Language: UR
دنیا میں جتنے بھی باخدا اور باکمال انسان گزرے ہیں ان کے حالات زندگی کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی مساعی کا محور علم اور عمل ہی رہے۔ زیر نظر کتاب دراصل مولانا عطاء المجیب راشد صاحب کی جلسہ سالانہ جرمنی 2002ء کی ایک تقریر ہےجسے کتابی شکل دی گئی ہے ۔ یوں اس اہم اور مفید موضوع پر مولانا صاحب کی عالمانہ گرفت اور بیان کی سحر انگیزی کی لذت احباب جماعت کو میسر آئی ، وہاں اب کتابی صورت میں آنے سے لوگ اس کتاب کا مطالعہ کرکے روحانی لطف بھی اٹھائیں گے ،ان پر علم کے ساتھ عمل کی اہمیت بھی واضح ہوگی اوریہ کتاب ان کی زندگیوں کو بامقصد بنانے کی تحریک کرنے والی ہوگی۔
1 (احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کیلئے ) علم وعمل عطاء المجیب راشد امام بيت الفضل لندن پیش لفظ بفضل خدا لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ کی اکانوے ویں پیشکش منظر عام پر لانے کی توفیق پا رہی ہے.یہ کتاب علم و عمل، مکرم محترم عطا المجیب را شد صاحب امام بیت فضل لندن کی جلسہ سالانہ جرمنی 2002ء کی ایک تقریر ہے جو انہوں نے از راہ کرم لجنہ کراچی کے کتب کی اشاعت کے پروگرام میں حصہ ڈالنے کے لئے بھجوائی ہے.جس کے لئے ہم مولانا موصوف کے انتہائی شکر گزار ہیں.علم و عمل، ہماری کتب میں ایک نہایت قابل قدر اور مفید اضافہ ہے.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء احباب جماعت آپ کی موضوع پر عالمانہ گرفت اور بیان کی سحر انگیزی کے لذت چشیدہ ہیں.کتاب کا مطالعہ روحانی لطف سے بھر پور ہوگا اور علم کے ساتھ عمل کی اہمیت واضح ہو گی.ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے علم قرآن پاک کے ذریعے سیکھا اور اس علم پر عمل کر کے إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عظیم کا رتبہ پاتے ہوئے دنیا کے رہنما بنے اور ہمیشہ کے لئے بنی نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ قائم فرمایا.دنیا میں جتنے بھی باخدا اور باکمال انسان گزرے ہیں ان کے حالات زندگی کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی مساعی کا محور علم اور عمل ہی رہے.ہمیں یقین ہے کہ ایک نشست میں پڑھا جانے والا یہ مضمون زندگی کو با مقصد بنانے کی تحریک کرے گا.انشاء اللہ محترم قارئین سے درخواست ہے کہ شعبہ اشاعت کی سیکرٹری عزیزہ امتہ الباری ناصر اور ان کی معاونات کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں جن
3 2 کی محنت اور لگن کی بدولت علم کے یہ خزا نے آپ سب تک پہنچتے ہیں فجر اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ علم ومل 69 مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّنْ يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً ج ( الاحزاب 24:33) علم و عمل کا موضوع بظاہر بہت ہی سادہ مختصر ، آسان اور محض دو الفاظ پر مشتمل دکھائی دیتا ہے لیکن بنظر غور دیکھا جائے تو یہ اپنے اندر معانی اور مفاہیم کی گہرائی اور مضامین کی غیر معمولی وسعت اور جامعیت رکھتا ہے.علم و عمل در اصل دو ایسے دائرے ہیں جنہوں نے ہماری ساری زندگی کا احاطہ کیا ہوا ہے.ابتدا سے لے کر انتہا تک ہماری جد و جہد ، خواہ وہ دین سے تعلق رکھتی ہو یا دنیا سے.انہی دو دائروں پر مشتمل دو محوروں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے.علم اگر پیج کی طرح ہے تو عمل اس کا پھل ہے.علم کے بغیر نہ دین کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں اور نہ دنیا کی ضروریات.اور دوسری طرف عمل نہ ہو تو انسان کو نہ دین کے میدان میں کچھ حاصل ہوتا ہے اور نہ دنیا میں.علم کے بغیر صحیح عمل کا تصور ممکن نہیں اور اگر عمل نہ ہو تو محض علم ایک بے فائدہ چیز ہے.علم کا مقصد ہی یہ ہے کہ علم کی روشنی میں انسان عمل کی شاہراہ پر گامزن ہو اور بالآخر صحیح علم اور مناسب حال عمل صالح کی برکت سے اپنے مقصد کو پالے.اس لحاظ سے علم و عمل با ہم لازم و ملزوم ہیں.ایک گاڑی کے دو پیسے ہیں جن کے بغیر انسانی زندگی کی گاڑی چل نہیں سکتی.ان میں توازن بھی ضروری ہے اور موافقت بھی.حق یہ ہے کہ علم و عمل ہماری زندگی کا ماحصل اور نچوڑ ہیں.
5 4 علم کی نعمت اول طور پر خدا کے نبیوں کو عطا کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی قوم کے ہماری فلاح اور کامیابی کا محور اور معیار ہیں.ہماری بقا اور ترقی کی ضمانت ان دو الفاظ میں مضمر ہے.ہماری سرخروئی اور شاد کامی کا راز ان دو الفاظ میں پوشیدہ ہے.معلم بن سکیں.پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک احمدی کی زندگی کا ماٹو اور نصب العین علم و عمل کے دو مختصر الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے.لغوی لحاظ سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کو علم کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.قرآن کے عرف میں علم اس چیز کا نام ہے کہ جو قطعی اور یقینی ہو.نیز فرمایا.احادیث نبویہ میں علم حاصل کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے.ایک حدیث میں آیا ہے.طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَةٍ کہ علم حاصل کرنا ہر مسلم مرد اور عورت پر فرض ہے.ایک دوسری حدیث میں یہ تاکید ہے کہ أطْلُبُوا الْعِلْمَ مِنَ الْمَهْدِ إِلَى اللَّحْدِ (براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 ص295 حاشیہ ) کہ پنگھوڑے کی عمر سے لے کر قبر میں داخل ہونے تک علم حاصل کرتے چلے جاؤ.حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا.ہے.یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خشیت الہی پیدا ہوتی ہے.جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (الفاطر 29:36) اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 11) ایک تیسری حدیث میں یہ ارشاد ملتا ہے.اطْلُبُوا الْعِلْمَ وَ لَو بِالصّينِ کہ علم حاصل کرنے کی خاطر اگر تمہیں چین تک بھی سفر کرنا پڑے تو ضرور جاؤ.حدیث میں بنیادی طور پر علم کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں.علم الادیان اور علم الا بدان.دینی علم کو ہر دوسرے علم پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ دینی علم کی برکت سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور آخرت بھی جبکہ دنیاوی علوم کا دائرہ اثر صرف اس دنیا تک ہے.قرآن مجید نے اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا ہے کہ وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بنی نوع انسان کی تخلیق کے بعد اور وہ جو علم نہیں رکھتے ، ہرگز برابر نہیں.صاحب علم کی فضیلت ایک مسلم امر ہے.علم انسان پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان اور انعام، علم کا عطا کیا جانا ہے جس کے ذریعہ وہ قوت بیان حاصل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے.حقیقی علم سے انسان میں خاکساری پیدا ہوتی ہے، جو اُس کے لئے درجات کی بلندی اور آخرت میں سرخروئی خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (الرحمن 5:55) کا موجب ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا اور اسے بیان سکھایا.نیز فرمایا.عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ (العلق 6:96) کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا.علم و حکمت ایسا خزانہ ہے جو تمام دولتوں سے اشرف ہے، دنیا کی تمام دولتوں کو فنا ہے لیکن علم و حکمت کو فنا نہیں ہے.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 209)
