Language: UR
ابر بادی علی چودی
اني الہام خلقتك من جوهر عيسى وإنك وعيسى من جوهر واحدٍ.میں نے تجھے عیسی کے جوہر سے پیدا کیا ہے اور تو اور عیسی ایک ہی جوہر سے ہیں
انعام یافتہ مقالہ با مقابلہ مقاله نویسی ۱۹۸۱ء فضل عمر فاونڈیشن ربوه مقالہ نگار : ہادی علی چوہدری
ماں باپ کے نام
صفر ۶۲ ۶۴ ۶۶ ५८ گیا نمبر شمار r انڈیکس عنوان صفحہ نمبر شمار پیش لفظ باب اول حقیقت و کیفیت نزول سیح موعود کے لئے لفظ نزول کے استعمال کی وجہ قرآن و حدیث کا فیصلہ 4 آنحضرت کی ایک وصیت ۱۷ بروزی نزول کی ایک عظیم الشان نظیر 4 رجعت بروزی ۹ مسئلہ بروز پر صوفیاء کا اتفاق قرآن مجید میں بروز کا بیان ١٨ ۳۵ ۳۹ 3 مسیح کی بروزی آمد پر امت ۴۴ مسلمہ کا اتفاق ۱۰ زبان خلق اور نقارہ خدا باب دوم مسیح اور مثیل مسیح مماثلت بحیثیت نبی متبوع ۴۵ ۵۳ ५/ عنوان عظیم الشان نبی کے تابع بڑے گھرانے کے بڑے نبی کے تابع ۲ مماثلت بحیثیت خلافت تابع شریعت موعود نبوت کے حامل مجدد و مامور چودہویں صدی خاتم الخلفاء آمد آمد سے قبل آمد کے وقت iii غیر متوقع آمد iv لفظ نزول شدت انتظار نام نام پہلے سے بتایا گیا حالات زمانہ تعلام سیاسی حالت مذہبی حالت in علماء کی حالت ۱۷ عوام کی حالت فرقے 21 ۷۲ ۷۴ 3 소 44 ۵۸ 49 A.
i عنوان خاندان خاندان کی ہجرت شاہی خاندان کے فرزند ini خاندان کی تعین iv غیر اسرائیلی و غیر قریشی والده شاہی خاندان یعنی سادات میں سے ii ناموں میں معنوی اشتراک تو بین پیدائش کیفیت پیدائش کی خبر.ندرت فی الخلقت صفحه النار Al عنوان ۱ گمنامی اور زاویہ خمول x تنہائی اور علیحدہ مقام میں دعا ا چله روزے ۸۴ ۸۵ ١٠ M تشابه فی الندرت اور آدم سے ۸۹ مشابہت پیدائش کا نشان ، ایک ستارہ 9- ۱۷ ظالم حاکم کے عہد میں پیدائش ۹۲ iv vi viii €: S.مقام پیدائش کی تعیین بچپن اور جوانی بچپن میں شوق عبادت بر بالوالدین سے سبق علم روحانی د سے محبت ۹۳ ۹۴ ZZ 94 94 ۹۸ 99 درویشی و غربت انسان سے محبت i تازه خیالی سیلک زندگی iii پر اثر اور تعجب انگیز بیان ارہاض ۱۲ شهادت سر اور تن کی جدائی ماموربیت صفحه 1-1 ١٠٢ ۱۰۵ ١٠٦ ۱۰۸ 1.9 11.ماموریت کے بارہ میں ابتداء لا علمی ۱۱۱ i بے عیب زندگی کا دعوی صداقت کے ثبوت کے لئے معجزات و نشانات iv انکار کی ایک وجہ لفظ نزول تائید الی مامور بغرض عدل ۱۱ مقام و مرتبه لوگوں کی خونی مسیح کی تمنا پوری نہیں ہوئی 1 اطاعت اولی الامر x انصاف پسند حکومت ۱۱۳ ۱۱۵ 114 HA ۱۲۰ ۱۲۲
عنوان صفحه عنوان طوفان مخالفت مخالفت کا سبب دعوے مسیحیت سردار کاہن فتوی کفر واجب القتل صفحه ۱۳۹ ۱۴۱ ۷ قتل ، کار ثواب vi عبادت خانے سے اخراج vi حکومت کو انگیخت کرنا ۱۴۲ ۱۴۳ viii مخالفت کی وجہ سے سورج گرہن ۱۴۴ مخالفت کی وجہ سے طاعون مخالف فرقے ۱۴۶ ۱۴۷ مادی اور دنیاوی ترقی 1 مروجہ باطل عقائد کارد x۱۷ مناظرے ۷ تبلیغی سفر ۱۵۱۲۷ ۱۲۸ ۱۳ الہامات اور پیش گوئیاں ۱۲۹ i ۱۴ بشارت وفات کے بارہ میں الہام اور ترقیات کی خبر فرمودات آسمانی بادشاہت آسمانی بادشاہت کی تمثیل iii | دنیا کا نور ۱۷ ابدی زندگی VI خودی ١٣٠ ۱۳۲ چھوٹے بڑے کئے جائیں گے ۱۳۳ vii بڑا خادم بنے Vill دشمن سے محبت ix قرض کی ادائیگی مصائب کی اطلاع ۱۳۴ == xi انکساری xii جہاد سے ممانعت ۱ امید ویقین کا مجسمہ ۱۶ اعتراضات و الزامات بدعتی ا بدکار شیطان اور بدروح ۱۷ فتنه پرداز دیوانه گناہ معاف کرنے والا viii پیشه ، منافی مقام نبوت K عدالت میں مقدمہ xiii مخالفین کے جنازے پڑھنے سے ۱۳۵ غدار پیرو کار KV XVI ممانعت پر ہیبتہ ایام کی اطلاع منکروں کا حال علاوه ازین { \ ۱۳ ۱۳۸ ایک عدالت سے دوسری میں مقدمہ کا انتقال iii بریت iv چور بھی ساتھ پیش ہوا 10.۱۵۱ ۱۵۲ ۱۵۳ ۱۵۵ 147 JKE
نمیشمار عنوان بغاوت کا الزام ۷۱ حج کی معاملہ فہمی vil مقدمہ سے قبل بریت کی اطلاع viii مخالفین کا ملت واحدہ بن جانا 1 عدالت میں ملا تکفیر 194 INA K.عنوان دو دشمن گروه مریم عیسی xi صلیب سے پیار xii صلہ لیب پر فتح xiii فتح ۱۷ ایک عظیم الشان مشابهت ۱۸ احیائے موتی و شفاء الامراض ۱۷۱ مردہ زندہ ہونا بینائی دینا ۱۷۵ KY مماثلت کے زبر دست شواہد باب سوم صفحه 194 19A ۲۰۰ ۲۰۱ ٢٠٢ ۲۰۳ ۲۰۵ 19 in بخار سے نجات دلانا دیوانگی کا علاج قتل کا ارادہ وفات ۱۷۸ ١٨٠ ١٨٣ اصلاح مسیحیت کے لئے ۲۱۲ سیح کی ضرورت باب چہارم ارادہ قتل کی خبر اور طبعی موت کا وعدہ ۱۸۵ ا دو عورتیں ، دو بچے مخالفین کا موت کے بارہ میں ایک ۱۸۸ ہی نظریہ ۲۲۱ ۲۲۷ ۲۲۸ ۱۷ ستائیس ۲۷ تاریخ وفات کے بعد خلافت متفرق مماثلتیں ایک مرید کا مرتد ہونا ii ایک فرقہ iii اصحاب کهف ۱۷ ایک عجیب مماثلت ۷ باره ۱۲ حواری vi در متمتین vii ایک علامت میں مشابہت viii گاوں کا نام 119 19.۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۴ 140 194 ۲ مریم اور اس کا بیٹا مقام مرمیت سے مقام ۲۴۱ عیسویت تک زاد زاں مریم صحیح ایں ۲۳۸ زمان باب پنجم (ماریہ) ۲۴۹ ۲۵۳ ایک وضاحت ایک حقیقت ۲۶۰ مراجع و مصادر ۲۶۵
و پیش لفظ یہ سوال عام طور پر ذہن میں اٹھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں میں آنے والے موعود کو " ، "مسیح" یا " عیسی" کا نام کیوں دیا گیا تھا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی متعدد کتب میں اس سوال کا بڑی شرح و بسط کے ساتھ جواب دیا ہے اور اس کی حکمت کے مختلف پہلووں کو بڑی تا بندگی کے ساتھ اجاگر کیا ہے.آئندہ صفحات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کی روشنی میں اس سوال کے جواب کے تین پہلو زیر بحث لائے گئے ہیں یا دوسرے لفظوں میں آنے والے موعود کو ” " کے نام سے یاد کرنے کی تین وجوہات کو بیان کیا گیا ہے.(1) ایک یہ کہ آنے والے موعود کی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے کمال مشابہت کی وجہ سے استعارہ اسے ” " کہا گیا.(۲) دوسرے یہ کہ اس کا ایک بنیادی اور بڑا کام اصلاح عیسائیت تھا جس کے لئے عیسوی انفاس کی ضرورت تھی اس وجہ سے اسے " عیسی" یا " " کہا گیا.(۳) سورہ تحریم میں خدا تعالیٰ نے اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے کہ روحانی اعتبار سے مقام عیسویت پر پہنچنے کی وجہ سے اسے ” " کہا گیا ہے." بنے کا ایک اور لطیف پہلو بھی اس مقالہ کے آخر میں مرقوم ہے اور اسے " کے خطاب کی ایک وجہ کہا جا سکتا ہے.ان چاروں پہلوؤں پر خاکسار اپنی قلمی بساط کے مطابق کچھ مواد لے کر حاضر ہوا ہے امید ہے قارئین کے لئے یہ ضرور استفادہ کا موجب ہو گا.دد علاوہ ازیں مقالہ کے ابتدائی اوراق پر حقیقت و کیفیت نزول اور بروزی آمد کے مسئلہ ے بھی روشن ڈالی گئی ہے تاکہ نزول کی حقیقت زیادہ وضاحت کے ساتھ معلوم ہو
حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشابہتوں کے سلسلہ میں خاکسار نے جہاں سے جس قدر مواد مل سکا جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کو خاص اہمیت دی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو کسی مشابہت کو تاریخ ، سیرت ، اور دیگر ضروری کتب کے حوالوں سے قومی رنگ میں پیش کرے.اس لحاظ سے قارئین جہاں مختلف کتب کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں گے وہاں یہ بھی دیکھیں گے کہ مشابہتوں کو کثرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی تحریروں سے مزین کیا گیا ہے اور یہی اس مقالہ کا حسن ہے.آخر میں خاکسار ہر اس دوست اور مہربان کا شکریہ ادا کرتا ہے جس نے اس مقالہ کو آپ تک پہنچانے میں کسی نہ کسی طرح مدد کی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو جزائے خیر دے.اور اس مقالہ کو مفید بنائے.والسلام خاکسار ہادی علی چوہدری مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ
باب اول ہوں مگر اترا نہیں میں چرخ سے نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار
و الله الرحمن الرحيم حقیقت وکیفیت نزول قال رسول الله : كيف انتم اذا نزل ابن مريم فيكم و إمامكم منكم».(بخاری، کتاب بن مریم بدأ الخلق باب نزول عيسى) رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا.تم کس قدر خوش قسمت ہو گے جب تم میں نازل ہو گا.اور وہ تمہارا امام تم میں سے ہی ہو گا.اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کے نزول کی خبر دی ہے.اس کے علاوہ بھی آپ نے متعدد بار اس امر کا اظہار فرمایا ہے کہ ”ابن مریم " نازل ہو گا.ہو (۱) (۲) كيف أنتم إذا نزل بن مريم فيكم فأمكم منكم».(مسلم كتاب الإيمان) لينزلن حكما عدلا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير و ليضعن الجزية........(مسلم کتاب الايمان) (۳) ليوشكن أن ينزل فيكم بن مريم حكما عدلا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الحرب».(بخاري، كتاب بدأ الخلق باب نزول عيسى)
سلام ان احادیث میں بیان کردہ نزول کی پیش گوئی سے ایک مکتبہ فکر کو یہ غلطی لگی کہ اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصالتا یعنی جسمانی طور پر بعثت مراد ہے.وہی جن کا نام قرآن کریم نے " الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ( آل عمران: ۴۵ ) رکھا ہے.الفاظ کے تشابہ نے ان کے نظریہ اور حقیقت نزول کے درمیان ایک دبیز پردہ حائل کر دیا اور لفظ "نزل " کی ظاہریت اس پیش گوئی کے سمجھنے کی راہ میں ایک بڑی روک بن گئی.حالانکہ لفظ ”نَزَل " یا " نزول في الأرض " جسم خاکی کے ساتھ آسمان سے اترنے کو مستلزم نہیں دو عالم، سید الکونین ، صاحب لولاک ، سرتاج انبیاء ، حضرت خاتم النبيين صلى الله علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قَدْ أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكَرا رَسُولَا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ ايَتِ اللَّهِ مُبَيِّنَت - شورة الطلاق کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے شرف کا سامان یعنی رسول نازل کیا ہے جو تم کو اللہ تعالیٰ کی ایسی آیات سناتا ہے جو ( نیکی اور بدی کو ) کھول کر پیش کرتی ہیں.اس آیت میمونہ میں لفظ " نزول " بھی ہے اور اہل دنیا کو مخاطب کر کے الیکم بھی فرمایا گیا ہے.مگر پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان سے جسم خاکی کے ساتھ آنا مراد نہیں.کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جسم کے ہمراہ آسمان سے اترے تھے.جو کیفیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول کی ہے وہی کیفیت حضرت مسیج کے نزول کی ہونی چاہئے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول سے آپ کا جسم عنصری آسمان سے آنا مراد نہیں تو ابنِ مریم کے نزول سے ان کا آسمان سے جسم عصری اترنا کیوں مراد لیا جاتا ہے.پس جو نگ و معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقرر کیا جاتا ہے وہی مسیح کے لئے ہونا چاہئے.در حقیقت ہر نبی اپنی ماموریت سے پیشتر دنیا سے منقطع ہو کر بلحاظ قرب اللہ تعالیٰ
کے پاس پہنچ جاتا ہے یعنی دنیا سے بالکل بے تعلق ہو کر صعود الی اللہ کے دائرے میں آ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اس کو ہدایت خلق کے لئے بھیجتا ہے.یہ بھیجنا ہی نزول کہلاتا ہے اور اس کی بعثت کو تعظیما و اکراما نزول کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے قرآنِ کریم کی طرف انصاف کی نگاہ اٹھائی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قابل تعظیم چیزیں ، خدا کی نعمتیں اور وہ اشیاء جو محض خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان کو آسائش و آرام کے لئے ملتی ہیں ان کے لئے بھی نزول کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن وہ آسمان سے نہیں اترتیں مثلاً لباس ، لوہا ، جانور ، غرض ہر چیز جو نعمت اور فضل کے دائرہ میں آتی ہے اس کے لئے نزول کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے ہو نہ تو لباس سلا سلایا آسمان سے آتا ہے ، نہ جانوروں کو آسمان سے کسی نے اترتے دیکھا ، نہ لوہے کو گرتے.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ أَنزَلْنَا ہم نے ہی اسے اتارا ہے.اور وَمَانُنَزِلَهُ إِلَّا بِقَدَرِ مَعْلُومِ ایک خاص اندازے کے مطابق ہم انہیں اتارتے ہیں پس عظیم نعمتیں جو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عطا فرمائیں ، خدائی نوشتوں میں ان کے لئے لفظ " نزول " کا استعمال عام محاورہ مسیح موعود کے لئے لفظ نزول کے استعمال کی وجہ مذکورہ بالا حقیقت کے پیش نظر مسیح موعود کے لئے جو نزول کا لفظ احادیث میں قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا سُورة الأعرافي وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسُ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ شورة الحسابية وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَمِ سُورة النصير وَإِن مِن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَرَابِنُهُ وَمَا نُنَزِلَهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ سُورة الحجر
وارد ہوا ہوا ہے اس کی تین وجوہات ہیں.:- اول یہ کہ غلبہ اسلام ، ادیان باطلہ کے رد ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے اظہار اور بنی نوع انسان کی خوش حالی و بہبود کے لئے عظیم.الشان نعمت ہے.دوم : یہ کہ وہ زمینی اسباب سے منقطع ہو گا.مثلا حکومت ، ریاست اور جنگی وسائل اس کے ساتھ نہ ہوں گے.وہ اس وقت آئے گا جب اسلام کی قوت و عظمت اور شان شوکت ختم ہو چکی ہو گی یہ حالت مسلم جاذب رحمت و نصرت نہ رہے گی.اس کا دامن صدق و صفا اور تبتل و دعا سے تہی ہو چکا ہو گا.بجائے اس کے کہ وہ مسیح موعود کا مددگار و انصار بن کر تائید دین الہی میں شامل ہو وہ اس کا مخالف ہو جائے گا.تب خدا تعالیٰ اس کی آسمان سے اس طرح مدد فرمائے گا کہ اس کے شامل حال کسی بادشاہت یا سلطنت و حکومت کی طاقت نہ ہوگی.خالصہ نصرت خداوندی اس کو کامیابی سے ہمکنار کرے گی.ملائکہ اس کی مدد کے لئے آئیں گے اور اس کی حفاظت و اعانت ان کا مشن ہو گا.وہ فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہو گا.یعنی اس کے تمام فرائض منصبی تائید و نصرت ملائکہ سے سرانجام پائیں گے، نہ کہ زمینی اسباب سے.آسمانی اسباب اس کے ہمراہ ہوں گے گویا وہ آسمانی ہے اور وہیں سے آیا ہے.سوم : اس کی شہرت ، تبلیغ اور دعوت بہت تھوڑے وقت میں دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے گی.کیونکہ جو چیز آسمان سے اترے دور و نزدیک کا ہر شخص ! آسانی سے سیکھ لیتا ہے.آسمان سے بجلی کا گرنا ہر کوئی مشاہدہ کر لیتا ہے.بعینہ مسیح موعود کی آمد سے ہر کوئی اطلاع پائے گا کہ گویا وہ آسمان سے اترا ہے.قرآن و حدیث کا فیصلہ
قرآن شریف میں کہیں ذکر نہیں اور کسی مرفوع متصل حدیث سے بھی پتہ نہیں لگتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع جسم عصری آسمان پر چلے گئے تھے.اگر وہ آسمان پر گئے ہی نہیں تو آسمان سے اتریں گے کیسے ؟ البتہ یہ ذکر موجود ہے کہ مسیح کے نام پر ایک شخص آنے والا ہے جو اسی امت میں سے ہو گا.و إمامكم منكم اور صحیح مسلم میں ہے فأمكم منكم لے مگر یہ کہیں ذکر نہیں کہ وہ آسمان پر گیا تھا اور پھر آسمان سے واپس آئے گا.اگر آسمان سے واپس آنے کا ذکر ہوتا تو اس کے لئے رجوع " کا لفظ ہونا چاہئے تھانہ کہ ” نزول " کا.کیونکہ جانے کے بعد جو شخص واپس آئے اس کے لئے لفظ ” آنا " استعمال ہوتا ہے و اترنا " نہیں.وو حقیقت یہ ہے کہ جب غلط فہمی کی بناء پر " نزول " سے اتر نامراد لے لیا گیا تو پھر اس کی مناسبت سے آسمان کا لفظ اپنی طرف سے زائد کر لیا گیا اور ردائے ذہن پر اس عقیدہ کے نقوش مرتسم ہو گئے کہ مسیح بجسد خاکی آسمان سے اترے گا.حالانکہ کتب احادیث کی ورق گردانی اس نتیجہ پر پہنچاتی ہے کہ کسی صحیح حدیث میں آسمان کا لفظ موجود نہیں.علاوہ ازیں کسی معزز و محترم شخص کی آمد کا ذکر بیان ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں جگہ اترا ہے.یا مثلاً محاورہ ہے کہ آپ کہاں اترے ہیں.لیکن اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ آسمان سے زمین کی کس جگہ پر اترے ہیں.اسی طرح عربی میں مسافر کو " نزیل " کہا جاتا ہے اور راہ میں مسافروں کے اترنے (قیام) کی جگہ کو " منزل " کہا جاتا ہے.تمام احادیث اس امر میں قرآن کریم کی موافقت کرتی ہیں اور ایک بھی حدیث سے (بخاری، کتاب بدأ الخلق باب نزول عيسى) کے (مسلم کتاب الایمان)
A ایسی نہیں جس میں یہ لکھا ہو کہ وہی صحیح اسرائیلی نبی جس کو قرآن شریف وفات یافتہ قرار دے چکا ہے کہ جس پر انجیل نازل ہوئی تھی وہی پھر دنیا میں آئے گا.ہاں یہ لکھا ہے کہ ان اسرائیلی نبیوں کے ہمنام آئیں گے.جیسا کہ حدیث «علماء أمتي كأنبياء بني اسراءيل».بهجة النظر بر حاشية نزهة النظر شرح نخبة الفكر : ص ١٤) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وضاحت کی ہے کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے..احادیث میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ نازل ہو گا وہاں مسیح موسوبی اور مسیح محمدی کے حلیہ میں اختلاف بیان کر کے اور آنے والے کو اتنی ٹھرا کر واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ اور ہے اور وہ اور تھا.پھر اگر اس قسم کی حدیثوں کی تشریح کے لئے جو متنازعہ فیہ ہیں دوسری حدیثوں سے مدد لینا چاہیں تو بھی کوئی حدیث نہیں ملتی جس سے ثابت ہو کہ گذشتہ نبیوں میں سے کبھی کوئی نبی دنیا میں آئے گا.مگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے مقیل آئیں گے اور انہیں کے نام سے موسوم ہوں گے.اس جگہ یہ بیان کرنا بے جانہ ہو گا کہ جس حالت میں تقریبا کل حدیثیں قرآن شریف کے مطابق ہیں اور اس عقیدہ کی مؤید ہیں کہ آنے والا مسیح اور ہے ، وہ اسرائیلی مسیح نہیں ہے.اگر بطور شاذ و نادر کوئی ایسی حدیث ہو بھی جو احادیث کے اس.وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ يورة ال عمران حمد بحیثیت رسول : بحثت بشر : وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرِ مِن قَبْلِكَ الْخُلد سورة الأناة بحیثیت معبود : وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ أَمْوَتُ غَيْرُ أَحْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ الله سورة التحال
مستند مجموعہ کے مخالف ہو تو ہم ایسی حدیث کو یا تو نصوص سے خارج کریں گے یا اس کی تاویل کریں گے.کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ ایک ضعیف اور شاذ حدیث کے بدلے ایک یقینی اور مستند مجموعہ احادیث کو رد کر دیا جائے.بلکہ ایسی حدیث اس کے معارض ہو کر قابل رو ہو گی یا قابل تاویل ٹھہرے گی.ایسی صورت میں خبر واحد صرف ظن کا فائدہ دیتی ہے ، وہ یقینی اور قطعی ثبوت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی.علاوہ ازیں حضرت امام بخاری نے اس بارہ میں اشارہ تک نہیں کیا کہ یہ مسیج جو آنے والا ہے در حقیقت اور سچ سچ وہی پہلا مسیح ہو گا.بلکہ انہوں نے دو حدیثیں ایسی لکھی ہیں جو یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ مسیح موسوی اور تھا اور مسیح محمدی اور ہے.فرمایا تم میں آئے گا اور پھر وضاحت کر دی تاکہ شک و شبہ کی تمام تاریکیاں دور ہو جائیں کہ " و إمامكم منكم " وہ تمہارا امام ہو گا جو تم میں سے ہی ہو پس یہ الفاظ قابل توجہ ہیں کہ وہ تمہارا امام تم میں سے ہی ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وہم کو دور کرنے کے لئے جو کے لفظ سے پیدا ہو سکتا تھا مابعد کے لفظوں میں بطور تشریح فرمایا کہ اس کو سچ سچ وہی ابن مریم نہ سمجھ لینا جو ( رَسُولًا إِلَى بَنِي اسراءيل ) بنی اسرائیل کے لئے رسول تھا بلکہ وہ ( إمامكم منكم ) ( تمہارا امام تم میں سے ہی ہو گا.باہر سے نہیں آئے گا.گا.و إمامكم منكم میں واؤ حالیہ ہے یعنی عیسی بن مریم کا نزول ہو گا اس حالت میں کہ وہ تمہارا امام تم میں سے ہی ہو گا.بعض یہ جو کہتے ہیں کہ حدیث میں بیان کردہ سے مراد اور وجود ہے اور امامکم سے مراد اور.اور تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم کتاب الایمان میں ہے فأمكم منکم کہ وہ تمہارا تم میں.ہی امامت کرانے والا ہو گا اور پھر آگے ساتھ ہی تشریح کر دی کہ "ابن ابی ذئب نے
اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنے والے مسیح کو اپنی امت میں سے قرار دینا اس کے روحانی نزول کی وضاحت کرتا ہے.پھر دوسری حدیث جو اس بات کا فیصلہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح اول کا حلیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور طرح کا بیان فرمایا اور منیح ثانی کا اور طرح کا.اور پھر اس حلیہ میں ہی فرق نہیں کیا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ پہلا مسیح ، موسوی شریعت کا تابع ہے اور دوسرے مسیح کا واسطہ دجال کے ساتھ پڑے گا یعنی دجال کے قتل کے لئے آئے گا.فرمایا (1) i عن ابن عمر رضى الله عنهما قال : قال النبي ﷺ : «رأيت عیسی و موسی و ابراهیم فأما الصدر......فأحمر عیسی جعد عريض (بخارى كتاب بدأ الخلق) وہ کہ تمہیں معلوم ہے کہ فأقكم منکم کے کیا معنی ہیں ؟ میں نے کہا آپ ہی بتائیں تو انہوں نے کہا کہ مسیح تمہارے رب کی کتاب اور تمہارے نبی کی کتاب کے مطابق امامت کریں گے ".پس اس سے معلوم ہوا کہ جو ہے وہی امام ہے اور امت مسلمہ میں سے ہے بعض یہ کہتے ہیں کہ امامکم سے مراد امام مہدی ہے.اعتراض اس وجہ سے غلط ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسی اور مہدی کو ایک ہی وجود قرار دیا ہے.یعنی ایک ہی وجود کی دو صفات کا ذکر کیا گیا ہے فرمایا کہ لا المهدى إلا عيسى ابن مريم.ابن ماجة كتاب الفتن، باب شدة (الزمان) نہیں مہدی مگر عیسی.اس کے علاوہ بھی کئی ایک مرتبہ اس امر کا اظہار فرمایا کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود ہیں.بعض احادیث میں یہ جو آیا ہے کہ امام مہدی امامت کرائیں گے اور عیسیٰ مقتدی ہوں گے.اس کا صرف یہی.ہے کہ صفت مہدویت صفت عیسویت سے مقدم اور بالا تر ہے.محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض سے حاصل شدہ مقام ہر مرتبہ سے اعلیٰ و اولیٰ اور افضل ہے.
11 کہ حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے عیسی اور موسیٰ اور ابراہیم علیہم السّلام کو دیکھا.عیسیٰ سرخ رنگ گھنگھریالے بال اور چوڑے سینہ والا ہے.(۲) وأرانى الليلة عند الكعبة فى المنام فإذا رجل ادم كأحسن ما يرى من أدم الرجال تضرب لمته على منكبيه رجل الشعر.....وهو يطوف بالبيت فقلت من هذا ؟ فقالوا هذا المسيح ابن مريم ، ثم رأيت رجلا وراءه جعدا قططا أعور العين اليمنى....يطوف بالبيت فقلت من هذا؟ فقالوا المسيح الدجال......(بخاری، کتاب بدأ الخلق) کہ میں نے رات کو کعبہ کے پاس دیکھا کہ ایک خوبصورت گندمی رنگ کا شخص ہے اس کے سر کی لٹیں اس کے کندھوں پر پڑ رہی تھیں.وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا.میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ تو جواب ملا کہ یہ مسیح ہے پھر میں نے اس کے پیچھے ایک اور شخص دیکھا جو گھنگریالے بالوں والا جسیم آدمی ہے.اس کی دائیں آنکھ کافی ہے.میں نے پوچھا یہ کون ہے.تو جواب ملا کہ یہ صحیح الدجال ہے.پس یہ جو دو حلیے ان حدیثوں میں بیان ہوئے ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام کے ساتھ جو مسیح تھا وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حلیہ کا تھا اور جس مسیح نے دجال کو قتل کرنا تھا اس کا حلیہ بالکل مختلف تھا.☆ - جو کہ بعینہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کا حلیہ ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ و محله ماثور موعودم حیف است گر بدیده نه بینند آمدم منتظرم باقی اگلے صفحہ پر
اگر زمانہ کے لحاظ سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ جو فوت شدہ ہے وہ وفات یافتہ انبیاء کے ہمراہ دکھایا گیا ہے.اور جو آنے والا ہے وہ آنے والے فتنہ اور مصیبت کے ساتھ ساتھ ہے یعنی مسیح موعود جس کا ایک کام قتل دنبال بھی ہے پس ان اگر کام کی نوعیت ملاحظہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السّلام شریعتِ موسویہ کی اتباع اور تائید کے لئے تھے اور مسیح موعود کا کام احیائے دین مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ، پاسبانی خانہ خدا اور قتل دجال ہے.دونوں حدیثوں سے اوہام کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور حقیقت حال اظہر من الشمس ہو جاتی ہے.اگر احادیث میں یہ الفاظ ہوتے کہ مسیح جو وفات پاچکے ہیں.جن پر انجیل نازل ہوئی تھی.وہی زندہ ہو کر آخری زمانہ میں آجائیں گے تو پھر تاویل کی گنجائش نہ ہوتی.مگر اب تاویل نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے.اور چونکہ بحکم 1 رنگم چو گندم است و بمو فرق بین است ز انسان که آمد است در اخبار سرورم این مقدمم نہ جائے شکوک ست و التباس سید جدا کند مسیحائے احمرم ترجمہ : میں موعود ہوں اور میرا حلیہ حدیثوں کے مطابق ہے.افسوس ہے اگر آنکھیں کھول کر مجھے نہ دیکھے.میرا رنگ گندمی ہے اور بالوں میں نمایاں فرق ہے جیسا کہ میرے آقا کی احادیث میں وارد ہے.میرے آنے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں.میرا آقا مجھے سرخ رنگ والے مسیح سے علیحدہ کر رہا ہے.
۱۳ حدیث ہو.«علماء أمتي كأنبياء بني إسرائیل» کے نام پر بھی ضرور کوئی آنا چاہئے تھا اور آنا بھی وہ چاہئے تھا جو درحقیقت امتی إنه خليفتي في أمتي كہ وہ ميرا خلیفہ ہے اور میری ہی امت میں سے ہے.پس یہ ضروری تھا کہ (وفات یافتہ ) کی جگہ کوئی ایسا امتی ظاہر ہو جو خدا تعالٰی کے نزدیک کے رنگ میں ہو.کیونکہ فیضانِ مصطفوی کا یہ خاصہ ہے کہ وہ امتی کو عیسی بنادے.اگر عیسی علیہ السّلام کی اصالتاً آمد مراد لی جائے تو اس سے سخت مشکلات در پیش آتی ہیں.سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم کی آیات کو کالعدم قرار دینا پڑتا ہے ہو.پس اس بات کے سمجھنے کے لئے نہایت واضح اور صاف قرائن موجود ہیں کہ اس جگہ حضرت مسیح علیہ السلام کا حقیقی طور پر نجم عنصری نزول ہرگز مراد نہیں کیونکہ وہ تو بنی اسرائیل کے لئے رسول تھے.اس امر کو اگر اس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو حقیقت مزید عیاں ہو جاتی ہے إن النبي ﷺ قال : لتتبعن سنن الذين من قبلكم شبراً بشبرٍ وذراعاً بذراع حتى لو سلكوا جحر ضب لسلكتموه.قلنا : يا رسول الله اليهود والنصارى؟ قال : فمن».(صحیح مسلم، كتاب العلم باب اتباع سنن اليهود والنصارى).رَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَاء يل سورة ال عمران يبني إسراء يلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم ثورة الصنف ان آیات کی حیثیت بالکل ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اگر بنی اسرائیل والے عیسیٰ علیہ السلام ہی امت محمدیہ میں آئیں تو وہ کہیں گے کہ میں تم میں رسول ہوں لیکن قرآن لریم کہے گا.نہیں، إِلَى بَنِي إِسْرءیل دونوں میں سے ایک کا انکار لازم آتا ہے.قرآن کریم کو چھوڑنا پڑتا ہے یا مسیح موعود ( ) کو.ان میں سے جو بھی رستہ اختیار کیا جائے گمراہی کی تاریکیوں کی جانب جاتا ہے.
سلام کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے سے پہلی امتوں کی دست بدست اور قدم بقدم پیروی کرو گے.یہاں تک کہ اگر وہ سوسمار کی بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ضرور داخل ہو گے.ہم نے پوچھا.یا رسول اللہ ! یعنی یہود و نصاری ؟ آپ نے فرمایا.تو اور کون ؟ - - اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہود سے مشابہت دی ہے اور اس میں ان خرابیوں کا داخل ہو جانا بیان فرمایا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے وقت یہود میں تھیں.تو اسی مناسبت کے لحاظ سے یہ بھی اطلاع دی کہ تمہاری اصلاح کے لئے تمہیں میں سے بھیجا جائے گا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس امت کا ایک حصہ اگر اپنے اندر یہ مادہ رکھتا ہے کہ ان وحشی طبع یہودیوں کا نمونہ بن جائے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھے تو اس میں وہ لوگ بھی ہیں جو مسیح بن جائیں گے.گویا جس وقت بعض لوگ یہودی بنیں گے تو اس وقت بعض مسیحی نفس لے کر آئیں گے تا معلوم ہو کہ اس امت میں جس طرح ادنی اور نفسانی آدمی پیدا ہوں گے جو یہود کے تیل ہوں گے بعینہ اس میں وہ لوگ بھی ہوں گے جن کو ان کے کمالات روحانیہ کے باعث عیسیٰ بن مریم کہہ سکتے ہیں...گویا دونوں قسم کی استعدادیں اس امت میں موجود ہیں امتِ احمد نہاں دارد دو ضد را در وجود می تواند شد مسیحا می تواند شد یهود پس یہ استعارہ کی زبان ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ” " استعارہ نہ مانا جائے لیکن کی صفات مثلاً " قاتل خنزیر “ اور ” کا سر صلیب " وغیرہ کو استعارہ پر حمل کیا جائے.انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ صفت اور موصوف کو ایک ہی میزان میں رکھا جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اگر ابن صیاد نامی ایک شخص کو دجال کہا
۱۵ گیا تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی فرمایا کہ تجھ میں عیسیٰ مشابہت پائی جاتی ہے.اسی طرح عروہ بن مسعود التقفی کو عیسی بن مریم سے تشبیہ دی ہیں.الغرض امت میں عیسی اور دجال کے متیلوں کا تصور ابتدائے اسلام سے ہی موجود ہے.اور پھر مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ جیسی تیزی دجالیت کے فتنوں میں ہوتی گئی اسی نسبت سے عیسیٰ نفس اس کے مقابل پر پیدا ہوتے گئے.آخر کار اس زمانہ میں دجالیت ایک گھٹا کی طرح فصل ایمان پر چھا گئی.ایک طرف وو امت کے علماء اپنے کردار سے نوشتہ رسول «علماءهم شر من تحت أديم السماء کو پورا کر رہے تھے اور کذب و افتراء نے عنکبوت کی طرح عوام الناس کے دلوں پر جانے بن رکھے تھے.اور دوسری طرف عیسائیت کا دیو چشمہ توحید کو گدلا کرنے کے لئے بھر چکا تھا.دجالیت کے اس حربہ کو کاٹنے کے لئے آسمانی حربہ اور کوئی نہیں چلا سکتا تھا سوائے عیسیٰ کے.کیونکہ لکل دجال عیسی سو وہ عیسی نازل ہوا _____ کفر کے دیو کٹ گئے اور دجل و فریب کے بادل چھٹ گئے.اس جری اللہ کے زبر دست نورانی دلائل اور آسمانی حربوں نے قصر دجالیت کو لرزا کر رکھ دیا اور یہ اعلان کیا کہ یہ حملہ ایک برچھی کے حملہ سے کم نہیں جو اس عاجز نے خدائے تعالیٰ کی طرف سے مسیح کے رنگ میں ہو کر لوگوں پر کیا ہے.جن کو پاک چیزیں دی گئی تھی مگر انہوں نے ساتھ اس کے پلید چیزیں بھی ملا دیں اور وہ کام کیا جو دجال کو کرنا چاہئے تھا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳.صفحہ ۳۶۱) (تفسیر در منثور، جلد ۵، ص ٢٦٤) (مشكاة المصابيح كتاب العلم، الفصل الثالث).
پس نزول کے معنی تاویلی ہیں کہ نزولِ مسیح بروزی طور پر ہو گا.صحابہ ہوا تابعین کا نزول مسیح کے متعلق عقیدہ تاویلیں تھا کہ وہ نزول بروزنی طور پر ہے نہ کہ جسمانی طور پر کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں ہے.اور وفات یافتہ دوبارہ دنیا میں نہیں آیا کرتے.کتاب اللہ میں خدا تعالیٰ کا یہ اٹل فیصلہ موجود ہے کہ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ.مردے لوٹا نہیں کرتے.اور جس امر کے متعلق اس کا فیصلہ موجود ہو وہ اسی کے مطابق اپنی سنت دکھاتا ہے.جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے وفات مسیح کا مدینہ میں اعلان اور صحابہ کا اجماع : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجلس میں فرمایا فقال أبو بكر : أما بعد فمن كان منكم يعبد محمدا فإن محمداً قد مات ، ومن كان منكم يعبد الله فإن الله حي لا يموت.قال الله : وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل] البخاري، باب كتاب النبي إلى كسرى وقيص).کہ جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ یہ سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے.اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھاوہ یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد تو صرف ایک رسول تھے ان سے پہلے بھی تمام رسول اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں.وفات مسیح کا بحرین میں اعلان : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت جارود بن معلیٰ نے فرمایا وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمداً عبده ورسوله ، عاش كما عاشوا ومات باقی اگلے صفحہ پر
۱۷ لیکن خدا تعالیٰ کا طریق ہے کہ وہ اپنے ایک بندہ کو ایسے اوصاف سے متصف کر دے اور اس میں اپنی روح ڈال دے جس سے وہ کے روپ میں ہو جائے اور اس کی مثالیں خدا تعالیٰ کی کتابوں میں موجود ہیں کہ ایک نبی کا نام دوسرے کو دیدیا گیا.اسی طرح احادیث میں بھی مذکور ہے کہ مثیل وغیرہ اسی امت میں سے پیدا ہوں گے تو پھر جب قرآنِ کریم عیسی کو وفات یافتہ قرار دیتا ہے اور احادیث مثیل کے آنے کا وعدہ دیتی ہیں تو اس صورت میں کچھ بھی اشکال باقی نہیں رہتا کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو ابن مریم کی سیرت رکھتا ہے وہ ابنِ مریم ہے.آنحضرت کی ایک وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ وصیت بھی قابل غور ہے جس کی مخاطب تمام امت مسلمہ ہے.آپ فرماتے ہیں كما ماتوا».(مختصر سيرة الرسول، ص ٢٢٣).جس طرح موسیٰ اور عیسی علیہم السلام زندہ رہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ رہے اور جس طرح موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوئے اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہوئے.وفات مسیح کا کوفہ میں اعلان : صحابی و نواسہ رسول حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر فرمایا لقد قبض في الليلة التي عرج فيها بروح عيسى ابن مريم».الطبقات الكبري لابن سعد ، جلد ۳ ص ۳۹.حضرت علی کی روح اسی رات قبض کی گئی جس رات عیسی علیہ السلام کی روح قبض کی گئی.
