Imam Mahdi Ka Zahoor

Imam Mahdi Ka Zahoor

امام مہدی کا ظہور

از مسلمات اہلسنت و تشیع
Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

امام مہدی کا ظہور

Page 2

امام مہدی کا ظہور از مسلمات المسنت وتشيع قاضی محمد ندی صاحب نبوی

Page 3

الاء الم

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمُ : عمدة وَعَلَى عَلَى رَسُولِ الگریڈ اشْهَدُ أن لا إله إلا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ ان مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.اما بعد فَاعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَى هُ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَى : وَمَا خَلَقَ اللَّ كَرَ والأنثى لا إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى هُ فَأَمَّا مَنْ اَعْطَى وَاتَّقَى : لا ° وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى : فَسَنُيَسِرُهُ لِلْيُسْرَى ، وَامَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنى : وَكَذَبَ بِالْحُسْنَى : فَسَنُيَسِرُة العشرى ، وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالَةَ إِذَا تَرَدَّى هُ اللَّهَ عَلَيْنَا لهدى ، وإن لنا للأخِرَةَ وَالأولى ، فَانْذَرْ تَكُمْ نَارًا تلقى : لا يصلها الا الْاَشْقَى هُ الَّذِي كَذَّبَ وَتَوَلَّى وَسَجَنَّبها الأتقى هُ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَلَى : وَمَا لاَحَدٍ عِندَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى هُ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى وَلَسَوْفَ يَرْضَى : (سورة الليل میرا موضوع جس پر اس وقت میں نے تقریر کرنی ہے.امام مہدی کا ظہور انہ روئے

Page 5

مسلمات اہل سنت و تشیع ہے.بڑا لمبا چوڑا عنوان ہے مگر وقت کی تنگی کی وجہ سے مجھے اختصار سے کام لینا ہو گا.ہم لوگ حضرت مسیح موعود کو مہدی معہود یقین کرتے ہیں.کیونکہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے " خطبہ الہامیہ " میں یہ دعوی فرمایا ہے :- "أيها الناس إنى انا المسلح المحمدى واحمد المهدى" یعنی.اسے لوگو بائیں ہی مسیح محمدی ہوں اور میں ہی احمد مہدی ہوں.احباب کرام ! آپ معلوم کر چکے ہیں.میری تقریر کا موضوع امام مہدی کا ظہور ہے اور مجھے اس بارہ میں اہل سنت اور اہل تشیع کے مسلمات کو پیش کرنا ہے.گویا مجھے بتانا ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت کے مسلمات میں وہ کون سی باتیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنے مہدی ہونے کے دعوی میں صادق ہیں.امام مہدی کے ظہور کے متعلق بہت سی حدیثیں ہیں جو اپنے اندر صریح تضاد او را اختلاف رکھتی ہیں.لہذا مجھے ان کا عطر نکال کر پیش کرنا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ العزیز یہ معطر مومنین کے مشام جان کو ضرور معطر کرے گا.علامہ ابن خلدون نے مہدی کے متعلق اپنے مقدمہ میں ترندی.ابو داؤد ابن ماجہ - حالم.طبرانی اور ابوالعالی موصلی کی تمام احادیث درج کر کے ان کے اسناد پر چرخ و تنقید کی ہے اور بالآخر اپنی رائے یوں دی ہے کہ :.فهذهِ جُمْلَة الأَحَادِيثِ الَّتِي أَخْرَجَهَا الْأَئِمَّةُ فِي شَانِ الْمَهْدِى وَخُرُوجِهِ أَخَرَ الزَّمَانِ وَهِيَ كَمَا رَايُّكَ

Page 6

لَمْ يَخْلُمُ مِنْهَا مِنَ النَّقَدِ إِلَّا الْقَلِيلُ الْأَوَّلُ مِنْهُ یعنی.یہ وہ تمام احادیث ہیں جنہیں اللہ نے مہدی اور اس کے آخری زمانہ میں خروج کے متعلق نکالا ہے اور یہ احادیث جیسا کہ آپنے جرح سے معلوم کر لیا ہے سوائے قلیل الاقل کے تنقید سے خالی نہیں.روایات تعلق مہدی میں تضاد ان روایات میں جوصریح تضاد موجود ہے وہ یہ ہے کہ بعض احادیث میں مہدی کو اولاد فاطمی سے قرار دیا گیا ہے.بعض میں امام حسین کی اولاد سے بعض میں امام حسین کی اولاد سے.بعض میں حضرت عباس کی اولاد سے بعض میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدیتی مجھ سے ہے یا میری امت میں سے نکلے گا.ایک روایت میں مہدی کو حضرت عمران کی اولاد سے قرار دیا گیا ہے.اختلاف کی وجہ روایات میں یہ اختلاف سیاسی وجوہ سے پیدا ہوا ہے کیونکہ خلافت راشدہ کے بعد انتشار کے زمانہ میں ہر گروہ نے دوسرے گروہ پر اپنی سیاسی برتری ظاہر کرنے کے لئے تصرف سے کام لیا ہے تا کہ مسلمان ان کے ہی گروہ کے ہوا خواہ بنیں.اس لئے ان سب روایات سے اعتبار اٹھ گیا ہے جن میں مہدی کا کسی خاص خاندان میں پیدا ہو نے کا ذکر ہے.اور صرف وہی روایات قابل قبول رہتی ہیں جن میں امام مہدی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہونا مذکور ہے کیونکہ ایسی روایات ہی سیاسی وجوہ کے اثر سے پاک دکھائی دیتی ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صل اللہ علیہ سلم نے مہدی آخرالزمان کی

Page 7

آمد کی خبر ضرور دی تھی چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی و محدد صدی دور از د ہم خدا تعالے سے علم پاکہ بیان فرماتے ہیں :.عَلَّمَنِي رَبِّي جَلَّ جَلالُهُ انَّ القِيَامَة قَدِ اقْتَرَبَتْ وَالْمَهْدِيَّ تَهَيَّا لِلْخُرُوج تفہیمات الہیہ جلد ۱۳۳۲) یعنی.میر سے رب نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب ہے اور مہدی نکلنے کے لئے تیار ہے.پس وقت کا تقاضا یہی تھا کہ امام مہدی ہمارے زمانہ میں مبعوث ہو.چنانچہ وہ عین اس وقت پر جو قرآن مجید اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے ظاہر ہوا.قرآن مجید اور مہدی آج کل بعض لوگ یہ کہ دیتے ہیں کہ قرآن مجید میں کسی جہدی کا ذکر نہیں البتہ حدیثوں میں مہدی کے آنے کا ذکر ضرور ہے.لیکن وہ حدیثیں ہمارے لئے حجت نہیں ہیں.اس لئے میں سب سے پہلے قرآن مجید پیش کرنا چاہتا ہوں.قرآن مجید میں سورۃ وائیل کی آيَاتِ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ وَالنَّهَارِ إذا تجلی اس بات پر روشن دلیل ہیں کہ اسلام کا آفتاب پڑھنے اور پوری آب تاب کے ساتھ چھلنے کے بعد پھر ایک وقت پردہ میں آجائے گا اور اسلام پر ایک رات چھا جائے گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشی میں رات کو بطور گواہ کے پیش کرتا ہوں جب کہ وہ چھا جائے گی.یعنی اسلام پر ایک تاریخی کا دورہ آئیگا.آگے فرمایا - وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلی پھر اس تاریخی کے دور کے بعد میں گواہ

