں کا ذکر کرتے رہتے تھے.حالانکہ عموماً مرد اپنی مرحومہ بیوی کی خوبیوں کا ذکر نئی بیویوں سے نہیں کرتے.پھر حضور اگر ایک بکری ذبح کرتے تو اپنی مرحومہ بیوی کی سہیلیوں تک کو حصہ بھیجتے.حضرت عائشہ یہ کہتی ہیں کہ حضور گھریں تشریف لاتے تو تو عری کی وجہ سے سہیلیوں کے ساتھ گڑیاں کھیلتی ہوئی.حضور کو دیکھ کر میری سہیلی تڑکیاں ادھرادھر کونوں میں چھپ جاتیں آپ وہاں سے ان کو بلاتے اور کہتے کہ عائشہ کے ساتھ کھیلو.سفروں میں بھی حضور بیولوں کو لے جاتے اور ہر وقت ان کی دلجوئی فرماتے.لکھا ہے کہ گھر کے کام کاج میں بیویوں کا ہاتھ بٹاتے.یہود اور سہود میں حائضہ بیوی باورچی خانے میں نہیں جا سکتی.خاوند کے ساتھ لیٹ نہیں سکتی.بلکہ الگ رہتی ہے.آپ نے یہ ناقدری اور ذلت دور کی.حضور ایسی حالت میں ساتھ سوتے خود میں سر رکھ کر قرآن پڑھتے.ساتھ کھانا کھاتے.ایک برتن سے پانی پیتے.1 طرح اسلام سے پہلے بیویاں خاوند کے مال کی وارث نہ ہوتی تھیں.حضور نے عورتوں کو پہلے نہ نے بھی اس حق سے مشرف فرمایا جسے دیکھ کر آج تحریک ہو رہی ہے کہ ہندو ہوہ بھی خاوند کی وارث ہوا کرے.وفات کے وقت فرمایا ان اهم وعندي امرن یعنی مجھے اپنے بعد سب سے زیادہ تمہاری فکر ہے کہ تمہاری خدمت کون کرے گا " پھر فرمایا وَلَنْ يُصْبِرُ عَلَيْكُنَّ إِلا العنقون یعنی تمہاری خدمت میر ہے بعد میرے بچے تا بعدار اور پکتے مومن ضرور کریں گے.غرض آپ نے ایک شادی شدہ شخص کے لئے وہ رافت اور حسن سلوک کا نمونہ قائم کیا ہے کہ جس کی نظیر نہیں.آپ کو تو دلجوئی یہاں تک منظور تھی.کہ آپ نے ایک دفعہ شہد کا شربت جو آپ کو بہت مرغوب تھا پیا.
۲۰ کہ ایک بیوی نے یونہی کہ دیا.کہ آپ کے منہ سے بو آتی ہے.فرمانے لگے آئندہ میں کبھی شہید کا شربت نہیں ہوں گا.صاحب اولاد کیلئے کامل نمونہ پھر آپ کی کتاب حیات میں لکھا ہے کہ آپ صاحب اولاد تھے.زینب.رقیہ ، ام کلتوم اور فاطمہ آپ کی بیٹیاں اور طیب و طاہر - قاسم اور ابراہیم آپ کے صاحبزادے تھے.آپ نے بچوں کی جو تربیت و نگرانی، شفقت اور ان کی صحت جسمانی و روحانی کا خیال رکھا ہے.وہ ایک ایسا تفصیلی پروگرام اور ایسا کامل ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو اولاد کبھی نہ بگڑے اور والدین کیلئے قرۃ العین ہو.چنانچہ نمونہ دیکھ لو کہ آپ کی سب سے پیاری بیٹی فاطمہ تھیں.باوجود اتنے لاؤ اور پیار کے آپ کی تربیت سے ایسی نکلیں سَيَدَةٌ نِسَاءِ أَهْلِ الجَةِ کا خطاب پایا.اور دنیا کی ساری عورتوں سے بڑھ گئیں.تفصیل کا یہاں موقع نہیں.سیر کی کتب سے تمام حالات معلوم ہو سکتے ہیں.بردار اولاد فوت ہونے پر صبر کا کامل نمونہ پھر آپ کی بہت سی اولاد آپ کے سامنے فوت ہو گئی.لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی.اور آپ اس شخص کیلئے جیسے مسیح بھی جواب دے پچھلے تھے ، کامل نمونہ ہیں.آپ اس مصیبت زدہ کو جس کی اولاد مر جاتی ہے.جوان جوان بچے فوت ہو جاتے ہیں.بلا کر کہتے ہیں.