Language: UR
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء کو حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے لاہور میں ایک جلسہ کر کے اور قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورہ نکال کر بعد دعا چالیس آیات کے حقائق اور معارف فصیح و بلیغ عربی میں سات گھنٹے کے اندر لکھنے کے لیے تمام علماء کو عموماً اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو خصوصاً دعوت دی تھی۔ مگر کسی نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا اور نہ ہی پیر مہر علی شاہ صاحب نے اس اعجازی مقابلہ یعنی بالمقابل قرآنی آیات کی فصیح بلیغ عربی میں تفسیر لکھنے کی دعوت قبول کی تھی۔ لیکن بغیر اطلاع دیئے لاہور پہنچ کر اور مباحثہ کی شرط لگا کر اس نے لوگوں کو یہ دھوکا دیا تھا کہ گویا وہ بالمقابل تفسیر لکھنے کے لیے تیار ہیں۔ جب اُن کے مریدوں نے ہر جگہ ان کی جھوٹی فتح کا نقّارہ بجایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گندی گالیاں دیں اور یہ مشہور کیا کہ پیر صاحب تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لیے تیار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لے گئے تھے لیکن خود دعوت دینے والے لاہور نہ پہنچے اور بھاگ گئے اس لیے آپؑ نے اپنے اشتہار ۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء مندرجہ اربعین نمبر۴ میں بالقاء ربّانی تفسیر لکھنے کے لیے ایک اور تجویز پیش کی۔ اِس اعلان کے مطابق اللہ تعالی کے فضل اور اس کی خاص تائید سے حضرت اقدس علیہ السلام نے مدت معیّنہ کے اندر ۲۳؍فروری ۱۹۰۱ء کو ’اعجاز المسیح‘ کے نام سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورہ فاتحہ کی تفسیر شائع کر دی۔ اور اس تفسیر کے لکھنے کی غرض یہ بیان فرمائی کہ تا پیر مہر علی شاہ صاحب کا جھوٹ ظاہر ہو کہ وہ قرآن مجید کا علم رکھتا ہے اور چشمۂ عرفان سے پینے والا اور صاحب خوراک و کرامات ہے۔ مگر پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو اپنے گھر بیٹھ کر بھی بالمقابل تفسیر لکھنے کی جراٴت نہ ہوئی اور اپنی خاموشی سے اعتراف شکست کرتے ہوئے اپنے جاہل اور کاذب ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے باعلامِ الہی اپنی اس تفسیر کے متعلق لکھا کہ اگر ان کے علماء اور حکماء اور فقہاء اور ان کے باپ اور بیٹے متفق اور ایک دوسرے کے معاون ہو کر اتنی قلیل مدت میں اس تفسیر کی مثل لانا چاہیں تو وہ ہرگز نہیں لا سکیں گے۔ <div class="container mt-2"> اس عربی تصنیف کا اُردو زبان میں ترجمہ افادہٴ عام کے لئے شائع کیا گیا ہے۔ اس میں عربی متن اور اس کا اُردو ترجمہ بالمقابل دیا گیا ہے تاکہ پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔ </div>
اردو ترجمه اعجاز المسيح تصنیف لطیف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام
اعجاز المسيح مع اردو ترجمه
نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود پیش لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ء کو حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لئے لا ہور میں ایک جلسہ کر کے اور قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکال کر بعد دعا چالیس آیات کے حقائق اور معارف فصیح و بلیغ عربی میں سات گھنٹے کے اندر لکھنے کے لئے تمام علماء کو عموماً اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو خصوصاً دعوت دی تھی.مگر کسی نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا اور نہ ہی پیر مہر علی شاہ صاحب نے اس اعجازی مقابلہ یعنی بالمقابل قرآنی آیات کی فصیح بلیغ عربی میں تفسیر لکھنے کی دعوت قبول کی تھی.لیکن بغیر اطلاع دیئے لاہور پہنچ کر اور مباحثہ کی شرط لگا کر اُس نے لوگوں کو یہ دھوکا دیا تھا کہ گویا وہ بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے تیار ہیں.جب اُن کے مریدوں نے ہر جگہ ان کی جھوٹی فتح کا نقارہ بجایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گندی گالیاں دیں اور یہ مشہور کیا کہ پیر صاحب تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے تیار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لے گئے تھے لیکن خود دعوت دینے والے لا ہور نہ پہنچے اور بھاگ گئے اس لئے آپ نے اپنے اشتہار ۱۵ / دسمبر ۱۹۰۰ء مندرجہ اربعین نمبر ہم میں بالقاء ربانی تفسیر لکھنے کے لئے ایک اور تجویز پیش کی.آپ نے فرمایا: اگر پیر جی صاحب حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیں کیا.تو اب بھی وہی قدرت اُن میں ضرور موجود ہو گی.لہذا میں ان کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اسی میری درخواست کو اس رنگ پر پورا کر دیں کہ میرے دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھیں جو چارجز سے کم نہ
ہو اور میں اسی سورۃ کی تفسیر بفضل اللہ وقومتہ اپنے دعوئی کے اثبات سے متعلق فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا.انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیر میں تمام دنیا کے علماء سے مدد لے لیں.عرب کے بلغاء فصحاء بلا لیں.لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لئے طلب کر لیں.۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء سے سترہ دن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہو گا.اگر بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب ان کی تفسیر کو جامع لوازم بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پُر خیال کریں تو میں پانسور و پیہ نقدان کو دوں گا اور تمام اپنی کتا بیں جلا دوں گا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا اور اگر قضیہ برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی ستر روز تک وہ کچھ بھی نہ لکھ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش.صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسے انہوں نے پیر کہلا کر قابل شرم جھوٹ بولا.“ نیز فرمایا:.66 ( اربعین نمبر۴ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ حاشیه صفحه ۴۵۰،۴۴۹ ) ”ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور محمد حسن بھیں وغیرہ کو بلا لیں بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں.فریقین کی تفسیر چار جز سے کم نہیں ہونی چا ہے...او اگر میعاد مجوزہ تک یعنی ۱۵ار دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۲۵ فروری ۱۹۰۱ ء تک جو سترے دن ہیں فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا.اور اس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی.“ اربعین نمبر ۴ ، روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۴ ۴۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معینہ مدت کے مطابق تفسیر تحریر فرما کر شائع فرما دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پر معارف تفسیر کا نام "اعجاز المسیح “ ہے.احباب کے استفادہ کے لئے اس معرکۃ الآراء عربی تصنیف کا اردو تر جمہ بمعہ متن پیش ہے.
ٹائیٹل بار اول من سره ان يقر الفاتحة مع معارفها المخفية - وحقائقها الروحانية - فليقرء تفسيرنا هذا بالتدبر وصحة النية ولا يحس عن ساعده للمقابلة - نانه كتاب ليس له جواب - ومن قام الجواب وتنمر - فسوف يرى انسه تندم وتذمر - فطولي لمن همن ما اصطفيناه.واخذ ما أعطيناه - وما كان كالذي لبس الصفاقة.وخلم الصداقة - وهذا رد على الذين يجهلوننا ويصبغون التلبيس ويقولون ليس عندهم من علم بل عصبة من مغالیں.وانا اقررنا بات كتبنا كلما من حولِ الله ذي الجلال - وما نحن الا كالجمال - وان كتابی هذا بليغ - وفصيح ومليح واني سميته اعجاز المسيح وتدطبع في معيم ضياء الإسلام في سبعين يوما من شهر الصيام وكان من المهر است ومن شهر التصادي ۲۰ فرودی ست - مقام الطبع قادیان ضلع گورداسپوی باهتمام قیمت عمار الحكيم فضل دین البجھی سی.جلد..
اردو تر جمہ ٹائیٹل باراول جو شخص سورۃ فاتحہ کو اس کے مخفی معارف اور روحانی حقائق کے ساتھ پڑھنا پسند کرتا ہو تو اسے چاہیئے کہ ہماری اس تفسیر کو تدبر اور صحت نیت سے پڑھے.اور وہ مقابلہ کے لئے آستینیں نہ چڑھائے کیونکہ یہ ایک لاجواب کتاب ہے اور جو شخص اس کتاب کے جواب پر آمادہ ہوگا اور پلنگی دکھلائے گا وہ عنقریب دیکھے گا کہ اس کام سے نا مرادر ہا اور اپنے نفس کا ملامت گر ہوا.اور شرمندہ ہو گا.پس مبارک ہو اس شخص کے لئے جو ہمارے کلمات چنیدہ سے اپنا دامن بھر لیتا ہے اور جو ہم اسے عطا کریں اُسے حاصل کر لیتا ہے اور اس جیسا نہیں بنتا جس نے بے حیائی کا لبادہ اوڑھا اور صداقت کا پیراہن اتار پھینکا.یہ کتاب ان لوگوں کا رڈ ہے جو ہمیں جاہل قرار دیتے ہیں اور فریب کو رنگین بنا کر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی علم نہیں بلکہ مفلسوں کا گروہ ہے.ہاں ہمیں اقرار ہے کہ ہماری تمام کتابیں خدائے ذوالجلال ہی کی تائید سے ہیں وگرنہ ہم تو لا علموں کی طرح ہی ہیں.میری یہ کتاب انتہائی بلیغ فصیح اور عمدہ ہے اور میں نے اس کا نام الحان المسيح رکھا ہے.یه کتاب ماه رمضان ۱۳۱۸ھ بمطابق ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء کے آغاز سے ستر دنوں میں تیار ہو کر ضیاء الاسلام پریس میں شائع ہوئی.مقام طباعت قادیان ضلع گورداسپور باہتمام هم فضل دین بھیروی
اطلاع عام اطلاع کے لئے اردو میں لکھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ستر دن کے اندر ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء کو اس رسالہ کو اپنے فضل و کرم سے پورا کر دیا.سچ یہی ہے کہ یہ سب کچھ اس کے فضل سے ہوا.ان دنوں میں یہ عاجز کئی قسم کے امراض اور اعراض میں بھی مبتلا ہوا جس سے اندیشہ تھا کہ یہ کام پورا نہ ہو سکے کیونکہ باعث ہر روز کے ضعف اور حملہ مرض کے طبیعت اس لائق نہیں رہی تھی کہ قلم اٹھا سکے اور اگر صحت بھی رہتی تو خود مجھ میں کیا استعداد تھی.من آنم کہ من دانم.لیکن اخیر پر ان مراض بدنی کا بھید مجھے یہ معلوم ہوا کہ تا یہ جماعت بھی جو اس جگہ میرے دوستوں میں سے موجود ہیں یہ خیال نہ کریں کہ میری اپنی دماغی طاقتوں کا یہ نتیجہ ہے.سو اُس نے اُن عوارض اور موانع سے ثابت کر دیا کہ میرے دل اور دماغ کا یہ کام نہیں.اس خیال میں میرے مخالف سراسر پیچ پر ہیں کہ یہ اس شخص کا کام نہیں کوئی اور پوشیدہ طور پر اس کو مدددیتا ہے.سو میں گواہی دیتا ہوں کہ حقیقت میں ایک اور ہے جو مجھے مدد دیتا ہے لیکن وہ انسان نہیں بلکہ وہی قادر توانا ہے جس کے آستانہ پر ہمارا سر ہے.اگر کوئی اور بھی ایسے کاموں میں مدد دے سکتا ہے جن میں معجزانہ طاقت ہے تو پھر اس صورت میں ناظرین کو توقع کرنی چاہیئے کہ اس کتاب کے ساتھ اور اس کے مانند انہی ستر دنوں میں صد بہا اور تفسیر میں سورۃ فاتحہ کی میری شرط کے موافق شائع ہونے والی ہیں یا شائع ہو چکی ہیں کیونکہ اسی پر مدار فیصلہ رکھا گیا ہے.بالخصوص سید مہر علی شاہ صاحب پر تو یقین ہے کہ انہوں نے اس وقت تفسیر لکھنے کے لئے ضرور کچھ کوشش کی ہوگی ورنہ اب وہ ان لوگوں کو کیونکر منہ دکھا سکتے ہیں جن کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ تفسیر لکھنے کے لئے لاہور آئے ہیں.ظاہر ہے کہ اگر وہ ستر دن میں لکھ نہ سکے تو سات گھنٹہ میں کیا لکھ سکتے.غرض منصفین کے لئے خدا کی تائید دیکھنے کے لئے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے کیونکہ ستر دن کی میعاد شہرا کر صد ہا مولوی صاحبان بالمقابل بلائے گئے.اب ان کا کیا جواب ہے کہ کیوں وہ ایسی تفسیر شائع نہ کر سکے.یہی تو معجزہ ہے اور معجزہ کیا ہوتا ہے؟ اے دوستو جو پڑھتے ہو اُمّ الکتاب کو اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو سوچو دعاء فاتحہ کو پڑھ کے بار بار کرتی ہے یہ تمام حقیقت کو آشکار دیکھو خدا نے تم کو بتائی دعا یہی اس کے حبیب نے بھی پڑھائی دعا یہی پڑھتے ہو پنج وقت اسی کو نماز میں جاتے ہو اس کی رہ سے در بے نیاز میں اس کی قسم کہ جس نے یہ سورت اُتاری ہے اس پاک دل پہ جس کی وہ صورت پیاری ہے یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے یہ میرے صدق دعویٰ پہ مہر الہ ہے میرے مسیح ہونے پہ یہ اک دلیل ہے میرے لئے شاہد رب جلیل پھر میرے بعد اوروں کی ہے انتظار کیا؟ توبہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا الراقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیاں.۲۰ فروری ۱۹۰۱ء تہ ہے
اعجاز المسيح بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اردو تر جمه الْحَمد لله الذى أنطق الإنسان | سب تعریفیں اللہ کو زیبا ہیں جس نے انسان کو قوت وعلمه البيان.وجعل كلام گویائی بخشی اور فصاحت بیان سکھائی اور انسان حُسنہ کے کلام کو اپنے حسن نہاں کا مظہر بنایا اور اپنے البشــــرم الہام کے ذریعہ عارفوں کے اسرار کو لطافت المستتر.ولطف أسرار العارفين هر بخشی.اور اپنے انعام سے روحانی لوگوں کی روحوں بإلهــامــــــه.وكـمـل أرواح کی تکمیل کی اور اپنی عنایت سے ان کے ہر امر کا الروحانيـيـن بـإنـعـامـه.وكفّل کفیل ہوا اور اپنی حمایت کا سایہ انہیں عطا کیا اور • أمرهم بعنايته واستودعهم ظل اس نے اپنے اولیاء سے دشمنی کرنے والے سے دشمنی حمايته.وعادا من عادا أولياء ه کی.اور انہیں خوف کے مواقع پر بے یار و مددگار وما غادرهم عند الأهوال نہیں چھوڑا.اور جب بھی وہ اس کی طرف پورے وسمع دعاء هم إذا أقبلوا عليه طور پر متوجہ ہوئے تو اس نے ان کی دعاؤں کو سنا اور كل الإقبال.وأرى لهم غيرته ان کے لئے اپنی غیرت دکھائی اور ان کے لئے ایسا وصار لهم كقسورة للأشبال ہو گیا جیسے شیر اپنے بچوں کے لئے اور خویش و اقارب کی طرح ہر میدان جنگ میں وہ ان پر مائل بہ کرم ولوى إليهم كزافرة في مواطن رہا.اور کسی مقام پر بھی نہ تو اس نے ان سے علیحدگی الجدال.وما زايلهم في موقف ومانسيهم عند الابتهال..اختیار کی اور نہ ہی دعا میں زاری کے وقت انہیں فراموش کیا.اس نے کلمہ تقویٰ کو ان کے لازم وألزمهم كلمة التقوى.وثبتهم حال کیا اور انہیں ہدایت کی راہوں پر ثبات على سُبل الهدى وجذبهم إلى بخشا اور اپنی ارفع جناب کی طرف انہیں کھینچ لیا.حضرته العليا.ووهب لهم أعينا اور انہیں ایسی آنکھیں عطا کیں جن سے وہ يبصرون بها.وقلوبًا يفقهون بها.دیکھتے ہیں ، ایسے دل دیئے جن سے وہ سمجھتے ہیں
اعجاز المسيح اردو ترجمہ وجوارح يعملون بها.وجَعَلهم ایسے اعضاء دیئے جن سے وہ کام کرتے ہیں اور حرز المخلوقين.وروح اس نے انہیں تمام مخلوق کی پناہ اور تمام کائنات کی العالمين.وَالسّلام والصلوة على روح رواں بنایا.پھر سلام و درود ہو اس رسول پر جو رسول جاء في زمن کان کدست اس زمانہ میں آیا جو ایسے تخت کی طرح تھا جس کا غاب صدره.أو كليل أفل صدر نشین موجود نہ ہو یا اس رات کا سا تھا جس کا بدره.وظهر في عصر كان ماہ تمام ڈوب گیا ہو وہ ایسے زمانے میں ظاہر ہوا الناس فيه يحتاجون إلى العُصرة جس میں لوگ کسی جائے پناہ کے محتاج تھے اور و كانت الأرض أمحَلَت و خلت زمین خشک سالی کا شکار اور قلت باراں کے باعث راحتها من بخل المزنة.فأروى تہی دست ہو چکی تھی.پھر اس رسول نے اس زمین الأرض التي احترقت لإخلاف کو جو بر وقت بارش نہ ہونے کی وجہ سے جل چکی تھی ٢ العهاد.وأحيا القلوب كإحياء سیراب کر دیا اور دلوں کو اس طرح زندہ کر دیا جس الوابل للسنة الجماد فتهلل طرح موسلا دھار بارش قحط زدہ کو زندہ کر دیتی الوجوه وعاد حبرها وسبرها.و ہے.جس کے نتیجے میں چہرے چمک اٹھے اور ان تراءت معادن الطبائع وظهرت کا حسن و جمال پھر سے عود کر آیا اور طبائع کے مخفی فضتها وتبرها.وطُهر المؤمنون جو ہر نمودار ہو گئے اور اُن کا سیم و زر ظاہر ہو گیا اور من كل نوع الجناح.وأعطوا مؤمن ہر نوع کے گناہ سے پاک کر دیئے گئے.اور گناہ جناحًا يطير إلى السماء بعد کے یہ پر کاٹنے کے بعد، انہیں آسمان تک پرواز کر قص هذا الجناح.وأُسس كل نے والے پر دیئے گئے.اور ان کے ہر کام کی بنیاد أمرهم على التقوى.فما بقى تقویٰ پر استوار کر دی گئی.پس غیر اللہ اور ہوائے ذرة من غير الله ولا الهوای نفس کا ایک ذرہ ان میں باقی نہ رہا.اور مکہ کی سر وطهرت أرضُ مكة بعد ما طيف زمین جہاں بتوں کا طواف ہوتا تھا، پاک کردی فيها بالأوثان فما سجد علی گئی کہ پھر کبھی آج تک اس پر بجز خدائے رحمن کے
اعجاز المسيح اردو تر جمه وجهها لغير الرحمان إلى هذا كسى كو سجدہ نہیں کیا گیا.پس اس محسن نبی پر درود الأوان.فصلّوا على هذا النبی بھیجو جو نہایت احسان کرنے والا رحمن خدا کی المحسن الذي هو مظهر صفات کا مظہر ہے.اور احسان کا بدلہ تو احسان ہی ہے.وہ دل جو اس کے احسان سے نا آشنا ہے وہ صفات الرحمان المنّان وَهَلُ جزاء الإحسان إلا الإحسان.بے ایمان ہے یا پھر اپنے ایمان کو ضائع کر رہا والقلب الذي لا يدرى إحسانه ہے.اے اللہ! تو اس رسول نبی امی پر درود بھیج کہ فلا إيمان له.أو يضيع إيمانه.اللهم صل على هذا الرسول جس نے آخرین کو ویسے ہی جام پلایا جیسا کہ اس نے اولین کو پلایا تھا.اور انہیں اپنے رنگ میں النبي الأمي الذي سقى الآخرين.كما سقى الأولين.رنگین کر دیا اور انہیں پاکبازوں میں داخل کر دیا.وصبغهم بصبغ نفسه وأدخلهم پھر اللہ نے انہیں محبت کی شعاعوں کی چمک سے في الْمُطَهرين.فنوّرهم الله منور کر دیا.اور خالص ترین شراب میں سے پلایا.بإشراق أشعة المحبة وسقاهم اور انہیں فنا فی اللہ ہونے والے سابقین کے ساتھ من أصفى المُدامة.وألحقهم ملا دیا.اور انہیں اپنا قرب بخشا اور ان کی قربانیوں بالسابقين من الفانين.وقربهم كو قبول فرمایا.ان کے حواس کو نہایت لطیف بنایا وقبل قربانهم.و دقق مشاعرهم اور ان کے دل کو روشن کر دیا نیز اپنی جناب سے وجلى جنانهم.ووهب لهم من انہيں مقربین کا فہم عطا کیا ، ان کے نفوس کا تزکیہ کیا عنده فهـم الـمـقـربـيـن.وزكى اور ان کی لوح قلب کو پاک وصاف کیا اور ان کی روحوں کو آراستہ کیا اور اسیروں کی زنجیروں سے ان وحلّى ارواحهم.ونجا نفوسهم کے نفوس کو نجات بخشی.اور جیسا کہ اس کا اپنے چنیدہ نفوسهم وصفّى ألواحهم.من سلاسل المحبوسين.وكفّل أمورهم كما هي عادته بندوں کے ساتھ دستور رہا ہے اس نے ان کے جملہ بأصفيائه.وشرح صدورهم كما امور کی کفالت فرمائی.اور اپنے اولیاء کے ساتھ جاری ۵ هي سيرته في أوليائه.سنت کے مطابق ان کے سینوں کو انشراح بخشا.
اعجاز المسيح اردو تر جمه ودعاهم إلى حضرته ثم تبادر اور ان کو اپنے حضور بلایا اور اپنی رحمت سے ان کے إلى فتح الباب برحمته.لئے فی الفور دروازہ کھول دیا اور انہیں اپنے گروہ وأدخلهم في زمرته وألحقهم میں شامل کر لیا اور اپنی جنت کے باسیوں میں ان کو بسگان جنته.وقيل دار کم بھی داخل کر دیا.اور پھر ان سے کہا گیا کہ تم اپنے أتيتم.وأهلكم وافيتم.وجعلوا اصلی گھر میں آگئے ہو اور تم نے اپنے اہل وعیال من المحبوبين.وهذا كله من سے ملاقات کر لی اور وہ محبوبوں میں شامل کر لئے برکات محمد خیر الرسل گئے.اور یہ سب کچھ خیر الرسل اور خاتم النبیین وخاتم النبيين عليه صلوات محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی برکات کے طفیل ہے.الله وملائكته وأنبيائه وجميع الله، اُس کے فرشتوں اور اُس کے نبیوں اور اُس کے جملہ نیک بندوں کا آپ پر درود ہو.أما بعد فاعلموا أيها اما بعد حق کے طالبو ، منصفو! عظمندو اور تدبر کرنے الطالبون المنصفون والعاقلون والو ! اچھی طرح سے جان لو کہ میں خدائے رحمن المتدبّرون.اني عبد من عباد کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں ، جو شدید الرحمان الذين يجيئون من ضرورت کے وقت اور ایسے موقع پر جب جہالتیں الحضرة.وينزلون بأمر ربّ اور بدعتیں پھیل جائیں اور تقویٰ اور معرفت کم ہو العزّة.عند اشتداد الحاجة.جائے تو وہ حضرت احدیت کی طرف سے آتے اور عباده الصالحين.وعند شيوع الجهلات و البدعات وقلة التقوى رب العزت کے امر سے اس غرض کو لئے ہوئے نازل ہوتے ہیں کہ بوسیدہ کو جامہ نو بخشیں اور والــمــعــرفة.ليُجدّدوا ما أَخْلَقَ.ويجمعوا ما تَفَرَّق.ويتفقدوا ما پراگندہ کو مجتمع کریں اور معدوم کو ڈھونڈ نکالیں.اور افتقد.ويُنجزوا ويوفوا ما وُعِد جو وعده رب العالمین کی طرف سے کیا گیا تھا اسے من رب العالمين.وكذالك بتمام و کمال پورا کریں اور اسی طرح میں بھی آیا ہوں
اعجاز المسيح اردو تر جمه جئت وأنا أوّل المؤمنين.وإنى اور میں اول المؤمنین ہوں.میں اس مبارک بعثت على رأس هذه المائة ربانی صدی کے سر پر مبعوث کیا گیا ہوں تا کہ المباركة الربانية.لأجمع شمل ملتِ اسلامیہ کے پراگندہ شیرازہ کو مجتمع کروں اور الملة الإسلامية.وأدفع ما صيل اللہ کی کتاب قرآن اور خیر الوریٰ حضرت اقدس محمد على كتاب الله وخير البرية.مصطفى (ع ) پر کئے گئے حملوں کا دفاع کروں وأكسر عصا من عصى وأقيم اور نافرمانوں کے عصا کو توڑ دوں اور شریعت کی جدران الشريعة.وقد بينت دیوار میں استوار کروں.میں نے بار بار کھول کر مرارًا وأظهرت للناس إظهارًا.بیان کر دیا ہے اور لوگوں کے لئے ظاہر کر دیا ہے کہ اني أنا المسيح الموعود.میں ہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں.اور اسی والمهدى المعهود.وكذالك طرح میں مامور کیا گیا ہوں.میری کیا مجال کہ أُمرتُ وما كان لي أن أعصى أمر ربي وألحق بالمجرمين.فلا میں اپنے پروردگار کے حکم کی نافرمانی کروں اور مجرموں میں شامل ہو جاؤں.پس میری مخالفت میں تعجلوا على وتدبّروا أمرى حق جلد بازی نہ کرو اور اگر تم متقی ہو تو میرے معاملے التدبّر إن كنتم متقين.وعسى میں اچھی طرح تدبر کرو.ممکن ہے کہ تم ایک شخص أن تُكذبوا امرءا وهومن کی تکذیب کر بیٹھو جبکہ وہ اللہ کی طرف سے ہو اور عند الله.وعسى ان تفسقوا شاید ایسے شخص کو فاسق قرار دو جو دراصل صالحین رجلا وهو من الصالحين.وإن الله أرسلني لأصلح مفاسد هذا میں سے ہو.یقینا اللہ نے مجھے اس زمانے کے مفاسد الزمن.وأُفـــرق بين روض کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا ہے تا کہ مقدس القدس وخضراء الدمن.وأرى باغات اور گندگی کے ڈھیر پر اُگے ہوئے سبزے سبيل الحق قوما ضالين.وما کے مابین فرق کر دکھاؤں اور گمراہ قوم کو راہِ حق كان دعوای فی غیر زمانه.بل دکھاؤں.میرا یہ دعویٰ بے وقت نہیں بلکہ میں اُس جئت كالربيع الذي يُمطر في بارانِ بہار کی طرح آیا ہوں جو عین اپنے موسم اور
اعجاز المسيح ۶ اردو تر جمه إبانه.وعندى شهادات من ربی وقت پر برستی ہے.میرے پاس میرے رب کی لقوم مستقرين و آیات بینات طرف سے متلاشیان حق کے لئے شہادتیں اور اہل للمبصرين و وجه کوجه نظر کے لئے کھلے کھلے نشانات موجود ہیں اور اہل الصادقين للمتفرسين.وقد جاءت فراست کے لئے صادقوں جیسا چہرہ ہے.اللہ کے أيام الله وفتحت أبواب الرحمة موعود دن آگئے اور طالبوں کے لئے رحمت کے للطالبين.فلا تكونوا أول كافر دروازے کھل گئے اس لئے جن نعمتوں کا تم انتظار بها وقد كنتم منتظرین.این کر رہے تھے خود ہی ان کے پہلے انکاری نہ ہو الخفاء.فافتحوا العين أيها جاؤ.اب اخفاء کہاں رہا.اس لئے اے عقلمندو! العقلاء.شهدت لي الأرض و اپنی آنکھیں کھولو.زمین اور آسمان نے میرے حق السماء.وأتاني العلماء الأمناء میں گواہی دے دی ہے اور امین علماء میرے پاس وعرفني قلوب العارفين.وجری آگئے اور عارفوں کے دلوں نے مجھے پہچان لیا اليقين في عروق قلوبهم كأقرية ہے.اور اُن کے دلوں کی رگوں میں یقین اس تجرى في البساتين.بيد أن طرح سرایت کر گیا جس طرح باغوں میں صاف بعض علماء هذه الديار.ما پانی کی نالیاں بہتی ہیں.مگر پھر بھی اس ملک کے قبلونى من البخل والاستكبار.بعض علماء نے بخل اور گھمنڈ کے باعث مجھے قبول فماظلمونا ولكن ظلموا نہیں کیا.اس طرح انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا أنفسهم حسدًا و استعلاء.بلکه حسد و غرور کے باعث اپنی جانوں پر ظلم کیا ورضوا بظلمات الجهل وتركوا ہے.اور وہ جہالت کی تاریکیوں پر راضی ہو گئے علما وضياء ا.فتراكم الظلام اور علم اور روشنی کو چھوڑ دیا.پس ان کی گفتار ، ان في قـولـهـم وفـعـلـهـم و أعيانهم.کے کردار، اور ان کی ذات پر تاریکیوں کی اس حد تک حتى اتخذ الخفافيش وكرًا دبیز تہیں جم گئیں کہ چمگادڑوں نے ان کے دلوں لـجـنـانهم.وما قعد قاریة علی میں ڈیرے ڈال لئے اور مرغ خوش نوانے ان کی
اعجاز المسيح اردو تر جمه أغصانهم.و كانوا من قبل شاخوں پر اپنا بسیرا نہ بنایا.حالانکہ اس سے پہلے وہ يتوقعون المسيح على رأس اس صدی کے سر پر مسیح کے آنے کی توقع کر رہے هذه المائة.ويترقبونه كترقب تھے اور اُس کا اس طرح انتظار کر رہے تھے جس أهلة الأعياد أو أطايب المأدبة.طرح لوگ عید کے چاندوں کا یا کسی دعوت میں عمدہ فلمّا حُمّ ما توقعوه.وأُعطى ما کھانوں کا انتظار کرتے ہیں.لیکن پھر جب اُن کی طلبوه.حسبوا كلام الله افتراء متوقع چیز ان کے لئے تیار کر دی گئی اور مطلوبہ شے انہیں مہیا کر دی گئی تو وہ اللہ کے کلام کو انسانی افتراء الإنسان.وقالوا مفترى يُضل تصور کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ مفتری ہے جو الناس كالشيطان.وطفقوا شیطان کی طرح لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے.اور وہ يشكون في شأنه بل في إيمانه.وكذبوه وفسقوه واكفروه مع مریــديـــه وأعوانه.وأنزل الله اس کی شان بلکہ اس کے ایمان کے متعلق بھی شک کرنے لگے.انہوں نے اُسے اُس کے مریدوں اور مددگاروں سمیت جھٹلایا اور انہیں فاسق و کافر كثيرا من الآى فما قبلوا وأرى قرار دیا.اللہ نے کثرت سے نشان نازل فرمائے التأييد في المبادی و الغای فما لیکن انہوں نے قبول نہ کیا.ابتدا میں بھی اور انتہا توجهوا.وقالوا كاذب وما میں بھی تائیدات دکھا ئیں لیکن انہوں نے کوئی توجہ دکھائیں تفكروا في مآل الکاذبین نہ کی اور اسے جھوٹا کہا لیکن جھوٹوں کے انجام کے ۱۰ وقالوا مختلق وما تذكروا من متعلق کچھ غور نہ کیا اور انہوں نے اسے مفتری کہا دَرَجَ من المختلقين.والأسف ليكن جو مفتری پہلے گزر چکے ہیں ان کو مد نظر نہ كل الأسف أنهم يقولون ولا رکھا.افسوس صد افسوس کہ وہ کہتے تو ہیں لیکن يسمعون ويعترضون ولا سنتے نہیں ، اور اعتراض کرتے ہیں لیکن جواب پر يُصغون.ويلمزون ولا كان نہیں دھرتے ، عیب جوئی کرتے ہیں پر يُحققون.وحصحص الحق فلا تحقیق نہیں کرتے.حق کھل کر سامنے آگیا مگر پھر
اعجاز المسيح اردو تر جمه يُبصرون.وإذا رموا البرى بھی وہ نہیں دیکھتے جب وہ کسی معصوم پر تہمت بأفيكة فضحكوا وما يبكون ما لگاتے ہیں تو ہنستے ہیں ، روتے نہیں.انہیں کیا ہو گیا لهم لا يخافون.أم لهم براءة في ہے کہ وہ ڈرتے نہیں.کیا صحیفوں میں ان کے لئے الزبر فهم لا يُسألون.وما أرى براءت کی کوئی ضمانت ہے کہ اُن سے باز پرس نہ کی جائے گی؟ میں ان کے دلوں میں خوف خدا خـوف الـلـه فـي قلوبهم بل هم نہیں پا تا بلکہ وہ تو صادقوں کو دکھ دیتے ہیں اور کچھ يؤذون الصادقين ولا يُبالون ما أرى فناء صدورهم رحبا.پرواہ نہیں کرتے.میں ان کے دلوں کے آنگن میں وسعت نہیں دیکھتا.انہوں نے اپنے جیسے دوست وكمثلهم اختاروا صحبًا.منتخب کئے ہوئے ہیں اور وہ دانستہ عیب گیری اور و يهمزون ويغتابون وهم غیبت کرتے ہیں.ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے ا يعلمون.ولا يتكلمون إلا جیسے کوئی پرندہ بیٹ کرتا ہے یا سل کے مریض کی کطائر يخذق.أو كمسلول طرح جو تھوکتا پھرتا ہے یہ ہمارے معاملے کی کنہہ يبصق.لا يبطنون أمرنا ولا کو نہیں جانتے اور نہ ہمارے بھید کی حقیقت سے يعرفــون ســــرنــا.ثم يُكفرون آشنا ہیں.اور وہ کتاب اللہ کو سمجھے بغیر تکفیر کرتے ، ويسبون و يهذرون من غير فهم گالیاں دیتے اور بیہودہ گوئی کرتے ہیں مگر ایسے الكتاب.ولا كهرير الكلاب نہیں جیسے کتے غراتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر.وما بقى فيهم فهم يهديهم إلى ان میں ایسا فہم باقی نہیں رہا جو انہیں صراط مستقیم صراط مستقیم.ولا خوف تک پہنچا دے اور نہ خوف ہے کہ جو انہیں خدائے يجذبهم إلى سُبُل مرضات الله رحیم کی رضا کی راہوں تک کشاں کشاں لے الرحيم.ومنهم مقتصدون.آئے.ان میں سے بعض اعتدال پسند ہیں جو يكذبون ولا يعلمون.وبعضهم يوجد لاعلمی تکذیب کرتے ہیں.بعض اپنی يكفون الألسنة ولا يسبون زبانوں کو روک کر رکھتے ہیں اور گالیاں نہیں دیتے
اعجاز المسيح اردو تر جمه وتجد أكثر هم مُفحشين علينا لیکن ان میں سے اکثر لوگوں کو تو بلا خوف ہمارے ومُكَفّرين، سابین غیر خائفین خلاف فحش کلامی کرنے والا ، ہمارا انکار کرنے والا فليبك الباكون على مصيبة اور گالیاں دینے والا پائے گا.پس چاہئے کہ اسلام الإسلام.وعلى فتن هذه الايام کی اس مصیبت پر اور اس زمانے کے فتنوں پر وأى فتنة أكبر من فتن هذه رونے والے خوب روئیں.ان علماء کے فتنے سے العلماء.فإنهم تركوا الدین بڑھ کر اور کونسا فتنہ ہے.کیونکہ ان علماء نے دین کو ۱۲ غريبًا كشهداء الكربلاء.وإنها كربلا کے شہداء کی طرح کس مپرسی کی حالت میں.نار أذابت قلوبنا وجنبت چھوڑ دیا ہے.یہ ایک ایسی آگ ہے جس نے جنوبنا، وثقلت علينا خطو بنا ہمارے قلوب کو پگھلا دیا ہے اور پہلوؤں کو شکستہ کر ورمت كتاب الله بأحجار من دیا ہے اور ہمارے لئے ہمارے کاموں کو مشکل بنا جهلات الجاهلين.ونرى كثيرا دیا ہے.اور جاہلوں کی جاہلانہ باتوں سے کتاب منهم يخفون الحق ولا يجتنبون اللہ پر سنگ باری کی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں الزور كالصلحاء.وتكذب سے اکثر حق پوشی سے کام لے رہے ہیں اور صلحاء ألسنتهم عند الإفتاء.غشوا کی طرح وہ جھوٹ سے اجتناب نہیں کرتے.فتویٰ وہ طبائعهـم بـغـواشــي الظلمات.دیتے وقت ان کی زبانیں جھوٹ بولتی ہیں.وقدموا حب الصلات علی انہوں نے اپنی طبیعتوں کو تاریکیوں کے پردوں حُبّ الصلوة نبذوا القرآن میں چھپا رکھا ہے.اور انہوں نے نوازشات کے وراء ظهورهم للدنيا الدنية اناج کو نماز کی محبت پر مقدم کر دیا.اس حقیر دنیا کی وأمـالــوا طبائعهم إلى المقنيات خاطر انہوں نے قرآن کو پس پشت ڈال رکھا ہے المادية.واشتد حرصهم اور اپنی طبائع کو مادی ذخائر کی جانب جھکا دیا ہے.ونهمتهم وشغفهم باللذات فانی لذتوں کے لئے اُن کی حرص آرزو اور رغبت بڑی الفانية.وجاوز الحد شُحَهُم فى شدید ہوگئی ہے اور نفسانی خواہشات میں اُن کی حرص
اعجاز المسيح اردو تر جمه الأمانى النفسانية.ما بقى فيهم تمام حدود پار کر چکی ہے.ان میں نہ تو اللہ کی کتاب علم كتاب الله الفرقان ولا فرقان (حمید ) کا علم باقی رہا اور نہ ہی دلوں کا تقویٰ تقوى القلوب وحلاوة الإيمان اور ایمان کی حلاوت.نیک کاموں اور رشد و وتباعدوا من أعمال البر وأفعال صلاح کے اعمال سے وہ بہت دور جا پڑے ہیں اور کامرانی کی راہوں سے ہٹ کر تباہی کے راستوں الرشد والصلاح.وانتقلوا من پر چل نکلے ہیں ان کے ایمان کا انگارہ راکھ میں ، سبل الفلاح إلى طرق الطلاح.اور ان کی نیکی و بھلائی فساد میں تبدیل ہو گئی ہے.وعاد جمرهم رمادًا.وصلاحهم وہ خیر سے اور خیران سے اتنی دور ہوگئی گویا وہ ایک فسادًا.بعد وا من الخير والخير بَعُدَ منهم كالأضداد.وصاروا كأنهم يُقادون في الأقياد.دوسرے کی ضد ہوں.اور وہ ابلیس کے لئے بیٹیوں میں جکڑے ہوئے قیدیوں کی طرح ہو لإبليس كــالـمـقرنين في گئے.وہ باطل کی جانب ایسے کھینچے گئے گویا کہ وہ الأصفاد.وانجذبوا إلى الباطل زندانوں کی طرف ہانک کر لائے گئے ہوں.وہ اپنے فتوؤں میں خیانت کرتے ہیں اور تقویٰ يخونون في فتاواهم ولا يتقون اختیار نہیں کرتے.جھوٹ بولتے ہیں اور کچھ پرواہ ويكذبون ولا يبالون ويقربون نہیں کرتے.وہ اللہ کی حرمات کے قریب آتے ہیں حرمات الله ولا يبعدون.ولا اور ان سے دور نہیں ہوتے.وہ سچی بات نہیں سنتے يسمعون قول الحق بل يريدون بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ حق گو کا خون بہائیں اور اسے أن يسفكوا قائله ويغتالون.ولما بلاک کردیں.جب ان کے پاس امام وہ تعلیم لے جاء هم إمام بما لا تهوى أنفسهم كر آیا جسے ان کے نفس نا پسند کرتے تھے تو انہوں أرادوا أن يقتلوه وهم يعلمون.وما نے اُسے دانستہ قتل کرنے کی ٹھان لی.حالانکہ كان لبشر أن يموت إلا بإذن الله جب ایک عام بشر بھی اذنِ الہی کے بغیر نہیں مرسکتا فكيف المرسلون.إنه يعصم تو پھر اللہ کے فرستادہ کو کیسے مار سکتے ہیں.یقیناً اللہ ۱۳
۱۵ اعجاز المسيح 11 اردو تر جمه عباده من عندہ ولو مکر اپنی جناب سے اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے.الماكرون.يقولون نحن خدام خواہ منصوبہ بنانے والے کتنے ہی منصوبے بنا ئیں.الاسلام وقد صاروا أعوانا وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اسلام کے خادم ہیں للنصارى في أكثر عقائدهم جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ عیسائیوں کے بیشتر عقائد وجعلوا أنفسهم كحبالة میں ان کے مددگار ہو گئے ہیں.اور انہوں نے لصائدهم يقولون سمعنا اپنے آپ کو ان کے شکاریوں کے لئے جال کی الأحاديث بالأسانيد.ولا طرح بنالیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے احادیث کو يعلمون شيئا من معنى التوحيد.ان کی اسانید سمیت سنا ہے حالانکہ وہ توحید کے ويقولون نحن أعلم بالأحكام معنى تک نہیں جانتے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم الشرعية.ومـا وطـئـت أقدامهم احکام شریعت کو خوب جانتے ہیں حالانکہ دینی سكك الأدلة الدينية.يطيرون ولائل کے کوچوں میں ان کے قدم تک نہیں في الهوى كالحمام.ولا پڑے.وہ حرص و ہوا کی فضاؤں میں کبوتر کی طرح اڑانیں بھر رہے ہیں اور موت کی گھڑی کا فکر نہیں يسـعـون لــحـطـام بـأنواع قلق.کرتے.وہ معمولی دنیاوی فوائد کی خاطر بصد يُفكرون في ساعة الحمام.ويُخرجون كـأهل النفاق بیقراری دوڑ دھوپ کرتے ہیں اور منافقوں کی رؤوسهم من كل نفق.يقعون طرح ہر سوراخ سے اپنا سر نکالتے ہیں.حرص کی من الشح على كل غضارة.ولو كان فيـه لـحـم فـارة.إلَّا الذين شدت کے باعث وہ ہر طشت پر گر پڑتے ہیں خواہ عصمهم الله بأيدى الفضل اس میں ایک چوہے کا گوشت ہو.بجز ان کے جنہیں والكرامة.فأولئك مُبرء ون اللہ اپنے دست فضل و کرم سے بچالے.ایسے لوگ مذکورہ بیان سے مبر اہیں اور ان پر کوئی تاوان مما قيل وليس عليهم شيء من الغرامة.وإنّهم من المغفورين نہیں اور وہ بخشے ہوئے لوگوں میں شامل ہیں.ومن الفتن العظمى والآفات عظیم فتنوں اور بڑی بڑی آفتوں میں سے ایک
اعجاز المسيح بنوه على المكائد كالصائد لا ۱۲ اردو ترجمہ الكبرى صول القسوس عیسائی پادریوں کی وہ یلغار ہے جو شکاریوں کی بقسى الهمز واللمز طرح اپنی عیب گیری اور نکتہ چینی کی کمانوں سے كالعسوس.وكل ما صنعوا کی گئی تھی.جو بھی انہوں نے ہمارے دین کو زخمی لجرح ديننا من النبال والقياس.کرنے کے لئے تیر و کمان بنائے اُس کی بنیاد انہوں نے شکاری کی طرح مکر و فریب پر رکھی نہ کہ على العقل والقياس نبذوا الحق ظهريًا.وما كتبوا فيما عقل و قیاس پر.انہوں نے حق کو پس پشت ڈال دونوه إلَّا أمرًا فريا.وقد دیا اور اپنی مدونہ کتابوں میں سراسر جھوٹ تحریر کیا اجتمعت هممهم على إعدام اور ان کی تمام توانائیاں اسلام کو نیست و نابود کرنے الإسلام.واتفقت آراء هم کے لئے جمع ہو گئیں اور سید نا خیر الانام لے کے (١٢) لمحو آثار سیدنا خير الأنام نقوش مٹانے کے لئے ان کی آراء متفق ہو گئیں.ويدعون الناس إلى اللظى یہ (پادری) شرک کا دام بچھا کر لوگوں کو بھڑکتی والدرك.ناصبين شرك آگ اور اس کی گہرائیوں کی طرف بلاتے ہیں.الشرك.وما وجدوا كيدًا إلا استعملوه وما نالوا جهدًا إلَّا مکرو فریب کا ہر میتر حربہ انہوں نے استعمال کیا اور بذلوه.استحرت حربهم.وكثر هر کوشش بروئے کار لائے.اُن کی جنگ میں ہر طعنهم وضربهم.ونعرت حرارت اور اُن کی نیزہ زنی اور شمشیر زنی میں كوساتهم.و صاحت من كل شدّت پیدا ہوگئی ان کے نقارے گونج اٹھے اور ہر طرف بوقاتهم.وجالت طرف سے بگل بج اٹھے.ان کے گھوڑوں نے خيولهم.وسالت سیولهم جولانی دکھائی اور سیلاب امڈ آئے.انہوں نے اپنی وسعوا كل السعى حتى جمعوا کوششوں کو ایسی انتہا تک پہنچا دیا کہ الحاد کے تمام عساكر الإلحاد.ورفعوا رايات لشکر ا کٹھے کرلئے اور فساد کے علم بلند کر دیئے.الفساد.وصُبّت على المسلمين مصائب و خُرّبت تلك مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے اور آبادیاں الــربـوع وأهديت لسقياها ویران ہو گئیں.ان کے پینے کے لئے آنسوؤں کا
اعجاز المسيح ۱۳ اردو ترجمہ الدموع.وكثر البدعة وما بقى | حد یہ عطا کیا گیا.بدعت کی اتنی بہتات ہوئی کہ السنة ولا الجماعة.ورفع نہ سنت باقی رہی نہ جماعت.قرآن اٹھ گیا اور اس القرآن وضاقت عن صونه کی حفاظت اور نگہداشت کے لئے استطاعت نہ (۱۷) الاستطاعة.فحاصل الكلام ان رہی.حاصل کلام یہ کہ اسلام دکھوں سے بھر گیا.۱۷ الإسلام مُــلــى مـن الآلام.تاریکیوں کے دائرے نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا اور اس کی دیواروں کو شکستہ کرنے میں وأحاطت به دائرة الظلام و أرى الزمان عجائب في نقض أسواره.وأسال الدهر سيولا زمانے نے اپنے عجائبات دکھائے اور اس کے نقوش مٹانے کے لئے دہر سیلاب پر سیلاب لے آیا.قضاء و قدر نے اس کے انوار بجھانے کے لئے اپنا لتعفية آثاره واكمل القدر امره فیصلہ پایہ تکمیل تک پہنچا دیا.اور جب یہ سب کچھ لإطفاء انواره.ولما كان هذا من عین مشیت ربانی کے تحت اور مخفی مصلحتوں المشية الــربــانيـة مبنيا على کی بنیاد پر ہوا تو دشمنوں کے پختہ ارادہ میں کوئی المصالح الخفية.فما تطرق الى خلل راہ نہ پاسکا اور نہ ان کے ہاتھ شل ہوئے اور عزم العدا خلل.ولا إلى أيديهم نہ ہی ان کی زبانوں کی کاٹ کند ہوئی اس کا ایک شلل.ولا إلى ألسنتهم فلل.نتيجه يه نكلا کہ ملت میں ضعف پیدا ہو گیا ،شریعت وكان من نتائجه أن الملة مضمحل ہوگئی اور سیل تند و تیز نے اسے جڑھ سے ضعفت.والشريعة اضمحلت اکھیڑ دیا.اور اس کا ایسا صفایا ہو گیا کہ خود عارف وجرفتها المجارف.حتی کے لئے اس کا پہچاننا ممکن نہ رہا.لغویات کی أنكرها العارف.وكثر اللغو و کثرت ہوگئی اور معارف کا نام ونشان نہ رہا.اور ذهب المعارف باخت أضواءها.اس (اسلام ) کی روشنیاں ماند پڑ گئیں اور اس کے وناء ت أنواء ها.وديس الملة ستارے کہیں دور گم ہو گئے.ملت پاؤں تلے روندی گئی اور اس کے مصائب کا زمانہ دراز ہو گیا.وطالت لأواء ها.
اعجاز المسيح ۱۴ اردو تر جمه ۱۸ وكان هذا جزاء قلوب مقفلة اور یہ مقفل دلوں کی سزا اور بندسینوں کی پاداش وأثـام صدور مغلقة.فإن أكثر تھی.اس لئے کہ اکثر مسلمانوں نے تقویٰ کو کھو دیا المسلمين فقدواتقواهم.اور اپنے مولا کو ناراض کر دیا.اور تو ان میں سے وأغضبوا مولاهم.وترى كثيرا بہتوں کو دیکھتا ہے کہ مال، جائیداد اور سیم وزر کی منهم شغفهم حب الأموال والعقار والعقيان.وملك محبت نے انہیں اپنا فریفتہ بنالیا ہے اور زر اور زن فؤادهم هـوى الأملاك کی ہوس نے ان کے دلوں پر قبضہ جمالیا ہے.اور ہے.اور والنسوان.وقلب قلوبهم لوعة مال و منال کی شدید طلب نے ان کے دلوں کو تہہ و إمرتها فشغلوا بها عن الرحمن بالا کر دیا ہے جس کے باعث وہ خدائے رحمن سے وترى أكثرهم اعتضدوا قربة غافل ہو گئے.تو دیکھتا ہے کہ اکثر نے ملحدوں کی الملحدين.وانقادوا كَفَتُودِ مشک اٹھائی ہوئی ہے اور کافروں کے خصائل کی لسير الكافرين.وحسبوا أن ایک سدھائے ہوئے گھوڑے کی طرح اتباع کر الوصلة إلى الدولة طرق الاحتيال او القتال.وزعموا أن رہے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ حکومت تک پہنچنے النبالة لا يحصل إلا بالنبال.کا طریق حیلہ گری ہے یا پھر جنگ و جدال.اُن کا فليس عندهم تدبیر تأیید الملة خیال ہے کہ شرافت صرف تیروں کے ذریعے ہی ن غير سفك الدماء حاصل کی جاسکتی ہے.ان کے نزدیک شمشیر وسنان بـــالــمــر هـفـات والأسنة.سے خون ریزی کے علاوہ ملت کی تائید کے لئے ويستقرون في كل وقت کوئی دوسری تدبیر نہیں.وہ ہر وقت جہاد کے مواقع ۱۹ مواضع الجهاد وإن لم يتحقق کی تلاش میں لگے رہتے ہیں خواہ اس کی شرائط شروطه ولم يأمر به کتاب متحقق نہ ہوں اور نہ ہی ربُّ العباد کی کتاب اس کا رب العباد ومن المعلوم أن هذا حکم دے رہی ہو.یہ بات تو بالکل عیاں ہے کہ یہ وقت الوقت ليس وقت ضرب الأعناق لإشاعة الدين.دین کی اشاعت کے لئے گردنیں مارنے کا نہیں.