IA من أدرك منكم عيسى ابن مريم فليقرئه مني السلام».تفسیر در منثور، جلد ۲، ص ٢٤٥) کہ جس شخص کو مسیح موعود سے ملنا نصیب ہو وہ میری طرف سے اسے میرا سلام پہنچا دے ایک دوسری حدیث میں ہے ولو حبوا على الثلج» که خواه برف کے پہاڑوں پر سے گھٹنوں کے بل جانا پڑے اس کو میرا سلام ضرور کہو.یہاں اگر عیسی سے مراد اسرائیلی عیسی علیہ السلام ہیں تو یہ وصیت سلام بے معنی ٹھہرتی ہے کیونکہ اگر وہ آسمان سے اترے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو اسے اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں.بلکہ وہ آسمان پر ایک دوسرے کو سلام بھی ضرور کرتے ہوں گے.تَحِيَّنُهُم فِيهَا سَلَم.اور اس کے علاوہ اس سے قبل معراج میں بھی عیسی علیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہو چکی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں وجودوں کو سلام بھیجوانے میں اکٹھا کیا ہے.یعنی حضرت اور حضرت اویس قرنی کو.حضرت اویس قرنی سے آپ کی ملاقات نہیں ہوئی.اسی طرح آنے والے مسیح سے بھی نہیں ہوئی.پس اس لحاظ سے جو پوزیشن حضرت اولیش کی ہے وہی مسیح موعود کی ہے.مسیح اسرائیلی سے تو آپ کی ملاقات وفات سے پہلے بھی ثابت ہے اور وفات کے بعد بھی یقیناً ملاقات ہوتی ہو گی عِندَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ پس اپنی امت کو سلام کی یہ ذمہ داری سونپنے کا مطلب یہی ہے کہ آنے والا اور ہے جس سے آپ کی ملاقات نہیں ہوئی اور وفات یافتہ اور ہے جس سے آپ مل چکے ہیں اور جو بنی اسرائیلی تھا.بروزی نزول کی ایک عظیم الشان نظیر اگر یہ عقیدہ صحیح ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے ہی دوبارہ دنیا میں آنا ہے
۱۹ عظیم الشان نشان تھا اور قرآن کریم میں کم از کم ایک آیت تو ہوتی جس میں آپ کے آمد تک زندہ رہنے اور پھر نزول کے بارہ میں وضاحت ہوتی مگر وضاحت تو کیا اشارہ تک موجود نہیں.اور نہ صحف سابقہ میں اس کی مثال ملتی ہے.ہاں اس کے برعکس مثال موجود ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ____ " حضرت عیسی نے خود آنا تھا تو صاف لکھ دیتے کہ میں خود ہی آوں گا.یہودی بھی تو اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ایلیا کا مثیل آنا تھا تو کیوں خدا نے یہ نہ کہا ایلیا کا مثیل آئے گا.غرض جس قدر مقدمہ ایلیا کا ہے اس پر اگر ایک دانشمند صفائی اور تقوی سے غور کرے تو صاف سمجھ آجاتا ہے کہ کسی کے دوبارہ آنے سے کیا مراد ہوتی ہے اور وہ کس رنگ میں آیا کرتا ہے.دو شخص بحث کرتے ہیں.ایک نظیر پیش کرتا ہے اور دوسرا کوئی نظیر پیش نہیں کرتا تو بتاؤ کس کا حق ہے کہ اس کی بات مان لی جاوے ؟ یہی کہنا پڑے گا کہ ماننے کے قابل اسی کی بات ہے جو دلائل کے علاوہ اپنی بات کے ثبوت میں نظیر بھی پیش کرتا ہے.اب ہم تو ایلیا کا فیصلہ شدہ مقدمہ جو خود مسیح نے اپنے ہاتھ سے کیا ہے بطور نظیر پیش کرتے ہیں.یہ اگر اپنے دعوی میں بچے ہیں تو دو چار ایسے شخصوں کا نام لے دیں جن کی آسمان سے اترنے کی نظیریں موجود ہیں.سچ کے حق میں کوئی نہ کوئی نظیر ضرور موجود ہوتی ہے.اس مقدمہ میں تنقیح طلب امر یہی ہے کہ جب کسی کے دوبارہ آنے کا وعدہ ہو تو کیا اس سے اس شخص کا پھر آنا مراد ہوتا ہے یا اس کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے.اور اس کی آمد ثانی سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کوئی اس کا متیل آئے گا.اگر اس تنقیح طلب امر میں ان کا دعوی سچا ہے کہ وہ شخص خود ہی آتا ہے تو پھر
۲۰ حضرت عیسی پر جو الزام عائد ہوتا ہے اسے دور کر کے دکھائیں.اول : یہ ان کا فیصلہ فراست صحیحہ سے نہیں ہوا.اور یہا دوسرے : معاذ اللہ وہ جھوٹے نبی ہیں کیونکہ ایلیا تو آسمان سے آیا ہی نہیں.وہ کہاں سے آگئے ؟ اس صورت میں فیصلہ یہودیوں کے حق میں صادر ہو گا اس کا جواب ہمارے مخالف مسلمان ہم کو ذرا دے کر تو دکھائیں.۲ سلاطین.۲ : ۱۱ میں یہ لکھا ہے کہ ( ملفوظات.جلد ۴ صفحہ ۲۷) ”دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اور وہ میرے آگے راہ درست ایلیا بگولے میں آسمان پر چلا گیا.اور حضرت ملا کی نے یہ پیش گوئی فرمائی کرے گا".اور پھر لکھا ہے ہے." (ملاکی ۱:۳) دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیا نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا.(ملاکی ۵:۴) ان دونوں نوشتوں میں آسمان پر جانے اور واپس آنے کا واضح ذکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے سے قبل حضرت ایلیا کا آنا یہود کا مسلمہ عقیدہ تھا اور اسی عقیدہ کی وجہ سے وہ پہلے ایلیا کی آمد کے منتظر تھے.حضرت ملا کی اور حضرت یسعیاہ نے یہود میں یہ عقیدہ راسخ کر دیا تھا کہ ایلیا مسیح سے قبل اس
۲۱ کی راہ ہموار کرنے آئے گا.پہلے نبیوں کی یہ پیش گوئی تھی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صداقت کا معیار تھی.یہود و نصاری کا اب بھی اس پر اتفاق ہے.اور وہ اسے برحق مانتے ہیں.چنانچہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ دعوی کیا تو یہودی علماء نے آپ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ ہم نہیں جانتے کہ تو کون ہے کیونکہ جس مسیح کی ہمیں انتظار ہے.ضرور ہے کہ اس سے پہلے ایلیا آسمان سے اتر کر اس کی راہوں کو درست کرے.اس کے جواب میں ہر چند ج کہا وہ ایلیا جو والا مسیح نے بہت زور دے کر انہیں کہا کہ وہ ایلیا جو آنے والا تھا یہی بیجی، ذکریا کا بیٹا ہے.جس کو تم نے شناخت نہیں کیا ہے.لیکن یہودیوں نے مسیح کے اس قول کو ہرگز قبول نہیں کیا بلکہ خیال کیا کہ یہ شخص توریت کی پیش گوئیوں میں الحاد اور تحریف کر رہا ہے اور اپنے مرشد حضرت یحییٰ کو عظمت دینے کی خاطر کھینچ تان کر ایک صاف اور سیدھی عبارت کا مفہوم بگاڑ رہا ہے.یہود نے کتب مقدسہ کے ظاہر معنوں پر زور دے کر یہ اجماعی عقیدہ قائم کیا تھا کہ در حقیقت ایلیا نبی کا ہی دوبارہ دنیا میں آنا ضروری ہے.اس عقیدہ کی رو سے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو قبول نہ کر سکے اور یہ حجت پیش کی کہ اب تک ایلیا وعدہ کے موافق دوبارہ دنیا میں نہیں آیا پھر مسیح کیسے آگیا ؟ اس ظاہر پرستی نے یہودیوں کو حقیقت فہمی اور دولت ایمان سے محروم کر دیا.اور در حقیقت ان کی محرومی کی یہی جڑ تھی کہ انہوں نے کتاب مقدس کے ایک استعارہ کو حقیقت پر حمل کیا تھا.یہودی کہتے ہیں کہ یسوع مسیح کو قبول نہ کرنے کی یہی وجہ ہے اور یہی ہمارے اور خدا کے درمیان ایک حجت ہے کہ ہمیں نبیوں کی معرفت خبر دی گئی تھی کہ وہ مسیح جس کا کتابوں میں ذکر ہے ہر گز نہیں آئے گا جب تک اس سے پہلے ایلیا جو متی ۱۷ : ۱۰ تا ۱۳ مرقس ۹ : ۱۱ تا ۱۳
۲۲ آسمان پر گیا ہے دنیا میں نہ آئے.وہ تو اب تک نہیں آیا.پھر یہ ریہ شخص اپنے دعوی مسیحیت میں کیونکر سچا ٹھہر سکتا ہے ؟ عیسائیوں کے اس جواب پر کہ ایلیا کے نزول سے یوحنا بن ذکریا کا آنا مراد ہے یعنی ایلیا کی خوبو پر ایک شخص اس کے مثیل کے طور پر ہے جس کا نام یحی ہے نہ یہ کہ حقیقت میں کوئی آسمان سے اترے گا.یہودی کہتے ہیں کہ ایلیا سے مراد اگر یوحنا یعنی بھی ہوتا تو خدا تعالیٰ ہرگز یہ نہ کہتا کہ خود ایلیا واپس آئے گا بلکہ یہ کہتا کہ اس کا مثیل بیچی آئے گا.انکار مسیح پر یہودی اس لحاظ سے بھی بظاہر حق بجانب معلوم ہوتے ہیں کہ جب اس تاویل کے بارہ میں حضرت یحی سے وہ پوچھتے ہیں کہ کیا تو ایلیا ہے تو وہ صاف انکار کر دیتے ہیں کہ میں ایلیا نہیں ہوں.پہلے یہ مسئلہ یہود کے لئے مصیبت بن گیا.انہوں نے ایک حقیقت سے انکار کیا مگر ان کے پاس اس کی توجیہہ تو ہے کہ ایلیا آسمان سے نہ آیا اور جس کے بارہ میں کہا گیا کہ یہ ایلیا ہے اس نے بھی انکار کر دیا اور صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں ایلیا نہیں ہوں.پس یہود کا یہ کہنا کہ ہم قیامت کے دن ملاکی نبی کی کتاب اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھ دیں گے کہ تو نے ایلیا نہ بھیجا اور یوحنا نے بھی ایلیا ہونے سے انکار کر دیا لہذا ہم نے عیسیٰ کو قبول نہ کیا.ایک لحاظ سے بظاہر درست اور معقول بات ہے.بہر حال حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کے اس اجماعی عقیدہ کو تاویل سے خاک میں ملا دیا اور آپ اس کھلی کھلی نص کی تاویل میں منفرد و یکتا ہیں.کسی نبی ، ولی یا فقہیہ نے ہرگز یہ تاویل نہیں کی کہ ایلیا سے مراد مثیل ایلیا ہے اور تعجب ہے کہ ان کے ملہموں کو بھی یہ الہام نہ ہوا کہ نزول ایلیا کی پیش گوئی مشیل ایلیا کی آمد کے رنگ میں پوری ہوگی.یوحنا ۲۱۰۱
۲۳ حضرت عیسی علیہ السلام کی اس تاویل سے یہود کا یہ عقیدہ کہ ایلیا بجسم عصری بگولے میں آسمان پر چلے گئے." غلط ثابت ہو گیا.یعنی نہ ہی وہ آسمان پر گئے اور نہ ہی وہ واپس آئیں گے بلکہ ان کی آمد سے مراد متیل ایلیا کی آمد ہے.حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اپنے ایلیا ہونے سے انکار کر کے یہودیوں کے اس عقیدہ کو باطل کر دیا کہ ایلیا اسی جسم کے ساتھ آئے گا.لیکن اس کی بروزی آمد کے بارہ میں بتایا کہ میں جیسا کہ یسعیاہ نبی نے کہا ہے بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو." اور یہود تو راہ درست کرنے والے کو ایلیا ہی سمجھتے تھے.پس حضرت یحی نے جب یہود کے سامنے اپنے ایلیا ہونے سے انکار کیا تو اس سے مراد حقیقی ایلیا ہونے سے تھا اور بعد میں خود کو راہ درست کرنے والا قرار دے کر ایلیا کے مثیل اور بروز ہونے کا اقرار کیا.حضرت عیسی علیہ السلام بھی انہیں معنوں میں حضرت بجلی کو - ایلیا کہتے تھے.یہ گمان دل میں پیدا ہو کہ نزول ایلیا کی پیش گوئی شاید محرف ہو گئی ہو تو یہ خیال حباب بر آب سے بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتا.بے شک بائبل مختلف مقامات سے محرف و مبدل ہے مگر عیسی علیہ السلام نے خود اس کی تصدیق کی اور اسے بر حق قرار دیتے ہوئے اس کی تاویل کی.اگر یہ پیش گوئی صحیح نہ ہوتی تو سب سے پہلے مسیح علیہ السلام کا یہ حق تھا کہ وہ بجائے اس کی تاویل کے اسے صریح غلط قرار دیتے اور صاف جواب دے دیتے کہ کوئی ایلیا آنے والا نہیں ہے.صحیح علیہ السلام کا یہودیوں کے اس اعتراض کو مان لینا اور اس کا جواب دینا یوحنا ۲۲۱
بھی اس امر کی روشن دلیل ہے وہ بجائے خود اس پیش گوئی کو صحیح اور بر حق سمجھتے تھے.علاوہ ازیں تمام یہودی اس پیش گوئی کے سچا ہونے پر متفق ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تحریف کی کہیں خبر نہیں دی.قرآن کریم اور احادیث میں اس قصہ کا کچھ بھی ذکر موجود نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ یہ قرآن وحدیث کے مخالف ہے.الغرض اس پیش گوئی کی تکذیب کے ہم کسی طرح بھی مجاز نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ آسمان سے ہو کر آئیں تو آپ نے سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولا کہہ کر گویا یہ جواب دیا که بشریت اور رسالت کے ہوتے ہوئے آسمان پر جانا ممکن نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب اور ایلیا نبی کا آسمان سے اترنا کہ آخر وہ اترے تو کس طرح اترے.کیا اس حقیقت کے سمجھنے کے لئے کافی اور قوی دلیل نہیں کہ اگر ایک بشر آسمان پر نہیں جاسکتا تو آسمان سے اترنے سے بھی حقیقی طور پر اترنا نہیں بلکہ مثالی اور بروزی طور پر اترنا مراد ہے.اب اگر یہ ضروری ہے کہ عیسیٰ نبی ہی آسمان سے آئے تو اس صورت میں عیسیٰ علیہ السلام بچے نبی نہیں ٹھہر سکتے کیونکہ اگر آسمان سے واپس آنا سنت اللہ میں داخل ہے تو حضرت الیاس علیہ السلام کیوں واپس نہ آئے اور کیوں حضرت ان کی جگہ یحیٰی علیہ السلام کو الیاس ٹھہرا کر تاویل سے کام لیا گیا.یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ امت مسلمہ نے اس فیصلہ سے نصیحت نہ پکڑی جو حضرت مسیح علیہ السلام کی عدالت میں طے پا گیا.اور ڈگری اس نقطہ نظر کی تائید میں ہوئی کہ ایلیا کی دوبارہ آمد استعارہ کے طور پر ہے.یعنی حضرت یحیی علیہ السلام کو حضرت الیاس علیہ السلام کا مثیل اور بروز ٹھہرایا گیا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام
۲۵ کا یہ فیصلہ ، نزول کی پیش گوئی کو کس طرح دو اور دو چار کی طرح واضح کر رہا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ فیصلہ اس مسئلہ کے لئے روشن دلیل ہے.سچ کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس کی کوئی دلیل بھی ہوتی ہے.ایک فریق اپنے حق میں ایک برگزیدہ اور نیچے نبی کے فیصلہ کی مثال پیش کرتا ہے اور دوسرا مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.ہر شخص خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ کونسا فریق سچائی پر ہے.پس نزول ایلیا کی پیش گوئی نزول کی پیش گوئی سے عظیم مشابہت رکھتی ہے.مامور زمانہ نے فرمایا >> بھلا بتلاؤ کہ آپ لوگوں کے بیان میں جو آخری مسیح موعود کے بارے میں ہے اور یہودیوں کے بیان میں جو اس زمانہ کے مسیح موعود کے بارے میں ہے کیا فرق ہے.کیا یہ دونوں عقیدے ایک ہی صورت کے نہیں ہیں ؟ پھر اگر تقوی ہے تو اس قدر ہنگامہ محشر کیوں برپا کر ہیں؟.رکھا ہے.اور یہودیوں کی وکالت کیوں اختیار کر لی ؟ کیا یہ بھی ضروری تھا کہ جب میں نے اپنے آپ کو مسیح کے رنگ میں ظاہر کیا تو اس طرف سے آپ لوگوں نے جواب دینے کے وقت فی الفور یہودیوں کا رنگ اختیار کر لیا.بھلا اگر بقول حضرت مسیح ایلیا کے نزول کے یہ معنے ہوئے کہ ایک اور شخص بروزی طور پر اس کی خوبو اور طبیعت پر آئیگا تو پھر آپ کا کیا حق ہے کہ اس نبوی فیصلہ کو نظر انداز کر کے آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اب خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی آجائیگا.گویا خدا تعالٰی کو ایلیا نبی کے دوبارہ بھیجنے میں تو کوئی کمزوری پیش آگئی تھی.مگر مسیح کے بھیجنے میں پھر خدائی قوت اس میں عود کر آئی.کیا اس کی کوئی نظیر بھی موجود ہے کہ بعض آدمی آسمان پر نجمه العنصری جا کر پھر دنیا میں آتے رہے ہیں.کیونکہ حقیقتیں نظیروں کے ساتھ ہی کھلتی ہیں
۲۶.چنانچہ جب لوگوں کو حضرت عیسی کے بے پدر ہونے پر اشتباه ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے دلوں کو مطمئن کرنے کے لئے حضرت آدم کی نظیر پیش کر دی.مگر حضرت عیسی کے دوبارہ آنے کے لئے کوئی نظیر پیش نہ کی.نہ حدیث میں نہ قرآن میں.حالانکہ نظیر کا پیش کرنا دو وجہ سے ضروری تھا.ایک اس غرض سے کہ تا حضرت عیسیٰ کا زندہ آسمان کی طرف اٹھائے جانا ان کی ایک خصوصیت ٹھہر کر منجرائی الشرک نہ ہو جائے اور دوسرے اس لئے کہ تا اس بارے میں سنت اللہ معلوم ہو کر ثبوت اس امر کا پایہ کمال کو پہنچ جائے.سو جہاں تک ہمیں علم ہے خدا اور رسول نے اس کی نظیر پیش نہیں کی.ہ " (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد ۱۷ صفحہ ۹۸ ، ۹۹) حدیث میں آتا ہے «لا يلدغ المؤمن من جحرٍ واحد مرتين».مومن ایک ہی سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا.جس سوراخ سے یہودی داخل ہو کر ایک نبی پر ایمان لانے سے محروم ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر سے گر گئے.آج مسلمان اسی سوراخ میں داخل ہو کر اس زمانہ کے نبی کا انکار کیر کے متاع ایمان سے ہاتھ دھو رہے ہیں.اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی پورا ہوا کہ ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل خذو النعل بالنعل..-.(ترمذي) كتاب الإيمان باب افتراق هذه الأمة).میری امت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے ، جن میں ایسی مطابقت ہوگی کہ جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے...یہ حدیث نبوی اور ایلیا نبی کی آمد کی پیش گوئی ، مسیح موعود کی آمد کی پیش گوئی
۲۷ کے ساتھ ملا کر پڑہیں اور پھر دیکھیں کہ کس شان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی ثابت ہوتی ہے کہ امتِ مسلمہ بنی اسرائیل کے قدم بقدم چل کھڑی ہوئی ہے اور جو رویہ یہودیوں نے ایلیا کے نزول کی پیش گوئی کی تاویل کو سن کر اختیار کیا تھا ، آج وہی رویہ یہ نزول مسیح کی پیش گوئی کی حقیقت سن کر اختیار کر رہی ہے..سوچنے کی بات ہے کہ ایلیا کے دوبارہ آنے کا خیال جو تمام یہود میں بالاتفاق قائم ہو چکا تھا آخر وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی عدالت میں فیصلہ پا کر کیونکر رد ہو گیا ؟.کہاں گیا یہودیوں کا اجماع ؟ کیا سچ مچ حضرت الیاس علیہ السلام آسمان سے اتر آئے یا کوئی ان کا متیل بن کر آیا ؟ پس نزول کی پیش گوئی استعارہ کی زبان ہے.مسیح کی دوبارہ اسی جسم کے ساتھ آمد پر اس کو محمول کرنا یہودیوں کی ڈگر اختیار کرنے کے مترادف ہے.جب حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو یہود کے دو فریق ہو گئے تھے.ایک وہ جو بہت کم اور قلیل التعداد تھا.وہ تو آپ کو داؤد علیہ السلام کی نسل سے پا کر اور پھر آپ کی عاجزی اور راست بازی کو دیکھ کر اور ساتھ آسمانی نشانوں کو ملاحظہ کر کے اور زمانے کی حالت دیکھ کر کہ ایک نبی اور مصلح کا تقاضہ کرتی ہے اور پیش گوئیوں میں بیان شده اوقات کا جائزہ لے کر یقین کر گیا کہ یہ وہی نبی ہے جس کا بنی اسرائیل کو وعدہ دیا گیا تھا ، آپ پر ایمان لے آیا.پھر اس نے مصائب و تکالیف کی آندھیوں میں بھی اپنا صدق و صفا ظاہر کیا اور استقامت و استقلال کے پانی سے فصل ایمان کو سر سبز رکھا.مگر دوسرا گروہ وہ تھا جس نے استعارات کو حقیقت پر محمول کر کے اور متشابہات کو ہاتھ میں لے کر حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیا اور کفر و ضلالت کی گہرائیوں میں اتر گیا اور اپنی گستاخیوں کی وجہ سے آخر کار خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن گیا.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
۲۸ الفاظ نگاہ دل سے دیکھنے کے لائق ہیں کہ : یاد رکھو کہ ایسی پیش گوئیوں میں امتحان بھی مقصود ہوتا ہے.جو لوگ عقل سلیم رکھتے ہیں وہ اس امتحان میں تباہ نہیں ہوتے اور روایات کو صرف ایک ظنی ذخیرہ خیال کرتے ہیں اور یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ اگر کوئی روایت یا حدیث صحیح بھی ہو تب بھی اس کے معنے کرنے میں غلطی ہو سکتی ہے.پس وہ تمام شناخت کا مدار خدا کی نصرت اور خدا کی تائید اور خدا کے نشانوں اور شہادتوں کو قرار دیتے ہیں.اور جس قدر علامتیں روایتوں کے ذریعہ میسر آگئی ہیں ان کو کافی سمجھتے ہیں اور باقی روایتوں کو ایک ردی متاع کی طرح پھینک دیتے ہیں.یہی طریق سعید فطرت یہودیوں نے اختیار کیا تھا جو مسلمان ہو گئے تھے.اور یہی طریق ہمیشہ سے راست بازوں کا چلا آیا ہے.اور اگر راست بازوں اور خدا ترسوں کا یہ طریق نہ ہوتا تو ایک نفس بھی یہودیوں اور عیسائیوں میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لا سکتا اور نہ کوئی یہودی حضرت عیسی کو قبول کر سکتا.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲.صفحہ ۶۰۰ ) حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا مسئلہ عیسائیوں نے محض اپنے دین کی برتری اور شان و شوکت کے اظہار کے لئے گھڑا تھا.کیونکہ ان کی پہلی آمد میں ان کی خدائی کا کوئی نشان ظاہر نہ ہوا.چنانچہ یہ سمجھا گیا کہ آمد ثانی میں وہ خدائی کا جلوہ دکھائیں گے اور نشانات کی رونمائی کے سلسلہ میں پہلی کسریں نکالیں گے.تا اس طرح پر پہلی آمد کے حالات کی پردہ پوشی کی جاسکے.تفسیر روح البیان میں لکھا ہے.ففي زاد المعاد لحافظ ابن قيم رحمه الله تعالى ما يذكران عيسى رفع وهو ابن
۲۹ ثلاث وثلاثين سنة لا يعرف به أثر متصل يجب المصير إليه.قال الشامي وهو كما قال فإن ذلك إنما يُروى عن النصارى والمصرّح به في الأحاديث النبوية أنه إنما رفع وهو ابن مائة وعشرين».(جلد ۲، ص ۲۵ زیر آیت [واذ قال الله يا عيسى إني متوفيك ورافعك إلي].(سورة آل عمران).کہ حافظ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ۳۳ سال کی عمر میں اٹھائے گئے.اس کی تائید کسی حدیث سے نہیں ہوتی.تا اس کا ماننا واجب ہو.شامی نے کہا کہ جیسا کہ امام ابن قیم نے فرمایافی الواقع ایسا ہی ہے.اس عقیدہ کی بنا احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں بلکہ یہ نصاری کی روایات ہیں.اور انہیں سے یہ عقیدہ آیا ہے.پس جب حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان پر نجم العنصری جانا عیسائیوں کا من گھڑت عقیدہ ہے تو ویسے آنا بھی عیسائیوں کا ہی مسلمہ عقیدہ ہے.اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں.کیونکہ رجوع کا انحصار صعود پر علیہ السلام کی آمد ثانی ، مسیحی دنیا کا مسلمہ عقیدہ ہے.اور نئے عہد نامہ میں مسیح کی آمد ثانی کی واضح پیش گوئیاں موجود ہیں.چنانچہ متی کی انجیل میں لکھا ہے اور جب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا.اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آکر کہا ہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی.اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا کیانشان ہو گا ؟ یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ خبردار ! کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے.کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہ سنو گے.خبر دار گھبرا نہ جانا.کیونکہ ان باتوں کا واقع ہونا ضروری ہے.لیکن اس وقت خاتمہ
نہ ہو گا.کیونکہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑہائی کرے گی اور جگہ ر جگہ کال پڑیں گے اور بھونچال آئیں گے لیکن یہ سب باتیں مصیبتوں کا شروع ہوں گی.اس وقت لوگ تم کو ایذا دینے کے لئے پکڑوائیں گے اور تم کو قتل کریں گے اور میرے نام کی خاطر سب قومیں تم سے عداوت رکھیں گی اور اس وقت بہتیرے ٹھوکر کھائیں گے اور ایک دوسرے کو پکڑوائیں گے اور ایک دوسرے سے عداوت رکھیں گے اور بہت سے جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور بہتیروں کو گمراہ کریں گے اور بے دینی کے بڑھ جانے سے بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی.......اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی اور اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے.۴ (۲۴ : ۳ تا ۳۰ ) اس پیش گوئی سے بالعموم عیسائی کلیسیا یہ سمجھتا رہا کہ ظاہری طور پر مسیح آسمان سے نازل ہوں گے اور اعمال (۱ : ۹ تا ۱۱ ) کے مطابق جس طرح صحیح آسمان پر گئے اسی طرح زمین کی طرف دوبارہ آئیں گے.اور متی اور دوسری اناجیل اور پولوس کے بیان کے مطابق سارے کرہ ارض کے روبرو مسیح بادلوں سے اترتے دکھائی دیں گے.یہ وہ پیش گوئیاں تھیں جو رفتہ رفتہ مسلمانوں میں بھی رواج پا گئیں اور عیسائیوں کے خیالات ان میں سرایت کر گئے.پھر انہیں خیالات کی رو میں بہہ کر انہوں نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ظاہریت کے سانچے میں ڈھال دی.حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کی ان پیش گوئیوں کے پورا ہونے کے بارہ میں
۳۱ موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ عیسائیوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ان پیش گوئیوں کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس سے ان کا انکار لازم آتا ہے.اس خیال سے وہ سخت مایوسی کا شکار ہوئے.چنانچہ انہوں نے ان پیش گوئیوں کی یہ تاویل شروع کی کہ مسیح کی آمد سے مراد اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے شروع میں عیسائی مذہب کا ہونے والا احیاء اور غلبہ اور تسلط ہے.گویا آخر کار انہیں بھی ان پیش گوئیوں کو استعارہ جان کر تاویل ہی کا دامن تھامنا پڑا.پھر اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ تمام عیسائی اس سے متفق بھی نہیں کہ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے.بلکہ ایک گروہ عیسائیوں میں سے اس بات کا بھی قائل ہے کہ آنے والا کوئی اور ہے جو مسیح ناصری علیہ السلام کے رنگ اور خوبو پر آئے گا.اسی وجہ سے عیسائیوں میں سے بعض نے مسیح ہونے کے جھوٹے دعوے بھی کئے.مثلاً امریکہ کا جان الیگزنڈر ڈوئی وغیر ہم.پس اب امت مسلمہ پر بھی وہ وقت آچکا ہے کہ آسمان سے کسی کے نہ اترنے کے باعث نزول کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کی تاویل کرنے پر مجبور ہو گی.ورنہ مایوسی اور محرومی کے گہرے بادل ان کی موہوم امیدوں کو ڈھانپ لیں گے اور تاریکیاں ان کا مقدر ٹھہریں گی.کیونکہ یہ الہی نوشتے پورے ہونے ضروری ہیں جن کا اظہار اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے اس طرح فرمایا کہ ”اے تمام لوگو ! سن رکھو کہ یہ اس کی پیش گوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان.کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
يَحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُو بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے.مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبرو آسمان سے اترے اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں.اس سے کون ٹھٹھا کرے گا.پس اس دلیل سے بھی عظمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی جو اولا د باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی.اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا.اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تم ہو یا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے." ہیں * (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰.صفحہ ۶۷ ) بائبل نے جو نشانیاں مسیح کی آمد ثانی کی بتائی تھیں وہ پوری ہو گئیں..قرآن
۳۳ کریم میں بیان کردہ علامات نے اس کی آمد کی شہادت دی.احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں زمانے کے جن حالات و تغییرات کی نشاندہی کی گئی تھی وہ منص شہود پر رونما ہو چکے.اولیاء اللہ کے کشوف و الہامات جس وقت کی گواہی دیتے تھے وہ وقت گذر گیا.اور آنے والا آ گیا.دین مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح و شادمانی کے دن آگئے.گلشنِ اسلام میں مسرت و انبساط کی کلیاں کھلنے لگیں باغ میں ملت ملت کے کوئی گل رعنا کھلا ہے آئی ہے باد صبا گلزار سے مستانہ وار پس مثیل مسیح آپ کا اور اس نے یہ منادی کی اور بڑی تحدی سے یہ اعلان کیا کہ اگر ہمارے مخالف اپنے تئیں سچ پر سمجھتے ہیں اور اس بات پر سچ مچ یقینی طور پر ایمان رکھتے ہیں کہ در حقیقت وہی مسیح آسمان سے نازل ہو گا جس پر انجیل نازل ہوئی تھی تو اس فیصلہ کے لئے ایک یہ بھی عمدہ طریق ہے کہ وہ ایک جماعت کثیر جمع ہو کر خوب تفریع اور عاجزی سے اپنے مسیح موہوم کے اترنے کے لئے دعا کریں.اس میں کچھ شک نہیں کہ جماعت صادقین کی دعا قبول ہو جاتی ہے بالخصوص ایسے صادق کہ جن میں ملہم بھی ہوں.پس اگر وہ بچے ہیں تو ضرور صحیح اتر آئے گا اور وہ دعا بھی ضرور کریں گے.اور ہر گز وہ حق پر نہیں اور یاد رہے کہ وہ ہر گز حق پر نہیں ہیں تو دعا بھی ہر گز نہیں کریں گے.کیونکہ وہ دلوں میں یقین رکھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہو گی.ہاں ہماری اس درخواست کو وہ کچے بہانوں سے ٹال دیں گے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳.صفحہ ۳۴۷) -
۳۴ آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل بلایا ہم نے اور مامور زمانہ کی اس پیش گوئی کی صداقت کی گواہی ہر آنے والا دن دے گا کہ مسیح تو آپکا لیکن آپ نے اس کو شناخت نہیں کیا.اب یہ امید موہوم آپ کی ہر گز پوری نہیں ہوگی.یہ زمانہ گذر جائے گا اور کوئی ان میں سے مسیح کو اترتے نہیں دیکھے گا.؟ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳.صفحہ ۱۷۹)
۳۵ رجعت بروزی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَنَهَا که نفس انسانی میں اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے قوی ودیعت کئے ہیں.قوة فجور اور قوۃ تقوی.ایک قوت اسے بدی ، تخریب کاری اور ظلم پر آمادہ کرتی ہے.اور یہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے.یہ قوۃ فجور کہلاتی ہے.دوسری قوت اسے نیکی اور خیر کی تحریک کرتی ہے.اس کے اندر بھلائی اور بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرتی ہے.اور یہ روح القدس کی طرف سے ہوتی ہے.اور قوة تقوئی کہلاتی ہے.ابتدائے آفرینش سے یہ قوتیں اور جذبے انسان کے ساتھ ہیں.جب بھی خدا تعالیٰ نے اصلاح انسانیت کے لئے کوئی مصلح یا ہادی مبعوث فرمایا ، انہی دو جذبوں کی بناء پر اس کی تائید یا تکفیر ہوتی رہی.ایک گروہ نے وساوس شیطانی کے تحت اباء و استکبار کی راہ کو اپنا لیا اور دوسرے گروہ نے ایمان وایقان کے دامن کو تھام لیا.یہ دونوں گروہ بروزی طور پر ہر زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں.جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے چلا تھا وہ بروز در بروز ہر نبی کے زمانہ میں موجود رہا.نبی اور ولی بھی بروزی طور پر دنیا میں آتے رہے اور ان کے بالمقابل طاقتیں جو ان کے مشن کو نا کام کرنے کا دعوی کرتی ہیں وہ بھی بروزی رنگ میں آتی رہی ہیں.لیکن آخری زمانہ میں دونوں گروہوں کا کثرت سے ظہور کرنا مقدر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.وو.رجعت بروزی کے اعلی قسم صرف دو ہیں.بروز الاشقیاء بروز العداء.یہ دونوں بروز قیامت تک سنت اللہ میں داخل ہیں.ہاں یا جوج ماجوج کے بعد ان کی کثرت ہے تا بنی آدم کے انجام پر ایک دلیل ہو اور تا اس سے دور کا پورا ہونا سمجھا جائے.اور یہ خیال
کرنا کہ کوئی ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ تمام لوگ اور تمام طبائع ملت واحدہ پر ہو جائیں گی ، یہ غلط ہے.جس حالت میں اللہ تعالیٰ بنی آدم کی تقسیم یہ فرماتا ہے کہ مِنْهُمْ شَفَي وَسَعِيدُ تو ممکن نہیں کہ کسی زمانہ میں صرف سعید رہ جائیں اور شقی تمام مارے جائیں اور نیز یہ فرمایا ہے وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ یعنی اختلاف انسانوں کی فطرت میں رکھا گیا ہے.پس جب انسانوں کی فطرت کثرت مذاہب کو چاہتی ہے تو پھر وہ ایک مذہب پر کیونکر ہو سکتے ہیں ؟ خدا نے ابتداء میں قابیل ، ہابیل کو پیدا کر کے سمجھا دیا کہ شقاوت و سعادت پہلے سے ہی فطرت انسان میں تقسیم کی گئی ہے اور نیز آیت فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَمَةِ اور آیت وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَمَةِ اور آیت اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ یہ تمام آیتیں بتلا رہی ہیں کہ قیامت تک اختلاف رہے گا.منعم علیہم بھی رہیں گے ، مغضوب علیہم بھی رہیں گے.ہاں ملل باطلہ دلیل کے ९९ رو سے ہلاک ہو جائیں گے.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد۱۷.صفحہ ۳۱۹ ، ۳۲۰.حاشیه در حاشیہ) قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے.سورہ فاتحہ کو دن میں کئی مرتبہ تلاوت کرنے کا حکم امت مسلمہ کو دیا گیا تا کہ یہ مسئلہ ہمیشہ
ستحضر ر ہے.۳۷ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ اس امت کے بعض افراد کو گذشتہ انبیاء کا کمال عطا کیا جائے گا.اور اسی طرح بعض منکروں کو گذشتہ کفار کی عادات بھی دی جائیں گی.اور بڑی شدومد سے آئندہ نسلوں کی گذشتہ نسلوں سے مشاہتیں ظاہر ہو جائیں گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول لتتبعن سنن الذين من قبلكم».کے مطابق جہاں امت مسلمہ یہود و نصاری کی مغضوبیت اور گمراہی میں حصہ لے گی وہاں اس میں اصفیاء و اتقیاء بھی پیدا ہوں گے جو بنی اسرائیل کے انبیاء کے مثیل ہوں گے.یعنی جس طرح یہودیوں کی طرح یہودی پیدا ہو جائیں گے ایسا ہی نبیوں کا کامل نمونہ بھی ظاہر ہو گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَحَرَام عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ.حنت إذا فيُحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حدَبٍ يَنسِلُونَ سُورة الأنبياء 11 یعنی جو لوگ ہلاک کئے گئے اور دنیا سے اٹھائے گئے ان پر حرام ہے کہ پھر دنیا میں آئیں.ہاں یاجوج و ماجوج کے وقت میں ایک طور سے رجعت ہو گی یعنی گذشتہ لوگ جو مر چکے ہیں ان کے ساتھ اس زمانہ کے لوگ ایسی اتم اور اکمل مشابہت پیدا کر لیں گے کہ گویا وہی آگئے.پس یاجوج و ماجوج کا زمانہ زمان الرجعت ہے اور یہ رجعت بروزی ہے نہ کہ رجعت حقیقی.اگر رجعت حقیقی ہو تو پھر سب کو حقیقی طور پر ہی واپس اس دنیا میں آنا چاہئے ، نہ کہ صرف حضرت عیسی کو.آنحضرت
۳۸ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت آخری زمانہ میں سورہ جمعہ کی آیت تو وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ سے مسلم.، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رجعت بروزی طور پر ہوگی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقی رجعت کا جواز کیونکر پیدا ہو سکتا ہے ؟ پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی دنیا میں دوبارہ آئیں گے اور حضرت مسیح علیہ السلام بھی مگر دونوں کی آمد بروزی رنگ میں ہوگی.اسی طرح سے جو لوگ آخری زمانہ میں مہدی اور مسیح کی مخالفت کریں گے وہ بروزی طور پر یہودی بن جائیں گے.اسی لئے سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ہم یہودیوں کی طرح بن جائیں جنہوں حضرت مسیح کا انکار کیا اور اس کے دشمن ہو گئے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود اقرار کرتے ہیں کہ میری دوسری آمد بروزی رنگ میں ہو گی.آپ فرماتے ہیں میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاء تو آپکا اور انہوں نے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا.اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا.ee - (متی ۱۲۰۱۷) اس بیان میں حضرت عیسی علیہ السلام نے صاف الفاظ میں واضح کر دیا کہ ان کا دوبارہ آنا بھی الیاس کی دوبارہ آمد کی طرح ہو گا.چونکہ مسیح علیہ السلام قبل ازیں کئی مرتبہ اپنی آمد ثانی کا حواریوں کے سامنے ذکر کر چکے تھے.جیسا کہ متی کی انجیل سے ظاہر ہے آپ نے چاہا کہ الیاس کی آمد ثانی کی بحث میں اپنی آمد کی حقیقت بھی ظاہر کر دیں.سو آپ نے بتا دیا کہ آپ کی آمد ثانی بھی بروزی طور پر الیاس کی آمد ثانی کی طرح ہو گی.جس طرح الیاس علیہ السلام کے خلق اور طبع پر حضرت یحی علیہ السلام آئے اور ایلیا کہلائے اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے خلق اور خو پر کوئی اور آئے گا.جو مسیح کہلائے گا.پس مسیح موعود علیہ
۳۹ السلام کی آمد صرف اور صرف بروزی طور پر مقدر ہو گی کہ ے دیکھ کر اس کو کریں گے لوگ رجعت کا گماں بروز کا مسئلہ اسی لئے اسلام میں بہت اہمیت کا حامل ہے..چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.جن لوگوں نے بروز کے مسئلہ کو اپنی جہالت سے نظر انداز کر دیا ہے اور خدا کی اس سنت کو جو اس کی تمام مخلوق میں جاری و ساری ہے ، بھول گئے ہیں.وہ لوگ ایک سطحی خیال کو ہاتھ میں لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جن کی روح حدیث معراج کی شہادت سے گذشتہ روحوں میں داخل ثابت ہوتی ہے پھر دوبارہ آسمان سے اتارتے اور دنیا میں لاتے ہیں.اور نہیں سمجھتے کہ اس خیال سے مسئلہ بروز کا انکار لازم آتا ہے اور وہ انکار ایسا خطرناک ہے کہ اس سے اسلام ہی ہاتھ سے جاتا تمام ربانی کتابیں مسئلہ بروز کی قائل ہیں.خود حضرت مسیح نے بھی سکھلائی ہے اور احادیث نبویہ میں بھی اس کا بہت ذکر ہے.اس لئے اس کا انکار سخت جہالت ہے اور اس سے خطرہ سلب ہیں ایمان ہے.Re ) تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵- صفحه ۴۸۱) مسئلہ بروز یر صوفیاء کا اتفاق صوفیاء کرام اس مسئلہ پر متفق ہیں کہ بعض کاملین اس طرح دوبارہ دنیا میں آ جاتے ہیں کہ ان کی روحانیت کسی اور میں بجلی کرتی ہے اور اسی وجہ سے دوسرا شخص گویا پہلا شخص ہی بن جاتا ہے.چنانچہ مشہور صوفی خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں ڈھالا ہے :
والبر وزان يفيض روح من أرواح الكمل على كامل كما يُفيضُ عليه التجليات وهو يصير مظهره ويقول أنا هو».اشارات فريدي ص ۱۱۰).کہ کاملین کی ارواح میں سے کوئی روح کسی کامل انسان پر افاضہ کرے جیسا کہ تجلیات کا افاضہ ہوتا ہے اور وہ اس کا مظہر بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں وہی اس کی ہوں.اسی طرح حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز قرار دیتے ہوئے اپنے وجود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ کا وجود بیان کیا.فرمایا هذا وجود جدى محمد لا وجود عبد القادر».(گلدسته کرامات ص ۸).کہ میرا وجود میرے دادا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے عبدالقادر کا وجود نہیں.ہیں.بروز کے مسئلہ پر صوفیاء کے اتفاق کو بیان کرتے ہوئے شیخ محمد اکرم صابری لکھتے روحانیت کمل کا ہے بر ارباب ریاضت چنان تصرف می فرماید که فاعل افعال شاں مے گردد و این مرتبه را صوفیاء بروز می گویند - (اقتباس الانوار - صفحه ۵۲ ) که کامل لوگوں کی روحانیت ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ وہ روحانیت ان کے افعال کی فاعل ہو جاتی ہے.اس مرتبہ کو صوفیاء بروز کہتے ہیں.پس صوفیاء کے نزدیک بعض ارواح کی مناسبت سے جسم کو اسی کا نام دیا جاتا ہے جس سے وہ روح مناسبت رکھتی ہے.✰✰✰
اسم قرآنِ مجید میں بروز کا بیان اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں بیان فرماتے ہیں." جس شخص کے دل میں حق کی تلاش ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن شریف کے رو سے کئی انسانوں کا بروزی طور پر آنا مقدر تھا.(۱) اول مثیل موسیٰ کا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جیسا کہ آیت إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَهدًا عَلَيْكُمْ مَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا ثابت ہے.(۲) دوم خلفائے موسیٰ کے منیلوں کا جن میں مثیل مسیح بھی داخل ہے جیسا کہ آیت كمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ سے ثابت ہے.(۳) عام صحابہ کے مثیلوں کا جیسا کہ آیت وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ سے ثابت ہے.(۴) چہارم ان یہودیوں کے مثیلوں کا جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السّلام پر کفر کا فتوی لکھا اور ان کو قتل کرنے کے فتوے دیئے اور ان کی ایذاء اور قتل کے لئے سعی کی جیسا کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عليهم میں جو دعا سکھائی گئی ہے اس سے صاف مترشح رہا ہے.(۵) پنجم یہودیوں کے بادشاہوں کے ان متیلوں کا جو اسلام میں پیدا ہوئے جیسا کہ ان دو بالمقابل آیتوں سے جن کے الفاظ باہم ملتے ہیں ، سمجھا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں
یہودیوں کے بادشاہوں کی نسبت ۴۴ اسلام کے بادشاہوں کی نسبت قال عسى ربكم أن يهلك ثم جعلتكم خلائف في الأرض عدوكم ويستخلفكم في الأرض فينظر كيف تعملون].(الجزو نمبر ٧، سورة الأعراف بعدهم لننظر كيف من تعملون].ص (الجزء نمبر ۱: سورة يونس ص.(٣٦٥ یہ دو فقرے یعنی فينظر كيف تعملون جو یہودیوں کے بادشاہوں کے حق میں ہیں اور اس کے مقابل پر دوسرا فقرہ یعنی لننظر كيف تعملون جو مسلمانوں کے بادشاہوں کے حق میں ہے صاف بتلا رہے ہیں کہ ان دونوں قوموں کے بادشاہوں کے واقعات بھی باہم متشابہ ہوں گے.سو ایسا ہی ظہور میں آیا.اور جس طرح یہودی بادشاہوں سے قابل شرم خانہ جنگیاں ظہور میں آئیں اور اکثر کے چال چلن بھی خراب ہو گئے.یہاں تک کہ بعض ان میں سے بد کاری ، شراب نوشی ، خونریزی ، اور سخت بے رحمی میں ضرب المثل : گئے.یہی طریق اکثر مسلمانوں کے بادشاہوں نے اختیار کئے.ہاں بعض یہودیوں کے نیک اور عادل بادشاہوں کی طرح نیک اور عادل بادشاہ بھی بنے جیسا کہ عمر بن عبد العزیز.(۶) چھٹے ان بادشاہوں کا قرآن شریف میں ذکر ہے جنہوں نے یہودیوں کے سلاطین کی بد چلنی کے وقت ان کے ممالک پر قبضہ کیا جیسا کہ آیت غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّنْ بَعْدِ عَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُون ہو
۴۳ سے ظاہر ہوتا ہے.حدیثوں سے ثابت ہے کہ روم سے مراد نصاری ہیں.اور وہ آخری زمانہ میں پھر اسلامی ممالک کے کچھ حصے دبا لیں گے اور اسلامی بادشاہوں کے ممالک ان کی بد چلینیوں کے وقت میں اسی طرح نصاری کے قبضے میں آ جائیں گے جیسا کہ اسرائیلی بادشاہوں کی بدچلنیوں کے وقت رومی سلطنت نے ان کا ملک دبالیا تھا..پس واضح ہو کہ یہ پیش گوئی ہمارے اس زمانہ میں پوری ہو گئی.مثلاً روس نے جو کچھ رومی سلطنت کو خدا کی ازلی مشیت سے نقصان پہنچایا وہ پوشیدہ نہیں.اور اس آیت میں جب کہ دوسرے معنے کئے جائیں.غالب ہونے کے وقت میں روم سے مراد قیصر روم کا خاندان نہیں کیونکہ وہ خاندان اسلام کے ہاتھ سے تباہ ہو چکا بلکہ اس جگہ بروزی طور پر روم سے روس اور دوسری عیسائی سلطنتیں مراد ہیں جو عیسائی مذہب رکھتی ہیں.طور اسی بناء پر احادیث میں آیا ہے کہ مسیح کے وقت میں سب سے زیادہ دنیا میں روم ہوں گے.یعنی نصاری.اس تحریر سے ہماری غرض یہ ہے کہ قرآن اور احادیث میں روم کا لفظ بھی بروزی طور پر آیا ہے.یعنی روم سے اصل روم مراد نہیں ہیں بلکہ نصاری مراد ہیں.پس اس جگہ چھ بروز ہیں جن کا قرآن شریف میں ذكر..اب عظمند سوچ سکتا ہے کہ جبکہ سلسلہ محمدیہ میں موسیٰ بھی بروزی طور پر نام رکھا گیا ہے اور محمد مہدی بھی بروزی طور پر اور مسلمانوں کا نام یہودی بھی بروزی طور پر اور عیسائی سلطنت کے لئے روم کا نام بھی بروزی طور پر.تو پھر ان تمام بروزوں میں مسیح موعود کا حقیقی طور پر عیسی بن مریم ہونا سراسر غیر موزوں ہے.ہے
سلام سلام تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷ - صفحه ۳۰۶ تا ۳۰۸) مسیح کی بروزی آمد پر امتِ مسلمہ کا اتفاق حضرت مسیح علیہ السلام کی بحجم عصری آمد پر بعض لوگ یقین رکھتے ہیں لیکن امت مسلمہ کے اکابرین اس حقیقت پر متفق ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد بروزی طور پر ہو گی.ان کا عقیدہ ہے کہ جس طرح گذشتہ کالمین کی ارواح سے بعض لوگوں کی ارواح کامل اتصال پیدا کر لیتی ہیں اور ان کی مظہر بن جاتی ہیں اسی طرح حضرت عیسی علیہ السّلام ہے مہدی علیہ السلام کی روح کامل اتصال پیدا کر کے عیسی بن جائے گی.چنانچہ شیخ محمد اکرم صابری لکھتے ہیں بعضی بر آنند که روح عیسی در مهدی بروز کند و نزول عبارت از ہمیں بروز است مطابق حدیث لا مهدي إلا عيسى بن مريم».(اقتباس الأنوار ص ٥٢).کہ بعض کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ کی روحانیت مہدی میں بروز کرے گی اور حدیث میں لفظ نزول سے مراد بروز ہی ہے.مطابق اس حدیث کے کہ نہیں ہے مہدی مگر عیسی بن مریم.اسی طرح علامہ میبدی نے شرح دیوان میں لکھا ہے." روح عیسی علیہ السلام در مهدی بروز کند و نزول عیسی این (غایۃ المقصود.صفحہ ۲۱) کہ عیسیٰ علیہ السلام کی روح مہدی علیہ السلام میں بروز کرے گی اور عیسی بروز است - جلد علیہ السلام کا نزول بروزی طور پر ہے.پس جب ہم کلام الہی ، صحف انبیاء ، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخ عالم کا مطالعہ کرتے ہیں تو کوئی ایک شہادت بھی ایسی نہیں پاتے کہ جس سے
۴۵ کسی وجود کا بعد مرنے کے دوبارہ دنیا میں آنا ثابت ہو.اور نہ ہی رجعت حقیقی کی کوئی مثال صفحہ ہستی پر ملتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اس بات کی منادی کرتی ہے کہ جب بھی کسی وجود کے دوبارہ آنے کی پیش گوئی ہو تو اس سے مراد اس کی بروزی آمد ہوتی ہے.ایسی پیش گوئی اس کے مثیل کے ذریعہ پوری کی جاتی ہے.اسی لئے حضرت شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا : وجب نزوله في آخر الزمان بتعلقه ببدن آخر».تفسير عرائس البيان جلد ۱ ص ٢٦٢).کہ یہ ضروری ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول آخری زمانہ میں ایک دوسرے بدن کے ساتھ ہو.یعنی نام تو وہی عیسیٰ ہی ہو گا لیکن وجود کوئی اور ہو گا.علامہ اقبال نے بھی اسی نقطہ نگاہ کی تائید کی ہے اور اسے عقل کے عین مطابق قرار دیا ہے.زبان خلق اور نقارہ خدا گذشتہ صفحات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ کسی وجود کے دوبارہ دنیا میں آنے کی جب پیش گوئی موجود ہو اور دنیا اس کی آمد کی منتظر ہو تو خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اس کا متیل پیدا کرتا ہے جو پہلے کی خاصیت اور طبع کا آئینہ اور عکس ہوتا ہے.اس کے وجود میں پہلے کی سیرت و صورت نظر آتی ہے.اسی سنت اللہ کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معبود متیل عیسی نہیں یعنی آپ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی قوت اور طبع پر ہیں اور ان کے رنگ میں رنگین ہیں.دیکھنے والا آپ کی زندگی کے ہر شعبہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے دیکھیں رسالہ علامہ اقبال کا پیغام ملت اسلامیہ کے نام.صفحہ ۲۲ ، ۲۳)
حالات اور سیرت و کردار کا مشاہدہ کر سکتا ہے.اس مشاہدہ سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ گویا آپ مسیح ہی ہیں.اسی لئے آپ کے نزول کو کا نزول قرار دیا گیا ہے.چنانچہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں.إطلاق اسم الشيء على ما يشابهه في أكثر خواصه وصفاته جائز حسن».(تفسير كبير رازي جلد ٢ ص ٦٨٩).کہ کسی چیز کے نام کا اطلاق ایسی چیز پر جو اپنے خواص اور صفات کی وجہ سے پہلی ee سے مشابہ ہو جائز اور مستحسن ہوتا ہے.ایسی تشبیہ جس میں مشتبہ (جس کو تشبیہ دی جائے ) اور مشبہ بہ (جس سے تشبیہ دی جائے ) میں سے ایک مذکور نہ ہو اور نہ ہی وجہ شبہ اور حروف تشبیہہ کا ذکر ہو اس کو استعارہ کہتے ہیں.استعارہ میں لفظ ہمیشہ اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے.مثلا ماں اپنے بچے کو ” چاند " کہتی ہے..اس میں مشتبہ ، وجہ شبہ اور حروف تشبیه مذکور نہیں.صرف مشتبه به مذکور ہے اسلئے بیٹے کے لئے "چاند استعمال بطور استعارہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ مکہ نے استعارة ابن ابی کب کے یاد کیا.( بخاری.کتاب کیف کان بداء الوحی) کیونکہ ابن ابی کبشہ بتوں کی پرستش سے مشرکین مکہ کو روکا کرتا تھا.اس صفت میں آنحضر.صلی اللہ علیہ وسلم کے ابن ابی کبشہ سے اشتراک کے باعث کفار نے آپ کو ” ابن ابی - واصل الاستعارة تشبيه حذف أحد طرفيه ووجه شبهة وأداته».(قواعد اللغة العربية ص (۱۲۸).ابن ابی کبشہ لوگوں کو بتوں کی عبادت سے روکتا تھا.چنانچہ لکھا ہے.هو رجل من خزاعة خالف قريشًا في عبادة الأوثان...فنسبوه إليه للإشتراك (فتح الباري جلد ١ ص ٤٠، باب بدأ الوحي).في مطلق المخالفة».
کے ہم کبشہ " کہا.اسی مضمون کو علامہ عبید اللہ بن مسعود حنفی نے اپنی کتاب ”التوضیح میں اس طرح بیان کیا ہے : كاستعارة اسم أبي حنيفة رحمة الله تعالى رجل عالم فقيه متَّق».یعنی ایک عالم اور فقیہ انسان کو استعارہ ابو حنیفہ کہا جاتا ہے.(ص ١٨٤).علامہ زمخشری لکھتے ہیں : «أبو يوسف أبو حنيفة تريد أنه لاستحكام الشبه كأن ذاته ذاته.تفسیر کشاف - جلد ۱ - صفحہ ۲۰۲ ) و ( تفسیر بیضاوی - زیر آیت.هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ) کہ ابو یوسف ابو حنیفہ ہی ہیں.یہ صرف مشابہت کو مستحکم کرنے کے لئے کہا گیا ہے.گویا ابو یوسف کی ذات ابو حنیفہ کی ذات ہے.یعنی امام ابو یوسف کو استعارہ امام ابو حنیفہ کہا گیا ہے..اسی جاری اور متفقہ اصول کے تحت مولانا شاہ احمد نیاز نے اپنے آپ کو استعارہ کے طور پر نہ کہ حقیقی طور پر عیسی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور علی قرار دیا ہے.آپ فرماتے ہیں عیسی مریمی منم ہاشمی منم حیدر شیر از منم (دیوان مولانا شاہ نیاز احمد ) کہ عیسیٰ بن مریم میں ہوں ، احمد ہاشمی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں ہوں ، شیر نر علی حیدر میں ہوں ، اور میں میں نہیں ہوں ، میں میں ہوں.حتی که سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ انسان بحالت ترک نفس و فنافی اللہ تمام انبیاء کا
۴۸ وارث اور ان کا مثیل بن جاتا ہے.(دیکھیں فتوح الغیب.المقالہ الرابعہ ) جہاں قرآن کریم ، احادیث اور اولیاء اللہ کے کلام وغیرہ استعارات سے بھرے پڑے ہیں ، وہاں کتب سابقہ بھی اس قسم کے استعارات سے پر ہیں حضرت الیاس علیہ السلام کی آمد کی پیش گوئی حضرت یحی علیہ السلام کے وجود میں کس شان سے پوری ہوئی حالانکہ کہا گیا تھا کہ ”ایلیاء نبی کو تمہارے پاس بھیجوں اوصاف اور طبع کی یگانگت کے باعث حضرت بیٹی کو الیاس کہا گیا ہے گا.k ؟؟.اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو لوگوں نے دیکھا تو کہا کہ وو یہ یسعیاہ ہے یا یرمیاہ ہے.(حیات اسیح.صفحہ ۱۶۴) پس یہ عام محاورہ ہے کہ جب متکلم کا یہ ارادہ ہو کہ مشتبہ اور مشتبہ ہے میں مماثلت نا مہ بیان کرے تو وہ مشتبہ کو مشبہ بہ پر حمل کر دیتا ہے تا انطباق کلی ہو کیونکہ وہ مطلب جو مماثلتِ تامہ کا اس کے دل میں ہوتا ہے حروف تشبیہہ مثلاً مانند " وغیرہ لانے سے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور جس کیفیت کو وہ ادا کرنا چاہتا ہے وہ ان لفظوں سے ادا نہیں ہو سکتی.ہم اپنی بول چال میں بھی نیک انسان کو فرشتہ ، بہادر کو شیر، سخی کو حاتم ، طاقتور کو رستم اور اسی طرح بے وقوف کو گدھا ، بزدل کو بکری ، چالاک کو لومڑی ، نقال کو بندر، بد زبان کو کتا وغیرہ کہہ کر استعارے استعمال میں لاتے ہیں.حالانکہ ان اوصاف والے انسان حقیقتاً وہ چیز نہیں ہوتے.مثلا جب ہم کسی بہادر انسان کو شیر کہتے ہیں تو صرف ایک ہی وصف (بہادری) کی وجہ سے جو اس میں اور شیر میں مشترک ہے ، حروف تشبیہ اڑا کر اسے بعینہ شیر کہہ دیتے ہیں.حالانکہ وہ دونوں دوسرے اوصاف میں ایک دوسرے سے بالکل جدا اور مختلف ہوتے ہیں.پس یہ استعارات کا استعمال اور تمثیلی زبان ہے.استعارہ میں لفظ ہمیشہ مجازی
۴۹ معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اس میں لفظ کو حقیقی معنوں سے تعبیر کرنا قواعد فصاحت و بلاغت سے صریح انحراف ہے جو در اصل بیان کو بیہودہ اور لغو بنا دیتا ہے.اس حقیقت کو اور " عیسیٰ بن مریم " کے استعارہ کو سید کوئین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ایک اور جگہ بھی بیان فرما چکے ہیں اور وہاں محض اور محض.مجازی معنی ہی لئے گئے ہیں.چنانچہ ایک شامی بزرگ کو جو کہ حضرت سلمان فارسی کے اسلام لانے کا موجب بنے تھے ، کے بارہ میں جب حضرت سلمان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا يا سلمان لقد لقيت عيسى ابن مريم».(السيرة النبوية لابن هشام، جلد ۱، ص ۲۲۲ حضرة سلمان فارسي).اے سلمان ! تم نے تو عیسی بن مریم سے ملاقات کی ہے.یہ روایت اس درجہ ثقہ ہے کہ مجدد اول حضرت عمر بن عبد العزیز نے بیان فرمائی ہے اور ابن ہشام جیسے اولین اور مستند تاریخ دان نے اسے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے.ہم اگر روز مرہ کی بات چیت کو استعارات اور تمثیلات سے مرصع کرتے ہیں تو وہ جس کو جوامع الکلم عطا کئے گئے تھے.جو زبان دانی کا شہنشاہ تھا.ام اللغی جس کی نوک زبان پر مچلتی تھی.جو افصح اللسان اور ابلغ الکلام تھا.صلی اللہ علیہ وسلم.اس کے لئے ہم کیوں روا نہیں رکھتے کہ وہ استعارات و تشبیہات سے اپنے کلام کو مزین کرے.اس نے اگر مثیل مسیح کو مماثلبت تامہ کے سبب استعارہ مسیح " کہہ دیا تو طبیعت میں انقباض کیسا؟ اور متیل مسیح کے انکار کی کیا وجہ ؟ اصحاب بصیرت تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کسی دوسرے وجود ہی میں ظاہر ہوں گے اور مسیح کے نزول سے مراد متیل مسیح کی آمد مراد ہے.حضرت امام سراج الدین ابن الور دی لکھتے ہیں :
قالت فرقة من نزول عيسى خروج رجل يشبه عيسى في الفضل والشرف كما يُقال للرجل الخير ملك وللشرير شيطان تشبيها بها ولا يراد بهما الا عيان.(خريدة العجائب وفريدة الرغائب ص ٢٦٣ ، باب بقية من خبر عيسى).کہ ایک گروہ نے نزول عیسیٰ سے ایک ایسے شخص کا ظہور مراد لیا ہے جو فضل و شرف میں عیسیٰ علیہ السّلام کے مشابہ ہو گا.جیسے تشبیہ دینے کے لئے نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہتے ہیں.مگر اس سے مراد فرشتہ یا شیطان کی ذات نہیں ہوتی.یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف کلام کو حسن و خوبی عطا کرنے کے لئے ہی آنے والے کو ” " کے استعارہ سے نہیں نوازا بلکہ آپ آنے والے مسیح اور وفات یافتہ مسیح کی سیرت اور کردار کا ایک ایک پہلو ، زندگی کا ایک ایک لمحہ ایک دوسرے کے رنگ میں رنگین دیکھ رہے اور حالات و واقعات اور بعد کی تاریخی شہادتوں نے اس پر مہر تصدیق تھے.ثبت کر دی کہ آنے والے کو " ہی کا لقب دینا ضروری تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا سچ فرمایا اور جو فرمایا وہ پورا ہوا کیونکہ آپ کی روح کے تاروحی الہی سے منسلک تھے اور آپ کی نگاہیں قیامت تک کے حالات و واقعات کی تصویر دیکھتی تھیں.حضرت یحییٰ علیہ السلام کی مماثلت حضرت الیاس سے ایک ادنی مماثلت تھی لیکن حضرت مسیح موعود اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی مماثلت کی نظیر تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتی.اسلئے مسیح موعود کے لئے ” " کا استعارہ ایک بے اور بے نظیر استعارہ تھا.جس کی صداقت اور حقانیت کے اظہار کے لئے خدا تعالی کی قدرت کا عظیم ہاتھ کار فرما نظر آتا ہے.مسیح علیہ السلام اور مقبل مسیح علیہ السلام کے حالات ، ان کی پیدائش سے وفات تک بالکل ایک ہی شخص
۵۱ کے حالات معلوم ہوتے ہیں.پھر زمانہ کے تغیرات ، زمینی و آسمانی شہادتیں اس مماثلت کی بے نظیری کی عکاس ہیں.دونوں کی تعلیمات کا دھارا بھی ایک ہی سمت بہتا ہے.اس قدر عجیب در عجیب مماثلتیں کہ گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں.الغرض خدا کی قولی اور فعلی شہادت نے ثابت کر دیا کہ حدیث نبوی میں نزول ابن مریم سے مراد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اس امت میں بھی عیسی علیہ السلام کی طرح ان کی قوت اور طبع پر ایک شخص کی بعثت ہو گی جو ان کا مثیل اور بروز ہو ا گا.جس طرح الیاس علیہ السلام کے متیل اور بروز حضرت یحییٰ علیہ السلام تھے.چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے ان پیش گوئیوں کا مصداق ہونے کا اعلان فرمایا کہ آپ ہی اس زمانہ میں مسیح، اور عیسی کے رنگ میں ظاہر ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ نے آپ کے اس دعوی کی صداقت انفسی و آفاقی نشانات سے ثابت فرمائی.اور آپ کی حضرت مسیح علیہ السلام سے کامل مماثلت اور مشابہت کے بکثرت ثبوت مہیا فرمائے.اسی طرح قرانی تعلیم کی رُو سے آپ کا ابنِ مریم ہونا بھی بپایہ ثبوت کو پہنچتا ہے.قارئین آئندہ صفحات میں مذکورہ بالا امور پر سیر حاصل بحث ملاحظہ فرمائیں گے.انشاء اللہ
باب دوم أقول ولا اخشى فانى مثيله ولو عند هذه القول بالسيف اضرب میں یہ دعوی کرتا ہوں کہ میں اس (مسیح ناصری ) کا مثیل ہوں اور مجھے کوئی خوف نہیں خواہ اس بات کے کہنے سے میں تلوار سے قتل کر دیا جاؤں.
I کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے جس کی مماثلت کو خدا نے بتا دیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا
البام البی ۵۵ أنت أشد مناسبة بعيسى ابن مريم وأشبه الناس خُلقًا، خلقًا وزمانا».(تذكرة ص (۱۷۸).ترجمہ: تو کیا بلحاظ اخلاق ، کیا بلحاظ صورت و خلقت اور کیا بلحاظ زمانہ عیسیٰ بن مریم کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر مناسبت اور مشابہت رکھتا ہے.اگر مسیح ناصری کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس جگہ اس سے برکات کم نہیں ہیں.ee (تذکرہ - صفحہ ۳۹۷) " جعلناك المسيح ابن مريم».(ہم نے تجھ کو مسیح بنایا ) ان کو کہہ دے کہ میں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں.یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سنا.سو تو جواب دے کہ تمہارے معلومات وسیع نہیں.خدا بہتر جانتا ہے.(تذکرہ - صفحہ ۱۸۵)
۵۶ فرمان مسیحائے زماں " نہایت عجیب بات ہے کہ جیسے ایک مسیح یعنی محض روحانی طاقت سے دین کو قائم کرنے والا اور محض روح القدس سے یقین اور ایمان کو پھیلانے والا موسوی سلسلہ کے آخر میں آیا.ایسا ہی اور اسی مدت کی مانند موسیٰ کے سلسلہ خلافت کے آخر میں آیا." " ایام الصلح - روحانی خزائن جلد ۱۴.صفحہ ۲۹۷) W دو سلسلوں کی مماثلت میں یہی قاعدہ ہے کہ اول اور آخر میں اشتر درجہ کی مشابہت ان میں ہوتی ہے ، کیونکہ ایک لمبے سلسلہ اور ایک طولانی مدت میں تمام درمیانی افراد کا مفصل حال معلوم کرنا طول بلا طائل ہے.پس قرآن کریم نے صاف بتلا دیا کہ خلافتِ اسلامی کا سلسلہ اپنی ترقی اور تنزل ، اپنی جلالی اور جمالی حالت کی رو سے خلافت اسرائیلی سے یکلتی مطابق و مشابہ و مائل ہو گا اور یہ بھی بتلا دیا گیا کہ جیسے اسلام میں سر دفتر الہی خلیفوں کا میل موسیٰ ہے جو اس سلسلہ اسلامیہ کا سپہ سالار اور بادشاہ اور تخنت عزت کے اول درجے پر بیٹھنے والا اور تمام کا مصدر اور اپنی روحانی اولاد کا مورث اعلیٰ ہے صلی اللہ علیہ وسلم.ایسا ہی اس سلسلہ کا خاتم باعتبار نسبت نامہ وہ صیح عیسیٰ بن مریم ہے جو اس امت کے لوگوں میں بحکم رتی مسیحی صفات سے رنگین ہو گیا رنگین ہو گیا ہے.اور فرمان نے اس کو در حقیقت }) جعلناك المسيح ابن مريم.وہی بنا دیا ہے.وکان الله على كل شيء قديرا»
۵۷ دو (ازالہ اوہام - روحانی خزائن.جلد ۳ صفحہ ۴۶۳) میں اس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اللہ مرد خدا بھیجا گیا تھا.جس کی روح ہیروڈیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی سو جب دوسرا کلیم اللہ جو حقیقت میں سب سے پہلا اور سید الانبیاء ہے.دوسرے فرعونوں کی سرکوبی کے لئے آیا جس کے حق میں ہے.إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَهِدًا عَلَيْكُمْ كَما أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا سو اس کو بھی جو اپنی کاروائیوں میں کلیم اول کا مثیل بگر رتبہ میں اس سے بزرگ تر تھا ایک مثیل مسیح کا وعدہ دیا گیا اور وہ مثیل مسیح قوت اور طبع اور خاصیت مسیح کی پاکر اسی کی مانند اور اسی مدت کے قریب قریب جو کلیم اول کے زمانہ سے مسیح کے زمانہ تک تھی یعنی چودہویں صدی میں آسمان سے اترا.وہ اترنا روحانی طور پر تھا جیسا کہ مکمل لوگوں کا صعود کے بعد خلق اللہ کی اصلاح کے لئے نزول ہوتا ہے.اور سب باتوں میں اسی زمانہ کے ہم شکل زمانہ میں اترا جو مسیح کے اترنے کا زمانہ تھا.ترجمه كان عيسى علما et فتح اسلام.روحانی خزائن جلد - ۳ صفحه ۸) لبني اسرائيل وأنا علم لكم أيها المفرطون».خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن.جلد ۱۶.صفحہ ۱۷۸) جیسا کہ عیسی بنی اسرائیل کے لئے نشان تھا.ایسا ہی
۵۸ میں تمہارے لئے اے حد سے بڑھنے والو ! نشان ہوں.شاء يبد الفا نظيره وإن ربي وارسلني مثيلاً فتنظر ربي وقد اصطفاني مثل عيسى ابن مريم فطوبی لمن يأتين صدقا ويبصر ترجمہ : اس (۱) خدا چاہے تو اس جیسے ہزار پیدا کر سکتا.نے اب مجھ کو اس کا نظیر بنا کر بھیجا ہے اور تم دیکھ رہے ہو.(۲) اور اس نے مجھے متیل عیسی کے طور پر چن لیا ہے.پس مبارک ہو اسے جو صدق دل کے ساتھ اور بصیرت کی راہ سے میرے پاس آتا ہے.مسلم است مرا از خدا حکومت عام که من مسیح خدایم که برسما باشد ترجمہ : خدا کی طرف سے میری حکومت ثابت ہو چکی ہے کیونکہ میں اس خدا کا مسیح ہوں جو آسمان پر ہے.اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے.اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقعہ ہوئی ہے.گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں.اور بحدے اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز
۵۹ ce ہے.وو (تذکرہ - صفحہ ۷۶ ) نہ صرف ایک مشابہت بلکہ کئی مشابہتیں ثابت ہوتی ہیں جو مجھ میں اور حضرت عیسی علیہ السلام میں پائی جاتی ہیں.te ایام الصلح - روحانی خزائن جلد ۱۴ - صفحه ۲۹۳)
۶۱ ا: میع اور مثیل مسیح مماثلت بحیثیت نبی متبوع إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَهِدًا عَلَيْكُمْ مَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا امام سُورة المزمان ١٥ ترجمہ : ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے اسی طرح جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اس آیت کریمہ میں دو عظیم الشان اور صاحب شریعت نبیوں کا ذکر ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا.( 1 ) عظیم الشان نبی کے تابع ) مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشن کو کامیاب کرنے اور آگے بڑھانے کے لئے مبعوث ہوئے.فرمایا ” یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں." (متی ۱۷:۰۵) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو کامیاب کرنے اور اسے ساری دنیا میں رائج کرنے
۶۳ کے لئے مبعوث ہوئے.آپ نے فرمایا یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے.اور دار النتجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ ہے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ حجتہ الاسلام - روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۵۲، ۵۳ ) کے (1) بڑے گھرانے کے بڑیے بی بی این اسلام بنی اسرائیل کے صیح موسوی حضرت عیسی سب سے بڑے گھرانے کے عظیم الشان نبی کے تابع تھے.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنی اسماعیل کے سب سے بڑے گھرانے کے عظیم الشان نبی کے تابع تھے.:۲ مماثلت بحیثیت خلافت وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ سورة النور ترجمہ : اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا.
۶۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وقد وعد الله الذين أمنوا منكم ليستخلفنهم كمثل خلفاء شرعة موسى فوجب أن يأتي آخر الخلفاء على قدم عيسى ومن هذه الأمة....أيليق بشأن الله أن يعدكم أنه يبعث الخلفاء منكم كمثل الذين خلوا من قبل ثم ينسى وعده وينزل عيسى من السماء.(خطبة) إلهامية، روحاني خزائن ، جلد ١٦ ص ١٣٩).کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو موسیٰ کی شریعت کے خلیفوں کی مانند بنائے گا.پس یہ واجب ہوا کہ آخری خلیفہ عیسی علیہ السلام کے قدم پر آئے گا اور اسی امت میں سے ہو گا.کیا خدا کی شان کے لائق ہے کہ وہ تم سے وعدہ کرے کہ خلیفے تم میں سے پیدا کرے گا ان کی مانند جو پہلے گذرے.پھر اپنے وعدہ کو بھول جائے اور عیسی کو آسمان سے اتارے ؟ ( i ) تابع شریعت سیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے قول اور فعل میں شریعت موسویہ کی اتباع کرنے والے تھے اور اس کی تفسیر کرنے والے تھے.متی باب ۵" میں آپ شریعت کے احکام پر عمل کرنے کی بار بار تلقین فرماتے ہیں.چنانچہ کتاب "حیات اسیح" کے صفحہ ۴۳ پر آپ کے بارہ میں لکھا ہے اس کا کلام جو پرانے عہد نامے کے اقتباسوں سے بھرا ہوا ہے ثابت کرتا ہے کہ یہ پاک نوشتے اس کی روح کی غذا اور اس کے دل کی تسلی کا باعث تھے.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر قول اور فعل شریعت محمدی کے تابع ہے آپ قرآن کریم کو ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیتے
ہیں.اس کے بعد سنت نبوئی اور پھر حدیث نبوی کو.(تفصیل دیکھیں ریویو بر مباحثہ بٹالوی چکڑالوی ).نیز قرآن کریم کے بارہ میں فرمایا : ” سب سے سیدھی راہ اور بڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھرا ہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے قرآن کریم ہے." نیز فرمایا : (ازالہ اوہام.روحانی خزائن.جلد ۳.صفحہ ۳۸۱) یک قدم دوری ازاں روشن کتاب نزد ما کفر است و خسران و تاب چنانچہ اس مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں "انجیل میں ہرگز کوئی شریعت نہیں بلکہ توریت کی شرح ہے اور عیسائی لوگ توریت کو الگ نہیں کرتے.جیسے مسیح توریت کی شرح بیان کرتے تھے اسی طرح ہم بھی قرآن شریف کی شرح بیان کرتے ہیں.( ملفوظات.جلد ۴ - صفحه ۳۸۲) ( ii ) موعود مسیح موسوی : سلسلہ موسویہ میں مسیح کی آمد کا وعدہ موجود تھا.جیسا کہ یہودی اس وعدہ کے پورا ہونے کے منتظر تھے.اسی لئے انہوں نے حضرت یحییٰ سے پوچھا کہ کیا تو مسیح ہے ؟ (یوحنا ، باب ۱ ).حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے اپنی آمد کے اس وعدہ کے بارہ میں
۶۵ حضرت مسیح علیہ السلام خود بیان فرماتے ہیں کہ اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے.اس لئے کہ اس نے میرے حق میں لکھا ہے.(یوحنا ۴۶۰۵) اور حضرت یسعیاہ علیہ السلام کی زبانی اس وعدہ کا اظہار یوں ہوا کہ خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا.دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اس کا نام عمانوایل رکھے گی." یسیاه ۷ : ۱۴) چنانچہ حضرت یسعیاہ کی اس پیش گوئی کو انجیل متی ۱ : ۲۳ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر چسپاں کیا گیا ہے.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا بھی امت مسلمہ کو وعدہ دیا گیا تھا.چنانچہ صادق و مصدوق حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا ليوشكن أن ينزل فيكم بن مريم.....(بخاري، باب نزول عيسى).کہ تم میں ابنِ مریم نازل ہو گا.اس وعدہ کے ساتھ آپ نے کئی ایک مقامات پر آنے والے کی آمد کی کئی نشانیاں بھی بیان فرمائیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی آمد کے وعدہ کے بارہ میں یہ وضاحت بیان فرمائی کہ میں وہی ہوں جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا.ہاں ! میں وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی زبان پر وعدہ ہوا." ( ملفوظات.جلد ۳.صفحہ ۶۵) اس مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.
۶۶ وو موسیٰ کے سلسلہ میں مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں.نیز فرمایا (کشتی نوح - روحانی خزائن.جلد ۱۹.صفحہ ۱۷) اسلام میں اگر چہ ہزارہا ولی اور اہل اللہ گذرے ہیں مگر ان میں کوئی موعود نہ تھا.لیکن وہ جو مسیح کے نام پر آنے والا تھا وہ موعود تھا.ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پہلے کوئی نبی موعود نہ تھا صرف مسیح موعود تھا." ( تذکرہ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰.صفحہ ۳۱) ( iii ) نبوت کے حامل مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے مقام نبوت عطا کیا تھا جیسا کہ فرمایا: مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولُ سُورة ال اية مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی خدا تعالیٰ نے خلوت نبوت سے سرفراز فرمایا.آپ کے بارہ میں ذکر کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک ہی بیان میں چار مرتبہ نبی کے خطاب سے یاد فرمایا.دیکھئے صحیح مسلم.کتاب الفتن.نیز ایک اور جگہ فرمایا «ألا إنه ليس بيني وبينه نبي ولا رسول».(طبراني في الأوسط والكبير.کہ میرے اور اس ( مسیح موعود کے درمیان نہ کوئی نبی ہے اور نہ کوئی رسول (یعنی آپ اور مسیح موعود دونوں نبی ہیں درمیان میں اور کوئی نبی نہیں.)
۶۷ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے خاتم ٹھہرایا ہے.اور پھر دونوں سلسلوں کا تقابل پورا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ موسوی مسیح کے مقابل پر محمدی مسیح بھی شان نبوت کے ساتھ آوے تا اس نبوتِ عالیہ کی کسر شان نہ ہو.اس لئے خدا تعالیٰ نے میرے وجود کو ایک کامل ظلیت کے ساتھ پیدا کیا اور ظلی طور پر نبوت محمدی اس میں رکھ دی تا ایک معنے سے مجھ پر نبی اللہ کا لفظ صادق آوے اور دوسرے معنوں سے ختم نبوت محفوظ رہے." نزول اسیج روحانی خزائن جلد ۱۸ - صفحه ۳۸۱ ، ۳۸۲- حاشیه ) ✰✰✰ (iv) مجدد و مامور چودہویں صدی ہے مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام امت محمدیہ کی تجدید کرنے والے تھے اسی لئے آپ نے فرمایا کہ میں توریت کے حکموں کو پورا کرنے آیا ہوں مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو سال بعد مسیح بن کر آئے.لکھا ہے " حضرت موسیٰ خداوند مسیح سے قبل چودہویں صدی کے پہلے ربع میں بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکال لائے تھے." صحت کتب مقدسہ - صفحہ ۷۸- از پادری برکت الله ) نیز قصص القرآن " میں لکھا ہے اب جدید مصری اثری تحقیقات اور حجری کتبات کے پیش نظر اس سلسلہ میں دوسری رائے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا فرعون ریمسیس شانی کا بیٹا منفتاح ہے.جس کا دور حکومت ۱۲۹۲ ق م سے شروع ہو کر ۱۲۲۵ ق م
YA.گویا آپ شریعت موسوی کے احیاء کے لئے مامور ہوئے اور آپ اس امت کے لئے مجدد تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں مجدد تھا.اسرائیلی شریعت کے زندہ کرنے کے لئے مسیح چودہویں صدی کا مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵.صفحہ ۲۹ ) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی شریعت محمدیہ کی تجدید کے لئے مبعوث ہوئے.اور آپ بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح چودہویں صدی میں مامور ہوئے.آپ فرماتے ہیں ” جب تیرہویں صدی کا آخیر ہوا اور چودہویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے." (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳.صفحہ ۲۰۱.حاشیہ ) چودہویں صدی میں حضرت عیسی علیہ السلام سے مشابہت کے بارہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں.پر ختم ہوتا ہے." ) قصص القرآن.جلد اول.صفحہ ۳۲۹ ) پس اس سے واضح ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام چودہ سو سال بعد آئے.سیخ محمدی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۵۰ ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۳۲۶ میں آپ کا وصال ہوا.اس سے واضح ہے کہ آپ اپنے آقاو مولی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودہویں صدی کے شروع میں مبعوث ہوئے.
۶۹ " حضرت عیسیٰ علیہ السلام ظاہر نہیں ہوئے تک حضرت موسیٰ کی وفات پر چودہویں صدی کا ظہور نہیں ہوا.ایسا ہی میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے چودہویں صدی کے سر پر مبعوث ہوا ہوں.چونکہ خدا تعالیٰ کو یہ پسند آیا ہے کہ روحانی قانون قدرت کو ظاہری قانونِ قدرت سے مطابق کر کے دکھلائے اس لئے اس نے مجھے چودہویں صدی کے سر پر پیدا کیا کیونکہ سلسلہ خلافت سے اصل مقصود یہ تھا کہ سلسلہ ترقی کرتا کرتا کمال تام کے نقطہ پر ختم ہو." وو تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷.صفحہ ۲۰۹) اسی طرح فرمایا.چودہویں صدی کے سر پر مجھے مامور کرنا اسی حکمت کے لئے تھا کہ اسرائیلی مسیح اور محمدی مسیح اس فاصلہ کے رو سے جو ان میں اور ان کے مورث اعلی میں ہے باہم مشابہ ہوں.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵- صفحه ۵۲۴) اور فرمایا اگر موسیٰ کی چودہویں صدی اور موسیٰ کے مثیل کی چودہویں صدی کا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں باہم مقابلہ کیا جائے تو اول یہ نظر آئے گا کہ ان دونوں چودہویں صدیوں میں دو ایسے شخص ہیں جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا اور وہ دعوی سچا تھا اور خدا کی طرف سے تھا." مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵.صفحہ ۲۹)
ง (۷) خاتم الخلفاء مسیح موسوی : الخلفاء تھے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام سلسلہ موسویہ کے خاتم مسیح محمدی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سلسلہ محمدیہ میں خاتم الخلفاء ہیں.اس بارہ میں آپ فرماتے ہیں.میں روحانیت کی رُو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں جیسا کہ مسیح اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا." :۳ ( 1 ) آمد سے قبل کشتی نوح - روحانی خزائن.جلد ۱۹.صفحہ ۱۷) آمد سیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے قبل یہود کو آپ کی بعثت کا مکمل یقین تھا.چنانچہ لکھا ہے.." جو مقدس نوشتوں کو بڑے بجز و شوق سے پڑھا کرتے تھے اور ان کے معانی کو سمجھتے تھے.ان دنوں اس قسم کے لوگ مسیح کے ظہور کے منتظر تھے.؟ ( حیات اسیح.صفحہ ۲۹ ) مسیح محمدی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بارہ میں علمائے امت اور اولیاء اللہ یقین رکھتے تھے.چنانچہ بارہویں صدی کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا.«المهدي تهيأ للخروج».تفهیمات، جلد ۲، ص۱۲۳).
که امام مہدی عنقریب ظہور فرمائیں گے.( ii ) آمد کے وقت سیح موسوی : کتاب ” حیات مسیح " میں لکھا ہے " " لوگوں کے درمیان آنے والے بادشاہ اور نجات دہندے کے متعلق طرح طرح کے نشانات اور خیالات پیدا ہوئے چنانچہ جو لوگ اس کی راہ دیکھ رہے تھے اور روحانی بینائی اور باطنی پاکیزگی کے سبب ان نشانات کو دیکھنے اور سمجھنے کی لیاقت رکھتے تھے ان کے دل میں کچھ کچھ روشنی چمک اٹھی کہ جو آنے والا تھا آگیا." (صفحہ ۲۸) نیز انجیل متی باب ۲ میں بھی اس کا ذکر ہے.مسیح محمدی: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں بھی راست بازوں کو یہ علم ہو گیا تھا کہ آنے والا آپکا ہے.چنانچہ حضرت میاں صاحب کو ٹھہ والے اور مولوی عبداللہ صاحب غزنوی نے آپ کی آمد کی خبر دی تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں کتاب تحفہ غرفویه - روحانی خزائن.جلد ۱۵ صفحه ۵۶۴) اسی طرح گلاب شاہ مجذوب نے آپ کی آمد کی گواہی دی تفصیل دیکھیں کتاب تذکرہ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۰۲ صفحه ۳۶) (ii) غیر متوقع آمد مسیح موسوی یہودی متوقع تھے کہ ایلیاء آسمان سے اترے گا اور مسیح کی راه درست کرے گا پھر ہولناک تغیرات کے بعد مسیح آئے گا ( ملا کی ).مگر کیا ہوا مسیح نہایت غیر متوقع سادگی سے آیا.وہ نہ کسی شان و شوکت یا دھوم دھام یا آسمانوں کے پھٹنے کے ساتھ بلکہ شبنم یا شفق کی طرح
۷۲ نہایت آہستگی اور خاموشی کے ساتھ آیا." مسیح محمدی (احسن الاذکار - صفحه ۲۶) مسلمانوں کو بھی مسیح موعود کی آمد کے بارہ میں یہی توقع تھی کہ آپ بڑی دھوم دھام اور شان و شوکت کے ساتھ آسمان سے اتریں گے اور غیر مسلموں کو بزور شمشیر حلقہ بگوش اسلام کریں گے.گویا ایک ہولناک تغیر رونما ہو گا.مگر آپ کی آمد غیر متوقع رنگ میں ہوئی.آپ فرماتے ہیں.ہوں مگر اترا نہیں میں چرخ سے نیز مهدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار مسیح موسوی یہودیوں کے لئے بھی ایلیاء کا آسمان سے نہ اترنا مسیح علیہ (۱۷) لفظ نزول السلام کے انکار کا موجب ہوا.مسیح محمدی مسلمانوں کے لئے بھی مسیح موعود کا آسمان سے نہ اترنا آپ کے انکار کا موجب ہوا.یعنی لفظ نزول کی حقیقت کو نہ سمجھنے سے دونوں گروہ ان موعودوں پر ایمان لانے سے محروم رہے.( ۷ ) شدت انتظار مسیح موسوی شدت سے آپ کے منتظر تھے.لکھا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ تواریخ کے ایک خاص وقت پر زمین کی قومیں نادانستہ طور پر مسیح کے لئے راہ تیار کر رہی تھیں.یہودی قوم سخت انتظار میں تھی اور بے چاری دنیا نہایت پست حالی میں اندھوں کی طرح ٹول حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد سے قبل یہود بڑی
۷۳ رہی تھی کہ کوئی اسے اٹھانے والا ہو.عین اس موقعہ پر مسیح آیا.“ (احسن الاذکار - صفحه ۱۵) مسیح محمدی منتظر تھی.بڑی بے چینی سے زمانہ آپ کو آواز دے رہا تھا.چنانچہ اس شدید انتظار کا اظہار ابوالخیر نواب نور الحسن خان صاحب ۱۳۰۱ ھ میں یوں کرتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دنیا امام مہدی کا ظہور تیرہویں صدی پر ہونا چاہئے تھا.مگر یہ صدی پوری گذر گئی تو مہدی نہ آئے.اب چودہویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے.اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ ماہ گذر چکے ہیں.شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل در حم و کرم فرمائے.چار ، چھ سال کے اندر مہدی ظاہر ہو جائیں.مولوی شکیل احمد سہسوانی لکھتے ہیں (اقترب الساعة - صفحہ ۲۲۱) احمد کا زمانہ سے مٹا جاتا ہے نام ہے اے میرے اللہ ! یہ ہوتا کیا ہے کس لئے مہدی بر حق نہیں ظاہر ہوتے دیر عیسی کے اترنے میں خدایا کیا ہے الحق الصريح في حياة اسبیح صفحہ ۱۳۳.مطبوعہ ۱۳۰۹ھ ) شیعہ عالم جناب اثر فدا بخاری لکھتے ہیں.اب انتظار کرتے ہوئے تھک گئے ہیں ہم ڈھلنے لگا ہے سایہ دیوار آئے آبھی جائیے میرے منتظر امام
سلام کے مدت سے منتظر ہیں عزا دار آئے " (شیعہ رسالہ ” معارف اسلام " صاحب الزمان نمبر.صفحہ ۳۶) مسلمانوں کے ہر فرقہ اور ہر مکتبہ فکر کو مسیح و مہدی کا شدید انتظار تھا.گویا ہر ایک کی نوک زبان پر یہی نغمہ جانفزا تھا کہ مهدی موعود حق اب جلد ہو گا آشکار اس طرح عیسائی بھی ایک مصلح اور مسیح کے منتظر تھے.الغرض گلستان مذاہب ہوائے بہاراں کا منتظر تھا.زمین مردہ ہمیں خواست عیسوی انفاس چنانچہ مسیح و مہدی کی آمد کے اس معین وقت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا :۴ ( i ) نام پہلے سے بتایا گیا سیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے نام کے بارہ میں آپ کی والدہ کے شوہر یوسف کو خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا کہ اس کا نام یسوع رکھنا.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے قبل فرشتہ نے کہا : ”اے یوسف ابن داود......تو اس کا نام یسوع رکھنا." مسیح محمدی (متی ۱: ۲۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کے بارہ میں بھی
۷۵ پہلے سے خبر دی گئی تھی کہ اسمه أحمد سورة الصف آنے والے موعود کا نام ”احمد " ہے.(ii) غلام مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں فرشتہ نے حضرت مریم کو بتایا کہ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيَّا يورة خبره کہ میں تجھے ایک ہونہار ، ذہین اور پاکباز لڑکے کی خبر دینے آیا ہوں.(یہاں اس ( فرشتہ نے لفظ ”غلام “ استعمال کیا ہے.) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے بھی پہلے سے لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصل نام احمد تھا.غلام آپ کے گھر میں مشترک نام کے طور پر تھا.مثلاً آپ کے والد صاحب کا نام غلام مرتضی ، بھائی کا نام غلام قادر اور آپ کا نام غلام احمد تھا.وہ نام جو آپ کو گھر کے دوسرے افراد سے ممتاز کرتا تھا "احمد " تھا.سورۃ الصف میں حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان سے بیان شدہ اس پیش گوئی کے مصداق ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہیں جو آپ ہی کے امتی ، ظل کامل اور غلام کی حیثیت رکھتے ہیں.کیونکہ اس سورہ میں جو مضمون اور حالات بیان ہوئے ہیں ان کا بہت زیادہ تعلق اس زمانہ سے ہے جس میں مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا.اس لئے اس پیش گوئی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا.
لا غلام " کا استعمال کر کے آپ کی تعین کی گئی.چنانچہ فرقہ امامیہ کے نامور مورخ و عالم دین علامہ باقر مجلسی اپنی کتاب ” بحار الانوار کی جلد ۱۳ صفحہ ۹ پر امام مہدی کی آمد اور آپ کے کاموں کا ذکر کر کے لکھا ہے يبعث الله لهذا الأمر غلاما».(بحار الأنوار، جلد ۱۳ ص ۹).کہ اس غرض کے لئے خدا تعالیٰ "غلام " کو بھیجے گا.( i ) سیاسی حالت حالات زمانہ سیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد سے قبل یہود اپنی شان و شوکت اور اقتدار و حکومت کو خیر باد کہہ چکے تھے اور انتہائی پستی کی حالت میں تھے.سلطنت رومہ ان پر حکمران تھی.صحیح محمدی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے قبل مسلمان بھی ایسے ہی حالات سے دوچار تھے.اسلامی حکومت کو ختم کر کے سلطنت رومہ کی مثیل انگریزی حکومت تاجدار سلطنت تھی.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں." حضرت عیسی علیہ السلام اس وقت ظاہر ہوئے تھے کہ جب کہ ان کے ملک زاد بوم اور اس کے گرد و نواح سے بہکتی بنی اسرائیل کی حکومت جاتی رہی تھی اور ایسے ہی زمانے میں مجھے خدا نے مبعوث فرمایا.ee اسی طرح فرمایا.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷.صفحہ ۲۱۰)
42 جس طرح موسی نے توریت میں لکھا کہ یہودا کی سلطنت جاتی رہے گی جب تک مسیح نہ آوے.اسی طرح مثیل موسیٰ محمد مصطفے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے وقت میں سلسلہ محمدیہ کا مسیح آئے گا جبکہ رومی طاقتوں کے ساتھ اسلامی سلطنت مقابلہ نہیں کر سکے گی اور کمزور اور پست اور مغلوب ہو جائے گی اور ایسی سلطنت زمین پر قائم ہوگی جس کے مقابل پر کوئی ہاتھ کھڑا نہیں ہو سکے گا.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷ - صفحه ۳۰۴ ، ۳۰۵) ( ii ) مذہبی حالت سیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے وقت یہود مذہبی لحاظ سے انتہائی پستی کی طرف مائل تھے.لکھا ہے.اور جب مذہب کی طرف رخ کرتے ہیں تو نہ ہی عالم میں بھی بڑی تبدیلی اور عجیب طرح کا تنزل نظر آتا ہے." اور صفحہ ۶۴ پر ہے.(حیات مسیح.صفحہ ۵۷) قوم یہود کی اس وقت دینی اور اخلاقی حالت نہایت ردی ہو رہی (حیات المسیح.صفحہ ۶۴) مسیح محمدی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت مسلمانوں کی حالت مذہبی لحاظ سے نا گفتہ بہ تھی.دینی اور اخلاقی اقدار کا کہیں بھی وجود نظر نہیں آتا تھا چنانچہ مولانا حالی نے اپنی مسدس میں اس مذہبی پستی اور زوال کا اس طرح اظہار کیا ہے کہ.
LA دین باقی نہ اسلام رہا دین اک سلام کا ره گیا نام اور اسی حالت کا نقشہ علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کھینچا ہے.کہ وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود ( iii ) علماء کی حالت سیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے وقت یہودی علماء بھی اپنی اخلاقی اقدار کو خیر باد کہہ چکے تھے.اسی لئے حضرت عیسیٰ علیہا نے فرمایا کہ " فقیہہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں.پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو.لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں.(متی ۲۰۲۳، ۳).السلام اس کے علاوہ متی باب ۲۳ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس وقت کے علماء کے مکر و ریاء کا مکمل نقشہ کھینچا ہے.سیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت بھی علماء بگڑ چکے تھے.چنانچہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے لکھا.جتنی رسوم شرکیہ و بدعیہ مسلمانوں میں آجکل ہو رہی ہیں وہ مولویوں ہی کی مہربانی کا اثر ہے......شرار شرار العلماء.اہلحدیث.۲۳ فروری ۱۹۰۶ء ) اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تو اس زمانہ کے علماء کو یہودی علماء کا
مثیل قرار دیا ہے.فرمایا : 29 اگر نمونہ یہود خواہی بہیں علماء سوء.(الفوز الكبير - صفحہ ۱۰) کہ اگر یہود کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو علماء سوء کو دیکھ لو.( iv ) عوام کی حالت مسیح موسوی : کے بارہ میں لکھا ہے.حضرت عیسی علیہ السّلام کے وقت کے عام لوگوں ملا کی اور متنی کے درمیان چار سو سال کا فاصلہ ہے اور جو تبدیلیاں اتنے عرصہ کے اندر کسی ملک میں پیدا ہو سکتی ہیں وہ اس ملک میں واقع ہو چکی تھیں.جو زبان ملاکی کے زمانہ میں مروج تھی وہ اب معدوم ہو گئی تھی.اور نئی رسمیں نئے رواج ، نئے خیالات ، نئے طریقے اور نئے فرقے برپا ہو گئے تھے.غرضیکہ ملک کی ایسی کا یا پلٹ گئی تھی کہ اگر ملا کی زندہ ہو کر اپنے ملک اور اپنے لوگوں کو دیکھتا تو حیرت کا پتلا بن جاتا اور مشکل سے ان کو پہچانتا.(حیات مسیح.صفحہ ۵۵) مسیح محمدی اسی طرح مسیح موعود علیہ السلام کے وقت لوگوں کا ایسا ہی حال تھا.چنانچہ لکھا ہے."اگر آج توحید کا سبق دینے والا اور دنیا میں وحدت و یگانگی پھیلانے والا تھوڑی ہی دیر کے لئے ہمارے ہاں آوے اور امت کا حال دیکھے تو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری اور سارے عالم کی جان ہے کہ وہ مشکل سے پہچانے گا کہ یہ اس کی امت ہے جس
۸۰ کو اس نے توحید کا سبق سکھایا تھا.“ (۷) فرقے میں تهذیب الاخلاق.جلد اوّل صفحہ ۳۴۴) یچ موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت یہود متعدد فرقوں منقسم ہو گئے تھے.حدیث شریف میں ان کی تعداد ۷۲ بیان کی گئی ہے.«إن بني إسرائيل تفرقت في ثنتين وسبعين ملة».(مشكوة، كتاب الإيمان باب الاعتصام بالكتاب والسنة).کہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے..مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں بھی ملتِ اسلامیہ کئی فرقوں میں منتشر ہو چکی تھی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی پوری ہو رہی تھی کہ تفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة».(مشكوة، كتاب الإيمان، باب الاعتصام بالكتاب والسنة).که میری امت ۷۳ فرقوں میں منقسم ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اس (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام.ناقل ) کے وقت میں یہود لوگ بہت سے فرقوں میں منقسم ہو گئے تھے اور بالطبع ایک حکم کے محتاج تھے تا ان میں فیصلہ کرے.ایسا ہی آخری مسیح کے وقت میں مسلمانوں میں کثرت سے فرقے پھیل گئے تھے.te تذکرہ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰.صفحہ ۳۱)
Al : 4 ( i ) خاندان کی ہجرت خاندان سیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاندان کو ظالم بادشاہ کے ظلم اور تعدی کی وجہ سے بیت اللحم (یہودیہ ) سے ہجرت کرنی پڑی.لکھا ہے: ” خداوند کے فرشتے نے یوسف کو خواب میں دکھائی دے کر کہا اٹھ بچے اور اس کی ماں کو لے کر مصر کو بھاگ جا.اور جب تک میں تجھ سے نہ کہوں وہیں رہنا.کیونکہ ہیرودیس اس بچے کو تلاش کرنے کو ہے تاکہ اسے ہلاک کرے.پس وہ اٹھا اور رات کے وقت بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر روانہ ہو گیا." (متی ۲ : ۱۳ ، ۱۴) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کو بھی ظالم حکمران کے جبر و استبداد کے باعث قادیان سے کپور فلہ ریاست کی جانب جانا پڑا.اس ہجرت کی مختصری روئیداد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لکھی ہے ایک گروہ سکھوں کا جو رام گڑھیہ کہلاتا تھا ، اول فریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیان میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کر لیا.اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور ان کے مال و متاع سب لوٹی گئی.کئی مسجد میں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے.اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا اور بعض مسجدیں جن میں سے اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ
Ar میں ہے ، دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا.اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا جس میں پانسو نسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا اور آخر سکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ تمام مردو زن چھکڑے میں بٹھا کر نکالے گئے اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزین ہوئے." (کتاب البریہ - روحانی خزائن جلد ۱۳.صفحه ۱۷۴، ۱۷۵- حاشیه ) ( ii ) شاہی خاندان کے فرزند مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے مگر گر دش زمانہ نے اس کی شان و شوکت پر غربت و افلاس کی گرد ڈال دی تھی.چنانچہ حضرت مریم کے بارہ میں لکھا ہے.وہ حسب و نسب کے اعتبار سے داؤد کی نسل اور عبرانی بادشاہوں کے پرانے خاندان سے علاقہ رکھتی ہے.مگر ناصرت کی دوسری عورتوں سے سوائے اپنی طبیعت کی بے مثل خاکساری اور اپنی زندگی کی خوبصورت پاکیزگی کے اور کسی طرح ممتاز نہیں.انقلابات روزگار کے سبب سے وہ اور اس کا خاندان تنگدستی اور بیچ میرسی کی حالت میں گرفتار ہے." مسیح محمدی ( تاریخ بائبل.صفحہ ۴۵۸ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان بھی صاحب عظمت و ریاست تھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس دنیاوی وجاہت اور
٨٣ شان و شوکت سے حصہ نہ ملا.حضور نے اس کا تذکرہ یوں بیان فرمایا ہے.میں پنجاب کے ایک ایسے خاندان میں سے ہوں جو سلاطین مغلیہ کے عہد میں ایک ریاست کی صورت میں چلا آتا تھا.اور بہت سے دیہات زمینداری ہمارے بزرگوں کے پاس تھے اور اختیارات حکومت بھی تھے.پھر سکھوں کے عروج سے کچھ پہلے یعنی جبکہ شاہان مغلیہ کے انتظام.ملک داری میں بہت ضعف آگیا تھا اور اس طرف طوائف الملوک کی طرح خود مختار ریاستیں پیدا ہو گئی تھیں.میرے پڑدادا صاحب میرزا گل محمد بھی طوائف الملوک میں سے تھے اور اپنی ریاست میں من کل الوجوہ خود مختار رئیس تھے.پھر جب سکھوں کا غلبہ ہوا تو صرف اتنی گاؤں ان کے ہاتھ میں رہ گئے.اور پھر بہت جلد اس کے عدد کا صفر بھی اڑ گیا اور پھر شاید آٹھ یا سات گاؤں باقی رہے.رفتہ رفتہ سرکار انگریزی کے وقت میں تو بالکل خالی ہاتھ ہو گئے.چنانچہ اوائل عملداری اس سلطنت میں صرف پانچ گاؤں کے مالک کہلاتے تھے.غرض ہماری ریاست کے ایامیم دن بدن زوال پذیر ہوتے گئے یہاں تک کہ آخری نوبت ہماری یہ تھی کہ ایک کم درجہ کے زمیندار کی طرح ہمارے خاندان کی حیثیت ہو گئی.es تحفہ قیصریہ - روحانی خزائن جلد ۱۲.صفحہ ۲۷۰ ، ۲۷۱) حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.اس نے مجھے یسوع مسیح کے رنگ میں پیدا کیا تھا اور توار د طبع کے لحاظ سے یسوع کی روح میرے اندر رکھی تھی.اس لئے ضرور تھا کہ گم گشتہ ریاست میں بھی مجھے یسوع مسیح کے ساتھ مشابہت ہوتی.سوریاست کا
A کاروبار تباہ ہونے سے یہ مشابہت بھی متحقق ہو گئی.جس کو خدا نے پورا کیا.کیونکہ یسوع کے ہاتھ میں داور بادشاہ نبی اللہ کے ممالک مقبوضہ میں سے جس کی اولاد میں سے یسوع تھا.ایک گاؤں بھی باقی نہیں رہا تھا.صرف نام کی شہزادگی باقی رہ گئی تھی.نیز فرمایا.ce تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۱۲.صفحہ ۲۷۲) ” میں نے نہ اپنے دوسرے بزرگوں کی ریاست اور ملک داری سے کچھ حصہ پایا بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح جین کے ہاتھ میں صرف نام کی شہزادگی بوجہ داؤد کی نسل سے ہونے کی تھی اور ملک داری کے اسباب سب کچھ کھو بیٹھے تھے.ایسا ہی میرے لئے بھی بگفتن یہ بات حاصل ہے کہ ایسے رئیسوں اور ملک داروں کی اولاد میں سے ہوں.شاید یہ اس لئے ہوا کہ یہ مشابہت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پوری ہو.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳- صفحه ۱۷۸) ( iii ) خاندان کی تعیین مسیح موسوی یہ پہلے سے معین کر دیا گیا تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کس خاندان سے ہونگے چنانچہ میکاہ نبی کی پیش گوئی کے مطابق آپ کا سلسلہ ضرت یعقوب کے بیٹے یہودا کے خاندان کے ساتھ باندھا گیا تھا.لکھا ہے.”اے بیت لحم افراتاه ! اگرچہ تو یہودا کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور
۸۵ اسرائیل کا حاکم ہو گا." (میگاه ۲۰۵) مسیح محمدی اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی بھی پہلے سے ہی تعیین کر دی گئی تھی اور آپ کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی قوم کی طرف منسوب کیا گیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.لو كان الايمان عند الثريا لناله رجال أو رجل من هؤلاء».(بخاري، كتاب التفسير تفسير سورة الجمعة).کہ جب ایمان اس دنیا سے اٹھ کر آسمان پر چلا جائے گا تو سلمان فارسی کی قوم سے ایک شخص یا بعض اشخاص اس ایمان کو واپس لائیں گے.(iv) غیر اسرائیلی و غیر قریشی مسیح موسوی :- بنی اسرائیل کے تمام خلفاء اسرائیلی نسل سے تھے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیدائش کے سبب غیر اسرائیلی تھے.اسلامی خلفاء کے بارہ میں یہ پیش گوئی تھی مسیح محمدی عن جابر ابن سمرة قال سمعت رسول الله لا يقول لا يزال الاسلام عزيزا إلى اثني عشر خليفةٌ كلهم من قريش».(مشكوة، كتاب المناقب، باب مناقب قريش).کہ اسلام کے بارہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام غیر قریشی ہیں.آپ کے شدید مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی نے بھی یہی لکھا کہ مولف براہین احمدیہ قریشی نہیں فارسی الاصل ہے.(اشاعة السنة- جلدے - صفحہ ۱۹۳ )
AY حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اسماعیلی سلسلہ کی عمارت بالکل اسرائیلی سلسلہ کے مطابق بنائی گئی ہے.یہی حکمت ہے کہ اس سلسلہ کا عیسی خاندان بنی اسماعیل میں سے نہیں ہے کیونکہ مسیح بھی بنی اسرائیل میں سے نہیں آیا تھا.وجہ یہ کہ بنی اسرائیل میں سے کوئی اس کا باپ نہ تھا.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن.جلد ۲۱.صفحہ ۳۰۳) نیز فرمایا مشابہت اس بات میں کہ وہ اسرائیلی خلیفوں میں سے آخری خلیفہ ہیں مگر اسرائیل کے خاندان سے نہیں حالانکہ زبور میں وعدہ تھا کہ تمام خلیفے اس سلسلہ کے اسرائیلی خاندان میں سے ہوں گے.پس گویا ماں کا اسرائیلی ہونا اس وعدہ کے ملحوظ رکھنے کے لئے کافی سمجھا گیا.ایسا ہی میں بھی محمدتی سلسلہ کے خلیفوں میں سے آخری خلیفہ ں.مگر باپ کے رو سے قریش میں سے نہیں ہوں گو بعض دادیاں سادات میں سے ہونے کی وجہ سے قریش میں سے ہوں." ہوں.اور فرمایا تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷.صفحہ ۲۰۹) ” مجھے خدا نے قریش میں سے بھی پیدا نہیں کیا تا پہلے مسیح سے مشابہت بھی حاصل ہو جائے کیونکہ وہ بھی بنی اسرائیل میں سے نہیں.تریاق القلوب.روحانی خزائن.جلد ۱۵- صفحه ۵۲۴ )
۸۷ والده ( 1 ) شاہی خاندان یعنی سادات میں سے مسیح موسوی : حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم بنی اسرائیل کے شاہی خاندان یعنی اسرائیلی سادات سے تعلق رکھتی تھیں.چنانچہ لکھا ہے کہ ” وہ حسب و نسب کے اعتبار سے داؤد کی نسل اور عبرانی بادشاہوں کے پرانے خاندان سے علاقہ رکھتی ہے.؟ ( تاریخ بائبل - صفحہ ۴۵۸) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض امہات بھی شاہی خاندان یعنی اسماعیلی سادات میں سے تھیں.چنانچہ حضور علیہ السلام اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.” بنی اسرائیل میں سے کوئی اس (حضرت عیسی علیہ السلام.ناقل ) کا باپ نہ تھا.صرف ماں اسرائیلی تھی.یہی مشابہت اس جگہ موجود ہے.میں بیان کر چکا ہوں میری بعض امہات سادات میں سے تھیں اور خدا کی وحی نے بھی یہی مجھ پر ظاہر کیا.ce ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن.جلد ۲۱.صفحہ ۳۰۳) ( ii ) ناموں میں معنوی اشتراک چ موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کا نام مریم تھا.مریم کا ایک معنی "سمندر کا ستارہ بھی ہے.مسیح محمد محمدی -: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کا نام چراغ
بی بی تھا.ان دونوں ناموں میں روشنی" کے مفہوم کا اشتراک ہے.یہ اشتراک اس امر کی دلیل ہے کہ یہ دونوں وجود یعنی حضرت مریم اور حضرت چراغ بی بی تاریکی اور گمراہی کے دور میں نور کی مشعلیں لے کر آئیں.اور یہ کہ دونوں مسیحوں کی پیدائش میں نورانی اسباب کار فرما تھے.( iii ) توہین مسیح موسوی ظلم کی راہ اختیار کرتے ہوئے حضرت مریم کو بد کاری کا طعنہ دیا گیا اور معاشرہ میں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی.اس کی تفصیل اناجیل میں اور قرآن کریم کی سورہ مریم میں موجود ہے.سیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی اس طرح کی طعنہ زنی کی گئی اور کہا گیا کہ ” زنا و فعل بے جا تمہارے ہی بزرگوں کا شیوہ ہے.؟ (خبط قادیانی کا علاج بحوالہ کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳.صفحہ ۱۵۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ان (حضرت عیسی علیہ السلام.ناقل ) کی والدہ کی توہین کی i ) گئی.ایسا ہی..میرے اہل بیت کی توہین کی گئی.re (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷.صفحہ ۲۱۰) پیدائش ( 1 ) کیفیت پیدائش کی خبر.ندرت فی الخلقت ا
۸۹ مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی کیفیت کے بارہ میں پہلے سے خبر دی گئی تھی.چنانچہ حضرت یسعیاہ نے فرمایا کہ ” خداوند خدا آپ تم کو ایک نشان بخشے گا.دیکھو ایک کنواری حاملہ " ہوگی اور بیٹا پیدا ہو گا.مسیح محمدی ( يسعيا ه.۱۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کی کیفیت کے بارہ میں بھی پہلے سے بتا دیا گیا تھا.چنانچہ حضرت امام ابن العربی لکھتے ہیں.وتولد معه أخت له فتخرج قبله ويخرج بعدها يكون رأسه عند (فصوص الحكم ص ٤٤، شرح شيخ عبد الرزاق الكاشاني، مطبوعة مصر.رجليها».که مسیح موعود کے ساتھ اس کی ایک بہن بھی پیدا ہوگی.جو اس سے پہلے پیدا ہوگی اور وہ اس سے بعد پیدا ہو گا.اس کا سر اس لڑکی کے دونوں پاؤں کے ساتھ ہو گا.✰✰✰ ( ii ) تشابه فی الندرت اور آدم سے مشابہت صیح موسوی : حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بغیر باپ کے نادر ولادت کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام سے مشابہ قرار دیا.فرمایا ا إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَ سُورَةُ العمران کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسی کی تخلیق کی ) مثال آدم کی طرح ہے.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ولادت بھی تو ام ہونے کی وجہ سے نادر تھی اس لئے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کا متبل قرار دیتے ہوئے فرمایا.آدم اسكن أنت وزوجك الجنة.(تذكرة ص ٧٠ ).کہ اے آدم تیرا اور تیرے ساتھیوں کا مسکن جنت ہو.
8+ اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اپنی مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.دو دنیا میں ہزار ہا افراد ایسے ہوتے ہیں جو بے باپ پیدا ہوئے ہیں اور غایت کار یہ امر امور نادرہ میں سے ہے.نہ یہ کہ خلاف قانون قدرت اور عادت اللہ سے باہر ہے.پس یہ ندرت اسی قسم کی ہے جیسے توام میں ندرت ہے.جو فطرتِ الہی نے اس راقم کے حصے میں رکھی تھی تا تشابہ الندرت ہو جائے اور نیز خدا تعالیٰ نے جو قرآن شریف میں حضرت میسیج کو آدم سے مشابہت دی ہے اور پھر براہین احمدیہ میں جس کو شائع ہوئے ہیں برس گذر گئے میرا نام آدم رکھا ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت آدم سے مشابہت ہے ایسا ہی مجھ سے بھی مشابہت ہے.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷.صفحہ ۲۰۸ حاشیہ ) اور فرمایا بن باپ ہونے کی وجہ سے حضرت آدم سے وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام.ناقل ) مشابہ تھے.ایسا ہی میں بھی توام پیدا ہونے کی وجہ سے حضرت آدم سے مشابہ ہوں." (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ - صفحه ۳۵) (iii) پیدائش کا نشان ، ایک ستارہ مسیح موسوی حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا ایک نشان ایک خاص ستارہ کا طلوع ہونا بھی تھا.اور جب یہ ستارہ طلوع ہوا تو زمانہ کے لوگوں نے مسیح کی پیدائش کا اندازہ کر لیا.چنانچہ متی کی انجیل میں لکھا ہے کہ:
جو ستارہ انہوں نے پورب میں دیکھا تھا وہ ان کے آگے آگے چلا یہاں تک کہ اس جگہ کے اوپر جاکر ٹھہر گیا جہاں وہ بچہ تھا.وہ ستارے کو دیکھ کر نہایت ہی خوش ہوئے.(متی.۹:۲، ۱۰) اور پادری طالب الدین لکھتا.لکھتا ہے: " ہمیں قابل منجم کیکر کے حساب سے ، معلوم ہوا ہے کہ انہیں ایام میں سطح آسمان پر ایک چند روز مگر نہایت چمکتا ہوا ستارہ نمودار ہوا (حیات امسیح.صفحہ ۳۱) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام سے مشابہت کے لئے اس ستارہ کو نشان بنایا.چنانچہ کتاب بیج الکرامه - فصل بست و دوم صفحہ ۳۳۴ میں مہدی کے لئے اس ستارے کا بطور نشان ہونا تفصیل سے مذکور ہے.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ - السلام فرماتے ہیں: نواب صدیق حسن خان صاحب حجج الکرامہ میں اور حضرت مجدد الف ثانی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ستارہ دنبالہ دار یعنی ذوالسنین مہدی معہود کے ظہور کے وقت میں نمودار ہو گا.چنانچہ وہ ستارہ ۱۸۸۲ ء میں نکلا اور انگریزی اخباروں نے اس کی نسبت یہ بھی بیان کیا کہ یہی وہ ستارہ ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں نکلا." چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ - صفحه ۳۳۰ حاشیه )
۹۲ (iv) ظالم حاکم کے عہد میں پیدائش مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام ایک نہایت ظالم بادشاہ ہیرودیس کے عہد حکومت میں پیدا ہوئے.اس کے بارہ میں لکھا ہے.اس کی رعایا اس سے نفرت رکھتی تھی........وہ ایک قاتل اور حریص اور شان و شکوہ کو پسند کرنے والا آدمی تھا.مگر اس کے ساتھ ہی وہ ظالم اور فریبی اور مردہ اور پلید دل بھی رکھتا تھا..کوئی ایسا جرم نہ تھا جس کا مرتکب وہ نہ تھا.اس کا محل خون میں تیر رہا تھا.ce حیات اسیح.صفحہ ۳۴) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش بھی انتہائی ظالم حکمران رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں ہوئی.اس کے دور حکومت میں جبر و استبداد کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ " پھولا سنگھ اکالی کو اجازت دے دی گئی کہ وہ مسلمان آبادی پر نہایت گھناؤنے ظلم کرے.ان کو حد درجہ مکروہ انداز کی تذلیلات کا ہدف بنائے." ( پنجاب گور نمنٹ ریکارڈ.جلد پنجم.صفحہ ۱۰۶ بحوالہ سوانح سید احمد شہید - جلد اول.صفحہ ۳۳۸) اور مور کرافٹ نے لکھا کہ وو رنجیت سنگھ نهایت منظم طریقے پر سب کو ظلم و غضب کی چکی میں پیتا ہے." و یہ نہنگ گروہ کا لیڈر تھا اور اپنے ظلم کی وجہ سے بے حد بد نام تھا.رنجیت سنگھ اسے اپنی فوج میں سب سے آگے رکھتا تھا.
