Inqlab-eHaqeeqi

Inqlab-eHaqeeqi

انقلابِ حقیقی

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR

حضرت المصلح موعودؓ کا معرکۃالآرا خطاب جو آپؓ نے ۲۸؍دسمبر ۱۹۳۷ء؁ کو جلسہ سالانہ قادیان کے بابرکت موقعہ پر فرمایا۔ حضور نے اپنے اس خطاب میں تاریخ عالم میں کامیاب ہونے والی مادی تحریکوں اور ان کی کامیابی کا راز تفصیلاً بیان فرمانے کے بعد مذہبی تحریکات کے عظیم الشان ادوار کا ذکر فرمایا ہے۔ حضور نے مسیح محمدی کے ذریعہ رونما ہونے والے انقلاب کو درحقیقت احیائے تعلیم مصطفوی قرار دیا ہے۔ پھر حضور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پیدا ہونے والے انقلاب حقیقی کا ذکر فرماتے ہوئے تحریک جدید کے مقاصد کو بیان فرمایا ہے اور عملی انقلاب کو تحریک جدید کے مطالبات کے ساتھ وابستہ قرار دیا ہے۔ آخر پر اسلامی تمدن کے قیام کے ذرائع پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے دور مسیحِ محمدی کے مبارک عہد میں موجود اور مسیح محمدی سے پیوست احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔


Book Content

Page 1

انقلاب حقیقی ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

انقلاب حقیقی از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 3

نام کتاب انقلاب حقیقی مصنف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة أسبح الثاني سن اشاعت کمپوز ڈباراول : 2012 ء تعداد 1000: فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان مطبع ناشر نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان ، ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا.143516 ISBN: 978-81-7912-277-8 INQALAB-E-HAQIQI Speech Delivered by: Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad Khalifatul Masih II (ra)

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی جناب سے سید نا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک عظیم موعود فرزند کی بشارت عطا فرمائی جو پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے جماعت میں معروف و مشہور ہے.اس عظیم الشان پیشگوئی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم فرزند کے متعلق باون علامتوں کی خبر دی گئی تھی.پیشگوئی میں بیان کی گئی یہ علامتیں سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت وجود میں بڑی شان وشوکت کے ساتھ پوری ہوئیں.پیشگوئی میں حضور اقدس کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ سخت ذہین و نیم ہوگا...اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ سیدنا حضرت اصبح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذہانت اور آپ کے فہم و ادراک اور تجر علمی کا ایک روشن اور واضح ثبوت آپ کی وہ تحریرات و تقاریر ہیں جو انوار العلوم کی لمصله جلدوں کی صورت میں شائع شدہ ہیں.حضرت اصلح الموعودؓ کی یہ تقریر " انقلاب حقیقی ، جس کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے دراصل آپ کا معرکۃ الآراء خطاب ہے جو آپ نے ۲۸ دسمبر ۱۹۳۷ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے بابرکت موقعہ پر فرمایا ہے.حضور نے اپنے اس خطاب میں تاریخ عالم میں کامیاب ہونے والی مادی تحریکوں اور ان کی کامیابی کا راز تفصیلاً بیان فرمانے کے بعد مذہبی تحریکات کے عظیم الشان ادوار کا ذکر فرمایا ہے.حضور نے مسیح محمدی کے ذریعہ رونما ہونے والے انقلاب کو درحقیقت احیائے تعلیم

Page 5

مصطفوی قرار دیا ہے.پھر حضور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پیدا ہونے والے انقلاب حقیقی کا ذکر فرماتے ہوئے تحریک جدید کے مقاصد کو بیان فرمایا ہے اور عملی انقلاب کو تحریک جدید کے مطالبات کے ساتھ وابستہ قرار دیا ہے.آخر پر اسلامی تمدن کے قیام کے ذرائع پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے دور مسیح محمدی کے مبارک عہد میں موجود اور مسیح محمدی سے پیوست احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتی ہے.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے نظارت نشر و اشاعت قادیان حضرت اصلح الموعود کی اس تقریر کو پہلی بار کمپوز کر کے کتابی شکل میں افادہ عام کے لئے شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کتاب کی اشاعت کو ہر لحاظ سے بابرکت کرے اور ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو خلفاء کرام کی اعلیٰ تو قعات کے مطابق نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 6

.انقلاب حقیقی بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ انقلاب حقیقی ( تقریر فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۳۷ء بر موقع جلسه سالانه) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا لاؤڈ سپیکر کی ایجاد آج میری آواز تو اتنی بیٹھی ہوئی ہے کہ شاید لاؤڈ سپیکر کے بغیر دوستوں تک آواز پہنچنی مشکل ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جو اشاعت کا زمانہ ہے اور جہاں گلے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے یہ ایجاد کر دی ہے جس پر ہم جس قدر بھی اس کا شکر بجالائیں کم ہے.انگریزی میں گلے کی تکلیف کو کلر جی مینز تھروٹ (CLERGYMAN'S THROAT) کہتے ہیں یعنی پادریوں کے گلے کی تکلیف.اور پادری صرف اتوار کے دن نہایت مدھم سی آواز میں پندرہ بیس یا تمھیں منٹ ہی تقریر کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس ہفتہ کی ایک تقریر کی وجہ سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کے گلے کی خراش کا نام ہی پادریوں کے گلے کی خراش رکھ دیا جائے.پھر اُن لوگوں کا کیا حال ہے جنہیں ضرورت کے ماتحت چھ چھ گھنٹے بھی تقریریں کرنی پڑتی ہیں اور جن کے جمعہ کا ایک خطبہ بسا اوقات پادریوں کے مہینوں کی تقریروں 1

Page 7

.انقلاب حقیقی سے بڑھ جاتا ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایجاد ہم لوگوں کیلئے ہی کی ہے جن کے گلوں پر ان تقریروں کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے.دوستوں کے تار پیشتر اس کے کہ میں اپنا آج کا مضمون شروع کروں بعض دوستوں کی تاروں کا مضمون پڑھ کر سنا دیتا ہوں جنہوں نے مجھ سے اور تمام دوستوں سے خواہش کی ہے کہ ان ایام کی دعاؤں میں انہیں شامل رکھا جائے (اس کے بعد حضور نے ہندوستان کے مختلف علاقوں اور بیرون ہند کے ان اصحاب کے نام سنائے جنہوں نے بذریعہ تار جلسہ میں شامل ہونے والے اصحاب کو السَّلامُ عَلَيْكُمْ کہا اور درخواست دعا کی تھی پھر فرمایا : - ) میاں عزیز احمد صاحب کے متعلق دوسوالات کے جواب میں اپنا مضمون شروع کرنے سے پہلے کچھ اور باتیں بھی کہنا چاہتا ہوں ایک تو یہ ہے کہ گل ایک دوست نے لیکچر کی حالت میں مجھے ایک رقعہ دیا.چونکہ لیکچر دیتے وقت میں زیادہ تر کوشش یہی کرتا ہوں کہ رھتے نہ پڑھوں کیونکہ اس طرح لیکچر بالکل خراب ہو جاتا ہے اس لئے میں نے اُسے اُس وقت نہ پڑھا بلکہ بعد میں پڑھا.اس میں میری اُس تقریر کے متعلق جو گل میں نے مصری صاحب کے متعلق کی ہے دوسوالات درج تھے.کوئی محمد عبداللہ صاحب ہیں جنہوں نے وہ رقعہ لکھا.بہر حال ایک بات انہوں نے یہ کھی ہے کہ آپ کی طرف سے اعلان تھا کہ اگر کسی شخص نے کوئی خلاف قانون حرکت کی اور شرارت اور فساد پیدا کیا تو میں اُسے جماعت سے خارج کر دوں گا مگر باوجود اس اعلان کے عزیز احمد جس کے ہاتھوں فخر الدین ملتانی قتل ہوا اب تک جماعت میں موجود ہے اور اسے جماعت له 2

Page 8

.انقلاب حقیقی سے خارج نہیں کیا گیا اس کی کیا وجہ ہے؟ دوسرے اگر یہ اعلان صحیح تھا تو عزیز احمد کی طرف سے احمدی وکیل پیروی کیوں کرتے رہے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے یہ دوست اگر مبائعین میں سے ہیں تو نہ انہوں نے کبھی میرے خطبے پڑھے ہیں اور نہ انہیں قانون کی کوئی واقفیت ہے اور اگر ہماری جماعت کے یہ دوست نہیں تو خیر دوسرے لوگ ہم پر اعتراض کیا ہی کرتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ کوئی عجیب بات نہیں.تھا کہ :.اصل بات یہ ہے کہ وہ اعلان جس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ جب اُس میں کہا گیا اگر کسی احمدی کی نسبت ثابت ہوا کہ وہ فساد کرتا یا اس میں شامل ہوتا ہے تو اُسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا.وہ میاں عزیز احمد کے فعل کے ایک دن بعد کا ہے اور اس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ یہ ہدایت آئندہ کے متعلق ہے.چنانچہ میرے اعلان کے الفاظ یہ ہیں کہ :.آئندہ کیلئے دوستوں کو پھر ہدایت کر دینی چاہتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں کو پوری طرح قابو میں رکھیں اور انتہائی اشتعال کے وقت بھی اپنے جذبات کو ۲۱ دبائے رکھیں“ سے پھر اسی اعلان کو میں نے ایک اور موقع پر اس طرح دُہرایا ہے کہ: ” جو شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور کسی ذاتی یا جماعتی مخالف پر ہاتھ اُٹھائے گا اُسے میں آئندہ فوراً جماعت سے خارج کر دوں گا“ سے پس جب کہ یہ ہدایت آئندہ کے متعلق تھی اور میاں عزیز احمد کے فعل سے پہلے ایسی الفضل ۱۰ اگست ۱۹۳۷ء الفضل ۲۰ را گست ۱۹۳۷ء 3

Page 9

انقلاب حقیقی کوئی ہدایت میری طرف سے نافذ نہیں ہوئی تھی تو میاں عزیز احمد کو جماعت سے کس طرح خارج کیا جاتا.اسی طرح جو دوسرا اعتراض کیا گیا ہے کہ احمدی وکیل میاں عزیز احمد کے مقدمہ کی پیروی کیوں کرتے ہیں یہ بھی قانونی ناواقفیت کی وجہ سے کیا گیا ہے.وکلاء کا فرض ہوتا ہے کہ خواہ انہیں کوئی اپنے مقدمہ کیلئے مقرر کرے وہ اس کے مقدمہ کی پیروی کریں اور یہاں تو ایک خاص بات بھی ہے اور وہ یہ کہ شیخ بشیر احمد صاحب نے یہ کیس اپنی طرف سے نہیں لیا بلکہ وہ گورنمنٹ کی طرف سے اس مقدمہ کی پیروی کیلئے مقرر ہیں اور ہائی کورٹ نے انہیں اپنی طرف سے فیس دے کر کھڑا کیا ہے کیونکہ گورنمنٹ نے یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اگر کوئی غریب شخص ملزم ہو اور وہ اپنے وکیل کے اخراجات برداشت نہ کرسکتا ہوتو حکومت خود اُس کی طرف سے وکیل مقرر کرتی اور اُس کے اخراجات آپ برداشت کرتی ہے.پس اگر عیسائی گورنمنٹ انصاف کا اتنا خیال رکھتی ہے کہ وہ اپنے خرچ پر ملزم کی طرف سے کسی کو وکیل مقرر کر دیتی ہے اور ملزم کو اپنی بریت ثابت کرنے کا موقع دیتی ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا ایک احمدی ملزم کی طرف سے وکیل کیوں کھڑا نہ ہو سکے.جو حق حکومت کی طرف سے ہر مذہب کے غریب ملزموں کو حاصل ہے وہ یقیناً ایک احمدی کو بھی ملنا چاہئے اور اسی وجہ سے شیخ بشیر احمد صاحب اس مقدمہ کی پیروی کر رہے ہیں.پس شیخ صاحب کو جماعت کی طرف سے نہیں کھڑا کیا گیا بلکہ ہائی کورٹ نے انہیں فیس دے کر خود کھڑا کیا ہے.حضرت بابا نانک کو مسلمان کہنا اور ایک مجسٹریٹ دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ پچھلے دنوں ہمارے ایک مقدمہ کے دوران میں ایک مجسٹریٹ نے ایک وکیل کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو

Page 10

.انقلاب حقیقی (ادب کے الفاظ تو میں استعمال کر رہا ہوں انہوں نے تو یہ کہا تھا کہ اگر تمہارے محمد صاحب کو) کوئی کافر اور غدار کہہ دے تو تم اسے کیسا سمجھو گے؟ اور تمہارا دل اس سے دُکھے گا یا نہیں دُکھے گا؟ اسی طرح باوانا تک صاحب کو مسلمان کہنے سے سکھوں کا دل دُکھتا ہے.یہ طریق کلام اتنا ناشائستہ ہے کہ میں حیران ہوں اگر حکومت اپنے مجسٹریٹوں کو اس قسم کی باتوں کا اختیار دیتی ہو اور پھر اس کا نام عدالت رکھتی ہو تو پھر دنیا میں کسی اور فسادی کی ضرورت ہی کیا ہے.اس طرح تو خود گورنمنٹ فساد کا موجب کہلائے گی.رسول کریمہ کی ہتک اور احرار کہا جاتا ہے بلکہ وہ احراری جو رسول کریم ﷺ کی محبت کے بلند بانگ دعاوی کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اس نے اپنے فقرہ کو اگر سے مشروط کر دیا تھا یعنی اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ محمد صاحب ایسے ہیں بلکہ اس نے کہا تھا کہ اگر محمد صاحب کو کوئی ایسا کہہ دے تو آپ کا دل دُکھے گا یا نہیں؟ لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اگر کسی احراری لیڈر سے باتیں کرتے ہوئے کوئی شخص کہے کہ اگر تمہاری ماں کو کوئی بدکار اور کنجری کہے تو تمہارا دل اس سے دُکھے گا یا نہیں تو کیا وہ اسے پسند کریں گے؟ میں سمجھتا ہوں یقیناً وہ اسے پسند نہیں کریں گے.پس اگر کا لفظ لگانے سے جُرم کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی.مباحثہ میں دشمن کا جواب دیتے وقت بات کرنے کے اصول اور ہوتے ہیں اور عدالت کی حیثیت اور ہوتی ہے اور عدالت کو اپنے وقار کو قائم رکھنا چاہئے اور ایسے الفاظ سے کلّی طور پر احتراز کرنا چاہئے.ہندوؤں کا ایک روزانہ اخبار ” عام لاہور سے نکلا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسے ہمیشہ منگوایا کرتے تھے اور آپ اس کے خریدار تھے.ایک دفعہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کریم کے متعلق ایک مضمون لکھا جس میں اگر“ کا لفظ 5

Page 11

انقلاب حقیقی استعمال کر کے اس نے ایک گندی گالی دے دی، میں بھی چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت میں اس اخبار کا خریدار تھا اس لئے میں نے پہلے اسے چٹھی لکھی کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی ہے اس کا اپنے اخبار میں ازالہ کرو.مگر اس چٹھی کا اُس نے جواب یہ دیا کہ میں نے کوئی بہتک نہیں کی میں نے تو صرف اگر کا لفظ استعمال کر کے ایک شرطی بات کہی تھی.اس پر میں نے اسے ایک مضمون بھیجا جس میں ویدوں اور وید کے رشیوں کے متعلق میں نے اگر اگر کا لفظ استعمال کر کے کئی سخت الفاظ کہے کہ اگر تمہارے رشی کے متعلق کوئی یہ کہہ دے تو تم اسے کیا سمجھو گے، اگر ویدوں کے متعلق کوئی یہ کہہ دے تو تم اسے کیسا سمجھو گے اور نیچے میں نے لکھ دیا کہ آپ اس مضمون کو شائع کر دیں.مضمون تو اُس نے کیا شائع کرنا تھا اُس کا دو صفحہ کا ایک خط آ گیا جو گالیوں سے بھرا ہو اتھا اور جس میں لکھا تھا کہ آپ مرزا صاحب کے لڑکے ہیں آپ کے متعلق میں یہ امید نہیں کرتا تھا کہ ایسے الفاظ ہمارے ویدوں اور رشیوں کے متعلق استعمال کریں گے.میں نے اسے لکھا کہ میں نے تو کوئی گالی نہیں دی میں نے تو اگر کا لفظ استعمال کر کے بعض سوالات دریافت کئے تھے.گورنمنٹ کو متوجہ کیا جائے میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ ایسے امور کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلائے اور پورے زور سے توجہ دلائے.کسی نے کہا تھا کہ مجسٹریٹ صاحب یہ الفاظ واپس لینے کیلئے تیار ہیں.میرے پاس جب یہ پیغام پہنچا تو میں نے کہا ہمیں تو کسی سے دشمنی نہیں ہم تو ہر ایک کی عزت کرتے ہیں اگر گورنمنٹ کے آفیسر ز صیح طریق پر چلیں تو ہم انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھانے کیلئے تیار ہیں اور اگر وہ یہ الفاظ واپس لے لیں تو ہمیں اس سے بڑی خوشی ہوگی اور ہم سمجھیں گے کہ معاملہ ختم ہو گیا.مگر بعد میں میں نے سنا کہ انہوں نے الفاظ 6

Page 12

.انقلاب حقیقی واپس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں صرف یہ کہنے کیلئے تیار ہوں کہ ان الفاظ سے میری نیت ہتک کی نہیں تھی اپنے الفاظ واپس لینے کیلئے تیار نہیں.معلوم ہوا ہے پیرا کبر علی صاحب نے اس کے متعلق اسمبلی میں سوال بھیجا ہے.اتنے حصہ کے متعلق میں انہیں جَزَاكُمُ الله کہتا ہوں مگر اتنا ہی کافی نہیں حکومت کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ اس بارے میں ضروری کارروائی کرے.اگر مسلمان ممبر یہ تہیہ کر لیں کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ہتک کا ازالہ نہیں کیا جائے گا اور ہتک کرنے والے مجسٹریٹ کو سزا نہیں دی جائے گی اُس وقت تک وہ کونسل کا کام چلنے نہیں دیں گے تو میں سمجھتا ہوں حکومت اس معاملہ کی طرف جلد متوجہ ہو سکتی ہے.شیخ عبدالرحمن مصری کے لیکچر میں شمولیت کی ممانعت تیسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ آج کے ایک اعلان کے متعلق ہے جو مصری صاحب کے لیکچر کے متعلق کسی نے کیا ہے اور جس میں ایک فقرہ یہ لکھا ہے کہ میری طرف سے جماعت کے دوستوں کو اجازت ہے کہ ان کے لیکچر میں شامل ہوں حالانکہ ان امور میں اجازت اور عدم اجازت کا کوئی سوال نہیں ہوتا بلکہ یہ امور انسان کے قلب سے تعلق رکھتے ہیں.ایک شخص اگر میرے پاس آئے اور کہے کہ مجھے آپ کے متعلق بعض شبہات ہیں اور میں نے آپ کو بینات وشواہد سے نہیں مانا تھا بلکہ سنی سنائی باتوں پر اعتبار کر کے مانا تھا اب میں چاہتا ہوں کہ دوسرے فریق کی بھی باتیں سنوں اور دیکھوں کہ وہ کیا کہتا ہے تو شرعاً اور اخلاقاً مجھے کوئی اختیار نہیں کہ میں اسے روکوں.اگر کسی کو میری خلافت کے متعلق شبہ ہے تو اس کو نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کے متعلق یہ پسندیدہ امر ہے کہ وہ وہاں جائے اور باتوں کا موازنہ کرے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جن لوگوں نے تحقیق کر لی ہے اور قرآن وحدیث 7

Page 13

انقلاب حقیقی کے ماتحت میری بیعت کی ہے اور میری صداقت میں انہیں کسی قسم کا طبہ نہیں وہ بھی وہاں جائیں اور تماشہ کے طور پر ان کے لیکچر میں بیٹھیں.اگر ایسا جائز ہوتا تو ہمیں نظر آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر بحث کے موقع پر پہنچ جاتے اور فرماتے کہ آؤ ہم تحقیق کریں اسلام سچا ہے یا نہیں؟ یہودی لیکچر دیتے تو ان میں چلے جاتے کہ شاید یہودی مذہب سچا ہو، عیسائی لیکچر دیتے تو وہ سننے چلے جاتے اور کہتے کہ تحقیق کرنی چاہئے.مگر کہیں سے بھی یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی مجالس میں گئے ہوں بلکہ آپ اگر فرماتے ہیں تو یہ کہ اَدْعُوا إلى اللون على بَصِيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي ! میں نے خدا کو دیکھ کر مانا ہے مجھے مزید تحقیق کی کیا ضرورت ہے.پس جس نے مجھے مانا اور تحقیق کر کے مانا ہے اسے تماشہ کے طور پر وہاں جا کر وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ ان کا جانا بے فائدہ اور لغو ہے.ہاں جس نے ابھی تک تحقیق نہیں کی اسے یقیناً جانا چاہئے.شیخ عبد الرحمن مصری کا لغو مطالبہ دوسرے انہوں نے وہی بات کی ہے جو حروریہ کیا کرتے تھے کہ بعض دفعہ ایک اچھی بات کہتے مگر ارادہ فساد اور شرارت کا ہوتا.جیسے کل ہی میں نے بتایا تھا کہ وہ حضرت علی کی مجلس میں آجاتے اور نعرہ لگاتے کہ لاحُكُمَ إِلَّا لِلهِ کہ حکم اللہ کا ہے اور مسلمانوں کو آپس يوسف: ۱۰۹ ے حروری: عراق میں کوفہ کے نزدیک ایک چھوٹا سا مقام حروراء ہے.جہاں خوارج نے سب سے پہلے حضرت علی کے خلاف خروج کیا تھا.اسی حروراء کی نسبت سے ابتدائی دور کے خوارج کو ” حروریہ“ بھی کہتے ہیں.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۴۲ ۵ مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء) 8

Page 14

.انقلاب حقیقی میں مشورہ کر کے کام کرنا چاہئے.حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ سنتے تو فرماتے كَلِمَةُ الْحَقِ أُرِيدَ بِهَا بَاطِل ! بات تو تم سچی کہتے ہو مگر تمہاری غرض فتنہ و فساد ہے.اسی طرح مصری صاحب نے مجھے انہی دنوں چٹھی لکھی کہ مجھے جلسہ سالانہ میں دو دن دو دو گھنٹے لیکچر کیلئے وقت دیا جائے اور اگر آپ نہ دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نہیں چاہتے کہ سچ ظاہر ہو.میں نے انہیں لکھا کہ اگر ہم آپ کو اجازت دے دیں تو پھر ہر مذہب والا ہمیں کہہ سکتا ہے کہ مجھے بھی دو دو گھنٹہ وقت دیا جائے اور اس طرح اگر ہم دو دو گھنٹے ہر مذہب والے لود دینے لگیں تو ہماری اپنی تقریروں کیلئے کونسا وقت باقی رہے اور اگر ہم نہ دیں تو وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تم سچ چھپانا چاہتے ہو.آریہ کہیں گے تم نے ہمیں چونکہ وقت نہیں دیا اس لئے معلوم ہوا کہ تمہیں سچائی سے غرض نہیں، عیسائی کہیں گے کہ ہمیں چونکہ وقت نہیں ملا اس لئے معلوم ہوا کہ تمہیں صداقت معلوم کرنے کی کوئی تڑپ نہیں ،سکھ کہیں گے ہمیں چونکہ وقت نہیں دیا گیا اس لئے معلوم ہوا کہ احمدی سچ چُھپانا چاہتے ہیں.پس چونکہ اس طرح ہر ایک کو وقت دے کر ہمارے لئے کوئی وقت نہیں بچتا اور یوں بھی یہ مطالبہ بالکل لغو ہے اس لئے میں نے انہیں لکھا کہ یہ طریق درست نہیں آپ الگ بے شک تقریریں کریں میں آپ کو نہیں روکتا.باقی ہمارے جلسہ کے ایام میں میں نہیں کہہ سکتا کہ کسی اور جلسہ کے کرنے کی اجازت آپ کو حکومت کی طرف سے ملے یا نہ ملے کیونکہ ۱۹۳۴ء میں احرار کے جلسہ کے وقت ہمیں یہ نوٹس دیا گیا تھا کہ ہم ان کے جلسہ سے پانچ دن پہلے اور پانچ دن بعد کوئی جلسہ منعقد نہیں کر سکتے حالانکہ قادیان ہمارا مذہبی مرکز ہے اور ہم اس میں ہر وقت جلسہ کرنے کا حق رکھتے ہیں.میں نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں لکھا کہ محکمہ کی اس معاملہ میں گورنمنٹ سے بحث ہو رہی ہے مگر انہوں نے اس کے یہ معنی نکال لئے کہ گویا انہیں ہماری ل الكامل في التاريخ لابن الاثير المجلد الثالث صفحه ۳۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء

Page 15

.انقلاب حقیقی طرف سے ان دنوں تقریر کرنے کی اجازت ہے.حالانکہ گورنمنٹ سے ہماری یہ بحث ہو رہی ہے کہ تم نے احرار کے جلسہ کے ایام میں ہمیں یہ حکم دیا تھا کہ ہم اس جلسہ سے پانچ دن پہلے اور پانچ دن بعد کوئی جلسہ منعقد نہ کریں.پس اسی حکم کی بناء پر ہم بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ یہی حق ہمارے متعلق تسلیم کیا جائے اور جب ہمارا جلسہ ہو تو اس سے پانچ دن پہلے اور پانچ دن بعد کسی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہ ہو.پس مصری صاحب کا ۲۹.دسمبر کو کوئی جلسہ منعقد کرنا اور اس میں اپنا لیکچر رکھنا درحقیقت اس حق کے خلاف ہے لیکن چونکہ اس کا تعلق حکومت سے تھا مجھے مصری صاحب کو اس بارہ میں کچھ کہنے کی ضرورت نہ تھی.یہ صاف بات ہے کہ اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ دوسرے کی حق بات بھی نہ سنو تو یہ جبر ہوگا اور جبر اسلام میں جائز نہیں.پس جو شخص ابھی حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہے یا تحقیق کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہاں جائے مگر جو شخص تحقیق کر چکا ہے اور عــلــى وجـــه البصيرت اُس نے میری بیعت کی ہے ہم اس کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ وہاں جائے.سوائے اس کے کہ وہ مباحث یا مناظر ہو یا مباحث و مناظر کا مددگار ہو.مؤمن کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور نہ وہ کوئی بے فائدہ اور لغو کام کرتا ہے اگر میں اس قسم کی دعوتیں قبول کرنا شروع کر دوں تو مجھے روزانہ چٹھیاں، آنی شروع ہو جا ئیں کہ آج فلاں جگہ ہماری تقریر ہے آپ اس میں ضرور شریک ہوں.دوسری جگہ ہمارا جلسہ ہے آپ بھی آئیں اور سنیں اور اگر ایسی چٹھیاں آئیں تو میرا ایک ہی جواب ہوگا اور وہ یہ کہ میں نے عَلَى وَجْهِ الْبصيرت احمدیت کی صداقت کا مشاہدہ کر لیا ہے.پس دوسری بات میرے لئے پیدا ہی نہیں ہو سکتی.کیا دنیا میں تم نے کبھی دیکھا کہ کسی شخص نے دوسرے سے کہا ہو کہ آؤ ہمارے ساتھ چلو فلاں جگہ بحث ہوگی کہ تمہاری جو بیوی ہے وہ تمہاری ہی بیوی ہے یا کسی اور کی.کون اتو ہے؟ جو ایسے شخص کے ساتھ چلے گاوہ 10

Page 16

.انقلاب حقیقی تو کہے گا کہ میرے لئے یہ بات اُسی وقت سے حل شدہ ہے جب سے وہ میرے گھر میں بس رہی ہے.(الفضل ۲۰ ؍ دسمبر ۱۹۳۸ء) آج جس مضمون کو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ عجیب نوعیت کا ہے یعنی ایسا ہے کہ اگر چاہوں تو ایک فقرہ کہ کر بیٹھ جاؤں اور مضمون ختم ہو جائے اور اگر چاہوں اور اللہ تعالیٰ توفیق دے تو کئی دن بارہ بارہ گھنٹے تقریریں ہوتی رہیں مگر یہ مضمون ختم نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں چار پانچ گھنٹے میں ایک حد تک اس مضمون کو بیان کر دوں.سو وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس آخری اور وسطی طریق کو ہی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں وَاللهُ الْمُوَفِّقُ قومی زندگی کے قیام کے اصول سب سے پہلے میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جماعت کو یہ امراچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ دو اصول ایسے ہیں جو دنیا میں ہمیشہ سے کارفرما ہیں اور قومی زندگی کبھی ان دو اصول کے بغیر قائم نہیں رہتی.آدم سے لے کر اس وقت تک دینی کیا اور دنیوی کیا، عقلی کیا اور علمی و عملی کیا، کوئی تحریک ایسی نہیں جو حقیقی طور پر اس وقت تک کامیاب ہوئی ہو جب تک کہ یہ دو باتیں اس کے ساتھ شامل نہ ہوں.ہر تحریک کے ساتھ ایک پیغام کی ضرورت اول اصول یہ ہے کہ کوئی تحریک دنیا میں حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں کوئی نیا پیغام نہ ہو یعنی وہ کوئی ایسی چیز دنیا کے سامنے پیش نہ کر رہی ہو جو پہلے کسی کو 11

Page 17

.انقلاب حقیقی معلوم نہ ہو.یا کم سے کم یہ کہ اُس وقت کے لوگ اُسے بُھول چکے ہوں.مثلاً ہمارے اس ملک میں ایسی انجمنیں کامیابی سے چلتی ہیں جن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو تحریک کریں کہ لڑکوں کو سکول بھیجنا چاہئے ، کیونکہ ہمارے ملک میں لڑ کے عام طور پر سکول نہیں جاتے لیکن لنڈن یا برلن میں اگر کوئی اس قسم کی انجمن بنے جس کی غرض لوگوں کو یہ تحریک کرنا ہو کہ تم بچے سکولوں میں پڑھنے کیلئے بھیجا کرو تو وہ کبھی نہیں چلے گی کیونکہ لوگ کہیں گے جب ہم میں سے ہر شخص اپنے لڑکے کو سکول بھیج رہا ہے تو اس انجمن کے معرض وجود میں لانے کا کیا فائدہ ہے؟ لیکن اگر وہاں کوئی انجمن ایسی بنے جو یہ کہے کہ فلاں قسم کی تعلیم اپنے بچوں کو نہ دلاؤ بلکہ فلاں قسم کی تعلیم دلاؤ تو چونکہ اس میں ایک نیا پیغام ہوگا اس لئے اگر وہ تحریک مفید ہوگی تو اُسے پیش کرنے والی انجمن مقبول اور کامیاب ہو سکے گی.غرض وہی تحریکات دنیا میں کامیاب ہوا کرتی ہیں جن میں کوئی ایسی چیز دنیا کے سامنے پیش کی گئی ہو جو اُس وقت دنیا کی نگاہ سے اوجھل ہو یا بالکل نئی ہو.اس امر کو یورپ والے پیغام کا نام دیتے ہیں.میں جب یورپ گیا تو عام طور پر مجھ سے یہی سوال کیا جاتا تھا کہ احمدیت کا پیغام دنیا کے نام کیا ہے یعنی احمدیت کے وہ کون سے اصول ہیں یا احمدیت کی تعلیم میں وہ کونسی بات ہے جو دنیا کو معلوم نہ تھی اور احمدیت اُسے پیش کرتی ہے یا جس کی طرف دنیا کو پوری توجہ نہیں اور وہ اس کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہے؟ قرآن کریم بھی اس اصل کو تسلیم کرتا ہے اور فرماتا ہے.فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُتُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللهُ الأَمْثَالَ لے کہ جھاگ اور میل چونکہ بے فائدہ چیزیں ہیں وہ اُٹھا کر پھینک دی جاتی ہیں.الرعد: ۱۸ 12

Page 18

انقلاب حقیقی مگر جو چیز لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی ہو جیسے پانی ہے وہ دنیا میں قائم رہتی ہے.گذلک يَضْرِبُ الله الامثال اللہ تعالیٰ اسی طرح حقائق لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتا ہے.ماموریت کا مدعی جو اپنے دعوئی میں کامیاب ہو جائے کبھی جھوٹا نہیں ہوتا اسی آیت سے استنباط کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اصول پیش کیا ہے کہ ہر مدعی جس کا دعوئی دنیا میں مانا جا کر مدتوں تک قو میں اس کی تعلیم پر عمل کرتی چلی گئی ہوں یقینا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.بعض ناواقف اور جاہل مولوی کہا کرتے ہیں کہ آپ نے یہ اصل کہاں سے اخذ کیا ؟ ایسے لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے صرف اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ مذکورہ بالا آیت اور اور کئی آیات سے یہ اصل مستنبط ہوتا اور قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایسا مذ ہب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعوی کرے اور پھر سینکڑوں سال تک دنیا میں قائم رہے اور ہزاروں انسانوں کو روحانی زندگی بخشتا ر ہے جھوٹا نہیں ہوسکتا.اور اس کے متعلق یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا.اسی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر اور حضرت بُدھ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے.پس مخالفین کا یہ اعتراض کہ یہ مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پاس سے بنالیا ہے صرف قرآنی علوم سے ان کی بے خبری کا ثبوت ہے ورنہ اسی آیت میں جو اس وقت میں نے پڑھی ہے اور اور کئی آیات میں یہ اصل موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاما الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء کہ جو بے فائدہ چیز ہوگی وہ ضائع ہو جائے گی.13

Page 19

.انقلاب حقیقی واما مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْض مگر جولوگوں کو نفع دینے والی چیز ہووہ قائم رہے گی اور کون کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر افتراء کرنا نفع مند چیز ہے.افتراء یقیناً انسان کو ہلاک کرنے والا فعل ہے اور اس کا دنیا میں جڑھ پکڑ جانا تو الگ رہا اللہ تعالیٰ تو مفتری کو عذاب دیئے بغیر نہیں چھوڑتا.پس اگر کوئی تحریک دنیا میں کامیاب طور پر قائم رہتی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ یقیناً دنیا کیلئے کوئی ایسا پیغام لاتی ہے جو مفید ہے اور یہ خیال کہ ایک کذاب اور مفتری بھی ایسا پیغام لا سکتا ہے جو لوگوں کیلئے دینی رنگ میں مفید ہو اور دنیا میں قائم رہے کسی احمق کے ذہن میں ہی آئے تو آئے کوئی دانا ایسا خیال نہیں کر سکتا.اصلاح کا ذریعہ صلح یا جنگ ہے دوسرا اصل جو دنیا میں رائج ہے اور جو مذہبی اور دنیوی دونوں قسم کی تحریکوں کی کامیابی کیلئے ضروری ہوتا ہے یہ ہے کہ اصلاح کے ہمیشہ دو ذرائع ہوتے ہیں یا صلح یا جنگ.یعنی یا تو صلح کے ساتھ وہ پیغام پھیلتا ہے یا جنگ اور لڑائی کے ساتھ پھیلتا ہے.یا تو یہ ہوتا ہے کہ وہ باتیں دنیا میں پھیلا دی جاتی ہیں لوگ اُن پر بخشیں کرتے ہیں اور آخر لوگ انہیں اپنا لیتے ہیں اور اپنے عقائد میں شامل کر لیتے ہیں.جیسے دنیا میں پہلے لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ زمین چپٹی ہے بلکہ اب تک بھی بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو زمین کو گول نہیں سمجھتے بلکہ چھپٹی سمجھتے ہیں.چنانچہ میں ایک دفعہ لا ہور گیا اور اسلامیہ کالج کے ہال میں میں نے لیکچر دینا شروع کیا تو ایک شخص میرے لیکچر میں ہی کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا.سوال جواب کا بھی موقع دیا جائے گا یا نہیں ؟ پریذیڈنٹ نے پوچھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ وہ کہنے لگا: میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زمین گول نہیں بلکہ چپٹی ہے اور مجھ سے اس بات پر بحث کر 14

Page 20

انقلاب حقیقی لی جائے.انہوں نے کہا کہ اس لیکچر میں زمین کے گول یا چپٹے ہونے کا ذکر نہیں.وہ کہنے لگا ہو یا نہ ہوایسی اہم بات کا ذکر کس طرح چھوڑا جا سکتا ہے؟ غرض اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں مگر بہت کم لیکن پہلے زمانہ میں سوائے مسلمانوں کے قریباً سب لوگ یہی کہا کرتے تھے کہ زمین چپٹی ہے.مسلمانوں میں البتہ زمین کے گول ہونے کا خیال رائج تھا اور یورپ کے لوگ اس کے مخالف تھے.چنانچہ جس وقت زمین کے گول ہونے کا سوال اُٹھا یورپ کے لوگوں نے اس کا نہایت سختی سے انکار کیا اور اس کی مخالفت کی مگر مسلمانوں میں یہ خیال دیر سے قائم تھا اور انہی سے اس قسم کی باتیں سُن کر کولمبس لے ے کو امریکہ کی دریافت کا خیال پیدا ہوا تھا کیونکہ کولمبس کسی مسلمان کا شاگر دتھا اور وہ مسلمان حضرت محی الدین ابن عربی کے مرید تھے جنہوں نے اپنے بعض رؤیا و کشوف کی بناء پر اپنی کتابوں میں یہ لکھا تھا کہ سپین کے سمندر کے دوسری طرف ایک بہت بڑا ملک ہے اور چونکہ مسلمانوں میں زمین کے گول ہونے کا خیال جڑ پکڑ رہا تھا حضرت محی الدین ابن عربی کے مُرید خیال کرتے تھے کہ غالباً ہندوستان ہی کی طرف آپ کے کشف میں کولمبس COLUMBUS CHRISTOPHER (۱۴۵۱ء.۱۵۰۶ء) امریکہ کو دریافت کرنے والا.بڑی منت سماجت کے بعد شاہی امداد حاصل کی اور اٹھاسی آدمیوں کے ساتھ تین جہازوں سانتا ماریا، پینتا اور نینا میں ہسپانیہ سے ۱۲ اکتوبر ۱۴۹۲ء کو روانہ ہوا اور جزیرہ سان سالویڈ ور امریکہ جا اترا.دوسری مہم میں اس کی دریافتیں پورٹوریکو، جزائر ورجن جیمی کا پر مشتمل تھیں.تیسرے سفر (۱۴۹۸ء) میں اس نے وینز یو یلا میں اور نوکو کا دھانہ دریافت کیا.بیٹی کی ایک نو آبادی میں اس کے نظم و نسق کا نتیجہ یہ ہوا کہ پابہ زنجیر ہسپانیہ واپس آیا.چوتھی مہم (۱۵۰۲ء) میں جو وقار کی بازیافت کیلئے تھی.ہانڈ ور اس کے ساحل تک پہنچا مگر اتنی مشکلات پیش آئیں کہ مجبوراً واپس جانا پڑا.کسمپرسی کی حالت میں مرا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۲۳۶.مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) 15

Page 21

.انقلاب حقیقی اشارہ ہے.کولمبس نے ان روایات کو سنا تو اُس کے دل میں جوش پیدا ہوا کہ وہ اس سمندر کی طرف سے ہندوستان پہنچے مگر چونکہ اس سفر کیلئے روپیہ کی ضرورت تھی اور روپیہ کولمبس کے پاس تھا نہیں اس لئے اُس نے بادشاہ کے سامنے یہ سوال پیش کیا اور ملکہ کے پاس بھی بعض بڑے آدمیوں کی سفارش پہنچائی تا ملکہ بادشاہ پر اپنا اثر ڈالے.ملکہ کو یہ تجویز پسند آئی، اُس نے خیال کیا کہ اگر اس مہم میں کامیابی ہوئی تو ہمارے ملک کو بہت فائدہ پہنچے گا.پس اس نے بادشاہ کے پاس سفارش کرنے کا وعدہ کیا اور سفارش کی بھی لیکن جب بادشاہ نے اُمرائے دربار سے مشورہ کیا تو پوپ کے نمائندہ نے اس خیال کی سخت تضحیک کی اور اُس نے کہا کہ یہ خیال کہ زمین گول ہے سخت احمقانہ ہے بلکہ مذہب کے خلاف ہے اور ایسے احمق اور بیوقوف کو روپیہ دینا علم سے دشمنی ہے.اُس نے ایک پر زور تقریر کے ذریعہ سے کولمبس کے خیال کی تغلیط کی اور بتایا کہ کولمبس یا خود پاگل ہے یا ہمیں پاگل بنانا چاہتا ہے.اگر زمین گول ہے اور ہندوستان ہماری دنیا کے دوسری طرف ہے تو اس کے تو یہ معنی ہونگے کہ گترہ ارض کے دوسری طرف کے لوگ ہوا میں لٹک رہے ہیں.پس کولمبس یہ کہہ کر کہ زمین گول ہے ہم سے یہ منوانا چاہتا ہے کہ دنیا کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جس میں بسنے والے لوگوں کی ٹانگیں اوپر ہیں اور سر نیچے ہیں.اُس حصہ میں جو درخت اُگتے ہیں اُن کی جڑیں او پر ہوتی ہیں اور درخت ہوا میں لٹک رہے ہوتے ہیں اور بجائے اس کے کہ بارش او پر سے نیچے گرے اُس علاقہ میں نیچے سے اوپر کی طرف بارش گرتی ہے اور سورج زمین کے او پر نہیں ہے بلکہ اس علاقہ میں زمین کے نیچے نظر آتا ہے.غرض اُس پادری نے اپنے جاہلانہ خیالات کو ایسی رنگ آمیزی سے بیان کیا کہ لوگوں کو یقین ہوگیا کہ کولمبس دھوکا باز شخص ہے اور دربار نے بادشاہ کو یہ مشورہ دیا کہ اس شخص کی ہرگز مدد نہیں کرنی چاہئے اور کولمبس کا سفر ایک لمبے عرصہ تک کیلئے ملتوی ہو گیا.آخر ملکہ 16

Page 22

..انقلاب حقیقی نے اپنی ذاتی آمد سے اُسے روپیہ دلوایا اور کولمبس نے امریکہ دریافت کیا جس سے پین والوں کو بہت بڑا فائدہ پہنچا.غرض ایک وہ زمانہ تھا کہ بڑے بڑے عقلمند یہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ زمین گول ہے اور اس پر ہنستے تھے لیکن آج بچوں سے بھی پوچھو تو وہ کہہ دیں گے کہ زمین گول ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب جہاز نظر آتا ہے تو پہلے اس کے اوپر کا حصہ نظر آتا ہے پھر نیچے کا اور اس طرح کی کئی اور دلیلیں دیتے جائیں گے.غرض اب دنیا نے اِس عقیدہ کو اپنا لیا ہے اور یہ بات رائج ہوگئی ہے.تو بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ دنیا میں مقبول ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ تو اس طرح کہ پہلی بعض چیزوں کو منسوخ کر کے وہ قائم ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ اس طرح کہ پہلی بھی موجود رہتی ہیں اور نئی بھی اپنی جگہ پیدا کر لیتی ہیں جیسے موٹریں اور لاریاں آئیں تو گھوڑے بھی رہے مگر موٹروں اور لاریوں نے بھی اپنی جگہ بنالی.شروع شروع میں جب ریل جاری ہوئی ہے تو انگلستان میں لوگ ریل کے آگے لیٹ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم مر جائیں گے پر اسے چلنے نہیں دیں گے مگر آخر ریل دنیا میں رائج ہوگئی.ٹیلیفون جب مکہ میں لگا تو عربوں نے کہہ دیا کہ یہ شیطان ہے جو مکہ میں لایا گیا ہے اور ابن سعود کی اس قدر مخالفت ہوئی کہ اس کی فوجیں باغی ہونے لگیں.آخر اس نے پوچھا کہ یہ شیطان کس طرح ہو گیا؟ وہ کہنے لگے شیطان نہیں تو اور کیا ہے جدہ میں ایک شخص بات کرتا ہے اور وہ مکہ میں پہنچ جاتی ہے یہ محض شیطان کی شعبدہ بازی ہے.وہ سخت گھبرایا کہ اب میں کیا کروں؟ آخر ایک شخص نے کہا کہ ان لوگوں کو میں سمجھا دیتا ہوں.چنانچہ ٹیلیفون پر ایک طرف اُس نے عربوں کے اس لیڈر کو کھڑا کیا جو کہا کرتا تھا کہ شیطان بولتا ہے اور دوسری طرف خود کھڑا ہو گیا اور اُس نے پوچھا کہ بتاؤ حدیث میں آتا ہے یا نہیں 17

