Ik Harfe Nasihana

Ik Harfe Nasihana

اك حرف ناصحانہ

اسلامی شعائر کے استعمال پر پابندی
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات

یہ ایک حیران کن توارد ہے کہ وطن عزیزپاکستان کو جب بھی سیاسی عدم استحکام  یا اندرونی یا بیرونی خطرات کا سامنا ہوتا ہے تو ایک  مخصوص طبقہ علماء ملک کی توجہ اصل اور حقیقی خطرات سے ہٹا کرجماعت احمدیہ کی طرف منعطف کرنے کی بھرپور کوششوں میں لگ جاتا ہے۔ اس کوشش  میں یہ لوگ اس قدر جوش دکھاتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ، حقیقت اور افسانہ، انصا ف اور بے انصافی کی کوئی تمیز باقی نہیں رہتی۔ اب کی بار یہ آواز بلند کی جارہی ہے کہ چونکہ احمدی آئین کی رو سے غیر مسلم قرار پاچکے ہیں۔ اس لئے ان کو اسلامی شعائر اور اصطلاحات جیسے نبی، رسول،صحابی، ام المومنین، اہل بیت، علیہ السلام، رضی اللہ عنہ، مسجد، اذان وغیرہ کے الفاظ کی ادائیگی سے بھی قانوناً اور حکماً روکاجائے اور ایسی قانون شکنی پر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے کیونکہ اس طرح مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ زیر نظرمختصر کتا ب میں درست اسلامی تعلیم پیش کرکے اس طرح کے مطالبات پر نصیحت کی گئی ہے کہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو کہیں بھی تھمنے کا نام نہیں لے گا۔


Book Content

Page 1

بسم الله الرحمن الرحيمة پیش لفظ یہ ایک حیران کن توارد ہے کہ وطن عزیز پاکستان کو جب بھی سیاسی عدم استحکام اور اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہوتا ہے تو ایک مخصوص طبقہ جو زیادہ تر جمعیت علمائے پاکستان کے احراری گروپ ، تلک کی توجیہ اصل اور حقیقی خطرات سے ہٹا کر جماعت احمدیہ کی طرف " منعطف کرنے کی بھر پور کوشش شروع کر دیتا ہے.اس کوشش میں یہ لوگ اس قدر جوش دکھاتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ ، حقیقت اور افسانہ ، انصاف اور بے انصافی کی کوئی تمیز باقی نہیں رہتی یہاں تک کہ جب عوام الناس جھوٹ کی تکرار کو سُن سُن کر اس پر سچ کا گمان کر کے ان کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں تو قیمتی سے دیگر بہت سے مکاتب منکر کے علماء بھی اس احتمال سے ان کی تقلید پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ مبادا وہ خاموش رہ کر جماعت احمدیہ کی تائید کرنے والوں میں شمار نہ کئے جائیں یا کہیں اس جہاد کا تمام تر اعزاز ان لوگوں کے حصے میں ہی نہ rg پر ان سے بنا ہوتا سے تعلق رکھتا ملالہ آ جائے.آجکل جبکہ ملک کے استحکام کو سبوتاژ کرنے کے لئے اندرونی اور بیرونی

Page 2

عوامل سر اُٹھا رہے ہیں اور شمال اور مشرق سے بعض خطرات پیش قدمی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان علماء کی طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ و فساد برپا کرنے کی سر توڑ کوشش بھی روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے.پاکستان کی تاریخ سے شناسائی رکھنے والے اہل وطن غالباً اس یاد دہانی متاع نہیں کے محتاج نہیں کہ قیام پاکستان سے قبل احراری علماء کا یہی وہ گروہ تھا جو موید اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے اشد ترین مخالفوں میں سے تھا.پس ہر اہم قومی بحران کے موقع پر اس گروہ کا جماعتِ احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش ہونا بے مقصد اور روس نواز انڈین نیشنل کانگرس کا نہیں اور بے معنی نہیں.حال ہی میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں جو تحریک چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کا زیادہ تر حصہ جماعت احمدیہ کے مقدس امام بزرگان کے خلاف انتہائی فحش کلامی پرمشتمل ہے.ایسی زبان استعمال کی جا رہی ہے کہ اسے نقل کرنا بھی کسی شریف انسان کا قلم گوارا نہیں کرتا لیکن تعلیم قرآن ہمیں اس عمل سے باز رکھتی ہے کہ اس جہالت کا جواب جہالت سے دیں اور لہذا اس معاملہ کو ہم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں.البتہ یہ دیکھ کر تعجب افسوس ضرور ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے مسلمان شرفاء ان لوگوں سے کیوں نہیں پوچھتے کہ منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کھڑے ہو کر ایسی زبان استعمال کرتے ہوئے تم کیوں خدائے احکم الحاکمین کو بھول جاتے ہو ؟ کیوں خوف خندا

Page 3

نہیں کرتے ؟ اور موجودہ تحریک کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جماعت احمدیہ پر انتہائی ناپاک ! بے سروپا الزامات لگائے جا رہے ہیں.احمدیوں کو قوم ، وطن اور اسلام کا غدار قرار دیا جا رہا ہے.ہر قسم کے بھیانک جرائم ان کی طرف منسوب کئے جا رہے ہیں اور اس بناء پر احمدیوں کے خلاف کھلم کھلا قتل و غارت کی تلقین کی جا رہی ہے، رہی ہے ، ان کے شہری حقوق اور مذہبی آزادی کو سلب کرنے کے مشورے دئے جا رہے ہیں لیکن کوئی نہیں جو انہیں رو کے اور مہذب مملکت میں کہنے والے شہریوں کی ان کے اموال ٹوٹنے کی ترغیب دی کہ امن اور قانون پسند سے تو مظلوم - میں حق تلفی سے انہیں باز رکھے.کوئی آواز ظالم کے خلاف نہیں اُٹھتی.سب خاموش ہیں.وہ شاعر بھی جو ویت نام اور جنوبی افریقہ کے لئے تو تڑپ اُٹھتے ہیں.وہ ادیب بھی جو نکاراگوا اور اری ٹیریا کی حمایت میں آواز بلند کرتے ہیں اور وہ کالم نویس بھی جو فلپائن اور بھارت کی مسلم اقلیتوں کے حقوق کی تائید میں شدید اضطراب دکھاتے ہیں خود اپنے وطن میں اپنے شہروں ، اپنے دیہات اور اپنی گلیوں میں رونما ہونے والی انسانی حقوق کی اس پائمالی کا کوئی نوٹس نہیں لیتے.ارباب حل و عقد کی خاموشی کا معقدہ بھی لانچل ہے.رموز سلطنت کو جاننے والے ہی ان اسرار سے پردہ اٹھائیں تو اٹھا ہیں ہم تو صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی نہیں جو ان کی زبانوں کو ادب سکھائے اور قانون کی بالادستی کے سبق ان کو پڑھائے.اس معاملہ کو بھی ہم احکم الحاکمین خدا کے سپرد کرتے ہیں.جماعت احمدیہ پہلے

