Infaq Fi Sabilillah

Infaq Fi Sabilillah

انفاق فی سبیل اللہ

مالی قربانی کی اہمیت کے بارہ میں مقدس ارشادات اور ایمان افروز واقعات
Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

انفاق فی سبیل اللہ عطاء المجیب راشد

Page 2

انفاق فی سبیل اللہ مقدس ارشادات اور ایمان افروز واقعات) از قلم: مولانا عطاء المجیب راشد - امام مسجد فضل لندن امام محافل شائع کرده: نظارت نشر واشاعت قادیان

Page 3

Page 4

مولا نا عطاءالمجیب راشد - امام مسجد فضل لندن جنوری.2017ء (برطانیہ) نام کتاب: انفاق فی سبیل اللہ تصنيف: طبع اول: طبع دوم : 1000 تعداد: مطبع ناشر اگست - 2017ء (انڈیا) فضل عمر پر نٹنگ پریس ہر چووال روڈ قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان - 143516 ضلع : گورداسپور، پنجاب، انڈیا Name of the Book: Written by: First edition (UK): Infaaq fi Sabilillah Ataul Mujeeb Rashid January : 2017 First edition (India): August : 2017 Quantity: 1000 Printed at: Fazl-e-Umar Printing Press Harchowal road Qadian Published by: Nazarat Nashr-o-Isha'at Qadian-143516 Distt:Gurdaspur, Punjab, India

Page 5

عرض ناشر کتابچہ انفاق فی سبیل اللہ محترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نے مرتب فرمایا ہے.اس میں قرآن مجید، احادیث نبویہ اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ متعد دحوالہ جات پیش کرتے ہوئے کئی ایمان افروز واقعات بھی تحریر کئے ہیں.یہ کتابچہ پہلی بار جماعت احمد یہ برطانیہ کی طرف سے جنوری 2017 میں طبع ہوا سید نا حضور انور ایدہ اللہ کی اجازت سے نظارت نشر واشاعت اسی کتا بچہ کو ہندوستان میں شائع کر رہی ہے.اس کی پرنٹ ریڈی فائل برائے اشاعت محترم مولانا عطاء المجیب را شد صاحب امام مسجد فضل لندن کی طرف سے ہمیں ملی ہے اسی کو ان کی ذمہ داری پر من وعن شائع کیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ محترم موصوف کو جزائے خیر عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے باعث خیر و برکت بنائے اور ہم سب کو ان ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے.حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان

Page 6

پیش لفظ انفاق فی سبیل اللہ یعنی راہ خدا میں خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنا مال قربان کرنا متقی مومنوں کا ایک امتیازی نشان ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی ابتداء میں ان الفاظ میں فرمایا ہے.وَ مِمَّا رَزَقْنَا هُمُ يُنفِقُونَ ( سورة البقره: آیت 4) کہ خدا کی نگاہ میں حقیقی متقی وہ لوگ ہیں کہ جو کچھ ہم انہیں بطور رزق یا نعمت دیتے ہیں وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے ممبران انفرادی اور اجتماعی طور پر اس ارشاد خداوندی پر بڑے اہتمام اور تعہد کے ساتھ اور اس عظمت کے ساتھ عمل پیرا ہیں کہ اس کی نظیر ساری دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی.الحمد لله علی ذالک.راہ خدا میں اموال کی قربانی کے بابرکت موضوع پر کچھ عرصہ قبل ایک مضمون لکھنے کی توفیق ملی مضمون مکمل ہونے پر اس عاجز نے از راہ حصول دعا وراہنمائی اس کا مسود و حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کیا.میرے عریضہ کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے میرے نام اپنے مکتوب ( محررہ 27 نومبر 2016) میں تحریر فرمایا: انفاق سبیل اللہ پر آپ کا مضمون موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اسے

Page 7

انفاق في سبيل الله جستہ جستہ پڑھا ہے.ماشاء اللہ اچھا مضمون ہے.آپ اسے شائع کروا دیں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور آپ کے علم و عرفان کو مزید بڑھاتا رہے.آمین الحمد لله ثم احمد اللہ کہ حضور انور نے نہ صرف مضمون کو پسند فرمایا بلکہ از راہ شفقت اشاعت کی بھی ہدایت فرمائی.اس ارشاد کی تعمیل میں یہ مضمون شائع کیا جارہا ہے.اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبول فرمائے اور اس کے مطالعہ سے جماعت احمد یہ عالمگیر کے افراد نہ صرف علمی رنگ میں اس سے مستفیض ہوں بلکہ عملی رنگ میں بھی کے روشن سنگ میل نصب کرنے ہوں.آمین خاکسار عطاء المجیب راشد امام مسجد فضل لندن 15 جنوری 2017

Page 8

انفاق في سبيل الله آیات قرآنیہ فهرست عناوین احادیث نبویہ ☆ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے بعض ارشادات حضرت خلیفتہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک جامع ارشاد حمد مالی قربانیوں کے ایمان افروز نمونے قرون اولیٰ کی مثالیں دورِ حاضر کی مثالیں اختتامیه 7

Page 9

انفاق في سبيل الله بسم اللہ الرحمن الرحیم إنفاق في سبيل الله مقدس ارشادات اور ایمان افروز واقعات) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ ایک عبد کے طور پر زندگی گزارتے ہوئے قرب الہی کی سب راہوں کی پیروی کرتا رہے تا کہ جب اس دار العمل سے دار الجزاء کی طرف منتقل ہو تو اپنے مقصدِ حیات میں کامیاب قرار پائے اور رضائے الہی کی ابدی جنت میں داخل ہو سکے.اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے خدا تعالیٰ نے جو ذرائع اور وسائل انسان کو عطا فرمائے ہیں ان میں سے ایک اہم ذریعہ انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں، اس کی رضا حاصل کرنے کی خالص نیت سے خرچ کرنا ہے.اس مضمون میں، میں اسی موضوع پر چند با تیں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں.آیات قرآنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے قرآن مجید کی صورت میں جو کامل شریعت اتاری اور جس کو ھدی للناس بھی فرمایا اور بالخصوص ھدی للمتقین بھی.اس میں ہر وہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے جس کی انسان کو اپنا مقصدِ حیات حاصل کرنے کے لئے ضرورت ہو سکتی ہے.ان مضامین میں سے ایک اہم مضمون راہ خدا میں اپنے اموال کو خرچ کرنے سے تعلق رکھتا ہے.جس طرح تاکید اور وضاحت سے یہ مضمون 9

Page 10

انفاق في سبيل الله قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اس سے کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے.اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس راہ کو اختیار کرنے سے ہی انسان اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے.قرآن مجید کا مطالعہ شروع کرتے ہی یہ آیات کریمہ ہماری توجہ کھینچتی ہیں جوسورۃ البقرہ کی ابتداء میں آئی ہیں.فرمایا: ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِين (سورة البقرة:3) کہ یہ قرآن کریم وہ عظیم موعود کتاب ہے جس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں اور یہ متقیوں کے لیے ذریعہ ہدایت ہے.یہاں یہ سوال ذہنوں میں ابھرتے ہیں کہ آخر یہ متقی لوگ کون ہیں اور انسان متقی کیسے بن سکتا ہے.ان دونوں سوالوں کا جواب یہ عطا فرمایا: الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُون (سورة البقرة:4) کہ متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں.اس میں متقی لوگوں کی جو در حقیقت انجام کا رفلاح پانے والے ہیں دو بنیادی علامتیں بیان کی گئی ہیں.ان نشانیوں سے ان کو خوب پہچانا جاسکتا ہے اور یہی وہ دو ذرائع بھی ہیں جن سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے انسان بالآخر اپنے مقصدِ حیات کو 10