7 6 علم کی اہمیت اور فضیلت جاننے کے ساتھ یہ بات بھی پوری طرح واضح ہونی مند بنادے اور ہر وہ بات مجھے سکھاتا چلا جا، جو میرے لئے ہمیشہ فائدہ کا موجب ہو چاہیے کہ ہر علم کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا چاہیے کہ علم حقیقی کا اصل منبع اور اور اے میرے خدا! میں اپنی جھولی پھیلائے تیرے در پر پڑا ہوا ہوں تو میری جھولی مبداء خدائے علام الغیوب کی ذات ہے.وہی علم کا سر چشمہ ہے جو بھی پیتا ہے اس کو ہمیشہ بھرتا چلا جا اور مجھے علم میں ہمیشہ ترقی عطا فرما تارہ.چشمہ صافی سے پیتا ہے اور در حقیقت عالم اور صاحب علم وہی ہے جو اپنے علم کو اپنا حاصل کردہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ یقین کرتا ہے.اور اس محکم ہے جو صالح ہو.یہ نکتہ معرفت بتاتے ہوئے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ یقین کے ساتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے در پر دستِ سوال دراز کرتے ہوئے ایک دریوزہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک اور پیاری دعا سکھائی.گر کی طرح پڑا رہتا ہے.انسان کو یہ درس نصیحت دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی مثال دی ہے کہ انہوں نے کس عاجزی سے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ حق یہ ہے کہ علم حقیقی وہی ہے جو نفع مند ہو اور خدا کی بارگاہ میں مقبول عمل وہی اَللَّهُمَّ ارْزُقْنِي عِلْماً نَافِعَاوَ عَمَلاً صَالِحاً تَرْضَاهِ کہ اے میرے اللہ ! مجھے ایسا علم عطا فرما جو میرے لئے فائدہ مند ہو اور ایسے لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا (البقرہ 33:2) عمل کی توفیق دے جو نیک اور مناسب حال ہو اور اس توازن اور حسن کے نتیجہ میں کہ ہم بالکل بے علم اور تہی دست ہیں اور کچھ نہیں جانتے سوائے اس بات کے جس کا علم تو ہمیں اپنے فضل سے عطا فرمادے.مجھے اپنی رضا کی دولت سے مالا مال کر دے.ایک روایت کے مطابق يَرْفَعُنِی کے الفاظ بھی آئے ہیں کہ ایسے اعمال کرنے کی توفیق ملے جو میرے درجات کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد کہ ہر علم اللہ تعالیٰ سے عطا ہوتا ہے بلکہ یوں کہنا بلندی کا موجب ہوں.یہ دعا قرآن مجید کی اس آیت پر مبنی ہے جس میں آیا ہے کہ.چاہیے کہ جو اس در سے عطا ہوتا ہے وہی حقیقی علم ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے اور نکلنا چاہیے کہ انسان ہمیشہ اسی در کا سوالی بنا ر ہے.دعائیں قبول کرنے والے اللہ نے مومنوں پر کرم کرتے ہوئے خود اپنی جناب سے انہیں یہ عظیم دعا سکھا دی ہے کہ قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمَا (طه 115:20) کہ ہمیشہ اپنے رب سے یوں دعا گو رہو کہ خدایا تو مجھے اپنی جناب سے علم عطا فرما.اور ہمیشہ مجھے علم کے میدان میں ترقی پر ترقی عطا فرما تا چلا جا.اسی مضمون کے تسلسل میں ہادی کامل حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی ایک دعا بھی ہمیشہ یادر کھنے والی ہے.آپ نے یہ دعا سکھائی.اَللَّهُمَّ انْفَعُنِى بِمَا عَلَّمْتَنِى و عَلِمُنِي مَا يَنْفَغْنِي وَ زِدْنِي عِلْمَاً وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه کہ نیک عمل ہی ہے جو انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے.سید نا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے اضافہ علم کے لئے الہامامیہ دعا سکھائی رَبِّ أَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاء کہ اے میرے رب ! مجھے اشیاء کے حقائق دکھلا.(تذکرہ صفحہ 724) بد عاعظیم معارف پر مشتمل ہے اور یادرکھنے کے لائق ہے.علم حاصل کرنے کے بعد اس کو عمل کے سانچے میں ڈھالنا از بس لازم ہے.کیونکہ یہ عمل ہی ہے جو انسان کے خالص ایمان پر گواہ ہوتا ہے.ہماری یہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت روز جزاء ہے جس دن ہر انسان اپنے اعمال کے لئے جواب کہ اے میرے مولیٰ ! جو علم تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس کو میرے لئے فائدہ دہ ہوگا.قرآن مجید نے محض عمل پر نہیں بلکہ علم اور ایمان کے بعد عمل صالح پر بہت
9 8 زور دیا ہے.عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جس میں طبعی اور فطرتی قوی کا استعمال ہو ، حقوق العباد کا خیال رکھا گیا ہو.جس میں کسی قسم کا کوئی فساد اور فتور نہ ہو.نیک اور مناسب حال ہو ،ضرورت کے مطابق ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عمل صالح کی جامع اور سادہ تعریف یہ فرمائی ہے کہ 66 اعمال کو اپنی طاقتوں کا ثمرہ سمجھ کر خدا سے انصاف چاہتا ہے.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 35) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علم و عمل کے موضوع پر اپنی متعدد کتب میں ذکر فرمایا ہے.بالخصوص اپنی معرکۃ الآرا کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی میں اس عمل صالح وہ ہو جو محض خدا تعالیٰ کے واسطے ہو.“ (ملفوظات جلد نہم صفحہ 96) کے مختلف پہلوؤں پر خوب روشنی ڈالی ہے.پانچویں سوال کے جواب میں کہ علم اور علم کے بعد اس پر عمل کرنا اور اسلامی اصطلاح کے مطابق اعمال بجالانا ایک معرفت کے ذرائع کیا ہیں ؟ آپ نے علم کی تین قسموں کا ذکر فرمایا ہے.علم لازمی امر ہے.ذوقی بات ہے لیکن اس میں ایک لطیف نکتہ پنہاں نظر آتا ہے کہ علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین.درجہ بدرجہ علم اور معرفت کے مختلف ذرائع میں اور عمل ، یہ دونوں الفاظ تین مشترک حروف سے بنے ہوئے ہیں.گویا ان کا خمیر ایک عقل اور منقولات ، فطرت انسانی، الہام الہی اور ان عملی تجربات کو بیان فرمایا ہے جن سے گزرنے کے بعد بالآخر انسان حق الیقین کے اعلیٰ ترین مقام کو پالیتا ہے.اس ہی بنیاد سے اُٹھایا گیا ہے.عمل کی ضرورت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بینمحنت پر معارف بیان میں آپ نے علم اور عمل کے باہم تعلق اور جوڑ کی وضاحت فرمائی بنایا ہے.انسان کو صرف علم، ارادہ یا خواہش سے مقصود حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہی ملتا ہے.آپ نے فرمایا.ہے جس کے لئے وہ کوشش اور محنت کرتا ہے.یہ بات ایک انگریزی محاورہ میں خوب بیان کی گئی ہے کہ علم ایک خزانہ ہے اور اس کی چابی عمل ہے.ایک شاعر نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے.نقوش غیب کو قسمت پر چھوڑنے والو! نقش بنتے نہیں ہیں بنائے جاتے ہیں لیکن یہ بات یادر ہے کہ جہاں تک آخرت میں انسان کی نجات کا تعلق ہے اس کا انحصار محض اعمال پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش پر ہے.البتہ یہ کہنا یقیناً درست ہے کہ نیک اور صالح اعمال اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کو جذب کرنے کا ذریعہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.مبارک وہ جو اپنی کمزوریوں کا اقرار کر کے خدا سے رحم چاہتا ہے اور نہایت شوخ اور شریر اور بد بخت وہ شخص ہے جو اپنے محض اس علم میں کچھ شرف اور بزرگی نہیں جو صرف دماغ اور دل میں بھرا ہوا ہو بلکہ حقیقت میں علم وہ ہے کہ دماغ سے اتر کر تمام اعضاء اس سے متادب اور رنگین ہو جائیں اور حافظہ کی یادداشتیں عملی رنگ میں دکھائی دیں.سو علم کے مستحکم کرنے اور اس کے ترقی دینے کا یہ بڑا ذریعہ ہے کہ عملی طور پر اس کے نقوش اپنے اعضاء میں جمالیں.کوئی ادنی اعلم بھی عملی مزاولت کے بغیر اپنے کمال کو نہیں پہنچتا.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 445) اسی نکتہ معرفت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.بابرکت علم وہی ہوتا ہے جو عمل کے مرتبہ میں اپنی چمک دکھلاوے اور منحوس علم وہ ہے جو صرف علم کی حد تک رہے.کبھی