اعجاز المسيح ۱۵ اردو تر جمه ولكل وقت حکم آخر فی کتاب مبین میں ہر وقت کے لئے ایک الگ حکم الكتاب المبين.بل يقتضی ہے.بلکہ اس زمانہ میں اللہ کی حکمت کا یہ تقاضا ہے حكمة الله في هذه الأوقات.أن کہ دین حق کی دلائل اور نشانات کے ذریعے تائید يؤيد الدين بالحجج والآيات.کی جائے اور ملت کے امور کو معقولیت کی آنکھ سے وتُـنـقـد أمــور الـمـلـة بـعـيـن پر کھا جائے اور فروع و اصول بنظر غائر دیکھے المعقول.ويُمعن النظر في الفروع والأصول.ثم يُختار جائیں.بعد ازاں ایسا طریق منتخب کیا جائے جس مسلك يهدى إليه نور الإلهام كى جانب نور الہام رہبری کرے.اور جسے عقل ويضعه العقل في موضع القبول بپایہ قبولیت جگہ دے.اور یہ کہ ایسی تیاری کی وأن يُعد عُدّة كمثل ما أعد جائے جیسی دشمنوں نے تیاری کی ہے.تلوار کو کند الأعداء.ويُفلّ السيف ويُحدّ اور عقل و دانش کو تیز کیا جائے.تحقیق و تدقیق کی راہ الدهاء.ويُسلك مسلك اپنائی جائے اور اس عمدہ شراب کے چھلکتے ہوئے التحقيق والتدقيق.وتشرب جام پیئے جائیں کیونکہ ہمارے دشمن مذہب کے الكأس الدهاق من هذا الرحيق.فإن أعداء نا لا يسلّون النواحل لئے تلوار نہیں سو نتے اور نہ ہی شمشیر و سنان کے زور للنحلة.ولا يشيعون عقائدهم سے اپنے عقائد کی اشاعت کرتے ہیں بلکہ انواع بالسيوف والأسنة.بل واقسام کے باریک در بار یک مکر و فریب استعمال يستعملون ما لطف و دق من کرتے ہیں اور ایک شکاری کی مانند مختلف روپوں أنواع المكائد.ويأتون في صور میں آتے ہیں.اس زمانہ میں ہمارے لئے اللہ مختلفة كالصائد.وكذالك نے یہی چاہا ہے کہ ہم عصائے باطل کو دلیل سے أراد الله لنا في هذا الزمان.أن نكسر عصا الباطل بالبرهان لا توڑیں نہ کہ نیزوں سے.پس اُس (اللہ ) نے بالسنان.فأرسلني بالآيات مجھے نشانات کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے نہ کہ لا بالمرهفات.وجعل قلمی تلواروں کے ساتھ اور اُس نے میرے قلم اور کلام
اعجاز المسيح ۱۶ اردو تر جمه.وکلمی منبع المعارف کو معارف اور نکات کا سرچشمہ بنایا ہے.اس نے والنكات وما أعطاني سيفا و مجھے شمشیر و سناں نہیں دیئے بلکہ ان کی جگہ برہان و سنانا.وأقام مقامهما برهانا بیان عطا کئے تا کہ وہ میرے ہاتھ پر متفرق کلمات کو وبيانًا.ليجمع على يدى الكلم جمع کر دے اور میرے ذریعے بکھرے ہوئے امور المتفرقة.ويُنظم بي الأمور کو ایک لڑی میں پرو دے.لرزیدہ دلوں کو تسکین المتبدّدة.ويسكن القلوب الراجفة.ويُبكت الألسنة بخشے جھوٹ پھیلانے والی زبانوں کو خاموش کر ٢١) المرجفة.ويُنير الخواطر دے تاریک دلوں کو منور کر دے اور فرسودہ دلائل کو المظلمة.ويُجدّد الأدلة ایسی تازگی عطا کر دے کہ کوئی معاملہ ٹیڑھا اور کوئی المخلقة.حتى لا يبقى أمر غير راه کج نہ رہے.حاصل کلام یہ کہ بیان اور مستقيم.ولا نهج غير قويم.معارف میرے معجزات میں سے ہیں.میری فحاصل القول ان البيان تلواریں میرے نشانات اور کلمات ہیں.میں نے والمعارف من معجزاتي.وإن مرهفاتی آیاتی و کلماتی و کنت اپنے بعض دشمنوں کو یہ معجزہ دکھانے کے لئے دعوت بعض أعدائي لإراءة دعوت دی کہ شائد اس طرح اللہ انہیں شرح صدر هذه المعجزة.لعل الله يشرح عطا فرمائے یا انہیں ٹورِ معرفت سے حصہ عطا صدورهم أو يجعل لهم نصيبا کردے.پس میں نے اُن سے کہا کہ اگر تم من نور المعرفة.فقلت إن كنتم میرے معجزے سے انکار کرتے ہو اور ایک جنگجو کی تنكرون بإعجازي وتصولون طرح مجھ پر حملہ کرتے ہو اور تم سمجھتے ہو کہ تمہیں على كالغازي.وتظنون أنكم قرآن کا علم اور سحبان وائل جیسی بلاغت عطا أعطيتم علم القرآن.وبلاغة کی گئی ہے.تو آؤ ہم اپنے مددگاروں کو بلائیں اور سحبان.فتعالوا ندع شهداء نا تم اپنے مددگاروں کو بلاؤ.ہم اپنے علماء کو اور تم وشهداء كم.وعلماء نا وعلماء كم.ثم نقعد مقابلين.ونكتب تفسير اپنے علماء کو بلاؤ.پھر ہم آمنے سامنے بیٹھ جائیں سورة مرتجلين منفردین اور کسی ایک سورت کی فی البدیہ تفسیر کیلے اکیلے
اعجاز المسيح ۱۷ اردو تر جمه غير مستعينين.فما كان أحد بغير مدد لئے لکھیں لیکن ان میں سے کسی کو یہ جرات منهم أن يقبل الشرط نہ ہوئی کہ وہ اس پیش کردہ شرط کو قبول کرتا.اور اس (۲۲) المعروض.ويتبع الأمر قرار داده امر کی پیروی کرتا اور میرے بالمقابل المفروض.ويقعد بحذائی بیٹھتا اور میرے جیسی تفسیر تحریر کرتا بلکہ وہ نور کو ويملى التفسير كإملائي.بل بجھانے اور مامور کو جھٹلانے کے لئے عیارانہ جعلوا يكيدون ليطفئوا النور.ويُـكـذبـوا المأمور.وكان أحد طریق اختیار کرنے لگ گئے.اُن میں سے ایک شخص مهر علی نامی تھا جسے اُس کے رفقاء شیخ کامل اور منهم يُقال له مهر على.وكان بہت بڑا ولی سمجھتے تھے.اس کے اس دعوی کے بعد يزعم أصحابه أنه الشيخ الكامل والولى الجلي.فلما دعوته که وه قرآن کا علم رکھتا ہے اور وہ اہل معرفت میں بهذه الدعوة.بعد ما ادعى أنه سے ہے تو اُس پر جب میں نے اُسے تفسیر نویسی کی يعلم القرآن وأنه من أهل دعوت دی تو اس نے میری تفسیر کے مقابلہ پر تفسیر المعرفة.أبى من أن يكتب لکھنے سے صاف انکار کر دیا.وہ تو ہے ہی نبی ، اگر تفسيرا بحذاء تفسیری و كان وه ہمدانی یا حریری کی طرح بھی ہوتا تو بھی اُس کے غبيا ولو كان الهمدانی بس میں نہ تھا کہ وہ میرے جیسی تحریر لکھ سکتا.اور اس أو الحريري.فماكان في وسعه ان کے ساتھ ہی وہ لوگوں سے ڈرتا بھی تھا اور خوب يكتب كمثل تحریری.ومع جانتا تھا کہ اگر وہ تفسیر لکھنے سے پیچھے ہٹا تو اس ذالك كان يخاف الناس.وكان صورت میں نہ تو اسے غلبہ حاصل ہوگا اور نہ ہی اپنے يعلم أنه إن تخلف فلا غلبة ولا مد مقابل سے جنگ کر سکے گا.لہذا اس نے سازش جحاسَ.فكاد كيدًا وقال إنى سوف أكتب التفسير كما کی اور کہا کہ جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے میں (مہر علی ) أشير.ولكن بشرط أن تباحثنى بہت جلد تفسیر لکھوں گا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ تم قبله بنصوص الأحاديث نصوص احادیث اور قرآن کی روشنی میں میرے والقرآن.ويُحكم من كان لك ساتھ مباحثہ کرو اور ایسے شخص کو حاکم بنایا جائے جو
اعجاز المسيح ۱۸ اردو تر جمه عدوا وأشد بغضًا من علماء | تیرا دشمن ہو اور علماء زمانہ میں سے سب سے زیادہ الزمان.فإن صدقني وكذبك بغض رکھنے والا ہو *.پھر اگر وہ منصف ہم دونوں بعد سماع البيان.فعليك أن کے بیان سننے کے بعد میری تصدیق کرے اور تبایعنى بصدق الجنان.ثم تمہاری تکذیب تو ایسی صورت میں تم پر لازم ہوگا کہ صدق دل سے میری بیعت کر لو.اس کے بعد نكتب التفسير ولا نعتذر ونترك الأقــاويـل.وإنا قبلنا | ہم دونوں تفسیر لکھیں گے اور کسی قسم کی عذر خواہی نہ کریں گے اور قیل و قال چھوڑ دیں گے.ہم شرطك وما زدنا إلَّا القليل هذا ما كتب إلى وطبعه وأشاع الشرائط وما كان هذا إلا كيدا المصنوع.قلت إنا لله و لعنتُ نے قلیل اضافے کے ساتھ تمہاری شرط قبول کر لی.یہ تھا وہ مضمون جو اس نے مجھے لکھا اور اسے طبع بين الأقوام.واشتهر أنه قبل کروا کر لوگوں میں شائع کیا.اور یہ مشہور کر دیا کہ اس نے شرائط قبول کر لی ہیں لیکن یہ عوام کو غلط فہمی لإغلاط العوام.ولما جاء في میں مبتلا کرنے کے لئے اس کا ایک فریب تھا.مكتوبه المطبوع.وكيده جب مجھے اس کا ایک مطبوعہ مکتوب ملا اور اس کی خود ساختہ چالا کی کا علم ہوا تو میں نے اس پر انا للہ ما أشاع.وتأسفت على وقت پڑھا.اور اس کی اس شائع کردہ تحریر پر لعنت بھیجی (۲۳) ضاع.ثم إنه استعمل كيدا اور وقت کے ضیاع پر اظہار تاسف کیا.پھر اس آخر.و رحل من مكانه وسافر شخص نے ایک اور چال چلی اپنی جائے رہائش ووصل لاهور.وأثار النقع سے کوچ کر کے اور سفر کرتے ہوئے لاہور جا پہنچا كالثور.وأرجفت الألسنة انه اور اس نے بیل کی طرح غبار اڑایا اور لوگ یہ جھوٹا ما جاء إلا ليكتب التفسير في پروپیگنڈا کرنے لگے کہ وہ فی الفور صرف تفسیر اراد من ذلك الرجل محمد حسين البتالوى منه اس شخص سے اس کی مراد محمد حسین بٹالوی ہے.
اعجاز المسيح ۱۹ اردو تر جمه الفور.فلما رأيت أنهم حسبوا نویسی کے لئے ہی یہاں آیا ہے.چنانچہ جب میں الدودة ثعبانا والشّوكة بستانا.نے یہ دیکھا کہ لوگ اس کیڑے کو اثر دھا اور کانٹے قلت في نفسي ان نذهب إلى كو باغ تصور کر رہے ہیں تو میں نے اپنے دل میں کو لاهور فأى حرج فيه.لعل الله یہ کہا کہ اگر ہم بھی لاہور چلے چلیں تو اس میں حرج يفتح بيننا ويسمع الناس ما ہی کیا ہے شاید اللہ ہمارے درمیان کوئی فیصلہ فرما يخرج من فينا وفيه.فشاورت دے اور لوگ ہمارے اور اُس کے منہ سے نکلی ہوئی صحبتي في الأمر.وكشفت باتیں سن لیں.اس پر میں نے اس بارے میں عندهم عن هذا السرّ.اپنے رفقاء سے مشورہ کیا اور اس راز کو اُن پر ظاہر و استطلعت ما عندهم من کیا.اور اُن کی رائے دریافت کی اور اُن کے الرأى.وسردت لهم القصة من سامنے شروع سے آخر تک تمام قصہ بیان کیا اس پر المبادي إلى الغای فقالوا لا انہوں نے کہا کہ آپ کا لا ہور جانا ہمارے نزدیک نرى أن تذهب إلى لاهور.وإن مناسب نہیں.وہ شہر تو فتنوں اور جو روجھا کا گڑھ هو إلا محلّ الفتن والجور.وقد ہے اور یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ اس نے شرائط قبول تبين أنه ما قبل الشروط وأری نہیں کیں اور اُس نے اپنی کمزوری اور بے بسی (۲۵) الضمور والمقوط و تشخط درماندگی دکھا دی ہے.وہ خود اپنے خون میں لت پت بـدمــه ومـا رأى سبيل الخلاص ہے اور اُس نے فرار ہی میں اپنی راہ نجات دیکھی إلَّا الشحوط.وهمط وغمط ہے.اُس نے ظلم کیا اور نعمت کی ناقدری کی.اس وما ذبح كبش نفسه وما سمط نے اپنے نفس کے دُنبے کو نہ تو ذبح کیا نہ اُس کے وما قمط.وإنا سمعنا أنه ما جاء پاؤں باندھ کر لڑکا یا نہ کھال اتاری.ہم نے سنا ہے بصحة السنية.وليس فيه رائحة کہ وہ وہاں نیک نیتی سے نہیں آیا اور اس میں من صدق الطوية.هذا ما رأينا صدق دل کا شائبہ تک نہیں.یہ ہمارا مشورہ ہے اور والأمر إليك.والحق ما أراك فيصلہ آپ کے اختیار میں ہے.حق صرف وہی ہوگا
۲۶ اعجاز المسيح اردو تر جمه الله وما رأيت بعينيك جو اللہ آپ کو دکھائے اور جسے آپ کی آنکھیں وكذالك كانت جماعتی مشاہدہ کریں.اور اس طرح میری جماعت کے يمنعوننی ویردعوننی افراد مجھے روکتے اور منع کرتے رہے اور باصرار ويُصرون على ويكفوننی.حتی روکتے رہے یہاں تک کہ میں نے اپنا ارادہ بدل تلويت عما نويتُ.وحُبّب إلى لیا.مجھے ان کا مشورہ پسند آیا تو میں نے اسے قبول رأيهم فقبلت وما أبيتُ کر لیا اور انکار نہ کیا اور میں نے جو ارادہ کیا تھا وتركت ما أردت وطويت اسے ترک کر دیا اور اپنے قصد سے اعراض کیا.الكشح عما قصدت.ثم طفق اس پر میرے مخالفوں نے اُس کی مدح سرائی المخالفون يمدحونه على فتح شروع کردی کہ اُس نے میدان مارلیا ہے اور علم و (٢٦) الميدان.ويطيـرونـه من غير معرفت کے پروں کے بغیر اسے اونچا اڑانے لگے.جناح العرفان.وكانوا يكذبون وہ جھوٹ بولتے تھے اور حیا نہیں کرتے تھے ولا يستحيون.ويتصلّفون ولا لاف زنی کرتے اور تقویٰ سے کام نہیں لیتے.افترا يتقون.ويفترون ولا ينتهون.باندھتے اور باز نہیں آتے.اُس ( مہر علی ) کی وينسبون إليه بحار محامد نسبت تعریفوں کے ایسے پل باندھتے کہ جن کا وہ ما استحقها.وأبكار معارف مستحق نہیں.اور انہوں نے ایسے اچھوتے معارف استرقها.وكانوا يسبونني كما اُس کی طرف منسوب کئے جن کا وہ مالک نہ هي عادة السفهاء.ويذكروننی تھا.اور جیسا کہ نادانوں کا وطیرہ ہے وہ مجھے گالیاں بأقبح الذكر وبالاستهزاء.دیتے اور میرا ذکر فتیح اور تمسخرانہ انداز سے کرتے ويقولون إن هذا الرجل هاب تھے اور کہتے تھے کہ یہ شخص ہمارے پیر سے ہیبت زدہ شيخنا وخاف.وأكله الرعب اور خائف ہے اور اس سے مرعوب ہوکر میدانِ مباحثہ فما حضر المصاف.وما تخلف میں نہیں نکلا اور یہ امر عظیم سے ڈرنے اور خوف ما إلَّا لخطب خشى وخوف غشی طاری ہونے کی وجہ سے بھی گریز کر رہا ہے.
اعجاز المسيح ۲۱ اردو ترجمه ولو بارز لكلمه الشيخ بأبلغ اگر وہ مقابلہ میں آتا تو ہمارا پیرا اپنے نہایت بلیغ الكلمات.وشجّ رأسه بكلام هو | كلمات سے اُسے زخمی کر دیتا اور اپنے سنگ صفت كالصفات فى الصفات کلام سے اس کا سر توڑ دیتا.اسی طرح وہ بیہودہ وكذالك كانوا يهذرون.کلامی کرتے تھے اور مجھ سے استہزاء کرتے اور مجھے گالیاں دیتے تھے.بخدا میں اپنے نفس کو ويستهزء ون بى ويسبّون.ووالله لا أحسب نفسى إلا | مدفون میت کی طرح خیال کرتا ہوں یا ویران گھر کی طرح.لوگ مجھے کچھ شے سمجھتے ہیں حالانکہ میں كميةٍ تُرْبَ.أو كبيتٍ خُرّبَ.لاھے محض ہوں.میں تو اپنے رب کے سائے کی والناس يحسبونني شيئًا ولستُ طرح ہوں.میری کیا مجال تھی کہ میدانِ مباحثہ بشيء.وما أنا إلا لربّي كفىء.وما كان لي أن أبارز وأدعو.میں نکلوں اور دشمنوں کو للکاروں لیکن اللہ نے مجھے اس جنگ کے لئے نکالا.جب میں نے تیر چلایا تو العدا.ولكن الله أخرجني لهذا میں نے نہیں چلایا اللہ نے چلایا.میرا ایک قادر و توانا الوغى.وما رميت إذ رميت حبیب ہے اور اس کی اعانت میرے لئے کافی ہے ولكن الله رمى.ولى حِبِّ قدير میں مر چکا تو میری تجہیز و تکفین کے بعد وہ میرا وإعانته تكفيني.ومن فظهر محبوب مجھ میں ظاہر ہوا اور میرے مرنے کے بعد الحب بعد تجهیزی و تکفینی.اس نے مجھے باغ و بہار جیسا کلام مرحمت فرمایا اور ووهب لي بعد موتی کلاماً ایسا سخن عطا کیا جو اس پانی سے بھی زیادہ صاف و كالرياض.و قولا أصفى من ماء شفاف ہے جو سنگریزوں والی زمین پر رواں ہو اور يسيح في الرضراض.وحجة ایسی محبتِ بالِغہ عنایت کی جو ایک جان لیوا ناگ کی بالغة تلدغ الباطل كالنضناض طرح باطل کو ڈستی ہے اور یہ سب کچھ میرے رب و كلها من ربي وما أنا إلَّا خاوى كى طرف سے ہے میں تو تہی دامن ہوں.اور مجھے الوفاض.وأُمرت أن أنفق هذه يه حکم دیا گیا ہے کہ میں ہر خاص و عام پر یہ ۲۷
اعجاز المسيح ۲۲ اردو تر جمه الأموال على الأوفاض.وأن اموال خرچ کروں اور اسلام کی دیواروں کی ان ارم جدران الإسلام قبل کے گرنے سے پہلے مرمت کروں.اور جو میرے ۲۸ الانقضاض.و من بارزني فقد مقابلہ پر نکلتا ہے وہ در حقیقت اللہ رب العالمین بارز الله رب العالمين.وما کے مقابلہ پر نکلتا ہے.میں تو صرف مسکینوں کے جئتُ إلَّا بزى المساكين.وما بھیس میں آیا ہوں.میں اپنے بل بوتے پر نہ تو أجيز حزنا من حولى.ولا بطنا بلند زمین کو طے کر سکتا ہوں اور نہ ہی اپنی طاقت من جولي.بل معی قادر یواری سے کسی نشیب زمین کو طے کر سکتا ہوں بلکہ میرے عيانه.ويرى برهانه.فلأجل ساتھ وہ قادر (خدا) ہے جو اپنے وجود کو چھپاتا ہے ذالك تــحــامـت الـعــدا عـن مگر اپنے دلائل و براہین کو دکھاتا ہے.اس وجہ سے طریقي.وقطعت النحور دشمن میری راہ سے کترا گئے اور میری منجنیق سے والأعناق من منجنيقى وما (ان کے) گلے اور گردنیں اور سینے ٹکڑے ٹکڑے لأحد بمقاومتي يدان.ويدى کر دیئے گئے.میرا مقابلہ کرنے کی کسی میں تاب هذه تعمل تحت يدالله نہیں میرا یہ ہاتھ خدائے رحمن کے دستِ قدرت الرحمان.نزلت على بركات هي حرز للصالحين.فجمعت کے تحت کام کر رہا ہے.مجھ پر وہ برکات نازل ہوئیں جو نیک لوگوں کے لئے حرز جان ہیں پس والتحسين.ومن نوادر ما أُغطى اُن کے طفیل میں نے اپنے لئے حصن حصین اور داد و تحسین حاصل کی ہے.اور جو نادر کرامات مجھے لى من الكرامات.أن كلامي هذا قد جعل من المعجزات عطاء کی گئی ہیں ان میں سے میرا یہ کلام ہے جو فلوجهز سلطان عسكرًا من معجزات میں سے ہے.اگر کوئی بادشاہ علماء کی فوج العلماء.ليبارزوني في تفسير اس غرض سے تیار کرے کہ وہ تفسیر قرآن اور دل (۲۹) القرآن وملح الإنشاء.فوالله إنى پذیر انشاء پردازی میں میرا مقابلہ کرے تو بخدا مجھے أرجو من حضرة الكبرياء ان خداوند کبریا سے پوری امید ہے کہ مجھے دشمنوں پر بها لنفسى التحصين
اعجاز المسيح ۲۳ اردو تر جمه يكون لي غلبة وفتح مبين على غلبہ اور فتح مبین حاصل ہوگی.اس غرض کے لئے الأعداء.ولذالك بثثت میں نے بہت سی کتابیں اور بہت سا عمدہ لٹریچر الكتب وأشعتُ الصحف شائع کر کے تمام اکناف عالم میں پھیلا دیا ہے اور النخب في الأقطار.وحثثتُ ہر اس شخص کو جو اپنے تئیں اس میدان کا شاہسوار على هذا المصارعة كل من يزعم نفسه من أبطال هذه تصور کرتا ہے میں نے اُسے مقابلہ کرنے کی ترغیب المضمار.وما كان لأحد من دلائی ہے.اس ملک کے نامی علماء میں دم خم نہیں کہ علماء هذه الديار.أن يُبارزنی وہ میرے اس مقابلہ میں نکلیں جس کی طرف میں فيما دعوتهم بإذن الله القهار نے انہیں خدائے قہار کے حکم سے بلایا ہے.تو فما أنت وما شأنك أيها پھر اے مسکین گولڑوی ! تو کیا اور تیری حیثیت کیا ؟ المسكين الجولروی.أتتغاوى اے گمراہ! کیا تو چند غنڈہ صفت اور اوباش لوگوں على بـأخــلاط الزمر و أوباش کے ساتھ مل کر مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے؟ الناس أيها الغوى.أيها الغافل اے غافل ! اچھی طرح جان لے کہ آسمان نے اعلم أن السماء أهدتك إلى لتكون نموذج عبرة في الأرضين.تجھے میرے سامنے لا پیش کیا ہے تا کہ اہلِ زمین وقادك إلى القدر ليرى الناس کے لئے نمونہ عبرت بنے.قضاء وقدر تجھے گھیر کر ربى قدر المقبولين.وإنا إذا میرے پاس لے آئی ہے تا کہ میرا ارب لوگوں پر ۳۰ نزلنا بساحة قوم فساء صباح اپنے مقبول بندوں کی قدر و منزلت ظاہر فرمائے.المنذرين.أيها المسكين.لا اور جب ہم کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو تقل غير الصدق ولا تشهد ڈرائے جانے والی قوم کی صبح بہت بُری ہوتی ہے.لـغـيـر الـحـق.واتق الله ولا تكن اے مسکین ! سچ کے سوا کچھ نہ کہہ.اور بجز حق کے من المجترئين.أأنت تجد في نفسك قدرة على تفسير کوئی گواہی نہ دے.اللہ سے ڈر اور دیدہ دلیری نہ القرآن برعایت مُلح الأدب دکھا.کیا تو ادبی ملاحتوں اور علم بیان کی لطافتوں کی رعایت سے اپنے اندر قرآن کی تفسیر کرنے کی ولطائف البيان.
اعجاز المسيح ۲۴ اردو تر جمه سبحان ربى ! إن هذا إلا كذب قدرت رکھتا ہے.سُبحان اللہ! یہ تو ایک کھلا جھوٹ مبين.وأنت تعلم مبلغ علمك ہے.تو اپنے مبلغ علم کو بخوبی جانتا ہے اور اپنے وتعلم علم من معك ومن ساتھیوں اور مریدوں کے علم سے بھی واقف ہے تبعك ثم تدعى الفضل پھر بھی تو مکاروں کی طرح دعوی فضل و کمال کر رہا كالماكرين ويعلم العلماء ہے.علماء جانتے ہیں کہ تو اس میدان کا شاہسوار أنك لست رجل هذا الميدان.نہیں لیکن وہ تیرے عیب کو چھپا رہے ہیں جس ولكنهم يكتمون عوارك كما طرح ایک اندرونی بیماری چھپائی جاتی ہے اور اس يكتم الـداء الـدخـيـل ويُسعى کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے.حاصل کلام للكتمان فحاصل الكلام إنك لست أهل هذا المقام یه که تو اس مرتبہ و مقام کا اہل نہیں.نہ تو اللہ نے اپنی وما علمك الله العلم والأدب جناب سے موہبت کے طور پر تجھے علم وادب سکھایا من لدنه موهبة.وما اقتنيت ہے اور نہ ہی تو نے کسی طور پر ان معارف کو حاصل المعارف مكتسبة.ومع ذالك کیا ہے بایں ہمہ جب تو لا ہور آیا تو دعوی کرنے لگا لما حللت لاهور.ادعيت که گویا تو بلا توقف تفسیر لکھے گا.اپنی حدود سے كأنك تكتب التفسير في الفور تجاوز کے باعث تو دیدہ دانستہ اندھا بن گیا یا اپنی تعاميت أوما رأيت عند غلوائك بیا کی کی وجہ سے فی الواقع دیکھ ہی نہیں سکا تو نے وفعلت ما فعلت وسدرت في جو کیا سو کیا اور اپنے تکبر میں بیباک اور اپنی غلط خيلائك.و خدعت الناس بیانیوں سے لوگوں کو فریب دیتا رہا.اور انہیں اپنی بأغلو طاتك.ولوّنتهم بألوان قسما ختم کی جھوٹی باتوں کے رنگ سے رنگین کر لیا.اور خزعبيلا تك.و خدعت كل الخدع حتى أجاح القوم جهلاتك.تو نے اس قدر فریب پر فریب دیا کہ تیری جاہلانہ باتوں وأهلك الناس حيواتك.ثم نے قوم کی بیخ کنی کی.تیری (مکاری کے ) سانپوں ما تركت دقيقة من الإغلاظ نے لوگوں کو ہلاک کر دیا.مزید براں تو نے درشت کلامی والازدراء.وتفردت فی کمال اور عیب گری کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.دریدہ دینی، الزراية والسب و الهذر والاستهزاء دشنام دہی، بدکلامی اور استہزاء کے کمال میں تو یکتا ہے.
اعجاز المسيح ۲۵ اردو تر جمه وما قصدت لاهور إلا لطمع تو نے صرف عوام الناس کی تعریفوں کے لالچ میں في محامد العامة.ولِتُعَدّ فى لاہور کا قصد کیا تا کہ مال اور دھونس کے زور سے أعينهم من حمـاة الـمـلة.ومن تمہارا شمار ان کی نگاہوں میں حامیان ملت اور مواسي الدين و معالجى هذه دین کے ہمدردوں اور اس غم کے چارہ سازوں ۳۲) 1 الغمة ببذل المال والهمة میں ہو.اور اس اقدام سے تو زبانوں کی ملامت ولعلك تامن بهذا القدر سے امن میں آجائے اور تجھ پر بد انجام اور عتاب حصائد الألسنة، ولا ترهق مسلط نہ کیا جائے.تا لوگ یہ سمجھیں کہ گویا کہ تم بالتبعة والمعتبة.وليحسب لكنت كے عیب سے پاک ہو اور سخنوروں کے الناس كأنك مُنزّه عن معرة در میان تم نامرد نہیں اور تاکہ عوام کالانعام یہ اللكن.ولست کعنین فی رجال خیال کریں کہ تمہیں ہر قسم کا علم دیا گیا ہے اور قسما اللسن.وليظن العامة الذين هم قسم کے علمی انعامات سے نوازے گئے ہو اور تمہیں كالأنعام.أنك رُزقت من كل ایسی بصیرت دی گئی ہے جو عرفان کی انتہا تک علم و أنعمت من أنواع الإنعام پہنچتی ہے اور ایسی اصابت رائے دی گئی ہے جو وأعطيت بصيرة تُدرك منتهى دائرہ بیان کو مکمل کرتی ہے.اور تمہیں ایسا فہم العرفان.وإصابة تُكمّل دائرة نصيب ہے جو ہر کجی اور سرکشی سے روکنے والا ہے البيان.و فهما كفهم ذوّاد عن اور ایسی عقل دی گئی ہے جو برہان کے پرندوں کو الزيغ والطغيان.وعقلا کبازی باز کی طرح شکار کرتی ہے اور ایسا نطق عطا کیا گیا يصيد طير البرهان.ونطقًا مُؤيّدًا ہے جو روشن دلائل قاطعہ سے تائید یافتہ ہے اور بالحجج القاطعة المنيرة اليسا نفس جو قسم قسم کے معارف اور حسن باطن سے ونفسًا مُتحلّية بأنواع المعارف آراستہ ہے اور ایسی توفیق عطا کی گئی ہے جو رُشد و وحسن السريرة.وتوفيقًا قائدًا ہدایت کی جانب لے جاتی ہے اور ایسا الہام دیا ۳۳) إلى الرشد والسداد.وإلهاما گیا ہے جو رب العباد کے غیر سے بے نیاز کر مغنيا عن غير رب العباد.ثم ما دے.پھر خودستائی میں جو اپنی طرف سے کمی رہ
اعجاز المسيح ۲۶ اردو ترجمہ بقى منك من تحميدك.گئی تھی اسے تیری تائید میں تیرے دوستوں نے كمله صحبك في تأييدك پورا کر دیا اور تیری تعریف کے ترانے گائے گئے وأنشد الأشعار في ثنائك.وما اور تیری مدح سرائی میں مبالغہ آمیزی کا کوئی دقیقہ ترك دقيقة في إطرائك.ثم فروگذاشت نہ کیا گیا.پھر تجھے رفعت و بلندی سبـونـي وحقروني بعد رفعك دینے کے ساتھ انہوں نے مجھے گالیاں دیں اور میری وإعـلائك.وكانوا لا يُلاقون تحقیر کی.وہ جن سے بھی ملتے یا جن سے بھی ان کا أحدًا ولا يــــوافـــون رجلًا إلا سامنا ہوتا ان کے پاس میرا ذکر استخفاف سے ويذكرونني عندهم استخفافا.و أكلو الحمى بالغيبة فما أكلوا کرتے ہیں.انہوں نے غیبت کر کے میرا گوشت إلا سما زعافا.فلما بلغت کھایا اور ایسا کر کے دراصل انہوں نے خود زہر ہلاہل إهانتهم منتهاها.و گلمنی کھایا.جب ان کی اہانت اپنی انتہاء کو پہنچ گئی اور كَلِمهم بمداها.ووصل الأمر ان کی باتوں کی چھریوں نے مجھے زخمی کیا اور معاملہ إلى مداها.ورأيتُ أنهم جاروا اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور میں نے دیکھا کہ انہوں نے كل الجور.وأثاروا كالثور.ہر قسم کا ظلم ڈھایا ہے اور بیل کی طرح غبار اڑایا ہے وتركوا طريق الانصاف اور انصاف کی راہ چھوڑ دی ہے اور ظلم کا رویہ اپنایا ۳۴ وسلكوا مسلك الاعتساف.ہے اور بیہودہ گوئی اور بکواس کی کثرت ہوگئی ہے.وكثر الهذر والهذيان.ومُلئت اور اس دشنام دہی سے دل اور کان بھر گئے ہیں اور بكلمات السبّ القلوب والآذان.وتاهت الخيالات و كذبت خیالات آوارہ ہو گئے ہیں معارف کی تکذیب اور المعارف وصدقت الجهلات جاہلانہ باتوں کی تصدیق کی گئی ہے تو میرے دل أُلقي في روعى أن أنجى العامة میں بیڈالا گیا کہ عوام الناس کو ان لوگوں کی غلط بیانیوں من أغلوطاتهم.وأُطفى بقول سے بچاؤں اور ان کی بکو اس کے نتیجہ میں بھڑکائی فيصل ما سعروا بترهاتهم.ہوئی آگ کو قول فیصل کے ذریعہ سرد کروں
اعجاز المسيح ۲۷ اردو تر جمه وأكتب التفسير وأُرى الصغير اور میں تفسیر لکھوں اور اس طرح ہر چھوٹے بڑے کو والكبير أنهم كانوا كاذبين.یہ دکھا دوں کہ وہی لوگ جھوٹے ہیں.وماحملنی علی اس مگار کے جھوٹ کے پول کھولنے کے مقصد ذالك إلا قصد إفشاء كذب نے ہی مجھے اس ( تفسیر نویسی) پر آمادہ کیا ہے هذا المكار.فإنه مكر مكرًا کیونکہ اس نے ایک بہت بڑا فریب کیا اور یہ ظاہر كُبَّارًا وأظهر كأنه من العلماء کیا کہ وہ اکابر علماء میں سے ہے اور یہ دعویٰ کیا کہ الكبار.وادعى أنه يعلم القرآن.وہ قرآن کا علم رکھتا ہے اور وہ اپنے ہم پلہ علماء پر فوقیت رکھتا ہے اور وقت آگیا ہے کہ وہ غالب ہو وفاق الأقران.وحان أن يغلب ويُعان.والغرض من تفسيرى اور اُس کی مدد کی جائے.میری اس تفسیر کی اصل هذا تفريق الظلام والضياء.وإراءة تضوّع المسك بحذاء غرض ظلمت اور ضیاء کے درمیان فرق کرنا اور بیابان کے مردار کے مقابلہ پر مشک کی مہک کو جيفة البيداء.وإظهار خدع پھیلانا ہے.نیز ایک دھوکے باز کے دھوکے کو الخادع ومواسات الرجال ظاہر کرنا ، مردوں اور عورتوں کے ساتھ ہمدردی کرنا والنساء و الاشفاق على العمى اور اندھوں اور حرص و ہوا کی پیروی کرنے والوں پر و متبعى الأهواء.وقضاءُ خطب شفقت کرنا بھی اس تفسیر کا مقصد ہے.ایسے اہم كان كحق واجب و دين لازم لا يسقط بدون الأداء.فهذا كام كو سرانجام دینا ایک ایسا حق واجب اور ایسا هو الأمر الداعي إلى هذه لازم قرض تھا جو ادا کئے بغیر ساقط نہیں ہوتا.یہ وہ الدعوة.مع قلة الفرصة ليكون اصل سبب ہے جو عدیم الفرصتی کے باوجود اس تفسير الفرقان فرقانا بين أهل دعوت کا محرک ہوا تا کہ فرقانِ حمید کی تفسیر ہدایت الهدى وأهل الضلالة ولولا یافتہ اور گمراہ لوگوں کے درمیان امتیاز کر دے.اگر التصلّف وتطاول اللسان.وإظهار اس بزدل کی طرف سے شجاعت کا اظہار، زبان شجاعة الجنان من هذا الجبان.درازی اور لاف زنی نہ ہوتی تو میں اس کی لغویات
اعجاز المسيح ۲۸ K اردو تر جمه لمررتُ بلغوه مرور الكرام.کو نظر انداز کرتے ہوئے شرفاء کی طرح گزر جاتا ٣٦ وما جعلته غرض السهام.ولكنه اور اُسے تیروں کا نشانہ نہ بناتا لیکن اُس نے خود هتك ستره بيديه.فكان منه ما اپنے ہاتھوں اپنا پردہ چاک کیا.اب وہ افتاد جو اس ورد عليه.وإنه كذب كذبا پر پڑی ہے وہ خود اس کی اپنی ہی طرف سے ہے.اُس نے فتیح جھوٹ بولا اور نہ ڈرا.بلکہ یہ کہ فاحشا وما خاف.بل خدع و اس نے فریب سے کام لیا جھوٹ کو سچ دکھانے کی زوّر و أغرى على الأجلاف.کوشش کی اور کمینہ صفت لوگوں کو میرے خلاف وزعم نفسه كأنه صاحب بھڑکایا اور اپنے تئیں یہ خیال کیا کہ گویا وہ صاحب الخوارق والكرامات وعالم خوارق و کرامات اور عالم قرآن ، چشمہ معرفت القرآن وشارب عين العرفان سے پینے والا اور دقائق اور نکات پر دسترس رکھنے ومالك الدقائق والنكات.والا ہے.پس ہم پر یہ فرض ہو گیا کہ اس کے دعویٰ فوجب علينا أن نُرى الناس کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے لائیں اور اُس کی حقيقة ما ادعاه.وتظهر ما حق پوشی کو اُن پر ظاہر کریں کیونکہ امتحان کے بغیر أخفاه.ولولا الامتحان لصعب بیجان اور جاندار کے درمیان تفریق کرنا مشکل ہوتا ہے.مجھے یہ قدرت حاصل ہے کہ اس کے لولے التفريق بين الجماد والحيوان.لنگڑے گھوڑے کو مضبوط گھوڑے اور اس کے وكنتُ أقدر أن أُرى ظالـعـه گدھوں کو عمدہ گھوڑوں کی صورت میں ظاہر کرتا كالضليع وحمره كالأفراس | لیکن یہ موقع جنگ کا لیکن یہ موقع جنگ کا ہے نہ کہ لوگوں کی ولكن هذا مقام العماس لا وقت لغزشوں سے درگزر کرنے کا وقت.کوئی متکبر شخص عفو عثار الناس.والمتكبر ليس اس لائق نہیں ہوتا کہ اس کی لغزشوں سے صرف نظر بحرى أن يُقال عِشاره.وستر کر دیا جائے اور اس کی عیب پوشی کی جائے.اسی عواره.وكذالك لا يليق بــه طرح اس شخص کے لئے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ دعویٰ
اعجاز المسيح ۲۹ اردو تر جمه ان يعرض عن ذالك الخصام علم کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو علماء کرام کے ويستقيل من هذا المقام مع زُمرے میں شمار کرتے ہوئے اس مقابلے سے دعاوى العلم وكونه من العلماء اعراض کرتا اور اس موقع سے دستکش ہو جاتا.بلکہ الكرام.بل ينبغي أن يُسبر چاہئے یہ کہ اُس کی عقل کو پرکھا جائے اور اُس کے عقله.ويُعرف حقله.وقد ادعى کھیت کی حقیقت جانی جائے.اُس نے دعویٰ تو یہ أنه صبغ نفسه بألوان البلاغة کیا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو بلاغت کے مختلف كجلود تُحَلَّى بالدباغة.فإن رنگوں سے اس طرح رنگا ہوا ہے جس طرح چھڑے كان هذا هو الحق ومن الأمور كو دباغت سے آراستہ و پیراستہ کیا جاتا ہے.اگر الصحيحة الواقعة.فأى خوف اس کا دعوی حق پر مبنی اور واقعتا درست امر تھا تو اسے عليه عند هذه المقابلة بل هو اس مقابلہ ( تفسیر نویسی) کے وقت ایسا کیا خوف محلّ الإبشار والفرحة.لا وقت تھا ؟ بلکہ وہ تو شادمانی اور فرحت کا موقع تھا نہ کہ الفزع والرغدة.فإن كمالاته خوفزدہ ہونے اور لرزہ طاری ہونے کا وقت.المخفية تظهر عند هذا کیونکہ اُس کے مخفی کمالات اس مقابلہ امتحان اور الامتحان والتجربة.ويرى تحریر کے وقت ظاہر ہو جاتے.اور سب لوگ اس الناس كلهم ما كان له مستورًا کی مخفی شان اور مرتبے کو جان لیتے.اور یہ تو معلوم من الشأن والرتبة.ومن المعلوم ہی ہے کہ کسی مرد کامل کی قدرو قیمت اُس کے کمال أن قيمة المرء الكامل يزيد عند کے ظاہر ہونے سے بڑھ جایا کرتی ہے.بالکل اسی ظهور كـمـالـه.كما أن البئر يُحب ويؤثر عند شرب زلاله طرح جیسے ایک کنویں کے آب زلال پینے سے وہ ولا يخفى أن القادر على تفسیر پیارا اور محبوب بن جاتا ہے.یہ امر مخفی نہیں کہ وہ القرآن.يفرح كل الفرح عند شخص جو تفسیر قرآن پر دسترس رکھتا ہو بعض معارف السؤال عن بعض معارف قرآن کے سوال پر بہت خوش ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے دباغت یعنی کچے چمڑے کو پکانا ،صاف کرنا اور رنگنا.
اعجاز المسيح ۳۹ اردو تر جمه الفرقان.فإنه يعلم أن وقت کہ اُس کے ستارے کے چمکنے کا وقت آ گیا ہے اور اشراق کوکبـه جـاء.وحان أن اُس کے لئے وہ ساعت آن پہنچی ہے کہ وہ شہرت يُعرف ويُخزى الأعداء فلا پائے اور اس کے دشمن ذلیل ہوں.اس لئے جب يحزن ولا يغتم إذا دُعِی اسے مقابلہ کے لئے بلایا جائے اور اُسے دعوت لمقابلة.ونودى لمناضلة.بل مبارزت دی جائے تو وہ غمگین اور اندوہ گین نہیں يزيد مسرة ويحسبها لنفسه ہوتا بلکہ اس کی مسرت بڑھ جاتی ہے اور وہ اسے كبشارة.أو كتفاؤل لإمارة.فإن اپنے لئے ایک خوشخبری یا اپنی امارت کے لئے العـالـم الـفـاضــل لا يقدر حق نیک فال تصور کرتا ہے کیونکہ ایک عالم و فاضل کی قدره.إلَّا بعد رؤية أنوار بدره.ولا يخضع له الأعناق بالكلية.پوری قدر و قیمت تو اس کے بدر کامل کے انوار کے مشاہدہ کے بعد ہی ہوسکتی ہے اور اُس کے مخفی إلا بعد ظهور جواهره المخفية.جو ہروں کے ظہور کے بعد ہی اس کے آگے لوگوں وإنا اختــرنــا الـفـاتـحة لهذا کی گردنیں کلی طور پرخم ہوتی ہیں.ہم نے اس الامتحان.فإنها أم الكتاب ومفتاح الفرقان ومنبع اللؤلؤ والمرجان.وكوكنة لطير مقابلہ کے لئے سورۃ فاتحہ کو منتخب کیا ہے کیونکہ یہ أم الكتاب ، مِفْتَاحُ الفُرقان ، موتیوں اور مرجان العــرفــان.وليـكتـب كل منا کی کان اور طیورِ معرفت کے لئے آشیانہ کی طرح تفسيرها بعبارة تكون من ہے.اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ وہ اس کی تفسیر ایسی غایت درجہ بلیغ عبارت میں لکھے البلاغة في أقصاها وتنير الـقـلـب وتُضاهي الشمس في جو دل کو منور کر دے اور وہ اپنی بعض معنوی خوبیوں بعض معناها.ليرى الناس من کے اعتبار سے آفتاب کے مشابہ ہوتا کہ لوگ دیکھ اقتعد منّا غارب الفصاحة.لیں کہ ہم میں سے کون فصاحت کی بلند چوٹی پر و امتطـــى مـطـايـا الملاحة.بیٹھا ہے اور ملاحت بیان کی سواری پر کون سوار وليُعرف أريب حداه العقل إلى ہے.اور تا کہ اس دانشور کی پہچان ہو جائے جس کی
اعجاز المسيح ۳۱ اردو تر جمه هذا الأرب.ويُعلم أديب ساقه | عقل اسے اس مقصد کی طرف لائی ہے اور اس الفهم إلى رياض العرب ادیب کی بھی نشان دہی ہو جائے جس کا فہم اُسے وليضمر كل منا لهذا المراد گلشن عرب کی جانب کشاں کشاں لے آیا ہے اور كل ما عنده من الجياد.ویفری تاکہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقصد کے ۴۰ كل طريق من الوهاد و النجاد حصول لئے اپنے اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کو اس بزاد اليراع والمداد ليشاهد مقابلہ کی دوڑ میں لاغر کر دے.اور نشیب و فراز کی الناس مَنْ تُداركه العناية تمام راہوں کو اپنے قلم اور سیاہی کے زاد سے طے الإلهية.وأخذ بيده اليـــد کرے تاکہ لوگ مشاہدہ کر لیں کہ عنایت الہی کس الصمدية.ومن كان يزعم نفسه كى شامل حال ہے اور صمدیت کے ہاتھ نے کے أنـه هـو الـعـالـم الرباني.فليس | کس کی دستگیری فرمائی ہے.اور اُس شخص کے لئے عليه بـعـزيـز أن يكتب تفسير جو عالم ربانی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یہ کچھ مشکل السبع المثاني مع رعاية ملح نہیں کہ وہ ادب کی ملامتوں اور معانی کے نوادر کو الأدب وشوارد المعاني.ثم إنى ملحوظ رکھتے ہوئے سَبْع مَشَانِی کی تفسیر لکھے.پھر أرخيتُ لـه الزمام كل الإرخاء.ووسـعـت لـــه الكلام لتسهيل میں نے اس ( مہر علی ) کے لئے لگام کو کلیتا ڈھیلا الإنشاء.وكتبتُ من قبل في چھوڑ دیا.اور اس کے لئے میں نے گفتگو میں گنجائش رکھی تا کہ وہ آسانی سے لکھ سکے.میں نے صحيفة أشعتها.ونميقة إليـه دفعتها.أن ذالك الرجل العُمْرَ اپنے اشتہار میں جو میں شائع کر چکا ہوں اور خط إن لم يستطع أن يتولّى بنفسه ميں جو اُ سے بھجوا چکا ہوں پہلے ہی یہ لکھ دیا تھا کہ هذا الأمر.فله أن يُشرك به من اگر یہ نادان شخص اس امر کی خود مقدرت نہیں رکھتا تو م العلماء الزمر أو يدعو من أسے اختیار ہے کہ علماء کا ایک گروہ اپنے ساتھ العرب طائفة الأدباء.أو يطلب شریک کر لے یا عرب سے ادیبوں کی ایک من صلحاء قومه همةً و دعاء جماعت بلا لے یا اپنی قوم کے صلحاء سے اس کٹھن.
اعجاز المسيح ۳۲ اردو تر جمه.لهذه اللأواء.وما قلتُ هذا | کام کے لئے ہمت اور دعا کی درخواست کرے.القول إلا ليعلم الناس أنهم یہ بات میں نے صرف اس لئے کہی تھی کہ تا لوگ یہ كلهم جاهلون ولا يستطيع جان لیں کہ یہ سب جاہل ہیں اور ان میں سے کوئی أحد منهم أن يكتب كمثل هذا بھی اس جیسی تفسیر لکھنے کی طاقت و مقدرت نہیں ولايقدرون وليس من رکھتا.اور یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ یہ شخص جسے الصواب أن يُقال أن هذا الرجل دعوت مقابلہ دی گئی ہے وہ گذشتہ زمانہ میں تو عالم المدعو كان عالمًا في سابق تھا لیکن اس وقت برف کے پگھل کر معدوم ہو جانے الزمان.وأما في هذا الوقت فقد کی طرح اُس کا علم معدوم ہو گیا ہے.اور یہ کہ اس انعدم علمه كثلج ينعدم بالذوبان و نسج علیه عناكب پرنسیان کی مکڑیوں نے جالے بن دیئے ہیں کیونکہ النسيان.فإن العلم الذى ادعاه.وہ علم جس کا وہ مدعی ہے اور جسے اس نے از بر کیا وحفظه ووعاه.وقرأه وتلاه محفوظ رکھا اور مسلسل پڑھتا رہا ضروری تھا کہ وہ علم لا بد أن يكون له هذا العلم اس کے لئے شیر مادر کی طرح ہوتا جس نے اس کی (۴۲) گذر رباه أو كسراج أضاء پرورش کی یا ایسے چراغ کی طرح ہوتا جس نے اس بيته وجلاه.فكيف يزول هذا کے گھر کو خوب روشن کیا اور اسے جلا بخشی.پھر العلم بهذه السرعة.ويخلو کیسے ممکن ہے کہ وہ علم اتنی جلدی زائل ہو جائے اور کظرف منثلم وعاء الحافظة.ذہن چھید شدہ برتن کی طرح خالی ہو جائے.اور کس وتـــنـــزل آفـة مـنـسـيـة عــلــى طرح ممکن ہے کہ حواس اور دل پر نسیان کی آفت المدارك والـجـنـان.حتى لا آپڑے کہ اتنی تھوڑی مدت میں لوحِ قلب پر ایک يبقى حرف على لوحها إلى هذا حرف بھی باقی نہ رہے اور وہ علوم جو جان جوکھوں القدر القليل من الزمان وكيف میں ڈال کر طویل مشقت کے بعد حاصل کئے گئے تهب صراصر الذهول على علوم كسبت بشق النفس والقحول ہوں اُن پر ڈھول کی بادِ صر صر کس طرح چل سکتی ولو فرضنا أنّ آفة النسیان ہے.اور اگر ہم یہ فرض بھی کر لیں کہ نسیان کی
اعجاز المسيح ۳۳ اردو تر جمه أجاح شجرة علمه من آفت نے اس کے علم کے درخت کو بیخ و بن سے البنيان.وسقطت علی زهر اکھاڑ پھینکا ہے اور محرومی کی بجلیاں اس کی درایت درايته صواعق الحرمان.فکیف کے شگوفوں پر گر گئی ہیں لیکن ہم یہ کیسے فرض کر لیں نفرض أن هذا البلاء.ورد على که نسیان کی یہ بلا ان ہزاروں علماء پر بھی آن پڑی ألوف من العلماء الذين جعلوا ہے جو اس کے شرکاء کی طرح ٹھہرائے گئے اور اس له كالشركاء.وأُشرِكوا فی کے بوجھ اٹھانے میں اس کے بطور مددگار شریک في وزره كـالـوزراء.بل أُذن له ان ہیں بلکہ اُسے تو یہ بھی اجازت دی جا چکی ہے کہ جتنے ۴۳) تو يطلب كل ما استيسر له من ادیب بھی اُسے میسر آسکیں وہ انہیں بلا لے.شاید الأدباء.لعله يكتب قولا بليغا اس طرح وہ کوئی بلیغ کلام لکھ سکیں.اور اندھی اونٹنی ولا يتيه كالناقة العشواء.ثم من کی طرح وہ سرگرداں نہ ہو.پھر یہ تسلیم شدہ بات المُسلّم أن الله يُربّى عقول ہے کہ اللہ نیکو کار لوگوں کی عقلوں کو بڑھاتا ہے اور الصالحين.ويُسعدهم بالهداية روحانی لوگوں کی راہوں کی جانب ہدایت دے کر سعادت مند بناتا ہے اور جب کبھی بھی خدائے إلى طرق الروحانيين.ويُذكرهم إذا ما ذهلوا معارف قدوس کے کلام کے معارف انہیں بھول جائیں تو وہ كلام الله القدوس.ويُنزل انہیں یاد دلا دیتا ہے.اور زلازل کے وقت ان کے السكينة عند الزلزال على دلوں پر سکینت نازل فرماتا ہے اور روح القدس النفوس.ويؤيدهم بروح منه سے ان کی تائید فرماتا ہے اور بیان کے وقت اپنی ويعضد بالإعانة على الإبانة.اعانت سے اُن کی نصرت فرماتا ہے اور ان کے ويتولى أمورهم ويُميزهم سب کاموں کا متوتی ہو جاتا ہے اور عقل و متانعت بالحصات والرزانة.ويصرفهم کے ذریعے انہیں (دوسروں سے ) ممتاز کر دیتا ہے.اور انہیں سفاہت سے دور رکھتا ہے اور گمراہی سے من السفاهة.ويعصمهم من
اعجاز المسيح ۳۴ اردو تر جمه الغواية ويحفظهم في الرواية انہیں بچاتا ہے اور روایت و درایت میں خودان والدراية.فلا يقفون موقف کی حفاظت کرتا ہے پس وہ ( صالحین ) ندامت (۲۳) مندمة.ولا يرون يوم تندم کے مقام پر کھڑے نہیں ہوتے.اور نہ خجالت اور ومنقصة ولا تغرب أنوارهم.گھاٹے کا دن دیکھتے ہیں.ان کے انوار ماند نہیں پڑتے اور نہ اُن کے گھر ویران ہوتے ہیں.ولا تخرب دارهم منابعهم اُن کے چشمے خشک نہیں ہوتے اور نہ اُن کے لا تغور وصنائعهم لا تبور کاروبار تباہ ہوتے ہیں.ان کی ہر میدان میں ويُؤَيّدون في كل موطن تائید ونصرت کی جاتی ہے اور انہیں ہر قسم کی معرفت ويُنصرون.ويُرزقون من كل عطا کی جاتی ہے اور وہ ہر جہالت سے دور رکھے معرفة ومن كل جهل يُبعدون.جاتے ہیں.اور وہ اس وقت تک نہیں مرتے جب ولا يموتون حتى تُكمّل تک ان کے نفوس کو کمال عطا نہیں کیا جاتا اور جب يُرجعون.فإن الله نورٌ فيميل نفوسهم فإذا كُمّلت فإلى ربّهم وہ کامل کر دیئے جاتے ہیں تب وہ اپنے رب کی طرف لوٹائے جاتے ہیں.اللہ نور ہے اس لئے وہ إلى النور.وعادته البدور إلى نور كى طرف میلان رکھتا ہے اُس کا دستور یہ ہے کہ کی البدور.ولما كانت هذه عادة جو لوگ کامل ہوتے ہیں وہ ان کی طرف لپکتا الله بأوليائه.وسُنّته بعباده ہے.چونکہ اللہ کی عادت اور سنت اپنے اولیاء اور المنقطعين و أصفيائه.لزم أن لا اپنے زاہد اور برگزیدہ بندوں کی نسبت یہی ٹھہری يرى عبده المقبول وجه ذلّة ہے تو پھر یہ لازم آیا کہ اس کا مقبول بندہ ذلت کا ولا يُنسب إلى ضعف وعلة عند چہرہ نہ دیکھے اور کسی اہل ملت کے مقابلہ کے وقت اس مقابلة من أهـل مـلة.ويفوق كى طرف کوئی کمزوری اور بیماری منسوب نہ کی جاسکے..۲۵ الكل عند تفسیر القرآن اور وہ قرآن کی تفسیر کرتے وقت اپنے مختلف النوع بأنواع علم ومعرفة.علم اور معرفت کے ذریعہ سب پر فوقیت لے
اعجاز المسيح ۳۵ اردو تر جمه وقد قيل أن الولي يخرج من | جائے.یہ بالتحقیق کہا گیا ہے کہ ولی قرآن سے اور القرآن والقرآن يخرج من قرآن ولی سے ظاہر ہوتا ہے اور یہ کہ قرآن کے مخفی الولى.وإن خفايا القرآن لا خزانے ( رموز و دقائق ) صرف اسی شخص پر ظاہر يظهر إلا على الذي ظهر من ہوتے ہیں جو خدائے علیم و برتر کے دست قدرت يدي الـعـلـيـم الـعـلـى فإن کان سے ظہور پذیر ہو.پھر اگر کوئی شخص ایسا ہو جو اکیلا رجل مَلَك وحده هذا الفهم ہی ایسے نمایاں اور ممتاز فہم کا مالک ہوتو وہ اس شخص الممتاز.فمثله كمثل رجل کی طرح ہے جو بغیر کسی مشقت اور اضطراب کے أخرج الركاز.وما بذل الجهد ایک مدفون خزانہ باہر نکال لایا ہو.تو وہ شخص ولی وما رأى الارتماز.فهو ولي الله اللہ ہے اور اُس کی شان عظیم تر ہے اور اُس کا دامن وشأنه أعظم وذيله أرفع من همز ہر عیب گیر کی عیب گیری اور ہر عیب چین کی الهماز.ولمز اللماز.وما أُعطى عیب چینی سے بالا تر ہے اور وہ قرآنی معارف جو هذا الولي الفاني من معارف اس فانی فی اللہ ولی کو بطور رختِ سفر عطا کئے جاتے القرآن كالجهاز.فهو معجزة ہیں وہ ایک معجزہ ہوتے ہیں بلکہ ہر قسم کے اعجاز بل هو أكبر من كل نوع الإعجاز.وأي معجزة أعظم من سے برتر ہوتے ہیں.بتاؤ کہ اُس اعجاز سے بڑھ کر اور کونسا معجزہ ہو سکتا ہے جو قرآن کا ظلّ واقع ہو اور اعجاز قد وقع ظلّ القرآن.وشابه كلام الله في كونه أبعد انسانی طاقت سے بالا ہونے کی وجہ سے کلام الہی من طاقة الإنسان.وليس هذا سے مشابہت رکھتا ہو اور یہ مقام صرف متقیوں کے الموطن إلا للمتقين.ولا تفتح لئے مخصوص ہے.اور یہ دروازے فقط صالحین پر هذه الأبواب إلا عـلـى کھولے جاتے ہیں.پاک کئے ہوئے لوگوں کے الصالحين.ولا يمسه إلَّا الذي سوا کوئی اور ان قرآنی معارف کو چھو بھی نہیں سکتا اور كان من المُطَهِّرين.وإن الله الله خیانت کرنے والوں کی تدبیر کو کبھی کامیاب لا يهدى كيد الخائنين الذين نہیں کرتا جنہوں نے فریب کاری کو اپنا ذریعہ
اعجاز المسيح ۳۶ اردو تر جمه يجعلون المكائد منتجعًا معاش بنایا اور جھوٹی باتوں کو اپنا ملجاً وما وی بنارکھا والأكاذيب كهفًا و مرجعًا.ولهم ہے.ان کے دل اُس رات کی طرح ہیں جس نے قلوبٌ كليل أردف أذنابه اپنا دامن پھیلا دیا ہے اور اُس تاریکی کی طرح ہیں وظلام مد إلى مدى الأبصار جس نے تاحد نظر اپنی طنابیں تان رکھی ہوں.وہ أطنابه.لا يعلمون ما القرآن نہیں جانتے کہ قرآن کیا ہے اور علم و عرفان کیا چیز.وما الـعـلـم و العرفان.ومن لم جو شخص قرآن کا علم نہیں رکھتا اور اسے بیان کی قوت يعلم القرآن وما أوتى البيان نہیں دی گئی تو ایسا شخص یا تو شیطان ہے یا شیطان فهو شيطان أو يضاهي کا مشاہ.اور اُس نے خدائے رحمن کو نہیں پہچانا.الشيطان.وما عرف الرحمان اور کسی فاسق کی کیا مجال کہ اسے اُس عالی آرزو تک ومــا كـان لـفـاسـق أن يبلغ هذه رسائی ہو خواہ وہ اپنے خسیس نفس کو اس کی طرف المنية العليّة.ولو شحذ إليها کتنا ہی تیز کرے.بلکہ وہ فاسق تو اپنی پر دہ دری - النفس الدنيّة.بل هو يختار طريق الفرار.خوفًا من هتك اور لغزش ظاہر ہونے کے خوف سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے.اسی طرح اس مکار شخص اور دروغ گو الأستار.وظهور العثار.شکاری نے کیا.دیکھو ! اس نے کیسے جھوٹ کو وكذالك فَعَلَ هذا الرجل آراستہ کیا اور بیبا کی دکھائی اور کہا کہ میں نے چیلنج الكائد.والمُزَوِّرُ الصائد.قبول کیا حالانکہ اُس نے اسے قبول نہیں کیا.اُس فانظروا كيف زوّر.وأرى نے یہ بھی کہا کہ اس مقابلہ کے لئے میں نے لشکر التهوّر.وقال لبيت الدعوة وما لبي.وقال عبّيت العسکر تیار کر رکھا ہے حالانکہ اُس نے تیار نہیں کیا.و للخصام وما عبى و ما بارز بل مقابلے کے میدان میں نہ نکلا بلکہ دھوکا دیا اور خدع وخبّ.وإلى جُحره اب فریب کیا اور اپنے بل میں واپس چلا گیا.وہ نحیف وتراءى نحيفا ضعيفا وكان يُرى ونزار ظاہر ہوا جبکہ وہ اپنے آپ کو قوی ہیکل شخص نفسه رجلًا بيا.وأخلد إلى الأرض ظاہر کرتا تھا.وہ زمین کی طرف جھک گیا اور
اعجاز المسيح ۳۷ اردو ترجمہ وشابه الضب.وما صعد وما سوسمار ( گوہ) کے مشابہ ہو گیا.نہ وہ بلندی کی ثب.وجمع الأوباش وما دعا جانب چڑھا اور نہ اس نے استقامت دکھائی.اس الرب.وحقرنی و شتم و سب نے اوباش لوگوں کو اکٹھا کیا اور رب کو نہ پکارا.اور وتبع الحيل وما صافى الله و ما میری تحقیر کی اور گالی گلوچ کی.اس نے حیلہ سازی أحب.وما قطع له العلق وما کی اور اللہ سے خلوص اور محبت کا تعلق نہ رکھا.اُس نے ذات باری کی خاطر غیر اللہ سے تعلقات قطع جب.وقال إنى عالم والآن نجم علمه أزبّ.وكلّ ما دبّر تب.اور ختم نہ کئے اور اس نے کہا کہ وہ عالم ہے جبکہ اس کے علم کا ستارہ ڈوب چکا ہے.اس نے جوتد بیر بھی وإن كان عالما فأى حرج على کی وہ تباہ ہوئی.اگر وہ فی الحقیقت عالم ہے تو ایک عالم أن يُفسّر سورة من سور عالم کے لئے قرآن کی سورتوں میں سے کسی سورت القرآن.ويكتب تفسيره في کی تفسیر کرنے اور قرآن کی زبان میں اس کی تفسیر لسان الفرقان.بل يُحمد لهذا و لکھنے میں کیا دشواری ہے؟ بلکہ ایسا کرنے سے تو يُثنى عليـــه بـصـدق الجنان.اُس کی سچے دل سے تعریف وستائش کی جاتی اور یہ ويُعلم أنه من رجال الفضل معلوم ہو جا تا کہ وہ صاحب فضل وعلم اور فصیح البیان والعلم والبيان.ويُشكر بما ينفع | شخص ہے.اور خدائے رحمن کی طرف سے سکھائے الناس من معارفِ عُلم من گئے اُن معارف سے لوگوں کو مستفید کرنے کے الرحمان.فلذالك أقول أنه من باعث اس کا شکر یہ ادا کیا جاتا.بناء بریں میں کہتا كان يدعى ذُرَى المكان المنيع ہوں کہ جو شخص ایک بلند و بالا مقام کی چوٹی پر فائز فليبذل الآن جهد المستطيع ہونے کا دعویدار ہے اسے چاہیئے کہ مقدور بھر کوشش ويُثبت نفسه كالضليع.ولا کرے اور اپنے آپ کو ایک مضبوط اور عمدہ گھوڑے شك أن إظهار الكمال من کی طرح ثابت کرے.بلاشبہ کمال کا اظہار سيرة الرجال وعادة الأبطال.مردوں کی سیرت اور بہادروں کا شیوہ ہے.تا اس لينتفع به الناس ولیخرج به طریق سے لوگ اُس سے مستفید ہوں اور تا اس
اعجاز المسيح ۳۸ اردو تر جمه مسكين من سجن الضلال کے ذریعہ کوئی عاجز بندہ زندانِ ضلالت سے باہر ۴۹) ولا يرضى الكامل بأن يعيش نکل آئے.کوئی مرد کامل یہ برداشت نہیں کرے گا كمجهول لا يُعرف.ونكرة لا تُعرف.وإن الفضل لا تتبين إِلَّا كہ وہ ایک گمنام شخص جیسی غیر معروف زندگی بسر بالبيان.ولا يُعرف الشمس إِلَّا کرے اور وہ ایسا نکرہ ہو جو معرفہ نہ بن سکے.بالطلوع على البلدان.وإني قصاحت بیان کے بغیر کوئی فضیلت متحقق نہیں ہوسکتی بغیر ألزمت نفسي أن أكتب تفسیرى هذا في إثبات ما اور سورج کی پہچان کرہ ارض پر ضیاء باری أُرسلت بـه مـن الحضرة.وأن کے بغیر ممکن نہیں.میں نے اپنے آپ پر لازم کر لیا أفتح هذه الأبواب بمفاتیح ہے کہ میں حضرت باری سے ملنے والے پیغام کے الفاتحة.مع لطائف البيان اثبات میں اپنی تفسیر لکھوں اور لطائف بیان اور ادبی ورعاية الملح الأدبية.والتزام الفصاحة العربية.ومن المعلوم رعنائیوں کی رعایت اور فصاحت عربی کے التزام أن نمق الدقائق الدينية کے ساتھ سورت فاتحہ کی کلید سے ان دروازوں کو والرموز العلمية.والإيماضات کھولوں.یہ امر بالکل واضح ہے کہ دقائق دینیہ اور والإشارات مع توشيح العبارات وترصيع الاستعارات رموز علمیہ اور کنایات و اشارات کو مزین عبارات، والتزام محاسن الكنايات مرتع استعارات، عمدہ کنایات ،حسن بیان اور لطیف ۵۰ وحسن البيان ولطائف الإيماءات.اشارات کا اہتمام والتزام کرتے ہوئے لکھنا ایک أمر قد عُدّ من المعضلات وخطب حُسب من المشكلات بہت مشکل بات اور نہایت دشوار کام شمار کیا جاتا ہے.وما جمع هذين الضدين إلَّا اور ان دو متضادا مور کو صرف کتاب اللہ نے ہی جو كتاب الله مظهر الآيات البينات آیات بینات کی مظہر اور جھوٹی اور جاہلانہ باتوں کو و ماحى الأباطيل والجهلات.وإن الشعراء لا يملكون أعنة مثانے والی ہے جمع کیا ہے.شعراء ( فصاحت کے ) ان اعلیٰ گھوڑوں کی باگ ڈور کے مالک نہیں ہو سکتے.هذه الجياد.