کہ آہ میں تیرا ہاتھ پکڑتا ہوں.اور آکہ میں تیرا رہر بن سکتا ہوں.اور آکہ میں بھی تیرے جیسی مصیبت روکا ہوں.میری اکثر جوان جوان بیٹیاں میری آنکھوں کے سامنے فوت ہو چکی ہیں تمام لڑکے میری آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگرے اجل کا شکار ہو چکے ہیں.مگر دیکھ میرا دل غمگین ، میری آنکھیں تر.مگر میری زبان اپنے مولے کی حمد سے معمور ہے.اور آمیری طرح اقرار کر کہ لَهُ مَا أَخَذَوَلَهُ مَا أعطى یعنی جس نے اولاد دی اسی نے واپس بلالی ہے اور آمیری طرح اقرار کر کہ انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ بینی بے شک یہ اولاد ہم سے پہلے خدا کے حضور چلی گئی ہے اور ہم کو داغ مفارقت دے گئی ہے.مگر
۲۱ چند دنوں تک ہم بھی ان سے ملنے والے ہیں.اسلئے چند روزہ جدائی کے بعد پھر ہمارے بچھڑے ہوئے ہم سے مل لینگے.اور تھوڑے سے وقفہ سے آگے پیچھے جانے والے آپس میں ملاقات کر کے دائمی وصل کا شربت پیئیں گے.ایسی کیا سی عجیب نمونہ ہے.جو اولاد کی وفات پر حضور نے پس دکھایا.لکھا ہے کہ حضور اپنی ایک جوان بیٹی کی قبر پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگیں.کسی نے کہا.کہ حضور نبی ہوکر یہ عظیم ؟ آپ نے فرمایا.یہ جذبہ تو رحمت و شفقت ہے.جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا.اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا.آنحضرت کے اکلوتے بیٹے کی وفات آپ کا صاحبزادہ ابراہیم فوت ہونے لگتا ہے.جو کہ آپ کا اکلوتا بیٹا ہے.عین نزع کی حالت میں آپ کی گود میں دیا جاتا ہے.آپ کی آنکھیں آنسو بہاتی ہیں.اس پر عبد الرحمن بن عوف نے تعجب کا اظہار کیا.آپ نے فرمایا.عوف کے بیٹے ! یہ تو رحمت و رافت ہے اور فرمایا.العَيْنُ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ يَحْزُنُ وَلَا نَقولُ الأَمَا يَرْضى به ربَّنَا - یاد رکھو.صبر کا جو کام نمونہ حضور علیہ السلام نے دکھایا.وہ ان تمام لوگوں کیلئے نمونہ ہے.جین کے لخت جگر خدا کی مصلحت کے تحت ان سے بعدا کرلئے جاتے ہیں.بطور جرنیل اور فاتح کے کامل نمونہ پھر آپ نے جنگیں کیں.اکثر فاتح ہوئے کبھی فوج کے قدم بھی اکھڑ گئے.تینوں حالتوں میں آپ نے وہ نمونہ دکھایا.جو ایک جنگجو، ایک فاتح اور ایک شکست خوردہ کیلئے کامل نمونہ ہے.آپ جنگ کرتے تو سخت حکم تھا.کہ کوئی عورت نہ ماری جائے بچے نہ مارے جائیں.بوڑھوں سے تعرض نہ کیا جائے.درویشوں راہوں ، تارک الدنیا لوگوں کو کچھ نہ کہا جائے.دیکھو ! کسی کو آگ سے نہ بھلایا جائے.دیکھو ! نہ جانور قتل کرنا.نه درخت کاٹنا.یاد رکھو! اپنے مخالفوں کی طرح کسی دشمن مقتول کے ناک، کان نہ کاٹنار جنگ احد میں جبکہ کفار نے مسلمان شہدا کے ناک کان کاٹ دیئے.یہاں تک کہ آپ کے واجب العزت بچا ہمزہ کے ناک کان کاٹے گئے.پیٹ پھاڑ کر جگر لے ترجمہ :.آنکھ آنسو بہاتی ہے.اور دل غمگین ہے.اور ہم وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو..