Page 4

۶ بھی بارہا ابتلاء کے ان کو بلاؤں میں سے انتہائی صبر و رضا کے ساتھ گذر چکی ہے.وہ خدا جو ہمیشہ اس مظلوم جماعت کی نصرت فرماتا رہا ہے اب بھی اُسی کی ذات اور اُس کی قادرانہ تائیدات پر ہماری نظر ہے.عام ایک تیسرا پہلو اس مخالفت کا یہ ہے کہ اسلام کے مقدس نام پر رائے عامہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے اسلام میں ان کے لئے بنیادی انسانی حقوق حقوق شہریت اور شرف انسانیت بلکہ محسن سلوک کی بھی کوئی گنجائش نہیں اور مذہبی اختلاف کی بناء پر جبر کرنا صرف جائز بلکہ کارِ ثواب ہے.چنانچہ حکومت سے جماعت کے خلاف انتہائی ناو جب پابندیاں عائد کرنے کے مطالبات ہو رہے ہیں اور عوامی جذبات کو اپنی تائید میں اُبھار کر جماعت کے مذہبی معتقدات میں مداخلت کے لئے راستہ ہموار کیا جا رہا ہے.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں ہم اپنے مؤقف کی وضاحت کریں تا کہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ ہمارے خلاف ان لوگوں کے مطالبات کیس حد تک مبنی بر انصاف ہیں.آئندہ چند صفحات میں ہم اسی موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے

Page 5

rg گذشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کے بعض اخبارات میں چند مخصوص حلقوں کی ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ غیرمسلم قرار طرف سے یہ آواز اُٹھائی جارہی ہے کہ احمدی سول، صحابی دئے جاچکے ہیں اس لئے ان کو اسلامی شعائر اور اصطلاحات مثلا أم المؤمنین ، اہل بیت علیہ السلام ، رضی اللہ عنہ مسجد ، اذان وغیرہ کے استعمال سے روکا جائے کہ اس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے.ایک سرسری مطالعہ سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ مطالبہ اسلام کی ہمہ گیر اور دلکش تعلیمات کے صریحاً خلاف ہے.کیوں نہ ہو اسلام تو شرف انسانیت اور آزادی ضمیر کا سب مذاہب سے بڑھ کر علمبردار ہے.عام دنیا کے پارلیمانی نظاموں اور قانون سازی کے طے شدہ رہنما اصولوں کو ہی دیکھیں تو یہ مطالبہ ان کے معیار سے بھی گیرا ہوا نظر آتا ہے.کے آئین میں کی گئی ترمیم ہے جس کی بناء پر یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ محض ایک" "تعریف" پرمشتمل ہے.اس تعریف کی رُو سے احمدیوں کو آئینی اور قانونی اغراض کیلئے مسلمان نہیں سمجھا گیا.گویا ایک ایسا قانون جو محض مسلمانوں کے لئے نافذ کیا گیا ہو اُس کا اطلاق احمد یوں پر نہیں ہو گا.اس کے علاوہ یہ آئینی ترمیم کسی مزید امر کی متقاضی نہیں اور

Page 6

نہ ہی یہ آئینی ترمیم احمدیوں کے دیگر شہری حقوق اور مذاہبی تحفظات کو کسی رنگ میں مسدود یا محدود کر سکتی ہے.اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے.قرآن کریم خدا کا کلام ہے اور اس میں دی گئی تعلیمات بغیر کسی تخصیص کے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور روحانی ترقیوں کے لئے وقف ہیں.اسلام آزادی ضمیر، حریت فکر اور مذہبی رواداری کا اس شدت سے داعی کرنا ہے کہ اس کی نظر یہ ذاہب میں ہیں ملتی ہیں زیر نظر مطالبہ اسلام کے نام پر پیس یقیناً اسلام کی تعلیم کے صریحاً خلاف ہے جب ہم زیر نظر مطالبہ کا نسبتاً تفصیل سے مطالعہ کرتے ہیں تو کئی اہم سوال اٹھتے ہیں جن کو نظر انداز کر کے ہم کسی معقول اور منصفانہ نتیجہ تک نہیں پہنچے سکتے.چند بنیادی سوال یہ پیدا ہوں گے کہ.اگر پاکستان کی موجودہ جمہوری اکثریت کے نزدیک احمدی غیر مسلم ہیں تو پھر احمدی کا مذہب آخر کیا ہے ؟ ب کیا احمدی کا مذہب بھی یہ جمہوری اکثریت تجویز کرے گی یا احمدی کو خود اپنے مذہب کی تعیین کا حق ہے ؟ ج - اگر احمدی کا مذہب کسی غیر احمدی جمهوری اکثریت نے تجویز کرنا ہے تو کیا احمدی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس مجوزہ مذہب کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے اور اسی عقیدہ پر ایمان رکھے جس پر دل سے یقین رکھتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ کوئی معمولی فہم کا انسان بھی اِن سوالات پر غور کر کے اس کے سوا نتیجہ اخذ نہیں کر سکتا کہ احمدی عقیدہ اور مذہب کا کوئی نام رکھنے کا اگر جمہوری اکثریت کو حق

Page 7

بھی تھا تو بھی اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ پہلے ان کے مذہب کا نام ان کی مرضی کے خلاف کچھ اور تجویز کرے پھر وہ مذہب بھی خود بنا کر دے اور کسی کتاب کو ماننے اور کسی کتاب کو نہ ماننے کا حکم صادر کرے.پس جب احمدی اور صرف احمدی ہی مجاز ہیں کہ اپنے مذہب کی تفصیل اور خد و خال بیان کریں تو طے کرنے والی بات صرف یہ رہ جاتی ہے کہ خود احمدیوں کے نزدیک ان کے مذہبی اعتقادات کیا ہیں اور کن باتوں پر عمل کرنا ان کے لئے ضروری ہے اور رکن باتوں سے بچنے کا حکم ہے.ظاہر ہے کہ احمدی مذہب کو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے الفاظ سے بہتر الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا تو سنتے حضرت ہالی ضرت ہانی مسلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں احمدی کا مذہب کیا ہے :- اور " ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی سید نا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حتی، اور روز حساب حق، اور جنت حق، اور جہنم حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ - نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالاحتق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لا الہ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُول الله اور اسی پر کریں.اور تمام انبیاء اور تمام کتا ہیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے اُن سب پر ایمان لاویں اور صوم اور

Page 8

صلوۃ اور زکواۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں اُن سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے یا ر تیام اصلاح صفحه ۸۶ ۸۷) و ہم مسلمان ہیں.خدائے واحد لاشریک پر ایمان لاتے ہیں اور کلمہ لالہ الا اللہ کے قائل ہیں اور خدا کی کتاب قرآن اور اس کے رسول مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کو جو خاتم الانبیاء ہے مانتے ہیں اور فرشتوں اور یوم البحث اور دوزخ اور بہشت پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں اور اہل قبلہ ہیں اور جو کچھ خدا اور رسول نے حرام کیا اُس کو حرام سمجھتے ہیں اور جو کچھ حلال کیا اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور نہ ہم شریعت میں کچھ بڑھاتے اور نہ کم کرتے ہیں اور ایک ذرہ کی کمی بیشی نہیں کرتے اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں پہنچا اس کو قبول کرتے ہیں چاہیے ہم اُس کو سمجھیں یا اس کے بھید کو سمجھ نہ سکیں اور اس کی حقیقت تک پہنچ نہ سکیں اور ہم اللہ کے فضل سے مومن موعد مسلم ہیں یا ( نور الحق جزء اول صفحه (۵) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السّلام کے اپنے الفاظ میں یہ ہے ایک احمدی کا مذہب.اس احمدی مذہب کا نام غیر احمدی اکثریت جو چاہے رکھ دے لیکن احمدی مذہب کو تبدیل کرنے کا اُسے کوئی حق نہیں.