Page 11

انفاق في سبيل الله پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت اور قربت پالیتا ہے.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے متلاشی اور تقویٰ کی لامتناہی راہوں کے سالک کی ایک نشانی یہ بتائی ہے کہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس طرح بسر ہوتا ہے کہ اس پر فنائیت کا مضمون صادق آتا ہے وہ اس حقیقت کا خوب عرفان رکھتا ہے کہ اس نے جو کچھ پایا محض اور محض خدا تعالیٰ کے فضل سے پایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس نکتۂ معرفت کو کیا خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے.ے سب کچھ تیری عطا ہے، گھر سے تو کچھ نہ لائے اس محکم یقین پر پوری طرح قائم ہو جانے کے بعد ایک بندہ مومن کی ساری زندگی اس انداز میں گذرتی ہے کہ وہ اپنی ہر شے کو عطاء الہی یقین کرتے ہوئے پوری بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ ، پورے انشراح اور یقین کے ساتھ ، راہ خدا میں خرچ کرتا ہے اور خرچ کرتا چلا جاتا ہے.اپنی جان، مال، وقت ، عزت اور اپنی خدا داد قوت و استعداد کا ایک ایک ذرہ اس راہ میں قربان کرتا چلا جاتا ہے اور سب کچھ قربان کر دینے کے بعد ، اس کے دل کی گہرائیوں سے یہی آواز اٹھتی ہے کہ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اس مضمون کو نہایت عارفانہ رنگ میں یوں بیان فرمایا ہے: 11

Page 12

انفاق في سبيل الله خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پہ نثار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی دے وہ دلدار ہوتا ہے کب چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار دینی ضروریات کی خاطر راہِ خدا میں اپنے اموال کو خرچ کرنے کا مضمون قرآن مجید میں بہت کثرت کے ساتھ بیان ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے بار بار اس کی تاکید فرمائی ہے اور یہ وعدہ دیا کہ عالم الغیب خدا تمہاری ہر مالی قربانی کو خوب دیکھنے اور جاننے والا ہے اور وہ وہاب خدا ہے جو اس نیکی کی جزا گن گن کر نہیں بلکہ بے حساب دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے اپنی جزاء کو لامتناہی رنگ میں بڑھاتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے کو جہاد قرار دیتے ہوئے تجارت کے رنگ میں ذکر فرمایا ہے.فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ O تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ، ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ O يَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلُكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ 12

Page 13

انفاق في سبيل الله وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ، ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ O وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ O (سورۃ الصف آیت ۱۱ تا ۱۴) ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع نہ کروں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے بچائے گی؟ تم (جو) اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور ایسے پاکیزہ گھروں میں بھی جو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں ہیں یہ بہت بڑی کامیابی ہے.ایک دوسری (بشارت بھی ) جسے تم بہت چاہتے ہو.اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب کی فتح ہے.پس تو مومنوں کو خوشخبری دیدے.“ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے راہ خدا میں خرچ کرنے کی برکات کا بڑی جامعیت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے.دنیا میں ملنے والے انعامات، خدائی نصرت اور فتوحات کا بھی ذکر ہے اور آخرت میں عذاب الیم سے نجات ، گناہوں کی مغفرت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی ابدی جنتوں میں داخلہ کی نوید سنائی ہے.ظاہر ہے کہ مالی قربانیوں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے افضال اس مجاہد فی سبیل اللہ کو ملتے ہیں اور اسکی جھولیاں دنیا و آخرت میں ان نعمتوں سے بھر پور رہتی ہیں.اسی مضمون کا ذکر ایک دوسری آیت کریمہ میں بھی ہے جس میں فرمایا: 13

Page 14

انفاق في سبيل الله إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (سورۃ التوبہ: 112) ”یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں تا کہ اس کے بدلہ میں انہیں جنت ملے جس انسان کو صادق الوعد خدا تعالیٰ کی طرف سے جیتے جی جنت کی بشارت مل جائے وہ یقیناً اپنی منزل کو پا گیا.اسی آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے مالی قربانیاں کرنے والے مجاہدین کو کتنے قطعی الفاظ میں بشارت دی ہے کہ اپنے خون پسینہ سے کمائے ہوئے رزق حلال کو میری رضا کی خاطر قربان کرنے والو! میں تمہیں کہتا ہوں : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورة التوبه: 112) کہ تم اپنے اس سودے پر خوش ہو جاؤ جو تم نے اپنے ساتھ کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے“ ہمارے خدائے رحمن ورحیم کا ہم پر کس قدر احسان ہے کہ اسی نے ہمیں پیدا کیا ، اسی نے زندگی دی، اسی نے مال کمانے کی طاقت اور توفیق عطا کی اور جب اسی کے فضل اور اسی کی عنایت سے کمائی ہوئی دولت کا ایک حصہ اسی کی خاطر قربان کیا جاتا ہے تو وہ ذرہ نواز خدا اتنا خوش ہوتا ہے کہ جنت کی بشارت عطا فرماتا ہے.لاریب ایک بندہ مومن کے لئے اس سے بڑھ کر اور کونسی نعمت ہے جو فوز عظیم کہلا سکتی ہے؟ 14

Page 15

انفاق في سبيل الله راہ خدا میں خرچ کرنے اور اور اس کارِ خیر میں سنتی اور کاہلی سے بچنے کی پر زور تاکید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّنْ قبل أن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَهُ وَلَا شَفَاعَةٌ ، وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ (سورۃ البقرہ آیت : 256) ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے پیشتر اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی تجارت ہو گی اور نہ کوئی دوستی اور نہ کوئی شفاعت.اور کافر ہی ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں“ اس جگہ یہ نکتہ یا در کھنے کے لائق ہے کہ راہ خدا میں خرچ نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ظالم قرار دیا ہے اور ظاہر بات ہے کہ آخرت میں ملنے والی فوز عظیم کے مقابل پر دنیا کی عارضی خوشی اور راحت کو مقدم کرنے والا انتہائی درجہ کا ظالم نہیں تو اور کیا ہے؟ احاديث نبوية : چند آیات قرآنیہ سے اکتساب فیض کے بعد آئیے اب ہم ان ارشادات سے برکت اور راہنمائی حاصل کرتے ہیں جو ہمارے محبوب آقا حضرت خاتم الانبیا محمد مصطف مے کے بیان فرمودہ ہیں.آنحضور ﷺ ایسے امی نبی ہیں کہ آپ نے کسی انسان سے علم نہیں سیکھا، علیم و خبیر خدا خود آپ کا معلم تھا.معلم حقیقی نے آپ کو وہ علوم و معارف سکھائے کہ آپ کل دنیا کے 15

Page 16

انفاق في سبيل الله ہادی اور راہنما بن گئے.مالی قربانیوں کے موضوع پر بھی آپ نے اپنی امت کی بے نظیر راہنمائی فرمائی.چندار شادات بطور نمونہ پیش کرتا ہوں.ایک ایک ارشاد توجہ سے پڑھنے اور یا در رکھنے کے لائق ہے.ایک حدیث قدسی میں مذکور ہے کہ ” اے ابن آدم ! تو دل کھول کر راہ خدا میں خرچ کر اللہ تعالیٰ بھی تجھ پر خرچ کرے گا.(مسلم کتاب الزكاة حديث نمبر 2308 باب الحث على النفقة وتبشير المنفق بالخلف ) فرمایا ” قابلِ رشک ہے وہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فر مایا اور پھر اس مال کو اس کے برمحل خرچ کرنے کی بھی غیر معمولی توفیق اور ہمت بخشی (بخاری کتاب الزكاة باب انفاق المال في حقه) ہیں فرمایا " دولت مند وہ نہیں جس کے پاس زیادہ مال ہو بلکہ حقیقی دولت مند تو وہ ہے جو دل کا غنی ہو یعنی راہ خدا میں دل کھول کر خرچ کرتا ہو (ترمذی ابواب الزهد باب ماجاء ان الغنى غنى النفس) فرمایا ” جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستہ میں کچھ خرچ کرتا ہے اسے اس کے بدلہ میں سات سو گنا زیادہ ثواب ملتا ہے“ (ترمذی باب فضل النفقة في سبيل الله) فرمایا ” نیکی کے تمام دروازوں میں سے بہترین دروازہ صدقہ و خیرات کرنا ہے“ (المع الكبير للطبراني رقم الحديث 12663 كنز العمال رقم الحديث 16015) فرمایا ” ہر روز صبح سویرے دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے 16