Page 23

.انقلاب حقیقی کہ لاحول سے شیطان بھاگ جاتا ہے؟ اُس نے کہا آتا ہے.پھر اس نے پوچھا کہ اگر کوئی حدیث کا منکر ہوتو وہ کیسا ہے؟ وہ کہنے لگا کا فر.اُس نے کہا.اچھا سنو ! میں لَا حَولَ پڑھتا ہوں اور یہ کہہ کر لا حول پڑھا اور اس معترض مولوی سے کہا کہ اب بتاؤ کہ کیا شیطان یہ لا حَو لدوسری طرف پہنچارہا ہے؟ شیطان کو کہاں طاقت کہ وہ لا حول کو پہنچائے ، وہ تو لا حول سُنتے ہی بھاگ جاتا ہے.یہ بات اُس معترض کی سمجھ میں بھی آگئی اور اُس نے لوگوں کو بھی سمجھا دیا کہ یہ شیطان نہیں ہے کوئی اور چیز ہے.غرض کئی تحریکات دنیا میں پیدا ہوتی ہیں.لوگ ان کی مخالفتیں کرتے ہیں مگر آہستہ آہستہ وہ دنیا میں قائم ہو جاتی ہیں اور پہلے نظام میں اپنے لئے بھی جگہ نکال لیتی ہیں لیکن بعض ایسی تحریکات ہوتی ہیں جو پہلے نظام کو گالیہ بدل دیتی ہیں اور وہ صلح کر کے پہلے نظام کا حصہ نہیں بنتیں بلکہ ایک نیا نظام قائم کرتی ہیں اور پہلے نظام یا نظاموں کو توڑ دیتی ہیں.ان کے لئے لڑائیاں لڑی جاتی ہیں جنگیں کی جاتی ہیں (خواہ جسمانی رنگ میں خواہ رُوحانی رنگ میں ) اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے دنیا کا امن جاتارہا مگر آخر اس لڑائی اور جنگ کے بعد وہ دنیا میں قائم ہو جاتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے دنیا میں پھر امن کا دور دورہ ہو جاتا ہے.مکہ مکرمہ کے ٹیلیفون کے واقعہ کی مناسبت میں مجھے نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر نے بھی بتایا ہے کہ حیدر آباد کی مسجد میں لاؤڈ سپیکر لگایا گیا تو لوگوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا.ہمارے یہاں عورتوں کی جلسہ گاہ میں بھی گل لاؤڈ سپیکر پر تو ٹی لگ گیا تھا.بعض عور تیں سٹیج کے قریب آنا چاہتی تھیں اس پر انہیں منظمات جلسہ نے بتایا کہ اب قریب آنے کی ضرورت نہیں یہ جو آلہ لگایا گیا ہے اس سے ہر جگہ آواز پہنچ جائے گی.اس پر وہ کہنے لگیں سانوں تہاڈے فریب دا پتہ نہیں ؟ اسیں ایڈیاں ای بیوقوف ہاں؟ بھلا یہ ڈھو تو بولے گا؟ یعنی کیا ہمیں تمہارے فریب کا علم نہیں ہم اتنی بیوقوف نہیں کہ یہ خیال کر لیں کہ یہ ٹین 18

Page 24

انقلاب حقیقی کا پُرزہ بولے گا.گویا انہوں نے اپنی علمیت کی دلیل یہ دی کہ ہم خوب جانتی ہیں یہ ٹین ساجو لگا ہوا ہے یہ نہیں بول سکتا.یہ محض اپنی واقف عورتوں کو آگے بٹھانے کیلئے بہانہ بنایا گیا ہے.دوستوں کو چاہئے کہ وہ گھروں میں جا کر اپنی بیویوں کو سمجھا دیں کہ یہ ٹین کا پرزہ خوب بولا کرتا ہے.کل مستورات نے خوب کشتی کی اور بعض تو پہرہ دار عورتوں کو گرا کر آگے آ گئیں اور کہا کہ ہم ایسے فریب میں نہیں آسکتیں.وہ اُن کو سمجھا دیں کہ یہ ہمارا فریب نہیں بلکہ یورپ والوں کا کارآمد فریب ہے جس سے واقعہ میں آواز دُور دُور تک پہنچ جاتی ہے.غرض اصلاح کے دو ذریعے ہیں صلح اور جنگ.یعنی یا تو نئی تحریک کو پرانی تحریک کے ساتھ سموکر اور ملا کر ایک نیا وجود بنا دیا جاتا ہے اور دونوں تحریکیں ایک تحریک ہوکر رہ جاتی ہیں اور یا پھر نئی اور پرانی تحریک میں جنگ ہو کر نئی تحریک پرانی کو اُکھیڑ کر پھینک دیتی ہے اور اپنی حکومت قائم کر لیتی ہے.اول قسم کی اصلاح ارتقاء کہلاتی ہے یعنی سہولت سے تغیر ہو جاتا ہے اور لوگوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا.مگر دوسری قسم کی تحریک جس میں لڑائی لڑنی پڑتی ہے اُسے عربی زبان میں انقلاب کہتے ہیں.جیسے پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کی مجالس میں نعرے لگائے جاتے ہیں کہ انقلاب زندہ باد “ یہ بھی وہی انقلاب ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ موجودہ گورنمنٹ سے کانگرس کو اتنا اختلاف ہے کہ وہ اسے توڑ کر کلی طور پر ایک نئی گورنمنٹ بنائے گی اور وہ کوئی درمیانی راستہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں.گو عملی طور پر کانگرس سب کچھ مان گئی ہے اور کئی صوبوں میں اس نے وزارتیں بھی سنبھال لی ہیں.اب صرف عادت کے طور پر انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں جیسے طوطے میاں کو میاں مٹھو کہنے کی عادت ہوتی ہے.ورنہ کانگرس کیلئے انقلاب کا زمانہ ختم ہو چکا ہے.19

Page 25

.انقلاب حقیقی بہر حال انقلاب کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ موجودہ نظام کوکسی اصلاح یا تبدیلی کے ساتھ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس نظام کو کلی طور پر پھینک دیا جائے گا، تو ڑ دیا جائے گا، تباہ کر دیا جائے گا اور اس کی جگہ ایک نیا نظام قائم کیا جائے گا.جب یہ انقلاب دینی انقلاب ہو تو اسلامی اصطلاح میں اسے قیامت بھی کہتے ہیں اور اس کا ایک نام خلق السموت و الارض ! بھی ہے یعنی نئی زمین اور نیا آسمان بننا.اور ایک نام اس کا السَّاعَةُ بھی ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے روحانی انقلاب کو کبھی قیامت کہا ہے کبھی السَّاعَةُ کے کے نام سے یاد کیا ہے اور کبھی نئی زمین اور نئے آسمان کے پیدا کئے جانے کے الفاظ سے اس کی حقیقت کو ظاہر کیا ہے.دنیا میں جس قدر تبدیلیاں ہوئی ہیں یا کامیاب تحریکیں ہوئی ہیں ساری اسی رنگ میں ہوئی ہیں اور کوئی عالمگیر تحریک اور دیر تک رہنے والی تحریک ایسی نہیں جس میں دنیا کے لئے پیغام جدید نہ ہو اور جس میں انقلاب نہ ہو.ارتقائی تحریکات عظیم الشان تحریکوں میں سے نہیں ہوتیں.عظیم الشان تحریکیں جب بھی دنیا میں ہوئی ہیں انقلاب کے ذریعہ سے ہوئی ہیں اور اگر اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہم کانگرس سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب زندہ باد.لیکن اس سے ہماری مُراد اور ہوگی ان کی مُراداس لفظ سے اور ہوتی ہے.پانچ عظیم الشان دُنیوی تحریکیں اگر دنیوی فتوحات کو دیکھیں تو فتوحات دنیوی کے لحاظ سے بھی وہی حکومتیں دنیا میں دیر تک رہی ہیں اور اُن کا اثر وسیع ہوا ہے جن میں کوئی نہ کوئی پیغام جدید اور انقلاب تھا.البقرة: ۱۶۵ القمر : ۲ 20

Page 26

،انقلاب حقیقی یعنی پہلے نظام سے جدا گانہ حیثیت رکھتی تھیں اور نئے اصول پر قائم ہوئی تھیں.اس قسم کی تحریکیں دنیا میں چند ہی گزری ہیں.چنانچہ ان میں سے ایک تحریک جو ہندوستان میں اُٹھی آرین (ARIAN) کہلاتی ہے یعنی آریوں کی تحریک، یہ تحریک صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ یورپ پر بھی اس کا اثر تھا.دوسری تحریک جو مغرب میں اُٹھی رومن تحریک تھی.تیسری تحریک جو وسط ایشیا اور چین میں پیدا ہوئی اس کا نام میں ایرانی تحریک رکھتا ہوں.چوتھی تحریک جو مغربی ایشیا اور افریقہ میں پیدا ہوئی اس کا نام میں باہلی تحریک رکھتا ہوں.اور پانچویں تحریک جو موجودہ زمانہ میں نہایت ہی عالمگیر ہے وہ ہے جسے مغربی تحریک کہتے ہیں.دنیا کی معلومہ تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی پانچ تحریکیں مادیات کو مد نظر رکھتے ہوئے نہایت مہتم بالشان اور عالمگیر تحریکیں گزری ہیں.یعنی آرین تحریک، رومن تحریک، ایرانی تحریک، بابلی تحریک اور مغربی تحریک.ان پانچوں تحریکوں کے پیچھے ایک نیا فلسفہ تھا اور ایک نئی تہذیب تھی.صرف یہی نہیں تھا کہ بعض قوموں نے تلواریں پکڑیں اور چند ملک فتح کر لئے بلکہ ان تحریکات کے بانیوں نے اپنے سے پہلے نظام کو تہہ و بالا کر دیا اور ان کی جگہ ایک جدید تہذیب کی بنیاد ڈالی یا نئے علوم کا دروازہ کھولا اور گو ان نئی تحریکوں کے بانی کچھ عرصہ بعد سیاسی طور پر حکومت کھو بیٹھے اور ان کی جگہ دوسری قوموں نے لے لی مگر ان کو شکست دینے والے اور تباہ کرنے والے ان کے خیالات اور ان کے فلسفہ سے آزاد نہیں ہو سکے.سیاسی غلامی جاتی رہی مگر ذہنی اور علمی غلامی قائم رہی اور حقیقی حکومت انہی کی رہی اور اسی فتح اور کامیابی کو پیغام جدید یا انقلاب کے نام سے پکارا جاتا ہے.بظاہر آرین اور قدیم ایرانی اور رومن اور بابلی حکومتیں کچھ عرصہ کے بعد دُنیا سے مٹ گئیں 21

Page 27

.انقلاب حقیقی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بعض کسی نہ کسی رنگ میں اب تک بھی دنیا میں موجود ہیں اور بظاہر ان سے نفرت کرنے والے لوگ بھی حقیقتا ان کی غلامی کا جو اگر دنوں پر اُٹھائے کھڑے ہیں اور ان کے بعد میں آنے والی حکومتیں درحقیقت عمال کی تبدیلی کا ایک مظاہرہ تھیں ورنہ اصولِ حکومت وہی تھے جو ان مشہور تحریکات نے جاری کئے تھے.بغاوت اس تہذیب کے آخری زمانہ کے علمبرداروں کے خلاف تھی اس تہذیب کے خلاف نہ تھی.جو تبدیلی ہوئی وہ یہی تھی کہ اس تہذیب کا جھنڈا ایک ہاتھ سے نکل کر دوسرے ہاتھ میں آ گیا.بعض دفعہ جھنڈے کا رنگ تھوڑا سا تبدیل کر دیا گیا.بعض دفعہ جھنڈے کو زیادہ لمبا یا چھوٹا کر دیا گیا مگر حقیقت وہی رہی جو پہلے تھی.رومن امپائر (ROMAN EMPIRE) کے بعد کے تغیرات جو مغرب میں ہوئے اگر دیکھا جائے تو رومن تہذیب کی تبدیل شدہ صورت ہی تھے اور ایرانی تہذیب کے بانیوں کے بعد کی حکومتوں میں صاف ابتدائی ایرانی تہذیب کی جھلک نظر آتی ہے.آرین بانیانِ تہذیب کے بعد بدھ جین وغیرہ کئی قسم کے لوگوں نے حکومتیں کیں لیکن آرین ٹھپہ سب کے دامن پر موجود تھا.بابل کی حکومت کے بعد عرب، شام، مصر و غیرہ ممالک میں کئی حکومتیں تبدیل ہو ئیں ، کئی بغاوتیں ہوئیں لیکن بابلی اثر نہ مٹنا تھا نہ مٹا.اب مغربی تہذیب دنیا پر غالب ہے.ایشیا اور افریقہ اس کے جوئے سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں.اس سے پہلے امریکہ کے دونوں بر اعظم کامیاب کوشش کر چکے ہیں.جاپان ایشیا کے ایک طرف اور شر کی دوسری طرف کامیاب کوشش کر چکے ہیں لیکن نتیجہ کیا ہوا ہے؟ صرف حاکم بدلے ہیں حکومت نہیں بدلی بلکہ ترک اور جاپانی تو آزادی کے بعد مغربیت کے پہلے سے بھی زیادہ شکار ہو گئے ہیں.آج ہندوستان آزادی کیلئے تڑپ رہا ہے، اس کے نو جوان اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لئے کھڑے ہیں تا اپنے ملک کو 22 22

Page 28

انقلاب حقیقی بیرونی حکومت سے آزاد کراویں.لیکن ان کی جدوجہد اسی حد تک محدود ہے کہ انگلستان کے مغربی کی جگہ ہندوستان کا مغربی لے لے اس سے زیادہ اس جدو جہد میں کوئی مقصد نہیں.مسٹر گاندھی نے کھڈ رکا لباس پہن کر اس امر کا اظہار کرنا چاہا ہے کہ گویا وہ اس تہذیب کے اثر سے آزاد ہونا چاہتے ہیں لیکن حقیقت سے واقف جانتے ہیں کہ ڈھانچہ وہی ہے صرف سکاٹ لینڈ کے ورسٹڈ (WORSTED) کی جگہ اسے کھڈ رکا لباس پہنا دیا گیا ہے.یا بقول مسیح پرانی شراب نئے مٹکوں میں ڈال دی گئی ہے اس سے زیادہ کوئی تغییر نہیں ہوا.اب میں ان پانچوں تحریکوں کی کسی قدر تفصیل بیان کرتا ہوں تا کہ آپ لوگ سمجھ جائیں کہ یہ پانچ دور تہذیب کے دنیا کیلئے کیا پیغام لائے تھے اور کیا مفید چیز انہوں نے دنیا کو دی تھی جس سے وہ سینکڑوں ہزاروں سال کی جدوجہد کے بعد بھی آزاد نہیں ہوسکی.آرین تحریک کا پیغام جدید ، نسلی امتیاز یادرکھنا چاہئے کہ آرین تہذیب کی بنیادیو جينكس(EUGENICS) پر تھی یعنی ان کی ساری بنیاد اس امر پر تھی کہ سب انسان یکساں نہیں ہیں بلکہ انسانوں انسانوں میں فرق ہوتا ہے.کوئی اعلیٰ ہوتا ہے تو کوئی ادنی.جیسے کوئی امیر ہوتا ہے تو کوئی غریب، کوئی مضبوط ہوتا ہے تو کوئی کمزور کوئی اچھے دماغ کا کوئی بُرے دماغ کا اور یہ کہ اس فرق کو خاص حالات کے ماتحت پائیدار بنایا جا سکتا ہے.اور دنیا کا فائدہ اسی میں ہے کہ انسانوں میں سے جو اعلیٰ ہوں انہیں آگے کیا جائے تاکہ نسلِ انسانی اعلیٰ کمالات تک پہنچ وہ کہتے ہیں کہ ایک مضبوط باپ کا بیٹا ضرور مضبوط ہوگا اور کمزور باپ کا بیٹا کمزور 23

Page 29

..انقلاب حقیقی ہوگا.اب اگر باپ کی وجہ سے جسم اعلیٰ بن سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ دماغ اعلیٰ نہ بنے ؟ پس اگر اچھے دماغ والا باپ ہوگا اور اچھے دماغ والی ماں ہوگی تو ان کا بیٹا بھی یقیناً اچھے دماغ والا ہوگا.اس صورت میں اگر اس شخص سے جو نسل چلے وہ ہمیشہ اپنی قوم میں ہی شادیاں کرتی رہے تو ان کی قوم دوسری اقوام سے ضرور اعلیٰ ہوگی.یہ آرین تہذیب جہاں بھی گئی ہے اس نے اپنی حکومت کو اسی بنیاد پر رکھا ہے یعنی اس نسلی امتیاز پر جو عقلی اور دماغی اور مذہبی دائروں پر حاوی تھا.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک برہمن کا لڑ کا علم کے لحاظ سے ہمیشہ دوسروں پر فوقیت رکھے گا، ایک کھتری کا لڑکا سپہ گری کے لحاظ سے دوسروں پر فوقیت رکھے گا اور جب ایک قوم جسے نسلی امتیاز کی وجہ سے برتری حاصل ہو گی آپس ہی میں شادیاں کرے گی تو وہ دنیا سے کبھی مٹ نہیں سکے گی اس لئے ان کا مذہب بھی اسی تحریک کے ماتحت چلتا ہے مثلاً وید آئے تو انہوں نے یہ حکم دے دیا کہ اگر شو در وید کوئن بھی لے تو اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے.یہ برہمن کا حق ہے کہ وہ وید سُنے یا کھتری اور ویش کا حق ہے کہ وید سنے.شودر کا کیا حق ہے کہ وید سُنے گویا ان کے مذہب میں بھی یہی تحریک شامل ہوگئی.پھر یہ جو وہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان دنیا میں واپس آتا ہے اور مختلف جونوں میں ڈالا جاتا ہے جہاں تک میں نے غور کیا ہے یہ عقیدہ بھی اسی فلسفہ کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ نسل کے درجہ کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ اعلیٰ روھیں اس میں شامل ہوتی رہیں اور اس کا طریق انہوں نے یہ تجویز کیا ہے کہ ہر قوم میں جو اعلیٰ اور نیک روحیں ہیں وہ مرنے کے بعد براہمن کے گھر جنم لیتی ہیں اور جو سپاہیانہ طاقت رکھتی ہیں وہ کھتریوں کے ہاں اور جو تاجرانہ لیاقت رکھتی ہیں وہ ولیش کے ہاں جنم لیتی ہیں اور جو خراب اور ناکارہ ہیں وہ شودروں کے ہاں جنم لیتی ہیں.اس عقیدہ سے انہوں نے ادنی اقوام کی 24

Page 30

انقلاب حقیقی بغاوت کے امکان کو دور کر دیا کیونکہ اگر شودروں کو یہ کہا جاتا کہ تم ہمیشہ کیلئے شو درہی رہوگے تو ممکن تھا کہ وہ بغاوت کرتے.یا اگر کھتریوں کو کہا جاتا کہ تمہارا کام صرف جان دینا ہے تو وہ برہمن حکومت کے خلاف کھڑے ہو جاتے.پس انہیں اس عقیدہ کے ذریعہ سے خاموش کرا دیا گیا تا کہ وہ لوگ برہمن فوقیت کو ٹھنڈے دل سے تسلیم کر لیں کیونکہ انہیں یقین دلا دیا گیا کہ در حقیقت برہمن یا کھتری یا ولیش یا شو در ایک نسل نہیں ہیں بلکہ یہ تو عہدے ہیں جو اچھی یا بُری روحوں کو ملتے ہیں.اب جس طرح ایک جمعدار کو ایک رسالدار کے خلاف، ایک رسالدار کو ایک لفٹنٹ کے خلاف شکوہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے بوجہ لیاقت یہ عہدہ ملا ہے اور جب میں لیاقت دکھاؤں گا تو یہ عہدہ مجھے بھی مل جائے گا اسی طرح ایک شودر کو ولیش کے، ایک ولیش کو کھتری کے اور ایک کھتری کو ایک برہمن کے خلاف شکوہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ جنم تو گزشتہ اعمال کے نتیجہ میں ملے ہیں.اگر ایک شو در اچھے اعمال کرے گا تو اگلے جنم میں وہ برہمن کے گھر پیدا ہو جائے گا اور خراب برہمن شو در کے گھر پیدا ہوگا.اس طرح تفوق کو قائم رکھتے ہوئے بھی آرین تہذیب کے بانیوں نے اس تفوق کے خلاف بغاوت کے امکانات کو مٹا دیا اور ایک خیالی اُمید دوسری قوموں کے دلوں میں ایسی پیدا کر دی کہ وہ اس کھلونے کے ساتھ کھیلنے میں مشغول رہے اور اپنے حقیقی در داور ڈکھ کو بالکل بھول گئے.یہی وجہ ہے کہ باوجود انتہاء سے بڑھے ہوئے نسلی ظلم کے ہزاروں سال سے ادنی کہلانے والی اقوام اپنی حالت پر قانع ہیں کیونکہ تناسخ نے ہر شودر کی نگاہ میں اس کی نسلی تذلیل کا زمانہ صرف اس کی موجودہ جون کے زمانہ میں محدود کر دیا اور ہر شو در جس کے دل میں موجودہ نظام کے خلاف بغاوت کے خیالات اُٹھتے ہیں یہ خیال کر کے خاموش ہو جاتا ہے کہ میں اس جون میں اپنے گناہوں کی وجہ سے آیا ہوں ورنہ شاید میں بھی پہلے 25

Page 31

.انقلاب حقیقی برہمن ہی تھا اور اب برہمنوں کو خوش کر کے شاید آئندہ زمانہ میں میں بھی برہمن بن جاؤں گا.پس جس رتبہ کے حصول کی امید مجھے لگی ہوئی ہے میں اپنے ہاتھوں اس رتبہ کی عزت کم کر کے کیوں اپنی آئندہ ترقی کے امکانات کو کم کروں.حقیقت یہ ہے کہ نسلی تفوق کی حفاظت کیلئے تناسخ کے مسئلہ کی ایجاد ایک اعلیٰ دماغ کا حیرت انگیز کارنامہ ہے اور اگر اس کی وجہ سے کروڑوں بنی نوع انسان کو ہزاروں سال کی غلامی میں مبتلا نہ کر دیا گیا ہوتا تو یقیناً اس قابل تھا کہ اس کی داد دی جاتی.رومن تہذیب کی بنیاد قانون اور حقوق انسانی (۲) رومن تہذیب کی بنیاد قانون پر اور انسانی حقوق پر تھی.چنانچہ اس تہذیب کے علمبرداروں نے اول اول انسانی حقوق کو تسلیم کیا اور ایسی بنیاد رکھی کہ اگر کسی کو کوئی سزا دینی ہو تو قانون کے ماتحت دی جائے.اس طرح وہ سیاست کو قانون کے ماتحت لائے اور انہوں نے ایسے اصول بنائے جن سے ایک نظام کے ماتحت انسانوں پر حکومت کی جاسکے.یہی وجہ ہے کہ رومن لا ءاب تک مغرب میں پڑھایا جاتا ہے اور اس کے اصول سے آج بھی قانون دان فائدہ اُٹھا رہے ہیں.ایرانی تہذیب کا پیغام اخلاق و سیاست (۳) ایرانی تہذیب کی بنیا د اخلاق اور سیاست پر ہے.اسی وجہ سے ان میں خدا تعالیٰ کے متعلق بھی یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کیلئے ممکن نہیں کہ وہ گناہ جیسی گندی شے کو پیدا کرے اس لئے دراصل دو خدا ہیں ایک نیکی کا اور ایک بدی کا.گویا اخلاق کو انہوں نے اتنی اہمیت دی کہ ان کے لئے یہ امر نا قابل تسلیم ہو گیا کہ ایک غیر اخلاقی امر کی پیدائش اللہ 26

Page 32

.انقلاب حقیقی تعالیٰ کی طرف منسوب کی جائے لیکن چونکہ گناہ دُنیا میں موجود تھا انہوں نے یہ فلسفہ ایجاد کیا کہ گناہ کا پیدا کرنے والا کوئی اور خدا ہونا چاہئے جو قابل پرستش نہیں بلکہ قابلِ نفرت ہو.دوسرا فلسفہ جس پر ایرانی تہذیب کی بنیاد تھی تعاون با ہمی کا فلسفہ تھا.یہی وجہ ہے کہ ایرانی تہذیب نے پہلے پہلے اُس خیال کی بنیاد رکھی جسے امپائر یا شہنشاہیت کہتے ہیں.یعنی سے پہلے اسی نظام نے باہمی تعلق رکھنے والی آزادحکومتوں کے اصول کو ایجاد کیا اور اسے تکمیل تک پہنچایا.در حقیقت یہ خیال بھی ثانویت کے عقیدہ کے نتیجہ میں پیدا ہو ا.جب انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ دو خدا ہیں جو آزاد بھی ہیں لیکن پھر ایک دوسرے سے بڑا بھی ہے تو اس کے ماتحت انہوں نے دنیا میں بھی ایسا نظام ایجاد کیا کہ ایک بڑا بادشاہ ہو اور بعض اس سے چھوٹے بادشاہ ہوں جو آزاد بھی ہوں اور پھر ایک بالا طاقت کے ماتحت بھی ہوں، اور اسی عقیدہ سے شہنشاہیت کے خیال کو نشو و نما حاصل ہوئی.ہندوستان یا دوسرے ممالک میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی کہ ایک زبر دست بادشاہ ایک کمزور اور چھوٹے سے بادشاہ کی اس لئے اطاعت کرتا ہے کہ وہ کمزور بادشاہ اس کا شہنشاہ ہے.یہ صرف ایرانی فلسفہ کی ایجاد ہے اور اس سے درحقیقت امن کے قیام کے لئے ایک نیا راستہ کھولا گیا ہے.ایرانی تاریخ میں بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ اصل بادشاہ کمزور ہو گیا ہے اور ماتحت بادشاہ بہت طاقت پکڑ گئے ہیں لیکن شہنشاہ کی آواز پر سب امداد کیلئے موجود ہو گئے ہیں.آج کی برطانوی امپائر اور آخری زمانہ کی خلافت عباسیہ در حقیقت اسی فلسفہ کی نقلیں تھیں اور خلافت عباسیہ کے آخری دور کو اگر ہم غور سے دیکھیں تو اس کے وجود کی بنیاد اس امر پر تھی کہ در حقیقت اس کے تابع حکومتیں یا ایرانی تھیں یا ایرانی تہذیب کی خوشہ چیں تھیں اور 27

Page 33

.انقلاب حقیقی چونکہ ان کے رؤساء اس خیال کے نسلی طور پر قائل چلے آتے تھے اس لئے باوجود طاقتور ہونے کے وہ خلافت کے برائے نام جوئے کو اٹھائے ہوئے تھے.بابلی تہذیب کی بنیاد علم ہندسہ اور ہیئت (۴) چوتھی تہذیب بابلی تہذیب ہے اس کی بنیاد علم ہندسہ اور بیت پر رکھی گئی تھی.اس کے بانیوں کا خیال تھا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے سورج، چاند اور تارے بنائے ہیں اور ایک نظام دنیا میں جاری کیا ہے انسانی ترقی اس نظام کی نقل کرنے سے ممکن ہے اس لئے ہمیں نظام شمسی پر غور کر کے اور اس کے راز معلوم کر کے اس کی اتباع کرنی چاہئے.مغربی تحریک کا پیغام مادیت اور قوم پرستی (۵) پانچویں تہذیب یعنی مغربی تحریک کی بنیاد مادیت اور قوم پرستی پر ہے.پانچوں تحریکوں کی مزید تشریح اختصاراً پانچوں مادی تحریکوں کا ذکر کرنے کے بعد اب میں ان کے بنیادی اصولوں کے نتائج کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.آرین تہذیب چونکہ نسلی امتیاز اور تفوق پر مبنی تھی باوجود بہت وسعت پا جانے کے کبھی کوئی امپائر نہ بنا سکی.نیز نسلی امتیاز کی وجہ سے ان میں وہ اتحاد بھی پیدا نہ ہو سکا جو ایرانیوں میں تھا.اس کے مقابلہ میں رومن امپائر نے ترقی کی کیونکہ اس کے سیاسی اصول ایسے تھے کہ قوموں کو مفتوح کرنے کے باوجود وہ ان سے تعلق رکھ سکتی تھیں اس لئے رومن تحریک مستقل ارتقائی منازل طے کرتی چلی گئی اور ارتقائی فلسفہ کی بانی ہوئی.28

Page 34

.انقلاب حقیقی ایرانی تہذیب نے وسیع امپائر کی بنیاد رکھی جس کے ٹکڑے اپنے اپنے دائرے کے اندر آزاد تھے اور پھر ایک سردار کے ماتحت تھے.تمام ایرانی حکومتوں میں یہ بات پائی جاتی ہے.یہ حکومت در حکومت کا احساس ان کے اندر اہرمن اور یزدان کے خیال سے پیدا ہوا.بابلی تحریک کیمسٹری اور ہیئت پر مبنی تھی اور اس وجہ سے تعمیر اور تنظیم میں اسے خاص شغف تھا اور گوی تحریک سب سے پرانی ہے اور اس کے آثار کم ملتے ہیں لیکن جتنے آثار بھی اس کے ملتے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں.بابلی تحریک کے آثار قرآن کریم میں قرآن کریم میں بھی اس تحریک کی بعض شاخوں کا ذکر ہے.چنانچہ سورہ فجر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ.إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ الَّتِي لَمُ يُخْلَقُ مِثْلُهَا فِي الْبَلَادِ.وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ وَفِرْعَوْنَ ذِى الْأَوْتَادِ.الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبَلَادِ فَاكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَتْ اس تہذیب کی بنیاد جن لوگوں نے رکھی تھی انہیں عاد کہتے ہیں.عاد نام کی دو قومیں گذری ہیں.عاد اول تہذیب بابلی کے بانی تھے اور دوسرے عاد بعد کے زمانہ میں اس تہذیب کے حاملوں میں سے ایک حامل تھے.اس آیت میں انہی پہلے عاد یعنی بانیانِ تہذیب بابلی کا ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عاد سے کیا سلوک کیا؟ وہ عاد جو عاد ارم کہلاتے ہیں اور بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنانے والے تھے.اتنی بڑی اونچی عمارتیں بناتے تھے کہ الَّتِي لَمُ يُخْلَقُ مِثْلُهَا فِي الْبَلَادِ ان کے بعد کی کوئی قوم بھی اس فن میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکی.یعنی گو عام طور پر دنیا ترقی کرتی ہے لیکن باوجود الفجر: ۷ تا ۱۳ 29

Page 35

.انقلاب حقیقی ترقی کے زمانہ قرآن کریم تک کوئی قوم فنِ عمارت میں عاد کے کمال تک نہیں پہنچ سکی.وَثَمُودَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ پھر اسی عاد کی ایک دوسری شاخ شمور تھی جس نے سنگ تراشی میں کمال کیا تھا اور شہروں کے شہر پہاڑوں کی کھوہ میں بناتے چلے گئے تھے حتی کہ بعض جگہ انہوں نے پتھر کاٹ کاٹ کر عجیب وغریب محل بنائے ہیں.وَفِرْعَوْنَ ذِي الْاَوتَادِ اور فرعونِ مصر بھی اسی تہذیب کا حامل تھا.وہ بھی ذِی الْاَوْتَادِ تھا.بعض نے اوتاد کے معنی خیموں کی میخیں کئے ہیں لیکن اس جگہ یہ معنی درست نہیں.اس جگہ آؤ تا د سے مراد وہ بلند عمارتیں ہیں جو بلند و بالا ہوں اور پہاڑ کی طرح اونچی نکل جائیں.عربی میں پہاڑوں کو بھی اَوْتَادُ الْأَرْضِ کہتے ہیں.اور ناک کو بھی وَتَد کہتے ہیں کیونکہ وہ چہرہ کے باقی اعضاء سے اونچا نکلا ہوا ہوتا ہے.یہ مصری عمارتوں کی خصوصیت ہے کہ وہ عمارتیں پہاڑوں کی طرح مثلث شکل کی بناتے ہیں اور رہائشی گنجائش کا خیال نہیں رکھتے بلکہ اونچائی کا خیال رکھتے ہیں.پس ذِی الْاَوتَادِ سے مُرادنہایت بلند عمارتوں والے کے ہیں.جس کسی کو مصر جانے کا موقع ملا ہو وہ جانتا ہے کہ اہرام مصری کس قدر اونچے ہیں.دُور دُور سے لوگ انہیں دیکھنے آتے ہیں اور وہ حیران ہوتے ہیں کہ اتنی بلندی پر وہ لوگ پتھر کس طرح اٹھا کر لے گئے.اہرام اتنے بلند ہیں کہ انسان کو ان پر چڑھتے ہوئے کافی دیر لگ جاتی ہے.میں باوجود ارادہ اور خواہش کے ان میں سے کسی پر نہیں چڑھ سکا.بلکہ ایک دوست ایک اہرام کے اوپر چڑھ گئے تو انہیں اوپر جاتے ہوئے اس قدر دیر ہوگئی کہ مجھے ڈر ہوا کہ ہم رات کو اندھیرا ہو جانے کے بعد وہاں سے گھر کی طرف روانہ ہو سکیں گے.قطب صاحب کی لاٹ کی بلندی کو ان کی بلندی سے کوئی نسبت ہی نہیں.یورپین لوگ بھی انہیں اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۱۴۲۳.مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء 30

Page 36

انقلاب حقیقی دیکھ کر حیران ہوتے ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ انسان کے برابر برابر پتھر وہ اتنی بلندی پر اُٹھا کر کس طرح لے گئے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم فرعون کو دیکھو جوایسی مثلث عمارتیں بنا تا تھا جو بڑی بلند اور مضبوط ہوتی تھیں.فرماتا ہے اس تہذیب کے حاملوں نے اپنی اپنی ترقی کے زمانہ میں دنیا میں بہت فساد پیدا کر دیا تھا اور اپنی طاقت کی وجہ سے سخت متکبر ہو گئے تھے لیکن دیکھو کہ ہم نے بھی ان سے کیسا سلوک کیا اور کس طرح انہیں برباد کر کے رکھ دیا.غرض بابلی تحریک میں عمارتوں کی تعمیر پر اور رصد گاہوں کے بنانے پر زیادہ زور تھا.عاد کے آثار میں ہر جگہ عظیم الشان عمارتیں نظر آتی ہیں.پہلے یورپ کے لوگ عاد قوم کے وجود سے انکار کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ عاد نام کی کوئی قوم نہیں گزری مگر بیس سال سے جب سے کہ عاد کے آثار ملے ہیں وہ بھی ماننے لگ گئے ہیں کہ عاد نام کی ایک قوم ہوئی ہے بلکہ میں نے حال ہی میں ایک عیسائی مؤرخ کی کتاب پڑھی ہے جس میں وہ عاد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ عاد کے متعلق مؤرخوں کی سینکڑوں صفحوں کی کتابیں اس سے زیادہ معلومات بیان نہیں کر سکیں جتنی معلومات قرآن کریم نے اپنے چند الفاظ میں بیان کر دی ہیں.بابلی تحریک کا ذکر کتب مقدسہ میں بابل کی حکومت کا جو بیان تو رات میں آتا ہے اس سے بھی قرآنی بیان کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ بائبل میں آتا ہے.اور انہوں نے کہا کہ آؤ ہم اپنے واسطے ایک شہر بناویں اور ایک بُرج تاريخ العرب قبل الاسلام مصنفہ حجرجی زیدان 31

Page 37

انقلاب حقیقی جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے اور یہاں اپنا نام کریں ایسا نہ ہو کہ تمام روئے زمین پر پریشان ہو جائیں اور خداوند اس شہر اور بُرج کو جسے بنی آدم بناتے تھے دیکھنے اُترا.اور خداوند نے کہا.دیکھو! لوگ ایک ہی اور ان سب کی ایک ہی بولی ہے اب وے یہ کرنے لگے.سوؤے جس کام کا ارادہ رکھیں گے اس سے نہ رک سکیں گے.آؤ ہم اُتریں اور ان کی بولی میں اختلاف ڈالیں تا کہ وے ایک دوسرے کی بات نہ سمجھیں“ 1 اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہودی تاریخ کے مطابق بھی بابلی لوگوں کا بڑا کمال بلند عمارات بنانے میں تھا کیونکہ توریت کے اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ دنیا میں زبانوں کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ کسی وقت بابل کے لوگوں نے ایک بلند عمارت بنانی شروع کی تھی تا وہ ان کے لئے ایک نشان قرار پائے اور اس کی وجہ سے وہ پراگندگی سے بچ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ پراگندگی چاہتا تھا اس لئے اُس نے اُن کو اس ارادہ سے باز رکھنے کیلئے ان کی زبانوں میں فرق ڈال دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم میں سے اتحاد مٹ گیا اور اُن کی طاقت ٹوٹ گئی اور وہ اس عمارت کے بنانے میں ناکام رہے.جو وجہ اس حوالہ میں دی گئی ہے وہ تو محض ایک کہانی ہے لیکن اس سے یہ تاریخی صداقت ضرور معلوم ہو جاتی ہے کہ اہل بابل اونچی عمارتیں بنانے میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور ایسی بلند عمارتیں بناتے تھے جن کو دیکھ کر شبہ ہوتا تھا کہ گویا وہ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں.قرآن کریم میں بھی فرعون کی نسبت اس حوالہ کے مشابہ ایک بات بیان کی گئی ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ بائبل میں تو خدا تعالیٰ کی طرف اس بیہودہ خیال کو منسوب کیا گیا ہے کہ کہیں انسان بلند عمارت بنا کر الوہیت کے مقام کو حاصل نہ کر لے اور قرآن کریم نے پیدائش باب ۱۱ آیت ۴ تاسے نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۱۸۷۰ء 32

Page 38

.انقلاب حقیقی اس لغو خیال کو فرعون کی طرف منسوب کیا ہے جس کی صداقت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ فرعون کی نسبت فرماتا ہے کہ اس نے ہامان سے کہا کہ فَأَوْقِدْ لِيْ يَهَا مَنُ عَلَى الطَّيْنِ فَاجْعَلْ لِي صَرْحًا لَّعَلِي اَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَذِبِينَ یعنی فرعون کے سامنے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا دعویٰ پیش کیا تو فرعون نے اسے سُن کر اپنے انجنیئر ہامان کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ پھیر وں کو لگا دو اور ایسا اُونچامل بناؤ اور ایسی ایسی دور بینیں اور رصد گاہیں تیار کرو کہ ہم آسمان کے راز کھول کر رکھ دیں اور موسیٰ کے خدا کا سراغ نکال لیں.اسی طرح سورۃ مومن میں آتا ہے.وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَهَا مَنُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَّعَتِي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ - أَسْبَابَ السَّمَواتِ فَاطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوْسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِباط ہے کہ فرعون نے اپنے انجینیئر ہامان سے کہا کہ ہمارے لئے ایک قلعہ بناؤ مگر وہ اتنا اونچا ہو کہ اس پر چڑھ کر ہم آسمان کے راز معلوم کر سکیں اور موسیٰ کے خدا کا پتہ لگالیں.یہ مطلب نہیں کہ آسمان پر پہنچ جائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اتنا بلند ہو کہ وہاں سے آسمان کا نظارہ آسانی سے ہو سکے.وہاں ہم بڑی بھاری دُور بینیں لگائیں گے اور موسیٰ کے معبود کو دیکھیں گے اور آخر میں کہا کہ میں تو اسے بالکل جھوٹا سمجھتا ہوں.یعنی کوئی یہ نہ خیال کرے کہ مجھے طبہ ہے کہ شاید جس خدا کا موسیٰ ذکر کرتا ہے وہ صحیح ہے تبھی تو میں ایک اونچا محل اس کی تلاش کیلئے بنانا چاہتا ہوں میرے اس حکم کی غرض شبہ نہیں بلکہ میری غرض موسیٰ کو جھوٹا ثابت کر کے دکھانا ہے.اسی طرح عاد کے متعلق ایک اور آیت میں بھی ذکر آتا ہے کہ وہ بڑی بڑی اونچی القصص : ٣٩ المؤمن: ۳۸،۳۷ 33

Page 39

انقلاب حقیقی عمارتیں بنایا کرتے تھے اور وہ یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيْعِ آيَةً تَعْبَثُونَ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ.وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ فرماتا ہے عاد قوم سے مخاطب ہو کر ہم نے کہا تھا کہ تم لوگ ہر پہاڑی پر شاندار عمارتیں بناتے ہو اور بڑی بڑی فیکٹریاں اور کیمسٹری کے مرکز تیار کرتے ہو اور خیال کرتے ہو کہ تم ہمیشہ قائم رہو گے جیسے یورپ کے لوگ آج کل یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی تہذیب ہمیشہ قائم رہے گی.(مصانع سے مُراد فیکٹریاں اور کیمیکل ورکس ہیں ) پھر فرمایا جب تم کسی ملک پر غلبہ پاتے ہو تو تم اُس جگہ کی تہذیب کو بالکل تباہ کر دیتے ہو اور ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی جگہ اپنی تہذیب اور اپنا تمدن قائم کرتے ہو.(بہار کے معنی ہیں دوسرے کو نیچا کر کے اپنے آپ کو اونچا کرنے والا.اور ایک مطلب یہ ہے کہ دوسری اقوام کے تمدن اور تہذیب کو تباہ کر کے اپنے تمدن اور تہذیب کو دُنیا میں قائم کرتے ہیں) وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ سے یہ استنباط بھی ہو سکتا ہے کہ آلات جنگ کی ایجاد کا کمال انہیں کے زمانہ میں ہوا.چنانچہ جس رنگ میں انہوں نے پہاڑوں میں عمارتیں بنائیں ہیں ، ان سے بعض مؤرخین نے نتیجہ نکالا ہے کہ اس قوم نے بارود اور ڈائنامیٹ ایجاد کر لیا تھا.ان معنوں کی رُو سے آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ تم ایسے ایسے سامانِ جنگ ایجاد کرتے ہو جو نہایت ہی مہلک ہیں اور تم ان کے ذریعہ سے باقی اقوام کو تباہ کر کے اپنی تہذیب اور اپنا تمدن قائم کرنا چاہتے ہو.تہذیب مغربی کا فلسفہ موجودہ مغربی تہذیب کی بنیا دبھی ایک فلسفہ پر ہے اور وہ فلسفہ ما دیت کا فلسفہ الشعراء: ۱۲۹ تا ۱۳۱ 34

Page 40

.انقلاب حقیقی ہے جس کی بنیا د مشاہدہ اور تجربہ پر ہے.اسی فلسفہ کی وجہ سے مغربی تہذیب نے قومیت کا شدید احساس پیدا کرلیا ہے.خالص قربانی انسان تبھی حاصل کر سکتا ہے جب وہ سمجھتا ہو کہ اس دُنیا کے علاوہ بھی کوئی اور دُنیا ہے اور اگر میں نے دوسروں کیلئے قربانی کی تو گوئیں اس دنیا کا نفع حاصل نہ کروں مگر مجھے روحانی فائدہ پہنچے گا لیکن جس کو یقین ہو کہ جو کچھ ہے یہی دُنیا ہے وہ کہتا ہے کہ جو کچھ ملے مجھے ہی ملے کسی دوسرے کو نہ ملے.پس انتہائی نیشنلزم (NATIONALISM) مادیت کا نتیجہ ہے اور پھر اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ تعیش پیدا ہو جاتا ہے.ہر قسم کے آرام کے سامانوں ، کھانے پینے اور پہننے کے سامانوں میں زیادتی کی خواہش بھی مادیت سے ہی پیدا ہوتی ہے.کیونکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ میں نے حاصل کرنا ہے اسی دُنیا میں حاصل کرنا ہے.پس جو مزہ اُڑایا جا سکتا ہے اُڑا لو یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب نے تعیش کو کمال تک پہنچا دیا ہے.رومن اور مغربی تہذیب میں فرق رومن تہذیب اور مغربی تہذیب میں یہ فرق ہے کہ رومیوں میں قانون کی حکومت تھی اور اس وجہ سے ان کا فلسفہ کلیات سے جزئیات کی طرف رجوع کرتا تھا.چنانچہ رومی تہذیب اور فلسفہ میں میں یونانی تہذیب اور فلسفہ کو شامل سمجھتا ہوں.فلسفہ کی تمام شاخیں اسی اصول کے تابع ہیں.ان کی طب کو دیکھو اس کی بنیاد گلیات پر رکھی گئی ہے اور پھر اس سے جزئیات اخذ کی گئی ہیں.ان کے فلسفہ الہیات کا بھی یہی حال ہے.پہلے گلیات تجویز کر کے پھر مجزئیات کو ان سے اخذ کیا گیا ہے.سیاست کا بھی یہی حاصل ہے کہ کچھ گلیات تجویز کر کے ان سے جزئیات کو اخذ کیا گیا ہے لیکن موجودہ مغربی تہذیب کی بنیاد 35

Page 41

.انقلاب حقیقی چونکہ مادیت پر ہے یعنی جزئیات کے تجربہ اور مشاہدہ پر اُن کے ہاں سب زور جزئیات پر ہے.گلیات کو یا تو یہ لوگ مجزئیات سے اخذ کرتے ہیں یا پھر گلیات کے وجود ہی کولغو اور فضول قرار دے دیتے ہیں.ایک یونانی طبیب ہر بیماری کو چاروں خلطوں میں محصور قرار دے کر کلیات طب سے مرض کی تشخیص اور علاج کرتا ہے.مگر ایک طبّ جدید کا ماہر ہر مرض کی مخصوص علامات کا پتہ لگا کر انہی مخصوص علامات کے مطابق اس کا علاج کرتا ہے.اور قطعا اس کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ تمام امراض کو کسی خاص سلسلہ کی کڑی قرار دے.جہاں تک معلومہ تاریخ کا تعلق ہے دنیوی تحریکوں میں سے یہی پانچ تحریکیں دُنیا میں نظر آتی ہیں اور تمام دنیا کی حکومتوں اور علوم اور تہذیبوں پر ان کا اثر معلوم ہوتا ہے.باقی سب حکومتیں اور فلسفے ان کے تابع نظر آتے ہیں.انہیں اگر ان سے اختلاف ہے تو جز وی ہے.بعض فلسفے ان کے فلسفوں سے جُدا ہو کر بظاہر ایک نئی صورت اختیار کر گئے ہیں اور بعض بہت تھوڑے تغیر سے انہی فلسفوں کے ترجمان بن گئے ہیں.بڑی بڑی تحریکوں کی کامیابی کا سبب ان پانچوں تحریکوں کی کامیابی کی وجہ یہی تھی کہ ان کے ساتھ ایک پیغام تھا.وہ صرف تلوار سے ملک کو فتح نہیں کرتے تھے بلکہ اس ملک کے ذہنوں کو بھی اپنا غلام بناتے تھے اس لئے جب ان کی حکومت تباہ بھی ہو جاتی تو ان کا فلسفہ تباہ نہ ہوتا اور وہی غلام اس فلسفہ کو لے کر دنیا میں حکومت کرنے لگ جاتے تھے اور اس طرح ایک ذہنی اور علمی تناسل کا سلسلہ جاری رہتا تھا.ان تحریکوں کے بانی سنتِ الہی کے ماتحت کچھ عرصہ تک حکومت کر کے مٹ گئے مگر ان کی تحریکیں دیر تک قائم رہیں اور آج تک بھی ان میں سے کئی کا وجود خلطوں : خلط آمیزش.ملاوٹ.جسم کی چار خلطیں ، خون بلغم ،صفراء، سوداء 36