Page 9

دوسرا بنیادی سوال یہ ہے کہ احمدی میں مذہب کو عین اسلام سمجھتے ہوئے اُس پر پورے خلوص سے عمل پیرا ہیں اگر وہ غیروں کے نزدیک اسلام نہیں بلکہ کوئی اور مذہب ہے تو وہ جو چاہیں اسے قرار دیں مگر اس مذہب کے پیرو کاروں کو اُس پر عمل درآمد کرنے سے روکنے کا دُنیا میں کسی کو کوئی حق نہیں یہی وہ نکتہ ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئین پاکستان میں آرٹیکل ۲۰ کو شامل کیا گیا.اس آرٹیکل کی رو سے ہر پاکستانی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو بھی عقیدہ اور ر رہ ب رکھے اس کا بر ملا اظہار کرے اور اس پر عمل کرے اور اس کی تبلیغ کرے.واضح دستوری ضمانت کے بعد یہ مطالبہ دستوری لحاظ سے بھی کسی غور کے لائق نہیں ٹھہرا.جہاں تک کسی مذہبی اختلاف کی بناء پر کسی فرد یا جماعت کی پیشکنی کا ی : تعلق ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے تمام پہلوؤں پر تعصبات سے خالی ہو کر تدبر کی ضرورت ہے.ایک ملک میں مختلف خیال اور عقائد کے حامل افراد کہتے ہیں اُن کے جذبات کی راہوں کو متعین کرنا پڑتا ہے کہ انہیں کس مقام پر ٹھیس پہنچ سکتی ہے اور رکس پر نہیں.اس پہلو سے جب اس مسئلہ پر نظر ڈالتے ہیں تو پشکنی کی جو بھی تعریف کریں محض اختلاف عقیدہ کو اور اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرنے کو دشکنی قرار نہیں دیا جاسکتا ہمارے ملک میں بھی ارشادات قائد اعظم اور مروجہ قوانین اس امر کی ضمانت دیتے ہیں فر محض عقیب سے سے اختلاف اور اپنے عقیدہ کے مطابق عمل، جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا موجب نہیں ہو سکتا.ہر شہری خواہ اس کا تعلق اکثریت سے ہو یا اقلیت سے اس پہلو سے وہ برابر کے

Page 10

۱۲ حقوق رکھتا ہے.پاکستانی ہندوؤں ، عیسائیوں اور پارسیوں کے عقائد بلاشبہ اسلام کی صریح بنیادی تعلیمات کے خلاف ہیں لیکن ان عقائد پر عمل پیرا ہونے کی انہیں کھلی اجازت ہے اور یہ اجازت کسی مسلمان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتی.اسی طرح ایک ہندو، عیسائی یا پارسی کا مسلمانوں کے عقائد کی اشاعت پر بھڑکنے کی بجائے رواداری سے کام لینا ایک قانونی اور اخلاقی تقاضا ہے تو کیا اس وطن عزیز میں صرف ایک احمدی ہی کو اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ؟ بفرض محال اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ صرف احمدیوں کو اپنے عقیدہ اور مذہب پر میل کرنیکی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ اس سے بغیر احمدی اکثریت کی دشکنی ہوتی ہے تو پشکنی کے اس مسئلہ کی ایک انتہائی مضحکہ خیز بلکہ المناک تصویر ابھرے گی اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اوّل : تثلیث کا عقیدہ قرآن کریم کے مطابق وہ عقیدہ ہے کہ قریب ہے اس سے زمین پھٹ جائے اور پہاڑ کر کر گر پڑیں وہ تو کسی مسلمان کی دلآزاری کا موجب نہیں بن سکتا نہ ہی صلیب کی عبادت ان کے دلوں کو چر کے لگا سکتی ہے.ہاں اگر دل آزاری کا موجب ہے تو بس یہ امر کہ غیر مسلم قرار دئے جانے کے باوجود احمدی کیوں اب تک اللہ کو واحد اور لاشریک مانتے ہیں اور اس خدائے واحد و لاشریک کی پرستش اپنا اہم ترین فریضہ سمجھتے ہیں.دوم :- اور پھر اس بات سے تو مسلمان اکثریت کی دل آزاری نہ ہوگی کہ دوسرے مذاہب کے بنیادی عقائد میں یہ بات داخل ہے کہ ہمارے آقا و مولا اصدق الصادقین ، محمد مصطفیٰ، ام مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم، نعوذ باللہ اپنے دعوی میں پیچھے نہ تھے.لیکن احمدیوں کا اپنے آقا و مولا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب مخلوقات کا سردار بلکہ وجیہ

Page 11

۱۳ تخلیق کائنات ماننا اور سب نبیوں سے آپ کے افضل ہونے کا اقرار کرنا اور اس بات پر ایمان رکھنا کہ آپ صرف اور صرف حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دامن سے وابستہ ہو کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پرے ہٹ کر ایک شمہ بھر بھی برکت حاصل نہیں کی جاسکتی مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک شدید دلآزاری کا موجب سمجھا جائے گا.یہاں ایک ضمنی سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب نبیوں سے بڑھ کر سچا اور واجب الاطاعت مانے سے دل آزاری نہیں ہوسکتی تو واجب الاطاعت مان کر پھر عمل اطاعت کرنے میں کیسے ولآزاری ہو جائے گی ؟ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَلْبَابِ alis اسے صاحب عقل لوگو ! کچھ تو غور کرو.سوم : پھر قرآن کریم کو لیجیے.ایسے لوگ بھی اس ملک میں بستے ہیں جو قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں سمجھتے بلکہ خود حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا من گھڑت کلام یقین کرتے ہیں.ایسے لوگوں کے عقائد اور قرآن کریم کے متعلق ان کے منکرانہ خیالات تو مسلمان اکثریت کی ولآزاری اور دشکنی کا باعث نہ ہوں لیکن احمدیوں کا یہ عقیدہ سخت دشکنی اور نا قابل برداشت دل آزاری کا موجب بن جائے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر الہاما نازل ہوا تھا اور یہ شروع سے لے کر آخر تک خدا تعالیٰ ہی کا کلام ہے اور ہر قسم کی برکت قرآن سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے.اس کی تعلیم ہر زمانے کے لئے مکمل و اکمل ہے اور دُنیا کی رُوحانی امور میں بھی اور دنیا وی امور میں بھی نجات اور فلاح کا باعث صرف اور صرف قرآن کریم ہی ہے.اگر احمدیوں کا یہ ایمان اور یہ عقیدہ کیسی ادنی عقل رکھنے والے مسلمان کے نزدیک بھی پیشکنی قرار نہیں دیا جا سکتا تو اِس

