Language: UR
احمدی بچوں اور نوجوانوں کوامت محمدیہ کے علماء اور بزرگان سلف کی سیرت و سوانح سے واقفیت دلانے کے لئے سادہ زبان اور عام فہم انداز میں نہایت اختصار سے لکھا جانے والا یہ کتابچہ پہلی دفعہ اگست 1983ء میں مکرم و محترم محمود احمد شاہد صاحب کے دور صدارت میں شائع کیا گیا تھا۔ زیر نظر ایڈیشن کمپوز شدہ ہے جس کا مطالعہ ہمیں امام موصوف کی میدان علم فقہ میں کمال اور گہرائی ، نیکی ، تقویٰ، طہارت اور نہایت اعلیٰ اخلاق اور آپ کی سیرت اور اخلاق کے حسین،فائندہ منداور دلچسپ واقعات کا پتہ دیتا ہے ۔ یقینا ًحضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علم و معرفت سے کروڑوں لوگوں نے فائدہ اٹھاہے لیکن یہاں اس کتاب میں درج ان کی سیرت بطور خاص طالب علموں کو ایک مضبوط عزم اور بلند حوصلہ عطا کرنے کا موجب ہوگی۔
اماما حضرت ابو حنیفہ رحمة الله عليه طبع تصنيف : امام اعظم حضرت ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ دوم
پیش لفظ شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ احمدی نوجوانوں اور بچوں کو بزرگانِ سلف کی سیرت و سوانح سے واقفیت دلانے کے لیے سادہ زبان اور عام فہم انداز میں مختصر کتا بیں شائع کر رہی ہے.زیر نظر کتاب حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی سیرت و سوانح پر مشتمل ہے جسے نے اسے تصنیف کیا ہے.یہ کتاب پہلی مرتبہ اگست 1983ء میں مکرم و محترم محمود احمد شاہد صاحب سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے دور صدارت میں شائع ہوئی.ایک لمبے عرصے کے بعد شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ اب اس کتاب کو کمپوز کر کے دوبارہ شائع کرنے کی توفیق پا رہا ہے.
بہت ترقی کی.آپ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.اس کتاب میں آپ کے سوانح حیات کے ساتھ ساتھ آپ کی سیرت اور اخلاق کے خوبصورت واقعات بھی شامل ہیں جو پڑھنے والوں دیباچه کوفہ شہر کی ایک گلی میں ایک خوبصورت نوجوان لڑکا گذر رہا تھا.کوئی 17 سال کی عمر ہوگی.کے لیے یقینا دلچسپ بھی ہوں گے اور فائدہ مند بھی.امام اعظم کی سیرت بطور خاص طالب علموں کو ایک مضبوط عزم اور بلند حوصلہ عطا کرنے کا موجب ہو گی.اللہ کرے کہ تمام احمدی خدام چہرے سے ذہانت ٹپک رہی جیسے کسی مکتب کا ہونہار طالب علم ہو.راستہ میں کوفہ کے ایک بہت بڑے اور مشہور عالم امام شعمی کا مکان تھا.امام شعمی نے اس لڑکے کو دیکھ کر پوچھا.میاں ! کہاں واطفال اس کتاب کو پڑھ کر اس سے فائدہ اٹھانے والے اور علم وعمل میں ترقی کرنے والے جار ہے ہو؟ لڑکے نے جواب دیا: میں ایک تجارتی کام سے بازار جار ہا ہوں.امام شعمی نے اپنے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے پوچھا: میرا مطلب ہے تم کس سے پڑھتے ہو؟ لڑکے نے جواب دیا کسی سے بھی نہیں.امام شعمی نے غالباً اس لڑکے کے چہرے سے اس کی غیر معمولی ذہانت اور قابلیت کے جو ہر کا اندازہ کر لیا تھا.بڑی محبت سے اسے کہنے لگے : ”تمہیں چاہیے کہ علماء کے پاس بیٹھا کرو اور علم حاصل کیا کرو.“ چنانچہ اس دن سے اس لڑکے کی زندگی میں ایک تبدیلی واقع ہوئی اور اس نے اپنے آپ کو حصول علم میں مصروف کر دیا اور اس قدر اس میں کمال حاصل کیا کہ آج بھی ان کے علم سے کروڑ ہا انسان فائدہ اٹھارہے ہیں.یہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ تھے.حضرت امام ابو حنیفہ نے دینی علوم میں مہارت حاصل کی اور قرآن وحدیث کی روشنی میں عبادات اور انسانی زندگی کے مسائل زیر بحث لاکر ان کا حل پیش کیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دینی مسائل کی سمجھ بوجھ کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا اسی لیے آپ کے علم فقہ کو سب سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی اور آپ امام اعظم کے لقب سے مشہور ہوئے.آپ نے نہ صرف علم کے میدان میں کمال حاصل کیا بلکہ نیکی ،تقوی اور طہارت میں بھی ہوں.آمین
2 1 بسم اللہ الرحمن الرحیم امام اعظم حضرت ابوحنیفہ امام اعظم ابوحنیفہ کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں اور ان کی شخصیت کے بارے میں پیاری پیاری باتیں بتاتی ہوں:.بچو! کوفہ ایک بہت ہی پیارا شہر ہے.پتہ ہے! جب عرب کے مسلمان بہت زیادہ ترقی مسلمان حاکم ہارون الرشید عباسی کے دو بیٹے تھے.اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو کر گئے اور یہاں کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا تو حضرت عمر فاروق نے حضرت سعد بن ابی ایک بزرگ استاد کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھایا.ایک دن حاکم کے دل میں خیال آیا کہ وقاص کو ایک خط لکھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک شہر بساؤ.حضرت سعد بن ابی وقاص مجھے استاد صاحب کے پاس جا کر اپنے بیٹوں کی پڑھائی کے بارے میں معلوم کرنا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور کسریٰ کی زبر دست حکومت کو حاکم استاد صاحب کی ملاقات کے لیے گیا.جب استاد صاحب حاکم کے استقبال کے لیے بھی آپ ہی کے ہاتھوں شکست ہوئی.آپ نے مسلمانوں کا شہر بسانے کے لیے کوفہ کی اُٹھنے لگے تو دونوں شہزادے دوڑ کر اُٹھے اور اپنے استاد کی جوتی اس کے پاؤں کے آگے زمین کو پسند کیا.17ھ میں اس شہر کی بنیاد رکھی گئی.بہت سادہ اور معمولی قسم کے مکانات رکھنے میں پہل کرنے کی کوشش کرنے لگے.