۹۳ کرافٹ حالات بحوالہ سوانح سید احمد شہید - جلد اول.صفحہ ۳۳۸) اس دور حکومت کے ظلم و جور کی تصویر کے لئے یہی الفاظ کافی ہیں ورنہ ان مظالم کی تفصیل تو تاریخ انسانیت کی خون آلود طویل داستاں ہے.اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں." حضرت مسیح کی پیدائش ایسے ظالم بادشاہ یعنی ہیروڈیس کے وقت میں ہوئی تھی جو اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا.ایسا ہی میری پیدائش سکھوں کے زمانہ کے آخری حصہ میں ہوئی تھی جو مسلمانوں کے بھی.لئے ہیروڈیس سے کم نہ تھے." (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷.صفحہ ۲۱۰ حاشیہ ) شیح موسوی مقام پیدائش کی تعیین ۷ سیح حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش کے بارہ میں پہلے سے خبر دی گئی تھی.چنانچہ لکھتا ہے کہ "اے بیت لحم افراتاه ! تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اسرائیل کا حاکم ہو گا." (میگاه ۲۰۵) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جائے پیدائش کے بارہ میں بھی پہلے سے اشارہ کر دیا گیا تھا.چنانچہ شیخ علی حمزہ بن علی مالک الطوسی اپنی کتاب ”جواہر الاسرار " میں جو ۸۴۰ھ میں تالیف ہوئی تھی ، مہدی معہود کے بارہ میں مندرجہ ذیل عبارت تحریر فرماتے ہیں.در اربعین آمده است که خروج مهدی از قریه کدعه باشد قال النبي : يخرج المهدي من قرية يقال لها كدعه ويصدقه الله تعالى
۹۴ ويجمع أصحابه من أقصى البلاد على عدة أهل بدر بثلاث مائة وثلاثة عشر رجلاً ومعه صحيفة مختونة (أي مطبوعة)، فيها عدد أصحابه بأسمائهم وبلادهم وخلالهم.لفظ ( منقول از ضمیمه انجام آنتم.روحانی خزائن جلد ۱۱.صفحہ ۳۲۵) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی ایسی بستی سے ظاہر ہو گا کہ جس کا نام کدعہ ہے.لفظ "کدعہ " صاف طور پر ظاہر کر رہا ہے قادیاں" کا معرب ہے.) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی خود تصدیق کرے گا اور دور دور سے اس کے دوست اس کے گرد جمع کر دے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار کے برابر ہو گا یعنی ۳۱۳ تین سو تیرہ ہوں گے اور ان کے نام بقید مسکن و خصلت چھپی ہوئی کتاب میں ہوں گے.: 9 بچپن اور جوانی ( 1 ) بچپن میں شوق عبادت سیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بچپن کے حالات پردہ اخفاء میں ہیں.بہر حال وقت کے دھندلکے میں کچھ کچھ نقوش نظر آجاتے ہیں جن سے آپ کے بچپن کی تصویر کے بعض دلکش رنگ ابھرتے دکھائی دینے لگتے ہیں.جس طرح مندرجہ ذیل واقعہ بچپن میں آپ کے شوق عبادت ذکر الہی اور دینی علوم کے حصول میں رغبت و انہماک کی عکاسی کرتا ہے.لکھا ہے اس کے ماں باپ ہر عید فسح پر یروشلم جایا کرتے تھے اور جب وہ بارہ برس کا ہوا تو عید کے دستور کے موافق یروش وہ ان دنوں کو پورا کر کے لوٹے تو وہ لڑکا یسوع یروشلم میں رہ گیا اور اس گئے.جب
۹۵ کے ماں باپ کو خبر نہ ہوئی.مگر یہ سمجھ کر کہ وہ قافلہ میں ہے ایک منزل نکل گئے اور اسے اپنے رشتہ داروں میں ڈھونڈنے لگے.جب نہ ملا تو اسے ڈھونڈتے ہوئے یروشلم تک واپس گئے.اور تین روز کے بعد ایسا ہوا کہ انہوں نے اسے ہیکل میں استادوں کے بیچ میں بیٹھے ان کی سنتے اور ان سے سوال کرتے پایا اور جتنے اس کی سن رہے تھے اس کی سمجھ اور اس کے جوابوں سے دنگ تھے.وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئے اور اس کی ماں نے اس سے کہا بیٹا ! تو نے کیوں ہم سے ایسا کیا ؟ دیکھ تیرا باپ اور میں کڑہتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے تھے.اس نے کہا تم مجھے کیوں ڈھونڈتے تھے ؟ کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے ؟ تاریخ بائبل - صفحہ ۴۶۳) و (لوقا ۴۱۰۲ تا ۵۰) اس واقعہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی عبادت اور دینی علوم میں رغبت و انہماک کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.مسیح محمدي حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بچپن سے ہی دینی علوم میں شوق رکھتے تھے اور عبادت و ذکر الہی کا یہ عالم تھا کہ اپنا بیشتر وقت مسجد میں گزارتے یہاں تک کہ آپ کے والد صاحب آپ کو "مسیر " (یعنی مسجد میں دھونی رما کر بیٹھنے والا) کہا کرتے تھے.اس پاکیزہ زندگی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیراحمد لکھتے ہیں.ایام طفولیت میں بھی آپ کی طبیعت دینی امور کی طرف راغب تھی چنانچہ بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کھیل کود کے زمانہ میں بھی اپنے ساتھ کے بچوں سے کہا کرتے تھے کہ ” دعا کرو کہ خدا مجھے نماز کا شوق نصیب کرے." اور دوسرے بچوں کو بھی نیکی کی نصیحت
کیا کرتے تھے.* (سلسلہ احمدیہ - صفحہ ۱۰) (ii) بر الوالدين سیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام والدین کی فرمانبرداری اور اطاعت کا اعلی نمونہ تھے.اس کا اظہار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان مبارک سے قرآن کریم میں یوں کیا گیا ہے کہ برا بِوَالِدَتي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارً ا شَقِيَّـ ورا مريرا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اپنی ماں کا فرمانبردار اور اس سے نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے.اور انجیل میں لکھا ہے کہ رہا." مسیح محمدی وہ ان کے ساتھ روانہ ہو کر ناصرہ آیا اور ان کے تابع.(لوقا ۲ ۰ ۵۱ ) و (احسن الاذکار - صفحه ۶۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اپنے والدین کے فرمانبردار اور اطاعت گزار تھے.اور یہ صفت آپ کی سیرت میں ایک نمایاں خصوصیت کی حامل ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت.حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا.اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی " یقین سے بر بالوالدین جانتے تھے.(کتاب البریہ - روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۸۳ ، ۱۸۴- حاشیه )
(iii) پیشہ مسیح موسوی :- حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اطاعت والدین کی خاطر دنیا داری کا کام کیا.لکھا ہے." " ناصرت میں واپس اگر وہ اپنے ماں باپ کی تابعداری کرتا رہا......جب تک وہ ناصرت میں رہا وہ بڑھئی کا کام کرتا رہا.“ ( تاریخ بائبل - صفحہ ۴۶۳) -: مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی والدین کی خواہش کے احترام کے باعث سرکاری ملازمت کا پیشہ اختیار کیا اور دنیا داری کا کام کیا.حضرت مرزا بشیراحمد فرماتے ہیں.آپ نے باپ کی فرمانبرداری کو فرض سمجھتے ہوئے زمینداری کے کام کی نگرانی میں ان کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا......اس کے بعد یعنی ۱۸۶۴ ء میں یا اس کے قریب آپ کو اپنے والد کی خواہش کے مطابق کچھ عرصہ کے لئے سیالکوٹ کے دفتر ضلع میں سرکاری ملازمت بھی اختیار کرنی پڑی." (۱۷) پیشے سے سبق ✰✰✰ (سلسلہ احمدیہ - صفحہ ۱۳) مسیح موسوی: حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں لکھا ہے.”اس قصبہ میں رہنے سے اس نے گناہ کی گرم بازاری کو خوب دیکھا یا یوں کہیں کہ جس بات سے اسے عمر بھر لڑنا تھا اس کے زور و شور کو اچھی طرح محسوس کیا اور پھر اپنے پیشے کے وسیلے سے بھی اسے انسانی خصلت کو معائنہ کرنے کا موقع ملا.
۹۸ مسیح محمدی (حیات مسیح.صفحہ ۴۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی سیالکوٹ کی ملازمت کے دوران جو کچھ حال لوگوں کا دیکھا اس کی تصویر ان الفاظ میں پیش کی کہ (v) اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں.ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو پورے طور پر صوم و صلوۃ کے پابند ہوں چونکہ خدا تعالٰی کی یہ حکمت تھی کہ ہر ایک قسم اور ہر ایک نوع کے انسانوں کا مجھے تجربہ حاصل ہو اس لئے ہر ایک صحبت میں مجھے رہنا پڑا." ༣་.(کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۵ ، ۱۸۶ - حاشیه ) مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام نے دنیاوی طور پر کچھ تعلیم حاصل کی تھی.چنانچہ لکھا ہے.اس نے مکتب میں اور شاید اسی فقیہہ سے تعلیم پائی ہو گی جو اس گاوں کے عبادت خانہ سے علاقہ رکھتا تھا." (حیات اسیح.صفحہ ۴۳ ) اسی طرح تفسیر بیضاوی میں حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے بارے میں لکھا ہے كانوا يكتبون».(زبر آیات : ،، وكذلك لنثبت به فؤادك.سورة الفرقان).
ச ٩٩ کہ وہ پڑھا لکھا کرتے تھے.مسیح محمدی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ابتدائی تعلیم اساتذہ سے حاصل کی.لکھا ہے ا ال ا جب آپ تعلیم کی عمر کو پہنچے تو جیسا کہ اس زمانہ میں شظار میں دستور تھا.آپ کے والد صاحب نے آپ کی تعلیم کے لئے بعض اساتذہ کو گھر پر تعلیم دینے کے لئے مقرر فرمایا.(vi) عظیم روحانی (سلسلہ احمدیہ - صفحہ ۱۰) مزید تفصیل کے لئے دیکھیں کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۱۷۹ تا ۱۸۱- حاشیہ ) سیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں لکھا ہے کہ تو اس نے کسی کالج میں تعلیم نہیں پائی تھی تو بھی شروع ہی سے علم کی محبت اس کے دل میں پیدا ہو گئی تھی اور وہ ہر گہری سوچ اور فرحت بخش خیالات کی لذت سے محظوظ ہوتا تھا.حقیقی علم کے دروازے کی ؟؟ کلید اس کے ہاتھ میں تھی." (حیات اسیح.صفحہ ۴۲) اور حضرت مسیح علیہ السلام نے خود فرمایا کہ ”میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے.(یوحنا : ۱۶) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس روحانی علم اور معرفت کے بارہ میں فرماتے ہیں.
وگر استاد را نامی ندانم که خواندم در دبستان محمد کہ میں کسی اور استاد کا نام نہیں جانتا.میں تو صرف حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے مدرسہ کا پڑھا ہوا ہوں.اس تشبیہہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : و جس طرح حضرت عیسیٰ نے باپ کے ذریعہ سے روح حاصل نہیں کی تھی اسی طرح میں نے بھی علم اور معرفت کی روح کسی روحانی باپ سے یعنی استاد سے حاصل نہیں کی." ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱.صفحہ ۳۰۳).vi ) شریعت سے محبت مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں لکھا ہے.وہ بڑی سرگرمی سے پرانے عہد نامہ کی تلاوت کیا کرتا ہو گا.اس کا کلام جو پرانے عہد نامے کے اقتباسوں سے بھرا ہوا ہے ثابت کرتا ہے کہ یہ پاک نوشتے اس کی روح کی غذا اور اس کے دل کی تسلی کا باعث (حیات اسیح.صفحہ ۴۳) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن کریم سے والہانہ تھی اور روز و شب قرآن میں فکر و تدبر آپ کا مشغلہ تھا.چنانچہ لکھا ہے : " آپ کے وقت کا اکثر حصہ کتب کے مطالعہ میں گذرتا تھا اور سب سے زیادہ انہماک آپ کو قرآن شریف کے مطالعہ میں تھا حتی کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں ہم نے آپ کو جب بھی
.دیکھا قرآن پڑھتے دیکھا.آپ کا مطالعہ سرسری اور سطحی رنگ کا نہیں ہوتا تھا بلکہ اپنے اندر ایسا انہماک رکھتا تھا کہ گویا آپ معافی کی گہرائیوں میں دھنسے چلے جاتے ہیں......خود آپ کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں مجھے مطالعہ میں اس قدر انہماک تھا کہ بسا اوقات میرے والد صاحب میری صحت کے متعلق فکر مند ہو کر مجھے مطالعہ سے روک دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ میں شاید اس شغف میں اپنی جان کھو بیٹھوں گا." (سلسلہ احمدیہ - صفحہ ۱۲) () گمنامی اور زاویہ خمول یح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کا ایک حصہ گوشہ گمنامی میں گزرا.تاریخ اور اناجیل اس عرصہ زندگی کے حالات کو پیش کرنے سے قاصر ہیں.الا ما شاء اللہ.لکھا ہے.پھر مسیح کی زندگی کا وہ زمانہ جو گمنامی میں کٹا جس کا حال انجیلوں میں قلمبند نہیں.مسیح محمدی "e (حیات امسیح.صفحہ ۴۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اپنی زندگی کے ایک حصہ میں زاویہ خمول میں مستور تھے.آپ فرماتے ہیں : وكان هذا العبد مستوراً في زاوية الاختفاء لا يعرفه أحد إلا قليل من الذين كانوا يعرفون أباه في الابتداء.وإن شئتم فاسئلوا أهل هذه القرية التي تسمّى (الاستفتاء، ضميمة حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد ٢٢، ص ٦٢٤).قاديان».اور فرمایا : كنت كمجهول لا يُعرف ونكرة لا تتعرف وكنت من فتحت عيني وفجرت
۱۰۲ عيني أحب الزاوية لأوري النفس بماء المعارف...فمضى علي دهر في هذه الخلوة ولا يعرفني أحد من الخواص ولا من العامة.(مواهب الرحمان، روحاني ،خزائن جلد ۱۹، ص ۳۳۸).کہ میں شروع سے ہی گوشہ گمنامی میں مستور تھا.سوائے چند شروع سے جانے والوں کے اور کوئی بھی مجھے نہ پہچانتا تھا.یہ خلوت نشینی اس وجہ سے تھی کہ میں اپنے نفس کو آب عرفان سے سیراب کر سکوں.اسی زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی (ع) تنہائی اور علیحدہ مقام میں دعا مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام علیحدہ مقام پر جاکر دعائیں کیا کرتے تھے.چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ مانگی.مسیح محمدی " اٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہاں دعا (مرقس ۳۵.۱) حضرت مسیح موعود علیہ السّلام بھی بعض اوقات باہر تشریف لے جاتے اور علیحدگی اور تنہائی میں دعائیں کیا کرتے تھے.اور بعض اوقات مقبروں پر جاکر بھی دعا کی.علاوہ ازیں ” آپ نے.خلوت کی دعاوں کے لئے ایک خاص حجرہ تعمیر
te (x) چله مسیح موسوی ور منشور - چار تقریریں.صفحہ ۲۲۱) حضرت عیسی علیہ السلام نے عبادت و ریاضت کی خاطر چالیس دن تک خلوت نشینی اختیار کی.لکھا ہے.پس وہ ہر دن کا کنارہ چھوڑ کر روح القدس کی رہنمائی سے ایک بیابان میں داخل ہوا اور چالیس روز تک ریگستانی وادیوں اور پہاڑوں میں گشت کرتا رہا.وہاں اس کے دل میں ایسے خیالات اور ایسی تحریکیں پیدا ہوئیں کہ وہ ان میں محو ہو کر اپنا کھانا پینا بھول گیا.te ( حیات ایج.صفحہ ۷۹ ) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی چالیس روز کے لئے دنیا سے انقطاع کر کے عبادت و ریاضت کی خاطر خلوت نشینی اختیار کی.لکھا ہے: ۱۸۸۶ء کے شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدائی منشاء کے ماتحت ہوشیار پور میں تشریف لے گئے جو قادیان سے قریبا چالیس میل مشرق کی طرف واقع ہے اور پنجاب کے ضلع کا صدر مقام ہے.یہاں آپ نے چالیس دن تک ایک علیحدہ مکان میں جو آبادی سے کسی قدر جدا تھا عبادت اور ذکر الہی میں وقت گزارا..آپ کی یہ خلوت نشینی اعتکاف کارنگ رکھتی تھی.ان ایام میں آپ پر بہت سے انوار سماوی کا انکشاف ہوا." (سلسلہ احمدیہ - صفحہ ۳۶) و (سیرت المہدی.روایت (۸۸)
(xi) روزے ۱۰۴ سیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سنتِ انبیاء کے مطابق تزکیۂ نفس ، اور اور تعلق باللہ کی خاطر روزے رکھے.چنانچہ لکھا ہے چالیس دن تک روزے کی حالت میں رہا.مسیح ( حیات ایج.صفحہ ۷۹ ) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی سنت انبیاء کے مطابق روزے رکھے.چنانچہ لکھا ہے " آپ کو خواب میں بتایا گیا کہ دین کی راہ میں ترقی کرنے اور انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں.چنانچہ یہ خدائی اشارہ پاکر آپ نے نفلی روزے رکھنے شروع کئے اور آٹھ نو ماہ نے تک مسلسل روزے رکھے ان ایام میں آپ پر بہت سے انوار سماوی کا انکشاف ہوا اور بعض گذشتہ انبیاء اور اولیاء سے بھی کشفی حالت میں ملاقات ہوئی." ✰✰✰ (سلسلہ احمدیہ - صفحہ ۱۶) (1) درویشی و غربت مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے درویشی اور غریبی کی زندگی اختیار کی چنانچہ آپ کی سیرت کے اس پہلو کا ذکر یوں کیا گیا ہے کہ مسیح نے قصداً غریبی کی حالت اختیار کی.پر اس کی غریبی وہ غریبی نہ تھی جو آدمی کو افکار کی چکی میں پیس ڈالتی ہے." ( حیات امسیح.صفحہ ۴۶) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی زندگی کو سادگی
۱۰۵ اور غریبی کا زیور پہنایا.لذات دنیا سے منہ موڑ کر مسجد کو اپنا مسکن بنایا.ذکر الہی اور تدبر قرآن اور مطالعہ میں اتنا مگن ہوئے کہ بعض اوقات کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہا.بلکہ کئی مرتبہ گھر والے آپ کا کھانا بھیجوانا بھی بھول جاتے اور پھر بعد میں بچی کھی روٹی آپ کو بھیجوا دیتے.اس وقت کا ذکر آپ یوں بیان فرماتے ہیں.لفاظات الموائد كان اكلي».کہ دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑے میرا کھانا ہوا کرتے تھے.غریبی کی اس حالت میں حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی اس مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.قد جئتكم مثل ابن مريم غربة حق وربي يسمعن ويراني».کہ میں تمہارے پاس عیسیٰ علیہ السلام کی طرح غربت کی حالت میں آیا ہوں.: 1.(i) انسان سے محبت پبلک زندگی مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام بنی نوع انسان کے لئے صلح و آشتی کا پیغام لے کر آئے اور محبت والفت آپ کی تعلیم کے بنیادی ارکان میں شمار کا ہوتی ہے.اسی لئے آپ کے بارہ میں لکھا ہے.” وہ بنی آدم کو پیار کرتا تھا." (حیات اسیح.صفحہ ۱۴۳) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سینہ و دل بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی سے معمور تھا.آپ فرماتے ہیں
بنی نوع انسان کی ہمدردی میں میرا مذہب یہ ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جائے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا.شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے (ہم نے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو.ایک بھی ایسا ( ملفوظات.جلد ۳.صفحہ ۹۶، ۹۷) (ii) تازه خیالی حضرت عیسی علیہ السلام ایسے وقت میں مبعوث مسیح موسوی : ہوئے جب کہ مذہبی اور اعتقادی لحاظ سے دبیز دقیانوسی پردوں نے ذہنوں اور عقلوں کو ڈھانپ رکھا تھا.شریعت موسوی کو آپ نے ایک اچھوتے ، معقول اور قابل عمل رنگ میں لوگوں کے سامنے پیش کیا.چنانچہ پادری طالب الدین صاحب اپنی کو حیات اسیح کے صفحہ ۱۴۰ پر لکھتے ہیں کہ " وه تازه خیال اور تازہ بیان آدمی تھا." اسی لئے اس زمانہ کے علماء آپ کے بیانات کو شریعت موسویہ سے رو گردانی قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اس نے کفر بکا ہے".مسیح محمدی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معاملہ بھی بعینہ یہی تھا اسی لئے مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ " علمائے ظواہر مجتہدات او را علی نبینا وعلیہ الصلوۃ و السلام از کمال دقت و غموض ماخذ انکار نمائند و مخالف کتاب و سنت دانند.(مکتوبات.دفتر دوم.حصہ ہفتم صفحہ ۱۴.مکتوب ۵۵ )
1+2 کہ عجب نہیں کہ علماء ظواہر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اجتہادات سے ان کے ماخذ کے کمال دقیق اور گہرا ہونے کے باعث انکار کریں اور ان کو کتاب و سنت کے مخالف جانیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے عقائد اور خیالات زمانہ کے مسلمانوں کے رائج الوقت عقائد سے اختلاف رکھتے تھے مثلا مسیح کی وفات کا عقیدہ ، مسیح ناصری کی بجائے متبل مسیح کی آمد کا عقیدہ ، ایک ہی شخصیت کا مسیح اور مہدی کہلانا ، خونی اور جنگی مہدی کے وجود سے انکار ، جہاد بالسیف کا التواء، ملائکہ اللہ کے نزول کی تشریح ، دجال کی حقیقت کا بیان وغیرہ وغیرہ.ان اختلافات عقائد کی وجہ سے علمائے ظواہر آپ کو اسلام سے منحرف اور دین میں ایک نئی راہ نکالنے والا خیال کرتے تھے.کیونکہ آپ ایک روشن خیال اور تازہ بیان انسان تھے.(iii) پر اثر اور تعجب انگیز بیان مسیح موسوی جب حضرت عیسی علیہ السلام نے قوت قدسیہ سے ایک گونگے کو خدا تعالیٰ کے اذن سے قوت گویائی دی تو لوگوں نے متحیر ہو کر کہا ”اسرائیل میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا.(متی ۳۳:۹) آپ کے کلام میں بھی لوگ تعجب کرتے تھے.چنانچہ لکھا ہے کہ اس کے کلام میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ اس کے مخالفوں کہ یہ بھی کہنا پڑا کہ د انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کیا ،." (حیات امسیح.صفحہ ااا) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام مجود نما پر بھی ایسا
I+A ہی تعجب کیا گیا.چنانچہ ایسے وقت میں جب کہ اسلام کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہ تھا.ادیان باطلہ اسلام کو گونگا سمجھ کر ہر قسم کی زبان درازی کر رہے تھے.رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار کو داغدار اور بھیانک صورت میں پیش کیا جا رہا تھا اور تعلیم قراں نشانہ تضحیک بن چکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جری اللہ بن کر آئے اور اسلام کے دفاع میں براہین احمدیہ کے نام سے ایسی معجزانہ کتاب لکھی کہ گویا اسلام کو پھر سے قوت گویائی مل گئی.اس کتاب کے پر تاثیر بیان سے لوگ حیران ہو گئے.محققین نے براہینِ احمدیہ کو اس زمانہ میں بالاتفاق اسلامی مدافعت کا شاہکار قرار دیا.چنانچہ اہل حدیث مسلک کے نامور لیڈر مولوی محمد بٹالوی نے لکھا کہ ” ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی.؟ " (اشاعۃ السنة - جلدے.صفحہ ۶ - ۱۸۸۶ء ) حسین حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر تاثیر کلام کے بارہ میں تبصروں میں کس قدر مشابہت پائی جاتی ہے.: 11 ارباص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ارہاص حضرت یحی علیہ السلام تھے جو ایلیا بن کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی راہ درست کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارہاص حضرت سید احمد شہید تھے جو آپ کی
1+9 آمد کی راہ ہموار کرنے کے لئے مامور ہوئے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ.کیا تعجب ہے کہ سید احمد بریلوی اس مسیح موعود کے لئے الیاس کے رنگ میں آیا ہو کیونکہ اس کے خون نے ایک ظالم سلطنت کا استیصال کر کے مسیح موعود کے لئے جو یہ راقم ہے راہ کو صاف کیا.اسی کے خون کا اثر معلوم ہوتا ہے جس نے انگریزوں کو پنجاب میں بلایا اور اس قدر سخت مذہبی روکوں کو جو ایک آہنی سنور کی طرح تھیں دور کر کے ایک آزاد سلطنت کے حوالہ پنجاب کو کر دیا اور تبلیغ اسلام کی بنیاد ڈال دی.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷.صفحہ ۲۹۶ - حاشیہ ) ( i ) شہادت مسیح موسوی کے ارہاص حضرت یحییٰ علیہ السلام کو ظالم بادشاہ کے حکم سے شہید کر دیا گیا.انجیل متی باب ۱۴ میں اس کی تفصیل درج ہے.یا گیا.انجیل متی با ۱۴ میں س مسیح محمدی کے ارباص : لکھا ہے وو " " حضرت سید احمد بریلوی کو بھی ۶ مئی ۱۸۳۱ء بروز جمعہ بالا کوٹ کے قریب مٹی کوٹ (ضلع ہزارہ ) کے مقام پر ظالم سکھوں نے شہید پر کر دیا." سوانح سید احمد شہید - جلد دوم - صفحہ ۴۱۳ ، ۴۱۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں." جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے یوحتا نبی خدا تعالیٰ کی تبلیغ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے.اسی طرح ہم سے پہلے اسی ملک پنجاب میں سید احمد صاحب توحید کا وعظ کرتے ہوئے شہید ہو
گئے.یہ بھی ایک مماثلت تھی جو خدا تعالیٰ نے پوری کر دی.( ملفوظات.جلد ۹.صفحہ ۴۸۲) ( ii ) سر اور تن کی جدائی مسیح موسوی کے ارہاض حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر تن سے جدا کیا گیا اور سر اور تن کی علیحدہ علیحدہ تدفین ہوئی.متی باب ۱۴ میں یہ ذکر ہے کہ حضرت یحییٰ کا سر کاٹ کر ہیرودیس کو پیش کیا گیا اور لاش آپ کے شاگردوں نے دفن کر دی.انجیل کی کسی تحریر سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بعد میں آپ کے شاگردوں کو ہیرودیس کے قبضہ سے آپ کا سر مل سکا یا نہیں.اس سے یہی یقینی نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کا سر اور تن علیحدہ علیحدہ جگہ دفن ہوئے.مسیح محمدی کے ارباص حضرت سید احمد شہید کا سر بھی تن سے جدا کر دیا گیا چنانچہ آپ کا سر اور جگہ ، اور دھڑ اور جگہ مدفون ہیں.اس سلسلہ میں لکھا ہے کہ " آپ کا تن تلہٹہ (بالا کوٹ سے نومیل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے) میں غیر معلوم مقام پر دفن ہوا ، سر گڑھی حبیب اللہ خان کے پل کے پاس ہے.( سید احمد شہید - جلد دوم - صفحه (۴۴۱) اللہ تعالیٰ نے ارہاہوں کے حالات کو بھی مشابہ بنا کر حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مماثلت کا زبر دست ثبوت فراہم کر دیا ہے.ماموریت
HI (i) ماموریت کے بارہ میں ابتداء لاعلمی مسیح موسوی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری کو پہلے پہل اپنے منصب کے بارہ میں شاید کچھ ابہام تھا.چنانچہ متی باب ۱۶ آیت ۱۳ تا ۲۰۰ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنے شاگردوں سے پوچھا کہ لوگ ابن آدم کو کیا کہتے ہیں.پھر پوچھا کہ تم مجھے کیا کہتے ہو.اس پر شاگردوں نے جواب دیا کہ ہم تجھے زندہ خدا کا بیٹا مسیح سمجھتے ہیں.مسیح محمدی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی آپ کا مقام شروع میں غیر واضح تھا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ دو چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے.اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا.اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا.لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲.صفحہ ۱۵۳) (ii) بے عیب زندگی کا دعوی سیح موسوی قرآن کریم کی رو سے ماموریت سے پہلے نبی کی بے عیب زندگی اس کی صداقت کی ایک دلیل ہوتی ہے.اس دلیل کو حضرت عیسیٰ السلام نے اپنی صداقت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا اور فرمایا تم میں سے کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے ؟ " (یوحنا ۸ (۴۶)
١١٢ اور پادری طالب الدین صاحب اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ ہے.مسیح محمدی مسیح کی بے گناہی بھی اس کی سیرت کی اعلیٰ خصوصیت سمجھی جاتی (حیات امسیح.صفحہ ۱۴۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے عیب زندگی آپ کے اعلیٰ کردار اور حسن سیرت آپ کی صداقت کی آئینہ دار تھی.آپ فرماتے ہیں.تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دعا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے.یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہو گا.کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتداء سے مجھے تقونی پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ دلیل ہے.تذكرة الشہادتین.جلد ۲۰ - صفحه ۶۴) ماموریت سے پہلے اس بے عیب زندگی کی تصدیق دوسروں نے بھی کی.چنانچہ احمدیت کے شدید دشمن مولوی ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار "زمیندار" کے والد مولوی سراج الدین صاحب فرماتے ہیں." مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ء ، ۱۸۶۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے.اس وقت آپ کی عمر ۲۲ ، ۲۳ سال کی ہو گی.اور ہم چشم دید شہادت سے کہتے ہیں کہ جوانی میں نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.زمیندار.۸ جون ۱۹۰۸ ء.بحوالہ احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک )
۱۱۳ " اور آپ کے سخت مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی رقمطراز ہیں کہ مولف براہین احمدیہ مخالف اور موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے واللہ حسیبہ شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں.ce (اشاعۃ السنہ - جلدے نمبر ۹) (iii) صداقت کے ثبوت کے لئے معجزات و نشانات مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت کے طور پر خدا تعالیٰ نے آپ کو بے شمار معجزات و نشانات عطا فرمائے.تاکہ ایک منکر کے لئے ہدایت اور روشنی کی راہیں واضح ، روشن اور کشادہ ہو جائیں اور مومن اپنے ایمان اور وفائیں مزید ترقی کریں.قرآن کریم میں بھی ان معجزات کا ذکر ہے اور انجیل میں لکھا ہے کہ اس کتاب میں لکھے نہیں گئے.؟ یسوع نے اور بہت سے معجزے شاگردوں کے سامنے دکھائے جو (یوحنا ۲۰ ، ۳۱) سے مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر کثرت سے نشانات و معجزات ظاہر فرمائے.ان کا ذکر آپ کی کتب، حقیقۃ الوحی ، نزول ، اسیح ، نشان آسمانی وغیرہ میں تفصیل - موجود ہے.آپ فرماتے ہیں." مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ وہ نشان جو میرے لئے ظاہر کئے گئے اور میری تائید میں ظہور میں آئے.اگر ان کے گواہ ایک جگہ کھڑے کئے جائیں تو دنیا میں کوئی
بادشاہ ایسا نہ ہو گا جو اس کی فوج ان گواہوں سے زیادہ ہو.تاہم اس زمین پر کیسے کیسے گناہ ہو رہے ہیں کہ ان نشانوں کی بھی لوگ تکذیب کر رہے ہیں.آسمان نے بھی میرے لئے گواہی دی اور زمین نے بھی.اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۴ ) (۷) انکار کی ایک وجہ لفظ نزول سیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی ماموریت کا اعلان کیا تو مخالفین نے نزول ایلیا کے مسئلہ کی آڑ لے کر آپ کا انکار کر دیا کہ ایلیاء آسمان سے نہیں اترا اس لئے مسیح کی آمد کیسے ممکن ہو سکتی ہے.سیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی پر بھی مخالفین نے ایسے ہی مسئلہ کی آڑ لی کہ مسیح آسمان سے اترنا چاہئے.اور اس طرح وہ مامور زمانہ پر ایمان لانے سے محروم رہے.اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مسیح کے وقت جب یہ حجتیں پیش کی گئی تھیں کہ جب تک ایلیا آسمان سے نازل نہ ہو سچا مسیح نہیں آسکتا اور میرے مقابل پر بھی یہ باتیں پیش کی گئیں کہ آنے والا مسیح آسمان سے اترے گا.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳.صفحہ ۱۰۸) (۷) تائید الہی مسیح موسوی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی ہر گام پر مدد فرمائی اور تائید ملائکہ ہمیشہ آپ کے شامل حال رہی جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن
۱۱۵ شریف میں فرماتا ہے.وَعَاتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدَ نَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ سورة البقرة کہ ہم نے روح القدس سے اس کی مدد کی.مسیح محمدی یہی عون و نصرت الہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ہر لمحہ مشعل راہ بنی رہی اور آپ کے لئے غلبہ کے سامان کرتی رہی.ہر کتاب جو آپ نے تصنیف فرمائی اس نصرت الہی اور عون خداوندی کا زندہ ثبوت ہے.آپ نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں دوصد سے زائد نشانات اور پیش گوئیاں درج کی ہیں جو لمحہ بلمحہ پوری ہوتی رہیں.دیگر کتب میں بھی تائید الہی کے ہزاروں ثبوت جگمگا رہے ہیں.اس سے ہر مخالف و موافق اندازہ کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے ہر لمحہ اور ہر آن آپ کی فتح و نصرت کے لئے آپ پر سایہ فگن رہتے تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے یقین دلایا کہ إني مع الروح معك ومع أهلك».(تذكرة ص ٥٢٦ ص ٦٤٥).میں روح القدس کے ہمراہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے ساتھ ہوں.(vi) مامور بغرض عدل مسیح موسوی : حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں میں دنیا میں عدالت کے لئے آیا ہوں.ce (یوحنا ۳۹۰۹) مسیح محمدی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی عدالت کے لئے مبعوث ہوئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اس کام کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا
HY ليوشكن أن ينزل فيكم بن مريم حكما عدلاً.0...(بخاري، باب نزول عيسى کہ عنقریب تم میں حکم و عدل کے طور پر نازل ہو گا.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اگر تم نے بچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے.وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہو گا.وہ حکم عدل ہو گا.اگر اس پر تسلی نہیں ہوئی تو کب ہو گی.؟ ( ملفوظات.جلد ۳.صفحہ ۷۳ ) (vi) مقام و مرتبہ صحیح موسوی : حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے اور آپ کی سیرت اور آپ کے خلق سے متأثر لوگ آپ کو مرتبہ کے لحاظ سے بلند مقام پر فائز قرار دیتے تھے.چنانچہ لکھا ہے کہ وہ اسے گذشتہ زمانوں کے بڑے بڑے انبیاء کے برابر جانتے تھے.اور جو لوگ اس کی عظمت کو کسی قدر زیادہ صفائی سے دیکھتے یا اس کی رقت انگیز تعلیم کی خوبیوں کو زیادہ محسوس کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ وہ یا توی حیاہ ہے یا یرمیاہ ہے.( حیات اسیح.صفحہ ۱۶۴) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے اور
112 پہلے بزرگوں میں سے آپ کی ذات کا عرفان رکھنے والے آپ کو عظیم الشان مقام اور مرتبہ کا حامل یقین کرتے تھے کیونکہ قرآن کریم کے مطابق آر وإذ الرسل أقتت کے مصداق تھے.چنانچہ حضرت امام ابن عربی نے فرمایا.«المهدي الذي يجي في آخر الزمان فإنه يكون في أحكام الشريعة تابعاً المحمد وفي المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الأنبياء والأولياء تابعين له كلهم».( شرح فصوص الحکم.صفحہ ۵۳.مصری ایڈیشن ) که آخری زمانہ میں جو مہدی آئے گاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے احکام کا تابع ہو گا اور معارف و علوم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیاء اس کے تابع ہوں گے.یعنی امام مہدی کو تمام انبیاء سے بلند مقام محض اتباع سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے حاصل ہو گا.اسی طرح شیعه امام حضرت امام جعفر صادق نے آپ کو حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل ، حضرت موسیٰ اللہ حضرت یوشع حضرت عیسی حضرت شمعون اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے میل کے طور پر قرار دیا ہے.☆ يقول يا معشر الخلائق الا ومن أراد أن ينظر إلى ابراهيم واسماعيل فها أنا ذا ابراهيم واسماعيل إلا ومن أراد أن ينظر إلى موسى ويوشع فها أنا ذا موسى ويوشع إلا ومن أراد أن ينظر إلى عيسى وشمعون فها أنا ذا عيسى وشمعون إلا ومن أراد أن ينظر إلى محمد وأمير المؤمنين صلوات الله عليه فها أنا ذا محمد صلى الله عليه واله وأمير المؤمنين».(بحار الأنوار.ص ۲۰۲، جلد ۱۳)
HIA اسی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی موجود ہے کہ ا میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اور فرمایا زنده اور فرمایا شد ہر نبی بآمدم ہر رسولے نہاں به پیرهم منم مسیح زماں و منم کلیم خدا منم محمد و احمد که مجتبی باشد اور الہام الہی میں آپ کو " جري الله في حلل الأنبياء " کے خطاب سے نوازا گیا.(ii) لوگوں کی خونی مسیح کی تمنا پوری نہیں ہوئی مسیح موسوی یہودی ایک صاحب جاہ و جلال اور ڈکٹیٹر قسم کے مسیح کے متمنی تھے کہ جو ان کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کراتا.ان کی یہ آرزو تھی کہ ” جب مسیح آئے گا تو وہ بڑے بڑے معجزوں اور اپنی قدرت سے یہودی قوم کو غلامی کی قید سے آزاد کر کے دنیوی عزت و شوکت کے اعلیٰ درجہ تک پہنچائے گا.ee (حیات ایج.صفحہ ۲۶) مگر عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی توقعات کے خلاف اپنی بادشاہی اور حکومت کو آسمانی اور روحانی قرار دیا.اور فرمایا:
119 ” میری بادشاہت دنیا کی نہیں." مسیح محمدی (یوحنا ۱۸ : ۳۶) مسلمان بھی ایک ایسے ہی مسیح کے منتظر تھے جو تلوار کے ذریعہ غیر مسلموں کو قتل کر کے اسلام کو غلبہ اور مسلمانوں کو قوت و اقتدار بخشتا.اس تمنا کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ نواب صدیق حسن خان نے بعض اپنی کتابوں میں لکھا تھا کہ جب مہدی معہود پیدا ہو گا تو غیر مذاہب کے سلاطین گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور یہ ذکر کرتے کرتے یہ بھی بیان کر دیا کہ چونکہ اس ملک میں سلطنت برطانیہ ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کے ظہور کے وقت اس ملک کا عیسائی بادشاہ اسی طرح مہدی کے روبرو پیش کیا جائے گا.یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے ایسا لکھا کیونکہ ایسے خونی مہدی کے بارہ میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں.تتمہ حقیقة الوحی- روحانی خزائن.جلد ۲۲ صفحہ ۴۶۷ ) یہ تو مسلمانوں کے بعض بڑے بڑے علماء کی آرزوئیں تھیں.مگر حدیث نبوی میں اس موعود مہدی اور مسیح کا ایک کام یہ بھی مذکور ہے کہ «يضع الحرب» وه جنگ و قتال کو موقوف کر دے گا.اسی وجہ سے جب وہ مہدی آیا تو اس نے مسلمانوں کی اس مذکورہ بالا توقع کے مطابق قتال شروع کرنے کی بجائے یہ اعلان کیا کہ.میں تو آیا اس جہاں میں کی طرح میں نہیں مامور از بهر جهاد و کار زار حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح
۱۲۰ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں اس زمانہ میں سلطنت کی طرف سے کوئی مذہبی سختی نہیں تھی.بعینہ انگریزی سلطنت کی طرح ہر ایک کو آزادی دی گئی تھی.سلطنت رومیہ ہرگز تلوار کے ساتھ اپنے مذہب کو نہیں پھیلاتے تھے جیسا کہ آجکل سلطنت برطانیہ ہے.ہاں رومی گورنمنٹ میں باعث عام آزادی اور یونانی فلسفہ کے پھیلنے کے مذہبی تقوی اور طہارت بہت کم ہو گئی تھی.یونانی فلسفہ کی تعلیم نے لوگوں کو قریب قریب دہریہ بنا دیا تھا.سو اس وقت ایسے نبی کی ضرورت نہ تھی جو تلوار کے ساتھ آتا.جیسا کہ اب ضرورت نہیں.کیونکہ مقابل پر مذہب کے لئے تلوار اٹھانے والا نہ تھا.اس لئے خدا نے ایک نبی جس کا نام عیسیٰ تھا محض روح القدس کی برکت کے ساتھ بھیجا تا دلوں کو روحانی تاثیر سے خدا تعالیٰ کی طرف پھیر ہے اور دوبارہ خدا کا جلال دنیا میں قائم کرے اور مقدر تھا کہ اسی طرح مثیل موسیٰ کے سلسلہ کے آخر میں روحانی طاقت کے ساتھ ایک شخص آئے گا جو اس سلسلہ کا مسیح موعود ہو گا.کیونکہ وہ بھی نہ لڑے گا نہ تلوار نکالے گا اور محض روحانی طاقت سے سچائی کو پھیلائے گا.کیونکہ وہ سلطنت بھی امن اور آزادی کی سلطنت ہوگی اور اسی قسم کا روحانی فساد ہو گا جو رومی سلطنت کے وقت میں تھا." ایام الصلح - روحانی خزائن جلد ۱۴.صفحہ ۲۹۳ حاشیه ) (x) اطاعت اولی الامر مسیح موسوی : حضرت عیسیٰ علیہ السلام سلطنت روما کے اطاعت
گذار اور وفادار رہے اور اس کے قانون کے پابند تھے.حکومت کے خلاف کسی قسم کی بغاوت یا قانون شکنی کی اناجیل اور مسیحی تاریخ میں کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی.آپ نے لوگوں کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ قیصر کو اس کا جزیہ دو " متی ۲۲ ۰ ۲۱ ، لوقا ۲۰ ۲۵۰) حضرت عیسی علیہ السلام کے اس پر امن طرز عمل کے ضمن میں مولانا مودودی صاحب کا تبصرہ یہ ہے کہ اگر ابتداء ہی میں حکومت سے مقابلہ شروع ہو جاتا تو اصل اصلاحی کام بھی نہ ہوتا اور اس کے انجام پائے بغیر حکومت کے مقابلہ میں ہی ناکامی ہوتی.اسی لئے انہوں نے حکومت کے ساتھ تصادم کرنے سے پہلو تہی کی.re الجهاد في الاسلام - طبع دوم - صفحہ ۳۶۶) مولانا مودودی صاحب نے یہاں یہ تو بیان کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حکومت وقت سے تصادم اختیار نہیں کیا لیکن اپنے اس بیان میں انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا حضرت عیسی علیہ السلام حکومت وقت سے لڑنا چاہتے تھے اور میدان کارزار کھولنا چاہتے تھے لیکن چونکہ کمزور تھے اس لئے مصلحت خویشی کا تقاضہ تھا کہ حکومت وقت سے تصادم نہ کیا جائے چنانچہ انہوں نے تصادم سے گریز کیا.مولانا مودودی صاحب کے اس تبصرہ سے کوئی اہل فہم موافقت نہیں کر سکتا کیونکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں سلطنت رومیہ کی طرف سے کوئی مذہبی سختی نہیں تھی اور نہ وہ تلوار کے ذریعہ اپنے مذہب کو پھیلاتے تھے بلکہ یونانی فلسفہ کے پھیلنے کی وجہ سے لوگ دہرتیت کی طرف مائل تھے.ایسے
۱۲۲ ماحول میں لوگوں کو مذہب کی طرف مائل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو محض روح القدس کی برکت کے ساتھ بھیجاتا دلوں کو پیار ، امن اور روحانی تاثیر کے ساتھ مذہب کی طرف بلائیں اور دنیا میں دوبارہ خدا کا جلال قائم کریں.اسی تعلیم اور مشن کے ساتھ آپ دنیا میں آئے.اس لئے یہ کہنا جائز نہیں کہ مصلحت کے تحت آر نے تصادم اختیار نہ کیا..مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی حکومت وقت کے جو کہ سلطنت روما کی مثیل تھی وفادار تھے اور اس کے ہر قانون کو واجب الاطاعت سمجھتے تھے کیونکہ یہ سلطنت بھی کسی قسم کی مذہبی سختی کو روا نہیں رکھتی تھی اور نہ بزور بازو اپنے مذہب کو پھیلاتی تھی اور مذہبی لحاظ سے آزادی کی علمبردار تھی.علاوہ ازیں اولوالامر کی اطاعت قرآن کریم نے ہر مسلمان پر فرض قرار دی ہے.اس سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں.وإن فعلتُ إلا لله وامتثالاً لامر خاتم النبيين».کہ حکومت وقت کی اطاعت میں نے محض اللہ تعالیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کی ہے.نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن.جلد ۸.صفحہ ۴۱) (x) انصاف پسند حکومت مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام جب مامور ہوئے تو اس وقت ظالم حکمران کو ختم کر کے ایک عادل اور مہذب حکومت مسند اقتدار پر متمکن ہوئی.چنانچہ لکھا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد ایک ظالم نے زبر دستی تخت نشینی اور حکمرانی کا لطف اڑایا اور اب آخر میں عنان حکومت اہل روم کے ہاتھ آئی جن کا
۱۲۳ سکہ تمام مہذب دنیا میں جاری تھا.انہوں نے ملک کو پانچ حصوں میں تقسیم کر کے کچھ ایسی ہی حکومت جاری کی جیسی اب ہندوستان میں رائج ہے.مسیح محمدی (حیات مسیح.صفحہ ۵۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ماموریت کے وقت بھی ظالم اور غاصب حکومت کو ختم کر کے ایک عادل اور منصف مزاج حکومت ہندوستان میں آئی.ہر مکتبہ فکر کے علماء نے اس کا استقبال کیا، اس کی آمد پر خدا کا شکر ادا کیا اور اس کو سایہ خدا سے تعبیر کیا.یہ کتاب تقسیم پاک و ہند سے قبل لکھی گئی.علامہ اقبال نے ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر ایک مرثیہ لکھا.اس میں ملکہ اور انگریزی حکومت کو کیا مقام دیا ؟ ملاحظہ ہو.میت اٹھی ہے شاہ کی ، تعظیم کے لئے اقبال اڑ کے خاک سر راہ گزار ہو صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا دیتے ہیں نام ماہ محرم کا ہم تجھے کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے ہوا کرے اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا اک غمگسار تیرے مکینوں کی تھی گئی ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے زینت تھی جس سے تجھ کو جنازہ اسی کا ہے (باقیات اقبال) باقی ، گلے صفحہ پر
۱۲۴ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں حکومت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں حکومت ایک جیسی صفات کی حامل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.میں انگریزی سلطنت کے ماتحت مبعوث کیا گیا اور یہ سلطنت رومی سلطنت کے مشابہ ہے." تریاق القلوب - روحانی خزائن.جلد ۱۵- صفحہ ۵۳۶) اہل حدیث اور دیوبندی فرقہ کے چوٹی کے عالم اور بزرگ شمس العلماء مولانا نذیر احمد دہلوی فرماتے ہیں سارے ہندوستان کی عافیت اسی میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اس پر مسلط رہے جو نہ ہندو ہو نہ مسلمان ہو کوئی سلاطین یورپ میں سے ہو مگر خدا کی بے انتہا مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ ہوئے." پھر فرماتے ہیں مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحه ۴ ، ۵.مطبوعہ ۶۱۸۹۰ ) کیا گورنمنٹ جابر اور سخت گیر ہے ؟ تو بہ تو یہ ماں باپ سے بڑھ کر شفیق.“ (مجموعه لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحه ۱۹) پھر فرماتے ہیں ” میں اپنی معلومات کے مطابق اس وقت کے ہندوستان کے والیان ملک پر نظر ڈالتا تھا اور برما اور نیپال اور افغانستان بلکہ فارس اور مصر اور عرب تک خیال دوڑا تا تھا.اس سرے سے اس سرے تک ایک متنفس سمجھ میں نہیں آتا تھا جس کو میں ہندوستان کا بادشاہ بناوں.امیدواران سلطنت میں سے اور کوئی گروہ اس وقت موجود نہ تھا کہ میں اس کے استحقاق پر نظر کرتا.پس میرا اس وقت فیصلہ یہ تھا کہ انگر ہندوستان کے اہل ہیں.سلطنت انہیں کا حق ہے انہیں پر بحال رہنی چاہئے." ( مجموعہ لیکچرز.مولانا نذیر احمد دہلوی صفحہ ۲۶) ایسے سلطنت
۱۲۵ حضرت عیسی علیہ السلام سے اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح وو موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.وہ رومی سلطنت کے وقت یعنی قیصر روم کے زمانہ میں مامور ہوئے تھے.پس ایسا ہی میں بھی رومی سلطنت اور قیصر ہند کے ایام دولت میں مبعوث کیا گیا ہوں.اور عیسائی سلطنت کو میں نے اس لئے ایڈیٹر رسالہ ” چٹان " شورش کا شمیری صاحب رقمطراز ہیں کہ " جن لوگوں نے حوادث کے اس زمانے میں شیخ جہاد کی تاویلوں کے علاوہ آیت أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ میں نام بھی ہے.".ee کا مصداق انگریزوں کو ٹھہرایا ان میں مشہور انشاء پرداز ڈپٹی نذیر احمد کا (کتاب " عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه ۱۳۵) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں وو سلطان روم ایک اسلامی بادشاہ ہے لیکن امن عامہ اور حسن انتظام کے لحاظ سے برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں ہے اور خاص گروہ اہل حدیث کے لئے تو یہ سلطنت بلحاظ امن و آزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں سے بڑھ کر فخر کا محل ہے.پھر لکھا اس امن و آزادی عام و حسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں.اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں.؟ (رسالہ اشاعۃ السنہ.نمبر ۱۰.صفحہ ۲۹۲ ، مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار " زمیندار " جو ایک وقت میں احرار کے بڑے لیڈروں میں سے تھے.انگریزی حکومت کے بارہ میں اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں باقی اگلے صفحہ پر
رومی سلطنت کے نام سے یاد کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عیسائی سلطنت کا نام جو مسیح موعود کے وقت میں ہو گی روم ہی رکھا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے ظاہر ہے." کرتے ہیں کہ دو کر سکتے (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد۱۷.صفحہ ۲۰۹) مسلمان.....ایک لمحہ کے لئے بھی ایسی حکومت سے بدظن ہونے کا خیال نہیں اگر کوئی بدبخت مسلمان ، گورنمنٹ سے سرکشی کی جرائت کرے تو ہم ee ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ مسلمان مسلمان ہی نہیں." پھر فرماتے ہیں اخبار زمیندار لاہور.۱۱ نومبر ۱۹۱۱ء ) ”اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے.ce اخبار زمیندار - لاہور - ۲۳ نومبر ۱۹۱۱ء ) پھر انگریز کی نگاہ فیض اثر کے حصول کی تمنا ان الفاظ میں کی کہ جھکا فرط عقیدت سے مرا سر ہوا جب تذکرہ کنگ ایمپرر کا جلالت کو کیا کیا ناز اس پر کہ شاہنشاہ ہے وہ بحر و بر کا قسمت جو ہو اک گوشہ حاصل رہے ہمیں اس کی نگاہ فیض اثر کا زمیندار - ۱۹ اکتوبر - ۱۹۱۱ء )
۱۲۷ (1) مادی اور دنیاوی ترقی مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں مادی اور دنیاوی لحاظ سے ترقی ہوئی.تہذیب و تمدن کے اصول اور طریقے جدید رنگ میں وضع کئے گئے.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے وقت میں بھی مادی اور دنیاوی اعتبار سے دنیا ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوئی.اس امر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں.ان کے عہد میں دنیا کی وضع جدید ہو گئی تھی.سڑکیں ایجاد ہو گئی تھیں.ڈاک کا عمدہ نظام ہو گیا تھا.فوجی انتظام میں بہت صلاحیت پیدا ہو گئی تھی اور مسافروں کے آرام کے لئے بہت کچھ باتیں ایجاد ہو گئی تھیں.اور پہلے کی نسبت قانون معدلت نہائت صاف ہو گیا تھا.ایسا ہی میرے وقت میں دنیا کے اسباب بہت ترقی کر گئے ہیں.یہاں تک کہ ریل کی سواری پیدا ہو گئی.جس کی خبر قرآن شریف میں پائی جاتی te ( تذکرہ الشہادتین.روحانی خزائن.جلد ۲۰.صفحہ ۳۰ ) (ii) مروجہ باطل عقائد کارد مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام نے یہود کے بہت سے مروجہ غلط عقائد کو کلیہ رد کر دیا اور علماء کو ان کی غلطیوں پر اطلاع دی.اس کا تذکرہ اناجیل میں بار بار آتا ہے.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کو ان کے غلط عقائد سے آگاہ کیا جو مرورِ زمانہ کے ساتھ قرآن و احادیث نبویہ کی غلط تشریحات.
۱۲۸ کے باعث ان میں رواج پاچکے تھے.آپ نے ان مروجہ مسخ شدہ عقائد کو صحیح صورت میں پیش کیا اور اسلام کا حقیقی ، روشن اور حسین چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا.اسی طرح علماء کو بھی راہ سداد اختیار کرنے کی تلقین فرمائی.اس کا ذکر آپ کی کتابوں میں کثرت سے موجود ہے.(xii) مناظرے مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جابجا اس وقت کے علماء سے مناظرے کرنے پڑے.انجیل میں ان کی مفصل روئیداد درج ہے.سیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بار بار مناظرے کرنے پڑے.بار بار مخالف علماء سے سامنا ہوا.چنانچہ : ۱۸۹۱ ء میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے ساتھ لدھیانہ میں مناظرہ ہوا.: ۱۸۹۱ء میں ہی مولوی محمد بشیر بھوپالوی صاحب سے دہلی میں مناظرہ ہوا.۱۸۹۲ء میں مولوی عبد الحکیم کلانوری صاحب سے لاہور میں مناظرہ ہوا.۱۸۹۳ء میں مسٹر عبداللہ آتھم مسیحی سے امرتسر میں مناظرہ ہوا.وغیرہ (iv) تبلیغی سفر حضرت عیسی علیہ السلام نے پیغام حق کی تبلیغ کے مسیح موسوی : لئے کئی شہروں اور بستیوں کے چکر لگائے مثلاً و کپلس، یروشلم ، یهودیه ، یرون ، کفر نحوم ، پارگدرینیوں کا ملک ، گنسرت ، صور ، صیدا ، اور بیت علیاہ وغیرہ.چنانچہ لکھا ہے.
۱۲۹ یسوع سب شہروں اور گاؤں میں پھرتا رہا اور ان کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا رہا اور بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرتا رہا.مسیح محمدی (متی ۳۵۰۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے دعوے کی منادی اور پیغام حق کی اشاعت کے لئے کئی سفر اختیار کئے.مثلاً شروع میں ایک لمبا عرصہ لدہیانہ میں مقیم رہے.پھر دہلی گئے اور وہاں کافی عرصہ قیام کیا.پھر پٹیالہ تشریف لے گئے اور پیغام کو پہنچایا.اسی طرح امرتسر ، لاہور ، سیالکوٹ اور جالندھر وغیرہ جاکر کلمہ حق کی تبلیغ کی اور حقیقت الامر سے لوگوں کو آگاہ کیا.......آپ کی آواز بہت جلد ملک کے مختلف حصوں میں پہنچ گئی اور لوگ آپ کے دعوی سے واقف ہو گئے." :۱۳ (1) بشارت (سلسلہ احمدیہ - صفحہ ۳۶) الہامات اور پیش گوئیاں صحیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوشخبریوں سے نوازا.فرمایا وآتَيْنَهُ الإنجيل سورة المائدة کہ ہم نے اسے بشارات عطا کیں.مسیح محمدی عبرت عن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالی نے
بے شمار خوشخبریاں عطا کیں.ان خوشخبریوں کا پہلی دفعہ جو مجموعہ تیار ہوا اس کا نام البشرای" رکھا گیا.اسی طرح آپ نے پوری ہونے والی پیش گوئیوں اور الہامات کے مجموعہ کو المبشرات" کے نام سے موسوم کیا.الانجیل اور البشری کے ایک ہی معنی ہیں.(ii) وفات کے بارہ میں الہام اور ترقیات کی خبر مسیح موسوی : حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ إِذْ قَالَ اللَّهُ يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ سورة ال عمران ترجمہ : جب اللہ نے کہا.اے علینی! میں تجھے طبعی طور پر وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور میں عزت بخشوں گا اور کافروں کے الزامات سے تجھے پاک کروں گا اور جو تیرے پیرو ہیں انہیں ان لوگوں پر جو منکر ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھونگا مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی خدا تعالیٰ نے بالکل انہیں الفاظ میں وفات ، رفع درجات اور غلبہ کی خبر دی.چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں مذکورہ بالا آیت کریمہ آپ پر بھی الہام ہوئی.(ملاحظہ فرمائیں.تذکرہ.ایڈیشن ۱۹۶۹ء صفحہ ۲۲۰ ، ۳۱۷) پس مذکورہ بالا آیت کریمہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کامل مماثلت پر دال ہے.