Page 8

کے طور پر پیش کرتا ہوں ایک دن کو جو اپنا جلوہ دکھائے گا.اور آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہوگا.گویا افتاب رسالت محمدیہ پھر دوبارہ اپنی پوری چمک کے ساتھ دنیا میں روشنی دے گا اور دنیا اس نور سے جگمگا اُٹھے گی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رات اسلام کے لئے بے شک آئے گی مگر چونکہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اس پر رات ہمیشہ کے لئے نہیں آئے گی بلکہ اسلام کی دوبارہ نشاہ ہوگی.تاریکی کے دور کے بعد ایک نور کا دور ضرور آنے والا ہے جسے اسلام کے لئے "نهار یعنی دن کا زما نہ قرار دیا گیا ہے اور اس طرح سے بتایا گیا ہے کہ سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آفتاب رسالت اسی زمانہ میں پھر جلوہ گر ہوگا.چنانچہ اللہ تعالی ان آیات کے بعد آگے چل کر فرماتا ہے :."إِنَّ عَلَيْنَا الهُدى وَإِنَّ لَنَا الْآخِرَةَ وَالأولى " یعنی ہدایت دینا ہمارے ذمہ ہے اس لئے کو ہدایت کے دور کے بعد تاریکی کا دور بھی آئے گا.مگر اس کے بعد پھر دوسری بار ہدایت کا دو ربھی آئے گا.فرمایا.یاد رکھو.ہدایت کے جو دور ہیں.اِنَّ لَنَا الْآخِرَةَ وَالْأُولى - ایک آخری دور ہدایت کا ہے اور ایک پہلا دور ہدایت کا ہے.پس ہدایت کے درد در قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوئے ہیں.اور اس آیت میں دوسرے دورِ ہدایت کا بھی پہلے دور کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا بیان ہوا ہے اور دوسری بارہ پھر نور محمدی کی امام الزمان مہدی علیہ السّلام کے ذریعہ جلوہ گری ہوگی.جیسا پہلے دور میں خدا تعالے کی طرف سے نور مہدی کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعہ جلوہ گری ہوئی.

Page 9

شیعہ اور سنی اجماع چھتنے لوگ حدیثیوں کے ماننے والے ہیں سنتی ہوں یا ( ) شیعہ.سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام مہدی کا آخری زمانہ میں ظہور ضروری ہے اور علماء امت نے لکھا ہے کہ مسیح موعود اور امام مہدی کے زمانہ میں اسلام دنیا پر غالب آجائیگا.چنانچہ قرآن مجید میں آیا ہے :- هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ على الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ " یعنی.خدا وہ ہے جینی اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ رسول اور اس دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے.اس آیت کے متعلق تفسیر ابن جریر میں زیرہ آیت ہذا لکھا ہے :- " هَذَا عِنْدَ خَرُوجِ المَهْدِي " که اسلام کا یہ غلبہ تمام ادیان پر امام مہدی کے زمانہ میں ہو گا.بحارالانوار میں جو شیعوں کی حدیث کی کتاب ہے.لکھتا ہے :- نَزَلَتْ فِي الْقَائِمِ مِنَ الِ مُحَمَّدٍ : کہ یہ آیت آل محمد کے القائم یعنی امام مہدی کے بارہ میں نازل ہوئی ہے.پھر شیعہ اصحاب کی ایک معتبر کتاب " غایۃ المقصود جلد ۲ صفحہ ۱۲۳ میں بھی سکھا ہے :- مراده از رسول درین جا امام مهدی موعود است اس آیت میں جو رسول موعود ہے اس سے مراد امام مہدی ہے.ابھی پچھلے دنوں میں ایک تحریری بحث ایک شیعہ عالم سے جوشی والی رئیس المناظرین

Page 10

سمجھے جاتے ہیں ہوئی ہے.انہوں نے لکھا کہ مرزا صاحب جب مہدی ہیں تو وہ نبی اور رسول کیسے ہو سکتے ہیں.میں نے انہیں کہا کہ آپکے بزرگ تو امام مہدی کو رسول مانتے ہیں.چنانچہ میں نے ان کی طرف لکھا کہ " غایتہ المقصود اور بحار الانوار" میں یہی لکھا ہے کہ مہدی رسول ہو گا.انہوں نے جواب میں لکھا کہ ہاں ہمار سے بزرگوں نے یوں لکھا تو ہے پر اسکی تشریح یہ ہے کہ امام مہدی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ضم کر کے رسول ہوگا.یعنی امام مہدی رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو کہ نہیں ہوگا.بلکہ ساتھ مل کر وہ رسول ہوگا.میں نے جواب میں لکھا کہ پھر ہمارے اور آپ کے عقیدہ میں فرق صرف لفظی ہے.ہم کہتے ہیں کہ امام مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل ہو کر رسول ہوگا اور آپ کہتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضم ہو کہ رسول ہوگا.مراد دونوں کی یہی ہے کہ امام مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو کر رسول نہیں ہوگا بلکہ آپکے دامن فوض سے وابستہ ہو کر رسول ہوگا.ایک بات جو امام مہدی کے متعلق غلط طور پر ایک غلط ہی کا نالہ پھیلی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب امام مہدی آئے گا تو اس کے ہاتھ میں تلوار ہوگی اور وہ تلوار کے ساتھ کفار سے جہاد کر کے انہیں مسلمان بنائے گا.اس کے متعلق واضح ہو کہ امام مہدی آخر الزمان جس کے ذریعے آخری زمانہ میں اسلام کا تمام ادیان پر غلبہ مقدر ہے ایسے ہی استعارہ اور مجاز کے طور پر احادیث نبوی میں ابن مریم یا علی بھی قرار دیا گیا ہے اور اس کے متعلق یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ لڑائی کو روک دے گا.چنانچہ صحیح بخاری میں بروایت حضرت ابو ہریرہ

Page 11

١٠ مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- " انْتُمْ كيف انتم إذا نَزَلَ ابْنِ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ.تم کیسے خوش قسمت ہو گے جب تم میں ابن مریم نازل ہوگا اور وہ تم میں سے تمہارے امام ہوگا.یعنی یہ امام باہر سے نہیں آئے گا.امت محمدیہ میں سے قائم ہوگا.اور پھر صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کو عیسی قرار دیا گیا ہے.صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں اس کے لئے يَضَعُ الحزب کے الفاظ وارد ہیں.یعنی وہ لڑائی کو روک دے گا.مسند احمد بن حنبل میں مروی ہے :- " يُوَشِكَ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ تَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إمَامًا مَهْدِيَّا حَكَما عَدْلاً فَيَكْسِرُ القَلِيْب وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجَزْيَةَ وَيَضَعُ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا " د مسند احمد بن حنبل جلد ۲ طلاله بروایت ابو بریده ام یعنی.آنحضرت صلی الہ علیہ وقت نے فرمایا قریب ہے کہ جو تم میں سے زندہ ہو وہ عیسی ابن مریم سے اس کے امام مہدی حکم و عدل ہونے کی حالت میں ملاقات کرے.وہ عیسی امام مہدی صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کریگا اور جزیہ موقوف کر دیگا اور لڑائی اپنے اوزار رکھ دے گی.ان دونوں حدیثوں سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود و مہدی جہود اس پوزیشن میں نہیں ہوگا کہ جنہ یہ سے یا لڑائی کرے بلکہ وہ لڑائی کے بغیر دلائل سے صلیبی عقیدہ کو پاش پاش کر دے گا.اور دلائل کی تلوار سے دجال کو قتل کرے گا کیونکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ دجال نمک کی طرح پگھل جائے گا.