ایک شہزادے کی خواہش تھی کہ پہلے میں جوتی بنائے گئے.عرب کے مختلف قبیلے اس شہر میں آکر آباد ہونے لگے.تھوڑے ہی دنوں میں رکھوں اور دوسرے شہزادے کی خواہش تھی کہ یہ کام پہلے میں کروں.حاکم نے جب استاد اس شہر نے بہت مقبولیت حاصل کر لی.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا.اس شہر میں جن بزرگوں نے سکونت اختیار کی ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کا یہ منظر دیکھا.تو اس نے استاد صاحب سے کہا کہ: آپ جیسا آدمی مر نہیں سکتا پیارے بچو! اس چھوٹی سی کہانی سے تم نے کیا سبق سیکھا ؟ یہی نا کہ ہمیں اپنے بزرگوں اور استادوں کا احترام اور ان کی عزت کرنی چاہیے.بچو ! سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم اس وقت ہی زندہ قوم کہلاسکتی ہے جب کے ساتھ غزوہ بدر میں شامل ہونے والے صحابہ بھی تھے.بچو! ان بزرگوں کی وجہ سے کوفہ نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی طرح ”دارالعلم ، یعنی علم کے گھر کی حیثیت اختیار کی.اسی علم کے گھر یعنی کوفہ میں ہمارے پیارے بزرگ حضرت امام ابوحنیفہ 80 ھ میں اس قوم کے بچوں اور نو جوانوں میں یہ خواہش پیدا ہو کہ جو بڑے بڑے اور اچھے اچھے کام پیدا ہوئے.80 ھ عبد الملک بن مروان کا عہدِ حکومت تھا.یہ زمانہ قرونِ اولیٰ (ابتدائی ہمارے بزرگوں نے کیسے ہیں وہی کام بلکہ ان سے بڑھ کر کام کرنے کی ہم کوشش زمانہ ) کہلا تا ہے.کریں.جب تمہارے دل میں اپنے بزرگوں جیسا بننے کی خواہش پیدا ہوگی تو یقینا تم ان کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں کے بارے میں بھی جاننا چاہو گے.آوا آج میں تمہیں اسلامی تاریخ کے ایک بہت بڑے بزرگ اور عالم دین میں کچھ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے.بچو! یہ تو تم جانتے ہو کہ قرونِ اولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا زمانہ تھا.ہمارے پیارے امام ابوحنیفہ کتنے خوش قسمت تھے کہ آپ نے اس مبارک زمانہ کو پایا جس
4 3 بچو! حضرت امام ابو حنیفہ کا اصل نام نعمان تھا.آپ کا قد درمیانہ اور چہرہ خوبصورت لیا کہ اب میں دین کا علم حاصل کروں گا.تھا.آپ کے دادا کا نام زوتی اور والد کا نام ثابت تھا.آپ کا خاندان ایران کا ایک مشہور بچو ! ولید کے انتقال کے بعد حکومت سلیمان بن عبد الملک کے حصے میں آئی جو ولید کا سگا اور باعزت خاندان تھا.جب ایران میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تو آپ کے دادا ز ولی نے بھائی تھا.وہ بہت ہی نیک اور علم سے محبت رکھنے والا انسان تھا.اس کا سب سے بڑا اسلام قبول کر لیا.گھر اور خاندان والوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کارنامہ یہ ہے کہ اس نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو اپنا مشیر خاص بنایا.پھر باوجود اس کے عرب تشریف لے آئے.اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا.آپ کے کہ اس کے اپنے بھائی اور بیٹے موجود تھے اس نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو ولی عہد منتخب دا دا کوفہ میں ٹھہر گئے.یہیں پر حضرت امام ابو حنیفہ کے والد ثابت پیدا ہوئے جنہیں حضرت کیا.سلیمان بن عبد الملک کی حکومت کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ مذہبی اور علمی گفتگو کی جانب امام ابو حنیفہ کے دادا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے.حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوئی.امام ابوحنیفہ کے دل میں بھی خالص دینی علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو چکا تھا.بحث نے انہیں پیار کیا اور ان کے لیے دعا بھی کی.آپ کے والد تجارت کیا کرتے تھے.و مباحثہ سے آپ کی طبیعت بیزار ہو چکی تھی.اس وقت آپ کی عمر 17 سال تھی.آپ اپنے والد کی طرح تجارت کیا کرتے.اپنی دیانتداری کی وجہ سے آپ نے تجارت میں بہت ترقی حضرت امام ابوحنیفہ کی پیدائش کے وقت ان کے والد کی عمر چالیس سال تھی.حضرت امام ابو حنیفہ کے بچپن کے زمانہ میں عرب کے سیاسی حالات بہت خراب تھے.عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا.حجاج بن یوسف بہت حاصل کی.بچو! ایک دن کسی تجارتی کام کی غرض سے آپ بازار جانے کے لیے گھر سے نکلے.ظالم گورنر تھا.عبدالملک بن مروان کے بیٹے ولید کے عہدِ حکومت میں 95ھ میں اس کا راستہ میں امام شعمی کا مکان تھا.آپ کوفہ کے ایک بہت بڑے امام تھے.امام شعمی نے ابو حنیفہ کو دیکھا تو اپنے پاس بلایا اور پوچھا.کہاں جا رہے ہو؟ انتقال ہوا.ایک سال کے بعد ولید کا بھی انتقال ہو گیا.ہمارے پیارے بزرگ امام ابوحنیفہ کا تمام بچپن ایسی حالت میں گذرا کہ ملک کے آپ نے جواب دیا کہ میں تجارتی کام سے بازار ایک سوداگر کے پاس جارہا ہوں.سیاسی حالات بہت خراب تھے.امن و امان نہیں تھا.قرآن کریم حفظ کر لینے کے بعد ابھی امام شعمی نے پھر پوچھا کہ میرا مطلب ہے کہ تم کس سے پڑھتے ہو؟ آپ نے جواب دیا.دین کا علم سیکھ رہے تھے اور علمی بحثیں کرتے تھے.ایک دن کیا ہوا کہ حجاج بن یوسف کا زمانہ کسی سے بھی نہیں پڑھتا.اس پر امام شعمی نے فرمایا: تھا، امام صاحب بحث میں مصروف تھے کہ ایک شخص نے آپ سے خالص دینی فرائض کے بارے میں ایک مسئلہ پوچھا.اب بچو! آپ نے دینی علوم تو حاصل کیسے ہی نہیں تھے اس لیے اس کو کوئی جواب نہیں دے سکے.وہ شخص کہنے لگا آپ بحثیں تو بہت لمبی لمبی کرتے ہیں مگر فضول گفتگو با لکل نہیں کرتے تھے.اگر کوئی سوال کرتا تو نہایت ادب اور احترام کے ساتھ ایک دینی فریضہ تک کا آپ کو پتہ نہیں.امام صاحب یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور ارادہ کر اسے جواب دیتے.یہی وجہ تھی کہ جو کوئی بھی آپ کو دیکھتا وہ تاجر کی بجائے آپ کو طالب علم دو تمہیں چاہیے کہ عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھا کر واور علم حاصل کیا کرو.“ بچو! اصل میں بات یہ تھی کہ حضرت امام ابوحنیفہ شکل سے تاجر لگتے ہی نہ تھے.آپ