Page 42

.انقلاب حقیقی مختلف صورتوں میں پایا جاتا ہے.چنانچہ ہندوستان میں اب تک آرین تہذیب کا یہ اثر موجود ہے کہ برہمن اور کھتری ،شو در کو اپنے پاس تک پھٹکنے نہیں دیتے.کچھ عرصہ ہو امدر اس کا ایک واقعہ بعض اخبارات نے بیان کیا تھا جو یہ ہے کہ ایک برہمن کے بیٹے نے کسی چمارن سے شادی کر لی.ماں باپ نے اس کا گھر الگ کر دیا اور وہ علیحدہ اس چمارن کے ساتھ رہنے لگ گیا.ایک دن ماں باپ نے کہا کہ اپنے بیٹے کا ایمان دیکھنا چاہئے کہ کہیں چہارن سے شادی کر کے اس کا دھرم تو نہیں جاتا رہا.چنانچہ انہوں نے اسے ایک دن گھر میں بُلا کر خوب اچار کھلایا اور پانی کے جس قد رگھڑے تھے وہ یا تو توڑ پھوڑ دیئے یا کہیں چھپا کر رکھ دیئے.جب اس نے خوب اچار کھالیا تو اُسے پیاس لگی مگر اس نے ادھر اُدھر دیکھا تو پانی موجود نہیں تھا اس لئے وہ پانی نہ پی سکا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا.اس کا گھر ماں باپ کے گھر سے کوئی میل بھر دُور تھا.وہاں دوڑا دوڑا پہنچا اور بیوی سے کہنے لگا مجھے سخت پیاس لگی ہوئی ہے پانی ہے تو پلاؤ.وہ کہنے لگی پانی تو ہے مگر برتن میرا ہے اگر کہو تو اپنے برتن میں پانی پلا دوں؟ وہ کہنے لگا یہ تو دھرم کے خلاف ہے.آخر جب پیاس سے اس کا بہت ہی بُرا حال ہوا اور اُس نے سمجھا کہ اب میں مرا جاتا ہوں تو بیوی سے کہنے لگا اپنے منہ میں پانی ڈال کر میرے منہ میں ڈال دے.چنانچہ اس نے منہ میں پانی لیا اور اُس کے منہ میں گھی کر دی.ماں باپ جو کہیں چُھپ کر یہ تمام نظارہ دیکھ رہے تھے دوڑتے ہوئے آئے اور اپنے بچہ سے یہ کہتے ہوئے چمٹ گئے کہ شکر ہے پر میشور کی دیاں سے ہمارے بچہ کا دھرم بھرشٹ کے نہیں ہوا.یہ قصہ اسی گہرے نسلی تعصب کا ایک مضحکہ خیز ظہور ہے.جو آرین تہذیب کی خصوصیات سے ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج تک اس تہذیب کے گہرے اثرات لے دیا : مہربانی ، رحم، شفقت سے گھر شف : نا پاک، بد، بُرا نجس ، گنده 37

Page 43

.انقلاب حقیقی کروڑوں آدمیوں کے دلوں پر منقش ہیں جس کی وجہ سے برہمن شودر کا جھگڑا اب تک ہندوستان میں چلا جاتا ہے.یہ تہذیبی فلسفے بعض دفعہ مخلوط بھی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ان میں اور نئی چیزیں آملتی ہیں مگر اصلی فلسفہ کا نشان موجود رہتا ہے متا نہیں.چنانچہ موجودہ زمانہ میں ہندوستان میں اسی قسم کا ایک تغییر رونما ہورہا ہے.انگریزوں کی لمبی حکومت نے اور مغربی اقوام کی ترقی نے ہندوستان میں مغربیت کا پودا پیدا کر دیا ہے جو روز بروز جڑ پکڑتا جاتا ہے اور اس کی شاخیں چاروں طرف پھیلتی جاتی ہیں خصوصاً تعلیم یافتہ لوگوں میں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی مغربیت ہے وہ مغربیت کے رنگ میں پورے طور پر رنگین ہیں اور اُسی کی عینک سے ہر ھے کو دیکھتے ہیں.آزادی کی تہذیب نے اس تہذیب کو ایک دھکا لگایا ہے مگر اُسی طرح جس طرح قدیم زمانہ میں ہوا کرتا تھا یعنی سطحی تغیرات کے ساتھ مغربی فلسفہ کو اپنالیا گیا ہے.اگر آج انگریزی حکومت ہندوستان سے جاتی رہے تو بھی انگریزی حکومت کا طریق نہیں مٹ سکتا.وہی کونسلیں ہونگی ، وہی پارلیمنٹیں ہونگی ، وہی دستور ہوگا اور کونسلوں کے سپیکروں کے سامنے جب بھی کوئی مشکل سوال آئے گا وہ یہی کہیں گے کہ میں گل تک غور کر کے جواب دونگا اور غور سے مُراد ان کی یہ ہوگی کہ مغربی پارلیمنوں کے دستور کو دیکھ کر نتیجہ نکالوں گا کہ مجھے اس موقع پر کیا فیصلہ کرنا چاہئے.گویا یہ فقیر جو ہندوستان میں پیدا ہوگا ویساہی ہوگا جیسا کہ انگلستان میں مسٹر بالڈون (BALDWIN) کی جگہ مسٹر چیمبرلین (CHAMBERLAIN) نے لے لی ہے یا آئندہ ان کی جگہ شاید میجر ایٹلی (MAJOR ATTLEE) لے لیں.ورنہ اگر کوئی نئی تہذیب اس عرصہ میں رونما نہ ہوئی تو مغربیت ہی یہاں حکومت کر رہی ہوگی گو اس کی شکل کسی قدر بدل گئی ہو.گاندھی جی جو ایک فلسفہ کے موجد کہے جاتے ہیں وہ بھی باوجود زبانی مغربیت کے اثر کورڈ کرنے کے 38

Page 44

،انقلاب حقیقی اسی فلسفہ کے تابع چل رہے ہیں.جب بھی وہ کوئی نئی بات سوچتے ہیں وہ اسی مغربی تہذیب کے تابع ہوتی ہے اور چونکہ مغربی تہذیب کی بنیا د مادیت پر ہے جس کا یہ اُصول ہے کہ مُنہ سے کچھ اور کہو اور عمل کچھ اور رکھو، اس لئے گاندھی جی کے پیر بھی منہ سے تو امن امن کہتے ہیں مگر اندر سے لڑائی کی تیاریاں جاری رکھتے ہیں.اتباع منہ سے شور مچاتے ہیں کہ آہنسا قائم کرو، آہنسا قائم کرو مگر عملاً ہر اختلاف کے موقع پر بیسیوں مسلمانوں کو ذبح کرا دیتے ہیں کیونکہ یہ اصول صرف کہنے کیلئے ہیں عمل کرنے کیلئے نہیں.حقیقت یہ ہے کہ جب مادیت کے اثر کے نیچے انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگلا جہان کوئی نہیں تو پھر اسے اس شخص کو تباہ کرنے سے کونسی چیز روک سکتی ہے جسے وہ اپنا دشمن سمجھ بیٹھتا ہے.وہ تو ہر رنگ میں اپنے مد مقابل کو زک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے.پس کانگری گومنہ سے یہ کہتے جائیں کہ ہم گاندھی فلسفہ کے پیرو ہیں مگر حقیقتا ان کا عمل مغربی فلسفہ پر ہی ہے اور جب تک مادیت کا اثر ان کے دلوں پر سے دُور نہ ہوگا وہ یورپ کے واقعات کو ہندوستان کی سیج پرتمثیلی رنگ میں دکھاتے رہیں گے.غرض ان پانچوں تحریکوں کی کامیابی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کے پیچھے ایک فلسفہ تھا.ان کے بانی، لوگوں کے مُلک پر ہی قبضہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے دل و دماغ کو بھی غلام بنا لیتے تھے جو غلامی کہ جسمانی غلامی کے دُور ہو جانے کے بعد بھی بعض دفعہ سینکڑوں ہزاروں سال تک جاری رہتی تھی.مذہبی دنیا میں بھی حقیقی کامیابی انقلاب سے ہی ہوتی ہے مذہبی دنیا میں بھی یہی قانون جاری ہے.اس میں بھی حقیقی کامیابی انقلاب کے ذریعہ سے اور انقلاب ہی کی وجہ سے ہوتی ہے.اگر انقلاب نہ ہو تو مذہب کبھی کامیاب نہ ہو 39

Page 45

.انقلاب حقیقی کیونکہ یہ قانونِ قدرت کے خلاف ہے اور قانونِ قدرت خدا کا فعل ہے اس کو نظر انداز کر کے کامیابی نہیں ہو سکتی.انقلاب کے معنی ہیں کسی چیز کا کلیہ بدل جانا.اب اگر تم ایک پرانی عمارت کی جگہ پر نئی عمارت بنانا چاہو جس کا نقشہ بالکل نیا ہو تو ا ز ما تمہیں پہلی عمارت کو گرا دینا پڑے گا اور کوئی بیوقوف ہی ہوگا جونئی عمارت تو بنانا چاہے مگر پرانی عمارت کو توڑنے کیلئے تیار نہ ہو.قرآن کریم نے بھی مذہبی ترقی کو اسی انقلابی طریق سے وابستہ قرار دیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا نُرُسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمُ يَحْزَنُوْنَ - وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ کہ ہم دُنیا میں جب بھی کوئی رسول بھیجتے ہیں وہ ہمیشہ دنیا میں دو اعلان کرتا ہے.ایک تو یہ کہ اس کی آمد سے پہلے جو نظام جاری تھا وہ اس کی موت کا اعلان کر دیتا ہے.دوسرے یہ کہ وہ اپنے لائے ہوئے سسٹم کے متعلق غیر مبہم الفاظ میں اعلان کر دیتا ہے کہ وہ اپنی اصلی شکل میں دُنیا میں قائم کیا جائے گا اور کسی اثر یاد باؤ کی وجہ سے یا کسی قوم سے سمجھوتہ کرنے کی غرض سے اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی.ان اعلانات کے بعد جو لوگ تو اس جدید سسٹم کے تابع اپنے آپ کو کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں وہ تباہی سے بچ جاتے ہیں جو ایسا نہیں کرتے وہ آہستہ آہستہ مٹ جاتے ہیں.اضلع کے معنی اپنے آپ کو کسی چیز کے مطابق بنا لینے کے ہیں.پس عمل صالح کے یہ معنی ہیں کہ وہ عمل جو اس نئی تحریک کے مطابق ہوں.عمل صالح کے معنی نیک عمل کے نہیں ہوتے جیسا کہ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں.نیک کام اور عمل صالح میں فرق ہے.الانعام: ۵۰،۴۹ 40

Page 46

.انقلاب حقیقی مثلا نماز پڑھنا ایک نیک کام ہے.لیکن اگر کوئی شخص جہاد کے وقت نماز پڑھنا شروع کر دے تو ہم کہیں گے کہ اس نے عملِ صالح نہیں کیا.یا روزہ ایک نیک عمل ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ جہاد کے موقع پر بعض روزہ رکھنے والوں کے متعلق فرمایا کہ آج وہ لوگ جو بے روزہ تھے ثواب میں روزہ داروں سے بڑھ گئے ہیں کیونکہ ان روزہ داروں نے ایسی حالت میں روزہ رکھا جب کہ روزہ نہ رکھنا حالات کے لحاظ سے زیادہ مناسب تھا.غرض عملِ صالح عربی زبان میں مناسب حال فعل کو کہتے ہیں.پس فَمَن أمن واصلح کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو لوگ رسولوں پر ایمان لائے اور انہوں نے نمازیں پڑھیں اور روزے رکھے وہ ہلاکت سے بچ گئے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے انبیاء کی تعلیم کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا اور اس عمارت کی اینٹ بن گئے جس کی تعمیر وقت کے نبی کے ہاتھوں ہورہی ہوتی ہے ان کے لئے کوئی خوف اور کوئی محزن نہیں لیکن اس کے برخلاف جو لوگ اپنے آپ کو اس تعلیم کے مطابق نہیں بناتے اور نئی عمارت کا جزو بننے سے انکار کر دیتے ہیں.يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اُترتا ہے اور بوسیدہ عمارت کی طرح انہیں تو ڑ کر رکھ دیتا ہے.بعثت انبیاء کا مقصد اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو نبی بھی دُنیا میں آتا ہے وہ اسی لئے آتا ہے کہ اپنے سے پہلے نظام کو توڑ دے اور ایک نیا نظام قائم کرے اور اس کی آمد کے بعد وہی حیات کو پاتا ہے جو اس کے نظام کو قبول کرے.یہ بات ہر نبی کی بعثت کے بعد ضرور ظاہر 41

Page 47

.انقلاب حقیقی ہوتی ہے خواہ وہ نبی چھوٹے ہوں یا بڑے لیکن جو اولوالعزم رسل ہوں اُن کے آنے پر تو گویا ایک قیامت آجاتی ہے جس طرح کہ ان جدید تحریکات کے ظہور پر ہوتا ہے جن کا ذکر میں او پر کر آیا ہوں.ہاں جو شرعی رسول آتے ہیں وہ اپنے سے پہلے نبی کے نظام کو بھی تو ڑ دیتے ہیں لیکن جو شریعت نہیں لاتے گو وہ پہلے نبی کے نظام کو تو نہیں توڑتے لیکن اُس رائج الوقت نظام کو ضرور توڑ دیتے ہیں جو پہلے شریعت لانے والے نبی کی شریعت کو بگاڑ کر لوگوں نے اپنی خواہشات کے مطابق قائم کر لیا ہوتا ہے.مذہبی انقلابات کا طریق مذہب میں جو اس قسم کے انقلابات ہوتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا نَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرِ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گزشتہ زمانوں میں جو پیغام آتے رہے ہیں یا آئندہ آئیں گے ان سب کے متعلق ایک قانون جاری ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی تو وہ اپنی ضرورت کو پورا کر چکتے ہیں اور اس قابل ہوتے ہیں کہ انہیں مٹا دیا جائے اور اُن کی جگہ ایک نیا نظام آسمان سے اُتارا جائے اور کبھی لوگ انہیں بھلا دیتے ہیں اور صرف اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو نظام لوگوں کی غفلت کی وجہ سے الہی نظام کی جگہ قائم ہو گیا ہے اسے مٹا کر پھر نئے سرے سے وہی پہلا الہی نظام قائم کیا جائے.جب الہی نظام ہی اپنی ضرورت پوری کر کے مٹائے جانے کے قابل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر نظام دُنیا میں بھجوا دیتا ہے اور جب وہ نظام تو صحیح ہو، صرف لوگوں نے اسے بھلا دیا ہو تو اللہ البقره: ۱۰۸،۱۰۷ 42

Page 48

.انقلاب حقیقی تعالیٰ اسی پہلے نظام کو بچنسہ پھر دنیا میں قائم کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کو یہ دونوں قدرتیں حاصل ہیں.تمہیں پھر فرماتا ہے الم تعلم ان الله له مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کیا معلوم نہیں کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ہم ایک انقلاب عظیم کے پیدا کرنے کیلئے اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین پیدا کرنے کیلئے ایسا کرتے ہیں.یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے کفار کو اس امر کا تو غصہ نہ تھا کہ ان کے خیالات کے خلاف ایک خیال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں.انہیں جس بات کا خطرہ تھا اور جس کا تصور کر کے بھی انہیں تکلیف محسوس ہوتی تھی وہ یہی تھی کہ کہیں قرآن کی حکومت قائم نہ ہو جائے.پس فرمایا.اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اے انکار کرنے والو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا زمین و آسمان کا بادشاہ ہے؟ پس جب اُس نے اس بادشاہت کو ایک نئے اصول پر قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کے فیصلہ کے پورا ہونے کو کون روک سکتا ہے؟ مذہبی نظام کی مدت عمل غرض قرآن کریم نے مذاہب کے بارہ میں بھی یہ قاعدہ بتایا ہے کہ ہر مذہبی نظام جو قائم کیا جاتا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد یا تو نا قابل عمل ہو جاتا ہے یا لوگ اسے بھول جاتے ہیں.نا قابل عمل وہ دو طرح ہوتا ہے یا لوگ اس میں ملاوٹ کر دیتے ہیں یا زمانہ کے مطابق اس کی تعلیم نہیں رہتی.یعنی یا تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس تعلیم میں تصرف کر دیتے ہیں اور یا پھر تعلیم تو محفوظ ہوتی ہے مگر زمانہ چونکہ ترقی کر جاتا ہے اس لئے وہ قابل عمل نہیں رہتی.اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کا لباس پھٹ جائے اور اسے نیا لباس سلوانے کی ضرورت پیش 43

Page 49

انقلاب حقیقی آئے.یا بچہ ہو اور اس کا لباس ہو تو اچھا، لیکن قد بڑھ جانے کی وجہ سے اس کے قد پر پہلا لباس درست نہ آتا ہو اور نیا لباس تیار کروانا پڑے.اسی طرح تعلیم یا تو اس لئے بدلی جاتی ہے کہ وہ خراب ہو جاتی ہے یا اس لئے بدلی جاتی ہے کہ انسانی حالت میں ایسا تغیر آ جاتا ہے کہ پہلی تعلیم اس کے مطابق نہیں رہتی اور اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماتا ہے کہ اب اس کیلئے دوسری یہ تعلیم کی ضرورت ہے.جو تعلیم کے خراب ہو جانے کی صورت ہے یہ بھی درحقیقت اسی وقت واقع ہوتی ہے جب وہ تعلیم نا قابل عمل ہو جائے ورنہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے دین کا خود محافظ ہوتا ہے.ہاں اس تعلیم کی ضرورت کا زمانہ ختم ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بندوں سے کہتا ہے کہ اب بیشک اس میں تغیر و تبدل کر لو مجھے پرواہ نہیں.جیسے گھر میں بعض دفعہ کوئی خراب اور پھٹا پرانا کپڑا ہو اور بچہ اسے پھاڑے تو ہم پرواہ نہیں کرتے اسی طرح مذہب میں قطع و برید کی اجازت اللہ تعالیٰ اُسی وقت دیتا ہے جب زمانہ کو اس تعلیم کی ضرورت نہیں رہتی اور انسان کے حالات نئی تعلیم کا تقاضا کرتے ہیں.پس اُس وقت اللہ تعالیٰ اس فرسودہ مذہب کی حفاظت چھوڑ دیتا ہے اور بندوں کو اجازت دے دیتا ہے کہ وہ اس میں تصرف کریں اور اس سے کھیلیں.انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تعلیم سے کھیل رہا ہے حالانکہ خدا اس تعلیم کو زمانہ کے مطابق حال نہ پا کر اسے بندوں کے حوالے کر چکا ہوتا ہے اور اپنی حفاظت کا ہاتھ اس سے اُٹھا چکا ہوتا ہے.پس فرمایا کہ پیغام الہی کے متعلق دو ہی صورتیں ہیں: (۱) جب وہ نا قابل عمل ہو جاتا ہے تو ہم اس سے بہتر تعلیم لاتے ہیں.بہتر کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ پہلی تعلیم نا قابل عمل ہو چکی ہوتی ہے اور اب اس سے بہتر کی ضرورت ہوتی ہے.اگر بہتر کی ضرورت نہ ہوتی تو پہلی تعلیم ہی کافی ہوتی.اس حقیقت کے 44

Page 50

.انقلاب حقیقی اظہار کیلئے نات بغیر منقا کے الفاظ استعمال فرمائے.(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ جب تعلیم تو قابل عمل ہو مگر لوگ اس پر عمل ترک کر دیں اور اپنے لئے خود ایسے قواعد تجویز کر لیں جو الہی تعلیم کے مخالف ہوں.اس حالت میں نئی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ پُرانی تعلیم کی حکومت کو ازسر نو قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے فرمایا آخر مثلما یعنی جب تعلیم اصلی حالت میں موجود ہو صرف لوگوں نے اس پر عمل چھوڑ دیا ہو تو ہم پھر ویسی ہی تعلیم لے آتے ہیں یعنی اسی تعلیم کو دوبارہ قائم کر دیتے ہیں.مثل کا لفظ خدا تعالیٰ نے اس لئے استعمال کیا ہے تا یہ بتائے کہ پہلی تعلیم چونکہ مر چکی ہوتی ہے اس لئے ہم اس میں نئی زندگی پیدا کرتے ہیں اور اس طرح وہ ایک رنگ میں پہلی تعلیم کا مثل ہوتی ہے.پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ پیغام الہی بھی ایک عرصہ کے بعد : (۱) یا قابل عمل نہیں رہتا.(۲) یا لوگ اس پر عمل ترک کر دیتے ہیں.قابل عمل نہ رہنا دو طرح ہوتا ہے:.(1) لوگ اس میں ملاوٹ کر دیتے ہیں.(۲) زمانہ کے مطابق تعلیم نہیں رہتی.ان دونوں حالتوں کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کی بھی دوسنتیں جاری ہیں.جب کلام نا قابل عمل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے منسوخ کر دیتا ہے.اور اس سے بہتر تعلیم بھیج دیتا ہے کیونکہ زمانہ ترقی کی طرف جا رہا ہوتا ہے.لیکن جب لوگ عمل ترک کر دیں لیکن تعلیم محفوظ ہو تو اللہ تعالیٰ اسی کلام کو ہرا دیتا ہے اور اُس کا مثل نازل کر دیتا ہے یعنی اس تعلیم میں ایک نئی زندگی ڈال دیتا ہے.45

Page 51

..انقلاب حقیقی اس آیت کے آخر میں یہ جو فرمایا ہے کہ کیا تم خیال کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں.ان الفاظ سے وہ معنی جو عام طور پر اس آیت کے کئے جاتے ہیں یعنی کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں قرآنی آیات کے منسوخ ہونے کا ذکر ہے رڈ ہو جاتے ہیں کیونکہ قرآنی آیات کے منسوخ ہونے سے قدرت الہی کے اظہار کا کوئی بھی تعلق نہیں.قدرت کا مفہوم انہی معنوں میں پایا جاتا ہے جو میں نے کئے ہیں.پھر یہ جو فرمایا ہے کہ الم تعلم ان اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ ہر کلام جب آئے یا جب اسے دوبارہ زندہ کیا جائے، وہ ایک انقلاب چاہتا ہے اور یہی امرلوگوں کے خیال میں ناممکن ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ ایسے انقلاب پر قادر ہے خواہ نئے کلام کے ذریعہ سے وہ انقلاب پیدا کر دے خواہ پرانے کلام ہی کو زندہ کر کے انقلاب پیدا کر دے.یہ معنی جو میں نے کئے ہیں گو جدید ہیں لیکن آیت کے تمام ٹکڑوں کا حل انہی معنوں کے ساتھ ہوتا ہے.پہلے مفسر اس کے معنی یہ کیا کرتے تھے کہ قرآن میں بعض آیتیں اللہ تعالیٰ نازل کرتا اور پھر انہیں منسوخ کر دیتا ہے.مخالف ان معنوں پر تمسخر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ وہ آیت نازل کر کے اسے منسوخ کیوں کرتا ہے؟ کیا اسے حکم نازل کرتے وقت یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ حکم لوگوں کے مناسب حال نہیں.دوسرے نسخ سے تو اس کی کمزوری ثابت ہوتی ہے.پھر اس کے ذکر کے بعد اس فقرہ کے کیا معنی ہیں کہ ان الله عَلى كُلِّ شَيءٍ قدیر مگر جو معنی میں نے کئے ہیں ان میں ایک زبر دست قدرت کا اظہار ہے یہ آسان کام نہیں کہ ایک ایسے قانون کو جولوگوں کے دلوں پر نقش فی الْحَجَرِ کی طرح جما ہوا ہو اور جسے چھوڑنے کیلئے وہ کسی صورت میں تیار نہ ہوں ، مٹا کر اس کی جگہ ایک نیا قانون قائم کر دیا جائے.یا جب کہ ایک قوم مرگئی ہو اور الہی قانون کو پس 46

Page 52

انقلاب حقیقی پشت ڈال چکی ہو اور اس کی خوبیوں سے غافل ہوگئی ہو پھر اس مُردہ قوم میں سے ایک حصہ کو زندہ کر کے اُس بُھلائی ہوئی تعلیم کی محبت اُس کے دل میں ڈال دے اور اس کے ذریعہ سے پھراسی تعلیم کی حکومت دُنیا میں قائم کر دے.یقیناً یہ نہایت ہی مشکل کام ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت پر دلالت کرتا ہے اور اسی قدرت کے مزید اظہار کیلئے آیت کے آخر میں یہ مزید الفاظ بھی بڑھا دیئے گئے ہیں کہ آلَمُ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کیا تمہیں علم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہت خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ ایسا انقلاب نہایت آسانی سے پیدا کر سکتا ہے.الساعة کے معنی غرض اولوالعزم انبیاء ایک قیامت ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے پرانی نسل مٹا دی جاتی اور ایک نئی نسل قائم کی جاتی ہے.اور چونکہ وہ نیا نظام قائم کرتے ہیں ان کے زمانہ کو مذہبی اصطلاح میں یومِ قیامت بھی کہتے ہیں.ان کے زمانہ میں یوم قیامت کی دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں.یعنی ایک دفعہ سب اہلِ زمانہ پر موت اور پھر دوسری دفعہ احیاء.انبیاء کی بعثت کے ساتھ ہی پہلے تو دنیا پرموت طاری ہو جاتی ہے اور قرب الہی کے وہ تمام دروازے جو پہلے اس کے لئے کھلے تھے بند کر دئیے جاتے ہیں اور پھر اس کے زمانہ کے نبی کے ذریعہ سے نئے دروازے قرب الہی کے کھولے جاتے ہیں.گویا پہلی عمارت کو وہ گرا دیتے ہیں اور اس کی جگہ نئی عمارت کھڑی کرتے ہیں.خواہ پہلی عمارت منسوخ شدہ شریعت کی ہو یا لوگوں کی خود ساختہ عمارت ہو جسے محفوظ شریعت کو متروک قرار دے کر لوگوں نے خود کھڑا کر لیا ہو.اس زمانہ کو قرآنی اصطلاح میں السَّاعَة بھی کہتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا 47

Page 53

.انقلاب حقیقی الحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِيْنَ امَنُوْا وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ ط وَاللهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ یعنی جو لوگ کافر ہیں انہیں ورلی زندگی کے سامان بڑے خوبصورت نظر آتے ہیں.اور وہ ان لوگوں سے جو مؤمن ہیں ٹھٹھے کرتے ہیں.والذِينَ اتَّقَوْا فَوقَهُمْ يَوْمَ القِيمة ، حالانکہ قیامت کے دن مؤمن ان پر غالب ہوں گے.وفوقهم يَومَ الْقِيمَةِ کا نظارہ اس قیامت کے دن کو بھی ہوگا جو مرنے کے بعد آنے والا ہے جبکہ کفار دوزخ میں جائیں گے اور مؤمن جنت میں مگر اس قیامت کے دن سے لوگ نصیحت نہیں حاصل کر سکتے اور اس آیت میں اس امر کو صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے.پس اس آیت میں یومِ قیامت سے مراد وہ دن ہے جس دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوئی اور کفار کو شکست، جس دن دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ جو اکیلا تھا اور قوم کے ظلموں کا ستایا ہو ا وہ حاکم ہو گیا اور وہ جو ملک کے بادشاہ تھے محکوم بن گئے.اقْتِرَابُ السَّاعَة کے معنی b ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کے زمانہ کو السَّاعَةُ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.اقتربتِ السَّاعَةُ وَالشَّقِّ الْقَمَرُ : قیامت آگئی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے.چاند کس طرح پھٹا ؟ میں اس موقع پر اس بحث میں نہیں پڑتا بلکہ میں آیت کے پہلے حصہ کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ اس چاند پھٹنے کے واقعہ پر تیرہ سو سال گزر چکے البقرة: ۲۱۳ القمر : ۲ 48

Page 54

.انقلاب حقیقی ہیں اور چودھویں صدی کا نصف سے بھی زیادہ وقت گذر چکا ہے مگر قیامت ابھی تک نہیں آئی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ چونکہ چاند پھٹ گیا ہے اب قیامت کو آئی سمجھو.یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ چاند کے پھٹنے کا اس قیامت سے کیا تعلق ہے جو مَا بَعْدَ الْمَوْتِ آنے والی ہے؟ چاند کے پھٹنے سے قیامت موعودہ کی طرف اشارہ نکالنا تو وہی بات ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ.اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں قیامت سے مراد مَا بَعْدَ الْمَوْتِ قیامت نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ مراد ہے اور اُس روحانی احیاء کی طرف اشارہ ہے جو آپ کے ذریعہ سے ہونے والا تھا اور چاند کے پھٹنے کا جو واقعہ تھا وہ جس رنگ میں بھی تھا وہ در حقیقت ایک پیشگوئی تھا عرب کی حکومت کے زوال کی نسبت.چنانچہ علم تعبیر الرویا میں چاند سے مراد حکومت عرب بیان کی گئی ہے.پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ چاند کے پھٹنے کا واقعہ عرب کے موجودہ نظام کے مٹ جانے پر دلالت کرتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ اور آپ کے نظام کا قیام ہوگا.پس ہم تم لوگوں کو توجہ دلاتے ہیں کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہی اپنی اصلاح کرلو.انشقاق قمر کے معنی یہ امر کہ چاند کو کشف یا خواب میں دیکھنے سے مراد عرب حکومت یا عرب سردار ہوتا ہے عربوں میں ایسا تسلیم شدہ تھا کہ غیر مذاہب کے لوگ بھی اس سے یہی مراد لیتے تھے.چنانچہ تاریخ میں آتا ہے کہ فتح خیبر کے بعد یہود کے ایک سردار کی لڑکی حضرت صفیہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان کے ایک گال پر لمبے لمبے کچھ نشان تھے.آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ نشان کیسے ہیں؟ تو 49

Page 55

.انقلاب حقیقی انہوں نے کہا.يَا رَسُولَ اللہ ! میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ چاند ٹوٹ کر میری گود میں آپڑا ہے.میں اس خواب سے گھبرائی اور میں نے اپنے خاوند کو یہ خواب سنائی.اُس نے میرے والد سے جو یہود کے بڑے علماء سے تھے اس کا ذکر کیا.اُس نے جو نہی یہ خواب سنی طیش میں آ گیا اور زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کہ کیا تو عربوں کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے؟ چاند سے مراد تو خواب میں عربوں کا بادشاہ ہوتا ہے اور اُس کے گود میں گرنے سے مراد اُس سے نکاح ہے.یہ تھیٹر اس زور سے رسید کیا گیا کہ اس کا نشان میرے گال پر پڑ گیا اور اب تک ہلکے سے نشان اس کے باقی ہیں.غرض شق القمر کا نظارہ جس رنگ میں بھی دکھایا گیا تھا در حقیقت ایک پیشگوئی پر مشتمل تھا جو عربوں کے نظام حکومت کی تباہی کی خبر دے رہی تھی.اس کی وضاحت قرآن کریم نے اس آیت میں کی ہے اور بتایا ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ عرب حکومت کا وقت آخر آ گیا اور اس کی جگہ جلد ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت جاری کر کے روحانی قیامت برپا کر دی جائے گی.لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْافُلَاک کے معنی لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ، کا الہام جو ایک سے زیادہ نبیوں کو ہوا ہے اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ تو اپنے زمانے کے نظام کے لئے بطورستون کے ہے.اگر تو نہ ہوتا تو ہم اس عالم کو جس کا مدار تجھ پر ہے پیدا ہی نہ کرتے.ورنہ یہ مراد نہیں کہ کئی انبیاء ایسے گذرے ہیں کہ اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس عالم کو پیدا ہی نہ کرتا.ہر انقلاب روحانی اپنے زمانہ کے نبی کے درجہ کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی روحانی قابلیتوں کا ظلل ہوتا ہے اور نبی گویا اس انقلاب کے لئے بمنزلہ والد کے ہوتا ہے اور جس طرح بغیر باپ کے اولا د نہیں 50

Page 56

.انقلاب حقیقی ہوتی اسی طرح روحانی انقلاب بغیر نبی کے نہیں ہو سکتا.پس یہ کہنا درست اور ایک حقیقت ہے کہ اگر وہ نبی نہ ہوتا تو وہ نئے روحانی آسمان وزمین جو اس کے ذریعہ سے پیدا کئے گئے نہ پیدا کئے جاتے.لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ کا الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ہوا ہے اور آپ سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی یہی الہام ہو چکا ہے.اب اگر اس الہام میں زمین و آسمان سے مراد مادی نظام شمسی کو لیا جائے تو یہ عجیب بات ہوگی کہ پہلے خدا تعالیٰ ایک نبی کو کہتا ہے کہ اگر تو نہ ہوتا تو میں یہ زمین و آسمان نہ بناتا.اور اس کے بعد ایک دوسرے نبی کو کہتا ہے کہ اگر تو نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو نہ بنا تا پس یہ امر واضح ہے کہ اس آسمان و زمین سے مراد روحانی نظام ہے جو اس نبی کے ذریعہ سے دنیا میں قائم کیا جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ نبی جس کے ذریعہ ایسا انقلاب کیا گیا ہے اسے ایسا ہی الہام ہوا ہو گا.ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سارے زمانوں اور سب انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اس لئے آپ کے لئے یہ الہام سب زمانہ کو مدنظر رکھ کر سمجھا جائے گا اور باقی نبیوں کے لئے مخصوص الزمان اور مخصوص المقام سمجھا جائے گا.افلاک کے معنی اور انجیل زمین و آسمان کے یہ معنی جو میں نے کئے ہیں انجیل سے بھی ان معنوں کا ثبوت ملتا ہے.متی باب ۵ آیت ۱۸ میں لکھا ہے.تذکرہ صفحه ۶۱۲.ایڈیشن چہارم موضوعات ملا علی قاری صفحه ۵۹ مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ 51

Page 57

انقلاب حقیقی کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا.جب تک سب کچھ پورا نہ ہو.اس آیت میں آسمان وزمین سے مراد موسوی نظام ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب تک موسوی سلسلہ کا زمانہ ہے توریت کی تعلیم کو مٹایا نہیں جاسکتا.ہاں جب یہ سلسلہ مٹ جائے گا تب بیشک یہ تعلیم قابل عمل نہ رہے گی اور حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن کریم نے آکر توریت کی تعلیم کو منسوخ کر دیا اور توریت میں بھی لکھا ہے کہ موسیٰ کے بعد ایک اور شریعت آنے والی ہے.چنانچہ استثنا باب ۱۸ آیت ۱۹۱۸ میں لکھا ہے.میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گانہ سُنے گا تو میں اُس کا حساب اُس سے لوں گا ان آیات سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں :.(۱) یہودیوں کے لئے ایک اور نبی مبعوث ہونے والا ہے کیونکہ لکھا ہے.” میں ان کے لئے ایک نبی مبعوث کروں گا.“ (۲) وہ موسیٰ کی طرح صاحب شریعت ہوگا.کیونکہ لکھا ہے.میں تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا.“ (۳) وہ نبی بنو اسماعیل میں سے ہوگا نہ کہ بنو اسرائیل میں سے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ نبی ”ان کے بھائیوں میں نہ کہ ان میں سے.متی باب ۵ آیت ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹،۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء 52

Page 58

انقلاب حقیقی (۴) یہود کے لئے اسکی اطاعت فرض ہوگی کیونکہ لکھا ہے کہ ان کے لئے وہ نبی مبعوث ہو گا.(۵) اگر یہود اس کی باتیں نہ مانیں گے تو تباہ کئے جائیں گے اور ان کی قیامت آجائے گی کیونکہ لکھا ہے کہ جو اسکی باتیں نہ سنے گا.میں اس کا حساب اس سے لوں گا.“ اس پیشگوئی کی موجودگی میں نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت مسیح کا منشاء یہ تھا کہ مادی نظامِ سشسی کے قیام تک موسوی شریعت قائم رہے گی.ظاہر ہے کہ اس کا منشاء یہی تھا کہ جب تک دوسرا نظام روحانی قائم نہیں ہوتا موسوی شریعت کا ہی دور دورہ رہے گا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا.مسیح موعود کیلئے قرآن میں لفظ قیامت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کیلئے بھی قرآن کریم میں قیامت کا لفظ استعمال ہوا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ الدَّوَّامَةِ - أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ الَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ - بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نُسَوِّي بَنَانَهُ - بَلْ يُرِيدُ الْإِنسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ - يَسْئَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ - وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ - يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ فرماتا ہے کا فرجو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قیامت کوئی نہیں اور مُردے دوبارہ زندہ نہیں ہونگے یہ بالکل غلط ہے اور ہم اس کے لئے شہادت کے طور پر یوم قیامت اور نفس لوامہ کو پیش کرتے ہیں.القيمة : ٢ تا ١١ 53

Page 59

انقلاب حقیقی اب یہاں یقینی طور پر یوم قیامت سے مراد دنیا کا کوئی واقعہ ہے کیونکہ یوم قیامت اور نفس لوامہ دو چیزوں کو مُردے جی اُٹھنے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے.اگر یومِ قیامت سے دنیا کی ہلاکت کے بعد کا یوم قیامت مراد ہو تو یہ گواہی بے فائدہ ہو جاتی ہے کیونکہ جو امر مرنے کے بعد ظاہر ہوگا اُس سے اس دنیا کے لوگ اپنے ایمان کی درستی میں کیا مدد لے سکتے ہیں؟ بحث تو اس بات پر ہو رہی ہے کہ کیا مُر دے پھر جی اُٹھیں گے؟ اور معترضین کو یہ کہہ کر تسلی دلائی جاتی ہے کہ مردوں کے جی اٹھنے میں تم کو کیا شک ہو سکتا ہے کیا قیامت کا دن اس پر شاہد نہیں ہے؟ اس دلیل سے کون سا انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ جب قیامت آئے گی اُس وقت تو سب انسان ختم ہو چکے ہوں گے.پھر یہ دلیل کس کے ایمان کو نفع دے گی ؟ اعتراض تو زندہ لوگوں کو ہے ان کے لئے نفع مند دلیل تو وہی ہوسکتی ہے جو اسی دنیا میں ظاہر ہو.پس اس جگہ قیامت کے دن سے مراد کوئی ایسی ہی چیز ہونی چاہئے جو اسی دنیا میں ظاہر ہونے والی ہوتا کہ منکرین قیامت پر اس کے ذریعہ سے محبت بھی ہو اور ان کے ایمان کے لئے بھی اس سے راستہ کھلے.عالمگیر قیامت کا دن تو اُسی وقت دلیل قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ بعض لوگ خود قیامت کے دن اس کے وجود سے انکار کریں.اُس وقت بیشک یہ دلیل معقول ہو سکتی ہے کہ تم مرکر دوبارہ زندہ ہوئے پھر کس طرح قیامت کا انکار کر سکتے ہو؟ لیکن اس دنیا میں وہ کسی صورت میں بھی دلیل نہیں بن سکتی.پس جن لوگوں نے اس جگہ مراد قیامت کبری کے معنی لئے ہیں یا تو انہوں نے صرف ایک منفرد آیت کے معنی کر دیئے ہیں اور انکی یہ مراد نہیں کہ سیاق و سباق کو ملا کر بھی اس آیت کے یہ معنی ہیں اور یا پھر سیاق و سباق پر انہوں نے غور نہیں کیا.حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کا ہی ایک واقعہ ہے جو قیامت گبری کی دلیل ہے جسے نفس 54

Page 60

انقلاب حقیقی تو امہ کے ساتھ ملا کر جو قیامت بعد از ممات کا دوسرا ثبوت ہے بیان کیا گیا ہے.دو دلیلیں اس لئے دی گئی ہیں کہ معترضین مختلف زمانوں سے تعلق رکھ سکتے ہیں.پس ہر ایک زمانہ کے انسان کے لئے دلیل مہیا کر دی گئی تاہر ایک فائدہ اُٹھا سکے.مثلاً مکہ والوں کے سامنے قیامت کی دلیل میں نفس تو امہ کو پیش کیا گیا ہے اور آخری زمانہ کے منکرین قیامت کے سامنے آخری زمانہ کے اس واقعہ کو جو قیامت گبرای سے مشابہت کی وجہ سے قیامت کہلانے کا مستحق ہے پیش کیا گیا ہے.چنانچہ اس کا مزید ثبوت اگلی آیات میں مہیا ہے اور وہ ثبوت مندرجہ ذیل آیات ہیں.فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ.وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ جب انسانی نظر تیز ہو جائے گی یعنی مشاہدہ سے زیادہ کام لیا جانے لگے گا اور اسرار طبیعیت کا انکشاف کثرت سے ہوگا اور چاند کو گرہن لگے گا اور سورج کو بھی اس فعل میں اس کے ساتھ جمع کر دیا جائے گا.یعنی چاند گرہن کے بعد اُسی ماہ میں سورج کو بھی گرہن لگے گا اُس وقت انسان کہے گا کہ اب میں کہاں بھاگ کر جاسکتا ہوں؟ جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہے ان آیات میں ایک ایسے زمانہ کی طرف اشارہ ہے جب انسان خدا سے بھاگ رہا ہو گا یعنی دہریت کی کثرت ہوگی اور قیامت کا انکارز وروں پر ہوگا اور علومِ ظاہری ترقی کر رہے ہو نگے اور انسانی نظر غوامض قدرت کے معلوم کرنے میں بہت تیز ہو جائے گی اور چاند اور سورج کوگر ہن ایک ہی ماہ میں لگے گا.اس آخری علامت کے متعلق احادیث میں وضاحت موجود ہے جس سے اس زمانہ کی مزید تعیین ہو جاتی ہے اور وہ یہ حدیث ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی کے لئے ایک ایسا نشان ظاہر ہونے والا ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی غوامض : غامض کی جمع چھپی ہوئی باتیں.باریکیاں.بھید 55

Page 61

انقلاب حقیقی ماً مور من اللہ کے لئے ظاہر نہیں ہوا اور وہ یہ ہے کہ اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کو گرہن کے ایام کی پہلی تاریخ میں اور سورج کو گرہن کے ایام کی درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا.اس حدیث کے مضمون کی روشنی میں جب آیات مذکورہ بالا کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں مہدی مسعود کا ذکر ہے اور اسی کے زمانہ کو قیامت کا دن قرار دے کر قیامت کبری کے لئے یعنی جب مُردے جی اُٹھیں گے ایک دلیل اور نشان قرار دیا ہے.قیامت کبری کے دونشان جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قیامت کبری کیلئے دو نشان بتائے گئے ہیں.ایک وہ یوم القیامۃ جس میں نظر تیز ہو جائے گی اور چاند اور سورج کو گرہن لگے گا اور دوسرا نفس لوامہ نفس لوامہ کی گواہی تو ہر زمانہ میں حاصل ہے اور ہر زمانہ کے لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن اس خاص یوم القیامۃ کی گواہی سے وہی لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو آخری زمانہ میں ہوں.اس واسطے دونوں زمانوں کے لوگوں کے ایمان کی زیادتی کے لئے دونوں قسم کی دلیلیں دی گئیں.بلکہ اگر گہرا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ہے ہی زیادہ تر موجودہ زمانہ کے متعلق.اور نفس لوامہ کی دلیل بھی زیادہ تر آخری زمانہ کے لوگوں ہی سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ اسی زمانہ میں علم النفس نے خاص ترقی کی ہے اور خیر وشتر کے مسائل پر نہایت تفصیلی بحثیں انسانی دماغ کی بناوٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوئی ہیں اور یہی زمانہ ہے جس میں یہ دلیل زیادہ کارآمد ہو سکتی ہے کہ انسانی دماغ میں ایک حسن ہے جو بعض امور کو بُرا اور بعض کو اچھا قرار دیتی ہے.قطع نظر اس کے کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے اگر 56

Page 62

انقلاب حقیقی صرف اسی امر کو دیکھا جائے کہ اچھے یا بُرے کا احساس انسانی نفس میں پایا جاتا ہے اور بعض حد بندیوں یا قیود کو وہ ضروری قرار دیتا ہے تو بھی اس امر کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی رنگ میں جزاء وسزا کے ساتھ وابستہ ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتا.اور یہ احساس اور اس کا طبعی باعث یوم القیامت اور بعث بعد الموت پر ایک زبردست شاہد ہے.اگر کوئی آخری حساب و کتاب نہیں تو طبع انسانی میں انفعال اور کسی اچھی چیز کیلئے خواہ وہ کچھ ہی ہو کوشش کا احساس کیوں پایا جاتا ہے؟ نیز آیات مذکورہ بالا میں بعث بعد الموت کے ثبوت میں بعث دُنیوی کو پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اسلام پر ایک زمانہ میں پھر موت آنے والی ہے جبکہ اسلام کی تعلیم تو زندہ ہوگی مگر مسلمان اسے چھوڑ بیٹھیں گے.اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایک مامور اور خادم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پھر اسے زندہ کرے گا اور یہ قیامت کا ایک زبر دست ثبوت ہوگا کیونکہ سوائے خدا کے کون تیرہ سو سال پہلے اسلام کی نشاۃ اولی کی اور پھر اس پر جمود کی حالت طاری ہو جانے کی اور پھر دوسری دفعہ اس زمانہ میں احیاء کی خبر دے سکتا ہے جبکہ چاند اور سورج کو ایک خاص مہینہ میں ایک مدعی کے زمانہ میں گرہن لگے گا اور دنیا ظاہری علوم سے پُر ہوگی اور دہریت کا غلبہ ہو گا؟ اور جب قرآن کریم کی بتائی ہوئی قیامت تیرہ سو سال بعد آ جائے گی تو ثابت ہو جائے گا کہ قرآن کا خدا عالم الغیب بھی ہے اور قادر بھی.پھر اس عالم الغیب خدا کی اس خبر کو لوگ کس طرح جُھٹلا سکتے ہیں جو ما بعد الموت کے متعلق ہے اور اس قا در خدا کی قدرت کو دیکھ کر قیامت کے وجود کو کیونکر ناممکن قرار دے سکتے ہیں.چنانچہ جب پہلی قیامت کا ظہور ہوگا سمجھدار انسان کہے گا کہ اب بھاگنے کی کونسی جگہ ہے یعنی اس محبت کو دیکھ کر کوئی عقلمند انسان ایک زبردست ہستی کا انکار نہیں کر سکے گا جس کے قبضہ میں سب کا رخانہ ، عالم ہے اور جسے طاقت ہے کہ جو چاہے کرے اور جو عالم الغیب ہے جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں.57