Page 12

11 پس ان احادیث نبویہ سے ظاہر ہے کہ موعود عیلی کہی امام اقمت ہے وہ صاحب السیف نہیں ہوگا بلکہ وہ لڑائی کو روک کر دلائل اور بنیات کے ساتھ اور بنیات کے اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرے گا.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب علیہ الرحمتہ جو بارہویں صدی کے مجدد ہیں.تحریر فرماتے ہیں:." علبة الدين على الْأَدْيَانِ لَهَا أَسْبَابُ مِنْهَا عَلَان شَعَائِرِهِ عَلَى شَعَائِرِ الْأَدْيَانِ دین اسلام کے دوسرے ادیان پر غلبہ کے کچھ اسباب ہیں اور ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ دین اسلام کے شعائر کو دوسرے ادیان کے شعائر پر پیش کیا جائے اور اس طرح سے اسلام کو غالب کیا جائے.پھر فرماتے ہیں :.لما كَانَتِ الْغَلَبَةُ بِالسَّيْفِ فَقَط لَا تَدْفَعُ عسى أن يَرْجِعُوا إِلَى الْكُفْرِ عَنْ قَلِيْلٍ وَجَبَ أَن تُنَبَتَ با مورِ رُوحَانِيَّةِ اَدْخِطَابِيَة نَافِعَةٍ فِى اَذْهَانِ الْجَمْهُو ان تِلْكَ الْأَدْيَانَ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَتَبَّعَ : رحمتہ اللہ البالغہ جلد (صفحہ 114) تحریر فرماتے ہیں کہ چونکہ تلوار کے غلبہ سے دلوں کا زنگ دور نہیں ہوتا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ لوگ تلوار سے مغلوب ہو کر پھر کفر کی طرف لوٹ آئیں اس لئے واجب ہے کہ اسلام کا یہ علیہ اور روحانیہ کے ذریعہ ثابت کیا جائے یعنی

Page 13

۱۲ دقرآن مجید کو لائل کے ذریعہ ثابت کیا جائے، یا خطابی دلائل کے ذریعہ جو جمہور کے مسلمات میں سے ہوں جن سے ان کو سمجھ آ جائے کہ دوسرے دین اب پیروی کے قابل نہیں رہے.پھر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب علیہ الرحمۃ حجۃ اللہ البالغہ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:.إِنَّ الشَّرِيعَة الْمُصْطَفَوِيَّةُ أَشْرَفَتْ فِي هَذَا الزَّمَانِ عَلَى ان تبرز في قُمُصِ نَا بِغَاةٍ مِنَ الْبُرْهَانِ شریعت مصطفویہ کے لئے اب وہ زمانہ قریب آگیا ہے کہ یہ دلائل کے چوڑے چکلے لباس میں میدان میں آئے اور یہ ان کے ساتھ اسلام کو دنیا پر غالب کر ے.پھر فرماتے ہیں :." على ربي جَلَّ جَلَالُهُ إِن القِيَامَةَ قَدِ اقْتَرَبَتْ وَالْمَهْدِيَ قَدْ تَهَبَّا لِلخُروج " تقييمات البليه جلد ۲ ص میرے رب جل جلالہ نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے.اور مہدی نکلنے کے قریب ہے.وہ قیامت جو مہدی سے متعلق ہے وہ ایک نئی زندگی ہے جو سلمان قوم کو دوسر ادیان پر غلبہ پانے پر ملنے والی ہے.پھر فرماتے ہیں :.اعْلَمْ أَنَّ الْجَمَادَ لَهُ انْوَاعُ وَمِنْ أَعْظَمِ هَا هَدَايَهُ النَّاسِ ظَاهِرًا وَ بَاطِنَّا انَّهُ هُوَ الَّذِى بُعِثَ لَهُ الْأَنبِيَاءُ یتی.جان لوکہ بہاد کی کئی قسمیں ہیں اور سب سے بڑی قسم جہاد کی یہ ہے کہ ظاہر

Page 14

اور باطن میں لوگوں کو ہدایت دی جائے.اسی غرض کے لئے انبیاء بھیجے جاتے رہے ہیں.شیعہ روایات اب شیر روایات کو بیٹے یوں کی دیت کی متر کتاب باران نور جلد ۱۳ م پر ایک حدیث نبوی میں وارد ہے:.يُقِيمُ النَّاسَ عَلَى مِلَّتِي وَشَرِيعَتِي وَيَدْعُوهُمْ إِلَى كِتَابِ الله عَزَّ وَجَلَّ مَن أطَاعَةُ أَطَاعَتِي وَمَنْ عَصَاهُ عَصَانِي " یعنی امام مہدی لوگوں کو میری ملت اور شریعت پر قائم کر دیگا او رانہیں کتاب الله کی طرف دعوت دیگا.رسول اکرم صلی اللہ علیہ سلم کرتے ہیں جواسکی اطاعت کریگا وہ میری اطاعت کریگا اور جو ہندی کی نافرمانی کریگا وہ میری نافرمانی کریگا.اب ایک اور حدیث ملاحظہ کیجئے حضرت ابو سعید خدری کی ایک روایت ناسخ التواریخ میں بھی درج کی گئی ہے جو شیعہ اصحاب کی ایک معتبر کتاب ہے اس کی جلد اصفحہ ۱۸۶ میں یہ حدیث یوں مروی ہے :.عَنْ ابْن سَعِيدِ الْخُدْرِي قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَا الْمَهْدِيُّ فَا مَّا الْقَائِمُ فَيَاتِيهِ الْخِلَافَةُ وَلَمْ يَحْرِقُ فِيْهَا مِحْجَمَةٌ مِّن دَمٍ یعنی.ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی ہم سے ہوگا.یعنی جھارا پیرو ہو گا لیکن اس القائم (مہدی) کو خلافت اس طرح ملے گی کہ اس کے حصول میں اسے ایک سینگی بھر خون نہیں بہانا پڑے گا.

Page 15

۱۴ اس حدیث میں خبر دی گئی ہے کہ امام مہدی کی خلافت نہایت ہی پر امن طریق سے قائم ہوگی.یعنی وہ دلائل اور براہین کے ساتھ قائم ہوگی نہ کہ تلوار کے ذریعہ کیونکہ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اس کے قیام کے لئے امام مہدی کو کچھ بھی خون بہانا نہیں پڑیگا.پس یہ حدیث بتاتی ہے کہ امام مہدی کی تلوالہ دلائل کی تلوار ہوگی.نہ کہ لوہے کی تلوار.پس امام مہدی صاحب السیف نہ ہو گا.مہدی اور بیج ایک شخص ہے اس سال میں ایک سال نو مختلف فیہ ہے وہ یہ ہے کہ مہدی اور مسیح ایک شخص ہے یا دو ہیں.ہماری تحقیق یہ ہے کہ از روئے حدیث نبویہ جیسا کہ پہلے بیان ہوا.امام مہدی اور مسیح موعود ایک ہی شخص ہے.بخاری شریف کی ایک حدیث میں موعود ابن مریم کو امامکم منکم کہا گیا ہے.یہ حدیث پہلے پیش کی جاچکی ہے.بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس حدیث کا یہ ترجمہ جو احمدی کرتے ہیں صحیح نہیں کہ : - تم کیسے اچھے ہو گئے جب ابن مریم تم میں نازل ہوگا.درآنحالیکہ وہ.تم میں سے تمہارا امام ہو گا " وہ کہتے ہیں کہ صحیح ترجمہ اس کا یہ ہے کہ تم کیسے اچھے ہوگے جب ابن مریم تم میں نازل ہوگا.درآنحالیکہ تمہارا امام تم میں سے موجود ہو گا.یعنی امام مہدی پہلے موجود ہو گا.پھر مسیح ابن مریم آسمان سے اتر آئے گا.وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں امامكم منكم کی خبر محذوف ہے جو " موجود " کا لفظ ہے مگر ہماری تحقیق یہ ہے کہ یہاں مَوْجُودُ محذوف نہیں بلکہ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ کا مبتدا تعد " محذوف ہے.لہذا ہمارا یہ ترجمہ ہی صحیح ہے کہ :.