اعجاز المسيح ۳۹ اردو تر جمه.فتنتشر كلماتهم انتشرار ان کے کلمات تو محض پراگندہ ٹڈیوں کی طرح الجراد.ولكني سألت الله منتشر ہوتے ہیں لیکن میں وہ ہوں کہ اللہ سے جو فأعطاني وجئته عطشان مانگاوہ اُس نے مجھے عطا فرمایا.میں اُس کے پاس فأرواني.فنحن الموفّقون پیاسا آیا اُس نے مجھے سیراب کر دیا.ہم اللہ سے ونحن المؤيدون تؤاتينـا توفیق یافتہ اور تائید یافتہ ہیں.قلم ہمارا ایسا ساتھ الأقلام.كأنها السهام دیتے ہیں گویا وہ تیر وشمشیر ہوں ہمیں اپنے رب أو الحسام.ولنا من ربنا كلام تام سے کلام تام اور گھنا سایہ میسر ہے.جو چادر بھی ہم وظل ظليل.فكل رداء نرتديه | زیب تن کریں وہ خوبصورت لگتی ہے.ہماری وہ جميل.ولـنــا جبلّة لا تبلغها فطرت ہے کہ جس تک پہاڑوں کو بھی رسائی نہیں.اور وہ قوت حاصل ہے کہ جسے بڑے سے بڑا بوجھ الأثقال.وحالٌ لا تُغيّرها بھی عاجز نہیں کر سکتا.ہماری وہ شان ہے کہ جسے احوال زمانہ بدل نہیں سکتے اور ہمارا وہ رب ہے کہ الجبال.وقوّة لا تُعجزها الأحوال.و رب لا تُـــرد مــن حضرته الآمال.فحاصل هذا العلام.وإنى كتبتُ دعواى الكلام أنى من الله وكلامي من جس کی بارگاہ سے امیدیں رڈ نہیں کی جاتیں.حاصل کلام یہ کہ میں اللہ کی طرف سے ہوں اور میرا کلام بھی اُسی علام خدا کی طرف سے ہے.میں نے ودلائلها في هذا الكتاب.لاسعف الخصم بحاجته وأنجيه اس کتاب میں اپنا دعوی اور اس کے دلائل تحریر کئے ہیں تاکہ میں اپنے مد مقابل کی حاجت روائی من الاضطراب فإن الخصم كان يدعوني إلى المباحثات.کروں اور اُسے اضطراب سے نجات دلاؤں.کیونکہ بعد ما دعوته لنمق التفسیر فی بعد اس کے کہ میں نے اُسے پیرایہ بلاغت اور استعارات کے محاسن میں تفسیر لکھنے کی دعوت دی حلل البلاغة ومحاسن الاستعارات.فلما لويتُ عذاری وہ مد مقابل مجھے مباحثات کیلئے بلانے لگا.پھر وتصديت لاعتذاری من جب میں نے مناظرات سے روگردانی کی اور اپنا ۵۱
اعجاز المسيح اردو تر جمه المناظرات حمل إنكارى عذر پیش کیا تو اس نے میرے اس انکار کو اس جنگ على فرارى من هذه الغزاة.وما سے میرے فرار پر محمول کیا اور یہ اس کی طرف سے كان هذا إلَّا كيدا منه وحيلة محض چھٹکارا پانے کے لئے ایک حیلہ اور مکر تھا تا کہ وہ ملامت کرنے والے مردوں اور عورتوں للنجاة.ليستعصم من اللائمين واللائـمـات.وكان يعلم أن كى ملامت سے بچ جائے.وہ خوب جانتا تھا کہ کی میرا مناظرہ بازی سے گریز ایک گزشتہ عہد کی بناء پر إعراضي كان لعهد سبق.وما (۵۲) كنتُ كعبد أبق.ولكنه طلب تھا.اور میں کسی بھاگے ہوئے غلام کی طرح نہیں.البتہ اُس نے اُن جھوٹے عذرات کے ساتھ راہ الفرار بهذه المعاذير الكاذبة.فرار چاہی تا لوگ اس کے متعلق یہ سمجھیں کہ یہ بڑا مرد میدان اور اتمام حجت کرنے والا ہے.پس المضمار ومتم الحجة.فأردنا ہم نے اب یہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس کے مطالبے کو لعلّ الناس يفهمونه بطل الآن أن نُعطيه ماسأل ولا نرده پورا کریں اور اسے محروم نہ لوٹائیں.اور اپنے مطلعِ بالحرمان.وتجلّى مطلع صدقنا صدق کو نور برہان سے منور کر دیں اور شمشیر بیان بنور البرهان.ونقطع معاذيره سے اس کے تمام عذروں کو کاٹ کے رکھ کلها بسيف البيان.لعل الله دیں.شاید اس طرح اللہ تعالیٰ (اُن کے ذہنوں يجلو به صدأ الأذهان.ويُفهم ما کے رنگوں کو دور کر دے.اور اس میدان میں لم يفهموه قبل هذا الميدان اترنے سے پہلے وہ بات جو وہ سمجھ نہ سکے تھے وہ فهذا هو السبب الموجب لنمق انہیں سمجھا دے.پس یہ وہ سبب ہے جو دعوی اور الدعوى والدلائل لئلا يبقى عذر دلائل لکھنے کا موجب بنا تا کسی سائل کے لئے کوئی للسائل.وإن هذا التفسير جمع عذر باقی نہ رہے.اس تفسیر نے لطائف و نکات المباحثات مع اللطائف کے ساتھ تمام مباحثات کو اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے والنكات.فاليوم أدرك الخصم پس آج دشمن نے وہ سب کچھ پالیا ہے جو
اعجاز المسيح ام اردو تر جمه كل ما طلب منافی حُلل مناظرات کے پیرایہ میں وہ ہم سے طلب کر رہا المناظرات مع أنه ترك طرق ہے.باوجود اس کے کہ اس نے دیانت کے تمام طریق ترک کر دیئے ہیں.اور اس معاملہ میں ہر قسم کی حق تلفیوں اور خیانتوں کے ساتھ پیش آیا الديانات.وتصدى للأمر بأنواع الاهتضام والخيانات وبقى دينا فعليه أن يقضى الدَّين كَرَدْ ہے.ہمارا قرض باقی ہے پس اُس پر فرض ہے کہ وہ امانتوں کے لوٹانے کی طرح اس قرض کو ادا کرے.الأمانات.وإني عاهدت الله أن میں اللہ سے یہ عہد کر چکا ہوں کہ میں مباحثات کی لن أحضر مواطن المباحثات.جگہوں پر نہیں جاؤں گا اور میں اس عہد کو اپنی وأشعتُ هذا العهد في تألیفات میں شائع کر چکا ہوں.پس میرے التأليفات.فما كان لي أن لئے ممکن نہیں تھا کہ میں عہد شکنی کروں اور اپنے أنكث العهود وأعصى الربّ رب و دود کی نافرمانی کروں.بنا بریں میں نے الودود.فلأجل ذالك أغلقت مناظروں کا دروازہ بند کر دیا.اور میری عیب چینی اور غیبت کرنے کے باوجود میں بحث کے لئے هذا الباب.وما حضرت الخصم للبحث ولو عیبنی اپنے مدمقابل کے پاس نہ آیا.میں نے اس کے ساتھ ایک میل جول رکھنے والے دوست کی طرح گفتگو کی مگر اس نے بیہودہ گوئی سے مجھے زخمی کیا.واغتاب.وإني كلمته كالخليط فگلمنى بالتخليط.وقد دعوته میں نے پہلے بھی ایک دفعہ اسے دعوت دی تھی لیکن من قبل ففرمن شوكتي.ثم میری شوکت کے باعث وہ بھاگ گیا.پھر میں دعوت فهـابـة هيبتي.وهذه نے اسے دوبارہ دعوت دی لیکن وہ میرے رعب ثالثة ليتم عليه حجة الله سے ڈر گیا.اور یہ تیسری بار ہے تا کہ اس پر اللہ کی وحجتي.إنه مال إلى الزمر حجت اور میری حجت تمام ہو جائے.وہ مائلِ سرود ہوا اور ہم فرائض منصبی کی جانب مائل ہوئے.ہماری وملنا إلى الذمار.۵۳
اعجاز المسيح ۴۲ اردو تر جمه وإن الـمـعــارف مـنـا كبعوث | طرف سے پیش کردہ معارف کی حیثیت ایسی ہے جمروا على الثغور من قبل ملك جیسے کسی ملک کے بادشاہ کی طرف سے سرحدوں پر ۵۴ الديار.ثم اعلموا أن رسالتي لشکر متعین کر دیئے جائیں.پھر یہ بھی جان لو کہ هذه آية من آيات الله رب میرا یہ رسالہ رب العالمین اللہ کے نشانوں میں العالمين.وتبصرة لقوم طالبين.سے ایک نشان ہے.اور طالبانِ حق کے لئے ایک وإنّها من ربي حجة قاطعة بصیرت افروز پیغام.یہ میرے پروردگار کی طرف و برهان مبين كذالك.ليذيق سے ایک حُجت قاطعہ اور برہان مبین ہے.سیہ اس لئے ہے کہ جھوٹوں کو کسی قدر ان کے گناہوں الأفـاكيـــن قــلـيـلا مـن جـزاء کا مزہ چکھائے اور لوگوں کو یہ دکھائے کہ ان کے ذنوبهم.ويُرى الناس ما ترشح من ذنوبهم.ويُجنبهم بمعجزة قاهرة.ويزيل اضطجاع الأمن ظرف سے کیا مترشح ہوا ہے.اور ان کی پسلیوں کو زبر دست معجزہ سے توڑ دے.اور وہ اپنے پہلوؤں پر چین سے لیٹ نہ سکیں.اور ان کے دلوں کی من جنوبهم.ويستأصل راحة جھوٹی راحت کا استیصال کر دے.یہ حق ہے اور كاذبة من قلوبهم.والحق میں حق ہی کہتا ہوں کہ یہ کلام ایک تیغ براں کی والحق أقول إن هذا كلام كأنه طرح ہے اور اس نے ہر نزاع کو کاٹ کر رکھ حسام.و إنّه قطع كل نزاع وما دیا ہے اور اس کے بعد کوئی جھگڑا باقی نہیں بقى بعده خصام.ومن كان يظنّ رہا.جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ وہ فصیح ہے اور اس أنه فصیح وعنده كلام كأنه بدر کے پاس بدر تام جیسا کلام ہے تو وہ اس کی مثل تام.فليأت بمثله والصَّمتُ عَلَيه لائے اور خاموش رہنا اس پر حرام ہوگا.اور اگر اُن حرام وإن اجتمع آباء هم و کے آباؤ اجداد اور اُن کی اولادیں ، اُن کے ہمسر ۵۵ أبناء هم.و أكفاء هم وعلماء هم.اور اُن کے علماء ، اُن کے دانشور اور فقہاء ، سب وحكماء هم وفقهاء هم.اکٹھے ہو جائیں کہ وہ معمولی اور تھوڑی مدت
اعجاز المسيح ۴۳ اردو تر جمه على أن يأتوا بمثل هذا میں لکھی جانے والی اس تفسیر کی نظیر پیش کر سکیں تو التفسير.في هذا المدى القليل وہ ایسی تفسیر ہرگز پیش نہیں کر سکیں گے اگر چہ اُن الحقير.لا يأتون بمثله ولو كان میں سے بعض بعض کے مددگار ہوں.میں نے اس بعضهم لبعض كالظهير.فإنى بارے میں دعا کی اور میری دعا بلاشبہ مستجاب دعوت لذالك وإن دُعائی ہے.اس لئے کوئی اہل قلم نہ بوڑھا نہ جوان ہرگز اس تفسیر کا جواب دینے کی قدرت نہیں پائے مُستجاب.فلن تقدر على جوابه گا.یہ تفسیر بلاشبہ معارف کا خزانہ اور اس کا شہر ہے كتاب لا شيوخ ولا شاب.اور حقائق کا آب و گل ہے.اور ساخت کے اعتبار وإنه كنز المعارف ومدينتها.وأكثر حكمًا.وأشرف لفظًا.سے بیحد لطیف اور صنعت کے لحاظ سے نہایت عمدہ.وماء الحقائق وطينتها.وقد جاء حکمتوں سے معمور ، الفاظ نہایت بلند پایہ ، مختصر ألطف صُنعًا.وأرق نسحًا.کلمات مگر کثیر المعانی ، بیان واضح اور عالیشان.میں نے اس تفسیر کو اپنی طاقت سے نہیں لکھا.میں تو وأقلّ كلما.وأوفر معنى.ایک کمزور بندہ ہوں اور اس طرح میرا کلام بھی.وأجلى بيانًا.وأسنى شأنا.وما لیکن یہ سب کچھ اللہ اور اس کے الطاف کریمانہ كتبته من حولي.وإني ضعيف ہیں کہ اس تفسیر کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئی و كمثلی قولی.بل الله والطافه ہیں اور پھر اسی کی جناب سے مجھے اس کے دفینوں اغلاق خزائنه.ومن عنده أسرار کے اسرار عطا کئے گئے ہیں.میں نے اس میں ۵۶ دفائنه.جمعت فيه أنواع طرح طرح کے معارف جمع کئے اور انہیں ترتیب المعارف و رتبت وصففت دیا ہے اسپان نکات کو صف بصف کھڑا کیا اور انہیں شوارد النكات و الجمت من لگام پہنائی.جس نے اسے پہچان لیا اُس نے عرفه عرف القرآن.ومن حسبه قرآن کریم کو پہچان لیا.اور جس نے اس کو جھوٹا كذبًا فقدمان.فيه باكورة خیال کیا اس نے جھوٹ بولا.اس میں عرفان کے
اعجاز المسيح ۴۴ اردو تر جمه العرفان و دقائق الفاتحة نئے اور تازہ پھل ہیں اور سورۃ فاتحہ اور فرقان حمید والفرقان.وفيه بلاد الأسرار کے دقائق ہیں.اس میں رموز و اسرار کے شہر اور وحصونها.وسهل الحقائق قلعے آباد ہیں.حقائق کے میدان و کوہسار ہیں وحزونها.وعيون البصيرة بصیرت کے چشمے اور بصیرت کی آنکھیں ہیں.براہین وعيونها.وخيل البراهين کے شاہسوار اور ان کی سواریاں ہیں.یہ سب کچھ ومتونها.وذالك من بركات ام الكتاب (سورہ فاتحہ ) کی برکات میں سے أم الكتاب.وما اطلعت عليها ہے.اپنے رب تواب کی تفہیم کے بعد میں ان إلا بعد تفهيم ربّى التوّاب.سے آگاہ ہوا.یہ وہ سورۃ ہے کہ جس کے میدان کو فإنها سورة لا تطوى عرصتها بانضاء المراكب.ولا يبلغ سواریوں کو تیز دوڑا کر لاغر کر کے بھی طے نہیں کیا جا نورها نور الكواكب.ولمّا كان سکتا.ستاروں کی روشنی بھی اس کے نور کو نہیں پہنچ الظالمون نسبونى إلى الهزيمة.سکتی.جب ان ظالموں نے میری طرف شکست (۵۷) أعوزني فريتهم هذه إلى منسوب کی تو ان کی اس کذب بیانی نے مجھے سورہ تفسير سورة الفاتحة لأخلص فاتحہ کی تفسیر ( لکھنے ) پر مجبور کیا.تا کہ میں اپنے نفسي من النواجذ والأنياب آپ کو داڑھوں اور کچلیوں سے نجات دلاؤں فإن صول الكلاب أهون من کیونکہ کتوں کا حملہ ایک مفتری کذاب کے حملے.صول المفترى الكذاب.وهذا سے کمتر ہوتا ہے.یہ ( تفسیر اللہ کے فضل اور اُس من فضل الله ورحمته ليكون آية للمؤمنين.وحسرة على المنكرين.وحجّة على كل کی رحمت سے ہے تا کہ یہ مومنوں کے لئے ایک نشان اور منکروں کے لئے حسرت اور ہر مد مقابل کے لئے تا روز قیامت حجت اور متقیوں کے لئے خصم إلى يوم الدين.وهدى للمتقين.وليعلم الناس أن ہدایت ہواور تا کہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ الفوز بصدق المقال لا کامیابی راست گوئی سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ جاہلوں بالتصلّف كالجهال والفتح کی طرح لاف زنی سے.فتح دل کی پاکیزگی سے ملتی
اعجاز المسيح اردو تر جمه بطهارة البال.لا بِعَذِرَةِ الأقوال ہے نہ کہ بول و براز کی طرح گندہ دہنی سے.اور.اور التي هي كالأبوال.وصلاح اصلاح احوال علم و کمال کے اسلحہ سے حاصل ہوتی الحال بسلاح العلم والكمال.ہے نہ کہ مکر و فریب اور فخر و تکبر سے.ہلاکت ہے ان لا بالاحتيال والاختيال.فویل لوگوں کے لئے جو مکر و فریب کے ذریعہ فتح حاصل للذين قصدوا الفتح بالمكائد کرنا چاہتے ہیں اور شکاری کی طرح کمین گاہوں ورصدوا مواضعها كالصائد.میں بیٹھے شکار کی گھات میں لگے ہوئے ہیں.وإن هو إلَّا من أحكم اور فتح احکم الحاکمین کی طرف سے ہی آتی ۵۸۶ الحاكمين ينصر من يشاء ہے.وہ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے.اور ويُكفّل الصالحين.فيندمل صالحین کا متکفل ہو جاتا ہے.پس ان کے مجروح جريحهم ويستريح طليحهم.صحتیاب ہوتے ہیں اور ان کے تھکے ماندے راحت پاتے ہیں.اُن کی شوکت کو زوال نہیں اور مصابيحهم.ومنصوره يُملأ من ولاتركد ريحهم.ولا تَخُمُدُ نہ اُن کے چراغ بجھتے ہیں.اللہ کے تائید یافتہ کو علم الفرقان ولسان العرب.فرقان حمید اور عربی زبان کے علم سے اس طرح بھر كما يملأ الدلو إلى عقد دیا جاتا ہے.جس طرح رسی کی گرہ تک پانی سے الكرب.وإنه أنا ولا فخر.وإن هذا يوم الفتح ويوم الضياء بعد اور بھرا ہوالبالب ڈول.اور وہ میں ہوں اور کوئی فخر دعائى يذيب الصخر.وإن يومى نہیں.میری دعا پتھر کو موم کر دیتی ہے.میرا یہ دن شب دیجور کے بعد فتح اور روشنی کا دن ہے.آج الليلة الليلاء.اليوم خرس الذين كانوا يهذرون.وغلت بیہودہ گوئی کرنے والے گنگ ہو گئے اور اُن کے أيديهم إلى يوم يبعثون.وكنتُ ہاتھ اُس دن تک کہ وہ اٹھائے جائیں گے جکڑ أطوف حول هذه الأوراق.دیئے گئے.میں ان ( قرآنی) اوراق کے گرد كسائل يطوف في السكك اس طرح طواف کرتا رہا ہوں جس طرح ایک سوالی والأسواق.فأراني الله ما أراني.گلی کوچوں میں چکر لگاتا ہے.تو اللہ نے مجھے (۵۹)
اعجاز المسيح ۴۶ र اردو تر جمه ما سألتُ.وفتح على فحللت.وسقـانـی مـا سقانی.فوافیت دکھایا جو دکھایا اور مجھے پلایا جو پلایا اور جس طرح دروبها كما هداني.وأعطى لى اس نے مجھے ہدایت دی اُس کے مطابق میں نے ان (قرآنی) راہوں کو پالیا اور جو میں نے مانگا وہ مجھے عطا کر دیا گیا اور مجھ پر کھولا گیا اور میں داخل ہو وكل ما رقمتُ فهو من أنفاس گیا.جو کچھ میں نے رقم کیا ہے وہ محض علام خدا العلام.لا من أفراس الأقلام کے انفاس قدسیہ کے طفیل ہے.نہ کہ قلموں کے فما كان لي أن أقول إني أعلم گھوڑے دوڑانے سے.میرا یہ حق نہیں کہ میں یہ من غيرى أو زاد منهم سيرى.کہوں کہ میں دوسروں سے زیادہ عالم ہوں یا یہ کہ ولا أقول إن روحى التف میری تنگ و دو اُن سے زیادہ ہے.نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میری روح اُن نو جوانوں کی ارواح سے بأرواح فتيان كانوا من الأدباء پیوستہ ہے جو ادباء میں سے تھے یا یہ کہ میں نے أو غالت نفسی جمیع نفائس انشاء پردازی کے جملہ محاسن پر پوری دسترس الإنشاء.ولا أدعى أني انتهيت حاصل کر لی ہے.نہ مجھے اس بات کا دعوی ہے کہ إلى فناء منتهى الأدب.أو كمال ادب کے میدان میں میں انتہا تک پہنچا ہوا أكلت كل باكورة من المعانی ہوں.یا یہ کہ میں نے عمدہ اور چنیدہ معانی کے تمام النخب بل دعوتُ مُخدّراتهنئے اور تازہ پھل کھائے ہیں.نہیں بلکہ میں نے پرده نشینانِ ادب کو دعوت دی تو اس کی فوافتنی فتياته فقبلهن فتاه دوشیزائیں میرے پاس آئیں پس اُس جوان.مفترة شفتاه متهللا مُحيّاه.فلا نے خندہ لبوں اور دسکتے چہرے کے ساتھ انہیں تستطلعوني طلع أديب.وما أنا قبول کر لیا.پس مجھ سے اُس ادیب کی خبر نہ ٢٠ في بلدة الأدب إلا كغريب.وكل پوچھو.میں تو شہر ادب میں ایک مسافر کی طرح ما ترون منى فهو من تأیید ربّی ہوں.جو کچھ تم مجھ سے دیکھتے ہو وہ محض تائید ربی
اعجاز المسيح ۴۷ اردو تر جمه ومن حضرة ألقيتُ بها جرانی ہے اور اُس حضرت احدیت کی طرف سے ہے وحملت إليها إربي.وإنه في جس کے حضور میں نے اپنی گردن رکھ دی ہے اور اپنی ہر حاجت اس کی جناب میں پیش کر دی ہے.العقبى وهـذه حتى وإنى وہ عقبی اور اس دنیا میں میرا محبوب ہے.یقیناً میں مسیحه وحمارى حمارة حفظه ولـطـفـه قتبي.ولولا فضل الله اُس کا مسیح ہوں.خدا کی حفاظت کا حصار میری سواری ہے اور اس کا لطف میرا پالان ہے.اگر اللہ ورحمته لکان کلامی ککلم کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو میرا کلام رات کو حــاطـب لـيـل.أو كغثاء سيل.ایندھن جمع کرنے والے رطب و یابس یا سیلاب ووالله إني ما قدرت على هذا کے خس و خاشاک کی طرح ہوتا اور بخدا میں اس بقريحة وقادة.بل بفضل من تفسیر کے کرنے پر اپنی روشن طبیعت کی وجہ سے الله وسعادة.وإن هذه المخدرة قادر نہیں ہوا بلکہ یہ اللہ کا فضل اور سعادت ہے.اس ما سفرت عن وجهها بیدی | پردہ نشین کے چہرے پر سے پردے کا اتر نامیرے القصيرة.ولكن بفضل الله و کوتاہ ہاتھوں سے نہیں ہوا بلکہ اللہ کے فضل اور اس کی عنایات بے پایاں سے ہوا.کیونکہ اُس نے عناياته الكثيرة.فإنه رأى دیکھا کہ اسلام بیابان میں پڑے ایسے مریض کی الإسلام كسقيم في موماة فيه طرح ہے جس میں زندگی کی کچھ رمق باقی ہو اور جو رمق حياة ساقطا على صحرا کی خشک لکڑیوں کی طرح پتھر پر پڑا ہو اور اس صلات كقذائف فلوات.وعلاه پر ذلت سوار ہو اور اس کا پیرہن چیتھڑے صغار.وعليه أطمار.فأدركه ہوں.پھر اللہ خشک سالی کے وقت عین موقع پر كإدراك عهاد.لسنة جماد و ہونے والی بارشوں کی طرح اسلام کی مدد کو آیا اور رحض وجهه و أزال وسخ اس کے چہرے کو دھو ڈالا اور اس پر صاف پانی ڈال مئين.وصب عليه الماء المعين کر سالہا سال کے گند کو دور کیا.پس اتمام حجت کی فبعث عبدًا من عباده لإتمام غرض سے اس نے اپنے بندوں میں سے ایک بندہ
اعجاز المسيح ۴۸ اردو تر جمه الحجة.وأودع كلامه إعجازًا مبعوث فرمایا اور اس کے کلام میں اعجاز ودیعت کیا تا ليكون ظلا للمعجزة النبوية اس كا كلام معجزہ نبی کا ظل ہو جائے آپ پر ہزاروں عليه ألوف الصلاة والتحيّة.ولا درود و سلام ہوں.اور اس ( معجزہ کلام) سے ربّ يمس منه منقصة شأن كلام ربّ کائنات کے کلام کی شان میں کوئی کمی نہیں ہوئی الكائنات.فإن الكرامات أظلال کیونکہ کرامات معجزات کا ہی پر تو ہوتی ہے اور اس للمعجزات.وكذالك دمّر طرح جب کبھی بھی دشمنوں نے ماہر شکاری کی الله كل ما دبّر العدا كالصائد طرح تدبیر کی تو اللہ نے اُسے تباہ و برباد کر دیا اور وهدم كل ما بنوا من المكائد جو بھی مکر و فریب انہوں نے گھڑے اُس نے انہیں وأبطل كل ما حققوا مكيدة منہدم کر دیا.اور جو بھی تدبیریں انہوں نے کیں وأخر كل ما قدموا حربةً اُس نے انہیں نا کام کر دیا.اُن کے پہلے سے تیار (۲۲) وعطل كلّ ما نصبوا حيلة کرده ہر حربہ کو مؤخر کر دیا اور جو بھی انہوں نے حیلہ وهدم كل ما أشادوا بروجا سازی کی اُسے بیکار کر دیا اور جو بھی مضبوط قلعے مشيدة.وأطفأ كلّ ما أوقدوا انہوں نے بنائے تھے انہیں پیوند خاک کر دیا.اور نارًا.وأغلق الدروب كلما جو آگ بھی انہوں نے بھڑکائی اُسے بجھا دیا اور أرادوا فرارا.فما كان في جب بھی انہوں نے فرار ہونا چاہا اُس نے تمام وسعهم أن يبارزوا کابطال راہیں بند کر دیں.اس طرح یہ اُن کے بس میں نہ المضمار.أو يخرجوا من هذا رہا کہ وہ مردمیدان کی طرح مقابلے پر آئیں اور السجن بتسوّر الخنادق ان کے بس میں نہیں رہا کہ خندقوں اور فصیلوں کو والأسوار.وما قدموا قدمًا إلَّا پھاند کر اس قید سے باہر نکل سکیں.ان کی ہر پیش قدمی رجعوا بأنواع النكال.حتى جاء کو مختلف النوع عذابوں کے ذریعے پسپا کر دیا وقت هذا التفسير الذي هو گيا.یہاں تک کہ اس تفسیر نویسی کا وقت آن پہنچا نبل من النبال.وإنا كملناه جو ترکش کے تیروں میں آخری تیر ہے.ہم نے آخر
اعجاز المسيح بفضل ۴۹ 3 اردو تر جمه الله ذي ذی الجلال.وجاء اس تفسیر کو اللہ ذوالجلال کے فضل سے مکمل کر لیا ارسی و ارسخ من الجبال ہے.وہ پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط اور محکم ہو وصار كحصن حصین بنی کر آئی ہے اور ایسے حِصن حصین کی طرح ہوگئی بالأحجار الثقال.وإنه بلغ حد ہے جو بھاری پتھروں سے بنایا گیا ہو.وہ فعّال الإعجاز من الله الفعال.وإنه الله كى طرف سے حد اعجاز تک پہنچ گئی اور یہ راندہ محفوظ من قصد العدو درگاہ الہی گمراہ دشمن کے بد ارادہ سے محفوظ ۶۳۶ المدحور الصّال.وانتصفنا به ہے.اس کے ذریعہ سے ہم نے دشمن سے کسی قدر من العدا بعض الانتصاف.انتقام لے لیا ہے اور میدانِ کارزار میں جو خیمے وكسرنـا خيـامًا ضربوها وقبابا انہوں نے لگائے اور شامیانے نصب کئے ہم نے نصبوها في المصاف.وكان انہیں اکھیڑ دیا.یہ کام بہت مشکل تھا لیکن اللہ نے هذا الأمر صعبا ولكن الله الان اس سخت کام کو میرے لئے نرم کر دیا اور دور کو میرے لی شديدًا.وأدنى إلى بعيدًا.قریب کر دیا.اور دشمن کو فراخی سے تنکیوں کی طرف ونقل العدو من السعة إلى منتقل کر دیا.اور اُس کی آنکھیں اندھی کر دیں اور الـمــضــايـق.وأعـمـى أبصاره علوم و حقائق سے اُس کی ہمت کو پھیر دیا.اور اُن کے و صرف همته عن العلوم قلوبهم.وأخذهم بذنوبهم دلوں میں رعب ڈال دیا اور انہیں ان کے گناہوں والحقائق.وألقى الرعب في کی وجہ سے پکڑا.اس پر انہوں نے اپنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی دور ھیل اونٹنیوں کو چھوڑ دیا اور فنبذوا سلاحهم.وتركوا اپنا تھوڑا سا بچا ہوا پانی بھی خرچ کر ڈالا.انہوں لقاحهم.وأنفدوا وجاحهم.وقـوضـوا قبـابهـم.ونثلوا نے اپنے خیمے گرا دیئے اور اپنے ترکش خالی کر جعابهم.ونفضوا جرابهم دیئے اور اپنی نیا میں پھینک دیں اور بے بسی کی وجہ وأروا من العجز أنيابهم.وأذن سے اپنے دانت دکھائے.حالانکہ انہیں اجازت دے لهم أن يـا تـوا بجميع جنودهم دی گئ تھی کہ وہ اپنی تمام عسکری طاقت یعنی سوار، پیاده ،
اعجاز المسيح اردو تر جمه نوروس (٢٤) من خيلها ورجلها وحفلها جتھے ، لشکر جرار، دستے اور قافلے لے آئیں لیکن وجحفلها.وزمرها وقوافلها.ان کی حالت ایک در گور مردہ کی سی ہو گئی یا چراغ فصاروا كميت مقبور.أو زيت کے اُس تیل کی طرح جو جل گیا ہو اور اس کی روشنی سراج احترق وما بقى معه من باقی نہ رہی ہو.ان کے چھوٹے، بڑے جو بھی وسكتنا من بارز من مقابلہ پر آئے ہم نے انہیں ساکت اور لاجواب کر صغيرهم وكبيرهم.وأو كفنا من ديا اور ان کے گدھوں میں سے ہر بینگنے والے پر نهق من حميرهم.فما كانوا أن ایسا پالان ڈال دیا کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کر يتحركوا من المكان أو يميلوا سکیں.یا اپنی غنودگی سے بیدار ہو کر نیزے کی من السنة إلى السنان.بل جربنا طرف رخ کر سکیں.بلکہ ہم نے ابتداء زمانہ سے من شرخ الزمن إلى هذا الزمان آج تک یہ تجربہ کیا ہے کہ یہ لوگ میدان میں نکل إن هؤلاء لا يستطيعون أن کر ہمارا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے.عورتوں يبارزونا في الميدان ولیس کی طرح حجروں میں بیٹھے ہوئے گالی گلوچ کے سوا فيهم إلا السب والشتم قاعدین ان کے پاس کوئی طاقت نہیں.وہ ہر تنگ اور پُر خطر في الحجرات كالنسوان میدانِ حرب سے بھاگ جاتے ہیں اور اُن کی قبا يفرون من كل مأزق.ويتراءى کے نیچے سے اُن کے چیتھڑے نظر آرہے ہوتے أطمارهم من تحت يلمق.ثم لا ہیں.پھر نہ تو وہ اعتراف کرتے ہیں اور نہ نادم يقرون ولا يتندمون ولا يتقون ہوتے ہیں.نہ اللہ سے ڈرتے ہیں اور نہ باز آتے ۲۵ الله ولا يرجعون.فهذا التفسير يرجعون.فهذا التفسير ہیں.یہ تفسیر اُن کے لئے ایک تیر اور کلام کا ایک علیه سهم من سهام و گلم چرکہ ہے.شاید کہ اس طرح وہ متنبہ ہو جا ئیں اور اللہ اللہ کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھکیں.ہم نے اس بكلام لعلهم يتنبهون وإلى يتوبون.وإنا شرطنا فيه أن لا تفسیر کے لئے یہ شرط مقرر کی کہ ہم میں سے کوئی يجاوز فريق منا سبعين يومًا.فریق بھی ستر دن سے تجاوز نہ کرے گا.
اعجاز المسيح ۵۱ اردو تر جمه ومن جاوز فلن يُقبل تفسیرہ اور جو اس سے تجاوز کر یگا تو اس کی تفسیر ہرگز قبول ويستحق لومًا.وكذالك من نہیں کی جائے گی اور وہ قابل ملامت ہوگا.اسی الشرائط أن لا يكون التفسير طرح ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ تفسیر چار جزء سے کم أقل من أربعة أجزاء.وهذه نہ ہو.یہ شرطیں میرے اور میرے مد مقابل کے ނ شروط بینی و بین خصمی علی درمیان یکساں تھیں.ہم ان شرطوں کی پہلے.سواء.وقد شهرناها من قبل تشہیر کر چکے ہیں.اور طبع کر کے اور بذریعہ تحریر سے وبلغناها إلى الأحباب دوستوں اور دشمنوں تک پہنچا چکے ہیں.اب ہم اللہ.اب والأعداء.بعد الطبع والإملاء نصير و قدیر کی مدد سے تفسیر کا آغاز کرتے ہیں.ہم والآن نشرع في التفسير بعون نے اسے چند ابواب میں مرتب کیا ہے تا کہ یہ تفسیر الله النصير القدير.ورتبناه على طالبان حق پر گراں نہ گزرے.اس کے ساتھ ہی ہم أبواب لئلا يشق على طلاب نے درمیانی راہ اختیار کی ہے کہ نہ تو مضمون بگاڑنے ومع ذالك سلكنا مسلك والا اختصار ہو اور نہ بیزار کرنے والی طوالت.یہ الوسط ليس بإيجاز مُخلّ.ولا ( تفسیر) اس ( مہر علی) کے لئے اس عاجز کی طرف ۶۶ إطناب مُمل.وإنه له عن هذا سے ایسی ہے جیسے کسی بوڑھے باپ کا آخری بچہ، جو العاجز كالعجزة.وأخرج من الله رب العزت کے رحم سے قضاء و قدر کے رحم سے رحم القدر برحم من ذی باہر لایا گیا ہو.اس تفسیر کی تألیف ماہ صیام کے العزة في أيام الصیام ولیالی با برکت ایام اور اُس کی رحمت والی راتوں میں کی الرحمة.وسميته " إعجاز گئی.میں نے اس کا نام اعجاز المسیح فی الله 66 المسيح فــي نـمـق التفسير نمق التفسير الفصيح “ یعنی فصیح تفسیر کی تحریر ، الفصيح وإني أُرِيتُ مبشرةً کی صورت میں اعجاز امسیح رکھا ہے.منگل کی رات في ليلة الثلثاء.إذ دعوت الله مجھے مبشر خواب اُس وقت دکھائی گئی جب میں نے أن يجعله معجزة للعلماء.اللہ سے دعا کی کہ وہ اس تفسیر کو علماء کے لئے معجزہ
اعجاز المسيح ۵۲ اردو تر جمه ودعوتُ أن لا يقدر على مثله بنادے، نیز میں نے یہ بھی دعا کی کہ کوئی ادیب بھی أحد من الأدباء.ولا يُعطى لهم اس كى مثل لکھنے پر قادر نہ ہو اور نہ ہی انہیں اس کو قدرة على الإنشاء.فأجيب تحریر کرنے کی توفیق ملے.تو حضرت کبریاء کی دعائي في تلك الليلة المباركة طرف سے اُسی مبارک رات کو میری یہ دعا قبول کی من حضرة الكبرياء.وبشرنی گئی اور میرے رب نے مجھے بشارت دیتے ربى وقال لمنعه مانع من ہوئے فرمایا: اس تفسیر نویسی میں کوئی تیرا مقابلہ نہ کر السماء ففهمت أنه يشير إلى سکے گا.خدا نے مخالفین سے سلب طاقت اور سلب أن العدا لا يقدرون عليه ولا علم کر لیا ہے.اس پر میں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ اس يأتون بمثله ولا كصفتيه طرف اشارہ ہے کہ مخالفین اس پر قادر نہیں ہونگے وكانت هذه البشارة من الله اور اس کی مثل اور ان دوصفات ( بلاغت وحقائق المنان في العشر الآخر من سورة فاتحہ ) کی حامل تفسیر نہ لاسکیں گے.یہ رمضان الذي أنزل فيه بشارت خدائے منان کی طرف سے رمضان کے القرآن.ثم بعد ذالك كُتب فيه آخری عشرے میں جس میں قرآن اتارا گیا مجھے هذا التفسير.بعون الله القدير.دی گئی.پھر اس کے بعد اس عرصے میں ، قادر و توانا رب اجعل أفئدة من الناس خدا کی مدد سے یہ تفسیر لکھی گئی.اے میرے رب ! تهوى إليه.واجعله كتابًا مباركًا تو لوگوں کے دلوں کو اس ( تفسیر ) کی طرف مائل وأنزل بركات من لدنك فرما.اسے مبارک کتاب بنادے.اور اس پر اپنی عليه.فإنا توكلنا عليك.جناب سے برکتیں نازل فرما.ہم نے تجھ پر تو گل فانصرنا من عندك وأيّدنا کیا.پس! تو اپنی جناب سے ہماری نصرت فرما.بيديك.وكفل أمرنا كما اور اپنے ہاتھوں سے تائید فرما اور ہمارے معاملے کا كفلت السابقين من الصالحين.اسی طرح متکفل ہو جیسے تو پہلے صالحین کی کفالت واستجب هذه الدعوات كلها فرما تا رہا ہے.ہماری ان سب دعاؤں کو قبولیت بخش.