Page 17

انفاق في سبيل الله اے اللہ ! راہ خدا میں خرچ کرنے والے کو بہتر بدلہ عطا کر اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ ! مال روکنے والے کے لیے ہلاکت اور بربادی مقدر کردے“ (بخاری کتاب الزكوة باب : قول الله تعالى : فاما من أعطى واتقى اللهم اعط منفق مال خلفاً ) جولوگ نیک اور صالح اولاد کی نعمت سے محروم ہیں ان کے لیے اس حدیث میں ایک عظیم نصیحت ہے ”اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما) حمد فرمایا ” تمہارا اصل مال وہی ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کر کے آگے بھجوا چکے ہو.جو پیچھے باقی رہ گیا ہے وہ تو وارثوں کا مال ہے“ (مسلم كتاب الزكاة باب بيان ان افضل الصدقة الصحيح الشحيح حديث نمبر 2383) فرمایا ” مسلمان آدمی کا صدقہ کرنا عمر بڑھاتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے“ (کنز العمال رقم الحديث 16062) فرمایا ”ہر امت کی ایک آزمائش ہوتی ہے.میری امت کی آزمائش مال میں ہے“ (ترمذى كتاب الزهد باب ماجاء ان فتنة هذه الامة في المال) فرمایا اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو.ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کرے گا.اپنے روپٹوں کی تھیلی کا منہ بخل کی وجہ سے بند کر کے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ 66 بند ہی رکھا جائے گا.جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کرو “ (بخارى كتاب الزكاة باب التحريص على الصدقة والشفاعة فيها ايضاً باب الصدقة فيما استطاع ) قرآن مجید اور احادیث سے ملنے والی یہ راہنمائی اس حقیقت کو خوب آشکار کرتی ہے کہ دین کی ضروریات کے لیئے مالی قربانی قرب الہی اور رضائے الہی پانے کا ایک قطعی اور 17

Page 18

انفاق في سبيل الله یقینی ذریعہ ہے.ان مالی قربانیوں کے نتیجہ میں ایک طرف تو قربانی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کا پیار نصیب ہوتا ہے تو دوسری طرف رحیم و کریم خدا اسی دنیا میں ایسے مخلص بندے کو نواز نا شروع کر دیتا ہے.اپنی جناب سے اس کی جھولیاں فضلوں سے بھر دیتا ہے.بےحساب عطا.کرتا ہے.اس کی مشکلات اور پریشانیوں کو دور کرتا ہے.اسکی زندگی میں برکت دیتا ہے اور یہی نہیں بلکہ اس کو اسی زندگی میں جنت کی سی کیفیت بھی عطا کر دیتا ہے اور خود اس کی ضروریات اور حاجات کا متکفل ہو جاتا ہے.راہ خدا میں مالی قربانیاں کرنے والوں کے لیے آخرت میں جنت کا حتمی وعدہ صادق الوعد خدا نے دے رکھا ہے جس میں کسی قسم کا تختلف ممکن نہیں.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے بعض ارشادات: سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تحریرات اور ملفوظات میں کے موضوع پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور بار بار اپنے ماننے والوں کو اس کی اہمیت ، افادیت اور ضرورت سے آگاہ فرماتے ہوئے اس راہ میں آگے سے آگے بڑھنے کی تلقین فرمائی ہے.اس وسیع ذخیرہ سے میں چند نمونے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.علم ومعرفت اور روحانی تاثیر کے اعتبار سے ان زور دار ارشادات کا بہت عظیم مقام ہے.بس ایسے دلوں کی ضرورت ہے جو ان کلمات کو اپنے نہاں خانہ دل میں جگہ دیں.آپ فرماتے ہیں: 18

Page 19

انفاق في سبيل الله ✰✰✰ سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو ما دام الحیات وقف کر دے.تاکہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو.“ الحکم جلد 4 نمبر 29 مورخہ 16 اگست 1900 صفحہ 3 ، ملفوظات جلد دوم صفحہ 90) ☆☆☆ اصل رازق خدا تعالیٰ ہے.وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا.وہ ہر طرح سے اور ہر جگہ سے اپنے پر تو کل کرنے والے شخص کے لئے رزق پہنچاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور تو کل کرے میں اس کے لئے آسمان سے برسا تا اور قدموں میں سے نکالتا ہوں.پس چاہئے کہ ہر ایک شخص خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے.“ ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 360) "جو شخص...ضروری مہمات میں مال خرچ کرے گا میں امید نہیں رکھتا کہ اس مال کے خرچ سے اس کے مال میں کچھ کمی آجائے گی.بلکہ اس کے مال میں برکت ہوگی.پس چاہئے کہ خدا تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاق اور جوش اور ہمت سے کام لیں کہ یہی وقت خدمت گزاری کا ہے.پھر بعد اس کے وہ وقت آتا ہے کہ ایک سونے کا پہاڑ بھی اس راہ میں خرچ کریں تو اس وقت کے پیسہ کے برابر نہیں ہوگا...اور خدا تعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دیا ہے کہ واقعی اور قطعی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا.19

Page 20

انفاق في سبيل الله یہ ظاہر ہے کہ تم دو چیز سے محبت نہیں کر سکتے اور تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے.اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اسکے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی.کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا.لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہیئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے.بلکہ خدا تعالی کی طرف سے آتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو.بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لیے بلاتا ہے...میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرہ محتاج نہیں.ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتا ہے.“ ✰✰✰ ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 497-498) میں یقینا سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتے.جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے.وہ اپنا مال صرف اس مال کو نہیں سمجھتا کہ اس کے صندوق میں بند ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام خزائن کو اپنے خزائن سمجھتا ہے اور امساک اس سے اس طرح دور ہو جاتا ہے جیسا کہ روشنی سے تاریکی دور ہو جاتی ہے...اگر تم کوئی نیکی کا کام بجالاؤ گے 20

Page 21

انفاق في سبيل الله اور اس وقت کوئی خدمت کرو گے تو اپنی ایمانداری پر مہر لگا دو گے.اور تمہاری عمر میں زیادہ ہوں گی اور تمہارے مالوں میں برکت دی جائے گی.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 498) ”ہمارے نزدیک سب سے بڑی ضرورت آج اسلام کی زندگی ہے.اسلام ہر قسم کی خدمت کا محتاج ہے.اس کی ضرورتوں پر ہم کسی ضرورت کو مقدم نہیں کر سکتے...آج سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اور بن پڑے اسلام کی خدمت کی جاوے.جس قدر وو روپیہ ہو وہ اسلام کی احیاء میں خرچ کیا جاوے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 327) ہر ایک شخص جو اپنے تئیں بیعت شدوں میں داخل سمجھتا ہے اس کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے مال سے بھی اس سلسلہ کی خدمت کرے...ہر ایک بیعت کنندہ کو بفقد ر وسعت مدددینی چاہئے تا خدا تعالیٰ بھی انہیں مدد ہر ایک شخص کا صدق اس کی خدمت سے پہنچانا جاتا ہے.عزیز و! یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کے لئے خدمت کا وقت ہے اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا.“ ☆☆☆ کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 83) مال سے محبت مت کرو.کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ اگر تم مال کو نہیں چھوڑتے تو وہ تمہیں چھوڑ 21