Page 63

انقلاب حقیقی ہر نئے نبی کے زمانہ میں نئے آسمان و زمین کی تخلیق پر مسیح موعود کی شہادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۵۶۶ پر لکھتے ہیں:." وَالْقِيَ فِي قَلْبِيُّ أَنَّ اللَّهَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقُ ادَمَ فَيَخْلُقُ السَّمَواتِ وَالْاَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَّ يَخْلُقُ كُلَّ مَا لَا بُدَّ مِنْهُ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِينَ ثُمَّ فِى اخِرِ الْيَوْمِ السَّادِسِ يَخْلُقُ ادَمَ وَكَذَلِكَ جَرَتْ عَادَتُهُ فِي الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ.کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل پر یہ بات نازل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی آدم کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو آسمان اور زمین کو چھ دن میں پیدا کرتا ہے اور ہرضروری چیز کو آسمان وزمین میں بناتا ہے.پھر چھٹے دن کے آخر میں آدم کو پیدا کرتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی سنت پہلے زمانوں میں تھی اور آخری زمانہ میں بھی وہ ایسا ہی کرے گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر اولو العزم نبی کے زمانہ میں ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین پیدا کی جاتی ہے.گویا روحانی طور پر دنیا بدل دی جاتی ہے اور پہلے نظام پر تباہی آکر ایک روحانی قیامت کے ذریعہ سے ایک نئی زندگی دنیا کو بخشی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود کا ایک کشف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف بھی ہے کہ میں نے دیکھا میں اللہ تعالیٰ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۶،۵۶۵ 58

Page 64

.انقلاب حقیقی میں محو ہو گیا ہوں اور :- اس حالت میں میں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں.سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی.پھر میں نے منشائے حق کے موافق اس کی ترتیب اور تفریق کی اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کے خلق پر قادر ہوں.پھر میں نے آسمانِ دنیا کو پیدا کیا اور کہا إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ.پھر میں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے.پھر میری حالت کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی اور میری زبان پر جاری ہوا.اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ ـ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ 66 فِي أَحْسَنِ تَقْوِيم “ اس کشف سے بھی ظاہر ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص مشن ہوتا ہے اور وہ ایک ایسے تغیر کے لئے آتا ہے جو سابق نظام کے مقابل پر نئی زمین اور نیا آسمان کہلانے کا مستحق ہوتا ہے ہاں جب نئی شریعت آئے تو وہ پہلی شریعت کے مقابل پر نئی زمین اور نیا آسمان کہلاتی ہے کیونکہ خَيْرٌ مِنْهَا ہوتی ہے اور اگر پہلی شریعت کے قیام ہی کے لئے کوئی نبی آئے تو اس کی بعثت کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کے زمانہ میں دنیا میں جو تہذیب اور تمدن قائم ہوتا ہے اسے تباہ کر کے پھر نئے سرے سے مذہب کی حقیقی حکومت دنیا میں قائم کرے اور انہی معنوں میں وہ ایک نیا آسمان اور نئی زمین بناتا ہے.یعنی گودین جسے وہ قائم کرتا ہے پرانا ہوتا ہے مگر دنیا کی نگاہوں میں وہ نیا ہوتا ہے کیونکہ اس زمانہ میں وہ دنیا سے مٹ چکا ہوتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور تہذیب قائم ہو چکی ہوتی ہے.کتاب البریۃ صفحہ ۸۶،۸۵.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۵،۱۰۴ 59

Page 65

.انقلاب حقیقی مذہبی تحریکات کے بڑے بڑے دور کون سے ہیں؟ اس تمہید کے بعد میں بتاتا ہوں کہ دنیوی تمدن اور تہذیب کے ادوار کے مقابل پر الہی تہذیب کے جو دور گزرے ہیں وہ کیا تھے سو یا درکھنا چاہئے کہ:.دو بر آدم کا پیغام قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ نسلِ انسانی کیلئے سب سے پہلا دور آدم کا تھا.قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت آتا ہے:.وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ (البقرة: ٣١) اس سے ظاہر ہے کہ آدم وہ پہلے نبی تھے جنہوں نے تمدن کی بنیاد ڈالی اور نظام کو قائم کیا مگر اس جگہ آدم سے مراد وہ آدم نہیں جن سے انسانی نسل چلی بلکہ وہ آدم مراد ہیں جن سے تمدن کا دور چلا.یعنی اس سے پہلے انسان تمدن کے اُس مقام تک نہیں پہنچا تھا کہ شریعت کا حامل ہوتا بلکہ ابھی وہ متمدن بھی نہیں تھا اور نہ اس قابل تھا کہ انسان کہلاتا وہ زیادہ سے زیادہ ایک اعلیٰ حیوان کہلانے کا مستحق تھا.میں اس بات کا قائل نہیں کہ بندر سے انسان بنا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کو غلط ثابت کرسکتا ہوں.انسانی پیدائش ارتقائے مستقل سے ہوئی مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی ترقی ارتقاء کے اصول کے مطابق ہوئی ہے.اُس 60

Page 66

.انقلاب حقیقی وقت انسان کی ایسی ہی حالت تھی جیسے بچہ کی.اب اگر کوئی چار سالہ بچہ کو کہے کہ تو روزہ رکھ تو اُسے ہر شخص پاگل سمجھے گا اسی طرح ابتداء میں انسان کی ایسی حالت تھی کہ وہ ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا تھا کہ وہ شریعت کا حامل ہوتا.دور اول کی حقیقت پس ایک زمانہ انسان پر ایسا آیا ہے کہ جب وہ گو انسان ہی کہلاتا تھا مگر ابھی وہ حیات داگی پانے کا مستحق نہیں تھا.جب اس حالت سے اس نے ترقی کی اور اس کا دماغ اس قابل ہو گیا کہ وہ قانونِ شریعت کا حامل ہو سکے تو پہلا قانون جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتر اوہ یہ تھا کہ مل کر رہو اور ایک افسر کے ماتحت اپنی زندگی بسر کرو.گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلا قانون لانے والا سادہ عبادت الہی کے علاوہ صرف یہی پیغام لے کر آیا تھا کہ تم عائلی اور تمدنی زندگی اختیار کرو.تمہارا ایک حاکم ہونا چاہئے، تمہیں اُس کی اطاعت کرنی چاہئے تم اپنے مقدمات اُس کے پاس لے جاؤ اُس سے اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کراؤ اور ہر بات قانون کے ماتحت کرو اور وہ پہلا انسان جس نے یہ قانون قائم کیا اس کا نام آدم تھا.اور جب ہم اس نقطہ نگاہ سے آدم کو دیکھیں تو وہ تمام اعتراضات حل ہو جاتے ہیں جو اس سے پہلے آدم کے واقعہ پر ہوا کرتے تھے.مثلاً یہ جو آتا ہے کہ فرشتوں نے کہا.اتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدّماء کہ کیا واب زمین میں ایک ایسا شخص کھڑا کرنے والا ہے جو فساد کرے گا اور لوگوں کا خون بہائے گا؟ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ فرشتوں کو کیونکر پتہ لگا کہ آدم کے ذریعہ سے خون بہیں گے جبکہ آدم ابھی پیدا بھی نہ ہو اتھا؟ اس کے کئی جواب دیئے جاتے تھے مثلاً یہ کہ چونکہ حاکم فساد کو دور کرنے کے لئے 61

Page 67

انقلاب حقیقی ہوتا ہے فرشتوں نے سمجھ لیا کہ ضرور کوئی فساد کرنے والے بھی ہونگے اس وجہ سے انہوں نے یہ سوال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر دیا کہ کیا فسادی لوگ بھی دنیا میں پیدا کئے جائیں گے کہ جن کو حدود کے اندر رکھنے کے لئے آدم کی پیدائش کی ضرورت ہے؟ بیشک خلیفہ کے لفظ سے یہ استنباط ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلوق فساد کرنے والی بھی ہوگی لیکن اگر یہ آدم نسلِ انسانی کا بھی پہلا فرد تھا تو پھر بھی یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ فساد تو کبھی آئندہ زمانہ میں آدم کی اولاد نے کرنا تھا پھر آدم کو خلیفہ کس غرض اور کس کام کے لئے بنایا گیا تھا؟ اور اگر خلیفہ کا وجود بغیر فساد کے بھی ہو سکتا ہے تو پھر فرشتوں کے اعتراض کی بنیاد کیا تھی؟ غرض اس تشریح سے جو گو غیر معقول نہیں اس سوال کا جواب نہیں آتا کہ فرشتوں کو اس سوال کا خیال کیوں پیدا ہوا اور یہ معنی اس آیت کے معانی میں سے ایک معنی تو کہلا سکتے ہیں مگر مکمل معنی نہیں کہلا سکتے.بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ فرشتوں نے کہا جو قومی تو نے آدم میں رکھے ہیں ان کے ماتحت ہمیں طبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ضرور فساد کرے گا اور لوگوں کے خون بہائے گا حالانکہ آدم اگر خدا تعالیٰ کا نبی تھا تو اس نے وہی کچھ کرنا تھا جو خدا تعالیٰ اُسے حکم دیتا اس کے خلاف عمل وہ کر ہی نہیں سکتا تھا.اس آیت کے معنی کرتے ہوئے یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ بادی النظر میں اس سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ جس فعل کو فرشتے عجیب خیال کرتے ہیں وہ خود آدم کا فعل ہے نہ کسی دوسرے شخص کا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ کیا تو اس دنیا میں ایسے وجود کو پیدا کرنے لگا ہے جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا اور دوسرا امر الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فساد اور خونریزی خود خلافت کے مفہوم سے ہی ظاہر ہوتی ہے اور یہ کہ جس فساد کی طرف فرشتے اشارہ کرتے ہیں 9 62

Page 68

انقلاب حقیقی وہ کوئی ایسا فعل ہے جو خلیفہ بنانے کی اغراض میں شامل ہے.گویا فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہی سے یہ معلوم ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ آدم سے کوئی ایسا کام کروائے گا جو بظاہر فساد اور سفک دم نظر آتا ہے جس پر وہ تعجب کرتے ہیں کہ خدا کا خلیفہ اور فساد اور سفک دم کا مرتکب؟ یہ کیسی عجیب بات ہے؟ سوال کے ان پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر دیکھو تو آدم کا جو مقام میں نے ظاہر کیا ہے اس کے ساتھ اس سوال کو پوری تطبیق حاصل ہے.میں نے بتایا ہے کہ آدم جس کا ذکر سورہ بقرہ میں ہے نسلِ انسانی کا پہلا باپ نہیں بلکہ شریعت کے ادوار کے پہلے دور کا مؤسس ہے اور جیسا کہ قرآن سے استنباط کر کے میں نے بتایا ہے وہ دور دور تمدن تھا یعنی اُس دور میں پہلی دفعہ تمدن کو دنیا سے روشناس کرایا گیا تھا.آدم سے پہلے انسان تمدن اور نظام کا جوا اپنی گردن پر اُٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا مگر اُس وقت چونکہ انسان میں یہ قابلیت پیدا ہو گئی اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے اصلح وجود کو نبوت کا مقام دے کر دور تمدن کا بانی بنایا اس کے اجراء کا حکم دیا، اسی دور میں عورت اور مرد میں زوجیت کے اصول پر رشتہ اتحاد کا رواج ڈالا گیا.ورنہ جیسا کہ ظاہر ہے چونکہ اس سے پہلے انسان میں حمد نی قواعد کی اطاعت کا مادہ نہ تھا اُس وقت تک ازدواج کے متعلق کوئی اصول مقرر نہ تھے.تخلیق آدم پرفرشتوں کے سوال کی وجہ اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد فرشتوں کے سوال کا مطلب واضح ہو جاتا ہے.جب تک تمدنی نظام نہ ہو ہر قسم کا قتل اور غارت ایک بُرائی کا رنگ رکھتا ہے اور گناہ کہلاتا ہے لیکن جو نہی نظام حکومت قائم ہو بعض قسم کی لڑائیاں اور قتل جائز اور درست ہو جاتے ہیں.مثلاً جو لوگ حکومت کی اطاعت نہ کرتے ہوں، ان کے خلاف جنگ جائز سمجھی 63 653

Page 69

.انقلاب حقیقی جاتی ہے جو فساد کرتے ہوں ان کا قتل جائز سمجھا جاتا ہے اور تمام حکومتیں ایسا کرتی ہیں بلکہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں.پس جب آدم کے خَلِيفَه فِي الْأَرْضِ بنانے کا ارادہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر کیا تو ملائکہ نے حکومت کے تمام پہلوؤں پر نظر کی اور ان کو یہ نئی بات معلوم ہوئی کہ قتل اور خون اور جنگ کی ایک جائز صورت بھی ہے اور آدم سے بعض دفعہ یہ افعال صادر ہونگے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں اس کا یہ فعل پسندیدہ سمجھا جائے گا نہ کہ بُرا اور چونکہ اس سے پہلے نظامِ حکومت کی مثال نہ تھی یہ امر فرشتوں کو عجیب معلوم ہوا.اُسی طرح جس طرح بعض لوگ جو حقیقت حال سے واقف نہیں رسول کریم ﷺ کی جنگوں پر اعتراض کرتے ہیں یا بعض قتل کی سزاؤں پر اعتراض کرتے ہیں.پس فرشتوں کا سوال آدم کے افعال ہی کے متعلق ہے جو وہ بحیثیت حاکم وقت کرنے والا تھا اور انہیں یہ امر عجیب معلوم ہوتا ہے کہ وہ افعال یعنی جنگ اور قتل جو پہلے گناہ سمجھے جاتے تھے اب ان کو بعض حالتوں میں جائز سمجھا جائے گا.اور وہ کہتے ہیں.الہی ! آپ ایک ایسا خلیفہ مقرر کرتے ہیں اور ایسے کام اس کے سپر د کرتے ہیں کہ جو پہلے ناجائز تھے.اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتا ہے کہ انِي أَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُونَ اتم نہیں جانتے کہ اس نظام میں کیا خوبیاں ہیں.گو بظاہر حکومت کے قیام سے بعض قسم کے جبر کی اجازت دی جاتی ہے اور انفرادی آزادی میں فرق آتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی یہ جبر اور قواعد فرد کے لئے بھی اور قوم کے لئے بھی مفید ہوتے ہیں.یہ ظاہر ہے کہ جو معنی میں نے کئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے التي أعلمُ مَا لا تَعْلَمُونَ کا فقرہ عبارت میں نہایت ہی عمدہ طور پر چسپاں ہو جاتا ہے اور دوسرے معنوں کے رو سے اس میں کسی قدر تکلف پایا جاتا ہے یا کم سے کم وہ معنی البقرة: ٣١ 64

Page 70

، انقلاب حقیقی ایک دوسرے معنوں کے محتاج رہتے ہیں.تمدن کی حقیقت یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا میں تمدن کے معنی ہی یہ ہیں کہ خون اور فساد کی بعض جائز صورتیں پیدا کی جائیں.چنانچہ دیکھ لوزید قتل کرتا ہے اور وہ دنیا کے نزدیک قاتل قرار پاتا ہے مگر جب اسی زید کو گورنمنٹ پھانسی دیتی ہے تو وہ قاتل نہیں بنتی بلکہ اس کا فعل جائز اور مستحسن سمجھا جاتا ہے.اسی طرح لوگ اگر کسی کے مکان یا جائداد پر قبضہ کر لیں تو سب کہیں گے یہ فسادی ہیں مگر گورنمنٹ ملکی ضرورت کے ماتحت اگر جائدادوں پر قبضہ کر لے تو یہ فعل لوگوں کی نظر میں جائز سمجھا جاتا ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو حبس بے جا میں رکھے تو ی ظلم قرار دیا جاتا ہے.لیکن گورنمنٹ اگر کسی کو نظر بند کر دے اور فردی آزادی میں دخل اندازی کرے تو یہ جائز بلکہ ضروری سمجھا جاتا ہے.پس جب خدا نے کہا کہ ہم دنیا کو متمدن بنانے والے ہیں اور ہم ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والے ہیں جو قانون نافذ کرے گا، جو قانون کے ماتحت بعض لوگوں کو قتل کی سزا دے گا ، جو قانون کے ماتحت بعض لوگوں کی جائدادوں پر زبر دستی قبضہ کرے گا، جو قانون کے ماتحت فردی آزادی میں دخل انداز ہوگا، تو چونکہ یہ ایک بالکل نئی بات تھی اس لئے فرشتوں نے اس پر تعجب کیا اور وہ حیران ہوئے کہ اس سے پہلے تو قتل کو ناجائز قرار دیا جاتا تھا مگر اب قتل کی ایک قسم جائز ہو جائے گی.پہلے فسادکو ناجائز قرار دیا جاتا تھا مگر اب فساد کی ایک قسم جائز ہو جائے گی.65

Page 71

.انقلاب حقیقی یہ نقطہ نگاہ ابتدائی زمانہ کے لحاظ سے لوگوں کے لئے نہایت ہی اہم تھا بلکہ یہ اعتراض آج بھی دنیا میں ہو رہا ہے.چنانچہ یورپ میں ایک خاصی تعدا دایسے لوگوں کی ہے جو پھانسی کی سزا کے مخالف ہے اور وہ اس کی دلیل یہی دیتے ہیں کہ جب کسی کو قتل کرنا ناجائز ہے تو حکومت کسی آدمی کو کیوں قتل کرتی ہے؟ حالانکہ حکومت صرف پھانسی ہی نہیں دیتی اور کئی قسم کے افعال جو بعض گناہوں سے شکل میں مشارکت رکھتے ہیں، حکومت کرتی ہے مثلاً ٹیکس لیتی ہے.اور اگر پہلا خیال درست ہے تو یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ٹیکس کی وصولی چونکہ ڈا کہ اور چوری کے مشابہ ہے اسے بھی ترک کر دینا چاہئے لیکن یہ لوگ ٹیکسوں پر اعتراض نہیں کرتے.پس معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا پھانسی پر اعتراض محض ایک وہم ہے اور قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے.ابتدائی زمانہ میں چونکہ ابھی بادشاہت کا طریق جاری نہیں تھا دنیا تمدن سے کوسوں دور تھی اس لئے جب کوئی شخص کسی کو مارتا تو سمجھا جاتا کہ اس نے بہت بُرا کام کیا ہے.جب وہ کسی کو لوٹتا تو ہر کوئی کہتا کہ یہ نہایت کمینہ حرکت کی گئی ہے.مگر جب خدا تعالیٰ نے بادشاہت قائم کی اور یہ قانون جاری ہوا کہ جو شخص کسی کو قتل کرے اُسے قتل کیا جائے تو لوگوں کو سخت حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہوا کہ ایک کے لئے مارنا جائز ہے اور دوسرے کیلئے ناجائز ، ایک کے لئے لوٹ کھسوٹ جائز ہے اور دوسرے کے لئے ٹوٹ کھسوٹ ناجائز.گورنمنٹ ٹیکس لے لے تو یہ جائز ہومگر دوسرا کوئی شخص زبر دستی کسی کا روپیہ اُٹھالے تو اسے ناجائز کہا جائے.گویا وہ سارے افعال جن کو بُراسمجھا جاتا ہے انہیں جب حکومت کرتی ہے تو اس کا نام تہذیب رکھا جاتا ہے اور کوئی ان پر بُر انہیں منا تا لیکن افراد وہی فعل کریں تو اُسے بُرا سمجھا جاتا ہے.66

Page 72

.انقلاب حقیقی تمدن کے قیام پر اعتراضات غرض جب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اب دنیا میں نظام قائم ہونے والا ہے تو وہ بہت حیران ہوئے اور انہوں نے سوچا کہ اس نئے قانون کے ماتحت اگر آدم خون کرے گا تو کہا جائے گا کہ یہ بڑا نیک ہے اگر آدم لوگوں سے زبردستی ٹیکس لے گا تو کہا جائے گا کہ یہ بڑا شریف ہے یہ عجیب فلسفہ ہے.آج ہم اس سوال کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے لیکن جب یہ قانون نیا نیا جاری ہوا ہو گا لوگ سخت حیرت میں پڑ گئے ہوں گے.اب بھی جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اس قانون پر معترض ہیں.چنانچہ وحشی قبائل اب تک کہتے ہیں کہ گورنمنٹ کیوں قتل کرتی ہے؟ اگر کوئی شخص ہم میں سے کسی کو قتل کرے گا تو ہم خود اُسے قتل کریں گے گورنمنٹ کو خواہ مخواہ درمیان میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اور انہیں تسلی نہیں ہوتی جب تک خود انتقام نہ لے لیں.یہ انسانی دماغ کی ابتدائی حالت تھی اور بوجہ تعلیم کی کمی کے آج بھی بعض لوگوں کے اندر پیدا ہو جاتی ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ فرشتے اس پر اعتراض نہیں کرتے کہ نسل آدم کی پیدائش سے قتل اور خون ہو گا بلکہ اس پر کہ انسانوں پر ایک ایسا شخص مقرر کیا جائے گا جو یہ بُرے افعال کرے گا اور اس کے ان افعال کو جائز قرار دیا جائے گا.یہ ایک ایسا پہنی انقلاب تھا کہ اُس وقت کے لحاظ سے اس کو دیکھ کر عقلیں چکرا گئی ہونگی اور لوگوں پر اس نظام کو تسلیم کرنا کہ ایک شخص ان کے مالوں پر ان کی مرضی کے خلاف قبضہ کرے اور ان میں سے بعض کو پھانسی تک دے سکے اور اس کا یہ فعل جائز قرار دیا جائے سخت ہی رگراں گزرتا ہو گا.وہ کہتے ہوں گے کہ ہم نے ایک شخص کو مار دیا ہے تو یہ اس کے 67

Page 73

، انقلاب حقیقی رشتہ داروں کا معاملہ ہے وہ جانیں اور ہم جانیں یہ شخص بیچ میں کو دنے والا کون ہے.چنانچہ آج بھی ناقص الخلقت لوگ انہی وہموں میں پڑے رہتے ہیں اور حکومتوں میں خلل ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.چنانچہ تحکیم نے تو غالباً پھانسی کی سزا اُڑا ہی دی ہے اور وہ محض اسی نقطہ نگاہ سے اُڑائی ہے جو میں نے بتایا ہے.اگر وہ لوگ جن کے کہنے پر پھانسی کی سزا اُڑائی گئی میرے سامنے ہوتے تو میں انہیں کہتا کہ پھانسی کی سزا تم مٹاتے ہو تو ٹیکس کا طریق کیوں نہیں اُڑاتے وہ بھی تو دوسروں کے اموال پر نا جائز تصرف ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے خیالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یورپ کے دماغوں میں تنزل پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے اور دراصل حکومتوں میں خلل ایسے ہی ناقص الخلقت لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ اب چونکہ تمدن کا خیال راسخ ہو گیا ہے اب یہ خیال تو نہیں آتا کہ حکومت سرے سے اُڑا دی جائے ہاں یہ خیال آتا ہے کہ شاید اس کی جگہ دوسری حکومت ہو تو وہ ہمارے حقوق کا زیادہ خیال رکھے اور اس وجہ سے تغییر کی کوششیں کی جاتی ہیں.مگر وحشی قبائل کی اب بھی یہی حالت ہے کہ وہ حکومت اور تمدن کو ہر رنگ میں ناپسند کرتے ہیں اور اسے برداشت کرنا ان پر سخت گراں گزرتا ہے اور وہ دوسروں کی دخل اندازی پر سخت حیران ہوتے ہیں.مثلاً ان کے ننگا پھر نے پر اگر حکومت معترض ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ننگے پھرتے ہیں تو کسی کا کیا حق ہے کہ وہ ہمیں کپڑے پہنائے ؟ ہمیں نگارہنے سے ہوا لگتی ہے اور مزا آتا ہے ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہماری آزادی میں کوئی اور مداخلت کرے.چنانچہ برطانوی تصرف کی ابتداء میں جب ننگے حبشی افریقہ کے شہروں میں داخل ہونے کے لئے آتے تو شہر کے دروازوں پر حکومت کی طرف سے افسر مقرر ہوتے تھے وہ 68

Page 74

انقلاب حقیقی انہیں تہہ بند دے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تہہ بند پہن کر شہر جاسکتے ہو نگے نہیں جاسکتے.اس پر وہ تہہ بند باندھ تو لیتے مگر ادھر ادھر دیکھتے بھی جاتے کہ کہیں کوئی حبشی ان کی اس بے حیائی کو تو نہیں دیکھ رہا اور جب وہ ایک دوسرے کو دیکھتے تو آنکھیں بند کر لیتے کہ ایسی بے حیائی ہم سے دیکھی نہیں جاتی.پھر جب شہر سے نکلتے تو جلدی سے تہہ بندا افسر کی طرف پھینک کر بھاگ جاتے.بلکہ اب تو یورپ میں بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو ننگے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی ننگا رہنے کی تلقین کرتے ہیں.بلکہ ایک دفعہ تو اس بات پر لڑائی ہو گئی کہ وہ لوگ زور دیتے تھے کہ ہم ننگ دھڑنگ شہر میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور پولیس یہ کہتی کہ کپڑے پہن کر آؤ.وہ کہتے تم ہوتے کون ہو جو ہماری آزادی میں دخل دیتے ہو؟ تم آنکھیں بند کر لو اور ہماری طرف نہ دیکھو.مگر تم ہمیں مجبور کیوں کرتے ہو کہ ہم ضرور کپڑے پہنیں ؟ آخر جب جھگڑا بڑھا تو پولیس کو گولی چلانی پڑی.یہ بھی یورپ کے تنزل کی ایک علامت ہے کہ اب وہاں کے ایک طبقہ کی دماغی طاقتیں بالکل کمزور ہوگئی ہیں.یورپ میں بعض کلمہیں ایسی ہیں کہ ایسا شخص کسی صورت میں بھی ان کا ممبر نہیں بن سکتا جو کپڑے پہن کر نہاتا ہو کیونکہ ان کے نزدیک ابھی وہ شخص پورا مہذب نہیں ہوا.میں نے اس کے متعلق ایک کتاب بھی پڑھی ہے جس میں ایک ڈاکٹر لکھتا ہے کہ میری بیٹی ننگے مذہب میں شامل ہو گئی.مجھے یہ بات سخت ناگوار گزری اور میں نے اس پر ختی کرنی شروع کر دی.آخر ایک دن بیٹی نے مجھے کہا.ابا ! ذرا چل کر دیکھو تو کہ جن کو آپ بد تہذیب کہتے ہیں وہ کتنے مہذب اور شائستہ لوگ ہیں.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ ایک دن میری بیٹی مجھے زبر دستی اس سوسائٹی میں لے گئی.جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ 59 69

Page 75

، انقلاب حقیقی سب لوگ ننگے پھر رہے ہیں.میں یہ دیکھ کر پہلے تو شرم کے مارے زمین میں گڑ گیا مگر پھر میں نے دیکھا کہ ان کے چہروں پر اتنی معصومیت برس رہی ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں.چنانچہ یہ دیکھتے ہی میرے خیالات بھی بدل گئے اور میں بھی کپڑے اُتار کر اُن میں شامل ہو غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ سے پہلی دفعہ نسلِ انسانی میں تمدن قائم کیا اور فرمایا کہ تم میں سے بعض خواہ ننگے پھرنے کے قائل ہوں مگر ہم انہیں تنگا نہیں پھرنے دینگے گویا انسانی حریت پر آدم نے بعض قیود لگا دیں اور اسے ایک قانون کا پابند کر دیا.تمدنی حکومت کے فوائد آج آپ لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے اور ان پر ہنستے ہیں مگر جب پہلے پہل آدم نے یہ باتیں لوگوں کے سامنے پیش کی ہوں گی تو میں سمجھتا ہوں اُس وقت خونریزیاں ہو گئی ہونگی اور قوموں کی تو میں آدم کے خلاف کھڑی ہوگئی ہونگی.جب آدم نے انہیں کہا ہوگا کہ کپڑے پہنو تو کئی قبائل کھڑے ہو گئے ہونگے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہوگا کہ حریت ضمیر کی حفاظت میں کھڑے ہو جاؤ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آدم اور اس کے ساتھیوں کو وہ دلائل بھی سکھائے کہ کیوں نظام کی پابندی تمہارے لئے مفید ہو گی.فرماتا ہے اے آدم! جب لوگ اعتراض کریں اور کہیں کہ اس تمدنی حکومت کا کیا فائدہ ہے؟ تو تم انہیں کہنا کہ اگر تم اس جنت نظام میں رہو گے تو بھو کے نہ رہو گے، ننگے نہ رہو گے، پیاسے نہ رہو گے اور دھوپ کی تکلیف نہ اُٹھاؤ گے اور یہی مذہبی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملکی بہبودی کے سامان کرے.لوگوں نے غلطی سے قرآن کریم کی 70

Page 76

انقلاب حقیقی اس آیت کے یہ معنی لئے ہیں کہ آدم ایسے مقام پر رکھا گیا تھا جہاں نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.اس میں دراصل بتایا یہ گیا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کے لئے کام مہیا کرے.اگر کوئی کام نہ کر سکتا ہو تو اس کے لئے خوراک مہیا کرے، پانیوں اور تالابوں کا انتظام کرے اور مکانوں کا انتظام کرے.گویا کھانا، پانی مکان اور کپڑا یہ چاروں چیزیں حکومت کے ذمہ ہیں اور یہ چاروں باتیں اِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرِى وَ أَنَّكَ لَا تَظْمُوا فِيْهَا وَلَا تَضْحَی لے میں بیان کی گئی ہیں.کہ اے آدم! اگر لوگ اعتراض کریں تو تو انہیں کہدے کہ حکومت کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ تم بھوکے نہیں رہو گے.چنانچہ حکومت کا یہ فرض ہے کہ خواہ کوئی جنگل میں پڑا ہواس کے لئے کھانا مہیا کرے.ولا تغری اور پھر تم نگے بھی نہیں رہو گے کیونکہ تمہارے کپڑوں کی بھی حکومت ذمہ وار ہو گی.اسی طرح لا تظموا میں بتایا کہ حکومت تمہارے پانی کی بھی ذمہ وار ہے.اور ولا تضحی میں بتایا کہ تمہارے لئے مکانات بھی مہیا کئے جائیں گے اور جس حکومت میں یہ چاروں باتیں ہوں وہ نہایت اعلیٰ درجہ کی مکمل امن والی حکومت ہوا کرتی ہے.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ بیشک انفرادی آزادی پر پابندی گراں ہے لیکن تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ نظام کے لئے کچھ پابندیاں قبول کرو کیونکہ اس کے بغیر نہ بُھوک پیاس کا نہ لباس و مکان کا اور نہ دائگی امن یعنی جنت کا انتظام ہو سکتا ہے، پس یہ قیود خود تمہارے فائدہ کے لئے ہیں.غرض آدم کے وقت تک انسان کا دماغ پورا نشو و نما نہیں پا چکا تھا اور گناہ بھی پورے ایجاد نہ ہوئے تھے سوائے چند ایک کے.پس ان کے لئے کچھ احکام دے دیئے گئے اور وہ طه: ۱۲۰،۱۱۹ 71

Page 77

انقلاب حقیقی اسی قدر تھے جس قدر کہ نظام حکومت کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس لئے آدم کے متعلق سارے قرآن کریم میں یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ وہ مسائل شرعیہ کی طرف لوگوں کو بلاتا تھا.جہاں ذکر آتا ہے انہی چار چیزوں کا آتا ہے.پس حضرت آدم نے صرف دنیا کو متمدن بنایا مگر یہ اُس وقت کے لئے ایک انقلاب تھا اور در حقیقت عظیم الشان انقلاب کہ دنیا کا موجودہ تمدن اسی کا نتیجہ ہے.دور ثانی.نوح کی تحریک اس کے بعد دوسرا دور آیا جب آہستہ آہستہ آدم کے متبع افراد نے ترقی کی اور انہوں نے دنیا میں کار ہائے نمایاں سرانجام دینے شروع کر دیئے اور انسانی تمدن ترقی کرنے لگا اور انسان کو تمدن سے جو وحشت ہوا کرتی تھی وہ جاتی رہی اور وہ اس بات کا عادی ہو گیا کہ انفرادی آزادی قربان کر کے مجموعی رنگ میں قوم کے فائدہ کے لئے قدم اُٹھائے.اس کے نتیجہ میں مسابقت کا مادہ پیدا ہوا اور بعض لوگ نہایت ذہین ثابت ہوئے اور بعض گند ذہن نکلے.کوئی اپنے کام میں نہایت ہی ہوشیار ثابت ہوا اور کوئی نکتا، کوئی اپنی لیاقت کی وجہ سے بہت آگے نکل گیا اور کوئی پیچھے رہ گیا کیونکہ مختلف انسانوں کے قویٰ میں تفاوت تو ہوتا ہی ہے مگر اس کا ظہور تمدن کی زندگی میں ہوتا ہے اور جس قدرتمدن پیچیدہ اور لطیف ہوتا جائے اسی قدر انسانی قابلیتوں کا تفاوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہونے لگتا ہے.اگر دو متفاوت القویٰ انسانوں کو ادنی تمدن کے دائرہ میں کام پر لگایا جائے تو گو تفاوت ظاہر ہو گا مگر اس قدر نمایاں نہیں ہوگا جس قدر کہ اس وقت جبکہ انہیں کسی اعلیٰ تمدن کے ماتحت کام کرنا پڑے.اعلیٰ تمدن میں تو بعض دفعہ اس قد ر فرق ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اعلیٰ قابلیت کا آدمی کسی اور ہی جنس کا نظر آنے لگتا ہے.چنانچہ ایسا ہی آدم کے دور کے آخر میں 72

Page 78

انقلاب حقیقی ظاہر ہونے لگا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو آدمی معمولی تھے انہوں نے بعض آدمیوں کو خاص قابلیتوں کا مالک متصور کر لیا اور چونکہ علم النفس کا فلسفہ ابھی ظاہر نہ ہوا تھا اور علم کی کمی کی وجہ سے اس زمانہ کے لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ سب انسان ایک سے ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان میں سے اعلیٰ طاقتوں کا مالک ہے تو ضرور اُسے کوئی اور طاقت جو انسانیت سے بالا ہے حاصل ہے.گناہ کی ترقی کس طرح ہوئی اس لئے ان لوگوں میں پہلا احساس شرک کا پیدا ہوا اور انہوں نے اپنے میں سے بعض کو خدائی طاقتوں سے متصف خیال کر لیا اور یہ خیال کرنے لگ گئے کہ فلاں آدمی جو اتنا قابل، اتنامد تبر ، اتنا سمجھدار اور اتنا عالم تھا وہ آدمی نہیں بلکہ خدا تھا.اگر آدمی ہوتا تو اس کی قابلیتیں ہم سے زیادہ نہ ہوتیں اور اس طرح شرک کی ابتداء ہوئی.جب مادۂ فکر کے ترقی کر جانے کے سبب سے ایک طرف تو شرک کی بیماری لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگئی اور دوسری طرف انسان میں وہ گناہ پیدا ہونے لگے جو تمدن کا لازمی نتیجہ ہیں اُس وقت اللہ تعالیٰ نے نوح کو بھیجا.دور ثانی کا پیغام.نزولِ شریعت گویا یہ تہذیب الہی کا دوسرا دور تھا جو نوح سے شروع ہوا.نوح" اُس وقت آئے جب صفات الہیہ کا لوگوں کے دلوں میں احساس پیدا ہو گیا تھا اور صفات الہیہ کے احساس کے بعد ہی شریعت کا احساس پیدا ہوتا ہے اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت نوح کے متعلق فرمایا کہ اَوَّلُ نَبِيِّ شَرَعَتْ عَلَى لِسَانِهِ الشَّرَائِعُ کہ نوح وہ پہلا 73

Page 79

.انقلاب حقیقی نبی تھا جس پر شریعت کا نزول ہوا اور تمدنی قواعد کو ایک با قاعدہ قانون کا رنگ چڑھایا گیا کیونکہ اس زمانہ میں انسانی دماغ ترقی کر کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچ چکا تھا کہ اس کے لئے اس قسم کی رہنمائی کی ضرورت تھی.چنانچہ حدیث میں جو آتا ہے کہ اَوَّلُ نَبِيِّ شَرَعَتْ عَلَى لِسَانِهِ الشَّرَائِع اس کے مضمون کا قرآن شریف سے بھی پتہ چلتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انا او حَيْنَا إِلَيْكَ كَما أوحينا إلى نُوح والتَّبِينَ مِنْ بَعْدِه : کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم نے تیری طرف جو وحی نازل کی ہے یہ ویسی ہی وحی ہے جیسی وحی نوح اور اسکے بعد کے انبیاء کی طرف نازل کی گئی تھی.گویا پہلی وحی عقائد کی نسبت نوح کو ہوئی تھی اور سب سے پہلے تفصیلات صفات الہیہ کا دروازہ اس پر کھولا گیا تھا کیونکہ اس وقت تک انسانی دماغ بہت ترقی کر گیا تھا اور اس نے صفات الہیہ کا ادراک کرنا شروع کر دیا تھا.اور اس فکر میں ٹھو کر کھا کر اس نے شرک کا عقیدہ ایجاد کر لیا تھا.چنانچہ شرک کا ذکر قرآن کریم میں نوح کے ذکر کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے.پس نوح اوّل شارع نبی تھے.ان معنوں میں کہ ان کے زمانہ میں انسان روحانیت کی باریک راہوں پر قدم زن ہونے لگ گیا تھا اور اُس کا دماغ مافوق الطبعیات کو سمجھنے کی کوششوں میں لگ گیا تھا.تیسرا دور.ابراہیمی تحریک اس کے بعد تیسرا دورا براہیم کا ہے.گونوح کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے زمانہ میں شرک ہو چکا تھا اور اس نے شرک کو سختی سے روکا.لیکن درحقیقت وہ دور صفات الہیہ کے احساس کا ابتدائی دور تھا اور شرک بھی صرف بسیط شکل میں تھا.بعض النساء: ۱۶۴ 74

Page 80

.انقلاب حقیقی لوگ بزرگوں کے مجسمے پوجنے لگ گئے تھے.بعض اور نے کوئی اور سادہ قسم کا شرک اختیار کر لیا تھا مگر ابراہیم کے زمانہ میں شرک ایک فلسفی مضمون بن گیا تھا اور اب عقلوں پر فلسفہ کا غلبہ شروع ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ تو حید کی باریک راہیں نکل آئی تھیں جن پر عمل کرنا صرف توحید کے موٹے مسائل پر عمل کرنے سے بہت مشکل تھا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بُت پرستی دنیا میں آج بھی موجود ہے.مگر آج جب بُت پرستوں کو کہا جاتا ہے کہ تم کیوں بُت پرستی کرتے ہو تو وہ کہتے ہیں ہم تو کوئی بت پرستی نہیں کرتے.ہم تو صرف اپنی توجہ کے اجتماع کے لئے ایک بُت سامنے رکھ لیتے ہیں.گویا شرک تو وہی ہے جو پہلے تھا مگر آب شرک کو ایک نیا رنگ دے دیا گیا ہے.اسی طرح ابراہیم کے زمانہ میں شرک کو نیا رنگ دے دیا گیا تھا.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بار بار کہا گیا ہے کہ دما كان من المُشرکین کے اور نوح کی نسبت یہ ایک دفعہ بھی نہیں آیا.کیونکہ زمانہ نوع کامل شرک کا نہ تھا.صرف سطحی شرک میں لوگ مبتلا تھے.جس سے بچنا زیادہ عقل نہیں چاہتا تھا اور بتوں کے آگے جھکنے یا نہ جھکنے کے مسئلہ کو ہر شخص سمجھ سکتا تھا.لیکن ابراہیم کے وقت میں شرک ظاہری رسوم سے نکل کر باطنی رسومات کی حد تک پہنچ گیا تھا اور باوجود بتوں کے آگے نہ جھکنے کے بوجہ فلسفہ کی ترقی کے اور فکر کی بلندی کے ذہنی شرک کی ایک اور قسم پیدا ہوگئی تھی جس کا قلع قمع ابراہیم نے کیا.ابراہیمی تحریک کا پیغام پس ایسے زمانہ میں جو موحد کامل ہوا چونکہ وہی مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ کے خطاب کا مستحق ہوسکتا تھا اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ الفاظ استعمال کئے الانعام: ۱۶۲ 75

Page 81

انقلاب حقیقی گئے.حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق استعمال نہ کئے گئے ورنہ یہ مطلب نہیں کہ نوح اعلیٰ موحد نہ تھا.چنانچہ دیکھ لو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پانچ دفعہ قرآن شریف میں ذکر ہے اور پانچوں جگہ آپ کے متعلق وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشرکین کے الفاظ آتے ہیں لیکن نوح کے متعلق یہ الفاظ نہیں آتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گو اپنے زمانہ میں نوح نے شرک کا مقابلہ کیا مگر چونکہ کامل شرک اُس وقت رائج نہیں تھا اس لئے ومَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِکین کے نام سے آپ کو پکارنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ بوجہ عبادت اوثان سے اجتناب کرنے کے ہر شخص جانتا تھا کہ آپ مشرک نہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے سوئی سے ہر عورت کام کر سکتی ہے مگر ہر عورت درزی نہیں کہلا سکتی کیونکہ درزی کے لئے اپنے فن میں ماہر ہونا ضروری ہے.اسی طرح نوح کے متعلق گو ہم کہتے ہیں کہ انہوں نے شرک کا مقابلہ کیا مگر ابراہیم کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ شرک کا مقابلہ آپ کا پیشہ اور فن بن گیا تھا اس لئے آپ کے متعلق کہا گیا کہ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِين غرض ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں علاوہ ظاہری شرک کے ایک اور شرک جو پہنی اور فلسفی تھا پیدا ہو گیا تھا.اُس وقت صرف یہی شرک نہ رہا تھا کہ بعض لوگ بتوں کے آگے سر جھکاتے تھے بلکہ محبت اور بغض کی باریک راہوں پر غور کر کے انسانی احساسات بہت ترقی کر گئے تھے اور اب بغیر ظاہری شرک کرنے کے بھی انسان ذہنی طور پر مشرک ہوسکتا تھا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح کو یہ نہیں کہا کہ آسلیم اور اُس نے جواب میں کہا ہو اسْلَمْتُ لِرَبِّ العلمين بلکہ ابراہیم کو اللہ تعالی نے کہا آسلیم کہ میں تجھے صرف یہی نہیں کہتا کہ بُت کو سجدہ نہ کر بلکہ میں تجھے یہ بھی کہتا ہوں کہ تو اپنے دل کے خیالات بھی گئی طور پر میری اطاعت میں لگا دے اور ابراہیم نے جواب میں کہا اسلمت A TARANANDALANGUAGE AT کہ اے خدا ! میرے جسم کا ذرہ ذرہ تیرے آگے البقرة: ١٣٢ 76

Page 82

انقلاب حقیقی قربان ہے میری عقل ، میراعلم ، میرا ذہن سب تیرے احکام کے تابع ہیں اور میری ساری طاقتیں اور ساری قو تیں تیری راہ میں لگی ہوئی ہیں اسی لئے اس کی نسبت کہا گیا و ماکان من المُشرکین یہی وہ تو حید ہے جسے تو کل والی توحید کہتے ہیں.اور در حقیقت توحید وہی ہوتی ہے جو تو گل والی ہو، جب انسان یہ کہنے لگے کہ میرے کام سب ختم ہیں.اب میرا کھانا، پینا، میرا اُٹھنا بیٹھنا، میرا سونا، میرا جا گنا، میرا مرنا، میرا جینا سب خدا کے لئے ہوگا.چنانچہ دیکھ لو اس کا فرق آگے کس طرح ظاہر ہوا.نوع کو جب طوفان کے موقع پر بچنے کی ضرورت پیش آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا کہ تو ایک کشتی بنا جس پر بیٹھ کر تو اور تیرے ساتھی طوفان سے محفوظ رہیں اور خدا نے اسے کشتی بنادی لیکن جب ابراہیم کو خدا نے کہا کہ جا اور اپنے بچے اسمعیل کو وادی غَیرَ ذِي زَرْعٍ میں پھینک آتو اس نے اسے کوئی ایسی ہدایت نہیں دی کہ ان کے کھانے اور پینے کے لئے اسے کیا انتظام کرنا چاہئے.اس نے اسے بس اتنا حکم دے دیا کہ جا اور اپنی بیوی اور اپنے بچہ کو فلاں وادی میں چھوڑ آ.چنانچہ وہ گیا اور ہاجرہ اور اسمعیل کو بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ کر چلا گیا اور اس نے یقین کیا کہ جو خدا انہیں گھر پر رزق دیتا تھا وہی انہیں اس جگہ بھی رزق بہم پہنچائے گا غرض ابراہیم نوح کی نسبت تو کل کے زیادہ اعلیٰ مقام پر تھے اور تو کل کامل کا مقام ہی توحید کامل کا مقام ہوتا ہے جو ابراہیم سے ظاہر ہوا.ابراہیم کے ذریعہ سے تکمیل انسانیت اسی طرح تکمیل انسانیت بھی ابراہیم کے ذریعہ سے ہوئی اور دراصل تکمیل انسانیت اور تکمیل توحید لازم و ملزوم ہیں.جب تک تو حید کی تکمیل نہ ہو انسانیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی اور جب تک انسانیت کی تکمیل نہ ہو تو حید کی تعمیل نہیں ہو سکتی اسی لئے صوفیاء 77