اعجاز المسيح ۵۳ اردو تر جمه وإنا جئناك متضرعين.ہم تیرے حضور تضرع کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں.فكن لنا في الدنيا والدين.آمين.پس دنیا اور دین میں تو ہمارا ہو جا.آمین الباب الاول پہلا باب في ذكر أسماء هذه السورة اس سورۃ کے اسماء اور اس کے دیگر متعلقات وما يتعلق بها اعلم أن هذه السورة لها أسماء جان لو کہ اس سورت کے بہت سے نام كثيرة.فأوّلها فاتحة الكتاب.ہیں.پہلا نام فاتحة الکتاب ہے.اس کا یہ نام وسميت بذالك لأنه يُفتتح بها اس لئے رکھا گیا کہ قرآن ، نماز اور رب الارباب في المصحف و في الصلاة سے دعا مانگتے وقت اس سے آغاز کیا جاتا ہے.میرے وفي مواضع الدعاء من ربّ الأرباب.وعندى أنها سُمّيت نزدیک اس کا نام فاتحہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ اللہ بهالماجعلها الله حكَمًا نے اسے قرآن کے لئے حکم بنایا ہے اور للقرآن.ومُلئ فيها ما كان فيه خدائے مَنَّان کی جناب سے خبریں اور معارف اس مـن أخـبـار ومـعــارف مــن اللـه میں بھر دیئے گئے ہیں اور مبدء اور معاد کی معرفت کے لئے جس چیز کا انسان محتاج ہے یہ سورۃ ان کی المنان.وإنها جامعة لكل ما يحتاج الإنسان إليه في معرفة جامع ہے مثلا صانع حقیقی کے وجود پر استدلال، اور المبدء والمعاد كمثل الاستدلال على وجود بندگانِ خدا میں نبوت اور خلافت کی ضرورت،اس الصانع و ضرورۃ النبوة و الخلافة کی سب سے عظیم اور بڑی خبر یہ ہے کہ وہ مسیح موعود في العباد.ومن أعظم الأخبار کے زمانے اور مہدی معہود کے وقت کی بشارت وأكبرها أنها تبشر بـزمـان دیتی ہے.ہم خدائے و دود کی توفیق سے اس امر کا المسيح الموعود وأيام المهدى المعهود.وسنذكره في مقامه ذکر اس کے مقام پر کریں گے.نیز اس (فاتحہ ) 79
اعجاز المسيح ۵۴ اردو ترجمہ بتوفيق الله الودود.ومن | کی خبروں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اس ادنی دنیا أخبـارهـا أنها تبشر بعمر الدنيا کی عمر کے متعلق خبر دیتی ہے.ہم اُسے بھی حضرتِ الدنية.وسنكتبه بقوة من احدیت کی عطا کردہ قوت سے تحریر کریں الحضرة الأحدية.وهذه هي الفاتحة التي أخبر بها نبي من گے.یہی وہ فاتحہ ہے جس کی اطلاع نبیوں میں الأنبياء.وقال رأيت ملكا قويا سے ایک نبی نے دی تھی اس نے کہا: کہ میں نے نازلا من السماء.وفی یدہ ایک قومی فرشتے کو آسمان سے اترتے دیکھا اور اس الفاتحة على صورة الكتاب کے ہاتھ میں چھوٹی سی کتاب کی شکل میں سورۃ الصغير.فوقع رجله اليمنى على البحر واليسرى على البر فاتحہ تھی اور رب قدیر کے حکم سے اس فرشتے کا بحكم الرب القدير.وصرخ دایاں پاؤں سمندر پر اور بایاں قدم خشکی پر پڑا اور بصوت عظیم كما يزار بڑی آواز سے جیسے بر شیر گر جتا ہے پکارا.اس کی الضرغام.وظهرت الرعود اس آواز سے سات کڑکیں نمودار ہوئیں.اُن میں السبعة بصوته وكل منها وجد فيه الكلام.وقیل اختم سے ہر ایک کڑک میں کلام پایا جاتا تھا اور کہا على ما تكلمت به الرعود ولا گیا کہ بجلیوں کے کلام کو سر بمہر کر لے اور اسے تكتب كذالك قال الرب مت لکھ.ربّ ودود نے ایسا ہی فرمایا.نازل الودود.والملك النازل أقسم ہونے والے فرشتے نے اس زندہ خدا کی قسم کھا کر بالحى الذى أضاء نوره وجه البحار والبلدان أن لا يكون کہا جس کے نور نے دریاؤں اور آبادیوں کے رُخ زمان بعد ذالك الزمان بهذا کو منور کیا ہے کہ اس زمانے کے بعد کوئی زمانہ اس الشان.وقد اتفق المفسرون أن شان والا نہ ہو گا.مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہوگا.هذا الخبر يتعلّق بزمان المسيح یہ خبر ( پیشگوئی ) ربانی مسیح موعود کے زمانے کے الموعود الرباني.فقد جاء اء الـزمــان وظهرت الأصوات ساتھ تعلق رکھتی ہے.اور یقینا وہ زمانہ آ چکا ہے اور السبعة من السبع المثاني.وهذا سبع مثانی کی وہ سات آواز میں ظاہر ہو چکی ہیں
اعجاز المسيح ۵۵ اردو تر جمه الزمان للخير والرشد کآخر اور یہ زمانہ خیر ورشد کے لئے آخری زمانہ ہے اور الأزمنة.ولا يأتي زمان بعدہ اس کے بعد کوئی زمانہ فضل اور مرتبہ میں اس جیسا كمثله في الفضل والمرتبة.وإنا نہیں ہوگا.اور جب ہم اس دنیا کو خیر باد کہیں گے تو إذا ودّعنا الدنيا فلا مسيح بعدنا ہمارے بعد روز قیامت تک کوئی مسیح نہ ہوگا.نہ کوئی إلى يوم القيامة.ولا ينزل أحد آسمان سے اترے گا اور نہ غار سے نکلے گا.سوائے من السماء ولا يخرج رأس من اس شخص کے کہ جس کی ذریت کے بارے میں ☆ المغارة.إلا ما سبق من ربى میرا رب پہلے سے فرما چکا ہے.یہ پیشگوئی بالکل قول في الذرية وإنّ هذا هو حق ہے اور جس نے حضرت باری تعالیٰ کی طرف الحق وقد نزل من كان نازلا سے نازل ہونا تھا وہ نازل ہو چکا اور آسمان اور من الحضرة.وتشهد عليه زمین اس کی گواہی دے رہے ہیں لیکن تم ہو کہ اس السماء والأرض ولكنكم لا گواہی سے بے خبر ہو.اور ایک وقت گزر جانے تطلعون على هذه الشهادة.يا کے بعد مجھے یاد کرو گے.لیکن خوش بخت ہے وہ وستذكـرونـنــي بعد الوقت شخص جس نے وقت پایا اور اُسے غفلت میں ضائع والسعيد من أدرك الوقت وما نہ کیا.اب ہم پھر اپنے پہلے کلام کی طرف لوٹتے أضاعه بالغفلة.ثم نرجع إلى كلمنا الأولى.فاسمعوا منی یا ہیں.تو پھرائے نظمندو! میری سنو.(سورۃ ) فاتحہ کے أولى النُّهى.إن للفاتحة أسماء اور بھی نام ہیں.ان میں سے ایک سُورَةُ الْحَمْد أخرى.منها سورة الحمد بما ہے کیونکہ اس کا آغاز ہمارے بزرگ و برتر اللہ کی افتتح بحمد ربنا الأعلى.ومنها حمد سے ہوا ہے.اس کا ایک اور نام اُم القرآن أم القرآن بما جمعت مطالبہ بھی ہے جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس سورہ نے كلها بأحسن البيان.وتأبطت قرآن کے جملہ مطالب کو نہایت حسین انداز بیان الحاشية اليه اشارة فى قوله عليه السلام يتزوج ويولد له منه اسی کی طرف اشارہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں کہ مسیح موعود نکاح کرے گا اور اس کو اولا ددی جائے گی.منہ
اعجاز المسيح اردو تر جمه کصدف درر الفرقان.میں جمع کر دیا ہے.اور ایک صدف کی طرح یہ وصارت كعُس لطير العرفان فرقان حمید کے تمام موتیوں کو اپنے اندر لئے ہوئے فإن القرآن جمع علوما أربعة ہے اور عرفان کے پرندوں کے لئے یہ آشیانے کی في الهدايات علم المبدء طرح ہے.یقیناً قرآن نے اپنی ہدایات میں چاروں وعلم المعاد وعلم النبوّة وعلم علوم جمع کئے ہوئے ہیں یعنی علم مبدء، علم معاد، علم توحيد الذات والصفات.ولا أن يكون تسمية هذه السورة شك أن هذه الأربعة موجودة نبوت اور علم توحید ذات و صفات باری تعالی ).في الفاتحة.وموءودة فى صدور بلاشبہ یہ چاروں علوم سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں اور أكثر علماء الأمة.يقرء ونها اكثر علماء امت کے سینوں میں زندہ مدفون ہیں.وهي لا تجاوز من الحناجر لا وہ اسے پڑھتے تو ہیں لیکن وہ اُن کے حلق سے نیچے.يفجرون أنهارها السبعة بل نہیں اترتا، وہ اس کی سات نہروں کو پھاڑ کر جاری ۷۳) يعيشون كالفاجر.ومن الممكن نہیں کرتے بلکہ وہ فاجروں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں.بأم الكتاب نظرا إلى غاية ممکن ہے کہ اس سورۃ کا نام اس اعتبار سے التعليم في هذا الباب.فإن ام الكتاب ہو کہ اس میں تمام جامع تعلیمات پائی سلوك السالكين لا يتم إلا بعد جاتی ہیں کیونکہ سالکوں کا سلوک اس وقت تک مکمل أن يستولى على قلوبهم عزّة نہیں ہوتا جب تک ان کے دلوں پر ربوبیت کی الربوبية وذلّة العبودية.ولن عزت اور عبودیت کا تذلیل پوری طرح سے طاری تجد مرشدًا في هذا الأمر كهذه نہ ہو جائے.اس امر میں تم حضرت احدیت کی السورة من الحضرة الأحدية.طرف سے سورہ فاتحہ جیسا کوئی رہنما نہیں پاؤ ألا ترى كيف أظهر عزة الله گے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ وعظمتــــــه بــقــولــــــه.الْعَلَمِيْنَ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ "الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ» إلى " مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ تک کے کلام سے اللہ نے اپنی عزت و عظمت کو أظهر ذلة العبد وهوانه | کس طرح نمایاں طور پر ظاہر کیا ہے.الفاتحة: ٣ الفاتحة : ۴
اعجاز المسيح ۵۷ اردو تر جمه وضـعـفـــه بقوله پھر آیت ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں بندے کی ذلت ، بے بسی اور اُس کے ضعف کا ، ومن الممكن أن يكون تسمية | اظہار کیا ہے.اور یہ بھی ممکن ہے کہ فطرتِ انسانی هذه السورة به نظرًا إلى ضرورات کی تمام ضرورتوں کے پیش نظر اس سورت کا نام الفطرة الإنسانية.وإشارةً إلى اُمُّ الكتاب رکھا گیا ہو اور جذب الہی یا کسب کے ما تقتضى الطبائع بالكسب أو ذریعہ جو طبائع تقاضا کرتی ہیں ان کی طرف اشارہ الجواذب الإلهية.فإن الإنسان مقصود ہو.کیونکہ انسان اپنے تکمیل نفس کے لئے يُحب لتكميل نفسه أن يحصل لـه عـلـم ذات الـلـه وصـفـاتـه پسند کرتا ہے کہ اسے اللہ کی ذات، صفات اور وأفعاله.ويُحبّ أن يحصل له افعال كا علم حاصل ہو اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اُسے علم مـرضـاتـه بوسيلة أحكامه رضائے الہی کا علم اُس کے اُن احکام کے وسیلے التي تنكشف حقيقتها بأقواله.سے حاصل ہو جن کی حقیقت اُس کے اقوال سے وكذالك تقتضى روحانيته أن منکشف ہوتی ہے.اسی طرح اُس کی روحانیت تأخذ بيده العناية الربانية تقاضا کرتی ہے کہ عنایت ربانی اس کی دستگیری ويحصل بإعانته صفاء الباطن کرے اور اُسی کی اعانت سے اُس کی باطنی صفائی والأنوار والمكاشفات الإلهية اور انوار ومكاشفات الہی حاصل ہوں.یہ سورہ کریمہ وهذه السورة الكريمة مشتملة انہی مطالب پر مشتمل ہے بلکہ یہ سورت اپنے حسنِ على هذه المطالب.بل وقعت بیان اور قوتِ اظہار کی وجہ سے ان مطالب کی بحسن بيـانـهـا و قـوة تبيـانهـا طرف کھینچنے والی ہے.اس سورۃ کا ایک نام سبع كالجالب.ومن أسماء هذه السورة "السبع المثاني“.وسبب مثانی ہے.اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ دو حصوں پر التسمية أنها مُثنّى نصفها ثناء مشتمل ہے.اس کا نصف بندے کا اپنے پروردگار العبد للرب ونصفها عطاء کی شاء کرنا ہے اور دوسرا نصف عبد فانی کے لئے ربّ الرب للعبد الفاني.وقيل أنها كى عطا پر مشتمل ہے.اور بیان کیا گیا ہے کہ اسے الفاتحة: ۵ ۷۵
اعجاز المسيح ۵۸ اردو تر جمه سُمّيت المثاني بما أنها مُستثناة مثانی کا نام اس وجہ سے بھی دیا گیا ہے کہ دیگر جملہ من سائر الكتب الإلهية.ولا كتب الہیہ سے یہ متقی ہے جس کی نظیر نہ تو تورات يوجد مثلها في التوراة ولا فی میں پائی جاتی ہے اور نہ انجیل میں اور نہ صحف نبویہ الإنجيل ولا في الصحف میں.مثانی نام رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی النبوية.وقيل أنها سُمّيت مثانی جاتی ہے کہ خدائے کریم کی طرف سے سات لأنها سبع آيات من الله الكريم.آیات ہیں جن میں سے ہر ایک آیت کی قراءت وتعدل قراء ت كل آية منها قرآنِ عظیم کے ساتویں حصہ کی تلاوت کے برابر قراءة سبع من القرآن العظیم ہے.یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا سبع نام رکھنا وقيل سُمّيت سبعًا إشارة إلى دوزخ کے سات دروازوں کی طرف اشارہ کرنے الأبواب السبعة من النيران کے لئے ہے.ہر دروازے کے لئے اس سورۃ کا ولكل منها جزء مقسوم يدفع مقررہ حصہ ہے.جو خدائے رحمن کے حکم سے اُس شواطها بإذن الله الرحمان.فمن کے شعلوں کو دور کرتا ہے.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ أراد أن يمرّ سالمًا من سبع أبواب دوزخ کے ان سات دروازوں سے بیچ سلامت السعير.فعليه أن يدخل هذه گزر جائے تو اُس پر فرض ہے کہ وہ ان سات السبع ويستأنس بها ويطلب (آیات) میں داخل ہو.ان سے اُنس پیدا کرے الصبر عليها من الله القدير.وكل اور خدائے قدیر سے ان پر استقامت کا طلبگار ما يُدخل في جهنم من الأخلاق ہو.اخلاق ، اعمال اور عقائد سے تعلق رکھنے والی والأعمال والعقائد فهى سبع ایسی برائیاں جو جہنم میں داخل کرتی ہیں وہ اصولی موبقات من حيث الأصول.وهذه لحاظ سے سات مہلک چیزیں ہیں.اور یہ سات ان سبع لدفع هذه الشدائد.ولها شدائد سے بچانے والی ہیں.احادیث میں اس أسماء أخرى في الأخبار کے اور بھی نام ہیں لیکن تیرے لئے اسی قدر کافی وكفاك هذا فإنه خزينة الأسرار ہیں کیونکہ یہ اسرار کا ایک خزینہ ہے مزید براں
اعجاز المسيح ۵۹ اردو تر جمه ومع ذالك حصر هذا التعداد اس تعداد میں حصر کرنا مبدء سے معاد تک کے إشارة إلى سنوات المبدء والمعاد.زمانے کی طرف ایک اشارہ ہے یعنی اس أعنى أن آياتها السبع إيماء إلى كى سات آیات دنیا کی عمر کی طرف اشارہ کرتی عمر الدنيا فإنها سبعة آلاف.ہیں پس وہ سات ہزار سال ہے.ان آیات میں ولكل منها دلالة على كيفية سے ہر ایک آیت گزشتہ ہزار سالوں کی کیفیت پر ايلاف.والألف الأخيــر فـــي دلالت کرتی ہے اور یہ آخری ہزار سال تو گمراہی الضلال كبير.وكان هذا المقام يقتضى هذا الإعلام كما كفلت میں بہت بڑھا ہوا ہے.یہ مقام اس مدت کے الذكر إلى معاد من انتِناف.بیان کرنے کا تقاضا کرتا ہے جیسا کہ سورۃ فاتحہ وحاصل الكلام أن الفاتحة آغاز سے انجام تک کے مضامین کی متکفل حصن حصين.ونور مبین ہے.حاصل کلام یہ کہ فاتحہ ایک حصن حصین ومُعلّم ومُعين.وإنها يحصن اور نُور مبین ہے.معلم اور مددگار ہے.یہ قرآن أحكام القرآن من الزيادة کے احکام کو ہر قسم کی کمی بیشی سے محفوظ رکھتی ہے والنقصان.كتحصين الثغور جیسے اعلیٰ حسنِ انتظام سے سرحدوں کی حفاظت کی بامرار الأمور.ومثلها كمثل ناقة تحمل كل ما تحتاج إليه جاتی ہے.اس کی مثال اُس اونٹنی کی طرح ہے جو وتوصل إلى ديار الحب من ضرورت کی ہر چیز کو اپنی پشت پر لا دے ہوئے ہے ركب عليه.وقد حمل عليها من اور اپنے سوار کو دیار حبیب تک پہنچاتی ہے.جس پر نوع الأزواد والنفقات ہر قسم کا زاد و نفقہ اور پار چات ولباس لا دا گیا ہو.یا والثياب والكسوات.أو مثلها اُس کی مثال اُس چھوٹے سے تالاب کی سی ہے كمثل بركة صغير فيها ماء جس میں بہت پانی ہے.گویا کہ وہ مجمع بحار ہے یا غزير.كأنها مجمع بحار.أو بحر ذخار کی گزرگاہ.میں دیکھتا ہوں کہ اس سورہ مجری قلهذم زخار.وإني أرى أن فوائد هذه السورة الكريمة کریمہ کے فوائد و محاسن بے حد و حساب ہیں.
اعجاز المسيح ۶۰ اردو ترجمہ ونفائسها لا تُعدّ ولا تُحصى اور انسان کے بس میں نہیں کہ وہ ان کا شمار کر سکے.(۷۸) وليس في وسع الإنسان أن يحصيها خواہ وہ اس تمنا میں اپنی تمام عمر خرچ کر دے.وإن أنفد عمرًا في هذا الهواى.وإن أهل الغى گمراہوں اور بد بختوں نے اپنی جہالت اور کند ذہنی والشقاوة.ما قدروها حق قدرها کے باعث اس سورہ کی کماحقہ قدر نہیں کی من الجهل والغباوة.وقرأوها | انہوں نے اسے پڑھا لیکن اس کی بار بار تلاوت فما رأوا طلاوتها مع تکرار کرنے کے باوجود انہوں نے اس کی حسن و خوبی کو التلاوة.وإنها سورة قوى الصول نہ جانا نہ پہچانا.یہ سورۃ کافروں پر ایک بھر پور على الكفرة.سريع الأثر على یلغار ہے.ہر قلب سلیم پر سریع الاثر ہے.جو بھی الأفئدة السليمة.ومن تأملها چھان بین کرنے والے کی طرح اس پر غور کرے گا تأمل المنتقد.و داناها بفکر منیر اور روشن چراغ کی طرح روشن فکر سے اس کا قریب كالمصباح المتقد.ألفاها نور سے مطالعہ کرے گا تو وہ اُسے آنکھوں کا نور اور الأبصار ومفتاح الأسرار.وإنه | اسرار کی کلید پائے گا.اور یہ بلاشبہ مجسم حق ہے انکل الحق بلا ريب.ولا رجم بچو نہیں.اے مخاطب اگر تجھے اس پر شک ہے تو بالغيب.وإن كنتَ في شك فقم اٹھا اور تجربہ کر ، سُستی اور کاہلی چھوڑ اور ادھر اُدھر وجرّب واترك اللغوب والأين.ولا تسأل عن كيف وأين.ومن کے بیجا سوال نہ کر.اس سورۃ کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی وہ معرفت عجائب هذه السورة أنها عرف عطا کی ہے کہ کسی انسان کے بس میں نہیں کہ اس پر الله بتعريف ليس في وُسع بشرٍ أن يزيد عليه.فندعو الله أن اضافہ کر سکے.ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان سورۃ فاتحہ کے يفتح بيننا وبين قومنا بالفاتحة.ذریعہ فیصلہ فرمائے ہمارا اُسی کی ذات پر توکل وإنا توكلنا عليه.آمین یا رب العالمين.ہے.آمِين يَا رَبَّ العَالَمِين.
اعجاز المسيح الباب الثاني ۶۱ اردو تر جمه دوسرا باب في شرح ما يقال عند تلاوة الفاتحة فاتحہ اور قرآن عظیم کی تلاوت سے قبل ادا کئے و القرآن العظيم اعنى أَعُوذُ باللهِ جانے والے کلمات یعنی اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ الشَّيْطَنِ الرَّحِيم کی تشریح اعلم يا طالب العرفان.أنه من أحلا طالب معرفت ! یہ جان لے کہ جو شخص فاتحہ اور نفسه محل تلاوة الفاتحة والفرقان فرقان حمید کی تلاوت کرنے لگے تو اس پر لازم ہے فعليه أن يستعيذ من الشيطان.كما كه جيسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ جاء في القرآن فإن الشيطان قد الشَّيْطَنِ الرَّحِیم پڑھ کر شیطان سے پناہ مانگے.يدخل حمى الحضرة كالسارقین کیونکہ شیطان رب العزت کے مرغزار میں اور اس ويدخل الحرم العاصم کے حرم میں جو اس کے معصوم بندوں کے لئے (۸۰) الغافلين من النعاس.فعلم كلمة للمعصومين.فأراد الله أن يُنجى مخصوص ہے چوروں کی طرح داخل ہوتا ہے.اس عباده مـن صـول الخنّاس.عند لئے اللہ نے ارادہ فرمایا کہ وہ سورۃ فاتحہ اور ربّ قراءة الفاتحة وكلام ربّ الناس کا کلام پڑھتے وقت شیطان کے حملے سے الناس.ويدفعه بحربة منه ويضع اپنے بندوں کو نجات دلائے اور اپنے حربہ سے اس الفاس في الرأس.ويُخلّص کو دور ہٹائے اور اس کے سر پر کلہاڑا چلائے اور غافلوں کو خواب غفلت سے نجات دلائے.سواس نے مردود شیطان کو روز قیامت تک مار بھگانے يوم النشور.و كان سرّ هذا الأمر المستور.أن الشيطان قد کے لئے اپنی جناب سے ایک کلمہ (تعوذ ) سکھایا.اس امر نہاں کا راز یہ ہے کہ شیطان زمانوں سے عادى الإنسان من الدهور.وكان يُريد إهلاكه من طريق انسان کا دشمن ہے اور وہ مخفی طریق سے اسے تباہ الاخفاء والدمور.وكان أحب اور ہلاک کرنا چاہتا ہے.انسان کو ہلاک کرنا اُس کا الأشياء إليه تدمير الإنسان.سب سے محبوب مشغلہ ہے.اس غرض سے اس منه لطرد الشيطان المدحور إلى
اعجاز المسيح ۶۲ اردو تر جمه ولذالك الزم نفسه نے اپنے اوپر یہ لازم کر لیا ہے کہ وہ خدائے رحمن أن تصغي إلى كل أمر ينزل من کے حکم پر جو وہ لوگوں کو بہشت بریں کی طرف الرحمن لدعوة الناس إلى بلانے کے لئے نازل فرماتا ہے کان لگائے رکھے الجنان.ويبذل جهده للإضلال اور گمراہی اور فتنہ سازی کے لئے اپنی پوری کوشش والافتنان.فقدر الله له الخيبة صرف کرے.سوا اللہ نے انبیاء کی بعثت کے ذریعہ والقوارع ببعث الأنبياء.وما سے اُس کے لئے نامرادی اور صدمات مقدرکر قتله بل أنظره إلى يوم تبعث فيه ديئے اور اُسے ہلاک نہ کیا بلکہ اُسے اُس دن تک الموتى بإذن الله ذى العزة مہلت دی جس میں اللہ بزرگ و برتر کے حکم سے والعلاء.وبشر بقتله في قوله مردے اٹھائے جائیں گے.اور الشَّيْطَنِ الرَّحِيم الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ.فتلك هى کے قول میں اس کی ہلاکت کی خوشخبری دی گئی ہے الكلمة التي تُقرأ قبل قوله : يروه كلمه تعوذ ہے جو اللہ کے فرمان بِسمِ الله بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ سے پہلے پڑھا جاتا وهذا الرجيم هو الذي ورد فيه ہے اور یہ کہ رجیم وہی ہے جس کے بارے میں الوعيد.أعنى الدجّال الذي يقتله وعید وارد ہوئی ہے.اس سے میری مراد وہ دجال المسيح المبيد.والرجم القتل ہے جسے ہلاک کرنے والا مسیح قتل کرے گا.اور كما صرح به في كتب اللسان جیسا کہ عربی زبان کی کتابوں میں صراحت کی گئی العربية.فالرجيم هو الداجل ہے رجم کے معنی قتل کے ہیں.پس رَحِیم وہ الذي يُغال في زمان من الأزمنة وقال ہے جسے کسی آئندہ زمانے میں قتل کیا جائے الآتية.وعد من الله الذي يخول گا.یہ اُس خدا کا وعدہ ہے جو اپنے بندوں کی على أهله ولا تبديل للكلم نگہداشت کرتا ہے اور کلام الہی میں کوئی رد و بدل الإلهية.فهذه بشارة للمسلمين ممکن نہیں.پس یہ رحیم خدا کی طرف سے مسلمانوں من الله الرّحيم.وإيماء إلى أنه كے لئے خوشخبری ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ وہ
اعجاز المسيح ۶۳ اردو ترجمہ يقتل الدجال في وقت كما هو دجال کو کسی وقت قتل کرے گا جیسا کہ رجیم کے المفهوم من لفظ الرجيم.لفظ کا مفہوم ہے.اشعار وَمَعْنَى الرَّجُمِ فِى هَذَا الْمُقَامِ كَمَا عُلِّمُتُ مِنْ رَبِّ الْأَنَامِ جیسا کہ مجھے مخلوقات کے رب کی طرف سے علم دیا گیا ہے اس مقام پر رجم کے معنی هُوَ الْإِعْضَالُ إِعْضَالُ اللَّنَامِ وَإِسْكَاتُ الْعِدَا كَهْفِ الظَّلَامِ در ماندہ کرنا.یعنی کمینوں کو عاجز کرنا اور دشمنوں کو خاموش کرانا ہیں جو تاریکی کی آماجگاہ ہیں.وَضَرُبٌ يَخْتَلِى أَصْلَ الْخِصَامِ وَلَا نَعْنِي بِهِ ضَرُبَ الْحُسَامِ اور ایسی ضرب جو جھگڑے کی جڑ کاٹ کر رکھدے.اور ضرب سے ہماری مراد تلوار کی ضرب نہیں ہے.تَرَى الْإِسْلَامَ كُسْرَ كَالْعِظَامِ وَكَمْ مِنْ خَامِلٍ فَاقَ الْعِظَامِ تو دیکھتا ہے کہ اسلام کو ہڈیوں کی طرح تو ڑ کر رکھ دیا گیا ہے اور کتنے ہی گمنام ہیں جو عظیم شخصیات سے بھی بلند ہو گئے ہیں.لتنجى الْمُسْلِمُونَ مِنَ السِّهَامِ فَنَادَى الْوَقْتُ أَيَّامَ الْإِمَامِ پس وقت نے ایک امام کے دنوں کو آواز دی ہے تاکہ مسلمان تیروں سے بچائے جائیں.فَلَا تَعْجَلُ وَفَكِّرُ فِي الْكَلَامِ أَلَيْسَ الْوَقْتُ وَقْتَ الْاِنْتِقَامِ پس تو جلدی نہ کر اور (اس ) کلام میں غور کر.کیا یہ وقت انتقام کا وقت نہیں ہے.آتَىٰ فَوُجَ الْمَلَائِكَةِ الْكِرَامِ بِكَفِّ الْمُصْطَفَى أَضْحَى الزَّمَامِ میں ملائکہ کرام کے لشکر دیکھتا ہوں (جن کی ) باگ ڈور محمد مصطفی ( ع ) کے ہاتھ میں دی گئی ہے.وقد أتى زمان تهلك فيه اب وہ زمانہ آ گیا جس میں تمام فریب کاریاں تباہ ۸۳ الأباطيل ولا تبقى الزور ہو جائیں گی ، جھوٹ اور تاریکی باقی نہ رہے گی اور ایڈیشن اول میں لفظ آئی چھپا ہوا ہے.جب کہ فارسی ترجمہ کی مناسبت سے آرہی ہونا چاہیئے یا پھر ترجمہ تبدیل ہونا چاہیئے.واللہ اعلم (ناشر)
اعجاز المسيح ۶۴ اردو تر جمه والظلام.وتفنى الملل كلها إلا بجز اسلام تمام ماتیں نابود ہو جائیں گی.زمین عدل الإسلام.وتُملأ الأرضُ قسطا وانصاف اور ٹور سے بھر دی جائے گی جیسا کہ اس وعدلا ونورا.كما كانت ملئت سے پہلے وہ ظلم وبو راور کفر اور جھوٹ سے بھری ہوئی ظلمًا وكفرًا وجورًا وزورا تھی.پس اُس وقت اُس گروہ دجال کو جس کی فهناك تقتل من سبق الوعيد ہلاکت کا وعدہ پہلے سے دیا گیا ہے قتل کیا جائے گا.لتدميره.ولا نعنى من القتل إلا قتل سے ہماری مراد صرف اس کی طاقت توڑ دینے کسر قوته وتـنـجية أسيره.فحاصل الكلام أن الذي يُقال له اور اس کے اسیروں کو آزاد کر دینے سے ہے.الشيطان الرجيم.هو الدجال حاصل کلام یہ کہ جسے شَيْطنِ الرَّحِیم کہا گیا ہے اللئيم.والخنّاس القديم.وكان وهى لتيم دقبال اور قدیم خناس ہے اور اُس کا قتل کیا ہی قتله أمرا موعودًا وخطبا جانا ایک موعود امر اور معہود مقصد تھا یہی وجہ ہے کہ معهودًا.ولذالك ألزم الله كافّة اللہ تعالیٰ نے تمام ملتِ اسلامیہ پر یہ لازم کر دیا کہ.أهـل الـمـلة.أن يقرءوا لفظ وہ فاتحہ اور بِسمِ اللہ پڑھنے سے پہلے لفظ رَحِیم 66 الرجيم قبل قراءة الفاتحة وقبل البسملة ليتذكر القارئ أن یعنی تعوذ پڑھیں تا کہ یہ پڑھنے والے کے ذہن وقت الدجال لا يجاوز وقت قوم نشین رہے کہ دجال کا وقت اُس قوم کے وقت سے ذکروا في آخر آية من هذه تجاوز نہیں کرے گا جن کا ذکر ان سات آیات میں الآيات السبعة.وكان قدر الله سے آخری آیت میں کیا گیا ہے.ابتداء آفرینش كتب من بدء الأوان.أنه يقتل ہی سے اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر لکھ دی گئی تھی کہ مذکور الرجيم المذكور في آخر الزمان.ويستريح العباد من لدغ رجيم (دقبال) آخری زمانے میں قتل کیا جائے گا.اور بندے اس اثر دھا کے ڈسنے سے نجات پائیں هذا الثعبان.فاليوم وصل الزمان إلى آخر الدائرة.وانتهى عمر گے.پس آج زمانہ اپنے دور کے آخر تک پہنچ گیا الدنيا كالسبع المثاني إلى ہے اور سَبْعَ مَثانی کی طرح دنیا کی عمر بھی شمسی اور
اعجاز المسيح اردو تر جمه السابعة من الألوف الشمسية قمری حساب سے ساتویں ہزار تک پہنچ چکی ہے.والقمريّة.اليوم تجلّى الرجيم آج یہ رجیم شیطان ایسے مظہر میں ظاہر ہوا جو اس في مظهر هو له كالحلل کے لئے بروزی پیراهن کی طرح ہے اور گمراہی البروزية.واختتم أمر الغي على قوم اختتم عليه آخر کلم اس قوم پر ختم ہو گئی ہے جس کا ذکر سورۃ فاتحہ کے الفاتحة.ولا يفهم هذا الرمز إلا آخرى الفاظ میں آیا ہے.اس رمز کو صرف ایک ذو القريحة الوقادة.ولا يُقتل روشن طبع شخص ہی سمجھ سکتا ہے.دجال صرف آسمانی الدجال إلَّا بالحربة السماوية حرب سے ہی قتل ہوگا.یعنی اللہ کے فضل سے نہ کسی أى بفضل من الله لا بالطاقة بشری طاقت سے.پس نہ کوئی جنگ ہوگی اور نہ مار ولكن أمر نازل من الحضرة دھاڑ لیکن یہ حضرت احدیت کی طرف سے نازل الأحدية.وكان هذا الدجال ہونے والا امر ہے.یہ دجال ہر صدی میں اپنی کسی يبعث بعض ذراريه في كل مائة نه کسی ذریت کو مؤمنوں ، موقدوں، نیکیوں اور حق نہ البشرية.فلا حرب ولا ضرب من مئيـن.ليـضـل الـمـؤمـنـيـن پر قائم لوگوں اور متلاشیانِ صداقت کو گمراہ کرنے والـمـوحـديـن والـصــالــحـيــن کے لئے بھیجتا رہا ہے تا کہ دین کی بنیا دیں گرا دے والقائمين على الحق والطالبين.ويهد مباني الدين.ويجعل اور اللہ کے صحیفوں کو پارہ پارہ کر دے.اللہ کا یہ وعدہ صحف الله عضين.وكان وعد تھا کہ وہ دقبال آخری زمانہ میں قتل کیا جائے گا.من الله أنه يُقتل فی آخر الزمان.نیکی، فساد اور سرکشی پر غالب آئے گی.زمین بدل ويـغـلـب الـصـلاح على الطلاح دی جائے گی اور اکثر لوگ رحمن خدا کی طرف والطغيان.وتُبدّل الأرض ويتوب رجوع کریں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے أكثر الناس إلى الرحمن.وتشرق الأرض بنور ربها.وتخرج روشن ہو جائے گی اور دل شیطانی تاریکیوں سے باہر القلوب من ظلمات الشيطان.آجائیں گے.۸۵
اعجاز المسيح ۶۶ اردو تر جمه فهذا هو موت الباطل وموت | یہی باطل کی موت اور دقبال کی موت اور اس الدجال وقتل هذا الثعبان أم اژدھا کا قتل ہے.کیا لوگ یہ کہتے ہیں کہ دجال يقولون إنه رجل يُقتل فى وقت ایک شخص ہے جو کسی وقت قتل کیا جائے گا.ایسا ہرگز من الأوقات.كلا بل هو نہیں بلکہ وہ تمام بدیوں کا باپ شیطان رجیم ہے جسے آخری زمانے میں جہالتوں کے ازالہ اور شيطان رجيم أبو السيئات.يُرجم فـي آخـر الـزمـان بـإزالة بیہودگیوں کی بیخ کنی کے ذریعہ سنگسار کیا جائے گا الجهلات.واستيصال.الخزعبيلات.وعد حقٌّ من الله - یہ خدائے رحیم کی طرف سے سچا وعدہ ہے.جیسا الرحيم.كـمـا أُشير في قوله: کہ اللہ کے قول الشَّيْطَنِ الرَّحِیم“ میں اشارہ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ.فقد تمّت کیا گیا ہے.اس زمانے میں ہمارے رب کی بات كلمة ربنا صدقا وعدلا في هذه سچائی اور انصاف کے لحاظ سے اتمام کو پہنچی.الأيام.ونظر الله إلى الإسلام.اللہ نے اپنی نگاہ کرم اسلام پر ڈالی بعد اس کے کہ بعد ما عنت به البلايا و الآلام اس پر مصائب و آلام وارد ہوئے.پس اللہ نے فأنزل مسيحه لقتل الخنّاس اپنے مسیح کو اس خناس کو قتل کرنے اور اس جھگڑے وقطع هذا الخصام.وما سُمّی کو چکانے کے لئے نازل فرمایا اور اخبار غیبیہ الشيطان رجيما إلَّا على طريق کے طریق پر ہی شیطان کا نام رجیم رکھا أنباء الغيب.فإن الرجم هو القتل گیا.کیونکہ رجم کے معنی بلا شک وشبہ قتل کے من غير الريب.ولمّا كان القدر ۸۷ قد جرى في قتل هذا الدجال.عند نزول مسیح الله ذى ہیں.اور چونکہ خدائے ذوالجلال کے مسیح کے نزول کے وقت اس دجال کے قتل کے بارے میں تقدیر الجلال.أخبر الله من قبل هذه جاری ہو چکی تھی اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ضلالت الواقعة تسلية وتبشير القوم وگمراہی کے زمانے سے ڈرنے والی قوم کی تسلی اور يخافون أيام الضلال.بشارت کی خاطر اس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی.
اعجاز المسيح الباب الثالث في تفسير آية 72 تیسرا باب بابت تفسیر آیت اردو تر جمه بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إعلم وهب لك الله علم اللہ آپ کو اپنے اسماء کا علم عطا فرمائے اور اپنی رضا اور خوشنودی کی راہوں کی طرف رہنمائی فرمائے.أسمائه.وهداك إلى طرق مرضاته وسبل رضائه.أن الاسم جان لو کہ اسم و سم سے مشتق ہے جس کے مشتق من الوسم الذي هو أثر معنى عربى زبان میں داغنے کے نشان کے ہیں.اِتَّسَمَ الرَّجُلُ کہا جائے ، تو اس کا مطلب ہوتا الكي في اللسان العربية.يُقال ہے کہ اُس شخص نے اپنے لئے ایک نشان مقرر کر لیا اسم الرجل إذا جعل لنفسه سمةً يُعرف بها ويُميّز بها عند العامة.ومنه سمت البعير ووسامه عند أهل اللسان.وهو ما وُسِم به جس نشان سے وہ پہچانا جاتا ہے.اور اس کے ذریعے عوام میں شناخت کیا جاتا ہے.اور اہل زبان کے نزدیک (وَسُم کے لفظ سے ہی سِمَةُ البَعِيرِ اور وِسَامُ البَعِيرِ مشتق ہیں جس کے معنی البعير من ضُروب الصور ليعين اونٹ پر داغ دے کر کوئی شکل بنانے کے ہیں تا وہ للعرفان.ومنه ما يُقال إنّي اس کی شناخت میں ممد ہو.اسی طرح کہا جاتا ہے: توسمت فيه الخير.وما رأيت إِنِّي تَوَسَّمْتُ فِيهِ الْخَيْرَ وَ مَا رَأَيْتُ الضَّيْرَ يعنى الضير.أى تفرّست فما رأیت میں نے غور کیا اور اُس کے چہرے میں علامات خیر سمة شرّ في محياه.ولا أثر دیکھیں اور برائی کا کوئی نشان نہیں دیکھا اور نہ ہی خبث في محياه ومنه الوسمی اس کی زندگی میں خباثت کا کوئی اثر نظر آیا.اور وَسُمّ الذي هو أول مطر من أمطار سے ہی وَسمِی مشتق ہے جو موسم بہار کی پہلی بارش الربيع.لأنه يَسمَ الأرض إذا ہے.کیونکہ وہ تیز برسنے کے باعث چشموں کی نزل كالينابيع.طرح زمین پر اپنے بہاؤ کے نشان چھوڑ جاتی ہے.
اعجاز المسيح ۶۸ اردو تر جمه ويُقال أرض موسومة إذا | اسى طرح ارضٌ مَوْسُومَةً ایسی زمین کو کہتے ہیں أصابها الوسمي في إبانه.وسكن کہ جب اس پر موسم بہار کی پہلی بارش بر وقت قلوب الكفار بجريانه.ومنه بر سے اور وہ خوب برس کر کاشت کاروں کے دلوں موسم الحج والسوق وجميع کو تسکین بخشے.اسی سے لفظ مَوْسَمُ الحج ، راسم الاجتماع.لأنها معالم مَوْسَمُ السُّوق اور اجتماعات کے موسم نکلے ہیں.يجتمع إليها لنوع غرض من كيونكہ وہ معتین مقامات ہیں جہاں کسی نہ کسی مقصد کیونکہ الأنواع.ومنه الميسم الذي يُطلق على الحسن والجمال.کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں.اسی سے لفظ میسم ويستعمل في نساء ذات ملاحة ہے جس کا اطلاق حُسن و جمال پر ہوتا ہے اور اکثر في أكثر الأحوال.وقد ثبت من صورتوں میں اس لفظ کو خوبصورت عورتوں کے تتبع كلام العرب ودواوينهم.متعلق استعمال کیا جاتا ہے.عربی کلام اور اس کے أنهم كانوا لا يستعملون هذا شعری کلام کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ اللفظ كثيرًا إِلَّا فى موارد الخير اس لفظ کو اکثر اپنی دینی اور دنیوی خیر کے مواقع پر ہی من دنياهم ودينهم.وأنت تعلم استعمال کرتے تھے.آپ جانتے ہیں کہ عامۃ ا أن اسم الشيء عند العامة ما اناس کے نزدیک اِسمُ الشَّیءِ کسی چیز کا ایسا نام يُعرف به ذالك الشيء.وأما ہے جس کے ذریعہ سے اس چیز کی شناخت کی جاتی عند الخواص وأهل المعرفة ہے.لیکن خواص اور اہلِ معرفت کے نزدیک نام ، فالاسم لأصل الحقيقة الفيء.اصل حقیقت کا ظل ہوتا ہے.بلکہ یہ امریقینی ہے بل لاشك أن الأسمـــــاء کہ اشیاء کے جو نام حضرت احدیت کی طرف سے المنسوبة إلى المسميات من الحضرة الأحدية.قد نزلت منها ہیں یہ تمام نام ان چیزوں کے لئے ان کی نوعی منزلة الصور النوعية وصارت صورتوں کی حیثیت رکھتے ہیں یہ نام معانی اور علوم ٩٠ كوكنات لطيور المعانی و العلوم حکمیہ کے پرندوں کے لئے بمنزلہ گھونسلوں کے ہیں.اسی الحكمية.وكذالك اسم الله و طرح اس آیت مبارکہ میں اسم الله ، الرَّحْمٰن
اعجاز المسيح ۶۹ اردو تر جمه الرحمن و الرحيم في هذه الآية اور الرَّحِیم ہیں.پس ان میں سے ہر ایک نام المباركة.فإن كل واحد منها اس کی خصوصیات اور مخفی کیفیات پر دلالت کرتا يدل على خصائصه وهويته المكتومة.والله اسم للذات ہے.اللہ اس ذات الہی کا نام ہے جو تمام کمالات الإلهية الجامعة لجميع أنواع کی جامع ہے اور رحمان اور رحیم دونوں دلالت الكـمـال والـرحمن والرحيم کرتے ہیں کہ یہ دونوں صفتیں متحقق ہیں اس نام يدلان على تحقق هاتين الصفتين کے لئے جو ہر قسم کے جمال اور جلال کا جامع لهذا الاسم المستجمع لكل نوع الجمال والجلال.ثم للرحمن ہے.پھر الر حمن کے معنی جو خاص طور پر اسی معنى خاص يختص به ولا يوجد سے مخصوص ہیں اور الرحیم میں نہیں پائے جاتے في الرحيم.وهو أنه مُفيضٌ اور وہ یہ ہیں کہ خدائے کریم کے اذن سے صفت رحمن لوجود الإنسان وغيره من الــحـيـوانـات بإذن الله الكريم.وجو دانسان اور دیگر حیوانات کو قدیم زمانہ سے بحسب ما اقتضى الحكم الإلهية | حكمت الہیہ کے اقتضاء اور جو ہر قابل کی قابلیت کے من القديم.وبحسب تحمل مطابق فیضان پہنچارہا ہے نہ کہ مساوی تقسیم کے طور (۹۱) القوابل لا بحسب تسوية پر.اس صفت رحمانیت میں کسی انسانی یا حیوانی التقسيم وليس في هذه الصفة قومی کے کسب عمل اور کوشش کا کوئی دخل نہیں.الرحمانية دخل كسب وعمل وسعـي مـن الـقـوى الإنسانية بلكه يد محض اللہ کا احسان ہے جس سے پہلے عمل أو الحيوانية.بل هى مِنة من الله کرنے والے کا عمل موجود نہیں.یہ اُس کی جناب خاصة ما سبقها عمل عامل سے اُس کی رحمتِ عامہ ہے کسی ناقص یا کامل شخص ورحمته من لدنه عامة ما مسها أثـر سـعـي مـن ناقص أو كامل.کی کسی سعی کا نتیجہ نہیں.حاصل کلام یہ کہ صفت فالحاصل أن فيضان الصفة رحمانیت کا فیضان کسی عمل کا نتیجہ اور کسی
اعجاز المسيح اردو تر جمه الرحمانية ليس هو نتيجة عمل استحقاق کا ثمرہ نہیں بلکہ وہ اطاعت یا مخالفت کے ولا ثمرة استحقاق.بل هو فضل بغیر محض اللہ کا فضل ہے اور یہ فیض اطاعت ، من الله من غير إطاعة أو شقاق.عبادت ، تقوی اور زُہد کی شرط کے بغیر اللہ کی مشیت وينزل هذا الفيض دائما بمشية من الله و إرادة.من غير شرط اور اس کے ارادے سے ہمیشہ نازل ہوتا ہے.اور اس فیض کی بنیاد مخلوق کے وجود اور اُن کے اعمال إطاعة وعبادة و ثقاة وزهادة.و ٩٢ كان بناء هذا الفيض قبل وجود اور اُن کی کوشش اور سوال سے بھی پہلے سے ہے.الخليقة وقبل أعمالهم.وقبل یہی وجہ ہے کہ اس فیض کے آثار ، وجو دانسان و جهدهم وقبل سؤالهم.فلأجل حیوان کے آثار سے بھی پہلے سے پائے جاتے ہیں.ذالك توجد آثار هذا الفيض اگر چه یه فیض ، تمام مراتب وجود میں اور زمان و قبل آثار وجود الإنسان مکان اور حالت اطاعت و عصیان میں جاری و والحيوان.وإن كان ساريًا في ساری رہتا ہے.کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ کی جميع مراتب الوجود والزمان رحمانیت نیکوں اور ظالموں سب پر وسیع ہے.تو والمكان.والطاعة والعصيان.ألا ترى أن رحمانية الله تعالی دیکھتا ہے کہ اس کا ماہتاب اور اس کا آفتاب ، وسعت الصالحين والظالمين.فرمانبرداروں اور نافرمانوں سبھی پر طلوع ہوتا ہے وترى قمره و شمسه يطلعان علی اور اُس نے ہر چیز کو اُس کے مناسب حال ، الطائعين والعاصين.وانه أعطى پیدائش بخشی اور ان کے تمام امور کا متکفل ہوا.کوئی كل شيء خلقه و كفل أمر كلهم چلنے پھرنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ پر أجمعين.وما من دابة إِلَّا على الله رزقها ولو كان في السموات أو في الأرضين.وانه خلق لهم ہے خواہ وہ آسمانوں میں ہو یا زمینوں میں.اُس نے اُن کے لئے درخت پیدا کئے اور ان درختوں الأشجار وأخرج منها الثمار کے ذریعے پھل پھول اور خوشبوئیں پیدا کیں.یہ والزهر والرياحين.وإنها رحمة ایسی رحمت ہے جسے اللہ نے نفوس کے لئے ان کی
اعجاز المسيح اے اردو تر جمه هياها الله للنفوس قبل ان پیدائش سے پہلے مہیا کیا.اس میں متقیوں کے يبرأها وإن فيها تذكرة للمتقين.لئے نصیحت ہے.یہ سب نعمتیں بغیر عمل اور بغیر وقد أعطى هذه النعم من غير العمل ومن غير الاستحقاق.من استحقاق کے نہایت مہربان اور خلاق اللہ کی الراحم الخلاق.ومنها نعماء طرف سے عطا کی گئی ہیں.حضرت کبریاء کی طرف أخرى من حضرة الكبرياء.وهي سے ایسی اور بہت سی نعمتیں ہیں جو شمار سے باہر ہیں خارجة من الإحصاء.كمثل خلق أسباب الصحة وأنواع مثلاً صحت کے اسباب پیدا کرنا، ہر قسم کی بیماری کے الحيل والدواء لكل نوع من لئے جملہ تدابیر اور دوائیں پیدا کرنا ، رسولوں کو الداء.وإرسال الرسل وإنزال مبعوث کرنا، اور نبیوں پر کتابیں نازل کرنا.یہ الكتب على الأنبياء.وهذه كلها رحمانية من ربنا أرحم الرحماء.سب کچھ ہمارے اَرحَمُ الرَّاحِمِيـن رب کی وفضـل بـحـت ليس من عمل رحمانیت ہے.اور اس کا خالص فضل ہے جس میں عامل ولا من التضرع والدعاء نہ کسی عامل کے عمل کا اور نہ کسی تضرع اور دعا کا وأما الرحيمية فهي فيض أخص من فيوض الصفة الرحمانية دخل ہے.اور جو رحیمیت ہے تو وہ ایسا فیض ومـخـصـوصـة بتكميل النوع ہے جو صفت رحمانیت کے فیوض سے اخص البشرى وإكمال الخلقة ہے.اور نوع انسانی کی تکمیل اور انسانی فطرت کو الإنسانية.ولكن بشرط السعى کمال تک پہنچانے کے لئے مخصوص ہے لیکن اس کا والعمل الصالح وترك الجذبات النفسانية.بل لا تنزل حصول کوشش ، مناسب حال عمل اور نفسانی جذبات هذه الرحمة حق نزولها إلا بعد كوكليتا ترک کرنے سے مشروط ہے بلکہ یہ رحمت الجهد البليغ في الأعمال.وبعد اعمال میں پوری کوشش کرنے نفس کا تزکیہ کرنے ، تزكية النفس وتكميل الإخلاص بإخراج بقايا الرياء وتطهیر ریاء کے اثرات کو نکال باہر کر کے اخلاص کو کمال
اعجاز المسيح ۷۲ اردو تر جمه البال.وبعد إيثار الموت لابتغاء تک پہنچانے ، قلب کو پاک کرنے اور خدائے مرضات الله ذی الجلال ذوالجلال کی خوشنودی کے حصول کی خاطر موت کو فطوبى لمن أصابه حظ من هذه ترجیح دینے کے بعد ہی حقیقی طور پر نازل ہوتی النعم.بل هو الإنسان وغیرہ ہے.پس خوش نصیب ہے وہ شخص جو ان نعمتوں كالنعم.وههنا سؤال عضال سے بہرہ ور ہے.بلکہ وہی تو درحقیقت انسان ہے نكتبه في الكتاب مع الجواب اور اس کے سوا سب دوسرے چوپایوں کی مانند ہیں.(۹۵) لیفگر فيه من كان من أولى یہاں ایک پیچیدہ سوال ہے کہ جسے ہم اس کتاب الألباب.وهو أن الله اختار من میں مع جواب تحریر کرتے ہیں تا کہ جو عقلمند ہے جميع صفاته صفتی الرحمان اس پر غور کر سکے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنی کل والرحيم في البسملة.وما ذكر صفات میں سے صرف دو صفتوں الرحمن اور صفتا أخرى في هذه الآية.مع أن الرَّحِيم كو ہی بسم اللہ میں کیوں منتخب فرمایا اسمه الأعظم يستحق جميع ما ہے اور دوسری صفات کا اس آیت میں ذکر هو من الصفات الكاملة.كما هي نہیں کیا.باوجود یکہ اُس کا اسم اعظم تمام مذكورة في الصحف المطهرة.صفات کا ملہ کا مستحق ہے.جیسا کہ یہ قرآنِ ثم إن كثرة الصفات تستلزم شریف میں مذکور ہے.پھر صفات کی کثرت تلاوت كثرة البركات عند التلاوة کے وقت ، برکات کی کثرت کو مستلزم ہے.پس فالبسملة أحق وأولى بهذا المقام آيت بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اس مقام و والمرتبة.وقد نُدِب لها عند كل مرتبہ کی زیادہ حقدار ہے.اور ہر اہم کام کے أمر ذى بال كما جاء في وقت بسم اللہ پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے الأحاديث النبوية.وإنها أكثر جيسا كه احادیث نبویہ میں مذکور ہے اور مسلمانوں وردًا على ألسن أهل الملة کی زبانوں پر سب سے زیادہ اس آیت کا ورد ہوتا وأكثر تكرارا في كتاب الله ہے.اور رب العزت کی کتاب میں سب سے زیادہ
اعجاز المسيح ۷۳ اردو ترجمہ ذى العزة.فبأى حكمة و مصلحة اس کا تکرار ہے.پھر کس حکمت اور مصلحت کی وجہ ۹۶ لم يُكتب صفات أخرى مع هذه سے اس متبرک آیت کے ساتھ دوسری صفات نہیں الآية المتبركة.فالجواب أن الله لکھی گئیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے أراد في هذا المقام.أن يذكر مع اس مقام پر ارادہ فرمایا کہ وہ اپنے اسم اعظم (اللہ ) اسمه الأعظم صفتين هما کے ساتھ ان دو صفتوں کا ذکر فرمائے جو اس کی تمام خلاصة جميع صفاته العظيمة صفات عظیمہ کا پورے طور پر خلاصہ ہیں.اور وہ على الوجه التام.وهما الرحمن وصفات الرَّحْمن اور الرَّحِیم ہیں جیسا کہ عقل والرحيم.كما يهدى إليه العقل سليم بھی اس کی طرف رہنمائی کرتی ہے.کیونکہ السليم.فإن الله تجلّى على هذا اللہ تعالی اس عالم میں کبھی تو شانِ محبوبیت کے العالم تارة بالمحبوبية ومرة ساتھ تجلی فرماتا ہے اور کبھی مُحبیت کی صورت بالمحبيّة.وجعل هاتين الصفتين ضياء ينزل من شمس الربوبية على أرض العبوديّة.فقد يكون میں.اور اس نے ان دو صفتوں کو ایسی روشنی قرار دیا ہے جو ربوبیت کے سورج سے عبودیت کی الــرب مـحـبـوبـا والـعـبـد مُحِبا | سرزمین پر نازل ہوتی ہے.سو اس طرح کبھی ربّ محبوب بن جاتا ہے اور بندہ اُس محبوب کا لذالك المحبوب.وقد يكون العبد محبوباً والرب مُحبَّاله مُحِب.اور کبھی بندہ محبوب بن جاتا ہے اور رب اُس کا محب ہو جاتا ہے اور اُسے اپنا وجاعله كالمطلوب.ولا شك أن الفطرة الإنسانية التي فطرت مطلوب بنا لیتا ہے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ على المُحبّة والخلة ولوعة انساني فطرت جس میں محبت ، دوستی اور سوز دل رکھ البال.تقتضى أن يكون لها دیا گیا ہے.اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کا محبوبا يجذبها إلى وجهه كوئى محبوب ہو جو اپنی تجلیات جمال اور انعام و بتجليات الجمال والنعم احسان کے ذریعے اُسے اپنی جانب کھینچے اور والنوال.وأن يكون له مُحِبا اُس کا ایسا غمخوار محب ہو جو خطرات اور ۹۷
اعجاز المسيح ۷۴ اردو تر جمه مواسيا يُتدارك عند الأهوال پراگندگی احوال میں اس کی مدد کو پہنچے.اور فطرت وتشتت الأحوال.ويحفظها من كو اعمال کے ضیاع سے بچائے.اور اُسے اُس کی ضيعة الأعمال.ويوصلها إلى تمناؤں تک پہنچائے.پس اللہ نے چاہا کہ جس کا الآمال.فأراد الله أن يُعطيها ما فطرت تقاضا کرتی ہے اُسے وہ عطا فرمائے اور اپنی اقتضتها ويتم عليها نعمه بجوده وسیع عطاء سے اُس پر اتمام نعمت کرے.اس العميم.فتـجـلّـى عليها بصفتيه الرحمن والرحيم.ولا ريب ۹۸ بين الربوبية والعبودية.و بهما لئے اُس نے اپنی دو صفتوں الرحمن اور الرَّحِیم کے ساتھ اس پر تجلی فرمائی.اس میں کوئی أن هاتين الصفتين هما الوصلة شک نہیں کہ یہ دونوں صفتیں ربوبیت اور عبودیت يتم دائرة السلوك والمعارف کے درمیان ایک واسطہ ہیں اور ان دونوں کے الإنسانية.فكل صفة بعدهما ذریعہ سلوک اور انسانی معارف کا دائرہ مکمل ہوتا داخلة في أنوارهما.وقطرة من ہے.پس ان کے علاوہ باقی تمام صفات انہی الحاشية.قد عرفت ان الله بصفة الرحمن ينزل على كل عبد من الانسان والحيوان والكافر و حاشیہ.تو جانتا ہے کہ اللہ اپنی صفت رحمن کے ساتھ ہر انسان ، حیوان ، کافر اور مومن بندے پر اهل الايمان انواع الاحسان والامتنان بغير عمل يجعلهم مستحقين في حضر الديان.اذ اپنے گونا گوں احسانات اور نوازشیں نازل فرماتا ہے.اُن کے کسی عمل کے بغیر جو جزا سزا کے مالک کی بارگاہ میں انہیں لاشك ان الاحسان على هذا المنوال يجعل المحسن محبوبا في الحال فثبت ان ان کا مستحق بنادے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طریق پر احسان کرنا محسن کو فوراً محبوب بنادیتا ہے.پس ثابت ہوا الافاضة على الطريقة الرحمانية.يظهر في اعين المستفيضين شان المحبوبية.واما صفة کہ رَحْمَانِیت کے طریق پر فیض رسانی فیض پانے والوں کی نگاہوں میں اُس کی شان محبوبیت ظاہر کرتی ہے اور جو الرحيمية.فقد الزمت نفسها شان المحبّية فان الله لا تتجلى على احد بهذا الفيضان رحیمیت کی صفت ہے تو اس نے اپنے آپ کو شان مُحبیت سے لازم کر لیا ہے.پس اللہ مومنوں میں سے کسی الا بعد ان يحبه ويرضى به قولا و فعلا من اهل الايمان.منه ایک پر اس فیضان کی تجلی صرف اُس وقت فرماتا ہے جب وہ اُس سے محبت کرے اور قولاً وفعلاً اس پر راضی ہو.منہ سہو کتابت ہے درست یتجلی ہے.(ناشر)