Page 16

تم کتنے اچھے ہو گئے جب تم میں ابن مریم نازل ہوگا.درآنحالیکہ دہ تم میں سے تمہارا امام ہو گا ؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تو جھگڑا پیدا ہو گیا کہ خبر محذوف ہے یا مبتدا محذوف ہے.میں کہتا ہوں یہ جھگڑا باسانی ختم ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے پاس دوسری فیصلہ کن حدیثیں موجود ہیں.آئیے رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کے دربارمیں ملتے ہیں اور وہاں سے اپنی نتائج کا فیصلہ لیتے ہیں.احباب کو ام سنئیے ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے.راوی بھی اس کے حضرت ابو ہر یہ نہیں اور ہے بھی معتبر حدیث کیونکہ امام سلم اس کو اپنی صحیح میں درج فرماتے ہیں.اس کے الفاظ ہیں :- كَيْفَ انْتُمْ إِذا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ فَاقَكُمْ مِنكُمْ تم کیسے خوش قسمت ہو گئے جب تم میں ابن مریم نازل ہوگا.وہ ابن مریم تم میں سے تمہارا امام ہوگا.اَمكُم مِنكُم جملہ فعلیہ ہے اور اِمامُكُمْ مِنْكُمْ جملہ اسمیہ.اس جملہ فعلیہ میں امد فعل ماضی ہے جس میں ایک ضمیر غائب مستتر ہے جس کا مرجع کلام میں پہلے ہونا چاہیئے اور کلام ہذا میں اسی پہلے چونکہ مرجع سوائے ابن مریم کے اور کوئی نہیں.لہذا اس حدیث کی روشنی میں صحیح بخاری کی حدیث اِمَامُكُمْ مِنْكَمين هو بدا ماننا ضروری ہوا تا دو نوں حدیثیں مفہوم میں ایک دوسرے کے مطابق ہو جائیں.پرس صحیح مسلم کی اس حدیث میں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا نیا فیصلہ موجود ہے که موعود عیسی ابن مریم امت محمدیہ میں سے ہی امت کا امام ہوگا.

Page 17

14 ایک شبہ اگر کوئی ہے کہ حدیث میں امام کا لفظ تو وعود عیسی ابن مریم کے لئے ضرور موجود ثابت ہوا انگر امام کے ساتھ مہدی کے لفظ موجود نہیں.جواب شبہ اس کے جواب میں یاد رکھیں کہ جو شخص جہری نہ ہو وہ امام ہی نہیں ہوسکتا امام کا مہدی ہونا از بس ضروری ہے کیونکہ مہدی عربی زبان کا لفظ ہدایت مصدر سے ماخوذ ہے اور اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کے معنے ہیں ہدایت دیا ہوا اور امام چونکہ ہادی ہوتا ہے اور ہادی کوئی بن نہیں سکتا.جب تک مہدی نہ ہو.لہذا صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکورہ امام کا مہدی ہونا از بس ضروری ہے.لیکن اس پر بس نہیں.مسند احمد بن حنبل جلدہ صفحہ اہم کی جو حدیث بروایت ابو ہریرہ پہلے بیان ہوئی ہے اس میں صاف الفاظ میں موجود عیسی ابن مریم کو امام مہدی قرار دیا گیا ہے.چنانچہ حدیث ہذا کے الفاظ يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إما ما مَهْدِ يَا حَكَما مَدْلاً...الخ کہ قریب ہے کہ تم میں سے جو زندہ ہو عیسی ابن مریم سے ملاقات کرے اس کے امام مہدی حلیم عادل ہونے کی حالت میں.اس بات پر روشن دلیل ہیں کہ مہدی اور سیخ ایک ہی شخص ہے اور امام مہدی کو عیسی ابن مریم کا نام استعارہ کے طور پر دیا گیا ہے.حدیث نبوی میں اِمَا مَكمْ مِنْكُمْ اور فَامَّكُم مِنكُم عیسی ابن مریم کے استعارہ ہونے پر قومی قرینہ ہیں کیونکہ اس موعود عیسی بن مریم کو امت محمدیہ میں سے امت کا امام.قرار دیا گیا ہے.پھر ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لا يزداد الأمرُ الَّا شِدَّةً وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا وَلاَ

Page 18

K النَّاسُ الاَشُعَا وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى اشْرَارِ النَّاسِ.وَلَا المَهْدِيَّ إِلَّا عَسَى ابْنَ مَرْيَمَ در این ماجه باب شدة الزمان ولکنز العمال جلده ها) یعنی امرسختی میں بڑھتا چلا جائے گا.دنیا اوبار میں بڑھتی جائینگی اور لوگوں کا بخل ترقی کرتا جائے گا اور قیامت صرف شریر لوگوں پر قائم ہوگی اور کوئی المھدی نہیں سوائے عیسی بن مریم کے.اس حدیث نے ناطق فیصلہ دے دیا ہے کہ عیسی ابن مریم ہی المہدی ہے.اور اس کے علاوہ کوئی المہدی نہیں ہے.پس ان حدیثوں میں مہدی کا نام عیسی ابن مریم بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے.یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ امام مہدی عیسیٰ علیہ السّلام کے رنگ میں رنگین ہوگا.کوئی شیعہ کہ سکتا ہے کہ یہ حدیثیں توسینیوں کی ہیں.یہ درست ہے کہ یہ حدیثیں سنیوں کی ہیں.مگرہم احمدی تو مشترک خزانہ کے قائل ہیں جو بات سنیوں میں صحیح ہے وہ بھی ہم تسلیم کرتے ہیں اور جو بات شیعوں میں صحیح ہے اس کو بھی ہم مانتے ہیں صحیح احادیث تو ہمارہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہیں خواہ شیعوں کی احادیث ہوں یا سینیوں کی.احادیث کے خزانہ میں جو موتی ہیں وہ ہم نے نکالنے ہیں.اب واضح ہو کہ بحار الانوار" میں جو شیعہ اصحاب کی حدیث کی معتبر کتاب ہے بروایت ابو الدردا عرض امام مہدی کے متعلق مروی ہے :- رو " اَشْبَهُ النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَدْ " کہ.مہدی سب لوگوں سے بڑھ کر عیسی ابن مریم کے مشابہ ہوگا.