11 10 عمل تک نوبت نہ پہنچے.“ پھر فرمایا.اسلامی تعلیم کے مطابق صرف اتنا کافی نہیں کہ ایک شخص بعض عقائد کا دل سے اقرار اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 446) کر لے بلکہ جب تک اس ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے اور نیک اور علم کا حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچنا اور کیا ہوتا ہے؟ یہی تو ہے کہ عملی طور پر ہر ایک گوشہ اس کا آزمایا جائے.چنانچہ اسلام میں ایسا ہی ہوا.جو کچھ خدائے تعالیٰ نے قرآن کے ذریعہ سے لوگوں کو سکھایا ان کو یہ موقع دیا کہ عملی طور پر اس تعلیم کو چمکائیں اور اُس کے نور سے پُر ہو جائیں.“ مناسب حال اعمالِ صالحہ سے اُس کو اپنی عملی زندگی میں پوری طرح نافذ نہ کیا جائے اُس وقت تک انسان کا ایمان مکمل نہیں کہلاتا پس آپس میں لازم و ملزوم کی طرح اس طرح باہم پیوست ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا.عمل کے بغیر علم بے سود اور بے کار ہے اور علم کے بغیر ہر عمل حسن اور صلاحیت سے عاری رہتا ہے.نظریاتی اور کتابی علم کا فائدہ تب ہی ہے جب اُس پر عمل کیا جائے.روحانی دنیا میں بھی یہی اصول ہے اور عام دنیاوی مشاہدات میں بھی یہی اصول کارفرما نظر اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 446) آتا ہے.دنیا میں ہونے والی ہر نئی ایجاد درحقیقت علم کو عمل کے سانچے میں ان چند کلمات میں امام الزماں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معارف ڈھالنے ہی کا دوسرا نام ہے.کا دریا کوزے میں بند کر دیا ہے.کا باہمی رابطہ اور تعلق نہایت خوبصورتی سے علم وعمل کے باہمی تعلق کے بارہ میں حضرت خلیفہ امسیح اول نے ایک کمال جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے.حق یہ ہے کہ علم ایک بیج کی طرح ہے، لطیف نکتہ اپنی کتاب مرقاۃ الیقین میں بیان فرمایا ہے.ایک بار آپ نے خواب میں جب تک اس علم کے بیج سے روئیدگی نہ پھوٹے عمل کے پھل اور پھول نہ کھلیں ، تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی.آپ نے حضور سے پوچھا کہ آپ نے ایسا ہی علم ، خواہ کتنا ہی ہو محض ایک جامد ، بے حقیقت اور بے فائدہ چیز ہے.یہی وجہ حضرت ابو ہریرہ کو وہ کون سی بات بتائی تھی جس کی برکت سے وہ آپ کی حدیثیں ہے کہ اکمل ترین مذہب اسلام میں علم کی عظمت اور برکت کے بیان اور اُس کے یادرکھتے تھے.حضور نے وہ بات بتانے کے لئے اپنا منہ ان کے کان سے لگایا کہ حصول پر زور دینے کے ساتھ ساتھ عمل پر بہت زور دیا ہے قرآن مجید میں ایمان اور اتنے میں خلیفہ نورالدین ( ایک رفیق حضرت مسیح موعود ) نے آپ کو جگا دیا کہ نماز کا عمل صالح کو اکٹھا باندھ کر بار بار بیان کیا گیا ہے جس میں یہی سر پنہاں ہے کہ محض وقت ہے.حضرت خلیفہ اول نے لکھا کہ اس خواب سے میری سمجھ میں آیا کہ حدیث زبانی اقرار ایمان ، کچھ حقیقت نہیں رکھتا جب تک اُس اقرار کو عمل کے سانچے میں نہ پر عمل کرنا ہی دراصل حدیثوں کو یاد کرنے کا ذریعہ ہے.یہ لطیف نکتہ یادرکھنے کے ڈھالا جائے.(مرقاة الیقین صفحه 173) لائق ہے.یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ایمان کا سفر دراصل علم سے شروع ہوتا ہے.اسلام میں تصدیق بالقلب کے بعد اقرار باللسان اور عمل بالجوارح پر بہت زور جب یہ علم ترقی کرتے کرتے یقین اور معرفت کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو اُس دیا گیا ہے.حقیقت یہ کہ اسلام نام ہی عمل کا ہے.اسلام کا لفظی ترجمہ فرمانبرداری وقت اسے ایمان کا نام دیا جاتا ہے.یہ ایمان بنیادی طور پر دل سے تعلق رکھتا ہے اور اور اطاعت کا ہے اور یہ مضمون صرف زبانی اقرار سے نہیں بلکہ عمل سے ثابت ہوتا
13 12 ہے.اسی لئے حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا.وو صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو.“ (کشتی نوح) روحانی خزائن جلد 19 ص 10 جہاں تک اسلام لانے کے بعد عمل کے تقاضوں کا تعلق ہے اس کا میدان چاہیے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 ص 12) خدا کو پانے کی راہیں بے شمار ہیں اور انسانی طاقتیں محدود.اس صورت میں بے انتہا وسیع ہے.اس قدر وسیع کہ انسان ساری زندگی بھی ان تقاضوں کو پورا کرنے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی ایک نصیحت خاص طور پر یاد ر کھنے اور حرز جان بنانے در کی کوشش کرتا رہے تو تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو کما حقہ ادا کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا.کر دیا.بالآخر یہی الفاظ زبان پر آئیں گے کہ جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا وو ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو.نہ معلوم کس راہ سے تم قبو لکئے جاؤ.“ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308) خدا تعالیٰ کو پانا مومن کی معراج ہے.لیکن اس کو چہ تک رسائی کوئی آسان بات نہیں.یہ زندگی بھر کا سفر ہے جو مسلسل قربانیوں، اصلاح نفس اور فنا فی اللہ کی اس صورت حال میں ہر مومن کے لئے ایک ہی راستہ ہے جس پر چلنا از بس راہوں سے گزرنے کا نام ہے.اب یہی ایک جہاد ہے جس کا سلسلہ زندگی کے لا زم ہے اور وہ راستہ اپنے آپ کو کلیتہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کا اور ہر آن آخری سانس تک جاری رہنا چاہیے.اس کی رضا کی راہوں کو ڈھونڈنے کا اور ہرلحہ اپنے آپ کو راہ مولیٰ میں فنا کر دینے کا.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ درس نصیحت دیا ہے جو ہمیشہ یاد رہنا چاہیے.فرمایا وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت کا بلاوا آ جائے اس لئے سرخروئی اور کامیابی کا یہی وسیلہ ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ اس حالت میں بسر کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کے بچے فرمانبردار ہو.اس مقام کو حاصل کرنا مشکل تو ہے لیکن یہی ایک ذریعہ ہماری فلاح اور سرخروئی کی ضمانت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی بخش تحریرات میں اس مضمون کو مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے.ایک اور موقع پر فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے.کیا ہی دشوار گزار وہ راہ ہے جو خدا کی راہ ہے پر اُن کے لئے آسان کی جاتی ہے جو مرنے کی نیت سے اس اتھاہ گڑھے میں پڑتے ہیں...مبارک وہ جو خدا کے لئے اپنے نفس سے جنگ کرتے ہیں اور بد بخت وہ جو اپنے نفس کے لئے خدا سے جنگ کر رہے ہیں اور اُس سے موافقت نہیں کرتے.جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہرگز داخل نہیں ہوگا.سوتم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تا تم اسی کے لئے پکڑے نہ جاؤ کیونکہ ایک