۲۲ نکال کر چبایا گیا.اور آپ کو سخت رنج پہنچایا گیا.مگر با وجود اس کے فرمایا.کہ خبردار مسلمانو! تم ایسا نہ کرنا.سبحان الله و بحمده سبحان اللہ العظیم - جنگجو اور پھر الیسا رحیم ؟ پھر فاتح ہو کر آپ اعلان فرماتے تھے.دیکھو کسی زخمی کو قتل نہ کرنا.کسی بھاگنے والے کے پیچھے زیادہ تعاقب نہ کرو بھاگتا ہے تو بھاگنے دو جنگ بدر میں ستر کا فرقید ہو کر مدینہ لائے گئے.حضور نے فرمایا.ان سے حسن سلوک کرنا.وہ قیدی خود کہتے ہیں کہ خدا کی قسم مسلمان خود پیدل چلتے.ہمیں سوار کرتے.آپ بھوکے رہتے ہمیں کھانا کھلاتے.آپ پیاسے رہتے.ہمیں پانی پلاتے.بتاؤ دنیا کے لوگو ! تم نے ایسا فاتح کبھی دیکھا ہے ؟ پھر احمد میں ایک حد تک اور حنین میں ایک وقت تک مسلمان مغلوب رہے مگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا نمونہ دیکھو.کہ صحابہ کے پیر اکھڑ جاتے ہیں.مگر آپ میدان میں رہتے ہیں.حالانکہ شکست کے وقت جبرئیل اور بادشاہ عموماً اپنے باڈی گارڈ کیسا تھ پہلے سے روانگی کا انتظام کرتے ہیں.سب سے مشہور بادشاہ نپولین نے واٹرلو کے میدان میں الیسا ہی کیا تھا.مگر حضور خود کھڑے رہے.فوج بھاگ گئی سبحان اللہ و بحمدہ سبحان الله العظيم بطور کنبہ والے کے کامل نمونہ پھر آپ کنبہ والے ہیں.تمام کنبہ آپ سے خوش ہے.سب کی خبر گیری کرتے ہیں.خاندان کے کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا.اِنَّمَا الفُلَانِ نَسُوالي بِاَوَلِيَا ، ولكِن لَّهُمْ رَحَمُ سَاَلُهَا بَلالِهَا یعنی میرے خاندان کے فلاں فلاں لوگوں سے کفر و نفاق کی وجہ سے میرا کوئی قلبی تعلق نہیں.مگر ہاں وہ میرے رشتہ دار ہیں.وہ حق میں ان کا ضرور ادا کرتا رہوں گا.بطور دوست کے کامل نمونہ پھر اور سنئے ! آپ کے دوست بھی ہیں.مگر سبحان اللہ کیسا اعلیٰ نمونہ آپ نے دوستی کا دکھایا.کہ کوئی دوست آپ کا شاکی نہیں.وفاداری ایسی کہ مرتے دم تک
۲۳ تعلق نبھایا.مدینہ میں آپ کے دوستوں کی عورتوں اور بچوں کا ایک گروہ ایک شادی سے واپس آ رہا تھا.آپ بے اختیار ہو کر ان کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور فرمایا.اللهم انتُمْ فِي اَحَبُّ النَّاسِ الي " یعنی خدا کی قسم تم لوگ تو مجھے سب سے پیارے ہو.دوستوں سے وفاداری ایسی کہ فتح مکہ کے بعد انصار کو خیال پیدا ہوا.کہ شاید آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ میں رہ پڑیں.فرمایا.اب تو مرنا جینا تمہیں میں ہے.اپنی وفات کے اعلان کے وقت فرمایا.میرے بعد جو خلیفہ ہو.اسے میں وصیت کرتا ہوں کہ انصار کا خیال رکھتے.کیوں کہ وہ میرے ولی دوست ہیں.پھر آپ کے دشمن بھی تھے.اور دشمن بھی ایسے کہ خون کے پیاسے سبحان اللہ ! آپ کے تعدل کے مداح ، آپ کی امامت کے قائل، آپ کی خوبیوں کے مقر.دشمن تو ہیں.مگر آپ میں کوئی عیب نہیں کے نکالتے.صرف دعوی نبوت کی وجہ سے یہ سب ناراضگی ہے کسی دشمن کو یہ ڈر نہیں کہ آپ قابو پا کر کوئی نا جائز کا روائی کریں گے.ہر قل جب ا سے جو ابوجہل کے مرنے کے بعد مکہ کے کفار کا سردار ہے پوچھتا ہے کہ محمد صلعم نے کبھی جھوٹ بولا ا کبھی معاہدہ شکنی کی تو اسے بھی مجبورا یہی کہنا پڑا کہ کبھی نہیں سبحان اللہ و سجدہ سبحان اللہ العظیم.