فرمودات : مسیح موسوی آسمانی بادشاہت : ۱۴ (i) نہیں." (ii) صحیح محمدی ”میری بادشاہت دنیا کی میری بادشاہت آسمانی ہے.(یوحنا ۱۸ : ۳۶) تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵- صفحه ۵۲۴) اس مسیح کی پہلے مسیح کی طرح آسمان پر بادشاہت ہے.زمین کی حکومتوں سے کچھ تعلق نہیں.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن آسمانی بادشاہت کی تمثیل جلد۱۷ - صفحه ۳۰۴) آسمان کی بادشاہت کی آسمان کی بادشاہی کی منادی کرتے تمثیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ہوئے فرمایا اس رائی کے دانے کی مانند ہے میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بو یا میں بو دیا.وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو گیا اور اب وہ بڑہے گا اور پھولے گا اور ہے مگر جب بڑھتا ہے تو سب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے." ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہو ( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جاتا ہے کہ پرندے آکر اس کی جلد ۲۰.صفحہ ۶۷)
۱۳۲ ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں.(ii) (متی ۳۱۰۱۳) دنیا کانور ” دنیا کا نور میں ہوں جو اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے ہی ہوں.جو شخص میری پیروی کرتا میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں.بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں (iv) سے (یوحنا ۸ : ۱۲) چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں." مسیح ہندوستان میں.روحانی ابدی زندگی خزائن.جلد ۱۵.صفحہ ۱۳) میں تم سے سچ کہتا ہوں میں یقین رکھتا ہوں کہ جو صبر کہ جو ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اس اور صدق دل سے میرے پیچھے آتا ہے کی ہے.زندگی کی روٹی میں وہ ہلاک نہ کیا جاوے گا بلکہ وہ اس ہوں.اگر کوئی اس روٹی میں زندگی سے حصہ لے گا جس کو کبھی فتا سے کھائے تو ابد تک زندہ رہے نہیں.گا.(v) یوحنا ۶ : ۴۷ تا ۵۱) خودی مرزا غلام احمد قادیانی ہو اپنی تحریروں کی رو سے.صفحہ ۶۳) اگر کوئی میرے پیچھے آنا یارو خودی سے باز بھی آو گے یا نہیں چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے" تو اپنی پاک صاف بناو گے یا نہیں (مرقس ۳۷:۸) در مشین اردو)
(vi) چھوٹے بڑے کئے جائیں گے ”جو اپنے آپ کو چھوٹا کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا." جائیں گے.(متی ۲۳ : ۱۲ ) (vii) بڑا خادم بنے ”جو تم میں بڑا ہونا چاہے " ) تذکرہ - صفحہ ۵۳۹) بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو وہ تمہارا خادم بنے اور جو تم میں اول نہ ان کی تحقیر.....امیر ہو کر غریبوں کی ہونا چاہے وہ تمہارا غلام بنے." خدمت کرو نہ خود پسندی سے ان پر (متی ۳۶.۲) تکبر " (viii) (کشتی نوح - روحانی خزائن.جلد ۱۹ - صفحه ۱۲ ) دشمن سے محبت اپنے دشمن سے محبت گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار دعا کرو." (متی ۵ : ۴۴) (IX) ” قرض کی ادائیگی در کمین اردو) میں تم سے سچ سچ کہتا یہ گماں مت کر کہ یہ سب بد گمانی معاف ہوں کہ جب تک کوڑی کوڑی ادا نہ قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار کرے گا وہاں سے ہرگز نہ چھوٹے گا.ee (متی ۵ : ۲۶) در ششمین اردو)
۱۳۴ (x) مصائب کی اطلاع ”لوگ تم کو لعن طعن ” اور ضرور ہے کہ تم دکھ دئے کریں گے اور ستائیں گے اور ہر طرح جاو اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کی بری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں کئے جاو.سو ان صورتوں میں تم د گے تو تم مبارک ہو گے.ce مت ہو.(متی ۵ : ۱۱) (xi) انکساری دو ہے."t (xii) تو مجھے کیوں نیک کہتا (مرقس ۱۰ : ۱۸) १९ (کشتی نوح.روحانی خزائن.جلد ۱۹.صفحہ ۱۵) میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا.ce تجلیات الہیہ.روحانی خزائن.جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۰) میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں." ee (تجلیات الہیہ - روحانی خزائن.جلد ۲۰.صفحہ ۴۱۰ ) تلوار کے جہاد سے ممانعت آپ نے اپنے متبعین آپ نے بھی اپنے متبعین کو بلکہ کو دین کے لئے تلوار کے جہاد سے منع سب مسلمانوں کو تلوار کے جہاد - فرمایا تھا اسی لئے آپ فرماتے ہیں کہ منع فرمایا اور یہ منادی کی کہ اگر میری بادشاہت دنیا کی ہوتی ”اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار تو میرے خادم لڑتے تاکہ میں یہودیوں کا ہے.
۱۳۵ کے حوالے نہ کیا جاتا." (xiii) (یوحنا ۱۸ : ۳۶) آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۵۴- حاشیه ) اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال در شمین اردو) دو میں تلوار کے ساتھ بھی ظاہر نہیں ہوا.۲۲ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵- صفحه ۵۲۴ ) مخالفین کے جنازے پڑھنے سے ممانعت آپ نے اپنے مخالفین آپ نے بھی محضر و مکذب کے جنازے پڑھنے سے روکا تھا.لکھا مخالفین کے جنازے پڑہنے کے متعلق فرمایا ہے کہ " شاگرد نے اس سے کہا.اے ”جو شخص صریح گالیاں دینے خداوند مجھے اجازت دے کہ پہلے جا کر والا.کافر کہنے والا اور سخت مذب اپنے باپ کو دفن کر دوں.یسوع ہے.اس کا جنازہ تو کسی طرح درست نے اس سے کہا کہ تو میرے پیچھے چل نہیں.مگر جس شخص کا حال مشتبہ ہے اور مردوں کو اپنے مردے دفن گویا منافقوں کے رنگ میں ہے اس کرنے دے." کے لئے ظاہراً حرج نہیں.کیونکہ جنازہ (متی ۸ : ۲۱ ) و (لوقا ۹ : ۵۹) صرف دعا ہے اور انقطاع بہر حال بہتر et ہے.(خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۱۳۶ (xiv) وو ۲۳ فروری ۱۹۰۲ء از رجسٹر فتاوی مجلس افتاء کے فتاوی.صفحہ ۱۸ ، ۱۹) پر ہیبت ایام کی اطلاع قوم پر قوم اور بادشاہت پر اسے یورپ تو بھی امن میں نہیں بادشاہت چڑہائی کرے گی اور بڑے اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے بڑے بھونچال آئیں گے اور جابجا جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا کال اور مری پڑے گی اور آسمان پر تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں سب بڑی دہشت ناک باتیں اور نشانیاں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور ظاہر ہوں گی.....یہ انتقام کے دن آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.....ہوں گے جن میں سب باتیں جو لکھتی اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے ہیں پوری ہو جائیں گی.ملک گا......میں سچ کہتا ہوں کہ اس ملک میں ایک بڑی مصیبت اور اس قوم پر کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح غضب ہو گا.اور تک غیر کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آ قوموں کی میعاد پوری نہ ہو یروشلم غیر جائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم قوموں سے پامال ہوتی رہے گی خود دیکھ لو گے..زمین پر قوموں کو تکلیف ہو جب (حقیقۃ الوحی.روحانی گی....ڈر کے مارے اور زمین پر خزائن.جلد ۲۲.صفحہ ۲۶۹) آنے والی بلاؤں کی راہ دیکھتے دیکھتے لوگوں کی جان نہ رہے گی.اس لئے کہ آسمان کی قوتیں ہلائی جائیں گی.ee " (لوقا باب (۲)
۱۳۷ (xv) ایک تمثیل.منکروں کا حال یسوع پھر ان سے تمثیلوں میں ان کی نسبت یہی تمثیل ٹھیک کہنے لگا کہ آسمان کی بادشاہی اس بادشاہ آتی ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وعدہ کی مانند ہے جس نے اپنے بیٹے کی کے موافق ایک شہر میں ایک حاکم مقرر شادی کی اور اپنے نوکروں کو بھیجا کہ کر کے بھیجا تا وہ دیکھے کہ در حقیقت بلائے ہووں کو شادی میں بلا لائیں مگر مطیع کون ہے اور نافرمان کون انہوں نے نہ آنا چاہا.پھر اس نے اور ہے.اور تا ان تمام جھگڑوں کا تصفیہ نوکروں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ بلائے بھی ہو جائے جو ان میں واقع ہو رہے ہوؤں سے کہو کہ دیکھو میں نے ضیافت مگر انہوں نے نہ مانا اور تیار کرلی ہے.میرے بیل اور موٹے اسے قبول نہ کیا اور اس کو کراہت کی موٹے جانور ذبح ہو چکے ہیں اور سب نظر سے دیکھا........اس کو پکڑ کر کچھ تیار ہے.شادی میں آؤ.مگر وہ بے عزت کیا......اور بہت سی تحقیر بے پرواہی کر کے چل دئے.کوئی اور تذلیل کی اور بہت سی سخت زبانی اپنے کھیت کو اور کوئی اپنی سوداگری کو کے ساتھ اس کو جھٹلایا.تب وہ ان اور باقیوں نے اس کے نوکروں کو پکڑ کے ہاتھ سے تمام آزار اٹھا کر جو اس کر بے عزت کیا اور مار ڈالا.بادشاہ کے حق میں مقدر تھے اپنے بادشاہ کی غضبناک ہوا اور اس نے اپنا لشکر بھیج طرف واپس چلا گیا.........آخر کر ان خوبیوں کو ہلاک کر دیا اور ان کا شام کے قریب بہت سے پولیس کے سپاہی آئے جین کے ساتھ بہت سی شہر جلا دیا.(متی ۲۲ : ۱ تا ۸) ہتکڑیاں بھی تھیں.سو انہوں نے آتے ہی ان شریروں کے شہر کو پھونک دیا اور پھر سب کو پکڑ کر ایک ایک کو
۱۳۸ (xvi) k ہتکڑی لگا دی." (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳.صفحہ ۱۹۱) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کا پہاڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وعظ - :۱۵ علاوہ ازیں تعلیم از کشتی نوح.متی باب (۵) طوفان مخالفت (i) مخالفت کا سبب دعوائے مسیحیت مسیح موسوی حضرت مسیح علیہ السلام کی مخالفت کا اصل سبب آپ کا دعوی مسیحیت تھا.انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے مخالفین کا بڑا اعتراض یہی تھا کہ آپ نے مسیح ہونے کا دعوی کیوں کیا.چنانچہ صدر عدالت میں حضرت مسیح علیہ السلام سے سردار کاہن نے کہا میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے." ર (متی ۲۶ : ۶۳) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت بھی اسی وجہ سے ہوئی چنانچہ جب خدا تعالی نے آپ کو یہ خبر دی کہ : مسیح رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے
(تذکرہ - صفحہ ۱۸۳) اس عظیم الشان انکشاف پر آپ نے ۱۸۹۱ء کے شروع میں رسالوں اور اشتہاروں کے ذریعہ اپنے دعوی کا اعلان کیا کہ میں وہ مسیح ہوں جس کا الہی نوشتوں میں وعدہ دیا گیا تھا.آپ کے اس اعلان پر عیسائیوں اور مسلمانوں میں ایک زبر دست اور خطرناک ہیجان پیدا ہوا اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مخالفت کی آگ کے شعلے بلند ہونے لگے.(ii) سردار کاہن جن میں آیا ہے مسیح وقت وہ منکر ہوئے مر گئے تھے اس تمنا میں خواص ہر دیار مسیح موسوی : حضرت مسیح علیہ السلام کی مخالفت کا بیٹا کا ٹفا نامی سردار کاہن نے اٹھایا کہ وہ حضرت مسیح کے مشن کو کسی صورت کامیاب نہ ہونے دے گا.تفصیل دیکھیں انجیل متی باب ۲۶.سیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کا بیڑا ایک بڑے مولوی ، محمد حسین بٹالوی نے اٹھایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو فتنہ قرار دے کر اس عزم کا اظہار کیا کہ اس صورت میں اشاعہ السنہ" کا خصوصیت کے ساتھ فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کو روکے اور جملہ مضامین سابقہ کو چھوڑ کر بہمہ تن اسی کے دعاوی کے رڈ کے در پے ہو.اس کے اصول باطلہ کا ابطال کرے اور اصولِ حقہ اسلامیہ کی حمایت عمل میں لاوے.اس کی موجودہ جماعت و جمیعت کو تتر بتر کرنے میں کوشش کرے اور آئندہ مسلمانوں خصوصا اہلِ حدیث کو جن کا یہ خادم ہے
۱۴ اس جماعت میں داخل ہونے سے بچاوے." (اشاعه السنة - جلد ۳.نمبر ا.صفحہ ۳) مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے اس طرز عمل سے سردار کاہن کا مثیل ہونے کا کامل ثبوت فراہم کیا.(iii) فتوی کفر مسیح موسوی حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق سردار کاہن نے کفر کا فتوی صادر کیا اور تمام فقہوں اور بزرگوں نے اس کی تائید کی.لکھا ہے.اس پر سردار کاہن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اس انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ قتل کے لائق نے کفر بکا ہے.ہے.(متی ۳۶ : ۶۵ تا ۶۷) مسیح محمدی : سیح م موعود بر السلام کے خلاف مولوی محمد حسین بٹالوی نے فتوای لکھا کہ ” یہ کافر ہے تمام ہندوستان کے علماء نے اس پر دستخط کئے.یہ فتوی ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل تھا اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ کافر بلکہ اکفر ہے " (فتوی علمائے ہند و عرب.بحوالہ سلسلہ احمدیہ - صفحہ ۳۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں " جیسے ان (حضرت مسیح.ناقل ) کو کافر بنایا گیا ، گالیاں دی گئیں....ایسا ہی میرے پر کفر کا فتوی لگا اور گالیاں دی گئیں." (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد۱۷.صفحہ ۲۱۰)
۱۴۱ (iv) واجب القتل یح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف مخالفت کا طوفان بد تمیزی اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ آپ کو واجب القتل قرار دے دیا گیا اور بطور متفقہ فیصلہ یہ اعلان کیا گیا کہ " وہ قتل کے لائق ہے.مسیح محمدی : " (متی ۲۶ : ۲۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس مشابہت میں واجب القتل قرار دیا گیا.چنانچہ آپ کی بعض تحریرات کے باعث مولوی محمد حسین بٹالوی نے مسلمانوں کی طرف سے یہ متفقہ فیصلہ لکھا کہ " ( یہ ) مسلمانوں کے نزدیک ایک ایسا کفر ہے اور ارتداد ہے جس کا جواب بجر قتل اور کوئی نہیں.(اشاعه السنه - جلد ۱۸.نمبر ۱۳.صفحہ ۹۵ ، ۹۶ ) (۷) قتل ، کار ثواب مسیح موسوی حواریوں کو آگاہ کیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا تھا اور اپنے ” وہ وقت آتا ہے کہ جو کوئی تم کو قتل کرے گا وہ گمان کرے گا کہ میں خدا کی خدمت کرتا ہوں." (متی ۲:۱۶) چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہودیوں نے اول تو کار ثواب سمجھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑہایا اور پھر بعد میں عیسائیوں کے قتل کا ایک سلسلہ چل پڑا.مسیح محمدی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین کا بھی یہی نقطہ
۱۴۲ نظر ہے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف اور آپ کے شاگر د حضرت مولوی عبدالرحمان کو کار ثواب اور اسلام کی خدمت سمجھ کر شہید کر دیا گیا.اس دن سے آج تک یہ سلسلہ قتل مسلسل چلا آرہا ہے.حضرت خلیفہ المسیح ثانی رضی اللہ عنہ نے مخالفین کی اس روش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ کہیں گے قتل کرنا اس کا جائز بلکہ واجب ہے جو اس کو قتل کر دے گا وہ محبوب خدا ہو گا پس ہر شہید ہونے والا احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت بن جاتا ہے.اور مخالفین اپنے اس مذموم طرز عمل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی آپس میں مشابہت پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں.(۷۱) عبادت خانے سے اخراج سیح موسوی : حضرت عیسی علیہ السلام کی مخالفت میں سب یہودی متفق ہو گئے تھے اور ان کا یہ موقف تھا کہ مسیح خود کفر کہہ چکا ہے.لہذا اس کے ماننے والے بھی کافر ہیں.چنانچہ لکھا ہے کہ یہودی ایکا کر چکے تھے کہ اگر کوئی اس کے مسیح ہونے کا اقرار کرے تو عبادت خانے سے خارج کیا جائے.(یوحنا ۲۲۰۹) گویا مسیح علیہ السلام تو ان کے نزدیک کافر تھے ہی ، ساتھ ان کے ماننے بھی کافر ہوئے اور عبادت خانے میں ان کا جانا ممنوع ہو گیا.مسیح محمدی مثیل مسیح کے وقت میں تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دہرایا اور یہ فیصلہ قرار پایا کہ
۱۳ وو پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیرو کار چاہے وہ مرزا غلام احمد مذکور کی نبوت کا یقین رکھتے ہوں یا اسے اپنا مصلح یا مذہبی رہنما کسی بھی صورت میں گردانتے ہوں ، دائرہ اسلام سے خارج ہیں.te (قومی اسمبلی میں اسلام کا معرکہ.صفحہ ۳۹۸) اور اس سے قبل یہ ایکا ہو چکا تھا کہ چونکہ مرزا قادیانی اور اس کے پیرووں کا کفر منجانب علمائے ہند و پنجاب قطعی ہے.....لہذا......ان کو معابد و مساجد میں آنے دینا ان پر نماز جنازہ پڑہنا ، ان سے رشتہ و ناطہ کرنا شرعا سب ناجائز اور فعل حرام ، معصیت عظیم ہے.استنكاف المسلمين عن مخالطة المرزائیلین.صفحہ ۲۷) دیکھئے ! مخالفین " تشابہت قلوبہم" کے مصداق بن کر مسیح اور مثیل مسیح کی مماثلت پر کس طرح مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں.( vii) حکومت کو انگیخت کرنا مسیح موسوی نے یہ طریق بھی اختیار کیا کہ حکومت کو آپ کے خلاف اکسانا اور بدظن کرنا شروع کر دیا کہ یسوع مسیح داوڈ کے تحت کا خواہشمند ہے اس لئے وہ اپنے مریدوں کو بغاوت پر آمادہ کرتا ہے.چنانچہ پیلاطوس کی عدالت میں یہودی علماء پہنچے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت میں یہودی علماء " وہ اور زور دے دے کر کہنے لگے کہ یہ تمام یہودیہ میں بلکہ سے لے کر یہاں تک لوگوں کو سکھا سکھا کر ابھارتا ہے.ct (لوقا ۵۰۲۳)
۱ مسیح محمدی ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کامیابی اور عظمت شان کو دیکھ دیکھ کر مخالف علماء آتش در نعل تھے.چنانچہ انہوں نے یہودی علماء کے مقیل ہونے کا خوب ثبوت دیا اور حکومت وقت کو ابھار نا شروع کیا.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے کہا گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر حذر رہنا ضروری ہے.ورنہ اس مہدی کادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا." (اشاعۃ السنہ - جلد ۱۶ - صفحہ ۶ - حاشیہ صفحہ ۱۶۸ - ۱۸۹۴ء ) اور ایک اور مسلمان عالم دین منشی محمد عبد اللہ نے حضور علیہ السلام کے بارہ میں لکھا ایسے ہی دیگر آیات قرآنیہ اپنے چیلوں کو سنا سنا کر گورنمنٹ سے جنگ کے لئے مستعد کرنا چاہتا ہے." (شہادت قرآنی.صفحہ ۲۰.مطبوعہ اسلامیہ سٹیم پریس.۱۹۰۵ء ) (viii) مخالفت کی وجہ سے سورج گرہو مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کی تکذیب اور ایذاء دہی میں حد سے تجاوز ہوا اور آپ کو لعنتی ثابت کرنے کے لئے یہود نے آپ کو صلیب پر لٹکایا تو خدا تعالیٰ نے یہود سے ناراضگی کے اظہار اور حضرت مسیح علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت کے لئے سورج کو گہنا دیا.چنانچہ انجیل میں لکھا ہے دوپہر سے لے کر تیسرے پہر تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا." کہ (متی ۲۷ : ۴۵)
۱۴۵ مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب اور مخالفت میں جب ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا اور آپ کے دعوی کی سچائی کو دھندلانے کی سعی کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی صداقت کے ثبوت کے طور پر ماہ رمضان میں سورج اور چاند کو دنیا کے ایک خطہ میں ۱۴ ند کو دنیا کے ایک خطہ میں ۱۸۹۴ء میں اور دوسرے خطہ میں ۱۸۹۵ء میں گرہن لگایا.حضرت عیسی علیہ السلام سے اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں." جب اس ( حضرت مسیح علیہ السلام.ناقل ) کو صلیب پر چڑہایا گیا تو سورج کو گرہن لگا تھا.سو اس واقعہ میں بھی خدا نے مجھے شریک کیا ہے.کیونکہ جب میری تکذیب کی گئی تو اس کے بعد نہ صرف سورج بلکہ چاند کو بھی ایک ہی مہینہ جو رمضان کا مہینہ تھا گرہن لگا تھا.اور نہ ایک دفعہ بلکہ حدیث کے مطابق دو دفعہ یہ واقعہ ہوا.ان دونوں گرہنوں کی انجیلوں میں خبر دی گئی ہے اور قرآن شریف میں بھی یہ ہے اور حدیثوں میں بھی جیسا کہ دار قطنی میں.جید ( تذکرہ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰.صفحہ ۳۳) حمد ”چنانچہ انجیل میں مسیح کی آمد ثانی کے بارہ میں لکھا ہے.ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا." (متی ۲۴ : ۲۹ ).قرآن کریم نے چاند اور سورج کے اس گرہن کو اس طرح بیان فرمایا ہے وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُنَ سورة القيامة کہ چاند کو گرہن لگے گا اور پھر سورج اور چاند دونوں کو خسوف کی حالت میں جمع کر دیا جائے گا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیش گوئی فرمائی
(1) مخالفت کی وجہ سے طاعون مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے انکار کے ساتھ جب منکرین گستاخیوں میں بڑھنے لگے تو خدا تعالیٰ نے تنبیہ کے طور پر طاعون کا عبرتناک نشان ظاہر فرمایا.لکھا ہے.ان ایام میں کال اور مری بہت جگہوں میں تھی.جس کے سبب لکھوکھا آدمی ہلاک ہوئے.ایسا ہی ایک قسم کا طاعون بھی پھیلا جس سے اتنی اموات ہوئیں کہ شہر اور گاؤں ویران ہو گئے." (تاریخ کلیسیاء - صفحه ۳۸) re مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب نشانہ تکفیر بنایا گیا اور منکرین اپنی تقریروں اور تحریروں میں سخت گستاخیاں کرنے لگے تو خدا تعالیٰ نے طاعون کی مہلک وبا بھیج کر گھروں اور بستیوں میں ویرانیوں کے سائے ڈال دئے.اور پیش گوئیوں کے موافق ۱۹۰۲ء میں طاعون کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا واضح نشان ظاہر فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مشابہت کا یوں ذکر فرمایا.یسوع مسیح کو دکھ دینے کے بعد یہودیوں میں سخت طاعون پھیلی : إن لمهدينا أيتين لم تكونا منذ خلق السموات والأرض ينكسف القمر لأول ليلة من رمضان وتنكسف الشمس في النصف منه».سنن دارقطني ، باب صفة صلاة الخسوف والكسوف وهيئتها).کہ ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش سے اب تک اور مامور اور مرسل کے لئے یہ نشان نہیں ہوئے.ایک نشان یہ ہے کہ مہدی کے وقت رمضان کے مہینہ میں چاند کو اس گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی رات اور سورج کو اس کے گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی میں گرہن لگے گا.
۱۴۷ تھی.سو میرے وقت میں سخت طاعون پھیل گئی." ( تذکرہ الشہادتین.روحانی خزائن.جلد ۲۰ صفحہ ۳۳) طاعون کے دردناک اور عبرتناک واقعات سے برصغیر پاک و ہند کے ۱۹۰۲ء کے جملہ اخبارات بھرے پڑے ہیں.(x) مخالف فرقے ن مسیح موسوی : اناجیل سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نشانہ تکفیر بنانے اور تنگ کرنے میں فقیہ اور فرینی پیش پیش تھے.جو کہ مذہبی لحاظ سے انتہا پسند تھے.یخ محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گروہ اہل حدیث نے نشانہ تکفیر بنانے اور دکھ دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی.یہ بھی مذہبی لحاظ سے انتہا پسند تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی اسی طائفہ کا سردار تھا.(i) مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے منکرین میں ایک فرقہ صدوقتوں کا تھا جو کہ قیامت اور تقدیر کا منکر تھا.جیسا کہ انجیل متی باب ۲۲ آیت ۲۳ میں لکھا ہے آئے.اسی دن صدوقی جو کہتے ہیں کہ قیامت ہے ہی نہیں اس کے پاس " آگے ان کی حضرت عیسی علیہ السلام سے بحث و تمحیص کا تفصیلی ذکر ہے.آپ نے اس فرقہ کے عقائد کا رد کیا.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکرین میں بھی ایک ایسا فرقہ تھا جو نیچری کہلاتا تھا اور جزا و سزا اور تقدیر و دعا کا منکر تھا.(سرسید احمد خان
۱۴۸ بھی انہیں خیالات کے حامل تھے ).حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ ان کے عقائد کا رد کیا نیز اسی ضمن میں ایک جامع کتاب ”بركات الدعا" بھی تصنیف فرمائی.xi امید ویقین کا مجسمہ ☆ مسیح موسوی : حضرت عیسیٰ علیہ السلام مخالفت کے اس شدید طوفان میں اور تکالیف کی اذیت ناک چوطرفی ہواؤں میں بھی خدا کی رحمت سے ایک لمحہ بھی نامید نہ تھے.انہیں اپنی کامیابی پر پورا یقین تھا.لکھا ہے: اسے اپنی کامیابی پر پورا یقین تھا.اس لئے نہ تو وہ وسائل کی چنداں فکر کرتا تھا اور نہ مخالفت سے ڈرتا تھا......وہ بھروسے اور خاص ایمان سے کام کیا کرتا تھا." (حیات اسیح.صفحہ ۱۳۸ ، ۱۳۹) مسیح محمدی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں اور آپ کے پیغام کو روکنے کے لئے اٹھنے والا ہر طوفان آپ کے عزم و استقلال اور کامل توکل کے سامنے گرد کی صورت بیٹھ گیا.آپ کی روح امید اور ایمان سے لبریز تھی اور یقین کامل آپ کی کامرانی اور فتح نمایاں کا ضامن تھا.اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو.آپ نے فرمایا: اگر چہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں.تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں.میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے.اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں.تب بھی میں آخر فتحیاب ہوں گا.مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ
۱۴۹ جو میرے ساتھ ہے.میں ہرگز ضائع نہیں ہو سکتا.دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لا حاصل ہیں.اے نادانو اور اندھو! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاوں گا ؟ کس بچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا؟ یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ بیچ ہیں.نیز فرمایا : (انوار الاسلام.روحانی خزائن.جلد ۹.صفحہ ۲۳) "اے لوگو ! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو نرلے اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کاذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.......جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا.اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے.
100 بھی ایک موسم ہوتا ہے اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاوں گا.خدا سے مت لڑو.یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.) اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد۱۷.صفحہ ۲۰۰ ، ۴۰۱) : 17 اعتراضات و الزامات (i) بدعتی سیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کی جماعت کو یہود نے ناصریوں کا بدعتی فرقہ " قرار دیا تھا.دیکھئے اعمال ۲۴ : ۵.سیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں مولوی نذیر حسین دہلوی نے رسالہ اشاعہ السنہ.نمبر ۵ - جلد ۱۳ میں ایک طویل فتوی دیا تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو ”قادیانی “ اور ”اہل بدعت قرار دے کر یہود کی مماثلت اختیار کی.(دیکھیں کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۱۴۶) (ii) بدکار صحیح موسوی : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مخالفین نے ”بد کار " کہا اور حاکم وقت پیلاطوس سے کہا کہ اگر یہ بد کار نہ ہوتا تو ہم اسے تیرے حوالے نہ کرتے." (یوحنا ۱۸ ۳۰۰) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی مولوی عبد الحق
اها غرفوی نے اشتہار ”ضرب النعال علی وجہ الرّجال " میں بد کار کہہ کے یہودیوں کی مماثلت اختیار کی.دیکھئے کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۱۴۹.اسی طرح مولوی محمد حسین بٹالوی نے بھی اشاعۃ السنة - نمبر الغایت ششم.جلد شازدهم ۱۸۹۳ء میں حضور علیہ السلام میں حضور علیہ السلام کو بد کردار کہہ کے حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ کے یہودیوں کی طرح اپنی گندہ دہنی کا ثبوت دیا.(iii) شیطان اور بدروح مسیح موسوی : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں یہودی یہ کہتے تھے کہ اس کے ساتھ بدروحوں کا سردار ہے اور اس کے ساتھ بجلز بول ہے" (مرقس ۳ : ۲۲) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں بھی یہی کہا گیا کہ یہ شیطان کا مرید ہے “.اور مولوی عبد الجبار غزنوی نے کفر کے فتولی پر یہ لکھ وو کر دستخط کئے کہ " رہا ہے.وہ اپنے اس شیطان سے زیادہ گمراہ ہے جو اس کے ساتھ کھیل ९९ دیکھیں کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۱۴۸) (۱۷) فتنه پرداز مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کو یہود کہتے تھے کہ یہ یہودیوں میں فتنہ انگیز " گروہ ہے.(دیکھئے اعمال ۲۴ : ۵)
۱۵۲ مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو بھی اسلام میں پھوٹ ڈالنے والا قرار دیا گیا.چنانچہ لکھا ہے.مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس جو مکہ المکرمہ جیسے مقدس شہر میں رابطہ العالم الاسلامی کے زیر انتظام ۶ اور ۱۰ اپریل ۱۹۷۴ء کے درمیان منعقد ہوئی اور جس میں دنیا بھی کے تمام حصوں سے ۱۴۰ مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی ، متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے." (قومی اسمبلی میں اسلام کا معرکہ.صفحہ ۳۹۸ ، ۳۹۹) اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ”اسلام کا چھپا ہوا دشمن قرار دیا.(دیکھیں اشاعۃ السنہ.نمبرا - لغایت ششم.جلد شانزدہم.۱۸۹۳ء) (۷) دیوانه وہ دیوانہ ہے.مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے کہا کہ (يوحنا ۱۰.۲۰) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی مجنون اور دیوانہ کہا گیا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں " دوسری نکتہ چینی یہ ہے کہ مالیخوہ لیا یا مجنون ہو جانے کی وجہ سے مسیح موعود ہونے کا دعوی کر دیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ یوں تو میں کسی کے مجنون کہنے یا دیوانہ نام
۱۵۳ رکھنے سے ناراض نہیں ہو سکتا بلکہ خوش ہوں.کیونکہ ہمیشہ سے ناسمجھ لوگ ہر ایک نبی اور رسول کا بھی اس کے زمانہ میں یہی نام رکھتے آئے ہیں اور قدیم سے ربانی مصلحوں کو قوم کی طرف سے یہی خطاب ملتا رہا ہے.اور نیز اس وجہ سے بھی مجھے خوشی پہنچی ہے کہ آج وہ پیش گوئی پوری ہوئی جو براہین میں طبع ہو چکی ہے کہ تجھے مجنون بھی کہیں (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳.صفحہ ۱۲۱) ✰✰✰ (۷) گناہ معاف کرنے والا مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ آپ کو اختیار نہیں کہ کسی کے گناہ بخشیں.یہ تو خدا کا کام ہے.چنانچہ جب حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک نیک اور ایماندار شخص کو کہا کہ ”تیرے گناہ معاف ہوئے ؟ تو " اس پر س پر فقیہہ اور فریسی سوچنے لگے کہ یہ کون ہے جو کفر بکتا ہے ؟ سوا خدا کے اور کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے.؟ (لوقا ۵ ۲۰۰ ، ۲۱) " مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ” وصیت " کا نظام جاری فرمایا اور بہشتی مقبرہ کی بنیاد رکھی تو مخالفین کی طرف سے یہی شور اٹھا کہ پیسوں کے بدلے گناہوں کی معافی اور جنت کا سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے.(vii) پیشہ ، منافی مقام نبوت مسیح موسوی : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیشہ کو لوگ مقام نبوت
۱۵۴ کے منافی سمجھتے تھے اور تحقیر آمیز لہجے میں کہتے تھے کہ " کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں." (متی ۱۳ : ۵۵) نیز یہ کہ "کیا یہ وہ بڑھتی نہیں ہے." (مرقس ۳:۶) مسیح محمدی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیشہ کو بھی مخالف منافی مقام نبوت قرار دیتا ہے اور تحقیر کے ساتھ لکھتا ہے کہ پھر لکھا کہ مرزا صاحب نے تیسرے درجہ کی نوکری کی ہے." ”نبی ملازم یا نوکر نہیں ہوتے." ہے ( قادیانی امت.صفحہ ۱۲۷- از محمد شفیع جوش میرپوری ) حمید یہ اعتراض کہ ”نبی ملازم یا نوکر نہیں ہوتے “ اس بغض کا نتیجہ ہے جو ہمیشہ سے منکرین انبیاء کی طرف سے ظاہر ہوا کرتا ہے.یہ منکرین اگر تاریخ انبیاء پر نظر ڈالتے تو انہیں علم ہو جاتا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک ایسے سران کی ملازمت کی جو منکر ہستی باری تعالیٰ تھا.اور آپ نے اس سے خود مانگ کر نوکری حاصل کی.دیکھئے سورہ یوسف - آیت ۵۶ - خود ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے قبل ایک صاب عزت و ثروت عورت خدیجہ (جو بعد میں انہی منشاء کے مطابق آپ کے عقد میں آئیں) کا مال لے کر ملک شام تجارت کی غرض سے گئے.
۱۵۵ : K عدالت میں مقدمہ وہ جنگ مقدس جو مئی ۱۸۹۳ء میں بصورت مباحثہ حضرت مسیح موعود السلام اور پادری عبداللہ آتھم کے مابین ہوئی تھی.اس میں عیسائی گروہ کو واضح شکست ہوئی تھی اور یہ شکست پادری عبد اللہ آتھم کے ۲۷ جولائی ۱۸۹۶ء کو مر جانے سے آفتاب نیمروز کی طرح روشن ہو گئی تھی.اب کسی منصف مزاج کے لئے اسلام کی فتح اور عیسائیت کی شکست میں شک کی گنجائش نہ رہی تھی اور نہ ہی پادریوں کے پاس اپنی شکست چھپانے کے لئے کوئی عذر باقی رہا تھا.مگر پادری اپنی خفت اور ندامت کو مٹانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف منصوبے سوچ رہے تھے اور گورنمنٹ کے پاس خفیہ طور پر آپ کے خلاف شکایات پہنچا رہے تھے.انہیں حالات میں آپ کی پیش گوئی کے مطابق ہندووں کا لیڈر اور اسلام کا ایک بد زبان دشمن پنڈت لیکھرام ۲ مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل ہو گیا جس پر آریہ سماج نے آپ کے خلاف تحریر و تقریر کے ذریعہ ایک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا.اور پنڈت لیکھرام کے قتل کو آپ کی سازش اور منصوبہ قرار دے کر گورنمنٹ کو آپ کے خلاف اکسانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا.بقیہ حاشیہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں تو پہلے بھی لکھا جاچکا ہے کہ تک وہ ناصرت میں رہا وہ بڑھئی کا کام کرتا رہا." ( تاریخ بائبل.صفحہ ۴۶۳) پس اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ملازمت یا نوکری منافی مقام نبوت نہیں بلکہ دعوی نبوت سے قبل انبیاء کی ایک سنت ہے.
۱۵۶ ابھی یہ فتنہ فرونہ ہوا تھا کہ ایک نوجوان عبد الحمید جہلمی جو کہ سلطان محمود ایک غیر احمدی مولوی کا بیٹا اور حضرت مولوی برہان الدین جہلمی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کا بھتیجا تھا.یہ نوجوان آوارہ مزاج اور مفتری تھا اور اپنے گذر بسر کے لئے سرگردان پھرتا تھا.وہ قادیان میں آیا اور وہاں چند دن رہا اور جب اس کی آوارگی ، بد چلنی اور ناشائستہ حرکات کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچی تو آپ کے حکم سے اسے قادیان سے نکال دیا گیا.قادیان سے روانہ ہو کر وہ ۶ جولائی ۱۸۹۷ء کو امرتسر پہنچ گیا.وہاں پہلے وہ پادری نور الدین سے ملا جس نے اسے چٹھی دے کر امریکن مشن کے ایک پادری ایچ.جی.گرے کے پاس بھیج دیا.پادری ایچ.جی.گرے نے اسے نکما اور غیر متلاشی حق پاکر پادری نور الدین کے مشورہ سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے پاس بھیج دیا.ڈاکٹر کلارک اور اس کے ساتھیوں نے یہ دیکھ کر کہ وہ قادیان سے آیا ہے بکمال ہوشیاری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک نہائت خوفناک منصوبہ تیار کیا.چنانچہ پادریوں نے اسے بہ کا یا اور ڈرایا اور اس سے یہ تحریری جھوٹا بیان لیا کہ وہ مرزا صاحب کی طرف سے ڈاکٹر کلارک کے قتل کے لئے بھجوایا گیا ہے.پادری وارث دین ، پادری عبد الرحیم اور بھگت پریم داس وغیرہ کی سازش سے یہ دجل آمیز منصوبہ تیار ہوا اور یکم اگست ۱۸۹۷ ء کو ڈاکٹر کلارک نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک درخواست اے.ای مارٹینو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کی خدمت میں پیش کی اور عبدالحمید کا تحریری بیان بھی پیش کر دیا.عبدالحمید اور ڈاکٹر کلارک کے بیانوں پر مسٹر اے.ای مارٹیلفہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع امرتسر نے زیر دفعہ ۱۱۴ ضابطہ فوجداری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری کر دیا اور لکھا کہ زیر دفعہ ۱۰۷ فوجداری آپ سے حفظ امن کے لئے ایک سال کے واسطے ہیں ہزار کا مچلکہ اور ہیں ہزار روپے کی دو الگ الگ ضمانتیں
۱۵۷ کیوں نہ لی جائیں ؟ ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں خدا تعالی کی طرف سے یہ غیبی فعل ظاہر ہوا کہ یہ جاری شدہ وارنٹ سات اگست تک گورداسپور نہ پہنچ سکا اور کچھ پتہ نہ چلا کہ کہاں چلا گیا ہے.اسی اثناء میں مجسٹریٹ ضلع امرتسر کو جب یہ معلوم ہوا کہ وہ غیر ضلع کے ملزم پر وارنٹ جاری کرنے کے قانوناً مجاز نہیں تو انہوں نے مجسٹریٹ ضلع گورداسپور کو بذریعہ تار وارنٹ روکنے کا حکم بھیجا.اور وہ وارنٹ نہ ملنے کی وجہ سے حیران ہوئے.اور جب رسل منتقل ہو کر گورداسپور آئی تو صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے باوجود ڈاکٹر کلارک اور اس کے وکیل کے سخت اصرار کے وارنٹ جاری کرنے کے سمن جاری کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۰ اگست کو بمقام بٹالہ خود یا بذریعہ مختار حاضر ہونے کا حکم دیا.اس مقدمہ کو کامیاب بنانے کے لئے آریوں نے بھی عیسائیوں کی پوری پوری بدد کی تا لیکھرام کے قتل کا بدلہ لیں.چنانچہ پنڈت رام بھجرت آریہ وکیل بغیر فیس لئے مقدمہ کی پیروی کرتا رہا.اور ڈاکٹر کلارک نے اپنے بیان میں تسلیم کیا کہ ہم لوگ ایک شخص کے بارے میں جو سب کا دشمن ہے مل کر کاروائی کرتے ہیں.مسلمانوں میں سے مولوی محمد حسین بٹالوی نے عیسائیوں کی تائید میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف شہادت دی اور جھوٹی شہادت کی وجہ سے سخت ذلت اٹھائی.صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کیپٹن ایم.ڈبلیو ڈگلس نے ۱۰ اگست ۱۸۹۷ کو تحقیقات شروع کی جو ۱۳ اگست تک جاری رہی.عبد الحمید اس وقت تک بالکل عیسائیوں کی نگرانی میں رہا.اس کی شہادت نے عموما ڈاکٹر کلارک کے بیان کی تائید کی لیکن اس کے بیان کے غیر تسلی بخش ہونے کی بناء پر کیپٹن ڈگلس نے مسٹر لیمار چنڈ
۱۵۸.ڈی.ایس.پی سے کہا کہ وہ اس کو اپنی ذمہ داری میں لے کر آزادانہ طور سے پوچھیں.چنانچہ ۱۴ اگست کو ڈی.ایس پی نے محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ اور انسپکٹر جلال الدین کے سپرد کیا.انسپکٹر جلال الدین نے کچھ دیر کے بعد ڈی.ایس.پی کو اطلاع دی کہ وہ لڑکا اپنے سابقہ بیان پر قائم ہے اور مقدمہ کی بابت کچھ اصلیت ظاہر نہیں کرتا.تب بیمار چنڈ نے کہا کہ اس کو میرے روبرو حاضر کرو.جب وہ آیا تو اس نے پہلی کہانی بیان کی یعنی مرزا صاحب نے اس کو ڈاکٹر کلارک کے قتل کے کے لئے امرتسر بھجوایا ہے.لیمار چنڈ اپنے بیان میں کہتے ہیں.ہم نے دو شفے لکھے اور پھر اس سے کہا کہ ہم اصلیت دریافت کرنا چاہتے ہیں.ناحق وقت کیوں ضائع کرتے ہو." اس پر عبدالحمید ان کے پاوں پر گر پڑا اور زار زار رونے لگا.تب اس نے اصل بیان دیا.عبد الحمید نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ” میں نے پہلا بیان مارے خوف اور ترغیب کے لکھ دیا تھا." اور اس نے اقرار کیا کہ ”وارث دین ، بھگت پریم داس اور ایک اور عیسائی بوڑھا مجھے سکھلاتے رہے ہیں.ڈاکٹر کلارک کے زیر اثر پادریوں نے اسے ایسی ترغیب و ترہیب کی تھی کہ کوئی خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ وہ ان کا سکھلایا اپنا تحریری و زبانی دیا ہوا بیان بدل دے چنانچہ پادری عبدالغنی نے اسے جیسا کہ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے اپنے بیان میں ظاہر کیا ہے اس سے یہ کہا تھا کہ پہلے بیان کے مطابق بیان لکھوانا ورنہ قید ہو جاو گے."