اعجاز المسيح ۷۵ اردو ترجمہ بحارهما.ثم إن ذات الله تعالى دو صفتوں کے انوار میں داخل ہیں اور انہی کے كما اقتضت لنفسها أن تكون سمندروں کا قطرہ ہیں.پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی لنوع الإنسان محبوبة ومُحبة ذات اپنے لئے نقاضا کرتی ہے کہ وہ نوع انسان كذالك اقتضت لعباده الكُمّل کے لئے محبوب ہو اور محب بھی.اسی طرح أن يكونوا لبنی نوعهم كمثل اُس نے اپنے کامل بندوں کے لئے یہ چاہا ہے کہ ذاته خُلُقًا وسيرة ويجعلوا وہ بھی بنی نوع انسان کے لئے خُلق اور سیرت میں هاتين الصفتين لأنفسهم لباسًا وكسوةً.ليتخلّق العبودية بأخلاق اُس کی ذات کی مانند ہوں اور وہ ان دونوں صفتوں کو اپنے لئے لباس و پوشاک بنا ئیں تا کہ الربوبية.ولا يبقى نقص في عبودیت ربوبیت کے اخلاق اپنا لے اور انسانی النشأة الإنسانية.فخلق النبيين والمرسلين فجعل بعضهم نشوونما میں کوئی نقص باقی نہ رہ جائے.اسی لئے مظهر صفته الرحمان وبعضهم اللہ نے نبیوں اور مُرسلوں کو پیدا فرمایا اور ان میں مظهر صفته الرحيم ليكونوا سے بعض کو اپنی صفت رحمان کا مظہر بنایا اور بعض کو محبوبين ومحبين ويُعاشروا اپنی صفت رحیم کا مظہر ، تا کہ وہ بھی محبوب اور ۹۹ بالتحابب بفضله العظيم.فأعطى مُحبّ بن جائیں اور اُس کے فضلِ عظیم کے ساتھ بعضهم حظا وافرا من صفة ایک دوسرے سے باہمی محبت سے زندگی بسر المحبوبية.وبـعـضًا آخر حظًا کریں.سو اُس نے بعض کو صفت محبوبیت سے وافر كثيرا من صفة المُحبيّة.وكذالك أراد بفضله العميم.وجوده القديم.ولما جاء زمن حصہ عطا فر مایا اور بعض کو صفت محبیت سے کثیر حصہ عطا فرمایا.اسی طرح خدا تعالیٰ نے اپنے وسیع فضل اور دائمی کرم سے ارادہ فرمایا.اور پھر جب خاتم النبيين.وسيدنا محمد سيد المرسلين.أراد هو سبحانه خاتم النبیین اور سید المرسلین سیدنا محمد ﷺ کا أن يجمع هاتين الصفتين فی زمانہ آیا تو اللہ سُبحَانَہ نے ارادہ فرمایا کہ وہ نفس واحدة.فجمعهما في ان دونوں صفتوں کو ایک نفس میں جمع کر دے.سواس
اعجاز المسيح 24 اردو ترجمہ نفسه عليه ألف ألف صلوة و نے ان دونوں صفتوں کو آپ کی ذات میں جمع کر تحية.فلذالك ذكر تخصيصا دیا.لاکھوں درود اور سلام ہوں آپ پر.اسی وجہ صفة المحبوبية والمحبيّة على سے اللہ نے اس سورۃ کے آغاز ہی میں رأس هذه السورة.ليكون إشارة محبوبيت اور مُحبّیت کی صفات کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے تا کہ اس ارادے کی جانب اشارہ إلى هذه الإرادة وسمى نبينا محمدًا وأحمد كما سمّى نفسه ہو جائے.اور اس نے ہمارے نبیؐ کا نام محمد اور احمد رکھا جیسا کہ اس نے اپنا نام اس آیت میں رحمن اور رحیم رکھا ہے.یہ اس طرف ١٠٠ فهذه إشارة الى أنه لا جامع لهما اشارہ ہے کہ ظلی طور پر سید نا خیرا لبریہ محمدمہ على الطريقة الظلية إلا وجود کے وجود کے علاوہ کوئی اور ان دو صفتوں کا جامع الرحمان والرحيم في هذه الآية.سيدنا خير البرية.وقد عرفت أن نہیں.اور تو جان چکا ہے کہ یہ دو صفتیں اللہ تعالیٰ کی هاتين الصفتين أكبر الصفات من تمام صفات میں سے سب سے بڑی صفات صفات الحضرة الأحدية بل ہیں بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے جمیع صفاتی ناموں هما لب اللباب وحقيقة الحقائق کا لب لباب اور حقائق کی اصلیت ہیں.اور یہ ہر لجميع أسمائه الصفاتية.وهما اُس شخص کے کمال کی کسوٹی ہیں جو طالب کمال ہے معيار كمال كل من استكمل اور اخلاق الہیہ کو اپنانا چاہتا ہے اور ان دونوں وتخلق بالأخلاق الإلهية.وما صفات سے کامل حصہ صرف اور صرف ہمارے نبی أعطى نصيبا كاملا منهما إلا نبینا ﷺ کو دیا گیا ہے جو سلسلہ نبوت کے خاتم خاتم سلسلة النبوة.فإنّه أعطى ہیں.یہی وجہ ہے کہ آپ " کو ان دونوں صفات اسمين كمثل هاتين الصفتين کی مانند رب کو نین کے فضل سے دو نام عطا کئے اولهما محمد و الثانی احمد من گئے ہیں.ان میں سے پہلا نام محمد ہے فضل ربّ الكونين.اما محمد فقد اور دوسرا احمد.جہاں تک محمّد کا تعلق ہے
اعجاز المسيح LL اردو تر جمه جو ارتدى رداء صفت الرحمن تو یہ صفت رحمن کی چادر اوڑھے ہوئے ہے اور وتجلى في حلل الجلال جلال اور محبوبیت کے لبادے میں تجلی فرما ہے اور والمحبوبية.وحُمد البرمنه آپ کی نیکی اور احسان کی وجہ سے ستائش کی گئی.(۱۰۱) والإحسان.وأما أحمد فتجلّى فى اور اسم احمد نے خدا تعالیٰ کے فضل سے حلة الرحيمية والمُحبّية والجمالية.مؤمنوں کی مدد اور نصرت کا متولی ہے رحیمیت فضلا من الله الذي يتولى المؤمنين | محبيت اور جمال کے لباس میں تجلی فرمائی.ہمارے بالعون والنصرة.فصار اسما نبينا نبی محمد مے کے یہ دونوں نام (محمد اور احمد) بحذاء صفتى ربنا المنان.كصورٍ ہمارے ربّ مَنان کی دوصفات (الرحمن اور منعكسة تُظهرها مرآتان متقابلتان.الرَّحِيم ) کے مقابل ہیں.جو اُن منعکس صورتوں وتفصيل ذالك أن حقيقة صفة کی طرح ہیں جنہیں دو متقابل آئینے ظاہر کرتے الرحمانية عند أهل العرفان.هي ہیں.اس کی تفصیل یہ ہے کہ اہلِ عرفان کے إفاضة الخير لكل ذى روح من نزدیک صفت رحمانیت کی حقیقت یہ ہے کہ الإنسان وغير الإنسان.من غير رحمانیت ہر ذی روح انسان یا غیر انسان کے عمل سابق بل خالصًا على سبيل لئے خیر کی فیض رسانی ہے جو کسی پہلے عمل کے بغیر الامتنان.ولا شك ولا خلاف خالصتاً برسبیل احسان ہوتی ہے.اس میں نہ تو أن مثل هذه المنّة الخالصة.التي کوئی شک ہے اور نہ کوئی اختلاف ہے کہ اس قسم کا لیست جزاء عمل عامل من خالص احسان جو مخلوق میں سے کسی کام کرنے البرية.هي تجذب قلوب والے کے کام کاصلہ نہ ہو مؤمنوں کے دلوں کو ثنا ، المؤمنين إلى الثناء والمدح والمحمدة.فيحمدون المحسن مدح اور حمد کی طرف کھینچتا ہے.پس وہ اپنے محسن ويثنون عليه بخلوص القلوب کی خلوص قلب اور صحت نیت سے مدح و ثنا کرتے وصحة النيّة.فيكون الرحمان ہیں اس طرح بغیر کسی وہم کے جو شک و شبہ میں مُحَمّدًا يقينا من غير وهم يجر ڈالے رحمان یقیناً محمد ہو جاتا ہے.کیونکہ ایسی ۱۰۲
اعجاز المسيح ZA اردو تر جمه إلى الريبة.فإن المنعم الذي انعام کرنے والی ہستی جو لوگوں پر بغیر کسی حق کے يُحسن إلى الناس من غير حق طرح طرح کے احسان کرے، اُس ہستی کی ہر وہ بأنواع النعمة.يحمده كل من شخص حمد کرے گا جس پر انعام واکرام کیا جاتا ہے أنعم عليه.وهذا من خواص اور یہ انسانی خلقت کا خاصہ ہے.پھر جب اتمام النشأة الإنسانية.ثم إذا كمل نعمت کے مطابق حمد اپنے کمال کو پہنچ جائے تو الحمد بكمال الإنعام جذب ذالك إلى الحب التام فيكون وه كامل محبت کی جاذب بن جاتی ہے.ایسا محسن المحسن محمدًا ومحبوباً فی اپنے محبوں کی نگاہ میں محمد اور محبوب ہو جاتا أعين المحبين فهذا مآل صفة ہے.اور یہ صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے.پس الرحمان ففكر كالعاقلين.وقد عقلمندوں کی طرح غور و فکر کر.اس جگہ پر ہر ظهر من هذا المقام لكل من له صاحب عرفان پر واضح ہو گیا ہے کہ رحمـــن عرفان أن الرحمن محمد وأن محمّدًا رحمان.ولا شك أن محمد ہے اور محمد رحمن ہے.بلا شبہ دونوں (مـحـمـد اور رحمن) کا نتیجہ ایک ہی مآلهما واحد.وقد جهل الحق من هو جاحد.وأما حقيقة صفة ہے.پس اُس نے حق کو شناخت نہ کیا جس نے انکار کیا.اور جہاں تک صفت رحیمیت کی الرحيمية.ومـا أخـفـى فيها من ١٠٣ الكيفية الروحانية.فهي إفاضة حقيقت اور اس میں پنہاں روحانی کیفیت کا تعلق إنعام و خير على عمل من أهل ہے تو وہ اہلِ مسجد کے اعمال پر انعام و برکت کا مسجد لا من أهل دَیر فیض ہے نہ کہ اہل دیر پر.اور مخلص کام کرنے و تكميل عمل العاملين والوں کے اعمال کی تکمیل اور تلافی کرنے والوں المخلصين.وجبر نقصانهم اور معاونوں اور مددگاروں کی طرح اُن کی كالمتلافين والمعينين کوتاہیوں کا تدارک مقصود ہے اور بلا شبہ یہ افاضہ الإفاضة في حكم الحمد من الله رحیم خدا کے تعریف کرنے کے حکم میں ہے کیونکہ الرحيم.فإنه لا ينزل هذه | وہ اپنی یہ رحمت کسی عمل کرنے والے پر صرف اُس والناصرين.ولا شك أن هذه
۵۱۰۴ اعجاز المسيح اردو تر جمه الرحمـة عـلـى عامل إلَّا بعد ما وقت نازل کرتا ہے جب وہ صحیح طریق پر اُس کی حمده على نهجه القويم.ورضی تعریف کرتا اور اس کے عمل پر راضی ہوتا ہے اور به عملا ورآه مُستحقًا للفضل اسے فضل عمیم کا مستحق پاتا ہے.کیا تجھے یہ نظر نہیں العميم.ألا ترى أنه لا يقبل عمل آتا کہ وہ کافروں، مشرکوں، ریا کاروں اور الكافرين والمشركين والمرائين متکبروں کے عمل کو قبول نہیں کرتا بلکہ وہ ان کے والمتكبرين.بل يُحبط أعمالهم اعمال ضائع کر دیتا ہے اور انہیں اپنی طرف ولا يهديهم إليه ولا ينصرهم بل بدايت نہیں دیتا اور نہ اُن کی مدد کرتا ہے بلکہ انہیں يتركهم كالمخذولين.فلا شك بے یار و مددگار لوگوں کی طرح چھوڑ دیتا ہے.أنه لا يتوب إلى أحد بالرحيمية اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ کسی شخص کی طرف اپنی ولا يُكمل عـمــلــه بنصرة منه والإعانة.إلَّا بعد ما رضى به فعلا وحمده حمدا يستلزم نزول الله بكمال أعمال المخلصين.المحمدين والأحمدين.وعند صفت رحیمیت کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے عمل کو اپنی مدد اور اعانت سے مکمل فرماتا ہے مگر اُس وقت جب وہ اُس کے کام سے راضی الرحمة.ثم إذا كمل الحمد من ہو جائے اور اس کی کامل تعریف کرے جو نزولِ رحمت کو مستلزم ہے.پھر جب مخلصین کے اعمال فيكون الله أحمد و العبد کے کمال پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حمد کمال کو محمدًا.فسبحان الله أوّل پہنچ جائے تو اللہ احمد ہو جاتا ہے اور بندہ محمد.وہ اللہ پاک ہے جو سب سے پہلا محمد اور ذالك يكون العبد المخلص في العمل محبوبًا في الحضرة.فإن سب سے پہلا احمد ہے.اس وقت مخلص بندہ بوجہ عمل بارگاہِ الہی میں محبوب ہو جاتا ہے.کیونکہ اللہ الله يحمده من عرشه.وهو لا يحمد أحدًا إلَّا بعد المحبة اپنے عرش سے اُس کی تعریف کرتا ہے اور اللہ فحاصل الکلام ان کمال محبت کے بعد ہی کسی کی حمد کرتا ہے.حاصل الرحمانية يجعل الله مُحمّدًا کلام یہ کہ کمال رحمانیت ، اللہ کو محمد اور
اعجاز المسيح ۸۰ اردو تر جمه ومحبوبًا.ويجعل العبد أحمد محبوب بنادیتی ہے اور بندے کو احمد اور الیسا ومحبا يستقری مطلوبًا.وكمال محب بنادیتی ہے جو محبوب کا متلاشی ہوتا ہے.اور الرحيمية يجعل الله أحمد كمال رحیمیت اللہ کو احمد اور محب بنادیتی ومُحِبا.ويجعل العبد مُحمّدًا ہے اور بندے کو مـحـمـد اور محبوب.اس مقام وجبا.وستعرف من هذا المقام سے آپ عالی مرتبہ امام ہمارے نبی کی شان (۱۰۵) شأن نبينا الإمام الهمام.فإن الله معلوم کر سکتے ہیں.یقینا اللہ نے آپ کا نام محمد اور احمد رکھا اور ان دوناموں سے سماه مُحَمّدًا وأحمد وما سمّا (حضرت) عیسی اور موسیٰ کلیم اللہ کو موسوم نہ فرمایا بهما عيسى ولا كليمًا.وأشركه اور اس نے آپ (ع) کو ہی اپنی دوصفات رحمن في صفتيه الرحمان والرحيم بما اور رحیم میں شامل فرمایا اس لئے کہ آنحضور پر اللہ کا كان فضله عليه عظيمًا.وما ذكر فضل عظیم ہے.اور بسم اللہ میں ان دونوں هاتين الصفتين في البسملة إِلَّا صفات کا ذکر کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ تمام ليعرف الناس أنهما لله كالاسم | لوگ جان جائیں کہ یہ دونوں صفات اللہ کے الأعظم ولــلـنبــى من حضـرتـه لئے بطور اسم اعظم ہیں اور نبی کریم کے لئے كالخلعة.فسماه الله محمدًا جناب الہی سے بطور خلعت ہیں.آپ میں جو إشارة إلى ما فيه من صفة صفت محبوبیت ہے اس کی طرف اشارہ کرنے کے المحبوبية.وسماه أحمد إيماءً لئے اللہ نے آپ کا نام محمد رکھا اور آپ میں إلى ما فيه من صفة المُحبّية.أما جوصفت محبیت ہے اُس کی طرف اشارہ کرنے محمد فلأجل أن رجلا لا يحمده کے لئے اللہ نے آپ کا نام احمد رکھا.الحامدون حمدًا كثيرًا إلَّا بعد محمد اس لئے کہ تعریف کرنے والے کسی شخص أن يكون ذالك الرجل محبوبا کی بہت زیادہ تعریف اُس وقت تک نہیں کر سکتے وأما أحمد فلأجل أن حامد ا لا جب تک وہ شخص محبوب نہ ہو.اور احمد اس لئے
اعجاز المسيح ΔΙ اردو تر جمه يحمد أحدا بحمد کاثر الا کہ کوئی تعریف کرنے والا کسی کی بہت تعریف نہیں ۱۰۶ کر سکتا سوائے اُس کے جس سے وہ محبت کرے الذي يُحبه ويجعله مطلوبًا.فلا اور اُسے اپنا مطلوب بنا لے.پس کوئی شک نہیں شك أن اسم محمد يوجد فيه که اسم محمد میں لازمی دلالت کے طور پر محبوبیت کا مفہوم پایا جاتا ہے اور اسی طرح معنى المحبوبية بدلالة الالتزام.وكذالك يوجد في اسم أحمد فضلوں اور انعاموں کے مالک اللہ کی طرف معنى المُحبّية من الله ذي تمام سے احمد کے نام میں محبیت کا معنی پایا جاتا الأفضال والإنعام.ولا ريب أن ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نبی کا نام نبينا سُمّى محمّدًا لما أراد الله اس لئے محمد رکھا گیا کیونکہ اللہ نے ارادہ فرمایا أن يجعله محبوبا في أعينه و کہ وہ آپ کو اپنی نظر میں اور صالحین کی نظر میں أعين الصالحين.وكذالك محبوب بنائے.اور اسی طرح اس نے آپ کا نام احمد رکھا کیونکہ اللہ سُبحَانَہ نے ارادہ فرمایا سماه أحمد لما أراد سبحانه أن يجعله مُحِبَّ ذاتِه ومُحبَّ کہ وہ آپ کو اپنا محب اور تمام مومن مسلمانوں " کا محب بنائے.آپ ایک شان سے محمد ہیں اور دوسری شان سے احمد ہیں.اُس نے اِن دو المؤمنين المسلمين.فهو محمد بشأن وأحمد بشأن واختص ناموں میں سے ایک نام کو ایک زمانہ کے لئے اور أحد هذين الاسمين بزمان دوسرے نام کو دوسرے زمانے کے لئے مخصوص کر والآخـر بـزمـان.وقد أشار اليه دیا.اور اُس پاک ذات نے اپنے کلام سبحانه في قوله دَنَا فَتَدَلَّى دَنَا فَتَدَلَّى اور قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی میں ۲ وفي " قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ آدلی“ اسی جانب اشارہ فرمایا ہے.لے وہ نزدیک ہوا، پھر وہ نیچے اتر آیا (النجم: ۹) ✓..وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیا یا اس سے بھی قریب تر (النجم : ١٠)
اعجاز المسيح ۸۲ اردو تر جمه ثم لما كان يُظَنُّ أن اختصاص مگر پھر جب یہ گمان پیدا ہو سکتا تھا کہ نبی هذا النبي المطاع السجاد.بهذه كريم ( ع ) کو جو لوگوں کے مطاع اور اللہ کے المحامد من رَبِّ العباد.يجر بہت عبادت گزار ہیں پروردگار عالم کا ان صفات إلى الشرك كما عُبد عیسی سے مختص کرنا لوگوں کو شرک کی طرف مائل کر سکتا لهذا الاعتقاد أراد الله أن ہے جیسا کہ ایسے ہی اعتقاد کی بناء پر حضرت عیسی کو يورثهما الأمة المرحومة على معبود بنا لیا گیا تو اللہ نے ارادہ فرمایا کہ وہ اُمت وهم اشتراك عبد خاص في الطريقة الظلّيّة.ليكونا للأمة كـالبـركـات المتعدية.وليزول مرحومہ کو خلقی طور پر ان دو ناموں ( مـحـمـد اور احمد ) کا وارث بنادے تا کہ یہ دونوں نام امت الصفات الإلهية.فجعل کے لئے برکات جاریہ کی طرح بن جائیں اور تا صفات الہیہ میں کسی خاص بندے کے اشتراک کا الصحابة ومن تبعهم مظهر اسم محمد بالشؤون الرحمانية و ہم دور ہو جائے پس اُس نے صحابہ اور اُن کی الجلالية.وجـعـل لهـم غلبة اتباع کرنے والوں کو رحمانی اور جلالی شان سے اسم ونصرهم بالعنايات المتوالية محمد کا مظہر بنایا.انہیں غلبہ عطا کیا اور اپنی وجعل المسيح الموعود مظهر مسلسل عنایات سے اُن کی نصرت فرمائی.اور مسیح اسم أحمد وبعثه بالشؤون موعود واسم احمد کا مظہر بنادیا اور اُسے الرحيمية الجمالية.وكتب في رحیمیت و جمالی شان سے مبعوث کیا اور اس قلبه الرحمة والتحنّن وهذبه کے دل میں رحمت اور رافت نقش کر دی.اور اس کو بالأخلاق الفاضلة العالية.فذالك هو المهدى المعهود اعلیٰ اخلاق فاضلہ سے آراستہ کیا.سو یہی وہ مہدی الذي فيه يختصمون.وقد رأوا معبود ہے جس کے بارے میں وہ جھگڑتے ہیں.حالانکہ انہوں نے کھلی کھلی آیات دیکھیں مگر پھر بھی الآيات ثم لا يهتدون ويصرون على الباطل وإلى الحق لا ہدایت نہ پائی، وہ باطل پر مصر ہیں اور حق کی يرجعون.وذالك هو المسيح جانب رجوع نہیں کرتے.اور یہی وہ مسیح موعود ہے
اعجاز المسيح ۸۳ اردو تر جمه الموعود ولكنهم لا يعرفون لیکن وہ نہیں پہچانتے.وہ اُس کی طرف دیکھتے ہیں وہ وينظرون إليه وهم لا يبصرون.مگر بصیرت کی آنکھ سے نہیں.اس لئے کہ عیسی کا.فإن اسم عيسى واسم احمد متحدان في الهويّة.ومتوافقان نام اور احمد کا نام ماہیت کے اعتبار سے متحد في الطبيعة.ويدلان علی ہیں اور طبیعت کے لحاظ سے باہم موافق ہیں.اور الجمال وترك القتال من حیث کیفیت کے لحاظ سے یہ دونوں جمال اور ترک قبال الكيفية.وأما اسم محمد فهو پر دلالت کرتے ہیں.جبکہ اسم محمد قھری اور اسم القهر والجلال وكلاهما جلالی نام ہے اور یہ دونوں رحمن اور رحیم کے اظلال للرحمان والرحيم كالاظلال.کی طرح ہیں.کیا تو نہیں دیکھتا کہ رحمن کا اسم جو ألا ترى أن اسم الرحمن الذي هو منبع للحقيقة المحمدية حقیقت مـحـمـدیـہ کا منبع ہے اسی طرح جلال کا يقتضى الجلال كما يقتضى شان متقاضی ہے جس طرح شان محبوبیت کا.یہ اللہ تعالیٰ المحبوبية.ومن رحمانيته تعالى كى رحمانیت ہی تو ہے کہ اُس نے تمام حیوانوں کو أنه سخر كل حيوان للإنسان یعنی گائے ، بکری،اونٹ، خچر اور دُنبوں کو انسان کی من البقر والمعز والجمال خدمت میں لگا دیا ہے اور اُس نے انسانی جان کی والبغال والضان.وإنه أهرق دماء كثيرة لحفظ نفس الإنسان.وما حفاظت کے لئے بہت خون بہایا ، یہی تو جلالی امر هو إلَّا أمــر جــلالـي ونتيجة ہے اور رحمن خدا کی رحمائیت کا نتیجہ ہے.پس اس رحمانية الرحمان فثبت ان سے یہ ثابت ہوا کہ رحمانیت قہر وجلال کا تقاضا کرتی الــرحــمــانيـة يـقتـضـى الـقهـر ہے.بایں ہمہ یہ اُس محبوب کا اُس شخص پر لطف و والجلال.ومع ذالك هو من کرم ہے جس پر وہ عنایت کرنا چاہے.کتنے آبی المحبوب لطف لمن أراد له اور ہوائی کیڑے ہیں جو انسان کی خاطر ہلاک کر النوال.وكم من دود المياه والأهوية تقتل للإنسان.وكم دیئے جاتے ہیں اور کتنے ہی چوپائے ہیں جو رحمن من الأنعام تذبح للناس إنعامًا من خدا کی طرف سے لوگوں کی خاطر بطور نعمت ذبح 1.9.
اعجاز المسيح ۸۴ اردو تر جمه الرحمان.فخلاصة الكلام ان کئے جاتے ہیں.پس خلاصہ کلام یہ کہ صحابہ الصحابة كانوا مظاهر للحقيقة حقيقت مـحـمـدیه جلالیہ کے مظہر تھے.یہی المحمدية الجلالية.ولذالك وجہ ہے کہ انہوں نے اُس قوم کو جو درندوں اور جنگلی قتلوا قومًا كانوا كالسباع ونعم جانوروں کی طرح تھی قتل کیا تا کہ اس طرح وہ البادية ليُخلّصوا قوما آخرين الرحمانية.ولا منافاة بين من سجن الضلالة والغواية دوسرے لوگوں کو ضلالت اور گمراہی کے زندان سے ويجروهم إلى الصلاح والهداية.رہائی دیں اور انہیں صلاح و ہدایت کی طرف لے وقد عرفت أن الحقيقة آئیں تو خوب جان چکا ہے کہ حقیقت محمدیہ المحمدية هو مظهر الحقيقة حقیقت رحمانیت کی مظہر ہے.اور اس صفت احسان اور جلال میں کوئی مغایرت نہیں بلکہ الجلال وهذه الصفة الإحسانية.بل الرحمانية مظهر تام للجلال رحمانیت ربانی جلال اور سطوت کی مظہر تام ہے والسطوة الربانية.وهل حقيقة اور رحمانیت کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ الرحمانية إلا قتل الذي هو أدنى ادنى كو اعلیٰ کے لئے قربان کیا جائے.اور انسان اور للذي هو أعلى.وكذالك اس کے علاوہ دوسری مخلوق کی پیدائش سے رحمان کی جرت عادة الرحمن مذ خلق یہی سنت جاری ہے.کیا تو نہیں دیکھتا کہ اونٹوں کی الإنسان وما وراءه من الورى.ألا ترى كيف تقتل دود جُرح جان بچانے کے لئے اونٹوں کے زخموں کے کیڑوں الإبل لحفظ نفوس الجمال کو کیسے ہلاک کیا جاتا ہے اور خود اونٹ اس لئے وتقتل الجمال لينتفع الناس من ذبح کر دیئے جاتے ہیں تاکہ لوگ ان کے گوشت ااا لحومها وجلودها.ويتخذوا پوست سے فائدہ اٹھا ئیں.اور اُن کی اُون سے - من أوبـــارهــا ثياب الزينة دیدہ زیب اور خوبصورت لباس بنا ئیں.اور یہ سب والجمال.وهذه كلها من کچھ انسانی اور حیوانی سلسلے کی حفاظت کے لئے الرحمانية لحفظ سلسلة الإنسانية والحيوانية.فكما أن رحمانیت کا کرشمہ ہے.پھر جس طرح رحمن
اعجاز المسيح ۸۵ اردو تر جمه الرحمان محبوب كذالك هو محبوب ہے اسی طرح وہ جلال کا مظہر بھی ہے.اور مظهر الجلال.وكمثله اسم بعينم اس کمال میں اسم محمد بھی شامل ہے.محمد فى هذا الكمال.ثم لما پھر جب و اب خدا کی طرف سے صحابہ کرام ورث الأصحاب اسم محمد من الله الوهّاب.وأظهروا جلال الله اسم محمد کے وارث ہوئے اور انہوں نے اللہ کے جلال کا اظہار کیا اور انہوں نے ظالموں کو وقتلوا الظالمين كالأنعام والدواب.كذالك ورث چوپاؤں اور جانوروں کی طرح قتل کیا.اسی طرح المسيح الموعود اسم أحمد مسیح موعود اسم احمد کا وارث ہوا جو رحیمیت الذي هو مظهر الرحیمية اور جمال کا مظہر ہے.اور اللہ نے اُس کے لئے والجمال.واختار له الله هذا اور اُس کے پیروکاروں کے لئے اور اُن سب کے الاسم ولمن تبعه وصار له لئے جو اس کی آل کی طرح ہیں یہ نام منتخب جماعته مظهر من الله لصفة كالآل.فالمسيح الموعود مع فرمایا.پس مسیح موعود مع اپنی جماعت کے اللہ کی الرحيمية والأحمدية.ليتم قوله صفت رحیمیت اور احمدیت کا مظہر ہے.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُم ، ولا راد تاکہ اللہ کا فرمان وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ پورا ہو.للإرادات الربانية.وليتم حقيقة اور کوئی نہیں جو بانی ارادوں کو روک سکے تا مظاہر المظاهر النبوية.وهذا هو وجه نبويه كى حقيقت پوری ہو.اور یہی بسم اللہ کے (۱۲) تخصيص صفة الرحمانية ساتھ صفت رحمانیت اور رحیمیت کی وجهِ والرحيمية بالبسملة ليدل على تخصیص ہے.تا کہ اسم مـحـمـد اور احمد اور 66 اســـمــی مــحــمــد وأحــمــد ومظاهـر هـمـا الآتية.أعـنـى اُن کے آئندہ آنے والے مظاہر پر دلالت کرے.الصحابة ومسيح الله الذي كان یعنی صحابہؓ اور اللہ کا وہ مسیح جو رحیم آتیا فی حلــل الــرحيـمية اور احمدیت کے لبادے میں آنے والا ہے.والأحمدية.ثم نكرر خلاصة | اب ہم بسم اللہ کی تفسیر کا خلاصہ دوبارہ بیان لے اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس کو بھیجے گا.( الجمعة : ۴)
اعجاز المسيح ۸۶ اردو تر جمه الكلام فی تفسیر کرتے ہیں.پس جان لو کہ اللہ کا نام اسم جامد ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ جس کے حقیقی معنی صرف علیم و خبیر خدا ہی جانتا 66 فاعلم أن اسم الله اسم جامد لا ہے.اللہ عَزَّ اسْمُهُ نے اس نام کی حقیقت اس يعلم معناه إلا الخبير العليم.وقد أخبر عزّ اسمه بحقيقة هذا آیت میں بتائی اور اس نے اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ الاسم في هذه الآية.وأشار إلى وہ ذات ہے جو رَحْمَانِیت اور رحیمیت سے أنه ذات مُتصفة بالرحمانية متصف ہے یعنی احسان والی رحمت اور ایمانی حالت والرّحيميّة.أى متصفة برحمة سے وابستہ رحمت سے متصف ہے اور یہ دونوں الامتنان.ورحمة مقيَّدَةٌ بالحالة رحمتیں ربوبیت کے منبع سے نکلنے والے مصفی پانی ١١٣ الإيمانية.وهاتان رحمتان كماء اور شیریں غذا کی مانند ہیں.اور ان دو صفات کے - أصفى وغذاء أحلى من منبع علاوہ تمام دیگر صفات ان صفات کی شاخیں الربوبية وكل ما هو دونهما من صفات فهو كشعب لهذه ہیں.اور اصل صرف رَحْمَانِيَّت اور رَحِيمِيّت الصفات والأصل رحمانية ہی ہیں.اور یہ دونوں ذاتِ الہی کے بھید کا مظہر ورحيمية وهما مظهر سرّ الذات.ہیں.پھر ان دونوں صفات سے ہمارے نبی کریم ثم أعطى منهما نصيب كامل لنبينا کو جو صراط مستقیم کے امام ہیں، کامل إمام النهج القويم.فجعل اسمه صلى الله محمدا ظل الرحمان و اسمه حصہ عطا کیا گیا ہے.پھر اللہ نے آپ کا نام محمد أحمد ظلّ الرحيم.والسر فيه أن جور حمن کا ظلّ اور احمد جو رَحِیم کاظلّ الإنسان الكامل لا يكون كاملا ہے بنایا.اور اس میں راز یہ ہے کہ انسان کامل اُس إلا بعد التخلّق بالأخلاق الإلهية وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ الہی اخلاق وصفات الربوبية.وقد علمت أن أمر الصفات كلّها تؤول إلى اور ربانی صفات سے متصف نہ ہو.اور یہ تجھے الرحمتين اللتين سمينـاهـمـا خوب معلوم ہے کہ تمام صفات کا مال یہی دور حمتیں بالرحمانية والرحیمية.وعلمت ہیں جن کو ہم نے رَحْمَانِیت اور رَحِيمِيّت
اعجاز المسيح اردو ترجمہ أن الرحمانية رحمة مطلقة علی کے نام دیئے ہیں.اور تو جانتا ہے کہ رَحْمَانِیت (۱۱۴) سبيل الامتنان.ويَرِدُ فيضانها از راه احسان رحمت عام ہے جس کا فیضان ہر على كل مؤمن و کافر بل كل مومن کا فر بلکہ ہر طرح کے جاندار کو پہنچتا ہے، رہی نوع الحيوان.وأما الرحيمية فهى رحمة وجوبية من الله رَحِيمِيّت تو وہ اَحْسَنُ الْخَالِقِين خدا کی أحسن الخالقين.وجبت رحمت خاصہ ہے جو دوسرے حیوانات اور کافروں للمؤمنين خاصة من دون کے علاوہ صرف مؤمنوں کے لئے بالضرور حيوانات أخرى والكافرين.خاص ہے.پس لازم آیا کہ انسان کامل یعنی فلزم أن يكون الإنسان الكامل أعـنـى مـحـمـدا مـظـهـر هـاتين " ( حضرت ) محمد (ع) ان دونوں صفات کے الصفتين.فلذالك سُمّى مظہر ہیں.یہی وجہ ہے کہ رب کائنات کی محمدًا وأحمد من رب الكونين طرف سے آپ کا نام محمد اور احمد رکھا وقال الله في شأنه وو گیا اور اللہ نے آپ کی شان میں فرمایا کہ ” لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسَكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَنتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيةٌ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ با عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوْفٌ رَّحِيمٌ فأشار الله في قوله عَزِيزٌ وفي اللہ نے اپنے قول ” عزیز اور قول ”حریص میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ حضور علیہ السلام اُس کے فضل عظیم السلام مظهر صفته الرحمان ) قوله حَرِيصٌ إلى أنه عليه لے یقینا تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیا.اسے بہت سخت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو ( اور ) وہ تم پر ( بھلائی چاہتے ہوئے) حریص ( رہتا) ہے.مؤمنوں کے لئے بے حد مہربان (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.(التوبة: ۱۲۸) * الحاشية.قال الله تعالى وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ..ولا يستقيم هذا المعنى اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اور ہم نے تجھے دنیا کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے.یہ معنی تو صفت رحمانیت پر ہی الانبياء : ١٠٨
اعجاز المسيح ۸۸ اردو تر جمه بفضله العظيم لأنه رحمة سے صفت رحمن کے مظہر ہیں.کیونکہ آپ نوع (۱۱۵) للعالمين كلهم ولنوع الإنسان انسان و حیوان اور اہل کفر و ایمان سب کے والحيوان.وأهل الكفر لئے رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِينَ ہیں پھر بِالْمُؤْمِنِينَ دھ والإيمان.ثم قال " بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِیم فرما کر اس نے آپ کو رَءُوفٌ رَّحِيم “.فجعله رحمن اور رحیم بنا دیا جیسا کہ کسی صاحب رحمانا و رحيما كما لا يخفى فہم پر مخفی نہیں.اور اللہ نے آپ کی تعریف على الفهيم.وحمده وعزا إليه فرمائی اور آپ کی عظمت و تکریم کے باعث آپ خُلُقًا عظيما من التفخيم کی طرف خُلُقٍ عَظِیم کو منسوب فرمایا جیسا کہ والتكريم.كما جاء في القرآن قرآن کریم میں آیا ہے.اگر تم یہ سوال اٹھاؤ کہ الـكـريـم.وإن سألت ما خُلُقُهُ | آپ کا خلق عظیم کیا ہے؟ تو ہمارا جواب یہ ہے العظيم فنقول إنه رحمان کہ آپ رحمن اور رحیم ہیں اور آپ کو ہی ورحيم.ومُنحَ هو عليه الصلاة يه دونوں نور اُس وقت ہی عطا کر دیئے گئے تھے هذين النورين و آدم بين الماء جب آدم ابھی آب و گل کی حالت کے درمیان والطين.وكان هو نبيًّا وما كان تھا اور آپ اُس وقت بھی نبی تھے کہ آدم کے وجود لآدم أثر من الوجود ولا من اور گوشت پوست کا کوئی نام ونشان تک نہ تھا الأديم.وكان الله نورا فقضى ان اللہ نور ہے اور اُس نے فیصلہ فرمایا کہ وہ ایک يخلق نورا فخلق محمد الذى نور پیدا فرمائے پس اُس نے محمد کی تخلیق هو كذريتيم.و أشرك اسميه فرمائي جو یکتا موتی ہیں.اللہ نے حضور کے دو في صفتيه ففاق كل من أتى الله نامول مـحـمـد اور احمد کو اپنی دوصفات بقلب سليم.وإنهما يتلألآن في رَحْمن اور رحیم میں شامل فرمالیا.پس آپ بقية الحاشية.الا في الرحمانيّة فان الرحيميّة يختص بعالم واحد من المؤمنين.منه بقیہ حاشیہ.صادق آتے ہیں.کیونکہ رحیمیت تو صرف مؤمنوں کے ایک عالم کے ساتھ مختص ہے.التوبة: ١٢٨
اعجاز المسيح ۸۹ اردو تر جمه تعليم القرآن الحكيم.وإن نبينا اللہ کے حضور اطاعت شعار دل لے کر حاضر ہونے والے تمام لوگوں پر سبقت لے گئے.حضور مــركــب مـن نـور موسى ونور (ﷺ) کے یہ دونوں نام قرآن حکیم کی تعلیم میں عيسى كما هو مُركب من صفتی چمک رہے ہیں.ہمارے نبی (ﷺ) موسی" کے ربنا الأعلى.فاقتضى الترکیب نور اور عیسی" کے نور کے اسی طرح جامع ہیں جس طرح آپ ہمارے رب اعلیٰ کی دو صفات کے أن يُعطى له هذا المقام الغريب.جامع ہیں.اس ترکیب کا تقاضا تھا کہ آپ کو یہ فلأجل ذالك سمّاه الله محمدا اچھوتا مقام عطا کیا جاتا.پس اسی وجہ سے اللہ نے وأحمد.فإنه ورث نور الجلال آپ کا نام محمد اور احمد رکھا.اور آپ والجمال وبه تفرّد.وإنه أعطى أورِجَلال وجَمَال کے وارث ہوئے.اور اس نور سے منفرد ٹھہرے.اور آپ کو اسی طرح شأن المحبوبين وجَنَانُ محبوبوں کی شان اور محبوں کا دل عطا کیا المُحِبين.كما هو من صفتى ربّ گیا جس طرح کہ یہ امر رب العالمین کی دوصفات العالمين.فهو خير المحمودین میں سے ہے.پس آپ سب تعریف کئے جانے و خيــر الحامدين.وأشركه الله والوں اور تعریف کرنے والوں میں سے بہتر ہیں.اللہ نے آپ کو اپنی ان دونوں صفات میں شامل في صفتيه و أعطاه حظًّا كثيرًا من کیا ہے اور اپنی ان دونوں رحمتوں میں سے آپ رحمتيه.وسقاه من عينيه کو وافر حصہ عطا فرمایا اور آپ کو اپنے اِن دونوں وخلقه بيديه فصار كقارورة چشموں سے سیراب کیا.اور اپنے دونوں ہاتھوں فيها راح أو كمشكوة فيها جلال و جمال) سے آپ کی تخلیق کی.پس آپ ( اس شیشے کی مانند ہو گئے جس میں عمدہ شراب ہواور مصباح وكمثل صفتيه اُس طاق کی طرح جس میں چراغ ہو اور اُس نے اپنی ان دونوں صفات کی مثل آپ پر فرقان حمید أنزل عليه الفرقان.
اعجاز المسيح ۹۰ اردو تر جمه وجمع فيه الجلال والجمال اتارا اور اس میں جلال و جمال کو جمع کیا اور اُس کے وركب البيان.وجعله سلالة بیان کو جامع بنایا اور اُسے تورات اور انجیل کا نچوڑ التوراة والإنجيل.ومرأة لرؤية اور اپنے جلیل و جمیل چہرے کے دیدار کے لئے وجهه الجليل والجميل.ثم آئینہ بنایا.پھر اُس نے اس کریم کے جام سے أعطى الأمة نصيبا من كأس هذا امت کو حصہ عطا فرمایا اور خدائے علیم سے اس تعلیم الكريم.وعلمهم من أنفاس هذا یافتہ کے انفاس قدسیہ سے انہیں تعلیم دی.پس ان المتعلم من العليم.فشرب | میں سے بعض اسم محمد کے اس چشمے سے جو بعضهم من عين اسم محمد (۱۱۸) التي انفجرت من صفة صفت رحمانیت سے جاری ہوا سیراب ہوئے اور بعض نے اسم احمد کے چشمے سے جو حقیقت رحیمیت الرحمانية.وبعضهم اغترفوا من ينبوع اسم أحمد الذي اشتمل پر مشتمل ہے چلو بھر بھر کر پیا.اور یہ ابتدا سے ہی على الحقيقة الرحيمية.وكان مقدر تقدیر تھی اور وقت مقررہ پر پورا ہونے والا وعدہ قدرًا مقدرًا من الابتداء ووعدًا تھا جو تمام انبیاء کی زبانوں پر جاری رہا کیونکہ اسم موقوتا جاريًا على ألسن الانبياء احمد اپنی کامل تجلی سے وارثوں میں سے کسی میں أن اسم أحمد لا تتجلّى بتجلی تام بھی جلوہ آرا نہیں ہوگا سوائے مسیح موعود کے کہ جسے في أحد من الوارثين.إلا في الله يَوْمُ الدِّينِ کے ظہور اور مؤمنین کے حشر المسيح الموعود الذي يأتى الله کے موقع پر لائے گا.اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو به عند طلوع يوم الدين.وحشر کمزوروں کی طرح اور اسلام کو اُس بچے کی طرح المؤمنين.ويرى ا.الله المسلمين نبذ جسے بیابان میں پھینک دیا گیا ہو دیکھے گا.پس وہ كالضعفاء.والإسلام كصبي نُبذ بالعراء.فيفعل لهم أفعالا من اپنی جناب سے ان کے لئے ( عجائب ) کام لدنه وينزل لهم من السماء.دکھائے گا اور خود اُن کے لئے آسمان سے نزول فهناك تكون له السلطنة في فرمائے گا.تب اُس وقت زمین پر بھی ویسے ہی الأرض كما هي في الأفلاك اس كى بادشاہت قائم ہو جائے گی جیسا کہ آسمانوں وتهلك الأباطيل من غير ضرب | پر ہے.گردنیں مارے بغیر ہی شیاطین تباہ ہو جائیں
اعجاز المسيح ۹۱ اردو تر جمه الأعناق و تنقطع الأسباب كلها گے.اور سب اسباب منقطع ہو جائیں گے.اور وترجع الأمور إلى مالك تمام امور مالک الملک خدا کی طرف لوٹ جائیں الأملاك.وعـد مـن الله حق گے.یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اُس وعدے کی طرح جو كمثل وعد تم فى آخر زمن بنی بنی اسرائیل کے آخری زمانے میں پورا ہوا.جب إسرائيل.إذ بعث فيهم عيسى بن اُن میں عیسی ابن مریم مبعوث کئے گئے.اور مريم فأشاع الدين من غير أن انہوں نے رب جلیل کے نافرمانوں کو قتل کئے بغیر يقتل من عصى الربّ الجليل.وكان في قدر الله العلي العليم.دین کی اشاعت کی.اور یہ خدائے علیم و برتر کی أن يجعل آخـر هـذه السلسلة تقدیر میں تھا کہ وہ اس سلسلہ(محمدیہ) کے آخر كآخر خلفاء الكليم.فلأجل کو بھی موسیٰ کلیم اللہ کے خلفاء کے آخر جیسا ذالك جـعـل خـاتـمـة أمـرهـا بنائے.اسی وجہ سے اُس نے اس سلسلہ کے انجام کو مستغنيـة مـن نـصر الناصرین دیگر مددگاروں کی مدد سے مستغنی رکھا اور اسے | ومظهر الحقيقة مالك يوم مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی حقیقت کا مظہر بنادیا جیسا الدين.كما يأتی تفسیره بعد کہ تھوڑی دیر بعد اس کی تفسیر آئے گی.اس کلام کا حين.ومن تتمة هذا الكلام.أن تتمہ یہ ہے کہ ہمارے نبی خیر الا نام جبکہ خاتم النبین 119 نبينا خير الانام لما كان خاتم برگزیدوں کے برگزیدہ اور حضرت کبریاء کو تمام الانبياء واصفي الأصفياء.لوگوں سے زیادہ محبوب ہیں تو اللہ سُبحَانَهُ تَعَالَى وأحبّ الناس إلى حضرة الكبرياء.نے ارادہ فرمایا کہ وہ آپ میں اپنی دو عظیم صفات أراد الله سبحانه أن يجمع فيه طور پر جمع فرمائے چنانچہ اُس نے آنحضور کو صفتيه العظيمتين على الطريقة الظلية.فـوهـب لـه اسم محمد محمد اور احمد نام عطا فرمائے تا کہ یہ دونام واحمد ليكونا كالظلين رَحْمَانِیت اور رحیمیت کے لئے بطور ظل للرحمانيّة والرّحيمية.ولذالك ہوں.اسی لئے اس نے اپنے قول ار فی قوله اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں اس إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.طرف اشارہ فرمایا کہ ایک عابد کامل کو اللہ أشار
اعجاز المسيح ۹۲ اردو تر جمه إلى أن الـعـابـد الكامل يُعطى له رب العالمین کی صفات عطا کی جاتی ہیں جب وہ صفات ربّ العالمين.بعد أن يكون من العابدين الفانين.وقد فانی فِی اللہ عابدوں میں شامل ہو جائے.اور تو جانتا ہے کہ الہی اخلاق کے کمالات میں سے ہر کمال علمتَ أن كل كمال من کمالات الأخلاق الإلهية اس کے رحمن اور رحیم ہونے پر منحصر ہے.اسی لئے منحصر في كونه رحمانا اللہ نے ان دونوں کو بسم اللہ کے ساتھ مخصوص فرمایا.و رحيما و لذالك خصهما الله اور تو نے جان لیا ہے کہ محمد اور احمد کے نام ۱۲۰ بالبسملة.وعلمت أن اسم محمد وأحمد قد أُقيما مقام رحمن اور رحیم کے قائم مقام ہیں.اور علیم و الرحمان والرحيم.وأودعهما حكيم الله نے ان دوصفات میں ہر وہ کمال جو ان كل كمال كان مخفيا في هاتين (صفات) میں مخفی تھا ودیعت کر دیا.اس لئے بلا شبہ الصفتين من الله العليم الحكيم.اللہ نے ان دونوں اسموں کو اپنی دونوں صفات فلا شك أن الله جعل هذين الاسمين ظلّين لصفتيه کے ظلّ اور اپنی ان دونوں حالتوں کا مظہر بنا دیا ومظهرين لسيرتيه.ليُرى حقيقة تاکہ محمّدیّت اور احمدیت کے آئینہ میں الرحمانية والرحيمية في مرآة اني رحمانیت اور رحیمیت کی حقیقت المحمدية والأحمدية.ثم لما دکھائے.پھر جب کہ آپ کی امت کے کاملین كان كُـمّـل أمته عليه السلام من آپ کے روحانی اجزاء اور حقیقتِ نبویہ کے أجزائه الروحانية.وكالجوارح للحقيقة النبوية.أراد الله لإبقاء لئے بطور اعضاء ہیں تو اللہ نے اس نبی معصوم کے آثار هذا النبى المعصوم أن آثار باقی رکھنے کے لئے ارادہ فرمایا کہ وہ اُنہیں يورثهم هذين الاسمين كما جعلهم ورثاء العلوم.فأدخل ان دو ناموں کا اُسی طرح وارث بنائے جس (۱۳) الصحابة تحت ظل اسم محمد طرح اس نے انہیں ( آپ کے ) علوم کا وارث الذي هو مظهر الجلال.وأدخل بنایا.اس لئے اُس نے صحابہ کو اسم محمد جو
اعجاز المسيح ۹۳ اردو تر جمه المسيح الموعود تحت اسم مظہر جلال ہے کے ظل تلے داخل کیا.اور مسیح أحمد الذى هو مظهر الجمال.موعود كو اسم احمد جو مظہر جمال ہے کے ظلّ کے وما وجد هؤلاء هذه الدولة إلا تحت رکھا.ان سب نے یہ دولت بطور ظلیت حاصل بالظلية.فإذن ما ثُمَّ شريك علی کی.چنانچہ علی وجہ الحقیقت اس مقام پر کوئی شریک الحقيقة.وكان غرض الله من نہیں.ان دو ناموں کی تقسیم سے اللہ تعالیٰ کی یہ.تقسيم هذين الاسمين أن يُفرّق غرض تھی کہ وہ اُمت کو تقسیم کرے اور اس کے دو بين الأمة ويجعلهم فریقین گروہ بنا دے.پس اُس نے اُن میں سے ایک فجعل فريقًا منهم كمثل موسى گروه کو موسی کی مثل مظہر جلال بنایا اور وہ نبی مظهر الجلال.وهم صحابة كريم (ﷺ) کے وہ صحابہ ہیں جنہوں نے اپنے النبي الذين تصدوا أنفسهم آپ کو جنگوں کے لئے پیش کر دیا.اور اللہ نے للقتال.وجعل فريقًا منهم كمثل اُن میں سے ایک گروہ کو حضرت عیسی کی طرح عیسی مظهر الجمال وجعل مظہر جمال بنایا اور ان کے دلوں کو نرم بنایا اور قـلـوبهـم لينةً وأودع السـلـم صدورهم و أقامهم على أحسن ان کے سینوں میں سلامتی ودیعت کر دی.اور انہیں عمدہ ترین خصائل پر قائم کیا اور وہ مسیح موعود اور الخصال.وهو المسيح الموعود والذين اتبعوه من النساء اس کی پیروی کرنے والے مرد و زن ہیں.اس طرح جو ( حضرت ) موسی نے فرمایا اور جو (حضرت) والرجال.فتم ما قال موسى وما فاه بكلام عيسى وتم وعد الربّ عیسی نے فرمایا تھا وہ پورا ہوا اور قادر رب کا وعدہ الفعّال.فإن موسى أخبر عن پورا ہوا.حضرت موسیٰ (علیہ سلام ) نے ان اصحاب صحب كانوا مظهر اسم محمد کے متعلق خبر دی تھی جو ہمارے برگزیدہ نبی نبينا المختار وصور جلال الله | محمّد (ﷺ) کے نام کے مظہر اور کلام القهار.بقول خداوندی اَشدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ ، مطابق خدائے قہار کے جلال کے پیکر تھے." لے وہ کفار کے مقابل پر بڑے سخت ہیں.(الفتح : ۳۰) الله ۱۲۲
اعجاز المسيح ۹۴ اردو تر جمه دود، وإن عيسى أخبر عن آخرین اور حضرت عیسی علیہ سلام نے صحابہ میں سے آخَرِین منهم وعن إمام تلك الأبرار.منهم يعنی ( آخرین کے گروہ ) اور اُن ابرار کے أعنى المسيح الذي هو مظهر امام یعنی اس مسیح کے متعلق جو رحم کرنے والے ستار أحمد الراحم الستار.ومنبع احمد کا مظہر اور رحیم و غفار خدا کے جمال کا منبع ہے جمال الله الرّحيم الغفّار بقوله اپنے قول كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْعَهُ مِیں "كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْعَهُ" پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ ایسی روئیدگی کی مانند ہے جو کسانوں کو خوش کرتی ہے.ان دونوں نبیوں نے اُن الذي هو معجب الكفار.وكل صفات کی پیش گوئی فرمائی جو اُن کی اپنی ذاتی منهما أخبر بصفات تناسب صفات سے مناسبت رکھتی ہیں اور ایسی جماعت صفاته الذاتية.واختار جماعة منتخب کی جن کے اخلاق ان کے اپنے پسندیدہ تشابه أخلاقهم أخلاقه المرضية.فأشار موسى بقوله أشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ إلى اخلاق کے مشابہ تھے.حضرت موسیٰ ( علیہ سلام) نے اپنے قول أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ میں ان صحابہ کی جانب اشارہ کیا جنہوں نے ہمارے ۱۲۳ صحابة أدركوا صحبة نبينا برگزیده رسول (محمد ﷺ) کی صحبت پائی اور المختار.وأروا شدّةً وغلظة في المضمار.وأظهروا جلال الله انہوں نے میدان کارزار میں شدّت اور مضبوطی کا مظاہرہ کیا اور اللہ کے جلال کو تیغ براں کے ذریعہ بالسيف البتار.وصاروا ظلّ اسم ظاہر کیا.اور خدائے قہار کے رسول محمد کے محمد رسول الله الله القهار عليه نام کے ظلّ بن گئے.درود و سلام ہو آپ پر اللہ کا، صلوات الله وأهل السماء وأهل اہل سماء اور اہل ارض کے ابرار و اخیار کا.اور الأرض من الأبرار والأخيار حضرت عیسی نے اپنے قول كَزَرْعٍ وأشار عيسى بقوله "كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطعہ میں صحابہ کے ایک دوسرے ے.ایک کھیتی کی طرح جوا اپنی کونپل نکالے.(الفتح: ۳۰)
اعجاز المسيح اردو تر جمه أَخْرَجَ شَطْأَهُ * إلى قومٍ گروہ اور ان کے امام مسیح موعود کی طرف اشارہ کیا حَرِينَ مِنْهُم وإمامهم ہے بلکہ اس کے نام احمد کا بالصراحت ذکر کیا المسيح.بل ذكر اسمه أحمد ہے.اور قرآن مجید میں آنے والی اس تمثیل میں بالتصريح.وأشار بهذا المثل اُس نے اشارہ کیا ہے کہ مسیح موعود نرم سبزے الذي جاء في القرآن المجيد.کی طرح ظاہر ہوگا.نہ کہ کسی شدید اور الحاشية.اعـلـم يـا طـالـب الـعـرفـان انـه مـا جاء في كتاب الله الفرقان ان الصحابة حاشیہ اے عرفان کے طالب ! یہ اچھی طرح سے جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب فرقان حمید میں یہ کہیں نہیں آیا کہ صحابہ کانوارحـمـاء على اهل البغي والعدوان واما رُحم بعضهم على بعض فلا يخرجهم من (کرام ) باغیوں اور سرکشوں پر رحم کرنے والے تھے.باقی رہا صحابہ کا ایک دوسرے سے رحمت و شفقت کا سلوک الجلالية.بل تزيد قوة الـجـلال كونهم في صورة الوحدة فانهم كشخص واحدٍ تو وہ انہیں جلائیت کے دائرے سے خارج نہیں کرتا بلکہ اُن کا سلک وحدت میں منسلک ہونا جلال کی قوت عند الله وكالجوارح لحضرة الرسالة.ولا يختلج في قلب ان مثل الزرع مشترك میں اضافہ کرتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے نزدیک شخص واحد کی طرح اور حضرت رسالت مآب کے لئے بطور اعضاء کے في التوراة والانجيل فان هذا المثل قد خُصَ بكتاب عيسى في التنزيل.ثم لا تھے اور یہ امرکسی کے دل میں نہ کھٹکے کہ ذرع ( کھیتی کی تمثیل توراۃ اور انجیل میں مشترک ہے.ہرگز نہیں.کیونکہ تمثیل نجده في التوراة ونجده في الانجيل بالتفصيل ومن المعلوم ان القراء الكبار قرآن کریم میں عیسی کی کتاب (انجیل) سے خاص کی گئی.پھر ہم اسے تو رات میں نہیں پاتے.اور تفصیل کے ساتھ انجیل میں يقفون على قوله تعالى مثلهم فى التوراة.ولا يلحقون به هذا المثل عند قراءة هذه پاتے ہیں.اور یہ مشہور ہے کہ بڑے بڑے قاری قرآن پاک کی آیت مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرِيةِ پر وقف کرتے ہیں اور الآيات بل يخصونه بالانجيل يقينا من غير الشبهات ولاجل ذالك كتب الوقف ان آیات کو پڑھتے وقت اس تمثیل کو لفظ تو رات کے ساتھ ملا کر نہیں پڑھتے.بلکہ بغیر کسی شبہ کے یقینی طور پر اسے صرف الجائـز عـليــه فـي جميـع المصاحف المتداولة وان كنت في شك فانظر انجیل کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام مروجہ مصاحف میں تو راۃ کے لفظ پر وقف جائز لکھا ہوا اليهالزيادة المعرفة.منه ہے.اگر آپ کو اس بارے میں شک ہو تو اضافہ علم کے لئے وہاں ملا حظہ کریں.منہ
اعجاز المسيح ۹۶ اردو تر جمه إلى أن المسيح الموعود لا يظهر سخت ھے کی طرح.پھر یہ بھی قرآن کریم کے إلَّا كنبات ليّن لا كالشيء الغليظ عجائبات میں سے ہے کہ اس نے اسم احمد کا الشديد.ثم من عجائب القرآن عیسى (عليہ السلام) سے حکایہ ذکر کیا اور اسم الـكــريــم أنـــه ذكر اسم أحمد ۱۲۴ حكايــا عن عيسى و ذكر اسم محمد حكايتًا عن موسى.ليعلم محمد کا ذکر موسیٰ (علیہ السلام) سے حکایہ کیا.تا کہ پڑھنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ جلالی نبی القارى أن النبي الجلالي أعنى یعنی حضرت موسیٰ نے وہ نام منتخب کیا جو اُن کی اپنی موسى اختار اسما يُشابه شأنه شان کے مشابہ ہے یعنی محمد جو جلالی نام أعنى محمد الذى هو اسم ہے.اور اسی طرح حضرت عیسی (علیہ سلام) نے الجلال.وكذالك اختار عیسی اپنے جمالی نبی ہونے کے ناتے اسم احمد اختیار اسم أحمد الذى هو اسم کیا.جو جمالی اسم ہے اور اسے قہر و قتال سے کچھ تعلق نہیں.پس حاصل کلام یہ کہ ان دونوں الجمال بما كان نبيا جماليًا وما اعطى له شيء من القهر والقتال.فحـاصــل الكلام أن كلا منهما ( موسیٰ اور عیسی ) میں سے ہر ایک نے اپنے أشار إلى مثيله التام.فاحفظ هذه مثیل تام کی طرف اشارہ کیا ہے.پس تو اس نکتے النكتة فإنها تنجيك من الأوهام کو ذہن نشین کر لے کیونکہ یہ تجھے اوہام سے نجات وتكشف عن ساقی الجلال دلائے گا.اور جلال و جمال دونوں پہلوؤں کو والجمال.وترى الحقيقة بعد آشکار کرے گا اور پردہ اٹھانے کے بعد حقیقت کو رفع الفدام.وإذا قبلت هذا واضح کرے گا.اور جب تو یہ قبول کر لے گا تو ہر فدخلت في حفظ الله وكلاه من دجال سے اللہ کی حفاظت اور اس کی پناہ میں كل دجال.ونـجـوت مـن كـل ضلال.آجائے گا اور ہر ضلالت سے نجات پا جائے گا.