15 14 ذرہ بدی کا بھی قابلِ پاداش ہے.وقت تھوڑا ہے اور کار عمر ما پیدا.تیز قدم اُٹھاؤ جو شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ بار بار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیاں کاری کا موجب ہو یا سب گندگی اور کھوٹی متاع ہو جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو.“ کا حق ادا کرنا اسلام کی بنیادی تعلیم ہے.اسی غرض سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا.ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو سب سے بہتر سمجھا اور اس رنگ میں عمل کے سانچے میں ڈھالا کہ ہمیشہ کے لئے اسوہ حسنہ قرار پائے.آپ ہر وقت خدا کا ذکر کرتے.ہر لمحہ اس کی یاد میں مصروف رہتے.ہر آن رو بخدا ر ہے.خدا کی محبت میں فنائیت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے دشمن بھی یہ اقرار کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 ص26,25) کرتے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہ کہ محمد تو اپنے رب کا عاشق ہے.اللہ کی عبادت علم وعمل کی باتیں بہت ہو چکیں.آئیے اب ان مقدس انسانوں کی زندگیوں پر آپ کی روح کی غذا تھی.فرمایا قُرَّةُ عَيْني فِي الصَّلاةِ کہ دنیا میں اور بھی ایک نظر کریں جنہوں نے حقیقی علم حاصل کیا اور حسن عمل اور اعمال صالحہ کی توفیق پائی چیزیں مجھے پیاری ہیں لیکن میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میری جان کی راحت اپنے رب کی عبادت میں ہے.آپ کو نماز میں ایسا لطف اور سرور آتا کہ آپ گھنٹوں اور ہمیشہ کے لئے کی حسین مثال بن گئے.ہاں وہ مقدس لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو راہ مولیٰ میں کلیۂ گم کر دیا.جنہوں عبادت میں کھڑے رہتے حتی کہ آپ کے پاؤں لمبے قیام کی وجہ سے سوج جاتے.نے دین کو دنیا پر مقدم کر دیا.جنہوں نے مرضی کمولی پر اپنے آپ کو قربان کر دیا اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے ایسے ہی ایک موقع پر عرض کیا کہ اس میدان میں دوسروں کے لئے نمونہ ٹھہرے.سرخیل ہمارے محبوب آقا ومولا آپ تو اللہ تعالیٰ کے پہلے ہی مقرب ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر انعام سے نوازا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی زندگی قرآن مجید کی زندہ تفسیر تھی اور اور ہر برکت کا وعدہ دیا ہے، پھر آپ اپنے آپ کو اس قدر مشقت میں کیوں ڈالتے جن کو ساری انسانیت کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا گیا.پھر آپ کے روحانی فرزند جلیل ہیں؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ اَفَلَا اَكُونُ عَبداشَكُورًا کیا میرا یہ فرض نہیں بنتا سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو سب سے بڑے عاشق رسول تھے.قرون اولیٰ کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن کر اپنے محسن خدا کے در پر اسی طرح جھکا رہوں.کے صحابہ کرام اور پھر اس دور آخرین کے رفقائے مسیح موعود جو آسمان روحانیت کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نماز میں استغراق کا یہ عالم تھا کہ دنیا و مافیہا روشن ستارے ہیں.ان واقعات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کے آداب اور سے بالکل بے نیاز ہو کر نماز ادا فرماتے.بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گئے، قرینے کیا ہیں اور کس کس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور خوشنودی کے شیریں اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا.آپ نے خدا کے دربار میں حاضری کو مقدم جانا اور نماز ثمرات حاصل کئے جاتے ہیں.آئیے سچے دل سے اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے پڑھنے لگ گئے.اس عرصہ میں آپ کی باری آئی.فریق مخالف نے یک طرفہ ہوئے ، ایمان افروز واقعات کی اس حسین وادی میں داخل ہوتے ہیں.کاروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا، لیکن آپ برابر نماز میں مصروف رہے.نماز کے بعد اپنے خالق و مالک کو پہچانا اور اس کی محبت کو دل میں بسا لینا اور اس کی عبادت عدالت میں حاضر ہوئے تو حاکم نے آپ کو بتایا کہ میں نے تو پہلے ہی آپ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے.( حیات احمد جلد اول صفحہ 74)
17 16 حضرت معاذ بن جبل کو جوانی کے زمانہ میں رسول پاک حضرت محمد مصطفے صلی آپ فرماتے ہیں کہ اس کشفی تادیب و تنبیہ سے مجھے ہمیشہ کے لئے ایک مفید اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر یہ دعا سکھائی کہ خدایا مجھے حسن عبادت کی توفیق عطا سبق مل گیا.فرما.چنانچہ معاڈ نے اس نصیحت اور دعا کو بڑی وفا کے ساتھ عمل کے سانچے میں ( حیات قدسی صفحہ 39) دوسرا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک دوست کسی کام سے مجھے ڈھالا اور خوب عبادت کے حق ادا کئے.ذکر آتا ہے کہ راتوں کو اُٹھ کر نماز تہجد میں اپنے گاؤں لے گیا.اس کے اصرار پر رات اس کے ہاں قیام کیا.اتفاقاً اس بڑے ہی پیار سے یوں مناجات کیا کرتے کہ اے میرے اللہ ! لوگوں کی آنکھیں سو دوست کو کسی کام کے لئے رات گھر سے باہر جانا پڑا.جاتے ہوئے اس نے گھر میں چکی ہیں ، ستارے ڈوب گئے ہیں جب کہ تو زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی میری مہمان داری کے متعلق مناسب تلقین کر دی.اس کے جانے کے بعد اس کی ہے.اے اللہ! میری جنت کی طلب ست ہے اور میں آگ سے دُور بھاگنے میں بیوی نے جو خوب صورت اور جوان تھی مجھے آواز دی کہ میں آپ کا جسم دبانے کے بہت کمزور ہوں.اے اللہ ! اپنے پاس میرے لئے ایسی ہدایت محفوظ رکھ جو مجھے لئے اندر آنے کی اجازت چاہتی ہوں.میں نے کہا کہ غیر محرم مرد کو ہاتھ لگا ناسخت قیامت کے دن لوٹا دے.یقیناً تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا.ایک بار بیمار ہوئے تو گناہ ہے اس لئے آپ اپنے کمرہ میں ہی رہیں.میرے پاس آنے کی جرات نہ ان الفاظ میں دعا کی کہ اے اللہ ! مجھے تو بس تیرا ہی غم ہے.تیری عزت کی قسم تو جانتا کریں.اس عورت نے اپنی غلطی پر اصرار کیا.میں نے پھر وہی جواب دیا.فرماتے ہے کہ مجھے تجھ سے محبت ہے.اتنا کہا کہ آپ پر غشی طاری ہو گئی.ہوش آئی تو پھر یہی ہیں کہ جب میں نے محسوس کیا کہ یہ عورت اپنے بدارادہ سے باز نہیں آئے گی تو میں کلمات زبان پر تھے.(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 377) نے وضو کر کے مصلی بچھا لیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی.نماز کے رکوع اور سجود کو اتنا عبادت اور تقویٰ شعاری کے ضمن میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لمبا کیا کہ ساری رات نماز میں گزرگئی اور اسی حالت میں صبح ہو گئی.نماز فجر پڑھتے ایک بزرگ رفیق حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے دو ایمان افروز ہی مجھے اتنی نیند آئی کہ میں مصلی پر سو گیا.خواب میں دیکھا کہ میرا منہ چودھویں واقعات یاد آئے جو اپنے اندر عظیم درس نصیحت رکھتے ہیں.پہلا واقعہ اس زمانے کا رات کے چاند کی طرح روشن ہے اور ایک فرشتہ نے بتایا کہ یہ تمام فضل اس مجاہدہ ہے جب آپ نئے نئے احمدی ہوئے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ میرا گزر ایک شہر نفس اور خشیت اللہ کی وجہ سے ہوا ہے اور اس وجہ سے کہ آج رات تو نے تقویٰ سے ہوا تو اچانک میری نظر ایک اونچے مکان پر پڑی جہاں ایک خوبصورت عورت شعاری سے گزاری ہے.“ بال بکھیرے ہوئے کھڑی تھی.میرے دل میں اس کو دوبارہ دیکھنے کی ہوس پیدا ( حیات قدسی صفحہ 38) اطاعت اور فرمانبرداری دین حق کی ایک بنیادی تعلیم ہے.دین حق کا مطلب ہوئی.تو اس رات خواب میں میں نے دو فرشتوں کو دیکھا.ایک فرشتہ دوسرے کو ہی فرمانبرداری ہے.ارشاد باری تعالیٰ ہے.کہ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا (تعاين :17) مخاطب کرتے ہوئے میری نسبت یہ کہہ رہا تھا کہ : یہ شخص دیانت وامانت میں تو بہت ہی اچھا ہے بشرطیکہ اس کی نظر لک الاولیٰ سے تجاوز کر کے علیک الثانی تک نہ پہنچے ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کی زبان پر ہمیشہ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کے الفاظ ہوں اور اس کا عمل اس کے مطابق ہو.ایک صحابی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادسنا کہ بیٹھ جاؤ.بظاہر مخاطب لوگ کوئی اور تھے لیکن وہ صحابی اسی جگہ بیٹھ گئے اور