انکسار کا کامل نمونہ البوس کبھی پھر اور سنیئے ! آپ ایک زمانہ میں کس میپرس تھے.پھر مشہور ہو گئے.خدا بھی فرماتا ہے وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ اکیلے تھے.لاکھوں آدمیوں کا مجمع آپ کے ساتھ ہو گیا.صرف ابو کبر" کو لے کر مکہ سے نکلے تھے مگر آٹھ سال کے بعد دس ہزار فقد وسیوں کے جھرمٹ میں مکہ میں داخل ہوئے.مگر ہر موقع پر اچھا نمونہ ہی اختیار فرمایا.اکیلے تھے تو کسی نے دبے نہیں.حق کا اظہار کیا.لاکھوں ساتھی مل گئے تو کسی پر بے جا دباؤ نہ ڈالا - گمنام تھے تو ذلیل نہ تھے.مشہور ہوئے تو متکبر نہ ہوئے.غرض ان تمام باتوں میں حضور نے دنیا کیلئے کامل نمونہ پیش کیا.سبحان الله و سجده سبحان الله العظيم
۲۴ بطور قیدی آپ کامل نمونہ پھر آپ قید بھی ہوئے.تین سال تک شعب ابی طالب میں قید رہے.حضرت یوسف " بھی قید ہوئے.مگر قرآن کہتا ہے کہ قید کرنے والوں کی طرف سے کھانا ملتا تھا.مگر حضور کو ظالموں نے اس طرح قید کیا کہ خود کھانا دنیا تو کجا.پہنچنے بھی نہ دیتے تھے.لکھا ہے.کہ رات کے وقت بنو ہاشم کے معصوم بچوں کے بھوک کے مارے رونے کی آوازیں سارا نکه سنتا تھا.مگر سبحان اللہ ! صبر ہو تو ایسا.قید رہے.مگر حق کو نہ چھوڑا.مصیبتیں برداشت کیں.مگر سچائی سے منہ نہ موڑا.اور تین سال تک قید رہے.مگر دین حق کو پیش کرنے میں قدم پیچھے نہ ہٹایا.یہاں تک کہ رات کو بچوں کے رونے کی آواز میں ملکہ والے درندے بھی برداشت نہ کر سکے.اور انہوں نے اپنا بائیکاٹ توڑ دیا.اور حضور اور آپ کے کنبہ کے لوگ آزاد ہو گئے زندگی کی تمام منزلوں میں کامل نمونہ پھر آپ نے بچین، جوانی ، ادھیڑ عمر اور بڑھاپا تمام عمریں پائیں اور سب کے مناسب فرائض آپ نے ادا کئے.بچپن ہے مگر آوارگی نہیں - جواتی ہے مگر دیوانی نہیں.ادھیڑ عمر ہے مگر کسل نہیں.بڑھایا ہے مگر حق کے پہنچانے میں ضعف نہیں.نماز تہجد میں کھڑے نہیں ہو سکتے تو بیٹھ کر پڑھتے ہیں.عرض عمر کے تمام دور نہایت عمدگی سے گزارے اور بیچوں ، جوانوں، ادھیڑ عمر والوں اور بوڑھوں کیلئے آپ کا نمونہ کامل نمونہ ہے.آپ ہمسایہ بھی رہے.مگر کیا مجال کہ کسی ہمسایہ کو آپ سے شکایت ہو.بیولوں کو کہتے کہ ترکاری اور سالن میں پانی ذرا زیادہ ڈالا کرو.تاکہ ہمسائیوں کو حصہ بھیجا جا سکے.دعوتوں میں ہمسائیوں کو مقدم فرماتے.انس کو فرماتے.بھا.پاس والوں کو بلالا - پھر آپ کے نوکر چاکر ، لونڈی اور غلام بھی تھے.انس کہتا ہے ہیں دس برس کا تھا.کہ آپ کی خدمت کے لئے مقرر ہوا ، آپ " کی وفات تک کہ دس برس کا عرصہ گذرتا ہے.خدمت کرتا رہا.کبھی آپ نے مجھے اُف تک نہیں کہا.آپ مجھے کام کیلئے بھیجتے میں رستہ میں بچوں سے کھیلنے لگتا.دیر کے بعد آپ خود