Page 12

۱۴ عقیدہ کے مطابق عمل پیرا ہونا کس طرح دل آزاری کا موجب ہو سکتا ہے ؟ تو یہاں بھی یہ ضمنی مگر اہم سوال پیدا ہوگا کہ اگر قرآن کریم کو برحق اور واجب الاطاعت تسلیم کرنا ولآزاری کا موجب نہیں تو اسے بر حق سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونا کسی کی دل آزاری کا موجب کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ عقل و انصاف کے سراسر منافی مؤقف اُس وقت تک اختیار نہیں کیا جاسکتا جب تک پہلے عقل و دانش کو کلیتہ چھٹی نہ دے دی جائے.اور اگر ایسا کیا جائے و پھر یضحکہ خیز صورت بھی اس کے نتیجہ میں پیدا ہوگی کہ اکثریت کے نزدیک جو سلمان ہیں اگر وہ قرآن کریم کو سچا اور واجب الاطاعت تسلیم کرنے کے باوجود اس پر عمل نہ بھی کریں تو اس سے عالم اسلام کی ہرگز کوئی دلآزاری نہیں ہوگی لیکن اگر کوئی اقلیت جسے وہ غیر مسلم مجھتے ہیں قرآن کو واجب الاطاعت سمجھتے ہوئے اس کے احکام پوختی - ا عمل پیرا ہوتی ہو تو اس سے مسلمان اکثریت کے جذبات شدید طور پر بھڑک اُٹھیں گے.گویا مشتعل ہجوم زبان خنجر سے یہ اعلان کرے گا کہ جب دستوری طور پر تمہیں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے تو پھر تمہیں قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا سمجھتے ہوئے ان کی اطاعت کا کیا حقی رہتا ہے تمہاری بیگستاخی کسی قیمت پر برداشت نہیں کی جاسکتی.اسلام اور دل آزاری چونکہ ولآزاری کا یہ عذر اسلام کے نام پر تراشا جا رہا ہے اس لئے آئیے ہم دلآزاری کے بارہ میں اسلامی تعلیم کا عمومی نظر سے جائزہ لیتے ہیں کہ یہ ولا زاری ہے کیا چیز قرآن اور سنت اس پر کیا روشنی ڈال رہے ہیں اور دل آزاری کی کیا حدود تجویز کی گئی ہیں.اس مطالعہ سے پہلی حقیقت جو نمایاں طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک غیر مذاہب کا اسلامی اعتقادات اور اعمالِ صالحہ میں شریک ہونا ایک قابل تعریف فعل قرار پاتا ہے نہ کہ قابل مذقت و دلآزاری.چنانچہ قرآن کریم اہل کتاب کو مخاطب

Page 13

۱۵ کرتے ہوئے اشتراک عمل کی یہ دعوت عام دیتا ہے :- قُلْ يَاهْلَ الْكِتُبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ (ال عمران : ۶۵) یعنی (اے محمد) تو کہ دے کہ اسے اہل کتاب ! اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان قدر مشترک ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور ائیں اور ہم میں سے بعض بعض کو خدا کے سوا کسی کو اس کا شریک نو ارباب نہ بنائیں.غرضیکہ اسلام کا حوصلہ تو اتنا وسیع ہے کہ وہ لوگ ملانے پر فخر کرتے ہیں ن خود دعوت ہے اہل کو بھی ایک عقائد اور نیک عمل میں اشتراک عمل کی خو دعوت دیتا ہے کجا یہ کہ اہل اسلام کو اس مشتعل ہونے کی تلقین کرے.پس دل آزاری کا جو تصور قرآن کریم میں ملتا ہے وہ اشتراک عقیدہ اور اشتراک عمل سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ کچھ اور چیز ہے.چنانچہ قرآن کریم منافقین کی طرف سے مسلسل کی جانئے الی دل آزاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے :- فَإذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُمْ بِالْسِنَةٍ حِدَادٍ اشْعَةً عَلَى الْخَيْرُ أُولَئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرًا (الاحزاب : ۲۰) ترجمہ: پھر جب خوف کا وقت جانا رہتا ہے تو وہ تم پر تلواروں کی طرح کاٹنے والی زبانیں چلاتے ہیں.وہ بھلائی کے معاملہ میں سخت بخیل ہیں (یعنی تم ان سے کوئی اچھی بات نہیں سنو گے اور اچھا عمل نہیں دیکھو گے ، یہی وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لائے پس اللہ نے ان کے اعمال کو ضائع فرما دیا اور یہ اللہ کے لئے آسان بات ہے.

Page 14

14 اِس آیت کریمہ پر غور کرنے سے جہاں والآزاری کا مفہوم سمجھ آجاتا ہے وہاں یہ نکتہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی واقعی دل آزاری کا مرتکب ہو تو اسلام اس کی کیا سزا تجویز کرتا ہے.یہ قابلِ غور امر ہے کہ اتنی شدید دل آزاری کی سوائے اس کے کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی کہ اللہ تعالیٰ دلآزاری کرنے والوں کے اعمال کو ضائع کر دے گا.گویا جہاں تک واضح مسلمہ دل آزاری کا تعلق ہے وہاں بھی تعزیر کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور مسلمانوں کو مقابل پر دل آزاری کی تلقین بھی نہیں کی.ہاں بعض دیگر آیات پر غور کرنے سے اس حد تک جوابی کارروائی کا جواز ضرور ملتا ہے کہ جزر ا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ( الشورى : (۲۱) که بدى كاولیا ہی بدلہ لیا جا سکتا ہے جیسی ہدی ہو لیکن یہ حق صرف مسلمانوں کو ہی نہیں دیتا کفار اور مشرکین کو بھی برابر دیتا ہے جیسا کہ فرمایا :- وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ (الانعام : ١٠٩) یعنی تم کسی کے معبودان باطلہ کوبھی گالی نہ دو ورنہ وہ بھی شمنی میں آکرلا علمی کی وجہ سے خدا کو گالیاں دینے لگیں گے.اس اصولی تعلیم کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ انسان کاری حتی تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی کسی کو گالی دے اور سخت کلامی کرے تو جواباً وہی سلوک اس سے کرو لیکن اس سے زیادہ نہیں لیکن اگر کوئی تمہارے نزدیک غیر ہو لیکن تمہاری اچھی باتوں کو پسند کرے اور ان کی نقل کرے تو اس دل آزاری کا سوائے اس کے اور کوئی بدلہ سوچانہیں جاسکتا کہ تم اسکی اچھی باتوں کی نقل کر کے اپنا بدلہ لے لو.مشر آن کریم پر غور کرتے ہوئے ایک ایسی ولآزاری کا بھی پتہ چلتا