6 5 سمجھتا تھا.امام شعمی کی بات نے آپ کے دل پر بہت اثر کیا اور آپ نے دل میں پکا فیصلہ زبانی بھی سمجھا دیا کرتے اور اس حکم پر عمل کر کے رہنمائی فرما دیتے تھے.آپ کی وفات کے کر لیا کہ اب میں عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھوں گا اور دین کا علم حاصل کروں گا.بعد بھی جب کبھی کوئی مسئلہ پیش آجا تا تو صحابہ غور کرتے کہ اس بارے میں قرآن کا کیا حکم ہے بچو! تم نے یہ پیاری حدیث بھی سنی ہوگی کہ طالب علم کے راستے میں فرشتے اپنے پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے اور آپ کا اس بارے میں کیا عمل اور ارشاد بچھا دیتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی علم حاصل کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے تھا.اس طرح قرآن، سنت اور حدیث کی روشنی میں وہ اپنے علم کے مطابق مسائل حل فرشتوں کے ذریعہ اس کی مدد کرتا ہے.حضرت امام صاحب نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور کیا کرتے تھے.اس کی مدد کے ساتھ علم حاصل کرنا شروع کیا.اس زمانہ میں علم حاصل کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ اساتذہ کسی خاص مسئلہ پر طالب علموں کے سامنے تقریر کیا کرتے پھر طالب علم کو جو بات سمجھ نہ آتی وہ ان سے پوچھ لیا کرتے اور ساتھ ہی اسے لکھ بھی لیتے تھے.کوفہ میں امام حماد کی درسگاہ بہت بڑی اور مشہور تھی.امام اعظم ابوحنیفہ نے بھی اسی درسگاہ کا انتخاب کیا اور فقہ کی تعلیم حاصل کی.تم میں سے اکثر بچوں کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ فقہ کا علم کسے کہتے ہیں ؟ آؤ میں تمہیں سمجھاؤں کہ فقہ کاعلم کیا ہوتا ہے؟ دیکھو بچو! ہمارے پیارے اللہ میاں نے تمام دنیا کی ہدایت کے لیے آنحضرت صلی اللہ بچو! اب تو تمہاری سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ : فقہ اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں مختلف قسم کے مسائل کے متعلق حل بیان کیے جاتے ہیں.مثلاً یہ کہ وضو اس طرح کرنا چاہیے، نماز اس طرح پڑھنی چاہیے.اسی طرح زکوۃ ، روزہ ، حج ، نکاح کے علاوہ لین دین اور ورثہ اور روزمرہ کے مسائل.بچے کی ولادت سے لے کر اس کی وفات تک کے مسائل کو علم فقہ کے ذریعہ بتایا گیا ہے.“ فقہ کا علم جاننے والا فقیہ کہلاتا ہے.حضرت امام ابوحنیفہ نے فقہ کی تعلیم حاصل کی.فقہ علیہ وسلم کو پیدا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید جیسی پیاری اور مکمل کتاب نازل کے علم کو جاننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حدیث اور قرآن کریم کا علم اچھی طرح آتا ہو.فرمائی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ دیکھو! قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس لیے آپ نے قرآن کریم اور حدیث کا علم بھی حاصل کیا.آپ نے کوفہ میں کوئی ایسا نے تمام انسانوں کے نام ایک بہت پیارا خط لکھا ہے اور مجھے اس کام پر مقرر کیا ہے کہ میں یہ محدث یعنی حدیث بیان کرنے والا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے حدیث کا علم حاصل نہ خط پڑھ کر تمہیں سناؤں اور تمہیں سمجھاؤں.اب جو بات بھی میں کہوں یا جو عمل بھی میں کیا ہو.حدیث کے متعلق علم حاصل کرنے کے لیے آپ بصرہ اور شام بھی تشریف لے کروں تو سمجھ لینا کہ وہ بات اور وہ عمل میں نے خدا کے حکم کے مطابق کیا ہے.دینی یا گئے.امام حماد کے علاوہ آپ نے فقہ کا علم حضرت امام جعفر صادق سے بھی سیکھا حضرت امام دنیاوی معاملہ میں اگر تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو قرآن کریم اور میری بات اور عمل کے اعظم نے امام حماد سے فقہ کا علم اتنا سیکھ لیا تھا کہ ایک بار امام حماد نے فرمایا کہ:.ذریعہ اس مشکل سے نجات حاصل کر لینا.بچو! جب ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ لوگوں کو اے ابو حنیفہ ! تو نے مجھ کو خالی کر دیا.“ یعنی جتنا علم میرے پاس تھا تو نے وہ سب حاصل کر لیا.آپ کے استاد امام حماد ” آپ
8 7 سے بہت محبت کرتے تھے ایک بار امام حماد سفر پر گئے.کچھ دن بعد واپس آئے تو آپ کے محترم امام حماد کے سکول میں ہی درس دینے لگے.صاحبزادے اسمعیل نے آپ سے پوچھا: ابا جان! آپ کو سب سے زیادہ کس کو دیکھنے کا جب امام اعظم نے درس دینا شروع کیا تو ایک دن خواب میں دیکھا کہ وہ آنحضرت شوق تھا؟ انہوں نے فرمایا: ابوحنیفہ کو دیکھنے کا.اگر یہ ہوسکتا کہ میں کبھی نگاہ ان کے چہرے صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کھود رہے ہیں اور آپ کی مبارک اور پاک ہڈیوں کو جمع سے نہ ہٹاؤں تو یہی کرتا.امام ابوحنیفہ سے محبت اور ان کے علم و ذہانت کی وجہ سے ایک بار کر رہے ہیں.امام اعظم اس خواب کو دیکھ کر ڈر گئے اور سمجھنے لگے کہ شاید میں درس دینے جب امام حماد سفر پر روانہ ہوئے تو اپنی جگہ امام ابو حنیفہ کو بٹھا گئے.