Page 19

پھر بعض شیعہ علماء نے اس بات کو تسلیم کیا ہے بلکہ دلائل سے ثابت کیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکے ہیں لہذا آنیوالا امام مہدی سی در حقیقت ان کے نزدیک مسیح موعود ہے اور وہی کسر صلیب اور قتل خنزیر کا کام جو بخاری میں عیسی ابن مریم کا کام بیان ہوا ہے انجام دے گا.اس موقعہ پر ہیں باقی اور بہائی مذہب کے متعلق بھی غور کرنا چاہیئے.اس کے بانی علی محمد صاحب بات نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی آمد سے پہلے ایران کی سرزمین میں یہ دعوی کیا تھا کہ میں مہدی ہوں مگر وہ بغاوت کے جرم میں حکومت ایران کے حکم سے قتل کر دیئے گئے وہ قید خانہ میں قرآن مجید کومنسوخ قرار د سے کہ اس کی جگہ ایک نئی شریعت کی کتاب " البیان لکھ رہے تھے مگر اسے مکمل نہیں کر پائے تھے کہ قتل کر دیئے گئے.علی محمد باب کے بعد مرزا حسین علی ان کے جانشین ہوئے جن کا عرف بہاء اللہ ہے.انہوں نے بآب کی کتاب شریعت البیان کو منسوخ کر دیا اور اسکی ! بجائے کتاب الاقدس ، بطور شریعت جدید پیش کی.علی محمد باب کے ماننے والے بانی اور بہاء اللہ کے ماننے والے بہائی کہلاتے ہیں.ہمارے نزدیک پاتی اور بہائی تحریکیں آیت قرآنیہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِم کے صریح خلاف ہیں کیونکہ یہ دونوں تحریکیں قرآن مجید کو منسوخ قرار دے کر نئی شریعتیں پیش کرتی ہیں.اس آیت میں دینِ الْحَقِّ " سے مراد اسلام رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و کم اور آپ کے نائین کا کام یہ ہے کہ وہ اسلام کو ہی تمام ادیان پر غالب کریں.

Page 20

14 چونکہ المعقدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت خلیفہ اللہ ہے.اس لئے اس آیت کی رو سے کوئی ایسا جہد کی نہیں آسکتا ہو شریعت محمدیہ کو منسوخ کر ہے.ہمارے شیعہ بزرگ بھی امام مہدی کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بموجب ارشاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم يُقِيمُ مِلَّتِي وَشَرِيعَتِي وَيَدْعُو إِلَى كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَ - وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت اور شریعت کو ہی قائم کرے گا.اور لوگوں کو ٹھنڈا کی کتاب یعنی قرآن مجید کی طرف دعوت دے گا.پیس ایسی حدیثیوں کی روشنی میں ہم احمد کی.شیعہ اور سنی.باب اور بہاء اللہ کے دین کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہیں مان سکتے.احمدیہ تحریک کا مقصد احمدیہ تحریک کا مقصد شریعیت اسلامی کا احیاء ہے، مگر باقی اور بہائی تحریکیں اسلامی شریعت کے دور کے منقطع ہو جانے اور قرآن مجید کے منسوخ ہو جانے کی مدعی ہیں.پس احمدیت اور بابیت و بہائیت میں اس وجہ سے بعد المشرقین ہے.ہماری مسلمہ احادیث کی رو سے کوئی ایسا مہدی یا سبیح آنحضرت صلی اللہ علیہ و ستم کے بعد ظاہر نہیں ہو سکتا جو دین اسلام کو منسوخ کرنے والا ہو.بلکہ مہدی اور مسیح موعود کا کام صرف شریعت محمدیہ کا قیام دا حیاء ہی ہے نہ کسی جدید شریعت کا لانا.بہائی شیعوں کی ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ مہدی کتاب جدید لائے گا.مگر محققین شیعہ علماء امام مہدی کے کسی جدید شریعیت لانے کے قائل نہیں بلکہ وہ امام مہدی کو بموجب حدیث نبوی يُقِيمُ مِلَّتِي وَ شَرِيْبَتِي، شریعت محمدید کا قائم کرنے والا ہی قرار دیتے ہیں اور حدیث یا تی بکتاب جدید کی جو

Page 21

تاویل کرتے ہیں کہ امام مہدی شریعت محمدیہ کی ہی تجدید کرے گا.میرا مشورہ شیعہ علماء کو یہ ہے کہ انہیں اس روایت کو یقیم ملتی و شریعتی والی روایت سے متضاد ہونے کی وجہ سے بالکل رد کر دینا چاہیے.شیعہ اصحاب امام مهدی شیعه اثنا عشر تیر ما محمد حسن عسکری کو جو چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئے مہدی معہود یقین کرتے ہیں اُن کا یہ عقیدہ ہے کہ امام محمد بن عسکری حکومت وقت کے خوف سے سُر من رأی کی غار میں منفی ہو گئے اور ایک وقت تک قوم اُن کے نائین کے ذریعہ جو باب کہلاتے تھے امام موصوف سے فیض حاصل کرتی رہی.پھر چوتھے باب کے بعد امام صاحب موصوف کی غیبت تامہ شروع ہو گئی.چوتھے باب علی محمد السمری کی وفات کے وقت امام محمد بن حسن عسکری کی ایک توقیع ان کے اس آخری باب کے نام ان الفاظ میں جاری ہوئی تھی :- يَا عَلى مُحَمَّد السَّمْرِئُ عَظَمَ اللَّهُ أَجْرَاخْوَانِكَ فِيكَ إِنَّكَ مَيِّتٌ بَيْنَكَ وَ بَيْنِي مِتَّةَ أَيَّا مِنَا جُمَعْ امْرَكَ فَلَا تُرْضِ إِلَى أَحَدٍ فَيَقُومَ مَقَامَكَ بَعْدَ وَفَاتِكَ فَقَدْ وَقَعَتِ الْغَيْبَةُ التَّامَّةُ فَلَا ظُهُورَ بِغَيْرِ اذْنِ اللهِ تَعَالَى ذِكرَهُ وَذَلِكَ بَعْدَهُولِ الْأَمْدِ وَقَسْوَةِ الْقَلْبِ و امتلاء الْأَرْضِ جَوْرًا وَسَيَاتِي مَنْ يَدَى الْمُشَاهَدَة قبل خروج السَّفْيَانِي وَالْمَسَيْحَةِ فَهُوَ مُفْتَرَى كَذَّابٌ.د نور الانوار صفحه ۱۰)

Page 22

یعنی اسے علی محمد الشمری اللہ تعالیٰ تیرے بھائیوں کا اجر تجھ میں زیادہ کرے تو چھ دن کے اندر مر جانے والا ہے پس تو خاطر جمع رکھ اور کسی کو وصیت کرنا کہ وہ تیر قائم مقام ہو.اب غیبت تامہ واقع ہوچکی ہے پس اب ظہور خُدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں ہوگا اور یہ ظہور یہی مقت گزرنے اور دلوں کے سخت ہو جانے اور زمین کے ظلم سے بھر جانے کے بعد ہو گا اور ایسا شخص آئیگا جو مہدی کے مشاہدہ کا دعوی کریگا.سنو جو مشاہدہ کا دعویٰ سفیانی کے خروج اور میجر سے پہلے کرے وہ مفتری اور کذاب ہے " اس توقیع میں غیبت تامہ کے الفاظ اس لئے استعمال ہوئے ہیں کہ امام محمد بن حسن عسکری اب ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے غائب ہو رہے ہیں اور ہ اب ان کے اصل وجود میں نہیں ہو گا بلکہ اب الامام المہدی کا ظہور امام محمد بن حسن عسکری کے بروز کی صورت میں ہو گا.اس جگہ اس کے ظہور کی علامتیں خروج سفیانی اور صیحہ بیان کی گئی ہیں.اس سے پہلے جو شخص امام مہدی کے مشاہدہ کا دعویٰ کر سے.اسے مفتری اور کذاب قرار دیا گیا ہے.سفیانی کا خروج سفیانی کے خروج سے کیامراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک دوسری شیعہ روایت سے واضح طور پر ثابت ہے :.السُّفْيَانِي يَخْرُجُ مِنْ بِلَادِ الرُّومِ فِي عُنْقِهِ صَلِيْبٌ متنصر یعنی سفیانی ڈیم کے علاقہ سے نکلے گا اگی گردن میں صلیب ہوگئی اور وہ منتصر امینی بگڑے ہوئے نذیب الانصرانی ہو گا یعنی عیسائیت کے صحیح عقائد پر نہ ہوگا.