اعجاز المسيح الباب الرابع في تفسير ۹۷ چوتھا باب اردو تر جمه الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحِيْمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی تفسیر کے بارے میں إعلم أن الحمد ثناء على الفعل واضح ہو کہ حمد وہ تعریف ہے جو کسی شخص کے الجميل لمن يستحق الثناء.اچھے فعل پر کی جاتی ہے جو اس تعریف کا مستحق ہو ومدح لمنعم أنعم من الإرادة اور لفظ مَدَح اس انعام کرنے والے کے لئے وأحسن كيف شاء.ولا يتحقق ہے جو بالا رادہ انعام کرتا اور جیسے چاہے احسان کرتا حقيقة الحمد كما هو حقها إلَّا ہے.اور حقیقت حمد كَمَاحَقُه صرف أسى للذي هو مبدء لجميع الفيوض ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض وانوار کا والأنوار.ومُحسن على وجه منبع ہو اور علی وجہ البصیرت احسان کرے البصيرة لا من غير الشعور ولا نہ غیر شعوری طور پر نہ ہی کسی مجبوری سے.اور یہ من الاضطرار.فلا يوجد معنی صرف اور صرف خدائے خبیر و بصیر میں پایا جاتا هذا المعنى إلَّا في الله الخبير ہے.وہی محسن ہے کہ اول اور آخر تمام احسانات البصير.وإنه هو المحسن ومنه المنن كلها في الأول والأخير.اُسی کی جناب سے ظہور میں آتے ہیں.اس جہاں ولــه الـحـمـد فـي هـذه الدار اور اُس جہاں میں حقیقی حمد اُسی کے شایانِ شان ہے اور جو بھی تعریف دوسروں کی طرف وتلك الدار.وإليه يرجع كل حمد يُنسب إلى الأغيار.ثم إن منسوب کی جاتی ہے اس کا تمام تر اصل مرجع وہی لفظ الحمد مصدر مبنی علی ہستی ہے.اس آیت میں لفظ حمد خدائے المعلوم والمجهول.وللفاعل ذوالجلال کی طرف سے مصدر ہے جو معروف اور والمفعول.من الله ذي الجلال.مجہول دونوں پر مبنی ہے.اور فاعل اور مفعول ۱۲۵
اعجاز المسيح ۹۸ اردو ترجمہ ومعناه أن الله هو محمد و هو دونوں کے لئے مستعمل ہے.مفہوم اس کا یہ ہے کہ أحمد على وجه الكمال الله ہی عَلى وَجْهِ الکمال محمد اور احمد ہے والقرينة الدالة على هذا البيان اور اس بیان پر دلالت کرنے والا قرینہ یہ ہے کہ أنه تعالى ذكر بعد الحمد صفاتا اللہ تعالیٰ نے حمد کے بعد ان صفات کا ذکر فرمایا تستلزم هذا المعنى عند أهل ہے جو اہلِ عرفان کے نزدیک اس مفہوم کو مستلزم العرفان.والله سبحانه أوما في ہیں.اللہ سُبْحَانَہ نے حمد کے لفظ میں اُن لفظ الحمد إلى صفات توجد صفات کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس کے ازلی نور في نوره القديم.ثم فسّر الحمد میں پائی جاتی ہیں.پھر اس نے لفظ حمد کی تفسیر وجعله مخدّرة سَفَرَتْ عن کی اور اسے ایک ایسی پردہ نشین دلہن کی صورت وجهها عند ذكر الرحمان میں پیش کیا جو رحمن اور رحیم کے ذکر کے موقع پر والرحيم.فإن الرحمان يدل على اپنے چہرے سے نقاب اٹھاتی ہے کیونکہ رحمان کا أن الحمد مبنى على المعلوم.لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ لفظ حـــمـــد ١٢٧ والرحيم يدل على المجهول كما لا يخفى على أهل العلوم.وأشار الــلــه سبحانه في قولـه رَبِّ الْعَالَمِينَ" إلى أنه هو السموات والأرضين.ومن مصدر معروف ہے اور اسی طرح رحیم کا لفظ حمد کے مصدر مجہول ہونے پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں.اور اللہ سُبحَانَہ تعالیٰ نے اپنے ނ قول رب العالمین میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے خالق كل شيء ومنه كلما في کہ وہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور جو آسمانوں میں اور زمینوں میں ہے وہ سب اُسی کی طرف العالمين ما يوجد في الأرض من زمر المهتدین وطوائف ہے.اور زمین میں جو ہدایت یافتہ لوگوں کے گروہ الـغـاويـن والـضــالين.فقد يزيد اور بھٹکے ہوئے اور گمراہوں کے گروہ پائے جاتے عالم الضلال والكفر والفسق ہیں وہ سب عالمین میں شامل ہیں.کبھی ایسا ہوتا وترك الاعتدال حتى يملأ ہے کہ ضلالت ، کفر فسق اور بے اعتدالی کا عالم اتنا
اعجاز المسيح ۹۹ اردو تر جمه الأرض ظلما وجورًا ويترك بڑھ جاتا ہے کہ زمین ظلم و جور سے بھر جاتی ہے الناس طرق اللهِ ذا الجلال.لا لوگ خدائے ذوالجلال کے راستوں کو چھوڑ دیتے يفهمون حقيقة العبودية.ولا ہیں اور عبودیت کی حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے.اور يؤدون حق الربوبية.فيصير ادھر ربوبیت کا حق بھی ادا نہیں کر پاتے پس زمانہ الزمان كالليلة الليلاء.ويُداسُ ایک تاریک رات کی طرح ہو جاتا ہے اور دین اس الدين تحت هذه اللأواء.ثم سختی کے نیچے پامال کیا جاتا ہے.پھر اس کے بعد (۱۲۸) يأتى الله بعالم آخر فتبدل اللہ ایک اور عالم کو ظاہر فرماتا ہے جس کے نتیجہ میں الأرض غير الأرض وينزل زمین ایک اور زمین میں تبدیل کر دی جاتی ہے اور القضاء مُبدلا من السماء.آسمان سے ایک نئی تقدیر نازل ہوتی ہے اور لوگوں ويُعطى للناس قلب عارق کو معرفت آشنا دل اور نعمتوں کی شکر گزاری کرنے ولسان ناطق لشكر النعماء.والی زبان عطا کی جاتی ہے جس پر وہ اپنے دلوں کو فيجعلون نفوسهم كمورٍ مُعَبَّد بارگاہ کبریاء میں ایک پامال راستہ کی طرح بنا لیتے لحضرة الكبرياء.ويأتونه خوفا ہیں اور بحالت خوف و رجا اس کے حضور حیا سے ورجاء بطرف مغضوض من جھکی ہوئی آنکھ اور ایسے چہرے کے ساتھ حاضر الحياء.و وجه مقبل نحو قبلہ ہوتے ہیں جو عطا کے قبلہ حاجات کی طرف متوجہ الاستجداء.وهمة فى العبودية ہوتا ہے.اور بندگی میں ایسی ہمت کے ساتھ جو ہے.اور قارعة ذُروَة العلاء.ويشتد الحاجة بلندی کی چوٹی کو دستک دے رہی ہوتی ہے اور إليهم إذ انتهى الأمر إلى كمال جب معاملہ انتہائی ضلالت کی حد تک پہنچ جائے اور الضلالة.وصار الناس كسباع حالت کے تغیر کے باعث لوگ درندوں اور أو نَعَم من تغير الحالة.فعند چوپایوں جیسے بن جائیں تو ان ( پاکبازوں ) کی ذالك تقتضى الرحمة الإلهية ضرورت شدید ہو جاتی ہے پھر اس وقت رحمت والعناية الأزلية أن يُخلق في البہی اور عنایت از لی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ
اعجاز المسيح اردو تر جمه ۱۲۹ السماء ما يدفع الظلام.ويهدم آسمان میں وہ وجود پیدا کرے جو ان تمام ظلمتوں کو ما عمر إبليس و أقام من الأبنية دور کرے.ان عمارتوں کو جو ابلیس نے تعمیر کیں اور والخيام.فينزل إمام من أن خیموں کو جو اُس نے کھڑے کئے منہدم کر الرحمن ليذب جنود دے.تب ان شیطانی لشکروں کو دفع کرنے کے الشيطان.ولم يزل هذه الجنود لئے خدائے رحمن کی طرف سے ایک امام نازل ہوتا ہے اور یہ دونوں لشکر جن کو وہی شخص دیکھتا ہے جس وتلك الجنود يتحاربان.ولا کی دو آنکھیں ہوں ہمیشہ برسر پیکار رہتے ہیں.یہاں تک کہ باطل کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے جاتے ہیں.اور باطل کی سراب نما دلیل معدوم ہو يراهم إلَّا من اعطى له عينان.غُلّ أعناق الأباطيل.وانعدم ما يُرى لها نوع سراب جاتی ہے اور وہ امام ہمیشہ دشمنوں پر غالب رہتا من الدليل.فما زال الإمام ہے.وہ ہدایت پانے والوں کا مددگار ہدایت کے ظاهرا على العدا.ناصرًا لمن نشانوں کو بلند کرنے والا اور تقویٰ کے موسموں کو اهتدى معليا معالم الهدى حیات بخشنے والا ہے.یہاں تک کہ لوگ یہ جاننے محييا مواسم التقى حتى يعلم لگتے ہیں کہ اُس (امام) نے کفر کے طاغوتوں کو قید الناس أنه أسر طواغيت الكفر کر دیا اور ان کی مشکیں باندھ دی ہیں اور جھوٹ وشد وثاقها.وأخذ سباع کے درندوں کو قابو کر لیا ہے اور ان کی گردنوں میں الأكاذيب وغلّ أعناقها.وهدم طوق ڈال دیئے ہیں اور بدعتوں کی عمارت گرادی (۱۳۰) عمارة البدعات وقوّض قبابها.ہے.اور اس کے گنبد تو ڑ دیئے ہیں.اور ایمان کے وجمع كلمة الإيمان ونظم كلمہ کو مجتمع کیا اور اس کے اسباب کو منظم کر دیا أسبابها.وقوى السلطنة ہے.اور آسمانی سلطنت کو مستحکم اور اُس کی السماوية وسد الثغور.وأصلح سرحدوں کو مضبوط کر دیا ہے اور اُس کی اصلاح شأنها وسدد الأمور.حال کر دی ہے اور تمام امور کو درست کر دیا ہے.
اعجاز المسيح 1+1 اردو تر جمه وسكن القلوب الراجفة کانپتے دلوں کو تسکین دی اور جھوٹ بولنے والی وبكت الألسنة المرجفة وأنار زبانوں کو گنگ کر دیا ہے.تاریک دلوں کو روشن اور الخواطر المظلمة.وجدد سلطنت گہنہ کو تازہ کر دیا ہے اور فقال اللہ ایسا ہی الدولة الــمـخـلـقـة.وكذالك يفعل الله الفعال.حتى يذهب کرتا ہے یہاں تک کہ تاریکیاں اور گمراہیاں دور الظلام والضلال.فهناك ہو جاتی ہیں.تب دشمن اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتا ينكص العدا على أعقابهم ہے.اور اپنے نصب کردہ خیموں کو تہہ و بالا کر دیتا وینگسون ما ضربوامن ہے.اور جوگر ہیں انہوں نے لگائی ہوتی ہے انہیں آرابهم.ومن أشرف العالمين.خيامهم.ويحلون ما اربوا من کھول دیتے ہیں.تمام کائنات سے اشرف اور تمام مخلوقات سے محبوب وجود انبیاء، مرسلین اور اللہ وأعجب المخلوقين.وجود الأنبياء والمرسلین وعباد الله کے نیک اور بچے بندوں کا ہوتا ہے.کیونکہ یہ گروہ الصالحين الصدّيقين فإنهم دوسروں کے مقابلہ پر اعلیٰ اخلاق پھیلانے ، (۱۳۱) فاقوا غيرهم في بث المکارم تاریکیوں کو دور کرنے ،اخلاق کو شائستہ بنانے، وكشف المظالم و تهذیب اپنوں اور آفاق میں بسنے والوں کے لئے خیر خواہی الأخلاق.وإرادة الخير للأنفس کا ارادہ کرنے ، صلاح و خیر کی نشر و اشاعت ، فساد • والآفاق.ونشر الصلاح اور شر کو جڑھ سے اکھیڑنے ، نیکی کا حکم دینے اور والخير.وإجاحة الطلاح والضير.وأمر المعروف والنهي برائیوں اور چوپاؤں کی طرح بری خواہشات کی عن الذمائم.وسوق الشهوات رغبت سے روکنے، پروردگار عالم کی جانب ملتفت كالبهائم.والتوجه إلى رب کرنے، نئے اور پرانے زرو دولت سے قطع تعلق العبيد.وقطع التعلّق من کرنے ، اللہ کی اطاعت پر پوری قوت اور مکمل الطريف والتليد.والقيام على طاعة الله بالقوة الجامعة.تیاری سے ڈٹ جانے ، اور اپنے جمع کر دہ لشکروں والعُدة الكاملة.والصول على اور اکٹھی کی ہوئی جماعتوں کے ساتھ شیطان کی
اعجاز المسيح ۱۰۲ اردو ترجمہ ذراري الشيطان بالحشود ذریت پر حملہ کرنے اور محبوب کی خاطر دنیا تیاگ المجموعة والجموع دینے اور اس کے شاداب مقامات سے کنارہ کشی المحشودة.وتركِ الدنيا کرنے اور اس کے پانیوں اور چراگاہ سے ترک للحبيب.والتباعُدِ عن مغناها وطن کرنے کی طرح الگ ہو جانے اور بارگاہ الہی الخصيب.وترك مائها میں سر تسلیم خم کرنے میں فوقیت رکھتا ہے.وہ ایسی ۱۳۲ ومرعاها كالهجرة.وإلقاء قوم ہیں جسے صرف اس حالت میں نیند آتی ہے کہ الجران في الحضرة.إنهم قوم وہ خدا کی محبت میں محو اور قوم کے لئے دعا کر رہے لا يتمضمض مقلتهم بالنوم.إلا في حبّ الله والدعاء للقوم.ہوتے ہیں.دنیا داروں کی نگاہ میں یہ دنیا بڑی وإن الدنيا في أعين أهلها لطيف خوبصورت اور خوش شکل ہے لیکن ان (اہل اللہ ) البنية مليح الحلية.وأما فی کی نظروں میں گند سے بھی زیادہ گندی اور مردار أعينهم فهي أخبث من العذرة سے بھی زیادہ بد بودار ہوتی ہے.وہ اللہ کی طرف وأنتن عن الميتة.أقبلوا علی پوری توجہ کرتے اور صدق دل سے اُس کی طرف الله كل الاقبال.ومالوا إليه كل پوری طرح جھکتے ہیں اور جس طرح گھر کی بنیادوں الميل بصدق البال.وكما أن کو اس کے محراب اور تعمیر شدہ برآمدوں پر فوقیت قواعد البيت مقدّمة على طاق حاصل ہوتی ہے اسی طرح یہ بزرگ ہستیاں اس جہان میں اخیار کے طبقات میں سے ہر طبقہ پر يُعقد.ورواق يمهد كذالك هؤلاء الكرام مقدمون في هذه مقدم ہوتے ہیں.اور مجھے کشفاً دکھایا گیا ہے الدار على كل طبقة من طبقات کہ ان انبیاء کرام میں سب سے اکمل وافضل الأخيار.وأُريتُ أن أكملهم اور عارف تر اور عالم تر ہمارے نبی محمد مصطفی ۱۳۳ وأفضلهم وأعرفهم وأعلمهم نبينا المصطفى عليه التحية ہیں آپ پر اس زمین اور بلند آسمانوں میں ہر والصلاة والسلام في الأرض قسم کی برکت ، رحمت اور سلامتی ہو.یقیناً سب والسماوات العلى وإن أشقى سے زیادہ بدبخت وہ لوگ ہیں جنہوں نے
اعجاز المسيح ۱۰۳ اردو تر جمه الناس قوم أطالوا الألسنة غیب کے اسرار پر اطلاع پائے بغیر آپ پر زبان وصـالوا عليه بالهمز و تجسس درازی کی اور نکتہ چینی اور عیب جوئی کرتے ہوئے الـعـيــب.غـيـر مطلعین علی سر آپ پر حملہ آور ہوئے.اور کتنے ہی ایسے ہیں الغيب.وكم من ملعون في جن پر زمین میں لعنت کی جاتی ہے لیکن آسمان پر الأرض يحمده الله فی السماء اللہ اُن کی تعریف کرتا ہے اور کتنے ہی ایسے ہیں.وكم من مُعظم في هذه الدار جن کی اس جہان میں بڑی تعظیم کی جاتی ہے لیکن يهان في يوم الجزاء.ثم هو جزاء سزا کے روز وہ ذلیل کئے جائیں گے.پھر اللہ سبحانه أشار في قوله رَبِّ سُبْحَانَہ نے اپنے قول رَبِّ الْعَلَمِينَ میں الْعَالَمِينَ إلى أنه خالق كل اس طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ ہر شے کا خالق ہے شيء وأنه يُـحـمـد فی السماء اور اس کی آسمان اور زمینوں میں تعریف کی جاتی والأرضين.وأن الحامدين كانوا ہے اور اس کی تعریف کرنے والے اس کی تعریف علی حمـده.دائمین و علی پر مداومت اختیار کرتے اور اُس کی یاد میں دھونی ذكرهم عاكفين.و إن من شيء رمائے بیٹھے ہیں.ہر چیز ہر وقت ہی اس کی (۱۳۴) إلَّا يُسَبِّحه ويحمده في كل تسبیح اور حمد کرتی ہے اور جب کوئی بندۂ خدا حين.وإن العبد إذا انسلخ عن اپنی خواہش نفس کو تیاگ دیتا ہے اور اپنے جذبات إراداته وتجرّد عن جذباته.سے خالی ہوکر اللہ اور اُس کی راہوں اور اسکی وفني في الله وفي طرقه عبادات میں فنا ہو جاتا ہے.نیز اپنے اُس رب کو وعباداته.و عرف ربه الذی پہچان لیتا ہے جس نے اپنی عنایات سے اس کی رباه بعناياته.حمده في سائر پرورش فرمائی تو وہ اس کی ہر وقت حمد کرتا اور أوقاته وأحبّه بجميع قلبه بل سارے دل بلکہ تن کے ایک ایک ذرہ کے ساتھ بجميع ذراته.فعند ذالك هو اس سے محبت کرتا ہے.تب اُس وقت وہ عالمین عـالـم مـن العالمين.ولذالك میں سے ایک عالم ہو جاتا ہے.وہ
اعجاز المسيح ۱۰۴ اردو تر جمه سُمّى إبراهيم أمة في كتاب اسی لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو أعلم العالمين.ومن العالمين أَعْلَمُ الْعَالَمِین خدا کی کتاب میں اُمت کا نام دیا زمان أرسل فيهم خاتم النبيين گیا اور پھر عالمین کا ایک زمانہ وہ تھا جس میں ان وعــالــم آخــر فيـه یـأتـی الله لوگوں میں خاتم النبیین بھیجے گئے اور ایک دوسرا عالم بآخرين من المؤمنين.في آخر الزمان رحمة على الطالبين وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ متلاشیان حق پر رحم فرماتے ۱۳۵ وإليه أشار فی قولہ تعالی ہوئے آخری زمانہ میں مؤمنین میں آخرین کو لائے نَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ " گا.اسی طرف اللہ تعالیٰ کے قول لَهُ فأومأ فيه إلى أحمدين وجعلهما الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ مِیں من نعمائه الكاثرة.فالأوّل منهما أحمد المصطفى اشارہ ہے.اس میں دو احمدوں کی طرف اشارہ کیا ورسولنا المجتبى.والثاني ہے.اور ان دونوں احمدوں کو اپنی بے پایاں نعمتوں أحمد آخر الزمان الذى سُمّی میں شمار کیا ہے.ان دونوں میں اول ہمارے رسول مسیحا ومهديا من الله المنّان.احمد مصطفی اور مجتبی ہیں اور دوسرے احمد آخر وقد استنبطت هذه النكتة من الزمان ہیں.جس کا خدائے منان نے مسیح اور مہدی قوله الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ " رکھا اور یہ نکتہ میں نے خدا کے قول وعرفت أن العالمين عبارة عن فليتدبر من كان من المتدبرين.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ سے استنباط کیا کل موجود سوى الله خالق ہے پس ہر غور و فکر کرنے والے کو غور وفکر کرنا چاہیئے.الأنام.سواء كان من عالم تمہیں معلوم ہے کہ عالمین سے مراد مخلوق کے پیدا الأرواح أو من عالم الأجسام.کرنے والے خدا کے سوا تمام موجودات ہیں خواہ وہ وسواء كان من مخلوق عالم ارواح سے ہوں یا عالم اجسام سے.خواہ وہ ١٣٦ الأرض أو كالشمس والقمر نام زمینی مخلوق سے ہوں یا اجرام فلکی میں سے جیسے شمس وغيرهما من الأجرام.فكل من العالمين داخل تحت وقمر وغیرہ.پس تمام عالم حضرت باری کی ربوبیت لے ابتدا اور آخرت (دونوں) میں تعریف اسی کی ہے.(القصص: ۷۱) الفاتحة: ٢
اعجاز المسيح ۱۰۵ اردو تر جمه ربوبية الحضرة.ثم إن فيض کے تحت آتے ہیں.پھر ربوبیت کا فیض ہر اس فیض الربوبية أعم وأكمل وأتم من سے جس کا دلوں میں تصور کیا جا سکے یا جس کا ذکر كل فيض يُتَصَوِّرُ في الأفئدة.أو يجرى ذكره على الألسنة ثم زبانوں پر جاری ہو زیادہ وسیع ، زیادہ کامل اور زیادہ بعدہ فیض عام وقد خُص جائع ہے.پھر اس کے بعد فیض عام ہے جو حیوانی بالنفوس الحيوانية والإنسانية اور انسانی نفوس کے ساتھ مختص ہے اور وہ صفت وهو فيض صفة الرحمانية.رحمانیت کا فیض ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنے وذكره الله بقوله " الرَّحْمنِ قول الرحمن میں کیا ہے.اور اُسے جمادی اور نباتی وخصه بذوى الروح من دون اجسام کو چھوڑ کر صرف جاندار چیزوں سے وابستہ الأجسام الجمادية والنباتية.ثم بعد ذالك فيض خاص وهو کیا.اس کے بعد ایک فیض خاص ہے اور وہ صفتِ فيضُ صفة الرحيمية.ولا ينزل رحيمیت کا فیض ہے اور یہ فیض صرف اُس نفس هذا الفيض إلا على النفس التي پر نازل ہوتا ہے جو متوقع فیوض کے حصول کے لئے سعى سعيها لكسب الفیوض پوری کوشش کرتا ہے.اس لئے یہ فیض ان لوگوں المترقبة.ولذالك يختص سے خاص ہے جو ایمان لاتے اور رب کریم کی بالذين آمنوا وأطاعوا ربًّا كريمًا.كما صرح في قوله تعالى اطاعت کرتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ل میں صراحت لے فثبت بنص القرآن أن الرحيمية کی گئی ہے.پس نَصِ قرآن سے ثابت ہو گیا کہ مخصوصة بأهل الإيمان.وأمّا رحیمیت اہلِ ایمان کے ساتھ مخصوص ہے مگر الرحمانية فقد وسعت كل حيوان من الحيوانات.حتى ان رحمانیت کا دائرہ جانداروں میں سے ہر جاندار الشيطان نال نصيبا منها بأمر پر وسیع ہے.یہاں تک کہ شیطان نے بھی حضرتِ حضرة ربّ الكائنات.رب کائنات کے حکم سے اس میں سے حصہ پایا.لے اور وہ مومنوں کے حق میں بار بار رحم کرنے والا ہے.(الاحزاب : ۴۴) ۱۳۷
اعجاز المسيح 1+4 اردو تر جمه وحاصل الكلام ان الرحيمية حاصل کلام یہ کہ رحیمیت کا تعلق ان فیوض تتعلق بـفـيـوض تترتب على سے ہے جو اعمال پر مترتب ہوتے ہیں اور یہ الأعمال.ويختص بالمؤمنين من دون الكافرين وأهل کافروں اور گمراہوں کو چھوڑ کر صرف مؤمنوں سے الضلال.ثم بعد الرحيمية فيض خاص ہے.پھر رحیمیت کے بعد ایک اور فیض آخر وهـو فـيـض الجزاء الا تم بھی ہے جو جزاء کامل اور مکافات اور نیک لوگوں کو ۱۳۸ والمكافات.وإيصال الصالحين إلى نتيجة الصالحات اُن کی نیکیوں اور اعمال حسنہ کے نتیجہ تک پہنچانے کا والحسنات.وإليه أشار فیض ہے.اور اس کی طرف خدائے عـــزوجــل عزّ راسـمــــــه بــقــولــــــه ،، نے اپنے قول مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ میں اشارہ ”مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.و إنه آخر الفيوض من رب العالمین فرمایا ہے.اور یہ رَبُّ الْعَلَمِینَ کی طرف سے وما ذكر فيض بعدہ فی کتاب آخری فیض ہے.اس کے بعد أَعْلَمُ العالمین اللہ الله أعلم العالمين.والفرق في کی کتاب میں کسی اور فیض کا ذکر نہیں کیا گیا.اس هذا الفيض وفيض الرحيمية.أن الرحيمية تبلغ السالك إلى فيض اور رحیمیت کے فیض میں یہ فرق ہے کہ مقام هو وسيلة النعمة.وأما رحيمیت ایک سالک کو اُس مقام تک پہنچاتی ہے فيض المالكية بالمجازات.فهو جو وسیلہ نعمت ہے باقی رہا جزا سزا سے متعلق صفت يُبلغ السالك إلى نفس النعمة وإلى منتهى الثمرات وغاية مالكيت كا فیض ، سو وہ ایک سالک کو نعمت کی حقیقت، المرادات.رادات.وأقـــصـــــى اخروى ثمرات ، مرادوں کی انتہا اور مقاصد کی آخری ١٣٩ المقصودات.فلا خفاء أن هذا حد تک پہنچاتا ہے.پس ظاہر ہے کہ یہ فیض حضرت الفيض هو آخر الفيوض من الحضرة الأحدية.وللنشأة احدیت کی طرف سے آخری فیض ہے اور انسانی لے جزا سزا کے دن کا مالک ہے.(الفاتحة : ۴)
اعجاز المسيح 1+2 اردو ترجمہ الإنسانية كالعلة الغائية.وعليه| پیدائش کے لئے بطور علت غائی ہے.اور اسی يتم النعم كلها و تستكمل به صفت ( مالکیت ) پر تمام نعمتوں کی تکمیل ہوتی ہے دائرة المعرفة و دائرة السلسلة اور معرفت اور سلسلہ کا دائرہ مکمل ہوتا ہے.کیا تو ألا ترى أن سلسلة خلفاء موسی نے نہیں دیکھا کہ موسیٰ کے خلفاء کا سلسلہ ملت انتهت إلى نكتة مالك يوم يَوْمِ الدِّینِ کے نکتہ پر ختم ہو گیا.چنانچہ الدين فظهر عيسى في آخرها حضرت عیسی اس سلسلہ کے آخر میں ظاہر ہوئے.وبدل الجور والظلم بالعدل جنگ اور جنگجوؤں کے بغیر ہی ظلم و ستم عدل و احسان والإحسان من غير حرب میں تبدیل کر دیا گیا.جیسا کہ دین کے لفظ سے یہ ومحاربين.كما يُفهم من لفظ الدين فإنه جاء بمعنى الحلم مفہوم نکلتا ہے.کیونکہ یہ لفظ لغت عرب اور عرب والرفق في لغة العرب و کے تمام ادیبوں کے نزدیک نرمی اور رفق کے معنی عند أدبائهم أجمعين.فاقتضت میں آیا ہے.جس کا یہ تقاضا ہوا کہ ہمارے نبی علی مماثلة نبينا بموسى الکلیم کی مماثلت موسیٰ کلیم اللہ سے، اور موسیٰ علیہ سلام (۱۴۰) ومشابهة خلفاء موسى بخلفاء کے خلفاء کی مشابہت ہمارے نبی کریم کے خلفاء نبينا الكريم.أن يظهر في آخر سے ہو.اور وہ یہ کہ اس سلسلہ کے آخر میں ایک ایسا هذه السلسلة رجلٌ يُشابه شخص ظاہر ہو جو مسیح سے مشابہ ہو.اور حلم کے ساتھ المسيح.ويدعو إلى الله اللہ کی طرف بلائے اور جنگ کا خاتمہ کرے اور بالحلم ويضع الحرب ويُقرِبُ سیف قاطع کو نیام میں رکھے اور تلوار اور نیزہ کی السيف المُجيح.فيحشر الناس بالآيات من الرحمان لا بجائے خدائے رحمن کے چمکتے ہوئے نشانوں سے بالسيف والسنان.فيُشابه زمانه لوگوں کو اکٹھا کرے.اس طرح اُس کا زمانہ زمان القيامة ويوم الدین قیامت کے زمانے اور جزاء وسزا اور حشر و نشر کے والنشور.ويُملأ الأرض نوراً دن کے مشابہ ہو جائے گا.اور زمین نور سے بھر دی كما ملئت بالجور والزور.وقد جائے گی جس طرح ظلم اور جھوٹ سے بھری ہوئی
اعجاز المسيح ۱۰۸ اردو تر جمه كتب الله أنه يُرِى نموذج يوم تھی.اللہ نے یہ فیصلہ فرما دیا تھا کہ وہ یوم الدین الدين قبل يوم الدين.ويحشر سے پہلے ہی یوم الدین کا نمونہ دکھائے گا.اور الناس بعد موت التقویٰ تقویٰ کے مرجانے کے بعد لوگوں کو زندہ کرے گا.وذالك وقت المسیح اور یہی مسیح موعود کا وقت ہے اور یہی اس عاجز کا الموعود وهو زمان هذا زمانہ ہے اور اس کی جانب آیت يَوْمِ الدِّينِ المسكين.وإليه أشار في آية میں اشارہ کیا ہے.پس تدبر کرنے والے اس پر (۱۳۱) يوم الدين.فليتدبر من كان من تدبر كریں.حاصل کلام یہ کہ ان صفات میں جو المتدبرين.وحاصل الكلام ان فضل و احسان کے مالک خدا کے ساتھ مخصوص ہیں في هذه الصفات التي حصت خصت خدائے منان کی طرف سے ایک پوشیدہ حقیقت بالله ذي الفضل والإحسان اور مخفی پیشگوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حقيقة مخفية ونبأ مكتومًا من صفات كا ذکر کر کے یہ چاہا کہ وہ اپنے رسول کو ان الله المنان.وهو أنه تعالى أراد صفات كى حقیقت سے آگاہ کرے پس اُس نے بذكرها أن يُنبئ رسوله بحقيقة طرح طرح کی تائیدات کے ساتھ ان صفات کی هذه الصفات.فأرى حقيقتها حقیقت ظاہر فرمائی.پس اُس نے اپنے نبی اور بأنواع التأييدات.فربی نبیه اس کے صحابہ کی خود تربیت فرمائی اور اس سے وصحابته فأثبت بها أنه رب ثابت کیا کہ وہ رَبِّ العَالَمِين ہے.پھر اُس نے العالمين.ثم أتم عليهم نعماءه محض اپنی صفت رحمانیت سے بغیر عامل کے عمل برحمانيته من غير عمل العاملين.کے اُن پر اپنی نعمتیں پوری فرما ئیں اور اس سے یہ فأثبت بها أنه أرحم الراحمين.ثابت فرمایا کہ وہ اَرْحَمُ الرَّحِمِین ہے.پھر (۱۴۲) ثم أراهم عند عملهم برحمة منه اُس نے اپنی رحمت سے اُن کے عمل کے موقع پر أيادى حمايته.وأيدهم بروح اپنی حمایت کے احسانات دکھائے اور اپنی عنایت منه بعنايته.ووهب لهم نفوسا سے روح القدس کے ساتھ اُن کی تائید فرمائی اور انہیں
اعجاز المسيح 1+9 اردو تر جمه مطمئنة.وأنزل عليهم سكينة نفوسِ مطمئنہ عطا کئے.اور ان پر دائمی سکینت نازل دائمة.ثم أراد أن يريهم نموذج فرمائی.پھر اس نے ارادہ فرمایا کہ انہیں ملت مالِكِ يوم الدين.فوهب لهم يَوْمِ الدِّینِ کا نمونہ دکھائے تو اُس نے انہیں الملك والخلافة والحَقَ أعداء هم بادشاہت اور خلافت عطا کی اور اُن کے دشمنوں کو بالهالكين.وأهلك الكافرين ہلاک ہونے والوں سے ملا دیا.کافروں کو ہلاک وأزعجهم إزعاجًا.ثم أرى نموذج النشور فأخرج من کیا اور اُن کی بیخ کنی کی.پھر حشر کا نمونہ دکھایا اور القبور إخراجًا.فدخلوا فی دین انہیں قبروں سے نکالا اور وہ اللہ کے دین میں فوج الله أفواجًا.وبدروا إليه فرادى در فوج داخل ہو گئے.فردا فردا اور گروہ در گروہ اس وأزواجًا.فرأى الصحابة أمواتًا کی طرف دوڑے.پس صحابہؓ نے مُردوں کو زندگی يلفون حياة ورأوا بعد المحل پاتے اور خشک سالی کے بعد موسلا دھار بارش ہوتے ماء اتجاجًا.وسمّى ذالك دیکھا اور اس زمانے کا نام يَوْمِ الدِّينِ رکھا الزمان يوم الدين.لأن الحق گیا کیونکہ اس میں حق ظاہر ہو گیا.اور کافروں کی حصحص فيه ودخل في الدين أفواج من الكافرين.ثم أراد أن فوجیں دین میں داخل ہو گئیں.پھر اُس نے ارادہ يُرى نموذج هذه الصفات في فرمایا کہ وہ اُمت کے آخرین میں بھی ان صفات کا آخرين من الأمة.ليكون آخر نمونہ دکھائے.تا کہ ملت کا آخر بھی کیفیت میں الملة كمثل أولها في الكيفية و اُس کے اوّل کی طرح ہو جائے اور تا کہ سابقہ امتوں ليتم أمر المشابهة بالأمم کے ساتھ ان کی مشابہت پوری ہو جائے.جیسا کہ السابقة، كما أشير إليه في هذه " اس سورت میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے یعنی السورة.أعنى قوله صِرَاط الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ " فتدبر اُس کے قول صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ ألفاظ هذه الآية.وسمّى زمان عَلَيْهم میں.لہذا اس آیت کے الفاظ پر غور کر مسیح المسيح الموعود يوم الدين موعود کے زمانے کو يَوْمِ الدِّینِ کا نام دیا گیا.(الفاتحة:)
اعجاز المسيح 11 + اردو ترجمہ لأنه زمان يُحيى فيه الدين.کیونکہ اس زمانے میں دین زندہ کیا جائے گا.اور وتحشر الناسُ ليقبلوا بالیقین لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا تا کہ وہ یقین کے ساتھ ولا شك ولا خلاف أنه رَبَّى قبول کریں.اس میں کوئی شک نہیں اور نہ کوئی زماننا هذا بأنواع التربية.اختلاف کہ اس نے ہر نوع کی تربیت سے ہمارے وأرانــــا كثـيــرا مــن فـيــوض | اس زمانے کی پرورش فرمائی اور ہمیں رحمانیت الرحمانية والرحيمية.كما ۱۴۴ والرسل.وأرباب الولاية اور رحیمیت کے فیوض اسی طرح بکثرت دکھائے أرى الســابــقـيـن مـن الأنبيـاء جس طرح اُس نے گزشتہ نبیوں ، رسولوں ،اولیاء اور دوستوں کو دکھائے.باقی رہی ان صفات میں والخلة.وبقيت الصفة الرابعة من هذه الصفات.أعنى التجلی سے چوتھی صفت تو اس سے مراد خدا تعالیٰ کی وہ الذي يُظهر في حلة ملك أو تجلى ہے جس کا ظہور بادشاہ یامالک کے لباس میں مالك فى يوم الدين جزاء سزا دینے کے لئے یوم الجزاء میں ہوگا.اور للمجازات.فجعله للمسيح اُس نے اس تجلتی کو مسیح موعود کے لئے معجزات کی طر الموعود كالمعجزات.وجعله ح بنایا اور اسے ( مسیح موعود کو ) غیبی تائیدات اور حَكَمًا ومظهرًا للحكومة | نشانات کے ساتھ حکم اور آسمانی بادشاہت کا السماوية بتأييد من الغيب مظہر بنایا.اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی تفسیر کے وقت تو والآيات.وستعلم عند تفسیر اس حقیقت کو جان لے گا.یہ جو کچھ میں نے کہا أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ هذه الحقيقة.ہے اپنے نفس سے نہیں کہا بلکہ یہ نکات دقیقہ مجھے وما قلت من عند نفسى بل میرے رب کی جناب سے عطا کئے گئے ہیں.جو أعطِيتُ من لدن ربي هذه شخص ان نکات پر پورا تذبر کرے گا اور ان النكات الدقيقة.ومن تدبرها حق التدبر وفكر في هذه نشانات پر غور وفکر کرے گا تو وہ جان جائے گا کہ الآيات علم أن الله أخبر فيها الله تعالیٰ نے اس میں مسیح موعود اور اُس کے اُس عن المسيح ومن زمنه الذي هو زمانے کے بارے میں خبر دی ہے جو برکات
اعجاز المسيح اردو تر جمه زمن البركات.ثم اعلم أن هذه کا زمانہ ہے.پھر تو جان لے کہ یہ آیات خالق (۱۴۵) الآيات قد وقعت كحد مُعَرّف كائنات اللہ کی معرفت دلانے والی حد کی طرح واقع لله خالق الكائنات.وإن كان الله تَعَالَى ذاته عن التحديدات.ہوئی ہیں.اگر چہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر حدوبست سے ومن هذا التعليم والإفادة.بالاتر ہے.اس تعلیم وافادہ سے کلمہ شہادت کا مفہوم يتضح معنى كلمة الشهادة.واضح ہو جاتا ہے جو ایمان اور سعادت کا مدار التي هي مناط الإيمان ہے.ان صفات کی وجہ سے اللہ اطاعت کا مستحق والسعادة.وبهذه الصفات الله الطاعة وخُص اور عبادت کے لئے مخصوص ہو جاتا ہے.کیونکہ استحق بالعبادة.فإنه ينزل هذه وهى إن فیوض کو بالا رادہ نازل فرماتا ہے.کیونکہ وہی الفيوض بالإرادة.فإنك إذا جب آپ لا الہ الا اللہ کہیں تو اہل دانش کے قلت لا إله إلَّا الله فمعناه عند نزدیک اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نرومادہ میں سے ذوى الحصات.أن العبادة لا يجوز لأحد من المعبودين أو کسی بھی ہستی کی عبادت جائز نہیں سوائے اُس المعبودات.إلا لذاتٍ غير معبود حقیقی کی ذات کے جس کا ادراک ممکن نہیں مدركة مستـجـمـعـة لهذه اور جو ان صفات یعنی رحمانیت اور رحیمیت الصفات.أعنى الرحمانية والرحيمية اللتين هـمـا أوّل کی صفات کا جامع ہے.یہ دونوں صفات عبادات شرط الموجود مستحق کے مستحق وجود کی شرط اول ہیں.پھر تم یہ بھی جان للعبادات.ثم اعلم أن الله اسم لو کہ اللہ اسم جامد ہے.اس کی حقیقت کا ادراک جامد لا تُدرك حقيقته لأنه اسم الذات.والذات ليست من نہیں ہوسکتا.اس لئے کہ یہ اسم ذات ہے اور وہ ذات محسوسات سے نہیں.اور لفظ اللہ کو مشتق المدركات.وكل ما يُقال في معناه فهو من قبيل الأباطيل قرار دے کر جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ از قسم والخزعبيلات.فإن كُنه البارئ جھوٹ اور خرافات ہے.کیونکہ باری تعالیٰ کی
اعجاز المسيح ۱۱۲ اردو تر جمه أرفع من الخيالات.وأبعد من | كنه خیالات سے ارفع اور قیاسات سے بعید تر القياسات.وإذا قلت محمد ہے.اور جب آپ مُحَمَّدٌ رَّسُول اللہ کہتے ہیں رسول الله فمعناه أن محمدًا تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ محمد علیہ اس ذات مظهر صفات هذه الذات باری تعالیٰ کی صفات کا مظہر اور کمالات میں اُس وخليفتها في الكمالات.ومُتمم دائرة الظلية وخاتم الرسالات.کے جانشین اور دائرہ ظلیت کو مکمل کرنے والے (۱۴۷) فحاصل ما أبصر وأرى أن نبينا اور خاتم رسالت ہیں.میری بصیرت اور مشاہدہ کا خير الورى.قدورث صفتی حاصل یہ ہے کہ ہمارے نبی خیر الوریٰ ہمارے ربنا الأعلى.ثم ورث الصحابة ربّ اعلی کی اِن دونوں صفات ( رحمن اور رحیم ) الـحـقـيـقـة المحمدية الجلالية کے وارث ہیں اور آپ کے بعد جیسا کہ میرے كما عرفت فيما مضى.وقد گزشتہ بیان سے آپ جان چکے ہیں آپ کے سلم سـيـفـهـم فـي قـطـع دابر المشركين ولهم ذكر لا صحابه حقیقت محمدیہ جلالیہ کے وارث ہوئے اور اُن کی تلوار مشرکوں کے قلع قمع کرنے يُنسى عند عبدة المخلوقين.وإنهم أدوا حق صفة میں مسلم ہے.اُن کی یاد مخلوق کے پجاری فراموش المحمدية.وأذاقوا كثيرا من نہیں کر سکتے.انہوں نے صفت محمدیت کا حق ادا الأيدى الحربية.وبقيت بعد کر دیا اور اپنے جنگی کارناموں سے بہتوں کو خوب ذالك صفة الأحمدية التي مزا چکھایا.اس کے بعد باقی رہی صفت احمدیت مُصَبغة بالألوان الجمالية.جو جمالی رنگوں میں رنگین اور محبیت کی آگ محرقة بالنيران المُحبّية.میں سوختہ ہے.سوسیح موعود اس صفت (احمدیت ) فورثها المسيح الذي بعث في کا وارث ہوا، جو ذ رائع ( ترقی ) کے خاتمہ، دشمنوں زمن انقطاع الأسباب.وتكسر ۱۳۸) الملة من الأنياب.وفقدان کی کچلیوں سے ملت کی بربادی ، مددگاروں اور الأنصار والأحباب.وغلبة دوستوں کے معدوم ہونے ، دشمنوں کے غلبہ اور الأعداء وصول الأحزاب ليُرِى مخالف جماعتوں کے حملے کے وقت مبعوث کیا گیا
اعجاز المسيح ۱۱۳ اردو ترجمہ الله نموذج مالك يوم الدينتا اللہ تعالیٰ اندھیری راتوں کے بعد، اسلام کی قوت بعد ليالي الظلام.وبعد انهدام اور (مسلمان) سلاطین کے رعب مٹنے کے بعد اور قوة الإسلام.وسطوة السلاطين.ملتِ مـحـمـدیـہ کے اپاہجوں کی مانند ہو جانے وبعد كون الملة كالمستضعفین کے بعد اپنی مالکیت یوم الدین کا نمونہ دکھائے.فاليوم صار ديننا كالغرباء.و ما پس آج ہمارا دین بے وطنوں کی طرح ہو گیا.اس بقيت له سلطنة إِلَّا في السماء.کی حکومت سوائے آسمان کے اور کہیں باقی نہیں عند وما عرفه أهل الأرض فقاموا رہی (اس وقت کے ) اہلِ زمین نے اس کو نہیں عـلـيـه كـالأعداء.فأُرسل ع پہچانا اور اس کے خلاف دشمنوں کی طرح اٹھ هذا الضعف وذهاب الشوكة کھڑے ہوئے ہیں.پس اس ضعف اور شان و شوکت عبد من العباد.ليتعهد زمانا کے خاتمہ کے وقت (خدا تعالیٰ کے ) بندوں میں ماحلا تعهد الجهاد و ذالك سے ایک بندہ مبعوث کیا گیا.تا وہ اس (روحانی.هو المسيح الموعود الذي جاء پانی کے ساتھ ) قحط زدہ زمانے کو بارش کی طرح عند ضعف الإسلام.ليُرى الله سیراب کرے.پس یہ وہی مسیح موعود ہے جو اسلام (۱۴۹ نموذج الحشر والبعث و القیام کے ضعف کے وقت آیا ہے.تا اللہ تعالیٰ محض اپنے ونموذج يوم الدين.إنعامًا منه فضل سے لوگوں کو جب وہ (روحانی) موت کے بعد موت الناس كالأنعام بعد چوپاؤں کی طرح ہو گئے تھے حشر و نشر اور بعث فاعلم أن هذا اليوم يوم الدين.بعد الموت ، قیامت اور جزا سزا کے دن کا نمونہ وستعرف صدقنا ولو بعد حين.دکھائے.پس جان لو کہ یہی زمانہ یوم الدین ہے وههنا نكتة كشفية ليست من اور تم يقيناً ہماری سچائی کو جان لو گے.اگر چہ کچھ المسموع.فاسمع مُصغيًا و وقت کے بعد ہی سہی.یہاں ایک کشفی نکتہ ہے جو عليك بالمودوع.وهو أنه پہلے کبھی نہیں سنا گیا.پس تحمل سے کان دھرو اور تعالى ما اختار لنفسه ههنا أربعة سنو.وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی ذات
اعجاز المسيح ۱۱۴ اردو تر جمه من الصفات إلَّا لِبُری کے لئے چار صفات کو محض اس لئے اختیار کیا ہے نموذجها في هذه الدنيا قبل تاکہ موت سے پہلے اسی دنیا میں وہ ان (صفات) کے نمونے دکھائے.یہی وجہ ہے کہ اُس نے اپنے الممات.فأشار في قوله لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولى وَالْآخِرَةِ “ كلام لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَالْآخِرَةِ إلى أن هذا النموذج يُعطى لصدر الإسلام.ثم للآخرين من میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ نمونہ آغاز (۱۵۰) الأمة الداخرة.و كذالك قال اسلام کے لوگوں کے لئے اور پھر رُسوا امت کے فی مقام آخر وهو أصدق آخرین کو بھی عطا کیا جائے گا.اسی طرح اس نے القائلين " ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ | دوسرے مقام پر فرمایا اور وہ اصدق القائلین ہے.وہ وَثُلَةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ " فقسم ثلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ زمان الهداية والعون پس یوں اس نے ہدایت، مدد اور نصرت کے زمانے والنصرة.إلى زمان نبينا صلى الله عليه وسلم.وإلى الزمان کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر اور الآخر الذي هو زمان مسیح اس آخری زمانہ پر جو اس امت کے مسیح کا زمانہ هذه الملة.وكذالك قال ہے تقسیم کر دیا ہے.اور اسی طرح فرمایا وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ.اس میں فاشار إلى المسيح الموعود مسیح موعود اور اس کی جماعت اور ان کے متبعین وجماعته والذين اتبعوهم.کی طرف اشارہ فرمایا پس قرآن کریم کی ان فثبت بنصوص بينة من القرآن.ان هذه الصفات قد ظهرت في واضح نصوص سے ثابت ہوا کہ پہلے یہ صفات زمن نبينا ثم تظهر فى ہمارے نبی ﷺ کے زمانے میں بھی ظاہر ے ابتدا اور آخرت (دونوں) میں تعریف اسی کی ہے.(القصص: ۷۱) سے پہلوں میں سے ایک بڑی جماعت ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑی جماعت ہے.(الواقعۃ: ۴۰، ۴۱) ے اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے ) جو ابھی ان سے نہیں ملے (الجمعة: ۴)
اعجاز المسيح ۱۱۵ اردو ترجمہ آخر الزمان.و هو زمان یکثر ہوئیں اور پھر یہ آخری زمانے میں ظاہر ہوں گی.فيه الفسق والفساد.ويقل اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں فسق و فساد بہت الصلاح والسداد.ويُجاح کثرت سے ہوگا.اور نیکی اور راستبازی بہت ہی الإسلام كما تُجاح الدوحة.کم ہوگی اور اسلام کی ایسی بیخ کنی ہوگی جیسے کہ ويصير الإسلام كسليم لدغته الحيّة.ويصير المسلمون وترون كيف كثر المفسدون.درخت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیا جاتا ہے اور اسلام كأنهم الميتة.ويُداس الدين کی حالت ایک مارگزیدہ کی سی ہو گی اور مسلمان تحت الدوائر الهائلة.والنوازل ایسے ہو جائیں گے جیسے کہ مردے.اور اُن کا دین النازلة السائلة.وكذالك خوفناک حوادث اور دوسرے متواتر نازل ہونے ترون في هذا الزمان.والے مصائب کے نیچے کچلا جائے گا.اور یہی وتشاهدون أنواع الفسق حالت تم اس زمانے میں دیکھ رہے ہو اور طرح والكفر والشرك والطغيان.طرح کے فسق ، کفر شرک اور سرکشیوں کا مشاہدہ کر رہے ہو.اور تم دیکھ رہے ہو کہ کس طرح مفسد زیادہ وقل المصلحون المواسون.وحان للشريعة أن تُعدَم و آن ہو گئے ہیں اور مصلح اور غمخوار کم ہو گئے ہیں.وہ للملة أن تكتم و هذا بلاء قد وقت قریب آ گیا تھا کہ شریعت معدوم ہو جاتی اور دهم.وعناء قد هجم.وشر قد ملت نا پید ہو جاتی.یہ مصیبت ہو جاتی.یہ مصیبت ہے جو ناگہانی نجم ونار أحرقت العرب آپڑی اور ایسی بپتا ہے جو ٹوٹ پڑی ایسا شہر ہے جو والـعـجـم.و مع ذالك ليس یکدم پھوٹ پڑا ایسی آگ تھی کہ جس نے عرب و وقتنا وقت الجهاد.ولا زمن عجم کو جلا ڈالا.بایں ہمہ ہمارا یہ وقت جہاد کا وقت نہیں اور نہ تیز تلواروں کا زمانہ ہے.اور نہ یہ المرهفات الحداد.ولا أوان ضرب الأعناق والتقرين في گردنیں مارنہیں اور زنجیروں میں جکڑنے کا وقت الأصفاد ولا زمان قود أهل الضلال في السلاسل ہے اور نہ ہی گمراہوں کو زنجیروں اور طوقوں میں والأغلال.وإجراء أحكام القتل جکڑ کر انہیں گھسیٹنے اور ان پر قتل اور ہلاکت کے ۱۵۱ ۱۵۲۶
اعجاز المسيح ۱۱۶ Σ اردو تر جمه والاغتيال.فإن الوقت وقت احکام جاری کرنے کا زمانہ ہے.یہ وقت تو کافروں غلبة الكافرين وإقبالهم.کے غلبہ اور عروج کا وقت ہے.مسلمانوں پر ان پران وضُرِبت الذلّة علی المسلمین کے اعمال کی وجہ سے ذلّت مسلط کر دی گئی.بتاؤ بأعمالهم.وكيف الجهاد ولا جہاد کیا؟ جبکہ کسی کو صوم وصلوٰۃ، حج و زکوۃ اور يُمنع أحد من الصوم والصلوة.پاکبازی اور تقوی شعاری سے روکا نہیں جاتا اور نہ ولا الحج والزكوة ولا من ہی کسی کافر نے مسلمانوں پر انہیں مرتد کرنے یا العفة والتقاة.وما سَـلّ كافر انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے تلوار سونتی ہے.سيفًا على المسلمين.ليرتدوا (۱۵۳) أو يجعلهم عضين.فمن العدل اور انصاف یہ ہے کہ تلوار کے مقابلہ میں ہی تلوار أن يُسَلَّ الحسام بالحسام.سونتی جائے اور قلموں کے مقابلہ میں قلمیں.ہم والأقلام بالأقلام وإنا لا نبكي شمشیر و سنان کے زخموں پر نہیں روتے ، ہم تو على جراحات السیف زبانوں کی مفتریات پر روتے ہیں.دروغ گوئیوں والسنان.وإنما نبكي على سے اللہ کے صحیفوں کو جھٹلایا گیا اور ان کے اسرار کو أكاذيب اللسان.فبالأكاذيب چھپایا گیا.ملت کی عمارت پر حملہ کیا گیا اور اس كذبت صحف الله واخفی کے گھر کو مسمار کیا گیا پس یہ ایک ایسے شہر جیسی ہوگئی أسرارها.وصيل على عمارة جس کی فصیلیں تو ڑ دی گئیں ہوں یا اُس باغ کی الملة وهدم دارها.فصارت طرح ہوگئی جس کے درختوں کو جلا دیا گیا ہو یا اُس کمدينة نقض أسوارها.أو گلشن کی طرح جس کے پھول اور پھل بالکل تباہ کر حديقة أُحرق أشجارها.أو دیئے گئے ہوں اور اس کے شگوفوں کو توڑ دیا گیا بستان أُتلِفَ زهرها وثمارها.وسقط أنوارها.أو بلدة طيبة ہو.یا اُس پاک سرزمین کی طرح جس کی نہروں کا غيض أنهارها أو قصور پانی خشک ہو جائے.یا ان مضبوط محلات کی طرح مشيدةٍ عُفّى آثارها ومزقها جن کے نشان تک مٹادیئے گئے ہوں اور تباہ کرنے الممزقون.وقيل ماتت ونعى والوں نے انہیں پارہ پارہ کر دیا ہو.اور یہ کہا گیا
اعجاز المسيح ۱۱۷ اردو ترجمہ الناعون.وطبعت اخبارها که ملت اسلام) مرگئی اور موت کی خبر لانے (۱۵۴) ( وأشاعتها المشيعون.ولكل والے اس کی موت کی خبر لے آئے.اُس کی موت كمال زوال ولكل ترعرع کی خبریں چھپ گئیں اور شائع کرنے والوں نے اضمحلال.كما ترى أن السيل انہیں اچھی طرح پھیلا دیا.ہر کمال کے لئے زوال إذا وصل إلـى الـجـبـل الـراسي ہے اور ہر جوانی کے لئے ڈھلنا ہے.جیسا کہ تم وقف.و الليل إذا بلغ الى نے دیکھا ہے کہ جب سیلاب کا پانی مستحکم پہاڑ الصبح المسفر انكشف.كما قال الله تعالى وَالَّيْلِ إِذَا تک پہنچ جائے تو وہ ٹھہر جاتا ہے اور رات جب عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ به روشن صبح تک پہنچ جائے تو تاریکی چھٹ جاتی ہے با فجعل تنفّس الصبح كأمر لازم جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَالَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ بعد كمال ظلمات الليل وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ.پس اس نے رات وكذالك في قوله کے انتہائی اندھیروں کے بعد صبح کے ظہور کو ایک يَارْضُ ابْلَعِیجُعِلَ لازمی امر قرار دیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کلام كمال السَّيل دليل زوال يَاَرْضُ ابْلَعِی میں سیلاب کی انتہا کو السيل.فاراد الله أن يرد إلى | سیلاب کے زوال کی علامت ٹھہرایا ہے.پس اللہ نے ارادہ فرمایا کہ وہ مؤمنوں کی طرف اُن کے پہلے دن لوٹا دے اور ان کو دکھائے کہ وہ ان کا ربّ يُجزئ ويُبعث فيه الموتى ہے اور وہ رحمن، رحیم اور اُس دن کا مالک ہے جس وإنكم ترون في هذا الزمان میں جزا سزا دی جائے گی اور جس میں مردوں کو ربوبية الله المنان و رحمانیتہ اٹھایا جائے گا.اور تم اس زمانے میں خدائے منان للإنسان والحيوان التي تتعلّق کی ربوبیت اور انسانوں اور حیوانوں کے لئے اس المؤمنين أيامهم الأولى.وأن ريهم أنه ربهم وأنه الرّحمن والرحيم ومـالـك يـوم فيــه لے اور (قسم ہے ) رات کی جب وہ آئے گی اور پیٹھ پھیر جائے گی.اور صبح کی جب وہ سانس لینے لگے گی.(التکویر : ۱۹،۱۸) سے اے زمین ! نگل جا (هود: ۴۵) ۱۵۵
اعجاز المسيح ۱۱۸ اردو تر جمه بالأبدان وترون أنه كيف خلق كى ایسی رحمانیت جس کا تعلق اجسام کے ساتھ أسبابًا جديدة.ووسائل مفيدة.ہے دیکھ رہے ہو تم دیکھتے ہو کہ اُس نے کس طرح نئے نئے ذرائع اور مفید وسائل پیدا کئے ہیں.ایسی وصنائع لم ير مثلها فيما مضى..وعجـائـب لـم يـوجـد مثلها في صنعتیں جن کی مثال گزشتہ زمانوں میں نہیں دیکھی القرون الأولى.وترون تجدّدًا في كلّما يتعلق بالمسافر گئی اور ایسے عجائبات جن کی نظیر قرون اولیٰ میں والنزيل والمقيم وابن السبیل نہیں پائی گئی.اور تمہیں تمام چیزوں میں جو مسافر یا والصحيح والـعــليــل قیام پذیر ، سکونتی یا پردیسی تندرست یا بیمار، جنگجو یا ، والمحارب والمصالح المقيل صلح جو، قیام یا گوچ کی حالت اور تمام قسم کی نعمتوں والإقامة والرحيل.وجميع اور مشکلات سے تعلق رکھتی ہے جدت نظر آئے گی.۱۵۶ أنواع النعماء والعراقيل.كأن الدنيـا بـدلـت كل التبديل فلا گویا دنیا مکمل طور پر بدل چکی ہے.اور اس میں کوئی شك أنها ربوبية عظمى.شک نہیں کہ یہ سب کچھ ربوبیت عُظمی اور ورحمانية كبرى.وكذالك رَحْمَانِيتِ کبری ہے.اسی طرح آپ کو تمام دینی ترى الربوبية والرحمانية امور میں ربوبیت ، رحمانیت اور رحیمیت نظر والرحيمية في الأمور الدينية.آئے گی.ہر معاملہ کو علوم الہیہ کے طلباء کے لئے وقد يُسر كل أمر لطلباء العلوم الإلهية.ويُسر أمر التبليغ وأمر آسان کر دیا گیا ہے.تبلیغ کا امر اور روحانی علوم کی إشاعة العلوم الروحانية اشاعت کا کام آسان کر دیا گیا ہے.اور ہراس وأنزلت الآيات لكل من يعبد شخص کے لئے نشان اتار دیئے گئے ہیں جو اللہ کی الله ويبتغى السكينة من عبادت کرتا اور اُس کی جناب سے سکینت کا طالب الحضرة.وانكسف القمر ہے.چاند اور سورج کو رمضان میں گرہن لگ چکا، والشمس في رمضان وعُطّلت العشار فلا يُسْعَى عليها إِلَّا اونٹیاں بریکار کر دی گئیں.اب اُنہیں شاذ و نادر ہی بالندرة.وسوف ترى المركب استعمال کیا جاتا ہے اور تم عنقریب ہی مکہ اور مدینہ
اعجاز المسيح ۱۱۹ اردو تر جمه ۱۵۷۶ الجديد في سبيل مكة کے راستہ میں نئی سواری کو چلتے دیکھو گے.علماء اور والمدينة.وأيد العالمون طلباء کے لئے کثرت کے ساتھ کتابوں اور ہر قسم کے ۱۵۷ والطالبون بكثرة الكتب وأنواع معلوماتی ذرائع کی مد بہم پہنچائی دی گئی ہے.مسجدیں مدد أسباب المعرفة.وعُمر آباد ہوگئی ہیں اور عبادت گزار کی حفاظت کی گئی ہے المساجد.وحُفِظَ الساجد.امن وامان اور دعوۃ وتبلیغ کے دروازے کھول دیئے وفتح أبواب الأمن والتبليــغ والدعوة.وما هو إلا فيض الرحيمية گئے ہیں.اور یہ سب کچھ رحیمیت کا فیضان.فوجب علينا أن نشهد أنها ہے.پس ہم پر واجب ہے کہ ہم گواہی دیں کہ یہ وسائل لا يوجد نظيرها في ایسے وسائل ہیں جن کی نظیر قرون اولیٰ میں نہیں القرون الأولى.وإنه توفیق پائی جاتی تھی.اور یہ ایک سہولت اور آسانی ہے وتيسير ما سمع نظيره أذن وما جس کی نظیر نہ کسی کان نے سنی اور جس کی مثل نہ کسی رأی مثلـه بـصــر فانظر إلى آنکھ نے دیکھی.پس تم ہمارے رب اعلیٰ کی رحيـمـيـة ربنا الأعلى.ومن رحيميته أنا قدرنا على أن نطبع رحيمیت ملاحظہ کرو.یہ اسی کی رحیمیت ہے كتب ديننا في أيام ما كان من کہ ہمارے لئے ممکن ہو گیا ہے کہ چند دنوں میں قبل في وسع الأولين أن يكتبوها اپنے مذہب کی اس قدر کتابیں طبع کر دیں جو کردیں في أعوام.وإنّا نقدر على أن ہمارے اسلاف سالوں میں بھی لکھنے کی طاقت نہیں نطلع على أخبار أقصى الأرض رکھتے تھے.آج ہم زمین کے دور دراز علاقوں کی (۱۵۸) في ساعات.وما قدر عليه وما قدر عليه خبریں چند گھڑیوں میں معلوم کر سکتے ہیں جو * پہلے ☆ السابقون إلا لشق الأنفس لوگ اپنی جانوں کو مشقت میں ڈال کر اور سالہا سال وبذل الجهد إلى سنوات.وقد کی محنت کر کے حاصل کرتے تھے.اس نے ہر بھلائی فُتِحَ علينا في كل خير أبواب الربوبية والرحمانية والرحيمية کے لئے ہم پر ربوبیت ، رحمانیت اور رحیمیت ، * الحاشية.كما قال تعالى "يَوْمَبِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا ».منه حاشیہ جیسے کہ للہ تعالیٰ کا فرمان يَوْمَبِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا ، ہے.یعنی اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی.الزلزال : ۵
اعجاز المسيح ۱۲۰ اردو تر جمه و کثرت طرقها حتى خرج کے دروازے کھول دیئے ہیں اور اُن کی اتنی کثیر إحصاء ها من الطاقة البشرية.و راہیں ہیں کہ جن کا شمار انسانی طاقت سے باہر این تیسّر هذا للسابقين من أهل ہے.اور یہ سہولتیں پہلے دعوت و تبلیغ کرنے والوں التبليغ والدعوة وإن الأرض زلزلت لنا زلزالا.فأخرجت کو کہاں میسر تھیں.ہماری خاطر زمین شدّت سے أثــقــالا.وفجرت ہلا دی گئی.پس اس نے بوجھ کو باہر نکال دیا اور الأنهار.وسُجّرت البحار نہریں جاری کر دی گئیں اور دریا خشک ہو گئے.نئی وجُدّدت المراكب وعُطّلت نئی سواریاں ایجاد ہو گئیں اور اونٹنیاں بریکار کر دی العشار.و إن السابقين ما رأوا گئیں.پہلوں نے ایسی نعمتیں نہیں دیکھی تھیں جو ۱۵۹ كمثل ما رأينا من النعماء.وفى ہم نے دیکھیں.ہر قدم پر ایک نعمت ہے اور یہ كل قدم نعمة وقد خرجت من الإحصاء.ومع ذالك كثرت نعماء حد وشمار سے باہر ہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی موت القلوب و قساوة الأفئدة دلوں کی موت اور سنگدلی کی بہتات بھی ہوئی گویا كان الناس كلهم ماتوا ولم يبق سب لوگ مرگئے اور اُن میں معرفت کی روح نہ فيهم روح المعرفة.إلا قليل الذي هو كالمعدوم من الندرة.وإنا فهمنا مما ذكرنا من ظهور رہی.سوائے چند کے جو شاذ و نادر ہونے کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہیں.پس ان صفات کے الصفات.وتجلى الربوبية ظہور سے جن کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں ربوبیت والرحمانية والرحيمية كمثل رحمانیت اور رحیمیت کے روشن نشانوں کی الآيات.ثم من كثرة الأموات طرح تجلّی سے اور پھر کثرت اموات اور گمراہیوں وموت الناس من سم کے زہر کی وجہ سے لوگوں کے مرنے سے ہم نے الضلالات ان يوم الحشر جان لیا ہے کہ حشر و نشر کا دن قریب ہے بلکہ والنشر قريب بل على الباب.كماهو ظاهر من ظهور دروازے پر ہے.جیسا کہ یہ علامات اور اسباب کے ظہور سے ظاہر ہے.العلامات والأسباب.