Page 83

انقلاب حقیقی نے کہا کہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ ے جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو بھی پہچانا.پس جس طرح فہم انسانی کا ارتقاء ابراہیمی دور میں ہوا اور مذہب کا فلسفہ اپنی شان دکھانے لگا اسی طرح تکمیل انسانیت بھی ابراہیم کے ذریعہ سے ہوئی یعنی انسان کو دوسری اشیاء سے ممتاز قرار دیا گیا اور انسانی قربانی کو منسوخ کیا گیا.آپ سے پہلے انسانی زندگی کو کوئی قیمت نہیں دی جاتی تھی.جو مر گیا مر گیا جو زندہ رہا زندہ رہا.مگر ابراہیم کے زمانہ میں آدم اور دوسری مخلوقات میں فرق کر دیا گیا.ابھی تک انسان اور جانور میں کوئی نمایاں فرق نہ سمجھا جاتا تھا.خیال کیا جاتا تھا کہ دونوں کھاتے پیتے ہیں، دونوں بچے پیدا کرتے ہیں، دونوں چلتے پھرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ انسان کی دماغی ترقی نمایاں ہے اس وجہ سے اُس وقت تک قربانی کے لئے بعض دفعہ انسان بھی پیش کر دیا جاتا تھا کیونکہ جانوروں اور انسان میں کوئی اتنا نمایاں فرق نہ سمجھا جاتا تھا.صرف یہ احساس تھا کہ انسان زیادہ قیمتی ہے اور جانور کم قیمتی مگر ابراہیم کے زمانہ میں جب لوگوں نے تو حید کو سمجھ لیا تو خدا نے کہا اب اسکی قربانی نہیں ہوسکتی کیونکہ اب یہ حیوان نہیں بلکہ پورا انسان بن گیا ہے اور اسکی زندگی اپنی ذات میں ایک مقصود قرار پا گئی ہے.پس اس مقام پر انسان کو پہنچانے کی وجہ سے ابراہیم ابوالانبیاء کہلایا جس طرح آدم ابوالبشر کہلایا.غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں یوم البعث کا صحیح مفہوم انسان کے اندر پیدا کر دیا گیا اور اسے بتایا گیا کہ انسانی زندگی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے اس لئے سوائے ایسی مجبوری کے کہ اسکی قربانی کے بغیر چارہ نہ ہو اس کی فضول قربانی خود اُس مقصد کو تباہ کرنا ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا.گویا اب قربانی فلسفی اور عقلی ہوگئی ظاہری اور رسمی نہ رہی.مثلاً لڑائیوں میں انسان قربان کر دیئے جائیں گے اور انہیں کہا موضوعات ملا علی قاری صفحہ ۲ے مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ 78

Page 84

انقلاب حقیقی جائے گا کہ جائیں اور مر جائیں اور اس موقع پر جب یہ سوال پیدا ہوگا کہ انسان کی قربانی جائز نہیں تو معایہ جواب بھی مل جائے گا کہ ادنی اعلیٰ کے لئے قربان کر دیا جاتا ہے ، اعلیٰ ادنیٰ کے لئے قربان نہیں کیا جاتا.گویا قربانی فلسفہ اور عقل کے ماتحت آ جائے گی.اور بعض موقعوں پر اس قربانی کا پیش کرنا جائز بلکہ ضروری ہوگا اور بعض موقعوں پر نہیں.پھر اس کے ساتھ ہی جب یہ خیال پیدا ہو گیا کہ انسان تمام مخلوق سے اعلیٰ ہے تو اسی خیال سے تصوف کا دور شروع ہو گیا اور انسان یہ سمجھنے لگا کہ میں اس لئے پیدا کیا گیا ہوں کہ اپنے خدا کی رضا حاصل کروں اور اس کا محبوب بنوں گویا ابراہیم سے تصوف کا دور شروع ہوا.گو اس وقت صرف اس کی بنیاد پڑی اور ترقی بعد میں ہوئی.اور یہ توجہ اس لئے پیدا ہوئی کہ جب فیصلہ کیا گیا کہ انسان قتل نہیں کیا جاسکتا اور اس کی بنیاد اس امر پر رکھی گئی کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا کا محبوب بنے تو ہر عقلمند شخص اس فکر میں پڑ گیا کہ وہ محبوبیت الہی کے مقام کو حاصل کرنے کے لئے کس طرح کوشش کرے اور اس طرح تصوف کی بنیاد پڑ گئی.تمدن کامل کی بنیاد ابراہیم سے پڑی جب انسان کی قربانی رڈ کی گئی تو اس نے انسانی دماغ کو اس طرف بھی مائل کر دیا کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے اور جب یہ خیال پیدا ہوا تو ساتھ ہی قانونِ قدرت پر بار یک در بار یک غور بھی شروع ہوا اور تمدن کے کمال کی طرف انسانی توجہ مائل ہو گئی.پس تمدنِ انسانی کے کمال کا دور بھی حقیقی طور پر ابراہیم کے زمانہ میں شروع ہوا.حقیقت یہ ہے کہ اس دور سے پہلے انسان صرف ایک مُحِب کی شکل میں تھا اور اس کے ذہن میں محبوبیت کا خیال پیدا نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ اس کی نامکمل ترقی کو دیکھتے ہوئے خوف کیا جاتا تھا کہ وہ سُست اور غافل نہ ہو جائے کیونکہ ابھی اس کا دماغ اس 79

Page 85

انقلاب حقیقی بار یک فلسفہ کو برداشت کرنے کے قابل نہ تھا لیکن ابراہیم کے وقت میں وہ اس قابل ہو چکا تھا کہ اس پر یہ راز کھولا جائے چنانچہ ابراہیم نے انسان کے محبوب الہی ہونے کے فلسفہ کو پیش کیا اور چونکہ محبت محبوب کی جان کا ضیاع پسند نہیں کرتا اس لئے اس کی قربانی رڈ کی گئی گویا یہ تصوف کا پہلا دور تھا.اسی طرح ابراہیم کا دور فلسفہ حیات انسانی کے سمجھنے کا دور تھا کیونکہ اُس وقت یہ نظر یہ انسان کے سامنے رکھا گیا کہ یہ زندگی عبث اور فضول نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک عظیم الشان نعمت ہے اور آئندہ ترقیات کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کا ذریعہ ہے.موسوی دور اور اُس کا پیغام اس کے بعد دورِ موسوی شروع ہوا کہ یہ دور ایک نئی تبدیلی اور نیا انقلاب لے کر آیا یعنی اب دین اور دنیا کو ملا دیا گیا اور کفر اور اسلام میں امتیاز پیدا کر دیا گیا.آدم کے زمانہ میں صرف تمدن تک بات تھی ، نوح کے زمانہ میں شرک اور توحید میں ابتدائی امتیاز قائم ہوا اور ایک محدود شریعت کی بنیاد پڑی، ابراہیم کے زمانہ میں توحید کامل کی گئی مگر موسوی زمانہ میں انسانی ذہن میں اس حد تک ترقی ہو چکی تھی کہ اب ضرورت تھی کہ دین و دنیا کے قواعد پر مشتمل ایک ہدایت نامہ نازل ہو.گویا ایک ہی وقت میں مذہب، دین اور دنیا دونوں کا چارج لے لے.پھر اس زمانہ میں کفر و اسلام میں امتیاز پیدا کر دیا گیا تھا.موسیٰ سے پہلے گفر واسلام میں امتیاز نہیں تھا.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کافروں کی بیٹی لے لیتے اور ان سے تعلقات رکھتے مگر موسوی دور میں دینِ حق نے علیحدہ اور ممتاز صورت اختیار کر لی تھی جیسے آدم اور نوح کے زمانہ میں انسان نے ممتاز درجہ اختیار کر لیا تھا.اب تفصیلی ہدایت کی ضرورت تھی جن کا تعلق تمدن، سیاست اور روحانیت، متینوں سے ہو.اس میں تمدنی 80

Page 86

.انقلاب حقیقی ہدایات بھی ہوں کہ گھروں کو اس طرح صاف رکھو، آپس کے تعلقات میں فلاں امور محوظ رکھو اور اس میں سیاسی ہدایات بھی ہوں کہ بادشاہ یہ یہ کام کریں اور رعایا کا بادشاہ سے یہ سلوک ہو اور پھر اس میں روحانی ہدایات بھی ہوں کہ عبادت کس طرح کی جائے اور اللہ تعالیٰ کا قرب کس طرح حاصل کیا جائے.گویا اب ایک ایسے نبی کی ضرورت تھی جو ایک ہی وقت میں نبی بھی ہو، بادشاہ بھی ہو اور جرنیل بھی ہو، خدا تعالیٰ نے موسی کو اس کام کے لئے پٹنا اور چونکہ انسانی عقل بہت ترقی کر چکی تھی ، ایک کامل نظام رائج ہو چکا تھا ، فلسفہ اپنے کمال کو پہنچ رہا تھا اس وقت ضرورت تھی ایک ایسے شخص کی جو آدم بھی ہو نوح بھی ہو اور ابراہیم بھی ہو.پس موسیٰ ان تینوں شانوں کے ساتھ آئے اور ان کے ذریعہ سے وہ تفصیلی ہدایت نامہ دنیا کو دیا گیا جس کا تعلق سیاست، روحانیت اور تمدن متینوں سے تھا اور جس میں سیاسی ہدایات بھی تھیں اور روحانی بھی اور تمدنی بھی.چنانچہ آپ کے ذریعہ سے جو انقلاب پیدا ہوا وہ مندرجہ ذیل امور پر مشتمل تھا.موسوی دور کا پہلا انقلاب.شریعت کامل ایک شریعت کامل جو عبادات ، روحانیت، سیاست اور تمدن کی تفصیلات پر مشتمل تھی جس کی مثال اس سے پہلے کسی نبی میں نہیں پائی جاتی تھی اس کے ذریعہ سے جسم وروح کے گہرے تعلق کو ظاہر کیا گیا تھا اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج کے حصول کے لئے راستہ کھول دیا گیا تھا.ابراہیم کے وقت میں صرف جسم کی خوبی اور برتری تسلیم کی گئی تھی مگر جسم اور روح کے گہرے تعلق کو صرف موسیٰ کے وقت میں ظاہر کیا گیا اور اس طرح مدارج روحانیت کے حصول کا دروازہ بنی نوع انسان کے لئے کھول دیا گیا.چنانچہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ثُمَّ اتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا 81

Page 87

.انقلاب حقیقی لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ یعنی پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اس شخص پر احسانِ عظیم کرنے کے لئے جس نے ہماری پوری فرمانبرداری کی تھی.وہ کتاب ہر قسم کی شرائع پر حاوی تھی اور اس میں ہدایت اور رحمت کی باتیں تھیں لَعَلَّهُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُون تا کہ لوگ خدا تعالیٰ کی ملاقات کا یقین کر لیں.پھر فرماتا ہے وَكَتَبْنَالَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ تے کہ ہم نے موسیٰ کے لئے الواح میں جو کچھ لکھا اس میں ہر قسم کی نصیحتیں تھیں اور ہر بات کے متعلق اس میں تفصیلی ہدایات درج تھیں.گویا تو رات وہ پہلی الہی کتاب تھی جس میں بنی نوع انسان کے لئے تفصیلی ہدایات دی گئیں اور انسان کو تمدن میں اتنا اعلیٰ سمجھ لیا گیا کہ اب اس سے یہ امید کی جانے لگی کہ وہ دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنی بار یک در بار یک آزادیاں قربان کرنے کے لئے بھی تیار ہے اور انسانی اعمال کے ہر شعبہ کے متعلق ہدایات دی گئیں.مثلاً عورت حائضہ ہو تو اس کے لئے یہ ہدایت ہے، انسان جنمی ہو تو اس کے لئے یہ ہدایت ہے، بیمار ہو تو اس کیلئے یہ ہدایت ہے، عبادت خانوں کے متعلق یہ ہدایت ہے غرض تفصیلا تكُلّ شَيْءٍ کے مطابق موسیٰ کے ذریعہ سے ہر بات کے متعلق تفصیلی ہدایات دی گئیں.دوسرا انقلاب صفات الہیہ کی تفصیلات دوسرا انقلاب جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوا یہ تھا کہ صفات الہیہ کی تفصیلات ظاہر کی گئیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں گوانسانی دماغ ترقی کر چکا الانعام: ۱۵۵ الاعراف: ۱۴۶ 82

Page 88

.انقلاب حقیقی تھا اور بعض صفات الہیہ کی باریکیاں ظاہر ہو چکی تھیں مگر صفات الہیہ کے بار یک باہمی تعلقات اور صفات الہیہ کا وسیع دائرہ اس وقت تک دنیا نہ سمجھنے کی اہلیت رکھتی تھی اور نہ اس کے سامنے وہ پیش کیا گیا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں دنیا اس قابل ہوگئی تھی، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام پر صفات الہیہ کا وسیع اظہار کیا گیا جس کی وجہ سے نظامِ عالم کے سمجھنے کی قابلیت لوگوں میں پیدا ہو گئی.گویا صفات کا اجمالی علم تفصیل کی صورت میں بدل کر بندوں اور خدا میں اور بندوں اور بندوں میں تعلقات پیدا کرنے کی ایک بہتر صورت نکل آئی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی احدیت تک دماغ نے ترقی کی تھی.اس حد تک ترقی نہیں کی تھی کہ وہ یہ سمجھنے کے قابل ہوتا کہ صفات الہیہ موجودہ حکومتوں کے مختلف ڈیپارٹمنٹوں کی طرح الگ الگ ہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہم پہلے کہیں کہ ایک بادشاہ ہے جس کی اطاعت کرنی چاہئے اور دوسرے وقت ہم یہ کہیں کہ اس بادشاہ کے ماتحت کئی افسر ہیں اُن سب کی اطاعت کرنی چاہئے اور ان کی اطاعت بادشاہ کی اطاعت ہے.پھر ہم یہ بتائیں کہ یہ فلاں ڈیپارٹمنٹ کا افسر ہے اور وہ فلاں ڈیپارٹمنٹ کا.یہ ڈیپارٹمنٹ تعلیم سے تعلق رکھتا ہے، وہ تربیت سے تعلق رکھتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی بھی مختلف صفات ہیں اور ان صفات کے بھی مختلف ڈیپارٹمنٹ ہیں جن کو پورے طور پر سمجھنے کے بعد ہی انسان کو حقیقی دعا کرنی آتی ہے.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں یہ دروازہ لوگوں پر کھول دیا گیا اور صفات الہیہ کے متعلق آپ کو وسیع علم دیا گیا.چنانچہ جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا گہرا مطالعہ کیا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس قدر موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے صفات الہیہ بیان ہوئی ہیں قریباً اتنی ہی صفات قرآن کریم نے بیان کی ہیں.میں نے ایک دفعہ غور کیا تو مجھے کم از کم اس وقت کوئی ایسی نئی صفت نظر نہیں آئی تھی جو قرآن کریم نے بیان 83

Page 89

.انقلاب حقیقی کی ہو مگر تو رات نے بیان نہ کی ہو.وہی رب رحمن، رحیم اور ملك يوم الدين وغيره صفات جو اسلام نے بیان کی ہیں وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیان کی تھیں.غرض موسوی دور میں انسانی دماغ اس قابل ہو گیا تھا کہ وہ صفات الہیہ کے جو اعلیٰ ڈیپارٹمنٹ ہیں اُن کو سمجھ سکے.گویا صفات الہیہ کا اجمالی علم تفصیل کی صورت میں تبدیل ہو گیا اور بندوں اور خدا میں اور بندوں اور بندوں میں تعلقات کی بہترین صورت پیدا ہوگئی.یہی وجہ ہے کہ موسی وہ پہلے نبی ہیں جن کے بعد ایک لمبا سلسلہ نبیوں کا ایسا آیا جو کمی طور پر آپ کی شریعت کے تابع تھے، گو نبوت اُن کو براہ راست ملی تھی.گویا جب انسان نے خدائی صفات کے ڈیپارٹمنٹ کو سمجھنے کی کوشش کی تو خدا تعالیٰ نے کہا.اب تم بھی اپنے ڈیپارٹمنٹ بنالو کہ اب تم سے آئندہ ایک ظاہری حکومت چلے گی اور خلفاء آئیں گے جو حکومت کریں گے.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام پہلے نبی تھے جن کے بعد ماً مورخلفاء لائے گئے اور آپ سے نبیوں کا ایک لمبا سلسلہ چلایا گیا جنہیں گونبوت براہ راست ملتی تھی مگر موسوی شریعت کے وہ تابع ہوتے تھے.اب اس وقت مذہب ایک با قاعدہ فلسفہ بن گیا جو انسانی زندگی کے سب شعبوں پر روشنی ڈالتا تھا.گو یا شریعت کا محل بن کر چاروں طرف سے محفوظ ہو گیا.یہی فلسفہ کا کمال تھا کہ ابراہیم نے جب صفات الہیہ کا باب پڑھا تو کہا رب ارِي كَيْفَ تُحْيِ الموتى ! خدایا! احیائے موتی کی صفت کا جلوہ مجھے دکھا.مگر موسیٰ چونکہ ابراہیم سے بہت زیادہ صفاتِ الہیہ کا علم رکھتا تھا اس لئے اس نے کہا رت آرین انظر اليك لے کہ خدایا! تیری تمام صفات کا مجھے علم ہو چکا ہے اب یہی خواہش ہے کہ تو مجھے اپنا سارا وجود دکھا دے.گویا ایک نے صرف ایک صفت کا جلوہ مانگا مگر دوسرے نے خود خدا کا دیدار کرنا چاہا.حضرت البقرة: ٢٦١ الاعراف: ۱۴۴ 84

Page 90

انقلاب حقیقی ابراہیم علیہ السلام یہ کہتے ہیں رب ادري كيف تُخيِ الموتى اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں رب ان انظر اليك ، وہ کہتے ہیں مجھے صفتِ احیاء کا نمونہ دکھا اور یہ کہتے ہیں کہ مجھے اپنا سب کچھ دکھا.دُنیا کا یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی نبی آتا ہے تو لوگ اُسے تو جھوٹا سمجھتے ہیں مگر اس سے پہلے نبی کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور جب بعد میں آنے والے نبی کی بڑائی بیان کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کیا پہلے جاہل تھے ؟ کیا انہیں ان باتوں کا علم نہیں تھا ؟ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں نے خدا کو دیکھا ہے تو یہودی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے، انہیں غصہ آیا کہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ ہمارا دا دا کم علم والا تھا اور تم اس سے زیادہ عرفان رکھتے ہو اس لئے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو.اگر تم سچے ہو تو ہمیں بھی خدا دکھاؤ.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا یمُوسى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً کہ اے موسیٰ ! ہم تیری اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں جب تک ہم خود بھی خدا کو نہ دیکھ لیں اس جگہ تو میت کے معنی ایمان لانے کے نہیں وہ تو پہلے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ظاہری ایمان رکھتے تھے.کن تومن کے یہ معنی ہیں کہ یہ جو تو نے کہا ہے کہ میں نے خدا دیکھا اس میں تو جھوٹا ہے اور ہم تیری یہ بات ہرگز ماننے کیلئے تیار نہیں اور اگر ہمیں بھی دکھا دو تو خیر پھر مان لینگے.یہی وہ انقلاب روحانی تھا جو چاروں گوشوں اور چاروں دیواروں کے لحاظ سے کامل تھا اور موسی" کی یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے کہا گیا کہ اس انقلاب روحانی کی آخری تحریک بھی موسیٰ کے نقش قدم پر ہوگی.چنانچہ فرمایا: البقرة: ۵۶ 85

Page 91

.انقلاب حقیقی ” خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا تم اس کی طرف کان دھر یو“.لے اور پھر آخری کلام میں مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِداً عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا لے کہ محمد صلى الله علیہ وسلم جو کامل اور اکمل شریعت لائے ہیں یہ گو ہر لحاظ سے سابقہ الہامی کتب پر فضیلت رکھتی ہے مگر ظاہری تکمیل کے لحاظ سے اسے موسیٰ کی شریعت سے مشابہت ہے، دوسروں سے نہیں.دوسروں کی کتابوں کی ایسی ہی مثال ہے جیسے متفرق کمرے بنے ہوئے ہوں اور موسیٰ کی شریعت کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک مکان ہو جس میں مختلف ضرورتوں کے لئے الگ الگ کمرے بنے ہوئے ہوں اور سب ضرورتوں کا اس میں مکمل انتظام موجود ہو.اور گو قرآن کریم تاج محل کی طرح دوسرے سب مکانوں سے ممتاز ہے مگر مشابہت کے لحاظ سے اُسے مکان سے ہی مشابہت دی جاسکتی ہے، الگ الگ بنے ہوئے کمروں سے نہیں.پس موسیٰ وہ پہلا نبی تھا جسے وہ کامل قانون ملا جو سب نظام پر حاوی تھا گو اعلیٰ تفصیلات کے لحاظ سے اس میں بھی نقص تھا.تیسرا انقلاب بالمشافہ وحی الہی تیسرا انقلاب جو موسیٰ کے ذریعہ سے پیدا ہوا وہ یہ ہے کہ موسیٰ کے زمانہ تک وحی الہی کا طریق بھی تبدیل ہوتا چلا گیا اور اب بالمشافہ وحی کا طریق جاری ہوا کیونکہ شریعت کی مجزئیات پر بحث ہوئی تھی اور اس کیلئے لفظی وحی کی ضرورت تھی تا کلام محفوظ رہے.یہی وجہ ل استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء المزمل: ١٦ 86

Page 92

انقلاب حقیقی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كلَّمَ اللهُ مُوسَى تَكْلِيما لے کہ موسیٰ کے ساتھ اکثر بالمشافہ وحی ہوتی تھی.اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلوں سے بالمشافہ کلام نہ ہوتا تھا بلکہ یہ مطلب ہے کہ پہلے زیادہ تر رؤیا و کشوف پر مدار تھا اور اسی ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیب کی خبریں اپنے نبیوں پر ظاہر کیا کرتا تھا.مگر موسیٰ کی شریعت کا اکثر کلام بالمشافہ ہوا اور رویا د کشوف کی کثرت کی جگہ لفظی کلام کی کثرت نے لے لی لیکن ابھی تک معنی محفوظ قرار دیئے جاتے تھے کلام محفوظ نہیں قرار دیا جاتا.جیسے ہم زید سے جب بات کرتے ہیں تو لفظوں میں کرتے ہیں اور اس طرح اُسے ہماری بات کے سمجھنے میں بہت کم محبہ ہو سکتا ہے مگر ہم اپنے الفاظ اُسے یاد نہیں کراتے بلکہ جو مطلب اس کے دماغ میں آتا ہے اس کے مطابق وہ کام کرتا ہے لیکن اگر ہم اپنے الفاظ کی زیادہ احتیاط کرانا چاہیں تو پھر ہم لکھوا دیتے ہیں یہی فرق قرآنی وحی اور موسیٰ کی وحی میں ہے.موسیٰ کے زمانہ میں ابھی یہ حکم نہیں تھا کہ جو الفاظ سُنو وہی لکھو.بلکہ جو الفاظ ہوتے اُن کے مطابق ایک مفہوم لے کر کتاب میں درج کر دیا جاتا.مگر قر آنی وحی کے نزول کے وقت اُس کی زبر، اُس کی زیر، اُس کی پیش اور اُس کی جزم تک وحی الہی کی ہدایت کے ماتحت ڈالی گئی.عیسوی دور کا پیغام احیائے شریعتِ موسوی موسوی دور کے بعد اب عیسوی دور شروع ہوتا ہے اور عیسوی دور ہی وہ پہلا دور ہے جو تاریخی طور پر اس آیت کے دوسرے حصہ کے ماتحت آتا ہے کہ مَانَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا کہ ہمارے احکام جب لوگوں کے ذہنوں سے اُتر جاتے ہیں تو ہم ویسے ہی احکام پھر اُتار دیتے ہیں یعنی دوبارہ اُن کو زندہ کر دیتے ہیں.اس النساء: ۱۶۵ 87

Page 93

انقلاب حقیقی زمانہ میں ایک ایسا نبی آیا جو نئی شریعت نہیں لایا بلکہ تورات کے بعض مضامین کو اس نے ↓ نمایاں طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آید نه بروح القدس کے موسوی دور میں شریعت کی تکمیل ہوئی اور اُس کے معارف نے بڑھتے بڑھتے ایک زبردست منظم قانون کی شکل اختیار کر لی جس کی مثال پہلے کبھی نہ ملتی تھی لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کی نگاہ مغز سے ہٹ کر چھلکے کی طرف آگئی اور دوسری طرف انسانی ذہن اب اس حد تک ترقی کر چکا تھا کہ اسے تصوف کا مزید سبق دیا جانا ضروری تھا.پس عیسی آئے تا کہ ایک طرف تو رات کے احکام کو پورا کریں جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے.یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں“.۲ اور دوسری طرف وہ لوگوں کو تو رات کے احکام کی حکمت سمجھا ئیں اور ان کی توجہ کو چھلکے سے ہٹا کر مغز کی طرف پھرائیں اور انہیں بتائیں کہ ظاہری شریعت صرف اس دنیا کی زندگی کو درست کرنے کیلئے اور باطنی شریعت کے قیام میں مدد دینے کیلئے ہے.ورنہ اصل شئے صرف باطنی صفائی اور پاکیزگی اور تقدس ہے.سو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام سے یہ کام لیا.انہوں نے ایک طرف موسوی احکام کو دوبارہ اصل شکل میں قائم کیا اور دوسری طرف جو لوگ قشر کی اتباع کرنے والے تھے انہیں بتایا کہ اس ظاہر کا ایک باطن بھی ہے.اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ ظاہر لعنت بن جاتا ہے.نمازیں بڑی اچھی چیز ہیں لیکن اگر تم صرف ظاہری نماز ہی پڑھو گے باطنی نماز نہیں پڑھو گے تو وہ نماز لعنت بن جائے البقرة: ۲۵۴ متی باب ۵ آیت ۱۷ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء 88

Page 94

انقلاب حقیقی گی ، روزہ بڑی اچھی چیز ہے لیکن اگر تم ظاہری روزہ کے ساتھ باطنی روزہ نہ رکھو گے تو یہ ظاہری روزہ لعنت بن جائے گا.یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ فويل للمصلين لا یعنی بعض نماز پڑھنے والے ایسے ہیں کہ نماز اُن کیلئے ویل اور لعنت بن جاتی ہے.مسلمانوں کو رسول کریم ﷺ نے چونکہ پوری بات کھول کر بتا دی تھی اس وجہ سے انہیں دھوکا نہ لگا.یہ کھول کر بتانا بھی عیسی علیہ السلام کی پیشگوئی کے ماتحت تھا کہ انہوں نے کہا تھا.لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سُنے گی سو کہے گی“.ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بات کو واضح کر دینے کی وجہ سے باوجود اس کے کہ آپ نے بھی وہی بات کہی تھی جو مسیح علیہ السلام نے کہی تھی مسلمانوں کو دھوکا نہ لگا اور انہوں نے شریعت کو لعنت نہ قرار دیا.بلکہ صرف اس عمل پر شریعت کو لعنت قرار دیا جس کے ساتھ دل کا تقدس اور اخلاص اور تقوی شامل نہ ہو.مگر مسیحیوں نے مسیح کے کلام سے دھوکا کھایا اور جب ان کی روحانیت کمزور ہوئی انہوں نے اپنی کمزوری کے اثر کے ماتحت غلط تاویلوں کا راستہ اختیار کر لیا اور شریعت کو لعنت قرار دینے لگے اور یہ نہ خیال کیا کہ اگر وہ لعنت ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام اور اُن کے حواری روزے کیوں رکھتے تھے، عبادتیں کیوں کرتے تھے، جھوٹ سے کیوں بیچتے تھے اور اسی طرح نیکی کے اور کام کیوں کرتے تھے.ان امور سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ ظاہری عبادت کو لعنت نہیں سمجھتے تھے بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح نہ کی جائے تو وہ ظاہر لعنت بن جاتا ہے.الماعون: ۵ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۱۸۷۰ء 89

Page 95

انقلاب حقیقی غرض آیدُ لَهُ بِرُوحِ الْقُدُس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر پاکیزگی قلب کے خاص راز ظاہر کئے گئے تھے اور قدوسیت اور باطنی تعلیم پر زور دینے کیلئے ان کو خاص طور پر حکم دیا گیا تھا اور ظاہری احکام کی باطنی حکمتیں انہیں سمجھائی گئی تھیں اور ان کے دور میں تصوف نے زمانہ بلوغت میں قدم رکھنا شروع کیا تھا.دور محمدی کا پیغام، مذہب کی عمارت کی تکمیل حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں مذہب کی عمارت تکمیل کے قریب پہنچ گئی تھی.مگر ابھی پوری تکمیل نہ ہوئی تھی.سو اس کام کیلئے سید ولد آدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہ دور محمدی ہے.جامع کمالات انبیاء محمد مصطفی امیہ آپ آدم بھی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا خلیفہ تجویز کیا اور صبح تمدن کے قیام کا کام آپ کے سپرد کیا.آپ نوح بھی تھے کہ آپ کو فرمایا.انا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوْحٍ پس نوح والا پیغام بھی آپ کی وحی میں شامل تھا.آپ ابراہیم بھی تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ ثُمَّ أَوْحَيْنَا اليك آن اتبع مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ، اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ تو ابراہیم بھی بن جا.کوئی کہے بن جا کہنا تو ایک حکم ہے اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ واقع میں ابراہیم بن بھی گئے تھے؟ سو ہم کہتے ہیں النحل: ۱۲۴ 90

Page 96

انقلاب حقیقی اس کا ثبوت بھی قرآن سے ہی ملتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ هَذِهِ سَبِيْلِي أَدْعُوْا إِلَى اللهِ فَ عَلَى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي ، وَ سُبْحَنَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ والا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی آ گیا اور اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ تو دنیا سے کہہ دے کہ توحید کامل کے علمبر دار ہونے کا مقام مجھے بھی عطا ہوا ہے.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے.قُلْ إِنَّنِي هَدَانِى رَبِّيُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِيناً قِيَماً مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفاً وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ.قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۚ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا نے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دی ہے اس راستہ کی طرف جو ابراہیمی طریق ہے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے.اس جگہ مشرک کے معنی عام مشرک کے نہیں ہیں بلکہ ایسے شخص کے ہیں جو اپنے دل و دماغ کی طاقتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ لگائے اور اسے پورا تو کل حاصل نہ ہو.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کے طریق پر چلایا ہے تو سوال ہوسکتا تھا کہ ابراہیم نے تو اپنی تمام طاقتیں خدا تعالیٰ کے سپر د کر دی تھیں اور جب انہیں کہا گیا تھا کہ آسلیم تو انہوں نے کہہ دیا تھا اسلمت لرب العلمین کیا آپ نے بھی یہی کچھ کہا ہے ؟ تو فرماتا ہے کہ کہہ دے کہ وہی کام میں نے بھی کیا ہے اور میری نماز اور میرا ذبیحہ اور میری زندگی اور میری موت سب رب العلمین کے لئے ہو گئی ہیں اور میں اس طرح خدا تعالیٰ کا بن گیا ہوں کہ اب میرے ذہن کے کسی گوشہ میں خدا تعالیٰ کے سوا کسی کا خیال باقی نہیں رہا.غرض یہاں لا شريك له سے مُراد کامل توحید کا اقرار ہے اور آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تو کہہ دے کہ اس اعلی تعلیم پر چلنے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم دیا گیا ہے.یعنی میں ابرا ہیمی تعلیم پر يوسف : ۱۰۹ الانعام: ۱۶۲ تا ۱۶۴ 91

Page 97

انقلاب حقیقی نقل کے طور پر نہیں چل رہا بلکہ مجھے وہ تعلیم براہ راست خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے.اور پھر فرمایا کہ تم لوگ اس محبہ میں ہو کہ میں ابراہیمی مقام پر ہوں یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ابراہیم کے مقام سے بھی آگے نکل گیا ہوں اور میں کہتا ہوں آنا اولُ المُسْلِمِینَ کہ پہلا مسلم میں ہوں یعنی ابراہیم بھی اسلمت لرب العلمین کہنے والا تھا اور میں بھی یہی کہتا ہوں اور زمانہ کے لحاظ سے ابراہیم کو تقدم حاصل ہے اور بظاہر اولُ المُسلمين وہ بنتا ہے لیکن تقدم زمانی اصل ہے نہیں، تقدم مقام اصل شے ہے اور اس کے لحاظ سے میں ہی اول المسلمين ہوں اور ابراہیم میرے بعد ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں موسوی کمالات پھر موسوی کمالات بھی آپ کے اندر پائے جاتے تھے.جیسے سورہ مزمل میں فرمایا گیا ہے کہ اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا مگر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے یہ مشابہت مشابہت مماثلت نہیں ہے بلکہ اعلیٰ کی ادنیٰ سے مشابہت ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ کو حضرت موسیٰ کے مقابل پر جو امتیازات حاصل ہیں ان کو بھی قرآن کریم نے کھول کر بیان کیا ہے.مثال کے طور پر مندرجہ ذیل امور کو پیش کیا جاتا ہے.(۱) خدا تعالیٰ نے موسیٰ کی نسبت تو یہ فرمایا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو ایک ایسی کتاب دی جو تفصيلاً لكل شيء تھی اور یہاں یہ فرمایا کہ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلكِن تصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ تَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَ هُدًى وَرَحْمَةً لقوم تُؤْمِنُون - ے کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ موسیٰ کو جب ایک مفصل ہدایت نامہ مل گیا تو يوسف : ١١٢ 92

Page 98

.انقلاب حقیقی اس کے بعد اب جو تعلیم تم پیش کر رہے ہو یہ جھوٹی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جھوٹی نہیں بلکہ پہلی کتابوں میں اس کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں اور اس کے ذریعہ سے وہ پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں اور اس میں تمام احکام موجود ہیں اور یہ مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا موجب ہے.پس جب کتاب کی خبر خود موسیٰ کی کتاب نے دی ہے وہ بے کار کس طرح ہو سکتی ہے.یقینا اس میں زائد خوبیاں ہیں تبھی تو موسیٰ کی کتاب نے اس کی امید دلائی اور نہ موسیٰ کی کتاب کے بعد اس کی کیا ضرورت تھی.(۲) پھر موسیٰ نے تو یہ کہا تھا کہ رت آرني انظر إليك، اور خدا تعالیٰ نے اس کا جو جواب دیا وہ اجمالی جواب ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنا آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دکھا دیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ نہیں دکھایا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک موقع پر بھی خدا تعالیٰ سے یہ نہیں کہا کہ خدایا تو مجھے اپنا وجود دکھا بلکہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا کہ ہم نے اسے اپنا چہرہ دکھا دیا.پس موسیٰ علیہ السلام کے متعلق تو الله صرف ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دَنَا فَتَدَتي فَكَانَ قَابَ قوسین او ادنی لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم اس طرح آمنے سامنے کھڑے ہو گئے جس طرح ایک کمان دوسری کمان کے مقابل پر کھڑی ہوتی ہے اور ان کا ہر سر ادوسرے سرے کو دیکھ رہا ہوتا ہے.گویا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قریب ہوئے اور اتنے قریب ہوئے کہ جس طرح کمان کی دونو کیں آمنے سامنے ہوتی ہیں.اسی طرح میں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم آمنے سامنے ہو گئے اور ہم دونوں میں اتصال ہو گیا.گویا جس امر کا موسیٰ نے مطالبہ کیا تھا، اس سے بڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی دکھا دیا.النجم: ١٠٩ 93

Page 99

.انقلاب حقیقی ، (۳) تیرا امتیاز اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسی پر یہ بخشا ہے کہ حضرت موسیٰ کی نسبت تو یہ آتا ہے کہ عَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيما اور آنحضرت ﷺ کی نسبت فرماتا ہے إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ والنَّبِيِّنَ مِنْ بَعْدِهِ ، وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُوُدَ زَبُوراً.وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيماً یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تیری طرف نوح جیسی وحی بھی نازل کی ہے اور ان تمام نبیوں جیسی وحی بھی جو اس کے بعد ہوئے.اور ہم نے تجھ کو ابراہیم کے کمالات بھی دیئے ہیں اور اسمعیل کے کمالات بھی دیئے ہیں اور اسحق کے کمالات بھی دیئے ہیں اور یعقوب کے کمالات بھی دیئے اور یعقوب کی اولاد کے کمالات بھی دیئے ہیں اور عیسی کے کمالات بھی دیئے ہیں اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کے کمالات بھی دیئے ہیں اور داؤد کو جو زبور لی تھی وہ بھی ہم نے تجھے دی ہے.اور جو موسیٰ سے ہم نے خاص طور پر بالمشافہ کلام کیا تھا وہ انعام بھی ہم نے تجھے دیا ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ محمدی وحی موسیٰ اور دوسرے نبیوں کی وحی کی جامع ہے.اس میں وہ خوبی بھی ہے جو نوح اور دوسرے انبیاء کی وحی میں تھی اور پھر موسیٰ کی وحی کی طرح اس میں کلام لفظی بھی ہے بلکہ اس میں موسوی وحی سے بھی ایک زائد بات یہ ہے کہ موسیٰ پر جو کلام اُترتا تھا اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے الفاظ میں لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے.جیسے ہم کسی کو کہیں کہ تم جاؤ اور فلاں شخص سے کہو کہ زید کو بخار چڑھا ہوا ہے تو بالکل ممکن ہے کہ وہ جائے اور زید مثلاً اس کا بھائی یا باپ ہو تو بجائے یہ کہنے کے کہ زید کو بخار چڑھا ہوا ہے یہ کہہ دے النساء: ۱۶۵،۱۶۴ 94

Page 100

.انقلاب حقیقی کہ میرے بھائی یا باپ کو بخار چڑھا ہوا ہے.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں گولفظی کلام اُترتا تھا مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے الفاظ میں اسے لوگوں تک پہنچاتے تھے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چونکہ ترقی اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی اور اب ایک ایسی شریعت نازل ہوئی تھی جو آخری اور جامع شریعت تھی اس لئے ضروری تھا کہ اس وحی کے الفاظ بھی محفوظ رکھے جاتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان علينا جمْعَهُ وَتُرَانَهُ فَإِذَا قَرَانَهُ فَاتَّبِعَ تُرانہ لے کہ موسیٰ کے زمانہ میں تو کلام ہم نازل کرتے تھے اور پھر وہ اپنے الفاظ میں اس کلام کا مفہوم لکھ لیتا تھا اور گو مفہوم ہمارا ہی ہوتا تھا مگر الفاظ موسیٰ کے ہو جاتے تھے لیکن تیرے ساتھ ہمارا یہ طریق نہیں بلکہ اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھانا ہمارا کام ہے.جو ہم کہیں وہی لفظ پڑھتے جانا اور پھر اُسے لکھ لینا اپنے پاس سے اس کا ترجمہ نہیں کرنا.اسی طرح فرمایا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ انّا له لحفظون سے ہم نے ہی یہ قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کے لفظوں اور اس کی روح دونوں کے محافظ ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر داس کی حفاظت کا کام نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسوی کمالات پھر آپ میں عیسوی کمالات بھی پائے جاتے تھے.عیسوی کمالات کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے.وآید نه بروح القدیں کہ ہم نے اس کی روح القدس سے تائید فرمائی.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا القيمة: ۱۹،۱۸ الحجر : ١٠ 95

Page 101

انقلاب حقیقی قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وبُشْرَى لِلْمُسْلِمِینَ لے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ خدا نے یہ کلام روح القدس کے ذریعہ سے نازل کیا ہے سچائی اور حق کے ساتھ.تامؤ منوں کو یہ مضبوط کرے اور اس میں ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور بشارتیں ہیں.پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ جو کہا تھا کہ شریعت لعنت ہے جس سے آپ کی غرض یہ تھی کہ محض ظاہر کے پیچھے پڑ جانا اور باطنی اصلاح کو ترک کر دینا ایک لعنت ہے اس کے لحاظ سے قرآن کریم نے بھی فرمایا فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِيْنَ هُمْ يُرَاءُ ونَ ے کہ لعنت ہے ان پر اور عذاب ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے جو نماز کی روح سے غافل ہیں اور نماز محض لوگوں کے دکھاوے کے لئے پڑھتے ہیں.یہ وہی ڈیل کا لفظ ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں استعمال کرتے ہوئے کہا کہ محض ظاہر شریعت کی اتباع لعنت ہے.آپ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ نماز لعنت ہے یا روزہ لعنت ہے یا صدقہ لعنت ہے یا غریبوں اور مساکین کی خبر گیری کرنا لعنت ہے بلکہ آپ کا یہ مطلب تھا کہ ظاہر میں نیکی کے اعمال کرنا اور باطن میں ان اعمال کا کوئی اثر نہ ہونا ایک لعنت ہے.مگر عیسائیوں نے غلطی سے اس کا یہ مطلب سمجھ لیا کہ نماز لعنت ہے روزه لعنت ہے.اسی طرح فرمایا.لن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا ولكن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ کے کہ ظاہری قربانیاں جو تم کرتے ہو وہ خدا تعالیٰ کو نہیں پہنچتیں.بلکہ خدا تعالیٰ کو وہ اخلاص پہنچتا ہے جس کے ماتحت قربانی کی جاتی ہے اور وہ محبت الہی پہنچتی ہے جو اس قربانی کی محرک ہوتی ہے یہی تعلیم ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام نے دی.النحل: ١٠٣ الماعون: ۵ تا ۷ الحج: ۳۸ 96

Page 102

.انقلاب حقیقی جامع جمیع کمالات رسل غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جامع جمیع کمالات رسل تھے.آپ میں آدم کے کمالات بھی تھے آپ میں نوح کے کمالات بھی تھے آپ میں ابراہیم کے کمالات بھی تھے آپ میں موسیٰ کے کمالات بھی تھے اور آپ میں عیسی کے کمالات بھی تھے اور پھر ان سب کمالات کو جمع کرنے کے بعد آپ میں خالص محمدی ممالات بھی تھے.گویا سب نبیوں کے کمالات جمع تھے اور پھر اس سے زائد آپ کے ذاتی کمالات بھی تھے.پس جو دین آپ لائے وہ جامع جمیع ادیان ہوا اور اس کی موجودگی میں باقی مذاہب میں سے کسی مذہب کی پیروی کی ضرورت نہ رہی.آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کے معنی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو بشارت دی اور فرمایا.اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَون ط الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً كَفَّار مایوس ہو گئے ہیں کہ اب اس دین پر غالب آنا ناممکن ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں لا سکتے.پس یہ خیال اب نہیں ہوسکتا کہ کا فراپنے زور سے جیت جائیں.ہاں یہ خیال ہر وقت ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ اپنی مددوا پس لے لے.پس اس سے ڈرواور یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ قرآن کی موجودگی میں تم پر کافر بھی فتح نہیں پاسکتا.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم قرآن چھوڑ دو اور گر جاؤ.پس فلا تخشوْهُمْ وَاخْشَوْنِ، ان سے نہ ڈرو بلکہ المائدة: 97

Page 103

.انقلاب حقیقی مجھ سے ڈرو.اب سوال یہ ہے کہ کفار کیوں مایوس ہو گئے؟ اس کا جواب یہ دیا کہ (۱) دین مکمل کر دیا گیا ہے.اکمال دین سے مراد شریعت کا نزول اور اس کا قیام ہے کیونکہ عمل میں آ جانے سے دین مکمل ہوتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے طبی مدارس کے سب طالب علم سرجری کی کتابیں تو پڑھتے ہی ہیں مگر کتابیں پڑھنے سے انہیں آپریشن کرنا نہیں آتا بلکہ عمل کرنے سے آتا ہے.ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ جو گزشتہ صدی میں پنجاب کے بادشاہ تھے ان کے دربار میں ایک دفعہ دتی کا کوئی حکیم آیا.جو گو علم طب خوب پڑھا ہوا تھا مگر اسے تجربہ ابھی حاصل نہیں تھا.مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایک وزیر ایک مسلمان تھا جو طبیب بھی تھا اس لئے علاوہ وزارت کے طب کا کام بھی اس سے لیا جاتا تھا بلکہ اس پر آشوب زمانہ میں اسی فن کی وجہ سے وہ بچا ہو ا تھا.نو وار دطبیب نے وزیر سے اپنی سفارش کے لئے استدعا کی اور وزیر نے بوجہ اپنی شرافت کے اس سے انکار نہ کیا بلکہ مہاراجہ کی خدمت میں اسے پیش کر دیا.مگر ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ حضور علم طب ان حکیم صاحب نے خوب حاصل کیا ہوا ہے اگر حضور نے پرورش فرمائی تو حضور کے طفیل انہیں تجربہ بھی حاصل ہو جائے گا.مہاراجہ رنجیت سنگھ بہت ذہین آدمی تھا فورا حقیقت کو تاڑ گیا اور کہا کہ وزیر صاحب یہ دہلی سے آئے ہیں جو شاہی شہر ہے.ان کی قدر کرنا ہم پر فرض ہے مگر کیا تجربہ کے لئے انہیں غریب رنجیت سنگھ کی جان ہی نظر آئی ہے؟ انہیں دس ہزار روپیہ انعام دے دو اور رخصت کردو کہ کہیں اور جا کر تجربہ کریں.یہ ایک لطیفہ ہے مگر اس میں یہ سبق ہے کہ بغیر تجربہ میں آنے کے علم کسی کام کا نہیں ہوتا اور شریعت کا علم اس سے باہر نہیں ہے.تو شریعت بھی جب تک عمل میں نہ آئے اس کی تفصیلات کا پتہ نہیں چلتا اور وہ مکمل نہیں ہوتی.پس اتمام دین سے مراد یہ ہے کہ احکام دین نازل ہو جائیں اور پھر وہ عمل میں بھی آجائیں.(۲) اسی طرح فرمایا کفار اس لئے مایوس ہو گئے ہیں کہ اتمام نعمت ہو 98