Page 23

سفیانی کے گلے میں صلیب کا ہونا اور اس کا بگڑا ہوا عیسائی ہونا.یہ پہلی علامت ہے جس کی ظہور پر اس توقیع کے مطابق امام مہدی کا ظا ہر ہونا ضروری ہے.اس حدیث میں امام مہدی سے پہلے عیسائیوں کے خروج کو امام مہدی کے ظہور سے پہلے فوری علامت قرار دیا گیا ہے.دوسری احادیث میں مسیح موعود امام موعود کا کام کر صلیب بیان کیا گیا ہے جب سے ظاہر ہے.اس وقت صلیبی مذہب دنیا میں غلبہ پا چکا ہوگا یکہ صلیب کو توڑنے کی ضرورت اسی لئے ہوگی کہ صلیبی مذہب غالب آچکا ہوگا.تیرھویں صدی کے آخر تک صلیبی مذہب دنیا میں غالب آچکا تھا.پس امام مہدی کے ظہور کا زمانہ تیرھویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی کے شروع میں متعین ہو جاتا ہے.السفیانی کے متعلق شیعہ روایت میں یہ بھی آیا ہے : - " يَاتِي مِنَ الْمَغْرِبِ یعنی اس کا ظہور مغرب کی طرف سے ہوگا.پس در اصل یورپی پادریوں کو ہی تمثیلی زبان میں شیعہ روایتوں میں السفیانی قرار دیا گیا ہے اور دوسری احادیث میں انہی کو دجال کا خروج قرار دیا گیا ہے.دوسری علامت جس کا وقوع امام مہدی کی توقیع الصَّيْحَہ کا ظہور کے مطابق اس کے ظہور سے پہلے ضروری ہے.وہ الصیحہ ہے.یہ القیم وہ لڑائی ہے جو ہندوستان کی سرز مین میں مکالمہ میں لڑی گئی.یہ وہ حادثہ فاجعہ ہے جس کا امام مہدی سے پہلے ظہور ہوا.پس امام مہدی سے پہلے سفیانی کا خروج بھی شیعہ روایات کے مطابق ہو چکا ہے اور الصيحة کا ظہور ہی ہو چکا ہے.

Page 24

۲۳ خراسانی کا خروج | ایک شیعہ روایت میں امام مہدی سے پہلے خراسانی کے خروج کا ذکر بھی آیا ہے.روایت میں وارد ہے کہ :- الخراساني يأتى من المشرق " کہ خراسانی کا ظہور شرقی سے ہو گا چنانچو ایران کی سرزمین میں بائی اور بہائی تحریک کی صورت میں الخراسانی کا ظہور بھی ہو چکا ہے.اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کی جو پیش گوئی قرآن مجید میں ہے کہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا.امام مہدی علیہ السلام کی تحریک انشاء اللہ العزیز دیگر ادیان کے علاوہ بائی اور بہائی شریعت پر بھی غالب آئے گی کیونکہ امام مہدی کی شریعت قرآنیہ کے مقابلہ میں اب کوئی دوسری شریعت چل نہیں سکتی.الحمد للہ کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے عین مقررہ وقت پر دھونی فرما یا کہ آپ امام مہدی ہیں.امام محمد بن حسن عسکری نے اپنی دوسری توقیع میں یہ بھی فرمایا ہے :- مَنْ سَمانِي فِي مَجْمَعِ النَّاسِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ " دنور الانوار صا یعنی یا آئندہ مجمع میں جو میرا نام لے گا کہ حمد بن حسن عسکری امام مہدی ہیں اس پر خدا کی لعنت ہے یا شیعہ اثناء عشریہ بارہ امام مانتے ہیں اور ہم احمد می ان کے سب ائمہ کو واجب الاحترام بزرگ سمجھتے ہیں کیونکہ ہم احمدی سب بزرگوں کو ماننے والے ہیں.شیعہ ائمہ کے بھی قائل ہیں اور سنی ائمہ کے بھی قائل ہیں.میں بتا چکا ہوں شیعہ اشاعتر یارہواں امام بصورت مہدی امام محمد بن عسکری کو بجھتے ہیں دوسرے شیعہ فرقے امام محمد

Page 25

۲۴۴ بن حسن عسکری کو امام مہدی نہیں سمجھتے مگر ہم انہیں واجب الاحترام امام مانتے ہیں اسی لئے تو ہم حضرت باقی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد کو بصورت الامام المهدی ان کا بروز یقین کرتے ہیں.یہ بات کہ امام محمد بن سن عسکری کا ظہور اصالتا ہی ہواتا چاہیے.ہمارے نزدیک درست نہیں کیونکہ ان کی غیبت تامہ سے یہ مراد ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے دُنیا سے رخصت ہو چکے ہیں یعنی وفات پاچکے ہیں اور اب اصالتا ظاہر ہونے والے نہیں بلکہ بیرون کی ہی صورت میں ان کا ظہور مقدر تھا.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بطور حکم و عدل یہ فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ :- یکی سمجھتا ہوں اہل بیت نبوت کے بعض اماموں کو الہام ہوا کہ امام محمد غار میں چلے گئے اور عنقریب آخری زمانہ میں نکلیں گے تاکہ کافروں کو قتل کریں اور کلمہ ملت و دین بلند کریں.پس یہ خیال اس خیال سے مشابہ ہے کہ حضرت عیسی آسمان پر چڑھ گئے اور فتنوں کے ظہور کے وقت پھر نازل ہوں گے وہ حقیقت جس سے بھید کھل جاتا ہے کہ یہ کلمات یا ان کے مانند کلمات مہمین کی زبانوں پر استعارہ کے طور پر جاری دگئے.پس به کلام لطیف استعارات سے پر ہے.پس وہ قبر جو مرنے کے بعد پاک لوگوں کا گھر ہے اس کی تعبیر غار سے کی گئی اور جسنی امام کا مشیل ہو گرا در طبعی جو ہر ے کو نکلنا تھا اس کی تعبیر امام کے غار سے نکلنے سے کی گئی.یہ سب بہ طریق استعارہ ہے.اس قسم کے محاورات اللہ تعالے کنے کلام میں داخل ہیں.دستر الخلافة - ترجمه از عربی دیکھئے اپنے اس فیصلہ سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے شیعہ اصحاب کو