Page 22

دے گا ایک جامع ارشاد انفاق في سبيل الله ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 318) ✰✰✰ ☆ وو سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ واللہ تعالٰی فرماتے ہیں: یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے اس میں ایک جہاد مالی قربانیوں کا جہاد بھی ہے.کیونکہ اس کے بغیر نہ اسلام کے دفاع میں لٹریچر شائع ہوسکتا ہے ، نہ قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو سکتے ہیں ، نہ یہ ترجمے دینا کے کونے کونے میں پہنچ سکتے ہیں.نہ مشن کھولے جاسکتے ہیں ، نہ مربیان، مبلغین تیار ہو سکتے ہیں اور نہ مربیان، مبلغین جماعتوں میں بھجوائے جاسکتے ہیں.نہ ہی مساجد تعمیر ہوسکتی ہیں.نہ ہی سکولوں ، کالجوں کے ذریعہ سے غریب لوگوں تک تعلیم کی سہولتیں پہنچائی جاسکتی ہیں.نہ ہی ہسپتالوں کے ذریعہ سے دکھی انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے.پس جب تک دنیا کے تمام کناروں تک اور ہر کنارے کے ہر شخص تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچ جاتا اور جب تک غریب کی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ مالی 22

Page 23

انفاق في سبيل الله جہاد جاری رہنا ہے.اور اپنی اپنی گنجائش اور کشائش کے لحاظ سے ہر احمدی کا اس میں شامل ہونا فرض ہے.خطبه جمعه فرمودہ 31 مارچ 2006 مطبوعه الفضل لندن 21 اپریل 2006 صفحہ 6 ) مالی قربانیوں کے ایمان افروز نمونے: انسان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح سے بنایا ہے کہ کبھی وہ خدائی فرمان کوسن کر ایسا متاثر ہوتا ہے کہ یک لخت اس کی کایا پلٹ جاتی ہے.حضرت عمرؓ کے بارہ میں آتا ہے کہ کان وقافاً عندالقرآن کہ وہ قرآن مجید کی آیات سن کر فوراً تابع فرمان ہوتے ہوئے رک جایا کرتے تھے.حضرت ابو بکر کی زبانی آیت کریمہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُل ( آل عمران 145 ) سن کر حضرت عمر پر کیا گزری؟ سونتی ہوئی تلوار ہاتھ سے گر پڑی اور کھڑا ہونا بھی مشکل ہو گیا.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فرمان نبوی کان میں پڑتا ہے اور زندگی میں ایک عظیم انقلاب بر پا ہو جاتا ہے.گلی میں راہ چلتے صحابی کے کان میں رسولِ خدا کی آواز پڑی کہ بیٹھ جاؤ.وہ براہ راست مخاطب بھی نہ تھے لیکن وہ ہیں گلی میں بیٹھ گئے.شراب کا دور چل رہا تھا اعلان سنائی دیا کہ شراب آج سے حرام کر دی گئی ہے.غلبہ خمر کے با وجود ایک صحابی اٹھے اور لاٹھی سے شراب کے مٹکے چکنا چور کر دیئے.دراصل نیکی کے ہر میدان میں اطاعت کا یہی مقام ہر مومن کو حاصل کرنا چاہیے.اسی غرض سے تربیتی تقاریر میں آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ارشادات کو بیان کیا جاتا 23

Page 24

انفاق في سبيل الله ہے کہ ان کی برکت سے مومنوں کے دلوں میں ایک پاکیزہ تبدیلی اور تحریک پیدا ہو...اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان عملی مثالوں سے بہت متاثر ہوتا ہے اور نیک اثر قبول کرتا ہے.انسان بالطبع نمونہ کا محتاج ہے اور دوسروں کے نیک نمونوں سے اس کے دل میں بھی نیکی کی تمنا میں بیدار ہوتی اور اسے بھی اسی رنگ میں رنگین ہونے پر مستعد کرتی ہیں.رسول پاک ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ وہ شخص حقیقت میں بہت ہی سعادت مند ہے جو دوسروں کے نیک نمونوں سے نصیحت پکڑتا ہے.اس پر حکمت اصول کی روشنی میں میں مالی قربانیوں کے چند نمونے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.اس امید اور دعا کے ساتھ " شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات قرون اولیٰ کی مثالیں: آئیے ابتداء کرتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی مثالوں سے جنہوں نے نور محمدی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی سعادت پائی ، آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور واقعی آپ کی ہدایات کو اپنی زندگیوں کا کچھ اس طرح حصہ بنالیا کہ وہ سب کے سب آسمان ہدایت پرستاروں کی طرح جگمگاتے نظر آتے ہیں.یہی ہیں وہ خوش قسمت صحابہ جن سے خدا راضی ہوا اور وہ خدا سے راضی ہوئے اور جن کے نمونے کو رسول پاک ﷺ نے ہمیشہ کے لئے قابل تقلید قرار دیا.کے واقعات سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے.صحابہ کرام نے 24

Page 25

انفاق في سبيل الله اس اسلامی تعلیم پر جس طرح دل و جان سے عمل کیا وہ تاریخ عالم میں بے مثل ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک غزوہ کے موقع پر نصف مال پیش کر دیا اور سوچا کہ میں اس میدان میں سب پر سبقت لے گیا ہوں.تھوڑی دیر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور اپنا سارا مال پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر کر دیا.اور مسابقت کی یہ دلفریب ادائیں صحابہ کرام نے اپنے اور ہمارے محبوب آقا، معلم کل جہاں حضرت محمد مصطفے ﷺ سے سیکھیں.آپ ہی نے ان کے دلوں کو روحانی پاکیزگی عطا فرمائی اور پھر ان دلوں میں راہ خدا میں اپنے اموال بے دریغ قربان کرنے کا بیج بویا.جب یہ پیج پھل لاتا اور اور ایثار کا کوئی مظاہرہ آپ کی نظروں کے سامنے آتا تو آپ کا چہرہ مبارک خوشی سے تمتما اٹھتا.ایک کسان کی طرح جو اپنی سرسبز اور لہلہاتی ہوئی کھیتی کو دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھتا ہے.اس کی ایک مثال عرض کرتا ہوں.حضرت جریر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک غریب قوم کے لوگ حاضر ہوئے جو ننگے پاؤں اور ننگے بدن تھے.ان کی حالت دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہو گیا اور آپ نے صحابہ کو جمع کر کے خطاب کیا اور ان کے لئے صدقہ کی تحریک فرمائی.صحابہ نے دینار، درہم، کپڑے، جو اور کھجور صدقہ کیا یہاں تک کہ کپڑوں اور غلے کے دو ڈھیر جمع ہو گئے.حضرت جریرہ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ یہ منظر دیکھ 25

Page 26

انفاق في سبيل الله کرسونے کی ڈلی کی مانند چمک رہا تھا.(صحيح مسلم كتاب الزكواة باب الحث على الصدقه ) جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَهُ (سورۃ آل عمران آیت 93) کہ تم ہر گز نیکی نہ پاسکو گے جب تک تم ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو گے، جن سے تم محبت کرتے ہو“ تو اس کے بعد وفا شعار صحابہ کا طرز عمل دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.یوں لگتا تھا کہ وہ اپنی ہر محبوب ترین چیز کو راہ خدا میں قربان کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں.انصار مدینہ میں سب سے زیادہ باغات حضرت طلحہ کے پاس تھے.بیرحاء نامی ایک باغ آپ کا محبوب ترین باغ تھا.یہ مسجد نبوی کے سامنے تھے اور حضور ﷺ اکثر وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے.اس باغ کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی آپ کو بہت مرغوب تھا.یہ آیت اتری تو حضرت ابوطلحہ نے فی الفور یہ باغ اللہ کی رضا کی خاطر صدقہ کے طور پر پیش کر دیا! حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ جب یہ آیت اتری تو میں نے غور کیا کہ مجھے اپنے اموال میں سب سے زیادہ پسندیدہ مال کون سا ہے ؟ میں نے اپنی رومی لونڈی سے زیادہ 26