۲۵ آتے اور پیچھے سے اگر بے تکلفی سے میرا کان یا سر پکڑ لیتے.میں کہتا کہ اچھا حضور ابھی جاتا ہوں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں.واللهِ مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ خَادِمًا - یعنی خدا کی قسم حضرت نے کبھی کسی ملازم کو نہیں مارا.غلاموں سے سلوک غلاموں سے ایسی شفقت کہ زید بن حارثہ نام غلام آپ کو حضرت خدیجہ نے دیا.آپ نے اس سے ایسا حسن سلوک کیا کہ اس کے باپ اور بھائی نکتہ میں آئے اور کہا کہ حضور یہ تمھارا اور اور یہ لڑکا فلاں جنگ میں غلام بن کر حضور کے پاس پہنچ گیا ہے.اسے ہمیں دے دیں..آپ نے بڑی خوشی سے اجازت دے دی.مگر دیکھو آپ کے حسن سلوک کا اثر کہ زید نے کہا.کہ مجھے اس شخص کی غلامی منظور ہے.مگر آزاد ہو کر اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ اپنے قبیلہ میں جانا منظور نہیں.اس سے بڑھ کر غلاموں سے حسن سلوک کی کیا مثال اور نمونہ ہو سکتا ہے.سبحان الله و بحمده سبحان اللہ العظیم.آپ کی مظلومیت اب میں ایک آخری بات لکھ کر اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں.کہ حضور تیرہ برس تک مکہ میں اور آٹھ برس تک مدینہ میں کفار عرب کے ظالموں کا تختہ مشق بنے رہے.انہوں نے آپ کو وطن سے بیوٹن کیا.آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو مارا پیٹا زخمی کیا.قتل کے درپے ہوئے ، قید میں رکھا.طائف کے لفنگوں نے پتھر مارتے ، گالیاں دیتے ، اوباشوں اور کتوں کو کو پیچھے بھگاتے ہوئے گیارہ میل تک حضور" کا تعاقب کیا.آپ نماز پڑھ رہے ہیں کہ پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی گندگی سمیت لاکر رکھ دی.خانہ کعبہ ہی نماز پڑھنے کیلئے آتے ہیں کہ کھلے میں ٹپکا ڈال کر گلا گھونٹنے لگے.جنگِ اُحد میں آپ کو زخمی کیا.ہجرت کے موقعہ پر جو آپ کو زندہ یا مردہ لاوے.اس کے لئے ستو اونٹ کا انعام مقرر کر کے آپ کو اشتہاری محبرم قرار دیا.آپ کے ساتھیوں کو بے رحمی سے قتل کیا.آپ پر ایمان لانے والے غلاموں اور لونڈیوں کو مار مار کر اندھا کر دیا.ظالموں نے مسلمانوں کا ایک پاؤں ایک اونٹ سے اور
۲۶ دوسرا دوسرے سے باندھ کر دونوں کو چلا کر جسم کے دو ٹکڑے کر دیئے.عفیفہ عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر شہید کیاگیا.مدینہ پر متواتر پڑھ کر آئے ، آپ کی جوان صاحبزادی کو اس قدر بپھر مارے کہ اسقاط ہو گیا اور اسی میں وہ فوت ہو گئی.آپ کے عضو کا کامل نمونہ اس تمام ظلموں کے بعد جب مکہ فتح ہوتا ہے اور خدا کا نبی دس ہزار قدوسیوں کے جمگھٹے میں اِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُكَ إِلَى مَعَادٍ کے مطابق مکہ میں داخل ہوتا ہے.اور دوسرے روز سب مکہ والوں کو صحن کعبہ میں جمع کیا جاتا ہے.تو بتاؤ کہ نرم سے نرم دل کیا سزا تجویز کرے گا ؟ کیا مسلمانوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں ؟ کیا حضور کی بنک کا کوئی بدلہ نہیں ؟ کیا زینب کا اسقاط حمل بے انتقام جائے گا ؟ کیا سمت مرحومہ کی در ناک موت اور خبیب کا خوفناک قتل ضائع جائے گا.کیا مدینہ پر چڑھائیاں اور بدر، احد اور خندق میں مسلمانوں کا قتل ہونا کوئی رنگ نہ لائیگا ؟ کیوں نہیں لائی گا اور ضرور لائیگا.اور میری طبیعت تو ایک منٹ کیلئے بھی تسلیم نہیں کر سکتی.کہ مکہ والوں کو معاف کیا جائیگا.نہیں اور ہرگز نہیں.