اعجاز المسيح ۱۲۱ اردو تر جمه فإن الربوبية والرحمانية كيونكہ ربوبيت رحمانیت اور رحیمیت والرحيمية تموّجت كتموج سمندروں کے تلاطم کی طرح موجزن ہیں اور ظاہر البحار.وظهرت وتواترت ہو چکی ہیں اور پے در پے نازل ہو رہی ہیں اور (۱۶۰) وجرت كالأنهار.فلا شك أن دریاؤں کی طرح جاری ہیں.لہذا بلا شبہ اب حشر وقت الحشر والنشور قد أتى ونشر كا وقت آگیا ہے اور یہ سنت خیر الانام وقد مضت هذه السنة في (محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں گزر چکی ہے صحابة خير الورى.ولا شك اور بلا شبہ یہی زمانہ جزاء سزا کا دن ہے.اور أن هذا اليوم يوم الدين.ويوم حشر کا دن اور ربّ السَّماء کی مالکیت کا ، اور الحشر و يــوم مـالـكيّة ربّ السماء وظهور آثارها على قلوب أهل الأرضين.ولا شك زمین کے باسیوں کے دلوں پر ان صفات کے آثار کے ظہور کا دن ہے اور بلاشبہ یہ زمانہ أن اليوم يوم المسيح الحكم من أحكم الحَاكِمِينِ اللہ کی طرف سے صیح حکم کا زمانہ ہے اور یہ لوگوں کی ہلاکت کے بعد ایک الله أحكم الحاكمين.وإنه حشر بعد هلاك الناس وقد حشر ہے اور اس کا نمونہ ( حضرت ) عیسی اور مضی نموذجه فی زمن عیسی و حضرت خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے زمن خاتم النبيين.فتدبر ولا زمانے میں گزر چکا ہے.پس تدبر کر اور غافلوں تكن من الغافلين.الباب الخامس في تفسير إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں سے نہ ہو.پانچواں باب إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی تفسیر میں اعلم ان حقيقة العبادة التي يقبلها واضح ہو کہ وہ عبادت جسے اللہ تعالیٰ اپنے احسان المولى بامتنانه.هي التذلل التام سے قبول فرماتا ہے اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی برؤية عظمته وعلّوشانه.و عظمت اور اس کی بلند شان کو دیکھ کر مکمل فروتنی الثناء عليه بمشاهدة مننه
اعجاز المسيح ۱۲۲ اردو ترجمہ وأنواع احسـانـه.وإيثاره على اختيار کرنا نیز اس کی مہربانیاں اور قسم قسم کے احسان كل شيء بمحبة حضرته وتصوّر دیکھ کر اس کی حمد و ثناء کرنا ، اُس کی ذات سے محبت محامده وجماله ولمعانه.رکھتے ہوئے اور اُس کی خوبیوں اور جمال اور نور کا وتطهير الجنان من وساوس تصور کرتے ہوئے اُسے ہر چیز پر ترجیح دینا اور اُس کی جنتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے دل کو الجنّة نظرًا إلى جَنانه.ومن أفضل العبادات أن يكون شیطانوں کے وسوسوں سے پاک کرنا ہے.اور ١٢٢ الإنسان محافظا على الصلوات عبادات میں سب سے افضل یہ ہے کہ انسان پنجوقتہ نمازوں کی اوّل اوقات میں ادائیگی کی الخمس في أوائل أوقاتها.وأن محافظت کرے.اور فرض اور سنتوں کی ادائیگی پر يجهد للحضور والذوق مواظبت اختیار کرتے ہوئے حضور قلب، ذوق و والشوق وتـحـصـيـل بـركـاتـهـا.شوق اور نماز کی برکات کے حصول میں پوری طرح مواظبا على أداء مفروضاتها کوشاں رہے.کیونکہ نماز وہ سواری ہے جو بندے ومسنوناتها.فإن الصلاة مركب کو پروردگار عالم تک پہنچاتی ہے.ان نمازوں کے يوصل العبد إلى رب العباد.ذریعہ وہ بندہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں وہ فيصل بها إلى مقام لا يصل إليه عمده تيز رفتار گھوڑوں کی پشت پر سوار ہو کر بھی نہیں على صهوات الجياد.وصيدها پہنچ سکتا.ان نمازوں کا نخچیر ( یعنی ثمرات ) تیروں لا يصاد بالسهام.وسرها لا سے شکار نہیں کیا جا سکتا اور ان کی حقیقت قلموں يظهر بالأقلام.ومن التزم هذه كے ذریعے سے ظاہر نہیں ہوتی.جس شخص نے اس الطريقة فقد بلغ الحق طریق کو لازم پکڑا اُس نے حق اور حقیقت کو پا والحقيقة.وألفى الحِبَّ الذى لیا.اور اُس نے محبوب کو جو غیب کے پردوں هو في حُجب الغيب.ونجا من میں ہے پالیا اور شک و شبہ سے نجات حاصل الشك والريب.فتری کرلی.پس تو دیکھے گا کہ اُس کے دن روشن اور
اعجاز المسيح ۱۲۳ اردو تر جمه أيامه غُرَرًا.وكلامه دررا اُس کا کلام موتی اور اُس کا چہرہ چودھویں کا چاند (۱۶۳) ووجهه بدرًا.ومقامه صدرا ہے اور اس کا مقام صدرنشینی ہے.اور جو اللہ کی ومن ذلّ الله في صلواته أذلّ الله خاطر اپنی نمازوں میں فروتنی دکھائے ، اللہ اس کے له الملوك.و يجعل مالكًا هذا سامنے بادشاہوں کو جھکا دیتا ہے اور اس غلام کو المملوك.ثم اعلم أنّ الله حمد ذاته أولا فـــي قــولــــه مالک بنا دیتا ہے.پھر یہ بھی جان لو کہ اللہ نے اپنے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ قول الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ میں ثم حث الناس على العبادة سے پہلے اپنی ذات کی حمد بیان کی ہے پھر اُس نے بقوله " إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ اپنے ارشاد إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ نَسْتَعِينُ.ففى هذه إشارة کے ساتھ لوگوں کو عبادت کی ترغیب دلائی ہے.اور إلى أن العابد في الحقيقة هو اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ حقیقت میں وہی الذي يحمده حق الحمدة شخص عابد ہوتا ہے جو اس کی کماحقہ حمد کرتا فحاصل هذا الدعاء والمسألة.ہے.پس اس دعا اور التجا کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ ہر أن يجعل الله أحمد كل من اُس شخص کو احمد بنادیتا ہے جو عبادت میں لگا تصدى للعبادة.وعلى هذا كان رہے.بنا بریں یہ واجب اور ضروری تھا کہ اس من الواجبات.أن يكون أحمد اُمت کے آخر میں احمدِ اوّل سید الکونین في آخر هذه الأمة على قدم صلى اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر ایک احمد پیدا أحمل الأول الذى هو سيد الكائنات.ليفهم أن الدعاء ہو، تاکہ یہ سمجھا جائے کہ مذکورہ دعا ( جو سورۃ فاتحہ میں کی گئی ہے ) وہ مجیب الدعوات کی بارگاہ استجيب من حضرة مستجيب الدعوات.وليكون ظهورہ میں قبول ہوگئی ہے.اور تا اس احمد کا ظہور للاستجابة كالعلامات.فهذا هو استجابت دعا کے لئے بطور نشانات کے ہو.پس المسيح الذي كان وُعِد ظهوره یہی وہ صحیح ہے جس کا آخری زمانے میں ظہور کا الفاتحة : ٢ الفاتحة: ۵ ۱۶۴
اعجاز المسيح ۱۲۴ اردو تر جمه في آخر الزمان مكتوبا في وعدہ کیا گیا تھا جو سورۃ فاتحہ اور قرآن میں مکتوب الفاتحة وفى القرآن ثم في هذه ہے.پھر اس آیت میں یہ بھی اشارہ ہے کہ کسی الآية إشارة إلى أن العبد لا يمكنه بندے کی عبادت کی بجا آوری حضرت احدیت الإتيان بالعبودية.إلَّا بتوفيق من سے توفیق کے بغیر ممکن ہی نہیں.عبادت کی فروعات الحضرة الأحدية.ومن فروع میں سے یہ ہے کہ تو اس شخص سے جو تجھ سے دشمنی العبادة أن تحب من يُعاديك.رکھتا ہے محبت کرے جس طرح تو اپنے آپ سے كما تحب نفسك وبنيك.اور اپنے بیٹوں سے محبت کرتا ہے.اور یہ کہ تو لوگوں وأن تكون مقيلا للعثرات کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اُن کی خطاؤں متجاوزا عن الهفوات.وتعيش سے درگزر کرنے والا ہو اور پاک صاف قلب سلیم تقيَّا نـقـيــا ســليم القلب طيب اور پاک باطن اور وفا شعاری اور صدق وصفا کے ساتھ الذات.ووفيًا صفيًّا مُنزّها عن ۱۶۵ ذمائم العادات.وأن تكون اور تمام مذموم عادات سے منزہ زندگی بسر کرے.اور تو بغیر تکلفات و تصنع کے بعض وجودًا نافعًا لخلق الله بخاصية نباتات کی طرح فطرتی خاصیت کے ساتھ اللہ کی الفطرة كبعض النباتات.من غير مخلوق کے لئے نفع رساں وجود بن جائے.اور یہ التكلفات والتصنّعات.وأن لا کہ تو تکبر سے اپنے بھائی کو دکھ نہ دے.اور نہ ہی تؤذى اخيك بكبر منك ولا کسی بات سے اُسے مجروح کرے بلکہ تجھ پر یہ تجرحه بكلمة من الكلمات.بل عليك أن تجيب الأخ لازم ہے کہ اپنے ناراض بھائی کی بات کا جواب المغضب بتواضع ولا تحقره في تواضع سے دے اور تخاطب میں اُس کی تحقیر نہ المخاطبات.وتموت قبل أن کرے اور مرنے سے پہلے مرجائے اور اپنے تئیں تموت وتحسب نفسك من مردوں میں شمار کرے.اور جو بھی تیرے پاس الأموات.وتعظم كلّ من جاءك آئے اُس کی عزت کرے خواہ وہ چیتھڑوں میں ولو جاء ك في الأطمار لا فی آئے اور لباس فاخرہ میں نہ ہو اور تو ہر ایک کو
اعجاز المسيح ۱۲۵ اردو تر جمه الحلل والكسوات.وتُسلّم على السلام علیکم کہے خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے من تعرفه وعلى من لا تعرفه اور تو ہمدردی و غمخواری کے لئے ہمیشہ مستعدر ہے.وتقوم متصدّيًا للمواسات.الباب السادس چھٹا باب في تفسير قوله تعالى آیت اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی تفسیر میں اعلم أن هذه الآيات خزينة جان لو کہ یہ آیات نکات سے لبریز خزانہ اور مخالفت مملوة من النكات وحجّة باهرة کرنے والے مردوزن کے لئے ایک روشن حجت على المخالفين والمخالفات.ہیں.ہم ان کا بالصراحت ذکر کریں گے اور جو وسنذكرها بالتصريحات.براہین و دلائل اللہ نے ہمیں دکھائے ہیں وہ تجھ پر ونُرِيك ما أرانا الله من الدلائل بھی ظاہر کریں گے.پس ان آیات کی تفسیر مجھ والبينات.فاسمع منى تفسيرها لعلّ الله ينجيك من سے توجہ سے سنو تا اللہ تجھے باطل خیالات سے الخزعبيلات.أما قوله تعالى بچائے.جہاں تک اللہ تعالیٰ کے قول اِهْدِنَا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا تعلق ہے تو اس الحاشية: اعلم ان في آية انعمت عليهم تبشير للمؤمنين.واشارة الى ان الله حاشیہ.یادر ہے کہ آیت اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں مؤمنوں کے لئے بشارت ہے اور یہ اشارہ ہے کہ اللہ نے اعدلهم كـلـمـا اعطى للانبياء السابقين.ولذالك علم هذا الدعاء ليكون بشارة سابق انبیاء کو جو کچھ بھی عطا کیا ہے وہ سب کچھ ان کے لئے بھی تیار کر رکھا ہے.اسی لئے اُس نے ہمیں یہ دعا سکھائی للطالبين فلزم من ذالك ان يختتم سلسلة الخلفاء المحمدية على مثيل عيسى.تا کہ طالبوں کے لئے بشارت ہو.پس اس سے لازم آیا کہ خلفاء محـمـد یـہ کا سلسلہ مثیل عیسی پرختم ہو.تا کہ ليتم المماثلة بالسلسلة الموسوية والكريم اذا وعد وفا.منه سلسلہ موسویہ کے ساتھ مماثلت پوری ہو.اور کریم جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا بھی کرتا ہے.منہ الفاتحة : 4
اعجاز المسيح ۱۲۶ اردو تر جمه فمعناه أرنا النهج القويم.وثَبتنا کے معنی یہ ہیں اے اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھا اور على طريق يوصل إلى ہمیں اُس راستہ پر ثابت قدم فرما جو تیری جناب (۱۶۷) حضرتك.وينجى من عقوبتك.تک پہنچاتا ہو اور تیری سزا سے بچاتا ہو.جان ثم اعلم أن لتحصيل الهداية لے کہ صوفیاء کے نزدیک ہدایت حاصل کرنے طرقًا عند الصوفية مستخرَجةً کے کچھ طریق ہیں جو کتاب اور سنت سے مستنبط ہیں.اُن میں سے پہلا طریق دلیل اور حجت کے من الكتاب والسنة.أحـدهـا طلب المعرفة بالدليل والحجة.ساتھ طلب معرفت ہے.دوسرا طریق مختلف والثاني تصفية الباطن بأنواع الرياضة.والثالث الانقطاع إلى رياضتوں کے ذریعہ باطن کی صفائی ہے اور تیسرا الله وصفاء المحبة.وطلب طريق انقطاع الی اللہ اور محبت کا خالص ہونا ہے المدد من الحضرة بالموافقة اور موافقت تامہ اور نفی تفرقہ اور رجوع الی اللہ التامة وبنفي التفرقة.وبالتوبة اور تضرّع اور دعا اور عقدِ ہمت باندھ کر باری تعالیٰ إلى الله والابتهال والدعاء وعقد سے مدد طلب کرنا ہے.چونکہ تلاش ہدایت اور الهمة.ثم لما كان طريق طلب تصفیہ نفس کا طریق ائمہ اور امت کے ہدایت یافتہ الهداية والتصفية لا يكفي لوگوں کے وسیلہ کے بغیر اللہ تک پہنچنے کے لئے کافی للوصول من غير توسل الأئمة نہیں اس لئے خدا تعالیٰ محض اس قدر یعنی اهدِنَا والمهديّين من الأمة.ما رضى القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ تک دعا سکھانے پر الله سبحانه على هذا القدر من راضی نہیں ہوا بلکہ اس نے صِرَاطَ الَّذِينَ تعليم الدعاء.بل حث اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فرما کر برگزیدہ اور مجتہدین بقوله صِراطَ الَّذِينَ “على مرشدوں اور ہادیوں کی تلاش کی ترغیب دلائی تحسس المرشدين والهادين من یعنی رسولوں اور نبیوں کی.کیونکہ یہ گروہ ایسا ہے أهل الاجتهاد والاصطفاء من المرسلين والأنبياء.فإنهم قوم آثروا جنہوں نے جھوٹ اور فریب کے گھر پر حق و دار الحق على دار الزور و الغرور صداقت کے گھر کو مقدم کیا.۱۶۸
اعجاز المسيح ۱۲۷ اردو تر جمه وجذبوا بحبال المحبة إلى الله اور اللہ تعالیٰ کی طرف جونور کا سمندر ہے محبت کی بحر النور.وأخرجوا بوحي من تاروں سے کھینچے گئے.اور اللہ کی وحی اور اُس کی الله وجذب منه من أرض الباطل.کشش سے باطل کی زمین سے نکالے گئے.وہ وكانوا قبل النبوة كالجميلة نبوت سے قبل زیورات سے عاری حسینہ کی طرح العاطل.لا ينطقون إلا بإنطاق تھے.وہ اللہ کے بلائے بغیر نہیں بولتے اور وہ المولى.ولا يؤثرون إلا الذى صرف اور صرف اس چیز کو اختیار کرتے ہیں جو اُس ١٢٩ هو عنده الأولى.يسعون كل کی جناب میں بہتر ہو.وہ لوگوں کو ربانی شریعت کا اہل بنانے میں پوری کوشش کرتے ہیں.وہ السعى ليجعلوا الناس أهلا للشريعة الربانية.ويقومون على فرزندانِ شریعت کی ایسے طور پر کفالت کرتے ہیں جیسے ایک بیوہ اپنے بیٹوں کی.انہیں ایسی قوت ولدها كالحانية.ويُعطى لهم بیانیہ دی جاتی ہے جو بہروں کو شنوائی بخشتی ہے بيان يُسمِع الصُّمَّ ويُنزِل العُصْمَ.اور سفید ہرنوں کو اُتار لاتی ہے.اور انہیں ایسا دل وجنان يجذب بعَقْدِ الهمّة الأمم.عطا کیا جاتا ہے جو اپنے عقدِ ہمت سے امتوں کو إذا تكلّموا فلا يرمون إِلَّا صائبا.کھینچ لیتا ہے.جب وہ بات کرتے ہیں تو اُن کا تیر وإذا توجهوا فيُحيون مَيْتًا خائبا خطا نہیں جاتا اور جب توجہ کرتے ہیں تو نامراد يسعون أن ينقلوا الناس من مُردوں کو بھی زندہ کر دیتے ہیں.ان کی پوری الخـطـيـات إلى الحسنات.ومن کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو خطاؤں سے نکال المنهيات إلى الصالحات.ومن کر نیکیوں کی طرف اور منہیات سے صالحات الجهلات إلى الرزانة كى طرف منتقل کریں.اور اُن کا رُخ جہالتوں والحصات.ومن الفسق سے ہٹا کر وقار، متانت اور عقلمندی کی طرف والمعصية إلى العفة والتقات اور فسق و معصیت سے عفت اور تقویٰ کی جانب ومن أنكرهم فقد ضيّع نعمة پھیر دیں.جو شخص بھی اُن کا انکار کرے تو
اعجاز المسيح ۱۲۸ اردو تر جمه عُرضت عليه.وبعد مِن عين لازما اُس نے ایک ایسی بڑی نعمت کو ضائع کر دیا الخير وعن نور عينيه.وإن هذا جو اس کے سامنے پیش کی گئی تھی.اور وہ خیر کے چشمے اور اپنی آنکھوں کے نور سے دور چلا گیا.اور القطع أكبر من قطع الرحم یه قطع تعلق رحمی اور خاندانی تعلقات قطع کرنے والعشيرة.وإنهم ثمرات الجنة سے بھی بڑا ہے.مرسلین کے یہ گروہ تو جنت کے فويل للذي تركهم ومال پھل ہوتے ہیں.پس افسوس اور تف ہے اُس إلى الميرة.وإنهم نور الله و شخص پر جو انہیں چھوڑتا ہے اور کھانے پینے کی يُعطى بهم نور للقلوب وترياق چیزوں کی طرف مائل ہوتا ہے.وہ اللہ کا نور ہیں لسم الذنوب.وسكينة عند اور ان کے ذریعہ (لوگوں کے ) دلوں کو نور اور الاحتضار والغرغرة.وثبات عند گناہوں کے زہر کے لئے تریاق دیا جاتا ہے.اور الرحلة وترك الدنيا الدنية.جان کندنی اور غرغرہ کے وقت سکینت اور راحت أتظن أن يكون الغير كمثل هذه اور رحلت اور اس حقیر دنیا کو ترک کرنے کے وقت الفئة الـكـريـمة.كلا والذى ثبات عطا کیا جاتا ہے.کیا تو گمان کرتا ہے کہ کوئی أخـرج الـعـدق مـن الـجـريـمـة | دوسرا بھی اس معزز بزرگ گروہ جیسا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں.قسم ہے اس ذات کی جس نے گٹھلی سے ولذالك علم الله هذا الدعاء کھجور پیدا کی یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی غایت من غاية الرحمة.وأمر المسلمين درجہ رحمت سے یہ دعا سکھائی اور مسلمانوں کو حکم دیا أن يطلبوا صراط الذين أنعم کہ وہ ان لوگوں کی راہ طلب کریں جن پر حضرت عليهم من النبيين والمرسلين من احدیت کی طرف سے انعام کیا گیا نبیوں اور الحضرة.وقد ظهر من هذه الآية رسولوں میں سے.اس آیت سے ہر اس حص پر على كل من له حظ من الدراية.جے عقل و دانش سے کچھ بھی حصہ ملا ہو یہ واضح ہو أن هذه الأمة قد بُعثتُ على قدم جاتا ہے کہ یہ امت انبیاء کے ( نقش ) قدم پر الأنبياء.وإن من نبي إلا له مثیل کھڑی کی گئی ہے اور کوئی نبی نہیں مگر اس کا اے
اعجاز المسيح ۱۲۹ اردو تر جمه في هؤلاء.ولولا هذه المضاهاة مثيل اِس اُمت میں پایا جاتا ہے.اگر یہ مشابہت والسواء.لبطل طلب كمال اور مماثلت نہ ہوتی تو (انبیاء ) سابقین کے کمال کی السابقين وبطل الدعاء.فالله طلب عبث ہوتی اور یہ دعا باطل ٹھہرتی.پس اللہ جس الذي أمرنا أجمعين.أن نقول اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ نے ہم سب کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم اِهْدِنَا الصِّرَاطَ مصلين وممسين ومصبحين.الْمُسْتَقِیم کہیں اور نمازیں پڑھتے اور دعائیں وأن نطلب صراط الذین انعم کرتے ہوئے شام اور صبح کے اوقات میں منعم عليهم من النبيين والمرسلين.علیه گروه یعنی نبیوں اور فرستادوں کی راہ تلاش کریں.أشار إلى أنه قد قدر من الابتداء.اُس نے اِس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اس نے أن يبعث في هذه الأمة بعض الصلحاء على قدم الأنبياء.وأن ابتداہی سے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ وہ اس اُمت میں يستخلفهم كما استخلف الذين بعض صلحاء کو انبیاء کے قدم پر مبعوث فرمائے گا اور من قبل من بنى إسرائيل.وإنّ انہیں اسی طرح خلیفہ بناوے گا جیسا کہ اُس نے هذا لهو الحق فاترك الجدل پہلے بنی اسرائیل میں سے خلفاء بنائے تھے یقیناً الفضول والأقاويل.وكان غرض سو یہی حق ہے اس لئے فضول بحث اور قیل و قال چھوڑ.(۱۷۲) الله أن يجمع في هذه الأمة کمالات متفرقة.وأخلاق اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس امت میں متفرق متبدّدة.فاقتضتُ سنّته القديمة کمالات اور گونا گوں اخلاق جمع فرمادے.پس أن يعلم هذا الدعاء.ثم يفعل ما اس کی سنت قدیمہ نے تقاضا کیا کہ وہ یہ دعا شاء.وقد سمى هذه الأمة خير سکھائے پھر جو چاہے کرے.اس امت کا نام الأمم في القرآن.ولا يحصل قرآن کریم میں خَیرُ الأمم رکھا گیا ہے.اور یہ خير إلا بزيادة العمل والإيمان والعلـم والـعـرفـان.وابتغاء خیر اُسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جبکہ عمل وایمان مرضات الله الرحمن اور علم و عرفان میں اضافہ ہو اور خدائے رحمن کی وكذالك وعد الذین خوشنودی طلب کی جائے.اور اسی طرح اُس نے
اعجاز المسيح ۱۳۰ اردو تر جمه آمنوا وعملوا الصالحات مؤمنوں اور اعمال صالحہ بجالانے والوں سے یہ ليستخلفنهم في الأرض بالفضل وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے فضل وعنایت سے انہیں والعنايات.كما استخلف الذين اس زمین میں اُسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح من قبـلهـم مـن أهـل الـصــلاح والتقاة.فثبت من القرآن أن الخلفاء اُس نے اُن سے پہلے نیکوکاروں اور تقویٰ من المسلمين إلى يوم القيامة شعاروں کو خلیفہ بنایا تھا.پس قرآن سے یہ ثابت وانه لن يأتى أحد من السماء بل ہو گیا کہ روز قیامت تک مسلمانوں میں سے خلفاء يُبعثون من هذه الأمة.ومالك آتے رہیں گے اور یہ کہ آسمان سے ہرگز کوئی نہیں ﴿۱۷﴾ لا تؤمن ببيان الفرقان.أَتَرَكُتَ آئے گا بلکہ اسی امت سے مبعوث ہوں گے.تجھے کیا ہو گیا ہے کہ قرآنِ کریم کے بیان پر ایمان نہیں من العرفان.وقد قال الله مِنكُمُ.وما قال "من لاتا.کیا تو نے کتاب اللہ کو چھوڑ دیا ہے یا پھر تم میں بني إسرائيل.وكفاك هذا إن عرفان کا کوئی ذرہ باقی نہیں رہا.اللہ نے مِنكُم كنت تبغى الحق وتطلب فرمایا ہے مِنْ بَنِي إِسْرَائِیل نہیں فرمایا.اگر تو حق الدليل.أيها المسكين اقرء کا متلاشی اور دلیل کا طلب گار ہے تو تیرے لئے كتاب الله أم ما بقى فيك ذرّة القرآن ولا تمش كالمغرور ولا یہی کافی ہے.اے مسکین ! ( گولڑوی) قرآن پڑھ تبعد من نور الحق لئلا يشكو منك إلى الحضرة سورة الفاتحة اور مغرور کی طرح نہ چل ، نور حق سے دور نہ ہوتا کہ وسورة النور.اتق الله ثم اتق سورۃ فاتحہ اور سورۃ نور اللہ کے حضور تیری شکایت نہ الله ولا تكن أوّل كافر بآیات کریں.اللہ سے ڈر اور پھر اللہ سے ڈراورسورۃ نور النور والفاتحة.لكيلا يقوم اور فاتحہ کی آیات کا اولین کافر نہ بن تا تیرے عليك شاهدان فی خلاف حضرت باری میں دوگواہ نہ کھڑے ہو الحضرة.وأنت تقرأ قوله وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ ! جائیں.اور اس کا قول وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ وتقرأ قوله لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ ففكّرُ آمَنُوْا مِنْكُمُ اور اس کا قول لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ تم ، ۲ (النور : ۵۶)
اعجاز المسيح ۱۳۱ اردو تر جمه ،، (۷۴) في قوله " مِنْكُمْ فی سورة پڑھتے ہو.پس سورہ نور میں جو مِنكُم آیا ہے اس النور واترك الظالمين و ظنهم.پر غور کر اور ظالموں اور اُن کے ظن و گمان کو چھوڑ.ألم يأن لك أن تعلم عند قراءة کیا تیرے لئے وہ وقت نہیں آگیا کہ ان آیات کو هذه الآيات.أن الله قد جعل الخلفاء كلهم من هذه الأمة پڑھتے وقت یہ جان سکے کہ اللہ نے اپنی عنایات بالعنايات.فكيف يأتى المسيح محض سے تمام خلفاء کو اسی اُمت میں سے بنایا ہے.الموعود من السماوات پس مسیح موعود آسمانوں سے کیسے آئے گا.کیا أليس المسيح الموعود عندك تیرے نزدیک مسیح موعود خلفاء میں سے نہیں؟ پھر من الخلفاء.فكيف تحسبه من تو کیسے خیال کرتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے اور بني إسرائيل ومن تلك الأنبياء ان کے انبیاء میں سے ہوگا ؟ کیا تو قرآن کو چھوڑتا أتترك القرآن وفي القرآن کل ہے حالانکہ ہر قسم کی شفاء قرآن کریم میں ہے یا الشفاء.أو تغلبت عليك تیری بدبختی تجھ پر اتنی غالب آچکی ہے کہ تو عمدا شقوتك.فتترك متعمدًا طريق ہدایت کے طریق کو چھوڑ رہا ہے.کیا تو اس سورۃ الاهتداء.ألا ترى قوله تعالى كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ میں اللہ تعالیٰ کے قول كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ في هذه السورة.فوجب أن يكون مِنْ قَبْلِهِمْ پر غور نہیں کرتا؟.پس لازم ہے کہ المسيح الآتي من هذه الأمة.لا آنے والا صحیح اسی امت میں سے ہو ، نہ کہ ضرور ۱۷۵ من غيرهم بالضرورة.فإن امت کے باہر سے.کیونکہ لفظ كَمَا مشابہت اور لفظ ”كما يأتي للمشابهة مماثلت کے لئے آتا ہے.مشابہت کسی قدر مغایرت کا تقاضا کرتی ہے جیسا کہ یہ بدیہی امر ہے کہ کوئی والمماثلة.والمشابهة تقتضى قليلا من المغايرة.ولا يكون چیز خود اپنے مشابہ نہیں ہوا کرتی.لہذا نص قطعی شيء مُشابة نفسه كما هو من البديهيات.فثبت بنص قطعی ان سے یہ ثابت ہو گیا کہ جس عیسی کا انتظار کیا جا رہا عيسى المنتظر من هذه الأمة و ہے وہ اس اُمت میں سے ہوگا.اور یہ امر یقینی اور لے جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.(النور : ۵۶)
اعجاز المسيح ۱۳۲ اردو تر جمه هذا يقيني ومنزّة عن الشبهات شبہات سے پاک ہے.قرآن شریف نے یہی کہا هذا ما قال القرآن ويعلمه ہے اور علماء اسے جانتے ہیں.پھر تم اس (کھلی بات) العالمـون.فبای حدیث بعدہ کے بعد کس بات پر ایمان لاؤ گے.قرآن کریم تؤمنون.وقد قال القرآن إن عیسی نبی الله قد مات.ففكّرُ نے تو کہہ دیا ہے کہ اللہ کے نبی عیسی" وفات پاچکے في قوله فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي ، ولا ہیں.پس اللہ کے قول فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي پر غور تُـخـــي الأموات.ولا تـنـصــر کر اور مُردوں کو زندہ نہ کر.کذب بیانیوں اور النصارى بالأباطيل والخزعبیلات بیہودہ کہانیوں سے عیسائیوں کی مدد نہ کر.اُن کے وفتَنُهم ليست بقليلة فلا تزِدُها فتنے کم نہیں.پس اپنی جہالتوں سے ان میں اضافہ بالجهلات.وإن كنت تحت نہ کر.اگر تجھے کسی نبی کی زندگی پسند کرنا ہے تو پھر حياة نبـي فـآمِنُ بحياة نبينا خير خير الكائنات ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی الكائنات.وما لك أنك زندگی پر ایمان لا.تجھے کیا ہو گیا ہے کہ وہ جو ۱۷۲۶ تحسب مَيْتًا مَن كان رحمة رحمة للعالمین ہے اُسے تو فوت شدہ خیال کرتا للعالمين.وتعتقد أن ابن مريم ہے اور ابن مریم کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتا ہے من الأحياء بل من المُحيين کہ وہ زندوں میں سے بلکہ زندہ کرنے والوں میں انظُرُ إلى النور“ ثم انظر إلى "الفاتحة“.ثم ارجع البصر ليرجع البصر بالدلائل سے ہے.سورہ نور پر نگاہ ڈال پھر سورہ فاتحہ پر نظر ڈال پھر نظر کو پھیر تا نظر دلائل قاطعہ کے ساتھ لوٹے.کیا تو اس سورۃ میں صِرَاطَ الَّذِينَ القاطعة.ألست تقرأ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ نہیں پڑھتا.اس کے بعد تو في هذه السورة.فأَنَّى تُؤفَك بعد کہاں بہک رہا ہے.کیا تو اپنی دعا کو بھول جاتا ہے هذا أتنسى دعائك أو تقرأ يا أسے غفلت سے پڑھتا ہے؟ کیونکہ تو نے اپنے بالغفلة.فإنك سألت عن رب سے اس دعا اور التجا میں یہ طلب کیا تھا کہ لے پس جب تو نے مجھے وفات دے دی.(المائدة: ۱۱۸ ) الفاتحة:
اعجاز المسيح السرعة.مع أنك تقرأه في ۱۳۳ اردو تر جمه ربك فى هذا الدعاء والمسألة بنى اسرائیل کے نبیوں میں سے ایسا کوئی نبی نہ أن لا يغادر نبيًّا من بنى إسرائيل رہنے دے مگر اُس کا مثیل اس اُمت میں مبعوث إلا ويبـعـث مثيله في هذه الأمة.فرمائے.تجھ پر افسوس! کیا تو اپنی دعا کو اتنی جلدی وَيُحَك.أَنَسِيتَ دعاء ك بهذه بھول گیا باوجود اس کے کہ تو اسے ( دن میں ) پانچ الأوقات الخمسة.عجبتُ اوقات میں پڑھتا ہے.مجھے تجھ پر انتہائی تعجب (۱۷۷) منك كل العجب.آهذا ہے.کیا یہ ہے تیری دعا؟ اور یہ ہیں تیرے دعاؤك.وتلك آراؤك.خيالات؟ قرآن میں سے سورۃ فاتحہ اور سورۃ نور پر انظر إلى الفاتحة وانظر إلى غور كر - قرآنی شہادت کے بعد کس گواہ کی گواہی سورة النور من الفرقان وأتى قبول کی جائے گی.تو اُس شخص کی طرح مت بن شاهد يُقبل بعد شهادة القرآن جس نے خدا کے خوف کا ظاہری و باطنی احساس فلا تكن كالذى سرى إيجاس ترک کر دیا بلکہ بے حیائی کو اپنا لباس اور شعار خوف الله واستشعاره.وتَسَربَل بنایا.کیا تو ان لوگوں کی خاطر کتاب اللہ کو چھوڑ لباس الوقاحة وشِعاره.أَتَترُكُ كتاب الله لقوم تركوا الطريق.دے گا جنہوں نے راہ حق چھوڑی ہوئی ہے اور تحقیق اور گہرے غور و فکر کو مکمل نہیں کیا.ان کی راہ وما كملوا التحقيق والتعميق.وإن طريقهم لا يوصل إلى مطلوب تک نہیں پہچاتی اور تو حید اور پیارے اللہ کی المطلوب.وقد خالف التوحيد راہوں کے مخالف ہے.پس تو سخت راستہ کو نرم وسُبُل اللـه الـمحبـوب.فلا خیال نہ کر اگر چہ قدموں کی کثرت نے اسے بالکل تحسبُ وَعُـرًا دَمِنًا وَإِنْ دمَّتَه ہموار کر دیا ہو اور خواہ بھٹ تیتروں کے جھنڈ کے كثير من الـخـطـا.وإن اهتدت جھنڈ اُس طرف گئے ہوں کیونکہ حقیقی ہدایت تو اللہ إليها أبابيل من القطا.فإنّ هُدى کی ہدایت ہی ہے.قرآنِ کریم نے تو مسیح کی وفات الله هو الهدى.وإن القرآن شهد (۷۸) على موت المسيح.وأدخله في پر شہادت دے دی ہے اور بیان صریح سے اُسے الأموات بالبيان الصريح.وفات یافتگان میں شامل کیا ہے.تجھے کیا ہو گیا
اعجاز المسيح ۱۳۴ اردو تر جمه مالك ما تفکر فی قولہ ہے کہ تو قول خدا فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى اور قَدْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي ، وفي قوله خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ پر غور نہیں کرتا.: قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ تجھے کیا ہو گیا ہے کہ فرقان حمید کی راہ اختیار نہیں وما لك لا تختار سبيل الفرقان کرتا اور دوسری راہیں تجھے خوش کرتی ہیں حالانکہ وسَرَّك السُّبُلُ.وقد قال فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوْتُوْنَ = فما لكم لا تفكرون.وقال لكم في اُس نے تو فرمایا ہے کہ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ.پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ غور وفکر نہیں کرتے.مزید براں اس نے فرمایا ہے کہ فيها مستقر و متاع إلى حين.فكيف صار مستقر عیسیٰ فی تمہارے لئے زمین میں ایک عرصہ تک قیام اور استفادہ السماء أو عرش ربّ العالمین.مقدر ہے.پھر عیسی کا مستقر آسمان میں یا رَبّ إن هذا إلَّا كذب مبين.وقال العَالَمِين کا عرش کیونکر ہو گیا ؟ یہ تو صریح جھوٹ سبحانه اَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءِ ہے.اللہ سُبْحَانَه و تعالى نے فرمایا ہے فكيف تحسبون عيسى من أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءِ پھر تم عیسی کو الأحياء.الحياء الحياء.یا عباد زندوں میں کیونکر سمجھتے ہو.شرم ! شرم ! اے بندگانِ الرحمن القرآن القرآن فاتقوا خدا ! قرآن کو پکڑو.اللہ سے ڈرو اور قرآن کو نہ الله ولا تتركوا الفرقان إنه چھوڑو یہ وہ کتاب ہے جس کے متعلق انس و جن كتاب يُسأل عنه إنسٌ وجان.وإنكم تقرء ون الفاتحة في سے باز پرس ہوگی تم نماز میں سورہ فاتحہ پڑھتے الصلاة.ففكروا فيها يا ذوى ہو پس اے اہلِ دانش ! تم اس میں غور و فکر کرو.کیا الحصاة.ألا تجدون فيها آية تم اس میں آیت صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ عَلَيْهِمُ نہیں پاتے.پس تم ان لوگوں کی طرح لے پس جب تو نے مجھے وفات دے دی.(المائدۃ: ۱۱۸) ☑° یقینا اس سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.(ال عمران: ۱۲۵) سے تم اسی میں جیو گے اور اسی میں مرو گے.(الاعراف: ۲۶) ، وہ (سب) مُردے ہیں نہ کہ زندہ.(النحل: ۲۲) ه الفاتحة : ۷ 129
اعجاز المسيح ۱۳۵ اردو تر جمه فلا تكونوا كالذين فقدوا نور | مت ہو جاؤ جنہوں نے اپنی آنکھوں کا نور کھو دیا.عينيهم.وذهب بما لديهم.اور جو اُن کے پاس تھا وہ جاتا رہا.تم پر افسوس! کیا ويحكم وهل بعد الفرقان دلیل قرآن کریم کے بعد بھی کوئی اور دلیل ہے یا کوئی أو بقى إلى مفرّ من سبيل.أيقبَل اور راہ فرار باقی رہ جاتی ہے.کیا تمہاری عقل اس عقلكم أن يبشر ربُّنا فى هذا بات کو قبول کرتی ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس دعا میں الدعاء.بأنه يبعث الأئمة من تو يه بشارت دے کہ وہ اس امت میں ان لوگوں یہ هذه الأمة لمن يريد طریق کے لئے جو ہدایت کی راہ چاہتے ہیں ائمہ مبعوث الاهتداء.الذين يكونون كمثل کرے گا جو برگزیدہ اور چنیدہ ہونے کے لحاظ سے أنبياء بني إسرائيل في الاجتباء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہوں گے اور وہ ہمیں والاصطفاء.ويأمرنا أن ندعو أن تو یہ حکم دے کہ ہم بنی اسرائیل کے انبیاء جیسا بننے نكون كأنبياء بني إسرائيل.ولا کی دعا کریں اور بنی اسرائیل کے نكون كأشقياء بني إسرائيل.ثم بدبختوں کی طرح نہ بنیں پھر اس کے بعد وہ خدا بعد هذا يدعنا ويُلقينا في وهاد الحرمان.ويرسل إلينا رسولا من ہمیں دھکے دے کر محرومی کے گڑھوں میں ڈال دے اور بنی اسرائیل کا ایک رسول ہماری طرف بني إسرائيل وينسى وعده كل بھیج دے اور اپنے وعدے کو بالکل بھول جائے.النسيان.وهل هذا إلا المكيدة ى لا يُنسب إلى الله المنان یہ ایسا کھلا کھلا فریب ہے جسے منان خدا کی طرف ۱۸۰ التي منسوب نہیں کیا جاسکتا.اللہ نے اس سورۃ میں تین وإن الله قد ذكر في هذه السورة ثلاثة أحزاب مـن الـذيـن أنـعـم گروہوں کا ذکر کیا ہے مُـنْـعَـم عَلَيْهم كا ، اور عليهم واليهود والنصرانيين.یہودیوں کا اور نصرانیوں کا گروہ.اور ہمیں ترغیب ورَغْبَنا في الحزب الأوّل منها دی کہ ان میں سے پہلے گروہ میں شامل ہوں اور ونهى عن الآخرين.بل حثنا على دوسرے دوگر ہوں سے منع فرمایا بلکہ ہمیں دعا اور الدعاء والتضرع والابتهال تضرع اور ابتہال کی تحریص دلائی تا کہ
اعجاز المسيح ۱۳۶ اردو تر جمه لنكون من المنعم عليهم لا من هم مُنْعَم عَلَيْهِم بن جائیں اور مَغْضُوب المغضوب عليهم وأهل عَلَيْهِم اور ضالین نہ بنیں.قسم ہے اُس ذات کی الضلال.ووالذى أنزل المطر جس نے بادلوں سے بارش نازل کی اور شگوفوں من الغمام.وأخرج الثمر من سے پھل پیدا کئے یقیناً اس آیت صراط الذين الأكمام.لقد ظهر الحق من هذه انعمت...الخ ) سے حق ظاہر ہو گیا ہے اور کوئی الآية.ولا يشك فيه من أُعطى بھی شخص جسے ذرا بھی عقل عطا کی گئی ہو اس میں له ذرة من الدراية.وإن الله قد شک نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ نے پوری وضاحت مـن عـلـيـنـا بالتصريح والإظهار سے یہ امور کھول کر ہم پر بہت احسان فرمایا ہے اور وأماطَ عنّا وَعُثاء الافتكار.ہم سے غور و فکر کی مشقت دور کر دی ہے.اس لئے فوجب على الذين يُنَنِضون اُن لوگوں پر جو سانپ کی طرح اپنی زبانیں ہلا نـضـنـضـة الـصـل.ويُحملقون رہے ہیں اور شکار کو جھانکنے والے باز کے تاڑنے حمـلـقـة البـازی المطل.ان لا کی طرح آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے ہیں اُن پر واجب (۱۸۱) يُعرضوا عن هذا الإنعام ولا ہے کہ وہ اس انعامِ الہی سے اعراض نہ کریں اور يكونوا كالأنعام.وقد عَلِقَ بقلبی چوپاؤں جیسے نہ نہیں.یہ بات میرے دل میں بیٹھ أن الفاتحة تأسُوا جراحهم.گئی ہے کہ سورۃ فاتحہ اُن کے زخموں کا علاج کرتی وتريش جناحهم.وما من سورة فى ہے اور ان کے بازوؤں کو پر بخشتی ہے اور قرآن القرآن إلا هي تكذبهم فى هذا كريم كى ہر سورت ہی اس عقیدہ (حیات مسیح ) میں کریم کی الاعتقاد فاقرء مِمّا شئت من اُن کی تکذیب کرتی ہے.اس لئے کتاب اللہ میں كتاب الله يُريك طريق الصدق سے جہاں سے چاہو پڑھ لو وہ تمہیں صدق وسداد کا والسداد.ألا ترى أن سورة بني إسرائيل ہی طريق دکھائے گی.کیا تو نہیں دیکھتا کہ سورۃ بنی يمنع المسيح أن يرقى في اسرائیل مسیح کو آسمان پر چڑھنے سے روک رہی ہے السماء، وأن آل عمران تعده أن اور سورۃ آل عمران اُن سے وعدہ کرتی ہے کہ اللہ ا بنی اسرائیل: ۹۴
اعجاز المسيح ۱۳۷ اردو تر جمه الله مُتَوَفِّيه وناقله إلى الأموات | انہیں طبعی وفات دے گا.اور زندوں سے مُردوں من الأحياء.ثم إن المائدة تبسُط کی طرف منتقل کرے گا.پھر سورۃ مائدہ اُن کے له مـائـدة الوفاة.فاقرأ فَلَمَّا لئے وفات کا مائدہ بچھا رہی ہے.اگر تو شبہات تَوَفَّيْتَنِي إِن كنت في حرام بعد المنيّة.وحرام على الشبهات.ثم إن الزمر يجعله میں مبتلا ہے تو فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي پڑھ.پھر مِن زُمَرٍ لا يعودون إلى الدنيا سورة زمر انہیں اس زمرے میں شامل کرتی ہے جو الدنيّة.وإن شئت فاقرأ اس حقیر دنیا کی طرف لوٹتے نہیں.اگر چاہو تو آیت (۱۸۲) فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ کو الْمَوْتَ.واعلم أن الرجوع پڑھ لو اور جان لو کہ موت کے بعد واپسی حرام ہے.قرية أهلكها الله أن تُبعَث قبل اور جس قریہ کو اللہ نے ہلاک کر دیا ہو اس پر قطعاً يوم النشور.وأما الإحياء بطريق حرام ہے کہ وہ حشر نشر کے دن سے پہلے زندہ کی المعجزة فليس فيه الرجوع إلى جاۓ لیکن معجزہ کے طور پر زندہ ہونے میں ، دنیا الدنيا التي هــی مـقـام الظلم جو کہ ظلم اور جھوٹ کا مقام ہے کی طرف واپسی نہیں والزور.ثم إذا ثبت موت ہوتی.پھر جب مسیح کی موت نص صریح سے المسيح بالنص الصريح.فأزال ثابت ہوگئی تو اللہ نے فصیح بیان کے ساتھ اُس کے الله وَهُـم نـزوله من السماء بالبيان الفصيح.وأشار في سورة آسمان سے نزول کے وہم کا ازالہ کر دیا اور سورہ نور النور والفاتحة.أن هذه الأمة اور فاتحہ میں اشارہ فرما دیا کہ یہ امت ظلّی طور پر يرث أنبياء بني إسرائيل على بنى اسرائیل کے انبیاء کی وارث ہوگی.پس واجب.الطريقة الظلية.فوجب أن يأتى ہے کہ آخری زمانے میں اس اُمت میں بھی مسیح في آخر الزمان مسيح من هذه آئے.جس طرح سلسلہ موسویہ کے آخر میں عیسیٰ الأمة.كما أتى عيسى ابن مريم ابن مریم آئے.پس موسی اور محمد.خدائے في آخر السلسلة الموسوية.فإن موسى ومحمدًا عليهما صلوات | رحمان ان دونوں پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے.سے پھر وہ جس کی موت کا حکم جاری کر چکا ہوتا ہے اُس کی روح کو روکے رکھتا ہے.(الزمر: ۴۳) ال عمران: ۵۶ المائدة: ۱۱۸