Page 15

16 ہے جو مسلمانوں کی طرف سے کی جاتی ہے اور غیر اس دل آزاری کا نشانہ بنتے ہیں لیکن اس قسم کی دل آزاری کو تسلیم کرنے کے باوجود مسلمانوں کو نہ صرف بے قصور قرار دیا گیا ہے بلکہ اس ولآزاری کا اجر عطا کرنے کا وعدہ دیا گیا ہے.چنانچہ سورہ توبہ کی آیت ۲۱ اسے ثابت ہے کہ مسلمانوں کے چلنے پھرنے سے بھی کفار کی دل آزاری ہوتی تھی اور وہ غضب ناک ہو جاتے تھے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو چلنے پھرنے سے روکا نہیں گیا بلکہ اس بناء پر اجر کا وعدہ دیا گیا ہے.اس مثال پر غور سے صاف سمجھ آجاتا ہے کہ اگر کوئی اپنے بنیادی حقوق پر عمل کر رہا ہو اور اس سے کسی کی دل آزاری ہو تو ہر گز اس " دلآزاری کی وجہ سے کسی کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا.قرآن کریم کے بعد اسود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعل ہے کہ کبھی ایک موقع پر بھی اس بناء پر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم ناراض نہیں ہوئے کہ کوئی غیرمسلم اسلامی تعلیم پر کیوں عمل پیراہے میں نہیں بلکہ گلی گلی مخالفانہ دلآزاری پر بھی آپ نے جو عظیم صبر اور کفو کانمونہ دکھایا وہ عدیم المثال ہے.چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول جیسے بد زبان رئیس المنافقین نے جب ایک غزوہ کے دوران آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید دل آزاری کی تو انہوں نے خود کا انتقام لینا تو درکنار اپنے اُن معشاق کو بھی جو اس بد زبانی پر سخت مشتعل ہو چکے تھے تعزیری کارروائی سے سختی سے روک دیا یہاں تک کہ اس کے اپنے بیٹے نے بھی جب اجازت چاہی کہ وہ اس گستاخی پر اپنے باپ کو سزا دے تو آپ نے یہ اجازت نہ دی بخفو اور درگذر اور الطاف کریمانہ کی حد یہ ہے کہ جب بھی گستاخ فوت ہوا تو صحابہ نے کے مشورہ کے برخلاف خود اس کی نماز جنازہ پڑھائی.یہ ہے سنت رسول کی روشنی میں دلآزاری کا تصور اور اس پر جوابی کارروائی کی تعلیم.ہے کوئی دنیا میں جو اس شان کا اسوہ اور اس حوصلہ

Page 16

کی کوئی مثال دکھا سکے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدُ مجِيدٌ جہاں تک عقائد میں ولآزاری کا تعلق ہے انور صلی الہ علیہ وسلم کی سعت قلبی کا یہ حال تھا کہ اپنے سے کہیں کوئی نبیوں کے ماننے والوں کو تو یہ اجازت دے رکھی تھی کہ وہ بیشک اپنے انبیاء کو آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل سمجھتے رہیں لیکن جب مسلمانوں نے آنحضور صلی لہ علیہ سلم کی فضیلت پر اصرار کیا اور غیروں نے شکایت کی کہ اس سے ہماری دل آزاری ہوتی ہے تو فرمایا :- الله علم alism لا تُفضّلُونِي عَلى يُون يُوْنَسَ : راسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا :- لَا تُفَضِّلُوْنَى عَلَى مُوسى یعنی اسے مسلمانو اگر غیروں کی دلآزاری ہوتی ہو تو ان سے مباحثہ کے دوران اس بات پر اصرار نہ کیا کرو کہ میں یونس سے افضل ہوں یا مونٹی سے افضل ہوں حالانکہ یونس اور موسی کا کیا سوال آپ تو کل انبیاء سے افضل تھے اور ہیں اور رہیں گے.ایک طرف تو یہ اُسوہ نہوتی ہے کہ کم مرتبہ نبیوں کے متبعین کو یہ اجازت دی جا رہی ہے کہ اپنے انبیاء کو خاتم الانبیاء سے افضل سمجھیں اور افضل قرار دیں اور ایک طرف آجکل جو مذہبی دلآزاری کا تصور پیش کیا جارہا ہے اس کی رو سے احمدی اگر یہ عقیدہ بھی رکھیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور امتی تھے اور ہر شرف اور مرتبہ اور عزت محض اسی غلامی کے نتیجہ میں آپ کو عطا ہوئے تو مسلمانوں کی اِس اعلان پر شدید دل آزاری ہوا ور ایسا اشتعال پیدا ہو کہ حد برداشت سے باہر ہو جائے.گویا ایک ہندو کا یہ اعلان کہ کرشن ، آنحضور صلی اللہ

Page 17

۱۹ علیہ وسلم سے ہر پہلو سے افضل ہے کیونکہ وہ مظہر خدا ہی نہیں بلکہ محبتم خدا تھا.اور ایک عیسائی کا یہ اعلان کہ عیسی ہر طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہے کیونکہ وہ ایک انسان پیغمبر ہیں بلکہ حقیقت خدا کا بیٹا تھا مسلمانو کی اونٹی ولآزاری کا موجب بھی نہ بنے لیکن بانی سلسلہ احمدیہ کا یہ اعلان ان کو سخت غضب ناک کر دے کہ وہ پیشیوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے و سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا یکیں اسی کی اس نے حق دکھایا وہ راہنما یہی ہے راہی سے مکالمہ کھاکر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے مخاطبہ کیا اور پھر اسمعیل سے اور آئی سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور مونٹی سے اور بیح ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہم کلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور سب سے زیادہ پاک وحی نازل کی.ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا ہے مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا ہے.اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں ہرگز کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ کا نہ پاتا “ (تجلیات الهیه) آب ہم اس مسئلہ کے اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ اگر کوئی غیرمسلم جو قرآن وسنت پر ایمان

Page 18

ن رکھتا ہو مثلاً عیسائی ہویا سکھ ہو قرآنی تعلیم کو پسند کرنے لگے تو قرآن و سنت کے کس حکم کی رُو سے اسے اس پر عمل پیرا ہونے سے روکا جاسکتا ہے ؟ اگر روکا جاسکتا ہے تو کیا آوا مرو نواہی دونوں پر عمل پیرا ہونے سے روکا جائے گا یا صرف ایک سے.مثلاً قرآن کریم فرماتا ہے ایک خدا کی عبادت کرو ، مسجدیں بناؤ، پتے بولو، صبر سے کام لو حلم افت پیار کرو ، انکساری کو اپناؤ، لوگوں پر رحم کرو.یہ سب آؤ امر ہیں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں کیا ان سب پر عمل پیرا نے سے ایک غیر مسلم کو روکی بند و بعضی عمل سے روکا جائیگا جائے گا.اگر بلکہ تو کس قرآنی حکم کے تابع ایسا کیا جائے گا؟ ہے اگر کوئی یہ موقف اختیار کرے کہ ان سر کرنے سے نہیں رو کا سجائے گا بلکہ وہ نیکیاں جن کا بندوں اور انسانی معاملات سے تعلق ہے ان پر عمل کرنے کی اجازت ہو گی لیکن ان نیکیوں سے بہر حال روک دیا جائے گا جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہے اور جن کو حقوق اللہ کہا جاتا ہے یا عبادت کہتے ہیں مثلاً اذان، نماز، سجدہ ، رکوع ، ذکر الہی، نماز تجد ، روزہ وغیرہ یہ سب عبادات ہیں اور اسلامی اصطلاحات میں بیان ہوئی ہیں.گویا ایک اسلامی مملکت میں یہ تو اجازت ہوگی کہ جہاں تک قرآن کریم میں بندوں کے حقوق مذکور ہیں ان پر تو ہر غیرمسلم عمل کر سکتا ہے لیکن جہاں تک خدا کے حقوق کا تعلق ہے کسی غیر مسلم کو وہ حقوق ادا کرنے کی اجازت نہ ہوگی.اگر ایسا ہو تو کیا کسی غیر مسلم کو یہ پوچھنے کا بھی حق دیا جائے گا یا نہیں کہ قرآن کریم و سنت سے کہاں ثابت ہے کہ غیر مسلم کو حقوق اللہ ادا کرنے کی اجازت نہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق پر عبادت کرنے کا حق نہیں، نیز اس صورت میں قرآن و حدیث کی رو سے اس جرم کے مرتکب کی کیا سزائیں تجویز کی گئی ہیں لیکن یہ سب سوالات تو تب اُٹھیں گے جب غیر مسلم کو یہ پوچھنے کا ستی دیا جائے.