۱۵۹ لیکن باوجود اس ترغیب و ترہیب اور احتیاطوں کے جو پادریوں کے گروہ نے عبدالحمید کو اپنے پہلے جھوٹے بیان پر قائم رکھنے کے لئے اختیار کیں ، اس کا اصل حقیقت کے اظہار پر قائم رہنا اور تبدیلی بیان کے نتیجہ میں قید وغیرہ کی سزا سے نہ ڈرنا یہ محض خدائی تصرف تھا.اور اس طرح پادریوں کا مکر ایسا طشت از بام ہوا کہ کہ گویا اللہ تعالی نے ان کا دجل عریاں کر کے رکھ دیا.اور پادری گرے نے چٹھی کے ذریعہ یہ بیان دیا کہ عبد الحمید پہلے میرے پاس عیسائی ہونے کے لئے آیا تھا.چونکہ وہ نکما اور مفتری تھا اور سچا متلاشی معلوم نہ ہوا تو میں نے اسے پادری نور الدین کے پاس واپس بھیج دیا.جس سے ظاہر ہو گیا کہ وہ در حقیقت ڈاکٹر کلارک کے قتل کے لئے نہیں بھیجا گیا تھا ورنہ وہ سیدھا اس کے پاس جاتا.ڈاکٹر کلارک مستغیث نے اپنے بیان کو کہ عبدالحمید اس کے قتل کے لئے بھیجا گیا تھا سچا ثابت کرنے کے لئے لیکھرام کے قتل کے واقعہ کو بطور تائید پیش کیا تھا مباحثہ کے بعد (مرزا صاحب) نے ان تمام کی موت کی پیش گوئی کی تھی جنہوں نے اس مباحثہ میں حصہ لیا تھا.میرا اس مباحثہ میں بھاری حصہ تھا.اس مباحثہ کے بعد خاص دلچسپی کا مرکز مسٹر عبداللہ آتھم رہا.چار الگ کوششیں اس کی جان لینے کے لئے کی گئیں اور یہ کوششیں عام طور پر مرزا صاحب کی طرف منسوب کی گئی ہیں.اس کی موت کے بعد میں ہی پیش نظر رہا ہوں.اور کئی ایک مبہم طریقوں سے یہ پیش گوئی مرزا صاحب کی تصنیفات میں مجھے یاد دلائی گئی ہے.جس کے لئے سب سے بڑی وہ کوشش تھی جس کو عبد الحمید نے بیان کیا.لاہور میں لیکھرام کی موت کے بعد جس کو تمام لوگ مرزا
17+ صاحب کی طرف منسوب کرتے ہیں ، میرے پاس اس بات کے یقین کرنے کے لئے خاص وجہ تھی کہ میری جان لینے کے لئے کوئی نہ کوئی کوشش کی جائے گی.اللہ تعالی نے ان کے مکرو فریب کا بھانڈا ایسے رنگ میں پھوڑا اور اس کی حقیقت ایسے طریق سے آشکارا کی کہ کسی کو اس جھوٹ کی حمایت میں کھڑے رہنے کی تاب نہ رہ سکی.بلکہ مکر کرنے والوں کو خود شرمندہ ہونا پڑا.اور خود مستغیث یعنی ڈاکٹر کلارک کو بھی اپنی خیر اسی میں نظر آئی کہ وہ استغاثہ کو واپس لیں.چنانچہ اس کی درخواست پر حاکم کو یہ لکھنا پڑا "Dr.Clark states he wishes to resign the post of prosecutor." ہے.یعنی ڈاکٹر کلارک بیان کرتا ہے کہ وہ مستغیث ہونے سے دستبردار ہوتا اور آخر کار حاکم نے ۲۳ اگست کو یہ فیصلہ سنایا کہ " ہم کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ کہ غلام احمد سے حفظ امن کے لئے ضمانت لی جائے یا یہ کہ مقدمہ پولیس کے سپرد کیا جائے.لہذاوہ بری " کئے جاتے ہیں.؟ اس طرح وہ پیش گوئی جس کی اطلاع اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ وحی دی تھی بڑی آب و تاب سے پوری ہوئی کہ وبعزتي وجلالي إنك أنت الأعلى، ونمزق الأعداء كل ممزق ومكر اولئك هو يبور.إنا نكشف السر عن ساقه يومئذ يفرح المؤمنون].کہ مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم ہے کہ تو ہی غالب ہے.اور ہم دشمنوں کو پاره پارہ کر دیں گے.یعنی ان کو ذلت پہنچے گی اور ان کا مکر ہلاک ہو جائے گا.اور
خدا تعالیٰ بس نہیں کرے گا اور باز نہیں آئے گاجب تک دشمنوں کے تمام مکروں کی پردہ دری نہ کرے اور ان کے مکر کو ہلاک نہ کر دے.اور ہم حقیقت کو ننگا کر دیں گے.اس دن مومن خوش ہوں گے.اس پیش گوئی کے علاوہ مقدمہ سے تین دن پہلے یعنی ۲۹ جولائی ۱۸۹۷ ء کو جب کہ پادری اپنا خوفناک منصوبہ تیار کرنے میں مصروف تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس ابتلاء کی خبر دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب تریاق القلوب میں اس نشان کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا ۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اس نے کوئی نقصان کیا ہے بلکہ وہ ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے.اور میں اس کو دور سے دیکھ رہا ہوں.اور جبکہ وہ قریب پہنچی تو میرے دل میں تو یہی ہے کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا سا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صاعقہ سمجھتا ہے.پھر بعد اس کے میرا دل اس کشف سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے الہام بوا ما هذا إلا تهديد الحكام یعنی یہ جو دیکھا اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حکام کی طرف سے ڈرانے کی کاروائی ہو گی اس سے زیادہ کچھ نہیں.پھر بعد اس کے الہام ہوا ترجمہ: مومنوں پر ایک ابتلاء آیا.یعنی بوجہ اس مقدمہ کے تمہاری جماعت امتحان میں پڑے گی." قد ابتلى المؤمنون.اس سے متعلق دوسرے الہامات کا ذکر کر کے فرماتے ہیں: " پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص
متنافس کی ذلت اور ملامت خلق اور پھر آخیر حکم ابراء یعنی بے قصور ٹھہرانا.پھر اس کے بعد الہام ہوا وفيه شي.یعنی بریت تو ہوگی مگر اس میں کچھ چیز ہوگی ( یہ اس نوٹس کی طرف اشارہ تھا جو بری کرنے اس کے بعد لکھا گیا تھا کہ طرز مباحثہ نرم چاہئے ) پھر اس کے ساتھ یہ الہام ہوا.بلجت أياتي».کہ میرے نشان روشن ہو گئے.اور ان کے ثبوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوں گے.ee اس مختصر روئداد کے ذکر کے بعد اس مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جو مشاہتیں ظاہر ہوئیں وہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں.- (i) غدار پیرو کار سیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام پر مقدمہ قائم کیا گیا تو آپ کو پکڑوانے والا آپ کا ایک مرید یہودا اسکر یوطی تھا.تفصیل دیکھیں متی ۲۶ : ۴۷ سیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مقدمہ دائر کرنے والا شخص عبد الحمید تھا جو کہ خود کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیروکار کہتا اس نے جماعت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بیعت کو قبول نہیں فرمایا تھا اور اس کی ناشائستہ حرکات کی وجہ سے اسے قادیان سے نکلوا دیا گیا تھا.) تفصیل ملاحظہ فرمائیں تاریخ احمدیت.جلد ۲ صفحہ ۴۵۵) اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں." حضرت عیسی علیہ السلام کی گرفتاری کے لئے ان کے ایک نام
۱۳ کے مرید نے جس کا نام یہودا اسکر یوطی تھا ، یہودیوں سے تیس روپے لے کر حضرت مسیح کو گرفتار کروایا.ایسا ہی میرے مقدمہ میں ہوا کہ عبد الحمید نامی ایک میرے ادعائی مرید نے نصرانیوں کے پاس جاکر اور ان کی طمع دہی میں گرفتار ہو کر ان کی تعلیم سے میرے پر ارادہ قتل کا مقدمہ بنایا.کتاب البریہ - روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۴۵) (ii) ایک عدالت سے دوسری میں مقدمہ کا انتقال سیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقدمہ ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل ہوا.پیلاطوس نے یہ مقدمہ ہیرودیس کے پاس بھیجا مگر ہیرودیس نے دوبارہ پیلاطوس کے پاس یہ کہتے ہوئے بھجوا دیا کہ تم کبھی اس کی سماعت کے مجاز ہو.چنانچہ انجیل میں لکھا ہے.” پیلاطوس نے پوچھا کیا یہ آدمی گلملی ہے ؟ اور یہ معلوم کر کے کہ ہیرودیس کی عملداری کا ہے اسے ہیرودیس کے پاس بھیجا کہ وہ بھی ان دنوں یروشلیم میں تھا.پھر ہیرودیس نے....اس کو پیلاطوس کے پاس واپس بھیجا.ee (لوقا ۲۳ ۶۰ تا ۱۲) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقدمہ بھی ایک عدالت سے دوسری میں منتقل ہوا.پہلے یہ مقدمہ اے.ای.مارٹینو صاحب بہادر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کی عدالت میں تھا.مگر اس نے ۱۷ اگست ۱۸۹۷ء کو یہ مقدمہ خارج کر کے گورداسپور کی عدالت میں بھجوایا اور لکھا کہ " میں نے وارنٹ کا جاری کرنا روک دیا ہے کیونکہ یہ مقدمہ
۱۶۴ میرے اختیار میں نہیں ہے......ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کے پاس کاروائی کے لئے بھیج دیا جاوے." (کتاب البریہ - روحانی خزائن جلد ۱۳.صفحہ ۴۵) علیہ السلام اس مشابہت کا یوں ذکر فرماتے ہیں کہ سیح کا مقدمہ ایک عدالت سے دوسری میں منتقل ہوا تھا ایسا ہی میرا مقدمہ بھی امرتسر کے ضلع سے گورداسپورہ کے ضلع میں منتقل ہوا.(iii ) بریت مسیح موسوی : بیانات ہوئے تو (کتاب البریۃ.روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۴۵) عدالت میں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ” پیلاطوس نے سردار کاہنوں اور عام لوگوں سے کہا کہ میں اس شخص میں کچھ قصور نہیں پاتا." (لوقا ۲۳.۴) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیانات اور مقدمہ کی جانچ پڑتال کے بعد کیپٹن ڈگلس نے فیصلہ دیا کہ " وہ بری کئے جاتے ہیں." (کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۳۰۱) اس مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے لکھا کہ : ” پیلاطوس نے حضرت مسیح کی نسبت کہا تھا میں یسوع کا کوئی گناہ نہیں دیکھتا.ایسا ہی کپتان ڈگلس صاحب نے عین عدالت میں ڈاکٹر
۱۶۵ کلارک کے روبرو مجھ کو کہا کہ میں آپ پر کوئی الزام نہیں لگاتا.(کتاب البریہ روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۴۵) (۱۷) چور بھی ساتھ پیش ہوا مسیح موسوی حضرت مسیح علیہ السلام کے اس مقدمہ کے ساتھ ایک یہودی چور جس کا نام برابا تھا، کا مقدمہ بھی پیش کیا گیا.(لوقا ۲۳ : ۱۸) سیح محمدی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمہ کی سماعت کے وقت بھی ایک چور کا مقدمہ پیش کیا گیا.چنانچہ حضور علیہ السلام اس مشابہت کے بارہ میں فرماتے ہیں.جس روز مسیح نے صلیبی موت سے نجات پائی ، اس روز اس کے ساتھ ایک چور گرفتار ہو کر مزا یاب ہو گیا تھا.ایسا ہی میرے ساتھ بھی اسی تاریخ یعنی ۲۳ اگست ۱۸۹۷ء کو اسی گھڑی میں جب میں بری ہوا تو مکتی فوج کا ایک عیسائی بوجہ چوری گرفتار ہو کر اسی عدالت میں پیش ہوا.کتاب البریہ - روحانی خزائن.جلد ۱۳- صفحه ۴۵) (۷) بغاوت کا الزام مسیح موسوی : حضرت مسیح علیہ السلام پر الزام ثابت کرنے کے لئے یہودیوں نے یہ شور مچایا تھا کہ اسے ہم نے اپنی قوم کو بہکاتے اور قیصر کو خراج دینے سے منع کرتے اور اپنے آپ کو مسیح بادشاہ کہتے پایا." "
(لوقا ۲۰۲۳) گویا حضرت مسیح علیہ السلام بغاوت کر کے خود بادشاہ بننے کا ارادہ رکھتے سیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گرفتاری کے لئے یہی الزام آپ پر لگایا گیا کہ آپ حکومت کے خلاف اپنے مریدوں کو اکساتے ہیں.اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے یہ بیان آپ کے خلاف دیا کہ : انہوں (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام.ناقل ) نے مسلمانان اور عیسائیوں وغیرہ میں پھوٹ پیدا کرائی ہے.وہ فتنہ انگیز آدمی ہے." (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ - صفحه (۲۵) حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اس تشبیہ پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: مسیح کے گرفتار کرانے کے لئے یہودیوں اور ان کے سردار کاہن نے شور مچایا تھا کہ مسیح سلطنت روم کا باغی ہے اور آپ بادشاہ بننا چاہتا ہے.ایسا ہی محمد حسین بٹالوی نے عیسائیوں کا گواہ بن کر عدالت میں محض شرارت سے شور مچایا کہ یہ شخص بادشاہ بننا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے مخالف جس قدر سلطنتیں ہیں ، سب کائی جائیں گی.(کتاب البریہ - روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۴۵) نیز فرمایا: "جیسا کہ مسیح کے مقدمہ میں یہودی مولویوں نے جا کر گواہی دی تھی ضرور تھا کہ اس مقدمہ میں بھی کوئی مولویوں میں سے گواہی دیتا.اس لئے اس کام کے لئے خدا نے مولوی محمد حسین صاحب
۱۶۷ بٹالوی کو انتخاب کیا اور وہ ایک بڑا لمبا جبہ پہن کر گواہی کے لئے آیا اور جیسا کہ سردار کاہن مسیح کو صلیب دلانے کے لئے عدالت میں گواہی دینے کے لئے آیا تھا ، یہ بھی موجود ہوئے.کشتی نوح - روحانی خزائن.جلد ۱۹.صفحہ ۵۵) پھر دوبارہ آگئی اخبار میں رسم یہود پھر مسیح وقت کے دشمن ہوئے یہ جبہ دار مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار (۷۱) حج کی معاملہ فہمی سیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے مقدمہ میں پیلاطوس یہ سمجھ چکا تھا کہ مسیح کا کچھ قصور نہیں.اور وہ یہ بھی جان چکا تھا کہ سردار کاہن ان کا بے جا دشمن اور جان کا پیاسا ہے.اس کی تفصیل انجیل لوقا باب ۲۳ آیت ۳ تا ۳۳ میں موجود ہے.نیز لکھا ہے کہ " ا سے معلوم تھا کہ سردار کاہنوں نے اس کو حسد سے میرے حوالے کیا ہے.ce (مرقس ۱۵ ۰ ۱۰) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمہ میں بھی کپتان ب نے جانچ پڑتال کر لی کہ یہ مقدمہ جھوٹا ہے اور مولوی محمد حسین بٹالوی آپ کا دشمن ہے اور اس کا بیان اس کے نفس کے بغض اور عناد کے سوا کچھ نہیں.اس لئے اس نے اس کے بیان کو کچھ بھی وقعت نہ دی.اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
۱۶۸ جس طرح پیلاطوس نے سردار کاہن کے بکواس پر کچھ بھی توجہ نہ کی اور سمجھ لیا کہ مسیح کا یہ شخص پکا دشمن ہے ، اسی طرح کپتان ایچ.ایم.ڈگلس صاحب نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے بیان پر کچھ بھی توجہ نہ کی اور اس کے اظہار میں لکھ دیا کہ یہ شخص مرزا صاحب کا پکا تمن ہے اور پھر اخیر حکم میں اس کے اظہار کا ذکر تک نہیں کیا اور بالکل بیہودہ اور خود غرضی کا بیان قرار دیا." " to (کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۴۶،۴۵) ایک اور جگہ اسی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جیسے حضرت عیسی علیہ السلام پر ان کے گرفتار کرنے کے لئے جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور جھوٹی مخبریاں کی گئیں اور یہود کے مولویوں نے ان پر جا کر عدالت میں گواہیاں دیں.ایسا ہی میرے پر بھی جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور ان جھوٹے مقدمات کی تائید میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے میرے پھانسی دلانے کے لئے عدالت میں بحضور کپتان ڈگلس صاحب پادریوں کی حمایت میں گواہی دی.آخر عدالت نے ثابت کیا کہ مقدمہ قتل جھوٹا ہے.پس خود سوچ لو کہ اس مولوی کی گواہی کس قسم کی تھی.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد۱۷.صفحہ ۲۱۰ حاشیہ ) (۱۱) مقدمہ سے قبل برتیت کی اطلاع سیح موسوی : حضرت عیسی علیہ السّلام کو اس مقدمہ سے پہلے خدا تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ آپ پر مصیبت آئے گی مگر خدا تعالیٰ آپ کو صلیب کی موت سے بچا لے گا.اسی لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے یونس نبی کا نشان دکھانے کی پیش گوئی
۱۶۹ کرتے ہوئے فرمایا تھا: اس زمانہ کے لوگ بڑے ہیں.وہ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ کے نشان کے سوا اور کوئی نشان ان کو نہ دیا جائے گا.کیونکہ جس طرح یوناہ نیوہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ٹھہرے گا.(لوقا ۲۹۰۱۱ ، ۳۰ ) س ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.مسیح نے جو اپنے تئیں یونس سے مثال دی.یہ اسی کی طرف اشارہ تھا کہ وہ قبر میں زندہ داخل ہو گا اور زندہ رہے گا.کیونکہ مسیح نے خدا سے الہام پایا تھا کہ وہ صلیب کی موت سے ہرگز نہیں مرے گا.(کتاب البریہ - روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۴۶ حاشیہ ) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی قبل از مقدمه خدا تعالٰی کی طرف سے الہامات کے ذریعہ برتیت کی اور مخالفین کی روسیاہی اور نکبت کی خبر دی گئی تھی.نیز یہ بتایا گیا تھا کہ یہ مقدمہ صرف ایک آزمائش کے طور پر ہو گا.(جیسا کہ اس قبل ازیں صفحہ ۱۶۱ پر بیان کیا جا چکا ہے ).پس الہامات میں دیا گیا وعدہ پورا ہوا.اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس طرح بیان فرماتے ہیں." جس طرح مسیح کو گر فتاری سے پہلے خبر دی گئی تھی کہ اس طرح تجھے گرفتار کریں گے اور تیرے قتل کے لئے کوشش کریں گے اور آخر خدا تجھے ان کی شرارت سے بچائے گا.ایسا ہی مجھے خدا تعالیٰ نے اس مقدمہ سے پہلے خبر دی اور ایک بڑی جماعت جو حاضر تھی سب کو وہ
الہامات سنائے گئے اور جو حاضر نہیں تھے ان میں سے اکثر احباب کی طرف خط لکھے گئے تھے." rk (کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۴۶) (viii) مخالفین کا ملت واحدہ بن جانا مسیح موسوي حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقدمہ میں اس وقت کے تمام فرقے اور گروہ مخالف بن کر گواہ کے طور پر آئے.چنانچہ انجیل میں لکھا ہے صبح ہوتے ہی سردار کاہنوں نے بزرگوں اور فقیہوں اور سارے صدر عدالت والوں سمیت صلح کر کے یسوع کو بند ھوایا.(مرقس ۱:۱۵) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اس مقدمہ میں ہندو مسلمان اور عیسائی سب ہی فریق مخالف بن کر آئے.جیسا کہ اس باب کے شروع میں ہم اس کا ذکر آئے ہیں.مزید تفصیل کتاب البریہ میں کاروائی عدالت کے ذکر کے تحت ملاحظہ کی جا سکتی ہے.پس مقدمہ میں مخالفین کا ایک ہی طرح کا اجتماع اور گٹھ جور دونوں مسیحوں کے حالات کو بالکل مشابہ بنا دیتا ہے.(ix) عدالت میں تعیین سینی علیہ السلام کے خلاف گواہی میں سردار مسیح موسوی حضرت کا ہین نے آپ کی مختلفیر کرتے ہوئے یہ واویلا کیا تھا کہ اس نے کفر بکا ہے." (متی ۲۶ : ۶۵)
120 مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف گواہی میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے سردار کاہن کا کامل کردار ادا کرتے ہوئے کہا ” میں نے مرزا صاحب کی نسبت کفر کا فتوی دیا تھا." بیان مولوی محمد حسین بٹالوی کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۳.صفحہ ۳۰۳) حضور علیہ السلام نے فرمایا ولكن قلوب باليهود تشابهت وهذا هو النبأ الذي جاء فاذكروا فصرت لهم عيسى إذا ما تهودوا وهذا كفي مني القوم تفكروا کہ بعض کے دل یہود کی طرح ہو گئے ہیں اور یاد کرو کہ یہ وہی خبر ہے جو پہلے سے بتائی گئی ہے.کہ جب وہ یہودی بن گئے تو میں ان کے لئے عیسیٰ بن گیا.میری طرف سے یہ بیان کافی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور وفکر کرتے ہیں.۱۸: احیائے موتی و شفاء الأمراض اللہ تعالی نے اپنے اذن سے مریضوں اور بیماروں کو شفاء دینے کے وصف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت عیسی علیہ السلام کا متیل بنایا ہے.جیسا کہ فرمایا: ”نبی ناصری کے نمونہ پر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ بندگان خدا کو بہت صاف کر رہا ہے ، اس سے زیادہ کہ کبھی جسمانی
بیماریوں کو صاف کیا گیا ہو.(تذکرہ - صفحہ ۱۸۲) اسی طرح جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کو صفت احیائے موتی عطا ہوئی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی خدا تعالی نے اس صفت میں آپ کا متیل بنایا.یہ عام محاورہ ہے کہ جب کوئی مرض الموت یا شدید بیماری سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس نے نئی زندگی پائی ہے.خدا تعالیٰ کے مقربین اور اس کے انبیاء کو یہ امتیازی نشان عطا ہوتا ہے کہ جب کوئی ایسا مریض جو دنیا کے حکیموں ، طبیبوں یا ڈاکٹروں کی طرف سے لاعلاج قرار دے دیا گیا ہو ، ان کی دعا اور خاص توجہ سے صحت یاب ہونے لگتا ہے.ان کی دعا اور توجہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچ لاتی ہے اور وہ مریض جو اس دنیا سے منہ موڑ کر موت کی طرف سفر اختیار کر چکا ہوتا ہے ، واپس چلا آتا ہے.انبیاء علیہم السلام کو یہ وصف خدا تعالیٰ کے اذن سے ایک اعجاز کے طور پر عطا ہوتا ہے.اسے قوت احیائے موتی خاص بھی قرار دیا جاتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی یہ قوت عطا ہوئی.اور قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے کہ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَى بِإِذْنِي سورة المائدة اس سے مراد محض یہی ہے کہ آپ نے بعض ایسے مریضوں کا علاج کیا کہ جو بر لب گور تھے.اس لحاظ سے آپ کا خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا واسطہ ان لوگوں سے پڑا تھا جو انبیاء کے کفر و قتل کے مجرم چلے آتے تھے اور باوجود نشان اور معجزات دیکھنے کے انکار پر مصر رہتے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر آفاقی کی بجائے کثرت سے انفیسی نشان ظاہر فرماتے.تاکہ وہ لوگ
۱۷۳ اپنے نفسوں میں ان نشانات کو ملاحظہ کر کے ایمان حاصل کر سکیں.اس کے علاوہ ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے نفسوں میں ایسے نشان ملاحظہ کرتے جو محض احسان کا پہلو اپنے اندر رکھتے تھے اور جن کی وجہ سے ان کی نگاہیں آپ کو ہمیشہ عقیدت سے دیکھتیں اور ان کے دل زیر بار احسان آکر آپ کی محبت سے معمور ہو جاتے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی صداقت کے ثبوت کے لئے قرآن کریم میں ان معجزات کی گواہی دی.کیونکہ آپ کے نشانات اور معجزات کی زمانہ کے لوگوں نے خصوصیت سے تکفیر و تکذیب کی تھی.اس کے علاوہ احیائے موتی کا اعلیٰ اور ارفع نمونہ وہ ہے جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ : يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحييكُم سورة الأنفال کہ یہ رسول تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے کہ تمہیں زندگی عطا کرے.پس اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ روحانی زندگی ہی اصل زندگی ہے.اور یہ قوتتِ احیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑھ کر اور اعلیٰ اور اکمل طور پر عطا ہوئی کہ صدیوں کے مردے زندہ کر دئے.آپ کے ظل کے طور پر اس کا ایک حصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی عطا ہوا.آپ فرماتے ہیں: أعطيت صفة الإفناء والاحياء.(خطبة) إلهامية، روحاني خزائن جلد ١٦ ص ٥٦).کہ مجھے صفت فنا و احیاء عطا کی گئی ہے.آپ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کر کے ایک عالم کو نئی زندگی عطا کی.پس در اصل قوتِ احیاء ، خواہ جسمانی ہو یا روحانی ، کا اصل حامل تو وہ ہے جس
۱۷۴ کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم.باقی جس نے بھی پایا آپ ہی کے فیض سے پایا.اور حضرت عیسی علیہ السلام پر تو ایک اعتراض تھا جو قرآن نے دور کر دیا.وہ مردے جن کی روح قبض ہو چکی اور وہ انسان جو وفات پاگئے ان کا زندہ ہونا قرآن کریم کی نصوص بینہ کے خلاف ہے.خدا تعالیٰ نے کبھی کبھی کسی انسان کو یہ طاقت نہیں بخشی کہ وہ ایسے مردوں کو زندہ کر سکے.اور اپنی سنت سے بھی آگاہ فرما دیا کہ وہ واپس نہیں آسکتے، دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے.پس وہ لوگ جو یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نعوذ باللہ ایسے مردوں کو زندہ کر دیتے تھے جن کی روح قبض ہو چکی تھی ان کے اس عقیدہ کو حسب ذیل آیات قرانیہ باطل قرار دیتی ہیں.يُحْيِيكُمْ هَل مِن اللهُ الَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُ شركا بكم من وَ ـن يَفْعَلُ مِن ذَلِكُم مِّن شَيْءٍ سُبْحَنَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ سورة التوفير هو ئي وَيُمِيتُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ) رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِ وَيُمِيتُ وَحَرَام عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (٢٥٨) سورة البقرة سورة الأنبياء پس حضرت عیسی علیہ السلام کے احیائے موتی سے مراد یہی ہے کہ آپ کا ایسے مریضوں اور بیماروں کو شفاء دینا جو عین موت کے منہ میں تھے.اور یہ کہ شفاء الامراض کی قوت عطا ہوئی تھی جو دنیا کے لئے اعجاز کا رنگ رکھتی تھی.اس تحاظ سے مسیح موسوی اور مسیح محمدی کی مشابہت ملاحظہ ہو.
۱۷۵ (1) مردہ زندہ ہونا مسیح موسوی : حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں آتا ہے کہ ایک سردار نے آکر اسے سجدہ کیا اور کہا.میری بیٹی ابھی مری ہے لیکن تو چل کر اپنا ہاتھ اس پر رکھ تو وہ زندہ ہو جائے گی.اور جب یسوع سردار کے گھر آیا..تو کہا.مری نہیں بلکہ سوتی ہے.وہ ہننے لگے.مگر جب بھیٹر نکال دی گئی تو اس نے اندر جاکر اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ لڑکی اٹھی.لڑکی (متی ۰۹ ۱۸ تا ۲۵) اسی طرح انجیل لوقا باب ۷ آیت ۱۵ میں ایک مردہ لڑکے کے زندہ کرنے کا واقعہ درج ہے.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دفعہ میرا چھوٹالڑ کا مبارک احمد بیمار ہو گیا.غشی پر غشی پڑتی تھی اور میں اس کے قریب مکان میں دعا میں مشغول تھا اور کئی عورتیں اس کے پاس بیٹھی تھیں کہ یکدفعہ ایک عورت نے پکار کر کہا کہ اب بس کرو کیونکہ لڑکا فوت ہو گیا.تب میں اس کے پاس آیا اور اس کے بدن پر ہاتھ رکھا اور خدا تعالی کی طرف توجہ کی تو دو تین منٹ کے بعد لڑکے کو سانس آنا شروع ہو گیا.اور نبض بھی محسوس ہوئی.اور لڑکا زندہ ہو گیا." ساتھ ہی حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : تب مجھے خیال آیا کہ عیسی علیہ السلام کا احیاء موتی بھی اسی قسم کا تھا اور پھر نادانوں نے اس پر حاشئے چڑھا دئے.) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن.جلد ۲۲.صفحہ ۳۶۵)
اسی طرح نواب سردار محمد علی خان رئیس مالیر کوٹلہ کا بیٹا ، جس کو لاعلاج قرار دیا جا چکا تھا ، اور بظاہر اس کی موت یقینی اور تقدیر مبرم معلوم ہوتی تھی.گویا وہ موت کے منہ میں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے اسی دم روبصحت ہوا.(تفصیل ملاحظہ فرمائیں.حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن.جلد ۲۲.صفحہ ۸۸، (A9 نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر ایک مرتبہ بالکل مردہ کی حالت کو پہنچ گئے تھے.صرف ہڈیاں ہی ہڈیاں رہ گئی تھیں.انہیں لاعلاج قرار دے دیا گیا تھا.سب مایوس تھے.مگر حضور علیہ السلام کی دعا سے باذن الہی وہ صحت یاب ہو گئے.(تفصیل دیکھیں.حقیقت الوحی- روحانی خزائن.جلد ۲۲ - صفحہ ۲۶۶) اسی مشابہت کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں یقیناً جانتا ہوں کہ معجزات احیائے موتی حضرت عیسی علیہ السلام اس سے زیادہ نہ تھے.میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس قسم کے احیاء موتی بہت سے میرے ہاتھ سے ظہور میں آچکے ہیں." ) حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن.جلد ۲۲ - صفحہ ۸۹ ) (ii) بینائی دینا se مسیح موسوی : حضرت عیسی علیہ السلام نے باذن الہی آنکھوں کو اچھا کیا.انجیل میں کئی واقعات درج ہیں.ان میں سے ایک ملاحظہ ہو: اندھوں نے جو راہ کے کنارے بیٹھے تھے یہ سن کر کہ یسوع جا رہا ہے چلا کر کہا.اے خداوند ابن داود ! ہم پر رحم کر......ليسوع نے کھڑے ہو کر انہیں بلایا اور کہا تم کیا چاہتے ہو کہ تمہارے لئے
کروں.انہوں نے اس سے کہا اے خداوند ! یہ کہ ہماری آنکھیں کھل جائیں.یسوع کو ترس آیا اور اس نے ان کی آنکھوں کو چھوا اور وہ فوراً بینا ہو گئے.مسیح محمدی متی ۲۰ : ۲۹ تا ۳۴) حضرت مرزا بشیر احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ایسے ہی معجزے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مسماۃ المہ اللہ بی بی سکنہ علاقہ خوست ، مملکت کابل نے مجھ سے بیان کیا کہ بچپن میں آشوب چشم کی سخت شکایت ہو جاتی تھی اور آنکھوں کی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ انتہائی درد اور سرخی کی وجہ سے آنکھ کھولنے تک کی طاقت نہیں رہتی تھی.اس کے والدین نے اس کا بہت علاج کرایا.مگر کچھ افاقہ نہ ہوا اور تکلیف بڑہتی گئی.ایک دن جب اس کی والدہ اسے پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دوائی ڈالنے لگی تو وہ ڈر کر یہ کہتے ہوئے بھاگ گئی کہ میں تو حضرت صاحب سے دم کراؤں گی.چنانچہ وہ بیان کرتی ہے کہ میں گرتی پڑتی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر پہنچ گئی.اور حضور کے سامنے جا کر روتے ہوئے عرض کیا کہ میری آنکھوں میں سخت تکلیف ہے.اور درد اور سرخی کی وجہ سے میں سخت بے چین رہتی ہوں اور اپنی آنکھیں تک کھول نہیں سکتی.آپ میری آنکھوں پر دم کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو میری آنکھیں خطرناک طور پر ابلی ہوئی تھیں.اور میں درد ، بے چین ہو کر کراہ رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی انگلی پر اپنا تھوڑا سا لعاب دہن لگایا اور ایک لمحے کے لئے رک کر (جس میں شاید حضور دل میں دعا کر رہے ہوں گے) بڑی شفقت کے
IZA ساتھ اپنی یہ ابھی میری آنکھوں پر آہستہ آہستہ پھیر دی اور پھر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ” بچی جاؤ اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف کبھی نہ ہوگی." مسماة امہ اللہ بی بی بیان کرتی ہے کہ اس کے بعد آج تک جب کہ میں ستر سال کی بوڑھی ہو چکی ہوں کبھی ایک دفعہ بھی میری آنکھیں دکھنے نہیں آئیں." چار تقریریں.صفحہ ۳۶۵ ، ۳۶۶) خود حضرت مرزا بشیر احمد کی اپنی بینائی لوٹ آنے کا واقعہ ہے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا: بشیر احمد میرا لڑکا آنکھوں کی بیماری سے ایسا بیمار ہو گیا تھا کہ کوئی دوائی فائدہ نہیں کر سکتی تھی.اور بینائی جاتے رہنے کا اندیشہ تھا.جب شدت مرض انتہاء تک پہنچ گئی تب میں نے دعا کی تو الہام ہوا برق طفلي بشير - یعنی میرا لڑکا بشیر دیکھنے لگے گا تب اسی دن یا دوسرے دن وہ شفا یاب ہو گیا.یہ واقعہ بھی قریباً سو آدمی کو معلوم ہو ہیں.گا.) حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن.جلد ۲۲.صفحہ ۲۴۰) ان کے علاوہ بھی متعدد واقعات ہیں جو طوالت کے ڈر سے چھوڑے جارہے ( iii ) بخار سے نجات دلانا مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام نے بخار سے تپتے ہوئے مریض کو باذن الہی شفاء بخشی.چنانچہ لکھا ہے.یسوع نے پطرس کے گھر میں آکر اس کی ساس کو آپ میں پڑا
۱۷۹ دیکھا.اس نے اس کا ہاتھ چھوا اور تپ اس پر سے اتر گئی." (متی-۸ : ۱۴ ، ۱۵) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے بخار کے مریضوں کو شفاء عطا کی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” طاعون کے دنوں میں جب کہ قادیان میں طاعون زور تھا.میرا لڑ کا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑہا.جس سے لڑکا بالکل بے ہوش ہو گیا.اور بے ہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا.قریبا رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہو گئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں اور ہی بلا ہے..اسی حالت میں میں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا.اور معا کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میسر آگئی جو استجابت دعا کے لئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے.اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی میں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے.تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چار پائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے اور میں چار رکعت پوری کر چکا تھا.فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام و نشان نہیں اور ہذیان اور بے تابی اور بے ہوشی بالکل دور ہو چکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی." ) حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن.جلد ۲۲ - صفحہ ۸۷، ۸۸ حاشیه )
(A+ (iv) دیوانگی کا علاج حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مسیح موسوی : دیوانگی کا علاج کیا.چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ : اور دیکھو ایک آدمی نے بھیڑ میں سے چلا کر کہا اے استاد ! میں تیری منت کرتا ہوں کہ میرے بیٹے پر نظر کر کیونکہ وہ میرا اکلوتا ہے.اور دیکھو ایک روح اسے پکڑ لیتی ہے اور وہ یکایک چیخ اٹھتا ہے.اور اس کو ایسا مروڑتی ہے کہ کف بھر لاتی ہے اور اس کو کچل کر مشکل سے چھوڑتی ہے.يسوع نے جواب میں کہا اپنے بیٹے کو یہاں لے آو.وہ آتا ہی تھا کہ بدروح نے اسے ٹپک کر مروڑا اور یسوع نے اس ناپاک روح کو جھڑکا اور لڑکے کو اچھا کر کے اس کے باپ کو دے دیا.اور سب لوگ خدا کی شان دیکھ کر حیران ہوئے.ود (لوقا - ۳۸۰۹ تا ۴۳) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک ایسی دیوانگی جو موت کی آغوش میں ڈال دیتی ہے باذن الہی دور کر دی.اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا : عبد الکریم نام ولد عبد الر حمان ساکن حیدر آباد دکھن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب علم ہے.قضا و قدر سے اس کو سگ دیوانہ کاٹ گیا.ہم نے اس کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا.چند روز تک اس کا کسولی میں علاج ہوتا رہا.پھر وہ قادیان میں واپس آیا.تھوڑے دن گذرنے کے بعد اس میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کہتے
HAI کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیں.اور پانی سے ڈرنے لگا اور خوفناک حالت پیدا ہو گئی.تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بے قرار ہوا اور دعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہو گئی.ہر ایک سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مر جائے گا.ناچار اس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی.اور پوچھا گیا کہ اس حالت میں اس کا کوئی علاج بھی ہے ؟ اس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں.مگر اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہو گئی.اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا.کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا.اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مر گیا تو ایک برے رنگ میں اس کی موت شماتت اعداء کا موجب ہو گی.تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بے قراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے ا نہیں ہوتی.اور اگر پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مردہ زندہ ہو جائے.غرض اس کے لئے اقبال علی اللہ کی حالت میسر آگئی.اور جب وہ توجہ انتہاء تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پور اتسلط میرے دل پر کر لیا.تب اس بیمار پر جو در حقیقت مردہ تھا اس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یکدفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رخ کیا.اور اس نے کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا.تب اس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی
ہے.IAF لیا.بلکہ پانی سے وضو کر کے نماز بھی پڑھ لی.اور تمام رات سوتا رہا.اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی.یہاں تک کہ چند روز تک بجلی صحت یاب ہو گیا.......اور تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ کبھی دنیا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایسی حالت میں کہ جب کسی کو دیوانہ کتے نے کاٹا ہو اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہو گئے ہوں پھر کوئی شخص اس حالت سے جانبر ہو سکے.اور اس سے زیادہ اس بات کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ جو ماہر اس فن کے کسولی میں گورنمنٹ کی طرف سے سگ گزیدہ کے علاج کے لئے مقرر ہیں ، انہوں نے ہمارے تار کے جواب میں صاف لکھ دیا کہ اب کوئی علاج نہیں ہو سکتا.اس جگہ اس قدر لکھنا رہ گیا ہے کہ جب میں نے اس لڑکے کے لئے دعا کی تو خدا نے میرے دل میں القا کیا کہ فلاں دوا دینی چاہئے.چنانچہ میں نے چند دفعہ وہ دوا بیمار کو دی.آخر بیمار اچھا ہو گیا.یا یوں کہو کہ مردہ زندہ ہو گیا.......اور دفتر علاج سگ گزیدگان سے ایک مسلمان نے متعجب ہو کر کسوئی سے ایک کارڈ بھیجا.جس میں لکھا ہے کہ " سخت افسوس تھا کہ عبد الکریم جس کو دیوانہ کتے نے کاٹا تھا ، اس کے اثر میں مبتلا ہو گیا.مگر اس بات کے سننے سے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ دعا کے ذریعہ صحت یاب ہو گیا.ایسا موقعہ جانبر ہونے کا کبھی نہیں سنا.یہ خدا کا فضل اور بزرگوں کی دعا کا اثر ہے.الحمد للہ.راقم عاجز - عبدالله از کسولی." ee (حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن.جلد ۲۲ صفحہ ۴۸۰ تا ۴۸۲) دیوانگی سے صحت یابی اور پھر اس پر اس وقت کے لوگوں کا تحیر کس قدر مشابہ
احیائے موتی اور شفاء الامراض کے یہ دو چار واقعات ہم نے یہاں بطور نمونہ درج کئے ہیں.ورنہ ایسے واقعات مسیح موسوی اور مسیح محمدی کی زندگی میں بیسیوں کی تعداد میں موجود ہیں.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں لکھا ہے کہ : یسوع سب شہروں اور گانوں میں پھرتا رہا اور........ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری دور کرتا رہا." وو (متی ۹: ۳۵) اور ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : یہ خدا کا قول ہے کہ تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہو گی.روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے مریضوں پر مشتمل جسمانی امراض کی نسبت میں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے اکثر خطرناک امراض والے میری دعا اور توجہ سے شفایاب ہوئے ہے.: 19 ) حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن.جلد ۲۲.صفحہ ۸۶ ، ۸۷) (i) قتل کا ارادہ وفات سیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے منکرین نے آپ سے بغض عناد کی وجہ سے آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا.انجیل میں درج ہے کہ : فریسیوں نے باہر جا کر اس کے برخلاف مشورہ کیا کہ اسے کس طرح ہلاک کریں.(متی ۱۲ : ۱۴)
۱۸۴ اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے.اس وقت سردار کاہن اور قوم کے بزرگ کا ٹعا نام سردار کاہن کے دیوان خانے میں جمع ہو گئے اور صلاح کی کہ یسوع کو فریب سے پکڑ کر قتل کر دیں." مسیح محمدی (متی ۲۶، ۳، ۴) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمنوں کی طرف سے آپ کے قتل کا منصوبہ تیار کیا گیا.چنانچہ مولوی عمرالدین صاحب کی چشم دید شہادت ہے کہ : ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الرحمان صاحب سیاح آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ مرزا صاحب کو چپ کرانے کی کیا تجویز ہو........مولوی عمر الدین صاحب نے کہا کہ مجھے کہو تو میں جاکر انہیں مار آتا ہوں جھگڑا ہی کم ہو جائے.اس پر وہ کہنے لگے تمہیں کیا معلوم ہم یہ سب تدبیریں کر چکے ہیں کوئی سبب ہی نہیں بنتا.تاریخ احمدیت.جلد ۲ صفحہ ۲۲۱) اسی طرح چوہدری غلام حسین صاحب (جو کہ پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے تایا تھے ) بیان کرتے ہیں کہ : وو " میں مولوی محمد حسین بٹالوی کا زبر دست معتقد تھا.اور مولوی صاحب احمدیت کے شدید دشمنوں میں سے تھے.میں نے بھی ان ایام میں حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی.ایک روز میں نے بڑے جوش سے مولوی محمد حسین سے کہا کہ ”حضرت ! دل چاہتا ہے کہ یہ روز روز کا قصہ پاک ہو.اگر آپ اجازت دیں تو
۱۸۵ میں قادیان جاؤں اور موقعہ پا کر مرزا کو قتل کر آوں.تاکہ جھگڑا ہی مٹ جائے." اس پر مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ”میاں ! ہم اس کی بھی کوشش کر چکے ہیں.مگر کامیابی نہیں ہوئی." مولوی صاحب کے اس جواب پر مجھے خیال پیدا ہوا کہ جب اتنے بڑے مقتدر اور صاحب اثر شخص کی کوشش بھی مرزا صاحب کو قتل کرانے میں ناکام ثابت ہوئی تو پھر کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے.اور معلوم ہوتا ہے کہ خدائی نصرت ان کے ساتھ ہے.بس اسی وقت میرا دل احمدیت کی طرف مائل ہو گیا.......اور بالآخر مجھے قبول احمدیت کی سعادت حاصل ہو گئی.مگر افسوس اس بات کا رہا کہ یہ سعادت مجھے حضرت مسیح موعود کی زندگی میں حاصل نہ ہوئی.(سوانح محمد حسین.حالات برادر اکبر چوہدری غلام حسین صاحب.صفحہ ۵۶ ، ۵۷) ( ii ) ارادہ قتل کی خبر اور طبعی موت کا وعدہ : سیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ مخالفین تجھ سے عناد اور عداوت کے باعث تجھے صلیب پر مارنے یا قتل کرنے کی کوشش کریں گے.لیکن وہ اپنے اس مکر میں کامیاب نہ ہو سکیں گے بلکہ انى متوفيك میں ہی تجھے وفات دوں گا.تجھے ان کے مکروں اور ایذاء کے منصوبوں کے نتیجہ میں موت نہیں آسکتی.پھر خدا تعالیٰ نے اس احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَاء بِلَ عَنكَ لور لك اليلة که بنی اسرائیل کو (جو تیرے قتل کا ارادہ رکھتے تھے ) میں نے تجھ سے روکے
JAY رکھا.یہیں خدا تعالیٰ کا حضرت عیسی علیہ السلام سے یہ وعدہ تھا کہ آپ کے دشمن آپ کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور آپ اپنی طبعی وفات سے اس دار فانی سے کوچ کریں گے.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ دشمن تیرے خلاف ہر قسم کا مکر کریں گے.وہ تیرے قتل کی کوشش بھی کریں گے.مگر اني متوفيك ( تذکره - صفحه ۷۰۳) کہ میں ہی مجھے وفات دوں گا.دشمن قتل کے منصوبے میں ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتا.ساتھ ہی آپ کو خدا تعالٰی نے یہ ضمانت بھی دی : الله يعصمك من الناس».(تذكرة ص ۲۸۰).يعصمك الله من الأعداء.(تذكره ص ٤٤٩).کہ اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں اور دشمنوں سے محفوظ رکھے گا.اس مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” یہود کا فتنہ دو حصہ پر مشتمل تھا ایک وہ حصہ تھا جو حضرت عیسیٰ کے قتل کے لئے ان کے اپنے منصوبے تھے.اور دوسرا وہ حصہ تھا کہ گورنمنٹ رومیہ کو حضرت عیسی کی گرفتاری اور قتل کے لئے افروختہ کرتے تھے.سو ان دنوں میں بھی وہی معاملہ پیش آیا.صرف فرق اتنا رہا کہ وہاں یہود تھے اور یہاں ہنود.سو پہلا حصہ جو قتل کے لئے خانگی سازشیں ہیں ان کا نمونہ ایم.آریش میشمرد اس کے اس مضمون سے معلوم ہوتا ہے جو اس نے اخبار آفتاب ہند مطبوعه ۱۸ مارچ ۱۸۹۷ء کے صفحہ ۵ پہلے کالم میں چھپوایا ہے.جس کا عنوان یہ ہے.”مرزا قادیانی خبر دار " اور پھر بعد اس کے لکھا ہے کہ ” بکری کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے.آجکل ہنود کے خیالات مرزا قادیانی کی نسبت بہت -
۱۸۷ بگڑے ہوئے ہیں.پس مرزا قادیانی کو خبردار رہنا چاہئے کہ وہ بھی بکر عید کی قربانی نہ ہو جاوے." اور پھر اخبار رہبر ہند لاہور ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ ء میں صفحہ ۱۴ پہلے کالم میں لکھا ہے.” کہتے ہیں کہ ہندو قادیان والے کو قتل کرائیں گے.نیز فرمایا: وو ) سراج منیر.روحانی خزائن.جلد ۱۲.صفحہ ۴۵ حاشیہ ) یہود نے حضرت مسیح کی تکذیب کے لئے یہ پہلو سوچا تھا کہ ان کو مصلوب کر کے توریت کے رو سے ان کا لعنتی ہونا کھل جائے اور سچا پیغمبر لعنتی نہیں ہو سکتا.لیکھرام کی موت کے بعد ہنود نے یہی کیا اور کر رہے ہیں.لیکن انہوں نے میری تکذیب کے لئے یہ دوسرا پہلو سوچا ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس کو بھی عید کے قریب قریب قتل کر دیں اور اس طرح پر الہی پیش گوئی کو برباد کر کے دلوں سے اسلامی عظمت کو مٹا دیں.اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلا دیں کہ جیسا کہ لیکھرام ایک پیش از وقت پیش گوئی کے موافق قتل ہو گیا.پس اگر وہ خدا کا الہام ہو سکتا ہے تو ہماری بات کو بھی خدا کا الہام کہنا چاہئے.سو اس طرح پر دنیا میں ایک گڑبڑ پڑ جائے گا اور لوگ ہندووں کے ایک مردہ کے مقابل مسلمانوں کے ایک مردہ کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ دونوں انسانی منصوبے ہیں اور اس طرح پر بآسانی اس شخص کا کاذب ہونا ثابت ہو جائے گا.سو یہود اور ہنود تکذیب کی مدعا میں واحد ہیں.صرف جدا جدا دو پہلو اُن کو سوجھے." (سراج منیر.روحانی خزائن.جلد ۱۲.صفحہ ۴۸، ۴۹)
IAA (iii) مخالفین کا موت کے بارہ میں ایک ہی نظریہ مسیح موسوی یہودی حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کو اس رنگ میں دیکھنے کے خواہشمند تھے کہ جس سے آپ کی سچائی مشتبہ ہو جاتی.چنانچہ توریت میں یہ لکھا ہے کہ جو کاٹھ (صلیب) پر مارا جائے وہ لعنتی ہے.اس لئے یہودیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر مارا جائے تاکہ آپ (نعوذ باللہ ) لعنتی قرار پائیں.اس کے لئے انہوں نے ایک بہت ہی خوفناک سازش تیار کی اور آپ کو صلیب پر لٹکانے میں کامیاب ہو گئے.لیکن ادھر خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ تسلی دی کہ : يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَمَةِ سورة العمران کہ یہ تجھے مارنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے بلکہ میں ہی تجھے طبعی موت دوں گا اور تیرے درجات کو رفعت عطا کروں گا اور منکروں اور مخالفوں کے ہر جھوٹے اور ناپاک الزام سے تجھے پاک کروں گا.چنانچہ ادھر خدا تعالیٰ کی وہ تقدیر بھی اپنا عمل دکھا رہی تھی جو ہر بچے کی سچائی کے اظہار اور اس کی تائید و نصرت کے لئے چلا کرتی ہے.پس وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر مارنے میں کامیاب نہ ہو سکے.خدا بر تعالیٰ نے ایک زبر دست اعجازی رنگ میں آپ کو صلیبی موت سے بچالیا اور یہودیوں کو ان کے منصوبوں میں ناکام و نامراد کر دیا.لیکن پھر بھی یہودی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب دی.جس کے نتیجہ میں وہ نعوذ باللہ لعنتی موت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں بھی آپ کے
۱۸۹ مخالفین کی یہی کوشش رہی کہ آپ پر کوئی ایسی موت آئے جو آپ کے لئے ذلت کے سامان اور قہر الہی کے نشان اپنے اندر رکھتی ہو.لیکن ادھر خدا تعالیٰ کا آپ سے وہی وعدہ تھا جو حضرت عیسی علیہ السلام سے تھا کہ : (تذكرة ص ٥٨٠).يا عيسى إني متوفيك ورافعك إلي وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا إلى يوم القيامة.(تذكرة ص ل ).کہ میں ہی تجھے وفات دوں گا اور تیرے درجات کو رفعتیں عطا کروں گا اور مخالفوں کی بد خواہشوں اور گندے الزامات سے تجھے پاک کروں گا.اور فرمایا: لا تُبقي لك من المخزيات شيئًا».کہ تیرے پر جو بیہودہ اور جھوٹے الزام لگائے جائیں گے ان کو کلیہ ختم کر دیا جائے گا.لیکن پھر بھی آپ کے دشمن اس باطل اور بے بنیاد خیال پر قائم ہیں کہ آپ کی وفات نعوذ باللہ ہیضہ کے نتیجہ میں ہوئی ، جو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قہری نشان کے طور پر تھی.(نعوذ بالله من هذه الخرافات) (۱۷) ستائیس ۲۷ تاریخ مسیح موسوی : حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کی تاریخ کے متعلق آتا ہے:....عرج فيها بروح عيسى ابن مريم ليلة سبع وعشرين من رمضان».طبقات ابن سعد جلد ۳ ص ۳۹).کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات رمضان کی ستائیسویں رات کو ہوئی.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بتایا : وستائیس کو واقعہ (ہمارے متعلق الله خير ابھی." ( تذکرہ - صفحہ ۷۴۵ )
19+ اس الہام میں الله خير وأبقی کے الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ستائیس کو جو واقعہ پیش آنے والا ہے وہ کسی کی وفات کے بارہ میں ہے.لیکن ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے متعلق " ہے.چنانچہ آپ کی وفات ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء کو ہوئی اور آپ کا جنازہ ۲۷ مئی کو پڑھا گیا اور آپ کے جسد اطہر کی تدفین عمل میں آئی.پس ستائیس تاریخ نے وفات میں مماثلت پیدا کر کے آپ دونوں کی زبر دست مشابہت کا ثبوت فراہم کیا ہے.(۷) وفات کے بعد خلافت صیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد سلسلہ خلافت جاری ہوا اور آپ کے پہلے خلیفہ پطرس بنے اور خلافت کا یہ نظام اب تک پاپائیت کی شکل میں جاری ہے.سیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہوا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے پہلے خلیفہ حاجی الحرمین حضرت حکیم مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ بنے اور یہ نظام خلافت حقہ اسلامیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے اور اس کی تائیدات اور نصرتوں کی جلوہ گاہ ہے.پیش گوئیوں کے مطابق یہ نظام انشاء اللہ تا قیامت جاری رہے گا اور اسلام کی عزت اور عظمت کا ضامن رہے گا.: r.متفرق مماثلتیں ( i ) ایک مرید کا مرتد ہونا
191 ( 3 ) مسیح موسوی حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک حواری جس کا نام یہودا اسکر یوطی تھا مرتد ہوا اور آپ کے دشمنوں کے ساتھ مل گیا.(تفصیل دیکھیں متی باب (۳۶) حالانکہ آپ نے اسے ان بارہ حواریوں میں شامل کیا تھا جن کو جنت کی نوید دی گئی تھی.اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ تم دنیا کا نور ہو.سیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مرید جس کا نام میر عباس علی تھا مرتد ہوا اور آپ کے دشمنوں یعنی مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کے ساتھ مل گیا.(تفصیل کے لئے دیکھیں.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲.صفحہ ۳۰۷ - نشان ۱۲۶ ) حالانکہ حضور علیہ السلام کو اس کے متعلق الہام ہوا تھا.أصلها ثابت وفرعها في السماء.کہ اس کی جڑ زمین میں ہے اور شاخ آسمان میں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کے ارتداد ( ب ) صحیح موسوی می کی پہلے سے خبر دی گئی تھی.انجیل میں لکھا ہے کہ آپ نے فرمایا: اے اس آدمی پر افسوس جس کے وسیلہ سے ابن آدم پکڑوایا جاتا ہے.......اس کے پکڑوانے والے یہوداہ نے جواب میں کہا.ربی ! کیا میں ہوں ؟ اس نے اس سے کہا تو نے خود کہہ دیا." (متی ۲۶ : ۲۵ ) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی خدا تعالیٰ نے میر عباس علی کے متعلق پہلے سے خبر کر دی تھی کہ : عباس علی ٹھوکر کھائے گا اور برگشتہ ہو جائے گا." (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲.صفحہ ۳۰۷) -
١٩٢ ( ii ) ایک فرقہ مسیح موسوی : حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ایک عیسائیوں میں ایک ایسا فرقہ بھی پیدا ہوا جو یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ إن عيسى عليه السلام لم يدع أنه نبي مرسل...بل هو من أولياء الله المخلصين العارفين».الملل والنحل للشهرستاني الفضل في الملل والأهواء والنحل لابن جزم جلد ٢ ص ٥٤).حضرت عیسی علیہ السلام نبی نہیں بلکہ صرف ولی اللہ تھے.اس فرقہ کا نام ” فرقہ عنانیہ " تھا.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جماعت احمدیہ میں بھی ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا جس نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ آپ نبی نہیں تھے بلکہ ولی اللہ اور زمانہ کے مجدد تھے.یہ فرقہ اہل پیغام " کے نام سے بھی موسوم ہے.★✰✰ (iii) اصحاب کہف مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے توحید پرست متبعین جو ایک عرصہ دراز تک مصائب و تکالیف کا نشانہ بنے رہے.انہیں قرآن شریف نے اصحاب الکہف " کا نام دیا ہے.یہی اصحاب کہف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم پر حقیقی طور پر کار بند تھے.مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متبعین کو حدیث نبوی میں اصحاب الکہف " قرار دیا گیا.چنانچہ لکھا ہے : عن ابن عباس قال قال رسول الله : أصحاب الكهف أعوان
المهدي».١٩٣ (تفسیر در منثور جلد ٤، ص ۳۱۵ : تفسير سورة كهف زير آيت إذا أوى الفتية).کہ مہدی علیہ السلام کے معاون و مددگار اصحاب الکہف ہیں.دونوں مسیحوں کو اصحاب الکہف عطا ہوئے اور یہ ان کی مماثلت کا ایک زبر دست ثبوت ہے (۱۷) ایک عجیب مماثلت مسیح موسوی : حضرت عیسی علیہ السلام کو شیخ نجدی حمید نے آزمائش میں ڈالا.لکھا ہے : ابلیس اسے مقدس شہر میں لے گیا اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے اس سے کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دیے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے.ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر کی ٹھیس لگے.یسوع نے اس سے کہا.یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر.(متی ۵۰۴ تا ۷ ) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بھی بعینہ اس طرح کا واقعہ پیش آیا.۱۸۹۷ء میں ایک شخص محمد رضا طہرانی نجفی ، لاہور آیا اور اس نے حضور علیہ السلام کو یہ دعوت دی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر شاہی مسجد کے مینارے سے چھلانگ لگاتے ہیں.جو سچا ہے وہ بچ جائے گا اور جھوٹا ہلاک ہو گا.اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ید شیخ نجدی شیطان - ابلیس (فیروز اللغات )
ہیں ۱۹۴ در شیخ الاسلام صاحب در اشتہار خود سوئے من اشارت کرده می نویسنده که ما و شما دست در یک و دیگری داده از مینارہ مسجد شاہی لاہور خود را افروا فگنیم ہر کہ صادق باشد محفوظ خواهد ماند - عجب سوال است که در دنیا صرف دو مرتبه واقعه شده از عیسی شیخ سنجدی این سوال کرده بود و آزمین شیخ نجفی.زہے ماست پس جواب ماہیماں است که عیسی علیه السلام شیخ نجدی را داده بود - انجیل را به بینند ، تسلی خود فرمانید - ހ تبلیغ رسالت.جلد ۶.صفحہ ۱۱۱ حاشیہ ) کہ شیخ الاسلام شیخ نجفی نے اپنے ایک اشتہار میں میری جانب اشارہ کیا ہے کہ میں اور آپ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر شاہی مسجد لاہور کے مینار سے چھلانگ لگاتے ہیں.جو سچا ہے وہ یقینا محفوظ رہے گا.یہ عجیب سوال ہے جو دنیا میں صرف دو مرتبہ ہوا.حضرت علیہ السلام سے شیخ مسجدی نے اور مجھ سے شیخ نجفی نے یہ سوال کیا ہے.کیا عجیب مناسبت ہے.پس میں وہی جواب دیتا ہوں جو عیسی علیہ السلام نے شیخ نجدی کو دیا تھا.آپ انجیل دیکھ کر خود تسلی فرمالیں.گر ہمیں لاف و گزاف و شیخی است شیخ نجدی بهتر از صد نجفی نجفی است (۷) باره ۱۲ حواری مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ حواری تھے.ان کی فہرست انجیل میں یوں درج ہے.پہلا شمعون جو پطرس کہلاتا ہے اور اس کا بھائی
۱۹۵ اندریاس - زبدی کا بیٹا یعقوب اور اس کا بھائی یوحنا.فلپس اور بر تلما ئی.توما اور متنی محصول لینے والا.حلفی کا بیٹا یعقوب اور تدئی.شمعون قنانی اور یہوداہ اسکریوطی جس نے اسے پکڑوا بھی دیا.مسیح محمدی (متی ۲۰۱۰ تا ۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب مولوی نذیر ) حسين ے ۱۸۹۱ء میں دہلی میں مناظرہ کے لئے گئے تو آپ کے ہمراہ بھی بارہ حواری تھے.اس مشابہت کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفہ انسی الثانی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں : حضرت مسیح کے بھی بارہ ہی حواری تھے.اس معرکۃ الآراء موقعہ پر آپ کے ساتھ یہ تعداد بھی ایک نشان تھی.(۷۱) در سمین " (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام.صفحہ ۳۵ از حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ) ابتدائی عیسائیوں کے پاس سریانی غزلوں پر مشتمل پاکیزہ کلام کا ایک مجموعہ تھا احمدیوں کے پاس در مشین ہے.یہ تنظمیں ڈیڑھ ہزار سال سے گم نظمیں تھیں.قرونِ اولیٰ میں اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ عیسائی روحانی غزلوں کو پڑھا کرتے تھے اور اپنے اجلاسوں میں سنایا کرتے تھے.ان میں سے ایک آدھ غرمل عیسائی لٹریچر میں محفوظ بھی ہو گئی.لیکن یہ مجموعہ کلام مفقود تھا.۱۹۰۹ ء میں برطانیہ کے ایک سکالر رینڈل ہارس (I.Rendel Harris) کو ساحل دجلہ پر ایک مخطوطہ دستیاب ہوا.اس میں یہ نظمیں بھی شامل تھیں.اس نے اس
197 انگریزی ترجمہ کے ساتھ شائع کر دیا اور اس کا نام The odes of Solomon رکھا.یہی مجموعہ بعد میں مسٹر جیمز ہملٹن چار لزور تھ James H.Charlesworth نے اسی مذکورہ بالا نام سے مزید نوٹس کے ساتھ اور ترجمہ میں ترمیم کے ساتھ شائع کیا ہے.بغض عیسائی علماء کے نزدیک یہ نظمیں قرن اول کی ہیں.دوسرے علماء کے نزدیک یہ صحیفہ دوسری صدی کا ہے.اس میں بعض نظموں میں حضرت مسیح علیہ السلام بول رہے ہیں اور بعض میں اور شاعر مخاطب ہیں.(vii) ایک علامت میں مشابہت مسیح موسوی وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں یہ پیش گوئی تھی کہ اپنے لبوں کے دم سے شریروں کو فنا کر ڈالے گا.؟ "t (یسعیاه ۴۰۱۱) مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی یہی علامت بطور پیش گوئی احادیث میں درج ہے کہ : فلا يحل لكافر يجد من ريح نفسه إلا مات».(مشكاة، باب العلامات بين يد وساعة وذكر الدجال).کہ اس کے دم سے کافر ہلاک ہوں گے.(viii) گاؤں کا نام
192 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : چونکہ اس مسیح کا پیدا ہونا حق اور باطل کی تفریق کے لئے دنیا پر ایک آخری حکم ہے جس کے رو سے مسیح موعود حکم کہلاتا ہے.اس لئے ناصرہ کی طرح جس میں تازگی اور سرسبزی کے زمانہ کی طرف اشارہ تھا.اس مسیح کے گاؤں کا نام اسلام پور قاضی ما بھی رکھا گیا.تا قاضی کے لفظ سے خدا کے اس آخری حکم کی طرف اشارہ ہو جس سے برگزیدوں کو دائمی فضل کی بشارت ملتی ہے اور تاسیح موعود کا نام جو حکم ہے اس کی طرف بھی ایک لطیف ایماء ہو.اور اسلام پور قاضی ماجھی اس وقت اس گاؤں کا نام رکھا گیا تھا جبکہ بابر بادشاہ کے عہد میں اس ملک ماجھ کا ایک بڑا علاقہ حکومت کے طور پر میرے بزرگوں کو ملا تھا اور پھر رفته رفته یه حکومت خود مختار ریاست بن گئی.اور پھر کثرت استعمال سے قاضی کا لفظ قاری سے بدل گیا اور پھر اور بھی تغیر پاکر قادیان ہو گیا.غرض ناصرہ اور اسلام پور قاضی کا لفظ ایک بڑے پر معنی نام ہیں.جو ایک ان میں سے روحانی سرسبزی پر دلالت کرتا ہے اور دوسرا روحانی فیصلہ پر جو مسیح موعود کا کام ہے.(ستارہ قیصریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۵.صفحہ ۱۱۹) دشمن گروه ( ix) دود من سروه (۱۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : د عیسی مسیح کے دو گروہ دشمن تھے.ایک اندرونی گروہ یعنی وہ یہودی جنہوں نے اس کو صلیب دے کر مارنا چاہا.جن کی طرف سورہ فاتحہ میں یعنی آیت غَيْر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ
۱۹۸ میں اشارہ ہے.دوسرے بیرونی دشمن یعنی وہ لوگ جو رومی قوم میں سے متعصب تھے.جن کو خیال تھا کہ یہ شخص سلطنت کے مذہب اور اقبال کا دشمن ہے.ایسا ہی خدا نے آخری مسیح کے لئے دو دشمن قرار دئے.ایک وہی جس کو اس نے یہودی کے نام سے موسوم کیا.وہ اصل یہودی نہیں تھے.جس طرح یہ مسیح جو آسمان پر عیسی بن مریم کہلاتا ہے دراصل عیسی نہیں بلکہ اس کا قلیل ہے.دوسرے اس مسیح کے وہ دشمن ہیں جو صلیب پر غلو کرتے ہیں اور صلیب کی فتح چاہتے ہیں.ce تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد۱۷.صفحہ ۳۰۴) ( x ) مریم عیسی سیح موسوی -: حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب سے اتارنے کے بعد حکیم نیکدیس ( جو منہد ریم یعنی یہودیوں کی مجلس اعظم کا ممبر تھا.اور حضرت عیسی علیہ السلام کا خفیہ مرید تھا ) نے ایک مرہم تیار کی.جو خوشبو دار چیزوں سے بنائی گئی تھی.یوحنا باب 19 میں اس کا ذکر ہے.اس مرہم کا نسخہ قانون بو علی سینا ( جلد ۳ صفحہ ۱۳۲ ) میں بھی درج ہے.اس کے علاوہ طب کی بیسیوں کتابوں میں بھی پایا جاتا ہے جن میں سے بعض کے نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب " مسیح ہندوستان میں " میں تحریر فرمائے ہیں.اس مرہم کے خواص جو نامور اطباء نے لکھے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ زخموں کو جلد بھرنے میں مدد دیتی ہے ، پیپ سے محفوظ کرتی ہے ، نیا گوشت پیدا کرنے میں مفید ہے ، اندرونی اور بیرونی سوجن کو دور کرتی ہے.وغیرہ وغیرہ.بو علی سینا جو کہ مشہور اور بے مثل حاذق طبیب تھے اس مرہم کو لاجواب قرار دیتے ہیں.علم طب کی
١٩٩ بنیادی ، مشہور اور مستند کتاب قرابادین قادری میں لکھا ہے کہ : حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے آپ کے حواریوں نے یہ مرہم تیار کی.قرابادین قادری.باب ۲۲ - صفحہ ۴۶۳) حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی صداقت کے لئے یوناہ نبی کا نشان پیش کیا تھا (لوقا ۱۱ : ۲۹ (۳۰) جس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ آپ صلیب سے زندہ بچ جائیں گے.مرہم عیسی نے اس نشان کی صداقت کے لئے ایک قوی شہادت کا کردار ادا مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی صداقت کے لئے وفات مسیح کو پیش فرمایا.اس عقیدہ کے ثبوت کے طور پر بیسیوں ناقابل تردید ثبوتوں کے علاوہ ایک یہ ثبوت بھی آپ نے پیش فرمایا کہ ” مرہم عینی " یہ گواہی دیتی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام واقعہ صلیب کے بعد زندہ رہے اور تاریخ یہ شہادت دیتی ہے کہ وہ ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لائے اور پھر لمبی عمر پا کر طبعی طور پر فوت ہوئے.اور ان کی قبر سری نگر کشمیر میں اب تک موجود ہے.الغرض مرہم عیسی" حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کی صداقت کے ثبوتوں میں سے ایک ہے." رض " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک حواری حضرت حکیم محمد حسید من ( جن کا بعد میں لقب ہی ” مرہم عیسی " مشہور ہو گیا ) نے اس مرہم کا نسخہ تلاش کر کے اور بڑی دوڑ دھوپ کے بعد اس کے اصل اجزاء کے حصول میں کامیابی حاصل کر لی.اور یہ مرہم تیار کی اور ایک اشتہار اس مرہم کے بارہ میں شائع کر دیا کہ : مرہم عیسی اس کو اس لئے کہتے ہیں کہ جب حضرت مسیح صلیب پر سے زندہ بچ گئے ، حواریوں نے حضرت مسیح کے صلیبی زخموں پر لگانے و"
کے لئے الہام الہی کے تحت اس مرہم کو بنایا تھا.حضرت مسیح تو بیماروں کو اچھا کرتے تھے مگر اس مرہم نے حضرت مسیح کو چنگا کر دیا." اس اشتہار سے عیسائی دنیا سیخ پا ہو گئی.ایک تہلکہ مچ گیا.آپ کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا اور معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا.جس میں حکیم محمد حسین کو بالآخر فتح نصیب ہوئی اور اخباروں نے آپ کو مبارک بادیاں دیں.(ملخص از کتاب طبی ماته عامل زیر عنوان ” میری سوانح زندگی ) १९ پس اس مرہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کی صداقت کا بین ثبوت فراہم کیا جس طرح عیسی علیہ السلام کی صداقت کے لئے اس نے شہادت مرہم عیسی نے دی تھی محض عیسی کو شفا دی.میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و دیار (1) صلیب سے پیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : لیا.میں چونکہ مسیح موعود علیہ السلام ہوں اس لئے حضرت مسیح کی عادت کا رنگ مجھ میں پایا جانا ضروری ہے.حضرت مسیح وہ انسان تھے جو مخلوق کی بھلائی کے صلیب پر چڑھے.گو خدا کے رحم نے ان کو بچا انہوں نے سچائی کے لئے صلیب سے پیار کیا اور اس طرح اس پر چڑھ گئے جیسا کہ ایک بہادر سوار خوش عنان گھوڑے پر چڑھتا ہے.سو ایسا ہی میں بھی مخلوق کی بھلائی کے لئے صلیب سے پیار کرتا ہوں.......جیسا کہ اس نبی نے سچائی کے لئے قبول کیا.ایسا ہی میں بھی قبول کرتا ہوں.اگر.......ایک سال کے اندر میرے نشان
۲۰۱ تمام دنیا پر غالب نہ ہوں تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.میں راضی ہوں کہ اس جرم کی سزا میں سولی دیا جاوں اور میری ہڈیاں توڑی جائیں.تریاق القلوب - روحانی خزائن.جلد ۱۵- صفحہ ۴۹۸ ، ۴۹۹ ) (xii) صلیب بر فتح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا : جیسا کہ مسیح نے اس صلیب پر فتح پائی تھی جس کو یہودیوں نے اس کے قتل کے لئے کھڑا کیا تھا، اس مسیح کا کام یہ ہے کہ اس صلیب پر فتح پاوے کہ جو اس کے بنی نوع کے ہلاک کرنے کے لئے عیسائیوں نے کھڑی کی ہے.(xiii) فتح (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد ۱۷.صفحہ ۲۵۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اس صحیح کی پہلے مسیح کی طرح آسمان پر بادشاہت ہے.زمین کی حکومتوں سے کچھ تعلق نہیں.ہاں جس طرح رومی قوم میں آخر دین مسیحی داخل ہو گیا ، اس جگہ بھی ایسا ہی ہو گا." (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد۱۷.صفحہ ۳۰۴) مذہب عیسائی آخر قیصری قوم میں گھس گیا.سو اس خصوصیت نیز فرمایا میں بھی آخری مسیح کا اشتراک ہے.ee
۲۰۲ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن.جلد ۲۰.صفحہ ۳۳) (xiv) ایک عظیم الشان مشابہت مسیح موسوی روئے زمین پر صرف دو انبیاء کی تصاویر موجود ہیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر آپ کے ماننے والوں نے بڑی مہارت کے ساتھ شروع سے ہی تیار کرلی تھی اور عیسائی دنیا میں یہ اصل تصویر کے طور پر رائج ہے.ان کے کلیساؤں میں اور عبادت خانوں میں یہ تصویر نمایاں نظر آتی ہے اور کتابوں اور کیلنڈروں اور پوسٹروں پر کثرت سے اس کی اشاعت کی جاتی ہے.اس کے علاوہ وہ چادر قابل ذکر ہے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کو واقعہ صلیب کے بعد پیٹا گیا تھا اور اس پر مرہم لگائی گئی تھی تاکہ آپ کے زخم جلد مندمل ہو سکیں.اس مرہم میں ایسے اجزاء شامل کئے تھے جنہوں نے امونیا گیس کے ساتھ کیمیائی عمل کے ذریعہ اس چادر پر حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ کے نقوش مرتسم چادر " ( SHROUD کر دئے تھے.یہ چادر آج بھی اٹلی کے شہر تورین (TURIN ) میں موجود ہے اور ابتداء سے ہی میں اس کو مقدس کفن اور مقدس HOLY ) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور ایک تبرک کے طور پر اس کی حفاظت کی گئی ہے.اس پر جو حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ ہے وہ بعینہ ان تصاویر جیسی ہے جو ابتداء سے عیسائی دنیا میں رائج ہیں.آج کلیسیاء راہ فرار اختیار کرتے ہوئے یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہ وہ چادر نہیں ہے جس میں مسیح علیہ السلام کو واقعہ صلیب کے بعد لپیٹا گیا تھا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ صدیوں سے ان میں سے ایک اکثریت کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ دراصل یہ وہی چادر ہے جو مرہم لگانے کے بعد مسیح کے جسم پر لپیٹی گئی تھی.بہر حال اس سے سروکار نہیں کہ
۲۰۳ کلیسیاء اس مقدس کفن کو کیا حیثیت دیتا ہے ، اصل بات یہ ہے کہ جو بھی تصویر حضرت مسیح کی ابتداء سے رائج ہے ، خواہ وہ اس چادر پر ہو یا کسی اور جگہ ، حقیقی نقوش کے ساتھ آپ کی شبیہ کو پیش کرتی ہے.مسیح محمدی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں بھی خدا تعالیٰ نے ایسے اسباب مہیا فرما دیئے کہ تصویر کشی کے آلات ایجاد ہو گئے اور حضرت مسیح علیہ السلام کی مماثلت میں آپ کی تصویر بنی.دونوں مسیحوں میں یہ ایک ایسا اشتراک ہے کہ کوئی دوسرا نبی اس خصوصیت میں شامل نہیں.تصویر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ہم نے جو تصویر فوٹو لینے کے لئے پہلے دی تھی وہ اس واسطے تھی کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ ہم سے بہت دور ہیں اور فوٹو سے قیافہ شناسی کا علم رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.ان کے لئے ایک روحانی فائدہ کا موجب ہو......چنانچہ بعض خطوط یورپ ، امریکہ سے آتے ہیں جن میں لکھا ہے کہ دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی مسیح ہے.شریعت میں ہر ایک امر جو ما ينفع الناس کے نیچے آوے اس کو دیر پا ر کھا جاتا ہے." الحکم- ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۸ء بحوالہ.رجسٹر فتاوی.مجلس افتاء کے فتاوی ) مماثلت کے زبر دست شواہد ایک امریکہ کی عورت نے میری تصویر دیکھ کر کہا کہ یہ یسوع یعنی عیسی علیہ السلام کی تصویر ہے."