Page 27

انفاق في سبيل الله محبوب کوئی چیز نہ پائی.اس پر میں نے اسی وقت اس لونڈی کو آزاد کر دیا.(حلیۃ الاولیاء جلد 1 صفحہ 295) حضرت عبداللہ بن عمررؓ کا واقعہ بھی عجیب ایمان افروز واقعہ ہے اور ان کے سچے جذبات کی خوب عکاسی کرتا ہے.ایک دفعہ بیمار ہوئے اور مچھلی کھانے کو بہت دل چاہا.لوگوں نے بڑی مشکل سے ایک مچھلی تلاش کی.پکا کر ان کے سامنے رکھی.ابھی ایک لقمہ بھی نہ لیا تھا که دروازہ پر ایک مسکین نے صدا دی.آپ نے فوراً ساری کی ساری مچھلی اٹھا کر اسے دیدی.لوگوں نے اصرار سے کہا کہ آپ مچھلی کھا لیں.اس مسکین کو ہم رقم دے دیتے ہیں جس سے وہ اپنی ضرورت پوری کر لے گا لیکن حضرت عمر نے فرمایا کہ اس وقت میرے لیے یہی مچھلی سب سے زیادہ پسندیدہ اور مرغوب ہے اور میں اسے ہی صدقہ کروں گا.(حلیۃ الاولیاء جلد 1 صفحہ 297) حضرت سلمان فارسی مدائن کے گورنر تھے.ان کو بیت المال سے پانچ ہزار دینار ملتے تھے.آپ کا طریق یہ تھا کہ رقم ملتے ہی ساری کی ساری راہِ خدا میں قربان کر دیتے اور اپنا گزارہ چٹائیاں بن کر چلاتے تھے.الاستیعاب جلد 2 صفحہ 572) حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ اور حضرت اسماء 27

Page 28

انفاق في سبيل الله سے زیادہ کسی کو سخی نہیں دیکھا.دونوں کا انداز قربانی مختلف تھا.حضرت عائشہ تو تھوڑا تھوڑا کر کے مال جمع کرتیں اور جب کچھ مال جمع ہو جاتا تو سب کا سب تقسیم کر دیتیں.مگر حضرت اسماء کا طریق یہ تھا کہ وہ تو کوئی چیز اپنے پاس رکھتی ہی نہ تھیں.☆☆☆ الادب المفرد باب السخاوة ) ایک بار رسول خداﷺ نے عورتوں کو راہ خدا میں قربانی کرنے کی نصیحت فرمائی.ابھی آپ واپس گھر نہیں پہنچے تھے کہ حضرت ابن مسعود کی بیوی آگئیں اور عرض کیا کہ میرے پاس جس قدر زیورات ہیں وہ سب کے سب لے آئی ہوں اور راہِ خدا میں پیش کرتی ہوں.( صحیح بخاری کتاب الزکوة) یہ چند مثالیں بطور نمونہ ہیں.حق تو یہ ہے کہ رسول پاک ﷺ کی پاک نظر ان صحابہ کے وجودوں پر کچھ ایسا کام کر گئی کہ وہ اپنے آپ سے کھوئے گئے.انہوں نے فنافی اللہ اور انفاق سبیل اللہ کے وہ نمونے دکھائے جن کی نظیر ملنا محال ہے.دور حاضر کی مثالیں: اور آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس دور آخرین میں جو حضرت رسول پاک ﷺ کے غلام کامل اور عاشقِ صادق کا بابرکت دور ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور سعادت عطا فرمائی کہ ہم نے یہ زمانہ پایا جس کی راہ تکتے تکتے لاکھوں کروڑوں انسان اس دنیا 28

Page 29

انفاق في سبيل الله سے گذر گئے.حضرت مسیح الزمان، مهدی دوراں علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نے قرونِ اولیٰ کے صحابہ کے نقوش پا کی کچھ اس فدائیت سے پیروی کی کہ ان کے آقا نے انہیں جیتے جی یه نوید سنادی که مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا ان صحابہ کرام اور تابعین کرام کی مثالیں کوئی دور کی بات نہیں.ان میں سے بعض خوش نصیبوں کو دیکھنے کا شرف ہم میں سے بعض نے پایا اور بہت سے ایسے تابعین ہیں کہ جو آج اس دور میں ہمارے درمیان موجود ہیں اور اپنے پیش روصحابہ کے رنگ میں رنگین ہیں.آئیے دیکھیں کہ اسلام کے ان فدائیوں نے مالی قربانیوں کے میدانوں میں کس کس انداز میں روشن مینار تعمیر کیے ہیں.☆☆☆ راہ خدا میں خرچ کرنا ایک بات ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے بے پناہ فدائیت ، ایثار اور مسابقت کا جذبہ بھی ساتھ ہو تو ایسی قربانیوں کو چار چاند لگ جاتے ہیں.بالکل ابتدائی زمانہ کی بات ہے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو ایک اشتہار شائع کرنے کے لیے ساٹھ روپے کی ضرورت تھی.آپ نے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی سے فرمایا کہ ضرورت فوری ہے.کیا ممکن ہے کہ آپ کی جماعت اس ضرورت کو پورا کر سکے؟ حضرت منشی صاحب نے حامی بھرلی اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی بات سن کر سید ھے گھر گئے.اپنی بیوی کی 29

Page 30

انفاق في سبيل الله رضامندی سے زیور بیچ کر فوری طور پر مطلوبہ رقم لا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی.چند روز بعد حضرت منشی اروڑے خان صاحب ملنے آئے اور حضور نے کپورتھلہ جماعت کا شکر یہ ادا کیا کہ آپ لوگوں نے بہت بر وقت مدد کی.اس پر یہ راز کھلا کہ منشی ظفر احمد صاحب نے تو جماعت کے کسی دوست سے اس کا ذکر تک نہیں کیا.کتنی جانثاری اور کتنی خاکساری اور کتنی ہے نفسی ہے اس واقعہ میں ! روایت میں آتا ہے کہ حضرت منشی اروڑے خان صاحب کو مالی خدمت کے اس نادر موقع سے محرومی کا اس قدر شدید قلق تھا کہ آپ کافی عرصہ تک حضرت منشی ظفر احمد صاحب سے ناراض رہے.کیا شان ہے اس ناراضگی کی.وجہ صرف یہ تھی کہ سارا ثواب آپ نے ہی لے لیا اور ہمیں اس ثواب میں حصہ دار نہ بنایا ! ☆☆☆ (اصحاب احمد جلد 6 صفحہ 72) حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کے واقعہ سے جو ابھی آپ نے پڑھا ، دور آخرین کے حضرت میاں شادی خان صاحب کی یاد آ جاتی ہے.سیالکوٹ کے لکڑی فروش، بہت متوکل انسان تھے.تنگدست تھے لیکن دل کے بادشاہ.اس فدائی انسان کا نمونہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک موقعہ پر اپنے گھر کا سارا ساز وسامان فروخت کر کے ڈیڑھ سو روپیہ کے بعد مزید دوسو روپے حضور کی خدمت میں پیش کر دیئے.اُس زمانہ کے لحاظ سے یہ بہت بڑی قربانی تھی.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے ایک مجلس میں اس پر اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ میاں شادی خان نے تو اپنا سب کچھ پیش کر دیا.اور 30

Page 31

وو انفاق في سبيل الله در حقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا.“ (بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 315) میاں شادی خان صاحب نے سنا تو سیدھے گھر گئے.ہر طرف نظر دوڑائی.سارا گھر خالی ہو چکا تھا صرف چند چار پائیاں باقی تھیں.فوری طور پر ان سب کو بھی فروخت کر ڈالا اور ساری رقم لا کر حضور کے قدموں میں ڈال دی اور حضور کے منہ سے نکلی ہوئی بات لفظاً لفظاً پوری کردی! اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس فدائی خادم کو کس طرح نوازا.ان کی وفات ہوئی تو ان کی آخری آرام گاہ بہشتی مقبرہ میں ایسی جگہ بنی جو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مزار مبارک سے چند گز کے فاصلہ پرتھی اور بعد ازاں مقدس چار دیواری کے اندر آگئی ! ☆☆☆ کی توفیق کسی انسان کو تب ہی ملتی ہے جب اسے تو کل علی اللہ کی نعمت نصیب ہو.اس تعلق میں حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کا خوبصورت نمونہ یا در رکھنے کے لائق ہے.آپ کے صاحبزادے حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب بیان کر تے ہیں: ”ہمارے گھر میں خرچ نہ تھا.میرے والد صاحب نے میری والدہ سے پوچھا : آٹا ہے؟ کہا نہیں.مال ہے؟ جواب نفی میں ملا.ایندھن ہے؟ وہی جواب تھا.جیب میں ہاتھ ڈالا.صرف دو روپے تھے.فرمانے لگے: اس میں تو اتنی چیزیں پوری نہیں ہو سکتیں.اچھا میں ان دورو پوں سے تجارت کرتا ہوں.وہ دوروپے کسی غریب کو دے کر خود نماز پڑھنے چلے گئے.31