Page 19

M جس زمانہ میں پنجاب میں طوائف الملوکی تھی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کو ابھی کوئی نظم ونبط اور قانون نافذ کرنے کا موقع نہیں ملا تھا تو ایسے واقعات تو سامنے آتے تھے کہ کسی مسلمان کو اس جرم میں چھرا گھونپ دیا گیا کہ اس نے اذان دی تھی.نیرنگ زمانہ خدا نہ کرے اسلام کو یہ دن بھی دیکھنے پڑیں کہ اذان دینے کے جرم میں مسلمان نظیر مسلموں کو چھرا گھونپ رہے ہوں.اگر ایسا ہوا تو سکھوں کے تاثرات دیکھنے کے لائق ہوں گے.می مالی تعار کے مسئلہ کا کسی قدر تفصیل سے جائزہ آئیے اب ہم اسلامی ! ت پر لیتے ہیں.سب سے پہلے قابل غور امر یہ ہے کہ مینہ کیس کے مالکانہ حقوق ہیں اور قرآن کریم کہاں غیر مسلموں کو ان اصلان و سنت کی رو سے سے روکتا ہے اور اس جرم کی سزائیں تجویز کرتا ہے.اگر روکتا ہے تو کس کس کو روکتا ہے.کیا اسے بھی روکتا ہے جو قرآن کریم کو واجب الاطاعت یقین کرتا ہو لیکن بعض دوسرے فرقوں کے نزدیک پکا کا فر ہو بلکہ کافروں سے بھی بدتر ہو.بلکہ اسے کافر کہنے سے دوسرے کافروں کی ہنگ ہوتی ہو.اگر روکتا ہے تو اس امر کا فیصلہ کس پر چھوڑتا ہے.عوام کی عددی اکثریت پر یا علماء پر.اگر علماء پر چھوڑتا ہے تو ہر فرقہ کے علماء یا بعض پر.نیز اس پر بھی غور فرمایا جائے کہ اگری ثابت ہو جائے کہ ہر فرقہ کے مسلم مستند علماء نے ہر دوسرے فرقہ کے بارہ میں یہ واضح فتوی دے رکھا ہے کہ وہ قرآن و سنت کو واجب الاطاعت ماننے کے باوجو د پکتے کا فر ہیں بلکہ دیگر کافروں اور مشرکوں سے بھی بدتر ہیں تو اس صورت میں کس فرقہ کے علماء کا فتوی نافذ العمل ہوگا اور کس کا نہیں.اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لازما قرآن و سنت سے سند پیش کرنی پڑے گی.

Page 20

۲۲ اگر جھگڑا نپٹانے کی خاطر تسلیم کرلیا جائے کہ ہر فرقہ کے علماء کو قرآن کریم بی حتی دیتا ہے اور کوئی تفریق نہیں کرتا تو پھر یہ بھی ماننا لازم ہو گا کہ اس صورت میں کسی مسلمان فرقہ کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اسلامی اصطلاحات استعمال کرے بغیرمسلم کو تو ویسے ہی حتی نہیں مسلمان کہلانے والے کو اس لئے نہیں کہ مسلمان کہلانے کے باوجود دیگر فرقوں کے علماء اسے پکا کافر بلکہ کافروں یا مشرکوں سے بد تر قرار دے چکے ہیں.بر حال خواہ غیر مسلم کو اسلامی اصطلاح کے استعمال سے روکا جائے یا سلم کو یہ حقیقت تو اپنی جگہ رہے گی کہ مذہبی اصطلاح تو کسی مذہب کی کتاب اور واجب الاطاعت رسول ہی بنا سکتے ہیں ہیں وہ سب لوگ جو قرآن و سنت کو واجب الاطاعت یقین کرتے ہیں و کون ایجاد کرے گا یہ اصطلاحات سے روکا جائے گا تو ان کی ہیں اور اُن خود ساختہ اصطلاحوں کو مانے پر انہیں کسی فرمان الہی کے مطابق مجبور کیا جائے گا.خواہ آپ کسی کو مسلم کہیں یا غیر مسلم کا فر یا غیر کا فر قرآن کریم پر ایمان لانے سے تو آپ کسی قیمت پر اسے روک نہیں سکتے.خود قرآن کریم یہ حتی اسے دے رہا ہے.فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الكهف : ٣٠) ترجمہ :.پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے.لا إكراه في الدِّينِ (البقرة : ۲۵۷) ترجمہ : دین میں کوئی جبر نہیں.فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عليها (یونس : ۱۰۹) ترجمہ : جو کوئی ہدایت اختیار کرے تو خود اپنے لئے ہی ہدایت کا سامان کرتا

Page 21

۲۳ ہے اور جو کوئی گمراہی اختیار کرے تو خود اپنے مفاد کے خلاف گمراہی اختیار کرتا ہے.قرآن کریم کے اس گھلے کھلے اعلان کے بعد قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے آپ کسی کو روکیں گے کیے، بلکہ اگر یہ ارشادات نہ بھی ہوتے تب بھی کسی کو کسی کتاب یارسول پر ایمان لانے سے روکنے کا تو کسی انسان کو اختیار ہی کوئی نہیں جب ایمان لانے سے نہیں روکا جاسکتا تو اس ایمان کے مطابق عملدرآمد سے روکنا کیا بوالعبی ہے ؟ اسلامی شعائر“ اپنی ذات میں ایسے شعائر نہیں اسلامی شعائر اگر غیر بھی اپنا میں تو ج نہیں پانے سے خود باشد اسلام کی توہین ہو کسی مسلمان کی دل آزاری نہیں ہو سکتی یا کسی کے لئے باعث دلآزاری ہوں.جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو قرآنی شریعت پر ایمان نہیں لاتے حق یہ ہے کہ ایسے غیر سم بھی اگر اسلام کی حسین تعلیم سے متاثر ہو کر اس کے کسی حصہ پر عمل کرنے کا فیصلہ کریں تو کون ہے جو ان کو اس نیک اقدام سے روک سکتا ہے.پس اگر کوئی غیر مسلم اسلامی تعلیم کے سب پہلو یا ان میں سے چند ایک اپناتا ہے تو یہ امر ایک سچے مسلمان کے لئے باعث مسرت ہونا چاہیے نہ کہ باعث دلآزاری معمولی تریر سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ایک مذہب کے شعائر دوسرے مذہب والوں کے اپنانے سے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکنے کا احتمال ہو تو سب سے پہلے اس قسم کا مطالبہ سیو دی پیش کرتے جو مسلمانوں کے دل و جان سے دشمن تھے اور ہیں.کیا یہ حقیقت نہیں که ختنہ کرانا حلال گوشت کھانا، داڑھی رکھنا، یہودی مذہب کے شعائر تھے اور ہیں جنہیں مسلمانوں نے بھی اپنا لیا.اس مجوزہ مطالبہ کو بنیاد بنا کر اگر اسرائیل میں مجبور اور مقصور مسلمانوں کو قانونا منع کر دیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کا ختنہ نہ کرائیں، حلال گوشت نہ کھائیں تو کیا ایسے ظالمانہ