Page 104

.انقلاب حقیقی گیا اور اتمام نعمت اس طرح ہوتا ہے کہ فیوض جسمانی وروحانی کا کامل افاضہ ہو اور ہر دو انعامات حاصل ہو جائیں اور جب کسی شخص کو کسی کام کا نتیجہ مل جائے تو وہ اس کے سچا ہونے میں شک کر ہی نہیں سکتا.اگر ایک کالج کی تعلیم کے بعد ڈگری مل جائے یا ایک محکمہ کی سروس کے بعد سر کار سے انعام مل جائے.تو کون شک کر سکتا ہے کہ وہ کالج جھوٹا ہے یا وہ محکمہ فریب ہے.اسی طرح جب کسی دین پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جسمانی اور روحانی دونوں فیوض حاصل ہونے لگیں اور اس طرح اتمام نعمت انسان پر ہو جائے تو کون اس کی سچائی سے انکار کر سکتا ہے.نعمت کیا ہے اب ہم قرآن کریم سے ہی دیکھتے ہیں کہ نعمت کیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمُ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكاً وَآتَاكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَداً مِّنَ الْعَالَمِينَ یادكر وجب موسی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! خدا تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب اس نے تم پر کی کہ اس نے تم میں سے نبی بنائے اور پھر تمہیں بادشاہت بھی دی اور پھر تمہیں وہ تعلیم دی جو پہلے تمہیں معلوم نہ تھی اس سے معلوم ہوا کہ نعمت سے مراد اجرائے نبوت بادشاہت اور دوسرے مذاہب سے افضل تعلیم ہے کیونکہ جعل فِيكُمْ أَنْبِيَاء سے اجرائے نبوت کا ثبوت ملتا ہے.جَعَلَكُمْ مُّلُوعًا سے بادشاہت کا اور واشكم ما لم يُوتِ احَدًا مِّن العلمین سے اس امر کا کہ ایسی تعلیم ملے جو دوسرے مذاہب سے افضل ہو اور انسان اس پر فخر کر سکے.99

Page 105

.انقلاب حقیقی ، سلطنت کا وجود بعض مذاہب کیلئے ضروری ہے اب اگر کوئی کہے کہ بادشاہت کیونکر مذہبی لحاظ سے دینی نعمت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن مذاہب میں شریعت کا دائرہ سیاسیات اور تمدنی احکام تک وسیع ہوتا ہے ان کے لئے بادشاہت ضروری ہے.اگر بادشاہت نہ ہو تو ان احکام دین کا اجراء کس طرح ہو جو سیاسیات اور تمدن وغیرہ سے متعلق ہیں.پس یہاں بادشاہت سے مراد وہ بادشاہت نہیں جو دین سے خالی ہو وہ تو ایک لعنت ہوتی ہے.یہاں بادشاہت سے مراد وہ بادشاہت ہے جو احکامِ شرعیہ کو جاری کرے جیسے داؤڑ کو بادشاہت ملی یا سلیمان کو بادشاہت ملی اور انہوں نے اپنے عمل سے شریعت کے سیاسی اور تمدنی احکام کا اجراء کر کے دکھا دیا.پس جس شریعت کے دائرہ میں تمدنی اور سیاسی احکام ہوتے ہیں اسے لازماً ابتداء ہی میں بادشاہت بھی دی جاتی ہے کیونکہ اگر بادشاہت نہ دی جائے تو شریعت کے ایک حصہ کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو جائے.چنانچہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ خدا نے بادشاہت عطا فرما دی تھی ہمیں جب کسی مسئلہ میں شبہ پڑتا ہے ہم یہ دیکھ لیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کس طرح کیا تھا.اس طرح سنت ہماری مشکلات کو حل کر دیتی ہے لیکن اگر بادشاہت آپ کو حاصل نہ ہوتی تو سیاسی قضائی اور بہت سے تمدنی معاملات میں صرف آپ کی تعلیم موجود ہوتی ، آپ کے عمل سے اس کی صحیح تشریح ہمیں نہ معلوم ہو سکتی.پس یہ بات ضروری ہے اور سنت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ایسی شریعت جو سیاست اور تمدن پر حاوی ہو اس کے ابتداء ہی میں بادشاہت حاصل ہو جائے.پس جَعَلَكُمْ قُلُوعًا سے مراد وہی بادشاہت ہے جو احکام دین کے اجراء کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی ہے اور جس کا نفاذ بسا اوقات غیر ماً مور خلافت کے ذریعہ 100

Page 106

.انقلاب حقیقی سے بھی کرایا جاتا ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا کہ تم کو مامور خلافت غير ماً مور خلافت اور افضل شریعت مل گئی اور یہ انعام ہے.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا که اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ (۱) آپ کی اُمت میں اجرائے نبوت رہے گا.(۲) اجرائے خلافت حقہ ہوگا.(۳) اور آپ کو افضل تعلیم دی گئی ہے.پھر آپ کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا له لحفظون کہ جو تعلیم تجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں کسی کا دخل نہیں وہ لفظی الہام ہے اور ہم اس کی حفاظت کرتے رہیں گے.پس جس تعلیم کی حفاظت کی جائے اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ آئندہ بھی افضل رہے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ماننسخ من أيّةٍ أو نُنَسِهَا تَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أو مثلها اگر کوئی کلام منسوخ ہو تو اس سے بہتر لایا جاتا ہے جس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ جس کلام کو منسوخ نہ کیا جائے اس سے بہتر اور کوئی کلام نہیں.پس معلوم ہوا کہ قرآن کریم نہ صرف گزشتہ تمام الہامی کتابوں سے افضل ہے بلکہ ہمیشہ افضل رہے گا اور اس کی تنسیخ کا کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہو گا.قرآن کریم اور باقی الہامی کتب کی ایسی ہی مثال ہے.جیسے کابل میں بھی حکومت کے وہی شعبے ہیں جو حکومت برطانیہ کے شعبہ جات ہیں لیکن حکومت کابل کے مقابلہ میں حکومت برطانیہ زیادہ مضبوط اور زیادہ مفید کام کرنے والی ہے.اسی طرح گو باقی الہامی کتب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں مگر قرآن کریم کی تعلیم ان سب سے زیادہ اعلیٰ ہے اور ہمیشہ اعلیٰ رہے گی.اسلام کا انقلاب عظیم پس ان دو آیتوں سے اس انقلاب عظیم کا پتہ لگ گیا جو اسلام کے ذریعہ سے ہوا.101

Page 107

انقلاب حقیقی یعنی (۱) اجرائے نبوت (۲) اجرائے خلافت (۳) افضل تعلیم.اگر کہا جائے کہ یہی لفظ موسیٰ کی نسبت آئے ہیں.پھر موسیٰ کی تعلیم سے یہ بڑھ کر کیونکر ہوئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس دلیل سے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرِ مِنْهَا أَوْ مِثْلِها جو تعلیم پہلی تعلیم کو منسوخ کر دے وہ اس سے بہتر ہوتی ہے.چونکہ محمدی تعلیم نے موسوی تعلیم کو منسوخ کر دیا ہے اس لئے اس گلیہ کے مطابق وہ اس سے افضل ہے.اب سوال ہوسکتا ہے کہ یہ تو ہوئی نعمت.مگر آیت میں تو اتمام نعمت کا ذکر ہے.پس خدا تعالیٰ نے نعمت تو دی مگر اتمام نعمت کیونکر ہوئی ؟ تو اس کا جواب اس آیت میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ أُوْلَئِكَ رفيقا کہ وہ لوگ جو خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں نبیوں صدیقوں شہیدوں اور صالحین میں شامل کرے گا.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ نزول شرائع کے بعد یہ نقص جو پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگ شریعت کو بُھول جاتے ہیں اور تعلیم باوجود موجود ہونے کے بریکار ہو جاتی ہے اس سے گوکسی تعلیم کی افضلیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ خود بندوں کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اس پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن چونکہ اس قسم کی بیماری کا خطرہ ہر وقت ہوسکتا ہے اس لئے ہم بتا دیتے ہیں کہ ایسے خطرہ کے اوقات میں اسلام کو باہر سے کسی کی امداد کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ خود یہی تعلیم اپنے نقص کا علاج پیدا کر لے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا نقص خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی کے ذریعہ سے دُور ہو جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تعلیم کے بھول جانے کا علاج موسیٰ کے وقت میں بھی ہو ا.النساء:۷۰ 102

Page 108

انقلاب حقیقی مگر اُس وقت باہر سے طبیب بھیجا جاتا تھا یعنی ایسا شخص کھڑا کیا جاتا تھا جو گوائت موسوی میں سے ہی ہوتا مگر مقام نبوت اسے براہ راست حاصل ہو ا کرتا تھا.لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ جب کبھی اس میں کوئی نقص پیدا ہو آپ کا کوئی غلام ہی اس نقص کو دور کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے گا.گویا آئندہ جو مرض پیدا ہو گا اس کا علاج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے ہی نکل آئے گا.اسلامی تعلیم کے افضل ہونے کے دلائل کتاب کے ساتھ حکمت کا بیان اب میں اسلام کی تعلیم کے افضل ہونے کی بعض مثالیں دیتا ہوں.اسلام میں احکام مع دلیل بیان ہوئے ہیں جس سے تصوف کامل کی بنیاد خود اصل کتاب سے پڑی ہے.یہود کی طرح کسی اور نبی کے توجہ دلانے کی ضرورت پیدا نہیں ہوئی.قرآن مجید سے قبل جو الہامی کتب تھیں ان میں احکام تو دیئے جاتے تھے مگر بالعموم ان کی تائید میں دلائل نہیں دیئے جاتے تھے مثلاً یہ تو کہا جاتا تھا کہ نماز پڑھو مگر یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ کیوں نماز پڑھو؟ اس میں کیا فائدہ ہے اور اس کی کیا غرض ہے؟ مگر قرآن کریم نے جہاں احکام دیئے ہیں وہاں ان احکام کے دلائل بھی دیئے ہیں اور ان کے فوائد بھی بیان کئے ہیں.اس طرح تصوّف کی بنیاد خود قرآن کریم میں آگئی اور اس کے لئے کسی علیحدہ نبی کی ضرورت نہ رہی جیسے یہود کو حضرت مسیح کی ضرورت محسوس ہوئی تھی.سطی تعلیم دوسرے قرآن وسطی تعلیم لے کر آیا ہے جو ہر حالت کے مطابق ہے اور جہاں بھی 103

Page 109

انقلاب حقیقی انسانی طاقت میں فرق پڑتا ہے اس حالت کے لحاظ سے مسئلہ بھی موجود ہوتا ہے.خدا اور بندہ کا براہِ راست تعلق تیسرے پریسٹ ہڈ (PRIESTHOOD) کو اس میں مٹا دیا گیا ہے.یعنی پادریوں اور پنڈتوں کا خدا اور بندہ کے درمیان عبادت الہی میں واسطہ ہونے کا خیال قرآن مجید نے بالکل اُڑا دیا ہے.موسوی اور عیسوی عہد میں اس پر بڑا زور تھا مگر اب ہر مومن آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھا سکتا ہے اور یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ کسی خاص مولوی کو ہی بلا یا جائے.یہ انقلاب بھی در حقیقت ایک عظیم الشان انقلاب تھا کیونکہ دنیا ہزار ہا سال سے اس قید میں جکڑی ہوئی تھی لیکن قرآن مجید نے اسے ایک آن میں تو ڑ کر رکھ دیا اور بتا دیا کہ عبادت میں کوئی شخص واسطہ نہیں ہوسکتا.اسلام کی یہ تعلیم عیسائیوں کے لئے تو اتنی حیرت انگیز ہے کہ وہ کئی دفعہ یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ جب آپ میں پادری نہیں ہوتا تو آپ عبادت کس طرح کرتے ہیں؟ مقام عبادت کو وسیع کر دیا گیا ہے چوتھے اسلام نے مقام عبادت کی قید کو اُڑا دیا ہے اور مقام عبادت صرف نظام کے لئے رہ گیا نہ کہ خود عبادت کیلئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہندو مندر میں اور عیسائی گر جا میں عبادت کرتے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ نے فرمایا جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا ل روئے زمین میرے لئے مسجد بنائی گئی ہے.اس سے قبل جو انبیاء گزرے ہیں ان کی تعلیم میں اس امر پر خاص زور تھا کہ عبادت خاص بخارى كتاب الصلوة باب قول النبي عل الله جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَّطَهُورًا 104

Page 110

انقلاب حقیقی مقامات پر کی جائے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے تمام زمین کو مسجد بنا دیا اور دراصل پہلے انبیاء کا دین چونکہ محدود تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے مقام عبادت کو بھی محدود کر دیا مگر جب خدا تعالیٰ نے زمین کے چپہ چپہ کو پاک کرنے کے لئے اپنا دین اسلام بھیج دیا تو ساتھ ہی یہ بھی حکم دے دیا کہ تم بھی چپہ چپہ کو مسجد بنا کر پاک کرلو.لفظی وحی کا نزول پانچویں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی وہ سب کی سب معتین الفاظ میں نازل ہوئی اور ان الفاظ کو محفوظ رکھنے کا نہ صرف حکم دیا گیا بلکہ اس کے محفوظ رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ بھی فرمایا اور ذمہ بھی اُٹھایا.اس کے نتیجہ میں بحث اور تحقیق کے اصول میں بہت بڑا فرق پڑ گیا.پہلے یہ سوال ہوا کرتا تھا کہ یہ موسیٰ کا فقرہ ہے یا خدا کا مگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے جو تعلیم دی اس کا ہر لفظ خدا تعالیٰ نے خودا تارا بلکہ اس کی زیر اور اس کی زبر بھی خدا تعالیٰ نے خود اُتاری.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے کہ قرآن کریم میں مختلف مسائل کا تکرار ہوا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ میں اسے یہ جواب دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں کوئی تکرار نہیں.لفظ تو الگ رہے قرآن مجید میں تو زیر اور زبر کی بھی تکرار نہیں.جو زیر ایک جگہ استعمال ہوئی ہے اس کی غرض دوسری جگہ آنے والی زیر سے مختلف ہے اور جو ز بر ایک جگہ استعمال ہوئی ہے دوسری جگہ آنے والی زبر سے اس کے معنی مختلف ہیں.یہ قرآن مجید کی وہ خوبی ہے جو کسی اور الہامی کتاب کو ہرگز حاصل نہیں.105

Page 111

.انقلاب حقیقی صفات الہیہ کی مفصل تشریح چھٹے اسلامی تعلیم میں صفات الہیہ کی باریک در بار یک تشریح کی گئی ہے جس کے مقابل میں یہودی تعلیم بھی مات پڑ گئی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہودی کتب میں صفات الہیہ کا تفصیلی ذکر ہے مگر ان میں صفات الہیہ کا باہمی تعلق بہت کم بیان کیا گیا ہے.میں نے ایک دفعہ تجسس کیا تو مجھے قرآن کریم میں کوئی ایسی صفت الہی معلوم نہ ہوئی جو یہودی کتب میں بیان نہ ہوئی ہو لیکن ایک بات جو صفات الہیہ کے باب میں یہودی کتب میں بھی نہیں پائی جاتی مگر قرآن میں پائی جاتی ہے یہ ہے کہ قرآن نے اس بات پر بحث کی ہے کہ مثلاً رحمانیت کا میدان کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ رحیمیت کے دور کا کس جگہ سے آغاز ہوتا ہے اور ان تمام صفات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ مگر توریت نے اس پر بہت کم روشنی ڈالی ہے.گویا صفات الہیہ کے مختلف اداروں کا جو باہمی تعلق ہے قرآن کریم میں اس کی تشریح بیان کی گئی ہے لیکن تو رات نے ان اداروں کا ذکر تو کر دیا ہے مگر ان کے باہمی تعلق کا ذکر نہیں کیا جس کی وجہ سے سالک ان سے پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور یہ اُس (قرآن) کی فضیلت کا ایک بین ثبوت ہے.مسائلِ معاد پر کامل روشنی پھر ایک بہت بڑی فضیلت جو قرآن کریم کو حاصل ہے یہ ہے کہ اس میں علم معاد پر علمی اور فلسفیانہ بحث کی گئی ہے جس سے یہودی لٹریچر بالکل خالی تھا.حتی کہ ان میں قیامت کے منکرین کا زور تھا اور بہت تھوڑے تھے جو قیامت کے قائل تھے.مگر قرآن کریم وہ پہلی کتاب ہے جس نے مسائل معاد کی ساری تفصیلات پر بحث کی ہے اور اتنی تفصیل 106

Page 112

انقلاب حقیقی سے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ اب اگر کوئی جان بوجھ کر شرارت سے قیامت کا انکار کرے تو کرے ورنہ دلائل کے لحاظ سے وہ قیامت کا ہرگز انکار نہیں کر سکتا.شرعی اصطلاحات کا قیام آٹھویں افضلیت قرآن کریم کو یہ حاصل ہے کہ اس میں شرعی اصطلاحات کا نیا دروازہ کھولا گیا جو اس سے پہلے بالکل مفقود تھا.یعنی قرآن کریم سے پہلے جن باتوں کو مضامین میں ادا کیا جاتا تھا قرآن کریم نے ان کیلئے اصطلاحیں قائم کر دیں اور ایسی اصطلاحیں قائم کیں جو پہلے نہیں تھیں اور پھر ان اصطلاحوں کے ایسے معین معنی کئے جن میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی.مثلاً قرآن کریم نے نبی کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس کی تعریف بھی بیان کی ہے اور پھر بتایا ہے کہ نبی کب آتے ہیں ان کے پہچاننے کیلئے کیا نشانات ہوتے ہیں، ان کا کام کیا ہوتا ہے خدا تعالیٰ کا ان سے کیا معاملہ ہوتا ہے بندوں سے ان کا کیا تعلق ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ.یہ اور اسی قسم کی اور بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو قرآن کریم کے علاوہ اور کسی مذہبی کتاب نے بیان نہیں کیں اور یہ ایک ایسی زبر دست خوبی ہے جس کا دشمن بھی اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا.پیغامیوں سے جب ہمارا مقابلہ زوروں پر تھا، اُن دنوں میں نے ایک دفعہ بڑے بڑے بشپوں ، سکھ گیانیوں، ہندؤوں کے پنڈتوں اور یہودیوں کے فقیہوں سے خط لکھ کر دریافت کیا کہ آپ کے مذہب میں نبی کی کیا تعریف ہے؟ تو بعض نے تو اس کا جواب ہی نہ دیا، بعض نے یہ جواب دیا کہ اس بارہ میں ہمارے مذہب میں کوئی خاص تعلیم نہیں.چنانچہ ایک بڑے بشپ کا بھی یہ جواب آیا کہ اس مضمون پر ہماری کتب میں کوئی خاص روشنی نہیں ملتی.اسی طرح ملائکہ کیا ہوتے ہیں، وہ کیا کام کرتے ہیں ان کے ذمہ کیا کیا فرائض ہیں؟ 107

Page 113

انقلاب حقیقی ان میں سے کوئی بات تفصیل کے ساتھ سابقہ الہامی کتب نے بیان نہیں کی.مگر اسلام نے اگر ایک طرف بعض روحانی وجودوں کیلئے ملائکہ کا لفظ وضع کیا ہے تو پھر خود ہی ان کے وجود ور ان کے کام پر کامل روشنی ڈالی ہے.اسی طرح ذات البی ، صفات الہیہ، دعا، قضاء وقدر، حشر و نشر ، جنت و دوزخ ، حیات جنت و غیرہ ان سب امور کیلئے اس نے مصطلحات تجویز کی ہیں اور پھر ان کی مکمل تشریح فرما کر انسانی دماغ کو ایسی روشنی بخشی ہے کہ وہ ان مسائل کو اسی طرح اپنے ذہن میں مستحضر کر سکتا ہے جس طرح کہ مادی علوم وا مور کو.اور اس طرح علم کو پراگندہ ہونے اور دماغ کو پریشان ہونے سے اس نے بچالیا ہے.قرآنی تعلیم کی جامعیت نویں فضیلت جو قرآن کریم کو حاصل ہے یہ ہے کہ گو اس سے پہلے موسوی سلسلہ میں سیاست اور عبادت اور تمدن کو مذہب میں شامل کر لیا گیا تھا.یعنی موسیٰ نے لوگوں سے کہا تھا کہ تمہیں میری حکومت ، مذہب میں بھی اور تمدن میں بھی اور اخلاق میں بھی اور سیاست میں بھی ماننی پڑے گی مگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اسلام کے ذریعہ سے اس کو اور زیادہ بڑھا دیا گیا اور اسلام نے عبادت و روحانیت کی تعلیم کے علاوہ سیاست اور تمدن کی تعلیم بھی دی اور اخلاقیات اور اقتصادیات اور تعلیم اور معاشرت اور ثقافت کے مسائل کو بھی شریعت میں شامل کر کے انسانی زندگی کو ایسا کامل کر دیا کہ اس کے عمل کا کوئی شعبہ صحیح ہدایت اور کامل نگرانی سے باہر نہیں رہ گیا.مذہب کو مشاہدہ پر قائم کیا گیا دسویں فضیلت قرآن کریم کی تعلیم کو یہ حاصل ہے کہ اس نے خدا کے قول اور خدا کے فعل 108

Page 114

انقلاب حقیقی کو ایک دوسرے کے لئے مُمد اور متوازی قرار دے کر تجربہ اور مشاہدہ کے میدان میں مذہب کو لاکھڑا کیا ہے حالانکہ اس سے پہلے اسے صرف مافوق الطبعیات قرار دیا جاتا تھا.چنانچہ قرآن نے کہا کہ دنیا خدا کا فعل ہے اور مذہب خدا کا کلام اور یہ ناممکن ہے کہ خدا کے قول اور اس کے فعل میں تضاد ہو.پس جب بھی تمہیں کوئی مشکل در پیش ہو خدا کے قول اور خدا کے فعل کو مطابق کرو.جہاں یہ مطابق ہو جائیں تم سمجھ لو کہ وہ بات صحیح ہے اور جہاں ان میں اختلاف رہے تم سمجھ لو کہ اب تک تم پر حقیقت منکشف نہیں ہوئی.اس نکتہ سے مذہب اور سائنس میں جو لڑائی تھی وہ جاتی رہی کیونکہ سائنس خدا کا فعل ہے اور مذہب خدا کا کلام اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کے قول و فعل میں تطابق نہ ہوا اور اگر کسی جگہ اختلاف ہو تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم نے یا اس کے قول کے سمجھنے میں ٹھو کر کھائی ہے یا اس کے فعل پر غور کرنے میں ہمیں غلطی لگی ہے.ان میں سے جس چیز کا نقص بھی دُور کر دیا جائے گا دونوں میں تطابق پیدا ہو جائے گا.اس نکتہ عظیمہ کی وجہ سے مذہب فلسفہ کے میدان سے نکل کر مشاہدہ کے میدان میں آ گیا ہے.اتحاد امم کی بنیاد گیارہویں عظیم الشان فضیلت قرآن کریم کو یہ حاصل ہے کہ اس نے دعوی کیا ہے کہ اس کالایا ہو ا پیغام کسی ایک قوم یا دو قوموں کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے.وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ.وَيَقُوْلُوْنَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ.قُلْ لَكُمْ مِيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُوْنَ عَنْهُ سَاعَةً وَّلَا تَسْتَقْدِمُوْنَ سبا : ۲۹ تا ۳۱ 109

Page 115

.انقلاب حقیقی کہ اے رسول ! ہم نے تجھے ساری دنیا کی طرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے اور تیرے ذریعہ سے ہم سب دنیا کو ایک نظام پر جمع کرنے والے ہیں.اب دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان انقلاب ہے اور انقلاب بھی ایسا جس کی مثال پہلے نہیں ملتی پہلے ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جا تا تھا اور جو تعلیم وہ لاتا اپنی قوم کے لئے لاتا تھا.چنانچہ ہندوستان میں اگر کرشن حکومت کر رہے تھے تو ایران میں زرتشت حکومت کر رہے تھے اور چین میں کنفیوشس حکومت کر رہے ہیں.اسی طرح کوئی موسی" کی اُمت تھا تو کوئی عیسی کی مگر خدا نے کہا اب دنیا میں ایک ہی مذہبی حکومت ہوگی اور ظاہری اور باطنی طور پر تمام دنیا ایک ہی جھنڈے کے نیچے لائی جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی اس خصوصیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا.کہ كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّة کہ پہلے ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جایا کرتا تھا مگر میں روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں.یہ انقلاب چونکہ ایک نیا انقلاب تھا اور لوگوں نے یہ پہلی دفعہ سنا کہ تمام دنیا روحانی لحاظ سے ایک ہونے والی ہے اس لئے وہ دنگ رہ گئے.اور جس طرح آپ نے توحید کی تعلیم پیش کی تھی اور کفار حیران ہو گئے تھے ویسا ہی اس دعوی کے وقت بھی ہو ا.چنانچہ توحید کی تعلیم کے بارہ میں قرآن کریم میں آتا ہے کہ کفارا سے سنکر کہ اُٹھے اَجَعَلَ الْأَلِهَةَ إِلَهَا واحِدًا لے کہ دنیا میں پہلے جو اتنے خدا موجود ہیں کیا ان سب کو اکٹھا کر کے یہ ایک خدا بنانا چاہتا ہے؟ یعنی کوئی ایرانیوں کا خدا ہے جسے وہ اہرمن یا یز دان کہتے ہیں، کوئی عیسائیوں کا خدا ہے جسے وہ گاڈ (GOD) یا خداوند یسوع مسیح کہتے ہیں، کوئی ہندوستان کا خدا ہے جسے وہ پر میشور یا اوم کہتے ہیں، کوئی یہودیوں کا خدا ہے جسے وہ یہوواہ کہتے ہیں.غرض یہ مختلف بخارى كتاب التيمم وقول الله تعالى فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً (الخ) ص: ۶ 110

Page 116

.انقلاب حقیقی خدا ہیں جو دنیا میں موجود ہیں.اگر اب یہ آ کر کہہ رہا ہے کہ صرف ایک خدا کو مانو تو کیا یہ سب خداؤں کو اکٹھا کر کے ایک بنا دے گا؟ یہ تو عقل کے خلاف ہے کہ اتنے خداؤں کو گوٹ کاٹ کر ایک خدا بنا دیا جائے.غرض کفار کو حیرت ہوئی اور انہوں نے اپنے اس تعجب کا اظہار کیا مگر اب دیکھو یزدان اور گاڈ اور اوم اور یہوواہ وغیرہ سب نام اللہ کے اندر آ گئے اور اللہ کا نام ہی سب ناموں پر غالب آ گیا ہے اور آج ساری دنیا تو حید کے خیال کی صحت کو تسلیم کر رہی ہے.دشمنوں کو جو حیرت توحید کے دعوی سے ہوتی تھی ویسی ہی آپ کے اس دعوی سے ہوئی کہ و ما ارسلنكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا ونذيرا ہم نے تجھے ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اس کے بارہ میں آتا ہے وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُون لیکن اکثر لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے.میں سمجھتا ہوں اس زمانہ میں لوگوں کے لئے یہ نکتہ سمجھنا ایسا ہی مشکل تھا جیسے آدم کے زمانہ میں لوگوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ ایک غیر شخص جو ہمارے ہی جیسا ہو ہمارے معاملات میں دخل دینے کا حق رکھتا ہے.کفار مکہ بھی اس دعویٰ پر سخت حیران ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یہ پیدا تو ہو اعرب میں اور کہتا ہے کہ میں ایران کا بھی نبی ہوں اور چین کا بھی نبی ہوں، اور مغرب کا بھی نبی ہوں ، اور مشرق کا بھی نبی ہوں.چنانچہ وہ اپنے اس استعجاب کا اظہار کرتے اور کہتے ہیں.مَتى هَذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صدقین کے اگر تم اپنی اس بات میں بچے ہو کہ ساری دنیا ایک جھنڈے کے نیچے آنے والی ہے تو یہ بات کب ہوگی؟ فرمایا قُل لَّكُمْ ميعاد يوم لے تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ بس اس زمانہ کے آنے میں اتنی ہی دیر ہے جتنی کہ سورہ سجدہ میں بتائی گئی ہے اور وہ یہ ہے سبا: ۳۰ سبا: ۳۱ 111

Page 117

.انقلاب حقیقی ك يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ اَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ ے یعنی اللہ تعالیٰ اُمرِ اسلامی کو پہلے تو زمین میں قائم کرے گا پھر وہ ایک ہزار سال کے عرصہ میں آسمان پر اُٹھ جائے گا.اس آیت میں اسلام کے پہلے ظہور کا زمانہ بتایا گیا ہے جس میں سے ایک ہزار سال کا عرصہ معین کر دیا ہے اور پہلا عرصہ غیر معین رکھا ہے.لیکن اسے حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معین کر دیا ہے.کیونکہ آپ فرماتے ہیں خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُم ثُمَّ الْفَيْجُ الأَعْوَج کے یعنی بہترین صدی میری ہے پھر اس کے بعد کی صدی پھر اس کے بعد کی صدی پھر تباہی ہے.تدبیر امر کا زمانہ اس سے معلوم ہوا کہ تدبیر امر کا زمانہ تین صدیاں ہیں اور اس کے بعد تباہی کا زمانہ ایک ہزار سال اور اس کے بعد پھر ترقی کا زمانہ.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سو سال بعد اسلام کا دوبارہ احیاء مقدر بنایا گیا تھا.پس اس جگہ جو قُل لَّكُمْ مِّتِعَادُ يَوْمٍ کہا ہے تو اس سے اسی یوم کی طرف اشارہ ہے جس کا سورہ سجدہ میں ذکر ہے اور وہ ہزار سال تنزلِ اسلام کے ہیں جس کے بعد بتایا گیا ہے کہ پھر اسلام ترقی کرے گا اور ساری قوموں میں پھیل جائے گا کیونکہ وہ زمانہ تکمیل اشاعت اسلام کا زمانہ ہوگا آیت هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُله سے بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے.السجدة: 4 صلى الله بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علی باب فضائل اصحاب النبي صلى الله ا وَمَنْ صَحِب النَّبِيِّ علا الله (الخ) 112 الصف: ١٠

Page 118

میعاد یوم سے مراد.انقلاب حقیقی پس اس جگہ میعاد یوم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے پہلے کے تنزِّلِ اسلام کے ہزار سالہ دور کی طرف اشارہ ہے جس کے بعد اسلام کی دوبارہ ترقی مقدر کی گئی تھی.حضرت مسیح کا حلقہ بعثت بعض عیسائی اس موقع پر کہا کرتے ہیں کہ یہ تعلیم تمہاری نئی نہیں ہمارے مذہب کی بھی یہی تعلیم ہے کہ تم اپنا پیغام تمام دنیا کو پہنچاؤ اور ہمارا مسیح بھی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث نہیں ہو اتھا بلکہ تمام دنیا کی طرف تھا.میں اپنے ایک پرانے مضمون میں عیسائیوں کے اس دعوی کا جواب دے چکا ہوں اور انجیلوں کے متعدد حوالہ جات سے ثابت کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح ناصری تمام دنیا کی طرف نہیں آئے بلکہ محض بنی اسرائیل کی طرف آئے اور وہ خود انجیل میں کہتے ہیں کہ :.میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا“ لے اور یہی طرز عمل ان کے حواریوں کا بھی تھا مگر آج میں ایک اور رنگ میں عیسائیوں کے اس دعوی کو باطل ثابت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر خدا نے کہا تھا کہ مسیح تمام دنیا کی طرف ہے اور اس کے ذریعہ سے سب لوگ ایک جھنڈے کے نیچے آجائیں گے تو بہر حال خدا جو بات کہے اسے پورا ہونا چاہئے اور چونکہ یہ انقلابی تعلیم تھی اور اس لئے دی گئی تھی کہ سب دنیا متی باب ۱۵ آیت ۲۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء 113

Page 119

انقلاب حقیقی کو ایک کر دیا جائے اور قومیتوں کو کمزور کر دیا جائے اس لئے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا اس مقصد کو مسیحیت نے پورا کر دیا؟ عیسائی بیشک یورپ میں بھی پھلے اور چین میں بھی پھیلے اور جاپان میں بھی پھیلے اور ہندوستان میں بھی پھیلے اور ایسی ایسی جگہ پہنچے جہاں شاید مسلمان بھی نہیں پہنچے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس تعلیم کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو گیا؟ اس تعلیم کی غرض تو یہ تھی کہ جُدائی کے خیالات مٹا دیئے جائیں.قومیتوں کو کمزور کر دیا جائے اور سب دنیا کو مساوات کے جھنڈے کے نیچے لایا جائے.اب اگر مسیح کو خدا نے کہا تھا کہ تیرے ذریعہ سے اقوامِ عالم کا تفرقہ مٹ جائے گا اور سب دنیا ایک ہو جائے گی تو عیسائیت کے ذریعہ سے یہ انقلاب پیدا ہو جانا چاہئے تھا اور اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے یہ کہا تھا کہ تیرے ذریعہ سے اقوامِ عالم کا تفرقہ مٹے گا اور سب دنیا ایک جھنڈے کے نیچے آئے گی تو اسلام کے ذریعہ سے یہ انقلاب پیدا ہونا چاہئے تھا.مگر حقیقت یہ ہے کہ مسیحیت سے زیادہ نیشنلزم اور قوم پرستی کی تعلیم کسی اور نے نہیں دی اور دنیا میں ایک ملک بھی تم نہیں دکھا سکتے جہاں مسیحیت نے مساوات قائم کی ہو لیکن دنیا میں تم ایک ملک بھی ایسا نہیں دکھا سکتے جہاں اسلام گیا ہو اور مساوات قائم نہ ہوئی ہو.آج انگریز جرمن کا دشمن اور جرمن انگریز کا دشمن ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں.ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لئے ہوائی جہاز بناتے، تو ہیں ایجاد کرتے اور نئے سے نئے اور دُور دُور تک گولہ باری کرنے والے بم بناتے ہیں لیکن باوجود اس کے ایک ہندوستانی عیسائی سے ایک انگریز وہ تعلقات کبھی پیدا نہیں کرے گا جو ایک جرمن دہریہ سے کر لے گا.اگر خدا نے اس کو سب دنیا کے لئے بھجوایا تھا تو اس کا نتیجہ وہ کیوں نہ نکلا جو نکلنا چاہئے تھا ؟ اور تو اور یورپین عیسائی تو ان سے بھی مساوات نہیں برتتے جو ان کے خداوند کے بھائی ہیں.چنانچہ دیکھ لو جرمن اور دوسرے ممالک میں 114

Page 120

.انقلاب حقیقی یہودیوں پر کتنے مظالم کئے جارہے ہیں آخر یہ کون ہیں؟ یہ ان کے خداوند کے بھائی ہی تو ہیں مگر یہ ان سے بھی مساوات برتنے کے لئے تیار نہیں.اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر مساوات پیدا کر دی ہے کہ ایک جاہل عرب ایک منگتا عرب ایک ٹیرا عرب دنیا کے کسی کو نہ میں چلا جائے مسلمانوں کی یوں باچھیں کھل جاتی ہیں گویا ان کا کوئی بزرگ زندہ ہو کر دنیا میں واپس آ گیا ہے اور عرب صاحب ! عرب صاحب! کہتے ہوئے ان کا منہ خشک ہوتا.نا ہے.پس عیسائیوں کے اس دعوی کو خود خدا کا فعل رڈ کر رہا ہے اور اس کے فعل نے بتادیا ہے کہ یہ انقلاب محمدی انقلاب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس تعلیم کے مخاطب تھے.اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف یہ تعلیم نازل کی جاتی تو خدا تعالیٰ ان سے یہ کام بھی لیتا ہاں چونکہ بشارت کی ہوائیں اصل موعود کے آنے سے پہلے چلنی شروع ہو جاتی ہیں اس لئے جب عیسوی دور میں محمدی انقلاب کی بشارت آئی اور حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایک عظیم الشان نبی کے ذریعہ سے جو تمام نبیوں کا سردار ہو گا سب دنیا ایک ہونے والی ہے اور سب دنیا ایک ہی جھنڈے کے نیچے آنے والی ہے تو عیسائیوں نے اس سے دھوکا کھایا اور انہوں نے سمجھا کہ ابھی سے اس کا وقت آ گیا ہے لیکن پھر ایا ہو الباس فٹ کہاں آ سکتا تھا.خدا کے فعل نے ثابت کر دیا کہ اس کے مخاطب عیسائی نہیں تھے بلکہ مسلمان اس کے مخاطب تھے.اسلامی انقلاب غرض ان تغیرات کے ماتحت اسلام نے دنیا کے علم اس کے فکر اس کے فلسفہ اس کے جذبات اس کے مذہب اس کی سیاست اس کے اخلاق اس کے تمدن، اس کی 115

Page 121

.انقلاب حقیقی معاشرت، اس کی اقتصادیات اور اس کی ثقافت کو بالکل بدل دیا اور دنیا اور سے اور ہوگئی اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین محمد اللہ نے پیدا کر دی.اسلام اور دوسرے مذاہب میں مشابہت کی اصل وجہ آج جو مشابہت اسلام اور ان مذاہب میں نظر آ رہی ہے یہ اس وجہ سے نہیں کہ یہ مشابہت والے اموران مذاہب میں پہلے سے موجود تھے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام کے ساتھ مل کر انہوں نے اس کی بعض تعلیموں کو اپنا لیا ہے.چنانچہ دین تو الگ رہا، یورپین لوگوں نے مسلمانوں کی کتابوں کی کتابیں نقل کی ہیں اور ان علوم کو اپنی طرف منسوب کر لیا ہے.چنانچہ آج گل یورپ میں کئی ایک ایسی کتب شائع ہو رہی ہیں جن میں اس قسم کی چوریوں کو ظاہر کیا جا رہا ہے.ابھی تھوڑا عرصہ ہو امیں نے ایک کتاب انگلستان سے منگوائی ہے اس میں علم موسیقی پر بحث کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یورپین لوگوں نے اس علم کو سپین کے مسلمانوں کی کتابوں سے نقل کیا ہے بلکہ مصنف اس راز کا انکشاف کرتا ہے کہ میں ان کتابوں کے حوالے دے سکتا ہوں جن سے یورپ کے لوگوں نے یہ باتیں نقل کیں اور پھر کہتا ہے کہ اس اندھیر کو دیکھو کہ برٹش میوزیم میں فلاں نمبر پر فلاں کتاب ہے.اس میں فلاں پادری کے نام کا ایک خط درج ہے جو کسی عیسائی نے انہیں لکھا تھا کہ صاحب من ! مسلمانوں کی موسیقی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اور ہماری موسیقی اس کے مقابلہ میں بہت بھی معلوم ہوتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ ان کے علوم کا یورپین لوگوں کیلئے ترجمہ کر دوں مگر میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں کا علم نقل کرنے سے پادریوں کی طرف سے مجھ پر کفر کا فتویٰ نہ لگ جائے آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے؟ اگر یہ علم نقل کر لیا جائے تو گر جوں کو اس سے بڑا فائدہ پہنچے گا.اس کا جواب بشپ صاحب نے یہ دیا کہ بیشک ان علوم کو اپنی کتابوں 116

Page 122

.انقلاب حقیقی میں نقل کر لومگر ایک بات کا خیال رکھنا اور وہ یہ کہ اگر تم نے نیچے حوالہ دیدیا تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ علم عربوں سے لیا گیا ہے اور اس طرح اسلام کی عظمت ہمارے مذہب کے پیرؤوں کے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے گی.پس تم نقل بیشک کرو مگر حوالہ نہ دو تا لوگ یہ سمجھیں کہ یہ علم تم اپنی طرف سے بیان کر رہے ہو.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ یہ خط آج تک برٹش میوزیم میں موجود ہے.اسی طرح پیرس میں ۱۹۴۰ء تک ابن رشد کا فلسفہ پڑھا یا جا تا تھا مگر نام میں ذرا سا تغیر کر دیا جاتا تھا تا لوگوں کو یہ پتہ نہ چلے کہ یہ کسی مسلمان کا فلسفہ ہے.لطیفہ یہ ہے کہ روم کی یو نیورسٹیوں میں ایک دفعہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ فلسفہ کی یہ کتاب نہ پڑھائی جائے بلکہ فلاں کتاب پڑھائی جائے کیونکہ اب فلسفہ ترقی کر چکا ہے تو پادریوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا اور کہا کہ یہ بے دینی ہے.گویا ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد انہیں اتنا خیال بھی نہ رہا کہ وہ ایک مسلمان کی لکھی ہوئی کتاب ہے بلکہ وہ یہ سمجھنے لگ گئے کہ یہ کسی عیسائی کی کتاب ہے اور اگر اس کی جگہ اب کوئی اور فلسفہ پڑھایا گیا تو کفر ہو جائے گا.ہمارے لوگ ناواقفی کی وجہ سے بالعموم یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ بات بھی عیسائیوں سے لی گئی ہے اور وہ بات بھی ، حالانکہ مسلمانوں نے بحیثیت قوم عیسائیوں سے کوئی بات نہیں لی مگر عیسائیوں نے مسلمانوں سے بحیثیت قوم علوم سیکھے ہیں لیکن مسلمان چونکہ اب ان تمام علوم کو بھلا بیٹھے ہیں اور عیسائیوں نے یاد کر لئے ہیں بلکہ ان میں زمانہ کی ترقی کے ساتھ ترقی ہوگئی ہے اور ان کی شکل بھی بدل گئی ہے، اس لئے مسلمان پہنچانتے نہیں ہیں اور اب تو غفلت کا یہ عالم ہے کہ مسلمانوں میں نہ دین باقی ہے نہ اخلاق، نہ تمدن باقی ہے نہ سیاست، نہ تہذیب باقی ہے نہ ثقافت ، بس مغربیت ہی مغربیت ہے جو ان کا اوڑھنا بچھونا بن رہی ہے حالانکہ وہ تمام باتیں قرآن کریم میں موجود ہیں جن سے پہلے مسلمانوں نے 117

Page 123

.انقلاب حقیقی ترقی کی اور جن سے موجودہ مسلمان بھی ترقی کر سکتے ہیں.مگر قرآن کو تو انہوں نے بند کر کے رکھ دیا ہے اور مغربیت کی طرف آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہے ہیں جس طرح چڑیا کا بچہ بیٹھا ماں کی راہ تک رہا ہوتا ہے.ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایران کے بادشاہ نے ایک دفعہ ہندوستان کے آم کی تعریف سنی اور اس کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ آم کھائے.بادشاہ نے ہندوستان میں اپنا سفیر بھیجا کہ جا کر آم لے آؤ.جب وہ یہاں پہنچا تو آم کا موسم نکل چکا تھا لیکن بادشاہ نے یہ خیال کر کے کہ یہ شاہ ایران کا سفیر ہے اور دُور سے آیا ہے دہلی اور اس کے گردونواح میں آم کی بڑی تلاش کرائی.آخر اسی تلاش اور جد وجہد کے نتیجہ میں ایک بے موسم کا آم مل گیا مگر سخت کھتا اور ریشہ دار.بادشاہ نے اُس سفیر کو بلا کر کہا کہ آم کی شکل آپ دیکھ لیں ایسی ہی شکل ہوتی ہے مگر ذائقہ بہت میٹھا ہوتا ہے.یہ جو آم ملا ہے یہ کچھ اچھا نہیں لیکن چونکہ آپ نے اب واپس جانا ہے اس لئے ذرا اسے چکھ لیں تا آپ بادشاہ کے سامنے آم کی حقیقت بیان کر سکیں.اُس نے چکھا تو سخت کھٹا اور بدمزا تھا.جب وہ واپس گیا اور شاہ ایران نے اس سے آم کی کیفیت پوچھی تو اس نے کہا کہ مجھے ہندوستانیوں کی عقل کے متعلق شبہ پیدا ہو گیا ہے.وہ کہنے لگا کیوں؟ اُس نے کہا وہ آم کی بڑی تعریف کرتے ہیں اور آپ نے بھی آم ہی کے لئے مجھے بھیجا تھا مگر میں جو آم چکھ کر آیا ہوں اُس کی کیفیت آپ اس چیز سے معلوم کر سکتے ہیں یہ کہہ کر اُس نے ایک پیالہ پیش کیا جس میں املی کا ریشہ اور تھوڑ اسا پانی پڑا ہوا تھا.بادشاہ دیکھ کر سخت متعجب ہوا اور اس نے کہا کہ ہیں ! ہندوستانی ایسی لغوھے کی اس قدر تعریف کرتے ہیں؟ یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے.وہ قرآن کریم کے علوم سے بگلی بے بہرہ ہو گئے ہیں اور قرآن کریم ان کے لئے ایک مُردہ کتاب بن گیا ہے اور اب جو کچھ ان کے 118

Page 124

انقلاب حقیقی سامنے ہے اس کو اور قرآن کریم کو آپس میں وہی نسبت حاصل ہے جو اعلیٰ اور لذیذ آم کو پانی میں بھگوئی ہوئی املی سے ہوتی ہے.حالانکہ تمام حسن اسلام میں ہے، تمام خوبیاں اسلام میں ہیں اور یورپ نے اصولِ علم میں جو کچھ سیکھا ہے اسلام اور مسلمانوں کی خوشہ چینی کر کے سیکھا ہے مگر مسلمانوں کو چونکہ اس کا علم نہیں اس لئے وہ مغربیت کے دلدادہ ہو گئے ہیں.مغربیت کے اُصول غرض اس زمانہ میں اسلام کی تعلیم بطور کل کے کہیں نہیں پائی جاتی ، صرف ٹکڑے ٹکڑے پائی جاتی ہے اور اصل اسلامی تعلیم کو در حقیقت مسلمان بھلا بیٹھے ہیں اور مغربیت ان پر غالب ہے جس کے بڑے اصول یہ ہیں:.(۱) مادیت (۲) اس کا لازمی نتیجہ نیشنلزم.(۳) اور تمام مذہبی اور اخلاقی مسائل کو نیشنلزم کے تابع کرنا.ان امور نے اخلاق مذہب اور حقیقی قربانی اور دنیا کے امن کو بالکل برباد کر دیا ہے اور مذاہب کی شکل کو مسخ کر دیا ہے.اب اگر یورپ کے لوگ کسی چیز کا نام مذہب رکھتے ہیں تو اس نقطہ نگاہ سے کہ وہ مذہب ان کی حکومت کو کتنا مضبوط کرتا ہے.ایک ہندوستانی دماغ اس بات کو سمجھ بھی نہیں سکا مگر واقعہ یہی ہوتا ہے کہ جرمن میں بغاوت ہوتی ہے اور پادری جب دیکھتے ہیں کہ عیسائیت کی تعلیم انہیں اتنا مضبوط نہیں بناتی کہ وہ بغاوت کو کچل سکیں تو بڑے آرام سے انہیں مذہبی کتاب کے احکام میں تبدیلی کر کے ایک نیا فلسفہ پیش کر دیتے ہیں اور پھر چھوٹے بڑے سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ یہ ہمارا مذہب ہے.ایک مسلمان اس بات کو سمجھ بھی نہیں سکتا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے 119