19 18 بیٹھے بیٹھے گھسٹتے ہوئے مسجد نبوی میں حاضر خدمت ہوئے.ایسا ہی واقعہ حضرت مسیح سے ہے.دوسروں کی ضروریات اور حاجات کو مقدم کرنا اور دوسروں کی خاطر دکھ اُٹھا موعود کی زندگی میں بھی پیش آیا.آپ کے رفیق کا طرز عمل بھی وہی تھا.حضرت مولانا کر انہیں آرام مہیا کرنا انسان کی عالی ظرفی ، ہمدردی اور نیکی کو ثابت کرتا ہے.تاریخ نورالدین صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دہلی سے ارشاد ملا کہ فوراً آ جاؤ.اسلام کے اولین دور میں صحابہ کرام نے اپنے عمل سے ایسی زریں داستانیں رقم کی آپ اس وقت مطب میں مصروف تھے.ارشاد سنتے ہی دہلی جانے کے لئے روانہ ہیں جو اپنی عظمت کے اعتبار سے آج بھی زندہ ہیں اور زندگی بخش ہیں.ہو گئے.راستہ سے گھر والوں کو پیغام بھجوادیا کہ میں ارشاد کی تعمیل میں اپنے آقا کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک فاقہ زدہ شخص آیا.اتفاق سے آپ قدموں میں حاضر ہو رہا ہوں.ریل کے ٹکٹ کے پیسے بھی جیب میں نہ تھے.اس کے گھر میں اس روز پانی کے سوا اور کچھ نہ تھا.آپ نے صحابہ سے کہا کہ کون ہے جو تو کل کا پھل اللہ تعالیٰ نے اس طرح دیا کہ غیب سے غیر معمولی حالات میں اس کے آج اس کی مہمانی کا حق ادا کرے گا؟ حضرت ابوطلحہ نے اس مہمان کو ساتھ لیا اور اسباب مہیا کر دیے اور نورالدین پروانہ وار حاضر خدمت ہو گیا.اپنے گھر لے آئے لیکن اتفاق ایسا تھا کہ ان کے گھر میں بچوں کے کھانے کے علاوہ حضرت حافظ روشن علی صاحب کی مثال سنئے.ابتدائی زندگی میں تنگدستی کا یہ اور کچھ نہ تھا.دونوں میاں بیوی نے بچوں کو بھوکا سلا دیا اور ان کا کھانا مہمان کے عالم تھا کہ آپ کے پاس صرف ایک جوڑا کپڑوں کا ہوا کرتا تھا.آپ ہر جمعہ کی رات آگے رکھ دیا اور کسی بہانہ سے چراغ بجھا دیا.مہمان نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور وہ جوڑا دھو لیتے اور جمعہ کی صبح کو پہن لیتے تھے.ایک رات سردیوں کے موسم میں وہ دونوں میاں بیوی نے بھوکے پیاسے رات بسر کی اور مہمان کو اس بات کا احساس جوڑا آپ نے دھویا ہوا تھا کہ رات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے پیغام تک نہیں ہونے دیا.کتنا پیارا ایثار تھا حضرت ابوطلحہ اور ان کی بیوی کا کہ صبح کو رسول آیا کہ گورداسپور کرم دین والے مقدمے کی پیشی کے لئے ابھی روانہ ہونا ہے آپ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی کہ عرش پر خدا بھی تمہارے اس فعل سے بھی آجائیں.حضرت حافظ روشن علی صاحب کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ بہت خوش ہوا.دیکھئے کہ آپ نے وہ کپڑے گیلے ہی پہن لئے اور سردی سے بچاؤ کے لئے اوپر سے ایک جنگ میں تین صحابہ سخت زخمی ہو گئے.پیاس کی شدت سے جان بلب لحاف لے لیا اور فوراً حضور کے ساتھ چل پڑے.تنویر القلوب جلد اوّل صفحہ 117) تھے.ایک صحابی کو پانی پیش کیا گیا تو اُن کی نظر دوسرے پیاسے پر پڑی.فرمایا پہلے اطاعت اور فرمانبرداری اس کو کہتے ہیں.نہ کوئی معذرت نہ کوئی عذر اور نہ ہی اُسے دو.دوسرا پانی پینے لگا تو تیسرے پر نظر پڑی.کہ وہ پیاس سے بے تاب ہے کوئی وضاحت یا تاخیر.ارشادسنا اور اس کی تعمیل کو سعادت جانا.قرآن کریم میں انصار صحابہ کرام کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَ يَوْ ثِرُونَ عَلَىٰ اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَا صَة اُس نے کہا کہ پہلے تیسرے کو پانی پلاؤ.پانی پلانے والا اس تیسرے کے پاس آیا تو وہ شہید ہو چکا تھا.جلدی میں دوسرے کی طرف کو ٹا تو وہ بھی دنیا سے رخصت ہو چکا تھا.پہلے کی طرف جلدی سے پلٹا تو دیکھا کہ وہ بھی جام شہادت نوش کر چکا ہے! ایسا کہ ایسے نیک بندے ہیں جو اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں باوجود ایثار دنیا کی تاریخ میں یقیناً بے مثال ہے کہ ہر ایک دوسرے کو اپنی ذات پر مقدم رکھتا اس کے کہ انہیں خود تنگی در پیش ہوتی تھی.ایثار کی یہ خوبی اسلامی اخلاق فاضلہ میں ہے اور تینوں ہی یکے بعد دیگرے اپنی جانیں نچھاور کر دیتے ہیں.
21 20 حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی روایت ہے کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کھانا کھلایا.تیسرے روز بھی وہ یہیں رہا حالانکہ حضرت صاحب یہاں نہیں تھے.پر بہت مہمان آئے جن کے پاس سرمائی بستر نہ تھے.موجود بستر ختم ہو جانے پر میں اس کو لے کر قریبی گاؤں گیا اور اُس کو ایک دکان پر بٹھا کر گھر گھر جا کر لوگوں منتظمین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے اندر سے بستر منگوانے شروع سے دانے مانگے.جب ایک سیر کے قریب دانے ہو گئے تو کسی کے گھر جا کر چکی کئے اور مہمانوں کی ضروریات پوری کی گئیں.منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں سے انہیں پیسا اور آٹا لے کر اس کے ساتھ قادیان آیا اور روٹی پکوا کر اس کو کھلائی.عشا کے بعد گھر کے اندر حاضر ہوا تو میں نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ چوتھے روز وہ خود چلا گیا.کسی نے حافظ معین الدین صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ گداگری کیوں ” میں نے اپنے واسطے تو گداگری کبھی نہیں کی مگر مہمان کو روٹی السلام سردی کی وجہ سے بغلوں میں ہاتھ دیے بیٹھے تھے.ساتھ ہی صاحبزادہ محمود لیٹے ہوئے تھے.جن کے اوپر مسیح پاک نے اپنا چوغہ اتار کر دیا ہوا تھا.معلوم ہوا کہ کی؟ تو آپ نے فرمایا.مسیح پاک علیہ السلام نے اپنا اور بچوں کا لحاف اور بچھونا ،سب کا سب مہمانوں کے لئے بھجوا دیا تھا.منشی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس تو کوئی ایک بستر بھی نہیں رہا جبکہ سردی بہت زیادہ ہے آپ نے فرمایا.66 کھلانی تو ضروری تھی.“ ( رفقائے احمد جلد 13 صفحہ 310) قرآن مجید میں بار بار اس بات کی تاکید آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر منشی صاحب ! مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے.اور ہمارا کیا ہے.رات کسی نہ کسی طرح گزرہی جائے گی.‘“ ( رفقاء احمد جلد 4 صفحہ 113) اپنے اموال خرچ کرو.انفاق فی سبیل اللہ کو مذہب اسلام میں جہاد کا درجہ حاصل اور اب سنئے حضرت مسیح پاک کے ایک تربیت یافتہ اور بے لوث خدمت گزار ہے.مال کی محبت انسان کی طبیعت میں رچی بسی ہوئی ہے.محنت سے کمائے ہوئے حضرت حافظ معین الدین صاحب کا ایک دل گداز واقعہ.ان کا واقعہ سنتے ہوئے مال کو راہ خدا میں خرچ کرنا ہر زمانہ میں ایک امتحان رہا ہے اور بالخصوص مادی ترقی ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ ہم ان کی جگہ ہوتے تو کیا ہم بھی ایسا کے اس دور میں تو انسان کے ایمان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ راہ خدا میں خرچ ہی کرتے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار جب حضرت مسیح پاک علیہ السلام جالندھر کرنے والا ہے یا نہیں.ہاں وہ لوگ جو اس بات پر محکم یقین رکھتے ہیں کہ دولت کا تشریف لے گئے تو مجھے حکم دیا کہ تم ہمارے مکان میں رہنا.خرچ کے لئے ایک چونی دینے والا خدا ہے یہ ہماری کوشش اور محنت کا نتیجہ نہیں ، ان کے لئے یہ مرحلہ بہت مجھے دے گئے اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر کچھ قرض کسی سے لو گے تو میں آکر ادا کر دوں آسان ہو جاتا ہے.وہ کھلے دل کے ساتھ پوری بشاشت کے ساتھ راہ خدا میں خرچ گا.وہ بیان کرتے ہیں کہ میں کبھی منگل گاؤں میں جا کر روٹی کھالیتا اور کبھی درختوں کرتے ہیں اور خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور سجدات شکر بجالاتے ہیں کہ ہمارے کے پتے کھا کر دن گزار دیتا.ایک روز ہشیار پور سے ایک مہمان آ گیا.میں نے اس مولی نے ہمیں توفیق دی ہے.کو کہیں سے روٹی لا کر کھلائی.صبح کے وقت اپنے ہمسایہ کے گھروں سے آٹا مانگ کر انفاق فی سبیل اللہ کے واقعات سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے.صحابہ کرام اور ایک دوسرے گھر سے روٹی پکوا کر اس کو کھلائی.اور اسی طرح شام کو بھی اس کو نے اس اسلامی تعلیم پر جس طرح دل و جان سے عمل کیا وہ تاریخ عالم میں بے مثل