Page 22

۲۴ قانون پر دنیائے اسلام تڑپ نہ اُٹھے گی.پس اس قسم کے مطالبوں ، سوچوں، یا فیصلوں سے اسلام کی ہرگز کوئی خدمت نہیں ہوسکتی بلکہ خطرناک رجحانات کے دروازے کھلتے ہیں.اصطلاحات جن کے استعمال سے زیر نظر طلبہ میں کیاگیا ہے کہ نبی، رسول، صحابی، أم المؤمنين ، اہل بیت علیہ السلام رضی اللہ عنہ ، مبینہ طور پر دل آزاری ہوتی ہے مسجد اور اذان وغیرہ صرف اور صرف مسلمانوں کیلئے ختص ں ہیں.نہایت ادب سے گزارش ہے کہ فی الحقیقت ایسا نہیں.نبی، رسول، کی اصطلاحات وہ نہ تو اور نہ اسلام کو سچا مذہب کرتے نا عام استعمال کرتے ہیں اشاعت پر ایمان ہی نہیں رکھتے.لیکن احمدی تو قرآن و سنت کے سوا کسی علیہ السلام ایک دعا ہے اور یہ کہنا کہ یہ صرف انبیاء کرام ہی کے لئے مخصوص ہے اِس لئے درست نہیں کہ نماز کے دوران بے عمل مسلمان التحیات میں بیٹھ کر السّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِيُّ....السّلامُ عَلَيْنَا پڑھتا ہے.گویا اپنے آپ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دُعا میں شریک کر لیتا ہے کہ اسے رسول آپ پر بھی سلامتی اور ہم پر بھی سلامتی ہو.شیعہ اپنے غیر نبی ائمہ کے لئے عَلَيْهِمُ السّلام کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں.اسیطرح اسلامی کتب میں اور بھی مثالیں ملتی ہیں کہ غیر انبیاء کے لئے " علیہ السلام" لکھا گیا ہے.مثلاً مولانا اسمعیل شہید علیه السلام (خطبه امارت ص۱۳) حضرت ابوطالب علیہ السلام " چودہ ستا سے مت (مولفه مولوی نجم الحسن کراروی پیشاور) انوار اصفیاء مشا اور ص۳۲.علاوہ ازیں سرور عزیزی ترجمہ فتاوی عزیزی جلد را مثلا پر حضرت مولوی عبد الحی صاحب فرنگی محلی نے لکھا ہے کہ علیہ السلام" کا لفظ قرآن و حدیث کی رو سے غیر انبیاء کے لئے ثابت ہے.جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے ان کو تو بدرجہ اولیٰ اس کے استعمال کا حق ہے کیونکہ وہ

Page 23

۲۵ تو اپنے مطالع حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو غیر شرعی افتی نبی تسلیم کرتے ہیں اور ان کا یہ حق آئینی قرار داد میں تسلیم کیا گیا ہے اس لئے احمدیوں کو تو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ علیہ السلام کی اصطلاح استعمال کریں.جب نبی ماننے کا حق ہے اور نہ ماننے والوں کی دل آزاری نہیں ہو گی تو جس کو نبی مانتے ہیں اُس کے لئے علیہ السلام کی دعا کا کیوں حتی نہیں قبول کرنا یا نہ کرنا صرف خدا کا کام ہے کسی دعا سے کسی کی دل آزاری کیسے ہو سکتی ہے.یہ عجیب عالم ہے کہ ایک طرف تو اپنے بزرگوں کو نہ سمجھتے ہوئے بھی ان کے لئے اس دعا کی اجازت نہیں جو نبیوں برنلیوں کے لئے بھی کی جاتی ہے اور دوسری طرف دوسروں کے بزرگوں کو گالیاں دینے کا حق بھی موجود ہے اور کسی کی دل آزاری اس سے نہیں ہوتی یا شاید دل آزاری کیلئے اکثریت اور اقلیت کے پیمانے الگ الگ ہیں.اگر ایسا ہی ہے تو قرآن و سنت میں کہاں یہ ذکر کتا ہے ؟ صحابی :- لفظ صحابی کا جہاں تک تعلق ہے یہ لفظ صحابی یا اصحاب بلاشبہ ان خوش بخت بزرگان کے متعلق بھی بولا جاتا ہے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی با برکت محبت پائی.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لفظ صرف اسی معنی تک محدود ہے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت مسلمہ میں ظاہر ہونے والے مسیح کے ساتھیوں کے لئے اصحاب، کا لفظ اختیار فرمایا.دیکھئے حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم جلد ۲ ۲۲۵۲۵ طبع بیروت جہاں یہ الفاظ آتے ہیں عِيسَى نَبِيُّ الله وَاصْحَابُهُ - پھر قرآن کریم کے مطالعہ سے اس لفظ کے عمومی استعمال کی بہت سی مثالیں سامنے آتی ہیں مثلاً اصحاب الكهف ، اصحاب الفيل ، اصحاب الاخدود ، اصحاب مدین وغیرہ.بہت سے مقامات پر یہ لفظ اصحاب الجنة، اصحاب اليمين، اصحاب الشمال

Page 24

۲۶ اصحاب القبوس کی اضافت سے استعمال ہوا ہے.صحابی یا اصحاب کے لفظ کا بیکلی مفہوم اپنے مضاف الیہ کے ساتھ ہی مل کر ادا ہوتا ہے.حضرت جعفر صادق کے ساتھیوں کو اصحابی کھا گیا (بحوالہ چودہ ستارے منا.شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنے ساتھیوں کے تعلق ۲۵۶ فرمایا الهَمَ بَعْضَ اصْحَابَنَا ) الدر الثمين في مبشرات النبي الامين ص ) احمدی چونکہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی آمد کو حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی تسنیم کرتے ہیں اس لئے ان کے ساتھیوں کے لئے صحابہ کا لفظ استعمال کرنا اسلامی تعلیمات اور احمدیہ عقیدے کے مطابق ان کے لئے لازمی ہے اور انہیں ہر گز اپنے عقیدے کے خلاف عمل پر مجبور نہیں کیا جا سکتا.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ اصطلاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُم المؤمنین : کی ازواج مطہرات کے لئے استعمال ہوتی ہے لیکن باہیں ہمہ اس لفظ کا استعمال دیگر بزرگ خواتین کے لئے بھی اسلامی لٹریچر سے ثابت ہے مثلا کتاب موسوعہ اصطلاحات العلوم الاسلامیہ" مصنفه شیخ محمد علی بن علی تھانوی ، مطبوعہ بیروت میں اس اصطلاح کے عام استعمال کی بابت مفید بحث موجود ہے.اسی طرح حضرت پیران پیر کی والدہ ماجدہ کے بارے میں ”اُم المؤمنین " کا لفظ استعمال ہوا ہے.ملاحظہ ہو کتاب ” گلدستہ کرامات ما اردو ترجمه کتاب "تذکره خوشیه از حضرت شیخ محمد صادق الشيباني ) نیز کتاب "بئر الأولياء " مصنفه حضرت سید محمد بن مبارک کرمانی میں مذکور ہے کہ حضرت خواجہ فرید الدین شکر گنجے پنے خلیفہ حضرت جمال الدین ہانسوی کی ایک خادمہ اور کنیز کو ام المؤمنین کہا کرتے تھے.خود پاکستان میں مادر ملت " جو ام المؤمنین کی ہی فارسی شکل ہے استعمال ہوتا ہے لیکن یہ بحث اس وضاحت کے بغیر نامکمل رہے گی کہ جب احمد کی اُم المؤمنین کی اصطلاح حضرت مرزا