کے قابل نہیں ہوں.آپ نے امام ابن سیرین جو کہ خوابوں کی تعبیر کا علم جانتے تھے اور اس کوفہ میں حضرت امام ابو حنیفہ نے امام حماد سے فقہ اور حدیث کا علم سیکھا.لیکن ان علم میں امام اور استاد تھے ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ: - کا خیال تھا کہ اب مجھے مکہ معظمہ جانا چاہیے اس لیے کہ وہ تمام مذہبی علوم کا اصل مرکز ہے.چنانچہ آپ مکہ معظمہ پہنچے اور مزید علم حاصل کرنے کے لیے عطاء بن ابی رباح کی اس خواب کو دیکھنے والا شخص مردہ علم کو زندہ کرے گا.“ جب آپ کو خواب کی تعبیر معلوم ہو گئی تو آپ اطمینان کے ساتھ درس دینے میں مشغول درسگاہ کا انتخاب کیا.عطاء بن ابی رباح مشہور تابعین میں سے تھے.تابعین سے مراد وہ ہو گئے.شروع شروع میں تو صرف امام حماد کے شاگرد درس میں شامل ہوتے تھے.لیکن لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صحابہ کرام کا زمانہ پایا ہو اور ان سے ملاقات کی ہو.یہاں پر چند دنوں میں ہی آپ کی شہرت اتنی زیادہ ہو گئی کہ کوفہ میں موجود ا کثر دوسری درسگاہیں بھی بھی آپ نے اپنے علم اور ذہانت کی وجہ سے جلد ہی استاد محترم کے دل میں اپنے لیے محبت ٹوٹ کر آپ کے حلقہ درس میں شامل ہوگئیں.دُور دراز کے مقامات سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آپ کی درس گاہ میں آنے لگے.ان مقامات میں مکہ ، مدینہ، دمشق ، بصرہ، پیدا کر لی.یہ تو امام صاحب کے بچپن اور ان کی تعلیمی زندگی کا مختصر حال تھا.چلواب دیکھتے ہیں کہ رمله، یمن، مصر، بحرین، بغداد، همدان، بخارا، سمرقند وغیرہ کے طالبعلم شامل تھے.امام اعظم نے علم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی کس طرح بسر کی.امام ابوحنیفہ کے زمانہ میں بنوامیہ کی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور عباسی حکومت قائم امام صاحب کو اپنے استاد امام حماد سے بہت محبت تھی اس لیے ان کی زندگی میں آپ ہو گئی.عباسی خاندان کا پہلا حاکم ابو العباس عبد اللہ تھا.وہ اس قدر ظالم تھا کہ لوگ اسے نے یہ گوارہ نہ کیا کہ اپنا الگ سکول قائم کریں.امام صاحب کی اپنے استاد محترم کے ساتھ سفاح یعنی خوشی کہنے لگے.اُس نے گل چار سال حکومت کی.132ھ میں اس کا بھائی محبت کا اندازہ تم اس بات سے لگا سکتے ہو کہ جب تک امام حماد زندہ رہے حضرت ابو حنیفہ نے ابو جعفر المنصور تخت حکومت پر بیٹھا.ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہیں پھیلائے.120ھ میں امام حماد کا انتقال ہو گیا امام یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام کی تعلیم عرب سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہی تھی مگر جو لوگ حماد کے انتقال کے بعد لوگوں نے امام صاحب سے درخواست کی کہ اب آپ درس دیا اسلام کے دشمن تھے وہ تو اسلام کی ترقی دیکھ ہی نہیں سکتے تھے نا! اس لیے انہوں نے نئے نئے کریں.آپ نے شروع میں تو انکار کیا مگر جب لوگوں کا اصرار بڑھ گیا تو آپ اپنے استاد عقیدے بنانا شروع کر دیے اور تو اور وہ حدیثیں بھی اپنی طرف سے ہی بنا لیتے تھے.حاکم
10 9 منصور چاہتا تھا کہ جتنے بھی عالم لوگ ہیں وہ میرے دربار میں آئیں.انہیں سرکاری عہدے پھر ان لوگوں کی طرف توجہ کی جنہوں نے ان کا ساتھ دیا تھا.منصور کو علم تھا کہ امام صاحب بھی دیے جائیں گے.مثلاً یہ کہ علمائے کرام کو قاضی کا عہدہ دیا جائے گا مگر فیصلہ وہی ہو گا جو نے نہ صرف ان لوگوں کی حمایت کی بلکہ پیسہ سے بھی ان کی مدد کی ہے.منصور کوفہ آیا لیکن وہ خود چاہے گا.اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کوفہ میں امام صاحب سے محبت اور عقیدت رکھنے والے لوگ ہزاروں یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا تھا کہ ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس کے مطابق کی تعداد میں موجود ہیں.اس لیے اس نے یہ چال چلی کہ امام صاحب کو کوفہ سے بغداد حکومت کے فیصلے کیے جاتے.امام اعظم نے جب یہ تمام حالات دیکھے تو اس موقع پر اپنی سمجھ بلایا جائے.پھر آپ کو قاضی کا عہدہ پیش کیا جائے.جسے وہ ہرگز قبول نہیں کریں گے پھر اور ذہانت سے کام لیا اور انسانی ضروریات کے متعلق ایک اسلامی قانون قرآن اور سنت حاکم کے حکم کا انکار کرنے کی صورت میں انہیں آسانی کے ساتھ قید و بند میں ڈالا جا سکے گا.کی روشنی میں قائم کیا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم تھا کہ اس نے امام اعظم کو اس عظیم جب منصور نے اپنے منصوبہ کے تحت امام صاحب کو بغداد بلوایا تو آپ ساری بات سمجھ دینی خدمت کی توفیق عطا فرمائی.گئے.آپ سمجھ گئے تھے کہ اب آزمائش کا وقت آگیا ہے.آپ نے لوگوں کی امانتیں ان کے ابو جعفر منصور کے دورِ حکومت میں اس کے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف مدینہ میں محمد بن حوالے کیں اور بغداد تشریف لے گئے.منصور نے انہیں قاضی کا عہدہ پیش کیا.آپ نے انکار عبداللہ نے حاکم ہونے کا دعویٰ کیا.محمد بن عبد اللہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کر دیا اور اس کی یہ وجوہات بیان کیں.ا.میں عربی النسل نہیں ہوں.اس لیے اہل عرب کو میری حکومت پسند نہیں آئے گی.۲.درباریوں کی تعظیم کرنا پڑے گی اور یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا.جب آپ کسی بھی صورت میں نہیں مانے تو منصور نے آپ کو جیل میں ڈلوا کر کوڑوں کی بہادر اور دلیر تھے.