Page 32

انفاق في سبيل الله راستہ میں اللہ تعالیٰ نے دس روپے بھیج دیئے.واپس آکر فرمایا: ”لو میں تجارت کر آیا ہوں.اب سب چیزیں منگوالو.اللہ کی راہ میں مال دینے سے گھٹتا نہیں بڑھتا ہے“ ( انعامات خداوند کریم صفحہ 221 222 تصنیف حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی) دین کی راہ میں مالی قربانی کی ایک عظیم اور شاندار مثال حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے صحابی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی ہے.لندن مشن میں سن ساٹھ کی دہائی میں یہ تجویز چلی کی جماعت احمدیہ برطانیہ کے مرکز میں موجود دو عمارتوں کو ( جو کافی پرانی ہو چکی تھیں ) گرا کر ایک بڑا کمپلیکس بنایا جائے جس میں ایک بڑا ہال، دفاتر ، دو بڑے رہائشی مکان اور ایک چھوٹا ر ہائشی فلیٹ ہو.اس تعمیراتی منصوبہ کے لئے جماعت کے پاس اس وقت مطلوبہ ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم موجود نہیں تھی.جماعتی ضروریات کے لئے بینک سے سود پر رقم لینا بھی جماعت کا طریق نہیں.بہت سوچ بچار اور کوشش کے بعد جب کوئی صورت نہ بن سکی تو حضرت چوہدری صاحب سے درخواست کی گئی کہ کیا آپ یہ رقم مہیا فرما سکتے ہیں جو بعد ازاں آپ کو قسط وار واپس کر دی جائے گی.آپ نے اس پر رضامندی کا اظہار فرمایا.قرآنی تعلیم کے مطابق اس غرض سے ایک معاہدہ تجویز کیا گیا کہ حضرت چوہدری صاحب جماعت کو ایک لاکھ پاؤنڈ ادا کریں گے اور جماعت ایک وقت مقررہ کے اندر اس کی واپسی کی ذمہ دار ہوگی.ایک شام معاہدہ کی مجوزہ تحریر چوہدری صاحب کو دی گئی.انہوں نے فرمایا کہ میں بغور مطالعہ کرنے کے بعد دستخط کر کے کل دے دوں گا.32

Page 33

انفاق في سبيل الله اگلی صبح چوہدری صاحب نے فرمایا کہ میں نے اس بارہ میں سوچا اور دیانتداری سے اس پر غور کیا تو میرے نفس نے مجھ سے کہا کہ ظفر اللہ خان! آج تم جو کچھ ہو یہ احمدیت کی بدولت ہو.تم نے جو کچھ پایا وہ سارے کا سارا اسی جماعت کا فیضان ہے.کیا اب تم اسی محسن جماعت کو ایک رقم قابلِ واپسی قرض کے طور پر دینا چاہتے ہو؟ میرے نفس نے مجھے بہت ملامت کی اور میں اپنے ارادہ پر بہت شرمسار ہوا اور بہت استغفار کی.اسی لمحہ میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ مطلوبہ رقم بطور قرض نہیں بلکہ ایک عاجزانہ عطیہ کے طور پر جماعت کی خدمت میں پیش کروں گا.یہ فرماتے ہوئے آپ نے معاہدہ کی تحریر پھاڑ دی اور ایک لاکھ پاؤنڈ کا چیک اسی وقت جماعت کے حوالہ کر دیا.اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ میری اس ادائیگی کا حضرت خلیفہ امسح الثالث کے علاوہ کسی اور شخص سے میری زندگی میں ہرگز ذکر نہ کیا جائے.قربانی، عاجزی اور اخلاص کا کیا شاندار نمونہ ہے! حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے صحابہ میں مالی قربانیوں کا جذ بہ ایسا راسخ ہو چکا تھا کہ اس کے نئے سے نئے انداز اختیار فرماتے.ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں جس میں بے پناہ جذبہ قربانی جھلکتا نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود کے ایک صحابی سائیں دیوان شاہ صاحب اپنے بار بار قادیان آنے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں.میں چونکہ غریب ہوں.چندہ تو دے نہیں 33

Page 34

انفاق في سبيل الله سکتا.قادیان جاتا ہوں تا کہ مہمان خانہ کی چار پائیاں بُن آؤں اور میرے سر سے چندہ اتر جائے.“ (اصحاب احمد جلد 13 صفحہ 9) مال ہو تو اس کی طلب اور خواہش کے باوجود دینی ضروریات کو مقدم کرنا اور راہ خدا میں خرچ کرنا یقیناً بہت ہمت کی بات ہے اور ثواب عظیم کا موجب.لیکن مالی تنگی کے باوجود خدا کی راہ میں خرچ کرنا بلکہ اپنا سب کچھ پیش کر دینا واقعی صبر اور قربانی کا انتہائی بلند مقام ہے.حضرت مسیح موعود کے ایک اور صحابی کی مثال پیش کرتا ہوں جن سے ملنے کی سعادت اس عاجز کو حاصل ہے.حضرت بابو فقیر علی صاحب امرتسر میں تھے کہ حضور کی طرف سے چندہ لینے والے پہنچ گئے.نقد رقم تو موجود نہ تھی.آپ کے پاس اس وقت کنستر میں صرف آدھ سیر کے قریب آتا تھا.آپ نے وہی پیش کر دیا اور وہ ساری رات آپ اور آپ کے اہل وعیال نے فاقہ سے گزار دی! ( الفضل 18 جنوری 1977ء) مالی قربانی کی عظمت کا معیار اس کی مقدار نہیں بلکہ وہ خلوص ، جذ بہ اور نیت ہے جس سے وہ قربانی پیش کی جاتی ہے.حضرت مرزا عبدالحق صاحب مرحوم ایڈووکیٹ سرگودھا نے ایک احمدی سقہ (ماشکی) کا یہ واقعہ بار ہا جگہ جگہ بیان فرمایا کہ اس کا کام شہر کی نالیاں صاف 34

Page 35

انفاق في سبيل الله کرنے والے کارکنان کے لئے اپنی مشک سے پانی ڈالنا تھا.اس کی ماہانہ آمد ( اس زمانہ میں ) صرف 32 روپے بنتی تھی.وہ اس آمد میں سے ہر ماہ 20 روپے بڑی باقاعدگی سے بطور چندہ ادا کرتا تھا اور باقی صرف 12 روپے میں اپنے خاندان کا گزارہ کرتا تھا.لاریب قربانی کا یہ معیار بہت ہی قابل رشک ہے اور بہتوں کے لئے درس نصیحت ہے.قادیان کے ایک درویش کا عاشقانہ انداز قربانی ایسا ہے کہ روح پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.شمس الدین صاحب درویش جسمانی طور پر معذور تھے سارا وقت ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں پڑے رہتے.نظام وصیت 1905 میں شروع ہوا.یہ 1919 میں اس میں شامل ہوئے لیکن اس اپاہج اور معذور لیکن دل کے غنی اور فدا کار کا نمونہ دیکھئے کہ آپ نے 1901 سے چندہ وصیت دینا شروع کر دیا.اور نہ صرف ساری زندگی ادا کیا بلکہ آئندہ سالوں کا چندہ بھی دیتے رہے اور 1990 تک کا چندہ وصیت ادا کر دیا جبکہ ان کی وفات 1950 میں ہوگئی.گویا وہ تصویری زبان میں کہہ رہے تھے کہ کاش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت اولین احمدیوں میں شامل ہوتا اور کاش میں 1990 تک زندگی پا کر اسلام کی خدمت کرتا چلا جاتا.قربانی کا یہ بے مثال جذبہ ایک ایسے شخص کا ہے جو معذور تھا.چل پھر بھی نہ سکتا تھا، پہلو تک نہیں بدل سکتا تھا.زبان میں بھی لکنت تھی لیکن اس فدائی کا دل کتنا متحرک اور جذبہ قربانی سے پُر تھا! ( بحوالہ وہ پھول جو مرجھا گئے از چوہدری فیض احمد گجراتی حصہ اول صفحہ 60 تا 62) 35