Page 26

۲۵ احمدیوں کے قریب کر دیا ہے اور امام مہدی کو امام محمد بن حسن عسکری کا بروز قرار دے کر امام مہدی کے ظہور کی حقیقت پر روشنی ڈال کر شیعہ اصحاب کے لئے احمدیت کا قبول کرنا اور اس تحریک میں شامل ہو جانا بہت آسان کر دیا ہے.امام مہدی کا نام " القائم اس لئے رکھا گیا ہے.لأَنَّهُ يَقُومُ بَعْدَ مَا يَمُوت : دبحار الانوار جلد ۱۳ مت) یعنی.وہ مرنے کے بعد کھڑا ہو گا.اس میں امام مہدی کو دراصل وفات پا جانے والے امام محمد بن حن عسکری کا بروز بی قرار دیا گیا ہے کیونکہ مرنے کے بعد اس دنیا میں پہلے لوگوں کی رجعت بروزی ہی ہو سکتی ہے.از روئے قرآن مجید رجعت اصالت محال ہے.چنانچہ کتاب انجم الشاب جلد احث سے امام محمد بن حسن عسکری کی وفات ثابت ہے اس جگہ ایک گردہ کایہ مشاہدہ درج ہے کہ امام صاحب موصوف نے وفات پائی اور ان کا جنازہ پڑھا گیا اور دہ مدینتہ الرسول میں دفن کئے گئے.پس موت کے بعد کسی پہلے امام کا دوبارہ ظہور بروزی صورت میں ہی متصور ہو سکتا ہے.النجم الثاقب طلاء کی ایک اور روایت میں امام مہدی کے متعلق یہ الفاظ وارد ہیں:.لَوْنَهُ يَوْن عَرْبيٌّ وَ جِسْمُهُ جِسْمُ إِسْرَائِيلَ اس روایت کا ترجمہ اس جگہ النجم الثاقب میں یہ لکھا گیا ہے :.رنگش زنگ عربی است و جسمش چون جیم اسرائیلی یا - یعنی مہندی کا رنگ تو رویوں جیسا ہو گا اور اس کا جسم اسرائیلیوں جیسا ہوگا.امام مہدی کے جسم کا اسرائیلیوں کے جسم کی طرح ہونا اس بات پر روشن دلیل ہے کہ وہ

Page 27

۲۶ تجمی النسل ہوگا اور اس کا نجی النسل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ امام محمد بن حسن عسکری کا بطور امام مہدی اصالتاً ظہور نہیں ہو گا کیونکہ وہ تو عربی النسل ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی ذریت طیبہ سے ہیں.شیعوں کی حدیث کی کتاب بحار الانوالی میں ابو الجار و حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام سے روایت کرتے ہیں :.اصْحَابُ القَائِمِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَثَلَاثَةٌ عَشَرَ رَجُلاً أَوْلَادُ العجم بحار الانوار جلد ۳ صفحه ۱۹۵) یعنی امام مہدی کے اصحاب ۳۱۳ ہیں یہ سب عجمیوں کی اولاد ہوں گے.پہلی حدیث سے ظاہر تھا کہ امام مہدی خود بھی ہوں گے اور اس دوسری حدیث سے ظاہر ہے کہ انکے اولین اصحاب بھی اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ۲۱۳ ہوگئی جور کے سب بھی ہوں گے.ان حقائق پر ہمارے شیعہ اصحاب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیئے اور امام حاضر کو قبول کرنے کے لئے آگے بڑھنا چاہیے.حاضر کو چھوڑ کر غائب کے انتظار میں رہنا نا مناسب امر ہے.حضرت میرزا غلام احمد بانی جماعت احمدیہ اپنے لیکچر سیالکوٹ میں خود احمد کو امام الزمان“ قرار دے کر لکھتے ہیں :.اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کیلئے بن نفیل کے ہوی.پس مسیح موعود کا کام کسیر ملی ہے، اس لئے احمدیوں کو چاہیئے کہ وہ تبلیغ کر کے عیسائیوں کے دل فتح کریں.جب عیسائیوں کے دل تبلیغ اسلام کے ذریعہ فتح ہو جائیں گے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو قبول کرلیں گے اور اس طرح دنیا کے دلوں میں جنگرا کی

Page 28

۲ حکومت قائم ہو جائے گی تو پھر یورپ میں بھی اسلامی حکومت ہوگی اور امریکہ میں بھی اسلامی حکومت ہوگی اور جب چین و جاپان بھی مسلمان ہو جائیگا تو وہاں بھی اسلام کی حکومت قائم ہوگی اور جب یہ اعظم افریقہ مسلمان ہو جائے گا تو وہاں بھی اسلام کی حکومت قائم ہو جائیگی اور انشاء اللہ تعالی ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہوگا.لہذا اس وقت ہمارا اصل کام اسلام کے لئے دلوں کو فتح کرنا ہے.کسر صلیب حدیثوں میں جومسیح موعود کا کام کسر صلیب بیان ہوا ہے، اس سے مراد علمائے امت نے یہ لی ہے کہ سیج موجود نصاری کے عقائد کا ابطال کریگا گویا وہ دلائل اور شواہد سے ثابت کر دیگا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر جان نہیں دی بلکہ وہ حسب آیتِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ مقتولی اور مصلوب ہونے سے بچائے گئے اور یہودی ان کو قتل کرنے اور صلیب پر مارنے پر قادر نہ ہو سکے.عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ابن اللہ اور الہا مجسم تھے انہوں نے انسانوں کے گناہوں کے بدلے فدیہ کے طور پر جان دی ہے اور وہ لوگوں کے گناہوں کیلئے کفارہ ہو گئے ہیں.اب جو لوگ انکی صلیبی موت پر ایمان لائیں وہی نجات پائیں گے.لہذا جب تک دلائل بقیہ اور محبت و برکان سے عیسائیوں پر یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ حضرت عیسی علیہ السّلام نے صلیب پر جان نہیں دی اسوقت تک عیسائی اسلام کو قبول نہیں کر سکتے.یہ کام حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ کے ہاتھوں با حسن وجوہ سرانجام پا چکا ہے.کیونکہ آپنے انجیل دلائل وبراین در تاریخی شواہد سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السن نے صلیب پر جان نہیں دی.بلکہ وہ صلیب پر سے نشی کی حالت میں اتارے گئے اورشی سے ہوش میں آنے کے بعد وہ مخفی طور پر اپنے شاگردوں سے ملتے ہے اور پھر تاریخی شواہد پیش کر کے

Page 29

YA ثابت کیا ہے کہ وہ آسمان پر نہیں گئے.بلکہ آپنے نسیبین کے راستے ایران اور افغانستان سے گزر کر کشمیر مں پہنچ کر اپنی باقی عمرو ہاں عزت اور وجاہت کے ساتھ بسر کی ہے اور طبعی اور با معرآت وفات پا کر سری نگر محله خانیار میں حسب آیت يُعيسى إِنِّي مُتَوَفِيكَ وَرافِعُك الي مدفون ہیں اور ان کی قبریوز آسف نبی کی قبر کے نام سے معروف ہے.یوز کا لفظ یسوع کی ہی ایک دوسری صورت ہے اور آسف کے معنے تلاش کنند کے ہیں.حضرت عیسی علیہ اسلام فلسطین سے ہجرت کر کے اپنی قوم کی تلاش میں نکلے اور اس مناسبت سے اپنا نام آسف رکھ لیا کشمیر میں حضرت بانی اسلسلہ احمدیہ کی تحقیقات کے مطابق اسرائیلی قوم آباد تھی اور انہیں کے بیان کے مطابق میت کو اسرائیلیوں کے پاس پہنچنا ضروری تھا.اس ہجرت کے متعلق قرآن مجید میں بھی اشارہ ملتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- جَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَ أَمَّهُ أَيَةٌ وَاوَيْتُهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ ومَعِين رمومنون آیت : ۵) یعنی ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو ایک عظیم الشان نشان بنایا اور ان دونوں کو ایک اونچی زمین کی طرف پناہ دی جو آرام دہ اور چشموں والی ہے.اس آیت میں حضرت مریم اور ابن مریم کے کسی پہاڑی علاقہ کیطرف جو چشموں والا ہے ہجرت کا ذکر ہے.ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا تھا.اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں اولى الله تَعَالَى إِلى عِيسَى أَنْ يُعِيْلَى انْتَقِلُ مِن مَكَانٍ إِلَى مَكانٍ لِيلاً تُعرَنَ فَتودى " (کنز العمال جلد ۲ صفحه به ۳)