جب آپ نے حاکم ہونے کا دعویٰ کیا تو امام اعظم نے ان کی حمایت کی.کوفہ کے لوگ بھی ان کے ساتھ ہو گئے.ابتداء میں محمد بن عبد اللہ نے نہایت بہادری اور دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا.آخر کا رشہید ہو گئے.اس کے بعد ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ نے ان کی جگہ لی.ابراہیم بھی بہت بڑے عالم تھے.کوفہ کے تقریباً ایک لاکھ آدمی سزا کا حکم دیا.ان کے ساتھ جان دینے کو تیار ہو گئے.انہوں نے ڈٹ کر نہایت بہادری کے ساتھ منصور کا مقابلہ کیا.مگر حلق میں تیر لگ جانے کی وجہ سے شہید ہو گئے.دیکھو بچو! خدا تعالیٰ کے ہر فعل میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے.منصور یہ چاہتا تھا کہ میں امام صاحب کو قید میں ڈال کر اتنی تکالیف دوں کہ وہ حق وصداقت کا راستہ چھوڑ کر امام ابو حنیفہ نے منصور کے خلاف محمد بن عبد اللہ اور ابراہیم بن عبد اللہ کا ساتھ اس میری مرضی پر چلنے لگیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ امام صاحب کو قید و بند میں ڈالنے سے ان لیے دیا کہ آپ نے سفاح کی حکومت کا زمانہ دیکھا پھر ابوجعفر منصور کے ظلم اور اس کی کی شہرت میں اور اضافہ ہو جائے گا اور لوگ پہلے سے بھی زیادہ ان کی عزت کرنے لگیں زیادتیوں کو دیکھا.آپ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ حکومت کے اہل نہیں ہیں.گے.امام صاحب کی شہرت صرف کوفہ میں ہی نہیں تھی بلکہ بغداد میں بھی ایک علمی جماعت پھر ایسا ہوا کہ جب منصور نے محمد بن عبد اللہ اور ابراہیم بن عبد اللہ کو شکست دے دی تو ایسی تھی جو آپ سے عقیدت رکھتی تھی.قید و بند کی حالت نے آپ کے اثر کو کم کرنے کی
12 11 بجائے اور زیادہ کر دیا.لوگ قید خانہ میں امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے لگے.کام کیے جائیں.مگر ایسا بھی تو ہوتا ہے نا کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری باتیں جن کا بچو! اب تو منصور بہت پریشان ہوا کہ یہ تو سب کام غلط ہوتا جا رہا ہے.میں تو انہیں ہم اپنی عام زندگی میں بالکل خیال نہیں کرتے وہی چھوٹی چھوٹی اور پیاری پیاری باتیں اپنے راستے سے ہٹا رہا تھا اور یہ لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے راستہ بناتے جارہے ہیں.انسان کو بڑا آدمی بنا دیتی ہیں.مثلاً والدین کی خدمت، ہمیشہ سچ بولنا، دشمن کو معاف کر دینا، چنانچہ آخری تدبیر اس نے یہ کی کہ امام صاحب کو شربت میں زہر ملا کر دے دیا.آپ کو پتہ راستہ میں سے کا نٹ ہٹا دینا، غریبوں کی مدد کرنا ، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا وغیرہ.تو چل گیا تھا کہ اس میں زہر ہے.آپ نے پینے سے انکار کر دیا تو زبر دستی وہ زہر کا پیالہ آپ کو جناب ہمارے پیارے امام ابو حنیفہ اتنے اچھے ، اتنے پیارے انسان تھے کہ باوجود اس کے پلایا گیا.جب آپ نے محسوس کیا کہ زہر نے اپنا اثر کرنا شروع کر دیا ہے تو آپ سجدہ کہ آپ علم بھی حاصل کرتے تھے ، تجارت بھی کرتے تھے مگر بچپن ہی سے یہ ساری پیاری میں گر گئے اور اسی حالت میں اپنی جان اپنے پیارے مولیٰ کے سپرد کر دی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پیارے بچو! ہمارے حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ نے فرمایا ہے کہ ر جسم مرسکتا ہے لیکن اعلیٰ مقصد کو لے کر اٹھنے والی روح نہیں مرسکتی.“ پیاری عادتیں آپ میں موجود تھیں.آپ کو اپنی والدہ محترمہ سے بہت محبت تھی.آپ نے تمام زندگی ان کی بہت زیادہ خدمت کی.امام صاحب کی والدہ مزاج کی بہت ھنگی تھیں.اس زمانے میں کوفہ میں ایک عالم عمرو بن ذکر تھے.وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے.امام ابوحنیفہ کی والدہ ان سے بہت عقیدت رکھتی تھیں.انہیں جب کوئی مسئلہ تم نے دیکھا کہ منصور نے اپنے ناپاک منصوبہ سے امام اعظم کو زہر کا پیالہ پلوا دیا مگر پیش آتا تو وہ امام صاحب سے کہیں جاؤ اُن سے اس مسئلہ کا حل پوچھ کر آؤ.اکثر بعد میں اس نے خود دیکھا کہ امام اعظم زہر کا پیالہ پی کر اگر چہ جسمانی طور پر وفات پاگئے ایسا ہوتا تھا کہ عمرو بن ذر امام صاحب سے اس مسئلہ کا حل پوچھ کر بتایا کرتے تھے.اب تھے مگر اپنے عمل، نیک مقاصد اور حق و صداقت کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ دیکھو کہ امام صاحب اتنے بڑے عالم دین تھے.ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ان کے ہیں.آج بھی لوگ ان کا نام بہت عزت اور احترام سے لیتے ہیں.قرآن وسنت کی روشنی عقیدت مند تھے لیکن جب ان کی والدہ ان سے کہتیں کہ مجھے عمر و بن ذر کے پاس لے جاؤ میں آپ نے جو اسلامی فقہی قانون ترتیب دیا وہ آج بھی حنفی فقہ“ کے نام سے موجود میں خود ان سے اس مسئلہ کا حل پوچھوں گی.تو آپ انہیں خچر پر سوار کرا کے ساتھ لے ہے.تم مسلمان حاکم ہارون الرشید کے نام سے تو ضرور واقف ہو گے.اس کی سلطنت جو جاتے.خود پیدل چلتے تھے.سندھ سے لے کر ایشیائے کو چک تک پھیلی ہوئی تھی حنفی فقہ کے اصولوں پر ہی قائم تھی.اس کے زمانے کے تمام مقدمات اور فیصلے اسی قانون کی بنیاد پر ہی کیے جاتے تھے.بچو ! تم سوچتے ہو گے کہ حضرت ابوحنیفہ اتنے بڑے آدمی کیسے بن گئے؟ دیکھو بچو! یہ بات ٹھیک ہے کہ بڑا آدمی بننے کے لیے ضروری ہے کہ بہت بڑے بڑے یہ تو تمہیں معلوم ہے کہ امام صاحب نے کبھی بھی حکومت کی طرف سے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا.ابن ہبیرہ نے امام صاحب کو میر منشی مقرر کرنا چاہا.آپ نے انکار کر دیا تو اُس نے سزا کے طور پر آپ کو کوڑے لگوائے.بچو! اس وقت آپ کی والدہ زندہ تھیں.امام صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی تکلیف کا