میں تو منتظر ہوں کہ ابھی تیروتلوار کے چلنے مکانوں کے گرنے ، درختوں کے کالے جانے ، خندقیں کھود کھود کر مکہ کے ظالم درندوں کے زندہ جلائے جانے اور مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجائے جانے کی پے در پلے آوازیں آئیں گی.اور سلمانوں کا لشکر مکہ سے تب واپس جائے گا جب لوگ کہیں گے.کہیں گے.کہ مکہ بھی ایک نسبتی ہوتی تھی.مگر اب نہیں.لیکن میں حیران ہوں.میری عقل کام نہیں کرتی میں سمجھتا ہوں کہ بیداری نہیں بلکہ خواب ہے.کیونکہ چاروں طرف مکہ کے باشندوں کو خوشی سے اچھلتے کو دتے گھروں کی طرف بھاتے دیکھتا ہوں جو پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ سب سے حیم خدا کے سب سے رحیم بندے نے ہم سب کو جمع کر کے صاف الفاظ میں اعلان فرما دیا کہ اِذْهَبُوا فَانتم اللقاء لا نريب عليكم اليوم - یعنی جاؤ میں نے تم سب کو معاف کیا اور میں تمہیں تمہارے کسی فعل پر سلامت بھی نہیں کرتا.دنیا کے لوگو ! بتاؤ کہ اس کا کوئی نمونہ ہے ؟ حکومت کے نمائندو! نام لوکسی
۲۷ بادشاہ کا جس نے یہ نمونہ دکھایا ہو.آنحضرت اور حضرت یوسف کے عفو کا مقابلہ بے شک حضرت یوسف نے اپنے قصور واروں کو معاف کیا.مگر کس کو ؟ اپنے لگے بھائیوں کو.مگر محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے شک اپنی برادری کے لوگوں کو معاف کیا مگروہ سگے نہ تھے.پھر یوسف علیہ السلام کے ماں باپ زندہ تھے.اگر یوسف" اپنے بھائیوں کو معاف نہ کرتا تو کیا کرتا.کیا بھائیوں کو سزا دیگر ماں باپ کو زندہ درگور کردیا ؟ نگرمحمد صلی الله علیہ وسلم اگر سزا دیتے تو کیا مضائقہ تھا.پھر یوسف کے بھائیوں نے یوسف کو قتل نہیں کیا بلکہ محمد خشک کنوئیں میں ڈال دیا، تاکہ يَلْيَقِطَهُ السَّيَّارَة یعنی کوئی مسافر اسے لے جائے.مگر آپ کے دشمنوں نے آپ کو اپنی طرف سے قتل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.پھر یوسف کے بھائی گھر سے نکال کر خاموش ہو گئے.مگرمکہ کے کافروں نے مدینہ میں بھی چین نہ لینے دیا بلکہ بدر أحمد اور خندق فرض ہر موقع پر آپ کو تباہ کرنے کی نیت سے حملہ آور ہوئے.اس لئے میرے آقا کا اپنی قوم کو معاف کرنا یوسف کے معاف کرنے سے ہزار درجہ لاکھ درجہ کروڑوں درجہ بلکہ بے انتہا درجہ بڑھ کر ہے آپ اس صورت کو بھی معاف کر دیتے ہیں میں نے آپ کے چھ کا کلیجہ چبایا تھا.آپ اس وحشی کو بھی معاف کر دیتے ہیں جس نے چھپ کر آپنے چھا کو قتل کیا تھا.آپ اسے بھی معاف کر دیتے ہیں جو اپنے باپ کی طرح مسلمانوں کا جانی دشمن بینی الوجیل کا بیٹا شکریہ تھا.یہ ہے عضو کی بہترین مثال اور اسے کہتے ہیں قابو پا کر معاف کرنا، اور یہ ہے میرے آقا و موئی اور سید کا بے نظیر نمونه - فداہ ابی وامی اور چونکہ ہر مر مں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ ہیں اور کوئی انسانی حالت ایسی نہیں جس میں آپ نمونہ نہ ہوں.اسی لئے اس وقت آسمان کے نیچے ساری دنیا کیلئے آپ کے سوا کوئی شخص ہمارے لئے تمامبل نمونہ نہیں ہوسکتا.اللهم صل على محمد وعلى ال محمد وبارك وسلم إنك حميل تجنيد - خاکساز : سید محمد اسحاق