Page 25

۲۷ غلام احمد علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ کے لئے استعمال کرتا ہے تو کوئی معقول انسان اس کا یہ مفہوم نہیں لیتا کہ اُس کی مراد یہ ہے کہ جو لوگ حضرت مرزا غلام احمدعلیہ السلام کے منکرین میں شامل ہیں نعوذ باللہ حضرت ام المؤمنین، اُن کی بھی رُوحانی والدہ ہیں.احمدی تو انہیں محض حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام پر ایمان لانے والوں یعینی احمدیوں کی روحانی ماں کہتے ہیں آپ کا انکار کرنے والوں کی روحانی ماں تو نہیں کہتے.اس بات سے کسی کی دل آزاری جائے تعجب نہیں تو کیا ہے ؟ مسجد و اذان کا لفظ صرف مسلمانوں کے لئے مختص نہیں خود خندا مسجد اذان : تعالیٰ نے عیسائی عبادت گاہوں کو قرآن کریم میں مسجد کا نام و جس ہے اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک غیر مسلم لڑکے سے اذان و کار حدیث کی کتاب ” ابو داؤد " کتاب الاذان میں ملتا ہے کہ غزوہ حنین سے واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کا فر کو اذان سکھلائی اور اذان دینے کا ارشاد فرمایا اور جب اسنے خوش الحانی سے اذان دی تو حضور نے اسے انعام عطا فرمایا.اس شخص کا نام " ابو محذورہ “ تھا جو بعد میں مسلمان ہو گیا.یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستانی عیسائی، ہندو یا پارسی اسلام کو سچا مذہب تصور نہیں کرتے اس لئے وہ اسلامی شعائر اپنانے میں کوئی فخر محسوس نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی نجات عیسائیت یا ہندومت و غیرہ میں ہی ہے.احمدی جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے اسلام پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دعوای کو سچا ماننے کو بھی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سمجھتے ہیں.وہ اپنی اخلاقی اور روحانی ترقیوں کا موجب اپنے اس عقیدہ کو سمجھتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نجات اس عقیدے سے ہی ہے.ان کی

Page 26

۲۸ عبادات وہی ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں.قرآن و سنت کو اپنے لئے واجب الاطاعت یقین رکھتے ہوئے وہ شرعاً مختار ہی نہیں کہ قرآن و سنت کی مصطلحات کے علاوہ کوئی اور مصطلحات استعمال کریں جو ان کے عقیدے کے صریح خلاف ہوں.پس جب تک زبر دستی ان کو اس امر پر مجبور نہ کیا جائے کہ وہ قرآن و سنت کو نعوذ باللہ جھوٹ اور افتراء یقین کریں جس طرح یہود اور عیسائی اور ہند و یقین کرتے ہیں ان کو قرآن و سنت پر عمل سے روکنے کا org کسی کو اختیار نہیں.خو ف ورزی کرتے ہیں اس لئے مستوجب سزا ہیں عن کیا گیا ہے کہ احمدی دل و جان سے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو واجب الاطاعت یقین کرتے ہیں اور اپنے عقیب رہ اور ایمان کی رو سے قرآنی شریعت پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ان کا ایمان ہے اس لئے ان کے اس مذہب کا نام آپ جو چا نہیں رکھیں دستور کے آرٹیکل ۲ مذکورہ کے تحت احمدی کو یہ حق حاصل ہے کہ جس مذہب پر وہ یقین رکھتے ہیں اُس پر آزادی سے عمل پیرا ہوں.احمدی اپنے آپ کو اپنے منہ سے اغیرمسلم نہیں کہ سکتے.وہ صرف ایسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ احمدی نعوذ باللہ اسلام کو ایک جھوٹا مذہب سمجھیں.ملکی تا نون انہیں اجازت دیتا ہے کہ احمدی آئینی ترمیم کے سبب غیر مسلموں کے ساتھ اپنا ووٹ بنوائیں لیکن احمدیوں نے ایسا نہیں کیا محض خدا کی خوشنودی کی خاطر اپنے آپ کو اس آئینی حق سے بخوشی محروم کر لیا.پس اگر اسلام اور توحید اور رسالت سے انکار کی بجائے احمدیوں نے اپنے شہری حقوق سے محرومی کو قبول کر لیا تو اسے قانون شکنی قرار دینا اسی کو زیب دیتا ہے جیسے قانون کی الف ب سے بھی واقفیت نہ ہو.مزید برآں اگر کوئی اپنے بنیادی انسانی اور آئینی حق سے محض

Page 27

۲۹ اس لئے محروم رہنے پر مجبور کیا جارہا ہو کہ وہ اپنے ایمان اور عقیدہ کے خلاف اقرار نہیں کرتا تو یہ اس کے لئے ایک سخت سزا ہے جو اسے پہنے بولنے کے جرم میں دی جارہی ہے اس سزا کو مجرم قرار دے کر اس کے لئے ایک نئی سزا کا مطالبہ کرنا انسانی نا انصافیوں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر رہا ہے.اس باب کو روشن کہیں یا سخت تاریک سمجھیں یہ فیصلہ بھی زاویہ نظر کے بدلنے سے بدل جاتا ہے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ایک مسلمان کے زاویہ سے دیکھا جائے تو کیا نتیجہ نکلے گا.احمدی اپنے آپ کو خود غیرمسلم کیوں نہیں تسلیم کرتے اس لئے کہ وہ اس بارہ میں بالکل بے نیا ہیں.اگر کسی جمہوری اکثریت کو یہ حق حاصل ہے کہ کیسی جمہوری اقلیت کے مذہب کا نام تجویز کرے تو اس اقلیت کو یہ حق کیوں نہیں کہ خود اپنا نام اپنے عقائد کے مطابق رکھے لیکن جمہوری تقاضوں سے قطع نظر بھی اس معاملے میں احمدیوں کے لئے کوئی اختیار نہیں ہے.جیتک وہ قرآن کریم کو جھٹلائیں نہیں وہ لازماً اس نام کو تبدیل کرنے کا حق نہیں رکھتے جو قرآن کریم خود اپنے ماننے والوں کو عطا کرتا ہے.پس جب تک کوئی ایسا قانون کسی ملک میں نافذ نہ کیا جائے کہ ملکی دستور جس شخص کو غیر مسلم قرار دیتا ہے اسے اس حق سے بھی محروم کرتا ہے کہ قرآن کریم کو کلام الہی یقین کرے اور آخری واجب الاطاعت شریعت قرار دے.اسے اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ خود ہی اپنی واجب الاطاعت شریعیت کی صریح خلاف ورزی کرے.پس اگر اکثریت کو یہ حق حاصل ہے کہ احمدی کو اس کے عقیدے کے خلاف کچھ قرار دے تو احمدی کو بدرجہ اولیٰ یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے آپ کو وہی قرار دے جو اس کا عقیدہ ہے.اسے قانون شکنی قرار دینا تسخر نہیں تو اور کیا ہے ؟

Page 27