14 13 ذرا بھی احساس نہیں تھا.مگر اس بات سے تکلیف ہوتی تھی کہ میری وجہ سے میری والدہ کے حضرت امام ابو حنیفہ کا قرآن کریم سے عشق کرنا بہت اچھا لگتا تھا.قرآن کریم سے بے پناہ محبت اور اس کی ایک ایک آیت پر غور و فکر کی وجہ سے حضرت اقدس علیہ السلام امام اعظم کے دل کو تکلیف ہوتی ہے.امام صاحب کی اپنی والدہ سے محبت اور ان کی خدمت کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بارے میں فرماتے ہیں:.میں بھی آپ کو عزت بخشی اور آخرت میں بھی آپ سے راضی ہوا.حضرت امام ابوحنیفہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت پیار اور توجہ کے ساتھ کرتے تھے.یزید بن لمیت ، امام صاحب کے ایک ساتھی تھے.آپ بتاتے ہیں کہ ایک دن میں نے اور امام صاحب نے عشاء کی نماز مسجد میں ایک ساتھ پڑھی.اس دن نماز میں یہ سورۃ پڑھی گئی تھی.إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا.بچو! تم اس سورۃ کا ترجمہ تو جانتے ہی ہو گے نا کہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ہوشیار کیا ہے کہ تم نے جو نیک کام کیے ہیں اور جو بُرے کام کیے ہیں ان کا بدلہ ضرور ملے گا.نماز پڑھنے کے بعد سب لوگ واپس چلے گئے.لیکن امام صاحب اپنی جگہ پر بیٹھے رہے.میں نے سوچا کہ اگر میں یہاں بیٹھا رہا تو آپ کی توجہ بٹ جائے گی.اس لیے میں چراغ و ہیں چھوڑ کر چلا گیا.صبح ہوئی میں نماز پڑھنے کے لیے مسجد گیا تو دیکھا کہ امام صاحب اسی حالت میں بیٹھے ہیں.آپ نے اپنی ریش مبارک پکڑی ہوئی ہے اور کہتے جاتے ہیں کہ:.”اے وہ ذات! جو لوگوں کو ذرہ ذرہ نیکیوں کا بدلہ دے گا اپنے نعمان کو آگ سے محفوظ رکھ اور اپنی رحمت میں چھپالے.“ وہ ایک بحر اعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں.“ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ 101) ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں :.امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم وفراست میں آئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خدا داد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدر کہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور ان کی فطرت کو کلام الہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے.اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں اُن کے لیے وہ درجہ علیا مسلم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 385 ) بچو! امام صاحب کے خوف خدا اور اس کے ادب اور احترام کے بارے میں ان کی زندگی کی ایک بہت ہی دلچسپ بات میں تمہیں بتاتی ہوں.پتہ ہے! امام صاحب نے کبھی اپنے سر کو نگا نہیں رکھا اور کبھی آپ نے سوتے وقت بچو! امام ابوحنیفہ کو قرآن کریم سے بہت زیادہ محبت تھی.اللہ میاں نے آپ کو آواز پاؤں نہیں پھیلائے.آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا ادب اور اس کا خوف ہر حالت میں کرنا بھی بہت اچھی دی تھی.جب آپ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو آپ کی آواز لوگوں کے چاہیے.دل میں اُتر جاتی تھی.ہماری جماعت کے بانی حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کو اب دیکھونا ! سر کے اندر کا جو حصہ ہے وہاں تو خدا تعالیٰ کی پیاری کتاب قرآن کریم کا
16 15 علم ہے.اس لیے آپ چاہتے تھے کہ جس سر کے اندرونی حصے میں اتنا بڑا اخزانہ ہے اس کے اس بچے کے ان پر حکمت الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام صاحب کے مقام اور باہر کے حصے کی بھی حفاظت کرنی چاہیے.ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمیشہ علمی شخصیت سے نہ صرف بڑے بلکہ بچے بھی متاثر تھے اور جانتے تھے کہ یہ ایسا شخص ہے جس اپنا سرڈھانپ کر رکھتے تھے.دوسری بات یہ کہ آپ کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں سوئے.آپ کے ساتھ ایک جہان کی ہدایت وابستہ ہے.فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ اور ہر سمت موجود ہے.اس لیے اس کے ادب اور احترام کے طور پر میں پاؤں نہیں پھیلاتا.بچو! یہ ساری باتیں اصل میں محبت کی ہوتی ہیں.ہم جس سے محبت کرتے ہیں اس کا ادب اور احترام بھی کرتے ہیں.ہے نا! اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت میں آپ اتنے زیادہ مگن ہو گئے تھے کہ دنیا میں آپ کا دل بالکل نہیں لگتا تھا.آپ نے سوچا کہ میں یہ دنیا بالکل ہی چھوڑ دیتا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا کرنے سے روک دیا.وہ اس طرح کہ آپ نے خواب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے فرماتے ہیں کہ : " تجھے اس لیے پیدا کیا گیا کہ میری سنت کو زندہ کرے.“ پیارے بچو! حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تقویٰ کا انتہائی اعلیٰ مقام رکھتے تھے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف متوجہ ہوتے کہ کہیں اس سے طبیعت میں لا پرواہی پیدا نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لکھا ہے کہ آپ ایک مرتبہ بہت تھوڑی سی نجاست جوان کے کپڑے پر تھی دھور ہے تھے.