اعجاز المسيح ۱۳۸ اردو ترجمہ الرحمن متماثلان بنص | نَصِ قرآنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مثیل ۱۸۳ الفرقان.وإن سلسلة هذه ہیں.اور یہ سلسلہ خلافت محمد یہ اُس سلسلہ خلافت الخلافة تشابه سلسلة تلك موسویہ سے مشابہ ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں الخلافة.كما هي مذكورة في مذکور ہے اور اس میں کسی دو کا اختلاف نہیں.القرآن.وفيها لا يختلف اثنان وقد خلفائے موسیٰ کے سلسلہ کی صدیاں چودھویں کے اختتمت مئات سلسلة خلفاء موسى على عيسى كمثل عدة چاند کی گنتی کے مطابق حضرت عیسی پر ختم ہو أيام البدر.فكان من الواجب أن گئیں.اس لئے ضروری تھا کہ اس اُمت کا مسیح يظهر مسيح هذه الأمة فى مدة بھی اتنی ہی مقررہ مدت میں ظاہر ہو.قرآن کریم هي كمثل هذا القدر.وقد أشار نے آیت لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ أَنْتُمْ إليه القرآن في قوله اَذِلَّةٌ میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے اور جیسا کہ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ اجل علماء پر یہ امرمخفی نہیں کہ قرآن کریم ذوالوجوہ كما لا يخفى على العلماء ہے (یعنی اپنے اندر کئی مفہوم رکھتا ہے ) پس اس الأجلة.فالمعنى الثاني لهذه جگہ اس آیت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ الآية في هذا المقام ان الله ان صدیوں کے اختتام پر جن کی گنتی بدر کامل کے ينصر المؤمنين بظهور المسيح دنوں کے مشابہ ہے مسیح موعود کے ظہور سے إلى مِنِينَ تُشابَهُ عِدْتُها أيام البدر مؤمنوں کی مدد فرمائے گا اور مومن اُس زمانے میں التام.والمؤمنون أذلّة في تلك حقیر ہوں گے.پس اس آیت پر غور کرو کہ اذِنَّةٌ و إن القرآن ذو الـوجـوه الأيام.فانظر إلى هذه الآية كيف کس طرح اسلام کے ضعف کی طرف اشارہ کر رہی تشير إلى ضعف الإسلام.ثم ہے.پھر یہ آیت خدائے علیم کی مقررہ کردہ مدت تشير إلى كون هلاله بدرًا في أجل مسمى من الله العلام.كما کے اندر ہلال کے بدر بننے کی طرف بھی اشارہ هو مفهوم من لفظ البدر کرتی ہے.جیسا کہ لفظ بدر کا یہی مفہوم ہے.لے یقینا اللہ بدر میں تمہاری نصرت کر چکا ہے جبکہ تم کمزور تھے.(ال عمران : ۱۲۴) ۱۸۴
اعجاز المسيح ۱۳۹ اردو تر جمه فالحمد لله على هذا الافضال | پس اس فضل و انعام پر اللہ کے لئے ہی سب والإنعام.وحاصل ما قلنا في هذا حمد ہے.پس اس باب میں ہماری گفتگو کا ماحصل الباب.أن الفاتحة تبشر بكون یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ رب الارباب کے فضل سے مسیح المسيح من هذه الأمة فضلا من کے اس امت میں سے ہونے کی بشارت دیتی ہے.رب الأرباب.فقد بُشِّرُنا من پس سورۃ فاتحہ کے ذریعے ہمیں یہ خوشخبری دی گئی الفاتحة بأئمةٍ منا هم كأنبياء بنی ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہم میں ائمہ تو إسرائيل.وما بُشِّرُنا بنزول نبی ہوں گے لیکن آسمان سے کسی نبی کے نازل ہونے من السماء فتَدبَّرُ هذا الدليل کی ہمیں بشارت نہیں دی گئی.پس اس دلیل پر غور وقد سمعت من قبل أن سورة کر.تو اس سے پہلے سُن چکا ہے کہ سورہ نور نے النور قد بشرتنا بسلسلة خلفاء ہمیں ان خلفاء کے سلسلہ کی بشارت دی ہے جو تشابه سلسلة خلفاء الكليم.(موسى) کلیم اللہ کے سلسلہ خلفاء کے ساتھ وكيف تتم المشابهة من دون أن مشابہت رکھیں گے اور یہ مشابہت کلیم اللہ کے (۱۸۵) يظهر مسيح كمسيح سلسلة سلسلہ کے مسیح کی طرح نبی کریم ع کے سلسلے الـكـلـيـم فـي آخـر سلسلة النبي الكريم.وإنا آمنا بهذا الوعد فإنه کے آخر میں ایک مسیح کے ظہور کے بغیر کس طرح من رب العباد.وإن الله لا يخلف الله لا يخلف پوری ہو پوری ہوسکتی ہے.ہمارا اس وعدہ پر ایمان ہے کیونکہ یہ وعدہ ربّ العباد کی طرف سے ہے اور اللہ الميعاد.والعجب من القوم أنهم ما نظروا إلى وعد حضرة الكبرياء وعدہ خلافی نہیں کیا کرتا.اس قوم پر تعجب ہے کہ.وهل يُوفّـى ويُنجز إلَّا الوعد انہوں نے حضرت کبریاء کے وعدہ کی طرف نظر ہی فلينظروا بالتقوى والحياء.وهل نہیں کی اور خدائی وعدہ تو اٹل ہوتا ہے اور ضرور پورا في شرعة الإنصاف أن ينزل ہوتا ہے.پس انہیں تقویٰ اور حیا کے ساتھ غور کرنا المسيح من السماء ويُخلف چاہیئے.کیا یہ طریق انصاف ہے کہ مسیح کو آسمان سے وعد مماثلة سلسلة الاستخلاف نازل کیا جائے اور استخلاف کے سلسلے کی مماثلت کے
۱۸۶ اعجاز المسيح ۱۴۰ اردو تر جمه وإن تشابه السلسلتين قد وجب وعد.عدے کی خلاف ورزی کی جائے.یقیناً خدائے بحكم الله الغيور.كما هو مفهوم غیور کے حکم سے ان دونوں سلسلوں کی مشابہت واجب ہے جیسا کہ سورہ نور میں گما کے لفظ سے من لفظ ”كَما في سورة النور.الباب السابع یہی مفہوم ظاہر ہوتا ہے.ساتواں باب غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کی تفسیر میں في تفسير غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اعلم أسعدك الله أن الله قسم اللہ تعالیٰ تجھے سعادت بخشے ، جان لے کہ اللہ تعالیٰ اليهود والنصارى فى هذه السورة نے اس سورہ میں یہود اور نصاریٰ کو تین قسموں میں على ثلاثة أقسام.فرغبنا فى تقسیم کیا ہے.ان میں سے ایک قسم کی طرف اُس قسم منهم وبشر به بفضل نے ہمیں ترغیب دلائی اور اپنے فضل و کرم سے وإكرام.وعلّمنا دعاء النكون اُس کے حصول کی بشارت بھی دی.اور ہمیں ایک كمثل تلك الكرام من الأنبياء دعا سکھائی تا کہ ہم بھی ان بزرگ نبیوں اور عظیم والرسل العظام.وبقى القسمان رسولوں کی طرح بن جائیں.باقی جو دو اقسام ہیں الآخران.وهما المغضوب وہ یہود کے مَغْضُوبِ عَلَيْهِم اور اہل صلیب عليهم من اليهود والضالون من کے ضَالِین کی ہیں.پس اس نے ہمیں حکم دیا ہے أهل الصلبان.فأمرنا أن نعوذ به کہ ہم اُس کی پناہ مانگیں کہ ہم بدبختی اور سرکشی کی من أن نلحق بهم من الشقاوة وجہ سے ان کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں.پس اس والطغيان.فظهر من هذه السورة أن أمرنا قد تُرك بين خوف سورة سے یہ ظاہر ہوگیا کہ ہمارا معاملہ خوف اور رجا ورجاء ونعمة وبلاء.إمّا ء اور نعمت اور آزمائش کے درمیان چھوڑ دیا گیا یعنی مشابهة بالأنبياء.وإما شُرب من يا توانبياء کے ساتھ مشابہت پیدا کرنی ہوگی اور یا پھر
۱۴۱ اردو تر جمه مواعيده.ومـن لـم يـكـن علـى (۱۸۷) كأس الأشقياء.فاتقوا الله بدبختوں کے پیالے سے پینا ہو گا.پس اُس اللہ الذى عظم وعيده.وجلّت سے ڈرو جس کی وعید عظیم اور وعدے عظیم الشان الله ہیں.اور جو شخص خدائے ودود کے فضل سے انبیاء هدى الأنبيـاء مـن فـضـل الودود.فقد خیف علیه آن کی راہ ہدایت پر گامزن نہ ہوگا تو اُس کے متعلق یہ يكون كالنصاری او اليهود.ڈر ہے کہ وہ نصاری یا یہود جیسا ہو جائے گا.پس فاشتدت الحاجة إلى نموذج نبیوں اور رسولوں کے نمونے کی شدید ضرورت ہے تا کہ النبيين والمرسلين.ليدفع اُن کا نور مَغْضُوبِ عَلَيْهِم گروہ کی ظلمتوں کو اور نورهم ظلمات المغضوب عليهم وشبهات الضالين ضالین کے شبہات کو دور کر دے.اس لئے اس ولذالك وجب ظهور المسيح زمانے میں اس اُمت سے مسیح موعود کا ظہور ضروری الموعود في هذا الزمان من هذه ہوا چونکہ ضالین کی بہتات ہو گئی تھی اس لئے الأمة.لأن الضالين قد كثروا ضرورت مقابلہ نے مسیح کا تقاضا کیا.اور پادریوں فاقتضت المسيح ضرورة المقابلة.وإنكم ترون أفواجًا کی فوجیں جو گمراہ ہیں کو تو تم دیکھ ہی رہے ہو پس من القسيسين الذين هم اگر تم جانتے ہو تو وہ مسیح کہاں ہے جس نے ان کا الضالون.فأين المسيح الذى مقابلہ کرنا تھا.کیا دعا کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا یا يذبهم إن كنتم تعلمون أما تمہیں تاریک و تاررات میں چھوڑ دیا گیا ہے.کیا ۱۸۸) ظهر أثر الدعاء.أو تُركتم في تمہیں صِرَاطَ الَّذِینَ کی دعا اس لئے سکھائی الليلة الليلاء أم عُلمتم دعاء صراط الذين ليزيد الحسرة گئی تھی کہ اس سے تمہاری حسرت میں اضافہ ہو اور وتكونوا كالمحرومين.فالحق تم محروموں جیسے ہو جاؤ.حق یہ ہے اور میں حق ہی والحق أقول إن الله ما قسم کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں تین الفرق على ثلاثة أقسام في هذه گروہوں میں تقسیم، اس امت میں ان میں سے ہر السورة.إلَّا بعد أن أعد كل نموذج مـنـهـم فـي هـذه الأمة.وإنكم ايک کا نمونہ مقد ر کرنے کے بعد ہی فرمائی اور تم
۵۱۸۹۰ اردو تر جمه ۱۴۲ ترون كثرة المغضوب عليهم مَغْضُوبِ عَلَيْهِم کی کثرت اور ضالین کی وكثرة الضالين.فأين الذي جاء بہتات کو تو دیکھ ہی رہے ہو.پس کہاں ہے وہ جو على نموذج النبيين والمرسلين سابق نبیوں اور مرسلوں کے نمونے پر آیا ہے؟ من السابقين.ما لكم لا تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اس بات پر غور نہیں کرتے تفكرون في هذا وتمرون غافلين ثم اعلم أن هذه السورة اور غافلوں کی طرح گزر جاتے ہو.پھر جان لو کہ قد أخبرت عن المبدء و المعاد اس سورت نے مبدء اور معاد کے بارے میں بھی وأشارت إلى قوم هم آخر خبر دی ہے اور اُس قوم کی طرف بھی اشارہ کیا ہے الأقوام ومنتهى الفساد فإنها جو سب سے آخری قوم اور فساد کی انتہا ہے.یہ سورۃ اختتمت على الضالين.وفيه الین پر ختم ہو جاتی ہے اور اس میں تدبر کرنے إشارة للمتدبرين.فإن الله ذكر هاتين الفرقتين في آخر السورة.والوں کے لئے اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس وما ذكر الدجال المعهود سورۃ کے آخر میں ان دونوں گروہوں کا ذکر فرمایا تصريحًا ولا بالإشارة.مع أن ہے.لیکن دجال معہود کا ذکر نہ صراحتا کیا ہے اور المقام كان يقتضى ذكر نہ اشارہ.باوجود اس کے کہ یہ مقام دقبال کے ذکر کا الدجال.فإن السورة أشارت تقاضا کرتا تھا چنانچہ اس سورۃ نے اپنے قول ضالين في قولها الضالين إلى آخر الفتن وأكبر الأهوال.فلو كانت سے فتنوں میں سے آخری فتنہ اور بڑی بڑی فتنة الدجال في علم الله أكبر ہولنا کیوں کی طرف اشارہ کیا ہے.اگر اللہ کے علم من هذه الفتنة لختم السورة میں دجال کا فتنہ اس فتنہ سے بڑا تھا تو وہ اس سورۃ عليها لا على هذه الفرقة كوفتنه وقال پر ختم کرتا نہ کہ اس فرقہ ضالين ففكروا في أنفسكم..أنسى پر.پس اپنے دلوں میں سوچو کہ کیا ہمارا ربّ أصل الأمر ربنا ذو الجلال.ذو الجلال اصل بات کو بھول گیا اور جہاں دجال کا واجبًا فيه ذكر الدجال.وإن ذكر ضروری تھا وہاں ضالین کا ذکر کر دیا.اگر كان الأمر كما هو زعم معاملہ اسی طرح ہے جیسا کہ جاہلوں کا خیال ہے تو وذكر الضالين في مقام كان
۱۴۳ اردو تر جمه الجهال.لقال الله في هذا پھر اللہ تعالیٰ کو اس مقام میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ المقام غير المغضوب عليهم عَلَيْهِمْ وَلَا الدَّجَّال ضرور فرمانا چاہیئے تھا اور تو ولا الدجّال وأنت تعلم أن الله جانتا ہے کہ اس سورۃ میں اللہ نے یہ ارادہ فرمایا کہ کہ أراد في هذه السورة أن يحث وہ امت کو انبیاء کی راہوں کے اختیار کرنے کی ١٩٠ الأمة على طرق النبيين تحریص دلائے اور ان کو کافروں، فاجروں کی ويحذرهم من طرق الكفرة راہوں سے ڈرائے.پس اس نے ایسی قوم کا ذکر الفجرة.فذكر قومًا أكمل لهم كيا جس پر اس نے اپنی عطا کامل کی اور اپنی نعمتوں کیا عطاءه.وأتم نعماء ه.ووعد أنه کو انتہا تک پہنچایا اور یہ وعدہ فرمایا کہ وہ اس امت باعث من هذه الأمة من هو سے ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو نبیوں سے يشابه النبيّين.ويُضاهي مشابہ، اور مرسلوں سے مماثلت رکھتا ہو.پھر ایک المرسلين.ثم ذكر قومًا آخر اور قوم کا ذکر کیا جنہیں اندھیروں میں چھوڑا گیا تركوا في الظلمات.وجعل اور ان کے فتنے کو آخری فتنہ اور سب سے بڑی فتنتهـم آخـر الفتن وأعظم آفت قرار دیا اور حکم دیا کہ سب لوگ روز قیامت الآفات.وأمر أن يعوذ الناس کلهم به من هذه الفتن إلى يوم تک ان فتنوں سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ تلاش کریں اور اپنی پنجوقتہ نمازوں میں اس فتنہ عظیمہ القيامة.ويتضرعوا لدفعها في کے دفعیہ کے لئے نہایت عاجزی سے دعائیں الصلوات في أوقاتها الخمسة.کریں.اللہ نے اس جگہ دجال اور اس کے فتنہء وما أشار في هذا إلى الدجال وفتنته العظيمة.فأى دليل أكبر عظیمہ کی طرف اشارہ نہیں فرمایا.پس اس عقیدہ من هذا على إبطال هذہ کے ابطال کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی العقيدة.ثم من مؤيدات هذا ہے.اس دلیل کی تائیدات میں سے یہ بھی ہے کہ البرهان.أن الله ذكر النصاری اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے آخر میں نصاری کا في آخر القرآن كما ذكر في اُسی طرح ذکر فرمایا ہے جس طرح اُس نے
۱۴۴ اردو ترجمہ أوّل الفرقان.ففكر في " لَمْ يَلِدُ | فرقان (حمید) کے شروع میں فرمایا ہے.اس لئے تم (191) وَلَمْ يُولد وفى الْوَسْوَاسِ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ اور الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الخَنَّاس.وما هم إِلَّا النصارى کے الفاظ پر غور کرو.اور یہ نصاری ہی ہیں.پس - فعد من علمائهم برب الناس.وإن الله كما ختم الفاتحة على ان پادریوں سے رَبُّ الناس کی پناہ مانگو.جس الضالين.كذالك ختم القرآن طرح اللہ نے سورۃ فاتحہ کو ضالین پر ختم کیا ہے.على النصرانيين.وإن الضالين اسى طرح قرآن کریم کو نصاری پر ختم کیا.دراصل هم النصرانيون كما روى عن ضالین ہی نصاری ہیں.جیسا کہ ہمارے نبينا في الدر المنثور.وفي فتح فی ﷺ سے ڈر منشور اور فتح الباری میں مروی نبی الباري فلا تعرض عن القول الله الثابت المشهور.ومُسلّم ہے.پس تو ثابت شدہ مشہور اور جمہور کے مسلّم قول سے اعراض نہ کر.الجمهور.الباب الثامن آٹھواں باب في تفسير الفاتحة بقول كلّى سورۃ فاتحہ کی تفسیر کے بارے میں جامع قول اعلم أن الله تعالى افتتح كتابه جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا آغاز بالحمد لا بالشكر ولا بالثناء.حمد سے کیا ہے شکر سے نہیں کیا.اور نہ شاء سے.لأن الحمد أتم وأكمل منهما كيونك حمد کا لفظ دوسرے دولفظوں سے زیادہ وأحاطهما بالاستيفاء.ثم اتم اور اکمل ہے اور ان پر پورے طور پر محیط ہے.(۱۹۲) ذالك ردّ على عبدة المخلوقین پھر یہ مخلوق کے پرستاروں اور بتوں کے پجاریوں والأوثان.فإنهم يحمدون کی تردید ہے.کیونکہ وہ اپنے معبودانِ باطلہ کی حمد طواغيتهم وينسبون إليها صفات کرتے ہیں اور اُن کی طرف خدائے رحمن کی الرحمن.وفي الحمد إشارة صفات منسوب کرتے ہیں.حمد میں ایک اور أخرى.وهي أن الله تبارك وتعالى اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا يقول أيها العباد اعرفونی بصفاتی ہے : اے بندو! مجھے میری صفات سے شناخت کرو
۱۹۳ اردو تر جمه ۱۴۵ و آمنوا بي لكمالاتی.وانظروا اور میرے کمالات کی بناء پر مجھ پر ایمان لاؤ اور إلى السماوات والأرضين.هل آسمانوں اور زمینوں پر نگاہ ڈالو کیا تم میرے جیسا تجدون كمثلى ربّ العالمين.رَبُّ العَالَمِينِ، أَرْحَمُ الرَّاحِمِين اور مَالِكِ وأرحم الراحمين.ومالك يوم يَوْمِ الدِّين پاتے ہو.مزید براں اس طرف بھی الدين.ومع ذالك إشارة إلى أنّ اشارہ ہے کہ تمہارا معبود وہ معبود ہے جس نے اپنی إلهكم إلة جمع جميع أنواع الحمد في ذاته وتفرد في سائر ذات میں تمام انواع واقسام کی حمد کو جمع کیا ہوا محاسنه وصفاته.وإشارة إلى أنه ہے اور وہ اپنے تمام محاسن اور صفات میں منفرد ہے تعالى منزّه شانه عن كل نقص نیز اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان سمى وحؤول حالة ولحوق وصمة ہر نقص ، ہر تغیر اور ہر عیب کے لاحق ہونے سے پاک كالمخلوقين.بل هو الكامل ہے جو مخلوق میں پائے جاتے ہیں.بلکہ وہ کامل المحمود.ولا تحيطه الحدود.محمود ہے اور حد بندی سے بالا ہے اور اول و آخر اور وله الحمد في الأولى والآخرة ومن ازل سے ابد الآباد تک حمد اسی کو زیبا ہے.اسی الأزل إلى أبد الآبدين.ولذالك الله نبيه أحمد وكذالك وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا نام احمد سمى به المسیح الموعود لیشیر رکھا اور اسی طرح مسیح موعود کو بھی اسی نام (احمد) سے إلى ما تعمد.وإن الله كتب موسوم کیا تا کہ وہ اپنے مقصود کی طرف اشارہ کرے الحمد على رأس الفاتحة.ثم اللہ نے الفاتحہ کے آغاز پر حمــد مقد ر کیا.أشار إلى الحمد في آخر هذه پھر اس سورت کے آخر میں حمد کی طرف اشارہ فرمایا.کیونکہ اس کے آخر میں لفظ ضالین ہے اور الله وأعطوا حقه لأحد من وه نصاری ہیں جنہوں نے اللہ کی حمد سے اعراض حمد المخلوقين.فإن حقيقة الضلالة کیا اور اس کا حق مخلوق کے ایک فرد کو دے دیا.پس هي ترك المحمود الذي يستحق ضلالت کی اصل حقیقت اُس محمود خدا کو چھوڑنا ہے الحمد والثناء.كما فعل النصارى جو ہر حمد و ثناء کا مستحق ہے جیسا کہ عیسائیوں نے کیا السورة.فإن آخرها لفظ الضالين.وهم النصارى الذين أعرضوا عن
۱۴۶ اردو تر جمه ونحتوا من عندهم محمودًا آخر اور اپنے پاس سے ایک دوسرا محمود بنالیا اور اس کی وبالغوا في الاطراء واتبعوا ستائش میں انتہائی مبالغہ کیا اور نفسانی خواہشات کی الأهواء.وبعدوا من عين الحياة.پیروی کی اور زندگی کے چشمے سے دور جا وهلكوا كما يهلك الضال فی پڑے.اور وہ اس طرح ہلاک ہو گئے جس طرح الموماة.وإن اليهود هلكوا في ایک بھٹکا ہوا شخص بیابان میں ہلاک ہو جاتا ہے اور (١٩) أول أمرهم وباء وا بغضب من یہودی تو اپنے امر کی ابتدا میں ہی ہلاک ہو گئے اور الله القهار.والنصارى سلكوا خدائے قہار کے غضب کے مورد بن گئے.نصارای قليلا ثم ضلّوا وفقدوا الماء چند قدم چلے پھر گمراہ ہو گئے.انہوں نے روحانی فماتوا في فلاة من الاضطرار پانی کھو دیا اور بے چارگی کے عالم میں بیابان میں فحاصل هذا البيان أن الله خلق مر گئے.حاصل کلام یہ کہ اللہ نے دو احمد پیدا ۱۹۴ أحمدين في صدر الإسلام وفي فرمائے ایک اسلام کے آغاز میں اور ایک آخری آخر الزمان.وأشار إليهما بتكرار لفظ الحمد في أوّل الفاتحة وفي آخرها لأهـل العرفان.وفعل كذالك ليردّ على النصرانيين.وأنزل أحمدين زمانے میں.اور اللہ تعالیٰ نے اہلِ عرفان کے لئے سورۃ فاتحہ کے شروع میں اور اس کے آخر میں الْحَمْد کا لفظاً ومعناً تکرار کر کے ان دونوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے.اور خدا نے ایسا عیسائیوں کی تردید کے لئے کیا ہے اور اُس نے دو احمد آسمان من السماء ليكونا كالجدارين سے اتارے تا وہ دونوں اوّلین اور آخرین کی حمایت لحماية الأولين والآخرين.وهذا آخر ما أردنا في هذا الباب.کے لئے دو دیواروں کی طرح ہو جائیں.یہ بتوفيق الله الراحم الوهاب آخری بات ہے جس کا ہم نے وہاب اور رحیم فالحمد لله على هذا التوفيق خدا کی توفیق سے اس باب میں ارادہ کیا تھا.اس توفیق والرفاء.وكان من فضله أن اور عنایت خدا وندی پر اللہ کا شکر ہے.اور یہ اس کا عَهْدَنَا قُرِنَ بالوفاء.وما كان لنا فضل ہے کہ ہمارا وعدہ وفا ہوا.اگر حضرت کبریاء کی
۱۴۷ اردو تر جمه أن نكتب حرفًا لولا عون حضرة مدد شامل حال نہ ہوتی تو ہم ایک حرف بھی نہ لکھ الكبرياء.هو الذي أرى الآيات پاتے.وہی ذات ہے جس نے نشانات دکھائے اور کھلے کھلے دلائل نازل فرمائے.اور میرے قلم وأنزل البينات.وعصم قلمى وكـلـمـى مـن الخـطـاء وحفظ اور میرے کلام کو خطا سے محفوظ رکھا.اور دشمنوں ۱۹۵ عرضی مـن الأعداء.وإنه تبوّء سے میری عزت کی حفاظت فرمائی.اُس نے منزلي.وتجلّى على وحضر میرے گھر میں سکونت اختیار کی اور مجھ پر جلوہ فرما ہوا اور میری محفل میں تشریف لایا اور مجھے اپنی خلافت کے لئے منتخب کیا.میری چراگاہ کو اپنے محفلى.واجتباني لخلافته.وأبقى مـرعـای عـلـى صـرافته.لئے مخصوص کیا.میرا تزکیہ فرمایا اور خوب وزگانی فاحسن تزکیتی.وربانی فرمایا.میری تربیت میں انتہا کر دی اور میری احسن فبالغ في تربيتي.وأنبتني نباتا رنگ میں نشو و نما کی.وہ مجھ پر ظاہر ہوا اور اس نے حسنًا.وتجلى على وشغفني محبت کے اعتبار سے میرے دل میں گھر کر لیا.حُبًّا.حتى أننى فرغتُ من عداوة یہاں تک کہ میں لوگوں کی عداوت اور ان کی محبت الناس ومحبتهم.ومدح الخلق سے اور مخلوق کی ستائش اور مذمت سے بے نیاز ہو گیا.ومذمتهم.والآن سواء لي من اب میرے لئے یکساں ہے کہ کوئی میری طرف عاد إلى أو عادا و راد من رخ کرے یا مجھ سے عداوت کرے.میری جاگیر ضياعـي أو رادا.وصارت الدنيا طلب کرے یا مجھ پر سنگباری کرے.اور میری فی عینـی کـجـاريـة بدء ت.نگاہوں میں یہ دنیا ایسی ہوگئی ہے جیسی ایک چیچک واسود وجهها وصفوف الحسن زدہ لونڈی جس کا چہرہ سیاہ ہو اور اُس کے حسن کے تقوّضت.وشمَمُ الأنف بالفطس خدو خال معدوم ہو گئے ہوں.ستواں ناک چپٹی ہو تبدل.ولهــب الـخـدود إلى گئی ہو اور اس کے گلنار رخساروں پر سیاہ دھبے پڑ النمش انتقل.فنجوتُ بحول گئے ہوں.اللہ کی طاقت سے میں نے اس دنیا کی
۱۴۸ اردو تر جمه الله من سطوتها وسلطانها سطوت اور شوکت سے نجات پائی اور اس کے دیو وعصمت من صولة غولها اور شیطان کے حملہ سے بچایا گیا اور اس قوم سے وشيطانها.وخرجت من قوم باہر نکل گیا جو اصل کو چھوڑتی اور فرع کی تلاش کرتی يتركون الأصل ويطلبون الفرع ہے.وہ اس دنیا کی خاطر تقوی شعاری کو ضائع (۱۹۶) ويضيعون الورع لهذه الدنيا کرتے اور خام کھیتی کو بیچ دیتے ہیں.وہ چاہتے ويجبئون الزرع ويريدون أن ہیں کہ اُن کی باتیں لوگوں کے دلوں میں جاگزیں يحتكأ قولهم في قلوب الناس.ہو جائیں باوجود یکہ وہ نجاستوں سے پاک نہیں مع أنهم ما خلصوا من الأدناس.ہوتے.ایک بد بودار مشکیزے سے صاف پانی کی وكيف يترقب الماء المعين من اور فاسد طبیعت سے دین اور اخلاص کی توقع کیسے قربة قُضِئت.والخلوص والدين کی جاسکتی ہے.ایک قیدی کو قید سے آزاد شخص کی طرح کیسے شمار کیا جا سکتا ہے.ایک بدذات کو شرفاء الأسير كمُطلَق من الإسار.میں کیونکر شامل کیا جاسکتا ہے اور لوگ اس کے رگرد من قريحة فسدت.وكيف يُعَدُّ وكيف يدخل المُقرف في الأحرار.وكيف يتـداكـأ الناس کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں.وہ خود بھی خبیث ہے اور جو اُس کے منہ سے نکلتا ہے وہ بھی خبیث ہے.عليه.وهو خبيث وخبيث ما میرے قلم کو نفسانی خواہشات کی آلودگیوں سے يخرج من شفتيه.وإن قلمي برء مبرا کر دیا گیا ہے اور مولیٰ کی رضا جوئی کے لئے من أدناس الهوى.وبُرى لإرضاء تراشا گیا ہے.اور میرے قلم میں باقیات المولى.وإن ليراعي أثر من الباقيات الصالحات.ولا كأثر الصالحات کا وہ نقش ہے جو عمدہ گھوڑوں کے سنابك المسوّمات.ونحن سموں کے نقش میں بھی نہیں.ہم کمال کے شاہسوار كُماة لا نزل عن صهوات المطايا.ہمیں گھوڑوں کی پشتوں سے گرنے والے نہیں.ہم وإنا مع ربنا إلى حلول المنايا موت وارد ہونے تک اپنے رب کے ساتھ ہیں.وإن خـيـلـنــا تـجـول على العدا ہمارے گھوڑے دشمنوں پر اس طرح جھپٹتے ہیں
۱۴۹ اردو تر جمه ۱۹۷ اتقومون للحرب برماح أشرعت.كالبازي على العصفور أو جیسے باز چڑیا پر.یا شکرا خوفزدہ چوہے پر.كالأجدل على الفار المذء ور اے میرے دشمنو! اپنے بعض دعووں سے رک جاؤ.اور رويد أعدائى بعض الدعاوى.ولا خالی پیٹ ہوکر شکم سیری کا ادعانہ کرو.کیا تم نیزوں تدعوا الشبع مع البطن الخاوى.کو تانے ہوئے لڑائی کے لئے کھڑے ہو رہے ہو اور اپنے حجابوں اور پہنائی گئی بھاری زنجیروں کو ولا ترون إلى حُجُبكم وإلى سلاسل ثقلت.ترون غمرات نہیں دیکھتے.ندامت کی شدتیں دیکھتے ہو پھر بھی الندم ثم تقتحمونها.وتجدون اُن میں گھستے چلے جاتے ہو ذلت کے ہموم وعموم غماء الذل ثم تزورونها.وإنما سے دو چار ہو پھر بھی تم اس کی طرف جاتے ہو.مثلكم كمثل عنز تأكل تارة من تمہاری مثال اُس بکری کی سی ہے جو کبھی خشک اور حشيش وتارة من كلأ.ولا يطيع کبھی تازہ گھاس کھاتی ہے اور سرکشی کئے بغیر الراعي من غير خلاً.خلا.وكل ما هو چرواہے کی اطاعت نہیں کرتی.اور وہ علم جو عندكم من العلم فليس هو إلا تمہارے پاس ہے گاہے گئے ڈھیر کی طرح ہے كالكدوس المدوس الذي لم جسے اڑا کر صاف نہ کیا گیا ہو اور جس میں بیلوں کا يُذرّ.وخالطه روث الفدادين وغيرها مما ضر.ثم تقولون إنا لا گوبر اور دوسری مضر چیزیں ملی ہوئی ہوں.پھر نحتاج إلى حَكَم من السماء وما بھی تم کہتے ہو کہ ہمیں آسمان سے کسی حکم کی هي إلا شقوة ففكروا يا أهل ضرورت نہیں.یہ تو نری بدبختی ہے.اس لئے ۱۹۸ الآراء.وإني أعلم كعلم اے دانشمند و غور و فکر کر و علم محسوسات و بدیهیات المحسوسات والبديهيات.أنی کی طرح مجھے یہ یقینی علم ہے کہ میں اپنے رب کی أرسـلـت مـن ربــى بالهدايات طرف سے جامع ہدایت اور نشانات دے کر بھیجا والآيات.وقد أوحى إلى إلى مُدة گیا ہوں اور حضرت خاتم النبیین کے زمانہ وحی هي مدة وحى خاتم النبيين.وكُلّمتُ قبل أن أزنا من جتنی مدت (۲۳ سال) تک مجھ پر وحی نازل الأربعين.إلى أن زناتُ للستين.ہوئی اور چالیس سال کی عمر سے کچھ پہلے
اردو تر جمه وهل يجوز تکذیب رجل سے لے کر قریباً ساٹھ سال تک مجھے الہام سے مشرف کر قریباًساٹھ ضاهت مدته مدة نبينا المصطفی کیا گیا.تو کیا وہ شخص جس کی مدت وحی ہمارے نبی وإن الله قد جعل تلك المدة دليلا | مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدت وحی جتنی ہو اس کی تکذیب کرنا جائز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس على صدق رسوله المجتبى.الوسواس الخنّاس.فاكتلات قدر (۲۳ سالہ ) مدت کو اپنے رسول مجتبی علی وسمعتُ إنكاره من بعض الناس.کی صداقت کی دلیل بنایا ہے.میں نے بعض وماقبلوا هذا الدليل بلمة من لوگوں سے اس دلیل کا انکار سنا ہے.انہوں نے شیطانی وسوسے کے تحت اس دلیل کو قبول نہیں کیا.عينى طول ليلى.وجرت من ( ان کی اس جرات انکار کی وجہ سے ) تو میں رات عینی عین سیلی.فکلمنی رہی بھر سو نہ سکا.اور میری آنکھوں سے چشمہ اشک روا برحمته العظمى.وقال " قل انں ہوا تو میرا پروردگار اپنی عظیم رحمت کے ساتھ مجھے 199 هدى الله هو الهدى فله سے ہمکلام ہوا اور فرمایا کہ ( ان لوگوں سے ) الحمد وهو المولى.وهو ربّي " کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے 66 في هذه وفى يوم تُحشرُ كُلّ پس حمد اسی کو زیبا ہے اور وہی میرا مولیٰ اور وہی نفس لتُجزَى ربّ انزل علی میرا رب ہے اس دنیا میں بھی اور اُس روز بھی جب ہر جان کو جزا کے لئے اکٹھا کیا جائے گا.اے قلبي واظهر من جيبى بعد میرے رب میرے دل پر اتر.اور میری فنا کے سلبي واملأ بنور العرفان بعد میرے باطن سے ظہور فرما.میرے دل کو ٹور فؤادى.ربّ أنت مُرادى فاتنى مرادی.ولا تُــمـتـنـی مـوت عرفان سے بھر دے.اے میرے رب! تو ہی میری مراد ہے پس تو مجھے میری مراد عطا فرما! الكلاب.بوجهك يارب اے رب الارباب تیرے منہ کی قسم مجھے کتوں کی الأرباب.ربّ إني اخترتك موت نہ مارنا.اے میرے رب ! میں نے تجھے
۱۵۱ اردو تر جمه فاختــرنــي.وانظر إلى قلبی چن لیا تو مجھے چن لے.میرے دل کی طرف نظر واحضرني.فإنك عليم التفات کر اور میرے پاس آ.پس تو ہی اسرار کو الأسرار وخبير بما يكتم من جاننے والا ہے اور ان تمام امور سے خوب آگاہ الأغيار.ربّ إن كنت تعلم أن ہے جو اغیار سے مخفی رکھے جاتے ہیں.أعدائـــي هــم الــصــادقـــون المخلصون فأهلكني كما اے میرے رب ! اگر تو جانتا ہے کہ میرے دشمن تُهلَكُ الكذابون.وإن كنت ہی بچے اور مخلص ہیں تو مجھے اُسی طرح تباہ کر جس طرح جھوٹے تباہ کئے جاتے ہیں.اور اگر تو جانتا تعلم أنى منك ومن حضرتك.فقـم لـنـصـرتـي فإني أحتاج إلى نصرتك.ولا تُفوّض أمرى إلى والماكرين.إنك أنت راحى ہے کہ میں تیری طرف سے اور تیری جناب سے ہوں تو میری مدد کے لئے اٹھ کھڑا ہو کیونکہ میں تیری مدد کا محتاج ہوں.اور میرا معاملہ اُن دشمنوں أعداء يمرون على مستهزئين.کے سپرد نہ کر جو مجھ پر استہزاء کرتے ہوئے واحفظنـی مـن الـمـعــادیـن گزرتے ہیں.تو دشمنوں اور حیلہ سازوں سے میری حفاظت فرما.تو ہی میری راح و راحت ہے، و راحتى وجنتى وجنتی میری جنت اور میری سپر ہے پس میرے معاملے میں فانــصـــرنــي فـي أمــرى واسمع في أمرى واسمع میری مددفرما.اور میری گریہ وزاری سُن.اور خیرالمرسلین بکائی ورنتي.وصل علی محمد اور امام المتقین محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج.اور آپ خير المرسلين.و إمام المتقين كوه مراتب عطا فرما جو تو نے نبیوں میں سے کسی اور وهب له مراتب ما وهبت لغیرہ کو عطا نہیں کئے.اے میرے رب ! جن نعمتوں کے من النبيين.ربّ اعطه ما أردت مجھے عطا کرنے کا تو نے ارادہ فرمایا ہے وہ سب نعمتیں أن تعطيني من النعماء.ثم اغفر آنحضرت کو عطا کر دے.پھر اپنے کرم سے میری ى بوجهك وأنت أرحم مغفرت فرما کیونکہ تو اَرحَمُ الرَّاحِمِین ہے.الرحماء.والحمد لك على أن سب تعریف تجھے زیبا ہے کہ تیرے فضل سے ۲۰۰
۱۵۲ اردو تر جمه هذا الكتاب قد طبع بفضلك ہی یہ کتاب حرف عین کے اعداد ( یعنی ستر دنوں ) في مدة عدة العين في يوم الجمعة کی مدت میں دو عیدوں کے درمیان ماہ مبارک وفي شهر مبارك بين العيدين میں بروز جمعہ طبع ہوئی.اے میرے رب ! تو اسے رب اجعله مُباركًا ونافعا اپنے فضل سے متلاشیان حق کے لئے مبارک اور للطلاب.وهاديًا إلى طريق نفع بخش اور سیدھی راہ کی جانب راہنمائی کرنے الصواب.بفضلك يا مُجيب والی بنا دے.اے دعا کرنے والوں کی دعا قبول الداعين.آمین ثم آمین.و آخر کرنے والے! آمین ثم آمین.ہماری آخری دعا دعوانا ان الحمد لله رب یہی ہے کہ تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جو رَبِّ العَالَمِين ہے.العالمين.
(الف) خدا کے فضل سے بڑا معجزہ ظاہر ہوا ہزار ہزار شکر اُس قادر یکتا کا ہے جس نے اس عظیم الشان میدان میں مجھ کو فتح بخشی اور باوجود اس کے کہ ان ستر دنوں میں کئی قسم کے موانع پیش آئے چند دفع میں سخت مریض ہوا بعض عزیز بیمار رہے مگر پھر بھی یہ تفسیر اپنے کمال کو پہنچ گئی.جو شخص اس بات کو سوچے گا کہ یہ وہ تفسیر ہے جو ہزاروں مخالفوں کو اسی امر کے لئے دعوت کر کے بالمقابل لکھی گئی ہے وہ ضرور اس کو ایک بڑا معجزہ یقین کرے گا بھلا میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ معجزہ نہیں تو پھر کس نے ایسے معرکہ کے وقت کہ جب مخالف علماء کو غیرت دو الفاظ کے ساتھ بلا یا گیا تھا تفسیر لکھنے سے اُن کو روک دیا اور کس نے ایسے شخص یعنی اس عاجز کو جو مخالف علما کے خیال میں ایک جاہل ہے جو اُن کے خیال میں ایک صیغہ عربی کا بھی صحیح طور پر نہیں جانتا ایسی لاجواب اور فصیح بلیغ تفسیر لکھنے پر با وجود امراض اور تکالیف بدنی کے قادر کر دیا کہ اگر مخالف علماء کوشش کرتے کرتے کسی دماغی صدمہ کا بھی نشانہ ہو جاتے تب بھی اُس کی مانند تفسیر نہ لکھ سکتے اور اگر ہمارے مخالف علماء کے بس میں ہوتا یا خدا ان کی مدد کرتا تو کم سے کم اس وقت ہزار تفسیر ان کی طرف سے بالمقابل شائع ہونی چاہیئے تھی لیکن اب ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ ہم نے اس بالمقابل تفسیر نویسی کو مدار فیصلہ ٹھہرا کر مخالف علماء کو دعوت کی تھی اور نستر دن کی میعاد تھی جو کچھ کم نہ تھی اور میں اکیلا اور وہ ہزار ہا عربی دان اور عالم فاضل کہلانے والے تھے تب بھی وہ تفسیر لکھنے سے نامرادر ہے اگر وہ اب )
تفسیر لکھتے اور سورۃ فاتحہ سے میرے مخالف ثبوت پیش کرتے تو ایک دنیا اُن کی طرف الٹ پڑتی پس وہ کون سی پوشیدہ طاقت ہے جس نے ہزاروں کے ہاتھوں کو باندھ دیا اور دماغوں کو پست کر دیا اور علم اور سمجھ کو چھین لیا اور سورہ فاتحہ کی گواہی سے میری سچائی پر مہر لگادی اور اُن کے دلوں کو ایک اور مہر سے نادان اور نافہم کر دیا.ہزاروں کے رو بروان کے چرک آلودہ کپڑے ظاہر کیے.اور مجھے ایسی سفید کپڑوں کی خلعت پہنا دی جو برف کی طرح چمکتی تھی.اور پھر مجھے ایک عزت کی کرسی پر بٹھا دیا اور سورہ فاتحہ سے ایک عزت کا خطاب مجھے عنایت ہوا.وہ کیا بے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.اور خدا کے فضل اور کرم کو دیکھ کہ تفسیر کے لکھنے میں دونوں فریق کے لئے چارجز کی شرط تھی یعنی یہ کہ نتر دن کی میعاد تک چار جز لکھیں لیکن وہ لوگ باوجود ہزاروں ہونے کے ایک جزر بھی نہ لکھ سکے اور مجھ سے خدائے کریم نے بجائے چارجز کے ساڑھے باراں جز لکھوا دیے اب میں علماء مخالفین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ میجر نہیں ہے اور اس کی کیا وجہ ہے کہ معجزہ نہ ہو.کوئی انسان حتی المقدور اپنے لئے ذلت قبول نہیں کرتا پھر اگر تفسیر لکھنا مخالف مولویوں کے اختیار میں تھا تو وہ کیوں نہ لکھ سکے کیا یہ الفاظ جو میری طرف سے اشتہارات میں شائع ہوئے تھے کہ جو فریق اب بالتقابل ستر دن میں تفسیر نہیں لکھے گا وہ کا ذب سمجھا جائے گا یہ ایسے الفاظ نہیں ہیں جو انسان غیرت مند کو اس پر آمادہ کرتے ہیں کہ سب کام اپنے پر حرام کر کے بالمقابل اس کام کو پورا کرے تا جھوٹا نہ کہلاوے لیکن کیونکر مقابلہ کر سکتے خدا کا فرمودہ کیونکر مل سکتا کہ كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا
(ج) وَرُسُلی کے خدا نے ہمیشہ کے لئے جب تک کہ دنیا کا انتہا ہو یہ حجت اُن پر پوری ج کے کرنی تھی کہ باوجود یکہ علم اور لیاقت کے یہ حالت ہے کہ ایک شخص کے مقابل پر ہزاروں ان کے عالم و فاضل کہلانے والے دم نہیں مار سکتے پھر بھی کافر کہنے پر دلیر ہیں کیا لازم نہ تھا کہ پہلے علم میں کامل ہوتے پھر کافر کہتے جن لوگوں کے علم کا یہ حال ہے کہ ہزاروں مل کر بھی ایک شخص کا مقابلہ نہ کر سکے چارجز کی تفسیر نہ لکھ سکے ان کے بھروسہ پر ایک ایسے مامور من اللہ کی مخالفت اختیار کرنا جو نشان پرنشان دکھلا رہا ہے بڑے بدقسمتوں کا کام ہے بالآخر ایک اور ہزار شکر کا مقام ہے کہ اس موقعہ پر ایک پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پوری ہوئی اور وہ یہ ہے کہ اس سقردن کے عرصہ میں کچھ باعث امراض لاحقہ اور کچھ بباعث اس کے کہ بوجہ بیماری بہت سے دن تفسیر لکھنے سے سخت معذوری رہی اُن نمازوں کو جو جمع ہوسکتی ہیں جمع کرنا پڑا اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو در منشور اور شع باری اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ کتب میں ہے کہ تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوة بن ح موعود کے لئے نماز جمع کی جائے گی.اب ہمارے مخالف علماء یہ بھی بتلاویں کہ کیا وہ اس بات کو مانتے ہیں یا نہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو کر مسیح موعود کی وہ علامت بھی ظہور میں آگئی اور اگر نہیں مانتے تو کوئی نظیر پیش کریں کہ کسی نے مسیح موعود کا دعویٰ کر کے دوماہ تک نمازیں جمع کی ہوں یا بغیر دعوی ہی نظیر پیش کرو.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر مرزا غلام احمد قادیانی ۲۰ فروری انشاء
(,) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الله يبعث لهذه الامة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ضرور ضرور خدا تعالیٰ مبعوث فرمائے گا اس امت کے لئے کل صدیوں کے سر پر ایک شخص ( مسیح موعود ) کو جو اس امت کے لئے دین کی تجدید کرے گا.یہ حدیث شریف قریب تو اتر کے درجہ اور اجماع کے مرتبہ کو پہنچی ہوئی ہے اگر چہ مفسر اور محدث یا صوفی اس کے کچھ ہی معنی کریں مگر اس کا مطلب جو خدا نے مجھے سمجھایا ہے وہ یہ ہے کہ یہ حدیث در حقیقت مسیح موعود کے بارہ میں ہے کیونکہ جس قدر مجدد پہلے گزرے یا آئندہ ہوں وہ سب ظنی ہیں اور مجمل طور سے ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ ہر صدی کے سر پر کوئی نہ کوئی مجدد ہوا ہو مگر مفصل اور یقینی طور سے ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس قدر صدیاں جو گزریں کون کون مجدد ہوئے؟ کس لئے کہ آنحضرت صلعم نے کوئی فہرست مجد دوں کی نہیں دی مگر ہم مسیح موعود کے بارہ میں یقینی اور قطعی دلائل اور صحیح رائے سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجد د جو آنحضرت نے اپنے محاذ اور مقابلہ میں بیان فرمایا کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں میں ہوں اور آخر میں مسیح موعود ہے اور درمیانی زمانہ فیج اعوج ہے فی الحقیقت مسیح موعود ہے جس کی بعثت کا یہ نشان بتایا کہ وہ اُس زمانہ میں مبعوث ہو گا جس زمانہ میں کل صدیوں کے سر اکھٹے ہو جائیں گے.پس ہم جو بنظر غور دیکھتے ہیں تو وہ زمانہ یہی زمانہ ہے جس میں مجدد اعظم مبعوث ہوا اور تمام صدیوں کے سر اُس نے لئے یعنی ۱۳۱۸ھ اور ۱۹۰۱ء اور ۱۳۰۷ فصلی اور ۱۹۵۷ بکرمی اور نیز صدیوں کی ماں جو ساتواں ہزار ہے موجود ہوا.پس اس مجموعہ سنین سے عَلى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ کی پیشگوئی پوری ہوئی اور خسوف و کسوف کی حدیث اور کلام مجید کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُم اسی کی مصدق ہیں.پس وہ مسیح موعود مجدد معہود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں.الحمد لله الراقم محمد سراج الحق نعمانی على ذلك