Page 30

۲۹ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السّلام کی طرف وحی کی کہ اسے عیسی ! ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکان کر جا تا کہ تو پہچان نہ لیا جائے اور دیکھو نہ دیا جائے؟ غرض قرآن حدیث سے بھی آپ کی ہجرت ایک دوسری زمین کی طرف ثابت ہے نہ آسمان کی طرف اور دَفَعَهُ الله الله سے مُراد آرام دہ اونچی زمین کی طرف ہی ہجرت کر کے باد جاہت نہ زندگی گزار کر یا عورت وفات کے ذریعہ خدا کے حضور پیش ہوتا ہے.پس جو دلائل و شواہد حضرت بانی اسلسلہ احمدیہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی ہجرت کے متعلق دیئے ہیں ان سے ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسی نے صلیب پر وفات نہیں پائی بلکہ صلیبی موت سے بچائے گئے اور دنیا میں رہ کر آپ نے وجاہت والی زندگی بسر کی.ان دلائل و براہین اور شواہد سے صلیب پاش پاش ہو جاتی ہے اور صلیبی عقیدہ کے ابطال کی ضرورت اسی زمانہ میں تھی.جبکہ عیسائیت کو دنیا میں عروج حاصل ہو گیا ہوتا اور اس کیلئے تیرھویں صدی کا آخر اور چودھویں صدی کا شروع ہی موزوں وقت تھا.پس جو کام میر کو مسیح کے ذمہ تھا وہ بنیادی طور پر پورا ہو چکا ہے.اب تو صرف دنیا میں ان خیالات مرجو کی پر زو را شاعت کی ضرورت ہے اور یہ کام حضرت بانی جماعت احمدیہ کی جماعت کے ذمہ ہے کہ وہ اس راہ میں ہر قسم کی قربانیاں کرنے کیلئے تیار ہے تا توحید الہی کا تحقیر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت ساری دنیا میں مانی جائے اور وہ وقت آجائے جبکہ حسب آیت عَلَى إِن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوداً ہر شخص کی زبان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف سے رطب اللسان ہو کہ آپ پر درود بھیج رہی ہو.اب کسی اور مسیح اور مہدتی کے انتظار کی ضرورت نہیں.کیونکہ یہ کام حضرت بانی جماعت احمدیہ کے ہاتھ سے انجام پا چکا ہے اور اب احمدیہ تحریک جو اسلام کی ایک

Page 31

زیر دست تحریک ہے دنیا میں قبولیت حاصل کر رہی ہے.یہ تحریک اب بڑھے گی اور پھولے گی اور ساری دنیا اس کے سایہ میں آرام پائے گی.اس کی پوری کامیابی خدا تعالیٰ کی انزلی تقدیر میں مقدر ہے.یہ مقدر ہے کہ اب احمدیت کے ذریعہ ہی تمام دنیا میں اسلام غالب آئے گا.اور سرور کائنات ، فخر موجودات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ ولی کا نام اس تحریک کے ذریعہ ساری دنیا میں بلند ہو گا اور اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں گھاڑا جائے گا اور تمام دنیا کے دلوں پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت منوا کر حکومت الہیہ قائم کی جائے گی.اب کوئی مہدی صاحب السیف ظاہر ہو کر تلوار کے ذریعہ دنیا میں اسلام کو غالب نہیں کر سکتا.انٹرنیشنل حالات اور قوانین ایسے ہیں کہ ہمیں اشاعت اسلام کے لئے کسی تلوار کی ضرورت نہیں اور دین اسلام میں جبر بھی نا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :- لا إكراه في الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَنِي یعنی دین میں کسی قسم کا جب جائز نہیں کیونکہ روشن دلائل سے اہدایت گمراہی سے خوب واضح ہو گئی ہے یہ آج چونکہ اسلام کو مٹانے کے لئے کوئی قوم تلوار ستعمال نہیں کرتی اس لئے امام مہدی علیہ اسلام کو اس زمانہ مں دلائل کی تلوار دی گئی ہے جس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتہ اس کا کام دلوں کو فتح کرنا ہے.پس انشاء اللہ العزیز دل فتح ہوں گے.ضرور فتح ہوں گے.افریقہ بھی مسلمان ہوگا.امریکہ بھی مسلمان ہوگا.یورپ بھی مسلمان ہوگا.چین اور جاپان بھی مسلمان ہوں گے.روس بھی مسلمان ہو گا.اور دنیا میں یہ تحریک ضرور غالب آئے گی.اس کے غلبہ کے آثار نظر آ رہے ہیں.

Page 32

پس دلائل و شواہد کے لحاظ سے صلیب ٹوٹ چکی ہے اور جہاں جہاں احمدیت کے ذریعہ اشاعت اسلام کا کام ہورہا ہے.دنوں سے صلیب کا اثر میٹ رہا ہے.ایک اور حدیث یہ بھی بتاتی ہے کہ مسیح موعود کا ظہور ہندوستان میں ہونیوالا تھا.وہ حدیث یہ ہے :- عَنْ تَوْبَانَ مَوْلى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمُ الله تعالى مِنَ النَّارِ عَصَابَةٌ تَعْزُوُا الْهِنْدَ وَعَصَابَةٌ تَكُونَ مع عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام د مسند احمد بن خلیل جلده منه، نسائی باب غرب الہند) ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میری امت کی دو جماعتیں ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا ہے.ایک جماعت ہندوستان سے جنگ کرے گی اور ایک جماعات مسیح موعود کے ساتھ ہوگی.اس حدیث میں در اصل انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہندوستان میں ہونے والی دو جماعتوں کا ہی ذکر ہے.فروہ کرنیوالی جماعت وہ پہلا اسلامی لشکر ہے جیسی ذریعہ ہندستان میں مسلمانوں کیلئے فتح کی بنیا د رکھی گئی تھی اور دوسری جماعت کے مسیح موعود یعنی امام مہدی کے ساتھ ہونے کا ذکر ہے لیکن اس جماعت کے لڑائی کرنے کا ذکر نہیں.ایک دوسری حدیث میں مسیح موعود مہدی معہود کے لئے يَضَعُ الحَرب کے الفاظ وارد ہیں.یعنی وہ لڑائی نہیں کرے گا.ملا حظہ ہو صحیح بخاری مجتبائی باب نزول عیسی.

Page 33

۳۲ پس امام مہدی کا ہندوستانی ہونا ضروری تھا حضرت امام مہدی ہندوستانی ہیں اور خدا کے فضل سے امام مہدی کی جماعت اب ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اور انشاء اللہ تعالی ساری دنیا کے قلوب میں اسلام کی حکومت قائم ہو جائیگی.وَمَا ذلك على الله بعزيز - احباب کرام ! اب میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کی ایک پر جلال پیش گوئی کے بیان پر اپنی تقریر ختم کرتا ہوں.حضور فرماتے ہیں :.خدا تعالٰی نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا.میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میر گسلسلہ کو تمام روئے زمین پر پھیلائے گا.سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور روشن نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی.یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا.بھٹو نے گا.یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جائیگا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی ابتلاء آئیں گے.مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا.اور اپنے وعدہ کو پورا کر ے گا.سو اسے سننے والو ! ان باتوں کو یاد رکھوا اور ان پیش گوئیوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو.کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پوکر ہو گا.د تذکره صفحه ۵۳۶) وَآخَرُدَ عوانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ

Page 34

Page 34