۲۰۴ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد.۱۲.صفحہ ۳۶۶) " خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے ، یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے.اور اس سے باتیں کر کے اس کے اصل دعوی اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے.یہ ایک بڑی بات ہے جو توجہ کے لائق ہے کہ حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفارہ اور تثلیث اور اجنبیت ہے ایسے متنفر پائے جاتے ہیں کہ گویا ایک بھاری افتراء جو ان پر کیا گیا ہے وہ یہی ہے.یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے.بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیت صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے.ان سے باتیں کر سکتا ہے اور ان کی نسبت ان سے گواہی بھی نے سکتا ہے.کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے." te تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۱۲- صفحه ۲۷۳) میں اس کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں اور میں نے اسے بارہا دیکھا ہے.ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا.اس لئے میں اور وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں.( ملفوظات جلد ۳.صفحہ ۲۳۰)
باب سوم چوں مرا حکم از پنے قوم مسیحی داده اند مصلحت را نام من بنهاده اند
الهام اللى ۲۰۷ ” جو مسیح کو دیا گیا.وہ بمتابعت نبی علیہ السلام تجھ کو دیا گیا ہے اور ا سیح موعود ہے اور تیرے ساتھ ایک نورانی حربہ جو ظلمت کو پاش پاش کر دے گا.اور یکسر الصلیب کا مصداق ہو گا.؟ ( تذکره - صفحه ۲۳۵)
۲۰۸ فرمان مسیحائے زماں اگر خدا چاہے تو عیسی کی مانند کوئی اور آدمی پیدا کر دے یا اس سے بھی بہتر جیسا کہ اس نے کیا........یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عیسائیوں نے شور مچارکھا تھا کہ مسیح بھی اپنے قرب اور وجاہت کے رو سے واحد لاشریک ہے.اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو میں اس کا ثانی پیدا کروں گا.جو اس سے بھی بہتر ہے جو غلام احمد ہے.یعنی احمد کا غلام زندگی بخش جام бу ہوں انبیاء ہی بخدا احمد ہے یہ نام احمد ہے مقام احمد ہے ہے سے بڑھ کر باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلام احمد کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کے رو سے خدا کی تائید مسیح سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں.خدا نے ایسا کیا نہ میرے لئے بلکہ اپنے نبی مظلوم کے لئے.( دافع البلاء - روحانی خزائن.جلد ۱۸.صفحہ ۲۴۰ ) -
۲۰۹ اس مسیح کے مقابل پر جس کا نام خدار کھا گیا.خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا.تا یہ اشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے جو احمد کے ادنی غلام سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.یعنی وہ کیسا مسیح ہے جو اپنے قرب اور شفاعت کے مرتبہ میں احمد کے غلام سے بھی کم تر ہے.؟ " دافع البلاء - روحانی خزائن.جلد ۱۸- صفحه ۲۳۳ ، ۲۳۴) منصوبوں علمی طوفان په عقلی طوفان یہ فلسفی طوفان یہ مکر اور کا طوفان یہ فسق اور فجور کا طوفان یہ لالچ اور طمع دینے کا طوفان یہ اباحت اور دہریت کا طوفان یہ شرک اور بدعت کا طوفان جو ہے ان سب طوفانوں کو ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو.اور اگر طاقت ہے تو ان مجموعہ طوفانات کی کوئی پہلے زمانہ میں نظیر بیان کرو.اور ایمانا کہو کہ حضرت آدم سے لے کر تا ایندم اس کی کوئی نظیر بھی ہے.اور اگر نظیر نہیں تو خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور حدیثوں کے وہ معنے کرو جو ہو سکتے ہیں.واقعات موجودہ کو نظر انداز مت کرو تا تم پر کھل جائے کہ یہ عام ضلالت وہی سخت دجالیت ہے جس سے ہر یک نبی ڈراتا آیا ہے جس کی بنیاد اس دنیا میں عیسائی مذہب اور عیسائی قوم نے ڈالی.جس کے لئے ضرور تھا کہ مجدد وقت مسیح کے نام پر آوے کیونکہ بنیاد فساد مسیح کی ہی امت ہے.اور میرے پر کشفا یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ہی زہرناک ہوا جو عیسائی قوم سے دنیا میں پھیل گئی.حضرت عیسی کو اس کی خبر دی گئی.تب ان کی روح روحانی نزول کے لئے حرکت میں آئی اور اس نے
جوش میں آکر اور اپنی امت کو ہلاکت کا مفسدہ پرداز پا کر زمین پر اپنا قائم مقام اور شبیہ چاہا جو اس کا ایسا ہم طبع ہو کہ گویا وہی ہو.سو اس کو خدائے تعالیٰ نے وعدہ کے موافق ایک شبیہہ عطا کی اور اس میں مسیح کی ہمت اور سیرت اور روحانیت نازل ہوئی اور اس میں اور مسیح میں بشدت اتصال کیا گیا.گویا وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے بنائے گئے اور مسیح کی توجہات نے اس کے دل کو اپنا قرار گاہ بنایا اور اس میں ہو کر اپنا تقاضا پورا کرنا چاہا.پس ان معنوں سے اس کا وجود مسیح کا وجود ٹھہرا اور مسیح کے پر جوش ارادات اس میں نازل ہوئے.جن کا نزول الہامی استعارات میں مسیح کا نزول قرار دیا گیا.یاد رہے کہ یہ ایک عرفانی بھید ہے کہ بعض گذشتہ کاملوں کا ان بعض پر جو زمین پر زندہ موجود ہوں عکس توجہ پڑ کر اور اتحادِ خیالات ہو کر ایسا تعلق ہو جاتا ہے کہ وہ ان کے ظہور کو اپنا ظہور سمجھ لیتے ہیں اور ان کے ارادات جیسے آسمان پر ان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ویسا ہی باز نہ تعالیٰ اس کے دل میں جو زمین پر ہے پیدا ہو جاتے ہیں اور ایسی روح جس کی حقیقت کو اس آدمی سے جو زمین پر ہے متحد کیا جاتا ہے ، ایک ایسا ملکہ رکھتی ہے کہ جب چاہے پورے طور پر اپنے ارادات اس میں ڈالتی رہے اور ان ارادات کو خدا تعالیٰ اس دل سے اس دل میں رکھ دیتا ہے.غرض یہ سنت اللہ ہے کہ کبھی گذشتہ انبیاء و اولیاء اس طور سے نزول فرماتے ہیں اور ایلیاء نبی نے بیجی نبی ہو کر اسی طور سے نزول کیا تھا.سو مسیح کے نزول کی سچی حقیقت یہی ہے جو اس عاجز پر ظاہر کی گئی.) آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۵۳ تا ۲۵۶)
” خدا کے اس رحم نے جو انسانوں کے لئے وہ رکھتا ہے تقاضا کیا کہ اپنے بندوں کو ان کے دام تزویر سے چھوڑائے.اس لئے اس نے اپنے اس مسیح کو بھیجاتا وہ دلائل کے حربہ سے اس صلیب کو توڑے جس نے حضرت عیسیٰ کے بدن کو توڑا تھا اور زخمی کیا تھا." " تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵- صفحه ۱۴۳ ، ۱۴۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو......یہ بشارت ملی کہ ایک شخص آپ کی امت میں سے مبعوث کیا جاوے گا جو مذہب کی حقیقت کو توڑ دینے والا ہو گا اور اسی لحاظ سے وہ مسیح ہو صلیبی ( ملفوظات.جلدا صفحہ ۴۴۵) سو اس عاجز کو.حضرت مسیح کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے.اور اسی فطرتی مشابہت کی وجہ سے مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے." (فتح اسلام.روحانی خزائن.جلد ۳ - صفحہ ۱۱.حاشیہ )
اصلاح مسیحیت کے لئے مسیح کی ضرورت قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بیان کیا ہے کہ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کی حقیقی تعلیم جو کہ دراصل توحید خالص پر مبنی تھی چھوڑ چکے تھے.فرمایا وَقَالَتِ النَّصَرَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ کہ عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے (سوره توبه - آیت ۳۰ ) ملے لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (سورہ المائدہ - آیت ۷۳ ) کہ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی صیح ہے.لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةُ ( سورہ المائدہ - آیت ۷۴ ) کہ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تین میں سے ایک.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عمارت جو توحید حقیقی کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی ، عیسائی دنیا اسے شرک والحاد کے تیشوں سے مسمار کر چکی ہے.ابنیت مسیح ، الوہیت مسیح، تثلیث اور کفارہ جیسے زہرناک عقائد نے چشمہ توحید کو مسموم کر دیا تھا.عیسائیت کے اس فتنہ سے امتِ مسلمہ بھی حد درجہ متاثر بھی.خاص طور پر اٹھارویں صدی عیسوی کے مسلمانوں کی حالت دگر گوں تھی.
وہ ایسے پر آشوب وقت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح کے نزول کی خبر دی تھی اور اس کا ایک بڑا کام یہ مقرر فرمایا تھا کہ یکسر الصلیب" صلیب یعنی صلیبی عقائد کو پاش پاش کر دے گا.اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایسے ہی زمانہ میں اپنی آمد کی خبر دی تھی.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان پیش گوئیوں کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مثیل مسیح بنا کر بھیجا.آپ جہاں مذاہب عالم کے موعود تھے وہاں آپ نے تھے وہاں آپ نے خصوصی طور پر عیسائیوں کے لئے مسیح ہونے کا دعوی کیا تا وہ صلیب توڑی جائے جس نے مسیح علیہ السلام کے بدن کو توڑا تھا.آپ یہ عزم صمیم لے کر اٹھے کہ والله اني اکسرن صليبكم ولو مزقت ذرات جسمي واكسر.خدا کی قسم میں ضرور بالضرور تمہاری صلیب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا، خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اور میرے جسم کے ذروں کو بھی کچل دیا جائے.آپ نے حیات مسیح کے گمراہ کن اور شرک سے بھرپور عقیدے کو باطل قرار دیتے ہوئے بائبل ، قرآن اور تاریخ کے دلائل کے ساتھ عقلی دلائل کا ایک انبار مہیا کیا.اور ان دلائل کی حقانیت پر قانون قدرت کی گواہی بھی پیش کی.آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کو عیسائیوں اور مسلمانوں کے مسلمات سے ثابت کیا جس سے نہ صرف عیسائیوں کے خدا کا فوت ہونا ثابت ہوا بلکہ عیسائیت کی کمر ٹوٹ گئی.اور صلیب ٹوٹ گئی.آپ نے فرمایا وو سو بہت ہی خوب ہوا کہ عیسائیوں کا خدا فوت ہو گیا اور یہ حملہ ایک برچھی کے حملہ سے کم نہیں." (ازالہ اوہام.روحانی خزائن.جلد ۳ صفحہ ۳۶۲)
۲۱۴ پھر آپ نے توحید کی طرف دعوت دیتے ہوئے عیسائیوں کے مروجہ بنیادی عقائد مثلاً الوہیت مسیح ، ابنیت مسیح، تثلیث اور کفارہ وغیرہ کے بارہ میں بتایا کہ ان عقائد کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بہتان باندھنے کے مترادف ہے اور آپ پر سراسر افتراء ہے کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالی کی توحید کا پرچار کرنے والے تھے ، اسی توحید کی خاطر وہ جئے ، اسی کی خاطر وہ صلیب پر کھینچے گئے اور اسی کی خاطر انہوں نے ساری زندگی دکھ جھلے.آپ نے عیسائیوں کو ان کے مروجہ عقائد کی غلطی سے آگاہ کرنے کے لئے عقلی اور نقلی طور پر سینکڑوں دلائل دئے ہیں اور ان دلائل کی صداقت پر قانون قدرت کی گواہیاں پیش کیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے زندہ نشانوں کے ذریعہ اپنے قول کی حقانیت کا ثبوت فراہم کیا.مثلاً ۱۸۸۴ء کے قریب جب آپ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب براہین احمدیہ کا چوتھا حصہ شائع کیا تو آپ نے انگریزی اور اردو میں ایک اشتہار میں ہزار کی تعداد میں وسیع پیمانہ پر یورپ کے مختلف ممالک کے علاوہ امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی کثرت کے ساتھ شائع کیا اور یہ اشتہار مسیحی مذہب کے متبعین میں خصوصیت کے ساتھ تقسیم کیا گیا.آپ نے اس اشتہار میں یہ بیان کیا کہ میں اللہ تعالی کی طرف سے مسیح ناصری کے قدم پر آیا ہوں اور یہ کہ آج روئے زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے کہ جو خدا سے ہم کلام کراتا اور اس سے ملاتا ہے.آپ نے اپنے اس اعلان کی صداقت کے ثبوت کے لئے حق کے طالبوں کو خدائی نشان دکھانے کا وعدہ بھی کیا.آپ نے یہ تمام دلائل ہم نے اپنی تالیف مسیحی انفاس " میں مجموعی طور پر متفرق ابواب میں ترتیب کے ساتھ جمع کر دیئے ہیں.
۲۱۵ یہ کہا کہ جو اس دعوے کی صداقت میں ذرہ بھر بھی شبہ رکھتا ہے وہ اگر طالب حق بن کر ایک سال تک میرے پاس قادیان میں آکر قیام کرے گا تو ضرور کوئی نہ کوئی الہی نشان دیکھ لے گا.نیز یہ کہ اگر اس عرصہ میں کوئی الہی نشان ظاہر نہ ہو تو میں بطریق تر جانه یا جرمانہ دو سوروپیہ ماہوار کے حساب سے مبلغ چوبیس سو روپیہ نقد اس شخص کو دوں گا.وہ جس طرح چاہے اپنی تسلی کر لے.جہاں دیگر مذاہب کے پیرو کار اس دعوت کو قبول کرنے سے گریز کرتے رہے وہاں عیسائیوں نے بھی اس طرف رخ نہ کیا.حالانکہ یہ طریق فیصلہ انتہائی منصفانہ اور بچے اور جھوٹے کے درمیان امتیاز پیدا کر دینے والا تھا.پادری صاحبان میں سے کوئی ایک سال کے لئے قادیان میں آکر حضرت مرزا صاحب کے پاس الہی نشان کا طلبگار ہو جاتا اور تعصب کو خیر باد کہتے ہوئے حق کا متلاشی ہوتا تو خدا تعالیٰ اسے ضرور حضرت مرزا صاحب کی ذات میں مسیحیت کا جلوہ دکھا دیتا اور کوئی خارق عادت نشان ظاہر کر دیتا اور نہ آپ کی شکست اور پادریوں کی فتح کو دنیا نظارہ کر لیتی.آپ نے عیسائیوں کے لئے مسیح ہونے کے ثبوت کے لئے اپنے ایک مکاشفہ کی شہادت بھی پیش کی اور فرمایا اس نے مجھے اس بات پر اطلاع دی ہے کہ در حقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے.اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں.اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا.اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے.لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے.ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں.اور خدا کی جیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں
۲۱۶ نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے.یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے اور اس سے باتیں کر کے اس کے دعوے اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے.یہ ایک بڑی بات ہے.جو توجہ کے لائق ہے.کہ حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفارہ اور تثلیث اور امنیت ہے ایسے متنفر پائے جاتے ہیں کہ گویا ایک بھاری افتراء ان پر کیا گیا ہے.وہ یہی ہے.یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے.بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے.اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے.ان سے باتیں بھی کر سکتا ہے اور ان کی نسبت ان سے گواہی بھی نے سکتا ہے.کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے.( تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن.جلد ۱۲ صفحه ۲۷۲، ۲۷۳) اس دعوت کو بھی کسی نے قبول نہ کیا اور کسی نے یہ گوارا نہ کیا کہ تثلیث ، کفارہ اور ابنیت مسیح وغیرہ عقائد سے حضرت مسیح کی بیزاری خود مشاہدہ کر لے.البتہ بحث و تمحیص اور مناظرہ کے لئے پادری عبد اللہ آتھم ای.اے.سی وغیرہ کمر بستہ ہوئے مگر ایمان کی ان نشانیوں کا ثبوت پیش کرنا تو در کنار ، جو موجودہ اناجیل ایک بچے مسیحی کے لئے امتیاز کے طور بیان کرتی ہیں ، وہ اپنے دعووں کو ہی عقلی یا نقلی دلائل سے ثابت کرنے سے قاصر رہے.پادری عبداللہ آتھم کے ساتھ آپ کا یہ مناظرہ کتاب ” جنگ مقدس کی صورت میں شائع شدہ ہے.پادریوں کی مسلسل شکست کے ضمن میں پادری بشپ جارج ایلفرڈ لیفرائے ( ۱۸۵۴ ۶ ، ۱۹۱۹ء ) کا ذکر یہاں غیر مناسب نہ ہو گا.چنانچہ مشہور مورخ حافظ
۲۱۷ نور محمد نقشبندی چشتی ، مالک اصبح المطابع دہلی اپنے شائع کردہ قرآن کریم کے دیباچہ میں صفحہ ۳۰ پر لکھتے ہیں."......اسی زمانہ میں پادری لیفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا......حضرت عیسی کے آسمان پر حجم خاکی زندہ ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا.تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں.پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو.اس ترکیب سے اس نے لیفرائے کو اتنا تنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.“ جب مسیحی ہر پہلو سے عاجز اور لاجواب ہو گئے تو پادری فنی مسیح ، عیسائی احمد شاہ ، پادری عماد الدین اور اسی قماش کے بعض اور پادریوں نے وہ راہ اختیار کی جو ہر شریف النفس انسان کے لئے دل آزاری کے کانٹوں سے آئی ہوئی تھی.انہوں نے اپنے زعم میں مسلمانوں کو خاموش کرانے یا بالفاظ دیگر زخمی کرنے کے لئے یہ حربہ اختیار کیا کہ اسلام ، بانی اسلام امام الصادقین سید الاصفیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارہ میں زہر
۲۱۸ آشام تحریر میں شائع کیں ، مگر میل مسیح علیہ السلام نے ان سیاہ باطن بد زبانوں کو انہیں کے مسلمات سے ہی ایسی راہ دکھائی کہ اس خار زار سے برہنہ پا گذرنا خود انہیں کا نصیب ٹھہرا.حضرت مرزا صاحب کی کتاب ” نور القرآن اور کتاب البریہ وغیرہ اس کی شاہد ہیں.آپ نے مسیحیوں کی اصلاح کے لئے کثرت سے اشتہار دئے اور بار بار پادریوں کو دعوت دی کہ وہ عقائد پر بحث کریں تاکہ حق کھل کر سامنے آجائے مگر عیسائیوں کی طرف سے ہمیشہ ہی لاچاری کا اظہار اور اس دعوت سے فرار کا رویہ ظاہر ہوا جو اس امر کی دلیل ہے کہ مسیحیت کے موجودہ عقائد وہ نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو دیئے تھے.کیونکہ مسیح علیہ السلام صداقت کے علمبردار تھے اور صداقت کبھی شکست خوردہ نہیں ہو سکتی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ منادی کی کہ وہ صداقت جو مسیح علیہ السلام نے کر آئے تھے اس کے آثار میرے وجود میں ملاحظہ کرو اور ان سے حصہ پاؤ.پس یہ وہ کام تھا جس کے لئے آنے والے موعود کو مسیح اور کا نام دیا گیا اور اس کی صفات سے متصف کیا گیا تا وہ مسیحیوں کے سامنے اسی منیحیت کی جلوہ گری کرے جس کے ساتھ مسیح علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے.آپ فرماتے ہیں : آپ نے فرمایا چوں مرا نور از پئے قوم مسیحی داده اند مصلحت را نام من بنهاده اند سنت اللہ کے موافق یہ عاجز صلیبی شوکت کو توڑنے کے لئے مامور ہے یعنی خدا تعالی کی طرف سے اس خدمت پر مقرر کیا گیا ہے جو کچھ عیسائی پادریوں نے کفارہ اور تثلیث کے باطل مسائل کو دنیا میں
۲۱۹ پھیلایا ہے اور خدائے واحد لا شریک کی کسر شان کی ہے.یہ تمام فتنہ بچے دلائل اور روشن براہین اور پاک نشانوں کے ذریعہ فرو کیا جائے.اس بات کی کس کو خبر نہیں کہ دنیا میں اس زمانہ میں ایک ہی فتنہ ہے جو کمال کو پہنچ گیا ہے اور الہی تعلیم کا سخت مخالف ہے یعنی کفارہ اور تثلیث کی تعلیم جس کو صلیبی فتنہ کے نام سے موسوم کرنا چاہئے.کیونکہ کفارہ اور تثلیث کی تمام اغراض صلیب سے وابستہ ہیں.سو خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے دیکھا کہ یہ فتنہ بہت بڑھ گیا ہے اور یہ زمانہ اس فتنہ کے تموج اور طوفان کا زمانہ ہے.پس خدا نے اپنے وعدہ کے موافق چاہا کہ اس صلیبی فتنہ کو پارہ پارہ کرے.اور اس نے ابتداء سے اپنے نبی مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خبر دی تھی کہ جس شخص کی ہمت اور دعا اور قوت بیان اور تاثیر کلام اور انفاس کافرکش سے یہ فتنہ فرد ہو گا اس کا نام اس وقت عیسی اور مسیح موعود ہو گا.نیز فرمایا انجام آتھم.روحانی خزائن.جلد ۱ صفحہ ۴۶ ) آخری زمانہ میں عیسائی مذہب اور حکومت کا زمین پر غلبہ ہو گا اور مختلف قوموں میں بہت سے تنازعات مذہبی پیدا ہوں گے.اور ایک قوم دوسری قوم کو دبانا چاہے گی اور ایسے زمانہ میں صور پھونک کر تمام قوموں کو دین اسلام پر جمع کیا جاوے گا یعنی سنت اللہ کے موافق آسمانی نظام قائم ہو گا اور ایک آسمانی مصلح آئے گا.در حقیقت اس مصلح کا نام مسیح وعود ہے کیونکہ جبکہ فتنہ کی بنیاد نصاری کی طرف سے ہوگی اور خدا تعالیٰ کا بڑا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی صلیب کی شان کو توڑے.اس لئے جو شخص نصاری کی دعوت کے لئے بھیجا گیا بوجہ رعایت حالت اس قوم کے
۲۲۰ جو مخاطب ہے اس کا نام مسیح اور عیسی رکھا گیا." شہادت القرآن.روحانی خزائن.جلد ۶ صفحه ۳۱۲) الا ليت شعري هل تشاهد بعدنا مسيحا يحط من السماء وينذر».
باب چهارم بعد ازاں از نفخ حق عیسی شد زجائے مریمی برتر قدم
الہام الہی ۲۲۳ يا مريم اسكن انت وزوجك الجنة.(تذكرة، ص ٢٠).اني جاعلك عیسی ابن مريم.(تذكرة ص (۲۱۹) يا عيسى سأريك أياتي الكبرى».تذكرة ص (۲۱۸).يا عيسى الذي لا يضاع وقته.(تذكرة ص ۲۷۳).
۲۲۴ فرمان مسیحائے زماں ہوں.وو اگر قرآن نے میرا نام نہیں رکھا تو میں جھوٹا Ce تحفہ الندوہ.روحانی خزائن.جلد ۱۹ صفحہ ۹۸) ✰✰✰ وہ حی و قیوم خدا جو اس بات پر قادر ہے جو انسان کو حیوان بلکہ شمر الحيوانات بنا دیوے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ اور فرمایا : كُونُوا قِرَدَةً خَسِينَ کیا وہ ایک انسان کو دوسرے انسان کی صورت مثالی نہیں بنا سکتا ؟ بلي وهو بكل خلق عليم پھر جبکہ انسانیت کی حقیقت پر فناطاری ہونے کے وقت میں ایک ایسے ہی انسان کی ضرورت تھی جس کا محض خدا تعالی کے ہاتھ سے سے تولد ہوتا.جس کا آسمان پر نام ہے تو کیوں خدا تعالی کی قادریت اس کے پیدا کرنے پر مجبور رہ سکتی ہے.سو اس نے محض اپنے فضل سے بغیر وسیلہ کسی زمینی والد کے اس کو روحانی پیدائش اور روحانی زندگی بخشی.جیسا کہ اس نے خود اس کو اپنے الہام میں فرمایا.
۲۲۵ ثم اجتبيناك بعدما أهلكنا القرون الأولى وجعلنك المسيح ابن مريم».یعنی پھر ہم نے تجھے زندہ کیا بعد اس کے جو پہلے قرنوں کو ہم نے ہلاک کر دیا اور تجھے ہم نے مسیح بنایا یعنی بعد اس کے جو عام طور پر مشائخ اور علماء میں روحانی موت پھیل گئی.انجیل میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح ستاروں کے گرنے کے بعد آئے گا.ce (ازالہ اوہام - روحانی خزائن.جلد ۳ صفحه ۴۶۳) کا سوال بھی خدا تعالی نے بڑی صفائی سے حل کیا ہوا ہے.سورہ تحریم میں اس راز کو کھول دیا ہے کہ مومن مریم صفت ہوتا ہے اور پھر اس میں نفخ روح ہوتا ہے.خدا تعالی نے اسی ترتیب سے پہلے میرا نام مریم رکھا.پھر ایک وقت آیا کہ اس میں نفخ روح ہوا.اب مریم کے حمل سے جیسے مسیح پیدا ہوا جو اسی روح القدس کے نفخ کا نتیجہ ن.اسلئے یہاں خود مسیح بنا دیا.براہین احمدیہ کو قرآن شریف کی اس آیت کے ساتھ جو سورہ تحریم میں بیان ہوئی رکھ کر دیکھو اور پھر اس ترتیب پر غور کرو کہ جو براہین میں رکھی ہے کہ پہلے مریم نام رکھا پھر نفخ روح کیا اور پھر یا عیسی کہہ کر پکارا.اس آیت کی تفسیر کے لئے بھی دراصل یہی زمانہ تھا.( ملفوظات.جلد ۴ - صفحہ (۶۱) اور یہی عیسی ہے جس کی انتظار تھی اور الہامی عبارتوں میں مریم اور عیسیٰ سے میں ہی مراد ہوں.میری نسبت ہی کہا گیا کہ ہم اس کو نشان بناویں گے.اور نیز کہا گیا کہ یہ وہی عیسی بن مریم ہے جو
۲۲۶ آنے والا تھا.جس میں لوگ شک کرتے ہیں.یہی حق ہے اور آنے والا کی ہے.کشتی نوح - روحانی خزائن.جلد ۱۹.صفحہ ۵۲ )
۲۲۷ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.دو عورتیں ، دو بچے وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وجَعَلْنَهَا وَابْنَهَاءَ ايَةُ لِلْعَلَمِينَ سورة الانبياء یعنی مریم نے جب انتہائی طور پر پاکدامنی اختیار کی تو ہم نے اس کو یہ انعام دیا کہ وہ بچہ اس کو عنایت کیا جو روح القدس کے نفخ سے پیدا ہوا تھا اور ان دونوں کو ہم نے ہیں.- ایک نشان بنایا.اس آیت کریمہ میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ بچے دو قسم کے ہوتے ایک وہ کہ جن میں روح القدس کے نفخ کا اثر ہوتا ہے.ایسے بچے وہ ہوتے ہیں کہ جب عورتیں پاکدامن اور پاک خیال ہوں اور اسی حالت میں استقرار نطفہ ہو.یہ بچے پاک ہوتے ہیں اور شیطان کا ان میں حصہ نہیں ہوتا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «لو أن أحدكم إذا أتى أهله فقال : اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني، فإن كان بينهما ولد لم يضره الشيطان ولم يسلّط عليه».(بخاري، كتاب بدأ الخلق، باب صفة إبليس).کہ اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے اور یہ دعا کرے کہ اے اللہ ! ہم کو شیطان سے دور رکھ اور اس چیز سے بھی جو تو ہمیں دے شیطان کو دور
۲۲۸ رکھ.چنانچہ اگر بچہ ہو تو شیطان اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور نہ وہ اس پر.غالب آ سکتا ہے.دوسری وہ عورتیں ہیں جن کے حالات اکثر گندے اور نا پاک رہتے ہیں.ان کی اولاد میں شیطان اپنا حصہ ڈالتا ہے.جیسا کہ آیت وَشَارِكَهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے.شیطان کو یہ خطاب ہے کہ ان کے اموال اور اولاد میں حصہ دار بن جا.عمومی طور پر ہر زمانہ میں ایسی عورتیں موجود ہوتی اور ایسے بچے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں.چنانچہ قران کریم نے متعدد جگہ مثالیں دے کر یہ واضح کیا ہے کہ اس عالم میں ایک کے بعد دوسرا دور آتا ہے.اور نیکوں اور بدوں کی جماعتیں ہمیشہ.بروزی طور پر دنیا میں آتی رہتی ہیں.مریم اور اس کا بیٹا قرآن کریم بوجه مماثلت ، مومنین کا نام مریم اور بعد ازاں قرار دیتا ہے.ابتداء سے اب تک امت محمدیہ میں اس کی مثالیں موجود ہیں.یعنی صفاتی مشابہت کی وجہ سے بعض لوگ گذشتہ بزرگوں کے نام سے موسوم ہو سکتے ہیں.یہ اشتراک اسمی محض صفاتی تشارک پر مبنی ہوتا ہے.بلکہ خصوصیت سے یہ تصریح موجود ہے کہ مسلمانوں میں بعض لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق مریم ہیں اور بعض.چنانچہ بخاری شریف کی مشہور حدیث ہے «ما من مولود يولَدُ إلا والشيطان يمسه.الا مریم وابنها».(بخاري، كتاب بدء الخلق، باب اذكر في الكتاب مريم).کہ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے شیطان اس کو پیدائش کے وقت مست کرتا ہے سوائے ابن
۲۲۹ مریم اور اس کے بیٹے کے.اس حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے علامہ زمخشری لکھتے ہیں.«معناه أن كل مولود يطمع الشيطان في إغواءه إلا مريم وابنها فإنهما كانا معصومين وكذلك كل من كان في صفتهما.تفسير کشاف، جلد ۱، ص ۳۰۲).علامہ زمخشری نے اس عبارت کے آخری فقرہ وكذلك كل من كان في صفتهما.میں بتایا ہے کہ اس حدیث کے لفظ مریم اور کا اطلاق ان تمام پر آتا ہے جو صفاتی طور پر مریمیت اور عیسویت کے رنگ میں رنگین ہیں.حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں بلکہ تمام انبیاء میں سے صرف حضرت مسیح علیہ السلام کو ہی معصوم ٹھہرانا قرآن کریم کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنُ کہ میرے خالص بندوں پر تو کبھی بھی غلبہ حاصل نہیں کر سکتا.پس جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک مقام محفوظ میں ہیں ، کاملین بھی وساوس شیطان سے محفوظ رہتے ہیں.وہ شیطان کی پیروی نہیں کر سکتے یعنی شیطان ان کو پھسلا نہیں سکتا بلکہ ان کا شیطان گویا مسلمان ہو جاتا ہے.انا جیل سے ایک اور بات یہ بھی پتہ چلتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بعض اوقات شیطان نے پھسلانے کی کوشش کی مگر خدا تعالی نے آپ کو ہر بار اس کے مس سے پاک رکھا اور آپ ہمیشہ اس سے محفوظ رہے اور آپ نے کبھی بھی اس کی پیروی ترجمہ : اس کا معنی یہ ہے شیطان یہ خواہش رکھتا ہے کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو اغوا کر نے سوائے مریم اور اس کے بیٹے کے.کیونکہ یہ دونوں معصوم تھے.اسی طرح ہر وہ شخص جو ان کی صفات اپنے اندر رکھتا ہو گا.
۲۳۰ وو نہیں کی.اسی مقام محفوظ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا حدیث میں بتایا ہے کہ ہر مریمی صفت اور عیسوی صفت مومن دام شیطان سے محفوظ رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.روح القدس کا تعلق تمام نبیوں اور پاک لوگوں سے ہوتا ہے پھر مسیح کی اس میں کیا خصوصیت ہے ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ کوئی خصوصیت نہیں بلکہ اعظم اور اکبر حصہ روح القدس کی فطرت کا حضرت سیدنا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے.لیکن چونکہ یہود شریر الطبع نے حضرت مسیح پر بہتان لگایا تھا کہ ان کی ولادت روح القدس کی شراکت سے نہیں بلکہ شیطان کی شراکت سے ہے یعنی ناجائز طور پر.اس لئے خدا نے اس بہتان کی ذب اور دفع کے لئے اس بات پر زور دیا کہ مسیح کی پیدائش روح القدس کی شراکت سے ہے اور میں مس شیطان سے پاک ہے.اس سے یہ نتیجہ نکالنا لعنتیوں کا کام ہے کہ دوسرے نبی مس شیطان سے پاک نہیں ہیں.بلکہ یہ کلام محض یہودیوں کے خیال باطل کے دفع کے لئے ہے کہ مسیح کی ولادت مس شیطان سے ہے یعنی حرام طور پر.پھر چونکہ یہ بحث مسیح میں شروع ہوئی اس لئے روح القدس کی پیدا ا ضرب المثل مسیح ہو گیا.ورنہ اس کو ، پیدائش میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ذرہ ترجیح نہیں بلکہ دنیا میں معصوم کامل صرف محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوا ہے.اور بعض حدیثوں کے یہ الفاظ کہ مس شیطان سے پاک صرف اور اس کی ماں یعنی مریم ہے.یہ لفظ بھی یہودیوں کے مقابل پر مسیح کی پاکیزگی ظاہر کرنے کے لئے ہے گویا یہ فرماتا ہے کہ دنیا میں صرف دو گروہ ہیں.ایک وہ جو آسمان پر کہلاتے ہیں اگر
۲۳۱ مرد ہیں.اور مریم کہلاتے ہیں اگر عورت ہیں.دوسرے وہ گروہ ہے جو آسمان پر یہود مغضوب علیم کہلاتے ہیں.پہلا گروہ مس شیطان سے پاک ہے اور دوسرا گروہ شیطان کے فرزند ہیں.؟ "t (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد۱۷.صفحہ ۳۲۴ حاشیہ ) مقام مریمیت سے مقام عیسویت تک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ ءَامَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْنَا فِي الْجَنَّةِ وَنَجْنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ، وَنَجنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ) وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرَجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ، وَكَانَتْ مِنَ الْقَنِنِينَ ) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مثال فرعون کی بیوی اور حضرت مریم ترجمہ : اور مومنوں کی حالت اللہ تعالی فرعون کی بیوی کی طرح بیان کرتا ہے جبکہ اس نے اپنے رب سے کہا کہ اے خدا ! تو اپنے پاس ایک گھر جنت میں میرے لئے بھی بنا دے اور مجھ کو فرعون اور اس کی بد اعمالیوں سے بچا اور اسی طرح اس کی ظالم قوم سے نجات دے.اور پھر اللہ تعالی فرماتا ہے.مومن کی حالت مریم کی طرح ہے جو عمران کی بیٹی تھی.جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی اور ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اس کلام کی جو اس کے رب نے اس پر نازل کیا تھا تصدیق کر دی تھی اور وہ اس کی کتابوں پر ایمان لائی تھی اور اس نے فرمانبرداری کا مقام حاصل کر لیا تھا.
۲۳۲ صدیقہ سے دی ہے یعنی مومن دو قسم کے ہوتے ہیں.اول : وہ جو نیکی اور تقوی پر قائم ہوتے ہیں مگر مس شیطان سے بھلی پاک نہیں ہوتے.بلکہ کبھی کبھار وہ جذبات نفسانی کے نیچے دب جاتے ہیں لیکن بہت جلد نَجنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ کا وظیفہ شروع کر دیتے ہیں اور عنایت الہی ان کی دستگیری فرماتی ہے.یہ مومن حضرت آسیہ زوجہ فرعون سے مشابہ ہیں.دوم : وہ مومن جو شیطان کے تمام راستوں کو بند کر کے احسان کی صفت سے متصف ہو جاتے ہیں بلکہ شیطان ان کے راستے چھوڑ کر دوسری راہ پر آجاتا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو مقام مریمیدیت کے وارث ہوتے ہیں.ان کو ہی آیات بالا میں حضرت صدیقہ سے مشابہ قرار دیا گیا ہے.حضرت مریم کے بارہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے.أُمه صديقه کہ مسیح علیہ السلام کی ماں صدیقہ تھیں.یعنی حضرت مریم مقام صدیقیت پر متمکن تھیں.اس سے یہ معلوم ہوا کہ مریمی صفات کا حامل مومن مقام صدیقیت پر فائز ہوتا ہے.وہ صَدَقَتْ بِكَلِمَتِ رَيْهَا کا مصداق اور الْقَنِینَ کے زمرہ میں شامل ہوتا ہے.اور اس عظیم مرتبہ تک مرد مومن بمنزلہ عورت کے ہوتا ہے.چنانچہ حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں مقالہ کو لا تكشف البرقع والقناع...عن وجهك سے شروع فرمایا ہے.جس کی شرح میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں."" در تعبیر برقع و قناع که از لباس نساء است اشار تست بانکه مرد تا ظهور کمال و تحقیق برہان توحید حکم زنان دارد و دعوی مردانگی ازوے درست نیاید (فتوح الغیب.صفحہ ۱۱۹ - المقالہ السادسة والعشرون )
۲۳۳ یعنی برقع اور قناع کی تعبیر یہ ہے کہ یہ عورت کا لباس ہے.اس میں اشارہ یہ ہے کہ ظہور کمال تک مرد بھی بمنزلہ عورت کے ہوتا ہے.پس اس میں ہر طالب کو عورت قرار دیا گیا ہے.اور یہ لطیف استدلال مذکورہ بالا آیات کریمہ.وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ سے کیا گیا ہے.کہ بعض ان میں سے صفت آسیہ سے متصف ہوتے ہیں اور بعض مریمی رنگ میں رنگین ہوتے ہیں.پھر جب ایسا مومن مقام مریمیت سے ترقی کی جانب قدم اٹھاتا ہے تو فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا ☆ کا مصداق بن جاتا ہے.خدا تعالیٰ اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے.تو وہ مرد مومن جو سلوک کی راہ میں بمنزلہ عورت کے ہوتا ہے معنوی طور پر حاملہ ہو جاتا ہے یعنی مریمی قالب میں عیسوی بچہ تیار ہو جاتا ہے.پھر ولادت معنوی کا وقت ہوتا ہے جس کو درد زہ کی تکلیف دہ کیفیت سے مناسبت ہوتی ہے.اور مومن کامل مقام رسالت پر فائز ہو جاتا ہے.حدیث نبوی ” علماء امتی کا بیاء بنی اسرائیلی اس پر دال ہے.گو یہ ضروری نہیں کہ اسے رسول کا خطاب دیا جائے.بہر حال اس مقام پر ایک سالک روحانی لحاظ سے عورت کی صفات سے ترقی کر کے مردانگی کی." ہ اس آیت میں حضرت مریم کے ذکر کے ساتھ " ہ " کی ضمیر مذکر استعمال کر کے خدا تعالی نے یہ وضاحت فرما دی کہ یہاں مریم سے مراد مرد مومن ہے جو صفات مریمیہ سے ترقی کر کے صفات عیسوی کا جامہ پہن لیتا کیونکہ اگر یہاں حضرت مریم جو کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ تھیں ، ان کا ذکر ہوتا تو ضمیر " ہ " کی بجائے " ھا " استعمال ہونی چاہئے تھی جو کہ تانیث کے لئے استعمال ہوتی ہے.پس یہاں مذکر ضمیر استعمال میں لا کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہاں کلام تمثیلی ہے.ہے.