Page 125

.، انقلاب حقیقی کسی نے سو بیویاں کرنی ہوں اور وہ دیکھے کہ قرآن میں اس کی اجازت نہیں تو بڑے آرام مغنی و تلت والی آیت کی جگہ سو عورتوں سے نکاح کرنے والا فقرہ لکھ دے اور پھر کہے کہ میں نے اپنی کتاب کی تعلیم کے مطابق سو بیویاں کی ہیں.ہر شخص اسے کہے گا کہ تم نے اپنے ہاتھ سے ایک فقرہ لکھا ہے وہ تمہارا خیال تو قرار دیا جاسکتا ہے مگر اسے مذہبی اجازت کس طرح قرار دیتے ہو؟ مگر یورپ والوں کی یہی حالت ہے وہ جب دیکھتے ہیں کہ مذہب کی کسی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انہیں قومی لحاظ سے نقصان پہنچ سکتا ہے تو جھٹ اس تعلیم میں تبدیلی کر دیتے ہیں اور ایک نیا فلسفہ ایجاد کر کے اس کا نام مذہب رکھ دیتے ہیں.گویا مذہب سے اتنی دوری پیدا ہو گئی ہے کہ وہ مذہب قومیت کو سمجھنے لگ گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو چیز نیشنلزم کو تقویت دے وہی خدا کا منشاء ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اخلاق ہاتھ سے جاتے رہے ہیں اور مذہب بھی ضائع ہو گیا ہے اور نیشلزم پر مذہب کی بنیاد رکھ کر حقیقی قربانی کی روح کو برباد کر دیا گیا ہے.اب ایک جرمن اس لئے قربانی نہیں کرے گا کہ بنی نوع انسان کو اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس لئے قربانی کرے گا کہ جرمن قوم کو اس سے کیا فائدہ پہنچتا ہے.یا ایک انگریز اس لئے قربانی نہیں کرے گا کہ دنیا کو اس کی قربانی کی ضرورت ہے بلکہ اسی وقت قربانی کرے گا جب اس کی قوم کا مفاد اس کا تقاضا کرے گا.ساتویں دور کا انقلاب احیائے تعلیم مصطفوی غرض مادیت اور نیشنلزم اور تمام مذہبی اور اخلاقی مسائل کو نیشنلزم کے تابع کرنے کی روح نے دنیا کے امن کو بالکل برباد کر دیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ النساء: ۴ 120

Page 126

انقلاب حقیقی السلام کو موجودہ زمانہ میں جو تہذیب الہی کا ساتواں دور ہے بھیجا ہے اور آپ کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ آپ وہ دوسری قسم کا انقلاب پیدا کریں جسے آیت ما ننسخ من أيّةٍ اَوْ نُنسها تأتِ بِخَيْرٍ منها آخر مثلها، کے آخری حصہ میں بیان کیا گیا ہے.یعنی کبھی انقلاب اس طرح بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ کتاب وہی واجب العمل رہتی ہے جو پہلے سے موجود ہومگر خدا تعالیٰ دوبارہ اس کی مردہ تعلیم کو زندہ کرنے کے لئے ایک انسان اپنی طرف سے کھڑا کر دیتا ہے جولوگوں کو پھر اس تعلیم پر از سر کو قائم کرتا ہے اور جس کی طرف سورہ جمعہ میں بھی ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ :.هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمُ ايَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ.وَاخَرِيْنَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے اُمیوں میں اپنا رسول بھیجا جو ان پر آیات الہیہ کی تلاوت کرتا، ان کا تزکیہ نفس کرتا اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، اگر چہ وہ اس سے پہلے کھلی گھلی گمراہی میں مبتلاء تھے اور وہ خدا ہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا اور پھر آپ کے ذریعہ سے ایک ایسی جماعت پیدا کرے گا جو صحابہ کے رنگ میں کتاب جاننے والی پاکیزہ نفس اور علم و حکمت سے واقف ہوگی.گویا وہی کام جو آنحضرت ﷺ نے کیا نئے سرے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کرنا ہے.بثت ثانیہ کے کام سورۃ صف میں بھی اس ساتویں دور کا کام بتایا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا الجمعة ٤،٣ 121

Page 127

.انقلاب حقیقی ہے هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوُ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ.یعنی ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے لائے ہوئے کلام کو ساری دنیا میں پھیلا دے گا اور سب دوسرے ادیان پر غالب کر دے گا.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہی آیت الہاما نازل ہوئی ہے تا یہ بتایا جائے کہ وہ زمانہ جس میں اس کا ذکر تھا آ پہنچا ہے.پرانے مفسرین بھی اسی امر پر متفق ہیں کہ یہ آیت آخری زمانہ کے متعلق ہے اور کہ یہ کام مسیح موعود کے زمانہ میں ہونے والا ہے.غرض ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ بعثتِ اُولیٰ میں تو قیام دین کا کام مقدر تھا اور بعثت ثانیہ میں باقی مذاہب پر اسلام کو غالب کر دینے کا کام مقدر ہے یعنی (۱) دلائل و براہین سے ان کے متبعین کو اسلام میں داخل کرنا اور (۲) ان کی تہذیب و تمدن کو مٹا کر اسلامی تمدن اور تہذیب کو اس کی جگہ قائم کر دینا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے مسیح موعود کو محض اسی مقصد کیلئے بھیجا ہے.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله تا کہ تمام دینوں پر وہ اسلام کو غالب کر دے.غلبہ اسلام کے ذرائع اب دیکھنا چاہئے کہ تمام ادیان پر اسلام کا گلی غلبہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ اگر خالی تعلیم لی جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ ہر مذہب کے چند آدمیوں کو ہم اپنے اندر شامل کر لیں گے تو یہ ان کے ادیان پر غلبہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ ادیان باطلہ بہر حال موجود ر ہیں گے اور وہ اسلام سے الگ ہونگے.اسلام کا ان پر کوئی غلبہ نہیں ہوگا.پس لاز مامانا پڑتا ہے کہ غلبہ کے یہ معنی نہیں بلکہ غلبہ کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح آج باوجود مذاہب کے اختلاف کے 122

Page 128

انقلاب حقیقی مغربی تہذیب دنیا پر غالب آئی ہوئی ہے اسی طرح ہمارا کام ہے کہ ہم اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب کو اس قدر رائج کریں کہ لوگ خواہ عیسائی ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا حمدن اسلامی ہو.لوگ خواہ یہودی ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا تمدن اسلامی ہو ، لوگ خواہ مذہب ہندو ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا تمدن اسلامی ہو، یہ چیز ہے جس کے پیدا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا کہ تہذیب اسلامی کو اتنا رائج کیا جائے اتنا رائج کیا جائے کہ اگر کچھ حصہ دنیا کا اسلام سے باہر بھی رہ جائے پھر بھی اسلامی تہذیب ان کے گھروں میں داخل ہو جائے اور وہ وہی تمدن قبول کریں جو اسلامی تمدن ہو.گویا جس طرح آج کل لوگ کہتے ہیں کہ مغربی تمدن بہتر ہے اسی طرح دنیا میں ایک ایسی رو چل پڑے کہ ہر شخص یہ کہنے لگ جائے کہ اسلامی تمدن ہی سب سے بہتر ہے.انقلاب حقیقی کے متعلق حضرت مسیح موعود کے الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو اگر دیکھا جائے تو ان میں اس دعوی کا وجود پایا جاتا ہے چنانچہ (۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں:.”ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں.“ لے چشمہ مسیحی میں آپ اس کشف کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:.”اس کشف کا مطلب یہ تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے.تذکرہ صفحہ ۱۹۳.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۱۹۳.ایڈیشن چہارم 123

Page 129

.انقلاب حقیقی (۲) پھر الہام ہے يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ لا مسیح موعود دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا.(۳) اسی طرح الہام ہے.وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا که یا در کھو اسلامی لحاظ سے دنیا مر گئی اور اب اس نے مسیح موعود کو اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اسے دوبارہ زندہ کرے.66 (۴) چوتھا الہام مخالفین کی نسبت ہے کہ ”زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں فَسَحِقُهُمُ تَسْحِيْقًا ۳ اس الہام میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ لوگوں کو زمانہ کے فیشن کا خیال ہے لیکن وہ فیشن جو حقیقی حیات پیدا کرتا ہے، اس سے دور جا پڑے ہیں اس لئے وہ پیس دیئے جائیں گے اور دعا سکھائی گئی ہے کہ کہو اے خدا! تو ان لوگوں کو مٹا دے اور نوح کے زمانہ کی طرح ان پر تباہی لاتا مغربی تمدن اور مغربی تہذیب کی جگہ دنیا میں اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب قائم ہو.(۵) پانچواں الہام ہے.مَا أَنَا إِلَّا كَالْقُرْآنِ وَسَيَظْهَرُ عَلَى يَدَيَّ مَاظَهَرَ مِنَ الْفُرْقَانِ کے کہ اے مسیح موعود ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تو قرآن کی طرح ہوں جس طرح قرآن نے پہلے زمانہ میں تبدیلی کی ہے ویسی ہے تبدیلی میرے زمانہ میں بھی ہوگی.(1) چھٹا الہام ہے.آسمانی بادشاہت، یعنی خدا کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کیا جائے گا.ان آیات والہامات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب کے دور کو مٹا کر اسلام کے عقائد، اس کی تذکرہ صفحہ ۷.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۷۸.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۵۰۹.ایڈیشن چہارم ہے تذکرہ صفحہ ۶۷۴.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۶۷۹.ایڈیشن چہارم 124

Page 130

انقلاب حقیقی شریعت ، اس کے تمدن اس کی تہذیب اس کے علوم اس کے اقتصاد اس کی سیاست اس کی معاشرت اور اس کے اخلاق کو قائم کیا جائے.اس تبدیلی کا کچھ حصہ شخصی ہے جیسے نمازیں پڑھنا یا روزے رکھنا اور کچھ قومی شخصی حصہ تو وعظ اور شخصی کوشش کو چاہتا ہے یعنی لوگوں کو کہا جائے کہ وہ نمازیں پڑھیں وہ روزے رکھیں ، وہ حج کریں، وہ صدقہ و خیرات دیں اور پھر جو لوگ اس وعظ ونصیحت سے متأثر ہوں وہ اپنے اپنے طور پر نیکی کے کاموں میں مشغول ہو جائیں لیکن قومی حصہ ایک زبر دست نظام چاہتا ہے مثلاً اگر ہم خود نمازیں پڑھنے والے ہوں تو یہ ضروری نہیں کہ باقی بھی نمازیں پڑھنے والے ہوں.اگر اور کوئی بھی شخص نماز نہیں پڑھتا تو ہماری اپنی نماز ہی ہمارے لئے کافی ہوگی.لیکن بعض احکام ایسے ہیں جو ایک نظام چاہتے ہیں اور ہم انہیں اس وقت تک بجا نہیں لا سکتے جب تک دوسرے بھی وہی کام نہ کریں.جیسے نماز ہے یہ اکیلے تو ہم پڑھ سکتے ہیں لیکن باجماعت نماز اس وقت تک نہیں پڑھ سکتے جب تک دوسرا شخص ہمارے ساتھ نہ ہو.پس نماز باجماعت ایک نظام چاہتی ہے.یعنی ضروری ہے کہ ایک امام ہو اور اس کے پیچھے ایک یا ایک سے زائد مقتدی ہوں.بیسیوں اور احکام ایسے ہیں جو ایک زبر دست نظام چاہتے ہیں ایسا نظام کہ جس میں انکار کی کوئی گنجائش نہ ہو.عقائد کے میدان میں جماعت احمدیہ کی فتح اس وقت ہماری جماعت جیسا کہ ظاہر و ثابت ہے عقائد کے میدان میں الشان فتح حاصل کر چکی ہے اور ہماری اس فتح کا دشمن کو بھی اقرار ہے.چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب کہا کہ مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں تو تمام غیر احمدی یک زباں ہو کر پکار اٹھے کہ یہ کفر ہے یہ کفر ہے.چنانچہ اسی بناء پر انہوں نے آپ پر کفر کے 125

Page 131

.انقلاب حقیقی فتوے لگائے اور یہ کہا کہ آپ مسیح کی ہتک کرتے ہیں.مگر آج چلے جاؤ دنیا میں، تعلیم یافتہ لوگوں میں سے بہت سے ایسے نظر آئیں گے جو انہیں اب مُردہ ہی یقین کرتے ہیں اور اکثر ایسے نظر آئیں گے جو گومنہ سے اقرار نہ کریں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ مسیح زندہ ہو یا مر گیا ہو، ہمیں اُس سے کیا تعلق ہے؟ یہ کونسی ایسی اہم بات ہے کہ ہم اس کے پیچھے پڑیں؟ یہ تبدیلی بتاتی ہے کہ دشمن بھی تسلیم کرتا ہے کہ اب اس حربہ سے وہ ہمارے مقابلہ میں نہیں لڑسکتا.پھر دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو کفر کا فتویٰ لگا اس میں کفر کی ایک وجہ یہ بھی قرار دی گئی تھی کہ آپ قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ کے قائل نہیں.گزشتہ علماء سے بعض تو گیارہ سو آیتوں کو منسوخ قرار دیتے تھے ، بعض چھ سو آیتوں کو منسوخ سمجھتے تھے اور بعض اس سے کم آیتیں منسوخ بتلاتے تھے.یہاں تک کہ تین آیتوں کے نسخ کے قائل تو وہ بھی تھے جو نسخ کے جواز کو خطرناک خیال کرتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ سب لغو اور بیہودہ باتیں ہیں، سارا قرآن ہی قابل عمل ہے.اور پھر جن آیتوں پر اعتراض کیا جا تا تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ منسوخ ہیں، ان کے آپ نے ایسے عجیب وغریب معارف بیان فرمائے کہ یوں معلوم ہونے لگا کہ اصل آیتیں قرآن کی تو تھیں ہی یہی اور ایک ایسا مخفی خزانہ ان میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکال کر باہر رکھ دیا کہ دنیا حیران ہو گئی کہ اب تک یہ امور ہماری نظروں سے کیوں پوشیدہ تھے لیکن اُس وقت جب آپ نے یہ باتیں کہیں آپ پر کفر کے فتوے لگائے گئے آپ کو بُرا بھلا کہا گیا اور آپ کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلایا گیا.حالانکہ یہ ایسا لطیف نکتہ تھا کہ اگر دنیا کی کسی عقلمند قوم کے سامنے اسے پیش کیا جاتا تو اس پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو جاتی مگر آج جاؤ اور دیکھو کہ مسلمانوں کی کیا حالت ہے.تمہیں نظر آئے گا کہ سو میں سے ننانوے مولوی کہہ رہا ہے کہ قرآن کی کوئی آیت منسوخ نہیں اور وہ انہی آیتوں کو جن کو پہلے منسوخ کہا کرتے تھے 126

Page 132

انقلاب حقیقی قابل عمل قرار دیتے اور ان کے وہی معنی کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئے.غلبہ احمدیت اور عمل کا میدان غرض عقائد کے بارہ میں تو ہم نے مخالفین کو ہر میدان میں شکست دی ہے لیکن جہاں عقائد کے میدان میں ہم نے مخالفوں پر عظیم الشان فتح حاصل کی ہے وہاں عمل کے میدان میں ہمیں یہ بات نظر نہیں آتی اور ہم کم سے کم دنیا کے سامنے یہ امر دعوی سے پیش نہیں کر سکتے کہ اس میدان میں بھی ہم نے اپنے مخالفوں کو شکست دے دی ہے اور بجائے کسی اور نظام کے اسلامی نظام قائم کر دیا ہے.کامل تنظیم اور عملی تکمیل اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے عملی تکمیل بغیر ایسی کامل تنظیم کے نہیں ہو سکتی جس میں انکار کی کوئی گنجائش نہ ہو مگر اس وقت تک ہماری جماعت صرف عقائد کی درستی شخصی جد و جہد اور چندہ جمع کرنے کا کام کرسکی ہے حالانکہ شخصی جد و جہد کبھی نظام کامل کے قیام میں کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ:.(1) اکثر لوگ شریعت کے غوامض سے واقف نہیں ہوتے اس لئے ان کی جد و جہد ناقص ہوتی ہے اور وہ شریعت کو دنیا میں قائم نہیں کر سکتے کیونکہ کئی مسئلے انہیں معلوم ہی نہیں ہوتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سو میں سے دس مسائل تو وہ قائم کرتے ہیں مگر نوے چھوڑ جاتے ہیں.(۲) دوسرے جو لوگ واقف ہوتے ہیں ان میں سے ایک حصہ سست بھی ہوتا ہے اور ایک حد تک تحریک اور تحریص اور خارجی دباؤ کا محتاج ہوتا ہے اور قوم کو انہیں نوٹس دینا پڑتا 127

Page 133

.انقلاب حقیقی ہے کہ اگر ہمارے ساتھ ملنا چاہتے ہو تو عملی رنگ میں کام کرو نہیں تو ہم سے الگ ہو جاؤ.(۳) تیسرے جو لوگ نا واقعی سے یائستی سے شریعت کے خلاف چلیں ،ان کا بہت بُرا اثر دوسروں پر پڑتا ہے اور وہ ان کو دیکھ کر بعض دفعہ اسی کو اپنا دین سمجھ لیتے ہیں مثلاً اگر کوئی کامیاب تاجر ہو اور اس نے دین کے کسی مسئلہ پر عمل کرنے میں سستی کی ہو تو لوگ اس کی مثال دیکر کہنے لگ جاتے ہیں کہ اتنا بڑا آدمی ہو کر بھلا یہ دین میں سستی کر سکتا ہے؟ اور اس طرح اس کے غلط عمل کو دین سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ بالکل ممکن ہے ایک شخص بڑا تاجر ہو یا بڑا دولتمند ہولیکن دین کے معاملہ میں وہ بالکل جاہل ہو اور ایک فقیر اور کنگال شخص زیادہ دیندار اور زیادہ مسائلِ شرعیہ سے واقف ہو.پس ایسے لوگوں کا دوسروں پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور بعض دفعہ وہ انہی کی غلط باتوں کو دین سمجھنے لگ جاتے ہیں اور یا پھر بعض دفعہ یہ اثر قبول کرتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں حکم نہیں مانتا تو ہم کیوں مانیں؟ اور بعض بظاہر بڑے آدمیوں کی نقل ان کے اتباع کی دینی حالت کو بھی خراب کر دیتی ہے.(۴) چوتھے جن کو واقفیت ہو اور وہ شریعت پر عمل بھی کرنا چاہیں، وہ بھی ایک حصہ احکام پر عمل کر نہیں سکتے جب تک نظام مکمل نہ ہو کیونکہ بعض احکام دو فریق سے متعلق ہوتے ہیں، ایک فریق عمل نہ کرے تو دوسرا بھی نہیں کر سکتا جیسے میں نے بتایا ہے کہ نماز با جماعت اسی وقت پڑھی جاسکتی ہے جب کم سے کم دو آدمی ہوں.اگر ایک آدمی ہو اور وہ نماز باجماعت پڑھنے کی خواہش بھی رکھتا ہو تو اس وقت تک جماعت سے نماز نہیں پڑھ سکتا جب تک دوسرا آدمی اس کے ساتھ نماز پڑھنے کو تیار نہ ہو.یا مثلاً ایک شخص کو روپیہ قرض لینے کی ضرورت پیش آ جائے اور وہ کسی سے مانگے تو اگر وہ دونوں مسلمان ہوں اور دونوں اس امر کے قائل ہوں کہ سود لینا اور دینا منع ہے ، تب وہ سود سے بچے رہیں گے لیکن اگر ان میں سے ایک شخص اس کا قائل نہیں تو وہ مثلاً سو یا دو سو روپیہ قرض دے کر کہہ دے کہ اس پر چار آ نہ سینکڑہ 128

Page 134

انقلاب حقیقی سُود لگے گا تو روپیہ لے کر یہ مجبور ہو جائے گا کہ سُود ادا کرے.یا مثلاً ورثہ کے احکام ہیں اگر پنجاب کا ایک باپ کہتا ہے کہ میں اپنی جائداد اپنی اولاد میں شریعت کے مطابق تقسیم کروں گا اس پر جھٹ بیٹا کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں یہ تقسیم نہیں ہونے دوں گا یا بیوی اس کی مخالف ہو جاتی ہے اور کہتی ہے کہ میں یہ قسیم نہیں ہونے دوں گی، جس طرح عام رواج ہے اسی طرح تقسیم کرو تو باوجود خواہش کے وہ اس حکم پر عمل نہیں کر سکے گا کیونکہ قانون اس کے مخالفوں کے حق میں ہے.اسی طرح کئی سیاسی احکام ہیں جو ایک کامل نظام کے مقتضی ہیں اور اگر نظام نہ ہو تو ان پر عمل نہیں ہو سکتا.مثلاً شریعت نے کہا ہے کہ بھاؤ مقرر کئے جائیں اور اس اس رنگ میں مقرر کئے جائیں.اب اگر کوئی نظام نہ ہو تو اکیلا انسان کہاں بھاؤ مقرر کر اسکتا ہے.پس جب تک نظام نہ ہو جو دونوں فریق کو مجبور کرے صرف ایک فریق باوجود علم اور ارادہ کے اس پر عمل نہیں کر سکتا.(۵) پھر نئی جماعت کے لئے یہ بھی مشکل ہوتی ہے کہ ابتدائی صحابہ ہی اصل تعلیم کو جاری کر سکتے ہیں.اگر ان کے زمانہ میں عمل نہ ہو تو پھر کوئی صورت باقی نہیں رہتی اور لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جب صحابہ نے جو اتنے بڑے بزرگ تھے یہ نظام جاری نہیں کیا تو ہم کیوں کریں؟ (1) چھٹی بات یہ ہے کہ جب تک اپنا نظام قائم نہ کیا جائے پر انا نظام مٹ ہی نہیں سکتا.آخر جب تک ہم اپنے نظام کا کوئی اعلیٰ نمونہ نہ دکھا ئیں پرانی چیز کو لوگ کیوں چھوڑیں؟ وہ جب تک ہم اپنے نظام کا بہتر نمونہ ان کے سامنے پیش نہ کریں اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ پرانے نظام کو ہی اختیار کئے رہیں پھر اس کے علاوہ ایک خطر ناک بات یہ ہے کہ خود اپنے آدمی اس کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں اس لئے بغیر نظام کے وہ مقصود پورا ہی نہیں ہو سکتا اور وہ انقلاب جو مطلوب ہے کبھی رونما ہی نہیں ہوسکتا.129

Page 135

.انقلاب حقیقی انقلاب حقیقی کے قیام میں ہمارا کام پس جبکہ انقلاب پیدا کرنے کیلئے یعنی پرانے نظام کو مٹانے اور نئے نظام کو قائم کرنے کیلئے اور اس حد تک قائم کرنے کیلئے کہ نیا آسمان اور نئی زمین پیدا ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہم نے اس بارہ میں کیا کام کیا ہے؟ تم جانے دو معترضین کے سوالات کو ، آؤ ہم سب احمدی مل کر یہ بات سوچیں کہ کیا واقع میں اگر بیرونی دنیا سے کوئی شخص ہندوستان میں آ جائے اور اسے احمدی اور غیر احمدی کا کوئی فرق معلوم نہ ہو اور فرض کرو کہ وہ بہرہ بھی ہے اور لوگوں سے سن کر بھی معلوم نہ کر سکتا ہو کہ فلاں احمدی ہیں اور فلاں غیر احمدی اور فرض کرو کہ وہ گونگا بھی ہو اور خود بھی دریافت نہ کر سکتا ہو لیکن اس کی آنکھیں ہوں جن سے وہ دیکھے اور اس کا دماغ ہو جس سے وہ سمجھے تو کیا وہ ہم کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ان لوگوں کا آسمان اور ان لوگوں کی زمین اور ہے اور دوسرے لوگوں کا آسمان اور ، اور دوسرے لوگوں کی زمین اور ہے؟ یا وہ کچھ بھی نہیں سمجھے گا اور وہ کہے گا کہ غیر احمدیوں میں سے بھی کچھ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور کچھ نہیں پڑھتے اسی طرح احمدیوں میں سے بھی کچھ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور کچھ نہیں پڑھتے ان میں بھی بعض کمزور اور بد اعمال ہیں اور اِن میں بھی بعض کمزور اور بداعمال ہیں اور اگر وہ یہی نتیجہ نکالے تو بتلاؤ وہ کب اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا آسمان نیا ہے اور جماعت احمدیہ کی زمین نئی ہے ؟ پس سوچو اور غور کرو کہ ہم نے اس وقت تک کیا کیا ہے؟ ہم نے کچھ مسئلے سمجھ لئے ہیں، کچھ چندے دے دیتے ہیں اور کچھ ذاتی اصلاح کر لیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ غیر احمد یوں میں اور ہم میں اگر کوئی فرق نکل سکتا ہے تو یہ کہ غیر احمد یوں میں زیادہ لوگ جھوٹ بولنے والے ہوتے ہیں مگر ہم میں کم لوگ جھوٹ بولتے ہیں ، ان میں سے اکثر 130

Page 136

، انقلاب حقیقی تارک نماز ہوتے ہیں اور ہم میں سے اکثر نمازیں پڑھنے والے ہوتے ہیں لیکن ایک حصہ ہم میں بھی تارک الصلوۃ لوگوں کا ہوتا ہے.پھر وہ تبلیغ نہیں کرتے اور ہم میں سے اکثر تبلیغ کرتے ہیں ، وہ قرآن بہت کم جانتے ہیں اور ہماری جماعت کے لوگ نسبتا زیادہ قرآن جانتے ہیں لیکن شکل وہی ہے طرز وہی ہے چیز وہی ہے پس آسمان کس طرح بدل گیا اور زمین کس طرح بدل گئی؟ بلکہ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ابھی تک ہم پرانے نظام سے نفرت بھی پیدا نہیں کر سکے.ابھی تک ہمارے بعض نوجوان مغربیت کے دلدادہ ہیں، وہ مغربی فیشن کی تقلید میں اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب کو فراموش کئے ہوئے ہیں اور بجائے اس کے کہ ہم دشمن کو مٹا دیتے، اس کی تہذیب کو پارہ پارہ کر دیتے اور اس کے تمدن کی بجائے اسلامی تمدن قائم کر دیتے ، اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہمارے فلاں آدمی کو جو دشمن چھین کر لے گیا ہے، اسے ہم واپس لائیں لیکن ہم جو نہی اسے واپس لاتے ہیں دشمن ہمارے دس آدمی اور چھین کر لے جاتا ہے اور ہماری تمام کوشش اور ہماری تمام سعی پھر اسی کام میں صرف ہو جاتی ہے کہ انہیں دشمن سے واپس لائیں.پس بجائے دشمن کے تمدن کو مٹانے کے اپنے آدمیوں کو چھڑانے میں ہی ہم لگے رہتے ہیں.پس ضرورت ہے کہ ہم اس نہایت ہی اہم امر کی طرف توجہ کریں اور دنیا کے تمدن اور دنیا کی تہذیب کو بدل کر اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب اس کی جگہ قائم کریں.انقلاب حقیقی کے قیام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حصہ ممکن ہے کوئی کہے کہ آپ نے الہامات تو سنا دئیے اور قرآن کریم کی آیات سے بھی استدلال کر لیا مگر کیا آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ الہامات سمجھتے ہیں یا ان سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ اور اگر نہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیوں 131

Page 137

اس کی ابتداء نہ کی؟.انقلاب حقیقی سواس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واضح الہاموں میں اس کی ابتداء رکھ دی گئی ہے اور بار بار آپ نے اپنی تحریرات میں اس کی طرف توجہ دلائی ہے.چنانچہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہونگے.اسی طرح کئی الہامات و مکاشفات کے ذریعہ سے آپ نے اپنے اس منصب کو بیان کیا ہے.پس جب اس کی ابتدا ہو چکی تو ابتدا کیلئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ فورا تکمیل تک پہنچ جائے.مگر میں کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایک حکم کے مطابق جو الہام میں بھی آپ پر نازل ہو ا.آپ نے اس کام کو ترتیب کے ساتھ کرنا شروع کیا تھا مگر آپ کی وفات کے بعد وہ رشتہ ترتیب کا ہمارے ہاتھ سے کھویا گیا یا شاید اللہ تعالیٰ کا منشاء خود اس قدر وقفہ دینے کا تھا اور وہ حکم یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كَزَرْعِ اَخْرَجَ شَطْأَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوْقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًات کہ مسیح موعود کے زمانہ میں انقلاب کے چار دور ہونگے.اوّل آخرج شطان یعنی اصول بیان کئے جائیں گے اور اس وقت ایسی ہی حالت ہوگی جیسے بیج زمین میں سے اپنا سر نکالتا ہے اور وہ حالت نہیں ہوگی جو اسلام کے پہلے دور میں تھی.اور جسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ آئی آمد الله یا اتى الله بُنْيَانَهُم سے بلکہ وہاں ترتیب ہوگی اور تدریجی ترقی ہوگی.پہلے ایمان کا ایک بیج ہو گا جو قلوب کی زمین میں بویا جائے گا، پھر وہ پیج آہستہ آہستہ اُگنا شروع ہوگا اور اُس کی پیج کی شکل نہیں رہے گی بلکہ روئیدگی کی شکل ہو جائے گی ، اس کے بعد ترقی کا دوسرا دور الفتح : ٣٠ التحل: ٢ النحل: ۲۷ 132

Page 138

.انقلاب حقیقی آئے گا جسے خدا تعالیٰ نے ازرہ کے لفظ میں بیان فرمایا ہے کہ اس وقت وہ پودا مضبوط ہو جائے گا اور اجرائے شریعت عملی طور پر کر دیا جائے گا، پھر تیسرا دور اس وقت آئے گا جب استغلظ کی پیشگوئی پوری ہوگی یعنی وہ کمزور پودا موٹا ہو جائے گا اور وہی تحریک جو پہلے معمولی نظر آتی تھی اور دنیا کے تھوڑے حصہ پر حاوی تھی تمام دنیا پر حاوی ہو جائے گی اور لوگ جُوں جُوں احمدی بنتے چلے جائیں گے وہ تعلیم بھی سب عالم میں پھیلتی چلی جائے گی.گویا استغلظ میں انتشار في العالم کی پیشگوئی کی گئی ہے اور پھر چوتھا دور اس وقت آئے گا جب فاستوى على سُوقِہ کا نظارہ نظر آنے لگ جائے گا یعنی اسلامی بادشاہتیں قائم ہو جائیں گی اور وہ تھوڑے سے اسلامی مسائل جو خالص اسلامی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی عملی رنگ میں جاری ہو جائیں گے اور تمام دُنیا کا ایک ہی تمدن ہوگا اور ایک ہی تہذیب یہ فَاسْتَوى عَلى سُوقِہ کے الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ اُس نے عرش پر استوی کیا.پھر فرماتا ہے کہ اسلامی تمدن جو احمدیت کے ذریعہ سے قائم کیا جائے گا اتنا شاندار اور اتنا اعلیٰ ہوگا کہ يُعْجِبُ الزراع دوسری قوموں اور تمدنوں کی آنکھیں کھول دے گا اور وہ حیران ہو ہو کر احمدیت کی کھیتی کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ یہ کھیتی تو بڑی اچھی ہے.یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِین کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم کو عملی رنگ میں جب دنیا میں قائم کر دیا تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کفار نے بھی اپنی مجالس میں کہا کہ ہے تو یہ جھوٹا مگر اس کی تعلیم بڑی اعلیٰ ہے اور ان کے دلوں میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ کاش وہ مسلمان ہوتے.اسی طرح فرماتا ہے جب احمدیت کے ذریعہ سے اسلامی تمدن تمام دُنیا میں قائم کر دیا گیا الحجر: ٣ 133

Page 139

.انقلاب حقیقی اور اسلامی حکومتیں اقطار عالم پر چھا گئیں تو یعجب الزراع دوسرے مذہبوں والے کہیں گے کہ اب اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا.لیغیظ بِهِمُ الْكُفَّار مگر جو عید اور شدید دشمن ہونگے وہ تو اس انقلاب کو دیکھ کر مر ہی جائیں گے اور کہیں گے کہ اب ہم سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا.پہلے جن لوگوں کا ذکر تھا وہ ایسے ہیں جن کی فطرت صحیحہ زندہ ہوگی.وہ اس نظام کی برتری اور فوقیت کا اقرار کریں گے اور کہیں گے کہ کاش ہمیں بھی ایسے نظام میں شامل ہونے کا موقع ملتا.مگر جو شدید دشمن ہونگے وہ ہاتھ کاٹنے لگیں گے اور کہیں گے کہ اب ہماری فتح کی کوئی صورت نہیں.پس مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں پہلا دور تھا کہ پنیری نکل رہی تھی مگر اب وقت آگیا ہے کہ دوسرا دور شروع ہوتا کہ اُن لوگوں کی موجودگی میں جنہوں نے نور نبوت سے براہ راست حصہ لیا ہے یہ کام مکمل ہو جائے.اگر یہ کام آج نہ ہوا تو پھر کبھی بھی نہیں ہو سکے گا.تحریک جدید کا مقصد میں نے تحریک جدید کے پہلے دور میں اس کی طرف قدم اٹھایا تھا اور دوسرے دور کی بعض باتوں کو میں التواء میں ڈالتا گیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ تم اپنے دلوں میں سوچو کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ عقائد کے میدان میں تو ہم نے دشمن کو شکست دی مگر عمل کے میدان میں ہم ابھی اسے شکست نہیں دے سکے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے اپنے دلوں میں اس بات پر غور کیا ہوگا مگر میرے دل کی نیت اس وقت یہی تھی کہ میں تحریک جدید کے دوسرے دور کی بعض باتوں کو جلسہ سالانہ پر بیان کروں گا جب جماعت کا ایک حصہ میرےسامنے موجود ہوگا اور میں اُس سے دریافت کروں گا کہ آیا وہ ان باتوں پر عمل کرنے کیلئے تیار ہے یا نہیں؟ 134

Page 140

انقلاب حقیقی سو آج میں اس کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے الْإِيْمَانُ بِضُرٍّ وَسَبْعُونَ شُعْبَةً أَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلهُ إِلَّا اللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ کہ اے مسلمانو! تم بعض دفعہ لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ پڑھ کر کہہ دیتے ہو کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ ہم مومن ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ہم مسلمان ہیں مگر فر مایا یہ غلط بالکل غلط اور قطعاً غلط ہے.اوّل تو صرف لفظ لا اله الا اللہ کہنا کوئی چیز نہیں.اور اگر ہو بھی تو یا درکھو کہ الْإِيْمَانُ بِضْعُ وَسَبْعُونَ شُعْبَةٌ - ایمان کے ستر سے زیادہ حصے ہیں جن پر عمل کرنا تمہارے لئے ضروری ہے.یہاں بِضْعٌ وَسَبْعُونَ سے مراد کثرت ہے اور یہ عربی کا محاورہ ہے اردو میں بھی جب کسی کو یہ کہنا ہو کہ میں نے تجھے بارہا یہ بات کہی ہے تو کہتے ہیں میں نے تجھے سو دفعہ یہ کہا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ سو دفعہ کہا ہے بلکہ مطلب کثرت کا اظہار ہوتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان کے ستر سے بھی زیادہ محکمے اور ڈیپارٹمنٹ ہیں.یعنی بہت سے اس کے شعبے ہیں.أَفْضَلُهَا قَولُ لَا إِلهَ إِلَّا الله - ان سب میں افضل بات لا إِلهَ إِلَّا اللہ کہنا ہے.مگر اس کے بعد اور پھر اور پھر اور اور پھر اور شعبہ ہائے ایمان چلتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک ادنی بات شعبہ ہائے ایمان میں یہ بھی داخل ہے کہ اِمَاطَةُ الأذى عَنِ الطَّرِيقِ رستے میں کانٹے پڑے ہوں تو انہیں الگ کر دیا جائے ، کنکر پتھر ہوں تو انہیں ہٹا دیا جائے ، اسی طرح جو بھی تکلیف دینے والی چیز ہوا سے دور کر دیا جائے.گویا جس کو لوگ ایمان کہتے ہیں اور جس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ سینکڑوں اعمال ہیں جن کے مجموعہ کا نام ایمان ہے اور جب تک ان اعمال کی چاروں دیواریں مکمل نہ کی جائیں ایمان کی عمارت پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی.ان اعمال میں سے مسلم کتاب الایمان باب بیان عدد شعب الایمان (الخ) 135

Page 141

.انقلاب حقیقی ادنیٰ سے ادنیٰ اور معمولی سے معمولی عمل یہ ہے کہ اِماطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ.یعنی راستہ کو صاف کیا جائے اور گندی اور تکلیف دہ اشیاء کو ہٹا دیا جائے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اسلام کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ تو حید پر ایمان لا نا، قضاء وقد ر پر ایمان لانا، انبیاء پر ایمان لانا، بعث بعد الموت پر ایمان لانا، جنت پر ایمان لانا، دوزخ پر ایمان لانا، قبولیت دعا پر ایمان لانا، تمام صفات الہیہ پر ایمان لانا.پھر نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، حج کرنا، زکوۃ دینا،صدقہ و خیرات دینا تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم دینا، والدین کی خدمت کرنا، بنی نوع انسان کی بہبودی کے لئے جسمانی خدمات بجالا نا، غیرت دکھانا، شکر کرنا حسنِ ظنی سے کام لینا، بہادر بنا، بلند ہمت ہونا،صبر کرنا، رحم دل ہونا، وقار کا خیال رکھنا، جفاکش ہونا ، سادہ زندگی بسر کرنا، میانہ روی اختیار کرنا، عدل کرنا ، احسان کرنا ہی بننا، وفاداری دکھلانا، ایثار اور قربانی کی روح پیدا کرنا، معاف کرنا، دوسروں کا ادب کرنا ، لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا، حکام کی اطاعت کرنا ، تربیت کرنا، دشمنانِ قوم سے اجتناب کرنا، محبت الہی پیدا کرنا، تو کل کرنا تبلیغ کرنا، جھوٹ نہ بولنا، چغل خوری نہ کرنا، گالیاں نہ دینا، دھوکا بازی نہ کرنا، خیانت نہ کرنا ظلم نہ کرنا، فسادنہ کرنا، چوری نہ کرنا، بہتان نہ لگانا، تحقیر نہ کرنا، استہزاء نہ کرنا، بریکار نہ رہنا،سستی نہ کرنا، محنت اور عقل سے کام کرنا ، یہ اور اسی قسم کی ہزاروں باتیں ایمان کا حصہ ہیں یہاں تک کہ چھوٹے سے چھوٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ راہ چلتے ہوئے اگر کوئی پتھر دکھائی دے تو اسے راستہ سے اُٹھا کر الگ پھینک دو کوئی کنکر ہو تو اسے ہٹا دو.پس یہ مت خیال کرو کہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہہ کر یا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہ کریا امَنَّا بِالْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ کہہ کر یا نماز پڑھ کر یا روزہ رکھ کر تم مومن ہو جاتے ہو اور تم کو ایمان مل جاتا ہے.ایمان نام ہے اسلام کے اعتقادات، مسائل، عبادات، تمدن، اقتصاد، قضا، سیاست، اخلاق اور معاشرت کو اپنے نفس اور دنیا میں جاری 136

Page 142

انقلاب حقیقی کرنے کا جس کا اعلیٰ حصہ لا الہ الا اللہ ہے اور ادنیٰ حصہ راستہ پر سے کانٹے ہٹانے کا ہے.جس نے اس کے لئے کوشش نہ کی نہ وہ مؤمن ہوا اور نہ اس نے اسلام کے دین کو قائم کرنے کے لئے کوشش کی.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِن وَرَائِهِ کہ امام ڈھال کے طور پر ہوتا ہے اور تمہیں اس کے پیچھے ہو کر دشمن سے لڑائی کرنی چاہئے.پس جب تک میں نے اعلان نہیں کیا تھا، لوگ بڑی حد تک آزاد سمجھے جا سکتے تھے لیکن اب وہی شخص جماعت کا فرد کہلا سکتا ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ امام کے پیچھے ہو کر اسلام کے لئے جنگ کرنے کے واسطے تیار ہو جائے.جماعت احمدیہ کی ذمہ داری پس میں اعلان کرتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہماری جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور احیائے سنت و شریعت کے لئے سرگرم عمل ہو جائے.جب تک میں نے اعلان نہ کیا تھا، لوگوں کے لئے کوئی گناہ نہیں تھا مگر اب جبکہ امام اعلان کرتا ہے کہ احیائے سنت و شریعت کا وقت آ گیا ہے کسی کو پیچھے رہنا جائز نہیں ہوگا اور اگر اب سستی ہوئی تو کبھی بھی کچھ نہ ہو گا.آج گوصحابہ کی تعداد ہم میں قلیل رہ گئی ہے مگر پھر بھی یہ کام صحابہ کی زندگی میں ہی ہوسکتا ہے اور اگر صحابہ ندر ہے تو پھر یاد رکھو یہ کام کبھی نہیں ہوگا.بخاری كتاب الجهاد باب يقاتل مِن وَرَاءِ الْإِمَام ويتقى به 137

Page 143

.انقلاب حقیقی (۱) اخلاق حسنہ تمدن کے متعلق اسلامی تعلیم دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.(۱) الخُلُقُ وِعَاءُ الدین کہ خلق دین کا برتن ہے.اب تم خودہی سمجھ لو بھی برتن کے بغیر بھی دودھ رہا ہے؟ یہ تو ہوسکتا ہے کہ برتن ہومگر دودھ نہ ہو لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ دودھ بغیر برتن کے باقی رہے.پس اخلاق حسنہ دین کا برتن ہیں.اگر کسی کے پاس یہ برتن نہیں اور وہ کہتا ہے کہ میرے پاس ایمان کا دودھ ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں (٢) إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ " کہ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں تا اخلاقِ فاضلہ کو کامل کر کے قائم کروں.(۲) معاملات پھر معاملات کے متعلق فرماتے ہیں.اَشُرَفَ الْإِيمَانِ أَنْ يَّامَنَكَ النَّاسُ وَ أَشْرَفُ الْإِسْلَامِ أَنْ يَّسْلَمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِكَ وَيَدِکَ ۳ے کہ اعلیٰ درجہ کا ایمان یہ ہے کہ لوگ تیرے ہاتھ سے امن میں رہیں اور کسی کو تجھ سے دکھ نہ پہنچے اور اعلیٰ درجہ کا اسلام یہ ہے کہ لوگ تجھ سے محفوظ رہیں یعنی تو نہ زبان سے ان سے لڑے اور نہ ہاتھ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچائے.کنز العمال جلد ۳ صفحه ۵ مطبوعه حلب ۱۹۷۰ء کنز العمال جلد ۳ صفحه ۱۸ مطبوعه حلب ۱۹۷۰ء الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاوّل صفحه ۳۶ مطبوعه مصر ١٣٢١هـ 138

Page 144

۳.خدمت قومی.انقلاب حقیقی خدمت قومی کے متعلق فرماتے ہیں اِنَّ صَبَرَ أَحَدِكُمْ سَاعَةً فِي بَعْضِ مَوَاطِنِ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ لَّهُ مِنْ أَنْ يَعْبُدَ اللَّهَ ارْبَعِينَ يَوْمًا کہ اگر اسلام کی خدمت میں کوئی شخص تم میں سے ایک گھنٹہ خرچ کرتا ہے جس کا اسے کوئی ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا تو وہ چالیس دن کی عبادت سے زیادہ ثواب حاصل کرتا ہے.۴.رزق حلال رزق حلال کے متعلق فرماتے ہیں اَلْعِبَادَةُ عَشَرَةُ أَجْزَاء تِسْعَةٌ مِّنْهَا فِي طَلَبِ الْحَلَالِ کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے دس حصے ہیں.ایک حصہ عبادت کا تو نماز ، روزہ، حج اور زکوۃ ہے مگر عبادت کے نو حصے رزق حلال کھانا ہے.گویا اگر تم نمازیں بھی پڑھتے ہو، روزے بھی رکھتے ہو، حج بھی کرتے ہو، زکوۃ بھی دیتے ہو لیکن اپنی تجارت میں دھوکا بازی کرتے ہو، تو تم ایک حصہ دودھ میں نو حصے ناپا کی ملادیتے ہو اور اپنی تمام عبادت کو ضائع کر لیتے ہو.یا اگر تم کسی کو ایک پیسہ کی چیز دینے لگتے ہو اور تکڑی کا پلڑا ذرا ساجھکا دیتے ہو تو تم اس ذراسی بے احتیاطی یا ذراسی چالا کی اور ہوشیاری سے اپنے حلال مال میں نو (۹) حصے گندگی کے ملا دیتے ہو اور اپنی ساری عمر کی عبادتوں کو ضائع کر لیتے ہو کیونکہ نماز، روزہ کے احکام بجالا کر صرف دسواں حصہ حق کا ادا ہوتا ہے، باقی نو (۹) حصے اللہ تعالیٰ کے حق کے رزق حلال کما کر ادا ہوتے ہیں.۵.پستی اور محنت چستی اور محنت سے کام کرنے کے متعلق فرماتے ہیں اعْمَلُ عَمَلَ امْرِئُ 139