کسی نے کہا کہ آپ نے اس قدر کے لیے تو فتویٰ نہیں دیا.اس پر آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ آں فتوی است وایس تقوی.( ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 442) مطلب یہ ہے کہ جہاں تک فتویٰ کی بات ہے تو یہ درست ہے کہ اس قدر معمولی گندگی یہ خواب دیکھنے کے بعد آپ نے دنیا چھوڑنے کا ارادہ ترک کر دیا اور اسلام اور پر فتویٰ تو نہیں لگتا مگر اگر تقویٰ کو دیکھا جائے تو میرا ضمیر یہ گوارہ نہیں کرتا کہ اس قدر معمولی سی انسانوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا.حضرت امام ابوحنیفہ کا وجود نافع الناس تھا.آپ ایک عالی مقام رکھتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ نے ایک بچے کو جب کیچڑ میں کھیلتا ہوا دیکھا تو اسے منع کیا کہ کہیں پھسل کر گر جاؤ گے.اس پر بچے نے بڑی حاضر جوابی سے کہا:.فَإِنَّ فِي سُقُوطِ الْعَالِمِ سُقُوطُ الْعَالَمِ - گندگی بھی کپڑے پر لگی ہو.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی ڈھیر ساری خوبیاں عطا کی تھیں ان میں ایک خوبی ذہانت“ بھی تھی.امام اعظم بہت ہی ذہین تھے.آؤ ! تھوڑی دیر کے لیے بغداد چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ امام اعظم نے اپنی ذہانت سے کس طرح تین مشکل سوالوں کے جوابات دیے.ایک رومی بغداد آیا.اس نے وہاں کے حاکم سے کہا کہ میرے تین سوال ہیں.مطلب یہ تھا کہ اگر میں گرا تو اکیلا ہی گروں گا مگر اگر آپ گرے تو ایک جہان گر اگر آپ کی سلطنت میں کوئی ایسا آدمی ہو جو میرے ان سوالوں کے جواب دے سکے تو اسے جائے گا کیونکہ عالم کے گرنے سے ایک عالم کی موت بر پا ہو جاتی ہے.بلائیں.حاکم نے اعلان کر دیا.سارے علماء جمع ہوئے.امام صاحب بھی وہاں موجود تھے.رومی ایک اونچی سی جگہ پر جسے منبر کہتے ہیں چڑھ گیا اور اس نے تین سوال کیے.سوال (الدرالمختار محمد بن علی الحصکفی طبع اولی 2002ء، بیروت)
18 17 یہ تھے کہ :.ا.بتاؤ خدا سے پہلے کون تھا ؟ ۲.بتاؤ خدا کا رُخ کدھر ہے؟.بتا ؤ خدا اس وقت کیا کر رہا ہے؟ ย اللہ کے بندوں اور اہل علم کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے تھے.آپ چاہتے تھے کہ جولوگ علم کی خدمت کرتے ہیں اور دین کو پھیلانا چاہتے ہیں انہیں کسی قسم کی کوئی مالی پریشانی نہ ہو تا کہ وہ اپنی ساری توجہ علم کی خدمت اور اشاعت دین پر صرف کر سکیں.نہ صرف عالم لوگوں بلکہ عام لوگوں کی بھی بہت مدد کیا کرتے تھے.اس کے سوال سن کر سب خاموش ہو گئے.امام صاحب آگے بڑھے اور فرمایا: ان بچو! ایک آدمی بیچارہ بہت غریب تھا.اس کی بیوی اس سے بہت لڑتی کہ ہماری لڑکی سوالوں کے جواب میں دوں گا.لیکن شرط یہ ہے کہ آپ منبر سے نیچے اتر آئیں.وہ آدمی بھی اب بڑی ہوگئی ہے اس کی شادی بھی کرنی ہے.گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے.تم نیچے اُتر آیا اور امام صاحب اس کی جگہ پر جا کر کھڑے ہو گئے.رومی نے پہلا سوال کیا.بتاؤ امام صاحب کے پاس جاؤ.وہ ضرور ہماری مدد کریں گے.اب وہ آدمی امام صاحب کی خدا سے پہلے کون تھا؟ امام صاحب نے اس سے کہا.گنتی گنو.رومی نے گننا شروع کیا.مجلس میں آتو گیا مگر شرم کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکا.امام صاحب اس کی حالت دیکھ کر اس کی امام صاحب نے اسے روک دیا اور کہا ایک سے پہلے گنو.رومی بہت پریشان ہوا کہنے لگا پریشانی سمجھ گئے.جب وہ شخص چلا گیا تو اس کے گھر کا پتہ معلوم کیا.رات کے وقت دروازہ ایک سے پہلے تو کوئی گنتی نہیں ہے.امام صاحب نے فرمایا: بس خدا سے پہلے بھی کوئی نہیں میں سے پانچ ہزار درہم کی ایک تھیلی اس کے گھر میں ڈال آئے اور تھیلی میں ایک پر چہ لکھ کر ہے.پھر رومی نے دوسرا سوال کیا.بتاؤ خدا کا رُخ کدھر ہے؟ امام صاحب نے ایک موم رکھ دیا کہ جب یہ پیسے ختم ہو جائیں تو بتا دینا.بتی جلائی اور روحی سے پوچھا: بتاؤ اس کی روشنی کا رُخ کدھر ہے؟ رومی کہنے لگا: سب طرف آپ کی تجارت بہت پھیلی ہوئی تھی مگر آپ اپنی تجارت اور لین دین میں ہمیشہ ہے.امام صاحب نے فرمایا: اسی طرح خدا کا رُخ بھی سب طرف ہے.اس کے بعد فرمایا: دیانتداری کا خیال رکھتے تھے.اکثر اپنی دیانت داری کی وجہ سے آپ کو نقصان بھی اٹھانا تمہارے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس وقت یہ کر رہا ہے کہ اس نے تمہیں پڑتا تھا مگر آپ کو اس کی ذرہ بھی پرواہ نہیں تھی.منبر سے نیچے اُتار دیا اور مجھے اوپر چڑھا دیا ہے.بچو! رومی یہ سن کر بہت شرمندہ ہوا اور واپس چلا گیا.ایک دفعہ آپ نے حفص بن عبد الرحمن کے پاس ریشم کے تھان بھیجے اور یہ بھی بتادیا کہ فلاں تھان میں عیب ہے اس لیے جو کوئی بھی اسے خریدے اسے بتا دینا.حفص کو اس بات کا بچو! اپنی ذہانت اور علم کی وجہ سے امام صاحب نے کبھی بھی اپنے آپ کو دوسرے دھیان نہ رہا.جب امام صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو آپ کو بہت افسوس ہوا اور تھانوں لوگوں سے بڑا نہیں سمجھا.بلکہ ہمیشہ یہ سمجھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور ہمیشہ لوگوں کے کی قیمت جو 30 ہزار درہم تھی ، آج کل کے حساب سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتے ہیں، سب ساتھ مل جل کر رہتے.غریبوں کی مدد کرتے.ان لوگوں کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے خیرات کر دی.جنہیں علم حاصل کرنے کا شوق ہو.آپ کو اپنی تجارت سے جو بھی نفع حاصل ہوتا اس سے آپ اپنے پڑوسیوں کا بھی بہت زیادہ خیال رکھتے تھے.آپ کی گلی میں ایک موچی