Page 36

انفاق في سبيل الله انتہائی نازک اور مشکل حالات میں، دلی جذبات کو قربان کرتے ہوئے ، راہ خدا میں قربانی پیش کرنا کوئی معمولی بات نہیں.اس کے بے شمار نمونے تاریخ احمدیت میں جابجا جگمگاتے نظر آتے ہیں.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ کا ایک واقعہ یوں بیان کیا کہ وو وزیر آباد کے شیخ خاندان کا ایک نو جوان فوت ہو گیا.اس کے والد نے کفن ڈمن کے لئے 200 روپے رکھے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود نے لنگر خانہ کے اخراجات کے لئے تحریک فرمائی.ان کو بھی خط گیا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود کور تم بھجوانے کے بعد لکھا کہ میرا نوجوان لڑکا طاعون سے فوت ہوا ہے میں نے اس کی تجہیز و تکفین کے واسطے مبلغ 200 روپے تجویز کئے تھے جو ارسال خدمت کرتا ہوں اور لڑکے کو اس کے لباس میں دفن کرتا ہوں“ (رسالہ ظہور احمد موعودصفحہ 70-71 مطبوعہ 30 جنوری 1955) کیا یہ ممکن ہے کہ کسی شخص کی زندگی میں یہ مرحلہ آجائے کہ اسے کہا جائے کہ اب تمہیں مزید مالی قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ؟ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ جماعتی ضروریات اور منصوبے تو آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جماعتی تاریخ میں ایک شخص ایسے بھی گزرے ہیں جن کی غیر معمولی نمایاں اور بے لوث قربانیوں کو دیکھتے ہوئے واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں فرمایا کہ اب انہیں مزید مالی قربانیوں کی ضرورت نہیں.یہ بزرگ شخصیت حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب 36

Page 37

انفاق في سبيل الله رضی اللہ عنہ کی تھی جن کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.حضرت صاحب کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپ پر مقدمہ گورداسپور میں ہو رہا تھا اور اس میں روپیہ کی سخت ضرورت تھی.حضرت صاحب نے دوستوں کو تحریک کی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں.لنگر خانہ دو جگہوں پر ہو گیا ہے.ایک قادیان میں اور ایک گورداسپور میں.اس کے علاوہ مقدمہ پر خرچ ہورہا ہے.لہذا دوست امداد کی طرف توجہ دیں.جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن ان کو تنخواہ تقریباً 450 روپے ملی تھی وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت آپ کی خدمت میں بھیج دی.ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ گھر کی ضروریات کے لیے رکھ لیتے.تو انہوں نے کہا کہ خدا کا نبی کہتا ہے کہ دین کے لیے ضرورت ہے تو پھر اور کس کے لئے رکھ سکتا ہوں.غرض ڈاکٹر صاحب تو دین کے لئے اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی.اور انہیں کہنا پڑا کہ اب ان کو قربانی کی ضرورت نہیں“ 37 (روز نامه الفضل 11 جنوری 1927)

Page 38

انفاق في سبيل الله مردوں کی مالی قربانیوں کا ذکر ہو رہا ہے.حق یہ ہے کہ جماعت کی خواتین بھی اس مالی جہاد میں مردوں کے دوش بدوش بلکہ بعض صورتوں میں مردوں سے بھی آگے رہتی ہیں.مسجدوں کی تعمیر کے موقع پر جس طرح مرد اپنی جیبیں خالی کرتے اور تنخواہوں کے لفافے بند کے بند چندے میں دے دیتے ہیں ، عورتیں بھی اپنے طلائی زیورات اسی والہانہ انداز میں چندہ میں پیش کرتی ہیں جیسے ان قیمتی زیورات کی کوڑی برابر بھی قیمت نہ ہو.شادی کے زیورات کے ڈبے، بند کے بند، خلیفہ وقت کے قدموں میں رکھ دیتی ہیں ! میں چشم دید گواہ ہوں کہ مانچسٹر میں جب بیت الفتوح لندن کے سلسلہ میں تحریک کی گئی تو ایک نوجوان حاضرین میں سے اٹھ کر آیا.اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا.اس نے وہ لفافہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے گزشتہ ماہ کی تنخواہ ملی ہے.میں نے ابھی اس لفافہ کو کھولا تک نہیں.مسجد کے بارہ میں تحریک سن کر یہ لفافہ بند کا بند، پیش کرتا ہوں ! ☆☆☆ اسی مجلس میں ایک اور نو جوان کا نمونہ بھی ناقابل فراموش ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی ایک شاندار مثال ہے.تحریک سن کروہ سٹیج پر آیا اور ایک لفافہ پیش کرتے ہوئے کہنے لگا کہ چند دنوں بعد میری شادی ہونے والی ہے میں نے ولیمہ کے لئے 500 پاؤنڈ بچا کر رکھے ہوئے ہیں.خدا کا گھر بنانے کی تحریک سن کر دل میں خیال آیا ہے کہ ولیمہ کا انتظام تو خدا تعالیٰ کسی نہ کسی طرح کر دے گا.خدمت دین کے اس واقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دوں.38

Page 39

انفاق في سبيل الله میری طرف سے یہ ساری رقم مسجد کے لئے قبول کرلیں.اسی مجلس کا ایک اور بہت ہی ایمان افروز واقعہ ہے.مسجد کی تعمیر کی مبارک تحریک کرنے کے موقعہ پر جب میں نے وعدوں کی لسٹ پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ سب سے زیادہ وعدہ ایک احمدی خاتون کا تھا.میں نے تقریر میں اس کا ذکر کر دیا اور مردوں کو توجہ اور غیرت دلائی.ایک دوست نے خاتون کے دس ہزار پاونڈ کے مقابل پر پندرہ ہزار کا وعدہ کر دیا.چند لمحوں میں اسی خاتون کی طرف سے چٹ آئی کہ میرا وعدہ ہیں ہزار پاؤنڈ لکھ لیں.میں نے جب اس کا اعلان کیا تو اس مرد نے اپنا وعدہ فوراً بڑھا کر اکیس ہزار پاؤنڈ کر دیا.مومنانہ مسابقت کا ایک ایمان افروز نظارہ تھا.ہر ایک منتظر تھا کہ دیکھیں اب کیا بنتا ہے.فوراً ہی اس مخلص خاتون کی طرف سے ایک اور چٹ موصول ہوئی جس کے مضمون نے سب مردوں کو لا جواب کر کے رکھ دیا.لکھا تھا کہ اب اس طرح بار بار وعدے بڑھانے کا موقع نہیں.میری طرف سے نوٹ کر لیا جائے کہ مسجد کی تعمیر کی خاطر ساری جماعت میں سے جو کوئی بھی سب سے زیادہ وعدہ لکھوائے گا.میرا وعدہ ہر صورت میں اس سے ایک ہزار پاؤنڈ زیادہ ہو گا! مسابقت بالخیرات کا کیا ہی قابل رشک نمونہ ہے جو اس احمدی خاتون نے دکھایا! ✰✰✰ محترمه کریم بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم منشی امام دین صاحب کی مثال بھی عجیب شان کی حامل ہے.آپ مالی حالات کی ناسازگاری کے باوجود ہمہ وقت مالی قربانی کی راہیں تلاش 39