23 22 ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک غزوہ کے موقع پر نصف مال پیش کر دیا ہے کہ انہوں نے.در حقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا.“ اور سوچا کہ میں اس میدان میں سب پر سبقت لے گیا ہوں.تھوڑی دیر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ آئے اور اپنا سارا مال پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 315) اس فدائی انسان کا نمونہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک موقعہ پر اپنے گھر کا سارا میں ڈھیر کر دیا.مسابقت کی یہ دلفریب ادا ئیں ان فدائیوں نے کہاں سے سیکھیں ؟ سازوسامان فروخت کر کے تین سو روپے حضور کی خدمت میں پیش کر دیے.اُس ان کے معلم ، ہمارے معلّم اور کل جہان کے معلم اور ساری دنیا کے لئے اسوۂ حسنہ زمانہ کے لحاظ سے یہ بہت بڑی قربانی تھی.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے ایک ہمارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اخلاق فاضلہ کے ہر میدان میں مجلس میں اس پر اظہار خوشنودی فرمایا کہ میاں شادی خان نے تو اپنا سب کچھ پیش ہمیشہ سب سے آگے اور سب کے لئے بہترین نمونہ تھے.کر دیا.میاں شادی خان صاحب نے سنا تو سیدھے گھر گئے.ہر طرف نظر دوڑائی اس دور آخرین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی دبستان محمد سے یہ سارا گھر خالی ہو چکا تھا صرف چند چار پائیاں باقی تھیں.فوری طور پر ان سب کو بھی اخلاق سیکھے اور اُن پر ایسا عمل کر کے دکھایا کہ آپ کے در پر دھونی رما کر بیٹھنے والوں فروخت کر ڈالا اور ساری رقم لا کر حضور کے قدموں میں ڈال دی اور حضور کے منہ میں بھی یہی اخلاق فاضلہ جگمگاتے نظر آتے ہیں.ابتدائی زمانہ کی بات ہے حضرت سے نکلی ہوئی بات لفظاً لفظاً پوری کر دی.میسیج پاک علیہ السلام کو ایک اشتہار شائع کرنے کے لئے ساٹھ روپے کی ضرورت انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق کسی انسان کو تب ملتی ہے جب اس کو تو کل علی اللہ کی تھی.آپ نے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی سے فرمایا کہ ضرورت فوری نعمت نصیب ہوئی ہو.اس تعلق میں حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کا ہے کیا ممکن ہے کہ آپ کی جماعت اس ضرورت کو پورا کر سکے؟ حضرت منشی صاحب خوبصورت نمونہ یا درکھنے کے لائق ہے.آپ کے صاحبزادے حضرت صاحبزادہ پیر نے حامی بھر لی اور تھوڑی دیر میں مطلوبہ رقم لا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی.چند افتخار احمد صاحب بیان کرتے ہیں.روز بعد حضرت منشی اروڑے خان صاحب ملنے آئے اور حضور نے کپورتھلہ جماعت کا شکریہ ادا کیا کہ آپ لوگوں نے بروقت مدد کی اس پر یہ راز کھلا کہ منشی ظفر احمد صاحب نے تو جماعت کے کسی دوست سے اس کا ذکر تک نہیں کیا.صرف اپنی بیوی کا زیور بیچ کر فوری طور پر جماعتی ضرورت پوری کر دی تھی ! کتنی جان شاری اور کتنی خاکساری اور کتنی بے نفسی ہے اس ایک واقعہ میں.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے واقعہ سے مجھے دور آخرین کے حضرت میاں شادی خان صاحب کی یاد آئی.سیالکوٹ کے لکڑی فروش بہت متوکل انسان تھے.تنگدست تھے لیکن دل کے بادشاہ.ان کے بارہ میں مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا ” ہمارے گھر میں خرچ نہ تھا.میرے والد صاحب نے میری والدہ سے پوچھا، آتا ہے؟ کہا نہیں.مال ہے؟ جواب نفی میں ملا.ایندھن ہے؟ وہی جواب تھا.جیب میں ہاتھ ڈالا.صرف دو روپے تھے فرمانے لگے.اس میں تو اتنی چیزیں پوری نہیں ہوسکتیں.اچھا میں ان دو روپوں سے تجارت کرتا ہوں.وہ دو روپے کسی غریب کو دے کر خود نماز پڑھنے چلے گئے.راستہ میں اللہ تعالیٰ نے دس روپے بھیج دیے.واپس آکر فرمایا.”لو میں تجارت کر آیا ہوں.اب سب چیزیں منگوالو.اللہ کی راہ میں
25 24 66 مال دینے سے گھٹتا نہیں، بڑھتا ہے.“ بڑھیا نے خوش ہو کر کہا.خدا آپ کو جزا دے، امیر المومنین بننے کے اہل تو آپ ہیں ( انعامات خداوند کریم صفحہ 221-222 تصنیف حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی) نہ کہ عمر.حضرت عمرؓ کی عظمت کردار دیکھئے اور خاموش خدمت کا حسین انداز دیکھئے بنی نوع انسان کی ہمدردی اور غم خواری اسلام کی ایک بنیادی تعلیم ہے.کہ بڑھیا کو ندامت سے بچانے کے لئے آپ نے بڑھیا پر یہ راز نہ کھولا کہ وہ عمر تو دوسروں کے آرام کا خیال رکھنا اور ان کی خاطر خود تکلیف اُٹھا کر ان کے آرام کا میں ہی ہوں.عاجزی اور خاکساری سے سر جھکا کر رخصت ہو گئے.خیال رکھنا بہت ہی عمدہ خلق ہے.ہر شخص دل میں یہ نیک جذبات اور ارادے تو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے زمانے کی بات ہے.ایک دفعہ بہت رات گئے ضرور رکھتا ہے لیکن جب تک ان ارادوں کو عمل میں نہ ڈھالا جائے اس وقت تک اس ایک مہمان آ گیا.اس وقت گھر میں کوئی چار پائی خالی نہ تھی.سب سو رہے تھے.فرض کا حق ادا نہیں ہوتا.یہ میدان بہت وسیع ہے اور اس خلق کو اپنی زندگیوں میں حضور نے مہمان سے کہا کہ ذرا ٹھہریں میں ابھی انتظام کرتا ہوں.آپ یہ فرما کر جاری کرنے کے بے شمار انداز ہیں.میں چند مثالیں عرض کرتا ہوں.ذرا دیکھیں کہ اپنے گھر کے اندر تشریف لے گئے اور پھر دیر تک باہر تشریف نہ لائے مہمان نے یہ مثالیں ہم سب کے لئے دعوت عمل کا کتنا زور دار پیغام اپنے اندر رکھتی ہیں.سوچا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں اس وقت چار پائی کا کوئی انتظام نہیں ہو سکا اس لئے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو جب اللہ تعالیٰ نے خلیفہ مقرر فرمایا تو آپ واپس نہیں آئے.اتنے میں اس نے ایک نظارہ دیکھا اور حیرت کی تصویر بن آپ کو دوسروں کے آرام اور ضروریات کا اتنا خیال رہتا کہ آپ راتوں کو عموماً گشت گیا.اس نے ڈیوڑھی میں سے گھر کے اندر جھانک کر دیکھا کہ اندر صحن میں ایک کیا کرتے اور براہ راست یہ معلوم کرتے کہ لوگ کس حال میں زندگی گزار رہے صاحب جلدی جلدی چار پائی بن رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اپنے ہیں.ایک رات یہ نظارہ دیکھا کہ ایک عورت کھانا پکا رہی ہے اور بچے اس کے پاس دست مبارک میں مٹی کا ایک دیا پکڑے اُس کے پاس کھڑے ہیں.تھوڑی دیر میں بھوک کی شدت سے چلا رہے ہیں پوچھا کہ بچوں کو کھانا کیوں نہیں دیتی ؟ تو کہنے لگی چار پائی تیار ہوئی تو وہ اس مہمان کو پیش کر دی گئی.یہ نظارہ دیکھ کر مہمان کی عجیب کہ ہنڈیا میں کھانا نہیں ، پتھر ڈالے ہوئے ہیں اور بھوکے بچوں کو بہلانے کی کوشش حالت تھی.عرق ندامت میں غرق کہ میں نے آدھی رات کو حضور علیہ السلام کو اس کر رہی ہوں.حضرت عمر پر یہ دیکھ کر کپکپی طاری ہوگئی.بڑھیا اور بچوں کی حالت قدر تکلیف دی.اُدھر حضرت مسیح علیہ السلام کا خلق دیکھئے کہ آپ بار بار اس مہمان دیکھ کر اپنی ذمہ داری کے حوالے سے ندامت میں ڈوب گئے.فورا واپس آئے اور سے معذرت خواہ ہیں کہ معاف کرنا چار پائی لانے میں بہت دیر ہوگئی.بیت المال سے کھانے کے سامان کی بوری تیار کی غلام سے کہا کہ اسے اُٹھا کر میری انسان اپنے لئے ، اپنے بیوی بچوں کے لئے دعائیں کرتا ہے.دوسروں کے لئے بھی کمر پر رکھ دو.غلام کہنے لگا کہ امیر المومنین آپ کیوں اٹھاتے ہیں میں اس خدمت دعائیں کرنے کی توفیق ملتی ہے کہ یہ بھی اسلامی تعلیمات میں شامل ہے لیکن دوسروں کے لئے حاضر ہوں.فرمایا دنیا میں تو تم یہ بوجھ میرے لئے اُٹھا سکتے ہو لیکن قیامت کے لئے دعا کرنے کا جو واقعہ میں ذکر کر نے لگا ہوں کم لوگوں نے سنا ہو گا اور بہت کے روز تم میرا کوئی بوجھ نہیں اُٹھا سکتے ! امیر المومنین نے بوری اپنی کمر پر اٹھائی.تھوڑے ہوں گے جو کبھی خود اس کیفیت سے گزرے ہوں.حضرت خلیفہ اسیح بڑھیا کے گھر لائے.کھانا تیار ہوا اور بچوں نے کھایا اور بڑے مزے کی نیند سوئے.الاول کے زمانے کا واقعہ ہے.چوہدری حاکم دین صاحب بورڈنگ کے ایک ملازم