۲۳۴ صفات کا حامل ہو جاتا ہے یعنی مقام مرمیت سے مقام عیسویت تک پہنچ جاتا ہے.تصوف کی زبان میں اسے ولادت معنوی یا ولادت ثانیہ کہا جاتا ہے.چنانچہ مشہور صوفی امام الطائفہ الشیخ الشہر وردی فرماتے ہیں.يصير المريد جزء الشيخ كما أن الولد جزء الوالد في الولادة الطبعية وتصير هذه الولادة آنفاً ولادة معنوية كما ورد عن عيسى صلوات الله عليه، لن يلج ملكوت السماء من لم يولد مرتين.فبالولادة الأولى يصير له ارتباط بعالم الملك ، وبهذه الولادة يصير له ارتباط بالملكوت ، قال الله تعالى : [ وكذلك نري ابرهيم ملكوت السموات والأرض وليكون من الموقنين.وصرف اليقين على الكمال يحصل في هذه الولادة، وبهذه الولادة يستحق ميراث الأنبياء ومن لم يصله ميراث الأنبياء ما وُلد وإن كان على كمال من الفطنة والذكاء».عوارف المعارف، جلد أول ص ٨٥ وص ١٢٥ و ١٢٦).کہ مرید اپنے شیخ کا اسی طرح حصہ بن جاتا ہے جس طرح کہ ولادت طبعی میں بیٹا اپنے باپ کا حصہ ہوتا ہے.مرید کی ولادت ، ولادت معنوی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت عیسی نے فرمایا ہے کہ جو شخص دو دفعہ پیدا نہیں ہوتا وہ خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا.ولادت طبعی سے انسان کا دنیا سے تعلق ہوتا ہے اور ولادت معنوی سے ملکوت اعلی کے ساتھ.یہی معنے اس آیت کے ہیں.....وَكَذَلِكَ نُرِى إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ...خالص اور کامل یقین اسی ولادت کے ساتھ حاصل ہوتا ہے.اس پیدائش کے ساتھ ہی انسان انبیاء کی وراثت کا مستحق ہوتا ہے.جس شخص کو وراثت انبیاء نہ ملے وہ باوجود دانا و ہوشیار ہونے کے پیدا نہیں ہوتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موتوا قبل ان تمولوم کہ مرنے سے پہلے موت قبول کرو.یعنی حقیقی زندگی خواہشات پر موت وارد کرنے کے بغیر ناممکن الحصول ہے.گویا فرمایا کہ جب تم گناہ آلود جامہ کو سانپ کی کینچلی
۲۳۵ کی طرح بدل لو گے ، تم نئے انسان ہو گے.اسی کا نام اصطلاح تصوف میں ولادت ثانیہ ہے.چنانچہ تمام صوفیاء اس لفظ "ولادت " کو استعمال کرتے ہیں.مشہور صوفی حضرت سہیل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں.الخوف ذكر والرجاء انثى معناه منهما تولد حقائق الإيمان».(شرح التعرف (قلمي) ص ٥٧).یعنی خوف مذکر ہے اور امید مونث.ان کے ملنے سے حقیقت ایمان پیدا ہوتی ہے.مریم سے عیسیٰ بننے کی کیفیت اور ولادت معنوی کے بارہ میں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں.ہمچو مریم جان ز آسیب حبیب حاملہ شد از مسیح دلفریب کہ مریم کی جان حبیب کے سائے سے حاملہ ہوئی اور اس نے دلفریب مسیح کو حمل میں لیا.یعنی مریم صفت مومن پر جب اللہ تعالی نفخ روح کرتا ہے تو وہ عیسوی بچے کو روحانی طور پر حمل میں لے لیتا ہے.پھر ایک اور مقام پر فرمایا.اند جان با در اصل خود عیسی دم زماں زخم اند دیگر مرہم اند گر حجاب از جان با برخاسته گفت ہر جانے مسیحا آساستے یعنی جانیں اپنے اصل کے لحاظ سے عیسی دم ہی ہیں.کبھی وہ زخم ہوتی ہیں ہی وہ ہوتی اور کبھی مرہم.اگر جانوں سے حجاب اٹھ جائے تو ہر جان کہنے لگے کہ میں مسیح ہی کی طرح ہوں.چنانچہ ان صفات سے متصف اولیاء اللہ اور کاملین نے عیسی ہونے کا دعوی
۲۳۶ کیا.شاہ نیاز احمد دہلوی فرماتے ہیں.عیسی مریی منم ، احمد ہاشمی منم حیدر شیر نر منم ، من نه منم من منم دیوان شاہ مولانا نیاز احمد.مطبوعہ ۱۲۹۰ ھ.صفحہ ۲۲ ) کہ میں ہی عیسی بن مریم ہوں.میں ہی احمد ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں.میں ہی علی ہوں ، میں ، میں نہیں ہوں ، میں ، میں ہوں.اور حضرت شیخ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں.د میدم روح القدس اندر معینے میدند من نمی گویم مگر من عیسی ثانی شدم کہ روح القدس ہر وقت معین کے اندر جلوہ گر رہتا ہے میں کہتا نہیں مگر میں عیسی ثانی ہوں.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں.صد ہزاراں یو سفے بینم در این چاه ذقن واں مسیح ناصری شد از دم او بے شمار کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹھوڑی کے گڑھے میں لاکھوں یوسف دیکھتا ہوں اور اس کے دم سے بے شمار مسیح پیدا ہوئے.اور حضرت خواجہ میر درد دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے تو یہاں تک اس حقیت سے پردہ اٹھا دیا کہ اللہ ! اللہ ! ہر انسان بقدرت کاملہ حق تعالی عینی وقت خویش است و ہر دم او را برائے خود معامله نفس عیسوی پیش است.te ( رساله ورو) کہ اللہ اللہ ! ہر انسان خدا کی قدرت سے اپنے وقت کا عیسی ہے اور اس کے
۲۳۷ ساتھ عیسوی معاملہ در پیش رہتا ہے.جید اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.☑ یسوع ناصری نے اپنا قدم قرآن کی تعلیم کے موافق رکھا.اس لئے اس نے خدا سے انعام پایا.ایسا ہی جو شخص اس پاک تعلیم کو اپنا یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر مقام عیسوی مرتبہ رسالت ہے تو اس قدر لوگ مقام نبوت پر فائز کیسے ہوئے.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک نبی کی خبر دی ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ (ألا إنه ليس بيني وبينه نبي ولا رسول».(طبراني في الأوسط والكبير.اس کا جواب یہ ہے کہ مقام عیسوی پر پہنچنے والے امت میں بے شک کئی اولیاء اللہ ہیں لیکن ان کو نبی کا لقب نہیں دیا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علماء أمتي كأنبياء بنى اسراءيل».بهجة النظر بر حاشية نزهة النظر شرح نخبة الفكر : ص ٤ الى ایسے لوگ بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہوں گے.یعنی ان کا مرتبہ نبیوں کا ہے لیکن نام نبی نہیں رکھا گیا.ان میں صرف ایک شخصیت ایسی ہے کہ جس کی آمد کی خبر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تو اسے مسیح اور نبی کا لقب عطا فرمایا.اسے پھر اللہ تعالی نے بھی نبی کہہ کر پکارا اور حضرت مسیح علیہ السلام سے کمال مشابہت عطا فرمائی.اس مسئلہ کا قرآن کریم نے ایک اور پہلو بھی بیان فرمایا ہے وہ آیت سَلَامُ عَلَى الْيَاسِينَ میں مذکور ہے.اس آیت میں حضرت الیاس پر ہی سلامتی نہیں بھیجی گئی بلکہ ان کے ساتھ اور الیاس بھی جمع کر دئے گئے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام نے یحی علیہ السلام کو ایلیا قرار دے کر انہیں الیاس ثابت کیا اور اپنے لئے ارہاص کے طور پر بیان فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت سید احمد شہید کو اپنے لئے الیاس کے رنگ میں
۲۳۸ رہبر بنائے گاوہ بھی یسوع کی مانند ہو جائے گا.یہ پاک تعلیم ہزاروں کو عیسی مسیح بنانے کے لئے تیار ہے اور لاکھوں کو بنا چکی ہے." سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن.جلد ۱۲.صفحہ ۳۴۸) عیسی کے معجزوں نے مردے جلا دیئے محمد کے معجزوں نے عیسیٰ بنا دیئے زاد زاں مریم مسیح ایں زماں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں وضاحت فرما دی ہے کہ وہ اس امت کے بعض افراد کو مقام مریمی عطا فرمائے گا.اور بعض کو اس مقام سے ترقی دے کر نفخ روح کے ذریعہ عیسوی مرتبہ تک پہنچائے گا.یہی ذکر حدیث نبوی میں بھی ملتا ہے.پس وہ موعود نبی جس نے مسیح کی قوت اور طبع پر خیر امت میں ظہور کرنا تھا اس کو بھی مریم اور ابن مریم کا نام دیا گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانہ میں مسیح اور عیسیٰ بن کر مبعوث ہوئے.آپ ایک وقت تک حالت مریمی میں رہے اور پھر خدا تعالیٰ نے آپ کو نفخ روح کے ذریعہ عیسی بنا دیا.چنانچہ حضور علیہ السلام مقام مرکمیت سے مقام ارہاص کے طور پر بیان فرمایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ الیاس کا مقام ارہا صیت کا مقام ہے جو ہر مسیح کے لئے پیشرو اور راہ درست کرنے والے کے طور پر ہے.پس جب مومن خدا تعالیٰ کی طرف سے نفخ روح کے بعد مقام عیسویت یا مقام مسیحیت کو پہنچتا ہے تو اس مقام کے حصول سے ماقبل حالت اس کے لئے مقام الیاسیت ہے جو کہ مسیح اور کے لئے بطور الیاس (ایلیا) کے ہے.لہند آیت کریمہ سَلَامُ عَلَى إِلْيَا سِينَ میں ہر اس الیاس کے لئے خدا کی طرف سے سلامتی کا وعدہ ہے جو مقام محفوظ پر پہنچ کر عیسی اور مسیح کے مقام پر فائز ہونے کے لئے تیار ہوتا ہے.
۲۳۹ عیسوتیت تک سفر اور نفخ روح اور ولادت معنوی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.” یہ ایک استعارہ تھا جو کسی کی سمجھ میں نہ آیا.اس کے لئے یہی وقت مقدر تھا.پھر عجیب تر بات یہ ہے کہ مریم ، نفخ روح اور میرا نام عیسی رکھنے کے الہاموں میں صرف ۹ یا ۱۰ ماہ کا فاصلہ ہے ، جو کہ مدت " حمل ہے.ان تمام ترقیات کا سلسلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.لملفوظات.جلد ۴.صفحہ ۳۸۶) ” خدا تعالیٰ کا پاک کلام جو میری کتاب براہین احمدیہ کے بعض مقامات میں لکھا گیا ہے.اس میں خدا تعالیٰ نے بتصریح ذکر کر دیا ہے کہ کس طرح مجھے عیسیٰ بن مریم ٹھہرایا.اس کتاب میں پہلے خدا نے میرا نام مریم رکھا اور بعد اس کے ظاہر کیا کہ اس مریم میں خدا کی طرف سے روح پھونکی گئی اور پھر فرمایا کہ روح پھونکنے کے بعد مریکی مرتبہ عیسوی مرتبہ کی طرف منتقل ہو گیا اور اس طرح مریم سے عیسی پیدا ہو کر ابن مریم کہلایا.پھر دوسرے مقام میں اس مرتبہ کے متعلق فرمایا.فاجاءه المخاض إلى جذع النخلة قال يا ليتني مت قبل هذا وكنت نسيا منسيا».اس جگہ خدا تعالیٰ ایک استعارہ کے رنگ میں فرماتا ہے کہ جب اس مامور میں مریمی مرتبہ سے عیسوی مرتبہ کا تولد ہوا اور اس لحاظ سے یہ مامور ابن مریم بنے لگا تو تبلیغ کی ضرورت جو درد زہ سے مشابہت رکھتی ہے اس کو امت کی خشک جڑھ کے سامنے لائی.جن میں فہم اور تقوی کا پھل نہیں تھا اور وہ طیار تھے کہ ایسا دعوی سن کر افتراء کی ہمتیں لگا دیں اور دکھ دیں اور طرح طرح کی باتیں اس کے حق میں کریں تب اس نے اپنے دل میں
۲۴۰ کہا کہ کاش میں پہلے سے مرجاتا اور ایسا بھولا بسرا ہو جاتا کہ کوئی میرے نام سے واقف نہ ہوتا.et (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن.جلد ۲۲.صفحہ ۷۵ حاشیہ ) - ” میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الہی اور مسیح موعود ہونے کا دعوی تھا.اسی کی نسبت میری گھبراہٹ ظاہر کرنے کے لئے یہ الہام ہوا تھا.فاجاءه المخاض إلى جذع النخلة قال يا ليتني مت قبل هذا وكنت نسيا منسيا».مخاض سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جذع النخلة سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی اولاد مگر صرف نام کے مسلمان ہیں.بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ درد انگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہو جانا تھا اس مامور کو قوم کے لوگوں کی طرف لائی جو کھجور کی خشک شاخ یا جڑ کی مانند ہیں.تب اس نے خوف کھا کر کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مر جاتا اور بھولا بسرا ہو جاتا." ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن.جلد ۲۱.صفحہ ۶۸ ، ۶۹ حاشیه ) وَهُزَى إِلَيْكِ بجذع النَّخْلَةِ تُسَقِطْ عَلَيْكِ رُطَبَا جَنِيًّا یہ حضرت مریم کو اس وقت وحی ہوئی تھی کہ جب ان کا لڑکا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوا تھا اور وہ کمزور ہوئی تھیں.اور خدا تعالیٰ نے اسی کتاب براہین احمدیہ میں میرا نام بھی مریم رکھا اور مریم صدیقہ کی طرح مجھے بھی حکم دیا وكن من الصالحين الصديقين».دیکھو ۲۴۲ براہین احمدیہ.بس یہ میری وحی یعنی «هز إليك.اس
۲۴۱ بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ صدیقیت کا جو حمل تھا اس سے بچہ پیدا ہوا.جس کا نام عیسی رکھا گیا.اور جب تک وہ کمزور رہا صفات مرسیمیہ اس کی پرورش کرتی رہیں.اور جب وہ اپنی طاقت میں آیا تو اس کو پکارا گیا اور يا عيسي إني متوفيك ورافعك إلي].دیکھو ۵۵۶ براہین احمدیہ.یہ وہی وعدہ تھا جو سورہ تحریم میں کیا گیا ضرور تھا کہ اس وعدہ کے موافق اس امت میں سے کسی کا نام مریم ہوتا اور پھر اس طرح ترقی کر کے اس سے عیسی پیدا ہوتا اور وہ کہلاتا.سو وہ میں ہوں.وحی [هذي إليك].مریم کو بھی ہوئی اور مجھے بھی.مگر باہم فرق یہ ہے کہ اس وقت مریم ضعف بدنی میں مبتلا تھی اور میں ضعف مالی میں مبتلا تھا.( نزول اسیح - روحانی خزائن.جلد ۱۸.صفحہ (۵۴) et ” جب میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ تصنیف کی جو میری پہلی تصنیف ہے تو مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ اس کی چھپوائی کے لئے کچھ روپیہ نہ تھا اور میں ایک گمنام آدمی تھا.مجھے کسی سے تعارف نہ تھا تب میں نے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کی تو مجھے یہ الہام ہوا هز اليك بجذع النخلة تساقط عليك رطبا جنيا».دیکھو براہین احمدیہ ۲۳۱.(ترجمہ) کھجور کے تنہ کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجور میں گریں گی.چنانچہ میں نے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے سب سے اول خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کی طرف مائل کر دیا اور انہوں نے بلا توقف اڑھائی سو روپیہ بھیج دیا اور پھر دوسری دفعہ اڑھائی سو روپیہ دیا.اور چند آدمیوں نے روپیہ کی مدد کی
۲۴۲ اور اس طرح پر وہ کتاب باوجود نومیدی کے چھپ گئی اور پیش گوئی پوری ہو گئی.یہ واقعات ایسے ہیں کہ صرف ایک دو آدمی ان کے گواہ بس بلکہ ایک جماعت کثیر گواہ ہے.جس میں ہندو بھی ہیں.اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ وحی الہی کہ هز إليك بجذع النخلة یہ حضرت مریم کو قرآن شریف میں خطاب ہے.جب لڑکا پیدا ہونے سے وہ بہت کمزور ہو گئی تھیں اور غذا کے لئے خدا تعالی کی مدد کی محتاج تھیں.اسی طرح براہین احمدیہ میرے لئے بطور بچہ کے بھی جو پیدا ہوا اور یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ تالیفات کی نسبت یہ عام محاورہ ہے کہ ان کو نتائج طبع کہتے ہیں.یعنی طبعزاد بچے.اور جبکہ براہین احمدیہ میرا بچہ ٹھیرا جو پیدا ہوا تو اس کے پیدا ہونے کے وقت میں بھی اپنی مالی حالت میں کمزور تھا.جیسا کہ مریم کمزور تھی اور اپنے طور پر اس بچہ کی پرورش بچہ کے لئے یعنی اس کے طبع کے لئے غذا حاصل نہیں کر سکتا تھا تو مجھے بھی مریم کی طرح یہی حکم ہوا کہ هر إليك بجذع النخلة».پس اس پیش گوئی کے مطابق سرمایہ کتاب اکٹھا ہو گیا اور پیش گوئی پوری ہو گئی.اور اس روپیہ کا آنا بالکل غیر متوقع تھا.کیونکہ میں گمنام تھا اور یہ میری پہلی تالیف تھی اور یہ نقطہ یا د ر کھنے کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں مجھے عیسی کے نام سے موسوم کرنے سے پہلے میرا نام مریم رکھا.اور ایک مدت تک میرا نام خدا کے نزدیک یہی رہا.اور پھر خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اے مریم میں نے تجھے میں سچائی کی روح پھونک دی.گویا یہ مریم سچائی کی روح سے حاملہ
۲۴۳ ہوئی.اور پھر خدا نے براہین احمدیہ کے آخیر میں میرا نام عیسی رکھ دیا.گویا وہ سچائی کی روح جو مریم میں پھونکی گئی تھی ظہور میں آکر عیسی کے نام سے موسوم ہو گئی.پس اس طرح پر میں خدا کی کلام میں کہلایا.اور یہی معنے اس وحی الہی کے ہیں کہ الحمد لله الذي جعلك المسيح ابن مريم».وو ) حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن.جلد ۲۲ - صفحہ ۳۵۰ تا ۳۵۲) سورہ تحریم میں بھی اشارہ کیا ہے کہ بعض افراد امت کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ مریم صدیقہ سے مشابہت رکھیں گے.جس نے پارسائی اختیار کی.تب اس کے رحم میں عیسیٰ کی روح پھونکی گئی اور عیسیٰ اس سے پیدا ہوا.اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس امت میں ایک شخص ہو گا کہ پہلے مریم کا مرتبہ اس کو ملے گا.پھر اس میں عیسیٰ کی روح پھونکی جاوے گی تب مریم میں سے عیسی نکل آئے گا.یعنی وہ مریمی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا.گویا مریم ہونے کی صفت نے عیسی ہونے کا بچہ دیا.اور اس طرح پر وہ کہلائے گا.جیسا کہ براہین احمدیہ میں اول میرا نام مریم رکھا گیا اور اسی کی طرف اشارہ ہے الہام صفحہ ۲۴۱ میں اور وہ یہ ہے کہ انى لك هذا.یعنی اے مریم تو نے یہ نعمت کہاں سے پائی.اور اس کی طرف اشارہ ہے صفحہ ۲۲۶ میں یعنی الہام میں کہ «هز إليك بجذع النخلة».یعنی اے مریم کھجور کے تنہ کو ہلا.اور پھر اس کے بعد ۴۹۶ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے اسكن أنت وزوجك الجنة.نفخت فيك من لدني روح الصدق».
۲۴۴ یعنی اے مریم تو مع اپنے دوستوں کے بہشت میں داخل ہو.میں نے تجھ میں اپنے پاس سے صدق کی روح پھونک دی.خدا نے اس آیت میں میرا نام روح الصدق رکھا.یہ اس آیت کے مقابل پر ہے کہ فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا پس اس جگہ گویا استعارہ کے رنگ میں مریم کے پیٹ میں عیسیٰ کی روح جا پڑی جس کا نام روح الصدق ہے.پھر سب سے آخر صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ میں وہ عیسیٰ جو مریم کے پیٹ میں تھا اس کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ الہام ہوا يا عيسى إني متوفيك ورافعك إلي وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا إلى يوم القيامة اس جگہ میرا نام عیسیٰ رکھا گیا اور اس الہام نے ظاہر کیا کہ وہ عیسیٰ پیدا ہو گیا جس کی روح کا نفخ ۴۹۶ میں ظاہر کیا گیا تھا.پس اس لحاظ سے میں عیسی بن مریم کہلایا کیونکہ میری عیسوی حیثیت مریمی حیثیت سے خدا کے نفخ سے پیدا ہوئی." کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۴۸ ، ۴۹) براہین احمدیہ میں اول خدا نے میرا نام مریم رکھا اور پھر فرمایا کہ میں نے مریم میں صدق کی روح پھونکنے کے بعد اس کا نام عیسی رکھ دیا گویا مریمی حالت سے عیسی پیدا ہو گیا اور اس طرح میں خدا کے کلام میں کہلایا.اس بارہ میں قرآن شریف میں بھی اشارہ ہے اور وہ میرے لئے بطور پیش گوئی کے ہے.یعنی اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اس امت کے بعض افراد کو مریم سے تشبیہ دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ وہ مریم عیسیٰ سے حاملہ ہو گئی.اور اب ظاہر ہے کہ اس امت میں
۲۴۵ بجز میرے کسی نے اس بات کا دعوی نہیں کیا کہ میرا نام خدا نے مریم رکھا اور پھر اس مریم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی ہے.اور خدا کا کلام باطل نہیں.ضرور ہے کہ اس امت میں اس کا کوئی مصداق ہو.اور خوب غور کر کے دیکھ لو اور دنیا میں تلاش کر لو کہ قرآن شریف کی اس آیت کا بجز میرے کوئی دنیا میں مصداق نہیں.پس یہ پیش گوئی سورہ تحریم میں خاص میرے لئے ہے اور وہ آیت یہ ہے.و مريمَ ابْنَتَ عِمْرَنَ الَّتى أَحْصَنَتْ فَرَجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا دیکھو سورہ تحریم الجزء ۲۸ ( ترجمہ ) اور دوسری مثال اس امت کے افراد کی مریم عمران کی بیٹی ہے جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا تب ہم نے اس کے پیٹ میں اپنی قدرت سے روح پھونک دی یعنی عیسی کی روح.اب ظاہر ہے کہ نمو جب اس آیت کے اس امت کی مریم کو پہلی مریم کے ساتھ تب مشابہت پیدا ہوتی ہے کہ اس میں بھی عیسی کی روح پھونک دی جائے.جیسا کہ خدا نے خود روح پھونکنے کا ذکر بھی اس آیت میں فرما دیا ہے اور ضرور ہے کہ خدا کا کلام پورا ہو.پس اس امت میں وہ میں ہی ہوں.میرا ہی نام خدا نے براہین احمدیہ میں پہلے مریم رکھا اور بعد اس کے میری ہی نسبت یہ کہا کہ ہم نے اس مریم میں اپنی طرف سے روح پھونک دی اور پھر روح پھونکنے کے بعد مجھے ہی عیسی قرار دیا.پس اس آیت کا میں ہی مصداق ہوں.میرے سوا تیرہ سو برس میں کسی نے یہ دعوی نہیں کیا ہیں کہ پہلے خدا نے میرا نام حمي امت مسلمہ میں مریم و عیسی بنے والے تو بہت سے افراد ہیں اور سورہ تحریم میں بھی جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان صفات کے حامل افراد سے زیادہ ہوں گے.حضرت مولانا روم اور خواجہ میر درد کے نزدیک تو ہر کامل ایک.
۲۴۶ مریم رکھا اور مریم میں اپنی روح پھونک دی جس سے میں عیسیٰ بن اسی (حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن.جلد ۲۲ صفحہ ۳۵۰ ، ۳۵۱) حقیقت کو اور انہیں تجربات قلبی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی منظوم کلام میں بھی بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں.آنکه گوید چون شدی هست او غافل ز راز ایزدی اں خدائے قادر و رب العباد در براہیں نام من مریم نہاد تے بودم برنگ مریمی دست تا داده پیران زمی بہ بعد ازاں آں قادر و رب مجید روح عیسی اندران مریم دمید پس بنفخش رنگ دیگر شد عیاں زاد زاں مریم مسیح این زماں مومن صفت عیسویت سے متصف ہوتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس لحاظ سے منفرد و یکتا ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنی جناب سے مریم اور عیسیٰ کے خطاب سے نوازا اور مقام صدیقیت سے مقام نبوت پر فائز فرمایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پیش گوئیوں میں آپ کو نبی کے طور پر پیش فرمایا.یہ ایسا منفرد و یکتا مقام ہے کہ تیرہ سو سال میں دوسرے مریمی و عیسوی صفات مومنین اس مقام پر فائز نہیں.
۲۴۷ ترجمه زیں سبب شد مریم نا من من زانکه مریم بود اول گام بعد ازاں از شیخ حق عیسی شدم شد زجائے مریمی برتر قدم ایں ہمہ گفت است ربّ العالمیں گر نمے دانی براہیس را ببین ) حقیقة الوحی روحانی خزائن ( جلد ۲۲ - صفحہ ) (1) جو شخص یہ کہتا ہے کہ تو کس طرح بن گیا وہ خدائی راز سے غافل ہے.(۲) اس قادر خدا اور رب العباد نے براہین احمدیہ میں میرا نام مریم رکھا تھا.(۳) میں ایک مدت تک مریم کے رنگ پر رہا یعنی مشائخ زمانہ کے ہاتھوں میں ہاتھ نہیں دیا.(۴) اس کے بعد اس قادر اور مجید خدا نے اسی مریم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی.(۵) پھر اس نفخ کے بعد ایک اور رنگ ظاہر ہوا یعنی اس مریم سے اس زمانے کا مسیح پیدا ہوا.(1) میرا نام اس لئے ہوا کہ مریم بننا میرا پہلا قدم تھا.(۷) پھر میں خدائی نفخ کے سبب سے عیسی ہو گیا اور مقام مریمی سے میرا قدم اونچا ہو گیا.(۸) یہ سب باتیں رب العالمین کی فرمودہ ہیں.اگر تجھے علم نہیں تو براہین احمدیہ کو
باب پنجم آسماں سے آگیا وہ کا مثیل ختم المرسلیں کا ایک فرزند جلیل تھا جو
الهام التي ۲۵۱ «إني معك يا ابن رسول الله».(تذكرة ص ٥٧٧).
فرمان مسیحائے زماں ۲۵۲ اني فما المال ورثت مال الا اله المتخير اور میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کا وارث بنایا گیا ہوں.پس میں اس کی آل بر گزیدہ ہوں جس کو ورثہ پہنچ گیا.
۲۵۳ (ماریه ) 00 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب ( ۵ ) میں خاتم النبیین کے بے مثل خطاب سے نوازا اور ۸ ھ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے آپ کو ابراہیم عطا فرمایا.مگر بقضائے الہی یہ جلیل القدر فرزند ۱۷ ، ۱۸ ماہ کے بعد دنیائے فانی سے منہ موڑ گیا وہ ایک غنچۂ دلربا تھا جو صحن شریعت میں رنگ و بو کے ساتھ رونما ہوا اور دست فنا نے اسے چن لیا.آسمان روحانی کا درخشندہ ستارہ تھا ، ٹمٹمایا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا.وہ روحانی استعدادوں کا مجسمہ تھا اور نورانی صلاحیتوں کا پتلا.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لو عاش ابراهيم لكان صديقا نبيًّا.(ابن ماجه كتاب الجنائن کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو یقینا سچا نبی بنتا.اور پھر یہ بھی فرمایا أما والله إنه لنبي ابن نبي.وہ (كنز العمال ، جلد ٦ ص ۱۱۸ ، كتاب الفضائل من قسم الأقوال).کہ خدا کی قسم ( میرا بیٹا ابراہیم ) نبی ابن نبی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس بیٹے کی وفات کا بہت صدمہ ہوا کہ اس کی تدفین کے وقت اس غم کی غمازی رخسار مبارک پر ڈھلکے ہوئے آنسو کر رہے تھے.آپ نے فرمایا انا بفراقك يا ابراهيم لمحزونون.
۲۵۴ اے ابراہیم ہم تیرے فراق سے مغموم ہیں یہ -.جہاں لخت جگر جیسی عزیز شئے کا کھو جانا غم کا سبب بنا وہاں کفار کے یہ طعنے کہ آپ کی نسل نہیں چلے گی..آپ کی نرینہ اولاد کوئی نہیں ہم نہ کہتے تھے کہ آپ ( نعوذ باللہ ) ابتر ہوں گے ، بہر حال تکلیف کا باعث تھے.خدا تعالیٰ کی یقینی بشارت.إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ سے آپ مطمئن تھے.نیز یہ بھی خدا تعالیٰ نے بتایا تھا إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ لیکن کہ آپ کا دشمن ہی ابتر ہو گا.یہ دشمن جھوٹا ثابت ہو گا اور دنیا دیکھ لے گی کہ دشمن تو بغیر نرینہ اولاد کے رہے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں لڑکا ہو گا.یعنی اس کو وہ نرینہ اولاد عطا نہیں ہوگی جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وعدہ دیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کے اس فرمان کو تاریخ ہمارے سامنے ایک انوکھے اور اچھوتے رنگ میں پیش کرتی ہے..وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقریبا ہر دشمن کے ہاں نرینہ اولاد تھی جس کی وجہ سے ان کی نسلیں بظاہر قائم رہیں.مگر آپ کے ہاں جو نرینہ اولاد ہوئی وہ وفات پاگئی.کوئی لڑکا بھی زندہ نہ رہا..ابراہیم بھی فوت ہو گیا.گویا آپ کی جسمانی نسل ظاہری لحاظ سے ختم ہو گئی.حالانکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ اس صورت حال کے پیش نظر مذکورہ بالا آیات کا مفہوم در حقیقت یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے جو اولاد کی عطا کا وعدہ دیا تھا وہ جسمانی اولاد کا نہیں بلکہ روحانی اولاد کا ہے.إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتر
۲۵۵ دراصل کیا.إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ کے مقابلہ میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ! ہم نے تجھے کوثر عطا فصل لربك وانحر پس تو دعائیں مانگ اور قربانیاں پیش کر.اس کے نتیجہ میں تیرا دشمن بے اولا د رہے گا.گا.ہیں..دعاوں اور قربانیوں کی شرط سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اس اولاد سے کوئی ایسا عظیم المرتبت وجود مراد ہے جو روحانیت کے لحاظ سے آپ کی اولاد میں سے ہو دعائیں اور قربانیاں ہی دشمن دین کو ابتر اور ناکام اور نامراد کرتی اور دعاوں اور قربانیوں کی وجہ سے ہی آپ کے لئے کوثر مقدر تھا لیکن فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر کے نتیجہ میں یہ کہنا کہ دشمن ظاہری اولاد سے محروم ہو جائے گا ، کوئی معقول توجیہہ نہیں پس در حقیقت فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْجَر کے نتیجہ میں آپ کے دشمن کا کمزور ہو جانا ، اس کے سلسلہ کا ختم ہو جاتا اور آپ کے سلسلہ کا ترقیات کی منازل طے کرنا اور پھر ایک ایسے وجود کا پیدا ہونا مراد ہے جو آپ کے فیض سے مستفیض اور آپ کے نور سے کامل طور پر منور ہو کیونکہ آیت إِن شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَر سے یہ واضح ہے کہ دشمن کی نسل منقطع ہو جائے گی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل ہمیشہ قائم رہے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خدا تعالیٰ نے کوثر کی عطا کا وعدہ فرمایا ، اس میں ایک عجیب اور عظیم پیش گوئی ایسی بھی رکھ دی کہ جو اس لفظ کوثر میں ہی مضمر تھی.کوثر کے ایک معنی الرجل الكثير العطاء والخير.(اقرب الموارد) ایسا انسان جو بڑا سخی ہو اور بڑی کثرت سے نیکیاں پھیلانے والا ہو.پس اس آیت میں ایک معطاء یعنی بہت بڑے صدقہ دینے والے اور سخاوت کرنے والے وجود کی پیش گوئی ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں بھی ایک ایسے
۲۵۶ شخص کی خبر دی گئی ہے جو ان صفات کا حامل ہے.ظاہر ہے کہ وہ شخص اور اس آیت میں بیان کردہ شخص ایک ہی وجود ہے.کیونکہ پیش گوئی کی علامات اگر مشترک ہوں تو ” مشارالیہ“ بھی ایک ہی شخص ہوتا ہے.خصوصا جبکہ دونوں پیش گوئیاں ایک ہی سلسلہ اور ایک ہی زمانہ کے متعلق ہوں..آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی خبر کے الفاظ یہ ہیں.والذي نفسي بيده ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلاً فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد (بخاري، كتاب البيوع، باب قتل الخنزير.قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ؟ عنقریب تم میں حکم و عدل کی حیثیت سے نازل ہو گا اور صلیب کو توڑے گا.خنزیر قتل کرے گا اور جنگ کو روکے گا اور مال لٹائے گا حتی کہ کوئی اس مال کو قبول نہیں کرے گا.حدیث کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم آخری زمانہ میں اپنی امت میں آنے والے مسیح کے بارہ میں یہ خبر دیتے ہیں کہ وہ اموال لٹانے والا ہے.حدیث کے ان الفاظ کو اور لفظ کو شر کو آمنے سامنے رکھیں تو یہ دونوں الفاظ بالکل ہم معنی ہیں یعنی ” مال لٹانے والا " ، " بے انتہا صدقہ و خیرات کرنے والا.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں الفاظ صاف طور پر ایک ہی وجود کی ایک ہی صفت کو ظاہر کرتے ہیں.چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی میں شخص کی تعیین بھی کر دی گئی ہے اس لئے اس تعیین کو ہم سورہ کوثر کی پیش گوئی پر چسپاں کرنے میں نہ صرف حق بجانب ہیں بلکہ اس کے سوا ہمارے لئے اور کوئی چارہ ہی نہیں.کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مہبط وحی قرآن ہیں اس لئے قرآن کریم کے معنے کرنے کے سب سے اول حق دار آپ ہیں.پس جب آپ نے خیر امت میں آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والے مسیح کو اموال لٹانے اس
۲۵۷ والا وجود قرار دیا تو اس سے مراد وہی الرجل الكثير العطاء والخير».ہے جس کا لفظ کوثر میں ذکر ہے جس نے آپ کے فرزند کے طور پر ظہور کرنا تھا.اس آنے والے فرزند کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا پیش گوئی میں کے نام سے موسوم کیا ہے.لفظ مریم قبطی زبان میں ماریہ ، عبرانی میں مریوم ، کے تلفظ سے ادا کیا جاتا ہے اور انگریزی میں یہی لفظ میری (MARY ) کی شکل اختیار کر لیتا ہے.اس سے ایک اور مضمون سامنے آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آنے والے وجود کو ” “ کے نام سے پکارا تو یہ اس طرف اشارہ تھا کہ وہ میرا روحانی فرزند ہونے کے لحاظ سے مریم یعنی ماریہ کے بیٹے ابراہیم کی جگہ ہو گا.چنانچہ الہام الہی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابراہیم " اور "ابن رسول اللہ " قرار دیا.اللہ تعالیٰ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.اني معك يا ابراهيم».(تذكرة ص ۷۲۷).اني معك يا ابن رسول الله».(تذكرة ص ٥٧٧).اے ابراہیم ! میں تیرے ساتھ ہوں.اے رسول اللہ کے بیٹے ! میں تیرے ساتھ ہوں.طلع الاکبر حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں.«المهدي الذي يجي في آخر الزمان......باطنه باطن محمد».( شرح فصوص الحکم.صفحہ ۳۵) کہ وہ مہدی جو آخری زمانہ میں آئے گا.اس کا باطن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہو گا.اور حضرت ولی اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ محدث دہلوی مجدد صدی دوازدهم مسیح موعود کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.
۲۵۸ نسخة منتسخة منه».الخير الكثير، ص۷۲).کہ امام مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا نسخہ ہو گا یعنی حل کامل.جس طرح " الولد سر لأبيه».بیٹا اپنے باپ کا راز اور عکس ہوتا ہے.اس کے اوصاف اپنے اندر لئے ہوئے ہوتا ہے اسی طرح امام مہدی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند ہونے کے لحاظ سے آپ کی نبوت کے راز اور اوصاف کا آئینہ دار ہے.وہ آپ کا عکس کامل ہے.جس طرح عموماً بیٹے کو دیکھ کر باپ کی شخصیت کا کچھ اندازہ ہو جاتا ہے.اسی طرح مسیح موعود کو دیکھنے والا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اور اعلیٰ شان کو محسوس کر سکے گا.برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے پس اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلیٰ اوصاف سے متصف روحانی اولاد سے نواز کر دشمن کو ابتر ثابت کیا ، بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی امام مهدی، مسیح موعود کو مریم یعنی ماریہ کا بیٹا ابراہیم ثابت کر کے دشمن کا ہمیشہ کے لئے منہ بند کر دیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے "." کے لقب سے ملقب ہونے کی ایک یہ بھی وجہ ہے.آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ہونے کے اس مضمون کو حسب ذیل اشعار میں یوں بیان فرمایا ہے.انی ورثت المال مال محمد إلا اله المتخير اتزعم أن رسولنا سید شانته على زعم الورى توفى أبتر ا غلام لڑکے کو بھی کہتے ہیں.
۲۵۹ فلا والذي خلق السماء لأجله مثلنا ولد إلى يوم يُحشر وانا ورثنا مثل ولد متاعه فأي ثبوت بعد ذلك يحضر اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۹ - صفحه ۱۸۲ ، ۱۸۳ ) ایک اور نکتہ جو قابل بیان ہے یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مسلمانوں کی مائیں قرار دیتا ہے.جب وہ مومنوں کی مائیں ہوئیں تو لازماً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کے باپ ہوئے اور تمام مومن آپ کی اولاد میں شامل ہو گئے.اب اولاد میں لڑکیاں بھی شامل ہوتی ہیں اور لڑکے بھی شامل ہوتے ہیں مگر إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ اور إِنَّ شَانِكَ هُوَ الْأَبْتَرُ میں یہ خبر دی گئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم ایک خیر و ترجمہ (۱) اور میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کا وارث بنایا گیا ہوں.پس میں اس کی آل برگزیدہ ہوں کہ جس کو مال پہنچ گیا.(۲) کیا تو گمان کرتا ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے اولاد ہونے کی حالت میں وفات پائی جیسا کہ دشمن بد گو کا خیال ہے.(۳) مجھے اس کی قسم جس نے آسمان بنایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے میری طرح اور بھی بیٹے ہیں اور قیامت تک ہوں گے.(۴) اور ہم نے اولاد کی طرح اس کی وراثت پائی.پس اس سے بڑھ کر اور کونسا ثبوت ہے جو پیش کیا جائے.
۲۶۰ کثیر رکھنے والا روحانی بیٹا عطا فرمائیں گے اور اس کا دشمن نرینہ اولاد سے محروم ہو گا.اب لازماً کوئی ایسار تبہ اور عہدہ بھی ہونا چاہئے جو اس اولاد کو نرینہ اولاد ثابت کر دے اور جس کے وجود سے یہ ثابت ہو جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نرینہ اولاد سے محروم نہ تھے.اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا عہدہ تو لڑکیوں کے لئے بھی ہے اور لڑکوں کے لئے بھی.شہادت اور صدیقیت کے مقامات بھی مرد کی طرح عورتیں بھی حاصل کر سکتی ہیں لیکن نبوت ایک ایسا عہدہ ہے جو کبھی کسی عورت کو نہیں ملا اور یہ مرد کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے.یہاں چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بہت بڑے روحانی بیٹے کی خوشخبری دی گئی ہے.اس لئے آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ تیرے دشمن کی اولاد کٹ جائے گی لیکن تیری نسل میں سے اللہ تعالیٰ ایک ایسا انسان پیدا کرے گا جو نبوت کے مقام پر فائز ہو گا.(تفسیر کبیر.جلد ۱۰.صفحہ ۳۷۰.تفسیر سورہ کوثر) مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام (مارية).یعنی ابراہیم ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.فالحمد لله على ذلك».ایک وضاحت ایک حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا کہ کہ میرا بیٹا ابراہیم نبی ابن نبی ہے اور اسی طرح الكوثر سے مسیح موعود علیہ
۲۶۱ السلام کے مقام نبوت پر فائز ہونے کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے منافی نہیں.کیونکہ جس طرح ابراہیم آپ کی زندگی میں نبی تھے جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے اسی طرح مسیح موعود علیہ السلام بھی آپ کی زندگی ہی میں نبی ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک زندہ ہی نہیں بلکہ زندگی بخش بھی ہیں.آپ کی نبوت قیامت تک ممتد ہے اور آپ کا فیض ہمیشہ کے لئے جاری ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ قال رسول الله الله : بعثت أنا والساعة كهذه من هذه أو كهاتين وقرن بين السبابة والوسطى.(بخاري، كتاب الطلاق، باب اللعان).رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو جوڑا اور لوگوں کو دکھاتے ہوئے فرمایا کہ میری بعثت اور قیامت اس طرح ہیں.اس سے یہ اظہار مقصود تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قیامت متصل ہیں.جس طرح ایک انگلی کے بعد دوسری ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت ہے.اس سے یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ آپ کے بعد یعنی قیامت میں کسی نبی کی بعثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.وہاں تو جزا و سزا کا معاملہ ہے.لہذا جو نبی بھی پیدا ہو گا وہ قیامت سے قبل یعنی آپ کی زندگی میں ہی ہو گا.اس کی نبوت آپ کی نبوت کہلائے گی.وہ آپ کی نبوت کے دائرہ میں ہی ہو گا.آپ کی شریعت کا متبع اور آپ کا امتی ہو گا.اس کا نور نبوت آپ کے سراج شریعت سے ورنہ نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مقتبس ہو گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خلوت نبوت عطا کی ہے.اور مسیح موعود علیہ کا یہی دعوی ہے کہ آپ کی نبوت اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہی کا پر تو ہے.آپ فرماتے ہیں
۳۶۲ فليست نبوّتي إلا نبوته ، وليس في جبتي إلا أنواره وأشعته ، ولولاه لما كنتُ شيئًا يذكر أو يسمى».(الاستفتاء ضميمة حقيقة الوحي روحاني ،خزائن جلد ۲۲، ص ٦٣٧).کہ میری نبوت آپ کی نبوت کے علاوہ نہیں اور میرے پیرا ھن میں سوائے آپ کے انوار اور شعاعوں کے کچھ بھی نہیں.اگر آپ نہ ہوتے تو میں کچھ چیز بھی نہ ہوتا کہ جس کا ذکر کیا جاتا یا نام لیا جاتا.اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے، میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے 29
۲۶۵ مراجع و مصادر ا قرآن کریم صحیح البخاری : مع شرح الکرمانی مطبع دار احیاء التراث العربی.بیروت صحیح المسلم : لامام ابى الحسين مسلم بن الحجاج القشيرى النیشاپوری.مطبع دار احیاء التراث العربی.بیروت جامع الترندی : لامام محمد بن عیسی بن سوره الترندی مطبع دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت ۵ سنن ابن ماجہ : للحافظ ابی عبداللہ بن یزید القزوینی ابن ماجہ مطبع دار الفكر العربي - بيروت سنن ابو داود : للامام الحافظ ابی داود سليمان بن الاشعث السجستانی الازدی مطبع دار احیاء التراث العربی.بیروت _ ۷- مشكاة المصابيح : محمد بن عبدالله الخطيب التبریزی مطبع المكتب الاسلامی.بیروت کنز العمال : مطبع المكتب الاسلامى للطباعة والنشر - بيروت 9 فتح الباری شرح صحیح البخاری - للامام احمد بن حجر العسقلانی.مطبع دار المعرفه للطباعه والنشر - بيروت ١٠- تفسير الكبير للامام فخر الرازي - مطبع دار احیاء التراث العربی بیروت تفسير الدر المنثور في التفسير بالماثور - للامام جلال الدين السيوطي - مطبع دار المعرفه للطباع 11 والنشر - بيروت ۱۲ تغییر البیضاوی : لعلامه الزمان محمد عبد الرحمان - مطبع المجتبائی الواقع في بلدہ وہلی ۱۳ تفسیر الکشاف.از ابو القاسم جار الله محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی - مطبع مصطفے التالي الحلبی و اولاده تفسیر مدیر قرآن : از مولانا امین احسن اصلاحی شائع کردہ دارالاشاعت الاسلامیہ امرت روڈ کرشن نگر لاہور ۱۵ تفسیر عرائس البیان فی حقائق القرآن از ابو محمد روزبهان بن ابو النصر بقای شیرازی ١٢ سنن الدار قطني - للامام الكبير على بن عمر الدار قطنى - مطبع دار المحاسن للطباعه - القاهره _ ۱۷.طبرانی _ ۱۸ - بهجة النظر شرح نخبة الفكر بر حاشيه نزيه النظر ۱۹ مختصر سيرة الرسول : از محمد بن عبد الوہاب - مطبع دار العربية للطباعة والنشر - بيروت ۲۰ شرح فصوص الحکم : از شیخ عبد الرزاق القاشانی - مطبع مصطفے البابی الحلبی و اولاده - مصر ٢١ الجامع الصغير : للامام جلال الدين عبد الرحمان ابي بكر السيوطى - مطبع دار الفكر للطباعة والنشر و التوزيع - بیروت
۲۶۶ ۲۲ الخير الكثير : از شیخ قطب الدین احمد المعروف بالشاہ ولی الله المحدث دہلوی.مطبع مدینہ پریس بجنور ٢٣ - تفهيمات اللهيه : از حجة الاسلام الشاه ولی اللہ محدث دہلوی.مطبوعہ اکادمیہ الشاہ ولی اللہ الدہلوی.حیدر آباد ۲۴ _ فتوح الغیب : از شیخ محی الدین ابو محمد عبد القادر جیلانی.مطبع صوب ۱۳۸۲ء واقع لاہور ۲۵ عوارف المعارف.از عبد القاهر بن عبدالله السهر در دی.مطبع دار الكتاب العربی بیروت ۲- شرح التعرف (قلمی ) : ۲۷ مثنوی مولانا روم : از مولانا جلال الدین رومی مطبع مجیدیہ.کانپور ۲۸ دیوان مولانا شاہ نیاز احمد ۲۹ رساله درد - از خواجہ میر درد ۳۰ مقابیس المجالس المعروف به اشارات فریدی : مرتبه مولانا رکن الدین - مطبع مفید عام آگرہ ۳۱ - اقتباس الانوار ، از شیخ محمد اکرم صابری.مطبع اسلامیہ لاہور ۳۲ گلدسته کرامات به از مفتی غلام سرور - مطبع مفید عام.لاہور غاية المقصود : از مولانا سید علی حائری مطبع شمس الهند واقع لاہور التوضیح از محمد شفیع دیوبندی مطبع سهارنپور دارالاشاعت والتدریس ۳۵ خریده العجائب و فریده الرغائب: از امام سراج الدین ابن الوردی ٣٦ - الملل والنحل : للشهرستاني - الفصل في الملل والاهواء والنحل : لامام ابو محمد علی ابن احمد بن حريم - بالمطبعة الادبية في سوق الخضار القديم - مصر ۳۷ - حجج الكرامه فى آثار القيامه: از سید امیر الملک نواب محمد صدیق حسن خان.مطبع شاہجہانی واقع بھوپال ۳۸ اقترب الساعه از نور الحسن خان - طبع ۱۳۵۱ هـ ۳۹ قصص القرآن ، از مولانا محمد حفظ الرحمان سیوہاری.مطبع ندوۃ المصنفین.دہلی ۴۰ بحار الانوار.از محمد تقی محمد باقر مجلسی - مطبوعه ایران ٤٩ الفوز الكبير في اصول التفسير: از ولی الله شاه محدث دہلوی مکتوبات امام ربانی : از حضرت احمد الفاروقی سرہندی مجدد الف ثانی.مطبع منشی نول کشور - واقع لکھنو ۴۳ رسالہ علامہ اقبال کا پیغام ملت اسلامیہ کے نام ۴۴ رسالہ اہلحدیث (هفت روزه ) : از مولوی شاء اللہ امرتسری.امرتسر ۴۵ رسالہ اشاعة السنه : از ابو سعید محمد حسین بٹالوی.مطبع ریاض ہند.امرتسر ۴۶ معارف اسلام "صاحب الزمان نمبر (شیعه رساله) ۴۷ اخبار زمیندار : از منشی سراج دین ظفر.و مولنا ظفر علی خان ۴۸ سید احمد شهید (سوانح) : از سید ابو الحسن ندوی - مطبع یونائٹڈ انڈیا پریس لکھنا
۴۹ تهذیب الاخلاق: از سر سید احمد خان - دار الاشاعت پنجاب لاہور -۵۰ الحق الصریح فی حیات اسیح از مولوی محمد بشیر بھوپالوی.۱۳۰۹ھ ۵۱ بانگ درا به از علامہ سر محمد اقبال.مطبع شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۵۲ الجهاد فی الاسلام : از مولانا ابو الاعلی مودودی مطبوعہ دفتر تر جمان القرآن.اچھرہ لاہور ۵۳ شہادت قرآنی علی کذب کرشن قادیانی : از منشی محمد عبداللہ.اسلامیہ سٹیم پریس.لاہور ۵۴ - استنكاف المسلمين عن مخالطة المرزائیین : از مولوی نور احمد اور حاجی شیخ بڈھا صاحب.روز بازار الیکٹرک پریس ہال بازار - امرتسر ۵۵ قومی اسمبلی میں اسلام کا معرکہ : از شیخ الحدیث مولانا عبد الحق باہتمام موتمر المصنفین دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خشک ۵۷ - قادیانی مذہب : از الیاس برنی.مطبع عمدۃ المطابع پریس لکھنو ۵۷ قادیانی امت اور پاکستان: از محمد شفیع جوش.مطبوعہ مرکز اشاعت اسلام لاہور قرابادین قادری: از محمد اکبر عرف رزانی - مطبع منشی نولکشور - لکھنو ۵۹ طبی مائة عامل : از محمد حسین مطبوعہ ۱۹۴۰ء ٦٠ قواعد اللغة العربيه : از سید محسن احمد باروم - وزارة المعارف المملكة العربية السعودية ۶۱ باقیات اقبال : از سید عبد الواحد معینی ایم.اے.آکسن - شائع کردہ آئینہ ادب انار کلی.لاہور ۱۲ مجموعه لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی : مطبوعہ ۱۸۹۰ء ۶۳ کتاب " عطاء اللہ شاہ بخاری ۶۴- رساله موعظه تحریف قرآن : از مولانا سید علی حائری ۲۵ حیات مسیح : از پادری طالب الدین.مطبوعہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی.انار کلی لاہور ۶۶ - احسن الاذکار و از سمتھ - ج - پیرین ۶۸ تاریخ بائیل: از پادری طالب الدین.مطبوعہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی.انار کلی لاہور ۶۹ تاریخ کلیسیاء : از پادری برکت اللہ.شمالی ہند انار کلی بٹالہ ۷۰ صحت کتب مقدسه: از پادری برکت اللہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی انار کلی لاہور ۷۱ کتاب مقدس : پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی.انار کلی لاہور ۷۲ - روحانی خزائن ۱ (۸۳) کتب ) : از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام - شائع کردہ الشركة الاسلامیہ ربوہ ۷۳ روحانی خزائن ۲ ۱۰ جلدیں) ، مشتمل بر ملفوظات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام - شائع کردہ الشركة الاسلامیہ ربوہ
۲۶۸ ہے.مجموعہ اشتہارات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام (۳ جلدیں) - شائع کردہ الشركة الاسلامیہ ریده ۷۵ - تذکرہ (ایڈیشن ۱۹۶۹ ء ) : شائع کردہ الشركة الاسلامیہ.ربوہ ۷۶ در شمین فارسی ۷۷ در ششمین اردو ۷۸ در نمین عربی ۷۹ تفسیر کبیر: از حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفه امسیح الثانی رضی اللہ عنہ.الشركة الاسلامیہ ربوہ ۸۰ سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام : از حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد ۷۹.خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ۸۱ تاریخ احمدیت از مولانا دوست محمد صاحب ریوه ۸۲ مرزا غلام احمد اپنی تحریروں کی رو سے.از سید میر داود احمد ربوہ _ ۸۳ سلسله احمدیه ، از حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ شائع کرده نظارت تألیف و تصنیف قادیان ۸۴ سیرت المهدی : از حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ شائع کردہ احمدیہ کتاب گھر قادیان ۸۵ چار تقریریں.از حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ.شائع کردہ شعبہ نشر و اشاعت نظارت اصلاح و ارشاد صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۸۲ دی اوڈز اف سولمن : از جیمز ہملٹن چار لزور تھے.سوسائٹی آف سیلیکن لٹریچر امریکہ ۸۷ سوانح محمد حسین: از شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صاحب شائع کردہ محمد احمد اکیڈمی رام گلی ۱۳.لاہور ۸۸- رساله ریویو آف ریلیجنز ۸۹ طبقات الکبری : لابن سعد ٩٠ السيرة النبويه : لابن ہشام ۹۱ - رجسٹر فتاوی - مجلس افتاء کے فتاوی مجلس دارلافتاء.صدر انجمن احمدیہ ۹۲ تفسیر روح البیان ۹۳ اقرب الموارد ۹۴ - فیروز اللغات.فیروز سنز لاہور ۹۵ احمدیہ تبلیغی پاکٹ بک.از ملک عبد الر حمان خادم مرحوم - شائع کردہ - احمد یہ بک ڈپو قادیان ۹۶ احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک : از قاضی محمد نذیر مرحوم شائع کردہ نظارت اشاعت و تصنیف - صدر انجمن احمدید پاکستان
٢٧٠ جملہ حقوق محفوظ نام کتاب مصنف طبع اول ہادی علی چوہدری جولائی ۶۱۹۹۰ مقام اشاعت اسلام آباد ٹلفوڈ سرے