20 19 بھائی! یہ میرا گھر ہے تم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کہہ ڈالو.کہیں ایسا نہ ہو کہ میں گھر میں رہتا تھا.یہ موچی سارا دن تو اپنا کام کرتا اور رات کے وقت اپنے سارے دوستوں کو اپنے میں درس دے رہے تھے.ایک شخص آپ کا دشمن تھا.اس نے سب لوگوں کے سامنے آپ کو جمع کر لیتا.سب مل کر شراب پیتے اور اُلٹے سیدھے گانے گاتے شور مچا مچا کر.اب بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا.امام صاحب نے کوئی پرواہ نہیں کی اور اپنے شاگردوں کو بھی منع دیکھو.امام صاحب جو کہ ساری رات خدا تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے انہیں کس قدر کیا کہ اسے کچھ نہ کہیں.آپ درس دے کر واپس گھر آنے کے لیے روانہ ہوئے تو وہ شخص تکلیف ہوتی ہوگی مگر آپ نے کبھی بھی موچی کو بُرا بھلا نہ کہا.بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا اور مسلسل جو منہ میں آیا کہتا رہا.امام صاحب جب اپنے گھر کے بچو! ایک دن کو تو ال شہر گشت پر نکلا.اس نے جب شور وغل کی آواز سنی تو وہ موچی کو قریب پہنچے تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا:.پکڑ کر لے گیا اور سزا کے طور پر اسے قید خانہ میں ڈال دیا.دوسرے دن جب موچی کی آواز نہیں آئی تو آپ پریشان ہو گئے کہ کہیں موچی بیمار تو نہیں ہو گیا.صبح ہوئی تو آپ نے لوگوں داخل ہو جاؤں اور پھر تمہیں موقع نہ ملے.سے موچی کے بارے میں پوچھا.لوگوں نے بتایا کہ کو تو الِ شہر سے پکڑ کر لے گیا تھا.امام امام صاحب کبھی ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب نہیں دیا کرتے تھے بلکہ ان کے لیے دعا صاحب کو بہت افسوس ہوا.یہ عباسی دور حکومت تھا.عیسی بن موسیٰ کوفہ کا گورنر تھا.آپ کرتے.آپ جانتے تھے کہ باوجود اس کے کہ آدمی مقابلہ کی طاقت رکھتا ہو اور دشمن کو گورنر کے پاس تشریف لے گئے گورنر نے آپ کی بہت عزت کی اور کہا کہ اگر آپ کو کوئی معاف کر دے تو یہ فعل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آتا ہے.کام تھا تو آپ مجھے بلوا لیتے.آپ نے فرمایا: میرے محلے میں ایک موچی رہتا تھا کو تو الِ شہر بچو! یہ جو تم دیکھتے ہو کہ لوگ بگڑتے جا رہے ہیں تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نے رات اُسے گرفتار کر لیا ہے.میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے رہا کر دیں.گورنر نے موچی قرآن کریم کی تعلیم کو بالکل چھوڑ دیا ہے.اس کے ساتھ ساتھ وہ بزرگوں کا ادب اور احترام کی رہائی کا حکم بھیج دیا.جب موچی کو پتہ چلا کہ امام صاحب نے مجھے رہا کروایا ہے تو وہ بہت بھی نہیں کرتے.شرمندہ ہوا.اور آپ سے معافی مانگی اس کے بعد وہ بالکل ٹھیک ہو گیا.اس نے امام اب جو آخری بات میں تمہیں امام اعظم کے بارے میں بتاؤں گی وہ تو بہت ہی پیاری صاحب سے علم بھی حاصل کیا.ہے.آپ کبھی بھی غیبت نہیں کرتے تھے.بہت سے بچے غیبت کرتے ہیں مگر انہیں دیکھو بچو! اگر تم چاہتے ہونا کہ بُرے لوگ اچھے بن جائیں تو کبھی بھی ان کو بُرا نہ کہو.معلوم نہیں ہوتا کہ ہم غیبت کر رہے ہیں.جب تم اپنے کسی دوست یا سہیلی یا کسی ملنے والے بلکہ انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بہت سی خوبیاں بھی پیدا کی ہیں.ان کی خوبیاں کی غیر موجودگی میں اس کی بُرائی بیان کرتے ہو تو وہ غیبت ہوتی ہے.بیان کر کے انہیں اور زیادہ بُرا بننے سے بچالیا کرو.اب تم کہو گے کہ کیا اگر اس میں وہ بُرائی موجود بھی ہو جس کا ذکر ہم کر رہے ہوں تو وہ ایک بات یاد رکھو.دشمن پر تلوار یا بندوق کے ذریعہ سے ہی فتح نہیں پائی جاتی.بلکہ بھی غیبت ہوتی ہے؟ یہی تو بات ہے.دیکھو اس شخص میں بُرائی موجود ہے اور تم اس کی دشمن پر فتح پانے کا سب سے بہترین گر اسے معاف کر دینا ہے.ایک دن امام اعظم مسجد غیر موجودگی میں اس کا ذکر کر رہے ہو تو یہ غیبت ہوگی.اگر اس شخص میں وہ بُرائی موجود نہیں
21 ہے اور وہ جھوٹ بات تم اس کے سر تھوپ رہے ہو تو یہ تم نے اس پر بہتان لگا یا نا! اس لیے تمہیں چاہیے کہ لوگوں کا ذکر ان کی غیر موجودگی میں ہمیشہ بھلائی کے ساتھ کیا کرو.ورنہ خاموش رہا کرو.میں تمہیں بتا رہی تھی کہ حضرت امام ابو حنیفہ کبھی بھی غیبت نہیں کرتے تھے.آپ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اس نے آپ کی زبان کو اس گناہ سے پاک رکھا.ایک دن ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ حضرت ! لوگ آپ کو اتنا بُرا بھلا کہتے ہیں مگر ہم نے کبھی آپ کی زبان سے کسی کی بُرائی نہیں سنی.آپ نے فرمایا: یہ بھی خدا کی مہربانی ہے.در حقیقت یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی تھی ہمارے پیارے امام ابو حنیفہ پر کہ اس نے آپ کو اتنا علم دیا.ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمارے امام ابو حنیفہ کو توفیق دی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کیے گئے علم کے اس تحفہ سے نہ صرف ان لوگوں کی خدمت کی جو اُن کے دور میں موجود تھے بلکہ آنے والے ہر دور کے انسانوں میں بھی انہوں نے اپنے علم کے اس خزانے کو بانٹ دیا.اللہ میاں ہمیں اپنے بزرگوں جیسا بنے اور ان کی تعلیمات سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.خدا کرے ایسا ہی ہو.(آمین ) (ختم شد)