27 26 تھے.ان کی بیوی پہلے بچے کی ولادت کے وقت بہت تکلیف میں تھی.اس کر بناک ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ حالت کفر سے ایک بار نکل آنے کے بعد دوبارہ کفر حالت میں رات کے بارہ بجے وہ حضرت خلیفہ ایسیح الاوّل کے دروازہ پر حاضر کر طرف لوٹ جانے کو اتنا ہی نا پسند کرے جتنا آگ میں دو بار ڈالے جانے کو.یہ ہوئے.دروازہ پر دستک کی آواز سن کر پوچھا کون ہے؟ اجازت ملنے پر اندر جا کر ہے وہ استقامت جو ایک سچے مومن کی نشانی ہے.ایک مومن کو خواہ وہ پیدائشی مومن زچگی کی تکلیف کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی حضور فوراً اُٹھے ، اندر جا کر ایک کھجور ہو یا بعد میں اسلام لایا ہو، زندگی کے دوران ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جن میں لے کر آئے اُس پر دعا کر کے انہیں دی اور فرمایا.یہ اپنی بیوی کو کھلا دیں اور جب اُس کے ایمان کا امتحان لیا جاتا ہے.لیکن حالات خواہ کچھ بھی ہوں ،مصائب کتنے بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں.چوہدری حاکم دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ بھی شدید ہوں ہر حالت میں پوری استقامت کے ساتھ ایمان پر قائم رہنا ایک سچے میں واپس آیا کھجور بیوی کو کھلا دی اور تھوڑی ہی دیر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچی کی مومن کی شان ہے.اسلام کی سچائی کا یقین اگر علم ہے تو اس ایمان پر قائم رہنا اور ولادت ہوئی.رات بہت دیر ہو چکی تھی میں نے خیال کیا کہ اتنی رات گئے دوبارہ استقامت سے قائم رہنا عمل صالح ہے.تاریخ اسلام کا ہر دور ایسی روشن مثالوں حضور کو اس اطلاع کے لئے جگانا مناسب نہیں.نماز فجر میں حاضر ہو کر میں نے سے منورنظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے ہر مصیبت برداشت کی ، ہر امتحان میں سرخرو عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھجور کھلانے کے جلد بعد بچی پیدا ہوگئی تھی.اس پر ہوئے حتی کہ بعض نے اس راہ میں اپنی جانیں بھی قربان کر دیں لیکن ایک بار ایمان حضرت خلیفہ مسیح الاوّل نے جو فر مایا وہ سننے اور یاد رکھنے سے تعلق رکھتا ہے.دل کا مزہ چکھ لینے کے بعد پھر اس شیر میں جام کو اپنے منہ سے کبھی جدا نہیں کیا.اپنے عمل سے انہوں نے صبر و استقامت کی ایسی تاریخ رقم کی کہ ہمیشہ ایک مثال کے طور پر پیش کی جاتی رہے گی.واقعات کی تعداد اتنی ہے کہ انتخاب ایک مسئلہ ہے اور " گداز الفاظ طبیعت میں رفت پیدا کر دیتے ہیں.آپ نے فرمایا.میاں حاکم دین! تم نے اپنی بیوی کو کھجور کھلا دی اور تمہاری بچی پیدا ہوگئی.تم اور تمہاری بیوی آرام سے سو گئے.مجھے بھی اطلاع دے دیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا.میں تو ساری رات جاگتا رہا اور تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا.“.واقعات اس قدر درد ناک ہیں کہ بیان کی طاقت نہیں.حضرت بلال کا ظالم آقا آپ کو چلچلاتی دھوپ میں گرم ریت پر لٹا دیتا اور سینہ پر بھاری گرم پتھر رکھ دیتا کہ آپ حرکت بھی نہ کر سکیں لیکن آفرین ہے سیدنا چوہدری حاکم دین صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا اور بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے.66 ” کہاں چپڑاسی حاکم دین اور کہاں نور الدین اعظم.“ بلال کی استقامت پر کہ اس حالت میں بھی احد احد کے الفاظ کہتے ہوئے توحید الہی کا اقرار کرتے چلے جاتے.حضرت خباب کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا جاتا.( مبشرین احمد صفحہ 38 نیز رفقائے احمد جلد 8 صفحہ 71-72) ظالم آقا ان کے سینے پر سوار ہو جاتا اور یہ عذاب اس وقت جا کر ختم ہوتا جب جسم کی ہمارے محبوب آقا سرور کا ئنات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے رطوبت نکل نکل کر آگ کو سرد کر دیتی.حضرت عمار بن یاسر استقامت کا ایک بلند فرمایا ہے کہ وہ تین باتیں جن سے انسان کو ایمان کی حلاوت اور مٹھاس محسوس ہوتی مینار تھے.ان کو اور ان کے والدین کو ظالموں نے ایسے ایسے زہرہ گداز مظالم کا نشانہ
29 28 پرتونه بنایا کہ آج بھی اُن کا ذکر آنے پر انسانیت کی جبیں عرق ندامت سے تر ہو جاتی ایک گلی سے گزر رہے تھے.حضرت مولوی صاحب بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل ہے.ظالم ابو جہل نے ان کی والدہ کی شرم گاہ میں نیزہ مار کر شہید کر دیا.بدبخت رہے تھے کہ اچانک اس گلی کی ایک بڑھیا کی آتش غیض و غضب بھڑک اُٹھی اور اس ظالموں نے سب کچھ کیا لیکن ان کے ایمان اور استقامت کو متزلزل نہ کر سکے.نے غصہ سے بے قابو ہو کر گھر کی گندگی اٹھا کر حضور پر پھینک دی.گندگی حضور پر تو نہ کیوں نہ ایسا ہوتا وہ اُس خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثاروں میں سے تھے جن گری لیکن حضرت مولوی برہان الدین صاحب کے سر پر پڑی.ناک پر ایک مکھی پر تاریخ انسانیت میں سب نبیوں سے زیادہ مظالم روا رکھے گئے.جس طرح اُس بیٹھ جائے تو انسان غصہ سے بے قابو ہو جاتا ہے یہاں گندگی کا ایک ڈھیر تھا جو آر کو ہ صبر و استقامت کے سامنے ظلم کی ہر چوٹی سرنگوں ہوتی رہی اُسی طرح اُس کے پر گرا دیا گیا لیکن یہ سب کچھ خدا کی راہ میں تھا اور صرف اس وجہ سے یہ سلوک آر جانثاروں نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ وہ صبر و استقامت کے بادشاہ کے سے ہوا کہ آپ نے خدا کے فرستادہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو مانا تھا.آپ نے اس بظاہر ذلت کو اپنے لئے ایک سعادت جانا اور عجیب وارونگی اور مستی کے انداز میں نقش قدم پر چلنے والے ہیں.یہ واقعات ایسے نہیں کہ محض تاریخ کے صفحات کی زینت بن چکے ہوں بلکہ یہ وہ منہ او پر اُٹھا کر اُس بڑھیا کو دیکھا اور کہا.زندہ و پائندہ صداقتیں ہیں جو اس دور میں بھی بڑی شان سے دوہرائی جارہی ہیں.صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید کی عظیم الشان شہادت نے کس شان سے ثابت کیا کہ " پا او مائیے ہور پا! ایک اور موقع پر مخالفین نے آپ کو پکڑ کر بہت مارا اور بالآخر زمین پر گرا کر آپ دین کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے کبھی بھی کم نہیں ہوتے.بادشاہ کی کی چھاتی پر سوار ہو گئے اور آپ کے منہ میں گو بر بھرنا شروع کر دیا.ذرا اس سقا کی تاجپوشی کرنے والے اس بزرگ انسان کو ایک من چو بیس سیر وزنی زنجیر میں جکڑا اور ظلم کا تصور کیجئے اور دیکھیں کہ اس حالت میں اس عاشق صادق اور پروانہ مسیح گیا.