Page 145

انقلاب حقیقی يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَمُوتَ اَبَدًا وَاحْذَرُ حَذْرَامُرِيءٍ يَخْشَى أَنْ يَمُوتَ غَدًا كه جب تم دنیا کے کام کرو تو یاد رکھو اسلامی تعلیم اُس وقت یہ ہے کہ ایسی محنت اور ایسی چستی سے کرو گویا تم نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور کبھی مرناہی نہیں.ہ نہ ہو کہ تم کہو کیا کام کرنا ہے مرتو جانا ہی ہے یا کیوں خواہ مخواہ محنت کریں انجام تو فنا ہی ہے.فرماتا ہے دُنیا کے کام اس طرح نہیں بلکہ اس طرح کرو کہ گویا تمہیں موت کا خیال تک نہیں وَاحْذَرُ حَذْرَامُرِيُّ يَخْشَى أَنْ يَّمُوتَ غَدًا لیکن دین کے معاملہ میں اس طرح ڈرتے ڈرتے کام کرو گویا تم نے کل ہی مر جانا ہے.یہ دو مقام ہیں جو تمہیں حاصل ہونے چاہئیں.یعنی ایک طرف تم میں اتنی پستی اور اتنی پھر تی ہو کہ گویا تم نے کبھی مرنا ہی نہیں اور دوسری طرف اتنی خشیت ہو کہ گویا تم نے جینا ہی نہیں.۶.بنی نوع انسان کی خیر خواہی بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے متعلق فرماتے ہیں عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ فَإِن لَّمْ يَجِدْ فَلْيَعْمَلُ بِيَدِهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ " کہ ہر مسلمان پر صدقہ واجب ہے اور اگر کوئی کہے کہ میں تو غریب ہوں میں کہاں سے چندہ دوں.جیسے بعض لوگوں سے جب چندہ مانگا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم سے کیا چندہ لینا ہے ہمیں تو تم چندہ دو کیونکہ ہم غریب ہیں.تو فرمایا فلیعمل بیدہ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ قومی کام اپنے ہاتھ سے کرے کیونکہ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ بھی نہیں ہیں.وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہے کہ میرے پاس روپے نہیں تو فرمایا اچھا اگر روپے نہیں تو اپنے ہاتھ سے کام کرو.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ صرف مالداروں پر ہی فرض نہیں کیا بلکہ غرباء کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے اور الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاوّل صفحه ۴۱ مطبوعه مصر ۱۳۲۱هـ الجامع الصغير للسیوطی جلد ۲ صفحه ۵۲ مطبوعه مصر ۱۳۲۱هـ 140

Page 146

انقلاب حقیقی فرمایا ہے کہ صدقہ دینا ہر انسان کا کام ہے جو مال دے سکتا ہے وہ مال دے اور جو مال نہیں دے سکتا وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے.اسی لئے تحریک جدید میں میں نے بتایا ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرو اور اگر کوئی ہاتھ بھی نہیں ہلا سکتا تو صرف دعا کرتا رہے کیونکہ اس صورت میں یہی اس کا کام سمجھا جائے گا.ے.صفائی صاف رہنے کے متعلق فرماتے ہیں النظافة من الایمان کہ صفائی رکھنا ایمان کا جزو ہے.پھر فرماتے ہیں.اَخْرِجُوا مِندِيلَ الْغَمَرِ مِنْ بُيُوتِكُمُ فَإِنَّهُ مَبِيْتُ الْخَبِيثِ وَ مَجْلِسُه له که وه دستر خوان جس کو چکنائی لگ گئی ہوا سے اپنے گھروں سے نکال کر باہر پھینک دو کیونکہ وہ خبیث چیز ہے اور گندگی کا مقام ہے یعنی اس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں، کیڑے آتے ہیں اور بیماریاں ترقی پکڑتی ہیں.مگر تعجب ہے کہ آج کل لوگ نیکی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کپڑے کو اس وقت تک نہ دھویا جائے جب تک کہ وہ پھٹ نہ جائے.صداقت صداقت کے متعلق فرماتے ہیں اِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ لَا يَصْلُحُ فِي الْجِدِ وَلَا بِالْهَزْلِ وَلَا يَعِدِ الرَّجُلُ صَبِيَّةَ ثُمَّ لَا يَفِی لَهُ " کہ اے لوگو تم جھوٹ سے بچو اور یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ جھوٹ نہ بنسی میں جائز ہے نہ سنجیدگی میں.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولا محض ہنسی کی ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاوّل صفحه ۱ ۱ مطبوعه مصر ۱۳۲۱هـ مقدمه ابن ماجه باب اجتناب الْبَدْعِ وَالجدل 141

Page 147

انقلاب حقیقی بھی جھوٹ قرار دیتے ہیں بلکہ آپ اس سے بھی زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ہدایت دیتے اور فرماتے ہیں.لا يَعِدِ الرَّجُلُ صَبِيَّهُ ثُمَّ لَا يَفِی لَہ کہ تم اپنے بچوں سے بھی جھوٹا وعدہ نہ کرو.تم بعض دفعہ بچے سے جب وہ رو رہا ہو کہتے ہو ہم تجھے ابھی مٹھائی منگا دیں گے پھر جب وہ چپ ہو جاتا ہے تو تم اُسے کوئی مٹھائی منگا کر نہیں دیتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایسا بھی مت کرو کیونکہ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں.۹- گسب پھر کما کر گزارہ کرنا بھی اسلام کا جزو ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ صحابہ آئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایک شخص رات دن عبادت میں لگا ہو اہے، فرمائیے وہ سب سے اچھا ہو ایا نہیں؟ انبیاء کا بھی کیسا لطیف جواب ہوتا ہے.آپ نے فرمایا جب وہ رات دن عبادت میں لگارہتا ہے تو کھا تا کہاں سے ہے.انہوں نے عرض کیا لوگ دیتے ہیں.آپ نے فرمایا تو پھر جتنے اُسے کھانے پینے کیلئے دیتے ہیں وہ سب اس سے بہتر ہیں.اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے کہ پاس سے ایک نوجوان گزرا جو نہایت لمبا مضبوط اور قوی الجثہ تھا اور بڑی تیزی سے اپنے کسی کام کیلئے دوڑتا ہو اجا رہا تھا.بعض صحابہ نے اسے دیکھ کر تحقیر کے طور پر کوئی ایسا لفظ کہا جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جا تیرا بُر اہو اور کہا کہ اگر اس کی جوانی اللہ کے رستہ میں کام آتی تو کیسا اچھا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا.یہ کہنے کا کیا مطلب ہوا کہ تیرا بُر ا ہو جو شخص اس لئے تیزی سے کوئی کام کرتا ہے کہ اس سے اپنی بیوی کو 142

Page 148

انقلاب حقیقی فائدہ پہنچائے ، تو وہ خدا کی ہی راہ میں کام کر رہا ہے اور جو شخص اس لئے دوڑتا اور پھر تی سے کام کرتا ہے کہ اپنے بچوں کے کھلانے پلانے کا بندو بست کرے، تو وہ خدا ہی کی راہ میں کام کر رہا ہے.ہاں جو شخص اس لئے دوڑتا ہے کہ لوگ اُس کی تعریف کریں اور اُس کی طاقتوں کی داد دیں، تو وہ شیطان کی راہ میں کام کرتا ہے مگر حلال روزی کے لئے کوشش کرنا اور کما کر گزارہ کرنا تو سبیل اللہ میں شامل ہے.۱۰.جائداد کی حفاظت کا حکم اسی طرح اسلام نے جائدادوں کی حفاظت کے متعلق خاص طور پر احکام دیئے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی جائدا در بیچ کرکھا جاتا ہے تو وہ کسی کام کا نہیں اور وہ اس قابل ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو برکت دے.یہ میں نے اسلامی احکام میں سے صرف چند باتیں پیش کی ہیں.ورنہ اسلام کے احکام سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور ان تمام امور کے جاری کرنے کو سیاست کہتے ہیں اور یہ سیاست اسلام کا ضروری جزو ہے.تمدن اسلامی کے قیام کے ذرائع مگر یہ فرض ادا نہیں ہو سکتا جب تک مندرجہ ذیل طریقے اختیار نہ کئے جائیں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ: ا.خیالات میں تبدیلی اول جماعت کے خیالات کو بدلا جائے اور اُسے بتلایا جائے کہ مؤمن ہونے اور 143

Page 149

انقلاب حقیقی احمدی ہونے کے یہ معنی نہیں کہ تم نے لا اله الا اللہ کہا اور چھٹی ہوئی.یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور معاملہ ختم ہو گیا بلکہ ایمان کی کمیل کیلئے سینکڑوں باتوں کی ضرورت ہے جو تمدن، معاشرت،اقتصاد اور سیاست و غیره سے تعلق رکھتی ہیں.جب تک وہ تمام کڑیاں مضبوط نہ ہوں کوئی شخص حقیقی معنوں میں سومن نہیں کہلا سکتا اور یہ علماء کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے خیالات کو بدلیں اور ان کو بتائیں کہ ان کے سامنے کتنا اہم کام ہے.مگر ہمارے علماء کی یہ حالت ہے کہ وہ باہر جاتے ہیں تو صرف وفات مسیح اور ختم نبوت پر لیکچر دے کر آ جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرض کو ادا کر دیا.گویا ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو ایک محل بنانے کیلئے نکلے مگر ایک اینٹ گھڑ کر واپس آ جائے اور سمجھ لے کہ اُس کا کام ختم ہو گیا.پس یہ علماء کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ انہیں احیائے سنت اور احیائے شریعت کیلئے ایک موت قبول کرنی پڑے گی اور اس کے لئے انہیں چاہئے کہ وہ تیار ہو جائیں.۲.کامل اطاعت دوسرے اس کام کیلئے جماعت کے دلوں میں یہ عزم پیدا کرنا ضروری ہے کہ ہم پوری اطاعت کریں گے خواہ ہمیں کتنا ہی نقصان برداشت کرنا پڑے کیونکہ یہ چیزیں نظام ے تعلق رکھتی ہیں اور اگر ایک بھی اس نظام سے نکل جائے تو تمام کام درہم برہم ہو جاتا ہے.مثلاً ہماری شریعت ایک حکم یہ دیتی ہے کہ فلاں فلاں سٹینڈرڈ (STANDARD) کی اگر کوئی چیز ہو تو فروخت کی جائے ، ناقص اور ادنی مال فروخت نہ کیا جائے.اب اگر ہم اس حکم کی دُکانداروں سے تعمیل کرائیں اور جو اس حکم کو نہ مانے ، اس کے متعلق ہم یہ حکم دے دیں کہ جماعت اس سے سودا نہ خریدے تو ایسی حالت میں اگر بعض لوگ ایسے کھڑے ہو 144

Page 150

.انقلاب حقیقی جائیں جو کہیں کہ یہ لوگوں کا رزق ماررہے ہیں، تو اسلام کا یہ حکم دنیا میں کس طرح قائم ہو سکتا ہے اور اگر ہم اس طرح ایک ایک کر کے لوگوں کو احکام کی اطاعت سے آزاد کرتے جائیں تو ہماری مثال اسی شخص کی سی ہوگی جس کی نسبت کہتے ہیں کہ کسی سے شیر کی تصویر بدن پر گدوانے گیا تھا.جب وہ شیر گود نے لگا اور اس نے سوئی جسم میں داخل کی اور اسے درد ہوئی تو پوچھنے لگا کہ کیا گودنے لگے ہو؟ گودنے والے نے جواب دیا شیر کا دایاں کان.اس پر اس نے پوچھا کہ اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو کیا شیر شیر رہتا ہے یا نہیں؟ گودنے والے نے کہا کہ رہتا تو ہے.تو اس نے کہا کہ اچھا پھر اسے چھوڑ و آگے چلو.پھر اس نے دوسرا کان گود نا چاہا تو اس پر بھی اسی طرح گفتگو کی اور اسی طرح ہر عضو پر کرتا گیا.آخر گودنے والا کام چھوڑ کر بیٹھ گیا اور اس شخص نے حیرانی سے پوچھا کہ اپنا کام کیوں چھوڑ بیٹھے ہو؟ تو گودنے والے نے کہا اس لئے کہ اب شیر کا کچھ بھی باقی نہیں رہا.اسی طرح اگر ہم بھی دیکھیں کہ لوگ اسلامی احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور انہیں چھوڑتے جائیں تو اسلام کا اور جماعت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پس ہمارا فرض ہے کہ جولوگ نصیحت سے اپنی اصلاح کرتے ہیں ان کی نصیحت سے اصلاح کریں اور جو لوگ نصیحت سے اصلاح نہیں کرتے انہیں مجبور کریں کہ یاوہ اپنے وجود سے احمدیت کو بدنام نہ کریں یا پھر تو بہ کر کے باقی جماعت کے ساتھ شامل ہو جائیں اور اس کام میں جماعت کو کامل تعاون کرنا چاہئے اور چاہئے کہ جماعت اس بارہ میں پوری اطاعت کرنے کے لئے تیار ہو جائے.خواہ انہیں اپنا باپ چھوڑنا پڑے یا بیوی چھوڑنی پڑے یا بیٹا چھوڑنا پڑے یا بھائی چھوڑ نا پڑے.۳.کتب تیسرے اس مقصد کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایسی کتب لکھی جائیں جن 145

Page 151

.انقلاب حقیقی میں اسلام کی اصولی تعلیم یا اصولی تعلیم کی روشنی میں احکام ہوں.۴.جائز جبر چوتھے اس امر کی ضرورت ہے کہ شریعت کے اجراء میں جائز جبر جسے سیاست کہتے ہیں، اس سے کام لیا جائے اور اس امر کا کوئی خیال نہ کیا جائے کہ کسی کو ٹھوکر لگتی ہے یا کوئی ابتلاء میں آتا ہے.سیاست کے معنی در حقیقت یہی ہیں کہ اجرائے شریعت کے باب میں جہاں ضرورت ہو اور جس حد تک اجازت ہو جبر سے کام لیا جائے اور علمائے اسلام نے اس پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جبر سے ماننے والوں کو جبر سے اسلامی احکام پر چلانے کا نام ہی سیاست ہے اور ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس جبر سے کام لیں.جب ایک شخص ہمارے پاس آتا ہماری بیعت کرتا اور اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دیتا ہے تو لازم ہمارا حق ہے کہ اگر وہ کسی حکم پر چلنے میں سستی اور غفلت سے کام لے تو اس پر جبر کریں اور اسے اس بات پر مجبور کریں کہ وہ اسلامی طریق عمل کو اختیار کرے کیونکہ وہ ہمارا ایک حصہ بنا ہو ا ہے اور اس کی بدنامی سے ہماری بدنامی ہے اور اس کی کمزوری سے ہمارے اندر کمزوری پیدا ہوتی ہے.ایسا جبر ہرگز ناجائز نہیں کیونکہ اس شخص نے اپنی مرضی سے ہم میں شامل ہو کر ہمیں اس جبر کا حق دیا ہے.جس طرح کہ بورڈنگ میں داخل ہو کر ایک طالب علم اساتذہ کو خود اپنے پر جبر کا حق دیتا ہے اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا.ہاں جو اسے نا پسند کرتا ہو وہ پورا آزاد ہے کہ اپنے آپ کو جماعت سے الگ کر لے.شریعت کے احیاء کے دوحصے اب میں یہ بتاتا ہوں کہ عملی قدم اٹھانے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شریعت کے 146

Page 152

.انقلاب حقیقی احیاء کے دو بڑے حصے ہیں.ایک وہ جس کا تعلق حکومت سے ہے اور ایک وہ جس کا تعلق نظام سے ہے.جو امور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے اسلام کا یہ حکم ہے کہ چور کا ہاتھ کا ٹوٹ یا اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ قاتل کو ضروری نہیں کہ قتل ہی کیا جائے بلکہ وارثوں کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو اسے قتل کی سزا دلائیں اور چاہیں تو معاف کر دیں کے مگر یہ اسلامی حکم چونکہ حکومت سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے ہم انہیں ابھی جاری نہیں کر سکتے.پھر اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ جو شخص قاتل ہوا سے مقتول کے وارثوں کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ حکام کی زیر نگرانی چاہیں تو خود اسے قتل کریں لیکن اب گورنمنٹ قاتلوں کو خود پھانسی دیتی ہے اور وارثوں کے سپرد نہیں کرتی.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وارثوں کے دل میں پھر بھی کینہ اور بغض رہتا ہے اور وہ کسی اور موقع پر قاتل کے رشتہ داروں سے انتقام لینے کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن اگر اسلامی حکومت ہو تو گورنمنٹ کے افسروں کی موجودگی میں قاتل کو قتل کرنے کے لئے پہلا موقع مقتول کے رشتہ داروں کو دیا جائے گا.ہاں اس بات کا لحاظ ضروری رکھ لیا جائے گا کہ فلا يُشرف في القتل سے قتل تو بیشک کرے مگر ظالمانہ رنگ میں قتل نہ کرے بلکہ قتل کے لئے جو قانون مقرر ہے اور جو طریق حکومت کا مجوزہ ہے اس کے مطابق قتل کرے اور اگر وہ کمزور دل والا ہو اور اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی ط وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (المائدة: ٣٩) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِى الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ بالأنثى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٍ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانِ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (البقرة: ۱۷۹) بنی اسرائیل : ۳۴ 147

Page 153

انقلاب حقیقی محجرات نہ کرسکتا ہو تو گورنمنٹ کو کہہ سکتا ہے کہ میں قتل نہیں کرتا تم خود اسے قتل کروا دو.اس طرح وہ بغض دور ہو جاتا ہے جو حکومت انگریزی کے فیصلوں کے باوجودلوگوں کے دلوں میں باقی رہ جاتا ہے اور آئندہ بہت سے فتنے پیدا کرنے کا موجب ہو جاتا ہے.پھر بعض دفعہ قاتل کو معاف کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے اور یہ صورت بھی مقتول کے رشتہ داروں کے اختیار میں ہوتی ہے لیکن بہر حال ان امور میں حکومت ہی دخل دے سکتی ہے عام لوگ دخل نہیں دے سکتے.مگر شریعت کے بعض حصے ایسے ہیں کہ باوجود ان کے سیاسی اور نظام کے ساتھ متعلق ہونے کے گورنمنٹ ان میں دخل نہیں دیتی.جیسے قادیان میں قضاء کا محکمہ ہے حکومت اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتی کیونکہ اس نے خود اجازت دی ہوئی ہے کہ ایسے مقدمات کا جو قابلِ دست اندازی پولیس نہ ہوں آپس میں تصفیہ کر لیا جائے.پس اسلامی شریعت کا وہ حصہ جس میں حکومت دخل نہیں دیتی اور جس کے متعلق حکومت نے ہمیں آزادی دی ہوئی ہے کہ ہم اس میں جس رنگ میں چاہیں فیصلہ کریں، ہمارا فرض ہے کہ اس حصہ کو ملی رنگ میں اپنی جماعت میں قائم کریں اور اگر ہم شریعت کے کسی حصہ کو قائم کر سکتے ہوں مگر قائم نہ کریں تو یقینا اس کے ایک ہی معنے ہوں گے اور وہ یہ کہ ہم شریعت کی بے حرمتی کرتے ہیں.پس اب اس نہایت ہی اہم اور ضروری مقصد کے لئے ہمیں عملی قدم اٹھانا چاہئے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے اختیار میں رکھا ہو ا ہے اور جماعت کے کسی فرد کی کمزوری یا ٹھوکر کا کوئی لحاظ نہیں کرنا چاہئے.اصلاح اعمال کا پہلا قدم عورتوں کو ورثہ دینا اس سلسلہ میں پہلا قدم ان امور کی اصلاح ہے جو ظاہر و باہر ہیں.آج میں ان میں سے ایک امر آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.اس کو اگر ہم اختیار کر لیں تو 148

Page 154

.انقلاب حقیقی یقیناً ہمارے راستہ میں کوئی روک نہیں.صرف لوگوں کی بے دینی ، ناواقفی اور سستی اس راہ میں حائل ہے.یعنی کسی کے لئے سستی کسی کے لئے ناواقفی اور کسی کے لئے بے دینی اس مسئلہ پر عمل کرنے میں روک بنی ہوئی ہے.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ آج ہی ہماری ساری جماعت یہ فیصلہ نہ کر لے کہ کل اس میں وہ بدی نہیں ہوگی.وہ ایک قومی گناہ ہے جس کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں زمینداروں میں بالعموم ورثہ کے مسئلہ پر عمل نہیں کیا جاتا.آج پچاس سال جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے گزر گئے ہیں مگر ابھی تک ہماری جماعت میں لڑکیوں کو اپنی جائدادوں میں سے وہ حصہ نہیں دیا جاتا جو خدا اور رسول نے ان کے لئے مقرر کیا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ کہیں بھی اس پر عمل نہیں ہوتا خود ہم نے اپنی والدہ اور بہنوں کو ان کا حصہ دیا ہے اور جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے اپنی بہنوں کو حصہ نہیں دیا.لیکن جماعت میں کثرت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس حکم پر عمل نہیں کرتے اور اپنی لڑکیوں، اپنی بہنوں، اپنی بیویوں اور اپنی ماؤں کو ورثہ میں وہ حصہ نہیں دیتے جو شریعت نے ان کے لئے مقرر کیا ہے.مگر میں پوچھتا ہوں اس مسئلہ پر عمل کرنے میں کیا روک ہے؟ سوائے اس کے کہ تم یہ کہو کہ ہمارے ہاں رواج نہیں.اس کا اور کوئی جواب تم نہیں دے سکتے مگر کیا پچھلے تمام مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے رہے اور کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ آج یو پی کا ہر غیر احمدی تو اس پر عمل کرتا ہے اسی طرح صوبہ سرحد میں مسلمانوں نے اپنی مرضی سے ایسا قانون بنوایا ہے جس پر چل کر ہر شخص شریعت کے مطابق اپنی جائداد تقسیم کرنے کے لئے مجبور ہے مگر وہ احمدی جس کا یہ دعوی ہے کہ وہ اس زمین کو بدل کر ایک نئی زمین بنائے گا اور اس آسمان کو بدل کر ایک نیا آسمان بنائے گا وہ اپنی بیٹیوں، اپنی بہنوں ، اپنی بیویوں اور اپنی ماؤں کو وہ حصہ نہیں دیتا جو شرعاً انہیں ملنا چاہئے.میں سمجھتا ہوں زمینداروں کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اس طرح ہماری پیدا کردہ جائداد دوسرے لوگوں کے قبضہ 149

Page 155

انقلاب حقیقی میں چلی جائے گی لیکن جب ساری جماعت اس مسئلہ پر عمل کرے گی تو یہ مشکل بھی جاتی رہے گی کیونکہ اس کی جائداد دوسرے کے قبضہ میں جائے گی تو دوسرے کی جائداد اس کے قبضہ میں بھی تو آئے گی.پس اس مسئلہ پر عمل کرنے میں کوئی حقیقی روک نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں اب وقت آ گیا ہے کہ ہر مخلص اقرار کرے کہ آئندہ وہ اس کی پابندی کرے گا اور اپنی بیٹی اپنی بہن اپنی بیوی اور اپنی ماں کو وہ حصہ دے گا جو شریعت نے انہیں دیا ہے اور اگر وہ اس کی پابندی کرنے کے لئے تیار نہیں تو وہ ہم سے الگ ہو جائے.پس آئندہ پورے طور پر اپنی اپنی جماعتوں میں اس کی پابندی کرائی جائے اور جو لوگ اس مسئلہ پر عمل نہ کریں ان کے متعلق غور کیا جائے کہ ان کے لئے کیا تعزیر مقرر کی جاسکتی ہے اور اگر کوئی ہماری تعزیر کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوتو ایسے شخص کو جماعت سے نکال دیا جائے تا آئندہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ تمہارے ہاں شریعت کی ہتک ہوتی ہے.جماعت احمدیہ سے مطالبہ اب اس مسئلہ کی اہمیت سمجھانے کے بعد اور یہ ثابت کر دینے کے بعد کہ نئی زمین اور نیا آسمان اسی طرح بنایا جا سکتا ہے جب احیائے سنت اور احیائے شریعت کیا جائے.میں آج وہ بات کہتا ہوں جو پہلے کبھی نہیں کہی اور میں جماعت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ میں سے جو لوگ اس مسئلہ پر آئندہ عمل کرنے کے لئے تیار ہوں وہ کھڑے ہو جائیں (اس پر تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر لَبَّيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَبَّیک کہتے ہوئے اس کا اقرار کیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا ) دیکھو آج تم میں سے ہر شخص نے یہ اقرار کیا ہے کہ وہ دکھوں اور تکالیف کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے احیاء کے لئے طوعاً، بغیر کسی جبر اور اکراہ کے اس امر کے لئے 150

Page 156

.انقلاب حقیقی تیار ہے کہ وہ اپنی جائداد سے اپنی لڑکیوں اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو وہ حصہ دے گا جو خدا اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے.پس اس وقت چونکہ بحیثیت جماعت آپ لوگوں نے عمل کا اقرار کیا ہے اس لئے یا درکھیں کہ آئندہ اگر کوئی شخص اس پر عمل نہیں کرے گا تو اس سے قطع تعلق کا حکم دیا جائے گا یا کوئی اور سزادی جائے گی جو ہمارے امکان میں ہے اور اگر وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو ا تو اسے جماعت سے الگ کر دیا جائے گا.۲.عورتوں کے حقوق دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ گواتنی عام تو نہیں مگر چونکہ شریعت کا حکم ہے اس لئے میں کہتا ہوں کہ عورتوں کے حقوق کا ہمیشہ خیال رکھو اور ان کے جذبات کو مسلنے کی بجائے ان کی قدر کر و خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ تمہاری ایک سے زائد بیویاں ہوں.یہ حکم ہے جو شریعت نے دیا ہے کہ اپنی تمام عورتوں سے یکساں سلوک رکھو.مگر میں نے دیکھا ہے یہ حکم اکثر تو ڑا جاتا ہے اور شریعت کے احکام کی پابندی نہیں کی جاتی اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کے سینہ میں دل نہیں بلکہ پتھر کا ٹکڑا ہے اور بعض جگہ تو بلا کسی شرعی حکم کے عورت کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ سے نہ ملے اور خاوند سمجھتا ہے کہ بیوی کو میرے ماتحت کتوں کی طرح رہنا چاہئے.وہ نادان اس بات کو نہیں سمجھتا کہ خدا تعالیٰ نے عورت کو بھی انسان بنایا ہے اور اس کے اندر بھی جذبات اور احساسات رکھے ہیں.کیا وہ خود اس بات کو پسند کر سکتا ہے کہ اسے اپنے ماں باپ سے ملنے اور ان کی خدمت کرنے سے روکا جائے اگر نہیں تو اس عورت کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہئے.مگر مجھے افسوس ہے کہ جن کی ایک سے زیادہ عورتیں ہیں، ان میں سے بعض یکساں سلوک نہیں کرتے اور بعض تو اس قدر ظلم کرتے ہیں کہ اپنی بیویوں کو ان کے ماں باپ کی خدمت کرنے اور ان سے 151

Page 157

انقلاب حقیقی ملنے سے بھی روک دیتے ہیں.یہ ایک نہایت ہی قابل شرم حرکت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آج ہماری جماعت کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اس کے افراد عورت کے احساسات کی عزت کریں گے.بیشک شریعت مردوں کو بھی بعض حقوق دیتی ہے کیونکہ شریعت نے مرد کو قیم بنایا ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کے لئے ظلم اور نا انصافی روا ہو جائے.پس ہم میں سے ہر شخص کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ یا تو وہ آئندہ دوسری شادی نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو یا دونوں بیویوں میں انصاف کرے گا اور اگر انصاف نہیں کر سکتا تو پہلی بیوی کو طلاق دے دے گا.ورنہ جماعت مجبور ہوگی کہ اگر وہ اپنی بیویوں سے یکساں سلوک نہیں کرتا، تو اس سے مطالبہ کرے کہ وہ ان ہر سہ طریق میں سے کسی ایک طریق کو اختیار کرے اور اگر وہ کسی طریق کو بھی اختیار کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اسے جماعت سے الگ کر دیا جائے.۳.امانت تیسرا حکم جس کی طرف اس وقت لوگوں کو توجہ نہیں، امانت ہے.اس کے متعلق بھی جماعت کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ آئندہ ہر احمدی پورا پورا امین ہوگا اور کسی کی امانت میں خیانت نہیں کرے گا.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ ایسے ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی شخص امانت رکھ جاتا ہے تو وہ اپنے حالات کی مجبوری کی وجہ سے اس امانت میں سے کچھ روپیہ ذاتی ضروریات پر خرچ کر لیتے ہیں اور جب امانت رکھنے والا اپنی امانت لینے کے لئے آتا ہے تو بجائے اس کے کہ اسی وقت روپیہ دے دیں کہتے ہیں چند دن صبر کریں.آپ کا روپیہ میں نے خرچ کر لیا تھا مجھے فلاں جگہ سے روپیہ ملنے والا ہے وہ ملتے ہی میں آپ کو ادا کر دوں گا.اس طرح وہ گو بظاہر دیانتداری سے امانت کی رقم خرچ کرتے ہیں اور اس رقم کو واپس کرنے کا بھی پختہ ارادہ رکھتے ہیں مگر ہوتے دراصل خائن ہیں.امانت کا 152

Page 158

.انقلاب حقیقی طریق یہی ہے کہ جیسی کسی نے امانت رکھی ہو ویسی ہی وہ پڑی رہے اور جب امانت مانگنے والا آئے اسے فور دے دی جائے.دہلی میں حکیم محمود خاں صاحب کا خاندان نہایت ہی امین خاندان مشہور تھا جب غدر ہوا ہے اس وقت لوگ ان کی ڈیوڑھی میں زیورات اور کپڑوں کی بندھی بندھائی گٹھڑیاں پھینکتے چلے جاتے تھے.کیونکہ وہ مہاراجہ پٹیالہ کے طبیب شاہی تھے اور مہاراجہ پٹیالہ نے ان کے مکان کی حفاظت کے لئے خاص طور پر ایک گار د بھجوا دی تھی اور انگریزوں سے کہہ دیا تھا کہ یہ چونکہ میرے شاہی طبیب ہیں اس لئے انہیں کچھ نہ کہا جائے.تو چونکہ اس وقت ان کا مکان محفوظ تھا اور دوسرے لوگوں کے مکان غیر محفوظ تھے اور پھر وہ نہایت ہی امین مشہور تھے، اس لئے لوگ بھاگتے ہوئے آتے اور زیورات اور پارچات کی گھڑیاں ان کی ڈیوڑھی میں پھینکتے چلے جاتے اور اس امر کی کوئی پرواہ نہ کرتے کہ ان زیوروں یا کپڑوں کا کیا بنے گا.آخر انہی لوگوں میں سے جنہوں نے اس وقت گھڑیاں پھینکی تھیں بعض دس دس سال کے بعد آئے اور انہوں نے بجنسہ اپنی چیزیں ان سے لے لیں.یہی نمونہ ہماری جماعت کے ہر فرد کو دکھانا چاہئے اور ہر احمدی کو امانت میں اتنا مشہور ہونا چاہئے کہ لوگ لاکھوں روپے اس کے پاس رکھنے میں بھی دریغ نہ کریں اور ایک احمدی کا نام سنتے ہی لوگ یہ سمجھ لیں کہ یہ ایسا شخص ہے کہ اس کے پاس وپیہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں.۴ مخلوق خدا کی خدمت چوتھا امر جس کی طرف میں خاص توجہ دلانا چاہتا ہوں مخلوق خدا کی خدمت ہے.تم کو چاہئے کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرو اور خود محنت کر کے اپنے گاؤں وغیرہ کی صفائی کرو.ہندوستانی شہروں کی سڑکیں اور گاؤں کی گلیاں بالعموم گندی رہتی ہیں، ہماری جماعت کا فرض 153

Page 159

.انقلاب حقیقی ہے کہ وہ ان کی صفائی کی طرف توجہ کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظافت کے متعلق اپنی امت کو جو احکام دیئے ہیں ، وہ اسی صورت میں عملی رنگ میں سرانجام دیئے جا سکتے ہیں جب ہم میں سے ہر چھوٹا بڑا اپنے ہاتھ سے کام کرنا عار نہ سمجھے اور صفائی میں مشغول رہے بلکہ جس گاؤں میں احمدیوں کی اکثریت ہوا سے دوسرے دیہات کے مقابلہ میں صفائی میں اس طرح ممتاز ہونا چاہئے کہ ایک اجنبی شخص بھی جب کسی ایسے گاؤں میں داخل ہو وہ اس کی صفائی اور نظافت کو دیکھتے ہی سمجھ لے کہ یہ احمدیوں کا گاؤں ہے.۵.احمدیوں کا دار القضاء پانچویں بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ سوائے ان مقدمات کے جن کو عدالت میں لے جانے کی مجبوری ہو اور جن کے متعلق قانون یہ کہتا ہو کہ انہیں عدالت میں لے جاؤ ، ہمارا کوئی جھگڑ اعدالت میں نہیں جانا چاہئے اور ان جھگڑوں کا شریعت کے ماتحت فیصلہ کرانا چاہئے اور اگر کوئی شخص اس حکم کو نہ مانے تو جماعت کو چاہئے کہ اسے سزا دے تاکہ اس کی اصلاح ہو اور اگر وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اسے الگ کر دیا جائے.اس وقت صرف قادیان میں اس بات پر عمل ہوتا ہے مگر میں اب چاہتا ہوں کہ ہر جماعت میں پنچائتی بورڈ بن جائیں جو معاملات کا تصفیہ کیا کریں.پس ہر احمدی کو اپنے دل میں ہی اقرار کرنا چاہئے کہ آئندہ وہ اپنا کوئی مقدمہ جس کے متعلق گورنمنٹ مجبور نہیں کرتی کہ اسے انگریزی عدالت میں لے جایا جائے عدالت میں نہیں لے جائے گا بلکہ اپنے عدالتی بورڈ اور اپنے قاضی سے شریعت کے مطابق اس کا فیصلہ کرائے گا اور جو بھی وہ فیصلہ کرے گا اسے شرح صدر کے ساتھ قبول کرے گا اور گو اس حکم پر عمل کرانے سے جماعت کا ایک حصہ ضائع ہو جائے تو بھی اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے.154

Page 160

صلى الله.انقلاب حقیقی دیکھو رسول کریم ﷺ پر جب یہ وحی نازل ہوئی کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ صلى الله دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ، تو رسول كريم نے حجتہ الوداع کے موقع پر ایک سواری پر کھڑے ہو کر یہ وحی الہی سنائی اور فرمایا یہ خدا کی آخری امانت تھی جو میں نے تم تک پہنچا دی.پھر آپ نے فرمایا هَلُ بَلَّغْتُ ؟ کیا خدا کا یہ پیغام میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے؟ صحابہ نے عرض کی بَلَّغْتَ يَا رَسُولَ اللهِ.اے خدا کے رسول آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا.پھر آپ نے فرمایا میں اپنی امانت سے سبکدوش ہوتا ہوں لے.میں بھی آج اس امانت سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے سپرد کی گئی تھی سبکدوش ہوتا ہوں.کیونکہ میں نے آپ لوگوں کو بتا دیا ہے کہ خدا نے جو تمہیں شریعت دی ہے وہ صرف لا إِلهَ إِلَّا اللہ کہنے تک محدود نہیں بلکہ وہ مذہب اور اقتصا داور سیاست اور معاشرت اور اخلاق اور تمدن اور تہذیب اور دوسری تمام باتوں پر حاوی ہے.اب یہ علماء کا کام ہے کہ وہ قرآن اور احادیث سے ان مسائل کو نکالیں اور دنیا کے سامنے انہیں کھول کر رکھ دیں.پس ہر علم کے متعلق کتابیں لکھی جائیں اور بہت جلد لکھی جائیں تا لوگ ان سے فائدہ اُٹھا سکیں بلکہ بعض کتابیں سوال و جواب کے رنگ میں لکھی جائیں جیسے پرانے زمانہ میں پنجاب کے بعض علماء نے پکی روٹی اور مٹھی روٹی وغیرہ کتب لکھیں تا جماعت کا ہر شخص ان کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے اور پھر اس کے بعد جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان باتوں پر عمل کرے.بیشک آج ہم وہ کام نہیں کر سکتے جو حکومت اور بادشاہت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر وہ باتیں جو ہمارے اختیار میں ہیں ان پر آج سے ہی عمل شروع ہو جانا چاہئے اور پھر آئندہ قریب زمانہ میں جوں جوں شریعت کے احکام تفصیل سے لکھے جائیں ان تمام احکام مسلم کتاب الحج باب حجة النبي علا الله ( مفهوماً) 155

Page 161

.انقلاب حقیقی کو عملی رنگ دیتے چلے جانا چاہئے اور جماعت ان کو یاد کرتی چلی جائے تا یہ نہ ہو کہ وہ صرف چندہ دے کر یہ سمجھ لے کہ اس کا کام ختم ہو گیا بلکہ اسلام کے تمام احکام پر عمل اس کی غذاء ہو اور سنت و شریعت کا احیاء اس کا شغل ہو.یہاں تک کہ دنیا تسلیم کرے کہ سوائے اس حصہ کے جو خدا تعالیٰ نے چھین کر انگریزوں کو دے دیا ہے باقی تمام امور میں جماعت احمدیہ نے في الواقع ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بنادی ہے اور ہم میں سے ہر شخص جہاں بھی پھر رہا ہو دنیا اسے دیکھ کر یہ نہ سمجھے کہ یہ بیسویں صدی میں انگریزوں کے پیچھے پھرنے اور مغربیت کی تقلید کرنے والا ایک شخص ہے بلکہ یہ سمجھے کہ یہ آج سے تیرہ سو سال پہلے محمد ہے کے زمانہ میں مدینہ کی گلیوں میں پھر رہا ہے.اے دوستو! میں نے خدا تعالیٰ کا حکم آپ لوگوں تک پہنچا دیا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا سوال کوئی معمولی سوال نہیں.آپ لوگوں نے اقرار کیا ہے کہ آپ ہر تکلیف اور ہر مصیبت اُٹھا کر بھی اسلام کے احکام پر عمل کریں گے اور اس تمدن کو قائم کریں گے جس تمدن کو قائم کرنے کا اسلام نے حکم دیا اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے ہر ایک اپنے عہد پر مضبوطی سے قائم رہے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان باتوں پر فور اعمل کرنا شروع کر دے گا جن پر عمل کرنا اس کے اختیار میں ہے.یہاں تک کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں، ان کا منہ تمہارا عملی نمونہ دیکھ کر بند ہو جائے اور تم یہ دعویٰ کر سکو کہ اگر ہم ہتک کرتے ہیں تو دیکھو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کن میں زندہ ہیں اور ہر شخص اقرار کرے کہ آپ احمد یوں کے وجود میں زندہ ہیں.تمدن اسلامی کے قیام میں مشکلات اس کے بعد میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں.بہت سے حصے اس تقریر کے ایسے ہیں 156

Page 162

انقلاب حقیقی جن کو میں نے بغیر تشریح کے چھوڑ دیا ہے.ان کی تشریح کسی اور کتاب میں اگر اللہ تعالیٰ چاہے بیان ہو جائے گی.اسی طرح میں علماء سے کتابیں لکھوانے کی بھی کوشش کروں گا.البتہ دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اقرار کرنا آسان ہوتا ہے مگر عمل کرنا مشکل.کئی لوگ ہیں جنہوں نے یہاں تو اقرار کیا ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اپنی جائداد کا حصہ دیں گے مگر جب گھر پہنچ کر اس پر عمل کرنے لگیں گے تو بیٹے کہیں گے کہ ہمارے ابا اپنی جائداد بر باد کر رہے ہیں اور اس طرح تمہارے راستے میں کئی روکیں حائل ہوں گی پس تم اس وقت ایک پختہ عزم لے کر اُٹھو اور یاد رکھو کہ باتیں کرنا آسان ہوتی ہیں مگر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے.اگر عمل کرنا اتنا ہی آسان ہوتا تو اس مسئلہ پر آپ نے پہلے ہی عمل کر لیا ہوتا کیونکہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں جو آپ لوگوں کے سامنے بیان کیا گیا بلکہ آپ اسے پہلے بھی جانتے تھے لیکن باوجود علم کے عمل نہیں کرتے.پس جذبات کی رو میں جب چاروں طرف سے نعرے لگ رہے ہوں عہد کر لینا آسان ہوتا ہے اور کئی کمزور بھی اس عہد میں شامل ہو جاتے ہیں مگر جب کام کا وقت آتا ہے تو وہ بہانے بنانے لگ جاتے ہیں اور جماعت کے ان افسروں کو جو کام پر متعین ہوتے ہیں بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں.پس میں جانتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں قسم قسم کے فساد پھیلیں گے اور لوگ افسروں کو بد نام کریں گئے انہیں شرارتی اور فسادی قرار دیں گے جیسے قادیان میں جب بعض لوگوں کو سزا دی جاتی ہے تو وہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے شریعت کی فلاں بے حرمتی کی تھی جس کی انہیں سزا ملی.بلکہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں افسر کی ہم سے کوئی ذاتی عداوت تھی جس کے نتیجہ میں ہمیں یہ سزاملی.اسی قسم کے واقعات باہر کی جماعتوں میں بھی رونما ہونگے.157

Page 163

.انقلاب حقیقی دوستوں کو نصیحت پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ دعاؤں پر زیادہ زور دیں اور خدا تعالیٰ سے ہی کہیں کہ اے خدا! تو نے ہمارے کمزور کندھوں پر وہ بوجھ لا دا ہے جو تو نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر ڈالا تھا.اے خدا! ہمیں اپنی کمزوریوں کا اقرار اور اپنی غلطیوں کا اعتراف ہے ہم میں کوئی طاقت نہیں ہم تیری ہی مدد اور تیری ہی نصرت کے محتاج اور سخت محتاج ہیں.اے خدا! تمام طاقت تجھ ہی کو حاصل ہے تو اپنے فضل سے ہمارے کمزور کندھوں کو مضبوط بنا، ہماری زبانوں پر حق جاری کر ، ہمارے دلوں میں ایمان پیدا کر، ہمارے ذہنوں میں روشنی پیدا کر، ہمیں اپنے فضل سے ہمت بلند بخش، ہماری ئستیوں اور ہماری غفلتوں کو ہم سے دور کر اور ہمارے اندر وہ قوت ایمانیہ پیدا کر کہ اگر ہماری جان بھی جاتی ہو تو چلی جائے مگر ہم تیرے احکام سے ایک ذرہ بھی انحراف نہ کریں.اے خدا! تو ہمیں اپنے فضل سے توفیق دے کہ ہم تیری شریعت کو دنیا میں قائم کر سکیں تا تیرے دین کی برکات لوگوں کو مسحور کر لیں اور انہیں بھی اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں.دنیا میں انسان جب ایک سبق یاد کر لیا کرتا ہے تو استاد ا سے دوسرا سبق دیتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جب تم اس سبق کو یاد کر لو گے تو اللہ تعالیٰ دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں تمہارے قدموں میں ڈال دے گا اور کہے گا جب تم نے ان تمام احکام اسلام کو جاری کر دیا جن کے لئے حکومت کی ضرورت نہیں تھی تو آؤ اب میں حکومتیں بھی تمہارے سپرد کرتا ہوں تا جو چند احکام شریعت کے باقی ہیں ان کا بھی عالم میں نفاذ ہو اور اسلامی تمدن کی چاروں دیواریں پائیہ تکمیل کو پہنچ جائیں.پس اگر تم میری ان باتوں پر عمل شروع کر دو تو اللہ تعالیٰ حکومتوں کو بھی تمہارے سپر د کر دے گا اور جو حکومتیں اس کے لئے تیار نہیں ہوں گی اللہ تعالیٰ 158

Page 164

انقلاب حقیقی انہیں تباہ کر دے گا اور اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ جاؤ اور ان کا تختہ الٹ کر حکومت کی باگ ڈوران کے ہاتھ میں دو جو میرے اسلام کو دنیا میں رائج کر رہے ہیں.پس جو کچھ تم کر سکتے ہو کر و اور سمجھ لو کہ باقی حصہ کو خدا تعالیٰ خود سرانجام دے گا اور تم اللہ تعالیٰ کی ان طاقتوں کا مشاہدہ کرو گے جن طاقتوں کا محمد ﷺ نے مشاہدہ کیا.لیکن یہ کام بڑا ہے اور ہم سخت کمزور اور ناتوان ہیں.پس آؤ کہ ہم خدا سے ہی دعا کریں کہ اے خدا! تو ہم کو سچا بنا، تو ہمیں جھوٹ سے بچا، تو ہمیں بُزدلی سے بچا، تو ہمیں غفلت سے بچا، تو ہمیں نافرمانی سے بچا.اے خدا! ہمیں اپنے فضل سے قرآن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو ، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو، ہمارے بچوں کو اور ہمارے بوڑھوں کو ، سب کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرے کامل متبع بنیں اور ان تمام لغزشوں اور گنا ہوں سے محفوظ رہیں جو انسان کا قدم صراط مستقیم سے منحرف کر دیتے ہیں.اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں میں اپنی محبت پیدا فرما.اے ہمارے رب! اپنی تعلیم اپنی سیاست ، اپنے اقتصاد، اپنی معاشرت اور اپنے مذہب کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال، ان کی عظمت ہمارے اندر پیدا کر.یہاں تک کہ ہمارے دلوں میں اس تعلیم سے زیادہ اور کوئی پیاری تعلیم نہ ہو جو تو نے محمد ﷺ کے ذریعہ ہمیں دی.اے خدا! جو تیری طرف منسوب ہو اور تیرا پیارا ہو وہ ہمارا پیارا ہو اور جو تجھ سے دُور ہواُس سے ہم دُور ہوں لیکن سب دنیا کی ہمدردی اور اصلاح کا خیال ہمارے دلوں پر غالب ہو اور ہم اس انقلاب عظیم کے پیدا کرنے میں کامیاب ہوں جو تو اپنے مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے.امِينَ اللَّهُمَّ آمِينَ 159

Page 164