Page 40

انفاق في سبيل الله کرتی رہتی تھیں اور منتظر رہتی تھیں کہ کب مالی قربانی کا کوئی نیا موقع پیدا ہواور وہ اس پر سب سے پہلے لبیک کہیں.آپ کا غیر معمولی جذبہ قربانی اس واقعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ جب انہوں نے وصیت کے سب واجبات ادا کرنے کے بعد حصہ جائیداد کی ساری رقم بھی ادا کر دی تو ہوا یوں کہ دفتر کی غلطی کی وجہ سے وہ ساری کی ساری رقم کسی اور مد میں داخل کر دی گئی اور ایک لمبے عرصہ کے بعد اس غلطی کا پتہ لگا.اس غلط اندراج کا ازالہ کاغذات میں درستی کے ذریعہ بآسانی ہو سکتا تھا لیکن اس مخلص خاتون نے یہ پسند نہ کیا کہ ادا کردہ رقم کو نکال کر صحیح مد میں درج کر دیا جائے.انہوں نے ایک دفعہ ادا کردہ حصہ جائیداد کے برابر ساری کی ساری رقم دوبارہ ادا کر کے اپنا حساب بے باق کر دیا ! ✰✰✰ اصحاب احمد جلد 1 صفحہ 162) اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل وکرم سے جماعت کے مردوں اور عورتوں کو مالی قربانیوں کے میدانوں میں غیر معمولی رنگ میں حیران کن نمونے پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.امراء کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت عطا فرمائی ہے کہ وہ دل کھول کر، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ، اپنی خداداد دولت قربان کرتے چلے جاتے ہیں اور غریب بھی اپنی نیک اور مخلصانہ، بے تاب تمناؤں کے لحاظ سے کسی سے پیچھے نہیں.بے شمار واقعات میں سے ایک نادر واقعہ پیش کرتا ہوں.قادیان کے ابتدائی زمانہ کی بات ہے.خلافت ثانیہ میں ایک غریب خاتون کی 40

Page 41

انفاق في سبيل الله قربانی کا واقعہ میری والدہ ماجدہ مرحومہ نے کئی بار سنایا.حضرت مصلح موعودؓ ایک مجلس میں مالی قربانی کی تحریک فرما رہے تھے اور یہ غریب اور نادار خاتون اس بات پر بے چین ہو رہی تھی کہ مالدار لوگ تو قربانیاں کرتے جارہے ہیں اور میں محروم رہی جاتی ہوں.سخت بے چینی میں اٹھ کر گھر آئی.گھر کی چیزیں بیچ کر تو پہلے ہی چندہ دے چکی تھی صحن میں ایک مرغی نظر آئی.وہی لا کر حضور کے سامنے پیش کر دی.پھر بے تاب ہو کر گھر گئی اور دو تین انڈے اٹھا کر لے آئی.قربانی کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ آرام سے بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا.ادھر حضرت مصلح موعود کا خطاب جاری تھا.وہ اٹھی اور گھر آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ کچھ ملے تو جا کر وہ بھی پیش کر دوں.خاوند ایک ٹوٹی ہوئی چار پائی پر بیٹھا تھا.اس نے کہا کہ اب کیا ڈھونڈتی ہو، سب کچھ تو دے چکی ہو، گھر میں تو اب کچھ بھی نہیں رہا.اس خدا کی بندی نے جو اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کرنے کی قسم کھا چکی تھی بڑے غصہ سے کہا: چپ کر کے بیٹھے رہو.میرا بس چلے تو میں تو تمہیں بھی بیچ کر چندہ میں دیدوں!“ اختتامیه: (احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ صفحہ 49) عشاق اسلام واحمدیت کی یہ قربانیاں اور ان کی فدائیت کے یہ ایمان افروز نمونے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں.ایک ایک واقعہ ہمیں دعوت عمل دے رہا ہے کہ ان واقعات کو پڑھ کر ایک لمحہ کے لیے خوش ہو جانے اور سر دھننے پر ہی بس نہ کر دیں بلکہ ان پاک نمونوں کو اپنی زندگیوں میں بھی جاری وساری کر دکھا ئیں.اس راہ پر چلنے والوں نے تو اپنی منزل پا 41

Page 42

انفاق في سبيل الله لی.اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی مالی قربانی کی ان راہوں پر پوری وفا کے ساتھ آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں اور قربانیوں کے جس علم کو ہمارے آباؤ اجداد نے سرنگوں نہیں ہونے دیا ہم بھی اپنی جانیں فدا کر دیں ، اپنے اموال قربان کر دیں، لیکن احمدیت کے نام پر ہرگز ہرگز کوئی آنچ یا دھبہ نہ آنے دیں! ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا عارضی اور چند روزہ ہے.ہم میں سے ہر ایک نے ایک دن اس عارضی ٹھکانہ کو پیچھے چھوڑ کر آخرت کا سفر اختیار کرنا ہے.سوچنے اور فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اس سفر آخرت کے لیے کیا زاد راہ تیار کیا ہے؟ اگر کسی کے ذہن میں یہ ہو کہ میں اپنی جائیداد ہیں، محلات، اپنی دوستیں اور اپنی جاگیریں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا تو اُس شخص سے زیادہ نادان اور جاہل کون ہوسکتا ہے.اس دنیا میں آنے والا ہر شخص خالی ہاتھ آتا ہے اور خالی ہاتھ ہی جاتا ہے.دنیا کے یہ سب اموال، سب جائیدادیں ، حتی کہ بیوی، بچے ، رشتہ دار اور دوست، سب اسی دنیا میں رہ جاتے ہیں.مرنے والے کے ساتھ اگر کوئی چیز اُس دنیا میں جاتی ہے اور آخرت میں اُس کو کوئی فائدہ دے سکتی ہے تو وہ اُس کے نیک اعمال ہیں.ان نیک اعمال میں دیگر نیکیوں کے علاوہ مالی قربانیوں کا ایک بلند مقام ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال کو خوش دلی کے ساتھ راہ خداہ میں خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کی دولت حاصل کر لی جائے تو یہ قربانی ضرور وہ زادِ راہ ہے جو آخرت میں انسان کے ساتھ جاتا ہے اور یہی وہ سچی اور حقیقی دولت ہے جو میدانِ حشر میں بھی اس کی دستگیری کرے گی.حضرت 42

Page 43

انفاق في سبيل الله صاحبزادہ مرزا بشیر احمد نے کیا خوب فرمایا ہے: یه زر و مال تو دنیا ہی میں رہ جائیں گے حشر کے روز جو کام آئے وہ زر پیدا کر پس ہم میں سے کوئی اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ دنیا کی دولت آخرت میں اس کے کام آئے گی.عقلمند اور کامیاب وہ شخص ہے جو اس فانی دولت کو راہ خدا میں قربان کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کی ابدی اور لازوال دولت خرید لیتا ہے اور اس وسوسہ میں کبھی مبتلا نہیں ہوتا کہ مال خرچ کرنے سے دولت کم ہو جاتی ہے.یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے.حق یہ ہے کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے دولت کم نہیں ہوتی بلکہ بے انداز بڑھتی چلی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک فارسی شعر میں فرماتے ہیں: زبذل مال در راہش کسے مفلس نمی گردد خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے سے کبھی کوئی شخص غریب نہیں ہوتا.اگر انسان اس راہ میں جوان مردی اور ہمت دکھائے تو خدا خود اُس کا معین و مددگار ہو جاتا ہے.خدائے رحمان و رحیم کی جت نعیم کے ہر طلب گار کا فرض ہے کہ وہ صادق الوعد خدا کے وعدوں پر کامل یقین رکھتے ہوئے مالی قربانیوں کے سب میدانوں میں اس شان سے آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے کہ اسی زندگی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ خوش خبری سن لے کہ ( سورة الفجر 30-31) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي 43

Page 44

انفاق في سبيل الله کہ آؤ میرے بندو! میری راہ میں اپنے آپ کو فدا کرنے والو! دوڑتے ہوئے آؤ اور میری رضا کی ابدی جنتوں میں داخل ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس زمرہ ابرار میں شامل فرمائے.آمین و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين 44

Page 45

كلام الامام امام الكلام علامات المقربين خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر شار ای فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب؟ اُسے دے چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک سے وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے

Page 45