ناک چھید کر نکیل ڈال کر سر مقتل لایا گیا.ہر طرح کا لالچ دیا گیا.بار بار دوراں کا رد عمل کیا تھا.اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.فہمائش کی گئی مگر استقامت کے اس شاہزادے نے سنگسار ہونا قبول کر لیا لیکن ایمان کا سودا کرنا گوارا نہ کیا.دیکھتے ہی دیکھتے کابل کا یہ عظیم فرزند پتھروں کے ڈھیر میں چھپ کر ہمیشہ کی زندگی پا گیا.جان کی بازی لگادی، قول پر ہارا نہیں.اوبر بانیا ! ایہہ نعمتاں غیر کتھوں؟“ صبر و استقلال کی یہ چٹانیں ، عزم و استقامت کے یہ پہاڑ قامت وجود، اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو عطا فرمائے جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے عہدِ بیعت میں بچے اور ثابت قدم ہیں.اللہ اُن سے راضی ہو اور وہ اُس سے راضی ہوں.راہ خدا میں دکھ اُٹھانے اور ضرورت پڑنے پر جانیں شار کرنے کا سلسلہ آج حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ایک اور عاشق صادق حضرت مولانا بُرہان الدین صاحب جہلمی نے جس شان سے راہ خدا میں دکھ اُٹھائے اور استقامت بھی جاری ہے.ہمارے اس دور میں جو احمدیت کا ایک سنہری دور ہے اور آنے والی کا علم سر بلند رکھا اس کی بھی اپنی ہی ایک نرالی شان ہے.حضرت مسیح پاک ایک دفعہ نسلیں ہمیشہ اس دور کو محبت اور چاہت سے یاد کیا کریں گی.اس دور میں بھی
31 30 سینکڑوں شہیدانِ احمدیت نے احمدیت کے چمن کو اپنے خون سے سینچا ہے اور ہزارہا امام وقت کے مقدس ہاتھ میں ہاتھ دے کر وفا کی کچھ قسمیں کھائی ہیں.عہد بیعت کو اسیرانِ راہ مولیٰ نے احمدیت کی آبرو کی خاطر اپنی عزتیں قربان کی ہیں.آج اس بار بار صمیم قلب سے دوہرایا ہے.یاد رکھو کہ آج ان قسموں کو پورا کرنے کا وقت آ گیا وقت بھی یہ اسیرانِ راہِ مولیٰ جیل کی تاریک و تار کوٹھریوں میں آ ہنی سلاخوں کے ہے.اپنے وعدوں کو سچ کر دکھانے کا دن آگیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں علم کے بے پیچھے عشق و وفا اور صبر و استقامت کی قندیلیں روشن کئے بیٹھے ہیں.لاریب انہی پناہ خزانوں سے نوازا ، قرآن کریم کا بحر عظیم ہمیں عطا ہوا.احادیث کا انمول خزانہ قندیلوں سے ایک روز سارا جگ منور ہوکر رہے گا.ہمیں نصیب ہوا.مسیح زماں نے روحانی خزائن کی دولت سے ہمیں مالا مال کیا.اب کے تقاضے بے شمار ہیں.چند مثالیں آپ کی خدمت میں عرض کی ان سب علوم کو مل کے سانچے میں ڈھالنے کا وقت آگیا ہے یہ باتوں کا وقت نہیں ، ہیں.آخر میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک اور میدانِ عمل بھی ہے جو ہماری راہ عملاً کچھ کر دکھانے کا وقت ہے.دیکھو کہ دعوت الی اللہ، تربیت اور اصلاح نفس کے دیکھ رہا ہے.یہ میدان اپنے عہد و پیمان کو پورا کرنے کا ہے.ہم نے دیکھا کہ تاریخ کتنے وسیع میدان ہیں جو ہمارے منتظر ہیں.کتنے تقاضے ہیں جو ہم نے پورے اسلام کے ہر دور میں کس طرح عشاق اسلام نے اپنے ایمان کے تقاضوں کو عملی کرنے ہیں.اُٹھو! اور صدق و وفا کے ساتھ ، اپنے نیک عزائم کو اعمال کے قالب رنگ میں پورا کر دکھایا.انہوں نے کے علم کو بڑی شان سے سر بلند رکھا اور میں ڈھالتے چلے جاؤ.کبھی بھی سرنگوں نہ ہونے دیا.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان وفا شعار، راست باز عشق و وفا کی یہ سچی داستانیں ، اسلاف کے یہ ایمان افروز واقعات ،صرف اور صادق القول صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کا کس محبت سے ذکر فرمایا ہے.اس سننے سنانے کی باتیں نہیں.ان زندگی بخش واقعات میں ہم سب کے لئے ایک آیت کریمہ میں جو میں نے شروع میں بیان کی تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا.مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ.کہ مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے ، جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا.فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَه پس ان میں سے وہ بھی ہے اس نے اپنی منت اور اپنے وعدہ کو عملاً پورا کر دکھا یاؤ مِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ اور ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو وفا کے ساتھ ابھی انتظار کر رہے ہیں وَ مَا بَدَّلُوا تَبْدِيلا اور وہ ایسے ہیں کہ انہوں نے ہرگز اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی.ہاں وہ اُس وقت کے منتظر ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ اپنے وعدوں کو پورے اخلاص کے ساتھ پورا کر سکیں.یادر ہے کہ ہم نے بھی اپنے مولیٰ سے کچھ عہد و پیمان کئے ہیں.ہم نے بھی درس نصیحت مضمر ہے.جس علم کو صحابہؓ نے اور ہمارے اسلاف نے سر بلند رکھا اُسے سر بلند رکھنا اور کل عالم پر لہراتے چلے جانا ہمارا فرض ہے.پس اے دین احمد کے فدائیو! اور احمدیت کے جانثارو! اٹھو اور خدمت دین کرنے کی جو بے تاب تمنائیں آج ہمارے سینوں میں موجزن ہیں ان سب کو عملی جامہ پہناؤ.خدا کے حضور اپنے یچے اور مخلصانہ ارادے ، اعمال صالحہ کے خوبصورت طشتوں میں سجا کر پیش کرو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور منہ کی باتیں اور زبانی دعوے کچھ حقیقت نہیں رکھتے.اُس دربار میں تو نیک اور پر خلوص اعمال کے نذرانے ہی قبول ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم
33 32 سب کو حسنِ عمل اور سعی مشکور کی توفیق عطا فرمائے اور شرف قبولیت عطا فرمائے آمین.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين سفر زندگی پھیلا ہے سامنے مرے لندن کا مستقر اترا ہے اک جہاز، تو اک مائل سفر ہے آنے جانے والوں کی اک بھیٹر ،اور بہت ہیں محو انتظار عزیزان منتظر ہر روز ہے رواں دواں خلق خدا یہاں دیکھتی یہ سلسلہ ہر شام، ہر سحر ہے بیٹھا ہوا مطار میں سوچتا رہا اسباق اس نظارے میں کتنے ہیں مستتر دنیا میں جو بھی آیا ہے اک روز جائے گا اور جو سفر عدم کا ہے اس سے نہیں مفر پروانہ ہر بشر کو ملا زندگی کا ہے منزل معین اس کی ہے آئے نہ گو نظر
34 راہ حیات میں ہیں نشیب اور فراز بھی کتنے ہی موڑ آتے ہیں اس رہ میں پُر خطر نام کتاب.علم وعمل عطاء المجیب را شد ( امام بیت فضل لندن ) لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کب آئے گی ندا اور کہاں ہوگی اس کی شام ناشر 91.کوئی نہیں یہ جانتا کس کو ہے یہ خبر یہ زندگی سفر ہے ، سفر زندگی کا نام خوش بخت وہ بشر ہے جو لوٹے گا با ظفر ہر لمحہ حیات ہے اس بات کا نقیب تعداد اول ایک ہزار کمپوزنگ...........خالد حمود اعوان ٹائٹل ڈیزائن...محمد عثمان پرنٹر وائی آئی پریس طول اہل کو چھوڑو کہ ہے وقت مختصر محدود زندگی کا ہر اک لمحہ مثل زر ضائع نہ ہو دقیقہ کوئی یوں کرو بسر راشد هجوم خلق منزل کا کچھ پتہ نہیں ،سورج ہے ڈھل رہا ہمت کرو بلند اور قدموں کو تیز تر دنیا مسافرانِ عدم کا ڈالو ذرا نظر ہے مستقر عطاء المجیب راشد ILM-O-AMAL BY Ataul Mujeeb Rashed Imam Bait-e Fazl, London Published by:Lajna Imaa'illaah Karachi Printed:Y.I.Press
اے میرے پیارے اے مرے پیارے فدا ہو تجھے پر ہر ذرہ مرا پھیر دے میری طرف اے ساریاں جنگ کی مہار اے مرے پیارے جہاں میں تو ہی ہے اک بے نظیر جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار اے مرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود ہو نیک دن ہوگا وہی جب تجھ پہ ہوویں ہم ثار اے مرے پیارے ضلالت میں پڑی ہے میری قوم تیری قدرت سے نہیں کچھ دور گر پاویں سدھار اے مرے پیارے مجھے اس سیلِ غم سے کر رہا ورثہ ہو جائے گی جاں اس درد سے تجھ پر نثار (در مشین)